Language: UR
حضرت مصلح موعودؓ نے 1922ء میں جماعت احمدیہ میں باقاعدہ مشاورت کا نظام شروع فرمایا اور شوریٰ کے افتتاحی خطاب میں تفصیل کے ساتھ شوریٰ کی غرض و غایت اور اہمیت پر زریں ہدایات دیں۔ نیز آپ ؓ 1922 سے 1960 تک مجلس شوریٰ کے اجلاسات میں بنفس نفیس شمولیت فرماتے رہے اور قدم قدم پر رہنمائی فرماکر اس باغ احمد کو سینچا۔ آپ ؓ کے ان خطابات کو جو نظام شوریٰ کی اہمیت اور جماعتی ترقی و تربیت کے لئے مشعل راہ ہیں، ان کو اس مجموعہ کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ اس مجموعہ کا مطالعہ مختلف مجالس شوریٰ کے مواقع پر حضرت مصلح موعود ؓ کی بے نظیر فراست و ذہانت اور حیرت انگیز قوت فیصلہ اور اولوالعزمی کا بھی پتہ دیتا ہے۔
خطابات شورای جلد اوّل (۱۹۲۲ء تا ۱۹۳۵ء) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد الصلح الموعود خلیفة المسح الثاني"
نام کتاب فرمودات طبع اول طبع اول انڈیا مقام اشاعت تعداد اشاعت ناشر : خطابات شوری جلد اوّل حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی دسمبر 2013ء قادیان 1000 نظارت نشر و اشاعت، صدر انجمن احمد سید قادیان ضلع گورداسپور ، پنجاب 143516.انڈیا فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان Khitabat-e-Shura (Vol I) Sermons delivered by: Hadrat Mirza Bashirud-Din Mahmud Ahmad رضی اللہ تعالیٰ عنہ Khalifatul Masih II ISBN : 978-81-7912-299-0
بسم الله الرحمن الرحيم عرض ناشر شوریٰ کا نظام ارشاد باری تعالیٰ شَاوِرُهُمْ في الأَمرِ یعنی اہم معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کر کے مطابق آنحضرت مصلی کی ستم کے زمانہ میں جاری ہوا.اللہ تعالیٰ نے ایک مثالی دینی معاشرہ اور دین کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے شوری کو ضروری قرار دیا ہے.حضور ایلیا کی تم کا مبارک طریق تھا کہ اہم دینی اور امور مملکت کے معاملات میں اپنے صحابہ کرام سے ضرور مشورہ لیا کرتے تھے.اس کی اتباع میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی احباب جماعت سے انفرادی و اجتماعی صورت میں مشورے لیتے رہے.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باقاعدہ مشاورت کا قیام سن 1922ء میں فرمایا اور شوری کے افتتاحی خطاب میں تفصیل کے ساتھ شوریٰ کی غرض و غایت اور اہمیت پر زریں ہدایات دیں.نیز حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ 1922 ء تا 1960 ء تک مجلس شوریٰ راہ ہیں میں بنفس نفیس شمولیت فرماتے رہے اور قدم قدم پر احباب جماعت کی رہنمائی فرمائی.آپ کے ان خطابات کو جو نظام شوری کی اہمیت اور جماعتی ترقی و تربیت کے لئے مشعل فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ نے خطابات شوری کے نام سے مرتب کر کے سید نا حضرت خلیفۃ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے شائع کیا ہے.اس کی ترتیب و تیاری میں جن احباب نے خدمات سرانجام دی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں محض اپنے فضل سے جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.یہ خطابات احباب جماعت کی تعلیمی، تربیتی ، روحانی اور جسمانی ترقی کے لئے بے حد مفید اور بابرکت ہیں.
سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر نظارت نشر واشاعت قادیان خطابات شوری کی ان جلدوں کی قادیان سے پہلی بار شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور احباب جماعت کو ان ارشادات و ہدایات کو پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر واشاعت قادیان
(i) بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور اس کی دی ہوئی توفیق سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود کے حقائق و معارف ، عظیم فکری استعدادوں اور فراست سے بھرے ہوئے منصوبوں پر مبنی خطابات بر موقع مجالس شورای کی جلد اول احباب جماعت کے استفادہ کے لئے پیش کرنے کی سعادت مل رہی ہے.وَمَا تَوْفِيْقَنَا إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ بہت سے احباب جماعت کی طرف سے اس خواہش کا اظہار وقتا فوقتا سامنے آرہا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی مجالس مشاورت کی تقاریر کو شائع کیا جائے کیونکہ یہ تقاریر شورای کے نظام کو سمجھنے اور جماعتی تربیت کے سلسلہ میں غیر معمولی اہمیت و افادیت رکھتی ہیں.فضل عمر فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بھی اس بات کو محسوس کرتے ہوئے یہ تجویز کیا کہ مجالس مشاورت میں حضور کے افتتاحی اور اختتامی خطابات کا مسودہ ترتیب دیا جائے اسی طرح تجاویز کے پیش ہونے کے دوران بھی حضور انور نے جو ارشادات فرمائے ہیں ان کو بھی شامل کر لیا جائے.بورڈ آف ڈائریکٹرز کی یہ تجویز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بغرض راہنمائی و منظوری بھجوائی گئی جس پر حضور انور نے ازراہ شفقت اس کی اشاعت کی اجازت مرحمت فرمائی.ابتدا میں خطابات شورای دو جلدوں میں شائع کرنے کا پروگرام تھا لیکن بعد میں دو ہزار صفحات پر مشتمل مسودہ کو دیکھتے ہوئے اب اسے انشاء اللہ تین جلدوں میں شائع کیا جائے گا.
(ii) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک مثالی دینی معاشرہ کے جو خد و خال بیان کئے ہیں ان میں ایک بنیادی اصول باہمی مشورہ کو قرار دیا ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کی ایک سورۃ کا نام ہی سورہ شوری ہے.اسی سورۃ میں اللہ " تعالیٰ فرماتا ہے ” وَ اَمْرُهُمْ شُوْری بَيْنَهُمْ که حسین دینی معاشرہ میں ان کے امور باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں.یہ بات اللہ تعالیٰ نے یہیں ختم نہیں فرمائی اور شورائی نظام کا محض تصو رہی پیش نہیں فرمایا بلکہ ہادی عالم سرور کونین حضرت احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرمان الہی بھی ملا کہ شَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ( آل عمران : ۱۶۰) کہ لوگوں کو مشورہ میں شریک کر.لیکن جب تو پختہ ارادہ کرلے تو پھر اللہ کی ذات پر تو گل کر.اس راہنما اصول اور فرمان الہی کی روشنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ مبارک طریق تھا کہ آپ مختلف اجتماعی معاملات اور امور مملکت و معاشرت میں صحابہ رضوان اللہ علیہم سے بھی مشورہ فرمایا کرتے تھے.ارشادِ خداوندی اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اپنے صحابہ کرام سے بوقت ضرورت انفرادی یا اجتماعی صورت میں مشورہ فرمایا کرتے تھے چنانچہ پہلا جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء اجتماعی مشورہ کی ایک روشن مثال ہے.یہ جلسہ بھی تھا اور جماعت کی پہلی مجلس مشاورت بھی تھی.اس شورای میں تجویز یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بکثرت ظاہر ہونے والے نشانات کا ریکارڈ محفوظ کرنے کی خاطر ایک انجمن بنائی جائے.اگلے ہی سال ۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کے اشتہار میں جلسہ سالانہ کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے جلسہ کو حصولِ مشاورت کا ایک ذریعہ قرار دیا اور فرمایا: ماسوا اس کے جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں“ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۳۴۱) جماعت احمدیہ میں مشورہ کا نظام حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت اُولیٰ میں عند الضرورت جاری رہا اور انفرادی و اجتماعی مشورہ کی صورت میں دینی مہمات اور
(iii) ضروری امور سر انجام پاتے رہے.تاہم باقاعدہ نظام شورای کا قیام ۱۹۲۲ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ذریعہ ہوا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متضر عانہ دعاؤں کو جو آپ نے منشاء اٹھی کے مطابق سفر ہوشیار پور میں چلہ کشی کے دوران کی تھیں اُن کو پایہ قبولیت بخشتے ہوئے آپ کو پسر موعود کی مہتم بالشان پیش خبری سے نوازا تھا جسے آپ نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں شائع فرمایا.اس موعود بیٹے کی علامات میں یہ شامل تھا کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا ، علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا، قو میں اس سے برکت پائیں گی.حضرت مصلح موعودؓ کے وجود میں وہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی اور آپ کی ذہانت و فطانت، آپ کے علوم ظاہری و باطنی ، آپ کی فکری فراست اور آپ کے وجود سے قوموں کے برکت پانے کا ایک اظہار جماعت احمدیہ میں نظام شورای کے با قاعدہ نظام کے قیام اور ان مواقع پر کئے جانے والے ولولہ انگیز اور پُر معارف خطابات سے ہوتا ہے جن کے ذریعہ آپ نے نظام جماعت ، نظام خلافت، اور نظام شورای کو نہ صرف مضبوط فرمایا بلکہ آئندہ زمانہ کے لئے جہاں منصوبہ بندی فرما دی وہاں آئندہ وقت کے لئے راہنما اصول بھی بیان فرما دیئے جن پر کار بند رہتے ہوئے آج جماعت میں یہ نظام انتہائی مضبوطی سے قائم ہو چکا ہے.شورای کا نظام خلافت سے گہرا تعلق ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: لَا خِلَافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ کہ خلافت بغیر مشورہ کے نہیں.اس سے نظام شورای کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۲۲ء میں جماعت میں باقاعدہ مجلس مشاورت کا قیام فرمایا اور ۱۶،۱۵/ اپریل ۱۹۲۲ء کو جماعت احمدیہ کی پہلی مجلس شورای تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہال میں منعقد ہوئی جس میں ۵۲ بیرونی اور ۳۰ مرکزی نمائندگان نے شرکت کی.حضرت مصلح موعودؓ نے اس شورای سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ شورای کی غرض و غایت ، اہمیت اور ہدایات بیان فرمائیں جو ہمیشہ کے لئے مشعلِ راہ ہیں.آپ
(iv) نے افتتاحی خطاب میں شورای کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرمایا: قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے کہ أَمْرُهُمْ شُوْرى بَيْنَهُمْ اپنے معاملات میں مشورہ لے لیا کریں.مشورہ بہت ضروری اور مفید چیز ہے بغیر اس کے کوئی کام مکمل نہیں ہوسکتا.اس مجلس کی غرض کے متعلق مختصر الفاظ میں یہ کہنا چاہئے کہ ایسی اغراض جن کا جماعت کے قیام اور ترقی سے گہرا تعلق ہے ان کے متعلق مختلف جماعت کے لوگوں کو جمع کر کے مشورہ لے لیا جائے تا کہ کام میں آسانی پیدا ہو جائے یا ان احباب کو ان ضروریات کا پتہ لگے جو جماعت سے لگی ہوئی ہیں تو یہ مجلس شورای ہے“ خطابات شورای جلد اوّل صفحہ ۶ ) حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے اس پہلے افتتاحی خطاب میں مشورہ کے لئے تفصیلی ہدایات سے بھی نوازا کہ کس نیت اور کس طریق پر مشورہ دیا جائے ، یہ ہدایات پہلے خطاب کا حصہ اور اس جلد کی زینت ہیں.شورای کے فوائد بیان کرتے ہوئے اسی خطاب میں فرمایا کہ اس سے کئی نئی تجاویز سوجھ جاتی ہیں ، لوگ صحیح رائے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، باتوں باتوں میں کئی باتیں اور طریق معلوم ہو جاتے ہیں ، باہر کے لوگوں کو کام کرنے کی مشکلات معلوم ہوتی ہیں اور یہ بھی فائدہ ہے کہ خلیفہ کے کام میں سہولت ہو جاتی ہے.حضرت مصلح موعودؓ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی فکری صلاحیتوں سے نوازا تھا اور آپ جماعت کی تعمیر و ترقی کے آئندہ منصوبوں پر نظر رکھے ہوئے تھے اس کے لئے مشورے اور منصوبہ بندی فرمارہے تھے اس کیلئے بھی مجلس شورای کا نظام بڑی اہمیت کا حامل ہے چنانچہ آپ نے اپنے پہلے افتتاحی خطاب میں ہی فرمایا : ” میری نظر اس بات پر پڑ رہی ہے کہ ہماری جماعت نے آج ہی کام نہیں کرنا بلکہ ہمیشہ کرتا ہے.دنیا کی انجمنیں ہوتی ہیں جو یہ کہتی ہیں آج کام کر کے دکھا دو اور لوگوں کے سامنے رپورٹ پیش کر دو مگر میں نے رپورٹ
(v) خدا کے سامنے پیش کرنی ہے اور خدا کی نظر اگلے زمانوں پر بھی ہے اس لئے مجھے یہ فکر ہوتی ہے کہ آج جو کام کر رہے ہیں یہ آئندہ زمانہ کے لئے بنیاد ہو....اگر آج ہم بنیاد قائم نہ کریں تو وہ کس پر عمارت بنائیں گے...پیس مجھے آئندہ کی فکر ہے اور میری نظر آئندہ پر ہے کہ ہم آئندہ کے لئے بنیادیں رکھیں....چنانچہ وہ زمانہ آئیگا جب خدا ثابت کر دے گا کہ اس جماعت کے لئے یہ کام بنیادی پتھر ہیں“.خطابات شورای جلد اول صفحه (۲۲) مجلس شورای کے لئے جمع ہونے کی غرض بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۲۴ء کی مجلس شورای سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے فرمایا : آج آپ لوگ اسلام اور قرآن کریم کے احکام کی تعمیل میں اس غرض کے لئے اس جگہ جمع ہوئے ہیں کہ بعض اہم دینی امور میں خلیفہ وقت کو مشورہ دیں اور اس طرح تعاون و تناصر کر کے اس کام میں شریک ہو کر خدا کے فضل اور نصر توں کو حاصل کریں.جیسا کہ میں نے بارہا اعلان کیا ہے اس قسم کی مجلس مشاورت اسلامی احکام کے ماتحت ہے.اس لئے کسی صورت اور کسی حالت میں بھی اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہم جو اکٹھے ہوئے ہیں تو محض اس لئے کہ خدا کی رضاء کے ماتحت اور اُس کی منشاء کے ماتحت اسلام کی خدمت کے لئے ایسے امور پر غور کریں کہ جن کا نتیجہ اسلام کی مدد، نصرت، تائید اور ترقی ہو.اسی لئے یہاں ہمارا جمع ہونا دینی کام اور عبادت ہے...میں اُمید کرتا ہوں کہ جو دوست اللہ کی مرضی کے لئے یہاں آئے ہیں وہ اس بات کو مد نظر رکھیں گے اور کوئی بات انشارتا بھی ایسی نہ کریں گے جو خدا کی مرضی کے خلاف ہو اور جس میں حسد اور بغض کا شائبہ ہو.وہ خدا کے لئے مشورہ دیں گے، خدا کے لئے کسی اور کی تائید کریں گے اور خدا کے لئے کسی بات کی تردید کریں گے.“ (خطابات شورای جلد اول صفحه: ۸۲)
(vi) مجلس مشاورت کی عزت واحترام اور عالی مقام کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس شورا ی ۱۹۲۸ء کی افتتاحی تقریر میں فرمایا : ہماری جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ ہماری مجلس شوری کی عزت ان بنچوں اور کرسیوں کی وجہ سے نہیں ہے جو یہاں کچھی ہیں بلکہ عزت اُس مقام کی وجہ سے ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک اسے حاصل ہے.بھلا کوئی سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اُس لباس کی وجہ سے تھی جو آپ پہنتے تھے.آپ کی عزت اُس مرتبہ کی وجہ سے تھی جو خدا تعالیٰ نے آپ کو دیا تھا.اسی طرح آج بے شک ہماری یہ مجلس شوری دُنیا میں کوئی عزت نہیں رکھتی مگر وقت آئے گا اور ضرور آئے گا جب دُنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمنوں کے ممبروں کو وہ درجہ حاصل نہ ہوگا جو اس کی ممبری کی وجہ سے حاصل ہوگا کیونکہ اس کے ماتحت ساری دُنیا کی پارلیمنٹیں آئیں گی.پس اس مجلس کی ممبری بہت بڑی عزت ہے اور اتنی بڑی عزت ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بادشاہ کو ملتی تو وہ بھی اس پر فخر کرتا.اور وہ وقت آئے گا جب بادشاہ اس پر فخر کریں گے.“ خطابات شورای جلد اوّل صفحه : ۲۷۵) نظام خلافت میں مجلس شوری کے مقام اور یہ کہ وہ کس طرح خلیفہ کی جانشین ہوتی ہے اس بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۳۰ء کی مجلس مشاورت میں اصولی راہنمائی فرمائی.آپ فرماتے ہیں : دو مجلس شوری جماعت احمدیہ کی ایگزیکٹو (EXECUTIVE) باڈی نہیں ہے.اسی بناء پر ہمارا غیر مبائعین سے اختلاف ہو ا تھا کہ وہ خلیفہ کی بجائے انجمن کو جماعت کا ذمہ وار قرار دیتے تھے حالانکہ تولیت خلیفہ کی ہے.آگے خلیفہ نے اپنے کام کے دو حصے کئے ہوئے ہیں.ایک حصہ
(vii) انتظامی ہے اس کے لئے عہدہ دار مقرر کرنا خلیفہ کا کام ہے.ان کارکنوں پر مجلس شوری کی کوئی حکومت نہیں ہے.یہ طریق عمل رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے وقت نظر آتا ہے.اسامہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر کا سردار مقرر کیا باقی لوگ اس کے خلاف تھے مگر آپ نے کسی کی پرواہ نہ کی.پھر حضرت عمرؓ نے جب حضرت خالد کو سپہ سالاری سے معزول کیا تو مجلس شوریٰ اس کے خلاف تھی مگر آپ نے وجہ تک نہ بتائی.دو خطابات شورای جلد اوّل صفحه :۴۰۳) دوسرا حصہ خلیفہ کے کام کا اصولی ہے.اس کے لئے مجلس شورای سے وہ مشورہ لیتا ہے پس مجلس معتمدین انتظامی کاموں میں خلیفہ کی ویسی ہی جانشین ہے جیسے مجلس شورای اصولی کاموں میں خلیفہ کی جانشین ہے.ان دونوں کا آپس میں سوائے خلیفہ کے واسطہ کے کوئی واسطہ اور جوڑ نہیں ہے 66 خطابات شورای جلد اوّل صفحه : ۴۰۳) حضرت مصلح موعودؓ نے مجالس شورای کے موقع پر اپنے خطابات میں احباب جماعت کے سامنے جہاں شوری کے نظام کو بڑی شرح وبسط کے ساتھ بیان فرمایا وہاں آپ نے خلیفہ اس کے مقام اور استحکامِ خلافت کے لئے گراں قدر را ہنمائی فرمائی اور احباب جماعت کو یہ باور کروایا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور اسے آسمانی را ہنمائی مل رہی ہوتی ہے.۱۹۲۸ء کی مجلس مشاورت سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں : ہاں میں یہ ضرور محسوس کرتا ہوں کہ میرے پیچھے ایک اور ہستی ہے اور ایک بالا طاقت ہے.جب میرا قدم چلنے سے اور ہاتھ اُٹھنے سے رہ جاتے ہیں تو وہ ہستی آپ اُٹھاتی ہے اور آسمان کی بلندیوں پر لے جاتی ہے.وہی طاقت ہر احمدی کے پیچھے ہے.جو اپنی ذات کے متعلق تکبر نہیں کرتا وہ
(viii) اُسے اُٹھاتی ہے اور آئندہ بھی اٹھائے گی“.(خطابات شورای صفحه : ۲۶۹) اپنی موعود خلافت کے بارہ میں آپ مجلس شورای ۱۹۳۶ء سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیا بلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ خلیفہ اول کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا.پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں.میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی.گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمد یہ اسے رائیگاں جانے دے اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو جائے.جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفے روز روز نہیں آتے.“ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء) اس کے بعد آپ نے اپنے خطاب میں احباب جماعت کو متحد الخيال هو کر خلیفہ کو اپنا استاد سمجھنے کے زریں اصول کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا : و پس ضرورت ہے اس بات کی کہ جماعت متحدُ الخَیال ہوکر خلیفہ کو اپنا ایسا اُستاد سمجھے کہ جو بھی سبق وہ دے اُسے یاد کرنا اور اس کے لفظ لفظ پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھے.اتحادِ خیالات کے ساتھ قومیں بہت بڑی طاقت حاصل کر لیا کرتی ہیں ورنہ یوں نظام کا اتحاد بھی فائدہ نہیں دیتا جب تک اتحادِ خیالات نہ ہو.......جماعت کا ہر فرد میرے ساتھ تعاون کرے.ہر
(ix) خطبہ جو میں پڑھتا ہوں، ہر تقریر جو میں کرتا ہوں اور ہر تحریر جو میں لکھتا ہوں اُسے ہر احمدی اس نظر سے دیکھے کہ وہ ایک ایسا طالب علم ہے جسے ان باتوں کو یاد کر کے ان کا امتحان دینا ہے اور ان میں جو عمل کرنے کے لئے ہیں اُن کا عملی امتحان اُس کے ذمہ ہے.اس طرح وہ میری ہر تقریر اور تحریر کو پڑھے اور اس کی جزئیات کو یادر رکھے.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء) حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود ۱۹۲۲ء سے ۱۹۶۰ء تک مجالس شورای میں بنفس نفیس شمولیت فرماتے رہے.ان مواقع پر آپ نے قدم قدم پر احباب جماعت کی راہنمائی فرمائی ،خلیفہ کے مقام کو بیان فرمایا ، جماعتی ترقی کے آئندہ پروگراموں کی منصوبہ بندی فرمائی اور جماعت میں نظام شورای کا مضبوط اور مفید نظام رائج فرما دیا.مجالس شورای کے موقع پر آپ نے بے نظیر فراست و ذہانت اور حیرت انگیز قوت فیصلہ اور اولوالعزمی کا شاندار ثبوت دیا.مجالس شورای کے خطابات کو اب کتابی صورت میں احباب جماعت کے سامنے پیش کیا جارہا ہے.بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے اس کتاب کا نام ” خطابات شورای“ رکھا گیا ہے.جس کی پہلی جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش ہے جو ۱۹۲۲ء سے ۱۹۳۵ء کی مجالس شورای کے خطابات پر مشتمل ہے.انشاء اللہ تین جلدوں میں خطابات شوری کا سیٹ مکمل ہو جائے گا.مجالس شورای کے خطابات کے مسودہ کی تیاری کا ابتدائی کام مکرم چوہدری رشیدالدین صاحب مربی سلسلہ نے سرانجام دیا جس کے لئے وہ ہمارے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں.بورڈ آف ڈائریکٹرز کی خواہش پر محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے بہت وقت دے کر ۱۹۲۲ء تا ۱۹۶۱ء کی مجالس مشاورت کی تمام رپورٹس کو بالاستیعاب پڑھ کر بعض مقامات کی نشان دہی کی کہ ان پر مزید غور و خوض کی ضرورت ہے.اور آخری مرحلہ پر تقریبا دو ہزار صفحات پر مشتمل فائنل پروف کو ایک دفعہ پھر پڑھ کر بعض غلطیوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ نہایت قیمتی مشوروں سے بھی نوازا.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ - محترم سید عبدائی شاہ صاحب ناظر اشاعت و نائب صدر فضل عمر فاؤنڈیشن کا بھی
(x) خاکسار دلی شکر یہ ادا کرتا ہے کہ اس تمام عرصہ میں جہاں کبھی ضرورت محسوس ہوئی انہوں نے کمال بشاشت سے متعلقہ عبارتوں کو پڑھ کر نہ صرف گراں قدر اور قیمتی مشوروں سے نوازا بلکہ بعض بنیادی امور کے سلسلے میں بھی ہماری راہنمائی فرمائی.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ - بہت سے مربیان سلسلہ نے بھی ان جلدوں کی تیاری میں نہایت محنت اور اخلاص سے خدمات سر انجام دی ہیں ان میں خصوصیت سے مکرم عبدالرشید اٹھوال صاحب ، مکرم حبیب اللہ باجوہ صاحب، مکرم فضل احمد شاہد صاحب ، مکرم عبدالشکور باجوہ صاحب ، مکرم عدیل احمد گوندل صاحب اور مکرم ظہور احمد مقبول صاحب قابل ذکر ہیں.ان سب نے اس مسودہ کی تیاری کے ابتدائی مراحل سے لے کر مسودہ کی نظر ثانی ، پروف ریڈنگ اور حوالہ جات کی تلاش اور ان جلدوں کی تدوین و اشاعت میں معاونت فرمائی ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ - مکرم بشارت احمد صابر صاحب کارکن دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن بھی شکریہ کے مستحق ہیں جن کی مخلصانہ کوششوں سے اس جلد کی تعمیل ممکن ہوئی.خاکساران سب احباب کا ممنونِ احسان اور شکر گزار ہے نیز دعا گو ہے کہ مولا کریم ان سب دوستوں کے علم و معرفت میں ترقی عطا فرمائے اور اپنے فضل و کرم سے وافر حصہ عطا فرمائے اور ہم سب کو ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے اور حضرت مصلح موعود کے علمی فیضان اور آپ نے اپنی خدا دا د فکری استعدادوں سے جماعت کی جو ولولہ انگیز قیادت اور راہنمائی فرمائی ہے، ان تمام ارشادات و ہدایات کو احباب جماعت تک پہنچانے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ پیشگوئی مصلح موعود اُس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا.اور کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائیگا.اور وہ تین کا چار کرنے والا ہوگا ( اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے ) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ - مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ - جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.ٹور آتا ہے نور.جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے.وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا - (اشتہار ۲۰ فروری (۱۸۸)
MAKHZAN-E- TASAWEER © 2006 سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدا الارالدين احمد الموعود خليفة اسم الثاني منى الشحنة المسیح
صفحہ ۷۵ ۷۸ ΔΙ ۸۳ ΔΙ ۸۹ ۹۱ ۹۴ ۹۶ لا ۹۸ ۱۰۵ عناوین فہرست مضامین تعلیم نسواں اختتامی تقریر مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء افتتاحی تقریر خطابات شوری جلد اول نمبر شمار عناوین صفحہ نمبر شمار ۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء افتتاحی تقریر ۴ کانفرنس کی ضرورت کانفرنس کی اغراض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہمارے جمع ہونے کی غرض مذہبی معاملہ میں ہماری فراخ ہوصلگی ہم غداری کو برداشت نہیں کر سکتے خلافت ترکیه احمدیوں کو سبق طریق مشوره سوال کرنے والوں کو ہدایت لجنہ اماءاللہ کا خوش گن کام دو بیویوں میں عدل نہ کرنے پر مقاطعہ کرنا چاہئے کثرت رائے کا رد خلیفہ وقت کے گزارے کا سوال اور فیصلہ کوئی خلیفہ اپنے کسی رشتہ دار کو اپنا جانشین نہیں مقرر کر سکتا نامزدشدہ خلیفہ اپنا جانشین نہیں مقرر کر سکتا ۶ L ۱۶ ۱۶ ۳۳ ۳۴ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۴۲ ۴۵ ۶۹ میں مشورہ کا طریق مشورہ کے لئے ہدایات شوری کے فوائد مجلس شوری کا طریق انجمن اور خلیفہ صدرانجمن کا قیام امارت کے فرائض امیر کا تقرر شرعی ہے یا نہیں امارت اور سلطنت اطاعت کی روح پیدا کرو اختتامی تقریر مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء افتتاحی تقریر چنده خاص
عناوین صفحہ ۱۳۸ ۱۱۴۲ خطابات شوری جلد اول نمبر شمار عناوین صفحہ نمبر شمار امور عامہ کی سکیمیں اور پیش کرنے کا طریق ۱۰۹ منافقوں کی علامتیں مجرم کی تائید نہیں کرنی چاہئے الزام لگانے والے خود مجرم ہوتے ہیں ۱۴۵ ۱۴۶ ۱۵۷ ۱۵۷ ۱۶۱ ۱۶۱ ۱۶۲ ۱۶۲ ۱۶۲ ۱۶۳ ۱۶۵ ۱۶۵ ۱۶۷ ۱۱۶۸ 1 ۱۱۲ ۱۱۷ اختتامی تقریر مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء افتتاحی تقریر مجلس مشاورت اور دنیا کی دیگر مجلسوں کی اشاعت اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کی قدر و قیمت صرف زکوۃ کے متعلق فتنہ انگیز سوال اختتامی تقریر مستورات کی تعلیم و تربیت الفضل کی اشاعت بڑھاؤ علاقہ سندھ میں تبلیغ چندہ عام میں اضافہ کی ضرورت صنعت و حرفت ایک خاص سیکیم قربانیوں کے لئے تیار رہو ۱۱۸ ۱۱۹ ۱۲۰ ۱۲۰ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۶ ۱۲۸ ۱۲۹ ۱۳۰ ۱۳۱ میں فرق رائے نیک نیتی سے قائم کرو ہماری ذمہ داریاں ہماری باتوں کے اثر کی وسعت ناظروں کی نگرانی دنیا کو فتح کرنے والی قومیں افریقہ میں تبلیغ مخالفین کا لٹریچر جمع کرنا ناظروں کا فرض انتظامی امور کے متعلق سوالات کسی نقص کی اصلاح کا طریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق ۱۳۲ ۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء سوالات کی غرض اصلاح ہونی چاہئے ۱۳۲ افتتاحی تقریر خلیفہ جماعت کو تباہ کر دینے والی غلطی مومنوں کی خصوصیت نہیں کر سکتا مشورہ کی تاکید مجلس مشاورت کی اہمیت نمائندے کیسے ہوں؟ ۱۳۴ ۱۳۵ ۱۳۶ خلفاء اور نبی کی وراثت ہر جماعت میں منافق ہوتے رہے
خطابات شوری جلد اول III نمبر شمار عناوین صفحہ نمبر شمار عناوین صفحہ بک ڈپو کی شاخیں انگریزی اخبار کی ضرورت ۱۷۴ ۱۷۵ اہلِ قادیان کی مالی قربانی ۱۲۲۴ ہماری قربانی دوسرے مسلمانوں مساجد کی تعمیر جماعت کی تعلیم و تربیت پس ماندگان کی امداد پہنچائیں تاجروں اور اہل حرفہ کی انجمن ۱۷۷ KLA ۱۸۴ ۱۸۴ ۱۸۵ ۱۸۵ بڑھ کر ہونی چاہئے جماعت کے مخلصین تیار رہیں ۲۲۵ ۲۲۷ اپنے آپ کو مٹائے بغیر کامیابی ممکن نہیں ۲۲۸ رشتہ ناطہ سے متعلق تجویز داڑھی رکھنے کے متعلق ایک تجویز ۲۴۰ ۲۴۱ پنجاب اور بنگال کی اچھوت اقوام میں تبلیغ ۲۴۵ ۲۵۸ ۱۲۵۹ ۲۶۳ ۲۶۴ ۲۶۷ ۲۶۷ ۱۲۶۸ ۲۶۸ ۲۶۹ ۲۶۹ ۲۷۱ ۲۷۲ چندہ کی ادائیگی میں سستی کرنے جاپان میں مشن کھولنے کی تجویز والوں کے متعلق ٢٠٣ اختتامی تقریر وصیت کے لئے جائداد کی تعریف ۲۰۵ ۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء افتتاحی تقریر انجام بخیر تکبر اور خودی سے بچو خدا کیئے دنیا کو چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا امتحان لینا معارف قرآن سمجھنے کے لئے مشورہ حقیقی کامیابی کا گر مومن کی شان ارادوں میں بلندی ۲۱۰ ۲۱۳ ۲۱۳ ۲۱۴ ۲۱۶ ۲۱۷ ۲۱۹ ۲۲۱ ۲۲۲ ۲۲۳ اختتامی کلمات مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء افتتاحی تقریر ہمارا مقصد رضائے الہی بے نظیر قربانی کی ضرورت نا قابل قبول قربانیاں انانیت کی قربانی خلیفہ کے گزارہ کا سوال نظارت تجارت کی تجاویز زکوۃ کی وصولی سب سے اہم اور ضروری امر
نمبر شمار خطابات شوری جلد اول عناوین مجلس مشاورت کی اہمیت مجلس مشاورت کی عزت حضرت خلیفہ اسی کی ایک تجویز انسپکٹر تعلیم و تربیت کا تقرر بے کاروں کو کام مہیا کیا جائے تجویز بابت جلسہ ہائے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم اختتامی تقریر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم استغفار کیوں پڑھتے تھے؟ مجلس مشاورت کا وقار مشاورت کے فیصلوں پر عمل مصائب اسلام کا صحیح نقشہ اسلام کے لئے جوش اور تڑپ ہر رنگ میں ترقی عورتوں کے رائے دینے کا استحقاق مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء افتتاحی تقریر احمدیت کی عظمت تربیت کی ذمہ داریاں نمائندگان مجلس شوری کو نصیحت خدا کی خشیت کے ماتحت فیصلے IV صفحہ نمبر شمار عناوین صفحہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فیصلہ ۳۲۴ ۲۷۵ ۲۷۵ ۲۸۴ ۲۹۲ ۲۹۹ ۳۰۰ ۳۰۹ ۳۰۹ ۳۱۰ ۳۱۱ ۳۱۴ ۳۱۴ ۳۱۵ ۳۱۶ ۳۱۹ ۳۱۹ ۳۲۰ ۳۲۲ ۳۲۳ خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی زنانہ تعلیم کی ضرورت جلسہ ہائے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم نکاح فارم کی ضرورت مہر معجل اور غیر معجل انگریزی یا پنجابی زبان میں تقریر صحت کے لئے ورزش کرنے کی ضرورت چندہ خاص ریز روفنڈ کی ضرورت موجودہ تغیرات کے آئندہ نتائج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت عورتوں کی نمائندگی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مشورہ کا طریق ۱۳۲۵ ۳۲۷ ۳۲۹ ۳۳۱ ۳۳۲ ۳۳۷ ۳۴۱ ۳۴۲ ۳۵۶ ۳۵۸ ۳۵۹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق ۳۵۹ موجودہ طریق شریعت کیا کہتی ہے عورتوں کی شہادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں عورتوں کا حق نمائندگی ۳۵۹ ۳۵۹
خطابات شوری جلد اول نمبر شمار عناوین عورتوں کی نمائندگی کس طرح ہو؟ اختتامی تقریر مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء افتتاحی تقریر اردو تفسیر القرآن انگریزی ترجمۃ القرآن مجلس شوری کے متعلق دو فیصلے مجلس شوری میں سوالات نقائص کی اصلاح کا طریق تجاویز کب پیش کی جائیں مشورہ لینے کا حق مستریوں کے فتنہ کے متعلق کیا کرنا V صفحہ نمبر شمار ۳۶۲ ۳۶۳ ۳۶۵ ۳۶۶ ۳۶۷ ۳۶۷ ۳۶۸ ۳۶۸ ۳۶۹ ۳۷۰ چاہئیے ؟ ۳۷۱ منافقوں سے کیا سلوک کیا جائے؟ ۳۷۲ منصب خلافت ۳۹۹ خلافت کے متعلق عقیدہ ۴۰۰ خلافت مذہب کا جزو ہے مجلس شوری کا منصب خلیفہ اور غلطی جماعت کا ذمہ دار خلیفہ ہے مجلس شوری کس لحاظ سے خلیفہ کی جانشین ہے ۴۰۰ ۴۰۱ ۴۰۲ ۴۰۳ ۴۰۳ عناوین صفحہ مجلس معتمدین کے ممبروں کا انتخاب ۴۰۳ کارکنوں کا انتخاب صرف خلیفہ کر سکتا ہے ۴۰۴ وظائف کے متعلق طریق سیاسی خدمات کے متعلق رسالہ امدادی سکیم محصلوں کا کام مقررہ شرح سے کم چندہ دینے والا ایثار سے ترقی ہوتی ہے ۴۰۹ ۴۱۰ ۴۱۰ ۴۱۴ ۴۱۵ ۴۱۷ اختتامی تقریر ۴۱۹ عورتوں کا حق نمائندگی جماعت کو منظم کیا جائے تبلیغ کی طرف توجہ کی جائے ۴۱۹ ۴۲۰ ۴۲۱ سیرتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جلسے دعائیں کرو کبھی مایوس نہ ہونا چاہئے ہر احمدی کو ستارہ بننا چاہئے معارف قرآن کے متعلق چیلنج خدا کی تائید حاصل کرنے کا طریق ۱۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء افتتاحی تقریر ہمارے جمع ہونے کی غرض ۴۲۱ ۴۲۳ ۴۲۳ ۴۲۴ ۴۲۴ ۴۲۴ ۴۲۷ ۴۲۸
خطابات شوری جلد اول نمبر شمار عناوین VI صفحہ نمبر شمار سلسلہ کے کسی کام میں نقص دیکھنے کے انتظام کی سکیم عناوین صفحہ ۱۴۶۲ کو آپریٹو سوسائٹیوں کے متعلق تجویز ۴۶۷ ناظروں کا دورہ ۴۷۰ دار البیعت لدھیانہ اختتامی تقریر ۴۷۱ ۴۷۲ ۴۷۵ ۴۷۷ ۴۲۹ ۴۳۰ ۴۳۱ ۴۳۴ والے اطلاع دیں ریز روفنڈ اور مبلغین میں اضافہ مومن کو کس طرح استقلال دکھانا چاہئے خدا کے دربار سے ملنے والی عزت انبیاء کی جماعتوں کی عزت ۴۳۵ ۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء افتتاحی تقریر خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہئے نیک نیتی سے مشوروں میں حصہ لینا چاہئے ۴۷۷ CLA ۴۷۸ ۴۷۸ ۴۸۰ ۴۸۱ ۴۸۲ ۴۸۴ مجلس میں استغفار کرنا تباہی کا موجب بننے والی مجلس صرف بحث کرنے کی غرض سے کسی بات میں شامل نہ ہونا چاہئے تقوی وطہارت سے کام لو فیصلہ کرتے وقت دو باتیں مدنظر رکھنی چاہئیں ہماری کامیابی اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے سلسلہ احمد یہ خدا نے قائم کیا ہے خدا کے فرشتے ہماری مدد کر رہے ہیں ۴۸۶ کوئی سلسلہ احمدیہ کو مٹا نہیں سکتا ۴۸۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز ۴۸۹ ۴۳۶ ۴۴۱ ۴۴۲ ۴۴۳ ۴۴۴ ۴۴۵ ۴۴۵ ۴۴۶ ۴۴۶ ۴۴۷ ۴۴۹ ۴۵۰ ۴۵۷ مسلمانوں کے مصائب تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان مدرسہ احمدیہ قادیان آنا فضول اخراجات سے بچو زمیندار لوگ کیا کریں مختلف پیشے سیکھے جائیں کوئی پیشہ ذلیل نہیں غیر ممالک میں جانا با ہمی تعاون مشتر کہ کام جاری کئے جائیں با اثر لوگ بطور شغل کوئی پیشہ اختیار کریں احمد یہ یونیورسٹی ٹیلیفون لگوانے سے متعلق تجویز جماعت کی اقتصادی ترقی اور پسماندگان
خطابات شوری جلد اول نمبر شمار عناوین VII صفحہ نمبر شمار عناوین صفحہ کامیابی کے لئے پختہ ایمان کی ضرورت ۴۹۰ تقومی کو مد نظر رکھا جائے مجلس مشاورت میں خدا تعالیٰ سے عہد ۴۹۱ رائے پیش کرنے کا طریق عورتوں کو تعلیم نہ دینے کا نقصان ۴۹۲ انگریزی ترجمہ قرآن کے متعلق مشورہ ۵۳۷ مقبرہ بہشتی کے متعلق رپورٹ اور فیصلہ ۴۹۵ رمضان اور جلسہ سالانہ ۴۹۷ ۴۹۷ خرچ کم کرنے پر زور وصیت کرنے والے کی جائداد خلافت ثانیہ میں جماعت کی ترقی ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے تیار رہنے لڑکیوں کے رشتوں کے متعلق شرطیں ۵۰۰ والوں کو کیا کرنا چاہئے غیر مسلموں میں تبلیغ اسلام کی تجویز ۵۰۳ صحیح طریق عمل ۵۴۰ ۱۵۵۵ ۵۵۸ ۵۶۰ ۵۶۳ ۵۶۳ ۵۷۰ ۵۷۰ ۵۷۱ ۵۷۲ ۵۷۲ ۱۵۷۳ ۵۷۵ ۵۷۷ جسمانی صحت کے متعلق تجاویز اور اختتامی تقریر فیصلے فوجی ٹرینگ شوٹنگ کلبز ٹیریٹوریل کمپنی اور ریکروٹ احمدیہ کور کی تجویز ضروری ہدایات چندہ کشمیر ۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء اختتامی تقریر ۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء افتتاحی تقریر ہمارے کام کی اہمیت ۵۰۹ ۵۱۹ 음을 ۵۱۳ ۵۲۵ ۵۲۵ افتتاحی تقریر جماعت احمدیہ کی مثال امید دلانے والی چیز ہمارا مقصد عظیم الشان کام خدا کا سہارا خدا تعالیٰ کی منشاء معلوم کرنے کا طریق ۵۲۹ آداب مجلس کامیابی حزب اللہ کو حاصل ہوتی ہے ۵۳۳ مشورہ کے متعلق ضروری ہدایات ہر ایک کی بات غور اور توجہ سے سنو شوری کی ضرورت ۵۳۳ ۵۳۴ غرور سے بچو قوموں کے مٹنے کی وجہ
صفحہ ۶۲۰ ۶۲۱ ۶۲۱ ۶۲۵ ۶۲۹ ۶۳۷ خطابات شوری جلد اول نمبر شمار عناوین احمدی اور غیر احمدی میں فرق ترقی کے لئے موت قبول کرنا ضروری ہے VIII صفحہ نمبر شمار ۵۷۹ ۵۸۲ پبلک مباحثات کے بارہ میں ہدایات ۵۸۴ لڑکیوں کے لئے تعلیمی نصاب عناوین اسلام کا جھنڈ اسرنگوں نہیں ہوسکتا خدا کے مسیح کی آواز پختہ ایمان اور پختہ ارادہ کی ضرورت الفضل کی توسیع اشاعت مالی مشکلات کے باعث زمیندار احباب کو چندہ میں رعایت دینے کی تجویز زمیندار بھائیوں کا عظیم الشان اخلاص وصیت کے متعلق فیصلہ اختتامی تقریر ۵۸۹ ۶۰۲ ۶۰۲ ۶۰۴ ۶۰۹ ۶۱۰ ۶۱۱ ۶۱۲ ۶۱۳ ۶۱۴ ܬܙܖ ۶۱۶ ۶۱۷ ۶۱۷ ۶۲۰ اختتامی تقریر نادہندوں کے متعلق سالکین کی تحریک نمائندگان شوری کا عہد ۱۴ | مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء افتتاحی تقریر کام کرنے کا وقت خدا تعالیٰ کے لئے دو تحفے غافل ہوشیار ہو جائیں دائمی زندگی حاصل کرنے کا اصل کامیابی چاہتے ہو تو موت قبول کرو دُنیا کو فتح کرنے کا رنگ پیدا کرو حقیقی عشق ہر احمدی کو کیا عہد کرنا چاہئے سب کچھ قربان کرنے کی نیت خدا تعالیٰ کب محافظ بنتا ہے مومن جو کہتا ہے کر کے دکھا دیتا ہے
خطابات شورای ۱۹۲۲ء تا ۱۹۳۵ء
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ افتتاحی تقریر شید مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء ( منعقدہ ۱۶،۱۵.اپریل ۱۹۲۲ء) پہلا دن بلس مشاورت منعقده ۱۶،۱۵ اپریل ۱۹۲۲ء کا افتتاح کرتے ہوئے تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- کانفرنس کے شروع ہونے کا وقت سات بجے مقرر کیا گیا تھا لیکن جیسا کہ قاعدہ ہے تمام کاموں کی ابتداء میں ناتجربہ کاری اور ناواقفیت کی وجہ سے غلطیاں ہوتی ہیں.کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی ایسا نہیں کہ بغیر تجربہ کے عمدگی سے کیا جا سکے.جن لوگوں نے جلسہ کا پروگرام بنایا اور باہر کے لوگوں کو اطلاع دی اُن سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے کانفرنس کے منعقد ہونے کے وقت سے اطلاع نہ دی اس لئے بعض دوست رات کی گاڑی پر آئے اور صبح اُن کے لئے انتظار کرنا پڑا.میں اُمید کرتا ہوں کہ آئندہ اس قسم کی غلطیوں سے مہتم بچیں گے.آنیوالے لوگوں کو اطلاع ہونی چاہیئے تھی کہ کارروائی کا کیا وقت مقرر کیا گیا ہے.اس کے بعد سب سے پہلے اس جلسہ مشاورت کے متعلق بعض باتیں بیان کرتا ہوں پھر ان معاملات کے متعلق کچھ بیان کروں گا جن کے لئے احباب کو جمع کیا گیا ہے.کا نفرنس کی ضرورت سب سے پہلے میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مجلس جس کو پُرانے نام کی وجہ سے کارکن کا نفرنس کے نام سے یاد کرتے رہے ہیں کیا چیز ہے؟ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے کہ آمَرُهُمْ شُوری بينهم اپنے معاملات میں مشورہ لے لیا کریں.مشورہ بہت ضروری اور مفید چیز ہے اور بغیر اس کے کوئی کام مکمل نہیں ہو سکتا.اس مجلس کی غرض کے متعلق مختصر الفاظ میں یہ کہنا چاہئے کہ ایسی اغراض جن کا جماعت کے قیام اور ترقی سے گہرا تعلق ہے ان کے متعلق جماعت
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء کے مختلف لوگوں کو جمع کر کے مشورہ لے لیا جائے تاکہ کام میں آسانی پیدا ہو جائے یا ان احباب کو ان ضروریات کا پتہ لگے جو جماعت سے لگی ہوئی ہیں تو یہ مجلس شوری ہے.میں پورے طور پر تو نہیں کہہ سکتا کہ باہر کی کا نفرنسیں کن اغراض کے لئے منعقد ہوتی ہیں مگر یہ مجلس شوری ہے.پہلی کانفرنسوں اور اس میں فرق اس میں اور پہلی کانفرنسوں میں جو ہوتی رہی ہیں فرق ہے اور وہ یہ کہ پہلی کانفرنسیں صدر انجمن کے سیکرٹری کے بُلانے پر ہوتی تھیں مگر یہ خلیفہ کے بلانے پر منعقد ہوئی ہے.اُن کا نفرنسوں کا کام محدود اور شاید طریق عمل بھی مختلف تھا.مگر اس کا کام بہت زیادہ اور وسیع اور اس کا طریق عمل بھی مختلف ہے.میں نہیں جانتا کہ اُن کا طریق عمل کیا تھا مگر ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اُن کا نفرنسوں کی وجہ سے دو متضاد خیال پیدا ہو گئے تھے.ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی اُس میں میں بھی شامل تھا.اُس سے میں نے معلوم کیا کہ اس کے ساتھ ہی دو متضاد خیال پیدا ہو گئے.بعض نے کہا کہ اس کا نفرنس کا فیصلہ قطعی ہو اور مجلس معتمدین کا فیصلہ اس کے ماتحت ہو.جہاں تک مجھے یاد ہے شملہ کے دوستوں نے یہ سوال اُٹھایا تھا اور بہت سے لوگوں نے اس کی تائید کی تھی.وہ جو اس کا نفرنس کو بلانے والے تھے اُنہیں یہ بات کھٹکی اور اُنھوں نے ایسی تقریریں کیں کہ فیصلہ انجمن کا ہی ناطق ہو.چنانچہ پہلے تو بجٹ منظوری کے لئے پیش کیا گیا لیکن پھر مشورہ کے لئے قرار دیا گیا.میرے خیال میں اس رنگ میں کا نفرنس کا نتیجہ یہی ہونا چاہئے تھا کہ کانفرنس جس میں ساری جماعت کے قائم مقام ہوں ایک محدود آدمیوں کے مجمع کے او پر برتری کا خیال پیدا ہو مگر چونکہ کا نفرنس منعقد کر نیوالوں کی نیتیں اور تھیں اس لئے انہوں نے کانفرنس کا کوئی اصل قائم نہ کیا.اُن کا خیال تو یہ تھا کہ اس طرح خلافت کو نقصان پہنچایا جائے اور جماعت کی رائے کو اپنے ساتھ ملا لیا جائے.جب یہ بات حاصل ہو جائیگی تو خلافت کا فیصلہ کر لیں گے مگر چونکہ کا نفرنس اُن کے ہی خلاف ہوگئی اس لئے انھوں نے تو ڑ دی.کانفرنس کی اغراض مگر اس کا نفرنس کی وہ غرض نہیں جو اُن کی تھی کیونکہ اُسے اُن لوگوں نے بُلایا تھا جو اپنے آپ کو خلافت کا مد مقابل سمجھتے تھے
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء مگر یہ مجلس شوری خود خلیفہ نے بلائی ہے اس کی اغراض اور ہیں اور وہ یہ ہیں :.(۱) جیسا کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں قاعدہ تھا احباب سے ضروری معاملات کے متعلق مشورہ لیا جائے ، اُس وقت ریلیں نہ تھیں اور ایسے سامانِ سفر نہ تھے جیسے اب ہیں اس لئے قاعدہ یہ تھا کہ مدینہ کے لوگوں کو جمع کر لیا جاتا.خلفاء کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا کہ مدینہ کے لوگوں سے مشورہ لیا جاتا مگر اب چونکہ سامانِ سفر بہت پیدا ہو گئے ہیں اور آسانی سے لوگ جمع ہو سکتے ہیں اور میں نہیں جانتا آگے اور ترقی کہاں تک ممکن ہے ہو سکتا ہے ہوائی جہازوں کی وجہ سے سفر میں ایسی آسانی ہو جائے کہ کلکتہ کے لوگ یہاں مشورہ کر کے اُسی دن واپس جاسکیں.ایسی صورت میں مجلس مشاورت کو زیادہ وسیع کرنا ضروری ہے کیونکہ وسعت سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے اس لئے میں نے احباب کو بلایا ہے کہ وہ اپنی اپنی رائے بتائیں تا کہ اگر کوئی مفید ہو تو اس سے فائدہ اُٹھا ئیں.اس میں شبہ نہیں کہ باہر کے لوگ مقامی حالات سے واقف نہیں مگر سارے معاملات ایسے نہیں ہیں کہ جن میں مشورہ دینے کے لئے پچھلے حالات سے واقف ہونا ضروری ہو.بعض معاملات عقلی ہوتے ہیں اُن میں باہر کا آدمی بھی اُسی طرح بلکہ بعض حالات میں اچھی رائے دے سکتا ہے جیسا کہ قادیان کا رہنے والا دے سکتا ہے.(۲) باہر کے احباب یہاں کی تکالیف سے واقف نہیں ہوتے انہیں جب کہا جاتا ہے کہ چندہ دوتو وہ حیران ہوتے ہیں کہ اتنا روپیہ جاتا کہاں ہے اور اُن میں حالات کی ناواقفیت سے اتنا جوش پیدا نہیں ہوتا جتنا واقفیت سے پیدا ہو سکتا ہے اس لئے میں نے سمجھا کہ اُن کو واقفیت کرائی جائے اور کارکنوں کی مشکلات کا اندازہ لگانے کا موقع دیا جائے.(۳) بعض کاروباری آدمی ایسے ہوتے ہیں جو مشورہ دے سکتے ہیں.گورنمنٹ کے کام کرنے والے بڑے ماہر ہوتے ہیں مگر اُن کو بھی ایکسپرٹ منگانے پڑتے ہیں جن سے مشورے لیتے ہیں.ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں اُن کو بلایا گیا ہے تا کہ وہ اپنے تجربہ کی بناء پر مفید مشورہ دیں.(۴) بعض احباب قادیان آنے میں سُست ہیں اس طرح انہیں یہاں آنے کا ایک اور موقع دیا گیا ہے پھر یہ کہ جو لوگ جلسہ کے ایام میں یہاں آنے سے محروم رہتے ہیں وہ
خطابات شوری جلد اوّل اس موقع پر فائدہ اُٹھا سکیں اور قادیان سے ان کا زیادہ تعلق ہو.مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مشورہ کا طریق اب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفاء کے زمانہ میں مشورہ کا جو طریق تھا وہ بیان کرتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء تین طریق سے مشورہ لیتے تھے:.(۱) جب مشورہ کے قابل کوئی معاملہ ہوتا تو ایک شخص اعلان کرتا کہ لوگ جمع ہو جائیں اس پر لوگ جمع ہو جاتے.عام طور پر یہی طریق رائج تھا کہ عام اعلان ہوتا اور لوگ جمع ہو کر مشورہ کر لیتے اور معاملہ کا فیصلہ خلیفہ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کر دیتے.اس زمانہ میں اس طریق میں بعض وقتیں ہیں جو آجکل کی رسم و رواج کا نتیجہ ہیں اس لئے میں قادیان کے لوگوں سے مشورہ لیتا ہوں مگر اس طریق سے نہیں بلکہ اس کی شکل میں تغیر کر کے.حضرت صاحب بھی اس طرح نہیں لیتے تھے اور میں نے بھی حضرت صاحب کو دیکھ کر اس میں تبدیلی کی جو اس زمانہ کے حالات کی وجہ سے ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں ہر جماعت کا سردار اور امیر ہوتا تھا جو لوگ جمع ہوتے وہ جو بات سنتے اُس کا جواب خود نہ دیتے بلکہ کہتے ہمارا امیر جواب دیگا ہمارا حق نہیں کہ بولیں.اس بات کا اُن میں خاص احساس تھا اور ہر ایک کھڑا نہیں ہو جاتا تھا بلکہ ان کا سردار جواب دیتا تھا جمع تو سارے ہوتے تھے مگر بولتا وہی تھا جسے انہوں نے اپنا امیر منتخب کیا ہوتا تھا.بعض دفعہ آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں جوش میں آکر کوئی بول پڑا کہ ہم اس طرح کرینگے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری بات نہیں مانتا اپنے سردار سے کہو وہ آکر کہے.چونکہ عام طور پر مشورہ کے لئے علم اور تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے.یوں تو اگر سو باتیں پیش کی جائیں تو بچے بھی کچھ نہ کچھ اپنی رائے دے دیں گے اور آجکل ایسا ہی ہوتا ہے.ہر ایک رائے دینے کی قابلیت کا دعویدار ہوتا ہے اور رائے دیتا ہے مگر رائے وہی دے سکتا ہے جو سوچ سکتا اور تجربہ رکھتا ہو اسلئے ہر ایک رائے قابلِ توجہ نہیں ہوتی اور نہ اس سے کوئی مفید نتیجہ نکلتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں سردار مشورہ دیتے تھے ہر ایک نہیں بولتا
خطابات شوریٰ جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء تھا مگر اب ہر ایک بول پڑتا ہے اس لئے چند ایک کو بلا لیا جاتا ہے اور الگ مشورہ کر لیا جاتا ہے اور اگر الگ نہ کیا جائے تو نام لے دیئے جاتے ہیں کہ فلاں فلاں مشورہ دیں اس لئے اول تو کوئی بولتا ہی نہیں اور اگر کوئی بولنے کی جرات کرے تو اس سے بھی بعض دفعہ مفید نتیجہ نکال لیا جاتا ہے.اب بھی اگر وہی طریق ہو کہ سردار ہوں تو اسی طرح مشورہ ہو سکتا ہے مگر ابھی چونکہ ایسا رواج نہیں اس لئے مشورہ کے لئے آدمی منتخب کرنے پڑتے ہیں.(۲) دوسرا طریق مشورہ کا یہ تھا کہ وہ خاص آدمی جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشورہ کا اہل سمجھتے اُن کو الگ جمع کر لیتے باقی لوگ نہیں بلائے جاتے تھے.جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشورہ لیتے تھے تاریخ سے معلوم ہوتا ہے تیس کے قریب ہوتے تھے رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کو ایک جگہ بُلا کر مشورہ لے لیتے.کبھی تین چار کو بلا کر مشورہ لے لیتے.(۳) تیسرا طریق یہ تھا کہ آپ کسی خاص معاملہ میں جس میں آپ سمجھتے کہ دو آدمی بھی جمع نہ ہونے چاہیں علیحدہ علیحدہ مشورہ لیتے.پہلے ایک کو بلا لیا اُس سے گفتگو کر کے اس کو روانہ کر دیا اور دوسرے کو بلا لیا.یہ ایسے وقت میں ہوتا جب خیال ہوتا کہ ممکن ہے رائے کے اختلاف کی وجہ سے دو بھی آپس میں لڑ پڑیں.یہ تین طریق تھے مشورہ لینے کے اور یہ تینوں اپنے اپنے رنگ میں بہت مفید ہیں.میں بھی ان تینوں طریق سے مشورہ لیتا ہوں.مشورہ کے لئے ہدایات اب یہ بتانا ہے کہ مشورہ دیتے وقت کن باتوں کا لحاظ رکھنا چاہئے کیونکہ اب مشورہ ہوگا.(۱) ہمارا جمع ہونا کسی دنیا وی غرض اور فائدہ کیلئے نہیں.میں تو قادیان کا رہنے والا ہوں باہر سے نہیں آیا.آپ لوگوں میں سے بعض زمیندار ہیں.جن کا فصلیں کاٹنے کا وقت ہے اُن کا اِس وقت گھروں سے نکلنا معمولی بات نہیں مگر وہ کام چھوڑ کر آئے ہیں.بعض تاجر ہیں، بعض ملازم ہیں ، اُن کو کئی دن کے بعد یہ چھٹی ملی ہوگی ، کئی اور کام انہوں نے کرنے ہونگے مگر اُنہوں نے سب کو قربان کر دیا.پس ہم خدا کیلئے جمع ہوئے ہیں اس لئے ہماری نظر خدا پر ہونی چاہئے.چونکہ ساری دنیا کا مقابلہ ہے اور اُن کا مقابلہ ہے جو تجربہ میں،
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء انتظام میں، قدرت میں، اختیار میں ہم سے زیادہ ہیں.ان کے پاس مال بھی ہے، اُن کے قبضہ میں فوج بھی ہے، حکومت بھی ہے، لیکن ہم جنہوں نے دنیا کو فتح کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے ہمارے پاس نہ قوت ہے، نہ مال ہے ، نہ تجربہ ہے، نہ واقف کارلوگ ہیں.گویا ہم ہر بات میں ان سے کمزور ہیں اس لئے ہمارے مشورے تبھی مفید ہو سکتے ہیں کہ خدا پر نظر رکھیں.اس لئے پہلی نصیحت میں یہ کرتا ہوں کہ ہر شخص خدا کی طرف توجہ کرے اور دعا کرے کہ الہی ! میں تیرے لئے آیا ہوں تو میری راہ نمائی کر کسی معاملہ میں میری نظر ذاتیات کی طرف نہ پڑے.نہ ایسا ہو کہ کوئی رائے غلط دوں اور اُس پر زور دوں کہ مانی جائے اور اس سے دین کو نقصان پہنچے.نہ ایسا ہو کہ کوئی ایسی رائے دے جو ہو تو غلط مگر اس کی چکنی باتوں یا طلاقت لسانی سے میں اس سے متفق ہو جاؤں.میں تجھ سے دُعا کرتا ہوں کہ نہ ایسا ہو کہ مجھ میں نفسانیت آجائے یا اپنی شہرت و عزت کا خیال پیدا ہو یا یہ کہ بڑائی کا خیال پیدا ہو یا یہ کہ بڑائی کا خیال آجائے.نہ ایسا ہو کہ میری رائے غلط اور مصر ہو.نہ یہ ہو کہ میں کسی کی غلط رائے کی تائید کروں.میری نیت درست رہے.میری رائے درست ہو اور تیری منشاء کے ماتحت ہو.یہ دعا ہر دوست کو کر لینی چاہئے اور ہمیشہ کرنی چاہئے جب بھی ہماری جماعت مشورہ کرنے لگے صرف آج کے لئے ہی نہیں.(۲) یہ کہ پہلی نصیحت دعا کے متعلق ہے مگر کوئی دعا قبولیت کا جامہ نہیں پہنتی جب تک اس کے ساتھ عمل نہ ہو.مثلاً انسان دعا تو کرے کہ اُسے خدمت دین کی توفیق ملے مگر عملاً ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اسے کیا توفیق ملے گی.تو دعا کے ساتھ عمل کی ضرورت ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ آج بھی اور کل بھی اور پھر جب کبھی مشورہ ہو ذاتی باتوں کو دل سے نکال دیا جائے.لوگوں نے بعض باتیں دل میں بٹھائی ہوتی ہیں کہ یہ منوائیں گے لیکن مشورہ کے یہ معنی نہیں کہ ایسی باتوں کو بیان کرو بلکہ یہ ہیں کہ اپنے دماغ کو صاف اور خالی کر کے بیٹھو اور صحیح بات بیان کرنی چاہئے.عام طور پر لوگ فیصلہ کر کے بیٹھتے ہیں کہ یہ بات منوانی ہے اور پھر اس کی بیچ کرتے ہیں.مگر ہماری جماعت کو یہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ صحیح بات ماننی اور منوانی چاہیئے.(۳) یہ کہ جب مشورہ کے لئے بیٹھیں تو مقدم نیت یہ کر لیں کہ جس کام کے لئے مشورہ کرنے
خطابات شوریٰ جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء لگے ہیں اس میں کس کی رائے مفید ہو سکتی ہے نہ یہ کہ میری رائے مانی جائے.(۴) یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ آج بھی اور آئندہ بھی ہر وقت جب مشورہ لیا جائے کسی کی خاطر رائے نہیں دینی چاہئے بعد میں بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ میری تو یہ رائے نہ تھی مگر فلاں دوست نے کہا تھا اس لئے دی تھی.روپیہ غبن کرنا اتنا خطر ناک نہیں جتنی یہ بات خطرناک ہے مگر یہ ایسی آسان سمجھی جاتی ہے کہ بڑے بڑے مدبر بھی اس کا ارتکاب کرتے ہیں.ہندوستان کی کونسل کا واقعہ ہے کہ ایک ممبر نے کہا میری یہ رائے نہ تھی مگر فلاں دوست نے چونکہ کہا تھا اس لئے میں نے اُس کی خاطر رائے دیدی.تعجب ہے اُس نے اس بات کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھا.مگر یہ سخت بد دیانتی ہے.ہماری جماعت کے لوگ اس سے بچیں اور کسی کی خاطر نہیں بلکہ جو رائے صحیح سمجھیں وہ دیں.(۵) کسی اور حکمت کے ماتحت رائے نہیں دینی چاہئے بلکہ یہ مد نظر ہو کہ جو سوال در پیش ہے اُس کے لئے کونسی بات مفید ہے.اس کی تشریح میں مثال دیتا ہوں مثلاً ایک سوال پیش ہے کہ فلاں کام جاری کیا جائے.بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ کام کو جاری کرنا تو مفید سمجھتے ہیں مگر یہ خیال کر کے کہ اگر جاری ہو گیا تو فلاں اس پر مقرر ہو گا اس کی مخالفت کرتے ہیں.یہ بد دیانتی سے بھی کرتے ہیں اور کبھی اس شخص کو مناسب نہیں سمجھتے.مگر بجائے اس کے کہ اس کے تقرر کا جب سوال آئے تو اس وقت بحث کریں یا اس طرح کہیں کہ اس کام کو جاری نہیں کرنا چاہئے کیونکہ فلاں کے سوا اور کوئی نہیں جسے اس کام پر لگایا جاوے اور وہ موزوں نہیں یہ کہتے ہیں یہ کام ہی مفید نہیں.چونکہ یہ بد دیانتی ہے اس لئے یہ نہیں ہونا چاہئے.یا اس طرح کہ ایک کمیشن مقرر کرنا ہے جس کے لئے فلاں کو مقرر کرنا ہے اس پر ان کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ کیا جائے مگر بحث یہ شروع کر دیتے ہیں کہ کمیشن قائم کرنا ہی ٹھیک نہیں.ایسا نہیں ہونا چاہئے اصل معاملہ میں صحیح رائے دینی چاہئے.(۶) جو سچی بات ہو اُسے تسلیم کرنے سے پر ہیز نہیں کرنا چاہئے خواہ اسے کوئی پیش کرے.مثلاً ایک بات ایسا شخص پیش کرے جس سے کوئی اختلاف ہو مگر ہو سچی تو اگر کوئی اُس کو اس لئے چھوڑتا ہے کہ پیش کرنے والے سے اُس کی مخالفت ہے تو بددیانتی کرتا ہے.(۷) چاہئے کہ کوئی رائے قائم کرتے وقت جلد بازی سے کام نہ لے.کئی لوگ پہلے رائے
خطابات شوریٰ جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء قائم نہیں کرتے مگر فورا بات سُن کر رائے ظاہر کرنے لگ جاتے ہیں.چاہئے کہ لوگوں کی باتیں سنیں ، ان کا موازنہ کریں اور پھر رائے پیش کریں.اور نہ ایسا ہو کہ دوسروں کی رائے پر اتکال کریں.ایک تو میں نے یہ کہا ہے کہ دوسرے کے لئے رائے نہ دی جائے اور ایک یہ کہ دوسرے کے کہنے پر رائے قائم نہ کی جائے.مثلاً ایک کہے فلاں کام میں خرابی ہے.دوسرا بغیر خرابی معلوم کئے یہ کہے کہ ہاں خرابی ہے.اسے خود اپنی جگہ تحقیقات کرنی چاہئے.(۸) کبھی اس بات کا دل میں یقین نہ رکھو کہ ہماری رائے مضبوط اور بے خطا ہے.بعض آدمی اس میں ٹھو کر کھاتے ہیں.کہتے ہیں کہ ہماری رائے غلط نہیں ہو سکتی اور پھر حق سے دور ہو جاتے ہیں.بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ بچے بھی عجیب بات بیان کر دیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں سے بھی مشورہ پوچھتے تھے.حدیبیہ کے وقت ہی جب لوگ غصے میں تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم سلمہ سے پوچھا کہ کیا کیا جائے؟ انہوں نے کہا آپ جا کر قربانی کریں اور کسی سے بات نہ کریں.آپ نے ایسا ہی کیا اور پھر سب لوگوں نے قربانیاں کر دیں ہے تو اپنی کسی رائے پر اصرار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ بڑوں بڑوں سے رائے میں غلطی ہو جاتی ہے اور بعض اوقات معمولی آدمی کی رائے درست اور مفید ہوتی ہے.مجلس میں علم کی وسعت کے خیال سے بیٹھنا چاہئے.ہاں یہ بھی عیب ہے کہ انسان دوسرے کی ہر بات کو مانتا جائے.کچی اور علمی بات کو تسلیم کرو اور جہالت کی بات کو نہ مانو.(۹) ہمیشہ واقعات کو مدنظر رکھنا چاہئے.احساسات کی پیروی نہ کرنی چاہئے.کئی لوگ احساسات کو اُبھار دیتے ہیں اور پھر لوگ واقعات کو مدنظر نہیں رکھتے.میں نے بھی ایک دفعہ احساسات سے فائدہ اٹھایا ہے مگر ساتھ دلائل بھی پیش کئے تھے.ایک مجلس اس بات کے لئے ہوئی تھی کہ مدرسہ احمدیہ کو اڑا دیا جائے.مجلس میں جب قریباً سب اس بات کی تائید کرنے لگے تو میں نے تقریر کی اور اس میں اس قسم کے دلائل بھی دیئے کہ اگر ہم میں علماء نہ ہوئے تو ہم فتویٰ کس سے لیں گے.کیا ادھر غیروں کو ہم کافر کہیں گے اور ادھر ان سے فتویٰ لیں گے.اس کے ساتھ ہی جذبات سے بھی اپیل کی کہ
خطابات شوریٰ جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء حضرت صاحب کی یادگار میں یہ مدرسہ قائم کیا گیا ہے.اب لوگ کیا کہیں گے کہ آپ کی وفات پر پہلا جلسہ جو ہوا اس میں اس یاد گار کو اُڑا دیا گیا!! میری تقریر کے بعد سب نے کہہ دیا نہیں مدرسہ بند نہیں ہونا چاہئے.حتی کہ خواجہ صاحب نے جو بند کرنے کی تحریک کرنے والے تھے اُنہوں نے بھی کہا کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا.تو احساسات کو تائیدی طور پر پیش کرنا اور ان سے فائدہ اُٹھانا جائز ہے مگر محض ان کے پیچھے پڑنا یا ان کو اُبھار کر رائے بدلنا خیانت ہے.اگر کوئی یہ جانتا ہو کہ اُس کے دلائل کمزور ہیں اور پھر وہ جذبات کو اُبھارے تو وہ بددیانت ہے.اور اگر کوئی یہ جانتا ہوا کہ دلائل غلط ہیں مگر احساسات کے پیچھے لگ کر رائے دیدے تو وہ بھی بد دیانت ہے.(۱۰) دوستم کی باتیں ہوتی ہیں.ایک وہ جن میں دینی فائدہ زیادہ ہوتا ہے اور دنیوی کم.دوسری وہ جن میں دُنیوی فائدہ زیادہ ہوتا ہے اور دینی کم.چونکہ ہم دینی جماعت ہیں اس لئے ہمیں اس بات کے حق میں رائے دینی چاہئے جس میں دینی فائدہ زیادہ ہو.(۱۱) ہمیشہ یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ہماری تجاویز نہ صرف غلط نہ ہوں بلکہ یہ بھی مد نظر رہے کہ جن کے مقابلہ میں ہم کھڑے ہیں ان کی تجاویز سے بڑھ کر اور مؤثر ہوں اور ہمارا کام ایسا ہونا چاہئے کہ دشمن کے کام سے مضبوط ہو.مثلاً اگر ایسی جگہ ایک مکان بناتے ہیں جہاں پانی کی رو نہیں آتی.وہ اگر زیادہ مضبوط نہیں تو خیر لیکن جہاں زور کی رو آتی ہو وہاں اگر مضبوط نہیں بنائیں گے تو غلطی ہو گی.پس ہماری مجلس شوریٰ میں یہی نہیں ہونا چاہئے کہ اس میں غلطی نہ ہو بلکہ یہ بھی ہو کہ ایسی اعلیٰ اور زبر دست تجاویز ہوں جو دشمن کا مقابلہ کر سکیں.پھر ایک تو یہ بات ہے کہ دشمنوں کے مقابلہ سے ہماری کوششیں اور تجاویز اعلیٰ ہوں.دوسری یہ کہ ہماری تجاویز ہماری پچھلی تجاویز سے اعلیٰ ہوں.ان دونوں باتوں کو بُھولنے سے قو میں تنزل میں پڑ جاتی ہیں.ان میں سے اگر ایک کو چھوڑ میں تو بھی تنزل شروع ہو جاتا ہے.مثلاً ایک وقت آ سکتا ہے جبکہ دشمن نہایت کمزور اور ذلیل ہو جائے جیسا کہ مسلمانوں کے لئے آیا تھا.اسی طرح جب ہمارے لئے وقت آیا تو اُس وقت اگر ہماری کوششیں اپنی پچھلی کوششوں سے کم رہیں تو ضرور نقصان ہو گا.ایک وقت مسلمان کمزور تھے مگر ایک وقت وہ آیا کہ ان کے دشمن ذلیل ہو گئے اور مسلمان طاقتور ہو
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء گئے اُس وقت مسلمانوں کی طاقت عیسائیوں سے بہت زیادہ تھی مگر اس وقت اس لئے تنزل میں گر گئے کہ ان کے لشکر کم تھے.تو اپنی طاقت کو ہر وقت بڑھانا چاہئے ورنہ نقصان ہوتا ہے مثلاً دشمن کھڑا ہو اور ہم چل رہے ہوں تو اس سے آگے ہوں گے اور اگر دشمن دوڑ کر آئے اور ہم ذرا تیز قدم کر لیں تو وہ آگے نکل جائے گا.اُس وقت ہمیں دشمن سے بھی زیادہ تیز دوڑنے کی ضرورت ہو گی.تو ہمیں جہاں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہماری تجاویز دشمن کی تجاویز سے اعلیٰ ہوں وہاں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہماری پہلی تجاویز سے بھی اعلیٰ ہوں جب یہ دونوں باتیں مدنظر رہیں تو سوائے اس کے کہ خدا کا غضب بھڑ کا دیا جائے دنیاوی لحاظ سے کوئی قوم تباہ نہیں ہو سکتی.ان دونوں باتوں کا مد نظر رکھنا ضروری ہے.(۱۲) رائے دیتے وقت یہ بات دیکھ لینی چاہئے کہ جو بات پیش ہے وہ واقعہ میں مفید ہے یا ممصر ، مقابلہ میں آکر کسی معمولی سی بات پر بحث شروع ہو جاتی ہے حالانکہ اس کا اصل بات کے مضر یا مفید ہونے سے تعلق نہیں ہوتا.پس فروعی باتوں پر بحث نہ شروع کرنی چاہئے بلکہ واقعہ کو دیکھنا چاہئے کہ مفید ہے یا مینر.(۱۳) سوائے کسی خاص بات کے یونہی دُہرانے کے لئے کوئی کھڑا نہ ہو.ضروری نہیں کہ ہر شخص بولے ہاں اگر نئی تجویز ہو تو پیش کرے.(۱۴) چاہئے کہ ہر ایک اپنا وقت بھی بچائے اور دوسروں کا بھی وقت ضائع نہ کرے.اس مشورے کا اثر کیا ہوگا ؟ یہ نہیں کہ ووٹ لئے جائیں اور ان پر فیصلہ کیا جائے بلکہ جیسا اسلامی طریق ہے کہ مختلف خیالات معلوم کئے جائیں اور مختلف تجاویز کے پہلو معلوم ہوں تا کہ ان سے جو مفید باتیں معلوم ہوں وہ اختیار کر لیں.اس زمانہ کے لحاظ سے یہ خیال پیدا ہو گا کہ کیوں رائے نہ لیں اور ان پر فیصلہ ہومگر ہمارے لئے دین نے یہی رکھا ہے کہ ایسا ہو اذا عزمت فتوكَّلْ عَلَى اللهِ " مشوره لومگر جب ارادہ کر لو تو پھر اس بات کو کر لو یہ نہ کہو کہ لوگ کیا کہیں گے اور اسلام میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے.جب ایران پر حملہ کیا گیا تھا تو دشمن نے ایک پل کو توڑ دیا اور بہت سے مسلمان مارے گئے تھے.سعد ابن ابی وقاص نے لکھا کہ مسلمان تباہ ہو جائیں گے اگر جلد فوج نہ آئے گی تو عرب میں دشمن گھس آئیں گے.حضرت عمرؓ نے رائے طلب کی تو سب نے کہا خلیفہ کو خود جانا
خطابات شوری جلد اوّل ۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء چاہئے.حضرت علیؓ خاموش رہے.حضرت عمرؓ کو اُن کی خاموشی پر خیال آیا اور پوچھا آپ کیوں چپ ہیں کیا آپ اس رائے کے خلاف ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں میں خلاف ہوں.پوچھا کیوں؟ تو کہا اس لئے کہ خلیفہ کو جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہئے.اس کا کام یہ ہے کہ لڑنے والوں کو مدد دے.جو قوم ساری طاقت خرچ کر دے اور جسے مدد دینے کے لئے کوئی نہ رہے وہ تباہ ہو جاتی ہے.اگر آپ کے جانے پر بھی شکست ہوگئی تو پھر مسلمان کہیں نہ ٹھہر سکیں گے اور عرب پر دشمنوں کا قبضہ ہو جاوے گا.اس پر حضرت عمر نہ گئے اور انہی کی بات مانی گئی ہے تو مشورہ کی غرض ووٹ لینے نہیں بلکہ مفید تجاویز معلوم کرنا ہے پھر چاہے تھوڑے لوگوں کی اور چاہے ایک ہی کی بات مانی جائے.پس صحابہ کا یہ طریق تھا اور یہی قرآن سے معلوم ہوتا ہے اور عارف کے لئے یہ کافی ہے مگر چونکہ ایک رو چلی ہوئی ہے اس لئے بتاتا ہوں کہ اس طریق کے فوائد کیا ہیں اور وہ فوائد انجمن کے طریق سے زیادہ ہیں.جو نقائص اس میں بتائے جاتے ہیں وہ انجمن میں بھی ہوتے ہیں.یہ جو کثرتِ رائے کہتے ہیں لیکن کثرت رائے نہیں ہوتی.وہاں بھی ایک ہی لیڈر ہوتا ہے جو دوسروں کی رائے کو اپنے پیچھے چلاتا ہے.وہاں کثرتِ رائے نہیں ہوتی بلکہ موازنہ ہوتا ہے کہ کس نے اپنے ساتھ زیادہ ووٹ ملالئے.پارلیمنٹ میں یہی ہوتا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ رائے نہ ملی تو گورنمنٹ ٹوٹ جائے گی اس لئے سارے رائے دے دیتے ہیں تو عام طبائع ایسی نہیں ہوتیں کہ صحیح رائے قائم کر سکیں اس لئے اکثر لوگ دوسروں کے پیچھے چلتے ہیں.اگر کہیں کہ وہ اہل الرائے ہوتے ہیں تو بھی یہی ہوتا ہے کہ بڑے کی رائے کے نیچے ان کی رائے دب جاتی ہے اس لئے یہی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے.دونوں کا مقابلہ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں ہر وقت مقابلہ رہتا ہے مگر شوری میں یہ بات نہیں ہوتی کیونکہ اس میں پارٹی کا خیال نہیں ہوتا.یہ جو خیال ہوتا ہے انجمن کا اس میں یہی ہوتا ہے کہ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں موقع ملے تا کہ آگے نکلیں.اگر ایک رائے مقرر ہو گئی تو ہمارے لئے کہاں موقع ہوگا.چونکہ ان میں اوپر نکلنے کے لئے خواہش ہوتی ہے کہ مقابلہ کر کے آگے نکلیں اس کے لئے وہ جھگڑتے رہتے ہیں.لوگوں کو ساتھ ملا کر پارٹیاں بناتے ہیں چنانچہ اس کا نمونہ ہمیں بھی نظر آ گیا.
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صدر انجمن کے بنتے ہی پارٹیاں بن گئیں اور اس کا نتیجہ جو نکلا وہ ظاہر ہے.گواب وہ لوگ نکل گئے ہیں مگر انجمن کے نام کے ساتھ ایسے احساسات لگے ہوئے ہیں کہ لوگ اس اثر کو دور نہیں کر سکتے.اگر چہ انجمن کے سارے ممبروں نے بیعت کی ہوئی ہے اور مخلص ہیں مگر اس میں بھی اس قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں.کچھ عرصہ ہوا میرے پاس ایک وفد انجمن کا آیا کہ فلاں آدمی کو جو باہر بھیجا گیا ہے اس سے انجمن کا حرج ہوتا ہے اس کو اسی کام پر مقرر کر دیا جائے.میں نے کہا اب میں اسے نہیں بھیجوں گا.اس کے بعد ایک جگہ کے لوگ آئے کہ ہمارا مقدمہ ہے اس کے لئے اس آدمی کا جانا ضروری ہے.میں نے کہا میں نے عہد کر لیا ہے کہ میں اسے نہ بھیجوں گا.مقدمہ والا چونکہ تیز طبیعت کا آدمی تھا اس لئے بہت باتیں کرنے لگا مگر میں نے کہا میں نہیں بھیج سکتا.اس کے بعد وہ انجمن کے افسر کے پاس گیا اور اس نے بھیج دیا.میں نے کہا انجمن کی یہی غرض تھی کہ خلیفہ کے کہنے پر نہ جائے ہمارے کہنے پر جائے تو یہ جنگ شروع ہو جاتی ہے.بعض فوائد بھی ہوتے ہیں مگر مضرات بھی ہیں.مضرات کو اسلام نے دُور کر دیا ہے اور فوائد کو لے لیا ہے.اس قسم کی شخصی حکومت کہ باپ کے بعد بیٹا جانشین ہو خواہ نالائق ہی ہو اس کو اُڑا دیا اور یہ رکھا کہ سب کی رائے سے ہو اور جب مقرر کر دیا تو اس کے لئے مشورہ رکھا تا کہ لوگ پارٹیاں نہ بنائیں اور چونکہ وہ خود اپنا جانشین بیٹے کو بھی بنا نہیں سکتا اس لئے اس کے ایسے فوائد نہیں ہوتے جو وہ پچھلوں کے لئے چھوڑ جائے اور میرے نزدیک شرعاً جائز نہیں کہ خلیفہ بیٹے کو جانشین مقرر کرے.جیسا کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ کا فیصلہ ہے کہ بیٹا خلیفہ نہیں ہو سکتا.بعض نے چاہا کہ آپ اپنے بیٹے کو خلیفہ مقرر کر دیں مگر انہوں نے انکار کر دیا ہے پھر خلیفہ کے لئے کوئی اور ایسا درجہ نہیں ہوتا جسے وہ حاصل کرنا چاہے اس لئے مقابلہ اور پارٹی فیلنگ نہیں ہوتا.اس طرح انجمن کے مضرات کو دور کر دیا گیا.اب ہندوستان کے رہنے والے کا ہی حق نہیں کہ مسیح موعود کا خلیفہ ہو بلکہ ممکن ہے کہ ایک دوخلیفوں کے بعد ( کیونکہ فی الحال ان میں احمدیت کی اشاعت نہیں ہوئی ) اُس وقت عرب کے لوگوں میں سے کوئی خلیفہ ہو جائے یا حبشیوں میں سے آجائیں تو ان میں سے خلیفہ ہو جائے.کیونکہ اس کے لئے کسی ملک کسی طبقہ کی کوئی خصوصیت نہیں.ہر جگہ کے لوگ ہو سکتے ہیں.اس طرح اس کو اسلام نے عام کر دیا اور پارٹی فیلنگ کو بھی مٹا دیا.بادشاہتیں نسلاً بعد نسل
خطابات شوری جلد اوّل ۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء چلنے کی وجہ سے تباہ ہوتی ہیں لیکن خلیفہ کی کوئی ذاتی جائداد نہیں ہوتی اور اس کے ذاتی فوائد بھی نہیں ہوتے کہ فساد کریں.نہ آئندہ اولادوں کے لئے خلافت منتقل کر سکتے ہیں کیونکہ خلفاء کا دستور روکتا ہے اس لئے وہ نقائص دور ہو گئے جو شخصی حکومت میں ہوتے ہیں.جمہوری حکومت پارٹی فیلنگ سے تباہ ہوتی ہے.اس وقت انگلستان اور فرانس بھی جو تباہی کی طرف جارہے ہیں پارٹیوں کی وجہ سے ہی جار ہے ہیں مگر اسلام نے ایسا طریق رکھا ہے کہ تباہی نہیں ہوسکتی.اسلام سے ملتا جلتا ظاہری نظام رومیوں میں پایا جاتا ہے.اس لئے ہزار سال سے زیادہ سے چلا آ رہا ہے لیکن اور کوئی حکومت ایسی نہیں جو اتنے لمبے عرصہ سے ایک طریق پر قائم ہو.مگر ان میں بھی نقص ہے کہ شریعت کو لعنت قرار دیتے ہیں اس لئے پوپ جو چاہے مذہب بنا دیتا ہے اس لئے انتظام تو چلا جا رہا ہے مگر نقص یہ ہے کہ چونکہ مذہب کا فیصلہ پوپ کی رائے پر ہوتا ہے اس لئے مذہب باطل ہو گیا اور اسمیں دست اندازی سے لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں.مگر اسلام میں ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ قرآن مجید ہے، رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام موجود ہے، ان حد بندیوں کے اندر خلیفہ کام کر سکتا ہے ان سے باہر نہیں جا سکتا.پس اس طرح اس نے تمام نقائص مٹا دیئے اور ضروری باتوں کو جمع کر دیا.ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.اُصولی باتیں خدا نے طے کر دیں جو ایسی جامع ہیں کہ کوئی کمی باقی نہیں رہ گئی اور تفصیل رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دی.اسی لئے ایک یہودی نے کہا تھا کہ دین تو اسلام ہی سچا ہے کہ پاخانے تک کے مسئلے بیان کر دیئے ہیں اور کوئی بات نہیں چھوڑی.فی الواقع یہ قابلِ رشک بات ہے.جرمنی سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے اس کا مصنف لکھتا ہے اسلام کے متعلق خواہ کچھ کہیں مگر بڑا مکمل مذہب ہے کہ کوئی بات نہیں چھوڑی.پس چونکہ پارٹی ہوتی نہیں اور خلیفہ سب سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اُس کا تعلق سب سے ایسا ہی ہوتا ہے جیسے باپ بیٹے کا.بھائی بھائی تو لڑ پڑتے ہیں مگر باپ سے لڑائی نہیں ہو سکتی.چونکہ خلیفہ کا سب سے محبت کا تعلق ہوتا ہے اس لئے اگر ان میں لڑائی بھی ہو جائے تو وہ دور کر دیتا ہے اور بات بڑھنے نہیں پاتی.
خطابات شوریٰ جلد اوّل 17 مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء شوری کے فوائد اب میں شوری کے فوائد بیان کرتا ہوں :.(۱) کئی نئی تجاویز سُوجھ جاتی ہیں.(۲) مقابلہ کا خیال نہیں ہوتا اس لئے لوگ صحیح رائے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.(۳) یہ بھی فائدہ ہے کہ باتوں باتوں میں کئی باتیں اور طریق معلوم ہو جاتے ہیں.(۴) یہ بھی فائدہ ہے کہ باہر کے لوگوں کو کام کرنے کی مشکلات معلوم ہوتی ہیں.(۵) یہ بھی فائدہ ہے کہ خلیفہ کے کام میں سہولت ہو جاتی ہے.وہ بھی انسان ہوتا ہے اُس کو بھی دھوکا دیا جا سکتا ہے.اس طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ لوگوں کا رُجحان کدھر ہے.یوں تو بہت نگرانی کرنی پڑتی ہے کہ غلط رستہ پر نہ پڑ جائیں مگر جب شوری ہو تو جب تک اعلیٰ درجہ کے دلائل عام رائے کے خلاف نہ ہوں لوگ ڈرتے ہیں کہ اس پر عمل کریں اور اس طرح خلیفہ کو نگرانی میں سہولت حاصل ہو جاتی ہے.مجلس شوری کا طریق (۱) خلیفہ عام ہدایات پیش کرے گا کہ کن باتوں پر مشورہ لینا ہے اور کن باتوں کا خیال رکھنا ہے.(۲) اس کے بعد ہر محکمہ کے لئے سب کمیٹیاں مقرر ہو جائیں گی کیونکہ فوراً رائے نہیں دینی چاہئے بلکہ تجربہ کار بیٹھ کر سکیم تجویز کریں اور پھر اس پر بحث ہو.پہلے کمیٹی ضرور ہونی چاہئے.جیسے معاملات ہوں اُن کے مطابق وہ غور کریں، سکیم بنائیں پھر اس پر غور کیا جائے.کمیٹی پوری تفاصیل پر بحث کرے اور پھر رپورٹ کرے.وہ تجاویز مجلس عام میں پیش کی جائیں اور اُن پر گفتگو ہو.جب تجاویز پیش ہوں تو موقع دیا جائے کہ لوگ اپنے خیالات پیش کریں کہ اس میں یہ زیادتی کرنی چاہئے یا یہ کمی کرنی چاہئے یا اس کو یوں ہونا چاہئے.تینوں میں سے جو کہنا چاہے کھڑے ہو کر پیش کر دے.ان تینوں باتوں کے متعلق جس قدر تجاویز ہوں ایک شخص یا بہت سے لکھتے جائیں.پھر ایک طریق یا ایک طرز کی باتوں کو لے کر پیش کیا جائے کہ فلاں یہ کی چاہتا ہے اور فلاں یہ زیادتی.اس پر بحث ہومگر ذاتیات کا ذکر نہ آئے.اس بحث کو بھی لکھتے جائیں.جب بحث ختم ہو چکے تو اُس وقت یا بعد میں خلیفہ بیان کر دے کہ یہ بات یوں ہو.بولنے کے وقت بولنے والا کھڑا ہو کر بولے.اور جو پہلے کھڑا ہوا سے پہلے بولنے کا موقع دیا
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ جائے.یہ دیکھنے کے لئے ایک آدمی مقرر ہوگا کہ کون پہلے کھڑا ہوا ہے اور کون بعد میں.اگر بہت سے کھڑے ہوں تو باری باری انہیں بولنے کے لئے کہنا چاہئے.جب سارے بول چکیں تو پھر پوچھنا چاہئے.پھر کھڑا ہو تو پہلے نئے بولنے والے کو موقع دینا چاہئے سوائے اس صورت کے کہ کوئی سوال یا اعتراض اُس کی تقریر پر کیا گیا ہو اُس کے حل کرنے کے لئے کھڑا ہو.اور دو دفعہ سے زیادہ بولنے نہ دیا جائے کیونکہ بات کو حل کرنا ہے بحث نہیں کرنی.وہ شخص جس کو بولنے کا موقع دینے کے لئے مقرر کیا جائے وہ خلیفہ یا اس کے قائمقام کا مددگار ہوگا کیونکہ وہ دوسرے کاموں کی طرف توجہ کرے گا ادھر توجہ نہ کر سکے گا اس لئے وہ بطور نائب کام کرے گا.سب کمیٹیوں کا طرز عمل (۱) صیغہ کا افسر اس کمیٹی کا امیر ہو.اگر وہ اور جگہ لگا ہو تو اُس دفتر کا نائب یا جسے وہ مناسب سمجھے کہ قائمقامی کر سکتا ہے.(۲) کمیٹی سیکرٹری خود مقرر کرے.(۳) کوشش یہ ہو کہ رائے متفقہ ہو.اگر نہ ہو سکے تو کثرت رائے لکھی جائے.لیکن اگر قلیل التعداد والے سمجھیں کہ اُن کی یہی رائے ہے جسے ضرور پیش کرنا چاہئے تو اُن کی رائے بھی لکھی جائے.مالی مشکلات وہ حالات جن پر مشورہ لینا ہے اگر چہ نسبتا یہ بات پیچھے ہے مگر اہم ہے، اس لئے پہلے بیان کرتا ہوں وہ بات مالی تنگی ہے.پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ انجمن اپنا بجٹ بناتی تھی اور نظارت اپنا اور اس پر عمل ہوتا تھا اس سال چونکہ مشکلات تھیں اس لئے میں نے کہا بجٹ میرے پاس آئے.جتنی وہ کمی کر سکتے تھے اُنہوں نے کی جو ۳۰، ۳۵ ہزار کی کمی تھی.پھر ایک اور کمیٹی بٹھائی جس نے ۴۳ ہزار کی اور کمی کی.پھر بجٹ میرے پاس آیا میں نے اُس میں ۳۰ ہزار کی کمی کی.مگر باوجود اس کے کہ اسقدر کمی کی اور لڑکوں کے وظائف میں اس قدر کمی کی کہ اس سے کم نہیں ہوسکتی تھی اور باوجود اس کے کہ پہلے ہی جو تنخواہ باہر ملتی ہے اُس سے بہت کم یہاں کام کرنے والوں کو ملتی ہے اب ان کی تنخواہ میں اور بھی کمی کر دی گئی ہے.غرباء کو بچانے کے لئے جن غرباء کو قحط الاؤنس ملتا تھا وہ بند نہ کیا بلکہ جن کی تنخواہ ۶۰ سے اوپر تھی اُن کو ۱۵ فیصدی اور جن کی ۱۰۰ سے اوپر تھی اُن کی ۲۰ فیصدی کم کر دی گئی.میں نے کہا اُن کو قربانی کرنی چاہئے اور سب نے خوشی سے
خطابات شوری جلد اوّل ۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء منظور کر لیا اور باوجود یکہ یہاں کے لوگوں کو کم تنخواہیں ملتی ہیں اور گورنمنٹ نے دُگنی تگنی کر دی ہیں مگر ہم نے اور کم کر دی ہیں.مگر بجائے اِس سے بوجھ کم ہو جانے کے ابھی تک کئی ماہ کی تنخواہیں نہیں دی گئیں.پہلے تین ماہ کی تنخواہیں باقی تھیں اور اب پانچ پانچ ماہ کی ہیں اور اب حالت یہاں تک ہو گئی ہے کہ چونکہ انہوں نے قرض لے کر کھایا ہے اس لئے دُکانوں کا دیوالیہ نکل گیا.ادھر پانچ پانچ ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں اُدھر دُکانوں پر سرمایہ نہیں رہا اور یہاں تک حالت ہو گئی ہے کہ میرے پاس ایک شخص کی شکایت آئی کہ دو تین وقت کا فاقہ ہے مگر ایک سیر آٹا نہیں ملتا.میں سمجھتا ہوں کسی اور دینی جماعت کو اس سے نصف تکالیف بھی پیش آئیں تو سب لوگ بھاگ جائیں مگر یہ لوگ صبر سے کام کر رہے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ اُن کی مشکلات کو دور کریں.آپ لوگ اپنے حال پر غور کریں.ملازموں کی تنخواہیں بڑھ گئی ہیں، غلہ مہنگا ہے اس لئے زمیندار بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں یہاں کے لوگ باہر رہ کر اُسی آرام میں رہ سکتے تھے جس میں آپ لوگ ہیں.پھر باوجود ان حالات کے جن میں سے یہ گزر رہے ہیں اگر آپ لوگوں کو رکھا جائے تو کس طرح برداشت کریں.کہتے ہیں قادیان لوگ آرام کے لئے جاتے ہیں مگر اس حالت کو سوچو.ایک صاحب نظام الدین یہاں آئے جو کئی ہزار روپیہ لائے تھے.کچھ آپ کھا لیا اور کچھ قرضہ پر لوگوں کے پاس چلا گیا.اب پھر جانیوالے ہیں.اسی طرح ایک اور دُکاندار کی حالت ہوئی ہے حتی کہ ڈکا نہیں کھانے پینے کی چیزیں اور سامان نہیں لاسکتیں.اگر یہی حالت رہی تو یہ بھی ممکن ہے کہ کھانے پینے کی چیزیں مل ہی نہ سکیں.بیشک قحط ہے مگر ملک میں ایسی حالت نہیں کہ ایسی خطرناک حالت پیدا ہوگئی ہو.مگر یہاں ایسا ہو رہا ہے کہ کئی لوگوں کو کئی کئی دن کا فاقہ ہوتا ہے.ابھی ایک شخص نے بتایا کہ میرے پاس سے ایک شخص گزر رہا تھا جو فاقہ.تھا.میں نے اُس کی شکل سے اُسے پہچانا اور فی الواقعہ کئی دن کا اُسے فاقہ تھا.اُس نے اُسے کچھ دیا مگر اُس نے آدھا ایک اور کو راستہ میں دیدیا.اسی طرح ایک اور کے متعلق سُنا کہ فاقہ سے بے ہوش ہو گیا اور میں نے گھر کا کھانا اُسے بھیجا اور آدمی کو کہا کہ کھلا کر آنا.میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ایسے مخلص ہیں کہ ٹھوک سے مر جائیں گے اور کام نہ چھوڑیں گے مگر کیا ہماری جماعت کے لئے یہ دھبہ نہ ہوگا کہ ایسے کارکن بُھو کے مر گئے.تو مالی لحاظ سے نہایت ނ
خطابات شوری جلد اوّل ۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء نازک وقت آیا ہوا ہے.شاید سوال پیدا ہو کہ کیوں پہلے نہیں سوچا گیا ؟ بیشک غلطیاں ہوئی ہیں نظارت کی اور صدرانجمن کی اور میری بھی کیونکہ ذمہ داری میری ہی ہے.اگر کام زیادہ جاری کئے گئے جن کی جماعت برداشت نہیں کر سکی تو روکنا چاہئے تھا لیکن جو کچھ ہو چکا ہو چکا.بہر حال اس مشکل کو دور کرنا ضروری ہے.میں اپنی غلطی کو محسوس کرتا ہوں.کہا جاتا ہے کہ اسقدر کام جاری کئے گئے کہ جماعت کو جن کے برداشت کرنے کی طاقت نہیں ،مختلف مشن قائم کئے گئے ، نظارت کے صیغے قائم کئے گئے اور کہا جاتا ہے کہ جماعت اتنے بوجھ اُٹھانے کے قابل نہ تھی مگر مشکل کے وقت یا نا مجھی کے باعث ایسے خیال پیدا ہونے کوئی بڑی بات نہیں اور میں سمجھتا ہوں جو کہتا ہے کہ جماعت یہ بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں وہ معذور ہے مگر میں بھی معذور ہوں.میری طبیعت خدا تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ میں بھی سوچتا رہتا ہوں کہ کون سا کام کریں جس سے دُنیا میں ہدایت پھیلے.اور بعض دفعہ کوئی تجویز ایسی خوبصورت معلوم ہوتی ہے کہ اُس پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہو جاتا ہوں اور وہ دن یا وہ سال جس میں جماعت کا قدم آگے نہ ہو میرے لئے دیکھنا مشکل ہوتا ہے.میں یہی چاہتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی کام نیا جاری ہو.اس سال مشکلات تھیں اس لئے یہی کر دیا کہ کچھ ایسے لوگوں کو تیار کیا جن کو کہا تبلیغ کے لئے جاؤ اور خود کماؤ اور اس طرح تبلیغ کرو.ایک کو روس بھیجنا ہے اور ایک کے لئے ایران کا پاسپورٹ آ گیا ہے تو میں بھی مجبور ہوں کہ ترقی ہو.نظارت کا کام میرے نزدیک ایک منٹ بھی پہلے نہیں ہوا اور اس قدر اس کی ضرورت تھی اگر جاری نہ کرتے تو مجرم ہوتے بلکہ ہیں کہ پہلے کیوں جاری نہ کیا.اس میں شک نہیں کہ نظارت کے کام ابھی تک جماعت کے سامنے نہیں آئے کہ لوگ معلوم کریں.کوئی نیا کام ہوا ہے اور نہ ہی ان صیغوں نے یہ ثابت کیا ہے.مگر جب نیا کام شروع ہو تو اس میں مشکلات ہوتی ہیں.چونکہ کام نیا ہے، آدمی نئے ہیں ، انتظام نیا ہے اس لئے ضروری تھا کہ ایسی حالت ہو.میرا کام یہ تھا کہ میں ان کا رکنوں کو اُن کے فرائض محسوس کراؤں اور اُن کا کام یہ تھا کہ جماعت کے لوگوں کو محسوس کرائیں مگر بہت باتیں تو ابھی کارکن بھی محسوس نہیں کرتے.ہمارا کام یہ ہے کہ پہلے ان کو سمجھا ئیں.مگر ایک دفعہ ہی سمجھانے سے نہیں سمجھ سکتے بلکہ بار بار سمجھانے کی ضرورت ہے اس لئے پہلے دو تین سال کا
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاو مشاورت ۱۹۲۲ء اسی میں لگنا ضروری تھا اور جب بھی یہ کام جاری کرتے ایسا ہی ہوتا پس جو یہ کہتے ہیں کہ وقت ضائع ہوا اول تو ہم انہیں کہتے ہیں کہ ضائع نہیں ہوا.مگر ایسا ہی ہونا ضروری ہوتا ہے اور اس کو پیچھے نہیں ڈال سکتے.میری نظر اس بات پر پڑ رہی ہے کہ ہماری جماعت نے آج ہی کام نہیں کرنا بلکہ ہمیشہ کرنا ہے.دُنیا کی انجمنیں ہوتی ہیں جو یہ کہتی ہیں آج کام کر کے دکھا دو اور لوگوں کے سامنے رپورٹ پیش کر دو مگر میں نے رپورٹ خدا کے سامنے پیش کرنی ہے اور خدا کی نظر اگلے زمانوں پر بھی ہے اس لئے مجھے یہ فکر ہوتی ہے کہ آج جو کام کر رہے ہیں یہ آئندہ زمانہ کے لئے بنیاد ہو.آج کہتے ہیں تنخواہیں نہیں ملتیں.میں کہتا ہوں اگر ایسا نہ ہوتا تو اخلاص کا پتہ نہ لگتا.پھر اگر آج ہم ان تکالیف کو نہ اٹھا ئیں تو پیچھے آنے والوں کے لئے بوجھ چھوڑ جائیں گے.اگر ہم آج بنیاد قائم نہ کریں تو وہ کس پر عمارت بنائیں گے اس لئے اگر اس سے زیادہ تکالیف آئیں تو بھی آئندہ کی بنیا دوں کو ہم چھوڑ نہیں سکتے اور خواہ مر ہی جائیں.فاقہ کشی سے تو بھی کام بند نہیں کر سکتے.ہمارا کام یہ نہیں کہ دیکھیں ہمارا کیا حال ہو گا بلکہ یہ ہے کہ جو کام ہمارے سپرد ہے اُسے اس طریق سے چلائیں کہ خدا کو کہہ سکیں اگر بعد میں آنے والے احتیاط سے کام لیں تو تباہ نہ ہوں گے.پس مجھے آئندہ کی فکر ہے اور میری نظر آئندہ پر ہے کہ ہم آئندہ کے لئے بنیادیں رکھیں.جس کی نظر وسیع نہیں اُسے تکلیف نظر آ رہی ہے.مگر اگلی نسل اُن لوگوں پر جو بنیادیں رکھیں گے درود پڑھے گی اور جو لوگ ان میں روک ہوں گے اُنکا ذکر کرنے سے جی چرائے گی کہ انہوں نے ماں باپ ہو کر ہمارے لئے کچھ نہ کیا.ہمارے افعال کا نتیجہ اب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ بڑے کاموں کا نتیجہ بعد میں نکلا کرتا ہے.چنانچہ وہ زمانہ آئیگا جب خدا ثابت کر دے گا کہ اس جماعت کے لئے یہ کام بنیادی پتھر ہیں.بہر حال مالی مشکلات کے لئے تجاویز سوچتی ہیں یہ سلسلے مفید ہیں اور باوجود بعض کے کہنے کے میں نے انہیں نہیں تو ڑا اس لئے خواہ جس طرح بھی ہو ان کو قائم رکھوں گا کیونکہ ہمارا کام کام کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت زیادہ قربانیوں کی طرف آ رہی ہے.مشکلات آئیں گی نئے کاموں میں جیسا کہ قضاء کا محکمہ نکالا ہے.تو کہتے ہیں لڑائی جھگڑے بڑھ گئے ہیں اور کہتے ہیں اس محکمہ کی وجہ سے ہے مگر میں کہتا ہوں نہیں بلکہ بات یہ
خطابات شوری جلد اوّل ۲۱ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۲۲ء ہے کہ پہلے جھگڑے خفیہ رہتے تھے اب لوگ پیش کر دیتے ہیں.پھر اس صیغہ کے قیام سے حکم ماننے والے اور انکار کرنے والوں کا پتہ لگتا رہتا ہے.میرے نز د یک موجودہ حالات میں ہمارے سلسلہ کے خزانہ پر ایک لاکھ سے زیادہ کا بار ہے.پچھلے بجٹ سے یہ اُمید کر سکتے تھے کہ ۲۵ ہزار قرضہ دُور کر سکیں گے اور اس کے یہ معنی تھے کہ چار سال میں اس بوجھ کو دُورکر سکتے ہیں.مگر مالی حالت کا لوگوں کو جب پتہ لگا تو وہ مجبور کرنے لگے کہ امانتیں جلد واپس کرو.ابھی جو پانچ ماہ کی تنخواہیں ہوگئی ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ قرض کسی بننے کا نہیں امانتوں کا ہے اور وہ مجبور کر رہے ہیں کہ ادا کرو.اس طرح اور بھی بوجھ بڑھتا جاوے گا کہ قرض تو ادا کیا مگر ملازموں کے بل ادا نہ ہو سکے.اب کاغذی حساب سے ایک لاکھ کی بجائے ۷۵۰۰۰ قرض ہے.مگر لوگوں کی تکالیف بڑھ گئی ہیں اور دُکانداروں کے جو دیوالیہ نکل رہے ہیں وہ اور تکالیف کا باعث ہیں.میں نے تجویز کی تھی کہ لوگ قرضہ دیں مگر ابھی تک اس کا انتظام نہیں ہوا.پھر زمینداروں نے پچھلے سال بہت سستی دکھائی ہے.میں نے جلسہ پر بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ ان کے چندے میں اضافہ نہیں ہوا اور زمینداروں نے قرضہ دیا ہی نہیں اور اگر لوگ قرضہ دیں تو اس کا اثر چندہ پر پڑتا ہے مثلاً پچاس ہزار قرض لیں تو ایک تو آمد کم ہوگی اور پھر قرض ادا کرنا ہو گا اس لئے یہ تجویز تجربہ سے معلوم ہوئی ہے کہ درست نہ تھی اس لئے اب یہ تجویز کی جاتی ہے کہ پچاس ہزار خاص چندہ کیا جائے تب یہ بوجھ ہٹ سکتا ہے.پھر مفتی صاحب چھ سال سے باہر ہیں اُن کا ایک لڑکا سخت بیماری کی حالت میں ہے، ایک آوارگی کی وجہ سے خراب ہو رہا ہے، ایک معذور ہے.بیوی سخت بیماری میں مبتلا ہے اب انکا باہر رکھنا ظلم ہو گا اس لئے پانچ ہزار ان کو بلانے اور ان کا قائمقام جانے کے لئے ضروری ہے.بے شک مشکلات ہیں لیکن کیا قادیان والوں کو جتنی مشکلات ہیں دوسروں کو بھی ایسی ہی ہیں؟ ان سے آدھی بھی باہر کے لوگ اُٹھا ئیں اور ان کے لئے دُگنی تکلیف رکھ لیں تو بھی یہ مشکلات ایک ماہ میں دُور ہو سکتی ہیں.اصل میں تو ایک لاکھ کی رقم چاہئے مگر موجودہ وقتوں کو دیکھتے ہوئے پچپن ہزار رکھا ہے اور یہ ایسی رقم ہے کہ اگر نہ ملے تو دیوالیہ کی جو حالت ہوتی ہے وہ ہوگی.میں سمجھتا ہوں کہ مخلصین کی ایسی جماعت ہے کہ اگر انہیں کچھ نہ ملے گا تو بھی کام کرے گی اور کرتے یہاں
خطابات شوری جلد اوّل ۲۲ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۲۲ء کرتے مر جائے گی مگر جماعت کے لئے یہ شرم کا مقام ہوگا کہ اسکے کام کرنے والے مر گئے اور دوسرے امداد کو نہ آئے اور اگر بعد کو آئے تو ایسا ہی ہو گا جیسے کسی نے کہا ہے کہ : - جب مر گئے تو آئے ہمارے مزار پر پتھر پڑیں صنم تیرے ایسے پیار پر اور حضرت صاحب کا بھی ایک شعر ہے.امروز قوم من نه شناسد مقامِ من روزے بگریہ یاد کند وقت خوشترم ہمارے باہر کے مبلغین کی حالت یہ ہے کہ مفتی صاحب ایک جگہ نہیں رہ سکتے کیونکہ ناواقفوں سے انہوں نے قرضے لئے ہوئے ہیں جو تقاضے کرتے ہیں اور مکان چھوڑ کر ملک میں بھاگے پھرتے ہیں ان کا لحاظ بھی ہے کہ لوگ نالش نہیں کرتے لیکن اگر کوئی کر دے کہ یہ ہمارا رو پید ادا نہیں کرتا تو کتنی بدنامی ہوگی.یا انہیں کے احساسات سوچ لو کیا ہو نگے.گویا انہیں جنگل میں چھوڑا ہوا ہے اور کوئی خبر نہیں لیتا.یہی حال لندن مشن کا ہوتا اگر مسجد کا روپیہ نہ ہوتا.میں نے خیال کیا کہ مسجد تو بنانی تھی نمازیوں کے لئے اگر نمازی مر گئے تو کس کے لئے بنائیں گے اس لئے میں نے اس میں سے خرچ کرنے کی اجازت دے دی.یہی حال افریقہ کا ہے ہمارا ایک مبلغ بیمار تھا اور ڈاکٹر کے لئے فیس تک نہ تھی وہاں سے مشکلات کے خط آتے ہیں اور میں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھ کر چُپ ہو رہتا ہوں.ایسی حالت میں جماعت کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے.ایک تو یہ تجویز در پیش ہے کہ اس وقت ۵۵۰۰۰ روپیہ چاہئے علاوہ ماہوار چندوں کے.اب قرضہ فنڈ غالباً بند کر دیا جاویگا.اس وقت آپ لوگوں نے تجویز کرنی ہے کہ کس طرح یہ روپیہ مہیا کیا جاوے اور اسکے ساتھ ہی آپ کی ذمہ داری ہوگی کہ ماہوار چندوں میں کمی نہ ہو.یہ نصف نظارت اور نصف انجمن کو دیا جاویگا اور پانچ ہزار امریکہ کا ہوگا.صیغه تعلیم و تربیت و تربیت دوسری بات تعلیم و تربیت کا محکمہ ہے.یہ پہلے نہیں قائم ہوا بلکہ مبین وقت پر قائم ہوا.اس صیغہ سے مراد صرف مدر سے قائم کرنے نہیں تھے اور باتیں مد نظر تھیں.مدر سے بھی شامل تھے مگر یہ ایک ضمنی بات تھی مگر دوسروں کو سمجھانا کتنا مشکل ہوتا ہے.یہ اس سے ظاہر ہے کہ دو سال کے عرصہ میں روکنے کے باوجود یہ صیغہ پرائمری مدر سے قائم کرتا چلا گیا اور اس طرح اصل کام کو بھول گیا.اب اس صیغہ کی
خطابات شوری جلد اوّل ۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء بنیادیں مضبوط کرنی ہیں.اس سے غرض جماعت کی دینی تعلیم و تربیت ہے، علماء بنانا نہیں بلکہ ایسے مسائل سے واقف کرنا ہے کہ جن کے سوائے کوئی مسلمان مسلمان نہیں ہوسکتا.اب کئی عورتیں آتی ہیں جو کلمہ بھی نہیں پڑھ سکتیں اور جب کلمہ نہیں پڑھ سکتیں تو نماز کس طرح پڑھ سکتی ہوں گی اور جب نماز نہیں پڑھ سکتیں تو مسلمان کس طرح ہو سکتی ہیں اور وہ غرض کس طرح قائم رہ سکتی ہے جو اس سلسلہ کی ہے.جب کہ یہ حالت ہے نماز کوئی ٹو نہ نہیں بلکہ با ترجمہ آنی چاہئیے کیونکہ جو ترجمہ نہیں جانتا وہ سمجھ کہاں سکتا ہے اور معارف پر غور کہاں کرسکتا ہے اور جسے یہ بات حاصل نہیں وہ خدا سے تعلق کس طرح پیدا کر سکتا ہے.اس کے بغیر تو یہ ناٹک ہے کہ تماشہ کے طور پر ادا کی جاوے.ہم جلسے اور انجمنیں کرتے ہیں مگر کیا نبی اسی لئے آتے ہیں؟ یہ تو اور لوگ بھی کر لیتے ہیں.ہماری غرض اُسی وقت پوری ہوسکتی ہے جب ہمارا ایک ایک مرد ایک ایک بچہ اور ایک ایک عورت اس قدر واقفیت دین سے رکھے جو مسلمان بننے کے لئے ضروری ہے.جب تک ایسا نہ ہو تب تک ترقی نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ بعض خاص آدمی اپنی ریاضت سے آگے نکل جائیں مگر جماعتیں اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ سارے مل کر ترقی کریں.اگر ساری جماعت ترقی نہ کرے تو پھر کیا ضرورت ہے چندہ جمع کرنے کی اور کیا ضرورت ہے کا نفرنسوں اور جلسوں کی.تو تعلیم اور تربیت سے یہ مراد ہے کہ ہر احمدی کو ظاہری علوم کا اتنا حصہ سکھا دیا جاوے کہ اسے آئندہ ترقی کی بنیاد قرار دے سکیں.میرے نزدیک کم از کم اسی فیصدی مگر یہ زیادہ اندازہ دل کو خوش کرنے کے لئے لگایا گیا ہے ورنہ پچانویں فیصدی ایسے ہیں کہ وہ نماز کا ترجمہ نہیں سمجھتے.گویا دس ہزار میں سے میں ایسے ہیں جو صحیح ترجمہ جانتے ہیں اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہوگی اور اگر اب توجہ نہ کی گئی تو پھر کب کریں گے.بیشک ایک مکان بنانے کے لئے تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ روپیہ نہیں ہے اس لئے چھت نہیں ڈالی جاسکتی.مگر کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں کو مرنے دو اُن کی حفاظت کے لئے روپیہ نہیں ہے؟ اسی طرح کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر خدا سے لوگوں کا تعلق نہیں اور وہ خدا کومل نہیں سکتے تو نہ سہی پھر مل لیں گے؟ ہمارے زمانہ میں خدا تک نہیں پہنچ سکتے تو خیر اگلے زمانہ میں پہنچ جائیں گے؟ ہرگز نہیں.اس لئے نماز، روزہ، حج، زکوۃ، صدقات ، ورثہ کے متعلق موٹے موٹے مسائل جاننا ہر فرد کے لئے ضروری ہے.مگر ہر فرد تو
خطابات شوری جلد اوّل ۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء ا لگ رہا آپ لوگ جو نمائندے بن کر آئے ہیں آپ کا بھی اگر امتحان لوں تو اسی فیصدی ایسے ہوں گے جن کو ان کا پتہ ہی نہیں ہوگا.تو اس صیغہ کا یہ مطلب ہے کہ کم از کم یہ حصہ دین کا ہر احمدی کو سکھا دے مگر ابھی اس صیغہ نے یہ کام شروع بھی نہیں کیا.دوسری چیز اس سے اوپر اخلاقی تربیت تھی یہ بھی شروع نہیں ہوئی.پھر عقائد تھے.بیشتر حصہ لوگوں کا اس سے بھی واقف نہیں.انہیں یہ تو پتہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے اور حضرت مرزا صاحب سچے ہیں.آگے یہ کہ کس غرض کے لئے خدا نے حضرت مرزا صاحب کو بھیجا، یہ نہیں جانتے.گو عقائد ضروریہ کا جاننا بھی ضروری ہے مگر تبلیغ کے رستہ میں بھی دینی روکیں نہیں جتنی تربیت کے رستہ میں ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سچا ہونا چونکہ احمدی خود سمجھتے ہیں اس لئے دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں لیکن اخلاق سے چونکہ خود واقف نہیں اس لئے دوسروں کو سکھلا نہیں سکتے.اور موٹی موٹی باتیں مثلاً غیبت، بداخلاقی کیا ہوتی ہے یہ بھی نہیں جانتے.اور مذاق اس قدر بگڑا ہوا ہے کہ اوّل تو اخلاق سکھانا ضروری ہے پھر اس پر عمل کرانا.کہتے ہیں کوئی ہندو مسلمان ہو گیا تھا جب کبھی کوئی بات ہوتی تو رام رام کہتا.جب پوچھا گیا تو کہنے لگا کہ رام نکلتے ہی نکلے گا.یہی حالت ہماری جماعت کی ہے.ابھی اخلاق کو سمجھے نہیں مگر جب سمجھا ئیں گے تو پھر بھی عمل کرتے وقت بھول جائیں گے اس لئے مشق کرانے کی ضرورت ہوگی.میں نے ابھی تجربہ کیا ہے.لاہور سے واپس آتے وقت میں ریل میں لیٹ گیا.ابھی لیٹا ہی تھا کہ ایک صیغہ کے اعلیٰ رکن کی ایک ریل والے سے لڑائی شروع ہوگئی.میں چُپ سُنتا رہا کہ دیکھوں کس طرح گفتگو ہوتی ہے.کوئی بیس منٹ تک جھگڑا ہوتا رہا.اس ساری لڑائی میں وہ کارکن بہت بڑی غلطی میں مبتلا اور ناحق پر تھا اور باوجود اس کے بداخلاقی سے کام لے رہا تھا.اگر اُس وقت میرے پاس وہ معاملہ فیصلہ کے لئے آتا تو میں اُس کے خلاف فیصلہ کرتا.تو وہ با وجود اخلاق کو جاننے کے ان کے خلاف کر رہا تھا اور عمل کے وقت پورا نہ اُتر رہا تھا.پس اول ہمیں یہ بتانا ہے کہ اخلاق کیا ہیں؟ اور جب یہ بتا دیں تو یہ بتانا ہو گا کہ ان کے قواعد کیا ہیں؟ اور یہ بھی بتا دیں تو موقع پر استعمال کرانا ہو گا جب تک یہ نہ ہو ا خلاق کی تربیت نہیں ہو سکتی.یہ ایک آدمی کو سکھانا بھی بڑا مشکل.
خطابات شوری جلد اوّل ۲۵ مجلس مشاور مشاورت ۱۹۲۲ء کام ہے کجا یہ کہ جماعت کے ہر فرد کو سکھائی جاویں.اور ابھی تک تو بڑے بڑے آدمی بھی نہیں استعمال کر سکتے کجا یہ کہ جنگلی احمدی بھی استعمال کریں.سب کے تربیت یافتہ ہونے کا خیال اتنا بڑا ہے کہ ذہن میں لاتے ہوئے دل ڈرتا ہے کہ کیا ایسا ہو گا ؟ مگر کرنا ہے کیونکہ ہمارا فرض ہے.پھر روحانیت کی تعلیم ہے.اخلاقی تعلیم کے بعد اسکا درجہ شروع ہوتا ہے.روحانی تعلیم سے باطن کی صفائی ہوتی ہے.لوگ موٹے موٹے مسائل سے بھی واقفیت نہیں رکھتے.مثلاً یہ کہ آداب خلیفہ اور شیخ کیا ہیں؟ خدا سے کیا تعلق ہوتا ہے؟ کس طرح محسوس کرے کہ خدا سے اسے تعلق ہو گیا ؟ یہ باتیں تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتی ہیں.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ نہ صرف ان سے ناواقف ہیں بلکہ ان میں سوال بھی پیدا نہیں ہوتا کہ ان باتوں کے حاصل کرنے کا کوئی انتظام ہونا چاہئے.قادیان کے سنجیدہ لوگوں سے میں نے سُنا ہے کہ ان صیغوں کی کیا ضرورت ہے؟ تو کام کرنا تو الگ رہا ان کے متعلق سوال بھی نہیں پیدا ہوتا کہ ایسا ہونا چاہئے.اس کے لئے بڑی جدو جہد کی ضرورت ہے.پھر ہمیں موجودہ نسل ہی کی اصلاح نہیں بلکہ یہ بھی کرنا ہے کہ آئندہ نسلوں کی حفاظت کا بھی انتظام کریں.لیکن اگر سلسلہ کا انتظام اعلیٰ چٹان پر قائم نہیں تو اگر آج نہیں تو کل اس کی موت ہو جائے گی پھر ) ہماری جماعت کا فائدہ کیا ہوا.جس طرح آئیڈیل مین (IDEAL MAN) کہتے ہیں اسی طرح چاہئے کہ ہم آئیڈیل مسلم IDEAL MUSLIM) بنا ئیں اور یہ کوشش کریں کہ ہر ایک احمدی ایسا ہو اور جو آئندہ پیدا ہو وہ بھی ایسا ہی ہو بلکہ یہ کہ آئندہ نسلیں بڑھ کر ہوں کیونکہ اگر اگلی نسل میں ترقی نہ ہو تو تنزل شروع ہو جاتا ہے.اس وقت میں چند موٹی موٹی باتیں بتاتا ہوں ان کو یاد رکھو.بعض لوگ تمسخر میں قرآن کی آیتیں پڑھ دیتے ہیں یا دوسرے کہہ دیتے ہیں یہ مولوی جو ہوئے ایسی باتیں کر دیتے ہیں.گویا دین کی وقعت بٹھانے کی بجائے بُرا اثر ڈالا جاتا ہے اور آئندہ نسلوں پر اس کا بُرا اثر ہونا لازمی ہے.اس قسم کی باتوں کا اس قدر اثر ہوتا ہے کہ مجھے اپنے بچے کو مارنا بھی پڑا.ایک بھائی نے ہنسی کی دوسرے بھائی پر کہ تو مولوی ہے کہ قرآن حفظ کرتا ہے.میں نے اُس کو مدرسہ انگریزی میں داخل کیا تھا.اس سے پہلے اس نے کبھی یہ نہ کہا تھا اس
خطابات شوری جلد اوّل ۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء لئے معلوم ہوا کہ مدرسہ سے ایسا خیال اس کے دل میں پیدا ہوا.اس پر مجھے اُسے مارنا پڑا کہ مولوی ہونا کونسی بنسی کی بات ہے.ہمارا تو فرض ہے کہ جو دین کے لئے تیاری کرتا ہے اُس کا زیادہ ادب و لحاظ کریں اُسے اپنا سردار سمجھیں.خدمتِ دین کرنے والوں کی عزت کریں.مگر ابھی تو یہ حالت ہے کہ ایک دنیا وی اعلیٰ پوزیشن والے کی بات دین کے معاملہ میں بھی اس کی نسبت زیادہ توجہ سے لوگ سُنتے ہیں جو دین کا کام کرنے والا ہے.پھر مومن میں بڑی جرات ہونی چاہئے.مومن کو کسی چیز کی پرواہ نہیں ہونی چاہئے لیکن یہاں ذرا افسر ناراض ہو تو بڑی مصیبت آجاتی ہے.ایک نے لکھا کہ افسر ناراض ہو گیا ہے اب میں کیا کروں؟ میں نے کہا کیا ہوا؟ کیا افسر خدا ہے؟ مومن کا کام یہ ہے کہ ساری دنیا کو حقیر سمجھے.اسکا یہ مطلب نہیں کہ کسی کا ادب نہ کرے.ادب کرے مگر کسی سے ڈرے نہیں ، دلیر ہو.تو مومن کو جرات و دلیری پیدا کرنی چاہئے ، ایثار پیدا کرنا چاہئے ، جوش پر قابو پانا چاہئے ، دیانت ، حق کی محبت ، بے رعائیتی ، سچی شہادت دینا، بدی کے مٹانے کا احساس رکھنا، محبتِ عامہ رکھنا، زبان کو پاک رکھنا یہ بہت سے اخلاق ہیں بلکہ سینکڑوں ہیں مگر بہت سے لوگ واقف نہیں.اگر واقف ہیں تو ان کو کیفیت معلوم نہیں انکا خیال رکھنا ضروری ہے ایک ایک مرد کا، ایک ایک عورت کا ایک ایک بچہ کا، جب تک ان کی طرف خیال نہیں ہو گا تعلیم و تربیت کا صیغہ اپنے کام میں ناقص ہوگا.پھر عورتوں کی تعلیم ہے اس کی طرف توجہ نہیں.اس کے لئے ضروری انتظام کرنا ہے.پھر امور عامہ، قضاء، اور احتساب کا صیغہ ضروری ہے جو ہر جگہ ہونا چاہئے کیونکہ یہاں کے صیغہ والے کس طرح معلوم کر سکتے ہیں کہ لاہور میں سارے احمدی نماز با قاعدہ پڑھتے ہیں یا نہیں یا تو نوکر رکھیں جو انہیں پتہ دیں مگر روپیہ کہاں سے لائیں اس لئے ضروری ہے کہ ان دفاتر کی شاخیں ہر جگہ ہوں اور ان کے ذریعہ کام کیا جاوے.اب چندہ کے لئے تو سارے جمع ہو جاتے ہیں لیکن یہ ہو کہ حقہ کے روکنے کے لئے یا گالیاں بند کرنے کے لئے مشورہ کرنا ہے تو جمع نہیں ہوتے حالانکہ یہ بہت اہم باتیں ہیں.تو ہر جگہ قضاء، امور عامہ و احتساب ہو.مثلاً امور عامہ کا کام ہے کہ سرکاری افسروں کو جماعت کے معاملات سے واقف کریں.اگر ہر جگہ ایسے آدمی ہوں جن کو مقرر کیا جاوے تو جماعت کی بہت سی مشکلات
خطابات شوری جلد اوّل ۲۷ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۲۲ء دُور ہو سکتی ہیں مگر یہ لوگ افسروں سے اپنی ملاقاتوں کو ذاتی فوائد کا ذریعہ نہ بنائیں اور اگر کوئی ایسا کرے تو اسے ہٹا دیا جاوے اور دوسرے کو مقرر کر دیا جاوے.اسی طرح شادی بیاہ کے لئے لوگ کہتے ہیں کہ کوئی رشتہ نہیں ملتا.اگر وہاں بھی ایسا انتظام ہو جیسا یہاں ہے تو جو لوگ اپنی قوم کے خیال سے رشتہ نہیں کرتے یا بڑے چھوٹے کو دیکھتے ہیں انہیں سمجھا سمجھا کر آپس میں رشتہ کرا دیں تو یہاں اتنا کام نہ بڑھے.اسی طرح لڑائی جھگڑے ہیں، ان کا خیال رکھنا ہے.لین دین ہے اگر ہر جگہ قاضی ہو تو بہت سی لڑائیاں جھگڑے پیش نہ آئیں گے.ابتداء میں وہی مشکلات ہوں گی جو یہاں ہیں مگر جب لوگ عادی ہو جاویں گے تو امن ہو جاویگا.اسی طرح تعلیم و تربیت کا سیکرٹری ہر جگہ ہو جو دیکھے کہ کتنوں کو تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے.جس کو سب سے زیادہ پڑھا ہوا دیکھے اُس سے کہے کہ ان دس کو سکھانا تمہارا کام ہے.جب وہ سیکھ جاویں تو ان کے ساتھ اوروں کو لگا دیا جاوے تا کہ موٹے موٹے مسائل سکھا دے.تو امور عامہ، قضاء، تعلیم و تربیت کے ماتحت ہر جگہ یہ صیغے ہونے چاہئیں.ان کی غرض یہی ہے کہ ایک ایسا ذمہ وار ہو جو ان تمام مسائل سے واقف کرے جو ضروری ہیں اور وہ تمام مسائل سکھائے اور پھر ایک ایک کو واقف کرے اور اس کی رپورٹ دیں.صیغہ تألیف و اشاعت ایک اور صیغہ تألیف و اشاعت ہے.ہماری جماعت کی موجودہ تعداد بہت کم ہے.ہم پانچ لاکھ کہتے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ یہ ذہنی اور خیالی بات ہے.میں ایک لاکھ سمجھتا تھا لیکن آنہ فنڈ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ پچاس ہزار ہے.مجھے کسی نے کہا کہ مفتی صاحب نے جماعت سات لاکھ لکھی ہے.میں نے کہا کہ ان کو جرات ہوگی کہ دو لاکھ بڑھائیں میں تو پانچ لاکھ ہی سمجھتا ہوں اور یہ بھی اس لئے کہ حضرت صاحب نے لکھا ہے اور ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ آپ کے قلم پر یہ جاری کر دیا ہو اور ایسے لوگ ہوں جو ظاہر نہ ہوں.اگر کہو کہ حضرت صاحب کے بعد زیادتی ہوگئی ہے تو یہ بھی ہے کہ کم بھی ہو گئے ہیں اس لئے جب تک مردم شماری کر کے پتہ نہ لگالوں میں تو یہی کہوں گا چاہے پچاس سال گذر جاویں کہ عملی طور پر پچاس ہزار جماعت ہے.اس رفتار سے ہم تین چار سو سال میں بھی اُتنی جماعت نہیں بن سکتے جتنے باوانانک
خطابات شوری جلد اوّل ۲۸ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۲۲ء صاحب جو ایک مجدد بھی نہیں بلکہ معمولی ولی تھے ان کے ماننے والے ہو گئے.دراصل ہمارے طریق تبلیغ میں غلطیاں ہیں ان کو دُور کرنا چاہئے.ہمارا ہر آدمی مبلغ ہونا چاہئے.اگر اب تین ہزار بھی آدمی سال میں داخل ہوتا ہے اور پہلے پانچ سو داخل ہوتے تھے تو اُس وقت پانچ سو لوگ تھے جو پانچ سو اور لاتے تھے اور اب پچاس ہزار تین ہزار کو لاتے ہیں.گویا پہلے ایک احمدی ایک پر غالب آتا تھا اب سترہ احمدی ایک پر غالب آتے ہیں یہ خطر ناک کمزوری ہے.اگر وہی ترقی کی رفتار قائم رہتی جو پہلے تھی تو پچاس ہزار، پچاس ہزار اور ساتھ ملاتے.اب ہم تعداد کو نہیں دیکھیں گے بلکہ نسبت کو دیکھیں گے.اب نقص یہ ہے کہ لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ مبلغ اس کام کو کریں گے مگر اتنے مبلغ کہاں سے آئیں گے.پھر جب چند کو تنخواہ نہیں دے سکتے تو باقیوں کو کہاں سے دیں گے.اصل میں ہمارا ہر فرد مبلغ ہے اور قرآن نے ہر مومن پر یہ فرض رکھا ہے.دیکھو کوئی احساس پیدا کرنا کتنا مشکل ہے.متواتر تین سال سے کہہ رہا ہوں کہ ہر احمدی مبلغ ہے مگر کتنے ہیں جنہوں نے یہ فرض پہچانا ہے.جتنے پہلے داخل ہوتے تھے اُتنے ہی داخل ہوتے ہیں اگر کچھ بڑھے تو پچاس ساٹھ فی سو ہونگے.گویا اتنوں پر یہ اثر ہوا ہے اور باقیوں پر نہیں تو کتنا مشکل ہے احساس پیدا کرنا.ضروری ہے کہ آپ لوگ جو قائمقام بن کر آئے ہیں یہ باتیں وہاں جا کر جاری کریں اور دن رات لگے رہیں اور وہاں جس طرح چندہ لیا جاتا ہے اسی طرح ہر احمدی سے سیکرٹری تبلیغ تبلیغ کرائے.موجودہ مبلغوں کی وجہ سے چند نقص پیدا ہو گئے ہیں.پہلا سلسلہ کے لٹریچر سے لوگ ناواقف ہو گئے ہیں.پہلے خود کتابیں پڑھتے تھے اور دلائل یاد رکھتے تھے مگر اب یہ کام انہوں نے مبلغ کا سمجھ لیا ہے.اگر ہر فرد تبلیغ کرے گا تو وہ مجبور ہوگا کہ دلائل یا در کھے.اور اس کے لئے کتابیں پڑھے گا.دوسرا یہ کہ تبلیغ کا مادہ کم ہو گیا ہے.پہلے لوگ خوب واقف تھے.تیسرا آپس کے لڑائی جھگڑے پیدا ہو گئے ہیں.وہ سمجھتے ہیں فارغ ہیں کام نہیں.اگر احمدی دشمنوں کے جمگھٹے میں گھر ار ہے تو ایسا نہ ہو.چوتھا بُز دلی پیدا ہو گئی ہے.پہلے غیروں میں جاتے جو مارتے اور اس طرح ان میں جرات پیدا ہوتی.اب مولویوں کو جتھا بنا کر لے جاتے ہیں اور کوئی نہیں مارتا.
خطابات شوری جلد اوّل ۲۹ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۲۲ء (1****) پانچواں تبلیغ کم ہوگئی ہے.جب تین چار مبلغ رہ گئے تو تبلیغ کیا ہو.پہلے دس ہزار جماعت تھی اور سارے مبلغ تھے اس لئے تبلیغ خوب ہوتی تھی اب پانچ سات رہ گئے ہیں.چھٹا یہ کہ اثر کم ہو گیا ہے.پہلے ہر ایک کو یہ احساس تھا کہ میں کمزور ہوں اس لئے ہر احمدی دعائیں کرتا تھا.اب کہتا ہے کہ جب کوئی اعتراض کرے گا تو مولوی کو بُلا لونگا.پہلے دعاؤں کی طرف توجہ تھی اور خدا پر نظر تھی اس لئے تبلیغ کا بڑا اثر ہوتا تھا.اس لئے ضروری ہے کہ ہر جماعت میں تبلیغی سیکرٹری ہوں، آگے اس کے مددگار ہوں.مددگار مبلغ نہیں مبلغ تو ہر ایک ہوگا وہ اسسٹنٹ سیکرٹری ہوں گے.سیکرٹری سب مذاہب کا مطالعہ کریں اور باقی ایک ایک مذہب کا مطالعہ کریں اور اگر زیادہ ہوں تو دو دو نائب مقرر کریں اور ان لوگوں کا ایک یہ فرض ہو کہ حضرت صاحب کی کتابیں پڑھیں اور اپنے اپنے صیغوں کی رپورٹیں بھیجیں اور پھر یہ اسی طرح سب سے کام لیں جس طرح چندہ لینے والا سب سے لیتا ہے اور ہر ایک سے تبلیغی رپورٹ لیں.مبلغوں کے بلانے کا سلسلہ بند کیا جاوے.کیا ہوا اگر شکست ہو جائے.اگر کوئی کمزور ہے تو خود توجہ کرے.پس ڈرنا چھوڑ دو ڈرنے سے نقصان ہو رہا ہے.میں نے مبلغوں کے ضلع تقسیم کئے ہیں کہ ان کی نگرانی میں یہ کام کرائے جاویں لیکن آپ لوگ آزاد نہیں.آپ نے ابھی سے عمل کرنا ہے، مبلغ مشورہ دے گا.مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اور مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری اور حافظ روشن علی صاحب کو مقرر کیا ہے.ان کا کام یہ ہے کہ صیغے مقرر کریں اور مبلغ مقرر کریں.جہاں احمدی ہوں وہاں احمدیوں کو مقرر کریں اور جہاں احمدی نہیں وہاں خود تبلیغ کریں.صیغہ تألیف کی یہ مدد ہے کہ یہاں سے جو کتابیں شائع ہوں اُن کو فروخت کریں.آریوں کی عیسائیوں کی کتابیں لوگ خرید تے ہیں مگر ہماری نہیں لیتے.اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے مفت دے کر اُن کی عادت خراب کر دی ہے.اب کتابیں فروخت کریں.اوّل عام کتابیں لے لیں جیسے میرے لیکچر اسلام میں اختلاف کا آغاز ،مسئلہ تقدیر پر تقریر ، ملائکہ پر تقریر.جب ان سے کسی کو فائدہ ہوگا تو پھر اور بھی خرید لے گا اور ہر جماعت کے لوگ قیمتاً فروخت کریں اس طرح صیغہ کی ترقی ہوگی.غرض ضروری ہے کہ ہر فرد یہ کام کرے اور ایسا زمانہ آجاوے کہ دنیا میں کوئی مثال ہمارے نہ نظر آ وے اور احساس اسقدر ہو کہ کوئی بد معاملہ ہو،
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء خراب عادت والا ہو یا بد معاملگی کرے تو شور پڑ جاوے کہ اس نے کتنا بُر افعل کیا ہے اور جماعت گھبرا جاوے.جب تک یہ احساس نہ ہو اُس وقت تک وہ کام جس کے لئے مسیح موعود آئے یعنی لِيُظْهِرَ عَلى الدين كلم ل نہیں ہوسکتا.یہ کام ہیں جن کے متعلق مشورہ لینا ہے.یہ باتیں ہیں جو سمجھائی ہیں ان کو یا د رکھیں.ان کو بھلائیں نہیں.اب مشورہ ہوگا جو تجاویز ہوں اُن پر عمل کریں.اب کمیٹیاں مقرر ہوں گی جو مناسب تجویزیں بتلائیں گی جو کل پیش ہوں گی.اور کل پھر اسی طرح ہم بیٹھیں گے اور پاس کرتے جاویں گے.“ دوسرا دن مشاورت کے دوسرے دن مؤرخہ ۱۶.اپریل ۱۹۲۲ء کو جب اجلاس شروع ہوا تو حضور نے ممبران کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:- کل میں نے مشورہ کے وقت جن اُمور کو یاد رکھنا ضروری ہے اُن پر تقریر کی تھی.کل تو مشورہ کا وقت نہیں ملا تھا سب کمیٹیاں کام کرتی رہیں تھیں.آج وہ تجاویز جو سب کمیٹیوں نے پیش کی ہیں پڑھی جاویں گی اور ان پر رائے لی جائے گی اس لئے پھر توجہ دلا دیتا ہوں کہ احباب اُن باتوں کو مد نظر رکھیں جن پر کل میں نے تقریر کی تھی.جو تجویزیں آئی ہیں اُن کے متعلق قرعہ ڈالا گیا ہے.پہلے تالیف واشاعت کا صیغہ نکلا ہے.پھر جس طرح نام نکلیں گے سُنا ئیں گے.تجویز یہ ہے کہ سب کمیٹی کی رپورٹ سُنائی جاوے پھر دوبارہ پڑھا جائے اور ایک ایک ٹکڑہ لیا جائے اور اس پر رائے لی جائے.پیشتر اس کے کہ وہ تجویزیں پڑھی جائیں دو سوال ایسے ہیں کہ کمیٹیوں کے لئے انہیں نہیں رکھا اُن کو علیحدہ رکھا تھا.اُن کو پہلے پیش کرتا ہوں.کل میں نے بتایا تھا کہ مشورہ کے طریق کے متعلق کہ جب رائے مانگی جائے تو جو تبدیلی یا کمی یا زیادتی ہو وہ بیان کریں اور دلائل دیں.بولنے کی یہ ترتیب ہوگی کہ جو پہلے کھڑے ہوں وہ پہلے بولیں جو بعد میں کھڑے ہوں بعد میں بولیں.اگر کئی شخص ایک دفعہ کھڑے ہوں تو ایک صاحب مقرر ہوں جو نام لکھیں اور ترتیب وار اُنہیں بولنے کے لئے کہتے جائیں.اس کام کے لئے چوہدری نصر اللہ خان
خطابات شوری جلد اوّل ۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صاحب کو مقرر کرتا ہوں.اگر اُنہیں نام معلوم نہ ہوں تو پوچھ لیں.انہوں نے زندگی وقف کی ہے خدمت دین کے لئے اس لئے انہیں ایسی واقفیت بہم پہنچانی چاہئے کہ سب کے نام معلوم ہوں وہ سوال یہ ہیں جو میں پیش کرنا چاہتا ہوں.(۱) امیروں کا تقرر مفید ہے یا نہیں؟ (۲) اس کے لئے جماعتوں کو مجبور کیا جاوے یا ان کی مرضی پر چھوڑا جائے؟“ حضور کے اس ارشاد کے بعد ان دو سوالوں کے بارہ میں کچھ ممبران نے موافق یا مخالف اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا.اس بحث کے بعد حضور نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:.چونکہ اس مسئلہ کے متعلق کافی بحث ہو چکی ہے اور میں نے دونوں سوالوں کو اپنی رائے کے بغیر اس لئے چھوڑ دیا تھا کہ دوسروں کی رائے سُن کر بیان کروں اس لئے اب بیان کرتا ہوں.پہلے اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ اس مجلس شوری کے قیام سے بہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ مجالس شوری کے آداب سے بہت کچھ نا واقف ہیں.کل میں نے سمجھایا تھا کہ صرف بولنے کی خواہش سے نہیں بولنا چاہئے بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ بولنا مفید ہے یا نہیں اور پھر بولنا چاہئے.لیکن بوجہ مجبلت کے جو حکومت کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے یونہی بول پڑتے ہیں.شاید کہ اپنے ہی خیالات میں محو ہوتے ہیں دوسرے کی سنتے ہی نہیں اس لئے ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جو پہلے بیان کر چکتے ہیں.اب مختلف خیال کا خلاصہ بیان کرتا ہوں جو ان تقریروں سے میں سمجھا ہوں.پہلا سوال یہ تھا کہ امیروں کا تقرر مفید ہو گا یا نہیں.اور دوسرا یہ کہ تقر ر لازمی ہو یا نہ.تقریریں کرنے والے ان دو سوالوں کو علیحدہ علیحدہ نہیں کر سکتے.بعض دوست ایک کو بیان کر کے دوسری کی طرف چلے جاتے رہے ہیں.خلاصہ ان خیالات کا یہ ہے کہ :- (۱) بعض لوگوں کے نزدیک امیر کا قیام اس لئے ضروری ہے کہ اُس کے ذریعہ فساد دُور ہوتے ہیں.وہ نمونہ ہوتا ہے ذمہ واری کے احساس سے.(۲) انجمن کے پریذیڈنٹ کے فرائض محدود ہوتے ہیں اس کا تعلق ان امور سے جو ایجنڈا میں ہوں ہوتا ہے یعنی پریذیڈنٹ کا تعلق اتنے ہی وقت کا ہوسکتا ہے جب کہ انجمن ہو رہی ہو بعد میں نہیں ہوتا.لیکن جماعت کو ایسی باتوں کی ضرورت ہے کہ جو انجمن میں نہیں -
خطابات شوری جلد اوّل ۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء آتیں یا نہیں آ سکتیں.اور جماعت کو اُس وقت بھی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ وہ انجمن سے باہر ہو.(۳) بعض نے کہا ہے کہ امیر کا تقرر شرعی حکم ہے، اختیارات مقرر ہیں، شرعی اختیارات زیادہ محفوظ ہیں پریذیڈنٹوں کی نسبت کہ ان کے اختیارات مقرر نہیں.(۴) یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہمارے لئے تربیت کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ امیر مقرر ہوں تا کہ اطاعت کی روح پیدا ہوتی رہے.(۵) خلیفہ کا قائم مقام ہو کہ اس کے توسط سے خلیفہ اختیارات کو برت سکے.اس کے مقابلہ میں جو باتیں پیش ہوئی ہیں وہ یہ ہیں :- (۱) امیروں کے تقرر سے انجمن کا قیام ٹوٹ جائے گا حالانکہ انجمن کو مسیح موعود علیہ السلام نے بنایا ہے.(۲) امیر کے تقرر سے ڈیموکریٹک رُوح پیدا ہوتی ہے کہ ہمارا بھی دخل ہو اس کا مطالبہ ہوگا اور نقصان پہنچے گا.(۳) ہر جگہ امیر کے لئے قابل آدمی نہیں مل سکتے.(۴) بہت سی جماعتیں چھوٹی ہیں وہاں امیر کا تقرر تمسخر ہوگا.(۵) امیر کا تقرر لوگوں سے تعلق رکھتا ہے اس لئے ممکن ہے ایسا امیر مقرر ہو کہ جماعت کو تباہ کردے.(1) جن جماعتوں کا مرکز سے تعلق نہیں یہاں آتے نہیں، ان میں ممکن ہے کہ امیر کو مان کر اُس کے پیچھے چل پڑیں اور علیحدہ ہو جائیں.(۷) یہ بھی ہے کہ امیر کا تعلق شرعی طور پر جائز نہیں.امیر سیاست سے تعلق رکھتا ہے چونکہ اب سلطنت نہیں اس لئے امارت نہیں ہونی چاہئے.ان کے علاوہ بعض نئی باتیں نکل پڑیں کہ کہا گیا کہ انجمن کا آئندہ ٹوٹنا الگ رہا اب ہی ٹوٹ گئی ،صدر انجمن کی کوئی حیثیت نہیں رہی.میرا کام چونکہ لوگوں کی ہدایت ہے اس لئے اصل مسئلہ سے بالا ہے.آپ لوگوں کا کام یہ ہے کہ جس امر کے متعلق مشورہ لیں بیان کر دیں.مگر میرا کام یہ ہے کہ دیکھوں آپ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء کے خیالات اُدھر جا رہے ہیں جدھر جانے چاہئیں یا نہیں.اس لئے میرا فرض ہے کہ جو سوال اصل معاملہ سے تعلق نہیں رکھتے انہیں بھی لوں.انجمن اور خلیفہ یہ کہنا کہ انجمن ٹوٹ گئی ہے، اس کا رہنا نہ رہنا برابر ہے وہ دوست جنہوں نے یہ بیان کیا اُنہوں نے کہا ہے کہ کل کی تقریروں سے یہ نتیجہ نکلا ہے..مگر کل تقریریں نہیں ہوئی تھیں اور میری تقریر تھی.گویا اُس سے یہ نتیجہ نکلا ہے.اُس میں کیا تھا؟ یہ کہ خلافت کا انتظام انجمنوں سے بہتر ہے.انجمنوں میں طبعی طور پر پارٹیوں کا خیال پیدا ہوتا ہے.اور ایک دوسرے کو گرانا چاہتا ہے.مگر یہاں کثرتِ رائے اور ووٹ سے نہیں بلکہ شرعی حقوق خلیفہ کے ہیں کہ مشورہ لیا جاوے گا.آگے خواہ کثرتِ رائے پسند آئے یا قلت وہ عزم کر کے اعلان کرے گا فیصلہ کا.یہ خیال آج نئے نہیں.جو شخص جماعت کے لٹریچر سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ خلیفہ اول کے وقت بھی یہ بات پیش ہوئی تھی اور اسی پر پیغامیوں سے جنگ شروع ہو گئی تھی کہ آیا انجمن اختلاف خلیفہ سے رکھ کر اپنا حکم جاری کر سکتی ہے یا خلیفہ روک سکتا ہے؟ اس پر تفرقہ ہوا.اگر ان خیالات کے ساتھ کہ انجمن خلیفہ کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس کے ماتحت ہے اور اگر یہ کہنے سے کہ خلیفہ کثرت رائے کا پابند نہیں انجمن ٹوٹتی ہے تو اُسی دن ٹوٹ گئی تھی جب خلیفہ اول خلیفہ ہوئے تھے.اور اگر ان خیالات کے اظہار سے ٹوٹتی ہے تو جس دن میں خلیفہ ہوا اُس دن ٹوٹ گئی اور دُنیا میں کوئی انجمن نہیں ہے.یہ اُن کے اور ہمارے اختلاف کا بنیادی پتھر ہے کہ انجمن ہو خلیفہ نہ ہو، کثرتِ رائے سے فیصلہ ہو.اگر یہی ہے تو انجمن ہے ہی نہیں ٹوٹ گئی ہے اُس وقت سے جب خلافت کا سلسلہ چلا.اگر یہ خیالات نہ ہوتے تو نہ جھگڑا ہوتا نہ پیغامی ہوتے ، نہ مبائع ہوتے ایک ہی جماعت ہوتی.دو گروہ جو نظر آ رہے ہیں وہ نبوت وغیرہ کے مسئلہ سے نہیں بلکہ یہی اختلاف ہے جو خلافت کے متعلق ہے.اگر امیر کا تقرر اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے کہ انجمن اور خلیفہ کا کیا تعلق ہے تو اس پر گفتگو ہی نہیں کی جاسکتی.اسی وجہ سے ہم نے اپنے ہاتھوں کو جو کام کر رہے تھے کاٹ کر پھینک دیا کہ چونکہ تم خلافت کو انجمن کے ماتحت رکھنا چاہتے ہو اس لئے تم کو ہم نہیں رکھ سکتے.پس یہ بنیادی پتھر ہے کہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء ایک خلیفہ ہو اس پر نہ اختلاف ہم سُن سکتے ہیں نہ اختلاف ہے.ہم سب اس پر متفق ہیں کہ ایک واجب الاطاعت امام ہونا چاہئے.پیغام صلح میں حضرت مسیح موعود نے غیر احمدیوں کو اس لئے پراگندہ طبع قرار دیا ہے کہ اُن کا کوئی امام نہیں.پس اگر یہاں یہ سوال ہے کہ خلافت کے ماننے والے اپنے اختیارات کو خلیفہ کے مقابلہ میں کس طرح برتیں تو یہ ان مسائل سے ہے کہ جن پر اختلاف کر کے ہم اکٹھے مل کر کام نہیں کر سکتے.اس موقع پر ھذا فِرَاقُ بَيْنِي وَ بَيْنَگ کہنا چاہئے.جیسے دو مسلمان اس پر بحث نہیں کر سکتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبی تھے یا نہیں اور اُسی وقت بحث کریں گے جب مسلمان نہ رہیں.اسی طرح دو احمدی اس پر بحث نہیں کر سکتے کہ مسیح موعوڈ سچے ہیں یا نہیں؟ اسی طرح خلیفہ اور انجمن کے اختیارات کے بارہ میں بھی ایک جماعت میں بحث نہیں ہو سکتی.اس سے ٹوٹ کر ہوگی جیسا کہ پہلے ہوا ہے.کیونکہ یہ ان مسائل سے نہیں کہ اکٹھے رہ کر بحث ہو سکے.انجمن سیالکوٹ، فیروز پور یا لا ہور کیا چیز ہیں؟ وہ ظل ہیں قادیان کی انجمن کا.وہ امیر جو فیروز پور یا لاہور ہو وہ ظل ہے خلیفہ کا.پھر ظل پر وہ حکم کس طرح جاری ہو جو اصل پر نہیں.اگر صدر انجمن خلیفہ کے حکم دینے سے نہیں ٹوٹتی تو اس کی شاخیں خلیفہ کے قائم مقاموں کے حکم دینے سے کس طرح ٹوٹ جاتی ہیں.اور اگر صدر انجمن کا ٹوٹنا ما نیں تو ماننا پڑے گا کہ مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور مجرم ہیں خدا تعالیٰ کے.اگر یہ نہیں تو ماننا پڑے گا کہ نہ انجمن ٹوٹی اور نہ مسیح موعود کے احکام کی خلاف ورزی کی.یہ دونوں باتیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں.تعجب ہے اصل انجمن کے متعلق تو کہا جاتا ہے کہ نہیں ٹوٹی.مگر ظل جو ہیں ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ٹوٹ جائے گی.اس کا کیا یہ مطلب نہیں کہ قادیان والی انجمن خلیفہ کے تقرر سے ٹوٹ جائے تو ٹوٹ جائے مگر ہم امراء کے تقرر سے اپنی انجمنیں نہ ٹوٹنے دیں گے.اس میں امیر کا تقرر نہ ہوگا.مگر جب حضرت مسیح موعود کی قائم کردہ انجمن کے متعلق فیصلہ کر دیا کہ اس طرح نہیں ٹوٹتی تو اس کی ظل کس طرح ٹوٹ سکتی ہیں.صدر انجمن کا قائم ہونا یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت صاحب نے انجمن قائم کی ان بہ باتوں کا جواب ہم دے چکے ہیں.کیا خلافت راشدہ میں جواب نہیں دیا جا چکا؟ اور ہمارے واعظ آئے دن جواب نہیں دیتے رہتے ؟ الفضل، الحکم اور
خطابات شوری جلد اوّل ۳۵ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۲۲ء الحق کے فائل گواہ ہیں کہ جماعت میں بڑے زور سے یہ بحث اُٹھائی گئی کہ حضرت صاحب نے صدر انجمن کو قائم کیا ہے یا نہیں؟ اور کیا تو کیا مطلب تھا؟ جب قائم ہوئی ہم یہاں موجود تھے جس کے ذریعہ حضرت اقدس سے منظوریاں لیں اور جن کے ہاتھوں قائم ہوئی وہ بتا سکتے ہیں کہ کس طرح قائم ہوئی.حضرت صاحب کی طرف سے یہ انجمن مقبرہ بہشتی کے متعلق تھی.انجمن کار پرداز مصالح مقبرہ بہشتی اس کا نام رکھا گیا کہ ایسی مد خاص میں جو روپیہ آئے گا اُس کی نگرانی کرنی پڑے گی.اس کے لئے آپ نے یہ تجویز فرمائی کہ مولوی نور الدین صاحب کو اس کام پر مقرر کیا.پھر کہا گیا کہ یہ فوت ہو گئے تو پھر کیا ہو گا اس لئے ایسا قانون بنایا جاوے کہ بعد میں کوئی فساد نہ ہو.بعض دوستوں نے کہا انجمن بنا دی جاوے.پہلے ایک مدرسہ کی انجمن تھی وہی مقبرہ کے لئے مقررتھی، وہی ریویو کے لئے.انہوں نے حضرت صاحب سے کہا مختلف کام ہیں ان کو اکٹھا کرنے کی اجازت دیں.آپ نے کہا اچھا اکٹھا کرلو.یہ تھی تجویز.نہ یہ کہ ایسی انجمن کے بنانے کی تجویز حضرت صاحب کے ذہن میں آئی اور آپ نے پیش کی اور یہ انجمن بنائی گئی بلکہ جن لوگوں کے سپر د کام تھے اُنہوں نے کہا کہ وقت کا حرج ہوتا ہے اس طرح انتظام ہو.اور عجب بات یہ ہے کہ اس سے پہلے ایک انجمن تھی جس کو حضرت صاحب نے توڑ دیا اور حضرت صاحب نے تو نواب صاحب کو امیر مقرر کیا تھا مولوی محمد علی صاحب ، حضرت مولوی نورالدین صاحب، مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کو اس کے ممبر مقرر کیا تھا کہ آپ نواب صاحب کو مشورہ دیں اور جو حکم دیں ماننا ہوگا.چنانچہ کئی سال تک اس طریق سے کام ہوتا رہا.اس کے بعد نواب صاحب کے مقدمات تھے اس لئے انہیں لا ہور جانا پڑا اور پیچھے انتظام خراب ہونے لگا.حضرت صاحب نے جب اُن سے پوچھا تو انہوں نے لکھا کہ ایک تو میں آجکل یہاں رہتا بھی نہیں.دوسرے جو مشیر رکھے گئے ہیں ان میں سے ایک ایسے رنگ میں اثر ڈالتا ہے کہ چندہ کم ہوتا ہے اس طرح رکاوٹ ہوتی ہے، مجھے فارغ کیا جائے.آخر یہ انتظام چلتا رہا اور ۱۹۰۶ ء میں اکٹھا کرنے کا مشورہ ہوا.ایک دن حضرت صاحب اندر آئے تو
خطابات شوری جلد اوّل ۳۶ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۲۲ء والدہ صاحبہ سے کہا کہ انہیں ( یعنی مجھے ) انجمن کا ممبر بنا دیا ہے.نیز ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب کو اور مولوی صاحب کو تا کہ اور لوگ نقصان نہ پہنچا دیں.پھر میاں بشیر احمد صاحب کا نام لیا گیا.آپ نے فرمایا وہ مدرسہ میں پڑھتے ہیں.افسر اُن کے ماتحت ہوں گے اس لئے اُن کو رہنے دو.پھر وہ جگہ جہاں آپ اُس وقت بیٹھے تھے اور جو وقت تھا مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے.آپ آئے اور کہا یہ نام تجویز کئے ہیں.ڈاکٹر محمد حسین صاحب کا نام یقینی یاد ہے.مرزا یعقوب بیگ صاحب کا یقینی یاد نہیں کہ حضرت صاحب نے تجویز کیا یا نہیں.آپ کو کہا گیا چودہ نام لکھ لئے ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا اور چاہیں باہر کے آدمی بھی ہوں اور ان کے نام بھی بیان کئے جن میں سے ذوالفقار علی خان صاحب، چوہدری رستم علی خان صاحب، ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب کے نام اس وقت مجھے یاد ہیں.اس پر کہا گیا ہے کہ زیادہ آدمیوں سے کورم نہیں پورا ہوگا.آپ نے فرمایا اچھا تھوڑے سہی.پھر کہا اچھا ایک اور تجویز کرتا ہوں اور وہ یہ کہ مولوی صاحب کی رائے چالیس آدمیوں کی رائے کے برابر ہو.( یہ امیر نہیں تو اور کیا ہیں ؟ ۱۴ ممبر ایک طرف ایک کی رائے چالیس کے برابر ہو ).اُس وقت میرے سامنے ان لوگوں نے حضرت صاحب کو دھوکا دیا کہ حضرت ہم نے مولوی صاحب کو پریذیڈنٹ بنایا ہے اور پریذیڈنٹ کی رائیں پہلے ہی زیادہ ہوتیں ہیں.حضرت صاحب نے کہا ہاں یہی میرا منشاء ہے کہ ان کی رائیں زیادہ ہوں.مجھے اُس وقت انجمنوں کا علم نہ تھا کہ کیا ہوتی ہیں ورنہ بول پڑتا کہ پریذیڈنٹ کی ایک ہی زائد رائے ہوتی ہے تو انہوں نے یہ دھوکا دیا پھر تفصیلی قواعد مجھے ہی دیئے گئے تھے اور میں ہی حضرت صاحب کے پاس لے کر گیا تھا اُس وقت آپ کوئی ضروری کتاب لکھ رہے تھے.آپ نے پوچھا کیا ہے؟ میں نے کہا انجمن کے قواعد ہیں.فرمایا لے جاؤ بھی فرصت نہیں ! گویا آپ نے ان کو کوئی وقعت نہ دی.امارت کے فرائض دراصل امارت کے فرائض کو لوگوں نے نہیں سمجھا جو میں نے بتائے تھے.گو اس تفصیل سے احادیث میں نہیں ملتے کیونکہ تیرہ سو سال کی بات ہے مگر ان کا پتہ ضرور چلتا ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جو مشورہ سے کام نہیں کرتا وہ مجھ سے نہیں اور میں نے امیر کے لئے رکھا تھا کہ علی العموم کثرت رائے سے فیصلہ کریں.میں بھی یہی کرتا ہوں ، کوئی ایک آدھ ہی معاملہ سال میں ہوتا ہوگا جس میں میں کہوں کہ میری یہ رائے ہے اس کے مطابق عمل ہو ، ورنہ عموماً کثرتِ رائے سے جو تجویز ہو اُسی کو عمل میں لایا جاتا ہے.دیکھو اُحد کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں پسند نہیں کرتا کہ باہر جا کر مقابلہ کیا جائے مگر سب نے کہا کہ لوگ ہمیں بُزدل کہیں گے.جب ہم کفر میں بُزدل نہیں ہوئے تو اب کیوں کہلائیں.تاریخ میں لکھا ہے کہ عبداللہ ابن ابی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مشورہ نہیں لیا تھا مگر اُس دن اس کو بلایا اور پوچھا کہ وہ کیا کہتا ہے.شاید وہی کہے کہ باہر نہ جائیں اور لوگوں کو اس بات کی تحریک ہو مگر اس نے بھی کہا باہر ہی جانا اچھا ہے.جب باہر جانے لگے اور جوش کم ہوا تو صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے کہ باہر آنا غلطی تھی اور ہم نے غلطی کی.مگر آپ نے نہ مانا اور کہا کہ نبی جب تیار ہو جاتا ہے تو پھر نہیں کوشتا.کے اُس وقت انہیں سبق دینے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات مان لی اور اس جنگ میں ایک امیر مقرر کیا کہ اس کے حکم کے بغیر نہیں ہٹنا مگر پھر بھی جو حالت ہوئی وہ ظاہر ہے.امیر کی پوزیشن تو یہ بات کہ امیر کثرت رائے کی اتباع کرے ۹۹ فیصدی یہی ہو گا کہ ایسا ہی کرے اور ممکن ہے کہ پانچ پانچ سال ایسا ہی ہو کہ اُس کو اپنی بات منوانے کی ضرورت ہی نہ ہو.مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کوئی ایسی بات ہوئی ہو جس کے خلاف مشورہ دیا گیا ہو اور میں نے کہا ہو کہ یہی کرو.تو امیر کے لئے یہ رکھا ہے کہ کثرتِ رائے سے فیصلہ کرے اور اگر اس کے خلاف کرے تو وجوہات لکھے.دوسرے لوگ اگر چاہیں تو خلیفہ کے پاس شکایت کریں.پس کثرتِ رائے کے خلاف فیصلہ نہ ہوگا کیونکہ کون کہہ سکتا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ اس کی رائے درست ہے.اس کی رائے بھی غلط ہوسکتی ہے.یہ امیر کی پوزیشن ہے.امیر کا تقرر شرعی ہے یا نہیں یہ اختلاف کے تقرر شرعی ہے یا نہیں اس کے متعلق بعض نے ایسا زور دیا کہ جو اس تقرر کو نہ مانیں گے گویا وہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء اسلام سے خارج ہی ہو جاویں گے اور بعض نے کہا ضروری نہیں.لیکن یادر ہے بعض انتظام حالات اور سیاست کے ماتحت ہوتے ہیں.ان میں جیسا کہ مولوی سرور شاہ صاحب نے بیان کیا ہے آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے.ایسے معاملات سیاسی، خواہ مذہبی احکام کے نیچے آ جاویں ان میں توقف ڈالا جاسکتا ہے.امارت اور سلطنت امارت سلطنت سے تعلق رکھتی ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق دونوں خیالات درست ہیں.مگر اپنے اپنے مسئلہ کے چسپاں کرنے میں غلطی کی گئی ہے.جو کہتے ہیں کہ تعلق نہیں رکھتی انہوں نے سلطنت کے معنے نہیں سمجھے.ان کے نزدیک سلطنت کے معنے فوج اور خزانہ کے ہیں حالانکہ سلطنت کے معنے بہت وسیع ہیں.سب باتوں پر غلبہ والی حکومت دنیا میں کوئی نہیں.یورپ میں جو سلطنت چاہے وہ نہیں کر سکتی.رعایا کی بات اُسے ماننی پڑتی ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی سلطنت حاصل تھی کہ سب باتوں پر غلبہ حاصل تھا.سیاسی سلطنت بھی ہر رنگ میں تھی اور مذہبی بھی.اس کے بعد ابو بکر کو سلطنت حاصل ہوئی مگر اختیارات کم ہو گئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح کوئی کام کیا ہے اُسی طرح وہ کیا کریں اور جن کا ذکر نہیں کیا ان میں اجتہاد کر لیں.تو سلطنت ہوتی ہے آگے اس کی حالت الگ ہوتی ہے اور جتنی سلطنت ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ اتنے حصہ کو پھیلانے والے ہوں.بے شک سلطنت ہمارے پاس اس رنگ میں نہیں جس رنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھی مگر ایک رنگ میں ہے که اخلاق درست کرنا، چوری چھڑانا وغیرہ.بے شک یہ زور نہیں کہ چور کے ہاتھ کاٹ دیں مگر یہ تو ہے کہ حضرت صاحب نے کہا کہ میں کتاب لکھوں گا اخلاق پر جو اس کو نہ مانیں گے اُن کو جماعت سے نکال دوں گا تو ہمارے بھی اختیارات ہیں اور سلطنت سے بڑھ کر ہیں کیونکہ ہم جتنے معاملات میں دخل دے سکتے ہیں سلطنت نہیں دے سکتی اس لئے ہمیں بھی امیروں کی ضرورت ہے ہاں جس حصہ کی حکومت حاصل نہیں اُس میں مقرر کرنا غلطی ہو گا.باقی رہی انفرادی آزادی اس میں امیر دخل نہیں دے سکتا.ہاں جن امور کا تعلق
خطابات شوری جلد اوّل ۳۹ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۲۲ء سلسلہ سے ہے، اخلاق وغیرہ ان میں دے سکتا ہے لیکن ان میں بھی اُس کو قواعد کے ماتحت کام کرنا ہوگا.اُس کا کام احکام کا نفاذ ہو گا قانون بنانا نہیں ہوگا اور اس سے کسی کی آزادی میں کوئی فرق نہیں آتا.جہاں کی جماعتوں میں امراء سے فائدہ نہیں ہوا وہ وہی ہیں کہ جن کو میں متواتر لکھ رہا ہوں کہ آپس کے جھگڑے چھوڑ دو.سیالکوٹ کی انجمن نے حضرت مسیح موعود کے بعد لڑائی جھگڑے شروع کر دیئے.جھگڑوں سے ہی تنگ آکر امیر مقرر کرنے ضروری سمجھے.اور امیر تو ۱۹۲۱ء میں مقرر ہوئے.میں ۱۹۲۰ء میں جب سیالکوٹ گیا تھا تو تقریر کی تھی کہ ہوشیار ہو جاؤ.گھر میں جو لڑائیاں کرتا ہے وہ زیادہ دشمن ہے اور باہر کے دشمنوں سے یہ زیادہ خطرناک ہے.افسوس ہے کہ سیالکوٹ کی جماعت نے ابتدائی جماعت ہونے کے باوجود نمونہ اطاعت میں کمزوری دکھائی.حضرت صاحب نے ایک دفعہ فرمایا کہ بعض کا تعلق تو ہم سے ہے اور بعض کا مولوی صاحب سے ہے اور بعض لوگ انجمن سے تعلق رکھتے ہیں.اپنے اور مولوی صاحب کے تعلق رکھنے والوں کو تو کہا کہ یہ محفوظ رہیں گے اور انجمن کی طرف جانے والوں کو کہا کہ ان کا خطرہ ہے اور سیالکوٹ کا نام لیا کہ اس کا بھی اسی طرف رُجحان ہے.اطاعت کی روح پیدا کرو ہماری جماعت میں اطاعت کی روح ہونی چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جان بوجھ کر ایسے لوگوں کو مقرر فرماتے جو کم حیثیت ہوتے اور اشار تا بیان کیا کہ دیکھوں لوگ اطاعت کرتے ہیں یا نہیں؟ اُسامہ کو ایک بڑے لشکر کا سردار مقرر کیا اسی خیال سے کہ آیا لوگ اطاعت کرتے ہیں یا نہیں ؟ مدینہ میں والی غیر معروف مقرر کئے اور ماتحت بڑے بڑے صحابی کئے.پس جماعت میں یہ مادہ ہونا چاہئے کہ ذاتی فوائد کو جماعت کے لئے قربان کر دیں.یہی گر ہے جس سے دشمن پر فتح پا سکتے ہیں.تو امراء کے تقرر سے انجمن ٹوٹتی نہیں بلکہ یہ فائدہ ہے کہ پارٹی فیلنگ (PARTY FEELING) پیدا نہیں ہوگی اور کثرت رائے صحیح کثرت رائے ہوگی.انجمنوں میں پارٹی فیلنگ پیدا کی جاتی ہے.ممبروں سے کئی کئی وعدے خطابوں ، عہدوں کے دے کر ان کی رائے لی جاتی ہے.اصل میں اسلام ہی کی جمہوریت ہے جو امراء کے ذریعہ قائم
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاو مشاورت ۱۹۲۲ء ہوتی ہے اس طرح حضرت صاحب قواعد بنانے کے خلاف نہیں تھے.جب کہ صدر انجمن نے قواعد کے ہوتے ہوئے خلافت کو مانا اور بیعت ہوئی.میرے خیال میں یہی مفید ہو سکتا ہے کہ امراء کے تقرر پر عمل کیا جائے.اگر پہلے اس امر کو پیش نہ کیا گیا تو اس لئے کہ آہستہ آہستہ کام ہو.چنانچہ مسجد میں حضرت صاحب کے سامنے یہ امر پیش ہوا کہ داڑھی منڈوانا بُرا ہے آپ لوگوں کو روکیں.آپ نے فرمایا ہم آہستہ آہستہ کام کرتے ہیں اور اپنی داڑھی پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ جب لوگ ہماری داڑھی دیکھیں گے اور ان کا اخلاص بڑھے گا تو خود رکھ لیں گے.تو حضرت صاحب نے اگر امیر مقرر نہیں کئے تو اسی لئے کہ آہستہ آہستہ اور بتدریج کام ہو اور حضرت صاحب نے تو انجمنیں بھی مقرر نہیں کیں.اس لئے فیصلہ یہی ہے اور میرا کیا یہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے کہ امیر ہو.میری غرض اس کو کرنے کی یہ نہیں کہ لوگوں کے منہ سے نکلوا دوں کہ یہ ضروری ہے لیکن چونکہ یہ سیاسی معاملہ ہے اور جماعت اسے آگے پیچھے کر سکتی ہے اس لئے یہی مناسب ہے کہ جو جماعتیں تیار ہوں ، ان میں امیر مقرر کریں اور دوسروں کو بالواسطہ مجبور کریں کہ اس میں یہ یہ فوائد ہیں.چھوٹی بڑی جماعتوں کا سوال غلط ہے.اختلاف دو آدمیوں میں بھی ہوسکتا ہے اس کے لئے بھی امیر کی ضرورت ہے.پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ قابل آدمی نہیں ملتے مگر ہمیں تو قابل بنانے ہیں اور وہ کام کرنے سے ہی بن سکتے ہیں.پھر یہ بھی فائدہ ہوگا جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ لوگ اپنی اصلاح کرلیں گے اور نمونہ بن جاویں گے اور پھر کوئی وجہ نہیں کہ امیر ایک شخص ہی ہو بلکہ جب جماعت سمجھے کہ امیر غلطی کرتا ہے اس کے متعلق اطلاع دی جائے.تو میں فیصلہ کرتا ہوں اور کثرتِ رائے اس کے ساتھ ہے کہ امیر کا تقرر شرعی امر ہے اس لئے اُتنے حصہ کے لئے جس میں ہمیں اختیار ہے امیر ہوں جو کثرتِ رائے کی پابندی کریں.سوائے اس کے کہ دینی یا دنیوی طور پر سخت مصر سمجھیں اور رپورٹ کریں.دوسری یہ کہ امیر کا تقرر لازمی نہ ہو بلکہ تحریک ہو اور لوگوں کو عادی کیا جاوے اور
خطابات شوری جلد اوّل سکھایا جما مہمان سے کیا مراد ہے سکھایا جاوے اس سے جماعت کی تربیت ہوگی.“ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء سب کمیٹی لنگر خانہ کی رپورٹ کے ایک سوال کہ مہمان سے کیا مراد ہے؟ پر گفتگو کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- ” یہ سوال در حقیقت مہمان خانہ اور لنگر خانہ کا جزو ہو گیا ہے کہ مہمان کی کیا تعریف ہے.جب سے ہوش سنبھالی ہے کیونکہ لنگر پہلے سے جاری ہے اُسی وقت سے سنتا آیا ہوں اس لئے معلوم ہوتا ہے لنگر کا جزو بن گیا ہے اور اب بھی اسی لئے پیش کیا گیا ہے.عجیب بات یہ ہے کہ دوشکلوں میں اعتراض ہوتا ہے بعض قادیان والے تو یہ کہتے ہیں کہ کئی لوگ اپنے اغراض کے لئے آتے ہیں اور لنگر پر بوجھ ہوتے ہیں.اور بعض باہر والے کہتے ہیں کہ خواہ کوئی کتنا عزیز ہو کوئی پوچھتا نہیں.یہی کہتا کہ کب آئے ؟ لنگر میں اسباب رکھ آئے یا رکھ آؤں؟ تو یہ دو رنگ کا اعتراض ہے مگر باوجود ان اعتراضات کے حضرت صاحب نے کوئی شرط نہیں لگائی جس سے دو چار دس ہیں ہٹ جائیں.خواہ کسی بچے مہمان کی دل شکنی بھی ہو جائے.پھر خلیفہ اول کے وقت بھی یہ سوال پیش ہو ا حتی کہ ایک لمبا خط ڈاکٹر محمد حسین نے لاہور سے اس کے متعلق لکھا.مولوی صاحب نے پڑھ کر مجھے بتایا کہ یہ خط آیا ہے اور پھر ایسے الفاظ فرمائے کہ گویا آپ ان کو جماعت میں سمجھتے ہی نہیں تھے.گو خلافت کی وجہ سے بھی ناراض تھے.اب میرے پاس بھی یہ سوال آچکا ہے.میں فطرتا بھی اور پیش روؤں کی وجہ سے بھی اس کے خلاف تھا.میں نے پیش اس لئے نہ ہونے دیا کہ دونوں قسم کے اعتراض جو یہاں کے اور باہر کے لوگ کرتے ہیں ان کو اپنی غلطی کا علم ہو جائے ممکن ہے جو یہاں کے لوگ کہتے ہیں کسی وقت درست بھی ہو لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس کے ازالہ کے وقت کوئی فتنہ اور نقص تو پیدا نہیں ہوتا اور حقیقی مہمان کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچتا.حضرت صاحب کے وقت کسی نے دعوت کی.ایک کھڑا ہوا کہ پر چیاں مدعو شدہ لوگوں کی دیکھے.ایک سے پوچھا تمہارے پاس ہے؟ اُس نے کہا کہ نہیں اور اُسے نکال دیا.حضرت صاحب نے سُن کر کہا کہ اب میں اس واقعہ کوسن کر کھانا نہیں کھا سکتا.کوئی کہے گا کہ وہ مستحق نہیں تھا مگر اس میں احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ کوئی مستحق تکلیف نہ اُٹھائے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء اور اس کے خلاف ہو جائے.مالی پہلو کا سوال جو ہے میرے نزدیک جہاں اور اخراجات برداشت کرنے ہیں وہاں یہ بھی ہے.جہاں بعض بد معاش ایسے آجائیں گے وہاں کے نو جوانوں کو بھی خراب کرتے ہیں اور باہر کے آئے ہوئے لوگوں کو بھی ایسے لوگوں کو نکالنا چاہئیے مگر ان کے لئے کوئی قانون نہیں بنا سکتے کہ اس کے ماتحت نکل جائیں.اس لئے یہ ہو کہ اوباش، بدمعاش جو بچوں کے اخلاق بگاڑنے والے یا شرارت کرنے والے ہوں ایسے لوگوں کو نکال دینا اور روکنا چاہئیے.مگر کوئی حد بندی اور قانون سے ہونا چاہئیے کہ جن کو ہم نے بلانا ہے اُن کی ہتک کر کے گناہ کے مرتکب نہ ہو جائیں.اس کے لئے یہی ہے کہ فہرست پیش ہوتی رہے.خلیفہ اول کے وقت بھی ہوتی تھی اور میں خود پیش کرتا رہا ہوں.اب بھی اگر متواتر پیش ہو تو اصلاح ہوسکتی ہے.باقی رہے وہ لوگ جو یہاں محنت مزدوری کے لئے آتے ہیں اور لنگر سے کھاتے ہیں اس وقت ان کی زندگی کو بہتر بنانے کا سوال ہے اس لئے یہ ہونا چاہئیے کہ اگر وہ رات دن کام کرنے لگ جاتے ہیں تو مہمان نہیں اور اگر فارغ بیٹھے رہتے ہیں تو یہ اُن کا قصور نہیں ہمارا ہے کہ ہم ان کی تعلیم کا انتظام نہیں کرتے.تو یہ انتظام ہو کہ اگر کام پر وہ سارا دن لگائیں تو ان کے لئے کھانا روک دیا جائے اور اگر کام پر نہیں لگتے تو خواہ کتنا عرصہ فارغ رہیں ہم اس کی حد بندی نہ کریں اور یہ خواہ پٹھان ہوں، خواہ کشمیری ، خواہ کوئی.اور ہر ایک کے ساتھ وہی سلوک ہو کیونکہ سب کو ایک مرکز پر جمع کرنا ہے اور سب کے لئے ایک قانون ہونا چاہئیے کوئی استثناء نہ ہونی چاہئیے.ہاں ان لوگوں کو ذاتی کاموں سے روکنے کے لئے یہ کرنا چاہئیے کہ کہا جائے کہ کام نہ کرو بلکہ پڑھو.اس صورت میں خواہ کر یہ بھی دینا پڑے تو وہ بھی دے دیا جائے اور ان کی تعلیم کا انتظام کیا جائے اور اُنھیں دین سکھلا کر مبلغ بنا دیں اور اُنھیں اُن ملکوں میں جہاں کے ہوں مقرر کر دیں اس لئے کوئی قیود نہ ہوں بلکہ جو شریر ہوں اُن کو نکالا جائے.“ مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے پر اختتامی تقریر کرتے ہوئے اختتامی تقریر حضور نے فرمایا: -
خطابات شوری جلد اوّل " ۴۳ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۲۲ء چونکہ وقت بہت ہو گیا ہے اس لئے اور تجاویز پیش نہیں ہو سکتیں.مدرسہ احمدیہ کے لئے تحریک کرتا ہوں کہ بچوں کو داخل کرائیں تمام لوگوں کو توجہ نہیں بالعموم وظیفہ پر پڑھتے ہیں لوگوں کو پہلے شکایت تھی کہ کارکن خود کیوں نہیں لڑکوں کو داخل کراتے اب یہ نہیں ہونا چاہئیے.میں نے بڑے بچے کو مدرسہ میں داخل کرایا ہے کہ قرآن حفظ کرے دوسرے کو بھی چوتھی جماعت پاس کر لے تو داخل کرا دوں گا.اور میں ان کو ہی نہیں جتنے بچے ہیں سب کو پیش کروں گا.اس کے بعد جماعت سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر سارے نہیں تو ایک ایک تو استطاعت والے پیش کریں.اس طرح ایک تو خرچ کم ہو جائے گا دوسرے جو اپنے طور پر پڑھے اُس کی طبیعت میں ایک آزادی اور جرات ہوتی ہے اور ترقی کرنے کا خاص موقع ملتا ہے اُن پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کہ تم مجبور ہو کر پڑھتے ہو.پھر ایسے پڑھنے والوں سے مدرسہ کا وقار بڑھ جاتا ہے کیونکہ اعلیٰ طور پر پڑھتے ہیں.اس لئے چاہیے کہ آسودہ لوگ اپنے بچے دیں مگر وہ نہیں جو ادھر کچھ نہ پڑھتے ہو بلکہ ہوشیار ہونہار کو داخل کرائیں.پڑھا ئیں اور دین کے راستہ میں قربان کریں.مال کا قربان کرنا ہی قربانی نہیں ہوتی یہ بھی قربانی ہے جو اولاد کی قربانی ہے.جو نمائندے آئے ہیں ان کو بھی تاکید کرتا ہوں کہ وہ بھی اپنے بچے داخل کریں اور دوسروں کو بھی جا کر کہیں کہ وہ زیادہ تعداد میں اپنے خرچ پر پڑھنے والوں کو داخل کرائیں.اس وقت چونکہ قلیل تعداد اپنے خرچ پر پڑھنے والوں کی ہے جس کے یہی معنی ہیں کہ جو اپنے خرچ پر پڑھ سکتا ہے وہ ادھر آنا نہیں چاہتا ورنہ کیا وجہ ہے کہ دوسرے مدرسہ میں زیادہ اپنے خرچ پر پڑھنے والے ہیں یہی کہ جب تک ان کا بس چلتا ہے ادھر نہیں آتے.یہ بڑی گندی روح ہے اسے دور کرنا چاہیے.میں یہ بھی کہوں گا کہ مدرسہ انگریزی میں جولڑ کے بھیجتے ہیں اس میں داخل کرنے سے بھی کچھ نہ کچھ دینی کاموں میں مددملتی ہے اگر چہ کہوں گا کہ وہاں ایسی تربیت نہیں کی جاتی جیسی کہ چاہئیے.اب یا تو آتے ہی متنبہ کر دیا جائے کہ یہ نقص ہے.یونہی نہ ہو واقعی بات بتائیں باوجود اس کے مہتموں کا فرض ہے کہ ہر ایک نقص کو دور کریں.لوگوں کو شکایت ہے کہ باہر کے سکولوں سے کوئی زائد بات نہیں ہوتی اور میں کہتا ہوں کہ بہت دفعہ ان کی شکایت درست ہوتی ہے.ان کی ذمہ واری ہے کہ جو نقص ہوں
خطابات شوری جلد اوّل ۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء اُن کو بھی دُور کریں.جہاں لوگوں کو تحریک کرتا ہوں کہ لڑکے بھیجیں وہاں یہ افسروں کو بھی تاکید کرتا ہوں کہ اصلاح کی کوشش کریں اور ذمہ داریوں کو سمجھیں.اس لئے دونوں کو نصیحت کرتا ہوں وہ لڑکے بھیجیں اور یہ ذمہ داریوں کو سمجھیں.اگر بگڑا ہوا بھی آئے تو درست کر دیں یہ ان کا فرض ہے.اب اجلاس ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ جن دوستوں نے سُنا اور جنھوں نے نہیں سُنا ان کو بھی لیکچر مفید ثابت ہو اور یہ طریق مشاورت مفید ہو.ساتھ ہی یہ بھی کہوں گا کہ کانفرنس والوں نے بھڑاس نکالی ہے سب امور کو اکٹھا نہیں لینا چاہئے تھا.مگر مجموعی طور پر نظر ڈالنے سے معلوم ہو گیا کہ کس قدر کام کرنا ہے.امید ہے کہ اگلی دفعہ اس سے زیادہ نمائندے آئیں گے کیونکہ جس قدر زیادہ ہوں اُسی قدر عمدگی سے کام ہوتا ہے.“ ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء ) الشورى: ٣٩ آل عمران: ۱۶۰ تاریخ طبری جلد ۴ صفحه ۱۲۰۱۱۱ مطبع دار الفکر بیروت لبنان مطبوعه الطبعة الثانية ٢٠٠٢ء ۵- تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۶۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء - الصف: ١٠ ے.بخاری کتاب الاعتصام بالكتب والسُنَّةِ باب قول الله تعالى وَ أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ -
خطابات شوری جلد اوّل ۴۵ مشاورت ۱۹۲۳ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء (۳۱ / مارچ و یکم اپریل ۱۹۲۳ء) پہلا دن افتتاحی تقریر مجلس مشاورت منعقده ۳۱ مارچ و یکم اپریل ۱۹۲۳ء کا افتتاح کرتے ہوئے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا : - جیسا کہ احباب کو معلوم ہے کہ میں نے پچھلے سال اس مجلس کے انعقاد کی بنیاد ڈالی تھی.اس کی غرض اُس سنت کا احیاء ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمانوں کی بہتری کے لئے قائم کی گئی تھی.آپ کا طریق تھا کہ اہم امور کے متعلق اُمرائے قوم سے مشورہ فرمایا کرتے تھے.مشورہ کے بعد اللہ تعالیٰ جس بات پر آپ کو قائم کرتا مسلمانوں کے لئے اُس کے متعلق احکام جاری کرتے تھے.اُس زمانہ میں سفر کی آسانی نہ تھی اس لئے آپ کی مجلس میں مدینہ والے ہی اہم امور کے مشورہ میں شامل ہو سکتے تھے.اب سفر کی سہولت ہے بیرونی جماعتوں کے لوگ بھی سال میں ایک دفعہ شامل مجلس مشورہ ہو سکتے ہیں.چونکہ ابتداء میں نئی بات پر عمل کرنا بوجھ ہوتا ہے اسلئے فی الحال یہی مناسب سمجھا گیا ہے کہ سال میں ایک دفعہ تمام جماعتوں کے نمائندوں کو جمع کیا جائے اور ایسے کام جن کا اثر سب پر ہوتا ہو ان کے متعلق تجاویز پر غور کیا جائے اور جو بات مفید اور بہتر معلوم ہو اُس پر عمل کیا جائے.اس سے مل کر کام کرنے کی روح پیدا ہوتی ہے اور بہتر تجاویز سامنے آتی ہیں اور بہتر اختیار کر لی جاتی ہیں.ابھی تک میں سمجھتا ہوں جماعت میں اس کے متعلق احساس پیدا نہیں ہوا کہ خلافت کی موجودگی میں مشورہ کی کیا ضرورت ہے.مگر پھر بھی پچھلے سال کی نسبت اب کی دفعہ زیادہ
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۴۶ { مشاورت ۱۹۲۳ء نمائندے آئے ہیں لیکن ابھی کم ہیں.یہ بات کسی شستی کی وجہ سے نہیں کیونکہ مشورے کے علاوہ دوسرے وقت میں شامل ہوتے ہیں.اب بھی نمائندوں کی نسبت ایسے لوگ زیادہ ہیں جو سننے آئے ہیں.جب بھی کوئی تقریر ہو تو سب لوگ جمع ہو جاتے ہیں.پھر عام لوگ جلسہ پر زیادہ ہوتے ہیں اور اِس کثرت سے ہوتے ہیں کہ رات کے ۱۲ بجے تک مصافحہ کرتا ہوں اور پھر بھی مصافحہ ختم نہیں ہوتا.چنانچہ آج ایک صاحب ملے اُنہوں نے کہا چارسال ملنے کی کوشش کرتا رہا ہوں مگر نہیں مل سکا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور مشورہ میں شامل ہونا ضروری نہیں سمجھتے.پس مشورہ میں زیادہ تعداد میں نہ آنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ خلیفہ کی موجودگی میں مشورہ کی ضرورت نہیں سمجھتے لیکن خلیفہ کے باوجود مشورہ کی ضرورت ہے.اور بہت لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تحریک خلیفہ کے خلاف ایک بغاوت ہے مگر ان کو معلوم نہیں کہ یہ تحریک خلیفہ کے خلاف بغاوت نہیں بلکہ اس کی تحریک مجھ سے ہوئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے ہوئی اور باوجود خلافت کی موجودگی کے مشورہ کی ضرورت ہے.جیسا کہ میں نے پچھلے سال کہا تھا کہ کوئی خلافت مشورہ کے بغیر نہیں.اب بھی یہی کہتا ہوں.اصل بات یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو کلمہ پڑھتا ہے اُس پر ایک دفعہ ذمہ واری عائد ہو جاتی ہے اور وہ اسلام کی ذمہ واری ہے.اُس کو اس سے غرض نہیں کہ اس کام کو اور بھی کرنے والے ہیں بلکہ وہ یہی سمجھے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے وہی ذمہ وار ہے اور اس لئے ہر ایک مسلمان خلیفہ ہے.جو مسلمان اپنے آپ کو خلیفہ نہیں سمجھتا وہ مسلمان نہیں.وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ دس لاکھ میں سے ایک ہے اور اُس کو دس لاکھواں حصہ ادا کرنا چاہئے بلکہ وہ سمجھے کہ وہ دس لاکھ ہی کا قائم مقام ہے اور یہ کام سارا اُسی کا ہے.اُس کا فرض ہے کہ وہ پورا کام کرے اور اس میں سے جس قدر کام کی اس میں طاقت نہیں اللہ تعالیٰ اُس کو معاف کرے گا اور اُس سے اس کی باز پرس نہیں ہوگی.خلافت کے قیام کی ضرورت انتظام کے لئے ہے کیونکہ تقسیم عمل نہیں ہو سکتی جب تک ایک انتظام نہ ہو.ممکن ہے کہ سب زور دیں مگر ان کا زور ایک ہی کام پر خرچ ہو رہا ہو اور باقی کام یونہی بے توجہی کی حالت میں پڑے رہیں.پس جب تک ایک مرکز نہ ہو اُس
خطابات شوری جلد اوّل है ۴۷ مشاورت ۱۹۲۳ء وقت تک تمام متفرق جماعتوں کی طاقتیں صحیح مصرف پر صرف نہیں ہوسکتیں اس لئے ضرورت ہے کہ تمام متفرق جماعت کی طاقتوں کو جمع کرنے کے لئے ایک مرکزی طاقت ہو جو سب کے کاموں کی نگران ہو اور اس سے تمام جماعتوں کا تعلق ہو.اس لئے ضروری ہے کہ کوئی جماعت اپنا مرکز قائم کرے اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ خلیفہ ہو جو اپنی رائے میں آزاد ہولیکن وہ سب سے مشورہ طلب کرے.جو رائے اُس کو پسند آئے وہ اُس کو قبول کرے اور جو رائے اس کو دین کے لئے اچھی نہ معلوم ہو خواہ وہ ساری جماعت کی ہو اُس کو رڈ کر دے اور اس کے مقابلہ میں جو بات اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ڈالے اور جس پر اس کو قائم کرے وہ اس کو پیش کرے اور لوگ اُس کو قبول کر کے اس پر عمل کریں.جن لوگوں سے خلیفه مشورہ طلب کرے ان کا فرض ہے کہ دیانت سے صحیح مشورہ دیں.اور جب مشوار طلب کیا جائے تو خواہ کسی کے بھی خلاف انکی رائے ہو بیان کر دیں لیکن یہ دل میں خیال نہ کریں کہ اگر ہماری بات نہ مانی گئی تو یہ غلطی ہوگی.پس خلیفہ کے یہ معنے نہیں کہ وہی اسلام کا بوجھ اُٹھانے والا ہے بلکہ اس کے معنے ہیں کہ وہ تمام جماعت کو انتظام کے ماتحت رکھنے والا ہے.اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی انسان بھی مشورہ سے آزاد نہیں.یہ خیال باطل ہے کہ مشورہ کی ضرورت نہیں یا یہ کہ مشورہ یونہی ہے اس کا فائدہ نہیں.یہ بھی غلط ہے کہ مجلس مشاورت خلافت کے خلاف بغاوت ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی خلافت مستحکم نہیں ہو سکتی جب تک اُس کے ساتھ مشورہ نہ ہو.کئی دفعہ بعض باتیں مشورہ سے ایسی معلوم ہو جاتی ہیں جو انسان کے ذہن میں نہیں ہوتیں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم بھی مشورہ کیا کرتے تھے.چنانچہ جنگِ احزاب کے موقع پر جب تمام کفار مل کر مدینہ پر چڑھ آئے اور یہود بھی کفار کے ساتھ مل گئے تو حضور نے اپنے اصحاب سے مشورہ طلب کیا.حضرت سلمان نے ایک مشورہ دیا کہ مدینہ کے ارد گر د خندق کھودی جائے کیونکہ ایران میں یہی طریق رائج ہے.اس سے ایک وقت تک دشمن اپنے حملے میں ناکام رہتا ہے.یہ رائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئی اِس کے مطابق عمل کیا گیا اور اس سے مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچا.اس مجلس میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ بھی موجود تھے.حضرت سلمان کا -
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۴۸ مشاورت ۱۹۲۳ء ان سے رتبہ اور درجہ کم تھا مگر ایک بات میں وہ اُن سے بڑھا ہوا تھا یعنی اس نے غیر ممالک کو دیکھا ہوا تھا اس لئے فن کی واقفیت تھی.پس جو لوگ فن سے واقف ہوں اُن کی رائے سے بہت سے کام درست ہو جاتے ہیں.ایسے اوقات میں اخلاص کام نہیں آتا بلکہ فن سے واقفیت کام دیتی ہے.پس ضروری ہے کہ مجلس مشاورت میں ہر مذاق اور ہر ایک فن کے لوگ داخل ہوں.علاوہ اس کے لوگوں میں یہ بات داخل کر دی جائے کہ اخلاص کے ساتھ فن کی واقفیت بھی پیدا کریں اس لئے ضرورت ہے کہ مجلس مشاورت میں ماہرینِ فن بھی آئیں.ان میں ایسے بھی ہوں جو اپنے دستخط بھی کرنا نہیں جانتے لیکن وہ اپنے علاقہ میں ایسا اثر اور رسُوخ رکھتے ہوں کہ اپنے علاقہ میں کام کے متعلق جوش پیدا کرسکیں اور لوگوں میں جوش نہیں پھیل سکتا جب تک علاقہ کے ذی اثر لوگ اس مجلس میں داخل نہ ہوں.لیکن چونکہ مشورہ عام ہوتا ہے اس میں داخل ہونے والے بعض بطور مشغلہ کے بھی آتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ نمائندے الگ ہوں اور دوسرے الگ.پس جو نمائندہ ہے وہ مشورہ دے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے طریق سے ثابت ہے کہ آپ مجالس مشورہ میں سب کی بات نہیں مانا کرتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ اپنے امیر سے کہو کیونکہ اگر امراء اور نمائندوں کی رائے نہ لی جائے تو مشورہ کی غرض باطل ہو جاتی ہے.مشورہ کی اہمیت بتانے کے بعد وہ نصائح سُناتا ہوں جو میں نے پچھلے سال بھی مجلس مشاورت کے وقت بیان کی تھیں.میں ان کو رپورٹ سے پڑھ کر سناتا ہوں کہ مشورہ میں یاد رہیں اور مشورہ دینے والوں کا قدم جادہ اعتدال سے باہر نہ ہو.(1) ہم لوگ یہاں کسی دنیاوی بادشاہت اور حکومت کی تلاش کے لئے جمع نہیں ہوئے ، نہ عہدوں کے لئے اور نہ شہرت کے لئے آئے ہیں ہم میں سے اکثر وہ ہیں جن کا آنا ان کے لئے مشکلات بھی رکھتا ہے.مخالف ان پر جنسی اُڑاتے اور اعتراض کرتے ہیں.پس ان کا یہاں آنا خدا کے لئے ہے اس لئے ضروری ہے کہ سب احباب ان نصائح پر عمل ریں.اپنے عمل کو ضائع ہونے سے بچائیں اور دعائیں کریں، اخلاص سے مشورہ دیں، درد کے ساتھ مشورہ دیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے مشورہ میں برکت ڈالے.
خطابات شوری جلد اوّل ۴۹ مشاورت ۱۹۲۳ء (۲) دُعا بغیر عمل کے قبول نہیں ہوتی جب تک انسان اس کے لئے سامان نہ کرے.اگر انسان کو خواہش ہوتی ہے تو سامان کرتا ہے اگر سامان نہیں کرتا تو دُعا کرنا غلط ہے.یہ دھوکا ہے کہ خدا سے اس بات کی دُعا مانگی جائے جس کے لئے خود کچھ تیاری نہ کی جائے اور ظاہر نہ کیا جائے کہ جس کام میں خدا سے دُعا مانگتا ہے اس کا محتاج ہے.(۳) جولوگ مشورہ کے لئے اُٹھیں یہ نیت کریں کہ جو بات وہ کہتے ہیں وہ دین کے لئے مفید ہوگی یا یہ کہ جس بات کے لئے مشورہ کیا جاتا ہے کون سی بات دین کے لئے مفید ہوگی.(۴) جو مشورہ دیں وہ آپ کا ہو.کسی کی خاطر مشورہ نہ دیں.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مشاورت بھی ہو اور آپ مشورہ طلب کریں تو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے علم کے مطابق مشورہ دیں.ہاں آپ کو یہ حق تھا کہ ہمارے مشورہ کو رڈ کر دیں.پس جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھی مشورہ دیا جا سکتا ہے تو خلیفہ کی مجلس میں بدرجہ اولی دیا جا سکتا ہے.میرے نزدیک جو بچے طور پر خلیفہ ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ مشورہ سُنے اور جو بات خواہ وہ کسی کی ہو اُس کو قبول کرے.یہ نہیں کہ وہ پہلے سے فیصلہ کرے کہ یونہی کرنا ہے بلکہ اس کی یہ حالت ہونی چاہئے کہ وہ اس ارادے سے بیٹھے کہ جو مشورہ ہوگا وہ درست ہوگا.اگر درست ہو تو مان لے ورنہ رڈ کر دے.جب تک یہ حالت نہ ہوخطرہ ہے کہ لوگوں میں منافقت پیدا ہو جائے.خلیفہ کی رائے کے لئے رائے دینا اُس سے غداری ہے اور خدا سے بھی غداری ہے.(۵) حکمتوں کے ماتحت رائے نہ دیں کہ اگر اس رائے کو مان لیا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا بلکہ یہ بتائیں کہ اس کا نتیجہ اس وقت کیا ہوگا.بعض لوگ ایک کام کو مفید سمجھتے ہیں مگر اس کی مخالفت اس لئے کرتے ہیں کہ فلاں شخص اس کام کا انچارج ہو گا گو کام مفید ہے لیکن وہ شخص درست نہیں ان کے ذہن میں اس لئے وہ اس کام کی ہی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ یہ درست نہیں.بجائے اس کے چاہئے یہ کہ وہ اس کام کی تائید کریں اگر مفید ہے.اور جب انچارج کا سوال پیدا ہو تو اُس کی مخالفت کریں.(1) جو بات بھی کچی معلوم ہو اُس کو قبول کرنا چاہئے خواہ دشمن کی طرف سے ہو.(۷) کبھی رائے قائم کرتے ہوئے جلد بازی نہ کرنا چاہئے.رائے دینے سے پہلے بات کے
خطابات شوریٰ جلد اوّل مشاورت ۱۹۲۳ء مَالَهُ اور مَا عَلَيْهِ پر غور کر لینا چاہئے.ساتھ ہی یہ بھی دیکھو کہ جو تم بول رہے ہو وہ درست ہے.یہ مت سمجھو چونکہ دوسرے کہتے ہیں اس لئے درست ہے.سوچنے کے یہ معنے نہیں کہ دوسروں کی بات کا موازنہ نہ کرو.(۸) جب رائے قائم کرو تو یہ مت خیال کرو کہ جو تم نے رائے قائم کی ہے وہ بے خطا ہے.بہت لوگ ہوتے ہیں جو اپنی رائے پر ہی عمل کرنا اور کرانا چاہتے ہیں یہ غلط ہے.اگر ان کی رائے کے خلاف فیصلہ ہو تو چاہئے کہ اپنی رائے کو قربان کر دیں.(۹) ہمیشہ واقعات کو مدنظر رکھیں احساسات کو مدنظر نہ رکھیں.بعض لوگ ہوشیار ہوتے ہیں کہ سنجیدہ معاملات میں بھی احساسات کو اُبھار کر واقعات پر پردہ ڈال دیتے ہیں.(۱۰) بعض دفعہ دین و دنیا ٹکرا جاتے ہیں ایسی حالت میں دُنیا کو قربان کر دینا چاہئے.(۱۱) ہمیشہ یہی خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری تجاویز غلط نہ ہوں بلکہ چاہئے یہ کہ سوچا جائے کہ نہ صرف یہ کہ ہماری تجاویز غلط نہ ہوں بلکہ یہ کہ ہماری تجاویز ان سے بڑھی ہوئی ہوں ، جن سے مقابلہ ہے.بخارا کے علماء کے متعلق آتا ہے کہ جب روس نے ان پر چڑھائی کی تو وہ اپنے تیرو تفنگ لے کر دشمن کے مقابلہ کے لئے گئے اور خیال کیا کہ ان ہتھیاروں سے دشمن کا مقابلہ کر لیں گے.مگر جب دشمن نے تو پوں سے کام لیا تو علماء سحر سحر کہتے ہوئے پیچھے کو دوڑے.پس نہ صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ ہماری تجاویز درست ہیں بلکہ یہ بھی کہ اس کے مقابلہ میں بڑھی رہیں.(۱۲) رائے دیتے ہوئے اس قسم کے معاملات پر بحث کرنا کہ اس کے لئے مثلاً پانچ سو روپیہ کی ضرورت ہے یا سوا پانچ سو کی ، اس پر بحث کرنا درست نہیں.ڈاکٹر دوائی دیتے ہیں.ایک دوائی تجویز کرے کہ ایک گرین دینی چاہئے اور دوسرا ڈاکٹر سوا گرین.اور اس پر بحث کریں تو ان کی یہ بحث لا حاصل ہوگی.کیونکہ کوئی ایسا پیمانہ نہیں جو بتا سکے کہ ایک اور سو اگرین میں سے کسی بیماری کی حالت میں کتنی مفید ہوگی.بہر حال دونوں میں سے ایک کی رائے اور قیاس کو تسلیم کرنا چاہئے.(۱۳) سوائے نئی بات بیان کرنے کے محض کسی ایک بات کے دُہرانے کے لئے کھڑا ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے وقت ضائع ہوتا ہے.اس میں شک نہیں کہ طرز بیان کا
خطابات شوری جلد اوّل ۵۱ مشاورت ۱۹۲۳ء اثر ہوتا ہے لیکن رائے دینے میں تکرار دلائل سے احتراز کریں.(۱۴) یہ خیال کہ مکمل طریق پر کام ہو غلط ہے بعض باتیں رہ جاتی ہیں اس لئے ہمیشہ اُن باتوں کو لینا چاہیئے جین کا بیان کرنا ضروری ہے.یہ چودہ نصیحتیں ہیں.اب پچھلے سال جو تجاویز پیش ہو کر منظور کی گئی تھیں متعلقہ ناظر صاحبان اپنی رپورٹ سنائیں گے.اس کے بعد نمائندوں کا حق ہوگا کہ وہ ان سے پوچھیں کہ فلاں فلاں باتیں جو منظور ہوئی تھیں اُن کے متعلق کیا کارروائی کی گئی ؟ یا رپورٹوں میں جو غلطی رہ گئی ہو اُس کی توضیح کرا سکتے ہیں.اور پھر اس دفعہ جو باتیں قابلِ غورمجلس مشاورت کے سامنے ہیں ان کے متعلق بھی کمیٹیاں بنائی جائیں گی جو سکیم بنا کر پیش کریں گی اور وہ عام اجلاس نمائندگان میں پیش کریں گی.بولنے کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جو پہلے کھڑا ہو وہ پہلے بولے گا پھر دوسرا.اسی طرح ترتیب کے ساتھ ایک شخص کو مقرر کر دیا جائے گا کہ وہ دیکھتا رہے گا کہ کون پہلے کھڑا ہوتا ہے اُسی کو اجازت پہلے بولنے کی ملے گی دوسرے کو بعد میں.اگر ایک ساتھ دو شخص کھڑے ہوں تو جس کو وہ کہے وہ بولے گا.یا اگر کوئی شخص پہلے کھڑا ہو مگر اُس پر نگران کی نظر نہ پڑے بلکہ وہ بعد میں کھڑے ہونے والے کو پہلے خیال کرے تو ہمیں اُس کی نظر کی اتباع کرنی ہوگی کیونکہ وہ انسان ہے اور انسان ایک جیسا ہر وقت ہر طرف نہیں دیکھ سکتا.دو دفعہ سے زیادہ کسی شخص کو بولنے کی اجازت نہ ہوگی کیونکہ دو دفعہ میں ایک شخص اپنا مطلب بیان کرسکتا ہے اور سننے والے اُس کے مافی الضمیر کو سمجھ سکتے ہیں.اس کے بعد میں تجاویز پیش کرتا ہوں مگر قبل اس کے کہ میں امور مشورہ طلب پیش کروں پچھلے سال کی دو باتوں کی تشریح کرتا ہوں.اول پچھلے سال ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ مرکزی خزانہ کے بوجھ کو دور کرنے کے لئے چندہ خاص کیا جائے.اس تحریک پر جو چندہ ہوا الْحَمْدُ لِلہ اس سے بہت سا بوجھ دور ہو گیا.مگر بعض جماعتوں کے ذمہ چندہ خاص باقی ہے ہم ان سے وہ چندہ ضرور لیں گے اور سو کی بجائے ایک سو پچیس لیں گے اس لئے چاہئے کہ جس قدر جلد ہو وہ یہ رقم دیں.دوسری بات میں یہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اس سال سلسلہ کی عورتوں میں دین کی
خطابات شوری جلد اوّل ۵۲ مشاورت ۱۹۲۳ء خدمت کا جوش پیدا کرنے کے لئے میں نے تحریک کی تھی کہ برلن میں مسجد بنائی جائے اور اس کی تعمیر سلسلہ کی عورتوں کے چندہ سے ہو.موجودہ حالت میں اس مسجد کی تیاری کے لئے پچاس ہزار کا اندازہ کیا گیا ہے اور اگر جرمن کی موجودہ حالت نہ رہی تو اس مسجد کے لئے جتنی زمین خریدی گئی ہے وہ ہی پانچ لاکھ روپیہ کی ہو گی.مگر آج پانچ ہزار میں زمین خریدی گئی ہے اور اندازہ ہے کہ ۳۷ ہزار میں مسجد تعمیر ہو جائے گی.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ابھی چندہ کا ایک مہینہ باقی ہے ۴۵ ہزار کے وعدے ہو چکے ہیں جن میں سے ہیں ہزار سے زیادہ نقد جمع ہو چکا ہے.ابھی بعض جماعتیں باقی ہیں جن کی مستورات نے ابھی چندہ نہیں دیا.ان میں سے بعض ایسی مستورات ہیں جو پڑھی لکھی نہیں اس لئے ان کے مرد جو پڑھے ہیں یا مستورات جو خواندہ ہیں اُن میں تحریک کریں.اس تحریک سے ہماری مستورات کا مطمح نظر ہی بدل گیا ہے ان میں جوش پیدا ہو گیا ہے اور وہ ارادہ رکھتی ہیں کہ خدمت دین میں آگے بڑھیں.مردوں کا فرض ہے کہ عورتوں کو دین کی ضروریات سے آگاہ کریں وہ دین کی خدمت میں پیچھے رہنے والی نہیں ہیں.مردوں کا فرض ہے کہ ان میں لجنہ اماء اللہ کے طریق پر مستورات کی انجمنیں بنائیں.ان کی غرض محض چندہ لینا نہ ہو بلکہ یہ غرض ہو کہ ان میں دین کی خدمت کا جوش، ضروریات مذہب سے آگاہی اور مسائل سے واقفیت اور ایک دوسرے سے ہمدردی اور حسن سلوک کیا جائے.اس تحریک نے عورتوں میں دین کا جوش اُبھار دیا ہے.عورت کے لئے زیور علیحدہ کرنا خود کشی کے برابر ہوتا ہے مگر ایک جگہ پر ایک عورت ایک اوباش غیر احمدی سے بیاہی ہوئی تھی وہ ایک لمبے عرصہ تک معلقہ رہی آخر اُس کو طلاق ملی اس نے دوسری جگہ شادی کی جب مسجد برلن کی تحریک ہوئی تو اس نے اپنا تمام زیور اور تمام ریشمی کپڑے مسجد کے چندہ میں دے دیئے.جہاں اس قسم کی نظیریں ہیں، عورتوں نے بڑی سے بڑی قربانیاں کی ہیں وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض جگہوں کے مرد مخلص ہیں مگر ان کا اخلاص ان کی ذات تک محدود ہے انہوں نے یہ روح اپنی مستورات میں نہیں پیدا کی.اس کی نظیر لاہور کی مستورات ہیں مردوں میں اخلاص ہے مگر عورتوں میں یہ روح نہیں ہے اس لئے ضرورت ہے کہ عورتوں میں بھی یہ روح پیدا کی جائے.وہاں سے جتنا چندہ آیا ہے وہ ان مقامات سے
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۵۳ مشاورت ۱۹۲۳ء تھوڑا ہے جو بعض چھوٹے مقامات سے آیا ہے پس ضرورت ہے کہ عورتوں کو دین کی ضروریات سے واقف اور آگاہ کیا جائے.اگر عورتوں میں دین کی خدمت کا ولولہ نہیں تو اس کے معنے ہیں کہ ہمارا آدھا جسم مفلوج ہے اگر عورتوں میں روح پیدا ہو جائے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ ایک ضرب میں ہماری طاقت دُگنی ہو سکتی ہے.پچھلے سال تحریک ہوئی تھی کہ چوہڑے چماروں میں تبلیغ اسلام کی جائے.مگر یہ لوگ اسلام میں داخل نہیں ہوئے جب کہ اس کے مقابلہ میں ہزاروں لوگ سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ یہ لوگ بڑے عالم اور اپنے ایمان میں پختہ ہیں اور باقی دنیا سے ترقی یافتہ ہیں؟ یا یہ خیال کیا جاوے کہ وہ نالائق ہیں؟ لیکن میں اس خیال کو نہیں مان سکتا.وہ لوگ وہی کام کر سکتے ہیں جو دوسرے کرتے ہیں.ان میں عقل و تہذیب ایسی ہی ہوسکتی ہے.نہ وہ ایسے کم عقل ہیں کہ اُن پر اثر نہ ہو نہ وہ فلسفی ہیں.حالت یہ ہے کہ پنجاب میں احمدیوں کی نسبت چوہڑے عیسائی زیادہ ہیں.مجھے افسوس ہے کہ لوگوں نے اس بات کو نہیں سمجھا.میں جب سوچتا ہوں تو بعض اوقات خیال آتا ہے کہ ممکن ہے کہ آدم کے بڑے فرزند کی اولاد چوہڑے ہوں اور چھوٹے کی ہم ہوں.ممکن ہے وہ رشتہ میں بڑے ہوں.وہ لوگ خدا تعالیٰ کے نزدیک مجرم ہیں جو ان کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور تبلیغ نہیں کرتے.میرے نزدیک ایک مسلمان چوہڑا اُس بادشاہ سے بہتر ہے جو مسلمان نہیں....پس ا میں اور غیروں میں فرق تمدن کا ہے لیکن اس کی اصلاح ہو سکتی ہے.اب میں تمام جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ زمیندار لوگ اور دوسرے ذی اثر لوگ ان کو تبلیغ کریں.ممکن نہیں کہ پھر وہ اسلام میں داخل نہ ہوں.ان کی اولادیں ایسی ہی اچھی ہوں گی جیسے کہ شائستہ پڑھے لکھے لوگوں کی اولاد ہوتی ہے.آج اگر زمیندار یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے ان کو مسلمان بنایا تو وہ ہمارے کام کیسے کریں گے میں کہتا ہوں کہ ہم جنگل میں پاخانہ کے لئے چلے جائیں گے مگر ان کو مسلمان بنا ئیں گے.اگر ہم ان کو اسلام میں نہیں داخل کریں گے تو وہ آریہ یا عیسائی ہو جائیں گے اور اُس وقت ان کا بُوٹ مسلمانوں کے سر پر ہو گا.اگر یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا سے بچھڑے ہوئے کو خدا سے ملانا بڑی بات ہے تو ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ سیاست کے نقطہ نگاہ ہی سے اس کام کو کریں.
خطابات شوری جلد اوّل ۵۴ مشاورت ۱۹۲۳ء یہ گونڈ بھیل کون ہیں؟ یہی ہندوستان کے بادشاہ تھے لیکن خدا نے اُن کو چھوٹا کر دیا مگر خدا ان کو بڑا کرنا چاہتا ہے.آج اگر ہم بادشاہی بھی لے لیں مگر مسلمان نہ رہیں تو یہ بادشاہی ہمارے کس کام کی.پس اس وقت ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ خدا سے بچھڑے ہوئے خدا سے مل جائیں.“ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ: - اُمور مشورہ طلب یہ ہیں.ا.عورتوں کی تعلیم کے متعلق کیا انتظام کیا جائے اور ان کی انجمنیں بنانے کے متعلق کیا طریق اختیار کیا جائے ؟“ عورتوں میں تعلیم کم ہے.پھر سوال ہے کہ تعلیم ہونی چاہئے.عورتیں ہمارا فالج زدہ حصہ نہیں ہیں.پھر یہ کہ کس قسم کی تعلیم ہونی چاہئے.ہم مردوں کی تعلیم کے لئے مجبور ہیں کہ سرکاری عہدے نہیں مل سکتے مگر عورتوں کے لئے ہمیں یہ مجبوری نہیں.عورتیں مردوں کے کام نہیں کر سکتیں جب تک وہ شادی بیاہ ترک نہ کریں.مگر اسلام اس کو نا پسند کرتا ہے کہ عورتیں شادی نہ کریں.پس عورتوں کے لئے بہت مجبوریاں ہیں.حمل ہے ، وضع حمل ہے، بچہ کی پرورش ہے.مگر جب عورتیں نوکری کے لئے نکلیں گی تو ان کے ان طبعی کاموں میں رُکاوٹ ہوگی اور ان کا خاوندوں کے ساتھ رہنا مشکل ہو گا.پس یہ واضح بات ہے کہ عورت کا کام گھر میں ہے.عورتوں کے ہاتھ میں جماعت کی زندگی ہے.عورت بچوں کو ایسے طریق پر پرورش کر سکتی ہے کہ بچے دین کے خادم اور مخلص ہو سکتے ہیں.ضرورت ہے کہ عورت اپنے گھر کے فرائض سے واقف ہو اور اسلام نے اس کے جو فرائض رکھے ہیں اُن سے بھی آگاہ ہو.ہمارے لئے احمدیت ایک قیمتی ورثہ ہے.ہماری عورتیں اگر اپنی اولاد میں دین کو پختہ کر دیں تو وہ بڑا کام کریں گی.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو دین میں پختہ کر دیں اور ہماری نسلیں ہم سے زیادہ دین کی پابند ہوں.علوم نے ترقی کی ہے.مفید علوم سے ان کو واقف ہونا چاہئے تاکہ وہ اولاد کو اُن کی ابتدائی باتوں سے آگاہ کر لیں.مثلاً سائنس ، جغرافیہ وغیرہ.جو بچہ اپنی ماں سے یہ سُنے گا کہ زمین گول ہے اُس کو مدرسہ میں اس بات کے سمجھنے میں دقت نہیں ہوگی.جس طرح علوم ترقی کرتے ہیں اور پہلے علوم غلط یا ان کے سامنے نکتے ہو جاتے ہیں ایمان میں بھی ترقی ہوتی ہے.چاہئے کہ ہماری اولاد ہم سے
خطابات شوریٰ جلد اوّل مشاورت ۱۹۲۳ء ایمانی حالت میں ترقی یافتہ ہو.غرض اس وقت عورتوں کی تعلیم کا مسئلہ در پیش ہے.اس کے لئے سکیم تو بڑی سے بڑی بھی ہو سکتی ہے مگر ہمیں فی الحال ایسی سکیم کی ضرورت ہے جس پر ہم اس سال میں عمل کر سکیں.کسی قوم اور جماعت کے سارے لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے.ادنیٰ تعلیم یہ ہے کہ ہم اپنی جماعت کی مستورات کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں.پھر قادیان میں اعلیٰ تعلیم کا بھی سوال ہے کہ جماعت کی مستورات کو اعلیٰ دینی تعلیم دی جائے.(۲) سوال یہ ہے کہ عورتوں کی انجمنیں بنائی جائیں اس قسم کی ہم مذاق عورتیں جمع ہوں اور وہ دین کی خدمت اور دین کی معلومات پر غور کریں.پہلے بعض انجمنیں بنائی گئیں وہ ٹوٹ گئیں.پھر اب لجنہ اماء اللہ (اللہ کی لونڈیوں کی انجمن ) کے نام سے ایک انجمن یہاں بنائی گئی ہے.میں نے اس کی تحریک رسالہ احمدی خاتون میں جس کا میں نے اب نام تأديب النساء “ رکھ دیا ہے شائع کرا دی.اس میں غلطی سے یہ میری طرف منسوب کر دی گئی دراصل یہ میری منجھلی بیوی کی طرف سے ہے جو حضرت خلیفہ اول کی لڑکی ہیں.اس میں عورتوں کے لئے آسانی ہے اور پہلے اسے عام نہیں کیا گیا.“ اس کے بعد حضور نے رسالہ تادیب النساء سے لجنہ اماء اللہ کے قواعد پڑھ کر سنائے.پھر فرمایا کہ:- لجنہ اماءاللہ کی ممبر عورتوں کے فرائض میں یہ داخل ہے کہ غریبوں کی مدد کریں، خود لیکچر دیں، عام مضامین لکھے جائیں.میں نے لجنہ اماءاللہ کے ہفتہ وار جلسوں میں علوم کی فہرست اور ان کی مختلف کیفیت بتائی ہے کہ اس وقت دنیا میں اتنے علوم کام کر رہے ہیں اور یہ بات انہی پر چھوڑ دی کہ وہ ان علوم میں سے جو علوم چاہیں ہم اس کے ماہر سے ان کے لئے لیکچر دلوائیں گے تاکہ ان کی معلومات اور علم وعمل میں بہتری اور ترقی ہو.اس میں یہ بھی رکھا ہے کہ اس کی ممبر مستورات خواہ وہ امیر ہوں یا غریب مل کر کھائیں اور پھر یتامی اور غرباء کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلائیں اور اُن کی خدمت کریں.یتیم بچے جو کسی جماعت کا اچھا حصہ بن سکتے ہیں جب وہ ہر طرف سے سختی اور بے مہری دیکھتے ہیں تو اُن کے دل سے محبت اور نرمی غائب ہو جاتی ہے.پس جب وہ ان کو بلائیں گی ، اُن کی خدمت کریں گی اور ان سے حُسنِ سلوک سے کام لیں گی تو ان میں بھی اچھے احساسات پیدا ہوں گے اور ان کی
خطابات شوری جلد اوّل مشاورت ۱۹۲۳ء آئندہ زندگی درست ہو جائے گی.دل پر اثر ڈالنے والی اس قدر تقریر نہیں ہو سکتی جس قدر حُسنِ سلوک ہو سکتا ہے.جب ان سے عمدہ اور نرمی کا سلوک ہوگا تو وہ جماعت کا معزز اور بہترین رکن بن جائیں گے.غرباء سے میل ملاپ میں امراء بھی اپنی غرباء بہنوں کو عزت سے دیکھیں گی.پس قادیان میں تو لیکچروں کا انتظام ہو گیا مگر باہر دیہات میں جو اس انجمن کے نمونے پر انجمنیں ہوں گی ان میں اس قسم کے لیکچروں کا کیا انتظام کیا جائے گا.اس کے لئے بھی ایک سکیم ہونی چاہئے.دوسرا سوال جو مشورہ طلب ہے یہ ہے کہ ادنی اقوام اور ہندو قوموں میں تبلیغ کا کیا انتظام کیا جاوے.نمائندگان جماعت اپنے علاقہ کے حالات پر غور کر کے آئیں کہ ان کے نزدیک کس علاقہ کے ہندوؤں میں پہلے تبلیغ کا کام شروع کیا جائے.خصوصاً اس کے متعلق کہ ایسی کون سی قومیں جو ہندو کہلاتی ہیں لیکن بوجہ ادنیٰ حالت کے ہندو مذہب بیزار ہیں.اس سوال کا تعلق چوتھے سوال سے ہے جو یہ ہے کہ :- (۴) ارتداد کا سلسلہ جو راجپوتانہ میں جاری ہے اس کے دور کرنے کے لئے روپیہ بہم پہنچانے اور آدمی بہم پہنچانے پر غور کیا جائے گا.“ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس وقت دین کا داروغہ مقرر فرمایا ہے.اس ارتداد کے سلسلہ کو روکنے کے لئے ہم نے کام شروع کر دیا ہے میں نے اپنی جماعت کی طرف سے پچاس ہزار روپیہ کا اعلان کر دیا ہے.یہ دو اہم سوال تھے.روپیہ کے متعلق ایک تجویز یہ تھی کہ یہ تمام رقم جو پچاس ہزار کی ہے صرف چند با اثر اور صاحب ثروت احباب سے لی جائے.اور ایک یہ کہ چندہ عام کر دیا جائے.مگر اس خیال سے کہ مجلس مشاورت قریب تھی ابتدائی کام کے لئے روپیہ کی ضرورت تھی اس لئے میں نے یہ تجویز کی کہ کم از کم سو روپیہ رقم مقرر کی جاوے.زیادہ جو دینا چاہے دے.پہلے قادیان والوں کو مخاطب کیا.خیال یہ تھا کہ اگر مجلس مشاورت میں یہ فیصلہ ہو جائے کہ چندہ عام ہو تو پھر یہاں کے غریب بھائی شامل ہو جائیں گے اور اگر تحریک خاص رہی تو وہ لوگ تو داخل ہو ہی چکے ہیں.اس کے مطابق ایسے لوگوں نے اس
خطابات شوری جلد اوّل ۵۷ مشاورت ۱۹۲۳ء تحریک میں چندہ دیا ہے جن کی مالی حالت بہت کمزور تھی مثلاً ایسے جن کی تنخواہ بار بار) روپیہ ماہوار تھی اُنہوں نے بھی سو سو روپیہ دیا ہے.اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ اس چندہ کے متعلق کیا صورت اختیار کی جائے.بہر حال اب ایک فتنہ پیدا ہو گیا ہے اور یہ اسلام کے لئے مفید ہے جیسا کہ مشہور ہے.خدا شرے برانگیزد که خیرے ما دراں باشد اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام بھی ہے.خدایا شرے برانگیز که خیر اسلام دراں باشد پس اس فتنہ کے ذریعہ ہمیں ایسی اقوام کا علم ہو گیا ہے جن کا پہلے پتہ نہ تھا ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے اسلام کی اتنی اشاعت نہ کی جتنی ہمیں کرنی چاہئے تھی مگر خدا نے اب ہمارے لئے راستہ کھول دیا ہے اس وقت قربانیوں کی ضرورت ہے.بعض لوگ انتہائی تجاویز سنتے ہیں اور مایوس ہو جاتے ہیں.ہمارے لئے گھبرانے کی کوئی بات نہیں بلکہ سمجھو کہ ہمیں بہت بڑی بڑی قربانیاں کرنی ہیں.یہ مت سمجھو کہ ہماری قربانی آخری ہے بلکہ ہمیں بہت قربانیاں کرنی ہوں گی.یاد رکھو ہم اسلام کو نہیں پھیلا سکتے جب تک ایک ایک چیز قربان نہ کر دیں.ہم سے پہلے حضرت مسیح کے اصحاب نے گوسولی کے وقت حضرت مسیح کو چھوڑ دیا مگر مسیح کے بعد اُنہوں نے جانیں دے دیں اور بڑی اذیتوں سے دیں لیکن مسیح کے نام کو پھیلا دیا.اُنہوں نے جان دی، پاس پیسہ نہ رکھا.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایک گر وہ تھا جو Pauper کہلاتے تھے.یہ فقیر تھے انہوں نے اپنی ہر ایک چیز عیسائیت کی تبلیغ میں خرچ کر دی تھی یہ لوگ کنگال ہو گئے تھے.کیا ہم اسلام کے لئے اپنی ہر ایک چیز قربان نہیں کریں گے.اگر ہم ان سے بڑھ کر ہیں تو ہمیں ان سے بڑھ کر خرچ کرنا ہوگا.ہمارا مسیح موعود مسیح ناصری سے افضل تھا اس نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ واقعی وہ افضل ہے کیونکہ خدا نے اس سے وہی سلوک کیا جو افضلوں سے ہوتا ہے.اب ہمارے متعلق سوال ہے کہ ہم نے جو مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب ہیں، کیا قربانی کی ہے؟ جب تک ہم ثابت نہ کریں ہم افضل ثابت نہیں ہو سکتے.ابھی حافظ صاحب نے جو آیات پڑھی ہیں ان میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے کہ
خطابات شوری جلد اوّل ۵۸ مشاورت ۱۹۲۳ء موقع اور محل پر خرچ کرنا چاہئے اور ہر موقع کے مناسب ورنہ اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ موقع اور محل پر بھی نہ خرچ کیا جائے کیونکہ اگر یہ معنے ہوں تو اعتراض ہو گا کہ حضرت ابو بکر نے غلطی کی جو سارا مال دے دیا.پس سوال یہی ہے کہ موقع کے مناسب خرچ ہونا چاہئے.جیسا اہم موقع ہو اُسی کے مطابق خرچ کرنا چاہئے.ہماری جماعت کا فرض ہے کہ ہماری جماعت کے احباب اس فرض کو پورا کر دیں.یہ ضروری نہیں کہ ابھی سب کچھ دیں.جب ایسا وقت ہو گا کہ ہمیں سب کچھ ہی دینا چاہئے تو ہمیں اُس وقت سبھی کچھ قربان کر دینا چاہئے.مجھے نظر آتا ہے کہ اب شیطان کا سر کچلا جائے گا لیکن ابھی ایسا وقت آئے گا کہ کشتی بھنور میں ہوگی اور چاروں طرف سے حملے ہوں گے.دوسرا مشورہ طلب سوال اس میں یہ ہے کہ آدمی کیسے مہیا ہوں.میں نے پہلے ۱۵۰ آدمیوں کے متعلق اعلان کیا تھا کہ تین تین مہینہ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.اب تک ۱۷۰ درخواستیں آچکی ہیں لیکن کام کی رفتار دیکھ کر نہیں کہا جا سکتا کہ ہمیں کس قدر آدمیوں کی ضرورت ہے.اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا.ممکن ہے ایک وقت میں دو ہزار کی ضرورت پڑے.فی الحال میرا خیال ہے لوگوں کی مرضی پر رہنے دیا جائے اور اگر ضرورت پڑے تو لازمی طور پر سب کو زندگی وقف کرنی پڑے.ممکن ہے تین لاکھ کا سوال پیدا ہو.قرآن کریم میں آتا ہے وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَا مُرُونَ بالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ہے پس قرآن کریم کا منشاء ہے کہ ایک جماعت ہر وقت خدمت دین میں رہے اس لئے وقت آتا ہے کہ ساری جماعت اسی طریق پر اپنی زندگی وقف کرے اور ان کو یکے بعد دیگرے کام پر لگایا جائے.بہر حال اس پر غور کرنا چاہئے کہ کس طرح کام کیا جائے.پھر میں نے کام کے متعلق یہ سوچا ہے کہ تین طریق پر کام کیا جائے.(۱) دفاع (۲) حفاظت.(۳) حملہ.جب تک ان تینوں طریقوں پر عمل نہ کیا جائے اُس وقت تک دشمن کو شکست نہیں ہو سکتی.محض دفاع اور حفاظت سے دشمن کے منصوبے خاک میں نہیں مل سکتے جب تک Counter Attack نہ کیا جائے.پس ہمارے لئے وہاں دفاع کی ضرورت ہے جہاں دشمن کا حملہ ہو رہا ہے اور حفاظت کی وہاں ضرورت ہے جہاں مخالف کا حملہ نہیں مگر حالت نازک ہے، خطرہ ہے اور
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۵۹ مشاورت ۱۹۲۳ء حملہ وہاں کرنا چاہئے جہاں دشمن کے کمزور حصے ہیں.جب تک حملہ نہ ہو اُس وقت دفاع کرنے والے کمزور حالت میں ہیں جب تک دشمن کو اُس کے گھر ہی کی فکر نہ پڑ جائے اُس وقت تک کچھ نہیں ہو سکتا.پس اس وقت ہمیں یہ بھی انتخاب کرنا ہے کہ ہندوؤں کی کس قوم کو انتخاب کیا جائے.تیسرا سوال مشورہ طلب یہ ہے کہ : - سالانہ جلسہ گاہ کے لئے چونکہ جگہ کی تنگی ہے ایک مستقل جلسہ گاہ کے بنانے پر غور کیا جائے گا.اس امر کے متعلق فیصلہ کرنا ہے کہ موجودہ جلسہ گاہ جو ہر سال تیار ہوتا ہے باوجود انتہائی کوشش فراخ کرنے کے ناکافی ثابت ہوتا ہے اور اس میں اتنی گنجائش نہیں نہ کوئی صورت ہے کہ اس کو فراخ کیا جائے.سوال یہ ہے کہ جلسہ گاہ پختہ بنائیں.میدان میں بنائیں یا کیا صورت اختیار کریں اور پھر جلسہ گاہ مستقل ہونا چاہئے یا ہر سال عارضی ہی بنایا جائے؟ پانچواں سوال یہ ہے کہ : - لاہور میں احمد یہ ہوٹل کی مضبوطی اور اس کو وسیع کرنے کے سوال پر غور کیا جائے گا.“ یہ سوال نہایت ضروری ہے فی الحال ہم کالج نہیں بنا سکتے مگر ہمارے طلباء جو سکول کی تعلیم سے فارغ ہو کر کالجوں میں بغرض تعلیم داخل ہوتے ہیں ان کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے کہ وہ بداثرات سے بچیں اور اپنی مذہبی سیرت کو قائم رکھ سکیں.اس کے لئے یہ سوچنا ہے کہ اس کی کس طرح تجویز ہو کہ اس میں تمام لڑکے داخل ہوں.اور پھر اس پر خرچ بھی ہوگا اور یہ جماعت کے ایثار پر موقوف ہے.چھٹا سوال یہ ہے کہ : - جو لوگ اخلاق کا اچھا نمونہ نہیں دکھاتے یا ان کی زندگی ظاہری طور پر غیر اسلامی ہے اُن کے ساتھ کس طرح معاملہ کیا جائے.“ ہر جماعت میں منافق بھی ہوتے ہیں چنانچہ یہ لوگ مسلمانوں میں ہی تھے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی ہیں اور آپ پر عیب لگائے ہیں مثلاً یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ زینب کو شنگی نہاتے دیکھا اور عاشق ہو گئے.منافقوں نے اس قسم کے گندے اعتراضات آپ پر لگائے اور بعد میں آنے والوں نے نادانی سے ان منافقوں کی
خطابات شوری جلد اوّل مشاورت ۱۹۲۳ء روایتوں کو صحیح سمجھ کر اپنی کتابوں میں درج کر لیا.پس ایسے لوگ ہماری جماعت میں بھی ہیں اور ان کے اخلاق جماعت پر داغ ہیں.ضرورت ہے کہ ان کا علاج سوچا جائے ان کی وجہ سے جماعت کے نیک نام پر حرف آتا ہے.اگر وہ ہمارے ساتھ رہیں گے تو ان کی وجہ سے سلسلہ بدنام ہو گا مگر جب ہم بھی ان سے نفرت کریں گے تو جماعت بدنام نہیں ہو سکتی پس جو لوگ ایسے ہیں کہ ان کی زندگی غیر اسلامی ہے اور وہ اصلاح بھی نہیں کرتے.سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے کیا سزا ہونی چاہئے.یہ مراد نہیں کہ وہ سزائیں سیاسی ہی ہوں ہم ان کو اور سزائیں دے سکتے ہیں اگر ان کو سزا نہ دی جائے تو اس کا ہماری جماعت پر اثر پڑے گا.ساتواں مشورہ طلب سوال یہ ہے کہ :-.......زکوۃ کا فریضہ جو ارکانِ اسلام میں سے ہے اس کی ادائیگی کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جاویں اور اس کی طرف سے سستی کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاوے.“ اس میں شک نہیں کہ بعض لوگ ہماری جماعت میں فریضہ زکوۃ کے ادا کرنے سے غافل ہیں.بہت ہیں جو زکوۃ دیتے ہیں مگر اپنے اپنے مقامات پر ہی صرف کر دیتے ہیں حالانکہ زکوۃ کے متعلق حکم ہے کہ مرکز میں آئے.پس ہماری جماعت کی زکوۃ قادیان میں آنی چاہئے.اس کی نگرانی کی ضرورت ہے.زکوۃ کے مسائل سے عام واقفیت کی ضرورت ہے.حضرت ابو بکر نے تو زکوۃ کے تارکوں کو کافر کہا ہے.اب سوال یہ ہے کہ ہمیں ان سے کیا سلوک کرنا چاہئیے ؟ آٹھواں امر مشورہ طلب یہ ہے کہ : - پچھلے سال کی کارروائی پر مرکزی دفاتر اور باہر کی انجمنوں نے کیا کام کیا ہے؟“ رپورٹیں سُنائی جائیں گی جس میں بتایا جائے گا کہ مرکزی دفاتر والوں نے کیا کارروائی کی ہے یا نہیں کی اور اسی کے ساتھ باہر کی جماعتوں نے کہاں تک کام میں مدد دی ہے یا نہیں دی؟ اگر نہیں دی تو کیوں نہیں ؟ اس کا وہ جواب دیں گی.یہ وہ باتیں ہیں جن پر اس وقت غور کرنا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور کرم سے ہمیں وہ راستہ دکھائے جو انعام کا راستہ ہو ہماری عقلوں میں روشنی دے اور غفلتوں کو دُور کرے
خطابات شوری جلد اوّل ་་ مشاورت ۱۹۲۳ء تا کہ اس کے منشاء کے ماتحت کام کر سکیں.“ رپورٹ ناظر صاحب بیت المال ناظر بیت المال کی رپورٹ کارگزاری کے پیش ہونے اور سوال وجواب کے بعد بعض اور احباب نے بھی تقریریں کیں.ان کے بعد حضور نے فرمایا : - افسوس ہے بہت سے دوستوں نے سمجھا نہیں کہ رپورٹ پر تنقید کے کیا معنے ہیں.شیخ یعقوب علی صاحب، خانصاحب منشی فرزند علی صاحب نمائندہ سیالکوٹ اور نمائندہ اٹک اور شیخ کرم الہی صاحب پٹیالہ ان کی تقریریں اس وقت کے مطلب کے مخالف ہیں.ناظر بیت المال نے رپورٹ پیش کی ہے.اس پر اس طرح تنقید ہونی چاہئیے تھی کہ اس میں جو بتایا گیا ہے کہ فلاں بات ہوئی اور اس طرح ہوئی اگر اس میں غلطی ہوتی تو اس کی اصلاح کرائی جاتی.اور پھر زکوۃ کا سوال الگ ہوتا اور اس کے متعلق تجاویز الگ ہیں جب تک کسی بات کا فیصلہ نہ ہو نا ظر بیت المال کسی بات کے متعلق جوابدہ نہیں ہو سکتا.اب میں کچھ اور بیان کرتا ہوں.شیخ یعقوب علی صاحب کا لہجہ اطلاع حاصل کرنے کا نہ تھا یہ پارلیمنٹ نہیں ہے کہ اس میں ایک فریق کو دوسرے کے خلاف اُبھارنا ہے بلکہ یہ مجلس مشاورت ہے اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئی ہو تو اس کے متعلق سوال کیا جا سکتا ہے اعتراض نہیں کیا جا سکتا بعض لہجوں کا بھی اثر ہوتا ہے گو اُن لوگوں کی نیت یہ نہ ہو جو اُن کے لہجہ سے ظاہر ہوتی ہو مگر عادت کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہے.مثلاً جب یہ آیت نازل ہوئی کہ رسول کے سامنے بلند آواز سے نہ بولو تو ایک صحابی جن کی آواز بلند تھی چُپ ہو گئے اور مجلس میں آنا بند کر دیا کہ میں منافق ہوں میری آواز اونچی ہے مگر پھر ان کو سمجھایا گیا پس اگر بلند آواز سے ایسے لہجہ میں بولنے کی عادت ہو تو اپنے لہجہ اور آواز پر قابو رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.جو بات شیخ صاحب نے پوچھی ہے وہ دفتر سے متعلق ہے اس کا جواب یہاں دینا ضروری نہ تھا کیونکہ وہ دو تین سال انجمنوں سے الگ رہے ہیں اگر ان کو علم نہ ہو تو اس کا جوابدہ ناظر نہیں ہوسکتا.
