Language: UR
خدا کے فضل عظیم کی وجہ سے جماعت احمدیہ کو خلافت کے زیر سایہ ایک صدی کا پرشکوہ اور کامرانیوں سے عبارت سفرمکمل کرنے کی توفیق ملی اور آنحضورﷺ کی پیش گوئی خلافۃ علی منھاج نبوۃ کےعین مطابق قائم ہونے والی خلافت کی پہلی اور دوسری صدی کے سنگم پر امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی زیر قیادت عالمگیر ترقیات کو دیکھنے اور عہد وفا کی تجدید کی سعادت ملی۔ اس مبارک موقع پر امام جماعت احمدیہ امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ درج ذیل پیغام اور خطابات کو اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز انگلستان نے یکجا کر کے کتابی شکل دی ہے: 1) عالمگیر جماعت احمدیہ کے نام پیغام۔ برموقع صد سالہ خلافت احمدیہ جوبلی 27 مئی 2008ء 2) صدسالہ خلافت احمدیہ جوبلی کے موقع پر 27 مئی 2008ء کو Excel Centre لندن میں خطاب 3) خطبہ جمعہ فرمودہ، 30 مئی 2008ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن 4) جلسہ سالانہ جرمنی 2008ء کے موقع پر اختتامی خطاب، فرمودہ 24 اگست 2008ء
خطابات امام جماعت احمد یہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
خطابات امام جماعت احمد یہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب (Some) Khitabat of the Imam of worldwide Ahmadiyyah Muslim Jama'at, Hadrat Mirza Masroor Ahmad, regarding importance and blessings of Khilafat.First Published in UK in 2009 C Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd., Islamabad, Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ UK Designed by: Mahmood Ahmad Malik Central Computer Deptt.London Cover Design by: Mirza Nadeem Ahmad ISBN: 978-1-84880-101-1
بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کی آیت 56 میں جسے آیت استخلاف بھی کہا جاتا ہے، مؤمنین کو خلافت کی بشارت عطا فرمائی ہے جس میں انبیاء علیہم السلام یعنی اللہ تعالیٰ کے خلفاء اور قدرت ثانیہ یعنی انبیاء علیہم السلام کے خلفاء شامل ہیں.آنحضرت ﷺ نے آخری زمانہ میں خلافت علی منہاج النبوۃ کی اپنی امت کو بشارت عطاء فرمائی کہ اُس وقت امت مسلمہ کی وحدت اور ترقی کا صرف اور صرف ایک ہی ذریعہ ہوگا اور وہ قدرت ثانیہ یعنی خلافت کے ساتھ وابستگی ہو گا.ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسیح موعود علیہ السلام کو مانے کی توفیق عطا فرمائی اور آپ کی وفات کے بعد خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے کی بھی توفیق بخشی.خدا تعالیٰ کا ہم پر یہ عظیم احسان ہے کہ اُس نے ہمیں خلافت احمد یہ جو آنحضور ﷺ کی عین پیشگوئی کے مطابق خلافت علی منہاج النبوة ہے، کی پہلی صدی اور دوسری صدی کے سنگم پر اس کی برکات کی بدولت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قیادت میں جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقیات کا شاہد بننے کی سعادت عطاء فرمائی.حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خلافت احمدیہ کے قیام پر سو سال پورا ہونے کے موقعہ پر جماعت کے نام جو روح پرور پیغام دیا، اُسے ہم آئندہ صفحات میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں.اس کے علاوہ 27 مئی 2008ء کو صد سالہ خلافت احمد یہ جوبلی کے روز حضور انور نے Excel سینٹر لندن میں جو معرکۃ الآراء خطاب فرمایا اور MTA کی وساطت سے Live ساری دنیا میں بیک وقت دیکھا اور سنا گیا نیز 30 مئی 2008 کو بیان فرمودہ خطبہ جمعہ اور 24 اگست 2008ء کو جماعت احمد یہ جرمنی کے جلسہ سالانہ کا اختتامی خطاب بھی پیش کیا جارہا ہے.ان تمام خطابات اور خطبہ جمعہ میں حضور انور نے خلافت کی برکات اور اہمیت کو اجا گر فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہماری اولا د در اولا دکوان تمام برکات سے کما فقہا بہرہ ور فرمائے اور اُس عہد پر پوری طرح کار بند رہنے کی توفیق عطاء فرمائے جو حضور نے ہم سے 27 مئی 2008ء کے خطاب میں لیا تھا.آمین یارب العالمین.خاکسار منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف
عالمگیر جماعت احمدیہ کے نام پیغام بر موقعه صد ساله خلافت احمد یہ جو بلی 27 مئی 2008 ء صد سالہ خلافت احمد یہ جو بلی کے موقعہ پر 27 مئی 2008ء کو Excel Centre لندن میں خطاب 7 21 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مئی 2008ء بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن 63 جلسہ سالانہ جرمنی 2008ء کے موقعہ پر اختتامی خطاب فرمودہ 24 اگست 2008ء 83
سید نا حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا عالمگیر جماعت احمدیہ کے نام پیغام بر موقعه صد ساله خلافت احمد یہ جو بلی 27 مئی 2008 ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم میرے پیارے عزیز احباب جماعت السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہورہے ہیں.یہ دن ہمیں سوسال سے زائد عرصہ میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ کی تاریخ اور اس وقت کی یاد بھی دلاتا ہے جب آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق مارچ 1889ء میں اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نے اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر ایک پاک جماعت کے قیام کا اعلان کیا.آپ کا مشن اور اس جماعت کے قیام کا مقصد خدا اور بندہ میں تعلق پیدا کرنا ، بنی نوع انسان کو خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بنے کی تعلیم دینا اور اس کے لئے کوشش کرنا تمام اقوام عالم کو امت واحدہ بنا کر آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرنا، انسان کو انسان کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانا تھا.وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ نے زمانہ کے امام اور مسیح و مهدی کے لقب سے ملقب کر کے بھیجا تھا، قیام جماعت اور آغاز بیعت 1889ء سے 1908 ء تک تقریباً انیس سال اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت سے اپنے مشن کو تمام تر مخالفتوں اور نا مساعد حالات کے باوجود اس تیزی سے لے کر آگے بڑھا کہ ہر مخالف جو بھی اس جری اللہ کے مقابلہ پر آیا ذلت ورسوائی کا منہ دیکھنے والا بنا.آخر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق کہ ہر انسان جو اس فانی دنیا میں آیا اس نے آخر کو اس دنیا کو چھوڑنا ہے اور وہ شخص جو اللہ کا خاص بندہ اور رسول اللہ ﷺ کا عاشق صادق تھا، وہ تو اپنے آقا کی سنت کی پیروی میں رفیق اعلیٰ سے ملنے کے لئے ہر وقت بے چین
10 وہ رہتا تھا.اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندہ کو جسے امام آخر الزمان بنا کر بھیجا تھا، واپسی کے اشارے دیتے ہوئے یہ تسلی دی کہ گو تیرا وقت اب قریب ہے لیکن چونکہ تجھے میں نے اپنے اعلان کے مطابق امام آخر الزمان بنایا ہے، اس لئے اے میرے پیارے! اے وہ شخص جو میری توحید کے قیام اور میرے محبوب نبی ﷺ کی حکومت تمام دنیا میں قائم کرنے کا درد رکھتا ہے تو یہ فکر نہ کر کہ تیرے مرنے کے بعد تیرے اس کام کی تکمیل کی انتہا ئیں کس طرح حاصل ہوں گی.تو یادرکھ کہ میرے نبی ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق جسے میری تائید حاصل ہے، اب خلافت علی منہاج النبوۃ تا قیامت قائم ہونی ہے اس لئے تیرے بعد یہی نظام خلافت ہے جس کے ذریعہ سے میں تمام دنیا میں اپنی آخری شریعت کے قیام و استحکام کا نظام جاری کروں گا.چنانچہ اللہ تعالی کی آپ کو اس تسلی وو السلام کے بعد آپ ا نے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی.اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخمریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ سورة المجادلة_آيت 22
11 رکھتا ہے مخالفوں کو نسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تر ڈو میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جوفرمایا تھا وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گئے“.سورۃ النور.آیت 56 رساله الوصیت صفحہ 4-5- روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304-305 رض
12 پھر فرمایا: ” سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جا ئیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے.اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دانگی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے.وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلا ئیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سوتم