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۶۲ مشاورت ۱۹۲۳ء چندہ خاص کے متعلق جو اعتراض ہوا ہے میں کسی زمیندار سے اس کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں کہ کماد (ایکھ یا گنا ) کس فصل میں شمار ہوتا ہے.ناظر بیت المال سے بھی غلطی ہوئی ہے لجنہ اماء اللہ کی حیثیت انجمن کی نہیں ہے بلکہ وہ بطور کلب ہے چندہ بدستور ہوں گے لجنہ کی غرض سوشل اصلاح ہوگی.“ دوسرا دن چند نظارتوں کی رپورٹس پیش ہونے کے بعد جب اُن سے متعلق سوال وجواب ہو چکے تو حضور نے فرمایا : - " ناظر صاحبان کی رپورٹوں کے متعلق سوالات ہوئے ہیں جو رپورٹیں ہوئی ہیں وہ ابھی مکمل نہیں جیسی ہونی چاہئیں.گو میں ان سے متفق نہیں جنہوں نے سوال کئے ہیں کیونکہ ان سوالات کے جوابات رپورٹوں میں موجود تھے.بعض رپورٹیں اس رنگ میں پیش نہیں ہوسکیں جس رنگ میں پیش ہونی چاہئیں اور پھر یہاں چند منٹ میں اس وقت وہ تمام سال کی رپورٹ نہیں سنا سکتے ہاں یہ بتا سکتے ہیں کہ ان کے کام کے کیا کیا نتائج نکلے.بعض سوالات ایسے ہیں کہ ان کا رپورٹ سے تعلق نہیں بلکہ وہ دفتر میں جا کر دریافت کرنے والی باتیں ہیں.رپورٹوں میں اعداد سے کام لیا جائے.چودھری فتح محمد صاحب ایک جہاد میں مصروف ہیں اس لئے یہ ٹھیک ہے کہ ان کے کام کے احترام کا تقاضا ہے کہ ان کے کام پر اس وقت بحث نہ کی جائے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے کہ ان کے کام کے متعلق کیا حقیقت ہے.انسان روحانی امراض خود محسوس نہیں کر سکتا مگر تندرست سمجھتا ہے کہ بیمار میں یہ بیماری ہے.رپورٹ کے متعلق مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ خانصاحب نے اپنی رپورٹ میں فقہ کی کتاب جو حافظ روشن علی صاحب نے تالیف کی ہے اس کا ذکر ایسے پیرا یہ میں کیا ہے جس سے طنز ہوتی ہے مثلاً خانصاحب کا یہ کہنا کہ خدا کا شکر ہے نو مہینہ کے بعد چند روز ہوئے ہیں حافظ صاحب نے تیار کر کے دی ہے یہ ایک طنز کا پہلو ہے خواہ خانصاحب کا یہ منشاء نہ ہو.اس میں کیا شک ہے کہ اگر حافظ صاحب نے نومہینہ میں بھی تیار کر دی تو بڑا کام کیا.یہ ایک علمی
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۶۳ مشاورت ۱۹۲۳ء کام ہے اس میں تحقیقات کرنی ہوتی ہے.اگر حافظ صاحب ایک دن میں تیار کر لاتے تو مجھے ان کے علم پر شک پڑ جاتا ایک اور بات قابل اصلاح ہے کہ بار بار رپورٹوں میں بھی اور سوال کرنے والوں کی زبان سے بھی لفظ نکلے ہیں.وہ یہ ہیں کانفرنس.حالانکہ یہ کا نفرنس نہیں بلکہ مجلس مشاورت ہے.جماعت کے احباب اپنے امام کو اس بات کے متعلق مشورہ دیتے جس کے متعلق وہ مشورہ طلب کرتے ہیں آئندہ کا نفرنس کی بجائے مجلس مشاورت کا لفظ استعمال کرنا چاہئیے.“ رپورٹ سب میٹی تالیف و اشاعت "سب کمیٹی کے سامنے دو تجویزیں تھیں :- سب کمیٹی تالیف و اشاعت کی رپورٹ پیش ہو رہی تھی کہ دوران رپورٹ حضور نے فرمایا:- اول فتنہ کے مقابلہ کے لئے مال مہیا کرنے کی کیا صورت اختیار کی جائے.دوسرے یہ کہ ہندو قوموں میں کون سی ایسی قومیں ہیں جن کو جلدی ہم اسلام میں داخل کر سکتے ہیں.یہ حصہ چونکہ اہم ہے اور اس وقت عام لوگ یہاں موجود ہیں اور ہر ایک آدمی محتاط نہیں ہوتا اس لئے اس حصہ کو فی الحال چھوڑا جاتا ہے اور اس پر علیحدہ گفتگو ہوگی.اس کے پہلے حصہ پر گفتگو کی جاتی ہے.اب چودھری صاحب ایک ایک تجویز پیش کریں گے اور ان پر گفتگو ہوگی.پہلی تجویز یہ ہے کہ ۱۵ اور ۶۰ سال کے درمیان عمر کے لوگ لازمی طور پر اپنی زندگی وقف کریں.“ اس کے متعلق بہت سے احباب نے اپنی آراء حضور کی خدمت میں پیش کیں جن کو سُننے کے بعد حضور نے فرمایا: - میں نے پہلے بھی دوستوں کو بتایا ہے اور اب بھی کہتا ہوں کہ محض تائید کے لئے کھڑے ہونا یا اسی بات کو دُہرانے کے لئے کھڑا ہونا درست نہیں.اس سے محض وقت ضائع ہوتا ہے.ہاں اگر آراء بغرض تائید و تردید پیش کی جائیں تو پھر تائید کے لئے کھڑے ہو کر بیان کر دینا چاہئے.اب جو اس موضوع پر تجویزیں پیش ہوئی ہیں وہ یہ ہیں :- (۱).وقف لازمی ہو اور ہر ایک شخص جس کی عمر ۱۵ سال سے ۶۰ سال تک ہو، اپنے آپ کو
خطابات شوری جلد اوّل وقف کرے.۶۴ مشاورت ۱۹۲۳ء (۲).تجویز یہ ہے کہ معذوروں سے روپیہ لیا جائے.(۳).تین ماہ سے کم وقت نہ لیا جائے..(۴).ایک مہینہ بھی وقت لیا جائے.یہ لوگ کامل مبلغ نہ ہوں گے بلکہ ان کو ضروری مسائل سے واقفیت ہوگی اور وہ کام کر سکیں گے چونکہ لازمی وقف کرنے کا سوال مستر د ہو گیا ہے اس لئے ایک مہینہ مدت کا سوال بھی گر گیا کیونکہ یہ اس کے ساتھ وابستہ تھا.“ اس کے بعد نمائندگان کی رائے لی.۶۹ را ئیں اس تجویز کی تائید میں تھی کہ مدت تین مہینہ ہونی چاہئے اور ۴۲ اس امر کی تائید میں تھیں کہ عام اجازت ہو اور مدت ایک مہینہ ہو.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ:-.آراء سے معلوم ہوتا ہے کہ کثرتِ رائے تین مہینہ کی تائید میں ہے.میں بھی ان لوگوں کی تائید میں ہوں جو تین مہینہ کی تائید میں ہیں.ابھی اس کو لوگوں کی مرضی پر چھوڑنا چاہئے کہ جس قدر اپنے آپ کو پیش کرنا چاہیں کریں.یا د رکھو وہاں دلائل کا اتنا کام نہیں جس قدر اخلاق اور معاملات کا دخل ہے.ایک مہینہ میں کسی شخص کے اخلاق سے اتنی واقفیت نہیں ہو سکتی جتنی کہ ضرورت ہے.نمونہ اور اخلاق کا اثر بھی واقفیت کے بعد ہوتا ہے.میرے نزدیک ہمارے آدمی زیادہ ہونے چاہئیں.شدھی میں وہ لوگ بہت سے آدمیوں کو لے کر جاتے ہیں جن کے رعب کے نیچے آ کر وہ لوگ شدھ ہو جاتے ہیں.اگر ایسے وقت میں ہمارے آدمی بھی کثرت سے پہنچ جائیں تو وہ لوگ اس سے رُک جائیں.ہمیں اپنی جماعت کے اخلاق پر شک کرنے کی ضرورت نہیں.ضرورت اور حالات پر موقوف ہے ہمیں جس قدر آدمیوں کی ضرورت ہے وہ ملیں گے.ہاں ایک حصہ اور ہے کہ وہ مدرسین اور طلباء جو تین مہینہ کے لئے نہیں جا سکتے اُن سے دو ہی مہینہ لئے جائیں گے.قادیان کے مدارس کے اساتذہ چونکہ سارا سال ہی خدمت دین پر لگے رہتے ہیں اور اگر ہم ان کو تین مہینہ کی رخصت دیں تو باقی کام بند ہو جائیں ان کا مرکز میں رہنا مفید ہے کیونکہ یہ دوسروں کو تیار کر سکتے ہیں.اس لئے ہم ان کو بجائے تین ماہ کے دوماہ کی ہی اجازت دے دیں گے.“
خطابات شوریٰ جلد اوّل مشاورت ۱۹۲۳ء دوسری تجویز یہ تھی کہ جو لوگ مجبوری سے نہ جاسکیں وہ خرچ دیں.اس پر گفتگو ہونے کے بعد حضور نے فرمایا کہ:- یہ سوال نتیجہ ہے لازمی خدمت کے سوال کا کہ جب لازمی خدمت رکھی جائے اور ایک شخص معذور ہو کہ وہ اس خدمت میں شامل نہ ہو سکے مگر اس کے دل میں شوق اور جوش ہوا ایسے لوگوں کے لئے کوئی صورت ہونی چاہئیے کہ ان کے دل کو تسلی ہو جائے جبکہ حج بدل ہوتا ہے کہ ایک شخص کو خرچ دے دیا جاتا ہے اور خرچ دینے والے کو حج کا ثواب ملتا ہے اس لئے ہمیں معذوروں کو مستی کرنا ہوگا اور معذور کی ایک تعریف کرنی ہوگی.“ فرمایا که دوست رائے دیں چنانچہ رائیں لی گئیں :- (۱) تجویز کے حق میں ۸۴ اور دوسری کی تائید میں ۱۸ ہوئیں.فرمایا کہ: - د ۸۴ را ئیں اس بات کی تائید میں ہیں کہ معذوروں کے لئے بھی رخصت نہیں کہ وہ 66 نہ جائیں اور ۱۸ اس کے خلاف ہیں.“ فرمایا : - چونکہ اب یہ سوال سامنے آ گیا ہے اس لئے اس کی عام اجازت تو ہونی نہیں چاہیے کیونکہ اس سے امراء کا طبقہ محض روپیہ دے کر پیچھے رہ جائے گا ہاں جن لوگوں کو واقعی معذور خیال کیا جائے اُن سے تین مہینہ کا خرچ لیا جا سکتا ہے لیکن معذور کی تعریف یہ ہوگی کہ ان لوگوں کو معذور سمجھا جائے گا جو بیماری کی وجہ سے چار پائی سے نہ اُٹھ سکیں یا چل پھر نہ سکتے ہوں یا عورتیں یا ایسا بیمار کہ جس کی بیماری لمبی اور اس کی طاقت سلب ہوگئی ہو.پس اس تعریف کے مطابق تین قسم کے لوگ ہو گئے.(۱) بیمار جو اُٹھ نہ سکیں.(۲) عورتیں (۳) ایسے بیمار جو نقل و حرکت نہ کر سکیں اور ان کی بیماری لمبی ہو وہ تین ماہ کا خرچ دے دیں اُن کا خرچ دینا ایسا سمجھا جائے گا کہ گویا اُنہوں نے اپنی ذات سے خدمت کی.“ اس کے بعد دو پہر کا وقفہ ہو گیا.وقفہ کے بعد اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی تو حضور نے فرمایا : -
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۶۶ مشاورت ۱۹۲۳ء بقیہ سوالات میں سے ایک بات رہ گئی تھی.معذوروں کے متعلق بحث تھی معذوروں میں وہ احمدی بھی سمجھے جائیں گے جو ہندوستان کے باہر غیر ملک کے رہنے والے والے ہیں وہ بھی اپنی طرف سے خرچ دے سکتے ہیں افریقہ، عراق، مصر، عرب وغیرہ علاقوں کے احمدیوں کے متعلق بھی یہی سمجھا جائے گا.ایک اور ضروری بات ہے جو رہ گئی ہے گو اس کا ایجنڈے سے تعلق نہیں ہے مگر انتظام کے لئے اس پر عمل کیا جانا ضروری ہے اور اس پر عمل کرنے سے فائدہ ہوگا اور اس سے دوسرے کام کی واقفیت ہو گی.میں نے جب نظارتوں کے متعلق اعلان کیا تھا تو لکھا تھا کہ کچھ لوگ ایسے ہوں جو وقتاً فوقتاً ان محکمہ جات کا معائنہ کرتے رہیں کہ کام درست ہو رہا ہے یا نہیں.میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ یہاں کام کرتے ہیں دیانت دار ہیں، قربانیاں اُنہوں نے کیں مثلاً ان میں بعض گریجویٹ ہیں اور وہ ۳۰ ، ۳۰ روپیہ ماہوار گزارہ لے کر یہاں کام کر رہے ہیں اور جو اُن سے کم قابلیت اور استعداد کے لوگ ہیں وہ زیادہ تنخواہ لیتے ہیں اور پھر بعض لوگوں کے پاس کئی کئی کام ہیں مثلاً قاضی اکمل صاحب کے پاس چار پانچ کام ہیں پس یہاں کے احباب قربانی، دیانت سے کام کرتے ہیں جہاں تک میں جانتا ہوں لیکن اگر واقف کار لوگ بعض اوقات ان کے دفاتر کا معائنہ کریں تو غلطیوں کی اصلاح ہو سکتی ہے.اس کے لئے میں احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ دفاتر کے معائنہ بغرض اصلاح کے لئے احباب جو دفاتر کے کام سے واقف ہوں اپنے نام پیش کریں.“ اس پر بعض نام پیش کئے گئے اور پھر پیغام اتحاد کے متعلق تجاویز پیش ہونا شروع ہوئیں.پہلی تجویز غیر احمدیوں کو بلانے کے متعلق یہ تھی کہ :- (1) اُن سے ایک معاہدہ لیا جائے.(۲) جس علاقہ کے غیر احمدی ہمارے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیں وہاں کے ذمہ وار احمدی احباب سے ان کے متعلق دریافت کیا جائے.(۳) کسی جگہ غیر احمدیوں کی تعداد احمدی مبلغوں سے زیادہ نہ ہو.حضور نے اس کے متعلق فرمایا کہ:-
خطابات شوری جلد اوّل ۶۷ مجلس.مشاورت ۱۹۲۳ء ” یہ سوال جو اس وقت پیش ہے اس پر تین قسم کے خیالات ہیں.اُن سے معاہدہ لیا جائے ، ان کو لیا ہی نہ جائے اور ان کی تعداد بیس فیصدی رہے کہیں نہ بڑھے.بعض کہتے ہیں کہ شرائط مطبوعہ سے زیادہ شرائط عائد نہ کی جائیں.بعض کہتے ہیں یہ شرطیں اب بڑھائی جاتی ہیں جو درست نہیں.پیشتر اس کے کہ میں اس کے متعلق فیصلہ کروں، میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ مشورہ اِس امر کے متعلق دیا جا سکتا ہے جس کے متعلق میں طلب کروں جو میں نے فیصلہ کر دیا ہو اس کے متعلق مشورہ نہیں ہو سکتا پس یہ بات تو فیصل شُدہ ہے کہ غیر احمدی ہم سے مل کر کام کر سکتے ہیں کیونکہ میں قبل از وقت اعلان کر چکا ہوں.اب رہے دوسرے امور کہ ان کو کس طرح لیا جائے.میں سمجھتا ہوں کہ اس کے متعلق لفظی بیچ ہے.شرط زبان عربی کا لفظ ہے.اُردو میں ہدایت کے معنوں میں بھی استعمال کرتے ہیں لیکن عربی میں ایسا نہیں پس جن دو آخری باتوں کو یہاں شرطیں قرار دیا گیا ہے یہ شرطیں نہیں احتیاطیں یا ہدایتیں ہیں.شرط تو صرف یہ ہے کہ وہ ہمارے ماتحت کام کریں گے.یہ بات شرط نہیں ہے کہ ہم اُن کے متعلق تحقیقات کریں کہ وہ کیسے لوگ ہیں اور کس غرض سے شامل ہوتے ہیں اور یہ بات بھی ان سے تعلق نہیں رکھتی کہ ان کی تعداد ہمارے آدمیوں سے کسی جگہ نہ بڑھے.اس کا تعلق ہمارے کارکنوں سے ہے.بعض نے کہا ہے کہ دونوں سے تحریر لی جائے.علیحدہ تحریر کی ضرورت نہیں کیونکہ میں کسی کی بھی زبانی درخواست قبول نہیں کرتا.احمدی بھی تحریری درخواست دیتے ہیں اور جو غیر احمدی اس کام میں ہمارے ساتھ شامل ہوں گے وہ بھی تحریری درخواست دیں گے.اب ایک یہ سوال ہے کہ ہم ان کو کیوں بلاتے ہیں؟ اس کے جواب میں ایک صاحب نے کہا ہے کہ تا ان پر ظاہر ہو کہ ہم کس طرح کام کرتے ہیں لیکن یہ پیغام میں نے دیا ہے اور میں ہی بتا سکتا ہوں کہ میں نے کس نیت سے دیا ہے.سو یہ غلط ہے کہ ہم ان کو اپنا کام دکھانا چاہتے ہیں بلکہ میری نیت اور غرض محض یہ ہے کہ جس قدر زیادہ کام کرنے والے آدمی ہوں گے اُسی قدر کام ہو گا.دشمن کا حملہ قوی ہے ممکن ہے کہ تعداد کے لحاظ سے وہ ہمارے سنبھالے نہ سنبھلے لیکن جب وہ ایک قوم ہے جو لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ
خطابات شوری جلد اوّل ۶۸ مشاورت ۱۹۲۳ء کہتی ہے اور آریہ اس کے درپے ہیں کہ وہ اس کلمہ کو چھڑوا دیں اور کافر کر دیں.ایسی صورت میں کیا ہمیں اپنی ذات کو نہیں بھول جانا چاہئیے ؟ وہ ہمیں جو چاہیں کہیں لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو گالیاں نہ دیں.اس صورت میں ہمیں تو وہ گالیاں دیں گے ہی مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی گالیاں دیں گے.اگر وہ لوگ شیعہ ہوں یا حنفی ہوں یا اہلحدیث ہوں اس سے بہتر ہیں کہ وہ آریہ ہوں کیونکہ شیعہ،حنفی ، اہلحدیث وغیرہ ہو کر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہیں دیں گے ہمیں دیں گے.اس کی ہمیں پرواہ نہیں مگر آریہ ہو کر ہمیں بھی دیں گے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی گالیاں دیں گے.میں جانتا ہوں کہ غیر احمدیوں میں کام کی روح نہیں.ان میں استقلال نہیں کہ مستقل ہو کر دشمن کا مقابلہ کر سکیں لیکن جتنا بھی وہ اس وقت تبلیغی اور دماغی کام کریں غنیمت ہے.آخر یہ کام ہمیں نے کرنا ہے.وہ لوگ وہاں جا سکتے ہیں جہاں ان کو آرام ملے.یہ جنگلوں میں بھوکے پیاسے پھرنا ان کے بس کا کام نہیں.پس ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے سوال پر اپنی عزت کو قربان کرتے ہیں.ہمیں یہ گوارا ہے کہ وہ ہمیں جو چاہیں کہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے نہ ہوں.میرے نزدیک اگر یہ سوال پیدا ہو کہ کیا تم پسند کرتے ہو کہ آیا یہ سیح موعود کو گالیاں ملیں یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو؟ تو ہم کہیں گے گو ہم نہیں چاہتے کہ دونوں میں سے کسی ایک کو بھی ملیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بیچ سکے تو مسیح موعودؓ کو ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدم نہیں کریں گے.علاوہ اس کے جولوگ ہمارے ساتھ کام کریں گے ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ضرور حق کے قبول کرنے کی توفیق ملے گی کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو فرمایا تھا جب اُس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! جو نیکیاں میں نے حالت کفر میں کی تھیں ان کا مجھے کچھ بدلہ ملے گا تو آپ نے فرمایا أَسْلَمْتَ بِمَا اَسلَفتَ یہ اسلام تیرے پہلے نیک کاموں کا بدلہ ہے.پس جو لوگ خدمتِ اسلام شوق اور درد اور اخلاص سے کریں گے اللہ تعالیٰ ان کی خود رہبری کرے گا اور ان کو صداقت کے قبول کرنے کا موقع مل جائے گا.یہ خیال غلط ہے کہ ہماری اس میں پالیسی مد نظر ہے پالیسی نہیں بلکہ محض یہ آرزو ہے
خطابات شوری جلد اوّل ۶۹ مشاورت ۱۹۲۳ء کہ اس نازک وقت میں اسلام کی خدمت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکے.“ حضور نے چندہ خاص کی تحریک کرتے ہوئے پچاس ہزار روپیہ کی رقم مقرر چندہ خاص فرمائی تھی.اس کے متعلق تین باتیں زیر غور آئیں :- (۱) چندہ عام ہو.(۲) خاص لوگوں سے لیا جائے.(۳) کہ رقم مقرر ہو جائے.ان کی بابت جب نمائندگان شوری اپنی آراء دے چکے تو حضور نے فرمایا : - اس وقت جو سوال در پیش ہے وہ یہ ہے کہ پچاس ہزار روپیہ کس طرح وصول کیا جائے؟ اس کے لئے مختلف صورتیں پیش کی گئیں.کسی نے کہا اگر جوش سے اس وقت فائدہ نہ اُٹھایا گیا تو فائدہ نہ ہوگا.جو خاص چندہ کی تحریک کی تائید میں ہیں وہ اس کو قسط اول کہتے ہیں اور کہتے ہیں اس کے بعد عام لیا جائے.بیچ میں یہ بھی سوال ہے کہ فوراً ہونا چاہئیے.یہ کہنا کہ جماعت میں اگر عام تحریک ہوئی تو کامیاب نہ ہو گی یہ جماعت کی ہتک ہے.بے شک ہماری جماعت کمزور ہے مگر اس کا اکثر چندہ غرباء ہی کی طرف سے آیا ہے.یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کا ہے اللہ تعالیٰ خود اس کا متولی ہے.ہر ایک کام میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال رہتی ہے.اس میں نہ جماعت کا دخل ہے نہ خلیفہ کا بلکہ اس کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی بہم پہنچاتا ہے اور جن کی ضرورت ہوگی غیب سے اس کے سامان ہو جائیں گے.گھبراہٹ کی ضرورت نہیں.یہ تو پچاس ہزار کا سوال ہے.اگر ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ نہایت آسانی سے پچاس لاکھ روپیہ ہم کر دے گا.کوئی سچا سلسلہ مالوں کی کمی سے تباہ نہیں ہوسکتا.کیونکہ خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے.اگر جماعت کے لوگوں کی ہی جائیداد کا اندازہ کیا جائے تو بارہ لاکھ کی کم از کم جائیداد تو قادیان میں احمد یوں ہی کی ہوگی.اور خود ہماری ذاتی جائیداد کا اندازہ کیا جائے تو دو لاکھ کی ہوگی.اگر اسلام کے لئے اس کی ضرورت ہو تو ہم ایک منٹ کے لئے بھی اس کو اپنے قبضہ میں نہیں رکھیں گے اور ہماری ہندوستان کی ساری جماعت کے اموال و جائیداد کا اقل اندازہ دو کروڑ ہوگا.اگر
خطابات شوری جلد اوّل مشاورت ۱۹۲۳ء اسلام اس کا مطالبہ کرے گا تو ہماری جماعت کے اخلاص پر شک کرنے کی ضرورت نہیں.پس اگر وہ وقت آ جائے کہ ہمیں اپنی ایک ایک چیز اسلام کی راہ میں صرف کئے بغیر اسلام نہ بچ سکتا ہو تو ہم سب کچھ خوشی سے قربان کریں گے جب ہماری جانیں اس راہ میں قربان ہیں تو جائیدادوں کا سوال ہی عبث ہے پس جب ہم تحریک کو خاص کرتے ہیں تو اس کے معنے ہیں کہ ہم اپنی جماعت کے بڑے حصہ کو ریز رو کرتے ہیں کہ ان سے اس وقت لیں گے جب ضرورت ہوگی اور وہ بڑا حصہ ہوگا.دلائل دونوں قسم کے احباب نے سُن لئے ہیں.اب اصحاب رائے دیں.66 آراء بدیں طور تھیں.(۱) چندہ خاص کی تائید میں : ۷۵ (۲) چندہ عام والے: ۳۶ (۳) وہ اصحاب جن کی رائے میں ایک حصہ چندہ خاص ہو ایک عام ہو : ۴ فرمایا:- ” میرا میلان طبیعت بھی اُدھر ہے جس طرف آراء کی کثرت ہے.لفظ ” خاص‘ تشریح طلب ہے.یہ لفظ کسی خصوصیت کے لئے نہیں بولا جاتا.میرے نزدیک اگر ایک شخص ایک پیسہ دیتا ہے وہ بھی خاص ہے.اخلاص کے ساتھ اس کا تعلق نہیں بلکہ یہاں خاص سے صرف یہ مطلب ہے کہ جو ذی ثروت ہیں یا جو ذی ثروت نہیں.یہ چند لوگ ہیں.چندہ عام سے یہ مراد نہیں کہ عوام الناس یا ادنی لوگ بلکہ اس کے معنے ہیں ذی ثروت کی قید اُڑا کر تمام جماعت سے چندہ لیا جائے.پس میں ان کی تائید میں ہوں جو کہتے ہیں کہ یہ پچاس ہزار روپیہ ذی ثروت لوگوں سے لیا جائے اور باقی تمام جماعت کے لوگ جو بڑی رقم نہیں دے سکتے ریز رو ر ہیں.جس شخص نے یہ دلیل دی ہے کہ چندہ خاص دیا کرتے ہیں اور عوام کا رہ جایا کرتا ہے، یہ جماعت کے اوپر ایک حملہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ ہمارا زیادہ چندہ غرباء ہی کی طرف سے آتا ہے.اس وقت ہم ان کو ریز رو رکھنا چاہتے ہیں کہ جس وقت ہمیں زیادہ چندہ کی ضرورت ہوگی اُس وقت لے لیں گے.وہ چندہ تھوڑا اس لئے نہیں دیتے کہ وہ زیادہ دینا نہیں چاہتے بلکہ اس سے زیادہ وہ دے نہیں سکتے.اگر دیکھا جائے تو ہماری
خطابات شوری جلد اوّل اے مشاورت ۱۹۲۳ء جماعت کے غرباء کا چندہ میزان میں اُمراء سے بڑھا ہوا ہوتا ہے.اول تو ہماری جماعت میں اُمراء ہیں ہی نہیں، جو ہیں وہ ہماری جماعت کی نسبت سے ہیں اور نبیوں کی جماعتوں کا یہ طریق ہے کہ ان میں ابتداء شامل ہونے والے اور اس کے ناصر غرباء ہی ہوتے ہیں.اب جیسا کہ یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ چندہ ذی ثروت احباب سے لیا جائے.اب یہ فیصلہ ہو جانا چاہئیے کہ کیا رقم معتین کی جائے؟ کیا نام بھی معین کئے جائیں.بعض صاحبوں نے کہا کہ رقمیں تین قسم کی رکھی جائیں.سو یا پچاس یا چھپیں.“ اس پر گفتگو ہونے کے بعد حضور نے فرمایا کہ:- ”میرے نزدیک دوست اپنی اپنی آراء ظاہر کر چکے ہیں اب ووٹ دیں.۱۲ آراء اس امر کی تائید میں تھیں کہ نام اور رقم مقرر ہو یعنی فلاں شخص اتنا، فلاں اتنا.۶ آراء اس امر کی تائید میں تھیں کہ رقم مقرر نہ ہو اور آدمی مقرر ہوں.(۳) اس خیال کے احباب کی رائیں تو ظاہر ہو ہی گئی ہیں جو کہتے ہیں کہ چندہ معین ہو اور نام مقرر نہ ہوں (ایسے احباب کی کثرت نمایاں تھی اس لئے شمار نہیں کیا گیا ) پس کم از کم ایک رقم مقرر کی جائے اور زیادہ کے لئے پابندی نہ کی جائے.اب دوست بتلائیں کہ کتنی رقم ہو.“ عام آوازیں آئیں کہ سو روپیہ.فرمایا :- مالی معاملہ کے متعلق جو مشورہ دیا ہے وہ صحیح ہے اس لئے میں اسے قبول کرتا ہوں میں پسند کرتا ہوں کہ کم از کم سو روپیہ ہی ہو.اس وقت انہی سے خطاب ہے خواہ وہ امیر ہیں یا غریب جو کم از کم سو روپیہ دے سکتے ہیں زیادہ جس قدر ان کے دل کی آرزو ہو اور باقی بوقت ضرورت تمام جماعت سے لیں گے.“ اس کے بعد حضور نے فرمایا:- ”میرے خطبے اور تحریروں میں یہ بات آچکی ہے کہ اس فتنہ کی صورت میں خدا نے اپنے سلسلہ کے لئے سامان پیدا کیا ہے.جب تک خدائی سلسلوں کی ترقی کے لئے عام اور غیر معمولی حالات نہ ہوں اس وقت تک جماعت ترقی نہیں کرتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
خطابات شوری جلد اوّل ۷۲ مشاورت ۱۹۲۳ء مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے.وہی اسلام جو عام حالات میں چار سو سال میں پھیلتا ، اس نے ہجرت کے بعد بہت ترقی کی.عرب میں اس واقعہ نے ایک آگ سی لگا دی.مکہ والوں نے چاہا کہ مدینہ پر جائیں اور وہاں مسلمانوں کو خراب کریں.وہ چڑھ کر آئے اور ان کو شکست ہوئی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملے والوں کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ ملک والوں کو ملائیں.وہ لوگ عرب میں پھیل گئے اور اُنہوں نے اسلام کے مٹانے کے لئے پورے سامان کئے.پہلے عرب کے لوگ اس کو گھر کی لڑائی خیال کرتے تھے لیکن جب مدینہ پر چڑھ کر آنے سے مکہ والوں کو شکست ہوئی تو ان کو ادھر توجہ ہوئی اور وہ مکہ والوں کے ساتھ متفق ہو گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی اور اس طرح اسلام ان کے گھروں میں گھس گیا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بیرونی سلطنتوں نے ، ایرانیوں اور رومیوں نے چاہا کہ مسلمانوں پر حملہ کریں اور مسلمانوں کو عرب کی زمین سے مٹا دیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دل میں ڈالا وہ اپنی حفاظت کے لئے اپنے وطنوں سے نکلیں.ایرانیوں اور رومیوں کے حملوں کو دیکھ کر مجبوراً ان کے مقابلہ کے لئے نکلنا پڑا.یہ اللہ تعالیٰ کی ایک تدبیر تھی.مسلمان جو اپنے گھروں سے اپنے قوی دشمن.سے جان بچانے کیلئے نکلے تھے دشمن پر فاتح ہوئے.اور دشمن کے ملک ان کے ملک ہو گئے.یہ ایک تدبیر تھی جس سے اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ مسلمان دُنیا کو فتح کریں.آج ہمارے لئے ان غیر معمولی سامانوں سے بعض پیدا کئے گئے ہیں.ہند و تبلیغ کرتے ہیں اور اُنہوں نے ہزاروں ملکانوں کو شدھ کر لیا ہے.یہ ایسے خطر ناک اور روح فرسا حالات ہیں کہ ان سے روح کا نپتی ہے اور جسم پر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ عام مسلمان اس فرض سے غافل ہیں یعنی وہ نہیں جانتے کہ وہ اس وقت کیا کریں، کس طرح کریں اور اُن کا فرض کیا ہے؟ میں نے تاریخ میں ایک واقعہ پڑھا تھا جس وقت وہ مجھے یاد آتا ہے تو جسم پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.ایک دفعہ عیسائیوں نے مسلمانوں کی سرحد پر چھاپا مارا اور ایک عورت کو پکڑ کر لے گئے.اس وقت اس نے مسلمان بادشاہ کا نام لیا اور کہا کہ وہ کہاں ہے
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۷۳ مشاورت ۱۹۲۳ء اگر مسلمان اس طرح اس کے ملک میں غیر محفوظ ہیں تو وہ کیا کرتا ہے.ایک مسلمان نے یہ پیغام سنا اور بادشاہ کے دربار میں پہنچا دیا.گو اس وقت مسلمانوں کی سلطنت کمزور ہو رہی تھی مگر ان میں ایمان باقی تھا.بادشاہ نے جونہی اس عورت کا پیغام سنا اس نے تلوار اُٹھائی اور لبیک لبیک کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہو، ملک کے لوگ اس کے ساتھ شامل ہوئے اور وہ اس عورت کو چُھڑا لائے.جب ایک عورت کے لئے جو کلمہ پڑھتی تھی ایک مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے جسم کو ہلاکت سے بچائے.تو جب ہم دیکھیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ کو ماننے والوں کی روحیں ہلاکت کی طرف لے جائی جا رہی ہیں اس وقت ہماری ذمہ داری کتنی بڑی ہوئی ہے.کیا ہم اس لئے پیچھے رہیں گے کہ وہ غیر احمدی ہیں.کیا ہم اس لئے ان کو ارتداد سے بچانے نہ جائیں گے کہ ان کے مولوی ہمیں کا فر اور ہمارے آقا مسیح موعود کو دجال کہتے اور ہمیں ہر ایک قسم کا نقصان جو وہ پہنچا سکتے ہوں پہنچانا عین ثواب خیال کرتے ہیں؟ ہمارا فرض ہے کہ ہم اشاعتِ اسلام کے لئے کھڑے ہوں اور اس راہ میں جو بھی قربانی کرنی پڑے وہ کریں نہ صرف ان مسلمانوں کو ارتداد سے بچائیں بلکہ اُن کو بھی اسلام میں لائیں جو ان کو اسلام سے چھین کر لے جانے کے درپے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ضرب ہے.اس سے مسلمانوں کو بیدار ہونا چاہئیے.ہم کو چاہئیے کہ ملکانوں کو ارتداد سے بچائیں مسلمانوں کو ان کے فرض سے آگاہ کریں اور ہندوؤں کو اسلام میں داخل کریں.اب ہماری جماعت کے اخلاص دکھانے کا موقع ہے.اب تک ہمیں جان قربان کرنے کے مواقع نہیں ملے تھے مگر اب یہ دروازے کھل گئے ہیں ان پر افسوس ہو گا جو داخل نہ ہوں.خدا کی طرف سے ایک دفعہ دروازے کُھلا کرتے ہیں جو انکار کر دیں وہ محروم ہو جایا کرتے ہیں.حضرت موسیٰ کی قوم کے لئے اللہ تعالیٰ نے الہام کا دروازہ کھولا مگر وہ لوگ ابتلاؤں سے ڈر گئے.اس لئے ان کو الہام سے محروم کر دیا گیا.خدا نے کلام کیا.پہاڑ پر زلزلہ آیا اور وہ ڈر گئے.حالانکہ نعمتیں مشکلات ہی کے بعد ملا کرتی ہیں.ایک بیر کانٹے کے بغیر نہیں ملتا.گلاب کا پھول ملتا ہے مگر ہاتھ میں جب کانٹا چُھ چکے.جب یہ ادنی چیزیں بھی مشکلات ہی کے بعد ملتی ہیں تو خدا کس طرح آرام سے مل سکتا
خطابات شوری جلد اوّل ۷۴ مشاورت ۱۹۲۳ء ہے.پس جو خدا سے ملنا چاہتا ہے اس کو کانٹوں کی نہیں تلواروں کے زخموں کی برداشت پیدا کرنی چاہئیے.جو خدا کو چاہتا ہے وہ تلوار کے گھاؤ کھانے کے لئے تیار ہو، وہ جان دینے کے لئے تیار ہو.فی الحال تین مہینہ کے لئے زندگی وقف کرنے کا مطالبہ ہے.ممکن ہے کہ ان سے اس سے زیادہ وقت کی قربانی کا مطالبہ کیا جائے.وہ جنہوں نے پچاس ہزار دینا ہے ممکن ہے کہ وقت آنے پر ان کو وہ سب کچھ دینا پڑے جو ان کے پاس ہو.لیکن میں کہتا ہوں ہم کیا دیں گے اپنا کچھ بھی نہیں جو ہو گا وہ خدا کا ہوگا.ہم بیعت کے وقت اقرار کر چکے ہیں کہ دین کو دُنیا پر مقدم کریں گے.اس لئے اگر ضرورت ہو تو سب کچھ دیں اور اب امتحان کا وقت ہے.ہمارے سامنے صرف ملکانوں کا سوال نہیں سارے ہندوستان کو مسلمان بنا لینے کا سوال ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے.ہے کرشن رو ڈ رگو پال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے.گیتا میں آپ کا ذکر اسی لئے تھا کہ آپ کے ذریعہ ہندوؤں میں تبلیغ اسلام ہو.یہ خدا نے تین ہزار سال پہلے ہمارا فرض ٹھہرا دیا ہے کہ ہم ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کریں گے.ہمیں اُس وقت تک ہندوستان میں کام کرنا ہے جب تمام ہندوستان میں متحدہ طور پر یہ آواز بلند ہو.وو غلام احمد کی جے اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک ہندو اقوام بحیثیت جماعت کے اسلام میں نہ داخل ہوں.اگر ہم ساری دُنیا کو بھی مسلمان بنا لیتے اور اس طرف توجہ نہ کریں تو ہمارا فرض ادا نہ ہوتا.پس وقت ہے کہ جو لوگ جس قدر قربانی کر سکتے ہیں کریں اور تیار رہیں کہ ابھی ان کو اور بھی خدمت اور قربانی کے موقع ملیں گے.اسلام پر نازک وقت ہے یہ ہنسی کا وقت نہیں جس طرح ماں مرجاتی ہے اور نادان بچہ اس کے منہ پر طمانچے مارتا ہے کہ ماں تو کیوں مخول کرتی ہے.اگر اس کو معلوم ہو کہ ماں مخول نہیں کرتی مرگئی ہے تو اس کا کیا حال ہو گا.تم خود سمجھ لو.اسی طرح اسلام پر دشمن کا جو حملہ ہے اگر اس کو پورے طور پر سمجھ لیا جائے تو کوئی قربانی اس کے انسداد کے لئے مسلمان اُٹھا نہ رکھیں.پس وقت ہے میں جانتا ہوں کہ لوگوں میں اخلاص ہے علم نہیں جب تک دوسرں کو اس خطرہ کی اہمیت کا علم نہ دیا جائے وہ قربانی کے لئے تیار نہیں ہو سکتے پس جو یہاں موجود ہیں ان کا فرض ہے کہ اپنے اپنے مقامات پر
خطابات شوری جلد اوّل ۷۵ مشاورت ۱۹۲۳ء جائیں اور جماعتوں کو اس فتنہ کی اہمیت سے آگاہ کریں اور دیگر مسلمانوں کو بھی بتائیں اسوقت جو رقم چندہ رکھی گئی ہے وہ گل سو روپیہ ہے جن لوگوں کو خدا نے سو دیا ہے وہ سو دیں اور جن کے پاس زیادہ ہے وہ زیادہ دیں.اس معاملہ کی اہمیت کو سمجھیں اور پھر جس قد ر خدا ان کو توفیق دے دیں.“ اس کے بعد حضور نے چندہ کا اعلان فرمایا سب سے پہلے جنرل اوصاف علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ سی.آئی.اسی کے پانچ سو کے چیک (CHEQUE) کا اعلان فرمایا اس کے بعد احباب نے رقوم پیش کرنا شروع کیں.جن کی مقدار اُس وقت دس ہزار کے قریب ہو گئی تھی اور ۴ ہزار اس سے پہلے قادیان کا شامل کر لیا جائے تو پندرہ ہزار کے قریب رقم ہو جاتی ہے.سب کمیٹی تعلیم و تربیت کی رپورٹ پیش ہونے اور بحث ورائے شماری کے تعلیم نسواں بعد حضور نے فرمایا: - عورتوں کی تعلیم کے متعلق جو مشورہ ہوا ہے میں نے اس میں رائے نہیں دی کیونکہ باقی سوالات اُن سوالات کے ساتھ وابستہ تھے.مثلاً احمد یہ مدارس کا ہونا.جہاں مدارس نہ ہوں وہاں اپنے مدارس کھولنا.احباب کی کثرت سے رائے ہے کہ اپنے مدارس ہونے چاہئیں.اگر اپنے مدارس نہ ہوں تو سرکاری مدارس میں داخلہ لازمی نہ رکھا جائے.دوسرا سوال یہ ہے کہ عورتوں کے لئے نصاب کیا رکھا جائے.اس سال کے لئے اقل سے اقل جو نصاب تجویز ہوا ہے وہ یہ ہے کہ نماز با ترجمہ اور قاعدہ يَسرنا القرآن کی تعلیم ہو اور اس کی تائید میں ایک سو ایک رائیں ہیں اور اس کے خلاف پانچ رائیں ہیں باقی باتیں ہدایتیں ہیں.قادیان کے سکول کی ترقی کا سوال لوکل حیثیت رکھتا ہے.جو اہم سوال ہے وہ یہ ہے کہ جماعت میں بتدریج تعلیم کو ترقی دی جائے.اس میں شبہ نہیں کہ اگر ہم درجہ بدرجہ عورتوں میں تعلیم کو ترقی نہ دیں تو ہم وہ ترقیات حاصل نہیں کر سکتے جن پر جماعتوں کی تمدنی فلاح اور استحکام موقوف ہوتی ہے.جن بچوں کی مائیں تعلیم یافتہ نہیں ہوتیں اُن کے خیالات میں وہ درخشانی نہیں ہوتی جو اُن بچوں کے
خطابات شوری جلد اوّل ۷۶ مشاورت ۱۹۲۳ء دلوں میں اور دماغوں میں ہوتی ہے جن کی مائیں پڑھی ہوئی ہوتی ہیں جو مائیں پڑھی ہوئی ہوتی ہیں وہ اپنے بچوں کو ان ابتدائی مسائل سے آگاہ کر دیتی ہیں جن سے اُن مدارس میں جا کر واسطہ پڑتا ہے.مثلاً جو بچہ اپنی ماں سے اپنے گھر میں یہ سُنتا رہا ہے کہ زمین گول ہے جب وہ مدرسہ میں جا کر یہ سبق پڑھے گا تو اس کے لئے یہ بات کوئی تعجب انگیز نہیں ہوگی مگر برخلاف اس کے وہ لڑکا جو اپنے گھر میں اس قسم کی باتیں نہیں سنتا رہا بلکہ وہ ان قدیم خیالات کو سنتا رہا ہے جو مروج ہیں جب وہ سکول میں جائے گا تو اس کے لئے ان جدید تحقیقات کے مطابق ثابت شدہ حقیقت کہ زمین گول ہے کا ماننا دقت طلب ہوگا.پس یہ ضروری اور لازمی ہے کہ عورتوں کو ایک حد تک تعلیم دی جائے.میرے نزدیک تعلیم دلائی جائے اور جہاں تک ہو سکے احمد یہ مدارس ہونے چاہئیں اور جب تک نہ ہوں سرکاری مدارس میں بھی تعلیم دلائی جائے لیکن وہاں تعلیم دلانا لازمی نہ ہو کیونکہ انسان جن کے ماتحت تعلیم پاتا ہے ان کے اثر کو قبول کرتا ہے.مردوں اور عورتوں کے دماغ میں فرق ہے.مسمریزم کا اثر بہ نسبت مرد کے عورت پر زیادہ ہوتا ہے.اسی طرح عورتیں جن کے ماتحت تعلیم پائیں گی ان کے خیالات سے ضرور متاثر ہوں گی اور پھر ایک دقت یہ ہے کہ عورتوں کی تعلیم پر دے میں ہوتی ہے اس لئے اس کی نگرانی نہیں ہو سکتی اس لئے ہم اس رائے کے خلاف ہیں کہ باوجود تمام خطرات کے پھر تعلیم دلوائی جائے مگر جہاں ان خطرات کا خوف نہ ہو وہاں تعلیم دلوائی جاسکتی ہے.یہ حکیم جو نماز با جماعت اور قاعدہ میسر نا القرآن عورتوں کے لئے تجویز کی گئی ہے.اس کی تائید میں بہت زیادہ رائے ہیں اتنی کہ کسی معاملہ میں اتنی اکثریت نہیں لیکن میں اس کے خلاف ہوں.میں ان لوگوں کے ساتھ متفق ہوں جو کہتے ہیں کہ اتنی تعلیم نہیں ہو سکتی.میں نے تجربہ کیا ہے کہ جو عورتیں بیعت کرنے آتی ہیں وہ کلمہ تک نہیں پڑھ سکتیں اور یہی حال مردوں کا ہے.اگر مردوں کا ذمہ لیا جائے کہ وہ پچاس فیصدی بھی اس نصاب کو پورا کریں گے تو سال میں عورتوں کے متعلق بھی ذمہ لیا جا سکتا ہے مگر جب مردوں کے متعلق نہیں تو عورتوں کے متعلق کیسے لیا جا سکتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ کورس زیادہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ عورتوں کو نماز سادہ اور کلمہ با ترجمہ پڑھا دیا جائے.ہاں جو جانتی ہیں ان کو زیادہ تعلیم
خطابات شوریٰ جلد اوّل LL مشاورت ۱۹۲۳ء دی جائے ان کے لئے فقہ اور حدیث وغیرہ مضامین پڑھائے جائیں.ہاں ایک مدرس یا ممتحن مقرر کیا جائے جو ہر جگہ دورہ کر کے امتحان لے اور معلوم کرے کہ کیا عورتیں اس نصاب کو پورا کر چکی ہیں.طریق یہ ہو کہ ان کے مردوں کا پہلے امتحان لیا جائے اگر پاس ہوں تو ان کے ذریعہ عورتوں کا لیا جائے.یہ نہیں تو جو عورت جانتی ہواس کے ذریعہ امتحان لیا جائے.رہا قادیان کا لوکل سکول اس کو بھی ترقی دی جاسکتی ہے مگر سرکاری Aid لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر ہم وہ لیں گے تو ہم اپنے حسب منشاء تعلیم نہیں دے سکیں گے.جیسا کہ ہمارے لئے بعض وقتیں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے متعلق در پیش رہتی ہیں.ہم ایک بات جاری کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں جواب ملتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو Aid نہیں ملے گی پس ہمیں اس کو ترقی دینا چاہئے اور اس کے لئے ہمارے پاس کتابیں موجود ہیں اردو میں تاریخ اسلام اور مسائل کی کتابیں پڑھائیں.احادیث ، جغرافیہ وغیرہ پڑھائے جاسکتے ہیں اور ان کو ان کے فرائض سے آگاہ کیا جائے ورنہ جس قسم کی تعلیم سرکاری سامان کی ہوتی ہے اس سے تو عورتیں اور سب کام چھوڑ کر مردوں میں شکایت کرتی رہتی ہیں.پس ہمارے لئے وہ تعلیم ہو سکتی ہے جس سے عورتیں دین سے آگاہ ہوں اور اپنے فرائض کو سیکھیں اور بس.سرکاری مدارس کے متعلق میرا خیال ہے کہ تیسری جماعت یا سات سال تک سرکاری مدارس میں تعلیم ہو.اس کے بعد گھر میں تعلیم دلوائی جائے.“ ایک سوال یہ اُٹھایا گیا کہ : - ”جو لوگ اخلاق کا اچھا نمونہ نہیں دکھاتے اُن سے کیا سلوک کیا جائے“ اس بارہ میں کثرتِ رائے سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ ایسے لوگوں کو سمجھایا جائے اگر پھر بھی اصلاح نہ کریں تو بائیکاٹ کیا جائے.اس پر حضور نے فرمایا: - میں کثرت سے اتفاق کرتا ہوں.بعض لوگ جماعت کے کاموں کے عہدوں پر ہوتے ہیں ان میں وہ رذائل اخلاق ہوتے ہیں جن سے جماعت بدنام ہوتی ہے.اُن کو معہدوں سے معزول کر دینا چاہئے.دشمنوں کے پاس ہمارے خلاف ایک زبر دست حربہ ہو گا کہ ان کے ذمہ دار لوگ ایسے ہیں.جب دشمن دیکھے گا کہ ایسے لوگوں کی جماعت قدر نہیں
خطابات شوریٰ جلد اوّل ZA مشاورت ۱۹۲۳ء کرتی بلکہ اُن سے نفرت کرتی ہے تو جماعت کے خلاف اُس کا یہ حربہ بیکار ہو جائے گا.ایسے لوگوں سے نفرت کا سلوک ہونا چاہئے.جماعت کے لوگوں کو محسوس ہو کہ ایسے لوگوں کی عزت نہیں اور خود ان کو بھی اصلاح کا خیال پیدا ہو.جو لوگ اپنی اصلاح نہیں کریں گے جماعت کا حق نہیں ہوگا کہ خود بخود اُن کو عہدوں سے معزول کر دے، بائیکاٹ کر دے بلکہ اُن کو مرکز میں اطلاع دینی ہوگی اور پھر مرکز سے ایک مبلغ بھیجا جائے گا جو تحقیقات کرے گا پھر اس کے متعلق مرکز سے احکام جاری ہوں گے.کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ اپنی ذاتی رنجشوں کے باعث ایک دوسرے کے خلاف خواہ مخواہ ہی فتنہ کھڑا کر دیں.اگر تحقیقات کے بعد کوئی شخص مجرم ثابت ہو گا تو اس کو جماعت سے نکال دیا جائے گا.“ اختتامی تقریر آخر میں حضور نے فرمایا : - اب میں دُعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے احباب کو اس ذمہ داری کے اٹھانے کی توفیق دے اور ہم جماعت کے امتیاز کو ثابت کریں.ہمارے دل مومنوں کے دل ہوں، ہم اپنے اعمال و حرکات اور اخلاق سے ثابت کریں کہ ہم میں اسلام ہے اور اسلام خدا کا دین ہے اور اس کے آثار و نشانات ہم میں ہیں.ہم سے وہ باتیں ظاہر ہوں جو سچے دین والوں سے ظاہر ہوتی ہیں اور خدا کی طرف سے ان کو ملا کرتی ہیں جو لوگ خدا کے لئے کام کرتے ہیں اُنہی کو اُس کی طرف سے مدد و نصرت ملتی ہے.خدا نے ہمارے کامیابی کے راستے کھول دیئے ہیں جن کے ذریعہ انسان خدا تک پہنچ جاتا ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس رستہ پر ڈالا ہے جو اس نے اپنے تک پہنچنے کے لئے کھول دیا ہے.یہ وقت نازک اور ذمہ داری کا ہے ایسے وقت کبھی کبھی آتے ہیں سستی سے اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے.دوستوں کو چاہئے کہ اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور مخلص لوگ اپنی جانوں کو خدا کی راہ میں دینے کے لئے تیار ہوں اور مال وزر دینے پر ہی غافل نہ ہوں.یہ مت سمجھو کہ عالم ہی خدمت دین کر سکتے ہیں.نہیں.ہر ایک شخص خدمت دین کر سکتا ہے.علماء کا کام صرف ان کو سنبھالنا اور تیار کرنا ہے.اشاعت اسلام کا کام محدود کام نہیں بہت وسیع ہے.جب تک سب کے سب اس کام کے لئے تیار اور آمادہ نہیں ہوں گے اُس
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۷۹ ง مشاورت ۱۹۲۳ء وقت تک وہ اپنے فرض سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے.جو احباب یہاں تشریف لائے ہیں وہ اپنی اپنی جماعتوں میں جائیں اور جا کر ان میں اس کام کے متعلق احساس پیدا کریں اور جماعت مستقل طور پر اس کام میں لگ جائے.اب میں دُعا کرتا ہوں احباب بھی کریں.“ ( مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء) ا.تاریخ طبری جلد ۳ صفحه ۱۶۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء ال عمران : ۱۰۵
خطابات شوری جلد اوّل ΔΙ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء منعقده ۲۰ تا ۲۲ / مارچ ۱۹۲۴ء) پہلا دن مجلس مشاورت منعقدہ ۲۰ تا ۲۲ مارچ ۱۹۲۴ء کا افتتاح کرتے ہوئے حضور نے دُعا دعا وو سے متعلق فرمایا: - چونکہ ہمارے تمام کام اور تمام اعمال تبھی نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور تائید حاصل ہو اور جبکہ بار یک در باریک اور مخفی در مخفی ایسے اسباب پیدا ہو سکتے ہیں کہ جن کے نتیجہ میں انسان ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے اس لئے ہم ہر لحظہ خدا کی مدد کے محتاج ہیں.ہماری عقلیں خطا سے خالی نہیں.ہو سکتا ہے کہ خدا کی مدد اور ہدایت کے بغیر ٹھوکر کھا جائیں.پس پیشتر اس کے کہ مجلس کی کارروائی شروع ہو، دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہمیں غلطیوں سے بچائے، سیدھا راستہ کھولے، اپنا منشاء ہم پر الہام اور القاء کرے تا کہ ہم سب کام اس کی مرضی کے مطابق کریں اور اس کی منشاء سے سرمو ادھر اُدھر نہ ہوں.“ افتتاحی تقریر تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- ہمارے جمع ہونے کی غرض ” آج آپ لوگ اسلام اور قرآن کریم کے احکام کی تعمیل میں اس غرض کے لئے اس جگہ جمع ہوئے ہیں کہ بعض اہم دینی امور میں خلیفہ وقت کو مشورہ دیں اور اس طرح تعاون و تناصر کر کے اس کام میں شریک ہو کر خدا کے فضل اور نصر توں کو حاصل کریں.جیسا کہ میں نے بار ہا اعلان کیا ہے اس قسم کی مجلس مشاورت اسلامی احکام کے ماتحت ہے اس لئے کسی صورت اور کسی حالت میں بھی
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہم جو ا کٹھے ہوئے ہیں تو محض اس لئے کہ خدا کی رضاء کے ماتحت اور اُس کی منشاء کے ماتحت اسلام کی خدمت کے لئے ایسے امور پر غور کریں کہ جن کا نتیجہ اسلام کی مدد، نصرت ، تائید اور ترقی ہو.اسی لئے یہاں ہمارا جمع ہونا دینی کام اور عبادت ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو اس میں شامل ہونے کے لئے آیا ہے وہ ابْتِغَاءَ لِمَرْضَاتِ اللہ کے لئے آیا ہے پس جب کہ ہماری آمد کی غرض صرف یہی ہے کہ اللہ کی رضا حاصل کریں تو ہمارے مشورہ ، ہمارے کلام، ہماری باتوں میں یہی مد نظر رہنا چاہئے.مشورہ دیتے وقت بعض دفعہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ میرے مقابلہ میں یا میری تردید میں فلاں بات کہی گئی ہے اس صورت میں انسان کا نفس جو اس کی تاک میں لگا رہتا ہے کہ اسے بچے رستہ سے دُور کروں جھٹ اپنا کام شروع کر دیتا ہے.اُس وقت اُس کے محبت کے جذبات کو سرد اور آنکھ کو دُھندلا کر دیتا ہے اور حسد کا شعلہ جوش مارتا ہے.اُس وقت یہی بات اس کے مد نظر ہوتی ہے کہ اپنی بات پوری کرے.اُس وقت کوئی چیز اُسے نہیں روکتی نہ اخلاص روکتا ہے نہ محبت.میں اُمید کرتا ہوں کہ جو دوست اللہ کی مرضی کے لئے یہاں آئے ہیں وہ اس بات کو مد نظر رکھیں گے اور کوئی بات اشارتا بھی ایسی نہ کریں گے جو خدا کی مرضی کے خلاف ہو اور جس میں حسد اور بغض کا شائبہ ہو.وہ خدا کے لئے مشورہ دیں گے، خدا کے لئے کسی اور کی تائید کریں گے اور خدا کے لئے کسی بات کی تردید کریں گے.اس کے بعد مختصراً ان باتوں کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو سال میں پیش آئی ہیں یا جو پچھلی مجلس مشاورت کو مد نظر رکھ کر بیان کرنا ضروری ہیں یا اب جو مجلس منعقدہ ہوئی ہے اس کے لئے ضروری ہیں.سب سے پہلے اُن امور کو لیتا ہوں جو مجلس مشاورت سے تو تعلق نہیں رکھتے مگر سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسے ہیں جن سے واقف کرنا ضروری ہے:.ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری جماعت کی طرف منسوب ہونے والے دو فتنہ بہائی تین آدمی جن سے بعض لوگ شناسا ہیں، ان کی دینی حالت اور تقویٰ تو ایسا نہ تھا کہ جماعت میں کوئی رُتبہ رکھتے تھے مگر چونکہ وہ کام ایسے پر تھے کہ لوگ اُن سے واقف تھے اور وہ لوگوں سے واقف اُنھوں نے غداری سے سلسلہ کے خلاف ایسی کارروائیاں کی ہیں کہ جن کی کسی شریف انسان سے توقع نہیں کی جاسکتی.وہ تین شخص ہیں محفوظ الحق علمی ، مہر محمد خان
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء اور اللہ دتہ.ان کے متعلق یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ وہ مخفی طور پر بہائیوں کی تعلیم پھیلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں.ایک کے متعلق تو سُنا ہے کہ وہ آیا ہی اسی غرض سے تھا اور دوسرے اُس کے اثر کے نیچے آکر بہائی ہو گئے.مذہبی معاملہ میں ہماری فراخ حوصلگی جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں.مذہبی معاملہ میں ہم لوگ تنگ دل نہیں ہیں.ہم ایسے حوصلہ سے مخالفین کی باتیں سنتے ہیں کہ دوسرے برداشت ہی نہیں کر سکتے.میں اپنا ہی ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.مصر کے سفر میں تین آدمی ہندوستانی اُسی جہاز پر سوار تھے جس پر میں تھا.وہ ولایت پڑھتے تھے ، گھر ملنے آئے تھے اور پھر واپس جا رہے تھے.وہ تین سال ولایت رہ آئے تھے اور اس رہائش سے دہر یہ ہو گئے تھے.اُن کو جو احمدیت سے مخالفت ہو سکتی تھی وہ ظاہر ہے.اُنھوں نے مجھ سے مذہبی گفتگو شروع کی جو نہی اُنہوں نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا اُنھوں نے سمجھا کہ یہ مذہبی آدمی ہے اس لئے گفتگو کرنے لگ گئے.شروع گفتگو میں ہی انہیں معلوم ہو گیا کہ میں احمدی جماعت سے تعلق رکھتا ہوں اس سے وہ اور بھی جوش دکھانے لگے.حضرت مسیح موعود اور سلسلہ پر ایسے گندے حملے کرنے لگے کہ ان کو برداشت کرنا مشکل تھا لیکن میں نے انہیں یہ معلوم نہ ہونے دیا کہ میں حضرت مسیح موعود کا لڑکا ہوں تاکہ وہ آزادی سے اعتراض کر سکیں.اُنھوں نے بڑے بڑے سخت حملے کئے.جھوٹے ، فریبی ، دُکاندار وغیرہ کہا اور عجیب عجیب تمسخر کرتے رہے.جب وہ سارے تیر چلا چکے اور میری گفتگو سے دبنے لگے اور اپنے خیالات کی اُنہیں غلطی محسوس ہوگئی اور اُنھوں نے اقرار کیا کہ اُن کے خیالات میں تغیر پیدا ہو گیا ہے تب میں نے بتایا کہ میں حضرت مسیح موعود کا لڑکا ہوں.اِس پر وہ مجھ سے معافی مانگنے لگے اور کہا کہ آپ نے پہلے کیوں نہ بتایا ؟ میں نے کہا اس لئے نہیں بتایا تھا تا کہ آپ لوگ آزادی سے اعتراض کریں.اگر میں بتا دیتا تو یورپ کی اُس تہذیب کی وجہ سے جو اُنھوں نے سیکھی تھی یہی کہتے کہ وہ سچے تھے اور جو گند اُن کے دلوں میں تھا اُسے ظاہر نہ کرتے اور وہ دُور نہ ہو سکتا.اسی طرح تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے یہاں ایک ڈاکٹر آیا جو بہائی تھا اُس کو ہم نے بطور مہمان رکھا ، اپنے مکان میں اُتارا.وہ اپنے خیالات پھیلاتا رہا.کئی لوگوں نے کہا کہ اس کو
خطابات شوری جلد اوّل ΔΙ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء نکال دینا چاہئے تا اس کا بد اثر کسی پر نہ ہولیکن میں نے کہا تم بھی اپنے خیالات اُسے سُنا ؤ.ا پس ہم اس بارہ میں تنگ دل نہیں.ہم غداری کو برداشت نہیں کر سکتے مگر یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی ہم سے غداری اور دھوکا کرے.اگر کوئی کسی اور مذہب کو پسند کرتا ہو تو آئے اور اپنے خیالات اور اعتراضات پیش کرے تا کہ اگر ہم ان کا ازالہ کر سکیں تو کریں.مگر انھوں نے نہ صرف اپنا خیال ظاہر نہ کیا بلکہ در پردہ دوسرے لوگوں کو متاثر کرنا چاہا اور ان کو کہا کہ وہ ان باتوں کو مخفی رکھیں تا کہ ان کے شکوک رفع نہ ہوسکیں.پھر اس سے بڑھ کر اُنھوں نے غداری یہ کی کہ ایسی حالت میں ان کا موں پر مامور رہے جن کی غرض اشاعت احمدیت ہے.وہ تنخواہ اس کام کے لئے لیتے رہے مگر کام اس کے خلاف کرتے رہے اور بعض مضامین بھی خلاف لکھے.ان کی مثال ایسی ہے کہ ایک آدمی کو روپیہ دیں اور کہیں کہ ہمارے لئے زمین خرید و.وہ جائے اور کہے کہ میں نے تمہارے لئے زمین خریدی ہے مگر در پردہ اپنے نام زمین لکھا لے.ایسا شخص ایک غدار اور فریبی سمجھا جائے گا لیکن اس سے بڑھ کر وہ غدار اور فریبی ہے جو دین میں ٹھگی کرتا ہے.ایسے شخص کی شکل بھی دیکھنا ہم پسند نہیں کرتے.پھر ایسا شخص اگر یہ کہے کہ جو مذہب ہم نے قبول کیا ہے وہ اس لئے آیا ہے کہ اخلاق کی اصلاح کرے اور یہ سب سے اعلیٰ مذہب ہے، تو کس قدر جھوٹا ہوگا.اس مذہب سے بدتر کوئی مذہب نہیں اور اس سے بڑھ کر جنون نہیں ہوسکتا.اگر ایسے مذہب کے ماننے والے یہ کہیں کہ وہ اصلاح کے لئے آیا ہے تو ایسے لوگوں کو یا تو پاگل کہا جائے گا یا پرلے درجہ کے بے شرم اور بے حیا جو اتنا بھی نہیں جانتے کہ اخلاق کیا ہوتے ہیں.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شخص یہاں آیا اور کہنے لگا میں نے سلسلہ احمدیہ کو سمجھ لیا ہے اور بیعت کرنا چاہتا ہوں مگر اپنے علاقہ میں جا کر نہیں بتلاؤں گا کیونکہ وہاں ابھی اور کوئی احمدی نہیں.پہلے جماعت تیار کروں گا پھر ظاہر ہو جاؤں گا.میں نے کہا تم کیا جماعت تیار کرو گے جو اپنے آپ کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے.جاؤ بھی ظاہر ہونے کی جرات پیدا کرو پھر بیعت کرنا.وہ کسی کا نوکر نہ تھا بلکہ ایک پیشہ ور یعنی سُنا ر تھا مگر باوجود اس کے
خطابات شوری جلد اوّل ۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء میں نے اجازت نہیں دی کہ نفاق سے اُن لوگوں میں رہے اور اُن کے ساتھ نماز پڑھے.اُس نے یہ بھی کہا تھا کہ گھر پر نماز پڑھ لیا کروں گا مگر میں نے کہا اپنے آپ کو ظاہر کرنا چاہئے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ تم کون ہو.منافقت کی انتہاء مگر بہائی بننے والوں نے یہ غداری کی کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو نمازیں پڑھاتے رہے حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ ہم غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے جو محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سچا اور سب نبیوں کا سردار اور قرآن کریم کو قابلِ عمل جانتے ہیں.مگر یہ کہتے ہیں کہ قرآن منسوخ ہو گیا اور بہاء اللہ کا درجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا ہے.وہ غیر احمدی جنہوں نے ہمارے بزرگوں کو قتل کیا ہم اُن کو ان سے ہزار درجہ اچھا سمجھتے ہیں کیونکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عزت سے لیتے ہیں.مگر وہ شخص جو محد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتا ہے کہ ان کی لائی ہوئی شریعت منسوخ ہوگئی اور بہاء اللہ کا درجہ آپ سے بڑا ہے ، اُس کے ساتھ ہمارا ذرا بھی تعلق نہیں ہوسکتا.ہمارا قاتل ہم پر کفر کا فتویٰ لگانے والا ، ہمیں گھر بار سے جُدا کرنے والا، ہمیں بیوی بچوں سے علیحدہ کرنے والا ہمیں دشمن سمجھتا ہے.گو ہم اس کو اپنا بھائی ہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے تعلق خدا کے لئے ہیں اور سب انسان چونکہ خدا کی مخلوق ہیں اس لئے ہمارے بھائی ہیں لیکن بہائیوں کے متعلق...ان کا رویہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ غیر احمدیوں کا یا پیغامیوں کا ہمارے متعلق ہے.کونسا دُکھ ہے جو غیر احمدیوں نے ہمیں نہیں دیا اور نہیں دے رہے اور پیغامیوں نے ہم سے کون سی کمی کی ہے.خواجہ صاحب نے لکھا تھا کہ سب سے بڑا فتنہ یہ مبائعین کا گروہ ہے اور یہ سب سے بدتر ہے.غیر احمدیوں کے متعلق کسے معلوم نہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے تو انہوں نے آپ کا مصنوعی جنازہ بنایا اور اس طرح ہمارے کلیجوں کو چھلنی کیا مگر بہاء اللہ کے جنازہ میں کئی مسلمان کہلانے والے شریک ہو گئے حالانکہ وہ شریعت اسلامیہ کو منسوخ قرار دیتا ہے مگر ہم اُن کی تقلید نہیں کر سکتے.اُن کی مخالفت ہم سے اس لئے نہیں کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی غلامی میں نبی آیا بلکہ ذاتی وجوہ کی وجہ سے مخالفت کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو بہائیوں کی ہم سے زیادہ مخالفت کرتے مگر ان سے تعلقات رکھتے ہیں حالانکہ وہ شریعتِ اسلامیہ کو منسوخ سمجھتے ہیں.
خطابات شوری جلد اوّل ۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء ہمارے تعلق خدا کے لئے ہیں مگر ہمارے تعلق چونکہ خدا کے لئے ہیں اور جو خدا اور اس کے رسول کو چھوڑتا ہے اُس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں.اس لئے میں نے اعلان کیا ہے کہ چونکہ یہ لوگ احمدی نہیں رہے اس لئے جماعت سے خارج کئے جاتے ہیں اور چونکہ اُنھوں نے ہم سے غداری اور فریب کیا ہے اس لئے جماعت ان سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھے سوائے انسانی ضروریات کے کہ جو زندگی بسر کرنے کے لئے ضروری ہیں.مثلاً سودا دینا یا کنویں سے پانی لینے دینا.پس انسانی حقوق کو چھوڑ کر جو تمدنی حقوق ہیں ان کے متعلق اعلان کرتا ہوں کہ اُن سے کوئی سلوک جائز نہیں مگر یہ انہی کے متعلق ہے، بہائیوں کے لئے نہیں.ان کو تو ہم چاہتے ہیں کہ تبلیغ کریں مگر ان لوگوں نے جو غداری کی ہے اس کی یہ سزا ہے اور یہ ویسا ہی سلوک ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کی جنگ سے پیچھے رہنے والوں سے کیا تھا کہ ان سے بات تک نہ کریں.اُس سے ان کا جُرم بڑا ہے.وہ غلطی سے پیچھے رہے تھے مگر انہوں نے غداری کی ہے.غداری کی تازہ مثال ان کی غداری کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ اخبار فاروق جو عُریاں طور پر احمدیت کی تبلیغ کرنے والا اخبار ہے اور جو غیرت میں اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ بعض اوقات ہم کو اُسے روکنا پڑتا ہے، اس میں تنخواہ دار ملازم ہو کر محفوظ الحق نے ایک مضمون لکھا ہے جس میں بہائی مذہب کی تائید کی ہے مگر یہ ظاہر نہیں کیا.اس مضمون کو پڑھ کر ہر احمدی یہی سمجھے گا کہ اس سے مسیح موعود علیہ السلام مراد ہیں مگر دراصل اس سے بہاء اللہ مراد لیا گیا ہے.چنانچہ لکھا ہے.مسد ” اے اُمتِ مرحومہ وہ دیکھ اِس تیرہ و تاریک رات میں رحمت کا فرشتہ فضل کا چراغ لئے ہوئے دُور سے چلا آ رہا ہے.اے اُمتِ مسلمہ ! آنکھیں کھول اور دیکھ کہ عنایت الہی کے بلند جھنڈے لیکر نصرت خداوندی کا لشکر آ پہنچا ہے.اسلام کا روحانی تاجدار پھر ظاہر ہو گیا.ربانی فوج جذب حق کے اسلحہ سے صلح ہو کر نمودار ہو گئی.یہ وہ فوج ہے جس کا وعدہ ابتداء سے تھا.دیکھو خدا نے اس جماعت کے ظہور کا وعدہ کیسے زبر دست الفاظ میں فرمایا ہے.وربك المني ذُو الرَّحْمَةِ
خطابات شوری جلد اوّل مشاورت ۱۹۲۴ء إن يشأ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِف مِنْ بَعْدِكُمْ مَّا يَشَاءُ كَمَا انْشَاكُمْ من ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ أَخَرِينَ اِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَاتٍ وَمَا انْتُمْ بِمُعْجِزِينَ لا (اے محمد صلے اللہ علیہ وسلم ) تیرا رب غنی اور ذوالرحمت ہے اس لئے اس کو پرواہ نہیں.چاہے تو اے مسلمانو! تمہیں ہلاک کر دے اور جس کو چاہے تمہارا جانشین بنائے.جیسا کہ تم کو دوسرے لوگوں کی ذریت سے پیدا کر کے ایک جماعت بنایا ہے.بے شک یہ بات جس کا تم کو وعدہ دیا جا رہا ہے کہ تمہاری ہلاکت پر ایک اور جماعت کھڑی کی جاوے گی، یہ وعدہ یقیناً ظہور میں آنے والا ہے اور تم کسی طرح اس وعدہ کو پورا ہونے سے روک نہیں سکتے.یہ آیت جماعت موعودہ کے ظہور کے لئے نہایت صاف ہے.اس کی تائید میں ( سورۃ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) کی آخری آیت بھی ہے.وان تتولوا يستبدل قوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا امْنا لَكُمْ یا اگر اے مسلمانو! تم منہ پھیر لو گے تو خدا تعالیٰ ایک قوم تمہاری جگہ لائے گا جو تم سے بڑھ کر ہوگی.اس عبارت میں سخت دھوکا دیا گیا ہے کیونکہ سورہ انعام کی یہ آیت مسلمانوں کے متعلق نہیں بلکہ اُن کافروں کے متعلق ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں تھے.چنانچہ آتا ہے.يمعشر الجن والانس آلمْ يَأْتِكُمْ رُسُلُ مَنْكُمْ يَقُصُّونَ عليكم انتي ويُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا ، قَالُوا شَهِدَ نَا عَلَى أَنْفُسِنَا وَغَرَتْهُمُ الحيوةُ الدُّنْيَا وَ شَهِدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَفِرِينَ ذلِكَ أَن لَّمْ يَكُن ذَبُكَ مُهْلِكَ الْقُرى يظلم أهْلُهَا غُفِلُونَ وَكُل درخت مِّمَّا عَمِلُوا، وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ وَرَبُّكَ الغني ذُو الرَّحْمَةِ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِف مِنْ بَعْدِكُمْ مَا يَشَاءُ كَمَا انْشَاكُمْ مِنْ ذُرِّيَّةِ قَوهِ أَخَرِينَ اِنَّ مَا تُوعَدُونَ لات وما انتُم بِمُعْجِزِينَ قُلْ يُقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلُ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ، إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّلِمُونَ دیکھو جو آیت پیش کی گئی ہے اس سے پہلی آیات کا فروں کے متعلق ہیں جن میں بتایا ہے کہ پہلے بھی رسول آتے رہے ہیں.اب بھی آیا ہے.اے لوگو تم ہلاک ہو جاؤ گے اگر تم
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۸۸ مشاورت ۱۹۲۴ء اس نبی کو نہ مانو گے.تمہارے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جاوے گا جو پہلے لوگوں کے ساتھ ہوا.کہ تباہ ہو جاؤ گے.پھر اس کے بعد کی آیت یہ ہے.قُل يُقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمُ التِي عَامِلُ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظلِمُون - کیا صحابہ کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے کہ تم اپنے شرک میں مبتلا رہو میں اپنے عمل کرتا ہوں؟ ہر گز نہیں.یہ کفار کے متعلق ہے مگر ان آیتوں کو مسلمانوں پر لگایا جا رہا ہے.پھر یہ آیت پیش کی ہے.وإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلَ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا آمَثَالَكُم.اور اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اسلام کو تباہ کر کے ایسی قوم خدا لائے گا جو مسلمانوں سے اچھی ہو گی.حالانکہ یہاں تو یہ بتایا ہے کہ اے مسلمانو! اگر تم میں سے کوئی پھر جائے تو اللہ اس کی بجائے اور جماعت لائے گا جو مسلمانوں سے اچھی نہیں ہوگی بلکہ مُرتد ہونے والوں سے اچھی ہوگی.اب دیکھو یہ تنخواہ لے کر کیسی غداری سے بہائی مذہب کی تائید کی گئی ہے.پہلے بھی ایک مضمون فاروق میں چھپا ہے اُس میں بھی یہی غداری کی ہے اور الفضل میں بھی اُس نے چند دن کام کیا ہے.اُس وقت کے مضامین کے متعلق بھی اُس نے کہا ہے کہ اُن میں پہلے بہاء اللہ مد نظر تھا پھر مرزا صاحب.مگر یہ دونوں باتیں کسی طرح جمع نہیں ہوسکتیں.فتنہ بہائی کے رونما ہونے کی وجہ میں سمجھتا ہوں اس فتنہ کے پیدا ہونے کی غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں اس مذہب کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے.آج تک جو قوم ہمارے مقابلہ پر آئی اُس کو خدا نے تباہ کیا.اب اس کو خدا نے لا کر کھڑا کیا ہے.اب بھی ویسی ہی مثال ہو گی کہ ہم کونے کا پتھر ہیں جو اس پر گرے گا وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور جس پر یہ گرے گا وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا.ہم اللہ کے وعدوں اور نصرتوں پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ قوم احمد یہ جماعت سے تھوڑے عرصہ میں مٹائی جائے گی اور اس کا سارا گند ظاہر ہو جائے گا.خلافت ترکیہ دوسرا اہم مسئلہ تیر کی خلافت ہے جس کو ہمارے مقابلہ پر پیش کر کے ہماری ہتک کی جاتی تھی اُس کو خدا نے مٹا دیا ہے.کچھ عرصہ ہوا بٹالہ
خطابات شوری جلد اوّل ۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء میں ایک جلسہ ہو ا تھا.جلسہ کرنے والوں نے ہمارے آدمیوں کو کہا کہ لاؤ اپنے خلیفہ کو اُس سے بحث کریں گے.ہمارے آدمیوں نے کہا خلیفہ کو نہ کہو ہم خود بحث کرنے کے لئے تیار ہیں اور اگر خلیفہ کو لانا ہے تو تم بھی اپنے خلیفہ کو لاؤ.اُنھوں نے کہا کیا تمہیں سلیمان کا قصہ یاد نہیں ! جب ہمارا خلیفہ آیا تو تمہارا خلیفہ مچھر کی طرح اُڑ جائے گا.اب خدا نے ایسی ہوائیں چلائیں کہ مچھر اُڑ گیا.مگر کون مچھر ثابت ہوا؟ حضرت مسیح موعود کا خلیفہ یا وہ جس کے مددگار چالیس کروڑ مسلمان تھے؟ جب اُسے مقابلہ پر لایا گیا تو دوسال میں وہ مچھر اُڑ گیا.مگر باوجود اس کے ہمیں اس سے ہمدردی ہے کہ اس سے شرافت کا سلوک نہیں کیا گیا اور اس کو اس کے دوستوں نے تباہ کیا ہے.ہمیشہ حضرت مسیح موعود کے سامنے مخالفین خلافت ٹرکی کو لایا کرتے تھے اور کہتے تھے مسیح موعود کے آنے سے پہلے لڑکی کو مٹنا چاہئے ، مگر وہ ابھی ہے.اب خدا نے اسے مٹا دیا.پھر کہتے تھے کیا ہوا یہی خلافت باقی ہے.خدا نے اُس کو بھی مٹا دیا.احمد یوں کو سبق یہ بیان کرنے سے میری غرض دو باتوں کی طرف توجہ دلانا ہے اوّل یہ کہ خدا کس قدر غیرت والا ہے.اُس نے خلافت ٹرکی کو کس طرح مٹا دیا.تم بھی کبھی جوش اور غصہ میں آکر کوئی ایسی بات مُنہ سے نہ نکالو جو خدا کی غیرت کو جوش دلائے.دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان اب بالکل بے سرے ہو گئے ہیں اور ان کی تباہی کا زمانہ بالکل قریب آ گیا ہے تم نے چونکہ اسلام کی حمایت کرنے کا دعویٰ کیا ہے اس لئے تمہارا فرض ہے کہ اِن پراگندہ بھیڑوں کو اِس ہاتھ پر جمع کرو جو خدا نے ان کی حفاظت کے لئے بڑھایا ہے اور جس کے بغیر کوئی بچاؤ کی جگہ نہیں اور جس سے علیحدہ رہ کر نہ کوئی بادشاہ بچ سکتا ہے نہ غیر بادشاہ.مطالبہ رپورٹ از نمائندگان اب میں پچھلے سال کی رپورٹ کو لیتا ہوں.ناظر اعلیٰ کا یہ کام ہے کہ تمام جماعتوں کے نمائندے اِس امر کے متعلق اپنی رپورٹیں لائیں کہ پچھلے سال کی مجلس مشاورت کے نتیجہ میں جو فیصلے کئے گئے تھے اُس پر اُن کی انجمن نے کیا عمل کیا ہے.ان رپورٹوں پر مجلس مشاورت میں غور کیا جائے گا.مگر جس وقت اور جس طرح یہ اعلان ہوا ہے اس کی رو سے سب وقت رپورٹوں کے
خطابات شوری جلد اوّل ۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء سننے سُنانے پر ہی صرف ہو جائے گا اور کام نہ ہو سکے گا اس لئے اس سال میں نے اور تجویز کی ہے اور وہ یہ کہ نظارت کو ہدایت کی ہے کہ بیرونی جماعتوں سے اکتوبر میں رپورٹیں طلب کرے.دسمبر تک سب رپورٹیں آجائیں اور ان کا خلاصہ نکال کر ناظر اعلیٰ مجلس مشاورت کے موقع پر پیش کرے.پھر اس پر تنقید ہو کہ کس جماعت نے سُستی کی ہے اور کس نے چستی سے کام لیا ہے.اس سال ایک اور تجویز ہے اور وہ یہ کہ ان باتوں کا خلاصہ نکال کر جن کے کرنے کی اُمید جماعتوں سے کی گئی تھی.میں ایک ایک امر کو اس طرح لوں گا کہ فلاں کام سارا جس جماعت نے کیا ہے، اس کے نمائندے کھڑے ہو جائیں.اس سے پتہ لگ جائے گا کہ کتنی جماعتوں نے عمل کیا ہے.پھر دوسرا سوال یہ ہوگا کہ جنہوں نے نصف کام کیا ہے وہ کھڑے ہو جائیں.اور تیسرا یہ کہ جنھوں نے کچھ نہیں کیا وہ کھڑے ہو جا ئیں.وہ سوال جن کے متعلق گزشتہ سال مجلس مشاورت میں فیصلہ ہوا تھا اور جن کی نسبت جماعتوں سے اُمید کی گئی تھی کہ ان کے مطابق کام کریں گے یہ ہیں :- (۱) تمام احمدی عورتوں کو نماز سادہ اور کلمہ با ترجمہ پڑھا دیا جائے اور کوئی ایک احمدی عورت ایسی نہ رہے جسے نماز نہ آتی ہو اور جو کلمہ کا ترجمہ نہ جانتی ہو.(۲) ایک فرد بھی ایسا باقی نہ رہے جو ز کوۃ نہ دیتا ہو.(۳) اخلاقی بدیاں کرنے والے مثلاً سُود لینے والے یا شریعت کے احکام کے خلاف کرنے والے سے پرسش کی جاوے اور اگر وہ باز نہ آئیں تو ان کی اطلاع خلیفہ کو دی جاوے.(۴) ایک اور سوال ہے جو میں نمائندوں سے علیحدگی میں الگ کروں گا.مشورہ طلب امور اب میں آئندہ پیش ہونے والی تجاویز کو لیتا ہوں.ایجنڈا شائع ہو چکا ہے.اس میں مقدم بات ایک انتظام کے متعلق ہے.دُنیا میں بہترین زمانہ کسی قوم کا وہ زمانہ ہوتا ہے جو کہ نبی کے قریب کا ہوتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بہترین زمانہ میرا ہے پھر اُنکا جو میرے بعد آئیں، اس کے بعد حالت خراب ہو جائے گی.۵ حضرت مسیح موعود نے بھی یہی فرمایا ہے پہلے میرا زمانہ بہتر ہے پھر اس کے بعد کا حتی
خطابات شوری جلد اوّل ۹۱ مشاورت ۱۹۲۴ء کہ تین سو سال گذر جائیں پھر فتنے پیدا ہوں گے اس لئے ضروری ہے کہ اس بہتر زمانہ میں انتظام جماعت کے لئے ایسا قانون پاس ہو جائے کہ جو آنے والوں کے لئے داغ بیل ہو تا کہ وہ سیدھے راستہ سے اِدھر اُدھر نہ ہوسکیں.خدا کی نصرت سے اس قوم کے فتنے پھر پیدا نہ ہوں جیسا کہ پیغامیوں نے پیدا کئے تھے.ممکن ہے کل پھر کوئی ایسے ہی لوگ پیدا ہو جائیں یا الگ الگ خلیفے بنالیں.تلوار جن کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ تو تلوار سے ایسے فتنے روک لیتے ہیں یا ان کے مقابلہ میں ایسے فتنے ظاہر ہی نہیں ہونے پاتے اور فتنہ انگیز لوگ کھڑے ہی نہیں ہوتے مگر ہمارے پاس تلوار نہیں عقیدت ہی ہے اور اس میں آزادی ہوتی ہے.ایسے فتنوں کو ہم کس طاقت سے روک سکتے ہیں اس لئے ہمیں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ ہم ایک ایسا انتظام کریں کہ جس میں تفرقہ کا خطرہ نہ رہے.إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ.اور خدا کے منشاء کو کوئی روک نہیں سکتا.ان امور کو مدنظر رکھ کر میں نے ایک سکیم تیار کی ہے جو بڑی لمبی ہے اس کی ابھی پوری تفصیل تو تیار نہیں ہوئی مگر میں نے ضروری سمجھا ہے کہ اس کو پیش کیا جائے تا کہ ابھی سے کام شروع کر دیا جائے.بڑے کام آہستہ آہستہ ہی طے ہوا کرتے ہیں اس لئے مذہبی اور ضروری حصہ اب پیش کیا جائے گا.باقی جوں جوں حالات پیدا ہوتے رہیں گے ان کے مطابق تفصیلات میں اضافہ ہوتا رہے گا.ہمیں اس وقت یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کون سے امور ہیں جن کے ہم مذہباً پابند ہیں اور ان میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا.اس کے متعلق ایک تجویز پیش کی گئی ہے جس پر غور کیا جائے گا.“ اس کے بعد حضور نے ایجنڈے میں سے یہ تجویز پڑھ کر سنائی.اس کے بعد حضور نے مشورہ کے طریق کے متعلق فرمایا : - طریق مشوره ”ہماری جماعت کے لوگوں کو کھڑے ہونے اور بیٹھنے میں خاص آداب مد نظر رکھنے چاہئیں جو ہماری جماعت سے مخصوص ہیں.اس وقت ایک شخص کو اس لئے مقرر کروں گا کہ وہ یہ دیکھ کر باری باری تقریر کرنے کی اجازت دے کہ کون پہلے کھڑا ہوا اور کون پیچھے.اگر اُس کو دیکھنے میں غلطی لگے تو بھی جو فیصلہ
خطابات شوری جلد اوّل وہ کرے گا وہ ماننا ہوگا.۹۲ مشاورت ۱۹۲۴ء دوسرے مشورے دیتے وقت کوئی بات کسی کی تردید کے طور پر نہ ہو اور نہ اعتراض کے طور پر ہو کیونکہ یہ طریق محبت کو قطع کرتا ہے.تیسرے بار بار ایک بات کو بیان نہ کریں اگر نئی بات کوئی بیان کرنی ہو تو کریں.رائے دیتے وقت ہر ایک کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع مل جائے گا.ہاں ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک دوست ایک بات کی اچھی طرح وضاحت نہ کر سکے تو دوسرا کر دے.مگر اس سے تقریر کرنے کی اجازت دینے کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے.چوتھے جو شخص بولنے کے لئے کھڑا ہو وہ دُعا کر کے کھڑا ہو.پہلی قو میں طاقت ، اتحاد اور قوت میں کم نہ تھیں.وہ ہر بات میں ہم سے زیادہ تھیں مگر اُنھوں نے کیسی کیسی ٹھوکریں کھائیں.حضرت موسے علیہ السلام، حضرت عیسی کی قوموں کا کیا حال ہوا.پھر دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے زمانے کے لوگوں کا کیا حال ہے.اُن سے عبرت حاصل کرو اور قدم قدم پر دُعا کرو.اُن کی تباہی کی ایک ہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے خدا کو چھوڑ دیا اور جب اُنہوں نے خدا کو چھوڑا تو خدا نے بھی اُن کو چھوڑ دیا.اُن کی عقلیں ماری گئیں اور وہ تباہی کے گڑھے میں جا گرے.اس وقت چونکہ ہم ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے محافظ ہیں اس لئے ہماری ٹھو کر بہت خطرناک ہوگی.ہم آخری جماعت ہیں اس لحاظ سے کہ آئندہ نبی ہم میں سے ہی ہوں گے یا اس لحاظ سے کہ اب قیامت قریب ہے اس لئے ہماری ذمہ داری بہت بڑھی ہوئی ہے.“ رپورٹ ناظر صاحب دعوة و تبلیغ پر تبصرہ افتتاحی تقریر کے بعد حضور نے ناظر صاحبان کو اپنی رپورٹیں پیش کرنے کے لئے ارشاد فرمایا.چنانچہ مکرم ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ نے رپورٹ پیش کی.اس پر ممبران کی طرف سے چند سوال کئے گئے جن کے مکرم ناظر صاحب نے جواب دیئے.اس کے بعد حضور نے فرمایا: - ناظر صاحب نے جور پورٹ سُنائی ہے اس کی دو باتوں کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا
خطابات شوری جلد اوّل ۹۳ مشاورت ۱۹۲۴ء ہوں جو بہت قابلِ اعتراض ہیں.اول یہ کہ ناظر صاحب اپنی رپورٹ میں دوسرے صیغوں پر اعتراض کرتے چلے گئے ہیں.ان صیغوں کے افسروں میں بیٹھ کر وہ اپنے حقوق پر بحث کر سکتے تھے لیکن دوسری مجلس میں جا کر ذکر کرنا جائز نہیں یہ عام رواج اور کارروائیوں کے خلاف بات ہے.اگر یہ بجٹ پاس کرنے والی کمیٹی ہوتی تو کہا جا سکتا تھا کہ مجھے کلرک نہیں دیا گیا یا چپڑاسی نہیں دیا گیا لیکن بجٹ کے ساتھ اس مجلس کا کوئی تعلق نہیں.اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ گویا نظارت نے ان کی ضرورتوں کو پورا نہیں کیا اور اُن کے حقوق کو تلف کیا ہے مگر ایسا نہیں ہے.نظارت بجٹ کے پاس کرنے میں مختار نہیں ہے.پچھلے دنوں جب یہاں کے کارکنوں کو چھ چھ ماہ تک تنخواہ نہیں دی جا سکتی تھی اور تمام محکمہ جات میں تخفیف کی گئی تھی اور سب صیغہ جات میں کمی کی گئی تھی اُس وقت سے بجٹ کو میں دیکھتا ہوں.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس رپورٹ میں مجلس مشاورت کے کاموں اور تجاویز کو فروعی کہا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اِس وجہ سے اُن پر عمل نہیں کیا گیا مگر یہ کسی ناظر کا حق نہیں ہے اُس کا کام ہر اُس تجویز پر عمل کرنا ہے جو مجلس مشاورت میں پاس ہو.اس کا فیصلہ کرنا کہ وہ فروعی ہے یا نہیں اُن کا کام ہے جو تجویز کرتے ہیں.ناظر صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس کام کرنے کا وقت تھا، فرصت تھی مگر انھوں نے اس اتھارٹی کے احکام کو اپنے اختیارات سے رڈ کر دیا جس کے فیصلے ماننے ضروری تھے.چودھری غلام احمد صاحب وکیل کے اعتراضات کے جواب نفی میں دیئے گئے ہیں.امید ہے آئندہ یہ نفی سبق کا باعث ہوگی.لیکن اس سوال و جواب سے مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ ناظر صاحب دوسروں کے جواب نہ دینے کی شکایت کرتے ہیں مگر خود ان فیصلوں کی پرواہ نہیں کرتے جو جماعت کے قائم مقام اور خلیفہ کرتا ہے.بعض سوالات کے جواب میں کہا گیا ہے کہ پتہ نہیں مگر ان کو واقفیت بہم پہنچا کر آنا چاہئے تھا.دیکھو انگلستان میں لیبر پارٹی آج بر سر حکومت آتی ہے اور جواب دینے شروع کر دیتی ہے یا کہتی ہے ابھی تحقیقات ہو رہی ہے مکمل ہو جانے پر جواب دیا جائے گا.یہ نہیں کہہ دیتی کہ پتہ نہیں اور نہ یہ کہتی ہے کہ یہ سوال
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء اُس وقت کے متعلق ہے جب ہم حکمران نہ تھے.ایک جواب یہ دیا گیا ہے کہ آپ دفتر میں جا کر دیکھیں یہ تو لڑائی ہے.یوں کہنا چاہیے تھا کہ میں نے تحریک کی تھی مگر جواب نہیں ملا، اس کے متعلق کا غذات دفتر میں ہیں آپ چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں.اسی طرح ٹریکٹوں کی اشاعت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ میں اُس وقت نہ تھا لیکن اگر چار سال بعد شیخ یعقوب علی صاحب کو یہ بات یا درہ سکتی ہے اور وہ سوال کر سکتے ہیں تو کیا اس صیغہ کے افسر کا کام نہیں ہے کہ اس کو معلوم کرے اور اس پر عمل کرائے.سوال کرنے والوں کو ہدایت یہ تو ناظروں کے متعلق ہوا.اب میں سوال کرنے والوں کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شیخ محمد حسین صاحب نے جو طریق اختیار کیا وہ بحث کا طریق ہے.سوال کرنے کی غرض یہ ہے کہ انفرمیشن حاصل کی جاوے اور جو جواب دیا جاتا ہے اُس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس حد تک وہ جواب تسلی بخش ہے، بحث شروع کر دینا مناسب نہیں.ضروری سوالات کے متعلق یوں ہونا چاہئے کہ پہلے سے لکھ کر بھیج دیئے جائیں تا جواب کے لئے تیاری کی جاسکے.جیسا کہ راولپنڈی کے ایک دوست نے کیا ہے.آئندہ جو دوست سوالات کرنا چاہیں کم از کم دس پندرہ دن مجلس سے پہلے وہ ان کے متعلق نوٹس دے دیں کہ ان کے متعلق انفرمیشن بہم پہنچائی جائے.سوال کیا جائے گا تا ان کے متعلق تیاری کر کے جواب دیا جا سکے.“ دوسرا دن مجلس مشاورت کے دوسرے دن یعنی ۲۱ / مارچ کو تلاوتِ قرآن مجید کے بعد حضور نے کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا.پیشتر اس کے کہ جلسہ کی کارروائی شروع کی جائے میں چاہتا ہوں کہ سب دوست مل کر دُعا کریں کہ خدا ہمارے کاموں میں برکت دے اور میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کا یہ قاعدہ ہونا چاہئے کہ ایسی مجالس جن میں اہم امور پیش ہوں کا رروائی کرنے سے قبل دُعا کر لیا کریں تا کہ خدا کی برکت نازل ہو.“ اس کے بعد دُعا کی گئی اور دعا کے بعد حضور نے فرمایا: -
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء ”ہمارے اجلاس کا وقت ۸ بجے مقرر کیا گیا تھا اور اب ۹ بج گئے ہیں مگر سارے دوست ابھی تک نہیں آئے.میں بھی دیر سے آیا ہوں مگر اس کی وجہ کوئی ذاتی کام نہیں بلکہ ایک سب کمیٹی کے کام کی تحقیق ہو رہی تھی ، اس لئے یہ مجلس کا ہی کام ہوا.امید ہے احباب وقت کی پابندی کی خاص عادت ڈالیں گے.بعض ناظر بھی وقت کی پابندی کا خیال نہیں رکھتے.کل کچھ سب کمیٹیاں مقرر کی گئی تھیں کہ جو اہم امور ہیں ان کے متعلق مشورہ کر کے پیش کریں ان سب کمیٹیوں میں سے جو پہلی کمیٹی تھی کہ آئندہ نظام کے متعلق غور کیا جائے.اس کا کام اتنا زیادہ تھا کہ اس عرصہ میں جو اسے ملا پورا کام نہ کر سکتی تھی.جب رات کو مجھے معلوم ہوا کہ سب امور کے متعلق کمیٹی کے لئے مشورہ کرنا مشکل ہے تو بہت سے امور میں نے اُڑا دیئے اور باقی کم باتیں رکھیں.مگر پھر بھی ایک غلط فہمی سے ایسی بات پر جو میں نے کاٹ دی تھی زیادہ وقت صرف ہو گیا اس لئے اس کے متعلق مشورہ اسی جگہ ہو گا لیکن اس کے متعلق چونکہ علیحدہ بات کرنی ہے اس لئے ابھی پیش نہیں کروں گا بلکہ دوسری کمیٹیوں کا کام پیش کروں گا.عورتوں کی تعلیم کے متعلق ناظر اعلیٰ کا سوال اب ناظر صاحب اعلیٰ کے سوال کا جواب پہلے لیا جاتا ہے جو عورتوں کی تعلیم کے متعلق پچھلی دفعہ فیصلہ ہوا تھا.اس کے متعلق پچھلے سال بڑی گفتگو ہوئی تھی اور جماعت کے اکثر احباب کا خیال تھا کہ عورتوں کے لئے زیادہ کورس مقرر کرنا چاہئے اور یہ کہ یہ سکیم عمل میں آ سکتی ہے.میں نے اُس وقت اختلاف کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ سکیم تو ابھی مرد بھی پوری نہیں کر سکتے عورتیں کہاں اتنا بڑھ سکتی ہیں اس لئے چھوٹی سکیم رکھی تھی اور وہ یہ کہ نماز سب عورتیں جانتی ہوں، کلمہ یاد ہو اور اُس کا ترجمہ بھی.چونکہ آپ لوگوں کا مشورہ تھا کہ سکیم زیادہ ہو اس لئے جو ر کھی تھی وہ تو ضرور پوری کی ہوگی.جماعت کے نمائندوں میں سے جو یہاں آئے ہوئے ہیں، مہربانی فرما کر کھڑے ہو جائیں جو یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے حلقہ میں ایک بھی احمدی عورت ایسی نہیں جو نماز اور کلمہ باترجمہ نہ جانتی ہو.“ اس پر صرف بنگالہ کی جماعت کا نمائندہ کھڑا ہوا.اس کے بعد حضور نے ناظر صاحب اعلیٰ کے سوال کے حوالے سے نمائندگان سے
خطابات شوری جلد اوّل ۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء جواب پوچھا نیز اخلاقی مجرموں کی اصلاح اور زکوۃ کی وصولی کے متعلق ناظر صاحب اعلیٰ کے سوالات کی بابت جماعتوں کا جائزہ لیا.اس کے بعد فرمایا:- اگر چہ پچھلے سال کی مجلس مشاورت کے فیصلوں پر عمل اُس طرح نہیں کیا گیا جس طرح ہونا چاہئے تھا لیکن اس وقت سوال کرنے سے یہ امید کی جاتی ہے کہ جماعتیں آئندہ پوری کوشش کریں گی.یہاں جو بھی فیصلے کئے جاتے ہیں اور تعمیل ذمہ لگائی جاتی ہے.ان کی تعمیل کی ذمہ داری جماعتوں اور ناظروں پر ہوتی ہے.کل ناظروں پر سوال ہوئے تھے.آج جماعتوں پر کئے گئے ہیں وہ یہی کہتے رہے کہ کوئی کارروائی نہیں کی اور جماعتوں نے بھی یہی ظاہر کیا ہے.آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئے.ہمارے مشورہ کی غرض صرف روح پیدا کرنا نہیں بلکہ کام کرنا ہے.امید ہے جماعتیں آئند ہ تعمیل کر کے آئیں گی.آئندہ سال کے لئے عورتوں کا کورس اگلے سال کے لئے یہی تجویز رکھی جاتی ہے کہ ہر جماعت اس امر کی پابند ہو کہ اس کی تمام عورتوں کو نماز با قاعدہ آتی ہو یعنی وضو کرنا، نماز کی حرکات ، نماز کے الفاظ پورے طور پر آتے ہوں.ابھی ہم ترجمہ کی شرط نہیں لگاتے.ہاں جو پڑھا سکیں تو نور علی نور ہے مگر نماز اور اس کے قواعد، کلمہ اور اس کے معنے ضرور ہر احمدی عورت کو سکھا دیں.لجنہ اماءاللہ کا خوش کن کام یہاں قادیان میں اس کے متعلق عورتوں کے انتظام کے ماتحت جو کام ہوا ہے وہ بہت خوش کن ہے.لجنہ سے تعلیم حاصل کر کے ۷۰ ۸۰ کے قریب عورتیں ایسی ہیں جو قرآن کے ۶ یا ے پارے تک اور فقہ اور حدیث کی کتابیں پڑھ رہی ہیں اور ان کا ایسا سٹینڈرڈ ہے کہ باہر کے مرد بھی اُسے پورا نہیں کر سکتے.“ اخلاقی جرائم دور کرنے چاہئیں اس کے بعد حضور نے اخلاقی جرائم دور کرنے کے سوال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :- باقی رہا اخلاق کا سوال اس کے متعلق کم توجہ کی گئی ہے.جرائم اور گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک پوشیدہ ان کے لئے کچھ مقرر نہیں کیا گیا تھا.ان کے لئے تو وعظ ونصیحت ہی
خطابات شوری جلد اوّل ۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء کرنا ہوتا ہے.ایک وہ جرائم اور گناہ ہیں جن سے سلسلہ پر الزام آتا ہے اور مخالفین ان کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں.مثلاً عیسائی ایک سے زائد بیویاں کرنے پر اعتراض کرتے ہیں اور میرے نزدیک لاکھوں نہیں کروڑوں ایسے ہیں جو اسلام کو اس لئے قبول نہیں کرتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک سے زائد بیویوں کی اجازت دیتا ہے.ادھر مسلمان دو بیویاں کر کے عدل نہیں کرتے اور دوسرے مسلمان اُن سے گرفت نہیں کرتے اور نفرت کا اظہار نہیں کرتے.اسی طرح ہماری جماعت کے متعلق ہے.اگر کوئی احمدی کہلا کر نماز نہیں پڑھتا یا سو د لیتا ہے تو مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے احمدی بن کر کیا کیا، اس لئے ان باتوں کی طرف توجہ کرنے کی بہت ضرورت ہے.ہماری جماعت میں بعض دو بیویوں میں عدل نہ کرنے پر مقاطعہ کرنا چاہئے ایسے نکاح ہو چکے ہیں کہ جو میرے زمانہ خلافت سے پہلے کے ہیں.اس میں بعض مصالح کی وجہ سے میں دخل نہیں دیتا مگر جو اب دوسرا نکاح کرتا ہے وہ چونکہ اس معاہدہ سے کرتا ہے کہ عدل و انصاف کرے گا اگر وہ اس کے خلاف کرے تو اس سے مقاطعہ کرنا چاہئے کیونکہ کوئی ایک کو مُر تذ کرتا ہے کوئی دو کو مگر ایسا آدمی لاکھوں کو اسلام سے متنفر کرتا ہے اور ہماری آنکھیں دشمن کے مقابلے میں نیچی کراتا ہے.مگر مجھے افسوس ہے کہ ایسی شادیاں اس سال بھی ہوئی ہیں اور لوگ یہ جانتے ہوئے ان میں شامل ہوئے ہیں کہ پہلی بیوی سے تعلق نہ رکھا جاوے گا.ایسے لوگ خواہ کتنے ہی عزیز ہوں اُن سے سختی سے برتاؤ کرنا چاہئے اور اُن سے تعلق نہیں رکھنا چاہئے.یہ نکاح جنہوں نے کئے ہیں میرے نزدیک وہ لوگ ایسے ہیں جیسے کہ مر گئے.ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے.افسوس ہے کہ وہ لوگ جو مجلس مشاورت میں آتے اور یہ حکم سنتے ہیں، اُن میں سے بعض ایسی شادیوں میں شامل ہوئے بلکہ نکاح پڑھتے ہیں.جب تک ایسے لوگوں سے بگلی نفرت کا اظہار نہ ہوگا ہماری جماعت ترقی نہیں کر سکتی.طلاق اسی طرح طلاق ہے.ایک آدمی ایک عورت دس پندرہ سال رکھتا ہے جب اس سے فائدہ اُٹھا لیتا ہے اور اس کی جوانی ڈھل جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں ہوتی جو جائز وجہ ہو کہ وہ طلاق دے دیتا ہے اور اُس وقت دیتا ہے جب وہ نکاح نہیں کر سکتی اور اس کو تباہ
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۹۸ مشاورت ۱۹۲۴ء کر دیتا ہے.حالانکہ قرآن کا حکم فابعثوا حكما من أهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا ! کہ طرفین کی طرف سے حج مقرر ہونے چاہئیں جو فیصلہ کریں.اگر کوئی شخص ایسا نہیں کرتا تو وہ اسلام کو بدنام کرتا ہے.یورپ کا بڑا اعتراض یہی ہے کہ اسلام میں عورتوں پر ظلم کیا جاتا ہے جو لوگ یہاں آتے ہیں اُن کو ہم سمجھاتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں عمل دکھاؤ.اگر میں اپنی مثال پیش کروں تو میرے متعلق کہتے ہیں کہ آپ نے تو کرنا ہی ہوا جماعت کا عمل دکھاؤ.پس عورتوں سے عدل نہ کرنے والے مُجرم ہیں اور ان کے نکاحوں میں شامل ہونے والے بھی مجرم کیونکہ وہ اسلام کو بدنام کرتے ہیں.کیا جماعت ان سے نفرت اور قطع تعلق کرے گی ؟ کیا میں امید رکھوں کہ آپ لوگ آئندہ اس طرح کریں گے؟“ آوازیں.انشاء اللہ ایسا ہی کریں گے.فرمایا : - ایسے شخصوں کی یہاں اطلاع دی جاوے ہم فیصلہ کریں گے پھر ان سے قطع تعلق کیا جاوے.“ تجویز بابت احمد یہ ہوٹل لاہور میں احمد یہ ہوٹل کی بابت تجویز کہ اپنی عمارت بنوالی جاوے یا فی الحال بوجہ رقم میسر نہ ہونے کرایہ پر ہی بلڈنگ لی جاوے، پر نمائندگان کی بحث کے بعد حضور نے حسب ذیل امور پر آراء طلب فرمائیں.(۱).ہوٹل کو موجودہ حالت گزارہ میں رکھا جائے.مکان اپنا بنانے کا خرچ نہیں کرنا چاہئے.جتنے لڑکے رہ سکتے ہیں رہیں باقی لڑکے علیحدہ رہیں.(۲).ہمیں ہوٹل کو وسیع کرنا چاہئے تا زیادہ لڑکے وہاں رہ سکیں اور ہوٹل کا اثر زیادہ ہو اور اس کے لئے مکان بنوانے کی کوئی صورت کی جاوے.“ پہلی تجویز کی تائید میں ۶۸ را ئیں ہوئیں اور دوسری تجویز کی تائید میں ۵۷.اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح نے فرمایا : - کثرت رائے کا رو کثرت ان احباب کی ہے جو کہتے ہیں کہ ہوٹل بنانے کی ضرورت نہیں.میں اپنے تجربہ سے اس رائے پر تھا اور ہوں کہ
خطابات شوری جلد اوّل ۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء ނ مرکز میں کالج کی ضرورت ہے مگر معقول عرصہ تک ہم اس قابل نہیں ہو سکتے کہ کالج بناسکیں اور یہ وہ بات ہے کہ کوئی مذہب قائم نہیں رہ سکتا جو اپنے افراد کی علمی ترقی کو روک دے.یہ قانون نیچر کے خلاف ہے.اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ دیکھنا ہے کہ جب طلباء کی ضرورتوں کو ہم پورا نہیں کر سکتے تو دو صورتیں ہیں یا با ہر تعلیم حاصل کریں یا نہ کریں.اگر کہیں نہ کریں تو اس طرح ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.یہ خدا کے فعل اور قول کو ٹکرانا ہے.اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی.اب یہ سوال ہے کہ آیا با ہر تعلیم حاصل کرنے میں جو ایسے نقائص ہیں جن کو روکا جا سکتا ہے اُن کو روکنے کا کوئی انتظام کریں یا نہیں؟ حالت یہ ہے کہ یہاں لڑکے پڑھنے کے لئے گئے ہیں ان کا احمدیت سے تعلق نہیں رہا.بعض لڑکے ہوٹل سے چلے جانے کی وجہ سے دہر یہ ہو گئے.یا اعمال میں گر گئے.ایسے حالات میں ان کو یہ کہنا کہ جہاں چاہیں رہیں خطرناک صورت ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم اپنے نوجوان طلباء کو ضائع کر دیں.چونکہ اس طرز پر یہ معاملہ نہیں پیش کیا گیا.اس لئے آراء ادھر چلی گئی ہیں کہ ہوٹل نہ بنایا جائے.ورنہ اس کے خلاف رائیں دی جاتیں.میرا تجربہ یہ ہے کہ ہوٹل کے طلباء کی حالت نسبتاً دوسروں سے بہت بہتر ہے.اس لئے اگر کچھ روپیہ خرچ کر کے ہم سب طلباء کو ہوٹل میں اکٹھا کر سکیں تو بہت بہتر ہے اور اس سے کہ ہم پانچ کو بہت مخلص احمدی بنا دیں اور ۴۵ دوسروں کو گر جانے دیں یہ بہت اچھا ہے کہ ۵ کو احمدی جماعت میں قائم رکھیں اور ان کا تعلق احمدیت سے جُڑا ر ہے.یہاں مرکز میں ہم سب طلباء کی پڑھائی کا انتظام نہیں کر سکتے کیونکہ کالج ایسا نہیں بن سکتا کہ سب طلباء کی ضروریات پوری کر سکیں اور نہ اتنا خرچ برداشت کر سکتے ہیں.ابتدا کرنے کے لئے کم از کم دو ہزار ماہوار کا خرچ ہوگا اور یہ رقم موجودہ چندوں کے لحاظ سے بہت بڑی ہے پھر لڑکے جمع کرنے ہوں گے اور لڑکوں کو وظائف دینے ہوں گے.یہ خرچ ہزار بارہ سو روپیہ ماہوار کا ہوگا اس کے علاوہ ہوٹل کی ضرورت پھر بھی باقی رہے گی اور چونکہ ہر سال لڑکے بڑھ رہے ہیں اس لئے اگر ہوٹل کا انتظام کافی نہ ہوا تو ہر سال لڑکے زیادہ ہوٹل سے باہر رہنے پر مجبور ہوں گے اور دوسرے کالجوں کے ہوسٹلوں میں ہمارے لڑکوں کو نماز وغیرہ کی بہت تکالیف ہوتی ہیں.پس کالج بن جانے بلکہ یونیورسٹی قائم ہو
خطابات شوریٰ جلد اوّل مشاورت ۱۹۲۴ء جانے سے بھی ہوسٹل کی ضرورت باطل نہیں ہوگی.اور میں تو چاہتا ہوں کہ جہاں بھی کالج ہوں نہ صرف لا ہور بلکہ ہر جگہ ہمارے اپنے ہوٹل ہوں.اس لئے میں اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں کہ کثرت رائے کے خلاف فیصلہ کروں کہ ہوٹل اپنا بنانا ضروری ہے.اس لئے احباب پھر ان صورتوں کے متعلق رائیں دیں کہ :.(۱).مکان بنوایا جائے.اس شرط پر کہ آہستہ آہستہ خرید لیا جاوے.کمپنی اپنی ہو یا کوئی اور.(۲).کسی سے مکان بنوایا جائے اور مقررہ سال تک کرایہ پر رکھنے کا معاہدہ کرا لیا جائے.پہلی تجویز کی تائید میں ۹۹ را ئیں تھیں اور کثرت نمایاں تھی.حضور نے بھی اس سے فیصلہ اتفاق کیا.اس کے بعد حضور نے فرمایا: - دو کسی کمپنی کی معرفت مکان بنوایا جاوے اور قسط وار روپیہ ادا کیا جاوے یا مکان احمد یہ کمپنی بنائے.احمدیوں کا سرمایہ ہو اور اُن کو منافع لگا کر روپیہ قسط وار ادا کیا جائے.۷۵ - ۸۰ ہزار سارا خرچ ہو گا.کیا ایک سال کے اندر احمد یہ کمپنی بن کر مکان بنوا سکتی ہے ؟،،.دوسری تجویز کی تائید میں کوئی کھڑا نہیں ہوا اور تجویز اول پاس ہوئی.اس پر حضرت خلیفہ اسیح نے فرمایا.لاہور کے دوست خاص کر بابوعبد الحمید صاحب ایک مہینہ تک ایسی کمپنی کو تلاش کر کے اطلاع دیں اور اسٹیمیٹ بھجوائیں.“ تیسرا دن مجلس مشاورت کے تیسرے روز خلیفہ وقت کے گزارے کا سوال اور فیصلہ خلیفہ وقت کے گزر اوقات کے لئے رقم مقرر کرنے کے بارہ میں ایک تجویز کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : - اب میں تجویز نمبر 9 کو لیتا ہوں جو خلیفہ کی ذات سے تعلق رکھتی ہے اور اس کو اپنی طرف سے پیش کرتا ہوں.اس میں عام لوگوں سے مشورہ نہیں لیا جاتا کیونکہ ان کے لئے
خطابات شوری جلد اوّل 1+1 مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء اخلاقاً دقتیں ہوں گی.ہاں اگر کوئی عالم صاحب کچھ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں وہ تجویز یہ ہے.خلیفہ وقت سلسلہ کے اموال کو ہلا مجلس شوریٰ سے مشورہ لینے کے اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ نہیں کر سکتا.یعنی کوئی رقم ماہوار یا یکمشت اپنی ضروریات کے لئے نہیں لے سکتا جب تک مجلس شوری کی کثرتِ رائے اس امر پر اپنی رضا ظاہر نہ کرے لیکن گو اس وقت تک خلفاء، خلافت کے کام کے بدلہ میں کوئی گزارہ نہیں لیتے ہو سکتا ہے کہ آئندہ اس کا بھی انتظام کرنا پڑے.اور بعض خلفاء ایسے ہوں جو بلا کسی ایسے انتظام کے گزارہ نہ کر سکیں اس لئے یہ ضروری ہوگا کہ ہر نئے خلیفہ کے متعلق مجلس شوریٰ فیصلہ کرے کہ اُس کو اس قدر رقم گزارہ کے طور پر ملے گی.کسی خلیفہ کو جائز نہیں ہو گا کہ شوریٰ کے اس فیصلہ کو تو ڑے کیونکہ خلفائے سابقین کا یہی طریق رہا ہے.اور خلیفہ کا اپنے نفس کے متعلق اس قید کو قبول کرنا حُسنِ انتظام کے لئے ضروری ہے.ہاں مجلس شوری کو یہ جائز نہ ہوگا کہ بعد میں کبھی اُس رقم میں جو مقرر کر چکی ہے کمی کرے.مگر خلفاء اپنی وسعت ادا ئیگی کے مطابق حسب سنت خلفائے راشدین قرض بیت المال سے لے سکتے ہیں.“ اس کے بعد حضور کی اجازت کے مطابق دو بزرگ علمائے سلسلہ نے اس تجویز کے بارہ میں اپنی آراء پیش کیں.اُنہیں سننے کے بعد حضور نے فرمایا:.اس تجویز کی بناء کیا ہے اس تجویز کی بناء یہ ہے کہ جب حضرت ابو بکر خلیفہ مقرر ہوئے تو دوسرے تیسرے دن کسب معاش کے لئے نکلے.صحابہ نے کہا کہ اس صورت میں آپ خلافت کس طرح کریں گے؟ اُنہوں نے کہا پھر گزارہ کس طرح کروں؟ صحابہ نے مشورہ کیا اور ایک رقم اُن کے لئے مقرر کر دی.حضرت عمر کے زمانے میں بھی اسی طرح ہوا کہ مشورہ سے اُن کے لئے رقم مقرر کی گئی لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب مال کثرت سے آئے اور چیزیں گراں ہو گئیں ادھر اہل وعیال بڑھنے لگے تو بعض صحابہ نے محسوس کیا کہ حضرت عمرؓ کا گزارہ تنگ ہے.ایک نے دوسرے سے ذکر کیا کہ حضرت عمر کا گزارہ تنگ ہے، کچھ انتظام کرنا چاہئے.دوسرے نے کہا وہ خود تو نہیں کہتے.اُس نے کہا وہ کبھی بھی نہیں کہیں گے.اس لئے مشورہ ہوا اور حضرت حفصہ سے ذکر کیا کہ چونکہ حضرت عمرؓ کا گزارہ تنگ ہے اس لئے ہم نے یہ تجویز کی ہے مگر ہم اُن سے ذکر
خطابات شوری جلد اوّل ۱۰۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء کرتے ہوئے ڈرتے ہیں آپ ذکر کریں.وہ گئیں اور جا کر کہا بعض صحابہ آپ کے گزارہ میں وسعت کرنا چاہتے ہیں.اس پر حضرت عمرؓ بہت ناراض ہوئے اور کہا کیا تو مجھے فتنہ میں ڈالنا چاہتی ہے؟ اس سے ظاہر ہے کہ رقم گزارہ میں اضافہ کی کوشش کی گئی گو حضرت عمر نے منظور نہ کیا.تیسری قرضہ کی صورت رکھی ہے.یہ ثابت ہے کہ جب حضرت عمر فوت ہوئے تو ۴۲ ہزار درہم قرضہ اُن کے ذمہ تھا.یہ سب صورتیں خلفاء کے طرز سے ثابت ہیں.پس خلیفہ کو حق ہونا چاہئے کہ بیشی کا انکار کر دے.ایسا نہ کرنے سے اُس کے وقار کو نقصان پہنچتا ہے اور بد نتائج بھی ہوتے ہیں.کچھ عرصہ کی بات ہے کہ انجمن میں کسی نے یہ سوال پیش کیا کہ چونکہ گرانی کا وقت ہے اس لئے خلیفہ کو ہا سو روپیہ ماہوار دیا جائے.اس انجمن میں اوروں کی تنخواہیں بھی بڑھائی گئیں.میرے اپنے نفس کی یہ حالت ہے کہ میں اپنا گزارہ اس طرح نہیں چاہتا.گونا جائز نہیں کہتا کیونکہ اُنہوں نے اسے جائز کہا ہے جن کا میں ادب کرتا ہوں اور بزرگ سمجھتا ہوں.تو میں یوں بھی اس رقم کو منظور کرنے سے انکار کرتا مگر یہ بھی خیال آیا کہ اگر منظور کر لوں تو یہ کہا جائے گا کہ چونکہ اوروں نے اپنی تنخواہیں بڑھائی ہیں اس لئے یہ رقم خلیفہ کو رشوت دی ہے تا کہ وہ اعتراض نہ کرے.گو یہ بات نہ تھی کیونکہ تجویز حافظ روشن علی صاحب نے پیش کی تھی اور وہ انجمن کے ملازم نہ تھے.مگر چونکہ اعلان نہیں ہوتا کہ فلاں تجویز رکس نے پیش کی اور لوگوں کے سامنے صرف فیصلہ آتا ہے اس لئے فتنہ پیدا ہوسکتا تھا.پھر میرے نزدیک اگر خلیفہ کو پابند کریں کہ مجلس شوری اگر اُس کے گزارہ میں اضافہ کرے تو وہ منظور کرے اس سے اُس کے وقار کو صدمہ پہنچتا ہے اور کئی لوگوں کے لئے بدظنی کا موقع پیدا ہوتا ہے اس لئے انتظام تو کرنا چاہئے کہ ضرورت کے وقت اضافہ کیا جائے مگر یہ گنجائش رکھنی چاہئے کہ خلیفہ انکار بھی کر سکے.ہاں یہ بات بتا دینا چاہتا ہوں گو امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کی آئندہ زیادہ توجہ تاریخ اسلام اور صحابہ کے اعمال کی طرف رہے گی نہ کہ جھوٹی روایات پر کہ بعض لوگ نادانی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کو صرف ۱۵ روپے گزارہ کے لئے ملتے تھے.ایک شخص نے میرے سامنے یہ کہا.میں نے کہا ہم تو ۱۵ بھی نہیں لیتے.مگر یہ صحیح نہیں کہ ۱۵ روپیہ لیتے تھے.شبلی
خطابات شوری جلد اوّل ۱۰۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء جیسوں نے بھی لکھا ہے مگر یہ صریح غلط ہے.تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ خلفاء کی چار قسم کی آمدنی تھی.(۱) بیت المال سے وظیفہ.یہ اڑھائی سو روپیہ کے قریب ہوتا ہے.(۲) ایک وظیفہ مقرر کیا گیا تھا بحیثیت صحابی ہونے کے.اس کے متعلق حضرت ابوبکر کا علم نہیں مگر حضرت عمرؓ کو ۵۰۰۰ درہم سالانہ ملتے تھے.یہ بدری صحابی کو ملتا تھا یعنی جو بدر کی جنگ میں شریک ہوئے تھے انہیں دیا جاتا تھا.(۳) جنگ میں جو فتوحات ہوتیں اور مال آتے وہ آ کر تقسیم ہوتے اور صحابہ کو دیئے جاتے.اس کا ثبوت اسی واقعہ سے ملتا ہے جس سے کہتے ہیں خلفاء کو لوگ بُرا بھلا بھی کہہ دیتے تھے.لکھا ہے کہ حضرت عمر نے جبہ پہنا.وہ اس کپڑے سے زیادہ تھا جو ان کے حصہ میں آیا تھا.کسی نے کہا اُس سے تو یہ نہیں بن سکتا تھا، پھر کس طرح بنایا ہے؟ حضرت عمرؓ نے عبداللہ بن عمر کو بلایا اور اس نے آکر کہا کہ میں نے اپنے حصہ کا کپڑا بھی انہیں دے دیا ہے.(۴) دوست احباب ہدیہ دے دیتے تھے.میرے نزدیک خلفاء کے متعلق یہ ایک فتنہ ہے جو آئندہ زمانے میں پیدا ہو سکتا ہے اس لئے ہم ابھی سے گزارہ کے متعلق تشریح کر دیں تا کہ آئندہ خلفاء کو دقت نہ ہو.اس کے متعلق میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ مجلس شوریٰ ایک طرف اس بات کو مدنظر رکھے کہ ایسی بات نہ ہو کہ لوگوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ قوم کے مال کا خلفاء بے جا تصرف کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ کہ ایسا گزارہ بھی مقرر نہ کرے کہ خلیفہ کے وقار کو صدمہ پہنچے.بعض ایسے اخراجات ہو جاتے ہیں جو دوسرں کے لئے ان کو کرنے پڑتے ہیں.مثلاً میں جب تک اس منصب پر قائم نہ ہوا تھا اپنے ذاتی اخراجات اُس وقت کم ہوتے تھے مگر اب بہت زیادہ ہو گئے ہیں.پہلے پرائیویٹ سیکرٹری کی ضرورت نہ تھی مگر اب جماعتوں کو ملنے ملانے اور دیگر کاموں کے لئے ضرورت ہے.پھر باہر جاتے وقت علماء کی ضرورت نہ ہوتی تھی مگر اب ہوتی ہے.یہ خلافت کی وجہ سے اخراجات ہوتے ہیں.اُس وقت اگر ایک روپیہ سفر پر خرچ ہوتا تھا آج سو کرنا پڑتا ہے.میں تو خرچ نہیں لیتا سوائے اُس سفر کے جو جماعت کے لئے ہو اور یہ بھی پہلے نہیں لیتا تھا مگر اب مالی مشکلات کی وجہ سے لے لیتا ہوں مگر ذاتی ضروریات کے لئے کہیں جاؤں تو
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء خرچ نہیں لیتا لیکن جب آئندہ کے لئے غور کیا جائے گا تو ایسی باتوں کو مد نظر رکھنا پڑے گا.یہ حالات ہیں جن کے ماتحت یہ قانون تجویز کیا گیا ہے اور میں اس پر زور اس لئے دیتا ہوں تا یہ ایسے آدمیوں کے ہاتھوں طے پا جائے جن کی اس میں کوئی ذاتی غرض نہیں.اور پھر اس لئے کہ ہماری جماعت کے خلفاء پر اموال یا انتظام کے نقص کا دھبہ نہ لگے.کوئی نہ کہہ سکے کہ ایسا آدمی تم پر مقرر ہوا کہ تمہارے اموال محفوظ نہ رہے.“ اس کے بعد فرمایا، چونکہ اب سوال کی بہت وضاحت ہوگئی ہے اس لئے دوسرے احباب بھی اگر کچھ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں“ اس پر خان ذولفقار علی خان صاحب نے کہا کہ آئندہ خلفاء کے لئے تو الفاظ میں گنجائش رکھی گئی ہے مگر موجودہ کے لئے نہیں.حافظ روشن علی صاحب نے کہا کہ حسب وسعت ادائیگی کی شرط وقارِ خلافت کے خلاف ہے.خلیفہ کا کوئی سفر پرائیویٹ نہیں ہوسکتا اس لئے تمام سفروں کے اخراجات دیئے جانے چاہئیں اور خلیفہ کی اولاد کی تعلیم و تربیت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے.چودھری غلام احمد خان صاحب پاکپٹن نے کہا.لفظ نیا اُڑا دینا چاہئے.سید ارتضی علی صاحب لکھنو نے کہا کہ اگر خلیفہ کسی رقم کا انکار کرے تو وہ رقم بطور امانت جمع رہنی چاہئے تا بوقت ضرورت خلیفہ کے کام آ سکے.قاضی عبدالحمید صاحب امرتسر نے کہا کہ اگر شوری کسی وقت خلیفہ کا گزارہ دو روپیہ مقرر کر دے تو مشکل ہوگی اس لئے بڑھانے گھٹانے کا اختیار ہونا چاہئے.شیخ فضل کریم صاحب دہلی نے کہا کہ یکمشت کا لفظ اُڑا دینا چاہئے.حافظ روشن علی صاحب نے کہا کہ گزارے والی شوری کا صدر بھی کوئی اور شخص ہوسکتا ہے.شیخ محمد حسن صاحب سب جج نے کہا کہ گورنمنٹ افسروں کو سفروں کے اخراجات ملتے ہیں اس لئے تمام ایسے اخراجات خلیفہ کو ملنے چاہئیں.بابو عبدالحمید صاحب لاہور نے کہا کہ علاوہ اخراجات دورہ وغیرہ کے گورنمنٹ افسروں کو مہمان نوازی وغیرہ کے اخراجات بھی دیتی ہے، یہ بھی دینے چاہئیں.
خطابات شوری جلد اوّل ۱۰۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء شیخ یعقوب علی صاحب نے کہا کہ میری طبیعت تو اس قید کو پسند نہیں کرتی.شوری پر فرض کرنا چاہئے کہ وہ مناسب رقم معین کرے خلیفہ کو پابند نہیں کرنا چاہیئے.مولوی محمد اسمعیل صاحب نے کہا کہ یہ ریزولیوشن تو خلیفہ کی بیعت کے منافی ہے.بیعت کے ساتھ کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے.اس پر حضور نے فرمایا کہ : - " یہ بیعت کرنے والوں کی طرف سے شرط نہیں ہے بلکہ یہ تو اس طرح لکھا جائے گا کہ خلیفہ اسیح الثانی کا یہ طریق ہے اور اس نے یہ ہدایت چھوڑی ہے.شوریٰ کا فیصلہ نہیں ہے یہ تو اس طریق کا اقرار ہے جو خلفاء نے اختیار کیا ہے.“ اس کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل فیصلہ فرمایا.فیصلہ ہر خلیفہ کے متعلق مجلس شوری فیصلہ کرے کہ اُس کو کس قدر رقم گزارے کے لئے ملے گی.اور دورانِ خلافت میں بھی اگر حالات متقاضی ہوں تو مجلس شوری کے لئے ضروری ہوگا کہ اس رقم کو بڑھا دے.ضروری ہوگا کہ یہ رقم وقت کی ضروریات اور حالات کے مطابق ہو.اور خلافت کے وقار کو اس میں مد نظر رکھا جائے.مجلس شوری کو جائز نہ ہو گا کہ بعد میں کبھی اس رقم میں جو مقرر کر چکی ہے کمی کرے.اس مشورہ کے دوران میں خلیفہ وقت اس مجلس میں شریک نہیں ہوں گے.“ اس کے بعد فرمایا.66 کوئی خلیفہ اپنے کسی رشتہ دار ” حضرت عمر کا طریق ہے اور میرے نزدیک عقلا " بھی یہی ہونا چاہئے اور وہ یہ ہے کوئی خلیفہ اپنے کو اپنا جانشین نہیں مقرر کر سکتا بعد اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو یعنی اپنے باپ یا بیٹے یا بھائی یا بہنوئی یا داماد کو یا اپنے باپ یا بیٹوں یا بیٹیوں یا بھائیوں کے اوپر یا نیچے کی طرف اُس کے رشتہ داروں کو اپنا جانشین مقرر نہیں کر سکتا.نہ کسی خلیفہ کی زندگی میں مجلس شوری اُس کے کسی مذکورہ بالا رشتہ دار کو اُس کا جانشین مقرر کر سکتی ہے.نہ کسی خلیفہ کے لئے جائز ہوگا کہ وہ وضاحنا یا اشارتاً اپنے کسی ایسے مذکورہ بالا رشتہ دار کی نسبت تحریک کرے کہ اُس کو جانشین مقرر کیا جائے.اگر کوئی خلیفہ مذکورہ بالا
خطابات شوری جلد اوّل 1+4 مشاورت ۱۹۲۴ء اصول کے خلاف جانشین مقرر کرے تو وہ جائز نہ سمجھا جائے گا اور مجلس شوریٰ کا فرض ہوگا کہ خلیفہ کی وفات پر آزادانہ طور سے خلیفہ حسب قواعد تجویز کرے اور پہلا انتخاب یا نامزدگی چونکہ نا جائز تھی وہ مستر دسمجھی جائے گی.“ مفتی محمد صادق صاحب نے کہا کہ قریبی رشتہ دار کے الفاظ اُڑا دیئے جائیں.حضور نے فرمایا کہ:- لفظ یعنی سے ان الفاظ کی گو تشریح ہو جاتی ہے مگر ان کو اُڑا ہی دیتے ہیں.چنانچہ ان کو اُڑا کر اس طرح عبارت کر دی گئی.,, کوئی خلیفہ اپنے بعد اپنے باپ یا بیٹے...66 خاکسار ( مُرتب رپورٹ ) رحیم بخش نے کہا کہ حضور کے اس فیصلہ سے کہ کوئی خلیفہ اپنے کسی رشتہ دار کو اپنا جانشین نہ مقرر کرے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رشتہ داروں کے سوا سے دوسرے لوگوں میں سے خلیفہ اپنا جانشین مقرر کر سکتا ہے.جیسا کہ پہلے خلفاء کی سنت ثابت ہوتا ہے لیکن اس صورت میں وہی خطرہ باقی رہ جاتا ہے جس کا انجمن کے ضمن میں ذکر آیا تھا اور وہ یہ کہ ہر خلیفہ اپنا جانشین اپنے مطلب کے مطابق مقرر کر سکتا ہے.اگر وہ ظالم ہے تو دوسرا بھی اس قسم کا ہوگا اور اس صورت میں قوم کے لئے بھی دخل دینے کا کوئی موقع نہیں رہے گا.اس لئے جس طرح حضور نے خلیفہ کے اس اختیار کو جو اپنا جانشین مقرر کرنے کے متعلق ہے اس قید سے کہ اپنے رشتہ دار کو اپنا جانشین نہ مقرر کرے محدود کر دیا ہے اس طرح اس خطرہ سے بچنے کے لئے بھی کوئی صورت ہونی چاہئے یا پھر رشتہ داروں کو بھی مستی نہیں کرنا چاہئے.وہ کیوں محروم رہیں.چوہدری نصر اللہ خان صاحب نے اس کی تائید کی.حضور نے فرمایا: - اگر خلیفہ کے رشتہ داروں میں سے کوئی شخص خلافت کا اہل ہوگا تو خلیفہ خواہ مخواہ کسی دوسرے کو اپنا جانشین نہیں مقرر کرے گا.قدرتی طور پر وہ خاموش رہے گا.“ نامزد شدہ خلیفہ اپنا جانشین نہیں مقرر کر سکتا اس سلسلہ میں ایک تجویز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے
خطابات شوری جلد اوّل 1.6 مشاورت ۱۹۲۴ء نے تحریراً حضور کی خدمت میں بھجوائی.اس کے متعلق حضور نے فرمایا: - خلافت کے متعلق برادر عزیز مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک تجویز لکھ کر بھیجی ہے گو خوشی یہ تھی کہ وہ خود ہی بیان کرتے.یہ تجویز بہت معقول ہے.اس سے وہ وقت بھی حل ہو گئی ہے جس کے متعلق او پر خطرہ ظاہر کیا گیا ہے.اسے پہلے فیصلہ کے ساتھ بطورشق (ب) کے شامل کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے :- یہ ضروری ہوگا کہ وہ خلیفہ وقت جس کو پہلے خلیفہ نے منصب خلافت کے لئے نامزد کیا ہے اپنے جانشین کو خود نامزد نہ کرے.نامزد شد ہ خلیفہ کا جانشین صرف مجلس شوریٰ ہی منتخب کر سکتی ہے.“ بیرونی ممالک میں مشکلات سب کمیلی دعوۃ و تبلیغ کی رپورٹ پیش ہونے پر حضور نے بیرونی ممالک میں تبلیغ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: - قابل غور ولایت کی تبلیغ کا معاملہ ہے.تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ جب تک ولایت میں خاص طریق سے تبلیغ نہ ہو گی معتد بہ کامیابی نہ ہوگی.انگلستان میں 9 سال سے تبلیغ ہو رہی ہے.اس عرصہ میں نام کے طور پر چار سو کے قریب لوگ داخل ہو گئے ہیں.یہ ہماری ہی بات نہیں ، پیغامیوں کا بھی یہی حال ہے.مگر ان کے اغراض اور کام میں اور ہمارے اغراض میں فرق ہے.ان کی غرض یہ ہے کہ مسلمان کہلانے والوں کے نام ملتے جائیں تا کہ چندہ ملتا رہے مگر اس طرح ہماری غرض پوری نہیں ہوتی.پھر ایک اور فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست میں مخالفت کی وجہ سے بڑے بڑے لوگ نہیں آتے.بڑے بڑے مسلمان لوگ دو کنگ جاتے ہیں.ان کی وجہ سے بعض ایسے لوگ جو ہمارے تیار کردہ ہوتے ہیں، دوکنگ میں جا کر اعلان کر دیتے ہیں اور علمی طبقہ کے لوگ بھی اُدھر جاتے ہیں.پھر کوئی ایسا ذریعہ اختیار نہیں کیا گیا کہ جس سے زیر تبلیغ لوگوں کے ساتھ تعلق رکھیں.لٹریچر نہیں پہنچتا، دوبارہ یاد دہانی یا تربیت کی کوئی سبیل نہیں ہوتی.پھر غلطی سے جو مکان خریدا گیا ہے وہ لنڈن سے دور ہے.آنے جانے میں دوشلنگ.
خطابات شوری جلد اوّل مشاورت ۱۹۲۴ء لگتے ہیں.پھر یہ مشکل ہے کہ مکان کی شکل ابھی مسجد کی نہیں بنی اس لئے لوگ نہیں آتے.ان مشکلات کی وجہ سے کامیابی کی امید مشکل ہے.امریکہ کی مشکلات امریکہ کی حالت نسبتاً بہتر ہے.اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ ہمارے حاکم نہیں اس لئے توجہ کرتے ہیں.دوسرے وہاں دو کروڑ حبشی ہیں وہ اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں.تیسرے امریکہ میں مذہبی دلچسپی زیادہ پائی جاتی ہے.چوتھے وہ لوگ تحریروں کی بجائے لیکچر زیادہ سنتے ہیں اور خود خرچ دے کر لیکچر سنتے ہیں.مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ امریکہ کا ملک بہت بڑا ہے.ایک مبلغ سارے علاقہ میں تبلیغ نہیں کر سکتا.اس وجہ سے وہاں بھی تبلیغ کا سلسلہ وسیع نہیں ہو سکا.مفتی صاحب نے ہمت کر کے رسالہ جاری کر دیا تھا مگر علاقہ چاہتا ہے کہ ایک مبلغ نہیں کام کر سکتا، اور ہوں.جرمنی کی مشکلات جرمنی میں مشن اس لئے رکھا گیا تھا کہ اس کی حالت گری ہوئی ہے، وہ لوگ توجہ کریں گے.دوسرے یہ کہ وہاں مشن رکھنے سے روس میں بھی تبلیغ ہو سکے گی.تیسرے یہ کہ سکہ کی قیمت اس قدر گر گئی تھی کہ ۹۰ روپے میں مُبلغ گزارہ کر سکتا تھا.مگر اب حالات بدل گئے ہیں اور جو باتیں مد نظر تھیں ان سے ایک بھی بات پوری نہ ہوئی.ان لوگوں کو خدا کی طرف توجہ نہ ہوئی.وجہ یہ کہ ان کی حالت اس حد سے گزرگئی ہے جہاں کہ خدا کی طرف توجہ ہو سکتی ہے.پھر روس کے متعلق جو امید تھی وہ بھی پوری نہ ہوسکی کیونکہ جرمن اور روس کے تعلقات اچھے نہ رہے.ادھر یہ مشکل پیش آئی کہ جب مسجد کے لئے سامان خرید لیا گیا تو ایسے سامان پیدا ہو گئے کہ حالت بدل گئی.کاغذی روپیہ کو ملی طور پر منسوخ کر دیا گیا اور سکہ سونے کا جاری کر دیا اس وجہ سے دو تین سو گنا قیمت بڑھ گئی.اور جو فائدہ پہنچ سکتا تھا، ضائع ہو گیا.اس وجہ سے بجائے ۶ پونڈ کے کم از کم ۲۵ پونڈ ماہوار ایک مبلغ کا خرچ ہو گیا ادھر مسجد کے لئے یہ دقت پیش آئی کہ پہلے اندازہ تھا ۳۰ ہزار میں عظیم الشان مسجد تیار ہو جائے گی.مگر ان تغیرات کی وجہ سے یہ اندازہ ہے کہ ۵ لاکھ روپیہ لگے گا اور یہ ہم لگا نہیں سکتے.اب اگر سامان رہے گا تو خراب ہو جائے گا.ان مشکلات کی وجہ سے دوصورتیں ہیں.ایک یہ کہ جب تک خدا کوئی خاص سامان نہ پیدا کر دے، اسی طرح گرتے پڑتے کام جاری رکھیں.(۲) یہ کہ بیرونی ممالک کے کسی مشن کو بند کر دیا جائے اور
خطابات شوری جلد اوّل 1+9 مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء دوسری جگہ کو مضبوط کر دیا جائے اور کام کو سکیڑ لیا جائے.سب کمیٹی کو اس کے متعلق سکیم پیش کرنی چاہئے تھی مگر اس نے نہیں کی اب ان امور کے متعلق مشورہ دیا جائے.“ اس موقع پر بعض ممبران نے آراء دیں.اس پر حضور نے فرمایا: - اس کے متعلق عملی لحاظ سے غور کرنا چاہئے.اب جو عمارت ہے وہ ۶ لاکھ مالیت کی ہے جس کے لئے 9 لاکھ اور روپیہ کی ضرورت ہے اس لئے یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ کیا احمدی عورتیں ایک یا دو سال میں یہ رقم جمع کر سکتی ہیں.اگر ان کا ۳۰ ہزار سالا نہ بھی چندہ رکھا جائے تو ۳۰ سال میں پورا ہوگا اور اتنے میں پہلی عمارت خراب ہو جائے گی.ایسی صورت میں دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس کام کو کر سکتے ہیں یا نہیں.آیا احمدی عورتیں 9 لاکھ جمع کر سکتی ہیں.میرا تجربہ یہ ہے کہ اتنا تو مرد بھی نہیں کر سکتے.عورتوں نے ۸۰ ہزار روپیہ جمع کیا ہے مگر بیسیوں عورتیں ایسی ہیں کہ جنہوں نے سارا زیور دے دیا ہے اور پہلے جنہوں نے ۱۰۰،۱۰۰ روپیہ چندہ دیا اب دس ہیں بھی نہیں دے سکیں گی اس لئے نہیں کہ ان میں اخلاص نہیں بلکہ اس لئے کہ ان کے پاس اب ہے ہی نہیں.ان میں خاص چندہ کی طاقت نہیں ہے.ہم قادیان میں اور اپنے گھر کا اندازہ کر کے کہہ سکتے ہیں کہ ان میں طاقت نہیں.ہاں اگر باہر کی عورتوں میں طاقت ہے تو ہمارے لئے خوشی کی بات ہے.ہم چندہ لینے کے لئے تیار ہیں.“ امور عامہ کی سکیمیں اور پیش کرنے کا طریق نظام جماعت کے ماتحت جولوگ فیصلہ جات کو نہیں مانتے اور نظام کو توڑتے ہیں اُن کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہئے اور ان کی تربیت کے لئے کیا ذرائع اختیار کئے جائیں؟ اس پر احباب نے اپنے اپنے خیال کے مطابق مختلف سزائیں مثلاً عہدہ سے ہٹانا قطع تعلق ہلا اخراج وغیرہ کا ذکر کیا.اس پر حضور نے فرمایا :- ” میں نے پچھلی دفعہ بھی سمجھایا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ بعض امور رائے لینے کے قابل نہیں ہوتے.بعض صرف پیش کرنے والے ہوتے ہیں لیکن ہمارے دوستوں کو ابھی اتنی واقفیت نہیں اس لئے مجھے ہی سب کچھ بتانا پڑتا ہے اس سے وقت ضائع ہوتا ہے.ناظروں کو سکیم پیش
خطابات شوری جلد اوّل 11.مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء کرنی چاہئے.جسے سب کمیٹی منظور یا نامنظور کرے اور وہ باتیں ایسی ہوں جو ماننے والی ہوں اور دوسری جو ہوں وہ الگ پیش کرنی چاہئیں.ان پر رائے لینے کی کوئی ضرورت نہیں.ہمارے پاس سزائیں ہیں ہی کتنی، ایک ہی ہے یعنی قطع تعلق.اس لئے اس معاملہ کو اس رنگ میں پیش کرنا چاہئے تھا کہ جماعت کو جس قدر مدد اس بارے میں امور عامہ کی کرنی چاہئے اتنی نہیں کرتی.ہمیشہ تجربہ ہوا ہے کہ لوگ عام طور پر مجرم کی ہمدردی کرتے ہیں.وجہ یہ کہ جس کے خلاف فیصلہ ہو وہ شور مچاتا اور لوگوں کو سُنا تا پھرتا ہے اور جن کو سُنا تا ہے کہ مجھ پر یہ ظلم ہوا وہ اُس کی تائید میں ہو جاتے ہیں.پس یہ قاعدہ ہے کہ مجرم عیب کو چھپاتا رہتا ہے اور اس کے لئے واویلا کرتا ہے.اس طرح لوگ اُس کے ہمدرد ہو جاتے ہیں.لڑکوں کی شکایتیں آتی ہیں ایک دفعہ ایک شکایت آئی کہ لڑکا عربی میں ہوشیار تھا ماسٹر نے یونہی فیل کر دیا ہے.ممتحن نے اُسے ۱۰۰ میں سے ۳ نمبر دیے تھے.جب میں نے پرچہ منگایا تو معلوم ہوا تین نمبر بھی دینے کے قابل نہ تھا.ابھی ایک مقدمہ کا فیصلہ کیا گیا ہے ایک لڑکے نے ایک عورت کا بُرقعہ اُتار کر اُسے مارا.میں نے جب اس کا فیصلہ کیا تو میرے پاس اُس کے متعلق ایک چٹھی آئی کہ اندھیر ہو گیا، ظلم ہو گیا.اگر اس طرح کیا جائے گا تو لوگ کیوں نہ نافرمانی کریں گے.اس کے مقابلہ میں یہ ہونا چاہئے کہ اگر کوئی ایسا شخص آئے تو اُسے کہیں ہم نے تمہارا کیس نہیں سُنا پھر کس طرح تیری تائید کر سکتے ہیں.عدالت نے جو کیا ہے حالات کے مطابق کیا ہے وہی سچا فیصلہ ہے ہمارا حق نہیں کہ اُسے جھوٹا کہیں.اس طرح نافرمانی دور ہو سکتی ہے.پس جماعت یہ کرے کہ مجرموں کی تائید نہ کرے.“ اس کے بعد سب کمیٹی امور عامہ کی رپورٹ پیش کی گئی.اس میں قرضہ سکیم، کو آپریٹو سوسائٹی، اجتماع اراضی اور پول سسٹم وغیرہ سکیموں کا ذکر تھا جن کا فائدہ واضح کرنے کی ضرورت تھی.چنانچہ حضور نے ان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : - دو بات یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لئے بعض مشکلات ہیں جن کا دور کرنا ضروری ہے.بعض ایسی باتیں ہیں جن سے دُنیا فائدہ اُٹھا رہی ہے اور اگر ہماری جماعت کے لوگ بھی ہمت کریں تو فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اس لئے میں نے امور عامہ کو کہا تھا کہ سکیم تیار کریں.صیغہ کے افسر کا یہ بھی فرض ہے کہ جو سکیم پیش کرے، اُس کی ضرورت اور وجہ اور فائدہ
خطابات شوریٰ جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء سمجھائے اور تکالیف سے آگاہ کرے.اب جو کچھ پڑھا گیا ہے اس سے تو بہت سے لوگ ان باتوں کا مطلب بھی نہیں سمجھے ہوں گے.بعض باتیں صرف تحریک پیدا کرنے کے لئے ہوتی ہیں.ان کے فوائد بتانے ضروری ہوتے ہیں لیکن ناظر چونکہ ابھی کام سیکھ رہے ہیں اس لئے یہ بوجھ مجھ پر ہی پڑ جاتا ہے اس لئے اب میں بتاتا ہوں.ہماری جماعت کے لوگوں کو جب قرض لینا پڑتا ہے تو سود میں مبتلا ہو جاتے ہیں حالانکہ سُود سے خدا نے سخت منع کیا ہے.مگر جو مشکلات میں ہوتے اور سود پہلے سے لے چکے ہوتے ہیں اُن کے لئے مشکل ہوتا ہے.بعض جائدادیں بیچ کر سُود سے بچ جاتے ہیں.مگر بعض کے پاس اتنی جائیداد نہیں ہوتی کہ قرض ادا کر سکیں.بعض ایسے ہوتے ہیں کہ سُود نہیں دیتے مگر ان کو کوئی قرض دیتا ہی نہیں.ان مشکلات کی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ قرضہ کا طریق جاری ہو جو مختلف سوسائٹیوں کے لئے الگ ہو.زمیندار، تاجروں ، ملازموں کے لئے علیحدہ علیحدہ قسم کی سوسائٹیاں ہوں.تاجر یوں کر سکتے ہیں کہ مثلاً سو تاجر مل جائیں ، دس روپیہ مہینہ ہر ایک دیتا رہے ایک ہزار ماہوار جمع ہو یعنی ۱۲ ہزار سالانہ.اس میں سے چھ ہزار سے ایسی کمیٹیوں کے حصہ خرید لیں جس سے وقتی ضروریات یا نقصان کو پورا کر سکیں.اور بقیہ رقم کو اس لئے رکھیں کہ جس کو ضرورت ہو اپنے ممبروں میں سے اُس کو قرض دیا جائے.آہستہ آہستہ یہ کام بہت وسیع ہو جائے گا.اسی طرح زمیندار ہیں جو حصہ مقرر کر لیں کہ اتنے روپیہ چندہ دینے والے کو اتنا قرض دیا جا سکتا ہے جس قدر روپیہ جمع ہو، نصف کو قرضہ کے لئے رکھیں اور باقی سے زمین خرید لیں.ان کی آمد سے نقصان وغیرہ پورا کیا جائے.اس طرح قرض اُترنا شروع ہو جائے گا.اس قسم کی سوسائیٹیاں بن جائیں تو ان سے ان کو قرضہ ملے گا جس کو ضرورت پڑے.اگر ایسا نہ ہوگا تو سب آدمی سُود سے نہیں بچ سکتے.مگر یہ طریق نہیں چل سکتا جب تک سارے اس کے لئے متفق نہ ہوں اور ان میں یہ کام کرنے کی روح نہ پیدا ہو.یہ سکیم ہے.اس کے لئے کہتے ہیں کمیٹی مقرر کی گئی ہے.مگر وہ ایک ہے، تین ہونی چاہئیں.(۱) تاجروں کی (۲) ملازموں کی (۳) زمینداروں کی.اقتصادی طور پر جماعت گرتی جارہی ہے کیونکہ احمدی ایک طرف چندہ زیادہ دیتے ہیں اور دوسری طرف یہ کہ قرض
خطابات شوری جلد اوّل ۱۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء چونکہ سُودی ملتا ہے، وہ اس طرح کام نہیں چلا سکتے جس طرح اور چلا سکتے ہیں.اس کا اثر دینی کاموں پر بھی پڑتا ہے.اس لئے قرضہ کے لئے ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ سُود بھی نہ دینا پڑے اور ضروریات کے وقت قرضہ بھی مل جائے.اسی طرح ایک اور طریق ہے اور وہ یہ ہے ساؤتھ امریکہ میں گاؤں والے ایک جگہ زمین جمع کر لیتے ہیں.اگر ہمارے مربعوں والے ایسا کریں کہ اپنی زمین اکٹھی کر لیں تو بہت اچھا کام ہو سکتا ہے.امریکہ میں گاؤں والے مل کر سوسائیٹیاں بنا لیتے ہیں.سارے مل کر ٹھیکہ پر اُس کمیٹی کو زمین دے دیتے ہیں اور خود اس کے ممبر ہوتے ہیں اور سوسائٹی میں وہی کام کرتے اور مزدوری لیتے ہیں.اگر ہم نے دنیا میں حکومت کرنی ہے تو ضروری ہے کہ ہر قسم کے بہترین انتظام کر لیں.ہمیں چاہئے کہ سوچیں اور سکیم پر غور کریں اور جب بھی فرصت ہو اس پر عمل شروع ہو جائے.جب ایک دو گاؤں اس کے لئے تیار ہو جائیں تو اس پر عمل شروع ہو جائے.اگر ضرورت ہو تو مرکز بھی مدد دے سکتا ہے.اگر اس طرح سکیموں پر غور ہوتا رہے تو ہماری جماعت دینی ہی نہیں ، اقتصادی برتری بھی حاصل کر سکتی ہے.جو کمیٹی اس کام کے لئے بنی ہے وہ اس امر کو مد نظر رکھ کر غور کرے اور اس قسم کی اور تجاویز پر اور سکیموں پر غور کرے.“ مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے پر حضور نے درج ذیل اختتامی تقریر فرمائی:- اختتامی تقریر چونکہ اب تمام کارروائی خدا کے فضل سے ختم ہو چکی ہے اس لئے میں مختصر الفاظ کہہ کر اس مجلس کو ختم کرنا چاہتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوست جو اس مجلس شوریٰ میں تشریف لائے اور لاتے رہے ہیں، اُن کی آہستہ آہستہ ایک قسم کی تربیت ہو رہی ہے.اور علاوہ ان فوائد کے جو ہم اس مجلس سے حاصل کرتے ہیں چونکہ احباب کو مشورہ دینے کا موقع ملتا ہے اس لئے ان کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ مشورہ کا کیا طریق ہوتا ہے اور یہ بھی کہ خرچ کا اندازہ اور طریق معلوم ہوتا ہے.پھر بات سے بات نکالنا آتا ہے کیوں کہ بعض دفعہ تو بال کی کھال بھی نکالی جاتی ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۱۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء پھر یہ بھی فائدہ ہے کہ اس موقع پر جو دوست ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں ان کی جان پہچان ہو جاتی ہے، یہ جلسہ پر نہیں ہو سکتا.کل شیخ یعقوب علی صاحب نے آپس میں تعارف کرایا ہے لیکن اس سے بھی عمدہ طریق پر یہ کام ہوسکتا ہے.پس مجلس شوری کے اور فوائد کے علاوہ یہ بھی ہے کہ احباب کی تربیت اور تعلیم ہو.آپس میں تعلقات قائم ہوں.جو دوست یہاں یہ فوائد دیکھتے ہیں وہ دوسروں کو واقف کریں اور شوریٰ میں آنے کی ممکن سے ممکن اور زیادہ کوشش کریں.اب بھی سارے قائمقام نہیں آئے.۳۰۰ کے قریب انجمنیں ہیں.کم از کم تین سو آنے چاہئیں.گواب پہلے سے زیادتی ہے مگر ضرور یہ تحریک ہونی چاہئے کہ سب احباب آئیں.کیونکہ اس موقع پر بہت سے فوائد ایسے حاصل ہوتے ہیں جو سالانہ جلسہ پر نہیں ہو سکتے اور جو جلسہ کے فوائد ہیں وہ اس وقت نہیں حاصل ہو سکتے اس لئے دونوں موقعوں پر آنا چاہئے.سلسلہ کی ضروریات، حالات ، مشکلات سے واقفیت اور مناصرت کی جو روح مجلس مشاورت کے موقع پر پیدا ہوتی ہے وہ اُس وقت نہیں ہوتی اور سلسلہ کی عظمت کہ کتنا پھیل گیا ہے، کس قدر لوگ جمع ہوتے ہیں ، کن مشکلات سے لوگ یہاں آتے ہیں، کیسا اخلاص ظاہر کرتے ہیں، مشکلات میں رہتے ہیں، یہ باتیں مجلس کے وقت نہیں ہوتیں.جلسہ کی کیفیت حج کی کیفیت کے مشابہہ ہے.حج کے لئے جو جاتا ہے وہ دیکھتا ہے کس طرح صور اسرافیل پھونکا گیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لوگ دیوانہ وار جمع ہوتے ہیں.اسی طرح یہاں ہوتا ہے کہ کس طرح خدا نے ایسے چھوٹے سے گاؤں میں ایک انسان کو پیدا کیا جہاں کوئی وجہ آنے کی نہیں مگر لوگ کس کثرت سے آتے ہیں.جو گھروں میں اچھا کھانا کھاتے ، آرام سے رہتے ہیں اور یہاں اُن کو چار پائی بھی نہیں ملتی یہ ایک عجیب نظارہ ہوتا ہے جو ایمان اور وثوق ا کرتا ہے.مگر جلسہ کے موقع پر سلسلہ کے کاموں سے واقف نہیں ہو سکتے.آج ہی جو مشکلات تبلیغ کی بیان کی گئی ہیں وہ اُس وقت بیان نہیں کر سکتے کیونکہ دشمن ان سے یہ نتیجہ نکالیں گے کہ کچھ کام نہیں ہو رہا.حالانکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ جو ملکانہ میں جا کر جو خدمتِ دین کرتے ہیں اگر اُس کا کوئی نتیجہ نہ نکلے تو ہم نے اپنا فرض خدا کے حضور ادا کر دیا.غیر کام کے نتائج سے اندازہ لگاتا ہے لیکن ہم فرائض کے پورا کرنے کے لحاظ سے اندازہ کرتے ہیں.
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء ہم جلسے میں وہ باتیں بیان نہیں کر سکتے جو ہماری مشکلات سے تعلق رکھتی ہیں اور وہی پہلو بیان کرتے ہیں جسے دشمن بھی دیکھ سکتا ہے اور یہاں وہ پہلو بھی بیان ہوتے ہیں جنہیں عقلمند سمجھ سکتے ہیں.پس چاہئے کہ جس طرح دوست جلسہ کے لئے تحریک کرتے ہیں اُسی طرح مجلس شوریٰ کے لئے بھی تحریک کریں تاکہ ہر جماعت کا نمائندہ آئے.دیکھو دنیا کہتی ہے کوئی ہمارے مشورہ میں نہ آئے جو کچھ کریں ہم ہی کریں لیکن ہم کہتے ہیں جتنے زیادہ دوست آئیں اُتنا ہی ہم خوش ہیں تا کہ آپس میں میل جول، معرفت اور محبت بڑھے.اس کے بعد میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ یہاں مل کر اُنہوں نے جو تجویزیں کی ہیں اگر گھر جا کر ان کی طرف توجہ نہ کی تو ضائع ہو جائیں گی.پس ایک طرف تو میں ناظروں سے کہتا ہوں پچھلے سال جو تجاویز ہوئی تھیں اُن کے متعلق اُنہوں نے کچھ نہیں کیا ادھر دوسروں نے بھی یہی کہا کہ کچھ نہیں کیا اس سے معلوم ہو ا گویا وہ شغل کے طور پر جمع ہوئے تھے.مگر اتنا نہ ہمارے پاس وقت ہے نہ روپیہ کہ شغل کے طور پر جمع ہوں.دیکھو ایک ہی جماعت اس وقت دنیا کی رہنمائی پر مقرر ہے اور وہ جماعت احمدیہ ہے.یہ کوئی معمولی فرض نہیں اور یہ ادا نہیں ہوسکتا جب تک سارے مل کر اپنے اوقات اس پر نہ لگائیں.پس جو دوست باہر سے آئے ہیں انہیں چاہئے کہ جو باتیں یہاں تجویز ہوئی ہیں انہیں یا درکھیں اور ان پر عمل کریں اور جو یاد نہ رہیں وہ رپورٹ چھپتے ہی پڑھ لیں اور عمل کریں تا جب پوچھا جائے تو یہ نہ کہیں کہ ہم نے کچھ نہیں کیا.اسی طرح ناظروں سے کہتا ہوں کہ اپنے کاموں کی طرف توجہ کریں.جو کسی کام پر مقرر کئے جاتے ہیں وہ خدمت کرنے کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں، عہدوں کے لئے نہیں.یہ بات میں آگے بھی کہتا رہا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں.عُہدے کام کرنے کے لئے ہیں نہ حکومت کے لئے.دیکھو حضرت مسیح موعود لکھتے ہیں: مینہ از بهر ما کرسی که ماموریم خدمت را یک جب نبی کہتا ہے کہ میں حاکم نہیں بنایا گیا بلکہ خدمت کے لئے مجھے عہدہ دیا گیا ہے تو ہر ایک کو یہی سمجھنا چاہئے کہ عہدہ خدمت کا ذریعہ ہے اور ان کی اطاعت اس لئے کرائی جاتی ہے کہ اس کے بغیر خدمت نہیں ہو سکتی.پس لوگ تمہاری اطاعت اس لئے نہیں کرتے کہ تمہیں حکومت حاصل ہے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ اس ذمہ داری کو تم ادا نہیں کر سکتے اگر
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء اطاعت نہ ہو.پس یہ خصوصیت سے معلوم ہونا چاہئے کہ جو کام ناظر صاحبان کرتے ہیں وہ خدمت کے طور پر کرتے ہیں، افسر کے طور پر نہیں اور ان کی اطاعت کے لئے جو کہا جاتا ہے تو اس لئے کہ اس کے بغیر کام نہیں ہو سکتا.امید ہے کہ اس جذبہ سے وہ کام کریں گے.اسی طرح دیگر احباب کو معلوم ہو کہ میں ایک ہوں اور میں خود سارے کام نہیں کرسکتا.میرا کام نگرانی ہے اس سے زیادہ کام کرنا ناممکن ہے اور یہی اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے لئے روزانہ ۲۴ گھنٹے بھی کافی نہیں ہو سکتے.یہ میرا کام تبھی پورا ہوسکتا ہے کہ دونوں بازو کام کریں.جماعت اپنا حصہ پورا کرے، ناظر اپنا حصہ.پس میں دونوں سے درخواست کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے فرائض کو پورا کریں گے.یہ نہ میرا کام ہے نہ ان کا بلکہ خدا کا ہے اس لئے جماعت والے احکام کی تعمیل کریں اور ناظر اپنے فرائض بجا لائیں اور یہ بھی تحقیقات کرتے رہیں کہ نمائندوں نے اپنے اپنے فرائض کی تعمیل کی ہے یا نہیں.گزشتہ سال جو کوتاہی ہوئی ہے میرے نزدیک اس کے بھی ناظر ذمہ وار ہیں.جماعت کے لوگوں نے کام نہیں کیا تو ناظروں نے بھی یاد دہانی نہیں کرائی اگر ان سے پوچھتے رہتے تو ایسا نہ ہوتا.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ خدا ہماری کوششوں کو با برکت کرے، ان کے نیک نتائج پیدا کرے، باہر سے آنے والوں کی تکالیف دور کرے اور جن کے وہ نمائندے ہیں انکی تکالیف کو بھی دور کرے.آجکل ملک میں طاعون پھیلی ہوئی ہے جیسا کہ رویا میں مجھے قبل از وقت بتایا گیا تھا.یہ سلسلہ کی صداقت کا نشان ہے اور اگر کوئی احمدی بھی مبتلا ہو تو نشان دہندہ ہو جاتا ہے.گو حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ مومن کے لئے یہ بشارت ہے مگر چونکہ نشان دہندہ ہو جاتا ہے اس لئے دُعا ہے کہ خدا ہماری جماعت پر رحم کرے.پھر ہم کو دُعاؤں میں یہ بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ ہمارے مقروض، ہمارے مصیبت زدہ، ہمارے ایسے بھائی جن میں اخلاقی اور دینی نقص ہیں، ان کے نقص دور ہوں اور جو اللہ کا قرب چاہنے والے ہیں ان کی اس خواہش کو پورا کرے اور جن کے دلوں میں یہ خواہش نہیں، اُن میں یہ خواہش پیدا کرے تا کہ ہم سارے کے سارے خدا ہی کے لئے اور خدا میں ہو کر کام کریں.“ ( مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت مارچ ۱۹۲۴ء) ا الانعام: ۱۳۵،۱۳۴ محمد: ۳۹
خطابات شوری جلد اوّل 117 مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء فاروق ۲۰ / مارچ ۱۹۲۴ء صفحه ۳ ۴ الانعام: ۱۳۱ تا ۱۳۶ ه بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب فضائل اصحاب النبي (الخ) النساء: ٣٦ ک در مشین فارسی صفحه ۱۳۵ شائع کرده نظارت اشاعت
خطابات شوری جلد اوّل مشاورت ۱۹۲۵ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّ.الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء ( منعقدہ ۱۲۰۱۱.اپریل ۱۹۲۵ء) پہلا دن جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہال میں ۱۱ اور ۱۲ را پریل کو دو دن کے لئے منعقد ہوئی.حضور نے ۱۱ را پریل ۱۹۲۵ء کو اس کا افتتاح کرتے ہوئے ابتداء احباب جماعت کو دعا کی طرف توجہ دلائی.فرمایا:- دعا - اس سے پہلے کہ کارروائی شروع ہو جیسا کہ مجالس مشاورت کے لئے قاعدہ ہے اور جیسا کہ ضروری بھی ہے سب دوستوں سے مل کر میں یہ دُعا کرنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے کاموں میں برکت ڈالے اور ان کے صحیح اور مفید نتائج پیدا کرے، ان کے لئے ضروری اور وافر سامان مہیا کرے اور پھر ان سامانوں کو استعمال کرنے کی ہمیں توفیق دے، اس کے بعد ان کے نتائج نہ صرف ہمارے لئے مفید بنائے بلکہ ہماری نسلوں کے لئے بھی بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے اور جو دنیا میں بس رہے ہیں اُن کے لئے اور اُن کی نسلوں کے لئے بھی مفید بنائے.اب میں دُعا کرتا ہوں، سب دوست دُعا میں شریک ہوں.“ افتتاحی تقریر تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- و, پروگرام کے بموجب سب سے پہلے ایک تقریر میری ہے اور میں پچھلے سالوں میں شروع میں ہمیشہ تقریر کیا کرتا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں جن امور کی طرف توجہ دلانے کے لئے میری تقریر کا بڑا حصہ صرف ہوتا تھا چونکہ متواتر ان امور کی طرف توجہ دلائی جاتی رہی ہے اس لئے اب مجھے ان کے لئے اتنا وقت لینے کی ضرورت نہیں ہوگی جتنا پچھلے سالوں میں لیتا رہا ہوں اور یہ کافی ہوگا کہ اختصارا دوستوں کو اس طرف توجہ دلاؤں کہ ہمارا
خطابات شوری جلد اوّل ۱۱۸ مشاورت ۱۹۲۵ء اس جگہ جمع ہونا کوئی ذاتی حق حاصل کرنے یا ذاتی کام پورا کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ ہم اس لئے اس جگہ جمع ہوئے ہیں تا یہ سوچیں کہ وہ حق جو ہم پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد کیا گیا ہے، اُسے کس طرح احسن طور پر ادا کر سکتے ہیں.مجلس مشاورت اور دنیا کی دیگر مجلسوں میں فرق پس ہمارا طریق عمل اور ہمارا غور وفکر جو ہے وہ اُس طریق.پر اور اُن اصول کے مطابق نہیں ہو گا جن کے مطابق دنیا کی پارلیمنٹیں یا مجانس شوری عمل کرتی ہیں کیونکہ ان کی بڑی غرض یہ ہوتی ہے کہ ہر فرقہ اور ہر جماعت اپنے حقوق کی حفاظت کرے یا اپنے حقوق کا گورنمنٹ سے مطالبہ کرے اس لئے اُن کی مجالس شوری گویا لڑائی کا میدان ہوتی ہیں جہاں مختلف خیالات کی فوجیں جمع ہوتی ہیں اور اُن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے حقوق حاصل کریں اس وجہ سے ان کی کونسلوں کے ہال میدانِ رزم ہوتے ہیں.مگر ہمارا نقطہ نگاہ چونکہ اور ہے اس لئے ہما را میدانِ عمل بھی اور ہے.ہم اِس لئے جمع نہیں ہوئے کہ اپنے حقوق حاصل کریں.کیونکہ ہمارے حقوق ہماری پیدائش سے بھی پہلے ہمارے لئے مقرر ہو چکے ہیں اور وہ خدا جس کا حکم ہے کہ قبل اس کے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہو اُسے اُس کی مزدوری دے دولے اُس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ ہمارے حقوق ہمیں نہ دے اور اس بات کا انتظار کرے کہ ہم مانگیں تب دے.ہم جن کے پاس بسا اوقات مزدور کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا جب سمجھتے ہیں کہ مزدور کو فوراً اس کی مزدوری دے دیں گے حالانکہ ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں کہ ہم نہیں دے سکتے تو خدا تعالیٰ کسی کا حق کیوں نہ دے گا اور جب کہ ہمیں ایسے حالات میں حکم ہے کہ پیشتر اس کے کہ مزدور کا پسینہ سُوکھے اسے اُسکا حق دے دو تو جس کی طرف سے یہ حکم ہے وہ اپنے بندوں کے ساتھ اس سے بہت زیادہ مہربانی اور شفقت کا معاملہ کرتا ہے.پس ہم یہاں نہ اپنے حقوق کے مطالبہ کے لئے آئے ہیں اور نہ کسی انسان سے ہمیں اپنے حقوق لینے ہیں کہ یہ سمجھیں اس سے دینے میں غلطی ہو جائے گی اس لئے ہم پورے حقوق لینے کی کوشش کریں.مجلس مشاورت کی غرض ہمارے یہاں جمع ہونے کی غرض یہ ہے کہ یہ سوچیں کہ ہم اپنے حقوق اور فرائض کیونکر ادا کریں.اس صورت میں
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۱۹ مشاورت ۱۹۲۵ء ہمارے اندر کسی قسم کے لڑائی جھگڑے کی صورت نہیں پیدا ہو سکتی.ہم سب ایک مقصد اور ایک غرض کے لئے جمع ہوئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے فرائض کس طرح ادا کریں.جو لوگ اس نیت اور اس ارادہ سے جمع ہوئے ہوں اُن کے اندر لڑنے کی کوئی خواہش نہیں پیدا ہوسکتی بشرطیکہ وہ اپنے فرض کو سمجھیں.اس وقت میں اپنے دوستوں کو اختصاراً اسی امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سمجھیں.ان کے جمع ہونے کی غرض یہ ہے کہ وہ بہتر طور پر اپنے فرائض کو کس طرح ادا کر سکتے ہیں اور اس کے متعلق تدابیر سوچنا ہے.ایسی حالت میں اظہار رائے کے وقت کسی قسم کا غصہ یا جلد بازی نہیں ہونی چاہئے یا کسی شخص کی ذات کو مد نظر رکھ کر کوئی رائے نہ دینی چاہئے.مومن کا مقام خدا تعالیٰ کا عرش ہوتا ہے.وہ جسم کے لحاظ سے زمین پر ہوتا ہے لیکن خیالات کے لحاظ سے اُس بلند مقام پر پرواز کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہوتا ہے اس لئے وہ تمام قسم کی رنجشوں سے بالا ہوتا ہے.اس کے لئے چھوٹے یا بڑے، جاہل یا عالم ، اپنے یا پرائے کا سوال نہیں ہوتا بلکہ وہ سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے.پس تم لوگ اپنے فکروں، اپنے غوروں، اپنی اظہار آراء میں اپنے مقام مومنانہ کو یاد رکھو اور کوئی بات ایسی نہ کرو جس سے کسی کو خواہ مخواہ رنج پہنچے.رائے نیک نیتی سے قائم کرو پھر میرے نزدیک یہ بات تو آسان ہے مگر اس سے بڑھ کر مشکل یہ ہے کہ اندھیرے اور تاریکی میں کوئی رائے نہ قائم کی جائے.میرا مطلب یہ ہے کہ جو رائے ظاہر کرو، نیک نیتی اور خلوص سے ظاہر کرو.بعض اوقات ایک انسان خود نہیں سمجھتا کہ کسی ذاتی رنجش سے اُس کی رائے مؤثر ہو رہی ہے مگر وہ مؤثر ہوتی ہے اس لئے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا میری رائے ہمیشہ فلاں کے خلاف تو نہیں ہوتی.حالانکہ بسا اوقات وہ قلتِ رائے کی تائید میں ہوتی ہے.ایسی صورت میں یہ سمجھنا چاہئے کہ کسی ذاتی رنجش کا اثر ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہمیشہ فلاں کے خلاف ہوتی ہے حالانکہ کثرت رائے اُس کے حق میں ہوتی ہے.اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ چھپے ہوئے خیالات اُس پر اثر کر کے اس رنگ میں اُس کی رائے کو رنگ دیتے ہیں اور اُسے ایسے رستہ پر چلاتے ہیں جو دشمنی اور عداوت کا رستہ ہوتا ہے.
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۲۰ مشاورت ۱۹۲۵ء پس تم لوگ اظہار رائے کے وقت خشیت اللہ اور خدا تعالیٰ کی رضا ہماری ذمہ داریاں کو مد نظر رکھو کیونکہ ہماری چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی دین کے حق میں بڑی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں اور ہمارے قدم کی ذرا سی لغزش اس قدر نقصان پہنچا سکتی ہے جو صدیوں میں بھی دور نہ ہو سکے.امام ابوحنیفہ کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ بارش ہو رہی تھی.ایک بچہ دوڑتا پھرتا تھا.اُنہوں نے اس بچہ سے کہا بچے اسنبھل کر چلو، گر نہ جانا.معلوم ہوتا ہے وہ بڑا ہوشیا راور ذ کی لڑکا تھا.اُس نے کہا اگر میں گرا تو اپنے کپڑے جھاڑ کر پھر کھڑا ہو جاؤں گا.آپ سنبھل کر چلئے کیونکہ اگر آپ گر گئے تو بہت سے لوگ تباہ ہو جائیں گے.امام ابو حنیفہ کے ہیں مجھ پر کبھی کسی نصیحت کا اتنا اثر نہیں ہوا جتنا اس لڑکے کے یہ کہنے سے ہوا.میں نے سمجھا کہ جو لوگ مجھ پر اعتقا در کھتے ہیں اگر میں ٹھوکر کھا گیا تو وہ تباہ ہو جائیں گے.ہماری باتوں کے اثر کی وسعت پس ہم لوگ جو جمع ہوئے ہیں ہماری باتوں کا اثر لاکھوں، کروڑوں انسانوں تک بھی نہیں کہہ سکتے کہ پہنچے گا بلکہ ان سے بھی زیادہ لوگوں تک پہنچے گا.کون کہہ سکتا ہے کہ دُنیا میں ہماری جماعت کس قدر پھیلے گی.جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اتنی پھیلے گی کہ دیگر مذاہب والے چوہڑوں چماروں کی طرح رہ جائیں گے.اسی طرح جب ہماری جماعت کی کئی نسلیں ہوں گی تو خیال کر لو کتنے لوگوں تک ہماری باتوں کا اثر پہنچے گا.پس تم لوگ ہر بات میں خشیت اللہ کو مد نظر رکھو.ایک نصیحت تو میں یہ کرنا چاہتا ہوں.اور دوسری یہ ہے کہ اب زمانہ غفلت اور لحاظ کا زمانہ نہیں ہے بلکہ قربانیوں کا زمانہ قربانی کا زمانہ ہے.مالی قربانی کا بھی اور جانی قربانی کا بھی.میں نے سلسلہ کے متعلق بہت غور کیا ہے اور برابر کئی ماہ سے خاص طور پر غور کر رہا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہے.جو قلبی کیفیت میری ہے اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا، اگر مجھے خدا تعالیٰ مشکلات کا ہجوم پر یقین نہ ہوتا، اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیاں نہ ہوتیں اور میں نے اُن کے نتائج نہ دیکھے ہوتے تو جو مشکلات اور مصائب مجھے نظر آتے
خطابات شوری جلد اوّل ۱۲۱ مشاورت ۱۹۲۵ء ہیں اور جن نتائج پر میں پہنچا ہوں اُن کی وجہ سے آج سے بہت عرصہ پہلے میں پاگل ہو چکا ہوتا لیکن وہ مشکلات اگر چہ ہمارے لئے بڑی ہیں لیکن اگر ہم خدا کی رضا کو حاصل کر لیں اور اُس کے قوانین کی پابندی کریں تو وہ خدا کے لئے بڑی نہیں اور اُن کا دور کر دینا اس کے لئے مشکل نہیں.پس آپ لوگوں کے سامنے جو معاملات پیش ہوں اُن پر نہ صرف نیک نیتی سے غور کرو بلکہ ایسے طور پر غور کرو جس کے نتیجہ میں تمہیں محسوس ہو کہ کتنی بڑی ذمہ داری تم پر عائد ہے.اور آپ لوگ بھی اگر میری طرح اپنے خیالات کو الگ کر کے اور وہمی جوشوں اور اُمنگوں کو چھوڑ کر غور کریں گے تو وہی کیفیت ہوگی جو میری ہے اور وہی تکالیف معلوم کر لو گے جو میں نے محسوس کی ہیں.مایوسی کی کوئی وجہ نہیں مگر اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ ہمارے لئے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ہے.مایوس انسان نہیں ہوتا بلکہ حیوان ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسی طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ ایک کتاب میں جسے الہامی کہا جاتا ہے آتا ہے :- خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا..اس کا یہی مطلب ہے کہ انسان اتنی ترقی کر سکتا ہے کہ بعض انسان اس کی ترقی کو دیکھ کر حیران رہ جاتے اور کہہ اُٹھتے ہیں وہ انسان نہیں بلکہ خدا تھا اور نہ صرف انسان اتنی ترقی کر سکتا ہے بلکہ اس نے کی ہے.انسانی ترقی ایسے انسان ہوئے ہیں جنہیں لوگ خدا کہتے ہیں.انہوں نے اپنے آپ کو خدا نہیں کہا مگر لوگوں نے اُن کے کاموں کی وجہ سے انہیں خدا قرار دے دیا.باوجود اس کے کہ وہ کہتے رہے ہم خدا نہیں بلکہ خدا کے بندے ہیں لوگوں کا اُن کو خدا کہنا انسانی عمل کے دائرہ کی وسعت پر دلالت کرتا ہے اور جب انسان کا دائرہ عمل اس قدر وسیع ہے تو پھر مایوسی اور کم ہمتی کی کوئی وجہ نہیں ہے.اور سب سے بڑی بات جو ہماری تسلی کا موجب ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ دنیا میں اُس تعلیم کو پھیلانا چاہتا ہے جس پر ہم قائم ہیں.پس اگر ہم اپنے قدم کو درست رکھیں گے تو یقینا ہماری فتح ہے.
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۲۲ مشاورت ۱۹۲۵ء خوف ورجا کے بین ئین میں آپ لوگوں کو ان دونوں باتوں کے ئین ئین چلنے کا مشورہ دوں گا.ایک طرف تو آپ یہ سمجھیں کہ ہمارے لئے بہت بڑی مشکلات ہیں اور اُن کا حل سوچیں اور دوسری طرف مایوسی کو اپنے پاس نہ پھٹکنے دیں کیونکہ جو مایوس ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی رحمت کو کھو دیتا ہے.سوالات کرنے والے میں اپنی اصل تقریر کو دوسرے وقت پر اُٹھا رکھنا چاہتا ہوں.اس میں ایک حکمت ہے.اس وقت جو سوالات آئے ہیں ان کے جوابات دیئے جائیں گے.البتہ میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ افسوس ہے سوال کرنے والوں نے مجلس شوریٰ کی حقیقت کو نہیں سمجھا.اس کے متعلق بھی بعد میں بیان کروں گا اور یہ بھی ایک حکمت ہے بعد میں تقریر کرنے کی.مجلس شوری اور کارکن جماعت آپ لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ مجلس شورٹی اور ہے اور کارکن جماعت اور ہے.مجلس شوریٰ میں اصولی امور پیش ہوتے ہیں، انہیں کے متعلق سوال کرنے کا حق ہو سکتا ہے مگر اب کے ایسے سوالات کئے گئے ہیں جن کا مجلس شوری سے تعلق نہیں اور جو تفرقہ کا باعث ہو سکتے ہیں.کیسے سوالات کئے جائیں میں نے پچھلے سال بھی بیان کیا تھا مگر افسوس ہے کہ اس سال اُس سے بھی بڑھ کر سوالات آئے ہیں.ان سوالات کے متعلق میں اپنی رائے بعد میں بیان کرونگا.اس وقت یہ قانون بتانا چاہتا ہوں کہ جو سوالات بھیجے جائیں وہ مجلس شوری کے متعلق ہوں نہ کہ کارکن کمیٹی کے متعلق.ناظروں کی نگرانی میں نے بتایا تھا کہ ناظروں کی نگرانی ضروری ہے اور میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ مجلس شوری کے ممبروں میں سے ایک ایسی کمیٹی بنائی جائیگی جو خلیفہ کے پاس رپورٹ کیا کرے گی کہ ناظروں نے کیا کام کیا.کام کی پڑتال کی یہ بہت بہتر صورت تھی کہ آزاد کمیٹی ہو جو تحقیقات کرے اور نقائص بیان کرے.پھر خلیفہ جن نقائص سے متفق ہو اُن کی اصلاح کرائے.اس مجلس شوریٰ میں اس قسم کے سوال ہونے چاہئیں کہ 66 پچھلے سال جو امور پاس ہوئے تھے، ان کے متعلق ناظروں نے کیا کارروائی کی.“
خطابات شوری جلد اوّل ۱۲۳ مشاورت ۱۹۲۵ء دوسرا دن متفرق امور کے بارہ میں مبسوط تقریر مجلس مشاورت کے دوسرے دن ۱۲.اپریل ۱۹۲۵ء کو پہلے اجلاس میں حضور نے متفرق امور کے بارہ میں ایک مبسوط تقریر فرمائی.احباب جماعت کو قیمتی نصائح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : - وقت کی عدم پابندی ”ہمارے ملک کی بد عادات اور ہماری سالہا سال کی جسمانی غلامی کا یہ نتیجہ ہے کہ اس وقت جبکہ جلسہ کی کارروائی شروع کرنے کا وقت ہو چکا ہے بہت سے ناظر صاحبان کی کرسیاں خالی پڑی ہیں اور بہت سے نمائندوں کی کرسیاں بھی خالی ہیں.دنیا کو فتح کرنے والی قومیں جو قو میں کام کرنے والی ہوتی ہیں اور جنھوں نے دُنیا کو فتح کرنا ہوتا ہے، اُن کے اعمال اور عادات دوسری قوموں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں.وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے اور وقت کی قدر کرتے ہیں.مگر ہمارے ہاں عام طور پر یہی طریق ہے کہ جو وقت کسی کام کے لئے مقرر کیا جاتا ہے ہمیشہ یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ وقت نہیں ہے.ہماری مثال اُس لڑکے کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں وہ جانور چرا رہا تھا کہ اسے خیال پیدا ہوا لوگوں کا تجربہ کروں.وہ میری آواز پر آتے ہیں یا نہیں؟ اس خیال سے اس نے کہنا شروع کیا شیر آ گیا، شیر آ گیا.کسی نے اس مثال کو نظم میں لکھا ہے اور پہلی جماعت کے کورس میں جو کتاب ہوتی تھی اُس میں درج تھی.جب اُس کی آواز پر لوگ دوڑتے ہوئے گئے تو دیکھا وہ ہنس رہا ہے اور کوئی شیر نہیں ہے لیکن اُس سے کچھ دن بعد حقیقتا شیر آ گیا.اس پر اُس نے پھر شور مچانا شروع کیا مگر پھر کوئی نہ آیا اور شیر نے آ کر اُسے پھاڑ ڈالا.کامیابی کے لئے وقت کی پابندی ضروری ہے چونکہ ہم لوگوں کی عادت میں یہ بات داخل ہو گئی ہے کہ ہم
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۲۴ مشاورت ۱۹۲۵ء وقت کی پابندی نہیں کرتے اس لئے جب کہا جاتا ہے کہ فلاں وقت آنا ہے تو لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اُس وقت ضرور نہیں آنا.لیکن جہاں تک میرا خیال ہے اگر ہم دُنیا میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وقت کی پابندی کی جائے کیونکہ وقت معین پر نہ آنا نستی پر دلالت کرتا ہے اور کامیاب ہونے والے لوگوں میں سستی نہیں ہونی چاہئے.اُمید ہے کہ دوست آئندہ ہر کام میں اس کی احتیاط کریں گے.ایک ضروری بات مجھے اس امر کی خواہش نہیں مگر ایک ضروری بات ہے اور صوفیاء نے اس کے متعلق سخت الفاظ استعمال کئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی وہ الفاظ استعمال کئے ہیں گویا آپ نے اس بات کی تصدیق فرمائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس فقرہ کا اس کثرت سے ذکر فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص آپ کی صحبت میں دو تین دن بھی رہا ہو گا تو اس نے سُنا ہوگا.اور میں نے تو سینکڑوں اور ہزاروں دفعہ سُنا ہے وہ فقرہ یہ ہے.گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی سے دنیا میں کسی جگہ یہ مثال نظر نہ آئے گی کہ کسی جماعت کا ہیڈ (HEAD) پہلے آ جائے اور وزراء اور کام کرنے والے بعد میں آئیں.کوئی ایک مثال بھی اس قسم کی نہیں مل سکتی.اگر کبھی ایسا ہو جائے تو نہ معلوم کیا قہر آ جائے مگر ہمارے لوگوں کے وقت کی پابندی نہ کرنے کا بار ہا یہ نتیجہ ہوتا ہے اور یہ بد سُنت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت سے چلی آ رہی ہے.آپ گھر سے نکل کر پندرہ پندرہ منٹ تک انتظار فرماتے رہتے کہ لوگ آئیں تو چلیں.اب جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت میں یہ نیا نقص آ گیا ہے بلکہ یہ ہے کہ جماعت نے احتیاط اور کوشش سے اس بُری عادت کو قائم رکھا ہوا ہے.مجھے بڑا تعجب ہوا جب میں نے آکر یہ دیکھا کہ قاضی امیرحسین صاحب جنہیں بڑھاپے کی وجہ سے چلنے پھرنے میں تکلیف ہوتی ہے وہ تو بیٹھے ہیں مگر اور بہت سے نوجوان موجود نہ تھے.کچھ اور باتیں مجھے آج اُن سوالوں اور تقریروں کے متعلق کچھ کہنا ہے جو گل پیش ہوئے اور جو تقریریں کی گئیں.اس کے علاوہ میں ایک اور تقریر بھی کرنا چاہتا ہوں جو سلسلہ کے آئندہ انتظام کے متعلق ہدایات پر مشتمل ہوگی.میں چاہتا تھا اور
خطابات شوری جلد اوّل ۱۲۵ مشاورت ۱۹۲۵ء اب یہی نیت رکھتا ہوں کہ وسعت کے ساتھ اس تقریر کو بیان کروں لیکن خدا کی قدرت ہے آجکل رمضان ہے اور روزہ کی وجہ سے زیادہ تقریر نہیں کی جاسکتی.دوسرے نیر صاحب نے رات کو میجک لینٹرن Magic Lantern) کے ذریعہ سفر یورپ اور تبلیغ افریقہ کے حالات دکھائے ہیں گو اس سے بہت فائدہ ہوا ہے مگر سحری کو اُس وقت آنکھ نہ کھلی جس وقت کھلنی چاہئے تھی اور میں دُعا ہی کر رہا تھا کہ اذان ہوگئی اس لئے میں کھانا نہ کھا سکا.میں آجکل شام کو کھانا نہیں کھایا کرتا بلکہ سحری کو کھاتا ہوں لیکن آج سحری کو بھی نہ کھا سکا.اس وجہ سے بھی لمبی تقریر کرنا مشکل ہے.تاہم میں کوشش کروں گا کہ جس قدر ہو سکے بیان کروں کیونکہ احباب دُور دُور سے آئے ہیں.کل ناظروں نے جو رپورٹیں پڑھیں اُنہیں سُن کر بعض سے نظارتوں کی رپورٹیں خوشی ہوئی اور بعض سے افسوس بھی ہوا.افسوس اس لئے کہ اُنہوں نے رپورٹ کو مشغلہ کے طور پر پڑھا.رپورٹ اچھی طرح لکھی ہوئی نہ تھی ، مضامین کو ترتیب نہ دی ہوئی تھی ، پڑھنے میں بھی مؤثر پیرا یہ نہ تھا.میں نہیں سمجھتا اوروں پر کیا اثر ہوا ہو مگر میرے نزدیک صیغہ دعوت وتبلیغ کی رپورٹ میں تیل میں جو سب سے اہم مگر بے ترتیب رپورٹ تھی وہ ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کی تھی.تبلیغ کا صیغہ بہت اہم صیغہ ہے اور اس کا فرض ہے کہ سب سے زیادہ معلومات جماعت کو بہم پہنچائے.مگر در حقیقت اس صیغہ کی رپورٹ ، رپورٹ کہلانے کی مستحق نہ تھی.گو جو لوگ اس صیغہ کے کام سے واقف ہیں وہ ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کی اِس تقریر کے بعض حصوں سے اُن کے کام کا اندازہ لگا سکتے ہیں مگر اُنہوں نے کوشش نہیں کی کہ اپنے صیغہ کا کام لوگوں کو بتا سکیں.ان کے اندر مادہ ہے کہ کام کو اصولی طور پر ڈھال دیں، وہ کام کو علمی رنگ میں رنگین کر لیتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے جب بھی وہ اس صیغہ کے انچارج ہوئے ہیں اُنھوں نے کام کو ایسے اصول پر چلایا ہے کہ بہتر نتائج پیدا ہونے کی امید ہو سکتی ہے.مگر اُنہوں نے رپورٹ میں جو کچھ بیان کیا وہ ایسا نہ تھا کہ لوگ اُس سے اُس کام کی اہمیت کا اندازہ لگا سکیں.مجھے افسوس ہے کہ وہ ابھی تک نہیں آئے.گو دوسرے ناظر بھی بعد میں آئے ہیں.
خطابات شوری جلد اوّل ۱۲۶ مشاورت ۱۹۲۵ء اُن کے نہ آنے کی ایک وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ان کے لڑکے کی نازک حالت ہے مگر انہیں چاہئے تھا کہ اطلاع دے دیتے.میرے نزدیک اس صیغہ کی رپورٹ اصلاح طلب تھی.انہیں چاہئے تھا کہ وہ کام پیش کرتے جو ہندوستان میں ہورہے ہیں اور جو ہندوستان سے باہر ہورہے ہیں.اس صیغہ سے تعلق رکھنے والے جو تازہ ترین کام باہر کی جماعتیں کر رہی ہیں اُن کو ایسے رنگ میں پیش کرنا چاہئے تھا جو حوصلہ بڑھانے والے ہوتے.ماریشس کے احمدیوں کے کام مثلاً ماریشس میں ایک سو کے قریب احمدی چندہ دینے والے ہیں.اُن میں سے اکثر حصہ غرباء کا ہے مگر پچھلے چند سالوں میں اُنہوں نے ۳۰.۳۵ ہزار روپیہ سلسلہ کے کاموں میں صرف کیا ہے.غیر احمدیوں سے مسجد کا مقدمہ تھا اُس پر اُن کا بہت سا روپیہ صرف ہوا ہے.پھر اُنہوں نے ایک عالیشان مسجد تیار کی ہے.دو مبلغوں کا خرچ ادا کر رہے ہیں.ان سب اخراجات کا اندازہ چالیس ہزار کے قریب ہے.مسجد انہوں نے گزشتہ سال ہی میں تعمیر کرائی ہے اور اس قابل ہے کہ اس کا ذکر کیا جاتا.افریقہ میں تبلیغ دوسری بات جس کا ذکر کرنے کی ضرورت تھی اور جس پر اس سے بھی زیادہ رقم صرف ہوئی ہے اور جس کے نظارے آپ لوگوں کو آج رات ہی ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیو نے دکھائے ہیں، وہ افریقہ میں تبلیغ کا کام ہے.وہاں کے لوگوں نے ۶۰-۷۰ ہزار روپیہ اس وقت تک خرچ کیا ہے.ایک مدرسہ بنایا ہے جس میں ایک ہزار کے قریب لڑکے پڑھتے ہیں.گولڈ کوسٹ کے احمدیوں نے آٹھ ہزار روپیہ مسجد کے لئے اور چھ ہزار مدرسہ کے لئے جمع کیا ہے.وہ پہلے چھ ہزار موٹر کے لئے دے چکے ہیں جس پر تبلیغی دورے کئے جاتے ہیں.اور یہ وہ لوگ ہیں دینے والے جن کی حالت آپ لوگوں نے رات کو دیکھی ہے کہ عام طور پر ان کے جسم پر سوائے لنگوٹی کے کچھ نہیں ہوتا اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے عمر بھر کبھی روٹی نہ کھائی ہوگی.درختوں کے بیچ اور پھل کوٹ کر پھانک لیتے ہیں.ایسے لوگوں نے دین کے لئے اس قدر روپیہ جمع کیا ہے کہ ہندوستان کے چندے ان کے سامنے حقیر ہو جاتے ہیں.
خطابات شوری جلد اوّل ۱۲۷ مشاورت ۱۹۲۵ء تبلیغ بخارا اسی طرح تبلیغ بخارا ہے.یہ ابھی نیا کام ہے جو جاری ہوا ہے.وہاں کے ایک دوست دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں آئے ہوئے ہیں جو اس وقت بھی یہاں بیٹھے ہوئے ہیں.ان کا آنا ایک نئی بات ہے اور اس کے یہ معنی ہیں کہ وہاں تبلیغ شروع ہو چکی ہے اور سعید روحیں احمدیت کو قبول کر رہی ہیں.ورنہ ہزاروں میل سے اور ایسے علاقہ سے جہاں قدم قدم پر جان کا خطرہ ہو یونہی کوئی نہیں آ سکتا.غرض اسی قسم کی بہت سی باتیں تھیں جن کا ذکر تبلیغ کے سلسلہ میں کرنا ضروری تھا تا کہ جماعت کو ان سے واقفیت ہو.طلباء سماٹرا اسی طرح ایک اور بات ہے جسے صیغہ دعوۃ وتبلیغ کو بھی لینا چاہئے تھا اور وہ سماٹرا کے لڑکوں کا آنا ہے جو بہت ہوشیار اور بڑے مخلص ہیں.ان میں تبلیغ کا اس قدر جوش ہے کہ ابھی سے انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں میں تبلیغ شروع کر دی ہے اور اچھا اثر ڈال رہے ہیں.یہ بھی نیا کام ہے.ان طلباء کے ذریعہ چین، فلپائن اور جاپان میں بھی تبلیغ ہو سکتی ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ طلباء ان علاقوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گے.طلباء سماٹرا کا اخلاص وہ نظارہ دیکھنے کے قابل تھا جب ان طلباء نے سفر یورپ سے آنے پر مجھے ایڈریس دیا تھا.اس سے نہ صرف خوشی کے جذبات ظاہر ہوتے تھے بلکہ وہ ایک درد ناک نظارہ بھی تھا.جس طالب علم نے ایڈریس پڑھا اس کی عجیب حالت تھی، اُس کے آنسو رواں تھے.اُس نے نہایت درد ناک اپیل کی کہ ہمارے ملک کے لوگوں کو اس وقت تک کیوں اس نعمت سے محروم رکھا گیا ہے.تو ان طلباء کا جوش اور سلسلہ کے لئے غیرت قابل رشک ہے اور بہت اعلیٰ نمونہ ہے.یہ سلسلہ کے ایسے کام تھے جن سے جماعت کو واقف کرنا ضروری تھا کیونکہ واقفیت کے بغیر جوش نہیں پیدا ہوسکتا..افریقہ کے احمدی دوستوں کا کام اسی طرح افریقہ کے دوستوں کا کام ہے.وہاں سو ڈیڑھ سو کے قریب احمدی ہیں.جب یہ خبر شائع ہوئی کہ کابل میں احمدی مارے گئے ہیں تو ان کی یادگار میں اُنہوں نے آٹھ سو پونڈ ا پر ایک عظیم الشان ہال خریدا.پھر اُنہوں نے نہ صرف یہ رقم ادا کی بلکہ ایک لاکھ چندہ کی تحریک میں بھی حصہ لیا.جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ سو ڈیڑھ سو آدمی تین ماہ میں ۲۵ ،۳۰ ہزار روپیہ سلسلہ
خطابات شوری جلد اوّل ۱۲۸ مشاورت ۱۹۲۵ء کے لئے دے چکے ہیں اور انہوں نے دوہری قربانی کی ہے.یہاں چندہ خاص میں ایک ماہ کی آمدنی دی گئی ہے مگر انہوں نے ایک ماہ کی آمدنی ہال خریدنے کے لئے دی اور پھر ایک ایک ماہ کی آمدنی چندہ خاص میں دے دی.وہ لوگ جو کہتے ہیں بہت بوجھ پڑ گیا ہے، وہ اپنے افریقہ کے بھائیوں کو دیکھیں کہ کس شوق سے وہ چندہ دے رہے ہیں.یہ اس بات کا نمونہ ہے کہ اگر اخلاص اور ایمان ہو تو خدا کی راہ میں دینا کبھی بوجھ نہیں معلوم دیتا بلکہ پہلے سے بڑھ کر کام کیا جاسکتا ہے.یہ سب باتیں ایسی تھیں جن کا بیان کرنا ضروری تھا.سیلون کی جماعت اسی طرح سیلون کی جماعت بھی ذکر کے قابل ہے.گوان میں سے بعض میں کمزوری ہو لیکن ان میں بڑے بڑے مخلص بھی ہیں.اطلاع مجھے سیلون سے ہی پہنچی ہے کہ جب وہاں کے سیکرٹری نے ایک لاکھ کی تحریک میں کسی قدر سستی سے کام لیا تو میرے پاس خط آنے شروع ہو گئے کہ اُسے متنبہ کیا جائے وہ کیوں سُستی کر رہا ہے.عراق کے احمدی اسی طرح عراق کے احمدیوں نے بہت شوق سے اور اپنے حصہ سے بڑھ کر چندہ خاص میں حصہ لیا ہے.ان رپورٹوں میں سے جو اعلیٰ درجہ کی تھیں اُن میں سے ایک ناظم اعلیٰ درجہ کی رپورٹیں بک ڈپو کی ، دوسری تعلیم و تربیت کی اور تیسری تألیف و تصنیف کی تھی.انہوں نے اپنے کام کو اچھی طرح بیان کیا ہے.گوناظر تصنیف و تالیف کا کام ایسی حالت میں سے گذرا ہے کہ وہ کوئی کام نہیں دکھا سکے.مگر انہوں نے معذرت بھی ایسے عمدہ طریق سے کی ہے جو قابل داد ہے.تفصیل کے لحاظ سے بک ڈپو اور تعلیم و تربیت کی رپورٹیں اعلیٰ تھیں.مخالفین کا لٹریچر جمع کرنا اس موقع پر میں ناظر صاحب تالیف وتصنیف سے ایک بات کہوں گا جو نہایت ضروری ہے کہ وہ اس لٹریچر کو خاص طور پر جمع کریں جو مخالفین نے ابتداء میں گالیوں سے پُر سلسلہ کے خلاف شائع کیا ہے.قومی فرائض میں سے ایک بہت بڑا فرض ہے.اگر ایسا لٹریچر جمع نہ ہوا تو ہمارے لئے لوگوں کو جواب دینا مشکل ہو جائے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض جگہ بعض
خطابات شوری جلد اوّل ۱۲۹ مشاورت ۱۹۲۵ء مخالفین کے متعلق جو الفاظ استعمال کئے ہیں اُن کا جواب ہم نہ دے سکیں گے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ ایسا لٹریچر جمع کیا جائے.پھر سیکرٹری صاحب صدر انجمن احمدیہ کی رپورٹ بھی عمدہ تھی.بیت المال اور امور عامہ کی رپورٹ بُری نہ تھی لیکن میں اسے اچھی بھی نہیں کہہ سکتا اور خاص کر بیت المال کی رپورٹ میں بہت ابہام تھا.ناظروں کا فرض میرے نزدیک یہ نہایت ضروری ہے کہ ناظروں کو اس بات کی مشق ہو کہ اپنے خیالات عمدگی اور خوبصورتی کے ساتھ ادا کرسکیں اور اپنے کام کی اہمیت لوگوں پر ثابت کر سکیں.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ کام کرنے والے کا یہی فرض نہیں کہ خود کام کر سکے بلکہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کی توجہ اور امداد اپنے کام کے لئے حاصل کر سکے.اس کے لئے ناظروں کے فرائض میں سے ایک یہ بھی فرض ہے کہ عمدگی کے ساتھ تقریر کرنے اور مشکل امور کو سہل الفاظ میں لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں.ناظر اعلیٰ کا فرض یہ بات میں جہاں دوسروں سے کہتا ہوں وہاں ناظر صاحب اعلیٰ سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی اس طرف توجہ کریں.ان کی رپورٹ بہت مختصر تھی.وہ کہہ سکتے ہیں کہ جن صیغوں نے مجھے رپورٹ دی اُنہوں نے مختصر امور لکھے.مگر ان اُمور کو پیش کرنے کا طریق بھی مقبول نہ تھا.ان کا کام تھا کہ ان امور پر اپنی طرف سے ریمارک کرتے اور جن باتوں میں اصلاح کی ضرورت سمجھتے اُن میں اصلاح کی طرف توجہ دلاتے اور ساتھ ہی اصلاح کے طریق بھی بتلاتے.مگر انہوں نے یہ نہیں کیا.اُمید ہے وہ آئندہ ایسا ہی کریں گے اور جہاں مختلف صیغوں کو ان کے کام کے متعلق ضروری ہدایات دیں گے وہاں ان کے کام پر ریمارکس بھی کریں گے.کل جو مختلف صیغوں کے متعلق سوال کئے گئے تھے اُن کے بارے میں اب میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.میرے نزدیک سوال کرنے والے اصلی حد سے باہر نکل گئے ہیں.میں نے اسی قسم کی غلطیوں سے آگاہ کرنے کے لئے اس مجلس کا نام مجلس مشاورت رکھا تھا تا کہ اس کے نام سے اس کے متعلق فرائض سے آگا ہی ہو سکے مگر افسوس کہ بعض لوگ اس کے نام کو بھی بُھول گئے.ہمیں اس نام کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مجلس مشاورت ہے.اس لحاظ
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۳۰ مشاورت ۱۹۲۵ء سے اس میں وہ مسائل نہیں آنے چاہئیں جو انتظام کی تفصیلات سے تعلق رکھتے ہیں.انتظامی امور کے متعلق سوالات میں اس امر کا قائل نہیں کہ انتظامی تفصیلات ایک خاص طبقہ سے وابستہ ہیں اور ان میں دخل دینا اُسی طبقہ کا کام ہے مگر میں اس کا بھی قائل نہیں کہ ہر وقت اور ہر موقع پر دخل دینا جائز ہے.کسی نے کہا ہے ہر سخنے وقتے و ہر نکتہ مقامی دارد موقع شناسی انسان کی عقلمندی کی علامت بھی یہ ہے کہ وہ وقت اور موقع پہچانتا ہے.ایک ہی بات ہوتی ہے اگر وہ اپنے موقع پر کی جائے تو بہت اعلیٰ ہوتی ہے اور اگر وہی بات بے موقع کی جائے تو بہت بُری بن جاتی ہے.دُنیا میں جتنے کام ہیں ان میں موقع شناسی ہی ایک ایسی بات ہے جس سے حسن اور خوبصورتی ظاہر ہوتی ہے.دیکھو آنکھیں کیسی خوبصورت معلوم ہوتی ہیں ، ناک کس طرح چہرہ پر زیبا نظر آتی ہے، کان کیسے اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر ان کے موقعے بدل دو.کان کندھے پر لگا دو، ناک ماتھے پر رکھ دو تو گینڈے کی شکل بن جائے گی.یہی دیکھو یہ چیزیں جو اس میز پر پڑی ہیں اس لئے خوبصورت دکھائی دے رہی ہیں کہ سجی ہوئی ہیں.اگر ان گملوں کو الٹا کر کے رکھ دو تو کیسے بُرے معلوم ہوں گے.لکھا ہے مرزا مظہر جان جاناں کے پاس ایک دفعہ بادشاہ آیا وزیر بھی ساتھ تھا.اُسے پیاس لگی.پاس جھجری اور آب خورہ رکھے تھے.اُس نے آب خورہ لیا اور جھجری سے پانی پی کر اس پر اُسی طرح اُلٹا کر رکھ دیا جس طرح پہلے رکھا تھا مگر کسی قدر ٹیڑھا.مظہر جان جاناں نے کہا یہ کیسا وزیر ہے جسے آبخورہ بھی رکھنا نہیں آتا.یہ تو ان کی طبع کی نزاکت کا حال ہے.مگر بات یہ بالکل سچی ہے کہ اگر موقع اور محل کو مد نظر نہ رکھا جائے تو اعلیٰ سے اعلیٰ بات اور چیز بھی بہت بُری بن جاتی ہے.سلسلہ کے کاموں میں دخل دینے کا حق میرے نزدیک ہر آدمی کا حق ہے کہ سلسلہ کے کاموں میں دخل دے.مگر کسی کا بھی یہ حق نہیں کہ بے موقع اور ایسے رنگ میں کہ بھائی بھائی کے مقابلہ میں اور قوم قوم کے مقابلہ میں کھڑی ہو جائے دخل دے.اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ
خطابات شوری جلد اوّل ۱۳۱ مشاورت ۱۹۲۵ء اگر وہ ایماندار ہے تو نادانی سے کرتا ہے ورنہ وہ جماعت کا دشمن اور تباہی کی کوشش کرنے والا ہے.سلسلہ کے موجودہ کارکن وہ دوست جو اس وقت باہر سے تشریف لائے ہیں اگر اُن کو مرکز میں کام کرنے کا موقع ملے تو انہیں معلوم ہو کہ کیسی حالت ہے.اگر انہیں وہ تحریریں جن میں میں ناظروں اور دوسرے کارکنوں کی خبر لیتا ہوں پڑھنے کا موقع ملے تو وہ تسلیم کر لیں کہ موجودہ کا رکن جس طرح کام کر رہے ہیں اس طرح وہ خود نہ کر سکیں.إِلَّا مَا شَاءَ اللہ.ہر ایک آدمی دفاتر کے کاغذات سے یہ بات معلوم کر سکتا ہے کہ تمدن کے لحاظ سے کوئی حقیر سے حقیر اور ادنے سے ادنئے آدمی بھی ایسا نہیں ہو گا جس نے کوئی شکایت کی ہو اور میں نے اُس شکایت کی طرف توجہ نہ کی ہو اور اگر وہ حق پر ہو تو جس کے خلاف اس کی شکایت تھی اُس سے سختی کے ساتھ باز پرس نہ کی ہو.ایک طالب علم تھا جس کا ایک صیغہ کے ناظر سے کچھ مطالبہ تھا میں نے اسے جرمانہ کر کے دلا دیا.کسی نقص کی اصلاح کا طریق پس اگر کسی کو کوئی نقص اور خرابی معلوم ہو تو اس کی اصلاح کا یہ طریق نہیں ہے کہ مجلس شوری میں سوالات کئے جائیں بلکہ یہ ہے کہ اسے میرے سامنے پیش کیا جائے گو پھر اگر اس کی طرف توجہ نہ کی جائے اور اس کی اصلاح کی کوشش نہ کی جائے تو گو پھر اُس کے بس کی بات نہیں اور مجلس مشاورت میں پیش کرنے کے بعد بھی بس کی نہیں ، مگر اُس وقت شکوہ پیدا ہو سکتا ہے.اگر چہ اُس وقت اُسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ شاید میری ہی غلطی ہو اور میں ہی ناراستی پر ہوں.مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ میں خدا نہیں ہوں.مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے اور میں بھی ایک بات کو غلط رنگ میں سمجھ سکتا ہوں.سوالات کرنے کی غرض سوالات کرنے کی دو غرضیں ہوا کرتیں ہیں.اوّل کسی معاملہ کے متعلق صحیح علم حاصل کرنا.دوم دوسرے کی تذلیل کرنا اور دونوں غرضوں کو مد نظر رکھ کر کونسلوں اور پارلیمنوں میں سوال کئے جاتے ہیں.یا تو اس لئے سوال کئے جاتے ہیں کہ علم زیادہ حاصل ہو یا اس لئے کہ مخالف پارٹی ذلیل ہو اور اُس کی بجائے ہماری پارٹی حکمران بن جائے.ان دونوں غرضوں میں سے دوسری
خطابات شوری جلد اوّل ۱۳۲ غرض آپ کے سوالات میں نہیں ہونی چاہئے.مشاورت ۱۹۲۵ء ناظروں کا حق سوال کرنے والوں کا فرض ہے کہ ان ناظروں کے پاس جائیں اور انہیں بتائیں کہ یہ نقائص ہیں ان کی اصلاح کی جائے.اس پر اگر ناظر اصلاح نہ کریں تو پھر اس کو اطلاع دیں جو اصلاح کرا سکتا ہے لیکن جو اس طرح تو کرے نہیں اور اعتراضات کو پبلک میں لائے وہ مجرم ہے.دیکھو اگر ہر شخص کا یہ حق ہے کہ اُس کی غلطی سے اُسے آگاہ کیا جائے تو میں نہیں سمجھتا وہ لوگ جو سلسلہ کے کام پر مقرر ہیں اُن سے کیوں یہ حق چھین لیا جا سکتا ہے.کیا اس لئے کہ وہ سلسلہ کے کام پر لگے ہوئے ہیں؟ اگر ناظر غلطیاں کریں اور کرتے ہیں اور وہ خود بھی یہ نہیں سمجھتے کہ غلطی نہیں کر سکتے اور میں کسی سے یہ درخواست بھی نہیں کرتا کہ وہ سمجھے ناظر غلطیاں نہیں کرتے.پس اگر ناظر غلطیاں کرتے ہیں اور کرتے ہیں تو جسے کوئی غلطی معلوم ہو وہ پہلے ان کے پاس جائے اور انہیں اصلاح کے لئے کہے.اگر وہ اصلاح نہ کریں تو میرے پاس آئے نہ کہ لوگوں میں تشہیر کرتا پھرے.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق فرماتے ہیں اگر میں اپنے کسی معتقد کو شراب میں بدمست دیکھوں تو اُسے اُٹھا کر گھر لے آؤں اور پیشتر اس کے کہ وہ ہوش میں آئے اُس کے پاس سے چلا جاؤں تا کہ وہ مجھے دیکھ کر شرمندہ نہ ہو.کہ ہمیں بھی ایسے ہی اخلاق پیدا کرنے چاہئیں.یا د رکھو حضرت مسیح علیہ السلام کی شریعت منسوخ ہو گئی ہے مگر ان کی یہ نصیحت منسوخ نہیں ہوئی کہ اے بھائی! دوسرے کی آنکھ کا تنکہ دیکھنے سے قبل اپنی آنکھ کا شہتر دیکھ.۵ سوالات کی غرض اصلاح ہونی چاہئے ہمارے سوالات کی اصل غرض اصلاح ہے نہ کہ پارٹیاں بنانا.مگر اس قسم کے سوالات کے جاری رہنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک پارٹی اُن لوگوں کی بنے گی جو حکومت کی پارٹی کہلائے گی اور ایک مخالف پارٹی ہوگی یہ پہلا قدم ہوگا.اور دوسرا قدم یہ ہوگا کہ خلیفہ بہر حال.اِن دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہو گا.یا کبھی کسی کے ساتھ ہو گا اور کبھی کسی کے ساتھ.
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۳۳ مشاورت ۱۹۲۵ء اور بعض اوقات ایسا موقع آ جائے گا کہ ایک پارٹی کہے گی یہ مسئلہ جو ہماری طرف سے پیش ہے یہ ضرور ہی صحیح ہے.ایک طرف یہ حالت ہوگی اور دوسری طرف خلیفہ ہوگا.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بد سے بدتر حالت ہو جائے گی اور ایسی بدتر ہو جائے گی کہ جیسی اس وقت مسلمانوں کی بھی نہیں ہے.مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر ہماری تعداد کتنی ہے؟ گزشتہ مردم شماری کے رُو سے پنجاب میں پانچ لاکھ چو ہڑے ہیں اور ۲۸ ہزار احمدی.اگر تم اپنی قوت کو قائم نہ رکھو گے، اگر تم اپنے اتحاد کو برقرار نہ رکھو گے، اگر تم اپنی طاقت کو منتشر ہونے دو گے اور اپنے ہاتھوں سے تباہ کرو گے تو یا د رکھو دُنیا میں چو ہڑوں کی عزت ہوگی مگر تمہاری نہ ہوگی.ذرا سوچو تو سہی ” کے آمدی و کے پیر شدی ، “ تم میں طاقت ہی کیا آئی 664 ہے جسے تم بر باد کرنا شروع کر دو.ہماری حالت آج ہماری حالت اس سے بد تر ہے جو کہتے ہیں بہتیں دانتوں میں زبان کی ہوتی ہے کیونکہ زبان اپنے آپ کو بچا سکتی ہے مگر ہم نہیں بچا سکتے.ہماری حالت تو یہ ہے کہ زبان گدی سے کھینچ کر کہا جائے اب لقمہ چباؤ.پھر اس سے بھی بدتر حالت اس وجہ سے ہے کہ ۳۲ دانت اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر سکتے لیکن ہمارے ارد گرد جو دانت ہیں وہ حرکت کر سکتے اور ہمیں پیس سکتے ہیں.اس لئے آج تو یہ موقع ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کی خطرناک غلطیاں دیکھتے ہوئے بھی چشم پوشی کریں اور کوشش کریں کہ ایسے متحد ہو جائیں جس کی مثال قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے کہ ایسی دیوار جو مرصوص ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اتحاد کی ضرورت ہے ورنہ ہم دشمنوں کی نظروں کے سامنے تھوڑے ہی عرصہ میں تباہ ہو جائیں گے اور اس طرح تباہ ہو جائیں گے کہ کوئی ہمارا مرثیہ کہنے والا بھی نہ ہوگا.ہر حالت میں فتنہ انگیزی سے بچو دیکھو اگر کسی کی شکایت خلیفہ کے سامنے بھی نہ سُنی جائے.اگر خدا نخواستہ خلیفہ بھی ظلم میں ہمدردی کر کے کام کرنے والوں کی حمایت کرے تو بھی میں یہی کہوں گا کہ صبر کرو نہ کہ کوئی فتنہ انگیزی کی حرکت کرو.اگر خلیفہ واقعہ میں ظالم اور ظلم کی حمایت کرنے والا ہو گا تو خدا تعالیٰ تمہارے رستہ سے اُسے ہٹا دے گا کیونکہ جب خدا تعالیٰ خلیفہ مقرر کرتا ہے تو وہ
خطابات شوری جلد اوّل ۱۳۴ مشاورت ۱۹۲۵ء خلیفہ کو ہٹا بھی سکتا ہے.اسی طرح اگر کوئی کارکن ظالم ہے تو اُسے بھی خدا تعالیٰ ہٹا دے گا.تم خود نیک بنو اور دعاؤں کے ذریعہ نہ کہ فتنہ انگیزی کے ذریعہ.جو غلطی اور نقص معلوم ہو اُس کی اصلاح چاہو.اگر اس بارے میں تمہاری غلطی ہو گی تو خدا تعالیٰ تمہارے دلوں کو صاف کر دے گا اور تمہیں تباہی سے بچالے گا اور اگر تمہاری غلطی نہ ہوگی تو خدا ظالموں کی یا تو اصلاح کر دے گا یا اُنہیں اُن کی جگہ سے ہٹا دے گا.جماعت کے انتظام کے متعلق آخری آواز اسلامی اصول کے مطابق یہ صورت ہے کہ جماعت خلیفہ کے ماتحت ہے اور آخری اتھارٹی جسے خدا نے مقرر کیا اور جس کی آواز آخری آواز ہے، وہ خلیفہ کی آواز ہے.کسی انجمن کسی شوری یا کسی مجلس کی نہیں ہے.یہی وہ بات ہے جس پر جماعت کے دو ٹکڑے ہو گئے.خلیفہ کا انتخاب ظاہری لحاظ سے بے شک تمہارے ہاتھوں میں ہے تم اس کے متعلق دیکھ سکتے اور غور کر سکتے ہو مگر باطنی طور پر خدا کے اختیار میں ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے خلیفہ ہم قرار دیتے ہیں اور جب تک تم لوگ اپنی اصلاح کی فکر رکھو گے اُن قواعد اور اصول کو نہ بھولو گے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ضروری ہیں، تم میں خدا خلیفہ مقرر کرتا رہے گا اور اُسے وہ عصمت حاصل رہے گی جو اس کام کے لئے ضروری ہے.خلیفہ جماعت کو تباہ کر دینے والی غلطی نہیں کر سکتا میں اس بات کا قائل نہیں کہ خلیفہ کوئی غلطی نہیں کر سکتا مگر اس بات کا قائل ہوں کہ وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کرسکتا جس سے جماعت تباہ ہو.وہ اِس اور اُس کام میں غلطی کر سکتا ہے مگر سب کاموں میں غلطی نہیں کر سکتا.اور اگر وہ کوئی ایسی غلطی کر بھی بیٹھے جس کا اثر جماعت کے لئے تباہی خیز ہو تو خدا تعالیٰ اُس غلطی کو بھی درست کر دے گا اور اُس کے بھی نیک نتائج پیدا ہوں گے.یہ عصمت کسی اور جماعت یا کسی اور مجلس کو حاصل نہیں ہو سکتی.میں مانتا ہوں کہ خلفاء غلطی کرتے رہے اور اب بھی کر سکتے ہیں.بعض اوقات میں کوئی فیصلہ کرتا ہوں جس کے متعلق بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ غلطی ہوگئی ہے.مگر سوال یہ ہے
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۳۵ مشاورت ۱۹۲۵ء کہ غلطی سے زیادہ محفوظ کون ہے؟ اجتہادی اور سیاسی غلطیاں تو رسول سے بھی ہوسکتی ہیں پھر خلیفہ ایسی غلطیوں سے کس طرح بچ سکتا ہے.دیکھو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہوسکتا ہے کہ دو شخص میرے پاس لڑتے ہوئے آئیں.اُن میں سے ایک لستان ہو اور میں اُس کے حق میں فیصلہ کر دوں لیکن اگر فی الواقعہ اس کا حق نہیں تو وہ یہ نہ سمجھے کہ میرے دلانے سے اس کے لئے جائز ہو گیا ایسی حالت میں اگر وہ لے گا تو آگ کا ٹکڑالے گائے اس میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اقرار کیا ہے کہ ممکن ہے آپ ایک فیصلہ کریں اور وہ غلط ہو.ایک شخص کو کچھ دلائیں مگر وہ اس کا حق نہ ہولیکن باوجود اس کے قرآن کریم کہتا ہے.فَلَا وَرَتِكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا میری ہی ذات کی قسم، ان میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے تمام جھگڑوں کا تجھ سے فیصلہ نہ کرائے اور پھر جو تو فیصلہ کرے گو یہ ممکن ہے کہ تو غلط کرے یا درست کرے.مگر کچھ ہو، انتظام کی درستی اور قیام امن کے لئے ضروری ہوگا کہ اس کے متعلق دلوں میں تنگی نہ ہو اور پھر اس فیصلہ پر عمل بھی کریں.یہ وہ معاملات ہیں جن میں نبوت کا تعلق نہیں ہے.اگر نبوت کا تعلق ہوتا تو پھر ان میں بھی غلطی کا امکان نہ ہوتا.خلفاء اور نبی کی وراثت نبی اجتہاد کی غلطی کرتا ہے.بحیثیت فقیہ غلطی کر سکتا ہے.بحیثیت بادشاہ غلطی کر سکتا ہے لیکن بحیثیت نبی غلطی نہیں کر سکتا اور وہ باتیں جو نبی سے بحیثیت فقیہ اور بحیثیت حاکم تعلق رکھتی ہیں، خلفاء ان میں نبی کے وارث ہوتے ہیں.خلفاء نبی کی ہر بات کے وارث ہوتے ہیں سوائے نبوت کے اور جو احکامِ نبوت کے سوا نبی کے لئے جاری ہوتے ہیں وہی خلیفہ کے لئے جاری ہوتے ہیں.اگر نبی ان مسائل میں غلطی کر سکتا ہے تو خلیفہ بھی کر سکتا ہے.اور یہ آیت کہ فلا وربك لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي انْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلّمُوا تَسْلِيمًا.رسول کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان حاکم اور گورنر کے لئے بھی ہے اور اس کے ماتحت عمل کئے بغیر دنیا کا کام
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۳۶ مشاورت ۱۹۲۵ء نہیں چل سکتا.کیا ہائی کورٹ اور پریوی کونسل غلطی نہیں کر سکتی؟ کر سکتی ہے اور کرتی ہے مگر کیا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی فیصلہ کرے اور لوگ اُسے نہ مانیں؟ بات یہ ہے کہ انسان کا ہر کام نامکمل ہے مگر جب تک بعض نا مکمل باتیں تسلیم نہ کی جائیں دوسری مکمل نہیں ہوسکتیں.اور جب تک اس نا مکمل بات کو تسلیم نہ کیا جائے کہ حاکم غلطی کر سکتے ہیں اُس وقت تک یہ بات مکمل نہیں ہوسکتی اور کبھی فساد دُور نہیں ہو سکتا.بے شک خلفاء غلطی کر سکتے ہیں مگر اس میں کوئی حبہ نہیں کہ اگر ان کے آگے سر تسلیم خم نہ کیا جائے تو کوئی جماعت جماعت نہیں رہ سکتی.پس خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے اور تم بھی غلطی کر سکتے ہو مگر فرق یہی ہے کہ خلیفہ کی خطرناک غلطی کی خدا تعالیٰ اصلاح کر دے گا مگر آپ لوگوں سے خدا کا یہ وعدہ نہیں ہے.ہر جماعت میں منافق ہوتے رہے اس کے بعد میں ایک اور نصیحت کرتا ہوں.کوئی جماعت کسی بڑے آدمی کی خواہ وہ خلیفہ ہو یا نبی حتی کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسی نہیں گزری جس میں منافق نہ ہوں.مسلمانوں نے یہ بات بھلائی اور آج وہ بھی اور ہم بھی اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں.کیا اس قسم کی حدیثیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے زینب کو نگا دیکھا اور اس پر عاشق ہو گئے ،مخلص صحابہ نے بیان کی ہیں؟ اگر نہیں تو کہاں سے آئیں؟ مسلمانوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ جس نے کہا میں نے محمد صلے اللہ علیہ وسلم کو مانا ہے، اُس نے جو بات کہی وہ درست ہے حالانکہ منافقوں کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے اور ان کی شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں کا بار بار ذکر ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں منافق جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں بیان کی ہوئی باقی رہ گئیں تو کیا منافق گونگے تھے کہ ان کے طعنے جو وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے باقی نہ رہے ؟ باقی تو رہے مگر مسلمانوں نے غلطی سے ان کو صحیح مان لیا.صحیح حدیثوں میں آتا ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ تک منافق رہے.پھر کیا یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپکی آنکھوں کے سامنے جو لوگ آپ کے کیریکٹر پر طعنہ زنی کرتے تھے، وہ بعد میں ایسے پارسا بن گئے کہ رہے تو وہ منافق ہی مگر
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۳۷ مشاورت ۱۹۲۵ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بُری باتیں نہ پھیلاتے تھے؟ کوئی عقل تسلیم نہیں کر سکتی کہ انہوں نے اپنی اس روش کو چھوڑ دیا ہو.صحیح بات یہی ہے کہ اُس وقت یہی منافق تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف غلط باتیں مشہور کرتے تھے اور اس امر کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.بعض لوگ اس بات سے ڈر کر کہ شیعہ کیا کہیں گے، منافقوں کے پائے جانے سے انکار کر دیتے ہیں.حالانکہ شیعہ اُن لوگوں کو منافق کہتے ہیں جو منافق نہ تھے.منافق اور تھے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب نہ تھے، انہوں نے دین کے لئے قربانیاں نہ کی تھیں ، انھوں نے جہاد نہ کیا تھا.انہیں منافق کہنا حقیقت کا اظہار کرنا ہے.مگر جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے مقرب تھے ، جنہوں نے اپنی جان و مال خدا کی راہ میں لگا دیا وہ منافق نہ تھے.پس یہ کوئی ڈرنے کی بات نہیں ہے.ان واقعات کو ہم کہاں لے جائیں کہ ایسے لوگ تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنے کرتے تھے.میں نہیں سمجھ سکتا اس عقیدہ پر شیعہ کیا اعتراض کر سکتے ہیں.مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں منافق پس اگر منافق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھے اور آپ کے بعد بھی رہے اور سب مسلمان اُن کو نہ پہچان سکتے تھے، بعض پہچانتے تھے تو کیونکر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جبکہ اتنی تکلیفیں نہیں جتنی اُس وقت تھیں کہ کوئی منافق نہیں ہے.اگر منافق ہیں اور یقیناً ہیں تو کیا ان کا یہی کام نہیں ہوگا کہ خلیفہ پر اور سلسلہ کے کام کرنے والوں پر طعنہ زنی کرتے رہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ان کے فتنہ سے بچنے کا یہ طریق ہے.وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمر من الأمن أو الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إلى الرسول وإلى أولى الأمْرِ مِنْهُمْ عَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لا تَبَعْتُمُ الشَّيْطن الّا قَلِيلاً ث كه جب امن یا خوف کی کوئی بات انہیں پہنچتی ہے تو اُسے جھٹ پھیلانا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ ان کا یہ کام تھا کہ اُسے رسول اور اولوالامر اور ان لوگوں کے پاس جو استنباط کرنے والے ہوں لے جاتے.اگر وہ اس طرح نہیں کریں گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ شیطان کے پیچھے چلیں گے.قادیان کی جماعت بھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں اور کوئی بعید نہیں کہ اس ہال میں بھی ایسے
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۳۸ مشاورت ۱۹۲۵ء لوگ موجود ہوں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپکی مسجد میں ایسے لوگ اکٹر کر بیٹھتے تا کہ لوگ سمجھیں کہ یہ بڑے مقرب ہیں مگر جاننے والے جانتے تھے کہ ابو بکر کا قرب اور تھا.ہم نے حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں ہمیشہ پیچھے بیٹھے ہوتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب آپ کو کہتے کہ آگے آؤ تو دیکھنے والے جانتے ہیں آپ پسینہ پسینہ ہو جاتے.مگر منافق طبع لوگوں کو دیکھا ہے آدمیوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے آتے اور سب سے آگے بڑھ کر بیٹھتے.میں نے ان پیغا میوں کو دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے لاتیں پھیلائی ہوئی یوں رانوں پر ہاتھ مار رہے ہوتے جس طرح کوئی بے تکلف دوست سے گفتگو کرتے وقت مارتا ہو، تا جو کوئی دیکھے اُنہیں بہت بڑا مقرب سمجھے.یہ لوگ ایسے منافق نہ تھے جیسے مکہ والے مگر ان میں کمزوریاں ضرور تھیں.دراصل لوگوں کی مختلف ایمانی حالتیں ہوتی ہیں اور ان سے مختلف قسم کا سلوک کیا جاتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ بڑے مقرب ہیں.کسی کا اخلاص، ایثار اور قربانی سے ظاہر ہوتا ہے.دشمن کی بات پر مت یقین کرو جب یہ حالت ہے تو جسے کوئی اس قسم کی بات معلوم ہو اُس کا فرض ہے کہ بات کرنے والے کا نام بتائے.ابھی میرے پاس رپورٹ پہنچی ہے کوئی کہہ رہا تھا خلیفہ بڑا بداخلاق ہے اور دلیل یہ دے رہا تھا کہ سلسلے کا فلاں دُشمن کہتا تھا کہ میں اُس سے ملنے کے لئے گیا تو مجھ سے یہ سلوک کیا گیا.اگر دلیل کی بناء یہ ہو سکتی ہے کہ فلاں دشمن یوں کہتا تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوسرے سارے بزرگ اور میں سب مجرم ہیں.اگر ہمارے اعمال پر کھنے کے لئے دشمن کی زبان شاہد ہوسکتی ہے تو کوئی پاک نہیں ہوسکتا.منافقوں کی علامتیں اگر ذرا بھی عقل و فکر سے کام لیا جائے تو میرے نزدیک منافقوں کا پہچاننا مشکل بات نہیں.ان کے متعلق یہ باتیں یاد رکھنی چاہئیں: - اول وہ دین میں عملی لحاظ سے کمزور ہوں گے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اور قرآن میں بھی آیا ہے کہ وہ نمازوں میں سُست ہوتے ہیں ملے
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۳۹ مشاورت ۱۹۲۵ء دوسری علامت جو قرآن کریم سے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یہ ہے کہ جھوٹ بولتے ہیں ! تیسری علامت جو قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے وہ یہ ہے کہ ان میں عیب جوئی کی عادت ہوتی ہے.مومن کی نظر تو اپنے دل پر ہوتی ہے کہ مجھ میں کتنے عیب ہیں مگر منافق دوسروں کے عیب تلاش کرتا رہتا ہے.دیکھو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس قدر قربانیاں کیں وہ ظاہر ہیں مگر مرتے وقت وہ کہتے تھے یا الہی ! میں آپ سے کچھ نہیں مانگتا.میری صرف یہی خواہش ہے کہ میری کمزوریاں معاف کر دیجیو ۱۲ مگر منافق دوسروں کی بُرائیاں بیان کرتے ہیں.یا یوں کہتے ہیں ہم تو گندے سہی مگر ہمارا کیا ہے، فلاں فلاں آدمی میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں مگر یہ بھی اپنی بریت کا ایک طریق ہے.چوتھی علامت یہ ہے اور یہ بھی قرآن کریم سے معلوم ہوتی ہے کہ منافق کے معاملات خراب ہوتے ہیں.اُس کے ذہن میں ایک ہی بات ہوتی ہے اور وہ یہ کہ لینا ہے دینا کسی کو نہیں.پانچویں علامت یہ ہے کہ منافق کو گالیوں کی عادت ہوتی ہے.مخش کلامی کرتے رہتے ہیں.یہ بہت موٹی موٹی باتیں ہیں جنہیں ہر شخص سمجھ سکتا ہے.مجھ سے اگر کوئی کہے مولوی ثناء اللہ صاحب میں کوئی خوبی نہیں تو میں کہوں گا یہ جھوٹ ہے.جس طرح ابو جہل میں بھی کچھ نہ کچھ خوبی تھی ، اسی طرح ان میں بھی ہے.پھر کس طرح ہو سکتا ہے خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت میں کوئی خوبی نہ ہو.مگر ان لوگوں کی مجلسوں میں جب سنو گے عیب جوئی ہی سنو گے.پھر ایک خاص بات جس سے منافق کا پتہ لگانا نہایت آسان ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ان کا ذاتی جھگڑا ہو گا جس پر ان کی بیان کردہ بُرائی کی بناء ہوگی.اور ہم اُسے کہہ سکتے ہیں کیا اس بُرائی کا تمہیں آج پتہ لگا ہے جب تمہارا کوئی ذاتی جھگڑا پیدا ہو گیا؟ عجیب بات ہے آج اگر کوئی سلسلہ سے علیحدہ ہوتا ہے تب اسے نقائص اور بُرائیوں کا پتہ لگتا ہے.کسی پر کوئی مقدمہ ہوتا ہے اور اُس میں اُسے سزا دی جاتی ہے تو اُس دن اُسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ یہ خرابی ہے پہلے نہیں پتہ لگتا.ان باتوں سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جس قدر اعتراض کئے جاتے
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۴۰ مشاورت ۱۹۲۵ء ہیں وہ خود غرضیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں.بد عمل لوگ دین کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے پھر میں یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں اور نہ کوئی اور عقلِ سلیم تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوسکتی ہے کہ دین کے سب سے بڑے خیر خواہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو سب سے زیادہ بد عمل اور احکام اسلامی کی پابندی میں سب سے زیادہ سست ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مخالفین کے سامنے یہ بات پیش کیا کرتے تھے کہ کیا ہم جو دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں کافر ہیں اور یہ مولوی جو دین کا کوئی کام نہیں کر رہے، مسلمان ہیں.اسی طرح میں کہتا ہوں اگر وہ لوگ جو لین دین کے معاملات میں کچے ہیں، جو نمازوں میں سُست ہیں، جن میں پانچوں عیب شرعی موجود ہیں ، وہ احمدیت کے متعلق سب سے زیادہ غیرت اور محبت رکھتے ہیں اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے میں تو تیار نہیں ہوں.ورنہ خدا تعالیٰ پر الزام آئے گا کہ اس نے بچے اور پکے مومنوں کو تو غیرت دینی سے محروم کر دیا اور جو پورے مومن نہیں اُنہیں یہ شرف عطا کیا.لیکن میں نے جس خدا کو سُنا نہیں بلکہ دیکھا ہے، اسے ایسا نہیں پایا.در حقیقت یہی وہ لوگ ہیں جو پہلے فسادی تھے اور اب فساد ہوگا تو اسی قماش کے لوگوں سے.جو نصیحت کی جائے اُسے یاد رکھو میں نے ۱۹۱۵ء میں ایک تقریر کی تھی جس میں بتایا تھا کہ قادیان میں منافق بھی رہتے ہیں، ان سے ہوشیار رہنا چاہئے مگر افسوس کہ میری اس نصیحت سے فائدہ نہ اٹھایا گیا.میں کہتا ہوں اگر جو کچھ میں کہوں اُسے یاد نہیں رکھنا تو کیا فائدہ ہے میرے بولنے کا.میرا حلق خراب ہے اور تقریر کرنے سے بخار ہو جاتا ہے.ایسی حالت میں میں تقریریں کرتا ہوں لیکن اگر ان سے فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا تو میرے لئے خاموشی بہتر ہے.میرے بولنے کی یہی غرض ہوتی ہے اور اسی لئے میں تکلیف اُٹھاتا ہوں کہ آپ لوگ سنیں اور فائدہ اُٹھا ئیں.اگر میں کچھ غلط کہتا ہوں تو مجھے بتا ئیں اور اگر صحیح کہتا ہوں تو اُس پر عمل کریں لیکن کیا بعض دوستوں نے میری اس نصیحت پر عمل کیا ہے کہ منافقوں سے ہوشیار رہنا چاہئے؟ میں نے کئی خطبوں میں بتایا ہے کہ جب کوئی شخص سلسلہ کے خلاف کوئی بات کہتا ہے اور کوئی نقص یا بُرائی بتا تا ہے تو
خطابات شوری جلد اوّل ۱۴۱ مشاورت ۱۹۲۵ء اس بات کو تحقیقات کے لئے میرے پاس لانا چاہئے.مالی معاملات کے متعلق اعتراض سب سے بڑا اعتراض روپیہ کے متعلق کیا گیا ہے کہ وہ اس اس طرح خرچ کیا گیا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے.ومِنْهُم مِّن يَلْمِزُكَ في الصدقت ١٣ کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم پر بھی مال کے متعلق اعتراض کئے جاتے تھے.اب اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی اعتراض کئے گئے تو ہم کہاں بچ سکتے ہیں.اگر کہا جائے اعتراض تو نہیں کیا ہم تو پوچھتے ہیں.تو میں کہتا ہوں اس قسم کے سوال کرنا ہی بتاتا ہے کہ تم نے ان باتوں کو اہمیت دی ہے.اب ان کی صرف تصدیق کرنا باقی تھی جس کے لئے سوال کیا.پس اس قسم کا سوال کرنا ہی دلالت کرتا ہے کہ اس بات کو درست تسلیم کیا گیا ہے.میں پوچھتا ہوں کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ دس ہیں آدمیوں کے سامنے اُس سے کہا جائے ، سُنا ہے آپ نے فلاں شخص کا مال اُٹھایا ہے؟ اُس وقت کیا وہ یہی کہے گا کہ سائل نے سوال کیا ہے جس کا مجھے جواب دینا چاہئے.نہیں میں تو ایسا نہ کروں مگر کوئی اور یہی کرے گا کہ پوچھنے والے کے منہ پر تھپڑ مارے گا.دیکھو شریعت نے یہ قرار دیا ہے کہ جس پر زنا کا الزام لگایا جائے اُس کے متعلق چار گواہ لاؤ، ورنہ الزام لگانے والے کو کوڑے لگیں گے.اب اگر کوئی کسی سے پوچھے کیا آپ نے زنا کیا ہے؟ تو اُس کا یہ سوال نیک نیتی سے ہوگا ؟ اس کا مطلب یہی ہو گا کہ اگر پورا نہیں تو ایک حد تک الزام لگایا گیا ہے.نیک ظنی کو ترک نہ کیا جائے میں کہتا ہوں سوال کرنے سے پہلے ایک اور درجہ ہے جو خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اور جو یہ ہے.تو لو إذ سَمِعْتُمُوهُ ظَنّ المُؤْمِنُونَ وَالمُؤمِنتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هذا افك تبين " اگر کوئی بُری بات سنی بھی جائے تو نیک ظنی کو ترک نہ کیا جائے کیونکہ اگر وہ بُرائی ثابت ہو جائے تو نیک ظنی ترک کرنے میں کوئی بُرائی نہیں.لیکن اگر ثابت نہ ہو تو انسان دُہرا مجرم بنتا ہے.ایک تو یہ کہ اُس نے بدظنی کی اور دوسرے یہ کہ ایک بے گناہ پر الزام لگا کر اُس کا دل دُکھانے کا جرم کیا.
خطابات شوری جلد اوّل ۱۴۲ مشاورت ۱۹۲۵ء پس مومن کا پہلا کام یہ ہے کہ جس کے متعلق کوئی بات سنے اُسے کہے.پھر جو ذمہ وار آدمی ہیں انہیں تحقیقات کے لئے کہے.دیکھو شریعت نے یہ طریق رکھا ہے کہ جو شخص کوئی الزام لگائے اُس کے متعلق بدظنی ہونی چاہئے اور جس پر الزام لگے اس کے لئے حُسنِ ظنی یعنی شریعت کہتی ہے جو کسی کی بُرائی سُنائے اُسے کہو یہ غلط ہے، ہم نہیں اسے مان سکتے جب تک ثابت نہ ہو جائے.مجرم کی تائید نہیں کرنی چاہئے میں نے گزشتہ سال ہی مشاورت کے موقع پر کہا تھا کہ بہت سے فساد اس بات سے بڑھتے ہیں کہ مجرم کی تائید کی جاتی ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے.معترضوں کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر انہیں کچھ مل جائے تو راضی رہیں گے اور اگر نہ ملے تو اعتراض کریں گے.ย حضرت عثمان پر اعتراض کر نیوالے دیکھو حضرت عثمان پر حملہ کرنے والے آپ پر یہی الزام لگاتے تھے کہ آپ مال کھا گئے.مگر انہیں شہید کرنے کے بعد سب سے پہلا کام جو وہ کرتے ہیں اور جس کے متعلق ساری تاریخیں متفق ہیں وہ یہ ہے کہ وہ خزانہ کی طرف گئے ، محافظوں کو مارا اور سارا مال لوٹ لیا.دوسرا الزام وہ لوگ حضرت عثمان پر یہ لگاتے تھے کہ ان کے مقرر کردہ والیوں کے چلن ٹھیک نہیں مگر خود اُنھوں نے کیا کیا.حضرت عثمان کو شہید کیا اور جب وہ خون میں تڑپ رہے تھے تو قاتل کہہ رہے تھے دیکھو تو ان کی بیوی کے ٹرین کتنے موٹے ہیں ! پھر اس سے بھی بدتر کام اُنہوں نے کیا.مجھے خدا تعالیٰ نے بہت بڑا مرتبہ دیا ہے اور میں اس پر فخر کرتا ہوں لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ کاش! میں اُس وقت ہوتا اور اب نہ ہوتا تو میں ان لوگوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا جنھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بے پرد کیا.اور دیکھ کر کہا تھا یہ تو نوجوان ہے یا یہ ان لوگوں کی حالت تھی جو کہتے تھے کہ حضرت عثمان بدچلن ہیں اور لوگوں کے مال کھا جاتے ہیں.اعتراض کر نیوالوں کی حالت دیکھو ہر زمانہ میں اعتراض کرنے والوں کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے.تم لوگوں کو چاہئے کہ اعتراض کرنے والے کے تقویٰ اور طہارت کو دیکھو اور پھر اس کی بات کا اندازہ لگاؤ.جن
خطابات شوری جلد اوّل ۱۴۳ مشاورت ۱۹۲۵ء لوگوں سے اس قسم کی باتیں سنو اُن کے متعلق دیکھو کیا وہ متقی ہیں؟ شریعت کے ظاہری احکام کے پابند ہیں؟ اگر نہیں تو ان کی باتوں پر کس طرح اعتبار کر سکتے ہو.جن پر اعتراض کیا جائے ان کی حالت دیکھو پھر یہ دیکھو جن کے متعلق اعتراض کئے جاتے ہیں وہ کیسے ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض خراب بھی ہو جائیں مگر جہاں تک میرا خیال ہے وہ اچھے ہیں.جس طرح باہر کے لوگ چندے دیتے ہیں اسی طرح وہ بھی دیتے ہیں مگر ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو باہر کی اعلیٰ نوکریاں چھوڑ کر یہاں کام کر رہے ہیں.باہر وہ بہت زیادہ تنخواہ لے سکتے تھے اور لیتے رہے ہیں.مثلاً ذولفقار علی خان صاحب کی تنخواہ پانسو تھی اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی تنخواہ تین سو روپے تھی اور پریکٹس کی آمدنی اس سے علیحدہ تھی.چودھری فتح محمد صاحب کو دوسو پچاس روپے کی ملازمت اُس وقت ملتی تھی جب کالج سے نکلے تھے.اگر اسے منظور کر لیتے تو آج سات آٹھ سو تنخواہ لے رہے ہوتے.مولوی عبدالرحیم صاحب درد جو ایم.اے ہیں آج تک ہم انہیں نوے روپے دے رہے تھے.اب ان کے والد صاحب کی فوتیدگی کی وجہ سے ان پر زیادہ بوجھ آ پڑا ہے.اس لئے سو دیتے ہیں.میرے پرائیویٹ سیکرٹری جو گریجویٹ ہیں اُن کو تمیں روپے دیئے جاتے ہیں.باہر اس تنخواہ پر کہاں کوئی گریجویٹ مل سکتا ہے.ان لوگوں کو آپ کون سی اعلیٰ ترقی اور اعلیٰ عہدے دے سکتے ہیں.مولوی شیر علی صاحب کو جن کی ۲۵ سال کے قریب ملازمت ہے ایک سوستر مل رہے ہیں.مفتی محمد صادق صاحب جو اس وقت تک چھ سات سو روپیہ تنخواہ لے رہے ہوتے ، انہیں ہم کیا دے رہے ہیں.پھر دوسرے عملہ کو لے لو.مولوی سید سرور شاہ صاحب ہیں ، حافظ روشن علی صاحب ہیں، شیخ عبدالرحمن صاحب مصری ہیں، سید ولی اللہ شاہ صاحب ہیں.شاہ صاحب انگریزی اور عربی جانتے ہیں اور میرے نزدیک ہمارے سلسلہ میں سب سے بہتر عربی لکھنے والے ہیں.وہ گورنمنٹ کی قید میں جس قدر خرچ کرتے تھے، آپ لوگ آزادی میں اتنا بھی نہیں دے رہے.ایک سو پچاس روپے ان کی تنخواہ ہے جو کٹ کٹا کر ایک سو پندرہ رہ جاتی ہے.مولوی سید سرور شاہ صاحب کو پہلے ستر ملتے تھے، اب سو ملتے ہیں.شیخ عبد الرحمن صاحب مصری جو مصر سے پڑھ کر آئے ہیں اور انگریزی بھی
خطابات شوری جلد اوّل ۱۴۴ جانتے ہیں کسی کالج میں پروفیسر ہو سکتے ہیں، انہیں نوے ملتے ہیں.مشاورت ۱۹۲۵ء اب بتاؤ یہ لوگ جو باہر کی بڑی بڑی تنخواہیں چھوڑ کر یہاں تھوڑی تھوڑی تنخواہیں لے رہے ہیں تو کیا اس لئے کہ بد دیانتی کر کے کبھی سو دوسو روپے حاصل کر لیں.سائلوں سے سوال پس پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ ایسی باتیں بتانے والے کون لوگ ہیں اور دوسرے یہ کہ کن کے متعلق بتاتے ہیں.میں بتانے والوں کو تو منافق کہتا ہوں مگر جو سائل ہیں ان سے کہوں گا پہلے ایسی قربانی کر کے دکھاؤ جیسی مرکز میں کام کرنے والے دکھا رہے ہیں اور پھر اعتراض کرو اور ان سے بہتر کام کر کے دکھاؤ.ہمیں کام کرنے والے آدمی چاہئیں اور جو بھی اچھا کام کرے اُسے ہم لینے کے لئے تیار ہیں.جن کے متعلق سوال کئے گئے ہیں اُن میں سے ایک بھی میرا ایسا رشتہ دار نہیں جو میرے زمانہ خلافت میں نوکر ہوا ہو.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب میرے رشتہ دار ہیں یہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں یہاں آئے اور جب آئے تو میں ان کے آنے کا سخت مخالف تھا.اُس وقت میں یہی کہتا تھا کہ چار سو کی بجائے ستر روپے ماہوار میں کس طرح گزارہ کر سکیں گے.میرے دوسرے رشتہ دار سید ولی اللہ شاہ صاحب ہیں مگر جب وہ کام پر لگے اُس وقت میرے رشتہ دار نہ تھے.سو مجھے اِن لوگوں سے کیا ہمدردی اور ان کی کیا خاطر داری منظور ہو سکتی ہے.سوائے اس کے کہ میں انہیں زیادہ قربانی کرنے والا اور زیادہ مخلص دیکھتا ہوں.آپ لوگ ان سے زیادہ قربانی کر کے دکھائیں، میں تمہاری بھی اُسی طرح قدر کروں گا جس طرح ان کی کرتا ہوں لیکن میں باوجود ان کی قربانی اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے کے ان سے جتنا بھی سختی کا معاملہ کرتا ہوں، اُسے خوشی سے برداشت کرتے ہیں.ان حالات میں اِن لوگوں کا حق ہے کہ آپ لوگ ان کا ادب اور احترام کریں.تمہارے مد نظر یہ بات ہونی چاہئے کہ ان لوگوں نے سلسلہ کے لئے قربانیاں کی ہیں اور وہ کام کر رہے ہیں جس کا کرنا تمہارے لئے بھی اُسی طرح فرض ہے جس طرح ان کے لئے ہے.پس ان پر بلا وجہ اور بے محل اعتراض کرنا غلطی ہے.اعتراض کرنے کا حق آپ لوگوں کو ہے مگر اعتراض اس رنگ میں کرو کہ سلسلہ کے کام میں ترقی کا باعث ہوں نہ کہ نقصان کا.
خطابات شوری جلد اوّل ۱۴۵ مشاورت ۱۹۲۵ء الزام لگانے والے خود مجرم ہوتے ہیں میں نے جہاں تک تحقیقات کی ہے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ الزام لگانے.والے خود کسی نہ کسی بات میں مجرم ہوتے ہیں اور وہ شرارت سے دوسروں پر الزام لگاتے ہیں.کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ ایک افسر جو اپنے عہدہ کی ذمہ داری کی وجہ سے کسی شخص کو پکڑتا اور مجرم قرار دے کر سزا دلاتا ہے اس پر سزا پانے والا خوش ہو سکتا.نا ہے؟ وہ در پردہ اُس افسر کے خلاف باتیں مشہور کرتا ہے.اب اگر اس مجرم کی باتوں کو صحیح تسلیم کر کے اس سے ہمدردی کا اظہار کیا جائے گا اور افسر کے خلاف خیالات دل میں بٹھائے جائیں گے تو کون شخص ہو گا جو اس صیغہ کا کام کرنے کے لئے تیار ہوگا؟ اس صورت میں کوئی تیار نہ ہوگا.پھر بہت سے کام ایسے ہیں جو کسی آدمی کے بطور خود کرنے کے نہیں بلکہ وہ کام ایک کمیٹی میں پاس ہوتے ہیں جس کے میاں بشیر احمد صاحب، قاضی امیرحسین صاحب،مفتی محمد صادق صاحب، مولوی شیر علی صاحب، خلیفه رشید الدین صاحب، ذوالفقار علی خان صاحب، چودھری فتح محمد صاحب، چودھری نصر اللہ خان صاحب، میر محمد اسحاق صاحب، مولوی سید سرور شاہ صاحب، میر محمد اسمعیل صاحب، سیدعبدالستار شاہ صاحب، ڈاکٹر کرم الہی صاحب ممبر ہیں.کیا یہ سب آدمی مل کر کوئی بد دیانتی کریں گے؟ میری عقل تو اس بات کو نہیں مان سکتی.چودھری نصر اللہ خان صاحب سلسلہ کی خدمت کے لئے کام چھوڑ کر یہاں آگئے ہیں.کوئی تنخواہ نہیں لیتے بلکہ سال میں چار پانچ سو روپیہ چندہ دیتے ہیں.کیا وہ یہاں خائنوں کے ساتھ مل کر اپنا ایمان تباہ کرنے کے لئے رہتے ہیں؟ ان حالات کو مدنظر رکھ کر سوالات کو دیکھو.گویا بیل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں نرس جو آئی ہے اُسے زیور بنا دیا جائے.اگر کوئی یہ خیال کر سکتا ہے کہ یہ عیاش اور اوباش ہیں تب تو اس قسم کا فیصلہ کر سکتے ہیں ور نہ ان کے متعلق کس طرح یہ سوال ہو سکتا ہے.پس اگر اس رنگ میں اعتراض ہوں گے تو کوئی کام نہیں کر سکتا.اعتراض کر نیوالوں کی سب کمیٹی میں نے باوجود ان سوالات کے مجلس مشاورت کے خلاف ہونے کے جوابات دینے کا موقع دیا تا کوئی یہ نہ کہے کہ کوئی بات تھی اسی لئے جواب نہیں دیا گیا اور میں اسی پر بس نہ کروں گا بلکہ
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۴۶ مشاورت ۱۹۲۵ء جنہوں نے اعتراض کئے ہیں اُن کی سب کمیٹی بناؤں گا.اور دفاتر کا سارا ریکارڈ اُن کو دوں گا تا کہ وہ تحقیقات کریں.پھر اگر ان کے اعتراضات صحیح ثابت نہ ہوئے تو جنہوں نے سوال کئے ہیں وہ بھی قصور وار ہوں گے.مگر جس کسی نے ان کو بتائے اُن کو جماعت سے خارج کر دوں گا اور اگر سچے ثابت ہوئے تو جس ناظر کے متعلق ثابت ہوں گے وہ یہاں نہیں رہ سکے گا.منشی فرزند علی صاحب شیخ محمد حسین صاحب سب حج اور ملک عزیز احمد صاحب کی میں کمیٹی بناتا ہوں.اگر ان کے بیان کردہ الزام غلط ثابت ہوئے تو وہ مجرم ہوں گے اور اُنہیں جواب دہی کرنی ہوگی اور جنہوں نے ان کے دل میں یہ سوال ڈالے انہیں جماعت سے خارج کر دوں گا.گویا اس معاملہ میں خود مدعی حج ہوگا وہ اپنے دعوی کا خود فیصلہ کرے گا.اس سے بڑھ کر اور کیا کیا جاسکتا ہے.خرید کتب کے متعلق سوال اب میں سوالات کی طرف آتا ہوں.ایک سوال یہ کیا گیا ہے کہ ایڈیٹر نور اور ایڈیٹر فاروق سے جو کتابیں خریدی گئی ہیں وہ کیوں خریدی گئی ہیں اور کتنی کتنی قیمت کی خریدی گئی ہیں؟ مجھے تعجب ہے کہ یہ سوال کس بناء پر کیا گیا ہے.پوچھا گیا ہے ریویو کے دفتر سے کیوں کتابیں خریدی گئیں اور نور سے کیوں نہ خریدی گئیں؟ میں پوچھتا ہوں کیا ریویو میرا ہے؟ اگر میرا ذاتی نہیں بلکہ جماعت کا ہی ہے تو پھر دو بک ڈپوز کو ملانے کے لئے اگر ایک کی کتابیں خریدی گئیں تو کیا حرج ہوا.اور کیا اس وجہ سے ضروری ہو گیا کہ ایک دفتر سے خریدی ہیں تو دوسرے سے بھی ضرور خریدیں.دیکھو اگر یہ میز جو صدر انجمن کی ہے، پچاس ہزار روپیہ پر بھی نظارت خرید لے تو اسے بد دیانتی نہیں کہا جائے گا.یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اس قدر رقم یوں ہی دے دی جاتی میز کا نام رکھ کر دینے کی کیا ضرورت تھی.مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بددیانتی ہے.اسی سلسلہ میں دوسرا سوال اس مطلب کا کیا گیا ہے کہ فاروق سے کتنے کی کتابیں خریدی گئیں اور نور سے کیوں نہ خریدی گئیں؟ اشتہارات مسیح موعود کی اشاعت ایڈیٹر فاروق سے قصور ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات جو ملتے نہ تھے اس نے اکٹھے کئے.گویا اس نے یہ غلطی کی کہ کئی سال کی محنت سے ان اشتہارات کو جمع کیا.
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۴۷ مشاورت ۱۹۲۵ء دوسری غلطی اس نے یہ کی کہ اپنا سرمایہ لگا کر ان اشتہارات کو کتاب کی شکل میں شائع کیا.آگے نظارت نے یہ غلطی کی کہ اُس نے اِن کتابوں کو خرید لیا ( اس جرم کی وجہ سے سب ناظر خائن ہو گئے ) میں پوچھتا ہوں کہ یہ فی الواقعہ ایڈیٹر فاروق اور نظارت کا قصور تھا ؟ بجائے اس کے کہ فاروق والے کو انعام دیا جاتا، جماعت اُس کا شکر یہ ادا کرتی کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کو جو موتیوں سے بھی زیادہ قیمتی ہیں، محفوظ کرنے کی کوشش کی اور اکیلے نے وہ کام کیا جو ساری جماعت نے نہ کیا.یا اس کے مقابلہ میں یہ کہ اسے پیسا جاتا اور نظارت جسے کچھ اور کرنا چاہئے تھا اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے کتابیں کیوں خرید لیں.اور اگر خرید لیں تو دوسروں کی کتابیں بھی خریدنی چاہئیں تھیں.میں کہتا ہوں تم احمدی کہلاتے ہوئے یہ سوال کس طرح کر سکتے ہو.مگر افسوس ہے احمدی کہلاتے اور کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں خریدی گئیں تو نور کی کیوں نہ خریدیں.میں کہتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ کا مقابلہ کسی اور کی تحریروں سے کرتا ہے اُس کے لئے حرام ہے کہ کسی قسم کا چندہ دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جوتی کے ٹکڑے کی قدر مجھے تو اگر حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جوتی کا ٹکڑا بھی ملے گا تو میں اُسے خرید لوں گا.اور میں اُنہی کا چندہ لوں گا جو میری طرح اسے خریدنے کے خواہش مند ہوں گے دوسروں سے چندہ لینے کی مجھے ضرورت نہیں ہے.مجھے انسانوں کی ضرورت اور احتیاج اُسی وقت تک ہے جب تک میرے خدا نے انہیں پیدا کیا ہے.اگر یہ نہ رہیں گے تو خدا تعالیٰ مجھے زمین سے رزق دے گا اور آسمان سے میرے لئے نازل کرے گا.عیسائیوں کو دیکھو دیکھو عیسائی جن کے عقائد کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے انہیں پیٹر (St.Peter) کا ایک مشکوک خط ملتا ہے مگر وہ اُسے پچاس ہزار روپیہ پر خرید لیتے ہیں.اسی طرح پطرس کا خط جو حضرت مسیح کا حواری تھا ۷۵ ہزار پر خریدتے ہیں.مگر تم احمدی کہلاتے ہوئے اس بات پر اعتراض کرتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے اشتہار ایک ہزار کے قریب
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۴۸ مشاورت ۱۹۲۵ء رقم پر کیوں خریدے گئے.کیا تمہارا یہ منشاء ہے کہ جس نے انہیں محنت سے جمع کیا، چھپوایا ، اس پر اپنا سرمایہ لگایا، اُسی کے پاس وہ بند پڑے رہتے؟ احمدیوں نے تو اس سے نہ خریدے، نظارت نے خرید لئے جس سے وہ مجرم ہو گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے تھے اور نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کی قدر و قیمت محمد صل اللہ علیہ وسلم کا بروز ہو کر آئے تھے اس لئے آپ کے قلم سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ دنیا کی ساری کتابوں اور تحریروں سے بیش قیمت ہے اور اگر کبھی یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر کی ہوئی ایک سطر محفوظ رکھی جائے یا سلسلہ کے سارے مصنفین کی کتابیں؟ تو میں کہوں گا آپ کی ایک سطر کے مقابلہ میں یہ ساری کتابیں مٹی کا تیل ڈال کر جلا دینا گوارا کروں گا مگر اس سطر کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنی انتہائی کوشش صرف کر دوں گا.ہماری کتابیں کیا ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کی تشریحیں ہیں اور تشریحیں کرنے والے اور بھی پیدا ہو سکتے ہیں مگر پھر نبی نہیں آسکتا اور اس قوم میں سے ہر گز نہیں آ سکتا جس نے پہلے نبی کی یہ قدر کی ہو.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے اُن کی بے قدری کی تھی نتیجہ کیا ہوا ؟ یہ کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا اب شریعت والا نبی تم میں سے نہ ہوگا.پس تم بھی ان لوگوں کی طرح نہ بنوتا خدا تعالیٰ کے فضل سے محروم نہ کئے جاؤ.ناظر تعلیم و تربیت کا سفر شملہ ایک اور سوال یہ کیا گیا ہے کہ ناظر تعلیم وتربیت نے شملہ کا سفر سلسلہ کے اخراجات پر کیوں کیا؟ کل اس کا یہ جواب دیا گیا تھا کہ ناظر تعلیم و تربیت نے شملہ کا سفر نہیں کیا.یہ درست جواب تھا.بعض نے کہا ٹلاواں جواب تھا.یہ بھی درست تھا.ناظر تعلیم و تربیت کی علاوہ اپنے اس عہدہ کے ایک اور بھی حیثیت ہے اور وہ ولی اللہ شاہ کی حیثیت ہے.اُنہوں نے ولی اللہ شاہ کی حیثیت سے اپنے خرچ پر شملہ کا سفر کیا تھا اور اپنے بھائی کی ملازمت کے متعلق کیا تھا.کیا سوال کرنے والے کا یہ مطلب ہے کہ جو شخص سلسلہ کا کوئی کام کرے اُسے اپنے بھائی کی کسی
خطابات شوری جلد اوّل ۱۴۹ مشاورت ۱۹۲۵ء قسم کی مدد نہ کرنی چاہئیے ؟ اگر یہ نہیں تو دفتر میں بل موجود ہیں، خزانہ کے حساب کی کتب موجود ہیں.اُن میں دیکھ سکتے ہیں کہ کیا کوئی رقم اس سفر پر خرچ ہوئی ہے؟ اگر نہیں تو میں نہیں سمجھتا یہ کونسا شریفانہ طریق ہے کہ اس طرح لوگوں کے پرائیویٹ معاملات کی جستجو کی جائے.یہ سچ ہے کہ کل جو جواب دیا گیا تھا ، وہ ٹلا واں جواب تھا مگر وہ درست بھی تھا کیونکہ ناظر تعلیم و تربیت اس حیثیت سے نہیں گیا تھا بلکہ اپنی ذاتی حیثیت سے اپنے بھائی کی ملازمت کے لئے گیا تھا اور ذوالفقار علی خان صاحب کو بھی ساتھ لے گیا تھا مگر اپنے خرچ پر.اور اس پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے.ناظر امور عامہ اور سٹور کا قرض ایک سوال یہ کیا گیا ہے کہ ناظر امور عامہ کے ذمہ سٹور کا قرض ہے.اگر صرف اسی کے ذمہ قرض ہوتا، کسی اور کی طرف نہ ہوتا تو بھی میرے نزدیک یہ کوئی اعتراض کے قابل بات نہ تھی.سٹور ایک دکان تھی اور دُکان سے لوگ قرض لیتے ہیں اور ناظر ہونے کی وجہ سے تمام انسانی حقوق زائل نہیں ہو جاتے.اگر اس کے پاس روپیہ نہ ہو، خرچ کی تنگی ہو تو کیا وہ اپنے بال بچوں کو اس لئے بھوکا مار دے کہ وہ ناظر ہے اور قرض لے کر ان کے کھانے پینے کا انتظام نہ کرے؟ پھر اور لوگوں نے بھی قرضہ لیا تو کیا اس لئے لیا کہ وہ بھی ناظر تھے؟ سٹور کے بیسیوں حصہ دار ہیں اور اُن کو معلوم ہے کہ سٹور کے بہت سے قرض دار ہیں جو سب کے سب انجمن یا نظارت کے ملازم نہیں اور نہ وہ کسی صیغہ کے ناظر ہیں.اگر ان میں ناظر امور عامہ کے ذمہ بھی کچھ رقم ہے اور وہ بھی بعد میں نکلی ہے تو کیا یہ کوئی بددیانتی کہلا سکتی ہے؟ اور کسی کو کیا حق ہے کہ اس کے متعلق سوالات پوچھے.یہ تینوں اشخاص جن کے میں نے نام لئے ہیں، سرکاری ملازم ہیں.میں پوچھتا ہوں کیا کوئی ان کے متعلق ان کے بالا افسروں کے پاس یہ رپورٹ کر سکتا ہے کہ یہ لوگ فلاں دُکان سے کیوں سو دا خریدتے ہیں یا فلاں دُکان سے کیوں ادھار لیتے ہیں؟ ناظر امور عامہ اور بورڈنگ کا بقایا ایک اور سوال یہ کیا گیا ہے کہ ناظر امور عامہ کے ذمہ بورڈنگ ہائی سکول کا بقایا ہے.اس کے متعلق اول تو میں کہتا ہوں کہ کوئی بقایا ہے نہیں.نہ ناظر امور عامہ کے ذمہ اور نہ
خطابات شوری جلد اوّل ۱۵۰ مشاورت ۱۹۲۵ء ذوالفقار علی خان کے ذمے.جتنا روپیہ ان کے ذمہ تھا وہ ادا کر چکے ہیں لیکن اگر ہوتا بھی تو کیا یہ کوئی مجرم ہے اور اسے خیانت قرار دیا جاسکتا ہے؟ جتنے ناظر ہیں ان کے ذمہ تو بورڈنگ کا کوئی بقایا نہیں.البتہ اور کم از کم تین سو ایسے احمدی ہیں جن کے ذمہ بقایا ہے.جن کی فہرست مفتی محمد صادق صاحب پڑھنے لگے تھے مگر انہیں روک دیا گیا ہے.میں پوچھتا ہوں کیا ناظر امور عامہ کے لئے مالی تنگی نہیں ہو سکتی ؟ اگر ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے تو پھر ان کے ذمہ بقایا ہوتا تو کیا حرج ہوتا.پھر کئی لڑکے بیت المال سے وظیفے لے کر پڑھتے ہیں.اگر سلسلہ کے وہ کارکن جن کی تنخواہیں تھوڑی ہیں، اُن کے لڑکوں کی پڑھائی کے لئے کچھ خرچ کرنا پڑے تو کیا حرج ہے.صرف زکوۃ کے متعلق فتنہ انگیز سوال ایک خطرناک سوال جو جماعت میں تفرقہ پیدا کرنے والا ہے یہ کیا گیا ہے کہ کیا زکوۃ کا روپیہ صرف قادیان کے غریبوں پر ہی خرچ ہوتا ہے یا جو احمدی غریب باہر رہتے ہیں اُن کو بھی کچھ دیا جاتا ہے؟ میں پوچھتا ہوں کیا غرباء یہاں پیدا ہوتے ہیں یا باہر سے آتے ہیں؟ کیا وہ افغان جن پر آجکل کابل میں ظلم وستم ہورہے ہیں وہ قادیان میں پیدا ہوئے؟ کیا سماٹرا کے جو طالبعلم تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ یہاں کے ہیں؟ اگر باہر کے ہیں تو کیا اس وجہ سے کہ نعوذ باللہ وہ اپنی بد قسمتی سے خدا تعالیٰ کی اس مقدس سر زمین میں آ گئے.انہیں بُھو کے مار دینا چاہئے؟ کیا بنگال، مدراس اور پنجاب کے مختلف مقامات کے غریب اور نادار لوگ جو یہاں آتے ہیں، اس لئے زکوۃ سے کچھ لینے کے مستحق نہیں رہتے کہ وہ یہاں آ جاتے ہیں؟ جن لوگوں پر اس قسم کے اخراجات کئے جاتے ہیں ان کی لسٹیں دفاتر میں موجود ہیں ان کو پڑھو اور دیکھو کہ وہ یہاں کے باشندے ہیں یا باہر کے.کہا گیا ہے کہ کیا باہر کی احمد یہ جماعتوں کے امیروں اور سیکرٹریوں کو کبھی لکھا گیا ہے کہ ایسے احمدیوں کی فہرست بھیجو جو زکوۃ لینے کے مستحق ہوں؟ میں کہتا ہوں کیا یہ ہوسکتا ہے کہ قادیان کی گلیوں میں تو غریب اور نادار احمدی بُھو کے مرتے رہیں اور خدا تعالیٰ کے مسیح کی دیواروں کے ساتھ بیوائیں اور یتیم بھوک کے مارے سر ٹکراتے رہیں لیکن ہم چٹھیاں لاہور، فیروز پور اور راولپنڈی لکھتے رہیں کہ وہاں کے غرباء کی فہرستیں بنا کر بھیجو.کیا یہ قادیان اور غیر قادیان کا
خطابات شوری جلد اوّل ۱۵۱ مشاورت ۱۹۲۵ء سوال پیدا کرنا فتنے کی کوشش نہیں ؟ مگر میں نے بتایا ہے کہ یہ بالکل غلط اور جھوٹا سوال ہے.کوئی قادیان کا شخص اس فنڈ سے کچھ نہیں لے رہا.سب کے سب باہر کے ہیں.کوئی سیالکوٹ کا ہے، کوئی لاہور کا ہے، کوئی بنگال کا ہے، کوئی سندھ کا ہے، کوئی افغانستان کا ہے، کوئی سماٹرا کا ہے، قادیان والوں کو کچھ نہیں دیا جاتا.حالانکہ اِن کا حق ہے کہ ہم سے اس کا مطالبہ کریں.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی ملازمت ایک اعتراض ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب کی ملازمت کے متعلق کیا گیا ہے.ڈاکٹر صاحب ۱۴ سال سے انجمن کا کام کر رہے ہیں.بے شک یہ بات صحیح ہے کہ شفاخانہ کی طرف ان کی خدمات کو منتقل ہوئے سال سوا سال کا عرصہ ہوا ہے.مگر ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ میں جانے سے ملازمت کا سلسلہ ٹوٹ نہیں جاتا.ہاں ان کے متعلق ایک بات ہے جس کے متعلق مجھے بھی اختلاف تھا.جب یہاں کی رہائش کی وجہ سے ان کے اخراجات نہ چلے اور وہ مقروض ہو گئے تو انہوں نے انجمن کے کام سے استعفاء دے دیا تا کہ باہر جا کر کام کریں.اُس وقت میں نے انہیں سمجھایا کہ ایک کام جس کو چھوڑے دس بارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور پھر جب کہ پرائیویٹ پریکٹس شروع کرنی ہے تو ناممکن ہے کہ کامیابی ہو سکے مگر اُس وقت ان کے بھی قرض کی وجہ سے حواس درست نہ تھے اُنہوں نے میرے مشورہ کو نہ مانا اور لاہور جا کر کام شروع کر دیا.وہاں انہیں ماریشس کی احمد یہ جماعت نے لکھا کہ یہاں ڈاکٹر کو معقول آمدنی ہو سکتی ہے یعنی ہزار پندرہ سو روپیہ ماہوار کے قریب.چونکہ مسلمان ڈاکٹر کوئی نہیں اس لئے اگر آپ آجائیں تو کامیابی کی امید ہے.ڈاکٹر صاحب وہاں جانے کے لئے تیار ہو گئے.میرے نزدیک وہاں ان کی پریکٹس چل سکتی تھی، اپنی جماعت مدد کے لئے تیار تھی اور دوسرے لوگوں کو بھی مسلمان ڈاکٹر کی ضرورت تھی.جب وہ وہاں جانے کے لئے تیار ہو گئے تو یہاں ملنے کے لئے آئے.اُس وقت بعض دوستوں نے مجھے لکھا کہ ڈاکٹر صاحب کو جانے نہ دینا چاہئے.یہ بوڑھے ہو چکے ہیں اور مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ میں سے ہیں لیکن میں ایسی باتوں میں خاص طور پر احتیاط کیا کرتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ منافق موجود ہیں.وہ یہ نہیں دیکھیں گے
خطابات شوری جلد اوّل ۱۵۲ مشاورت ۱۹۲۵ء کہ یہ اس وقت ایمان لائے تھے جب لوگ حضرت مسیح موعود کو کافر کہتے تھے بلکہ وہ دیکھیں گے کہ ڈاکٹر صاحب کی لڑکی مجھ سے بیاہی ہوئی ہے.میں نے ان دوستوں سے کہا میں اس امر میں تمہارے ساتھ متفق نہیں ہوں مگر انہوں نے پھر زور دیا.اس پر میں نے کہا سب اکٹھے مل کر حلفیہ یہ لکھ کر دو کہ اس بارے میں اشارتاً یا کنایتاً میں نے تم سے کچھ نہیں کہا تا کہ میری عزت محفوظ ہو جائے.چنانچہ اُنہوں نے حلفیہ یہ لکھ کر دیا کہ میں نے اُن سے اشارتاً یا کنایتاً بھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا.اور ڈاکٹر صاحب کو یہاں رکھ لینے کی تجویز ان کی اپنی ہی ہے اور ضرورت بھی فی الواقعہ ان کی ہے.صرف یہاں رکھنے کے لئے یہ کام نہیں نکال لیا گیا.پھر میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب کام کیا کریں گے؟ کہا گیا سیکرٹری ص انجمن کا کام کریں جو پہلے بھی کرتے رہے ہیں.میں نے کہا میں انہیں اس قابل نہیں سمجھتا کیونکہ یہ بہت بوڑھے ہو گئے ہیں.تب انہوں نے کہا انہیں انچارج شفاخانہ مقرر کیا جائے یہ ان کے رکھنے کا واقعہ ہے.میں سمجھتا ہوں شفا خانہ میں آدمی زیادہ ہیں مگر اس وجہ سے کہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے اس کو بنایا ہے اور وہ گویا اس کے باپ ہیں ان کی ناقدری صدر نہیں کی جاسکتی اور ڈاکٹر عبداللہ صاحب بھی بہت پرانے کام کرنے والے ہیں.یہ وہ حالات ہیں جو ڈاکٹر صاحب کے رکھنے کے متعلق ہیں.میں سائل کی اس بات سے متفق ہوں کہ کم آدمی بھی شفا خانہ میں کام کر سکتے ہیں لیکن اگر زیادہ کام کرنے والے ہوں تو ارد گرد کے علاقہ پر ہم بہ آسانی قبضہ کر سکتے ہیں اور شفاخانہ اور مدرسہ جس قدر مضافات کے متعلق سیاسی کام کر رہا ہے، وہ بہت بڑا ہے.ڈاکٹر صاحب سابقون میں سے ہیں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے سب سابقون رشتہ دار تھے اور آپ اُن کی خاص طور پر قدر کرتے تھے.ایک دفعہ حضرت ابو بکر سے کسی کی لڑائی ہوئی تو آپ نے فرمایا کیا تم لوگ مجھے اور ابوبکر کو نہیں چھوڑتے.اس نے مجھے اُس وقت مانا جب تم کافر کہتے تھے.ڈاکٹر صاحب پُرانے آدمیوں میں سے ہیں، ان کے والد مشہور آدمی تھے جو اسلامیہ کالج لاہور کے بانیوں میں سے تھے.ڈاکٹر صاحب نے طالب علمی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی اور پھر سلسلہ کی مالی خدمت اس قدر کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو لکھا اب آپ کو اور دینے کی ضرورت نہیں.