13 خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو لے پس جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا وہ وقت بھی آ گیا جب آپ علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے اور ہر احمدی کا دل خوف و غم سے بھر گیا.لیکن مومنین کی دعاؤں سے قرون اولیٰ کی یاد تازہ کرتے ہوئے زمین و آسمان نے پھر ایک بار وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا کا نظارہ دیکھا.وہ عظیم انقلاب جو آپ نے اپنی بعثت کے ساتھ پیدا کیا تھا اسے اللہ تعالیٰ نے خلافت کے عظیم نظام کے ذریعہ جاری رکھا.آپ وو کی وفات پر اخبار وکیل میں مولا نا ابوالکلام آزاد نے یوں رقم فرمایا:." مشخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا.جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی.جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تارا الجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.وہ شخص جو نہ ہی دنیا کے لئے تمیں برس تک زلزلہ اور طوفان رہا.جو شور قیامت ہو کے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے اور مثانے کے لئے اسے امتداد زمانہ کے حوالے کر کے صبر کر لیا جائے.ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں.کے رسالہ الوصیت صفحہ 5-6.روحانی خزائن جلد 20.صفحہ 305-306 سورۃ النور.آیت 56 اخبار وکیل امرتسر.بحوالہ بدر 18 جون 1908 ، صفحہ 2-3 اخبار ملت.لاہور.7 جنوری 1911ء صفحہ 13 تا 15 بحوالہ اخبار الحکم جلد 15 نمبر 1.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد دوم - صفحہ 560 مطبوعہ 2007ء- نظارت نشر واشاعت قادیان بھارت
14 پس اس انقلاب کا اعتراف غیروں کی زبان اور قلم سے نکلوا کر اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا کہ وہ شخص اللہ تعالی کا خاص تائید یافتہ تھا لیکن غیر کی نظر اس طرف نہ گئی کہ وہ تائید یافتہ جس انقلاب کو بر پا کر گیا ہے اس انقلاب کو آپ کی پیروی کرنے والوں کے ذریعہ سے نعمت خلافت کے ذریعہ جاری رکھنے کا بھی اس ذو العجائب اور قدیر ہستی کا وعدہ ہے اور اس کی تصدیق ہوتے ہوئے ایک دنیا نے حضرت مولانا نورالدین خلیفہ مسیح الاول کے انتخاب خلافت کے وقت دیکھا.باوجود اس کے کہ مخالفین حضرت مسیح موعود اس کی قائم کردہ ایک منظم جماعت کو دیکھ رہے تھے.باوجود اس کے السلام کہ وہ خلافت کے قیام کا نظارہ دیکھ چکے تھے لیکن انہوں نے جماعت کو ، اس جماعت کو جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے قائم کردہ جماعت تھی ایک منظم کوشش کے تحت توڑنے کی کوشش کی.جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا: «اذْكُرْ نِعْمَتِيْ غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِكْ رَحْمَتِيْ وَقُدْرَتِيْ ترجمہ : میری نعمت کو یاد کر.میں نے تیرے لئے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور اپنی قدرت کا درخت لگا دیا ہے.پس اس وعدہ کے مطابق وہ ہمیشہ کی طرح ناکام ہوئے.اور یہاں تک مخالفت کی شدت میں بڑھے کہ ایک اخبار نے لکھا:.”ہم سے کوئی پوچھے تو ہم خدا لگتی کہنے کو تیار ہیں کہ مسلمانوں سے ہو سکے تو مرزا صاحب کی کل کتابیں سمندر میں نہیں کسی جلتے تنور میں جھونک دیں.اسی پر بس نہیں البدر جلد 3 نمبر 16.17.مؤرخہ 24 اپریل و یکم مئی 1904 صفحہ 8.وغیر معمولی پر چہ الحکم جلد 8 نمبر 13 مؤرخہ 28 اپریل 1904ء حاشیہ.نیز کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 28 بحوالہ تذکرہ صفحہ 428 ایڈیشن چہارم مطبوعہ 2004ء
15 بلکہ آئندہ کوئی مسلم یا غیر مسلم مورخ تاریخ ہند یا تاریخ اسلام ان کا نام تک نہ لئے“ لے لیکن آج تاریخ احمدیت گواہ ہے.دنیا جانتی ہے کہ ان کا نام لیوا تو کوئی نہیں لیکن خلافت کی برکت سے احمدیت دنیا میں پھول پھل رہی ہے اور کروڑوں اس کے نام لیوا ہیں.اپنی بیہودہ گوئیوں میں یہاں تک بڑھے کہ ایک اخبار’ کرزن گزٹ ( دہلی ) نے لکھا جسے حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اپنی پہلی جلسہ کی تقریر میں بیان کیا کہ : وو اب مرزائیوں میں کیا رہ گیا ہے.ان کا سرکٹ چکا ہے.ایک شخص جو ان کا امام بنا ہے اس سے تو کچھ ہو گا نہیں.ہاں یہ ہے کہ وہ تمہیں کسی مسجد میں قرآن سنایا کرے.حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا سبحان اللہ یہی تو کام ہے.خدا توفیق دے.بدقسمتی سے جماعت کے بعض سرکردہ بھی خلافت کے مقام کو نہ سمجھے.سازشیں ہوتی رہیں لیکن خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا بڑھتارہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق محبوں کی جماعت بڑھتی رہی اور کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کارگر نہ ہوئی.پھر خلافت ثانیہ کا دور آیا تو بعض سرکردہ انجمن کے ممبران کھل کر مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے لیکن وہ تمام سرکردہ علم کے زعم سے بھرے ہوئے ، تجربہ کار پڑھے لکھے اخبار وکیل امرتسر.13 جون 1908ء.بحوالہ الحکم نمبر 39 جلد 12 - 18 جون 1908 ، صفحہ 8 کالم 1 و تاریخ احمدیت مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد.جلد 3 صفحہ 205 206.مطبوعہ 2007ء - نظارت نشر واشاعت قادیان، بھارت بدر نمبر 10 جلد 8 - 7 جنوری 1909 ، صفحہ 5 کالم 1-2 و تاریخ احمدیت مؤلفہ مولا نا دوست محمد شاہد جلد 3.صفحہ 221.مطبوعہ 2007ء.نظارت نشر و اشاعت قادیان، بھارت
16 اس پچیس سالہ جو ان کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور اس نے جماعت کی تنظیم تبلیغ، تربیت، علوم و معرفتِ قرآن میں وہ مقام پیدا کیا کہ کوئی اس کے مقابل ٹھہر نہ سکا.جماعت پر پریشانی اور مخالفتوں کے بڑے دور آئے لیکن خلافت کی برکت سے جماعت ان میں کامیابی کے ساتھ گزرتی چلی گئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے باون سالہ دور خلافت کے حالات پڑھیں تو پتہ چلے کہ اس پسر جری اللہ نے کیا کیا کار ہائے نمایاں انجام دیئے.دنیائے احمدیت میں حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے بعد پھر ایک مرتبہ خوف کی حالت طاری ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اسے چند گھنٹوں میں امن میں بدل کر قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر کا روشن چاند جماعت کو عطا فرمایا.حکومتوں کے ٹکرانے کے باوجود، ظالمانہ قوانین کے اجراء کے بعد تمام مسلمان فرقوں کی منتظم کوشش کے باوجود، یہ قافلہ ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا گیا.پیار ومحبت کے نعرے لگاتا ہوا، غریب اقوام کے غریب عوام کی خدمت کرتے ہوئے ، انہیں رسول عربی ﷺ کا پیغام پہنچاتے ہوئے آپ کے جھنڈے تلے جمع کرتا چلا گیا.پھر وہ وقت آیا کہ الہی تقدیر کے ماتحت حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ بھی اپنے پیدا کرنے والے کے حضور حاضر ہو گئے.پھر اندرونی اور بیرونی فتنوں نے سراٹھایا لیکن خدائی وعدہ کے مطابق جماعت احمدیہ کو خلافت رابعہ کی صورت میں تمکنت دین عطا ہوئی.ہر فتنہ اپنی موت آپ مر گیا.ظالمانہ قانون کے تحت ہاتھ پاؤں باندھنے والوں“ اور ” احمدیت کے کینسر کو ختم کرنے کا دعوی کرنے والوں کو خدا تعالی نے نیست و نابود کر دیا.پاکستان میں ظالمانہ قانون کی وجہ سے خلیفہ وقت کو
17 1 ہجرت کرنا پڑی لیکن یہ ہجرت جماعت کی ترقی کی نئی منازل دکھانے والی بنی.ایک بار پھر غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِی کا وعدہ ہم نے پورا ہوتے دیکھا تبلیغ کی وہ راہیں کھلیں جو ابھی بہت دُور نظر آتی تھیں.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے گئے وعد ہ کو کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا " خلافت رابعہ کے دور میں MTA کے ذریعہ سے یوں پورا ہوتا دکھایا کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.اگر ہم اپنے وسائل کو دیکھیں اور پھر اس چینل کے اجراء کو دیکھیں تو ایمان والوں کے منہ سے بے اختیار اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کے الفاظ نکلتے ہیں.اسی چینل نے آج مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک ہر مخالف احمدیت کا منہ بند کر دیا ہے.پس وہی لوگ جو خلیفہ وقت کو عضو معطل کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے، ان کے گھروں کے اندر MTA نے اس مرد مجاہد کی آواز پہنچا دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام اور خدا تعالیٰ کی آخری شرعی کتاب قرآن کریم کا آسمانی مائدہ آج ہر گھر میں اللہ تعالیٰ کی تائید سے پہنچ گیا.پھر كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان " کے قانون کے مطابق حضرت خلیفة المسح الرابع رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ایک دنیا نے دیکھا اور MTA کے کیمروں کی آنکھ نے سیٹلائٹ کے ذریعہ ایک نظارہ ہر گھر میں پہنچایا.وہ نظارہ جو اپنوں اور غیروں کے لئے عجیب نظارہ تھا.اپنے اس بات پر خوش کہ خدا تعالیٰ نے خوف کو امن سے بدلا اور غیر البدر جلد 3 نمبر 16 - 17.مؤرخہ 24 اپریل و یکم مئی 1904 ء صفحہ 8 و غیر معمولی پر چہ احکم جلد 8 نمبر 13 مؤرخہ 28 اپریل 1904 ءحاشیہ.نیز کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 28 بحوالہ تذکرہ صفحہ 428 ایڈیشن چہارم مطبوعہ 2004ء اخبار الحکم جلد 2 نمبر 6,5 مؤرخہ 27 مارچ و 12 اپریل 1898 ، صفحہ 13.اور اخبار الحکم جلد 2 نمبر 25،24 مورخہ 20، 27 اگست 1898 ، صفحہ 14 بحوالہ تذکرہ صفحہ 260 ایڈیشن چہارم مطبوعہ 2004ء سورة الرحمن - آیت 27