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۵۳ مشاورت ۱۹۲۵ء کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شاہ نواز صاحب نے ان کی بجائے کم تنخواہ پر اپنے آپ کو پیش کیا تھا.ڈاکٹر شاہ نواز خلص نوجوان ہیں اور میں سمجھتا ہوں ایسے موقع پر وہ اپنے آپ کو پیش کرنے کے لئے تیار نہ ہوں گے اور سمجھیں گے کہ جس نے اس موقع پر ان کا نام لیا ہے وہ ان کا دوست نہیں.ناظر امور عامہ کا سفر خرچ ایک سوال ناظر امور عامہ کے سفر خرچ کے متعلق کیا گیا ہے.اگر لمبا سفر ہو تو زیادہ خرچ ہو سکتا ہے.اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے.ناظر امور عامہ کے گھٹنے میں درد رہتا ہے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ سفر میں نہ جانا پڑے اور یہ ہمیں ان سے شکوہ رہتا ہے کہ وہ سفر سے بچنا چاہتے ہیں.پچھلے سال انہیں سفر یورپ کے متعلق سہولتیں پیدا کرنے اور دوسرے ضروری کاموں کے لئے سفر کرنے پڑے.جن میں ۲۳۵ روپے ۲ آنے خرچ ہوا.اس میں ولایت جانے والے وفد کے پاسپورٹوں کا خرچ اور ان لوگوں کے گورداسپور آنے جانے کا خرچ بھی شامل ہے.کیا یہ ناجائز سفر تھے ؟ کیا سفر ولایت کو مفید بنانے یا اور ضروری کاموں کے لئے سفر نہ کئے جاتے ؟ یورپین نرس کے متعلق سوال ایک سوال نرس کے متعلق کیا گیا ہے.وہ یورپین عورت ہے جو مسلمان ہو چکی ہے اور اسلامی شعار کی پابندی کرنے کی کوشش کرتی ہے بُرقعہ پہنتی ہے.ایک دن وہ میرے پاس آ کر رو پڑی کہ مجھ سے بُرقعہ نہیں پہنا جاتا کیونکہ یہ اس کے لئے ایک سخت پابندی ہے مگر پھر بھی وہ پہنتی ہے.ایسی عورت کی جو یورپین عورتوں کے لئے بطور نمونہ ہو سکتی ہے مؤلّفةُ القُلوب کے طور پر امداد کرنا ضروری ہے اس پر اعتراض کیا ہوسکتا ہے.وہ یورپ کی قوموں سے تعلق رکھنے والی ہے جو پردہ کی سخت دشمن ہیں.اس سے ہم شفاخانہ میں کام کراتے اور تنخواہ دیتے ہیں.اگر یہ بد دیانتی ہے تو کیا دیانتداری یہ ہوتی کہ اسے فاقے مارتے اور کوئی امداد نہ کرتے ؟ میں کہتا ہوں اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مؤلفۃ القلوب کے طور پر مکہ کے لوگوں کو جانوروں کے گلے ( ریوڑ ) دیگر مجرم نہیں ہوئے تھے تو ہم ایک یورپین عورت سے جو اسلامی شعار کی پابند ہے، کام کرا کر ساٹھ روپے تنخواہ دینے سے کیونکر مجرم ہو گئے !!
خطابات شوری جلد اوّل ۱۵۴ مشاورت ۱۹۲۵ء ایک سوال اس کی لڑکی کے متعلق کیا گیا ہے کہ کیا اُس کو بھی ہسپتال سے تنخواہ دی جاتی ہے مگر اس کی لڑکی کو کوئی تنخواہ نہیں دی جاتی.وہ لڑکی یہاں آنے سے قبل مری میں پڑھتی تھی اُس کی تعلیم کے لئے میں نے زکوۃ کی مد سے بیس روپے وظیفہ مقرر کیا تھا اور زکوۃ کی مددہ ہے کہ اگر اس مد کا ہمیں چھپیس ہزار روپیہ بھی میرے پاس ہو اور میں ایک شخص کو بلا کر کہوں کہ یہ سارے کا سارا لے جاؤ تو کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ روک سکے کیونکہ یہ مدمیری ذات سے تعلق رکھتی ہے اور میری اور صرف میری ہی ذات اس کے خرچ کرنے سے تعلق رکھتی ہے.وہ روپیہ اس شرط کے ساتھ کہ میں اُسے اپنی ذات پر خرچ نہ کروں، میرا ہی ہے اور مجھے اختیار ہے کہ میں اس میں سے اُن لوگوں کو جنہیں دینے کی قرآن کریم نے اجازت دی ہے جتنا چاہوں دوں، کسی کو اس کے متعلق کچھ کہنے کا حق نہیں ہے.میں نے اس روپیہ میں سے بیس روپے اس کے لئے مقرر کئے تا کہ وہ تعلیم جاری رکھ سکے.ڈاکٹر شاہ نواز صاحب اُن دنوں نور ہسپتال میں کام کرتے تھے انہوں نے نرس کو سمجھایا کہ وہ مری میں عیسائیوں کے سکول میں اپنی لڑکی کو پڑھنے کے لئے نہ بھیجے تاکہ لڑکی کے متعلق مشکلات نہ پیدا ہوں.اس پر اُس نے مجھے چٹھی لکھی کہ میں اب وہاں نہیں بھیجنا چاہتی وہ یہاں ہی پڑھے.چونکہ وہ وظیفہ جاری کیا جا چکا تھا اور وہ لڑکی یہاں پڑھ رہی ہے سات سپارے پڑھ چکی ہے اس لئے میں نے اسے جاری رکھا.اگر یہ جائز نہیں تو میں اس کے متعلق خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوں.کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے.کہا گیا ہے کیا نرس کو زیور بنوا کر دیئے گئے ہیں؟ یہ بالکل جھوٹ اور بہتان ہے.اب تحقیقات ہو گی اگر ایک پیسہ کا زیور بھی ثابت ہو گیا تو ہم بنوا کر دینے والے کو پکڑیں گے اور اگر نہ ثابت ہوا تو اعتراض کرنے والے جواب دہ ہوں گے.گو میں سمجھتا ہوں اگر تألیف قلوب کے طور پر ایک مرد کو کپڑے بنوا کر دیئے جا سکتے ہیں تو کسی عورت کو زیور بھی دیئے جا سکتے ہیں مگر آج تک کسی کو دیئے نہیں گئے.آئندہ اس کے متعلق بھی خیال رکھیں گے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو سکے.اس کے متعلق بھی ہم کو اختیار ہے.اسی سلسلہ سوالات میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ کیا ڈاکٹر عبداللہ صاحب کی بیوی اس انگلش نرس سے زیادہ مڈوائفری کا کام جانتی ہے اور اسے انگلش نرس سے کم تنخواہ پر ہسپتال
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۵۵ مشاورت ۱۹۲۵ء رکھا گیا یا زیادہ پر ؟ مجھے جہاں تک علم ہے ڈاکٹر عبداللہ صاحب کی بیوی نہ مڈوائفری کا کام جانتی ہیں اور نہ وہ کبھی ہسپتال میں نوکر ہوئیں.میں پوچھتا ہوں کسی کی بیوی کے متعلق اس قسم کے سوالات کرنا کیا اُس کی ہتک نہیں ؟ ڈاکٹر عبداللہ صاحب کی بیوی نے کبھی ایک گھنٹہ بھی ہسپتال میں کام نہیں کیا مگر بلا وجہ بیویوں تک سوال کئے جا رہے ہیں.مجھے نہیں معلوم انہیں کام آتا بھی ہے یا نہیں.ممکن ہے ڈاکٹر صاحب نے سکھا دیا ہومگر یہ مجھے معلوم ہے کہ کبھی ایک گھنٹہ کے لئے بھی اُنہوں نے ہسپتال میں کام نہیں کیا.اس کے لئے مجلس شوریٰ میں یہ سوال کرنا کہ بتایا جائے کہ وہ کس قدر لیاقت رکھتی ہیں، اُن کو کیا تنخواہ دی گئی ہے بہت نا مناسب ہے.سوالات کے متعلق افسوس میں نہایت افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس قسم کے سوالات کرنے کا یہ موقع نہیں تھا.اور اس سے بھی زیادہ افسوس مجھے اس بات کا ہے کہ جن کے متعلق سوالات کئے گئے ہیں انہیں خواہ مخواہ تکلیف پہنچ گئی ہے، ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان پر بہت ظلم کیا گیا ہے اس لئے میں منشی فرزند علی صاحب، شیخ محمد حسین صاحب اور ملک عزیز احمد صاحب کی سب کمیٹی مقرر کرتا ہوں.شیخ صاحب یہاں نہیں آئے اگر وہ آسکیں تو اُن کا انتظار کر لیا جائے ورنہ کام شروع کر دیا جائے.ناظر صاحبان وہ تمام کا غذات انہیں مہیا کریں جن کی تحقیقات کے لئے ان کو ضرورت ہو.وہ تحقیقات کر کے اس کے نتیجہ سے مجھے اطلاع دیں اور ساتھ ہی اُن ناموں کی فہرست بھی دیں جنہوں نے اس قسم کی باتیں بنائی ہیں تاکہ ان کے متعلق بھی تحقیقات کی جا سکے.“ حضور کی اس تقریر کے بعد ڈاکٹر شاہ نواز صاحب نے اعلان کیا کہ میں نے کبھی اپنی خدمات کو ڈاکٹر رشید الدین صاحب کے مقابلہ میں نور ہسپتال کے لئے پیش نہیں کیا.میر محمد اسحق صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح کے حضور عرض کیا.میں نے منشی فرزند علی صاحب کے سوالات پڑھے ہیں ان میں اعداد و شمار کا ذکر ہے اور کوئی ایسی بات نہیں جس میں کسی پر اعتراض کیا گیا ہو اس لئے میری یہ گزارش ہے کہ ان کا نام حضور اس سب کمیٹی میں نہ رکھیں.
خطابات شوری جلد اوّل حضور نے فرمایا: - ۱۵۶ مشاورت ۱۹۲۵ء چونکہ دوسرے سوالات ان کی معرفت آئے ہیں اس لئے اس کمیٹی میں ان کا ہونا ضروری ہے.“ منشی فرزند علی صاحب نے با چشم تر اور بھرائی ہوئی آواز میں عرض کیا.میں نے حج صاحب کے سوال اُن کے اصرار پر بھیجے تھے.ملک عزیز احمد صاحب کے میں نے نہیں بھیجے تھے مجھے ذاتی طور پر نہ کوئی پہلے اعتراض تھا اور نہ اب ہے.مجھے حضور اس کمیٹی سے نکال دیں.( خان صاحب رقت کی وجہ سے اس سے زیادہ نہ کہہ سکے.ان کی آواز بند ہوگئی اور وہ بیٹھ گئے.) حضور نے فرمایا : - اس لحاظ سے آپ کو شامل نہیں کیا جاتا ہے کہ آپ نے اعتراضات کئے ہیں بلکہ سیاسی لحاظ سے آپ کا شامل ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ سوال راولپنڈی سے آئے ہیں اور آپ وہاں کی جماعت کے امیر ہیں.سوالات کرنے والوں سے کوئی ناراض نہیں بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ میں ان دوستوں سے ناراض ہوں جنہوں نے سوالات کئے ہیں مگر میری یہ عادت نہیں ہے.بے شک میں نے بعض کے اس فعل کو نا پسند کیا ہے اور بعض کے متعلق اس لئے شکایت ہے کہ وہ ذمہ وار تھے مگر انہوں نے ایسے سوالات کو روکا نہیں ورنہ مجھے کسی سے ناراضگی نہیں.میں اس وقت تک ان کے لئے تین دفعہ دعا کر چکا ہوں.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ میں ان سے ناراض نہیں ہوں.اب بھی میں ان کے لئے دعا کروں گا.مجھے افسوس یہ ہے کہ منافقوں نے انہیں دھوکا دیا اور وہ ان کے دھوکا میں آگئے ورنہ وہ مخلص ہیں.میں ان سے ناراض نہیں ہوں اور منافقوں سے بھی ناراض نہیں ہوں کیونکہ ہمارا کام اصلاح کرنا ہے.اگر ناراض ہوں تو پھر 66 اصلاح کس طرح کریں.“
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۵۷ مشاورت ۱۹۲۵ء اختتامی تقریر مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے پر حضور نے احباب جماعت کو اپنے اختتامی خطاب سے نوازا.جماعت کی ترقی کے سلسلہ میں بعض اہم امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا :- نظارتوں کی اہمیت ”ہمارے دوستوں نے ناظروں کی رپورٹیں سُنی ہیں جن کے سُننے کے بعد اتنا مصالحہ ان کے ہاتھ آ گیا ہے کہ وہ سمجھ سکتے ہیں نظارتوں کا کتنا اہم کام ہے اور کس طرح بڑھ رہا ہے.پھر نظارتیں بیرونی جماعتوں سے جو خط وکتابت کرتی ہیں اُس سے بھی احباب سمجھ سکتے ہیں کہ نظارتوں کی کس قدر ضرورت ہے.ہم پر اُس وقت اعتراض کیا گیا تھا جب میں نے نظارتیں قائم کی تھیں کہ اس طرح خرچ بہت بڑھ گیا ہے مگر میں نے اُس وقت دیکھ لیا تھا کہ جماعت کی حالت تربیت وغیرہ کے لحاظ سے گر رہی ہے اور اگر نظارتیں نہ قائم ہوتیں تو بالکل گر جاتی.موجودہ حالت میں نظارتوں پر جو خرچ ہو رہا ہے وہ بیرونی معاملات کے اخراجات کی نسبت زیادہ ہے لیکن ابتداء میں ہمیشہ مرکزی امور پر زیادہ خرچ ہوا کرتا ہے.اس وقت ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ اعضاء کو زیادہ نہ بڑھنے دیں اگر روپیہ نہ ہو لیکن یہ نہیں کر سکتے کہ مرکز کو مضبوط نہ کریں کیونکہ مرکز بطور دماغ کے ہوتا ہے اور اگر دماغ کی حفاظت نہ کی جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے.دیکھو اگر چھوٹے بچہ کو دیکھا جائے تو اس کے سر کا وزن بہ نسبت اُس کے سارے جسم کے زیادہ ہوتا ہے لیکن ایک جوان کے سر کو اس کے جسم سے کوئی نسبت نہیں ہوتی.وجہ یہ کہ بچپن میں دماغ کی حفاظت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے لیکن جب جسم بڑھتا گیا تو دماغ اصلی حالت پر آ گیا.اسی طرح ہماری حالت ہے.وہ وقت آئے گا جب باہر مبلغ بہت زیادہ ہوں گے، بڑے بڑے دفاتر ہوں گے، دوسرے انتظامات ہوں گے اُس وقت نظارتوں پر خرچ کم ہوگا اور بیرونی کاموں پر زیادہ ہو گا لیکن موجودہ صورت میں دماغ یعنی مرکز کو مضبوط کرنا زیادہ ضروری ہے اس لئے اس پر خرچ زیادہ ہو رہا ہے.ایک تو یہ بات ہے جس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں مستورات کی تعلیم و تربیت دوسری بات عورتوں کی تعلیم کا سوال ہے.مرکز میں مستورات کی اعلیٰ تعلیم کے لئے الگ مدرسہ جاری کیا
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۵۸ مشاورت ۱۹۲۵ء گیا ہے جو اچھی ترقی کر رہا ہے.اس میں ایک مضمون میں بھی پڑھاتا ہوں.اس مضمون کا نام تو جغرافیہ ہے مگر دراصل وہ ایک علمی لیکچر ہوتا ہے.علم الارض.علم الحیات کے مسائل اس میں بتائے جاتے ہیں.اسی طرح قدیم تاریخی اور اسلامی تاریخ پڑھائی جاتی ہے.اس وقت تک انتیس طالبات ہیں جنہیں چکیں ڈال کر مرد پڑھاتے ہیں.اس کام میں جو کامیابی ہو رہی ہے اس سے امید ہو سکتی ہے کہ انشاء اللہ اچھے نتائج نکلیں گے.بیرونجات میں بھی احباب کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کیونکہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی.ایک دفعہ یہاں ڈپٹی کمشنر صاحب آئے اُن کے ساتھ اُن کی بیوی بھی تھی.انہوں نے کہا میری بیوی یہاں کی عورتوں سے ملنا چاہتی ہے.ناظر صاحب امور عامہ نے کہہ تو دیا کہ انتظام کرتا ہوں مگر ان کی کوشش یہی تھی کہ کسی طرح یہ بات ٹل جائے کیونکہ ہماری مستورات کو ابھی ملنے کا طریق نہیں آتا.آخر انہوں نے یہ بات پیش کی کہ گرلز سکول کا معائنہ کیا جائے اس طرح بات ٹل گئی.تو آداب مجالس دوسروں کے ساتھ ملنے سے آتے ہیں مگر یہاں یہ مشکل ہے کہ دیگر عورتوں سے ملنے کا موقع نہیں ملتا اس لئے اس بارے میں عورتوں کی حالت بہت کمزور ہے.پس عورتوں کی تعلیم کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.تبلیغ احمدیت اب میں تبلیغ اور چندہ دونوں سوالوں کو اکٹھا لیتا ہوں.میں نے دیکھا ہے موجودہ تبلیغی حالت بہت کمزور ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں جماعت کی توجہ چند اور اُمور نے اپنی طرف کھینچے رکھی ہے.مثلاً ملکانوں کا ارتداد، یورپ کی تبلیغ وغیرہ.پھر جماعت کے متعلق سٹڈی بھی کی جاتی رہی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پچھلی کھا د جو ڈالی گئی تھی وہ ختم ہو گئی اور آئندہ کے لئے پیداوار بند ہوگئی اور اب سالانہ بیعت کرنے والوں میں بہت کمی ہو گئی ہے.دو تین ہزار کے درمیان سال میں بیعت کرتے ہیں.اگر یہی رفتار رہی تو سمجھ لو کہ کتنے عرصہ میں احمدیت دنیا میں پھیل سکے گی.عام انبیاء کی جماعتوں کی جوانی کی عمر سو ڈیڑھ سو سال تک ہوتی ہے پھر بُڑھاپا شروع ہو جاتا ہے اس لئے ہمیں ایسے رنگ میں تبلیغ کو جاری رکھنا چاہئے کہ جلد خاطر خواہ نتیجہ نکل سکے.میں نے اس صیغہ کو اس طرف متوجہ کیا ہے.احباب کو بھی چاہئے کہ گھروں
خطابات شوری جلد اوّل ۱۵۹ مشاورت ۱۹۲۵ء میں جا کر اس کی طرف خاص توجہ کریں.ہماری اُس وقت تک نہ مالی ترقی ہو سکتی ہے اور نہ تمدنی جب تک دنیا میں ہماری کافی تعداد نہ ہو جائے.تمدنی لحاظ سے اس طرح کہ جب تک جماعتیں کی جماعتیں احمدیت میں داخل نہ ہوں اور ان میں سے کسی شخص کا علیحدہ ہونا اس کے لئے موت کے برابر نہ ہو اس وقت تک ارتداد کا خطرہ لگا ہی رہے گا.دیکھو اب ایک شخص کا چو ہڑوں سے کٹنا مشکل ہے کیونکہ اُسے اپنے رنگ کی سوسائٹی اور جگہ نہیں ملتی مگر احمدیوں میں سے نکل کر کسی کا غیر احمدی ہو جانا بہت آسان ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری تعداد کم ہے.اگر ہر جگہ ہماری تعداد بھی زیادہ ہو تو کوئی احمدی بد عقیدہ یا کسی بات سے ناراض ہو کر جماعت سے الگ نہ ہو.ایک چو ہڑا اگر مسلمان ہو کر سوسائٹی سے علیحدہ ہو جانے کی وجہ سے پھر اُن میں جاملتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک احمدی ایسا نہ کرے.اس وقت جو مشکل ہے وہ سوسائٹی کی کمی کی وجہ سے قلتِ تعداد کے باعث ہے.شہری جماعتوں کا فرض پس جماعت کی ترقی کی طرف خصوصیت سے توجہ کرنی چاہئے اور خاص طور پر شہروں میں رہنے والے احمدیوں کو زیادہ توجہ کرنی چاہئے کیونکہ دیہات کی نسبت شہروں کی تعلیمی حالت بہت بڑھی ہوئی ہے اور تعلیم یافتہ لوگ سلسلہ کے لئے زیادہ مفید اور کار آمد ہو سکتے ہیں.دیکھو شہری جماعتوں کا چندہ دیہاتی جماعتوں کی نسبت بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے اور دیہاتی احمدی کبھی اس شوق سے چندوں میں حصہ نہیں لیتے جس سے شہری لیتے ہیں.ان کا یہ شوق علمی قابلیت اور استعداد کی وجہ سے ہوتا ہے.بے شک گاؤں کے لوگ جلدی احمدیت میں داخل ہو جاتے ہیں مگر دس گاؤں کے آدمی ایک شہری کے برابر ہو سکتے ہیں.کیا بلحاظ مال اور کیا بلحاظ روحانیت.پس شہری جماعتوں کے لئے نہایت ضروری ہے کہ تبلیغ کی طرف خاص توجہ کریں کیونکہ وہ ریڑھ کی ہڈی ہیں.علم اور چندہ کے قائم رکھنے کے لئے ایک لمبے عرصہ کی تعلیم و تربیت کے بعد گاؤں والی جماعتیں بھی اس قابل ہو جائیں گی مگر موجودہ لحاظ سے ضروری ہے کہ شہری لوگوں کو سلسلہ میں بکثرت داخل کیا جائے.ایک بنگالی نوجوان کا اخلاص چند ہی دن ہوئے بنگال سے ایک نو جوان کا خط آیا.وہ جب طالب علم تھا اُس وقت بھی بہت جوشیلا تھا
خطابات شوری جلد اوّل 17.مشاورت ۱۹۲۵ء اُس کا نام خلیل الرحمن ہے.طالب علمی کے بعد اُسے نائب تحصیلدار مقرر ہوئے چھ ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ اس کے ذریعہ ایک گاؤں احمدی ہو گیا.معزز ملازمین توجہ کریں پس اگر کام کرنے والے ادھر توجہ کریں تو بہت کچھ کام ہو سکتا ہے.اگر ایک کالج سے نکل کر چھ ماہ میں عارضی ملازم اس طرح تبلیغ میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مجسٹریٹ اور دوسرے معزز ملازمین کامیابی نہ حاصل کر سکیں.اگر مجسٹریٹ نئے وکیلوں سے تعلقات پیدا کریں تو وہ شوق سے اُن کی باتیں سنیں گے اور جلدی احمدیت قبول کر لیں گے.پس اگر ہمارے تعلیم یافتہ اور معزز دوست تبلیغ پر زور دیں تو تعلیم یافتہ طبقہ ہمارے قبضہ میں آسانی کے ساتھ آ سکتا ہے.میں نے تعلیم یافتہ اور خاص کر اُن کو جو کسی محکمہ میں افسر ہوں کہوں گا اور لوگ تو ناجائز کاموں کے لئے اپنے رسوخ کو استعمال کرتے ہیں وہ جائز کام کے لئے اپنے رسوخ کو کام میں لائیں تو بہت ترقی ہو سکتی ہے.میں اس بارے میں خصوصیت کے ساتھ لاہور کی جماعت کا شاکی ہوں اور پھر خصوصاً چیئر مین صاحب کا.آج تک مجھے معلوم نہیں کہ کوئی پڑھا لکھا ان کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوا ہو.میں تمام دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر یہ سستی کا زمانہ ہے تو پھر ترقی کا زمانہ کوئی نہیں.تبلیغی وفد اس کے لئے ایک اور تجویز پیش کرتا ہوں اور وہ یہ کہ دوست وفد بنا کر معزز اصحاب کے پاس جائیں اور اُنہیں الفضل اور ریویو کی خریداری کی تحریک کریں.اس طرح اُنہیں جماعت کے حالات اور کاروبار سے واقفیت حاصل ہوتی رہے گی اور تبلیغ بھی ہوگی.افسوس ہے عام طور پر دوست سمجھتے ہیں کہ احمدی ہو جانے کی وجہ سے دُنیا میں ہمارا کوئی حق نہیں حالانکہ سب سے زیادہ ہمارا ہی حق ہے.اگر دوست معتز زین سے مل کر سلسلہ کے اخبارات کی خریداری کی طرف توجہ دلائیں تو بہت فائدہ ہوسکتا ہے.حیدر آباد کی عورتوں نے غیر احمدی عورتوں میں تحریک کر کے ان سے چندہ وصول کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی اور سکندر آباد کے احمدیوں نے ریویو انگریزی کے لئے ۱۰۰ خریدار مہیا کر لئے تھے.اگر وہ کوشش کر کے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں تو ہر جگہ کوشش کرنے سے کامیابی ہوسکتی
خطابات شوریٰ جلد اوّل 171 مشاورت ۱۹۲۵ء ہے اور اس طرح مالی آمدنی بہت بڑھ سکتی ہے.اگر اس وقت ریویو انگریزی کے پانچ ہزار خریدار ہو جائیں تو یورپ کے مشن کا خرچ اسی سے نکل سکتا ہے بلکہ موجودہ اخراجات کے لحاظ سے کچھ بچت بھی ہوسکتی ہے.لٹریچر کی فروخت اسی طرح ایک یہ تجویز ہے کہ سلسلہ کا لٹریچر پوری کوشش اور سعی سے فروخت کیا جائے.اگر ہماری جماعت کے معزز اصحاب خود جا کر سلسلہ کی کتب لوگوں کو دیں اور خریداری کی تحریک کریں تو بہت سے لوگ ضرور خرید لیں گے.الفضل کی اشاعت بڑھاؤ اسی طرح احباب اگر الفضل کی خریداری بڑھا ئیں تو ہمارا پر لیس بہت مضبوط ہو سکتا ہے.الفضل کو میں سلسلہ کے لئے وقف کر چکا ہوں.اس کی آمد بھی اگر زیادہ ہو تو سلسلہ کے دوسرے کاموں میں صرف ہوسکتی ہے.علاقہ سندھ میں تبلیغ ایک اور تجویز بھی ہے اور وہ میری ایک رؤیاء کے ماتحت ہے.اس رویاء کی میں تفصیل تو نہیں بتا سکتا.صرف اتنا کہتا ہوں کہ میں بہتا جا رہا ہوں اس حالت میں میں زمین پر پاؤں لگنے کے لئے دُعا کرتا ہوں مگر نہیں لگتے.پھر میں نے یہ دعا کی کہ سندھ میں میرے پاؤں لگیں جب میں وہاں پہنچا تو وہاں میرے پاؤں لگ گئے.پچھلے دنوں جب ہندوستان میں بہت سی مشکلات تبلیغ کے رستہ میں پیدا ہو گئیں تو میں نے سندھ میں تبلیغ کرنے پر زور دیا اور میں نے دیکھا خدا کے فضل سے چند ماہ میں چند گاؤں احمدی ہو گئے.میرا خیال ہے اگر پورے طور پر زور دیا جائے تو بہت تھوڑے عرصہ میں وہاں کئی لاکھ احمدی ہو سکتے ہیں.مجھے معلوم ہوا ہے اس علاقہ میں ساری کی ساری تجارت ہندوؤں کے قبضہ میں ہے.اگر ہماری جماعت کے تاجر لوگ اس علاقہ میں جا کر دو کا نہیں کھولیں اور ساتھ ہی تبلیغ کا فرض ادا کریں تو بہت کامیابی ہوسکتی ہے.میں نے ایک دوست کو وہاں جانے کی تحریک کی بھی ہے اور ارادہ ہے کہ یہ تحریک جاری رہے.اسی طرح کراچی اور کلکتہ میں تبلیغی مشن قائم کئے جائیں تو بہت فائدہ ہوسکتا ہے.کراچی کے دوست اس کے لئے آمادہ ہیں اور کلکتہ کے دوست بھی خواہش مند ہیں.ان مقامات میں اگر چہ
خطابات شوری جلد اوّل ۱۶۲ مشاورت ۱۹۲۵ء قلیل جماعتیں ہیں لیکن بہت بوجھ اُٹھانے کے لئے تیار ہیں.اس طرح جماعت کی ترقی بھی ہو سکتی ہے اور مالی لحاظ سے بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے.اب بعض باتیں میں اس بارے میں بیان کرتا ہوں کہ مالی مشکلات کس طرح دور ہو سکتی ہے.چندہ عام میں اضافہ کی ضرورت آپ لوگوں کو یہ تو معلوم ہو گیا ہے کہ کس طرح بجٹ ہر سال بڑھ رہا ہے.اس کے لئے ایک تو یہ ضروری ہے کہ چندہ عام کو بڑھایا جائے ورنہ اگر یہ چندہ نہ بڑھایا گیا تو ہر سال یا ہر دوسرے سال ایک ایک ماہ کی آمدنی چندہ خاص کے طور پر لینے کی ضرورت پیش آتی رہے گی اور اس کے بغیر خرچ نہیں چل سکے گا.محصلین چندہ دوسری تجویز یہ ہے کہ محصلین چندہ کو زیادہ کیا جائے تاکہ زیادہ با قاعدگی اور انتظام کے ساتھ چندہ وصول ہو سکے.بیرونی مشنوں کے اخراجات اسی طرح بیرونی معلوں کے ذمہ یہ بات لگائی جائے کہ چند سال کے اندر اندر اپنا خرچ آپ برداشت کریں.شام کے مشن کو میں نے اس قابل بننے کے لئے ایک سال کا موقع دیا ہے.اسی طرح افریقہ والوں کو لکھا گیا ہے کہ اس عرصہ میں اپنے اخراجات آپ پورے کرنے ہوں گے.اسی طرح ہماری جماعت کے لوگوں کو صنعت و حرفت کی طرف توجہ کرنی صنعت و حرفت چاہئے.اس امر کی سخت ضرورت ہے کہ ایک خاص سکیم بے کاروں کے انتظام کے متعلق تیار کی جائے.اگر جماعت اس طرف توجہ کرے تو بہت کچھ کام ہوسکتا ہے اور بے کاروں کے نوکر ہو جانے یا کاروبار کرنے کی صورت میں سلسلہ کو کئی ہزار کی مزید آمدنی ہو سکتی ہے.ایک خاص سکیم میں اس کے لئے بھی سکیم تیار کر رہا ہوں کہ کس طرح سلسلہ کے لئے ہم زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ کرنے کے لئے جمع کر سکتے ہیں مگر فی الحال اظہار نہیں کرنا چاہتا.میں تو اپنی جماعت سے بہت سے مردوں اور عورتوں میں یہ احساس پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہندو اور مسلمان سوراج کے لئے کھدر پہن سکتے ہیں تو ہماری جماعت کو
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۱۶۳ مشاورت ۱۹۲۵ء تیار رہنا چاہئے کہ اگر ہمیں اسلام کے لئے کھدر پہننا پڑے تو عورتیں اسے تیار کریں اور مرد پہنیں اور خالی روٹی یا معمولی روٹی کھا کر اُس وقت تک اس طرح گزارہ کریں جب تک کہ کافی جماعت نہ ہو جائے.قربانیوں کیلئے تیار رہو اس وقت ہمارے پاس اسے مبلغ نہیں کر تبلیغ کو پورے زور کے ساتھ جاری کر سکیں.اس کے لئے ہمیں خرچ بڑھانا پڑے گا اور یہ خرچ اسی طرح مہیا ہو سکتا ہے کہ ہم آئندہ کے لئے اپنا سب کچھ دے دینے کے لئے تیار رہیں.اگر لوگ نام کی خلافت اور سوراجیہ کے لئے قربانیاں کر سکتے ہیں تو ہم خدا کے دین کی اشاعت کے لئے کیوں ان سے بڑھ کر نہیں کر سکتے.اگر چہ ابھی اس کی ضرورت نہیں مگر ہماری جماعت کی عورتوں اور مردوں کو تیار رہنا چاہئے کہ اگر ضرورت پڑے تو ادنیٰ سے ادنی کپڑا پہنیں اور معمولی سے معمولی کھانا کھائیں، باقی سب کچھ خدا کے لئے خرچ کر دیں اور اس قسم کے ایک یا دو آدمی نہیں ہونے چاہئے بلکہ ساری کی ساری جماعت ہی ایسی ہو.اگر تبلیغ کے متعلق یہی حالت رہی جو اس وقت ہے تو میں اعلان کر دوں گا کہ کسی احمدی کی کوئی اپنی جائداد نہ ہو سب کچھ ایک جگہ جمع کر دیا جائے اور سب کو معمولی کھانا اور کپڑا دیا جائے.اور کسی کام کے لئے کوئی کچھ تنخواہ نہ لے.مجھے امید ہے ہماری جماعت جس نے آج تک بڑی بڑی مالی اور جانی قربانیاں کی ہیں اس میں سے کوئی ضرورت کے وقت پیچھے نہ رہے گا.خاتمہ اور دعا اب میں اس جلسہ کو ختم کرتا ہوں اور دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ دینِ حق کی اشاعت کے لئے اپنا وقت ، اپنا مال اور اپنی جان دے سکے.چونکہ اب وقت بہت تنگ ہے اس لئے دُعا نہیں کی جاسکتی مگر کانفرنس کے دوران میں دعا ہی کرتا رہا ہوں.میں سوال کرنے والوں سے ناراض نہیں میں اس وقت یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی
خطابات شوری جلد اوّل ۱۶۴ مشاورت ۱۹۲۵ء ہے کہ میں ان دوستوں سے ناراض ہوں جنہوں نے سوالات کئے.میری یہ عادت نہیں.بیشک میں نے بعض کے فعل کو نا پسند کیا اور بعض کے متعلق یہ شکایت ہے کہ انہوں نے ذمہ دار ہو کر روکا نہیں لیکن اس وقت تک میں ان کے لئے تین دفعہ دعا کر چکا ہوں.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ میں ان سے ناراض نہیں ہوں.مجھے صرف افسوس یہ ہے کہ منافقوں نے انہیں دھوکا دیا اور وہ دھوکا میں آگئے ، ورنہ وہ خود مخلص ہیں.میں ان سے ناراض نہیں ہوں اور منافقوں سے بھی ناراض نہیں ہوں.ہمارا کام اصلاح ہے.اگر ناراض ہوں تو اصلاح کیونکر کریں.“ (مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء ) الجامع الصغير للسيوطى الجزء الاول صفحه ۴۰ مطبوعه مطبع میمنه مصر ۱۳۲۱ھ پیدائش باب ۱ آیت ۲۷ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن ۱۸۸۷ء ے ملفوظات جلد ا صفحه ۵۵۷ ملفوظات جلد اصفحہ ۳۱۱ ، مفہوماً لوقا باب ۶ آیت ۴۱ ۴۲ پاکستان بائبل سوسائٹی ۲۰۰۶ء کے آمدی و کے پیر شدی: فارسی کہاوت.اُس آدمی کی نسبت مستعمل ہوتی ہے جو تھوڑے سے تجربہ پر نازاں ہو.ك ابو داؤد كتاب القضاء باب فى قضاء القاضى إِذا أَخُطَاً.النساء: ۶۶ النساء:۸۴ ا وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلوةِ قَامُوا كُسَالَى (النساء : ۱۴۳) وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (البقرة: اا) اسد الغابة جلد ۴ صفحه ۷۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ ١٣ التوبة: ۵۸ النور : ١٣ ۱۵ تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۱۷۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ١٦ تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۴ ۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
خطابات شوری جلد اوّل ܬܪܙ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء فرمایا:- بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء ( منعقده ۴،۳ را پریل ۱۹۲۶ء) پہلا دن ۳ را پریل ۱۹۲۶ء کو قادیان میں مجلس مشاورت کا افتتاح کرتے ہوئے حضور نے پیشتر اس کے کہ جلسہ کی کارروائی شروع ہو جیسا کہ ہمارا طریق ہے پہلے تمام دعا دوست مل کر اس بات کے لئے دعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مجلس مشاورت میں صحیح طریق اختیار کرنے کی توفیق بخشے.ہمارے قلوب پر اپنی رضا نازل کرے اور ہم پر ظاہر کرے اور جو اُس کا منشاء اور ارادہ ہے دین کی اور ہماری بہتری کے لئے اور وہ اس کے فضل سے ہمارے قلوب پر جاری کیا گیا ہواُس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ دعا کرنے کے بعد مجلس کی کارروائی شروع ہوگی.“ 66 تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے افتتاحی تقریر کرتے افتتاحی تقریر ہوئے فرمایا:- مومنوں کی خصوصیت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ خصوصیت بیان فرمائی ہے کہ وہ تمام امور باہمی مشورہ سے طے کیا کرتے ہیں.یہ تعلیم اور یہ ارشاد اُن خصوصیات میں سے ہے جو اسلام کو دوسرے مذاہب سے ممتاز کرتی ہیں.یہ بات کہ دنیا پر کوئی زمانہ بھی ایسا آیا ہو گا جب لوگ مشورہ سے کام نہیں لیتے ہونگے یا مشورہ کرنا نا پسند کرتے ہونگے یہ انسانی وہم و گمان میں نہیں آ سکتا.جب سے انسان پیدا ہو ا ہے لوگ مشورہ لیتے چلے آئے ہیں اور لیتے چلے جائیں گے لیکن اس امر کو دین اور
خطابات شوری جلد اوّل ۱۶۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء ایمان کا جُزو، اسلام کی علامتوں میں شامل کرنا اور مذہبی فرائض اور ذمہ داریوں میں داخل کرنا یہ صرف قرآن کریم کے لئے مخصوص ہے.اس سے پہلی کسی کتاب میں خواہ وہ شام کے انبیاء پر نازل ہوئی ہو یا ہندوستان کے انبیاء پر ، خواہ وہ ایران کے انبیاء پر اُتری ہو، خواہ عرب کے انبیاء پر یا کسی اور مملک کے بزرگوں پر جن کی نبوت پر قرآن کریم نے نام لیکر مہر نہیں کی بلکہ اجمالاً اُن کا ذکر کیا ہے اُن کی طرف جو کتابیں منسوب ہوتی ہیں ان میں بھی نہیں ہے اور سب سے پہلی کتاب قرآن ہی ہے جس نے توجہ دلائی ہے کہ ایمان اور اسلام کی شاخوں میں سے ایک شاخ مشورہ بھی ہے.جس کے دوسرے الفاظ میں یہ معنی ہوئے کہ اس طرح اسلام نے دو مسائل کی طرف متوجہ کیا ہے.ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کا ارادہ بسا اوقات جمہور کے قلوب پر نازل ہوتا ہے.جماعت کے قلوب اور اُن کے دماغ اُس کا آئینہ ہوتے ہیں.اور بسا اوقات خدا تعالیٰ خاص لفظی الہام اور وحی کی بجائے اپنے ارادوں کو دوسروں کے ارادہ میں مخفی کر کے ظاہر کرتا ہے کیونکہ اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر مشورہ کرنا مومنوں کے ایمان کا جزو نہیں ہو سکتا.اسلام کی شاخ تبھی ہوسکتا ہے جبکہ یہ دین کا حصہ ہو اور وہ اس طرح ہے کہ لوگوں کی رائے خدا تعالیٰ کی رائے کے مطابق ہو.پس ہمیں ایک تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت قرآن کریم کی رو سے خدا کا منشاء اور ارادہ کبھی جماعت کے قلوب پر نازل ہوتا ہے جس طرح کبھی انبیاء کے کانوں ، انبیاء کی زبانوں اور انبیاء کے دلوں پر نازل ہوتا ہے اور ان الفاظ کا انکار کفر ہو جاتا ہے.مگر دوسرے لوگوں کے دلوں پر جو نازل ہوتا ہے اُس کا ماننا ضروری ہوتا ہے مگر اس کا انکار کفر تک نہیں پہنچا دیتا.سب انسان یکساں ہیں دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک تمام بنی نوع انسان یکساں ہیں اور جس قدر حقوق ہیں ان میں سب مشترک ہیں.ہاں اگر کسی انتظام کے لئے کسی کو زیادہ اختیار دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب نظام کی درستی ہے نہ کہ ورثہ کے طور پر اُسے اختیارات دیئے گئے ہیں یا کسی اور وجہ سے اُس نے حاصل کئے ہیں.وہ بحیثیت نمائندہ کے ہوتا ہے اور ایک جماعت کی آواز کی بجائے اُس کی آواز سمجھی جاتی ہے.ورنہ ورثہ یا ذاتی حق کے طور
خطابات شوری جلد اوّل ۱۶۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء پر اُن حقوق کا مالک نہیں ہوتا جو بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ نے دیئے ہیں.اگر یہ بات نہ ہوتی تو خدا تعالیٰ مشورہ کا حکم نہ دیتا.مشورہ کی تاکید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کی یہاں تک تاکید فرمائی ہے کہ جس امر میں مشورہ نہیں ہوتا اُس میں خدا تعالیٰ کی برکات نہیں ہوتیں.آپ نے فرمایا دیکھو خدا اور اس کا رسول تمہارے مشورہ کا محتاج نہیں ہے.خدا نے مشورہ کو تمہارے لئے رحمت کے طور پر نازل کیا ہے.خدا تعالیٰ تو مشورہ کا محتاج نہیں، یہ ظاہر ہی ہے.مشورہ کے معنی اچھی اور عمدہ بات بیان کرنے کے ہیں اور خدا تعالیٰ کو کون کوئی بات بتا سکتا ہے.رسول اپنی ذات کے لحاظ سے تو محتاج ہے مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے چونکہ اُس کے پاس سب کچھ ہوتا ہے اس لئے وہ بھی محتاج نہیں مگر فر ما یا مشورہ رحمت ہے.اس لئے کہ رسول لوگوں کے لئے نمونہ اور اُسوہ ہوتا ہے.اگر رسول مشورہ نہ کرتا تو جب استبدادی زمانہ آتا، لوگ کہتے رسول نے کبھی مشورہ نہیں لیا تھا، ہم اس سنت پر عمل کریں گے.معا کہتے دیکھو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے نماز کی سنتیں پڑھیں تو وہ سُنت قرار پا گئی، جسم کا ایک حصہ کاٹنے کا حکم دیا تو اس کا نام سُنت رکھا گیا، ڈاڑھی کے رکھنے کا حکم دیا تو سنت بن گئی ، پھر کیا وجہ ہے کہ جب آپ نے مشورہ لیا تو اسے سنت نہ قرار دیا جائے.ہم اسی سنت پر عمل کریں گے.اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مشورہ لیتے رہے تا کہ مشورہ میں خدا تعالیٰ نے جو فوائد رکھے ہیں ان سے لوگ محروم نہ رہ جائیں.دوسری وجہ یہ ہے.پنجابی میں مثل ہے.سو سیانے اگو مت“.یعنی سو دانا بھی اگر مشورہ کریں گے تو جو بات ایک عقلمند کے دماغ میں آئے گی ، اگر وہ صحیح ہو گی تو سب کے دماغ میں وہی آئے گی.ممکن ہے رسول خدا تعالیٰ کے ارادہ کے ماتحت اور اُس کی ہدایت کے ماتحت ایک بات کہے لیکن سننے والے اسے ماننے کے لئے تیار نہ ہوں.دیکھو بعض باتیں جن کا انحصار خدا تعالیٰ نے اپنے یا رسول کے حکم پر رکھا ہے اُن کو انسان اس رنگ میں قبول کرتے ہیں جیسے ان کے دلی حالات ہوتے ہیں اور یہ فطری بات ہے.ایک انسان جسے سخت صدمہ پہنچا ہو وہ سمجھتا ہے میرے لئے بہترین بات یہی ہے کہ میں کہیں تنہائی میں جا بیٹھوں.اُس وقت اگر اسے کوئی دوست بُلائے ، اُس کا ادب و احترام کر کے اپنے پاس
خطابات شوری جلد اوّل ۱۶۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء بٹھانا چاہے تو وہ اپنی جلتی حالت کے ماتحت کیا سمجھے گا ؟ اُس پر سخت ناراض ہوگا اور اُس کی خاطر مدارات کو اپنے لئے وبالِ جان سمجھے گا حالانکہ اس نے اخلاص اور محبت سے بُلایا ہوگا تو انسان کے دل کی جیسی حالت ہوتی ہے، اسی رنگ میں وہ بات قبول کرتا ہے.دیکھو خدا کے رسول کیسے اخلاص اور محبت سے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتے ہیں مگر وہ لوگ جن کے قلوب دنیا داری میں مشغول ہوتے ہیں وہ کان میں آواز پڑتے ہی کہہ اٹھتے ہیں دُنیا کمانے کا ڈھنگ نکالا گیا ہے اور کچھ نہیں ہے حالانکہ اس آواز کی ایک ایک لہر میں اخلاص ہوتا ہے مگر سننے والے چونکہ ایسے حالات سے متاثر ہوتے ہیں کہ جو چاروں طرف دُنیا کی صحبت سے لبریز ہوتے ہیں اس لئے اس آواز کا ترجمہ بھی اس رنگ میں کرتے ہیں.تو جس قسم کے انسان کے حالات ہوتے ہیں گر دو پیش کے واقعات کو اُسی رنگ میں سمجھتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے.اس کا یہی مطلب ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے وہ ملکہ دیا ہے کہ میرے ارد گر داگر بد باتیں ہوں تو بھی میں ان سے نیک نتیجہ نکال لیتا ہوں.پس رسول خواہ وحی کی بات ہی بیان کرے اور کوئی اُسے رڈ نہ کر سکے لیکن اگر انسان اس خیال میں بیٹھا ہو کہ اگر ہم سے پوچھتے تو ہم بھی کوئی بات بیان کرتے تو اُس وقت اس طرح اُس پر غور نہ کرے گا جس طرح اسے کرنا چاہئے تھا بلکہ اس میں نئی نئی باتیں سوچے گا.حالانکہ اگر پہلے اُس سے پوچھا جاتا تو وہ بھی وہی بتا تا لیکن چونکہ اُس سے پوچھا نہ گیا اس لئے اس کے خلاف غلط خیال سوچے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کو اسی وجہ سے رحمت کہا ہے کہ جب ایک بات کوئی شخص خود پیش کرے گا یا اُسے منظور کرے گا تو پھر شوق سے اُس پر اب عمل بھی کرے گا اور گندے اور غلط خیالات جو اس کے دماغ میں اس کے متعلق آ سکتے تھے ان سے محفوظ رہے گا.مجلس مشاورت کی اہمیت ان باتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ہماری یہ مجلس مشاورت نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے.ابھی اس کی پوری عظمت محسوس نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ ابھی بیج کی طرح ہے اور بڑے سے بڑا درخت بھی پہلے ایک پیج ہی ہوتا ہے.ابھی جو نمائندے اس مجلس کے لئے آتے ہیں ان
خطابات شوری جلد اوّل ۱۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء میں سے بعض نہایت چھوٹے قصبات سے آتے ہیں، بعض ایسے مقامات سے آتے ہیں جہاں چار پانچ ہی احمدی ہوتے ہیں.پھر یہ نمائندے زیادہ ہندوستان ہی کے مختلف علاقوں کے ہیں اس لئے معلوم نہیں ہو سکتا اور خیال بھی نہیں آ سکتا کہ ہمارے مشوروں کا اثر ہماری آئندہ ترقی پر ہو سکتا ہے.مگر یاد رکھنا چاہئے ہمارے سامنے جو مستقبل ہے وہ اتنا محدود نہیں ہے جتنا آج نظر آ رہا ہے بلکہ وہ بہت شاندار ہے اور اُس سے بھی زیادہ شاندار ہے جو آج تک کسی فاتح قوم نے دیکھا ہے کیونکہ کبھی کسی قوم کے متعلق یہ وعدہ نہیں دیا گیا کہ ترقی کرتے کرتے اُس مقام پر پہنچ جائے گی کہ دوسرے لوگ اس کے مقابلہ میں مٹ جائیں گے اور ایسے کمزور ہو جائیں گے کہ ان کی مثال چوہڑے چماروں کی سی ہو جائے گی مگر ہمارے مستقبل کے متعلق یہی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اسلام اور احمدیت ترقی کرتے کرتے اس حد تک پہنچ جائے گی کہ دوسرے مذاہب والے اتنے قلیل رہ جائیں گے کہ ہم کہہ سکیں گے کہ اسلام ہی اسلام دُنیا میں نظر آتا ہے.یہ مستقبل کسی اور قوم کا نہیں تھا.اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے مشوروں کا اثر جو دُنیا پر پڑے گا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے.مگر میں کہتا ہوں ہمارے مشوروں کا تعلق اسی مستقبل سے نہیں جب کہ ہماری جماعت کے نمائندے دُنیا کے گوشہ گوشہ سے آئیں گے.جب کہ نمائندے چار یا پانچ یا چھ آدمیوں کی طرف سے نہیں آئیں گے بلکہ چار، پانچ ، چھ کروڑ آدمیوں کے نمائندے بن کر آیا کریں گے.جب کہ اس مجلس کا اثر چار، پانچ لاکھ انسانوں پر نہیں پڑے گا بلکہ اس کے مشوروں کے نتیجہ میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کی حالت بدل جائے گی.صرف اُس وقت ہی اس مجلس کے مشوروں کو اہمیت نہیں حاصل ہوگی بلکہ آج بھی ویسی ہی اہمیت حاصل ہے بلکہ آج اُس وقت سے بھی زیادہ ہے کیونکہ وہ مستقبل آج سے ہی پیدا ہو گا.آج ہم جو فیصلے کریں گے آنے والے لوگ ان کے بدلنے کی آسانی سے کوشش نہیں کر سکیں گے.بعد میں آنے والے لوگ پہلوں کا ادب و احترام کرتے ہیں.اور یہ بھی سنت ہے کہ نبی کے قریب کے زمانہ کے فیصلوں کو اسلام اور دین بھی خاص وقعت دیتا ہے اور اس کا نام اجماع اور سنت رکھا جاتا ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۱۷۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء اس وقت جو نمائندے آئے ہیں وہ بعض مقامات کے لحاظ سے چار چار پانچ پانچ آدمیوں کے نمائندے ہیں اور ایسے نمائندے نہیں ہیں جو ہزاروں اور لاکھوں کی طرف سے ہوں مگر اس وجہ سے اس مجلس کی اہمیت کو گرانا نہیں چاہئے کیونکہ جو فیصلے ہم آج کریں گے وہ ساری دُنیا پر اثر ڈالیں گے بلکہ ساری دنیا پر بھی ایک زمانہ میں اثر نہیں ڈالیں گے بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں سال تک اثر کر نیوالے ہیں.جس طرح صحابہ کی محدود جماعت کے فیصلے آج تک اثر ڈالتے ہیں اور وہ تو الگ رہے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام حنبل ، امام شافعی کے فیصلے بھی چلے آتے ہیں حتی کہ ان کو اس قدر وقعت دے دی گئی ہے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جو نبی کھڑا ہوا اُس کے آگے بھی ان اماموں کی کتابیں لاکر رکھیں حالانکہ خدا تعالیٰ سے وحی پانے والے کے مقابلہ میں انسانی آراء کیا وقعت رکھ سکتی ہیں.مگر بوجہ اس کے کہ وہ لوگ پہلوں میں سے تھے اُن کے فیصلوں اور تحریروں کو مقابلہ میں پیش کیا گیا حالانکہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں وہ ہوتے تو آپ کے آگے زانوئے شاگردی طے کرتے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے الہام پا کر کھڑا ہوا تھا.جس مقام کو آج ہمارے مخالفین ذلّت کی نظر سے دیکھتے ہیں.حتی کہ جس فعل کی وجہ سے ہمارا قتل جائز سمجھتے ہیں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت.اس وقت اگر وہ ائمہ ہوتے جن کے فتوؤں کی بناء پر ہمیں واجب القتل ٹھہرایا جاتا ہے تو سب سے بڑھ کر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت کرتے اور آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دینا خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دینا سمجھتے کیونکہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اُن کا ہاتھ خدا ہی کا ہاتھ ہوتا ہے.پس ان پہلوں کو جو رتبہ اور احترام بعد میں آنے والے لوگوں میں حاصل ہوا یہی آپ کا ہونے والا ہے.جس طرح مسلمان آج یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت ابو ہریرہ نے فلاں فعل غلط کیا یا حضرت ابو بکر یا حضرت عمر یا حضرت عثمان یا حضرت علیؓ نے فلاں بات غلط کہی اور اگر اُن کی کوئی غلطی بتائی بھی جاتی ہے تو اس پر کئی طرح کے پردے ڈال کر.اسی طرح اور بعینہ اسی طرح ایسا زمانہ آنے والا ہے جب کہ آپ میں سے بہتوں کا یہی ادب اور یہی احترام کیا جائے گا.اُس وقت بڑے بڑے حاکموں کی قدر نہ ہوگی کہ یہ کہہ سکیں
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء پہلے لوگوں نے فلاں فعل غلط کیا اور اگر کوئی کہے گا تو ساری رعایا اُس کے خلاف کھڑی ہو جائے گی کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حواریوں یا اُن کے دیکھنے والوں کی ہتک کرتے ہوا جسے ہم برداشت نہیں کر سکتے.ہوسکتا ہے کہ ان کی رائے صحیح ہو اور تمہاری غلط مگر با وجود اس کے کسی میں جرات نہ ہو گی کہ تمہاری رائے کو رڈ کر سکے.جب تمہارے فیصلوں کا ایسا اثر پڑنے والا ہے کہ گویا آزادی کا بڑے سے بڑا دعویٰ کرنے والے، دُنیا کی فتح کا ارادہ رکھنے والے بلکہ دنیا کو فتح کر کے دکھا دینے والے ایک طرف تو دنیا کو فتح کر رہے ہوں گے مگر دوسری طرف اُن میں اتنی ہمت نہ ہوگی کہ تم لوگ جو مر کر سینکڑوں من مٹی کے نیچے دفن ہو گے تمہاری رائے کو رڈ کر سکیں.جب یہ حالت ہونی ہے تو سوچ لو کہ تمہیں کس قدر خشوع و خضوع کے ساتھ دُعا کر کے رائے دینی چاہئے اور کس قدر غور وفکر کے بعد کسی مسئلہ کے متعلق اپنا خیال ظاہر کرنا چاہئے.نمائندے کیسے ہوں پس یہ ضروری ہے کہ اس مقام کی اہمیت کو سمجھنے والے نمائندے ہونے چاہئیں اور احمدی جماعتوں کو ایسے لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو واقعہ میں نمائندے کہلا سکیں.جولوگ اس وقت یہاں بیٹھے ہیں گو وہ خود نمائندے منتخب ہو کر آئے ہیں مگر جماعتوں میں جا کر تحریک کریں کہ نمائندہ منتخب کرنے میں جماعتیں بہت احتیاط سے کام لیا کریں.میں دیکھتا ہوں کہ بعض جماعتوں میں سے ایک ایسے شخص کو نمائندہ منتخب کر کے بھیج دیا جاتا ہے جس کی آواز جماعت میں کوئی اثر نہیں رکھتی.اس کے متعلق محض یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس وقت فارغ کون ہے.پھر خواہ روزانہ مشوروں میں کبھی اُس سے مشورہ نہ لیا جاتا ہو اور اس کی رائے کو کچھ وقعت نہ دی جاتی ہو محض اس لئے کہ ہمیں اور کام ہیں اُسے مجلس مشاورت کے لئے بھیج دیا جاتا ہے.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک جماعت کا امیر تو نہیں آتا اور کسی دوسرے کو بھیج دیتا ہے.ایسے لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح نہ صرف جماعت کے مشورہ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے جو نظام مقرر کیا ہے اُس کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور اس طرح وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں.ایک قوم نے اس طرح ناقدری کی تھی جس کی اُسے ایسی سزا ملی کہ پھر وہ اسے مٹا نہ سکی.وہ بنی اسرائیل کی قوم تھی.خدا تعالیٰ نے
خطابات شوری جلد اوّل ۱۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء حضرت موسی علیہ السلام سے کہا اپنی قوم سے کہو وہ اپنے نمائندے بھیجے جنہیں میں اپنا کلام سُناؤں.جب حضرت موسی علیہ السلام نے اُنہیں یہ کہا تو انہوں نے کہہ دیا موسی تو جاہم نہیں جاتے.اس پر خدا تعالیٰ نے کہا اب میں انہیں کلام نہیں سُناؤں گا اور ان کے بھائیوں میں سے نبی بر پا کروں گا.ایسے لوگ جو سلسلہ کے مقام کا ادب و احترام نہیں سمجھتے ، یہ نہیں جانتے کہ یہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ کسی کو اس مجلس میں نمائندہ بنایا جاتا ہے جو تمام دنیا کے حالات ڈھالنے والی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا انہیں عزت دینا ہے اور اتنی بڑی عزت دینا ہے کہ اگر ہفت اقلیم کا بادشاہ بھی ہو تو وہ اس مجلس کی ممبری جسے آئندہ دنیا کو ڈھالنا ہے بہت بڑی عزت سمجھے گا.پس احمدی جماعتوں کو نمائندوں کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینا چاہئے اور بہترین آدمی کو منتخب کر کے بھیجنا چاہئے.مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ جماعت میں مجلس مشاورت کے متعلق احساس پیدا ہو رہا ہے اور بعض جماعتیں اس کی نمائندگی کے حق پر زور دیتی اور بہترین آدمی چن کر لاتی ہیں مگر اکثر حصہ میں ابھی سستی اور لا پرواہی پائی جاتی ہے.اس سال پہلے کی نسبت حاضری زیادہ ہے مگر اس کی وجہ یہ نہیں کہ جماعت کا احساس اس بارے میں بڑھ گیا ہے بلکہ جب میں نے دیکھا کہ بہترین آدمی منتخب ہو کر نہیں آتے تو میں نے ایسے آدمی جو سلسلہ میں پرانے ہیں یا بہترین کام کرنے والے ہیں یا ایسے نوجوان ہیں جنہیں کام کرنے کے لئے شوق دلانا مدنظر ہے، انہیں چٹھی بھیج کر بلایا ہے.یہ لوگ جماعت کے نمائندے نہیں ہیں بلکہ میرے ہی نمائندے ہیں کیونکہ جماعت نے ان کو منتخب کر کے نہیں بھیجا اور نہ خود ان کے دل میں شوق اور ولولہ پیدا ہوا ہے کہ بہترین آدمی منتخب کر کے بھیجے جائیں.غرض ہمارے مشورے نہایت اہمیت رکھتے ہیں.دوستوں کو چاہئے کہ اپنی اپنی جماعتوں میں جا کر اس اہمیت سے واقف کریں.دیکھو ان نمائندوں پر یہی ذمہ داری کتنی بڑی ہے کہ آئندہ جب خلافت کے انتخاب کا سوال در پیش ہوگا تو مجلس شوری کے ممبروں سے ہی اس کے متعلق رائے لی جائے گی.یہ کتنا اہم اور نازک سوال ہے.پھر کیوں بااثر لوگوں کو نمائندہ منتخب نہیں کیا جاتا.اگر خدا تعالیٰ کی حفاظت نہ ہو تو کتنے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں.ایک شخص جو خود واقف نہ
خطابات شوری جلد اوّل ۱۷۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء ہوگا کسی شخص کی لستانی یا ظاہری حالت کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ یہی خلیفہ ہو حالانکہ خلافت کے لئے جتنے اوصاف کی ضرورت ہے وہ اس قدر مختلف اور پیچ در پیچ ہیں کہ اگر اس بارے میں ذرا بھی غفلت سے کام لیا جائے تو جماعت کی تباہی آسکتی ہے.اس کے بعد میں اُس کا رروائی کے متعلق جو اس مجلس میں ہونے والی ہے جماعت کے دوستوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.اُمراء کے طبقہ میں تبلیغ اس سال بعض ایسے امور مشورہ کے لئے رکھے گئے ہیں جن کی سخت ضرورت محسوس کی گئی ہے.سب سے پہلا ایجنڈا نظارت دعوۃ و تبلیغ کا ہے جس میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اُمراء کے طبقہ میں تبلیغ کس طرح کی جائے.درحقیقت اُمراء اور غرباء ہر ایک قوم کے دو بازو ہوتے ہیں نہ کوئی قوم بغیر کثرت افراد کے زندہ رہ سکتی ہے اور نہ بغیر اُمراء کے زندہ رہ سکتی ہے.جب تک جماعت کی تعداد کثیر نہ ہو کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.اور جب تک اس میں ایسے لوگ نہ ہوں جو اثر اور رسوخ رکھنے والے ہوں جنہیں دنیوی وجاہت حاصل ہو، اُس وقت تک بھی ترقی نہیں ہو سکتی.اس وقت تک جماعت نے طبقہ امراء کی طرف کم توجہ کی ہے اور اگر کوئی ایسے لوگ سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں تو یہی سمجھنا چاہئے کہ اتفاقیہ طور پر اُنہوں نے کتابیں پڑھیں اور سلسلہ میں داخل ہو گئے ورنہ اُمراء میں سے کوئی ایسی نظیر نہیں نظر آتی کہ جماعت کی تبلیغ کے نتیجہ میں داخل ہوئے ہوں اور نہ کوئی اُمراء کا طبقہ ایسا نظر آتا ہے کہ جو ہمارے قریب آ رہا ہو بلکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ اُمراء کا طبقہ دور جا رہا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ اس وقت تک ان میں تبلیغ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں اختیار کیا گیا.جو ذریعہ تبلیغ عوام کے لئے مفید ہو سکتا ہے وہ اُمراء کے لئے مفید نہیں ہو سکتا کیونکہ اُمراء کی عادات اور قسم کی ہوتی ہیں.اُمراء کی مثال بالکل پھوڑے کی سی ہوتی ہے.آپ لوگ تندرست حصہ جسم کو جس طرح ہاتھ لگائیں کوئی تکلیف نہ ہوگی لیکن پھوڑے کے لئے ڈاکٹر کے ہاتھ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جس حصہ جسم میں پھوڑا ہو اُس کی حسیں بہت بڑھی ہوتی ہیں.وہ انگلی جو تندرست حصہ جسم کو لگ جائے تو خیال بھی نہیں آئے گا کہ کیا ہوا، اس سے بھی ہلکی انگلی اگر پھوڑے پر لگے تو انسان شور مچا دیگا.حالانکہ اُنگلی لگانے والے کو خیال بھی نہ ہوگا کہ ایسا ہوگا.تو اُمراء کی طبائع ایسی
خطابات شوری جلد اوّل ۱۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء حسّاس ہوتی ہیں جیسے ماؤف حصہ جسم.اُمراء ان باتوں کو برداشت نہیں کر سکتے جن کی دوسروں کو پرواہ بھی نہیں ہوتی اس وجہ سے ان کو تبلیغ کرنے کا کوئی اور ذریعہ ہونا ضروری ہے مگر جماعت نے اس کی طرف توجہ نہیں کی.اس وجہ سے ہماری تبلیغ محدود ہو گئی ہے اور ایسے طبقہ تک محدود ہو گئی ہے کہ اس سے جماعت کی کثرت تو ہوسکتی ہے مگر شوکت اور قوت بڑھانے کے لئے کافی نہیں.یہی وجہ ہے کہ ہماری جماعت کا اثر اتنا نہیں جتنا ہونا چاہئے.اس بات پر آپ لوگوں نے غور کرنا اور مشورہ دینا ہے کہ کس طرح اُمراء کے طبقہ میں تبلیغ کی جائے.بک ڈپو کی شاخیں دوسرا سوال یہ ہے کہ بک ڈپو کی شاخیں بیرون جات میں کھولی جائیں.میرے نزدیک اس سوال پر بار ہا غور ہوا ہے مگر پھر شوری میں رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جماعت نے ابھی تک اس کے متعلق کوئی عملی کا رروائی نہیں کی.میں نے دیکھا ہے لوگ اپنے اشد ترین دشمنوں کی کتابیں خریدتے اور پڑھتے ہیں مگر ہماری کتابیں نہیں خریدتے.پچھلے دنوں تجربہ کے لئے ایک صاحب کو مقرر کیا گیا تھا کہ کتابیں فروخت کریں.وہ ہندوستان کے ایک مشہور لیڈر اور سر سے ملے.باتیں سننے کے بعد اُنہوں نے کہا آپ کتابیں مفت دے جائیں تو پڑھنے کی کوشش کروں گا مگر خرید نہیں سکتا.مگر اس کے مقابلہ میں بہت سے ہندوؤں اور عیسائیوں نے ہماری کتابیں خریدیں جو دنیوی لحاظ سے انہی کے پایہ کے تھے.وہ سر تھے یا جج تھے یا اور کوئی اعلیٰ عہدہ رکھتے تھے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمان اُمراء ہمارا لٹریچر پڑھنے کے لئے تیار نہیں یا انہیں مذہب سے تعلق نہیں یا ان میں مذہبی جس نہیں.انہی میں سے ایک نے ایک ہزار روپیہ ایک مذہبی کام میں دیا.بلکہ وجہ یہ ہے کہ اُن کو جماعت سے اُنس نہیں پیدا کرایا گیا.ان دلوں میں ہمارے متعلق مخفی بغض ہے.وہ ہمارے سلسلہ کی کتابوں پر روپیہ صرف کرنا روپیہ کا ضائع کرنا سمجھتے ہیں.مگر جن کو سلسلہ کی اہمیت کی طرف اور سلسلہ کی خدمات دینیہ کی طرف توجہ دلائی گئی اُنہوں نے کتابیں خریدیں.اس سے ہمیں دو باتیں معلوم ہوئیں ایک تو یہ کہ اُمراء میں ہمارے متعلق مخفی بغض پایا جاتا ہے اور دوسری یہ کہ اگر کوشش کی جائے تو اُمراء کا ایک حصہ ایسا ہے کہ سلسلہ کی طرف توجہ کر سکتا ہے.لاہور شہر میں یہ تجربہ کیا گیا اور تھوڑے سے
خطابات شوری جلد اوّل ۱۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء عرصہ میں کئی سو کی کتابیں فروخت ہو گئیں.اس کے علاوہ کتابیں خریدنے والوں کے ساتھ تبادلۂ خیالات کا موقع مل گیا اور اس طرح کئی ایسی باتیں معلوم ہوگئیں جو پہلے معلوم نہ تھیں کہ کس طرح ان لوگوں کے دلوں میں ہمارے سلسلہ کی نسبت بغض پیدا کیا گیا.تو لٹریچر کی اشاعت کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ امراء میں تبلیغ کا ایک راستہ کھل سکتا ہے اور ان کے دلوں میں جو بغض ہے وہ دُور ہو سکتا ہے.پس یہ غلط خیال ہے کہ اس کام میں کامیابی نہ ہوگی.گو ہمیں اس بارے میں تلخ تجربہ بھی ہوا ہے کہ جن کے متعلق خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ اتنے بڑے آدمی مفت کتابیں مانگیں گے انہوں نے مفت مانگیں.مگر ایسوں نے کتابیں خریدیں بھی کہ جن کے متعلق خریدنے کی کوئی امید نہ تھی.اس سے معلوم ہوا کہ کامیابی ہو سکتی ہے اور جو لوگ کتابیں خریدیں گے وہ پڑھیں گے بھی.اور جب پڑھیں گے تو فائدہ بھی اٹھائیں گے.میرے نزدیک مفت کتاب دینا پھینک دینا ہے.مفت دینے کا ایک مصرف ہے اور وہ یہ ہے کہ دوست اپنے افسروں کو ہدیے کے طور پر کتاب دیں.اس کو میں اِس لئے ضائع نہیں کہتا کہ اگر کوئی چیز ہدیہ دی جاتی تو وہ بھی ضائع ہی جانی تھی.مگر کتاب خرید کر دینے پر ایک تو ان کا روپیہ دین کے کام میں صرف ہوا جو دوسری صورت میں کسی بقال کے پاس جاتا.پھر مفت دینے کو اس لئے ضائع ہونا کہتے ہیں کہ کوئی سو میں سے ایک ہی پڑھتا ہوگا لیکن تحفہ لینے والوں میں سے ایک ہی پڑھ لے گا تو بھی فائدہ ہوگا.پھر اس کی نسل اس سے فائدہ اٹھائے گی.پھر اس طرح دوست دوست کو کتابیں دیتے یا ایسے افسروں کو جن سے روزانہ ان کی ملاقات ہوتی ہے اور وہ بار بار کہہ کر ان سے پڑھوا لیتے ہیں.تو آپ لوگوں نے اس بات پر غور کرنا ہے کہ کس طرح کتابوں کی اشاعت کا کام کیا جائے.انگریزی اخبار کی ضرورت ایک اور سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کا انگریزی خوان طبقہ جو دین سے بے بہرہ ہے اُس کے لئے ایک انگریزی اخبار کی ضرورت ہے.اس امر پر غور کیا جائے کہ اخبار جاری کیا جائے یا نہ؟ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس کی طرف بار بار توجہ دلائی گئی ہے.اس وقت تک عیسائیوں اور آریوں کی طرف سے ایسا لٹریچر بہم پہنچایا جاتا ہے جو سستا ہوتا ہے اور مختصر ہونے کی وجہ سے چند منٹ میں
خطابات شوری جلد اوّل ۱۷۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء پڑھا جاتا ہے.اس میں اسلام کے خلاف جو کچھ لکھا جاتا ہے چونکہ مسلمانوں کی طرف سے اُس کا ازالہ نہیں ہوتا اس لئے انگریزی خوان طبقہ اس سے متاثر ہوتا جاتا ہے اور اس کا متأثر ہونا ہمارے لئے مضر ہے کیونکہ وہ لوگ جس قدر اسلام سے دور ہوتے جائیں گے ہمارے لئے اُن کی اصلاح کا کام اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا، مثلاً عیسائیوں کا ایک اخبار ہے یپی فینی“ یہ چند صفحوں کا اخبار ہے جس میں چھوٹے چھوٹے سوال درج ہوتے ہیں اور اس طرح مسلمانوں میں زہر پھیلایا جاتا ہے.ہمارے موجودہ اخبار ایسے طرز پر ایڈٹ ہوتے ہیں کہ جن میں جماعت کی ترقی اور تنظیم کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اس لئے ان میں ایسے مضامین ہوتے ہیں جن سے عام لوگ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے اس لئے وہ ان کو نہیں پڑھتے.اور دوسرے لوگوں کے اخبارات پڑھتے ہیں جن سے ان کو ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے وہ طبقہ کہ جس میں ہم تبلیغ کر سکیں محدود ہوتا جاتا ہے.ایسے لوگ ایک دن میں تیار نہیں ہو سکتے بلکہ مہینوں کی محنت کا نتیجہ ہوتے ہیں مگر ہمارے پاس اس کے لئے کوئی ذریعہ نہیں ہے.ہماری جماعت کے لوگ ہر شخص سے مل نہیں سکتے یا ابھی ان میں دوسروں سے ملنے کی اہلیت نہیں پیدا ہوئی اس لئے تجویز ہے کہ ایسا اخبار جاری کیا جائے جو چار صفحہ کا ہو اور پندرہ روزہ ہو.اس میں ایسے امور پر بحث کی جائے جو لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں اور اس طرح عیسائیوں اور آریوں کے اثر سے ان کو نکالا جائے اور ان کے اثر سے نکال کر اپنا لٹریچر انہیں دیا جائے.اسکی زیادہ ضرورت ہندوستان کے لئے ہے یا باہر کے ایسے علاقوں میں جہاں مسلمان پائے جاتے ہیں اور جن پر غیر مذاہب کا اثر ہو رہا ہے.عیسائی ممالک میں جہاں ابھی اسلام پھیلانے کی ضرورت ہے وہاں کے لئے ریویو انگریزی کافی ہے.ان ممالک میں یہی بہترین تبلیغ ہے کہ وہ تعلیم پیش کی جائے جس سے اسلام کی تازہ روح کا ثبوت ملے یعنی سلسلہ احمدیہ.لیکن وہ لوگ جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں مگر انہیں اسلام کی خوبیاں معلوم نہیں اُن کے لئے ایسے اخبار کی ضرورت ہے جو غیر مذاہب کے مقابلہ میں اسلام کی برتری ثابت کرے.اس تجویز پر ان امور کو مدنظر رکھ کر غور کیا جائے کہ اسلام پر غیر مذاہب کی طرف سے اعتراضات ہو رہے ہیں اور ان اعتراضات سے متاثر ہو کر مسلمان کہلانے والے اسلام سے دور ہو رہے ہیں.ایسے لوگوں
خطابات شوری جلد اوّل ۱۷۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء کو ہدایت پہنچانے کے لئے ایک مختصر سا اخبار جاری کرنا ہے جو نو جوانان جماعت کے شبہات کا ازالہ کر سکے اور ایسا طبقہ کہ جو لمبا لٹریچر نہیں پڑھ سکتا یا جسے اسلام سے اتنی محبت نہیں ہے کہ اس کے لئے کچھ زیادہ خرچ کر سکے وہ آٹھ آنہ یا ایک روپیہ سالانہ قیمت کا اخبار خرید سکے طالبعلموں کے لئے اس سے بھی کم قیمت رکھی جاسکتی ہے.مساجد کی تعمیر ایک اور قابل غور سوال مساجد کی تعمیر ہے.مگر عجیب بات ہے یہ تجویز بیت المال کے ماتحت ایجنڈا میں رکھی گئی ہے.حالانکہ مساجد کی تعمیر تعلیم و تربیت کے ماتحت آ سکتی ہے.شاید اس لئے بیت المال کے ماتحت رکھی گئی ہے کہ مسجد بھی مال ہے مگر وہ خدا کا مال ہوتا ہے.تعمیر مساجد کا سوال ایسا اہم ہے کہ شہری جماعتوں کو اپنی مساجد کے نہ ہونے کی وجہ سے اتنی تکلیف ہو رہی ہے جو بیان نہیں کی جاسکتی.پھر اخلاق پر بھی بہت بُرا اثر پڑ رہا ہے.مسجد ایک ایسی چیز ہے کہ سُست کو بھی جگا لیتی ہے.بشرطیکہ اس میں ایمان ہو اور یہ اثر کسی مکان کا نہیں ہو سکتا جہاں نماز پڑھی جاتی ہو.آجکل شہروں میں ہماری جماعت کے لوگ مکانوں میں نمازیں پڑھتے ہیں.بعض دفعہ مکان والے کے ساتھ کسی کی لڑائی ہو جاتی ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ جس کی مرضی ہو ہمارے مکان پر آئے جس کی نہ ہو نہ آئے.کئی لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو اس تلخ گوئی کو نگل لیتے ہیں مگر کئی اسے برداشت نہیں کر سکتے.مالک مکان اُس وقت بھی اپنی حکومت جتاتا ہے اور یہ نہیں خیال کرتا کہ میں نے تو اپنے مکان کو خدا کا گھر قرار دیا ہے جب اس میں نماز پڑھنے کا انتظام کیا ہے.مگر مساجد کے متعلق کوئی یہ نہیں کہہ سکتا.پس مساجد نہ ہونے کی وجہ سے کئی قسم کے نقائص پیدا ہو رہے ہیں.نمازوں میں سستی کی جاتی ہے، لڑائیاں ہوتی اور فتنے پیدا ہوتے ہیں.اگر دس جماعتوں میں لڑائی ہوتی ہے تو ان میں سے آٹھ تو ایسی ہوتی ہیں جن میں مسجد کے نہ ہونے کی وجہ سے لڑائی ہوتی ہے.میرے پاس چونکہ جھگڑے آتے ہیں اس لئے مجھے یہ بات معلوم ہوتی رہتی ہے تو مساجد کا ہونا ضروری ہے.گاؤں والوں کے لئے تو مساجد کا بنانا آسان ہے کیونکہ وہ اپنی زمین میں چند سو روپے خرچ کر کے نماز پڑھنے کے قابل جگہ بنا سکتے ہیں مگر شہروں میں دقت ہے.وہاں جماعت کو وجاہت کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے اور وہاں زمین اتنی قیمتی ہوتی ہے کہ مسجد کی لاگت سے زیادہ زمین کی قیمت دینی پڑتی ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۱۷۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء ان کے لئے زمین کا اور پھر با موقع زمین کا خریدنا بھی آسان نہیں ہے.اس وجہ سے یہ سوال بھی اہم ہے کیونکہ شہری جماعتوں کے لئے مساجد کا ہونا ضروری ہے اور انہی کے لئے زیادہ مشکلات بھی ہیں.اس مشاورت میں اس بارے میں بعض تجاویز پر غور کیا جائے.میں نے اس مسئلہ کو تعلیم و تربیت کے ماتحت بیان کر دیا ہے اسی صیغہ کے ماتحت اس پر غور ہو.پھر کچھ باتیں جماعت کی تعلیم و تربیت کے متعلق ہیں.جماعت کی تعلیم و تربیت پر ھے مثلاً یہ کہ کون سے ذرائع اختیار کئے جائیں کہ آئندہ اولاد احمدیوں کی احمدی رہے اور غیروں کے ہاتھ میں پڑ کر ضائع نہ ہو جائے.ہماری جماعت کے ایک مخلص فوت ہو گئے.ہم نے بڑی کوشش کی کہ اُن کی اولاد حاصل کر کے اُس کی پرورش کر سکیں مگر گورنمنٹ نے ان کے غیر احمدی وارثوں کو ہی اُن کی اولاد دلا دی اور قرار دیا کہ یہی اس کے وارث ہیں.اس کے متعلق غور کرنا ہے کہ اگر وصیت کر کے احمدیوں کے حوالہ اولاد ہوسکتی ہے یا کوئی اور طریق ہے کہ احمدیوں کی اولاد اُن کے فوت ہونے پر احمدیوں کے ہی پاس رہے تو وہ کیا ہے.دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ قانونا اور رواجاً محروم الارث وارثوں کو شرعی حصہ دلانے کے لئے سہل تجاویز اور اس بات پر غور کہ زمین کا حصہ لڑکیوں کو کس طریق پر دیا جائے.ہماری جماعت میں اس بات کا احساس تو ہے کہ لڑکیوں کو حصہ ملنا چاہئے مگر کوشش نہیں کی جاتی.اور زمیندار طبقہ عام طور پر ابھی اس کے لئے تیار نہیں.علاوہ ازیں حکومت کا قانون بھی اس میں روک ہے.بعض لوگ کوئی نہ کوئی عذر بنا لیتے ہیں.کئی لوگوں نے لکھا جنہیں جواب دیا گیا وہ کہتے ہیں اگر لڑکیوں کو ورثہ دینا ضروری ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لڑکیوں کو کیوں نہیں دیا.حالانکہ ہم نے جائداد کے متعلق سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہی تھا کہ شرع کے مطابق ورثہ تقسیم کیا.چنانچہ ہماری بہنوں کے نام اُن کے حصہ کی جائداد درج ہے اور وہ اِس پر قابض ہیں.اور علاوہ اس جائداد کے ایک ایسا علاقہ ہے جیسے تعلقہ ہوتا ہے یعنی دو گاؤں ایسے ہیں جہاں سے ہمارے لئے مالیہ وصول کیا جاتا ہے.تحصیلدار نے اس کے متعلق کہا کہ ہم اس میں سے لڑکیوں کے نام کچھ نہیں لکھ سکتے.میں نے کہا اگر یہ بات ہے تو ہم بھی اس علاقہ کی آمدنی نہیں لیں گے.تو وراثت کے متعلق سب سے پہلی بات
خطابات شوری جلد اوّل 129 مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء ہم نے یہ کی کہ بہنوں کو اُن کا حصہ دیا.پس یہ غلط خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جائداد سے لڑکیوں کو حصہ نہیں دیا گیا.اور ایسے لوگوں کو یہ اعتراض پیدا ہوا ہے جو خود حصہ نہیں دینا چاہتے.ہم نے شریعت کے مطابق ورثہ تقسیم کیا ہے.مکان کو اگر ابھی عملی طور پر تقسیم نہیں کیا تو ذہنی طور پر تقسیم کیا ہوا ہے.تو ورثہ کا سوال بھی ایک اہم سوال ہے.زمیندار طبقہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہے اور شاید تاجر وغیرہ بھی متوجہ نہ ہوں.زمیندار تو اس میں یہ دقت پیش کرتے ہیں کہ اس طرح زمین تقسیم ہو جاتی ہے اور دوسرے خاندان والے ہماری زمینوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور اس طرح تقسیم کرنے کی وجہ سے کھیتی نہیں ہو سکتی.“ اس موقع پر حضور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ سب لوگوں تک آواز نہیں پہنچتی.اِس سالانہ بجٹ پر سٹیج کو کسی قدر اونچا کیا گیا اور پھر حضور نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا :- ” وراثت کے بارے میں میں گفتگو کر رہا تھا کہ شرعی قانون پر عمل کرنے میں دقتیں ہیں.عام احساسات کے لحاظ سے بھی اور گورنمنٹ کے قانون کے لحاظ سے بھی.اس لئے اس امر پر غور کرنا ہے کہ وہ کیا طریق اختیار کیا جائے کہ وراثت کے متعلق شریعت کا قانون بھی پورا ہو اور دقتیں بھی پیش نہ آئیں.بیت المال کے متعلق جو امور پیش ہونگے اُن میں سے ایک بجٹ ہے جو کہ مئی ۱۹۲۶ء سے اپریل ۱۹۲۷ء تک کا ہے.ہمارے کاموں میں ایک بڑی وقت بجٹ ہے.پچھلے سال کی مجلس مشاورت میں جو بجٹ پیش ہوا اور مجلس نے مشورہ کے بعد جو بجٹ میرے سامنے پیش کیا تھا وہ ۲ لاکھ یا اس سے بھی زیادہ کا تھا لیکن سلسلہ کی اصل آمد ایک لاکھ 90 ہزار کے قریب ہے.اس لحاظ سے ساٹھ ہزار سے بھی اوپر بجٹ میں کمی تھی.میں نے جو سب کمیٹی بجٹ کے متعلق بٹھائی تھی اُس کی رائے میں بجٹ اس سے کم نہیں ہوسکتا تھا.اس ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے جو طبعی طور پر سلسلہ کے کاموں میں ہوتی ہے نئے سال کا بجٹ گزشتہ سال کی نسبت بڑھانا پڑتا ہے کیونکہ وہ لوگ جنہیں ترقی کا حق حاصل ہوتا ہے اُنہیں ترقی ملنی ہوتی ہے.اس طرح دو تین ہزار کی زیادتی ہونی چاہیئے.لیکن پچھلے سال کے تجربہ سے معلوم کر کے کہ جماعت بجٹ پورا نہیں کر سکتی.بجٹ میں میں نے خود تخفیف کی اور اس بجٹ میں تخفیف کی جس کے متعلق کمیٹی کی رائے تھی کہ اس سے کم
خطابات شوری جلد اوّل ۱۸۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء نہیں ہوسکتا اور مئی سے سال شروع کرنے کے لئے تا کہ مجلس مشاورت میں بجٹ پر غور ہو سکے سات ماہ کا بجٹ ایک لاکھ ۲۴ ہزار کا بنایا.مگر باوجود اس کے کہ اس میں ۱۵،۱۴ ہزار کی کمی کی گئی تھی مگر پھر بھی ۲۱ ۲۲ ہزار کی کے ماہ میں کمی رہی اور پچھلا قرضہ جو ۶۰ ہزار کے قریب تھا وہ اٹھاون ہزار کے قریب رہ گیا.اب اگر اسی طرح بجٹ کو چلایا جائے تو باوجود چندہ خاص کرنے کے سات آٹھ سال میں جماعت قرضہ ادا کر سکے گی اس لئے ضروری سمجھا گیا کہ اخراجات میں اور کمی کی جائے.پچھلے دنوں پندرہ دن لگا کر جہاں تک کمی ہو سکتی تھی ، پیسوں اور آنوں تک کی کمی کی گئی اور بعض صیغوں کے متعلق فیصلہ کیا گیا کہ انہیں بالکل اُڑا دیا جائے.پھر سائر اخراجات میں اتنی کمی کی گئی کہ خطرہ ہے اس وجہ سے کام کو نقصان نہ پہنچے.مثلاً دفتر ڈاک جس میں روزانہ سو کے قریب خطوط آتے اور اُن کے جواب دیئے جاتے ہیں اور دفاتر کے ساتھ جو خط و کتابت کی جاتی ہے وہ علیحدہ ہے، اس کی سٹیشنری کا سال کا خرچ اسی روپے رکھا گیا.مگر باوجود اس قدر کمیوں کے دو لاکھ اٹھائیس ہزار کا بجٹ بنا اور اس طرح آمد کے مقابلہ میں اڑتالیس ہزار کا فرق پڑتا ہے.ابھی مجلس مشاورت سے ایک ہی دن پہلے اٹھارہ ہزار کی اور کمی کرائی گئی ہے.جس میں سے پانچ ہزار کی کمی ایسی ہے کہ پراویڈنٹ فنڈ جو اور جگہ دیا جاتا ہے، اُسے بند کر کے کی گئی ہے مگر یہ کمی در حقیقت کمی نہیں ہے کیونکہ اسے ہم ہمیشہ کے لئے جاری نہیں رکھ سکتے.جب کارکن بوڑھے ہو جائیں گے تو پھر ان کے گزارہ کی کیا صورت ہوگی.اسی طرح بعض کارکنوں کو علیحدہ کر کے عملہ میں تخفیف کی گئی ہے اور پہلے ہی جن لوگوں پر کام زیادہ تھا اُن پر اور کام ڈال دیا گیا ہے.مگر آمد اور اس خرچ میں پھر بھی دو ہزار کا فرق رہ جاتا ہے.یہ فرق بھی تین چار سال کے بعد جا کر پورا ہو سکتا ہے بشرطیکہ اخراجات میں زیادتی نہ ہو مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ چار پانچ سال میں کسی کارکن کو ترقی نہ دی جائے.یہی نہیں کہ کام کرنے والوں کا تجر بہ بڑھتا اور وہ ترقی کے مستحق ہوتے ہیں بلکہ ان کی اولاد بھی بڑھتی ہے اور یہ ممکن نہیں ہے جس میں پہلے کوئی شخص گزارہ کرتا ہو دو تین بچے پیدا ہو جانے کے بعد بھی اُس میں گزارہ کر سکے.دراصل نقص یہ ہے کہ سب جماعت میں احساس نہیں ہے کہ اس بوجھ کو اُٹھا ئیں.مجھے بعض دفعہ ہنسی آتی ہے اور بعض دفعہ تعجب کہ بعض لوگ جو کبھی چندہ نہیں دیتے وہ کہتے
خطابات شوری جلد اوّل.۱۸۱ M مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء ہیں کہ اتنی بڑی رقم جو جمع ہوتی ہے ، جاتی کہاں ہے.حالانکہ خود انہوں نے کبھی اس میں حصہ نہیں لیا ہوتا اور اگر لیا ہوتا ہے تو نہایت ہی قلیل.حضرت خلیفہ اول ایک شخص کے متعلق سُنایا کرتے تھے کہ اس نے کہا مجھے بخاری لے دیں.میں نے کہا کبھی لے دونگا، ان دنوں تو میں غریب ہوں.کہنے لگا آپ کس طرح غریب ہو سکتے ہیں.اس وقت تین لاکھ کی جماعت ہے اگر ایک ایک روپیہ بھی ہر شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نذر دے تو چار آنے آپ کو بھی دیتا ہوگا اور اس طرح کئی ہزار کی آپ کو آمدنی ہے.اُسے میں نے جواب دیا تم ہی بتاؤ آج تک تم نے مجھے کتنی چونیاں دی ہیں؟ تو ایسے لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ لوگ جو دیتے ہیں، ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم بھی دیں حالانکہ جب تک ہر ایک شخص حضہ نہ لے ہم سلسلہ کے کاموں کو اُس حد تک نہیں پہنچا سکتے جو موجودہ حالت میں ضروری ہے.اب یا تو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اخراجات کی مدیں ہی اُڑا دیں.مگر کوئی ایسی مد نظر نہیں آتی جو اُڑائی جا سکے.کیا تبلیغ کا کام بند کر دیا جائے یا لنگر خانہ بند کر دیا جائے؟ کوئی صیغہ بھی ایسا نہیں کہ اُڑا دیا جائے اور پھر جماعت میں زندگی باقی رہ سکے.مگر موجودہ حالات ایسے ہیں کہ ہم ان صیغوں کو چلا بھی نہیں سکتے.آخر سوچو تو یہ بوجھ کس نے اُٹھانے ہیں؟ بے شک جماعت پر بار ہے مگر اس بار کے مقابلہ میں کچھ نہیں جو ہم پر یہاں پڑتا ہے.بسا اوقات دیکھا ہے جب بجٹ زیر غور ہو تو میں ساری ساری رات نہیں سو سکتا.چار پائی پر لیٹے ہوئے بھی یہی خیال آتا ہے کہ سب کاموں کا ذمہ دار اور خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ میں ہوں.اسی ادھیڑ بن میں رات گزر جاتی ہے.پرسوں ہی ایک دوست نے کہا آپ کے بال سفید ہو گئے ہیں.میں نے چاہا کہ کہوں آپ ہی کی خاطر سفید ہو گئے ہیں مگر پھر میں نے اپنے آپ کو روک لیا.تو یہ ممکن ہی نہیں کہ سلسلہ کا کاروبار چلانے کے لئے ہم آدمی رکھیں اور وہ اپنا خون خشک کئے بغیر کام چلا سکیں.مگر یہ صورت دیر تک قائم نہیں رکھی جاسکتی.افسوس ہے کہ جماعت کے لوگ جو بجٹ خود پیش کر کے گئے تھے اور جس کے متعلق ان کی رائے تھی کہ اس سے کم نہیں ہو سکتا ، میں نے اُس سے بھی کم کر دیا، مگر پھر بھی اُنہوں نے اس کو پورا کرنے کی کوشش نہ کی.اور بیت المال کی ہفتہ وار رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ آمد میں دن بدن کمی ہو رہی ہے.میں اس کمی کو جائز کمی نہیں سمجھتا.
خطابات شوری جلد اوّل ۱۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء دیکھو اگر کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو تو وہ ضرور کہیں سے اُدھار لے کر بھی ان کی دوائی کا انتظام کرے گا.میں ایسے شخص کو چندہ سے آزاد کر دونگا جو یہ کہے کہ میں خود یا میری بیوی بچے اگر بیمار ہوں اور میرے پاس کچھ نہ ہو تو میں ان کا علاج نہ کراؤ نگا.ایسے شخص کو عام چندہ بھی معاف کر دیا جائے گا.لیکن اگر کوئی شخص ایسا نہیں تو جو شخص واقعہ میں اس جماعت کو خدا کی جماعت سمجھتا ہے وہ اگر کہے کہ مجھ پر بہت بوجھ ہے میں اس کی مدد میں حصہ نہیں لے سکتا تو کیوں کر اس کی بات درست تسلیم کی جاسکتی ہے.دیکھو ہمارے بوجھ ابھی اُس حد تک نہیں پہنچے جو ہم سے پہلی جماعتوں کے بوجھ تھے.ان کی قربانیاں ہمارے مقابلہ میں بہت زیادہ تھیں.اُنہوں نے ایک دم اپنے مال اپنے وطن اور اپنی جائدادیں چھوڑ دیں.حضرت مسیح کے حواریوں کو فقراء کہتے ہیں.کیونکہ انہوں نے دین کی اشاعت میں اپنا سب کچھ خرچ کر دیا تھا.تم لوگوں کو پہلوں کی قربانیوں کو مد نظر رکھنا چاہئے.اگر تم انہی انعامات کے وارث بننا چاہتے ہو جو پہلوں کو ملے تو ان کی طرح قربانیاں بھی کرو.آج اس مجلس میں جو فیصلہ ہو اُس پر پختگی سے عمل کر کے دکھاؤ.بجٹ کے بارے میں سب کمیٹی غور کر کے اگر کوئی رقم زائد قرار دے یا کوئی محکمہ زائد بتائے تو میں اُس کو اُڑانے کے لئے تیار ہوں.مگر جس بجٹ کے پاس کرنے کی آپ لوگ رائے دیں اُس کا پورا کرنا آپ لوگوں کے ذمہ ہوگا.یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک طرف تو آپ لوگ یہ کہیں کہ جماعت کے لئے یہ کام بھی ضروری ہے اور وہ کام بھی ضروری ہے اور دوسری طرف کم از کم جو بجٹ مقرر کیا جائے اُسے بھی پورا کرنے کے لئے تیار نہ ہوں.اس کی مثال تو اُس عورت کی ہوگی جس نے مجھے شکایت لکھی تھی کہ مجھے خاوند صرف دس روپے ماہوار خرچ کے لئے دیتا ہے اور پھر کہتا ہے میرا اور اپنا خرچ اسی میں پورا کر.ایک وقت کھانے پر کباب ضرور ہوں اور صبح کے ناشتہ پر پراٹھے ہوں.جب اس رقم میں اس طرح نہیں ہوسکتا تو مارتا ہے.آپ کوئی آدمی بھیج کر معلوم کریں اس کی مار کے داغ میرے جسم پر موجود ہیں.اب آپ بتائیں میں کیا کروں؟ پس اگر تمام صیغے بھی اسی طرح رہیں اور تمام کام جاری رہیں تو خرچ کے بغیر کس طرح جاری رہ سکتے ہیں.اور یوں بند کرنے کو تو سارے صیغے بند کئے جا سکتے ہیں مگر پھر اس کی مثال اُس شخص کی سی ہوگی جو اپنے بازو پر شیر کی تصویر گدوانے لگا تھا.بہر حال جو صیغے
خطابات شوری جلد اوّل ۱۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء سنبھالے نہ جائیں وہ اُڑائے جا سکتے ہیں مگر پھر اس قسم کے مطالبات نہ ہوں جو یہ صیغے پورے کرتے ہیں.مثلاً مدرسہ احمدیہ اُڑا دیں جس پر بائیس ہزار کے قریب سالانہ خرچ ہوتا ہے مگر پھر کوئی مبلغ نہیں مانگنا چاہئے.یا ہائی سکول کو اڑا دو لیکن اس کے بعد یہ شکایت نہ ہونی چاہئے کہ جماعت کے بچوں کی اخلاقی حالت درست رکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہے.یا تبلیغ کا صیغہ اُڑا دو مگر پھر یہ نہ کہنا کہ ہمارے ہاں واعظ آئیں اور آکر تبلیغ کریں.یا تعلیم و تربیت کے صیغہ کو اڑا دو تو پھر تعلیم و تربیت کے متعلق کوئی مطالبہ نہ ہونا چاہئے.اسی طرح امور عامہ کو اُڑا دو مگر پھر یہ شکایت نہ کرنا کہ حکام کی طرف سے جو مشکلات پیش آ رہی ہیں یا رشتہ ناطوں کے متعلق جو دقتیں ہیں، ان کا انتظام کیا جائے.اس قسم کی ضروریات کے متعلق پھر مرکز کو تکلیف نہ دینا.لیکن اگر ان صیغوں کو نہ اُڑایا جا سکتا ہو تو جو کمیٹی بجٹ کے متعلق غور کرنے کے لئے بیٹھے وہ ایسی ذمہ دار ہونی چاہئے جو غور کرنے کی اہل ہو اور بجٹ کے متعلق سوچ سمجھ کر رائے دے کیونکہ جو بات طے ہوگی اُس کی ذمہ داری اُس پر ہوگی اور ان لوگوں کا کام ہوگا کہ اس بجٹ کو پورا کریں.اور اگر یہ لوگ بعض محکموں کو اُڑا کر آمدنی کے اندر اخراجات کو لانا چاہیں تو پھر ان محکموں سے تعلق رکھنے والے جو مطالبات جماعت کی طرف سے آئیں گے وہ ان کے پاس بھیجے جائیں گے کہ پورے کریں.پس اس معاملہ پر نہایت غور وفکر سے کام لیا جائے اور پیش آمدہ مشکلات کو حل کیا جائے.میں اپنے کاموں کو اخراجات کی تشویش اور فکر میں ضائع نہیں کرنا چاہتا.جلسوں کا خرچ دعوۃ و تبلیغ کا ایک سوال جو چھوٹا سا ہے ایجنڈا میں نہیں آیا یہ ہے کہ گزشتہ سال کی مجلس مشاورت میں طے ہوا تھا کہ جماعتیں جلسوں کا خرچ دیا کریں.یہ شوریٰ کی سب کمیٹی نے تجویز کی تھی اور پھر شوری میں اس پر اتفاق ہوا تھا اس کے بعد میں نے اس کی منظوری دی تھی.مگر ۱۲، ۱۵ جماعتوں کی طرف سے شکایت آئی ہے کہ مبلغوں کی آمد و رفت کا خرچ جب جلسے کرانے والی جماعتیں دیتی ہیں تو پھر مرکز میں جو روپیہ آتا ہے وہ کہاں جاتا ہے حالانکہ خرچ دینے کا فیصلہ خود انہی لوگوں نے کیا تھا.چونکہ اس امر کا تعلق عوام سے ہے اور اس کا بُرا اثر پڑ رہا ہے، چندہ میں سستی ہوگئی ہے اور خاص کر زمینداروں میں اس لئے اس پر بھی غور کر لیا جائے کہ کیا اس طریق کو مٹا دیا جائے یا
خطابات شوری جلد اوّل جاری رکھا جائے؟ ۱۸۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء پس ماندگان کی امداد نظارت امور عامہ کی طرف سے یہ سوال ہے کہ چونکہ اس وقت احمدی جماعت کے پس ماندگان کی امداد کا کوئی انتظام نہیں اس لئے ضروری ہے کہ ایک انجمن بنائی جائے جس کی غرض یہ ہو کہ نادار پس ماندگان کو ان کے سر پرستوں کی وفات پر خراب و خستہ ہونے سے بچایا جائے.اور ان کو تعلیم و تربیت کے لئے کوئی ایسا سرمایہ ہم پہنچ سکے جو ایسے نادار پس ماندگان کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھنے کے لئے مُمد ہو سکے.اس وقت یہ حالت ہے کہ جب کوئی ایسا شخص فوت ہو جاتا ہے جس پر خاندان کے گزارہ کا انحصار ہوتا ہے تو پس ماندگان کو بہت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے.وہ یا تو لوٹ پوٹ کر کسی طرح گزارہ کرتے ہیں یا جن کو جماعت میں کسی لحاظ سے اہمیت حاصل ہوتی ہے اُن کے پس ماندگان کو وظیفے دیئے جاتے ہیں، اس کے سوا اور کوئی انتظام نہیں ہے.بعض لوگ اس کے لئے تیار ہیں کہ اس غرض کے لئے ماہوار کچھ چندہ دیتے رہیں.اگر اس بارے میں کوئی معقول انتظام ہو جائے تو اس کے متعلق سکیم پیش ہوگی کہ ایک ایسی انجمن بنائی جائے جو نادار پس ماندگان کو بچانے کا انتظام کرے.اس کے لئے کچھ قواعد بنائے گئے ہیں ، ان پر سب کمیٹی غور کرے.قرضہ کا انتظام ایک اور سوال امور عامہ کی طرف سے یہ ہے کہ احمدیوں کو بغیر سو دقرض دینے اور سود سے بچانے کا انتظام کیا جائے.اب دقت یہ ہے کہ جماعت کو ہم روکتے ہیں کہ سُود پر قرض نہ لو.مگر کہیں سے بغیر سُود کے ملتا بھی نہیں اس لئے بسا اوقات سودی قرضہ لینے کے بعض لوگ مرتکب ہو جاتے ہیں.یا پھر ان کے ضروری کاموں میں نقصان ہو جاتا ہے جس کا بوجھ اُن کے دل پر پڑتا ہے اور جب ایمان مضبوط نہ ہو تو اس کا اثر دین پر بھی پڑتا ہے.اس لئے کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ بغیر سود دینے کے حاجتمندوں کو قرضہ مل سکے.اس کے لئے رجسٹر ڈ انجمن یا جو صورت مناسب ہو اُس پر غور کیا جائے.پنچائیتیں تیسرا سوال پنچائتیں قائم کر چکے متعلق ہے.میں نے ایک خطبہ جمعہ میں اعلان کیا تھا جس کے متعلق لوگوں کو غلطی لگی ہے.میرا مطلب یہ تھا کہ ایسے لوگ ہوں جو خیال رکھیں کہ کوئی ایسے لوگ تو نہیں ہیں جن میں تفرقہ اور لڑائی جھگڑا ہو.ہر جگہ
خطابات شوری جلد اوّل ۱۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء امیر مقرر نہیں ہیں اور جہاں ہیں بھی وہاں وہ ہر بات کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے لیکن اگر ہر محلہ میں پہنچ ہو تو یہ دیکھے کہ کوئی فساد تو نہیں؟ اور اگر ہو تو ان لوگوں کو مجبور کرے کہ اس کا فیصلہ کراؤ.فیصلہ کے لئے قاضی مقرر ہوتے ہیں.مگر وہ لوگوں کے گھروں پر جا کر نہیں کہا کرتے کہ ہم سے اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کرالو.یہ پہنچ کا کام ہے کہ جن میں جھگڑا ہو اُن کو قاضی کے پاس لے جائے.یا اگر معمولی بات ہو تو خود سمجھائے اور فیصلہ کر نے کی کوشش کرے پس پنچائیت کا یہ کام ہو گا کہ نا اتفاقی کو دور کرے اور اگر نہ دور کر سکے تو قاضی کے پاس جانے کے لئے اُن کو مجبور کرے تا کوئی زمانہ ایسا نہ آئے کہ کوئی جھگڑا درمیان میں ہی لٹک رہا ہو.اگر مقامی طور پر فیصلہ نہ ہو تو مرکز میں اطلاع دیں کہ ہم نے یہ کوشش کی تھی مگر فیصلہ نہیں ہوا اب آپ فیصلہ کریں.یہ اطلاع جلد سے جلد ہونی چاہئے.پس پنچائیتیں نہ محکمہ قضا کے خلاف ہیں نہ امارت کے خلاف بلکہ وہ انکے درمیان آلہ ہیں.تاجروں اور اہل حرفہ کی انجمن چوتھا سوال یہ ہے کہ احمدی شجار واہل حرفہ کے باہمی تعارف کے لئے ایک انجمن بنائی جائے.ہماری جماعت میں بعض اہل حرفہ لوگ ہیں مگر ان کی تجارت کا دوسرے احمدیوں کو پتہ نہیں اس لئے احمدی وہی چیزیں جو اپنے اس بھائی سے خرید سکتے ہیں، دوسروں سے خریدتے ہیں.یہ بھی ضروری امر ہے، اس پر بھی غور ہونا چاہئے.بہشتی مقبرہ کے متعلق یہ سوال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رسالہ الوصیت کے ماتحت کس قدر آمد یا جائداد والا شخص وصیت کر سکتا ہے : حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسّلام نے وصایا کے متعلق لکھا ہے.اسوقت کے امتحان سے بھی اعلیٰ درجہ کے مخلص جنہوں نے در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جائیں گے اور ثابت ہو جاویگا کہ بیعت کا اقرار انہوں نے سچا کر کے دکھلا دیا ہے اور اپنا صدق ظاہر کر دیا ہے“.مگر میں نے غور کیا ہے موجودہ صورت میں منشاء وصیت پورا نہیں ہورہا.مثلاً عورتیں اس قسم کی وصیت کرتی ہیں کہ میری دس (۱۰) روپے کی بالیاں ہیں اس کا دسواں حصہ ایک روپیہ میں وصیت میں دیتی ہوں.یہ کوئی ایسی قربانی نہیں ہے کہ جسے آئندہ نسلیں یاد
خطابات شوری جلد اوّل ۱۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء کریں.ایسی عورت نادار کہلائے گی اور ناداروں کے لئے جو شرط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھی ہے اُس کے رُو سے مقبرہ میں داخل ہو سکے گی یعنی دین کی خدمت کر کے لیکن مالی قربانی کے لحاظ سے اس کی وصیت وصیت نہ ہوگی.اسی طرح ایک آدمی ہے جو مثلاً دوسو روپیہ ماہوار تنخواہ پاتا ہے، اس کا باپ غریب آدمی تھا، اس وجہ سے اُس کا مکان فرض کر لو پانچ سو روپیہ قیمت کا ہے اب وہ مکان کی وصیت کر دیتا ہے مگر آمدنی میں سے کچھ نہیں دیتا.بتاؤ یہ اُس کی ایسی قربانی ہے کہ اگلی نسلیں اسکی وجہ سے اس کے لئے دُعا کریں اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں دفن کیا جائے؟ دراصل وصیت کے لئے ایسا مال ہونا چاہئے جس کے متعلق خیال ہو کہ آئندہ نسل کے کام آنا ہے.اسی احساس کی قربانی جنت کے قابل بناتی ہے.مگر جو عورت دس روپیہ میں سے ایک روپیہ دیتی ہے وہ کو نسے احساسات کی قربانی کرتی ہے.یا جو دو سو یا چارسو ماہوار کما رہا ہے وہ اپنے معمولی سے مکان کے دسویں حصہ کی وصیت کر کے کونسے احساسات کی قربانی کرتا ہے.میرے نزدیک اس قسم کی وصیتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کو پورا نہیں کرتیں اور ایسے لوگ مقبرہ میں داخل ہو جائیں گے جو درصل داخل ہو نے کے قابل قربانی نہ رکھتے ہوں گے.خدا تعالیٰ تو ان کو بھی بخش دے گا کیونکہ یہ اس کا وعدہ ہے مگر ہماری بخشش مشکل ر ہو جائے گی کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کو پورا نہ کیا.اس کے لئے ضروری ہے جو سوال پیش کیا گیا ہے اُس پر غور کیا جائے کہ وصایا کے لئے کیا شرائط ہوں اور کس حد تک کی رقم قربانی کہلا سکتی ہے؟ ان سب امور پر غور کرنے کے لئے سب کمیٹیاں بنائی جائیں گی.آپ لوگوں نے اس روح سے جس کا ذکر میں نے تقریر میں کیا ہے ان امور پر غور کرنا ہے.سب کمیٹیوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ سلسلہ کے وقار اور بوجھوں کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح 66 مشورہ دیں کہ کس طرح کام چلائے جائیں.“ سوالات اور جوابات کے بارہ میں حضور کی وضاحت مشاورت ۱۹۲۶ء میں حضور کی افتتاحی تقریر کے بعد سلسلہ کے مرکزی کاموں
خطابات شوری جلد اوّل IAZ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء کے بارہ میں بعض سوالات کے جوابات دیئے گئے.اس کے بعد احباب سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: پوچھا گیا ہے کہ سوالات کے جو جواب دیئے گئے ہیں ان کے متعلق پوچھنے کا بھی حق ہے یا نہیں؟ میرے نزدیک ضرورحق ہے لیکن اس کے لئے کل موقع دیا جائے گا.ایک صاحب نے رقعہ دیا ہے کہ سالانہ رپورٹوں میں ایجنسی کی رپورٹ نہیں پڑھی گئی.منتظمین کو چاہئے آئندہ اس کے متعلق خیال رکھیں.اس وقت سب سے بڑی غلطی پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے ہوئی ہے.نظارتوں کی رپورٹوں کے لئے ایک سو چالیس منٹ رکھے گئے تھے مگر نظارتوں کی جولسٹ بنا کر اُنہوں نے مجھے دی اُس میں کام کیلئے ایک سو ساٹھ منٹ رکھے اور پھر ایک نظارت کا نام لکھنا ہی بھول گئے.اس طرح ایک سو اسی منٹ میں کام ختم ہوا.اس قسم کی غلطیاں افسوسناک ہیں آئندہ احتیاط ہونی چاہئے.بعض نے شکایت کی ہے کہ بعض سوالات کے جواب جب پہلے سے شائع شدہ ہیں تو پھر اس قسم کے سوالات کو اس موقع کے لئے کیوں رکھا گیا ؟ بات یہ ہے کہ بعض سوال چکر لگانے لگ جاتے ہیں.اس وجہ سے ان کا جواب دینا ضروری ہوتا ہے.بیشک بعض سوالات ایسے ہیں جو گزشتہ سال کی مجلس مشاورت میں پیش ہوئے اور نمائندوں نے ان کے متعلق مشورہ دیا اور فیصلہ کیا مگر میں نے دو باتیں بتانے کے لئے ان کو پھر پیش کرنے کا موقع دید یا.ایک تو یہ کہ معلوم ہو جائے لوگ کیسے ناواجب سوال کرتے ہیں.مجلس میں ایک بات پیش کی جاتی ہے، کثرتِ رائے اُس کی تائید کرتی ہے اور میں کثرتِ رائے کو منظور کر کے اس کے متعلق فیصلہ کرتا ہوں مگر پھر اُسی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اندھیر ہو گیا ایسا کیوں کیا گیا؟ حالانکہ اُس کے متعلق ایک سو چھپیں نمائندوں میں سے ایک سو چودہ نے تائید کی تھی.اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو ان کے نزدیک سلسلہ کی باگ اُن کے ہاتھ میں ہے جو یہاں نمائندے بن کر نہ آئے تھے.یا پھر یہ ہے کہ نمائندے جو رائے دے کر جاتے ہیں وہ جب چھپ کر ان کے پاس پہنچتی ہے تو وہ بھی انہیں یاد نہیں رہتی کہ اپنی مجالس میں جواب دے سکیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس امر کے متعلق مجلس میں کیا فیصلہ ہوا اور جب فیصلہ چھپا ہوا جاتا ہے تو اُس کو پڑھتے بھی نہیں کیونکہ وہ فیصلہ جو مجلس نے پیش کیا خود نمائندوں نے اُس کی تائید میں رائے دی.خلیفہ نے
خطابات شوری جلد اوّل ۱۸۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء وہ اپنی طرف سے پیش نہ کیا تھا.وہ جب خلیفہ کی طرف منسوب کر کے اُس پر اعتراض کئے جاتے ہیں تو ان کے جواب نہیں دیتے.اس لئے جو دو باتیں میں نے بیان کی ہیں ان میں سے ایک ضرور ہے.اور خواہ کوئی ہو افسوس ناک ہے.پھر پوچھا گیا ہے کہ کس قسم کے سوالات اس موقع پر کئے جاسکتے ہیں اور کس قسم کے سوالات کی اس دفعہ اجازت دی گئی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس قسم کے حالات ہم نے سُنے اُن کو سوال کے طور پر درج کر دیا.ان کے تجویز کرنے کی ذمہ داری کسی خاص آدمی پر نہیں پڑتی بلکہ اُن پر پڑتی ہے جنہوں نے اس قسم کے سوالات کا ازالہ نہیں کیا.اب بتاؤ کیا صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ مشاورت کثرتِ رائے سے ایک فیصلہ کرتی ہے اور میں اُسے منظور کرتا ہوں.پھر اگر اُس پر اعتراض ہوں تو اُن کی صورت کیا رہ جاتی ہے.مثلاً یہ سوال کیا گیا ہے کہ برلن مشن کیوں بند کیا گیا ؟ حالانکہ اسی جگہ کثرتِ رائے نے یہ تجویز پیش کی تھی اور پھر اسے میں نے منظور کیا تھا.بتاؤ اگر دوستوں نے کسی امر کے متعلق مشورہ دے کر اسی طرح بُھول جانا ہے اور جب کوئی اعتراض کرے تو ہم سے کہنا ہے کہ جواب دو تو پھر یہاں مجلس مشاورت میں ان کے آنے کا کیا فائدہ؟ ضروری ہے کہ وہ ان فیصلوں کو یا درکھیں جو یہاں ہوں اور ان کے متعلق اگر کوئی سوال کرے تو اسے جواب دیں.اس قسم کے سوالات کے علاوہ باقی سوال جو تھے ان کے جواب ضروری تھے کیونکہ جب تک کسی بات کا علم نہ ہو انسان اُس کی اہمیت نہیں سمجھ سکتا.ان سوالات میں سے بعض ایسے تھے جن کے جواب پورے نہیں دیئے گئے.اس صیغہ کے ناظر صاحب نے نہ تو ان کی اہمیت کو سمجھا اور نہ پورا جواب دیا.مثلاً یہ سوال کرنے والوں کا کہ مخالفین کی فلاں کتاب کا کیوں جواب نہیں دیا گیا اور فلاں کا کیوں نہیں ؟ منشاء یہ تھا کہ ان کے سامنے جو چند مولوی ہیں سید سرور شاہ صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب مصری ، مولوی فضل الدین صاحب وہ کیا کر رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ دینا چاہئے تھا کہ یہ اور کاموں پر ملازم ہیں تصنیف و تالیف کے کام پر نہیں.سوائے مولوی فضل الدین صاحب کے جس طرح اور ملازم ۵-۶ گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں اسی طرح یہ بھی پڑھاتے ہیں.اگر ان سے یہ سوال کرنے کا حق ہے کہ اُنہوں نے کتنی کتابیں تصنیف کی ہیں تو یہ بھی حق ہونا
خطابات شوری جلد اوّل ۱۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء چاہئے کہ ہم منشی فرزند علی صاحب سے پوچھیں کہ اُنہوں نے کتنی کتا بیں تصنیف کی ہیں کیونکہ جس طرح وہ کام کرتے ہیں اُسی طرح یہ لوگ بھی کام کرتے ہیں.سلسلہ کے کام کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ کام کرنے والے کا دماغ ہر وقت تازہ اور کام کے قابل رہتا ہے اور انہیں آرام کی ضرورت نہیں ہوتی.جس طرح شملہ، دہلی ، کلکتہ میں کام کرنے والے کا دماغ پانچ چھ گھنٹے کام کرنے کے بعد کام کے قابل نہیں رہتا اسی طرح یہاں بھی ہوتا ہے اور وہ لوگ جو ایک مستقل کام پر مقرر ہیں وہ کوئی دوسرا مستقل کام نہیں کر سکتے اور جو کچھ ان کو ملتا ہے اس کے معاوضہ میں وہ ایسا ہی کام کرتے ہیں جیسا آپ لوگ کرتے ہیں.اس کے بعد کوئی حق نہیں رہتا کہ انہیں کہا جائے کہ اور وقت دو.ان پر اتنا ہی حق رہتا ہے جتنا اور لوگوں سے کہیں کہ اپنا وقت دو.جتنا باہر کے لوگ کام کر سکتے ہیں اتنا ہی یہاں کے لوگ بھی کر سکتے ہیں مگر یہ علاوہ اس کے بھی کام کرتے ہیں.مثلاً میر محمد الحق صاحب کے سپر د ضیافت کا کام ہے.آپ لوگ جب یہاں آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ میر صاحب کس طرح کام کرتے ہیں.پھر وہ مدرسہ کے کارکن ہیں جہاں سے انہیں وظیفہ ملتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی وہ ضیافت کا کام کرتے ہیں اب ان کے متعلق یہ کہنا کہ اگر اُنہوں نے کوئی تصنیف نہیں کی تو مجرم ہیں، یہ بہت بڑی زیادتی ہے.پھر اُنہوں نے تصنیف کا کام بھی کیا ہے اور اس طرح دُگنا کام کیا ہے.پھر مولوی سید سرور شاہ صاحب ہیں جو مدرسہ میں کارکن ہیں وہ صیغہ وصایا کے انچارج بھی ہیں، افتاء کا کام بھی کرتے ہیں.اگر وہ مدرسہ میں پڑھانے کے بعد کہتے کہ میرا دماغ تھک گیا ہے جس طرح باہر کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم ملازمت کا کام کرنے کے بعد تھک جاتے ہیں تو پھر نہ آپ کا اور نہ میرا حق ہے کہ انہیں کہیں اور کام کیوں نہیں کرتے.اگر وہ وصایا کا کام بھی کرتے ہیں جس سے چندہ میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ آنریری کام کرتے ہیں.تیرے حافظ روشن علی صاحب ہیں علاوہ اس کے کہ وہ مبلغین کلاس کے مدرس ہیں اور کام بھی کرتے ہیں.مدارس میں ایک مدرس نہیں ہوا کرتا بلکہ کئی ہوتے ہیں مگر ان ایک کے سپر د ایک جماعت کی گئی ہے.اس کے بعد ہمارا حق نہیں کہ ان سے پوچھیں اور کیا کام
خطابات شوری جلد اوّل ۱۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء کرتے ہیں؟ لیکن علاوہ اس کے وہ سلسلہ کے مفتی بھی ہیں.فتوے لکھتے ہیں، درس بھی دیتے ہیں جب گلا کی خرابی اور بیماری کی وجہ سے میں درس نہیں دے سکتا.آجکل رمضان میں ایک پارہ سے زیادہ روزانہ درس دیتے ہیں.اس کے علاوہ باہر سے جو اعتراض آئیں اُن کے جواب بھی لکھ دیتے ہیں.ان کے یہ کام بطور چندہ کے ہوتے ہیں.پھر شیخ عبدالرحمن صاحب مصری ہیں وہ یہاں کے قاضی ہیں.مقدمات میں وقت دیتے ہیں، پھر مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر ہیں.میرے نزدیک ہیڈ ماسٹری ایک ایسا ذمہ داری کا کام ہے کہ اس کے ساتھ اور کوئی کام سپرد نہ کرنا چاہئے.ہیڈ ماسٹر لڑکوں کی اخلاقی حالت کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے اور اس کے لئے اُسے ہر وقت خیال رکھنا پڑتا ہے.اس کے بعد ہمارا حق نہیں کہ ان سے کسی اور کام کا مطالبہ کریں مگر وہ مقدمات کا کام بھی کرتے ہیں، بعض سوالات کے جواب بھی لکھاتے ہیں ،خزانہ کے امین بھی ہیں.پھر مولوی محمد اسمعیل صاحب ہیں جو علاوہ مدرسہ کے کئی کام کرتے ہیں، کئی لوگوں کو پڑھاتے ہیں ، قرآن کریم کے ترجمہ میں میرے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں جس میں روزانہ تین چار گھنٹے ان کے صرف ہوتے ہیں.ان کے سوا اور کوئی عالم نہیں جو مشہور ہو اور جس کے متعلق سوال ہو سکے کہ وہ کیا کرتا ہے.باہر سے جب لوگ حافظ صاحب یا ان علماء میں سے کسی کو بُلاتے ہیں اور یہاں سے لکھا جاتا ہے وہ فارغ نہیں، تو سمجھتے ہیں کوئی بڑی کتاب لکھ رہے ہوں گے لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب کوئی کتاب نہیں نکلتی تو کہتے ہیں کیا کرتے رہتے ہیں؟ باہر آتے نہیں اور کوئی کتاب لکھتے نہیں ، حالانکہ ان کے سپر داور کام ہوتے ہیں.پس اس قسم کی باتوں کی وجہ سے باہر کے لوگ خیال کرتے ہیں کہ علماء چادر تان کر سوئے رہتے ہیں.چونکہ یہ سوال ایک اہم سوال تھا کیونکہ سلسلہ کا انحصار علماء پر ہوتا ہے اور یہ ان کے متعلق بدظنی تھی اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کا جواب خود بیان کروں.اس کے بعد میں دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ابھی بخارا سے محمدامین صاحب کی رجسٹری آئی ہے جس سے گم شدہ بھائی کے متعلق تشویشناک باتیں ظاہر ہوتی ہیں.میں ابھی ان کا اظہار نہیں کرنا چاہتا مگر دُعا کے لئے کہتا ہوں.احباب دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمارے
خطابات شوری جلد اوّل ۱۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء بھائی کا کھوج معلوم کرا دے اور اسے صحیح وسلامت ہم سے ملائے.اس دفعہ میں نے مشاورت کے موقع پر ایک مختصری نمائش کا بھی انتظام کیا ہے.اس میں مبلغین کے تازہ خطوط اور رپورٹیں بھی رکھی گئی ہیں.جن سے معلوم ہوتا ہے کہ باہر کس طرح کام ہو رہا ہے.مثلاً مس بڑ کی تازہ رپورٹ ہے کہ کس طرح وہ با قاعدہ چندہ دیتی ہیں اور آمد و خرچ کا گوشوارہ تیار کرتی ہیں.اسی طرح دوسرے مبلغین کی بھی رپورٹیں ہیں.خصوصاً فیروز پور کے تبلیغی سیکرٹری صاحب کی رپورٹ بہت مکمل اور اعلیٰ ہے جو بطور نمونہ رکھی گئی ہے.مسجد لنڈن کا فوٹو بھی ہے.اسی طرح میں قرآن کریم کا جو تر جمہ کر رہا ہوں اُس کا ایک حصہ بھی رکھوایا ہے.اس کے ساتھ ہی شاہ رفیع الدین صاحب، مولوی اشرف علی صاحب تھانوی ، مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی، فتح محمد صاحب جالندھری، مرزا حیرت صاحب دہلوی اور مولوی محمد علی صاحب کے ترجمے بھی رکھ دیئے گئے ہیں.جلسہ کے بعد ۱۵ دن تک ترجمہ کا کام مجھ سے نہ ہو سکا کیونکہ لوگ ملنے کے لئے آتے رہے.پھر ۱۵ دن کے قریب میں بیمار رہا، اس لئے ڈیڑھ ماہ کے قریب کام ہوا اور اب تک سورۃ آل عمران ختم ہو چکی ہے اور سورہ نساء شروع ہونے والی ہے.باقی نوٹ تو تیار شدہ ہیں.ترجمہ میں بہت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اس میں میں نے دو باتوں کو مدنظر رکھا ہے.ایک تو یہ کہ ترجمہ با محاورہ ہو تا کہ لوگ مطلب سمجھ سکیں.دوسرے یہ کہ قرآن کے الفاظ نہ چھوڑ دیئے جائیں مثلاً انقلبْتُمْ على أعقابکم کا الفاظ کے لحاظ سے یہ ترجمہ ہو گا کہ ایڑیوں کے بل پھر گئے مگر اُردو کا یہ کوئی محاورہ نہیں.ایسے موقع پر اسی کو اختیار کر لیا گیا ہے کیونکہ قرآن کریم کے محاورہ کا زیادہ احترام کیا گیا ہے اور لوگ اسے سمجھنے لگ گئے ہیں.اسی طرح قرآن میں جہاں مصدر استعمال ہوئی ہے کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ میں مصدر ہی استعمال ہو اور مفرد کا ترجمہ مفرد لفظ میں ہو.اگر کوئی ان باتوں کو مدنظر رکھ کر دیکھے اور ترجمہ کی مشکلات سے ناواقف نہ ہو تو پچھلے تراجم اس ترجمہ کے مقابلہ میں جومیں کر رہا ہوں.غلط معلوم ہوں گے میں نے دوسرے تراجم مقابلہ کرنے کے لئے بھی رکھوا دیئے ہیں.پھر احباب مشورہ دیں کہ ترجمہ کس رنگ میں چھپے.نوٹ حاشیہ پر ہوں یا نیچے یا دوسرے صفحہ پر ، اس کے متعلق کیا طریق اختیار کیا جائے ؟“
خطابات شوری جلد اوّل ۱۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء دوسرا دن مجلس مشاورت کے دوسرے دن ۴ را پریل کو پہلے اجلاس کی کارروائی کا آغاز دُعا سے کرنے کے بعد حضور نے فرمایا: - دوستوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جب کسی امر کے متعلق مشورہ طلب کیا جائے تو تقریر کرتے ہوئے اختصار سے کام لیں.ایک ہی بات کو دُہرائیں نہیں.شاید اس ہال کا ی نقص ہے کہ سب دوستوں تک آواز نہیں پہنچتی.اس لئے وہ سمجھتے ہیں یہ بات کسی نے پیش نہیں کی اور کر دیتے ہیں.اس وجہ سے ایک ہی بات کئی کئی بار دہرائی جاتی ہے اس طرح کام بہت لمبا ہو جاتا اور وقت کے اندر ختم نہیں ہوسکتا.پس دوستوں کو چاہئے کہ پہلے کوئی دوست جس دلیل کو پیش کر چکا ہو اُسی کو بار بار نہ پیش کیا جائے.بولنا چونکہ ووٹ کے مترادف نہیں اس لئے اگر نہ بولیں تو بھی کوئی حرج نہیں.بولنے کے متعلق قاعدہ یہی ہے کہ جو شخص پہلے بولنے کے لئے کھڑا ہوا سے پہلے موقع دیا جائے اور جو بعد میں کھڑا ہوا سے بعد میں.اس بات کا فیصلہ چوہدری صاحب کریں گے.اگر غلطی بھی لگ جائے تو کسی کو حق نہیں ہوگا کہ کہے میں پہلے بولوں گا.ان کا فیصلہ ماننا ہوگا.پھر اگر کسی موقع پر بات لمبی ہو جائے تو دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد ہو سکتا ہے کہ گفتگو بند کر دی جائے اور رائے لے لی جائے.6◉ کل جور پورٹیں پڑھی گئی تھیں یا جن سوالات کے جواب دیئے گئے تھے ان کے متعلق اختصار کے ساتھ جو دوست سوال کرنا چاہیں کر سکتے ہیں.اختصار اس لئے کہتا ہوں کہ ایسے سوالات کا فوری جواب نہیں دیا جا سکتا.ایسے سوالات کا جواب آفیسر بھی مختصر ہی دے سکیں گے.“ اس کے بعد سوال وجواب کا Session ہوا جس کے دوران حضور نے ایک اہم امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :- دو اور سوالات کے جواب تو ہو گئے ہیں ایک سوال جو نمائندہ کراچی کی طرف سے کیا گیا ہے وہ چونکہ اساس کار کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے اس لئے اس کا جواب میں خود دیتا
خطابات شوری جلد اوّل ۱۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء ہوں.سیکرٹری مجلس مشاورت نے ایک جواب دیا ہے مگر وہ وقت کی ضرورت کو ٹلانے کے لئے دل میں پیدا ہوا ہے اصل جواب نہیں ہے.ہمارا اساس عمل یہ ہے کہ تمام کاموں کا ذمہ دار خلیفہ ہوتا ہے.وہ آگے چند لوگوں کے سپرد کام کرتا ہے جسے نظارت کہنا چاہئے.اب اس کا نام صدر انجمن ہے.یہی وجہ ہے کہ مجلس شوری خلیفہ کا پرائیویٹ سیکرٹری طلب کرتا ہے.صدرانجمن چونکہ خود کاموں کے متعلق جواب دہ ہے اس لئے یہ مناسب نہیں سمجھا گیا کہ وہ اس مجلس مشاورت کو طلب کرے جس کا کام قانون وضع کرنے کے لئے مشورہ دینا ہے.چونکہ شریعت اسلامیہ نے تسلیم کیا ہے کہ خلیفہ تمام کاموں کا ذمہ دار ہے اس لئے مجلس مشاورت میں وہ امور ہوتے ہیں جن کو اس سال کے لئے خلیفہ ضروری سمجھتا ہے اور چونکہ اس کام کے لئے صرف ایک دن ہوتا ہے اور ایک دن سب کمیٹیاں اپنا کام کرتی ہیں اس لئے چھ سات سوال ہی لئے جاتے ہیں.جو سوال آتے ہیں ان میں ضروری اور اہم منتخب کر لئے جاتے ہیں.یہ انتخاب خلیفہ کی طرف سے ہوتا ہے اس میں کسی نظارت کا تعلق نہیں ہوتا چونکہ دوستوں کو ابھی تجربہ نہیں اس لئے بعض سوال ایسے لکھ دیتے ہیں جن کا تعلق صرف ناظروں سے ہوتا ہے مجلس شوری سے نہیں ہوتا اس لئے وہ ناظروں کے پاس بھیج دیئے جاتے ہیں اور جو مجلس سے تعلق رکھتے ہیں ان کو مجلس کے لئے رکھ دیا جاتا ہے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ لوگوں سے کہا جائے کہ وہ سوالات پیش کریں.میں اس کے خلاف ہوں.میں گورنمنٹ سے بھی جب خط وکتابت کرتا ہوں تو اس پر زور دیتا ہوں کہ لوگوں میں خود تقاضے پیدا کرنا اور کسی بات کے متعلق ایجی ٹیشن کا انتظار کرنا یہ درست نہیں ہے خود بخود جو سوال پیدا ہوتے ہیں وہ یہاں آتے رہتے ہیں.اس سال ایک جگہ کے نمائندے نے سوال بھیجے تھے کہ ایجنڈا میں شامل کئے جائیں مگر اکثر ان میں ایسے تھے جو ناظروں سے تعلق رکھتے تھے اس لئے اُن کے دفاتر میں چلے گئے.ایک اور دوست یعنی خان صاحب فرزند علی صاحب نے ایک امر کے متعلق یاد دلایا اور وہ پیش ہے کہ احمدیوں کے پسماندگان کا کوئی انتظام ہونا چاہئے تا کہ وہ آوارہ نہ ہوں.پس اگر اساس کے متعلق کسی کے دل میں کوئی تجویز پیدا ہو تو اسے خلیفہ کے سامنے پیش کرنا چاہئے.خلیفہ اگر اسے اساس کے متعلق سمجھے گا اور اس کے متعلق مشورہ کی ضرورت ہوگی تو شوریٰ میں پیش کر دی جائے گی اور اگر
خطابات شوری جلد اوّل ۱۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء ناظروں کے متعلق ہو گی تو انہیں ہدایت دے دی جائے گی.“ مجلس مشاورت کے دوسرے دن خلیفہ المسیح بڑے شہروں کا دورہ فرما ئیں ۴.ا ۴.اپریل ۱۹۲۶ء کو پہلے اجلاس میں سب کمیٹی صیغہ دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی کہ حضرت خلیفہ امسیح کی خدمت میں درخواست کی جائے کہ بڑے بڑے شہروں کا دورہ فرمائیں.بحث کے دوران میں اس تجویز کے خلاف اور اس کے حق میں ممبران نے جوش و خروش سے اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا.طویل بحث کے بعد رائے شماری کروائی گئی.اس کے بعد حضور نے دونوں گروہوں کے جذبات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک دلنواز خطاب سے وو احباب کو نوازا جو سب کے لئے تسکین اور ہدایت کا موجب ہوگا.حضور نے فرمایا : - یہ ریزولیوشن اپنی نوعیت اور تغیرات کے لحاظ سے جو مختلف لوگوں کے جذبات کے ماتحت پیدا ہوتے رہے، نہایت عجیب ریزولیوشن ہے.اس وقت اس کی تائید میں ۱۰۵ رائیں ہیں اور مخالف ۷۵.جس وقت یہ ریزولیوشن پیش ہوا اور بعض دوستوں نے اس کے خلاف تقریریں کیں تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ ساری کی ساری مجلس اس کے خلاف بول اُٹھی ہے.پھر جب بعض نے تائید میں تقریریں کیں تو یوں معلوم ہوا کہ سارے لوگ اس کی تائید میں ہیں.پھر ایسی کشمکش جاری رہی کہ صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ جذبات کہاں لے جا رہے ہیں.میرے نزدیک بجائے اس کے کہ ٹھنڈے دل سے اس معاملہ پر غور کیا جاتا ، جذبات کو اتنا قابو پانے دیا گیا کہ تمام گفتگو جو ہوئی وہ عقل اور شعور پر مبنی ہونے کی بجائے جذبات پر مبنی تھی.چنانچہ وہ الفاظ ناپسندیدہ جو تقریروں میں استعمال کئے گئے دلالت کر رہے تھے کہ دوست جذبات کے میدانوں میں چکر لگا رہے ہیں اور وہ ٹھنڈی طبیعت جو مومن کے ساتھ لگی رہتی ہے تھوڑے عرصہ کے لئے ان سے جُدا ہوگئی ہے.میں اُمید کرتا ہوں کہ آئندہ تقریروں میں جذبات کو قابو رکھا جائے گا اور ایسے الفاظ نہ استعمال کئے جائیں گے جو ناپسندیدہ ہوں، دلوں کو دکھانے والے اور شقاق پیدا کرنے والے ہوں.اس کے بعد میں اصل مسئلہ کو لیتا ہوں.
خطابات شوری جلد اوّل ۱۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء ابتداء سوال یہ ہوا تھا جو قانونی نقص کی وجہ سے پیش نہ ہوا مگر میں اس کی اصل حیثیت سے بحث کروں گا.سوال یہ تھا کہ خلیفہ مختلف شہروں کے دورے کرے.چوہدری ظفر اللہ صاحب نے کہا یہ ایسے الفاظ ہیں جن سے خلیفہ کی ہتک ہوتی ہے اور الفاظ پیش کرنے والوں کے لئے نفرت کا ووٹ پاس کرنا چاہئے.چوہدری صاحب کو یہ یاد رکھنا چاہئے تھا کہ تجویز پیش کرنے والے دوست مخلص تھے.ان کی غرض کبھی یہ نہ تھی کہ خلیفہ کی ہتک کریں اور چوہدری صاحب کی بھی یہ منشاء نہ تھی کہ ان کی نیت ہتک کرنے کی تھی، انہوں نے صرف الفاظ کو ناپسندیدہ قرار دیا تا ہم کہا گیا کہ ووٹ آف سنشوئر (VOTE OF CENSURE) پاس کرنا چاہئے.یہ چونکہ نیت کے متعلق ہوتا ہے اس کے ازالہ کے لئے اور اس کے اثر کو مٹانے کے لئے میں کہتا ہوں کہ یہ ناپسندیدہ بات تھی اور چونکہ خود چوہدری صاحب نے اس کی تشریح کر دی ہے اس لئے اسی تشریح کو یاد دلانے سے زیادہ میں کچھ نہیں کہنا چاہتا.میں چوہدری صاحب سے اس بات میں متفق ہوں کہ تجویز کے الفاظ موقع کے لحاظ سے ہتک آمیز تھے کیونکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ اس کمیٹی کے ممبروں نے یہ خواہش ظاہر کی.ہے کہ جماعت خلیفہ کے دروازہ پر جائے اور جا کر کہے کہ آپ تبلیغ کے لئے باہر نکلیں.میں ابھی اس مسئلہ پر آتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ کے لئے جاتے رہے اور خلیفہ کا جانا کیسا ہے.پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نبی یا خلیفہ کا خود کہیں تبلیغ کے لئے جانا اور اسے ماننے والوں کا کہنا کہ وہاں جا کر تبلیغ کرو، اِن دونوں باتوں میں کتنا فرق ہے.میں کہتا ہوں بادشاہ سے کہنا کہ کہیں جائے اور اُس کا خود کسی جگہ چلا جانا تمدن کے لحاظ سے فرق رکھتا ہے یا نہیں؟ یا بادشاہ کا اپنے کسی ملازم کے گھر چلا جانا یا اسے یہ کہنا کہ فلاں کے گھر جائے اس میں عقلی طور پر کوئی فرق ہے یا نہیں؟ ایک جگہ وہ اپنی مرضی اور خواہش سے جاتا ہے اور ایک جگہ خواہش کی جاتی ہے کہ وہ جائے.میں سمجھتا ہوں دُنیا کے تمدن اور اصول کے لحاظ سے ان دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ہی موٹی مثال ہے.آپ دہلی ، لاہور، جالندھر، لدھیانہ، امرتسر، سیالکوٹ تشریف لے گئے لیکن جب آپ کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ فلاں راجہ آپ سے ملنا چاہتا ہے تو اُس وقت آپ نے یہ نہ کہا کہ میں دہلی وغیرہ مقامات پر جو گیا تھا اُس کے پاس بھی جاتا
خطابات شوری جلد اوّل ۱۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء ہوں بلکہ یہ کہا کہ پیاسا کنویں کے پاس آتا ہے کنواں پیاسے کے پاس نہیں جایا کرتا.یہ بات بھی بتاتی ہے کہ دونوں میں فرق ہے.یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض مقامات پر دوسروں کی درخواست پر تشریف لے گئے مگر یہ جانا ایسا ہی ہے جیسے دعوت پر کوئی بلائے.اب مجھے غریب بھی اپنے ہاں دعوت پر بلاتے ہیں اور امیر بھی.اگر مجھے فرصت ہو، صحت ہو تو میں جاتا ہوں.دراصل اس قسم کی دلیلیں نہیں ہوسکتیں.کسی جگہ کے لوگوں کا بلا نا اور پھر اُس کے متعلق فیصلہ کرنا کہ جانا چاہئے یا نہیں اور بات ہے اور یہ کہنا کہ جانا چاہئے اور بات ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے متعلق جو کہا گیا ہے اس کی نسبت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے جو کچھ کہا ہے وہ مجھے بھی گراں گزرا.شاید اختصار کی وجہ سے وہ اپنا مطلب پورانہیں بیان کر سکے.یہ کہ دینا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت حالات اور تھے جو اب نہیں ہیں اس لئے ان باتوں پر عمل نہیں ہو سکتا یہ اُن لوگوں کے ہاتھوں میں ہتھیار دینا ہے جو شرعی احکام پر عمل کرنا نہیں چاہتے.مگر میرے نزدیک یہ بھی صحیح نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کا یہ مطلب ہے کہ ہر عمل میں آپ کے نمونہ کی پابندی لازمی ہے.مثلاً اس وقت ہمارا جو لباس ہے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس نہ تھا پھر کیا ہم اُسوہ حسنہ کی خلاف ورزی کرنے والے ہوئے؟ اس وجہ سے اسوہ حسنہ کی تشریح کرنی پڑے گی اور پھر اس کی پابندی کرنی ہو گی.یہ بھی بحث کی گئی ہے کہ اس مجلس میں تجویز پیش کرنے سے خلیفہ پر پابندی عائد ہوگی اور اس کے جواب میں کہا گیا ہے یہ تو بطور مشورہ ہے.میرے نزدیک یہ صحیح بات ہے کہ یہاں جو ریزولیوشن پیش ہوتا ہے مشورہ کے طور پر ہوتا ہے نہ کہ پاس قرار پاتا ہے اس لئے یہ اعتراض درست نہیں، اس سے خلیفہ پر پابندی نہیں ہوتی.مگر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کسی بات کے گر دو پیش کے حالات اور روح کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ درخواست میں التجاء ہوتی ہے مگر اُس میں مخفی فیصلہ بھی ہوتا ہے.اس کے متعلق ہر شخص کو عموماً تجربہ ہوگا کہ بسا اوقات ایسی درخواستیں ہوتی ہیں جن کے الفاظ تو درخواست کے ہوتے ہیں مگر مخفی طور پر اُن میں جبر پایا جاتا ہے کہ ہم یوں کرنے دیں گے اور یوں نہیں.
خطابات شوری جلد اوّل ۱۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء کرنے دیں گے.میرے نزدیک وہ امور جو خلیفہ کی ذات سے وابستہ ہیں اُن میں اِس قسم کی مداخلت بھی درست نہیں ہوسکتی.در حقیقت سلسلہ کے سب امور کا ذمہ وار خلیفہ ہے.بعض کے متعلق یہ ہوتا ہے کہ خلیفہ خود نہیں کرتا دوسروں سے کراتا ہے اور بعض خلیفہ کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں اُن کا کرنا یا نہ کرنا اوروں سے تعلق نہیں رکھتا.اس مجلس میں کسی ایسے امر کو پیش کرنا گو یہ نہیں کہلاتا کہ جبر اس میں پایا جاتا ہے لیکن اس سے یہ احتمال ضرور ہے کہ اس قسم کے ریزولیوشن سے آہستہ آہستہ اس بات کی جرات پیدا ہو کہ خلیفہ کے اعمال کی حد بندی کرنے کے لئے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں کیونکہ یہ تجویز خلیفہ کے اعمال کے متعلق ہے.جو اساس عمل ہے اُس کے خلاف ہے.بحث کسی کی ہتک کے طور پر نہیں کی گئی مگر اس کا نتیجہ تو یہ ہے کہ خلیفہ کے اعمال پر بحث ہو.اور اگر اس طریق کو جاری رکھا گیا تو ہوسکتا ہے کہ کل یہ التجاء اور درخواست پیش ہو کہ ہم تجویز کرتے ہیں فلاں فلاں قسم کے خطوط کا جواب خلیفہ خود دیا کرے.مطلب یہ کہ وہ امور جن کا فیصلہ صرف خلیفہ کی رائے کر سکتی ہے اور اُس کی مرضی پر منحصر ہے کہ مجلس مشاورت بلائے یا نہ بُلائے وہی مجلس خلیفہ کے اعمال کی حد بندی کرتی ہے.میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ تجویز پیش کرنے والوں کی نیت یہی تھی مگر اس بات سے متفق ہوں جو ذوالفقار علی خاں صاحب نے بیان کی ہے.چنانچہ میں نے اس کے متعلق جو نوٹ تقریر کرنے کے لئے لکھے تھے اُن میں یہ بات موجود ہے.تجویز کرنے والوں کا اخلاص اس بات کو برداشت نہیں کرتا مگر اس ریزولیوشن کو اگر کوئی غیر دیکھے گا تو وہ یہی کہے گا کہ اس میں کمزور طاقت نے زبر دست حاکم کو توجہ دلائی ہے جسے اپنے فرائض کی طرف خیال نہ تھا.پس یہاں اس وقت یہ سوال در پیش ہے کہ دُنیا اس ریزولیوشن سے کیا نتیجہ نکالے گی.کسی کے اخلاص پر حملہ نہیں، کسی کی نیت پر حملہ نہیں ہے مگر جو بھی اس ریزولیوشن کو سنے گا اُس پر یہی اثر ہوگا کہ خلیفہ کی طرف سے غفلت ہو رہی تھی جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.پس یہ کہنا تو غلط ہے کہ ریزولیوشن پیش کرنے والوں نے ہتک کی جب تک ان کے دوسرے اعمال سے یہ بات ظاہر نہ ہو اُن کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا اور جب کہ ان کے دوسرے اعمال سے اخلاص ظاہر ہوتا ہو تو پھر ہتک کا خیال بھی نہیں آ سکتا.مگر اس میں بھی
خطابات شوری جلد اوّل ۱۹۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء شک نہیں کہ بعض اوقات انسان با وجود اخلاص اور محبت رکھنے کے ایسی بات کر جاتا ہے جو نقصان رساں ہوتی ہے.دیکھو اُحد کے موقع پر صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے شہر سے باہر چلئے ورنہ دشمن کہے گا یہ لوگ مسلمان ہو کر بزدل ہو گئے ہیں.کتنی نیک نیتی اور اخلاص سے یہ مشورہ دیا گیا وہ جانتے تھے کہ باہر جانے میں ہماری جانوں کا زیادہ نقصان ہوگا، زیادہ تکلیف برداشت کرنا پڑے گی مگر کہتے ہیں ہم جانیں دے دیں گے لیکن اسلام پر حرف نہ آنے دیں گے.اس مشورہ میں بڑے بڑے بزرگ صحابہ شامل تھے جن کی تعریف خود خدا تعالیٰ نے کی مگر اُس وقت ان کے اخلاص نے ہی اُن کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور وہ یہ نہ خیال کر سکے کہ ہمارا یہ مشورہ دینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا رڈ ہے.اسی طرح ریز ولیوشن پیش کرنے والوں نے دیکھا کہ جہاں میں گیا خدا کے فضل سے سلسلہ کو فائدہ پہنچا تو یہ خواہش کی کہ امراء کو تبلیغ کرنے میں بھی فائدہ ہوگا کیونکہ گو ہم غریب ہیں مگر کئی لاکھ کے امام کو ملنے سے بڑے سے بڑے امیر کو بھی عار نہیں ہو سکتی اس لئے اُمراء کو اس طرح بہت فائدہ ہوگا اس لئے اُنہوں نے یہ تجویز پیش کی.میرے نزدیک یہ سوال کہ اس بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ کیا تھا؟ اس کا صحیح جواب دیا جا چکا ہے.آپ کا اُسوہ یہ تھا کہ جب کوئی اجتماع ہوتا اور آپ ضرورت سمجھتے تو وہاں تشریف لے جاتے.حج کے موقع پر جو لوگ آتے اُن کو آپ تبلیغ کرتے ، ایک دفعہ طائف بھی تشریف لے گئے.اب یہ طریق موجودہ حالت پر کہاں تک چسپاں ہوسکتا ہے؟ یہ دیکھنے والی بات ہے.اگر کوئی بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ثابت ہو جائے تو چاہے زمانہ بدل جائے ، ہم اس کو نہیں ترک کر سکتے کیونکہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہیں نہ کہ زمانہ کے.اور ہم ان لوگوں میں سے نہیں جن کا عمل اس کے مطابق ہوتا ہے کہ زمانہ با تو نہ سازد تو با زمانہ بساز سے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے اگر آپ کا یہی اُسوہ ہے کہ تہہ بند گھٹنوں تک باندھا جائے یا صرف لنگوٹ ہو تو چاہے زمانہ کچھ کہے ہم تو لنگوٹ ہی باندھیں گے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ آپ کا اُسوہ تھا یا نہیں؟ اور ہر حالت میں تھا یا اگر حالات بدل جائیں تو وہ بات بھی بدلی جاتی تھی؟
خطابات شوری جلد اوّل ۱۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء حدیث میں آتا ہے ایک صحابی کدو بڑے مزے سے کھا رہا تھا.میزبان نے کہا کیا اور لاؤں آپ کو کرو بہت پسند ہیں؟ صحافی نے کہا مجھے پسند نہیں میں تو اس لئے کھا رہا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ وآلہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا.یہ اُس صحابی کا اخلاص تھا ، محبت تھی ، مگر اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ پر عمل نہیں کہیں گے.یہ کہیں گے کہ وہ صحابی عشق میں مخمور تھا.اس واقعہ سے عشق کی روح کی طرف توجہ دلائی جائے گی مگر اسے اُسوہ نہیں کہہ سکتے.مگر میں اُن اصحاب سے متفق ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تبلیغ کے لئے باہر تشریف لے جانا اُسوہ تھا کیونکہ یہ آپ کا اپنی ذات کے متعلق فعل نہ تھا بلکہ تبلیغ تھی.مگر اُسوہ کے لئے بھی حالات ہوتے ہیں اور ہر اُسوہ حالات کے ماتحت ہوتا ہے اس لئے اُسوہ کی بھی حد بندی ضروری ہے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اُسوہ تھا کہ نماز پڑھتے ہوئے اگر بچہ پاس کھڑا روتا ہو تو اُسے کندھے پر اُٹھا لیا.اب اس کے لئے ایسے ہی حالات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ نماز پڑھ رہے ہوں اور بچہ کہیں دور رو رہا ہو تو دوڑے دوڑے جائیں اور جا کر بچہ کو اُٹھا لیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اُسوہ کہ آپ تبلیغ کے لئے باہر تشریف لے جاتے اُس وقت کا ہے جب تبلیغ کا حلقہ بہت محدود تھا اور تبلیغ کے ذرائع بہت کم تھے ایسی حالت میں جو ذرائع میسر ہوں اُنہی سے کام لیا جائے گا.آپ کو جب انذار کا حکم ملا تو آپ کے ساتھ صرف چند آدمی تھے اُس وقت آپ مکہ والوں کے پاس گئے کہ اُن کو سمجھا ئیں کیونکہ اُس وقت آپ کی ایسی پوزیشن نہ تھی کہ لوگ آپ کے پاس آئیں.یہ کی زندگی تھی جبکہ جماعت نہ تھی یا بہت کم تھی.مگر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے جماعت ساتھ ہوگئی تو پھر آپ انذار کے حکم پر لوگوں کے پاس نہیں جاتے کیونکہ اُس وقت لوگ آپ کے پاس آسکتے تھے.آپ کی وقعت اور عزت قائم ہو چکی تھی اِس وجہ سے آپ کو خود جانے میں وقت صرف کرنے کی ضرورت نہ تھی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو حضرت مسیح موعودا بتداء میں کئی مقامات پر تشریف لے گئے تا کہ تبلیغ کریں مگر پھر بعد میں جب تبلیغ کا کام وسیع ہو گیا اور اور ذرائع پیدا ہو گئے تو لوگوں نے چاہا بھی مگر آپ تشریف نہ لے گئے.کئی مقامات پر آپ بعد میں
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء بھی تشریف لے گئے مگر اور ضروریات کی وجہ سے.مثلاً دہلی والدہ صاحبہ کی صحت کے لئے تشریف لے گئے.سیالکوٹ والوں نے یہ درخواست کی کہ دعویٰ سے قبل آپ اس جگہ رہے ہیں اب بھی چلئے.اس غرض کو آپ نے منظور کر لیا اور جب آپ تشریف لے گئے تو پھر آپ سے لیکچر کی درخواست کی گئی اور آپ نے لیکچر دیا.اسی طرح لاہور ایک دفعہ والدہ صاحبہ کے علاج کے لئے تشریف لے گئے.دوسری دفعہ بھی کوئی اسی قسم کی وجہ تھی اور اس طرح تشریف لے جانے پر لیکچر بھی ہو گیا مگر خاص لیکچر دینے کے لئے آپ کہیں تشریف نہ لے گئے.تو بات کا موقع ہوتا ہے.ابتداء میں تو کپورتھلہ کے احمدیوں نے درخواست کی اور آپ وہاں تشریف لے گئے اور بھی کئی جگہ گئے لیکن اسی طرح اگر آپ آخری ایام میں درخواستیں منظور کرتے تو ایک دن بھی قادیان میں نہ ٹھہر سکتے.اسی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی جماعت کی درخواست پر اُس کے ہاں نہ جاؤں گا.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت ہماری کئی سو جماعتیں ہیں اور ہر جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے ہاں بلائے.اب میں کس کس کی درخواست منظور کروں اور کس کی رڈ کروں.جب کسی کی درخواست منظور ہو جائے اور کسی کی نہ ہو تو اس قسم کے سوال پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں کہ امیروں کی درخواستیں منظور کی جاتی ہیں اور غریبوں کی نہیں حالانکہ میرے نزدیک سب برابر ہیں.میں نے اپنے ولیمہ کے متعلق تجربہ کیا ہے کہ کس طرح شکایات پیدا ہوتی ہیں.میں نے اپنے ذاتی اخراجات کے لحاظ سے چار سو ساڑھے چارسو روپیہ لگا کر دعوت کی اور دعوت کھانے والوں میں ایسے لوگوں کو بھی بلایا گیا جو اپاہج تھے، روزانہ مانگ کر کھانا کھاتے ہیں اور کئی ایسے تھے جن کی ایک پیسہ بھی آمدنی نہیں، بہت سے غرباء اور مساکین بلائے گئے مگر باوجود اس کے میرے پاس کئی رفعتے آئے کہ جن کو آپ دعوت پر مقرر کرتے ہیں وہ امیروں کو چن لیتے ہیں اور ہم غریبوں کو نہیں پوچھتے.یہ رفعے لکھنے والوں میں کوئی دُکاندار تھا اور کوئی اور کام کرنے والا.وہ محبت اور اخلاص سے لکھتے کہ ہمیں کھانے کا تو کوئی افسوس نہیں اور یہ ٹھیک بھی تھا مگر وہ میری مجبوری نہ دیکھتے تھے.میں زمین سے خزانہ نہیں کھودتا اپنے پاس سے جو خدا نے دیا خرچ کرتا ہوں.بعض دفعہ مجھ پر قرضہ ہو جاتا ہے مگر ان کو.
خطابات شوری جلد اوّل ۲۰۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء دعوت کے منتظموں پر گلہ ہی رہتا ہے حالانکہ دعوت کے موقع پر کئی باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے.کبھی تو یہ کہ فلاں کو پہلے کسی موقع پر شامل کیا گیا تھا اب چھوڑ دیا جائے اور اس کی بجائے دوسرے کو مدعو کیا جائے.بعض دفعہ یہ کہ فلاں زیادہ کمزور ہے ٹھوکر نہ کھا جائے اِس خیال سے لے لیا جاتا ہے.اب اگر میں ایک جماعت کی درخواست پر باہر جاؤں اور دوسری کی درخواست پر کسی وجہ سے نہ جا سکوں تو لازماً شکایت پیدا ہو گی.یہ تو خلافت کا زمانہ ہے.حضرت خلیفہ اول نے مجھے ایک جگہ بھیجا ابھی میں وہاں سے واپس نہ آیا تھا کہ میرے متعلق دس درخواستیں آپ کے پاس پہنچ گئیں.جب میں واپس آیا تو فرمانے لگے میاں! میں تو تمہیں بھیج کر بہت پچھتایا.اس قسم کی باتوں سے لازماً ایسے نتائج پیدا ہوتے ہیں اس لئے کسی درخواست پر باہر جانا مناسب نہیں ہے.پھر بے شک میرے باہر جانے کے فوائد ہیں لیکن بعض نقصان بھی ہیں.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک دوست سے بات ختم نہیں ہوتی کہ میں دوسروں کی تألیف قلب کے لئے ان کو مخاطب کر لیتا ہوں.مگر پھر بھی سب سے بول نہیں سکتا اور اس پر اُن کو شکایت پیدا ہوتی ہے جن سے بات نہیں ہو سکتی اور عشق و محبت کی وجہ سے شکایت پیدا ہوتی ہے.اس عشق و محبت کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی یہ بات منظور کرنا کہ کسی درخواست کو منظور کروں ، یہ نہیں ہوسکتا.اب تو میں کہہ دیتا ہوں کہ کسی کی درخواست بھی منظور نہیں کرتا.پھر میں نے تو اپنے کسی سفر کا خرچ کبھی نہیں لیا اور نہ آئندہ لینے کے لئے تیار ہوں مگر میں جہاں جاؤں گا وہاں ہزاروں احمدی پہنچیں گے اور اُن کا بہت خرچ ہوگا.میں جب ولایت گیا تو خیال تھا کہ وہاں کون جائے گا.مگر چوہدری محمد شریف صاحب وہاں کے لئے بھی ساتھ چل پڑے، میاں علی محمد بھی ساتھ ہو لئے گو چونکہ وہ غریب آدمی تھا اور ساتھ کام کاج بھی کرتا رہا اس لئے میں نے کہا اسے کرایہ دے دو.پھر حکیم فضل الرحمن صاحب افریقہ سے وہاں آگئے ، ماسٹر محمد دین صاحب امریکہ سے آگئے تو میرے کہیں جانے پر کئی ساتھ جانے والے ہوتے ہیں.میں ایک دفعہ بمبئی گیا ، اڑھائی ہزار خرچ کا اندازہ لگایا گیا تھا مگر ۵۰ - ۶۰ مہمان روز ہوتے اس طرح چھ ہزار کے قریب خرچ ہو گیا اور میں کئی سال یہ قرض اُتارتا رہا.مگر اس
خطابات شوری جلد اوّل ۲۰۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء طرح تجویز پیش کر کے آپ لوگ خود مجبور کر رہے ہیں کہ خرچ کیا جائے.ہاں اگر اتفاقی موقع آ جائے تو اور بات ہے اُس پر عمل ہو سکتا ہے اور میری اپنی بھی خواہش ہے کہ بعض علاقوں میں جاؤں.مگر کسی جگہ بُلانے اور خاص انتظام کے ساتھ جانے سے اتنے اخراجات بڑھ جائیں گے کہ موجودہ حالت تو الگ رہی اگر مالی حالت اچھی بھی ہوتی تو بھی برداشت نہ کئے جا سکتے.کیونکہ یہ تو نہیں ہوگا کہ میں ایک مبلغ کی طرح چلا جاؤں.میرے ساتھ ضروری سٹاف بھی ہوگا تا کہ شہروں کے زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ اُٹھا سکیں اور اگر یہ نہیں ہوگا تو پھر ریزولیوشن کا مطلب یہ ہوا کہ خلیفہ فقیروں کی طرح پھرا کرے.میں سمجھتا ہوں آپ لوگوں کے مدنظر یہ بات نہیں بلکہ یہ ہے کہ شور پڑ جائے اور اس کے لئے بیسیوں آدمی ساتھ ہونے چاہئیں.مجھے بیماری کی وجہ سے جب لاہور جانا پڑتا ہے تو بیرونی جماعتوں کے آ جانے کی وجہ سے کئی کئی ہزار روپیہ خرچ ہو جاتا ہے اور میں لاہور سے جلدی بھاگا کرتا ہوں کہ وہاں کی جماعت کا اخراجات کی وجہ سے دیوالا نہ نکل جائے.پس اس کو اگر صحیح بھی سمجھا جائے تو بھی اس میں بہت سی دھنیں ہیں.مالی مشکلات کی وجہ سے جو کمز ور لوگ ہیں وہ گھبرا جائیں گے.وہ یہ نہ دیکھیں گے کہ یہ تجویز کثرت نے پیش کی تھی بلکہ مجھ پر اعتراض کریں گے اور کہیں گے اگر بچہ نادان تھا تو ماں کا فرض تھا کہ اسے روکتی ، اس نے کیوں ایسے کام کی اجازت دی.چند ہی دن ہوئے ایک دوست کا خط آیا، ایک بات کے متعلق میں نے بار بار انہیں منع کیا تھا مگر نہ مانا.اب لکھا ہے میں مانتا ہوں کہ آپ نے اس بات سے منع کیا تھا مگر میں بچہ تھا آپ نے مجھے کیوں سختی سے نہ روک دیا.تو پیچھے بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم سے غلطی ہو گئی تھی آپ نے کیوں نہ روک دیا.اب چونکہ دوستوں کے جوش ٹھنڈے ہو گئے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر لیا ہے اور دونوں طرف کے اصحاب نے اپنے اپنے اخلاص کا ثبوت دیا ہے.یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ جو لوگ یہ حسن ظنی رکھتے ہیں کہ خلیفہ کے جانے سے ہزاروں آدمی مان جائیں گے وہ مخلص نہیں یا اُن کی نیت خلیفہ کی ہتک کرنا ہے یہ تو ان کے حد درجہ کے اخلاص کا ثبوت ہے اور پھر جو کہتے ہیں نہیں جانا چاہئے یہ شان کے خلاف ہے وہ بھی مخلص ہیں چونکہ سب نے اپنا جوش نکال لیا ہے اور میں نے بھی نکال لیا ہے اس لئے
خطابات شوری جلد اوّل اب اس مسئلہ کو چھوڑتے ہیں.“ ۲۰۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء چندہ کی ادائیگی میں سستی کرنیوالوں کے متعلق سب کمیٹی بیت المال کی ایک تجویز کہ جو لوگ چندہ نہیں دیتے یا مقررہ شرح کے ساتھ نہیں دیتے ان کے لئے کوئی نہ کوئی تعزیر ضرور ہونی چاہئے ، کے ضمن میں حضور نے فرمایا : - ایجنڈا میں دریافت یہ کیا گیا تھا کہ کونسا تعزیری طریق چندہ نہ دینے والوں کے متعلق اختیار کیا جائے مگر تجویز میں یہ نہیں بتایا گیا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ فلاں یا فلاں یا فلاں سزا تجویز کی جائے حالانکہ بتانا یہ چاہئے تھا کہ پہلے یہ سزا دی جائے اگر اس کا اثر نہ ہو تو پھر یہ اور پھر یہ.مگر ایسا نہیں کیا گیا اور جو صورت پیش کی گئی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس لئے پہلے ایک سب کمیٹی کی ایک تجویز کے متعلق جو حربہ استعمال کیا گیا ہے وہ اس کے متعلق بھی ہونا چاہئے یعنی یہ خلاف قاعدہ قرار دی جائے.اس قسم کی باتوں کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے جن پر عمل نہ کیا جا سکے.دراصل چندہ وصول نہ ہونے میں مرکزی دفتر اور مقامی انجمنوں کا بھی قصور ہے.بعض انجمنیں بے شک یہ کوشش کرتی ہیں کہ اپنا سالا نہ چندہ جو اُن کے ذمہ لگایا جائے پورا کریں.اس طرح وہ مالی لحاظ سے تو اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتی ہیں مگر جو لوگ چندہ دینے میں سُست ہوتے ہیں اُن سے چندہ نہیں لیا جاتا اور وہ اور زیادہ سست ہو جاتے ہیں.مقامی جماعتوں کا فرض ہونا چاہئے کہ نہ صرف اپنے مقررہ بجٹ کو پورا کریں بلکہ سب سے چندہ وصول کریں.بے شک وہ چند آدمیوں سے زیادہ چندہ وصول کر کے بجٹ پورا کر دینے پر انسانوں کے سامنے فرض سے سبکدوش ہو سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے آگے نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کا یہ بھی فرض ہے کہ سُستوں کو بھی اُٹھائیں.پھر چندہ کی وصولی نہ ہونے میں مرکزی دفتر بھی ذمہ وار ہے.میں ہفتہ وار ناظروں سے رپورٹ لیتا ہوں.بیت المال کی رپورٹ میں چار پانچ ماہ کے بعد یہ لکھا ہوا نظر آتا - ہے کہ معلوم نہیں چندہ میں کیوں سستی ہو گئی ہے.میں کہتا ہوں جس افسر کو عملہ، دفتر اور کرک
خطابات شوری جلد اوّل ۲۰۴.مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء دیئے گئے ہوں، اُسے اپنے خاص کام کے متعلق یہ نہیں لکھنا چاہئے کہ اسے خبر نہیں کیوں کمی واقعہ ہو گئی.اسے خبر رکھنی چاہئے تھی کہ کہاں چندہ کم ہوا اور کیوں کم ہوا ہے مگر اس کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی ، چار پانچ ماہ کے بعد آنکھیں کھولتے ہیں اور صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ کمی ہو گئی ہے مگر پھر بھی یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کہاں ہوئی اور کیوں ہوئی ہے حالانکہ ہر مہینہ اُس جماعت کو گرفت کی جانی چاہئے جس کے چندہ میں کمی واقعہ ہو اور اس کی رپورٹ میرے پاس آئے اور میں جانتا ہوں ایسی کوئی جماعت نہیں کہ جب میری طرف سے اس کے پاس کمی چندہ کی اطلاع جائے تو وہ اسے پورا کرنے کی کوشش نہ کرے.تو یہ مرکزی دفتر کی بھی سستی ہے.بے شک اسے یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ کسی جماعت میں چندہ کم ہونے کے کیا اسباب پیدا ہو گئے اگر چہ یہ بھی معلوم کئے جاسکتے ہیں مگر یہ تو معلوم ہوسکتا ہے کہ فلاں جماعت نے اس مہینہ میں کم چندہ بھیجا ہے.پس سب سے چندہ وصول نہ ہونے کا باعث یا تو مرکزی دفتر ہی کی سستی ہے یا وہاں کے کارکنوں کی سستی.ہاں کئی لوگ سُست بھی ہیں مگر اُن کو ہوشیار کرنے کے سب ذرائع استعمال کرنے چاہئیں.پھر بھی اگر کسی کی اصلاح نہ ہو تو سزا تجویز ہونی چاہئے مگر وہ بھی بہت سوچ سمجھ کر تین مہینہ تک چندہ نہ دینے والوں کو جماعت سے نکال دینے کے متعلق حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں بھی بحث ہوتی رہی ہے.میر حامد شاہ صاحب مرحوم اس پر بہت زور دیتے تھے اور اب بھی یہ بات پیش کی جاتی ہے مگر اتنا تو خیال کرو کہ ایک شخص جو ہم سے تعلق نہیں رکھتا اور ایک وہ جو جماعت سے نکال دیا جائے اِن دونوں میں فرق ہے.پہلے کے متعلق تو یہ ہے کہ اسے جیسا روحانی تعلق ہونا چاہئے ویسا نہیں ہے ورنہ بظاہر وہ اپنا تعلق سمجھتا ہے اور دوسرے کے متعلق یہ کہ اُس کا جماعت کے ساتھ جو رسمی تعلق تھا اُسے بھی منقطع کر دیا جائے.جولوگ اس پر زور دیتے ہیں وہ ذرا کشتی نوح کو کھول کر پڑھیں ان کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ہونے کے متعلق کتنی باتیں ہیں جو اُن میں بھی نہ ہوں گی.اصل میں مرکزی دفتر اور کارکنوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ جو سُست ہیں اُن سے چندہ وصول ہو.مرکزی دفتر کا تو یہ فرض ہے کہ معلوم کرے کہاں سے چندہ کم آیا ہے اور اس
خطابات شوری جلد اوّل ۲۰۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء کی وجوہات دریافت کرے.جو سُست ہوں اُن کو ہوشیار کیا جائے اور جو کم دے اُس سے وجہ دریافت کی جائے اور اگر کسی جگہ سے چندہ زیادہ آ جائے تو اس کی وجہ سے چندہ نہ دینے والوں کی اطلاع مخفی نہ کی جائے.مثلاً کسی جماعت کا ایک مخلص کسی تقریب پر اکٹھا چندہ دیتا ہے تو اس کی وجہ سے یہ نہ کہنا چاہئے کہ فلاں جماعت نے اس دفعہ زیادہ چندہ دیا ہے بلکہ سب جماعت کے لوگوں کے چندہ کی رفتار دیکھنی چاہئے ورنہ دھوکا لگ جاتا ہے.اسی طرح مقامی جماعتیں بھی جب تک اس بات کا خیال نہ رکھیں گی کہ کون کون سست ہیں اور ان کی اصلاح کی کوشش نہ کی جائے گی اُس وقت تک مالی مشکلات دُور نہ ہوں گی.فیصلہ اس طریق سے اس نقص کو دُور کرنا چاہئے.موجودہ ریزولیوشن اپنے نقائص کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکتا.“ بت کے لئے جائداد کی تعریف مجلس مشاورت کے دوسرے دن کے دوسرے اجلاس میں سب کمیٹی بہشتی مقبرہ کی طرف سے " رپورٹ پیش ہوئی کہ قرضہ جات، اخراجات تجہیز و تکفین اور اثاث البیت کے علاوہ جو کچھ بھی ہو خواہ اُس کی تعداد کتنی ہی قلیل ہو ” جائداد تصور ہوگی اور اُس کی وصیت ہو سکتی ہے.بحث کے بعد جب رائے لی گئی تو ممبران کی اکثریت نے اس کی تائید کی.اس موقع پر حضور نے احباب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :- میں اس امر کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ رائے دینے والوں نے اس امر پر اس مسئلہ کی بنیاد رکھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت کی اصل بنیاد جائداد پر رکھی ہے اس لئے ہمیں اس کی اتباع کرنی چاہئے لیکن میرے نزدیک یہ دیکھنا چاہئے کہ وصیت کا نفسِ مضمون الہامی ہے یا الفاظ الہامی ہیں؟ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس بارے میں آپ نے جو الفاظ لکھے ہیں وہ الہامی ہیں تو اس صورت میں ضروری ہے کہ ہر تشریح الفاظ کے نیچے لائی جائے.مثلاً اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وصیت کا جو حصہ مقرر کیا ہے وہ الہامی ہے تو پھر ہمیں اس کے متعلق کسی تشریح کی اجازت نہیں ہے اور اگر وصیت کا نفس مضمون الہامی ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ ایک مقبرہ بنایا جائے جس میں وہ لوگ دفن ہوں جو مال خدا کی راہ میں قربان کرنے والے ہوں تو پھر اس کی تشریح ہوسکتی ہے کہ کس
خطابات شوری جلد اوّل قدر مال کسی کو قربان کرنا چاہئے.۲۰۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء اصل بات یہ ہے کہ وصیت کا مفہوم تو الہامی ہے لیکن آگے اس کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے اور اب جس بارے میں آپ کی نص موجود نہیں اُس کے متعلق ہمیں تشریح کی اجازت ہے اور کئی صورتیں ایسی پیدا ہوتی رہتی ہیں جن کے متعلق تشریح کی ضرورت پیش آجاتی ہے.مثلاً حضرت صاحب کی زندگی میں ہی رسالہ وصیت لکھے جانے کے بعد یہ صورت پیش آگئی تھی کہ جن کی کوئی جائداد نہ ہو وہ کیا کریں؟ وصیت کے دو سال بعد حضرت مسیح موعود فوت ہو گئے.اُس وقت تک مقبرہ میں چھ سات قبریں تھیں جن میں سے زیادہ اُنہی لوگوں کی تھیں جو مساکین تھے اور مخالفین کے ستائے ہوئے اپنے گھروں سے نکل کر یہاں بیٹھے تھے.اُن کی جائداد اُن کی قربانی ہی تھی.پھر اب تک وصیت کے بارے میں نئے نئے جھگڑے پیدا ہوتے رہتے ہیں.وصیت کرنے والے فوت ہو جاتے ہیں، پیچھے اُن کے رشتہ دار وصیت کا روپیہ نہیں دیتے.اس کے متعلق سوال پیدا ہوا کہ کیا کیا جائے؟ تو تجارب سے اس قسم کی ضرورتیں پیش آتی رہتی ہیں کہ تشریحات کی جائیں اور اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ بعض شقیں ایسی ہو سکتی ہیں کہ جو حضرت صاحب کی وفات کے بعد پیدا ہوں اور اُن پر غور کی ضرورت ہو.اس قسم کی شقوں میں سے ایک شق یہ ہے کہ ایک شخص کی ۵۰۰ روپیہ ماہوار آمدنی ہے.اُس کی اگر اور کوئی جائداد نہ ہو تو ٹرنک، بسترہ وغیرہ تو ہوگا ، گھر کا اسباب بھی ہو گا اور کفن دفن کے اخراجات کے بعد کچھ نہ کچھ ان کے گھر ضرور بیچ رہے گا.ایسا کوئی شخص نہیں ہو سکتا جس کے گھر کچھ بھی اسباب نہ ہو اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت صاحب کے سامنے جائدادنہ ہونے کی جو صورت پیش کی گئی تھی اُس کا یہ مفہوم تھا کہ ایسا شخص لنگوٹی باندھ کر پھر تا ہو اور اُس کے ہاتھ پلے کچھ نہ ہو، ایسا تو کوئی نہیں ہوسکتا.اس کا مطلب یہی تھا کہ جائداد کا مفہوم یہ سمجھا گیا کہ جس پر گزارہ ہو.اب دیکھو حضرت صاحب کے زمانہ میں آمد کے حصہ پر وصیت ہوئی ہے یا نہیں؟ ۵۰،۴۰، ۶۰ روپیہ ماہوار تنخواہ والے لوگوں نے اپنی آمد کے حصہ کی وصیت کی ہے.کیا کوئی تسلیم کر سکتا ہے کہ ان کی تجہیز و تکفین کے بعد اُن کے گھر میں کچھ بھی نہ بچتا.اگر نہیں تو پھر کس
خطابات شوری جلد اوّل ۲۰۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء طرح کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کا یہ منشاء تھا کہ اگر کسی کی ایک پیسہ کی جائداد ہو تو اُسی کی وصیت کافی ہو سکتی ہے.ذرا اس بات پر غور کرو کہ کتنی اہم ذمہ واری اس مقبرہ بہشتی میں دفن کرنے والے کے متعلق عائد ہوتی ہے.جس کے متعلق ہمارا ایمان ہے کہ اس میں داخل ہونے والا جنتی ہے.میری ضمیر تو اس بات کی گواہی نہیں دیتی کہ ایک شخص جس کی پانچ سو روپیہ ماہوار آمدنی ہو وہ کہے کہ میرے پاس دس روپے بچتے ہیں جن میں سے دسویں حصہ یعنی ایک روپیہ کی میں وصیت کرتا ہوں.میں تو اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا.اگر کوئی یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ ایسا کرنا بھی اخلاص کی علامت ہے تو میں اُسے بد دیانت نہ کہوں گا مگر یہ ضرور کہوں گا کہ اُس نے اُس فیصلہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی جس تک پہنچنا ضروری تھا.چونکہ رسالہ الوصیت سے جائداد کی کوئی تشریح نہیں نکلتی اس لئے اس حصہ میں قیاس سے کام لینا ہمارا حق ہے اور اس بارے میں ایسا فیصلہ کرنے کا ہمیں اختیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کو پورا کرے.کہا جاتا ہے کہ ہمیں حسنِ ظنی سے کام لینا چاہئے.ممکن ہے جس کی ۵۰۰ روپیہ ماہوار آمدنی ہو اُس کے اخراجات زیادہ ہوں اور وہ بہت کم بچا سکتا ہو.میں کہتا ہوں یہی چندہ عام کے بارے میں کیوں نہیں کہا جاتا اور چندہ عام کو کیوں اخلاص پر نہیں چھوڑا جاتا.کیوں دو گھنٹہ اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ جو شخص پوری شرح سے چندہ عام نہ دے اُسے سزا دینی چاہئے.کیوں یہ خیال نہ کر لیا جائے کہ وہ زیادہ نہیں دے سکتا.اگر اس طرح حُسنِ ظنی جائز ہے تو کیوں چندہ عام کے متعلق نہیں کی جاتی.اصل بات یہ ہے کہ اخلاص کا معیار عمل ہے نہ کہ ترک عمل.ایک شخص جس کی آمدنی ایک ہزار روپیہ ماہوار ہو وہ کہہ سکتا ہے کہ میرا خرچ اِس سے بھی زیادہ ہے میں کچھ نہیں دے سکتا.پھر اسے مقبرہ میں کس اصل کے ماتحت دفن نہیں کیا جائے گا.اس طرح تو ہر احمدی کو دفن کرنا پڑے گا خواہ وہ چندہ عام بھی دیتا ہو یا نہ دیتا ہو.اُس کے متعلق بھی یہی حسن ظنی کرنی ہوگی کہ اُس کے خرچ آمد سے بڑھے ہوئے ہوں گے.کہا گیا ہے کہ چوہدری اللہ داد صاحب کو یونہی دفن کر دیا گیا تھا مگر واقعات کے معلوم نہ ہونے سے ٹھوکر لگ جاتی ہے.چوہدری الہ داد صاحب دسویں حصہ سے زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں روپیہ دیا کرتے تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ
خطابات شوری جلد اوّل ۲۰۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء السلام نے ان کے متعلق خود یہ فرمایا وہ آپ دیتے ہوئے کہا کرتے تھے میں انجمن کو نہیں دینا چاہتا آپ ہی کو دیتا ہوں.اس طرح آپ سے ناز کر لیتے تھے.کئی اور بھی ایسے ہی لوگ تھے.منشی اروڑے خاں صاحب کو میں نے کئی بار مجبور کیا کہ وہ دفتر میں روپیہ دیا کریں مگر وہ یہی کہتے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جانتے تھے اور اب آپ کے اہلِ بیت کو جانتے ہیں آپ یہ رقم مائی جی کو دے دیں.آخر جب میں نے مجبور کیا تو کہنے لگے دفتر میں دے دوں گا مگر یہ رقم میں بند نہیں کروں گا یہ اپنے خرچ سے دیتا رہوں گا اسی طرح وہ دیتے رہے اور دسویں حصہ سے بہت زیادہ دیتے تھے.چوہدری رستم علی صاحب کو یک لخت سو کے قریب ترقی ملی.وہ ہمیشہ یہ ساری رقم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج دیتے اور چندہ الگ دیتے.ایسا شخص اگر وصیت کرنا بھول جائے تو کیا اسے مقبرہ میں دفن نہ کیا جائے گا ؟ اب یہ سمجھنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جائداد کا لفظ لکھا ہے اور جائداد ایک پیسہ بھی ہو تو اُس کی وصیت کر دینی چاہئے درست نہیں.کیا جنت ٹونا ہے کہ جس نے اُس کے لئے ایک پیسہ دے دیا وہ بھی داخل ہو گیا اور کوئی امتیاز حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو ان لوگوں میں امتیاز قائم کرنا چاہتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا پانسو روپیہ ماہوار تنخواہ والا اگر اپنے پیچھے ایک روپیہ چھوڑتا ہے اور وہ وصیت میں داخل کیا جاتا ہے تو اُسے کونسا امتیاز حاصل ہو گیا.میرے نزدیک یہ فیصلہ کرنے میں بالکل اس غور سے کام نہیں لیا گیا جو مناسب اور ضروری تھا اور میں پیلا طوس کی طرح اس سے ہاتھ دھوتے ہوئے اسے منظور کرتا ہوں اور خود بری الذمہ ہوتا ہوں.مگر یہ کہتا ہوں یہ فیصلہ کرنے والوں نے ٹھوکر کھائی ہے.چونکہ یہ ایسے مسائل سے نہیں ہے جو شریعت کے بنیادی مسائل ہیں اس لئے میں کثرتِ رائے کا احترام کرتا ہوا اسے منظور کرتا ہوں.“ حضور کی اس تقریر کے بعد نمائندگان نے درخواست کی کہ ہمیں اپنی رائے بدلنے کی اجازت دی جائے اس پر حضور نے فرمایا :.”اگلے سال دیکھا جائے گا.اب جو کچھ ہونا تھا ہو گیا.“
خطابات شوری جلد اوّل ۲۰۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء مکرر عرض کرنے پر حضور نے فرمایا : - ایک صاحب نے لکھا ہے کہ رائے بدلنے کی اجازت دی جائے ورنہ ڈر ہے کہ لوگ رائے دینا چھوڑ دیں گے.میں کہتا ہوں یہ ایک گناہ کے نتیجہ میں دوسرا گناہ ہو گا.مگر سوال یہ ہے کہ اگر میں کثرتِ رائے کو رڈ کر دوں تو زیادہ خطرہ ہے کہ لوگ کہیں گے جو بات اپنی رائے کے خلاف ہوتی ہے اُسے رڈ کر دیتے ہیں پھر رائے دینے کا کیا فائدہ.تو یہ آئندہ مشورہ کو تباہ کرنے والی بات ہوگی.چونکہ یہ شریعت کا مسئلہ نہیں ہے اس لئے اس میں آزادی دیتا ہوں دوست اس لئے رائے بدلنا چاہتے ہیں کہ میں ناراض ہو گیا ہوں ، مگر ایسا نہیں ہے اور اس طرح میں اُس آزادی کو قربان نہیں کرنا چاہتا جو خود پیدا کرنا چاہتا ہوں.سوائے اس کے کہ نص صریح کے خلاف ہو یا نقصانِ عظیم پہنچ سکتا ہو.یہاں استنباط کا کام ہے اور آپ ہی آپ لوگوں نے اپنی ذمہ واری کا فیصلہ کرنا ہے.میں نے اظہار اس لئے کیا ہے کہ دوست آئندہ ایسے آراء میں جلد بازی نہ کریں.میں نے اپنے لئے تو یہ رکھا ہے کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے لئے وصیت نہیں رکھی لیکن ہبہ کرنے سے تو منع نہیں فرمایا اس لئے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے احترام کے لئے وصیت تو نہ کروں گا مگر ہبہ ضرور کروں گا تا کہ ہم بھی اس مالی قربانی میں شریک ہوسکیں.“ احباب نے جب پھر رائے بدلنے کی درخواست کی تو حضور نے فرمایا :- میں دوبارہ اِس معاملہ میں رائے لے لیتا ہوں لیکن اپنی جماعت کے لوگوں سے اُمید کرتا ہوں کہ وہ آزاد نہ رائے دیں گے محض اس لئے رائے نہیں بدلیں گے کہ میری رائے ان کے خلاف ہے.میں اپنی کہتا ہوں حضرت خلیفہ اول جب مجھے آزادی رائے دیتے تو پھر میری جو رائے ہوتی خواہ وہ آپ کی رائے کے خلاف ہی ہوتی ، میں نہ بدلا کرتا تھا.آپ لوگوں نے اگر آزادی سے رائے بدل لی تو خیر ورنہ میں سمجھا کر خطبوں اور دلائل کے ذریعہ قائل کرنے کی کوشش کروں گا اور پھر اگلے سال اس معاملہ کو پیش کیا جائے گا.66 چاہتا ور نہ ہمارا مشوره ست بچنوں کا سا ہوگا.میں جماعت میں آزادی کی روح پیدا کرنا ہوں.جب میں کوئی بات کہوں کہ یوں ہونی چاہئے تو جب تک نص کے خلاف نہ ہو کر و اور
خطابات شوری جلد اوّل ۲۱۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء جو نہ کرے وہ احمدی نہیں ہو سکتا.مگر کوئی اس بات کے لئے مجبور نہیں کہ اپنی رائے بھی دل سے نکال دے.اس وقت جن دوستوں نے رائے بدلنی ہو وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۷۷ دوست کھڑے ہوئے اور حضور نے فرمایا : - یہ دوست کہتے ہیں اب ہم اس رائے کے قائل نہیں رہے کہ ایک پیسہ بھی اگر کسی کی تجہیز و تکفین کے بعد بچے تو اُسے جائداد سمجھا جائے چونکہ یہ کافی تعداد ہے اس لئے میں اس تجویز کو مسترد کرتا ہوں.باقی اس وقت یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ کیسی جائداد کی وصیت ہونی چاہئے.اس کے لئے ایک کمیٹی بنا کر غور کرایا جائے گا.عورتوں کی وصیت کے متعلق بھی اُسی وقت فیصلہ ہوگا.اختتامی کلمات یہ اچھی بات ہے کہ اس دفعہ معاملات پر لمبی گفتگو ہوئی ہے مگر ساتھ ہی میں یہ کہتا ہوں احباب کو کم از کم پانچ پانچ چھٹیاں لے کر آنا چاہئے تا کہ سب معاملات طے ہو سکیں یا اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ مجلس شوری سال میں دو دفعہ منعقد کی جائے کیونکہ دن تھوڑے ہوتے ہیں اور معاملات بہت زیادہ.اب میں دُعا پر اس مجلس کو ختم کرتا ہوں آپ لوگ بھی اسلام کی ترقی کے لئے ، اپنے اتحاد و اتفاق کے لئے ، سلسلہ کی مشکلات دُور ہونے کے لئے دُعا کریں.میں نے اخیر میں اپنی ایک تقریر رکھی تھی مگر وقت نہیں اس لئے صرف اتنی نصیحت کرتا ہوں کہ چندہ عام میں بہت کمی واقعہ ہو گئی ہے.آپ لوگ واپس جا کر بقائے صاف کرنے کی کوشش کریں.بجٹ پورا کریں تا اس قدر آمد بڑھ جائے کہ جو بوجھ بڑھ رہا ہے وہ اتر جائے.بعض مقامات کے دوست ناراض ہو جاتے ہیں کہ ان کے ہاں مبلغ نہیں بھیجے جاتے مگر یہاں بعض اوقات ایسی صورت ہوتی ہے کہ ۱۵، ۱۵ دن مبلغ کرایہ کے لئے بیٹھے رہتے ہیں، کرایہ نہیں ہوتا کہ ان کو باہر بھیجا جائے.پھر طبعی ترقی کے لحاظ سے آمد میں اضافہ کی ضرورت ہوتی ہے.دوست یہاں سے جا کر ایسی روح پیدا کریں کہ غفلت دُور ہو.مبلغین کا کرایہ اس کے بعد دُعا پر جلسہ ختم کرتا ہوں کیونکہ ابھی دوستوں کو کھانا کھانا ہے اور بہت سے دوستوں کو جلد جانا بھی ہے.ہاں ایک امر کے متعلق
خطابات شوری جلد اوّل ۲۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء میں مشورہ لینا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ مبلغین کا کرایہ ہے.اگر دوست سمجھیں کہ جو لوگ مبلغین بُلائیں.اُن کا کرایہ ادا کرنا مناسب ہے تو اس طریق کو جاری رکھا جائے اور اگر اس کا کوئی بُرا اثر پڑتا ہو تو اسے چھوڑ دیا جائے.کوئی جماعت خود دے دے تو اور بات ہے بل بنا کر اُس سے مطالبہ نہ کیا جائے.“ اس پر ۸۴ را ئیں اس طریق کو ترک کر دینے کے متعلق اور اﷲ جاری رکھنے کے متعلق ہوئیں اور حضور نے فرمایا: - چونکہ یہ چند روپیوں کا معاملہ ہے اور اس سے بعض قسم کے نقصانات کا بھی خطرہ ہے اس لئے اس طریق کو جانے ہی دینا چاہئے.باقی جو خود دینا چاہے وہ دے دے اس کے لئے کوئی روک نہیں ہے.میں نے سب دوستوں کے لئے جو باہر سے آئے ہیں یا جو یہاں کے ہیں ان کے دعا لئے بھی اور جو نہیں آئے اُن کے لئے بھی دُعا کر دی ہے اور خدا تعالیٰ سے چاہا ہے کہ سب کو علمی ، روحانی، اخلاقی ترقی عطا فرمائے.اس دفعہ کی مجلس کے متعلق یہ خوشی کی بات تھی کہ دوست پہلے سے زیادہ آئے اور اُمید ہے کہ آئندہ اس سے بھی زیادہ آئیں گے.میں نے بعض معاملات پر اظہار نا راضگی کیا تو احباب معافی مانگنے لگ جاتے ہیں.مجھے یہ بہت ناپسند ہے.وہ فعل اتنا بُر انہیں جتنا معافی مانگ کر بُرا بنا دیا جاتا ہے.گویا اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اُن کے خیال میں میں اپنے دل میں گرہ ڈال دیتا ہوں اور ہمیشہ کے لئے ان سے ناراض ہو جاتا ہوں میں اس طرح ناراض نہیں ہوا کرتا ہوں کہ ناراض ہوں اور کہوں نہیں اور جب کہوں نہیں تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس فعل کو نا پسند کرتا ہوں مگر ناراض نہیں ہوں اس لئے دوستوں کو یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ اگر کسی بات کو میں نا پسند کروں اور اُس کے خلاف اپنی رائے ظاہر کروں تو میں ناراض ہو جاتا ہوں.میں تو جس کے متعلق ایسی بات ہو اُس کے لئے دُعا کرتا ہوں کہ اس کی اصلاح ہو.اس دفعہ مجلس میں اظہارِ رائے کرنے میں بہت سے دوستوں نے حصہ لیا ہے مگر افسوس ہے کہ زمیندار بھائی کھڑے نہیں ہوئے.حالانکہ وہ بہت اچھی اچھی رائے دے سکتے
خطابات شوری جلد اوّل ۲۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء ہیں خواہ زبان اُن کی کیسی ہو مگر اپنا مطلب ادا کر لیتے ہیں جیسے بنگالی بھائی جو اُردو نہ جانتے تھے مگر رائے اچھی بیان کرتے رہے.تو خواہ اُن کی تقریر اچھی نہ ہو انہیں شرمانا نہیں چاہئے جو اُن کی رائے ہو بیان کیا کریں ہاں تکرار نہ ہو.تو اس دفعہ زیادہ تعداد میں نمائندے آئے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ آنے چاہئیں اور نمائندے کہلانے کے جو مستحق ہیں انہیں آنا چاہئے اور مجلس کے کاموں میں شوق.حصہ لینا چاہئے.اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس مجلس مشاورت کو زیادہ سے زیادہ کامیاب کرے گا.اور ہم آہستہ آہستہ اُس مقصد کو سمجھ سکیں گے جس کے لئے مہمان جمع ہوئے ( مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء ) ہیں.مسلم کتاب صفات المنافقين باب تحريش الشيطان (الخ) ال عمران: ۱۴۵ زمانہ با تو نه ساز و تو با زمانه ساز : فارسی کہاوت جو اردو میں مستعمل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر زمانہ تمہارے ساتھ نہیں چلتا تو تم زمانہ کے ساتھ چلو.
خطابات شوری جلد اوّل ۲۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء منعقده ۱۵ تا ۱۷ را پریل ۱۹۲۷ء) پہلا دن افتتاحی تقریر مجلس مشاورت منعقد ہ ۱۵ تا ۷ے ارا پریل ۱۹۲۷ء کے افتتاح کے موقع پر ا تلاوت قرآن کریم کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مع حاضرین دعا کی اور اس کے بعد تشہد، تعوذ اور سورۃ انعام کی درج ذیل آیات تلاوت فرما ئیں.قُل اِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ لا شَرِيكَ لة وبذلك أمرت وأنا أوّلُ المُسْلِمِينَ قُلْ غَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِ شيء، ولا تكسب كُلُّ نَفْسٍ إِلا عَلَيْهَا ، وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إلى تبكُم مِّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ وَهُوَ الَّذِي جعَلَكُمْ خَليفَ الأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضُكُم فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَةٍ لِيَبْلُوَكُمْ في ما الكم أنّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورُ رحِيمُ.اس کے بعد حضور نے فرمایا:- ہمارا مقصد رضائے الہی و میں نے اپنے احباب کو ہر مجلس مشاورت کے موقع پر اس بات کی نصیحت کی ہے کہ ہمارے مشورے اور ہماری مجلس اور ہمارے جلسے صرف ایک ہی مدعا اور ایک ہی مقصد کو دل میں رکھتے ہوئے ہونے چاہئیں.وہ مقصد اور مدعا اللہ تعالیٰ کی رضا ہے.ہم میں سے ہر ایک نے اپنے رشتہ داروں ا
خطابات شوری جلد اوّل ۲۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کو، اپنے عزیزوں کو ، اپنی اُمنگوں کو ، اپنی آرزوؤں کو ، اپنے خیالات کو اور اپنے ارادوں کو تھوڑا یا بہت اس لئے قربان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.پس اگر باوجود اس کے کہ ہم نے مختلف پہلوؤں سے خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے قربانیاں کیں، اپنی غفلت سے خدا کی رضا کھو دیں اور دنیا کو ناراض کر کے اپنے مولا کو بھی راضی نہ کر سکیں تو ہم دونوں طرف سے کھوئے گئے اور ہم سے زیادہ بد قسمت روئے زمین پر اور کوئی نہیں ہوسکتا.پس ہمارے لئے نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنے تمام کاموں میں خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کو مدنظر رکھیں اور اپنے نفس کو درمیان سے مٹا دیں.بے نظیر قربانی کی ضرورت خدا تعالیٰ کا ملنا معمولی بات نہیں ہے اس لئے ایسی قربانیوں کی ضرورت ہے کہ جس کی نظیر اور قربانیوں میں نہ ہو.دُنیا میں بہت سی قربانیاں کی جاتی ہیں اور ایسی ایسی قربانیاں کی جاتی ہیں جن کی تفصیلات معلوم کر کے ایک حساس دل کانپ جاتا ہے اور ایک شعور رکھنے والے انسان کے جسم پر قَشْعَرِيرَہ آجاتا ہے اور اُس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.وہ سب قربانیاں اس لئے کی جاتی ہیں کہ نفس بڑائی اور عزت حاصل کرنا چاہتا ہے.اس قسم کی قربانیاں ہمیں نفع نہیں دے سکتیں کیونکہ ان کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ خدامل جائے بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نفس کو عزت حاصل ہو جائے مگر ہم جس غرض کے لئے کھڑے ہوئے ہیں وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کریں.اس لئے ہماری قربانی اُس چیز کی ہونی چاہئے جو دنیا نہیں کرتی کیونکہ جو قربانیاں دُنیا کرتی ہے وہ ہم کو نفع نہیں دے سکتیں اور جس مقصد کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ نہیں پاسکتے.اگر جان کی قربانی سے خدا تعالیٰ مل جاتا تو بہت لوگ ہیں جو جان کی قربانی کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کو پانے سے محروم رہ جاتے ہیں.اگر مال کی قربانی سے خدا مل جاتا تو بہت سے لوگ ہیں جو مال کی قربانی کرتے ہیں مگر خدا کو پانے سے محروم رہتے ہیں.اگر عزت کی قربانی سے خدا مل جاتا تو بہت سے لوگ ہیں جو عزت کی قربانی کرتے ہیں مگر خدا کے پانے سے محروم رہتے ہیں.اگر جائداد کی قربانی سے خدا تعالیٰ مل جاتا تو بہت ہیں جو جائدادوں کی قربانی کرتے ہیں مگر خدا سے اتنے ہی دُور ہوتے ہیں جتنا ابلیس دُور ہے.اگر وقت کی قربانی سے یا علم کی قربانی سے یا وطن کی قربانی سے خدامل
خطابات شوری جلد اوّل ۲۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء سکتا تو بہت ایسے ہیں جو یہ قربانیاں کرتے ہیں مگر خدا تعالی کی درگاہ سے دُور رہتے ہیں.پس یقینا یہ قربانیاں کافی نہیں ہیں، یہ ضمنی قربانیاں ہیں.حقیقی قربانی کیا ہے؟ حقیقی قربانی اور چیز کی ہے اور وہ جان سے، وطن سے ، مال سے، خیالات سے، ارادوں سے، عزت سے، وقت سے علم سے بھی زیادہ عزیز ہے وہ کیا ہے؟ وہ انسان کی انانیت ہے.وہ اس کا میں ہونے کا خیال ہے کہ میں بھی کوئی ہستی ہوں.وہ اپنے وجود کا احساس ہے جس کے لئے وہ اپنی جان، اپنے مال، اپنی عزت، اپنے وطن ، اپنے علم ، اپنے وقت غرض ہر چیز کو قربان کر دیتا ہے جس وقت وہ یہ خیال کرتا ہے کہ میرے وجود کا احساس اور میری علیحدہ ہستی خطرہ میں ہے وہ اُس وقت کسی چیز کی پروا نہیں کرتا.قوم کی خاطر، ملک کی خاطر ، عزت کی خاطر ، آبرو کی خاطر، وطن کی خاطر، قربانیاں کرنے والے بظاہر قوم و ملک ، عزت و آبرو، وطن کی خاطر قربانیاں کرتے نظر آتے ہیں مگر دراصل جس چیز کے لئے قربانی کرتے ہیں وہ ان کا انانیت ، وہ ان کا میں ہوتا ہے.وہ قربانیاں چونکہ اُن کی رائے اور اُن کی مرضی کے مطابق ہوتی ہیں اس لئے کرتے ہیں.وہ اس لئے قربانی کرتے ہیں کہ اُن کی مرضی قائم رہے مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جس چیز کی قربانی میرے حاصل کرنے کے لئے کرنی چاہئے وہ مرضی کی قربانی ہے.میں کی قربانی خدا کو پانے کے لئے مال کی ، جان کی ، ارادوں کی علم کی ، وقت کی قربانی کافی نہیں.خدا تعالیٰ اس احساس کی کہ میں ہوں قربانی چاہتا ہے.جب تک کوئی انسان اس میں کو مٹا نہیں دیتا اس وقت تک خدا اسے قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ مشرک ہوتا ہے.ایسا انسان با وجود لَا إِلهَ إِلَّا اللہ کا نعرہ لگانے کے اس میں قحبہ نہیں اپنے آپ کو ایک الگ وجود تصور کرتا ہے.جب وہ کہتا ہے میں لَا إِلهَ إِلَّا اللہ کا قائل ہوں تو وہ خود اپنے اس دعوے کو رڈ کرتا ہے کیونکہ اگر میں ہے تو پھر وہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله نہیں کہہ سکتا.اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز کی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے تو میں کی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے.وہ کہتا ہے تم اپنے نفس کو مٹا دو.تمہاری مرضی نہ ہو بلکہ میری مرضی ہو.صرف میں رہوں اور میرا کوئی شریک نہ ہوتی کہ تم بھی نہ ہو.لوگ مال و جان قربان کرتے ہیں مگر اس میں ان کی مرضی اور خواہش ساتھ ہوگی اور جب تک کوئی میں قربان نہیں کرتا اُس کی قربانی
خطابات شوری جلد اوّل ۲۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کی خدا تعالیٰ کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں.نا قابل قبول قربانیاں یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے حضور قبول نہیں کی جاتیں کیونکہ انہوں نے اپنے نفس کو مارا نہیں ہوتا.حدیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو جنگ کے موقع پر دیکھا کہ وہ ایسے ایسے خطرناک موقع پر جاتا ہے کہ سب لوگ اُس کی طرف دیکھ کر واہ واہ کہہ اُٹھتے ہیں لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر فرمایا کہ اگر کسی نے دوزخی کو چلتے پھرتے دیکھنا ہو تو اسے دیکھ لے.سے صحابہ میں یہ سن کر ایک جنبش اور حرکت پیدا ہوئی.وہ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے کہ وہ شخص جو سب سے زیادہ جنت کا مستحق ہونا چاہئے اُس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ دوزخی ہے.بعض کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات یونہی کہہ دی ہے اور بعض نے اس کا اظہار بھی کر دیا.اس پر ایک صحابی جو بہت اخلاص رکھتے تھے اُنہوں نے کہا میں اس شخص کا پیچھا نہ چھوڑوں گا جب تک اس کا انجام نہ دیکھ لوں.چنانچہ وہ شخص اسی جنگ میں زخمی ہوا اور جب اسے سخت تکلیف ہوئی تو اُس نے نیزہ گاڑ کر اُس پر اپنے آپ کو گرایا اور اس طرح خود کشی کر لی.اُس وقت اس نے کہا میں ان لوگوں سے اسلام کے لئے نہ لڑا تھا بلکہ ان سے پرانی عداوت تھی اس لئے لڑا تھا.چونکہ خود کشی کرنے والا خدا تعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے اس لئے خدا کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے.اس طرح معلوم ہو گیا کہ فی الواقعہ وہ شخص دوزخی تھا.اُس کا انجام دیکھ کر صحابی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور آ کر کہا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ خدا کے بچے رسول ہیں، میں نے اس شخص کا اس طرح انجام دیکھا.اس پر آپ نے فرمایا میں خدا کا رسول ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ خدا ایک ہے.اب دیکھو ایک شخص باوجود مسلمانوں کے ساتھ مل کر دشمنوں سے لڑتا ہے اور ایسے ایسے مقام پر حملہ کرتا ہے جہاں عام مسلمان بھی نہ کرتے مگر اُس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ دوزخ میں جاتا ہے اس لئے کہ اس نے جان کی قربانی تو کی لیکن ”میں“ کی قربانی نہ کی تھی.اُس نے جان کی قربانی اپنی انانیت کے لئے کی تھی.
خطابات شوری جلد اوّل ۲۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء نفس کو مٹانے والے کی قربانی اس کے مقابلہ میں ہم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ابو بکر کو اُس چیز کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے جو اس کے دل میں ہے اور میں دل میں ہی ہوتی ہے.مطلب یہ کہ انہوں نے اپنے نفس کو مٹا دیا اور میں کو مار دیا اس لئے خدا کے حضور قبول کئے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قربانی اس وقت ہی دیکھ لو اسے پیر موجود ہیں جو دن کو روزہ رکھتے اور رات کو جاگ کر عبادت کرتے ہیں، چھ چھ ماہ روزے رکھتے ہیں.صرف جو کے چند کچے دانے اور چلو بھر پانی پیتے ہیں، دُنیا سے علیحدہ رہتے ہیں مگر باوجود اس کے وہ خدا کے حضور قبول نہ ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قبول ہو گئے کیونکہ وہ پیر گو بظا ہر نفس کشی کر رہے ہوتے ہیں لیکن دراصل ان کی ”میں موٹی ہو رہی ہے.ان کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم کچھ بن جائیں ، ان کی قربانیاں اپنے نفس کے لئے ہوتی ہیں اس لئے جتنی وہ کوشش کرتے ہیں اُتنے ہی محروم رہتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام با وجود اتنے روزے نہ رکھنے اور نہ دُنیا سے علیحدہ رہنے کے قبول کر لئے گئے کیونکہ آپ نے ”میں“ کو قربان کر ڈالا تھا.انانیت کی قربانی پس سب سے بڑی چیز جس کی قربانی ضروری ہے وہ انانیت ہے.انا نیت کو اس طرح مٹا ڈالنا چاہئے کہ کبھی آواز نہ اُٹھے کہ خدا کے مقابلہ میں یہ بات میں ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں میں فلاں بات اس لئے نہیں مانتا کہ میری مرضی نہیں.ورنہ خواہ کوئی کتنے سجدے کرے اور کس قدر ناک رگڑے اگر انانیت کو نہیں چھوڑتا تو خدا تعالی کی درگاہ سے اُسی طرح دور پھینک دیا جاتا ہے جس طرح آبادی سے دُور مُردہ گتا.ہمارا نقطہ نظر پس احباب اپنے مشوروں میں یہ بات مد نظر رکھیں کہ میں اور انا نیت کو معا دینا ہے.ہمارا ایک ہی نقطہ نظر ہے کہ خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت ہو اور ہمارا مدعا اور مقصد یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید قائم ہو لیکن اگر ہمارے دل میں
خطابات شوری جلد اوّل ۲۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء انانیت اور میں کا بُت موجود ہو تو پھر ہم نے خدا تعالیٰ کی توحید کیا قائم کرنی ہے.کیا کوئی مندر کا پجاری توحید قائم کر سکتا ہے؟ اگر ہمارے نفسوں میں میں باقی ہے تو ہم بھی کچھ نہیں کرسکیں گے.پس جب تک ہمارے دل کے مندر میں ”میں“ کا بُت ہے ہم خدا تعالیٰ کی توحید نہیں قائم کر سکتے.اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ لوگ کام کریں.آج ہمارے سامنے جو ایجنڈا ہے اس کے مختلف عنوان کر دیئے گئے پیش نظر ایجنڈا انار ہیں.کوشش یہ کرنی چاہئے کہ اس ایجنڈا کو کا نفرنس کے ایام میں ختم کر دیں.پیچھے یہ دستور رہا ہے کہ جو ایجنڈا پیش ہوتا اُس کا اکثر حصہ باقی رہ جاتا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کئی دوست اس قسم کی مجالس کا تجربہ نہیں رکھتے.وہ ایک معمولی سی بات پر بولتے جاتے اور عموماً وہی کہتے ہیں جو اُن سے پہلے کہہ چکتے ہیں.بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ دوست ایک بات کو دس دس مرتبہ دُہراتے جاتے ہیں.چاہئے کہ ایسی باتوں میں وقت خرچ نہ کیا جائے اور ایجنڈ اختم کرنے کی کوشش کی جائے.ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اب کے دو تجویز میں کی گئی ہیں.ایک تو یہ دو تجویزیں کہ ہر سب کمیٹی کے لئے وقت مقرر کر دیا گیا ہے کہ اُس کے اندر اندر اس کا کام کرنا ہوگا.دوسری یہ کہ آج تک یہ طریق رہا ہے کہ جب کوئی بات پیش ہو تو دوست فرداً فرداً بولنا شروع کر دیتے ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دوسروں کو بولتا دیکھ کر خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی اپنی رائے ظاہر کریں حالانکہ رائے اُس وقت ظاہر کرنی چاہئے جب ووٹ لئے جائیں.اب تجویز کی گئی ہے کہ جب کوئی بات پیش ہو تو پوچھ لیا جائے کہ کون کون صاحب اس کے متعلق بولنا چاہتے ہیں.اس پر جو اصحاب اُٹھیں اُن کو بولنے کا موقع دیا جائے اُن کے سوا کسی اور کو نہ دیا جائے کیونکہ بعض صرف دوسروں کو دیکھ کر اس رو میں بہہ جاتے ہیں.اگر اُنہیں بولنے کی حقیقی خواہش ہوگی تو عام طور پر اُس وقت بولنے پر آمادگی ظاہر کریں گے جب معاملہ پیش ہوگا.گو بعض اوقات بعد میں بھی بولنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے.اس طرح میں سمجھتا ہوں وقت بہت کچھ بچ جائے گا اور وقت کے اندر کام ختم ہو سکے گا.
خطابات شوری جلد اوّل ۲۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء خلیفہ کے گزارہ کا سوال اس وقت جو تجاویز پیش ہیں ان میں سب سے پہلی تجویز میری طرف سے ہے جو بعض دوستوں کی تحریک سے کی گئی ہے.مجھ سے پوچھا گیا کہ جب جماعت ایک خلیفہ کے ماتحت رہے گی اور اُمید ہے کہ یہ سلسلہ ہمیشہ رہے گا تو اس لئے خلفاء کے گزارہ کے متعلق سوچنا ضروری سوال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تو خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ ہم تمہارے متکفل ہیں اور ہم تمہیں اُسی طرح دیں گے جس طرح سلیمان کو دیتے تھے اس لئے خدا تعالیٰ لوگوں کو الہام اور وحی کے ذریعہ تحریک کرتا اور وہ آپ کے لئے ہدایا لاتے جو نہ صرف آپ کے لئے کافی ہوتے بلکہ لنگر خانہ پر بھی خرچ ہوتے اور اگر وہ ہدایا نہ ہوتے تو لنگر نہ چل سکتا تھا.آپ کے بعد حضرت خلیفہ اول ہوئے.وہ بھی دعویٰ رکھتے تھے اور تجربہ سے ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ کا آپ سے وعدہ تھا کہ ہم تمہارے متکفل ہوں گے.حضرت خلیفہ اول فرماتے بسا اوقات ایسا ہوا کہ ایک شخص نے مجھ سے کسی رقم کا مطالبہ کیا اور خدا تعالیٰ نے اتنی ہی رقم بھیج دی.فرماتے ایک دفعہ ایک شخص نے آ کر مطالبہ کیا.میں نے اُسے کہا کہ بیٹھ جاؤ.وہ بیٹھ گیا مگر میرے پاس کچھ نہ تھا.اتنے میں ایک ہندو مریض آیا جو مٹھائی لایا.میں نے اُسے نسخہ لکھ دیا اور وہ چلا گیا.مٹھائی جب دیکھی گئی تو اس میں کچھ روپے بھی تھے مگر جس قدر روپے کا مطالبہ تھا اُس سے کم نکلے.میں نے کہا پھر دیکھو.جب دوبارہ دیکھا گیا تو اُتنے ہی روپے نکل آئے جتنے روپوؤں کی ضرورت تھی.اسی طرح میرے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اس کے فضل سے مجھے معقول رقم مل جاتی ہے جو بعض اوقات عیسائیوں سے، ہندوؤں سے، غیر احمدیوں سے حتی کہ ایسے لوگوں سے جنہیں بہت بڑا دشمن سمجھا جاتا ہے اُن کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے جن کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور روحانی طور پر ان کا بیان کرنا مناسب بھی نہیں ہے.بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ قرض لینا پڑا ہے مگر میری جائداد ہے، اس سے قرض ادا کیا جاسکتا ہے لیکن دوستوں نے کہا یہ طریق ہمیشہ کے لئے نہیں چل سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت تو اس بارے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا.حضرت خلیفہ اول کے وقت ہوسکتا تھا مگر نہ کیا گیا.میرے وقت میں بھی ہو سکتا ہے.اگر اب بھی کچھ نہ کیا گیا اور
خطابات شوری جلد اوّل ۲۲۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء تیسرے خلیفہ کے وقت یہ سوال اُٹھایا گیا تو اس کی وجہ سے اُس خلیفہ کو حقیر سمجھا جائے گا اور اس سوال کو بدعت قرار دیا جائے گا.پہلے بھی بعض لوگوں نے مجھے کہا تھا کہ میں اپنا گزارہ لوں مگر یہ میرے نزدیک مناسب نہ تھا مگر اب جس طرز پر انہوں نے بات پیش کی ہے بات معقول معلوم ہوتی ہے اس لئے پہلا امر اس دفعہ یہ پیش ہے کہ خلیفہ کے اخراجات کے لئے رقم مقرر ہونی چاہئے.میں خود کچھ نہیں لیتا سوائے اس کے کہ قرضہ کے طور پر کچھ رقم لوں اور کوشش کروں کہ خود ادا کر دوں اور اگر خود ادا نہ کر سکوں تو میں نے کہا ہوا ہے میری جو جدی جائداد ہے، اُس سے جماعت وصول کر سکتی ہے.نظارت اعلیٰ کی تجاویز پھر ناظر صاحب اعلیٰ کی دو تجاویز ہیں.ایک یہ کہ مجلس مشاورت کے لئے دو دن نا کافی ہیں.ہم مشاورت میں جتنا وقت خرچ کرتے ہیں دنیا کی کوئی پارلیمنٹ اِتنا کم وقت صرف نہیں کرتی.ہمارے مشورہ طلب معاملات بہت اہم ہوتے ہیں مگر وقت بہت کم صرف کیا جاتا ہے اس لئے نظارت اعلیٰ نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ کیا مجلس کا انعقاد سال میں دو دفعہ ہوا کرے یا ایک ہی دفعہ ہومگر دو دن کی بجائے چار دن رکھے جائیں.دوسری تجویز مجلس مشاورت میں شامل ہونے والے نمائندوں کے لباس کے متعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش تھی کہ ہماری جماعت کا کوئی امتیازی لباس ہو.اس سے نفسانیت بھی مرتی ہے کیونکہ جس قسم کے لباس کی عادت نہ ہو اُس کا پہننا گراں ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق کئی بار مشورہ لیا مگر کوئی بات طے نہ ہوئی.اب یہ تجویز ہے کہ کم از کم مجلس مشاورت کے مشیر کوئی خاص نشان لگائیں پھر اسے آگے ترقی دی جائے.نظارت دعوة و تبلیغ کی تجاویز پھر نظارت دعوۃ وتبلیغ کی طرف سے اہم معاملات پیش ہیں مثلاً اچھوت اقوام میں تبلیغ اسلام.اس کے متعلق یہ سوچنا ہے کہ یہ کام کس طرح شروع کیا جائے اور کس علاقہ میں کیا جائے.ہوسکتا ہے کہ نظارت کسی علاقہ میں کام شروع کرے اور وہاں کامیابی نہ ہو جیسا کہ پہلے کام شروع کیا گیا تو جیسی کامیابی ہونی چاہئے تھی ویسی نہ ہوئی.ہزاروں آدمی اچھوت اقوام کے
خطابات شوری جلد اوّل ۲۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء داخل اسلام نہ ہوئے ، چالیس پچاس کے قریب تو ہو گئے جو بیج کے طور پر کام دے رہے ہیں اور اوروں کو اسلام میں لاتے رہتے ہیں.مگر جیسا کہ امید تھی کہ قوم کی قوم داخل اسلام ہو جائے گی یہ بات پوری نہ ہوئی.اگر دوستوں کو معلوم ہو کہ کسی خاص علاقہ میں کام کرنے سے کامیابی ہوسکتی ہے تو پیش کریں.اسی طرح ایک دوست کی یہ تجویز ہے کہ جاپان میں تبلیغی مشن کھولا جائے.احباب اس کے متعلق بھی رائے دیں.نظارت امور عامہ کی تجاویز پھر امور عامہ کی طرف سے تجاویز ہیں مثلاً یہ کہ لڑکیوں کے رشتوں کے لئے مشکلات پیش آتی ہیں کیونکہ لڑکیوں کے رشتے ہم غیر احمدیوں میں نہیں کر سکتے اور لڑکوں کے رشتے کر لیتے ہیں.کیا لڑکوں کے رشتے بھی غیر احمدیوں میں نہ کئے جائیں؟ دوسری تجویز یہ ہے کہ جو احمدی فوت ہو جاتے ہیں ان کے پس ماندگان کی امداد کی کیا صورت ہونی چاہئے.تیسری یہ کہ احمدیوں کے تنازعوں کو دور کرنے کیلئے پنچائتیں قائم کی جائیں.نظارت تجارت کی تجاویز پھر نظارت تجارت کی تجاویز ہیں.قائم کی جائے.(۱).یہ کہ احمدیوں کو بغیر سُو دقرضہ دینے کے لئے انجمن (۲).احمدی تاجروں اور اہل حرفہ کے باہمی تعارف کا انتظام کیا جائے.(۳).بے کاروں کے لئے کوئی کام جاری کیا جائے.یہ باتیں بھی ایسی ہیں کہ جن کے نہ ہونے کی وجہ سے جماعت کو بہت دقت پیش آ رہی ہے.ان باتوں پر بھی جلد غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ نتیجہ ہوگا کہ جماعت کے مال کا بڑا حصہ ان بے کاروں کو سنبھالنے کے لئے خرچ کرنا پڑے گا.پھر نظارت بیت المال کا بجٹ ہے.یہ بھی بہت اہم ہے.اس وقت خرچ آمد سے زیادہ ہے.باوجود اس کے کہ ہر سال خرچ میں تخفیف کی جاتی ہے پھر بھی بجٹ کی آمد اخراجات کو پورا نہیں کر سکتی.اس وجہ سے اس کے متعلق گہرے غور وفکر کی ضرورت ہے
خطابات شوری جلد اوّل ۲۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کہ آمد بڑھائی جائے یا کام بند کر دیئے جائیں.کئی کئی مہینوں کی کارکنوں کو تنخواہیں نہیں ملتیں.ٹکٹوں تک کیلئے روپے نہیں ہوتے.مبلغ واپسی کے لئے اس لئے بیٹھے رہتے ہیں کہ روپیہ نہیں ہوتا.زکوۃ کی وصولی پھر زکوۃ کی وصولی کا اہم سوال ہے.جن پر زکوۃ فرض ہے اگر وہ ادا نہ کریں تو یہی نہیں کہ اُن کا ایمان کامل نہیں ہوتا بلکہ نہ دینے والے مسلمان ہی نہیں رہتے.نظارت خارجہ کی تجاویز پھر نظارت خارجہ کی تجاویز ہیں.ایک یہ ہے کہ ٹیریٹوریل کمپنی احمدیوں کی قائم کی گئی تھی تا کہ لوگوں میں جرات اور کام سے واقفیت پیدا ہو مگر اس کے متعلق بھی اخراجات کا سوال ہے.اسی طرح الیکشن کا معاملہ ہے کہ کسی امید وار ممبری کو رائے دینے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ ہر جگہ کے لوگ اپنے علاقہ کے جس شخص کو چاہیں ووٹ دیں یا کس طرح؟ نظارت ضیافت کی طرف سے ایک تجویز ہے جو علی گڑھ کی نظارت ضیافت کی تجاویز جماعت کی تحریک پر پیش کی گئی ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خاص کھانے کی ایک دکان ہو جو صاحب کھانا چاہیں خود خرید کر کھائیں جماعت کی طرف سے کسی کے لئے خاص کھانے کا انتظام نہ ہو.نظارت تعلیم وتربیت کی تجاویز نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے بھی اہم سوال پیش ہیں.(۱).ایسے احمدیوں کی اولاد کے متعلق جو فوت ہو جائیں اور جن کے رشتہ دار غیر احمدی ہوں کیا انتظام ہونا چاہئے کہ ان کی اولا د ضائع نہ ہو.(۲).احمدیوں میں سے جو لوگ ظاہری شعار شریعت کی پابندی نہیں کرتے اُن کے متعلق کیا کرنا چاہئے.(۳).بورڈنگ ہائی سکول و مدرسہ احمدیہ اور احمد یہ ہوٹل میں جن لڑکوں کی طرف بقایا ہو اور ادا نہ کریں ، اُن سے کیا سلوک کرنا چاہئے.اس میں بڑی دقتیں ہیں.اگر بقایا دار لڑکوں کو نکال دیا جائے تو اُن کے والدین ناراض ہوتے ہیں کہ ہم نے لڑکا پڑھنے کے
خطابات شوری جلد اوّل ۲۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء لئے بھیجا تھا اُسے نکال دیا گیا اور اگر رکھا جائے تو اس کے اخراجات کا کون ذمہ دار ہو.اس کے متعلق جماعت ہی مشورہ دے کہ کیا کرنا چاہئے.(۴) تعلیمی کمی کو دور کرنے کے لئے تجویز ہے کہ کیا پرائمری تک جبری تعلیم ہو.(۵) - وظائف کی تقسیم کے متعلق سوال ہے کہ کس طرح تقسیم ہو ا کریں.یہ امر خاص طور پر میرے لئے مشکل ہے.وقت یہ پیش آتی ہے کہ وظائف کسی اصل پر تقسیم نہیں کئے جاتے.اس کے لئے اصول تجویز ہونے چاہئیں مثلاً یہ کہ کچھ وظائف جماعتوں کے لئے رکھے جائیں جس کے متعلق وہ سفارش کریں اُسے وظیفہ دیا جائے.خاص وظائف اُن طلباء کے لئے رکھے جائیں جو ہندوستان سے باہر سے آئیں.اب ۲۵،۲۴ ہزار روپیہ تعلیمی وظائف پر خرچ ہوتا ہے اور پھر بھی شکایت ہی رہتی ہے.اگر وظائف کی تقسیم ہو جائے تو جماعت کو اطمینان ہو جائے گا.(۶) اسی طرح یہ بھی اہم سوال ہے کہ دینیات میں فیل ہونے والے ہائی سکول کے طلباء کو ترقی نہ دی جائے.اس کے متعلق پہلے بھی تجویز ہوئی تھی مگر کہا گیا تھا کہ ایسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ محکمہ تعلیم اسے منظور نہیں کرتا.مگر بعد میں معلوم ہوا کہ جرمنی میں جو طالب علم دینیات میں فیل ہو اُسے ترقی نہیں دی جاتی.اسی طرح علیگڑھ کالج میں بھی دینیات میں فیل ہونے والے کو ترقی نہیں دی جاتی.میں نے اُس وقت بھی اس امر پر اظہار پسندیدگی نہ کیا تھا مگر اسے رد بھی نہ کیا تھا.اب اس معاملہ کو پھر پیش کیا جاتا ہے.احباب غور کر کے رائے دیں کہ جب وہ لوگ جن کا مقصد دین نہیں، ترقی نہیں دیتے تو ہم کیوں دیں.علیگڑھ میں ہمارے لڑکے ایف.اے کے امتحان میں دینیات میں فیل ہو گئے تو بی.اے میں داخل نہ کیا گیا.گو یہ شرم کی بات تھی کہ احمدی دینیات میں فیل ہو.پس احباب غور کر کے اس کے متعلق رائے دیں.سب سے اہم اور ضروری امر یہ سب ضروری مسائل ہیں مگر سب سے زیادہ اہم اور ضروری امر بیت المال کا ہے.اس وقت حالت یہ ہے کہ یا تو جماعت پہلے کی نسبت آمد کو زیادہ کرے یا پھر جو کاروبار جاری ہے اُسے بند کر دیا جائے.اس وقت میں نے جو آیات پڑھی ہیں ان میں دین کے لئے ہر قسم کی قربانی
خطابات شوری جلد اوّل ۲۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کرنے کا ذکر ہے.اِس وقت ہمارے لئے قابلِ غور امر یہ ہے کہ جب جماعت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے بڑھ رہی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آمد میں ترقی نہیں ہوتی.یہ تو یقینی بات ہے کہ جماعت بڑھ رہی ہے مگر یہ بھی یقینی بات ہے کہ ساری جماعت اپنے فرض کو اُس طرح پورا نہیں کر رہی جس طرح اُسے کرنا چاہئے.اہل قادیان کی مالی قربانی میں نے سنا ہے کہا جاتا ہے باقی جماعت کو تو قربانی کے لئے کہا جاتا ہے اور بار بار اس پر زور دیا جاتا ہے لیکن قادیان میں رہنے والے قربانی نہیں کرتے.یہ کہنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ جب قربانی کرنے کیلئے کہا جاتا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ صرف لنگوٹ باندھ کر کھڑے ہو جاؤ اور باقی سب کچھ دے دو.اگر قربانی کرنے کے لئے کہنے کا یہ مطلب ہو اور قادیان میں رہنے والے ایسا نہ کریں تو ان کے متعلق شکایت کی جاسکتی ہے لیکن جس قدر مطالبہ کیا جاتا ہے اُسے قادیان میں رہنے والے سب سے زیادہ پورا کرتے ہیں اور جس قدر دینے کے لئے کہا جاتا ہے وہ قادیان میں رہنے والے سب سے زیادہ ادا کرتے ہیں تو پھر کسی کو ان کے متعلق شکایت کرنے کا حق نہیں ہو سکتا.ایک آنہ فی روپیہ چندہ عام ہے.یا ۴۰ فیصدی چندہ خاص.میں خود ہمیشہ اس اندازہ سے بہت زیادہ چندہ دیتا ہوں اور قادیان میں رہنے والے جو غریب ہیں اور جن میں سے اکثر کی آمدنیاں بہت معمولی ہیں وہ مقررہ چندہ تو سارے کے سارے ادا کرتے ہیں مگر ان میں سے ایسے بھی ہیں جو دو گنا ، تین گنا چندہ دیتے ہیں.پس اس وقت تک جس قربانی کا مطالبہ کیا گیا ہے اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ سب کچھ بیچ کر دے دو.جب یہ مفہوم ہوگا تو انشاء اللہ سب سے پہلے ہم خود لنگوٹی گسیں گے اور پھر آپ لوگوں سے کہیں گے.موجودہ قربانی کا مفہوم اس وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ ج قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اس کا مفہوم کیا ہے.اگر اس کا یہ مفہوم ہے کہ چالیس یا پچاس فیصدی ماہوار آمدنی کا چندہ خاص میں ادا کیا جائے.یا یہ کہ آنہ فی روپیہ ماہوار آمد پر ماہوار دیا جائے اور یہ قادیان میں رہنے والا کوئی ادا نہ کرے تو اعتراض کیا جاسکتا ہے.میں نے اپنے متعلق تو بتایا ہے اور ریکارڈ موجود ہے کہ جب میں دوسروں سے چالیس فیصدی
خطابات شوری جلد اوّل ۲۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء مانگتا ہوں تو ضرور پچاس فیصدی بلکہ سو فیصدی تک بھی جیسی حالت ہو دے دیتا ہوں اور اوروں کے متعلق بھی جانتا ہوں جو سلسلہ کے کارکن ہیں کہ مقررہ شرح پر چندہ ادا کرتے ہیں.ان کے متعلق یہ تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان سے چندہ جبر اوصول کر لیا جاتا ہے کیونکہ ان کی تنخواہ سے وضع کر لیا جاتا ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ دیتے نہیں، باقاعدہ دیتے ہیں پھر ان کے متعلق اعتراض کس طرح کیا جاسکتا ہے.میرا اپنا اندازہ ہے کہ اس سال جو بجٹ چندہ عام سے ہی بجٹ پورا ہوسکتا ہے ۱۸۵۸۸ بلیا گیا ہے.اگر ساری جماعت کے لوگ نہیں جن کی تعداد بہت زیادہ ہے بلکہ صرف وہی لوگ جن کے نام رجسٹروں میں درج ہیں، ایک آنہ فی روپیہ چندہ بھی باقاعدہ دیں تو اسی سے بجٹ پورا ہوسکتا ہے اور کسی خاص چندہ کی ضرورت نہیں رہتی.مگر حالت یہ ہے کہ اگر اوسطاً اندازہ لگایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے سب لوگ دو پیسہ روپیہ بھی چندہ نہیں دیتے.اگر سارے دوست اور اس سے مراد صرف وہی لوگ ہیں جو رجسٹروں پر آئے ہوئے ہیں وہ نہیں جن کا ہمیں پتہ نہیں اور جن کا ہمارے حساب کے رجسٹروں میں اندراج نہیں، ایک آنہ فی روپیہ ماہوار چندہ دیں تو یقیناً چندہ ہماری موجودہ ضروریات سے بہت بڑھ کر ہو جائے.مگر مشکل یہ ہے کہ اس شرح پر بھی سارے چندہ ادا نہیں کرتے.ہماری قربانی دوسرے مسلمانوں میں پوچھتاہوں اگر ہم باوجود اس کے کہ خداتعالی فرماتا ہے.قذان كان اباؤُكُمْ وَابْنَاؤُكُمْ وَاخْوَانُكُمْ وَازْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَ تُكُمْ وَأَمْوَالُ سے بڑھ کر ہونی چاہئے اقترفتُمُوهَا وَ تِجَارَةً تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا ومسكن تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حتى يأتي الله آمده اگر تم اپنے آباء ، اپنے بیٹوں، اپنے بھائیوں، اپنی بیویوں، اپنی برادری، اپنے اموال جو تم نے کمائے اور اپنی تجارت میں گھاٹے سے ڈرتے ہو اور اپنے گھروں کو اللہ اور رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ پسند کرتے ہو تو یا د رکھو خدا سے تمہارا کوئی تعلق نہیں.تم اس وقت کا انتظار کرو جب تم پر خدا کا عذاب نازل ہو اور تمہاری یہ
خطابات شوری جلد اوّل چیزیں تباہ و برباد ہو جائیں.۲۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء خدا تعالیٰ کے اس ارشاد کے ہوتے ہوئے اگر ہم وہ قربانی بھی نہ کریں جو عام لوگ کر لیتے ہیں تو سمجھ لو ہمارا کہاں ٹھکانا ہوگا.دیکھا گیا ہے کہ بعض حالتوں میں غیر احمدی بھی بڑی بڑی قربانیاں کر لیتے ہیں حالانکہ وہ بہت پراگندہ طبع اور پراگندہ حال ہیں اور ہندو تو بہت زیادہ قربانیاں کرتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری جماعت نہ کرے.ضروری ہے کہ ہم اس طرف خاص طور پر توجہ کریں اور دوسروں کو توجہ دلائیں.اس بے توجہی کی وجہ سوائے روحانیت کی کمزوری کے لاہور کی احمد یہ جماعت اور کوئی نہیں اور مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس میں بڑی بڑی جماعتیں بھی شامل ہیں.ایک جماعت جو مجھے بہت پیاری ہے اس وجہ سے میں اُس کا نام لئے دیتا ہوں وہ لاہور کی جماعت ہے اس کا امیر بھی ایک ایسا شخص ہے جس سے مجھے تین وجہ سے محبت ہے.ایک تو ان کے والد کی وجہ سے جو نہایت مخلص احمدی تھے، میں نے دیکھا ہے انہوں نے دین کی محبت میں اپنی نفسانیت اور ”میں“ کو بالکل ذبح کر ڈالا تھا اور ان کا اپنا قطعاً کچھ نہ رہا تھا سوائے اس کے کہ خدا راضی ہو جائے.ایسے مخلص انسان کی اولاد سے مجھے خاص محبت ہے.دوسری وجہ یہ ہے کہ ان میں ذاتی طور پر بھی اخلاص ہے اور آثار وقرائن سے ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کو دین کی خاطر ہر وقت قربانی کے لئے تیار رکھتے ہیں.تیسری وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں علم ، عقل اور ہوشیاری دی ہے اور وہ اور زیادہ ترقی کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں مگر افسوس ہے کہ انہوں نے نہ اپنی ذمہ داری کو ادا کیا اور نہ اپنی جماعت سے ادا کرایا اور لاہور کی جماعت دن بدن گرتی چلی جا رہی ہے.اسی طرح اور بھی کئی جماعتیں ہیں.نئی جماعتوں کا اخلاص ان کے مقابلہ میں میں دیکھتا ہوں بعض نئی جماعتیں ہیں جو بڑی سرعت سے آگے قدم بڑھا رہی ہیں.جس سے پتہ لگتا ہے کہ سستی اور کمزوری اس لئے نہیں کہ زمانہ کے حالات ایسے ہیں کیونکہ اگر یہ وجہ ہوتی تو ان جماعتوں پر زیادہ اثر ہوتا جوئی ہیں مگر وہ بڑے اخلاص سے کام کر رہی ہیں اور اتنی قربانیاں کر رہی ہیں جو مطالبہ سے بھی بڑھ کر ہوتی ہیں مگر بعض پر انی جماعتوں میں سستی بڑھ رہی.
خطابات شوری جلد اوّل ۲۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء اس لئے میں خاص طور پر آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں جو جماعتوں کے قائم مقام ہو کر آئے ہیں کہ اس نیت اور ارادہ سے مجلس میں کام کرو کہ اپنے اپنے مقام پر جا کر نہ سوؤ اور نہ دوسروں کو سونے دو.ہمارے لئے یہ وقت سونے کا نہیں بلکہ جاگنے اور بیدار رہنے کا ہے.جماعت کے مخلصین تیار رہیں ہمارے لئے کوئی چیز دین سے زیادہ مقدم نہیں ہونی چاہئے.اگر اب بھی ان لوگوں نے جوئست ہیں اپنی سستی ترک نہ کی اور غفلت سے بیدار نہ ہوئے تو میں جماعت کے مخلصین سے کہتا ہوں کہ تیار رہو، تین ماہ تک انتظار کرنے کے بعد ان سے خاص قربانی کا مطالبہ کیا جائے گا اور وہ یہ کہ ان کے کھانے پینے کی حد بندی کر دی جائے گی ، ان کے لباس کی حد بندی کر دی جائے گی، ان کے دوسرے اخراجات کی حد بندی کر دی جائے گی اور باقی سب کچھ دین کے لئے طلب کر لیا جائے گا.میں تین ماہ تک سلسلہ کی مالی حالت کو دیکھوں گا.اگر اس عرصہ میں ترقی نہ ہوئی تو پھر جماعت کے مخلصوں کو بلاؤں گا کہ آؤ اور صرف اپنی زندگی کو قائم رکھنے اور اپنے ستر کو ڈھانکنے کے لئے کچھ رکھ کر باقی سب کچھ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے پیش کر دو.سنو! اگر ایک شخص اس لئے سالن نہیں کھا تا کہ اسے میسر نہیں تو کیا ہم اتنے بے غیرت ہو گئے ہیں کہ دین کو اس وقت مال کی ضرورت ہوا اور ہم سالن کھانا نہ چھوڑیں.تین ماہ تک انتظار کیا جائے گا پس اگر سب بھائی ایسے خطرہ اور ضرورت کے وقت نہیں جاگتے تو نہ جاگیں.میں تین ماہ تک اِن کا انتظار کرنے کے بعد مخلصوں کو بلاؤں گا جن کے لئے ایک معیار مقرر کر دیا جائے گا کہ اس طرح زندگی بسر کریں اور باقی سب کچھ دین کے لئے خرچ کریں.ہم اس کے لئے دوسروں کو مجبور نہ کریں گے مگر میں جانتا ہوں بہت ہوں گے جو آپ ہی آپ یہ طریق اختیار کر لیں گے.میں نے جب یہ نیت کی اُس وقت اس کا ایسا اثر تھا کہ جب کھانے کے وقت میرے سامنے سالن لایا گیا تو میں نے کہا دال لاؤ، میں سالن نہیں کھاؤں گا.دال لائی گئی اور میں نے اُس سے کھانا کھایا.اُس وقت میرا ایک چھوٹا بچہ بھی جس کی عمر پانچ چھ سال ہوگی ، پاس تھا اُس نے بھی سالن کھانے سے انکار کر دیا اور دال کھائی.اگر ایک چھوٹا بچہ اس طرح کر سکتا ہے تو بڑے کیوں نہ کریں گے.وہ جب دیکھیں گے کہ دین کی خاطر یہ
خطابات شوری جلد اوّل ۲۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء طریق اختیار کیا گیا ہے تو خود بخود اس پر عمل کرنے لگ جائیں گے.خاص لوگ خاص قربانی کے لئے تیار ہوں پس ہم اپنی زندگی میں اس کام کو چلانے کے لئے ہر طرح تیار رہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اور یہ کوئی بڑی قربانی نہ ہوگی بلکہ ادنی ایمان کی علامت ہوگی.یہ زمانہ ایسا ہے کہ قومی قربانی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.یعنی جب تک ساری کی ساری قوم قربانی نہ کرے وہ ترقی نہیں کر سکتی اسی لئے سب کے لئے یکساں قربانی کا موقع رکھا گیا ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور جماعت کے سارے لوگ قربانی کے لئے تیار نہیں ہوتے تو پھر یہ سخت بے غیرتی ہے کہ خاص لوگ بھی خاص قربانی کے لئے تیار نہ ہوں اور اُس حد تک قربانی نہ کریں جو خود کشی کی حد نہ ہو اور خدا تعالیٰ نے جس حد سے روک دیا ہے کہ اس سے آگے نہ بڑھو.پس آج ان باتوں پر غور کرو اور سستی کو دور کر دو، غفلت چھوڑ دو اور ایک آنہ فی روپیہ ماہوار اور چالیس فیصدی سالانہ چندہ خاص ادا کرنے کے لئے ساری جماعت کو تیار کرو.اگر ساری جماعت اس کے لئے تیار نہیں ہوتی تو چھوڑ دو ایسے لوگوں کو اُن کی قسمت پر.جو اسلام کو خدا تعالیٰ کا سچا دین اور احمدیت کو سچا مذہب سمجھتا ہے وہ آگے بڑھے.ہم اپنے کھانے اور لباس کی معینہ حالت مقرر کر دیں گے اور باقی سب کچھ دین کے لئے دے دیں گے.جو لوگ دین کی ایسی حالت میں بھی اس قربانی کے لئے تیار نہ ہوں اُن میں ہم کمزوری سمجھیں گے مگر بے ایمان نہ کہیں گے اور ان کے لئے دعا کریں گے کہ خدا تعالیٰ ان کو بھی دین کے لئے قربانی کرنے کی توفیق دے.پس اب مخلصوں کو ایسے لوگوں کا زیادہ انتظار نہ کرنا چاہئے جو بار بار توجہ دلانے پر بھی سستی ترک نہیں کرتے اور دین کے لئے معمولی قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور مخلصین کو آگے آجانا چاہئے.جب خدا تعالی اسلام کو دنیا میں قائم کر دے گا تو وہ دن ہمارے لئے عید کا دن ہوگا اور جب تک یہ نہ ہو اُس وقت تک ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو قربان کر دیں.اپنے آپ کو مٹائے بغیر کامیابی ممکن نہیں.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے کام
خطابات شوری جلد اوّل ۲۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کریں اور خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ اپنے آپ کو مٹانے کے بغیر کامیابی نہیں حاصل ہو پہلے تو ضروری ہے کہ جتنا عام مطالبہ کیا جاتا ہے اُسے پورا کریں.اسی سے نہ صرف ہماری موجودہ ضرورتیں پوری ہو جائیں گی بلکہ ریز روفنڈ بھی قائم ہوسکتا ہے جو قحط کے ایام میں یا دوسری مشکلات کے وقت کام آ سکتا ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو جماعت کے مخلصوں کو کھڑا ہو جانا چاہئے تاکہ دین کی ہر طرح خدمت کریں اور اس کے لئے ہر ممکن قربانی دیں.“ رپورٹوں پر ریمارکس حضور کی اس مفضل تقریر کے بعد نارتوں کی سالانہ رپورٹیں سنائی گئیں.رپورٹیں سُنے کے بعد حضور نے فرمایا : - گو اس موقع پر میرے لئے پروگرام میں کوئی وقت نہیں رکھا گیا مگر میں سمجھتا ہوں جو رپورٹیں اس وقت پڑھی گئی ہیں.ان کے متعلق کچھ بیان کرنا میرے لئے ضروری ہے.آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہر سال شکایت کی جاتی تھی کہ رپورٹیں محنت سے تیار نہیں کی جاتیں اور ناظر اپنے کام کو اس طرح پیش نہیں کرتے کہ لوگ ان کے کام کی اہمیت کا اندازہ لگا سکیں لیکن نہایت خوشی کی بات ہے کہ اس سال کی رپورٹیں نہایت مکمل اور ایسی اعلیٰ لکھی اور عمدہ پیرایہ میں ترتیب دی گئی ہیں کہ کسی دُنیا کی بڑی سے بڑی گورنمنٹ کی طرف سے بھی انہیں پیش کیا جاتا تو قابل تعریف سمجھی جاتیں.ناظروں کے کام کی مشکلات رپورٹوں کوسن کر ناظروں کے کاموں کی مشکلات کے متعلق اگر درد نہ پیدا ہو اور ان کی مشکلات کے دور کرنے کا خیال نہ آئے تو ایسے طبقہ سے مایوس ہو کر اسے عضو معطل قرار دے کر خدا کے بھروسہ پر ناظروں کو کام کرنا چاہئے.نظارت امور عامہ کی رپورٹ لیکن ایک ایسا شخص جو رپورٹ لکھنے اور لیکچر دینے میں اعلیٰ پایہ رکھتا ہے اور وہ ناظر امور عامہ ہے اُس کی رپورٹ ایسی نہ تھی.مفتی صاحب تمام ناظروں میں سے اس بات میں بہتر سمجھے جاتے ہیں کہ وہ اس طرح لیکچر دیں کہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف پھیر لیں لیکن ان کی رپورٹ میں ایسے اُمور نہ تھے جو توجہ کھینچ سکتے.یہی وجہ ہے کہ اکثر حصہ نے بے توجہی سے سنی اور
خطابات شوری جلد اوّل ۲۳۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کوئی لذت محسوس نہ کی.جن امور کا بیان کرنا ضروری تھا وہ نظر انداز کر دیئے گئے.مثلاً انہوں نے بعض مثالیں اپنے کام کی ایسی بیان کیں کہ جن کے سُننے سے جماعت کو تسلی نہیں ہو سکتی.چنانچہ یہ کہ فلاں جگہ سے رپورٹ آئی کہ کچھ تکلیف ہے، اُس کے لئے کچھ کر دیا گیا.اس سے کسی کو کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ کیا تکلیف تھی اور اُسے دُور کرنے کے لئے کیا کیا گیا.کوئی خاص مظلومیت کا واقعہ ہوتا جو بیان کیا جاتا اور اس کے لئے جو کوشش کی گئی اُس کا ذکر ہوتا تو یہ دلچسپی سے سنا جاتا.بے تفصیل بیان کرنے سے بجائے اس کے کہ فائدہ ہو یہ اثر ہو سکتا ہے کہ کوئی مظالم ہی نہیں ہورہے.پھر بحیثیت ناظر امور عامہ اُنہیں چاہئے تھا کہ ہماری جماعت میں جس قسم کے اختلاف ہوتے ہیں ان کے مجموعے پر نظر ڈال کر یہ معلوم کرتے کہ کس قسم کی تکالیف لوگوں کو پیش آ رہی ہیں اور ان سے یہ اندازہ لگاتے کہ جماعت کا رحجان کدھر جا رہا ہے.پھر اس بات پر روشنی ڈالتے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ آیا تربیت میں نقص ہے یا ایسے حصوں کے لوگ جماعت میں داخل ہوتے ہیں جن کی تمدنی اور معاشرتی حالت کی وجہ سے ان میں نقائص پائے جاتے ہیں.پھر بتاتے کہ ان کی اصلاح میں کیا مشکلات پیش آتی ہیں.اس بارے میں جماعت کیا مدد کر سکتی ہے.اسی طرح بے کاروں کے متعلق یہ روشنی ڈالتے کہ ہماری جماعت میں نسبتاً زیادہ ہیں یا کم ، آجکل تمام جماعتوں میں بے کاری پھیلی ہوئی ہے اس لئے دیکھنا یہ ہے کہ ہماری جماعت میں نسبتاً کم ہے یا زیادہ.اگر کم ہے تو یہ خوشی کی بات ہے.اگر دوسروں جتنی ہی ہے تو نہ خوشی ہو سکتی ہے نہ غم.اور اگر زیادہ ہے تو یہ غم اور فکر کا مقام ہے کہ ہم اس پہلو سے گر رہے ہیں.پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ کون سے طبقہ میں بریکاری زیادہ ہے.اگر تعلیم یافتہ طبقہ میں پائی جاتی ہے تو بتایا جاتا کہ جماعت کے لوگوں کو ضروری پیشوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اگر پیشہ وروں میں بے کاری زیادہ ہے تو معلوم ہوتا کہ دوسروں سے تعلقات میں جو کشیدگی ہے اس کی وجہ سے پیشہ میں ترقی نہیں ہوتی.اسی طرح یہ بتایا جاتا کہ پیشہ وروں کی جماعت کس طرح مدد کر سکتی ہے اور بتایا جاتا کہ فلاں فلاں پیشہ ور اتنے بے کار ہیں.اگر اس قسم کی لسٹ سُنائی جاتی تو ممکن تھا کہ جماعتیں بتا سکتیں کہ ایک نجار یا ایک آہنگر یا ایک معمار کا کام ہمارے ہاں چل سکتا ہے.اس طرح بے کاروں کی مدد ہو سکتی.
خطابات شوری جلد اوّل ۲۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء اسی طرح یہ بتایا جاتا کہ رشتہ کی مشکلات کس علاقہ میں کس درجہ تک ہیں اور کس قوم میں زیادہ ہیں.پھر بتاتے کہ اگر قومیت کی وجہ سے ہیں تو یہ سوال پیش کیا جا تا کہ لڑکوں کی کمی کی وجہ سے مشکلات نہیں بلکہ اس جاہلانہ رسم کی وجہ سے ہیں جسے لوگ چھوڑنا نہیں چاہتے اور اگر تعلیم یافتہ طبقہ میں رشتوں کی مشکلات کا پتہ لگتا تو یہ سمجھا جاتا کہ لڑکے غیر احمدیوں کے ہاں شادیاں کر رہے ہیں.یہ وجہ بھی مشکلات کی ہے.میرے نزدیک مفتی صاحب جیسی قابلیت کے انسان کے لئے ضروری تھا کہ اپنی رپورٹ کو ایسا دلکش اور مفید بناتے کہ اس کے سننے سے جماعت کا وقت مفید طور پر خرچ ہوتا.میں امید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ اپنی رپورٹ کو مفید بنانے کی کوشش کریں گے اور خدا تعالیٰ نے ان میں جو جو ہر رکھا ہے اُس سے فائدہ اٹھائیں گے.اس کے بعد میں ناظر تجارت کے متعلق کچھ کہنا چاہتا نظارت تجارت کی رپورٹ ہوں.انہوں نے باوجود پہلے سال رپورٹ پیش کرنے کے اس رنگ میں پیش کی ہے جو دلچسپی رکھتی ہے.اور معلوم ہوتا ہے کہ روپیہ کس کام میں لگا ہوا ہے اور یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ روپیہ کی کس قدر دقت ہے.مثلاً ولایت کی تجارت پر روپیہ کم ہونے کی وجہ سے فائدہ نہیں ہوا کیونکہ لنڈن میں خرچ زیادہ ہوتا ہے اگر روپیہ زیادہ ہوتا تو فائدہ اُٹھایا جا سکتا تھا.غرض انہوں نے بہت دلچسپ بیان کیا ہے مگر ان سے ایک غلطی ہوئی ہے انہوں نے اپنی رپورٹ میں ایسی سکیم پیش کر دی ہے جو منظور شدہ نہیں ہے بلکہ صدرانجمن کی رائے کے خلاف ہے اور میری رائے کے بھی خلاف ہے.جب انہیں یہ معلوم تھا تو رپورٹ میں اسے نہیں پیش کرنا چاہئے تھا.وہ سکیم یہ ہے کہ جماعت کا روپیہ لے کر اوروں کو تجارت کے لئے دیا جائے.سٹور کے متعلق میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ سٹور میں کام کرنے والے میرے نزدیک دیانتدار ہیں مگر صرف یہ لکھنے پر ابھی تک میرے نام سٹور میں روپیہ داخل کرنے والوں کی چٹھیاں آرہی ہیں.کہ تم ہمارے روپے کے ذمہ وار ہو.میں اب بھی زید اور بکر کو دیانتدار ہی سمجھتا ہوں مگر اس وجہ سے دنیا کے کسی قانون کے رُو سے روپیہ کی ذمہ داری مجھ پر عائد نہیں ہو سکتی.ہوسکتا ہے کہ زید دیانت دار ہو مگر اسے کام کا تجربہ نہ ہو اور اس وجہ سے فائدہ نہ ہو اور اگر تجر بہ بھی ہو تو ایسی مشکلات پیش آجائیں
خطابات شوری جلد اوّل ۲۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کہ کام نہ کر سکے مگر باوجود اس کے سارا الزام مجھ پر عائد کیا گیا اور اس وجہ سے بعض لوگ مرتد ہو گئے ہیں.جن لوگوں کی تربیت کا یہ حال ہو اُن سے روپیہ لے کر کسی تجارتی کام پر لگانا کس قدر خطرناک نتائج پیدا کر سکتا ہے.یہ کہنا کہ جن لوگوں کو روپیہ دیا جائے گا وہ ہمارے مقرر کردہ رجسٹر پر حساب رکھیں گے، کچھ فائدہ نہیں دے سکتا.ٹیکس کے لئے رجسٹر مقرر ہیں مگر خیانت کرنے والے خیانت کر ہی لیتے ہیں.پھر دیانتداری ہر جگہ کامیاب نہیں ہوا کرتی ، نقصان بھی اُٹھانا پڑتا ہے.پس ہمارا دوسروں سے روپیہ لے کر تجارت کے لئے دینے کا یہ مطلب ہوگا کہ اگر نقصان ہوا تو اعتراض کرنے والوں میں اضافہ ہو جائے گا اِس وجہ سے ہم اس کام کو ہاتھ میں نہیں لے سکتے.اس کی بجائے اگر وہ یہ کرتے کہ بجائے روپیہ لے کر تجارت کے لئے دوسروں کو دیں اور بعض خرابیوں کا ہتھیار بن جائیں، وہ یہ کریں جو مہذب گورنمنٹیں کر رہی ہیں کہ تجارت کے متعلق اطلاعات بہم پہنچائیں.مثلاً یہ کہ کون کونسی تجارت کو فروغ ہو رہا ہے اور کس کو تنزّل.یہ باتیں مختلف ذرائع سے معلوم ہو سکتی ہیں.اگر ہمارا محکمہ تجارت اس طرح کرے یعنی تجارتی معلومات بہم پہنچائے اور پھر لوگوں سے کہے اطلاعات ہم بہم پہنچاتے ہیں تم تحقیقات کر کے روپیہ لگاؤ جس کے ذمہ دار تم خود ہو گے تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے.مثلاً بنگال میں بٹن اور سیاہی ، دیا سلائی اور صابن کی تجارت بہت ترقی کر رہی ہے اور باہر کی ان چیزوں کی تجارت ٹوٹ رہی ہے.یہاں سیاہی ایسی بنتی ہے کہ باہر سے کم آتی ہے.اسی طرح بٹن اتنے سستے بنتے ہیں کہ بیرونجات کی یہ تجارت ٹوٹ رہی ہے.صابن کی ۶۰ فیصدی تجارت بیرونی چھین لی گئی ہے.دیا سلائی کی بیرونی تجارت بھی ٹوٹ رہی ہے.اب ان کے متعلق معلومات بہم پہنچائی جائیں.پھر یہ بتانا چاہئے کہ کوئی کام ناواقفیت کی حالت میں نہیں کرنا چاہئے فلاں فلاں کارخانے سے یہ کام سیکھے جا سکتے ہیں.ان سے کام سیکھ کر کیا جائے یا خود لوگوں کو بھیج کر کام سکھلائیں.یہ ایسا کام ہے کہ اس طرح تھوڑے عرصہ میں جماعت میں تجارتی روح پیدا کر سکتے ہیں.اسی طرح تجارتی تعلیم اور تجارتی اصول سے جماعت کو واقف کرنے کی کوشش کی جائے.اسی طرح جو تجارتیں فروغ حاصل کر رہی ہیں اُن کے کارخانوں میں کام کرنے
خطابات شوری جلد اوّل ۲۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء سے بہت فائدہ حاصل ہو سکتا ہے.جماعت کے اکثر لوگ چونکہ تجارت سے ناواقف ہیں اس لئے وہ نہیں سمجھتے کہ تجارت کس طرح کرنی چاہئے.وہ کہتے ہیں جو دیانت دار ہے ضرور ہے کہ نفع بھی حاصل کرے مگر ہم جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ فلاں دیانتدار ہے.آگے ممکن ہے ہمارے اندازہ میں بھی ۶۰ فیصدی درست ہو اور ۴۰ فیصدی غلط.میرے نزدیک محکمہ تجارت کو ان امور کی طرف متوجہ ہونا چاہئے تا کہ عزت بھی محفوظ رہے اور جماعت میں تجارت کی طرف توجہ اور ہیجان زیادہ پیدا ہو.“ 66 سوالات و جوابات کے متعلق تقریر حضور کی اس تقریر کے بعد ممبران کو سوال کرنے کا موقع دیا گیا.جن کے متعلقہ ناظر صاحبان نے جواب دیئے.اس کے بعد حضور نے فرمایا:- ایک دوست نے اس وقت کچھ سوالات لکھ کر دیئے ہیں لیکن سوالات کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ قبل از وقت دفتر میں پہنچ جانے چاہئیں کیونکہ ناظروں کو اپنے دفتر کے ریکارڈ کا ہر حرف یاد نہیں ہوتا.تمام گورنمنٹوں اور مجالس میں یہی قاعدہ ہے کہ جو سوال پیش کرنا ہو اُسے دفتر میں بھجوا دیتے ہیں تا کہ متعلقہ صیغہ رجسٹروں کو دیکھ کر جواب تیار کرے.اس دفعہ ایک سے زیادہ بار اعلان کیا گیا تھا کہ جس نے کوئی سوال پوچھنا ہو وہ اطلاع دیں اس پر دو ہی اصحاب کی طرف سے اطلاع آئی.اب اِس وقت نئے سوال نہیں پیش ہو سکتے کیونکہ ممکن ہے ان کے جواب کے لئے ریکارڈ دیکھنے کی ضرورت ہو.اگر کوئی صاحب سوال پوچھنا چاہیں تو انگلی مجلس میں قبل از وقت اطلاع دینے پر جواب دیئے جا سکتے ہیں.میں اس وقت آخری سوال کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو شیخ یعقوب علی صاحب کے متعلق ہے.اس کا جو جواب دیا گیا ہے وہ گورنمنوں کے جواب کی طرح ہے جس سے شیخ صاحب پر بھی اعتراض پڑتا ہے.کسی شخص کو اس کام کے لئے لے جانا کہ وہ ریکارڈ تیار کرے اور اس کے لئے یہ خیال کر لینا کہ اس کے کھانے کی وجہ سے جو اُسے دورانِ سفر میں کھلایا گیا یا اس کرایہ کے بدلے جو ہم نے اپنے کام کے لئے اُسے دیا وہ چھ ماہ تک بیٹھا کام کرتا رہے درست نہیں ہے.جب تک ولایت سے واپس آنے کے بعد ان کا کچھ
خطابات شوری جلد اوّل ۲۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء مشاہرہ مقرر نہ کیا جاتا وہ کس طرح وقت دے سکتے تھے.اگر سو روپیہ ماہوار اس لئے دیتے کہ وہ سفر نامہ تیار کریں اور پھر وہ نہ کرتے تو قابل مواخذہ تھے.جب تک ان کا مشاہرہ نہیں مقرر کیا گیا وہ قابل مواخذہ نہیں ہیں کیونکہ صدر انجمن نے انہیں اس کام کے لئے مقرر نہیں کیا.اگر صدرانجمن مقرر کرتی اور پھر وہ نہ لکھتے تو زیر الزام تھے اور ان کے متعلق کارروائی کی جاسکتی تھی اس لئے یہ کہنا کہ جب وہ واپس آئیں گے تو کارروائی کی جائے گی یہ درست نہیں ہے.وہ صدر انجمن کے ملازم نہیں ہیں وہ اپنا کام کر کے روٹی پیدا کرتے ہیں.اس کام سے ہٹا کر ہم اُنہیں ساتھ لے گئے تھے اس کی اُن کو کوئی تنخواہ نہیں دی گئی.پھر یہ اُمید رکھنا کہ مفت کام کریں، یہ ایسا مطالبہ ہے جو عقل نہیں کیا جاسکتا اس لئے اس کام کے نہ ہونے کی ذمہ داری صدرانجمن پر ہے.اور سوال یوں کرنا چاہئے تھا کہ صدر انجمن جس نے پانچ چھ ہزار روپیہ ان کے بھیجنے پر صرف کیا تھا اُس نے پانچ چھ سو دے کر کیوں نہ اس کام کو مکمل کر لیا.چونکہ شیخ صاحب موجود نہیں ہیں اور ان کے متعلق غلط شبہ پیدا ہوسکتا تھا اس لئے میں اسے دُور کرنا چاہتا ہوں.اس سوال کا جُو و " ج" بھی جماعت کی کانسٹی ٹیوشن کے خلاف ہے.جماعت کے روپیہ کی آخری ذمہ داری خلیفہ پر پڑتی ہے اور وہی خدا کے آگے اس کا جواب دہ ہے اس لئے یہ کہنا کہ جماعت اس خرچ کو کیوں برداشت کرے، یہ غلط ہے.جماعت کا صرف اتنا کام ہے کہ دیکھے کوئی کام خراب تو نہیں ہو رہا.اگر کوئی خرابی ہو تو اس کے متعلق خلیفہ کو توجہ دلائے کہ آپ اس کے متعلق کارکنوں سے جواب طلب کریں.ایک تو اس سوال میں یہ غلطی ہے.دوسرے اس میں یہ مد نظر نہیں رکھا گیا کہ کام سپرد کرتے وقت یہ مد نظر ہوسکتا تھا کہ کام ہوگا یا نہیں.اُس وقت یہی سمجھا گیا ہوگا کہ آگے حالات کی وجہ سے نہ ہونے پر کام سپرد کرنے والے ذمہ دار نہیں ہو سکتے.مثلاً کسی کو کسی چیز کا اہل سمجھ کر وہ چیز اُسے دی جائے اور آگے اُس سے ٹوٹ جائے تو کیا ٹوٹنے کا ذمہ دار دینے والا بھی ہوگا ؟ ہرگز نہیں.اب دیکھنا یہ ہے کہ جو روپیہ ولایت کا سفر نامہ مرتب کرنے پر خرچ ہوا وہ کسی کو یوں ہی دے دیا گیا ہے یا کوئی اُٹھا کر لے گیا ہے.اگر ایسا ہوا ہے تو سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جنہوں نے دیا ہے اُن سے لینا چاہئے لیکن اگر نیک نیتی سے ایک کام پر لگایا گیا ہے اور آگے نتیجہ
خطابات شوری جلد اوّل ۲۳۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء حسب منشاء نہیں نکلا تو اس کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا.دیکھو اگر کسی کو مثلاً گھوڑا خریدنے کے لئے کچھ روپیہ دیا جائے اور گھوڑا خریدا جائے مگر وہ مر جائے تو کیا جماعت کہہ سکتی ہے کہ ہم یہ روپیہ نہیں دیتے.یہ سوال تو ہو سکتا ہے کہ گھوڑا کیوں خریدا گیا.آیا دیکھ بھال کر خریدا گیا یا نہیں؟ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ گھوڑا مر گیا ہے اس لئے روپیہ واپس ادا کر و.انجمن نے ایک آدمی کو اس لئے بھیجا کہ اس سفر کا ریکارڈ جمع کرے.یہ صحیح اور درست کام ہوا.اس طرح یہ روپیہ ضرورت اور مشورہ اور خواہش کے مطابق خرچ ہوا.آگے نتیجہ انجمن کی غلطی کی وجہ سے نہ نکلے تو اُس سے سوال کیا جاسکتا ہے نہ کہ جس پر روپیہ خرچ ہوا اُس سے.فرض کرو اگر ایسا آدمی فوت ہو جائے یا اُس کا حافظہ خراب ہو جائے تو کیا روپیہ کا مطالبہ اس سے کیا جائے گا ؟ اس موقع پر میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ کونسل میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے جو کچھ ہوتا ہے اِس کا اُنہوں نے یہاں غصہ نکالا ہے.ورنہ یہ نہیں کہ میری طرف سے کسی کو سوال کرنے سے روکا گیا ہے.کونسل میں ایسا ہی ہوتا ہے مگر یہاں ایسا نہیں کیا جاسکتا.یہ دراصل کونسل کا کھیل ہے جو اب کے میں بھی دیکھ آیا ہوں.وہاں ممبر جو سوال کرتے سرکاری ممبر اسی قسم کا جواب دے دیتے تھے چونکہ ہم نے اس بارے میں ابھی تک کوئی قوانین مقرر نہیں کئے اس لئے وہی کرنا پڑا جو گورنمنٹ کرتی ہے لیکن میں اس طریق کو نہ اپنے لئے پسند کرتا ہوں اور نہ گورنمنٹ کے لئے.کیونکہ بعض ضروری سوال پیدا ہو جاتے ہیں جن کے پوچھنے کا حق ہونا چاہئے.مگر فی الحال جب تک اپنے قواعد تجویز نہ ہوں انہی پر عمل کرنا پڑتا ہے.“ 66 دوسرا دن مشاورت کے دوسرے دن ۱۶/ اپریل ۱۹۲۷ء کو کانفرنس کا اجلاس تین بجے بعد دو پہر شروع ہوا تو حضور نے فرمایا :- وو چونکہ احباب جمع ہو گئے ہیں اس لئے دعا کے بعد مجلس کی کارروائی شروع کی جائے گی.سب دوست مل کر دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہماری آراء اور افعال کو اپنی منشاء کے ماتحت
خطابات شوری جلد اوّل ۲۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء بنائے.“ دعا کے بعد فرمایا : - اب باری باری سب کمیٹیوں کے سیکرٹریوں کو بلا یا جائے گا کہ وہ اپنی اپنی رپورٹیں پیش کریں.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اب کے پہلے طریق کے خلاف بولنے والوں کو کھلی اجازت نہ ہوگی کہ جو کھڑا ہو جائے اُسے بولنے کی اجازت دی جائے بلکہ جب کوئی تجویز پڑھی جائے گی اُس وقت جو دوست بولنے کے لئے کھڑے ہوں گے، اُن کو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نام لکھ کر باری باری بولنے کے لئے بلاتے جائیں گے.چونکہ چوہدری صاحب سب کے نام نہیں جانتے اس لئے جو دوست کھڑے ہوں وہ اپنا نام بتا دیں.دوستوں کو خیال رکھنا چاہئے کہ جب کوئی تجویز پیش ہو تو جو اُس کے متعلق کچھ کہنا چاہیں وہ اُسی وقت کھڑے ہو جائیں، بعد میں کھڑے ہونے والوں کو موقع نہیں دیا جائے گا.ایک صاحب نے تجویز پیش کی ہے کہ چوہدری صاحب میرے دائیں طرف نہ بیٹھیں.میں اُن کی اس بات کی حقیقت نہیں سمجھا.مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جب امام کھڑا ہو اور مقتدی ایک ہو تو اُسے امام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے.پس دنیا کا رواج خواہ کچھ ہو، شریعت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام جب کھڑا ہو اور مقتدی ایک ہو تو اُسے امام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے.اس سے استدلال کرتے ہوئے میں یہ اخذ کرتا ہوں کہ خلیفہ کے ساتھ اگر کسی اور کو کام کے لئے بیٹھنا پڑے تو وہ دائیں طرف بیٹھے.اب نظارت اعلیٰ اپنی رپورٹ پیش کرے حضور کے ان ابتدائی کلمات کے بعد سب کمیٹی نظارت اعلیٰ کی رپورٹ پیش ہوئی اور بحث کے بعد کمیٹی کی تجاویز کے بارہ میں فیصلے ہوئے.بعد ازاں حضور نے اپنی طرف سے ایک تجویز ممبران کے سامنے رکھتے ہوئے فرمایا :- اب مجلس کے سامنے وہ تجویز پیش ہوتی ہے جو دراصل میری نہیں مگر دوستوں کے کہنے پر مجھے پیش کرنی پڑی ہے اور ایجنڈا میں اس طرح درج ہے.مجھے بعض لوگوں نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس وقت تک خلفاء کا جو
خطابات شوری جلد اوّل ۲۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء طریق گزارہ کے متعلق رہا ہے وہ آئندہ خلفاء کے لئے تکلیف کا موجب ہوگا اور اُن کو اپنے گزارہ کے متعلق کوئی تحریک کرنی بھی مشکل ہو جائے گی اس لئے آپ خود گزارہ نہ لیں لیکن اس سوال کو پیش کر دیں تا کہ آئندہ اس سوال کا اُٹھنا کسی خلیفہ کی ہتک نہ سمجھا جائے.“ میں طبعا اس سوال کے اُٹھانے سے متنفر ہوں اور جہاں تک مجھ سے ہو سکے گا اور اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے گا اس کے بغیر ہی گزارہ کرنے کی کوشش کروں گا لیکن مذکورہ بالا امر میں مجھے بھی بہت حد تک سچائی نظر آتی ہے اور میں جانتا ہوں کہ اگر آج میری زندگی میں اس امر کا فیصلہ نہ ہوا تو بعد میں آنے والوں کو اس کی وجہ سے تکلیف ہوگی.میں نے دیکھا ہے کہ عام طور پر لوگوں میں احساس ہے کہ خلیفہ کو جو ہدایا ملتے ہیں وہ غالبا اُس کے گزارہ کے لئے کافی ہوتے ہیں.میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ اوسطاً ماہوار ایسے اخراجات ۱۵۰ سے ۲۵۰ روپیہ تک ہوتے ہیں اور ان میں لائبریری، امداد غرباء ( بعض ایسے غرباء بھی ہوتے ہیں جن کی مخفی طور پر اپنے پاس سے بھی مدد کرنی پڑتی ہے ) معاملات تمدنی ، دعوتوں اور کئی قسم کے اخراجات شامل ہیں.ستر ، اسی روپے ماہوار صرف لائبریری اور دفتر کا ہی خرچ ہوتا ہے.ہدایا کی تعداد عموماً اس رقم سے بھی کم ہوتی ہے.پس یہ رقم بلکہ اس سے بھی زیادہ تو انہی اخراجات میں خرچ ہو جاتی ہے جو جماعت کی غرض سے خلیفہ کی حیثیت میں خلیفہ کو کرنے پڑتے ہیں.میرے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض ایسی راہیں کھول دی تھیں کہ ان کے ذریعہ پہلے سات آٹھ سال خرچ چلتا رہا مگر اس کے بعد بعض اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے بعض راہیں بند ہو گئیں اور اُس وقت سے ہیں پچیس ہزار روپیہ مجھے قرض لینا پڑا.ان حالات میں میں سمجھتا ہوں کہ بعد کے خلفاء کو مشکلات پیش آسکتی ہیں.پس میں بھی اب یہ چاہتا ہوں کہ جماعت مناسب غور کے بعد ایک رقم بجٹ میں خلیفہ کے اخراجات کے لئے بھی مقرر کرے.میں انشاء اللہ اس رقم کو نہیں لوں گا.ہاں مجھے یہ فائدہ ہو جائے گا کہ بطور قرض مجھے صدرا مجمن احمدیہ سے ضرورت کے موقع پر جو رقم لینی پڑتی ہے وہ میں اس مد میں سے لے کر جب توفیق ہوا دا کر دیا کروں گا.اس رقم کے متعلق جو خلیفہ کے لئے مقرر کی جائے میں پسند کرتا ہوں کہ اس کے متعلق
خطابات شوری جلد اوّل ۲۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء یہ قاعدہ ہو جائے کہ ہر سات سال کے بعد اس پر بلا خلیفہ کی تحریک کے مزید غور ہو جایا کرے کیونکہ حالات کے ماتحت اس میں کمی بھی اور زیادتی بھی دونوں ہی کا سوال پیدا ہو سکتا ہے.۱۹۲۴ء کی مجلس مشاورت میں ایک فیصلہ کیا گیا تھا جو اُس سال کی رپورٹ کے صفحہ ۳۹ پر اس طرح درج ہے.ہر خلیفہ کے متعلق مجلس شوری فیصلہ کرے کہ اُس کو کس قدر رقم گزارے کے لئے ملے گی اور دوران خلافت میں بھی اگر حالات متقاضی ہوں تو مجلس شوری کے لئے ضروری ہوگا کہ اس رقم کو بڑھا دے.ضروری ہوگا کہ یہ رقم وقت کی ضروریات اور حالات کے مطابق ہو اور خلافت کے وقار کو اس میں مد نظر رکھا جائے.مجلس شوریٰ کو جائز نہ ہوگا کہ بعد میں کبھی اس رقم میں جو مقرر کر چکی ہے کمی کرے.اس مشورہ کے دوران میں خلیفہ وقت اس مجلس میں شریک نہیں ہوں گے.“ چونکہ اب جو تجویز پیش ہے اس میں کمی کا ذکر ہے جو پہلے فیصلہ کے خلاف ہے اس لئے اس حصہ کو منسوخ کرتا ہوں.باقی چونکہ یہ بھی فیصلہ ہو چکا ہے کہ اس مشورہ میں خلیفہ شریک نہ ہو اس لئے میں اب نواب صاحب کے ہاں جاتا ہوں.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب مجلس کا انتظام کریں گے.جب اس امر کے متعلق فیصلہ ہو جائے تو مجھے اطلاع دے دی جائے.“ حضور کے اس ارشاد کے مطابق محترم چوہدری صاحب کی صدارت میں مجلس کی کارروائی جاری رہی.فیصلہ ہوا کہ ۵۰۰ روپیہ ماہوار خلیفہ کے ذاتی اخراجات کے لئے اور ۱۵۰۰ روپیہ سالانہ سفر خرچ وغیرہ کے لئے بجٹ میں رکھے جائیں نیز یہ کہ ہر پانچ سال کے بعد اس تجویز پر غور ہوا کرے.غور کے وقت مقررہ رقم میں کمی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی.فیصلہ ہو جانے کے بعد اطلاع دیئے جانے پر حضور مجلس میں واپس تشریف لے آئے اور فرمایا:- یہ معاملہ جو مجلس کے سامنے پیش ہوا اس کے متعلق میری رائے یہی ہے کہ اس امر کے متعلق فیصلہ جماعت کو کرنا چاہئے.صحابہ کے زمانہ میں یہی طریق رہا ہے اور کوئی وجہ نہیں وو
خطابات شوری جلد اوّل ۲۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کہ اب اسے تبدیل کیا جاوے.یہ سوال کہ خلیفہ کو اس بارے میں اختیار ہے پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ کو اختیارات دیئے جاتے ہیں وہاں حد بندی بھی کی جاتی ہے اور ان حد بندیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس معاملہ کو جماعت پر چھوڑا گیا ہے اور جماعت کے فیصلہ کو مقدم رکھا گیا ہے.یہی وجہ ہے کہ میں نے ۱۹۲۴ء میں اس بارے میں جو فیصلہ کیا تھا اُس میں بیان کر دیا تھا کہ اس کا فیصلہ مجلس شوری کرے.اس معاملہ میں شوریٰ کا اختیار مشورہ دینے کا نہیں بلکہ خود فیصلہ کرنے کا ہے.میں نے بتایا تھا کہ ۱۹۲۳ء تک قرضہ کے طور پر بھی بیت المال سے کوئی رقم لینے کی مجھے ضرورت پیش نہ آئی تھی ممکن ہے کبھی کوئی قلیل رقم لی ہو.بہت سے اخراجات سلسلہ کے متعلق ایسے تھے کہ وہ بھی میں اپنے پاس سے کرتا رہا مگر بعض حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ مجھے قرضہ لینا پڑا.اس قرضہ کو لئے تین سال ہو گئے ہیں.اس میں سے بعض رقوم ادا بھی کی گئیں مگر بیشتر حصہ ایسا ہے کہ جو ابھی ادا نہیں کر سکا گو میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ میرے قرضہ کی ذمہ دار میری جائداد ہے مگر میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی زندگی میں ہی قرض ادا کرنے کی توفیق دے گا لیکن جیسا کہ کہا گیا ہے ہو سکتا ہے کہ کسی خلیفہ کو اخراجات کی ضرورت پیش آئے اس لئے کوئی انتظام ہونا ضروری ہے.حضرت خلیفہ اول کے پاس تو ایک ایسا فن تھا جس کی وجہ سے آمد ہو جاتی تھی.اسی طرح مجھے بھی پہلے سالوں میں معقول رقم خاص ذرائع سے مل جاتی تھی مگر یہ طریق ہمیشہ کے لئے نہیں چل سکتا.اب چوہدری صاحب کا بیان ہے کہ ۵۰۰ روپیہ ماہوار خلیفہ کے ذاتی اخراجات کے لئے اور ۱۵۰۰ سالا نہ سفر خرچ کے لئے مجلس نے تجویز کیا ہے اور پانچ سال کا عرصہ اس پر دوبارہ غور کرنے کے لئے مقرر ہوا ہے.میری اپنی تجویز سات سالہ تھی.اگر اس دوران میں کوئی وجہ خاص پیش آ جائے تو دوسرے اسے پیش کر سکتے ہیں.اگر ہر سال اس پر غور کیا جاوے تو یہ مشغلہ ہی بن جائے.اس بحث کو اُٹھانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سوال کیا جاتا تھا کہ خلیفہ اسیح شادیاں کرتے جاتے ہیں اور اس طرح جماعت پر بوجھ پڑتا ہے.اس پر مجھے تعجب ہوا کہ ان لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ کام کس طرح چلتا ہے.آج تک کے بجٹ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ میرا کوئی بوجھ انجمن پر نہیں.یہ بوجھ مجھ پر یا اُن عورتوں پر ہے جن سے میں نے نکاح
خطابات شوری جلد اوّل ۲۴۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کیا.اگر ۱۹۲۳ء میں مجھ سے ایک غلطی نہ ہو جاتی تو سمجھتا ہوں مجھے قرض لینے کی بھی 66 ضرورت نہ پیش آتی.“ رشتہ ناطہ سے متعلق تجویز سب کمیٹی نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے تجویز کہ گو مسئلہ کے طور پر جائز ہے اور جائز رہے گا لیکن جب تک موجودہ وقتیں ہیں یہ ہدایت جاری کی جاوے کہ کوئی احمدی کسی غیر احمدی لڑکی یا عورت کے ساتھ شادی نہ کرے.“ پر مختلف نمائندگان کی بحث اور رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا :- فیصلہ چونکہ رشتہ ناطہ کے متعلق سب سے زیادہ وقت مجھے پیش آتی ہے کیونکہ لڑکیوں والے مجھے کہتے ہیں رشتہ تلاش کر کے دو اس لئے میں بڑی خوشی سے اس تجویز کی تصدیق کرتا ہوں.جس کے متعلق اس وقت اس کثرت سے ووٹ دیئے گئے ہیں بعض جگہ رشتہ کی وجہ سے بہت دقت اور ابتلاء پیش آجاتا ہے.ہمارا یہاں ریزولیوشن پاس کر دیتا جذبات انسانی پر اثر نہیں ڈال سکتا.قدرت نے مرد وعورت میں یہ بات پیدا کی ہے کہ ایک وقت پر پہنچ کر شادی کی ضرورت پیش آتی ہے.اس وقت اگر جائز طور پر اس ضرورت کو پورا نہ کیا جاوے تو نا جائز خطرہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے.جس کے ہاں جوان لڑکی بیٹھی ہو وہ ہر وقت ڈرتا رہتا ہے کہ عزت خطرہ میں نہ پڑے.بے شک احمدی لڑکوں کو غیر احمدی لڑکیاں مل سکتی ہیں اور سینکڑوں ہزاروں مل سکتی ہیں جو ممکن ہے احمدی بھی ہو جائیں مگر ایک احمدی لڑکی کا مرتد ہو جانا دس ہزار غیر احمدی لڑکیوں کے احمدی ہونے سے بھی بُرا ہے.حاصل شدہ چیز کا چھوڑنا بے غیرتی ہے.پس موجودہ حالت میں ضروری ہے کہ ہم غیر احمدی لڑکیاں نہ لیں.سید غلام حسین صاحب نے گو ایک سخت لفظ بولا ہے جس پر ممکن ہے عورتوں میں شور پڑے لیکن میں اسی کو استعمال کرتا ہوں اور وہ یہ کہ جب تک موجودہ سٹور ختم نہ ہو جائے اس وقت تک اس قانون کو جاری رکھنا چاہئے.ہمارے لئے غیر احمدیوں سے تعلقات پیدا کرنا ضروری ہے اگر ہمارے ان سے تعلق نہ ہوں تو وہ سمجھتے ہیں نہ معلوم ہم کیا ہو گئے ہیں ہم نے نیا کلمہ اور نیا قرآن بنالیا ہے مگر اس وقت ہمیں جو مشکل پیش ہے اسے دیکھنا ہے
خطابات شوری جلد اوّل ۲۴۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء ہم کسی کی ہتک نہیں کر رہے نہ کسی کی ذلت کرتے ہیں.ہم اپنی مشکلات کو دیکھ کر تجو یز پاس کر رہے ہیں.اس کے لئے میں تین سال کی مدت مقرر کرتا ہوں اس کے بعد پھر اس پر غور کر لیں گے اگر اس وقت تک آسانی پیدا ہو گئی تو ہم اس قانون کو بدل دیں گے.اب ایک سوال رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ جہاں منگنی ہو چکی ہو وہاں کیا کرنا چاہئے اس کے متعلق دیکھنا چاہئے کہ ایک تو وہ منگنی ہوتی ہے جو عورتیں آپس میں بیٹھ کر یونہی کر لیتی ہیں مگر بعض جگہ بات اس طرح پختہ ہو چکی ہوتی ہے کہ اگر اسے توڑا جائے تو خاندان پر تباہی آ جاتی ہے جہاں ایسی صورت پیش آنے کا خطرہ ہو وہاں کے معاملہ کو مرکز میں پیش کرنا چاہئے اور مرکز کو غور کر کے ایسی جگہ اجازت دے دینی چاہئے اگر معمولی بات ہو تو اجازت نہیں دینی چاہئے.“ داڑھی رکھنے کے متعلق ایک تجویز "سب کمیٹی نظارت تعلیم و تربیت کی طرف پیش ہوئی.اس بارہ میں حضور نے فرمایا: - وو سے داڑھی رکھنے کے بارہ میں ایک تجویز سب دوست متفق ہیں کہ صرف داڑھی رکھنے کے سوال کو لیا جائے میں بھی یہی فیصلہ کرتا ہوں.“ سب کمیٹی کی دوسری شق کے متعلق فرمایا.”میرے نزدیک سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ داڑھی رکھنے کی اہمیت کو لوگوں کے ذہن نشین کرایا جاوے.جماعت میں ایسے لوگ ہیں جو بہت مخلص ہیں لیکن پھر بھی داڑھی منڈوانے کے مرتکب ہوتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے نہیں یہ ضروری امر ہے وہ اس لئے داڑھی منڈواتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اخلاص اور دینداری میں داڑھی رکھنا داخل ہی نہیں اس لئے پہلے نظارت کو چاہئے کہ ٹریکٹ شائع کر کے ان میں یہ بحث کرے کہ داڑھی ضروری ہے.جب تک ایسے ٹریکٹ شائع نہ کئے جائیں تعزیر مناسب نہیں ہے.میں امید کرتا ہوں کہ نظارت تعلیم و تربیت ایسے ٹریکٹ شائع کر کے لوگوں کو بتائے گی کہ داڑھی رکھنا شرعی مسئلہ ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کا اخلاص اس درجہ تک پہنچا ہوا ہے کہ اگر کسی
خطابات شوری جلد اوّل ۲۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء بات کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل اور شریعت کا حکم ثابت کر دیا جائے تو وہ ضرور اس پر عمل کریں گے.ایک دفعہ ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کیا داڑھی رکھنے میں ایمان ہے؟ میں نے کہا نہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل میں ایمان ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل تھا کہ آپ داڑھی رکھتے تھے.تو اس بارے میں ٹریکٹ شائع کرنے چاہئیں.لیکن اس وقت سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں جب کہ کوئی احمدی داڑھی نہ رکھے، کیا کرنا چاہیے ؟ سب کمیٹی نے جو تجویز پیش کی ہے اس کے متعلق جو دوست مخالف یا موافق بولنا چاہیں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ایک شخص کے سوال پر کہ داڑھی کتنی لمبی ہونی چاہئے ؟ حضور نے فرمایا: - یہ چونکہ شرعی مسئلہ ہے اس لئے سب کمیٹی کا حق نہیں کہ کوئی حد مقرر کرے.اصل بات یہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک قانون بتایا ہے اور وہ یہ کہ سنت رسول سے مراد وہ اعمال ہیں جو آپ نے خود کئے اور دوسروں کو ان کے کرنے کی تحریک فرمائی.پس سنت کے یہ معنی نہیں کہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا وہ سنت ہے بلکہ یہ ہے کہ جو کام آپ نے خود کیا اور جس کے کرنے کی دوسروں کو تحریک کی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق یہ تو ثابت ہے کہ آپ نے داڑھی رکھی اور یہ بھی ثابت ہے کہ دوسروں سے کہا رکھو.مگر یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا اتنی لمبی داڑھی رکھو.تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ بعض صحابہ کی داڑھی چھوٹی تھی.چنانچہ حضرت علی کی چھوٹی داڑھی ہی تھی اور مؤرخوں کی رائے ہے کہ عام طور پر صحابہ کی چھوٹی داڑھی تھی.مظہر جانِ جاناں کے متعلق بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی داڑھی مختصر تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق تو یاد نہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق معلوم ہے کہ آپ تزئین کراتے اور داڑھی کے بال بھی تر شواتے تھے.میں بھی ہمیشہ اسی طرح کراتا ہوں.اس وقت میری جتنی داڑھی ہے اگر میں اسے بڑھنے دوں تو اور زیادہ لمبی ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہفتہ وار داڑھی کے بال کتراتے جو کئی آدمیوں نے بطور ترک رکھے ہوئے ہیں.میرے پاس بھی ایک شیشی میں تھے جو کسی نے تبرک سمجھ
خطابات شوری جلد اوّل ۲۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کر اُٹھالی.ایک دفعہ میں نے طالب علموں کو کہا کہ داڑھی نہ منڈ وایا کرو.تو انہوں نے اُسترے سے منڈوانی چھوڑ دی.لیکن اُسترے سے بھی نیچے کسی طرح قیچی پہنچا کر منڈا دی جاتی اور جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا مُنڈائی نہیں کترائی ہے.بات یہ ہے داڑھی ہونی چاہئے آگے خواہ وہ چاول کے دانہ کے برابر ہو چاہے لمبی ہو پھر چاہے کوئی فیشن ہو.جب صحابہ میں ایسے تھے جن کی چھوٹی داڑھی تھی تو کسی کی لمبی داڑھی دیکھ کر کہنا کہ اتنی ہونی چاہئے یہ شریعت سے معلوم نہیں ہوتا.ہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لمبی داڑھی تھی.اگر کوئی لمبی داڑھی رکھتا ہے تو وہ اس بارے میں بھی آپ سے محبت کا ثبوت دیتا ہے.پس چاہے داڑھی ایک جو کے برابر ہو یا دو جو کے، چاہے بالشت کے برابر ہو یہ اپنے اپنے مذاق پر منحصر ہے.کسی کو اس میں دخل دینے کا اختیار نہیں ہے.اگر کوئی دخل دیتا ہے تو وہ شریعت میں دخل انداز ہوتا ہے.بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے داڑھی بڑھاؤ.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ خوب تیل لگا لگا کر بڑھاتے چلے جاؤ.یہ آپ نے یہود کے مقابلہ میں فرمایا جو بالکل داڑھی منڈاتے تھے پس اس کا یہ مطلب نہیں کہ خوب مالش کر کر کے داڑھی کو اتنا بڑھاؤ کہ جھاڑو دینے لگ جائے.“ اس موقع پر چند ممبران نے اپنی آراء پیش کیں.اس پر حضور نے فرمایا : - ”داڑھی نہ رکھنے والے کی سزا کی مثال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت کی اس لئے نہیں دی جاسکتی کہ اُس وقت کسی نے داڑھی منڈائی نہیں اور جب یہ صورت ہے تو سزا کی مثال کہاں سے لائیں.باقی یہ کہ تہجد نہ پڑھنے والوں کے لئے بھی سزا مقرر کی جائے اس کے لئے یا درکھنا چاہئے کہ تہجد کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم نہیں دیا مگر داڑھی رکھنے کے متعلق حکم ہے.شریعت کی دو قسم کی سزائیں ہیں ایک تو تعزیر ہے اور ایک قومی اخلاق بگاڑنے والوں کے لئے ہے.ایسی سزائیں حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی نے دی ہیں اور داڑھی نہ رکھنے والوں کے لئے ایسی ہی سزا ہے.اس لئے اس کے متعلق مشورہ لیا جا رہا ہے اگر شریعت میں ایسے لوگوں کے لئے سزا مقرر ہوتی تو پھر مشورہ
خطابات شوری جلد اوّل کی ضرورت نہ تھی.۲۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء اس مسئلہ پر چند ممبران نے پھر اظہار خیال کیا تو حضور نے فرمایا : - یہ مسئلہ بہت دلچسپ بن گیا ہے اور شاید یہ ہمیشہ ہی دلچسپ رہا ہو.ایک دوست تو یہ کہتے ہیں کہ ملا ازم والے قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور ادھر علماء میں سخت بے چینی پیدا ہو رہی ہے اور رقعہ پر رقعہ آ رہا ہے کہ داڑھی کو بڑھنے دیا جائے.دراصل اس وقت داڑھی کے بڑھنے گھٹنے کا سوال نہیں پیش ہو سکتا.سوال منڈوانے کے متعلق ہے کہ منڈوانے والوں کے لئے کیا وہ تجویز رکھی جائے جو سب کمیٹی نے تجویز کی ہے.“ اب اس کے متعلق کافی بحث ہو چکی ہے جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ داڑھی منڈوانے والوں کو مجلس مشاورت کے لئے حق نمائندگی نہ دیا جائے ، وہ کھڑے ہو جائیں.و بھی اس کی تائید میں بکثرت احباب کھڑے ہو گئے اس لئے کٹنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی.(۲).جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ داڑھی منڈوانے والوں کو کوئی مرکزی یا مقامی عہدہ نہ دیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.بہت بڑی کثرت کی وجہ سے ان کو بھی شمار نہ کیا گیا.(۳).وہ دوست جو اس بات کی تائید میں ہوں کہ داڑھی منڈوانے والوں کو حق وصیت سے محروم کیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.۸۴.احباب اس کی تائید میں کھڑے ہوئے اور ۹۵ محروم نہ کرنے کی تائید میں کھڑے ہوئے.) فیصلہ گویا مجلس شوریٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ دوسزائیں تو دی جائیں مگر وصیت کا حق ملنا چاہئے.ان دوسزاؤں سے میں بھی متفق ہوں کہ ان پر عمل شروع کر دیا جائے اور تیسری کو فی الحال پیچھے ڈال دیتا ہوں.گو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی اگر کسی کو سزا کے طور پر محروم کرنا چاہئے تو اعلیٰ چیز سے کرنا چاہئے نہ کہ اعلیٰ کی اجازت دے کر ادنیٰ سے محروم کیا جائے.یہ تو ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی کے متعلق کہا جائے اسے فلاں جرم کی وجہ سے
خطابات شوری جلد اوّل ۲۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء ڈیوڑھی میں آنے سے روکا جاتا ہے مگر دربار میں وہ آ جائے.اس وقت مشورہ یہ دیا گیا ہے کہ ایک مجرم کی وجہ سے معمولی حق سے روک دیا جائے مگر بڑا اور اہم حق دے دیا جائے مگر یہ طریق پسندیدہ نہیں ہے.میرے نزدیک ابھی اس کمزوری کی وجہ سے کسی سزا کی بھی ضرورت نہیں ہے.ہماری جماعت کے لوگوں میں خدا کے فضل سے اخلاص ہے.میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر ان کو سمجھایا جائے اور بار بار سمجھایا جائے.خطبوں میں داڑھی رکھنے کی اہمیت بیان کی جائے.مضامین میں لکھی جائے تو وہ خود بخود اس پر عمل کرنا شروع کر دیں گے.اس وقت ایک دوست یہاں بیٹھے ہیں جنہوں نے بتایا کہ ان کے پاس الفضل آتا ہے مگر وہ صرف میری خیر و عافیت کی خبر پڑھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں باقی پڑھنے کی فرصت نہیں ہوتی تو لوگوں کو نا واقفیت بھی ہے اس لئے کم از کم ایک شرط لگا تا ہوں.دوستوں نے اس وقت جو مشورہ دیا ہے اسے منظور تو کر لیا ہے کیونکہ میں داڑھی رکھنا ضروری سمجھتا ہوں.ظاہری باتوں کا اخلاق پر بڑا اثر پڑتا ہے.ایک شخص جو رات کو چُھپ کر چوری کرتا ہے اس کے اس فعل کا دوسرے پر اتنا بُرا اثر نہیں پڑتا جتنا ایک چھوٹی بُرائی کا جو علی الاعلان کی جائے پڑتا ہے.تو میں اس تجویز کو منظور کرتا ہوں مگر اس کا نفاذ آج سے ایک سال کے بعد ہونا چاہئے اور اس عرصہ میں لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ظاہری باتوں کا کس قدر بُرا اثر پڑتا ہے اور داڑھی رکھنا ظاہری باتوں میں سے ایک ضروری بات ہے.پس صیغہ تعلیم و تربیت دلائل سے سمجھا کر لوگوں کو داڑھی رکھنے کا قائل کرے.“ تیسرا دن پنجاب اور بنگال کی اچھوت اقوام میں تبلیغ پنجاب اور بنگال کی انکھوت اقوام میں تبلیغ کے بارہ میں سب کمیٹی نظارت دعوۃ و تبلیغ کی رپورٹ مجلس مشاورت میں پیش ہوئی.اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: - اس کام پر اس وقت دو ہزار سے کم خرچ نہیں ہوگا.پانچ سو روپیہ بنگال کے لئے رکھا جائے وہاں کم از کم دو آدمی بھیجنے ہوں گے اور ڈیڑھ ہزار پنجاب کے لئے.اس طرح
خطابات شوری جلد اوّل ۲۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء موجودہ بجٹ میں دو ہزار کی زیادتی ہوگی مگر بجٹ ایسا ہے کہ باوجود بعض صیغوں کے اُڑانے کے اگلے سال کی آمد کو مدنظر رکھتے ہوئے تیس ہزار قرض ہو جائے گا.احباب اس بات کو مد نظر رکھیں مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی مدنظر رہے کہ اس وقت حالت ایسی ہے کہ اگر اچھوت اقوام میں تبلیغ نہ شروع کی گئی تو ہماری گزشتہ ۳۵ سال کی محنت اور کم از کم گزشتہ پانچ سال کی شہرت جو ملکانوں میں تبلیغی کام کرنے کی وجہ سے ہماری جماعت کو حاصل ہو چکی ہے، اُسے سخت نقصان پہنچے گا.پنجاب تو الگ رہا بنگال میں بھی بڑے بڑے آدمی سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی جماعت تبلیغ کا کام کر سکتی ہے تو احمدی جماعت ہی ہے.سب سے بڑی مذہبی جنگ جو ہو رہی ہے وہ ان دنوں ہو رہی ہے کہ سینکڑوں آدمی مذہب بدل رہے ہیں.اس جنگ میں لوگوں کے قلوب اس طرح ہل جائیں گے جس کا اندازہ نہیں ہوسکتا اس لئے اس وقت اگر ہم بیٹھے رہے تو ہمارا گزشتہ ۳۵ سالہ تبلیغ کا کام خاک میں مل جائے گا اور نہ صرف ہندوستان کا بلکہ ہندوستان سے باہر کا بھی کوئی شریف آدمی ہماری شکل دیکھنے کا روادار نہ ہوگا اگر ہم نے اس جنگ میں حصہ نہ لیا.ادھر تو یہ حالت ہے اور اُدھر بجٹ کو دیکھ لیا جائے کہ اس میں پہلے ہی کس قدر کمی کی گئی ہے.یہ حالت جماعت کی نستی کی وجہ سے ہے.اگر صرف وہ احمدی جو انجمنوں کے ممبر ہیں ایک آنہ فی روپیہ چندہ با قاعدہ دیتے تو موجودہ بجٹ چالیس فیصدی چندہ خاص کے بغیر بھی چل سکتا تھا اور ہم ایسے طور پر کام کر سکتے تھے کہ ساری دنیا کی نظریں صرف جماعت احمدیہ پر ہی آکر پڑتیں مگر کرنے اور کہنے میں بڑا فرق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یکی اور چو ہوں کی ایک مثال بیان فرمایا کرتے تھے.فرماتے.چوہوں نے ایک دفعہ ہی سے تنگ آ کر اُس کے مارنے کا مشورہ کیا اور تجویز یہ ہوئی کہ بہت سے چو ہے مل کر اس پر حملہ کریں کسی نے کہا میں اس کا ایک کان پکڑ لوں گا، کسی نے کہا میں اس کا دوسرا کان پکڑ لوں گا، کسی نے کہا میں اُس کی ایک ٹانگ پکڑ لوں گا ، کسی نے کہا میں اُس کی دم پکڑ لوں گا اِس طرح ہر ایک نے ایک ایک حصہ جسم پکڑ لینے پر آمادگی ظاہر کی.یہ سب باتیں ایک بوڑھا چوہا خاموش بیٹھا سنتا رہا.جب سب باتیں کر چکے تو اُس نے کہا ہر ایک نے بلی کا کوئی نہ کوئی حصہ پکڑ لینے کا اقرار کیا ہے مگر یہ تو بتاؤ کہ اس کی میاؤں کون پکڑے گا.اتنے میں بلی آگئی اور اُس نے میاؤں کی جسے سُن کر سب
خطابات شوری جلد اوّل ۲۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء چو ہے بھاگے اور اپنے پلوں میں جا گھسے.اگر ہمارے ریزولیوشنز اور تجویز میں بھی اُن چوہوں کی طرح ہوں تو کچھ نہیں ہو سکتا.جب قربانی کا وقت آئے اور اس کے لئے مطالبہ کیا جائے جسے پورا نہ کیا جائے تو کچھ نہیں ہو سکتا.سُنا ہے ریاستوں میں تو سال سال دو دو سال تنخواہ نہ ملے تو بھی کام چل جاتا ہے.مگر وہاں مجسٹریٹ رشوتیں لے لے کر گزارہ کر لیتے ہیں اور سُنا ہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ سپاہی رات کو پہرہ دیتے ہیں اور دن کو بھیک مانگتے ہیں.ہمارے حافظ روشن علی صاحب سناتے ہیں کہ ایک جگہ ایک شخص کو جو ریاست کا ملازم تھا بھیک مانگتے دیکھا تو پوچھا تم ملازم ہو کر بھیک کیوں مانگتے ہو؟ اُس نے کہا تنخواہ نہیں ملتی تو گزارہ کس طرح کریں.اسے کہا گیا پھر ملازمت چھوڑ کر کوئی اور کام کیوں نہیں کر لیتے ؟ کہنے لگا استعفا بھی تو منظور نہیں ہوتا.ہماری جماعت میں سستی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جماعت کا بیشتر حصہ یہ خیال کرتا ہے کہ خلیفہ کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہے اور اگر کام نہ ہوا تو وہی پکڑا جائے گا ہم ذمہ دار نہیں ہیں حالانکہ سلسلہ کا ہر فرد ذمہ دار ہے.جب خدا نخواستہ کام بگڑا تو ہر ایک پکڑا جائے گا اسی طرح دنیا میں جو بدنامی ہوگی وہ بھی کسی خاص شخص کی نہیں ہوگی بلکہ ساری جماعت کی ہوگی اور ساری جماعت کو کہا جائے گا کہ تمہارا ساری دنیا کو فتح کرنے کا دعویٰ تو الگ رہا تم تو اپنے گھر کو بھی نہ سنبھال سکے.اگر جماعت کا ہر ایک فرد سمجھ لے کہ سلسلہ کا کام کرنے کی میری ذمہ داری ہے اور میں نے بہر حال کام کرنا ہے تو دقت بہت جلدی دور ہو جاتی ہے.اب جب کہا جاتا ہے کہ فلاں جماعت سست ہوگئی ہے تو کہتے ہیں فلاں سیکرٹری سست ہے اس لئے کام میں سستی واقع ہو گئی ہے مگر جو لوگ سکرٹری کوئست کہتے ہیں وہ خود کام کیوں نہیں کرتے اور وہ خود کیوں اپنے آپ کو کام کا ذمہ دار نہیں سمجھتے.میں ذرا اُس شخص کی شکل دیکھنا چاہتا ہوں جس کا بیٹا بیمار ہو اور وہ اس لئے بیٹھا رہے کہ اس کا علاج کرنے کے لئے فلاں آدمی مقرر ہے مجھے کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے.اگر کوئی شخص اس بات کے لئے تیار نہیں تو بتاؤ وہ دین جس کے لئے ہزار اکلوتے بیٹے قربان کرتے ہوئے بھی اتنی پرواہ نہیں ہونی چاہئے جتنی جوتی کی میل کی ہو سکتی ہے، اُس کے لئے یہ جواب کہاں تک جائز ہوسکتا ہے کہ فلاں کے ذمہ کام تھا اُس نے سُستی کی ہے ہم کیا کریں.
خطابات شوری جلد اوّل ۲۴۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء دوسری چیز جس کا جماعت کو احساس نہیں اور دقتیں پیش آتی ہیں وہ یہ ہے کہ جماعت کے لوگ اس بات کو سمجھتے نہیں کہ دین کے لئے مالی قربانی اسی صورت میں کی جاسکتی ہے کہ یا تو ان کی اپنی آمدنی بڑھے یا وہ اپنے خرچ کم کر دیں.اب ایسے لوگ ہیں جو چندہ تو دے دیتے ہیں لیکن اپنے خرچ کم نہیں کرتے ، اس طرح قرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اگر ہر یہ سمجھے کہ میں جس قدر چندہ دیتا ہوں اُسی قدر اپنے لباس، اپنے کھانے اور دوسری ضروریات میں خرچ بھی کم کروں گا تو اس طرح ایک تو اُس میں قربانی کرنے کا زیادہ مادہ پیدا ہو اور دوسرے اپنے اخراجات میں اُسے تنگی نہ پیش آئے.مگر وہ اس بات کو محسوس نہیں کرتے اس لئے انہیں مشکلات پیش آتی ہیں اور آئندہ قربانی کرنے میں سُست ہو جاتے ہیں.میرے نزدیک اگر کام کرنا ہے اور اگر کے مخاطب صرف وہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں کمزوری اور سستی ہے ورنہ ایک مخلص مسلمان سے خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے متعلق یہ پوچھنا کہ وہ کام کرنا چاہتا ہے یا نہیں یہ اُس کی ہتک ہے.وہ یہ تو گوارا کر لے گا کہ اُسے سر بازار پیٹا جائے مگر یہ برداشت نہیں کرے گا کہ اُسے کہا جائے کہ وہ دین کی خدمت نہیں کرے گا.پس اگر کام کرنا ہے اور اسلام کو اُس شان میں قائم کرنا ہے جس میں وہ پہلے تھا بلکہ اس سے بڑھ کر تو ضروری ہے کہ ہر ایک احمدی محسوس کرے کہ وہ ذمہ دار ہے اور اس کام کے لئے وہ حاضر ہے جو وکالتا نہیں بلکہ اصالتا کرنی پڑتی ہے اور جس قدر کوئی قربانی کرے اُسی کے مطابق اپنی زندگی بھی بدلتا جائے اس طرح اگر کام کیا جائے تو جماعت کے رجسٹر ڈ آدمی ہی نہ صرف بجٹ کو پورا کر سکتے ہیں بلکہ اور بھی بہت سی خدمات کر سکتے ہیں.میں اس موقع پر یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر مختلف مذاہب کے اخبارات کو پڑھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ آج سے دس سال کے اندر اندر ہندوستان میں اس بات کا فیصلہ ہو جانے والا ہے کہ کون سی قوم زندہ رہے اور کس کا نام ونشان مٹ جائے.حالات اس سرعت اور تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں کہ جو قوم یہ سمجھے کہ آج سے ۲۰، ۲۵ سال بعد کام کرنے کے لئے تیار ہوگی وہ زندہ نہیں رہ سکے گی اور جو قوم یہ خیال رکھتی ہے وہ اپنی قبر آپ کھودتی ہے.اگر دس سال کے اندر اندر ہماری جماعت نے فتح نہ پائی اور وہ تمام
خطابات شوری جلد اوّل ۲۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء را ہیں جو ارتداد کی ہیں بند کر کے وہ تمام دروازے جو اسلام قبول کرنے کے ہیں کھول نہ دیئے تو ہماری جماعت کی زندگی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.یاد رکھو کبھی کسی قوم کی مدت خواہ وہ کتنے بڑے نبی سے وابستہ ہو غیر منتہی زمانہ تک نہیں چلتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو عملی قوت مسلمانوں میں پیدا کی وہ کچھ عرصہ تک چل کر رُک گئی.یہی حال ہمارا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو احساس اور در دگری ہوئی اور ظلمت میں پڑی ہوئی دنیا کو اُٹھانے کے لئے ہم میں پیدا کیا ہے وہ ایک عرصہ کے بعد ٹھنڈا ہو جائے گا.جس طرح چھترے کا ایک چھوٹا سا دانہ جب گرم ہو تو اپنا اثر دکھاتا ہے مگر جب ٹھنڈا ہو جائے تو اُس کی کچھ حقیقت نہیں رہتی اسی طرح ہماری حالت ہوگی.جب تک ہم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدا کردہ طاقت ہے اُس وقت تک اگر ہم نے دنیا فتح نہ کی تو جب مُردہ ہو جائیں گے اُس وقت کیا کریں گے.اگر تم اُس فورس اور اُس قوت اور اُس روح سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیدا کی ہے کام نہ لو گے اور ساری دنیا کو ایک سرے سے لے کر دوسرے تک پہلا نہ دو گے تو یاد رکھو اس کے نکل جانے کے بعد اُس کھاد کی طرح ہو جاؤ گے جو دوسروں کو تو فائدہ پہنچا سکتی ہے مگر خود اس قدر ذلیل اور ناپاک ہو جاتی ہے کہ کوئی اپنے دامن پر اس کا دھبہ بھی گوارا نہیں کرتا.پس اگر آپ لوگ بغیر آمد کو زیادہ کرنے کی کوشش کے بجٹ میں زیادتی کریں گے تو اپنے آپ کو تباہ کرو گے لیکن اگر اسلام کی خدمت اور اشاعت کے لئے بھی نہ کھڑے ہو گے اور دنیا کو فتح کرنے کے لئے ابھی سے تیار نہ ہو جاؤ گے تو بھی اپنی موت کا آپ فتویٰ دو گے.ان دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر مشورہ دو کہ اچھوت اقوام میں تبلیغ کا کام ہماری جماعت کو جاری کرنا چاہئے یا نہیں ؟“ جب بہت سے اصحاب اپنی اپنی رائیں ظاہر کر چکے.جن میں سے ہر ایک نے تبلیغ کے کام کو شروع کرنے کی پُر زور تائید کی تو حضور نے فرمایا:- اس وقت یہ تجویز پیش ہے کہ سب کمیٹی نے تحریک کی ہے کہ باوجود مالی تنگی کے اچھوت اقوام میں تبلیغ کا کام شروع کیا جائے.میں نے دونوں پہلوؤں کی ذمہ واریاں آپ لوگوں پر ظاہر کر دی ہیں.اب سوچ سمجھ کر رائے دو.ایک طرف خدا تعالیٰ نے تم پر جو
خطابات شوری جلد اوّل ۲۵۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء ذمہ واری عائد کی ہے اُسے مدنظر رکھو اور دوسری طرف نظام جماعت قائم رکھنے اور کمزور بھائیوں کو اُبھارنے کی جو ذمہ داری آپ لوگوں پر بحیثیت نمائندہ کے عائد ہوتی ہے اُس کو مد نظر رکھ کر ایسی رائے پیش کرو جس پر بغیر قدم کے لڑکھڑانے ، بغیر کسی قسم کی سستی آنے اور بغیر عزیمت میں فرق آنے کے عمل کر سکو.“ اس کے بعد جب سب کمیٹی کی تجویز کی تائید کرنے والوں کو ووٹ دینے کے لئے حضور نے کھڑے ہونے کا ارشاد فرمایا اور اُن کو شمار کیا گیا تو ۲۰۸ را ئیں شمار ہوئیں.اس پر حضور نے فرمایا: - ۲۰۸ نمائندوں کی رائے ہے کہ اچھوت اقوام میں باوجود مالی تنگی کے تبلیغ کا کام شروع کیا جائے.جس کے قریباً قریباً یہ معنے ہیں کہ تمام نمائندگان کی رائے ہے.جو لوگ کھڑے نہیں ہوئے وہ یہاں کے صیغوں کے انچارج ہیں جو اس لئے کھڑے نہیں ہوئے کہ شاید اُن کا رائے دینا مناسب نہ ہو.“ اس کے بعد اس تجویز پر رائیں لی گئیں کہ پنجاب اور بنگال دونوں صوبوں کی اچھوت اقوام میں تبلیغ شروع کی جائے یا کسی ایک صوبہ میں؟ تو ۱۸۳ آراء دونوں صوبوں میں کام کرنے کے متعلق تھیں اس کے بعد حضور نے فرمایا :- ۱۸۳ دوستوں کی یہ رائے ہے کہ دونوں صوبوں میں کام ہو.پہلے ۲۰۸ دوستوں کی رائے تھی کہ باوجود مالی تنگی کے اچھوت اقوام میں تبلیغ کا کام شروع کیا جائے.میں ان دونوں تجویزوں کو پسند کرتا ہوا منظوری دیتا ہوں.مگر چند امور پر غور کرنا ضروری ہے.انہی کے نہ سمجھنے کی وجہ سے مشکلات پیش آتی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ جب دین کے لئے خرچ کرنے کی ضرورت دیکھتے ہیں تو سچے مسلمانوں کے طور پر جو بھی کھاتے کے حساب سے ناواقف ہوتے ہیں اور جو دنیا داروں کی طرح مال کی حفاظت کرنے یا خرچ کرنے کے طریق سے واقف نہیں ہوتے ، خرچ کا ایک اندازہ اور اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر دیکھتے ہیں تو قربانی و ایثار کے جوش میں کہتے ہیں فلاں کام بھی جاری کر دیا جائے.مگر اُس وقت اُن کی نظر سے دو باتیں پوشیدہ ہوتی ہیں.ایک تو یہ کہ وہ سمجھتے ہیں اس سال کے آخر تک جس کے لئے خرچ دینے کے لئے تیار ہوئے ہیں یہ ہم ختم
خطابات شوری جلد اوّل ۲۵۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء ہو جائے گی اور آئندہ سال اس کے لئے کچھ نہیں دینا پڑے گا.چنانچہ اس وقت سیدھے سادے مسلمانوں کی طرح خیال کر لیا ہوگا کہ بنگال اور پنجاب میں اچھوت اقوام میں تبلیغ کا کام دو ہزار کی رقم میں ایک سال کے اندر اندر ختم ہو جائے گا حالانکہ ممکن ہے یہ کام دس سال میں یا بیس سال یا چھپیں سال میں ختم ہو.اور دو ہزار چھوڑ دو لاکھ اس میں خرچ ہو جائے.اس بات کو نظر انداز کر کے کام شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کی جاتی ہے.پھر اس کے علاوہ اور کاموں میں جو ہر سال اضافہ ہوتا ہے اُس کو بھی مدنظر نہیں رکھا جاتا.دوسری بات جسے نظر انداز کر دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ دشمن کے متعلق یہ خیال کر لیتے ہیں کہ جہاں ہم اُس پر حملہ کریں گے وہ وہاں ہی ٹھہرا رہے گا.یا یہ کہ جتنی طاقت ہم خرچ کریں گے اُتنی ہی وہ ہمارے مقابلہ میں کرے گا.مگر یہ صیح نہیں ہے.یہ خیال کر لینا کہ پانچ سو کی رقم میں ہم بنگال میں تبلیغ کا کام ختم کر لیں گے اور دشمن اس جگہ اتنی ہی طاقت لگائے گا بے وقوفی ہے.دشمن جب یہ دیکھے گا کہ ہم نے اس علاقہ میں کام شروع کیا ہے تو وہ ہوشیار جرنیل کی طرح اپنے کام کو وسیع کرتا جائے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہمارے پاس اتنے ذرائع نہیں ہیں کہ ہر جگہ اُس کا مقابلہ کر سکیں.اور کام کو اس قدر وسعت دے سکیں کہ ہر جگہ اُسے ناکام رہنا پڑے پس تبلیغ کے کام میں ایک تو اس بات کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے کہ ہمیں کام شروع کرنے کے بعد ایک عرصہ تک ہر سال اپنے اخراجات کو بڑھانا پڑے گا.دوسرے جب ہم نے اچھوت لوگوں کو مسلمان کر لیا تو اس کے بعد ہماری ذمہ داری ختم نہ ہو جائے گی بلکہ یہ سوال سامنے آ جائے گا کہ ان کو تعلیم دو اور اسلامی رنگ میں ان کی تربیت کرو.پھر یہ سوال اُنہی تک محدود نہیں رہے گا جو مسلمان ہوں گے بلکہ آگے بڑھتا جائے گا.ایک جگہ کے جو لوگ مسلمان ہوں گے وہ کہیں گے ہمارے فلاں فلاں جگہ رشتہ دار ہیں، اُن کو بھی مسلمان بناؤ.پھر ہمیں اُن کے لئے خرچ کرنا پڑے گا اور اس طرح خرچ بڑھے گا.ان مشکلات کو کام شروع کرتے وقت مد نظر نہیں رکھا جاتا.مگر یہ مشکلات کوئی نئی نہیں ہیں.صحابہ کو بھی پیش آئیں اور وہ ان پر غالب آئے تھے.ہاں ان میں اور ہم میں یہ فرق ہے کہ وہ سمجھتے تھے ہمارا ذرہ ذرہ بھی اسلام کی اشاعت کے لئے قربان ہو جائے تو ہمیں اس سے دریغ نہ ہوگا مگر ہم میں یہ بات نہیں ہے.اگر آپ لوگوں نے کام کرنا ہے اور کام
خطابات شوری جلد اوّل ۲۵۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کر کے کامیاب ہونا ہے تو اُسی طرح کرو جس طرح صحابہ نے کیا کہ تم میں سے ہر فرد سمجھے کہ میں اسلام کی خاطر قربان ہو جاؤں گا اور خواہ ایک بھی مسلمان نہ ہومگر اپنے آپ کو اسلام کی تبلیغ میں فنا کر دوں گا.کیونکہ عزت کی موت ہزار درجہ بہتر ہے ذلت کی زندگی سے.اگر تم یہ نہیں کر سکتے تو پھر تمہارا دو ہزار یا چار ہزار یا لا کھ دولاکھ روپیہ گانا بھی فضول ہے.پس میں احباب سے اب بھی کہتا ہوں یہ قدم اُٹھاتے ہوئے سوچ لیں کہ دو ہزار جو اس وقت منظور ہوا ہے اس پر کفایت نہیں ہو سکے گی.ممکن ہے اور ضرورت ہو اور بہت زیادہ ضرورت ہو اُس وقت اس ضرورت کا پورا کرنا ہمارا فرض ہوگا.ملکانوں میں جب شدھی کا فتنہ شروع ہوا تو ابتداء میں اُس کے لئے چار مبلغ کافی قرار دیئے گئے تھے.مگر جب کام شروع ہوا تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ۹۶ مبلغ ہمیں اُس علاقہ میں رکھنے پڑے اور ہزار ہا روپیہ ہمارا صرف ہوا.پس ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم دشمن کو جس کے پاس کافی سامان ہے محدود نہیں کر سکتے.دشمن کے ذرائع جتنے وسیع ہوں گے ہم بھی پھیلنے پر مجبور ہوں گے.میں یہ کہہ کر دوستوں کو ڈرانا نہیں چاہتا.میں تو کتے کی موت سے بدتر سمجھتا ہوں کہ اپنے آپ کو اسلام کی ضرورت کے مقابلہ میں کسی شرط کا پابند کروں.مگر میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس کام کو جاری کرنے کے لئے تیار ہو؟ تمام کے تمام نمائندوں نے متفقہ طور پر عرض کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں.اس پر حضور نے فرمایا: - آج اس مقدس سرزمین میں جس کے لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس میں وہی برکات رکھی گئی ہیں جو کہ مکہ اور مدینہ کی پاک زمین میں ہیں، آج اس مقدس جگہ میں جس کا خدا تعالیٰ نے مکہ اور مدینہ نام رکھا ہے، آج اس زمین میں جسے خدا تعالیٰ نے ائم القری کا نام دیا ہے، آج اس زمین میں جس میں خدا تعالیٰ نے اُس نبی کو مبعوث فرمایا ہے جس کی آمد کی سب انبیاء خبر دیتے رہے ہیں، آج اس مقدس زمین میں اور اس مقدس جلسہ میں کھڑے ہو کر ہم لوگ اقرار کرتے ہیں کہ اگر ہمارے جسموں کا ذرّہ ذرّہ بھی اشاعت اسلام میں لگ جائے گا تو ہم اس کام کو بند نہ
خطابات شوری جلد اوّل ۲۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء وقفہ کریں گے.خدا تعالیٰ ہمارے اس اقرار پر گواہ رہے.خدا تعالیٰ وہ لفظ میرے منہ سے نہیں نکلتے مگر یاد رکھو جو اس وعدہ کے بعد پیٹھ دکھائے گا وہ خدا کے سخت غضب کا نشانہ بنے گا.پس آج سے اِس وعدہ کو یا د رکھو اور دوسروں سے بھی وعدہ کراؤ.یہ نہیں کہ اُنہیں منہ سے کہہ دو بلکہ ہر دوست کو پکڑو اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُس سے اقرار لو کہ تم بھی اسی طرح خدمت دین کے لئے تیار ہو.ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بچہ، بوڑھا اقرار کرے کہ اپنا ذرہ ذرہ مٹا دوں گا مگر اسلام کی خدمت سے پیچھے نہیں ہٹوں گا.ہم نے آج خدا تعالیٰ سے بہت بڑا اقرار کیا ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اس کے پورا کرنے کی توفیق دے.اب میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت کامیابی کے سامان کس قدر موجود ہیں اور اگر کوشش کی جائے گی اور سچے دل سے کی جائے گی تو بہت بڑی کامیابی حاصل ہوگی.ابھی تھوڑا عرصہ ہوا لاہور کے ایک محلہ کے متعلق جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے، معلوم ہوا ہے کہ وہاں کے بہت سے چھ ہڑے مسلمان ہیں مگر خفیہ.ہمارے ایک دوست کے گھر میں اتفاقاً ان کی چوہڑی نے بتایا کہ وہ مسلمان ہے اور روزے رکھتی ہے، اُس کے گھر کے لوگ بھی روزے رکھتے ہیں.اس دوست کی رائے ہے کہ اگر ان لوگوں کو تحریک کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ علی الا علان مسلمان نہ ہو جائیں.یہ اُسی رو کا اثر ہے جس کے ذریعہ بہت بڑا انقلاب آنے والا ہے کہ ایک غیر احمدی کا مجھے خط ملا ہے جو ہندو سے مسلمان ہوا ہے.اُس نے لکھا ہے میں کئی لوگوں کو مسلمان بنا چکا ہوں.قلعی کرنے کا کام کرتا ہوں.اگر آپ اپنا کوئی آدمی بھیجیں جو میرے ساتھ مل کر تبلیغ کا کام کرے تو میں خود بھی احمدی ہو جاؤں گا اور اور لوگوں کو بھی احمدی کراؤں گا.اسی قسم کے کئی خطوط آ رہے ہیں.معلوم ہوتا ہے لوگوں کے دل ہل چکے ہیں.جس طرح اس وقت دشمن نے اسلام پر سخت حملہ کیا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ نے بھی اپنی طرف سے فوجیں نازل کر دی ہیں کہ لوگوں کے دلوں کو ہلا دیں.اب صرف عُقدِ ہمت کی ضرورت ہے.ایک دوست نے کہا ہے اگر ہم ہندوستان میں شکست کھا گئے تو پھر کسی جگہ فتح پانا نا ممکن ہوگا.مگر میں کہتا ہوں یہ ناممکن ہے کہ ہم اُس اسلام کو لے کر کھڑے ہوں جس کا
خطابات شوری جلد اوّل ۲۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء پتہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا ہے اور پھر شکست کھا جائیں!! یہ تو ممکن ہے کہ سورج چڑھے یا نہ چڑھے، یہ بھی ممکن ہے ہمارا وجود ہو یا نہ ہومگر یہ واقعی ناممکن ہے کہ ہم دشمنوں سے شکست کھا جائیں.خدا تعالیٰ نے ہمارے مخالفین کے لئے ذلت اور نکبت مقرر کر دی ہے جسے کوئی ان سے ٹال نہیں سکتا اور ہمارے لئے خدا تعالیٰ نے کامیابی اور ترقی مقدر کر دی ہے.اسے بھی کوئی ٹال نہیں سکتا.ہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے قلوب بدل لیں،سستی کو چستی سے بدل دیں، دین کے لئے قربانی کرنے کے لئے حدیں نہ لگائیں کہ اس قدر قربانی کریں گے اس سے آگے نہیں.جب ہم اس نیت اور اس ارادہ کو لے کر کھڑے ہوں گے تو دشمن ہر جگہ ہمارے مقابلہ سے پسپا ہونا شروع ہو جائے گا.ایک مومن کا دل کس چیز سے ڈرسکتا ہے؟ کیا اس سے کہ اس کے مقابلہ میں دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے پاس سامان کثرت سے ہے؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اکیلے کھڑے ہو کر ساری دنیا کا مقابلہ نہیں کیا تھا؟ کون سے آدمی تھے جن پر آپ نے اپنی کامیابی کا انحصار رکھا تھا؟ کونسی انجمن تھی جو آپ کو مدد دیتی تھی؟ کونسا بیت المال تھا جس سے ضروریات پوری کرتے تھے؟ کچھ بھی نہ تھا مگر خدا تعالیٰ نے آپ ہی کو کامیاب کیا اور آپ کے مقابلہ میں ساری دنیا کو شکست فاش دی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اگر مجھے چالیس مومن مل جائیں تو ساری دنیا کو فتح کر سکتا ہوں.کیا ہم میں آج تک چالیس مومن بھی پیدا نہیں ہوئے؟ اگر ساری جماعت غرباء کی جماعت ہے جو دین کی اشاعت کے لئے روپیہ نہیں دے سکتی تو نہ دے کم از کم چالیس مومن ہی کھڑے ہو جائیں گے جو گلے میں جھولیاں ڈال لیں گے اور بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہوئے دین کی خدمت کرتے رہیں گے.میں تو اسلام کے لئے بھیک مانگنے سے بھی نہیں ڈرتا اور میں اسلام کے لئے جھولی ڈالنے کے لئے تیار ہوں اور اگر میری اولاد میں سے کوئی ایسا ہو جو اسلام کے لئے بھیک مانگنا پسند نہ کرتا ہو تو میں اُس کی شکل تک دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہوں.اگر میرے ساتھ دس آدمی بھی اپنے آپ کو اسلام کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے تو ہمیں کسی قسم کی مایوسی نہ ہوگی.ایمان کی طاقت کے مقابلہ میں کسی اور کی طاقت ہی کیا ہے جو
خطابات شوری جلد اوّل ۲۵۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء ٹھہر سکے.یہ جو انتظام نظر آتے ہیں ، صیغے بنے ہوئے ہیں، کارکن مقرر ہیں ، یہ تو محض اس لئے ہیں کہ وسیع طور پر کام کیا جا سکے لیکن اگر اصل کام ہی رُک جائے اور اُس میں ضعف شروع ہو جائے تو پھر ہمیں کوئی ضرورت نہیں مدرسوں کی کوئی ضرورت نہیں صیغوں کی ، کوئی ضرورت نہیں دفتروں کی ، ہم ان سب کو توڑ دیں گے اور خود دنیا میں نکل جائیں گے تاکہ دین کی خدمت کر سکیں.ان مٹی کی عمارتوں کو ہمیں کیا کرنا ہے.یہ اُس وقت ہمارے پاس کہاں تھیں جب مسیح موعود آیا.اگر ہم ان عمارتوں کے ملبے بیچ کر اور سب کچھ لٹا کر بھی کامیاب ہو گئے تو سمجھیں گے کچھ نہیں کھویا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ہمیں دلوں کی عمارتیں بنانے کے لئے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے.ہمیں اینٹ پتھر کی عمارتوں سے کیا غرض.آپ نے یہ بھی فرمایا آئندہ لوگ آئیں گے جو سنگِ مرمر کی عمارتیں بنائیں گے.ان پر سونے کا کام کریں گے یہ کام اُن کے لئے رہنے دو.آؤ ہم دلوں کی عمارتیں بنائیں.پس اگر ہمیں ان عمارتوں کو فروخت کرنا پڑے، ان زمینوں کو بیچ ڈالنا پڑے تو کوئی پرواہ نہیں.یہ سارا نظام اُسی وقت تک ہے جب تک ہم اصل فرض اور مقصد کو پورا کر سکتے ہیں.جب ہم سمجھیں گے کہ اسلام کی عزت اس کی محتاج ہے تو ہمیں ان کے بیچ ڈالنے میں ایک منٹ کے لئے بھی دریغ نہ ہوگا مگر کوئی غیرت مند احمدی پسند نہ کرے گا کہ اُس کا مکان تو باقی رہے اور قوم کی عمارتیں پک جائیں.اُس کی زمین تو باقی رہے لیکن اسلام کی زمین فروخت ہو جائے.جب تک ایسے مخلصوں کی جماعت ہم میں موجود ہے اُس وقت تک یہ وقت نہیں آسکتا کہ ہمارا ایک ایک جبہ نہ صرف ہو جائے اور ہماری ایک ایک دیتی نہ بک جائے ، قومی عمارتیں فروخت کی جائیں.اس وقت ہمیں اُس عزیمت اور اُس ارادہ کی ضرورت ہے جو نبی کے پیرو دکھاتے آئے ہیں.نہ مال و دولت کی ضرورت ہے نہ جائداد کی ضرورت ہے.پس ایسی عزیمت پیدا کرو.اگر صرف آپ لوگ جنہوں نے آج اقرار کیا ہے دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جائیں تو میں سمجھوں گا اسلام کی فتح کا زمانہ آ گیا اور میں دشمن پر فتح پا گیا.مگر جو انتظام اس وقت ہے اس کا چلانا ضروری ہے.اس وقت مدرسوں، اخباروں ،لنگر خانہ، مبلغین وغیرہ کا انتظام ہماری توجہ کو مشوش کرتا رہتا ہے.ضرورت ہے کہ ایسا ریز روفنڈ قائم
خطابات شوری جلد اوّل ۲۵۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کیا جائے کہ یہ روز روز کی تشویش دور ہو جائے.اگر ہم ایسا فنڈ قائم کر لیں تو دُنیوی لحاظ سے ہمیں جو تکلیف اور گھبراہٹ ہوتی ہے وہ بھی نہیں ہوگی.اگر ۲۵ لاکھ کا ریز روفنڈ قائم کر لیا جائے تو پچاس ہزار سالانہ ہم اس فنڈ کے منافع سے تبلیغ پر صرف کر سکتے ہیں اور پھر کوئی قوم دنیاوی سامانوں کے لحاظ سے بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی.بے شک تبلیغ کرنا ہمارا کام ہے مگر بعض جگہ ہم صرف اس لئے کام کرتے ہیں کہ باقی مسلمان مرتد نہ ہو جائیں.اسلام کی شان میں جس میں تمام مسلمان ایک جیسے شریک ہیں بٹہ نہ لگے اور اس کی شہرت وعزت میں فرق نہ آئے اس لئے یہ دوسرے مسلمانوں کا بھی کام ہے.اس وجہ سے اگر ہم اُن سے بھی اخراجات کا مطالبہ کریں تو یہ ہمارا حق ہوگا کیونکہ یہ دراصل اُن کا کام ہے جو ہم کرتے ہیں.اس میں ہمارا ذاتی فائدہ نہیں یعنی ہمارے سلسلہ کو اس سے براہ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.ہمارا فائدہ تو متمدن قوموں میں تبلیغ کرنے سے ہے کیونکہ اُن میں سے جو احمدی ہوتا ہے وہ ہمارا باز و بنتا ہے، ہمارا ہاتھ بٹاتا ہے اور جو کام ہم کر رہے ہیں اُس میں شریک ہوتا ہے لیکن جب ہم گری ہوئی قوموں میں اسلام کی اشاعت کرتے اور مرتد ہونے والے مسلمانوں کو اسلام سے جُدا نہیں ہونے دیتے تو کوئی وجہ نہیں کہ سب مسلمانوں سے اس کام کے لئے امداد نہ لیں.یہ تو اُن پر ہمارا احسان ہے کہ ہم اپنے آدمی ان کا فرض ادا کرنے کے لئے دیتے ہیں.پس اس کام کے لئے اگر احباب دوسرے مسلمانوں سے کہیں کہ تم بھی روپیہ دو اور ہر طرح ہماری مدد کرو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مدرسہ کے لئے دوسروں سے چندہ لے لیتے اور فرماتے اِس میں دوسروں کے بچے بھی پڑھتے ہیں اس لئے کوئی حرج نہیں.اسی طرح جب ہسپتال بنایا گیا تو اس کے لئے چو ہڑوں تک سے چندہ لیا گیا.پس جو کام ہم دوسرے مسلمانوں کے فائدہ اور ان کے لئے کرتے ہیں ضروری ہے کہ اُس کے لئے اُن سے چندہ بھی لیں اور چونکہ ادنی اقوام کے مسلمان ہونے کا فائدہ اور مسلمانوں کے مرتد ہونے کا نقصان ان کا ہی ہوتا ہے اس لئے اگر غیر مسلموں کو مسلمان بنانے اور مسلمان کہلانے والوں کو ارتداد سے بچانے کے لئے یہ ۲۵ لاکھ کی رقم دوسرے مسلمانوں سے ہی وصول کی جائے تو ضروری ہے.جن صوبوں میں اچھوت اقوام میں تبلیغ اسلام کرنے کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ
خطابات شوری جلد اوّل ۲۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء ایک اور بھی علاقہ ہے جہاں بہت جلد اور آسانی سے اسلام پھیل سکتا ہے اور وہ حیدرآباد دکن کی ریاست ہے.وہاں ۹۰ فیصدی ہندوؤں کی آبادی ہے اور صرف ۱۰ فیصدی مسلمان ہیں.آجکل کی پولیٹیکل ضروریات کو بھی مدنظر رکھنا ایک ضروری بات ہے.جب ہندوستان کے لوگوں کو حکومت کے حقوق ملیں گے تو ریاستیں اس سے باہر نہیں رہیں گی اور حیدرآباد جو اس وقت مسلمان ریاست ہے، آبادی کے لحاظ سے حقوق ملنے پر ہندو ریاست ہو جائے گی.وہاں کے لوگوں میں تبلیغ کرنے میں کچھ آسانیاں بھی ہیں.جن کا اس وقت بیان کرنا سیاسی حالات سے مناسب نہیں ہے.پچھلے دنوں دو تین ماہ میں کچھ گاؤں میں تبلیغ کا کام کیا گیا تو دواڑھائی سو لوگ مسلمان ہو گئے مگر بعض وجوہات سے روکیں پیدا ہوگئیں لیکن اب کچھ اور حالات پیدا ہو گئے ہیں.ہو سکتا ہے کہ اگر وہاں تبلیغ کی جائے تو لاکھوں انسان مسلمان ہو جائیں.اس طرح ایک طرف تو ریاست مضبوط ہو جائے اور دوسری طرف ہندوؤں کو زک حاصل ہو.پس ہمیں تبلیغ کے سوال پر غور کرتے ہوئے حیدر آباد کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور بنگال اور پنجاب کو مقدم رکھتے ہوئے یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ اگر کسی اور جگہ کام کرنا ضروری ہو تو وہاں بھی کام کیا جائے.پنجاب میں اچھوت لوگوں میں تبلیغ کا کام شروع کرتے ہوئے ایک بات کو مدنظر رکھنا ہوگا.جن حصوں میں اچھوت اقوام رہتی ہیں اُن میں سے بعض میں کام کرنے والوں کے لئے مشکلات بھی ہیں.گورداسپور کے ضلع میں اچھوت اقوام میں ہم نے چھ ہزار کے قریب روپیہ خرچ کیا مگر کوئی معتد بہ فائدہ نہ ہوا.وجہ یہ ہے کہ ان اچھوت میں سے ۹۰ فی صدی لوگ اپنا پہلا مذہب بدل چکے ہیں اور اب جو باقی ہیں وہ بھی اسی طرف جاتے ہیں بوجہ اپنی رشتہ داریوں اور تعلقات کے.اس وجہ سے ایسے علاقوں میں کام کرنا مشکل ہے.البتہ ملتان ، منٹگمری ، شاہ پور وغیرہ اضلاع میں کام بخوبی ہوسکتا ہے.گورداسپور یا سیالکوٹ وغیرہ میں مشکل ہے جہاں کے اچھوت کا بہت بڑا حصہ عیسائی ہو چکا ہے.ہم نے ان علاقوں میں کوشش کر کے دیکھ لیا ہے.ہمارا خیال تھا کہ ہم مرکز کے زور سے قریب کے علاقہ میں بآسانی کامیاب ہو سکیں گے مگر چونکہ یہ لوگ دلائل سے نہیں بلکہ تمدنی حالات سے کسی مذہب میں داخل ہوتے ہیں اس لئے مشکلات پیش آئیں کیونکہ وہ تعلقات اور رشتہ داریوں کی وجہ
خطابات شوری جلد اوّل ۲۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء سے اُنہی لوگوں کی طرف زیادہ جھکے ہوئے تھے جو عیسائی ہو چکے ہیں.اب کام کرنے کے لئے دوسرے علاقے لینے چاہئیں جہاں کے تمدنی حالات پر ہم قبضہ کرسکیں.منٹگمری کے علاقہ میں ایک قوم ہے جس کی تعداد کئی لاکھ ہے.ان کے گرو نے قرآن کا ترجمہ شعروں میں کر کے ایک کتاب بنائی ہے جسے وہ لوگ مقدس سمجھتے ہیں.ان میں ایک راجہ بھی ہے ، کئی کروڑ پتی ہیں.ان میں اگر تبلیغ شروع کی جائے اور بتایا جائے کہ تمہارے گرو نے جو مقدس کتاب تمہیں دی ہے، وہ دراصل قرآن سے ہی لی گئی ہے اور قرآن کو ماننا تمہارے لئے ضروری ہے تو امید ہے ان میں جلدی اور بآسانی کامیابی حاصل ہو سکے.پس اس کام کے لئے پورے طور پر تیار ہو جانا چاہئے لیکن دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے آپ کو مٹا کر کام کرنا چاہیں گے تب کامیابی حاصل ہوگی.“ جاپان میں تبلیغی مشن کھولنے کی تجویز جاپان میں تبلیغی مشن کھولنے کی تجویز کے بارہ میں حضور نے فرمایا:- میں اس تجویز پر رائے لینے سے پہلے اپنی رائے بیان کرتا ہوں اس وقت ہندوستان میں ایسی رو چلی ہوئی ہے کہ اگر ہم نے اپنی طاقت ہندوستان سے باہر خرچ کی تو خطرہ ہے کہ ہندوستان میں ہمیں نقصان پہنچ جائے.جہاں نبی پیدا ہوتے ہیں اُسی ملک سے خاص رو چلتی ہے اور اب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ ہندوستان اور ملکوں پر غلبہ حاصل کرے گا.اس لئے ہمارے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہندوستان میں اپنی طاقت مضبوط کریں.ہم نے باہر جو مشن قائم کئے ہوئے ہیں اُن کا اثر سیاسی طور پر ہندوستان پر پڑتا ہے.پھر عیسائی ممالک میں ہمارے جو مشن ہیں ان کی وجہ سے وہاں کے اخبارات میں یہ سوال اٹھتا رہتا ہے کہ پادری تو کہتے ہیں ہندوستان کے لوگ وحشی اور تہذیب سے عاری ہیں اور ہم انہیں تہذیب سکھاتے ہیں مگر وہ لوگ تو ہمیں تہذیب سکھانے آئے ہیں.اس طرح پادریوں کے چندہ پر بھی اثر پڑ رہا ہے.یہ تو ان ممالک کے مشنوں کا فائدہ ہے جو عیسائی ممالک میں ہیں اور جو اسلامی
خطابات شوری جلد اوّل ۲۵۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء ممالک میں ہیں ان کا اور رنگ میں فائدہ ہے.سماٹرا میں جو ہمارا مشن ہے اُس پر ۸۰ روپے ماہوار خرچ ہوتا ہے لیکن وہاں ایک غیر احمدی نے اپنے خرچ پر اس لئے اخبار جاری کیا ہے کہ ہمارے مضامین اُس میں چھپیں اور اس شخص نے کئی ہزار روپیہ مشن کو دینے کا وعدہ کیا ہے.اسی طرح اخبار سن رائز کا یہ منشاء ہے کہ اس کے ذریعہ ممالک غیر میں تبلیغ کی جائے.اس کے لئے جاپان سے بھی پتے آچکے ہیں.اس کے لئے ضرورت ہے کہ جماعت اس اخبار کے خریدار بڑھائے.اِس وقت تک اس کے متعلق جماعت بہت عمدہ کام کر رہی ہے.۹۰۰ خریدار آچکے ہیں جو اخبار کے لحاظ سے غیر معمولی ہیں مگر کام کے لحاظ سے کم ہیں.اگر اس اخبار کو کامیابی کے ساتھ چلایا جائے تو اس طرح تبلیغ کی جاسکتی ہے اور اس میں جاپان کا حصہ بھی ہوگا اس لئے جاپان میں مشن قائم کرنے کی تجویز کو چھوڑ کر اس سکیم پر عمل کیا جائے.“ اختتامی تقریر سب کمیٹی نظارت بیت المال اور سب کمیٹی نظارت ضیافت کی رپورٹیں پیش ہونے اور اس سلسلہ میں مجلس کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد اپنی اختتامی تقریر میں حضور نے نمائندگان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : - اب میں دُعا کے بعد مجلس مشاورت کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ جو اثر اِن پر مجلس میں شریک ہو کر قائم ہوا ہے، اُسے یہاں سے جانے کے بعد بھی قائم رکھیں بلکہ اور زیادہ بڑھا ئیں کیونکہ مومن ہر لمحہ ترقی کرتا ہے.میں دیکھتا ہوں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت میں ایسا اخلاص پیدا ہو رہا ہے جس کی نظیر گزشتہ کچھ عرصہ میں نہیں ملتی.اگر اسے قائم رکھا گیا اور جماعت کے ہر فرد میں ایسا ہی اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو خدا تعالیٰ ہمیں ضرور کامیاب کرے گا.سب احباب مل کر دعا کریں کہ ہماری زندگی اس لئے ہو کہ خدا تعالیٰ کا دین ساری دنیا میں پھیلے.اگر ہمیں مال نہیں ملتا تو نہ سہی، اگر پیٹوں پر پتھر باندھنے پڑیں تو کوئی حرج نہیں، اس دنیا میں جس طرح بھی گزارہ ہو سکے ہم کریں گے کیونکہ ہمیں اگلے جہان میں وہ کچھ ملے گا کہ یہ بڑی
خطابات شوری جلد اوّل ۲۶۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء بڑی توندوں والے وہاں ہماری جوتیاں اُٹھانے کی خدمت حاصل کرنا بھی فخر سمجھیں گے مگر انہیں وہ بھی نہ ملے گی.مگر یہ بھی ادنی نعمت سمجھتے ہیں.اصل نعمت تو وہ ہوگی کہ وہ ہستی جس کا سب مال اور جان ہے اُس کا قرب حاصل ہو جائے گا.یہ نعمت ہر وقت ہمارے مدنظر رہنی چاہئے.ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی ترقی دین کو چھوڑ کر حاصل ہوتی ہے تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں.ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے اور ہر حالت میں مقدم کریں گے.احباب یہ بھی دعا کریں کہ اس وقت تک خدمت دین میں ہم سے جو کوتاہی ہوئی ہے اسے خدا تعالیٰ معاف کر دے اور جو وعدے ہم نے خدمت دین کے لئے کئے ہیں انہیں پورا کرنے کی توفیق دے.جو کام مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہم شروع کرنے والے ہیں اس کے لئے احباب کو ۲۵ لاکھ کا ریز رو فنڈ جمع کرنے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہئے.میں اس کے متعلق بعض دوستوں کو خاص طور پر بھی توجہ دلاؤں گا.اگر ہم مالی پہلو کی طرف سے مطمئن ہو جائیں تو پھر کسی دشمن کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہوسکتی.کامیابی ہمارے ہی لئے ہے.ہمارے مد نظر یہ بات رہنی چاہئے کہ کچھ رہے یا نہ رہے مگر خدا کا نام ضرور رہے اس کے لئے ۲۵ لاکھ جمع کرنا پہلا قدم ہے.اگر ہماری جماعت ہمت کرے تو کوئی بڑی بات نہیں.دیکھو سرسید جب کھڑے ہوئے تو نہ دینی روح کو لے کر ہوئے نہ ایمانی روح لیکن اُنہوں نے کالج قائم کر لیا جو آب یونیورسٹی ہے.پھر اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خدام دین کی خاطر کھڑے ہوں گے تو انہیں کامیابی کیوں نہ ہوگی.ہمارا مقصد دنیا حاصل کرنا نہیں بلکہ ازلی ابدی خدا کی وحدانیت قائم کرنا ہے.دیکھو عارضی زندگی کی بیماریوں کے لئے لاکھوں روپے خرچ کر کے ہسپتال بنائے جاتے ہیں.پھر وہ ہاسپٹل جس کا اثر ہمیشہ کی زندگی پر پڑتا ہے اُس کے لئے کیا کچھ نہیں کرنا چاہئے.اس کے لئے جو کچھ کر سکتے ہو کر و.اس طرح تم خدا تعالیٰ کا جلال اس دنیا میں بھی دیکھ لو گے اور اس دنیا سے نکل کر دوسری دنیا میں تمہارا عرفان اور بھی زیادہ بڑھ جائے گا.یہ خوب اچھی طرح یاد رکھو جب تک خدا تعالی کی میٹھی اور شیر میں آواز کان
خطابات شوری جلد اوّل ۲۶۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء میں نہ پڑے اُس وقت تک کوئی زندگی زندگی نہیں ہے.میں نے ابھی کسی اخبار میں پڑھا ہے ، ولایت کے بڑے بڑے کروڑ پتیوں سے پوچھا گیا کیا تمہیں آرام اور آسائش کی زندگی حاصل ہے؟ تو انہوں نے کہا جتنی زیادہ دولت جمع ہوتی جاتی ہے اتنی ہی بے چینی بڑھتی جاتی ہے مگر ہمیں دُھن ہے کہ دولت کمائیں اس لئے ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے.تو اصل امن و راحت وہ چیز ہے جو بغیر خدا تعالیٰ سے تعلق کے حاصل نہیں ہوسکتی اور تعلق بغیر نفس کو مٹانے کے قائم نہیں ہوسکتا.ایک فلاسفر اور ایک سائنس دان جن علوم کی تحقیق میں اپنی زندگی خرچ کر دیتا ہے وہ محض ظنی ہے.ایک بات کو آج ثابت شدہ قرار دیا جاتا ہے، کل وہی باطل ہو جاتی ہے مگر خدا تعالیٰ سے تعلق ایک ایسی ثابت شدہ بات ہے کہ جس میں کوئی شبہ ہی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں.لوگ مجھ پر زور ڈالتے ہیں کہ میں خدا کو چھوڑ دوں.اے خدا! میں تجھے کس طرح چھوڑوں.جب ساری دنیا مجھے چھوڑ دیتی ہے تو تو میرا محافظ بنتا اور مجھے تسلی دیتا ہے.یہ وثوق اور یہ یقین دنیا کی باتوں میں کہاں حاصل ہو سکتا ہے؟ یہ خدا تعالیٰ سے ہی تعلق ہونے پر حاصل ہو سکتا ہے اور وہ تعلق ایک لمحہ میں حاصل ہو جاتا ہے.دنیا کے ہر کام میں کچھ نہ کچھ وقت لگتا ہے مگر ایک سیکنڈ میں خدا ہاتھ میں آجاتا ہے.یہ گستاخی کا کلام ہے کہ خدا ہاتھ میں آجاتا ہے مگر یہ محبت کا بھی کلام ہے.بے شک خدا ہاتھ میں آجاتا ہے.وہ اپنے بندے کی ہر بات مانتا ہے.وہ بندے کا امتحان بھی لیتا ہے مگر اس کی ہر بات میں محبت ہوتی ہے.پس آپ لوگ خدا تعالیٰ پر یہ یقین رکھتے ہوئے گھروں کو جائیں اور یہ عہد کریں کہ ہم خود ہی زندہ نہ ہوں گے بلکہ سب بھائیوں کو زندہ کریں گے.ہم سستی اور ناامیدی کو پاس نہ آنے دیں گے.اور ہر حالت میں خدا کے دین کی خدمت کے لئے تیار ہوں گے.اگر یہ ارادہ اور یہ عزم کر لو گے تو یقیناً خدا تعالیٰ کی نصرت تمہارے لئے نازل ہوگی اور کوئی طاقت تمہیں شکست نہ دے سکے گی.“ ( مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء ) الانعام: ۱۶۳ تا ۱۶۶ قَشْعَرِيرَه : ڈر سے رونگٹے کھڑے ہونا
خطابات شوری جلد اوّل ۲۶۲ سے بخاری کتاب القدر باب العمل بالخواتيم التوبة : ٢٤ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء ۵ بخاری کتاب الاذان باب اذا قام الرَّحِل عَنْ يَسَارِ الْإِمَامِ (الخ)
خطابات شوری جلد اوّل ۲۶۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ لس مشاورت ۱۹۲۸ء ( منعقده ۶ تا ۸ ر ا پریل ۱۹۲۸ء) پہلا دن مجلس مشاورت منعقد ہ ۶ تا ۱/۸اپریل ۱۹۲۸ء کے افتتاحی اجلاس کے آغاز میں حضور نے فرمایا: - مجلس مشاورت کا کام شروع کرنے سے پہلے مناسب ہے سب دوست مل کر دعا کر دعا لیں کہ اللہ تعالٰی اُن امور کے متعلق جن پر غور کرنے کے لئے ہم لوگ یہاں جمع ہوئے ہیں، صحیح طور پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمارے نفسوں سے نفسانیت نکال کر صرف رضا اور اپنے ہی دین کے لئے ہمارے ارادوں اور مشوروں کو بنائے.پھر ہم یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق عطا کرے کہ ہم جو ارادے اُس کے منشاء کے مطابق کریں اُن کے مطابق زندگی بسر کرنے ، اُن پر خود کار بند ہونے اور دوسروں کو کار بند کرنے کی توفیق بخشے.بہت دفعہ لوگ نیک ارادے ہی نہیں کرتے اور صحیح راستہ پر چلنے کی تدابیر ہی نہیں سوچتے.پھر بہت دفعہ نیک ارادے تو کرتے ہیں مگر اُن پر چلنے کی صحیح تدابیر نہیں اختیار کرتے ، پھر بہت دفعہ صحیح مقاصد کے ساتھ صحیح تدابیر بھی سوچتے ہیں مگر اُن پر عمل نہیں اختیار کرتے.ہمیں ان تینوں باتوں کے لئے دُعا کرنی چاہئے کہ ہمیں خدا تعالیٰ صحیح ارا دے کرنے، ان کے متعلق صحیح تدابیر اختیار کرنے اور ان کے مطابق زندگی بسر کرنے اور دوسروں کو کرانے کی توفیق عطا کرے.“ افتتاحی تقریر تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: -
خطابات شوری جلد اوّل ۲۶۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء انجام بخیر دُنیا میں سب سے بڑی چیز انسان کے لئے انجام بخیر ہونا ہے.درمیانی ترقیاں اور کامیابیاں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں.بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ ایک انسان نیکی میں بہت ترقی کر جاتا ہے لیکن ایک وقت اُس پر ایسا آتا ہے کہ وہ نیکی سے بالکل محروم ہو جاتا ہے جس طرح کہتے ہیں بال اگر چکنائی میں سے گزار کر نکال لیا جائے تو چکنائی سے خالی نکل آتا ہے اسی طرح وہ تقویٰ اور نیکی سے بالکل خالی ہوتا ہے.اس کے مقابلہ میں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان غلط راستہ پر چل رہا ہوتا ہے مگر اُس کے لئے خدا تعالیٰ ایسا وقت لے آتا ہے کہ اسے ہدایت نصیب ہو جاتی ہے.خدا تعالی کی گرفت اور استغناء پس انسان کو ہر وقت اور ہر حالت میں خدا تعالیٰ کی گرفت اور اُس کے استغناء سے ڈرتے رہنا چاہئے مگر میں دیکھتا ہوں بہت لوگ جو بظاہر نیک اور متقی ہوتے ہیں، اپنی نیکی کے گھمنڈ میں خدا تعالیٰ کے استغناء کو مد نظر نہیں رکھتے اس لئے کئی دفعہ سخت ٹھوکر کھا جاتے ہیں.وہ غلطی میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو مامور سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ جتنا کوئی انسان خدا تعالیٰ کے قریب ہو اتنی ہی زیادہ اُس میں خشیت اللہ ہونی چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے انسان کو ہم دیکھتے ہیں ذرا بادل گرجتا یا ذرا آندھی آتی تو آپ گھبرا جاتے.ایک دفعہ کسی نے آپ سے سوال کیا ، کیا بات ہے کہ آپ ایسے موقع پر گھبرا جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا مجھے خیال آتا ہے کہ کئی ایسی قومیں گزری ہیں جن پر بظاہر بادل آئے مگر وہ ان کے لئے خدا کا عذاب تھا.اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں ڈرتا ہوں کہ اس قسم کا بادل نہ ہو یا مگر غور کرو ہم میں سے کتنے ہیں جو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو چھوڑ کر بڑی سے بڑی باتوں سے یہ سبق حاصل کرتے ہیں.ذرا کسی کو اپنے متعلق نیکی اور تقویٰ حاصل ہونے کا خیال ہو تو وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں مامور ہوں.اگر ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کو اپنے لئے نازل ہوتا دیکھ کر سمجھتے کہ اس کی وجہ سے اُن کی ذمہ واریاں بڑھ گئی ہیں اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ بنائے گئے ہیں تو وہ کبھی ٹھوکر نہ کھاتے اور نہ گمراہی کے گڑھے میں گرتے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی صحیح راستہ پر جا رہا ہومگر خدا تعالیٰ اُسے سیدھے رستہ سے ہٹا کر گمراہ کر دے تا وقتیکہ وہ خدا تعالیٰ کے استغناء کو بھلا کر اپنے لئے آپ گمراہی
خطابات شوری جلد اوّل ۲۶۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے سامان نہ پیدا کر لے.خدا کو چیلنج دینا جب کوئی شخص اپنے متعلق اس غلطی میں مبتلا ہوتا ہے کہ اب وہ ہر طرح مأمون و محفوظ ہو گیا ہے اور اُس کے لئے کوئی ابتلا باقی نہیں ہے تو گویا وہ خدا تعالیٰ کو یہ چیلنج دیتا ہے کہ میں اپنے آپ اس مقام پر پہنچ گیا ہوں جہاں سے میں اب پلا یا نہیں جاسکتا.اُس وقت خدا تعالیٰ اُس سے اپنی مدد اور نصرت کھینچ لیتا ہے.اور جب خدا تعالیٰ اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو وہ تو خدا کے ہاتھ میں تلوار تھی جسے خدا تعالیٰ چلا رہا تھا ، ور نہ وہ مردہ چیز تھی اس لئے گر جاتا ہے.پس انتقاء کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک انسان آخری سانس نہیں لے لیتا ، اُسے خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہئے.در حقیقت کامل زندگی انسان کو اُسی وقت حاصل ہوتی ہے کامل زندگی کب ملتی ہے در حقیقت کائی زندان جب وہ مرجاتا ہے.خدا تعالیٰ نے انسان جیسی کمزور ہستی کا ہمیشہ دکھ میں پڑے رہنا پسند نہیں کیا اور اس نے انسان کے لئے ہمیشہ دھڑکتے رہنا گوارا نہیں کیا بلکہ اس کے لئے یہ رکھا ہے کہ جب موت آ جائے تب اُسے محفوظ کر دیا جائے.پس ہمیں دُعاؤں کی سخت ضرورت ہے.قوم کا گرنا بے شک افراد کا گرنا بھی بڑا خطرناک ہوتا ہے مگرقوموں کا گرنا اور بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور جس طرح افراد کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے استغناء کو یاد رکھیں اور اگر اسے بُھلا دیں تو گمراہی کے گڑھے میں گر جاتے ہیں اسی طرح قوموں کے لئے بھی ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کے استغناء سے ڈرتی رہیں.کیونکہ قوموں پر بھی ایسا وقت آ جاتا ہے کہ جب وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ پر فخر کرتی اور کہتی ہیں کہ ہمیں جو طاقت ، فوقیت اور عروج حاصل ہے یہ ہم نے خود حاصل کیا ہے.ہمیں دُنیا کی قوموں سے تعلق نہیں، ہمیں انبیاء کی جماعتوں سے واسطہ ہے ان سب نے محض خدا تعالیٰ کے فضل.ނ کامیابی حاصل کی.ہر احمدی کی پہلی حالت تم اپنی حالتوں پر غور کرو.کچھ ہی لوگ ہوں گے اور بہت کم ہوں گے سوائے پیدائشی احمدیوں کے اور شاید اس وقت تو کوئی ایک بھی نہ ہو جو یہ کہہ سکے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا ،
خطابات شوری جلد اوّل ۲۶۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء اُس نے فوراً قبول کر لیا تھا.تم میں سے ہر ایک ایسا ہو گا کہ اُس نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بات سنی تو اس پر تعجب کیا، یا بات سنی تو تکبر کا اظہار کیا، یا بات سنی تو نفرت اور حقارت سے منہ پھیر لیا.آپ لوگ جو یہاں جماعت کے نمائندے بن کر آئے ہیں اور جو جماعت کے لئے فیصلوں کے متعلق مشورے دیں گے.آپ میں سے کئی ایک ایسے ہوں گے کہ جب انھوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوی سُنا تو کہا ہوگا.( نعوذ باللہ ) اس شخص کا سر پھر گیا ہے.یا دعویٰ سُنا ہوگا تو کہا ہو گا اس نے دُکان کھول لی ہے چند دن کے بعد خود بخود بند ہو جائے گی، یا جب دعویٰ سُنا ہوگا تو یہ خیال کیا ہو گا جب ہم اور ہمارے علماء اس کے مقابلہ کے لئے اُٹھیں گے تو اسے کچل دیں گے.اُس وقت یہ خیال بھی نہ آیا ہو گا کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب ہم اس کی غلامی کی رہتی اپنے گلوں میں ڈال کر اس کے پاس پہنچیں گے اور اُسی کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں گے جس کے لئے اسے کھڑا کیا گیا ہے.ذرا غور تو کرو آپ لوگوں کو یہاں کون کھینچ کر لایا، یہ خدا ہی کا کام تھا.پہلے انبیاء کے واقعات تاریخی طور پر ملتے ہیں مگر ہمارے لئے اُن پر غور کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہماری اپنی ذات ہی کافی ہے.جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں مانتے اُن کو کہنا پڑتا ہے دیکھو حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خدا تعالیٰ نے کیا کیا مگر ہمارے لئے اپنی ذاتیں کافی ہیں.پُرانے زمانہ کے لحاظ سے تو کچھ کہا ہی نہیں ہماری قربانیاں اور ہماری کامیابیاں جا سکتا مگر موجودہ حالت کے لحاظ سے بھی نہیں کہا جا سکتا کہ جو کامیابیاں ہمیں نصیب ہو رہی ہیں وہ ہماری قربانیوں کا نتیجہ ہیں.اس وقت دشمن جو کچھ ہمیں سمجھتا ہے ہم اُس کا ہزاروں حصہ بھی نہیں ہیں.یہ محض رُعب ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں دیا گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے نُصِرُتُ بالرُّعْب سے اسی طرح ہمیں بھی رُعب دیا گیا ہے.میں حیران ہوتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ ہمارے اخبار نا تجربہ کاری کی وجہ سے دشمن ہماری جو تعریف کرتا ہے اُسے درج کرتے اور اُس کے متعلق لکھتے ہیں کہ دیکھو! دشمن اپنے
خطابات شوری جلد اوّل ۲۶۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء منہ سے ہماری تعریف کر رہا ہے گویا وہ ہماری تعریف کر کے ذلیل ہو گیا.اب چاہئے تھا کہ پھر وہ ہماری تعریف نہ کرتا مگر وہ پھر کرتا ہے اور خدا تعالیٰ انہیں مجبور کر رہا ہے کہ وہ اس بات کا اعتراف کریں کہ اسلام کی خدمت کرنے والی اگر کوئی جماعت ہے تو وہ احمد یہ جماعت ہی ہے.اپنے کام کا اندازہ ہم اپنے کام کا اندازہ خود نہیں کر سکتے اور نہ کرنا چاہئے کیونکہ اپنے متعلق انسان اندازہ کرتے ہوئے غلطی کر جاتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ ہمارے کام کا اندازہ دشمن سے کراتا ہے اور یہ اُس کے فضل کا نتیجہ ہے ورنہ ہم کیا اور ہمارا کام کیا.تکبر اور خودی سے بچو پس ہمیں خصوصیت سے یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ اپنے او پر خدا تعالیٰ کی نعمتوں اور فضلوں کو دیکھ کر ہم میں تکبر اور خودی نہ آئے.بہت لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم چندہ دیتے ہیں، ہم یہ کام کرتے ہیں مگر یہ کبر کی علامت ہے.کون ہے جو چندہ دیتا ہے؟ کوئی نہیں دیتا اور کون ہے جو کچھ کام کرتا ہے؟ کوئی نہیں کرتا.ہم تو ایک نلکی ہیں جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے پھینکتا ہے.کیا ہمارے جیسے اور لوگ نہیں ہیں؟ ہمارے جیسے کیا ایسے لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے ہم سے بہت زیادہ مال دیئے ہیں مگر وہ دین کے لئے کچھ نہیں دیتے ، ہم سے زیادہ علم دیتے ہیں مگر وہ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت نہیں کرتے ، ہم سے بڑھ کر درجے دیئے ہیں مگر خدا کے دین کو اُن سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا.مہر ہے جو اُن کے ہاتھوں پر لگی ہوئی ہے.اُن کے پاس ہم سے زیادہ مال ہے، ہم سے زیادہ رسوخ ہے، ہم سے زیادہ طاقت ہے، اگر وہ عقل سے کام لے کر دیکھنا چاہیں کہ قربانیوں کا کیا نتیجہ ہوتا ہے تو وہ سمجھ سکتے ہیں مگر باوجود اس کے اُن کو توفیق نہیں ملتی کہ قربانیاں کریں.وجہ یہ کہ اُن پر خدا تعالیٰ کا فضل نہیں ہے اور ہم پر ہے.خدا کی نے مولانا روم نے اپنے متعلق لکھا ہے میں نے کی طرح ہوں.بُلانے والا جو کچھ بلاتا ہے وہ بولتا ہوں.ہماری جماعت کو بھی کیا بلحاظ افراد اور کیا بلحاظ جماعت سمجھ لینا چاہئے کہ ہم بھی خدا کی ئے ہیں.خدا ہمیں بلاتا ہے اور ہم بولتے ہیں.ہم
خطابات شوری جلد اوّل ۲۶۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے ایمان کے مطابق کہہ سکتا ہو کہ وہ اپنے ذاتی علم کی وجہ سے کام کرتا ہے اور اپنے متعلق تو میں یہاں تک کہتا ہوں کہ جو کام خدا تعالیٰ مجھ سے کراتا ہے اُس کے متعلق میں اپنے اندر ذرا بھی طاقت نہیں پاتا.میں نے مڈل کا امتحان دیا تو اس میں فیل ہو گیا.انٹرنس کا امتحان دیا تو اُس میں بھی فیل ہو گیا.بسا اوقات گھر کی عورتیں تک کہہ دیتی تھیں کہ یہ کیا امتحان پاس کرے گا.ایک بھی سند نہیں دُنیا کے علم کی جو پیش کرسکوں.دنیا کو چیلنج مگر میں نے خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت بار ہا چیلنج دیا ہے کہ کوئی مخص دُنیا میں ہو جو احمدی نہ ہو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فیض یافتہ نہ ہو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ ماننے والا یا آپ کا درجہ گھٹانے والا ہو وہ آئے اور قرآن کریم کا کوئی رکوع قرعہ کے ذریعہ نکال کر اُس کی تفسیر لکھے.اگر میں نئے معارف اور حقائق اُس سے بڑھ کر بیان نہ کروں تو مجھے جھوٹا سمجھا جائے ، ورنہ وہ حق کو مان لے مگر دُنیوی علم کی کوئی سند میرے پاس نہیں ہے.مدرسوں کی شکایت جب میں پرائمری میں پڑھتا تھا تو مدرسوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے میری شکایت کی کہ یہ کچھ نہیں پڑھتا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس نے کیا نوکری کرنی ہے.حضرت میر صاحب ( نانا جان مرحوم نے خدا تعالیٰ بڑی بڑی رحمتیں اُن پر نازل کرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دفعہ آ کر کہا محمود نے تو ابھی تک کچھ سیکھا ہی نہیں، اسے کچھ آتا ہی نہیں.اُن کی یہ باتیں میں بھی سُن رہا اور کانپ رہا تھا کہ نہ معلوم اب کیا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب ! ( حضرت خلیفہ اول) کو بلا ؤ.جب وہ آئے تو کہا میر صاحب یوں کہتے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا میں نے امتحان لیا تھا اتنا برا تو نہیں.حضرت مسیح موعود کا امتحان لینا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اچھا ہم خود امتحان لیتے ہیں.اس پر آپ نے ایک فقرہ لکھ کر فرمایا یہ لکھو.میں نے وہ لکھ دیا.اُسے دیکھ کر فرمانے لگے یہ تو خوب لکھ سکتا ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۲۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء اُس وقت میں ساتویں یا آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا مگر آپ نے میرا یہ امتحان لیا کہ ایک فقرہ نقل کرایا.تو اللہ تعالیٰ نے مجھے امتحانوں سے بھی بچایا.جن امتحانوں میں خود پڑے اُن میں فیل ہوئے اور جن امتحانوں کے لئے آپ نہ گئے اُن کو خدا تعالیٰ نہ لایا.تو اپنی ذات کے متعلق تو میں کہہ سکتا ہوں کہ میں ہرگز اس کام کے قابل اپنے آپ کو نہیں پاتا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا اور میں تو اس کام کے قابل بھی اپنے آپ کو نہیں پاتا جو اپنے طور پر کرتا ہوں.ہاں میں یہ ضرور محسوس کرتا ہوں کہ میرے پیچھے ایک اور ہستی ہے اور ایک بالا طاقت ہے.جب میرا قدم چلنے سے اور ہاتھ اُٹھنے سے رہ جاتے ہیں تو وہ ہستی آپ اُٹھاتی ہے اور آسمان کی بلندیوں پر لے جاتی ہے.وہی طاقت ہر احمدی کے پیچھے ہے جو اپنی ذات کے متعلق تکبر نہیں کرتا، وہ اُسے اُٹھاتی ہے اور آئندہ بھی اُٹھائے گی.معارف قرآن سمجھنے کیلئے مشورہ مجھ سے جب کوئی کہتا ہے کہ تبلیغ میں کامیابی حاصل کرنے اور قرآن کریم کے معارف سمجھنے کے لئے کوئی نصیحت کرو تو میں اُسے یہی مشورہ دیتا ہوں کہ اپنے دماغوں اور دلوں کو بالکل خالی کر لو اور خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے آپ کو بالکل جاہل بنا لو.یہی اور صرف یہی ذریعہ ہے روحانی علوم حاصل کرنے اور روحانی امور کے سمجھنے کا.خدا تعالیٰ کے آگے گر جاؤ وہ خود تمھیں اُٹھائے گا، اپنے آپ کو بے طاقت سمجھ لو وہ خود تمھیں طاقت عطا کرے گا.ایک لطیف مثال ایک بزرگ نے کیا ہی لطیف مثال دی ہے کہتے ہیں دیکھو جب کسی درندے کے آگے انسان لیٹ جائے تو وہ بھی اُسے زخمی نہیں کرتا.پھر تم خدا تعالیٰ کو کیوں ایسی ہستی نہیں یقین کرتے کہ جو اُس کے آگے گر جاتا ہے، اُسے وہ ضائع نہیں کرتا.حقیقی کامیابی کا گر پس کچی اور حقیقی کامیابی کا گر یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے آگے گر جاؤ.اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا اُس کے سامنے اقرار کرو ورنہ جو دل میں یہ سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ کر سکتا ہوں مگر لوگوں کے سامنے کہتا ہے میں کیا اور میری طاقت کیا وہ منافق ہے، وہ جھوٹا ہے.منکسر المزاج وہ ہے جو دل میں بھی اقرار کرتا
خطابات شوری جلد اوّل ۲۷۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء ہے کہ وہ کچھ نہیں کرتا نہ کہ وہ جو صرف زبان سے کہتا ہے اور دل میں سمجھتا ہے میں یہ کر سکتا ہوں ، وہ کر سکتا ہوں.جب ہم مختلی بالطبع ہو کر سوچیں کہ ہم میں کوئی لیاقت اور قابلیت ہے یا نہیں اور اُس وقت دل میں کہے کہ کوئی نہیں ، تب وہ برکات حاصل ہوں گی جن کی وجہ سے کامیابی حاصل ہوتی ہے.عظیم الشان نتائج تک پہنچنے کی تو فیق پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں اس بات کے لئے دُعا کرنے کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح اور عالیشان نتائج پر پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے.دُعا کرنے سے پہلے میں نے یہ نہیں کہا تھا مگر دُعا کرتے وقت اس بات کو دُعا میں شامل کر لیا تھا کہ خدا تعالیٰ ہمیں عظیم الشان نتائج تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے.پس ہمیں یہ دُعا کرنی چاہئے کہ ہماری نیتیں درست ہوں ، ہم صحیح نتائج پر پہنچیں اور وہ عظیم الشان نتائج ہوں.ہم اُن ہمتوں کو لے کر اُٹھیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر ملتی ہیں.پھر ان نتائج کے مطابق زندگی بسر کریں اور لوگوں سے زندگی بسر کرا ئیں.مگر یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ دُعا ئیں تب قبول ہوں گی جب اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی سے اپنے آپ کو ڈال دیں گے.جو یہ نہیں سمجھتا یا اپنے اعمال سے یہ ظاہر نہیں کرتا کہ اُسے خدا تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے، اُس کی دُعا قبول نہیں ہوتی جیسا کہ میں نے آج کے خطبہ میں بتایا ہے.ہمارے اجتماع کی غرض ہمارا کام معمولی نہیں اور آج ہم اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ اُس مقصد کے قریب ہونے کی کوشش کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہمارا مقرر کیا ہے اور چونکہ ہم سب باتوں پر یک لخت اور ایک وقت میں غور نہیں کر سکتے اس لئے یہ صورت اختیار کی گئی ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو لے لیں اور سال بھر ان کے متعلق کام کریں.پس ہمارے لئے نہایت ضروری ہے کہ خشیت اللہ لے کر ان باتوں پر غور کریں اور نہایت ضروری ہے کہ ان ارادوں اور تجویزوں کے مطابق زندگی بسر کریں.
خطابات شوری جلد اوّل ۲۷۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء مجلس مشاورت کے فیصلے مجھے افسوس ہے کہ یہاں کئی فیصلے کئے جاتے ہیں مگر گھر جا کر احباب اُنھیں بھول جاتے ہیں.آپ لوگوں میں سے کئی ایک نمائندے ایسے ہیں جو اس سال پھر آئے ہیں.وہ اپنے دل سے پوچھیں کسی اور کے متعلق نہیں اپنے نفس کے متعلق ہی سوال کریں ، کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ اُنھوں نے اُن فیصلوں کے مطابق زندگی بسر کی جو گزشتہ سال مجلس مشاورت میں کئے گئے تھے؟ اور کیا انھوں نے اپنے اپنے مقام اور اپنی اپنی جماعت میں ان فیصلوں کو جاری کرنے کی کوشش کی اور اتنی کوشش کی جتنی کرنے کی ضرورت تھی ؟ اگر نہیں کی تو میں پوچھتا ہوں اس طرح جمع ہونے سے کیا حاصل؟ یہ اجتماع ایسا ہی سمجھا جائے گا جیسے چوہوں نے جمع ہو کر تجویز کی تھی کہ سب مل کر بلی کو پکڑ لیں گے لیکن جب بلی آئی تو سب بھاگ گئے.اگر ہم یہاں مجلس میں یہ کہہ جائیں کہ ہم یہ کریں گے وہ کریں گے لیکن جب گھر جا ئیں تو سب کچھ بھلا دیں تو بتاؤ یہاں جمع ہونے کا کیا فائدہ؟ اب میں دوستوں سے کہوں گا جو کچھ پیچھے ہو چکا وہ تو ہو چکا، اُسے ہم واپس نہیں لا سکتے مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے جب بھی تم تو بہ کرو میں معاف کرنے کے لئے تیار ہوں.اگر ہم سے پہلے کوتاہی اور سستی ہوئی ہے تو آؤ آج سے سچے دل سے اقرار کریں کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا.بے شک کارکنوں کی بھی کوتا ہی ہے کہ گزشتہ سال کی مجلس مشاورت کی رپورٹ آب شائع کی ہے حالانکہ چاہئے تھا کہ مشاورت کے بعد پہلے مہینہ میں ہی شائع کر کے بھیج دیتے تا کہ نمائندوں کو وہ اقرار یاد آ جاتے جو انھوں نے مجلس میں کئے تھے.مومن کی شان مگر مومن کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہوتی.دیکھو خدا تعالیٰ یہود کو کہتا ہے.يبني اشراء يل اذْكُرُوا نِعْمَتِي مگر محمد صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتا ہے نذیر تو مومنوں کے لئے یہ حکم ہے کہ دوسروں کو یاد دلائیں نہ یہ کہ اُن کو کوئی یاد دلائے کیونکہ یہ ضرورت کمزور کے لئے ہوتی ہے کہ اسے کوئی یاد دلائے مگر پھر بھی سب لوگ برابر نہیں ہوتے.پھر بعض کے حافظوں میں بھی نقص ہوتا ہے اس لئے چاہئے تھا کہ جلد رپورٹ شائع کی جاتی.پس دوستوں کو تو میں یہ کہوں گا کہ وہ اپنے آپ کو
خطابات شوری جلد اوّل ۲۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء اس درجہ پر پہنچائیں کہ وہ کسی کے یاد دلانے کے محتاج نہ رہیں اور کارکنوں کو یہ نصیحت کروں گا کہ وہ اپنے فرض کو پہچانیں اور جلد سے رپورٹ شائع کیا کریں.گزشتہ سال کے متعلق دوستوں نے کچھ اقرار کئے تھے.ان میں سے ریز روفنڈ کا چندہ ایک یہ بھی تھا کہ دین کی ضروریات کے لئے چندہ جمع کریں گے مگر ان وعدوں کے مطابق شاید دسفیصدی نے بھی کوشش نہیں کی اور میں آقا بنعمة ربك محدث کے طور پر کہہ سکتا ہوں کہ سوائے ہمارے خاندان کے کوئی ایسا نہ ہوگا جس نے سارے وعدے پورے کئے ہوں مگر اس میں اس تحریک کو چلانے والوں کی سستی کا بھی دخل ہے.پھر جلسہ سالانہ پر جو وعدے کئے گو اُن میں بھی سستی اختیار کی گئی مگر اتنی نہیں جتنی مجلس مشاورت کے وعدوں میں.تاہم اتنی چستی بھی نہیں دکھائی گئی جس کی ضرورت ہے.اس لئے توجہ دلاتا ہوں کہ دوست مالی پہلو کے وعدوں کو یاد رکھیں.جنھوں نے وعدے کئے ہوئے ہیں وہ اُنھیں پورا کریں اور جنھوں نے نہیں کئے اُن سے کرائیں کیونکہ ہمارے تمام کام مال چاہتے ہیں اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد لیا.پس ایک بات تو یہ مد نظر ہو کہ جو وعدے کئے گئے ہیں انھیں پورا کیا جائے.ارادوں میں بلندی ہو پھر یہ مدنظر ہو کہ ہمارے ارادوں میں بلندی ہو، پستی نہ ہو.ہمارے ارادوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کرنا ہے.اگر ہم یہ ارادہ کر لیں کہ چاہے ہماری جانیں چلی جائیں ہم پیچھے قدم نہیں ہٹا ئیں گے تو ضرور خدا تعالی ہماری مدد کرے گا.ہم نے کئی نظارے خدا تعالیٰ کی تائید کے دیکھے ہیں.ایسی حالت میں جب بظاہر کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی خدا تعالیٰ نے کامیابی کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.پس جب ہمارے ذاتی معاملات میں خدا تعالیٰ ایسے نشان دکھاتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اسلام کے لئے نہ دکھائے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں تجویز ہوئی کہ چونکہ قحط ہے اس لئے سالانہ جلسہ کے دن تین کی بجائے دو کر دئیے جائیں.اُس وقت میں لنگر خانہ کا منتظم تھا.دنوں میں کمی کرنا میرا کام نہ تھا یہ مجلس نے فیصلہ کیا تھا.مگر حضرت خلیفہ اول کا جس طرح طریق تھا کہ جس کا قصور ہوتا اُسے مخاطب نہ کرتے دوسرے کو مخاطب کر کے وہ بات کہہ
خطابات شوری جلد اوّل ۲۷۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء دیتے.آپ نے مجھے خط لکھا.اُس میں عربی کا ایک مصرعہ لکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ خدا سے یہ خوف مت کرو کہ وہ عاملوں کے عمل کا اجر کم دے گا.پس اگر خدا تعالیٰ پر یقین ہو اور جو کچھ پاس ہوا سے قربان کر دیا جائے تو پھر جس قدر زائد کی ضرورت ہو وہ خود پوری کر دے گا.ہمیں دون ہمتی سے نہیں بلکہ علو ہمتی سے ان مسائل پر غور کرنا چاہئے جو ہمارے سامنے پیش ہوں.محبت اور اُلفت کا رنگ پھر محبت اور اُلفت کے رنگ میں غور کرنا چاہئے.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کوئی بات بیان کرتا ہے اور دوسرا اُسے اپنے خلاف سمجھ لیتا ہے.مشورہ میں تبھی فائدہ ہوسکتا ہے جب وسعت حوصلہ سے کام لیا جائے اور ہر ایک کی بات کو ٹھنڈے دل سے سُنا جائے.جب اسے چھوڑ دیا جائے تو تفرقہ پیدا ہو جاتا ہے.پس کبھی یہ مت سمجھو کہ ہماری بات غالب ہو کر رہے بلکہ ہر وقت یہی سمجھو کہ خدا کی بات غالب رہے.وقت ضائع نہ ہو پھر دوست اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ وقت ضائع نہ ہو.بعض اوقات ایک ہی بات ہوتی ہے جسے دوست دُہراتے جاتے ہیں.اگر اس بات کی تائید کرنی ہو جو پیش ہو تو یہ ووٹ طلب کرنے کے وقت کی جاسکتی ہے.ہاں اگر کوئی نئی دلیل پیش کرنی ہو یا کوئی بات رہ گئی ہو وہ بیان کرنی ہو تو بیان کی جاسکتی ہے.ور نہ پہلی بات کو دُہرانا وقت ضائع کرنا ہے.پس اس بات کو دوست یا درکھیں کہ جب نئی بات پیش کرنی ہو تب کھڑے ہوں پہلی بات کو دُہرانے کے لئے کھڑے نہ ہوں.باتیں غور سے سنو پھر ایک دوسرے کی باتوں کو غور اور توجہ سے سُننا چاہئے.دیکھا گیا ہے کہ بعض دوست دورانِ مشاورت سو بھی جاتے ہیں یا ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہتے ہیں.پارلیمنٹ میں اور اس پارلیمنٹ میں جو صدر پارلیمنٹ کہلاتی ہے دیکھا گیا ہے کہ ممبر تالیاں بجاتے، دانت نکالتے اور منہ چڑاتے ہیں.مگر وہ دنیا کی پارلیمنٹوں کی ماں ہے.آپ کی مجلس دینی مجلسوں کی ماں ہے اور ایسی مجلس میں شامل ہونے والوں کے لئے حکم ہے فاستَمِعُوا کے کہ سنو.پس سوائے ایسی بات کے کہ مثلاً کوئی باہر سے آئے اور پوچھ لے کہ کیا بات ہو رہی ہے یا کسی کو کوئی ہدایت دینے کے لئے بات کی
خطابات شوری جلد اوّل ۲۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء جاسکتی ہے مگر یوں ہی باتیں کرنا یا آپس میں باتیں کرنا یہ درست نہیں، اس سے بچنا چاہئے.مومن کی رائے پھر یہ بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ کسی کی خاطر کوئی رائے نہ دی جائے.مومن کا قول بازار کا سو دانہیں جو لحاظ سے یا روپیہ سے خریدا جا سکے.یا مومن بازاری عورت نہیں جسے ہر ایک خرید سکے بلکہ وہ خدا کے لئے رائے قائم کرتا اور اُس کے لئے رائے دیتا ہے، وہ کسی عزیز سے عزیز کے لئے رائے نہیں دیتا.وہ نہ کسی کی محبت کی وجہ سے اپنی رائے دیتا ہے اور نہ کسی بڑے کی بڑائی سے ڈرتا ہے وہ جو بات حق سمجھتا ہے وہی بیان کرتا ہے.ہاں یہ احساس ضرور ہو کہ کسی دوسرے پر حملہ نہ ہو، کسی کی دل شکنی نہ ہو، کسی بات پر ضد نہ ہو کہ اپنی ہی بات پر زور دیتا رہے.اوّل تو یہ سمجھنا چاہئے کہ دوسروں کی رائے بھی درست ہو سکتی ہے لیکن اپنی رائے کو درست سمجھے تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اگر اُس کی رائے نہ تسلیم کی گئی تو دُنیا تباہ نہ ہو جائے گی اور اگر اس کی رائے کے خلاف کرنے سے دُنیا تباہ بھی ہو سکتی ہو تو پھر خدا تعالیٰ اس کی اصلاح کر دے گا اور اس پگڑی کو بنا دے گا.مشاورت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیا جائے پھر یہ بات بھی مد نظر رہے کہ زیادہ سے زیادہ مجلس شوریٰ میں میں حصہ لیا جائے.ہمارا کام اتنا لمبا ہوتا ہے کہ سارے آدمی اتنے عرصہ تک نہیں بیٹھ سکتے.سوائے میرے کہ مجھے بیٹھنا پڑتا ہے.بعض کمزور اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں، بعض کو کھانے کی ضرورت پیش آتی ہے، بعض کو کوئی اور حاجت لاحق ہو جاتی ہے مگر باوجود اس کے دوستوں کو زیادہ سے زیادہ حصہ لینا چاہئے.اگر کسی ضرورت کے لئے جانا پڑے تو اس کے لئے بہت کم وقت خرچ کرنا چاہئے اور پھر جلد واپس آجانا چاہئے.پارلیمنٹ میں تو اس طرح ہوتا ہے کہ جب تک دلچسپی ہو ممبر بیٹھے رہتے ہیں اور جب کوئی ایسا کام ہو جس سے دلچپسی نہ ہو اُٹھ کر چلے جاتے ہیں مگر ہمیں پورا وقت دینا چاہئے کیونکہ ہماری کوئی بڑی سے بڑی ضرورت دین کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے مقابلہ میں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی.
خطابات شوری جلد اوّل ۲۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء مجلس مشاورت کی اہمیت میں دیکھتا ہوں مجلس مشاورت جماعت میں بہت اہمیت اختیار کر رہی ہے اور ایسا ہی ہونا بھی چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے.لَا خِلَافَةَ إِلَّا بِمَشْوَرَةٍ که خلافت بغیر مشورہ کے نہیں.اور یہ آپ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے فرمایا.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ خلافت کا حکم قرآن میں ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے متعلق کوئی حد بندی اپنی طرف سے نہ کر سکتے تھے.بات یہی ہے کہ خلافت کبھی مفید نہیں ہو سکتی جب تک اُس کے ساتھ مشورہ نہ ہو.تو خدا تعالیٰ کے نزدیک تو مجلس شوری کو پہلے ہی اہمیت حاصل تھی مگر جماعت کی اس طرف کم توجہ تھی.اب جماعت بھی اسکی اہمیت محسوس کر رہی ہے اور اس دفعہ دو تین جماعتوں کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ فلاں نمائندہ ہو فلاں نہ ہو.پہلے یوں کہتے تھے کہ بھئی مجلس مشاورت میں جانے کے لئے کس کو فراغت ہے؟ اگر کوئی کہتا مجھے ہے تو اُسے بھیج دیتے مگر اب کے جماعتوں نے نمائندوں کے انتخاب کئے ہیں اور اچھے طریق پر کئے ہیں.اس بات پر بحث ہوئی ہے کہ کون نمائندہ بن کر جائے ، یہ ایک اچھی رُوح ہے.مجلس مشاورت کی عزت ہماری جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ ہماری مجلس شوری کی عزت ان بنچوں اور کرسیوں کی وجہ سے نہیں ہے جو یہاں چھی ہیں بلکہ عزت اُس مقام کی وجہ سے ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک اسے حاصل ہے.بھلا کوئی کہہ سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اُس لباس کی وجہ سے تھی جو آپ پہنتے تھے.آپ کی عزت اُس مرتبہ کی وجہ سے تھی جو خدا تعالیٰ نے آپ کو دیا تھا.اسی طرح آج بے شک ہماری یہ مجلس شوری دُنیا میں کوئی عزت نہیں رکھتی مگر وقت آئے گا اور ضرور آئے گا جب دُنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمنوں کے ممبروں کو وہ درجہ حاصل نہ ہو گا جو اس کی ممبری کی وجہ سے حاصل ہوگا کیونکہ اس کے ماتحت ساری دُنیا کی پارلیمنٹیں آئیں گی.پس اس مجلس کی ممبری بہت بڑی عزت ہے اور اتنی بڑی عزت ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بادشاہ کو ملتی تو وہ بھی اس پر فخر کرتا اور وہ وقت آئے گا جب بادشاہ اس پر فخر کریں گے.پس ضرورت ہے کہ جماعت اس کی اہمیت کو اور زیادہ محسوس کرے
خطابات شوری جلد اوّل ۲۷۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء اور ضرورت ہے کہ سال میں دو دفعہ ہوتا کہ زیادہ مسائل پر غور کیا جا سکے.اس کے بعد میں رپورٹ ہائے نظارت کے سُنانے کا موقع ناظروں کو دیتا ہوں.ابھی پروگرام میں وقت تو میرے لئے ہے مگر میں اس بات کو دیکھ کر کہ پچھلے سال نظارتوں کی رپورٹیں پوری سُنائی نہیں جاسکی تھیں اور وقت ختم ہو گیا تھا میں اپنے وقت میں سے بھی کچھ وقت دیتا ہوں اور کچھ آپ لوگوں کو پروگرام میں تجویز کردہ وقت کے بعد بیٹھ کر دینا ہو گا تا کہ رپورٹیں ختم ہو سکیں.پس میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت اس کارروائی کو شروع کرنے کی اجازت دیتا ہوں.ناظر صاحب اعلیٰ اپنی رپورٹ پڑھیں.“ حضور کے ارشاد کے مطابق ناظر صاحبان نے اپنے اپنے صیغہ جات کی رپورٹیں پڑھیں.اس کے بعد سوالات کی مطبوعہ کا پیاں نمائندگان میں تقسیم کی گئیں.سوالات کے بارہ میں حضور نے فرمایا : - سوالات کے متعلق بعض اُصولی غلطیاں ہوئی ہیں، ان کا ذکر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.ایک تو یہ کہ سارے کے سارے سوالات ایسے ہیں جو نمائندوں کی طرف سے نہیں حالانکہ سوال کرنے کا حق نمائندوں کے لئے ہے ورنہ مجلس میں سوال کون کرے اور جواب کیسے دیا جائے.پھر سوالات جن نمائندوں کی طرف سے ہوں اُن کے نام درج ہونے چاہئیں.آئندہ کے لئے اعلان کرتا ہوں کہ صرف نمائندوں کی طرف سے سوالات بھیجے جا سکتے ہیں اور نمائندے تبھی سوال بھیج سکتے ہیں جب کہ جنوری کے پہلے ہفتہ میں وہ منتخب ہو جائیں.یکم مارچ تک سوالات یہاں آجانے چاہئیں تا کہ ناظروں کو اُن کے جواب کی تیاری کا موقع مل جائے.چونکہ سوالات شائع ہو چکے ہیں اس لئے ناظروں سے کہتا ہوں جس کے متعلق جو سوال ہو، وہ باری باری اُس کا جواب دیں.“ حضور کی اس اصولی ہدایت کے بعد ناظر صاحبان نے موصولہ سوالات کے جواب دیئے.بعد ازاں حضرت خلیفہ اس نے سوالات اور نظارتوں کی رپورٹوں پر بصیرت افروز تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:-
خطابات شوری جلد اوّل ۲۷۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء اب سوالات کے جواب ہو چکے ہیں اور ہمارے سامنے جو کام ہے وہ یہ ہے کہ مختلف صیغوں کے لئے جو امور ایجنڈا میں درج ہیں اُن پر غور کرنے کے لئے سب کمیٹیاں بنائی جائیں مگر اس سے پہلے ایک بات سوالات کے متعلق میں کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے.سوالات کے متعلق ایک شرط ایک دوست نے اس دفعہ کچھ سوالات بھیجے تھے جن کے ساتھ یہ شرط لکھی تھی کہ اس صورت میں ان سوالات کو پیش کیا جائے جب کہ ان کے جوابات دینے کے بعد ان پر گفتگو کرنے کی بھی اجازت ہو، ورنہ نہ پیش کئے جائیں.یہ درخواست اُصولاً بھی غلط ہے اور ایک اور لحاظ سے بھی غلط ہے جسے میں ابھی بیان کروں گا.اصولاً تو اس لئے غلط ہے کہ ایسے موقع پر کہیں بھی سوالات کے بعد گفتگو کا موقع نہیں دیا جاتا کیونکہ کلام در کلام کا سلسلہ اس قدر وسیع ہے کہ کوئی اور سلسلہ اتنا وسیع نہیں ہے.اس سلسلہ کو اتنا بڑھایا جا سکتا ہے کہ دُنیا تو ختم ہو جائے مگر یہ سلسلہ ختم نہ ہو.اس لئے عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ جو سوال پوچھا جائے اُس کا جواب دے دیا جاتا ہے.اگر کوئی بات رہ گئی ہو تو وہ پوچھ لی جاتی ہے مگر یہ نہیں کہ سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا جائے.پس جو شرط لگائی گئی تھی وہ دُنیا کے مروجہ اصول کے خلاف تھی.دوسرے سوال کے متعلق بولنا سوال کرنے کی اجازت دینا خلیفہ کا کام ہے اور سوال کرنے کی اجازت دینا چونکہ خلیفہ کا کام ہے اس لئے اس قسم کی سٹرائیک نہیں کرنی چاہئے کہ اگر جواب دینے کے بعد پھر بولنے کی اجازت نہ ہو تو پھر سوال پیش ہی نہ کئے جائیں.ان کو سوالات پیش کرنے چاہئے تھے اور پھر ان کے متعلق مزید گفتگو کرنے کے لئے درخواست کرنی چاہئے تھی کہ اجازت دی جائے.اگر مناسب ہوتا تو میں اجازت دے دیتا اور مناسب نہ ہوتا تو نہ دیتا.اس طرح وہ بھی خوش ہو جاتے اور سوالات سے جو بہت سے فائدے حاصل ہو جاتے ہیں وہ بھی حاصل ہو سکتے.پس یہ کہنا کہ اگر لمبی گفتگو کی اجازت نہ ہو تو سوالات بھی پیش نہ کئے جائیں یہ درست نہیں تھا.ابھی دیکھئے سوالات میں ایک مفید بات کا ذکر آ گیا ( یعنی مالی سال کو ختم کرنے کے متعلق ) جس کے متعلق غلط طریق پر عمل ہوتا
خطابات شوری جلد اوّل ۲۷۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء تھا.تو سوالات سے بھی بعض اوقات فائدہ حاصل ہو جاتا ہے، چاہے ان پر لمبی بحث ہو یا نہ ہو.یوں اگر بحث کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو کبھی ختم ہی نہیں ہو سکتی اس لئے یہی مناسب ہے کہ سوالات کئے جائیں اور اگر کوئی بات رہ جائے تو وہ سوال کرنے والا پوچھ سکتا ہے.دفاتر سے سوال دریافت کرنا پھر دفاتر کھلے ہوئے ہیں، ان سے جواب حاصل کئے جاسکتے ہیں.ہاں اگر کوئی دفتر کسی سوال کا جواب نہ دے تو پھر مجھ سے کہہ سکتے ہیں کہ فلاں دفتر نے ہمارے فلاں سوال کا جواب نہیں دیا.اُس وقت میں دیکھوں گا کہ اُس سوال کا جواب دینا جماعت کے لئے مفید ہے یا نہیں.اگر مفید ہوگا تو میں اُس دفتر کو مجبور کروں گا کہ جواب دے اور اگر جواب دینے سے کوئی فتنہ پیدا ہو یا اُس بات کو تحریر میں لانے سے کوئی شتر نکلتا ہو تو میں سوال کرنے والے کو لکھ دوں گا کہ میں نے اس بارے میں اپنی تسلی کر لی ہے اس کا جواب نہ دینا ہی مناسب ہے.کیسے سوال دریافت کئے جائیں پھر میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ایسے ضروری سوالات پوچھنے چاہئیں جن کا جماعت کے مفاد سے تعلق ہو، کوئی نئی بات حاصل ہوتی ہو ، کوئی فائدہ پہنچتا ہو، کوئی فتنہ دُور ہوتا ہو، ورنہ اگر یونہی سوالات شروع کر دیئے جائیں تو دفاتر کے عملے جو پہلے ہی بہت کم ہیں ان پر بے فائدہ کام کا بار بڑھ جائے گا.انھیں کئی سالوں کے ریکارڈ تلاش کرنے پڑیں گے اور بہت سا وقت اس میں صرف ہو جائے گا.نظارتوں کی رپورٹوں پر ریمارکس اس وقت نظارتوں کی جو رپورٹیں پڑھی گئی ہیں، میرے نزدیک عام طور پر سوائے ایک دواستثناء کے نہایت معقولیت اور محنت سے تیار کی گئی ہیں.ان میں جو باتیں ناقص ہیں وہ ایسی تفصیلات ہیں جن میں پڑنا ضروری نہ تھا.مثلاً یہ کہ ایک جماعت کے چندہ دہندگان اتنے تھے.اگر ایک جماعت کے چندہ دہندگان کی تعداد سُنائی جائے تو باقی جماعتوں کے چندہ دہندگان کی کیوں نہ سُنائی جائے مگر ایسی تفصیلات کے بیان کرنے کی یہاں ضرورت نہ تھی.اس قسم کی باتیں ناظر اعلیٰ کی رپورٹ میں بھی تھیں اور ناظر امور عامہ کی رپورٹ میں
خطابات شوری جلد اوّل ۲۷۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء بھی ایسی باتیں پائی جاتی تھیں.مثلاً امور عامہ نے بیان کیا ہے کہ اس سال پانچ آدمیوں کو پاسپورٹ لے کر دیئے گئے.یہ کون سا ایسا کام ہے جس کے بیان کرنے سے جماعت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور دوسرے دفتری کام کو چھوڑ کر اسے بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی.اتنا کہنا کافی تھا کہ پاسپورٹ حاصل کرنے میں مدد کی گئی ، اگر اس کے بیان کرنے کی ضرورت سمجھی جائے.نظارت دعوت وتبلیغ کی رپورٹ نظارت نظارت دعوت و تبلیغ نے اپنی رپورٹ میں ایک نہایت اہم معاملہ کو بالکل ترک کر دیا ہے جس کا ابھی اخباروں میں بھی ذکر نہیں آیا اور وہ یہ کہ علماء کی شرارت اور پراپیگنڈہ کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ شام کی وزارت ایک بڑے مولوی کے لڑکے کے سپرد کی گئی جس کے پاس مولویوں کا وفد پہنچا کہ احمدی مبلغ کو دمشق سے نکال دیا جائے.مولوی جلال الدین صاحب کو شام سے نکل جانے کے لئے ۲۴ گھنٹہ کا نوٹس دے دیا گیا اور اس میں انگریزی قنصل (COUNSEL) نے دخل دینے سے انکار کر دیا اور جو وجہ بیان کی وہ میرے نزدیک درست نہیں ہے اور مجھے شبہ ہے کہ رکن امور کی وجہ سے دخل نہیں دیا.جب میں دمشق گیا تھا تب مجھے وہ باتیں معلوم ہوئی تھیں مگر گورنمنٹ پر چونکہ ان کی وجہ سے حرف آتا ہے اس لئے میں اس مجلس میں ان کا ذکر نہیں کرتا.بہر حال جب مولوی صاحب کو نوٹس دیا گیا تو انھوں نے ایک تار مجھے بھیجا کہ اب کیا کرنا چاہئے اور ایک فرانسیسی گورنمنٹ کو کہ مُہلت دی جائے.اگر چہ گورنمنٹ نے کوئی توجہ نہ کی مگر انھیں کسی طرح کچھ نہ کچھ وقت مل گیا.اُس وقت اس خیال سے کہ وہاں تبلیغ بند نہ ہو جو عمدگی سے جاری ہو چکی ہے اور تھوڑے ہی عرصہ میں جس میں بہت کامیابی حاصل ہوئی ہے.وہیں کے ایک مخلص نوجوان یہاں دین سیکھنے کے لئے آئے ہوئے ہیں اور مجھے وہاں کی جماعت کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ مولوی صاحب کو فلسطین میں رکھا جائے.یہ وہ ملک ہے جو پہلے شام میں داخل تھا مگر جب شام پر فرانسیسیوں نے قبضہ کر لیا تو فلسطین انگریزوں نے لے لیا.انھوں نے شام کا یہ حصہ علیحدہ کر کے اس لئے اپنے تصرف میں کر لیا کہ مصر کے قریب کوئی اور غیر حکومت نہ رہے.ہم نے مولوی صاحب
خطابات شوری جلد اوّل ۲۸۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کولکھا کہ وہ حیفا میں آجائیں تا کہ وہاں سے شام کے تبلیغی حالات بھی معلوم کر سکیں.پھر غور کر لیا جائے گا کہ انھیں وہیں رکھا جائے یا کسی اور جگہ.یہ حالات تھے جن کا ذکر کرنا ضروری تھا.انھوں نے صرف مولوی جلال الدین صاحب کے تار کا ذکر کیا جس سے لوگوں کو اصل حالات سے واقفیت نہ ہوسکی تھی.نظارت اعلیٰ کی رپورٹ میرے نزدیک ناظر اعلیٰ کی رپورٹ میں ایک طرزِ گفتگو تھا.گو وہ بتانا یہ چاہتے تھے کہ کام کرنے والوں کے لئے دنیں اور مشکلات ہیں مگر ان کی رپورٹ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا دفاتر بند پڑے رہے ہیں اور ان میں کچھ کام نہیں ہوا یا بہت تھوڑا کام ہو حالانکہ جو رپورٹیں پڑھی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت کام ہوا ہے بلکہ غیر بھی جانتے ہیں کہ اس سال زیادہ کام ہوا ہے مگر ناظر صاحب اعلیٰ کی رپورٹ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گو یا دفاتر کو تالے لگے رہے ہیں.کسی بات کو بیان کرنے کے لئے جو طریق اختیار کیا جائے اُس کا بھی اثر ہوتا ہے.جس وقت خلافت کے متعلق حضرت خلیفہ اول کی وفات پر اختلاف ہوا تو اخبار پیغام صلح میں عجیب و غریب عنوان کے ماتحت ایک مضمون شائع ہوا جس میں لکھا کہ میاں محمود احمد رات کو اُٹھ کر لوگوں کے پاس آئے اور انھیں کہا دُعائیں کرو، تہجد پڑھو اور دُعا کرو کہ خدا تعالیٰ صحیح رستہ پر چلائے.اس پر لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ خبر کیا لکھی ہے صرف عنوان سے ہی متاثر ہو کر لوگوں کے خطوط آئے کہ کیا واقعی سازش ہوئی ہے؟ تو بات کے بیان کرنے کے طریق سے بھی لوگوں پر اثر پڑتا ہے.جب یہ بتایا گیا کہ میں فلاں وجہ سے معذور رہا، فلاں بیمار رہا، فلاں نے یہ کام کیا، اس لئے اپنے صیغہ کے کام کے لئے وقت نہ نکال سکا تو اس سے لوگ یہی سمجھیں گے کہ گویا دفاتر میں تالے لگے رہے اور کوئی کام نہ ہوا.اونچی آواز سے بولنا چاہیے پھر میرے نزدیک ناظروں کو یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ اونچی آواز سے بولیں.دوست دُور دُور سے آئے ہیں.میں نے انھیں کہا تھا کہ آواز نہ آئے تو بھی بیٹھے رہیں، اس لئے بیٹھے رہے.مگر ایک دو نظارتوں کی رپورٹیں اس طرح پڑھی گئیں کہ دوست اُن کے وقت ثواب کے لئے بیٹھے رہے ورنہ وہ کچھ نہ سُن سکے.مگر جہاں میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ بیٹھے
خطابات شوری جلد اوّل ۲۸۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء رہیں وہاں ناظروں سے بھی کہوں گا کہ وہ دوستوں کا وقت ضائع نہ کریں.ناظروں میں سے کسی کی آواز ایسی نہیں جو دھیمی ہو سوائے سید ولی اللہ شاہ صاحب کے کہ ان کی آواز کے دھیمی ہونے کا ثبوت ان کا ناک دے رہا ہے.(شاہ صاحب کو نزلہ کی تکلیف تھی.اس وجہ سے اچھی طرح بول نہ سکتے تھے ).ت تعلیم و تربیت کی رپورٹ نظارت تعلیم وتربیت کی رپورٹ میں ایک خاص بات بیان کی گئی ہے، اس کی طرف احباب کو توجہ دلاتا ہوں اور وہ یہ کہ یہاں ۲۶ لڑکے ایک دوست کے خرچ پر پڑھ رہے ہیں.وہ دوست خود ان پڑھ ہیں معمولی دستخط کرنا جانتے ہیں.وہ تقریباً تین سو روپیہ ماہوار ان لڑکوں کی پڑھائی پر خرچ کر رہے ہیں.میں نے اُن سے پوچھا آپ نے کس خیال سے اتنے لڑکوں کو اپنے خرچ پر پڑھنے کے لئے بھیجا؟ اُنھوں نے کہا میں خود پڑھا ہو انہیں اس لئے تبلیغ نہیں کر سکتا اس وجہ سے میں نے تجویز کی کہ کچھ لڑکوں کو پڑھا کر ملک میں پھیلا دوں تا کہ میرے تبلیغ نہ کر سکنے کا اس طرح ازالہ ہو جائے.انھوں نے آئندہ کے متعلق بھی اپنی وصیت کا ذکر کیا جس میں ایک معقول رقم انھوں نے اس غرض کے لئے رکھی ہے کہ وہ اس طرح تعلیم پر خرچ ہوتی رہے.یہ ایک بہت معقول طریق ہے مگر ہماری جماعت میں اس کی طرف توجہ کم ہے.اگر الگ الگ نہیں تو کچھ جماعتیں مل کر لڑکوں کو پڑھنے کے لئے بھجوائیں اور وہ علم حاصل کر جائیں اور اپنے اپنے علاقوں میں مبلغ کا کام دیں تو اس طرح بہت فائدہ ہوسکتا ہے.مقامی مدارس کے متعلق شکایت رپورٹ میں مقامی مدارس کے متعلق جو شکایت کی گئی ہے وہ ایک حد تک بجا ہے مگر ایک حد تک بے جا بھی ہے.کہا گیا ہے کہ مدرسہ احمدیہ کے طلباء سلسلہ کے کاموں کی نسبت دُنیا کے کاموں کی طرف زیادہ مائل ہو رہے ہیں.میں اس کی تصدیق کرتا ہوں.دو تین سال سے یہ بات پیدا ہو گئی ہے.میں مدرسہ احمدیہ کے افسروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان کی توجہ زیادہ مدرسہ کی طرف ہونی چاہئے مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ انگریزی کی تعلیم پانے والے زیادہ توجہ کر رہے ہیں اور عربی کے بعض طلباء تو کہتے ہیں مدرس انھیں کہتے ہیں کہ ملازمت کی
خطابات شوری جلد اوّل ۲۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء طرف جاؤ.مدرسہ ہائی کے متعلق بھی شکایات بیان کی جاتی ہیں مگر میں ان میں سے کئی ایک کو بے جا سمجھتا ہوں اور وہ بلا وجہ ہیں.جلسہ سالانہ پر ہی میں نے بیان کیا تھا کہ ایک لڑکا جو یہاں سے بھاگ کر گیا کس طرح اُس نے غلط باتیں گھڑ لیں اور پھر اُس کے والد نے ان یقین کر کے بڑے غصہ اور رنج کا اظہار کیا لیکن جب تحقیقات کی گئی تو سب باتیں غلط.مشکل یہ ہے کہ بچوں نے جہاں اپنی کسی تکلیف کا والدین سے اظہار کیا وہ اسے شکایت بنا لیتے ہیں حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ بچہ کو گھر جیسا آرام تو دوسری جگہ نہیں مل سکتا.کچھ نہ کچھ اسے تکلیف ہو گی.ابھی میں مالیر کوٹلہ گیا تو وہاں میری بہن کا ایک بچہ رہتا تھا میں نے کہا ابھی اسے واپس بھیجو تا کہ تعلیم کا حرج نہ ہو.انھوں نے کہا تکلیف ہو گی مگر میں نے کہا یہ تکلیف برداشت کرنی چاہئے.تو تکلیف تو ہوتی ہے مگر اسے برداشت کرنا چاہئے اور اس کے متعلق ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے اور مناسب طریق سے اس کے دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے اس قسم کی بہت سی شکائتوں کی تحقیقا تیں کیں.بعض اوقات افسروں کی بھی غلطی پائی گئی مگر ساٹھ ستر فیصدی شکائتیں جھوٹی ثابت ہوئیں.ایک دفعہ ایک لڑکے کے والد نے لکھا میرا لڑکا عربی میں بہت ہوشیار تھا مگر ہیڈ ماسٹر نے فلاں بات کی وجہ سے اسے فیل کر دیا.میں نے اس لڑکے کا عربی کا پرچہ منگا کر دیکھا.اسے سو میں سے اڑھائی نمبر دیئے گئے تھے جب میں نے پرچہ دیکھا تو مجھے افسوس ہوا کہ اسے اڑھائی نمبر بھی کیوں دیئے گئے ہیں، وہ اس قابل بھی نہ تھا.میں نے اُس کے والد کو لکھا آپ کے لڑکے کو تو صفر ملنا چاہئے تھا.پر چہ موجود ہے، اس میں جو کچھ اس نے لکھا ہے وہ ظاہر ہے.تو ایسی شکائتیں بھی ہوتی ہیں.یہ ماں باپ کی غلطی ہوتی ہے کہ لڑکے کی طرف سے جو رپورٹ ملے، اسے درست تسلیم کر لیں.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے پاس ایک خط آیا جس میں لکھا تھا ہمیں اپنا بچہ بہت پیارا ہے مگر معلوم ہوا ہے اس سے وہاں یہ سلوک کیا جا رہا ہے کہ اسے پنجرے میں بند کر رکھا ہے اور لڑکوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو اس کے پاس سے گزریں وہ اس پر ٹھو کیں.
خطابات شوری جلد اوّل ۲۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء حضرت خلیفہ اول خط پڑھتے جاتے اور مسکراتے جاتے.وہ لڑکا بھی آپ کے پاس ہی بیٹھا تھا، اُس سے پوچھتے بھئی! آج تم پر کتنوں نے تھوکا ہے؟ تو ایسی باتیں طالب علم کرتے رہتے ہیں مگر والدین کا فرض ہے کہ ان کی ہر بات پر یقین نہ کر لیا کریں.دراصل لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں.ابھی پرسوں کا واقعہ ہے ایک آدمی کو بھیجا گیا کہ فلاں دکان سے یہ چیز لے آؤ.مطلب یہ تھا کہ پیسے لے جاؤ اور جا کر لے آؤ مگر وہ یونہی چلا گیا.میں نے اس دکاندار سے کہا ہو ا تھا کہ میرے لئے یا تو پیسے لے کر چیز دیا کرو یا رقعہ لے کر.اُس نے یونہی جانے پر چیز تو دے دی مگر ساتھ یہ بھی کہ دیا کہ مجھے اس طرح دینے کا حکم نہیں ہے.جو شخص لینے کے لئے گیا تھا اُس نے آ کر بتایا دکاندار نے میری چادر چھین لی تھی کہ پیسے لا کر دو.تو بات کی تحقیقات کر کے دیکھنا چاہئے کہ کس حد تک وہ صحیح ہے اور کس حد تک اُس میں مبالغہ داخل ہے.درس جاری کرنے والوں کی جو تعداد بیان کی گئی ہے وہ اصل میں اس سے زیادہ ہے.غالباً تعلیم و تربیت میں ساری اطلاعیں نہیں پہنچیں.خدا کے فضل سے درس بہت جگہ جاری ہو گیا ہے.رپورٹوں کے متعلق میں ناظروں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انہیں چاہئے کہ سرکاری رپورٹیں پڑھتے رہا کریں تا کہ انھیں معلوم ہو کہ رپورٹیں کس طرح لکھنی چاہئیں.نظارت ضیافت کی رپورٹ کے متعلق دریافت کیا گیا نظارت ضیافت کی رپورٹ ہے کہ جلسہ پر اٹھارہ ہزار روپیہ کس طرح خرچ ہو گیا جبکہ ایک وقت دال دی جاتی ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ خرچ صرف کھانے کا نہیں ہے بلکہ اس میں اور بھی بہت سے اخراجات شامل ہیں.تاہم میری اپنی رائے ہے کہ اس خرچ میں کفایت کی گنجائش ہے.اس لئے میں نے ایک کمیٹی بٹھائی تھی مگر اس سے کوئی زیادہ کامیابی نہیں ہوئی.میرا خیال ہے کچھ نہ کچھ کمی ہو سکتی ہے.اس رقم میں کئی اور بھی خرچ ہیں مثلاً کسیر کا خرچ ، جلسہ گاہ بنانے کا خرچ ، مٹی کے برتنوں کا خرچ، لیمپوں کا خرچ.غرض تین ہزار یا اس سے بھی زیادہ خرچ دوسری چیزوں پر ہوتا ہے.پھر جلسہ کے تین دن ہی خرچ نہیں پڑتا بلکہ گیارہ.بارہ دن تک خرچ
خطابات شوری جلد اوّل ۲۸۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء ہوتا رہتا ہے.اور اس رقم میں ۲۳ دسمبر سے ۲ جنوری کی شام تک کے مہمانوں کا خرچ شامل ہوتا ہے.چار دنوں کے کھانا کھانے والوں کی اوسط دس ہزار ایک وقت کی ہوتی ہے اور چار دن کی ۸۰ ہزار بنتی ہے.باقی سات دن کی اوسط اگر ۲ ہزار بھی ایک وقت کی سمجھی جائے تو یہ ۲۸ ہزار ہوئی.اگر فی آدمی ۲ یا ۳ / خرچ رکھا جائے تو ۱۳ ۱۴ ہزار خرچ جا بنتا ہے.یہ ادنیٰ سے ادنی خرچ ہے، گھر میں لوگ اس سے زیادہ خرچ کرتے ہیں.پھر صرف روٹیاں پکوانے کا بل دو ہزار کا ہوتا ہے.یہ لوگ اپنی دُکانیں بند کر کے آتے اور یہاں آکر روٹیاں پکاتے ہیں.یہ ۸۰ آدمی روزانہ کام کرنے والے ہوتے ہیں.اس قسم کے اخراجات کو عام طور پر دوست مد نظر نہیں رکھتے.وہ اپنے گھروں پر قیاس کرتے ہیں کہ بیوی نے روٹی پکا دی یا نوکر نے ، گویا پکوائی پر اُن کے نزدیک کچھ خرچ نہیں ہوتا.اس طرح یہ اخراجات زیادہ نہیں ہیں بلکہ بہت احتیاط سے کئے جاتے ہیں.جو دوست یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے کھانے کا خود انتظام کر لیا کریں گے اور جلسہ کا چندہ نہ دیں گے اُن کے نزدیک قادیان والوں کو تو کچھ نہ دینا چاہئے کیونکہ وہ ان ایام میں اپنے گھروں سے کھانا کھاتے ہیں حالانکہ تعداد کے لحاظ سے بیشتر حصہ ایسا ہے جو چندہ دیتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کھانے کے علاوہ دوسرے اخراجات پر بھی صرف ہوتا ہے.پس یہ اعتراض حالات کی ناواقفیت کی وجہ سے کیا گیا ہے.“ رض حضرت خلیفتہ اسی کی ایک تجویز رپورٹوں پر تبصرہ کے بعد حضور نے اپنی ایک تجویز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : - اس دفعہ کے ایجنڈا میں میری طرف سے یہ تجویز درج ہے: دفتری کام کے لئے تین تجربہ کار احباب کی جو مرکزی دفاتر سلسلہ کے کارکن نہ ہوں ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جو ماہ جنوری ۱۹۲۹ء کے آخر میں ایک ہفتہ میں ان دفاتر کا معائنہ کر کے رپورٹ کرے“.اس تجویز کی ضرورت یہ ہے کہ نظارتیں اپنے ماتحت دفاتر کی نگرانی کرتی ہیں لیکن نظارتوں کے کام کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں اس لئے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ مجلس شوری کی طرف سے ایک ایسی کمیٹی مقرر کی جائے جو سارے دفاتر کا معائنہ کر کے اس قسم کی
خطابات شوری جلد اوّل ۲۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء رپورٹ پیش کرے کہ دفاتر کا عملہ کم ہے اور کام زیادہ ہے یا عملہ زیادہ ہے اور کام کم ہے.نظارتوں کے فرائض پورے طور پر ادا ہوتے ہیں یا نہیں؟ اس کمیٹی میں ایسے آدمی ہوں جو حکومت کرنے کا رنگ رکھتے ہوں تا کہ وہ ناظروں کے کام کو چیک کرسکیں.پھر وہ حساب کتاب سے بھی واقف ہوں، دفتری حالات سے بھی واقفیت رکھتے ہوں اور وہ اس پائے کے ہوں کہ ناظروں کے کام کی پڑتال کر سکیں.یہ بھی ایک طبعی امر ہوتا ہے کہ جس پایہ کے کام کرنے والے ہوں اگر اُس پایہ کے معائنہ کرنے والے نہ ہوں تو نتائج خاطر خواہ نہیں نکلتے.پھر جن کے کام کا معائنہ کیا جائے اُنھیں بھی ناگوار گزرتا ہے.اس لئے احباب ان سب باتوں کو مد نظر رکھ کر اس کمیٹی کے لئے نام پیش کریں.“ 66 اس پر کچھ نام پیش ہوئے جن میں سے حسب ذیل تین اصحاب کو حضرت خلیفہ المسیح نے منتخب کیا.(۱) چوہدری نعمت اللہ خان صاحب سب حج دہلی.(۲) پیرا کبر علی صاحب وکیل فیروز پور.(۳) غلام حسین صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر کرنال.اور فرمایا : - یہ دوست معائنہ کرنے کے لئے اپنی فرصت اور سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے خود تاریخ مقرر کر لیں اور اس کی اطلاع نظارتوں کو دے دیں.چوہدری نعمت اللہ خاں صاحب کو اس کمیٹی کا پریزیڈنٹ مقرر کیا جاتا ہے.وہ مناسب موقع پر دوسروں کو جمع کر لیں لیکن جب کسی دفتر کا معائنہ کرنا ہو اُ سے لکھ دیں تا کہ وہ تیاری کرے.“ دوسرا دن سب کمیٹی نظارت تعلیم وتربیت کی رپورٹ مجلس مشاورت کے دوسرے دون ے.اپریل ۱۹۲۸ء کو سب کمیٹی تعلیم و تربیت کی رپورٹ پیش ہوئی.لڑکیوں کے بورڈنگ ہاؤس کی تجویز زیر بحث آئی تو حضور نے فرمایا : -
خطابات شوری جلد اوّل " ۲۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء یہ رپورٹ جو ناظر صاحب تعلیم و تربیت نے سنائی ہے اس میں تین معاملے ہیں جن پر اصحاب نے غور کرنا ہے.اب ان میں سے باری باری ایک ایک بات پیش کی جائے گی لیکن ایک بات میں درمیان میں کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجلس شوریٰ میں جو غور اور مشورہ ہوتا ہے اس کے متعلق میں ایک بات پہلے کہہ چکا ہوں.امید ہے کہ ناظر صاحبان اور دوسرے احباب اسے مدنظر رکھیں گے وہ یہ ہے کہ اسلامی اصول شریعت کے مطابق کسی امر کے فیصلہ کا حق خلیفہ کو ہی ہے دوسروں کا کام مشورہ دینا ہے.پس مجلس مشاورت کوئی فیصلہ نہیں کرتی بلکہ مشورہ دیتی ہے.فیصلہ خلیفہ کرتا ہے.مجلس مشاورت میں گفتگو کرتے وقت یا سب کمیٹی کی رپورٹوں میں کسی امر کا ذکر کرتے وقت یہ احتیاط ہونی چاہئے کہ یہ نہ کہا یا لکھا جائے کہ مجلس نے یہ فیصلہ کیا بلکہ یہ کہا جائے کہ مجلس نے یہ مشورہ دیا یا یہ کہ مجلس کے مشورہ دینے پر خلیفہ نے یہ فیصلہ کیا.گو احباب جانتے ہیں عموماً وہی فیصلہ ہوتا ہے جو آپ لوگ مشورہ دیتے ہیں مگر شریعت کے احترام کے لئے ضروری ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں جو اُسی مفہوم کو ادا کریں جو شریعت کا منشاء ہے.بعض اوقات ایسا ہوسکتا ہے کہ مشاورت کے فیصلہ کے یہی معنی سمجھے جائیں کہ جو خلیفہ نے فیصلہ کیا.جیسے انگلستان میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ بادشاہ اور پارلیمنٹ نے یہ فیصلہ کیا.اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہاں خلیفہ کے فیصلہ کو مجلس مشاورت کے نام سے بیان کیا جائے اور اس سے مراد یہی ہو کہ وہ فیصلہ خلیفہ نے کیا لیکن ابھی چونکہ یہ بات رائج نہیں ہے اور ہو سکتا ہے کہ کسی کو دھوکا لگ جائے اور غلط مفہوم پیدا ہو جائے اس لئے یہی کہنا چاہئیے کہ فلاں فیصلہ جو خلیفہ نے کیا یا یہ کہ فلاں وقت جو فیصلہ ہوا وہ یہ ہے.اس میں یہ مفہوم آجاتا ہے کہ وہ فیصلہ جو خلیفہ نے کیا تھا.اور اگر نام لینا ہو تو یوں کہا جائے کہ فلاں بات کا فلاں مجلس مشاورت میں خلیفہ نے جو فیصلہ کیا تھا وہ یہ ہے.“ اس کے بعد سب کمیٹی تعلیم و تربیت کی پہلی تجویز پر جولڑکیوں کے بورڈنگ کے متعلق تھی گفتگو شروع ہوئی.حضور نے فرمایا : - دو یہ معاملہ جو اس وقت پیش ہے اس کا بہت بڑا تعلق عورتوں سے ہے اور میرے نزدیک وہ مستحق ہیں کہ اُن کی رائے بھی ہم اس کے متعلق سُنیں اس لئے گو ہمارے
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۲۸۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء مدرسہ خواتین کے امتحان ایسے وقت میں رکھے گئے ہیں کہ لجنہ کی کارکن خواتین اس مجلس میں آنے کے قابل نہیں ہیں.وہ آجکل کتاب کا کیڑا بنی ہوئی ہیں اور جو اس وقت مجلس میں شریک ہیں ان میں سے بہتوں کو بولنے کی مشق نہ ہو گی مگر اس خیال سے کہ انہیں یہ شکایت نہ ہو کہ انہیں بولنے کا موقع نہ دیا گیا، میں انہیں موقع دیتا ہوں.اگر کوئی بولنا چاہے تو بولے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مجلس میں بیٹھے ہوئے عورتیں آ جاتیں اور آ کر کہتیں يَا رَسُولَ اللہ ! یہ بات ہے.اس لئے اگر کوئی عورت اس وقت بولے گی تو یہ کوئی شرم کی بات نہ ہو گی.اگر اس وقت یہاں میری بیویاں ہوتیں اور وہ بولتیں تو میں اس پر فخر محسوس کرتا نہ کہ کسی قسم کی شرم.پس اگر کوئی عورت بول سکے تو میں موقع دیتا ہوں.مستورات مشورہ کر لیں میں کچھ اور ضروری باتیں کہہ دیتا ہوں.“ 66 ”میرے نزدیک زنانہ ہوسٹل کے متعلق غور کرتے وقت بعض باتوں کو مد نظر رکھنا چاہئے اور وہ یہ ہیں کہ ہوسٹل کی ضرورت کن لڑکیوں کے لئے ہے؟ آیا اُن کے لئے جن کے ماں باپ قادیان میں رہتے ہیں یا اُن کے لئے جن کے والدین باہر ہیں یہ بات ظاہر ہے کہ قادیان میں رہنے والے والدین کے لئے اس بات کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ہوٹل میں داخل کرائیں.ایسی ضرورت ان کو بھی پیش آسکتی ہے مگر یہ ایک فیصدی ہوگی.اب سوال یہ ہے کہ قادیان میں ہوسٹل کھولنے کی غرض اگر یہ ہے کہ باہر سے لڑکیاں آئیں جنھیں دینی تعلیم دی جائے اور اُن کی تربیت کی جائے تو اس کے لئے یہ بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ اُن کی عمر ایسی ہو کہ وہ دینی تعلیم حاصل کر سکیں اور اگر عام تعلیم مد نظر ہو تو وہ یہی ہوسکتی ہے کہ جو تعلیم لڑکیاں باہر نہیں پاسکتیں وہ یہاں پائیں اور باہر جو تعلیم حاصل نہیں ہو سکتی وہ پرائمری کی تعلیم نہیں ہے.پرائمری سکول ہر جگہ گھلے ہیں اور یہ تعلیم باہر بھی ہو سکتی ہے پس جس تعلیم کی ضرورت ہے اور جس کی جماعت خواہش کرتی ہے وہ اعلیٰ تعلیم ہے.چنانچہ میرے پاس خطوط آتے رہتے ہیں کہ لڑکی پرائمری یا مڈل پاس کر چکی ہے.اب اعلیٰ دینی اور دنیوی تعلیم دلانا چاہتا ہوں اس کے لئے کیا کیا جائے.تو پرائمری زنانہ سکول قریباً ہر جگہ میسر آگئے ہیں مگر وقت یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لئے سکول دُور دُور ہیں اور دیہاتوں میں رہنے والے ماں باپ ان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے اور اس لئے بھی نہیں اُٹھا
خطابات شوری جلد اوّل ۲۸۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء ہے.سکتے کہ وہ سکول غیر اقوام کے ہیں.مسلمان لڑکیوں کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں نہیں پائی جاتیں.پس جو دِقت پیش آ رہی ہے وہ اعلیٰ تعلیم کے متعلق اس سے مراد کالج کی تعلیم نہیں ہے.فی الحال عورتوں کے لئے مڈل اور انٹر سکول کی تعلیم ہی اعلی تعلیم ہے.لوگ چاہتے ہیں کہ اس کے متعلق اپنا انتظام ہو اس لئے یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ اگر ہوسٹل مفید ہو سکتا ہے تو وہ چھ سے نو سال تک کی لڑکیوں کا نہ ہوگا بلکہ اس سے اوپر کی عمر کی لڑکیوں کے لئے ہوگا.پس دیکھنا یہ چاہئے کہ کیسی تعلیم دلانے کے لئے ہوٹل کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ ایک اور نقطہ نگاہ بھی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ لڑکیوں نے تعلیم پا کر نوکری تو کرنی نہیں ان کی تعلیم کا صرف یہ مقصد ہے کہ ان کو اخلاق فاضلہ سکھائے جائیں.ان میں دین کی محبت پیدا کی جائے.گھر کی اچھی حفاظت کرنا سکھایا جائے.اچھی بیویاں، اچھی مائیں ، اچھی ہمسایہ بنایا جائے اور یہ باتیں اردو کی تعلیم سے بھی سکھائی جاسکتی ہے.اس لئے پرائمری سکول اس طرز کا کھولا جائے کہ اس میں سے سرکاری نصاب اُڑا دیا جائے اور ایسی پڑھائی رکھی جائے جو دینی اور دنیوی معاملات کے لئے ضروری ہو.ایسی صورت میں چھوٹی لڑکیاں بھی لی جاسکتی ہیں.میں اس معاملہ کے متعلق اس وقت کوئی رائے نہیں دے رہا بلکہ یہ بتا رہا ہوں کہ یہ مد نظر رہنا چاہئے کہ ہم چاہتے کیا ہیں اور ضرورت کس چیز کی ہے.کیا یہ کہ لڑکیاں اردولکھ پڑھ سکیں اور انھیں دینی تعلیم بھی حاصل ہو جائے اور دوسری تربیت بھی کی جائے ؟ اس کے لئے اپنے طرز کا پرائمری سکول کھولنا پڑے گا.اور اگر یہ چاہتے ہیں کہ اعلی تعلیم دلائی جائے جو مڈل سے اوپر ہو اور اس کے ساتھ دینی تعلیم کا بھی انتظام ہو جس کے لئے ہوٹل ہو تو اس بات کو مد نظر رکھا جائے.ایک دوست نے بڑے جوش سے کہا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ہم ایک پائی نہیں خرچ کر رہے مگر یہ درست نہیں ہے.یہاں مدرسہ خواتین گھلا ہے، پرائمری اور مڈل تک کی پڑھائی ہو رہی ہے، باہر بھی احمدی لڑکیوں کے پرائمری سکول ہیں اس لئے وہ بات نہ کہنی چاہئے جس سے غلط فہمی پیدا ہو اور یہ سمجھا جائے کہ ذمہ وار اصحاب اپنے فرائض ادا نہیں کر
خطابات شوری جلد اوّل ۲۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء رہے.وہ دوست اپنے ہموطن بابو روشن دین صاحب سے ہی پوچھ لیتے کہ سیالکوٹ میں لڑکیوں کا کوئی ایسا سکول ہے یا نہیں جس پر پائی اور آنہ خرچ ہو رہا ہے، تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ ہم خرچ کر رہے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ میں اُن کی رائے کے خلاف ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ اس سے متفق ہوں مگر یہ کہتا ہوں کہ جوش میں ایسی بات نہ کہنی چاہئے جس سے دھوکا لگ سکے.☆ میرے نزدیک عورتوں کی تعلیم ایسا اہم سوال ہے کہ کم از کم میں تو اس پر غور کرتے وقت حیران رہ جایا کرتا ہوں.ایک طرف اس بات کی اہمیت اتنی بڑھتی چلی جارہی ہے کہ دُنیا میں جو تغیرات ہو رہے ہیں یا آئندہ ہوں گے جن کی قرآن سے خبر معلوم ہوتی ہے ان کی وجہ سے وہ خیال مٹ رہا ہے جو عورت کے متعلق تھا کہ عورت شغل کے طور پر پیدا کی گئی ہے یا یہ خیال جس کی بنیا د واضح لفظوں میں بائبل نے رکھی تھی.ہی گویا عورت کو صرف مرد کی خوشی کے لئے پیدا کیا گیا ، اب یہ خیال مٹ رہا ہے لیکن دوسری طرف اِس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کا میدانِ عمل مرد کے میدان عمل سے بالکل علیحدہ ہے.یہ غلط ہے کہ کبھی کسی عورت کو مرد کی طرح آزادانہ کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا.جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ آج سے ہزاروں سال پہلے ایسے زمانے گزرے ہیں کہ عورت کے لئے ایسا ہی موقع تھا جیسا کہ مرد کے لئے مگر عورت خداوند خدا نے کہا کہ اچھا نہیں کہ آدم اکیلے رہے میں اس کے لئے ایک ساتھی اسی کی مانند بناؤں گا اور خداوند خدا نے میدان کے ہر ایک جانور اور آسمان کے پرندوں کو زمین سے بنا کر آدم کے پاس پہنچایا تا کہ دیکھے کہ وہ ان کے کیا نام رکھے.سو جو آدم نے ہر ایک جانور کو کہا وہی اُس کا نام ٹھہرا اور آدم نے سب مویشیوں اور آسمان کے پرندوں اور ہر ایک جنگلی جانور کا نام رکھا.پر آدم کو اُس کی مانند کوئی ساتھی نہ ملا اور خداوند خدا نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اُس نے اُس کی پسلیوں میں سے ایک پہلی نکالی اور اُس کے بدلے گوشت بھر دیا اور خداوند خدا اُس پہلی سے جو اُس آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کے آدم کے پاس لایا.پیدائش باب ۲ آیت ۱۸ تا ۲۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن ۱۸۸۷ء)
خطابات شوری جلد اوّل ۲۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء پوری نہ اُتری اور جب تک عورت کے ذمہ بچوں کی پیدائش اور تربیت ہے اُس وقت تک مرد و عورت کا میدانِ عمل ایک نہیں ہوسکتا اور بچہ پیدا ہونے کی فطرت کا بدلنا انسانی طاقت سے بالا ہے.بچوں کی پیدائش کے متعلق یورپ میں کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ بہت سی بیماریاں عورتوں کو اس لئے ہوتی ہیں کہ ان کا فطرتی تقاضا بچہ پیدا ہونے کا روکا جاتا ہے.عورتوں کا یہ فطری تقاضا ہے کہ اولاد ہو اور وہ اُس سے محبت کریں اُس کی تربیت کریں.جب تک یہ تقاضا باقی ہے اس وقت تک وہی میدانِ عمل عورت کے لئے تجویز کرنا جو مرد کے لئے ہے بہت نقصان رسان ہے.پس ایک طرف عورتوں کی تعلیم کی اہمیت اور دوسری طرف یہ حالت کہ ان کا میدانِ عمل جدا گانہ ہے، یہ ایسے امور ہیں جن پر غور کرتے ہوئے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے دوسروں کا نقال نہیں بنایا بلکہ دنیا کے لئے راہ نما بنایا ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ ہم دُنیا کی راہ نمائی کریں نہ یہ کہ دوسروں کی نقل کریں.اس لئے ضروری ہے کہ ہم غور کریں کہ عورتوں کو کیسی تعلیم کی ضرورت ہے.ہمیں ہر قدم پر سوچنا اور احتیاط سے کام لینا چاہئے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہئے.کرنا چاہئے اور ضرور کرنا چاہئے مگر غور اور فکر سے کام کرنا چاہئے.اب تک ہماری طرف سے شستی ہوئی ہے.ہمیں اب سے بہت پہلے اس پہلو پر غور کرنا چاہئے تھا اور اس کے لئے پروگرام تیار کرنا چاہئے تھا.گو وہ پروگرام مکمل نہ ہوتا اور مکمل تو یک لخت قرآن شریف بھی نہ ہو گیا تھا.پس یک لخت تو قدم او پر نہیں جا سکتا مگر قدم رکھنا ضرور چاہئے تھا.میں اس بات کی زیادہ ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ پہلے اس بات پر غور ہونا چاہئے کہ عورتوں کو تعلیم کیسی دینی چاہئے.مختلف زبانیں سکھانا تو ضروری بات ہے.باقی امور میں ضروری نہیں کہ عورتوں کو اس رستے پر لے جائیں جس پر دوسرے لوگ لے جا رہے ہیں.اعلیٰ تعلیم وہی نہیں جو یورپ دے رہا ہے مسلمانوں میں بھی اعلی تعلیم تھی ، مسلمان عورتیں بھی پڑھتی پڑھاتی تھیں.پس ہمارے محکمہ تعلیم وتربیت کو اس بات پر خصوصیت سے غور کرنا چاہئے اور اگلے سال مجلس کے سامنے پیش کرنا چاہئے کہ ہمیں عورتوں کے لئے کیسی تعلیم کی ضرورت ہے.اگلے سال کی سکیم میں اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ عورتوں کی
خطابات شوری جلد اوّل ۲۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء اعلیٰ تعلیم کے لئے کیا سکیم ہونی چاہئے.پرائمری کی تعلیم کی بحث نہیں اس میں جو تعلیم ہے وہ زیادہ نہیں بلکہ میرے نزدیک کئی پہلوؤں سے کم ہے ہمیں غور اعلیٰ تعلیم کے متعلق کرنا ہے.اس وقت میں فیصلہ تو وہی کرتا ہوں جس کی تائید میں کثرت رائے ہے یعنی سب کمیٹی کی تجویز منظور کرتا ہوں مگر یہ بھی کہتا ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کا جس قدر جلد سے جلد مکمل انتظام کیا جائے گا اتنا ہی مفید ہو گا.مسلمانوں نے اس بات کو مد نظر نہیں رکھا اور بہت نقصان اٹھارہے ہیں.عورتوں کی تعلیم کئی لحاظ سے فائدہ پہنچاتی ہے اور اس کے نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں نے بڑا نقصان اُٹھایا ہے.حضرت خلیفہ اسی اوّل کے وقت یہاں ایک شخص آیا اور خلیفہ اول سے کہنے لگا مجھے کسی کام پر لگا دیں.اُنھوں نے فرمایا مولوی محمد علی صاحب سے جا کر ملو.اُس نے کہا آپ اُن کی طرف چٹھی لکھ دیں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا یونہی جاؤ اس سے فائدہ ہوگا.آخر اُس نے چٹھی کے لئے زیادہ اصرار کیا تو حضرت خلیفہ اول نے لکھ دی.اِس کا جواب مولوی محمد علی صاحب نے یہ دیا کہ اس وقت کوئی جگہ نہیں ہے، اگر فر ما ئیں تو اس کے لئے کوئی نئی جگہ نکال لی جائے.حضرت خلیفہ اول نے اُسے بتایا میں نے تو پہلے ہی کہا تھا، چٹھی نہ لکھواؤ.آخر اس شخص نے مولوی محمد علی صاحب سے اپنے طور پر ملنا جلنا شروع کر دیا اور چند ہی دن کے بعد اُسے انہوں نے ملازم رکھ لیا.تو ملنا جلنا بڑا اثر رکھتا ہے.میں نے شملہ میں محسوس کیا کہ ہندوؤں کے اثر و رسوخ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انگریز عورتوں سے ہندو عورتوں کا تعلق ہے مگر مسلمان عورتوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.ایک زنانہ دعوت میں میری ایک بیوی شامل ہوئیں.میں نے ان سے مسلمان عورتوں کے حالات پوچھے وہ یہی کہتیں کہ ہر بات میں مسلمان عورتیں پیچھے ہی رہتی تھیں اور کسی کام میں دخل نہ دیتی تھیں.میری بیوی انگریزی میں گفتگو نہ کر سکتی تھیں.ایک انگریز عورت نے اُن سے گفتگو کرنے کی خواہش بھی کی مگر وہ نہ کر سکیں.غرض مسلمانوں کا سوشل اثر اس لئے بہت کم ہے کہ مسلمان عورتیں تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور ان کے تعلقات بڑے سرکاری عہد یداروں کی بیویوں سے نہیں ہیں اور یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت میں عورتوں کا دخل نہیں ہے، بہت بڑا دخل ہے اور جن عورتوں کا آپس میں تعلق ہو، اُن کے مردوں کا خود بخود ہو جاتا ہے.اس
خطابات شوری جلد اوّل ۲۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء طرح مسلمانوں کو بہت سا سیاسی نقصان پہنچ رہا ہے جس کی طرف توجہ کرنی چاہئے.پھر تبلیغ کے لحاظ سے بھی عورتوں کی تعلیم نہایت ضروری ہے.ہندو اور عیسائی عورتیں تعلیم میں بہت بڑھ رہی ہیں.ہماری عورتیں تعلیم حاصل کر کے نہ صرف ان کے حملوں سے بچ سکتی ہیں بلکہ ان کو تبلیغ بھی کر سکتی ہیں.مگر جہاں میں اس تجویز کو منظور کرتا ہوں وہاں اس بات کو قطعی طور پر رڈ کرتا ہوں کہ حضرت اماں جان کی طرف سے اس چندہ کے لئے اپیل ہو اور عورتیں چندہ دیں.یہ اپیل میری طرف سے ہو اور مرد چندہ دیں.اگر یہ چندہ عورتوں پر رکھا گیا تو یہ بات آئندہ ہماری ترقی میں حائل ہو جائے گی اور ہمارے گھروں کا امن برباد کر دے گی اور یہ احساس پیدا ہو گا کہ مرد عورتوں کے لئے کچھ نہیں کر رہے اور نہ کرنا چاہتے ہیں.پس اس بات کو میں رڈ کرتا ہوں.ہمیں چاہئے کہ ہم ہی اس کام کے لئے چندہ دیں اور عورتوں کو بتا دیں کہ ہم اُن کی تعلیم و تربیت کے لئے انتہائی کوشش کرنے کے لئے تیار ہیں.ہمیں اس طور پر اس کام کو پیش کرنا چاہئے کہ صرف مردوں کے ہی چندہ سے یہ کام ہو اور یہ یادگار رہے.ورنہ اگر عورتوں کے چندہ سے کام ہو تو یہ سخت خطرناک ہوگا.اس وقت ہر قوم میں خواہ وہ عیسائی ہو یا ہندو یا مسلمان یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ مرد عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں کرتے.میں اس قسم کا احساس اپنی جماعت کی عورتوں میں پیدا کرنا پسند نہیں کرتا.ہم خود اپنے چندہ سے عورتوں کی تعلیم کا انتظام کریں گے اور اس کے لئے ایک پیسہ بھی عورتوں سے نہ مانگیں گے.اس لئے میں خود اعلان کروں گا اور جو دوست حصہ لینا چاہیں گے وہ لیں گے اور امید ہے کہ یہ کام جلد ہو جائے گا.“ انسپکٹر تعلیم و تربیت کا تقرر سب کمیٹی تعلیم و تربیت نے ایک السکر تعلیم و تربیت مقرر کرنے کی تجویز پیش کی.اس تجویز کے بارہ میں بعض احباب کی بحث کے بعد حضور نے انسپکٹر کی ضرورت اور اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا: - اس تجویز کے متعلق میری رائے پہلے یہی تھی کہ انسپکٹر کی ضرورت نہیں ہے.مبلغ اور محصل یہ کام کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں.چنانچہ میں نے نوٹ اس تجویز کے متعلق جولکھا وہ
خطابات شوری جلد اوّل ۲۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء یہ تھا کہ محصل بھی ایسے امور کے متعلق رپورٹ کرتے رہتے ہیں اور مبلغ بھی.میں ان کی رپورٹوں کو دیکھتا ہوں اور ان میں خصوصیت سے ایسی باتوں کا ذکر ہوتا ہے لیکن جب خان صاحب منشی فرزند علی صاحب نے اصل تجویز کی تشریح کی تو میری رائے بدل گئی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایسی لڑائیوں کے دور کرنے کے لئے انسپکٹر کی ضرورت نہیں ہے جو دو چار آدمیوں میں ہوں.ایسی لڑائیاں تو صحابہ میں بھی ہو جاتی تھیں اور بڑے بڑے صحابہؓ میں ہو جاتی تھیں.حضرت عمرؓ اور حضرت ابو بکر میں بھی ہو گئی تھی.ایسی باتوں کے لئے انسپکٹر کی ضرورت نہیں ہے.مگر خان صاحب نے جو تشریح کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تجویز کی اصل غرض یہ ہے کہ بعض جماعتوں میں پارٹیاں اور جتھے بن گئے ہیں، ان میں صرف اختلاف ہی نہیں پایا جاتا بلکہ اختلاف کو قائم رکھنے کے لئے منصوبے اور کوششیں کی جاتی ہیں اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ایک پارٹی دوسری پارٹی کو گرا دے.گویا ایک رنگ میں وہی شقاق پیدا ہو گیا ہے جس کے مٹانے کے لئے سلسلہ احمدیہ قائم کیا گیا ہے.وہ انفرادی اختلاف نہ تھا جس کے مٹانے کے لئے جماعت احمدیہ کو کھڑا کیا گیا.انفرادی اختلاف نہ کبھی مٹا ہے اور نہ مٹ سکتا ہے.جب حضرت ابو بکر اور حضرت عمرہ میں بھی ایسی لڑائی ہوسکتی ہے تو اوروں کی لڑائی کا کیا ہے.ایسی باتیں تو ہوتی ہی رہیں گی اور معمولی ہوتی ہیں مگر ایک وہ شقاق ہوتا ہے جسے انبیاء مٹانے کے لئے آتے ہیں اور قرآن کہتا ہے کہ ایسا اختلاف اور انشقاق رکھنے والے آگ کے کنارے کھڑے تھے.وہ انشقاق یہ ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے میں جُدا ہستی ہوں اور جُدا رہنا چاہتا ہوں.یہ اختلاف حرام ہے اور سخت منع ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات ایسا اختلاف پیدا ہو جاتا ہے اور پیدا ہو رہا ہے.دو تین جماعتیں ایسی ہیں جہاں ایسا ہی اختلاف ہے.ایسے مقامات کی اصلاح انسپکٹر ہی کر سکتا ہے.اس تشریح کے مطابق ایک باعلم اور با حیثیت انسپکٹر کی ضرورت ہے.مبلغ نہ صرف یہ کہ اس کام کو کر نہیں سکتے بلکہ میرے نزدیک یہ مد نظر رہنا چاہئے کہ ایسا شخص ہرگز مبلغ کا کام نہ کرے اس میں خطر ناک نقص پایا جاتا ہے.جب کسی مبلغ کو کسی جگہ بھیجا جاتا ہے اور وہ اچھی طرح کام کرتا ہے تو پھر وہ جماعت اس مبلغ کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتی.انسپکٹر
خطابات شوری جلد اوّل ۲۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء بھی اگر مبلغ ہوا تو اس کے لئے یہی وقت پیش آئے گی.ایسا آدمی ہونا چاہئے جس میں لڑائی جھگڑنے کو مٹانے اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی قابلیت ہو، یہ نہیں کہ وہ مبلغ ہو.ابھی پچھلے سال کشمیر میں کچھ جھگڑے تھے اُن کے لئے ایک آدمی کو بھیجا گیا جو تبلیغ بھی کرتا رہا.اب گرمیاں شروع نہیں ہوئیں کہ ابھی سے خط آ رہے ہیں کہ اگر کوئی مبلغ نہ آیا تو لوگ مُرتد ہو جائیں گے.تو مبلغ کا قیام گویا منہ کو لہو لگ جاتا ہے جو پھر چھوڑا نہیں جا سکتا.پس ایسا آدمی مبلغ نہیں ہونا چاہئے.مگر باوجود اس کے ایک اور بات ہے اور وہ یہ کہ جماعت کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس نے بہت کام کرنا ہے اور مالی مشکلات درپیش ہیں اور یہ اور خرچ بڑھے گا.خدا کے فضل سے ہماری جماعت میں ہر طبقہ کے لوگ ہیں اور ہر عمر کے ہیں اگر وہ اتنی بھی ہمت نہیں کر سکتے کہ اپنے کام سے فارغ ہو کر دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیں تو بہت افسوس کی بات ہے.اگر ہماری جماعت ایسے آدمی پیدا نہیں کر سکتی تو یہ بہت بڑا اعتراض ہے.اس کام کے لئے کسی ایسے ہی آدمی کو جو پنشن وغیرہ لے کر اپنے کام سے ریٹائر ہو چکا ہو کام کرنے کے لئے پیش ہونا چاہئے.اُس کے عام اخراجات کے لئے ۶۰۰ سالانہ خرچ کی منظوری دی جاتی ہے.ایسے آدمی جو پنشن لے رہے ہوں اور کام کر سکتے ہوں ، معاملہ فہم ہوں، وہ اپنے آپ کو پیش کریں.تین سو روپیہ مکان کے کرایہ وغیرہ کے لئے اور تین سو سفر خرچ وغیرہ کے لئے دیا جائے گا.ہماری جماعت میں ایسے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کر سکتے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں وہ پیش کریں گے.“ 66 رپورٹ سب کمیٹی تجارت سب کمیٹی تجارت کی رپورٹ پیش ہونے پر سرمایہ جمع کرنے کے سلسلہ میں سب کمیٹی تجارت کی تجاویز کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: - میں ان تجاویز کے متعلق رائے لینے سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کئی قسم کی ضرورتیں پیش آ رہی ہیں.ایک اہم ضرورت تو یہ ہے کہ عام طور پر غرباء کوئی ایسی جائداد نہیں چھوڑتے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی اولاد کے کام آ سکے.اگر ایسے بچوں کا بوجھ
خطابات شوری جلد اوّل ۲۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء سلسلہ اُٹھائے تو یہ بہت مشکل بات ہے اور اگر نہ اُٹھائے تو احمدیوں کی اولا دخراب ہوتی ہے اور پھر دوسرے لوگوں میں یہ خیال پیدا ہو کر بد دلی کا باعث بنتا ہے کہ جس طرح اوروں کی اولا د خراب ہو رہی ہے اُسی طرح جب ہم مر گئے تو ہماری اولا د بھی خراب ہوگی ، یہ ایک وقت ہے.دوسری دقت یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو عارضی ضرورتوں کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے.چونکہ وہ سود نہیں دینا چاہتے اس لئے اُنھیں بنک وغیرہ سے قرض نہیں مل سکتا اور دقت پیش آتی ہے.پھر جماعت کے لوگوں کے پاس اتنا روپیہ نہیں ہے کہ اِس طرح ایک دوسرے کو قرض دے سکیں اور اگر روپیہ ہو بھی تو پھر ایسے قرضہ کے وصول کرنے میں دقت پیش آتی ہے.پس یہ بھی ایک ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو جائز ضرورت کے وقت کس طرح قرضہ مل سکے.تیسری ضرورت یہ ہے کہ بعض لوگوں میں قابلیت ہے کہ کوئی کام کر سکیں.انھیں عارضی قرضہ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مستقل ضرورت ہوتی ہے کہ کچھ سال کے لئے قرضہ مل جائے تا کہ وہ کوئی کام چلا سکیں.چوتھی ضرورت یہ ہے اور یہ تاجروں کو زیادہ محسوس ہوتی ہے گو تاجروں کا ذہن اس طرف گیا نہیں حالانکہ میں نے اس سب کمیٹی میں اسی لئے تاجروں کو رکھا تھا ان کو بسا اوقات ایک دو ماہ کے لئے قرض کی ضرورت ہوتی ہے.ایک تاجر منڈی کی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگاتا ہے کہ اگر میں آج یہ مال خرید لوں تو ایک دو ماہ کے بعد دو گنا نفع حاصل ہو جائے گا.ایسے موقع پر سُود دینے والا تو بینک میں جائے گا اور روپیہ لے آئے گا.وہ خود بھی فائدہ اُٹھائے گا اور بینک کو بھی اصل معہ سُود واپس کر دے گا مگر سُود نہ دینے والوں کے لئے قرض حاصل کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے.قادیان میں ہم نے ہندوؤں سے تجارت میں مقابلہ شروع کیا اور خیال تھا کہ ساری تجارت احمدیوں کے ہاتھ میں آجائے گی.مگر ہمیشہ یہ سوال اُٹھتا تھا کہ احمدی ہندوؤں کی نسبت گراں بیچتے ہیں.ہم لوگوں کو حکم دیتے کہ احمد یوں ہی سے خرید و مگر بعض ایسے بھی تھے جو دوسری جگہ فائدہ دیکھ کر وہاں سے خرید لیتے.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت حد تک کامیاب ہو گئے ہیں مگر بڑی مجبوریوں اور
خطابات شوری جلد اوّل ۲۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء مشکلات میں سے گزرتے ہوئے اور بڑی محنتوں اور کوششوں کے بعد.ایک طرف ہم ہندوؤں کا بائیکاٹ نہ کر سکتے تھے کیونکہ یہ شرعاً اور قانوناً ناجائز ہے دوسری طرف احمدی دُکانداروں کے متعلق گراں فروشی کا اعتراض ہوتا جس کی وجہ یہ تھی کہ ہندو روپیہ ہاتھ میں ہونے یا سُود پر قرض لے لینے کی وجہ سے زیادہ مقدار میں سستا مال خرید تے پھر سستا بیچتے اور نفع اٹھاتے.مگر مسلمان زیادہ مال نہ خرید سکتے.پھر ہندو ادھار دے کر اس پر سُود لگا لیتا ہے مگر مسلمان اس طرح نہیں کر سکتا.تو تاجروں کی طرف سے اس قسم کی شکائتیں آتی ہیں اور وہ لکھتے ہیں کہ اگر وقت پر رو پیدل جائے تو ہم فوری طور پر دو گنا نفع کما سکتے ہیں مگر بغیر سُود کے کسی جگہ سے رو پیہ ملتا نہیں.ان حالات میں سوال یہ ہے کہ کوئی ایسی تجویز کی جائے کہ قرضہ کی جو ضرورت پیش آتی ہے وہ پوری ہو سکے.ایک مومن کی شان یہ بھی برداشت نہیں کرتی کہ وہ یوں کسی سے روپیہ لے وہ چاہتا ہے کہ قرض مل جائے جسے وقت پر ادا کر دے مگر قرض ملتا نہیں.ان ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تجاویز پیش ہوئی ہیں.تاجروں کی ضروریات پورا کرنے اور پسماندگان کی امداد کے لئے علیحدہ علیحدہ کمیٹیاں بنانی پڑیں گی کیونکہ ایک کمیٹی دونوں کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی مگر ان کمیٹیوں کے اصول کے ہو جانے چاہئیں.اب جو دوست بولنا چاہیں وہ بولیں.“ شیخ یعقوب علی صاحب : - میں ناظر صاحب امور عامہ کی تجویز کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.ނ " آج سے آٹھ سال پہلے بھی حضرت خلیفتہ امسیح ثانی ایدہ اللہ تعالی کو اس کا خیال تھا.اس بات کا فیصلہ نہایت آسانی کے ساتھ ہو جاتا اگر ہمارے علماء نے اس طرف توجہ کی ہوتی.حضرت خلیفہ اسیح نے بیمہ کے متعلق علماء کو توجہ دلائی تھی.میں دو سال قادیان.باہر رہ کر آیا ہوں معلوم نہیں علماء نے کوئی صورت پیش کی ہے یا نہیں.میرے خیال میں بیمہ کی ایسی کمپنیاں ہیں جو اس قسم کی امداد کا انتظام کرتی ہیں اگر بیمہ کے جواز کی صورت ہو تو اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے ورنہ امور عامہ نے جو تجویز پیش کی ہے وہ نہایت مفید ہے.دوسرے اگر کو آپریٹو سوسائٹیوں کے طور پر کام کیا جائے تو بھی مشکلات حل ہوسکتی
خطابات شوری جلد اوّل ۲۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء ہیں.” الفضل نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک خط شائع کیا ہے اُس میں بھی ذکر ہے کہ تجارتی کاروبار کے لئے سُود لیا جا سکتا ہے مگر اسے دینی کاموں کے لئے خرچ کیا جائے اپنی ذات پر نہ کیا جائے.مجھے معلوم ہوا ہے حضرت خلیفتہ امسیح ثانی ایدہ اللہ نے بھی اس کی اجازت دی ہے کہ کو آپریٹو سوسائٹیوں سے قرض لیا جا سکتا ہے پس خالص احمدی کو آپریٹو سوسائٹیاں بن جانی چاہئیں.“ حضور نے فرمایا: ”چونکہ شیخ صاحب نے ایک فتوے کا ذکر کیا ہے اس لئے میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر شخص کو کو آپریٹو سوسائٹیوں میں داخل ہو جانا چاہئے اور سودی قرضہ لینا شروع کر دینا چاہئے بلکہ یہ ہے کہ جو شخص سُود کے نیچے دبا ہوا ہو دوسری جگہ بہت زیادہ سُود دے رہا ہو وہ ایسی سوسائٹیوں میں شامل ہو جائے کیونکہ جو دوسری جگہ ۵ فیصدی سُو د دیتا ہے وہ اگر دوسری جگہ دو فیصدی سود دے کر روپیہ حاصل کر سکے تو اس کے متعلق امید کی جاسکتی ہے کہ قرض کے بار کے نیچے سے نکل سکے.ایسے لوگوں کو قرض لے لینا چاہئے نہ یہ کہ جسے ضرورت پیش آئے وہ کو آپریٹو سوسائٹی میں جائے اور سُود پر قرض لے لے.“ خان بہادر ڈاکٹر عبد العزیز صاحب : - " نظارت تجارت کی تجویز میں یہ رکھا گیا ہے کہ جن کو قرض دیا جائے گا اُن کی جائداد مکفول رکھی جائے گی مگر ہمیں ایسے لوگوں کی بھی مدد کرنا ہے جو کسی وجہ سے گر گئے ہوں اُن کا سب کچھ تباہ ہو گیا ہو، کوئی جائداد نہ ہو مگر وہ روپیہ مل جانے پر کام کر سکتے ہیں اور اپنی حالت کی اصلاح کر سکتے ہوں ایسے لوگوں کے لئے کیا انتظام ہوگا ؟ میرے خیال میں ایسی کمیٹی کی ایک برانچ ہو جس کا کام یہ ہو کہ وہ ایسے لوگوں کو قرض دے جنھیں قرض کی ضرورت ہو.ایسے لوگوں کے لئے ایک رقم مقرر کر دی جائے جو ماہوار دیتے جائیں خواہ قرض لینے کی ضرورت اُنھیں پیش آئے یا نہ آئے اور جن کو قرض دیا جائے اُن سے ضامن لیا جائے جو صاحب جائداد ہو.اور پھر قرض کی قسط مقرر کی جائے جو مقروض ماہواری مقررہ رقم کے ساتھ ادا کرتا جائے.“ حضور نے فرمایا: - " ڈاکٹر صاحب کی تجویز ایک علیحدہ تجویز ہے اس وقت اُن تجاویز پر
خطابات شوری جلد اوّل 66 ۲۹۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء گفتگو ہے جو ۱۹۲۴ء میں پیش کی گئی تھیں سب باتوں پر اس وقت گفتگو نہیں ہو سکتی.ہوسکتا ہے جو کمیٹی بنے وہ مختلف طریق امداد دینے کے اختیار کرے.اس وقت سوال یہ ہے کہ جو لوگ امدادی سرمایہ میں حصہ ڈالیں وہی اس سے بطور قرض روپیہ حاصل کریں اور یہ اچھا طریق ہے اسی کو مدنظر رکھ کر یہ تجویز پیش کی گئی ہے اب یہ طے کرنا ہے کہ نظارت تجارت کی طرف سے کوئی ایسی انجمن بنائی جائے یا نہ “ حضور کے اس وضاحتی ارشاد کے بعد جب دیگر ممبران اپنے خیالات کا اظہار کر چکے تو آپ نے فرمایا : - جن آدمیوں کو پہلے بولنے کی اجازت دی گئی تھی وہ تو بول چکے ہیں اور میں دیکھتا ہوں احباب اس معاملہ کی اہمیت کو محسوس کر رہے ہیں مگر اس سے بھی زیادہ اس کی اہمیت ہے جو اس وقت تک محسوس کی گئی ہے.اس بارے میں کوئی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے طبائع پر بہت بوجھ پڑ رہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ جلد سے جلد اس کے متعلق کام کیا جائے.کوئی نہ کوئی راہ ضرور نکالنی چاہئے.خصوصاً تاجروں اور ایسے لوگوں کے لئے جن کی جائدادیں ہیں مگر نقد سرمایہ اُن کے پاس نہیں ہے، جو صاحب جائداد نہیں اُن کے لئے تو شریعت نے یہ راہ کھولی ہے کہ وہ زکوۃ سے روپیہ لے سکتا ہے مگر صاحب جائداد ایسا نہیں کر سکتا اس لئے اس کے لئے زیادہ مشکلات ہیں.ایسے لوگوں کے لئے کوئی راہ نکالنی چاہئے.۱۹۲۴ء کی مجلس مشاورت میں بھی یہ بات رکھی گئی تھی مگر اُس وقت اس پر غور کرنے کا موقع نہ ملا.میں اس مجلس شوریٰ کو کامیاب سمجھ لوں گا اگر اس سال صرف اسی امر کا فیصلہ کر لیا جائے.اسی طرح نہ صرف مالی لحاظ سے بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی ہماری جماعت کی اہمیت اور قدر بہت بڑھ جائے گی کہ ہم نے ایسے مشکلات کے حل کی راہ نکال لی.“ نظارت امور عامہ کی اس تجویز پر بحث مکمل ہونے کے بعد حضور نے فرمایا کہ:- ” جو دوست اس تجویز کی تائید میں ہوں کہ کو آپر ٹیوطریق پر سوسائٹی بنائی جائے جو حصہ داروں کو قرض دے وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۱۴۵ممبران کھڑے ہوئے صرف ایک رائے مخالف تھی.چنانچہ حضور نے اس
خطابات شوری جلد اوّل ۲۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء تجویز کو منظور کرتے ہوئے چند سر کردہ احباب پر مشتمل ایک سب کمیٹی بنادی تا کہ وہ سکیم کی تفاصیل طے کرے.نیز فرمایا : - یہ ایک مفید بات ہے جس کی طرف عام طور پر ہماری جماعت کے لوگوں نے توجہ نہیں کی.ہندوؤں نے اس پر عمل کر کے بڑی کامیابی حاصل کی ہے.بوہروں نے اس سے بڑا فائدہ اُٹھایا ہے.ان میں جو شخص غریب ہو جاتا ہے اُسے سارے مل کر مالدار بنا دیتے ہیں اور وہ اس طرح کہ کہہ دیتے ہیں فلاں چیز سوائے فلاں کے اور کوئی نہ بیچے.اس طرح تھوڑے عرصہ میں ہی وہ مالدار بن جاتا ہے.اگر ہماری جماعت کے لوگ اس قسم کی انجمن بنائیں اور وہ ایک دوسرے کی امداد کریں تو بہت مفید ہوسکتی ہے.“ بے کاروں کو کام مہیا کیا جائے مجلس مشاورت میں نظارت تجارت کی یہ تجویز کہ ” بے کاروں کو کام مہیا کیا جائے“ برائے غور پیش ہوئی.تو چند ممبران نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپنی آراء پیش کیں.بعض نے ملازم کرانے پر زور دیا اور بعض نے کارخانے کھولنے پر تاکہ بے کار وہاں کام کرسکیں.اس پر حضور نے تجویز کے ایک نقص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : - اصل میں اس تجویز میں نقص معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تجویز ہے امور عامہ کے متعلق اور پیش ہو رہی ہے نظارت تجارت کی طرف سے اس لئے متضاد نقطہ ہائے نگاہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں.تاجروں نے تو اس نقطہ نگاہ کے لحاظ سے اس پر غور کیا ہے کہ تجارت میں ترقی ہو اور نام انھوں نے یہ رکھا ہے کہ اس طرح بیکاروں کو کام پر لگایا جائے.اور دوسروں کے سامنے لوگوں کی بریکاری ہے.یہ دو مختلف باتیں ہیں بریکاروں کو کام پر لگانا اور بات ہے اور وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ آدمیوں کے لئے کام مہیا کیا جائے اور تجارت کو ترقی دینے کا یہ مطلب ہے کہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کر لیں.بے شک تجارت میں ترقی کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ چند آدمیوں کو کام مل جائے گا مگر ہر ایک قسم کی تجارت سے سب بیکاروں کا انتظام نہیں ہو سکتا.غلطی یہ ہوئی کہ یہ تجویز امور عامہ کی طرف سے پیش ہونی چاہئے تھی.اس سے نظارت کو یہ مد نظر رہتا کہ بریکاروں کو کام پر لگانا ہے نہ یہ کہ
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء تجارت میں ترقی کرنے کی تجویز ہے.میرے نزدیک دونوں تجویز میں اہم ہیں مگر دونوں کے مل جانے کی وجہ سے ان پر صحیح طور سے غور نہیں کیا جاسکتا.بے کاری کو دور کرنے کے لئے ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ہر سال ایک چیز لے لی جایا کرے.ایسی چیز جس کی عام طور پر گھروں میں ضرورت پیش آتی ہے اور اپنے لئے فرض قرار دے دیا جائے کہ وہ چیز احمدی سے ہی خریدیں گے اور پھر احمدیوں سے ہی خریدیں.اس کے لئے یہ ہو سکتا ہے کہ زکوۃ میں سے غرباء کو مدد دے کر یا اور کسی طرح اس کام پر لگا دیا جائے اور جو جو چیز وہ بیچیں اُس کے متعلق ہماری جماعت کا فرض ہو کہ احمد یوں سے ہی خریدے.اس کے لئے ضرورت یہ ہے کہ غور کر کے ایسی چیزیں معلوم کی جائیں جو عام طور پر استعمال ہوتی ہوں.ان کے ماہر تلاش کئے جائیں.اس بات پر اس مجلس میں بحث نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے ایجنڈا میں شامل نہیں ہے.“ تجویز بابت جلسہ ہائے سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم اس تجویز کی بابت حضور نے فرمایا: - ہر انجمن اس بات کی ذمہ دار قرار دی جائے کہ وہ اپنے علاقہ میں ۲۰ جون کو جلسہ کرانے کی کوشش کرے گی اور ہر انجمن پر یہ لازم کر دیا جائے کہ اس جلسہ کے متعلق ایک نقشہ تیار کر کے دفتر میں روانہ کرے.جس میں ان تمام شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کا نام درج کیا جائے.جہاں جہاں اس انجمن کے ذریعہ سے جلسہ کا انتظام کیا گیا ہے اور اس نقشہ میں اس جگہ کے مقررین کا نام بھی دیا جائے.“ اس کی بابت حضور نے فرمایا: - دو یہ تجویز اس رنگ میں ہے کہ میں نے اعلان کیا ہے کہ اس سال ۲۰.جون کو ہر جگہ جلسے کئے جائیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر لیکچر دیئے جائیں.میں نے یہ حکم کے طور پر نہیں کہا تھا بلکہ تحریک کے طور پر کہا تھا چونکہ اس تحریک کو جاری کرنا نظارت دعوت وتبلیغ کا کام ہے اس لئے وہ چاہتی ہے کہ جماعت اس کام کو کامیاب بنانے
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے لئے بجائے اس کے کہ یہ تحریک رہے اسے فرض قرار دے دیا جائے.یعنی ہر احمدی انجمن کا فرض ہو کہ اسے کامیاب بنانے کی کوشش کرے.آپ لوگوں نے اس بات کے اس پہلو پر غور کرنا ہے کہ اس ذمہ داری کو اُٹھاتے ہوئے انجمنوں کے لئے دقتیں ہو سکتی ہیں یا نہیں اور وہ وقتیں کس طرح دُور کی جاسکتی ہیں تا کہ یہ تحریک کامیاب ہو.“ چند ممبران کی آراء کے بعد رائے لی گئی ، فرمایا : - جو دوست ہر احمدی انجمن کو حکما جلسہ کرنے کا پابند قرار دینا چاہتے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں :- ۱۲۲.رائیں 66 جن کی یہ رائے ہو کہ حکماً پابند نہ کیا جائے.وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۵۹.رائیں رائے شماری کے بعد فرمایا: - فیصلہ ”میرے خیال میں وہ وقت جو میں نے خود بیان کی ہے وہ لیکچراروں کی ہے جلسہ کا انتظام کیا جا سکتا ہے لیکن ہر جگہ لیکچر دینے والوں کا انتظام کرنا مشکل ہوتا ہے.گو لیکچروں کے لئے نوٹ تیار کر دیئے گئے ہیں مگر ان میں بھی صرف اشارے ہیں اور حوالے دیئے گئے ہیں کہ فلاں واقعہ فلاں کتاب سے لیا گیا ہے لیکن جسے معلوم ہی نہ ہو واقعہ کیا ہے تو وہ کیا کرے گا.پھر جن کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ ہر ایک کہاں خرید سکتا ہے یہ ایک مشکل ہے مگر اکثر حصہ مجلس نے چونکہ خود اس ذمہ داری کو اُٹھایا ہے اس لئے میں اسے منظور کرتا ہوں.“ سب کمیٹی نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف ب کمیٹی نظارت دعوت وتبلیغ کی رپورٹ سے ایک تجویز یہ پیش ہوئی کہ گورنمنٹ کے معزز عہدیداروں اور امراء میں تبلیغ کے لئے ایک مبلغ مختص کیا جائے.اس پر بحث کرتے ہوئے کئی احباب نے اپنی رائے کا اظہار کیا.اس موقع پر حضور نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: -
خطابات شوری جلد اوّل ۳۰۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء دُنیا میں آجکل ہر کام کو سپیشلسٹ یعنی اس کام کے ماہر کرتے ہیں.تبلیغ کے معاملہ میں ہمیں بھی اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.ہر طبقہ ، ہر خیال اور مذاق کے لوگوں کو سمجھانے کے ذرائع مختلف ہوتے ہیں اور جب تک ہر طبقہ کے لوگوں کو سمجھانے والے سپیشلسٹ نہ ہوں، اُس طبقہ کے لوگوں کے جذبات کو اپیل نہیں کر سکتے.روس کی حکومت نے اس اصل کے ماتحت پراپیگنڈہ کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ ساری حکومتیں اس کے پراپیگنڈہ سے کانپ رہی ہیں.وجہ یہ کہ ان لوگوں نے ہر طبقہ کے لوگوں کے خیالات ، حالات اور ان کی اُمنگوں کا مطالعہ کیا اور اس کام کے لئے ہر ملک میں الگ ماہر مقرر کئے.ہندوستان کے لئے انھوں نے الگ آدمی مقرر کئے، ایران کے لئے الگ، اسی طرح ہر ملک کے لئے الگ الگ آدمی مقرر کئے جو وہاں پراپیگینڈہ کریں.مالداروں میں پراپیگنڈہ کرنے کے لئے الگ مقرر کئے ، مزدورں میں پراپیگنڈہ کرنے کے لئے الگ اور عوام میں پراپیگنڈہ کرنے کے لئے الگ.باوجود اس کے کہ اُن کا قانون یہ ہے کہ مالداروں کو تباہ کیا جائے مگر انھوں نے مالداروں میں پراپیگنڈہ کرنے والے ایسے ماہر مقرر کئے کہ امراء اُن کے ساتھ مل گئے اور اُن کو اپنا خیر خواہ سمجھنے لگ گئے تو ہر طبقہ میں کام کرنے والے الگ ہونے چاہئیں.اس بات کو مد نظر رکھ کر اور موجودہ حالات کو دیکھ کر ضروری ہے کہ امراء میں تبلیغ کرنے کے لئے آدمی تیار کئے جائیں.وہ ایسے رنگ میں سٹڈی کریں کہ امراء کے حالات، ان کے احساسات اور ان کے جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں تبلیغ کر سکیں.یہ اصل سوال تھا اس پر یہ کہنا کہ ایسا خاص طبقہ ہو جائے گا ، یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا یہ ایسی ہی باتیں ہیں جیسے کوئی کہے کسی کو ڈاکٹر اور کسی کو ڈپٹی نہ بنایا جائے کیونکہ ڈاکٹر کے دماغ میں یہ بات آئے گی کہ میں ڈاکٹر ہوں اور ڈپٹی سمجھے گا کہ میں ڈپٹی ہوں اور اس طرح اختلاف پیدا ہو جائے گا.کیا اس وجہ سے ڈاکٹر اور ڈپٹی نہ بنائے جائیں گے؟ ایک مبلغ جو ۱۲ ماہ عام تبلیغ میں مصروف رہتا ہے وہ اس بات کے لئے سٹڈی نہیں کر سکتا کہ امراء میں تبلیغ کرنے کا رستہ نکالے مگر جو اس کام کے لئے مقرر ہوگا وہ اس بات پر غور کرے گا کہ احمدیوں کا جتھہ مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے کس طرح نقصان ہو رہا ہے.اس وجہ سے اس کا نقطہ نگاہ ہی اور ہو گا.وہ یہ سٹڈی نہیں کرے گا کہ کس حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عیسی
خطابات شوری جلد اوّل ۳۰۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء فوت ہو گئے بلکہ وہ اِس بات پر غور کرے گا کہ سیاسی لحاظ سے امراء میں تبلیغ کرنے کے کیا فوائد ہیں.وہ ان علوم کو پڑھے گا جو امراء سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً علم النفس کا مسئلہ ہے.اس کے ذریعہ جو اعتراض ہو سکتے ہیں ان کے جواب سوچے گا.پھر ایسے مخصوص سوالات جو اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کے متعلق سٹڈی کرے گا.دوسرے مبلغ بھی ان باتوں کے جواب دیتے ہیں اور معقول جواب دیتے ہیں مگر چونکہ ان اصطلاحوں میں نہیں دیتے جو اُن باتوں کے لئے مقرر ہیں اس لئے ان کے جواب کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.علم النفس کا ایک نقطہ جب کسی بچہ کے منہ سے نکلتا ہے تو وہ ایک عالم کے دماغ پر اثر نہیں کرتا مگر جب اسی بات کو منطقی اصطلاحوں سے سجا کر کوئی بیان کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ کیا اچھا کلام ہے.پس جب تک ایسے مبلغ تیار نہ کئے جائیں جو ایسی باتوں کی تیاری کریں اس طبقہ کے لوگوں کو مائل نہیں کیا جا سکتا.اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کی زبان میں اور ان کے مذاق کے مطابق گفتگو کرنے والے ہوں تا کہ ان لوگوں پر ان باتوں کا اثر ہو.باقی رہی دعوتیں، ہر طبقہ تک پہنچنے کے لئے مختلف ذرائع ہوتے ہیں اور دعوت کرنا کوئی بُری بات نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب ایک دفعہ لا ہور تشریف لے گئے تو امراء کو تبلیغ کرنے کے لئے آپ نے اُن کی دعوت کی.یہ دعوت ایک غیر احمدی شاہزادہ محمد ابراھیم صاحب کی طرف سے کی گئی اور روپیہ ہمارا اپنا خرچ ہوا.اس میں بہت سے لوگ آگئے جنھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے باتیں سُنا ئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ایک دفعہ اسی قسم کی دعوت کی جب لوگ کھانا کھا چکے تو آپ وعظ کے لئے کھڑے ہوئے مگر لوگ چلے گئے.حضرت علی رضی اللہ عنہ اگر چہ اُس وقت بچے تھے مگر انھوں نے کہا پہلے تبلیغ کی جائے اور پھر کھانا کھلایا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح کیا اور تبلیغ کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اس دعوت کے موقع پر وعظ شروع کیا تو کسی نے کہا ہم تو کھانا کھانے کے لئے آئے تھے مگر یہ کیا ہونے لگا ہے؟ اس پر ایک شخص نے جسے شرابی کہا جاتا تھا کہا کھانا تو ہم روز کھاتے ہی ہیں مگر یہ کھانا کہاں نصیب ہوتا ہے.یہ بات تو اس نے بہت معقول کہی مگر وہ بھی کھانا کھانے کے لئے ہی آیا تھا خود بخود نہ آیا تھا.اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں پہلے حق کی خواہش نہ تھی مگر
خطابات شوری جلد اوّل ۳۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء جب اُسے موقع مل گیا تو اس نے اس خواہش کا اظہار کیا.تو یہ تبلیغ کے ذرائع ہوتے ہیں.اگر چوہدری عصمت اللہ صاحب ٹی پارٹی دیں اور اس میں وکلاء اور سرکاری عہدہ داروں کو بلائیں تو آجائیں گے اور اگر یوں وعظ سننے کے لئے بلائیں تو نہ آئیں گے.پھر کہا گیا ہے کہ سادگی اختیار کرنی چاہئے مگر سادگی کی کوئی حد بھی ہونی چاہئے.ایک شخص نے مجھے لکھا کہ میری تبدیلی کا سوال در پیش ہے تم خود وہاں افسر کے پاس جا کر سفارش کرو کہ تبدیلی روک دیں.اس شخص کے نزدیک یہ بھی سادگی میں داخل تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سادگی کا ذکر کیا جاتا ہے مگر جب آپ نے بادشاہوں کو خط لکھا اور آپ کو بتایا گیا کہ وہ مُہر کے بغیر خط نہیں لیتے تو آپ نے فرمایا مہر بنواؤ.اس وقت آپ نے یہ نہ کہا کہ چلو سادگی سے کام لینا چاہئے ، مہر کی کیا ضرورت ہے.جماعت کے یہ معززین جو اس وقت یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ان کی طرف میں جس قسم کی توجہ کر سکتا ہوں کرتا ہوں مگر ان سے ادنیٰ درجہ کے بھی غیر احمدی آتے اور ان سے انہی کی طرح سلوک کروں تو کیا وہ خوش ہو جائیں گے؟ ان معززین کے اگر ماتحت غیر احمدی بھی آتے تو مجھے ان سے زیادہ ان کی طرف توجہ کرنی پڑتی.اس قسم کی باتیں تھیں جو اس تجویز پر غور کرنے کے وقت پیش کرنی چاہئیں تھیں مگر تقریروں میں ایسی مضحکہ خیز صورت پیدا ہوگئی کہ مجھے بھی اس پر ہنسی آنے لگی.“ تیسرا دن مجلس مشاورت کے تیسرے دن ۸.اپریل ۱۹۲۸ء کو سب کمیٹی بیت المال کی رپورٹ پیش ہوئی اور بجٹ غالب اکثریت کی طرف سے ہاں کہنے پر پاس ہوا.چند ایک نے نہ بھی کہا.حضور نے اپنی تقریر کی ابتداء میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ مکرم پیر اکبر علی صاحب نے اپنی تقریر کے دوران میں کہا تھا کہ اعتراض کرنے والوں کو نقل مکان کر کے لاہور جانا پڑا.اس پر صدر مجلس چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا.حضور نے اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے صورتِ حال کی وضاحت بھی فرما دی.چنانچہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۰۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء بجٹ کے بارہ میں آراء حاصل کرنے کے بعد حضور نے فرمایا :- چونکہ سلسلہ کے اخراجات نہ کسی کی ہاں پر چلتے ہیں اور نہ ناں سے بند ہو سکتے ہیں، اس لئے ان کی منظوری دیتا ہوں.نہ کہنے والوں کی بھی آواز میں نے سُن لی ہے.مجھے ان سے اتفاق نہیں ہے اس لئے بجٹ میں تخفیف کی ضرورت نہیں سمجھتا.میں اس وقت جو تقریر کرنا چاہتا ہوں ، اس میں بعض باتیں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں.اگر میرا خیال غلط نہیں اور پیرا کبر علی صاحب کے متعلق چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے اپنا جو تجربہ بیان کیا ہے وہ درست ہے تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ چودھری صاحب ان کے الفاظ کا وہ مفہوم سمجھیں جو اُنھوں نے بیان کیا ہے.میرا خیال ہے کہ ان کے الفاظ کا وہ مفہوم نہیں جو چوہدری صاحب نے سمجھا ہے.ان کے الفاظ کا مجھ پر بھی اثر ہوا تھا مگر میں نے ان کے وہ معنی نہیں لئے تھے جو چوہدری صاحب نے لئے ہیں.میں نے یہ سمجھا تھا پیر صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ سوال کرنے کا ایک اعتراض کا رنگ ہوتا ہے جس سے دیانت اور امانت پر حملہ کرنا مقصود ہوتا ہے اسے اختیار کرنے والا ایمان سے محروم ہو جاتا ہے.میں اس رنگ میں کلام نہیں کر رہا.گو پیر صاحب کے الفاظ ایسے محتاط نہ ہوں کہ کسی کو وہ خیال نہ پیدا ہو سکے جو چوہدری صاحب کو ہوا.یہ شبہ بھی پیدا ہو سکتا ہے مگر ان کے الفاظ کے دو ہی معنے میں نے سمجھے ہیں ایک یہ کہ جب وہ تقریر کرنے لگے ہوں تو کسی نے کہہ دیا ہو کہ پیغامیوں کی طرح آپ بھی اعتراض کرنے لگے ہیں اور دوسرے یہ کہ میں ایسے اعتراض نہیں کرنے لگا جن سے کوئی ایمان سے خارج ہو جاتا ہے بلکہ سلسلہ کی بہتری کے لئے کچھ کہنا چاہتا ہوں اور آگے چل کر جو باتیں اُنھوں نے پیش کیں وہ ساری کی ساری ایسی ہیں جو کہ مفید اور سلسلہ کے لئے فائدہ مند ہیں نہ کہ نقصان دہ.اور ناظروں کو ان کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اب جس طرح بجٹ بنتا ہے اس سے کچھ سمجھ میں نہیں آتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بجٹ نہ بنتے تھے.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں بننے لگے مگر آپ نے کبھی نہ دیکھے.میرے زمانہ کے ابتداء میں اسی طرح ہوتا رہا مگر پھر میں نے بجٹ دیکھنے شروع کئے.اُس وقت مجھے بھی کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا جس طرح آپ لوگوں کی سمجھ میں اب نہیں آتا اس لئے میں نے کہا بجٹ کی تشریح کیا کرو.اس کے
خطابات شوری جلد اوّل ۳۰۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء بعد خانے بننے لگے ، فارم تیار ہوئے.پھر مجھے خیال آیا کہ اور دوستوں کو بھی بجٹ کے متعلق مشورہ میں شریک کرنا چاہئے.یہاں کام کرنے والے دیانتدار ہیں مگر ممکن ہے کوئی ایسی غلطی ہو جو میں معلوم نہ کر سکوں اس لئے بیرونی احباب کو بھی اس مشورہ میں شامل کرنا چاہئے.چنانچہ جب سے اس طریق پر عمل شروع کیا ہے کئی مفید باتیں حاصل ہوئی ہیں.اسی دفعہ بجٹ میں میعاد کے اضافہ کے متعلق جو بحث ہوئی ہے وہ بہت مفید ہے.بیت المال والے وقت کا اضافہ کرا لیتے.میں اس وقت اس کے متعلق رضامند نہ ہوتا مگر کہا جاتا کہ سرکاری صیغہ جات میں اسی طرح ہوتا ہے.اب معلوم ہوا کہ یہ طریق درست نہیں ہے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ مہینہ کی ایک مقررہ تاریخ تک بجٹ کھلا رہے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ کبھی سال ۱۲.ماہ کا ہو کبھی ۱۳.ماہ کا اور کبھی ۱۱.ماہ کا.تو یہ باتیں بھی مفید ہیں کہ بجٹ کی تفصیل دی جائے مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ ایک ایک بات پر اتنی لمبی بحث ہوگی کہ اور کام نہیں ہو سکے گا.پارلیمینٹوں میں بھی کئی کئی دن بجٹ کے لئے رکھے جاتے ہیں مگر یہاں اتنا وقت دوست نہیں دیتے اس لئے یہ تجویز ہوئی تھی کہ مختصر طور پر مذات درج کی جائیں مگر ناظر صاحب بیت المال نے ایسا اختصار کیا ہے کہ واقعی بجٹ سمجھ میں نہیں آتا.چنانچہ بجٹ پیش ہونے سے پہلے میری ان سے جو آہستہ آہستہ باتیں ہو رہی تھیں وہ یہی تھیں کہ میری سمجھ میں بجٹ نہ آتا تھا اور جب میں ان سے پوچھتا تو معلوم ہوتا کہ اس اختصار میں بعض باتیں ان کی سمجھ میں بھی نہیں آتیں.پیر صاحب کی یہ بات معقول ہے کہ بجٹ کی تفصیل ہونی چاہئے.نیز صیغہ جات میں رقوم کے گھٹا نے بڑھانے کی وجہ بھی بتانی چاہئے.اسی طرح پیر صاحب کی یہ تجویز بھی عمدہ ہے کہ جو خرچ دکھایا جاتا ہے، اُس کی تفصیل ہونی چاہئے.۱۳ ہزار مقبرہ بہشتی کا خرچ دکھایا گیا ہے، یہ حیرت میں ڈالنے والا خرچ ہے اور واقعہ میں اتنا خرچ ہے بھی نہیں.اس لئے یہ بتانا چاہئے تھا کہ یہ کس طرح خرچ ہو گا.اسی طرح نو ر ہاسپٹل کے متعلق جو تجویز انھوں نے بتائی ہے وہ بھی معقول ہے.گو یہاں کے ڈسٹرکٹ بورڈ اور ہماری کوششوں کا انھیں پتہ نہیں ہے.حالات ایسے ہیں کہ ممکن ہے اور کوشش کی جائے تو وہ بھی جاتا رہے جو کچھ ملتا ہے.بڑی کوشش سے اتنی ایڈ منظور ہوئی ہے تاہم کوشش جاری رکھنی چاہئے.یہ بھی صحیح ہے کہ مذ کا نام ناظر کی بجائے
خطابات شوری جلد اوّل ۳۰۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء نظارت کا ہونا چاہئے تا یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ سارا خرچ ناظر کے لئے ہوتا ہے.میں نے پیر صاحب کے الفاظ کی جو تشریح کی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُنھیں الفاظ بولتے وقت احتیاط نہیں کرنی چاہئے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ صحیح الفاظ کا بھی غلط مفہوم سمجھا جاتا ہے مگر اپنی طرف سے احتیاط کرنی چاہئے تا کہ کسی کو کسی قسم کا شبہ پیدا نہ ہو.اُن کے ایمان پر تو حرف نہیں آتا لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ کمزور ایمان والوں کو غلطی لگ جائے.اسی طرح صیغہ تجارت کی آمد و خرچ کو بھی بجٹ میں شامل کر لینا چاہئے.ماسٹر مبارک اسماعیل صاحب نے کہا ہے کہ بجٹ کی کاپی ابھی ملی ہے اور اس میں تفصیل بھی نہیں ہے اس پر غور کس طرح کیا جا سکتا ہے.پہلے فیصلہ ہوا تھا کہ بجٹ میں تفصیل دی جائے مگر اب کے بھی تفصیل نہیں دی گئی.میرے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ بجٹ کی تفصیل دی جائے اور نمائندوں کو آتے ہی بجٹ مل جانا چاہئے تا کہ وہ اس پر غور کر ހނ پھر کہا گیا ہے بک ڈپو کی آمد سے سلسلہ کو حصہ ملنا چاہئے.جب دوسرے حصہ داروں کو منافع ملتا ہے تو کیا وجہ ہے سلسلہ جو اخراجات کرتا ہے اُن کی وجہ سے اسے نہ ملے.اگر نہیں ملتا تو اس کی وجہ بتانی چاہئے تھی.چودھری صادق علی صاحب نے بیان کیا ہے کہ بجٹ پر یہ نہیں لکھا ہوا کہ کب سے کب تک کا ہے.بات تو معمولی ہے مگر اس سے یہ اثر ضرور پڑتا ہے کہ بے احتیاطی.کام لیا گیا ہے.آئندہ پوری احتیاط کرنی چاہئے.انسپکٹڑوں کے تقرر کے متعلق بعض کی رائے ہے کہ ان کو ہٹا دیا جائے اور بعض کہتے ہیں ان کا تقرر مفید ہے.یہاں ناظروں کی بھی رائے یہی ہے کہ یہ طریق مفید نہیں ہے.میں ابھی اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا.تحقیق کر کے دیکھوں گا اگر نقص ہوگا تو ہٹا دیا جائے گا یا اگر جماعت کہے کہ ہم کام کر رہے ہیں اس لئے انسپکٹروں کی ضرورت نہیں ہے اس پر بھی ان کو ہٹا دیا جائے گا.یہ بھی ضروری بات ہے کہ قرض حسنہ کی صحیح تعداد دکھائی جائے.دکھائی تو گئی ہے مگر جس طرح سارے بجٹ کا خلاصہ کی وجہ سے حشر ہوا اسی طرح قرض حسنہ بھی خلاصہ کی نذر ہو گیا.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۰۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء خلیفہ کے اخراجات کے متعلق میں پہلے فیصلہ کر چکا ہوں کہ خلیفہ کے لئے رقم مقرر کرنے میں خلیفہ کا دخل نہیں ہو گا مگر جب اخراجات مجلس مقرر کر دے تو پھر مجلس ان اخراجات میں کمی کرنے کے متعلق کوئی بحث نہیں کر سکتی.یہ میں نے شریعت اسلامیہ کے مطابق قرار دیا ہے.بے شک اخراجات کے مقرر کرنے کے وقت مجلس غور کرے آگے یہ کہ میں خود وہ اخراجات لوں یا انجمن کو دے دوں یا کسی اور کو دوں اس کے متعلق اُس وقت تک کہ اخراجات میں زیادتی کی ضرورت پائی جائے یا نئی خلافت کے وقت رقم کی تعیین کی ضرورت ہو اور کوئی دخل نہیں دیا جا سکتا.قرضہ کے ادا کرنے کے متعلق مرزا احمد بیگ صاحب نے جو شکایت کی ہے اس کے متعلق ذاتی طور پر مجھے معلوم ہے کہ وہ غلط ہے.بات یہ ہے کہ جن کو سب سے بڑی شکایت ہے وہ میرے پاس آئے اور قرضہ کے ادا کرنے کے متعلق ذکر کیا.میں نے کہا پچھلا قرضہ میں ابھی ادا کرا سکتا ہوں لیکن لین دین کا تجارتی تعلق ایسا ہے کہ اس میں آگے پیچھے ادائیگی ہو جاتی ہے.آئندہ اگر آپ لین دین کریں گے تو پھر میں دخل نہ دوں گا.میں نے بذریعہ تار ولایت سے روپیہ منگا کر انھیں دلایا مگر پھر انھوں نے لین دین کیا اور اب پھر شکایت کرتے ہیں.میں اگر اس طرح تجارت کے معاملہ میں بار بار دخل دوں تو وہ تباہ ہو جائے گی.تاجر آپس میں لین دین کرتے ہیں اگر کسی وقت کوئی رقم ادا کرنے میں دیر ہو جائے تو یہ ایسی بات نہیں جو ذلت کا موجب ہو.کتنے لوگ ہیں جو کہہ سکتے ہیں کہ ان کا قرض ہمیشہ وقت پر ادا ہو جاتا ہے.کوئی تاجر ایسا نہیں جس نے قرض لیا ہو اور وقت پر ادا نہ کرنے پر کبھی مجبور نہ ہوا ہو.قابلِ اعتراض بات یہ ہے کہ وہ روپیہ ادا کرنے سے انکار کر دے یا اور جگہ تو دے مگر اس جگہ نہ دے.یہ بد دیانتی ہے مگر اسے بد دیانتی نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی مشکل پیش آ گئی اور اس وجہ سے رو پید ادا نہ کیا جا سکا.میں نے روپیہ لے کر انھیں دے دیا تا کہ وہ مشکلات سے بچیں اور کہہ دیا آئندہ آپ معاملہ کرنے میں خود ذمہ دار ہوں گے.چونکہ اس میں ان کا اپنا فائدہ تھا اس لئے انہوں نے میرے کہنے کے خلاف لین دین کیا اور پھر مجھ سے شکایت کی اب انھیں چاہئے.اس معاملہ کو دفتر قضاء میں پیش کریں.“
خطابات شوری جلد اوّل اختتامی تقریر ۳۰۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد اختتامی تقریر میں حضور نے احباب کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا: - چونکہ احباب نے آج واپس جانا ہے اور وقت تنگ ہو رہا ہے اس لئے باقی ایجنڈا رہنے دیتے ہیں.تاکید کرتا ہوں کہ آئندہ ایجنڈا اس طرح سے تیار کیا جائے کہ مقررہ اوقات میں ختم ہو سکے اور ایسی حالت نہ ہو کہ چلتی دفعہ دوستوں کو رخصت کرنے کا بھی وقت نہ ملے اور بالکل آخری وقت میں اُن کو فارغ کیا جا سکے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طریق تھا کہ جب آپ مجلس میں بیٹھتے تو استغفار پڑھا کرتے تھے اور استغفار کیوں پڑھتے تھے حدیث میں آتا ہے.۷۰ دفعہ استغفار پڑھتے تھے لے اس کی غرض وہ نہ ہوتی تھی جو سُوءِ ادبی سے لوگ بیان کرتے ہیں کہ آپ کے دل پر مجلس میں بیٹھنے سے زنگ لگتا تھا اسے دور کرنے کے لئے استغفار پڑھتے تھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے؟ تو پھر آپ کے دل پر زنگ لگانے والا کون ہوسکتا تھا.لیکن یہ صحیح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زنگ کا ذکر فرمایا ہے مگر یہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل پر زنگ لگتا تھا بلکہ اس لئے پڑھتے تھے کہ دوسروں کے دلوں پر زنگ نہ لگے اور خدا تعالیٰ انھیں اس سے بچالے اور دوسرے لوگ اس لئے پڑھتے تھے کہ وہ اس زنگ سے بچ جائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مجلس میں بیٹھنے اور زنگ کا کیا تعلق ہے.اس موقع پر یا اُس موقع پر جب خلفاء بیٹھے ہوں کئی باتیں ایسی پیدا ہوسکتی ہیں کہ لوگوں کے دلوں پر زنگ لگا دیں.قرآن کریم میں حکم ہے کہ ایسی آواز سے نہ بولو کہ رسول سے سُوء ادبی ہو.اور وہ بات جو رسول کے لئے ہو خلفاء بھی اس کے حصہ دار ہیں.اب اگر کوئی کسی اور مجلس میں بے جا زور اور تندی سے بولتا ہے تو اس کے متعلق کہیں گے، بے ادب ہے.لیکن اگر رسول یا خلیفہ کی مجلس میں اس طرح کلام کرتا ہے تو نہ صرف آداب مجلس کے خلاف کرتا ہے بلکہ گناہ کا بھی مرتکب ہوتا ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۱۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء مجلس مشاورت کا وقار پس احباب کو اس بات کی عادت ڈالنی چاہئے کہ اس مجلس مشاورت میں زیادہ وقار اور خشیت اللہ سے بات کریں مگر دیکھا گیا ہے بعض لوگوں نے یہ مد نظر نہیں رکھا کہ میں فیصلہ کر چکا ہوں اور کئی نے کہا ہے کہ فلاں فیصلہ میں ترمیم کی ضرورت ہے.یہ تو دنیوی حکومتوں میں بھی ہوتا ہے کہ جو فیصلہ پریذیڈنٹ کر دے پھر اُس کے خلاف نہیں کہا جاتا حالانکہ اُن لوگوں کو پریذیڈنٹ سے کوئی اخلاص نہیں ہوتا ، کوئی مذہبی تعلق نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات دل میں اُسے پا جی کہہ رہے ہوتے ہیں مگر اُس کے فیصلہ کا لحاظ رکھتے ہیں.ہماری جماعت کے لوگ اخلاص رکھتے ہیں مگر آداب مجلس سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے اس قسم کی باتیں ان سے سرزد ہو جاتی ہیں.پچھلی دفعہ کی مجلس مشاورت میں ایسا نہیں ہوا مگر اب کے محسوس کیا گیا ہے کہ بعض نے مجھے بھی ناظروں میں سے ایک ناظر سمجھا ہے حالانکہ خلیفہ کسی پارٹی کا نہیں ہوتا بلکہ سب کا ہوتا ہے اور سب سے اُس کا یکساں تعلق ہوتا ہے.اسے کسی محکمہ سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ سب سے اور سب افراد سے تعلق ہوتا ہے اس لئے ان باتوں میں شریعت کے آداب کو مد نظر رکھنا چاہئے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عورتوں میں وعظ کا سلسلہ شروع کیا مگر ان کی مجلس میں شور ہوا تو آپ نے فرمایا اب ہم وعظ نہیں کریں گے کیونکہ عورتوں نے ادب ملحوظ نہیں رکھا.پس خلافت کے آداب اور مجلس کے آداب مد نظر رکھنے چاہئیں.یہ اسلامی مساوات نہیں کہ آداب ملحوظ نہ رکھے جائیں.اسلامی مساوات کیا ہے؟ اسلام نے جہاں مساوات رکھی ہے وہاں یہ بھی حکم دیا ہے.يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا اور پھر فرمایا : - يايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تجْهَرُوا له بالقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ ِلبَعْضٍ آن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَ انْتُمْ لا تشْعُرُون لے یہ مساوات کے خلاف احکام نہیں.اسلام جہاں مساوات سکھاتا ہے وہاں تقویٰ سے باہر نہیں نکالتا.پس ان باتوں کو مد نظر رکھنا چاہئے اور آداب مجلس کے خلاف کوئی بات نہ کرنی چاہئے.دیکھو اگر ایک شخص بول رہا ہو اور دوسرا بھی بولنا شروع کر دے اور کہے یہ مساوات ہے جس پر عمل کر رہا ہوں اور اگر مجلس کے سارے لوگ اسی مساوات پر عمل
خطابات شوری جلد اوّل کرنا شروع کر دیں تو کیا حال ہو.۳۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کثرتِ رائے کا احترام پس اگر کوئی صاحب دیکھیں کہ باقی لوگ ایک بات کو قبول کر رہے ہیں تو کوئی حرج نہیں، اُسے اُس بات سے اتفاق نہ ہو تو بھی خاموش رہے.اُس کی رائے کے خلاف ہونے سے آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا.مجھے اس دفعہ کی مجلس مشاورت کی چار پانچ باتوں سے اختلاف تھا مگر میں نے سوائے ایک آدھ کے باقیوں کو اس لئے بدلا نہیں کہ معمولی باتیں ہیں، ان سے کسی خاص نقصان کا خطرہ نہیں ہے اور کثرتِ رائے نے جو مشورہ دیا اُسی کو منظور کر لیا.اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ ضروری نہیں ہماری رائے ہی صحیح ہو یہ امکان بھی ہے کہ کثرتِ رائے صحیح ہو اور بالعموم ہم دیکھتے ہیں مومنوں کی کثرتِ رائے صحیح ہوتی ہے.اس لئے اگر دوسری رائے کی کثرت ہو تو یہ ضروری نہیں کہ اپنی رائے پر ہی زور دیا جائے.کثرتِ رائے کا احترام کرنا چاہئے.مشاورت کے فیصلوں پر عمل اس کے بعد میں احباب کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ میں نے سوائے ایک آدھ تبدیلی کے کثرتِ رائے کا احترام کیا ہے.مجھے خدا تعالیٰ نے حق دیا ہے کہ میں کثرتِ رائے کے خلاف فیصلہ دے سکوں مگر میں نے اس حق کو کثرتِ رائے کے احترام کے لئے چھوڑ دیا.گویا میں نے اپنے حق کو چھوڑ دیا مگر آپ میں سے تو کسی کو یہ حق نہیں کہ کثرتِ رائے کو رڈ کر دے اس لئے جو فیصلے یہاں ہوئے ہیں اگر ان پر کوئی عمل نہیں کرے گا تو گویا وہ حق ادا نہیں کرے گا.اس لئے ان پر پورا پورا عمل کرنا چاہئے.اسلام کی موجودہ مشکلات اس وقت اسلام ایسی مشکلات میں گھرا ہوتا ہے کہ ہم ان مشکلات کا اندازہ نہیں کر سکتے اور جب جُزوی طور پر اندازہ کرتے ہیں تو اس کا ایسا اثر دماغ پر پڑتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل شاملِ حال نہ ہو تو جنون ہو جائے.اس حالت میں صرف اِس بات سے آرام حاصل ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام کہتا ہے کہ ان مشکلات کا انجام بُرا نہیں ہو گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے.یہ ایک سہارا ہے ورنہ اس کے بغیر کوئی پتھر نہیں جس پر پاؤں رکھیں.جس طرح رسہ کشی کرنے والے
خطابات شوری جلد اوّل ۳۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء پھسلتے جاتے ہیں کیونکہ ان کے لئے کوئی سہارا نہیں ہوتا یا اونچی پہاڑی سے پھسلنے والے کے لئے کوئی روک نہیں ہوتی ، وہی حالت اس وقت مسلمانوں کی ہے.اس وقت جو چیز یقین دلاتی ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے وہ خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں، سوائے اس کے کوئی سہارا نہیں.نہ ہمارے پاس مال ہے، نہ تربیت ہے، نہ تعداد کے لحاظ سے دُنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں.جب یہ حالت ہے تو سوچ لوکس قدر خشیت اور ڈرنے کا مقام ہے اور پھر کس قدر کوشش، کتنے ایثار اور کیسے تو کل کی ضرورت ہے.خطرناک دن میں نے اسی جگہ پچھلے سال بیان کیا تھا کہ اسلام کے لئے نہایت خطرناک دن ہیں.قریب ہے کہ چند سال کے اندر اندر قو میں فیصلہ کر لیں کہ کون زندہ رہنے کے قابل ہے اور کسے برباد ہو جانا چاہئے.میرے یہ الفاظ اُس وقت چیستان نظر آتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے دو ماہ کے اندر اندر ملک میں ایسا تغیر کر دیا کہ بہت لوگ انھیں سمجھ گئے.اپریل میں میں نے یہ بیان کیا تھا اس کے بعد مئی، جون، جولائی میں جو جوش ہندوستان میں پیدا ہوا اُس سے معلوم ہو گیا کہ ہندو کیسے خیالات رکھتے ہیں.مسلمانوں کی دلآزاری آپ لوگوں نے دیکھا کس طرح مسلمانوں کی دل آزادی کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دی گئیں اور آپ کی ہتک کی گئی.پھر آپ لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ مسلمانوں کے پاس اس کے علاج کا کوئی ذریعہ نہ تھا.ہندو اس قسم کی دل دوز اور دل آزار حرکات کرنے میں آزاد تھے.حکومت کا رُعب بھی ان کو نہ ڈرا سکا.حکومت نے بعض کو قید بھی کر دیا مگر چونکہ اُن کے پاس مال تھا، دولت تھی، اثر تھا، رسوخ تھا، اس لئے وہ کہتے تھے اس روش کو نہ چھوڑیں گے.غرض مسلمانوں کو ستانے اور دکھ دینے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پے بہ پے گالیاں دی گئیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کیا گیا.گالیوں سے اتنا جوش نہیں پیدا ہوتا جتنا قوتِ واہمہ کے ذریعہ نقلیں اُتارنے سے ہوتا ہے.کئی عورتیں جب لڑتی ہیں تو یہی گالی نہیں دیتیں کہ تیرا بچہ مرجائے بلکہ مُردہ بچے کی شکل بناتی ہیں اور بین کرتی ہیں تا کہ اس طرح زیادہ دل آزاری ہو.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں ہی نہیں دی گئیں بلکہ بحیثیت قوم گالیاں دی گئیں اور وہ بند نہیں ہوئیں بلکہ ابھی تک جاری ہیں.پھر