18 اس بات پر حیران کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں، یہ کیسی جماعت ہے جسے ہم سو سال سے ختم کرنے کے درپے ہیں اور یہ آگے بڑھتے ہی جارہے ہیں.ایک مخالف نے برملا اظہار کیا کہ میں تمہیں سچا تو نہیں سمجھتا لیکن اس نظارہ کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ لگتی ہے.میرے جیسے کمزور اور کم علم انسان کے ہاتھ پر بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جمع کر دیا اور ہر دن اس تعلق میں مضبوطی پیدا ہوتی جارہی ہے.دنیا بجھتی تھی کہ یہ انسان شاید جماعت کو نہ سنبھال سکے اور ہم وہ نظارہ دیکھیں جس کے انتظار میں ہم سوسال سے بیٹھے ہیں.لیکن یہ بھول گئے کہ یہ پودا خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے لگایا ہوا ہے جس میں کسی انسان کا کام نہیں بلکہ الہی وعدوں اور تائیدات کی وجہ سے ہر کام ہورہا ہے.اللہ تعالیٰ یہ الہام پورا فرما رہا ہے کہ ” میں تیرے ساتھ اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں پس یہ اپنی تقدیر ہے.یہ اسی خدا کا وعدہ ہے جو کبھی جھوٹے وعدے نہیں کرتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو پیارے جو آپ کے حکم کے ماتحت قدرت ثانیہ سے چھٹے ہوئے ہیں، انہوں نے دنیا پر غالب آنا ہے کیونکہ خدا ان کے ساتھ ہے.خدا ہمارے ساتھ ہے.آج اس قدرت کو سو سال ہورہے ہیں اور ہر روز نئی شان سے ہم اس وعدہ کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں جیسا کہ میں نے جماعت کی مختصر تاریخ بیان کر کے بتایا ہے.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو قدرت ثانیہ سے چمٹ کر اپنی تمام استعدادوں کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کرے.بدر جلد 6 نمبر 51 مؤرخہ 19 دسمبر 1907 صفحہ 4.احکام جلد 11 نمبر 46 مؤرخہ 24 دسمبر 1907ء صفحہ 4 بحوالہ تذکرہ صفحہ 630.ایڈیشن چہارم.مطبوعہ 2004 ء
19 آج ہم نے عیسائیوں کو بھی آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے لانا ہے.یہودیوں کو بھی آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے لانا ہے.ہندؤوں کو بھی اور ہر مذہب کے ماننے والے کو بھی آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے لانا ہے.یہ خلافت احمد یہ ہے جس کے ساتھ جڑ کر ہم نے روئے زمین کے تمام مسلمانوں کو بھی مسیح و مہدی کے ہاتھ پر جمع کرنا ہے.السلام پس اے احمد یو! جو دنیا کے کسی بھی خطہ زمین میں یا ملک میں بستے ہو، اس اصل کو پکڑ لو اور جو کام تمہارے سپر د امام الزمان اور مسیح و مہدی نے اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر کیا اسے پورا کرو جیسا کہ آپ ﷺ نے یہ وعدہ تمہاری نسبت ہے“ کے الفاظ فرما کر یہ عظیم ذمہ داری ہمارے سپرد کر دی ہے.وعدے تبھی پورے ہوتے ہیں جب ان کی شرائط بھی پوری کی جائیں.پس اے مسیح محمدی کے ماننے والو! اے وہ لوگو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیارے اور آپ کے درخت وجود کی سرسبز شاخیں ہو، اٹھو اور خلافت احمدیہ کی مضبوطی کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہو تا کہ میں محمد دی اپنے آقا و مطاع کے جس پیغام کو لے کر دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ، اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دو.دنیا کے ہر فرد تک یہ پیغام پہنچا دو کہ تمہاری بقا خدائے واحد و یگانہ سے تعلق جوڑنے میں ہے.دنیا کا امن اس مہدی ومسیح کی جماعت سے منسلک ہونے سے وابستہ ہے کیونکہ امن وسلامتی کی حقیقی اسلامی تعلیم کا یہی علمبر دار ہے، جس کی کوئی مثال روئے زمین پر نہیں پائی جاتی.آج اس مسیح محمدی کے مشن کو دنیا میں قائم کرنے اور وحدت کی لڑی میں پروئے جانے کا حل صرف اور صرف
20 خلافت احمدیہ سے جڑے رہنے سے وابستہ ہے اور اسی سے خدا والوں نے دنیا میں ایک انقلاب لانا ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو مضبوطی ایمان کے ساتھ اس خوبصورت حقیقت کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین والسلام.خاکسار مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس
صدسالہ خلافت جو بلی کے موقع پر 27 رمئی 2008 ءکو Excelسینٹرلندن میں منعقد ہونے والے تاریخی جلسہ میں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ولولہ انگیز خطاب
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے شکر کے جذبات کے اظہار کے لئے یہاں بھی جمع ہوئے ہیں اور ایم ٹی اے کی وساطت سے دنیا کے تمام ممالک میں احمدی اس تقریب میں شامل ہیں.اس اہم موقع پر سب سے پہلے تو میں آپ کو بھی اور دنیا کے تمام احمد یوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں.آج ہم آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے غلام صادق اور مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی بدولت ایک وحدت کا نظارہ دیکھ رہے ہیں.آج اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بارشوں کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اپنے وعدوں کے مطابق کئے ہیں اور کر رہا ہے اُس بستی کے بھی نظارے کر رہے ہیں.( آپ لوگوں کے سامنے سکرین نہیں لیکن میں دیکھ رہا ہوں ، کچھ کو نظر بھی آرہا ہوگا ).وہ بستی بھی اس وقت ہمارے سامنے ہے.وہ ایک چھوٹی سی بستی تھی جسے کوئی نہیں جانتا تھا.آج نہ صرف مسیح محمدی کی بستی کو تمام دنیا جانتی ہے بلکہ اس بستی کے گلی کوچوں اور اس سفید منارہ کو جو سیع محمدی کی