خطابات شوری جلد اوّل ۳۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء ایسے نقشے کھنچے گئے جو نہایت ہی تکلیف دہ تھے مثلاً یہ بھیا نک نظارہ بنایا گیا کہ دوزخ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑے دکھ اور تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں.یہ ایک ایسے مسلمان کے لئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام کرتا ہے نہایت ہی تکلیف دہ با تیں تھیں.وسعت حوصلہ کی حد وسعت حوصلہ ایک چیز ہے مگر اس کی بھی ایک حد ہے.سب سے بڑھ کر وسعت حوصلہ دکھانے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے.آپ ایک دفعہ بازار میں جارہے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو دھکا دے کر گرا دینا چاہا بعض دوست اُس شخص کو مارنے لگے مگر آپ نے فرمایا جانے دو اور آپ نے چُھڑا دیا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی روایت ہے کہ ایک دفعہ سخت طاعون پڑی اور بہت سے لوگ مرنے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت درد سے یہ دعا کرتے کہ الہی ! اگر سارے لوگ مر گئے تو ہدایت کون پائے گا یعنی جس کی تائید کے لئے خدا تعالیٰ نے طاعون کا عذاب نازل کیا وہی خدا تعالیٰ کے حضور کہتا ہے اگر یہ لوگ ہلاک ہو گئے تو پھر ہدایت کون پائے گا.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وسعت حوصلہ کا ایک طرف تو یہ حال تھا مگر دوسری طرف لاہور اسٹیشن پر جب ایک ایسے شخص نے آ کر آپ کو سلام کیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیتا تھا تو آپ نے اُس کی طرف توجہ بھی نہ کی اور اُس سے منہ پھیر لیا.وہ دوسری طرف پھرا اور پھر اُس نے سلام کیا مگر آپ نے پھر بھی توجہ نہ کی.تب بعض احمد یوں نے توجہ دلائی کہ حضور لیکھر ام سلام کر رہا ہے.آپ نے فرمایا میں اس کے سلام کا کیا جواب دوں، یہ میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور میں جو اُس کا غلام ہوں، مجھے سلام کرتا ہے !! جس کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہو اور وہ آپ کے متعلق غیرت رکھتا ہو وہ آپ کے متعلق بد زبانی سُن کر بے تاب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.اگر ہمیں واقعہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے اور ہم ہر روز جو آپ پر درود پڑھتے ہیں اگر اس میں ایک شمہ بھر بھی صداقت ہے تو ہم اُس وقت تک صبر نہیں کر سکتے جب تک قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت دُنیا میں قائم نہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کر لیں.ہم ہر روز مسجدوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام زبان پر آتا ہے تو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں مگر آپ کی عزت اور عظمت قائم کرنے کے لئے اپنے آپ کو مٹا دینے کی تڑپ نہیں پیدا ہوتی تو کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت ہے.مصائب اسلام کا صحیح نقشہ وہ مصائب جو اس زمانہ میں اسلام پر آرہے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا کیا ہی صحیح نقشہ کھینچا ہے.یہ جانتے ہوئے کہ کربلا کے واقعہ کے بیان کرنے میں بہت کچھ مبالغہ سے کام لیا جاتا ہے.جب یہ نقشہ سامنے آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ نواسہ جسے آپ پیار کرتے تھے اور لوگوں سے کراتے تھے دریا سے پانی لینے سے روکا گیا اور وہ پیاسا تڑپتا رہا تو دل کانپنے لگتا ہے مگر قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالت اس زمانہ میں اُس سے بھی بڑھ کر ہے.کربلا کے واقعہ کو ایک دردمند جماعت نے نمایاں کر کر کے ایسا بنا دیا ہے کہ ہر شخص جو سنتا ہے اُس کے دل میں درد پیدا ہو جاتا ہے اس کا حوالہ دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدین کہ جس طرح زین العابدین کی کیفیت ہو گئی تھی کہ اُس کے سارے عزیز واقارب مارے گئے تھے، وہی حالت آج اسلام کی ہے.یہ نقشہ نہایت سچائی پر مبنی ہے بلکہ اپنی مثال سے بھی بڑھ کر ہے.کوئی اور مثال نہ تھی اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی حالت کے متعلق یہ دی ہے.مسلمان کہلانے والے اسلام کو چھوڑ چکے ہیں، ترک اسلام سے بہت دُور ہو چکے ہیں، افغان یا تو دیوانہ ملا ہیں یا اسلام سے دُور ہیں ، ایران میں یہ اسلام نہایت بے کس و بے بس ہے، مصر وغیرہ ممالک میں بھی بہت بے کسی کی حالت میں ہے.اسلام کے لئے جوش اور تڑپ صرف ہندوستان میں اسلام کے متعلق اگر کسی کو جوش اور تڑپ کا دعوی ہے تو وہ ہماری جماعت ہے.ایسی خطرناک حالت میں اگر ہماری جماعت کی سی کمزور جماعت بھی پوری توجہ اسلام کی حفاظت کے لئے نہ کرے تو بتاؤ پھر اسلام کی حفاظت کا اور کیا ذریعہ ہے.اس میں شبہ نہیں
خطابات شوری جلد اوّل ۳۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کہ ہدایت خدا تعالیٰ ہی پھیلاتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہدایت پھیلانے کے لئے آسمان سے فرشتے نہیں آیا کرتے ، انسان ہی یہ کام کیا کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ بدر کی جنگ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دُعا کی تھی کہ مسلمان مٹھی بھر ہیں اگر یہ تباہ ہو گئے تو پھر اسلام کا کیا بنے گا.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری کوئی طاقت نہیں ہے مگر خدا تعالیٰ انسانوں سے ہی اپنے دین کی اشاعت کراتا ہے.اگر ہم بھی توجہ نہ کریں تو پھر اسلام کی خدمت کرنے والا کوئی نہ ہوگا.جہاں کوئی اور بھی کام کرنے والا ہو وہاں کوئی سستی بھی کر سکتا ہے لیکن جہاں ایک ہی کام کرنے والا ہو، اُس کی سستی کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہوتا.اس وقت یہ موقع نہیں ہے کہ مختلف جماعتیں اسلام کا کام کر رہی ہیں.اسلام کی ترقی کا انحصار صرف احمد یہ جماعت پر ہے اور حالات نازک سے نازک تر ہوتے جا رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام الہام ہے.آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے ایک معنی اس کے یہ ہیں کہ مصائب اور آفات آپ کی جماعت کو تباہ نہ کریں گے.مگر اس کے ایک اور معنی بھی ہیں.آگ کا لفظ مختلف معنی رکھتا ہے.آگ مصائب کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے اور محبت کے معنوں میں بھی.پس اس الہام میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے مصائب ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے آگ ہمارا کام کر رہی ہے.یعنی عشق الہی کی آگ ہماری کمزوریوں کو جلا رہی ہے اور جب دل میں عشق الہی کی آگ جل جاتی ہے تو پھر اس کی علامات مونہوں سے بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں.پس ہماری جماعت کے ہر فرد کے دل میں محبت الہی کا ایسا شعلہ ہو کہ منہ سے بھی نکلتا ہو اور ہر احمدی اس آگ کو اِس طرح بھڑکائے کہ اس کا چہرہ دیکھ کر لوگ سمجھ جائیں یہ اسلام کا سچا عاشق ہے جو اسلام کے لئے جان بھی دے دے گا مگر قدم پیچھے نہ ہٹائے گا.ہر رنگ میں ترقی میں نے دیکھا ہے پچھلی مجلس مشاورت سے احباب نے ہر رنگ میں ہر ترقی کی ہے اور مالی اور دوسری مشکلات کے متعلق کسی قدر تسلی ہوئی ہے اور اس وجہ سے چند راتیں میں نے بھی آرام کی بسر کی ہیں.مگر اتنی ترقی کافی نہیں ہے،
خطابات شوری جلد اوّل ۳۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء ہمیں اپنے تمام کاموں میں استقلال دکھانا چاہئے.عیسائیوں کے استقلال کو دیکھو بے شک وہ کروڑوں میں سے چند ایک کو ایسے کام کے لئے چنتے ہیں جو تمہیں تھیں سال ایک کام میں لگے رہتے ہیں مگر ان لوگوں کی یہ قربانی ہمارے لئے کوڑے کا کام دینے والی ہونی چاہئے.عیسائیت میں ہے کیا ایک انسان کو خدا بنایا گیا ہے مگر چالیس لاکھ ہندوستان کے لوگ عیسائی ہو چکے ہیں.آج عیسائیت کو جو ہندوستان میں باہر سے آئی ہے حقوق حاصل ہیں.مگر احمدیت کو جو یہاں کی ہے وہ حقوق حاصل نہیں ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ عیسائیوں نے بڑے استقلال سے کام کیا ہے.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں اب بھی بیدار ہوں اور پچھلی دفعہ جو عہد کیا گیا تھا اُسے پھر یاد دلاتا ہوں جو دوست پچھلے سال نہ آئے تھے وہ آج سے عہد کریں کہ واپس جا کر اُن لوگوں کا اخلاص بڑھائیں گے جن میں اخلاص ہے اور جن میں نہیں ان میں پیدا کریں گے.اسلام کی محبت پھیلانے اور اسلام کی اشاعت کرنے میں لگ جائیں اور قرآن کریم کی روشنی جومٹ رہی ہے اُسے قائم کریں.اپنا محاسبہ کرتے رہو میں نے بتایا ہے دوستوں میں پہلے کی نسبت بہت تغیر ہے اور یہ بہت خوشی کی بات ہے مگر ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کرتے رہیں اور دیکھیں ہر روز ہمارا قدم آگے بڑھ رہا ہے یا نہیں؟ پس میں دوستوں سے ایک بات تو یہ کہتا ہوں کہ ہر روز قدم آگے بڑھائیں.اخلاص و محبت بڑھائیں اور دوسرے بھائیوں میں بھی پیدا کریں.عورتوں کے رائے دینے کا استحقاق اس کے بعد چونکہ وقت بہت کم رہ گیا ہے احباب نے ابھی کھانا کھانا ہے اور تین بجنے والے ہیں.میرا منشا تو زیادہ تقریر کرنے کا تھا مگر میں اسے چھوڑتا ہوں اور صرف ایک بات کہتا ہوں احباب اس کے متعلق سوچ لیں.اگلے سال اس معاملہ کو مجلس مشاورت میں رکھا جائے گا.کل کی بحث سے مجھے یہ خیال نہیں پیدا ہوا بلکہ پہلے سے میں نے لکھا ہوا تھا اور وہ معاملہ عورتوں کی نمائندگی کا ہے.میں اس کے متعلق کوئی فیصلہ کرنے سے قبل دوستوں کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہوں.سب دوستوں کو خصوصاً علماء کو اطلاع دیتا ہوں کہ وہ اِس پر غور کریں کہ مجلس مشاورت میں عورتوں کی نمائندگی ہونی چاہئے یا نہیں؟ اور اگر ہونی چاہئے تو
خطابات شوری جلد اوّل ۳۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کس حد تک.عورتوں کے متعلق یہ سوال ہر جگہ پیدا ہو رہا ہے اور ہمارے ہاں تو ضرور پیدا ہونا چاہئے کہ جب اسلام نے بعض حقوق مردوں عورتوں کے مساوی رکھے ہیں تو کیوں اہم معاملات کے متعلق ان سے مشورہ نہیں لیا جا تا.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی اپنے گھروں میں مشورہ لیا اس لئے کیوں نہ عورتوں کو یہ حق دیا جائے.چاہئے کہ دلائل کے ساتھ اس پر گفتگو کی جائے کہ عورتوں کو حقوق نمائندگی حاصل ہونے چاہئیں یا نہیں؟ بہر حال اس کے متعلق غور کرنا ہے.اگلے سال اس معاملہ کو مجلس مشاورت میں رکھا جائے گا تا کہ اس بارے میں قطعی طور پر فیصلہ کر دیا جائے.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے کاموں میں برکت ڈالے.میں نے دعا دیکھا ہے بعض لوگ ابھی تک نیکی اور اخلاص کی اس حد کو نہیں پہنچے جو مومن میں ہونی چاہئے.مومن وہ ہوتا ہے جس میں ایسا ایمان گھر کر جاتا ہے کہ وہ صحیح رستہ سے نہیں ہٹ سکتا مگر بعض لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹھوکر لگ جاتی ہے اور معمولی باتوں پر طیش میں آجاتے ہیں.یہ بات کامل ایمان کے خلاف ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں اور لوگوں سے بھی چاہتا ہوں کہ دُعا کریں.ایسا کامل ایمان حاصل ہو کہ نفس مٹ جائے اور ہم خدا تعالیٰ کے لئے ہو جائیں.زندگی میں اُس کے لئے جئیں اور جب ایک نہ ایک دن مرنا ہے تو کیوں نہ اس زندگی میں ہی اُس کے لئے مر جائیں تا کہ یہ زندگی بھی اُس کے لئے اُسی طرح ہو جائے جس طرح مرنے کے بعد ہوگی.“ (مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء) بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الاحقاف باب قوله فَلَمَّا رَأَوُهُ عارضًا (الخ) بخارى كتاب الصلوة باب قول النَّبي صلى الله عليه وسلم جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا (الخ) البقره: ۴۸ الاعلى: ۱۰ ۵ الضحى : ۱۲ ه الاعراف: ۲۰۵ ك كنز العمال جلد ۵ صفحه ۶۴۸ مطبوعه حلب ۱۹۷۱ء
خطابات شوری جلد اوّل ۳۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النَّبِي صلى الله عليه وسلم (الخ) مسلم کتاب صفات المنافقين باب تحريش الشيطان (الخ) البقره: ۱۰۵ ال الحجرات : ٣ ۱۲ تذکرہ صفحہ ۳۹۷.ایڈیشن چہارم
خطابات شوری جلد اوّل ۳۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء و بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت مارچ ۱۹۲۹ء منعقده ۲۹ تا ۳۱ / مارچ ۱۹۲۹ء) پہلا دن مجلس مشاورت منعقدہ ۲۹ تا ۳۱ / مارچ ۱۹۲۹ء کے افتتاحی اجلاس کے آغاز میں دعا - کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا : - اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے ماتحت جو اس نے ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کے متعلق دیا ہے اور جو یہ ہے فَإذا قرأت القرآن فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ کہ قرآن پڑھنے سے پہلے شیطن رجیم کے متعلق خدا کی پناہ مانگ لیا کرو! اور اس ارشاد اور ہدایت کے ماتحت جو قرآن کی تمام سورتوں کی ابتداء میں ہے کہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ یعنی ہر نیک سے نیک کام کو شروع کرنے سے پہلے خدا سے نصرت اور مدد مانگنی چاہئے.میں مجلس شوری کے افتتاح سے پہلے چاہتا ہوں سب دوست مل کر دعا کر لیں کہ خدا تعالیٰ ہمارے فکروں اور ارادوں میں ، ہمارے مشوروں اور فیصلوں میں اور ان فیصلوں پر عمل درآمد کرنے میں ہماری سعی میں اور سعی کے نتائج میں برکت ڈالے، ہمارا یہ وقت جو خرچ ہو، بہترین مصرف قرار پائے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا باعث ہو.“ تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل افتتاحی افتتاحی تقریر تقریر فرمائی.احمدیت کی عظمت اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ وہ دنیا کے دلوں میں خود بخود سلسلہ احمدیہ کی عظمت اور سلسلہ کی طرف میلان پیدا کر رہا ہے اور محض اُس کے فضل سے سلسلہ احمد یہ روز بروز ترقی کرتا جا رہا ہے مگر جس طرح سلسلہ کی.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۲۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء ترقی ہمارے لئے خوشی اور مسرت کا موجب ہے اسی طرح وہ ہمارے لئے فکر اور تشویش کا بھی باعث ہے.تربیت کی ذمہ داریاں جوں جوں احمدی جماعت ترقی کرتی جاتی ہے اس کے ساتھ ہی جماعت کی تربیت کی ذمہ داریاں بھی بڑھتی جاتی ہیں.ہمارے فرائض جہاں تبلیغ کے لحاظ سے محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ادا ہوتے جارہے ہیں وہاں ایک نئی قسم کے فرائض ہم پر عائد بھی ہو رہے ہیں جو تعلیم و تربیت کے رنگ کے ہیں اس وجہ سے ہمارے لئے اور بھی زیادہ پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت پیدا ہوتی جارہی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو سلسلے قائم کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ خود ان کا مددگار ہوتا ہے.اپنے فضل سے اُن کی تائید کرتا ہے اور ایک زمانہ تک اُس سلسلہ کے افراد کی کمزوریوں پر بھی پردہ ڈالتا جاتا ہے.اُن کی کوتاہیوں سے بھی چشم پوشی کرتا رہتا ہے، اُن کی غفلتوں کو بھی نظر انداز کرتا جاتا ہے، جہاں وہ خدا کے فضل کے مستحق نہیں بھی ہوتے وہاں بھی اپنے فضل کے دروازے اُن کے لئے کھول دیتا ہے کیونکہ وہ اس کے دین کے اول حامل ہوتے ہیں اور اُس کے مذہب کو شائع کرنے والے ہوتے ہیں.اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ان کے اعمال کی اصلاح بھی کرتا جاتا ہے.یہی نہیں کہ ان کی کوتاہیوں، ان کی کمزوریوں ، ان کی غفلتوں، ان کی مستیوں کو نظر انداز کرتا ہے وہ گند اور میل جو سالہا سال کی محنتوں اور دیانتوں سے دُھل سکتی اسے محض اپنے فضل اور رحمت سے ہفتوں، دنوں، گھنٹوں ،منٹوں بلکہ سیکنڈوں میں دھو دیتا ہے اور ان کی روحانی ترقی کے سامان پیدا کرتا جاتا ہے.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اُس کی نصرت ہی سلسلہ احمدیہ کی ترقی کا موجب بنے گی.اس کی ترقی کے لئے جو کچھ ہم نہیں کر سکتے وہ خدا تعالیٰ کے فرشتے کریں گے جبکہ ہماری غفلتیں ، ہماری کوتاہیاں ، ہماری مستیاں سلسلہ کی ترقی میں روک نہیں بن سکتیں مگر رات کے زمانہ اور تاریکی کے ایام میں ٹھوکر کا موجب ضرور بن سکتی ہیں.صحابہ کی اجتہادی غلطیاں دیکھو صحابہ کی اجتہادی غلطیاں اسلام کی ترقی میں روک نہ بن سکیں ، صحابہ کوسیدھے راستہ سے بھٹکانے میں کامیاب نہ ہو سکیں مگر وہ بعد کے زمانہ کے مسلمانوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بن گئیں.گویا وہ غلطیاں
خطابات شوری جلد اوّل ۳۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء اپنے زمانہ کے لوگوں کے لئے موجب ابتلاء نہیں ہوتیں لیکن بعد میں آنے والوں کے لئے ابتلاء کا موجب بن جاتی ہیں.حضرت ابو ہریرہ کی بعض روایات میں حضرت مسیح ناصری کی نسبت بعض ایسے تعریف و توصیف کے کلمات آئے جو آج عیسائیوں کے اسلام پر حملہ کرنے کا موجب بن رہے اور اسلام پر اعتراض کرنے والوں کا آلہ کار ثابت ہو رہے ہیں مگر صحابہ پر ان کا کوئی اثر نہ پڑا.وہ روایات جن سے آج حیات مسیح ثابت کی جاتی ہے کئی صحابہ کے وقت بھی موجود تھیں مگر باوجود ان کے موجود ہونے کے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا قرآن سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جس قد را نبیاء آئے وہ فوت ہو گئے ہیں ہے تو کسی نے اس کا انکار نہ کیا.جیسے روشنی کے سمندر میں جبکہ سورج پوری تمازت سے چمک رہا ہو کوئلہ کا ایک ذرہ اس روشنی کو کم نہیں کر سکتا اسی طرح وہ روایتیں اپنے زمانہ میں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں لیکن وہ بیچ بن گئیں آئندہ زمانہ کے لوگوں کی ٹھوکر کے لئے.اور جب لوگوں کے دلوں میں وہ روحانیت نہ رہی جو صحابہ کے دلوں میں تھی بلکہ ان روایتوں کے راویوں کے دلوں میں تھی تو وہی روایت وہی درائت وہی استنباط، وہی اجتہاد جو خود راویوں کے لئے گمراہی اور ٹھوکر کا موجب نہ ہو ا تھا وہی بعد میں آنے والوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو گیا.باوجود ان تمام روایات کے حضرت ابو ہریرہ موحد ہی رہے لیکن ان میں سے بعض کی وجہ سے بعد میں آنے والے کئی مسلمان شرک کے عقیدوں میں مبتلا ہو گئے کیونکہ ان کے پاس حضرت ابوہریرۃ کے الفاظ تو پہنچے مگر اُن کا ایمان نہ پہنچا.حضرت ابو ہریرہ کی روایت تو پہنچی مگر اس کے ساتھ ان کا نور نہ آیا اس لئے جبکہ حضرت ابو ہریرہ با وجود ان روایتوں کے بیان کرنے کے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکے، بعد میں آنے والے ان روایتوں کو سن کر خدا تعالیٰ سے دُور ہو گئے.پس یہ تو مجھے پورا یقین اور وثوق ہے اور اگر ساری دنیا بھی اس کے خلاف کہے تو میں نہیں مان سکتا کہ ہماری جماعت تھوڑی ہو یا بہت کمزور ہو یا طاقتور،ضرور اسلام کو دنیا میں پھیلائے گی ہماری کمزوریاں اور کوتاہیاں ترقی اسلام میں روک نہیں بن سکیں گی.ہماری غلطیاں مگر یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری کمزوریاں اور ہماری غلطیاں دوسو سال یا چار سو سال یا ہزار سال یا چار ہزار سال بعد آنے والے لوگوں کے لئے
خطابات شوری جلد اوّل ۳۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء ٹھوکر کا موجب بن جائیں.جب تک لوگوں کے دلوں میں نور ایمان باقی رہے گا وہ دبی کی دبی رہیں گی لوگوں کی توجہ اپنی طرف نہ کھینچ سکیں گی.اسی طرح لوگوں کی توجہ ان پر سے پھسلتی رہے گی جس طرح تیل ملے ہوئے جسم سے پانی کا قطرہ پھسل جاتا ہے لیکن جب لوگوں کے ایمان میں کمزوری آجائے گی ، ان کے عرفان میں کمی ہو جائے گی ، ان کے دل اخلاص اور محبت سے اس طرح پر نہ رہیں گے جس طرح آجکل کے لوگوں کے ہیں تو ٹھوکر کا موجب بن جائیں گی.پس ہماری ذمہ داریاں روز بروز بڑھ رہی ہیں جتنا جتنا اسلام کامیابی اور ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے، ہمارے لئے اُتنا ہی زیادہ خطرہ پیدا ہو رہا ہے اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنے تمام فکروں، تمام تدبیروں اور تمام مشوروں میں اس پہلو کو مدنظر رکھیں کہ ہمارے معاملات دنیا کے معاملات سے بہت فرق رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے زمانہ بعثت کے قریب کی جو جماعتیں ہوتی ہیں خاص درجہ اُنہیں خاص درجہ دیا جاتا ہے.نہ اس لحاظ سے کہ خدا تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے بلکہ اس لحاظ سے جو پارلیمنٹیں جو قانون بناتی ہیں اُسے بعد میں آنے والے لوگ تو ڑ سکتے ہیں مگر مذہب میں پہلے آنے والوں کی باتوں کو عزت اور توقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے.ان کے فیصلوں کا توڑنا بغیر نبیوں کی آمد کے ناممکن ہوتا ہے.تیرہ سو سال کا تو بڑا عرصہ ہے اس سے قلیل عرصہ کی حکومتوں کو دیکھ لو ان کے قوانین بدل گئے ، ان کی تعزیرات تبدیل ہو گئیں لیکن اگر ابتدائی زمانہ کے مسلمانوں میں کوئی غلطی بھی پیدا ہو گئی تو پھر اس کا مٹانا ناممکن ہو گیا اور اُس وقت تک ناممکن رہا جب تک خدا تعالیٰ نے اپنا ماً مور نہ بھیجا.اس مأمور نے بھی اپنے قلم سے ان کو نہ مٹا دیا بلکہ اس غرض کے لئے ایک جماعت قائم کی جس کا فرض قرار دیا کہ غلطیوں کو مٹائے.اب وہ جماعت نہ معلوم کتنے عرصہ میں ان غلطیوں کو مٹانے میں کامیاب ہوسکتی ہے.نمائندگان مجلس شوری کو نصیحت پس میں ان دوستوں کو جو مجلس شورٹی میں شمولیت کے لئے آئے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندر خشیت اللہ پیدا کریں.لستانی اور لفاظی نہ یہاں کام آ سکتی ہے اور نہ اگلے جہان میں.جو چیز
خطابات شوری جلد اوّل ۳۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء ہمیں دنیا میں فوقیت دے سکتی ہے اور آخرت میں سرخرو کرسکتی ہے وہ یہی ہے کہ ربنا الله " یعنی ہم کہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے.اگر یہ چیز ہم میں موجود نہ ہو.اگر ربنا اننا سمعنا مُنَادِيًا يُنَادِي للايمان آن امِنُوا بِرَبِّكُمْ فَامت کے والی بات ہم میں موجود نہ ہو تو غور کر لو دنیا کی دوسری طاقتوں اور قوتوں اور قوموں کے مقابلہ میں ہماری ہستی ہی کیا ہے.ایک پشہ کے پر کے برابر بھی نہیں.یہی اور صرف یہی چیز ہے جس پر ہم فخر کر سکتے ہیں.یہی چیز ہے جو ہمارے قلوب پر غالب آنی چاہئے.ہمارے غور پر خدا تعالیٰ کی خشیت حاکم ہو، ہمارے فکر پر خدا تعالیٰ کا خوف حاکم ہو، ہماری زبان پر خدا تعالیٰ کا خوف حاکم ہو، ہمارے دل پر خدا تعالیٰ کا خوف حاکم ہو، ہمارے مشوروں پر خدا تعالیٰ کا خوف غالب ہو، ہمارے فیصلوں پر خدا تعالیٰ کا خوف غالب ہو، وہی چیز جس کی وجہ سے ہم دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.اُسی کی قدر و منزلت ہمارے دلوں پر غالب ہو.پس میں امید رکھتا ہوں دوست مشوروں میں کسی قسم کی نفسانیت کو دخل انداز نہیں ہونے دیں گے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے اور بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ باوجود اس کے کہ میں نے پچھلے سال بھی اسی قسم کی نصیحت کی تھی بعض دوستوں نے اس پر عمل نہ کیا.بعض کارکنوں کی طرف سے بھی ایسی باتیں کی گئیں جو نا پسندیدہ تھیں اور باہر کے دوستوں کی طرف سے بھی.میں نہیں سمجھتا ہم سے زیادہ نقصان اور گھاٹے میں کون ہو سکتا ہے جبکہ ہم دنیا کو خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑ کر آئیں لیکن جب خدا تعالیٰ کے قریب پہنچیں تو ایسی حرکات کریں کہ اُس کے حضور سے نکالے جائیں اور ہم اس کے مصداق بن جائیں نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے خدا کی خشیت کے ماتحت فیصلے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارا کوئی فیصلہ غلط بھی ہو مگر خدا تعالیٰ کے خوف اور خشیت کو دل میں رکھتے ہوئے ہو تو ہماری کامیابی میں زیادہ روک نہ ہوگا.لیکن اگر ہمارے فیصلے تو صحیح ہوں مگر خدا تعالیٰ سے دُور ہو کر کئے گئے ہوں تو باوجود ان فیصلوں کی صحت کے کامیابی سے ہم بہت دُور رہیں گے کیونکہ اس دنیا کے تغیرات ہمارے فیصلوں پر مبنی نہیں ہیں.ہمارے فیصلے محدود معاملات کے متعلق ہوں گے اس لئے صحیح فیصلوں کے بعد بھی ایسی باتیں رونما ہوں گی جو ہمارے
خطابات شوری جلد اوّل ۳۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء فیصلوں کے خلاف اثر انداز ہوں گی لیکن اگر ہم میں خشیت اللہ پائی جائے اور پھر کوئی غلطی ہو جائے تو اس غلطی کا ازالہ خود خدا تعالیٰ کر دے گا اور خود ہمیں اُس راہ پر چلائے گا جو ہمارے لئے مفید ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فیصلہ شاید وہ لوگ جو الفاظ کے ایسے معنی لینے کے عادی ہیں جو الفاظ کہنے والے کے مدنظر نہیں ہوتے وہ یہ کہیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ غلط فیصلہ تو فائدہ کا موجب ہو جائے جو خشیت اللہ کو دل میں جگہ دیتے ہوئے کیا گیا ہو اور وہ فیصلہ جو خشیت اللہ سے دور ہو کر کیا گیا ہو وہ صحیح ہونے کے باوجود مضر ہو.میں ایسے لوگوں کی توجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فیصلہ کی طرف مبذول کراتا ہوں.آپ گو رویا دکھایا گیا کہ آپ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں.اس پر آپ محض خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کسی عزت اور بڑائی کے لئے نہیں ، نہ اس لئے کہ مکہ والوں پر اپنا رُعب جمائیں مکہ کی طرف چل پڑے.یہ اجتہادی غلطی تھی.خدا تعالیٰ کا یہ منشاء نہ تھا کہ اُسی سال طواف ہو مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کی رضا اور اُس کی منشاء کو پورا کرنے کے لئے یہ فیصلہ کیا کہ اُسی سال طواف کیا جائے.یہ آپ کو اجتہادی غلطی لگی لیکن خدا تعالیٰ نے اسی کے متعلق فرمایا.انا فتحنا لک فتحا مبینا یہ غلطی ہوئی ہے لیکن چونکہ ہماری محبت اور ہماری رضا کے حصول کے لئے کی گئی ہے اس لئے اسی کو ہم نے بہت بڑی فتح کا پیش خیمہ بنا دیا.اس کے مقابلہ میں ایک اور فیصلہ ہوا جو صحیح فیصلہ تھا لیکن چونکہ اس کے کرنے کے وقت خشیت اللہ باقی نہ رہ گئی تھی، اس لئے وہ نہایت خطرناک ثابت ہوا.وہ فیصلہ بعض صحابہ کا تھا جنہیں اُحد کی جنگ میں ایک مقام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے کر کے فرمایا تھا کہ چاہے ہمیں فتح ہو یا شکست تم یہاں سے نہ ہٹنا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح ہوئی اور دشمن بھاگنے پر مجبور ہوا تو اُس وقت ان لوگوں کا یہ بالکل صحیح فیصلہ تھا کہ وہ بھی آگے بڑھتے اور بھاگتے ہوئے دشمن پر حملہ کرتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے چونکہ یہ نکل چکا تھا کہ خواہ فتح ہو یا شکست، تم اس جگہ سے نہ ہٹنا اس لئے خشیت اللہ چاہتی تھی کہ وہ دشمن کے بھاگنے پر بھی وہاں سے نہ چلتے.خواہ وہ یہ دیکھتے
خطابات شوری جلد اوّل ۳۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لشکر کو لے کر ہمیں میل آگے بڑھ گئے ہیں مگر جب تک انہیں وہاں سے ہٹنے کا حکم نہ دیتے نہ ہٹتے.اُس وقت انہیں عقل کہتی تھی بھاگتے ہوئے دشمن کے پیچھے جائیں گے تو فتح اور زیادہ یقینی ہو جائے گی لیکن خشیت اللہ کا یہ تقاضا تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی پابندی کرتے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا.نتیجہ کیا ہوا ؟ یہ کہ خدا تعالیٰ نے دشمنوں کی نظر ادھر پھرا دی اور انہیں بتایا کہ تم کہاں بھاگے جا رہے ہو؟ تمہاری کامیابی کی صورت نکل آئی ہے.چنانچہ اُنہوں نے مڑ کر ادھر سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا جہاں سے وہ صحابہ ہٹے تھے.یہ خدائی فعل تھا.یہ غلط ہے کہ خالد کی نظر اُس مقام کی طرف پڑی اور یہ بھی غلط ہے کہ مکہ کے بعض سرداروں کی نظر اُدھر گئی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے یہ تدبیر کی تھی اور مسلمانوں کو یہ نقصان ہم نے پہنچایا تھا اور اس بات کی سزا میں پہنچایا تھا کہ انہوں نے رسول کی بات کا ادب کیوں نہیں کیا تھا.وہ غم جو رسول کو پہنچایا گیا اُس کے بدلے خدا تعالیٰ نے ان کو غم پہنچایا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ہمارا کام تھا.پس یقیناً کفار کی نظر اُس وقت اپنے آپ نہ اُٹھی تھی بلکہ خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے اٹھائی تھی تا مسلمانوں کو بتائے کہ خواہ بحالات ظاہرہ کوئی فیصلہ صحیح نظر آئے اگر خشیت اللہ مدنظر نہ ہو تو پھر کامیابی نہیں ہوسکتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اور کئی مثالیں اس قسم کی مل سکتی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی پائی جاتی ہیں بلکہ میں تو کہوں گا کہ یہ مومن کی زندگی میں پائی جاتی ہیں کہ کئی صحیح فیصلے اُس کے لئے وبالِ جان ثابت ہوتے ہیں اور کئی غلط فیصلے یعنی اجتہادی غلطیاں اُس کی کامیابی کا ذریعہ بن جاتی ہیں جبکہ وہ خشیت اللہ کے ہوتے ہوئے سرزد ہوں.خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی پس آپ میں سے ہر ایک شخص خشیت اللہ کو کام میں لاتے ہوئے اپنے بھائیوں کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہمارا کام خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ہے، ہمارا سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے، ہم اگر چندہ دیتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے لئے دیتے ہیں.ہماری ساری کوشش اس بات کی ہونی چاہئے کہ ہمارے
خطابات شوری جلد اوّل ۳۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء اموال ، ہمارے اوقات اور ہماری جانیں ایسے رنگ میں خرچ ہوں کہ اسلام کو مدد ملے اور ہماری کسی بات میں نفسانیت نہ ہو.دین کے کاموں کو دنیا کے کاموں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا.دنیا کے کاموں میں اس طرح ہوتا ہے کہ جہاں کا روپیہ ہو وہیں خرچ کیا جاتا ہے لیکن دین کے متعلق اس طرح نہیں کیا جاسکتا.دیکھو اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی طرح کرتے تو تمام تبلیغ رک جاتی.امرتسر میں جو احمدی ہوتے اگر ان کا روپیہ امرتسر میں ہی صرف کیا جاتا ، لاہور میں جو ہوتے ان کا چندہ لاہور میں ہی صرف کیا جاتا ، جو قادیان میں ہوتے ان کا قادیان میں صرف ہوتا تو پھر دوسرے مقامات پر تبلیغ کس طرح سے کی جاسکتی.بات یہ ہے کہ دینی معاملات میں حدود مرئی نہیں ہوتے جس طرح حکومتوں کے ہوتے ہیں.پس ہمیں اپنے فیصلوں میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھنا چاہئے.امید ہے دوست ایسے رنگ میں کلام کریں گے اور مشورہ دیں گے کہ جب یہاں سے جائیں تو اگر کسی کے دل پر پچھلی غلطی سے زنگ لگ گیا ہو تو اب اُس کے دل سے نور کا شعلہ اُٹھ رہا ہوگا اور وہ تازہ ایمان اور معرفت لے کر جائیں گے.زنانہ ہائی سکول اس کے بعد میں ایک ایسے امر کے متعلق جو ایجنڈے میں نہیں، کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.پچھلے سال مجلس مشاورت کے موقع پر تجویز کی گئی تھی کہ دس ہزار روپیہ زنانہ ہائی سکول کے لئے عورتوں سے جمع کیا جائے.میں نے اس کے متعلق کہا تھا یہ پسندیدہ بات نہیں ہے کہ عورتوں سے روپیہ لے کر عورتوں کا مدرسہ قائم کیا جائے.اس سے یہ سوال پیدا ہوگا کہ عورتوں کے کام عورتوں کے روپے سے ہوں اور مردوں کے کام مردوں کے روپے سے.یہ سپرٹ ہماری جماعت میں نہیں پیدا ہونی چاہئے.ہم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں خواہ مرد ہوں خواہ عورتیں اور ہمارے کام نہ مردوں کے لئے ہونے چاہئیں نہ عورتوں کے لئے بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہونے چاہئیں.ہاں اگر کسی کام میں یہ امتیاز قائم کرنا ہے تو پھر یوں ہونا چاہئے کہ صرف مردوں کے روپے سے عورتوں کا مدرسہ بنے تا یہ ظاہر ہو کہ ہماری جماعت کے مرد عورتوں کی ترقی کے اسباب پیدا کرنے کے لئے تیار ہیں.اس کے لئے میں نے بعض دوستوں کو تحریک کی تھی.اس کے ساتھ ہی دو اور تحریکیں بھی تھیں.ایک
خطابات شوری جلد اوّل ۳۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء تو یہ کہ کچھ لوگ ایسے تھے جن کی اعانت اور مدد ضروری تھی لیکن صدقات کا فنڈ ختم ہو چکا تھا.ایک اور تھی جس کا بیان کرنا میں اس وقت ضروری نہیں سمجھتا.تیسری مد زنانہ سکول کی تھی.چونکہ پچھلا سال قحط کا سال تھا، اس لئے میں نے اس تحریک کو بہت محدود حلقہ میں رکھا.صرف چند دوستوں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی اور اُن کو بھی اجازت دے دی تھی کہ چاہیں تو شامل ہوں اور چاہیں تو نہ شامل ہوں، ان کے لئے شامل ہونا ضروری نہیں.اس تحریک کے مطابق انداز اساڑھے سات ہزار کے قریب روپیہ آیا ہے.جس میں سے تین ہزار تو ان دونوں مدوں کی طرف منتقل کیا گیا جن میں سے ایک کا میں نے ذکر کر دیا ہے اور ایک کا نہیں کیا ہے اور ساڑھے چار ہزار روپیہ زنانہ سکول کے لئے رکھا گیا.جس کے متعلق تجویز ہے کہ مدرسہ کی زمین خرید لی جائے.پندرہ سو کے قریب ابھی وعدے باقی ہیں.وہ دوست بعض مجبوریوں کی وجہ سے روپیہ نہیں بھیج سکے اور بعض دور کے مقامات کے ہیں ابھی ان کی طرف سے روپیہ پہنچ نہیں سکا.ان کی طرف سے روپیہ آ جانے پر امید ہے پانچ ساڑھے پانچ ہزار تک اور ممکن ہے.چھ ہزار تک روپیہ ہو جائے جس سے اس سال زمین خرید لی جائے گی چونکہ یہ تحریک مجلس کے موقع پر ہی ہوئی تھی اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ اس کے لئے روپیہ جمع کروں گا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس وقت اس بات کو بیان کر دوں تا یہ نہ سمجھا جائے کہ اس طرف توجہ نہیں کی گئی.زنانہ تعلیم کی ضرورت زنانہ سکول نہایت اہم ضرورتوں میں سے ایک ضرورت ہے اور ایسی اہم ضرورت ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.اسلام کے خلاف سب سے زیادہ فساد عورتوں کے ذریعہ پیدا کیا گیا اور پیدا کیا جا رہا ہے.اس لئے آہن با آہن کوفتن کے اصل کے مطابق ضروری ہے کہ عورتوں کے ہی ذریعہ اس فتنہ کا سد باب کیا جائے لیکن صرف قادیان کی لڑکیاں پڑھ کر یہ کام نہیں کر سکتیں.اول تو یہاں کی لڑکیاں ہر جگہ پہنچ نہیں سکتیں.دوسرے ہر فرد کے دل میں جو یہ خواہش ہے کہ دین کے کام میں حصہ لے وہ پوری نہیں ہو سکتی.اس لئے ضروری ہے کہ لڑکیوں کے لئے محفوظ اور منظم بورڈنگ بھی قائم کیا جائے تاکہ دُور دُور کے احمدی اپنی لڑکیاں یہاں پڑھنے کے لئے بھیج سکیں اور دوسرے لوگ بھی جو چاہیں بھیج سکیں اور ایسا انتظام کیا جائے کہ دُنیوی تعلیم
خطابات شوری جلد اوّل ۳۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء کے ساتھ دینی تعلیم بھی دی جائے.صرف انٹرنس تک کی تعلیم لڑکیاں بھی باہر پاسکتی ہیں اور لڑکے بھی لیکن ضرورت مذہبی تعلیم کی ہے جس کے بغیر نہ ہم دین میں کامیاب ہو سکتے ہیں نہ دنیا میں.میں اپنی طرف سے تو پوری کوشش کروں گا کہ نصاب اس قسم کا رکھا جائے جس میں دینی تعلیم کا بہت بڑا حصہ ہو.گو میں نہیں جانتا کہ نصاب مقرر کرنے کے وقت کیسی موافق یا مخالف رائیں پیش ہوں گی.ہائی سکول کا دینی نصاب میرا خیال تو یہ ہے کہ لڑکوں کے ہائی سکول میں بھی دینی نصاب زیادہ ہونا چاہئے.لوگ اپنے بچوں کو گھروں سے باہر اسی لئے یہاں بھیجتے ہیں کہ وہ دینی تعلیم حاصل کریں.جب ہم سکول میں پڑھا کرتے تھے اُس وقت دینی نصاب زیادہ تھا مگر اب بہت کم ہے.میری یہ عادت نہیں کہ جبری طور پر کوئی بات منواؤں اس لئے باوجود اس کے کہ ہائی سکول میں دینی نصاب کم ہے میں نے منتظمین کو اس طرف توجہ دلانے سے زیادہ کچھ نہیں کہا.میرا خیال ہے ابھی تک اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی.عورتوں کے لئے دینی تعلیم میں جہاں تک سمجھتا ہوں مردوں کی نسبت عورتوں کے لئے دینی تعلیم زیادہ ضروری ہے.مرد ایک دوسرے سے ملنے جلنے کی وجہ سے ایسی باتیں اخذ کر لیتے ہیں جو کتابوں کے ذریعہ کئی سالوں میں بھی حاصل نہیں کر سکتے لیکن لڑکیوں کے لئے اُس طرح ملنا جلنا آسان نہ ہوگا.جہاں تک ممکن ہوگا منتظمین اس میں روکیں ڈالیں گے اور جس طرح لڑ کے عام تقریریں اور درس سن سکتے ہیں لڑکیاں نہ سُن سکیں گی اس لئے ان کے لئے زیادہ دینی نصاب کی ضرورت ہے.یہی وجہ ہے کہ زنانہ سکول قائم کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے.گو اس وقت جس قد ر روپیہ ہے اس سے زمین بھی نہ خریدی جا سکے گی مگر میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے لئے تحریک جاری رکھی جائے گی.گرلز سکول کے لئے زمین میرا اندازہ ہے کہ کم از کم دس گھماؤں زمین ہونی چاہئے تا کہ لڑکیوں کی صحت کے لئے ایسے پردہ دار میدان ہوں جہاں وہ ورزش کر سکیں.قادیان کی موجودہ آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا گیا ہے کہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء دس گھماؤں زمین بیس ہزار میں آسکتی ہے.اس کے احاطہ پر چھ سات ہزار روپیہ خرچ ہوگا.اور عمارتیں بنانے پر ساٹھ ستر ہزار روپیہ صرف ہو جائے گا.یہ کوئی بڑی رقم نہیں.لڑکوں کے ہائی سکول پر ۸۰ ہزار روپیہ خرچ کیا گیا ہے.اگر لڑکوں کے لئے ہم اتنا روپیہ خرچ کر سکتے ہیں تو لڑکیوں کے لئے ساٹھ ستر ہزار روپیہ خرچ کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے اور اگر نصف گورنمنٹ نے دے دیا تو ۳۵ ہزار کے قریب گورنمنٹ سے مل جائے گا باقی ۳۵،۳۰ ہزار چند دوستوں پر ڈال دینا کوئی بڑی بات نہیں.خصوصاً اس صورت میں کہ ان کو اختیار دیا جائے کہ چاہے اس چندہ میں شامل ہوں یا نہ شامل ہوں.اللہ تعالیٰ اس کام کے لئے توفیق دینے والا ہے.ایک سال کسی دوست کو توفیق مل جائے گی دوسرے سال کسی اور کو.اسی سال جب تحریک کی گئی تو بعض دوستوں نے لکھا کہ ہمارا نام کیوں اس تحریک میں نہیں رکھا گیا.انہوں نے افسوس کا اظہار کیا اور روپیہ بھیج دیا.ایسے دوستوں سے یہ روپیہ جمع کرنے کی وجہ سے دوسری تحریکوں پر بھی مضر اثر نہ پڑے گا اور چند سال میں ہم زنانہ سکول تیار کر لیں گے اور انشاء اللہ دو تین سال کے اندر اندر اتنی عمارت بنالیں گے کہ سکول کھول سکیں.زمین کے متعلق ابھی مشورہ کرنا ہے کہ کس مقام پر خریدی جائے.اس کے لئے یہ مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ سکول نہ تو ایسی جگہ ہو جو آبادی سے بالکل باہر ہو، جہاں پورے طور پر نگرانی نہ ہو سکے اور نہ قصبہ سے اتنا قریب ہو کہ زمین خرید نا مشکل ہو جائے.آبادی کے اندر زمین سو سو روپیہ مرلہ پر فروخت ہو رہی ہے.ان باتوں پر غور کرنے کے بعد زمین خریدنے کی کوشش کی جائے گی.یہ بھی ارادہ ہے کہ انجمن کی بھی کچھ زمین ہے وہ خرید لی جائے.دوسری زمین والوں کو پہلے روپیہ دے دیا جائے اور انجمن کو بعد میں ادا کر دیا جائے اِس طرح آسانی ہو جائے گی.میں امید کرتا ہوں کہ اگلے سال ہم خدا کے فضل سے کہہ سکیں گے کہ زنانہ سکول کے لئے زمین خرید لی گئی ہے.“ جلسہ ہائے سیرۃ النبی اللہ مختلف نظارتوں سے متعلق سوال و جوار کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد حضور نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : -
خطابات شوری جلد اوّل ۳۳۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء آج کی کارروائی میں سے ہمارے سامنے سب کمیٹیوں کے انتخاب کا سوال باقی ہے چونکہ ایک تحریک ایسی ہے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کل کے اجلاس میں کسی موقع پر نہیں آسکتی اس لئے اس وقت اس کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے متعلق جلسوں کی جو تحریک کی گئی ہے اس کے متعلق پچھلے سال ایک دوست نے انعامات دینے کی بھی تجویز کی تھی.انہوں نے خود انعام دینے کا وعدہ کیا تھا.اس کے متعلق معلوم ہوا کہ اگر اس تجویز کو عمدگی سے عمل میں لایا جائے تو بہت اثر پیدا کر سکتی ہے.گو پچھلے سال اس کے متعلق ایک غلطی بھی ہوئی اور اس وجہ سے ہوئی کہ خیال کیا گیا کہ غریب طبقہ کے لوگ اس تحریک میں حصہ لیں گے اس لئے انعام کی رقم رکھی گئی مگر خدا کے فضل سے اس تحریک میں بڑے بڑے معزز لوگوں نے حصہ لیا اور سب سے اوّل انعام جسے ملا وہ آنریری مجسٹریٹ اور بہت معزز آدمی تھے.ان کی پوزیشن کے سے آدمی کے لئے روپیہ بطور انعام کچھ حقیقت نہیں رکھتا تھا اس لئے اس رقم کو تحفہ کی صورت میں بدلنا پڑا.اب آئندہ کے لئے دونوں صورتیں ہونی چاہئیں.ایک غریب آدمی کے لئے نقد روپیہ زیادہ فائدہ مند ہو سکتا ہے اور امیر آدمی کے لئے کوئی نشان زیادہ وقعت رکھتا ہے.اس لئے اب انعام لینے والے پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ کس رنگ میں انعام لینا چاہتا ہے.نقد روپیہ یا تمغہ یا کسی اور صورت میں.تا کہ امیر آدمی کو اگر انعام کے طور پر روپیہ پیش کیا جائے تو وہ اس میں اپنی نیکی نہ محسوس کرے.گزشتہ سال جن صاحب کو تمغہ دیا گیا وہ رائے بہادر اور آنریری مجسٹریٹ ہیں.وہ انعامی تمغہ تو شوق اور خوشی سے لگالیں گے مگر روپیہ اُن کے نزدیک کوئی وقعت نہ رکھتا تھا.اب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرنے میں اس سال غیر مسلموں میں سے سب سے اول رہنے کی وجہ سے انعامی تمغہ پانے پر نہ صرف ساری عمر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کوئی لفظ نہ کہیں گے بلکہ جہاں ان کے سامنے کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کوئی بات کہے گا اُس کا منہ بند کرنے کی کوشش کیا کریں گے.انعام تو انعام کا طریق بہت مفید اور فائدہ بخش ہوسکتا ہے.بجائے اس کے کہ انعام کے لئے ۱۰۰ یا ۸۰ روپے مقرر کریں.اس طرح کرنا چاہئے جس طرح شہزادہ ویلز
خطابات شوری جلد اوّل ۳۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء کے لئے کتاب کا تحفہ تیار کرنے کے وقت کیا گیا تھا کہ تھوڑے تھوڑے چندہ سے انعام کی رقم جمع کی جائے.اس لئے میں اس سال کے لیے یہ تجویز کرتا ہوں کہ اوّل درجہ کا انعام دو ہزار افراد کی طرف سے اُس غیر مسلم کو دیا جائے جس کا مضمون رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں سب سے اول رہے اور ایک آنہ فی کس کے حساب سے یہ رقم ۱۲۵ روپیہ جمع کی جائے.دوسرے درجہ کے مضمون کے لئے انعامی رقم ایک ہزار آٹھ آدمیوں کی طرف سے ایک آنہ فی کس کے حساب سے ۶۳ روپے ہو اور تیسرے درجہ کے مضمون کے لئے ۵۱۲ آدمیوں کی طرف سے فی کس ایک آنہ کے حساب ۳۲ روپے کی رقم ہو.یہ انعام اگر تمغے یا گھڑی کی صورت میں دیا جائے تو اُن پر لکھ دیا جائے کہ ۲ ہزار مخلص مسلمانوں کی طرف سے یا ایک ہزار آٹھ مخلص مسلمانوں کی طرف سے یا ۵۱۲ مخلص مسلمانوں کی طرف سے آپ کی اس کوشش کے صلہ میں جو آپ نے بانی اسلام علیہ السلام کے متعلق کی ، انعام پیش کیا جاتا ہے.جوں جوں یہ تحریک مضبوط ہوتی جائے گی یہ تعداد بڑھتی جائے گی.۳ ہزار افراد کی طرف سے یا چار ہزار افراد کی طرف سے یا پانچ ہزار افراد کی طرف سے یا ۵۰ ہزار، لاکھ، دس لاکھ ، کروڑ افراد کی طرف سے انعام پیش کیا جائے.اس طرح اس تحریک میں ترقی ہوتی جائے گی اور ایک عرصہ کے اندر ہزاروں ایسے غیر مسلم نظر آنے لگیں گے جن کے سینوں پر وہ تمغے لگے ہوں گے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کی وجہ سے انہیں حاصل ہوئے ہوں گے.اس تحریک میں بچے، جوان ، بوڑھے، عورتیں سب شامل ہو سکتے ہیں.بچے وہی شامل کئے جائیں جنہیں اس بات کی سمجھ ہو کہ کس بات کے لئے انعام مقرر کیا گیا ہے.ہمارے گھر کے ۱۲ بچے ہیں.میں ان کی طرف سے ۱۲ آنے اور ۴ آنے چار غریب بچوں کی طرف سے اس فنڈ میں دیتا ہوں.“
خطابات شوری جلد اوّل ۳۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء دوسرا دن نکاح فارم کی ضرورت مجلس مشاورت کے دوسرے روز ۳۰ / مارچ ۱۹۲۹ء کو سب کمیٹی " نظارت امور عامہ کی طرف سے نکاح فارم کے اجراء کی تجویز پیش ہونے اور اس سے متعلق بعض احباب کی آراء کے بعد حضور نے فرمایا : - پہلا سوال یہ ہے کہ کس قسم کا فارم جاری کیا جائے یا نہ.فارم کی شکل کے متعلق نہ گفتگو ہوئی اور نہ اس پر رائے لی جائے گی.جس امر کے متعلق رائے لی جائے گی وہ صرف یہ ہے کہ جو ضرورت امور عامہ نے پیش کی ہے اُس کے لئے کوئی فارم ہونا چاہئے یا نہیں.جیسا کہ بیان کیا گیا ہے یہ نہیں کہ ہر نکاح کے لئے ایسا فارم پُر کرنا ضروری ہوگا بلکہ یہ صرف بعض موقعوں پر فتنوں سے بچنے کے لئے رکھا گیا ہے.نکاح پڑھانے والے اگر ضرورت سمجھیں تو پُر کریں لیکن ایک موقع ایسا ہے جس پر امور عامہ نے اس فارم کا پُر کرنا ضروری قرار دیا ہے اور وہ یہ کہ جب لڑکا اور لڑکی یہاں نہ آئیں یا دونوں میں سے کوئی ایک نہ آئے اور اُن کے ورثاء یہاں نکاح پڑھوانا چاہیں.جو دوست ایسی صورت میں استعمال کرنے کے لئے فارم تجویز کرنا ضروری سمجھیں وہ کھڑے ہو جائیں.بہت بڑی کثرت ہونے کی وجہ سے آراء شمار نہ کی گئیں اور خلاف صرف ۴ را ئیں نکلیں.اس پر فیصلہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : - میں کثرتِ رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ فارم ہونا چاہئے.“ ہر معجل اور غیر معجل نکاح فارم میں مہر معجل اور غیر مجبل وغیرہ الفاظ کے اندراج سے متعلق امور عامہ کی دو تر میموں کی بابت حضور نے فرمایا: - امور عامہ نے یہ ترمیمیں تسلیم کر لی ہیں مگر میں نہیں سمجھتا پہلی ترمیم کو کیونکر تسلیم کیا گیا ہے.اس لئے کہ مہر معجل اور غیر متجل کوئی شرعی اصطلاح ہی نہیں ہے.شریعت نے اس بارے میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب نکاح پڑھا جاتا ہے.لڑکی کا حق اُسی وقت سے قائم ہو جاتا ہے اور مہر کی ادائیگی کی اصل صورت یہی ہے کہ اُسی وقت اُسے دے دیا جائے.سوائے اس کے کہ لڑکی خود پیچھے ڈالنے پر رضامند ہو.شرعی طریق رسول کریم صلی اللہ علیہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء وآلہ وسلم کے زمانہ میں یہی رائج تھا کہ جب نکاح پڑھا جاتا تو ساتھ ہی مہر دے دیا جاتا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح کے وقت پوچھا تمہارے پاس کچھ ہے؟ اُس نے کہا کچھ نہیں.آپ نے فرمایا انگوٹھی بھی نہیں.اس نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا سونے چاندی کی انگوٹھی نہ سہی لوہے کی بھی نہیں؟ اُس نے کہا یہ بھی نہیں، قرآن کی چند سورتیں یاد ہیں.آپ نے فرمایا.اچھا وہی اپنی بیوی کو یاد کرا دینا.اگر مہر کو بعد پر رکھنا ہوتا تو آپ فرما سکتے تھے کہ اگر آج تمہارے پاس کچھ نہیں تو پھر کما کر اُسے مہر دے دینا.اصل یہی ہے کہ جو حیثیت ہو اُس کے مطابق مہر کی رقم ادا کر دی جائے.عورت اسے اپنی بہتری کے لئے جس طرح چاہے خرچ کرے.ایسا مہر جو مرنے کے بعد وصول ہو یا کبھی وصول ہی نہ ہو شرعی مہر نہیں ہے.میں نہیں سمجھتا معجل اور غیر معجل کی تشریح نہ ہو تو مہر کے متعلق کوئی نقص باقی رہ جاتا ہے.جو شخص شریعت کی پابندی کا اقرار کرتا ہے وہ یہی تسلیم کرتا ہے کہ عورت کا حق اُسی وقت قائم ہو جاتا ہے جبکہ نکاح ہوتا ہے.نصف وہ اُسی وقت لینے کا حق رکھتی ہے اور نصف اُس وقت جب میاں بیوی مل جائیں.اس کے بعد اگر اُسے طلاق دی جائے تو وہ پورا مہر لے سکتی ہے.پس میں نہیں سمجھتا مقتبل اور غیر معجل کی ترمیم کے ساتھ کیا منوانا چاہتے ہیں.اب تجویز یہ ہے کہ نکاح کی شرائط کے لئے فارم میں خانہ بڑھا دیا جائے تا کہ اگر ہوں تو وہاں لکھی جائیں.مہر کا خانہ بھی رکھا جائے.اس کی تشریح شرائط میں آجائے گی.جو دوست اس کی تائید میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ کثیر التعداد اصحاب نے کھڑے ہو کر اس کی تائید میں رائے دی.فرمایا : - فیصلہ ” دوستوں کی کثیر تعداد فارم کی تائید میں ہے جن دوستوں کے دلوں میں اس کے متعلق شبہات ہیں ، انہیں معلوم ہونا چاہئے بیشک بعض جگہ دقتیں پیش آئیں گی اور لڑکیوں کے لئے مشکل ہوگا کہ فارم پُر کریں.مگر ان کے لئے یہ فارم نہ ہوگا.دوستوں نے کثرتِ رائے سے جو مشورہ دیا ہے میں اِسے پسند کرتا ہوں اور دفتر کو ہدایت کرتا ہوں کہ اس پر عمل کیا جائے.مجھے خود ذاتی طور پر اس بارے میں تکلیفیں پیش آتی ہیں.میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ جن سے مجھے ذاتی واقفیت ہوگی اُن کے نکاح کا اعلان کروں گا.وجہ یہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء کہ بعض لوگ یہاں آکر نکاح کا اقرار کر جاتے ہیں لیکن رشتہ دار لڑکی پر زور ڈال کر انکار کرا دیتے ہیں.دوسروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ برات جاتی ہے جو لوگ اس میں شامل ہوں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں لڑکے لڑکی کے نکاح کے لئے چلے ہیں اور انہیں یہ بات یاد رہتی ہے.جب ان کی گواہی کی ضرورت ہو تو دے سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں مسجد میں کسی نماز کے بعد اعلان ہوتا ہے کہ نکاح ہوگا جو لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں انہیں عام طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ لڑکا کون ہے اور لڑکی کون اور مہر کتنا اور جب یہ باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے.پھر اگر کوئی معاملہ عدالت میں جائے تو کہہ دیتے ہیں ہمیں یاد نہیں.پھر نماز کے لئے تو عموماً ایک ہی لوگ ہوتے ہیں انہیں اگر شہادت میں پیش کیا جائے تو عدالت پر یہ اثر پڑتا ہے کہ یہ اٹھنی والے گواہ ہیں جو ہر مقدمہ میں پیش ہوتے ہیں.حالانکہ ہماری جماعت میں وہ بہت معزز ہوتے ہیں.ان مشکلات کی وجہ سے یہ فارم تجویز کیا گیا ہے لیکن وہ دوست جو لڑکی لڑکے دونوں کو یہاں لے آئیں انہیں فارم پُر کرانے کی ضرورت نہ ہوگی.لڑکی سے پوچھ لیا جائے گا اگر وہ خاموش رہی تو بھی کافی ہوگا.صرف اُن دوستوں کو فارم پُر کرنا ہوگا جو نہ لڑکی کو لاسکیں نہ لڑکے کو.ان کے لئے ضروری ہوگا کہ فارم پر کریں یا پھر اپنی جگہ پر نکاح پڑھوائیں.میں امید کرتا ہوں کہ دوستوں کو اس فارم کی وجہ سے کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی بلکہ ایک حد تک فائدہ ہی رہے گا.“ مقامی تنازعات کے رفع کرنے سب کمیٹی امور عامہ کی تجویز کہ:- کسی خاص پنچایت کی جس کے ممبر مخصوص اشخاص کیلئے محتسب مقرر کرنے کی تجویز ہوں ضرورت نہیں.البتہ مقامی تنازعات کے لئے محتسب مقرر کئے جائیں جو خود یا دیگر بااثر احباب کے ذریعہ فریقین میں سمجھوتہ کرا دیا کریں.اگر سمجھوتے کی کوئی صورت نہ رہے تو معاملہ مقامی قاضی کی خدمت میں برائے فیصلہ پیش کیا جائے.اگر مقامی قاضی مقرر نہ ہو تو مرکزی قضاء سے فیصلہ کرا دیا جائے “ کی بابت بعض ممبران کے اظہار رائے واستنفسار پر حضور نے فرمایا:-
خطابات شوری جلد اوّل ۳۳۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء ” میرے خیال میں تجویز کے مفہوم کو سمجھا نہیں گیا.وجہ یہ کہ اس میں اسلامی زمانہ کے عہدے رکھے گئے ہیں جن کے نام اب رائج نہیں ہیں.اس وجہ سے احباب ان کی حقیقت سے واقف نہیں.بات یہ ہے کہ محتسب کا عہدہ اسلامی زمانہ میں ہوتا تھا جس کا فرض یہ ہوتا تھا کہ بدمعاشوں اور اوباشوں پر نگاہ رکھے اور دیکھتار ہے وہ کیا شرارتیں اور فتنہ پردازیاں کرتے ہیں.اگر کوئی ایسی بات معلوم ہو تو اُس کی اطلاع حکام کو دے.محتسب کا کام لڑائی جھگڑا کرنے والوں میں صلح کرانا یا یہ کہ اُنہیں عدالت میں جانے پر مجبور کرنا نہ تھا اور نہ احتساب میں یہ بات پائی جاتی ہے.قاضی کا کام یہ ہوتا تھا کہ اُس کے پاس جو کیس آئے اُسے سُنے جیسے آجکل مجسٹریٹوں کا کام ہے.ان کا یہ کام نہیں کہ لوگوں کو کیس لانے پر مجبور کریں.اس وقت سوال یہ ہے کہ جس قسم کے کام کے لئے پنچائت مقرر کرنے کی ضرورت تھی، کیا وہ محتسب کے سپرد کر دیا جائے؟ دیکھنا یہ ہے کہ محتسب کا عہدہ اور صلح کرانے والے کا اجتماع ہو سکتا ہے یا نہیں؟ ضرورت جماعت کو یہ ہے کہ قاضی مقرر ہیں، محتسب بھی ہے.محتسب کا کام یہ ہے کہ دیکھے کوئی شرارت تو نہیں کر رہا یا کوئی آوارہ اور بدمعاش تو نہیں آ گیا.اُس کا یہ کام نہیں کہ لوگوں کو مجبور کر کے قضاء میں لے جائے یا مقدمات کے فیصلے کرائے گو یہاں ایسا بھی کر لیا جاتا ہے.مگر محتسب کا یہ اصل کام نہیں ہے.اس کا کام تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرنا ہے.اس وقت جو تکلیف ہے وہ یہ ہے کہ بعض دوست آپس میں لڑ پڑتے ہیں مگر معاملہ قضاء میں نہیں لے جاتے ہیں ، خود جتھے بنانا شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح بات بہت بڑھ جاتی ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی ایسا انتظام ہو جولڑنے والوں سے کہے یا تو صلح کرو یا پھر معاملہ قضاء میں لے جاؤ.اس کے لئے پنچائتوں کا سسٹم رکھا گیا تھا جو رائج تھا کہ صلح کرایا کرتے تھے یا فیصلہ کرتے تھے.ہم نے فیصلہ کو ان سے علیحدہ کر دیا اور یہ رکھا کہ اگر صلح نہ کر سکیں تو معاملہ کو قضاء میں بھیج دیں.اب دیکھنا یہ ہے کہ احتساب کے محکمہ کے سپرد یہ کام کرنا آئندہ یا اب خطرہ کا باعث تو نہ ہوگا ؟ اگر نہ ہوگا تو آیا اب اس کی ضرورت ہے یا نہیں؟ باہر سے آنے والے اصحاب اس کے متعلق اپنی رائے سُنا سکیں تو سُنا دیں.“ ناظر صاحب امور عامہ کی طرف سے وضاحت کے بعد حضور نے فرمایا : -
خطابات شوری جلد اوّل ۳۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء ”سب کمیٹی کی تجویز کی تشریح ناظر صاحب نے کر دی ہے.اگر اب دوست اس کے متعلق کچھ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں ورنہ رائے لی جائے.“ چند دوستوں کی آراء کے بعد حضور نے فرمایا : - ایک بات کے متعلق دوستوں کو غلط فہمی ہوئی ہے اور وہ اس وجہ سے کہ انہوں نے قضاء اور پنچائت میں فرق نہیں سمجھا.قضاء کے لئے تو ایسے قاضی کی ضرورت ہوتی ہے جو شریعت کا واقف ہو اور قانون بھی جانتا ہو مگر پنچائت میں ایسے آدمی کی ضرورت ہوتی ہے جو بارسوخ ہو اور جس کی بات مانی جاتی ہو.یہ ناممکن ہے کہ قاضی کسی ایسے شخص کو مقرر کیا جائے جو شریعت سے پوری طرح واقف نہ ہو اور جس کا صرف سیاسی اور تمدنی اثر ہو.قاضی وہی مقرر ہو سکے گا جسے یہ معلوم ہوگا کہ مدعی کے کیا حقوق ہیں اور مدعا علیہ کے کیا.پنچائت کے لئے یہ ضروری نہیں کیونکہ پنچائت کے ممبروں نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لینا ہے.انہوں نے فیصلہ شریعت کے مقررہ حقوق پر نہیں دینا بلکہ جھگڑے والوں کی مرضی پر دینا ہے اور یہ کوشش کرنی ہے کہ انہیں راضی کیا جائے.جیسے مثلاً پنچ سمجھ لیں کہ فلاں نے سو روپیہ دینا ہے مگر جھگڑا مٹانے کے لئے وہ کہہ دیتے ہیں اچھا نوے (۹۰) روپیہ دے دو لیکن اگر قضاء فیصلہ کرے گی تو وہ پورے روپے ادا کرنے کے متعلق کرے گی.اب سوال یہ ہے علاوہ قضاء کے اس قسم کا پنچائت کا انتظام ہونا چاہئے یا نہیں ؟ جو سب کمیٹی نے تجویز کیا ہے.“ اس کے بعد رائے شماری ہوئی کثرت نے تجویز کی تائید کی.اس پر حضور نے فرمایا : - چونکہ دوستوں کی کثرت اس تجویز کی تائید میں ہے اور معاملہ ایسا اہم نہیں اور فیصلہ تجربہ سے اس کی حقیقت معلوم ہوگی اس لئے میں اسے منظور کرتا ہوں.“ انگریزی یا پنجابی میں تقریر اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں تقریر کرنے کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: - بعض دوستوں نے لکھا ہے وہ پنجابی نہیں سمجھ سکتے اور وہ اردو میں تقریر نہیں کر سکتے.وہ اگر چاہیں تو انگریزی میں تقریر کر لیں.انگریزی دان اصحاب اُن کی تقریر سمجھ لیں گے.اگر ضرورت ہوئی تو اُن کی تقریر کا دوسروں کو ترجمہ سُنا دیا جائے گا.اسی طرح جو پنجابی میں
خطابات شوری جلد اوّل ۳۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء تقریر کر سکتے ہوں وہ پنجابی میں کر لیں.چونکہ کثرت سمجھنے والوں کی ہے اس لئے ترجمہ نہیں کیا جا تا اور ابھی ہماری مجلس مشاورت کے متعلق قواعد بھی ایسے نہیں ہیں کہ ضرور اسی طرح ہو اس کے خلاف نہ ہو، بلکہ ہم تو فی الحال کام چلانا چاہتے ہیں.اس لئے نہ یہ ضروری ہے کہ ہر تقریر کا ایک مقررہ زبان میں ترجمہ ہو اور نہ یہ کہ کسی تقریر کا ترجمہ نہ ہو.اگر دیکھا جائے کہ کوئی پنجابی یا انگریزی کی تقریر بہت ضروری ہے اور اُس کا خاص اثر ہے تو اُس کا ترجمہ کیا جاسکتا ہے ورنہ نہیں.“ صحت کے لئے ورزش کرنے کی ضرورت کچھ احباب نے تجویز پیش کی کہ جلسہ سالانہ کے معا بعد ٹورنامنٹ رکھا جائے تا کہ کھیلوں میں دلچسپی سے احباب کی صحت بہتر ہو سکے.اس پر بہت سے احباب نے مختلف تجاویز پیش کیں جن پر حضرت خلیفہ اسیح نے فرمایا : - ย معلوم ہوتا ہے سب دوستوں میں کچھ نہ کچھ کھیلنے کا جوش ہے اور کھیلیں اتنی ہیں کہ اگر اُن سب کا اس وقت ذکر کیا گیا تو خود کا نفرنس کھیل بن جائے گی چونکہ یہ مذہبی معاملہ نہیں غرض یہ ہے کہ لوگوں کو ورزش کرنے ، محنت اور مشقت برداشت کرنے ، قومی مضبوط کرنے کا سامان کیا جائے اس لئے میں سمجھتا ہوں اگر اس بحث کو لمبا کیا گیا تو یہ معاملہ شُد پریشاں خواب من از کثرت تعبیر ها کا مصداق بن جائے گا اس لئے عام طریق کے برعکس کہ رائے لینے کے بعد فیصلہ دیا کرتا ہوں پہلے ہی بیان کرتا ہوں اور وہ یہ کہ دوستوں کی اتنی رائے معلوم ہو گئی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کی ورزش جماعت میں ضرور ہونی چاہئے.کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ ورزش نہیں ہونی چاہئے.اس سے تو سب متفق ہیں یا بنظر احتیاط یہ کہا جا سکتا ہے کہ قریباً سب متفق ہیں.یہ میں ان کی رائے سمجھ لیتا ہوں کہ ورزش کرنا سب ضروری سمجھتے ہیں.باقی یہ کہ کوئی خاص طریق ورزش کا سب کے لئے لازمی قرار دے دیا جائے یہ ناممکن ہے.بیمار، کمزور، معذور بھی ہوتے ہیں اس لئے جو فیصلہ ہم کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ جماعت کے احباب ورزش ضرور کیا کریں اور امید کرتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی رنگ میں ورزش ضرور اختیار
خطابات شوری جلد اوّل ۳۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء کریں گے.جس سے جسمانی صحت کو فائدہ پہنچے اور طاقت حاصل ہوتا کہ بوقت ضرورت وہ ملک اور مذہب کے لئے تیار ہوسکیں.اب کے جب میں لاہور گیا تو ایک جگہ موٹر خراب ہو گئی.وہاں قریب ہی کرکٹ کی کھیل ہو رہی تھی.کرکٹ کے ایک شوقین دوست ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے شوق ظاہر کیا کہ کھیل دیکھ لیں میں بھی وہاں چلا گیا.وہاں ہندوستان کے ایک مشہور لیڈ ر آ گئے اور مجھے دیکھ کر حیرانی سے کہنے لگے آپ بھی یہاں آگئے.میں نے کہا یہاں آنے میں کیا حرج ہے؟ کہنے لگے یہاں کھیل ہو رہی ہے.میں نے کہا میں تو خود ٹورنا منٹ کراتا ہوں اور کھیلنے بھی جاتا ہوں.پہلے فٹ بال بھی کھیلا کرتا تھا مگر اب صحت اسے برداشت نہیں کرتی.اُنہیں یہ باتیں سُن کر بہت تعجب ہوا.گویا پڑھے لکھے مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال ہے کہ دین اور ورزش ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تلوار کی کھیل خود کراتے.حدیث میں آتا ہے ایک دفعہ تیر اندازی کے موقع پر خود بھی خواہش ظاہر کی کہ میں بھی شامل ہوتا ہوں.صحابہ نے کہا آپ جس فریق کے ساتھ شامل ہوں گے اُس کے خلاف کس طرح کوئی مقابلہ کے لئے کھڑا ہوگا کہ آپ حضرت عائشہ کے ساتھ مقابلہ دوڑے حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگلیاں پھیرا کرتے تھے.ایک دوست کے پاس اب بھی موجود ہے اور ایک ہمارے گھر میں ہے.میں نے خود بھی منگلیاں خریدیں.حضرت مسیح موعود کو پتہ لگا تو آپ نے فرمایا مجھے دکھاؤ.پہلے تو میں ڈرا کہ شاید ناراض ہوں مگر جب لے کر گیا تو دیکھ کر فرمانے لگے ہلکی ہیں میں یہ نہیں پھیر سکتا.تو دو نبیوں کے متعلق تو ہمیں معلوم ہے کہ ورزش میں حصہ لیتے تھے.خود رویا میں مجھے بتایا گیا کہ ورزش نہ کرنا بعض حالات میں گناہ ہوتا ہے کیونکہ پھر انسان دین کے کاموں میں حصہ نہیں لے سکتا.پس میں دوستوں سے اُمید کرتا ہوں کہ جو کسی رنگ میں معذور نہ ہوں ایسی ورزشیں اختیار کریں جو صحت کو عمدہ بنانے، تکالیف برداشت کرنے کے قابل بنانے ، بہادری اور جرات پیدا کرنے والی ہوں.دوسری تجویز تلوار کی ہے، اس پر فی الحال سارے لوگ عمل نہیں کر سکتے مگر جماعت کو منظم کرنے کے لئے ضروری ہے.ہر ایک کے لئے مشکل ہے لیکن نوجوانوں کے لئے جو ۲۰٫۲۵ سال کے ہوں، فوجی ورزشیں سکھانی ضروری ہیں.انہیں تلوار اور گنتکہ کا کام بھی
خطابات شوری جلد اوّل ۳۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء سکھایا جائے اور ہم یہ اُمید رکھتے ہیں کہ ہر ایک احمدی تلوار رکھے.میں نے اس سال یہ تجویز کی ہے کہ انصار اللہ کے سب ممبر تلوار رکھیں اور انہیں تلوار چلانا سکھایا جائے.اسی طرح باہر بھی جو نو جوان ہیں وہ رکھیں.بڑے بھی رکھیں مگر ان کے لئے ضروری نہیں.نوجوانوں کے لئے تلوار رکھنا لازمی قرار دیا جائے.پس اس وقت یہ دو تجویزیں منظور کرتا ہوں : - ا.دوست حتی الامکان ایسی ورزشوں میں حصہ لیں جو جسموں میں مضبوطی ، دلیری اور جرات پیدا کریں.۲.وہ نو جوان جن کی عمر ۲۵ سال سے کم ہو اُن کے لئے ایسے انتظام کی کوشش کی جائے کہ وہ تلوار رکھنے اور تلوار چلانے ، فوجی ورزشیں کرنے کا کام سیکھیں.یہاں اس کام کے لئے انسٹرکٹر رکھا جائے.باہر جماعتیں اپنے ہاں کے ایک ایک دو دو نو جوانوں کو بھیج دیں جو یہاں کام سیکھیں اور پھر دوسروں کو جا کر سکھائیں.امور عامہ کے سپرد یہ کام ہو وہ اس کے سکھانے کا انتظام کریں.“ تحقیقاتی کمیٹی کا تقرر مجلس مشاورت کے دوسرے دن (۳۰/ مارچ ۱۹۲۹ء کو) حضور نے دفتری کام کی پڑتال کے لئے مقررہ تحقیقاتی کمیٹی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : - میں نے گزشتہ سال چند دوستوں کی ایک کمیٹی مقرر کی تھی تا کہ وہ دیکھے آیا صحیح طور پر دفاتر میں کام ہوتا ہے یا نہیں.مجھے افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ دوست مخلص، معتبر اور تجربہ کار تھے پھر بھی اُنہوں نے کام نہ کیا.میں نہیں سمجھتا ان سے بہتر اس کام کے لئے ہم کہاں سے لاتے.دفتری کاروبار کے متعلق مصیبت یہی ہے کہ کام وقت پر نہیں ہوتا تا کہ پوری نگرانی کی جا سکے اور یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ جو فیصلے ہوتے ہیں اُن کی پابندی ہوتی ہے یا نہیں.مجھے اپنے طور پر جب کوئی ضرورت پیش آئی ہے تو بعض ہدایات دے دی جاتی ہیں.میرا نہ یہ کام ہے اور نہ اتنی فرصت کہ آڈیٹر کے طور پر دفاتر کو چیک کروں.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۴۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء پڑتال میں نقص وہ لوگ جنہیں کاموں کا ذمہ وار سمجھا جاتا ہے اُن کے متعلق اعتبار کرنا پڑتا ہے کہ وہ کام چیک کرتے ہوں گے مگر عمدگی سے یہ کام نہیں کیا جاتا.مثلاً مالی مشکلات کو دیکھ کر میں نے کہا تھا کہ غیر معمولی طور پر جو آمدنی ہوا سے ریز رو میں رکھا جائے تا کہ خاص حالات میں اس سے کام لیا جا سکے.چنانچہ میں نے ہدایت کی تھی کہ وصایا کے ذریعہ جو غیر معمولی آمدنی پانچ سو یا اس سے زیادہ ہو، اُسے امانت میں رکھا جائے اور ایسے کام پر لگایا جائے جس سے آمد ہوتا کہ جب اخراجات کی تکلیف پیدا ہو تو اس رقم سے لئے جائیں اور ایسا نہ ہو کہ تین تین ماہ کی تنخواہیں ادا نہ ہوسکیں.جسے کھانے پینے کے لئے کچھ نہ ملے اُس نے کام کیا کرنا ہے.وہ جب کام کے لئے گھر سے نکلتا ہے تو اُس کے کان میں آواز آتی ہے آٹا نہیں اور جب شام کو واپس جاتا ہے تو بچے بھوک سے رور ہے ہوتے ہیں اس حالت میں کس طرح دلجمعی سے کام کر سکتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ نہ تو کوئی ریز روفنڈ ہے نہ کوئی اور ایسا ذریعہ کہ جس سے مصیبت کے وقت کام لے سکیں.گورنمنٹ یہی فنڈ رکھتی ہے حالانکہ وہ جبر سے بھی لوگوں سے روپیہ وصول کر سکتی ہے.کئی سال کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ نظارت نے میری اس ہدایت پر عمل نہیں کیا.اگر کام کی نگرانی ہوتی تو ایسا نہ کیا جاتا.پھر جماعت کی تسلی کے لئے بھی ضروری ہے کہ نظارتوں کے کام کی پڑتال ہوتی رہے تا معلوم ہو ہدایات کے ماتحت کام ہوتا ہے یا نہیں.ہمارے دوستوں نے جو عُذر پیش کیا اُسے میں منظور نہیں کرتا اور وہ سوال جو اس وقت پیش ہے اس کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے میں پھر کمیٹی مقرر کرتا ہوں اور اِس کام کے لئے انہی دوستوں کو مقرر کرتا ہوں جنہیں گزشتہ سال مقرر کیا گیا تھا تا کہ وہ اپنی کوتاہی کا کفارہ کر سکیں.تحقیقاتی کمیٹی کا کام اس کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ نظارتوں کا معائنہ کرے اور پانچ باتیں دیکھے :.ا.ناظر مقررہ فرائض کو اُس رقم میں جو اُن کے لئے منظور کی جاتی ہے پوری طرح ادا کر سکتے ہیں یا نہیں.گویا یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ عملہ اور رقم کے مطابق نظارتیں صحیح کام کرتی ہیں یا نہیں.اگر کام زیادہ ہو اور عملہ اور رقم کم ہو تو اس کے متعلق رپورٹ کی جائے کہ اس
خطابات شوری جلد اوّل ۳۴۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء میں اس قدر اضافہ اور ہونا چاہئے.اور اگر کام کم ہو تو اس کے متعلق بھی رپورٹ کی جائے اور ناظر کے فرائض مقرر کئے جائیں.۲.یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا نظارت اُن قواعد کی جو پاس کرتی ہے اور اُن ہدایات کی جو اُسے دی جاتی ہیں پابندی کرتی اور کراتی ہے یا نہیں.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ریاستوں میں جو قانون پاس ہوتا ہے اُس پر عمل نہیں کیا جاتا ، اس سے قانون توڑنے کی سپرٹ پیدا ہوتی ہے.جب کارکن یہ دیکھیں کہ نظارت خود خلیفہ کی ہدایات پر عمل نہیں کرتی تو وہ بھی اس کے قوانین کی پرواہ نہ کریں گے.۳.تیسرا کام اس کمیٹی کا یہ ہو گا کہ وہ رپورٹ کرے کہ کیا مجلس شوریٰ میں جو فیصلے ہوتے ہیں اُنہیں نظارت جاری کرنے کی کوشش کرتی ہے یا نہیں.۴.یہ کہ کارکن اپنے اختیارات ایسے طور پر تو استعمال نہیں کرتے کہ لوگوں کے حقوق ضائع ہوں.۵.اخراجات میں کسی قسم کی زیادتی سے تو کام نہیں لیا جاتا.یہ بات دفتروں کا معائنہ کر کے دیکھیں کہ کس صیغہ میں اسراف سے کام لیا جاتا ہے اور کس قدر.یہ پانچ امور ہیں جن کے متعلق امید ہے دوست تکلیف اُٹھا کر اور اپنے کام کا حرج کر کے بھی ان کے متعلق تحقیقات کریں گے اور اس بارے میں رپورٹ مرتب کریں گے.اب جو سوال اس وقت پیش ہے.اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چندہ خاص اس بارے میں فیصلہ ہوا تھا اور اعلان کیا گیا تھا کہ چندہ خاص اُس وقت جاری رکھا جائے گا جب تک چندہ عام اخراجات کے لئے کافی نہ ہو.گو یہ کہا گیا تھا کہ جتنی کم ضرورت ہوتی جائے اتنی چندہ خاص میں بھی کمی کی جائے مگر باوجود اس کے اس سال چندہ خاص اُڑا دیا گیا.میں نے یہ بھی کہا تھا بجٹ میں جو تغیرات ہوں اُن سے مجھے اطلاع دی جائے مگر فیصلہ کر کے مجھے بھیج دیا گیا.اس وقت مجھے اتنی فرصت نہ تھی کہ سارے کو دیکھ سکتا.انہیں اتنے اہم تغیر کے لئے ضروری تھا کہ مجھ سے اجازت حاصل کر لیتے.اب میاں معراج الدین صاحب کے بیان سے معلوم ہوا کہ چندہ خاص اُڑا دیا گیا ہے.“ چند دوستوں کی آراء کے بعد حضور نے فرمایا :-
خطابات شوری جلد اوّل ۳۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء ”میرے نزدیک آمد کے متعلق بہت گفتگو ہو چکی ہے اور اس سے بہت سے فوائد بھی ہوئے ہیں.ایک تو یہی کہ چندہ خاص جو اس سال نہیں رکھا گیا تھا اس کا ذکر آ گیا اور یہ فروگذاشت معلوم ہوگئی.دوسرے وظائف کی واپسی کے متعلق نقص پکڑا گیا.میرے نزدیک اس سال بجٹ میں کمی رہے گی جیسا کہ نظر آ رہا ہے.نظارت کے ذمّے جو پچھلے قرضے ہیں اُن کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا.آمدنی میں سالانہ جلسہ کی آمد ۲۰۰۰۰ رکھی گئی ہے مگر مجھے جو رپورٹ پہنچی ہے اُس سے معلوم ہوا ہے کہ یہ آمد زیادہ سے زیادہ ۱۴ ہزار تک ہوئی ہے، ۶ ہزار کی اس میں بھی کمی ہو گئی.ان حالات میں آمد کا بجٹ ایک خیالی اندازہ ہے.میں سب کمیٹی بیت المال کے ممبروں کو خصوصاً اور باقی دوستوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ آمد کو پورا کرنے کی کوشش کریں.ہمارے کارکن دوست مالی امور کے واقف نہیں ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ میں واقف ہوں تاہم مجھے چونکہ فکر رہتی ہے اس لئے میں گورنمنٹ کی رپورٹیں دیکھتا ہوں.ریز روفنڈ کی ضرورت ہمارے ہاں جو طریق اختیار کیا گیا ہے وہ نہایت خطرناک ہے.دنیا کی گورنمنظوں میں سے کوئی گورنمنٹ ایسی نہ ہوگی جو ایک خاص رقم محفوظ نہ رکھتی ہو جو مصیبت کے وقت کام آ سکے.جب حکومتوں کا یہ حال ہے تو وہ جماعت جس نے تحریص اور تحریک سے ہی کام لینا ہو، اُس کے لئے تو اور بھی ضروری ہے کہ ایک فنڈ محفوظ رکھے.بعض لوگ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت کوئی ایسی مد نہ تھی مگر یہ بات اس طرح حل ہو جاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت بیت المال نہ تھا، جب قائم ہوا تو اس کا بھی انتظام کیا گیا.پس اسی طرح اب بھی ضروری ہے کہ ریز روفنڈ رہے جس سے ضرورت کے وقت کام لیا جا سکے.گزشتہ سال قحط کا سال تھا.اس سال زمیندارہ چندہ میں 4 اہزار کی کمی رہی.زمیندار اصحاب تو مجبور تھے مگر شہری چندہ میں بھی کمی رہی کیونکہ قحط کی وجہ سے ان کے اخراجات بڑھ گئے.جو لوگ مخلص تھے انہوں نے گھروں میں فاقہ برداشت کیا مگر چندہ میں کمی نہ کی لیکن جو کمزور تھے ان کے چندہ میں کمی آگئی.ان حالات میں اگر ریز روفنڈ ہوتا تو اس میں سے روپیہ لے لیتے اور پھر کمی پوری کر دیتے.پس ہمیں بجٹ بناتے وقت یہ بات ضرور مدنظر رکھنی چاہئے کہ ریز روفنڈ قائم کیا جائے.گزشتہ سال چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے توجہ دلانے پر کہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء انجمن کی عمارتیں جو کئی لاکھ روپیہ کی ہیں جوں جوں عرصہ گزرے گا شکست و ریخت کی محتاج ہوں گی مگر ان کی مرمت کا کوئی اندازہ نہیں رکھا گیا.آج سے کچھ عرصہ کے بعد اگر خدانخواستہ کوئی عمارت گر گئی تو اُس کے بنانے کے لئے کہاں سے روپیہ لائیں گے؟ کیوں نہ ابھی سے اس کام کے لئے بھی روپیہ جمع ہوتا رہے.چوہدری صاحب نے تجویز پیش کی تھی اس پر بحث بھی ہوئی تھی مگر پھر توجہ نہ کی گئی.تجویز یہ تھی کہ عمارتوں کے کرائے لئے جائیں اور یہ روپیہ جمع ہوتا رہے.جب مرمت کی ضرورت پیش آئے اس سے خرچ کیا جائے.اگر یہ تجویز مناسب نہیں تو کوئی اور کی جائے.بہر حال ایسا فنڈ ہونا ضروری ہے جس سے ضرورت کے وقت کام لیا جا سکے.اسی لئے میں نے کہا تھا وصیت کی جو رقم ۵۰۰ یا اس سے زیادہ کی ہو اُسے ریز روفنڈ میں رکھا جائے اور آمدنی بڑھائی جائے مگر افسوس نظارت نے اس پر عمل نہ کیا.وقتی ضرورتوں کو مدنظر رکھا گیا لیکن حقیقی ضرورتوں کو نظر انداز کر دیا گیا.فرانس کی ہی حکومت کو دیکھ لو اس وقت تک کھڑی نہ ہوسکی جب تک زور دیکر وہ اپنے خزانہ کو اس حالت میں نہیں لے آئے کہ قرضہ ادا کر دیں.میرے نزدیک یہ ضروری بات ہے کہ چندہ خاص کو ابھی رہنے دینا چاہئے اور اس سال کے لئے تو ضروری اور لازمی ہے.۲۵ فیصدی چنده خاص رکھتا ہوں.اس سال اندازہ ہے کہ چندہ خاص کی آمد ۴۰ ہزار تک ہوگی.اس سے بجٹ پورا ہو جائے گا اور جو زائد بچے گا ریز روفنڈ میں جمع ہوگا.بجٹ میں اضافہ ہونا چاہئے ایک اور نقص بھی بجٹ کے متعلق پایا جاتا ہے جسے سب کمیٹی کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے اور وہ یہ کہ جماعت ہر سال بڑھتی ہے، اس کی آمد میں اضافہ ہوتا ہے مگر اس بات کا لحاظ نہیں رکھا جاتا.اگر ان سب کو مدنظر رکھا جائے جو جماعت میں داخل ہوئے ہیں اور اُن کی آمد ملائی جائے تو ہر سال بجٹ میں چار پانچ ہزار کا اضافہ ہو سکتا ہے.بشرطیکہ یہ دیکھا جائے کہ جولوگ نئے داخل ہوئے ہیں اُن سے چندہ کی وصولی کا انتظام ہے یا نہیں.ایک نیا احمدی ہونا ہمارے لئے ایسا ہی ہے جیسے کسی حکومت کے لئے کوئی ملک فتح ہو، معائنہ کرنے والے اس کا خیال رکھیں اور پھر آمدنی بڑھانے کے اور طریق سوچے جائیں تو ہر سال بجٹ میں زیادتی ہو سکتی ہے.پس میں اعلان کرتا ہوں ایک تو اس سال ۲۵ فیصد
خطابات شوری جلد اوّل چندہ خاص کی رقم بجٹ میں بڑھائی جائے.“ ۳۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء ایک امر کی وضاحت بجٹ کے سلسلہ میں ایک امر کی وضاحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : - اصل بات یہ ہے کہ جو بجٹ اس وقت پیش ہوا ہے یہ پاس شدہ نہیں بلکہ بجٹ کے متعلق میں نے یہ قانون مقرر کیا ہے کہ بغیر شوری کے مشورے کے پاس نہ ہو.پہلے شوریٰ اس پر غور کرے پھر میں اُسے پاس کروں صدر انجمن کو اختیار نہیں کہ خود پاس کر دے یا اسے بڑھا دے.صدر انجمن صرف بجٹ تجویز کرتی ہے اور اسے کوئی تجویز پیش کرنے سے روکنا غلطی ہے.انجمن نے محض تجویز کی ہے کہ ناظر اعلیٰ کو ۲۰۰ روپے سالانہ ترقی دی جائے.شوری اس پر غور کر کے مشورہ دے کہ میں اسے منظور کروں یا نہ کروں.یہ غلط فہمی ہے کہ ناظر صاحب اعلیٰ کا اس تجویز میں کچھ دخل تھا وہ موجود نہ تھے ، انہیں اُس وقت انجمن سے اُٹھا دیا گیا تھا.دیکھنا یہ چاہئے کہ ایسی صورت میں کیا ہونا چاہئے.ان کا گریڈ تو مقرر نہیں کہ ترقی ہو، الاؤنس ہی زیادہ کیا جا سکتا ہے مگر یہ ترقی ایسی نہ ہوگی جو حق کے طور پر دی گئی ہو بلکہ یہ ہوسکتا ہے کہ پہلے اتنا کام کیا جاتا تھا اس لئے اتنا الاؤنس تھا اب اتنا ہے اس لئے الاؤنس بڑھانا چاہئے.اب یہ غور ہونا چاہئے کہ ترقی کی جائے یا نہ کی جائے؟ صدر انجمن نے تجویز کی ہے آگے شوری کا کام ہے اسے منظور کرے یا نہ کرے.اصل بات یہ ہے کہ ہم جماعت کے کام کرنے والوں کے حالات مد نظر رکھتے ہیں اور ان کی ضروریات دیکھتے ہیں.میں نے اعلان کیا تھا کہ بعض دوست جو پنشن لے کر دوسری جگہ کام کر سکتے ہوں وہ یہاں آ کر مفت کام کر سکیں تو کریں ورنہ کچھ گزارہ لے کر کریں.اس پر چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم اور ذوالفقار علی خان صاحب نے اپنے آپ کو پیش کیا.چوہدری صاحب کی تو ایسی حالت تھی کہ اپنا گزارہ آپ کر سکتے تھے مگر خان صاحب کی ایسی حالت نہ تھی ان سے ملازمت میں ایک غلطی ہوگئی اس وجہ سے جو پنشن لے سکتے تھے وہ نہ لے سکے.پنشن کے بعد انہیں رامپور میں بھی ملازمت کے لئے کہا گیا اور شاید کسی اور جگہ سے بھی انہیں جگہ مل جاتی مگر وہ یہاں آگئے.چونکہ ۱۰۰ روپیہ پنشن میں ان کا گزارہ نہ ہو سکتا تھا اس لئے تجویز کی گئی کہ ڈیڑھ سو روپیہ بطور الاؤنس دیا جائے.اس
خطابات شوری جلد اوّل ۳۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء طرح ان کے گزارہ کے لئے رقم مقرر کر دی گئی.میں اس کا نام نہیں جانتا اسے الاؤنس کہا جائے یا کچھ اور لیکن یہ اس غرض سے مقرر کی گئی تھی کہ ۱۰۰ روپیہ پنشن میں ان کا گزارہ نہ ہو سکتا تھا.“ امریکہ مشن ناظر صاحب دعوة و تبلیغ کی طرف سے امریکن مشن کو بند کرنے کی تجویز پیش ہوئی.بحث کے بعد رائے شماری کی گئی تو بھاری اکثریت امریکن مشن جاری رکھنے کے حق میں تھی.اس موقع پر حضور نے فرمایا: - میں جہاں تک سمجھتا ہوں ناظر صاحب نے جس رنگ میں یہ معاملہ پیش کیا ہے اس پر ضرور اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ ایسے امر کو مجلس شوریٰ میں کیوں پیش کیا گیا جس کے متعلق میں فیصلہ دے چکا ہوں.مجھ سے اس کے متعلق اجازت لینی چاہئے تھی کہ اسے پیش کیا جائے مگر وہ نہ لی گئی.تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس پر کوئی اخلاقی یا مذہبی لحاظ سے اعتراض پڑتا ہے.ناظر صاحب کا حق تھا کہ جس امر کو مفید نہ سمجھتے تھے اُسے پیش کرتے اور ایسی صورت میں اگر پیش نہ کرتے تو یہ بد دیانتی ہوتی لیکن رائے کے لحاظ سے جس طرف کثرتِ آراء ہیں اُدھر ہی میری رائے بھی ہے.میں نے جرمن مشن کو مجلس مشاورت کے مشورہ سے بند کرنا منظور کر لیا تھا کیونکہ وہ ابھی باقاعدہ مشن نہ قائم ہو ا تھا، وہاں ابھی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ مسجد بنائی جائے مگر امریکہ میں کئی سال سے کام ہو رہا ہے اور سینکڑوں نہیں ہزاروں آدمی ہماری جماعت میں داخل ہو چکے ہیں.بعض ان میں سے بہت اخلاص بھی رکھتے ہیں خواہ وہ حبشی ہوں.چندے بھیجتے رہتے ہیں، ان کی طرف سے خط آتا ہے تو کبھی پانچ کبھی دس ڈالر کا نوٹ اس میں ہوتا ہے.یہ ایسی بات ہے جو ابھی تک ہمیں انگلستان میں بھی میسر نہیں آئی.انگلستان کے نو مسلموں سے اب ایک سال سے چندہ لینے لگے ہیں مگر امریکہ کے نو مسلم خود بھیج دیتے ہیں، وہ خود چندہ کرتے اور اپنا خرچ کر کے جلسہ کرتے ہیں.اس لحاظ سے وہ مستحق ہیں کہ ان کے پاس مبلغ ہو جو انہیں اسلام کی تعلیم سکھائے.امریکہ کے لوگ تقریریں سننے کے بہت شائق ہیں.چارلس ڈکنس (Charles Dickens) ایک مشہور آدمی ہے جو ناول لکھتا ہے اور ان میں انسانی دماغ کی باریک باتیں بیان کرتا ہے.وہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء انگلستان میں تقریریں کرتا تو شکایت کرتا کہ ۱۸ سے زیادہ آدمی اس کے لیکچر میں نہ آتے لیکن امریکہ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اس کثرت سے لوگ آتے کہ بیٹھنے کے لئے جگہ نہ ملتی.انگلستان میں مشہور شاعر ٹیگور کے لیکچروں کا انتظام کیا گیا جن میں زیادہ سے زیادہ ۷۰ آدمی آئے.مگر پہلا لیکچر جو انہوں نے امریکہ میں دیا اس کے سننے کے لئے لوگ دروازے توڑتے رہے.مجھے کہا گیا آپ امریکہ چلیں، آپ کو ۱۳ ساتھیوں کا خرچ خود دیا جائے گا اور باقی سارا خرچ بھی.وہاں لوگ رقمیں دے دے کر لیکچر دینے کے لئے بُلاتے ہیں.ماسٹر محمد دین صاحب کے زمانہ میں بھی لوگ بلاتے رہے گو انہیں زیادہ ملنے کی عادت نہیں.مفتی صاحب کو ۴۰/۵۰ ڈالر ماہوار آ جاتے تھے.“ میرے نزدیک مغرب سے سورج نکلنے میں امریکہ کا بہت تعلق ہے.چندہ کی کمی کی ذمہ داری بہت حد تک بیت المال پر ہے.میں نے دفتری تحقیقات کے لئے جو کمیٹی بنائی ہے اس کی تحقیقات سے معلوم ہو سکے گا کہ میری رائے صحیح ہے یا غلط.ایک وجہ چندہ کی کمی کی قحط بھی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر سال قحط ہو مگر میں پھر بھی کہوں گا کہ ریز رو فنڈ ضرور ہونا چاہئے.باقی ہر سال تین مبلغ مقرر کرنے کے متعلق جو فیصلہ ہے ان کے نہ رکھنے کی ایک سال کے لئے اجازت دے دیتا ہوں مگر آئندہ کے لئے کہتا ہوں کہ جس امر کا فیصلہ مجلس شوریٰ میں پیش ہو کر ہو چکا ہو اُس کے خلاف تجویز پیش کرنے کی اجازت مجھ سے لینی چاہئے.وہ میرا فیصلہ نہ ہو گا.فیصلہ تو شوریٰ میں اس معاملہ کو پیش کرنے کے بعد ہی کیا جائے گا مگر اس امر کو پیش کرنے کے لئے مجھ سے اجازت لینی ضروری ہے.“ تیسرا دن ۳۱ مارچ ۱۹۲۹ء کی مجلس مشاورت میں حضرت خلیفہ المسیح " کی طرف سے درج ذیل تجویز اور اس کے بارہ میں سب کمیٹی تعلیم و تربیت کی رپورٹ پیش ہوئی.بعض سرکاری فوجی ملازمتوں میں ضروری قرار دیا گیا ہے کہ ملازم داڑھیاں منڈوائیں جو مسلمانوں کے لئے مذھباً جائز نہیں.لہذا اس کے متعلق غور کیا جائے کہ کیا کارروائی کی جاسکتی ہے.رپورٹ پیش ہونے پر حضور نے فرمایا :- دد ،
خطابات شوریٰ جلد اوّل وو ۳۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء پیشتر اس کے کہ اس کے متعلق گفتگو ہو میں یہ بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ سب کمیٹی کو بعض غلطیاں لگ گئی ہیں.سمجھا یہ گیا تھا کہ سب کمیٹی چھلی تجاویز سے وہی نتیجہ نکالے گی جو نکلتا ہے.پچھلی مجلس مشاورت میں کہا گیا تھا کہ داڑھی رکھنا اسلامی شعار ہے اس لئے ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ انجمنوں کے عہدے داڑھی منڈوں کو نہ دیئے جائیں.اس میں یہ اشارہ تھا کہ ایسے امور جو شعار اسلام ہوں اُن کا احترام کیا جائے اور انہیں قائم کیا جائے.مگر سوال یہ ہے کہ جن صورتوں میں کوئی مجبوری پیش آئے یعنی اپنی خواہش سے نہیں بلکہ کسی مجبوری سے ایسا کیا جائے تو ایسے لوگوں سے کیا سلوک ہونا چاہئے یہی فیصلہ ان پر عائد ہویا نہیں؟ باقی یہ کہ ان کو اجازت دی جائے کہ ایسا کر لیں، اس کے لئے تو کوئی موقع اور محل نہیں.جس بات سے شریعت نے منع کیا ہے اس کی اجازت دینے کا کیا مطلب؟ ہاں یہ سوال قابلِ غور ہو سکتا ہے کہ ایسے شخص پر تعزیر جاری کی جائے یا نہ کی جائے.مضطر کے لئے جائز ہے کہ سور کا گوشت کھائے لیکن اپنے اضطرار کا فیصلہ وہ خود کرے گا.مجلس شوری نے یہ مشورہ نہ دیا تھا جو لوگ داڑھی منڈا ئیں اُن سے تعلق نہ رکھا جائے بلکہ صرف یہ دیا تھا کہ ایسے لوگوں کو عہدے نہ دیئے جائیں مگر اس سے اشارہ اس طرف تھا کہ اس شعار کی طرف زیادہ توجہ کی جائے.اب بات یہ ہوئی کہ میرے ایک عزیز میرے پاس آئے جنہوں نے کنگ کمیشن کے لئے نام پیش کیا تھا اور داڑھی منڈوائی ہوئی تھی.میں نے اُن سے قطع تعلق کر لیا اِس لئے کہ گو جماعت کا یہ مشورہ نہیں مگر میں اپنے عزیزوں سے زیادہ امید رکھتا ہوں کہ شرعی شعار کی پابندی کریں.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ان کے متعلق بیان کیا کہ اس میں ان کی غلطی نہیں انہیں فلاں فلاں شخص نے مشورہ دیا تھا اور کچھ فوجی مشکلات بھی ہیں ان کے متعلق غور کر لیا جائے.اسی سلسلہ میں اس عزیز کی چٹھی بھی آ گئی کہ اگر آپ کہیں تو ملازمت سے استعفیٰ دے دوں، ورنہ اس ملازمت کے لئے داڑھی منڈانا ضروری ہے.جب اس بات پر اس نے آمادگی ظاہر کی تو میں نے کہا اب ناراضگی نہیں آپ مل سکتے ہیں.مگر میں اس معاملہ کو مجلس مشاورت میں پیش کروں گا مجھے اس کے متعلق ریگولیشن تو یاد نہیں مگر بدرالدین صاحب جب کنگ کمیشن کے لئے گئے تو جو نوٹ ان کے متعلق لکھا گیا اُس میں یہی بات بیان کی گئی تھی کہ انہوں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے.اسی
خطابات شوری جلد اوّل ۳۴۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء طرح ڈاکٹر شاہ نواز صاحب کے لئے بھی کہا گیا.وہی عزیز جس کا میں نے ذکر کیا ہے، اس کے لئے اعلیٰ ملازمت کے لئے نام بھیجنے کی ایک بڑے آدمی نے سفارش کی تھی مگر نام نہ بھیجا گیا.پوچھا گیا تو کہا گیا اِس کا چہرہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ فوجی کام کے قابل نہیں حالانکہ داڑھی کوئی ایسی نمایاں نہ تھی.اب سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ایسی تمام ملازمتیں چھوڑ دی جائیں جن میں داڑھی منڈانی پڑتی ہے یا ملازمتوں کی اہمیت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے اور جب تک اس بارے میں سہولت نہ پیدا ہو اس فیصلہ کے نفاذ کو جو داڑھی کے متعلق ہو چکا ہے ان کے لئے ملتوی کر دیا جائے جو ایسی ملازمتیں اختیار کریں.داڑھی کے جواز یا عدم جواز کا تعلق ہم سے نہیں ہے، نہ مجھ سے نہ کسی اور سے، یہ شریعت کا کام ہے.ہم سے صرف اس بات کا تعلق ہے کہ جو فیصلہ مشاورت کے مشورہ سے داڑھی منڈوانے والوں کے متعلق ہو چکا ہے اُس کا نفاذ فلاں کے متعلق کیا جائے یا نہ کیا جائے.پس اس وقت یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ایسی ملازمتوں کو چھوڑ دیں یا ان پر اس فیصلہ کا نفاذ نہ کیا جائے جن کے متعلق اس بارے میں ملازمت کرنے کی صورت میں درشتی اور سختی کی جاتی ہو.“ اس تجویز کی بابت بعض ممبران کے اظہار خیال کرنے اور رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا : - ”میرے خیال میں ایسے معاملات میں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کون سے معاملات کا کس حد تک انسان کے اعمال پر اثر پڑتا ہے.جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے قوانین رائج ہیں جو اسلامی شریعت کے مطابق نہیں مگر اُن پر عمل کرنا پڑتا ہے.حدیث میں آتا ہے سود لینے دینے والا اور شہادت دینے والا سب پر خدا کی لعنت ہویے باوجود اس کے مجسٹریٹ موجود ہیں جو سودی لین دین کے فیصلے کرتے ہیں.مجسٹریٹ مجبوراً نہیں بنائے جاتے مگر باوجود اس کے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ اس حالت میں کیا کرنا چاہئے تو آپ نے فرمایا ملکی قانون کے مطابق فیصلے کرو.داڑھی منڈانے والے کے متعلق لعنت کا لفظ نہیں بولا گیا لیکن سُود میں کسی طرح حصہ لینے والے کے لئے لعنت کا لفظ آیا ہے.شراب نا جائز ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس محکمہ میں ملازمت کرنے
خطابات شوری جلد اوّل ۳۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے اجازت دے دی.اسی طرح بنکوں کے سُود کے کام کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کرو.تو ایسے کام جن کا جاری کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے ان میں مجبوری ہے یہ نہیں کہ اس فوج کو چھوڑ کر جہاں داڑھی منڈانا ضروری ہے دوسری میں داخل ہو جائیں.پس جن کاموں کا نظام بنانا ہمارے اختیار میں ہو اور وہ جائز نہ ہوں اُن میں حصہ لینا جائز نہیں لیکن جن کا نظام ہمارے اختیار میں نہیں ہے اُن میں حصہ لینا ناروا نہیں ہے بلکہ ان میں اجازت ہے.ایسے محکموں میں جہاں ثابت ہو جائے کہ داڑھی کی وجہ سے ملازمتوں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جیسے فوجی ملازمتیں اور کمیشن کے عہدے وہاں کے لئے یہ تجویز کی جائے کہ حالات پیش کر کے اجازت حاصل کی جائے.اس قسم کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے زور دیا جائے جتنا دیا جا سکے مگر جب تک اس میں کامیابی نہ ہو کوئی انتظام ہونا ضروری ہے.ہماری ایک ٹیریٹوریل کمپنی ہے کوشش ہونی چاہئے کہ کم از کم ایک اور کمپنی بن جائے اور میری تو خواہش ہے کہ اپنے لڑکے کو بھی اس میں بھرتی کرا دوں.“ ” اب ایسا وقت آ رہا ہے کہ جو لوگ فوج کا کام کرسکیں گے وہی کامیاب ہوں گے.اب اس قسم کا فتویٰ کام نہ آئے گا جیسا کہ بخارا کے مولویوں نے دیا تھا کہ کافروں سے صلح نہ کرنی چاہئے بلکہ جنگ کرنی چاہئے لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو قرآن کی آیتیں پڑھ کر پھونکنی شروع کر دیں.دشمن کی طرف سے جب توپ کے گولے پھٹنے لگے تو ساحر ساحر کہتے بھاگ گئے.پس قوم کی ترقی کے لئے ہر قسم کی ترقیات کی ضرورت ہے.اگر مجھے مجلس شوری کے مشورہ کا احترام نہ ہوتا تو میں اس عزیز کو معذور قرار دے دیتا مگر میں نے اس معاملہ کو مجلس مشاورت میں رکھ دیا اور اب کثرتِ آراء نے جو تجویز پیش کی ہے اسے منظور کرتا ہوں.اس کے لئے اعلان ہو جائے گا کہ فلاں فلاں صیغہ میں جولوگ ملازم ہوں ان کے لئے یہ معذوری ہے.نام بنام اشخاص کو اعلان کی ضرورت نہ ہوگی.“ 66 حضرت شیخ یعقوب علی صاحب کے اس بیان کہ کیا قاعدہ نمبر ۱۸ منظور شدہ مشاورت قاعدہ کی رو سے حضور کو بھی حق نہیں کہ قاعدہ نمبر ۱۸ ۱۹۲۴ء میں تبدیلی ہوسکتی ہے؟ کو بدلیں.‘ کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے حضور نے فرمایا : -
خطابات شوری جلد اوّل " ۳۵۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء شیخ یعقوب علی صاحب نے ایک سوال اُٹھایا تھا اس کا فیصلہ تو کر دیا گیا تھا مگر میں اس کے متعلق کچھ اور بیان کرنا چاہتا ہوں.شیخ صاحب کا جو اعتراض تھا وہ بالکل نرالا تھا.کانسٹی ٹیوشن جب بنائی جاتی ہے تو بنانے والا یہی لکھتا ہے کہ یہ نہیں بدلی جاسکتی.کوئی دستور اساسی بنانے کا کام کسی کے سپر د کریں وہ جب تجویز کرے گا تو لازماً یہی لکھے گا کہ اس کی فلاں فلاں دفعات بدلی نہیں جاسکتیں.آگے جب مجلس کے سامنے پیش کرے تو وہ کہہ دے فلاں فلاں بات کے متعلق تو لکھا ہے کہ بدلی نہیں جاسکتی ، پھر غور کیا کیا جائے ؟ دراصل وہ تجویز اور ڈھانچہ ہوتا ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کے متعلق جو تجویز پاس ہوگی وہ نہ بدلی جائے گی.عقلاً تو ان الفاظ کا جو شیخ صاحب نے ۱۹۲۴ء کی رپورٹ سے پیش کئے ہیں یہ مفہوم ہے.دیکھونہر ور پورٹ جو تجویز ہوئی ہے اس کی بعض دفعات کے متعلق لکھا ہے کہ یہ نہ بدلی جائیں گی مگر بڑی کمیٹی نے ان میں تغیر کر دیا.غرض جو دستور تجویز ہو اُس میں یہی لکھا جاتا ہے لیکن اس کا مفہوم یہی ہوتا ہے کہ مشورہ اور غور کے بعد جو صورت تجویز ہو وہ نہ بدلی جائے گی یہی مفہوم ان دفعات کا ہے جو شیخ صاحب نے پیش کی ہیں.باقی عملی طور پر اس مفہوم کا ثبوت اِس سے مل سکتا ہے کہ اسی مجلس میں وہ ڈھانچہ بدلا گیا جو میں نے تجویز کیا تھا اور میں نے خود بدلا چنانچہ اس دستور کی دفعہ 4 ایہ تجویز کی گئی تھی کہ کوئی خلیفہ اپنے بعد اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو یعنی باپ یا بیٹے یا بھائی یا بہنوئی یا داماد کو یا اپنے باپ یا بیٹوں یا بیٹیوں یا بھائیوں کے اوپر یا نیچے کی طرف کے رشتہ داروں کو اپنا جانشین مقر ر نہیں کر سکتا.نہ کسی خلیفہ کی زندگی میں مجلس شوریٰ اس کے کسی ایسے رشتے دار کو اُس کا جانشین منتخب کر سکتی ہے.نہ کسی خلیفہ کے لئے جائز ہوگا کہ وہ وضاحنا یا اشارتاً اپنے مذکورہ بالا رشتے داروں میں سے کسی کی نسبت تحریک کرے کہ اس کو جانشین مقرر کیا جائے.اگر کوئی خلیفہ مذکورہ بالا اصول کے خلاف جانشین مقرر کرے تو وہ جائز نہ سمجھا جائے گا اور مجلس شوریٰ کا فرض ہو گا کہ خلیفہ کی وفات پر آزادانہ طور سے ایک خلیفہ حسب قواعد تجویز کرے اور پہلا انتخاب یا نامزدگی چونکہ نا جائز تھی وہ مستر دسمجھی جائے گی“.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۵۱ اور یہ دفعہ بھی انہی میں سے تھی جن کے متعلق لکھا ہو ا تھا.مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء کوئی جماعت ان قواعد میں تبدیلی کر کے مذکورہ بالا نظام کو نہیں بدل سکتی اور نہ کوئی خلیفہ وقت ہی اس نظام کے قاعدہ اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، نم، دواز دہم، سیز دہم، چہارم دہم، شانزدہم، ہفت دہم، ہشد ہم ، نوز دہم ، بست وہم کو بدل سکتا ہے“.لیکن جب اس دفعہ کے متعلق گفتگو ہوئی تو مفتی محمد صادق صاحب نے اس کے متعلق یہ ترمیم پیش کی کہ اس میں سے قریبی رشتہ دار“ کے الفاظ اُڑا دیئے جائیں چنانچہ ان کو اڑا کر اس طرح عبارت کر دی گئی ” کوئی خلیفہ اپنے بعد اپنے باپ یا بیٹے.اسے میں نے منظور کر لیا.(دیکھور پورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء صفحه ۱۰۶) اسی طرح میاں بشیر احمد صاحب نے یہ ترمیم پیش کی ہے کہ :- وو یہ ضروری ہوگا کہ وہ خلیفہ وقت جس کو پہلے خلیفہ نے منصب خلافت کے لئے نامزد کیا ہے، اپنے جانشین کو خود نامزد نہ کرے.نامز دشدہ خلیفہ کا جانشین صرف مجلس شوریٰ ہی منتخب کر سکتی ہے.اسے بھی میں نے منظور کر لیا.(دیکھور پورٹ مذکورہ صفحہ ۱۰۷) اس سے ظاہر ہے کہ دوسری دفعات میں بھی گفتگو کے بعد مناسب تغیر کیا جا سکتا تھا اور ان میں تغیر نہ ہونے کی صورت وہ ہوتی جو مجلس مشاورت کے مشورہ کے بعد قرار پاتی.اصل بات یہ ہے کہ جب ان معاملات پر بحث ہوئی تو مجلس نے کہا کہ ان امور کو اگر ابھی پاس کر دیا گیا تو یہ ایسے قوانین قرار پا جائیں گے جو جماعت کے دستور العمل میں شامل ہو جائیں گے.جب ان امور کو اتنی اہمیت حاصل ہوئی ہے تو ان پر غور کرنے کے لئے بہت وقت ملنا چاہئے اور علماء نے کہا کہ سوائے شرعی امور کے دوسری باتوں کے لئے پابندی عائد نہیں کرنی چاہئے.اس دستور العمل میں فقہی امور کا بھی ذکر آتا ہے اور میں نے لکھا ہے کہ فقہی امور میں ایک شخص خلیفہ سے اختلاف رکھ سکتا ہے.پس جب ایک شخص فقہی امور میں خلیفہ سے اختلاف رکھ سکتا ہے تو دوسرا خلیفہ پہلے خلیفہ سے کیوں ایسے امور میں اختلاف نہیں رکھ سکتا.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۵۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء غرض اس موقع پر صرف خلیفہ کے انتخاب کے طریق پر گفتگو کی گئی اور اس کا فیصلہ کیا گیا اور باقی امور کو کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھا گیا.پس محض اس لئے کہ میں نے ان امور کے متعلق جن کے بارے میں مشورہ لینا تھا یہ لکھا کہ فلاں فلاں میں تغییر نہ ہوگا ، انہیں طے شدہ دستور العمل نہیں قرار دیا جا سکتا.یہ دستور العمل اُس وقت قرار پاتا جب اس میں درج شدہ امور مجلس میں پیش ہوتے اور پھر میں ان کو پاس کر دیتا.رہی یہ بات کہ میں نے دفعہ ۱۸ کو ان امور میں داخل کیوں کیا جن میں تبدیلی نہیں ہونی چاہئے تھی اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ میرے نزدیک یہ اہم معاملہ تھا اس سے زیادہ کچھ نہیں ورنہ میں نے کبھی بھی یہ فیصلہ نہیں کیا.پھر بالکل ممکن ہے کہ جب یہ نمبر لکھے گئے ہوں جن میں تغیر نہ کرنے کا ذکر ہے تو ان میں شانز دہم غلطی سے لکھا گیا ہو.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اس وقت عورتوں کے حق میں فیصلہ دے رہا ہوں بلکہ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے حافظہ میں یہ بات نہیں آتی کہ کبھی میں نے عورتوں کے انتخاب کے متعلق یہ فیصلہ دیا ہو اور اسے ایسا قرار دیا ہو کہ دوسرے خلیفہ کو بھی اس میں تغیر کرنے سے محروم کر دیا ہو.پس یہ مسودہ ہے دستور العمل نہیں.اگر اس وقت میرا حافظ غلطی نہیں کرتا تو یہ نمبر تبدیل نہ ہونے والے نمبروں میں غلطی سے لکھا گیا اور اگر غلطی کرتا ہے تو اُس وقت اگر میں نے غلطی سے ایسا سمجھا تھا تو اب ایسا نہیں سمجھتا.“.حضور کی طرف سے اس وضاحت کے بعد بعض ممبران مشاورت نے اس تجویز کے حق میں اور بعض نے مخالفت میں تفصیلاً اپنے خیالات کا اظہار کیا اور قرآن وحدیث سے اپنے اپنے دلائل پیش کئے.ازاں بعد حضور نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : - اس مقصد کے لئے جو میرے ذہن میں تھا اور جس کے لئے مشورہ سے پہلے کوشش کرنی چاہئے تھی کی گئی ہے مگر اس میں ناکامی ہوئی ہے.میں حاضرین کو اس میں شامل کرنے کے لئے بلند آواز سے کہتا ہوں کہ عورتوں نے تحریری طور پر یہ مطالبہ کیا تھا کہ مشورہ میں ہمیں بھی رائے دینے کا موقع ملنا چاہئے.میں نے اس کے متعلق کہا تھا اگر کوئی عورت اس حق اور خواہش کے متعلق جو اسے مشورہ میں شمولیت کے لئے ہے کچھ کہنا چاہتی ہو یا اپنی
خطابات شوری جلد اوّل ۳۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء برادری کے اس حق کے متعلق کچھ کہنے کے لئے تیار ہو تو میں اُسے موقع دوں گا.اس کا جواب آیا ہے کہ کوئی عورت کچھ کہنا نہیں چاہتی.مگر میں زبانی طور پر پھر اس بات کو دُہرا تا ہوں تا کہ دوسرے بھی اس امر کے شاہد ہو جائیں کہ کوئی عورت بولنا چاہے تو بول سکتی ہے.اگر ہمارے خاندان کی کوئی عورت بولنا چاہے تو میں اُسے اجازت دیتا ہوں.اگر کسی اور خاندان کی ہو تو وہ اپنی بہتری اور بھلائی سوچ لے، شرعی طور پر مردوں کو مخاطب کر کے کچھ کہنا منع نہیں.حضرت عائشہ کھڑی ہو کر لیکچر دیتی تھیں.جنگ صفین اور دوسرے مواقع پر انہوں نے ایسا ہی کیا.اس وقت ایک رنگ میں عورت کی قسمت کا فیصلہ در پیش ہے.جو چاہیں بول سکتی ہیں.ورنہ ان کے نہ بولنے سے دونوں نتیجے نکل سکتے ہیں.جو مجلس مشاورت میں ان کے مشورہ دینے کے خلاف ہیں وہ کہہ سکتے ہیں جب عورتیں اپنے حق کے متعلق کچھ نہیں بول سکتیں تو اور کسی معاملہ کے متعلق کیا بولیں گی.اور جو دوسرے ہیں وہ کہہ سکتے عورتیں مردوں کی انصاف پسندی کا امتحان لینا چاہتی ہیں اور وہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ مرد اپنے طور پر انہیں حقوق دیتے ہیں یا نہیں.بہر حال اب میں چار منٹ تک انتظار کروں گا کہ کوئی عورت بولتی ہے یا نہیں اور پھر اور بات شروع کروں گا.“ اس پر ایک خاتون میمونہ بیگم صاحبہ نے حسب ذیل تقریر کی." سید نا وامامنا.السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ میں صرف اتنا پوچھنا چاہتی ہوں.جب ہمارے لئے درسگا ہیں اس لئے کھولی جا رہی ہیں کہ ہم علم حاصل کر کے تبلیغ اسلام کریں تو کیا یہ بات ہمارے لئے سد راہ نہ ہوگی کہ قوم ہمارے لئے فیصلہ کر دے کہ عورتوں کو مجلس مشاورت کی نمائندگی کا حق حاصل نہیں.جب ہم عورتوں کے سامنے اپنے خیالات پیش کریں گی تو وہ یہ جواب دیں گی کہ تمہارے مذہب نے تو تمہارے لئے مشورہ کا حق بھی نہیں رکھا اس لئے تمہاری بات ہم نہیں سنتیں.“ اس کے بعد خاموشی ہوگئی تو حضرت خلیفہ اسیح نے فرمایا.میں اس خاموشی سے قیاس کرتا ہوں کہ جن صاحبہ نے تقریر شروع کی تھی وہ اور کچھ نہیں کہنا چاہتیں اور کوئی اور بھی بولنا نہیں چاہتی.اس کے بعد میں تمام احباب سے مشورہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء لینا چاہتا ہوں لیکن اِس سے پہلے ایک نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ مختلف تقریروں میں بعض باتیں جذبات کو اُبھارنے والی کہی گئی ہیں.بعض لطائف بیان کئے گئے ہیں جو حقیقت پر روشنی نہیں ڈالتے.چونکہ جذباتی کلام اور لطائف بسا اوقات انسانوں کے قلوب کو اپنے ساتھ کھینچ لے جاتے ہیں اور اُس میدان میں لا ڈالتے ہیں جو ہلاکت کا موجب ہوتا ہے اس لئے میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ رائے دیتے وقت نہ تو ان لطائف کی طرف توجہ کریں جو دونوں طرف سے بیان کئے گئے ہیں نہ ان جذبات کو اُبھارنے والی باتوں کی طرف توجہ کریں جو پیش کی گئی ہیں بلکہ یہ بات مد نظر رکھیں کہ ان کے فیصلہ کا نتیجہ انہی کے آگے آئے گا.اگر عورتوں کو مجلس مشاورت میں رائے دینے کا حق دینا نقصان کا موجب ہوگا تو آنے کی غلطی انہی کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے اور اگر حق نہ دینا اسلام کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا باعث ہوگا تو اس کا خمیازہ بھی انہی کو بھگتنا پڑے گا.ان تمام امور کو مد نظر رکھ کر رائے دینی چاہئے.جلد بازی سے نہیں بلکہ ان امور کو سوچ کر رائے دی جائے کہ :- (۱) شریعت کو اس مسئلہ سے دخل ہے یا نہیں؟ (۲) عقل انسانی اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ بسا اوقات انسان جس بات کے حق میں ہوتا ہے شریعت کو اُدھر کھینچ کر لے جانے کی کوشش کرتا ہے اور بسا اوقات عقل کے دروازے کو وہاں بند کر دیتا ہے جہاں عقل کے بغیر راہ نمائی نہیں ہو سکتی.سب کمیٹی کی تجویز یہ ہے کہ عورتوں کو مجلس مشاورت میں حق نمائندگی ملنا چاہئے.مولوی سید سرور شاہ صاحب نے اس میں یہ اصلاح کی ہے کہ حق کا لفظ تو نہیں ہونا چاہئے مگر ان کو بھی کسی نہ کسی رنگ میں موقع ملنا چاہئے.جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ عورتوں کو حق نمائندگی کسی نہ کسی رنگ میں دیا جائے ، وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۱۸۴ آراء شمار کی گئیں.پھر حضور نے فرمایا.66 د جن کی رائے یہ ہو کہ عورتوں کو مجلس مشاورت میں نمائندگی کا موقع نہیں ملنا چاہیئے و کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۲۹ آراء گنی گئیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا: - وہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۵۵ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء اس بارے میں میری کیا رائے ہے اور میں اس معاملہ میں کس پہلو کو ترجیح دیتا ہوں.اس کا فیصلہ کرنے سے پہلے میں بعض امور بیان کرنا چاہتا ہوں.میرے نزدیک ہمیں عورتوں کے حق نمائندگی کا فیصلہ کرنے فیصلہ وقتی ہے یا اُصولی سے پہلے اس بات کو دیکھنا چاہئے کہ ہمارا فیصلہ وقتی ہے یا اصولی.بعض فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں جیسا کہ شیخ یعقوب علی صاحب نے بھی ایک مثال دی ہے.نہرو رپورٹ میں عورتوں کو ووٹ دینے کی جو تجویز کی گئی ہے اُسے ہم نہیں مانتے.اس کے خلاف دلیل دی گئی ہے کہ مسلمان عورتیں ابھی اپنے گھروں سے باہر نکل کر ایسے کاموں میں حصہ لینے کے لئے تیار نہیں ہیں لیکن ہندو عورتیں تیار ہیں اس وجہ سے ہندومسلمانوں سے بڑھ جائیں گے.یہ وقتی فیصلہ ہے.پس ہوسکتا ہے کہ ایک وقت تک ہم کوئی فیصلہ دیں جو دائمی نہ ہو اور ہوسکتا ہے کہ ہم ایک بات کو دائمی طور پر پسند کریں مگر ایک وقت تک اس کا جاری کرنا پسند نہ کریں.میں جہاں تک سمجھتا ہوں اس وقت تک مسلمان عورتوں کی زبان نہیں، وہ خاموش گھروں میں بیٹھی ہیں مگر اس میں بھی شک نہیں کہ وہ خاموش گھر اور تاریک گھر اور ان میں رہنے والا بے زبان حصہ انسانی بہت سے تخیرات میں مبتلا ہے.ان تاریک کونوں میں علم کا ا نور پہنچ رہا ہے، ان بند گھروں کے دروازے کھل رہے ہیں ، بے زبان عورتیں زبان حاصل کر رہی ہیں اگر چہ ابھی بہت کمزور حالت ہے بہت چھوٹی سی تحریک ہے، بہت معمولی سی رو ہے مگر حالات بتاتے ہیں کہ یہ رو بڑھ کر رہے گی ، اور طاقتور ہو کر سامنے آ جائے گی.اسلام کیا کہتا ہے پس ہمیں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل یہ سوچ لینا چاہئے کہ اگر اسلام صریح طور پر کہتا ہے کہ عورت کو مجلس شوری میں مشورہ دینے کا حق نہیں تو ہم اس بات کے لئے آمادہ اور تیار ہیں کہ عورتوں کی ترقی کے تمام ذرائع استعمال کریں مگر انہیں مجلس میں مشورہ دینے سے رو کے رہیں گے لیکن اگر اس بارے میں شک ہو، ہمارے نفوس ہمیں علیحدگی میں کہیں کہ عورتوں کو یہ حق نہ دینے کی نص تو نہیں اور باوجود اس کے گھروں میں امن اور سوسائٹی کے تعلقات کو تباہ کرنے کے لئے تیار ہو جا ئیں تو اُس دن سے ڈرنا چاہئے جب کہ یہ رو جو دوسروں میں چل رہی ہے، ہماری جماعت اور ہمارے
خطابات شوری جلد اوّل ۳۵۶ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء گھروں میں بھی چلنے لگے اور ہمارے نصف حصہ کو یہ کہنے پر مجبور کر دے کہ ہم اس مذہب سے تعلق نہیں رکھنا چاہتیں جو عقل تو دیتا ہے لیکن رائے دینے کا حق نہیں دیتا.آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں، پرسوں نہیں تو ترسوں یہ سوال اُٹھے گا اور اس زور سے اُٹھے گا کہ کوئی اسے دبا نہیں سکے گا.موجودہ تغیرات کے آئندہ نتائج پس آج کے تغیرات پر نظر نہیں کرنی چاہئے بلکہ ان کے آئندہ کے اثرات کو دیکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعوی کیا تو دُنیاوی لحاظ سے کون سی دلیل تھی جس کے رُو سے کہا جا سکتا تھا کہ آپ دُنیا پر غالب آجائیں گے.اگر چہ دُنیا پر پورا غلبہ ابھی حاصل نہیں ہو الیکن کیا دُنیا تسلیم نہیں کر رہی کہ جماعت احمد یہ ساری دُنیا میں مشہور ہو گئی ہے اور ہر جگہ پھیل رہی ہے.اگر مذہب واقعہ میں عورتوں کو مجلس مشاورت میں شریک ہونے کا حق نہیں دیتا تو خواہ عورتیں یہ کہہ دیں کہ ہم ایسے مردوں سے شادی نہیں کریں گی جو ہمیں یہ حق نہیں دیتے تو ہم کہیں گے جب ہمارا خدا اور رسول تمہیں حق نہیں دیتا تو جاؤ ہمیں تمہاری کوئی پرواہ نہیں اور ہم تم سے شادی نہ کریں گے.اسی طرح مائیں کہیں گی ہم بچوں کی پرورش نہیں کرتیں تو ہم کہیں گے بے شک نہ کرو اور بچوں کو مر جانے دو مگر ہم تمہیں قطعاً وہ حق نہ دیں گے جس کا اہلِ اسلام نے تمہیں حصہ دار قرار نہیں دیا لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر ہم خدا تعالیٰ کے قول کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے فعل کی وجہ سے مسلمانوں کے نصف حصہ کو تباہ کر دیں گے.پس اُس دن سے ہمیں ڈرنا چاہئے جب کوئی اس قسم کا قدم اُٹھا ئیں.ہ مسئلہ شرعی نہیں میرے نزدیک اس میرے نزدیک اس گفتگو میں یہ غلطی ہوئی ہے کہ اس مسئلہ کو شرعی بتایا گیا ہے.کیا بلحاظ اس کی مخالفت کے اور کیا بلحاظ اس کی تائید کے ہم نے دونوں طرف کے دلائل سنے ہیں اور خود بھی خدا تعالیٰ نے جو علم دیا ہے اس کے مطابق غور کیا ہے.میں اپنے دل کے کسی گوشہ میں بھی یہ محسوس نہیں کرتا کہ شریعت نے اس بارے میں کو ئی قطعی حکم تائید کا یا مخالفت کا دیا ہو، ہاں استدلال کر کے نتائج نکال سکتے ہیں.کوئی نقض صریح اس بارے میں نہیں ہے.پس ایسے مسئلہ میں ایسا قدم اُٹھانا جو مسلمانوں
خطابات شوری جلد اوّل ۳۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء میں پراگندگی پیدا کرنے والا ہو بہت خطرناک قدم ہے.شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ کا مطلب مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ شاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ : میں عام حکم دیا گیا ہے.جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عورتوں کو بھی مشاورت میں شریک کرنا ضروری ہے.میں کہتا ہوں اگر یہ عام حکم ہے تو پھر اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہر مسلمان مرد، ہر عورت اور ہر بچہ سے مشورہ لیا جائے.ورنہ کونسا لفظ ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ فلاں مرد یا عورت سے مشورہ لو.اگر یہ عام حکم ہے تو یہ معنے ہوں گے کہ ہر مرد، ہر عورت اور ہر بچہ سے مشورہ لولیکن کیا یہ ہوسکتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اسی طرح جنھوں نے یہ کہا ہے کہ شاد دهم في الأمر کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دیکھیں گے کہ آپ نے اس کے متعلق کیا کیا اور وہ یہ ہے کہ آپ نے صرف مردوں سے مشورہ لیا اس لئے اب بھی صرف مردوں سے مشورہ لینا چاہئے.میرے نزدیک یہ نتیجہ بھی صحیح نہیں ہے اس لئے کہ شاور ھم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان لوگوں سے مشورہ لو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھے اور مشورہ لینے کا ارشاد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے مگر کوئی یہ نہ کہے گا کہ یہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے.پس اگر جن سے مشورہ لیا گیا اُن کی تخصیص کی جائے گی تو پھر مشورہ لینے والے کی بھی تخصیص کرنی پڑے گی.ہمیں اس بارے میں جو کچھ دیکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ نص صریح ہمیں عورتوں سے مشورہ لینے سے روکتی ہے یا اس کا حکم دیتی ہے؟ اگر حکم دیتی ہے تو ہم کہیں گے آؤ ہمارے سر آنکھوں پر بیٹھو اور ہم ان سے ضرور مشورہ لیں گے لیکن اگر نص صریح روکتی ہے تو کہیں گے جاؤ جو چاہو کر لو ہم تمہیں مشورہ میں شریک نہیں کر سکتے لیکن اگر یہ نہیں تو پھر استنباط سے کام لیں گے اور اسے نص صریح قرار نہیں دیں گے.یہ استنباط غلط بھی ہوسکتا ہے اور درست بھی.یہ نص صریح نہیں کہا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو شاوِرُهُم في الآمر میں شریک نہیں کیا اور یہ نص صریح ہے کہ ان کو مشورہ میں شامل نہیں کرنا چاہئے مگر میں کہہ چکا ہوں اس بارے میں جو استدلال پیش
خطابات شوری جلد اوّل ۳۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء کر کے نصوص قرار دی گئی ہیں وہ دراصل نصوص نہیں ہیں.اگر ایسی باتوں کو نصوص قرار دیا جائے تو دین میں بڑے رخنے پڑنے کا اندیشہ ہے.یہی دیکھ لو حضرت عیسی علیہ السلام کا آسمان پر جانا نص سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ یہ بعض لوگوں کا اجتہاد تھا مگر اُنھوں نے اسے اجتہاد تک نہ رہنے دیا بلکہ نص بنا لیا اس لئے فتنہ پڑا.اگر اسے اجتہاد کے درجہ پر ہی رکھا جاتا اور کہا جاتا ہمارا یہ خیال ہے ، یہ نص نہیں تو جب خدا تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نے آ کر کہا تھا کہ یہ درست نہیں تو اپنے اس خیال کی اصلاح کر لیتے مگر اب فتوے دیئے گئے کہ جو اس کا انکار کرے وہ کافر ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت عورتوں کا حق نمائندگی اسی طرح کہا گیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت چونکہ عورتوں کو مشاورت میں حق دینے کا سوال نہیں اُٹھا تھا اس لئے انہیں موقع نہ دیا گیا.اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ بغیر سوال اُٹھنے کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاہئے تھا کہ عورتوں کو یہ حق دیتے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ جو سوال نہ اُٹھے وہ بھی ضرور بتایا جائے.چنانچہ آتا ہے.يَآيُّهَا الرَّسُولُ بَلغ ما أنزل إليك من ربك لے کہ اے رسول ! جو کچھ تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اُتارا جاتا ہے وہ لوگوں کو پہنچا دے.اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ آپ مسجد میں لوگوں کو سُنا دیتے مگر وہاں مرد ہی ہوتے ، عورتیں اس طرح لزوم کے ساتھ نہ آتی تھیں جس طرح مرد آتے تھے.پس شاورھم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مشورہ کا طریق ہیں تاکہ ڈھنڈ میں یہ صلی بتایا گیا ہے کہ مشورہ ہونا چاہئے.آگے یہ کہ کس طرح مشورہ ہو اسے مختلف زمانوں پر چھوڑ دیا گیا یعنی جس طرح مناسب ہو کر و.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یہ طریق تھا کہ دس صحابہ کو مقرر کیا جاتا تھا اور اُن سے مشورہ لیا جاتا.اگر کوئی اہم امر ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں کھڑے ہو کر اس کے متعلق اعلان کر دیتے اور لوگوں سے اس کے
خطابات شوری جلد اوّل ۳۵۹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء متعلق پوچھ لیا جاتا.اگر کوئی امر اس سے بھی زیادہ اہم ہوتا تو اعلان کر دیا جاتا کہ لوگ مسجد میں جمع ہو جائیں اور وہاں جمع ہو جاتے.خلفاء کے زمانہ میں بھی اسی طرح ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ طریق تھا کہ آپ مسجد میں بات شروع کر دیتے.لوگ جُوں جوں اس کے متعلق بولتے جاتے اُن کی جو بات آپ کو پسند ہوتی وہ قبول کر لیتے.یا چند دوستوں کو بیٹ الفکر میں بلا لیتے اور بعد میں آپ نے انجمن مقرر کر دی.موجودہ طریق اب ایک اور طریق جاری کیا گیا ہے کہ باہر سے بھی دوستوں کو بلایا جاتا ہے.اس پر اگر کوئی کہے کہ یہاں قادیان والوں سے ہی مشورہ لینا چاہئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں رہنے والوں سے ہی لیا کرتے تھے تو کوئی یہ بات ماننے کے لئے تیار نہ ہو گا.پس مناسب یہی ہے کہ کسی مسئلہ پر غور کرتے وقت شریعت کی طرف دیکھیں.اگر وہاں نص نہ ملے تو پھر جو استدلال کریں اسے اجتہاد اور خیال کہیں.اگر وہ صحیح ہوگا تو قابل عمل ہوگا ورنہ نہیں.شریعت کیا کہتی ہے بعض نے کہا ہے کہ ایسے امور کے متعلق بحث کرنے والے شریعت میں کیوں پڑتے ہیں، شریعت کو علیحدہ رہنے دینا چاہئے.میں کہتا ہوں کہ جب ہم کسی مسئلہ پر غور کرتے ہیں تو کس طرح پتہ لگے کہ شریعت نے اس کے متعلق کیا حکم دیا ہے.ممکن ہے اس بارے میں شریعت نے کوئی حکم دیا ہو، ہم اس کی طرف توجہ نہ کریں.اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ ہر امر پر غور کرتے وقت قرآن اور حدیث کی طرف جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کو پیش نظر رکھے اور یہ معلوم کرے کہ ان میں کیا فیصلہ کیا ہے.اگر ان میں کوئی صاف اور واضح فیصلہ نہ ملے تو عقل کی طرف جائے.غرض کسی امر کے متعلق فیصلہ کرنے کے وقت شریعت کی طرف جانا ضروری ہے مگر ہر بات کو نص نہیں کہا جاسکتا.کہا گیا ہے کہ چونکہ عورتوں میں قابلیت نہیں ہے اس لئے رائے دینے کا حق نہیں دینا چاہئے.گویا مطلب یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانے نے تو قابل عورتیں پیدا کیں لیکن اسلام نے عورتوں کو نا قابل بنا دیا.جاہلیت کے زمانہ میں پرورش پانے والی عورتیں تو
خطابات شوری جلد اوّل ۳۶۰ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورہ دیتی تھیں مگر اب وہ مشورہ دینے کی اہلیت نہیں رکھتیں.حالانکہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ نے عورتوں کو تباہ کر رکھا تھا اسلام نے آکر ان کی قابلیتوں کو ترقی دی.عورتوں کی مجبوریاں نَاقِصَاتُ الْعَقْل اور نَاقِصَاتُ الدّین کو بھی عورتوں کے خلاف پیش کیا گیا ہے مگر اس کا لحاظ نہیں رکھا گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے آدھا دین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سیکھو.نَاقِصَاتُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ کا یہ مطلب نہیں کہ عورتوں کے دماغ کسی اہم امر کے متعلق سوچنے اور رائے دینے کی قابلیت نہیں رکھتے بلکہ یہ ہے کہ بعض علمی کام بعض دنوں میں ان سے چھوٹ جاتے ہیں.اگر ناقص العقل اور ناقص الدین کی وجہ سے عورتیں رائے دینے سے محروم کی جاسکتی ہیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خاص خاص قابلیتوں والے مردوں کو ہی رائے دینے کا حق ہوسکتا ہے ورنہ نہیں.عورتوں کی شہادت شہادت کے متعلق جو آیت ہے اُسے بہت کھینچا گیا ہے اور ضرورت سے زیادہ کھینچا گیا ہے اور اس طرح لطیفہ بنا دیا گیا ہے ور نہ بات یہ ہے کہ شہادت دینا ایک بوجھ ہے.شاہد کو عدالت میں جانا ہوتا ہے اس لئے کہا گیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے عورتوں کو شہادت میں نہ لیا جائے اور اگر مجبوراً لیا جائے تو ایک مرد کی بجائے دو عورتوں کو لیا جائے کیونکہ عورتیں اپنے کاموں میں اتنی مشغول رہتی ہیں کہ بات عموماً بھول جاتی ہیں.چونکہ شہادت میں حافظہ کا تعلق ہے اس لئے شہادت میں ان کو نہ لینا چاہئے سوائے خاص مجبوری کے.دوسرے بتایا کہ عورتوں کا کام گھر کا ہے انہیں عدالتوں میں نہ کھینچو.اس لحاظ سے نہ یہ آیت عورتوں کے رائے دینے کے حق کے خلاف ہے اور نہ موافق.عقل کیا کہتی ہے عقلاً دیکھنا یہ چاہئے کہ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ عورتوں کو رائے دینے کا حق نہیں.ہر شخص پوچھے گا کیوں حق نہیں؟ آدھی دُنیا کو رائے دینے سے محروم کر دینا کوئی یونہی نہیں مان لے گا اس کے لئے دلیل ہونی چاہئے.کیا یہی دلیل دی جائے گی کہ عورتوں میں مشورہ دینے کی قابلیت نہیں؟ یا یہ کہ عورتوں کا مردوں کی
خطابات شوری جلد اوّل ۳۶۱ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء مجالس میں آنا جائز نہیں؟ یا یہ کہ عورتوں کو اپنی آواز مردوں کو سُنا نا پسندیدہ بات نہیں ؟ مگر ہم دیکھتے ہیں شریعت ان تینوں باتوں کو رڈ کرتی ہے.عورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں آتیں اور باتیں کرتیں تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کبھی منع نہ کیا.یہاں تک بھی آتا ہے کہ ایک عورت آئی اور اس نے آ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا میں اپنا نفس آپ کے لئے ہبہ کرتی ہوں.ایک صحابی نے کہا اگر حضور پسند فرماویں تو کسی اور سے شادی کر دیں اور کھڑا ہو گیا کہ مجھ سے نکاح کر دیا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا تمہارے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا میرے پاس تو کچھ نہیں.آپ نے فرمایا تمہیں قرآن کی جو آیتیں یاد ہیں وہی اسے یاد کرا دینا تو عورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں آتی تھیں یہ ثابت ہے.دوسری بات یہ ہے کہ عورتوں سے مشورہ لینا چاہئے یا نہیں.یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت ہے.چاہے علیحدہ طور پر مشورہ لیا، الگ لیا لیکن بہر حال مشورہ لیا.تیسری دلیل مردوں کو آواز نہ سُنانے کے متعلق ہے.مگر ثابت ہے حضرت عائشہ تقریریں کرتیں تھیں.صحابہ ان کے پاس جاتے اور مشورہ لیتے تھے.پھر ان کا درس دینا ثابت ہے.اب کون سی چیز باقی رہ گئی جس کی وجہ سے عورتوں کو رائے دینے سے روکا جائے.کیا وہ یہ نہ کہیں گی کہ جب قرآن اور حدیث نہیں روکتے تو کیا وجہ ہے کہ تم روکتے ہو اور کیوں ہم سے مشورہ نہیں لیا جاتا جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشورہ لیا چاہے ایک سے ہی لیا.یہ کہنا کہ مشورہ تو لیا جا سکتا ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیا.عورتیں مجلس میں بھی آسکتی ہیں.اپنی باتیں مردوں کو سُنا سکتی ہیں لیکن جب چند عورتیں نمائندہ ہو کر آئیں اور پس پردہ بیٹھیں تو ان سے مشورہ لینا نا جائز ہے.اسے کون مان سکتا ہے.عورتوں سے متعلق امور بعض نے کہا ہے عورتوں سے مشورہ اُن امور میں لیا جا سکتا ہے جو عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں.مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اُم سلمہ سے جو مشورہ لیا گیا ہے وہ مردوں سے تعلق رکھتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے پوچھا مرد باہر سر نہیں منڈواتے اور نہ قربانی کرتے ہیں، ان کے
خطابات شوری جلد اوّل ۳۶۲ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء متعلق کیا کیا جائے؟ اگر یہ مسئلہ ایسا ہوتا جو عورتوں سے تعلق رکھتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے متعلق پہلے اُم سلمہ سے پوچھتے اور پھر مردوں کے پاس جاتے.مگر آپ پہلے مردوں کے پاس گئے.جب اُنہوں نے نہ مانا تو پھر آ کر اُم سلمہ سے پوچھا کہ کیا کیا جائے؟ ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض نے کہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ وقت میں عورتوں کا حق نمائندگی والسلام کے وقت عورتوں کے حقوق کا سوال اُٹھا مگر آپ نے اس کے متعلق کچھ نہ فرمایا مگر یہ صحیح نہیں ہے.سفر بجٹ " (SUFFRAGETTE) کا سوال بعد میں اُٹھا ہے.بعض نے کہا ہے کہ عورتیں بول نہ سکیں گی اور تقریریں نہیں کر سکیں گی.اگر رائے دینے کے لئے اسے بنیاد قرار دیا جائے گا تو کل جب تقریر کرنے والی عورتیں آئیں گی اُس وقت کیا کرو گے.اگر اُس وقت اس بات کو ماننا ہے تو پھر یہی کہو کہ ابھی یہ حق نہ دیں گے جب سال دو سال بعد عور تیں تقریریں کر سکیں گی اُس وقت دیں گے.اصل بات یہ ہے کہ جس طرح مرد کو دماغ اور عقل دی گئی ہے اسی طرح عورت کو بھی دی گئی ہے اور جہاں مرد کو حکم ہے کہ علم سیکھے وہاں عورت کو بھی حکم ہے کہ علم سیکھے.یہ ساری باتیں ماننے کے بعد کہنا کہ عورتوں کی زبان پر تالا لگا دیا جائے یہ غلط بات ہے.درمیان قعر دریا تخته بندم کرده ای باز میگوئی که دامن ترمکن ہشیار باش اگر عورتوں کو مشورہ دینے سے خدا تعالیٰ نے محروم کرنا ہوتا تو دماغ اور عقل سے بھی ان کو محروم کر دیتا.خدا تعالیٰ جو چیز دیتا ہے اس کے استعمال کا موقع بھی دیتا ہے.یہاں مجلس مشاورت میں جتنے امور کا فیصلہ ہوتا ہے اُن کا تعلق عورتوں سے بھی ہوتا ہے.مثلاً چندہ کا سوال ہے، اس سال آٹھ نو ہزار کے قریب عورتوں نے چندہ دیا ہے.عورتوں کی نمائندگی کس طرح ہو؟ میرے نزدیک یہ مسئلہ شرعی نہیں بلکہ عقلی ہے اور عقلی طور پر کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ کیوں اسے قبول نہ کریں.میرا خیال یہ ہے کہ جو اہم امر ہے اُسے کمیٹی نے نظر انداز کر دیا
خطابات شوری جلد اوّل ۳۶۳ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء ہے.سوال یہ نہ تھا کہ عورتوں کو نمائندگی کا حق ہو یا نہ ہو؟ بلکہ یہ تھا کہ عورتوں کی نمائندگی کس طرح ہو اور کس حد تک ہو؟ اس کے لئے یہ بھی طریق ہوسکتا ہے کہ نمائندگی اصالتا نہ ہو وکالتاً ہو.عورتیں اپنی طرف سے کسی مرد کو مقرر کر دیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عورتیں اپنی طرف سے مقرر کر دیں کہ فلاں فلاں عورت عظمند اور ہوشیار ہے، اُس سے مشورہ لے لینا چاہئے.غرض سوال یہ تھا کہ نمائندگی کس طرح ہو اور کس رنگ میں ہو اور کس حد تک ہو؟ مگر اسے پیش ہی نہیں کیا گیا.بحث کافی نہیں ہوئی میں سمجھتا ہوں اس مسئلہ پر ابھی کافی بحث نہیں ہوئی اور میں کوئی فیصلہ نہیں دیتا.اسے یونہی چھوڑتا ہوں ،اگلے سال پھر اس پر بحث ہو.اُس وقت ہم دیکھیں گے کہ عورتوں کو کس رنگ میں حق نمائندگی دینا چاہئے.فی الحال یہ ایک رو چلا دی گئی ہے احباب دلائل سوچیں پھر اگلے سال بحث کر لی جائے گی.“ اختتامی تقریر مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد حضور نے اختتامی تقریر کرتے ہوئے فرمایا: - " جس قدر امور کے متعلق ہم فیصلہ کر سکتے ہیں وہ ہو گیا اور دو معاملات کو اگلے سال پر چھوڑ ا گیا، ایک کو اپنے فیصلہ سے اور دوسرے کو احباب کے سمجھوتہ سے.کیونکہ اب کارروائی کو جاری رکھنے کے لئے وقت نہیں ہے، چونکہ دوست واپس جانے والے ہیں.اس لئے میں توجہ دلاتا ہوں کہ جو کچھ انہوں نے یہاں سُنا اُسے یا درکھیں.اس وقت سلسلہ کی مالی حالت نہایت نازک ہے.۴۳ ہزار کے پہلے پل پڑے تھے ۸ ہزار کے آج اور بڑھ گئے اور اس طرح ۵۱ ہزار کے ہو گئے اِن کو ادا کرنا ہے.احباب کو چاہئے کہ اپنی اپنی جگہ جا کر اس مالی بوجھ کو دور کرنے کی کوشش کریں.مومن دوسرں کو جگانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ وہ خود بھی بیدار نہ ہو.سب لوگوں کو اچھی طرح بیدار کرو تا کہ کام خوبی کے ساتھ ہو.دشمن ہمارے خلاف پورا زور لگا رہے ہیں.کبھی جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں، کبھی جھوٹی باتیں کہی جاتی ہیں، کہیں لوگوں کو ہمارے خلاف اکسایا جا تا ہے.غرض ہر رنگ میں ہمارے خلاف ناخنوں تک زور لگایا جا رہا ہے اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ہماری کامیابی مبدل بہ ناکامی ہو جائے.آپ صاحبان جو اپنی جماعتوں کے نمائندے بن کر آئے ہیں
خطابات شوری جلد اوّل ۳۶۴ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء حقیقت میں ثابت کر دیں کہ آپ نمائندے ہیں.یہاں جو تحریکیں ہوئی ہیں انہیں اگر کامیاب نہ بنایا جائے، یہاں جو بجٹ پاس کیا گیا ہے اُسے پورا کرنے کے لئے آمد نہ بڑھائی جائے تو یہاں آنے والے نمائندے کس طرح کہلا سکتے ہیں نمائندہ وہ ہوتا ہے جو پنے منتخب کرنے والوں سے اپنی بات منوا لیتا ہے.مجھے اُمید رکھنی چاہئے کہ آپ صاحبان کی نمائندگی دورانِ سال میں بھی قائم رہے گی اور آپ ان تجاویز کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں گے جو یہاں منظور کی گئی ہیں.اس کے علاوہ میں اور کچھ بھی کہنا چاہتا تھا مگر وقت نہیں ہے.گاڑی کے جانے کا وقت تنگ ہو رہا ہے اس لئے اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور دُعا پر اس جلسہ کو ختم کرتا ہوں.“ دُعاء کے بعد حضور نے فرمایا.گومیں نے دعا پر جلسہ ختم کر دیا ہے لیکن ایک ضروری بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ جو تقریر میں نے عورتوں کے حق میں مشورہ کے متعلق کی ہے وہ اس بات کی تائید میں نہیں ہے کہ عورتیں مجلس مشاورت میں آئیں اور مشورہ دیں.میرے نزدیک ابھی اس میں بہت سی مشکلات ہیں دوستوں کو ان سب باتوں پر غور کرنا چاہئے.“ ( مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء) ل النحل : ٩٩ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران: ۱۴۵) س حم السجدة: ٣١ آل عمران: ۱۹۴ ۵ پیشہ : مچھر.پر دار کیڑا الفتح : ٢ ۷،۸ مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۲۶۴.مطبوعہ بیروت ۱۳۱۳ھ مند الدارمي كتاب البيوع باب فى اكل الرّبو و مؤکلہ میں یہ الفاظ ہیں.لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم اكل الربو و مؤكله ١٠ آل عمران: ۱۲۰ ال المآئده: ۶۸ ۱۲ بخاری کتاب النکاح باب التزويج على القرآن (الخ) ۱۳ سفر مجٹ (SUFFRAGETTE) خواتین کے لئے حق رائے دہی طلب کرنے والی بیسویں صدی کے شروع میں چلنے والی تحریک کی حامی عورت.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۶۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء ( منعقده ۱۸ تا ۲۰ را پریل ۱۹۳۰ء) پہلا دن مجلس مشاورت منعقدہ ۱۸ تا ۲۰ / اپریل ۱۹۳۰ء کے افتتاحی اجلاس کے آغاز میں دُعا کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا: - " پیشتر اس کے کہ آج کے اجلاس کو شروع کروں، میں چاہتا ہوں کہ ہمارے سب دعا دوست مل کر دعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے قلوب میں ایسی صفائی اور پاکیزگی پیدا کرے کہ ہم واقعہ میں اسی کے بندے ہو جائیں اور ہمارا کوئی کام اپنے نفس کی بڑائی کے لئے نہ ہو اور نہ اپنے نفس کے مطالبات کے پورا کرنے کے لئے ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے لئے اور اسی کی منشاء کے ماتحت ہو کیونکہ اگر ہم اپنے ارادوں اور کاموں میں خدا تعالیٰ کے نہ ہو جائیں گے تو یقیناً خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ کے مصداق بن جائیں گے اور ہماری کمزوریاں ہی ہمیں دونوں جہان میں برباد کر دیں گی.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ رسمی طور پر دکھاوے کے لئے اور کہنے سننے سے نہیں بلکہ قلبی جوش اور سچے دل سے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ وہ ہمیں سچ سچ کے لئے اپنے حقیقی بندے بنادے اور ہمارے تمام کام اس کی رضا کے ماتحت ہوں.“ افتتاحی تقریر تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے حسب ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:- وما ارسلنا مِن رَّسُولٍ إِلا لِيُطَاءَ بِاِذْنِ اللهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا انْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا الله
خطابات شوری جلد اوّل ۳۶۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء توا با رَّحِيمًا فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا علَيْهِمْ آنِ اقْتُلُوا انْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُمْ مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ به لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَشْبِيْتًا وَ إِذَا لاتينهُمْ من لَّدُنَا أَجْرًا عَظِيمًا وَ لَهَدَ يَنْهُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا ↓ اس کے بعد فرمایا:- ” میں نے جو یہ آیات پڑھی ہیں ان کے متعلق اپنے مضمون کو بعد میں بیان کروں گا.پہلے چند ایسے امور کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو متفرق ہیں.اُردو تفسیر القرآن پہلے تو میں یہ خوشخبری سنانا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے پانچ پاروں کے نوٹ لکھنے اور چھپنے شروع ہو گئے ہیں.احباب کو نمونہ دکھانے اور خریداری کی طرف توجہ دلانے کے لئے ان کے پہلے ۱۶ صفحے زائد چھپوائے گئے ہیں تاکہ وہ اشتہار کا کام دے سکیں اور احباب کو معلوم ہو سکے کہ کس رنگ میں نوٹ لکھے گئے ہیں.جس سے انہیں خود بھی خریدنے کی تحریک ہو اور دوسروں کے لئے بھی محترک ہوسکیں.میں نے اپنے دفتر میں ہدایت دے دی ہے کہ وہ تمام نمائندوں کو تر جمعہ کے نمونہ کی ایک ایک کاپی دے دیں.پچھلے سے پچھلے سال جب ترجمہ قرآن شائع کرنے کی تحریک ہوئی تھی تو ایک ہزار کے قریب احباب نے اس کے لئے ایک ایک روپیہ بھیجا تھا.وہ دس پارے ابھی چھپنے شروع نہیں ہوئے.یہ نوٹ جو چھاپے جا رہے ہیں ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاہا تو پانچ پانچ پارے اِس ترجمہ کے شائع کئے جائیں گے.اگر ان کے لئے جنھوں نے روپیہ بھیجا تھا، وہ شائع ہونے والے نوٹوں کی قیمت میں منتقل کرالیں.ان نوٹوں کی چھپوائی پر اندازہ ہے کہ ۶.۷ ہزار روپیہ خرچ ہو گا مگر جماعت کی مالی حالت ایسی نہیں کہ اس کام کے لئے روپیہ مہیا ہو سکے اور ایسی صورت نظر نہیں آتی کہ یہ اخراجات بہم پہنچ سکیں اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ مدرسہ بنات تعمیر کرنے کے لئے چونکہ ابھی تک جگہ کا فیصلہ نہیں ہوا اور گورنمنٹ نے بھی ہمارے گرلز سکول کو منظور نہیں کیا اور اس کی تعمیر کے لئے سرکاری امداد نہیں مل سکے گی اس لئے اس کے لئے جو روپیہ جمع ہے وہ اس
خطابات شوری جلد اوّل ۳۶۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کام پر لگا دیا جائے اور اس پر جو نفع آئے وہ بھی مدرسہ بنات کا ہی ہوگا.امید ہے اسی سال کے اندر اندر ترجمہ فروخت ہو جائے گا اور دسمبر تک نہ صرف اصل رقم وصول ہو جائے گی بلکہ نفع بھی حاصل ہو جائے گا.اس عرصہ میں ٹرینڈ اُستانیوں کے لئے کوشش کی جا رہی ہے اور امید ہے مل بھی جائیں گی کیونکہ بعض احمدی خواتین پڑھ رہی ہیں اور جب سکول گورنمنٹ نے منظور کر لیا تو امداد بھی حاصل ہو جائے گی.9 ہزار کے قریب ہماری جمع کردہ رقم ہو جائے اور 9 ہزار گورنمنٹ دے دے تو عمارت تیار ہوسکتی ہے.انگریزی ترجمۃ القرآن قرآن قرآن کریم کے انگریزی ترجمے کے متعلق ابھی تک میں نہیں کہہ سکتا کہ کب چھپے.ابھی پندرہ پاروں پر نظر ثانی ہوئی ہے باقی پندرہ پر نہیں ہوئی.میں امید کرتا ہوں مولوی شیر علی صاحب جلد اسے مکمل کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ میں قرآن کریم کے نوٹوں سے فارغ ہو کر انگریزی ترجمہ قرآن کے دیباچہ کی تحریر میں مشغول ہوسکوں.کمیشن کی رپورٹ سب سے مقدم چیز جسے آج میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ وہ رپورٹ ہے جس کے لئے پچھلے سال کمیشن مقرر کیا گیا تھا اور جس نے وہ مرتب کی ہے.اس کے بعض امور کے متعلق کمیشن کے ممبروں کی طرف سے خواہش ظاہر کی گئی تھی کہ میں اپنے خیالات ظاہر کرنے سے پہلے ان سے تبادلۂ خیالات کرلوں مگر کمیشن کے دو ممبر ابھی تک نہیں آئے.میں ظہر کے وقت تک ان کا انتظار کرتا رہا.کمیشن کے پریذیڈنٹ صاحب آئے ہیں مگر وہ بھی آخری ٹرین میں آئے ہیں اس لئے ان سے بھی گفتگو نہ ہو سکی لیکن جو دقت خیال کی جاتی ہے وہ میں نے حل کر لی ہے اس لئے ان سے کسی مزید مشورہ کی ضرورت نہیں اور میں اپنا فیصلہ بیان کر دوں گا.مجلس شوری کے متعلق دو فیصلے لیکن میں اس سے پہلے مجلس شوری سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کے پچھلے طریق عمل کی وجہ سے میں نے دو فیصلے کئے ہیں.میں نے مجلس مشاورت کی بنیا د رکھتے ہوئے شروع میں ہی کہا تھا کہ ابھی سے اس کے متعلق قواعد بنانے مفید نہ ہوں گے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ بعد میں تجربہ سے ہمارے لئے مشکلات کا باعث ثابت ہوں.پہلے یونہی کام چلنے دینا چاہئے اور جو جو حالات
خطابات شوری جلد اوّل ۳۶۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء پیش آئیں ان کے مطابق قواعد تجویز ہوتے رہیں.تجربہ سے یہ بات بہت ضروری ثابت ہوئی ہے.مجلس شوریٰ میں سوالات مجلس شوریٰ میں ایک کام ایسا ہوتا ہے جس سے اُس وقار اور سنجیدگی کو نقصان پہنچ رہا ہے جو ہماری جماعت کا خاصہ ہے اور وہ سوالات کا حصہ ہے باوجود یکہ کہ میں نے دوستوں کو کئی بار اس طرف توجہ دلائی ہے پھر بھی سوالات اُسی طرز کے ہوتے ہیں جس طرح گورنمنٹوں میں ہوتے ہیں.جو سوال کیا جاتا ہے اُس کے الفاظ کچھ اور ہوتے ہیں لیکن اُن کے نیچے غرض کوئی اور پنہاں ہوتی ہے.سوال کے الفاظ سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے سوال کنندہ کا وہ مطلب نہیں ہوتا بلکہ کوئی اور ہوتا ہے.سوال کرنے والے کی سوال سے غرض اصلاح نہیں ہوتی بلکہ جن پر سوال کیا جاتا ہے اُنہیں پھنسانا اور گرفت میں لانا ہوتی ہے.اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو کارکن جواب دیتے ہیں اُن کی بھی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ٹال دیں اور موقع گزار دیں.اس طرح جہاں سوال کرنے والوں کے دلوں پر زنگ لگتا ہے وہاں جواب دینے والوں کو بھی صدمہ اُٹھانا پڑتا ہے اور اس طرح تقویٰ اور دیانت کو نقصان پہنچتا ہے.چونکہ جو طریق تقومی اور خشیت اللہ کو نقصان پہنچانے والا ہو وہ کسی صورت میں بھی مفید نہیں ہوسکتا.اس لئے میں اسے آئندہ کے لئے بند کرتا ہوں.اگر کسی کو سلسلہ کے کاروبار میں کوئی نقص نظر آئے تو نقائص کی اصلاح کا طریق اُس کا فرض ہے کہ وہ صاف طور پر کہے مجھے فلاں نقص نظر آتا ہے اس کی اس طرح اصلاح کی جائے.یہ ایک جائز اور مفید طریق ہے اور اس کی میں اجازت دیتا ہوں لیکن یہ کسی طرح جائز نہیں کہ بات دل میں کوئی اور ہو اور ظاہر کوئی اور کی جائے.اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ کوئی کارکن جس سے کوئی غلطی ہو وہ اسے چھپائے اور اُس پر پردہ ڈالنے کے لئے کوئی اور جواب گھڑے.دُنیوی حکومتوں میں سوال کرنے والے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جن سے سوال کیا جائے وہ جواب صحیح نہ دے سکیں اور لوگوں کو اُن کی بد دیانتی اور نا قابلیت معلوم ہو جائے اور جواب دینے والوں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ گوسوال کرنے والے کی بات ٹھیک ہو تو بھی جواب ایسا دیں کہ وہ غلط ہی معلوم ہو.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء مگر یہ طریق دین اور تقویٰ اور خشیت اللہ کے لحاظ سے سخت مضر ہے اس لئے میں اسے مٹاتا ہوں.یعنی سوال کرنے کا جو طریق اب تک رہا ہے اسے بند کرتا ہوں مگر سوال کرنے کی غرض اور فائدہ کو نہیں مٹاتا.سوال کرنے کا بہت بڑا فائدہ بھی ہوتا ہے اور اگر دوسرے لوگ کام کرنے والوں کو اُن کے کام کے متعلق مدد دیں تو انہیں بہت کچھ سہارا مل جاتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ کارکنوں کی اس طرح مدد کی جائے مگر یہاں شوری میں اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ہر ایک کو مشورہ دینے کا وقت مل سکے.اس لئے کوئی ایسا طریق ہونا چاہئے کہ جو دوست کارکنوں کے کام میں امداد کرنا اور انہیں فائدہ پہنچانا چاہیں وہ فائدہ پہنچاسکیں.ایک طالبعلم کی تجویز بعض اوقات ایک معمولی آدمی کے منہ سے نکلی ہوئی بات بھی بہت مفید ہو سکتی ہے.پچھلے دنوں جب مالی حالت کی اصلاح کا سوال پیش تھا تو مدرسہ ہائی کے ایک طالب علم نے مجھے لکھا کہ ہر سال سالانہ جلسہ کے موقع پر کئی سو روپے کے تنور خریدے جاتے ہیں اور پھر ان کی کوئی حفاظت نہیں کی جاتی اور وہ ٹوٹ جاتے ہیں.اگر اس جگہ کو جہاں تنور لگائے جاتے ہیں محفوظ کر لیا جائے تو کئی سو روپیہ کی بچت ہوسکتی ہے.ایک طالبعلم سے یہ بات سن کر مجھے بہت تعجب ہوا اور میں نے خیال کیا کہ غلط ہی ہو گی لیکن میں نے اطمینان کے لئے عمارت کے فن کے ماہر کے پاس وہ کاغذ بھیج کر رائے طلب کی تو انہوں نے لکھا ٹھیک ہے اور اس طرح بچت ہوسکتی ہے.اب اگر اس زمین کا جہاں تنور لگائے جاتے ہیں فرض کر لیں کہ ایک روپیہ ماہوار کے حساب سے ۱۲ روپے کرایہ دینا پڑے تو بھی کئی سو کا فائدہ ہوسکتا ہے.تجاویز کب پیش کی جائیں پس تجویزیں بڑے تو الگ رہے بعض اوقات بچوں کو بھی اچھی سُوجھ جاتی ہے.اس لئے میں نے آئندہ کے لئے یہ رکھا ہے کہ بجائے سوال کے رنگ میں کوئی بات پیش کرنے کے تجویز کے طور پر پیش کی جائے اور وہ بھی شوری کے ایام میں نہیں بلکہ دورانِ سال میں جب بھی کوئی بات معلوم ہوا سے پیش کر دینا چاہئے.اس قسم کی تجاویز اس کمیشن کے پاس بھیج دی جایا کریں گی جو ہر سال یا دوسرے سال سلسلہ کے کاموں کی پڑتال کے لئے مقرر کیا جایا کرے گا.پھر جن
خطابات شوری جلد اوّل ۳۷۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء تجاویز کو کمیشن منظور کر لے گا اُن کے متعلق میں فیصلہ کر دیا کروں گا اور جنہیں کمیشن رد کر دے گا اور میرے نزدیک بھی مفید نہ ہوں گی اُنہیں میں رد کر دوں گا اور اگر میرے نزدیک مفید ہوئیں تو منظور کر لی جائیں گی.پس موجودہ طریق سے سوال کرنے کی غرض چونکہ محض چھیڑ خانی ہوتی ہے اور اس سے بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے اس لئے اب کے تو میں اجازت دے دوں گا لیکن آئندہ اس طرح سوالات کرنے کی اجازت نہ ہو گی.آئندہ سوال کے طور پر نہیں بلکہ تجویز کے طور پر بات پیش کرنی چاہئے کہ فلاں محکمہ میں یہ غلطی ہو رہی ہے، اُس کی اس طرح اصلاح ہونی چاہئے.یعنی غلطی اور نقص بھی بیان کیا جائے اور اس کی اصلاح کی صورت بھی پیش کی جائے.اس پر کمیشن غور کر لے گا اور پھر میں فیصلہ کر دوں گا.دوسرا امر تجاویز کے متعلق ہے.اس کے متعلق بھی غور کر کے دیکھا گیا ہے کہ یہ ایک تکلیف دہ سوال بنتا جا رہا ہے.مجھے کوئی ایسا آدمی معلوم نہیں جس کے خیال میں کوئی نہ کوئی اچھی تجویز نہ آتی ہو لیکن اگر ہر شخص جو تجویز پیش کرے وہ لے لی جائے تو ہر سال ایسی تجاویز کا ڈھیر لگ جایا کرے اور جس کی تجویز رڈ کی جائے وہ سمجھتا ہے سارا کام ہی فضول ہو رہا ہے.چونکہ ایسے امور کے متعلق جماعت کی تربیت ابھی نہیں ہوئی اس لئے ہر شخص جس کے خیال میں کوئی تجویز آئے وہ سمجھتا ہے اس پر ضرور مجلس مشاورت میں غور کرنا چاہئے اور نہ صرف غور ہونا چاہئے بلکہ اس پر عمل بھی کرنا چاہئے.حالانکہ ایسی تجاویز پیش کرنا جن پر حالات اور واقعات کا لحاظ کرتے ہوئے عمل ہو سکے بہت مشکل کام ہے.گورنمنٹوں میں دیر دیر تک کوئی پرائیوٹ بل پیش نہیں ہوتا بلکہ سرکاری کارگن ہی اکثر بل پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ دوسروں کی نسبت حالات سے زیادہ واقف ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں عام طور پر بیرونی احباب ہی تجاویز پیش کرتے ہیں حالانکہ ان تجاویز میں سے بیسیوں ایسی ہوتی ہیں جو ان کے پیش کرنے سے بہت پہلے ہمارے دماغ میں آئی ہوتی ہیں مگر مشکلات کی وجہ سے ان پر عمل نہیں کر سکتے.مثلاً ان پر عمل کرنے کے لئے سرمایہ نہیں ہوتا اور جاری شدہ کاموں میں مشکلات پیش آ رہی ہوتی ہیں اس لئے کوئی تجویز زیر عمل نہیں لائی جاسکتی.مشورہ لینے کا حق علاوہ ازیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مشورہ لینے کا حق اسلام نے نبی کو اور اس کی نیابت میں خلیفہ کو دیا ہے مگر کوئی یہ ثابت نہیں کر
خطابات شوری جلد اوّل ۳۷۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء سکتا کہ نبی یا خلیفہ کے سامنے تجاویز پیش کرنے کا حق دوسروں کے لئے رکھا گیا ہے.کوئی ایسی مثال نہیں مل سکتی کہ کسی نے اپنی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے تجویز پیش کی ہو اور اُسے اپنا حق سمجھتا ہو.میں نے تجاویز پیش کرنے کا جو طریق رکھا تھا وہ اس خیال سے رکھا تھا کہ تجاویز میرے پاس آئیں گی اور میں ان میں سے جو مفید سمجھوں گا وہ لے لوں گا مگر اب صورت یہ ہو گئی ہے کہ جس کی تجویز نہ لی جائے وہ سمجھتا ہے اُس کا حق مارا گیا.فیصلہ اس وجہ سے میں فیصلہ کرتا ہوں کہ آئندہ مجلس شوری میں تجویز پیش کرنے کی کسی کو اجازت نہ ہوگی.ہاں میرے پاس ہر احمدی اپنی تجاویز بھیج سکتا ہے اور میں ایسے دوستوں کا ممنون ہوں گا اور ان کی بھیجی ہوئی تجاویز سے فائدہ اُٹھاؤں گا لیکن اگر کوئی یہ لکھے گا کہ اس کی تجاویز مجلس شوریٰ میں پیش کی جائیں تو خواہ وہ مفید ہوں تو بھی اس سال مجلس میں پیش نہیں کروں گا.پس کسی کو اس شرط کے ساتھ کوئی تجویز نہ بھیجنی چاہئے کہ اسے مجلس شوری میں پیش کیا جائے.یہ فیصلہ کرنا میرا کام ہوگا، میں اگر ضرورت سمجھوں گا تو مشورہ کے لئے شوریٰ میں پیش کر دوں گا اور اگر نہ سمجھوں گا تو نہیں پیش کروں گا اور خود اس سے جو فائدہ اُٹھا سکوں گا اُٹھاؤں گا.پھر ضروری نہیں کہ مجلس شوری کے موقع پر ہی تجاویز بھیجی جائیں سارے سال میں جس وقت کوئی چاہے تجاویز بھیج سکتا ہے.میرے نزدیک اگر اُسی سال اُن پر غور کرنا ضروری ہوا تو اسی سال مجلس شوری میں پیش کر دوں گا اور آئندہ سال ضروری ہوا تو اس کے لئے نوٹ کرلوں گا.پس یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہئے کہ مجلس میں کوئی تجویز پیش کرنے کا حق محض خلیفہ کو ہے اور کسی کو نہیں اس لئے تمام تجاویز میرے پاس آنی چاہئیں نہ کہ مجلس میں پیش کرنے کے لئے بھیجنی چاہئیں.مستریوں کے فتنہ کے متعلق کیا کرنا چاہئے؟ دو باتیں اور میں جن کے متعلق میں احباب سے پرائیوٹ مشورہ لوں گا ، وہ ایجنڈا میں نہیں ہیں.ایک تو یہ کہ موجودہ فتنہ کے متعلق ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ اور دوسرے یہ کہ جو لوگ منافق ثابت ہوں، ان کے متعلق کیا طریق عمل اختیار کرنا چاہئے؟
خطابات شوری جلد اوّل ۳۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء ایسے لوگوں کے متعلق میں نے ایک کمیشن بٹھایا ہے جو محنت سے کام کر رہا ہے لیکن پیشتر اس کے کہ اس کے متعلق کوئی قدم اُٹھا ئیں میں چاہتا ہوں کہ احباب سے اس کے متعلق مشورہ کرلوں اور چونکہ یہ پرائیویٹ مشورہ ہو گا اِس لئے اُس وقت وزیٹرز کو اُٹھا دیا جائے گا.منافقوں سے کیا سلوک کیا جائے؟ پس ایک تو یہ غور کرنا ہے کہ ا فتنہ کے مقابلہ کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے اور دوسرے یہ کہ جولوگ منافق ثابت ہوں ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ میں غور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہماری ایک طے شدہ پالیسی ہونی چاہئے جس کے مطابق ہم ہر معاملہ میں عمل کر سکیں.بغیر طے شدہ پالیسی کے کسی سے کوئی سلوک کیا جاتا ہے اور کسی سے کوئی ، اس لئے شکایت پیدا ہوتی ہے.کمیشن کی رپورٹ کے متعلق اب میں کمیشن کی رپورٹ کو لیتا ہوں.کمیشن تو کئی بار مقرر کئے گئے مگر یہ پہلا کمیشن ہے جس نے اپنے کام کے لئے وقت دیا، محنت کی اور رپورٹ پیش کی ہے اور یہ پہلی رپورٹ ہے جو اس قدر محنت اور کوشش سے لکھی گئی.کمیشن کا قابل تعریف کام ایک واقعہ جس کے متعلق مجھے ابھی ابھی اطلاع پہنچی ہے اگر وہ نہ ہوا ہوتا تو میں اس کمیشن کی بہت تعریف کرتا کیونکہ کمیشن کے ممبروں نے ہمارے لئے کام کیا.ان کے مشاغل ، ان کی مصروفیتیں ، ان کی ضرورتیں ویسی ہی ہیں جیسی دوسروں کی مگر پہلے کمیشنوں نے کام نہ کیا اور اس کمیشن نے کام کیا.اس قسم کا کام نہ کرنے والوں کی ایک مثال وہ کمیٹی ہے جو امداد باہمی کے متعلق تجویز کی گئی ہے مگر اس نے کوئی کام نہیں کیا.اس قسم کی کمیٹیوں نے بتا دیا کہ جن احباب کو ان میں کام کرنے کے لئے مقرر کیا جاتا ہے وہ اپنے اوقات کی قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے یا اتنی قربانی کے لئے تیار نہیں ہوتے جتنی ضروری ہوتی ہے مگر اس کمیشن نے وقت صرف کیا اور کافی وقت صرف کیا.ممبر صاحبان دو دفعہ اس کام کے لئے قادیان آئے، لمبی لمبی شہادتیں لیں.شاید ۱۲ ۱۳ سو صفحات شہادتوں وغیرہ کے ہوں گے.پھر کمیشن نے جور پورٹ تیار کی ہے وہ بھی کافی بڑی ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۷۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء ہر انسان سے غلطی ہو سکتی ہے بے شک ان سے بعض غلطیاں بھی ہوئی ہیں اور ہر انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں اور میں نہیں سمجھتا ممبران کمیشن جیسے تجربہ کار اور علم والے لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ اُن سے کوئی غلطی نہیں ہو سکتی یا کسی شخص کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اُس سے غلطی نہ ہوگی.تمام انسانوں سے مکمل انسان رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے مگر آپ نے بھی فرمایا ہوسکتا ہے کہ میں ایک فیصلہ کروں اور غلطی سے ایک کا حق دوسرے کو دے دوں مگر اس طرح دوسرے کا حق اس کے لئے جائز نہ ہو جائے گا بلکہ وہ اُس کے لئے آگ کا ٹکڑا ہوگا ہے پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی اجتہادی غلطی کر سکتے ہیں تو کمیشن کے سمجھدار، تجربہ کار اور علم والے لوگ کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ان سے غلطی نہیں ہو سکتی.ان سے بھی غلطی کا امکان ہے اور ان سے غلطیاں ہوئی ہیں مگر باوجود اس کے جو کام انہوں نے کیا ہے اُسے مد نظر رکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ پہلی دفعہ یہ کام کیا گیا ہے جس کے لئے انہوں نے پوری محنت کی ہے، کافی وقت صرف کیا ہے اور ایک لمبی رپورٹ مرتب کی ہے، جماعت کے شکریہ کے مستحق ہیں اور دوسروں کے لئے نمونہ ہیں.اگر وہ اصحاب بھی جو کمیشنوں اور کمیٹیوں کے لئے نامزد ہوا کریں اِسی طرح کام کیا کریں تو تھوڑے عرصہ میں بہت سے احباب کو سلسلہ کے حالات سے کافی واقفیت ہو جائے اور اگر کوئی کسی بات پر اعتراض کرے تو واقفیت کی بناء پر وہ خود جواب دے سکیں.افسوسناک امر وہ امر جو میرے کانوں میں پڑا، ابھی تحقیق طلب ہے اس لئے میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا مگر اس کی وجہ سے میں اُس جوش سے کمیشن کی تعریف نہیں کر سکتا جس سے کرنا چاہتا ہوں.اگر وہ بات صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کمیشن کے ممبروں کا تو حق ہے کہ دوسرں پر جرح کریں لیکن خلیفہ کا حق نہیں کہ ان پر جرح کرے اور اگر یہ درست ہے تو پھر خلافت فضول ہے اور ہم اُسی مقام پر آ جاتے ہیں جس پر غیر مبائعین ہیں اور خلیفہ کی بیعت کرنی فضول ہے.خلافت کے معنی ہیں نبوت کا قائم مقام درجہ.اور خلیفہ کا فیصلہ اسی طرح تسلیم کرنا ضروری ہے جس طرح نبی کے فیصلہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.فَلَا وَرَتِكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء لا يجدوا في أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا کہ اس فیصلہ کے تسلیم کرنے میں کوئی حرج اور تنگی محسوس نہ ہو.رپورٹ کے نقائص چونکہ مجھے رپورٹ کی خوبیوں پر لمبا عرصہ بولنا ہے اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کے نقائص سوائے ایک کے پہلے بیان کر دوں.رپورٹ لکھنے والوں نے بعض سامان اور مصالح جمع کئے مگر ان کے متعلق لکھنا بھول گئے حتی کہ نوٹ دینا بھی بُھول گئے مثلاً کمیشن کی مسل میں ایک کاغذ تعلیم کے متعلق ہے جس میں تجاویز درج ہیں مگر اُس پر ممبروں کے دستخط نہیں ہیں اور نہ اُس پر ان کی طرف سے کچھ لکھا ہوا ہے.آئندہ جو کمیشن مقرر ہو اُسے یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ جو سامان وہ جمع کرے اُس پر دستخط ہوں اور ہر کاغذ نمبر دے کر شامل کیا جائے تا کہ ضروری امور کے متعلق بحث کرتے اور رپورٹ لکھتے وقت معلوم ہو سکے کہ فلاں کا غذ رہ گیا ہے اور رپورٹ لکھتے وقت نظر انداز ہو گیا ہے.اسی طرح کمیشن سے ایک غلطی یہ ہوئی کارکنوں کو جوابدہی کا موقع دینا چاہئے اس امریکا ہے کہ بعض امور کے متعلق جب کہ بعض کارکنوں کے خلاف کمیشن نے رائے قائم کی ہے، ان کو موقع نہیں دیا گیا کہ جو الزام ان پر لگتا ہے اُس کے متعلق وہ جواب دے سکیں اور تشریح پیش کریں.چونکہ کمیشن کے ایک ممبر نے ناپسند کیا ہے کہ ان کی باتوں پر تنقید کی جائے اس لئے مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ گو کمیشن کے ممبروں کی نسبت میرا سیاسی مطالعہ زیادہ ہے مگر باوجود اس کے ان کی رپورٹ کے بعد میں نے مختلف کانسٹی ٹیوشنز کے متعلق کتب منگا کر اُن کا مطالعہ کیا ہے اور ان سے یہی معلوم ہوا ہے کہ کمیشن کا یہ طریق درست نہیں ہے.آخری موقع کارکن کو جواب دینے کا ضرور دیا جاتا ہے.اس سے کمیشن کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا ہو سکتی تھی مگر جس کے متعلق وہ کوئی فیصلہ کرے اُس کے ساتھ انصاف ہو جاتا کہ جس پر کوئی الزام لگایا گیا اُسے صفائی کا موقع دے دیا گیا.چونکہ کمیشن نے ایسا موقع نہیں دیا اس وجہ سے بعض نقائص پیدا ہو گئے ہیں.مثلاً بجٹ کے متعلق لکھا ہے کہ اس میں ایک غیر معمولی مد ہونی چاہئے.جو بجٹ چھپا
خطابات شوری جلد اوّل ۳۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء ہوا کمیشن نے دیکھا اُس میں یہ مد نہ تھی لیکن یہ چھپائی کی غلطی سے رہ گئی تھی ، دراصل یہ مدرکھی جاتی ہے.اگر کمیشن اس کے متعلق بیت المال سے پوچھ لیتا کہ یہ مد رکھی جاتی ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو کیوں؟ تو اُسے بیت المال والے جواب دے دیتے کہ ہاں رکھی جاتی ہے.اور یہ مد بھی پاس ہو چکی ہے مگر چھپنے میں غلطی سے رہ گئی اس سے اس غلطی کا ازالہ ہو جاتا.نظارت کا گریڈ اسی طرح ایک سوال صیغہ تعلیم وتربیت میں گریڈوں کے متعلق تھا اور وہ یہ کہ ایک شخص کو نظارت کا گریڈ مل گیا.جس شخص کے متعلق یہ بات تھی کمیشن نے سمجھا کہ اُس نے اس بارے میں اپنا بیان دے دیا ہے مگر اُس نے نہ دیا تھا بلکہ میاں بشیر احمد صاحب سے ذکر آیا تو انہوں نے جواب دیا تھا.اس قسم کی غلطیاں رپورٹ میں ہیں مگر تین چار سے زیادہ نہیں اور خوبیاں بہت زیادہ ہیں اور رپورٹ قابل قدر ہے جس سے ہم آئندہ بہت فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.کمیشن نے گل ۲۷ سفارشات کی ہیں.جن میں آٹھ ایسی ہیں جن سے جُزوی اختلاف ہے اور ایک دو ایسی ہیں جن سے گلی کمیشن کی سفارشات چین ہے کی اختلاف ہے.کمیشن کے کام پر خوشی غرض کمیشن نے بہت قابلِ تعریف اور مفید کام کیا ہے اور کسی ممبر کی غلطی سے اس کام پر پانی نہیں پھیرا جا سکتا.کمیشن کا کام باعث خوشی ہے اور میں اس پر خوشی اور امتنان کا اظہار کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اگر کوئی اور کمیشن مقرر کیا گیا تو اس کے ممبر بھی اسی طرح خوشی اور محنت سے کام کریں گے بلکہ ان سے بڑھ کر کام کریں گے.میں تو اس ممبر کو بھی مستثنے نہیں کرتا مگر باقیوں سے کہتا ہوں اگر پھر ان کے سپر د کوئی کام کیا گیا تو وہ پہلے سے بڑھ کر خوشی سے کریں گے کیونکہ یہ کام ہمارا نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام ہے اور پھر اُس خدا کا کام ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا.اول تو خلیفہ سے ناراضگی شرعاً جائز نہیں لیکن اگر کوئی ناراض ہوتا ہے تو میں اُسے کہتا ہوں یہ سلسلہ خلیفہ کا نہیں بلکہ خدا کا ہے اور اگر کوئی خدا سے لڑنے کی طاقت رکھتا ہے تو لڑے ورنہ سلسلہ کا ہر کام بشاشت اور خوشی سے کرنا چاہئے اور اپنے ذاتی کام کی نسبت بہت زیادہ محنت، جوش اور اخلاص سے
خطابات شوری جلد اوّل کرنا چاہئے.مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کمیشن مجلس شوری کا قائم مقام نہیں اس موقع پر میں ایک اور بات صاف کر دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ یہ جو کمیشن ہے یه مجلس شوری کا قائم مقام نہیں ہے.بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے اور خود کمیشن کے بعض ممبروں کو بھی غلط فہمی ہوئی ہے کہ اُنہوں نے کمیشن کو مجلس شوری کا قائم مقام سمجھا ہے حالانکہ مجلس شوری اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی.وہ میرے بلانے پر آتی اور آ کر مشورہ دیتی ہے اور ہمیشہ خلیفہ کے بلانے پر آئے گی اور اُسے مشورہ دے گی.ورنہ اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی کہ مشورہ دے اور کمیشن خلیفہ نے مقرر کیا تا کہ وہ اُس کام کا معائنہ کرے جو کارکن کر رہے ہیں اور جس کی نگرانی خلیفہ کا کام ہے.خلیفہ چونکہ اس قدر فرصت نہیں رکھتا کہ خود تمام کاموں کی نگرانی کر سکے اس لئے اُس نے اپنی تسلی کے لئے کمیشن مقرر کیا تا کہ وہ دیکھے کہ کارکنوں کے سپر د جو کام ہے اُسے وہ کس طرح کر رہے ہیں.غرض کمیشن خلیفہ کی طرف سے مقرر ہوا.ہاں اتنا فرق رکھا گیا کہ کمیشن کے ارکان مجلس شوری کے ممبروں میں سے منتخب کر لئے گئے کیونکہ اس موقع پر احباب سامنے ہوتے ہیں.پس اس کمیشن کی رپورٹ بھی خلیفہ کے ہی سامنے پیش ہونی چاہئے اور وہی اس کے متعلق فیصلہ کرے گا.چونکہ یہ کمیشن کی پہلی رپورٹ ہے اس لئے غلطیوں کا وہ پرانا ذخیرہ جو دیر سے جمع ہوتا چلا آیا ہے اُن کا اس میں ذکر ہے.اگر پہلے بھی اسی طرح کمیشن مقرر ہوتے رہتے تو اس وقت اس قدر غلطیاں نہ اکٹھی ہوتیں.پس اس رپورٹ میں غلطیوں کا جو ذکر ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ خاص طور پر غلطیاں اور نقائص پائے جاتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ ایک لمبے عرصہ سے چونکہ اس طرح دیکھ بھال نہ ہوئی تھی اس لئے ذخیرہ جمع ہوتا گیا.اب میں کمیشن کی سفارشات کے متعلق اظہارِ خیالات کرتا ہوں.پہلی سفارش پہلی سفارش کمیشن کی یہ ہے کہ نظارتیں اس غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے جس کے لئے ان کا قائم کرنا ضروری خیال کیا گیا تھا، اپنے فرائض کو کما حقہ سوائے نظارت دعوۃ و تبلیغ پورا نہیں کر رہی ہیں اور اس کو تا ہی کو رفع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ناظر صاحب دعوة و تبلیغ ، ناظر صاحب تعلیم و تربیت ، ناظر صاحب بیت المال اور
خطابات شوری جلد اوّل ۳۷۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء ناظر صاحب امور عامه و خارجہ مہینہ میں پندرہ یوم یا کم و بیش دورہ کیا کریں اور جماعت کی مالی، روحانی، اخلاقی حالتوں کا خود ملاحظہ کر کے مناسب تجاویز سوچا کریں.فیصلہ اس سفارش کے میں دو حصے سمجھتا ہوں.ایک یہ کہ ناظر صاحبان دورہ کر کے دیکھیں کہ مختلف جماعتوں میں ان کے جو نائب مقرر ہیں وہ اپنا مفوضہ کام اچھی طرح کر رہے ہیں یا نہیں؟ اور ان کے کام کو زیادہ عمدہ اور مفید بنانے کے لئے کیا تجاویز ہو سکتی ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ ان کے دوروں کا وقت مقرر کیا جائے.میرے نزدیک پہلا حصہ نہایت ضروری اور اہم ہے.ناظر صاحبان جب تک جماعتوں کا دورہ نہ کریں گے اور بیرونی کارکنوں کے کام کو نہ دیکھیں گے، باہر کی جماعتوں کا نظام عمدہ طور پر قائم نہ ہو گا.اس وجہ سے میں اس حصہ کے ساتھ گلی طور پر متفق ہوں کہ ناظروں کو ضرور دورہ کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ باہر کی جماعتوں میں جو سیکرٹری مقرر ہیں وہ عمدگی سے کام کر رہے ہیں یا نہیں.ان کے راستے میں کیا مشکلات ہیں اور ان کے کام کو زیادہ بہتر اور مفید بنانے کے لئے کیا تجاویز اختیار کی جاسکتی ہیں اور جماعتوں سے مل کر ایسے اصول طے کئے جائیں کہ جن پر عمل کرنے سے کام عمدگی سے ہو سکے.بعض جماعتیں جو پہلے اچھا کام کرنے والی تھیں اس لئے گر گئیں کہ ناظروں نے دورہ نہ کیا اور ان کے کام کو نہ دیکھا.وہاں سے کام میں نقائص اور مشکلات کے متعلق چٹھیاں آئیں مگر یہاں سے ان نقائص اور مشکلات کو دور کرنے کے متعلق کوئی کارروائی نہ کی گئی.آخر وہ لوگ خاموش ہو کر بیٹھ گئے اور سُستی اور کاہلی کا شکار ہوتے ہوتے بالکل گر گئے اور یہاں ناظر اُن سے ناراض ہو کر بیٹھ گئے حالانکہ خدا اُن لوگوں سے بھی ناراض نہیں ہوتا جو اُس کی سخت نافرمانیاں کرتے ہیں اور اُن کو چھوڑ نہیں دیتا اور دین میں ناراضگی کا کیا مطلب؟ ناظروں کا فرض تھا کہ جو لوگ کسی وجہ سے رُوٹھ گئے تھے اُنہیں مناتے اور ان کی شکایتیں دُور کرتے اور یہ کام دورہ کے ذریعہ بخوبی ہو سکتا تھا.دُنیا کی کوئی گورنمنٹ نہیں جس نے ملک میں افسروں کا دورہ ضروری نہ قرار دیا ہو.اسی ملک کی گورنمنٹ کو دیکھ لو، اس کے وزراء مختلف مقامات پر دورہ کے لئے جاتے ہیں اور ملک میں چکر لگاتے رہتے ہیں.پس انتظام کو درست رکھنے کے لئے دورہ ضروری ہے مگر ہر ماہ میں پندرہ روزہ دورہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۷۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کے ساتھ میں متفق نہیں ہوں کیونکہ اس طرح دفتری کام میں نقص پیدا ہو جائے گا.گو کمیشن کی یہ رائے ہے کہ دفتری نگرانی میں ناظروں کا اتنا حصہ نہیں ہے کہ ان کے نہ ہونے کی وجہ سے نقص پیدا ہو جائے مگر ہو سکتا ہے کہ جس دفتر کا کمیشن نے معائنہ کیا ہو وہ پوری طرح کام نہ کرتا ہو مگر کام کے لحاظ سے ناظروں کا بہت وقت کے لئے مرکز میں موجود ہونا ضروری ہے.مجھے ان سے کام پڑتا رہتا ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ناظر موجود نہ ہو تو کئی کاموں کو اُن کے آنے تک ملتوی کرنا پڑتا ہے چونکہ ناظروں سے کام لینے والا میں ہوں، مجھے ان سے مشورے لینے پڑتے ہیں اس لئے میں جانتا ہوں کہ ان کی مرکز میں کس قد رضرورت ہے.اگر وہ کہیں باہر جائیں تو کئی باتوں کے متعلق ان کے آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ناظروں کے لئے دورہ کرنا بھی ضروری ہے.اس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ایک وقت میں دو ناظر دورہ پر رہیں.ایک دورہ فروری اور مارچ میں ہو.دو ناظر اس موقع پر دورہ کے لئے نکل جائیں.ان کا دورہ خواہ مہینہ کا ہو یا ڈیڑھ مہینہ کا ، ان کے کام کا چارج دوسرے ناظر لے لیں.پھر دوسرا دورہ ۱۵ ستمبر سے ۱۵ نومبر تک جو مہینہ یا ڈیڑھ مہینہ کا ہو مقرر کر لیں.آگے دورہ کی تفصیلات کے لئے ہم ناظروں کو پابند نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس میں آزاد رکھنا چاہتے ہیں جس طرح وہ مناسب سمجھیں طے کر لیں.دورہ کے وقت کو بھی ضرورت کے مطابق وہ آگے پیچھے کر سکتے ہیں لیکن ہرششماہی میں ایک دورہ دو ناظروں کا علیحدہ علیحدہ جہات میں اس طرح کہ سب ہندوستان کا کام ان کی نگاہ میں آجائے ، ان کے لئے ضروری ہے.ہر ماہ میں پندرہ روز دورہ میں کام کا بھی حرج ہوگا اور روپیہ بھی بہت خرچ کرنا پڑے گا.جو قوم اپنا وقار قائم رکھنا چاہتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے معززین کا احترام کرے.میں یہ اجازت نہیں دوں گا کہ ایک ناظر محصیل کی طرح جائے بلکہ اس کا واجب احترام کرنا ضروری ہوگا کیونکہ وہ خلیفہ کا نائب ہوتا ہے.ضروری ہوگا کہ جس صیغہ کا ناظر کہیں جائے ، وہاں کی جماعت میں اُس صیغہ کا جو انچارج ہو وہ اُسے ریسیو کرے.پہلے سے جلسہ کا انتظام کر دیا گیا ہو اور جماعت کو ایک جگہ جمع کرنے کا انتظام ہو چکا ہو.اس وجہ سے زیادہ دورے نہیں رکھے جا سکتے بلکہ تھوڑے ہی رکھے جائیں گے.دورہ کے لئے وقت پہلے سے مقرر کیا جائے
خطابات شوری جلد اوّل ۳۷۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء گا اور اعلان کر دیا جائے گا.اس کے لحاظ سے جماعتوں کو تیار رہنا ہوگا اور جو ناظر دورہ پر جائے وہ اس دورہ میں دوسری نظارتوں کا کام بھی کر سکتا ہے.اس کا یہ بھی فائدہ ہو سکتا ہے کہ ناظر جماعت کے ہر طبقہ سے واقف ہو جائیں گے.گو ایک صیغہ کے اصل ناظر کا دورہ کرنا جتنا مفید ہو سکتا ہے اُتنا دوسرے ناظر کا دورہ اس صیغہ کے لئے مفید نہیں ہوسکتا، لیکن پھر اُس کی باری آجائے گی.اس طرح ایک دو سال میں ہر ناظر ہندوستان کی سب جماعتوں سے ذاتی تعارف پیدا کر لے گا.پس میں ناظروں کے لئے سال میں دو دورے تجویز کرتا ہوں.دوسری سفارش کمیشن کی دوسری سفارش یہ ہے کہ پریس اور اخبارات ناظر صاحب تألیف و تصنیف کے ماتحت کر دیئے جائیں اور ناظر صاحب تألیف و تصنیف مختلف اخبارت و رسالہ جات کا ملاحظہ کر کے ان میں جو کچھ احمدیت یا اسلام کے متعلق ہو اُس کی تردید یا تائید میں تصانیف کرتے یا کراتے رہیں اور احمدی بچوں کے لئے بالخصوص اور تمام ہندوستان کے لئے بالعموم تعلیمی نصاب جس سے اخلاق فاضلہ پیدا ہوں مرتب کرتے یا کراتے رہیں اور سلسلہ کے اخبارات کی نگرانی فرما کر ان میں اس قسم کی اصلاحات فرماتے رہیں جن کے ذریعہ سے اپنی جماعت اور غیروں میں ان کے مطالعہ کا شوق پیدا ہو کر آمدنی میں اضافہ ہو.فیصلہ یہ سفارش پیش کرنے کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ نظارت دعوۃ و تبلیغ کے پاس کام زیادہ ہے، اس کے کام کا ایک حصہ دوسری نظارت میں کر دیا جائے.میں نے اس سفارش کے متعلق یہ رائے قائم کی ہے کہ بے شک اخبار اور رسالے بھی تصنیف سے تعلق رکھتے ہیں مگر تصنیفیں دوستم کی ہوتی ہیں ایک عارضی اور دوسری مستقل.اخبار مستقل تصنیف نہیں ہیں بلکہ ان کا یہ کام ہوتا ہے کہ ہنگامی طور پر جو غوغا پیدا ہو اُس کا مقابلہ کیا جائے اور یہ کام دعوۃ و تبلیغ سے ہی تعلق رکھتا ہے.اس لئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ رسائل تو نظارت تألیف و تصنیف کے ماتحت ہوں اور اخبار دعوۃ و تبلیغ کے ماتحت.مثلاً ریویو اردو اور انگریزی تألیف و تصنیف کے ماتحت ہوں اور الفضل سن رائز اور مصباح دعوۃ و تبلیغ کے ماتحت.آئندہ بھی اگر کوئی ماہوار رسالہ نکلے یا اس سے زیادہ عرصہ کا تو وہ
خطابات شوری جلد اوّل تأليف و تصنیف کے ماتحت ہو.۳۸۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء باقی سفارش جو کمیشن کی تألیف و تصنیف کے صیغہ کے متعلق یہ ہے کہ انہیں اپنے اصل کام یعنی مستقل لٹریچر کے مہیا کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور نصاب تعلیم کے مکمل کرنے اور مخالفین کے اعتراضوں کا جواب کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.میں اس سے متفق ہوں.کمیشن کی رپورٹ پر اس صیغہ کو جلد سے جلد عمل کرنا چاہئے اور چاہئے کہ وہ کسی آدمی کو اس قسم کے متفرق کاموں کے لئے فارغ کریں جو کہ نصاب بنائے اور وقتی ضرورت پوری کرے.تیسری سفارش کمیشن کی تیسری سفارش یہ ہے کہ نظارت ضیافت کو نظارت کے نام سے موسوم نہ کیا جائے بلکہ انسپکٹر یا محافظ کے نام سے اس کے اعلیٰ افسر کو موسوم کیا جائے.اسی طرح ناظر مقبرہ بہشتی کو بھی ناظر کے نام سے موسوم نہ کیا جائے بلکہ وہ پریذیڈنٹ مجلس کار پردازان مصالح مقبرہ بہشتی کے نام سے ہی موسوم رہیں.فیصلہ میرے نزدیک اس سوال سے کمیشن کا تعلق نہ تھا.کمیشن کا کام یہ تھا کہ رپورٹ کرے ناظر اپنے مقررہ فرائض کو عملہ اور اس رقم کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اُن کے لئے منظور کی جاتی ہے کما حقہ ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ اسے اس امر سے کوئی تعلق نہ تھا کہ کسی صیغہ کے انچارج کا نام ناظر ہو یا انسپکٹر اور چونکہ ناظر ضیافت آنریری ہے اور اس کا کوئی بار سلسلہ پر نہیں پڑتا.پھر چونکہ یہ وہ کام ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود کرتے رہے اور آپ نے اسے سلسلہ کا بہت اہم کام قرار دیا.اس لئے میری غیرت برداشت نہیں کرتی کہ اس کام پر جسے مقرر کیا جائے وہ انسپکٹر ہو اور خاص کر اس وقت جب کہ اس کے لئے ایک پیسہ بھی خرچ کرنا نہیں پڑتا.پس میں اس صیغہ کے افسر کا نام ناظر برقرار رکھتا ہوں.اگر دوسرے کام مجھے اجازت دیتے اور لوگ اعتراض نہ کرتے کہ خلیفہ روپیہ اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے تو وہ کام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود کرتے رہے، میں خود اسے اپنے ہاتھ میں رکھتا نہ یہ کہ اسے ایسے شخص کے سپر د کر دوں جسے کسی اور کے ماتحت رکھا جائے.پھر یہ کام اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت اہم ہے.ہر طبقہ کے اور ہر قسم کے لوگ یہاں آتے ہیں.ان سے ملاقات اور ان کے لئے ضروری انتظام کوئی
خطابات شوری جلد اوّل ۳۸۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء معمولی شخص نہیں کر سکتا اور جو شخص یہاں جماعت کے مہمان کی حیثیت سے آتا ہے اسے ریسیو کرنے والا ناظر ہی ہونا چاہئے.اگر اس کے متعلق اخراجات کا سوال ہوتا تو بھی میں یہ برداشت نہ کرتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس کام کو اپنے ہاتھ میں رکھا اُسے دوسرے کاموں کے مقابلہ میں گرا دیتا.لیکن جب اس کے لئے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا تو میری غیرت برداشت نہیں کر سکتی کہ اس صیغہ کو نظارت کے درجہ پر نہ رکھوں.میں تو اپنی زندگی میں اس کام کے انچارج کا نام ناظر ہی رکھوں گا، پیچھے معلوم نہیں کیا ہو.ہم جب بھی اس صیغہ کا انچارج مقرر کریں گے آنریری مقرر کریں گے.سوائے اس کے کہ کام اس قدر بڑھ جائے کہ کوئی مستقل آدمی اس کے لئے رکھنا پڑے جو سارا وقت اسی کام میں صرف کرے.دوسری نظارت جس پر اعتراض کیا گیا ہے، وہ مقبرہ بہشتی کی نظارت ہے اور اس کا ناظر بھی تنخواہ دار نہیں ہے بلکہ آنریری ہے.اس صیغہ کا ناظر مقرر کرنے کی بھی یہ وجہ ہے کہ یہ صیغہ خدا تعالیٰ کے الہام کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر کیا اور اس کے لئے جو کمیٹی بنائی اسے ایسے اختیارات دیئے کہ آج تک ان کو پیش کر کے غیر مبائعین ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے.پس اس صیغہ کے لئے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الہام الہی سے بنایا ، میں نے آنریری ناظر رکھ دیا ہے.اس صیغہ کے وقار کے لئے کیونکہ یہ اہم صیغہ ہے اور خدا تعالیٰ کے الہام سے مقرر کیا گیا ہے.اس پر کوئی خرچ بھی نہیں ہو رہا، اسے بھی میں بدلنے کے لئے تیار نہیں ہوں.خصوصاً اس لئے بھی کہ ناظر مقبرہ بہشتی کو بڑے بڑے لوگوں سے کام پڑیگا.کل کو وزراء اور بادشاہ بھی آئیں گے اور وصیتیں کریں گے.کیا اُن سے ملنے کے لئے خلیفہ کا قائم مقام نہیں ہونا چاہئے؟ گورنمنٹ برطانیہ میں ڈچی آف لنکا شائر (DUCHY OF LANCASHIRE) کا عہدہ ہے جس کا کوئی کام نہیں ہوتا اور وہ مفت تنخواہ لیتا ہے.اُسے صرف اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ بادشاہ نے اس عہدہ کو تجویز کیا تھا.تو بڑے بڑے لوگوں نے وصایا کرنی ہیں اُن سے ملنے کے لئے ہمارا قائم مقام ہی ہونا چاہئے اور میرا تو خیال ہے کہ اِس صیغہ کا ناظر اہمیت کے لحاظ سے دوسری نظارتوں کے ناظروں سے زیادہ اہم ہو جائے گا.اب تو یہ ناظر آنریری ہے اور اگر آنریری
خطابات شوری جلد اوّل ۳۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء نہ رہے گا تو یہ سوال شوری کے سامنے آئے گا.شور کی اس کے متعلق مشورہ دے گی اور پھر میں فیصلہ کروں گا.چوتھی سفارش کمیشن کی چوتھی سفارش یہ ہے کہ نظارتِ اعلیٰ غیر ضروری نظارت ہے.یگانگت کا کام مجلس معتمدین کر سکتی ہے یا جو محکموں کا ایک مشتر کہ کلرک تقسیم ڈاک کے لئے مقرر ہوسکتا ہے.فیصلہ میرے نزدیک وہ وجوہات جو اس نظارت کو اُڑانے کے لئے لکھی گئی ہیں کافی نہیں ہیں.دُنیا کی کوئی کانسٹی ٹیوشن ایسی نہیں جس میں کسی ممبر کو سینئر ممبر قرار نہ دیا جائے.کہیں اس کا نام وزیر اعظم رکھ لیا جاتا ہے اور کہیں کچھ اور.میں نے خصوصیت سے مختلف ممالک کی کانسٹی ٹیوشنز کا مطالعہ کیا ہے.رشین (Russian) کانسٹی ٹیوشن میں ایک کو ڈکٹیٹر مقرر کر لیا جاتا ہے.امریکن حکومت میں کوئی خاص مقر ر نہیں کیا جاتا مگر اس کی وجہ یکھی ہے کہ پریذیڈنٹ اپنی ذات میں انتظامی طور پر جواب دہ ہوتا ہے اس لئے علیحدہ طور پر پریمیئر مقرر کرنے کی ضرورت نہیں مگر اب اس میں بھی تغیر کیا جا رہا ہے.سیکرٹری آف سٹیٹ کو یہی اختیار دے دیئے گئے ہیں.پس یہ اصول کے خلاف ہے.میرے پاس ہر روز ایسے کا غذات آتے ہیں جن پر غور کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کے میں کسی ناظر کے پاس نہیں بھیج سکتا.آخر مجھے یہی لکھنا پڑتا ہے کہ ناظر اعلیٰ کے پاس جائیں.ہاں یہ میری بھی رائے ہے اور اوروں کی بھی کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ نظارت اعلیٰ کے پاس کام کافی نہیں ہے تو کوئی اور کام بھی اس کے سپرد کر دینا چاہئے.کمیشن ایسے کام بتا دیتا تو ان کے متعلق غور کر لیا جاتا.ناظر اعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس کام زیادہ ہے اور وہ کام میں لگے بھی رہتے ہیں.اگر کمیشن اس بات پر غور کرتا کہ ناظر اعلیٰ ایسے کاموں میں وقت خرچ کرتے ہیں جو ان کے کرنے کے لئے نہیں ہیں تو وہ کام اس نظارت سے نکال دیئے جاتے اور کسی اور نظارت کا کام ناظر اعلیٰ کو زائد دے دیا جاتا.حکومتوں میں ایسا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے سپرد اور وزارتوں کے کام بھی ہوتے ہیں.اسی طرح نظارت اعلیٰ کے سپر د بھی کسی اور نظارت کا کام کیا جا سکتا تھا.آئندہ جو کمیشن بیٹھے اُس سے میں امید کرتا ہوں کہ وہ اس کے متعلق غور کرے گا.فی الحال میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ نظارت خارجہ کا کام ناظر اعلی کے سپرد کر دیا جائے.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء پھر ناظر اعلی کا یہ بھی کام ہوتا ہے کہ اگر کوئی ناظر غلطی کرتا ہے تو ناظر اعلیٰ کو اُس کے متعلق رپورٹ کرنے کے لئے مقرر کیا جاتا ہے.یہ کام بہر حال کسی سینئر ممبر کے ہی سپرد کرنا پڑے گا.پانچویں سفارش کیٹن کی پانچویں سفارش یہ ہے.ایک کمیٹی مقرر کی جائے جو مدرسہ احمدیہ کے جملہ حالات کا مطالعہ کر کے اس امر کے متعلق رپورٹ کرے کہ آیا موجودہ صورت قائم رہے یا اس میں ترمیم کی جائے ؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ انٹرنس پاس طلباء لئے جائیں اور اُن کو دینی تعلیم دی جائے اور اتنا زیادہ وقت نہ صرف ہو فیصلہ جتنا اب ہوتا ہے؟ ایسی کمیٹیاں اس سکول کے متعلق تین دفعہ بٹھائی گئی ہیں.دو دفعہ ان کمیٹیوں کا پریزیڈنٹ میں خود تھا.اگر اس کے متعلق کمیشن والے صیغہ کے افسروں سے دریافت کر لیتے تو بات حل ہو جاتی.میں نے اس بارے میں غور کر کے دیکھ لیا ہے کہ انٹرنس پاس طلباء میسر نہیں آسکتے.اسی سلسلہ میں ایک دفعہ سید ولی اللہ شاہ صاحب نے تجویز پیش کی تھی کہ اگر ہائی سکول میرے سپرد کر دیا جائے تو دس سال کی بجائے گیارہ سال میں میں طلباء کو عربی کی تعلیم دلا سکوں گا اور انٹرنس تک انگریزی کی تعلیم بھی.میں نے انہیں کہا آپ کے دو بھانجے ہائی سکول میں پڑھتے ہیں.آپ انہیں مولوی بھی بنا دیں اور انٹرنس بھی پاس کروایں تو آپ کی اس تجویز پر غور کر لیا جائے گا مگر وہ ان کے متعلق توجہ نہ کر سکے.ان میں سے ایک نے تو تعلیم بیچ میں ہی چھوڑ دی اور ایک نے ایک سال ڈیٹین (DETAIN) ہونے کے بعد اب کے امتحان دیا ہے.تو تجویز پیش کرنا آسان ہوتا ہے لیکن اس پر عمل کرنا مشکل ہوتا ہے.میں خود اس سکول میں کام کرتا رہا ہوں اس لئے مشکلات سے ذاتی طور پر واقف ہوں.دراصل طلباء کو جس کام کے لئے اس سکول میں تیار کیا جاتا ہے اس کے لحاظ سے جلد جلد کتابیں پڑھا دینے کی اتنی ضرورت نہیں جتنی دینی ماحول میں رکھ کر انہیں سمونے اور تربیت کرنے کی ہے اور انسانی تربیت کا تعلق وقت سے بھی ہوتا ہے.اگر طلباء کو جلد جلد کتابیں پڑھا دی جائیں تو وہ علم میں سے گزر تو جائیں گے مگر علم ان میں راسخ نہ ہوگا کیونکہ انسانی فطرت ایسی ہے کہ اس میں جو چیز آہستگی سے داخل ہوتی ہے وہی دیر پا ہوتی ہے.جماعت کی مذہبی نگرانی جس کے لئے مدرسہ احمدیہ کے طلباء کو
خطابات شوری جلد اوّل ۳۸۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء تیار کیا جاتا ہے، معمولی بات نہیں.اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک لمبے عرصہ میں اس کام میں سے طلباء کو گزاریں تا کہ ان کے ذرہ ذرہ میں دینی باتیں داخل ہو جائیں اور یہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے ماحول میں کافی عرصہ تک رہیں جس میں دینی باتیں اور دینی اشغال ہوں.پھر انٹرنس تک پڑھنے کے بعد طالب علم بہت کم مل سکیں گے کیونکہ انٹرنس کے بعد طالب علموں کو گریجویٹ بنا یا ڈاکٹری وغیرہ پاس کرنا زیادہ قریب نظر آتا ہے.اُس وقت وہ سمجھتے ہیں کہ دینیات کی طرف وہ نہیں جا سکتے.تو طالب علموں کے لحاظ سے بھی اس میں رکھتیں ہیں اور ماحول کے لحاظ سے بھی یہی ضروری سمجھا گیا ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک اس میں رہیں ورنہ اس کام کے ماہر نہ بنیں گے.پس میں اس تجویز کو قبول کرنے کے لئے سر دست تیار نہیں ہوں.چھٹی سفارش مختلف محکموں کے کے محرروں کے کام کے متعلق ایک کمیٹی مقرر کی جائے جو ان کے کام کے معائنہ کے بعد ان کے لئے ایک ہی قسم کا دستور العمل تجویز کرے.فیصلہ میرے نزدیک یہ مناسب ہے ایسی کمیٹی مقرر ہونی چاہئے.اس کمیٹی کے لئے میں ان اصحاب کو مقرر کرتا ہوں.(۱) بابوعبدالحمید صاحب شملہ.پریذیڈنٹ (۲) شیخ ضیاء الحق صاحب لاہور (۳) با بومحمد امیر صاحب لاہور.یہ کلرکوں کے کام کا معائنہ کر کے دستور العمل پیش کریں.با بوضیاء الحق صاحب کمیشن کی سفارش کی مفصل نقل لے لیں تا کہ انہیں معلوم ہو سکے کہ کمیشن اس کمیٹی سے کیا چاہتا ہے.ساتویں سفارش محصلین کے جو علاقہ جات مقرر ہیں ان میں ان کا ایک ایک ہیڈ کوارٹر مقرر کیا جائے.جہاں وہ مستقل طور پر رہیں اور وہاں سے انہی علاقوں میں دورہ کر کے تمام سال تشخیص چندہ کا کام کرتے رہیں اور صرف اشد ضرورت کے موقع پر مرکز کے خاص آرڈر سے چندہ کی وصولی کا کام کریں اور مختلف نقشہ جات صدر میں بھیجتے رہیں.کمیشن کے سامنے جو شہادتیں پیش ہوئیں اُن سے اس نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ محصلین صحیح طور پر کام نہیں کرتے.جہاں جاتے ہیں وہاں سے صرف وہ روپیہ لے فیصلہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کر بھیج دیتے ہیں جو انہیں جمع کیا کرایا مل جاتا ہے.یہ نہیں کہ سب سے چندہ کی وصولی کا کوئی طریق اختیار کریں.ان کے متعلق رجسٹر بنوائیں جن میں ہر ایک کے چندہ کی وصولی اور بقایا درج ہو.میرے پاس بھی کئی جگہ سے اس قسم کی رپورٹیں آئی ہیں.یا محصل اتنی قابلیت کے نہیں کہ اس طرح کام کر سکیں یا صیغہ ان سے کام نہیں لے سکتا.بہر حال محصلین کے متعلق رپورٹیں اسی قسم کی آئی ہیں حالانکہ محصل کا کام یہ ہے کہ ہر جماعت میں چندہ کی ادائیگی کے متعلق یکسانیت پیدا کرے.جو لوگ چندہ دینے میں سُست ہوں اُن کی شستی دور کرنے کا انتظام کرے.جن کے ذمے بقائے ہوں ان سے بقائے وصول کرے ورنہ جمع شده رو پید تو ہر جگہ کے کارکن خود بھی بھیج سکتے ہیں.اب کمیشن کی تجویز یہ ہے کہ محصلین کے حلقے مقرر ہوں اُن ہی میں وہ رہیں اور دورے کر کے چندہ کی تشخیص اور خاص حالتوں میں وصولی کا کام کریں.میرے نزدیک کمیشن کی رپورٹ بہت مفید ہے.ممکن ہے دفتر والے اس پر عمل کرتے ہوئے ہچکچائیں مگر اسے ہم چھوڑ نہیں سکتے.میں اس کے متعلق فیصلہ کرتا ہوں کہ صیغہ بیت المال فوراً اس کے مطابق کام کرانا شروع کرا دے.آٹھویں سفارش محتسب کا کام سمجھ میں نہیں آیا اور موجودہ حالات میں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی.میں اس سفارش کو تسلیم کرتا ہوا اِس صیغہ کو اُڑا دیتا ہوں.مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ جو فیصلہ کام اس صیغہ کے کرنے کا تھا وہ نہایت ضروری اور اسلامی ہے.محتسب کا کام اسلامی زمانہ میں نہایت اہم اور ضروری سمجھا گیا ہے جو یہ ہوتا تھا کہ کسی کے کیرکٹر کے متعلق جو افواہ ہوتی یہ محکمہ اُس کی نگرانی کرتا اور ایسے شخص کے حالات جمع رکھتا، پھر جب کسی کے متعلق کوئی مقدمہ ہوتا تو اس کے تفصیلی حالات محتسب سے پوچھے جاتے.اسی طرح کسی مقدمہ میں جو گواہ پیش ہوتے اُن کے متعلق محتسب بتا تا کہ فلاں گواہ کے خلاف یہ یہ باتیں ہیں.آگے قاضی اُن کی تحقیق کر کے فیصلہ کرتا کہ اس گواہ کی گواہی قابل قبول ہے یا نہیں.اسلامی حکومت میں ہر گواہ کے متعلق پہلے یہ بحث ہوتی کہ یہ شاہد عادل ہے یا نہیں اور اس بحث میں محتسب مدد دیتا.اسی طرح اگر کسی پر منافقت اور قومی غداری کا الزام لگے تو اُسے پہلے دن ہی گرفتار
خطابات شوری جلد اوّل کام ۳۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء نہیں کیا جاسکتا.اس کے پہلے حالات کو دیکھنا ضروری ہوگا اور ایسے حالات مہیا کرنا محتسب کا کام ہوتا تھا.وہ ہر ایک کے حالات جمع رکھتا.کسی کے سابقہ حالات کا تجسس کرنا قاضی کا نہ تھا اور نہ وہ کر سکتا تھا.تو صیغہ احتساب کے ذمے بہت سے اہم کام ہوتے ، وہ عدالتوں کی مدد کرتا یا ایسے مقدمات چلاتا جو لا وارث ہوتے.گویا یہ صیغہ نگرانی رکھتا کہ جو حلقہ اس کے سپرد ہے اُس کی کیا حالت ہے، لوگوں کے اخلاق کیسے ہیں؟ کون کس قسم کا اور کس رنگ کا آدمی ہے؟ گویا محکمہ قضا اور امور عامہ کی مدد کرنا اس کا کام تھا.مگر کہنا پڑتا ہے کہ اس صیغہ سے اِس طرح کام نہیں لیا گیا جو مفید ہوتا اور چونکہ ایسا کام نہیں لیا گیا یا اس صیغہ نے دیا نہیں اس لئے میں اس تجویز کو منظور کرتا ہوں.ورنہ اس کام کی ضرورت یقیناً ہے اور مقامی کمیٹی سے امید کرتا ہوں کہ وہ یہ کام اپنے ہاتھ میں لے گی.نویں سفارش تمام محکمہ جات کے لئے ایک یا دو سپرنٹنڈنٹ مقرر کئے جائیں جو فیصلہ ناظروں کی غیر حاضری میں معمولی خط و کتابت کا جواب دیتے رہیں اور اہم اور ضروری کام ناظروں کی واپسی پر پیش کیا کریں.میں اس سے متفق ہوں کہ سپرنٹنڈنٹ مقرر کئے جائیں.ایسا تقرر اس لحاظ سے بھی مفید ہو گا کہ ناظروں اور کلرکوں کے درمیان کوئی اور واسطہ ہو.اب کلرک براہ راست ناظروں کے ماتحت ہیں اور اس سے شکایت پیدا ہوتی ہے.اگر سپرنٹنڈنٹ ہوں گے جو کلرکوں کے کام کی نگرانی کریں گے اور ان کے کام پر رپورٹ کریں گے تو ناظروں کے متعلق شکایات کم پیدا ہوں گی.کمیشن نے دو کی تجویز کی ہے مگر شاید اب دو کے لئے مالی لحاظ سے گنجائش نہ ہو.ایک کے لئے بجٹ میں گنجائش رکھی جائے مگر چونکہ اس کے لئے دفاتر کا ایک جگہ ہونا ضروری ہے.میں تجویز منظور کرتا ہوں اور اُس وقت تک کہ دفاتر اکٹھے ہوں اسے ملتوی رکھنے کی ہدایت دیتا ہوں.دفاتر کو جلد ا کٹھے کرنے کی کوشش کی جائے.دسویں سفارش مبلغین قادیان میں صرف دو یا تین رکھے جائیں.جو عام طور پر درس و تدریس کا کام کرتے رہیں اور خاص ضرورت کے وقت باہر بھیجے جائیں.باقی تمام مبلغین کے ہیڈ کوارٹرز مفصلات میں ہوں اور ان کے حلقے مقرر کئے جائیں.جہاں تمام سال دورہ کر کے تبلیغ کرتے رہیں.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۸۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء فیصلہ یہ تجویز بہت معقول ہے.جس قدر جلد ہو سکے اس پر عمل کیا جائے.میں اس کے لئے دو مہینے کی مہلت مقرر کرتا ہوں کہ اس عرصہ میں مبلغین کے ہیڈ کوارٹرز مقرر کر دیئے جائیں اور سوائے دو کے جو مرکز میں رکھے جائیں باقی سب کے باہر ہیڈ کوارٹرز ہوں.ہاں گورداسپور کے علاقہ کا مبلغ اگر اپنا ہیڈ کوارٹر قادیان رکھنا چاہے تو وہ مرکزی مبلغوں میں شامل نہ ہوگا اور ہیڈ کوارٹر مقرر کرنے میں ہر مبلغ کو آزادی ہوگی کہ اپنے علاقہ میں جہاں چاہے مقرر کر لے بشرطیکہ مرکز اُس کا کسی خاص جگہ پر رہنا ضروری نہ سمجھے.ضمنی سفارش اس تجویز کے ضمن میں یہ سفارش بھی پیش کی گئی ہے کہ مبلغین میں سے دو مبلغ ایک لاہور میں رہ کر اور دوسرا دہلی میں رہ کر بطریق وائی.ایم.سی.اے انگریزی خوان طلباء میں تبلیغ کریں اور یہ دونوں مبلغ انگریزی خوان اور طریق تبلیغ سے واقف ہوں.فیصلہ چونکہ ان دنوں مجھے بہت کام رہا ہے.قرآن کریم کے نوٹوں کو چھپوانے کے لئے مرتب کرتا، درس کا کام، دفتر کا کام وغیرہ.پھر کمیشن کی رپورٹ کے متعلق بھی غور کرتا رہا اس لئے وائی.ایم.سی.اے کے کام کے متعلق مطالعہ نہیں کر سکا لیکن میں صیغہ کو ہدایت دیتا ہوں کہ اگر یہ کام مفید ہو تو اس کے متعلق تفصیل پیش کر دیں تا کہ میں فیصلہ کر سکوں.اس وقت کوئی انگریزی خواں مبلغ فارغ نہیں لیکن اگر یہ کام مفید ہو تو کسی سے یہ کام لیا جا سکتا ہے.گیارھویں سفارش نشر واشاعت کا محکمہ غیر ضروری ہے.فیصلہ میں اس سفارش کو منظور کرتا ہوا اس محکمہ کو اڑا دیتا ہوں مگر یہ کام غیر ضروری نہیں.یہ ایسا صیغہ ہے کہ اگر صحیح طور پر اسے چلایا جاتا تو بہت مالی مددمل سکتی تھی مگر آج تک کوئی آدمی ایسا نہیں ملا جو اسے صحیح طور پر چلا سکتا، اس لئے اسے بند کرتا ہوں جب تک خدا تعالیٰ کوئی موزوں کارکن اس کے لئے نہ دے.یہ زمانہ پراپیگنڈا کا زمانہ ہے.جماعتی کام میں کامیابی بھی پراپیگنڈا کے ذریعہ ہی ہوتی ہے مگر یہاں یہ حالت ہے کہ اخبار کے لئے کسی نے خود اشتہار بھیج دیا تو لے لیا، اپنی طرف سے اس کے لئے کوئی کوشش نہیں کی جاتی حالانکہ اگر کوشش کی جائے تو بہت آمدنی ہو سکتی ہے.اگر موزوں طور پر کام کرنے والا
خطابات شوری جلد اوّل ۳۸۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کوئی ہوتا اور یہ صیغہ کسی اصول کے ماتحت چلایا جاتا تو اشتہارات بھی بہت مل جاتے.اخبارات بھی اچھی حالت میں ہو جاتے اور سلسلہ کا لٹریچر بھی بخوبی پک سکتا لیکن کوئی کارکن موزوں نہیں ملا اور اس کام کو صحیح طور پر نہیں چلا سکا اس لئے میں اسے موقوف کرتا ہوں.بارھویں سفارش احمدیہ گزٹ اور سن رائز کوئی خاص غرض پوری نہیں کر رہے اور سلسلہ کے لئے مالی نقصان کا موجب ہیں ان کو بند کر دیا جائے.احمد یہ گزٹ کا بند کرنا تو منظور کرتا ہوں لیکن سن رائز کے متعلق مجلس شوریٰ میں مشورہ طلب کروں گا کہ کیا کیا جائے ، اس کے بعد فیصلہ کروں گا.تیرھویں سفارش ایڈیٹر الفضل کی تنخواہ کم ہے اس میں اضافہ کیا جائے اور کوئی نہایت قابل ایڈیٹر رکھا جائے.فیصلہ میں اس سے متفق ہوں کہ موجودہ تنخواہ کم ہے اور جتنا یہ کام اہم ہے اس کے لحاظ سے ضروری ہے کہ زیادہ تنخواہ دی جائے اور آجکل زمانہ ایسا ہے کہ اخبار کو زیادہ قابلیت سے چلایا جائے مگر یہ دیکھنا چاہئے کہ اس میں ہماری بھی تو غلطی نہیں کہ ہم نے ایڈیٹر کے لئے کام کے اصول مقرر نہیں کئے.میرے نزدیک ضروری نہیں کہ ایڈیٹر اگر کوئی انگریزی دان ہو تب ہی سیاسیات اور ضروری امور کو سمجھ سکے.اگر ذہین ہو تو اردو میں بھی ایسے ذرائع ہیں کہ کافی قابلیت پیدا کر کے سیاسی مضامین پر رائے قائم کر سکتا ہے اور اگر چاہے تو اتنی انگریزی بھی پڑھ سکتا ہے کہ انگریزی مضامین سمجھ سکے.میں جب سکول سے نکلا تو ایک فقرہ بھی انگریزی کا صحیح نہ لکھ سکتا تھا لیکن بعد کے مطالعہ سے اب ہر قسم کی علمی کتابوں کا بھی مطالعہ کر سکتا ہوں.ڈاکٹری اور لاء کی کتابوں میں بعض اوقات دقت پیش آجاتی ہے مگر پھر بھی ٹوٹے پھوٹے ڈاکٹر اور وکیل جتنی پڑھ سکتا ہوں.اسی طرح گومیں خود اعلیٰ درجہ کی صحیح انگریزی نہ لکھ سکوں لیکن دوسرے کی لکھی ہوئی صحیح کر سکتا ہوں اور بسا اوقات میں صحیح کرتا رہتا ہوں.انگریزی ترجمہ قرآن کے متعلق ہی میں نے کئی الفاظ کی اصلاح کی اور جب تحقیقات کی گئی تو میری اصلاح درست نکلی تو خود مطالعہ کر کے بھی قابلیت پیدا کی جاسکتی ہے.اگر موجودہ ایڈیٹر ترقی کر سکے تو اسے موقع دینا چاہئے.پالیسی ہم مقرر کر دیں گے،
خطابات شوری جلد اوّل ۳۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء اس کے مطابق کام کرے.ہاں اگر وہ کام نہ سنبھال سکے تو پھر یہ کر سکتے ہیں کہ ایڈیٹر ان چیف کسی کو مقرر کر دیا جائے مگر میں نے جہاں تک غور کیا ہے ہمارے انگریزی خوانوں میں سے ایسے لوگ نہیں ملتے کہ جو قابلیت سے ایڈیٹری کا کام کر سکیں.موجودہ ایڈیٹر کو تجر بہ اور زمانہ کے حالات کی واقفیت ہے جس سے کام کر رہا ہے.ہوسکتا ہے کوئی دوسرا جسے انگریزی آتی ہو اس کام کی قابلیت نہ ہونے کی وجہ سے بجائے مفید ہونے کے مینر ثابت ہو.میں اس کے لئے بھی کمیٹی بٹھاؤں گا تا کہ وہ کام کی سکیم بنا کر پیش کرے اور معلوم ہو سکے کہ موجودہ ایڈیٹر سے ہم کام لے سکتے ہیں یا کوئی اور رکھنا چاہئے.چودھویں سفارش دفتر پرائیویٹ سیکرٹری اور پرائیویٹ سیکرٹری کسی ناظر کے ماتحت نہ ہو.چونکہ اس کے ذریعہ سارے ناظروں کی نگرانی کی جاتی ہے اس لئے اگر وہ کسی ناظر کے ماتحت ہو تو اُسے دبنا پڑے گا.یوں بھی آداب خلافت کے لحاظ سے یہ سمجھا گیا ہے کہ خلیفتہ امیج کے دفتر پر کسی اور ناظر کی نگرانی نہیں ہونی چاہئے.یہ تجویز بھی شاید مفید ہو.چونکہ دُنیا کا تجربہ یہی ہے کہ نگران صیغہ کسی صیغہ کے ماتحت نہ ہو اور کمیشن کی رپورٹ بھی یہی ہے اس لئے میں اسے منظور کرتا ہوں.آئندہ پرائیویٹ سیکرٹری اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری نظارت اعلیٰ کے ماتحت نہ ہوگا بلکہ انجمن کے سامنے براہ راست جواب دہ ہوگا.فیصلہ ضمنی تجویز کمیشن نے اسی سفارش کے ضمن میں یہ تجویز بھی کی ہے کہ پرائیویٹ سیکرٹری کے بجٹ میں معزز مہمانوں کی مہمان نوازی، بیتامی اور ضعفاء کی مالی مدد کا خرچ یا سلسلہ کی دوسری اغراض کا خرچ جن کا ظاہر کرنا مفید نہ ہو شامل کیا جائے.فیصلہ یتامی اور ضعفاء کا خرچ پہلے ہی دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ذریعہ ہوتا ہے.باقی معزز مہمانوں کی مہمان نوازی کے لئے الگ خرچ ہو، یہ میں سمجھ نہیں سکا کہ اس سے ان کی کیا مراد ہے؟ اگر وہ مجھ سے مل لیتے تو میں پوچھ لیتا مگر اس کے لئے وقت نہ ملا.شاید ان کی مراد غیر احمدی اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے ہے کیونکہ احمدی جو آتے رہتے ہیں ان کے لئے تو انتظام ہوتا ہی ہے اور میں بھی دعوت کا انتظام کرتا ہوں.اگر احباب زیادہ تعداد میں جمع ہوں تو بھی میں دعوت دیتا ہوں.سوائے سالانہ جلسہ کے کہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء اُس وقت دعوت دینا میری توفیق سے باہر ہوتا ہے.میں سمجھتا ہوں کمیشن کی معزز مہمانوں سے مراد غیر احمدی یا انگریز وغیرہ ہیں.اس اس موقع پر پریذیڈنٹ کمیشن خان صاحب چوہدری نعمت خان صاحب نے عرض کیا.کمیشن کی یہی مراد ہے.“ ایسے مہمانوں کا اب تک لنگر سے انتظام ہوتا ہے.کبھی میں بھی ایسے لوگوں کو اپنا مہمان بنا لیتا ہوں اور کبھی بعض احباب کی دعوت خود کر دیتا ہوں.پس میرے نزدیک کسی نئے خرچ کی اس کے لئے ضرورت نہیں ہے.لنگر خانہ کے ماتحت ہی یہ انتظام رہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر اس میں کوئی زائد فائدہ ہو تو کمیشن کے ممبروں سے پوچھنے کے بعد اس کے متعلق فیصلہ کروں گا.دوسری ضمنی تجویز اس تجویز میں تیسری بات جو کمیشن نے پیش کی ہے یہ ہے کہ سلسلہ کی ایسی اغراض جن کا ظاہر کرنا مناسب نہ ہو، اُن کے لئے خرچ رکھا جائے.فیصلہ اس تجویز کے لئے میں کمیشن کا ممنون ہوں اس کی ضرورت تو تھی مگر میں اسے خود نہ پیش کرنا چاہتا تھا.جس کے ہاتھ میں انتظام ہو اُسے بعض ایسے اخراجات کرنے پڑتے ہیں جو کسی صیغہ کے ماتحت نہیں آتے.شروع شروع میں ایسے اخراجات میں اپنی طرف سے دے دیتا تھا لیکن جب بچے زیادہ ہو گئے اور میں زیادہ شادیاں کر بیٹھا تو پھر اس قسم کے اخراجات کو زکوۃ پر رکھا مگر یہ فنڈ بھی برداشت نہ کر سکا.پھر ناظر اعلیٰ کے ذمے یہ کام رکھا، کبھی خود چندے کئے.یہ ایک ضروری مد ہے.آئندہ بجٹ کمیٹی اس پر غور کرے.سپرنٹنڈنٹ دفاتر کے اخراجات کے لئے بھی اور ایسے کاموں کے لئے بھی ایک ایسی رقم ہونی چاہئے جو صرف خلیفہ کی منظوری سے پاس ہو، عام بلوں میں نہ جائے.پندرھویں سفارش محاسب اور آڈیٹر بھی کسی نظارت کے ماتحت نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ان کا ایک علیحدہ محکمہ مقرر کیا جائے جس کا افسر ناظر کے برابر عہدہ کا ہو اور براہ راست انجمن معتمدین کے ماتحت ہو اور تمام غیر معمولی پل اس کی وساطت سے پاس ہوا کریں، صرف ریکرنگ پل (RECURRING BILL) محاسب ادا کرتا
خطابات شوری جلد اوّل ۳۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء رہے.موجودہ صورت میں ریکرنگ پل کا آڈیٹر کی معرفت بھیجنا ترک کیا جائے.فیصلہ یہ کام بھی دفتری ہے.میں خود اس کے متعلق فیصلہ نہیں کرتا.صرف اتنی بات سمجھتا ہوں کہ محاسب اور آڈیٹر براہ راست انجمن کے ماتحت ہوں ، نظارت کے ماتحت نہ ہوں.اس کا فیصلہ کر دیتا ہوں.آگے جو حساب کی بات ہے اس کا سمجھنا میرے لئے مشکل ہے.طالب علمی کے زمانہ میں حساب کرتے وقت مجھے سر درد شروع ہو جا تا تھا اور جب ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے یہ بات پیش ہوئی تو آپ نے فرمایا جمع تفریق تک حساب سیکھ لینا کافی ہے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں.تو حسابی امور سے مجھے واقفیت نہیں.گو زبانی کوئی حساب کرنا ہو تو جلدی کر لیتا ہوں.تقر رکمیٹی اس امر کے متعلق میں ایک کمیٹی تجویز کرتا ہوں جو اس پر غور کرے.ہمارے ایک دوست اس کام کے خوب قابل تھے مگر وہ یہاں آئے نہیں.ان کا نام صوفی عبدالرحیم صاحب ہے جو کہ امپیریل سروس میں ہیں.میں ان اصحاب کی کمیٹی مقرر کرتا ہوں.(۱) بابو محمد عالم صاحب راولپنڈی.(۲) خان صاحب با بو برکت علی صاحب شملہ.(۳) مرزا محمد صادق صاحب اکو نٹنٹ سیالکوٹ.یہ صاحبان گورنمنٹ کے مختلف دفاتر کے طریق دیکھ کر فیصلہ کریں.پرائیویٹ سیکرٹری تین دن کے اندر اندر انہیں اطلاع پہنچائیں.موجودہ صورت میں امین یعنی خزانچی محض مشین کی طرح دستخط کرتا سولھویں سفارش رہتا ہے.یہ امر موقوف ہو کر تمام بل خزانچی کی معرفت ادا ہوا کریں اور بعد ادائیگی محاسب کے پاس واپس آیا کریں اور روزانہ روپیہ دو قفلوں کے اندر رکھا جائے اور نکالا جائے اور خزانچی کی ضمانت لی جائے.فیصلہ یہ نہایت معقول تجویز ہے، میں اسے منظور کرتا ہوں.سترھویں سفارش بجٹ کے خرچ کی مدات میں مجلس شوری میں یہ ترمیم پیش ہونی چاہئے کہ خرچ میں زیادتی کر دی جائے اور بجٹ میں ایک مد غیر معمولی خرچ کی لازمی طور پر رکھی جائے جو انجمن معتمدین کے اختیار میں رہے یعنی وہ خرچ کر سکے.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء یہ مد بجٹ میں رکھی جاتی ہے مگر جو بجٹ کمیشن نے دیکھا اُس میں چھپائی کی غلطی فیصلہ سے یہ نہ رکھی گئی.اگر کمیشن اس کے متعلق نظارت متعلقہ سے دریافت کرتا تو وہ بتا دیتی کہ بہت چھینے میں یہ غلطی ہوئی ہے ورنہ یہ مد رکھی جاتی ہے.ضمنی سفارش (ب) بیٹے پر زیادہ خور کرنے کا موقع نکالنے کے لئے کارتوں کی رپورٹیں فیصلہ مجلس شوریٰ میں پیش نہ ہوا کریں بلکہ علیحدہ طبع ہو جایا کریں.میں اسے منظور کرتا ہوں کیونکہ مجلس شوریٰ میں مشاورت کا وقت کم ہوتا ہے.ضمنی سفارش (ج) مجلس مشاورت کا ایجنڈا اسب کمیٹیوں کے سپر د ہونے کے بغیر ہی براہِ راست مجلس شوری میں پیش ہو جایا کرے.منظور شدہ بجٹ سے اگر زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت پڑے تو سپلیمنٹری بجٹ مجلس میں پیش ہوا کرے.فیصلہ میں اس میں یہ ترمیم کرتا ہوں کہ ایجنڈا کے ضروری امور سب کمیٹی کے سپرد ہوں سارے ایجنڈا کے لئے سب کمیٹیاں نہ بنائی جائیں.سپلیمنٹری بجٹ پہلے ہی خلیفہ کی منظوری سے پاس ہوتا ہے اس کی منظوری کے بعد دوبارہ شوری میں پیش کرنا اختیارات خلیفہ اور اس کے منصب کے خلاف ہے اس لئے میں اس حصہ کو نا منظور کرتا ہوں.اٹھارہویں سفارش اس کے متعلق آخر میں تفصیلی بحث کی گئی ہے.انیسویس سفارش.جملہ ملازمین انجمن کا ایک کیڈر (CADRE) مقرر کیا جائے جس سے ہر ایک محکمہ کی منظور شدہ اسامیاں اور ان اسامیوں کا گریڈ معلوم ہو سکے اور یہ بھی ظاہر ہو کہ کوئی شخص ایسی اسامی پر مقرر نہیں ہے جو منظور شدہ نہ ہو یا جس کی تنخواہ مقررہ گریڈ سے زیادہ ہو.اس تجویز کے بعض پہلو نہایت مفید ہیں.بعض بعض میں مشکلات ہیں اور بعض امور کے متعلق غلط فہمیاں ہوئی ہیں.کمیشن کو یہ غلطی لگی ہے کہ اس نے پچھلے حالات کو نہیں دیکھا.ہمارا کام پہلے قانون تجویز ہو کر پھر ان قوانین کے ماتحت نہیں چلا بلکہ
خطابات شوری جلد اوّل ۳۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء آہستہ آہستہ ترقی کرتا گیا ہے.چونکہ موجودہ خلافت کے ابتداء میں انجمن معتمدین کے ممبروں میں زیادہ تعداد غیر مبائعین کی تھی اور وہ جب چاہتے ہمارے کام میں آکر دخل دے سکتے تھے اس لئے بعض کام جن کا چلانا ضروری تھا مگر ڈر تھا کہ وہ ان میں دخل دیں گے انہیں انجمن ترقی اسلام کے ماتحت جاری کر دیا گیا اور اس طرح ہنگامی کام شروع کیا گیا.یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا جب ترقی اسلام اور صدرانجمن کے کاموں کے ملانے میں وقت نہ رہی اور ان کاموں کو ملا کر نظارتیں قائم کی گئیں اور اس طرح نظارتوں کا کام آہستہ آہستہ ترقی کرتا گیا.گویا پہلے ایسے حالات میں کام کیا گیا جب کہ کوئی قانون تجویز نہ ہوا تھا، پھر قوانین بنائے گئے مگر وہ مکمل نہ تھے، پھر تجربہ کے بعد ان سے عمدہ قوانین تجویز کئے گئے.جن گریڈوں پر کمیشن نے اعتراض کیا ہے وہ اُسی وقت کے ہیں.اسی طرح مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے گریڈ کے متعلق بھی کمیشن کو غلطی لگی ہے.انہیں ناظر کا گریڈ نہیں دیا گیا بلکہ ۱۵۰ سے ۲۵۰ تک تنخواہ کا گریڈ ہے وہ دیا گیا اور ضروری نہیں کہ یہ ناظر کا ہی گریڈ ہو.اس گریڈ کو بعض لوگ ناظروں کا گریڈ کہہ دیتے ہیں حالانکہ اسی قدر تنخواہیں بعض اور محکموں کے کارکنوں کی بھی مقرر ہیں.درد صاحب کو ناظر نہیں بنا دیا گیا بلکہ وہ گریڈ دیا گیا ہے جو ناظروں کے گریڈ کے برابر ہے اور یہ فرض کر کے دیا گیا ہے کہ ان کی تعلیم اعلیٰ ہے اور ان کی خدمات دیرینہ ہیں.وہ ۱۹۱۸ء سے کام کر رہے ہیں اور ایم.اے ہیں اس وجہ سے اُنہیں اِس گریڈ میں رکھا گیا ہے مگر اس طرح وہ ناظر نہیں بنے بلکہ ناظر کے گریڈ میں رکھے گئے ہیں.تقر رسب کمیٹی اس تجویز کے متعلق بھی سب کمیٹی بنائی جاتی ہے اور اس کے لئے میں حسب ذیل اصحاب منتخب کرتا ہوں :- (۱) میاں محمد یوسف صاحب لاہور.(۲) حاجی الہ بخش صاحب فیروز پور.(۳) چوہدری عبدالحئی صاحب لاہور.میاں محمد یوسف صاحب پریزیڈنٹ ہوں گے اور پریذیڈنٹ کا کام ہوگا کہ کام کے لئے وقت مقرر کرے.سفارش کا دوسرا حصہ جدید تقرری کے وقت اخبارات سلسلہ میں خالی آسامی کا اشتہار دیا جائے اور درخواستیں منگائی جائیں اور لائق ترین
خطابات شوری جلد اوّل ۳۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء آدمی کا انتخاب کیا جائے.فیصلہ یہ بہت ضروری تجویز ہے.اس کے متعلق کچھ حد تک ضرور جائز شکایت ہے.یہ دیکھا گیا ہے کہ جو قادیان میں آ بیٹھے اُسے زیادہ موقع مل جاتا ہے.میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ وہی کمیشن جسے معائنہ دفاتر کے لئے مقرر کیا جایا کرے گا یہ کام کرے کہ سلسلہ کی ضرورت کے مطابق اشتہار دے کر درخواست کنندوں کی ایک لسٹ دفتر ناظر اعلیٰ میں بھیج دیا کرے.ضرورت کے موقع پر ناظر اس فہرست میں سے کام کے لئے آدمی مقرر کیا کریں ، باہر سے نہیں.بیسویں سفارش رجسٹر حاضری میں ٹھیک وقت درج نہیں کیا جاتا.ٹھیک وقت کا اندراج ہونا چاہئے اور ہر پندرہ روز کے بعد عملہ ماتحت کی حاضری کا رجسٹر افسر صیغہ ملاحظہ کیا کرے اور ناظروں کا رجسٹر پریذیڈنٹ انجمن معتمدین ملاحظہ کرے.فیصلہ یہ ضروری بات ہے میں بھی اس پر زور دیتا رہا ہوں مگر یہ جو کہا گیا ہے کہ ناظروں کی حاضری کا بھی رجسٹر ہو اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.میں نے گورنمنٹ آف انڈیا اور گورنمنٹ آف پنجاب سے پتہ منگایا ہے وہاں سیکرٹریوں کے لئے تو حاضری کا رجسٹر ہوتا ہے مگر ممبروں کا نہیں ہوتا.میں تو یہاں ناظروں کے لئے بھی رکھوا رہا ہوں اور اگر کوئی پندرہ منٹ بھی لیٹ آئے تو جواب طلب کرتا ہوں.بعض دفعہ صرف پتہ لینے کے لئے کہ ناظر وقت پر آتے ہیں یا نہیں، انہیں شروع وقت میں بلواتا ہوں لیکن میں یہ اس لئے کرتا ہوں کہ سوائے ناظر کے دفتری کام کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا یعنی کلرکوں اور ناظروں کے درمیان کوئی اور واسطہ نہیں لیکن یہ پسندیدہ امر نہیں کہ ناظروں کے بارے میں اس قدرسختی کی جائے کیونکہ اس عہدہ کی ذمہ داری کے لحاظ سے تو کہا جا سکتا ہے که اگر ناظر دفتر میں نہ بھی آئے تو بھی حرج نہیں لیکن اس طرح فی الحال کام نہیں چل سکتا.گو عملی طور پر یہی ہو رہا ہے کہ ناظر بھی حاضری درج کرتے ہیں اور اس کی پابندی میں ان سے کرا رہا ہوں لیکن میں اس بات کو اصولی طور پر طے کرنا نہیں چاہتا.کمیشن نے مقررہ وقت پر نہ آنے کی وجہ نوٹ کرنے کی مثال دی ہے کہ ناظر اعلیٰ نے لکھا محلہ میں لڑکی گم ہو گئی اس کی تلاش میں دیر ہوگئی.کمیشن نے اسے نامعقول عذر قرار
خطابات شوری جلد اوّل ۳۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء دیا ہے لیکن میرے نزدیک یہ نہایت ہی معقول عذر ہے.ہمارا کام مذہبی ہے اور یہ ہمارے فرائض میں داخل ہے کہ ضرورت کے وقت دوسروں کی مدد کریں ، اُن سے تعاون کریں اور اخلاقی طور پر اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں تاکہ دوسروں میں بھی یہ روح پیدا ہو.اس کے لئے ضروری ہے کہ اعلیٰ کارکن ایسے کاموں میں حصہ لیں.پس جس بات پر کمیشن نے اعتراض کیا ہے میں اُس کے متعلق سفارش کروں گا کہ اگر کسی اور ناظر کو اس قسم کی کوئی ضرورت پیش آئے تو وہ بھی ضرور اس کے لئے وقت صرف کرے.اکیسویں سفارش پستال دفتران با قاعدہ نہیں ہوتی.ہمارے خیال میں سختی سے اس پر عمل درآمد ہو.فیصلہ یہ نہایت ضروری امر ہے.آئندہ جو کمیشن مقرر ہوا سے ہدایت دی جائے کہ اس امر کو خاص طور پر دیکھے.یہاں اس بارہ میں بہت کو تا ہی کی جاتی ہے.بائیسویں سفارش کلرکوں کا تبادلہ وقتاً فوقتاً مختلف دفاتر میں ہوتے رہنا چاہئے.فیصلہ البتہ ناظروں کا تبادلہ بدوں کسی خاص وجہ کے نہ ہو.یہ بھی عمدہ تجویز ہے اس پر بھی عمل ہونا چاہئے.سوال نمبر ۲ کے متعلق سفارش کمیشن کے پیش نظر دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا نظارتیں اُن قواعد کی جو وہ پاس کرتی ہیں پابندی کراتی ہیں یا نہیں؟ اس کے متعلق کمیشن نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قواعد مرتب کردہ انجمن معتمدین کی پورے طور پر پابندی نہیں کی جاتی اس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے.کوئی حکومت حکومت کہلانے کی مستحق نہیں ہوسکتی جب تک جو حکم وہ نافذ کرتی ہے یا تو اُسے منسوخ نہیں کرتی یا اُس پر عمل نہیں کراتی.سب سے بڑا نقص مجلس معتمدین کا یہ ہے کہ اس کے قواعد کی پابندی نہیں ہوتی اور جب کسی فیصلہ کے متعلق پکڑا جاتا ہے کہ اس پر عمل کیوں نہیں ہوا تو کہا جاتا ہے عمل نہیں ہوسکتا تھا.میں کہتا ہوں اگر عمل نہ ہوسکتا تھا تو اسے منسوخ کر دیا جاتا.یہ کیا صورت ہے کہ قاعدہ تو موجود ہومگر کہا جائے اس پر عمل نہیں ہوسکتا.یہ بہت بڑا نقص ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۳۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء سوال نمبر ۳ کے متعلق سفارش کمیشن کے سامنے سوال نمبر۳ یہ تھا کہ کیا نظارتیں مجلس شوریٰ میں فیصلہ شُدہ امور کو پوری طرح جاری کرنے کی کوشش کرتی ہیں یا نہیں؟ کمیشن نے اس کے متعلق یہ رپورٹ کی ہے کہ مجلس شوری کے فیصلوں کی پابندی پورے طور پر نہیں کی جاتی.فیصلہ مجلس شوریٰ میں جو فیصلہ ہوتا ہے اُس کے یہ معنے ہیں کہ وہ خلیفہ کا فیصلہ ہے کیونکہ ہر امر کا فیصلہ مشورہ لینے کے بعد خلیفہ ہی کرتا ہے.اگر اس فیصلہ کا احترام نہیں کیا جاتا تو پھر مجلس معتمدین کے فیصلہ کا بھی احترام نہیں ہو گا.ایک صوفی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ اس کا گھوڑا اڑ گیا تو اس کے مریدوں نے گھوڑے کو بُرا بھلا کہنا شروع کیا.صوفی نے کہا ایسا نہ کرو مجھ سے خدا تعالیٰ کی کوئی نافرمانی ہوئی ہے جبھی میرا گھوڑا میری نافرمانی کر رہا ہے.جب تک کام کرنے والوں میں یہ روح نہ ہو کہ جو حاکم ہو اس کے احکام کی اطاعت کی جائے اُس وقت تک ان کے حکم کا بھی کوئی احترام نہ کرے گا.اگر کوئی ناظر خلیفہ کی بات ٹال دیتا ہے تو کلرک اس کی بات ٹال دے گا لیکن اگر ناظر اطاعت کرے گا تو کلرک بھی اُس کی اطاعت کرے گا.سوال نمبر ۴ کے متعلق سفارش چوتھا سوال کمیشن کے سامنے یہ تھا کہ کیا کارکن اپنے اختیارات کو اس طرح تو استعمال نہیں کرتے کہ جس سے لوگوں کے حقوق کو نقصان پہنچتا ہو؟ اس کے متعلق کمیشن نے یہ رائے ظاہر کرتے ہوئے کہ کوئی واقعات ہمارے سامنے ایسے نہیں آئے جن سے ہم یہ نتیجہ نکالیں کہ کسی کا رکن نے اپنے اختیارات اس طرح استعمال کئے جس سے لوگوں کو نقصان پہنچا ہو.بعض سفارشیں پیش کیں جن میں سے ایک یہ ہے:.پہلی سفارش طالب علموں کو جو وظائف دیئے جاتے ہیں اُن کا فیصلہ موجودہ صورت میں صرف ناظر تعلیم و تربیت کے ہاتھ میں ہے اور وہ وظائف کے متعلق فیصلہ جات بغیر کوئی وجوہات منظوری یا نا منظوری درخواستوں پر درج کرنے کے لئے فرماتے
خطابات شوری جلد اوّل ۳۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء رہتے ہیں اور بہت سے ملازمین انجمن کے رشتہ داروں کو وظائف مل رہے ہیں جن کے استحقاق کے فیصلہ کے متعلق کوئی معیار مقرر نہیں ہے.ہمارے خیال میں وظائف کا فیصلہ انجمن معتمدین کی ایک سب کمیٹی کے سپرد ہونا چاہئے جس کا بشرط ضرورت ایک ممبر ناظر تعلیم و تربیت فیصلہ یا ہیڈ ماسٹر ہوسکتا ہے.وظائف کے متعلق جو شکایت ہے میں بھی اس سے متفق ہوں.گو اس شدت سے نہیں جیسے بابو ضیاء الحق صاحب.مگر یہ ضرور کہوں گا کہ اس بارے میں نقائص ہوئے ہیں.آئندہ وظائف کا فیصلہ اس طرح کیا جائے کہ ناظر کے ساتھ ایک سب کمیٹی ہو اور مجلس شوریٰ میں جو فیصلہ وظائف کے متعلق میں منظور کر چکا ہوں اُس کی سختی کے ساتھ پابندی کی جائے.ان قواعد کے ماتحت باہر کے طلباء کو وظیفہ دیا جائے اور کسی کو وظیفہ نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اُس کے شہر کی جماعت احمدیہ کی سفارش نہ ہو.اور جو وظیفہ قادیان کے طلباء کو دیا جائے وہ قادیان کی لوکل کمیٹی کے مشورہ سے دیا جائے.باہر کے علاقہ کے وظائف اُس علاقہ کی جماعت کی سفارش پر دیئے جائیں.اس کام کے لئے کسی خاص سب کمیٹی کی ضرورت نہیں.لوکل وظائف کے متعلق گومیں یہ اجازت دوں گا کہ نظارتوں کے کارکنوں کے بچوں کے لئے ایک حد تک وظائف رکھے جائیں مگر یہ نہیں کہ سارے کے سارے وظائف اِن کو دے دیئے جائیں.اس کے متعلق میں قواعد بعد میں تجویز کروں گا.کسی محکمہ کے ملازم کو بغیر حصول خاص اجازت اس محکمہ کی کوئی چیز نہیں دوسری سفارش خریدنی چاہئے اور اس صورت میں بھی کوئی ذمہ وار افسر قیمت مقرر کیا فیصلہ یہ نہایت ضروری بات ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ سوائے اس کے کہ عام نیلامی کے طور پر چیز فروخت ہو کسی کا رکن کو بھی کسی محکمہ کی کوئی چیز نہیں خریدنی چاہئے.تیسری سفارش ہمیں دورانِ تحقیقات میں یہ معلوم ہوا کہ بعض دفعہ ناظروں کو تنخواہیں مل گئیں اور چھوٹی چھوٹی تنخواہوں والے ملازمین کو اُن کی تنخواہیں نہ ملیں.ہمارے خیال میں ادنی ملازمین کی تنخواہیں عام طور پر پہلے ادا ہونی چاہئیں.