24 آمد کے اعلان اور سمبل (Symbol) کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا ایک دنیا دیکھ رہی ہے.اور آج ہم اس تقریب میں اللہ تعالی کے اپنے پیارے مسیح سے کئے گئے وعدہ کے مطابق اس اولو العزم اور موعود بیٹے کے ہاتھ سے انجام پانے والے کارناموں میں سے ایک عظیم کارنامہ، بے آب و گیاہ میدان کو ایک سرسبز پھولوں، پھلوں اور درختوں سے بھری ہوئی ایک بستی میں بدلنے کا نظارہ بھی کر رہے ہیں اور ربوہ کی یہ تصویریں بھی آج ہمارے سامنے ہیں.پس آج مشرق سے مغرب کی طرف آنے والے یہ نظارے اور پھر مغرب سے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق دائمی قدرت کا نظارہ کرتے ہوئے خلیفہ وقت کی آواز اور تصویر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کا ذکر مشرق میں بھی ،مغرب میں بھی ، شمال میں بھی اور جنوب میں بھی ، یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی، ایشیا میں بھی اور افریقہ میں بھی سن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں.یہ یقیناً ہر احمدی کو توجہ دلانے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنا وعدہ پورا کر دیا اور کر رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچادیا ہے اور پہنچا رہا ہے.خلافت احمدیہ کے قیام اور اس کے ذریعہ سے الہی تائیدات کے ساتھ ترقی کے نظارے ہم اپنے ماضی کی تاریخ میں بھی کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں.خلافت احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک کی سو سالہ تاریخ ہمارے ایمانوں کو پختہ کر رہی ہے اور ہمارے ایمانوں کو گرما رہی ہے.کیا یہ سب کچھ ہمیں اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ہم خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے اس کے حضور اپنے شکر کا اظہار کریں اور آج کی یہ تقریب بھی اسی شکر گزاری کے اظہار کے طور پر ہے.اسلام کی تاریخ کا یہ دن جو
25 اللہ تعالیٰ نے ہمیں دکھایا ہے آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کی جماعت کے لئے ایک نیا اور سنہری باب رقم کر رہا ہے.پس اس نیت سے اور اس نعمت کے اظہار اور شکرانے کے طور پر اگر ہم یہ تقریب اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس حوالہ سے تقریبات منعقد کر رہے ہیں تو یہ نہ صرف جائز بلکہ خدا تعالی کے حکم کے عین مطابق ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدَتْ یعنی تو اپنے رب کی نعمتوں کا ضرور ا ظہار کرتارہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: عجز و نیاز اور انکسار...ضروری شرط عبودیت کی ہے لیکن بحکم آیت کریمہ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِتْ نعماء الہی کا اظہار بھی از بس ضروری ہے.سے پھر آپ مزید فرماتے ہیں: یہ عاجز بحكم وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِتْ " اس بات کے اظہار میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ خداوند کریم ورحیم نے محض فضل وکرم سے ان تمام امور سے اس عاجز کو حصہ وافر دیا ہے اور اس ناکارہ کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا اور نہ بغیر نشانوں کے مامور کیا.بلکہ یہ تمام نشان دئے ہیں جو ظاہر ہورہے ہیں اور ہوں گے اور خدائے تعالی جب تک کھلے طور پر حجت قائم نہ کر لے تب تک ان نشانوں کو ظاہر کرتا جائے گا“.ھے پھر آپ فرماتے ہیں: یا درکھو کہ انسان کو چاہئے کہ ہر وقت اور ہر حالت میں دعا کا طالب رہے اور ۱، ۲، ۴ سورۃ الضحی.آیت 12 مکتوبات احمد.مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی.جلد دوم ایڈیشن 2008 ء.صفحہ 66.مکتوب نمبر 42 ازالہ اوہام صفحہ 448 449 - روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 338-339.مطبوعہ انگلستان
26 دوسرے اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِتْ پر عمل کرے.خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی تحدیث کرنی چاہئے.اس سے خدا تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے اور اُس کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے ایک جوش پیدا ہوتا ہے.تحدیث کے یہی معنی نہیں ہیں کہ انسان صرف زبان سے ذکر کرتار ہے بلکہ جسم پر بھی اس کا اثر ہونا چاہئے“.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے جس انعام سے ہمیں بہرہ ور فرمایا ہے اور بغیر کسی روک کے اسے جاری رکھا ہوا ہے اور آئندہ بھی جاری رکھنے کا وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے اس نعمت کا اظہار کریں تا کہ اس نعمت کی برکات میں کبھی کمی نہ آئے بلکہ ہر نیا دن ایک نئی شان دکھانے والا ہو.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا عاجزی اور انکسار شرط ہے.ہر احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس اہم شرط کو ہمیشہ پیش نظر رکھے.جتنا ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے جائیں گے، جتنا ہم عاجزی کا اظہار نہ صرف ظاہری طور پر بلکہ دل کی گہرائیوں سے تقویٰ پر چلتے ہوئے کریں گے اللہ تعالیٰ کے انعام سے حصہ لیتے چلے جائیں گے.یہ دن جو آج ہم خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر خاص اہتمام سے منا رہے ہیں یا ہر سال عمومی طور پر مناتے ہیں یہ ہمیں اس بات کی یاد دلانے والا ہونا چاہئے کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے ، عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات اور تمام اوامر و نواہی پر پوری طرح کاربند رہنے کی کوشش کریں گے.آج صرف تفلمیں پڑھنے یا غبارے اڑانے یا متفرق پروگرام بنانے یا اس خوشی میں اچھے سورۃ الضحی.آیت 12 الحکم نمبر 13 جلد 7 مؤرخہ 10 اپریل 1903 ، صفحہ 1 - کالم 3 و تفسیر حضرت مسیح موعود ان.جلد چہارم صفحہ 649 زمر سورة النحل آیت 12
27 کھانے کھانے اور مٹھائی کھانا ہمارا مقصد نہیں ہے.یہ پروگرام جو اس وقت ہورہا ہے یا مختلف جماعتوں میں ہوگا صرف خوشی منانے کے لئے نہیں ہے.ٹھیک ہے ، یہ بھی ایک مقصد ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار ہے لیکن اس اظہار سے ہماری توجہ تقویٰ کی راہوں کی طرف پھر جانی چاہئے.اگر یہ ظاہری شور شرابا تصنع اور بناوٹ اور پروگراموں میں دنیا داری کے اظہار کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش ہے تو یہ عمل اسی طرح قابل کراہت ہے جس طرح جلسہ سالانہ سے پاک تبدیلیاں پیدا کئے بغیر چلے جانا یا کوئی بھی غیر صالح عمل جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے بغیر ہو.پس آج کا دن ایک نیا عہد باندھنے کا دن ہے.آج کا دن ہمیں اپنی تاریخ سے آگاہ کرنے کا دن ہے.آج کا دن ہمیں اُس دن کی یاد دلانے کا دن ہے جب افراد جماعت پر آج سے سو سال پہلے ایک زلزلہ آیا تھا.آج کے دن سے ایک دن پہلے ایک واقعہ ہو ا جس نے جماعت کو ہلا کر رکھ دیا.26 مئی 1908ء کا دن جب خدا کا پیارا مسیح موعود اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گیا.اس واقعہ کی خبر اللہ تعالی آپ کو ایک عرصہ سے دے رہا تھا جس کا ذکر آپ نے جماعت کے سامنے کرنا شروع کر دیا تھا اور رسالہ الوصیت میں بڑا کھل کر جماعت کو اس طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے ایمان اور تقوی میں بڑھنے کی خاص طور پر تلقین فرمائی اور جماعت کو تسلی دی کہ یہ نہ سمجھتا کہ میرے جانے سے خدا کا تائیدی ہاتھ تم سے اٹھ جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے میرے بعد بھی پورے ہوتے رہیں گے.بہر حال اللہ تعالیٰ کا قانون ہے.ہر ایک انسان جو اس دنیا میں آیا اس نے جانا ہے.تمام انبیاء بھی اسی قانون کے تحت رخصت
28 ہوئے اور اپنے مولا کی ابدی جنتوں کے وارث ہوئے جس کے لئے وہ بے چین رہتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی زندگی کا ہرلحہ بھی ہمیں اس زندگی کی آرزو کرتا نظر آتا ہے جو ابدی زندگی ہے.آپ کی وفات پر افراد جماعت کو یقین نہیں آتا تھا کہ آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں.بہر حال جب پتہ چلا کہ یہ حقیقت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو خود ایک عرصہ سے اس خبر کے لئے جماعت کو تیار کر رہے تھے.الہامات بھی اس بارہ میں ہو رہے تھے.20 مئی 1908 ء کو آپ کو الہام ہو اتھا کہ اَلرَّحِيْلُ ثُمَّ الرَّحِيْلُ وَالْمَوْتُ قَرِيْب یعنی کوچ کا وقت آگیا ہے.ہاں کوچ کا وقت آگیا ہے اور موت قریب ہے.اس بات پر جب احباب جماعت کو یقین ہو گیا کہ یہ بات سچ ہے، بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ مغرب کی نماز میں مسجد مبارک قادیان کی چھت پر آہ و بکا اور گریہ وزاری سے ایک محشر برپا تھا.لیکن دوسری طرف مخالفین کی شرمناک حرکات بھی اپنے عروج پر تھیں.