خطابات شوری جلد اوّل فیصلہ ۳۹۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء میں نے اس بارے میں تحقیقات کرائی ہے اس کے متعلق اس قدر کم مثالیں ملی ہیں کہ شکایت کی زیادہ وجہ معلوم نہیں ہوتی مگر بہر حال کوئی وجہ نہیں کہ اس کا انسداد نہ کیا جائے اس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ جب تک مالی مشکلات کی دقت ہے ہر ماہ کے شروع میں ایک ماہ کی تنخواہ انجمن دوسرے صیغوں سے قرض لے کر ادا کر دیا کرے اور پھر اُس صیغہ کو مہینہ کے دوران میں آہستہ آہستہ اُس کا قرض واپس کر دیا کرے لیکن اگر پھر بھی مجبوری ہو تو تھوڑی تھوڑی تنخواہ والوں کو پہلے تنخواہیں دی جائیں اور بڑی تنخواہ والوں کو بعد میں.“ اٹھارھویں سفارش کے متعلق تقریر اب کمیشن کی سفارشات میں سے صرف ایک بات باقی رہ گئی ہے میں اسے بغیر توجہ کئے چھوڑ دیتا مگر خلافت کے مقام کے احترام نے مجھے اجازت نہ دی کہ میں اسے یونہی چھوڑ دوں.نظر انداز نہ کرنے کے قابل سوال پہلے تو مجھے خیال آیا یہ پہلا کمیشن ہے جس نے کچھ کام کیا ہے اس لئے جہاں تک ہو سکے اس کی سفارشات کو رڈ نہ کروں مگر پھر بھی میں نے سمجھا ذمہ داری کے لحاظ سے میری خاموشی نقصان رساں ہوگی اور میں نے یہی سمجھا کہ کمیشن کے ممبر لائق اور تعلیم یافتہ اصحاب ہیں وہ اپنی کسی رائے پر جرح بخوشی برداشت کریں گے اور جب انہوں نے میری بیعت کی ہوئی ہے تو گویا اپنا سب کچھ میرے سپرد کر دیا ہے.گو مجھے معلوم ہوا ہے ایک ممبر نے جرح کو بہت بُری طرح محسوس کیا ہے جس کا مجھے بہت دکھ ہے.بہر حال یہ ایسا سوال تھا جسے میں نظر انداز نہیں کر سکتا تھا اور اگر میں نظر انداز کرتا تو خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ٹھہرتا.وہ سوال یہ ہے کہ کمیشن نے دانستہ نہیں بلکہ نا دانستہ کیونکہ جب انہوں نے بیعت کی اور مجھے خلیفہ تسلیم کر کے میری بیعت میں داخل ہوئے تو پھر خلافت کے منصب کا احترام کرنا ان کا فرض ہے، بعض باتیں ایسی لکھی ہیں کہ جو کام ان کے لئے مقرر کیا گیا تھا اُس سے باہر ہیں حتی کہ وہ خود منصب خلافت پر حملہ کرتی ہیں.اس وجہ سے میں نے سمجھا اگر آج میں ان پر خاموش رہتا ہوں خواہ کسی وجہ سے تو کل کہا جائے گا خلیفہ دوم نے تسلیم کر لیا تھا کہ خلافت
خطابات شوری جلد اوّل ۳۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کا یہی منصب ہے ہے.منصب خلافت میں اس بات کی تفصیل میں پڑنے سے قبل بتانا چاہتا ہوں کہ وہ خلافت کا منصب جس کے لئے ہم نے یہ ذمہ واری برداشت کی تھی کہ کسی اختلاف سے نہ ڈریں گے، وہ کیا ہے؟ جب حضرت خلیفہ اسیح اول فوت ہوئے تو وہ لوگ جنہوں نے جماعت سے نکل کر الگ انجمن بنائی اُن سے میری گفتگو ہوئی.میں نے اُن سے کہا مجھے خلیفہ کے انتخاب میں اختلاف نہیں ، آپ لوگ جسے منتخب کریں میں اُسے خلیفہ ماننے کے لئے تیار ہوں.اُس موقع پر میں نے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا ، اور اُن سے کہا اگر دوسرا فریق اس بات پر اڑ جائے کہ خلیفہ ہمارے ہم خیالوں اور ہم عقیدہ لوگوں میں سے نہ ہو تو ہمیں یہ بات منظور کر لینی چاہئے اور جسے وہ پیش کریں جماعت کا اتحاد قائم کرنے کے لئے اُسے خلیفہ مان لینا چاہئے.اس پر بعض نے کہا ہم یہ کس طرح برداشت کر سکتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص خلیفہ ہو جسے ہمارے عقائد سے اختلاف ہو.میں نے کہا اگر تم لوگ یہ برداشت نہیں کر سکتے تو وہ کس طرح برداشت کر سکتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی شخص خلیفہ ہو.اگر تم لوگ اُن کے پیش کردہ آدمی کو خلیفہ نہیں مانو گے تو میں تم سے علیحدہ ہو جاؤں گا اور اُسے خلیفہ مان لوں گا.آخر یہ بات طے ہوئی کہ کسی ایسے شخص کو جس نے ہمارے خلاف عقائد کا اظہار نہیں کیا اور اُن لوگوں کا بھی اُس پر اعتماد ہوا سے خلیفہ منتخب کرنے کی کوشش کی جائے.اس کے لئے میر حامد شاہ صاحب اور مولوی محمد حسن صاحب کے نام تجویز ہوئے کہ ان میں سے اگر کسی کو وہ خلیفہ منتخب کریں تو ہمیں فوراً مان لینا چاہئے؟ لیکن اگر وہ ضد کریں کہ مولوی محمد علی صاحب ہی خلیفہ ہوں تو بھی انہیں ماننا ہوگا ور نہ میں تم سے علیحدہ ہو جاؤں گا.اُس پر میں نے سب سے عہد لیا اور پھر مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ اگر آپ اپنے میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کرنا چاہتے ہیں تو ہم اُسے ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ کوئی خلیفہ ہی نہیں ہونا چاہئے تو اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا اور اس پر ہمارا آپ سے افتراق ہے.چنانچہ ہمیں اسی وجہ سے ان سے علیحدہ ہونا پڑا اور ان کی علیحدگی کی ہم نے کوئی پرواہ نہ کی.غرض یہ وہ مسئلہ ہے کہ جس پر اُن لوگوں سے جو جماعت کے لیڈر سمجھے جاتے تھے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۰۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء ہمیں علیحدگی اختیار کرنی پڑی اور ہم نے انہیں صاف طور پر کہہ دیا کہ اگر وہ خلافت کے قائل نہیں تو ہمارا اُن سے کوئی تعلق نہیں.مسئلہ خلافت کی حقیقی اہمیت سے ناواقفیت اب بعض دوستوں نے مجھ سے شکایت کی کہ خلافت کا مسئلہ بعض لوگوں پر مخفی ہو رہا ہے اور وہ اس کی حقیقی اہمیت سے ناواقف ہوتے جا رہے ہیں.کمیشن کی رپورٹ سے ظاہر ہو گیا کہ فی الواقعہ بعض لوگوں پر یہ مسئلہ مخفی ہو رہا ہے اس وجہ سے وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہوئی.مسئلہ خلافت سے اختلاف رکھنے میں صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ میں اختلاف رکھنے والے کسی شخص سے ہمارا والے سے اتحاد ناممکن ہے اتحاد نہیں ہوسکتا خواہ وہ ہمارا بھائی ہو یا بیٹا یا کوئی اور قریبی رشتہ دار.اگر جماعت کا کوئی فرد اس میں اختلاف رکھتا ہو تو اُسے دیانتداری کے ساتھ علیحدہ ہو جانا چاہئے اور اپنے لئے الگ نظام قائم کر لینا چاہئے.اس وجہ سے ہم اُسے بُرا نہ سمجھیں گے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم میں رہتے ہوئے خلافت تسلیم کرتے ہوئے پھر اس میں اختلاف کرے.خلافت کے متعلق عقیدہ ہمارے اس عقیدہ کی بنیاد یہ ہے کہ جس کو خلیفہ تسلیم کیا گیا ، جس کی بیعت کی گئی ، اُس کی اُسی طرح اطاعت کرنی چاہئے جس طرح شریعت نے ضروری قرار دی ہے لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اُس نے کسی غلط فہمی کی وجہ سے خلافت کو تسلیم کیا اور خلیفہ کی بیعت کی تھی تو ہماری طرف سے آزاد ہے.وہ جس وقت چاہے الگ ہو سکتا ہے اُس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں نہ ہم اُسے بُرا سمجھیں گے.غیر مبائعین کو ہم اس لئے بُرا نہیں سمجھتے کہ وہ خلافت سے الگ ہو گئے بلکہ اِس لئے بُرا قرار دیتے ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہتک کرتے ہیں ورنہ میں تو انہیں بھی اپنا بھائی سمجھتا.خلافت مذہب کا جزو ہے پس پہلی بات جو اس وقت میں بتانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ خلافت کوئی سیاسی نظام نہیں بلکہ مذہب کا جُزو ہے.میں
خطابات شوری جلد اوّل ۴۰۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء اس وقت اسے مذہب کا جُز و ثابت کرنے کے لئے دلائل میں نہیں پڑوں گا.کوئی اسے غلط کہہ دے مگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن نے مقرر کیا ہے کہ خلیفہ ہو، اس لئے یہ مذہبی مسئلہ ہے.میں اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کے لئے تیار نہیں.میرا خیال ہے ایک دفعہ خانصاحب ذوالفقار علی صاحب غیر مبائعین کی طرف سے پیغام لائے تھے کہ آپس کا اختلاف دُور کر دینا چاہئے.میں نے اُنہیں کہا تھا کہ اگر کسی دُنیوی بات پر اختلاف ہے تو میں اسے چھوڑنے کے لئے تیار ہوں، اگر کسی جائداد کے متعلق اختلاف ہے تو وہ میں دینے کے لئے تیار ہوں لیکن اگر خلافت مذہبی مسئلہ ہے تو کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ میں اسے قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاؤں گا.دینی لحاظ سے تو ایک شعشہ کم کرنا بھی کُفر ہے.پس میں یہی کر سکتا ہوں کہ وہ مجھے سمجھا ئیں ، میں انہیں سمجھا تا ہوں.پھر جس کی بات حق ثابت ہو اُسے مان لیا جائے.تو خلافت کا مسئلہ ایک مذہبی مسئلہ ہے اور مذہب کا جزو ہے اور حق یہ ہے کہ خلیفہ قائم مقام ہوتا ہے رسول کا اور رسول قائم مقام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا.اللہ تعالیٰ نے بعض احکام دے کر اس کے بعد رسول کو اختیار دیا ہے کہ وہ ان میں دوسروں سے مشورہ لے کر فیصلہ کرے.پھر لوگوں کو اس بات کا پابند قرار دیا ہے کہ جو فیصلہ رسول کرے اُسے بغیر چون و چرا کے تسلیم کریں.اس پر اعتراض کر کے پیچھے رہنے کا کسی کو حق نہیں دیا.اسی طرح خلیفہ کو حق دیا ہے کہ مشورہ لے اور پھر فیصلہ کرے.مجلس شوری کا منصب کام دُنیاوی مجالس مشاورت میں تو یہ ہوتا ہے ان میں شامل ہونے والا ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ چاہے میری بات رڈ کر دو مگر سن لو لیکن خلافت میں کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں.خلیفہ کا ہی حق ہے کہ جو بات مشورہ کے قابل سمجھے اُس کے متعلق مشورہ لے اور شوریٰ کو چاہئے کہ اس کے متعلق رائے دے.شوری اس کے سوا اپنی ذات میں اور کوئی حق نہیں رکھتی کہ خلیفہ جس امر میں اس سے مشورہ لے، اس میں وہ مشورہ دے.سوائے اس حق کے کہ وہ پہلے خلیفہ کی وفات پر نئے خلیفہ کا انتخاب کر سکتی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو تحدید کر دی تھی کہ ان کے بعد چھ آدمی جسے خلیفہ منتخب کریں وہ خلیفہ ہو.ہم نے ان کی نقل کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وفات کے بعد مجلس شوری رائے عامہ اور شریعت کے احکام کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرے کہ فلاں شخص خلیفہ ہو
خطابات شوری جلد اوّل ۴۰۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء تا اللہ تعالیٰ کی آواز اُس کی زبان پر جاری ہو کر دُنیا میں پھیلے.یہ مجلس شوری کی حیثیت ہے.اس کے سوائے خلیفہ کے کاموں میں اسے کوئی دخل حاصل نہیں.خلیفہ اور غلطی یہ ہو سکتا ہے کہ ذاتی معاملات میں خلیفہ سے غلطی ہو جائے لیکن ان معاملات میں جن پر جماعت کی روحانی اور جسمانی ترقی کا انحصار ہو، ان میں اگر اس سے غلطی سرزد ہو تو اللہ تعالیٰ جماعت کی حفاظت کرتا ہے اور الہام یا کشف سے غلطی پر مطلع کر دیتا ہے.صوفیاء کی اصطلاح میں اسے حفاظتِ صغریٰ کہا جاتا ہے اور قرآن کریم میں آتا ہے.وليُمَكنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِی ارْتَضَى لَهُمْ.اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی رضا مندی ان کی زبان پر جاری کرتا ہے اور اسے ان کے ذریعہ دُنیا میں قائم کرتا ہے.اُس اموال سب خدا کے لئے ہیں یہ خلافت کے متعلق ہمارا عقیدہ ہے اور یہ بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ سوائے ان اموال کے جو وقتی ضروریات کے لئے آتے ہیں باقی سب اموال خدا تعالیٰ کے ہوتے ہیں.یہ نہیں کہ خلیفہ کے پاس جو اموال آتے ہیں وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کہ پبلک کے اموال گورنمنٹوں میں جمع ہوتے ہیں.زکوۃ اور صدقہ ایسے اموال ہیں جو محض خدا کے لئے دیئے جاتے ہیں.انہیں جو شخص اس لئے دیتا ہے کہ اُس کی مرضی سے خرچ ہوں وہ خدا تعالیٰ کے لئے نہیں دیتا بلکہ اپنے لئے دیتا ہے.جو خدا تعالیٰ کے لئے عُشر ، زکوۃ اور صدقہ دیتا ہے وہ مال اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے جس کا محافظ رسول اور پھر خلیفہ ہوتا ہے.ہاں آگے اس کے لئے یہ رکھا کہ وہ مشورہ لے مگر جس طرح چاہے خرچ کرے اس پر کوئی اعتراض کرنے کا حق نہیں رکھتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غنیمت کے متعلق انصار میں سے کسی نے اعتراض پر غنیمت کے متعلق اعتراض کیا کہ خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن مال دوسروں کو دے دیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اب انصار کو دُنیا میں کسی بدلہ کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے ان کی خدمات کا بدلہ قیامت میں ہی ملے گا ہے چنانچہ دنیا میں انصار کو حکومت نہ ملی اور دوسرں نے آکر ان پر حکومت کی کیونکہ ان میں سے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۰۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کسی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جو قول منہہ سے نکالا تھا اُسے خدا تعالیٰ نے ناپسند کیا.جماعت کا ذمہ وار خلیفہ ہے تو یاد رکھنا چاہئے مجلس شوری جماعت احمدیہ کی ایگزیکٹو (EXECUTIVE) باڈی نہیں ہے.اسی بناء پر ہمارا غیر مبائعین سے اختلاف ہوا تھا کہ وہ خلیفہ کی بجائے انجمن کو جماعت کا ذمہ وار قرار دیتے تھے حالانکہ تولیت خلیفہ کی ہے.آگے خلیفہ نے اپنے کام کے دو حصے کئے ہوئے ہیں.ایک حصہ انتظامی ہے اس کے لئے عہدہ دار مقرر کرنا خلیفہ کا کام ہے.ان کا رکنوں پر مجلس شوری کی کوئی حکومت نہیں ہے.یہ طریق عمل رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے وقت نظر آتا ہے.اسامہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کا سردار مقرر کیا باقی لوگ اس کے خلاف تھے مگر آپ نے کسی کی پرواہ نہ کی ، پھر حضرت عمرؓ نے جب حضرت خالد کو سپہ سالاری سے معزول کیا تو مجلس شوری اس کے خلاف تھی مگر آپ نے وجہ تک نہ بتائی ہے مجلس شوری کس لحاظ سے خلیفہ کی جانشین ہے دوسرا حصہ خلیفہ کے کام کا اصولی ہے اس کے لئے مجلس شوری سے وہ مشورہ لیتا ہے.پس مجلس معتمدین انتظامی کاموں میں خلیفہ کی ویسی ہی جانشین ہے جیسے مجلس شوری اصولی کاموں میں خلیفہ کی جانشین ہے.ان دونوں کا آپس میں سوائے خلیفہ کے واسطہ کے کوئی واسطہ اور جوڑ نہیں ہے مگر ہمارے اس کمیشن نے اس بات کو نظر انداز کر کے بعض تجاویز پیش کر دیں جن سے خلافت پر بھی زد پڑتی ہے.مجلس معتمدین کے ممبروں کا انتخاب کمیشن نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ مجلس معتمدین کے ممبر مجلس مشاورت میں سے منتخب کئے جایا کریں.مجلس معتمدین کے ارکان چونکہ جماعت کے کارکن ہیں اس لئے وہ جماعت کے نمائندے نہیں ہو سکتے.جماعت کی اصل نمائندہ مجلس شوری ہے اس میں سے مجلس معتمدین کے ارکان منتخب ہونے چاہئیں.لیکن صحیح بات یہ ہے کہ سلسلہ کا اصل ذمہ وار خلیفہ ہے اور سلسلہ کے انتظام کی آخری
خطابات شوری جلد اوّل ۴۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کڑی بھی خلیفہ ہے.خلیفہ مجلس معتمدین مقرر کرتا ہے اور وہی مجلس شوری مقرر کرتا ہے.دونوں مجلسیں اپنی اپنی جگہ خلیفہ کی نمائندہ ہیں.اگر مجلس معتمدین مجلس شوری کے ماتحت ہو تو اس کا مطلب ہوا کہ خلیفہ مجلس شوری کے فیصلہ کا پابند ہو.مجلس شوریٰ جو کا رکن مقرر کرے خلیفہ ان سے کام لے.حالانکہ کوئی دُنیا کی مہذب حکومت ایسی نہیں ہے جس کی پارلیمنٹ خلیفہ مقرر کرتی ہو اور کمیشن کا یہ ایسا مشورہ ہے کہ دنیاوی حکومتوں کے نام کے بادشاہوں کے حقوق بھی اس کے لحاظ سے محفوظ نہیں رہتے اور اُن پر ابھی ایسی پابندی نہیں ہے جو کمیشن نے خلیفہ پر عائد کی ہے.اس بات کا خیال کمیشن کو بھی آیا اور انہوں نے سمجھا کہ اس طرح خلیفہ کے اختیارات پر تو پابندی عائد نہیں کی جا رہی؟ اس وجہ سے انہوں نے یہ لکھ دیا کہ مجلس مشاورت میں مجلس معتمدین کا کس طرح انتخاب ہو، اس کے متعلق بعد میں غور ہو.کارکنوں کا انتخاب صرف خلیفہ کر سکتا ہے مگر میں صاف طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ کارکنوں کا انتخاب سوائے خلیفہ کے اور کسی کے اختیار میں نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتخاب کا رکنان کے متعلق تو مشورہ بھی ثابت نہیں ہوتا.خلفاء کے وقت بھی اس کے لئے مشورہ کی پابندی نظر نہیں آتی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت سارے کہتے رہے کہ حضرت خالد کو معزول نہ کیا جائے مگر انہوں نے ان کی بجائے ابو عبیدہ کو مقرر کر دیا.کمیشن کا ایک فقرہ کمیشن کا یہ فقرہ کہ :- ”اصولاً ہمیں یہ درست نہیں معلوم ہوتا کہ انجمن معتمدین صرف ناظروں کی جماعت کا نام ہو.انجمن معتمدین خلیفہ وقت کی ماتحتی میں سلسلہ کی تمام جائداد کی نگران اور مالک مقرر ہوتی ہے اس واسطے وہ صحیح معنوں میں جماعت کی نمائندہ ہونی چاہئے.ناظر صاحبان جو جماعت کے ملازمین میں سے ہیں کسی طرح بھی جماعت کے نمائندہ نہیں کہلا سکتے.ہمارے خیال میں انجمن معتمدین کے ممبران جماعت کے انتخاب سے مقرر ہونے چاہئیں.“ یہ خلافت پر تبر ہے کیونکہ اس کا یہ مطلب ہے خلیفہ کا انتخاب صحیح نمائندہ جماعت نہیں ہے اور اس سے یہ نتائج نکلتے ہیں.
خطابات شوری جلد اوّل ۴۰۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء اوّل یہ کہ مجلس معتمدین سلسلہ کی تمام جائداد کی نگران اور مالک ہے گو خلیفہ کے ماتحت ہے.(۲) خلیفہ کا ناظر صاحبان کو مجلس معتمدین کے ممبر مقرر کرنا درست نہیں.(۳) مجلس معتمدین کا انتخاب خلیفہ کی طرف سے نہیں بلکہ جماعت کے انتخاب سے ممبر مقرر ہونے چاہئیں.اور یہ تینوں نتیجے ہمارے خلافت کے متعلق عقیدہ کے خلاف ہیں اور دُنیا کی کانسٹی ٹیوشنز کے بھی خلاف ہیں.کوئی پارلیمنٹ وزراء مقرر نہیں کرتی مگر کمیشن کہتا ہے کہ مجلس شوری مجلس معتمدین مقرر کرے.ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ ہم اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتے کہ کس طرح انتخاب ہو اور کس طرح وہ ممبران اجلاس کریں.ممبران کی تعداد کیا ہو اور کتنے عرصہ کے بعد ان کا انتخاب ہو.کس قدر حصہ نامزدگان ہو اور کس قدر منتخب شدہ کا.پھر کمیشن کرنا کیا چاہتا ہے؟ منصب خلافت کے خلاف تجویز یہ تجویز منصب خلافت کے بالکل خلاف ہے مگر میں سمجھتا ہوں اس قسم کی باتوں کا علم نہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ خیال آیا ور نہ کمیشن کے پریذیڈنٹ صاحب اور ایک دوسرے ممبر صاحب نے جس بشاشت سے اپنی رپورٹ میں میری جرح سُنی ہے اُس سے میں خیال بھی نہیں کر سکتا کہ انہوں نے منصب خلافت کو نقصان پہنچانے کے لئے یہ تجویز کی ہے.چونکہ یہ ایک غلط خیال تھا اور آئندہ کے لئے نقصان رساں ہو سکتا تھا جو نا دانستہ طور پر پیش کیا گیا اس لئے میں نے اس کی اصلاح کر دی ہے لیکن گو کمیشن کے ممبروں کے متعلق میں سمجھتا ہوں ان سے نادانستہ غلطی ہوئی ہے.مگر ممکن ہے کسی نے ان کے دل میں یہ خیال پیدا کیا ہو اور کوئی اور ہو جو اہم اعلان دیدہ و دانستہ یہ خیال رکھتا ہو اس لئے میں واضح کر دینا چاہتا ہوں اور کہتا ہوں لکھنے والے جلد لکھ کر اسے شائع کر دیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا گواہ ہے ہم ایسے لوگوں سے تعاون کر کے کام نہیں کر سکتے.ہم نے اس قسم کے خیالات رکھنے والے ان لوگوں سے اختلاف کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں رہے، آپ کے پاس بیٹھے، آپ کی باتیں سنیں ، ہم اپنے جسم کے ٹکڑے الگ کر دینا پسند کر لیتے لیکن ان کی علیحدگی پسند
خطابات شوری جلد اوّل ۴۰۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء نہ کرتے مگر ہم نے اُنہیں چھوڑ دیا اور اس لئے چھوڑ دیا کہ خلافت جو برکت اور نعمت کے طور پر خدا تعالیٰ نے نازل کی وہ اس کے خلاف ہو گئے اور اسے مٹانا چاہتے تھے.خلافت خدا تعالیٰ کی ایک برکت ہے اور یہ اُس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک جماعت اس کے قابل رہتی ہے لیکن جب جماعت اس کی اہل نہیں رہتی تو یہ مٹ جاتی ہے.ہماری جماعت بھی جب تک اس کے قابل رہے گی اس میں یہ برکت قائم رہے گی.اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ مجلس شوری جماعت کی نمائندہ ہے اور اس کی نمائندہ مجلس معتمدین ہو تو اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہم یہ خیال سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہو سکتے اور ہم اس کے مقابلہ میں ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن خلافت کو نقصان پہنچنے دینے کے لئے تیار نہیں.اللہ تعالیٰ گواہ ہے میں صاف صاف کہہ رہا ہوں ایسے لوگ ہم سے جس قدر جلدی ہو سکے الگ ہو جائیں اور اگر وہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں تو منافق ہیں اور دھوکا دے کر رہتے ہیں.اگر سارے کے سارے بھی الگ ہو جائیں اور میں اکیلا ہی رہ جاؤں تو میں سمجھوں گا کہ میں خدا تعالیٰ کی اُس تعلیم کا نمائندہ ہوں جو اُس نے دی ہے.مگر یہ پسند نہ کروں گا کہ خلافت میں اصولی اختلاف رکھ کر پھر کوئی ہم میں شامل رہے.یہ اصولی مسئلہ ہے اور اس میں اختلاف کر کے کوئی ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتا.اس موقع پر ہر طرف سے پُر زور آوازیں آئیں کہ ہم سب اس کے ساتھ متفق ہیں.مجبوری میں نے اس مجبوری کی وجہ سے کہ خدا تعالیٰ کے حضور گناہ گار نہ بنوں ، ضروری سمجھا کہ اس غلطی کا ازالہ کر دوں ورنہ مجھے یقین ہے کہ کمیشن کے ممبران یہ خیال نہیں رکھتے.اس پر میں نے جب ان کے سامنے جرح کی تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہم نے یہ بات سمجھی نہیں.دوسرے کمیشن کا تقرر اب میں پھر کمیشن مقرر کرتا ہوں جو نظارتوں کا کام دیکھے لیکن اس کا وقت آج سے نہیں بلکہ آئندہ آنے والے جلسہ سالانہ کے بعد شروع ہو گا.یعنی جنوری.فروری.مارچ ۱۹۳۱ء میں کام کرے اور مئی جون تک اپنی رپورٹ پیش کرے.میں یہ پسند کروں گا کہ پہلے کمیشن سے ایک دو ممبر اس میں ضرور شامل ہوں تا کہ کمیشن آسانی سے دیکھ سکے کہ کام میں پہلے کی نسبت کچھ اصلاح ہوئی ہے یا نہیں.
خطابات شوری جلد اوّل ۴۰۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء اس وقت پہلے کمیشن کے ایک ہی ممبر موجود ہیں.ان سے میں دریافت کرتا ہوں کیا وہ دوسری بار بھی کام کرسکیں گے؟“ خانصاحب چوہدری نعمت خان صاحب نے عرض کیا کہ کر سکوں گا.میں انہیں ممبر مقرر کرتا ہوں.دوسرے ممبر چونکہ آئے نہیں اس لئے ان میں سے کسی کو مقر ر نہیں کیا جا سکتا.دو اور ممبر ہوں اور یہ کمیشن جون ۱۹۳۱ء تک رپورٹ مرتب کر کے دے سکتا ہے.نظارتوں کو اُس وقت تک کا عرصہ کام کرنے کے لئے مل سکتا ہے اور وہ اصلاح کر سکتی ہیں.یہ کمیشن چوہدری نعمت خانصاحب، ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اور پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب پر مشتمل ہو.اس کے صدر چوہدری صاحب ہی ہوں گے.اس موقع پر میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ بعض باتیں کمیشن نے نہیں لیں مجھے ان میں غلطیاں محسوس ہوتی ہیں.وہ باتیں میں کمیشن کو پھر بتاؤں گا.ناظروں سے شکوہ باقی ناظروں سے مجھے شکوہ اور افسوس ہے کہ انہوں نے کمیشن سے وہ تعاون نہیں کیا جو کرنا چاہئے تھا.اگر چہ کمیشن نے لکھا ہے کہ ناظروں نے تعاون کیا اور ان کا شکریہ بھی ادا کیا گیا ہے مگر یہ محض رسمی ہے.حقیقت یہی ہے کہ ناظروں نے تعاون نہیں کیا.اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ چونکہ اعلان کیا گیا تھا کہ کمیشن پر کوئی کسی قسم کا ناجائز دباؤ نہ ڈالے اس لئے ہم اس سے نہیں ملے تا کہ ہمارا کمیشن پر اثر نہ پڑے مگر کمیشن کے ممبر بچے نہ تھے کہ ان کے ملنے جلنے سے اثر پڑ سکتا تھا.اعلان کا تو یہ مطلب تھا کہ کمیشن کے ممبروں کے پاس الگ بیٹھ کر دفاتر اور انتظام کے متعلق باتیں نہ بیان کی جائیں.گو کمیشن نے اپنی شرافت کے تقاضا سے یہی اعلان کیا ہے کہ ناظروں نے تعاون کیا ہے مگر دراصل نہیں کیا اور میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ پورا پورا تعاون کریں گے.ہدایات کی پابندی کی جائے دوسرے میں یہ امید رکھتا ہوں کہ غفلت کو چھوڑ کر جو ہدایات انہیں ملی ہیں ان کی پوری پابندی سے کام کریں گے.مجھے اس کے متعلق بہت شکوہ ہے.نئے کمیشن کو یہ بات خاص طور پر مد نظر رکھنی چاہئے کہ کام ہر قاعدہ کی پابندی سے کیا جاتا ہے یا نہیں.
خطابات شوری جلد اوّل ۴۰۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کمیشن کے ممبروں سے اُمید کمیشن کے ممبروں سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ نڈر ہو کر رپورٹ کریں کہ فلاں ناظر ہدایات اور قواعد کی تعمیل نہیں کرتے.کمیشن کے ممبر میرے نائب ہوتے ہیں اور ایک رنگ میں خلیفہ ہی ہوتے ہیں.انہیں جو بات قابل اصلاح نظر آئے اور جس میں کوئی نقص دیکھیں، اُسے پوری جرأت اور دلیری سے پیش کریں.اگر کوئی کارکن اپنا کام نہ کر سکے تو اُس کی رپورٹ کریں تا کہ اُس کی جگہ اور انتظام کیا جائے.“ دوسرا دن مجلس مشاورت کے دوسرے دن ۱۹ اپریل ۱۹۳۰ء کو اجلاس شروع ہونے پر احباب کی طرف سے سوالات پیش ہوئے.جن کے متعلقہ ناظر صاحبان نے جواب دیئے.سوال وجواب کے اس سلسلہ پر حضوڑ نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے فرمایا : - اس وقت سوالات کے جو جوابات پڑھے گئے ہیں ان کے متعلق میں بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں.اوّل تو میں یہ کہتا ہوں.گو یہ طریق نمائندہ کے لئے بند کر دیا گیا ہے لیکن میں افسوس کرتا ہوں کہ ناظر صاحبان جوابات کے لئے پورے طور پر تیار ہو کر نہیں آتے اور ان کے بعض جوابات غلط فہمی پیدا کرنے والے ہیں اگر چہ صحیح اور تسلی بخش جوابات موجود تھے.اگر وہ نقالی نہ کرتے اُن گورنمنظوں کی جن کا کام معترضین کا منہ بند کرنا اور دھوکا دے کر پیچھا چھڑانا ہوتا ہے بلکہ تفصیل میں چلے جاتے تو مکمل جواب ہوسکتا تھا.اونچی آواز دوسرے ہر سال یہ شکایت پیدا ہوتی ہے کہ جواب اونچی آواز سے نہیں دیئے جاتے.یہ صاف بات ہے کہ جب تک لوگوں تک آواز نہ پہنچے وہ جواب سے آگاہ نہیں ہو سکتے.متواتر توجہ دلانے کے باوجود کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ آواز اتنی دھیمی کیوں ہوتی ہے.معلوم نہیں ناظر سوال کی وجہ سے رعشہ براندام ہو جاتے ہیں اس لئے وہ اچھی طرح آواز نہیں نکال سکتے یا جواب دینا چپٹی سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ چند الفاظ کہہ کر بیٹھ جائیں.اصل بات یہی ہے کہ سوال کا جواب پورے طور پر تیار نہیں کیا ہوتا وہ اپنا یہی کام سمجھتے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۰۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء ہیں کہ جواب میں لکھی ہوئی تحریر پڑھ دیں اور صرف پڑھ دینے میں آواز اتنی بلند نہیں ہوسکتی.وظائف کے متعلق طریق ایک دوست کا سوال وظائف کے متعلق تھا جس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ جب وظائف کی درخواست کرنے والوں کے نام شائع ہوں گے تو کئی لوگ وظیفہ لینے کی خواہش نہ کریں گے اور جب لوگوں کو ناموں کا علم ہوگا تو وہ اندازہ لگا سکیں گے کہ درخواست کرنے والا حاجت مند ہے یا نہیں.بے شک یہ بھی ضرورت کا پتہ لگانے کا ایک طریق ہے.لیکن جب یہ قاعدہ پاس ہو چکا ہے کہ جو وظیفہ لے اپنی مقامی جماعت کی سفارش سے لے تو یہ نقص دور ہو سکتا ہے کہ کوئی بلا وجہ اور بلا ضرورت وظیفہ نہ لے جائے.رہا نام شائع کرنا یہ اصول شریعت کے خلاف ہے.قرآن میں اس بات پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے کہ صدقہ اور خیرات خفیہ دینی چاہئے.وجہ یہ کہ قرآن نے اعزاز نفس قائم رکھنے کی کوشش کی ہے.قرآن نے بتایا ہے کہ بعض لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اُن کی شکلوں سے معلوم ہوسکتا ہے وہ حاجت مند ہیں وہ زبان سے نہیں بتاتے.پس ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خواہ کس قدر تنگ دست اور مجبور ہوں اپنی تنگی کی عام تشہیر گوارا نہیں کرتے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ضرورت کو اپنے چند مخصوص دوستوں کے سامنے پیش کر دیں مگر یہ کہ عام لوگوں میں ان کی غربت اور مفلوک الحالی کا اعلان ہو یہ پسند نہیں کریں گے.وہ یہ تو گوارا کر لیں گے کہ ان کا بچہ تعلیم سے محروم رہ جائے مگر یہ پسند نہیں کریں گے کہ ان کے نام کو حاجت مندوں کے طور پر شائع کیا جائے اور یہ طریق اعزاز نفس کے خلاف ہے.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم دیکھیں کوئی غیر مستحق ناجائز طور پر وظیفہ نہ لے اور یہ پہلے طریق پر جو پاس ہو چکا ہے عمل کرنے سے ہوسکتا ہے.کچھ حصہ وظائف کو میں اس قاعدہ سے مستثنیٰ کرتا ہوں.ان میں قابلیت کا وظیفہ بھی ہونا چاہئے.باقی وہی وظیفے دیئے جائیں گے جن کے لئے مقامی انجمنیں سفارش کریں گی.چونکہ حاجت مندوں کے نام شائع کرنے سے ان کی سبکی ہوتی ہے اس لئے شریعت جائز نہیں رکھتی.فیصلہ شدہ امور پر عمل یہ جو سوال کیا گیا ہے کہ مجلس مشاورت میں فیصلہ شدہ کس قدر امور پر عمل ہوا اور کتنے امور پر عمل نہیں ہوا اس کا نقشہ پیش
خطابات شوری جلد اوّل ۴۱۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کیا جائے.اس کا تدارک آئندہ کے لئے اس طرح کر دیا گیا ہے کہ جو کمیشن تحقیقات کے لئے مقرر ہوا کرے وہ یہ بھی مد نظر رکھے مجلس مشاورت میں پاس شدہ امور پر عمل ہوتا ہے یا نہیں اور اس بات کا پتہ کمیشن کی رپورٹوں سے لگتا رہے گا.اس لئے اس کے لئے رکسی مزید انتظام کی ضرورت نہیں.سیاسی خدمات کے متعلق رسالہ چوہدری عبدالسلام صاحب کا سوال نمبر 4 یہ ہے که مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء میں پاس ہوا تھا کہ ہماری دس سالہ سیاسی خدمات کا دوسری سیاسی جماعتوں کے کاموں سے مقابلہ کرتے ہوئے کوئی رسالہ شائع کیا جائے کیا کوئی ایسا رسالہ شائع کیا گیا؟ اس کا جو جواب دیا گیا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے.اس تجویز کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہم یہ بتائیں کہ ہمارے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ ہم گورنمنٹ کے خوشامدی ہیں یہ غلط ہے.ہم مسلمانوں کے فوائد ہر حالت میں مدنظر رکھتے اور ان کے لئے پوری جدو جہد کرتے ہیں.مسلمانوں کے فوائد کو نظر انداز کر کے ہم کبھی گورنمنٹ کا ساتھ نہیں دیتے.میں امید کرتا ہوں کہ متعلقہ نظارت جلد اس قسم کا ٹریکٹ شائع کرنے کا انتظام کرے گی جس سے لوگوں کو معلوم ہو کہ ہم مسلمانوں کے فوائد بہر حال مقدم رکھتے ہیں اور ملک اور قوم کی بہترین خدمت کر رہے ہیں.امدادی سکیم چوہدری عبدالسلام صاحب کے سوال نمبر ۸ کا جو جواب دیا گیا ہے وہ بھی درست نہیں ہے.جواب میں جس سکیم کا ذکر کیا گیا ہے اور جس پر عمل شروع ہو چکا ہے وہ اور ہے لیکن جس سکیم کے متعلق سوال کیا گیا ہے وہ اور ہے اور اس پر کوئی توجہ نہیں کی گئی.احمد یہ ہوسٹل کے متعلق سوال سید عبدالحی صاحب کا ایک سوال تھا گو اب ان کا سوال نہیں کہنا چاہئے کیونکہ وہ واپس لے چکے ہیں اور ان کا سوال کہہ کر ان کا ثواب ضائع کرنا ہو گا لیکن ان کے نام سے شائع ہوا ہے کہ کیا اس سال احمد یہ ہوٹل میں ایسے طلباء بھی داخل کئے گئے ہیں جن کو کسی وجہ سے ہوسٹل سے نکالا گیا تھا ؟ اگر ہیں تو کتنے اور ان کو کن شرائط کے ماتحت واپس آنے کی اجازت دی گئی ؟
خطابات شوری جلد اوّل ۴۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس سال کوئی ایسا لڑکا جس کو ہوسٹل سے نکالا گیا ہو داخلِ ہوسٹل نہیں کیا گیا مگر یہ جواب غلط ہے ایسے لڑ کے داخل ہوئے ہیں.ناظر صاحب کو تحقیقات کر کے بات معلوم کرنی چاہئے تھی کیونکہ ذراسی غلطی کی وجہ سے بات بہت بڑھ جاتی ہے.اگر سب سوالات.سوالات کے جواب صحیح دے دیئے جائیں اور کسی ایک میں غلطی ہو جائے تو بہ پیدا ہو سکتا ہے کہ ناظر یونہی جواب دے دیتے ہیں.ناظر صاحب تعلیم و تربیت کا فرض تھا کہ ہوٹل کے سپرنٹنڈنٹ سے اس کے متعلق پوچھتے اور پھر جواب دیتے.اسی طرح ان کے سوال نمبر ۸ کا جواب ناظر صاحب بیت المال نے یہ دیا ہے کہ جن لوگوں کے ذمہ وظائف کا روپیہ واجب الادا ہے مگر باوجود ادائیگی کی تحریک کے انہوں نے توجہ نہ کی ان کے نام نہیں بتائے جائیں گے.کیوں نہیں بتائیں گے؟ اس کے متعلق کچھ نہیں کہا گیا.وہ کم از کم یہی کہہ دیتے کہ پیشتر اس کے کہ ان کے نام بتا کر ان کی سبکی کریں کوشش کر رہے ہیں کہ ان سے واجب الادا رقوم وصول ہو وظائف کا بقایا جائیں.اس کی بجائے انہوں نے ایسا جواب دیا ہے کہ گو یا لٹھ مار دیا ہے.ناظر صاحب تعلیم و تربیت اپنے جواب کے متعلق یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ انہوں غذر نے سپرنٹنڈنٹ ہوسٹل کا جواب پڑھ دیا تھا جبکہ اس بارے میں تحقیقات نہ کی تھی.گو اس طرح سپرنٹنڈنٹ پر الزام آتا ہے لیکن چونکہ انچارج وہ ہیں اس لئے وہ بھی الزام سے بری نہیں ہو سکتے.اسی طرح سوال نمبر 9 کا جو جواب دیا گیا ہے اس کے متعلق یقینا تو میں نہیں کہ سکتا مگر غالباً یہ درست نہیں.نظارت بیت المال میرے پاس اس کی تفصیل پیش کرے.ترقی اسلام کی رقم چوہدری مظفر الدین صاحب کے سوال نمبر ۳ کا جواب بھی درست نہیں دیا گیا.درحقیقت اس جواب کے دو پہلو ہونے چاہئے تھے.ایک یہ کہ ترقی اسلام کے لئے رقم جمع کرنے پر کیا خرچ ہوا جو رقم جمع کرنے پر خرچ ہوتی ہے.اسے صیغہ کے خرچ میں شامل نہیں کیا جاتا.گویا جو رقم جمع کرنے میں خرچ ہو.اتنی کم اس فنڈ کی رقم سمجھی جاتی ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۴۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء انگریز نو مسلم کو نائب مشنری رکھنا سوال نمبر 1 کا جواب بھی تفصیل سے نہیں دیا گیا.ناظر صاحب کو بتانا چاہئے تھا کہ امام مسجد لنڈن سے پوچھا گیا تھا کہ کیوں ان کا نائب کوئی انگریز نومسلم نہ رکھا جائے؟ انہوں نے اسے مفید نہیں بتایا.اس لئے اس بات کو چھوڑ دیا گیا.نور ہسپتال کے لئے لیڈی ڈاکٹر ایک سوال نور ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر رکھنے کے متعلق تھا.اس کا جواب بھی مشتبہ سا ہے،صاف طور پر نہیں بتایا گیا کہ یہ معاملہ اسی مجلس مشاورت میں رڈ ہو چکا ہے.ریز روفنڈ سوال نمبر 1 کا جواب بھی غلطی میں ڈالنے والا ہے.سوال یہ ہے کہ کیا ناظر صاحب بیت المال فرمائیں گے کہ ریز روفنڈ کی مد میں کچھ روپیہ ہے؟ اگر ہے تو کس قدر؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ خرچ ھدہ روپیہ کے علاوہ باقی کتنی رقم ہے؟ بتانا یہ چاہئے تھا کہ اس فنڈ میں ۴۳ ۴۴ ہزار روپیہ جمع ہوا جس سے کئی چیزیں گروی رکھ کر آمد پیدا کی گئی ہے.تین ہزار کے قریب روپیہ ایسا ہے جسے ابھی کسی جگہ لگا یا نہیں گیا اس کے لئے بھی کوشش ہو رہی ہے کہ زمین خرید لی جائے..دراصل لوگوں نے اس فنڈ کے جمع کرنے میں بہت کم توجہ کی ہے.اگر پانچ پانچ روپے بھی دوست ماہوار جمع کرنے کی کوشش کرتے تو بہت کچھ جمع کر سکتے تھے.بعض نے تو کہا تھا کہ وہ لاکھ لاکھ روپیہ جمع کر سکتے ہیں مگر نہ معلوم انہوں نے کیوں نہ کیا.اگر دوست اس طرف توجہ کریں تو ۴۵ لاکھ کا جمع ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں اور اس سے بہت کافی آمدنی ہو سکتی ہے.اس وقت تک ریز روفنڈ کا زیادہ حصہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جمع کیا ہے اور انہوں نے ایک معقول رقم جمع کی ہے.بڑی رقموں کے لحاظ سے چوہدری صاحب کی رقم بہت بڑی رقم ہے.امید ہے اب دوست توجہ کریں گے.جنہوں نے پہلے اس کام کے لئے نام نہیں لکھائے وہ اب لکھا دیں.پانچ روپیہ ماہوار جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں.ایک اعتراض کا جواب کہا گیا ہے کہ اس فنڈ سے ۳۰ ہزار روپیہ کسی کو دے دیا گیا حالانکہ لوگ بُھو کے مر رہے ہیں لیکن اس رقم میں ایک بڑی جائیدا در گروی رکھی گئی ہے جس کا سو روپیہ ماہوار کرا یہ آتا ہے.گویا یہ رقم آمدنی پر لگائی گئی
خطابات شوری جلد اوّل ۴۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء ہے اور جس نے اعتراض کیا ہے اُس نے خود قرض لیا تھا مگر ادا کرنے کے لئے جو وقت مقرر ہوا تھا اس کے بعد جواب دینا بھی چھوڑ دیا تھا.اعتراض کرنے کا یہ طریق غلط ہے.جس طرح شملہ والوں نے یہ اعتراض پہنچا دیا اس طرح کوئی اور کرے تو وہاں کے لوگوں کو بھی اس کے متعلق اطلاع دینی چاہئے تا کہ جو لوگ بدظنی میں مبتلا ہوں اُن کی اصلاح کی جا سکے مگر افسوس دوستوں کی اس طرف بہت کم توجہ ہے جس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ جو بگڑتا ہے وہ بگڑتے بگڑ تے اُس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ پھر اُس کی اصلاح مشکل ہو جاتی ہے.“ ناظر صاحب بیت المال کی بجٹ تقریر کے بعد حضور نے فرمایا: - میں ناظر صاحب بیت المال کی تقریر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ بعض تخفیفیں بجٹ کی جب میرے سامنے پیش ہوئیں تو میں نے ان کو رڈ کر دیا.میں فطرتا اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ کوئی قدم اٹھا کر پیچھے ہٹایا جائے لیکن اگر کسی خرچ کی وجہ سے کسی دوسرے مستقل اور زیادہ اہم کام کو نقصان پہنچے تو اسے بچانے کے لئے اگر کوئی خرچ کم کیا جا سکے تو کم کر دینا چاہئے.میں نے یہ کہا تھا کہ جن اخراجات کی میں مجلس شوری کے مشورہ کے بعد منظوری دے چکا ہوں ان کو بجٹ بناتے وقت آپ ہی آپ رڈ نہیں کر دینا چاہئے بلکہ اس معاملہ کو پھر مجلس شوریٰ میں غور کے لئے پیش کریں.وہاں غور کے بعد جو فیصلہ ہو اُس پر عمل کیا جائے کیونکہ میں نے بجٹ کا پاس کرنا مجلس شوری کے سپر د کیا ہوا ہے اور جس طرح کل میں نے کہا تھا کہ مجلس معتمدین مجلس شوری کے ماتحت نہیں اسی طرح کہتا ہوں کہ مجلس شوری کے سپر د جو کام ہے اس میں مجلس معتمدین کو دخل نہیں دینا چاہئے.اس کے بعد سب کمیٹی مال کا تقرر فرمایا اور ممبران سب کمیٹی کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:- 66 بجٹ پر پوری آزادی سے غور کریں لیکن خیال رکھیں کہ حتی الوسع پیچھے نہ ہٹنا پڑے.تبلیغ کے کام کو بند اور کم نہ کیا جائے.نئے مبلغ رکھے جاتے ہیں وہ جاری رہیں بلکہ تعلیم و تربیت کے ماتحت مدارس میں بھی مبلغ رکھے جائیں تا کہ جو مبلغین کلاس کے فارغ التحصیل ہوں وہ کام پر لگائے جاسکیں.اگر پیچھے ہٹنا ضروری ہو تو دلیری سے بجٹ کم کر دیں.آمد جو مقرر ہو وہ ایسی ہو جو وصول ہو جائے.“
خطابات شوری جلد اوّل ۴۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء تیسرادن مجلس مشاورت کے تیسرے دن اجلاس کی کارروائی تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوئی اس کے بعد حضور نے فرمایا: - اس سے مجھے خوشی ہوئی ہے کہ بجٹ کی اصلاح میں ترقی ہو رہی ہے.گو دھیمے طور پر محصلوں کا کام ہے.اور اس عمدگی سے بحث ہوتی ہے اور معلوم ہو گیا ہے کہ نقائص کی اصلاح سے فائدہ ہوسکتا.مثلاً محصلوں کا سوال ہے، میں ان کے اُڑانے سے کبھی متفق نہ ہوا تھا لیکن کل سمجھ میں آ گیا کہ وہ جس طریق پر کام کرتے ہیں وہ مفید نہیں ہے اور کل کی گفتگو سے معلوم ہو گیا کہ ان کا موجودہ طریق عمل نقصان دہ ہے.محصل اب بھی رکھنے چاہئیں مگر ان کے کام کی اصلاح ہونی چاہئے.مرزا احمد بیگ صاحب کی تقریر سے وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ چندہ کی وصولی میں جو نقص ہے اُس کا علاج سوائے محصلوں کے اور کوئی نہیں ہے.ان کی بیان کردہ مثال سے واضح ہو گیا کہ نقص کیا ہے.ایک جماعت کی تعداد پچاس ساٹھ ہوتی ہے لیکن اُس میں سے صرف ۱۲٬۱۱ اصحاب چندہ ادا کر کے اپنا بجٹ پورا کر دیتے ہیں اور مرکز میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس جماعت نے بجٹ پورا کر دیا حالانکہ جماعت نے بجٹ پورا نہیں کیا ہوتا بلکہ چند افراد نے کیا ہوتا ہے اور چندہ نہ دینے والوں کا پتہ ہی نہیں لگتا.اس طرح وہ حقیقی بجٹ پورا نہیں ہو سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے مقرر ہے.اس کا نقص یہ ہے کہ مثلاً ایک جماعت جس کے افراد سو کے قریب ہوں اُس کے بہت سے اصحاب چندہ ادا کریں لیکن بجٹ پورا نہ ہو تو ناظر لکھ دے گا کہ تمہارا بجٹ پورا نہیں ہوگا اور اس طرح وہ ملامت کے مستحق قرار دیئے جائیں گے لیکن ایک جماعت جس کے بہت سے افراد میں سے صرف چند ایک بجٹ پورا کر دیں گے اور باقی حصہ نہ لیں تو اُسے قابلِ تعریف قرار دیا جائے گا.بجٹ کس طرح مقرر ہوں اس کی وجہ یہی ہے کہ محصل صرف جمع مھدہ روپیہ بھجوا دیتے ہیں اصل کام نہیں کرتے اس لئے میں آئندہ کے لئے ہدایت دیتا ہوں کہ جماعتوں کے بجٹ خیالی طور پر یہاں بیٹھے مقرر نہ کئے جائیں بلکہ محصل
خطابات شوری جلد اوّل ۴۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء ان جماعتوں میں جائیں اور تفصیل لکھیں کہ فلاں جماعت میں اتنے افراد فلاں فلاں ہیں اور ان کی یہ آمدنی ہے.پھر اس آمدنی پر ایک آنہ فی روپیہ کے حساب سے چندہ تجویز کیا جائے.سوائے اس کے کہ کوئی ممبر یہ کہے کہ میں آنہ فی روپیہ چندہ نہیں دے سکتا.اس کے متعلق لکھا جائے کہ فلاں آدمی کہتا ہے کہ میں ایک آنہ فی روپیہ ماہوار چندہ نہیں دے سکتا اس کے سوا تشخیص آمد کی فہرست میں اور کوئی نوٹ نہ ہو.یا اگر کوئی ایک آنہ فی روپیہ سے زیادہ دے یا وصیت کی رقم ادا کرتا ہو تو اُس کے متعلق نوٹ دیا جائے.ایک نقص اور اس کا ازالہ لیکن اس صورت میں ایک نقص ہو سکتا ہے.ہم کسی کے متعلق بے اعتباری تو نہیں کرتے لیکن محصل کی شستی کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ تشخیص درست نہ ہو.اس نقص کو دُور کرنے کے لئے انسپکٹر کا ہونا بھی ضروری ہے.وہ متحصل کی مرتب کردہ رپورٹ لے جا کر تحقیقات کرے کہ محصل نے ٹھیک کام کیا ہے یا نہیں ؟ آمد کی تشخیص غلط تو نہیں کی؟ ممکن ہے کہ اس نے کسی کی آمد کم یا زیادہ لکھ دی ہو اس لئے انسپکٹر کا ہونا ضروری ہے جو کہ محل کے کام کی پڑتال کرے تاکہ محصل اپنے کام میں چُست رہیں.میں کل کی گفتگو سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس طریق کو عمل میں لایا جائے تو چندہ بڑھ سکتا ہے.میں ہمیشہ بیت المال سے کہتا رہا ہوں کہ جب جماعت بڑھ رہی ہے تو چندہ کیوں نہیں بڑھتا ؟ کل معلوم ہوا کہ تشخیص نہیں ہوتی اور محصل صرف وصول شدہ چندہ لے کر بھیج دیتے ہیں.آئندہ محصل کا کام چندہ بھیجنا نہیں ہو گا یہ مقامی سیکرٹری کا کام ہے.وہ جتنا زیادہ چندہ وصول کرے اُس کی تعریف کا وہی مستحق ہوگا.محصل کا کام آمد کی تشخیص ہو گا.ہاں جہاں کے متعلق یہ معلوم ہو کہ مقامی افراد میں اختلاف کی وجہ سے چندہ وصول نہیں ہوتا وہاں جا کر محصل چندہ وصول کرے.مقررہ شرح سے کم چندہ دینے والا جو شخص مقررہ شرح چندہ سے کم دے اُس کے متعلق میرا یہ فیصلہ ہے کہ وہ لکھائے کہ میرے لئے یہ مجبوریاں ہیں اس لئے میں کم دیتا ہوں اور اس کے لئے اجازت لے.پس یہ حکم نہیں که مقررہ شرح سے کم کوئی نہیں دے سکتا بلکہ یہ ہے کہ بلا اجازت کوئی کم نہیں دے سکتا.
خطابات شوری جلد اوّل ۴۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صحیح تعریف کی مستحق کونسی جماعتیں ہیں بیت المال کو ایک غلطی لگی ہے اور وہ یہ کہ ایسا بجٹ وصول نہ ہو گا.میں کہتا ہوں نہ وصول ہومگر جماعت کو احساس تو ہوگا کہ اتنا بجٹ پورا کرنا ہے جو جماعت ایسا بجٹ پورا کرے گی وہ تعریف کے قابل ہوگی اور جو نہ کرے گی اُسے توجہ دلائی جائے گی.اب دھوکا کے طور پر کام ہو رہا ہے.جو جماعت بجٹ تو پورا کر دیتی ہے لیکن جماعت کے سب افراد سے چندہ نہیں لیتی وہ قابل تعریف قرار دی جاتی ہے اور دعاؤں کی مستحق سمجھی جاتی ہے لیکن جو جماعت کام کرتی ہے اور سب سے چندہ وصول کرتی ہے مگر بجٹ پورا نہیں کر سکتی اُس کی دل شکنی کی جاتی ہے.یہ طریق درست نہیں ہے.اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ جو شخص ایک آنہ فی روپیہ سے کم چندہ دے اُس سے نہ لیا جائے.میرا حکم یہ ہے کہ جو اس شرح سے کم دے وہ لکھائے کہ میرے لئے یہ مجبوریاں ہیں اس لئے میں دو پیسے یا ایک پیسہ فی روپیہ کے حساب سے چندہ دیتا ہوں.پس یہ نہیں کہ ایک آنہ فی روپیہ سے کم کوئی نہیں دے سکتا بلکہ یہ ہے کہ بلا اجازت نہیں دے سکتا.اجازت لینے کی اس لئے ضرورت ہے کہ یہاں اس کے متعلق ریکارڈ رہے اور اُسے مقررہ چندہ دینے کا خیال رہے.پس یہ روک درمیان میں نہیں ہے کہ جو مقررہ شرح سے چندہ نہ دے وہ چندہ دینے میں شامل نہیں ہو سکے گا.بجٹ ہر جماعت کا ایک آنہ فی روپیہ کے لحاظ سے ہی بنے اور جو اس سے کم دینے کی استطاعت رکھتے ہوں وہ کم دیں مگر اُنہیں خیال رہے کہ اسی کمی کو پورا کرنا ہے.پس ہر جماعت کا بجٹ ایک آنہ فی روپیہ کے لحاظ سے ہو اور سارے کے سارے افراد کے لحاظ سے ہو.خواہ وہ دہند ہوں یا نادہند ہوں.اس طرح آمد کا بجٹ بہت بڑھ سکتا ہے.خواہ پہلے سال سارا بجٹ وصول نہ ہومگر جو جماعتیں کم بجٹ بناتی ہیں اُن کی اصلاح ہو جائے گی.بیت المال صحیح تعریف کا مستحق کس طرح ہو سکتا ہے ایک اور بھی نقص ہے اور وہ یہ کہ موجودہ طریق سے بیت المال کے کام پر پردہ پڑا رہتا ہے.بیت المال کا کام یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ آمد دکھائے.اگر اصل چندہ تین چار لاکھ دکھایا جاتا اور پھر دو تین لاکھ وصول ہوتا تو رپورٹ
خطابات شوری جلد اوّل ۴۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء سناتے وقت اس بات کا احساس ہوتا کہ کم وصول کیا گیا ہے.مگر اب پہلے ہی کم کر کے بجٹ رکھا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے اتنا زیادہ روپیہ جمع کیا گیا.اس طرح غلط طور پر بیت المال تعریف کا مستحق بن جاتا ہے حالانکہ وہ اس سے بہت کم وصول کرتا ہے جتنا وصول ہونا چاہئے.پس سب کی تشخیص کر کے آمد مقرر کرنی چاہئے اور آمد کا بجٹ اس لحاظ سے مقرر کرنا چاہئے.پھر اسے وصول کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جو کم دیں یا نہ دیں اُن کے نام نوٹ ہو جانے چاہئیں.ایثار سے ترقی ہوتی ہے اس بات کی طرف ایک صاحب نے توجہ دلائی ہے کہ ہر سال بجٹ کم کر کے جماعت کے عمل کرنے کی روح کو نقصان پہنچایا گیا ہے.یہ بھی صحیح ہے ایثار سے ترقی ہوتی ہے اور ایمانی روح پیدا ہوتی ہے.ہر سال جتنا خرچ کم کرتے جائیں گے اور سستی پیدا ہوتی جائے گی.جب بجٹ گھٹانے کا سوال پیدا ہوا تھا اُسی وقت میں نے کہا تھا جو قوم اپنا قدم پیچھے ہٹاتی ہے اُسے تنزل ہی ہوتا جاتا ہے.برلن مشن بند کرنے کے بعد ہر سال یہی تحریک ہوتی ہے کہ فلاں کام بند کر دو، فلاں کام میں تخفیف کر دو.اس سے مجھے ڈر ہے کہ سارے دروازے بند نہ کر دیں کیونکہ پیچھے قدم ہٹانا نہایت خطرناک ہوتا ہے.جب سے آمد کا بجٹ کم کرنے لگے پیچھے ہی پیچھے ہوتے گئے.ریز روفنڈ اگرچہ یہ بات خطرناک ہے کہ خیالی آمد تین لاکھ کر کے خرچ بھی اتنا ہی رکھیں لیکن خرچ اگر اصل اندازہ آمد کے مطابق رکھیں اور ریز رو فنڈ مضبوط کریں تو کام عمدگی سے چل سکتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سال کا خرچ بیویوں کو دے دیتے تھے مگر ہمارا یہ حال ہے کہ تین تین ماہ کے بعد تنخواہ دیتے ہیں.ہمارے ہاں کم از کم ایک سال کا خرچ ریز رو ہونا چاہئے کیونکہ کئی قسم کی دشتیں پیش آسکتی ہیں.۱۹۱۹ء میں جب ملک میں فتنہ پیدا ہو گیا تھا تو چندے کم آنے لگے تھے اور اس طرح بہت نازک حالت ہو گئی تھی.پس کم از کم ایک سال کا خرچ محفوظ ہونا چاہئے تا کہ مشکلات کے وقت چندہ میں جو کمی ہو اسے پورا کیا جا سکے.غرض آمد کے بجٹ کی طرف توجہ کرنی چاہئے.پیر اکبر علی صاحب نے بجٹ بجٹ بناتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہئے کے متعلق جن باتوں کی طرف
خطابات شوری جلد اوّل ۴۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء توجہ دلائی ہے اُمید ہے ناظر صاحب بیت المال ان کی طرف توجہ کریں گے.مثلاً ایک مد میں پچھلے سال کی آمد سے بھی کم رقم رکھ دی گئی.ناظر صاحب کہتے ہیں کہ اس کے متعلق اُنہوں نے کوئی جواب دیا ہے مگر وہ جواب میری سمجھ میں نہیں آیا.بہر حال آئندہ بجٹ بناتے وقت زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہئے اور تحصیل چندہ پر بہت زور دینا چاہئے.تحصیل چندہ کے متعلق ایک تجویز میں کے وے تحصیل کے متعلق ایک تجویز میرے ذہن میں یہ آئی ہے کہ چونکہ اب جلد سال شروع ہونے والا ہے اور محصلوں کے لئے اس سال تشخیص چندہ مشکل ہو گی اور دیر کی وجہ سے کام رُکا رہے گا اس لئے اس سال تشخیص اس طرح ہو کہ جو نمائندے یہاں آئے ہیں وہ ارد گرد کی ایک ایک دو دو جماعتوں کا ذمہ لیں کہ چھٹی یا کسی اور موقع پر ان جماعتوں میں جا کر اُن کی آمدنی کی تشخیص کر کے بھجوا دیں گے اس طرح مئی کے اندر اندر تشخیص ہوسکتی ہے اور اس کے لئے صرف پہلے سال وقت ہے.پھر جب نقشے تیار ہو جا ئیں تو پھر محصل ان میں آسانی سے تبدیلیاں کر لیا کریں گے.پس اپنی اپنی جماعت کے سوا پاس کی دو جماعتوں کے متعلق ذمہ لیں اور تشخیص کر کے بھیج دیں.ہر شخص کی آمد لکھ دیں قطع نظر اس سے کہ وہ چندہ دینے کے لئے تیار ہے یا نہیں.اس طرح جو آمد تجویز ہوئی اس کے مطابق یہاں سے اُس جماعت کا بجٹ بنا کر بھیج دیا جائے گا.پھر جو جماعت اس بجٹ کو پورا کرے گی وہ تعریف کی مستحق ہوگی اور جو پورا نہ کرے گی اُسے توجہ ہوگی کہ پورا کرنے کی کوشش کرے.ریز روفنڈ کی طرف توجہ کی جائے پھر ریز رو فنڈ کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ایسے کاموں کے لئے مفید ہوسکتا ہے جو عام یہ مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں جیسے اچھوت اقوام کی اصلاح کے لئے کام ہے.یہ دراصل دوسرے مسلمانوں کا بھی کام ہے مگر ہم چونکہ ساری دُنیا کی اصلاح کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اس لئے اس میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں.اگر ریز روفنڈ کو مضبوط کیا جائے تو ایسے کاموں میں ہاتھ ڈال سکتے ہیں بلکہ اور لوگ جو یونہی شور مچاتے رہتے ہیں کہ اُنہوں نے یہ کیا وہ کیا اُن کا منہ بند کر سکتے ہیں.علاقہ ملکانہ میں سوائے ہمارے مبلغوں کے کوئی کام نہیں کر رہا.حیدر آباد میں ہم نے کام شروع کیا ہوا ہے جہاں کئی سو غیر مسلم اسلام قبول کر چکے ہیں.ہم
خطابات شوری جلد اوّل ۴۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء وہاں مدر سے قائم کر رہے ہیں.اس علاقہ کو ہم نے کام کے لئے اس لئے پچتا ہے کہ اسلامی آبادی کی کثرت ہو.میں چاہتا ہوں کہ ریز روفنڈ کے متعلق دوست ایک رقم اپنے ذمہ لیں اور ہر سال ماہوار چندہ کے طور پر اپنے پاس سے نہیں بلکہ اپنے غیر احمدی دوستوں سے وصول کر کے دیں.بعض دوست دوسروں سے چندہ وصول کرنے کی محنت سے بچنے کے لئے اپنے پاس سے روپیہ بھیج دیتے ہیں مگر یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ایک جیب سے نکال کر دوسری میں ڈال دیا گیا.چاہئے کہ ریز روفنڈ دوسروں سے وصول کیا جائے.مجلس مشاورت کے نمائندوں کی فہرستیں موجود ہیں، میں دفتر کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ خطوط کے ذریعہ انہیں متوجہ کریں کہ وہ کچھ نہ کچھ ریز روفنڈ کی رقم اپنے ذمہ لیں اور اس فنڈ کو مضبوط کریں.“ اختتامی تقریر مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کی کارروائی مکمل ہونے پر حضور نے احباب سے الوداعی خطاب کرتے ہوئے فرمایا : - عورتوں کا حق نمائندگی اب کی دفعہ بعض اہم معاملات پر زیادہ وقت صرف ہو گیا ہے، اس لئے بعض اہم امور رہ گئے ہیں.ان میں سے ایک خاص معاملہ ایسا تھا جس کے لئے ہمارے سلسلہ کی عورتیں بہت بیتاب تھیں اور وہ عورتوں کے حق نمائندگی کا سوال ہے.اس وقت اتنا وقت گزر چکا ہے کہ اگر ہم مجلس مشاورت کا اجلاس ختم نہ کریں گے تو نہ تو نمازیں پڑھ سکیں گے اور نہ ہی جانے والے احباب کھانا کھا کر گاڑی پر پہنچ سکیں گے اس لئے اجلاس جاری نہیں رکھا جا سکتا.اس دفعہ بجٹ ایسے مفید طریق سے طے ہوا ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت عمدہ کام ہو سکتا ہے.اب میں دوسری تجاویز کو آئندہ کے لئے ملتوی کرتا ہوں لیکن عورتوں کی حق نمائندگی کے متعلق یہ عارضی فیصلہ کرتا ہوں کہ جہاں جہاں لجنہ اماء اللہ قائم ہیں وہ اپنی لجنہ رجسٹر ڈ کرالیں یعنی میرے دفتر سے اپنی لجنہ کی منظوری حاصل کر لیں.پھر ان کو جنہیں میری اجازت سے منظور کیا جائے گا مجلس مشاورت کا ایجنڈا بھیج دیا جایا کرے گا.وہ رائے لکھ کر پرائیویٹ سیکرٹری کے پاس بھیج دیں.میں جب ان امور کا فیصلہ کرنے لگوں گا تو اُن کی آراء کو بھی مدنظر رکھ
خطابات شوری جلد اوّل ۴۲۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء لیا کروں گا.اس طرح عورتوں مردوں کے جمع ہونے کا جھگڑا بھی پیدا نہ ہوگا اور مجھے بھی پتہ لگ جائے گا کہ عورتیں مشورہ دینے میں کہاں تک مفید ثابت ہوسکتی ہیں.ان کی رائیں فیصلہ کرتے وقت مجلس میں سُنا دی جائیں گی.یہ عارضی طور پر ان کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں، باقی گفتگو اگلے سال کر لی جائے گی.پاس شدہ تجاویز کا ذکر اس کے بعد بجٹ آمد و خرچ اور دیگر تجاویز جن کے متعلق میں فیصلہ کر چکا ہوں ان کی طرف دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ جا کر زیادہ ہمت اور تندہی سے کام کریں.احباب کو معلوم ہو چکا ہے کہ با وجود اس قربانی اور ایثار کے جو اس وقت تک ہم کر چکے ہیں ہمارے دشمن کم نہیں ہوئے بلکہ اور زیادہ ہو گئے ہیں اور ان کے دلوں میں ہمارے متعلق پہلے سے بھی زیادہ کینہ اور عداوت ہے.جب ہم بہت کمزور تھے اُس وقت تو یہ لوگ سمجھتے تھے کہ اب مرے کہ اب مرے ، ان کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت نہیں مگر اب انہیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ تو دبتے نظر نہیں آتے اور روز بروز آگے قدم بڑھا رہے ہیں.اس وجہ سے ہمارے خلاف ان کی دشمنی بڑھ رہی ہے اور وہ زیادہ عداوت کا اظہار کر رہے ہیں.اس صورت میں ہماری جماعت کو پہلے سے زیادہ ہوشیار ہونا چاہئے اور زیادہ تندہی سے کام کرنا چاہئے.جماعت کو منظم کیا جائے اس وقت میں جماعت کے نمائندوں کو رخصت کرنے سے پہلے اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ہر جگہ اپنی جماعت کو منتظم کریں ، اپنی مالی حالت کو درست کریں ، پھر کیا بلحاظ اعمال اور کیا بلحاظ اخلاق دینی حالت کو مضبوط بنائیں اور دوسروں کے لئے نمونہ ثابت ہوں.اسلحہ رکھے جاویں احباب نے مشورہ دیا تھا کہ جہاں تلوار رکھنے کی اجازت ہے وہاں کے احباب تلوار رکھیں.میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں جو سامان بہادری اور جرات پیدا کرنے والے میسر آ سکتے ہیں وہ ضرور مہیا کئے جائیں.جن احباب کو بندوق رکھنے کی اجازت مل سکے وہ بندوق رکھیں.جہاں جہاں تلوار رکھنے کی اجازت ہے وہاں تلوار رکھی جائے اور جہاں یہ اجازت نہ ہو وہاں سوٹا رکھا جائے.بہت لوگ ہیں جو باوجود بار بار کہنے کے سوٹا نہیں رکھتے.بہت ہیں جو تلوار رکھ سکتے ہیں مگر نہیں
خطابات شوری جلد اوّل ۴۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء رکھتے.بہت ہیں جو بندوق رکھ سکتے ہیں مگر نہیں رکھتے.بندوق رکھنے کے لئے ضروری نہیں کہ شکار ہی کے لئے جائیں.میرے پاس بندوق ہے جو یونہی پڑی رہتی ہے.دراصل ہتھیار کا پاس ہونا ضروری ہوتا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے خُذُوا حِذْرَكُمْ کے ہتھیار اپنے پاس رکھو.دیکھو سکھ ہتھیار رکھنے کے لئے کس قدر اصرار کرتے ہیں اور ہم جنہیں ہمارا مذہب حکم دیتا ہے کہ ہتھیار رکھو ہم کیوں نہ رکھیں.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خاص طور پر ہدایت کی تھی کہ گھر سے باہر نکلنے کے وقت لاٹھی رکھا کرو.مذہب میں بھی یہی پسندیدہ بات ہے.اس قسم کی سب چیزیں چستی، چالا کی اور بہادری پر دلالت کرتی ہیں.ان کی طرف ہمارے دوستوں کو توجہ کرنی چاہئے.پھر تبلیغ پر بہت زور دینا چاہئے.میں نے جمعہ کے تبلیغ کی طرف توجہ کی جائے ہوتا ہے خطبہ میں بھی احباب کو اس طرف توجہ دلائی تھی مگر احباب کے جانے سے پیشتر پھر اس کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنے ظہور اور اپنے کام کے لئے چن لیا ہے.اگر ہم خدا تعالیٰ کا کام پوری کوشش اور سعی سے نہیں کرتے تو اُن انعامات کے مستحق نہیں بنتے جو خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں پر نازل کرتا ہے.بے شک خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں مگر وہ بندوں کی کوشش سے تعلق رکھتے ہیں.دیکھو اُحد کی جنگ میں صحابہ نے غلطی کی تو خدا تعالیٰ نے ان کی فتح کو شکست سے بدل دیا.گو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس شکست کو بھی فتح بنا دیا مگر آفت اور مصیبت ضرور نازل ہوئی.پس جماعت کے دوستوں کو خصوصیت سے تبلیغ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس بات کی قطعا پر واہ نہ کرنی چاہئے کہ اگر ہم تبلیغ کریں گے تو لوگ ناراض ہو جائیں گے.سیرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جلسے بہت احباب نے بتایا کہ سیرتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جلسوں سے یہ خیال پیدا ہوا کہ لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنی چاہئے اور کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہئے جسے لوگ پسند نہ کریں مگر یہ نہایت ناقص اور نقصان رساں خیال ہے.کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا اظہار مداہنت سے تعلق رکھتا ہے؟ کیا
خطابات شوری جلد اوّل ۴۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء اگر ساری دنیا میں سے کوئی بھی ہمارا ساتھ نہ دے تو ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا اظہار نہ کریں گے؟ ہمیں لوگوں کو مداہنت کے ساتھ اس مقدس کام میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں اور میں تو کہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہرگز پسند نہ کریں گے کہ ہم اُن کے نام اور شان کے اظہار کے لئے صداقت کے اظہار میں کمزوری دکھا ئیں.باوجود اس کے کہ آپ سید ولد آدم اور تمام نبیوں کے سردار ہیں اور خدا تعالیٰ کے سب سے بڑے وب اور مقرب ہیں پھر بھی آپ صداقت کے خادم تھے.صدق خدا تعالیٰ کی صفت ہے اور نبی خدا تعالیٰ کی صفات کے ماتحت کام کرتے ہیں اور کبھی پسند نہیں کرتے کہ صداقت کو قربان کیا جائے.پس آپ لوگوں کا پہلا فرض ہے کہ اپنے آپ کو صداقت پر قائم کریں.اگر کسی کی ہدایت تمہاری صداقت کی قربانی چاہتی ہے تو ایسے شخص کی کوئی پرواہ نہ کرو.ہمیں کسی کی خوشامد کر کے یا کمزوری دکھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے جلسوں میں شامل نہیں کرنا چاہئے اور کبھی تبلیغ احمدیت کو نہیں چھوڑنا چاہئے.ہاں ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ان جلسوں کو ہم اپنی تبلیغ کا جلسہ نہیں بنانا چاہتے کیونکہ یہ دھوکا ہو گا کہ ہم جلسے منعقد تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت بیان کرنے کے لئے کریں لیکن ان میں اپنے عقائد کی تبلیغ کریں.اس سال سیرت کے جلسے پھر ہوں گے کیونکہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان چھوڑ نہیں سکتے.اگر چہ بعض مسلمان کہلانے والے ہمارے جلسوں کی مخالفت کریں لیکن ہندو، سکھ ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ ہمارے جلسوں میں شریک ہوں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ معقولیت ہمارے ہی اندر ہے لیکن اگر یہ لوگ بھی نہ آئیں تو ہم خود جمع ہوں گے اور خود ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی محبت کا اظہار کریں گے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کر کے اپنے ایمان کو تازہ کریں گے کیونکہ یہی وہ طریق ہے جس سے خدا تعالیٰ حاصل ہوسکتا ہے.خد تعالیٰ فرماتا ہے.قل إن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ، پس اگر کوئی بھی شامل نہ ہو تو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اپنے قلوب میں زیادہ کرنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے محبوب بننے کے لئے اس تحریک کو دلیری اور جرات سے جاری رکھو خواہ کوئی
خطابات شوری جلد اول ۴۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء دشمن بنے خواہ دوست.مگر حکمت عملی کو ضرور مد نظر رکھ کر کام ہونا چاہئے.یوں اندھا دھند نہ ہو.یوں نہ ہو جس طرح حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے ایک امیر تھا جس کا پاجامہ ٹخنے سے نیچے تھا.ایک مولوی صاحب نے اُس کے ٹخنے پر مسواک مار کر کہا پاجامہ اس سے اوپر رکھو ور نہ یہ ٹخنہ جہنم میں ڈالا جائے گا.اس پر امیر نے غصہ میں آ کر اسلام کے خلاف کہنا شروع کر دیا.تو ایسی تبلیغ نہ ہونی چاہئے کہ لوگ ضد میں آ کر انکار کر دیں..دعائیں کرو پھر میں دعاؤں اور تقوی وطہارت کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ہمارے سارے کام اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے ہی چل سکتے ہیں.اپنے زور قوت سے ہمارے کام کرنے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے چڑیا دُنیا کو اُٹھانا چاہے.چڑیا تو پھر بھی کچھ نہ کچھ بوجھ اُٹھا سکتی ہے لیکن انسان دوسرے انسان کا دل بدلنے کے لئے کچھ بھی طاقت نہیں رکھتا.دل کا بدلنا خدا تعالیٰ کے ہی اختیار میں ہے.اس لئے ہمیں دعاؤں کی خاص ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری غفلتوں کی وجہ سے ہمیں ہدایت سے محروم نہ کر دے یا ہماری وجہ سے دوسرے کو ہدایت پانے سے محروم نہ رکھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کے یہ معنے ہیں کہ حق اور صداقت کو مان لیا.اگر اس صداقت نے خدا تعالیٰ کے قریب نہ کیا تو پھر وہ کس کام کی؟ ہر مومن کے دل میں تڑپ اور جلن ہونی چاہئے اور ایک آگ لگی ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی اسی دُنیا کی زندگی میں پالے اور کبھی اُس سے مایوس نہ ہونا چاہئے.کیا پتہ ہے کہ جس دن انسان مایوس ہو وہی دن اس کی ہدایت پانے کے لئے مقرر ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں الہاماً آپ کو بتایا گیا کہ اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي کہ خدا تعالیٰ بندہ کے گمان کے مطابق اُس سے سلوک کرتا ہے.اگر بندہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس سے اچھا سلوک نہیں کرے گا تو وہ نہیں کرتا اور اگر سمجھے کہ خدا تعالیٰ اُس کی آواز سُنے گا اور اس کی تڑپ کی طرف متوجہ ہو گا تو خدا تعالیٰ اُس کی طرف متوجہ ہوتا ہے.پس مومن کو کسی صورت اور کسی حالت میں بھی مایوس نہ کبھی مایوس نہ ہونا چاہئے ہونا چاہئے بلکہ رات دن اُس کے دل میں یہ تڑپ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق ہو.اگر وہ معارف ، رویا، کشوف ، نصرت الہی ، خشیت الہی سے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء محسوس کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے اُس کا تعلق بڑھ رہا ہے تو اُسے خوش ہونا چاہئے اور اگر یہ محسوس ہو کہ تعلق نہیں بڑھ رہا اور خدا تعالیٰ کو ابھی نہیں پاسکا تو یقین رکھنا چاہئے کہ آج نہیں تو کل ضرور پالوں گا.پس تم میں سے ہر ایک دل میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی تڑپ ہو اور جب تک تڑپ نہ پیدا ہو اُس وقت تک یہ نہ سمجھنا کہ حقیقی احمدیت پالی ہے.اگر اس قسم کی تڑپ پائی جائے تو ہر علاقہ میں اور ہر ملک میں ایسے ابدال پیدا ہوں گے جوخود تبلیغ کریں گے اور احمدیت پھیل جائے گی.ہر احمد می کو ستارہ بننا چاہئے ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے میرے صحابی ستاروں کی مانند ہیں.اے ہم میں سے بھی ہر ایک کوستارہ ہونا چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ اسلام کی صداقت کے دلائل الہام کے ذریعہ نازل کرتا ہے.معارف قرآن کے متعلق چیلنج میں نے بار ہا لوگوں کو چیلنج دیا ہے کہ آئیں اور قرآن کریم کے معارف بیان کریں.مجھے کوئی عربی کی تعلیم نہیں ہے عربی کے لئے دوسرے پختہ مولویوں کی ضرورت ہوتی ہے.مگر کوئی مولوی ہو سب کو چیلنج ہے کہ پا لمقابل قرآن کریم کے معارف بیان کرے.یہ اچھی قابلیت کی بناء پر نہیں بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم کے معارف خود نازل کرے گا اور وہ نازل کرتا ہے، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سجدہ کر کے اُٹھتے اٹھتے ایسی تفسیر سکھا دی گئی جو ساری عمر نہ آئی تھی.غرض خدا تعالیٰ کی طرف سے جو علم آتا ہے وہ اُس کی محبت اور نصرت سے آتا ہے.اسی کو حاصل کرنے کے لئے جماعت کو کوشش کرنی چاہئے.خدا کی تائید حاصل کرنے کا طریق پس میں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور کبھی اُس سے مایوس نہ ہوں اور نہ کبھی ہمت ہار ہیں.اپنے دل میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ آنے دیں.جب ایسا اخلاص پیدا ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت نازل ہوتی ہے.تم اگر اپنے آپ کو ایسا بناؤ گے تو چند دنوں یا چند ہفتوں یا چند مہینوں یا چند سالوں میں دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت نمایاں رنگ میں تمہارے لئے نازل
خطابات شوری جلد اوّل ہوتی ہے.۴۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء سیرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جلسے اس کے بعد سیرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جلسوں کے لئے اعلان کرتا ہوں کہ اکتوبر کے مہینہ میں منعقد کرنے کا ارادہ ہے، خاص تاریخ کا اعلان بعد میں کر دیا جائے گا.کچھ لوگوں نے بالمقابل جلسے کرنے شروع کر دیئے ہیں تاکہ ہمارے جلسوں میں روک ڈالیں مگر ہمیں کسی سے تصادم کی ضرورت نہیں.جب ان کے جلسے ہو جائیں گے تو ہم اپنے جلسوں کا اعلان کر دیں گے.احباب نے بھی یہی مشورہ دیا ہے کہ جلسوں کے لئے پہلا موسم اچھا نہیں، اکتوبر یا نومبر کا مہینہ اچھا ہوگا.اب میں سارے دوستوں کی معیت میں دُعا کرتا ہوں.اپنے لئے بھی اور دوسروں دعا کے لئے بھی.جو یہاں بیٹھے ہیں ان کے لئے بھی اور جن کی خواہش تھی کہ اس موقع پر آئیں مگر نہ آسکے ان کے لئے بھی کہ سب پر خدا تعالیٰ فضل نازل کرے.ہم سب اس کے بندے بن جائیں.اگر ہم اس سے کچھ حاصل کرنے کے مستحق ہیں تو بھی اسی کے بندے ہیں اور اگر نہیں تو بھی اُسی کے بندے ہیں اور بندے ہونے کے لحاظ سے حق رکھتے ہیں کہ اُسی سے لیں اور جس طرح بچے پیچھے پڑ کر لیتے ہیں اسی طرح ہم بھی لیں.“ ل النساء : ۶۵ تا ۶۹ ( مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت اپریل ۱۹۳۰ء) ابوداؤد کتاب القضاء باب في قضاء القاضى إِذَا اَخُطَاً النور: ۵۶ بخاری کتاب فرض الخمس باب مَا كان النَّبِيِّ صَلَّى الله عليهِ وَسَلَّمَ يُعطى المؤلّفة (الخ) ۵ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۵ ۵ تا ۵۳۷ مطبوعه بیروت كو المساء : ٧٢ ال عمران: ۳۲ بخارى كتاب التوحيد باب قول الله تعالى وَ يُحذِّرُكُمُ الله نفسه مشكوة باب مناقب الصحابة صفحه ۵۵۴ مطبوعه دهلی ۱۹۳۲ء
خطابات شوری جلد اوّل ۴۲۷ ت ۱۹۳۱ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء ( منعقده ۳ تا ۵ / اپریل ۱۹۳۱ء) پہلا دن مجلس مشاورت منعقدہ ۳ تا ۵.اپریل ۱۹۳۱ء کے افتتاحی اجلاس کے آغاز میں دُعا کے متعلق حضور نے فرمایا : - " پیشتر اس کے کہ مجلس مشاورت کی کارروائی شروع کی جائے میں چاہتا ہوں کہ دعا سب دوست مل کر دُعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام کاموں کو اپنے لئے مخصوص کر دے، ہمارے مشوروں اور ہماری تقریروں اور ہماری آراء میں محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی، سلسلہ احمدیہ کی ترقی اور دینِ اسلام کی بڑائی کا خیال ہو.افتتاحی تقریر تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے حسب ذیل افتتاحی تقریر فرمائی:- اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں پھر توفیق عطا کی ہے کہ ہم ساری دُنیا سے اختلاف رکھتے ہوئے آج اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ باقی دنیا کو جو اپنی مادی ترقی کے لئے مشورے کرتی اور دنیوی ترقی کے لئے اپنے دماغوں کو خرچ کرتی ہے، دین کی دعوت دیں اور روحانیت کی طرف متوجہ کریں.باقی دُنیا صرف دُنیا کے لئے جد و جہد کر رہی ہے لیکن ہم خدا کے فضل سے اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ وہ نور ، وہ ہدایت اور وہ صداقت جو اللہ تعالیٰ نے دُنیا کی ہدایت کے لئے بھیجی ہے اس کی ترقی کے لئے کوشش کریں ، اس کی اشاعت کے لئے غور کریں اور اسے پھیلانے کے لئے تجاویز سوچیں اور ان کے ضمن میں جو مادی، تمدنی اور سیاسی باتیں پیدا ہوں، اُن پر غور کریں لیکن اس لئے نہیں کہ اپنی ذات کے لئے کچھ
خطابات شوری جلد اوّل ۴۲۸ رت ۱۹۳۱ء حاصل کریں بلکہ اس لئے کہ ساری دُنیا کو فائدہ پہنچائیں کیونکہ کوئی نبی کی جماعت ایسی نہیں ہوسکتی جس کے کسی کام کی غرض محض اپنی ذات کو فائدہ پہنچانا ہو بلکہ اس کی ہر کوشش اور ہر کام کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچائے ، دوسروں کی مشکلات کو دور کرے اور دوسروں کی بہتری اور بھلائی مدنظر رکھے.خدا تعالیٰ مسلمانوں کے متعلق فرماتا ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وتُؤْمِنُونَ باللوے کہ تم دوسروں کے فائدہ کے لئے پیدا کئے گئے ہو.تمہارا کام یہ ہے کہ لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دو برائیوں سے روکو اور اللہ پر ایمان رکھو.پس ہم بھی اگر نبی کی جماعت بننا چاہتے ہیں تو ہماری تمام کوششیں اور تدبیریں ایسی ہونی چاہئیں کہ ان سے سب دنیا کو فائدہ پہنچے.قطع نظر اس سے کہ کوئی احمدی ہو یا غیر احمدی ، مسلم ہو یا غیر مسلم سب کی خدمت اور سب کی بھلائی ہمارا فرض ہے کیونکہ مومن سب دُنیا کا خدمت گزار ہوتا ہے.ہمارے جمع ہونے کی غرض پس یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جب دوسرے لوگ اس لئے جلسے کرتے ہیں کہ چھینا جھپٹی کر کے خود فائدہ اُٹھائیں ہم اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ دُنیا میں امن قائم کریں، راستی اور انصاف پر دنیا کو کار بند کریں.پس ساری دُنیا ہماری مخاطب ہے اور ہم ساری دُنیا کی خدمت کرنے والے ہیں اور یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے.اس کے بعد میں اب ان کمیٹیوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو گزشتہ مجلس مشاورت کے موقع پر مقرر کی گئی تھیں.ان میں ایک تو بڑا کمیشن تھا جس کی غرض یہ تھی کہ تمام دفاتر کا معائنہ کرے اور جو ہدایات اُسے دی گئی تھیں اُن کے مطابق رپورٹ کرے.پچھلے سال کے کمیشن کی رپورٹ مجلس مشاورت کے موقع پر ہی سنائی گئی تھی اور اس کی تجاویز کے متعلق میں نے اُسی وقت اظہارِ رائے کیا تھا لیکن اس کمیشن کی رپورٹ ایک تو اس وجہ سے کہ اسے سال کے اختتام پر کام شروع کرنے کے لئے کہا گیا تھا تا کہ پہلے کمیشن کی رپورٹ پر میں نے جو فیصلے کئے تھے اُن پر عمل کرنے کا دفاتر کو موقع مل سکے اور دوسرے اِس وجہ سے کہ کمیشن کے پریذیڈنٹ صاحب بعض مجبوریوں کی وجہ سے وقت پر معائنہ کے لئے نہ آسکے.اس لئے اس کمیشن کی رپورٹ اس موقع پر تیار کر کے پیش نہیں کر سکے.ان کی معذوری ایسی
خطابات شوری جلد اوّل ۴۲۹ رت ۱۹۳۱ء تھی کہ جسے میں تسلیم کرتا ہوں.اب امید ہے کہ وہ جلد رپورٹ پیش کر دیں گے اور اس سے معلوم ہو سکے گا کہ دفا تر نے دورانِ سال میں کیسا کام کیا.دوسرے کمیشن دوسرے کمیشنوں میں سے ایک کی رپورٹ میرے پاس آ چکی ہے لیکن چونکہ میں اُن دنوں وائسرائے ہند کو بھجوانے کے لئے ایک کتاب لکھ رہا تھا اس لئے اس پر غور نہیں کر سکا اور مجلس مشاورت سے اس کا تعلق بھی نہیں.وہ دفاتر کے اندرونی انتظامات کے متعلق ہے.ایک اور کیڈرکمیٹی بنائی گئی تھی وہ رپورٹ تیار کرنے کے متعلق معذرت ظاہر کر چکی ہے.گو اس کی معذرت ایسی نہیں جو قابل قبول ہومگر کہا گیا ہے کہ اس کمیٹی کے بعض ممبر بیمار رہے یا اور مجبوریاں پیش آئیں اس لئے کمیٹی کام نہ کر سکی.اب کرے گی.ایک تیسری کمیٹی محاسب اور انجمن کے تعلق کے متعلق تھی.اس کی رپورٹ میرے پاس پہنچ گئی تھی لیکن چونکہ نامکمل تھی اس لئے میں نے اس ریمارکس کے ساتھ اسے واپس کیا ہے کہ یہ تسلی بخش نہیں ہے.“ سلسلہ کے کسی کام میں نقص دیکھنے والے اطلاع دیں دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے پچھلے سال مجلس مشاورت کے موقع پر سوالات کرنے سے روک دیا تھا.جس کی وجہ یہ تھی کہ بعض اصحاب سوالات کرنے میں وہ پہلو اختیار کر لیتے جو دوسری مجالس میں اختیار کیا جاتا ہے.اس میں یا تو کچھ اعتراض کا رنگ ہوتا یا سوال کرنے سے مقصد کچھ اور ہوتا ہے اور ظاہر کچھ اور کیا جاتا.ہم چونکہ مذہبی اور روحانی جماعت ہیں اس لئے ہمارے تمام کاموں میں روحانیت ہونی چاہئے.اگر کسی موقع پر ہم اسے چھوڑتے ہیں تو خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کی محبت حاصل نہیں کر سکتے.اس وجہ سے میں نے سوال روک دیئے تھے.مگر اب میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ انسانی کاموں میں مختلف قسم کے نقائص پیدا ہو جاتے ہیں اور جنہیں ان نقائص کا علم ہو وہ اگر اطلاع نہ دیں تو نقص دُور نہیں کئے جا سکتے اور کام میں خرابی بڑھتی جاتی ہے.پس میں اعلان کرتا ہوں کہ جنھیں کسی کام میں کوئی نقص نظر آئے اور کسی نقص کا علم ہو تو ایسے نقائص سال کے دوران میں اور خاص کر جب نیا کمیشن اپنا کام
خطابات شوری جلد اوّل ۴۳۰ ت ۱۹۳۱ء شروع کرنے والا ہو مجھے اطلاع دیں تا کہ اگر میرے نزدیک ضروری ہو تو میں تحقیقات کرا سکوں.جہاں ہمارا یہ کام نہیں کہ خواہ مخواہ سلسلہ کے کاموں میں نقائص تلاش کرتے پھر میں، وہاں یہ بھی فرض ہے کہ جو حقیقی نقائص معلوم ہوں اُن کو دُور کریں اور ہر کام میں ترقی کریں.پس جہاں مجھے ایسے سوالات پسند نہیں جن میں کسی کی ذاتی تضحیک اور تذلیل ہو، وہاں مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ جو نقائص ہوں انہیں دُور نہ کیا جائے.پس میں اعلان کرتا ہوں کہ جسے سلسلہ کے کاموں کے متعلق کوئی نقص معلوم ہو وہ بجائے چھپانے کے اُس کی مجھے اطلاع دے تا کہ اگر اہم بات ہو تو تحقیقات کے لئے کمیشن کے سپرد کی جا سکے.تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ سیکرٹری صاحب مجلس بجٹ میں اضافہ مشاورت بیان کریں گے اس سال کے بجٹ میں بعض زیادتیاں کی گئی ہیں جن کی وجہ وہ کام ہے جو سیاسی اور تمدنی طور پر کرنا پڑا.یہ سال جہاں مسلمانوں کے لئے نہایت تکلیف دہ سال گزرا ہے وہاں اس کے متعلق یہ بھی کہہ سکتے ہیں مسلمانوں کی ترقی کا موجب بھی ہوا ہے کیونکہ کہتے ہیں جب کوئی تکلیف آتی ہے تو بیداری پیدا ہوتی ہے.اُمید کی جاتی ہے کہ جلد ہندوستان کو قومی حکومت مل جائے گی.اس میں مسلمانوں کا کیا حق ہونا چاہئے ؟ ان کو کیا ملنا چاہئے ؟ اس کے متعلق ہمیں کام کرنا پڑا ہے.اس کے لئے کبھی ایک کبھی دوسیکرٹریوں کو مختلف مقامات پر بھیجنا پڑا کیونکہ وہ سیاسی اور ملکی تکالیف جو دوسرے مسلمانوں کو پہنچیں ہمیں ان سے کم نہیں پہنچیں گی بلکہ زیادہ ہی پہنچیں گی کیونکہ ہماری جماعت تبلیغی جماعت ہے اور مخالف تبلیغی جماعت کو دوسروں کی نسبت زیادہ تکلیف دیں گے اور اس کی زیادہ مخالفت کریں گے.غرض یہ سال ہی ایسا گزرا ہے کہ اس میں کوئی ہفتہ ایسا نہیں آیا جب کسی نہ کسی اہم امر پر غور نہیں کیا گیا، بیرونی مقامات پر آدمی نہیں بھیجنے پڑے، خط و کتابت نہیں کرنی پڑی.اس وجہ سے بہت سے اخراجات ہوئے اور غالباً اس سال بھی ہوں گے کیونکہ ابھی تک فیصلہ طلب امور کا تصفیہ نہیں ہوا.ریز روفنڈ اور مبلغین میں اضافہ چوتھی بات یہ ہے کہ اس مجلس مشاورت میں غالباً ۱۹۲۷ء میں میں نے بیان کیا تھا کہ میں بعض آثار سے دیکھ رہا ہوں کہ ایسا تغیر ہونے والا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی ہستی
خطابات شوری جلد اوّل ۴۳۱ رت ۱۹۳۱ء معرض خطر میں پڑ جائے گی، اس کے لئے ابھی سے تیاری کرنی چاہئے.اس کے لئے میں نے دو تجویزیں کی تھیں.ایک یہ کہ ریزرو فنڈ قائم کیا جائے جس سے عام مسلمانوں کے مفاد کے متعلق کام کیا جائے.اور دوسری یہ کہ ہر سال کم از کم دس مبلغ بڑھائے جائیں تا کہ اپنی جماعت کو اتنا مضبوط کیا جا سکے کہ ضرورت کے وقت دشمنانِ اسلام کا مقابلہ کر سکے.مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باوجود اس کے کہ احباب نے آمادگی ظاہر کی تھی مگر ریز روفنڈ میں کوئی خاص حصہ نہیں لے سکے.اس وقت تک اس فنڈ میں ۳۰ ہزار کے قریب رقم جمع ہوئی ہے جس کے جمع کرنے کے لئے پانچ ہزار کے قریب خرچ کرنا پڑا اور ۲۵ ہزار باقی بچے.اس میں سے ۲۰ ہزار کی رقم ایک کام پر لگائی گئی ہے اور پانچ ہزار خزانہ میں جمع ہے.اگر دوست اس کے لئے کھڑے ہو جاتے تو بہت کچھ کام کر سکتے تھے اور میں مان ہی نہیں سکتا کہ مومن کسی کام کی نیت کر کے کھڑا ہو اور اُس کے لئے کوشش کرے مگر وہ کام نہ ہو.مومن کو کس طرح استقلال دکھانا چاہیئے مومن کی کوشش اس کا نام نہیں کہ کسی سے اس کام کے لئے کہہ دے اور بس.اگر مومن کی کوشش یہی ہوتی تو کبھی دُنیا میں اسلام نہ پھیلتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے رشتہ داروں، اپنے شہر والوں اور قریب کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو ان لوگوں نے ہنسی کی ، آپ کو دکھ دیئے ، آپ کے کام میں رکاوٹیں ڈالیں مگر آپ نے خدا تعالیٰ سے یہ کہہ کر کام نہ چھوڑ دیا کہ لوگ میری باتیں سنتے نہیں اور ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ آپ نے جو کچھ کہا وہ یہ تھا کہ چاہے کچھ کرو مجھے جو تعلیم دے کر خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے اُسے میں ضرور پھیلا ؤں گا اور کسی حالت میں بھی اُسے نہ چھوڑوں گا.حتی کہ وہ شخص جس نے آپ کی بچپن میں پرورش کی اور ہر دُکھ اور تکلیف میں آپ کا ساتھ دیا جب اُس کی عزت، اُس کی جان اور اُس کا مال آپ کی وجہ سے خطرہ میں پڑ گیا کیونکہ مخالفین نے اسے دھمکی دی کہ اگر تم اس کا ساتھ نہ چھوڑو گے تو ہم تمھیں بھی نقصان پہنچا ئیں گے تو ایسے موقع پر آپ نے اسے کہا آپ میرا ساتھ چھوڑ دیں تا میری وجہ سے تکلیف نہ اُٹھا ئیں لیکن اے چا! یہ نہیں ہو سکتا کہ جو تعلیم خدا تعالیٰ نے مجھے دنیا کو پہنچانے کے لئے دی ہے، اُسے میں چھوڑ دوں.خواہ سورج میرے دائیں اور چاند میرے بائیں ہاتھ پر رکھ دیا
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۴۳۲ رت ۱۹۳۱ء جائے تب بھی میں توحید کی تعلیم دینے سے نہ رکوں گا.سے یہ وہ نمونہ ہے جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کام کے متعلق استقلال کا دکھایا اور ہر مومن کو اپنے کام میں اسی قسم کا استقلال دکھانے کی کوشش کرنی چاہئے.مومن کا یہ کام نہیں کہ جب کام شروع کرے تو اس لئے چھوڑ دے کہ لوگ اُس پر ہنستے ، اُس کی باتیں نہیں سنتے اور اُس کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ مومن کا فرض یہ ہے کہ لوگوں کی عادتوں، زبانوں اور دلوں کو بدل دینے کی کوشش کرے اور اس کوشش میں لگا رہے.جماعت احمدیہ کی موجودہ پوزیشن ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ کے فضل سے اب ایسی پوزیشن حاصل ہو چکی ہے جو اور کسی کو حاصل نہیں ہے.ایک طرف ہماری جماعت جہاں اس بات کے لئے مقرر ہے کہ دُنیا سے تاریکی کو مٹا کر روشنی قائم کرے، شرک کو مٹا کر تو حید قائم کرے وہاں خدا ہی کے فضل کے ماتحت ہم سمجھتے ہیں کہ ہند میں سیاسیات کا حل بھی ہمارے ہی ساتھ وابستہ ہے.مجھے یاد ہے جب پہلے پہل میں نے سیاسی امور کے متعلق قلم اُٹھایا تو اپنی جماعت کا بیشتر حصہ خیال کرتا تھا کہ یہ اپنی حد سے تجاوز ہے اور دوسروں کا بیشتر حصہ تو یہ کہتا کہ انہیں کیا سو جبھی ہے.ایک دور افتادہ گاؤں میں بیٹھ کر سیاسیات پر رائے زنی کرنے لگ گئے ہیں.ان کی بات گون سُنے گا اور کون اسے وقعت دے گا.چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک معزز شخص کے متعلق بتایا اُنہوں نے کہا یہ کس طرح ممکن ہے کہ ریلوے سٹیشن سے بھی گیارہ میل دور ایک گاؤں میں بیٹھ کر سیاسیات پر بحث کی جاسکتی ہے جو کہ روز بروز بدلتی رہتی ہیں.غرض ایسی جگہ بیٹھ کر ہم نے یہ کام شروع کیا مگر جو خیالات ہم نے اُس وقت پیش کئے آج مسلمانوں کی اکثریت اُن کی تائید میں ہے.اور پہلے اگر یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ ایک گاؤں میں بیٹھ کر انہیں جرات ہی کیونکر ہوئی ہے کہ سیاسیات پر مضامین لکھیں اور مشورے دیں.اب جو کتابیں میں نے سیاسی معاملات کے متعلق لکھی ہیں، دوستوں نے بتایا کئی لوگ کہتے ہیں باہر سے لکھ کر بھیج دی جاتی ہیں اور ان کے نام سے شائع کر دی جاتی ہیں.گویا اب یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ میرے نام سے شائع ہوتا ہے وہ میں نہیں لکھ سکتا کوئی اور لکھ دیتا ہے.پرسوں ہی ایک دوست کی پیٹھی آئی جس میں وہ لکھتے ہیں مسلمانوں کا ایک وفد مسلمانوں کے حقوق کے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۳۳ رت ۱۹۳۱ء متعلق ملنے گیا تو آپ کی کتاب پر نشان لگا کر لے گیا تا کہ ان باتوں کی بناء پر بحث کریں.غرض اب وہ وقت آ گیا ہے جب ہماری سیاسی رائے کو صحیح تسلیم کیا جا رہا ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری طرف سے مسلمانوں کی خیر خواہی اور ان کے حقوق کی حفاظت کسی نفسانیت کے ماتحت نہیں ہوئی.اگر ہمارے اندر نفسانیت ہوتی اور ہم اپنے ذاتی فوائد اور اغراض پیش نظر رکھتے تو ہم بھی صحیح نتیجہ پر نہ پہنچ سکتے.پس خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کو ایسی پوزیشن حاصل ہوگئی ہے کہ نہ صرف دین کی ترقی کا انحصار ہم پر ہے بلکہ کم از کم ہندوستان میں مسلمانوں کی دُنیوی ترقی کا انحصار بھی ہم پر ہی ہے اور نہ صرف مسلمانوں کی دنیوی ترقی کا بلکہ سارے ہندوستان کی ترقی کا انحصار ہم پر ہے.اس صورت میں ہمارا یہ کام نہیں کہ ہم جابے جا مسلمانوں ہی کی حمایت کریں بلکہ ہمارا یہ فرض ہے کہ جس پر ظلم اور زیادتی ہو اُسی کی حمایت کریں خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان اور اس بات کو غیر مسلم معززین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری ہمدردی وسیع ہے.مسلمانوں پر نازک وقت ہمیں یہ جو پوزیشن حاصل ہو چکی ہے اس کی وجہ سے ہمارا کام اور زیادہ نازک ہو گیا ہے.دُنیا مذہبی لحاظ سے نجات کے لئے ہی نہیں بلکہ سیاسی ، تمدنی اور معاشرتی نجات کے لئے بھی ہمیں بلا رہی ہے.غرض وہ وقت آ گیا ہے جس کے متعلق آج سے کچھ عرصہ قبل میں نے اشارہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ وہ وقت قریب ہے جب کہ ایسے تغیرات ہوں کہ اگر مسلمانوں نے ہوشیاری سے کام نہ لیا اور اللہ تعالیٰ کا فضل جذب کرنے کی تدبیر نہ کی تو ہندوستان میں مسلمان اسی طرح تباہ ہو جائیں گے جس طرح سپین میں ہوئے.جس طرح یہ ممکن ہے اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ اگر مسلمان ہوشیاری سے کام لیں، خدا تعالیٰ کی رضا کے ماتحت کام کریں تو یہ ملک جس میں شرک کی انتہاء نہیں ، جہاں ۳۳ کروڑ دیوتاؤں کی پرستش کی جاتی ہے وہاں ایسے سامان کر دے کہ سارے دیوتا غائب ہو کر واحد خدا کی عبادت ہونے لگے.ظاہری طور پر تو دونوں باتیں ممکن ہیں مگر باطنی لحاظ سے ایک ہی ممکن ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی توحید قائم ہوگی اور ضرور قائم ہوگی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے پھیلانا اور غالب کرنا ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے ہاتھوں ہی اسلام غالب ہو گا جب تک ہم اس کے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۳۴ ت ۱۹۳۱ء اہل نہ اپنے آپ کو ثابت کر دیں.بعض لوگ سمجھتے ہیں جب اسلام غالب ہوگا تو پھر ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں.ان کی مثال اُن غیر احمد یوں کی طرح ہے جو کہتے ہیں کہ مسیح موعود نے آکر مسلمانوں کو تمام دُنیا پر غالب کر دینا ہے، پھر ہمیں اسلام کے لئے کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے.بے شک مسیح موعود کے وقت اسلام غالب ہو گا مگر اُنہی لوگوں کے ذریعہ جو آپ پر ایمان لانے والے ہوں گے اور ایمان وہی لا سکتے ہیں جو دین کی خدمت کے لئے تیار ہوں.چنانچہ جب مسیح موعود آیا تو ایسے لوگ آپ کو ماننے سے بھی محروم رہ گئے جو خود دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار نہ تھے.اور یہ چاہتے تھے کہ مسیح موعود بیٹھے بٹھائے اُنہیں دُنیا میں غلبہ اور شوکت دے دے گا.یہی حال ان لوگوں کا ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا مگر دین کی خدمت میں حصہ نہ لیا یا اتنا نہ لیا جتنا انہیں لینا چاہئے تھا.بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس لئے آئے کہ اسلام کو دُنیا میں ترقی دیں مگر یہ ضروری نہیں کہ اسلام کی ترقی ہمارے ہاتھوں ہومگر ہم اس کے اہل ثابت ہوئے تو ہمارے ہاتھوں ہوگی ورنہ خدا تعالیٰ کوئی اور قوم کھڑی کر دے گا.پس ایسا عظیم الشان کام جس کے لئے ہزاروں سال سے دُنیا امید لگائے بیٹھی تھی ، جس کی تمام انبیاء خبر دیتے آئے تھے، وہ ہمارے ہاتھوں سے پورا ہو تو ہماری کتنی بڑی خوش قسمتی اور کتنی بڑی عزت کا موجب ہے.معمولی باتوں کے لئے جان دینے والے دنیا میں لوگ معمولی معمولی باتوں کے لئے جانیں دے دیتے ہیں.ایک سپاہی چند روپے ماہوار کا ملازم ہو کر میدانِ جنگ میں جاتا اور گولی کھا کر مر جاتا ہے مگر باوجود اس کے ہر بہادر آدمی سپاہی بننا باعث عزت سمجھتا ہے.حالانکہ اوّل تو یہ ضروری نہیں کہ یہ عزت حاصل ہو سکے لیکن اگر خاص عزت مل بھی جائے تو کیا ضروری ہے کہ وہ اس عزت سے فائدہ بھی اُٹھا سکے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں دنیوی لحاظ سے عزت حاصل ہو جاتی ہے مگر وہ اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.خدا کے دربار سے ملنے والی عزت مگر اللہ تعالیٰ کے دربار سے جو عزت ملتی ہے وہ یقینی ہوتی ہے اور پھر اس کے متعلق یہ بھی
خطابات شوری جلد اوّل ۴۳۵ رت ۱۹۳۱ء وعدہ ہے کہ جسے ملے وہ فائدہ اُٹھا سکے گا.پس جب دنیوی عزت کے لئے لوگ اتنی قربانیاں کرتے ہیں تو وہ عظیم الشان عزت جس کے مقابلہ میں کوئی عزت اور کوئی مرتبہ نہیں اُس کے لئے تو جتنی بھی قربانیاں کی جائیں تھوڑی ہیں.ایسی صورت میں ہماری جماعت کے جو لوگ کوشش نہیں کرتے اور سستی سے کام لیتے ہیں انہوں نے اس کام کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں جو خدا تعالیٰ نے ان کے سپر د کیا.انبیاء کی جماعتوں کی عزت اگر وہ غور کریں تو انہیں معلوم ہو کہ دُنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ کی بھی ان کے مقابلہ میں کیا ہستی ہے.انبیاء کی جماعتوں میں شامل ہونے والے مومن اور دین کی خدمت کرنے والے انسان، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں ، حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیم کی اشاعت کرنے والے افراد اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ساتھ دینے والے انسانوں کے مقابلہ میں دُنیا کے بادشاہوں کی کیا حقیقت ہے.میرے نزدیک خدا تعالیٰ کے فرستادوں کی تعلیم پر صحیح طور سے چلنے والے اور انبیاء کو ماننے والے ایک انسان کے مقابلہ میں بڑے سے بڑے بادشاہ کی حیثیت چوہڑے جتنی بھی نہیں ہو سکتی.سکندر جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے دُنیا کے بڑے حصے کو فتح کیا، اُس کی ابو ہریرۃ کے مقابلہ میں کیا ہستی تھی.سکندر اگر مومن نہیں تھا، اس کے صحیح حالات ہمیں معلوم نہیں، ممکن ہے وہ کسی نبی کو ماننے والا ہو لیکن اگر وہ کسی نبی کو ماننے والا نہ تھا تو پھر حضرت ابو ہریرۃ کے مقابلہ میں اس کی حیثیت چوہڑے چمار جتنی بھی نہ ہوگی.پس اتنے بڑے اعزاز کے ہوتے ہوئے اگر ہم میں سے کوئی اپنے مقصد اور مدعا کو پورا کرنے کی پوری کوشش نہیں کرتا تو معلوم ہوا اُس نے اپنے درجہ اور اپنے اعزاز کو سمجھا ہی نہیں.ریز روفنڈ فراہم کرنے میں سُستی میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے لوگوں نے ریزرو فنڈ کے لئے کوئی کوشش نہیں کی.مسلمانوں کی سیاسی ، تمدنی اور معاشرتی اصلاح کے لئے جو کام ہمارے سپرد ہے اس کے لئے جو کچھ کرنا پڑتا ہے اس کے لئے روپیہ خرچ کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ رو پیدا نہی لوگوں سے حاصل کرنا چاہئے.اگر ہماری جماعت کے لوگ اس
خطابات شوری جلد اوّل ۴۳۶ ت ۱۹۳۱ء کے متعلق ہمت سے کام لیتے تو بہت کچھ کر سکتے تھے.وہ لوگ جو سرکاری ملازم ہیں ان کی طرف سے یہ عذر پیش کیا گیا ہے کہ چونکہ ان کے لئے دوسروں سے چندہ لینا قانونا منع ہے اس لئے وہ ریز رو فنڈ جمع کرنے میں حصہ نہیں لے سکے.مگر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ انجمن حمایت اسلام کا اخبار ہر ماہ ایسے لوگوں کے چندوں کا اعلان کرتا ہے جو سرکاری ملازم ہیں اور اس انجمن کے لئے سرکاری ملازم چندے جمع کرتے ہیں.چنانچہ انہی دنوں شیخ عبدالعزیز صاحب جو سرکاری ملازم ہیں یہاں بھی چندہ لینے کے لئے آئے.اسی طرح میں دیکھتا ہوں غیر مبائعین کے اخبار پیغام صلح میں ایسے چندوں کا اعلان ہوتا رہتا ہے جو سرکاری ملازم جمع کر کے بھیجتے ہیں.ایسی صورت میں میں یہ نہیں مان سکتا کہ کوئی ایسا قانون ہماری جماعت کے لوگوں کے لئے ہے جو دوسروں کے لئے نہیں ہے.دوسروں کو تو اجازت ہے کہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے چندہ جمع کریں لیکن ہماری جماعت کے سرکاری ملازموں کو ممانعت ہے.یہ صرف کام نہ کرنے والوں کی سستی اور کوتا ہی ہے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں گورنمنٹ کے قانون کا منشاء یہ ہے کہ سرکاری ملازم اپنی طرف سے کسی چندہ کی تحریک کر کے جمع نہ کریں لیکن جو کام قائم شدہ انجمنوں کی طرف سے ہو رہے ہوں اور جن میں سرکاری ملازموں کا دخل نہ ہو، اُن کے لئے چندہ جمع کرنا منع نہیں ہے.پس میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر ان میں سے ایک ہزار آدمی ایسے کھڑے ہو جائیں جو پچاس پچاس روپے ماہوار چندہ جمع کر سکیں اور ایک سو ایسے کھڑے ہو جائیں جو سو سو روپیہ ماہوار چندہ وصول کر سکیں تو ایک ماہ میں ہی ساٹھ ہزار روپیہ جمع ہو سکتا ہے اور اس سے ہم مسلمانوں کے بہت سے تمدنی ، سیاسی تعلیمی اور معاشرتی کام کر سکتے ہیں.مسلمانوں کے مصائب اس وقت مسلمانوں پر اس قسم کی مصیبت آ رہی ہے کہ میں ان کے حالات دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں.پرسوں ہی میرے پاس کو لا پورسے سے ایک خط آیا ہے جس کے لکھنے والے نے لکھا ہے کہ میں سارے ہندوستان کے مسلمانوں سے امداد کی درخواست کر چکا ہوں مگر ابھی تک مجھے نوکری نہیں ملی.میں نے آپ کے متعلق سُنا کہ آپ مسلمانوں کی امداد کرتے ہیں ، اب میں آپ سے امداد کی درخواست کرتا ہوں.یہ شخص ولائت کے امتحانات پاس کردہ ہے اور اُس نے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۳۷ رت ۱۹۳۱ء لکھا ہے کہ اُس کے پاس ایسی ڈگریاں ہیں جو عام طور پر لوگوں کے پاس نہیں ہوتیں مگر با وجود اس کے کوئی ملازمت نہیں ملتی.وجہ یہ کہ مسلمانوں کے لئے ہر جگہ ملازمتوں کے دروازے اس طرح بند کر دیئے گئے ہیں کہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ قابلیت رکھتے ہوئے بھی پیچھے دھکیلے جا رہے ہیں.اس شخص کی مدد کی جاسکتی ہے مگر اس کے لئے خرچ کرنا پڑے گا انہی دنوں دہلی میں مسلمانوں کی ایک کا نفرنس ہو رہی ہے جس میں شمولیت کے لئے میں نے مولوی عبد الرحیم صاحب درد کو بھیجا ہے.انہیں میں نے کہا ہے کہ لوگوں سے مل کر اس کے لئے بھی کوشش کریں.مسلمان تو مسلمان ہم تو ہندوؤں کو بھی مناسب امداد دینے کے لئے تیار رہتے ہیں.پچھلے سال ہم نے ایک ہندو کے لئے بھی کوشش کی.گو اس میں کامیابی نہ ہوئی مگر اس نے لکھا مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ جس کام میں ہندوؤں نے میری مدد نہ کی اُس میں آپ نے کی اور ہمدردی کا پورا حق ادا کیا..غرض مسلم تو الگ رہے غیر مسلموں میں بھی یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی کرنے والے یہی لوگ ہیں.مگر اس کے لئے اخراجات کرنے پڑتے ہیں جو ہم اپنی محدود آمدنی سے نہیں کر سکتے.اس کے لئے ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ ایسے لوگ جن کے دوسرے لوگوں سے تعلقات ہوں خواہ ملازم ہوں یا غیر ملا زم ، وہ کوشش کریں اور اس فنڈ کے لئے چندہ جمع کریں.ہماری بیرونی جماعتوں کے کئی سیکرٹری اور پریذیڈنٹ ایسے ہیں جو سرکاری ملازم ہیں اور وہ اپنی جماعت کے لوگوں سے چندہ وصول کرتے ہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا.اسی طرح اگر ملازمت پیشہ لوگ دوسروں سے چندہ لیں تو گورنمنٹ کیا کر سکتی ہے.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ریز روفنڈ کومضبوط کرنے کی کوشش کریں تا کہ یہ کام ہم کر سکیں.سبلغین کی کمی دوسری بات میں نے مبلغین کے متعلق کہی تھی.مگر ہم مالی وقتوں کی وجہ سے دس کی بجائے صرف تین مبلغ ہر سال بڑھانے کی تجویز کر سکے.اس طرح ہماری تبلیغی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں.باوجود اس کے کہ ہم ہر سال تین مبلغوں کا اضافہ کرتے ہیں اور اتنے اتنے بڑے علاقوں کا کام ان کے سپرد کرتے ہیں کہ ان کی صحت پر کام کی زیادتی کی وجہ سے بہت بوجھ پڑ جاتا ہے مگر پھر بھی شکائتیں آتی رہتی ہیں کہ مبلغ
خطابات شوری جلد اوّل ۴۳۸ رت ۱۹۳۱ء نہیں آتے.ایک ایک ضلع میں کئی کئی سو قصے ہوتے ہیں لیکن ہمارے مبلغوں کی تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ وہ ہر جگہ نہیں جاسکتے.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس تعداد کو بڑھا ئیں اور اس حد تک بڑھا ئیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ان مشکلات کو حل کر لیں جو در پیش ہیں.انہی دنوں ایک بنگالی دوست مجھے ملنے آئے.ان کے دل میں سب سے بڑا احساس یہی تھا کہ ہمارے علاقہ میں تبلیغ کا کام نہیں ہو رہا.اگر چہ اس علاقہ میں ایک مبلغ کام کر رہا ہے اور ایک اور تیار کیا جا رہا ہے مگر وہ بار بار یہی کہتے تھے کہ ایک دو مبلغ وہاں کیا کر سکتے ہیں.یہی حال دوسرے علاقوں کا ہے.پنجاب میں ہماری جماعت کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت تقویت حاصل ہو رہی ہے مگر بنگال میں ایسی کوئی صورت نہیں کیونکہ وہاں ہماری جماعت کمزور ہے.غرض مبلغوں کو بڑھانا نہایت ضروری ہے کیونکہ نہایت نازک وقت آ گیا ہے.میں نے دیکھا ہے وہی لوگ جو یہ کہتے تھے کہ تبلیغی لحاظ سے مسلمانوں میں کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے، وہ اب یہ کہتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کے بچنے کی کوئی صورت ہے؟ میں انہیں کہتا ہوں انہیں مایوس نہیں ہونا چاہئے.وہ خدا جس نے جماعت احمدیہ کو ہندوستان میں قائم کیا ہے اُس نے مسلمانوں کی حفاظت کے سامان بھی کئے ہیں اور جس خدا نے یہاں ہماری جماعت قائم کی ہے، وہ گاندھی جی کی تحریک سے مسلمانوں کو نہیں مٹنے دے گا.گاندھی جی کے جنگی ارادے وہ گاندھی جی جولڑائی کا نام تک نہ لیتے تھے اور عدم تشدد پر جن کا سارا زور تھا ، اب انہوں نے بھی کہا ہے کہ ہندوستان میں خانہ جنگی ہوگی مگر تھوڑے دنوں کی کیونکہ مسلمان تھوڑے ہیں اور جلد ختم ہو جائیں گے.گویا اُنہوں نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ ہندوستان میں خانہ جنگی ہوگی مگر کہتے ہیں اس کا ہم آپ ہی تصفیہ کر لیں گے انگریزوں کی ضرورت نہیں.جب ہندوستان کے لئے ایسے خطرات جماعت احمدیہ کی تعداد مردم شماری میں پیدا ہور ہے ہوں تو جماعت کو تبلیغی اور مالی پہلو سے قربانی کرنے کی بے حدضرورت ہے.اگر پہلے دوستوں نے سُستی سے کام لیا ہے تو اب ہر ایک احمدی اپنا فرض سمجھے کہ کچھ نہ کچھ ریز رو فنڈ کے لئے ضرور جمع کرے.
خطابات شوری جلد اوّل ۴۳۹ ت ۱۹۳۱ء اب تو تعداد کے لحاظ سے بھی حال کی مردم شماری میں ہماری جماعت کی ترقی نمایاں طور پر نظر آتی ہے.جہاں جہاں صحیح اندراجات ہوئے ہیں وہاں کافی تعداد پائی گئی ہے.خود قادیان میں ہمارا انداز ۳۶۰۰۰ نفوس کا تھا لیکن مردم شماری میں یہ تعداد ۵۲۰۰ کے قریب نکلی ہے.گویا ۱۳۳ فیصدی ترقی ہوئی ہے.اسی طرح باہر کی جماعتوں میں بھی حیرت انگیز نتائج رونما ہوئے ہیں.اگر چہ افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ مہینہ بھر میری طرف سے الفضل میں اعلان ہوتا رہا پھر بھی دوستوں نے غفلت سے کام لیا.چنانچہ بعض جگہ سے رپورٹ آئی ہے کہ وہاں احمدیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی مگر تھوڑی لکھی گئی ہے اور بعض جگہ احمدیوں کے ناموں کے ساتھ احمدی لکھا ہی نہیں گیا.مگر جہاں جہاں صحیح طور پر مردم شماری ہوئی ہے وہاں کے نتائج حیرت انگیز ہیں.روحانی طاقت غرض اتنی جماعت میں سے اگر ہر آدمی اس بات کے لئے تیار ہو جائے کہ وہ اپنے رشتہ داروں اور واقفوں سے کچھ نہ کچھ ریز روفنڈ کے لئے وصول کرے گا تو اتنی رقم جمع ہو سکتی ہے کہ اس سے مسلمانوں کی مدد کی جاسکتی ہے اور اس سے ان کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے.دُنیا میں عام طور پر دلائل اتنے نہیں چلتے جتنی طاقت چلتی ہے.خواہ وہ مالی طاقت ہو خواہ تمدنی، خواه روحانی.بعض اوقات جسمانی طاقت بھی کام کرتی ہے مگر سب سے زیادہ روحانی طاقت چلتی ہے کیونکہ جن لوگوں کو یہ حاصل ہوتی ہے ان کے فرشتے مددگار ہوتے ہیں.یہ طاقت ہماری جماعت کو ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہے اور کوئی اُسی وقت یہ طاقت حاصل کر سکتا ہے جب جماعت احمدیہ میں شامل ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائے لیکن باقی طاقتوں میں ہم دوسروں کو شامل کر سکتے ہیں اور وہ دُنیوی خطرات سے بچ سکتے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت اس طرف توجہ کرے گی اور ریز روفنڈ کے متعلق پوری کوشش سے کام لے گی.تبلیغ احمد : احمدیت اسی طرح تبلیغ احمدیت کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے تا کہ ہم ایک ایک جگہ مبلغ رکھ سکیں.ابھی تک ہم یہ بھی نہیں کر سکے کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں ہی ایک ایک ضلع میں ایک ایک مبلغ مقرر کر سکیں تا کہ تبلیغ زیادہ زور
خطابات شوری جلد اوّل ۴۴۰ رت ۱۹۳۱ء وہ سے ہو.میں نے غور کیا ہے کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی مصیبت تمدنی اور اقتصادی کمزوری ہے.۱۹۲۷ء میں جب میں نے اعلان کیا کہ مسلمان ہندوؤں کے ہاتھ کی و چیزیں نہ کھائیں جو وہ مسلمانوں کے ہاتھ کی نہیں کھاتے تو بنگال کے ایک ہندو لیڈر نے لکھا تھا کہ مسلمانوں کو سیدھا کرنا کوئی مشکل نہیں ہے ہندو ان کے ہاتھ سودا بیچنا بند کر دیں.عام طور پر دُنیا میں سو دا لینا طاقت بڑھانے کا موجب سمجھا جاتا ہے لیکن ہندوؤں کو مسلمانوں پر اتنی فوقیت حاصل ہو چکی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اگر مسلمانوں کو سو دا دینا بند کر دیں تو مسلمان شیخ اُٹھیں گے اور واقعات کے لحاظ سے یہ درست بھی ہے.اب تو لوگ خود ولایتی مال نہیں خریدتے اور لوگ خود اس تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اگر اس سے پہلے انگریز یہ اعلان کر دیتے کہ ہندوستانیوں کے ہاتھ کوئی انگریزی مال فروخت نہ کیا جائے تو لوگ شور مچا دیتے کہ ہم گزارہ کس طرح کریں.اب لوگوں میں بیداری پیدا ہو گئی ہے اس لئے وہ خود کہتے ہیں کہ ہم ولایتی مال نہیں لیتے مگر مسلمانوں کی ابھی تک یہی حالت ہے کہ اگر ہندو انہیں سو دا نہ دیں تو مسلمانوں کی رہی سہی تجارت بھی تباہ ہو جائے.اب انگریزوں کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ساری تجارت ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے اور انہوں نے مل کر گورنمنٹ کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کر لیا.اس وقت باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے لئے موقع تھا کہ تجارت میں ترقی کر سکتے مگر انہوں نے کوئی ترقی نہیں کی بلکہ اور زیادہ گر گئے ہیں.جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے تجارتی کارخانوں سے تعلقات نہ تھے اور وہ براہ راست خود مال نہ خرید سکے.پھر اس طرح بھی ان کو نقصان پہنچا کہ تاجروں کی کمیٹی اعلان کر دیتی کہ بدیشی مال بند کیا جاتا ہے.اس پر مسلمان سستے داموں اپنا مال بیچ دیتے اور اس کے بعد ہندو مال بیچنا کھول دیتے.اس طرح بھی مسلمانوں کو تباہ کر دیا گیا.اس صورتِ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم تبلیغ کو زیادہ وسیع کریں.تبلیغ ہی ہماری جان ہے.اگر ہم یہ بات سمجھ لیں اور ضرور سمجھنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے یہ اشاعت ہدایت کا زمانہ ہے.اب بھی اگر ہم یہ بات نہ سمجھیں اور تبلیغ کے متعلق کو تا ہی کریں تو پھر اور کون سا ذریعہ سمجھانے کا ہو سکتا ہے.ہم نے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۴۱ ت ۱۹۳۱ء ایک ایسے انسان کو قبول کیا جسے خدا نے دُنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا اور وہ اپنے آنے کا مقصد یہ بیان کرتا ہے کہ دُنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کرے مگر ہم دنیا کو جمع کرنا تو الگ رہا اگر اپنے رشتہ داروں کو بھی جمع نہیں کر سکتے تو پھر اور کیا صورت ہمارے لئے سمجھانے کی ہوسکتی ہے.پس تبلیغ پر خاص زور دینا چاہئے.اس دفعہ کی مجلس مشاورت کے ایجنڈا میں اس کے لئے کوئی تجویز نہیں مگر بجٹ میں اسے مدنظر رکھا گیا ہے.پھر ہمارے تمام کے تمام کام تبلیغی ہیں.ہمارےسکول، ہمارالنگر خانہ، ہمارے دفاتر سب تبلیغی کام ہیں، ان کو ترقی دینی چاہئے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیم الاسلام تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان ہائی سکول میں لڑ کے کم ہیں.میں نے بعض اوقات سکول کے نقائص بیان کئے کیونکہ میں سمجھتا تھا اور اب بھی سمجھتا ہوں کہ وہ نقائص تھے مگر اس کی وجہ سے جماعت کے احباب کو یہ اثر نہ لینا چاہئے تھا کہ اپنے بچے نہ بھیجیں.ہمارے مدرسہ میں ایک چیز ہے جس کے متعلق میں نے دیکھا ہے اس مدرسہ میں تعلیم پانے والا طالب علم خواہ کسی حالت کو پہنچ جائے اُس میں دین کی محبت ضرور ہوتی ہے.حتی کہ غیر احمدی طلباء جو اس میں پڑھتے ہیں اُن میں بھی دین کے متعلق احساس پیدا ہو جاتا ہے اور دین سے محبت پائی جاتی ہے.میں سمجھتا ہوں یہ تبلیغ کا نہایت اہم شعبہ تھا مگر جماعت نے اس سے بہت کم فائدہ اُٹھایا ہے اور اب اور بھی کم طلباء ہوتے جاتے ہیں.میں اُمید کرتا ہوں کئی ہزار روپیہ جو سکول اور بورڈنگ پر خرچ کیا گیا ہے اس سے فائدہ اُٹھایا جائے گا.یہ سکول صرف قادیان کے لوگوں کے لئے نہیں بلکہ ساری جماعت کے لئے ہے اور یہ ہمارا مرکزی سکول ہے مگر اس سے فائدہ کیا حاصل کیا گیا ہے یہ دیکھنا جماعت کا کام ہے.اسی طرح مدرسہ احمدیہ ہے.اس وقت تک یہ وقت رہی ہے کہ مبلغین کی مدرسہ احمدیہ جماعت کے لئے طالب علم نہیں مل سکتے.گزشتہ سال تین تھے اب کے تین بھی نہیں صرف دو ہی ملے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ مدرسہ احمدیہ میں اتنے طلباء داخل نہیں ہوتے جتنے ہونے چاہئیں.پس میں نہ صرف یہ کہوں گا کہ احباب ہائی سکول میں اپنے بچے بھیجیں بلکہ مدرسہ احمدیہ میں بھی بھیجیں.اس سے یہ بھی فائدہ ہوسکتا ہے کہ مختلف علاقوں
خطابات شوری جلد اوّل ۴۴۲ رت ۱۹۳۱ء کے طلباء کی آپس میں واقفیت ہو جاتی ہے اور اس سے بڑے بڑے کام نکل سکتے ہیں.پس مدرسہ احمدیہ کی طرف بھی احباب کو توجہ کرنی چاہئے.قادیان آنا پھر لنگر خانہ بھی تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے بشرطیکہ دوست قادیان کثرت سے آئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرمایا کرتے تھے جو شخص بار بار قادیان نہیں آتا مجھے اُس کے ایمان کا خطرہ ہے.یہ بات جیسے پہلے درست تھی اب بھی درست ہے.جو لوگ قادیان نہیں آتے اُن کے دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ جس بستی کو دُنیا کے فیض پہنچانے کے لئے چن لیتا ہے اسے برکات کے حصول کا ذریعہ بناتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے جب ضرورت ہوتی ہے تو اُس مقام پر رسول بھیجا جاتا ہے جو دنیا کے لئے بطور ماں کے ہوتا ہے اور جو بچہ ماں کی چھاتی سے دودھ نہیں پیتا وہ کمزور ہو جاتا ہے اور جلد ترقی نہیں کر سکتا.پس اگر کسی کو یہ نظر نہ بھی آئے کہ قادیان آنا مفید ہے تو جب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قادیان کو اس زمانہ میں دُنیا کے لئے ماں کا درجہ دیا گیا ہے تو ضرور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.اپنے علاقہ میں تبلیغ پھر تبلیغ کے لئے میں نے یہ تحریک کی ہے کہ اپنے اپنے اپنے علاقوں میں احباب کام کریں اور ہر فرد کو اس میں حصہ لینا چاہئے.اس کے لئے میں نے سکیمیں تجویز کی ہوئی ہیں.احباب کو ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ ہر جگہ ہماری آواز پہنچ جائے.بجٹ پورا کیا جائے پھر جب بجٹ پاس ہو جائے تو تمام جماعتوں اور ان کے تمام افراد کا فرض ہے کہ اسے پورا کریں.جب آمد بجٹ کے مطابق نہیں ہوتی تو سلسلہ کے کاروبار کو نقصان پہنچتا ہے.روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے مبلغ تبلیغ کے لئے سفر نہیں کر سکتے اور کئی ضروری اور اہم کام رُک جاتے ہیں.پس بجٹ کو پوری کوشش سے پورا کرنا چاہئے.اقتصادی حالت کی اصلاح کی تجاویز اس دفعہ کے ایجنڈا میں اقتصادی ترقی کے لئے کئی تجاویز کا ذکر ہے.اس وقت ہماری جماعت کی اقتصادی حالت بہت گری ہوئی ہے.اس کے درست کرنے کے لئے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۴۳ ت ۱۹۳۱ء بھی کوشش کرنی چاہئے.اقتصادی اور مالی کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ مال کی حقیقی قیمت نہیں لگاتے.ہماری جماعت کا یہ کریکٹر بن چکا ہے کہ دین کو دُنیا پر مقدم کرنا ہے اور دُنیا حقیر چیز ہے.وہ چونکہ دین کے لئے قربانیاں کرتے رہتے ہیں اس وجہ سے روپیہ کی قیمت ان کی نظر سے گر گئی ہے اور اس وجہ سے نقصان اُٹھا رہے ہیں.ہماری جماعت کے لوگ اِن حالات میں دین میں ترقی نہیں کر سکتے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری جماعت میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ بعض لوگ دوسروں سے روپیہ لیتے ہیں اور پھر ادا نہیں کر سکتے اور کام کاج سے بھی جاتے ہیں.ایک دوست نے بتایا ایک صاحب اس لئے چھپے ہوئے تھے کہ ایک پٹھان اُن سے روپیہ کا مطالبہ کرتا تھا.وہ رات کو گھر آتے اور دن کو کہیں چلے جاتے.آخر انہیں مجبور کر کے جب حساب کرایا گیا تو بجائے اس کے کہ انہیں کچھ دینا آتا اُن کا روپیہ پٹھان کے ذمہ نکلا.تو جماعت کے لوگوں کی مالی حالت اس وجہ سے بہت رگری ہوئی ہے کہ وہ مال کی قیمت حقیقی طور پر نہیں لگاتے.بعض تو خود تنگی اُٹھاتے ہیں اور دینی کاموں کے لئے مالی قربانی کرتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں احمدی ہونے سے کیا فائدہ ہوا ، ہم مالی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں.فضول اخراجات سے بچو اس کے متعلق ایک بات جس کا مجلس شوری سے تعلق نہیں بلکہ نصیحت ہے اسے پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ فضول اخراجات سے بچنے کی کوشش کی جائے.باہر کی جماعتوں کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتا مگر قادیان کے لوگوں کے متعلق کہتا ہوں کہ ان کی بعض باتوں میں اسراف پایا جاتا ہے.بے شک شادی بیاہ کے موقع پر اگر توفیق ہو تو خرچ کرنا چاہئے اور لڑکی کو زیور کپڑے دینے چاہئیں مگر یہاں یہ حالت ہے کہ جو لوگ نکاح کے لئے مجھے رقعہ لکھتے ہیں وہ یہ درج کرتے ہیں کہ اتنا مہر، اتنا زیور اور اتنا کپڑا ہوگا.اگر ہمارے پاس روپیہ ہے تو ہم خواہ کروڑ روپیہ کا زیور ڈال دیں اور قیمتی سے قیمتی کپڑے بنا دیں تو اسلام منع نہیں کرتا لیکن لڑکے والوں.یہ کہیں کہ اتنا زیور اور اتنا کپڑا لا ؤ تب نکاح ہوگا یہ کمینگی ہے.یہ سوال کرنے کی شکل ہے اور اس طرح ہم خود ایک عزیز رشتہ دار کو مصیبت میں ڈالتے ہیں اور مقروض بناتے ہیں.اس کے اعزاز کو صدمہ پہنچاتے اور اسے بنٹے کے ماتحت کر دیتے ہیں.اس قسم کی باتیں
خطابات شوری جلد اوّل ۴۴۴ رت ۱۹۳۱ء نقصان دہ ہیں.ہم کپڑوں پر خرچ کریں مگر اپنی حیثیت کے مطابق ، زیور ڈالیں مگر اپنی مالی حالت کے لحاظ سے.پس اس قسم کی فضول باتیں ترک کر دینی چاہئیں.لڑکے والوں کو یا لڑکے کو اس بات کے لئے مجبور کرنا کہ اتنا زیور اور اتنا کپڑا لا ؤ، نہایت معیوب بات ہے.اسی طرح ولیمہ پر دیکھا گیا ہے کہ یوں تو بعض لوگ معمولی چندہ دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے لیکن ولیمہ پر ۸۰ - ۱۸۰ اور ۱۰۰.۱۰۰ روپیہ خرچ کر دیتے ہیں حالانکہ ان کے تعلقات لوگوں سے اتنے وسیع نہیں ہوتے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کو بلا ئیں.ان کے مدنظر صرف نمائش ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ہی ذبح کرو گے جسے ہمت نہیں وہ اس قسم کے زیادہ اخراجات کیوں برداشت کرے.اس قسم کی باتوں میں بھی جماعت کا روپیہ ضائع ہوتا ہے.اسی روپیہ کو اقتصادی اصلاح میں لگانا چاہئے.زمیندار لوگ کیا کریں ایک اور بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے اندازہ لگایا ہے موجودہ حالات میں زمیندار لوگ زمینوں کی آمدنی پر گزارہ نہیں کر سکتے.عام طور پر ایک زمیندار کے پاس تین چار پانچ گھماؤں زمین ہوتی ہے بڑے زمینداروں کے پاس سو دو سو تین سو چار سو گھماؤں ہو سکتی ہے مگر ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں اور اوسط زیادہ سے زیادہ دس گھماؤں کی ہے.اس میں سارا سال محنت کر کے اگر ہر سال گیہوں ہی بوئی جائے اور فرض کر لیا جائے کہ فی گھماؤں دس من اوسط ہے جو زیادہ سے زیادہ اندازہ ہے تو سو من غلہ حاصل ہو گا اور آجکل کے ریٹ کے مطابق اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت دو سو روپیہ ہو گی.اس میں زمیندار کے کمین بھی شامل ہوں گے.گورنمنٹ کا ٹیکس بھی ادا کرنا ہوگا.بیلوں کا خرچ بھی برداشت کرنا ہوگا.یہ سب اخراجات لگا کر زیادہ سے زیادہ سو روپیہ بچے گا.گویا آٹھ سوا آٹھ روپے ماہوار آمدنی ہو گی.اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی.جس ملک کے لوگوں کی آمدنی کی یہ اوسط ہو وہ کس طرح ترقی کر سکتا ہے.ایک زمیندار جو سارا سال خود محنت کرتا ہے، اُس کی بیوی بچے اُس کی محنت میں مدد کرتے ہیں اور پھر اُسے سوا آٹھ روپے کی آمدنی ہوتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں ایک معمولی مزدور جس کی بیوی بچے آرام سے گھر میں رہتے ہیں جو کوئی سرمایہ خرچ نہیں کرتا ، وہ
خطابات شوری جلد اوّل ۴۴۵ ت ۱۹۳۱ء کم از کم بیس روپے ماہوار کماتا ہے مگر ایک زمیندار جو اپنی بڑی شان سمجھتا ہے ۲۲ ،۲۳ سو روپیہ کا سرمایہ زمین اور اس کے متعلقات کی شکل میں خرچ کرتا ہے، بیوی بچوں کو اپنی محنت مشقت میں شریک رکھتا ہے، جو دن رات کام کرتا ہے سوا آٹھ روپے ماہوار کماتا ہے.پس زمیندارہ کرنے والے لوگ قطعاً ترقی نہیں کر سکتے اور جب تک مسلمان اسے چھوڑ کر دوسرے کا موں کو اختیار نہ کریں گے ترقی نہیں کر سکیں گے.پھر آج جس کے پاس آٹھ دس گھماؤں زمین ہے اس کی اولاد میں تقسیم ہو کر وہ اور بھی تھوڑی حصہ میں آتی ہے.اس طرح کہاں ترقی ہو سکتی ہے.اگر ہماری جماعت کے لوگ بھی اسی حالت میں رہے تو جماعت ترقی نہیں کر سکے گی اس لئے ضروری ہے کہ ایسے ذرائع اختیار کئے جائیں جن گزارہ چل سکے.زمین اپنے میں سے کسی ایک کے سپرد کر دی جائے اور باقی کے حصہ دار دوسرے کاموں کی طرف توجہ کریں.اشتمال اراضی بعض جگہ گورنمنٹ اشتمال اراضی کر رہی ہے.یہ مفید چیز ہے مگر ہم میں چونکہ تر کے ہمیشہ تقسیم ہوتے رہتے رہیں گے اس لئے اشتمال اراضی کا کوئی مستقل فائدہ نہیں ہو سکتا تاہم جس حد تک فائدہ اُٹھایا جا سکے اُٹھانا چاہئے.اصل کوشش یہ ہونی چاہئے کہ لوگوں کے دلوں سے یہ خیال نکال دیا جائے کہ زمیندارہ سب سے معزز پیشہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو فرماتے ہیں جس کے گھر میں ہل آ گیا وہ ذلیل ہو گیا.شے جب تک زمیندار یہ بات سمجھ نہ لیں ترقی نہیں کر سکتے.مختلف پیشے سیکھے جائیں ہر جگہ کے لوگوں کو اندازہ لگانا چاہئے کہ ان کے پاس گزارہ کے لئے کافی زمین ہے یا نہیں.اگر کافی نہ ہو تو اپنی اولاد میں سے کسی ایک دو کے سپرد زمین کر کے باقیوں کو مختلف کام سکھلائیں.کسی کو لو ہار، کسی کو جولاہا، کسی کو صناع، کسی کو تاجر بنا ئیں.اس طرح ترقی کرسکیں گے.کوئی پیشہ ذلیل نہیں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہندوستان میں پیشوں کو ذلیل سمجھا جاتا ہے اور زمیندارہ کو معزز پیشہ قرار دیا جاتا ہے.مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایک لوہار، ایک ترکھان، ایک جولاہا جو کام کرتا ہے اس میں ذلت کیا ہے.ان کاموں کو ذلیل قرار دینے والے کبھی غور نہیں کرتے کہ انگریزوں کی ساری ترقی
خطابات شوری جلد اوّل ۴۴۶ مجلس مشہ رت ۱۹۳۱ء کی بنیاد یہی پیشے ہیں.اور وہ انہی کے ذریعہ ہم پر حکومت کر رہے ہیں.اہلِ ہند اس لئے ذلیل ہو گئے کہ انہوں نے پیشوں کو ذلیل سمجھا اور وہ لوگ معزز بن گئے جنہوں نے موچی کا کام کیا، جولا ہے کا کام کیا، لوہار کا کام کیا.پس اس خیال میں تبدیلی پیدا کرنی چاہئے کہ کوئی پیشہ ذلیل ہے اور مختلف پیشوں اور تجارت کی طرف توجہ کرنی چاہئے.تجارت کرنی چاہیئے تجارت کے متعلق عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے لئے سرمایہ کی ضرورت ہے اور سرمایہ ہمارے پاس نہیں اس لئے ہم تجارت نہیں کر سکتے.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے ایک ہندو نے بتایا تجارت ڈیڑھ پیسہ سے شروع کرنی چاہئے.فرماتے ایک شخص کو دیکھا جو لکھ پتی تھا مگر اس کا بیٹا پکوڑوں کی دوکان کرتا تھا.پوچھا یہ کیا تو کہنے گا اگر ابھی اسے سرمایہ دے دیا جائے تو ضائع کر دے گا.اب اتنے کام سے ہی اسے تجربہ حاصل کرنا چاہئے ، یہ اسی سے اپنی روٹی چلاتا ہے.غیرممالک میں جانا پھر غیر ممالک میں جانا بھی ترقی کا ایک ذریعہ ہے.ہمارے ملک کے لوگ عام طور پر اپنے ملک میں ہی پڑے رہنے کے عادی ہیں اس وجہ سے ترقی سے بھی محروم ہیں.امریکہ، یورپ، آسٹریلیا وغیرہ کے لوگ دُور دراز ملکوں میں جاتے ہیں اور قسمت آزمائی کرتے ہیں.امریکہ، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے لوگ یہاں آتے ہیں لیکن یہاں کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اپنے ملک سے باہر نہ جائیں خواہ کھو کے ہی مریں.قرآن میں بار بار کہا گیا ہے کہ دُنیا میں پھرو.پس جنھیں اپنے ملک میں ترقی کی صورت نہ نظر آئے انہیں دیگر ممالک میں جانا چاہئے.اس طرح بہت سے لوگ ترقی کر سکتے ہیں.ہمارے ایک جالندھر کے دوست آسٹریلیا میں پھیری کے لئے جاتے ہیں.وہ بتاتے ہیں کہ کم از کم پندرہ روپیہ روزانہ کی آمد ہوتی ہے.وہ وہاں سے کما کر آ جاتے اور پھر گھر میں رہتے ہیں.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو باہر بھی نکلنا چاہئے ، یہ مالی اور دماغی ترقی کا ذریعہ ہے.با ہمی تعاون پھر ایک نہایت ضروری بات باہمی تعاون ہے.ہم نے دیکھا ہے کانگرس والوں نے باہمی تعاون سے کس طرح گورنمنٹ کو نقصان پہنچایا.اسی طرح فائدہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے.مگر ہماری جماعت نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں
خطابات شوری جلد اوّل ۴۴۷ رت ۱۹۳۱ء کی.ہمارے سامنے کئی سکیمیں آتی ہیں.کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں مگر کوئی کام نہیں ہوتا.میرے سامنے ایک سکیم ہے جس کا میں نے سالانہ جلسہ پر بھی ذکر کیا تھا اور وہ تاجروں اور صناعوں کے متعلق ہے یعنی یہ کہ جو چیز ہماری جماعت کے لوگ بنا ئیں اُس کے متعلق ان احمدی تاجروں کو جو وہ چیز فروخت کرتے ہوں لکھا جائے کہ ان سے خریدو اور اس طرح با ہمی تعاون کرو.اس وقت میرے سامنے ایک عزیز بیٹھا ہے اس کے والد صاحب کا ایک واقعہ یاد آ گیا.چودھری نصر اللہ خان صاحب مرحوم یہاں ایک دفعہ آئے اور حضرت خلیفہ اوّل کے زمانے میں اُنہوں نے یہاں کپڑے بنوائے.میں نے اُن سے پوچھا آپ یہاں کیوں کپڑے بنواتے ہیں؟ کہنے لگے میں ایک سال کے لئے کپڑے یہاں سے ہی بنوایا کرتا ہوں تا کہ یہاں کے کپڑا فروخت کرنے والوں اور درزیوں کو کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچ جائے.یہ ان کے دل میں آپ ہی آپ تحریک ہوئی اور میرے نزدیک ہر احمدی میں یہی روح ہونی چاہئے کہ وہ اپنے بھائیوں کو فائدہ پہنچائے.اگر ہماری جماعت کے لوگ اس روح کے ماتحت کام کریں تو ہماری جماعت کے تاجر اور صناع اس قدر مضبوط ہو سکتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو بھی اپنی طرف کھینچ سکیں.اگر جماعت کے ایسے لوگوں کی فہرستیں بن جائیں جن سے معلوم ہو کہ کون سی چیز کہاں کے احمدی مہیا کر سکتے ہیں تو پھر جسے اس کی ضرورت ہو اُن سے منگا سکتے ہیں اور اِس طرح بہت فائدہ ہوسکتا ہے اور بہت سے لوگوں کے لئے کام نکل سکتا ہے اور ان کا گزارہ بہت اچھا چل سکتا ہے.مشترکہ کام جاری کئے جائیں ایک صورت اقتصادی ترقی کی یہ ہے کہ جماعت کی طرف سے اشترا کی کام جاری کئے جائیں.ہم نے اسی غرض سے ایک سٹور جاری کیا تھا مگر اس سے ایسا دھکا لگا کہ پھر ہوش نہ آئی.حالانکہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ نئے سرے سے اور کام نہ کرتے اور نقصان سے بے دل ہو کر بیٹھ رہتے.انگلستان والوں نے جب ہندوستان میں تجارت شروع کی تو کئی سال تک بڑا نقصان اُٹھاتے رہے مگر انہوں نے کام نہ چھوڑا اور آخر ہندوستان لے ہی لیا.پس کوئی وجہ نہیں کہ ایک دفعہ نقصان ہونے کی وجہ سے ہم کوشش جاری نہ رکھیں.سٹور کے متعلق یہ غلطی
خطابات شوری جلد اوّل ۴۴۸ رت ۱۹۳۱ء ہوئی کہ بہت سا سرمایہ جمع کر لیا گیا جو استعمال نہ کیا جا سکا.یہاں ایسی دوکان چل سکتی ہے جس کا سرمایہ سال میں دو تین دفعہ چکر کھا لے.سٹور میں ۸۰ ہزار کا سرمایہ لگایا گیا جس کے لئے ضروری تھا کہ کم از کم الاکھ روپے کی سالانہ بکری ہوتی مگر یہ ہو نہیں سکتی تھی اس غلطی کی وجہ سے ناکامی ہوئی.دوسرا نقص یہ ہوا کہ جنہوں نے روپیہ دیا اُنہوں نے اپنا سارے کا سارا روپیہ دے دیا.بعض لوگوں کی حالت کو دیکھ کر رونا آتا.اُنہوں نے اپنا سارا جمع کردہ روپیہ لگا دیا اور پھر انہیں روپیہ ملنا مشکل ہو گیا اور اس طرح اُن کی نہایت نازک حالت ہوگئی.اگر کام ایسی طرز پر شروع کیا جائے کہ تھوڑا سرمایہ ہو جو ساری جماعت پر پھیلا کر جمع کیا جائے.مثلاً دس دس روپیہ کا حصہ رکھا جائے اور کوئی جس قدر حصے چاہے خرید لے مگر یہ بات مدنظر رکھے کہ اگر نقصان ہو تو برداشت کر لیا جائے گا تو وہ حالت پیدا نہ ہو گی جو سٹور کے فیل ہونے سے ہوئی.اوّل تو امید ہے کہ اب ہم انشاء اللہ نقصان نہ اُٹھا ئیں گے اور اگر اُٹھا ئیں گے تو پہلے نقصان سے جو سبق حاصل ہو ا ہے اُسے یادرکھ سکیں گے.جرابوں کا کارخانہ اس قسم کے کام کے لئے پچھلے مہینہ ایک تجویز پر غور کیا گیا.اور مولوی عبد الرحیم صاحب درد کو اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے لاہور اور لدھیانہ بھیجا.اور وہ کام یہ ہے کہ جرابوں وغیرہ کا کارخانہ جاری کیا جائے.درد صاحب نے بتایا کہ ڈائریکٹر آف انڈسٹری نے بتایا یہ کامیاب کام ہے.اس سے ۲۵ فیصدی نفع حاصل ہوا ہے.ہمارا ارادہ ہے کہ اس کے لئے جو سرمایہ جمع کیا جائے اُسے اس طرز پر جماعت میں پھیلائیں کہ کوئی شخص اتنے حصے نہ لے کہ اگر خدانخواستہ گھاٹا ہو تو اس کے لئے نا قابل برداشت ہو جائے.یہ سکیم امور عامہ والے پیش کریں گے.اسے اس طرح پیچھے نہ ڈالا جائے جیسے پہلے ہوتا رہا ہے.اندازہ لگایا گیا ہے کہ سات ہزار کے سرمایہ سے یہ کارخانہ چل سکتا ہے اور آئندہ اور زیادہ وسیع کیا جا سکتا ہے.صحیح اعداد ناظر صاحب امور عامہ پیش کریں گے.با اثر لوگ بطور شغل کوئی پیشہ اختیار کریں ایک صورت اور بھی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
خطابات شوری جلد اوّل ۴۴۹ ت ۱۹۳۱ء كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّهُ الْمُؤْمِنِ ہر اچھی بات مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے جہاں اسے پائے لے لے.اس کے مطابق ایک سبق ہم گاندھی جی سے بھی لے سکتے ہیں.اُن کی غرض تو کھد ربنانے سے یہ ہے کہ انگریزوں کو نقصان پہنچا ئیں لیکن ہم اس قسم کی تحریک اس لئے جاری کر سکتے ہیں کہ جماعت میں پیشوں سے جو نفرت ہے وہ دُور ہو جائے.اگر ایسی تحریک ہو کہ جماعت کے بااثر لوگ شغل کے طور پر ان پیشوں میں سے کوئی شروع کر دیں جنھیں ذلیل سمجھا جاتا ہے تو اس طرح لوگوں کے دلوں میں ان کی نفرت دور ہو جائے گی.مثلاً اگر میں ہتھوڑا لے کر کام کروں یا کھڑی پر کپڑا یوں تو جو لوگ میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، اُن کے دلوں سے ان پیشوں کی تذلیل کا خیال جاتا رہے گا.یورپ میں معزز لوگ اس قسم کا کوئی نہ کوئی شغل اختیار کر لیتے ہیں.اس سے ورزش بھی ہوتی ہے اور پیشوں سے نفرت بھی دور ہوتی جاتی ہے.احمد یہ یونیورسٹی ایجنڈا میں ایک تجویز احمد یہ یو نیورسٹی کے متعلق ہے.یہ کام بہت بڑا ہے اور اس کی سکیم بھی ایسی ہے جو کہ قابلِ اصلاح ہے.اس وقت میں اس کی طرف صرف یہ اشارہ کرتا ہوں کہ سب کمیٹی یہ بات مدنظر رکھے کہ ہمارے سامنے مذہبی تعلیم کے دو پہلو ہیں.ایک یہ کہ ہمارے نوجوانوں کی تعلیم ایسے رنگ میں ہو کہ وہ کسی سے کسی علم میں پیچھے نہ رہیں.اگر ہمارا کوئی مبلغ دُنیوی تعلیم سے کورا ہوگا تو جہاں وہ کوئی ایسی بات کرے گا جو درست نہ ہوگی تو لوگ اس پر ہنسیں گے.حضرت خلیفہ اول ایک قصہ سُنایا کرتے جو علم النفس کے ماتحت بہت لطیف ہے.فرماتے ایک بادشاہ کو ایک بناوٹی بزرگ سے بہت عقیدت تھی.وہ مدتوں اُس کے پاس جاتا رہا.ایک دن اُس بزرگ کو شوق ہوا کہ بادشاہ پر سیاسی امور کے لحاظ سے بھی اثر ڈالوں.اس خیال سے اُس نے کہا آپ کو ملک کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے.مسلمانوں میں ایک بادشاہ سکندر گزرا ہے جو بہت مشہور تھا وہ ملک کی بڑی خدمت کرتا تھا.یہ سُن کر بادشاہ اُٹھ بیٹھا اور پھر کبھی اُسے منہ نہ لگایا.تو مبلغ اگر عام علوم سے واقف نہ ہو تو ایسی بات کر سکتا ہے جس سے سُننے والوں کو اُس سے نفرت پیدا ہو جائے لیکن اگر وہ دیگر علوم سے بھی واقف ہو تو اُس کی بات بہت وزن دار ہوگی.اس وجہ سے ہمارے نوجوانوں کے لئے ہر قسم کے علوم پڑھنے کا انتظام ہونا
خطابات شوری جلد اوّل ۴۵۰ ت ۱۹۳۱ء ضروری ہے تا کہ کسی مجلس میں وہ کوئی بے علمی کی بات نہ کریں.دوسری بات یہ ضروری ہے کہ ان کی تربیت اعلیٰ درجہ کی ہو.ابھی ایک دوست ایک عالم کا ذکر کر رہے تھے کہ ان کا خود تقریر کرنا تو الگ رہا اگر کوئی اور ان کا لکھا ہو امضمون ان کے سامنے سنائے تو وہ کانپنے لگ جاتے تھے.غرض تربیت نہایت ضروری ہے.نہ صرف اخلاق کی بلکہ اپنے پیشہ کی بھی.اس کے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی.موقع اور محل کے لحاظ سے جو شخص اپنی قابلیت صرف نہیں کر سکتا وہ کامیاب نہیں ہوسکتا.مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص کی حالت کو مدنظر رکھ کر اُس سے کلام کرے.اس کے لئے دو باتیں ضروری ہیں.ایک تو یہ کہ مبلغوں کا ایسا علم ہو کہ دوسروں سے اس علم میں پیچھے نہ ہوں.دوسرے تربیت ایسی ہو کہ نہ صرف خود نیک ہوں بلکہ دوسروں کو نیک بناسکیں.ان دونوں باتوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کی نگرانی کرنے والا محکمہ ہو.لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی چادر کو دیکھ کر پاؤں پھیلائیں.مالی مشکلات پہلے ہی زیادہ ہیں ان کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہوگا.آمد کا بجٹ بجٹ کے متعلق اس موقع پر میں صرف ایک اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ پچھلے سال جو کمیشن بیٹھا تھا اُس کے کہنے پر یہ تجویز کی گئی تھی کہ آمد کا بھی بجٹ ہوا کرے.اس سے قبل اس کی اہمیت پر غور کرنے کا موقع نہ ملا تھا اب کے دیکھا کہ باوجود اس کے کہ ملک کی مالی حالت بہت کمزور رہی ، ہر صوبہ کی گورنمنٹ گھاٹے میں رہی مگر میرا خیال ہے بیت المال کی حالت پہلے سے اچھی رہی اور اگر اچھی نہیں رہی تو پہلے سے بُری بھی نہیں رہی.محاسب کہتا ہے کہ اس سال پانچ ہزار زیادہ قرض ہے گزشتہ سال کی نسبت مگر جب یہ دیکھا جائے کہ پچھلے سال ۲۵ فیصدی چندہ مانگا گیا تھا مگر اس سال صرف ۸ فیصدی لیا گیا اور وہ بھی وصیت کرنے والوں اور بجٹ کی مقررہ رقم پوری کرنے والوں سے نہ لیا گیا.اگر اب کے بھی اتنا ہی چندہ لیا جاتا تو آمد بڑھ جاتی.پھر گزشتہ سال میں نے ۱۲ ہزار قرضہ دلایا تھا مگر اب کے نہیں.یہ آمد کا بجٹ بنانے کا نتیجہ ہوا کہ جماعتوں کو خیال رہا کہ آمد کا بجٹ پورا کرنا ضروری ہے.بہت کمیٹی کو ہدایت دوسری تجویز یہ تھی کہ نادہند جماعتوں پر زیادہ بوجھ ڈالا جائے.یہ بھی بہت مفید ثابت ہوئی.ان دو تجاویز کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہم بغیر
خطابات شوری جلد اوّل ۴۵۱ رت ۱۹۳۱ء کوئی خاص بوجھ ڈالنے کے کام چلا سکے.اب بھی بجٹ کمیٹی کوشش کرے کہ بغیر کوئی خاص بوجھ ڈالنے کے کام چل سکے.جہاں تک اقتصادی پہلو کو مدنظر رکھا جا سکے اس کا لحاظ کیا جائے اور جہاں سمجھے کہ ضروری خرچ ہے تو اس کے متعلق یہ بات مدنظر رکھے کہ یہ رقم ایسے ذرائع سے وصول کی جائے کہ خاص چندہ کی ضرورت نہ پیش آئے.اور یہ اسی طرح شرطی ہو جس طرح پچھلے سال تھا.اگر اس طرح دو تین سال بجٹ چلے تو ہم انشاء اللہ قرض بھی اُتار سکیں گے اور کام بھی بہتر طور پر کرسکیں گے.“ اب میں ان امور کو لیتا ہوں جو مجلس مشاورت میں پیش ہوں گے اور جن کے لئے سب کمیٹیوں کے تقرر کی ضرورت ہے.مجلس مشاورت میں پیش ہونے والے امور پہلی تجویز ٹیلیون کے متعلق ہے.یہ ایسا مسئلہ نہیں جس کے لئے سب کمیٹی کی ضرورت ہو.اس کے متعلق ہاں یا نہ کہنا کافی ہے.اس لئے اسے عام اجلاس میں پیش کیا جائے گا.دوسری تجویز عورتوں کے حق نمائندگی کے متعلق ہے.اس پر بھی پہلے کافی بحث ہو چکی ہے.اسے بھی میں سب کمیٹی کے سپرد نہیں کرنا چاہتا، اسے عام اجلاس میں پیش کیا جائے گا.تیسری تجویز وصایا کے متعلق ہے یہ ایسی ہے کہ اسے سب کمیٹی کے سپرد کرنا چاہئے.اسی طرح چوتھی تجویز بھی جو وصایا سے ہی تعلق رکھتی ہے سب کمیٹی میں جانی چاہئے.پانچویں تجویز اشتمال اراضی کے متعلق ہے.اس کے متعلق میں کہہ چکا ہوں کہ یہ عارضی علاج ہے.مگر ایجنڈا میں چونکہ لکھا ہے کہ نظارت امور عامہ سکیم پیش کرے گی اور ممکن ہے کہ وہ سکیم لمبی ہو اس لئے اسے بھی سب کمیٹی کے سپر د کرتا ہوں.چھٹی تجویز دیہات میں پنچائتیں مقرر کرنے کے متعلق ہے.یہ کوئی پیچیدہ سوال نہیں اس لئے سب کمیٹی کے سپرد کرنے کی ضرورت نہیں.ساتویں تجویز بہت اہمیت رکھتی ہے جو کو آپریٹو سوسائٹیوں کے جاری کرنے کے متعلق ہے.قطع نظر اس سے کہ اس کے متعلق مذہبی بحث بھی آ سکتی ہے اب تو یہ بحث ہو رہی ہے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۵۲ رت ۱۹۳۱ء کہ کو آپریٹو بنک مفید بھی ہیں یا نہیں اس تجویز کو بھی میں سب کمیٹی کے سپرد کرتا ہوں.کوشش کی جائے کہ اس کمیٹی کے ممبر علیم اقتصادیات کے بھی واقف ہوں کیونکہ قرض کے متعلق یہ بھی بحث آئے گی کہ قرض لینے کو آسان بنانا اسے بڑھاتا ہے یا کم کرتا ہے.یعنی یہ بات قابل غور ہے کہ قرض کے حصول میں روک ڈالیں تو بڑھے گا یا کم ہو گا.اس قسم کی باتوں پر غور کرنا چاہئیے.آٹھویں تجویز جماعت میں تجارتی ترقی میں تعاون کرنے کے متعلق ہے.اس پر ابھی میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں اسے بھی سب کمیٹی کے سپر د کرتا ہوں.نویں تجویز جو جماعت کی اقتصادی ترقی اور امداد پسماندگان کے متعلق ہے، یہ بھی سب کمیٹی کے سپرد کی جاتی ہے.دسویں، گیارہویں، بارہویں تجاویز کو بھی سب کمیٹی کے سپرد کرتا ہوں اور بجٹ کو بھی.“ اس کے بعد نظارت امور عامہ (۲) نظارت بیت المال (۳) نظارت تعلیم و تربیت اور (۴) مقبرہ بہشتی کی تجاویز کے متعلق سب کمیٹیاں حضور نے مقرر فرما ئیں اور اجلاس ۶ بجے شام ختم ہوا.دوسرا دن مجلس مشاورت کے دوسرے دن ۴.اپریل ۱۹۳۱ء کو سب کمیٹی بہشتی مقبرہ کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی کہ : - اگر کوئی موصی اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا حصہ وصیت بصورت ہبہ یا نقد ادا کرنے کے بغیر فوت ہو جائے تو وہ اُس وقت تک مقبرہ بہشتی میں دفن نہ کیا جائے گا جب تک کوئی معتبر شخص اس کا حصہ وصیت ادا کرنے کا ذمہ وار نہ ہو جائے.البتہ بعض استثنائی صورتوں میں جائز ہوگا کہ محکمہ متعلقہ موصی کے اخلاص اور اس کی اپنی زندگی میں بیشتر حصہ وصیت کی ادائیگی کو مدنظر رکھ کر اُس کی بقیہ قلیل حصہ وصیت کی نسبت اس کے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۵۳ ورثاء کی ذاتی ضمانت قبول کر کے موصی کو مقبرہ بہشتی میں دفن کرنے کی اجازت دی جاوے.“ ت ۱۹۳۱ء اس تجویز پرممبران مجلس کی تفصیلی بحث کے بعد حضور نے فرمایا: - اس تجویز کے متعلق بحث کافی ہو چکی ہے.اب صرف ضرورت یہ ہے کہ رائے دریافت کی جائے.جہاں تک میں نے سمجھا ہے بہت سی گفتگو اور تجویز میں ایسی ہیں جو آپس میں اختلاف نہیں رکھتیں.احباب نے محض جوش تقریر میں خیال کیا کہ اختلاف ہے.بعض دوستوں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ وصیت کے ابتدائی مراحل پر ان مشکلات کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے.مقبرہ بہشتی والے کہتے ہیں کہ کوشش کی جاتی ہے مگر باوجود ابتدائی کوششوں کے احباب کو تا ہی کر جاتے ہیں.اب دیکھنا یہ ہے کہ ابتدائی کوششوں کا طریق صحیح ہے یا نہیں.اس وقت یہاں جو موصی بیٹھے ہیں وہ اپنے معاملہ میں سمجھ سکتے ہیں کہ انجمن کے کارکن ضروری امور کے متعلق توجہ دلاتے رہتے ہیں یا نہیں.اگر نہیں دلاتے تو وہ سمجھ سکتے ہیں کہ باوجود وصیت میں ضروی امور کے موجود ہونے کے اُن پر عمل نہیں ہوا.اور وہ زور دے سکتے ہیں کہ جو تدابیر مقرر ہو چکی ہیں اُن پر پوری طرح عمل کیا جائے.لیکن اگر اپنے نفوس کے متعلق سمجھتے ہیں اور اپنے تجربہ کی بناء پر کہہ سکتے ہیں کہ اس رنگ میں برتاؤ نہیں کیا گیا جیسا کہ وصیت کا منشاء ہے اور جس طرح ان کو مشکلات کا حل بتایا گیا ہے اس پر عمل کرنے کے باوجود مشکلات پیش آتی ہیں تو ماننا پڑے گا کہ اور تجاویز کی ضرورت ہے.اس پر سوال پیدا ہو گا کہ وہ تجاویز کیسی ہیں.میں مشکلات خلاصتاً بتا دیتا ہوں جو اصحاب اس بارے میں کوئی نئی تجاویز کے خلاف ہیں وہ غور کر لیں.(1) جب وارثوں سے ضمانت لی جاتی ہے اور لکھا لیا جاتا ہے کہ وہ موصی کا حصہ وصیت ادا کر دیں گے مگر پھر بھی مشکلات پیش آتی ہیں تو ایک تیسرا شخص جس نے وقت ٹلانے کے لئے ضمانت نامہ لکھ دیا ہو گا اس کی وجہ سے کیوں مشکلات نہ پیش آئیں گی.موصی کے وارث کو تو شرمندہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ تم نے جائیداد پر قبضہ کیا ہے کیوں حصہ وصیت ادا نہیں کرتے ؟ مگر دوسرے کو اس طرح نہیں کہا جا سکتا.سیکرٹری یا پریذیڈنٹ جماعت جو میت کے ساتھ آئے گا وہ لاش کو واپس لے جانے کی بجائے کہہ دے گا کہ میں حصہ وصیت
خطابات شوری جلد اوّل ۴۵۴ رت ۱۹۳۱ء کی ادائیگی کی ضمانت دیتا ہوں لیکن جب حصہ ادا نہ ہوگا تو وہ کہہ دے گا میں موصی کی جائیداد کا وارث نہیں ہوا.میں نے اس بناء پر اور اس امید پر اقرار لکھ دیا تھا کہ وارث ادا کر دیں گے.اب اگر وہ ادا نہیں کرتے تو میں کیا کروں.شیخ محمد صدیق صاحب اس بناء پر کہتے ہیں اس طرح تکالیف زیادہ بڑھ جائیں گی کیونکہ اس صورت میں وصیت کی رقم ادا کرنے والا اخلاقی طور پر اُس کے ادا کرنے کا ذمہ وار نہ ہو گا مگر وارث اخلاقی طور پر بھی ذمہ وار ہوتا ہے اور وارث ہونے کی وجہ سے بھی.(۲) لاش لا کر دفن نہ ہونے سے دل شکنی ہوگی اس صورت میں جو تجویز کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں جو موجودہ طریق ہے وہی رہے.یعنی جو موقع مناسب ہو اس کے مطابق کام کیا جائے اور وہ اس طرح کہ خلیفہ وقت سے پوچھ لیا جائے.یہ طریق تو پہلے بھی جاری ہے مگر سوال یہ ہے کہ خلیفہ اور جماعت کے جو تعلقات ہیں اس صورت میں ان تعلقات کو صدمہ پہنچتا ہے یا نہیں؟ ایسے وقت میں خلیفہ کا اس معاملہ میں دخل دینا بھی مشکلات پیدا کرتا ہے.اگر وہ اس بات پر زور دے کہ روپیہ داخل کرو تو اُس کا تعلق محبت والا نہیں بلکہ لین دین والا سمجھا جائے گا.اور اگر اجازت دے تو پھر سوال ہو گا کہ فلاں کو اجازت دی گئی اور فلاں کو کیوں نہیں دی گئی.اِس وجہ سے میں اس میں دخل نہیں دیتا اور کہتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کام کے لئے جو کمیٹی مقرر کی ہے اُس کے پاس جاؤ.زیادہ سے زیادہ میں اتنی سفارش کر دیتا ہوں کہ ان حالات میں اگر نرمی کر سکیں تو کر دیں.پس زیر بحث سوال یہ ہے کہ ایسا قانون بنایا جائے جس سے مشکلات حل ہو جائیں.سب کمیٹی کہتی ہے جو موصی اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا حصہ وصیت بصورت ہبہ یا نقد ادا کرنے کے بغیر فوت ہو جائے وہ اُس وقت تک مقبرہ بہشتی میں دفن نہ کیا جائے جب تک کوئی معتبر شخص اُس کا حصہ وصیت ادا کرنے کا ذمہ دار نہ ہو جائے.لیکن اگر موصی نے حصہ وصیت کا بیشتر حصہ اپنی زندگی میں ادا کر دیا ہو اور تھوڑا باقی رہ گیا ہو تو کمیٹی دفن کرنے کی اجازت دے سکتی ہے اور اس کے لئے ورثا کی ذاتی ضمانت کافی سمجھی جائے گی.قاعدہ کے لحاظ سے پہلے میں سب کمیٹی کی تجویز کے متعلق آراء لینا چاہتا ہوں.جو
خطابات شوری جلد اوّل ۴۵۵ دوست اس کی تائید میں ہیں وہ کھڑے ہو جائیں“.۷۲ آرا ء سب کمیٹی کی تجویز کی تائید میں شمار کی گئیں.ت ۱۹۳۱ء جو دوست اس تجویز کی تائید میں نہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جس طرح پہلے کیا جاتا ہے یعنی ورثاء کی ضمانت پر دفن کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے اُسی طرح کیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں“.۱۵۶ را ئیں اس کی تائید میں شمار ہوئیں ان کے علاوہ عورتوں کی انجمنوں کی جو رائیں ایجنڈا کی تجویز کے متعلق آئی ہیں وہ سُناتا ہوں“.اس کے بعد حضور نے وہ آراء سُنا ئیں اور فرمایا کہ : - میں سمجھتا ہوں اس بارے میں مردوں نے جورا ئیں دی ہیں ان سے عورتوں کی را ئیں کم اہمیت نہیں رکھتیں.اور انہوں نے حق قائم کر لیا ہے کہ اہم معاملات میں وہ بھی لیہ رائیں دیں.فیصلہ میرے نزدیک ان مشکلات کا حل جو وصایا کے متعلق پیش آتی ہیں ایگزیکٹو (EXECUTIVE) طریق سے ہی عمدگی کے ساتھ ہوسکتا ہے بجائے اس کے کہ اس بارے میں کوئی قانون بنایا جائے.رسالہ الوصیت میں جو قانون موجود ہے اُسے استعمال کیا جائے.جائیداد میں کئی قسم کی ہو سکتی ہیں.ایک قسم جائید داد کی ایسی ہے کہ اس کا نہ ہبہ ہو سکتا ہے اور نہ وصیت، جیسے جاگیریں ہیں مگر بعض جائیدادیں ایسی ہوتی ہیں جن کا ہبہ ہو سکتا ہے مگر وصیت نہیں ہو سکتی.اور بعض جائیدادیں ایسی ہوتی ہیں جن کی وصیت بھی کی جاسکتی ہے.ان صورتوں میں مقبرہ بہشتی کی کمیٹی کا فرض ہونا چاہئے کہ دیکھے وصیت کرنے والے کی جائیداد کس قسم کی ہے.جو شخص وصیت کرنا چاہے اُس سے پہلا سوال ہی یہ ہونا چاہئے کہ تمہاری جائیدادکس قسم کی ہے؟ اگر تمہارے ورثاء تمہاری وفات کے بعد حصہ جائیداد دینے سے انکار کر دیں تو پھر بھی وصول کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ اگر وصیت کی صورت میں انکار کر سکتے ہوں تو کیا ہبہ کی صورت ایسی ہے کہ حصہ جائیداد وصول کیا جا سکے؟ اگر کسی صورت میں بھی جائیداد کا حصہ نہ
خطابات شوری جلد اوّل ۴۵۶ رت ۱۹۳۱ء لے سکیں تو کہہ دینا چاہئے وصیت اس صورت میں منظور کی جاسکتی ہے جب کہ تم اپنی زندگی میں حصہ جائیداد کی قیمت ادا کر دو (۲) یا اگر ایسی جائیداد ہے کہ جس کا ہبہ ہو سکتا ہے تو ہبہ کر دو.اگر وہ ہبہ کر دے تو وصیت منظور کر لینی چاہئے ورنہ نہیں.(۳) اگر ایسی جائیداد ہے کہ اس کی وصیت ہوسکتی ہے تو وصیت کرا لیں.وصیت کی منظوری کے لئے کافی ہو گا.اور سوائے اس کے کہ وصیت لکھانے میں کسی قسم کا نقص رہ جانے کی وجہ سے ہم حصہ جائیداد وصول نہ کر سکتے ہوں وصیت کرنے میں اور کوئی نقص نہ ہو تو وصیت کرنے والے کے وارثوں کا یہ جائز مطالبہ ہو گا کہ اُسے مقبرہ بہشتی میں دفن کیا جائے کیونکہ جب اس وصیت کا اطلاق مرنے کے بعد اُس کی جائیداد پر ہوتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اُسے دفن نہ کیا جائے.اس صورت میں یہی طریق اختیار کرنا چاہئے کہ ورثاء سے جائیداد کے متعلق معاہدہ ہو جانا چاہئے کہ وہ رقم ادا کر دیں.پس اس بارے میں یہ تین صورتیں اختیار کرنی چاہئیں.(۱) اگر جائیداد کے حصہ کا ہبہ نہ ہو سکتا ہو اور نہ وصیت تو اس صورت میں وصیت کرنے والے کو اپنی زندگی میں حصہ جائیداد کی قیمت ادا کرنی چاہئے اور وصیت کا سرٹیفکیٹ اُس وقت جاری کیا جائے جب جائیداد کی قیمت ادا ہو جائے یا یہ شرط کر لی جائے کہ اگر زندگی میں حصہ جائیداد کی قیمت ادا نہ ہوئی تو فوت ہونے پر وصیت منسوخ ہو جائے گی.(۲) اگر ہبہ ہو سکتا ہو لیکن وصیت کرنے والے نے ہبہ کی بجائے وصیت کی ہو حالانکہ وصیت قانونی لحاظ سے اُس جائیداد کی نہ ہو سکتی ہو تو اسے کافی نہ سمجھا جائے جب تک ہبہ نہ کرا دے اور سرٹیفکیٹ اُس وقت جاری کیا جائے جب قانونی لحاظ سے بعد وفات موصی حصہ جائیداد وصول کر لینے کا اطمینان ہو جائے.(۳) اگر قانون مجاز کرتا ہو کہ وصیت کر دے اور کوئی وصیت کر دیتا ہے تو وہ اپنا فرض ادا کر دیتا ہے.اُسے سرٹیفکیٹ دے دینا چاہئے اور مقبرہ بہشتی میں دفن کرنا چاہئے.اُس وقت یہ دیکھنا ہو گا کہ وصیت میں کوئی قانونی نقص تو نہیں رہ گیا.اگر قانونی طور پر کوئی نقص رہ گیا ہو گا تو اس کی ذمہ واری مقبرہ بہشتی کے کارکنوں پر بھی عائد ہو گی.اور اگر کوئی
خطابات شوری جلد اوّل ۴۵۷ رت ۱۹۳۱ء قانونی نقص نہیں ہوگا تو کوئی وجہ نہیں کہ مقدمہ کر کے حصہ جائیداد نہ لے سکیں اور جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسالہ الوصیت میں تحریر فرمایا ہے.اگر وصیتی مال کے متعلق کوئی جھگڑا پیش آوے تو اس جھگڑے کی پیروی میں اخراجات ہوں وہ تمام وصیتی مالوں میں سے دیئے جائیں گے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی صورتیں آپ نے تسلیم کی ہیں جن میں وصیت تو جائز ہوگی مگر ورثاء اُس میں روکیں ڈالیں گے.اُس وقت مقدمہ کر لیا جائے اور اس کا خرچ صیغہ مقبرہ بہشتی ادا کرے.اس صورت میں مرنے والے کی لاش دفن کرنے میں کوئی روک نہ ڈالنی چاہئے کیونکہ اس میں اُس کا کوئی قصور نہیں اور انجمن کا فرض ہے کہ اُس کی جائیداد کا حصہ وصول کرنے کے لئے پورا زور لگائے.“ ٹیلیفون لگوانے سے متعلق تجویز نظارت اعلیٰ کی طرف سے ایک تجویز بعض دفاتر میں ٹیلیفون لگوانے سے متعلق تھی بعض ممبران کے اظہار رائے کے بعد حضور نے فرمایا: - اس کے متعلق رائے لینے سے پہلے بتا دیتا ہوں کہ جس امر کی لالچ سید محمد اشرف صاحب نے دی ہے اسے دل سے نکال دینا چاہئیے اور پھر رائے دینی چاہئیے.جب ٹیلیفون کے متعلق تجویز پیش ہوئی تو میں نے کہہ دیا تھا کہ جہاں ٹیلیفون لگایا جائے گا وہاں سے ناظر کے بغیر کسی اور نے ٹیلیفون کیا تو جرمانہ کیا جائے کیونکہ ایسی صورت میں تو میں کچھ بھی کام نہ کرسکوں گا.پس یہ لالچ نہیں ہونا چاہئیے کہ جو چاہے گا ٹیلیفون کر دے گا کیونکہ اگر ٹیلیفون لگ گیا تو ناظر ہی ٹیلیفون کر سکیں گے اور کسی کو اجازت نہ ہوگی.پس جو دوست اس بات کی تائید میں ہیں کہ ٹیلیفون لگایا جائے وہ بغیر اس امید کے کہ اس سے میرے ساتھ باتیں کر سکیں گے کھڑے ہو جائیں.“ ۱۹۸ آراء 66 ر جن دوستوں کی یہ رائے ہو کہ یہ خرچ فی الحال برداشت نہ کرنا چاہئیے وہ کھڑے ہو جائیں،
خطابات شوری جلد اوّل ۴۵۸ ت ۱۹۳۱ء فیصلہ ۴۳ آراء حضور نے اس کے متعلق فیصلہ صادر کرتے ہوئے فرمایا : - آراء لینے کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس کی اہمیت کا زیادہ خیال پیدا ہو سکتا ہے.ایک دوست کی طرف سے جو افریقہ سے چھٹی لے کر آئے ہوئے ہیں.یہ خواہش ظاہر کی گئی کہ ٹیلیفون کا سارا خرچ میں دے دوں گا.ایک دوسرے دوست نے لکھا ہے اگر اس کے لئے الفضل میں اعلان کیا جائے تو سارا خرچ وصول ہوسکتا ہے.میں کثرتِ رائے کی تائید کرتے ہوئے اس تجویز کی منظوری کا اعلان کرتا ہوں.ایک دوست نے اس تجویز کو میری طرف منسوب کیا ہے مگر تجویز کے الفاظ میں اس قسم کا کوئی ذکر نہ تھا.اور میں نے اس کی تردید کر دی تھی لیکن دراصل میری طرف سے ہی یہ تجویز تھی.مگر آراء لینے سے قبل اس کا بتانا موزوں نہ تھا تا کہ غور کرنے سے قبل میری محبت کی وجہ سے اس کے حق میں رائے نہ دی جائے.اس کی اصل ضرورت مجھے ہی پیدا ہوئی.جب کوئی دوست ملنے آتے ہیں تو اُنہوں نے دیکھا ہوگا کہ پہلے گھنٹی بجائی جاتی ہے.اس پر دفتر کا کوئی آدمی میرے پاس آتا ہے اور اسے جو کچھ کہنا ہو کہا جاتا ہے.اسی طرح پرائیویٹ سیکرٹری کو روزانہ کم از کم ۳۰،۲۵ دفعہ او پر آنا جانا پڑتا ہے لیکن اگر ٹیلیفون ہو تو جب کوئی ملاقات کے لئے آئے پرائیویٹ سیکرٹری ٹیلیفون کر کے پوچھ سکتا ہے کہ ملاقات کیلئے وقت مل سکتا ہے یا نہیں.اسی طرح مجھے جو کچھ پوچھنا ہو ٹیلیفون کے ذریعہ پوچھ لیا کروں گا اگر کوئی اہم کام ہوا تو مل لیا کروں گا ورنہ نہیں.اس طرح میرا بھی وقت بچ جائے گا اور دفتر والوں کا بھی.دوسرے یہ بات دماغی کام کرنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں.دوسرے نہیں اور عموماً دماغی کام کرنے والے کم ہوتے ہیں میں نے دیکھا ہے.کئی اہم مضامین الفضل اور سن رائز میں چھپنے سے اس لئے رہ جاتے ہیں کہ جب میرے ذہن میں آتے ہیں اس وقت اخبار والے پاس نہیں ہوتے کہ انہیں نوٹ کر ا دوں اور جب وہ پوچھنے آتے ہیں اس وقت وہ باتیں ذہن میں نہیں ہوتیں.جب میں کوئی کتاب یا اخبار پڑھتا ہوں اس وقت کئی باتیں ایسی سامنے آتی ہیں جن پر لکھنا ضروری ہوتا ہے.اگر ٹیلیفون ہو تو اسی وقت الفضل والوں
خطابات شوری جلد اوّل ۴۵۹ رت ۱۹۳۱ء کو ہدایت دے سکوں کہ فلاں امر کے متعلق اس طرح لکھو اس صورت میں اخبار والوں کو بھی کام کے متعلق زیادہ ہدایات حاصل ہو سکتی ہیں.تیسرے نظارتوں کو مجھ سے اپنے کام کے متعلق ملنے کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس وقت میں علمی کام یا مطالعہ کر رہا ہوں تو اسے زیادہ دیر کے لئے چھوڑ نہیں سکتا لیکن اب اس طرح کرنا پڑتا ہے کہ میں اطلاع ہونے پر کام چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہوں اور ملنے والے کو بلانے اور اس کے آنے پر جو وقت صرف ہوتا ہے اس میں بے کار بیٹھا رہنا پڑتا ہے.اگر کوئی ناظر صاحب آئیں اور مجھے اس وقت فرصت نہ ہو تو ان کا وقت ضائع ہوتا ہے لیکن ٹیلیفون ہو تو اس طرح وقت ضائع نہ ہوگا.چوتھے ایک اہم کام ہوتا ہے مگر اس وقت جو شخص ملاقات کر رہا ہوتا ہے وہ کسی اور کا پاس ہونا گوارا نہیں کرتا.اسی طرح اس اہم کام کے متعلق مشکل پیش آتی ہے لیکن اس میں ملاقات کرنے والے کو کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ اس کی ملاقات کے دوران میں ہی میں کسی کو ٹیلیفون پر کوئی ہدایت دے دوں.غرض بہت سے نقائص پیدا ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے ٹیلیفون کی ضرورت ہے.اور اس سال تو منٹ منٹ پر مشورہ کی ضرورت پیش آتی رہی ہے.اس لئے میں نے کہہ دیا تھا کہ ٹیلیفون لگا دیا جائے.میں غیر معمولی اخراجات کی مد سے خرچ کی منظوری دے دوں گا.لیکن اس کے متعلق مشورہ کرنے ، سکیم سوچنے اور کمیٹی سے پوچھنے میں دسمبر آ گیا اس پر میں نے کہا اس معاملہ کو مجلس مشاورت میں پیش کر کے مشورہ کر لینا چاہئیے کیونکہ مجلس مشاورت کے انعقاد میں تھوڑا وقت رہ گیا ہے.اب میں جماعت کی کثرتِ رائے کی تائید میں فیصلہ کرتا ہوں.ایک دوست دریافت کرتے ہیں دوسرے شہر سے اگر ٹیلیفون کیا جائے تو ممانعت تو نہ ہو گی.انہیں معلوم ہو قطعاً ممانعت نہ ہو گی مگر یہ ٹیلیفون تو مقامی ہوگا.بیرونی شہروں سے کوئی کر ہی کیونکر سکے گا.جس دوست نے اس کے اخراجات دینے کا وعدہ کیا ہے چونکہ حالات ایک سے نہیں رہتے.اس لئے میں نے ان کا نام نہیں لیا.اگر خدا تعالیٰ ان کو توفیق دے اور وہ یہ روپیہ
خطابات شوری جلد اوّل ۴۶۰ رت ۱۹۳۱ء بھیج سکیں تو ان کے روپیہ سے ٹیلیفون لگ جائے ورنہ بجٹ میں جو گنجائش رکھی جائے اس سے لگ جائے.“ اس پر اجلاس تین بجے ختم ہوا.سب سب کمیٹی بہشتی مقبرہ کی دوسری تجویز کی بہشتی مقبرہ کی دوسری تجویز پیتھی کہ:- ” اگر کوئی موصی زمیندار اپنی زمین کا حصہ صدر انجمن احمد یہ کے حق میں انتقال ہبہ کرا کر موقع پر قبضہ دے دیوے تو بقیہ اراضی کی آمد پر چندہ عام واجب نہیں ہونا چاہئیے.“ اس تجویز کے متعلق بعض ممبران کے اظہارِ خیال کے بعد حضور نے فرمایا : - تجویز یہ ہے کہ اگر کوئی موصی زمیندار اپنی زمین کا حصہ صدر انجمن احمد یہ کے حق میں انتقال ہبہ کرا کر موقع پر قبضہ دے دے تو بقیہ اراضی کی آمد پر چندہ عام واجب نہیں ہونا چاہیئے.اس کے خلاف دو دلیلیں دی گئی ہیں.ایک یہ کہ ایک دفعہ نیکی کر کے ساری عمر کام نہیں آسکتی.شریعت دوام چاہتی ہے تا کہ روزانہ زندگی پر اس نیکی کا اثر پڑے.اگر ایک دفعہ نیکی کرائی گئی تو باقی زندگی میں اس نیکی میں حصہ نہ لیا جا سکے گا.دوم اگر یہ جائز ہے کہ ایک دفعہ جائیداد سے حصہ وصیت دے دینے والا پھر چندہ دینے سے آزاد ہو جاتا ہے تو پھر آمد کا حصہ دینے کے بعد کیوں اس کی آمد سے پیدا کردہ جائیداد سے حصہ لیا جائے.دوسری بات کا یہ جواب ہے کہ اگر کوئی نئی زمین پیدا کرے گا تو اس کے ۱۰ را حصہ کا بھی اسے ہبہ کرنا ہوگا.اب جو دوست سب کمیٹی کی تجویز کی تائید میں ہیں وہ کھڑے ہو جائیں.“ فیصلہ ۲۲۲ را ئیں شمار ہوئیں دو 66 ” جو دوست اس تجویز کے خلاف ہیں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۲۹ را ئیں گنی گئیں دو گویا سب کمیٹی کی تجویز کے حق میں نہایت کثرت رائے ہے چونکہ یہ کوئی ایسا سوال نہیں ہے جس کا فوراً نتیجہ دکھایا جا سکے.اس کے مفید یا مضر ہونے کا پتہ آئندہ
خطابات شوری جلد اوّل ۴۶۱ رت ۱۹۳۱ء کے حالات سے لگے گا.اس لئے میں باوجود اقلیت کے حق میں رائے رکھنے کے اکثریت کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.میرا خیال ہے کہ انسانی جسم جس طرح ایک وقت میں ساری عمر کی خوراک نہیں لے سکتا ، اسی طرح روح بھی ساری خوراک ایک وقت حاصل نہیں کر سکتی.قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا اور ایک وقت پر مکمل ہوا مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ قرآن کریم کے مکمل طور پر نازل ہو جانے پر مکمل ہو گیا تھا.آپ کا جو درجہ قرآن کریم کی آخری آیت کے نازل ہونے کے وقت تھا.وفات کے وقت اس سے بہت بڑھا ہوا تھا.پھر جو درجہ آپ کا وفات کے وقت تھا.آج اس سے بہت زیادہ بلند ہے.اس تجویز کے متعلق جو بات نظر انداز کر دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جو چندہ دے رہا تھا اور وفات کے بعد جائیداد کا حصہ دینا تھا وہ کئی طرح چندہ دے رہا تھا وہ اگر اپنی زمین میں سے ایک گھماؤں حصہ وصیت میں دیتا ہے تو ہم اس سے اتنی آمدنی حاصل نہیں کر سکتے جتنا چندہ وہ خود دیتا تھا پس باوجود اس کے کہ وہ ہبہ کر دیتا ہے ہم اس کی محنت مزدوری سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.تاہم اس صورت میں آمد زیادہ ہو یا نہ ہو جائیداد محفوظ مل جائے گی اور جھگڑوں سے بچ جائیں گے لیکن روحانی طور پر نقصان کا احتمال ہے جو ایک دفعہ اپنا حصہ دے چکا اسے قدرتی طور پر خیال ہو گا کہ کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں ممکن ہے حصہ دے دینے کے بعد اس کی زندگی پچاس سال تک کی ہو اس میں وہ اس نیکی سے محروم رہے گا تاہم میں کثرت کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.بایں شرط کہ پانچ سال کے بعد ایسی وصایا کی فہرست میرے سامنے پیش کی جائے اور احباب بتائیں کہ اس طریق پر عمل کرنے کا اثر کیا ہوا تجربہ سے یہ تجویز مفید ثابت ہوئی ہے یا غیر مفید.میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے ساری جائیداد سلسلہ کو دے دی مگر بعد میں ان کے ایمان میں کمزوری آ گئی اور جب کبھی کسی دینی خدمت کے لئے انہیں کہا گیا اُنہوں نے کہہ دیا ہم نے بہت خدمت کر لی ہے، اب اور کرنے کی ضرورت نہیں.پانچ سال کے بعد اگر ہم دیکھیں گے کہ ایسی وصایا کرنے والوں کی روحانیت میں اور سلسلہ کے متعلق اخلاص میں کوئی فرق نہیں آیا تو اسے آئندہ کے لئے جاری رکھیں گے ورنہ بند کر دیں گے.اس وقت میں اسے پانچ سال کے لئے منظور کرتا ہوں.چھٹے سال اس کے متعلق پھر غور ہوگا.نام
خطابات شوری جلد اوّل ۴۶۲ رت ۱۹۳۱ء لے لے کر پڑتال نہ کی جائے گی بلکہ ایک عام حالت کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ ہو سکے گا.ممکن ہے ایسے لوگ چندہ عام بھی دیتے رہیں اور ان کے اخلاص میں پہلے سے بھی زیادہ ترقی ہو جائے.اس صورت میں ہم اس تجویز کو جاری رکھیں گے جب تک کہ کوئی نقص نہ پیدا ہو اور اگر ہمارے زمانہ میں اس سے کوئی نقص نہ پیدا ہو لیکن بعد میں آنے والے دیکھیں کہ یہ نقصان رساں ہے تو وہ بند کر سکتے ہیں لیکن اگر پانچ سال کے عرصہ میں ہی اس کے نقائص ظاہر ہونے لگ گئے اور ایسے لوگوں کی روحانیت میں کمی واقع ہوئی تو پھر ہم مالی فائدہ کا لحاظ نہ کریں گے، اس وقت ہم مالی نقصان برداشت کر لیں گے اور اس تجویز کو روک دیں گے.“ 66 جماعت کی اقتصادی ترقی اور پسماندگان کے انتظام کی سکیم نظارت امور عامہ کی طرف سے جماعت کی اقتصادی ترقی اور پسماندگان کے انتظام کی سکیم کی ضرورت بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ : - بہت سے احباب جو خود اپنی آمدنی سے کچھ رقم بچانے کے عادی نہیں ہیں یا جن کے حالات ہی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ کچھ بچا نہیں سکتے ان کی وفات پر ان کے پسماندگان کی حالت نہایت بے بسی کی ہوتی ہے یا بڑھاپے میں ان کی اپنی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے کیونکہ اخراجات کے چلانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا.موجودہ زمانہ کی کمپنیاں اس قسم کے انتظامات کرتی ہیں لیکن چونکہ وہ سودی کاروبار کرتی ہیں اس لئے ہم ان میں شامل نہیں ہو سکتے.اس لئے ایسے انتظام کی ضرورت ہے کہ جس میں سود یا جوئے کا دخل نہ ہو.جماعت کے لوگ روپیہ جمع کر سکیں.جو ان کے بڑھاپے یا وفات پر ان کے لواحقین کے کام آئے.اس کے متعلق حضور نے فرمایا : - " پیشتر اس کے کہ ان احباب کا نام دریافت کیا جائے جو اس تجویز کے متعلق بولنا چاہتے ہوں ، میں اس بات کی تشریح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جو سکیم اس وقت پیش کی گئی ہے اس کے دو حصے ہیں ایک تو یہ کہ ایسی سکیم جاری کرنی چاہیے یا نہیں اور دوسرا تفاصیل کا حصہ ہے.بجائے اس کے کہ ایک ایک امر کو لے کے پیش کیا جائے اور اس کے متعلق رائے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۶۳ ت ۱۹۳۱ء دریافت کی جائے پہلے مناسب یہی ہے کہ احباب سے مشورہ لوں کہ آیا ایسی سکیم کے اجراء کی ضرورت بھی ہے یا نہیں.اگر کثرت رائے جاری کرنے کے حق میں ہوئی اور اس کے دلائل میری سمجھ میں بھی آگئے تو پھر یہ فیصلہ کریں گے کہ کیا طریق اختیار کیا جائے.زیادہ تر اس سکیم کے پیش کرنے کا باعث اسباب ہی ہیں.بہت دوست پریشانی کا اظہار کرتے ہیں کہ جب وہ فوت ہو گئے تو ان کے بال بچہ کی پرورش کی کیا صورت ہوگی ؟ چونکہ عام طور پر لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جب ان پر کوئی دباؤ نہ پڑے کچھ پس انداز نہیں کر سکتے اس لئے کمپنیوں میں لوگ روپیہ جمع کراتے ہیں کیونکہ ان میں حصہ دار بننے پر مجبوراً رقم جمع کرانی پڑتی ہے.اگر نہ کرائیں تو پہلا جمع شدہ سرمایہ بھی ضبط ہو جاتا ہے.ہمارے احباب بھی چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا طریق ہو کہ جو کچھ نہ کچھ جمع کرانے پر مجبور ہوں تا کہ پسماندگان کے لئے کچھ نہ کچھ جمع کر سکیں.اس کیلئے میں نے مختلف اوقات میں مختلف کمیٹیاں مقرر کیں مگر کبھی کسی کمیٹی نے اپنی رپورٹ نہ پیش کی.آخر ۱۹۲۸ء میں میں نے ایک ایسی سکیم تجویز کی جس پر شرعی طور پر کوئی اعتراض نہ پڑ سکتا تھا.اس کے متعلق تجویز ہوئی کہ اسے غور کے بعد پھر پیش کیا جائے لیکن بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے وہ سکیم غلط راہ کی طرف چلی گئی کیونکہ جو اصول میں نے تجویز کئے تھے وہ چھوڑ دیئے گئے تھے.میں نے دوبارہ امور عامہ کے سپرد کام کیا کہ ان اصول پرسکیم تجویز کریں جو میں نے قرار دیئے تھے.اب سوال یہ ہے کہ آیا ہماری جماعت کے لئے کسی ایسی جدو جہد کی ضرورت ہے یا نہیں یعنی ایک ایسی کمپنی ہو جس کے احباب حصہ دار ہوں.اور اس طرح پسماندگان کے لئے رقم جمع کریں اور اگر خود زندہ رہیں تو ان کی ضرورت کے وقت رقم مل جائے.دوسرا سوال یہ ہے کہ ایسی سکیم شرعی طور پر جائز ہو.تیسرے یہ کہ اقتصادی طور پر مفید ہو.اب میں پہلے اس امر کے متعلق مشورہ لینا چاہتا ہوں کہ ایسی سکیم کی ضرورت ہے یا نہیں.اس کے متعلق جو دوست اظہار رائے کرنا چاہیں میر صاحب کو نام لکھا دیں پھر باری باری بول سکتے ہیں.“ بعض نمائندگان کے اظہار خیال کے بعد حضور نے فرمایا:- ’اس وقت احباب کے سامنے یہ تجویز پیش ہے کہ آیا کوئی ایسی سکیم ممکن ہے کہ
خطابات شوری جلد اوّل ۴۶۴ رت ۱۹۳۱ء شرعی احکام کو بجالاتے ہوئے ہم ایسا انتظام کر سکیں کہ ہم میں سے جن کو مرنے کے بعد اپنے پسماندگان کے لئے یا اپنے بڑھاپے میں اپنے لواحقین کے اخراجات کی فکر ہو اُن کے لئے کچھ نہ کچھ جمع ہو سکے اور ایسی طرز پر روپیہ جمع ہو کہ اس سکیم میں شامل ہونے والے مجبور ہوں کہ اپنا مقررہ حصہ ضرور جمع کرائیں اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تو انہیں اصل سے زائد مل سکے.اب میں اس کے متعلق رائے لینا چاہتا ہوں کہ ایسی سکیم جاری کی جائے یا نہ.بظاہر خیال ہو سکتا ہے کہ کون ایسا شخص ہو گا جو اِس کا انکار کرے گا مگر یہ خیال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ دوست عام مباحث سے واقف نہیں.عام بحث سے غرض یہ ہوتی ہے کہ ایسے پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے جو ضروری ہوں.مثلاً یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی سکیم بن نہیں سکتی یا اقتصادی پہلو سے بھی بحث کی جا سکتی ہے کہ سُو د اور جُوئے کی طرز کے بغیر ایسی سکیم کا کامیاب ہونا ممکن نہیں.ہمیں دونوں باتوں پر غور کرنا ہے.آیا شریعت کے احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ایسی سکیم چلا سکتے ہیں یا نہیں؟ اور پھر اقتصادی لحاظ سے کامیاب ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ جو دوست اس بات کی تائید میں ہیں کہ اگر ممکن ہو تو ایسی سکیم جاری کی جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ تمام کے تمام اصحاب کھڑے ہو گئے.فرمایا.جن اصحاب کا یہ خیال ہو کہ بظاہر امکان نہیں کہ ایسی سکیم چلا کر کامیابی حاصل ہو سکے.اس لئے جماعت کے روپیہ کو خطرہ میں نہ ڈالا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر کوئی صاحب کھڑے نہ ہوئے.فرمایا : - ”میرا یہاں تک خیال ہے احباب نے اس سکیم کے متعلق متفقہ رائے دی ہے.معقول سے معقول سکیموں میں بھی کوئی نہ کوئی خلاف رائے دینے والا کھڑا ہو جایا کرتا ہے مگر اس سکیم کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے احباب نے متفقہ رائے دی ہے اور مجھے اس سے خوشی ہوئی ہے کیونکہ میں نے اس سکیم کے تجویز کرنے میں اپنا وقت صرف کیا ہے.بے شک جماعت میں ایک حصہ ایسا ہے اور ہونا چاہئے جن کی بنیادِ زندگی تو کل پر ہے اور اسے یقین ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا ایسا تعلق ہے کہ وہ ان کی اولا د کو ضائع نہ کرے گا لیکن جماعت کے سارے کے سارے لوگ اس مقام پر نہیں ہوتے خواہ وہ رسول کریم صلی اللہ
خطابات شوری جلد اوّل ت ۱۹۳۱ء علیہ وآلہ وسلم کی جماعت کے لوگ ہوں خواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے لوگ اور خواہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی جماعت کے.اس لئے شریعت نے بھی مختلف حالات کے متعلق مختلف احکام بیان کئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا زکوۃ کے متعلق کیا حکم ہے؟ اُنہوں نے کہا زکوۃ کے متعلق دو حکم ہیں.ایک تمہارے لئے اور ایک میرے لئے.تمہارے لئے تو یہ حکم ہے کہ چالیس پر ایک روپیہ زکوۃ دو لیکن میرے لئے یہ حکم ہے چالیس پر ۴۱ روپے دوں.اس نے کہا یہ فرق کیوں؟ فرمانے لگے مجھے خدا تعالیٰ نے تو کل کے مقام پر کھڑا کیا ہے اور تجھے تدبیر کے مقام پر.تم اگر مال جمع کرو تو تمہارے لئے یہ حکم ہے کہ چالیس پر ایک روپیہ دو.لیکن میں چونکہ تو کل کے مقام پر ہوں اس لئے اگر میرے پاس چالیس روپے جمع ہو جائیں تو اس لئے ۴۱ دوں کہ مجھے جمع کرنے کی اجازت نہیں ہے اور جمع کرنے پر مجھے ایک رو پیر زائد جمع شدہ سے جُرمانہ دینا چاہئے.غرض ہماری جماعت میں دونوں گروہ ہیں تو کل والا بھی اور تدبیر والا بھی.تدبیر والے گروہ کے لئے ضروری ہے کہ ہر جائز تدبیر سے کام لے اور اپنے لواحقین کے لئے جو انتظام ممکن ہو کرے اور تو کل والے کے لئے یہ ہے کہ وہ اپنا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق آتا ہے آپ کوئی سرمایہ نہ رکھتے تھے.اگر آپ کے پاس ایک درہم بھی آیا تو آپ نے محتاجوں میں تقسیم فرما دیا مگر بیویوں کے لئے سال کا غلہ مہیا کر دیتے تھے یکے میں سمجھتا ہوں اس لحاظ سے سکیم کا چلانا ضروری ہے.اس کے علاوہ ایک اور بھی ضروری امر ہے جس کی طرف میں اس وقت اشارہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ احباب کو اس کا خیال رہے.بہت دوست قادیان میں مکان بنانا چاہتے ہیں مگر اُن کے پاس روپیہ جمع نہیں ہوتا.وہ یا تو ساری کی ساری آمد اپنے نفس پر خرچ کر دیتے ہیں یا جو کچھ بچا سکتے ہیں اُسے دین کے لئے صرف کر دیتے ہیں.اس کے لئے ایک دفعہ تجویز کی گئی تھی کہ ایک سوسائٹی بن جائے.اور جس طرح کمیٹی کا طریق ہے اس طرح مہیا شدہ روپیہ جس کے نام نکلے اسے دیا جائے البتہ یہ فرق رکھا جائے کہ جتنے کسی کے حصے ہوں اتنی دفعہ اس کے نام کا قرعہ نکالا جائے.اس کے لئے کئی دوست مل گئے تھے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۶۶ ت ۱۹۳۱ء میں خود بھی اس میں شریک ہو گیا تھا.چودھری ظفر اللہ خان صاحب بھی تھے.تو ایسی سکیم ہو جس کے ماتحت ایک مقررہ عرصہ مثلاً دس سال تک حصہ داروں کے مکان بنانے کے لئے سرمایہ مہیا کیا جائے.جس کے نام کا قرعہ پہلے مہینہ میں نکل آئے اُس کا مکان پہلے مہینہ میں ہی بننا شروع ہو جائے اور جوں جوں قرعے نکلتے رہیں، مکان بنتے جائیں.اس طرح قادیان کی ترقی بھی ہو سکتی ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں ذکر ہے اور احباب کے آرام اور سہولت کا سامان بھی ہوسکتا ہے.ایک تو یہ سکیم میں نے سوچی ہے.اس کے علاوہ ایک اور سکیم سوچ رہا ہوں مگر وہ ابھی بیان نہیں کرتا.اس سکیم کے متعلق بعض مجبوریوں کی وجہ سے میں نے اپنی رائے پہلے ظاہر کر دی ہے مگر ہوسکتا ہے کہ کام کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے اس سکیم میں کوئی نقص رہ گیا ہو.اس لئے احباب اپنی رائے آزادی سے ظاہر کریں.اس سکیم کے ماتحت جو آمدنی ہو اُس کے خرچ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قادیان کے ارد گرد کے دیہات سے زمین خرید لی جائے.ارد گر دسکھوں کے گاؤں ہیں اس وجہ سے ہماری حفاظت خطرہ میں رہتی ہے.بعض حکام بھی ان کو اُکساتے رہتے ہیں.چونکہ جماعت کی ترقی کی وجہ سے ارد گرد کے سکھوں کی حالت ایسی مضبوط نہیں جیسی اور جگہ ہے اس لئے وہ اپنی زمینیں بیچنا چاہتے ہیں.اگر ہم ان کی زمینیں خرید لیں تو یا تو وہ مزارع ہو کر رہیں گے یا پھر احمدی کا شتکار رکھ لیں گے.غرض اس سکیم کے کئی فوائد ہیں اس لئے میں پسند کرتا ہوں کہ جلد سے جلد کام شروع ہو.اگر کچھ احباب ایک یا دو روپیہ ماہوار کے حساب سے بھی اس میں حصہ لیں تو بھی بہت کافی روپیہ جمع ہو سکتا ہے.غرض بہت تھوڑی سی جماعت سے ایک کافی رقم جمع ہوسکتی ہے.جس سے نہ صرف جماعت کی اقتصادی حالت مضبوط ہو گی بلکہ دشمنوں کی طاقت بھی ٹوٹ سکتی ہے.پس میں اُمید کرتا ہوں کہ اگر تفصیلات میں کامیاب ہو جائیں تو اکثر دوست نه صرف خود اسے منظور کریں گے بلکہ اپنے علاقہ میں بھی کامیاب بنانے کی کوشش 66 کریں گے.“ سکیم کی انتظامی ذمہ واری اس موقع پر ناظر صاحب امور عامہ نے سکیم کی کسی قدر تفصیل بیان کی.اس کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی
خطابات شوری جلد اوّل ۴۶۷ ت ۱۹۳۱ء نے فرمایا.اصل میں یہ حکیم محاسب صاحب صدر انجمن کے پاس تھی اور سب کمیٹی چودھری ظفر اللہ خان صاحب سے مشورہ کرتی رہی مگر اب وہ سارے کے سارے کاغذات امور عامہ کو نہیں ملے اور معلوم ہوتا ہے ناظر صاحب اُن کا مطالعہ بھی نہیں کر سکے اس لئے اچھی طرح بیان نہیں کر سکتے.۱۹۲۸ء میں جو تجویز کی گئی تھی وہ یہ تھی کہ اس سکیم کی منیجنگ ڈائر یکٹر صدر انجمن ہو جو انتظام کرائے اور حصہ دار بنائے لیکن پھر یہ تجویز ہوئی کہ اس سکیم کے متعلق عہدہ دار خود حصہ دار ا کٹھے ہو کر بنا ئیں اور وہ کام چلائیں.اب یہ پہلا سوال غور طلب ہے کہ صدر انجمن کا اس سے تعلق ہونا چاہئے یا کوئی اور طریق ہو.یعنی ایسی سکیم کے انتظامی کام کی صدر انجمن ذمہ وار ہو یا جو حصہ دار ہوں اُن کے مقرر کردہ ڈائریکٹر کام چلائیں یا اگر کوئی اور صورت ہو تو وہ پیش کر سکتے ہیں تا کہ اس پر غور کر لیا جائے.“ احباب سے آراء لینے کے بعد حضور نے فرمایا:- میں کثرتِ آراء کے حق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ حساب رکھنا ، خرچ کرنا، سکیم سوچنا، کام کو ترقی دینا، نفع تقسیم کرنا وغیرہ سب کام تو حصہ داروں کے مقرر کردہ ڈائر یکٹروں کے ہاتھ میں ہولیکن صدر انجمن کو یہ اختیار ہو کہ سال میں یا جب چاہے حساب کا معائنہ کر سکے، رجسٹرات دیکھ سکے اور حصہ داروں کو بتا سکے کہ کمپنی کی کیا حالت ہے.“ کو آپریٹو سوسائٹیوں کے متعلق تجویز ایجنڈا میں کواپریٹو سوسائٹیز کے متعلق جو تجویز تھی اسے سب کمیٹی نے جس رنگ میں منظور کیا تھا اسے پیش کرتے ہوئے سیکرٹری صاحب سب کمیٹی نے کہا : - سب کمیٹی نے غور کے بعد ایجنڈا کی تجویز کی تائید کی ہے اور یہ قرار دیا ہے کہ یہ مفید ہے لیکن سب کمیٹی نے ایک بات کو نہیں چھیڑا.سب کمیٹی کی تجویز یہ ہے کہ جس حد تک محض اقتصادی مسئلہ کا تعلق ہے کو اپریٹو سوسائٹیز کا قائم کرنا انسب ہے لیکن چونکہ اس کا شرعی پہلو علماء سے تعلق رکھتا ہے.اس لئے سب کمیٹی نے اس حصہ کو چھوڑ دیا ہے.حضور نے فرمایا.اس سوال کے متعلق جو شرعی حصہ ہے وہ یہ ہے کہ یا تو جماعت
خطابات شوری جلد اوّل ۴۶۸ ت ۱۹۳۱ء سے کہیں کہ نئی سوسائٹیز بناؤ یا یہ کہ جو لوگ سود کی مصیبت میں پھنسے ہیں ان سے کہیں کہ ایسی سوسائٹیز میں شامل ہو جاؤ.جب ہم یہ کہیں گے کہ ایسی سوسائٹیز بناؤ تو ان کا انتظام ہمارے سپرد ہو جاتا ہے لیکن جب کہیں کہ جہاں ایسی سوسائٹیز ہوں وہاں جو سودی قرض کے نیچے دبے ہوں وہ ان میں شامل ہو جائیں تو پھر انتظام ہمارے ذمہ نہیں آتا.گویا جب ہم اس قسم کی سوسائٹیز کھلواتے ہیں تو جو لوگ سود میں مبتلاء ہیں ان سے دو گناہوں کا ارتکاب کراتے ہیں پہلے وہ صرف سود دیتے تھے اور یہ مجبوری کا گناہ تھا لیکن خود سوسائٹی قائم کرنا اور ممبر بننا جبکہ ایسی سوسائٹی میں سود لیا بھی جاتا ہے اور دیا بھی جاتا ہے.دوہرے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے.پس ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ جن کے ذمہ سودی قرضہ ہے وہ بنکوں میں شامل ہو جائیں جہاں سود کم دینا پڑتا ہے اور اس طرح سودی قرض ادا کرنے کی کوشش کریں مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ خود بنکوں کا کاروبار شروع کر دیں.سُودی قرض والے لوگوں کو بڑی مصیبت سے بچنے کے لئے چھوٹی مصیبت اختیار کرنے کی اجازت ہو سکتی ہے.یعنی وہ ایسے بنکوں میں شامل ہو سکتے ہیں جہاں اور لوگ بھی ہوں بلکہ کثرت انہی کی ہو.کسی ایسے کاروبار میں احمدیوں کی کثرت نہ ہوتا کہ قواعد بنانے کی ذمہ داری ان پر عائد نہ ہو.پس سب کمیٹی نے جو تجویز پیش کی ہے اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ مقروض احمدی ایسے بنکوں میں شامل ہوں جہاں قواعد وغیرہ کی ذمہ داری ان پر نہ ہو تو وہ شامل ہو سکتے ہیں لیکن اگر یہ مطلب ہے کہ خود بنک چلائیں تو اس کی میں اجازت نہیں دے سکتا.“ تیسرا دن مجلس مشاورت کے تیسرے اور آخری دن یعنی ۵.اپریل ۱۹۳۱ء کو تلاوت قرآن مجید سے کارروائی کا آغاز ہوا.اس کے بعد حضور نے دعا کروائی اور پھر احباب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : - '' کمیشن کی تجاویز کے متعلق رپورٹ پچھلے سال جو کمیشن مقرر کیا گیا تھا بعض مجبوریوں کی وجہ سے اس کے ارکان کو دفاتر
خطابات شوری جلد اوّل ۴۶۹ رت ۱۹۳۱ء کے معائنہ کا پہلے موقع نہ ملا لیکن دورانِ مشاورت میں معائنہ کر کے انہوں نے مجھے رپورٹ دی ہے جس میں ان تجاویز کے متعلق رائے ظاہر کی ہے جو پچھلے سال ان کی رپورٹ پر میں نے منظور کی تھیں.پہلی تجویز کمیشن کی ناظروں کے دورہ کے متعلق تھی.اس کے متعلق بتایا ہے کہ ایک دورہ تو کیا گیا لیکن دوسرا ملتوی کر دیا گیا.اس پر انہوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ دورہ ملتوی کرنے کی منظوری نہیں حاصل کی گئی.فی الواقعہ اس کی مجھ سے منظوری نہیں لی گئی.“ باقی تجاویز کے متعلق بھی حضور نے کمیشن کی رائے پڑھ کر سُنائی اور فرمایا : - اس رپورٹ میں چند ایسی باتیں بھی لکھی ہیں جن پر عمل نہیں ہوا.میں امید کرتا ہوں کہ مجلس معتمدین آئندہ سال ان پر عمل کرانے کی کوشش کرے گی.نے کمیشن کا تقرر آئندہ سال کے لئے پچھلے قاعدہ کے مطابق ایک کمیشن مقرر کرتا ہوں.اِن سوالات کے متعلق جو جماعت میں اعلان کرنے کے لئے ہوں گے اور جو مجلس معتمدین سے تعلق رکھتے ہیں کمیشن کو بعد میں اطلاع دے دی جائے گی.اس کمیشن کے ممبر ان اصحاب کو مقرر کیا جاتا ہے (۱) ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب (۲) قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے لاہور.(۳) بابو محمد عالم صاحب راولپنڈی.ڈاکٹر صاحب پریذیڈنٹ ہوں گے.علاوہ اس تحقیق کے جو ہر کمیشن کو مدنظر رکھنی چاہئے باقی کے جو امور ہیں وہ یہ ہیں :.(۱) مجلس معتمدین اپنے قواعد کی تعمیل کراتی ہے یا نہیں اور میرے فیصلوں کی خود تعمیل کرتی ہے یا نہیں؟ مسلمانوں پر ساری تباہی کی یہی وجہ ہے کہ خود جو قواعد بناتے ہیں ان پر عمل نہیں کرتے.کمیشن کو یہ بات خاص طور پر دیکھنی ہوگی.(۲) علاوہ ازیں یہ کہ مجلس شوریٰ میں جو میں فیصلے کرتا ہوں اُن پر انجمن معتمدین خود عمل کرتی ہے یا نہیں ؟ اور دوسروں سے عمل کراتی ہے یا نہیں؟ (۳) سلسلہ کے اخراجات میں اقتصادی پہلو مدنظر رکھا جاتا ہے یا نہیں؟ (۴) کارکنوں سے ایسے طور پر کام کرایا جاتا ہے یا نہیں کہ ان کی قابلیت کو بہترین طور پر استعمال کیا جائے.یہ ایسے امور ہیں جو ہر کمیشن کو مد نظر رکھنے چاہئیں.باقی امور بعد میں
خطابات شوری جلد اوّل اس کے سپر د کر دوں گا.۴۷۰ ت ۱۹۳۱ء ناظروں کا دورہ ناظروں کے دورہ کا جب سوال پیش ہوا تھا تو میں نے کہا تھا دورہ ضروری ہے مگر چونکہ ابھی ہماری جماعت کے لوگوں کی تربیت کافی طور پر نہیں ہوئی اس لئے اگر ناظروں سے ایسا سلوک کیا گیا کہ ان کا وقار قائم نہ رہا تو مصر.ہوگا.چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے یہ سوال اُٹھایا تھا اور کہا تھا کہ ناظر کا عہدہ وزارت کا عہدہ ہے.ان کا وقار قائم کرنا ضروری ہے اور زور دیا تھا کہ جماعت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے لیکن افسوس کے ساتھ کہتا ہوں اس بارے میں لاہور کی جماعت نے بہت بُرا نمونہ دکھایا.جب ناظر اپنے دورہ کے سلسلہ میں لاہور گیا تو لاہور کی جماعت نے اپنے نقیب کو ناظر کے لانے کے لئے سٹیشن پر بھیجا اور کوئی کارگن نہ گیا.پھر کوئی اُسے ملنے نہ آیا اور وہ لوگوں کے گھروں پر ملنے کے لئے گیا.اس کے متعلق جب میں نے جواب طلب کیا تو ایسا جواب دیا گیا جو غلط تھا.امیر صاحب نے کہہ دیا کہ میں باہر گیا ہوا تھا.میں نے ایک اور شخص کو مقرر کر دیا تھا مگر اُس نے سُستی کی لیکن دوبارہ جب ناظر وقت مقرر کر کے گیا تو پھر بھی ایسا ہی ہوا.اور بھی ایک دو جگہ اسی طرح کیا گیا مگر جس جماعت کے امیر نے اس بات پر زور دیا تھا اُسی کی جماعت نے ناقدری بلکہ خلاف ورزی کی.اس سے قطع نظر کرتے ہوئے دوسرے دوستوں نے جو کچھ بتایا اُس سے یہی ظاہر ہوا کہ ناظروں کے دورہ سے بہت فائدہ ہوا.جماعتوں میں بیداری پیدا ہو گئی.میں سمجھتا ہوں اگر یہ دورے جاری رہے تو بہت مفید نتائج نکل سکیں گے.بہت سے کام تجارت سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر جماعت کو کام کرنے کا ریکارڈ رکھنے کا تجربہ نہیں ہوتا.ناظر جو مرکزی کام کرتے ہیں وہ دورے کر کے اگر جماعتوں کو ہدایات دیں تو کام بہت عمدگی سے ہوسکتا ہے.میں اُمید کرتا ہوں آئندہ جماعتیں ناظروں کے دورہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا ئیں گی اور ان کا احترام کر کے ثابت کریں گی کہ ہم دینی خدمت کرنے والوں کا پورا پورا احترام کرنے والے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ میں جسے کسی کام کے لئے مقرر کرتا ہوں اُس کی اطاعت کرنے والا میری اطاعت کرتا ہے اور اُس کی نافرمانی کرنے والا میری نافرمانی کرتا ہے.اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۷۱ رت ۱۹۳۱ء آرگنائزیشن (ORGANIZATION) کو مذہب کا حصہ بنا دیا اور کام کرنے والوں کی اطاعت اور احترام نظام کی جان ہے.بیرونی جماعتوں کے جن کارکنوں کے کام کو قابلِ تعریف بتایا گیا ہے اُن میں سے کلکتہ کی جماعت کے امیر حکیم ابو طاہر صاحب کا خصوصیت سے ذکر کیا گیا ہے اُنہوں نے بہت کامیابی سے کام کو نبھایا ہے اُنہوں نے اپنی سرگرمیوں اور کوششوں سے ایسے شہر میں جو تعلیم وغیرہ میں بہت بڑھا ہوا ہے، جماعت کے وقار کو قائم رکھا ہے اور باوجود اس کے کہ تھوڑی سی جماعت ہے بڑے طبقہ میں اسے مقبول بنایا ہے.وہاں کا سیرتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلسہ بہترین جلسہ ہوتا ہے جس میں اعلیٰ طبقہ کے انگریز اور ہندو شامل ہوتے ہیں اور ساری دُنیا میں شہرت رکھنے والے ہر مذہب کے لوگ شریک ہوتے ہیں.یہ محض حکیم ابوطاہر صاحب کی کوشش کا نتیجہ ہے.مجھے جہاں لا ہور کی جماعت پر افسوس ہے وہاں حکیم ابو طاہر صاحب کی کوششوں سے دل بہت خوش ہے.خصوصاً اس وجہ سے کہ وہ بیمار ہوتے ہوئے اس قدر کام کر رہے ہیں.احباب ان کی صحت کے لئے دُعا کریں.میں آئندہ کے لئے انہیں سارے بنگال کا امیر جماعت مقرر کرتا ہوں.گو بنگال کے لئے نظارت نے رپورٹ کی ہے کہ اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے مگر بنگال ایک دفعہ بتا چکا ہے کہ وہ دوحصوں میں منقسم نہیں ہو سکتا اور میں امید کرتا ہوں کہ اب تقسیم بنگالہ کی غلطی ہم نہیں کریں گے.“ صوبہ بنگال کا امیر دار البیعت لدھیانہ اس کے بعد دارالبیعت لدھیانہ کی مرمت وغیرہ کا معاملہ پیش کیا گیا.اس کے لئے احباب نے موقع پر ہی رقم جمع کر دی.اس پر حضور نے فرمایا : - اس تجویز کے متعلق احباب نے بجائے کھڑے ہو کر رائے دینے کے روپوؤں سے رائے دی ہے اس لئے میں اس کی منظوری دیتا ہوں.بجٹ میں آمد وخرچ میں ایک ہزار روپیہ اس مد کا بڑھا دیا جائے.میرے نزدیک یہ نہایت اہم معاملہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خصوصیت سے اس کا ذکر کیا ہے بلکہ لدھیانہ کو باب لذ قرار دیا ہے جہاں دجال کے قتل کی پیشگوئی ہے.ایسے مقام کے لئے جہاں قادیان سے بیعت لینے کے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۷۲ ت ۱۹۳۱ء لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لے گئے جماعت میں خاص احساس ہونا چاہئے.حضرت خلیفہ اول نے جب آپ سے بیعت لینے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا یہاں نہیں بیعت لی جائے گی پھر لدھیانہ میں بیعت لی.وہاں کے پیر احمد جان صاحب مرحوم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی سے پہلے ہی فوت ہو گئے وہ اُن لوگوں میں سے تھے جن کو خدا نے دعوئی سے پہلے ہی آپ پر ایمان لانے کی توفیق دی.اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا.سب مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے اُنہوں نے اپنی وفات کے وقت اپنے سب خاندان کو جمع کیا اور کہا حضرت مرزا صاحب مسیحیت کا دعوی کریں گے تم سب ایمان لے آنا.چنانچہ یہ سب خاندان ایمان لے آیا.پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب آپ کے لڑکے ہیں.اور حضرت خلیفہ اول کی اہلیہ ان کی لڑکی ہیں.میرا ارادہ ہے کہ اس مقام کا خاص طور پر نقشہ بنایا جائے اور بیعت کے مقام پر ایک علیحدہ جگہ تجویز کی جائے اور نشان لگا دیا جائے اور اس موقع پر وہاں جلسہ کیا جائے.چالیس آدمیوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جگہ بیعت لی تھی.ان سب کے نام اِس جگہ لکھ دیئے جائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی بار صحابہ سے بیعت لی.ہمارے ہاں یہ رواج نہیں رہا.میرا ارادہ ہے کہ جو دوست اس موقع پر وہاں جمع ہوں اُن سے پھر بیعت لی جائے.اور اس طرح اس مقدس مقام سے برکت حاصل کی جائے.“ اختتامی تقریر آخر میں صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ پیش کیا گیا جو بحث کے بعد پاس ہوا.مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے پر حضور نے اختتامی تقریر کرتے ہوئے فرمایا :- یہ بجٹ جسے منظور کرنے میں انہوں نے اس قدر اصرار کیا اور سب کمیٹی کی تخفیف کردہ باتوں میں سے قریباً ہر ایک کو رڈ کر دیا اس کے معنے یہ ہیں کہ احباب نے ۳۰ ہزار کی زیادہ رقم خرچ کرنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ وہ نمائندے جو
خطابات شوری جلد اوّل ۴۷۳ ت ۱۹۳۱ء یہاں جمع ہوئے وہ اپنے علاقوں میں جا کر تحریک کریں گے کہ بجٹ کو پورا کیا جائے.جو لوگ کمزور ہیں اور باقاعدہ چندہ نہیں دیتے اُن سے باقاعدہ چندہ وصول کرنے کا انتظام کریں گے.میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کے ہر فرد میں دین کے لئے مال صرف کرنے کی خواہش ہے مگر بعض کو یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے.بعض بڑی جماعتیں جو پہلے بڑی بڑی رقوم دیتی تھیں اب ان کا چندہ کم ہو گیا ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے انتظام میں نقص ہے.چونکہ خطرہ ہے کہ مالی لحاظ سے یہ سال بھی نازک ہے کیونکہ زمینداروں کی حالت خراب ہو گئی ہے اس لئے پورا زور لگانا چاہئے کہ سب کے سب احمدی بجٹ کے پورا کرنے میں حصہ لیں تا کہ تمام افراد پر مالی بوجھ پھیل جائے اور نادہند بھی چندہ دینے لگ جائیں.اگر یہ نہ ہوا تو پھر چندہ خاص کی ضرورت پیش آئے گی اور اس کا زیادہ بوجھ انہی پر ڈالا جائے گا جنہوں نے عام چندہ ادا نہ کیا ہوگا.اب تقریر کرنے کا وقت نہیں رہا مگر میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارے سارے کام روحانیت پر مبنی ہیں.جب تک ہماری جماعت کا ہر فرد یہ محسوس نہ کرتا کہ ہمارے کام قومی ، ملکی ، سیاسی نہیں بلکہ مذہبی ہیں اور ان کا سرانجام دینا عبادت ہے، اُس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.پھر چونکہ یہ نہایت نازک موقعہ ہے اس لئے دعائیں کی جائیں اور مسلسل کی جائیں.اس کی اپنی اپنی جماعت میں جا کر تحریک کریں.خدا تعالیٰ نے ہمیں نبی کا زمانہ دیا ہے اور ہمارے اندر وہ قابلیتیں رکھی ہیں جو دُنیا کے اور لوگوں میں نہیں.اگر ہم ہ خدا تعالیٰ کے نور کو اپنے اندر آنے دیں تو موجودہ جماعت کا دسواں حصہ نہیں، پچاسواں حصہ بھی ہو تو بھی ہمیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں.مگر بعض افراد کے اخلاص کی کمی کی وجہ سے روکیں پیدا ہو رہی ہیں.میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندر اخلاص پیدا کریں.ہر مشکل اخلاص حاصل ہو جانے پر دُور ہوسکتی ہے.اللہ تعالیٰ ہر قسم کے سامان پیدا کر سکتا ہے.پس اگر اللہ تعالیٰ پر توکل کرو تو وہ تمہاری باتوں میں، تمہارے مالوں میں، تمہاری قربانیوں میں بھی اثر پیدا کر دے گا.ہر بات میں برکت ہوگی ، تمام برکتیں اللہ کے فضل سے ہی آیا کرتی ہیں اور تھوڑے روپیہ سے بھی بڑے بڑے کام ہو سکتے ہیں.اور یہ
خطابات شوری جلد اوّل ۴۷۴ ت ۱۹۳۱ء بھی ہوسکتا ہے کہ خدا تعالی زیادہ مال دے دے کیونکہ سب ذرائع خدا تعالیٰ کے پاس ہیں.پس اللہ تعالیٰ پر توکل کرو، دعائیں کرو، کرتے جاؤ اور دوسروں کو بھی تحریک کر و.جو کچھ ہو گا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوگا.اللہ سے ہی فضل طلب کرنا چاہئے.“ ال عمران: ااا ( مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت اپریل ۱۹۳۱ء) سیرت ابن هشام جلد اصفحه ۲۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء سے کولا پور (KOLHAPUR) ایک شہر جو مہاراشٹر ( انڈیا ) کے شمال مغرب میں واقع ہے.بخاری کتاب النکاح باب الوليمة ولو بشاة ترمذی کتاب العلم باب ماجاء في فضل النعة (الخ) بخاری کتاب النفقات باب حبس الرجل فوق سنة على اهله (الخ) بخاری کتاب الجهاد والسير باب السمع والطاعة للامام
خطابات شوری جلد اوّل ۴۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء منعقده ۲۵ تا ۲۷ / مارچ ۱۹۳۲ء) پہلا دن مجلس مشاورت منعقده ۲۵ تا ۲۷ مارچ ۱۹۳۲ء کا افتتاح کرتے ہوئے حضور نے دُعا سے متعلق فرمایا : - " پیشتر اس کے کہ ہم مجلس شوری کی کارروائی شروع کریں، میں چاہتا ہوں کہ سب دعا دوست مل کر میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دُعا کر لیں کہ وہ ہمارے اس اجتماع میں برکت ڈالے اور اُن امور کے متعلق جن پر غور کرنے کے لئے ہم جمع ہوئے ہیں ہماری رہنمائی فرمائے اور بہترین رہنمائی فرمائے تا کہ جو نہ کرنے کی باتیں ہیں وہ ہم کر نہ بیٹھیں اور وہ باتیں جو کرنے کی ہیں وہ ترک نہ کر دیں.انسانی علم خواہ وہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو محدود علم ہے اور انسانی تدبیریں خواہ کتنے ہی غور وخوض کے بعد اختیار کی جائیں نہایت کمزور ہوتی ہیں اس لئے باوجود پوری دیانت داری کے ساتھ مشورہ کرنے کے اور باوجود ہر قسم کی شرارت اور کینہ تو زی کے خیالات کو دل سے دُور کر دینے کے اور باوجود بہتر سے بہتر تجویز طے کرنے کے بالکل ممکن ہے کہ ہم اپنے مشوروں میں غلطی کر جائیں، ان نتائج کو اپنے لئے مفید سمجھ لیں جو دراصل مضر ہوں اور ان نتائج کو مھر سمجھ لیں جو درحقیقت مفید ہوں اور اس طرح ٹھوکر کھا جائیں.اس ٹھوکر سے بچنے کی ایک ہی تدبیر ہے جو ہمارے علم کی کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ہماری خواہشات کی خامیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہوسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ علیم و قدیر ہستی جسے ذرہ ذرہ کا علم ہے اور وہ رحمن اور رحیم ہستی جو اپنے بندوں کی تکالیف کو نہیں دیکھ سکتی ، جس کی نظروں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، اُسی سے
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء التجاء کریں کہ وہ ہماری رہنمائی فرمائے ، اُس کا فضل ہمارے دلوں پر مسلط ہو کر ہمارے افکار اور ہمارے ارادوں کو درست کر دے.اُس کا فضل ہماری زبانوں پر مسلط ہو کر ہمارے الفاظ کو درست کر دے.اُس کا فضل مشورہ دینے والوں کے دلوں پر مسلط ہو کر اُن کے مشوروں کو درست کرے.اس کا فضل ہمارے امام پر مسلط ہو کر اس کے فیصلوں کو ایسے اصول پر چلائے جو اُس کی منشاء کے مطابق اور ہماری بہتری کے لئے ہوں، ہماری ساری جماعت کی بہتری کے لئے ہوں.ہماری موجودہ نسلوں کی بہتری کے لئے ہوں، ہماری آئندہ نسلوں کی بہتری کے لئے ہوں.ہمارے ملک کی بہتری کے لئے ہوں اور ساری دُنیا کی بہتری کے لئے ہوں.“ افتتاحی تقریر شهد.، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد افتتاحی تقریر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : - انسانوں کی راہنمائی کی مشکلات ہمارے احباب کو خوب اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ کوئی انسان خواہ کتنی ہی لیاقت، کتنا ہی علم اور کتنا ہی تجربہ حاصل کر لے دوسرے انسانوں کی صحیح اور مکمل راہ نمائی نہیں کر سکتا اس لئے که تمام انسان دوسری چیزوں کی طرح ایک ہی خاصیت کے نہیں ہوتے بلکہ ہر انسان دوسرے انسان سے کیفیات اور خواص میں مختلف ہوتا ہے حتی کہ بھائی بھائی بھی تمام باتوں میں مشترک انخیالات ملنے مشکل ہیں.باپ بیٹے تمام باتوں میں متحد الا فکار ملنے مشکل ہیں.انسانوں میں اتحاد و اشتراک ایک حد تک ہوتا ہے.اس کے بعد پھر قریب سے قریب رشتے رکھنے والوں، قریب سے قریب خیالات رکھنے والوں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے.ان حالات میں یہ امید کرنی کہ کوئی انسان دوسرے تمام انسانوں کی صحیح اور مکمل رہنمائی کر سکتا ہے ایسا ہی خیال ہے کہ جس کا پورا ہونا محال ہے.انسانوں میں اتحاد خدا ہی پیدا کر سکتا ہے اگر کوئی ہستی انسانوں میں مکمل اتحاد پیدا کر سکتی ہے یا ایسا اتحاد جو کام چلانے کے لئے ضروری ہو وہ پیدا کر سکتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ ہی کی ہستی ہے جو مخفی سے مخفی اسباب اور پوشیدہ سے پوشیدہ طریق جانتا ہے.پس میری یہ نادانی ہوگی اگر میں یہ خیال
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء کروں کہ میری کسی ہدایت یا میرے کسی اشارہ سے اتحاد پیدا ہو گا.بالکل ممکن ہے کہ انسانی دماغ ایک چیز کو اتحاد و اتفاق کے لئے پیدا کرے لیکن دراصل وہ انشقاق اور اختلاف پیدا کرنے والی ہو اور بالکل ممکن ہے کہ انسانی دماغ ایک چیز کو انشقاق کے لئے پیدا کرے اور وہ اتحاد قائم کر دے.پس ہمیں اپنے علم، اپنی عقل اور اپنے تجربہ پر خدا تعالی پر بھی بھروسہ کرنا چاہئے قتلا بھروسہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ خداتعالی پر ہی بھروسہ رکھنا چاہئے اور اس سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں ایسے رنگ میں معاملات پر غور کرنے کا موقع دے کہ ہم اُس کی رضا کو حاصل کر لیں اور ایسے ذرائع سے کلام کریں جو مفید ہوں اور ایسے طریق بیان سے بچائے کہ جو جماعت میں شقاق اور دین میں رخنہ پیدا کرنے والا ہو.نیک نیتی سے مشوروں میں حصہ لینا چاہئے تحر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں خدا تعالیٰ نے ان سب باتوں کو اپنے قبضہ و اختیار میں رکھا ہے وہاں اپنے بندوں پر اپنا فضل نازل کرنے کے سامان بھی رکھے ہیں اور ان سامانوں سے کام لینا ہمارا فرض ہے.انہی سامانوں میں سے ایک ضروری سامان یہ بھی ہے کہ ہم لوگ نیک نیتی کے ساتھ اور مصفی ارادوں کے ساتھ مشوروں میں حصہ لیں.عام طور پر جب لوگ مشورے کرتے ہیں تو بحث و مباحثہ کی رو بحث نشہ آور چیز ہے کے ماتحت کج بحثی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.بحث اچھی چیز ہے اس سے بہت سی حقیقتیں گھل جاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ یہ ایک نشہ آور چیز ہے.جب لوگ کسی امر کے متعلق بحث کر رہے ہوتے ہیں تو وہ نشہ محسوس کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ان سے وہ مسئلہ پوشیدہ ہو جاتا ہے جس کے متعلق بحث شروع کی جاتی ہے اور وہ کہیں کے کہیں نکل جاتے ہیں.چیتے کی مثال ان کی مثال اُس چیتے کی سی ہوتی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کہیں سل پڑی تھی جسے وہ چیتا چاٹنے لگا.چاہتے چاہتے اُس کی زبان سے خون نکل آیا.اس پر اُس نے یہ سمجھا کہ سل چاٹنے سے مزا آ رہا ہے اور آخر چاہتے چاہتے
خطابات شوری جلد اوّل MLA مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء اُس کی ساری زبان کٹ گئی.بحث و مباحثہ میں بھی یہی حالت ہوتی ہے.جب کوئی ایسا شخص اس میں شامل ہوتا ہے جو اپنے نفس پر پوری طرح قابو نہیں رکھتا تو اس مسئلہ کا خیال اس کے دل سے محو ہو جاتا ہے.وہ بحث میں ایسی لذت پاتا ہے کہ گویا اُس کی ساری ترقیات کا مدار اُس پر ہوتا ہے کہ اسے جیتا ہوا سمجھا جائے.ایسی بحث لعنت کا موجب بن جاتی ہے اور بحث کرنے والے کو تباہ کر دیتی ہے.مجلس میں استغفار کرنا یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات پر عمل کیا اور تعلیم دی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مجلس میں تشریف لے جاتے تو متواتر استغفار پڑھتے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا میں مجلس میں جا کر ہے بار استغفار کرتا ہوں اے یہ عربی محاورہ ہے جو کثرت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.یعنی آپ کا یہ مطلب تھا کہ آپ بکثرت استغفار کرتے تھے ہوسکتا ہے کہ کبھی آپ ۷۰ بار نہیں بلکہ بہت زیادہ بار استغفار کرتے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ کبھی آپ ۷۰ بار سے کم استغفار کرتے ہوں.اس استغفار کی وجہ یہی تھی کہ مجلس میں لوگ جو گفتگو کرتے ہیں اس سے انسان اثر پذیر ہونے لگتا ہے اور بسا اوقات ایک انسان اپنی جگہ سے ہل کر کہیں کا کہیں چلا جاتا ہے اور اُسے اِس کا پتہ بھی نہیں لگتا.استغفار کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے التجاء کی جاتی ہے کہ اسے دوسروں کے مینر اور نقصان رساں اثرات سے محفوظ رکھے.تباہی کا موجب بنے والی مجلس غرض جہاں بحث کسی مسئلہ کی وضاحت اور اس کے حل کا موجب ہوتی ہے وہاں اس سے ضد اور کج روی بھی پیدا ہوتی ہے.ایسی صورت میں وہ مجلس جہاں یہ بات پیدا ہوتا ہی کا موجب بن جاتی ہے.صرف بحث کرنے کی غرض سے پیس میں ایک نصیحت تو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب آپ لوگ مشورہ میں شامل ہوں تو کسی بات میں شامل نہ ہونا چاہئے آپ میں سے ہر ایک یہ بات مد نظر رکھے کہ کسی بحث میں صرف بحث کرنے کی غرض سے کبھی شامل نہیں ہونا چاہئے.ہاں اگر دل میں کوئی ایسی بات آئے جو مفید ہو اور کسی اور
خطابات شوری جلد اوّل ۴۷۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء نے نہ کہی ہو تو وہ پیش کر دینی چاہئے.میں قریباً ہر سال یہ بات کہتا ہوں مگر ہر سال کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس سے پوری طرح فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا.کئی لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ہم بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ اُن کے ذہن میں کوئی نئی بات ہوتی ہے بلکہ اس لئے کہ ہمیں بھی کچھ کہنا چاہئے حالانکہ ان سے پہلے کئی دوست وہی بات کہہ چکے ہوتے ہیں مگر وہ بحث کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور یہ محسوس نہیں کرتے کہ اس طرح اپنا بھی اور دوسروں کا بھی وقت ضائع کر رہے ہیں.وہ محض اپنی بڑائی اور اپنی قابلیت کے اظہار کے لئے بولنا ضروری سمجھتے ہیں حالانکہ یہ اجلاس کسی بڑائی اور کسی فخر کے اظہار کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اس میں شامل ہونے والوں کو بے حد خوف محسوس کرنا چاہئے کیونکہ ہمارا یہاں کام قاضی اور حج کی حیثیت کا ہے اس لئے ہماری وہی حالت ہونی چاہئے جو ایک مسلمان قاضی کے متعلق بیان کی جاتی ہے.ایک مسلمان قاضی کی حالت بیان کیا جاتا ہے کہ بادشاہ نے ایک شخص کو قاضی مقرر کر دیا.اُس کے دوست یہ سمجھ کر آئے کہ وہ خوش ہو رہا ہوگا ہم بھی اس کی خوشی میں شریک ہوں.مگر آ کر دیکھا کہ وہ رو رہا تھا.اُنہوں نے پوچھا کیوں رو ر ہے ہو تمہیں تو خوش ہونا چاہئے تھا.اُس نے کہا میرے لئے یہ خوشی کی بات نہیں.بادشاہ نے میرے سپر د ایسا کام کیا ہے جس کے متعلق مجھے ذاتی طور پر کوئی علم نہ ہوگا.میرے پاس مدعی اور مدعا علیہ اپنا مقدمہ لے کر آئیں گے.مدعی کو معلوم ہوگا کہ اصل بات کیا ہے اور مدعا علیہ کو بھی معلوم ہوگا کہ حقیقت کیا ہے مگر مجھے کچھ معلوم نہ ہوگا اور اُن کا فیصلہ کرنا میرا کام ہو گا.گویا دو بیناؤں کو مجھ نابینا کے سپرد کیا جائے گا کہ میں اُن کی راہنمائی کروں.دو عالموں کو مجھ جاہل کے سپرد کیا جائے گا کہ میں اُنہیں تعلیم دوں.اس سے زیادہ میرے لئے خطرہ کی اور کیا بات ہوسکتی ہے.ہماری حالت یہی حالت ہماری ہے.ہم جو بھی کام کریں گے اُس کے نتائج نکلیں گے، اچھے یا بُرے مگر ہمیں نہیں معلوم کہ واقعات کس طرح رونما ہوں گے.ان میں کیا کیا تغیرات آئیں گے.دراصل صحیح اور حقیقی فیصلہ وہ علیم وخبیر خدا ہی کر سکتا ہے جس نے یہ سلسلہ جاری کیا ہے اُس کے ہوا اور کوئی نہیں کر سکتا مگر ہمارا امتحان لینے کے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۸۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء لئے وہ کہتا ہے کہ یہ کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے، جاؤ تم فیصلہ کرو.ہم اس فیصلہ کے لئے جمع ہوتے ہیں لیکن بجائے اُس طالب علم کی طرح ڈرنے اور خوف کھانے کے جو کمرہ امتحان میں داخل ہو رہا ہوتا ہے ضد اور ہٹ اور نمائش کا رنگ اختیار کر لیتے ہیں.تو ہم کتنی بڑی ٹھوکر کھاتے ہیں.اگر ہم یہ نہیں سمجھتے کہ جو فیصلہ ہم کریں گے وہ لاکھوں انسانوں پر نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں پر اثر انداز ہو گا اور اسی زمانہ کے کروڑوں انسانوں پر نہیں بلکہ آنے والے کروڑوں انسانوں پر بھی اثر انداز ہوگا.ہمارے فیصلہ کی غلطی کتنے خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہے اور ہمارے فیصلہ کی صحت کیسے عظیم الشان نتائج پیدا کر سکتی ہے.تو ہم اپنے آپ کو سخت خطرہ میں ڈالتے ہیں.امام ابوحنیفہ کا قول امام ابوحنیفہ نے کیا ہی عمدہ بات فرمائی ہے.کسی نے اُن سے کہا کیا کسی نے آپ کو بھی کبھی ایسی نصیحت کی جس کا آپ کے دل پر گہر انقش ہوا؟ اُنہوں نے کہا کبھی کسی بڑی عمر کے انسان نے کوئی بات ایسی مجھے نہیں بتائی جو غیر معمولی طور پر یاد رکھنے کے قابل ہو، ہاں ایک بچہ نے مجھے ایسی بات کہی تھی.اُس نے پوچھا وہ کیا؟ فرمایا وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ بارش ہو رہی تھی ، چھوٹی عمر کا ایک بچہ تھا جو ادھر اُدھر دوڑ رہا تھا میں نے خیال کیا کیچڑ میں وہ گر پڑے گا اس وجہ سے میں نے اُسے کہا میاں بچے سنبھل کر چلو ایسا نہ ہو کہ پاؤں پھسل جائے اور گر پڑو.یہ سُن کر اُس نے میری طرف مڑ کر دیکھا اور کہا امام صاحب ! آپ اپنی فکر کریں.میں پھسلا تو میری اپنی ہی ہڈی پسلی ٹوٹے گی لیکن اگر آپ پھیلے تو اور بھی بہت سے لوگ تباہ ہو جائیں گے.تقوی وطہارت سے کام لو ہماری بھی یہی حالت ہے.ہماری غلطی بھی لاکھوں انسانوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے اور ہماری اچھی بات.لاکھوں انسانوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے.پس یہ مت سمجھو کہ تم جو یہاں جمع ہوئے ہو ایک غریب اور کمزور جماعت کے لوگ ہو اور اپنی تعداد کے لحاظ سے دُنیا کے مقابلہ میں نہ ہونے کے برابر ہو اس لئے کہ خدا تعالیٰ جن جماعتوں کو قائم کرتا ہے ان کے تأثرات خود پھیلاتا ہے.وہ جماعتیں ایک طاقت ور بیج کی طرح ہوتی ہیں جس سے بہت بڑا درخت بنتا ہے اور ساری دُنیا میں پھیل جاتا ہے.ایسا درخت اگر زہریلا ہوگا تو ساری دُنیا کو تباہ کر دے گا
خطابات شوری جلد اوّل ۴۸۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء اور اگر اچھا ہو تو تمام لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے.اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مشوروں میں تقویٰ وطہارت سے کام لو اور صفائی قلب پیدا کرو.دُعا کرو پھر خدا تعالیٰ سے دُعا کرو کہ وہ تمہاری راہ نمائی فرمائے.ہر لفظ جو تمہاری زبان سے نکلے، مصفی اور خالص ہو.کسی قسم کی گمراہی کا اس میں شائبہ نہ ہو.پھر یہ بھی دُعا کرو کہ ہم ایسے نتائج پر پہنچیں جو دُنیا کے لئے فائدہ کا موجب ہوں.اس دُنیا کی زندگی نہایت عارضی اور قلیل زندگی ہے.اس دُنیا کے متعلق سائنس دان کہتے ہیں کہ لاکھوں سال سے چلی آرہی ہے اور یہ پتہ نہیں کہ کب تک چلی جائے گی.اتنے لمبے عرصہ میں سے زیادہ سے زیادہ ۶۰ یا ۷۰ سال کی انسانی زندگی ایک نہایت ہی قلیل زندگی ہے.اس میں کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے کہ جس کا بُرا خمیازه ابدی زندگی میں اُٹھانا پڑے بلکہ اسی بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہی کچھ کیا جائے جس کا فائدہ اُس ہمیشہ کی زندگی میں حاصل ہو سکے.پہلی بات پس اس وقت پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گفتگو کرتے وقت یہ خیال رکھا جائے کہ وقت ضائع نہ ہو.کوئی مفید بات ذہن میں آئے تو وہ پیش کی جائے اور دیکھ لیا جائے کہ کسی اور نے تو نہیں پیش کر دی.اگر کوئی اور پیش کر چکا ہو تو پھر کہنے کی ضرورت نہیں.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یا د رکھنا چاہئے کہ مشورہ دینے والے دوسری بات آپس میں اختلاف بھی رکھتے ہیں مگر مشورہ دیتے وقت معاملہ کی حقیقت کو مد نظر رکھنا چاہئے اور یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ کس نے اسے پیش کیا ہے.یہ نہایت ہی ذلیل بات ہے کہ زید یا بکر سے اختلاف کی وجہ سے اُس کے پیش کردہ مسئلہ کے خلاف رائے دی جائے.یہ بات میں یہ فرض کر کے کہہ رہا ہوں کہ ہماری جماعت میں بھی کسی کو کسی سے عداوت اور دشمنی ہو سکتی ہے اگر ایسا ہو تو کسی کو کسی عداوت کی وجہ سے خلاف رائے نہیں دینی چاہئے یا کسی کے الفاظ کی ترشی کو اپنی رائے پر اثر انداز نہیں ہونے دینا چاہئے.اس قسم کے سب طریق گمراہی کی طرف لے جانے والے ہیں اور سخت نقصان پہنچانے والے ہیں.فیصلہ کرتے وقت دو باتیں مدنظر رکھنی چاہئیں اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے فیصلے کرتے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء وقت دو باتیں ضرور مد نظر رکھنی چاہئیں.ایک تو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہر جماعت میں کچھ لوگ طاقتور ہوتے ہیں اور کچھ کمزور ہوتے ہیں.اگر کوئی طاقتور ہو تو اسے کبھی یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ تمام کے تمام لوگ اسی رنگ میں طاقت رکھتے ہیں اور اگر کوئی خود کمزور ہو تو اسے خیال نہیں کرنا چاہئے کہ سب کو اُسی کی طرح کمزور ہو جانا چاہئے.طاقتور کو کچھ طاقت کم کرنی پڑتی ہے اور کمزور کو کچھ اوپر ہونا پڑتا ہے تب دونوں مل کر کام کر سکتے ہیں.اس کی موٹی مثال دو بیلوں کے متعلق ملتی ہے جو ایک گاڑی میں جتے ہوئے ہوں.جن میں سے ایک مضبوط ہو اور ایک کمزور.ان کا مشترکہ کام دونوں کی طاقتوں کے درمیان ہوتا ہے.طاقتور کا کام یہ ہوتا ہے کہ اپنی طاقت کی نسبت کچھ کم تیزی سے چلے اور کمزور کا کام یہ ہوتا ہے کم ہونے کی نسبت سے زیادہ طاقت لگائے.درمیانی راہ اختیار کی جائے ہیں آپ لوگ جو مشورے دیں اُن میں یہ خیال ضرور رکھیں کہ درمیانی راہ اختیار کی جائے.نہ تو اتنا بوجھ بنایا جائے کہ کمزور چل ہی نہ سکیں اور نہ اتنا کمزوروں کا خیال رکھا جائے کہ ترقی ہو ہی نہ سکے.ہماری کامیابی اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے دوسری بات جو اپنے مشوروں میں مدنظر رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا ہے اور اس کی ترقی ہماری کوششوں پر مبنی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نصرت پر منحصر ہے.اس لئے ہمیں کبھی یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری کیا حیثیت ہے.ہماری حیثیت خواہ کچھ ہی ہو جن مقاصد کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں اور اُسی نے یہ کام ہمارے سپرد کر کے کہا ہے کہ جاؤ ان مقاصد کو حاصل کرو.اوّل تو خدا تعالیٰ پر حُسنِ ظنی چاہتی ہے کہ ہم یہ خیال کریں کہ ہم ان مقاصد کو حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.کوئی عقلمند انسان بڑے آدمی کا کام ایک بچہ کے سپرد نہ کرے گا.کوئی بادشاہ جرنیل کا کام ایک سپاہی کو نہیں دے گا.پھر کس طرح یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے سپر د وہ کام کرے جو ہم نہ کر سکتے ہوں اور وہ مقاصد پورے کرنا ہمارا فرض ٹھہرائے جن کے پورے کرنے کی ہم طاقت نہیں رکھتے.
خطابات شوری جلد اوّل ۴۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء ہماری کمزوری ہماری کمزوری اور ناطاقتی سے ہم سے زیادہ واقف کوئی نہیں ہوسکتا.دشمن ہمیں کمزور دیکھ کر کہتا ہے کچل کر رکھ دوں گا مگر وہ جتنا کمزور ہمیں سمجھتا ہے ہم اس سے بھی بہت زیادہ کمزور ہیں.ابھی پچھلے دنوں ایک شخص نے کہا جسے غرور تھا کہ پنجاب میں ان کی رو چلی ہوئی ہے کہ ہم احمدی جماعت کو کچل ڈالیں گے.اگر میرا نفس بھی موٹا ہوتا تو میں اُسے یہ جواب دیتا کہ تم ہمیں کیا چلو گے ہم تمہیں کچل کر رکھ دیں گے مگر میں اُس کی بات سُن کر مسکرا پڑا.میرے نفس نے کہا جس جماعت کی کمزوری اور ناتوانی کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ رہا ہے کہ اسے کچل دیا جائے ، ہم جانتے ہیں یہ جماعت اُس سے بھی زیادہ کمزور ہے جس قدر سے کمزور سمجھا جا رہا ہے.پھر میں اس پر بھی مسکرایا کہ اُسے معلوم نہیں کہ ہم کس کی گود میں بیٹھے ہیں.یہ اپنے آپ کو پہلوان سمجھتا ہے اور ہماری جماعت کو بچہ کی طرح کمزور قرار دیتا ہے.یہ اس بچہ پر ہاتھ اُٹھاتا ہے اور اس بات پر فخر کا اظہار کرتا ہے کہ ہم اسے کچل کر اور مسل کر رکھ دیں گے.اگر واقعہ میں یہ اپنے آپ کو پہلوان سمجھتا ہے اور اپنے مقابلہ میں جماعت احمدیہ کو بچہ قرار دیتا ہے تو اُسے شرم آنی چاہئے کہ ایک بچہ کے سامنے اس قسم کا دعوی کرتا ہے لیکن کاش ! اس کی آنکھیں ہوتیں اور کاش وہ یہ دیکھتا کہ یہ بچہ ایسے باپ کی گود میں بیٹھا ہے جس کے مقابلہ میں ساری دُنیا کی طاقتوں کی حقیقت مچھر کے برابر بھی نہیں اور تمام دنیا کے طاقتور چیونٹی کی حیثیت بھی نہیں رکھتے.اس کا یہ کہنا کہ ہم جماعت احمدیہ کو کچل کر رکھ دیں گے بے شک ظاہری سامان ایسے ہی ہیں کہ کچل دیں مگر اس جماعت کی حفاظت کے لئے ایک ایسی ہستی کھڑی ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ ایک لمحہ میں بڑے سے بڑے دشمن کو ملیا میٹ کر سکتا ہے.ایک مثال اس کے متعلق ایک مثال ہی کیوں نہ پیش کر دی جائے.ایک حج تھا جس کے سامنے ایک مقام کی جماعت احمدیہ کا ایک مقدمہ پیش تھا اُس سے توقع تھی کہ احمدیوں کے حق میں فیصلہ کرے گا.وہاں کی جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے درخواست کی کہ دُعا کی جائے خدا تعالیٰ کا میابی عطا کرے.آپ نے لکھا دُعا کی گئی ہے خدا تعالیٰ فضل کرے گا.لیکن ظاہری حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ وہ حج جو احمدیوں سے ہمدردی رکھتا تھا بدل گیا اور ایک ایسا حج آ گیا جسے احمدیوں سے سخت عداوت تھی اور جس
خطابات شوری جلد اوّل ۴۸۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء کے متعلق خیال تھا کہ وہ احمدیوں کے خلاف فیصلہ کرے گا.آخر اس نے فیصلہ کے نوٹ لکھ لئے اور جس دن وہ عدالت میں فیصلہ سُنانے والا تھا احمدیوں کو سخت گھبراہٹ پیدا ہو گئی تھی کہ آج ان کے ہاتھ سے مسجد نکل جائے گی جس کے متعلق مقدمہ تھا.اُس وقت بعض کو یہ بھی خیال آ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو لکھا تھا کہ خدا تعالیٰ فضل کرے گا اور کامیابی ہو گی مگر اب تو بات انتہاء کو پہنچ چکی ہے پھر کامیابی کس طرح ہو گی؟ آخر جج نے فیصلہ کے کاغذات لئے اور کپڑے پہن کر کچہری میں جانے لگا تا کہ فیصلہ سُنائے.اُس وقت اس نے نوکر سے کہا بُوٹ پہنا دے.وہ بُوٹ پہنا رہا تھا کہ اس نے محسوس کیا حج صاحب کو جھٹکا لگا ہے او پر نگاہ کر کے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ جج صاحب کی جان نکل چکی ہے.اس طرح اُس کا فیصلہ لکھا لکھا یا ہی رہ گیا اور ایک دوسرے حج نے فیصلہ کیا جو احمد یوں کے حق میں تھا.تو ایسے فیصلے ہوا کرتے ہیں لیکن دُنیا اپنی طاقت کو دیکھتی ہے اور یہ نہیں دیکھتی کہ اس طاقت کو ایک لمحہ میں سلب کر لینے والی ہستی بھی موجود ہے.سلسلہ احمد یہ خدا نے قائم کیا ہے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ جو کام ہمارے سپرد ہوا ہے یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.اگر اس سلسلہ کو خدا تعالیٰ نے قائم نہیں کیا، اگر ہم خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت یہاں جمع نہیں ہوئے ، اگر ہم خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے سب کچھ نہیں کر رہے تو پھر ہمارا دوسرے مسلمانوں علیحدگی اختیار کرنا قومی غداری ہے اور ہم دشمن ہیں اپنی قوم کے، اپنے ملک کے اور اپنے بھائیوں کے.اس صورت میں ہم جس قدر جلد تباہ ہو جائیں اُتنا ہی اچھا ہے.صرف اسی صورت میں ہماری جد وجہد اور ہمارا یہ اجتماع مفید نتیجہ پیدا کر سکتا ہے کہ ہم ان اعلیٰ اغراض کے لئے جو ہمارے لئے بالا ہستی کی طرف سے مقرر کی گئیں اور اُس کام کے لئے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہم جمع ہوئے ہوں.اسی بناء پر ہم دوسروں سے علیحدہ کھڑے ہو سکتے ہیں.ورنہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانا قطعاً جائز نہیں ہوسکتا.مخالفین کا ہمارے متعلق خیال لوگ ہماری کمزوری کو دیکھ کر اور مسلمانوں کی وسعت پر نظر کر کے اور زمانہ کی نزاکت کو مد نظر رکھ کر ہمیں کہتے ہیں کہ تم قومی غدار ہو، تم مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرتے ہو، تم علیحدہ جماعت بناتے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء ہو.اگر جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے قائم نہ کیا ہوتا تو میں خود تسلیم کرتا کہ یہ قومی غداری ہے اور بہت بڑی غداری ہے لیکن چونکہ ہمیں خدا تعالیٰ نے اس کام پر مقرر کیا ہے اس لئے ہم اس کے لئے کھڑے ہونا اپنا فرض سمجھتے ہیں.آخری ٹالسٹائے روس کا ایک مشہور روس کے ٹالسٹائے خاندان کا ایک واقعہ انسان گزرا ہے اور تھوڑا ہی عرصہ ہوا جبکہ وہ فوت ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں وہ زندہ تھا.مفتی محمد صادق صاحب نے اُسے ٹیچنگز آف اسلام بھیجی تھی جس کے متعلق اس نے اعلیٰ درجہ کی رائے کا اظہار کیا تھا.ان کا کوئی بڑا بزرگ اجداد میں سے اُس وقت کے زار روس کا در بان تھا.ایک دفعہ زار کو کوئی اہم کام در پیش تھا اُس نے دربان کو حکم دیا کہ آج مجھ سے ملنے کے لئے کوئی نہ آئے.روس کا قانون تھا کہ نوابوں اور شاہی خاندان کے لوگوں پر وہ قانون عائد نہ ہوتا جو عوام کے لئے ہوتا مگر زار نے کہہ دیا خواہ کوئی ہو آج اُسے ملاقات کے لئے اندر نہ آنے دیا جائے.اتفاق سے ایک اعلیٰ طبقہ کا ڈیوک آ گیا جو شاہی خاندان میں سے تھا اور فوجی افسر بھی تھا.جب وہ اندر جانے لگا تو دربان نے اُسے روک دیا اور کہہ دیا زار کی طرف سے اجازت نہیں ہے.ڈیوک نے کہا کیا تم جانتے نہیں ہو میں کون ہوں؟ دربان نے کہا حضور! میں جانتا ہوں آپ ڈیوک ہیں.اُس نے کہا پھر کیوں روکتے ہو؟ دربان نے کہا اس لئے کہ بادشاہ کا حکم ہے.اس پر ڈیوک دربان کو مارنے لگا.وہ مار کھاتا رہا لیکن جب ڈیوک اندر جانے لگا تو اُس نے کہا بادشاہ کا حکم ہے کہ کسی کو اندر نہ آنے دوں اس لئے آپ اندر نہیں جا سکتے.اس پر اُس نے مارا اور جب اندر جانے لگا تو دربان نے پھر روک دیا.آخر تیسری بار جب ڈیوک مار رہا تھا تو زار نے آواز دی کیا ہے؟ ڈیوک نے کہا دربان مجھے اندر نہیں آنے دیتا.زار نے کہا دونوں اندر آ جاؤ.جب دونوں گئے اور ڈیوک نے ساری بات سنائی تو زار نے کہا میں نے اسے حکم دیا تھا کہ کسی کو اندر نہ آنے دو.اب میں اسے حکم دیتا ہوں کہ جس طرح تم نے اسے مارا یہ تمہیں مارے.جب دربان مارنے لگا تو ڈیوک نے کہا یہ مجھے نہیں مار سکتا، میں فوجی افسر ہوں.زار نے کہا میں اسے جرنیل بناتا ہوں اور کہتا ہوں اب مارو.ڈیوک نے کہا یہ اب بھی نہیں مارسکتا کیونکہ قانون
خطابات شوری جلد اوّل ۴۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء یہ ہے کہ ڈیوک کو غیر ڈیوک سزا نہیں دے سکتا.زار نے کہا میں اسے کونٹ بناتا ہوں اور حکم دیتا ہوں کہ کونٹ ٹالسٹائے اسے مارو.کوئی سلسلہ احمدیہ کو مٹا نہیں سکتا تو تفرقہ بہت بری چیز ہے، میں اسے تسلیم کرتا ہوں لیکن ہم ان سے کہیں گے تم سے بہت بڑی ہستی ہے جو کہتی ہے کہ اس طرح کرو، اس لئے ہم کرتے ہیں.اس طرح ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن اگر ہم ایسا کام کرنے والے ہوں جس پر خدا تعالیٰ نے ہمیں کھڑا نہیں کیا تو پھر دنیا میں سب سے بڑے غدار ہم ہوں گے.لیکن اگر خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے تو پھر ہمیں کسی بات کی فکر نہیں ہو سکتی اور کوئی اس سلسلہ کو مٹا نہیں سکتا.ہمیں دوسروں کی طاقت اور اپنی کمزوری کو دیکھ کر نہیں ڈرنا چاہئے.بیشک ہم کمزور ہیں اور ہمارے مخالف خدا کے فرشتے ہماری مدد کر رہے ہیں طاقتور لیکن خدا تعالیٰ کے فرشتے آئیں گے اور ہماری مدد کریں گے اور اس وقت تک کرتے چلے آرہے ہیں.کون آج سے چند سال پہلے یہ کہہ سکتا تھا کہ ہم اس طرح جمع ہوں گے اور اہم سے اہم امور کے متعلق مشورہ کیا کریں گے.ابھی کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا صرف ۲۸ سال ہی ہوئے ہیں کہ ۱۸۹۳ء میں جو جلسہ ہوا اُس میں چھوٹے بڑے حتی کہ بچے بھی ملا کر ۳۱۳ کی تعداد ہوئی تھی مگر آج جماعتوں کے صرف نمائندوں کی تعداد ۳۲۰ ہے اور جو دوسرے احباب آئے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے.جمعہ کی نماز میں ہی اتنے لوگ شریک ہوئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے آخری سالانہ جلسہ میں اتنے نہیں تھے.ایک وہ زمانہ تھا جبکہ قادیان سے باہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کوئی نہ جانتا تھا لیکن آج دنیا کا کوئی بر اعظم نہیں جہاں کے افراد نہ جانتے ہوں اور ہر ملک میں احمدی موجود ہیں.آخر یہ سب کچھ کس ذریعہ اور کس طاقت سے ہوگا ؟ سوائے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے کیا چیز ہے جس نے اس تھوڑے سے عرصہ میں سلسلہ کو اکناف میں پھیلا دیا.الصلوة حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد پھر حضرت مسیح موعود علیہا والسلام کی وفات پر لوگوں نے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۸۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء خیال کیا کہ یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا کیونکہ اُنہوں نے سمجھا کہ سلسلہ کی روح رواں چلا گیا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ سلسلہ کی روح رواں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہ تھے بلکہ خدا نے اسے قائم کیا تھا.اُسی نے اسے قائم رکھا اور اُسی نے حضرت مولوی صاحب کو خلیفہ بنایا.کچھ لوگ جو پہلے ہی کہتے تھے کہ اس سلسلہ کو مولوی نورالدین صاحب چلا رہے ہیں اُنہوں نے کہا ہم نہ کہتے تھے سب کچھ مولوی نور الدین صاحب کرتے ہیں، ان کے بعد اس سلسلہ کا خاتمہ ہو جائے گا اور جب حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے تو سب نے کہا اب فیصلہ ہو جائے گا.مخالفت کے کچھ اور سامان بھی پیدا ہو گئے یعنی کچھ لوگ جماعت سے علیحدہ ہو کر تفرقہ کرنے لگے مگر خدا تعالیٰ قدرت نمائی کرنا چاہتا تھا.جہاں سلسلہ کے کاموں کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے والے اختلاف میں پڑ گئے وہاں سلسلہ کی باگ اُس نے ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دی جس کے متعلق کہتے تھے یہ بچہ ہے اور جو دُنیا کے تجربہ کے لحاظ سے بچہ ہی تھا.اُس وقت میری عمر ۲۶ سال کی تھی اور میں نے یہ عمر قادیان میں ہی بسر کی تھی.دُنیا کا مجھے کوئی تجربہ نہ تھا اور نہ ہی سلسلہ کے کاموں کا تجربہ تھا کیونکہ جن کے ہاتھوں میں کام تھا وہ پسند نہ کرتے تھے کہ میں کوئی کام کروں.خلافت ثانیہ میں جماعت کی ترقی ایسی حالت میں جب یہ کام خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کیا تو مخالف کہنے لگے اب یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور ان لوگوں میں سے جو جماعت سے علیحدہ ہو گئے تھے ایک نے کہا ہم تو یہاں سے جاتے ہیں عوام الناس احمدیوں نے ایک بچہ کو خلیفہ مقرر کر لیا ہے، دس سال کے بعد دیکھنا ان عمارتوں پر عیسائی قابض ہو جائیں گے اور احمدیت بالکل مٹ جائے گی.یہ ۱۹۱۴ء کے ابتداء کا واقعہ ہے جس پر ۱۸ سال ختم ہو گئے اور اُنیسواں شروع ہے.گویا دو دہا کے ختم ہونے والے ہیں لیکن دیکھ لو کون قابض ہے اور آیا سلسلہ تباہ ہو گیا ہے یا خدا تعالیٰ کے فضل سے اس نے اتنی ترقی کی ہے کہ کئی گنے زیادہ جماعت ہو گئی ہے.جب خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ دی تو بیرونی ممالک میں کسی جگہ کوئی احمدی جماعت قائم نہ تھی سوائے افغانستان کے مگر اب خدا کے فضل سے مختلف ممالک میں جماعتیں قائم ہیں اور نہ صرف ہندوستانی جو دوسرے ممالک میں گئے ہوئے ہیں وہ سلسلہ احمدیہ میں
خطابات شوری جلد اوّل ۴۸۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء داخل ہوئے بلکہ ان ممالک کے باشندے بھی داخل ہو چکے ہیں اور غیر مذاہب کے باشندے داخل ہو چکے ہیں.پھر جس وقت اس انسان کے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے سلسلہ کا انتظام دیا جسے بچہ کہتے تھے، اُس وقت خزانہ پر ۱۸ ہزار قرض کا بار تھا اور صرف چند آنے خزانہ میں موجود تھے.اُس وقت کہا گیا کہ قادیان کے لوگ چند دن میں بُھو کے مرنے لگیں گے لیکن ابتداء ہی سے اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے میرے اندر وہ طاقت اور قوت پیدا کی کہ مجھے ہر موقع پر یہی یقین رہا کہ سلسلہ ضرور بڑھے گا اور ترقی کرے گا.آج خدا کے فضل سے وہ نظارہ نظر آ رہا ہے کہ سلسلہ کی اشاعت اور جماعت کی ترقی الگ رہی خدا تعالیٰ نے جو رعب عطا کر رکھا ہے وہ جماعت احمدیہ سے سینکڑوں گنے زیادہ تعدا در رکھنے والوں کو بھی حاصل نہیں ہے.اُس وقت جماعت احمدیہ کو ایک چھوٹی سی اور نا قابل التفات جماعت سمجھا جاتا تھا مگر اب اسے زبر دست طاقت تسلیم کیا جاتا ہے.اُس وقت مسلمان کہتے تھے احمدیوں کو کسی کام میں اپنے ساتھ ملا کر کیا کرنا ہے مگر آج کہتے ہیں یہ ایک ہی جماعت ایسی ہے کہ اس کی امداد کے بغیر مسلمان ترقی نہیں کر سکتے.یہ عملی ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.کیا خدا تعالیٰ کی ان نفرتوں اور ان تائیدوں کو دیکھتے ہوئے ہم گھبرا سکتے ہیں؟ اور کیا ان حالات میں دُنیا کی مشکلات روک ہو سکتی ہے؟ اپنی نظریں بلند اور دل مضبوط رکھیں پس اپنے فیصلوں میں یہ بات مدنظر رکھو کہ اس جگہ ہم خدا تعالیٰ کے ایجنٹوں کی حیثیت سے بیٹھے ہیں اور خدا تعالیٰ کا سپرد کیا ہوا کام کرنا ہمارا فرض ہے.کسی صورت اور کسی حالت میں بھی بُزدل، کمزور ہمت اور پست حوصلہ نہ بنو.اپنی نظریں بلند اور اپنے دل مضبوط رکھو.ایک طاقتور آقا نے یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ ہم کس طرح یہ کام کرتے ہیں.بندوں کے سپر د کام کرنے کی وجہ جن نتائج کو خدا تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے ان میں وہ ہمارا محتاج نہیں.وہ حسن کہہ سکتا ہے اور جو کچھ چاہے فوراً ہو سکتا ہے لیکن وہ دُنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ یہ سب کچھ اسی کے حکم سے ہوا ہے.اُس کا محسن تو عام دیکھتے نہیں اس لئے کہتے ہیں جو کچھ ہوا آپ ہی آپ ہو گیا.خدا تعالیٰ نے سورج، چاند، ستاروں اور زمین کے متعلق کہا حسن اور یہ سب چیزیں ہو گئیں مگر
خطابات شوری جلد اوّل ۴۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء لوگوں نے کہا نہیں یہ اپنے آپ ہی ہو گئی ہیں.تب اُس نے کہا ہم ایسی بات پیش کرتے ہیں جس کے متعلق یہ نہ کہا جا سکے کہ اپنے آپ ہی ہوگئی ہے.اس کے لئے وہ ایسے انسان کو جس کی طاقت دُنیا کے مقابلہ میں مچھر اور چیونٹی سے بھی کمزور ہوتی ہے، اُٹھاتا ہے اور یہ کہلاتا ہے کہ کہو میں خدا کی طرف سے آیا ہوں اور خدا کے نور کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہوں، دُنیا میرے خلاف کچھ نہ کر سکے گی اور میں کامیاب ہو جاؤں گا.اگر مچھر بھی بول سکتا ، اسے بھی زبان مل جاتی اور وہ بھنبھنا تا ہوا اِس مجلس میں آکر کہتا یہاں سے بھاگ جاؤ ورنہ میں تمہیں کھا جاؤں گا تو خیال کر لوکس طرح لوگ اس کی بات پر حقارت اور نفرت سے مسکرا دیتے.مچھر کو جانے دو ایک چھوٹے بچہ کو لے لو.وہ ماں باپ جو چھوٹے بچہ کو تہذیب نہیں سکھاتے.جب بچہ اُنھیں کہتا ہے کہ ماروں گا تو اُس پر غصہ نہیں ہوتے بلکہ ہنستے ہیں.تربیت کے لحاظ سے اگر ڈانٹیں تو اور بات ہے مگر یہ نہیں کہ بچے کے مارنے سے ڈرتے ہوں.خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی جن کو خدا تعالیٰ دُنیا کی اصلاح کے لئے چنتا ہے وہ جب دُنیا سے کہتے ہیں کہ ہم غالب ہو جائیں گے، کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور دُنیا اُن سے کہتی ہے تمہیں مسل کر رکھ دیا جائے گا.تو اُس وقت دُنیا خود کہتی ہے کوئی انسانی تدبیر اسے ہم پر غلبہ نہیں دلا سکتی.انسانی تدبیر نے ہمیں غلبہ دیا ہوا ہے.تب خدا تعالیٰ کی قدرت ظاہر ہوتی ہے جو اُس کو طاقتور اور اُس کے مخالفوں کو کمزور بنا دیتی ہے.اُس وقت وہ خود یہ اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمیں یہ اپنی تدبیر اور اپنی کوشش سے کبھی مغلوب نہیں کر سکتا تھا.تب خدا تعالیٰ اسے غالب کرتا ہے تو دُنیا کو ماننا پڑتا ہے کہ یہ اپنے آپ غالب نہیں ہوا بلکہ ایک اور طاقت تھی جس نے اسے غلبہ عطا کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز یہی وہ آواز تھی جو ہمارے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اُٹھی جس کا اُس وقت کوئی بھی ساتھی نہ تھا.اس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اطلاع پا کر اعلان کیا کہ دُنیا میں ایک نذیر آیا.پر دُنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا.اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.پھر اُسی وقت کی یہ آواز تھی کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.۳ے
خطابات شوری جلد اوّل ۴۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء بٹالہ کا ایک مباحثہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے.ایک دفعہ میں جوانی کے ایام میں بٹالہ گیا.وہاں نیا نیا وہابیوں کا چرچا شروع ہوا تھا.ایک مولوی صاحب کے ساتھ بحث کرنے کے لئے آپ کو کہا گیا.اُس وقت آپ کا کوئی دعوی نہ تھا.فرماتے مجھے لوگ مباحثہ کے لئے لے گئے.میں جب وہاں گیا تو جس شخص سے مباحثہ ہونا تھا اُسے میں نے کہا آپ اپنا عقیدہ پیش کریں اگر وہ صحیح ہوگا تو میں تسلیم کرلوں گا ورنہ بحث کروں گا.اُس نے کہا میرا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن سب پر مقدم ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو قول صحیح ثابت ہو اسے ماننا چاہئے.میں نے کہا یہ تو بالکل درست عقیدہ ہے اور بحث کو ترک کر دیا.اس پر وہی لوگ جو ساتھ لائے تھے مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور دوسروں نے کہا اسے شکست ہوگئی ہے.گویا اُس وقت سارے کے سارے لوگ خلاف ہو گئے.تب یہ الہام ہوا.” تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا.اور وہ تجھے بہت برکت دے گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے، ہے گویا یہ الہام اُس وقت ہوا جب آپ نعوذ باللہ ذلیل وجود سمجھے گئے.اور یہ کہا گیا کہ آپ ہار گئے ہیں.ایسے وقت میں یہ آواز آپ نے اُٹھائی.اب دیکھو یہ کیسی سچی ثابت ہوئی.ایک امریکن سے گفتگو ایک دفعہ ایک امریکن نے جو قادیان آیا تھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا یسوع مسیح تو معجزے دکھاتا تھا آپ کے معجزات کون سے ہیں؟ آپ نے فرمایا آپ بھی میرا معجزہ ہیں.اس نے کہا یہ کس طرح.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جب مجھے میرے گاؤں کے لوگ بھی نہ جانتے تھے اُس وقت میں نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر کہا تھا يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ اِس میں خدا تعالیٰ نے بتایا تھا کہ دُنیا کے گوشوں سے کھینچ کر لوگوں کو یہاں لاؤں گا.آپ اب جو آئے ہیں تو اسی لئے آئے ہیں ورنہ آپ کو مجھ سے اور کیا تعلق تھا.کامیابی کے لئے پختہ ایمان کی ضرورت پس یہ بات یاد رکھیں کہ کسی امر کے متعلق مشورہ کرتے وقت اپنی قوت اور طاقت کو نہ دیکھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ اس امر کی دین کو سچی ضرورت ہے یا نہیں.اگر ہے تو
خطابات شوری جلد اوّل ۴۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء خواہ ہمارے جسموں کی آخری بوٹی تک اُڑ جائے وہ کام ہمیں کرنا چاہئے.جہاں خدا تعالیٰ ایسی حالت میں اپنی قدرت نمائی کرتا اور کامیابی کے سامان پیدا کر دیتا ہے وہاں یہ بات بھی مد نظر رکھتا ہے کہ اُس کے بندے صحیح ایمان اور یقین کے ساتھ بات کریں اور جتنا صحیح اور پختہ ایمان ہو گا اُتنی ہی عظیم الشان کامیابی ہو گی لیکن اگر دل میں کامیابی کے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ ہوگا تو کامیابی میں اتنی ہی کمی اور تو قف ہو گا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہمارے گھر میں ایک دفعہ جو آٹا تھا وہ بہت دیر تک چلا.آخر جب تول کر دیکھا تو پھر جلد ختم ہو گیا.پس جتنا یقین اور وثوق ہو گا اُتنی ہی خدا تعالی کی طرف سے مدد اور نصرت آئے گی اور اگر یقین کامل نہیں تو اتنا ہی زیادہ دُنیوی تدابیر پر بھروسہ کرنا پڑے گا.اگر کامل ایمان ہو تو آج خواہ ۱۰ کروڑ بجٹ قرار دے کر دوست کام کے لئے اُٹھیں خدا تعالیٰ اُسے پورا کر دے گا لیکن چونکہ ہماری جماعت میں کمزور بھی ہیں اس لئے ان کا خیال رکھنا ضروری ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کے سارے لوگ کامل الایمان نہیں بلکہ کمزور بھی ہیں.اگر سارے کے سارے اِس مجلس میں یقین کامل کے ساتھ شامل ہوں تو پھر سارا سال ان تجاویز کے پورا کرنے میں لگے رہنا چاہئے جو یہاں پاس کی جاتی ہیں.مجلس مشاورت میں خدا تعالیٰ سے عہد ہم یہاں خدا تعالیٰ کے ساتھ اقرار کرتے ہیں کہ یہ کام اس سال کریں گے مگر جن لوگوں میں کمزوری ہے وہ اس عہد کو بھول جاتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو ہمارے فیصلوں میں روک بنتی ہے اور انتہائی قربانی تک جانے میں روک ہے.احباب کو مشورہ دیتے وقت اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے اور دہی سمونے والی بات کرنی چاہئے.ایک طرف تو تو گل ہو اور دوسری طرف تدبیر کو بھی ملحوظ رکھا جائے.تو کل تو اُن کے لحاظ سے جو کامل الایمان ہیں اور تدبیر ان کے لحاظ سے جو کمزور ہیں.اُمید ہے کہ تمام دوست اخلاص اور تقویٰ سے تمام امور کے متعلق غور کریں گے اور دونوں باتوں کو مد نظر رکھیں گے یعنی ایک طرف تو کل کو اور دوسری طرف تدبیر کو.
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۴۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء گرلز سکول کی عمارت میں نے اس سال گرلز سکول کے لئے ایک عمارت کا انتظام کیا ہے.لڑکیوں کی تعلیم ایک نہایت اہم سوال ہے.جب تک تمام افراد کسی جماعت کے ایک خیال سے متفق نہ ہوں اُس وقت تک اس کے مشورے کامیاب نہیں ہو سکتے.اگر کوئی یہ سمجھے کہ گاڑی کو ایک بیل ہی کھینچ لے گا تو ایسا نہیں ہو سکتا.اسی طرح ہم کامیابی کا رستہ اُس وقت تک طے نہیں کر سکتے جب تک عورتوں کا طبقہ بھی ہمارا محمد و معاون نہ ہو.عام طور پر لوگ یہ خیال کر لیا کرتے ہیں کہ جب ہم طاقتور ہیں تو سب لوگ طاقتور ہوں گے.ایک لطیفہ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ بادشاہ کا ایک حجام تھا.وزراء بھی اُسی سے حجامتیں کرایا کرتے تھے.ایک دن ایک وزیر نے خوش ہو کر اسے پانچ سو اشرفی دے دی.اس کے بعد کسی دن ایک امیر نے اُس سے پوچھا شہر کا کیا حال ہے؟ تو اُس نے کہا لوگ بہت مزے میں ہیں.روپیہ کی اتنی بہتات ہے کہ کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس کے پاس کم از کم پانسو اشرفی نہ ہو.اُس کی یہ بات جب پھیلی تو دوسرے امراء بھی مذاق کے طور پر اُس سے یہی پوچھتے اور وہ سب کو یہی جواب دیتا.آخر تجویز کی گئی کہ اس کی تحصیلی کسی طرح اُڑالی جائے.چونکہ وہ اُسے ساتھ لئے پھرتا تھا کسی نے اُٹھا کر کہیں چُھپا دی.چونکہ وہ اس کے متعلق امراء سے کچھ کہہ نہ سکتا تھا اس لئے چُپ ہو گیا.پھر جو آیا تو اُس سے پوچھا گیا بتاؤ شہر کا کیا حال ہے؟ کہنے لگا حال کیا ہے.سب لوگ بُھو کے مرتے ہیں ، کسی کے پاس کچھ نہیں.اُس امیر نے اُسے تھیلی دے دی اور کہا لو اپنی تھیلی اور شہر کو بُھوکا نہ مارو.تو یہ تباہی و بربادی کا بیج ہوتا ہے کہ سب کو ایک جیسا سمجھ لیا جائے حالانکہ وہ ایسے نہ ہوں.قرآن نے یہ کہا ہے کہ خود آگے بڑھو اور دوسروں کو آگے بڑھاؤ.عورتوں کو تعلیم نہ دینے کا نقصان اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سی قو میں اس لئے تباہ ہو گئیں کہ اُنہوں نے عورتوں میں تعلیم نہ پھیلائی اور ان کی ترقی کا خیال نہ رکھا اور بہت سی قوموں میں تو ایسا بھی ہوا کہ مردوں کے ایک حصہ کو بھی تعلیم حاصل کرنے سے محروم کر دیا گیا.اسلام نے مرد و عورت دونوں کے لئے تعلیم ضروری قرار دی ہے.رسول کریم صلی اللہ
خطابات شوری جلد اوّل ۴۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلم قیدیوں کا معاوضہ یہ مقرر کیا تھا کہ وہ مدینہ کے لڑکوں کو پڑھا دیں تو آزاد کر دیئے جائیں گے لیے اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں جو عورتیں پیدا ہو کر جوان ہوئیں وہ سب پڑھی ہوئی تھیں.غرض عورتوں کی تعلیم نہایت ضروری ہے.جب تک قوم کے تمام افراد ایک لیول (LEVEL) پر نہ ہوں قوم ترقی نہیں کر سکتی.بچوں کی تعلیم و تربیت ہماری جماعت کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ لڑکے اور لڑکیاں دونوں تعلیم پائیں اور دونوں کی اعلیٰ درجہ کی تربیت کی جائے.میں نے متواتر دوستوں کو توجہ دلائی ہے کہ اگر وہ پوری طرح بچوں کی تربیت نہ کریں گے تو ترقی نہیں ہو سکے گی.میں بات تو گرلز سکول کے متعلق کر رہا تھا مگر یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں کے بچے آوارہ ہو رہے ہیں، گالی گلوچ کرتے ہیں، نمازوں کے پابند نہیں ، وہ اپنی بھی تباہی کے سامان کر رہے ہیں اور جماعت کو بھی سخت نقصان پہنچا رہے ہیں.ہزار طاعون بداخلاقی اور بد کرداری سے بہتر ہے مگر طاعون کے آنے پر شور مچ جاتا ہے اور اس سے زیادہ خطرناک چیز جو خود گھروں میں پیدا کی جاتی ہے اُس کی پرواہ نہیں کی جاتی.ہماری جماعت کے لوگوں کا فرض ہے کہ بچوں کی تربیت کا پورا پورا انتظام کریں.لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام چونکہ ہم ہر جگہ لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام نہیں کر سکتے اس لئے یہاں کیا گیا ہے اور اب تو کالج کی جماعتیں بھی کھل گئی ہیں.پچھلے سال ۱۶ لڑکیاں انٹرنس کے امتحان میں پاس ہوئی تھیں.اس پر غیر آئینی منظور شدہ ) کالج کھول دیا گیا ہے کہ مرد پردہ ڈال کر لڑکیوں کو تعلیم دیں مگر یہ کافی نہیں.اب ہم نے ایک عمارت کا انتظام کیا ہے اور امید ہے کہ جلد اس قابل ہوسکیں گے کہ لڑکیوں کے لئے بورڈنگ بھی قائم کر سکیں.لڑکوں کی تعلیم کے لئے باہر سکول مل سکتے ہیں.گو تعلیم اور تربیت کے لئے جیسی فضاء قادیان میں ہے ایسی باہر میسر نہیں آ سکتی تاہم سکول ملتے ہیں لیکن لڑکیوں کے لئے نہیں ملتے اس لئے دور دور کے دوست خواہش کرتے ہیں کہ اپنی لڑکیوں کو یہاں تعلیم کے لئے بھیجیں.اس لئے ارادہ ہے کہ جب تعلیم کے متعلق مکمل
خطابات شوری جلد اوّل ۴۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء انتظام ہو جائے تو لڑکیوں کا بورڈنگ تیار کر دیں.اس کے لئے بڑی ضرورت یہ ہے کہ عملہ ہو اور اچھا عملہ ہو.ہندوستانی عورتوں کی تربیت ایسی ناقص ہے کہ وہ تربیت اچھی طرح نہیں کرسکتیں.تربیت کے لئے سنگ دلی کی بھی ضرورت ہوتی ہے.یہ لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ اردو میں اور کوئی لفظ اصل مفہوم ادا کرنے والا نہیں ورنہ اسے سنگ دلی نہیں کہہ سکتے ، وہ بھی رحم ہی ہے.میری اس سے مراد ایسی سختی ہے کہ کسی کی منت اور لجاجت سے اصول کو نہ چھوڑا جائے.یہ بات ہندوستانی عورتوں میں نہیں پائی جاتی.اس کے لئے میرا خیال ہے کہ اگر عارضی طور پر بیرونی اقوام سے مدد لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ممکن ہے انگلستان میں جو عورتیں مسلمان ہو رہی ہیں اُن میں سے ہی آکر یہاں کام کریں لیکن جب تک وہ نہ آسکیں ہمیں کچھ نہ کچھ انتظام کرنا ہوگا.پھر ہائی سکول کے استاد جو لڑکیوں کو تعلیم کے لئے تھوڑا تھوڑا وقت دیتے ہیں اس طرح پوری طرح تعلیم نہیں ہو رہی.بجٹ میں یہ بات بھی مد نظر رکھی جائے کہ لڑکیوں کی کالج کی تعلیم کا تسلسل جاری رکھا جا سکے.“ دوسرا دن مجلس مشاورت کے دوسرے دن ساڑھے گیارہ بجے پہلا اجلاس شروع ہوا.تلاوت قرآن کریم کے بعد حضور نے فرمایا : - " آج کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ دوست مل کر دُعا کرلیں دعا کہ اللہ تعالیٰ آج کا دن بھی مبارک فرمائے.ہماری کمزوریوں کو نظر انداز کر کے وہ طریق سمجھائے جو ہماری اپنی ذات کے لئے ، ہماری جماعت کے لئے ، ہمارے ملک کے لئے اور ساری دُنیا کے لئے مفید ہو اور ہر خطا سے بچائے جو ہمارے لئے ، ہمارے عزیزوں کے لئے ، ہماری جماعت کے لئے ، ساری دُنیا کے لئے اور آئندہ نسلوں کے لئے مضر ہو.“ دُعا کے بعد فرمایا:- " پیشتر اس کے کہ اُن امور کے متعلق میں احباب سے مشورہ لوں جن کے متعلق کمیٹیاں مقرر کی گئی تھیں، میں چاہتا ہوں کہ وہ امور پیش کئے جائیں جن کے متعلق.
خطابات شوری جلد اوّل ۴۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء کمیٹیاں نہیں بنائی گئی تھیں اور جن کے متعلق براہ راست دوستوں سے مشورہ لینا تھا.میں پہلے نمبر کی نسبت جس کے لئے پہلے سب کمیٹی بیٹھی تھی ، احباب سے مشورہ چاہتا ہوں.مولوی سید سرور شاہ صاحب جن کے سپر دسب کمیٹی کا کام تھا سب کمیٹی کی رپورٹ پیش کریں.“ مقبرہ بہشتی کے متعلق رپورٹ اور فیصلہ حسب ارشا سب کمیٹی بہشتی مقبرہ کی رپورٹ پیش ہوئی.اس کے بعد حضور نے فرمایا: - ۱۹۲۶ء کی مجلس مشاورت میں وصیت کے متعلق ایک سوال احباب کے سامنے پیش ہوا تھا اور وہ یہ کہ وصیت کے مفہوم کے نیچے کس قسم کی جائداد آتی ہے اور کس قسم کی چیزیں جائداد نہ سمجھی جائیں.اس کے متعلق میں نے اعلان کیا تھا کہ اس کے لئے ایک کمیٹی بنا کر غور کرایا جائے گا.چنانچہ اس سال ایک سب کمیٹی بنائی گئی.اس کمیٹی کی رپورٹ آپ کے سامنے پڑھی گئی ہے.معلوم ہوتا ہے سیکرٹری صاحب پوری طرح تیار نہ تھے اس لئے انہوں نے رپورٹ کو ایسے رنگ میں پڑھا ہے کہ مجھے خطرہ ہے احباب سمجھے نہ ہوں گے.اس لئے میں بتا دیتا ہوں کہ سب کمیٹی اس غرض کے لئے بنائی گئی تھی کہ وہ یہ بتائے کہ جائداد سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کیا مراد ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ جس کی کوئی جائداد نہ ہو وہ آمد سے وصیت کرے تو اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مراد عرف عام والی جائداد نہیں ہو سکتی جو مترو کہ ہو اور جس کی خواہ ایک پیسہ ہی قیمت ہو.اس کمیٹی کی یہ رائے ہے کہ : - ”سب کمیٹی کی رائے میں جائداد کا عام مفہوم تو وسیع ہے جس میں ہر وہ شے داخل ہے جس پر کسی شخص کو حقوق مالکانہ یا حقوق استعمال حاصل ہوں یا اُس پر اسے کامل تصرف ہو.لیکن رسالہ الوصیت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الفاظ جائداد و ترکہ کو کسی قدر محدود معنوں میں استعمال فرمایا ہے.اس لئے اس مفہوم کے ما تحت سب کمیٹی کی رائے میں جائداد کی مندرجہ ذیل اقسام اغراض وصیت کے ماتحت لفظ جائداد کے مفہوم سے مستثنے شمار ہونی چاہئیں.
خطابات شوری جلد اوّل ۴۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء (الف) ضروری پارچات پوشیدنی مطابق حیثیت موصی.(ب) گھر کے عام استعمال کے برتن، بستر ، چار پائیاں اور دیگر ضروری سامانِ رہائش جو عام طور پر زیر استعمال رہتا ہو مطابق حیثیت موصی.( ج ) سامان خور و نوش جو برائے استعمال خاندان گھر میں موجود ہو.(1) پیشہ ور موصی کی صورت میں اُس کے پیشہ کے اوزار.(ه) وہ مستثنیات جو شریعت اسلامیہ کی رُو سے تعریف جائداد متوفی میں شامل نہیں سمجھی جاتیں مثلاً اخراجات تجہیز و تکفین اور اس قدر حصہ جائداد جو متوفی کے قرضہ جات کی ادائیگی کے لئے ضروری ہو.“ جائداد کی تعریف آپ کے سامنے بیان کر دی گئی ہے.ایک بات اس میں تشریح طلب تھی.اس کی تشریح میں نے کرالی ہے یعنی جس کے پاس صرف یہ چیزیں ہوں ان کو جائداد نہ سمجھا جائے اور جن کے پاس اور اشیاء بھی ہوں ان میں سے اُن اشیاء کو منہا کر کے باقی کو جائداد سمجھا جائے گا.“ حضور کی اس ابتدائی تقریر کے بعد چندا حباب نے جائداد کے بارہ میں اپنی آراء پیش کیں.ان کے بعد حضور نے فرمایا :- ”میرے نزدیک اس سوال کے متعلق کافی بحث ہو چکی ہے اور ابھی بہت سے مسائل ہیں جن پر ہمیں غور کرنا ہے اس لئے چاہتا ہوں کہ اس کے متعلق دوستوں کی رائے لے لوں مگر میں ایک بات کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں جس سے شاید غلط فہمی ہوئی ہو.ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے میر صاحب کے منہ سے وصیت کا لفظ نکلا ہے مگر مجھے یاد ہے کہ وہ آیت ترکہ کے متعلق ہے.میر صاحب کے بیان کے مطابق یہ بات بن جاتی ہے کہ اگر وصیت کرنے والے کی جائداد میں سے وصیت سے کچھ مستثنے کیا جائے تو یہ اس آیت کے خلاف ہے مگر یہ آیت ورثاء کے متعلق ہے.چاہے اس کا نام وصیت رکھیں اور چاہے ترکہ دونوں صورتوں میں آیت یہ کہتی ہے کہ لِلرِّجَالِ نَصِيبُ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الوالدين والأقربُونَ مِمَّا قَلٌ مِنْهُ أَوْكَثُرَ، نَصِيبًا مفروضات یعنی کوئی شخص خواہ تھوڑی جائداد چھوڑے یا زیادہ اس کے بیٹے اور بیٹیاں
خطابات شوری جلد اوّل ۴۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء اس کے وارث ہیں.پس اس آیت کا مسئلہ زیر بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اگر اس کا نام وصیت رکھ لیں تو کیا ایک شخص بیوی کو اس کا حصہ دے جائے تو مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کے قابل ہو جائے گا؟ خواہ وہ دس ہزار روپیہ بھی بیوی کو دے جائے تو بھی مقبرہ بہشتی میں دفن نہیں ہو سکے گا.اس وقت ہمارے مدنظر وصیت سے وہ خاص امر مراد ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تجویز کیا ہے.قرآن کریم کی اس آیت میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ وصیت جو دین کے لئے کی جائے وہ کتنے سال کی ہو بلکہ یہاں یہ ذکر ہے کہ ایک شخص جو کچھ چھوڑ جائے وہ اُس کے وارثوں کا ہونا چاہئے خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک نئی بات پیدا کی ہے اور وہ یہ کہ جو احمدی تقویٰ و طہارت اختیار کرے، اسلام کے احکام پر چلے اور اپنے مال کی دین کے لئے اتنی قربانی کرے وہ مقبرہ بہشتی میں داخل ہو گا.یہ صحیح ہے کہ ہر مومن جنت میں جائے گا مگر ہر ایک مومن کو خدا تعالیٰ پہلے نہیں بتا دیتا کہ وہ جنت میں جائے گا.البتہ خاص مومنوں کو الہام اور رؤیا سے بتا دیا جاتا ہے.اس زمانہ میں مادیت کی ترقی کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہم نے جو مومنوں کے لئے وعدہ کیا ہے کہ وہ جنت میں جائیں گے.اگر ایک مومن دین کے لئے اتنی قربانی کرے تو اسے ہم قبل از وقت خبر دیتے ہیں کہ وہ جنتی ہو گیا تو اسلام کی تائید اور مدد کرنے والوں کے لئے خدا تعالیٰ نے قومی الہام کے ذریعہ بتا دیا کہ اگر وہ ان امور پر عمل کریں تو اُنہیں اِسی دُنیا میں سنا دو کہ وہ جنت میں جائیں گے.یہ اس وصیت کا مفہوم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھی ہے اور یہ عام وصیت کے مفہوم سے علیحدہ ہے اور اس کے لئے احکام بھی علیحدہ ہیں.اس کے متعلق ہم نے جس بات پر فیصلہ کی بنیاد رکھنی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقوال ہیں اور اگر آپ کے کلام سے بالنص کوئی مفہوم معلوم نہ ہو تو یہ دیکھنا ہو گا کہ استنباط کیا ہوتا ہے اور اگر استنباط سے بھی بات معلوم نہ ہو تو پھر اسلام کی عام روح کے ماتحت فیصلہ کریں گے اور اس پر عمل کریں گے.“ - وصیت کرنے والے کی جائداد سب کمیٹی کی تجویز کردہ مستثنیات کے بارہ میں چند احباب نے ترامیم پیش کیں.ان کے متعلق آراء
خطابات شوری جلد اوّل لینے کے بعد حضور نے فرمایا : - ۴۹۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء ”اب میں اس معاملہ کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرتا ہوں.پہلا سوال میر محمد الحق صاحب کی طرف سے یہ اُٹھایا گیا ہے کہ سب کمیٹی کی تجویز کردہ مستثنیات اسی صورت میں کبھی جائیں جب کہ وصیت قبول نہ کی جائے لیکن جو زائد چیزوں پر وصیت کرے اُسے ان مستثنیات کو بھی وصیت میں شامل کرنا چاہئے.میری رائے میں اصولاً میر صاحب کی رائے درست ہے.جائداد نہ ہونے کی صورت میں ان چیزوں کا استثناء درست ہے.اس طرح یہ سمجھا جائے گا کہ اس کی کوئی جائداد نہیں اس لئے وہ جائداد کی وصیت ہی نہیں کر سکتا.دفتر وصیت نے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک منظور کردہ فیصلہ پیش کیا ہے جو میر صاحب کی تائید کرتا ہے.چنانچہ روئیداد اجلاس اوّل مجلس معتمدین جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے منظور فرمایا ہے اُس کی شق 4 میں لکھا ہے:- ”جو احباب کوئی جائداد نہیں رکھتے مگر آمدنی کی کوئی سبیل رکھتے ہیں وہ اپنی آمدنی کا کم از کم ۰ارا حصہ ماہوار انجمن کے سپرد کریں.یہ ان کا اختیار ہے کہ جو چندے وہ سلسلہ عالیہ کی امداد میں اس وقت دیتے ہیں ان کو اس ۱۰ را حصہ میں شامل رہنے دیں یا الگ کر دیں.اگر وہ اپنے موجودہ چندوں کو اِس ۱۰ را حصہ میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو جس طرح وہ چندہ بھیج رہے ہیں بھیجتے رہیں.البتہ ان چندوں کو منہا کر کے جو بچے وہ بقیہ رقم فنانشل سیکرٹری مجلس کار پرداز مصالح قبرستان کے نام بھیج دیں.باقی خط و کتابت اس مجلس کے سیکرٹری سے کریں لیکن ان کو وصیت کرنی ہوگی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے متروکہ کی کم از کم ۱۰ را حصہ کی مالک انجمن ہو.“ ان الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے متروکہ کے کم از کم ۱۰ را حصہ کو انجمن کے سپرد کرنے کی تصدیق فرمائی ہے اور متروکہ خواہ تھوڑا ہو خواہ زیادہ سب کو متروکہ قرار دیا جائے گا.اس سے ظاہر ہے کہ وصیت جائداد پر نہیں بلکہ متروکہ پر ہونی چاہئے لیکن
خطابات شوری جلد اوّل ۴۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء اس وقت کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں لیکن مقبرہ بہشتی والوں کو حق ہے کہ وہ جماعت کو اپنے دلائل سے قائل کر کے اگلے سال اس امر کو پھر مجلس مشاورت میں پیش کرا دیں.چودھری بشیر احمد صاحب نے جن الفاظ کے اُڑانے کی ترمیمیں پیش کی ہیں اور جن کی کثرت آراء نے تائید کی ہے میں اکثریت کی رائے کو تسلیم کرتا ہوں اور یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ اگر مستثنیات کو رکھا جائے تو ان الفاظ کو اُڑا دیا جائے.کاشت کاری کے جانوروں کو مستثنے کرنے کی جو ترمیم پیش کی گئی ہے اگر اسے تسلیم کیا جائے تو اور مستثنیات کے لئے بھی دروازہ کھولنا پڑے گا اور میں سمجھتا ہوں کہ بیلوں پر ہی اکتفا نہیں کرنا پڑے گا بلکہ اور لوگ جن چیزوں سے کام کرتے ہیں اُن پر بھی مستثنیات آ سکتی ہیں مثلاً مشین وغیرہ.اِس لئے اِس میں میں قلتِ رائے کی تائید کرتا ہوں.اگر اس عرصہ میں زمیندار دوست سمجھا دیں کہ زمینداری کرنے والے جانوروں اور مشینوں وغیرہ کے ذریعہ کام کرنے میں فرق ہے تو اگلے سال اس سوال کو پھر پیش کیا جا سکتا ہے.رہائشی مکان کو مستثنیٰ کرنے کے متعلق کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.۵۱ آراء نے اس ترمیم کی تائید کی اور ۲۰۴ را ئیں خلاف شمار کی گئی ہیں.گویا کاشت کاری کے جانوروں کے متعلق ترمیم کے سوا جو مستثنیات کا دروازہ کھولنے والی ہے، باقی سب امور میں کثرت آراء کے حق میں فیصلہ کیا گیا ہے.“ امور عامہ کے متعلق فیصلہ ۲۶ مارچ کو دوسرا اجلاس ساڑھے تین بجے تلاوت قرآن کریم دو اور دُعا کے بعد شروع ہوا.حضور نے فرمایا.دوسرا سوال جس کے متعلق میں احباب سے مشورہ چاہتا ہوں وہ ایجنڈا میں سے نمبر سوال ہے جو یہ ہے :- مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء میں بعض دوستوں کی تحریک پر اس بات پر مشورہ لیا گیا تھا کہ ہماری جماعت کے لڑکوں کا دوسرے فرقوں کی لڑکیوں سے چونکہ رشتہ جائز قرار دیا گیا ہے مگر ہم اپنی لڑکیاں اُن کو نہیں دے سکتے اس لئے یہ مشکلات پیدا ہو گئی ہیں کہ اُن کی
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء لڑکیاں احمدیوں میں آجاتی ہیں اور ہماری بہت سی لڑکیاں بغیر شادی کے بیٹھی ہیں.اس 66 کے متعلق کوئی انتظام کیا جائے.“ اس پر میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ تین سال تک کوئی احمدی لڑکا غیر احمد یوں میں شادی نہ کرے سوائے مستثنیات کے.اب وہ عرصہ ختم ہو چکا ہے اور نظارت امور عامہ کے نزدیک اس میں اضافہ ہونا چاہئے کیونکہ ابھی تک مشکلات دُور نہیں ہوئیں.احباب اس کے متعلق اپنی را ئیں ظاہر کریں.“ چنانچہ چند احباب نے اپنی آراء کا اظہار کیا اس کے بعد حضور نے فرمایا :- مختلف احباب کے خیالات سننے کے بعد میں سمجھتا ہوں ممانعت کی توسیع کے خلاف کوئی رائے نہیں پیش کی گئی.سوائے بعض ایسی باتوں کے جو بظاہر تجویز کے خلاف نظر آئیں مگر حقیقت میں تائیدی رنگ رکھتی ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں جماعت کے نمائندے اس تجویز کی تائید میں ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ بعض نے خلاف کچھ کہنے کی ضرورت نہ سمجھی ہو مگر وہ رائے خلاف رکھتے ہوں اس لئے میں رائے لوں گا مگر ایک دو باتوں کے متعلق کچھ کہنا ضروری سمجھتا ہوں.لڑکیوں کے رشتوں کے متعلق شرطیں ایک دوست نے یہ اعتراض کیا ہے کہ احمدی لڑکیوں کے رشتوں کے متعلق بہت شرطیں لگاتے ہیں.میں یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ ایسی شرطیں احمد یوں میں ہی لگائی جاتی ہیں اور غیر احمدیوں میں نہیں لگائی جاتیں.میں اخبارات پڑھتا ہوں، ان میں نکاحوں کے متعلق جو اعلان ہوتے ہیں ان میں کئی قسم کی شرطیں موجود ہوتی ہیں.میرے نزد یک انصاف اچھی چیز ہے اور اس کے ماتحت اپنے بھائی کا نقص بھی نظر آنا چاہئے مگر یہ کوئی انصاف نہیں ہے کہ جو نقص عام ہوا سے خاص اپنی جماعت کے ساتھ مخصوص کیا جائے.شرطیں لگانے کا عام مرض رشتوں کے متعلق شرطیں لگانا ایک عام مرض ہے.نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ ساری اقوام میں اور نہ صرف ہندوستان میں بلکہ سارے ممالک میں.یہ طبعی بات ہے کہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی اچھی جگہ جائے اور آرام کی زندگی بسر کرے لیکن اچھی خواہش بھی حد سے بڑھتی بڑھتی
خطابات شوری جلد اوّل ۵۰۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء بُری بن سکتی ہے.بعض لوگ اس طبعی خواہش کو نقص کی حد تک پہنچا دیتے ہیں مگر یہ بھی درست ہے کہ یہ نقص کسی خاص قوم سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ عام ہے.لغو شرائط سے اجتناب کیا جائے میں نے خطبات کے ذریعہ اپنی جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور اب بھی دلاتا ہوں کہ لغو شرائط سے اجتناب کرنا چاہئے مگر ان صاحب نے جو یہ بات بیان کی ہے کہ کہا جاتا ہے تعلیم اتنی ہو اور اسے بھی ان شرائط میں سے قرار دیا ہے جو نہ ہونی چاہئیں میں اسے قابل اعتراض نہیں سمجھتا کیونکہ اگر لڑ کی تعلیم یافتہ ہو تو غیر تعلیم یافتہ لڑکے سے یا کم تعلیم یافتہ لڑکے سے شادی کرنے پر فساد ہی پیدا ہو گا.ایک حد تک گھر میں حکومت کرنے کا مرد کو حق ہے مگر یہ اُسی صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے جب کہ مرد عورت کی نسبت تعلیم میں زیادہ ہو.اگر لڑکی ”مولوی کا امتحان پاس کئے ہوئے ہے یا انٹرنس پاس ہے اور اس کے لئے غیر تعلیم یافتہ درخواست کرتا ہے تو ان کا نباہ خوشگوار نہ ہو گا کیونکہ لڑ کی علم میں زیادہ ہونے کی وجہ سے عقلمند ہو اس اپنے آپ کو عقل میں بھی زیادہ سمجھے گی گو یہ ضروری نہیں کہ تعلیم یافتہ زیادہ صورت میں ضرور فتنہ کا دروازہ کھل جائے گا.اس لحاظ سے تعلیم کے متعلق شرط پیش کرنا مصلحت وقت کے لحاظ سے مناسب ہے.رشتوں میں مساوات کے غلط معنی میں نے دیکھا ہے جہاں ان شرطوں سے بعض لوگ ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں وہاں جماعت میں مساوات کے یہ معنی سمجھے جاتے ہیں کہ خواہ کس درجہ کی لڑکی ہو اُس کا ایک معمولی درجہ کے لڑکے سے رشتہ ہو جانا چاہئے.کئی لوگ میرے پاس آ کر کہتے ہیں فلاں لڑکی سے رشتہ کرا دیا جائے.جب ایسے شخص کو سمجھایا جائے کہ لڑکی زیادہ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ گھرانے کی ہے تو وہ کہتا ہے احمدیوں میں مساوات ہونی چاہئے مگر مساوات کے یہ معنی نہیں ہیں کہ لڑکی اور لڑکے کے حالات میں خواہ کتنا تفاوت ہو اس کی پرواہ نہ کی جائے.بلکہ مساوات کے یہ معنی ہیں کہ ان میں ایسی نسبت ہو کہ وہ صحیح طور پر گزارہ کرسکیں.پس جہاں لڑکی والوں کے لئے ضروری ہے کہ غیر مناسب شرائط پیش نہ کریں وہاں لڑکے والوں کو بھی چاہئے کہ اگر لڑکی سے لڑکے کو مناسبت نہیں تو اس کے لئے درخواست نہ کریں.میں
خطابات شوری جلد اوّل ۵۰۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء نے ایسے کیس دیکھے ہیں کہ لڑکی والے آئے.لڑکی کی عمر ۲۶/۲۵ سال کی ہے اور بالکل جاہل گاؤں کی رہنے والی ہے لیکن ۱۳ ۱۴ سال کے لڑکے کے ساتھ جو تعلیم یافتہ اور اعلیٰ حالت میں پرورش یافتہ ہے، اُس کے متعلق کہا گیا کہ اُس سے شادی کرا دی جائے.پھر ایسے کیس بھی دیکھے گئے ہیں کہ ۱۵،۱۰ روپیہ ماہوار آمدنی رکھنے والے نے ایک نہایت آسودہ حال گھرانہ کی لڑکی کے متعلق کہا کہ اُس سے شادی کرا دی جائے.یہ مرض دونوں لڑکے اور لڑکی والوں میں پایا جاتا ہے.دونوں کو ایسی باتوں سے بچنا چاہئے اور کفو کا لحاظ رکھنا چاہئے.“ رائے شماری کے بعد فرمایا:- میں کثرت آراء کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں اور ۱۹۳۴ ء تک ایسی شادیاں کرنے سے روکتا ہوں.اس کے بعد بھی اگر اس ممانعت کی ضرورت ہو تو امور عامہ اس کو پھر پیش کرے.“ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ جس امر کی ممانعت کی گئی ہے اس کے علاوہ کوئی اور بات بھی تو نہیں جس کی وجہ سے لڑکیوں کے رشتوں میں دھنیں پیش آتی ہیں.مردم شماری کر کے اندازہ لگایا جائے احمدیوں میں لڑکیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں یا لڑ کے.اس سے بھی رشتوں کی مشکلات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے.“ يوم التبليغ لتبليغ نظارت دعوۃ و تبلیغ کی تجویز بابت یوم التبلیغ پر چند ممبران کے اظہار رائے کے بعد حضور نے فرمایا : - اس وقت احباب کے سامنے دو سوال میں ایک یہ کہ یوم التبلیغ جلسوں کی صورت میں منایا جاوے.اس کے متعلق دلائل بھی احباب نے سن لئے ہیں اور دوسرا سوال یہ ہے کہ انفرادی طور پر تبلیغ کی جاوے.اس کے دلائل بھی سن لئے ہیں.جو دوست پہلی صورت کی تائید میں ہیں وہ مہربانی کر کے کھڑے ہو جا ئیں.“ آٹھ رائیں.جو دوست دوسری تجویز کی تائید میں ہیں.وہ کھڑے ہو جائیں.“ دوصد تہتر را ئیں.
خطابات شوری جلد اوّل فیصلہ ۵۰۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء میں اکثریت کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.جلسوں کے فوائد ہوتے ہیں مگر احمدی بنانے کے لئے جس بات کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ سوال وجواب ہوں.صرف تقریرین لینے والے کے لئے بسا اوقات وہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتے جو اس کے دل میں کھٹکتے ہیں اور نہ جواب اس کے سامنے بیان ہوتے ہیں لیکن انفرادی تبلیغ میں ہر شخص اپنی تسلی کرا سکتا ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ محکمہ ایسے قواعد بنائے کہ ہر احمدی اس دن تبلیغ میں مشغول ہو سکے اور کوئی رہ نہ جائے.اس غرض کے لئے اس قسم کی فہرست بن جانی چاہئیے جس کے متعلق مثال دیتا ہوں کہ محکمہ ہر جماعت سے لسٹ مانگے جس میں یہ درج ہو کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جو گھر پر بلا کر دعوت یا چائے میں مدعو کر کے تبلیغ کریں گے ، کتنے ایسے ہیں جو بازار میں کھڑے ہو کر تبلیغ کریں گے.جب اس قسم کی لسٹ بن جائے تو پھر اس کے مطابق کام دیکھا جائے ورنہ انفرادی تبلیغ ریت کے نیچے ایسا بہنے والا پانی ہے کہ جس کا پتہ بھی نہ لگے گا.چند احمدی تو تبلیغ کریں گے اور باقی اس برہمن کی طرح جس نے پانی میں کنکر پھینک کر کہا تھا تو را شنان سومورا شنان سمجھ لیں گے کہ ان کی طرف سے بھی تبلیغ ہو گئی.پس جہاں انفرادی تبلیغ میں فوائد ہیں وہاں بہت سے خطرات بھی ہیں بالکل ممکن ہے کہ جس مقصد کے لئے یوم التبلیغ مقرر کیا جا رہا ہے وہی فوت ہو جائے پس ایسی سکیم بنائی جائے کہ جس کے ماتحت نگرانی کی جاسکے عورتوں کی بھی اور مردوں کی بھی.غیر مسلموں میں تبلیغ اسلام کی تجویز ایک بات میں اور کہنی چاہتا ہوں جو بہت اہم ہے مگر ادھر توجہ نہیں کی گئی اور وہ اہلِ ہنود میں تبلیغ اسلام ہے.ہم اس مثل پر عمل کر رہے ہیں جو پنجابی میں ہے مگر ایسی دلچسپ ہے کہ اگر اردو زبان میں اس کی نقل کریں تو اس کے لئے زینت کا موجب ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اناں ونڈے ریوڑیاں مُڑ مُڑ اپنیاں نوں.یعنی اندھا ریوڑیاں بانٹے اور بار بار اپنے رشتے داروں کو ہی دے.جب بھی تبلیغ کرنے کی تحریک کی جاتی ہے ہماری جماعت کے لوگ جھٹ غیر احمدیوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں مگر غیر احمدی بھی غیر ہیں لیکن پھر بھی ان سے اشتراک کے موجبات موجود ہیں اور بہت بڑے موجبات ہیں.غیریت کے موجبات بھی ہیں اور بہت بڑے موجبات ہیں لیکن اشتراک کے موجبات بھی بہت اہم ہیں اور ان
خطابات شوری جلد اوّل ۵۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء میں اور ہندوؤں میں بہت فرق ہے.اس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ بجائے ایک کے دو دن تبلیغ کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں.ایک دن احمدیت کی تبلیغ کے لئے اور ایک اسلام کی تبلیغ کے لئے.اسلام کی تبلیغ سے میرا یہ مطلب نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر اس موقع پر نہ کیا جائے خواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات کے ذریعہ خواہ قرآن کریم کی خوبیوں اور حُسن کے ذریعہ خواہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نشانات کے ذریعہ.غرض جو بات مناسب موقع ہو اس کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ کی جائے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات اور معجزات کے ذریعہ ہندوؤں پر اسلام کی صداقت کا اثر ہوتا ہو تو انہیں پیش کیا جائے اور اگر پہلے مسائل کے ذریعہ اثر ہوتا ہو تو انہیں پیش کیا جائے.غرض اس دن مخاطب ہندو ہوں.مسلمان نہ ہوں ممکن ہے بعض کا خیال ہو کہ دو دن ایسی تبلیغ کا انتظام کرنا مشکل ہو گا مگر انتظام تو ایک دن کے لئے بھی مشکل ہو سکتا ہے اور جنہوں نے متعلقہ محکمہ کی آواز نہیں سنی وہ ایک دن کے لئے بھی نہیں سنیں گے اور جنہوں نے سنی ہے وہ دو دن کے لئے بھی سنیں گے.پس میں دو دن مقرر کرتا ہوں یعنی ایک دن تو ایسا ہو جبکہ اہلِ ہنود کو مخاطب کیا جائے سکھوں اور عیسائیوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے.اسی طرح جہاں دیگر مذاہب کے لوگ پائے جائیں انہیں بھی اسلام کی تبلیغ کی جائے اور دوسرا دن غیر احمدیوں کے لئے مخصوص ہو.اس دن انہیں مخاطب کیا جائے بہر حال ایک دن مسلمانوں کے لئے ہو اور ایک دن غیر مذاہب کے لوگوں کے لئے.خصوصیت سے ہندوؤں کو مخاطب کیا جائے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے کرشن بھی قرار دیا ہے اور بہت سے الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں کی ترقی کو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے پر منحصر رکھا ہے.میں نے اپنی تقریر میں دن کا لفظ وقت کے معنوں میں استعمال کیا ہے نہ ان معنوں میں کہ ایک دن جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے.اس کا فیصلہ کرنا ابھی باقی ہے.“
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء تیسرا دن جسمانی صحت کے متعلق تجاویز اور فیصلے مجلس مشاورت کے تیسرے روز کے پہلے اجلاس میں جسمانی صحت کے متعلق سب کمیٹی نے بعض تجاویز پیش کیں جن سے متعلق حضور نے فیصلہ جات فرمائے.بعض تجاویز اور فیصلہ جات کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے.فوجی ٹریننگ فوجی ٹریننگ دلوانے کے لئے سکول ، مدارس اور بعد ازاں جماعتوں میں انسٹرکٹرز کی تعیناتی کی تجویز پر بعض نمائندگان کے اظہارِ خیال کے بعد حضور نے فرمایا : - "سب کمیٹی کی پہلی تجویز دوستوں نے سن لی ہے.اس کے متعلق جن احباب نے اظہار خیالات کرنا چاہا وہ بھی کر چکے ہیں اور ان خیالات سے بھی احباب واقف ہو چکے ہیں.ایک دوست کی یہ تجویز ہے کہ بجائے اس کے کہ ایسی تفصیلات کا فیصلہ یہاں کیا جائے جنہیں انتظامی حالات سے بدلنا پڑتا ہے اور بدلنا پڑے گا اصولی طور پر یہ طے کر لیا جائے کہ دونوں مدرسوں اور احمد یہ کالج کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے ان میں فوجی ٹرینینگ کا طریق جاری کیا جائے اور فوجی ڈرل کرائی جایا کرے.پہلے میں اس ترمیم کو ہی پیش کرتا ہوں جو دوست اس کی تائید میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.‘۲۲۵ را ئیں فیصلہ میرے نزدیک یہ اتنی تعداد ہے کہ اس کے خلاف ووٹ لینے کی ضرورت ہی نہیں.میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں اور ورزشی کمیٹی کی پہلی تجویز اس ترمیم کے ساتھ منظور کرتا ہوں کہ تفصیلات کو صدر انجمن پر چھوڑ دیا جائے وہ اس کے لئے قوانین بنائے اور تفاصیل طے کرے“ شوٹنگ کلبز ہوئے کہا :- اولاً قادیان میں ثانیا دیگر جماعتوں میں شوٹنگ کلبز کے قیام کی تجویز تھی.اس کی بابت حضرت میاں شریف احمد صاحب نے وضاحت کرتا
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء شوٹنگ کلب کے متعلق جو تجویز پیش کی گئی ہے میں اسے کھول کر بیان کر دیتا ہوں.نئے ایکٹ اسلحہ کے ماتحت جو ۱۹۲۴ء سے جاری کیا گیا ہے.ایسے کلب کھولے جا سکتے ہیں کہ ان کے جتنے نمبر ہوں وہ ایک مقررہ احاطہ کے اندر رائفل چلانے کی پریکٹس کر سکتے ہیں.اگر ایسے کلب کے لئے لائسنس لے لیا جائے تو کلب کے ممبر پریکٹس کر سکتے ہیں اور شوٹنگ سکھائی جا سکتی ہے.بڑے کارتوسوں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے لیکن منی ایچر (MINIATURE) کارتوس کم قیمت پر مل سکتے ہیں اور ان سے مشق کی جاسکتی ہے اور بڑے کارتوس چلانے کے وقت کوئی فرق نہیں پڑ سکتا یعنی یہ نہیں کہ چھوٹے کارتوس سے مشق کرنے کی وجہ سے بڑے کارتوس نہ چلائے جاسکیں.ہمارا اندازہ یہ ہے کہ دو روپے کے کارتوس سے ایک آدمی نشا نہ سیکھ سکتا ہے.“ اس وضاحت کے بعد حضور نے فرمایا: - اس وقت جو تجویز پیش ہے.وہ یہ ہے کہ ممکن ہو تو پہلے قادیان میں اور پھر دوسری جگہوں میں رائفل کلب جاری کئے جائیں.اس کا مطلب بھی آپ لوگوں کے سامنے بیان کر دیا گیا ہے کہ نئے قانون اسلحہ میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ لوگوں کو نشانہ بازی سیکھنے کے لئے اجازت دی جائے اور ایک لائسنس سے سارے ممبر رائفل چلانے کی مشق کر سکیں.گو پہلے بھی شاید ہی کوئی بندوق ایسی ہوتی ہو جو دوسرے نہ چلاتے ہوں مگر قانونی طور پر یہ جرم ہے کہ اپنی بندوق دوسرے کو دی جائے لیکن اس لائسنس سے سارے ممبر نشانہ سیکھ سکتے ہیں.اس کے ماتحت ہو سکتا ہے کہ رسوخ والی جماعتیں ایسے کلب بنا ئیں اور لائسنس لے کر اس کے ممبر نشانہ سیکھیں مگر فی الحال اس کا اثر محض قادیان تک ہوگا.یہاں پہلے بھی لائسنس کافی ہیں اور اُمید کی جاتی ہے کہ جب الگ الگ لوگوں کے پاس لائسنس ہیں تو اکٹھے نشانہ بازی کے لئے کیوں نہ لائسنس دیا جائے گا.بیرونجات میں اس کے لئے ابھی مشکلات ہیں.گاؤں میں اس قسم کے کلب بننے میں باوجود قانون کی موجودگی کے اور باوجودلوگوں کے شوق کے حکومت روک ڈالے گی.اس لئے فی الحال اس تجویز کا اثر قادیان یا ایک دو جگہ باہر ہو سکے گا.اس وجہ سے یہ تجویز ساری جماعت کے لئے کافی نہیں ہے.مدت سے میری یہ رائے ہے اور میں ابتدائی ایام سے بندوق چلانے کا شائق رہا
خطابات شوری جلد اوّل ۵۰۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء ہوں.بچپن میں ہی مجھے شکار کھیلنے کا شوق تھا.میں شکار مار کر خود نہ کھا تا تھا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لا کر دے دیتا تھا.آپ چونکہ دماغی کام کرتے تھے اس لئے شکار کا گوشت آپ کے لئے مفید ہوتا اور آپ اسے پسند بھی فرماتے تھے.اس وقت مجھے اتنی مشق تھی کہ میں پانچ چھ چھڑے لے جاتا اور ہوائی بندوق سے چار پانچ پرندے مار لاتا.حالانکہ وہ بندوق بھی معمولی قسم کی ہوائی بندوق ہوتی تھی.میری یہ رائے ہے کہ نشانہ معمولی قسم کے اوزار سے بھی سیکھا جا سکتا ہے.میرا خیال ہے کہ کسی قسم کی نشانہ بازی کا رواج ہو جائے تو جماعت میں ایسی مشاقی پیدا ہو جائے گی کہ اگر کبھی بندوق چلانے کا موقع ملے تو اچھا نشانہ لگا سکیں گے.اس وجہ سے میری تجویز یہ ہے کہ ایسی کہیں بنائی جائیں کہ ان میں ہر قسم کی نشانہ بازی کی مشق کرائی جائے.حتی کہ جہاں کے لوگ ہوائی بندوق بھی نہ خرید سکیں وہ بھی نشانہ بازی کر سکیں اور نہیں تو تیر ہی چلانے کی مشق کریں.اب تیر چلانے کا رواج نہیں رہا پہلے اِس قسم کی لوگوں کو بہت مشق ہوتی تھی حتی کہ اس کے ساتھ جانور مارلیا کرتے تھے.ایک فرانسیسی سیاح بر نیر لکھتا ہے.ایک علاقہ میں سپاہیوں نے ایک بُڑھیا کا گھر لوٹ لیا اور اسے پکڑ کر لے چلے.بڑھیا نے کہا جب میری بیٹی آئے گی تو تم لوگوں کو نقصان پہنچائے گی.بہتر ہے کہ مجھے چھوڑ دو مگر اُنہوں نے نہ مانا.آخر دیکھا کہ دور سے گھوڑے پر سوار ایک عورت آ رہی ہے.اس نے پاس آ کر سپاہیوں سے کہا میری ماں کو چھوڑ دو مگر اُنہوں نے نہ چھوڑا.اس نے تیر مار کر ان میں سے ایک کو گرا دیا.اسی طرح باری باری اس نے پانچ چھ کو مار دیا اور باقی بھاگ گئے.گو میں سمجھتا ہوں تیر کا نشانہ اور طرح کا ہوتا ہے اور بندوق کا اور طرح کا لیکن ہاتھ اور آنکھ کو نشانہ لگانے میں جو پریکٹس ہو جاتی ہے.اس سے ہر موقع پر نشانہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے.میرا خیال ہے کہ اگر اس قسم کی کلمیں بنائیں تو ان کی پابندی بھی کرا سکتے ہیں لیکن صرف رائفل کلب بنانے سے ہر جگہ کے احمدیوں سے اس کی پابندی نہیں کرائی جاسکتی.ہاں اگر ہم انہیں یہ کہیں کہ چاہے تیر چلاؤ، چاہے غلیل چلا ؤ، چاہے ہوائی بندوق چلاؤ، چاہے رائفل چلا ؤ مگر نشانہ لگانا سیکھو تو اس کی پابندی ہر جماعت کر سکتی ہے کیونکہ کوئی جماعت
خطابات شوری جلد اوّل ۵۰۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء یہ نہیں کر سکتی کہ ہم ان میں سے کوئی طریق بھی اختیار نہیں کر سکتے.اس طرح نشانہ بازی کی مشق ہو سکتی ہے.میرے خیال میں اس تجویز کو وسیع کیا جائے.اب سوال یہ ہے کہ کیا جماعتیں اس ذمہ داری کو اُٹھانے کے لئے تیار ہیں یا نہیں.میری رائے یہ ہے جو میں ذاتی طور پر بتا دیتا ہوں.گو میں یہ نہیں کہتا کہ یہ جنگی فنون کے ماہر کی رائے ہے مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ یہ ایسے شخص کی رائے ہے جسے خدا تعالیٰ نے صحیح طور پر چیزوں کا اندازہ لگانے کا ملکہ دیا ہے.میری یہ رائے ہے کہ دُنیا کا یہ خیال کہ محض بارود سے کام چلتا ہے غلط ہے.اس کی ایک وجہ تو عقلی ہے اور وہ یہ کہ کوئی چیز ایسی نہیں جس میں انسان لگا رہے اور اس کے لئے ترقی کے رستے نہ کھلے ہوں.دوسری وجہ یہ ہے کہ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ بندوق کی جنگ منع ہے.بے شک بندوق سے آگ نہیں لگتی.مگر اس میں آگ ہوتی ہے اور لڑائی میں آگ کے استعمال سے اسلام نے منع کر دیا ہے.میں جہاں تک سمجھتا ہوں انسانی دماغ اگر اس طرف لگ جائے تو ایسی تجاویز نکل سکتی ہیں کہ بندوق سے بھی سخت سامان نکل آئے مگر اس میں آگ کا دخل نہ ہو مگر ابھی تک ادھر توجہ نہیں کی گئی ورنہ ایسی قسم کی غلیلیں اور ایسے تیرا ایجاد کئے جا سکتے ہیں جو زیادہ سخت اور زیادہ اثر کرنے والے ہوں.اس وقت مشورہ اس بات کے متعلق ہونا چاہئیے کہ آیا جماعت اس کے لئے تیار ہے کہ ایسے کلب بنائے جن میں تیر، غلیلیں اور بندوق وغیرہ چلانے کی مشق کی جائے اور کسی قسم کا نشانہ سیکھا جائے یا نہیں.اصل غرض یہی ہے کہ اس بارے میں جماعت کی تنظیم ہو جائے تا کہ اگر ملک میں کسی جگہ فساد ہو جائے اور خود گورنمنٹ اس بات کی محتاج ہو جائے کہ لوگ اس کی مدد کریں تو اس وقت مدد کی جا سکے.رولٹ ایکٹ کے وقت ملک میں ایسی آگ بھڑک اُٹھی تھی کہ گویا حکومت ہی ایک لمحہ کے لئے مٹ گئی تھی اور حکومت محتاج تھی کہ لوگ اس کی امداد کے لئے آئیں لیکن اگر لوگ مدد دینے کے قابل ہی نہ ہوں تو وہ کیا کر سکتے ہیں.میں جماعت سے یہ مشورہ لینا چاہتا ہوں کہ ایسی کلمہیں جن میں خواہ تیروکمان سے یا غلیلوں سے یا ہوائی بندوق سے یا رائفل سے نشانہ بازی کی جائے.جماعتیں بنانے کے
خطابات شوری جلد اوّل ۵۰۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء لئے تیار ہیں یا نہیں.اس خرابی کو جس قدر جلد ممکن ہو دُور کر دینا چاہئیے کہ صرف تجویز پاس کر دی جائے.اگر جماعت کے لوگ یہ کام نہیں کر سکتے تو شرم کو دُور کر کے بتا ئیں کہ نہیں کر سکتے اور اگر کر سکتے ہیں تو کرنے کے ارادہ سے مشورہ دیں.“ 66 اس پر ۲۲۵ دوستوں نے ایسے کلب جاری کرنے کے حق میں رائے دی.پھر حضور نے فرمایا ”جن دوستوں کی رائے میں مصلحتا یہ بات مناسب نہ ہو یا قابلِ عمل نہ ہو وہ کھڑے ہو جائیں کوئی صاحب کھڑے نہ ہوئے.فیصلہ میں یہ تجویز ان الفاظ میں منظور کرتا ہوں کہ اگر ممکن ہو سکے تو پہلے قادیان میں اور اس کے بعد دوسری جگہوں میں رائفل کل میں جاری کی جائیں لیکن جن جگہوں میں رائفل کلبیں جاری نہ کی جاسکیں یا جو لوگ رائفل کلب کے ممبر نہ بن سکیں ان کے لئے ہر جگہ کی جماعتوں میں ایسی کلبوں کا انتظام کیا جائے یا جہاں رائفل کلب موجود ہونے کی صورت میں اس کے ساتھ اس امر کا بھی انتظام کیا جائے کہ خواہ تیر کمان سے خواہ ہوائی بندوق سے خواہ غلیلوں سے جماعت کے افراد جس حد تک زیادہ سے زیادہ ممکن ہو سکے نشانہ بازی کی مشق کریں.“ ٹیریٹوریل کمپنی اور ریکروٹ دو ٹیریٹوریل کمپنیوں کی منظوری اور ان کے لئے گورداسپور کے علاوہ باقی اضلاع پنجاب کو بھی ریکروٹ مہیا کرنے کا ذمہ دار قرار دیئے جانے کی تجویز تھی.اسکی بابت حضور نے فرمایا : - یہ تحریک اس قسم کی ہے کہ اس کے لئے رائے لینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اظہارِ خیالات کی ضرورت ہے کیونکہ یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ ضلع گورداسپور کے احباب اور اس کے بعد ضلع سیالکوٹ ، جالندھر وغیرہ کے احباب تو اس میں شامل ہوتے ہیں دوسرے اضلاع کے لوگ کیوں بھرتی نہیں ہوتے.حالانکہ ہندوستانیوں نے بہت زور دے کر ٹیریٹوریل فورس جاری کرائی ہے.اب جبکہ یہ جاری ہو چکی ہے تو دوسری قو میں اس کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں مگر احمدی متوجہ نہیں.آج سے پہلے میں نے رویا دیکھا تھا کہ اگر ٹیریٹوریل میں اپنے آدمیوں کی دوسری کمپنی بڑھانے کی کوشش نہ کی گئی تو جو کمپنی موجود ہے وہ بھی خطرہ میں
خطابات شوری جلد اوّل ۵۱۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء پڑ جائے گی.اب اس سال سے اس خواب کے پورے ہونے کا سامان ہو گیا ہے.اب کے ۲۴ آدمی بغیر ہمارے مشورہ کے غیر احمدیوں میں سے لا کر داخل کر دیئے گئے ہیں اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ آہستہ آہستہ ہمارے آدمیوں کو کم کر دیا جائے.پس یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ کیا وجہ ہے جب بھرتی کے لئے تحریک کی جاتی ہے تو سب جماعتوں میں سے بھرتی ہونے والے آدمی نہیں ملتے.اس میں تو تعلیم یافتہ اصحاب بھی جا سکتے ہیں اور وہاں انہیں جو مشقت اٹھانی پڑے وہ ان کے لئے بھی مفید ہو سکتی ہے میں اس وقت یہ سننا چاہتا ہوں کہ وہ کیا مجبوریاں اور کیا وقتیں ہیں جن کی وجہ سے سب جماعتوں نے ابھی تک ادھر توجہ نہیں کی اگر وہ معلوم ہو جائیں تو ان کے ازالہ کی کوشش کی جائے.“ چند ممبران کے اظہارِ رائے کے بعد حضور نے فرمایا : - مختلف احباب کے اظہار خیالات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض جماعتوں کو ٹیریٹوریل فورس کے متعلق پوری طرح معلومات حاصل نہیں ہیں.میں سمجھتا ہوں ناظر صاحب امور عامہ ٹیریٹوریل کی بھرتی کے متعلق جو کام کر رہے ہیں اگر میاں شریف احمد صاحب یہاں ہوتے (بوجہ علالت حضرت میاں صاحب مجلس میں تشریف نہ رکھتے تھے ) تو ان بیانات کی تردید کرتے کہ بھرتی کے لئے کوشش نہیں کی جاتی.اصل بات یہ ہے کہ بھرتی کے لئے آدمی بھی بھیجے جاتے ہیں.اخبارات میں اعلانات بھی کئے جاتے ہی.اور چٹھیاں بھی لکھی جاتی ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ دونوں بیانات درست ہیں.بہت سے لوگ اس بھرتی کے متعلق نا واقف بھی ہیں اور محکمہ نے بھرتی کے لئے کوشش بھی کی ہے.ایک بات اثر کرنے والی ہوتی ہے لیکن اگر اس کے متعلق ایک آدھ بار کہہ کر پھر خاموشی اختیار کر لی جائے تو وہ محو ہو جاتی ہے.محکمہ والے ایک اعلان کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آج سے چار پانچ سال قبل جو اعلان کیا گیا تھا.اس کا آج بھی اثر ہونا چاہیے لیکن یہ بات غلط ہے جب تک تحریکات بار بار نہ ہوں ، دل سے محو ہو جاتی ہیں.لازماً ہر سال ایسا ہونا چاہیے کہ یہ تحریک کی جائے.اس کے لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ایک ٹریکٹ شائع کیا جائے اور اشتہاری اصول پر شائع کیا جائے.ریکروٹنگ کے متعلق میں نے ٹریکٹ پڑھے ہیں جو گزشتہ جنگ کے زمانہ میں شائع کئے جاتے تھے.ان میں اس طرح بھرتی کے لئے تحریک کی جاتی کہ
خطابات شوری جلد اوّل ۵۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء کیوں فوج میں بھرتی ہونا چاہئیے.اس لئے کہ قوم اور ملک خطرہ میں ہے.کون لوگ شامل ہو سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں عمر، قد وغیرہ کا ذکر ہوتا.کب بھرتی ہو سکتے ہیں؟ اس کے لئے تاریخ درج کی جاتی.کہاں بھرتی ہونا چاہیے؟ اس کے لئے مقام وغیرہ کی تشریح ہوتی.اس قسم کی باتیں درج ہوں جو مختصر فقروں میں ہوں نہ کہ لمبی عبارتیں لکھی جائیں.ٹریکٹ تمام ضروری امور پر حاوی ہو.یعنی چند ہیڈنکس تجویز کئے جائیں اور ایک ایک سطر میں ان کے جواب درج کئے جائیں.ایسا ٹریکٹ ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا جائے اور ہر جگہ کی جماعت کو بھیج کر کہا جائے کہ احباب کو جمع کر کے سُنا دیا جائے.اس طرح اس کی کافی اشاعت ہو سکتی ہے.۲۵/۲۶ روپے اور حد سے حد میں روپے تک کے خرچ میں یہ کام ہو سکتا ہے.یہ ٹریکٹ ہر سال جماعتوں میں جائے.اس طرح یہ تحریک جاری رکھی جاسکتی ہے.بعض نے شکایت کی ہے کہ چونکہ بھرتی ہونے والوں کو سارا سال تنخواہ نہیں ملتی اِس لئے لوگ بھرتی نہیں ہوتے مگر یاد رکھنا چاہئے.یہ ٹیریٹوریل فورس کا ذکر ہے عام فوج کا نہیں.عام فوج بھرتی ہونے والوں کو بارہ ماہ میں تنخواہ دیتے ہیں.ٹیریٹوریل فورس وہ ہے کہ ہندوستانیوں کی اس درخواست پر کہ فوجی ٹریننگ کا ہمیں موقع نہیں دیا جاتا.حکومت نے اپنی خواہش کے خلاف بنائی ہے.اب اس کے متعلق یہ مطالبہ کرنا کہ بارہ ماہ تنخواہ ملے.ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کسی سے کہے کہ مجھے نشانہ سکھاؤ اور جب وہ سکھائے تو اسے کہا جائے مجھے نشانہ سیکھنے کی مزدوری دو.یا ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک سرد ملک کا آدمی سایہ میں بیٹھا تھا.اسے کسی نے کہا میاں دھوپ میں جا بیٹھو.وہ کہنے لگا دھوپ میں بیٹھنے پر کیا دو گے.تو یہ حکومت نے رعائت کی ہے کہ ٹیریٹوریل میں فوجی ٹریننگ سیکھنے والوں کو ٹریننگ کے عرصہ کی تنخواہ دیتی ہے کیونکہ ٹریٹوریل فورس ہمارے مطالبہ پر جاری کی گئی ہے.اس میں قومی روح کے ساتھ ہی لوگ جا سکتے ہیں کہ یہ ٹرینینگ صحت کے لئے اور قوم میں نظم کی روح پیدا کرنے کے لئے مفید ہے اور خطرہ کے وقت اپنی اور اپنی قوم کی حفاظت کر سکیں گے.اس کے لئے ۱۲ ماہ کی تنخواہ کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہوسکتا.ڈاکٹر غلام مصطفے صاحب نے ایک بات کہی ہے اور وہ یہ کہ جہلم کی ٹیریٹوریل فورس
خطابات شوری جلد اوّل ۵۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء میں بھی احمدیوں کی بھرتی کی طرف توجہ کی جائے.یہ معقول بات ہے.جہلم کی طرف جب یہ بھرتی ہوئی تو ادھر توجہ نہیں کی گئی.وہاں صرف ایک پلاٹون احمدیوں کی بنائی گئی گو وہ بھی نام ہی کی تھی کیونکہ اس میں بھی غیر احمدی شامل تھے.کیونکہ احمدی اس وقت نہیں ملے تھے.حالانکہ اس علاقہ کے لوگ فوج میں زیادہ ملازمت کرتے ہیں.امور عامہ کو وہاں کے متعلق بھی خیال رکھنا چاہئیے اور وہاں بھی زیادہ سے زیادہ احمدیوں کو بھرتی کرایا جائے.اس طرح جب وہاں احمدی زیادہ ہو جائیں تو پھر ان کا غلبہ ہو جائے گا.اس تدبیر سے وہاں رستہ نکالا جاسکتا ہے.فیصلہ ان ہدائتوں کے بعد میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست چونکہ چاہتے ہیں کہ ٹیریٹوریل فورس میں بھرتی کی طرف توجہ کی جائے مگر دقت یہ بتائی گئی ہے کہ بھرتی کے لئے اطلاع نہیں ملتی.اس لئے محکمہ اس طرف توجہ کرے کہ وقت پر جماعتوں کو اطلاع دے.اسی طرح محکمہ یہ کوشش کرے کہ احمدیوں کی ایک کمپنی کی بجائے دو کمپنیاں بن جائیں.احباب کو چاہیے کہ بھرتی کے موقع پر زیادہ سے زیادہ نو جوانوں کو بھرتی کرایا جائے.“ قادیان میں ٹرینگ کلاس تیسری تجویز کے ضمن میں ہی ایک یہ تجویز تھی کہ جو نوجوان ٹیریٹوریل فورس میں بھرتی ہو کر ٹریننگ حاصل کریں.ان میں سے بعض کے لئے قادیان میں ایک یا دو ماہ کے لئے ٹرینگ کلاس جاری کی جائے تا کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں کو ٹریننگ دے سکیں.اس کے متعلق ایک نمائندہ کے اظہار رائے کے بعد حضور نے فرمایا :- چونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس پر کوئی زائد خرچ نہ ہوگا اور یہ پہلی تجویز کے پورا کرنے کا ذریعہ ہے نہ کہ نئی تجویز ہے پس اس کے متعلق رائے لینے کی ضرورت نہیں.جو نوجوان قادیان میں آسکیں وہ آکر ٹرینینگ لیں اور اس تجویز پر عمل کیا جائے.“
خطابات شوری جلد اوّل ۵۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء احمدیہ یہ کور کی تجویز جناب پیرا کبر علی صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ ایک احمدیہ والنٹیر کور بنائی جائے اور کوشش کی جائے کہ احمدی نوجوان اس کو ر میں داخل ہوں.اس تحریک کو کلی طور پر منتظم کیا جائے اور جلسوں کے انتظام اور دیگر رفاہ عام کے کاموں میں ان سے مدد لی جایا کر.کرے.اس کور کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کے بچوں میں فوجی سپرٹ پیدا ہونی شروع ہو جائے گی.جلسوں اور رفاہِ عامہ کے کاموں میں تنظیم سے نوجوان کام کریں گے اور اس سے بہت فائدہ ہوگا.بعض ممبران شوری کے اظہارِ خیال کے بعد حضور نے فرمایا : - ” نو جوانوں کی لازمی شرط نہیں بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس عمر والوں کو تو زور دے کر شامل کیا جائے اور جو باقی شامل ہوں ان کو بھی شامل کر لیا جائے.“ ایک صاحب نے رائے دی کہ یہ کام انصار اللہ کے سپرد کر دیا جائے.اس پر حضور نے فرمایا: - انصار اللہ تو خالص تبلیغی نظام ہے.احباب نے تجویز سن لی ہے.اس میں نو جوانوں کا ذکر خصوصیت سے اس لئے کیا گیا ہے کہ ایسی عمر والوں سے زیادہ کام لیا جا سکتا ہے اور ان کی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے.اس لئے جماعت کو کوشش کرنی چاہئیے کہ اس عمر کا کوئی آدمی اس کو ر میں شامل ہونے سے رہ نہ جائے.ان کے علاوہ دوسرے جو لوگ شامل ہونا چاہیں وہ بھی شامل ہو سکتے ہیں.جو لوگ اس کی تائید میں ہیں کہ ایسی والنٹیر کور بنائی جائے وہ کھڑے ہو جائیں.باقی جو دوستوں نے تجاویز پیش کی ہیں وہ ترمیمات نہیں ہیں بلکہ کام کی تفصیل ہے جس پر بعد میں کام کرنے والے غور کر سکتے ہیں.“ ۲۴۳ را ئیں شمار کی گئیں.” جو دوست اس تجویز کے خلاف ہوں اور جن کے نزدیک کسی مصلحت کی وجہ سے کور نہ بنائی جائے وہ کھڑے ہو جائیں.کوئی کھڑا نہ ہوا.فیصلہ میں اس تجویز کو اتفاق رائے کے مطابق منظور کرتا ہوا البعض خیالات ظاہر کرنا چاہتا ہوں :-
خطابات شوری جلد اوّل ۵۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء اصل بات یہ ہے کہ اس تجویز کو ہم دو نقطہ نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں ایک وقتی اور سیاسی حالات کے ماتحت اور یہ بہت محدود نقطہ نگاہ ہے.کیونکہ وقتی اور سیاسی حالات بدلتے رہتے ہیں.لیکن جب یہ حالات پیدا ہوں تو ان کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے.ان کے علاوہ ایسے حالات ہیں جن کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے اور وہ مستقل تربیت کی ضرورت ہے.جس سے کبھی کوئی جماعت مستغنی نہیں ہوسکتی.نیک خاندانوں میں شریر اور شریر خاندانوں میں نیک لوگ پیدا ہو جاتے ہیں.نو جوانوں کو خطرہ میں پڑنے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ ان کی صحیح طور پر تربیت کی جائے.مگر اس میں دقت یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں جوش ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی تربیت کریں.ان کے سامنے نہ لڑکے ہوتے ہیں اور نہ لڑکوں کے جرائم.نہ لڑکوں کی نیکیاں ہوتی ہیں اور نہ ان کی غلطیاں.ایک جماعت کا مقامی امیر اپنی جماعت کے لڑکوں کی تربیت کر سکتا ہے مگر لڑکوں کی برائیاں اور نقائص اس کے سامنے نہیں آتے.اگر ہر جگہ والنٹیر کور بنالیں.(اور یہ کام ایک ماہ یا ایک سال میں نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے ایک لمبے عرصہ اور مسلسل کوشش کی ضرورت ہے ) تو اس سے یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں جماعت کی تربیت کی طرف نگاہ رکھنے والے آدمیوں کے سامنے سارے نوجوان آجایا کریں گے اور وہ ان کو نصائح کر سکیں گے.مذہبی اور اخلاقی وعظ کیا جا سکے گا.گویا اس طرح تربیت اور نصائح کرنے کے مواقع زیادہ ملنے لگ جائیں گے.اس کے علاوہ ایک دوسرے کے ذریعہ نگرانی بھی کرائی جا سکے گی.جب کسی لڑکے کے متعلق شکایت ہو کہ اس میں یہ نقص ہے تو کور کے افسر کے ذریعہ اس کی اصلاح آسانی سے کرائی جا سکتی ہے کیونکہ وہ اپنے ماتحت لڑکے کی نگرانی کر سکتا ہے اور دوسرے لڑکوں کے ذریعہ نگرانی کرا سکتا ہے.عام طور پر نگرانی اس لئے نہیں کی جاسکتی کہ اپنے طور پر جب ایک لڑکا دوسرے لڑکے کو دوست بنائے گا تو اپنے ہی رنگ کے لڑکے کو بتائے گا.یعنی بدمعاش لڑکا بدمعاش کو ہی دوست بنائے گا لیکن کور میں اس کے اختیار میں نہ ہو گا کہ جس سے چاہے دوستی کرے بلکہ کور کا افسر جسے چاہے گا اس کا ساتھی مقرر کر دے گا اور اس طرح آوارہ لڑکوں کو شریف لڑکوں کے سپرد کر کے ان کی نگرانی اور اصلاح کرائی جا سکتی ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۵۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء پھر لڑکوں میں آوارگی کی وجہ بے کاری اور کوئی شغل نہ ہونا بھی ہوتی ہے لیکن کوریں بنا کر جب انہیں ایک کام میں مشغول کو دیا جائے گا تو وہ آوارگی سے بچ جائیں گے اور اچھے کاموں میں انہیں لگا کر ان کے اوقات کو مفید بنایا جاسکتا ہے.اور جب وہ نیکی کا کام کریں گے تو ان کے دل میں اُمنگ اور خوشی پیدا ہوگی.نیکی کے کاموں کی طرف توجہ ہوگی.ان کے کرنے میں فخر اور خوشی کی روح پیدا ہو جائے گی.اسی طرح دینی کاموں میں بھی ان سے مدد لی جا سکتی ہے اور ان کی حیثیت کے مطابق ان کو قومی کاموں میں حصہ لینے کا موقع دے کر ان میں قومی کام کرنے کی روح پیدا کی جاسکتی ہے.جس کا اثر ان کی آئندہ زندگی پر پڑے گا.روحانیت ہر شخص کو ہی خود بخود حاصل نہیں ہو جاتی بلکہ بہت لوگوں کو تربیت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے.دماغ میں شیطانی اور روحانی جنگ جاری رہتی ہے.آخر میں جس کا غلبہ ہو جائے انسان ویسا ہی بن جاتا ہے لیکن ایک حصہ تربیت کے متعلق ہے.اس کے ذریعہ انسان شیطانی غلبہ سے بچ سکتا ہے.پھر عارضی ضرورتوں کی وجہ سے بھی اس قسم کے انتظام کی ضرورت ہے.بدقسمتی سے ملک میں یہ احساس پیدا کیا جا رہا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس.یہ روح نہایت گندی ہے مگر پیدا ہو گئی ہے.میں گزشتہ سال جب سیالکوٹ گیا تو وہاں ایک جلسہ میں ہم پر پتھر برسائے گئے اور سوا گھنٹہ تک برسائے گئے.ہماری جماعت نے ان پتھروں کا کامیاب مقابلہ کیا تاہم معلوم ہوا کہ ابھی اور زیادہ تربیت کی ضرورت ہے.اگر مکمل تربیت ہو تو ہماری جماعت کے لوگ زیادہ عمدگی سے کام کر سکتے ہیں.ایسے حالات میں چونکہ مخالف اس طرح بھی ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے.اس لئے انتظام کی ضرورت ہے اور ہم خدا کے فضل سے ایسے منظم والنٹیر کور بنا سکتے ہیں کہ ہم سے سو گنی تعدا د ر کھنے والے لوگ بھی ویسے نہیں بنا سکتے.پس ہمیں اس قسم کا انتظام کرنا چاہئے اور یہی ضروری نہیں کہ اپنے جلسوں کا ہی انتظام کیا جائے بلکہ ایک آریہ بھی اگر تقریر کر رہا ہو اور کوئی اس میں دخل انداز ہو تو کور کے والنٹیر ز کا فرض ہوگا کہ اسے روکیں.“ " یہ ضروری باتیں ہیں.باقی تفاصیل بعد غور کے کام کرنے والے طے کر سکتے ہیں.احباب کا فرض ہے کہ اپنی اپنی جماعتوں میں جا کر تحریک کریں اور جب اعلان ہو تو اسے
خطابات شوری جلد اوّل کامیاب بنانے کی کوشش کریں.“ ۵۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء یونیورسٹی کے قیام کی تجویز مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء کے تیسرے اور آخری دن کے اختتامی اجلاس میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے کے بارہ میں سب کمیٹی نظارت تعلیم کی رپورٹ پیش ہوئی.اس پر بحث کے بعد حضور نے فرمایا: - میں اس تجویز کو منظور کرتا ہوں.اس منظوری سے یہ اعتراض دور ہو جاتا ہے کہ اس میں خلیفہ کو پابند کیا گیا ہے.جب اس تجویز کی منظوری دینا خلیفہ کے اختیار میں ہے تو خلیفہ پر مجلس شوری کی طرف سے پابندی عائد نہیں ہوتی بلکہ اس کی اپنی طرف سے اس پر پابندی عائد ہوتی ہے.قاضی محمد اسلم صاحب نے بعض باتیں بیان کی ہیں میں ان کے متعلق کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں.کہا گیا ہے کہ ہمارے پاس صرف چند سکول ہیں ان کے لئے یونیورسٹی کی ضرورت نہیں ہے اور جو کالج ہے اُس کا کورس بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے.باقی مبلغین کلاس کے چند طلباء رہ جاتے ہیں ان کے لئے اعلیٰ پیمانہ پر یونیورسٹی کی ضرورت نہیں ہے مگر میرے نزدیک یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم جو نام لیں اُس کے وہی مقاصد بھی قرار دیں جو دوسروں کے نزدیک اس نام سے وابستہ ہوں.یعنی اگر ہم یونیورسٹی نام رکھیں تو ضروری نہیں کہ اگر کوئی یو نیورسٹی کالجوں اور سکولوں کا امتحان لیتی ہے تو ہم بھی یہی مقصد مد نظر رکھیں بلکہ میرے نزدیک یہ ہونا چاہئے کہ جس جماعت کی یونیورسٹی ہو وہ اس کے لئے طریق عمل خود مقرر کرے اور یہ قرار دے کہ اپنی جماعت کے افراد کی دماغی اور عملی نشو ونما اور ترقی کس طرح ہو.ہو سکتا ہے کہ ایک شخص دماغی کمزوری اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے اپنی تعلیم کا مقصد خود ایسا مقرر کرے جو اس کے لئے مفید نہ ہو.اس قسم کی باتوں کے علاج کے لئے ہمیں ایک ایسے محکمہ کی ضرورت ہے کہ جو تمام تعلیمی اداروں سے خواہ وہ دینی تعلیم کے ہوں یا ڈ نیوی تعلیم کے ایسے طالب علم پیدا کرے جو باوجود تعلیمی اختلاف کے مقصد اور مدعا میں اتحادر رکھتے ہوں.اس محکمہ کا یہی کام ہوگا.انتظام اور کورس کے متعلق ہو سکتا ہے کہ اس میں ہم تغییر نہ کر سکیں اور وہ سرکاری طور پر ہی مقرر کردہ ہو لیکن اگر کورس کا کوئی حصہ ایسا ہو جو
خطابات شوری جلد اوّل ۵۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء اسلام کے متعلق ہمارے منشاء کے خلاف ہو تو ہمارا یہ کام ہو گا کہ ہم اس کا توڑ تیار کریں.اور اس رو کو روکیں جو غلط اور مضر خیالات پیدا کرنے والی ہو یعنی ایسے خیالات کا ازالہ کرتے رہیں مگر اس کے لئے ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر سے یہ توقع رکھنا کہ معلوم کرتا رہے کہ یونیورسٹیاں کیا پڑھاتی ہیں اور ان کے کیا بد اثرات ہیں اور انہیں کس طرح دور کیا جا سکتا ہے، یہ نہیں ہوسکتا.اس کے لئے الگ محکمہ کی ضرورت ہے.اس محکمہ کا نام یونیورسٹی رکھ لو یا کچھ اور رکھ لو.ہمارے نزدیک اس کا مقصد یہی ہے جو دوسری یو نیورسٹیوں کا نہیں ہے.دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ جن طلباء کو یو نیورسٹی سے فائدہ ہوسکتا ہے اُن کی تعداد چونکہ تھوڑی ہے اس لئے اتنے بڑے انتظام کی ضرورت نہیں.جامعہ احمد یہ میں جو طلباء تیار کئے جاتے ہیں ان کی جماعت کا نام مبلغین کلاس رکھنے سے ان کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا.دراصل ان لڑکوں نے آئندہ جماعت کے خیالات کو نشو ونماء دینا ہے.ان کے فتوؤں اور ان کے فیصلوں پر جماعت نے چلنا ہے.اگر ایسا ایک شخص بھی نکلتا ہے اور پچاس نہیں ہزار آدمی بیٹھ کر یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس کی صحیح اور مکمل تربیت ہو، اس کے خیالات درست ہوں تو ان پچاس ہزار آدمیوں کی کوشش ضائع نہ جائے گی بلکہ ان کے ذریعہ بہت ضروری کام ہوگا کیونکہ انہی طالب علموں نے آنے والے زمانہ میں جماعت کو سنبھالنا ہے.اگر ان کے خیالات غلط ہوں گے، ان کی تربیت ناقص ہوگی تو وہ جماعت کو اپنے غلط خیالات کے مطابق ڈھال لیں گے اور آئندہ جب کبھی یو نیورسٹی بنے گی تو وہ انہی غلط خیالات کے ماتحت بنے گی.پس اس وقت یو نیورسٹی نہ بنانے کا یہ مطلب ہے کہ آئندہ یو نیورسٹی بنانے کا کام ہم اُن لوگوں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں جنھوں نے ہماری سستی اور غفلت کی وجہ سے ہمارے نقطہ نگاہ کو ہی بدل دیا ہوگا.بعض نے کہا ہے کہ اس یو نیورسٹی سے دُنیاوی کاروبار میں کوئی فائدہ نہ ہوگا مگر ہماری غرض ہی نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم جماعت کی تعلیم کو صحیح طور پر پھیلانے والے لوگ پیدا کریں.پس یو نیورسٹی سے ہماری یہ غرض نہیں کہ اس کی سند حکومت کے ہاں منظور کی جائے بلکہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو وہ سند دے اِن کے متعلق جماعت کو اطمینان ہو جائے کہ جماعت کی تربیت کے لئے صحیح قابلیت لے کر نکلے ہیں.یہ لوگ بھی غلطی کر سکتے ہیں مگر بہت سی
خطابات شوری جلد اوّل ۵۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء غلطیوں سے بچنے کے لئے یہی طریق اختیار کیا جا سکتا ہے.پس ہم اپنے سکولوں میں وہی ڈگریاں رکھیں گے جو سرکاری طور پر تسلیم کی جاسکیں لیکن اس سے زائد بھی تعلیم دلائیں گے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کہ تم زائد تعلیم کیوں دیتے ہو.ایک بات اعلیٰ درجہ کی ماسٹر سعد الدین صاحب نے پیش کی ہے کہ ہم سلسلہ کی کتابوں کا امتحان جاری کریں گے مگر صرف یہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ایک اہم باتیں ہیں.مثلاً یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پر علمی طور پر غور نہیں ہو رہا یعنی ایک مضمون جہاں جہاں آیا ہو، وہاں سے اکٹھا کیا جائے اور پھر نتیجہ نکالا جائے.جہاں کوئی اختلاف نظر آئے اُس کے متعلق غور کیا جائے کہ اُس کے دور کرنے کی کیا صورت ہے.یہ کام یو نیورسٹی ہی کر سکتی ہے اور اس طرح علمی طور پر بھی خدمت ہوسکتی ہے.پس میرے نزدیک ایسا محکمہ ہونا چاہئے جس کے نہ ہونے کی وجہ سے کئی ایک نقائص ہیں جو چلے جا رہے ہیں اور تعلیم کا سخت نقصان ہو رہا ہے مثلاً مدرسہ احمدیہ میں انگریزی کی تعلیم رکھی گئی تھی لیکن اوپر نگرانی نہیں ہوتی اس لئے اس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.کئی سال سے یہ سکیم جاری ہے مگر اس وقت ایک طالب علم بھی پیش نہیں کیا جا سکتا جس نے انگریزی کا مقرر کردہ سٹینڈرڈ حاصل کر لیا ہو.دوسرا نقص یہ ہے کہ ترقی تعلیم کی طرف توجہ نہیں کی جا سکتی.جو لوگ سکولوں میں پڑھاتے ہیں وہ سکیمیں نہیں سوچ سکتے.نتیجہ یہ ہے کہ آج سے ۱۵ سال پہلے سکول جن لائنوں پر چلایا گیا تھا، اب بھی اُنہی پر چل رہا ہے.اس کے لئے الگ دماغ ہونے چاہئیں جو ان باتوں پر غور کریں اور ان میں ترقی کی سکیمیں پیش کریں.بعض دوستوں نے خرچ کا سوال اُٹھایا ہے.کوئی خرچ ہو یا نہ ہو، سوال یہ ہے کہ ایسے محکمہ کی ضرورت ہے یا نہیں.اگر ضرورت ہے تو خرچ کے ڈر کی وجہ سے اسے چھوڑا نہیں جا سکتا.میں نے یہ باتیں اس لئے بیان کی ہیں کہ آئندہ جو ڈھانچہ تیار کیا جائے اس کی تیاری کے وقت ان کو مدنظر رکھ لیا جائے.یہ بھی مدنظر رکھ لیا جائے کہ ہم زیادہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتے.بغیر اخراجات میں زیادہ اضافہ کرنے کے ایسے لوگ جو دیندار ہوں جو دینی تعلیم سے واقف ہوں اور عام تعلیم سے بھی واقف ہوں اُن کو اس کمیٹی میں شامل کر
خطابات شوری جلد اوّل ۵۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء لیا جائے وہ سکیم بنا کر پیش کریں تا کہ میں اُس پر غور کر سکوں.اب مجلس مشاورت کا کام ختم ہو گیا ہے اور غالباً یہ پہلی مجلس شوریٰ ہے جس میں سارا ایجنڈا ختم کیا گیا ہے.پہلے ضرور کچھ نہ کچھ بقایا رہ جایا کرتا تھا.“ اختتامی تقریر اب میں آخری چند کلمات یا ممکن ہے زیادہ ہو جائیں کہہ کر اس کا رروائی کوختم کروں گا اور پھر دُعا کی جائے گی.پہلی بات میں دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اصل چیز روحانیت ہے اگر اس کی طرف توجہ نہ کی جائے تو جس غرض کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ باطل ہو جائے گی.جب ہم تدابیر اختیار کرتے ہیں یا قانون بناتے ہیں تو یہ بات ہمارے مدنظر ہونی چاہئے کہ یہ سب ضمنی باتیں ہیں اور انہیں ہم اس لئے اختیار کرتے ہیں کہ ان کے اندر روحانیت کو مخفی کر دیا گیا ہے یا ان سے وابستہ کر دیا گیا ہے لیکن جس وقت ہم ان چیزوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ہمارے خیالات روحانیت سے ہٹ کر مادیات کی طرف چلے جاتے ہیں اور ہم اس خطرہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ روحانیت ٹوٹ نہ جائے اس لئے ہمیں ہمیشہ بیدار رہنا چاہئے.گو ہم مادیات پر گفتگو کرنے کے لئے مجبور ہیں اور خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہم ایسا کرتے ہیں.چونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تدابیر سے کام لو اس لئے ہم ان سے کام لیتے ہیں ورنہ کامیابی کے لئے خدا تعالیٰ پر ہی ہمارا تو کل ہے.اگر ہم ہر وقت اپنے دل میں یہ خیال نہ رکھیں گے تو ہمارے دماغ مادی طور پر غور کرنے کے عادی ہو جائیں گے اور روحانیت تباہ ہو جائے گی.خوب یاد رکھو ہمارے سارے کام خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی چلتے ہیں.میں اس قسم کے دعوے نہیں کیا کرتا کہ مجھے یہ کشوف اور یہ رویا ہوئے.ماً موروں کے لئے تو ضروری ہوتا ہے کہ ایسا کریں مگر دوسروں کے لئے ضروری نہیں ہوتا مگر کئی لوگ ایسا کرتے ہیں.مجھے ہمیشہ سے اس بارے میں حجاب رہا ہے اور بجائے اس کے کہ اس بارے میں اپنے لمبے تجربے سُناؤں میں یہی چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا دوسروں سے بھی ایسا ہی سلوک ہو اور وہ بھی اسی طرح لذت حاصل کریں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے حصہ لیں لیکن بعض طبائع سمجھتی ہیں جو شخص جس چیز کا دعویٰ نہ کرے اُس میں وہ ہوتی ہی نہیں.اس لئے میں کہتا ہوں روحانیت سے میں ناواقف نہیں ہوں ، شرم کی وجہ سے
خطابات شوری جلد اوّل ۵۲۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء اپنی کیفیت بیان نہیں کرتا ور نہ حقیقت یہ ہے کہ روحانیت کے بغیر سلسلہ ہی بیچ ہے.تم سکول بناؤ، کالج بناؤ، یونیورسٹی بناؤ، کچھ بناؤ اگر تمہارے مدنظر یہ بات نہیں کہ یہ سب ضمنی باتیں ہیں، اصل مقصد خدا تعالیٰ کا قرب اور اُس کا فضل حاصل کرنا ہے تو پھر کچھ بھی نہیں.تمام قسم کی ترقیوں کے باوجود اگر تم اپنے اندر تذلل نہیں محسوس کرتے تو پھر کوئی ترقی ترقی نہیں بلکہ تنزّل ہے.بیداری نہیں بے ہوشی ہے، زندگی نہیں موت ہے.اس کو مدنظر رکھنا اور اس کے پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہر احمدی کا اولین فرض ہے.اصل کوشش اس بات کی ہونی چاہئے کہ نفسوں کے اندر یہ باتیں پیدا ہو جائیں.میں کبھی کبھی اشعار میں جو بظاہر عشقیہ معلوم ہوتے ہیں خاص باتوں کی طرف اشارہ کر جاتا ہوں.میں نے ایک شعر میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے.؎ خلق و تکوین جہاں راست پر سچ پوچھو تو بات تب ہے کہ میری بگڑی بنائے کوئی یعنی دُنیا کی ترقی مجھے کیا نفع دے سکتی ہے اگر میرے اندر کوئی ترقی نہیں پیدا ہوئی.اس میں میں نے جماعت کو یہ بتایا ہے کہ ہمارے مدنظر یہ مقصد ہو کہ ہم کو یہ چیز حاصل ہو.اگر ہمیں حاصل نہیں تو پھر ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص تو ریوڑیاں کھا رہا ہے اور دوسرا منہ چڑا رہا ہے.اس نقال کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.اس کی کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ بجائے دوسرے کے منہ کی شیرینی پر منہ مارنے کے اس کے منہ میں شیرینی آجائے.پس ہر احمدی کوروحانیت کی ترقی کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے سامنے بہت بڑا مقصد ہے.جہاں تک روحانیت کی ترقی میں روک ہے وہ یہی ہے کہ لوگ اس مقصد کو مدنظر نہیں رکھتے اور ٹھوکر کھا جاتے ہیں.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں ایک شخص حق پر ہوتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں اس بات میں اس شخص کا پڑنا اس کے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی مضر ہوتا ہے.اُس وقت میں اُسے کہتا ہوں اِس حق کو چھوڑ دو.اس پر وہ سمجھتا ہے کہ میں اُس سے اُس کا حق چھڑاتا ہوں مگر میں حق نہیں چھڑاتا بلکہ اعلیٰ مقصد کی طرف اسے لے جانا چاہتا ہوں اور اس بات کے پیچھے پڑنے سے جو نقص پیدا ہونا ہوتا ہے اُس سے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں.پس دوستوں کو اعلیٰ مقصد کو مدنظر رکھنا چاہئے اور اُس کے لئے بڑی عظیم الشان
خطابات شوری جلد اوّل ۵۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء قربانیاں کرنی چاہئیں.خواہ کسی موقع پر اپنے حق کو بھی قربان کرنا پڑے تو کر دینا چاہئے کیونکہ چھوٹی چیز کو بڑی کے لئے قربان کیا جاتا ہے.پھر ہمیں اپنی قربانیوں کو مستقل بنانا چاہئے اور ایک رنگ میں قربانی ساری جماعت میں چلنی چاہئے.اس وقت ہماری جماعت میں ایسے لوگ ہیں جو بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں اور اگر اِن سے انتہائی قربانی کا مطالبہ کریں تو وہ اس مطالبہ کو پورا کر دیں گے مگر ایسے بھی ہیں جو تکالیف میں سے گزرے ہیں لیکن اگر اور قربانی چاہیں تو نہیں کریں گے.یہ دونوں قسم کے لوگ امراء میں بھی ہیں اور غرباء میں بھی.میں اِن دونوں قسم کے لوگوں سے کہوں گا اپنے اعلیٰ مقصد کو مد نظر رکھیں اور خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ تمام دنیوی چیزیں ہمارے اعلیٰ مقصد کے مقابلہ میں بیچ ہیں اور ساری دُنیا کے مقاصد بیچ ہیں اور جب ہمارا مقصد اتنا اعلیٰ ہے تو ہمارے عہدے بھی بہت اعلیٰ ہیں.پس ہم میں یہ احساس ہونا چاہئے کہ اگر ہمیں دُنیا کا بادشاہ بھی بنا دیا جائے تو ہم جماعت احمدیہ کا سیکرٹری بننا اس سے اعلیٰ سمجھیں گے.تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نوجوانوں میں اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.اس وقت میں جہاں نو جوانوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مذہب کی طرف توجہ کریں کیونکہ اس بارے میں بعض میں نقص اور کمزوری نظر آ رہی ہے وہاں میں اِس خوشی کا بھی اظہار کرتا ہوں کہ جماعت میں نئے آنے والوں میں بڑا اخلاص اور جوش ہے.اسی طرح بعض نوجوان بھی ایسے ہیں جن میں بہت اخلاص ہے اور وہ جماعت کے لئے مفید ثابت ہو رہے ہیں مگر چند کے اخلاص کی وجہ سے جماعت پوری طرح ترقی نہیں کر سکتی.کوشش یہ کرنی چاہئے کہ سب میں اخلاص پیدا ہو.اس وقت جہاں میں ان کو نصیحت کرتا ہوں وہاں کارکنوں اور بڑی عمر کے لوگوں سے بھی یہ کہتا ہوں کہ نو جوانوں کی ہمت افزائی کریں.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض جگہ ہمت افزائی کی بجائے نوجوانوں کے رستہ میں روک پیدا کی جاتی ہے.اس میں بڑی عمر والوں کی کوئی ہتک نہیں اگر نو جوانوں کو کوئی کام کرنے کی توفیق مل جائے.اس سے ہماری ہی عزت بڑھتی ہے کیونکہ وہ ہمارے ہی قائم مقام بننے والے ہیں.پس ہماری اولادیں اگر ترقی کریں تو یہ کوئی مضر بات نہیں بلکہ ہمارے لئے اچھی ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۵۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء غرض جہاں نوجوان کوئی اچھا کام کریں وہاں اُن پر اعتراض نہ کئے جائیں یا ان کے کام کو چُھپایا نہ جائے بلکہ اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے.پھر میں دوستوں کو قادیان آتے رہنے کے لئے بھی نصیحت کرتا ہوں.انہیں یہاں آتے رہنے کی کوشش کرنی چاہئے اور دینی کاموں میں حصہ لینے کی کوشش کرنی چاہئے.میں ضمنی طور پر یہ بھی کہہ دیتا ہوں کہ ہوزری کی سکیم سرکاری طور پر منظور ہو گئی ہے دوستوں کو چاہئے کہ اس کے حصے خریدیں.اس کے متعلق میں وہ وعدہ بھی یاد دلاتا ہوں جو گزشتہ سال کی مجلس مشاورت میں کیا گیا تھا کہ اس کی بنی ہوئی جرابیں وغیرہ استعمال کی جائیں گی.صرف شرط یہ ہے کہ پورے ناپ کی مل جائیں.اس سال انشاء اللہ ہوزری کا کام شروع ہو جائے گا.اس کے بعد میں ان الفاظ پر اس اجلاس کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بہت اہم کام ہمارے سپرد کیا ہے.اس میں ذراسی سستی اور غفلت کرنے کی وجہ سے بھی ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ہم نے ایک طرف اپنی اصلاح کرنی ہے دوسری طرف ہمسایہ اقوام کی اصلاح کرنی ہے.پھر اس قسم کی داغ بیل ڈالنی ہے کہ آئندہ نسلیں محفوظ رہ سکیں.ان ذمہ واریوں کو دیکھتے ہوئے ہماری مثال اُس ٹیٹری کی سی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب اُس سے اُلٹے سونے کی وجہ دریافت کی گئی تو اُس نے کہا اگر آسمان گر پڑے تو میں اپنے پاؤں پر اُسے ٹھہرالوں گی.مگر خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ہمیں کامیاب کرے گا اُس کے تو کل پر ہم نے شروع کیا ہے.ہمیں دُعا کرنی چاہئے کہ وہ اپنے فضل سے ہمیں اس کا اہل بنائے ، ہماری کمزوریوں کو نظر انداز کر دے.ہمیں کام کرنے کی توفیق بخشے ، اپنی خاص برکات ہم پر نازل کرے، ہمارے نفوس کو اندھیروں سے دور اور ہمارے قلوب کو ظلمتوں سے پاک کر دے، ہمارے ضعف اور کمزوری کو دور کر دے، ہماری جہالت کو علم سے بدل دے، بُعد کو قرب سے بدل دے تا کہ ہم اس جہان میں اور اگلے جہان میں اس کے فضلوں کے وارث بن جائیں تاکہ ہم اور ہماری نسلیں اس کا قرب حاصل کر لیں اور اس دُنیا میں خدا کا فضل نازل ہوتا دیکھ لیں.“ دُعا کے بعد حضور نے فرمایا.میں نے ارادتاً ایک بات شوری کے موقع پر بیان نہیں کی ، میرا منشاء یہ تھا کہ مجلس
خطابات شوری جلد اوّل ۵۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء شوری کے ختم ہونے کے بعد بیان کروں گا.اب دُعا کے بعد جب مجلس شوری ختم ہو گئی ہے اس لئے احباب کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں.کشمیر کے متعلق جو کام ہم نے شروع کیا ہوا ہے میں امید کرتا ہوں کہ دو چار ماہ میں اس کام کا بڑا حصہ اختتام کو پہنچ جائے گا.اس کے متعلق میں نے جماعت کو تحریک کی تھی کہ پہلے چندوں سے زائد ایک پائی فی روپیہ اس کام کے لئے دیں.بہت سی جماعتوں نے اس طرف توجہ کی ہے مگر بہت سی ابھی باقی ہیں.پھر یہ بھی تحریک کی گئی تھی کہ دوسروں سے بھی اس کام کے لئے اصرار کے ساتھ چندہ وصول کریں.اس وقت تین چار ہزار روپیہ ماہوار اس کام پر خرچ ہورہا ہے اور آمد کی کمی کی وجہ سے ۷.۸ ہزار روپیہ قرض لے کر خرچ کیا جاچکا ہے.اگر ہماری جماعتیں اس طرف توجہ کریں تو یہ قرض ادا ہوسکتا ہے.احباب یہاں سے جانے کے بعد خود بھی چندہ بھیجیں اور دوسروں سے بھی چندہ جمع کر کے ارسال کریں اور کم از کم ایک سال کے لئے یہ بوجھ اُٹھا ئیں اور دُعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ کا میابی عطا کرے.اب میں دوستوں کو جانے کی اجازت دیتا ہوں جو صاحب اسی وقت جانا چاہیں، وہ ابھی مصافحہ کر سکتے ہیں.(مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء) بخارى كتاب الدعوات باب استغفار النَّبي صلى الله عليه وسلم (الخ) تذکرہ صفحه ۱۰۴.ایڈیشن چہارم سے تذکرہ صفحہ ۳۱۲.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۱.ایڈیشن چہارم ۵ تذکره صفحه ۵۰.ایڈیشن چهارم زرقانی جلد ۲ صفحه ۳۲۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۴ء النساء : ٨ و ٹیری : ایک پرندہ ہے.ٹیٹری اپریل اور مئی میں انڈے دیتی ہے انہی مہینوں میں اس کی آواز سنائی دیتی ہے.یہ اپنی ٹانگیں اوپر اٹھا کر سوتی ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۵۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ افتتاحی تقریر مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء ( منعقده ۱۴ تا ۱۶ را پریل ۱۹۳۳ء) پہلا دن مجلس مشاورت منعقده ۱۴ تا ۱۶.اپریل ۱۹۳۳ء کے آغاز میں حضور نے دُعا کروانے کے بعد تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی اور پھر مجلس مشاورت کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا: - ” ہم آج یہاں ایک ایسے کام کے لئے جمع ہوئے ہیں جس کے ہمارے کام کی اہمیت متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ پہلے آسمان پر طے کیا گیا، پھر زمین پر نازل کیا گیا.گویا جو کام آج ہم نے کرنا ہے وہ اس رنگ میں ہونا چاہئے جس رنگ میں کہ آسمان پر اُسے طے کیا گیا تھا.جس چیز کو خدا تعالیٰ نے دُنیا میں پھیلانے کا وعدہ کیا ہے اور جس کام کو کامیاب کرنے کا اس کی طرف سے وعدہ ہے وہ وہ کام نہیں جو زید یا بکر کرتا ہے یا زید یا بکر کرے گا بلکہ وہ ہے جسے خدا نے آسمان پر طے کیا.پس ہمارا یہ خیال کرنا حماقت ہو گی کہ جو کام ہم کریں گے وہ دُنیا میں پھیل جائے گا یا جس کام کو ہم کریں گے اُس کا مقابلہ دنیا نہ کر سکے گی.ایسا نہ کوئی وعدہ قرآن میں ہے نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں.ایک ہی وعدہ ملتا ہے قرآن میں بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں بھی.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کا وعدہ قرآن کریم میں تو اللہ تعالی نے عمومی طور پر وعدہ کیا ہے کہ جو اللہ کے دین کی تائید کرنے کے لئے اور اس کی منشاء کو پورا کرنے کے لئے کھڑے ہوں، اللہ انہیں ضرور کامیاب کرتا ہے
خطابات شوری جلد اوّل ۵۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء اور وہ دُنیا میں کامیاب ہو کر رہتے ہیں.چنانچہ فرمایا.كَتَبَ اللهُ لا غَلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي یا کہ میں اور میرے بھیجے ہوئے یعنی وہ جو میرے بتائے ہوئے طریق کے مطابق کام کرتے ہیں.ہمیشہ غالب رہتے ہیں یا یہ فرمایا کہ والّذينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللّوهُمُ الغلبون ہے جو حزب اللہ ہوں گے وہ کامیاب ہوں گے یعنی وہ اللہ کی فوج میں داخل ہوں گے اور فوج اپنی منشاء کے مطابق نہیں لڑا کرتی بلکہ اعلیٰ افسر کے حکم کے ماتحت لڑتی ہے.اس لئے حزب اللہ سے مراد یہی ہے کہ وہ جو خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ غالب رہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خدا تعالی کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ اصلوة والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کا جو وعدہ ہے وہ بھی یہی ہے.خدا تعالیٰ نے آسمان پر ایک فیصلہ کیا اور کہا کہ میں اسے دُنیا میں جاری کروں گا.اب جو اُسے جاری کرنے کے لئے کھڑا ہو گا وہ غالب ہوگا اور جو اس کے مقابلہ پر کھڑا ہو گا وہ مقہور اور مغضوب ہوگا.کامیاب وہی ہو گا جو خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق کام کرے گا نہ کہ وہ جو اپنی سکیم کے ماتحت کام کرے گا.ہماری حالت اب غور کرو یہ بات ہمارے لئے اس کام کو کتنا نازک بنا دیتی ہے.ایک طرف ہم نے اُن کو جو ہمارے عزیز واقارب ہیں ہمارے لئے خون بہانے کو تیار ہیں چھوڑا، اُن سے الگ ہوئے.دوسری طرف دُنیا نے ہمیں چھوڑ دیا.ایسی حالت میں اگر ہمارے مقاصد خدا تعالیٰ کے مقاصد کے مخالف ہوں تو ہماری مثال ( خدا تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے ) خَسِرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ کی ہوگی.اگر دُنیا کو ہم نے خود چھوڑ دیا اور پھر خدا تعالیٰ کے وعدہ اور منشاء کے مطابق کام نہ کر کے خدا تعالیٰ کو ناراض کر دیا اور اُس نے ہمیں چھوڑ دیا تو غور کرو اس حالت میں ہمارے لئے کوئی بھی جگہ رہ جاتی ہے؟ پس ہمارا معاملہ بڑا ہی نازک ہے.یہ نہیں کہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا منشاء ہمیں معلوم ہے کیونکہ جہاں تفصیلات ہوں وہاں بھی دقتیں ہوتی ہیں.قرآن کریم موجود ہے مگر مسلمانوں نے اس کے معانی کو غلط سمجھا اور خدا کے غضب کے مورد ہو گئے.جب تفصیلات کے ہوتے ہوئے بھی انسان کو ٹھوکر لگ سکتی ہے تو جو بات اشاروں میں بیان ہو اُس کے متعلق کتنا خطرہ ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۵۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق مسلمانوں کی غلطی اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات قرآن کریم میں تفصیل سے بیان کیں مگر مسلمانوں نے کچھ کا کچھ بنا لیا ، حتی کہ ایک عقلمند ان پر ہنس پڑے گا اور ایک در دمندان کوسُن کر رو پڑے گا.بھلا کون ایسے خدا کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوسکتا ہے جس کے متعلق کہا جائے کہ چند انسانوں کے سوا باقی سب کو از لی لعنت میں گرفتار کر دے گا.کیا خدا تعالیٰ پر ایمان لانے والا ایک منٹ کے لئے بھی خیال کر سکتا ہے کہ وہ رحیم و کریم ہستی اپنے بندوں کو ضلالت میں ڈال کر چھوڑ دے گی ؟ لیکن آجکل مسلمان یہی کہتے ہیں کہ سوائے مسلمان کہلانے والوں کے باقی سب کو خدا تعالیٰ ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دے گا.اسی طرح کیا کوئی سمجھدار انسان یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے صرف بنی اسرائیل میں نبی بھیجے اور باقی ساری دُنیا کو اس نے چھوڑ دیا کہ تباہ ہو، وہ ممالک جنہوں نے اخلاقی علوم اور فلسفہ کو ترقی دینے کے لئے صدیاں صرف کر دیں ، وہ ممالک جو خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے سینکڑوں سال کوشش کرتے رہے، وہ روحیں جو روحانی پانی کے لئے تڑپتی رہیں، خدا تعالیٰ نے ان سب کو نظر انداز کر دیا اور جب ہدایت بھیجی تو صرف بنی اسرائیل کے لئے بھیجی؟ اس بات کو کون مان سکتا ہے.ایک شخص قرآن کریم میں الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ " پڑھتا ہے اور پوچھتا ہے بتاؤ خدا نے سب کی کیا ربوبیت کی؟ تو اُسے کہتے ہیں دیکھو خدا سب کے لئے بارش برساتا ہے، سب کے لئے سورج چڑھاتا ہے، سب کو ہوا پہنچاتا ہے مگر جب روحانیت کے متعلق پوچھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ صرف بنی اسرائیل کے لئے مخصوص تھی.یہ سب باتیں بالوضاحت بیان کر دی گئی تھیں آخر کس بات کی ضرورت تھی.قرآن کریم کی آیت ہے.ان مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيمَا نَذیر یہ کھلی آیت ہے، ایسی کھلی کہ جس کے دو معنی نہیں ہو سکتے مگر باوجود اس کے مسلمانوں نے اس بات کو چھوڑ دیا.پس جب نصوص کی موجودگی میں ٹھوکر لگ گئی اور جب تفصیلات کے باوجود مسلمان غلطی میں مبتلا ہو گئے تو جہاں صرف اشارات ہوں وہاں ٹھوکر لگنے کا اور بھی زیادہ خطرہ ہے.مجلس مشاورت میں پیش ہونے والے امور ہم اس مجلس میں جن امور پر غور کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں وہ عموماً
خطابات شوری جلد اوّل ۵۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء وہی ہوتے ہیں جن کے متعلق فیصلہ کرنا خدا تعالیٰ نے ہم پر چھوڑا ہے تا کہ ہم عقل دوڑائیں اور استنباط کریں.پھر ہمارے لئے کس قدر خطرات ہیں.اگر خدانخواستہ ہمارے تمام فکر، تمام سوچ اور تمام غور کا نتیجہ ایک ایسا پروگرام ہو جو خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف ہو تو ہم یہ اُمید نہیں کر سکتے کہ ہم اس لئے کامیاب ہو جائیں گے کہ احمدیوں نے وہ پروگرام تجویز کیا ہے.اس حالت میں اس پروگرام کو اُسی طرح ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے گا جس طرح کسی اور کے پروگرام کو لیکن اگر ہمارا پروگرام خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہوگا تو یقیناً خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کے جاری کرنے میں لگ جائیں گے اور ہر قدم پر خدا تعالیٰ کی نصرت ہمارے شامل حال ہو گی.خدا تعالی کی منشاء معلوم کرنے کی ضرورت مگر سوال یہ ہے کہ وہ کون سا ذریعہ ہے جس سے ہم معلوم کر سکیں کہ خدا تعالیٰ کا منشاء کیا ہے؟ اس کے لئے کوئی نہ کوئی ذریعہ ہونا چاہئے.اگر نہیں تو پھر ضرور ہم ٹھوکر کھائیں گے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ پیشتر اس کے کہ مجلس مشاورت کی کارروائی شروع ہو بعض باتیں بیان کر دوں.پہلی چیز جو قرآن کریم سے معلوم ہوتی ہے اور جس سے پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید کس طرح حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنا منشاء کس طرح ظاہر کرتا ہے وہ یہ ہے که انسان ایاک نعبد کہتا ہے.یہ نہایت ہی ظلم ہو گا قرآن پر اور نہایت ہی ظلم ہوگا اسلام پر اگر ایاک نعبد کے یہ معنی کریں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں.نماز پڑھنے کا وقت تو ایک خفیف وقت ہوتا ہے.غور کرو دن رات کے ۲۴ گھنٹوں میں سے کتنا وقت نماز کے لئے صرف کیا جاتا ہے؟ اگر نماز کے لئے تین چار گھنٹے بھی سمجھ لئے جائیں بلکہ ۲۳ گھنٹے بھی اگر ہم اس کے لئے دیتے ہیں اور ایک گھنٹہ نہیں دیتے تو بھی شرک کرتے ہیں.عبودیت کے معنی پس ایاک نعبد کے یہ معنی نہیں کہ ہم نماز ، روزہ وغیرہ عبادات بجالاتے ہیں.عبودیت کے معنی تذلل کے ہوتے ہیں یا ایسی صورت اختیار کرنا جو اس چیز کی ہوتی ہے جو دوسرے کا عکس قبول کر لیتی ہے.مثلاً نرم مٹی یا نرم موم یا نرم لاکھ ہے، یہ چیزیں دوسری چیز کے نقش قبول کر لیتی ہیں.پس جب ہم اتناكَ نَعْبُدُ
خطابات شوری جلد اوّل ۵۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء کہتے ہیں تو اس سے مراد چند محدود عبادتیں نہیں لیتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی مہر کے نقش قبول کرنے کے لئے اپنے نفس کو تیار کرتے ہیں اور یہ سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے ، اُٹھتے بیٹھتے ، ہر وقت اور ہر حالت میں کہہ سکتے ہیں.الہام اور رؤیا اکثر سوتے میں ہی دکھائے جاتے ہیں اور سوتے ہوئے خدا تعالیٰ کے انعام کا الہام، کشف، رؤیا اور خواب کی صورت میں جاری رہنا بتاتا ہے کہ سوتے وقت بھی دل نقش قبول کر سکتا ہے.الہام، کشف، خواب اور رویا عموماً رات کو ہی ہوتے ہیں.اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ کہ سوتے میں دماغ خالی ہوتا ہے اور وہ خوب نقش قبول کر سکتا ہے.اس سے عبودیت کے متعلق یہ اصل معلوم ہوا کہ بالکل خالی الذہن ہو جانا چاہئے.خدا تعالیٰ کا منشاء معلوم کرنے کا طریق پس جب ہم خدا تعالیٰ کا نقش قبول کرنا چاہیں، اُس کا منشاء اپنے لئے معلوم کرنا چاہیں تو بالکل خالی الذہن ہو کر آئیں.اب اگر ایک شخص مجلس میں یہ خیال لے کر آتا ہے کہ میں اپنی فلاں بات منواؤں گا تو وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو اس ہال سے باہر ہی چھوڑ آتا ہے.لیکن ایک اور آتا ہے جو کہتا ہے میں خدا تعالیٰ کا ناچیز بندہ ہوں میں اپنے سب نقش مٹاتا ہوں اور خدا تعالیٰ کے سامنے قلب کی صاف تختی پیش کر کے کہتا ہوں آ اور اس پر اپنی مُہر لگا.ہر وہ شخص جو اس خیال کے ساتھ آیا اور اُس نے یہ کہا وہ صحیح کہتا ہے اُسے خدا تعالیٰ کی نصرت حاصل ہو گی لیکن وہ جو ایسا نہیں کہتا وہ خدا کی نصرت سے محروم رہے گا.خواہ وہ اچھی بات کے لئے یہ خیال کرے یا بُری بات کے لئے.کامیابی کس چیز کو حاصل ہوتی ہے یہ غلط ہے کہ ہر نیکی دُنیا میں کامیاب ہوتی ہے اگر ایسا ہوتا تو اسلام کو اس زمانہ میں کیوں ناکامی ہوتی.جو چیز جیتی اور کامیاب ہوتی ہے وہ نَعْبُدُ والی حالت ہے.وہ نقش جیتتا ہے جو خداتعالی تازہ تازہ لگاتا ہے.صرف وہی زندگی ہوتی ہے.اس کے سوا باقی سب موت ہی موت ہے.پس اگر ایات نخبہ کہیں اور دل کو صاف کر لیں.خدا تعالیٰ کے سامنے اخلاص سے نہیں کہ ہماری نہیں تیری ہی مرضی پوری ہو.ہم نے دل خالی کر کے تیرے سامنے پیش کر دیا ہے، اب اس میں وہ ڈال جو تیری مرضی کے مطابق ہے تو پھر ممکن نہیں کہ
خطابات شوری جلد اوّل ۵۳۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء خدا تعالیٰ کے حضور اِس طرح گریں اور وہ اپنا منشاء بتانے سے محروم رکھے.اس طرح ہم اُس کا صحیح منشاء پالیں گے اور اس فیصلہ پر پہنچ جائیں گے جو خدا تعالیٰ نے آسمان پر کیا ہوا ہے.تجربہ شدہ صداقت یہ ایسی چیز ہے، اتنی بڑی صداقت ہے اور اتنی دفعہ میں نے اس کا تجربہ کیا ہے کہ دنیا کی موجودات اور مشاہدات میں سے اسے زیادہ ہی یقینی سمجھتا ہوں.میں نے اپنی ذات کے متعلق دیکھا ہے جب بھی خدا تعالیٰ کے لئے نفس کو خالی کیا ، اتنی معلومات حاصل ہوئیں جو پہلے وہم وگمان میں بھی نہ تھیں.خدا تعالیٰ کے فرشتے ایسی کھڑ کی کھول دیتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے سارے علوم اسی میں سے گزر کر جاتے ہیں.پس اگر کوئی اپنے آپ کو سچ مچ خدا تعالیٰ کے آگے ڈال دے تو خدا تعالیٰ اُسے اُس مقام پر پہنچنے کی توفیق دے گا جہاں اُس کا منشاء ظاہر ہو جاتا ہے.کبھی اس کے پر د اپنے دل کے ذریعہ، کبھی الہام کے ذریعہ جیسے انبیاء کو.کبھی غیر نبی بھی ذریعہ بن جاتا ہے جیسے اذان ہے.یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الہام نہیں کی گئی تھی بلکہ ایک صحابی کو الہام کی گئی تھی.پس دیکھو اتنی برکت والی چیز براہ راست رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ بتائی گئی بلکہ آپ کے ایک ادنے غلام اور خادم کے ذریعہ بتائی گئی.جب اللہ تعالیٰ کے نبیوں تک کو شریعت کے امور بعض غیر نبیوں کے ذریعہ سے بتائے جاتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عقل میری یا آپ کی ہی صحیح ہو.ہو سکتا ہے کہ ہمیں اپنے چھوٹے سے چھوٹے بھائی کے ذریعہ ایسی بات بتائی جائے کہ وہ ہمیں کامیابی تک پہنچا دے.خدا تعالیٰ کی طرف سے راہنمائی ہم میں جو فرق ہے وہ اُس سے بہت کم ہے جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے غلاموں میں تھا مگر خدا تعالیٰ نے دُنیا کو جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ نور عطا کیا وہاں کچھ آپ کے غلاموں کے ذریعہ بھی عطا کیا.اسی طرح عقل خدا تعالیٰ نے اسی طرح تقسیم کی ہے کہ کوئی بات کسی کی عقل میں آ جاتی ہے اور کوئی کسی کی عقل میں.اور اسی طرح خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس کی نعمت کا چھینٹا ہر ایک پر پڑا ہے.پس اگر ہم اپنے ذہنوں کو خالی کر کے اور یہ سمجھ کر کہ ہم اپنے نفس پر بھروسہ نہ کریں گے بلکہ صحیح اور درست بات جہاں سے ملے گی اُسے قبول کر لیں گے، کام کریں تو خدا تعالیٰ خود ہماری
خطابات شوری جلد اوّل ۵۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء راہ نمائی کرے گا.اِيّاكَ نَعْبُدُ میں یہی بتایا گیا ہے کہ اگر خدا کا منشاء معلوم کرنا چاہتے ہو، اُس کی نصرت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے ذہن کو بالکل خالی کر دو.ہر وقت دُعائیں کرو دوسری بات رایگانت تنتمين " بتائی ہے.اگر اپنی خالی مختی کو کسی گوشہ میں رکھ چھوڑو تو اس پر کون لکھتا ہے.اگر اس پر کچھ لکھنا چاہتے ہو تو لکھنے والے کے پاس لے جاؤ.پس پہلے تو اپنے خیالات اور ارادوں کو بھول جاؤ اور پھر خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ ہمارے دل کی سختی خالی ہوگئی ہے تو آ اور اس پر لکھ.اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ایک گوشہ میں جائیں اور مصلی بچھا کر اور مجھک کر دعا کریں بلکہ یہ دعا ہر وقت ہو سکتی ہے.جو یہ خیال کرتا ہے کہ دُعا صرف مصلے پر بیٹھ کر ہی ہو سکتی ہے وہ بیوقوف ہے.ہم ہر سانس جو لیتے ہیں اس میں بیسیوں جراثیم اپنے اندر کھینچ لیتے ہیں.ہر نظر جو ڈالتے ہیں اس میں کئی قسم کے گناہوں کی کشش ہوتی ہے.ہر چیز جو چھوتے ہیں بیسیوں قسم کی مضرتیں اپنے اندر رکھتی ہے غرض ہمارا جسم بیسیوں رستوں سے زہر کھینچ رہا ہے، اور بیسیوں قسم کا زہر کھینچ رہا ہے.ایسی حالت میں دُعا وہی ہے جو ہر وقت ہمارے ساتھ رہتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک صوفی کا قول بیان فرمایا کرتے تھے کہ مومن کی حالت کا نقشہ یہ ہوتا ہے کہ دست در کار دل با یار.پس جو انسان ہر وقت دُعا میں لگا ہوتا ہے وہی اِيَّات نستعین پر عمل کرتا ہے.غرض اپنا نفس خالی کرنے کے بعد یہ کام کرنا چاہئے کہ واحد خدا کے ساتھ اپنی روح کو ملا دیں اور یوں سمجھیں کہ ہمارا قلب ایک سفید کاغذ ہے جس پر خدا کا قلم چل رہا ہے.یہ احساس جو کیفیت پیدا کرتا ہے وہ راتیات نشتین کے ماتحت پیدا ہوتی ہے اور اس کے بغیر صحیح نتیجہ نہیں نکل سکتا.اس کے بعد اهدنا الصراط المستقیم کہنے کا حق ہوتا ہے.یعنی اول خلق قلب پیدا کریں، پھر خدا تعالیٰ سے وابستگی پیدا کریں، اس کے بعد منہ سے یہ دُعا کہیں.ایک گر کیا کہیں؟ اس کے متعلق گر بتا تا ہے کہ محض صداقت انسان کو کامیاب نہیں کرتی.بہت لوگوں کو یہ دھوکا لگا ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں ایک صداقت اختیار کر کے اس کے ذریعہ کامیاب ہو جاؤ.جیسے عیسائی ہیں وہ کہتے ہیں رحم ایک صداقت ہے اسی کو اختیار کرنے سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے خواہ دوسرے حالات کو نظر انداز کر دیا جائے.گورحم بہت
خطابات شوری جلد اوّل ۵۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء اعلیٰ صداقت ہے مگر جس دُنیا میں خدا تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے اس میں اور حالات بھی پیش آتے ہیں اور ان کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے.ایک طبیب کہتا ہے کہ سب سے عمدہ غذائیت مثلاً گیہوں میں ہے لیکن چند دن کے پیدا شدہ بچہ کو اگر یہ غذا دیں تو وہ زندہ نہ رہ سکے گا.اُس کو اِس سے ادنی غذائیت والی چیز یعنی دودھ جس میں گیہوں کی نسبت بہت کم غذائیت ہوتی ہے دیا جائے گا تب وہ بچے گا.اسی طرح اگر سب کو دودھ دے دیں اس لئے کہ اس کا فضلہ کم ہوتا ہے تو بہت لوگ بیمار ہو جائیں گے کیونکہ فضلہ کا ہونا بھی صحت کے لئے ضروری ہوتا ہے.اِس سے بُھوک کی حد بندی ہوتی ہے ورنہ انسان اندازہ سے بہت زیادہ کھا جائے.یہی حال روحانیت کا ہوتا ہے.اگر کہو خواہ کوئی کچھ کہے اُسے کچھ نہ کہو یا کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا اُس کی طرف پھیر دو تو یہ کامیاب تعلیم نہیں.کامیاب تعلیم وہی ہو سکتی ہے جو دوسری چیزوں کے ساتھ مل کر مفید ثابت ہو.مومنوں کی معیت اختیار کرنا خدا تعالیٰ فرماتا ہے تمہارا کام یہ ہے کہ مومنوں کی معیت اختیار کرو.یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں حج کے دنوں میں چار رکعت پڑھیں جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعت پڑھی تھیں تو بعض صحابہ میں جوش پیدا ہوا لیکن سب نے آپ کے پیچھے چار رکعت ہی ادا کیں.اس کے متعلق ایک صحابی عبداللہ بن مسعودؓ نے دوسرے صحابی حضرت عبدالرحمن سے پوچھا آپ کو معلوم ہے عثمان نے کیا کیا ؟ انہوں نے کہا ہاں معلوم ہے چار رکعت پڑھی ہیں لیکن میں نے تو دو رکعت ہی نماز ادا کی ہے.عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تو دو رکعت ہی ثابت ہیں مگر میں نے سُنا خلیفہ وقت نے چار پڑھائی ہیں میں نے بھی چار ہی پڑھیں لیکن نماز سے فارغ ہو کر میں نے یہ دعا کی کہ خدایا! میری دو رکعت ہی قبول کیجیئو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو ہی پڑھا کرتے تھے ^ تو کوئی اکیلی چیز اچھی نہیں ہوتی.اس کے پیچھے جو باتیں ہوتی ہیں ان کا اگر خیال نہ رکھا جائے تو نقصان ہوتا ہے.اگر ہم ایک عمارت تعمیر کرنا شروع کریں اور ایک معیار مقرر کر دیں کہ اس درجہ کے کام کرنے والے معمار کام کریں تو ایسے چند ہی مل سکیں گے اور
خطابات شوری جلد اوّل صدیوں میں جا کر عمارت تیار ہو گی.۵۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء کامیابی حزب اللہ کو حاصل ہوتی ہے خدا تعالی نے بتایا ہے کیو نسوانا النیسترال ا الْمُسْتَقِيم که صداقت ملے لیکن صراط الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلیم کے ساتھ ہو یعنی ساری جماعت کے ساتھ رہیں کیونکہ کامیابی حزب اللہ کو ہی حاصل ہوتی ہے.ایک دفعہ صحابہ نے جوش میں آ کر سواریوں کو تیز چھوڑ دیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.رِفقاً بِالْقَوَارِيرِ رِفْقاً بِالْقَوَارِيُرِرِفْقاً بِالْقَوَارِيرِ یعنی عورتوں کا بھی خیال رکھنا.اس حکم سے آپ نے جہاد کرنے والوں میں بھی اضافہ فرما دیا ور نہ کم طاقت کے لوگ پیچھے رہ جاتے اور تھوڑے کام کر سکتے.اس بات کو ہر موقع پر مدنظر رکھنا اور ایسا طریق اختیار کرنا چاہئے کہ اعلیٰ درجہ حاصل کرنے والے بھی اسے اختیار کر سکیں لیکن کمزوروں کے لئے بھی موقع ہو.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت کے متعلق یہ رکھا ہے کہ ۱٫۳ حصہ تک کی جاسکتی ہے لیکن ۱۰ را حصہ تک حد مقرر فرمائی ہے.اس حد تک جو دیتا ہے وہ اپنا فرض ادا کرتا ہے.پس اس آیت میں جس بات کی ہدایت کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ بات مدنظر رکھو کہ جماعت کے ساتھ چلنا ہے،صرف خود ہی نہیں آگے نکلنا.پانچواں گر یہ بتایا کہ جب صحیح نتیجہ پر پہنچو تو پھر اس ٹھوکر سے بچو کہ غرور سے بچو تمہارے دل میں غرور پیدا ہو اور تم سمجھنے لگو کہ ہم نے یہ کام کیا ہے.فرمایا تم کام کرنے والے نہیں.جو اِيّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے اُسے یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی کہ میں نے یہ کیا.اُدھر تو وہ خدا سے مانگتا ہے اور ادھر کہتا ہے میں نے کیا.اُسے تو جو کچھ ملا خدا نے دیا.تو فرمایا اس کے بعد دو حالتیں مدنظر رکھنی چاہئیں.ایک تو یہ کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلیہم نہ بننا چاہئے.یعنی کام کرنے کے بعد یہ خیال نہ پیدا ہو کہ ہم نے کیا ہے بلکہ یہ کہ خدا نے ہی کیا ہے.دوسرے مارتین نہ بننا.جو کچھ کرو اسے اپنا مقصود نہ بنانا بلکہ اصل مقصد خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا قرار دینا.غرض إيَّاكَ نَعْبُدُ سے چلتے چلتے انسان فتح تک پہنچتا ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کو ہی فتح دینے والا سمجھتا ہے مگر اس پر یہ نہیں سمجھتا کہ سب کام ختم ہو گیا بلکہ پھر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا
خطابات شوری جلد اوّل ۵۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء ہے اور سورہ فاتحہ کی ابتدا کی طرف رجوع کر کے کہتا ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ.اِس طرح یہ چکر جاری رہے تب انسان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا اور اس میں ترقی پا سکتا ہے ورنہ اگر یہ چکر جاری نہ رہے تو ترقی نہیں ہو سکتی.قوموں کے مٹنے کی وجہ دُنیا میں تمام قو میں جو مٹیں تو اس لئے کہ ایک مقصد حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے لئے نیا مقصد نہ پیدا کرسکیں اور جب نیا مقصد سامنے نہیں ہوتا اُسی دن سے تباہی شروع ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں یہ بتایا ہے کہ ترقی کبھی ختم نہیں ہوتی اور تم ولا الضايین کہ کر چپ نہیں ہو سکتے.انسان الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ سے شروع ہو کر ولا الضاتنين تک جب ایک عالم طے کر لیتا ہے اور پھر الْحَمْدُ لله رب العلمین پڑھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ ایک اور ترقی کا مقام اُس کے سامنے ہے تب وہ اس کے لئے کوشش کرنے میں لگ جاتا ہے.غرض سورہ فاتحہ میں جو گر بتایا گیا ہے اس پر عمل کرنے سے ہی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.پس اس وقت میں ایک نصیحت تو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ احباب مجلس مشاورت میں خالی الذہن ہو کر بیٹھیں اور خدا تعالیٰ سے وابستگی پیدا کریں اور دُعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ صحیح راستہ دکھائے پھر کامیاب ہونے کے لئے اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ رفقاً بِالْقَوَارِیر.جماعت میں کمزور بھی ہیں وہ بھی ساتھ چل سکیں.پھر مُجب پیدا نہ ہو.اور جب اس سے بچیں تو پھر کام ختم کر کے بیٹھ نہ رہیں بلکہ نئے سرے سے کام شروع کر دیں.ہمارا خدارَبُّ العلمین ہے.غیر محدود ترقیاں اس کے پاس ہیں.ایسی غیر محدود جو کبھی ختم الْعَلَمِينَ نہیں ہوسکتیں.پھر ہم ان کے حصول کے لئے مسلسل کوشش کیوں نہ کرتے رہیں.چند باتیں اس کے بعد عارضی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اختصار کے ساتھ چند باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں.اول یہ کہ قادیان کے دوستوں کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ باہر سے جو دوست آئے ہوئے ہیں انہیں بولنے کا زیادہ موقع دیں.یہاں کے دوست ہر وقت مشورہ دے سکتے ہیں لیکن باہر کے دوستوں کو کم موقع ملتا ہے لیکن ایک بات اور بھی مدنظر رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ جو ناظر صاحبان ہیں اُن کا فرض ہے کہ اگر کوئی بات کسی غلط فہمی کی وجہ سے لمبی ہو
خطابات شوری جلد اوّل ۵۳۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء رہی ہو تو وہ صحیح بات پیش کر دیں.کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی صاحب ایک بات بیان کرتے ہیں لیکن اس کے متعلق انہیں غلط فہمی ہوتی ہے اور پھر اس پر بات لمبی ہوتی چلی جاتی ہے مگر متعلقہ ناظر اس کی اصلاح نہیں کرتا ، ایسا نہیں ہونا چاہئے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوست جب کوئی بات پیش کرنا چاہیں تو آپس میں خطاب نہ کریں.یہ بات دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے ناجائز ہے.اس مجلس مشاورت کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ آپ صاحبان سے مشورہ لے رہا ہے اس لئے بات کرتے وقت مخاطب خلیفہ ہی ہونا چاہئے.یہ معمولی بات نہیں اس کی وجہ سے انسان کئی قسم کی ٹھوکروں سے بچ جاتا ہے.جب انسان کسی کو مد مقابل سمجھ کر کوئی بات کرتا ہے تو اُسے غصہ آ جاتا ہے لیکن جب مخاطب خلیفہ ہوگا تو پھر غصہ نہیں آئے گا.پس احباب کو یہ بات ہمیشہ مدنظر رکھنی چاہئے کہ ایسے مواقع پر خلیفہ کو مخاطب کر کے بات کی جائے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ بات کرتے وقت خلیفہ کا لفظ بولا جائے بلکہ یہ ہے کہ گفتگو کا رُخ اس کی طرف ہو.پھر یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ گفتگو مختصر اور بادلائل کی جائے.بعض لوگ تقریر کرتے وقت ایسی تفاصیل میں پڑ جاتے ہیں جو اصل بات سے دُور ہوتی ہیں.چونکہ وقت کم ہوتا ہے اور قابل مشورہ معاملات زیادہ ، اس لئے مختصر بات کرنی چاہئے.ایک بات کو دہرایا نہ جائے ایک اور بات جو گزشتہ اجلاسوں کی تربیت کے سبب سے کم تو ہو رہی ہے لیکن چونکہ ہر سال نئے نمائندے بھی آتے ہیں، اس لئے کلی طور پر بند نہیں ہوئی اور وہ یہ ہے کہ ایک ہی بات کو دُہرایا جاتا ہے.یہاں جو دوست گفتگو کرتے ہیں وہ ووٹ دینے کے لئے نہیں بلکہ دلائل بیان کرنے کے لئے کرتے ہیں اس لئے نئی دلیل بیان کرنی چاہئے اور بیان شدہ دلیل کو دُہرانا نہیں چاہئے.ووٹ اس وقت ہوتا ہے جب کھڑے ہونے کے لئے کہا جاتا ہے.علاوہ اس کے کہ اس طرح وقت ضائع ہوتا ہے یہ بھی ہوتا ہے کہ بار بار کی تکرار عقل اور فکر پر بُرا اثر ڈالتی ہے.کئی طبائع خیال کرتی ہوں گی اور کرتی ہیں کہ ایسے اصحاب مجلس میں سوتے رہتے ہیں اور جو کچھ بیان کیا جاتا ہے سنتے نہیں اس لئے وہی کہنا شروع کر دیتے ہیں جو دوسرے کہہ چکے ہوتے ہیں.اسی طرح یہ اثر پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس سنجیدگی سے اس مقام پر نہیں
خطابات شوری جلد اوّل ۵۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء بیٹھتے جس سے کہ بیٹھنا چاہئے.ہم یہاں اللہ تعالیٰ کے نائب اور خلیفہ بن کر بیٹھے ہیں.ملائکہ اللہ کا زمین پر نمونہ بن کر بیٹھے ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ پوری توجہ اور غور سے باتیں سنیں اور ہر بات کی طرف متوجہ رہیں ورنہ لوگ ہم پر ہنسی کریں گے.یہ نفسی ان کے لئے بھی مضر ہے مگر ہمارے مقام کے لحاظ سے ہمارے لئے بھی ناموزوں ہے.پھر وقت بھی زیادہ صرف ہو جاتا ہے اور کام کم ہوتا ہے اس وجہ سے پروگرام یا تو جلدی جلدی ختم کرنا پڑتا ہے یا باقی رہ جاتا ہے.تقویٰ کو مد نظر رکھا جائے یہ باتیں جو بیان کی گئی ہیں ان کی طرف پوری طرح خیال رکھنا چاہئے اور ان کے مطابق کام ہونا چاہئے.باقی انسان غلطی کر سکتا ہے اور کرتا ہے، نادانی اور نادانستگی سے اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے اور دانستہ ٹھوکر سے جو زنگ لگتا ہے اُسے خدا تعالیٰ ہی دور کر سکتا ہے نا دانستہ ٹھوکر سے خدا ہی بچا سکتا ہے.پس تقویٰ کو مدنظر رکھ کر رائے دینی چاہئے اور خدا تعالیٰ پر تو کل ہونا چاہئے.رائے پیش کرنے کا طریق ایک بات یہ مدنظر رکھنی چاہئے کہ آپ صاحبان اپنی جماعتوں کے نمائندے ہیں اور اس لحاظ سے امید کی جاتی ہے کہ جو امور ایجنڈا میں لکھے گئے ہیں ان کے متعلق آپ نے اپنی جماعتوں سے مشورہ کیا ہوگا.اگر نمائندہ کی رائے اور جماعت کی رائے یا جماعت کی کثرت کی رائے ایک ہو تو اسے پیش کریں اور اگر جماعت نے کوئی رائے نہ دی ہو تو اپنی رائے پیش کریں لیکن اگر ان کا مشورہ جماعت کی رائے کے خلاف ہو یعنی ان کی رائے اور ہو اور جماعت کی اور تو جماعت کی رائے بھی پیش کریں کیونکہ وہ جماعت کی طرف سے امین ہیں.“ دوسرا دن مجلس مشاورت کے دوسرے دن ۱۵.اپریل ۱۹۳۳ء کو تلاوت قرآن مجید اور دُعا کے بعد حضور نے احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : - پیشتر اس کے کہ مجلس مشاورت کی باقاعدہ کارروائی شروع ہوا اور جو سب کمیٹیاں کل مقرر کی گئی تھیں وہ اپنی کا رروائی شروع کریں اور اس کے متعلق احباب سے مشورہ لیا
خطابات شوری جلد اوّل ۵۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء جائے.میں دو باتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.ان میں سے ایک تو ایک مشورہ ہے.ایک ایسے امر کے متعلق جو ایجنڈا میں شامل نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں اس کے متعلق بھی دوستوں سے مشورہ لے لوں کیونکہ اگر اس وقت مشورہ نہ لیا گیا تو ایک سال بعد پر بات جاپڑے گی.دوسرے اُن غیر معمولی اضافوں کی فہرست ہے جن کی صدر انجمن احمدیہ کی درخواست پر منظوری دی گئی، پرائیویٹ سیکرٹری صاحب اس کے متعلق اعلان کریں گے.انگریزی ترجمہ قرآن کے متعلق مشورہ جس امر کے متعلق مشورہ لینا ہے وہ یہ ہے که قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ مکمل ہو چکا ہے اور تشریحی نوٹ لکھے جا رہے ہیں.ایک تو نوٹوں کا وہ طریق ہے جو پہلے پارہ کے انگریزی ترجمہ میں اختیار کیا گیا.اس طرح قریباً ہر آیت پر مفصل نوٹ لکھنا پڑتا ہے.اگر اس طریق کو مدنظر رکھا جائے تو میں ڈرتا ہوں کہ کئی سال اور نوٹ لکھنے میں گزر جائیں گے.مولوی شیر علی صاحب جو اس کام کو کر رہے ہیں ان کی صحت کمزور ہے اس لئے وہ جلدی کام نہیں کر سکتے.قریباً چھ سات ماہ بلکہ اس سے زیادہ عرصہ سے ترجمہ کا کام ختم ہو چکا ہے مگر اس عرصہ میں بہت کم نوٹ لکھے جا سکے ہیں.ایک تجویز یہ ہے کہ ایسے نوٹوں کے ساتھ جو ضروری ہوں اور مطالب قرآن سمجھانے کے لئے جن کا لکھنا ضروری ہو تفصیلی نوٹوں کو نظر انداز کر کے وہ لکھ دیئے جائیں.وہ تشریحی و تفصیلی نوٹ جو زائد علوم انسان کے سامنے لائیں صرف اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ قرآن کریم پڑھتے وقت جو خیالات پیدا ہوں اُن کا ازالہ ہو سکے لکھ کر پہلا ایڈیشن شائع کر دیا جائے.ترجمہ مکمل ہو چکا ہے.سال چھ ماہ کے قریب متن قرآن کریم کے بلاکس بنوانے میں لگ جائیں گے.اگر اس رنگ کے نوٹ لکھے جائیں کہ قرآن کی کیا ضرورت ہے؟ دوسری کتب کی موجودگی میں اسلام کی کیا ضرورت ہے؟ دوسرے مذاہب کی موجودگی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا ضرورت ہے دوسرے رسولوں کے ہوتے ہوئے؟ اسی طرح یہ کہ اسلام کو دیگر مذاہب پر کیا فضیلت حاصل ہے تو اس طرح بھی اگر کام شروع کیا جائے تو اُمید ہے ۱۹۳۴ء میں چھپائی کا کام شروع ہو سکے گا لیکن اگر تفصیل کو مدنظر رکھا گیا تو خیال ہے کہ سات آٹھ سال اور گزر جائیں گے.میں دوستوں سے یہ مشورہ لینا چاہتا ہوں کہ ان دونوں صورتوں میں سے کسے
خطابات شوری جلد اوّل ۵۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء پسند کرتے ہیں.آیا تفصیلی نوٹ لکھے جائیں اور ان کے تیار ہونے کے بعد ترجمہ شائع کیا جائے یا مختصر نوٹ لکھ کر جو قرآنی امور کی وضاحت کرنے والے ہوں خصوصاً نومسلموں کو قرآن کریم کے پڑھنے میں مشکل نہ پیش آئے، ترجمہ شائع کر دیا جائے.ان میں سے کون سی صورت اختیار کی جائے؟ اس کے لئے دوستوں سے مشورہ چاہتا ہوں.اس کے متعلق میں دو چار دوستوں کو اظہار خیالات کے لئے اجازت دے سکتا ہوں.یہ انفارل (INFORMAL) مشورہ ہے اس لئے اس کے متعلق زیادہ تقریروں کی ضرورت نہیں.“ حضور کے ارشاد پر احباب نے مشورہ دیا کہ ترجمه قرآن انگریزی جلد از جلد مختصر نوٹس کے ساتھ ہی شائع کر دینا چاہئے.چنانچہ رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا: - ”جہاں تک میں سمجھتا ہوں تمام دوستوں کی یہی رائے ہے.اِلَّا مَا شَاءَ الله کسی دوست پر جو کھڑے نہ ہوئے ہوں نظر نہ پڑ سکی ہو تو اور بات ہے ) کہ جلد سے جلد ترجمہ قرآن مختصر نوٹوں اور دیباچہ کے ساتھ شائع کر دیا جائے جیسا کہ قاضی محمد یوسف صاحب نے بیان کیا ہے کہ جماعت اس کام کے لئے مالی امداد کرنے کے لئے تیار ہے.اگر دوست اپنی اپنی جگہ جا کر کوشش کریں تو ابتدائی اخراجات کا مہیا ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے.اگر دو ہزار بھی خریدار پیدا ہو جائیں اور ساڑھے سات روپے تک قیمت ہو، خیال یہ ہے کہ اس سے زیادہ قیمت نہ رکھی جائے تو اخراجات کے لئے کافی رقم جمع ہوسکتی ہے.زیادہ خرچ عربی متن کے بلا کس بنوانے پر آئے گا جس کا اندازہ دس ہزار کے قریب ہے، بقیہ خرچ کم ہوگا.بلاکس کا بھی پہلی دفعہ بھاری خرچ برداشت کرنا پڑے گا پھر یہ خرچ نہیں ہو گا.ایک دفعہ کے بنائے ہوئے بلا کس کام آتے رہیں گے اس لئے بجائے اس کے کہ کوئی چندہ جمع کیا جائے اگر احباب واقعہ میں ضرورت سمجھتے ہیں کہ جلد سے جلد انگریزی ترجمہ شائع ہو تو جن کو خدا نے توفیق دی ہے وہ دس پندرہ پچاس جلدیں خرید لیں اور اُن کی قیمت پیشگی ادا کر دیں یا دوستوں میں تحریک کر کے ان سے قیمت بھجوا دیں تا کہ بلاکس بنوانے کا کام شروع کیا جا سکے.بلاکس بننے پر کم از کم ایک سال کا عرصہ لگ جائے گا کیونکہ اوّل ایک کا تب سارا قرآن لکھے گا، اس کے بعد بلا کس بنیں گے، اس طرح ایک سال کا اندازہ ہے لیکن جب تک کچھ نہ کچھ روپیہ نہ آجائے کام شروع کرنا مشکل ہے.گو ذہن میں ایسی تجاویز
خطابات شوری جلد اوّل ۵۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء ہیں کہ بعض رقوم جو بعض مدات کی ہیں عارضی طور پر لے لی جائیں اور اس طرح کام شروع کر دیا جائے مگر احباب کو چاہئے جاتے ہی کوشش شروع کر دیں اور قیمت بھجوائیں تا کہ کام شروع ہو سکے.خیال یہی ہے کہ ساڑھے سات سے زیادہ قیمت نہ رکھی جائے.احباب اس حساب سے روپیہ پیشگی وصول کر کے بھجوا ئیں.ایک دوست کی تجویز ہے کہ جماعتوں کے جو نمائندے آئے ہوئے ہیں وہ اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے اعلان کر دیں کہ کتنی کتنی جلدوں کی قیمت وہ بھجوائیں گے.اگر اس وقت اس طرح کیا گیا تو وقت زیادہ صرف ہو جائے گا اس لئے چند دوست رات کو نمائندگان کے پاس جائیں اور اُن سے وعدہ لکھا لیں.بیت المال والے یا دعوۃ و تبلیغ والے دونوں میں سے کوئی یہ انتظام کر سکتا ہے.“ سب کمیٹی نظارت اعلیٰ کی رپورٹ میں قواعد و ضوابط صو بھائی انجمن ہائے احمدیہ کے سلسلہ میں قاعدہ نمبر ۴ یہ تھا کہ : - ” ہر صوبہ کی انجمن احمدیہ کے لئے ایک امیر کا ہونا ضروری ہوگا جس کو خلیفہ وقت مقرر کرے گا اور وہ خلیفہ وقت کا نمائندہ سمجھا جائے گا اس کے متعلق چند ممبران کے اظہارِ رائے کے بعد حضور نے فرمایا: - ”امیر کے متعلق قاضی صاحب نے سوال کیا ہے.امارت کی تشریح کرنا چونکہ میرا فرض ہے اس لئے میں بتاتا ہوں.اصل بات یہ ہے جیسا کہ اسلامی طریق ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے.جہاں چند آدمی بھی ہوں حتی کہ دو ہوں وہاں بھی ایک امیر مقرر ہونا چاہئے.اسی طرح ہر جگہ امیر کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہر امیر دوسری حیثیت میں مامور ہو جاتا ہے.خلیفہ امیر ہے لیکن نبی کے مقابلہ میں مامور ہے.رسول آمر ہے لیکن خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں مامور ہے.اسی طرح امیر نسبت کے لحاظ سے ہوتا ہے.جو اختیارات اُسے حاصل ہوں ان میں وہ آمر ہے لیکن جب دوسرے امیر کو اس سے زیادہ اختیارات دیئے جاتے ہیں تو وہ اس کے ماتحت ہو جائے گا.امیر کے لئے یہ ضروری ہے کہ
خطابات شوری جلد اوّل ۵۴۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء اپنی جماعت.سے مشورہ لے اور کثرت رائے کے مطابق فیصلہ کرنے کی کوشش کرے لیکن اگر وہ کثرتِ رائے کے خلاف رائے رکھتا ہو تو اپنے فیصلہ کو نافذ کر دے.اگر جماعت اس کی رائے سے متفق نہ ہو تو تفصیلی حالات مرکز کو لکھے اور بتائے کہ کن حالات میں اس نے کثرت رائے کے خلاف فیصلہ کیا ہے.پس جب کوئی جماعت امیر کی رائے کے ساتھ متفق ہونے کی بجائے مصر ہو کہ کثرت آراء کے فیصلہ کو قائم رکھا جائے تو امیر کو حق ہے کہ اپنا فیصلہ نافذ کر دے لیکن پندرہ دن کے اندر اندر مرکز کو اطلاع دے تا یہ معلوم ہو سکے کہ وہ زبردستی سے تو کام نہیں لے رہا اور جو فیصلہ اس نے کیا ہے وہ سلسلہ کے مفاد کے لحاظ سے کیا ہے.پس مقامی امیر کا فیصلہ جہاں صوبہ کے امیر کے فیصلہ سے ٹکرائے گا وہاں مقامی امیر کو اپنا فیصلہ رد کرنا ہوگا اور صوبہ کے امیر کے ماتحت کام کرنا ہوگا.یہ ان کے آپس کے تعلقات ہوں گے جب تک مرکز کا فیصلہ یا صوبہ کی انجمن کا فیصلہ کسی مقامی امیر کے خلاف نہیں ہوگا وہ اپنا فیصلہ دے سکتا ہے لیکن اگر صوبہ کا امیر یا مرکز اس فیصلہ کو رڈ کر دیتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ اس کی اطاعت کرے.اس وقت مرکز کا یا صوبہ کے امیر کا فیصلہ نافذ ہوگا اور اس 66 کے ماتحت مقامی امیر کو کام کرنا ہوگا.اس تشریح کے بعد قاعدہ نمبر ۴ کو منظور کرتا ہوں.“ رمضان اور جلسہ سالانہ ماہ دسمبر میں رمضان المبارک آنے کی وجہ سے یہ سوال پیدا ہوا کہ جلسہ سالانہ دسمبر کی مقررہ تاریخوں کی بجائے کسی اور وقت پر ملتوی کر دیا جائے تا کہ احباب جماعت کو رمضان میں سفر کی دقت پیش نہ آئے نیز روزہ کی عبادت کا احترام بھی قائم رہے.اس بارہ میں سب کمیٹی دعوۃ و تبلیغ کی رپورٹ کے بعد چند نمائندگان مشاورت نے اپنی آراء پیش کیں.بابو ضیاء الحق صاحب نے دریافت کیا کہ : - بیرونی اصحاب کے لئے قادیان آنا سفر ہے یا نہیں ؟ اس بات کا فیصلہ ہو جانا چا.حضور نے فرمایا : - " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان کے قیام کے دوران میں روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے.گویا اس سے یہ بتایا ہے کہ قادیان احمدیوں کا روحانی وطن.
خطابات شوری جلد اوّل ۵۴۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء اگر یہاں روزہ رکھ لو تو رکھ سکتے ہو اور اگر ظاہری الفاظ کے لحاظ سے اسے سفر سمجھو اور روزہ نہ رکھو تو بھی جائز ہے.“ اس کے بعد چند ممبران نے مزید اپنی آراء کا اظہار کیا.اس پر حضور نے فرمایا : - رائے لینے سے پیشتر میں مختلف دوستوں کے دلائل جو جلسہ کے ایام دسمبر سے التواء کے حق میں یا خلاف پیش کئے گئے ہیں اس رنگ میں بیان کرتا ہوں کہ ذہن میں مستحضر رہیں.میرے خیال میں بعض باتیں اس طرح بیان ہوئی ہیں کہ شاید سارے دوست اُنہیں نہ سمجھ سکے ہوں.اس تجویز کے متعلق جس دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احباب میں توجہ اور غور کرنے کے آثار پیدا ہو گئے ہیں.سیکرٹری صاحب سب کمیٹی کی تقریر میں غلطی سے جو یہ اشارہ ہو گیا کہ جلسہ کے ایام کو بدلا جائے ، اس وجہ سے بعض دوستوں کی تقریروں میں زور پیدا ہو گیا ہے.حالانکہ سب کمیٹی نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ جلسہ کو دوسرے ایام پر ملتوی نہ کیا جائے.جنہوں نے دسمبر کے ایام میں ہی جلسہ سالانہ ہونے کی تائید میں دلائل دیئے ہیں اُنہوں نے کہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں انہی ایام میں جلسہ ہوتا رہا ہے اور یہ ہمارے لئے سُنت قائم ہو گئی ہے.پھر ظاہری سامان بھی انہی ایام میں زیادہ میتر ہیں.موسم اچھا ہوتا ہے، بہت سے لوگ سمٹ کر تھوڑی جگہ میں رہ سکتے ہیں.غذا کے سڑنے کا خطرہ نہیں ہوتا ، کھانا کئی گھنٹے پہلے سے پکانا پڑتا ہے.کئی روٹیاں جس وقت کھانے کے لئے دی جاتی ہیں اس سے دس بارہ گھنٹے پہلے کی پکی ہوئی ہوتی ہیں.اس طرح سالن پہلے سے پکانا پڑتا ہے.اگر گرمی کے موسم میں ایسا کیا جائے تو کھانا خراب ہو جائے گا.اسی طرح گرمی کے موسم میں تقریروں کے وقت بیٹھنا مشکل ہو گا.یا تو لوگ بہت تکلیف اُٹھائیں گے یا پھر سایہ کے لئے ایسے اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے جو بہت زیادہ ہوں گے کم از کم دس بارہ ہزار روپیہ صرف کر کے شیڈ بنانا پڑے گا.پھر دوسرے ایام میں چھٹیاں بھی بہت قلیل ہوتی ہیں اور بہت تھوڑے لوگوں کو ایک دو دن کی زائد چھٹیاں مل سکیں گی.اسی طرح ان ایام میں زمینداروں کے لئے بہت مصروفیت ہوتی ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۵۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء اس کے مقابلہ میں کہا جا سکتا ہے سردیوں میں بستر لانے پڑتے ہیں لیکن دوسرے وسم میں ایک چادر کافی ہوگی.سردیوں میں کمرہ کی ضرورت ہوتی ہے دوسرے ایام میں گھلی زمین پر گزارہ ہو سکتا ہے.کئی بوڑھے ایسے ہوتے ہیں جو سردی کی وجہ سے جلسہ میں نہیں آسکتے وہ شامل ہوسکیں گے.سکندر آباد کے سیٹھ ابراہیم صاحب ہی ہیں جو اس مجلس مشاورت کے موقع پر تو آگئے ہیں لیکن سردیوں میں نہیں آ سکتے ، ایسے لوگوں کو آنے کا موقع مل جائے گا.اگر ایک جماعت جلسہ میں شریک ہونے سے محروم رہے گی تو ایک اور جماعت کو شرکت کا موقع مل جائے گا اور اس طرح کمی پوری ہو جائے گی.جلسہ گاہ میں گرمی کا علاج اس طرح ہو سکتا ہے کہ عصر کے وقت سے رات تک جلسہ کر لیا جائے.یہ بھی کہا گیا ہے کہ رمضان میں سفر مناسب نہیں.اس کے مقابلہ میں کہا گیا ہے کہ جب سفر پیش آ جائے تو روزہ نہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں.مولوی شیر علی صاحب نے ایک بات بیان کی ہے جو وزنی ہے.رمضان میں سفر کا پیش آنا اور چیز ہے لیکن سفر کا موقع پیدا کرنا اور چیز ہے.اگر لوگ رمضان میں شادیاں اس غرض سے رکھیں کہ انہیں سفر کرنا پڑے گا اور شریعت نے سفر میں روزہ نہ رکھنے کی جو اجازت دی ہے اس پر عمل کر سکیں گے تو اس طرح شریعت کا منشاء پورا نہ ہو گا.اس کے مقابلہ میں یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ سفر ہم نہیں پیدا کر رہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے پیدا کر دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعینہ ایسی بات کے متعلق سفر کا موقع پیدا کیا اور اس بات کی پرواہ نہ کی.سفر کا یہ نیا موقع پیدا نہیں کیا جا رہا.ایک جلسہ رمضان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہوا اور باہر سے لوگ اُس میں شرکت کے لئے آئے.ایک دوست نے یہ آیت پڑھ دی کہ فَمَن شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهَرَ فَلْيَصُمْهُ دوسرے نے کہہ دیا اگلی آیت بھی پڑھ دیں جو یہ ہے.وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فحة لا من آیا در آخر کہ جو مریض ہو یا سفر میں وہ دوسرے ایام میں روزہ رکھے.پھر کام کرنے والوں کے لئے تو آسانی ہوگی کہ سردی کا موسم ہو گا لیکن تقریر کرنے والوں کے لئے مشکل ہوگی.
خطابات شوری جلد اوّل ۵۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء تقریر کرنے والوں کو گلے کی خشکی کی وجہ سے کوئی چیز کھانے کی ضرورت ہوتی ہے مگر روزہ کی حالت میں اُسے مشکل پیش آئے گی.اگر یہ کہا جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رمضان میں امرتسر میں چائے پی تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ کے سامنے بار بار پیش کی گئی اور آپ انکار کرتے رہے.آخر جب بہت اصرار کیا گیا تو آپ نے پی لی.اس پر جب فساد ہو گیا تو آپ نے فرمایا اسی لئے میں انکار کرتا تھا کہ خیال تھا لوگوں کو ٹھوکر لگے گی.پھر کہا جا سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مہمان تھوڑے آتے تھے اس لئے رمضان کے ایام میں جلسہ ہو سکتا تھا لیکن اب مشکل ہے کیونکہ اب مہمانوں کی بہت زیادہ تعداد ہوتی ہے مگر اب یہ بھی تو کہا جا سکتا ہے کہ اُس وقت مہمان کم آتے تھے تو انتظام کرنے والے بھی تھوڑے تھے اور اب جب کہ ۱۵.۲۰ ہزار مہمان آتے ہیں تو کام کرنے والے بھی خدا کے فضل سے بکثرت ہیں.اب سب باتوں پر غور کرتے ہوئے ٹھنڈے دل سے اور دُعا کرتے ہوئے رائے دینی چاہئے.اگر جلسہ کو دوسرے ایام پر ملتوی کر دیا جائے اور لوگ شامل نہ ہوسکیں تو یہ بھی مشکل ہے اور اگر انتظامی مشکلات پیش آئیں تو یہ بھی مشکل ہے.اگر ایسی مشکلات ہوں جو نا قابل حل ہوں تو جلسہ کی تاریخیں تبدیل کی جا سکتی ہیں لیکن اگر ایسا نہ ہو تو کوشش کرنی چاہئے کہ انہی ایام میں جلسہ ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر کئے ہیں کہ یہی با برکت ایام ہیں.جو دوست اس بات کی تائید میں ہیں کہ رمضان میں بھی جلسہ دسمبر میں ہی ہو وہ کھڑے ہو جائیں.“ آراء لی گئیں تو ۲۴۰ را ئیں حق میں اور ۴۸ مخالف تھیں.فرمایا: - "میرا ذاتی میلان مجلس شوری سے پہلے یہی تھا کہ جلسہ سالانہ دسمبر کے ایام سے ملتوی کر دیا جائے.مگر اس وقت جو تقریریں سنیں اور ناظر صاحب ضیافت ( میر محمد الحق صاحب ) سے جو یہ یقین سُنا کہ انتظامی مشکلات پیش نہ آئیں گی تو تر ڈو میں ہوں اور نفس کوئی قطعی فیصلہ نہیں کر سکا اس لئے میں کثرت کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.۱۹۳۳ء کے سالانہ جلسہ کے
خطابات شوری جلد اوّل ۵۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء تجربہ سے مشکلات کا پتہ لگ جائے گا اور آئندہ کے متعلق پھر فیصلہ کر سکوں گا.مجھے دو باتوں میں تردد ہے ایک تو اپنی صحت کے لحاظ سے کہ اگر میں بیمار ہوا تو تقریر نہیں کر سکوں گا اور اگر بیمار نہ ہوا تو روزہ رکھ کر گھنٹہ آدھ گھنٹہ سے زیادہ نہ بول سکوں گا إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ.دوسرے یہ کہ دونوں وقت کے کھانے اکٹھے ہو جائیں گے.شام کا کھانا کھا کر ۱۱.۱۲ بجے رات تک ہم جاگتے رہیں گے اور پھر سحری کا کھانا کھانا پڑے گا.“ تبلیغ بذریعہ اشاعت سب کمیٹی دعوۃ و تبلیغ نے تجویز پیش کی کہ مسلمین کی آسامیاں کم کر کے کچھ رقم بچائی جائے اور اس سے تبلیغی اشتہارات شائع کئے جائیں.د, چند ممبران کی آراء کے بعد حضور نے فرمایا : - احباب نے دونوں طرف کی باتیں سُن لی ہیں.یہ ایسا اہم معاملہ ہے کہ ہمارے لئے زندگی اور موت کا سوال ہے اور اس میں تھوڑی سی غلطی بھی ہمیں بہت بڑے مصائب میں مبتلا کر سکتی ہے.جتنا حصہ سوال کا اس وقت پیش کیا گیا ہے.وہ ایسا ہے کہ اس معاملہ کے مخالف حیران ہیں کہ اگر وہ کوئی دلیل دیتے ہیں تو وہ اگلے حصہ پر عائد ہوتی ہے جو پیش نہیں کیا گیا.اس وجہ سے وہ دلیل پیش نہیں کر سکتے اور اگر اپنے دلائل پیش نہیں کرتے تو اعتراض یہ بنتا ہے کہ اشتہارات اور ٹریکٹ شائع نہ کئے جائیں اور اس طرح تبلیغ نہ کی جائے.ان کے دلوں میں بعض شبہات پیدا ہوتے ہیں اور میرے دل میں بھی پیدا ہوئے اور ایسی حالت میں پیدا ہونے لازمی ہیں.مثلاً کوئی آئے اور کہے آؤ کھانا کھا ئیں تو شبہ پڑسکتا ہے کہ کھانا تو روز کھاتے ہیں.اس کھانے میں کوئی اور بات ہے.اسی طرح جب دعوة وتبلیغ کا کام ہی یہ ہے کہ تبلیغ کرے اور تمام تبلیغی ذرائع سے کام لے تو پھر اس کی طرف سے یہ سوال اٹھانا کہ تبلیغ بذریعہ اشاعت کی جائے شبہ پیدا کرتا ہے کہ یہ نیا ادارہ کیوں قائم کیا جا رہا ہے.اس کی کوئی مخفی وجہ تو نہیں کہ دو قدم چلا کر پھر کسی ناجائز بات کی طرف لے جائیں.یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے اور مجھے بھی پیدا ہوا مگر یہ ابھی آئندہ کی بات ہے.اس لئے
خطابات شوری جلد اوّل ۵۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہتا.اگر کسی دوسرے کی طرف سے یہ سوال پیش ہوتا کہ دعوۃ و تبلیغ کا ایک حصہ اشتہارات وغیرہ پر خرچ ہو تو کہا جاسکتا تھا کہ دعوۃ و تبلیغ نے اس ذریعہ سے چونکہ فرض ادا نہیں کیا اس لئے اس طرف توجہ دلائی گئی ہے مگر نظارت کا خود اس طرف توجہ دلا نا شبہات پیدا کرتا ہے اور مجھے یہ معمہ ابھی تک حل نہیں ہوا.میرے لئے یہ عُقدهُ لَا يَنْحَلَّ ہے.اس کا فیصلہ ساری باتوں کے سننے کے بعد کروں گا.ہاں احباب میں سے جن کو.عقدہ حل ہو گیا ہو وہ رائے ظاہر کر سکتے ہیں.پس جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ ایسا ادارہ قائم کیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.۱۸۷ را ئیں.جو دوست اس بات کے خلاف ہیں.خواہ اس وجہ سے کہ تفصیلات جوسُن چکے ہیں وہ مصر ہیں.خواہ اس وجہ سے کہ ایسے ادارہ کی ضرورت نہیں ہے جبکہ پہلے ادارے موجود ہیں.۶۳ را ئیں.اگلا سوال پیش ہو، میں فیصلہ آخر میں دوں گا.“ اس کے بعد مزید چند نمائندگان نے اپنی آراء پیش کیں.چنانچہ رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا: - وو سب کمیٹی کی ساری تجاویز پیش ہو چکی ہیں.میں نے کہا تھا کہ میں اپنی رائے آخر میں ظاہر کروں گا.سب سے پہلے تو میں یہ بات بیان کرتا ہوں کہ اس قسم کی گفتگو میں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ دو اچھی چیزوں میں موازنہ زمانہ اور حالات کے لحاظ سے ہونا چاہئے ورنہ ایک کو رڈ کرنا اور دوسری کو لینا بیہودگی ہوگی.میں اس موازنہ کو نہیں سمجھ سکتا کہ امن کے لحاظ سے تلوار اچھی ہے یا قلم.آرام کے لحاظ سے رات اچھی ہے یا دن.موسم کے لحاظ سے سردی اچھی ہے یا گرمی.یہ سب چیزیں اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں.پس یہ سوال کہ اشتہارات کے ذریعہ تبلیغ ہو یا مبلغین کے ذریعہ، یہ درست نہیں.یہ دونوں باتیں ضروری ہیں.سوال یہ ہے کہ ان کی آپس میں نسبت کیا قرار دی جائے یعنی کون سے کام پر زیادہ زور دے سکتے ہیں.اس کے متعلق صاف فیصلہ موجود ہے اور یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ جس بات کا بوضاحت فیصلہ ہو جائے اس کے متعلق ضمنی طور پر کوئی تجویز پیش کر کے اُسے منسوخ کرانا نا جائز ہے.پہلے اُس فیصلہ کو منسوخ کرا کر پھر نئی تجویز پیش کرنی چاہئے.، مبلغین کی
خطابات شوری جلد اوّل ۵۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء ضرورت ایک اہم سوال ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.ہم نے مبلغین پیدا کرنے کا ایک سلسلہ جاری کیا ہوا ہے، مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کی یہی غرض ہے.ان کا سالانہ بجٹ ۲۴ ہزار کے قریب ہوتا ہے.اِس قد ر سالانہ خرچ کرنے کے بعد اول تو کچھ طالب علم آخری منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی گر جاتے ہیں، کچھ چلے جاتے ہیں.پہلی جماعت جس کے طالب علموں کی تعداد ساٹھ.ستر کے قریب ہوتی ہے، آخری جماعت میں سات آٹھ رہ جاتے ہیں.انہیں چار سال اور تعلیم دینے کے بعد جو نکلتے ہیں، اُن میں سے بعض کو ہم کہہ دیتے ہیں کہ ہم نہیں لے سکتے اور صرف تین کو لیتے ہیں.اب اگر ان میں بھی کمی کر دی جائے تو پھر مبلغین میں اضافہ کا سلسلہ بند ہو جائے گا حالانکہ اس وقت کم از کم دوسو مبلغین کی ضرورت ہے.اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کم از کم پانچ مبلغین کا سالانہ اضافہ تو ہومگر مالی مجبوری کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تین کو لیا جائے.اگر اسی پر عمل کیا جائے تو دس سال کے عرصہ میں ۶۰ مبلغین کا اضافہ ہوگا.بشرطیکہ مبلغین میں.کوئی فوت نہ ہو.اور جب متواتر کئی سال تک صرف تین کو لیں گے تو زیادہ طلباء مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ میں داخل نہ ہوں گے اور ممکن ہے کہ تین ہی داخل ہونے والے رہ جائیں اور اس طرح ساٹھ کی تعداد سے کبھی بڑھ نہ سکیں گے مگر جو حالت اور ضرورت جماعت کی ہے اس کے لحاظ سے صرف ساٹھ مبلغین کا ہونا کتنی خطرہ کی بات ہے.اشتہار کے لئے اگر آج ہم ارادہ کریں تو لاکھوں لکھ سکتے ہیں مگر مبلغ کی ضرورت ہو تو اُسے ۱۳ سال میں جا کر تیار کر سکتے ہیں.جنگی قومیں فیصلہ کیا کرتی ہیں کہ ایک جنگی جہاز پر روپیہ زیادہ خرچ کرو اور سپاہیوں پر کم.کیونکہ ایک جہاز پانچ چھ سال میں تیار ہوسکتا ہے اور سپاہی چھ ماہ میں.غرض جس چیز کے تیار کرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے اُس کا مہیا کرنا ضروری ہوتا ہے.اگر جماعت کی ضروریات ایسی ہوں کہ مبلغ رکھے جائیں تو اس کے لئے ۱۳ سال انتظار کرنے کی ضرورت ہو گی لیکن ٹریکٹ لکھنے کی ضرورت پیش آئے تو اس کے لئے ایک دن انتظار کرنے کی بھی ضرورت نہ ہو گی.اِس میں اُن کا بھی جواب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب نے بڑا کام کیا ہے، اتنی کتا بیں شائع کر دی ہیں.وہ کوئی ایک مبلغ ہی دکھا ئیں جو غیر مبائعین نے تیار کیا ہو.اٹھارہ انیس سالہ جد وجہد میں ایک آدمی بھی اُنہوں
خطابات شوری جلد اوّل ۵۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء نے تیار نہیں کیا.ٹریکٹ لکھ لینا اور کتا بیں شائع کر لینا اور بات ہے مگر وہ بھی درست نہیں.اگر ان کی کتابیں ایسی ہیں جو دین کی بہت بڑی خدمت ہے تو چاہئے تھا کہ ان کی جماعت بڑھتی نہ کہ میری.لیکن یہ عجیب بات ہے کہ دُنیا میں تہلکہ تو اُن کی تصانیف سے پیدا ہو گیا ہے اور جماعت ہماری بڑھ رہی ہے.ہم نے دین کی خدمت کرنے والے آدمی پیدا کئے ہیں اور اس سُرعت سے پیدا کئے ہیں کہ دُنیا کی کوئی جماعت اس کی مثال نہیں پیش کر سکتی.مولوی جلال الدین صاحب شمس ، مولوی غلام احمد صاحب مجاہد.مولوی اللہ دتہ صاحب یا اور جو مبلغ نکل رہے ہیں سوائے چند ایک پرانے آدمیوں مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اور مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری کے باقی سب کے سب میرے زمانہ میں تیار ہوئے ہیں.اس کے مقابلہ میں مدرسہ احمدیہ پر جو کچھ خرچ ہوا اُسے سامنے رکھ کر دیکھو.نتیجہ نکلا ہے یا نہیں؟ ان کے مقابلہ میں کون سے آدمی ہیں جو غیر مبائعین پیش کر سکتے ہیں.ابھی چودھری فقیر محمد صاحب نے بتایا ہے کہ ایک نوجوان مبلغ نے جو حال ہی میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد تبلیغ کے کام پر لگایا گیا ہے ان کے علاقہ میں خوب کام کیا.اسی طرح دہلی میں ایک نو جوان مبلغ نے کامیاب مباحثہ کیا.ایسے آدمیوں کا پیدا ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے.تمام ہندوستان میں ایسے لوگ نہیں پیدا ہور ہے.ندوہ بہت پرانی درسگاہ ہے وہ بھی ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے..باقی رہا کتب کا شائع کرنا، ان کا انکار کوئی نہیں کر سکتا مگر سوال یہ ہے کہ اب کتب کی اشاعت باتوں کی تشریح کرنا ہے.مصالحہ تمام کا تمام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں موجود ہے.اگر ہم کوئی ایک کتاب بھی نہ لکھیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں دُنیا کی ہدایت کے لئے موجود ہیں اور ان کی موجودگی میں ہمیں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم ناکام رہے لیکن اگر کام کرنے والے آدمی پیدا نہ ہوں تو پھر ہماری نا کامی میں کوئی شبہ نہ رہے گا.پس جس چیز کی دُنیا کو ضرورت تھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں جمع کر دی ہے، باقی وقتی ضرورتوں کے لئے اسی کو ہیر پھیر کر ہم لے آتے ہیں.دُنیا میں اگر ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے جو دین کو صحیح طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرتے اور ان کو گمراہی سے بچاتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وہ کُتب لکھنے
خطابات شوری جلد اوّل ۵۴۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء کی ضرورت نہ تھی جو آپ نے لکھیں اور نہ قرآن کریم کے مطالب کی تشریح کرنے کی ضرورت تھی.آپ کے آنے اور کتابیں لکھنے کی ضرورت اسی لئے پیش آئی کہ ایسے آدمی پیدا ہونے بند ہو گئے اور قرآن کریم کے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہونے بند ہو گئے ایسے لوگ پیدا کرنے کے لئے آپ نے کتابیں لکھیں.باقی ٹریکٹ و اشتہارات شائع کرنے کی ضرورت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.اسی لئے میں نے بتایا کہ اشتہارات کے شائع کرنے کا قاعدہ موجود ہے، اختیار موجود ہے مگر اُنہوں نے اشتہارات شائع کرنے کی ضرورت پیش نہیں کی.ضرورت ادارہ قائم کرنے کی بتائی گئی ہے یعنی یہ کہ مبلغین کو گھٹایا جائے.پس اشتہارات کی ضرورت ہے کیونکہ اشتہار وہاں پہنچ سکتا ہے جہاں مبلغ نہیں پہنچ سکتا.دو آنے کے اشتہار کے ذریعہ ہم پولینڈ میں تبلیغ کر سکتے ہیں.جہاں اگر آدمی بھیجیں تو کئی ہزار روپیہ خرچ ہو.غرض ٹریکٹوں کی ضرورت ہے مگر تبلیغ کے اُس حصہ کو نقصان پہنچا کر جو مبلغین کے ذریعہ ہوتا ہے اس ضرورت کو پورا کرنا فرض ہے اگر جماعت اس وقت زیادہ بوجھ نہیں اُٹھا سکتی تو چھوٹے پیمانہ پر ہی یہ کام شروع کر دے.اگلے سال اس میں اور اضافہ ہو جائے اور پھر اسی طرح اضافہ ہوتا رہے مگر ایسے انتظام کو جس پر ۳۴ ہزار روپیہ سالانہ صرف ہوتا ہے اور ۱۳ سال میں ایک مبلغ تیار ہو سکتا ہے نقصان پہنچا نا کسی حالت میں بھی درست نہیں ہو سکتا.صوبجاتی انجمنیں کتنے مبلغ لے سکیں گی ؟ چار پانچ تک حد ہوگی.پھر باقی مبلغ بے کار ہوں گے.اشتہاروں کے متعلق جہاں تک میں نے غور کیا ابتداء میں اتنے روپیہ کی ضرورت نہیں.یوں تو پانچ ہزار روپیہ بھی کم ہوگا جیسا کہ ضیاء صاحب نے کہا ہے.مگر ابتداء میں تھوڑے خرچ سے بھی ہم کام چلا سکتے ہیں.چونکہ ہماری جماعت کا حوصلہ بڑا ہے اس لئے وہ ہر کام اعلیٰ پیمانہ پر کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے.ایک ایک احمدی سو سو اشتہار لے کر بانٹنا شروع کر دیتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ خوب تبلیغ ہوگئی مگر اس طرح تو ایک شخص ایک لاکھ اشتہار بھی تقسیم کر سکتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.فائدہ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ اشتہار اپنے گھر میں رکھیں اور تبلیغ کریں.پھر جسے متوجہ دیکھیں اُسے اشتہار دیں اس صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے.پھر تعلیم یافتہ لوگوں میں اشتہار تقسیم کئے جائیں.اس طرح
خطابات شوری جلد اوّل ۵۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء اشتہارات کی تھوڑی تعداد سے بھی بہت فائدہ ہو سکتا ہے.ایسے علاقہ میں اشتہارات تقسیم کریں جہاں مبلغ نہیں جا سکتا.یا ایسے لوگوں کو دیں جنہیں تبلیغ کی جا چکی ہو.یا بڑے بڑے آدمی جنہیں زبانی تبلیغ کرنے کا موقع نہ مل سکتا ہے، اُن کو دیا جائے.چار صفحہ کا اردو ٹریکٹ ماہوار شائع کیا جائے اور آٹھ صفحہ کا انگریزی ٹریکٹ دو ہزار تعداد میں سہ ماہی تو ان کے اخراجات کا اندازہ دو ہزار کے قریب ہوتا ہے اور اس طرح تبلیغ بذریعہ اشاعت کی جا سکتی ہے.یہ ابتدائی خرچ اس حالت میں جب کہ اس پہلو سے کوئی کام نہیں ہو رہا، بہت بڑی بات ہے.بعض احباب اشتہاروں کی اشاعت پر بہت زور دے رہے ہیں لیکن جب تک اشتہاروں کو انتظام کے ساتھ اور مناسب طریق سے تقسیم نہ کیا جائے ان سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے.پچھلے دنوں میں نے ایک دُکان سے کچھ دوائیں منگا ئیں تو وہ دعوۃ و تبلیغ کے شائع کردہ تبلیغی اشتہارات میں بندھی ہوئی آئیں اس کی وجہ یہی تھی کہ ان اشتہارات کے صحیح طور پر تقسیم کرنے کا انتظام نہیں کیا گیا تھا.بنڈل کے بنڈل یوں ہی بھیج دیئے گئے اور وہ جس کے پاس گئے اُس نے تقسیم نہ کئے.پس اشتہارات کی اشاعت پر زور دیتے ہوئے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہم ان کے تقسیم کرنے کے متعلق منظم ہیں یا نہیں.پھر جتنی ان کے متعلق تنظیم ہوتی جائے اُس کے مطابق کام بڑھاتے جانا چاہئے.یہ بھی ممکن ہے کہ جن کے لئے اشتہارات شائع کئے جائیں اُن کی طرف سے بھی کچھ نہ کچھ مالی امداد مل جائے اور اگر کوئی خود بخود نہ دے تو جب مبلغ جا کر کہیں کہ تبلیغ اسلام کے لئے اشتہارات شائع کرنے ہیں تو وہ مدد دے دیں لیکن یہ سب باتیں تنظیم چاہتی ہیں.میرے خیال میں ابتدائی سال کے لئے دو ہزار کی رقم رکھی جائے.اس کے لئے آٹھ سو کی رقم مبلغین کے سفر خرچ کی مد سے لے لی جائے اور باقی ۱۲ سو کی رقم جماعت کے لئے پوری کرنا مشکل نہیں ، یہ آسانی سے پوری ہوسکتی ہے.یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعض احباب اس میں امداد دے دیں اور اس طرح یہ رقم پوری ہو جائے اور اس کام کو آہستہ آہستہ ہر سال بڑھاتے جائیں.آپ لوگوں نے اس طرح تبلیغ کرنے کی ضرورت تسلیم کر لی ہے.آگے یہ کہ اس کام کو کس طرح چلایا جائے ، میرے نزدیک اردو ہینڈ بل چار صفحہ کا فیصلہ
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء دس ہزار کی تعداد میں ماہوار شائع کیا جائے جس میں سے ایک ہزار ڈاک کے ذریعہ تعلیم یافتہ طبقہ میں تقسیم کیا جائے اور باقی 9 ہزار منظم طور پر جماعتوں کے ذریعہ تقسیم کیا جائے.اس طرح تقسیم نہ ہو کہ انہی اشتہاروں میں پُڑیاں بندھ بندھ کر آ جائیں.بیرونِ ہند کے لئے ۸ صفحہ کا انگریزی ٹریکٹ دو ہزار کی تعداد میں سہ ماہی شائع کیا جائے.اس کے لئے آٹھ سو روپیہ بجٹ دعوۃ و تبلیغ سے کم کر دیا جائے.میرے نزدیک یہ آسان کام نہیں ہے بلکہ سزا کے طور پر ہے.چھ ماہ ہوئے.ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کی تجویز تھی کہ سال میں تین مبلغین کا اضافہ کم ہے.مبلغوں کی تنخواہ کم کر دی جائے اور تین کی بجائے پانچ رکھنے کی اجازت دی جائے مگر اب وہ مبلغوں میں کمی کرنا چاہتے تھے.بہر حال ۱۲سو روپیہ جماعتیں اور مختلف افراد جمع کر دیں اور اس کا بیسواں حصہ ساٹھ روپیہ مجھ سے لے لیا جائے ، میں پانچ روپے ماہوار دے دیا کروں گا.نظارت دعوۃ و تبلیغ یہ کام جاری کرے، اسے میں منظور کرتا ہوں.باقی یہ کہ دو آدمیوں کو اس کام کے لئے اس طرف منتقل کیا جائے اس کا فیصلہ میں اس وقت نہیں کر سکتا.میں ضرورت اور موقع کو دیکھوں گا.ناظر صاحب دعوة و تبلیغ اس کے متعلق مجھ سے مشورہ کر سکتے ہیں.میں اس کے متعلق بعد میں فیصلہ کروں گا.“ تیسرا دن تجویز بابت تخفیف بحیث مجلس مشاورت کے دوسرے دن سب کمیٹی بیٹ المال نے مشکل حالات کی وجہ سے بجٹ میں تخفیف کی تجویز پیش کی.اس بارہ میں بعض ممبران نے اظہارِ خیال کیا تو اجلاس کا وقت ختم ہو گیا.چنانچہ مشاورت کے تیسرے دن بھی اس پر بعض نمائندگان نے بحث میں حصہ لیا.جب رائے لی گئی تو اکثریت تخفیف کے خلاف تھی.اس موقع پر حضور نے بجٹ پورا کرنے کے سلسلہ میں احباب کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا : - میں انہی اصحاب کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں جن کی کثرت ہے اور جو معقول تجویز پیش کر رہے ہیں.میں نے اصولی طور پر اس بات کے سمجھنے کی کوشش کی ہے مگر میں یہ قطعاً
خطابات شوری جلد اوّل ۵۵۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء نہیں سمجھ سکا کہ کوئی تخفیف جس کی معقولیت ثابت نہ کی جائے کیونکر کی جاسکتی ہے.ایک آدمی جسے ہم دو آنے دیں اور کہیں پچاس آدمی کا کھانا تیار کراؤ وہ کس طرح تیار کرا سکتا ہے.ہاں یا تو اسے یہ کہیں کہ دو آنے کا کھانا تیار کراؤ تو وہ جس قدر اتنے پیسوں میں کھانا مل سکے گا لے آئے گا.یا اسے کہیں کہ پچاس آدمیوں کا کھانا با کفایت تیار کراؤ تب وہ جس قیمت میں با کفایت کھانا تیار کرا سکے گا کرا دے گا مگر یہ کہ دو آنے میں وہ پچاس آدمیوں کے لئے کھانا تیار کرا سکے، یہ ناممکن ہے.اسی طرح جب شوریٰ میں نظارتوں کے کاموں کی تفصیلات پاس کی جاتی ہیں اور ناظر مجبور ہیں کہ جو کام ان کے سپرد کئے جائیں ان کو پورا کریں اور وہ ان میں کسی قسم کی کمی نہیں کر سکتے تو پھر یہ کہنا کہ نظارتوں کے اخراجات میں سے اتنے ہزار روپیہ کم کر دو، اس کا یہ مطلب ہے کہ نظارتوں کو کام کے لئے روپیہ تو نہ دیا جائے اور کہا جائے کہ فلاں فلاں کام ضرور کرو.اخراجات میں اس طرح کمی کرنے پر ناظر کہہ دیں گے کہ اچھا لنگر خانہ بند کر دو، جلسہ سالانہ اُڑا دو، مہمانوں کو نہ کھانا دیا جائے ، نہ خرچ کرنا پڑے.مگر کیا ہم ان کی اس تجویز کو قبول کر لیں گے؟ ایک مثال لیکن اگر ہم ایک طرف انہیں محکمے اڑانے کی اجازت نہ دیں اور دوسری طرف اخراجات کم کرنے پر مجبور کریں تو یہ ایسی ہی مثال ہوگی جو کہ ایک شخص کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا تھا.اُسے اور تو کوئی وجہ نہ ملی.اس نے بیوی کو روٹی پکاتے دیکھا تو کہنے لگا روٹی تو تم ہاتھوں سے پکاتی ہو تمہاری گہنیاں کیوں ہلتی ہیں.عورت تھی سمجھدار.اُس نے دیکھا خواہ مخواہ لڑائی کے لئے بہانہ بنا رہا ہے اُس نے کہا بے شک مجھے گھر سے نکال دینا مگر خواہ مخواہ غصہ سے اپنا دل کیوں بُرا کرتے ہو.آرام سے کھانا کھا لو پھر جو مرضی ہو کرنا.وہ جب کھانا کھانے لگا تو عورت جوتی لے کر کھڑی ہوگئی کہ بتاؤ روٹی تو تم منہ سے کھاتے ہو تمہاری داڑھی کیوں ہلتی ہے.سب کمیٹی نے جس طریق سے اخراجات میں کمی کی ہے، اس میں اسی بوڑھے کا سا جذبہ کام کرتا ہوا نظر آتا ہے.سب کمیٹی اگر دلیری سے یہ کہتی کہ ہمیں کام کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی جب تک بعض محکمے نہ اُڑا دیئے جائیں تو بے شک اس کی تجویز معقول ہوتی.گو یہ الگ بات ہے کہ ہم سب کمیٹی کی اس تجویز کو منظور کرتے یا نہ کرتے مگر سب کمیٹی یہ تجویز پیش کر سکتی تھی کہ
خطابات شوری جلد اوّل ۵۵۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء لنگر خانہ بند کر دو، مدرسہ احمدیہ اُڑا دو، جلسہ سالانہ روک دو ورنہ ان کاموں کو چلاتے ہوئے ہمیں نظر نہیں آتا کہ بجٹ میں کمی کس طرح کی جاسکتی ہے مگر سب کمیٹی نے ایسا نہیں کیا اور یونہی کہہ دیا ہے کہ اتنے ہزار کم کر دو.سب کمیٹی کی پیش کردہ مدات میں کمی نہیں کی جاسکتی پھر سب کمیٹی نے جن رقوم کو کم کرانا چاہا ہے اُن کے متعلق اتنا بھی غور نہیں کیا کہ انہیں کم کرایا بھی جا سکتا ہے یا نہیں؟ مثلاً بجٹ کے صفحہ ۳۰ پر زکوۃ کی رقم ۷۵۰۰ درج ہے.لوگ ایک دینی فرض کی ادائیگی کے لئے زکوۃ اور صدقہ دیتے ہیں اور اس طرح یہ رقم جمع ہوتی ہے.اس میں کمی کرنے کے معنے یہ ہوئے کہ ایک شخص جو ز کوۃ کے متعلق اپنا فرض پورا کرتا ہوا زکوۃ کا روپیہ بھیجتا ہے اور خدا تعالیٰ جو زکوۃ کے متعلق فرماتا ہے کہ اسے غرباء اور محتاجوں پر خرچ کرو، اُس کے متعلق ہم کہتے ہیں اس میں سے ۲۵ فیصدی تو دوسرے کاموں کے لئے خود رکھ لو اور باقی ۷۵ فیصدی غرباء کے لئے خرچ کرو مگر ایسا کرنا خدا تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی.اُس کے فرشتے یہ رستہ روکے کھڑے ہیں اور ہم اس کو کسی اور جگہ نہیں خرچ کر سکتے اس وجہ سے اس رقم میں کوئی کمی نہیں ہو سکتی.اس طرح یہ رقم اُس کمی سے نکل گئی جو سب کمیٹی نے تجویز کی ہے.پھر صفحه ۴۰ پر ناظر اعلیٰ کے صیغہ میں ۶۷۴۰ کی رقم متفرق غیر معمولی ہے اور یہی صفحہ ہم پر بھی زیادتی دکھائی گئی ہے جسے سب کمیٹی کاٹ چکی ہے.پس جو رقم پہلے ہی کٹ چکی ہے اس میں کمی نہیں ہو سکتی.صفحہ ۴۴ پر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے لئے ۱۲۰۰ ٹکٹ ڈاک کی رقم ہے.اُسے کم کر دینے کے یہ معنی ہیں کہ جو لوگ خطوط لکھیں اُن کو جواب نہ دیا جائے حالانکہ خط و کتابت ہی تعلقات کے قائم رکھنے کا ذریعہ ہے.ایسی اہم چیز کو کس طرح بند کیا جا سکتا ہے.اسی طرح مکان کا کرایہ ہے یہ مکان انجمن کا ہے مگر رہن رکھ کر دوبارہ کرایہ پر لیا ہوا ہے اس لئے اس کا کرایہ دینا پڑتا ہے.پھر سفر خرچ سے یہ مراد ہے کہ جب میں کہیں جاتا ہوں تو عملہ ساتھ جاتا ہے.اس میں تخفیف کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً میں دو تین ماہ کام کے لئے شملہ جاؤں یا صحت کی خاطر کسی پہاڑی پر جاؤں تو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کا عملہ یہاں بریکار بیٹھا تنخواہیں لیتا رہے.میں جتنے خطوط کا جواب دے سکوں دوں اور باقی ڈاک انگیٹھی
خطابات شوری جلد اوّل ۵۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء میں پھینک دوں.مقبرہ بہشتی کے سائز میں ۹۱۹۷ کی جو رقم دکھائی گئی ہے اس میں ۶۰۰ے کی رقم ایسی ہے جو جمع ہو رہی ہے.اس میں سے ۴۰۰۰ تو ریز رو فنڈ کا ہے اور ۳۶۰۰ محکمہ شکست وریخت کے لئے ہے.اس میں کمی کے یہ معنے ہیں کہ نہ ریز رو فنڈ قائم ہو اور نہ عمارات کی غیر معمولی مرمت کے لئے کچھ پس انداز ہو.پس اس میں کمی کرنی خرچ میں کمی نہیں بلکہ زیادتی ہے.باقی رقم دفتر کے انتظامات کے متعلق ہے.نظارت بیت المال کے سائز کی رقم ۸۲۰۴ ہے اس میں سے ۵۰۰۰ کی رقم بیرونی انجمنوں کو بطور امداد دی جاتی ہے اس میں کمی نہیں ہو سکتی.اسی طرح لنگر اور جلسہ سالانہ کے اخراجات ہیں ان میں معمولی سی کمی کی جائے تو کی جائے مگر پھر بھی جو خرج عملاً ہوا سے ہمیں برداشت کرنا پڑے گا.پھر تعلیمی وظائف کی رقم ہے ا ہے ان میں بھی کمی مشکل ہے کہ بیسیوں لڑکوں کی زندگیوں پر اثر پڑتا ہے.پھر دیگر صیغوں کے اخراجات ہیں جو پہلے ہی اتنے تھوڑے ہیں کہ بہت تھوڑی کمی اگر ہو تو ہو سکتی ہے.غرض پورا زور لگا کر بھی سائر میں ۵-۶ ہزار سے زیادہ کی کمی نہیں ہوگی.دراصل ہر چیز کو معقولیت کے ساتھ پیش کرنا چاہئے.یہ کہنا معقولیت کے خلاف نہیں ہوگا کہ جب اخراجات پورے نہیں کئے جا سکتے تو جلسہ سالانہ بند کر دو.اس کے متعلق میں یہ تو کہوں گا کہ یہ تجویز نقصان رساں ہے مگر ناممکن نہیں.سب کمیٹی نے جو طریق اختیار کیا ہے اس میں معقولیت نہیں ہے.ناظروں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں میرے فیصلوں اور مجلس مشاورت کے مشوروں سے ، وہ ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے نہ ان فیصلوں کو بدل سکتے ہیں.ایسی حالت میں جب انہیں یہ کہا جائے گا کہ اتنے خرچ میں سارے کام کرو تو ان کی وہی حالت ہو گی جو گز بھر کپڑا کی آٹھ ٹو پیاں بنانے والے کی ہوئی تھی کہ اُس نے ذرا ذراسی ٹوپیاں بنا دیں.آمدنی کے سسٹم میں نقص بعض اصحاب نے جو یہ بحث کی ہے کہ آمد از روئے حساب جو بنتی ہے اس پر بجٹ کی بنیاد رکھی جائے.اس سے میں پورے طور پر متفق نہیں مگر اس کے لئے بھی کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ پورے طور پر عدم اتفاق ظاہر کروں.میری ہمیشہ سے یہ رائے ہے کہ نقص ، خرچ کے سسٹم میں نہیں بلکہ آمدنی کے
خطابات شوری جلد اوّل ۵۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء ނ سسٹم میں ہے.یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جب جماعت بڑھ رہی ہے تو آمدنی نہ بڑھے.خواہ وہ ہماری جماعت کے متعلق حقیقی مردم شماری نہ ہو جو گورنمنٹ کرتی ہے مگر اُسی کو درست سمجھا جائے سو ۱۹۲۱ء کی مردم شماری کی رو سے پنجاب میں ہماری جماعت کی تعداد ۲۸ ہزار تھی اور ۱۹۳۱ء کی مردم شماری میں ۵۶ ہزار ہو گئی.پھر ہماری جماعت میں ایسے لوگ داخل ہوئے جو تعلیم یافتہ اور نسبتاً آسودہ حال ہیں.پھر ہماری جماعت کے لوگ بوجہ تعلیم کی زیادتی ملازمتوں میں بھی زیادہ حصہ لے رہے ہیں.مقابلہ کے امتحانوں میں ہمارے لڑکے دوسروں.زیادہ کامیاب ہو رہے ہیں مگر جو ۱۹۲۱ء میں آمدنی تھی وہ اُس نسبت سے بڑھی نہیں جس نسبت سے جماعت بڑھی ہے.اس سے ظاہر ہے کہ آمدنی کے انتظام میں نقص ہے.اس میں شبہ نہیں کہ ملازمین کی تنخواہوں میں کمی ہو گئی ، اسی طرح زمینداروں کی آمدنی کم ہوگئی مگر با وجود اس کے کہ اس حالت میں شہری جماعتوں نے قربانی زیادہ دکھائی آمدنی میں کمی ہی رہی اور ہماری انتظامی حالت میں جو زیادتی ہوئی ہے اس کی وجہ سے بھی آمدنی میں زیادتی نہیں ہوئی.ہندوستان میں جماعت کے بڑھنے کے علاوہ بیس ہزار سے زیادہ افریقہ میں احمدی ہوئے.جاوا ، سماٹرا میں ہزاروں کی جماعتیں بنیں.اگر کوشش کی جاتی تو اُن سے کچھ نہ کچھ چندہ وصول ہو سکتا تھا.پھر اس میں شک نہیں کہ ہماری جماعت کے متعلق گورنمنٹ کی مردم شماری غلط ہے.یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بعض جگہ بڑی بڑی جماعتیں ہیں مگر ان کی تعداد بہت تھوڑی لکھی گئی ہے لیکن اگر پنجاب کے متعلق اس رپورٹ کو درست بھی تسلیم کر لیں تو اس کے رو سے بھی پنجاب میں جماعت دُگنی ہو گئی ہے مگر اس نسبت سے آمدنی نہیں بڑھی اور آمدنی کا نہ بڑھنا بتاتا ہے کہ انتظام میں نقص ہے.اقتصادی مشکلات بھی چند سال سے ہیں جو پہلے نہ تھیں مگر ان کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی کمی نمایاں ہے.اگر کہا جائے کہ مرکزی کارکنوں کی تنخواہوں میں ترقی ہو گئی ہے، اس لئے خرچ آمد سے بڑھ گیا ہے تو یہ بھی صحیح نہیں.یہاں کے کارکن ہماری جماعت کے سرکاری ملازموں کے مقابلہ میں ایک فیصدی ہوں گے.اگر اس ایک کی ترقی ہوئی تو اُن سو کی بھی تو ترقی ہوتی رہی اور ہو رہی ہے.پھر ان کی ترقی کا اثر ہماری آمد پر کیوں نہیں پڑتا.اگر یہاں سالانہ ترقی ہوتی ہے تو اُن کی بھی سالانہ ترقی ہوتی ہے.اگر یہاں کسی کا گریڈ بڑھتا ہے تو اُن کے گریڈ بھی بڑھتے
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء رہتے ہیں.اگر اُن میں سے بعض کے گریڈ ختم ہو چکے ہیں تو یہاں بھی ایسے لوگ ہیں جن کے گریڈ ختم ہو چکے ہیں.پھر ان باتوں کا اثر آمدنی پر کیوں نہیں پڑتا.اِن امور کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں آمدنی کے انتظامات میں نقص ہے.پس نظارت بیت المال بجٹ میں آمد کی کمی دکھا کر اپنے فرض سے سبک دوش نہیں ہوسکتی.افسر بیت المال کا رجحان مالی صیغہ کے انچارج کا چونکہ یہ فرض ہوتا ہے کہ جو آمد بجٹ میں ظاہر کی جائے اُسے پورا کرے اس لئے طبعاً بیت المال کے افسر کا رُجحان آمد کا اندازہ کم دکھانے کی طرف ہوگا تا کہ آمد پوری نہ ہو تو اُس پر الزام نہ آئے.حکومت کے افسر بے شک اس نقص سے بچے ہوتے ہیں کیونکہ وہاں زور سے روپیہ وصول کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارا سیکرٹری مال جانتا ہے کہ اُسے پیسہ پیسہ منتیں کر کر کے وصول کرنا ہے اس لئے اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ تشخیص شدہ آمدنی کم کر کے دکھاؤں.خرچ کم کرنے پر زور ادھر تو ناظر بیت المال کا یہ میلان ہوتا ہے کہ آمدنی کو کم کر کے دکھایا جائے تا کہ وصول کرنے میں آسانی رہے اور یہ دکھایا جا سکے کہ جس قدر رقوم وصول کرنے کا اندازہ تھا وہ وصول کر لی گئی ہے.اُدھر دینے والے بھی ہر دفعہ بجٹ میں درج شدہ خرچ کے متعلق یہ بحث کرتے ہیں کہ اسے کم کیا جائے تا کہ انہیں کم دینا پڑے.ان کی طرف سے یہ نہیں کہا جاتا کہ آمدنی بڑھانے پر پورا زور صرف کیا جائے نہ آمدنی بڑھانے کی تجاویز پر عمل کرنے کے لئے زور دیا جاتا ہے.ہاں اگر زور دیا جاتا ہے تو اس بات پر کہ خرچ کم کرو.ناظر بیت المال کی کوشش تو یہ ہوتی ہے کہ آمد کم دکھائے اس غذر کی بناء پر کہ تشخیص کے مطابق آمد نہیں ہوتی.اُدھر دینے والوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ خرچ کو کم کرتے جائیں تا کہ انہیں چندہ کم دینا پڑے.اپنے لئے کریڈٹ حاصل کرنا اس طرح دونوں اپنے اپنے بچاؤ کی کوشش کر رہے ہیں اور اس طرح اسلام کی جو روح ہے اسے بالکل نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ان بنچوں سے بھی اور اُن بنچوں سے بھی دین کی ضرورت اور اسلام کی خدمت کے لئے آواز نہیں اُٹھائی جاتی.یہ یقینی اور واقعی بات ہے جس سے انکار
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء نہیں کیا جا سکتا.میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو بھی بری کروں اور مرکز میں کام کرنے والے عملہ کو بھی بری ٹھہراؤں مگر کوئی وجہ اس کے لئے معلوم نہیں ہوتی آپ لوگوں کا پورا زور اس بات کے لئے صرف ہو رہا ہے کہ خرچ کم کیا جائے اور کام کرنے والوں کی ساری کوشش یہ ہے کہ آمد کم دکھائی جائے اس طرح دونوں کی غرض اپنے اپنے لئے کریڈٹ حاصل کرنا ہے اور اصل میں یہی مرض ہے جس کے علاج کی ضرورت ہے.ہمیں کن اصطلاحات میں باتیں کرنی چاہئیں یہ کہنا کہ اخراجات زیادہ ہیں، جس قدر آمدنی ہو سکتی ہے اسی میں پورے کرنے چاہئیں.یہ ان قوموں کا اصول ہے جو یہ کہتی ہیں کہ ہمیں زندہ رہنا ہے زندہ رہنے کی خاطر.لیکن جس قوم کا یہ دعوی ہو کہ اُسے مرنا ہے دنیا کو زندگی دینے کے لئے، اُس کی طرف سے یہ نہیں کہا جا سکتا.اُس کی طرف سے صرف یہ سوال ہوسکتا ہے کہ دُنیا کو زندہ رکھنے کے لئے فلاں کام کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ اگر ضرورت ہے تو وہ قوم یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کام کو کرتے ہوئے چونکہ ہمیں مرنا پڑتا ہے اس لئے یہ کام نہیں ہوسکتا.پس دُنیا کی کونسلوں میں آمد و خرچ کے متعلق جو دلائل دیئے جاتے ہیں وہ یہاں نہیں چل سکتے.اُن کی حکومتوں کے قیام کا باعث اور ہے اور ہمارے سلسلہ کے قیام کا باعث اور.ہمیں اُن اصطلاحات میں باتیں کرنی چاہئیں جن کو قائم کرنے کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں.طاقت کے مطابق کام کرنے کا مطلب بے شک خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق کام کرو مگر طاقت کی تعریف وہ ہے جو خدا تعالیٰ نے کی ہے نہ کہ وہ جو ہم قربانی سے بچنے کے لئے خود کریں.بیشک خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لا یکلف الله نفسا لا وُسْعَهَا ۳ مگر اس کی تعریف کیا کی ہے؟ خدا تعالیٰ یہ کہتا ہوا مدینہ کے چند بے سروسامان انسانوں کو بدر کے میدان میں لے جاتا ہے جہاں دشمن کی طاقت اُن کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھی، اتنی زیادہ کہ مسلمانوں کی طاقت کو اس کے مقابلہ میں کوئی نسبت بھی نہ تھی.اُس وقت جنہوں نے کہا کہ اس جنگ میں شرکت تو صریحاً موت ہے اُن کو منافق قرار دیا گیا اور اسلام کے دشمن ٹھہرایا گیا.پس اگر لا یکلف اللہ کے یہ معنی ہیں کہ خدا کی راہ میں مرنے سے بچو تو جنگ بدر
خطابات شوری جلد اوّل ۵۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء میں نہ جانے والے منافق نہیں بلکہ مومن سمجھے جائیں گے مگر خدا تعالیٰ نے انہیں منافق قرار دیا.غرض خدا تعالیٰ نے بے شک یہ فرمایا ہے کہ اپنی طاقت کا خیال رکھو مگر اُسی حد کے اندر جو خدا نے مقرر کی ہے نہ وہ جو تمہارے نفسوں کی موٹائی نے قرار دی ہے.بے شک بجٹ طاقت کے مطابق ہونا چاہئے مگر کون سی طاقت؟ کیا آپ لوگ خدا تعالیٰ کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہم میں سے پچاس فیصدی چندہ نہیں دیتے تھے، اس لئے ہم نے آمد اور خرچ میں کمی کر دی؟ خدا تعالیٰ کہے گا کیا تم نے چندہ نہ دینے والوں سے چندہ لینے کی کوشش کی اور اس کے لئے اپنی انتہائی کوشش صرف کر دی؟ اس کا آپ لوگوں کے پاس کیا جواب ہے؟ کیا کوئی جماعت ایسی ہے جو یہ بتائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ لکھا ہے کہ جو شخص تین ماہ تک چندہ نہیں دیتا وہ میری جماعت سے خارج ہے.اس کے مطابق اس نے چندہ نہ دینے والوں کا معاملہ پیش کیا؟ باتیں کرنی آسان ہیں لیکن کام کرنا مشکل ہے.آپ لوگوں نے طاقت استعمال ہی نہیں کی پھر طاقت سے کام کس طرح بڑھ گیا.یہ ایک چیز تھی ہمارے پاس جس سے کام لیا جا سکتا تھا مگر اس سے کام نہیں لیا گیا.ایسے نادہند جماعتوں میں موجود ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت سے خارج قرار دے چکے ہیں لیکن تم لوگ اُن کے ڈر کی وجہ سے، اُن کے لحاظ کے باعث اور اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ملانے کی شرم سے اُنہیں اپنے ساتھ رکھتے ہو اور پھر کہتے ہو چندہ وصول کرنے میں ہم نے پوری کوشش کر لی.اس بارے میں تم غلطی پر ہو اور یقینا غلطی پر ہو.یہ کوشش باقی ہے اُن نادہندوں کے پاس جاؤ جو احمدی کہلا کر چندہ نہیں دیتے اور انہیں بتاؤ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ حکم ہے.پھر بھی اگر وہ کہیں کہ نہیں دیتے تو اُن کا معاملہ میرے سامنے پیش کرو.اس کے بعد خدا تعالیٰ جو عَلامُ الْغُيُوبِ ہے اس کے سامنے تم جواب دے سکتے ہو کہ تم نے اپنی طرف سے کوشش کر لی.تم انسانوں کو دھوکا دے سکتے ہومگر خدا تعالیٰ کو نہیں اور ہمارا معاملہ انسانوں سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے ہے.بے شک طاقت اور ہمت سے زائد بجٹ نہ ہو.اگر ہم طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں تو یہ خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف ہے؟ مگر سوال یہ ہے کہ طاقت کے معنے کیا ہیں؟ طاقت کے معنے خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ نہیں کہ منہ سے کہہ دیا ہم یہ کام نہیں کر سکتے اور ہم سے چندہ وصول نہیں ہوسکتا.
خطابات شوریٰ جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء تخفیف کن اصولوں پر ہونی چاہئے بعض نے کہا ہے چونکہ ہم میں اخراجات پورا کرنے کی طاقت نہیں ہے اس لئے فلاں فلاں رقم کاٹ دو.کاٹنے کے لئے تین باتیں ہو سکتی ہیں.اوّل یہ کہ اسراف ہو.اگر دس کروڑ روپیہ بھی جمع کر سکتے ہیں لیکن ایک پیسہ بھی اسراف کے طور پر خرچ میں رکھا گیا ہے تو اس ایک پیسہ کو نہ کا ثنا خدا تعالیٰ کے نزدیک مجرم بنا ہے.دوسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ اسراف تو نہیں، اس خرچ کی ضرورت ہے مگر وہ ضرورت خاص اہمیت نہیں رکھتی.اگر اُسے پورا نہ کیا جائے تو سلسلہ کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچتا.ایسی رقوم کو جب مشکلات در پیش ہوں، کاٹ سکتے ہیں.تیسرے ایسی ضرورتیں ہیں کہ جن کا پورا کرنا دین کا کام چلانے کے لئے ضروری ہے اور جب تک فاقوں کی نوبت نہ آ جائے ، ہم ان ضرورتوں کو کاٹ نہیں سکتے.یہ تین قسم کی کٹوتیاں ہیں یعنی : - اسراف ہو.اس صورت میں اگر ایک پیسہ بھی ایسا خرچ رکھا گیا ہو تو اسے کاٹ دینا چاہئے.(۲) ایسی صورت ہو کہ ضرورت کو ملتوی کیا جا سکتا ہو.(۳) ایسی صورت ہو کہ ضرورت کو روکا نہیں جا سکتا جیسا کہ تبلیغ اسلام ہے.ایسی ضرورتوں کو ضروری قرار دینا ہو گا اور ان کے متعلق یہ لفظ نہیں کہنا چاہئے کہ ہم ان کو کاٹتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ان کو پورا کرنے کی کوشش کرتے کرتے ہم خود کٹ جائیں گے.اسی صورت میں ہم بری الذمہ ہو سکتے ہیں ورنہ جب تک ہمارے جسم میں سانس ہے اُس وقت تک ان ضرورتوں کو پورا کرنے میں ہم بری الذمہ نہیں ہو سکتے.ان تینوں صورتوں کو مدنظر رکھے بغیر کٹوتی کا کوئی مشورہ دینا بالکل باطل ہے.وہ جھنڈا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھڑا کیا ہے اس کے متعلق کوئی کٹوتی نہیں بلکہ اُسے قائم رکھنے کے لئے ہمارے حلقوں کا کٹ جانا معمولی بات ہے.ہر ممکن قربانی کرنے کیلئے تیار باقی رہا یہ کہتا کہ لوگ اس بات کو برداشت نہیں کر رہنے والوں کو کیا کرنا چاہئے سکتے لیکن جب ایک طرف خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اسے برداشت کرنا چاہئے اور دوسری طرف ایسے
خطابات شوری جلد اوّل ۵۵۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں ہم برداشت نہیں کر سکتے تو ہم انہیں کہیں گے ہم تمہارے ممنون ہیں کہ کچھ دُور تک تم نے ہمارا ساتھ دیا اور ہمارے ساتھ چلے اب اگر تم آگے نہیں جا سکتے تو تمہارا راستہ وہ ہے اور ہمارا یہ.اس طرح اگر خدانخواستہ ساری جماعت میں سے ایک ہی شخص ایسا رہ جاتا ہے جو اس مقصد کا جھنڈا کھڑا رکھے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے تھے تو اُسی کے ہاتھ پر اسلام کی فتوحات ہوں گی اور اُس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا نور دنیا میں پھیلے گا اور اگر مجموعی فتوحات ہوں گی تو بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسے ہی لوگوں کے نام پر لکھی جائیں گی جو آخری سانس تک اسلام کے لئے صرف کر دینے کے لئے تیار ہوں گے.خدا تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ اس وقت کوئی کیا کرتا ہے بلکہ یہ دیکھے گا کہ اپنے دل میں ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے کون تیار ہے.ایسے آدمیوں کو اُن کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے جو خدا کی راہ میں ان کے ساتھ نہیں چلنا چاہتے.مگر یہ اُسی وقت ہونا چاہئے جب خدا تعالیٰ کی منشاء کو پورا کرنے کا سوال ہو ورنہ ہمارا فرض ہے کہ دوسروں کا بھی خیال رکھیں اور جہاں تک ممکن ہو اُن کو ساتھ چلائیں.پس اس میں شک نہیں کہ کمزور ساتھیوں کو اُٹھا کر چلنا ہمارا کام ہے لیکن انتہائی صورت میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا سوال ہو تو ہمارا فرض ہے کہ جو ساتھ نہیں دینا چاہتے اُن کو چھوڑ دیں اور خود آگے چلیں.نہایت ہی خطرناک بات میرے نزدیک یہ نہایت ہی خطرناک بات ہے اگر ہم تشخیص شدہ آمدنی پر بھی بجٹ کی بنیاد نہ رکھ سکیں.اب جو ناظر بیت المال کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ آمدنی کا بجٹ تو اتنا ہے مگر اس میں سے صرف ۷۵ فیصدی وصول ہوگا یہ زہر ہے جو جماعت کے کان میں ڈالا گیا.جنہوں نے سُنا وہ سمجھیں گے ۷۵ فیصدی کے وصول ہونے کی ہم سے امید ہے یہی دینا چاہئے ، اُن کو سارا دینے کا خیال ہی نہ آئے گا.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ۲۵ فیصدی کم دینا تو اپنا حق سمجھ لیں گے اور پھر ۲۵ فیصدی خود کم کر لیں گے.یہ نقص اسی طرح دور ہو سکتا ہے کہ کسی جماعت کا جو بجٹ تجویز ہوا گر وہ اُس کے متعلق اپیل کر کے اور معقول وجوہات پیش کر کے تبدیل نہ کرالے اور پھر اسے پورا نہ کرے تو جس قدر کمی رہے وہ اُس کے نام پر قرض دکھائی جائے.
خطابات شوری جلد اوّل د مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء بجٹ پورا کرنا یاد رکھنا چاہئے بجٹ کو پورا کرنا مجھ پر احسان نہیں نہ سلسلہ پر احسان ہے نہ خدا پر احسان ہے.جو خدا کے دین کی خدمت کے لئے کچھ دیتا ہے وہ خدا تعالیٰ سے سو دا کرتا ہے اور اس سو دا کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے خدا کے نزدیک جواب دہ ہے اور جس قدر کمی رہتی ہے وہ اُس کے نام بقایا ہے.اگر وہ اس دُنیا میں ادا نہیں کرتا تو جب خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گا خدا تعالیٰ فرمائے گا جاؤ جہنم میں بقایا ادا کر کے آؤ.یہ تو اُس کی حالت ہو گی مگر مجھے افسوس ہے کہ نظارت بیت المال اسے متنبہ کرنے کی بجائے اسے اندھا رکھتی ہے تا کہ وہ مرکز جہنم میں جائے.اس طرح نظارت پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اگر اسے بتا دیا جائے کہ تمہارا فرض ہے اپنے عہد کے مطابق اتنی رقم ادا کرو اور وہ پھر ادا نہ کرے تو نظارت کی ذمہ داری باقی نہیں رہتی.لیکن موجودہ طریق عمل کے لحاظ سے تو نظارت یہ کہتی ہے کہ ۲۵ فیصدی کمی میں خود کر دیتی ہوں.اس صورت میں پوری رقم ادا کرنے کا خیال کیونکر آ سکتا ہے.صحیح طریق عمل صحیح طریق عمل یہ ہے کہ ہر جماعت کے متعلق طے کر لو کہ اُس کے لئے کتنا چندہ ادا کرنا واجب ہے.اگر وہ جماعت اُس رقم کی تعیین کے متعلق کوئی اپیل نہیں کرتی اور معقول وجوہات پیش کر کے کم نہیں کرا لیتی اور پھر اُسے پورا نہیں کرتی بغیر کسی معقول وجہ کے تو جو کچھ باقی رہتا ہے وہ اُس پر قرض ہے جو اُ سے ادا کرنا چاہئے.یہ طریق عمل یا تو بجٹ کی کمی کو پورا کر دے گا یا منافقین کو جماعت سے جدا کر دے گا اس وقت تک چونکہ اس طریق پر عمل نہیں ہوا اِس لئے گزشتہ کو جانے دو لیکن اس سال سے اس پر عمل شروع کرو کہ جو رقم کسی جماعت کے ذمہ لگائی گئی تھی اگر اُس نے اُسے ادا نہیں کیا تو اگلے سال کے چندہ کے ساتھ اُس بقایا کو شامل کرو اور گزشتہ سال کے بقایا کو اُس کے نام قرض قرار دو اور کہو کہ یا تو اس کے ادا نہ کرنے کی معقول وجوہات پیش کرو یا اسے آئندہ سال ادا کرو.اس طرح وہ جماعت مجبور ہو گی کہ جو لوگ نادہند ہیں انہیں ہمارے سامنے پیش کرے اور نادہند مجبور ہوں گے کہ یا تو با قاعدہ چندہ ادا کریں یا پھر جماعت سے نکلیں.اگر کوئی جماعت ایسا نہ کرے گی اور تین سال تک اُس کے ذمہ بقایا نکلتا رہے گا تو اُس کا ہم بائیکاٹ کر دیں گے اور ہمارے انتظام سے اُس کا کوئی تعلق نہ ہو گا.کیا وجہ ہے کہ وہ
خطابات شوری جلد اوّل نادہندوں کی طرف توجہ نہیں کرتی.۵۶۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء ایک سب کمیٹی کا تقرر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ایک سب کمیٹی اگلے مالی سال کے لئے ان دوستوں پر مشتمل مقرر کی جاتی ہے.ا.چودھری ظفر اللہ خان صاحب ۲.چودھری نعمت خان صاحب ۳.پیرا کبر علی صاحب ۵.میر محمد اسمعیل صاحب ۶.راجہ علی محمد صاحب ۷.عبدالحمید صاحب شملوی.میر محمد اسحاق صاحب ۱۰.ناظر بیت المال ۱۱.چودھری نورالدین صاحب منٹگمری ۱۲.حاجی غلام احمد صاحب ۴.خانصاحب منشی فرزند علی صاحب ۹.میاں بشیر احمد صاحب ۱۳.چودھری غلام حسین صاحب ۱۴.مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی ۱۶.بابو قاسم دین صاحب ۱۵.محاسب صاحب یہ ۱۶ اصحاب ہیں جن میں 11 بیرونی جماعتوں میں سے اور پانچ مرکز کے ہیں.یہ سب کمیٹی سال میں کئی دفعہ اجلاس کرے جن میں میں خود بھی شامل ہوں گا.کمیٹی مجھ سے مشورہ لے کر تجویز کرے کہ اخراجات میں سے کون سی رقوم کائی جا سکتی ہیں اور آمدنی بڑھانے کے کیا ذرائع ہیں.ان ممبروں کو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ لائی گلیفُ اللهُ نَفْسار الا وُسْعَهَا کی حد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لئے حاضری ضروری ہے.وہ اجلاس میں شمولیت کے لئے انتہائی کوشش کریں اور استعفے پیش کر دینے سے نیچے نیچے ہر کوشش جو دیانت داری سے کر سکتے ہوں کریں ورنہ ان سے جواب طلب کیا جائے گا.پہلا اجلاس محرم کی چھٹیوں میں منعقد ہوگا.ہر شخص جو ممبر مقرر کیا گیا ہے اُسے شامل ہونا چاہئے.سوائے اس کے کہ وہ اپنی ملازمت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے قانونی یا اخلاقی مجرم بنتا ہو یا ملازمت سے استعفیٰ دینا پڑتا ہو.اس اجلاس میں خرچ میں جائز کمی کرنے اور آمدنی کے بڑھانے پرغور کیا جائے گا اس کے بعد جو بجٹ تجویز ہو گا وہ جماعتوں پر ڈالا جائے گا اور جو جماعت اپنا بجٹ پورا نہ کرے گی
خطابات شوری جلد اوّل ۵۶۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء اُس سے جواب طلب کیا جائے گا.اب وہ وقت آ گیا ہے کہ کسی کو ڈھیل نہیں دی جاسکتی.پچاس ہزار سالانہ جس جماعت پر بار بڑھ رہا ہوا گر اُس کی آمدنی اڑھائی لاکھ بھی ہو تو پانچ سال میں ساری آمدنی قرض کی نظر ہو جائے گی.پس اب کسی کو ڈھیل نہیں دی جا سکتی.کمیٹی کو دیکھنا یہ ہوگا کہ کون سے کام ایسے ہیں جو جاری رکھنے چاہئیں خواہ ہماری حالت قربانی کے انتہائی درجہ تک پہنچ جائے.نمائندوں کا فرض یہ فیصلہ ہے جس سے میں جماعتوں کو ان نمائندوں کے ذریعہ آگاہ کرنا چاہتا ہوں جو یہاں آئے ہوئے ہیں.نرمی سے سمجھا سمجھا کر ہم نے دیکھ لیا ہے.ان نمائندوں کا فرض ہے کہ یا تو وہ کوئی ایسا طریق اختیار کریں کہ کوئی احمدی کہلا کر نا دہند نہ رہے یا پھر وہ طریق اختیار کریں جو میں نے بتایا ہے کہ نادہندوں کی مرکز میں اطلاع دیں.اگر انہوں نے اس نقص کو دُور نہ کیا تو ان سے باز پرس ہو گی اور مندرجہ ذیل سزاؤں میں سے کوئی ایک انہیں دی جائے گی.یا انہیں آئندہ کے لئے نمائندہ نہیں تسلیم کیا جائے گا یا جماعت میں کوئی عہدہ نہیں دیا جائے گا.یا انہیں میرے ساتھ ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اگر پھر بھی پرواہ نہ کی گئی تو جماعت ان سے بے تعلقی کا اظہار کرے گی کیونکہ انہوں نے جماعت کو سنبھالنے کا فرض ادا نہیں کیا.مومن کو کیا کرنا چاہئے یادرکھنا چاہے کوئی مومن مردود ہونا پسندنہیں کرتا.مومن ایک ہی بات جانتا ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان و مال خرچ کرتے کرتے اس دُنیا سے گزر جائے.آپ لوگوں کو بھی یہی طریق قبول کرنا ہو گا.سب کمیٹی کا پہلا اجلاس اب میں بحث کے خرچ کے حصہ کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں بجٹ کرتا.پہلا فیصلہ اسی کمیٹی میں کروں گا اور اس کمیٹی کے اجلاس وقتاً فوقتاً ہوتے رہیں گے اور ضروری امور آئندہ سال کے لئے اُس میں طے ہوتے رہیں گے.دوستوں کو محرم کی تعطیلات میں ۵ مئی کو ۱۲ بجے کی گاڑی سے یہاں پہنچ جانا چاہئے.جماعت قادیان کی ذمہ داری قادیان کے لوکل جماعت کی ذمہ داری کے لحاظ سے قادیان کے نمائندوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس سب کمیٹی کے اجلاس سے قبل تفصیلی رپورٹ آجانی چاہئے.جس میں ہر احمدی کا
خطابات شوری جلد اوّل ۵۶۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء نام اور اس کے چندہ کی رقم درج ہو.اگر ہم رمئی کی صبح تک ایسی فہرست نہ پہنچی تو لوکل کمیٹی کے کارکن اپنے آپ کو معطل سمجھیں.ان کی جگہ میں اور مقرر کروں گا.بجٹ آمد کے متعلق فیصلہ آمد کے متعلق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ بجٹ مجوزہ کو پاس کیا جائے لیکن اس تبدیلی کے ساتھ کہ گزشتہ سال کے بجٹ میں سے جو بقایا کسی جماعت کے ذمہ رہ گیا ہے اُسے اس سال کے بجٹ میں زائد کر 66 دیا جائے کیونکہ وہ اُن کے ذمہ قرض ہے جسے ادا کرنا ان کا فرض ہے.“ مجلس مشاورت کے تیسرے دن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد حضور اختتامی تقریر نے احباب کو الوداعی نصائح کرتے ہوئے فرمایا : - اب پونے دو بج گئے ہیں اور ایک سب کمیٹی کی رپورٹ باقی ہے جو ۳۷ صفحات پر مشتمل ہے.اس وقت اس رپورٹ کا پیش کرنا بے فائدہ ہوگا اس لئے اس کے متعلق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ نظارت امور عامہ اس سکیم کو ایک ماہ کے اندر اندر اردو میں چھاپ کر نمائندگان مجلس مشاورت کے پاس بھیج دے اور اس کے متعلق اب جو نئی سب کمیٹی قائم کی گئی ہے وہ قائم رہے.جماعتوں کے نمائندے اپنی آراء لکھ کر ایک ماہ کے اندر سب کمیٹی کے سیکرٹری ناظر امور عامہ کے پاس بھیج دیں.وہ آرا ء سب کمیٹی میں پیش ہوں اور پھر جو رپورٹ وہ لکھے وہ میرے سامنے پیش ہو.پھر میں فیصلہ دے دوں گا.یہ سکیم ایک ماہ کے اندر اندر طبع کر کے باہر بھیج دی جائے.دوسرے مہینہ میں جماعتوں کے مشورے آجائیں.تیسرے مہینہ میں سب کمیٹی ان پر غور کرے اور رپورٹ پیش کرے.پھر میں فیصلہ دے دوں گا.اس سکیم کو اگلے سال کے لئے ملتوی کرنا ٹھیک نہیں ہے.اور اس طرح یہ کام ہو سکتا ہے.اس کے بعد دوسرے سوال کو چھوڑتا ہوں کیونکہ اُس کے لئے وقت نہیں ہے اور ایک امر کے متعلق میں پسند نہیں کرتا کہ اس وقت پیش کیا جائے اگلے سال اگر مناسب ہوا تو پیش کر دوں گا.ضروری ہدایات اب میں چند الفاظ نصائح کے کہنے کے بعد اس مجلس کو ختم کرتا ہوں.میں دوستوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے تمام کام
خطابات شوری جلد اوّل ۵۶۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء سنجیدگی سے ہونے چاہئیں.مثل مشہور ہے کہ بتیس دانتوں میں زبان.مگر ہم ۳۲ میں نہیں ۷۲ سے زیادہ تو مسلمانوں کے ہی فرقے ہیں اور دوسرے لوگوں کا کچھ شمار ہی نہیں.پس اگر ۳۲ دانتوں میں زبان قابلِ رحم ہوتی ہے تو جو لوگ ہزار ہا مخالف فرقوں میں ہوں اُن کا کیا حال ہو گا.ایک طرف ہم پر خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ ذمہ داریاں ہیں تو دوسری طرف ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے کسی فعل سے دشمن کو شاعت کا موقع نہ دیں.صلح حدیبیہ کے بعد صحابہ حج کے لئے گئے تو بہت کمزور تھے.اُس وقت ایک قسم کا بخار پڑا تھا جس کی وجہ سے صحابہ کمزور ہو گئے.جب صحابہ طواف کرنے لگے تو مکہ والے ایک پہاڑی پر چڑھ کر اُنہیں دیکھنے لگے.اُس وقت ایک صحابی نے اس طرح کیا کہ جب کفار کے سامنے سے گزرتا تو اکٹڑ کر چلتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے پوچھا اس طرح کیوں کرتے ہو؟ اُس نے کہا یا رسول اللہ! ہم بخار کی وجہ سے کمزور ہو گئے ہیں میں کفار کے سامنے اس لئے اِس طرح چلتا ہوں تا یہ نہ سمجھیں کہ ہمارے دل بھی کمزور ہو گئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سُن کر ہنسے اور فرمایا خدا بھی اس پر ہنسا ، تو مومن کو اپنے ہر کام میں یہ امور مدنظر رکھنے چاہئیں.اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مد نظر ہو اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کا کام دشمن کی نظر میں حقیر نہ ہونے پائے.پس اول تو للہیت مد نظر ہونی چاہئے اور اس کے قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے دوسرے دشمن کے اعتراضات سے مسلمانوں اور اسلام کو بچانا چاہیئے.پھر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہمارے کام کسی ظاہری بدلہ کے بغیر ہوتے ہیں.دوسری کمیٹیوں کے کام جو لوگ بے بدلہ کرتے ہیں وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے احسان کیا مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ جب ہم نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کیا تو ان الله اشترى من الْمُؤْمِنِينَ انْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِانّ لَهُمُ الْجَنَّةَ لا کے ماتحت خدا تعالیٰ نے جنت کے بدلے میں ہمیں خرید لیا.ہمارا سودا ہو چکا ہے.لوگ کہتے ہیں سو دا کرنا بُرا ہوتا ہے مگر یہ سودا اُس سے ہے کہ بے شمار دے کر بھی اُس کے خزانہ میں کمی نہیں آتی.سودا اُس سے بُرا ہوتا ہے جو دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو.اس سے کچھ چھیننا عیب کی بات ہے.لیکن خدا تعالیٰ سے ان اخلاقی لائنوں پر سودا کرنا جنہیں اُس نے پسند کیا عیب نہیں ہے.
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء پس اللہ تعالیٰ سے ہمارا سودا ہو چکا ہے اس لئے ہمارے دوستوں کو اپنے کاموں میں احتیاط ملحوظ رکھنی چاہئے.اگر کسی نے جنت کے مطابق عمل کر لئے تو وہ بری ہوسکتا ہے لیکن اگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی نہیں کہا کہ آپ اعمال سے بری ہو گئے ہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ عرض کیا جب خدا تعالیٰ نے آپ سے کہہ دیا ہے کہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں تو رات کو اتنی اتنی دیر عبادت کے لئے آپ کیوں کھڑے رہتے ہیں؟ اس پر آپ نے فرمایا کیا میں عبد شکور نہ بنوں 11 پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے متعلق سمجھتے ہیں کہ آپ اس حد کو نہیں پہنچے کہ خدا تعالیٰ سے کہہ سکیں میں نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی تو اور کون کہہ سکتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے جب آپ فوت ہونے لگے تو ان کی زبان پر یہ الفاظ تھے.الہی ! میں کوئی انعام نہیں چاہتا.صرف یہ چاہتا ہوں کہ میری کوتاہیوں پر مجھ سے گرفت نہ ہو.میرے لئے یہی انعام بہت بڑا ہے کے اگر اُن کا یہ معیار ہے کہ دین کی بہت بڑی خدمات کر کے بھی اپنے آپ کو قاصر سمجھتے تو عوام اگر یہ سمجھیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی تو بہت بڑی کوتاہی اور غفلت کی بات ہو گی.ہمارے اندر جو لوگ کوتا ہی کرنے والے ہیں ان کی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے.اگر ہم خود اپنا فرض ادا کرتے ہیں تو دوسروں کی کوتاہی کو دُور کرنا بھی ہمارا فرض ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی میں سفید بال آگئے تو آپ نے فرمایا سُورۃ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے کیونکہ اس میں دوسروں سے متعلق ذمہ داری ڈالی گئی ہے تو دوسروں کی ذمہ داری کو بھی جماعت کے نمائندے سمجھیں اور یہ نہ ہو کہ یہاں جمع ہونا شغل کی طرح ہو یا اُس دیو کی طرح جس کے متعلق مشہور ہے کہ جو چھ ماہ کے بعد جا گا کرتا تھا.میں نے کھلے طور پر جماعت کے ہر شخص کی ذمہ داری بتا دی ہے.اس کے بعد کوتا ہی کرنے والوں کے متعلق ایکشن لوں تو پھر کسی کو شکایت نہ ہونی چاہئے.بے شک اس زمانہ میں جنت قریب کر دی گئی ہے مگر جہنم کو بھی قریب کر دیا گیا ہے.اسلام کی رُوح کو، اسلامی تمدن کو ، اسلامی اقتصاد کو ، اسلامی معاشرت کو کچلنے کے لئے دُنیا کھڑی ہے اس وقت کسی کو کوتا ہی کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی.آپ سب صاحبان کو جو جماعتوں کے
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء نمائندے ہیں اپنی جماعتوں کے سب لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جولوگ با وجود کوشش کے بیدار نہ ہوں اُن کے متعلق بر وقت مرکز میں اطلاع دیں.مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ مجلس مشاورت میں پچھلے سالوں میں جو سٹینڈرڈ رہا ہے وہ اب کے پھر گر گیا ہے.اس میں شک نہیں کہ معقول بولنے والے بھی تھے مگر ایسے بھی تھے جن کی گفتگو محض نکتہ چینی اور مذاق کے رنگ میں تھی.معلوم ہوتا ہے جو نئے ممبر آئے ان کی وجہ سے بعض پرانے ممبر بھی طریق گفتگو بھول گئے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ کے مشورے وقار اور متانت والے ہوا کریں گے جن پر دوسرے لوگ رشک کریں گے.ہوزری کی سکیم پھر ایک اور بات کی طرف احباب کو توجہ دلاتا ہوں.وہ یہ ہے کہ مجلس مشاورت میں ہی ایک سکیم ہوزری کی تجویز ہوئی تھی.اس وقت تک اس کے حصص فروخت کرنے کی کوشش کی گئی ہے.پانچ ہزار حصوں کے مہیا ہونے کی ضرورت ہے لیکن اِس وقت تک ۲۲ سو حصے فروخت ہوئے ہیں.میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی اپنی جگہ جا کر اس کام کو دینی کام سمجھ کر سر انجام دیں.اور اس کو کامیاب بنانے میں حصہ لیں.بعض کہتے ہیں مذہبی جماعت کو بزنس سے کیا تعلق؟ وہ بزنس مین نہ سہی، زمیندار یا ملازمت پیشہ ہی سہی مگر جماعت کی اقتصادی اور مالی حالت کو درست اور مضبوط کرنا ان کا فرض ہے یا نہیں؟ ہر ایک احمدی کا یہ فرض ہے.پس دوست جا کر اپنی اپنی جماعت میں اس کے حصے فروخت کریں.دس روپے کا ایک حصہ ہے جو معمولی بات ہے.اگر کام کو کام سمجھ کر کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس میں کامیابی نہ ہو.ایک لاکھ حصہ کا فروخت ہو جانا بھی کوئی مشکل بات نہیں ہے بشرطیکہ اسے دینی کام سمجھ کر کیا جائے اور جماعت کی مالی و اقتصادی ترقی کی بنیاد قرار دیا جائے.پس اسے مذہبی ، تمدنی اور سیاسی فرض سمجھ کر ہر شخص جو حصہ لے سکتا ہے لے اور اپنی طاقت کے مطابق لے.میں نے حال ہی میں مکان بنوایا ہے.اگر چہ کمیٹی میں میرا حصہ نکل آیا مگر اس حصہ کی قسط ادا کرتا ہوں مگر باوجود اس کے جبکہ خرچ خوراک میں بھی کمی کرنی پڑی ہے پانچ سو روپیہ میں نے اس فنڈ میں دیا ہے اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا ہے کہ اگر خدانخواستہ فیکٹری ٹوٹ بھی جائے تو کیا ہے جماعت کی بہتری کے لئے کوشش کی گئی ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۵۶۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء پس احباب کو اس اقتصادی حالت کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.ہماری جماعت میں تاجر بہت کم ہیں حالانکہ تجارت اقتصادی ترقی کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے.ہوزری کے کام کو ضرور کامیاب بنانا چاہئے.جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ ایک مہینہ کے اندر اندر پانچ ہزار حصے پورے کر دیں تا کہ کام شروع کر دیا جائے.بجٹ کے متعلق بجٹ کے خرچ کی منظوری کو سب کمیٹی کے مشورہ تک ملتوی کرتا ہوں اور بجٹ آمد کو اس تبدیلی کے ساتھ منظور کرتا ہوں کہ گزشتہ سال کے بجٹ میں جو بقایا کسی جماعت کے ذمہ رہ گیا ہے اُسے اس سال کے بجٹ میں زائد کر دیا جائے کیونکہ وہ اُن کے ذمہ قرض ہے جسے ادا کرنا اُن کا فرض ہے.اگر کسی جماعت کا بجٹ صحیح نہیں رکھا گیا اور اس کے ثبوت میں اُس کے پاس کوئی معقول وجہ ہو تو اُسے تین ماہ کے اندر اندر پیش کر کے فیصلہ کر لیا جائے ورنہ اگر بجٹ پورا نہ کیا گیا تو جو باقی رہے گا وہ اگلے سال کے بجٹ میں پھر ڈال دیا جائے گا.چندہ کشمیر چندہ کشمیر کے متعلق کہا گیا ہے کہ میں اس موقع پر تحریک کروں.احباب کو معلوم ہونا چاہئے یہ کام ابھی جاری ہے اور ہمارا فرض ہے کہ جب تک معاملات روبہ اصلاح نہ ہو جائیں اسے جاری رکھیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک کام بہت مفید ہوا ہے.دوستوں کو آئندہ بھی کام جاری رکھنے کے لئے چندہ جمع کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اب میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنی نصرت اور تائید ہمارے شاملِ حال رکھے اور دعا اب ہمارے لئے وہی وقت ہے جو بدر میں صحابہ کرام پر آیا تھا.اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.اَللَّهُمَّ اِنْ اَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ لَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ اَبَدًا لے کہ اے خدا! اگر یہ تھوڑے لوگ ہلاک ہو گئے تو زمین پر تیری پرستش کرنے والا کوئی نہ رہے گا.اسی طرح ہم کہتے ہیں اگر سلسلہ کو دشمنوں نے تباہ کر دیا تو اے خدا! پھر تیرا نام لینے والا دنیا میں کوئی نہ ہو گا.خدا تعالیٰ ہماری کمزوریوں اور قصوروں کو معاف کرے اور جلد سے جلد اسلام کی فتح ہمارے ہاتھوں سے کرائے.(آمین ) ( مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت اپریل ۱۹۳۳ء )
خطابات شوری جلد اوّل المجادلة :٢٢ فاطر: ۲۵ ۵۶۸ المآئدة :۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء الفاتحة :٢ ۱۰۵ الفاتحة : ۵ ك الفاتحة : 4 A بخاری ابواب التقصير باب الصلوة بمنى.الفاتحة : 6 مسلم كتاب الفضائل باب رَحمَتُه صلى الله عليه وسلم النساء (الخ) ١٢٠١١ البقرة : ١٨٦ ۱۴ ١٣ البقرة : ۲۸۷ ها التوبة : ١١١.بخارى كتاب التفسير تفسير سورة الفتح باب قولِهِ لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهِ مَا تَقَدَّمَ (الخ) بخاری کتاب الجنائز باب مَا جَاءَ فِى قَبْرِ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (الخ) بخاری کتاب تفسير القرآن تفسير سورة الواقعة 19 مسلم كتاب الجهاد باب الامداد بالملائكة في غزوة بدر (الخ) مفهومًا
خطابات شوری جلد اوّل ۵۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء دعا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ فرمایا : - مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء منعقده ۳۰-۳۱ / مارچ و یکم اپریل ۱۹۳۴ء) پہلا دن ۳۰ / مارچ ۱۹۳۴ء بوقت سوا تین بجے مجلس مشاورت کا پہلا اجلاس تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں شروع ہوا.تلاوتِ قرآن مجید کے بعد حضور نے دُعا سے متعلق " پیشتر اس کے کہ ہم مجلس شوری کی کارروائی شروع کریں جب کہ ہمارا قدیم سے طریق ہے اور جیسا کہ الہی ہدایت نے ہمیں سکھایا ہے اور جس کی وجوہ میں نے کئی جلسوں میں بیان کی ہیں دُعا کر لینی چاہئے.مومن کے تمام کام دُعاؤں سے شروع ہونے چاہئیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم جیسی منزّه عَنِ الخطا پاک اور متبرک کتاب کو بھی دُعا سے شروع فرمایا اور دُعا پر ہی ختم کیا ہے.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اور سورۃ فاتحہ دعائیں ہیں.پھر سورۃ الاخلاص ، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس بھی دعائیں ہیں.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیم سے بھی پہلے قرآن کریم میں حکم ہے فَإِذَا قَرَاتُ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بالله کہ جب تم تلاوت کرنے لگو تو استعاذہ کر لیا کرو.اسی کے ماتحت قرآن کریم پڑھنے سے پہلے اَعُوذُ پڑھا جاتا ہے.پس جو بھی نیک کام ہو دُعا سے شروع ہونا چاہئے اور برخلاف ان کے جو یہ کہتے ہیں در کار خیر حاجت پیچ استخارہ نیست ، ضرور دُعا کرنی چاہئے.نیک کام کے متعلق دُعا یہ ہوتی ہے کہ الہی ! میری نیت درست ہو اور نتیجہ مفید نکلے.پھر آراء کی درستی ، فکر کی درستی، کلام کرنے کے طریق کی درستی کے لئے دُعا کرنی چاہئے.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دو دوست بڑی محبت سے گفتگو شروع کرتے ہیں مگر ان میں سے کسی کے منہ سے کوئی.
خطابات شوری جلد اوّل ۵۷۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء ایسا کلمہ نکل جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں.تو بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے لئے دُعا کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ انسان کی طاقت سے باہر ہوتی ہیں.پس پہلے تو سب دوست مل کر خلوص دل سے دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمارے ارادوں میں، ہماری نیتوں میں ، ہمارے کام میں، ہمارے فکر میں، ہمارے غور میں ، ہماری رائے میں اور ان کے نتائج میں برکت دے.پھر ہمیں توفیق دے کہ جن نتائج تک ہم پہنچیں اُن پر عمل بھی کر سکیں.یہ نہیں کہ یہاں تو ان پر غور کریں مگر گھر جا کر سور ہیں.پھر خدا تعالیٰ ان فیصلوں میں برکت دے کہ ان فیصلوں کے مطابق جماعت جو کام کرے اس کا اثر دُنیا میں نیک ہو، مفید ہو اور جلد سے جلد وہ اثر دُنیا میں پھیل جائے.اس کے بعد دعا کی گئی.فتتاحی تقریر تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے حسب ذیل افتتاحی تقریر فرمائی:.مجلس مشاورت کی غرض اللہ تعالی کے فضل کے ماتحت ہم پھر اس جگہ پر اس لئے جمع ہوئے ہیں تا کہ جماعت کے آئندہ سال کے پروگرام پرغور کر سکیں تا کہ اپنی طاقت اور اپنی توفیق کے مطابق خدا تعالیٰ کے جاری کردہ کام میں حقیر خدمت کر کے اُس کے فضلوں کے وارث بن سکیں اور اُس کے انعامات سے حصہ لے سکیں.جماعت احمدیہ کی مثال ہماری مثال اپنی حالت اور طاقت کے لحاظ سے اُس پرندہ کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ رات کو الٹا سوتا ہے.لاتیں آسمان کی طرف کرتا ہے اور سر نیچے کو ، تا کہ اگر آسمان گر پڑے تو وہ سہارا دے سکے.یہ تو لطیفہ بنانے والے نے بنا دیا ورنہ اُس پرندہ میں اس بات کا کیا احساس ہوسکتا ہے مگر ہمارا یہ حال ہے کہ آسمان گرا ہوا ہے، زمین بوجھ کے تلے دبی ہوئی ہے، دُنیا کی صورت اس قدر مسخ ہو چکی ہے کہ پہچانی نہیں جاتی ، جو کچھ خدا تعالیٰ کے کلام میں ہم پڑھتے ہیں وہ گزر چکا اور جو بعد کی تاریخ میں پاتے ہیں وہ یا تو خواب معلوم ہوتا ہے یا وہم نظر آتا ہے یا پھر اُن امیدوں کا نقشہ ہے جو اُن کے قلوب میں پیدا ہوئیں.دنیا کی موجودہ حالت ورنہ دُنیا اپنی موجودہ حالت میں اس بات کے باور کرانے کا کوئی رستہ نہیں کھلا رکھتی کہ وہ نیکی ، وہ تقویٰ ، وہ پاکیزگی اور
خطابات شوری جلد اوّل ۵۷۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء وہ روحانیت جو کسی وقت موجود تھی اور جس کا ذکر مذہبی کتابوں میں گزشتہ زمانہ کے متعلق پایا جاتا ہے دُنیا میں قائم کی جاسکتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ہاتھ پر ایمان لانے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی جماعت با وجود ابتدائی کمزوریوں کے، حضرت مسیح علیہ السلام اور ان کے ساتھی باوجود ابتدائی ٹھوکروں کے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ باوجود منافق گروہ کی موجودگی کے ایسا دلکش نقشہ اور ایسا خوبصورت منظر آنکھوں کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ جو ہر قسم کی مایوسی کو امید سے بدل دیتا ہے، انسان کے افسردہ چہرہ پر پر شگفتگی کے آثار پیدا کر دیتا ہے.لیکن جب اس کے مقابلہ میں دُنیا کی موجودہ رو کو دیکھتے ہیں، موجودہ حالت پر نظر کرتے ہیں، جب موجودہ حالت ہی نہیں بلکہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس حالت کے آئندہ نتائج کیا نکلیں گے، جب دیکھتے ہیں کہ ایسا بیج بویا جا رہا ہے جو تباہی و بربادی کے پھل لانے والا ہے اور جب یہ دیکھتے ہیں کہ تقویٰ کا بیج ہونے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے تو آنکھوں کے سامنے تاریکی اور اندھیرا آ جاتا ہے.اس وقت اگر کوئی چیز امید دلانے والی اور ان خطرات کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کرنے والی ہے تو وہی شیریں، میٹھی اور دلنواز آواز ہے جو غار حرا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سُنائی دی اور موجودہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوئی اور وہ یہ ہے کہ لا تحزن ان الله معنا ہاں وہی آواز ، ہمارے پیدا کرنے والے کی سُریلی آواز جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ رات کو جب میں سرہانے پر سر رکھتا ہوں تو آنی شروع ہوتی ہے اور اُٹھنے تک آتی رہتی ہے کہ اِنِّی مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَالْوُمُ مَنْ يَلُوْمُ ہی ایک چیز ہے جو ہمیں اُمید دلاتی ہے، جو ہمارا حوصلہ بڑھاتی ہے.اگر اس چیز کو نظر انداز کر دیا جائے تو سوائے تاریکی کے سوائے مایوسی کے اور سوائے نااُمیدی کے کچھ نظر نہیں آتا.دو قسم کے لوگ بے شک اس آواز سے باہر بھی امید میں ہیں مگر وہ دوستم کی ہیں.یا تو ان لوگوں کی اُمیدیں بلند ہیں جن میں عقل باقی نہیں رہی ، وہ مجنون کی امید دلانے والی چیز طرح ہیں.ایک پاگل کہتا ہے میں دُنیا کو اُلٹ دوں گا حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا.ایسے مجانین کے دعاوی یہ ثابت نہیں کرتے کہ ان کی اُمید قائم ہے بلکہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ
خطابات شوری جلد اوّل ۵۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء نا اُمیدی اور مایوسی نے ان میں جنون پیدا کر دیا ہے.یا پھر ایسے لوگوں کی اُمید میں قائم ہیں جنہوں نے دین اور تقویٰ کو ترک کر دیا ہے.ان کا یہ مقصد نہیں کہ دُنیا میں نیکی اور تقویٰ قائم کریں گے بلکہ یہ ہے کہ بڑے بڑے صناع، بڑے بڑے موجد پیدا کریں گے.ہمارا مقصد مگر ہمارا یہ مقصد نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ عمارتیں کھڑی کریں جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں کھڑی کی گئی تھیں اور جن کے متعلق سورہ نور میں آتا ہے کہ في بُيُوتٍ أَذِنَ الله أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ ، خدا تعالیٰ ان گھروں کو بلند کرتا ہے جن میں اس کا نام بلند کیا جائے.اس وقت دُنیا کے پردہ پر کوئی ایک بھی انسان ایسا نہیں ہے سوائے احمدیوں کے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کی نیکی اور تقویٰ قائم کرنا چاہتا ہو.ایسے لوگ تو نظر آئیں گے جو بینک اور کا رخانے قائم کرنے والے ہوں گے، دُنیوی عیش و آرام کے سامان فراہم کرنے والے ہوں گے، ڈ نیوی مال و دولت جمع کرنے والے ہوں گے، ایسے لوگ مجنون بھی ہوں گے اور حوصلہ مند بھی ، مگر ایسے نہ ہوں گے جو یہ کہیں کہ ہم دُنیا میں نیکی اور تقویٰ قائم کر دیں گے.پس جس کام کے لئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں وہ قلوب کی اصلاح ہے، لوگوں کے دلوں میں خشیت اللہ پیدا کرنا ہے، ایسی قربانی اور ایثار کی روح پیدا کرنا ہے کہ جس کے معاوضہ کا خیال تک دل میں نہ آئے ، خدا تعالیٰ کی محبت اور عشق پیدا کر دینا ہے.یہ دُنیا میں نہ قائم ہے اور نہ کسی کو اس کے قائم ہونے کی اُمید ہے.دُنیا اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ لوگوں کے دل یہ باور ہی نہیں کر سکتے کہ دُنیا کے اندر دین بھی ہوسکتا ہے.ایک دفعہ ایک مقدمہ میں کسی نے مجھے گواہ لکھا دیا.جب میں گواہی دینے کے لئے گیا تو وکیل نے پوچھا آپ کا سالانہ جلسہ کہاں ہوتا ہے؟ میں نے جگہ بتائی.پھر اُس نے پوچھا فلاں سے جو زمین خریدی گئی ہے وہ جلسہ گاہ سے کدھر ہے؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں.مجھے اُس وقت کا نظارہ ابھی تک نہیں بُھولا.وکیل نے مجسٹریٹ کی طرف دیکھ کر اس طرح سر ہلایا کہ اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں ہوسکتا.گویا اُس کے نزدیک کوئی ایسا زمیندار ہو ہی نہیں سکتا جسے اپنی زمین کا پتہ نہ ہو.عظیم الشان کام تو ہمارے سامنے عظیم الشان کام ہے.اتنا عظم الشان کہ اس زمانہ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور جب ملتی تھی اس وقت بھی یہ کام
خطابات شوری جلد اوّل ۵۷۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء بڑے لوگوں کے ذریعہ نہیں ہوا بلکہ ان کے ذریعہ ہوا جن کے متعلق الہام ہوا.لا تحزن إن الله معنا - مجھے فرانس کے ایک مصنف کا ایک قول یاد آیا جو بہت لطیف ہے.وہ لکھتا ہے مجھے ان لوگوں پر تعجب آتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) لالچی ، حریص ، اور جھوٹا تھا.اور باتوں کو جانے دو ایک بات ایسی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کہتے تھے سنجیدگی سے کہتے تھے اور اُن کے پیچھے کوئی اور طاقت تھی جو سب کچھ کراتی تھی.میں دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت معمولی درجہ کا چھوٹا سا مکان ہے جس کی چھت تھوڑی سی بارش سے بھی ٹپک پڑتی ہے اُس میں چند آدمی بیٹھے ہیں جن کے بدن پر لباس بھی پورا نہیں مگر اُن کے چہروں پر سنجیدگی اور متانت کے آثار نظر آتے ہیں اور وہ غور کر رہے ہیں کہ دُنیا کو فتح کرنے کے لئے اور اس میں تغیرات پیدا کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے.پھر کچھ عرصہ کے بعد اُن کے ذریعہ دُنیا میں عظیم الشان انقلاب پیدا ہو گیا اور اُنہوں نے دُنیا کو فتح کر لیا.اس کے بعد کوئی عقل یہ تسلیم نہیں کر سکتی کہ وہ جو کچھ کر رہے تھے، وہ بناوٹ تھی بلکہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یقینا ان کے پیچھے کوئی اور طاقت تھی جس کے سہارے وہ کھڑے تھے.پس ایسے ہی لوگ دُنیا کی اصلاح کا کام کر سکتے ہیں.وہ جو مال و دولت کا خدا کا سہارا گھمنڈ رکھتے ہیں جنہیں اپنی طاقت اور قوت کا گھمنڈ ہوتا ہے وہ قطعاً کام نہیں کر سکتے.وہی کام کر سکتے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ کا سہارا ہو اور جن کو خدا کا سہارا میسر ہو اُنہیں کوئی گر انہیں سکتا.یہی وہ طاقت ہوتی ہے جسے کوئی جیت نہیں سکتا اور کوئی طاقت اِس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی ، خواہ وہ نیچر کی طاقت ہو یا دُنیا کی.اس طاقت اور وثوق کے ساتھ ہمیں کھڑا ہونا چاہئے اور جب ہماری یہ حالت ہوگی تو مشوروں کے وقت روح القدس نازل ہو کر کام کرنے کا طریق بتائے گی جس سے کامیابی حاصل ہوگی ورنہ ہماری عقل اور ہماری کوشش سے کچھ نہیں ہوگا.ہمارا ہاتھ پاؤں ہلانا تو اتنی بھی حقیقت نہیں رکھتا جتنی دود کے لئے ایک چھوٹے بچے کا رونا رکھتا ہے.بچہ کے رونے سے دودھ نہیں آتا بلکہ اُس کا رونا دودھ ملنے کے لئے محرک ہوتا ہے.اسی طرح ہمارے مشورے اور ہماری کوششیں خدا تعالیٰ کے فضل کے لئے محرک ہو سکتی ہیں ورنہ ہم خود کچھ نہیں کر سکتے.روده
خطابات شوری جلد اوّل ۵۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء مشورہ دینے کے وقت کی حالت پھر کیا تم خیال کرتے ہو کہ جو مشورہ تکبر ، تعلی اور غرور کے ساتھ دیا جائے وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کا موجب ہو سکتا ہے؟ قطعاً نہیں.ہماری حالت تو یہ ہونی چاہئے کہ جب ہماری زبانیں کسی مشورہ کے لئے بول رہی ہوں تو ہمارے دل خدا تعالیٰ کے عرش کے سامنے لرز رہے ہوں.میں امید کرتا ہوں کہ دوست مشورہ دیتے وقت اس بات کو مدنظر رکھیں گے.“ دوسرا دن مجلس مشاورت کے دوسرے دن ۳۱ / مارچ ۱۹۳۴ء کو جب پہلا اجلاس شروع ہوا تو حضور نے احباب کو چند اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - ضرورت تقریر مطبوعہ پروگرام کے مطابق اس وقت سب کمیٹیوں کی کارروائیوں پر غور کرنا چاہئیے اور اس وقت میری کسی تقریر کے لئے وقت مقرر نہیں ہے لیکن مجھے کل محسوس ہوا کہ در حقیقت میری تقریر سب کمیٹیوں کی رپورٹوں پر غور کرنے سے پہلے ہونی چاہئیے.بجائے سب کمیٹیوں کے تقرر کے وقت کے.کیونکہ ایک دن کی بات کا اثر دوسرے دن تک کچھ نہ کچھ کمزور ہو جاتا ہے.کل میں نے بات کو مختصر کیا تھا کیونکہ میرا ارادہ تھا کہ زیادہ وضاحت کے ساتھ ہدایات کل بیان کروں گا.گو یہ مطبوعہ پروگرام کے خلاف ہے لیکن ضرورتِ حقہ یہ ہے کہ سب کمیٹیوں کی رپورٹوں پر غور کرنے سے پہلے ضروری ہدایات دی جائیں.مقررہ وقت پر نہ آنے کی وجہ سب سے پہلے تو میں یہ عذر بیان کرتا ہوں کہ کل میں نے آپ لوگوں کو تاکید کی تھی کہ مقررہ وقت پر پہنچ جائیں.لیکن میں خود ۱۵ منٹ دیر سے آیا ہوں وجہ یہ ہوئی رات کو نماز کے وقت طبیعت خراب ہو گئی پھر پچپش لگ گئی.اس تکلیف کی وجہ سے صبح ملاقات 9 بجے شروع ہو سکی.چونکہ بعض دوستوں کو ضروری معاملات کے متعلق گفتگو کرنی تھی اس لئے انہیں لمبا وقت
خطابات شوری جلد اوّل ۵۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء دینا پڑا اور بجائے ۱۰ بجے کے ابجے ملاقاتوں کا سلسلہ ختم ہوا.آداب مجلس اس کے بعد میں احباب کو اُس ادب کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس پر ہر مجلس میں عمل ہونا چاہئے اور جو کسی مذہب سے متعلق نہیں بلکہ ہر مذہب کے لوگوں کے لئے ضروری ہے مگر بعض دوست اُسے بھول جاتے ہیں.وہ یہ ہے کہ جب مجلس شروع ہو تو آپس میں باتیں نہیں کرنی چاہیں.یہ شکایت کل مجھے اپنے سامنے والے اصحاب سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ اُن کی طرف سے پیدا ہوئی جو میرے پیچھے بیٹھے ہیں اور جو سلسلہ کے کارکن ہیں.جب میں تقریر کر رہا تھا تو دو ناظر منٹوں آپس میں بے تکلفی سے باتیں کرتے گئے.یہ آداب مجلس کے صریح خلاف ہے اور خلاف ورزی کرنے والے صدر انجمن احمد یہ کے ناظر تھے.وہ نہایت ذمہ واری کے کام پر مقرر ہیں مگر خلیفہ تقریر کر رہا ہے اور وہ اُس کی بغل میں بیٹھ کر کوئی ایک بات نہیں بلکہ لمبا سلسلہ گفتگو شروع کر دیتے ہیں.گویا گھروں کے جھگڑے اسی وقت طے کرنے بیٹھے ہیں.یہ شکایت مجھے پہلے بھی پیدا ہوئی تھی.اس کی طرف میں توجہ دلاتا ہوں اور اب وضاحت کے ساتھ بتاتا ہوں کہ آئندہ اگر کسی ناظر کے متعلق یہ شکایت پیدا ہوئی تو میں ہدایت جاری کر دوں گا کہ اُسے مجلس شوری سے خارج کر دیا جائے.اگر کوئی ضروری بات کرنی ہو تو کاغذ پر لکھ کر کر لینی چاہئے.یا اگر چھوٹا سا فقرہ کہہ دیا جائے تو اس کی وجہ سے تقریر میں حرج واقعہ نہیں ہوتا مگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ لمبا سلسلہ گفتگو چلتا ہے.ایک بزرگ کا قصہ ایک بزرگ گزرے ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جج تھے.انگریزی کی کتابوں میں بھی ان کے قصے آتے ہیں.ایک قصہ میں ذکر ہے کہ ان کے سامنے گواہوں کی ایک جماعت پیش ہوئی.تو ان میں سے ایک کے متعلق اُنہوں نے کہا کیا آپ اُستاد ہیں؟ اس نے کہا ہاں.کسی نے پوچھا آپ نے کس طرح معلوم کر لیا کہ یہ استاد ہیں؟ انہوں نے کہا استاد کا طالب علموں سے واسطہ پڑتا ہے اور وہ حکم چلانے کا عادی ہوتا ہے اِس وجہ سے اس میں بھی آداب مفقود ہو جاتے ہیں.ممکن ہے قدرتی طور پر حکم کرنے والوں سے آداب مفقود ہو جاتے ہوں مگر اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.اسلام میں جتنا کوئی بڑا ہو اتنا ہی زیادہ مؤدب ہوتا ہے.اس بات کو
خطابات شوری جلد اوّل ۵۷۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء خاص طور پر مد نظر رکھنا چاہئے اور اس کے مطابق اپنا طریق عمل بنانا چاہئے.اس کے بعد میں پھر جماعت کو مشورہ کے مشورہ کے متعلق ضروری ہدایات اوقات کے متعلق یہ ہدایت دیتا ہوں کہ مشورہ دیتے وقت یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ دُنیا میں عظمند سے عقلمند انسان دوسرے سے سبق حاصل کر سکتا ہے اور کسی کی بات رڈ کرنے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اُس کی بے وقوفی کا اعلان کیا جاتا ہے.بسا اوقات ایسا شخص ۹۹ دفعہ اچھی بات سوچ لیتا ہے لیکن سوویں دفعہ اُسے دوسرے سے سبق مل جاتا ہے.امام ابو حنیفہ کے متعلق آتا ہے، اُن سے کسی نے پوچھا آپ کو بھی کوئی ایسا شخص ملا ہے جس نے آپ کو کوئی سبق دیا ہو؟ انہوں نے کہا کئی لوگوں سے میں نے سبق حاصل کئے مگر سب سے زیادہ یا درہنے والا سبق وہ تھا جو ایک لڑکے نے دیا.واقعہ یہ ہوا کہ بارش ہو چکی تھی اور وہ لڑکا دوڑتا پھرتا تھا.میں نے اُسے کہا میاں لڑکے! سنبھل کر چلو ایسا نہ ہو کہ گر پڑو اور چوٹ لگے.لڑکا بہت ہی زیرک تھا میری طرف دیکھ کر کہنے لگا اگر میں گرا تو مجھے ہی چوٹ لگے گی لیکن اگر آپ گرے تو لاکھوں انسانوں کو پہنچے گا.امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ یہ ایسا قیمتی سبق تھا کہ اس پایہ کا اور کوئی سبق مجھے نقصان نہیں ملا.اصل بات یہ ہے کہ عقل خدا تعالیٰ کی دین ہے.اُس نے عقل تقسیم کرتے وقت ساری کی ساری کسی ایک کو نہیں دے دی بلکہ سب میں بانٹ دی ہے.یہی وجہ ہے کہ بدصورت سے بدصورت چیز کے بھی بعض حصے خوبصورت ہوں گے.اسی طرح بیوقوف سے بیوقوف کی بات کا بھی کوئی نہ کوئی حصہ اچھا ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک خادم پیرا نام تھا.وہ اتنا کم فہم تھا کہ حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ ہفتوں بڑی کوشش سے اُسے کلمہ یاد کرایا.ایک دفعہ اُس سے کسی نے پوچھا تمہارا مذ ہب کیا ہے؟ کہنے لگا ہمارے گاؤں کے پیچ کو معلوم ہے اُس سے پوچھ کر بتاؤں گا مگر باوجود ایسی عقل و سمجھ رکھنے کے وہ بھی بعض اوقات عقل کی بات کر جاتا تھا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تار دینے کے لئے اُسے بٹالہ بھیجا.وہاں سے آ کر اُس نے بتایا کہ مجھے مولوی محمد حسین بٹالوی ملا تھا.کہنے لگا وہاں کیوں رہتے ہو؟ وہاں سے چلے جاؤ اور بھی بہت باتیں کرتا رہا.
خطابات شوری جلد اوّل ۵۷۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء میں نے اُسے کہا میں کچھ پڑھا لکھا تو ہوں نہیں مگر اتنا جانتا ہوں کہ مرزا صاحب وہاں اپنے گھر میں بیٹھے ہیں اور لوگ دُور دُور سے اُن کے پاس آتے ہیں.تم لوگوں کو اُن کے پاس جانے سے روکتے رہتے ہو مگر کوئی تمہاری بات نہیں سنتا اور تم ادھر اُدھر مارے مارے پھرتے ہو.یہ اُس کے منہ سے بھی ایسی بات نکل گئی جو بالکل سچی اور پکی تھی اور جس کا مولوی محمد حسین صاحب جیسے عالم کے پاس کوئی جواب نہ تھا.پس اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ اس کے سوا کوئی اور عقل کی بات نہیں کر سکتا تو یہ غلط خیال ہے اور اس وجہ سے اپنی بات کی بیچ اور ضد پیدا ہو جاتی ہے.ہر ایک کی بات غور اور توجہ سے سنو خدا تعالیٰ کبھی چھوٹے سے چھوٹے بچہ کے ذریعہ ہدایت جاری کرا دیتا ہے اور کبھی بڑے سے بڑے انسان کے ذریعہ.اس لئے مشوروں کے وقت یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ہم نہیں جانتے ہدایت کی بات کس کے منہ سے نکلے گی.ہم جو کچھ کہیں گے دیانت سے کہیں گے اور دوسروں کی باتیں سنیں گے.بسا اوقات مجھ سے ایسا ہوا ہے کہ تعلیم یافتہ دوستوں نے جو مشورہ دیا وہ صحیح نہ تھا مگر ایک دیہاتی نے جو مشورہ دیا گو اس کی زبان شستہ نہ تھی اور وہ لکھا پڑھا نہ تھا مگر اُس کا مشورہ صحیح تھا.پس مشورہ دیتے وقت بلکہ دوسروں کا مشورہ سنتے وقت خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کیا عجب ہے خدا تعالیٰ اسی کے ذریعہ جو بول رہا ہے ہدایت جاری کر دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت سوال پیدا ہوا کہ نماز کے لئے کس طرح لوگوں کو بلایا جائے.اس کے متعلق ایک عام شخص کو طریق بتایا جب اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور وہ طریق بیان کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی کہا کہ مجھے بھی یہی طریق بتایا گیا تھا اور وہ اذان تھی.تو دینی معاملہ میں بھی ہدایت ایک معمولی آدمی کے ذریعہ جاری ہو سکتی ہے.پس ہر ایک کی بات غور اور توجہ سے سنی چاہئے.ایک عام مرض آجکل یہ عام مرض ہے کہ جب اپنے سے کوئی چھوٹا شخص بات کر رہا ہو تو اُس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی بلکہ منہ دوسری طرف پھیر لیا جاتا ہے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ جب کوئی آپ سے بات کرتا تو
خطابات شوری جلد اوّل ۵۷۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء آپ اُس کی طرف متوجہ رہتے اور اُس کی بات غور سے سنتے.پس ہر بات کو غور سے سُننا چاہئے ورنہ شوریٰ کی کیا ضرورت ہے؟ شوری کی ضرورت اس طرح خدا تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ اُس کی رحمت مختلف نالیوں کے ذریعہ جاری ہوتی ہے.کوئی بڑا آدمی ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ رحمت نازل کرتا ہے.پس ہر ایک کی بات پورے غور اور توجہ سے سننی چاہئے.ہم نہیں جانتے اس وقت خدا تعالیٰ کے نزدیک کون بڑا ہے اور کون چھوٹا.جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ ہدایت پہنچا رہا ہو ، حقیقت میں وہی بڑا ہے.زمین و آسمان کی اصلاح کی ضرورت پھر یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ہم اللہ تعالی کی جماعت ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جماعتیں فتنہ وفساد کے وقت پیدا ہوا کرتی ہیں، جب دُنیا بہت بڑا تغیر اور بہت بڑی تبدیلی چاہتی ہے تب نبی آیا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک واقعہ ہے جس کا ذکر ڈائری میں آتا ہے.میں اُس وقت وہاں موجود تھا جب وہ واقعہ ہوا.مدرسہ احمدیہ کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی کہ اس کی ضرورت ہے یا نہیں.ایک صاحب تحصیلدار تھے.اُنہوں نے کہا ہمیں ایسے مدرسہ کی کیا ضرورت ہے ہمارا اور دوسرے مسلمانوں کا اتنا ہی اختلاف ہے کہ ہم کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے اور وہ کہتے ہیں زندہ ہیں.دوسرے مسائل میں کوئی اختلاف نہیں وہ مسائل ہم دوسرے مولویوں سے معلوم کر سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ خود مجلس میں تشریف لے آئے اور آپ نے تقریر کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میں یہ بات سُن کر حیران ہو گیا کہ ہمارا اور دوسرے لوگوں کا اختلاف صرف حیات و وفات عیسی علیہ السلام کے متعلق ہے؟ اگر یہی اختلاف ہوتا تو اس کے لئے قطعاً مأمور کی ضرورت نہ تھی.حضرت عیسی کی وفات ماننے والے تو کئی لوگ تھے.سرسید احمد خان بھی حضرت عیسی کی وفات مانتا تھا.اسی قسم کے اور بھی لوگ تھے اس کے لئے مامور کے آنے کی ضرورت نہ تھی.فرمایا یہ غلط ہے.اصل بات یہ ہے ہمارا خدا اور ہے اور اُن کا خدا اور.اُن میں خدا تعالیٰ کے متعلق بیسیوں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں.وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ الہام ختم ہو چکا اور خدا اب اپنے کسی بندہ سے نہیں
خطابات شوری جلد اوّل ۵۷۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء بولتا.پھر اُن کا قرآن اور ہے اور ہمارا اور.وہ سمجھتے ہیں قرآن کی کئی آیات منسوخ ہیں مگر ہم اس کا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں مانتے.اُن کی سمجھ میں جو آیت نہ آئی اسے منسوخ قرار دے دیا.اس سے بڑھ کر قرآن پر اور کیا ظلم ہو سکتا ہے.پھر وہ مسلمان ہی ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن کو ننگے نہاتے دیکھا اور اُس پر عاشق ہو گئے.نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ) پس کوئی ایک بات نہیں جس میں اُن سے ہمیں اختلاف ہے بلکہ انہوں نے اسلام کا نقشہ ہی اس طرح بدل دیا ہے کہ وہ پہچانا نہیں جاتا.پھر اُن کے دلوں کا نقشہ بدل گیا ہے.اُن کے دلوں سے خدا تعالیٰ کی محبت مٹ چکی ہے.تو فرما یا اسلام کی ہر چیز کو انہوں نے بدل دیا اس لئے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا.پھر آپ کا کشف کہ نیا آسمان اور نئی زمین بنائیں سے یہ نہیں کہا کہ چھت کی کڑیوں اور دیوار کے پلستر کو ٹھیک کریں بلکہ یہ کہا کہ نیا آسمان اور نئی زمین بنا ئیں.اگر عوام کی حالت کو دکھانا تھا تو یہ بتایا جاتا کہ چاند خراب ہو گیا ہے اس کو درست کریں.سورج خراب ہو گیا ہے اسے درست کریں مگر اس کی بجائے یہ دکھایا گیا کہ نیا آسمان اور نئی زمین بنائیں.گویا دنیا کلی طور پر بگڑ چکی تھی اور اس کی اصلاح کی ضرورت تھی اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خصوصیت نہیں ہر نبی اُسی وقت آتا ہے جب زمین و آسمان بگڑ چکا ہو یا مکمل نہ ہو اُس کو مکمل کرنے کے لئے آئے.بہر حال نبی کی آمد زمین و آسمان کی اصلاح کے لئے ہوگی.احمدی اور غیر احمدی میں فرق پس جو تغیر ہم نے کرنا ہے وہ دُنیا سے نرالا ہے مگر بہت دوست مشوروں میں اُن لوگوں کی نقل کرتے ہیں جنہیں ہم سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے اور اُن کی نقل سامنے رکھ کر کہتے ہیں ہمیں بھی یوں کرنا چاہئے.یاد رکھنا چاہئے کہ ہر چیز اپنے ساتھ ماحول رکھتی ہے اور اُسے اگر ماحول سے علیحدہ کر دیا جائے تو اس کا اثر کچھ نہیں رہتا.اصل چیز ماحول ہی ہوتا ہے.اگر کوئی کہے کہ ایک انگریز اور ایک ہندوستانی میں کیا فرق ہے تو شاید کوئی بعض باتیں بتا دے مگر وہ کئی اوروں میں ہوں گی.لیکن اگر کوئی انگریزوں کی سوسائٹی میں جائے تو چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اُسے فرق نظر آئے گا.پھر ہندوستان ہی میں رہنے والے پنجابی اور بنگالی میں چھوٹی
خطابات شوری جلد اوّل ۵۸۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء چھوٹی باتوں میں فرق نظر آئے گا.جب اس طرح فرق پایا جاتا ہے تو کیا پھر ہمارے اور دوسرے لوگوں میں فرق نہ ہو گا ؟ جب کہ ہم نے نیا آسمان اور نئی زمین بنانی ہے.اس فرق کو ہر وقت مد نظر رکھنا چاہئے اور اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہر بات کہنی چاہئے.طریق کار کو بدلنے کی ضرورت تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بجٹ کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح پورا کیا جائے.میں نے پہلے بھی یہ بات بیان کی ہے اور اب پھر بیان کرتا ہوں.ایک طرف یہ بات ضروری ہے کہ آمد و خرچ برابر رکھیں اور اگر اسے برابر نہیں رکھ سکتے تو لازماً دو باتوں میں سے ایک طریق اختیار کرنا پڑے گا.یا تو یہ کہ خرچ میں کمی کریں یا یہ کہ طریق کار کو بدل دیں.یہ کہ آمد خرچ کے برابر نہ کر سکیں اور خرچ بڑھاتے جائیں یہ بے وقوفی ہو گی.دوسری طرف یہ بھی بے وقوفی ہوگی کہ آمد خرچ کے برابر نہ ہو تو ایک ہی طرف جائیں کہ خرچ کم کر دیں.کیا پتہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس کام سے جسے خرچ کم کرنے کی خاطر بند کر دیا جائے عظیم الشان نتیجہ پیدا کرنا چاہتا ہو.اس حالت میں یہی طریق اختیار کرنا چاہئے کہ اس بجٹ کے طریق کو بدل دیں جس سے آمد خرچ کے برابر نہیں ہوتی.بجٹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت نہ ہوتا تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے وقت نہ ہوتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت نہ ہوتا تھا، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے وقت بھی نہ ہوتا تھا اُس وقت صرف یہ سوال ہوتا تھا کہ فلاں کام کرنا ہے اس کے لئے تیاری کرو.ہمارا بھی یہی طریق ہونا چاہئے کہ جو کام کرنا ہو اُس کے لئے تیاری کریں.پس ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ جو کام ہم کر رہے ہیں وہ ضروری ہیں یا نہیں؟ اگر ضروری ہیں تو پھر ان کو کرنے کے لئے طریق کار کو بدل دینا چاہئے اور اگر کوئی کام ضروری نہیں تو بجٹ میں گنجائش ہو تو بھی نہیں کرنا چاہئے.بہر حال ضروری کام کے وقت یہ غور کرنا ہو گا کہ اُسے کس طرح سرانجام دیا جائے.مثلاً یہاں بعض کا رکن تنخواہ اڑھائی سو ، دو سو ، ڈیڑھ سو تک لیتے ہیں.ہم جماعت کے لوگوں سے اپیل کریں کہ آؤ تم اس سے کم تنخواہ پر یہ کام کرو.یا جو کام کرنے والے ہیں اُن سے کہیں کہ تم کم تنخواہ پر کام کرو.یا مثلاً تبلیغ کا صیغہ ہے، اس کے متعلق غور کر لیا جائے کہ فلاں فلاں کام جو ہو رہا ہے وہ ضروری ہے یا نہیں؟ پس بجٹ کے متعلق غور کرتے وقت
خطابات شوری جلد اوّل ۵۸۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء یہ دیکھنا چاہئے کہ کام ضروری ہے یا نہیں؟ اگر ضروری ہے تو اُس کے لئے روپیہ مہیا کرنا چاہئے لیکن اگر روپیہ مہیا نہ کر سکیں تو طریق کار کو بدل دیں اور میں سمجھتا ہوں طریق کار کو بدل دینے سے کئی کام ہو سکتے ہیں جو ابھی تک یونہی پڑے ہیں.آمد بڑھانے پر زور دیا جائے کیا ہیں ؟ پس ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ جو کام ہمارے پیش نظر ہیں وہ ضروری ہیں یا نہیں.اگر ضروری ہوں تو ان کے لئے جس طرح ممکن ہو خرچ مہیا کرنا چاہئے.یہ نہیں جیسا کہ گزشتہ سالوں میں ہوتا رہا ہے کہ آمد پر غور ہی نہیں کیا جاتا اور اس پہلو پر زور ہی نہیں دیا جاتا.پچھلے سال میں نے اس پر زور دیا تھا کہ ہر ایک احمدی سے ضرور چندہ لیا جائے.اس کا اثر یہ ہوا کہ چندہ عام میں ۳۸ فیصدی اور چندہ وصیت میں ۲۵ فیصدی زیادتی ہوئی.گو بجٹ میں پھر بھی کمی رہی مگر ساری جماعت میں اس پر عمل نہیں ہوا.اگر اس پہلو پر زور دیں تو آمد میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے اور اس سال کے تجربہ نے بتا دیا ہے کہ بہت سانقص آمد بڑھانے پر زور نہ دینے کی وجہ سے ہے.یہاں جماعتوں کے جو نمائندے آتے ہیں وہ خرچ کو کم کرنے پر زور دیتے ، آمد بڑھانے کی طرف اُن کی توجہ نہ ہوئی.اگر اس پہلو پر زور دیا جائے تو جماعتوں میں بیداری بھی پیدا ہو سکتی ہے اور آمد بھی بڑھ سکتی ہے.اس سال ہر احمدی سے چندہ وصول کرنے پر مکمل طور سے عمل نہیں ہوا.اگر مکمل طور پر عمل ہوتا تو نہ صرف بجٹ پورا ہو جاتا بلکہ بہت سا قرضہ بھی ادا کرنے کے ہم قابل ہو سکتے تھے.پہلے بجٹ آمد ۲ لاکھ ایک ہزار تجویز ہوا تھا پھر جائنٹ ناظروں کی تشخیص کے بعد ۲ لاکھ ۷۳ ہزار ہوا تھا.یہ بھی پوری تشخیص نہ تھی پوری تشخیص ہونے پر پچاس فیصدی ترقی ہو سکتی تھی.بہر حال یہ معلوم ہو گیا کہ آمد بڑھانے کے ذرائع موجود ہیں مگر ان کو استعمال نہیں کیا جاتا.اب بھی میں سمجھتا ہوں کہ اس طریق کو جاری رکھنے سے آئندہ اور بھی بجٹ آمد میں ترقی ہوگی.ضروری کام بہر حال کرنے ہیں پس مشورہ دیتے وقت یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ جو ضروری کام ہیں وہ بہر حال ہونے ہیں.ان کے متعلق یہ جواب نہیں دیا جا سکتا کہ روپیہ نہیں ہے بلکہ طریقِ کار بدلنا ہو گا.کیا وجہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت صحابہ کو ہجرت کرنی پڑی مگر ہماری جماعت کے
خطابات شوری جلد اوّل ۵۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء لوگ ہجرت نہ کریں.اگر اسی طرح کام چل سکتا ہو کہ یہاں کے کارکن آنریری طور پر کام کریں اور تنخواہوں کا سسٹم اُڑا دیا جائے تو کیوں ایسا ہی نہ کیا جائے.بہر حال سلسلہ کا کام ہونا چاہئے.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں کام ہم نہیں کر سکتے.وہ کام جسے خدا تعالیٰ نے ضروری قرار دیا ہے اسے ہم کسی صورت میں رد نہیں کر سکتے.ترقی کے لئے موت قبول کرنا ضروری ہے چوتھی بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت ایک ایسے مرحلہ سے گزر رہی ہے کہ میرے نزدیک ایسا معلوم ہوتا ہے بہتر اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جیسے ولادت کے وقت زچہ کی حالت ہوتی ہے وہی ہماری جماعت کی حالت ہے.دُنیا میں ہر وہ قوم جو ترقی کی طرف جاتی ہے موت قبول کرتی ہے.اس زمانہ میں ہمارے لئے بھی ویسی ہی موت تیار ہے.چونکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے زندگی پیدا کی ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے لئے وہ موت نہیں ہے جس کا نتیجہ عدم ہوتا ہے بلکہ وہ موت ہے جس کے بعد ولادت ہوتی ہے.جس طرح زچہ کے لئے اُس وقت کی تکلیف بہتر خیال کی جاتی ہے ایسا ہی ہمارے لئے یہ زمانہ بہتر خیال کیا جا سکتا ہے.اگر اس میں ہم کامیاب ہو گئے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ جماعت کو دوام حاصل ہو جائے گا لیکن اگر ہم سستی اور کوتاہی کریں گے تو خدا کے کام پر موت وارد نہ ہوگی البتہ ہمارے اوپر الزام عائد ہوگا.جماعت احمدیہ کی مخالفت گزشتہ دنوں کے خطبات میں میں نے بتایا ہے کہ ہمارے خلاف مخالفت کی ایک عام رو چلی ہوئی ہے.اس کے متعلق میں نے مختلف لوگوں سے گفتگو کی.اُن کی طرف سے اس قدر اسباب اس مخالفت کے بیان کئے جاتے ہیں کہ ان میں سے کسی کو بھی حقیقی نہیں کہہ سکتے.پچھلے دنوں میں لاہور گیا تو پولیس کے ایک بڑے افسر ملنے کے لئے آئے.اُن سے میں نے پوچھا کیا آپ کے نزدیک بھی آجکل ہماری مخالفت بڑھ گئی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں.میں نے کہا آپ کے نزدیک اس کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگے آپ لوگ چونکہ سیاست میں حصہ لینے لگے ہیں، اس لئے بد دیانت لوگوں کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ اب ان کے ہاتھ سے کام نکل جائے گا.میرے نزدیک یہ بھی ایک وجہ ہے.مگر کئی اور جگہ اس قسم کے اسباب نہیں مگر وہاں بھی
خطابات شوری جلد اوّل ۵۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء مخالفت زوروں پر ہے.دراصل یہ مخالفت کی کرو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے اور اس کی غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اُس سے مانگیں تا کہ ہمیں دیا جائے.جس طرح ماں بعض اوقات چاہتی ہے کہ بچہ دودھ مانگے تو اُسے دے اسی طرح خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اُس سے مانگیں.پس یہ الہی فعل بتاتا ہے کہ ہمیں کچھ ملنے والا ہے مگر اس کے لئے ضرورت ہے کہ ہم مانگیں.خدا تعالیٰ سے مانگنا کچھ تو دُعا سے ہوتا ہے اور کچھ عمل سے.پس اس وقت ہماری وہی حالت ہے جیسا کہ کتابوں میں آتا ہے کہ کوئی بزرگ تھے.کسی نے اُن کی بہت خدمت کر کے انہیں خوش کیا تو وہ کہنے لگے جو کچھ مانگنا چاہتے ہو مانگ لو.پس خدا تعالیٰ ہمیں کچھ دینا چاہتا ہے اور یہ اُس کی سنت ہے کہ جس کو وہ دینا چاہتا ہے اُسے ابتلاء میں ڈالتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی مشکلات پیش آئیں.اس وقت آپ کو الہام ہوا.چل رہی ہے نسیم رحمت کی جو دُعا کیجئے قبول ہے آج 2 یہ موقع ہمارے لئے بھی آیا ہوا ہے.اگر ہماری جماعت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہم خوب جانتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور قلم برداشتہ لکھ سکتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم حق پر ہیں.کئی لوگ لکھتے.لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ کے ماتحت لکھو کہ تم حق پر ہو اور میں فوراً لکھ دیتا ہوں.پس جب ابتلاء خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے اور کچھ انعام دینے کے لئے آئے تو زیادہ ہمت، زیادہ قربانی اور زیادہ ایثار کی رُوح پیدا کرنی چاہئے تا کہ انعامات ملیں.پس ہمیں خدا تعالیٰ کے خاص فضل حاصل کرنے کے لئے عملی قربانی کرنی چاہئے اور دعاؤں پر بہت زور دینا چاہئے.ایک دفعہ پھر نصیحت ان ہدایات کے بعد اب میں سب کمیٹیوں کو باری باری بلاؤں گا کہ اپنی رپورٹیں پیش کریں مگر ایک دفعہ پھر یہ نصیحت کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ سنجیدگی اور متانت کے ساتھ تمام کارروائی کی طرف توجہ قائم رکھیں.اگر کوئی غریب سے غریب بھائی بھی بولنے کے لئے کھڑا ہو تو اُس کی باتیں توجہ اور غور سے سننی چاہئیں.مجھے خدا تعالیٰ نے اس درجہ کے لحاظ سے عقل اور سمجھ بھی دی ہے مگر میں نے بیسیوں دفعہ ایسے لوگوں کے منہ سے وہ باتیں سنیں جو بڑوں سے سننے میں نہ آئیں اور ان
خطابات شوری جلد اوّل ۵۸۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء سے فائدہ اُٹھایا.جب میں ان سے فائدہ اُٹھا سکتا ہوں تو پھر سمجھ نہیں سکتا کہ آپ لوگ کیوں فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.مجلس شوری کا نمبر ہونے کے لحاظ سے ہر شخص کا مساوی درجہ ہے اور سب برابر ہیں.کوئی چھوٹا نہیں اور نہ کوئی بڑا ہے اس لئے ہر ایک کی بات کو توجہ اور غور سے سُننا چاہئے اور اگر کسی کی بات کے خلاف کچھ کہنا ہوتو اُس کا نام نہیں لینا چاہئے اور نہ اُسے مخاطب کرنا چاہئے بلکہ خطاب میری طرف ہونا چاہئے.پھر ایک ہی بات کو دُہرانا نہیں چاہئے اس طرح وقت ضائع ہوتا ہے.“ سب کمیٹی دعوۃ وتبلیغ کی رپورٹ پیش ہوئی پبلک مباحثات کے بارہ میں ہدایات کہ پاک مناظرہ اور مباحثہ سے حتی الوسع اجتناب کیا جائے.تاہم اگر کسی جگہ خاص حالات کی وجہ سے مجبوراً کرنا ہی پڑے تو مرکز سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہوگا.اس پر تفصیلی بحث ہوئی اور چند احباب نے ترامیم پیش کیں.رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا :- موجودہ ریزولیوشن کا مفہوم یہ ہے کہ آئندہ جماعت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ مباحثات کے طریق کو اپنے قلوب میں نا پسند کرے، کسی کو خود چیلنج نہ دے.اگر یہ چیز اچھی ہوتی تو جماعت کو ترغیب دی جاتی کہ خود ایسا کرے مگر یہ ریزولیوشن قرار دیتا ہے کہ یہ محبوب چیز نہیں ہے کہ اس کو جاری رکھا جائے بلکہ جس طرح اسلام جنگ کو پسند نہیں کرتا اور یہ نہیں کہتا کہ قتل کرو لیکن اگر دشمن مجبور کرے تو پھر کہتا ہے کہ جنگ کرنی چاہئے.اسی طرح مباحثہ کا حال ہے.اگر مخالف مباحثہ کے لئے چیلنج دے اور مجبور کرے مگر پھر بھی دیکھا جائے اور جماعت یہی سمجھے کہ شرارت کرتا ہے اور فساد کا خطرہ ہے تو چیلنج نہ قبول کرے.لیکن جب دیکھے کہ منظور کرنا ضروری ہے اور اس کے بغیر چارہ نہیں تو منظور کر لے.مگر پھر اس کے لئے یہ کوشش کرے کہ مباحثہ تحریری ہو.اگر یہ ناممکن ہو اور حالات مجبور کرتے ہوں کہ چیلنج قبول کیا جائے تو جماعت مرکز میں رپورٹ کرے کہ ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں دشمن نے چیلنج دیا ہے اور ہم مجبور ہیں کہ منظور کریں اس کے لئے اجازت دی جائے.پھر جب اجازت ملے تو شرائط اور تاریخ وغیرہ مقرر ہو.اس میں پھر استثناء ہے کہ اپنا مقامی مبلغ ہو تو اُس کے لئے اجازت مرکز سے لینے کی ضرورت نہ ہو یا مرکزی مبلغ موجود ہو اور وہ متفق ہو کہ چیلنج رڈ
خطابات شوری جلد اوّل ۵۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء کرنا مقامی حالات کے رو سے مناسب نہیں اور جماعت بھی یہی سمجھے اور مبلغ کا پروگرام بھی نہ ٹوٹے تو اس صورت میں چیلنج منظور کر لینا چاہئے.فیصلہ میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے بیان کئے گئے ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثات کو پسند نہیں کیا بلکہ ایسی چیز قرار دی ہے جیسے جنگ کی مثال ہے.دوسرا حملہ کرے تو اجازت ہے کہ مقابلہ کریں اور وہ بھی اجازت ہے حکم نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابتدائی وقت میں دشمن حملہ کرتے تو جنگ سے گریز کے لئے کہا جاتا یہاں تک کہ ایک وقت آ گیا جب مقابلہ ضروری ہو گیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثات کو نا پسند کیا ہے مگر پھر بھی آپ کے زمانہ میں مباحثات ہوئے.یہ ٹھیک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کے لحاظ سے خدا نے آپ کو مباحثات کرنے سے روک دیا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ جماعت میں ایسے بالغ ، عاقل افراد مذہبی لحاظ سے پیدا ہو گئے ہیں کہ جو یہ بوجھ اُٹھا سکیں.ہماری یہ تجویز اُسی روح کو تازہ کرنے والی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کی کہ مباحثات سے حتی الامکان بچنا چاہئے اور انفرادی تبلیغ اور تقاریر پر زور دیا جائے.اگر مخالفین کی طرف سے مباحثہ کا چیلنج ملے اور مباحثہ نہ کرنے کی صورت میں یہ اثر پڑتا ہو کہ گویا ہماری طرف سے فرار ہے تو بہتر ہے کہ مباحثہ تحریری ہو.میں اسے منظور کرتا ہوں.دوسرا حصہ جو یہ ہے کہ مبلغ موجود ہو یا مقامی لوگ مباحثہ کر سکیں تو مرکز سے اجازت لینے کی ضرورت نہ ہو اس میں بعض خطرات باقی رہ جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص مباحثہ کر لیتا ہے کہ وہ جو تحریر دے وہ کمزور ہو.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جب وہ شائع ہوگی تو لوگوں پر یہ اثر پڑے گا کہ احمدی جواب نہیں دے سکے...ایسا جواب اگر مناظرہ میں دیا اور یہ چھپ جائے تو ہماری بہت سبکی ہوگی اور مقامی بات مقامی نہیں رہتی بلکہ پھیل جاتی ہے.ابھی پٹھانکوٹ کا واقعہ ہوا وہاں ایک مخالف آیا جس نے سخت بدزبانی کی.اُس کا جواب بجائے تقریری کے تحریری دیا گیا اور تحریر سخت لکھی گئی.اب وہ تحریر جہاں جہاں پھیلے گی لوگ خلاف ہو جائیں گے کہ ہمیں بُرا بھلا کہا گیا ہے.اسی طرح کوئی بات مقامی
خطابات شوری جلد اوّل ۵۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء نہیں رہ سکتی.اس وجہ سے میں تقریری مباحثات کو ترجیح دوں گا.جہاں مقامی مناظر پیش ہو یعنی وہ تقریری مناظرہ کرے تحریری نہ کرے اور اگر تحریری کرے تو انفرادی طور پر کرے جماعت کی طرف سے پیش نہ ہو.یعنی جہاں مرکزی مبلغ مناظرہ کرے وہاں تحریری مناظرہ کو ترجیح دی جائے اور جہاں مقامی مناظر پیش ہو وہاں تقریری کو.مرکزی مناظر کی صورت میں تمام ذمہ واری مرکزی مناظر کی سمجھی جائے گی اور اُس کا یہ کہنا کافی نہ ہو گا کہ مجھے جماعت کی طرف سے مناظرہ کے لئے مجبور کیا گیا تھا.“ التوائے جلسہ سالانہ گزشتہ سال کی طرح اس سال ( یعنی ۱۹۳۴ء) پھر یہ سوال سامنے آیا کہ رمضان کی وجہ سے جلسہ سالانہ دسمبر کی مقررہ تاریخوں کی بجائے کسی اور مناسب وقت پر منعقد کیا جائے.اس بارہ میں سب کمیٹی دعوۃ وتبلیغ نے تجویز پیش کی کہ : - " جلسہ سالانہ ماہ دسمبر میں مقررہ تاریخوں پر ہی ہو.انتظامی مشکلات کے متعلق ہر دو منتظمین جلسہ سالانہ نے اظہار کیا کہ کسی اور موسم میں جلسہ کا انعقاد زیادہ مشکلات کا باعث ہو گا.“ اس پر کئی احباب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جس کے بعد حضور نے فرمایا : - اب سوال یہ پیش ہے کہ آئندہ سال سے جلسہ کن ایام میں ہو؟ ان ہی دسمبر کے مقررہ ایام میں ہو خواہ وہ ایام رمضان میں پڑیں یا اور دنوں میں ہو.اور دنوں کے لئے پوچھا گیا تو سوائے ایسٹر کے کوئی موقع نہیں بتایا گیا.میں اس بارے میں رائے لینے سے پہلے بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں.جو تقریریں کی گئی ہیں وہ بالعموم اپنے دائرہ میں رہ کر اور اُن اصول کو مدنظر رکھ کر کی گئی ہیں جو رکھنے چاہئیں تھے مگر افسوس کہ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے جو تقریر کی شاید ان کی طبیعت ناساز تھی کہ اس وجہ سے ایسی باتیں کہہ گئے جن کے متعلق میں کچھ کہنا ضروری سمجھتا ہوں.انہوں نے پانچ باتیں کہیں اور پانچوں ہی ایسی ہیں کہ ضرور ہے میں ان کے متعلق کچھ کہوں.انہوں نے پہلے یہ سوال اُٹھایا کہ جلسہ کے ایام کے متعلق سوال کو پیش ہی کیوں کیا گیا حالانکہ خلیفہ کا اس کے متعلق فیصلہ تھا کہ پیش ہو.اور ان کے یہ کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ خلیفہ کا خواہ حکم تھا تو پھر بھی میں چونکہ نہیں چاہتا کہ پیش ہو اس لئے کیوں پیش کیا گیا.
خطابات شوری جلد اوّل ۵۸۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء اگر چہ اِس طرف اِن کو توجہ بھی دلائی گئی مگر پھر ہیر پھیر کر یہی کہنے لگے کہ کیوں یہ سوال پیش کیا گیا؟ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ خلیفہ کی لمبی تقریر کی کیا ضرورت ہے اگر کسی کو یہ سوال پیدا ہو کہ لمبی تقریر سے تکلیف ہوتی ہے اور حضور بیمار ہو جاتے ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ لمبی تقریر کریں.غرض اُن کے نزدیک اس بات کو مجلس شوریٰ میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں.مگر اس سے عجیب سوال پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ لمبی تقریر نہ ہو بلکہ چھوٹی ہو.پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تقریر نہ ہو صرف شکل ہی دیکھ لیں گے.پھر کہا جا سکتا ہے مکان کو ہی چھو لیں گے.اسی طرح قہر پرستی پیدا ہوتی ہے.قبری پھر کہا گیا ہے کہ خلیفہ اسیح کی صحت روزہ رکھ کر تقریر کرنے سے خراب نہ ہوئی تھی حالانکہ رمضان میں تین دفعہ انفلوئنزا کے حملے مجھ پر ہوئے.چوتھی بات یہ کہی گئی ہے کہ جلسہ کے ایام کا بدلنا يُحَرِّفُونَ کا مصداق بننا ہے حالانکہ یہ خدا کا حکم ہے اور شریعت کے طور پر مقرر کیا گیا ہے.اس کے لئے کوئی اور مثال دینا ٹھیک نہیں ہے ہے.جلسہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دسمبر کے ایام میں مقرر کیا ہے مگر آپ نے ان ایام سے ملتوی بھی کیا ہے.گو یہ بات اُن دوست کی ٹھیک نہیں کہ جلسہ نفل ہے.جلسہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہت ضروری قرار دیا ہے.اس میں شمولیت پر بہت زور سے توجہ دلائی ہے اور اسے نفلی حج قرار دیا ہے.اس کا مقام بہت بلند بتایا ہے.یہ عام نفل والی بات نہیں.گو شرعی فرض نہیں بلکہ واجبات میں سے ہے.مگر حضرت خلیفہ اول کے زمانے میں بھی ان ایام کو بدلا گیا اور میرے زمانہ میں بھی بدلا گیا.اس لئے يُحَرِّفُونَ کا فتویٰ مجھ پر بھی اور حضرت خلیفہ اول پر بھی لگ گیا حالانکہ یہ کفار کے متعلق آیت ہے.پانچویں بات مولوی صاحب نے اسی قسم کی یہ کہی ہے کہ احمدیوں کو حقہ پینے سے منع کیا جاتا ہے مگر یہ حکم ہے کہ اگر کوئی پیتا ہے تو اندر پیئے.اس سے یہ غلط نہی لگ سکتی ہے کہ گویا ہم نے یہ حکم دیا ہوا ہے کہ اندر بیٹھ کر حقہ پی لیا کریں حالانکہ میں نے جو کچھ کہا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ جو اتنی بوڑھی عمر کے لوگ ہیں کہ حقہ نہ چھوڑ سکیں وہ اندر پی لیا کریں اور یہ اس
خطابات شوری جلد اوّل ۵۸۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء لئے کہا گیا ہے کہ باہر پینے سے نئی پود پر اثر نہ پڑے.میرا دل بعض دفعہ اس بات سے متاثر ہوا ہے کہ رمضان میں ایسے موقع پر سفر کرنا اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق ہے یا نہیں.مگر یہ درست نہیں کہ رمضان میں جلسہ کرنے سے لوگوں پر بُرا اثر ڈالا ہے.میرے پاس متعدد چٹھیاں آئی ہیں کہ رمضان میں اتنے لوگوں کا انتظام قادیان والوں کا روزہ رکھ کر عمدگی سے کام کرنا بہت متاثر کرنے والی بات ہے.حقی کہ احراریوں پر بھی اس کا اثر ہوا ہے.مگر مجھے اس پر انشراح نہیں کہ رمضان میں دیدہ دانستہ سفر کیا جائے جس کی وجہ سے انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر بڑا حصہ روزہ سے محروم ہو جائے مگر یہ بات شبہ کی حد تک ہے.ادھر گزشتہ سال یہ تجربہ کر لیا گیا ہے کہ کارکن رمضان میں کام کر سکتے ہیں.مگر میں اپنی ذات میں فیصلہ نہیں کر سکا کہ رمضان میں جلسہ ملتوی کرنا ضروری ہے یا غیر ضروری.اس لئے میرے لئے نیوٹرل (NEUTRAL) رہنے والا مسئلہ ہے.لیکچروں کے لحاظ سے رمضان میں اتنے ہی لمبے لیکچر دیئے جائیں جتنے دیئے جاتے ہیں تو ہر ایک پر گراں گزرے گا.رمضان میں درس یوں تو چھ چھ گھنٹے دیتا رہا ہوں مگر آہستہ بولتا تھا مگر اتنے بڑے مجمع کو جو جلسہ پر جمع ہوتا ہے دیر تک مخاطب کرنا مشکل.بھی ہو سکتا ہے لمبے لیکچر کی بجائے کم کر دیا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صبح سویرے ہی لیکچر رکھ دیا جائے.اس پر بھی غور ہو سکتا ہے.غرض اِس میں جو شرعی پہلو ہے قلب ابھی تک اس کے متعلق فیصلہ نہیں کر سکا کہ اتنے لوگوں کا آنا رمضان کے احترام کو کم تو نہیں کرتا.مگر میں یہ بھی نہیں فیصلہ کر سکا کہ کم کرتا ہے.ایسے پہلو بھی ہیں کہ احترام کو بڑھاتا ہی ہو.اس لئے میں اس کے متعلق جماعت کی کثرتِ رائے کو منظور کر لوں گا.پس جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ جلسہ مقررہ ایام میں رمضان میں ہی ہو وہ کھڑے ہو جائیں.“ بہت کثرت سے احباب کھڑے ہو گئے.” جو اس کے مقابلہ میں یہ کہتے ہوں کہ ایسٹر میں جلسہ ہو.وہ کھڑے ہو جائیں.“ (۲۴ رائیں) میں بتا چکا ہوں کہ جماعت کی کثرت کے مطابق فیصلہ کروں گا.میں فیصلہ کرتا ہوں آئندہ بھی جلسہ دسمبر کے مقررہ ایام میں ہی ہوگا.ایک نقص یہ بھی دوستوں
خطابات شوری جلد اوّل ۵۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء نے بتایا ہے کہ اب اگر جلسہ سالانہ مقررہ ایام سے بدلا گیا تو ایک سال کا جلسہ درمیان سے اُڑ جائے گا.“ لڑکیوں کے لئے تعلیمی نصاب سب کمیٹی تعلیم نے لڑکیوں کے لئے اپنا تجویز کردہ نصاب پیش کیا.جس پر کئی احباب نے اپنی رائے کا اظہار کیا.تفصیلی بحث کے بعد حضور نے فرمایا: - مختلف دوستوں نے اپنے خیالات ظاہر کئے ہیں اور اسی رنگ میں کئے ہیں کہ جس میں ہر دوست نے خیال کیا کہ شاید اس کی مُجزوی رائے کواگر نظر انداز کیا گیا تو آئندہ سلسلہ کی تعلیم کو سخت خطرناک نقصان پہنچے گا.میں نے ہمیشہ دوستوں کو سمجھایا ہے کہ انہیں اُس کا رک کی طرح نہ بہہ جانا چاہئے جو دریا میں گر جائے.جب کہہ دیا گیا ہے کہ اصولی بات پیش کرنی چاہئے تفصیلی باتیں اس وقت نہیں ہوسکتیں، تو پھر تفصیلات میں پڑنے کا کیا فائدہ.مگر ساری تقریروں میں ایک دو باتیں اصولی تھیں باقی جنہوں نے کہا یا کچھ کیا ، اس کے متعلق میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وقت ضائع کیا کیونکہ اُن کی تقریروں کو میں نے خود جاری رہنے دیا اس لئے اخلاقی طور پر تو وقت ضائع نہیں ہوا اور روکا اِس لئے نہیں کہ ان کی سبکی نہ ہو مگر عملی طور پر وقت ضائع ہوا ہے، کیونکہ کام کی بات بہت کم کی گئی.بعض دوست ایسے ہیں کہ انہیں بار بار کہا جاوے کہ بس کریں تو بھی بحث شروع کر دیتے ہیں حالانکہ یہاں تو خلافت کا تعلق ہے.پریذیڈنٹ بھی اگر کہے کہ کچھ نہ کہو تو پھر کسی کی مجال نہیں اصرار کرے.مگر یہاں بعض لوگوں کو اتنا غلو ہوتا ہے کہ روکا جائے تو بھی بحث شروع رکھتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوستوں کے دل اتنے کمزور ہیں وہ اِس رو میں بہہ جاتے ہیں جو ان کے سامنے آئے.اس وقت جو اصولی باتیں کہی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ بہت سی لڑکیاں پرائمری کے بعد تعلیم چھوڑ دیتی ہیں.اس کے نصاب میں یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ لڑکیاں رسوم اور سلسلہ کی تعلیم سے پرائمری تعلیم کے دوران میں واقف ہو جائیں، گو یہ کہنے والے دوست نے سب سے زیادہ وقت ضائع کیا مگر یہ اصولی بات تھی جو بیان کی.عام اصول یہ ہے کہ لوگ پرائمری تک تعلیم کافی سمجھتے ہیں اس حد تک ضرور یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ سلسلہ کی اصولی تعلیم کچھ نہ کچھ آ جائے مگر جو کورس تجویز کیا گیا ہے اس میں پرائمری
خطابات شوری جلد اوّل ۵۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء تک در شمشین کی چند نظموں کے سوا کچھ نہیں رکھا گیا.اس لئے پرائمری تک جولڑ کیاں تعلیم ختم کر دیں سوائے اُس تعلیم کے جو گھر پر دین کے متعلق انہیں دی جائے انہیں اور کچھ واقفیت نہ ہوگی.پیرا کبر علی صاحب نے کہا ہے کہ لڑکیوں کی دینی تعلیم گھر پر ہورہی ہوگی مگر سب کی نہیں.جو ٹو مسلم خاندان ہیں اُن کی عورتیں بچوں کو گھر پر تعلیم نہیں دے سکتیں.اور جو مسلمان خاندان ہیں ان کے مرد اور کاموں میں اس طرح مصروف ہوتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتے اور عام طور پر مائیں خود دینی تعلیم سے پوری طرح واقف نہیں ہوتیں.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ پرائمری تک لڑکیاں دینی تعلیم سے ماہر ہو جائیں اور دینی مسائل کے متعلق دلائل سے واقف ہوسکیں مگر بغیر دلائل کے اُن کو اصولی طور پر واقف ہونا چاہئے.اس کے لئے ایسا ہو کہ اُستاد یا اُستانی زبانی طور پر دینی باتیں سکھا دے.(۱) اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عمل سے ثابت ہے اور آپ نے یہی رکھا کہ پہلے قرآن پڑھایا جائے پھر اور تعلیم شروع کرائی جائے.قرآن کریم پڑھانے کے ساتھ کچھ لکھنا پڑھنا بھی سکھایا جا سکتا ہے مگر یہ نہیں کہ قرآن کریم تعلیم شروع کرانے کے تین چار سال بعد جا کر پڑھایا جائے.میری بھی اپنے بچوں کی ماؤں کو یہی ہدایت ہے کہ پہلے قرآن کی تعلیم دو پھر اس کے بعد اور تعلیم دو.پس دینی تعلیم کے لئے اصولی بات یہ ہو کہ ہم ہر بچہ کو خواہ لڑکا ہو یا لڑکی پہلے قرآن کریم ختم کرا ئیں اور پھر اور تعلیم شروع کرائیں.اس طرح قرآن کریم کی تعلیم کو مقدم کر لیا جائے اور اس کے بعد اور تعلیم شروع ہو.ایک تجویز یہ پیش کی گئی ہے کہ انجمن حمایت اسلام کی تجویز کردہ مذہبی کتابیں نصاب میں داخل نہ ہوں کیونکہ اُن میں کئی باتیں ہمارے عقائد اور اسلام کی صحیح تعلیم کے خلاف ہیں.یہ بھی اہم بات ہے اب تو میں نہیں جانتا کہ آجکل ان کتابوں کا کیا حال ہے لیکن جب ہم پڑھا کرتے تھے اس وقت بھی ان کتابوں میں بیسوں باتیں ایسی تھیں جو اسلامی تعلیم کے خلاف تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنگوں کا ہی اس طرح ذکر کیا گیا تھا کہ گویا آپ نے بادشاہ کے طور پر جنگیں کی ہیں.پس اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے (۲) کہ نصاب میں کوئی ایسی کتاب نہ ہو جس میں اسلامی تعلیم کو صحیح رنگ میں پیش نہ
خطابات شوری جلد اوّل ۵۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء کیا گیا ہو.ایسی کتابیں جس قدر جلدی بدلی جاسکیں بدل دی جائیں.اسی طرح قصص ہند کے متعلق جو بات پیش کی گئی ہے وہ ضروری ہے.اس کی تعلیم یہ ہے ہندوؤں کے آباء بڑے نیک اور خدا پرست تھے اور مسلمان ڈاکو اور ظالم تھے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمان بچوں میں افسردگی اور مایوسی پیدا ہوتی ہے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ اسلاف کو بھول جانا چاہئے.یہ کتابیں جس قدر جلد بدلی جاسکیں بدلی جائیں.(۳) اسی طرح مولوی سعد الدین صاحب کی تجویز معقول ہے کہ لڑکیوں کے لئے جسمانی ورزش کا انتظام ہونا چاہئے.ملک گل محمد صاحب کی لڑکیوں کو فارسی پڑھانے کے متعلق جو تجویز ہے وہ بھی ضروری ہے.(۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک دفعہ مرزا محمود بیگ صاحب گوجرہ والے نے پوچھا تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم کیا ہو؟ تو آپ نے اُن کو جو خط لکھا اُس میں یہ بھی تحریر فرمایا کہ فارسی کی تعلیم ضروری ہے.میں ایک کمیٹی اس بات پر غور کرنے کے لئے مقرر کروں گا غو کہ کیوں نہ قرآن کریم پہلے ختم کرانے کے بعد دوسری تعلیم شروع کرائی جائے.نصاب کے متعلق جو کتابیں اس وقت مل سکتی ہیں وہی لے لی جائیں اور جلد سے جلد ایسے کورس تیار کئے جائیں کہ ہر مضمون میں مذہبی اور اسلامی تعلیم مد نظر رہے اور زباندانی بھی ان کے ذریعہ آسکے.میرے نزدیک میاں معراج الدین صاحب کی یہ تجویز نہایت عمدہ ہے کہ زبان دانی میں ہی مسائل بیان کر دیئے جائیں.اس طرح مسائل اور زبان دانی دونوں ہم سکھا لیتے ہیں.بعض عیسائی مدارس میں قرآن کریم اس لئے حفظ کراتے ہیں کہ اس طرح زبان دانی آتی ہے.احیاء العلوم امام غزالی صاحب کی کتاب بھی زبان دانی کے لئے پڑھائی جاتی ہے.حجۃ البالغہ ہے اس کی عربی بھی نہایت عمدہ ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں بہت اعلیٰ پایہ کی ہیں (۵) پس ایسی کتابیں پڑھائی جائیں تاکہ مسائل بھی ان میں آجائیں.یہ طریق یورپ میں رائج ہے مگر مسلمانوں نے چھوڑ دیا ہے.پہلے مسلمانوں میں بھی رواج تھا مگر اب اس قسم کی باتوں پر ہنسی مذاق کیا جاتا ہے.” پکی روٹی، پنجابی کی ایک کتاب ہے جس میں سوال وجواب کے طور پر دینی مسائل بیان کئے گئے ہیں.یورپ میں اب بھی یہ طریق وو
خطابات شوری جلد اوّل ۵۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء جاری ہے.سوال و جواب کا بچوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے.بچوں سے اگر مذہب کے متعلق سوال کئے جائیں تو بہت مفید ہو سکتے ہیں.یہ نفسیات کا نکتہ ہے.پس ایسی کتابیں بنائی جائیں جن میں اس قسم کے سوال و جواب ہوں کہ تم کو پیدا کرنے والا کون ہے ؟ نبی کسے کہتے ہیں؟ سب سے کامل نبی کون ہے؟ مسلمانوں کی مقدس کتاب کون سی ہے؟ اصلاحات ایسی ہیں جو کورسوں کو مؤثر اور عمدہ بنا سکتی ہیں.اس کے متعلق میں 66 کمیٹی بناؤں گا جو جلد سے جلد فیصلہ کرے “ اس موقع پر چند نمائندگان نے مڈل کے نصاب کے متعلق اپنی آراء پیش کیں.اس پر حضور نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: - (4) مدل کے کورس کے متعلق جو باتیں بیان کی گئی ہیں کہ عربی کورس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اسباق رکھے جائیں.یہ مفید چیز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اِن سے غرض یہی تھی کہ لوگ انہیں یاد کریں.پس نہ صرف لڑکیوں کے کورس میں بلکہ لڑکوں کے کورس میں بھی انہیں رکھا جائے.بعض اسباق تو چھپے ہوئے ہیں.بعض میر محمد اسماعیل صاحب کے پاس بغیر چھپے بھی ہیں ان کو لے کر جمع کر دیا جائے.(۷) غلام محمد صاحب کی یہ تجویز کہ تعلیم کے عرصہ کو بڑھا دیا جائے تاکہ زیادہ بوجھ نہ پڑے، اس پر سب کمیٹی غور کر لے گی.حدیث کے متعلق میر محمد اسحق صاحب کی کتاب اگر ایسی ہے جو نصاب میں داخل کی جاسکتی ہے تو اس پر غور کر لیا جائے گا.ایک بات شیخ بشیر احمد صاحب (لاہور) نے بیان کی تھی مگر پھر وہ خود اسے بھول گئے.اُن کی بات ایک غور طلب بات تھی.ہر مسلمان کے متعلق یہ سمجھنا چاہئے کہ خدا کی کتاب اُسے آنی چاہئے.جسے نہیں آتی اُس کے متعلق یہ جائز نہیں کہ مان لیں اُسے نہیں آنی چاہئے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس کے لئے ہم انتظام نہ کر سکے.غرض ارادہ ، نیت اور کوشش کے لحاظ سے کسی کو مستثنے نہ کیا جائے خواہ نتیجہ کے لحاظ سے کوئی مستقے ہو جائے.سکیم میں دس سپارے لازمی تعلیم رکھی گئی ہے مگر اس میں سارا قرآن ختم نہیں کیا گیا.صرف دس پارے رکھے گئے ہیں اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر کوئی لڑکی دس پارے پڑھ کر تعلیم چھوڑ دے تو حرج نہیں ہے.جب یقینی طور پر یہ بات مدنظر ہے کہ مڈل تعلیم کا آخری درجہ ہے اور اس
خطابات شوری جلد اوّل ۵۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء کے بعد ہم جبر یہ تعلیم جاری نہیں رکھتے تو مڈل تک سارے قرآن کا ترجمہ پڑھانا لازمی ہونا چاہئے.خواہ اس کے لئے تعلیم میں سال بڑھانا پڑے.خواہ دوسرا کورس کم کرنا پڑے.بہر حال ایسا ہونا چاہئے کہ جہاں تک لازمی تعلیم رکھتے ہیں، وہاں تک ہمارا لا زمی کورس اور لازمی تعلیم آجانی چاہئے.جو پرائمری تک لازمی تعلیم قرار دیتے ہیں وہ اس حد تک اس تعلیم میں لکھنا پڑھنا سکھا دیتے ہیں جو ضروری ہوتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کا با ترجمہ پڑھنا لازمی ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو جہاں ہم اجازت دیتے ہیں کہ تعلیم ختم کر دو اس کے اندر قرآن کریم با ترجمہ پڑھنا آ جانا چاہئے.پس یہ بات بھی کمیٹی کو مدنظر رکھنی چاہئے کہ مڈل کے کورس میں قرآن کریم کا ترجمہ کس طرح شامل کر سکتے ہیں.اس کے لئے سال بڑھا سکتے ہیں یا کورس میں اس کا اضافہ کر سکتے ہیں یا کوئی اور مضمون اُڑا کر اُس کو رکھ سکتے ہیں.باقی معاملات کل پر ملتوی کئے جاتے ہیں.“ تیسرا دن مجلس مشاورت کے تیسرے دن یکم اپریل ۱۹۳۴ء کوگزشتہ روز کی کارروائی کے تسلسل میں مڈل کے کورس کی بابت تجویز پر چند دوستوں کے اظہارِ خیال کے بعد حضور نے فرمایا : - زنانہ تعلیم کے متعلق جور پورٹ کمیشن نے کی ہے اور جو اس کی اصلاح سب کمیٹی نے کی ہے وہ تو دوستوں کے سامنے پیش ہو چکی ہے اس کے متعلق میں احباب کی رائے بھی سُن چکا ہوں.تعلیم کا سوال ایک ایسا نازک سوال ہے کہ اس کی اہمیت کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اس مسئلہ کا نہایت گہرا مطالعہ کیا ہے.بعض نہایت ہی چھوٹی چھوٹی باتیں اخلاق پر اتنا گہرا اثر ڈالتی ہیں کہ ان کی ظاہری شکل سے ان کے اثرات کا اندازہ لگانا ناممکن ہوتا ہے.قرآن کریم میں ایک تعلیم آتی ہے.اللہ تعالیٰ صحابہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ رسول کو مخاطب کرتے وقت راعنا نہ کہا کرو بلکہ تمہاری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ احتیاط سے سنو اور غور کرو کہ رسول نے کیا فرمایا ہے لیکن اگر ایسے موقع پر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو انظرنا کہا کرو یہ کیوں کہا گیا؟ اس لئے راعنا کہنے میں ایک چھوٹا سا فرق پڑ جاتا ہے.بظاہر تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم پر مہربانی کیجئے ، ہمارا لحاظ کیجئے.مگر یہ لفظ مراعات
خطابات شوری جلد اوّل ۵۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء سے نکلا ہے جس میں طرفین کی کوشش پائی جاتی ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہمارا خیال رکھیں ہم آپ کا خیال رکھتے ہیں.گویا یہ ایک قسم کا سودا بن جاتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے خلاف ہے.قرآن کریم کہتا ہے اگر اس طرح کرو گے تو ان نیک سامانوں سے محروم ہو جاؤ گے جو خدا تعالیٰ نے مقدر کئے ہیں.اب دیکھو را عنا کا لفظ کتنا معمولی ہے مگر اس کے اثرات کتنے غیر معمولی ہیں کہ مسلمانوں کی ترقیاں اس کی وجہ سے پیچھے پڑسکتی ہیں.پس انسانی قلب چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے اثرات قبول کرتا ہے اور بسا اوقات بڑی بڑی باتیں بہت تھوڑا اثر کرتی ہیں.اس چیز کو خدا تعالیٰ نے علم رویا میں بھی نمایاں کر کے دکھایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں بعض رؤیا ایسی ہوتی ہیں جن میں نظارہ بڑا دکھایا جاتا ہے مگر ان کی تعبیر چھوٹی ہوتی ہے اور بعض رویا ایسی ہوتی ہیں کہ نظارہ چھوٹا ہوتا ہے مگر تعبیر بہت بڑی ہوتی ہے.فرماتے ہیں اس قسم کی دونوں مثالیں سورہ یوسف میں پائی جاتی ہیں.حضرت یوسف علیہ السلام ایک رویا دیکھتے ہیں کہ چاند، سورج اور ستارے اُنہیں سجدہ کر رہے ہیں اور مطلب یہ نکلتا ہے کہ ان کے باپ اور بھائی ان کی ماتحتی میں آئیں گے.سورج ، چاند اور ستارے سارے نظام عالم پر دلالت کرتے ہیں مگر نتیجہ صرف ایک خاندان کے متعلق نکلا.دوسری رؤیا عزیز مصر نے دیکھی کہ سات موٹی گائیوں کو سات ڈبلی گائیوں نے کھا لیا.بظاہر یہ معمولی بات تھی مگر تعبیر یہ تھی کہ بہت بڑا قحط پڑا جس میں مصر، شام، فلسطین کے لوگ مبتلاء ہوئے.نظارہ کتنا معمولی تھا مگر نتیجہ کتنا بڑا نکلا.خواب کا یہ پہلو بے وجہ نہیں بلکہ اِس لئے ہے تا بتایا جائے کہ بعض کام جو بڑے نظر آتے ہیں اُن کے نتائج معمولی ہوتے ہیں اور بعض جو چھوٹے نظر آتے ہیں اُن کے نتائج غیر معمولی نکلتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں صحابہ نے کس قدر شاندار قربانیاں کیں.جب مدینہ میں مہاجرین آئے تو انصار نے انہیں اپنی جائدادیں بانٹ دیں.حتٰی کہ ایک نے جس کی دو بیویاں تھیں ایک بیوی کو اس لئے طلاق دے دی کہ اُس سے مہاجر نکاح کر سکے مگر فتوحات میں جب مال آئے اور ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
خطابات شوری جلد اوّل ۵۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء نے مہاجرین کو دینے کے لئے کہا تو انصار میں سے کسی نادان نے کہہ دیا خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال مہاجرین کو دے دیا گیا ہے.اس پر دوسروں نے بہت کچھ ندامت اور معذرت کا بھی اظہار کیا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اب تم حوض کوثر پر ہی مجھ سے ملنا اس دُنیا میں تمہارے لئے کچھ نہیں نا تو کئی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر اُس وقت کی فضا اور ماحول ایسا بن جاتا ہے کہ ان کے نتائج بہت بڑے نکلتے ہیں.تعلیم میں بھی بعض باتیں چھوٹی نظر آتی ہیں مگر ان کے نتائج بہت اہم نکلتے ہیں.اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کسی قسم کی تعلیم ہو ہمیں اس کے متعلق گفتگو کرتے وقت ایسا طرز رکھنا چاہئے کہ یہ احساس پیدا ہو کہ ہم دین کو دُنیا پر مقدم رکھتے ہیں.کل جو تعلیم کے متعلق بحث ہوتی رہی اور لطیف بحث ہوئی اس سے مجھے بہت لطف آیا.جو اس امر پر زور دیتے تھے کہ سکیم میں زیادہ تر دنیوی تعلیم رکھی گئی ہے وہ یہ کہتے تھے کہ دین کی تعلیم پر زیادہ زور دینا چاہئے اور جو سکیم کی تائید میں تھے وہ کہتے تھے کہ یہ سب دینی تعلیم ہے.تاریخ، جغرافیہ، حساب سب دین سے متعلق باتیں ہیں.تو ہر فریق میں سے اسی چیز کو ایک دُنیا اور ایک دین قرار دے رہا تھا اور واقعی وہ علوم ابتدائی حالت میں ایسے ہیں کہ خواہ انہیں دینی بنا لو یا ڈ نیوی لیکن اس سے بڑا فرق پڑ جائے گا.اگر ان علوم کو دُنیوی کہہ کر پڑھا جائے تو اسی سکیم کے مطابق جو پڑھیں گے، اُن پر یہی اثر ہوگا کہ یہ دنیوی تعلیم ہے لیکن اگر کوئی تاریخ اس لئے پڑھے کہ اسلام کے کام معلوم ہوں، حساب اس لئے پڑھے کہ خدمت اسلام میں مددگار ثابت ہو، جغرافیہ اس لئے پڑھے کہ اشاعتِ اسلام کے لئے ممالک کے حالات معلوم ہوں تو وہی تاریخ، وہی حساب اور وہی جغرافیہ پڑھنے والوں میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ ہم دینی تعلیم حاصل کر کے نکلے ہیں.ایک دوست نے ایک عمدہ بات پیش کی تھی مگر اس پر زور نہیں دیا.شاید اس کے لئے انہیں موقع نہیں ملا یا اُنہوں نے اسے اہمیت نہیں دی لیکن اُن کی بات معقول تھی.اُنہوں نے کہا جو کورس تجویز کیا گیا ہے اس میں یوں رکھا ہے کہ یہ کورس ہو گا اور اس میں یہ دینی تعلیم ہو گی مگر اس کی بجائے یہ کیوں نہ رکھیں کہ یہ دینیات کی تعلیم ہے، اس میں اور تعلیم زائد کی جاتی ہے.پس اس سکیم کو اس طرح ڈھال دینا چاہئے کہ پہلی پانچ سالہ تعلیم یہ ہوگی
خطابات شوری جلد اوّل ۵۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء جو دینی ہے اور اس کے ساتھ دینی علوم کو سمجھنے اور دینی باتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے یہ باتیں زائد کی جاتی ہیں اس سے بہت فرق پڑ جائے گا.میں نے جیسا کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر بتایا تھا ہمارے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی اولاد کے دماغوں میں یہ کیفیت پیدا کریں کہ ہر بات میں ان کا ذہن اس طرف جائے کہ دین مقدم ہے دُنیا پر.اصل چیز دین کی تعلیم ہے اور دوسری تعلیمیں تائیدی ہیں ورنہ نتیجہ اچھا نہ ہوگا.دیکھو مدرسہ احمدیہ میں انگریزی رکھی ہوئی ہے مگر مجھے معلوم ہے کہ اکثر لڑ کے انگریزی نہیں پڑھتے اور اُستاد بھی اُن کے ساتھ اس لئے رعایت کر دیتے ہیں کہ انگریزی زائد تعلیم رکھی ہوئی ہے.اس کے مقابلہ میں ہائی سکول میں یہ ہوتا ہے کہ اس میں پڑھنے والے لڑکوں کو دینی تعلیم کی طرف توجہ نہیں جیسا کہ کل دینیات کے استاد نے بتایا تھا.گوناظر صاحب تعلیم و تربیت نے کہا ہے کہ ہائی سکول میں دینی تعلیم لازمی ہے مگر اصل ناظر صاحب نے رپورٹ کی تھی کہ ہائی سکول کے طلباء کا امتحان لیا گیا تو معلوم ہوا کہ موٹے موٹے دینی سوالات کے جواب بھی اُنہوں نے نہایت نا معقول دیئے.اس کی وجہ یہی ہے کہ دینی تعلیم کو زائد چیز سمجھ کر اس کی پرواہ نہیں کی جاتی حالانکہ کئی دفعہ اس کی طرف توجہ دلائی جا چکی ہے.گو اس میں مشکلات ہیں.جیسا کہ کل بتایا گیا تھا کہ آٹھویں، نویں، دسویں جماعت میں جو باہر کے لڑکے آتے ہیں وہ چونکہ دینیات کی تعلیم نہیں رکھتے اس لئے اُن کا جماعت میں چلنا مشکل ہوتا ہے.بیشک یہ ایک مشکل ہے، میں اسے تسلیم کر لیتا اگر سکول کے پرانے طالب علموں کی بھی ویسی ہی حالت نہ ہوتی.سکول والے یا تو گھبرا گئے اور اُنہوں نے باہر سے آنے والے لڑکوں کے لئے دینیات کی تعلیم کا الگ انتظام نہیں کیا یا پھر یہ کہ دینی تعلیم کی پرواہ نہیں کی گئی اور یہ نہیں سمجھا گیا کہ یہ تعلیم بھی ضروری ہے.وہ سمجھتے ہیں ہمارا ہائی سکول ہے اس میں دینی تعلیم کے متعلق ہم پر کوئی ذمہ واری عائد نہیں ہوتی.ناظر تعلیم و تربیت کا فرض ہے کہ ہر سال دیکھیں ہائی سکول جاری کرنے کی جو غرض ہے اور جو یہ ہے کہ ضروری دینی تعلیم دی جائے وہ پوری ہوتی ہے یا نہیں.صرف قانون بنا دینا کافی نہیں.یہ دیکھنا چاہئے کہ اس پر عمل بھی ہوتا ہے یا نہیں.اس مسئلہ پر جو تقریریں کی گئی ہیں میں اِن میں سے بعض کے متعلق سمجھتا ہوں قابل اعتراض ہیں.مثلاً چوہدری فتح محمد صاحب
خطابات شوری جلد اوّل ۵۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء کی تقریر.انہوں نے جہاں مدرسوں پر مبالغہ سے کام لینے کا الزام لگایا وہاں وہ خود ایسے جوش میں تھے کہ جو ایسی مجلس اور ان کے عہدہ کے خلاف تھا.انہوں نے گویا یہ سمجھا کہ کمیشن اور سب کمیٹی کے خلاف تقریریں کرنے والے اُن کے دشمن تھے اور غالباً انہوں نے ہتک کا لفظ بھی بولا، مگر ایسا نہیں تھا.سکیم کے متعلق کسی نے کوئی ہتک آمیز لفظ نہیں بولا تھا نہ مبالغہ کیا تھا مگر چوہدری صاحب بہت جوش میں تھے اور انہوں نے کہا کہ سُنی سنائی باتیں کہی گئی ہیں اور مبالغہ کیا گیا ہے.حالانکہ تقریر کرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے طنز کے طور پر گفتگو کی ہو.ان میں سے ہر ایک کا منشاء یہ تھا کہ دینی تعلیم کو پڑھایا جائے.اس موقع پر میں نے ایک بات دیکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ نقطہ نگاہ بدلنے سے ایک ہی بات ہوئی ہے، مگر دونوں فریق سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں.دین کی تعلیم پر زور دینے والوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جو یہ کہتا ہو کہ حساب اور اردو، جغرافیہ اور تاریخ پڑھائی جائے.ادھر جو سکیم کی تائید کرتے تھے ، وہ بھی یہی کہتے تھے مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں.بات کیا تھی یہ کہ جو سکیم پر اعتراض کر رہے ہیں ان کا منشاء یہ تھا کہ جغرافیہ پڑھاؤ، تو دین کی تائید کرنے والا پڑھاؤ اس طرح حساب اور اردو اور دوسرے علوم پڑھاؤ تو دین کی تائید کرنے والے.مگر دوسرے سمجھتے تھے یہ سکیم کے مخالف ہیں.میں یہ بات سمجھ نہیں سکا کہ امریکہ اور افریقہ کا جغرافیہ پڑھاؤ تو پڑھنے والے عالم کہلا سکتے ہیں لیکن اگر عرب اور اسلامی ممالک کا جغرافیہ پڑھاؤ تو جاہل ہوتے ہیں.یہ استدلال میری سمجھ میں نہیں آیا.ہزار ہا باتیں یوروپین لوگوں نے ایسی لکھی ہیں جو جہالت کی باتیں ہیں.پھر کیا وجہ ہے اُن علوم کو پڑھنے والا تو عالم کہلائے اور اسلامی علوم پڑھنے والوں کو جاہل کہیں.اگر نپولین کی لائف پڑھیں تو عالم اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائف پڑھیں تو جاہل.یہی وہ بات ہے جسے ہم بدلنا چاہتے ہیں اور یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ احمدی اسلامی علوم کو جاری کرنا چاہتے ہیں.ایک انجینئر اگر ڈاکٹری کی بات غلط کہتا ہے تو اُسے جاہل نہیں کہتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اُسے علم نہیں پھر کیا وجہ ہے اسلامی علوم جاننے والا اگر کسی علم میں غلطی کرتا ہے تو پھر سارے اسلامی علوم پر پانی پھیر دیا جائے.اسی روح کو ہم مٹانا چاہتے ہیں اور یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اسلامی علوم بھی علوم ہیں اور ان کے پڑھنے والے بھی
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۵۹۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء عالم ہیں.یہ مسئلہ ہے جو ہمارے سامنے پیش تھا اس لئے اس رنگ میں بحث کرنی چاہئے تھی کہ اس نقص کو دور کرنا چاہئے.یہ الزام ان پر چسپاں نہ ہوتا تھا کہ تم اردو، انگریزی، حساب، جغرافیہ، تاریخ نہیں پڑھانا چاہتے.ٹیکسٹ بک کمیٹی کی تجویز اس لئے تھی کہ ایسے علوم کی کتابیں تیار کرے اور یہی جواب کافی تھا کہ اس کمیٹی کے کام کے لئے انتظار کرو.ہر علم اسلامی روشنی میں بیان کیا جا سکتا ہے یعنی اسے ایسے رنگ میں بیان کر سکتے ہیں کہ اس کے نتائج اسلام کی تائید میں ہوں.دینی تعلیم کے صرف یہ معنی نہیں کہ قرآن کا ترجمہ اور حدیث کا ترجمہ پڑھایا جائے بلکہ یہ جذبہ غالب ہو کہ جو کچھ بھی پڑھائیں گے دین کے لئے پڑھائیں گے.سب علوم اسلام کے موید قرار دیئے جائیں.یورپ اپنے رنگ میں یہی کر رہا ہے کہ ہر علم کو اپنی تھیوریوں کی تائید میں ڈھال رہا ہے.ہم اپنی کتابوں کو اسلام کی تائید میں ڈھال سکتے ہیں.اردو کی کتابیں، حساب کی کتابیں، جغرافیہ، تاریخ کی کتابیں ایسی طرز پر لکھیں کہ ان میں دین کی باتیں آجائیں.وراثت کے مسائل موجودہ حساب کی کتابوں سے حل نہیں ہو سکتے.ان میں سودی حساب پر زیادہ زور ہے.یہی وجہ ہے کہ آجکل کے حساب دان وراثت کا حساب اس عمدگی سے نہیں نکال سکتے جس عمدگی سے پرانے مولوی نکال سکتے ہیں.پس ہم ہر علم کی کتابیں اس رنگ میں ڈھال لیں کہ اسلامی ضروریات کے مطابق تعلیم دی جا سکے.میرے نزدیک یہ بحث اختلاف لفظی کی بناء پر تھی ور نہ حقیقت میں اتحاد تھا.دونوں فریق ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کر رہے تھے بلکہ کوشش کر رہے تھے کہ ایک نقطہ پر جمع ہو جائیں.وہ دوست جن کے متعلق میں نے کہا کہ انہوں نے معقول بات پیش کی مگر اس پر زور نہیں دیا کہ دینی تعلیم اصل قرار دی جائے اور دوسری اس کے ساتھ لگا دی جائے، وہ چوہدری محمد لطیف صاحب تھے.ایک دوست نے اعتراض کیا تھا کہ کافی وقت جماعت کو غور کے لئے نہیں دیا گیا.ناظر صاحب نے اس کا جواب دیا تھا مگر میرے نزدیک اعتراض معقول تھا.وقت کافی نہ تھا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سکیم کو پیچھے ڈال دیا جائے کیونکہ اس طرح کام نہیں چل سکتا.اس جگہ جتنی باتیں ہوئی ہیں بہت سی اِن میں معقول تھیں اور مفید تھیں مگر جب لوگوں کی
خطابات شوری جلد اوّل ۵۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء رائے مانگی جائے تو کافی وقت دینا چاہئے.آئندہ اس پر ضرور عمل ہونا چاہئے.اب کے یہ غلطی ہوئی ہے.ایک دوست نے کہا گورنمنٹ سے ایڈ کا جو رو پیدل سکتا ہے اسے کیوں چھوڑیں.ان کی یہ بات نیک نیتی پر مبنی تھی اور اس کے مطابق انہوں نے کہا مگر ایک لطیفہ یاد آ گیا وہ سُنا دیتا ہوں.جب میں حج کو گیا تو ایک عرب کے مفتی صاحب جو اُسی جہاز میں سوار تھے بہت گھبرائے ہوئے تھے کہ محی الدین عرب اُن کو میرے پاس لایا.میں نے پوچھا کیا وجہ ہے گھبرانے کی؟ تو انہوں نے کہا یہاں کھانے کا کوئی انتظام نہیں، حالانکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ انتظام ہو گا ، اب میں کیا کروں؟ میں نے اُن کے متعلق کپتان جہاز سے کہا کہ جب یہ آ گئے ہیں تو ان کے کھانے کا کوئی انتظام کرو.اُس نے کہا کمپنی کی طرف سے تو کوئی اجازت نہیں.البتہ ملاحوں کو کافی کھانا ملتا ہے میں اُن سے کہتا ہوں کہ ان کو دے دیا کرو.یہ انتظام ہو گیا.میں ایک دن مفتی صاحب سے ملنے گیا تو پھر اُن کو گھبرایا ہوا پایا.میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کھانے کے ساتھ شراب آتی ہے جو میں ایک یہودی کو دے دیتا تھا مگر آج کوئی نہیں ملا کسے دوں؟ میں نے کہا پھینک دو.کہنے لگے پھینکوں کیسے؟ اس پر پیسے لگے ہوئے ہیں.اگر سرکاری سکیم جاری کرنے کی وجہ سے کوئی نقصان ہوتا ہو تو ہم سرکاری ایڈ ترک کر سکتے ہیں لیکن اگر کوئی حرج نہ ہوتا ہو، ہمارے مقصد میں فرق نہ پڑے اور اپنے نصاب کے ساتھ سرکاری سکیم رکھ کر مل سکے تو کوئی حرج نہیں.مگر ایڈ اس نقطہ نگاہ سے ہو نہ کہ ایڈ کے معنے کے لحاظ سے ہم سکیم میں کوئی اصلاح نہ کریں.کمیشن کے ایک ممبر نے کہا کہ پوسٹ میٹرک اس لئے رکھا گیا ہے کہ اُستانیاں تیار ہوں.اس میں طلبہ نہیں کہ استانیوں کی ضرورت ہے اور لڑکیوں کے مدارس جاری کرنے کے لئے اُستانیاں ضروری ہیں اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ بعض لوگ اپنی تعلیمی ڈگری سے زیادہ بھی پڑھا سکتے ہیں.سُنا ہے ایک پروفیسر بی.اے تھا جو ایم.اے کلاس کو حساب پڑھاتا تھا مگر ہر ایک ایسا نہیں ہو سکتا.لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اُستانیوں کے لئے پوسٹ میٹرک کا انتظام ضروری ہے تو پھر ڈاکٹری تعلیم کے لئے بھی ہونا چاہئے مگر اس طرح بوجھ بہت بڑھ جائے گا اس لئے یہ ہو کہ چند ہوشیار طالبات کو لے کر اُن کو تعلیم دلائی جائے.اُن کے
خطابات شوری جلد اوّل ۶۰۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء لئے انتظام کر دیا جائے.قادیان کی وہ لڑکیاں جو باہر اُستانیاں یا ڈاکٹر بننے کے لئے جائیں گی ان کی بہت ہی قلیل تعداد ہوگی.کبھی ایک کبھی دو اور ممکن ہے کبھی ایک بھی نہ ہو.پھر قادیان جیسی آبادی سے کس قدر اُستانیاں نکل سکتی ہیں جن کے لئے تعلیم کا انتظام کرنا چاہئے.اصل سوال یہ ہے کہ قادیان سے باہر جو جماعت ہے وہ بھی چاہتی ہے کہ ان کی لڑکیاں پڑھیں.وہ بھی ڈاکٹر بننے اور اُستانیاں بننے کے لئے پڑھیں گی مگر ان کے آنے سے اتنی تعداد ہو جائے گی کہ یہ مسئلہ خاص طور پر قابلِ غور بن جائے گا مگر یہ تو جیسا ہوگا دیکھا جائے گا.اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی تعلیم کے پہلو کو مضبوط کیا جائے.ایک دفعہ ایک والدہ اپنی لڑکی کو جو بی.اے تھی میرے پاس اس لئے لائیں کہ اسے سمجھائیں کہ یہ غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھ لیتی ہے.میں نے ابھی اُسے کچھ کہا نہیں تھا کہ وہ کہنے لگی جب ہماری پروفیسر ہی آ کر کہتی ہے کہ تفرقہ نہ کرو تو میں برداشت نہیں کر سکتی کہ تفرقہ کروں.تو ایسے اثرات پیدا ہو رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ کوئی احمدی لڑکا ایسا جواب نہ دیتا.پس لڑکیوں کی دینی تعلیم پر خاص زور دینے کی ضرورت ہے.میری رائے یہ ہے کہ میٹرک کے لئے تین سال نہیں دو ہی رکھے جائیں کیونکہ عمر کا سوال بھی ضروری ہوتا ہے، ملازمتوں کے لئے مشکل ہو گی اور یوں بھی ضروری ہے اس لئے دو سال ہی رکھے جائیں.ہاں جن لڑکیوں کا ملازمتوں کا خیال نہ ہو اُن کے لئے مڈل کے بعد الگ جماعتیں قائم کی جائیں تا وہ دینی تعلیم میں ترقی کر سکیں.جنہوں نے تعلیم چھوڑ دینی ہو اُن کے لئے مڈل کے کورس میں ضروری دینی تعلیم آجانی چاہئے.سلسلہ کی تاریخ کے متعلق بھی ضروری ہے کہ ایسا نصاب ہو جس سے شروع سے سلسلہ کی باتیں سکھائی جائیں.سکولوں کے جولڑ کے مجھے ملنے آتے ہیں اُن میں سے کسی کے متعلق میں نے یہ بات نہیں دیکھی لیکن جو چھوٹی لڑکیاں درس میں آتی ہیں اُن میں سے کئی مجھے تم کر کے مخاطب کرتی ہیں معلوم ایسا ہوتا ہے کہ لڑکیوں کی اکثریت ایسی ہے کہ ان کو ضروری آداب نہیں سکھائے جاتے.اسی طرح میرے نزدیک ایک ایسی کتاب ہونی چاہئے جس میں مسائل دینیہ کو تاریخی
خطابات شوری جلد اوّل ۶۰۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء رنگ میں پڑھایا جائے.تجربہ سے ثابت ہے کہ اگر چھوٹے بچہ سے یہ کہیں کہ وفات مسیح کے یہ دلائل ہیں تو وہ انہیں یاد نہیں رکھ سکتا لیکن اگر اُسے اس رنگ میں بتایا جائے کہ مسلمانوں کی پہلی حالت بہت اچھی تھی، انہوں نے بڑی ترقی کی مگر جب اُن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ایک نبی حضرت عیسے تھے جو زندہ آسمان پر چلے گئے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو کر زمین میں مدفون ہوئے تو اُن کی حالت خراب ہوگئی اور تنزل شروع ہو گیا حالانکہ قرآن میں حضرت عیسی علیہ السلام کے فوت ہونے کے یہ دلائل آئے ہیں تو اس طرح آسانی سے دلائل یا درکھ سکتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی ہستی ، قضا و قدر، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور دوسرے مسائل اس طرح پڑھائے جا سکتے ہیں کہ بچے انہیں آسانی سے یا درکھ سکیں.ایک دوست نے یہ اعتراض کیا ہے کہ جنہوں نے پرائمری کورس مقرر کیا تھا انہوں نے یہ سمجھ کر کیا تھا کہ اتنی پڑھائی ہو سکتی ہے لیکن کمیشن نے اُس میں اضافہ کر دیا ہے.یہ اعتراض بہت وقیع ہے.مگر یہ فرض کرنا کہ کمیشن نے یہ اندازہ نہیں کیا کہ زیادہ بوجھ ہو گیا ہے یہ صحیح نہیں.اس کمیشن میں پروفیسر تھے ، مدرس تھے، عالم تھے انہوں نے ضرور اس بات کو مدنظر رکھا ہو گا کہ زیادہ بوجھ نہ پڑے.اب تجربہ سے معلوم ہو سکے گا کہ یہ کورس چل سکتا ہے یا نہیں.اگر بوجھ زیادہ ہوا تو کچھ مضامین کم کر دیں گے یا طریق تعلیم بدل دیں گے.اس کے بعد میں یہ اعلان کرتا ہوں جیسا کہ کثرتِ رائے ہے ان تغیرات اور ہدایات کے ساتھ جو سب کمیٹی کے لئے ہیں اور جن کے مطابق وہ کام کرے گی اس سکیم کو منظور کرتا ہوں.اگر ہم لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق کامیاب ہو سکیں تو ہمارے لئے آسانی ہوگی کہ لڑکوں کی تعلیم کی طرف بھی جماعت کو توجہ دلا سکیں کیونکہ اب نوکریاں نہیں مل سکتیں مگر ابھی اس طرف توجہ دلانا مشکل ہے.مگر آج سے آٹھ دس سال بعد جب گریجویٹ دس پندرہ روپے کی نوکری کریں گے یا بھنگیوں پر پانی ڈھوتے پھر میں گے تو یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ کس قسم کی تعلیم حاصل کرنی چاہئے.پس في انحال لڑکیوں کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں اس میں کامیاب ہو گئے تو لڑکوں کے سکول میں بھی تغیرات کرنے آسان ہو
خطابات شوری جلد اوّل جائیں گے اور کوئی مشکل نہ رہے گی.“ اختتامی تقریر ۶۰۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء مجلس مشاورت کے تیسرے دن آخری اجلاس میں سب کمیٹی بیٹ المال کی رپورٹ پیش ہوئی.اس پر بحث اور فیصلہ جات کے بعد حضور نے اپنی اختتامی تقریر میں احباب جماعت کو چند اہم امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا : - نادہندوں کے متعلق ر بعض دوستوں نے بجٹ کے متعلق گفتگو کرتے وقت بعض باتیں ایسی کہی ہیں کہ ان کے متعلق میں کچھ کہنا ضروری سمجھتا ہوں.ایک تو نادہندوں کے متعلق غلط نہی ہے.بعض کا خیال ہے کہ اگر تمام کوششوں کے با وجود بھی کسی جماعت میں نادہندر ہیں تو اس جماعت کو نا کام سمجھا جائے گا اور اُس سے گرفت کی جائے گی مگر یہ کبھی نہیں کیا گیا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جوطریق وصولی کے بتائے گئے ہیں اُن کے مطابق کوشش نہ کریں گے تو پھر گرفت کی جائے گی.کارکنوں کا کام یہ ہے کہ جو نادہند ہوں اُن سے وصول کرنے کی پوری کوشش کریں.اگر وہ پھر بھی نہ دیں تو اُن کے متعلق مرکز میں رپورٹ کریں.اس پر تحقیقات کی جائے گی کہ کارکنوں نے پوری کوشش کی ہے یا نہیں.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اُنہوں نے پوری کوشش کی ہے تو پھر ان پر کوئی الزام نہ ہوگا صرف اُنہی پر الزام ہوگا جنہوں نے نہ تو تخفیف کی درخواستیں بھجوائی ہوں گی اور نہ نادہندوں کے متعلق رپورٹ کی ہو گی یا پھر وصولی کرنے کی پوری کوشش نہ کی ہوگی.لیکن اگر یہ صورتیں اختیار کی ہوں گی تو پھر الزام نہ ہوگا.بلا تفصیل رقوم کے متعلق فیصلہ بلا تفصیل رقوم کے متعلق کثرت رائے سب کمیٹی کی تجویز کے حق میں ہے میں اسے منظور کرتا ہوں.چندہ کی مساوی شرح ایک دوست نے کہا ہے کہ چندہ جس طریق سے رکھا گیا ہے یعنی ہر ایک کے لئے خواہ کسی کی زیادہ آمدنی ہو یا کم سب کے لئے ایک ہی شرح ہے اس سے اخلاص باقی نہیں رہتا.میرے خیال میں ان کی گفتگو اصولی تھی مگر بعض نے رُفعے لکھے کہ یہ اخلاص پر حملہ کیا گیا ہے.مجھ پر ان کی گفتگو سے یہ اثر نہ تھا اور میرے خیال میں اگر ایسا اثر ہوا تو بہت کم لوگوں پر ورنہ اکثریت پر یہ اثر نہیں تھا بلکہ یہ
خطابات شوری جلد اوّل ۶۰۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء تھا کہ سب سے ایک سلوک کے متعلق کہا گیا ہے.مگر یہ ٹیکسیشن نہیں ہے بلکہ زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اقل تعداد نکال لی جاتی ہے کہ یہ دیا جائے.ہم نے ایک حد مقرر کر دی ہے کہ اقل یہ ہے.اسے ٹیکسیشن نہیں کہنا چاہئے.کہا گیا ہے کہ بعض کی آمدنی کم ہوتی ہے مگر اُن سے بھی چندہ اسی شرح سے لیا جاتا ہے جس سے زیادہ آمدنی والوں سے لیا جاتا ہے.اس سوال کی روح تو ٹھیک ہے اور وہ یہ کہ کسی پر نا قابل برداشت بوجھ نہ پڑے بلکہ جتنی طاقت ہو اتنا ہی بوجھ ڈالا جائے مگر ایک بات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی کی آمد کو ہی نہیں دیکھا جاتا بلکہ اُس کے اخراجات کو بھی دیکھنا چاہئے.ایک آدمی کی پندرہ روپے ماہوار آمد ہے اور وہ دو کس کھانے والے ہیں اور ایک کی تمیں روپے آمد ہے اور چھ کس کھانے والے تو اس کا خرچ ۱۵ روپے آمد والے سے زیادہ ہو گا.پس ہر شخص کے متعلق یہ دیکھا جائے کہ اُس پر بار کتنا ہے.اگر کسی پر طاقت سے زیادہ بار ہے تو اُس کا کیس مرکز میں پیش کیا جائے اس پر ہم غور کریں گے.اس طرح اگر کوئی جائزہ مشکل ہوئی تو وہ دُور کی جاسکتی ہے.اس بارے میں ہمیں فراخ دلی سے کام لینا چاہئے کہ جو صحیح مجبوری ہو اسے پیش کر دیا جائے اور پھر ضرورت کو دیکھ کر کمی کر دی جائے.اس میں احساسات کی قربانی کرنی پڑے گی مگر سلسلہ کے نظام کے لئے اگر اپنے گھر کے حالات بتا دیئے جائیں اور مجبوری پیش کر دی جائے تو کیا حرج ہے.کہا گیا ہے کہ مقررہ شرح نہ ہو اس طرح بعض اوقات شرح صدر سے چندہ نہیں دیا جاتا اور اس پر ثواب نہ ہو گا.مگر یا د رکھنا چاہئے شرح صدر نہ ہونا ہر حال میں مضر نہیں بلکہ بعض دفعہ مفید بھی ہوتا ہے.ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا نماز کے لئے کھڑے ہونے میں شرح صدر نہیں ہوتا.آپ نے فرمایا ایسی حالت میں نماز پڑھنے سے تمھیں دُہرا ثواب ہو گا.ایک نماز پڑھنے کا اور دوسرا طبیعت کو نماز پڑھنے کے لئے مجبور کرنے کا.اب پونے دو بج چکے ہیں اس لئے میں چند منٹ ہی اور بول سکتا ہوں.گوموجودہ حالات کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں مجھے کم از کم ایک گھنٹہ بولنے کے لئے ملنا چاہئے تھا مگر وہ وقت دوستوں نے لے لیا اس لئے مختصر طور پر چند باتیں کہتا ہوں.
خطابات شوری جلد اوّل ۶۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء ہنگامی چندے اول دوستوں کو ہنگامی چندوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.چونکہ ہمارے ہاں چندوں کا ایک طریق مقرر ہے اس لئے اگر کسی ہنگامی چندہ کے لئے تحریک کی جائے تو کم توجہ کی جاتی ہے جیسے زلزلہ بہار کا واقعہ تھا.وہاں کے جو حالات سُنے انسان تو انسان حیوان کا دل بھی پگھل جاتا ہے مگر جب زلزلہ کے مصیبت زدوں کے لئے چندہ کی تحریک کی گئی تو ایسا جواب دیا گیا جس سے میں حیران رہ گیا.میرے سامنے اس وقت ایک دوست بیٹھے ہیں، جہاں کے وہ رہنے والے ہیں وہاں سینکڑوں جماعت کے آدمی ہیں مگر اُس جماعت نے صرف ۲۳ روپے کچھ آنے چندہ دیا.اسی طرح اور کئی جماعتوں کا چندہ نہایت قلیل آیا حالانکہ امداد دینے کی بے حد ضرورت ہے.اس علاقہ میں بہت سی مساجد گر گئی ہیں جن کی تعمیر کے لئے ہم سے بھی چندہ مانگ رہے ہیں.خواہ وہ لوگ ہمیں ان مساجد میں داخل نہ ہونے دیں ہم چونکہ مساجد کو خانہ خدا سمجھتے ہیں اس لئے ان کی تعمیر کے لئے چندہ دے سکتے ہیں.پھر مصیبت زدہ لوگوں کو بھی امداد دینی چاہئے اور خواہ وہ کسی مذہب و ملت کے ہوں اُن سے ہمدردی کرنی چاہئے.پھر اس علاقہ میں جو احمدی ہیں ان میں سے بھی کئی ایک کے مکانات کو بہت نقصان پہنچا اُن کی امداد کرنی ضروری ہے.مگر گل چندہ اس وقت دو ہزار کے قریب آیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چندہ دینے والا ایسا نہیں جس نے درد سے چندہ دیا ہو.اس تحریک میں حصہ لینے کے لئے احباب کو خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں.ہر جماعت کو اس میں خاص طور پر حصہ لینا چاہئے.سالکین کی تحریک ایک تحریک میں نے جلسہ سالانہ پر کی تھی اور وہ سالکین کی تحریک تھی.اس میں بہت سے دوستوں نے نام لکھائے ہیں مگر میں پھر جماعت کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں.میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ جماعت کے عام لوگوں میں یہ خیال ہے کہ اصلاح کا کام کارکنوں کے سپرد ہے.یا پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے نفس کا مطالعہ کریں، نفس کے نقائص معلوم کریں اور ان کے دور ہونے کے لئے دُعا کریں اس طرح علاج ہو جائے گا.بے شک اصلاح کا یہ بھی ایک طریق ہے لیکن ایک کامیاب طریق وہ ہے جو صوفیاء نے اختیار کیا اور جو صحابہ میں بھی رائج تھا کہ آپس میں بھائی بھائی بن جاتے اور ایک دوسرے کو اس کے نقائص کی طرف توجہ دلاتے.میں نے
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء کوشش کی ہے کہ اس قسم کی ایک جماعت بن جائے اس کے لئے میں نے بعض خطبات پڑھے اور بھی توجہ دلاؤں گا.پس میں پھر تحریک کرتا ہوں کہ احباب اپنی اپنی جگہ کوشش کریں کہ ایسے لوگ کھڑے ہو جائیں جو اپنی جماعت کی اندرونی اور بیرونی حالت اس طرح بنانے کی کوشش کریں کہ اس کا دوسروں پر اچھا اثر ہو اور یہ بات ہمارے اپنے لئے بھی مفید ہوگی.نمائندگان مجلس شوری کا عہد ایک اور بات یہ ہے کہ میں نے انفرادی تبلیغ کی ضرورت بیان کی تھی مگر ابھی تک اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی.یہی نمائندے جو اس وقت یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اگر ان میں سے ہر ایک سال میں تین آدمیوں کو احمدیت میں داخل کرنے کا ذمہ لے تو بہت بڑی کامیابی ہوسکتی ہے اور یہ آدمی کئی ہزار لوگوں کو بیعت کرانے کا موجب ہو سکتے ہیں.دُھن اور اخلاص کے ساتھ کسی کام کی طرف متوجہ ہونا کامیابی کے لئے رستہ کھول دیتا ہے اور جب کسی کام کی ذمہ واری لے لی جائے تو پھر اس کے کرنے پر زور بھی دیا جاتا ہے.جس طرح دریا میں ڈوبنے والے کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے اِس سے زیادہ گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو بچانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے مگر اکثر احمدیوں نے ابھی تک توجہ نہیں کی.حالانکہ جو دن گزر رہے ہیں وہ نہایت نازک ہیں.ہندوستان سلسلہ احمدیہ کا مرکز ہے اسے ہم چھوڑ نہیں سکتے ورنہ یہاں سے ہمارا ہجرت کر جانا کوئی بڑی بات نہ تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس لئے مکہ چھوڑا کہ کفار بھی اُس کی حفاظت کرتے تھے مگر ہم قادیان چھوڑ کر جائیں تو ہمارے مقدس مقامات کی حفاظت کون کرے گا.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ابتدائی زمانہ خلافت میں جب کہ یہاں غیر احمد یوں نے بڑا بھاری جلسہ کیا تھا اور اُنہوں نے علی الاعلان کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر کو اُکھیڑا جائے اُس وقت ہمارے لئے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو گیا تھا اور جوں جوں ڈیمو کریسی بڑھتی جا رہی ہے ہمارے لئے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں.اس لئے ہمارے لئے یہی صورت ہے کہ جو لوگ حملہ کرنا چاہتے ہیں اُن کو اپنے اندر شامل کر لیں.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ تبلیغ کے متعلق اِس اہمیت کے لحاظ سے غور کریں اور لوگوں کو
خطابات شوری جلد اوّل ۶۰۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء احمدیت میں داخل کرنے کی کوشش کریں.جو لوگ اس کے لئے کوشش کرتے ہیں اُن کو ایسے آدمی مل بھی جاتے ہیں.چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم کے بچوں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب، چوہدری اسد اللہ خان صاحب اور چوہدری عبداللہ خان صاحب کو تبلیغ کا شوق ہے ان کو آدمی بھی مل جاتے ہیں.پس اگر جماعت کے دوسرے لوگ کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی ہے کہ تین سو سال کے اندر جماعت احمد یہ اتنی ترقی کر جائے گی کہ نہ ماننے والے کسی شمار میں نہیں آئیں گے.ان تین سو سالوں میں سے ۴۳ سال گزر گئے ہیں گویا اس میعاد کا چھٹا ختم ہو گیا ہے.دوستوں کو اس طرف خاص توجہ کرنی چاہئے اور جو لوگ اس وقت یہاں موجود ہیں وہ اقرار کریں کہ کم سے کم تین آدمی اگلی مجلس شوری سے پہلے پہلے جماعت میں داخل کرنے کی کوشش کریں گے.جو دوست یہ اقرار کرنے کے لئے تیار ہوں وہ حصـ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر سب کے سب کھڑے ہو گئے وو دوست بیٹھ جائیں.میں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ کوئی بھی بیٹھا نہ رہے گا کھڑے ہونے کے لئے کہا تھا تا کہ اِن میں عزم اور ارادہ پیدا ہو.پس ہر شخص اپنے حلقہ اثر میں تبلیغ پر زور دے، اس میں زیادہ اثر ہوگا.آخر میں میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ پچھلے بجٹ کے متعلق بجٹ پورا کیا جائے بہت سی جماعتوں کے متعلق نادہندگی کا لفظ آتا ہے اور یہ مومن کے متعلق نادہندگی کا لفظ آتا ہے اور یہ مومن کے لئے مناسب نہیں.اس سے بچنے کے دو ہی طریق ہیں یا تو چندہ پورا کیا جائے یا وجوہات پیش کر کے کمی کرالیں مگر کوشش کرنی چاہئے اور پوری کوشش کرنی چاہئے کہ چندہ پورا ہو جائے.اور کوشش کرنے کی کئی صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں.کم حوصلہ، کم ایمان اور کنجوس لوگوں کو با حوصلہ، با ایمان اور سخی بنایا جا سکتا ہے.ہم نے کام چلانے کے لئے قرض لینا شروع کیا ہے.اگلے سال یہ قرض اور بڑھ گیا تو کتنی مشکل پیش آئے گی.یہ معاملہ اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ میں اسے نظر انداز نہیں کر سکتا.اگر کوئی شخص ہمارے لئے بوجھ بنتا ہے اور ہمارے راستہ کا پتھر بنتا ہے تو اُسے ہٹا دیا جائے گا.
خطابات شوری جلد اوّل ۶۰۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ جو شخص تین ماہ تک چندہ نہیں دیتا اُسے جماعت سے نکال دیا جائے اور اگر پورا نہیں دیتا تو اور سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں اول تو جو شخص جس کی بیعت کرتا ہے اور جس سے یہ اقرار کرتا ہے کہ ٹھسر وئیر میں ثابت قدم رہوں گا اور احکام کی پابندی کروں گا اس کی ناراضگی ہی بہت بڑی سزا ہے.ماں باپ کسی سے ناراض ہو جائیں تو اسے چھین نہیں آ سکتا.پھر اس کی ناراضگی کس قدر بے چین کرنے والی ہو سکتی ہے جس کا تعلق ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہے.میں جب کسی مخلص سے کہتا ہوں کہ ناراض ہوں تو اُس کی کیا حالت ہوگی اور یہ اُس کو ہی سزا نہیں ہوتی اپنے آپ کو بھی ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین صحابیوں سے ناراض ہو گئے.ان میں سے ایک کہتا ہے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں جاتا اور اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہتا مگر آپ جواب نہ دیتے اور کن اکھیوں سے میری طرف دیکھتے.تو وہ سزا اُس صحابی کو ہی نہ تھی بلکہ اس کی اذیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی تھی.اسی طرح جن سے میں ناراض ہوتا ہوں اُن کو ہی سزا نہیں ہوتی مجھے بھی ہوتی ہے مگر سلسلہ کے وقار اور ضروریات کے پیش نظر سزا دینی پڑے گی.قادیان میں ایسا ہوا ہے کہ ایک مخلص شخص سے میں ناراض ہوا تو غم کی وجہ سے اسے دو ہفتہ کے اندر اندر سل ہوگئی.اس پر مجھے پچھتاوا ہوا.ایک دوست نے سُنا یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ سیر کو جا رہے تھے کہ آپ نے پان مانگا.منشی ظفر احمد صاحب نے پان دیا.جس میں زردہ پڑا ہوا تھا.آپ نے کھایا تو قے ہو گئی مگر اس خیال سے کہ دل شکنی نہ ہو فرمانے لگے معدہ صاف ہو گیا.خوب قے آگئی ہے.منشی ظفر احمد صاحب جب یہ بات سُناتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں.تو محبت کے رشتے بالکل اور ہوتے ہیں.ان میں معمولی سی سزا بھی بہت اثر رکھتی ہے.پس جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی ایک مہینہ باقی ہے.اپنے اپنے بقائے ادا کر دیں اور اگر ادا نہیں کر سکتے تو جو طریق میں نے بتائے ہیں ان پر عمل کریں اس طرح ذمہ واری ان پر نہ رہے گی.آئندہ بجٹ کے متعلق دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جو کچھ
خطابات شوری جلد اوّل ۶۰۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء ہم کر رہے ہیں وہ ہمارا ذاتی کام نہیں بلکہ اسلام، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت کا سوال ہے کیونکہ یہ کام ان پر اثر ڈالتے ہیں اس لئے ان کو پورے زور اور پوری کوشش سے کرنا چاہئے.آخر میں میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں میں برکت دے، ہماری دعا مشکلات کو دور کرے، ہمیں دین کی خدمت کا موقع دے، ہم میں سے جو مقروض ہیں ان کے قرض ادا ہوں ، جو بیمار ہیں انہیں صحت ہو ، جن کو مالی نقصانات یا عزت کا خطرہ ہے اُن پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ، جو دینی اور دنیوی جد و جہد میں لگے ہوئے ہیں اُن کے حوصلے بلند کرے، انہیں کامیابی عطا کرے اور دُنیا کے لئے نمونہ بنائے.ایسا نمونہ جس میں کوئی نقص ( مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء) نہ ہو.النحل : ٩٩ التوبة: ۴۰.تذکرہ صفحہ ۶۹۹.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحه ۵۳۳.ایڈیشن چهارم النور : ٣٧ ۵ ترمذی ابواب الصلوة باب ما جاء في بدء الاذان تفسير القرطبي جلد ۴ صفحه ۹۵ ۱ زیر آیت امسک علیک زوجک کے تذکرہ صفحہ ۱۹۳.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۱۹۹.ایڈیشن چہارم النساء : ٤٧ بخاری کتاب فرض الخمس باب مَا كانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعطى المُؤلَّفَةَ قُلُوبهم (الخ) تبلیغ رسالت جلد ۱۰صفحه ۵۰ مطبوعه قادیان ۱۹۲۷ء
خطابات شوری جلد اوّل مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء ( منعقده ۱۹ تا ۲۱ ر ا پریل ۱۹۳۵ء) پہلا دن مجلس مشاورت منعقده ۱۹ تا ۲۱.اپریل ۱۹۳۵ء کا پہلا اجلاس تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں شروع ہوا.تلاوت قرآن کریم کے بعد حضور نے فرمایا: - پیشتر اس کے کہ مجلس شوری کی کارروائی شروع کی جائے میں چاہتا ہوں کہ دوست دعا مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کام میں برکت ڈالے.ہماری نیتوں میں، اخلاص میں ، سمجھ میں ، فکر میں، قوت عملیہ میں برکت ڈالے اور ہماری صرف باتیں کرنے کی عادت چھڑا کر حقیقی اور سچے طور پر کام کرنے کی توفیق عطا کرے.“ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد افتتاحی تقریر کرتے ہوئے افتتاحی تقریر حضور نے فرمایا: - ” ہم آج پھر اللہ تعالیٰ کے دین کے کام کے لئے اور اس امر پر غور کرنے کے لئے کہ کس طرح اپنے فرائض کو پہلے سے زیادہ بہتر طور پر ادا کر سکتے ہیں یہاں جمع ہوئے ہیں.کام کرنے کا وقت میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے لئے اب باتیں کرنے کا وقت نہیں رہا بلکہ کام کرنے کا وقت آ گیا ہے.باتیں بہت لوگ کر سکتے ہیں اور ایسی ایسی باتیں کر سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم پتہ نہیں لگا سکتے کہ وہ مخلص ہیں یا منافق لیکن آج سلسلہ احمد یہ باتوں کو برداشت نہیں کرسکتا.ہماری مثال ہر وہ شخص جس کے دل میں سلسلہ کا درد ہے اور جو اس جماعت میں بچے طور پر اور سمجھ کر داخل ہوا ہے نہ کہ محض رسم کے طور پر وہ اس امر کو تسلیم کرنے
خطابات شوری جلد اوّل ۶۱۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء پر مجبور ہو گا کہ اب ہماری وہی مثال ہے جس طرح کسی نے کہا تھا.تخت یا تختہ.کسی شخص پر جنگ کا کوئی خاص موقع آیا تھا اُس وقت اُس نے کہا تھا کہ اب تخت ہے یا تختہ یعنی اس میدانِ جنگ سے یا تو میں تخت لے کر لوٹوں گا یا میرا جنازہ اُٹھایا جائے گا.کیا عجب ہے کہ ہمارے لئے بھی ایسا ہی وقت آچکا ہو.خدا تعالیٰ کے لئے دو تخفے جس احمدی میں ذرا بھی غیرت اور شرافت کا کوئی ہو آج اس ارادہ اور اس نیت کے بغیر اُس کے لئے کام حصہ کرنا ممکن ہی نہیں کہ یا تو سلسلہ احمدیہ کے لئے فتح حاصل کریں گے یا ہر چیز کو اِس راہ میں قربان کر دیں گے.دو ہی تحفے ہیں جو ہم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکتے ہیں.یا تو احمدیت کی فتح یا اس راہ میں اپنی ہر ایک چیز جان، مال، عزت ، آبرو کو قربان کر سکتے ہیں.ابھی تک ہماری جماعت کے سامنے وہ مطالبات پیش ہی نہیں ہوئے جو قربانی کے اس مفہوم کو عملی طور پر ظاہر کر سکیں.لیکن جیسا کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کُونُوا ربانین یعنی آہستگی سے قدم اُٹھا ئیں اور آگے بڑھتے جائیں.حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ربانی کے معنے پوچھے گئے تو انہوں نے فرمایا وہ جو چھوٹے علوم بڑے علوم سے پہلے سکھاتا ہے.یہ رستہ وہی ہے جو بڑی قربانیوں کی طرف لے جاتا ہے اور جو سیدھے رستہ پر چلتا ہے وہ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ سیدھے رستہ پر چلنے والا دیر لگا دے مگر وہ رستے سے بھٹک نہیں سکتا.گو اس وقت تک جو مطالبات جماعت سے کئے گئے ہیں وہ ایسے نہیں کہ جماعت کے طور پر اُن کے متعلق تخت یا تختہ کہہ سکیں مگر جب تک انفرادی طور پر اس جگہ پر ہم کھڑے نہیں ہوتے ، کام کرنا مشکل ہے.جماعت کے لئے بوجھ بہت لوگ ایسے ہیں جو مفید ہونے کے بجائے جماعت کے لئے بوجھ بنے ہوئے ہیں.اگر تیرنے والے کے گلے میں بڑی بھاری سل باندھ دی جائے تو وہ تیر نہیں سکے گا بلکہ ڈوب جائے گا.اس کے لئے تیرنا اُسی وقت ممکن ہوگا جبکہ سل اس کے گلے سے اُتار لی جائے یا اگر کسی نے کسی اور شخص کو جو ڈوبنے لگا ہو اُٹھایا ہوا ہو تو وہ اس عمدگی سے تیر نہیں سکے گا جس طرح خالی ہونے کی صورت
خطابات شوری جلد اوّل ۶۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء میں تیر سکتا.اگر فاصلہ لمبا ہو تو تین صورتیں ہوں گی.(۱) کسی جگہ اُس کو رکھ دے.یا (۲) جس کو اُٹھایا ہوا ہو اُ سے ہوش آ جائے اور اس طرح بار ہلکا ہو جائے یا (۳) دونوں ڈوب جائیں.ہمارے متعلق یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم کہیں ہم پر دوسروں کا جو بوجھ پڑا ہوا ہے اس کی وجہ سے ہم بھی ڈوب جائیں.یہ قربانی اور جگہ کر سکتے ہیں لیکن احمدیت کے متعلق نہیں کر سکتے.رہی یہ صورت کہ اس بوجھ کو کچھ دیر تک برداشت کریں اور کچھ دُور تک لے جائیں یہ ہوسکتا ہے لیکن اگر ان کو جو بوجھ بنے ہوئے ہیں پھر بھی ہوش نہ آئے تو ہم کہیں گے اُن کو چھوڑ دو اور خود آگے بڑھو.غافل ہوشیار ہو جائیں پس جو لوگ غافل اورست ہیں اُن کو ہوشیار ہو جانا چاہئے.ایک حد تک ہم اُن کا لحاظ کر سکتے ہیں.اگر دُنیوی حالات ہوں مثلاً کوئی بیمار ہو یا کوئی تکلیف ہو یا کوئی اور معاملہ ہو تو ہم انتہا تک ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں لیکن جہاں سلسلہ کا سوال ہو وہاں ایک حد تک ہی اُن کے ساتھ جائیں گے اور پھر کہنا پڑے گا کہ اگر ڈوبتے ہو تو ڈوب جاؤ اب ہم تمہارے ساتھ نہیں چل سکتے.اچھی طرح سُن لو پس جہاں میں کمزوروں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہوشیار ہو جائیں وہاں اُن لوگوں کو جن کے دل میں درد ہے کہتا ہوں کہ جن لوگوں کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں انہیں ہوشیار کرنے کی کوشش کریں ورنہ وہ زمانہ قریب آرہا ہے جب کہ اپنے قریبی رشتہ داروں حتی کہ احمدی کہلانے والوں کو بھی چھوڑنا پڑے گا.سُن لو اور خوب اچھی طرح سُن لو کہ تمہیں اپنی اصلاح کے لئے ایک کافی زمانہ ملا اب ہم اور زیادہ انتظار نہیں کر سکتے.ہمارے ذمہ ایک بہت اہم کام ہے اور وہ دُنیا کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمیں صداقت اور حقانیت دی اور فرمایا جاؤ ساری دُنیا کو پہنچاؤ.اہم کاموں میں تو لوگ مرنا بھی بھول جاتے ہیں ، پھر کیا ہم زندہ رہنا بھی نہیں بھول سکتے.مرنا بُھول جانے والے کہا جاسکتا ہے کہ کس طرح کوئی مرنا بھول سکتا ہے مگر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو واقعی بھول جاتے ہیں.ظاہری حالات ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں مر جانا چاہئے مگر وہ اس وقت تک نہ مرے جب تک انہوں نے اپنا کام نہ کر لیا.تاریخوں میں آتا ہے ایک قلعہ تھا جس پر قبضہ کر لینے پر نپولین کی فتح کا
خطابات شوری جلد اوّل ۶۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء دارو مدار تھا.ایک نوجوان کے سپرد یہ کام تھا کہ اس کے فتح ہونے کی اطلاع نپولین کو دے.عین اُس وقت جب کہ وہ چلنے لگا اُس کے سینہ میں گولی لگی مگر وہ گھوڑا دوڑائے چلا گیا اور جا کر اطلاع دی کہ قلعہ فتح ہو گیا ہے.نپولین نے اسے دیکھ کر کہا تمہیں یہ کیا ہوا کیا گولی لگی ہے؟ یہ کہنا تھا کہ وہ اُسی وقت گر کر مر گیا.جس جگہ اُسے گولی لگی تھی وہ ایسی نازک تھی کہ اُسے گولی لگنے کے بعد پھر جینا نہیں چاہئے تھا مگر چونکہ اُس میں یہ فوق العادت ارادہ پیدا ہو گیا تھا کہ یہ کام مجھے کرنا ہے اور میں اسے کر کے چھوڑوں گا.اس وجہ سے موت بھی اُس سے پیچھے ہٹی رہی تا وقتیکہ اس نے اپنا کام نہ کر لیا.کیا جس کام کو ایک شخص اپنے ملک کی خاطر اور نپولین کی خاطر کر سکتا ہے اور موت کو بُھلا کر جوٹل نہیں سکتی کر سکا، کیا ہم دین کے لئے زندگی کو بُھول کر نہیں کر سکتے ؟ اس وقت اگر ہمیں موت بھی آ جائے تو ہم کہیں گے ذرا پیچھے ہٹ ہمیں ابھی خدا کا کام کرنا ہے اور وہ بھی پیچھے ہٹ جائے گی.پس وقت آ گیا ہے کہ ہم ہوشیار ہو جائیں.اگر ہم اس پیغام کو نہ پہنچائیں گے جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے تو اُس درگاہ میں جس کا مجرم بہت ہی قابلِ رحم حالت میں ہوتا ہے مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے دوست کی حیثیت سے نہیں.کامیابی میں کوئی شبہ نہیں پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ سُستی ترک کر دیں.وہ جو پچست نہیں چست ہو جائیں ، جو ہوشیار نہیں وہ ہوشیار ہو جائیں اور سُستیاں چھوڑ دیں اور خدا تعالیٰ کا پیغام دنیا کو پہنچانے کے لئے سب کچھ بھول جائیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اس ارادہ اور اس ایمان کے ساتھ اگر چند ہزار بھی نکلیں گے تو پھر کامیابی میں شبہ نہیں ہو سکتا.تمام روکیں اور تمام مشکلات اُن لوگوں کی وجہ سے ہیں جن کے ارادوں میں سستی اور جن کی نیتوں میں صفائی نہیں.دائمی زندگی حاصل کرنے کا اصل خوب اچھی طرح یاد رکھو جو شخص مرنے کے لئے تیار ہو جائے اُسے کوئی نہیں مارسکتا.سچے طور پر موت قبول کرنے والی انبیاء کی جماعت ہی ہوتی ہے.پھر کوئی ہے جو اُسے مار سکے؟ ہرگز نہیں.دائی زندگی حاصل کرنے کا اصل یہی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے لئے موت قبول کرے اور جب کوئی انسان اس ارادہ سے کھڑا ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اسے زندہ
خطابات شوری جلد اوّل ۶۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں گویا گشتی شروع ہو جاتی ہے.انسان زور لگاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں موت حاصل ہو لیکن فرشتے زور لگاتے ہیں کہ اسے زندہ رکھا جائے.جب خدا کا بندہ کہتا ہے کہ میں خدا کے لئے مرنا چاہتا ہوں تو خدا تعالیٰ کے سارے فرشتے کہتے ہیں ہم مرنے نہیں دیں گے اور آخر فرشتے ہی جیتتے ہیں.بندہ چاہتا ہے کہ مرجائے.وہ اس کے لئے اپنے آپ کو ایسے حالات میں ڈالتا ہے جن کا نتیجہ موت ہوتی ہے مگر وہ مرتا نہیں.جنگ حنین کا واقعہ حسنین کے واقعہ کوہی دیکھ لو.جب دشمن حملہ کر کے آگے بڑھا تو اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس صرف بار آدمی تھے باقی سب دشمن کی تیراندازی سے تتر بتر ہو گئے تھے.اُس وقت حضرت عباس نے کہا حضور ذرا پیچھے ہٹ جائیں مگر آپ نے سواری کو ایڑی لگائی اور آگے بڑھتے ہوئے فرمایا.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ میں خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہوں میں پیٹھ کس طرح دکھا سکتا ہوں یہ ایک ایسا کلمہ تھا جو انسانیت کو بھلا کر خدا تعالیٰ کے سامنے لانے والا تھا.چار ہزار تیر اندازوں کے مقابلہ میں ایک شخص کہتا ہے میں یہاں سے ہٹ نہیں سکتا تو یہ انسان نہیں بلکہ خدا بول رہا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت کہا بھی کہ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ.میں انسان ہی ہوں.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا کہ میں خدا کی راہ میں مرنا چاہتا ہوں تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اُتر آئے اور حنین کی شکست فتح سے بدل گئی اور آپ فاتح بن کر میدان جنگ سے لوٹے.اُحد کی جنگ اسی طرح احد کی جنگ کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ باہر نکل کر مقابلہ کریں یا اندر ہی رہ کر؟ اُس وقت بعض نوجوان چاہتے تھے کہ بہادری دکھا ئیں اور باہر نکل کر مقابلہ کریں.اُنہوں نے اس کے لئے بہت زور دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات مان لی اور آپ زرہ پہن کر نکل آئے.بعد میں جو لوگ آئے انہوں نے نوجوانوں کو سمجھایا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے کہ اندر رہ کر مقابلہ کریں تو تم نے باہر نکل کر لڑنے پر کیوں
خطابات شوری جلد اوّل ۶۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء زور دیا؟ اس پر نو جوانوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رَسُول اللہ ! ہم سے غلطی ہوئی ہم اپنی بات واپس لیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نبی جب ہتھیار پہن لیتا ہے تو پھر نہیں کو تھا." اس کے بھی یہی معنے ہیں کہ نبی اپنے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں موت پسند کرتا ہے.کامیابی چاہتے ہو تو موت قبول کرو تو خدا کا وہ مقدس رسول جس کی جان زمین و آسمان سے بھی زیادہ قیمتی تھی ، جس کی جان کی خاطر ہزاروں صدیوں کے انسان قربان کئے جاسکتے تھے ، جس کی جان کے ایک منٹ کی قیمت تمام کائنات نہیں ہو سکتی ، وہ بھی کہتا ہے کہ نبی جب ہتھیار لگا لے تو پیچھے نہیں ہٹ سکتا.پھر ہماری کیا حقیقت ہے کہ ہم جب کھڑے ہوں تو کمریں کھولنے کا خیال بھی دل میں لائیں.کیا جس کے لئے بیش قیمت ہیرا قربان کیا جا سکتا ہے اُس کے لئے کوئلہ نہیں قربان کیا جا سکتا؟ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں ہماری جانیں کوئلہ جتنی بھی حیثیت نہیں رکھتیں.وہ ہیرا ہو کر تیار تھا کہ خدا تعالیٰ کے عشق کی بھٹی میں جل جائے.پھر کیا ہم کوئلہ ہو کر نہیں جلیں گے؟ بحالیکہ یہ کہ کوئلہ بنایا گیا ہی جلنے کے لئے ہے.پس موت کو قبول کرو، تب کام ہوگا.دنیا کو فتح کرنے کا رنگ پیدا کرو اس وقت ہم جس کام کے لئے کھڑے ہوئے ہیں وہ دُنیا کو فتح کرنے کا پروگرام ہے.اور چونکہ ہمارے سپرد دلوں کو فتح کرنا ہے اور ماریں کھا کر فتح کرنا ہے اس لئے زیادہ وقت اور زیادہ زور سے کام کرنے کی ضرورت ہے.اب جو سال چڑھا ہے اس کے بعد پتہ نہیں خدا تعالیٰ موقع دے یا نہ ، وہ کب تک ہمیں ڈھیل دے گا.ہمیں خیال کرنا چاہئے کہ ممکن ہے خدا تعالیٰ یہ فیصلہ کر دے کہ یہ جماعت فیل ہو گئی ہے اس لئے کوئی اور چنی چاہئے.پچاس سال سے زائد ہو گئے کہ یہ کام ہمارے سپرد کیا گیا اس عرصہ میں ہم نے اپنے اندر وہ رنگ پیدا نہیں کیا جو دُنیا کو فتح کرنے کے لئے ضروری ہے.ابھی تک جماعت کو جگانے اور ہوشیار کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے.
خطابات شوری جلد اوّل ۶۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء حقیقی عشق کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ کسی کے کہنے کسی کے سمجھانے اور کسی کے بیدار کرنے کے بغیر آپ لوگ بیدار ہوں ؟ اگر حقیقی عشق ہو تو پھر کسی کے بیدار کرنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی.تب یہ ضرورت تو پیش آ سکتی ہے کہ سُلانا پڑے تا کہ پاگل نہ ہو جائے مگر یہ ضرورت نہیں پیش آیا کرتی کہ بیدار کرنا پڑے.انبیاء کی قلبی حالت میں نہیں جانتا اپنے متعلق کہتا ہوں بسا اوقات جوش کو اس لئے دبانا پڑتا ہے کہ کہیں جنون نہ ہو جائے.میں سمجھتا ہوں جب عشق الہی کی آگ دل میں لگی ہو تو پھر کسی کے بیدار کرنے کی ضرورت نہیں رہتی.ایسی حالت کے چند لمحے دوسری تمام زندگی سے قیمتی ہوتے ہیں.زندگی کا ایک نہایت قیمتی لمحہ میری زندگی میں بھی ایسا لمحہ اُس وقت آیا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انتقال ہوا اُس وقت میری عمر انیس سال کی تھی.جب میں نے لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ اب کیا ہوگا، ابھی کئی پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں اور ایک شخص تو ایسے موقع پر مرتد بھی ہو گیا.اُس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سرہانے کھڑے ہو کر خدا تعالیٰ سے مخاطب ہو کر میں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تیری طرف سے آئے ، اب میں تیرے ہی سامنے تیرے ہی تقدس کی قسم کھا کر اقرار کرتا ہوں کہ اگر سارے کے سارے لوگ بھی مرتد ہو جائیں تو میں تیری راہ میں اپنی جان لڑا دوں گا.یہ وہ پہلے الفاظ اور پہلا کام تھا جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد کیا.میں نے خدا تعالیٰ کی توفیق سے بڑے بڑے کام کئے ہیں مگر میں اس کام کو سب سے بڑا سمجھتا ہوں.جب کے بدر کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گئے تو آپ نے پوری طرح اعلان نہ کیا تھا کہ جنگ ہوگی یا نہیں اور مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس بات کا یقینی علم آپ کو کہاں ہوا.اُس وقت جو صحابہ آئے وہ پوری طرح تیار نہ تھے.تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے کہا کہ خدا تعالیٰ نے بتایا ہے جنگ ہوگی ، دشمن آ رہا ہے اب بتاؤ کیا رائے ہے؟ اُس وقت کئی ایک صحابہ اُٹھے اور انہوں نے کہا رائے کیا ہم جنگ کے لئے تیار ہیں مگر یہ کہنے والے مہاجرین تھے، انصار نہ تھے.جب وہ بول چکے تو
خطابات شوری جلد اوّل ۶۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا دوستو مشورہ دو.یہ تین دفعہ آپ نے کہا.اس پر ایک انصاری کھڑے ہوئے اور کہا يَا رَسُولَ الله ! کیا آپ کی مراد ہم سے ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس کی وجہ یہ تھی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور انصار سے معاہدہ ہوا تو اس کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کفار مدینہ پر چڑھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کریں گے تو ہم لڑیں گے باہر جا کر لڑنے کے ذمہ وار نہیں.یہ لڑائی چونکہ باہر تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار سے پوچھتے تھے.اُس وقت ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! وہ معاہدہ اُس وقت ہوا تھا جب کہ ہم پر حق پوری طرح نہ گھلا تھا.اب جب کہ ہمیں آپ کے ذریعہ ایمان نصیب ہوا ہے تو ہم سے یہ سوال ہی کیا ہے کہ لڑو گے یا نہیں.يَا رَسُولَ اللہ ! یہ سامنے سمندر ہے.آپ اشارہ فرمائیں کہ اِس میں گھوڑے ڈال دو ہم آپ سے کچھ پوچھے بغیر فوراً ڈال دیں گے.جب جنگ ہوگی تو ہم آپ کے دائیں اور بائیں ، آگے اور پیچھے لڑیں گے اور کوئی آپ تک نہ پہنچ سکے گا جب تک ہماری لاشوں پر سے گذرتا ہوا نہ آئے گا.سے یہ بات اُس انصاری نے کہہ دی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سن لی.ایک صحابی نے جو تیرہ یا سترہ غزوات میں شامل ہوئے ایک دفعہ ایک موقع پر آہ بھر کر کہا کاش! میں ان غزوات میں شریک نہ ہوتا اور ان کا ثواب مجھے حاصل نہ ہوتا مگر یہ فقرہ میرے منہ سے نکلا ہوتا.ہر احمدی کو کیا عہد کرنا چاہئے مجھے بھی اس صحابی کی طرح فخر حاصل ہے جب میں اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں اور اس فقرہ اور معاہدہ پر نظر ڈالتا ہوں تو سمجھتا ہوں وہ بہترین موقع تھا جو خدا تعالیٰ نے مجھے دیا.ایسا ہی معاہدہ کامیاب کر سکتا ہے.جب تک ہر ایک احمدی اپنی آنکھوں کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس لاشوں کو رکھ کر یہ معاہدہ نہیں کرتا کہ میں اپنا سب کچھ اسلام کے لئے قربان کر دوں گا کامیاب نہیں ہوسکتا.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا کہ جنت میں یہ درجہ اور یہ منصب ملے گا.ایک صحابی کھڑا ہوا.اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میرے لئے دُعا فرمائیں
خطابات شوری جلد اوّل ۶۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء کہ خدا تعالیٰ مجھے یہ درجہ عطا کرے.آپ نے فرمایا ہاں.ایک اور نے عرض کیا میرے لئے بھی دعا فرمائیں.آپ نے فرمایا نہیں پہلے جس کو موقع ملنا تھا مل گیا.خدا تعالیٰ نے مجھے بھی خاص موقع دیا معلوم نہیں کسی اور کو دیا یا نہیں.مگر وہ موقع ملے یا نہ ملے وہ ذہنوں میں تو ہے.کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاش مسلمانوں نے نکال کر رکھی ہوئی ہے.سب کچھ قربان کرنے کی نیت کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ بعض احمدی کہلانے والے اپنی سستی اور منافقت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاش کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں، کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ آج دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل اسلام کو سمجھا جاتا ہے، کیا یہ تینوں لاشیں تمہارے سامنے نہیں ہیں پھر تم کس طرح ایک پل بھی آرام سے بیٹھ سکتے ہو.پھر کیوں تمہارے دل میں وہ جوش نہیں پیدا ہوتا جو میرے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاش کے سرہانے کھڑا ہوکر پیدا ہوا.یہی وہ ارادہ اور نیت ہے جو سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ کر سکتی ہے اور جس کے بعد کوئی روک نہیں رہ سکتی کیونکہ جو شخص یہ نیت کرتا ہے اور اُس کے دل میں خدا آ جاتا ہے اور دُنیا کی کوئی طاقت خدا کا مقابلہ نہیں کر سکتی.کون ہے جو اس ارادہ کے سامنے ٹھہر سکے اور کون ہے جو ایسے انسان کو شکست دے سکے.وہ خدا تعالیٰ کی گود میں چلا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اُس کا محافظ بن جاتا ہے.مجھے ہزار ہا مخالفتوں کے مواقع پیش آئے مگر میں نہیں سمجھتا وہ کیا چیز ہے کہ جب دُنیا سمجھتی ہے یہ شکست کھانے لگا ہے تب سب مشکل نہ دُور ہو جاتیں اور فتح نمایاں ہو جاتی ہے.میں سمجھتا ہوں خدا تعالیٰ کو وہی اقرار پسند آ گیا اور اس کی وجہ سے وہ سب مشکلات دور کر دیتا ہے.وہ آواز جو اُس وقت میرے منہ سے نکلی اور جو یہ تھی کہ خواہ کچھ ہو میں دین کی خدمت کروں گا.گومیرے منہ سے نکلی مگر خدا بول رہا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ پوری ہو رہی ہے.مشکلات خدا تعالیٰ کب محافظ بنتا ہے پس جب کوئی یہ فیصلہ کر لیتا ہے اور یہ ارادہ اُس کے دل میں گڑ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے کسی.چیز کی پرواہ نہیں کروں گا تو خدا تعالیٰ اُس کا محافظ بن جاتا ہے اور اُسے دین کی خدمت کا
خطابات شوری جلد اوّل ۶۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء موقع دے دیتا ہے.اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ابتداء میں ہی ساری قربانی پیش کر دی جائے مگر میں یہ وہم میں بھی نہیں لا سکتا کہ زمین و آسمان ٹل جائیں لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے تو ایسا ارادہ کرنے والا پیچھے رہ جائے کیونکہ اُسے سوائے خدا تعالیٰ کی مشیت کے اور کوئی چیز روک نہیں سکتی.پس جو خدا تعالیٰ کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے وہ کبھی ہار نہیں سکتا.کوئی انسان غیب نہیں جانتا نہ میں ، نہ نبی اور نہ نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.اس لئے غیب کی آواز خدا ہی کی آواز ہوسکتی ا ہے اور وہی اسے پورا کسی رہا ہے.میری مثال تو قلم کی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کھتی ہے حالانکہ وہ نہیں لکھتی بلکہ لکھنے والا ہاتھ لکھتا ہے.میں اپنے حالات ، اپنے علم اور اپنی طاقتوں کو جانتا ہوں کہ کچھ بھی نہیں مگر چونکہ میں نے اس کو اختیار کر لیا ہے جو سب کچھ ہے اور اُس نے کہا ہے کہ میں کام کرا دوں گا اس لئے مجھے ہر قدم پر کامیابی حاصل ہوتی ہے.مومن کے لئے موت غم کی گھڑی نہیں جب دشمن مجھے قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں میں کہتا ہوں اگر کر سکتے ہو تو کر دو.جب مجھے موت آجائے گی میں سمجھوں گا میرے سپر د جو کام تھا وہ ہو چکا میرے لئے وہ غم کی گھڑی نہ ہو گی.خواہ کسی کو کام ختم ہوتا نظر آئے یا نہ میں یہی سمجھوں گا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کام ختم ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت بھی لوگ سمجھتے تھے کہ آپ کا کام ختم نہیں ہو ا حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے انسان نے بھی یہی کہا.پس جب میری موت کی گھڑی آئے گی تو میں سمجھوں گا کہ کام ختم ہو چکا مگر وہ اُس وقت تک آ نہیں سکتی جب تک اسیروں کی رُستگاری اور اسلام کی کامیابی نہ دیکھ لوں.خدا کے بندوں کی موت اسلام کی فتح ہوتی ہے پس میں موت سے نہیں ڈرتا اور ہر احمدی کو اس نکتہ کی طرف بلا تا ہوں کہ جب اس پر موت آئے تو وہ ہنسے اور کہے اسلام کی فتح ہو گئی.کسی کی موت اسلام کی موت نہیں ہو سکتی بلکہ خدا کے بندوں کی موت اسلام کی فتح ہوتی ہے.ایک ایک فدائی اور مخلص جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں اور بائیں جنگ کرتا ہوا
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۶۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء مارا گیا، کیا وہ اسلام کی موت تھی؟ نہیں بلکہ وہ اپنے خون سے لکھ گئے کہ اسلام کو فتح حاصل ہو گی.پس وہ مقام حاصل کرو کہ تمہاری موت فتح کی موت ہو جیسا کہ ایک عرب شاعر نے کہا ہے يَا ذَالَّذِي وَلَدَتْكَ أُمُّكَ بَاكِياً وَالنَّاسُ حَوْلَكَ يَضْحَكُونَ سُرُورًا اخرِصُ عَلَى عَمَلٍ تَكُونَ بِهِ مَتَى يَبْكُونَ حَوْلَكَ ضَاحِكاً مَسْرُوراً اے انسان! تو ایسا تھا کہ جب تو پیدا ہوا تو رو رہا تھا اور لوگ ہنس رہے تھے کہ بیٹا پیدا ہوا.اب تو ایسے عمل کر اور تو ایسا مقام حاصل کر لے کہ جب تو فوت ہو تو لوگ رو ر ہے ہوں کہ وہ تیرے فوائد سے محروم ہو گئے اور تو ہنس رہا ہو کہ تو نے اپنا کام ختم کرلیا.مومن اپنا کام ختم کئے بغیر نہیں مرتا یہ وہ مقام ہے جس کے لئے مومن کوشش کرتا ہے کہ ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں موت اُس کے لئے باعث رنج نہ ہو بلکہ وہ اعلان ہو اسلام کی فتح کا اور وہ اعلان ہو اسلام کی کامیابی کا کیونکہ کب کوئی جرنیل اپنے سپاہی کو اس کی جگہ سے ہٹاتا ہے جب تک فتح نہ ہوگئی ہو.بے شک دُنیا میں لوگ مارے جاتے ہیں اور ایسی حالت میں مارے جاتے ہیں جب کہ اُن کی فتح نہیں ہوتی لیکن دُنیا کے جرنیلوں کے قبضہ میں زندگی نہیں ہوتی مگر خدا تعالیٰ کے قبضہ میں زندگی ہے.پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے کسی سپاہی کو اُس وقت میدانِ جنگ سے ہٹالے جبکہ اُس کی فتح نہ ہوئی ہو.خدا تعالیٰ اُسی وقت ہٹاتا ہے جب کہ وہ سمجھتا ہے کہ قلعہ فتح ہو گیا ہے.پس موت پر قبضہ رکھنے والا خدا کسی کامل مومن کو اُس وقت تک نہیں مارتا جب تک وہ فتح حاصل نہ کرلے اور اُس کا کام ختم نہ ہو جائے.پس تم اپنے آپ کو اُس مومن کی مانند بناؤ جس کو خدا تعالیٰ فتح حاصل کرنے کے لئے کھڑا کرتا ہے تب تمہاری موت اسلام کی فتح ہو گی.مومن کی موت خدا تعالیٰ کی طرف سے بلا وا ہوتا ہے اور بلا وا اُسی وقت ہوتا ہے جب کام ختم ہو جائے پس تم خدا تعالیٰ کے سپاہی کی طرح کام کرو.بیشک عقل کو کام میں لاؤ مگر یا درکھو عاشق زیادہ عقل کو کام میں نہیں لایا کرتے.تم ہر بات کو سوچو اور سمجھو مگر
خطابات شوری جلد اوّل ۶۲۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء جہاں قربانی کا سوال ہو وہاں عقل بھی کمزور ہو جاتی ہے اُس وقت یہی خیال ہونا چاہئے کہ اور بھی قربانی کریں گے.مگر وہ دنیا داروں والی قربانی نہ ہو بلکہ مومن جو کہتا ہے وہ کر کے دکھا دیتا ہے مومن انسانوں والی قربانی ہو.مومن جو کچھ کہتا ہے وہ کر کے بھی دکھا دیتا ہے.تم وہ بات نہ کہو جس پر خود عمل نہ کر سکو یا جماعت کو جس پر نہ چلا سکو.اور اگر کوئی بات کہتے ہو تو اُس پر خود بھی عمل کرو اور جماعت کو بھی کراؤ.اگر کوئی شخص اس پر عمل نہیں کرتا تو اُس کے متعلق مرکز میں لکھ دو کہ وہ ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار نہیں ہے.اسلام کا جھنڈا سر نگوں نہیں ہو سکتا ہم سب جس قدر یہاں جمع ہیں اس ارادہ کے ساتھ کھڑے ہوں کہ دُنیا کی کوئی طاقت ہمیں اپنے مقصد و مدعا میں نا کام نہیں کر سکتی.اگر ہم میں سے چند بھی باقی رہ جائیں گے تو وہ نا کام نہیں ہوں گے بلکہ اگر ایک بھی نہیں رہے گا تو بھی اسلام کا جھنڈا سر نگوں نہیں ہو سکتا.حنین کی جنگ میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکیلے رہ گئے تو آپ نے حضرت عباس سے فرمایا آواز دو کہ اے انصار! اللہ کا رسول تمہیں بُلاتا ہے جب میں یہ واقعہ پڑھتا ہوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر اس وقت تک کی تیرہ صدیاں سمٹ کر وہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور دُوری کا سوال اُڑ جاتا ہے.اس وقت میں سمجھتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز مجھے سنائی دے رہی ہے اور میں لبیک کہتا ہوا حاضر ہو رہا ہوں.پھر غور کرو جن کے کانوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عباس کی آواز کاغذ اور سیاہی کے ذریعہ نہیں پہنچی بلکہ آواز اُن کے کانوں میں براہ راست پہنچی اُن کی کیا کیفت ہوتی ہو گی.وہ کہتے ہیں ہمیں ایسا معلوم ہوا کہ صور اسرافیل پھونکا گیا ہے.اُس وقت اُن کے گھوڑے اور اونٹ بھاگے جا رہے تھے.اِس حالت میں اُن کا لوٹنا کتنا مشکل تھا مگر جب حضرت عباس نے یہ آواز بلند کی کہ خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو اُنہوں نے اپنی سواریوں کو موڑنے کی کوشش کی.جب وہ زور لگاتے تو سواریوں کے منہ مڑ کر پیٹھ کو جا لگتے مگر جب چھوڑتے تو پھر آگے کو
خطابات شوری جلد اوّل ۶۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء بھاگ پڑتیں اس وجہ سے اُنہوں نے اپنی سواریوں کی گردنیں کاٹ دیں اور سواریاں چھوڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد لبیک يَا رَسُولَ اللَّهِ لَبَّیک کہتے ہوئے جمع ہو گئے.کے میں جب کاغذوں میں یہ واقعہ پڑھتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تیرہ صدیاں مٹ گئی ہیں اور حضرت عباس کی آواز میرے کانوں میں آ رہی ہے.اُس وقت میں چاہتا ہوں کہ اُڑ کر پہنچ جاؤں.خدا کے مسیح کی آواز مگر اس وقت جب کہ خدا کے مسیح کی آواز ہمارے کانوں میں پہنچ رہی ہے کہ اے خدا کے بندو! تمہارا خدا تمہیں بلاتا ہے تو اس وقت عین میدانِ جنگ میں انصار نے جو قربانی کی اور لبیک کہتے ہوئے جا پہنچے اس سے بڑھ کر قربانی کرنا جو اپنا فرض نہیں سمجھتا اسے مومن کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے.پس اگر کوئی اس آواز پر لبیک نہیں کہتا تو آواز پہنچانے والا کہہ دے کہ میں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے، دوسروں کا میں ذمہ وار نہیں.اس نیت اور اس ارادہ سے جو نمائندے کھڑے ہوں گے وہ ضرور اپنی اپنی جماعتوں کو بیدار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.اُن میں خدا داخل ہو جائے گا ، اُن میں خدا کا ظہور ہو گا.پختہ ایمان اور پختہ ارادہ کی ضرورت اس کے لئے صرف پختہ ایمان، پختہ اخلاص اور پختہ ارادہ کی ضرورت ہے.یہ مت خیال کرو کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے سپرد جو کام کیا ہے اس میں کامیاب ہونے کا سامان نہیں دیا.خدا تعالیٰ نے تمہیں اس کے کرنے کے لئے الہ دین کا چراغ دیا ہے جو تمہارا دل ہے.تم اس کو رگڑ و تمہارے لئے کامیابی کے دروازے گھلتے جائیں گے.میں اس نصیحت کے ساتھ اور اس امید سے اس وقت مجلس شوریٰ کا افتتاح کرتا ہوں کہ جن لوگوں میں ابھی تک تبدیلی پیدا نہیں ہوئی اُن میں آپ لوگ تبدیلی پیدا کر کے کام کرنا شروع کر دیں گے.“ دوسرا دن مشاورت کے دوسرے دن کی تقریر ۲۰.اپریل ۱۹۳۵ء کو جب مجلس مشاورت کا دوسرا اجلاس شروع ہوا تو تلاوت اور دُعا
خطابات شوری جلد اوّل ۶۲۲ کے بعد حضور نے شوری سے متعلق بعض ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: - مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء (۱) دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ میں نے اُن دوستوں کو بولنے کا موقع دینے کے لئے جو کسی تجویز کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیں پیراکبر علی صاحب کو مقرر کیا ہے.جب کوئی تجویز پیش ہو تو احباب کو چاہئے کہ جو اس کے متعلق اظہارِ خیالات کرنا چاہیں وہ اپنے نام پیر صاحب کو لکھا دیں.پس جب کوئی تجویز پیش ہو تو پیر صاحب اُن دوستوں کے نام لکھیں گے جو اپنے نام لکھا ئیں گے.جن دوستوں کو بولنے کی خواہش ہو وہ اُسی وقت نام لکھا دیں.اگر بعد میں ضمنی سوال پیدا ہو یا تجویز کی اہمیت واضح ہونے پر کوئی نام لکھانا چاہے تو اس کے لئے استثناء رکھا جاسکتا ہے اور یہ بات پیر صاحب کے اختیار میں ہوگی یا ہوسکتا ہے کہ میں اجازت دے دوں.(۲) پھر میں اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اگر کسی وقت گفتگو کولمبا کرنے سے روکا جائے تو دوست رُک جائیں.بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جس بات سے روکا جائے بعض دوست اُسی پر لمبی بحث شروع کر دیتے ہیں.میں سمجھتا ہوں اگر انفرادی رائے کسی معاملہ کے متعلق کسی مصلحت کے ماتحت نہ سُنی جائے تو اُس سے سلسلہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور یہ بات بدتہذیبی میں داخل ہے کہ جس کے سپر د کام ہواس سے یہ بحث شروع کر دی جائے کہ آپ میری بات سمجھے نہیں.اگر وہ نہیں سمجھا اور اُس نے گفتگو لمبی کرنے سے روک دیا ہے تو کیا حرج ہو جائے گا.اُس وقت ضرور رک جانا چاہئے اور اگر ضرورت ہو تو تحریری طور پر لکھ کر بتا دینا چاہئے کہ میرا یہ مطلب تھا.اُس وقت اگر ضرورت ہوگی تو میں بولنے کی اجازت دے دوں گا.تیسری بات یہ ہے کہ مضمون میں تکرار نہ ہونا چاہئے.اس کے متعلق میں نے کئی بار کہا ہے مگر دوست یاد نہیں رکھتے.انگلستان کی پارلیمنٹ کے متعلق میں نے حال ہی میں پڑھا ہے کہ وہاں بھی ایک بات کو بار بار دہرایا جاتا ہے تو ہر جگہ یہ بات پائی جاتی ہے.مگر ہمارا کام اور ہمارا طریق دُنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمنٹ سے بھی بالا ہونا چاہئے کیونکہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے آدمی بہت زیادہ ہوتے ہیں اور معاملات نہایت اہم
خطابات شوری جلد اوّل ۶۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء ہوتے ہیں.چوتھی بات یہ ہے کہ احباب اختصار کو مد نظر رکھ کر بولیس بلا ضرورت ایک بات کو لمبا کرنا مفید نہیں ہوسکتا.پانچویں بات یہ ہے کہ کسی موقع پر بھی آپس میں ایک دوسرے کو مخاطب نہ کیا جائے.ہر ایک بولنے والے کو چاہئے کہ مجھے مخاطب کرے کیونکہ میں نے ہی آپ لوگوں کو مشورہ کے لئے بلایا ہے.چھٹی بات یہ ہے کہ جو کچھ بھی کہا جائے اُس میں نیک نیتی مدنظر رہے اور کوئی ذاتی سوال درمیان میں نہ آئے اور کسی کی ذات کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.اگر کسی سے کوئی غلطی ہو گئی اور اُس پر تنبیہہ کی ضرورت ہوئی تو میں خود کر دوں گا.اس کے بعد علاوہ اس دُعا کے جو ہم سب نے مل کر کی ہے پھر توجہ دلاتا ہوں کہ احباب دُعا پر بہت زور دیں.ہمارا کام ایسا ہے کہ جسے کوئی انسان نہیں کر سکتا، خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے اس لئے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا ہتھیار بنانا چاہئے اور یا درکھنا چاہئے قیمتی سے قیمتی ہتھیار کو بھی اگر غلاظت لگی ہو تو کوئی نفاست پسند انسان اسے نہیں پکڑتا.پھر اللہ تعالیٰ جو قدوس ہے اُس کے متعلق کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ پکڑ لے گا.ہمیں چاہئے کہ کبر، غرور اور تکبر کو بالکل چھوڑ دیں اور یہ سمجھ لیں کہ ہم دُنیا میں اس لئے آئے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنے وائرس کا سیٹ بنا لے.جب خدا تعالیٰ کا کلام دُنیا کو پہنچتا ہے تو وہ دُنیا کے لئے مفید ہوتا ہے ورنہ اگر ہم بھی انسانی کلام پیش کریں تو پھر ہمارے لئے یہاں جمع ہونے کی کیا ضرورت ہے.دُنیا میں اس کام کے لئے بہت مجالس بنی ہوئی ہیں.پس ہمارے ارادے پاک، ہماری نیتیں صاف اور ہماری گفتگو پاکیزہ ہونی چاہئے.ہمارے دل غصہ اور کپٹ کے سے خالی ہونے چاہئیں.ہمیں بہت دُعائیں کرنی چاہئیں اور خشیت اللہ کو مد نظر رکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ ہم پر اہم ذمہ واری ہے رائے دینی چاہئے.اس کے بعد میں اختصار کے ساتھ تحریک جدید کے ماتحت اپنے بچوں کو داخل کرانے والوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.اس کے متعلق بعض احباب کو یہ غلطی لگی ہے کہ گویا تحریک جدید کے ماتحت کوئی علیحدہ سکول قائم کیا جا رہا ہے یہ نہیں بلکہ بورڈ نگ قائم کیا گیا
خطابات شوری جلد اوّل ۶۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء ہے.بعض نے اپنے بچوں کے متعلق یہ کہا ہے کہ انہیں قادیان میں تعلیم دلائیں ، خواہ ہائی سکول میں داخل کر دیں ، خواہ مدرسہ احمدیہ میں.مگر تحریک جدید کے ماتحت جُدا گانہ انتظام ہو.وہ سکول نہیں بلکہ بورڈنگ ہے جو خاص طور پر مقرر کیا گیا ہے.لڑکا چاہے مدرسہ احمدیہ میں پڑھے، چاہے ہائی سکول میں پڑھے مگر فی الحال ہائی سکول میں پڑھنے والوں کے لئے یہ انتظام کیا گیا ہے.اس انتظام کے ماتحت اپنے لڑکے دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ تحریک جدید کے دفتر میں یہ تحریر دیں کہ ہم نے اپنے فلاں بچہ کو اس تحریک کے ماتحت آپ کے سپرد کیا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ بچہ کے متعلق تحریک جدید والوں کو گلی اختیارات دیئے جائیں یعنی تربیت کے متعلق بچہ کے والد یا سر پرست کو دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہو گا.ان سب بچوں کو ایک ہی قسم کا کھانا ملے گا سوائے اس کے کہ کوئی لڑکا ایسے علاقہ کا ہو جہاں روٹی کی بجائے چاول کھاتے ہیں، اُس کو چاول اور سالن دیں گے لیکن باقی سب کے لئے ایک ہی کھانا ہوگا اور انہیں ایک ہی رنگ میں رکھا جائے گا.کوئی نمایاں امتیازان میں نہ ہونے دیا جائے گا تا کہ غریب امیر اور چھوٹے اور بڑے کا امتیاز انہیں محسوس نہ ہو.پس اُن کا لباس بھی اور کھانا بھی قریب قریب ایک جیسا ہوگا.پھر ان کی دینی تعلیم پر زیادہ زور دیا جائے گا.ہاں سکول میں پاس ہونے کے لئے سکول کی تعلیم بھی دلائی جائے گی مگر یہ تعلیم دلانا مقصد نہ ہو گا بلکہ اصل مقصد دینی تعلیم ہو گی.بڑی عمر کے لڑکوں کو تہجد بھی پڑھائی جائے گی اور کسی ماں باپ کی شکایت نہ سنی جائے گی.یہ تو ہو سکے گا کہ لڑکے کو اس بورڈنگ سے خارج کر دیا جائے مگر یہ نہ سُنا جائے گا کہ لڑکے کو یہ تکلیف ہے، اس کا یوں ازالہ کرنا چاہئے یا اُس کے لئے یہ انتظام کیا جائے.اس بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ سے ہمارا عہد ہے کہ وہ ان بچوں میں باپ کی طرح رہے گا اور اگر لڑکوں میں سے کوئی ناروا حرکت کرے گا تو اس کی سزا خود لڑکے ہی تجویز کریں گے مثلاً یہ کہ فلاں نے جھوٹ بولا، اُسے یہ سزا ملنی چاہئے.اس قسم کے اصول ہیں جو اس بورڈنگ کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اور ابھی میں غور کر رہا ہوں.پس جو دوست اس تحریک کے ماتحت اپنے بچوں کو داخل کرنا چاہیں وہ تحریر دے جائیں.صرف یہاں کے کسی مدرسہ میں داخل کرا دینا کافی نہ ہو گا.اسی طرح انہیں بورڈنگ یا مدرسہ کے
خطابات شوری جلد اوّل ۶۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء متعلق کوئی شکایت لکھنے کا حق نہ ہو گا.انہیں جو کچھ لکھنا ہو انچارج تحریک جدید کولکھیں وہ اگر مناسب سمجھے گا تو دخل دے گا.“ الفضل کی توسیع اشاعت و الفضل دوستوں کی تحریک سے روزانہ کر دیا گیا ہے.اب ضرورت ہے کہ ہر جگہ اس کے ایجنٹ ہوں.میں نے بار ہا اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہماری جماعت کے لکھے پڑھے مگر بیکار لوگ ہر طرف توجہ کریں.ہوشیار اور محنتی آدمی کافی آمدنی پیدا کر سکتا ہے.اپنے سلسلہ کے اخبارات جن میں سے ایک روزانہ ہے اور دو ہفتہ وار کے علاوہ دوسرے اخبارات میں سے بھی وہ لئے جا سکتے ہیں جو ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور یہ کام قصبات اور شہروں میں چل سکتا ہے.کم از کم دو اڑھائی سو شہر ایسے ہیں جہاں یہ کام کیا جا سکتا ہے.اگر ان شہروں میں کام کرنے والوں کو ماہوار دس پانچ روپے ہی آمدنی ہو تو بریکار رہنے سے بہت اچھا ہے.پھر ایجنٹوں کے ذریعہ اخبار جلد بھی پہنچ سکتا ہے جیسا کہ الفضل والوں نے اعلان کیا ہے.ایجنٹوں کو صبح کی گاڑی سے اخبار بھیجا جائے گا اور اس طرح آج کا پرچہ آج ہی جہاں جہاں ایجنسی ہو گی پہنچ جائے گا.اسی طرح الفضل والے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ یہاں کے ڈاک خانہ کا تار کا وقت بڑھ جائے.تو خبر رساں ایجنسیوں کی تاریں لینے کا انتظام کیا جائے.اس کے بعد موٹر سائیکل یا سائیکلوں کے ذریعہ امرتسر ، لاہور اور دوسرے شہروں میں صبح ہی صبح اخبار پہنچا دیا جائے.یہ کام اُس وقت تک شروع نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ تاریں وقت پر نہ ملیں.خبر رساں ایجنسیوں کی تاریں رات کو آتی ہیں مگر یہاں تار گھر رات کو بند ہوتا ہے.کوشش کی جا رہی ہے کہ تاریں حاصل ہونے کا انتظام ہو جائے.جب یہ صورت ہو گئی تو صبح ہی الفضل دو دو سو میل تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی.اب بھی صبح کی گاڑی سے روانہ ہو جایا کرے گا مگر یہ سارے انتظامات اُسی وقت کئے جا سکتے ہیں جب کہ الفضل کے خریدار بڑھائے جائیں اور اس کی اشاعت کے لئے خاص کوشش کی جائے.“ 66
خطابات شوری جلد اوّل ۶۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء تیسرا دن مالی مشکلات کے باعث زمیندار احباب سب کمیٹی بیت المال کی طرف سے زمیندار احباب کو ان کی مالی مشکلات کو چندہ میں رعایت دینے کی تجویز کی وجہ سے کچھ رعایت دینے کے لئے تجویز پیش ہوئی کہ :- زمینداره آمدنی میں سے علاوہ اُن ڈیوز (DUES) کے جو فقرہ نمبرا میں درج ہیں، خرچ کمیاں بھی وضع کئے جائیں گے اور باقی ماندہ آمدنی کا ۲۰ را حصہ چندہ عام کی صورت میں واجب ہوگا.“ اظہارِ خیال کا موقع ملنے پر کئی زمیندار ممبران نے کہا کہ وہ یہ رعایت نہیں لینا چاہتے اور حسب سابق ۱۶ را حصہ ہی چندہ عام ادا کریں گے.اس پر رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا:- " شاید اس سے پہلے کسی تجویز کے حق زمیندار بھائیوں کا عظیم الشان اخلاص میں اپنی رائیں نہیں ہوئیں اور میں بجھتا ہوں دوسری رائے لینے کی ضرورت نہیں ہے.میں پہلے ہی محسوس کر رہا تھا کہ ان تقریروں کے بعد جو زمیندار دوستوں نے کیں کسی اور تقریر کی ضرورت نہیں لیکن میں اس لئے کہ اپنے آپ کو زمیندار سمجھتا ہوں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہدی کو زمیندار قرار دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام حارث رکھا ہے اس لئے بیان کرتا ہوں کہ جب زمیندار بھائی یہ کہتے ہیں کہ ہم یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ چندہ کم کیا جائے تو پھر رعائت کا سوال ہی کیا ہے.جو لوگ اسے اپنی ہتک سمجھتے ہوں اُن کے لئے رعائت کا سوال کوئی معنی نہیں رکھتا.میرے نزدیک ان کی تقریروں کے سُننے کے بعد ان کے نازک جذبات کا احترام نہایت ضروری تھا اور ان کے شاندار مظاہرۂ اخلاص کے بعد کسی قسم کی تقریروں کی ضرورت نہ تھی.میں سمجھتا ہوں یہ الفاظ کہہ کر کہ زمیندار احباب آئندہ چنده ۱۶ را کی بجائے ۲۰ را دیں اُن کے عظیم الشان اخلاص کی ہتک کی جا رہی تھی جسے قطعاً جاری
خطابات شوری جلد اوّل ۶۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء نہیں رہنا چاہئے تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مثال بیان فرمایا کرتے تھے جسے آج ہمارے زمینداروں نے پورا کر کے دکھا دیا ہے.میں نے بھی خطبوں میں کئی بار یہ بیان کیا ہے کہ ایسی مثالیں اب نہیں ملتیں مگر آج زمیندار بھائیوں نے اسے ایک رنگ میں پورا کر دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے ایک صحابی دوسرے صحابی کے پاس اپنا گھوڑا بیچنے کے لئے گیا اور جا کر مثلاً دوسو روپے قیمت مانگی.گھوڑ ا خریدنے والے نے اُسے کہا تمہیں گھوڑے کی پہچان نہیں ہے یہ تو تین سو روپے کا گھوڑا ہے.میں تین سو روپیہ اس کی قیمت دوں گا.بیچنے والے نے کہا یہ میری چیز ہے اور میں اس کی حقیقت زیادہ جانتا ہوں، یہ دو سو سے زیادہ قیمت کا نہیں ہے لیکن خرید نے والا کہنے لگا کہ نہیں میں تین سو ہی دوں گا کسی نے بیچنے والے سے کہا جب یہ اپنی مرضی سے زیادہ قیمت دیتا ہے تو لے لو.اُس نے کہا کیا میں اصل سے زیادہ قیمت لے کر بددیانت بنوں.آج یہی نظارہ ہمارے زمیندار بھائیوں نے دکھایا ہے.چندہ لینے والی انجمن کہتی ہے کہ ۲۰ الیں گے مگر دینے والے کہتے ہیں یہ ہماری ہتک ہے ہم تو کم از کم ۱۶ دیں گے.میں سمجھتا ہوں آج جس قسم کا اسلام پر وقت آیا ہوا ہے اور جو مطالبہ قربانی کا مخلصین سے ہونے والا ہے اور جو تقریر میں نے پرسوں کی اُن باتوں سے ہم یہی اُمید کر سکتے ہیں اور کی جسے زمیندار بھائیوں نے پورا کر دیا ہے.یہ درست ہے کہ جس کے دل میں اخلاص نہیں اُس کے لئے ۱/۱۲ کیا اور ۱۶ /ا کیا اور ۱/۲۰ کیا.لیکن جہاں اخلاص کا سوال ہو وہاں یہ خیال کرنا کہ اگر چندہ کی شرح کم کر دیں گے تو زیادہ لوگ دیں گے یہ درست نہیں.یہ ٹھیک ہے کہ آجکل زمینداروں پر سخت مشکل کا وقت ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ اسلام پر ان سے بھی زیادہ مشکل کا وقت ہے.زمیندار کے لئے بھی مشکل ہے کہ اگر وہ قرضہ ادا نہیں کرے گا تو جیل خانہ میں ڈال دیا جائے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ زمینداروں کے لئے جیل خانہ میں جانا مشکل نہیں بلکہ اسی طرح ان کی مشکلات دور ہوسکتی ہیں.ایک دفعہ میں نے تحریک کی تھی کہ اگر زمیندار قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں قید ہونے کے لئے تیار ہو جائیں تو ان کا قرضہ دور ہو سکتا ہے مگر ابھی تک زمیندار قید ہونے سے اپنے دلوں میں ڈر
خطابات شوری جلد اوّل ۶۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء محسوس کرتے ہیں.زمینداروں کی قوم ایک پرانی قوم ہے اور ان میں عزت و وقار کے کچھ اصول قائم ہیں اور ان کے لئے وہ ہر چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.ان اصول میں سے بعض نہایت شاندار ہیں، بعض غلط بھی ہیں.مثلاً یہ کہ لڑکے لڑکی کی شادی پر حد سے زیادہ خرچ کیا جائے تاکہ ناک نہ کٹ جائے.اسی طرح زمیندار یہ تو گوارا کر لے گا کہ اُس کی ساری جائداد تباہ ہو جائے لیکن قید ہونا گوارا نہ کرے گا.ظلم کرنے کی وجہ سے اور ظلم کی پاداش میں قید ہونا بے عزتی ہے مگر مظلوم ہو کر قید ہونا عزت ہے لیکن زمیندار اس کے لئے تیار نہیں ہوتے.جب زمینداروں کے پاس کچھ نہ تھا تو انہوں نے کہا بے شک ہمیں جیل میں لے جاؤ ہمارے پاس اس قرضہ کی ادائیگی کے لئے کچھ نہیں.جو اصل کے مقابلہ میں کئی گناہ زائد قرار دیا جاتا ہے.گورنمنٹ کو مجبور ہو کر قرض چھوڑنا پڑا گو اتنا نہ چھوڑا جتنا چاہئے تھا.غرض گورنمنٹ تو قید ہی کرتی مگر اسلام کے لئے یہ بھی بچاؤ کی صورت نہیں کہ قید ہو جائیں.اسلام کے نمائندے اس بات کے لئے بخوشی تیار ہیں کہ اگر ان کے قید ہونے سے اسلام زندہ رہ سکتا ہے تو وہ قید ہو جائیں گے مگر اس طرح بھی اسلام نہیں بچ سکتا.پس اس وقت اس چیز کا سوال ہے جس کی نزاکت ہماری ذاتی تکالیف سے بہت اہم ہے اور اس موقع پر یہی چیز تھی جس کی ہمیں اپنے زمیندار بھائیوں سے امید تھی اور جس کو انہوں نے پورا کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں میری پرسوں کی تقریر کے بعد سب کمیٹی کی یہ تجویز ہی غلط تھی.سب کمیٹی نے یہ خیال ہی کیوں کیا کہ امام جماعت جب زیادہ سے زیادہ قربانی کے لئے بلا رہا ہے تو زمینداروں کو رعایت دی جائے اور کیوں یہ خیال نہ کیا کہ زمیندار بھی آگے بڑھیں گے اور قربانی کریں گے.اگر کمزور رعایت چاہتے تو ان سے سلوک کر دیا جاتا مگر مخلصوں کی کیوں ہتک کی جائے.بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ ہم مقروض ہیں، پورا چندہ ادا نہیں کر سکتے تو میں سفارش کر دیتا ہوں کہ ان سے نہ لیا جائے مگر جو مخلص اس میں ہتک محسوس کرتے ہیں کہ ان سے کم چندہ دینے کے لئے کہا جائے تو یہ کہہ کر کیوں ان کی ہتک کی جاتی ہے اور اس سے زیادہ کیا ہتک ہو سکتی ہے کہ اسلام کی مصیبت کے وقت ایسا قاعدہ بنایا جائے جس سے ان کا بوجھ ہلکا ہو.میں سمجھتا ہوں واقعہ میں یہ ان کی ہتک تھی
خطابات شوری جلد اوّل جیسا کہ انہوں نے کہا بھی.۶۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء میں یہ مانتا ہوں کہ بعض کمزور ہیں ، بعض معذور ہیں اور زمینداروں میں بھی ایسے لوگ ہیں مگر ان کی وجہ سے مخلصین کی کیوں ہتک کی جائے.جو یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی ہر ایک چیز اسلام کے لئے دینے کو تیار ہیں.ہمارے لئے یہ وقت اس قسم کے سوالات کا نہیں ہے.ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب کہ ایک فریق دوسرے سے کہہ سکتا ہے کہ ہم تم سے یہ رعایت کرتے ہیں.ہو سکتا تھا کہ ملازمت پیشہ احباب زمینداروں سے یہ کہتے کہ تمہارے لئے مشکل کا وقت ہے تم ۱/۱۶ کی بجائے ۱/۲۰ دو اور ہم ۱/۱۶ کی بجائے ۱/۱۲ دیں گے، یہ بھی ایک صورت تھی اور دوسرے کہتے کہ خواہ ہمیں کتنی مشکلات درپیش ہوں ہم ۱٫۱۶ ہی دیں گے اور اگر تم ۱/۱۲ دو گے تو ہم بھی ۱/۱۲ دیں گے تو یہ جنگ ایک خوبصورت جنگ ہوتی.پس فیصلہ تو وہی ہے جس کے حق میں اتنی کثرت سے رائیں دی گئی ہیں.میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ زمیندار احباب کے یہ کہنے کے بعد کہ شرح چندہ میں کمی کرنا ہماری ہتک ہے.ان کے لئے اس قسم کی تقریریں کرنا کہ یہ تمہیں رعایت دی جا رہی ہے یہ درست نہ تھا.دوسرے میں اس بات پر خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ اس موقع پر جو کہ نہایت نازک موقع ہے، اس جماعت نے جو سب سے زیادہ تکلیف میں ہے اخلاص کا جو نمونہ دکھایا ہے وہ ہمیں امید دلاتا ہے کہ جب قربانی کا مطالبہ کیا جائے گا تو وہ لوگ جو اس قدر تکلیف میں نہیں وہ ان سے پیچھے نہ رہیں گے.“ 66 وصیت کے متعلق فیصلہ سب کمیٹی بیت المال کی طرف سے رپورٹ پیش ہوئی کہ جو شخص وصیت کرے اُسے اپنی ہر قسم کی آمد کی بھی وصیت کرنی چاہئے.“ حضور نے فرمایا : - اب وصیت کا سوال پیش ہو گا جو کل رہ گیا تھا اور جو یہ ہے کہ جو کرے اُسے اپنی ہر قسم کی آمد کی بھی وصیت کرنی چاہئے.“
خطابات شوری جلد اوّل ۶۳۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء اس کے متعلق شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر نے ایک اعتراض اٹھایا ہے اور وہ یہ کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے احکام کی پیروی کے لئے جمع ہوئے ہیں اگر کسی مسئلہ کے متعلق آپ کی نص معلوم ہو جائے تو کیا اس کے خلاف گفتگو کر سکتے ہیں مگر اس کا جواب صاف ہے کہ ایسا نہیں کر سکتے لیکن جہاں قانون پر بحث ہو وہاں نص کا فیصلہ بھی گفتگو کے بعد ہی ہوا کرتا ہے.پس دوران گفتگو میں جو دوست اسے نص کے خلاف سمجھتے ہوں وہ اس بات کو پیش کریں اور دلائل دیں.ایک دوست نے کل بھی مجھے لکھ کر دیا تھا اور آج بھی یاد ہے کہ جو اصحاب موصی نہیں ان کے سامنے وصیت کا معاملہ پیش نہ ہو اور انہیں اس کے متعلق گفتگو کرنے کی اجازت نہ ہو مگر یاد رکھنا چاہئے ہماری جماعت مذہبی جماعت ہے.اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہر شخص جو رائے دے گا دیانت سے دے گا.اس لئے ہم کوئی اس قسم کا امتیاز نہیں کر سکتے.اگر زمینداروں کے متعلق کوئی معاملہ پیش ہو گا تو غیر زمیندار دیانتداری سے رائے دیں گے.اور اگر تاجروں اور ملازموں کے متعلق پیش ہوگا تو زمیندار دیانت سے رائے دیں گے.اس وقت جو تجویز پیش کی گئی ہے چونکہ سب کمیٹی نے محسوس کیا ہے کہ اس کے الفاظ موزوں نہیں ہیں اور ان میں نقص رہ گیا ہے.اس لئے اب دوسرے الفاظ میں پیش کرتی ہے.چند ممبران کی آراء کے بعد حضور نے فرمایا: - مختلف اصحاب کی طرف سے سوالات آ رہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس گفتگو میں ایک چیز واضح نہیں.دوسروں پر بھی اور خود مجھ پر بھی.اس وقت سوال یہ ہے کہ جو شخص وصیت کرے وہ علاوہ جائیداد کی وصیت کے آمد کی بھی وصیت کرے.جائیداد کی وصیت سے جو مفہوم لیا جا رہا ہے وہ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ اس سے ایسی جائیداد مراد ہے جس سے گزارہ ہو رہا ہو اور اس کے علاوہ تھوڑی بہت آمد بھی ہو.اس کے متعلق گفتگو ہو رہی ہے اور بعض یہ سمجھتے ہیں کہ ایک شخص کے پاس صرف دو چار سو کا مکان ہے مگر اس کی تنخواہ ہزار بارہ سو روپیہ ماہوار ہے وہ اگر جائیداد سے وصیت کر دے.تنخواہ سے نہ کرے تو کیا اس کے لئے کافی ہے.پیش شدہ تجویز کی مخالفت کرنے والوں کے مدنظر کونسی صورت
خطابات شوری جلد اوّل ۶۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء ممبران نے اس بارہ میں تفصیل سے بحث کی اور اپنی آراء پیش کیں.آخر میں حضور نے فرمایا:- دوستوں کے سامنے اس وقت وصیت کے متعلق یہ تجویز پیش ہے کہ ہر موصی کے لئے ضروری ہو کہ اپنی جائداد کی وصیت کرنے پر ہر قسم کی آمد پر ۱/۱۰ سے ۱/۳ حصہ تک ادا کرے.اس آمد سے جائداد کی آمد مستنے ہو گی.یعنی اُس جائداد کی آمد پر حصہ وصیت واجب نہیں ہوگا جس کے حصہ کی وصیت کر دی ہو.مگر اُس کے سوا باقی جو آمد ہو اُس کا ۱۰را حصہ کم از کم دینا ضروری ہوگا.اس کے متعلق بعض دوستوں نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تجویز کردہ قواعد کے خلاف ہے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ قواعد وجی خفی سے تجویز فرمائے ہیں اس لئے ان کو کوئی وحی خفی کے سوا تبدیل نہیں کر سکتا.یہ بھی کہا گیا ہے کہ وحی خفی اگر نہ ہوتی تو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قواعد کو کوئی بدل نہیں سکتا اور بتایا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات واضح کر دی ا ہے کہ اصل وصیت جائداد کی ہے، اس کے سوا کوئی اور شق قائم کرنا جائز نہیں ہوسکتا.دوسرے فریق نے اس طرز پر اس بات کو رڈ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وحی خفی سے صرف یہ بات پیش کی ہے کہ بعض شرائط عائد کئے جائیں جو صدق اور کامل راست بازی کو ظاہر کرنے والے ہوں.پس وحی خفی ان شرائط کے عائد ہونے کے متعلق ہے.ورنہ اگر وحی خفی میں یہ بات شامل ہے کہ جائداد ہی وصیت کرنے کی چیز ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام معا یہ سوال پیدا ہونے پر کہ جس کی جائداد نہ ہو وہ کیا کرے، آمد کی وصیت کرنے کے متعلق نہ فرماتے.اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ بھی وحی خفی سے آپ نے کیا.اس کا بھی یہی جواب دیا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف اصول وحی خفی سے تجویز فرمائے ہیں مگر یہ کہ کس طرح وحی خفی سے تجویز کئے وہ سامنے نہیں آئی.بہر حال اصل چیز یہی ہے کہ ایک فریق کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات بالوضاحت بیان فرما دی ہے کہ جائداد کی وصیت ہو گی.پھر جب آمد کے متعلق سوال
خطابات شوری جلد اوّل ۶۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء پیش ہوا تو آمد کی وصیت کرنے کی منظوری دے دی اور جائداد کو شامل کر لیا مگر جہاں جائداد کا ذکر کیا ہے وہاں آمد کو شامل نہیں کیا.یہ نص اس بات کی کہ جو جائداد کی وصیت کرے اُس کے لئے ضروری نہیں کہ آمد کی بھی کرے.دوسرا فریق کہتا ہے یہ نص نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے جب وصیت کا سوال آیا تو آپ نے پہلے جائداد سے آمد کو مستثنے کر دیا ہو اور بعد میں جائداد کو داخل کر لیا.یہ بات عقل میں نہیں آتی.باقی جو کچھ کہا گیا وہ رسہ کشی تھی، بے فائدہ تکرار تھی ، نوک جھونک بھی ہوئی.یہ دراصل مولویوں کا ورثہ ہے جو ہماری جماعت کے بھی بعض لوگوں کو ملا.ابھی تک وہ اسے 66 دُور نہیں کر سکے.بہر حال جو دوست اس تجویز کی تائید میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۲۸۴ را ئیں شمار کی گئیں.جو دوست خلاف ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۲۷ را ئیں شمار کی گئیں.فرمایا: - میں اکثریت کے حق میں فیصلہ دیتا ہوں اور میرے نزدیک وہی بات صحیح بھی فیصلہ ہے.چونکہ بہت لمبی بحثیں ہوئی ہیں مگر بعض سوالات کا جواب نہیں دیا گیا جو دیا جا سکتا تھا اور دیا جا سکتا ہے، اس لئے ان کا جواب دیتا ہوں.ایک سوال وحی خفی کے متعلق اُٹھایا گیا ہے.اس کے متعلق جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے مگر میرے نزدیک جہاں وحی خفی پیش کرنے والوں نے کوئی دلیل نہیں دی ، وہاں رڈ کرنے والوں نے عمدگی سے جواب نہیں دیا.رسالہ الوصیت کے صفحہ ۲۱ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر اردو میں ہے.اس کا مفہوم اردو کے لحاظ سے ہی لیا جائے گا.اردو کے لحاظ سے اگر یہ لکھیں کہ یہ بات وحی خفی سے آئی ہے تو آگے بتانا ہوگا کہ وہ یہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس موقع پر فرماتے ہیں.” خدا نے میرا دل اپنی وحی خفی سے اس طرف مائل کیا کہ ایسے قبرستان کے لئے
خطابات شوری جلد اوّل ۶۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء ایسے شرائط لگا دیئے جائیں کہ وہی لوگ اس میں داخل ہوسکیں جو اپنے صدق اور کامل 66 راست بازی کی وجہ سے ان شرائط کے پابند ہوں.“ اب اردو کے لحاظ سے اگلی شرطیں اگر وحی خفی سے ہیں تو لفظ ”ایسے“ کا استعمال نہیں ہونا چاہئے تھا.بلکہ لفظ ” وہ ہونا چاہئے تھا.ایسے کا لفظ اردو زبان میں ناممکن قرار دیتا ہے کہ انگلی شرائط وحی خفی کے ماتحت ہوں.وحی نے اگر بتایا ہوتا کہ یہ شرطیں ہیں تو آگے بتاتی مگر وہ تو کہتی ہے کہ ایسے ایسے شرائط لگا دو جس کا مفہوم یہ ہے کہ وحی خفی صرف یہ چاہتی ہے کہ صدق اور کامل راست بازی پائی جائے.آگے یہ کہ کس طرح پائی جائے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بیان کیا ہے.پھر کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے یہ سوال پیش ہوا کہ آمد کے متعلق یہ شرط لگا دی جائے جس کا رسالہ الوصیت صفحہ ۳۴ پر ذکر ہے.اس لئے پہلی شرائط وحی خفی کے ماتحت نہ تھیں ورنہ ان میں اس طرح اضافہ نہ کیا جاتا.میر محمد اسحق صاحب اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ بھی وحی سے لگائی گئی ہے مگر اس کا ہیڈ نگ ہی بتاتا ہے کہ یہ بات نہیں.ہیڈ نگ یہ ہے کہ بعض ہدایات دربارہ وصایا مصدقہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام“.اب سوال یہ ہے کہ وحی خفی کا فیصلہ تو نبی کرتا ہے نہ کہ لوگ مگر یہاں فیصلہ انجمن کرتی ہے اسے یہ حق کہاں تھا کہ وحی کے فیصلہ کو بدل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے پیش کرے.یہ کہیں مثال نہیں ملتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی حکم وحی خفی سے بیان فرمایا ہو اور صحابہ نے میٹنگ کر کے ایک فیصلہ کیا ہو اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے جائیں اور کہیں ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے آپ فرما ئیں وحی اس کی تصدیق کرتی ہے یا نہیں؟ پس اگر وصیت کی شرائط وحی سے ہوتیں تو پھر انجمن فیصلہ نہ کرتی بلکہ انجمن والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جاتے اور کہتے آپ وحی خفی سے بتائیں کہ کیا کریں؟ مگر صدرانجمن پہلے فیصلہ کرتی ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جاتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ اُس وقت صدر انجمن یہ نہ بجھتی تھی کہ شرائط کے الفاظ وحی خفی سے ہیں.
خطابات شوری جلد اوّل ۶۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء چوہدری اعظم علی صاحب کی تقریر میں ایک بات تھی اگر چہ اُنہوں نے معذرت کر لی ہے مگر میں اسے کافی نہیں سمجھتا کیونکہ اُنہوں نے کہا ہے کہ میں نے یہ بات نہیں کہی تھی.میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ایک مامور کے متعلق کلام کرتے وقت اُس کے درجہ کو آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہئے.ہمارے ایک اور دوست سے بھی کل غلطی ہوئی تھی مگر وہ ہمارے ہاں تو وارد ہیں اور وہاں سے آئے ہیں جہاں اس قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں کہ ظل کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی مگر چوہدری اعظم علی صاحب اس دروازہ پر گئے ہی نہیں وہ یہاں ہی رہے ہیں اس لئے اُن کی غلطی افسوس کے قابل ہے اور زیادہ افسوس اس وجہ سے ہے کہ وہ اُن چند لوگوں میں سے ہیں جن کو روکنا پڑتا ہے کہ اس سے زیادہ قربانی نہ کرو اور اجازت کے بغیر اس حد سے زیادہ قربانی نہ کرو.پس وہ مخلص ترین انسان ہیں.جب میں حج سے آیا تو جہاز کے کپتان کو عربی سیکھنے کا شوق تھا.وہ مجھ سے عربی میں باتیں کیا کرتا.ایک دن کہنے لگا اب خوب مزا ہو گیا جو چاہو کرتے رہو کیونکہ حج کر لیا ہے اور اس طرح گناہ معاف ہو گئے ہیں.میں نے کہا صاف ستھرے کپڑے کے متعلق زیادہ احتیاط کی جاتی ہے یا گندے کپڑے کی؟ کہنے لگا صاف کی.میں نے کہا پھر جب گناہ معاف ہو گئے ہیں تو اب زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے.چونکہ چوہدری اعظم علی صاحب کا جامہ صاف تھا اس لئے اُن کو زیادہ احتیاط کرنی چاہئے تھی.اُن کا کہنا اسی طرح کا تھا جس طرح کوئی کہے قرآن شریف کے خلاف اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کہیں تو نہ مانیں گے مگر ہم یہ کہہ نہیں سکتے.محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کریم کے خلاف کہتے ہی کیوں.اور پھر اگر مگر کا کیا سوال.مَا يَنْطِقُ عَنِ الهَوى نا اسی لئے آپ کے متعلق کہا گیا کہ اگر مگر آپ کے متعلق ہو ہی نہیں سکتا اور یہ بحث ہی غلط ہے.امید ہے آئندہ دوست اِن امور میں احتیاط کریں گے کیونکہ بزرگوں کے متعلق کلام کرتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے.ہمارے ایک دوست نے بیان کیا ہے کہ لفظوں پر زور نہیں دینا چاہئے ، سپرٹ کو دیکھنا چاہئے.مگر یاد رکھنا چاہئے لفظوں کو نظر انداز کرنے سے کوئی ٹھکانا نہیں رہتا کیونکہ لفظوں میں بہت کچھ ہوتا ہے.سپرٹ کے خلاف جہاں الفاظ آجا ئیں وہاں سپرٹ کو مقدم کرنا پڑے گا ورنہ الفاظ کو اتنی قدر دینی چاہئے کہ کوئی شوشہ ان کا نظر انداز نہ ہو اور ایک ہی وقت
خطابات شوری جلد اوّل ۶۳۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء میں سپرٹ اور الفاظ دونوں پر زور دینا چاہئے اور یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ جس پہلو پر بھی ہاتھ ڈالیں خشیت اللہ سے کانپتے ہوئے ڈالیں.ہمارے ایک دوست نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ انبیاء کے زمانہ میں مصائب زیادہ ہوتے ہیں پھر بعد میں کون سا زمانہ ایسا آسکتا ہے جب قربانی زیادہ کرنی پڑے مگر یہ قاعدہ گلیہ نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس کے مثیل تھے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کے، اُن کے زمانہ میں اُن کے ماننے والوں پر وہ مصائب نہیں آئے جو بعد میں آئے.حضرت مسیح علیہ السلام کو مارا پیٹا گیا مگر اُن کو قتل نہیں کیا گیا مگر اُن کے بعد دوسو سال تک حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو سالہا سال تک غاروں کے اندر رہنا پڑا جہاں روشنی تک کا گزر نہیں ہوتا تھا.میں نے وہ غاریں دیکھی ہیں اور اس دوست نے بھی دیکھی ہیں انہوں نے ہی وہاں سے واپس آنے کے لئے اس لئے کہا تھا کہ دل کا نپتا ہے.سو سو فٹ بلکہ اس سے بھی زیادہ گہری زمین کے اندر غاریں تھیں جن میں سے پانی رستا تھا اور سیدھا کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا ان میں لمبے عرصہ تک وہ لوگ رہے.وہاں ہی ان کی قبریں بنی ہوئی ہیں.پولیس وہاں بھی جا پہنچی اور ان کو قتل کر دیا گیا.یہ مصائب حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے وقت کہاں تھے.جب کسی قوم کے پاس تلوار ہوتی ہے تو پہلے ہی مقابلہ شروع ہو جاتا ہے مگر جب تلوار نہ ہو تو پہلے لوگ انبیاء کے ماننے والوں پر ہنستے ہیں لیکن جب ان کی تعداد بڑھنے لگتی ہے تو دشمن ان پر ظلم کرنا شروع کر دیتا ہے.اب احراری جو ہماری مخالفت کر رہے ہیں تو کیا اس لئے کہ اب ہم نے کوئی نیا مسئلہ ایجاد کر لیا ہے؟ نہیں بلکہ ان کو یہ فکر پڑ گئی ہے کہ جس بات میں بھی احمدی دخل دیتے ہیں اُس میں کامیاب ہو جاتے ہیں.پہلے لوگ ہمارے متعلق کہتے تھے کہ ان کی حقیقت ہی کیا ہے اور ان کی کون سنتا ہے مگر اب سمجھتے ہیں کہ لوگ ہماری باتیں سننے لگے ہیں اور اسی بات کا انہیں غصہ ہے.یہ حالات بتا رہے ہیں کہ ہمارے اوپر بھی بہت سی مشکلات آنے والی ہیں.ان سے بھی زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ میں پیش آئیں.آپ کی تکالیف کو اس لحاظ سے ہم بڑا کہہ سکتے ہیں کہ آپ اُس وقت اکیلے تھے مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو الہام ہوتے وہ ان تکالیف کا ازالہ کر دیتے.جب آپ کو یہ الہام ہوتا کہ خدا تمہارے ساتھ ہے تو کوئی مشکل
خطابات شوری جلد اوّل ۶۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء آپ کے لئے مشکل نہ رہتی.اسی طرح سارا دن آپ مخالفین کی طرف سے گالیاں سنتے مگر جب سوتے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتا کہ خدا کی فوجیں تمہاری امداد کے لئے آ رہی ہیں.اس طرح آپ کو وہ قوت حاصل ہو جاتی جو اور کسی طرح ممکن ہی نہیں کہ حاصل ہو سکے.باقی یہ امر غلط ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت جو وصیتیں ہوتی تھیں اُنہیں آپ دیکھا کرتے تھے.قواعد دیکھ لینا اور بات ہے ورنہ آپ کو اتنی فرصت نہ تھی کہ خود ہر وصیت کو دیکھتے اگر چہ آپ امید رکھتے تھے کہ وصیت کرنے والے اخلاص سے وصیت کریں گے مگر ایسے بھی ہو سکتے تھے جو صحیح رنگ میں وصیت نہ کریں.میں سمجھتا ہوں وہ امور جن پر روشنی ڈالنی ضروری تھی وہ میں نے بیان کر دیئے ہیں اور کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور میری بھی یہی رائے ہے.ایسے موقع پر یہ سوال بنا لینا غلط طریق ہے کہ یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ہے یا نص کے خلاف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وصیت کرنے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے لیکن میں یہاں تک احتیاط کرتا ہوں کہ قرض لے کر بھی اگر کوئی رقم خرچ کروں تو اُس میں سے دس فیصدی چندہ دیتا ہوں.کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا شکرانہ کے طور پر میں دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے بغیر وصیت کے مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کا موقع دیا.پس وہ جو یہ کہتے تھے کہ جائداد اور آمد دونوں کی وصیت ہونی چاہئے وہ خود بھی وصیت کرنے والے تھے.پھر گفتگو میں یہ رنگ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی اور دوسری طرف سے بھی اتنا زور نہیں دینا چاہئے تھا کہ نص صریح کے خلاف ہے.وہ اسے علمی مسئلہ تک رکھتے.سب کمیٹی کی یہ تجویز کہ:- "جو شخص وصیت کرے اسے اپنی ہر قسم کی آمد کی بھی وصیت کرنی چاہئے.اور یہ قاعدہ پہلی وصیتوں پر بھی حاوی ہوگا.مگر اس قاعدہ کی رو سے پہلے کی وصیتوں پر گزشتہ بقایا کا مطالبہ قائم نہ ہو گا کیونکہ اس کا ادا کرنا مشکل ہو گا.“ یہ تجویز اتنی واضح ہے کہ اکثر دوست اس سے متفق ہوں گے.پس میں کثرت کے ساتھ یا تمام کے ساتھ اتفاق کرتا ہوا اسے منظور کرتا ہوں.“
خطابات شوری جلد اوّل ۶۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء اختتامی تقریر اختتامی تقریر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: - دو جس حد تک مشورہ کا تعلق تھا آج کا کام ختم ہو گیا ہے.اب میں دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارا یہ اجتماع کسی نہ کسی رنگ میں معنی خیز ہونا چاہئے.احباب اس موقع پر آئے ، یہاں مجلس میں بیٹھے، باتیں کرتے رہے اور دوسروں کی باتیں سنتے رہے اور جواب دیتے رہے، تعریف کرتے رہے یا کسی بات کا انکار کرتے رہے لیکن بہت ہیں جو یہاں سے جا کر اس اثر کو بھول جاتے ہیں جو یہاں سے لے کر جاتے ہیں.میں اس وقت دوستوں کے سامنے ایک سوال رکھتا ہوں.وہ مجھے اس کا جواب دیں اور جواب دیتے وقت اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ ان کی سبکی ہوگی کیونکہ میرا یہ سوال تربیت کے لئے ہے.چھلی مجلس مشاورت کے موقع پر نمائندگان نے عہد کیا تھا کہ ہر ایک نمائندہ مجلس شوریٰ کا سال میں کم از کم تین احمدی بنانے کی کوشش کرے گا یہ اور بات ہے کہ کسی نے کوشش کی مگر کوئی احمدی نہ ہوگا.میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کس حد تک انہوں نے اس طرف توجہ کی.گو دوسری دُنیا میں یہ عجیب بات سمجھی جائے کہ دل کی بات کس طرح معلوم ہوسکتی ہے مگر مجھے یقین ہے کہ احباب صحیح بات کہیں گے.چونکہ ممکن ہے کہ اس سال کچھ نئے نمائندے آئے ہوں اس لئے جو نمائندے پچھلی دفعہ مقرر کئے گئے تھے خواہ جماعتوں کی طرف سے خواہ میری طرف سے وہ کھڑے ہو جائیں.“ تعمیل ارشاد میں ایسے احباب کھڑے ہو گئے اس سال جو نئے نمائندے آئے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس کی تعمیل میں بھی کچھ احباب کھڑے ہوئے اب وہ دوست جنہوں نے سال بھر اس وعدہ کو یا د رکھ کر کوشش کی وہ کھڑے ہ 66 جائیں خواہ ان کے ذریعہ تین آدمی احمدی ہوں یا نہ “ فرمایا: - ایسے احباب کھڑے ہو گئے ہو ۸۸ دوست ایسے ہیں جنہوں نے کوشش کی.اُن میں سے بعض کامیاب ہو گئے اور
خطابات شوری جلد اوّل ۶۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء بعض کوشش کرتے رہے کہ کم از کم تین اشخاص کو احمدی بنائیں.وہ بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک ثواب کے مستحق ہیں..۴۶۳ نمائندوں میں سے ۸۰ نئے نمائندے ہیں.باقی ۳۸۳ نمائندے ہوتے ہیں جن میں سے ۸۸ نے اپنے وعدہ کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے یعنی ۲۵ فیصدی سے بھی کم نے.یہ نتیجہ در حقیقت خوش کن نہیں ہے.ہمارے سامنے جو حالات ہیں اُن کے رو سے ضروری ہے کہ ہم سب حقیقی طور پر کوشش کریں.مجھے باہر جا کر تبلیغ کرنے کا موقع نہیں ملتا اور جن دوستوں نے کام کیا ہے ان کے کام میں میرا بھی تھوڑا بہت حصہ ہے مگر پھر بھی مجھے وعدہ یا د رہا.پچھلے دنوں میں نے لاہور میں لیکچر دیا تو ایک شخص نے مجھے خط لکھا کہ میں لیکچر سن کر احمدی ہوا ہوں میں نے اُسے لکھا کہ مجھے یہ سُن کر بڑی خوشی ہوئی کہ میرے ذریعہ ایک احمدی ہوا.اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے اس طرح بھی موقع دے دیا.دو اور نو جوانوں نے اس طرح بیعت کی اور میرا وعدہ بھی پورا ہو گیا.پس میں پھر مجلس مشاورت کے نمائندوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہاں جو باتیں ہوتی ہیں اُن کو یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ زمانہ ہمارے لئے نہایت نازک ہے.مجھ پر بیسیوں راتیں ایسی آتی ہیں کہ لیٹے لیٹے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنون ہونے لگا ہے اور میں اُٹھ کر ٹہلنے لگ جاتا ہوں.غرض یہی نہیں کہ واقعات نہایت خطرناک پیش آ رہے ہیں بلکہ بعض باتیں ایسی ہیں جو ہم بیان نہیں کر سکتے.مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول یاد آتا ہے.کسی نے اُن سے کہا خالد کو آپ نے کیوں معزول کر دیا ؟ آپ نے فرمایا تم اس کی وجہ پوچھتے ہو.اگر میرے دامن کو بھی پتہ لگ جائے کہ میں نے اُسے کیوں ہٹایا تو میں دامن کو پھاڑ دوں.تو سلسلہ کے خلاف ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ جو میری ذات کے سوا کسی کو معلوم نہیں اور جو کچھ میں بتاتا ہوں وہ بھی بہت بڑا ہے اور اس سے بھی نیند حرام ہو جاتی ہے اور میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی نیند حرام کر دیا کرتا ہوں.تحریک جدید والے کئی دن سے لکھ رہے ہیں کہ اب گرمیاں آگئی ہیں ، رات کو کام کرنا مشکل ہے لیکن پرسوں میں یہاں سے کام کر کے گیا تو رات کے ساڑھے بارہ ایک بجے تک ڈاک پڑھی اور پھر صبح سویرے سے کام شروع کر دیا.تو ہمارے ذمہ اِتنے کام ہیں کہ انہیں چھوڑ ہی نہیں سکتے.
خطابات شوری جلد اوّل ۶۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء کل رات کو جب میں یہاں سے گیا تو جسم مضمحل تھا اور صبح کو بخار بھی تھا.معلوم نہیں اب ہے یا نہیں.گو جسم کوفت محسوس کرتا ہے مگر وقت نہیں کہ اس کا خیال رکھیں.شریعت کہتی ہے کہ اپنے جسم کا بھی خیال رکھو مگر پھر بھی مصروفیت ایسی ہے کہ جسمانی تکلیف کی کوئی پرواہ نہیں کی جاسکتی اور میرے ساتھ کام کرنے والوں کی بھی یہی حالت ہوتی ہے.چوہدری برکت علی صاحب کو مہینوں رات کے ۱۲ بجے تک تحریک جدید کا کام کرنا پڑا.اسی طرح تحریک جدید کے دفتر کے کام کرنے کا وقت ۱۲ گھنٹے مقرر ہے.اس سے زیادہ ہو جائے تو ہو جائے کم نہیں کیونکہ یہ اقل مقدار ہے.تو میں سمجھتا ہوں کہ وقت ایسا ہے کہ ہمیں اہم قربانی کی ضرورت ہے اس کے لئے سب سے پہلے ناظر اور دوسرے کا رکن مد نظر ہیں.میں نے جن کارکنوں سے کام لیا وہ دفتر ڈاک اور تحریک جدید میں کام کرنے والے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ صدر انجمن کے دفاتر کے کارکنوں نے اتنا تعاون نہیں کیا جتنا اُنہیں کرنا چاہئے تھا.اگر ناظر بھی اسی طرح کام لیتے تو کام بہت زیادہ ہوتا.ہاں ایک ناظر کو اس حد تک کام کرنا پڑا ہے یا اس کے قریب قریب، اور وہ خان صاحب فرزند علی صاحب ہیں.انہیں راتوں کو جاگنا پڑا اور ایک دفعہ تو ساری رات ہی جاگتے رہے مگر عام طور پر نظارتوں نے اس طرح تعاون نہیں کیا.اس لئے پہلے میں ان کو نصیحت کرتا ہوں اور پھر جماعت کو کہ ایک احمدی دین کی خدمت میں پہلے سے زیادہ وقت لگائے.اس وقت ہم جنگ کے میدان میں کھڑے ہیں اور جنگ کے میدان میں اگر سپاہی لڑتے لڑتے سو جائے تو مر جاتا ہے.ہمارے سامنے نہایت شاندار مثال اُن صحابہ کی ہے جن کے مثیل ہونے کے ہم مدعی ہیں.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ جھنڈا وہ لے جو اس کا حق ادا کرے.ایک صحابی نے کہا یا رَسُول اللہ ! مجھے دیں.آپ نے اُس کو دے دیا.جنگ میں جب اُس کا وہ ہاتھ کاٹا گیا جس سے اُس نے جھنڈا تھاما ہوا تھا تو اس نے دوسرے ہاتھ میں تھام لیا اور جب دوسرا ہاتھ بھی کٹ گیا تو لاتوں میں لے لیا.اور جب ٹانگیں کاٹی گئیں تو منہ میں پکڑ لیا.آخر جب اُس کی گردن دشمن اُڑانے لگا تو اُس نے آواز دی! دیکھو! مسلمانو اسلامی جھنڈے کی لاج رکھنا اور اسے گرنے نہ دینا.
خطابات شوری جلد اوّل ۶۴۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء چنانچہ دوسرا صحابی آ گیا اور اس نے جھنڈا پکڑ لیا ہے آج ہمارے جھنڈے کو گرانے کی بھی دشمن پوری کوشش کر رہا ہے اور سارا زور لگا رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں جو جھنڈا دے گئے ہیں اُسے گرا دے.اب ہمارا فرض ہے کہ اسے اپنے ہاتھوں میں پکڑے رہیں اور اگر ہاتھ کٹ جائیں تو پاؤں میں پکڑ لیں اور اگر اس فرض کی ادائیگی میں ایک کی جان چلی جائے تو دوسرا کھڑا ہو جائے اور اس جھنڈے کو پکڑ لے.میں ان نمائندوں کو چھوڑ کر اُن بچوں اور نو جوانوں سے جو او پر بیٹھے سُن رہے ہیں کہتا ہوں ممکن ہے یہ جنگ ہماری زندگی میں ختم نہ ہو.گو اس وقت لوہے کی تلوار نہیں چل رہی لیکن واقعات کی ، زمانہ کی اور موت کی تلوار تو کھڑی ہے ممکن ہے یہ چل جائے.تو کیا تم اس بات کے لئے تیار ہو کہ اس جھنڈے کو گرنے نہ دو گے؟ ,, اس پر سب نے بیک آواز لبیک کہا.فرمایا : - ہمارے زمانہ کو خدا اور اس کے رسولوں نے آخری زمانہ قرار دیا ہے.اس لئے ہماری قربانیاں بھی آخری ہونی چاہئیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے دُنیا کی اصلاح کے لئے چنا ہے اور ہم خدا تعالیٰ کی چنندہ جماعت ہیں.ہمیں دُنیا سے ممتاز اور علیحدہ رنگ میں رنگین ہونا چاہئے.صحابہ ہمارے لئے ادب کی جگہ ہیں مگر عشق میں رشک پیاروں سے بھی ہوتا ہے.پس ہمارا مقابلہ اُن سے ہے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش بدوش جنگیں کیں اور اپنی جانیں قربان کیں.ہم ان کی بے حد عزت اور تو قیر کرتے ہیں لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ان کی قربانیوں پر رشک نہ کریں اور ان سے بڑھنے کی کوشش نہ کریں.میں ایک مثال بیان کرتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دفعہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے.آپ کا طریق یہ تھا کہ اگر کوئی چیز اہلِ مجلس کو دیتے تو دائیں طرف والے کو دیتے.اُس وقت آپ کے لئے دودھ لایا گیا.آپ نے اس وقت حضرت ابوبکر کی طرف دیکھا جو بائیں طرف بیٹھے تھے اور دائیں طرف ایک بچہ بیٹھا تھا آپ نے شاید اس خیال سے کہ حضرت ابو بکر بوڑھے ہیں اور دیر سے بیٹھے ہیں ، انہیں بھوک لگی ہوگی بچے سے کہا اگر اجازت دو تو میں یہ دودھ ابو بکرڑ کو دے دوں بچہ نے کہا کیا یہ دودھ لینے کا میرا حق ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس نے کہا پھر میں یہ نہیں کر سکتا کہ یہ حضرت کا تبرک ابوبکر
خطابات شوری جلد اوّل ۶۴۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء کو دے دوں، میں اس برکت کو نہیں چھوڑ سکتا ہے پس ہم صحابہ کرام کو ادب اور احترام کا مقام دے سکتے ہیں.اور ان کے لئے جان بھی دے سکتے ہیں مگر جب قربانی کا موقع آئے تو ہم کہیں گے کہ ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں.جب تک ہم میں سے ہر ایک کے دل میں یہ جذ بہ نہ پیدا ہو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اپنی ذمہ واری کو پوری طرح محسوس کر لیا.اب غور کرو، ہم پر ایک طرف تو کام کا اتنا بوجھ اور دوسری طرف سستی کا یہ عالم کہ اس مارچ تک جماعتوں کے ذمہ ۸۰ ہزار کا بقایا اور موصیوں کے ذمہ ۵۸ ہزار کا بقایا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک لاکھ اڑتیس ہزار بقایا ہے.اور ایک لاکھ تین ہزار کا قرضہ ہے.اگر سُستی نہ ہوتی اور پوری رقوم ادا کی جاتیں تو قرضہ ادا کرنے کے بعد ۳۵ ہزار روپیہ جمع ہوتا.میں نے جو تحریکیں کی ہیں ان کے الفاظ نہیں بلکہ ان کی روح کو سمجھ لیں تو پھر بقایا نہیں رہ سکتا.بہر حال یہ ضروری ہے کہ چندہ کا بقایا نہ ہو بلکہ کچھ رقم اپنے لئے پس انداز بھی ہو اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے اخراجات کو کم کر دیں اور کفایت شعاری سے کام لیں اس طرح کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.میں کیوں آپ لوگوں کو پس انداز کرنے کے لئے کہتا ہوں اس لئے کہ آئندہ ہمیں اور زیادہ قربانی کی ضرورت پیش آنے والی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اُس دن ہماری جماعت کے ہر فرد کی جائداد اور آمد آج سے زیادہ ہو.جب چندے بڑھا دیئے گئے ہیں اور ادھر پس انداز کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے تو آج سے چند سال بعد آج سے زیادہ جائداد ہر احمدی کے پاس ہو گی.اگر ہماری جماعت کے ۸۰ فیصدی لوگ بھی اس پر عمل کریں کیونکہ بعض کے لئے اس پر عمل کرنا ناممکن ہے تو کچھ عرصہ کے بعد ہم زیادہ آسانی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر سکیں گے.یہ تحریک اقتصادی تجاویز کا مغز ہے.اسے اگر دوست سمجھ لیں اور اس کی تعلیم ا اپنی جماعت کے ہر ایک فرد کو دیں تو بہت شاندار نتائج نکل سکتے ہیں اس کے لئے میں نے ایک تجویز بھی بتائی تھی کہ مہینہ میں ایک دن ایسا رکھو جب کہ تحریک جدید کے مطالبات بیان کئے جائیں.ہر مہینے ایک جلسہ ہو جس میں سارے مطالبات ذہن نشین کئے جائیں.ہماری جماعت جس قدر قربانی کرتی ہے اس کی مثال سکھوں میں نہیں مل سکتی باوجود یکہ وہ قربانی
خطابات شوری جلد اوّل ۶۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء کرنے میں بڑے مشہور ہیں مگر ان میں ہماری جماعت کے مقابلہ میں ۱۰ را حصہ بھی قربانی نہیں پائی جاتی لیکن سکھ عام طور پر کر پان لگائے پھرتے ہیں اور ہمارے آدمی سوٹا رکھنے کے بھی عادی نہیں.ان میں اطاعت کی کمی نہیں مگر یہ بات یاد نہیں رہتی.اگر یاد دلایا جاتا تو اس وقت تک کوئی احمدی ایسا نہ ہوتا جو اپنے ہاتھ میں سوٹا نہ رکھتا.تو دُہرانے سے بات یاد آ جاتی ہے.اسی طرح جب تحریک کی جائے کہ چندہ با قاعدہ ادا کیا جائے اور اس پر خطبہ پڑھا جائے اور پھر یہاں سے رپورٹ کی جائے کہ اتنا قرضہ ہے تو اس سے جماعت میں بیداری پیدا ہوگی.اس کے بعد میں دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی مصیبت ہے مگر اس میں بھی دوستوں کو ایک بات یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ اس مصیبت کو ہی ترقی کا ذریعہ بنا سکتے ہیں.موجودہ ابتلاء ایسا ہی ہے جیسے طوفان یا آندھی آجاتی ہے.ہمیں لوگ پیس کر رکھ دینا چاہتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں یہ طوفان بھی ترقی کا موجب بن سکتا ہے.طوفان کیا کرتا ہے یہ کہ جو سر بلند چوٹیاں ہوتی ہیں انہیں نیچے گرا دیتا ہے اور جو پسا ہوا غبار ہوتا ہے اُسے آسمان کی طرف چڑھا دیتا ہے.پس آؤ ہم وہ طریق اختیار کریں کہ اپنے آپ کو پیس کر خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر دیں کہ لے یہ غبار اور اس طرح سر بلندی حاصل کریں.مگر وہ طوفان جو غبار کو اونچا اُٹھا لیتا ہے وہ گر ا بھی سکتا ہے اگر ہم تکبر اور خود پسندی سے کھڑے ہوں گے تو ضرور گریں گے اور اسی بات کا مجھے سب سے زیادہ خطرہ ہے اور ہمارے رستہ میں یہی روک ہے.معاندین قادیان میں ہر قسم کی شرارتیں کرتے اور ایذائیں پہنچاتے ہیں.اس سے مجھے یہ ڈر نہیں کہ وہ ہمیں مٹادیں گے بلکہ یہی ڈر رہتا ہے کہ اُن کی اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے کوئی نوجوان لڑ نہ پڑے.مجھے یہ ڈر نہیں کہ وہ ہمیں مارتے ہیں بلکہ یہ ڈر ہے کہ ہمارا کوئی آدمی ان کے اشتعال دلانے پر ان کو نہ مار بیٹھے.اگر مجھے یہ اطمینان حاصل ہو جائے کہ ہماری جماعت کا کوئی آدمی کسی حالت میں بھی قانون شکنی نہیں کرے گا تو ہم مخالفین کی تمام شرارتوں کے باوجود بے فکر ہو کر کام میں لگ جائیں.پس مجھ پر یہ بوجھ نہیں کہ احرار ہمارے آدمیوں کو مارتے ہیں بلکہ یہ بوجھ ہے کہ جب وہ مارنے لگیں تو ہمارا کوئی آدمی بھی نہ مار بیٹھے.میں وثوق سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں ضرور کامیاب
خطابات شوری جلد اوّل ۶۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء کرے گا اور دشمن ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے گا.مجھے یہ خطرہ نہیں کہ دشمن کیا کرے گا بلکہ یہ ڈر ہے کہ اپنے آدمیوں میں سے کوئی غلطی نہ کر بیٹھے.جیسے اُحد کی جنگ میں بعض صحابہ نے غلطی کی تھی.اگر دوست اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں مٹادینے کے لئے تیار ہو جائیں تو کوئی انہیں مٹا نہیں سکتا اور وہ خدا تعالیٰ تک پہنچ جائیں گے پس اس طرح یہ طوفان ہمیں اونچا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے.اگر سب دوست اس بات کو سمجھ لیں کہ ہمارا نقطہ نگاہ کیا ہے تو وہ وقت دور نہیں جب ہمیں عظیم الشان کامیابی حاصل ہوگی.دنیا میں کام دو طرح ہوتے ہیں ایک محبت سے دوسرے خوف سے.یہ دونوں چیزیں ایک دوسری کے ساتھ لگی ہوتی ہیں مگر کبھی باری باری آتی ہیں.کچھ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ ان کے کاموں پر محبت غالب ہوتی ہے اور کچھ وہ ہوتے ہیں جن کے کاموں پر خوف غالب ہوتا ہے.یعنی انسان بعض کام خوف سے کرتا ہے اور بعض کام محبت سے.یہ دو دائرے ہیں.ان کے متعلق ایک بات یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ جن کا دائرہ محبت کا ہوتا ہے وہ خواہش کے ماتحت ہوتا ہے کہ یہ بھی ہو جائے اور یہ بھی حاصل ہو جائے اور جن کا دائرہ خوف کا ہوتا ہے اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو جائے.آجکل جب کہ ایک قسم کا خوف پیدا ہے، میں دیکھتا ہوں بعض کی حالت ایسی ہے کہ وہ کہتے ہیں ایسا نہ ہو جائے یعنی احرار ہمیں تباہ نہ کر دیں مگر کام کرنے کا یہ محرک اولی ہے.مومن کا محرک یہ ہوتا ہے کہ یہ بھی لینا ہے اور وہ بھی لینا ہے.اس کی مثال بچہ کی سی ہوتی ہے جس کی ترقی محبت کے ماتحت ہوتی ہے اس کی بڑی بڑی اُمنگیں ہوتی ہیں.وہ کبھی کہتا ہے میں بہت بڑا تاجر بنوں گا، کبھی کہتا ہے بادشاہ بنوں گا لیکن اگر کسی بوڑھے سے پوچھو کہ تمہاری کیا خواہش ہے تو وہ کہے گا بس یہی کہ انجام بخیر ہو جائے.بچہ یہ کوشش کرتا ہے کہ یہ بھی لے لوں مگر بوڑھا یہ کوشش کرتا ہے کہ اس بلا سے بچ جاؤں اور اُس بلا سے بھی بچ جاؤں.بوڑھا آخرت کی فکر میں ہوتا ہے مگر بچہ نئی دُنیا پیدا کر رہا ہوتا ہے.بڑھے کا محرک رگر نے والا ہوتا ہے مگر بچے کا بڑھنے والا.میں اُن بڑھوں کا ذکر نہیں کرتا جو مرنے کے وقت تک بھی جوان ہی ہوتے ہیں.حضرت انس ایک سو دس برس کی عمر میں جب فوت ہونے لگے اور ان کے دوست ان کے پاس آئے اور پوچھا کوئی خواہش ہے تو انہوں نے کہا شادی کرا دو یا پس مومن کبھی بوڑھا
خطابات شوری جلد اوّل ۶۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء نہیں ہوتا کیونکہ جسم کے بڑھاپے کی وجہ سے بڑھا پا نہیں آتا بلکہ روح کے بڑھاپے سے آتا ہے.بچہ جب باتیں کرنے لگتا ہے تو اُس زمانہ میں کہتا ہے چاند لینا ہے، تارا لینا ہے.میرے متعلق ہی آتا ہے کہ رات کو میں رورہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اُٹھا لیا اور چپ کرنے کے لئے کہا دیکھو وہ تارا ہے.اُس وقت میں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تارا لینا ہے.تو بچہ کی نظر اس طرف جاتی ہے کہ وہ لینا ہے.یہی روح ہمارے اندر ہونی چاہئے.پس ہم کام اس لئے نہ کریں کہ دشمن ہمیں مار دے گا کیونکہ یہ مومن کی شان نہیں بلکہ مومن کی شان یہ ہے کہ کام اس لئے کرتا ہے کہ یہ بھی لینا ہے اور وہ بھی لینا ہے.دیکھو قرآن کریم میں کیسے لطیف پیرایہ میں یہ بات بیان کی گئی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ولقد خلقنا الانسان من سُللَةٍ مِّن طين ! ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا.طین پانی ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ دو محرک کام پر لگانے والے ہیں.پھر فرماتا ہے یہ دو چیزیں رکھیں.پھر کیا کیا ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةٌ في قَرَارٍ مكين ها نطفہ بنا دیا.یعنی پانی رہ گیا اور مٹی غائب ہو گئی.دوسری جگہ فرماتا ہے.وجعلنا من الماء كُلّ شَيْء حي ) ہر چیز کو پانی سے زندہ کیا.یعنی ہر چیز جذبات اور اُمنگ والی ہوتی ہے اس میں بڑھنے کی طاقت ہوتی ہے.پانی حیات نامیہ ہے.آخر جب پانی کم ہو جاتا ہے تو ہر چیز مٹی بن جاتی ہے گویا ابتداء ماء سے ہوتی ہے اور انجام تراب پر ہوتا ہے.یہی مومن اور غیر مومن کی حالت ہوتی ہے.مومن اس لئے کام کرتا ہے کہ دُنیا بسا جاؤں لیکن غیر مومن اس لئے کرتا ہے کہ فلاں خطرہ سے بچ جاؤں، فلاں مصیبت سے بیچ جاؤں.“ اس کے بعد حضور نے بورڈ پر دائرے بنا کر مومن کی ترقی اور مخلوق خدا کی ہمدردی کے متعلق قرآن کریم کی آیات کے نکات بیان فرمائے اور نہایت وضاحت کے ساتھ بتایا کہ: بندہ ترقی کر کے جب خدا تعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی سامنے آ جاتا ہے اور اس کو مل جاتا ہے.پھر بندہ کو نیچے بھیج دیتا ہے کہ جاؤ جا کر میرے بندوں کی خدمت کرو.جب بندہ نیچے آتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس لئے نیچے آ جاتا ہے کہ دُنیا میرے اس بندہ
خطابات شوری جلد اوّل ۶۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء کو نقصان نہ پہنچائے.جیسے ماں بچہ کو کہیں اکیلے بھیجتی ہے تو پھر اس کے پیچھے بھاگتی ہے کہ کوئی اُسے نقصان نہ پہنچائے.“ آخر میں حضور نے فرمایا.یاد رکھو خدا تعالیٰ کے لئے مرنے والے کو کوئی مار نہیں سکتا.اس بات کو پلے باندھ لو اور جب تم یہ ارادہ کر لو گے کہ خدا تعالیٰ کے لئے مرنا ہے تو پھر دُنیا کی کوئی طاقت تم کو مارنہ سکے گی.ہاں تم پر وہ موت آئے گی جو نبیوں کو سچے دل سے ماننے والوں پر آتی ہے مگر ناکامی کی موت نہیں آسکتی کیونکہ تم جس پر گر و گے وہ چکنا چور ہو جائے گا اور جو تم پر گرے گا وہ بھی چکنا چور ہو جائے گا.یہ مقام تم یقینی طور پر حاصل کرلو گے مگر اسی طرح کہ اس راستہ سے خدا تعالیٰ کے پاس جائیں جو میں نے بتایا ہے.پرسوں میں نے جو تقریر کی اُس کے بعد میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ قاری سرفراز حسین جو دہلی کے تھے اور اب فوت ہو چکے ہیں اور میں نے ان کی شکل کبھی نہیں دیکھی وہ آئے اور میرے پاس بیٹھ گئے.اس کی تعبیر میری سمجھ میں یہ آئی کہ جو سرفراز ہونا چاہتا ہے وہ حسینی نمونہ دکھا کر عزت حاصل کرے.میں سمجھا اس سے خدا تعالیٰ کا یہی بتانا مقصود تھا.گویا خدا تعالیٰ نے جماعت کو یہ پیغام دیا ہے کہ جماعت اگر سرفراز بننا چاہتی ہے تو حسینی نمونہ دکھا ئیں اور اس ابتلاء میں سے کامیابی کے ساتھ گزر جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کر بلا ئکیست صد حسین سیر ہر است در آنم گریبانم ! جب تک ہم یہ مثال پیش نہیں کرتے کامیاب نہیں ہو سکتے.ہمیں یہ نمونہ دکھانا ہو گا تب ترقی ہوگی.پس خدا تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ تم دنیا کے سامنے اس نیت سے جاؤ کہ خدا کی راہ میں مارے جائیں گے مگر خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ اس زمانہ میں مارے نہیں جائیں گے.ہم میں سے ہر ایک کو موت قبول کر کے یزید کے لشکر کے سامنے جانا اور کر بلا سے گزرنا ہے مگر نتیجہ وہی ہو گا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت ہوا کہ چھری حضرت اسمعیل علیہ السلام کی گردن کی بجائے مینڈھے کی گردن پر چلی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابراہیم بھی کہا
خطابات شوریٰ جلد اوّل ۶۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء گیا ہے اور اسمعیل بھی.آپ کو غم تھا اور آپ نے دُعائیں کیں.آپ نے جب یہ کہا کہ صد حسین است در گریبانم تو اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی جماعت حسین بننے والی ہے.تب آپ نے دُعا کی اور آپ کو بتایا گیا کہ آپ کی جماعت حسین بنے گی مگر ہم اسمعیل بنا کر بچالیں گے.میں اُمید کرتا ہوں کہ دوست اپنی ذمہ داری کو سمجھیں گے اور دوسروں کو سمجھائیں گے کہ اس سال کے ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے کے بھی تمام بقائے صاف کر دیئے جائیں اور مجھے اُمید ہے کہ دین کی تبلیغ کے لئے بھی اپنے آپ کو وقف کر کے ”دست در کار و دل بایار کی مثال پیش کریں گے.زمیندار کا ہاتھ ہل پر ہو مگر دماغ میں یہ چکر چل رہا ہو کہ اسلام کو غالب کر کے رہیں گے.دفتروں میں کام کرنے والوں کی قلمیں کا غذات کالے کر رہی ہوں مگر اُن کے دل میں یہی ہو کہ خدا تعالیٰ کے دفتر میں اُن کے نام لکھے جائیں.تجارت والے اپنا بہی کھاتا لکھ رہے ہوں مگر اُن کی توجہ اس طرف ہو کہ خدا تعالیٰ کے کھاتہ میں ان کا حساب لکھا جائے.ہم یہ سارے کام کرتے جائیں گے جب تک یہ آواز نہیں آتی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکل آؤ.جب ہم سچے دل سے ارادہ کرلیں گے تو خدا تعالیٰ ہمیں ضرور کامیاب کرے گا.خدا تعالیٰ شکور ہے.بندہ اگر اس کی طرف چل کر جاتا ہے تو وہ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے.اس کے بعد میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں کام کرنے کی توفیق عطا کرے اور محض اپنے فضل سے کامیابی بخشے.“ ال عمران: ۸۰ (مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء) مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين السيرة الحلبية جلد ۲ صفحہ ۲۳۰ تا ۲۳۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء السيرة الحلبية جلد ۲ صفحہ ۱۶۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ه بخاری کتاب الرقاق - باب يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَبْعُونَ أَلْفًا (الخ) ل مجانى الادب جزء ثانی صفحه ۴۳ مطبوعہ بیروت.
خطابات شوری جلد اوّل ۶۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء ک سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۷ ۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء کپٹ : کینہ، بغض کمیاں: کمین کی جمع ، زراعتی معاون ، نوکر چاکر ا النجم: ال السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۷۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۲ بخارى كتاب المساقاة باب مَنْ رَأَى صَدَقَةَ المَاءِ (الخ) المؤمنون: ١٣ ها المؤمنون: ۱۴ الانبياء : ٣١