لا ہور میں احمد یہ بلڈنگ کے نزدیک ، جہاں آپ کا جسد مبارک رکھا ہو اتھا شہر کے آوارہ مزاج لوگوں کو مخالفین نے جمع کر کے خوشی کے نعرے لگائے اور گیت گائے.بیہودگی اور بے حیائی کی انتہا تھی جو اُس وقت ان لوگوں نے کی.اوباشوں سے تو یہ توقع کی جاسکتی تھی لیکن بعض کم ظرف اور ذلیل اخبار نویسوں نے بھی آپ کی وفات پر خوشی کا اظہار کر کے اپنے کم ظرف ہونے کا ثبوت دیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ اب مرزا صاحب کی وفات کے بعد یہ سلسلہ نعوذ باللہ تباہ و برباد ہوگا لیکن ان بیہودو لوگوں کو سیہ پتہ نہیں تھا، یہ ان کی بھول تھی ، یہ دنیا کے ان کیٹروں کی گھٹیا خواہش تھی.یہ ان لوگوں کی اخبار بدر جلد 7 نمبر 22 مؤرخہ 2 جون 1908ء صفحہ 3 بحوالہ تذکرہ.صفحہ 640.ایڈیشن چہارم 2004 ء
29 بھول تھی جو خدا تعالیٰ کی اپنے فرستادوں کیلئے غیرت رکھنے کے علم سے بے بہرہ تھے.ان لوگوں کی عقل پر پردے پڑے ہوئے تھے اور آنکھیں اندھی تھیں، جو نہیں جانتے تھے کہ یہ شخص جو آج اس دنیا سے رخصت ہوا اپنے آقا ومطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کی چودہ سو سال پہلے کی پیشگوئیوں کا مصداق ہے.اس شخص نے مومنین کی وہ جماعت قائم کی ہے جس کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے بڑے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ میں ایسے لوگوں کے خوف کی حالت کو امن میں بدل دیتا ہوں اور اپنی تائید ونصرت سے انہیں نوازتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ حقیقی مومنین کو یہ خوشخبری دی تھی کہ مسیح و مہدی کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد دشمن کی خوشی عارضی ہوگی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم کی چادر میں اس مسیح و مہدی کے غلاموں کو لپیٹ لے گا.ایک حدیث میں اپنے زمانہ سے لے کر آخرین کے زمانے تک کا نقشہ کھینچتے ہوئے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں اور یہ روایت ہے حضرت حذیفہ سے.آپ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا: تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اس کو اٹھالے گا اور خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہوگی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے.جب یہ دور ختم ہوگا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی.یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے.لے دیکھیں مشکوۃ باب الانذار والتحذیر.الفصل الثالث - حدیث 5378.دارالکتب العلمیۃ بیروت طبع اوّل 2003ء و مسند احمد بن مقبل جلد 6 - مسند نعمان بن بشیر - حدیث 18596 صفحہ 285 - عالم الكتب بیروت 1998ء
30 پس یہ تسلی کے الفاظ تھے جو آپ نے مومنین کو دئے.اُن مومنین کو جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہونا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا رحم مسیح و مہدی کے ماننے والوں کے لئے جوش میں آئے گا اور دشمن چاہے جتنی بھی تعلیاں کرتا رہے، جتنے چاہے خوشی کے باجے بجاتا رہے، ڈھول پیٹتا ر ہے، یہ دائی خلافت علی منہاج نبوت اس مسیح کے ماننے والوں کے ساتھ وابستہ ہوچکی ہے جو ہر خوف میں انہیں امن کی نوید دیتی چلی جائے گی اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے.ایسی تقدیر ہے جو اٹل ہے.یہ حقیقی مومنوں کا مقدر ہے.یہ چند او باش یا چند کم ظرف جو اپنے زعم میں بڑا اعلم رکھنے والے لوگ ہیں وہ اس تقدیر کو نہیں بدل سکتے.اس بات کی مزید تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑا کھول کر رسالہ الوصیت میں فرمایا اور جماعت کو تسلی دی.آپ کو علم تھا کہ جس طرح ہمیشہ سے انبیاء کے مخالفین کا یہ کام رہا ہے، یہ شیو ورہا ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کو خیال ہوتا ہے کہ اب یہ ختم ہوئے کہ ختم ہوئے.اور مخالفین اور منافقین اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ یہ نظارہ دیکھیں کہ یہ جماعت اب کس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوتی ہے.لیکن وہ خدا جو اپنے انبیاء کو دنیا میں بھیجتا ہے وہ اپنی تقدیر دکھاتا ہے اور وہ خدا جس نے افضل الرسل اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو دنیا میں بھیجا تھا تو اس نے یہ اعلان بھی کروایا تھا کہ آپ کی شریعت ہمیشہ اور دائی رہنے والی شریعت ہے.آپ کی وفات کے بعد امت پر کچھا اتلا تو آئیں گے لیکن جیسا کہ حدیث سے بھی واضح ہے آخر مسیح محمدی کی آمد کے بعد اس اسلام کے غلبہ کا ایک نیا دور شروع ہوگا جو تا قیامت چلے گا.گو مخالفتیں ہوں گی لیکن راستہ کی دھول کی طرح فضا میں بکھر جائیں گی.پس
31 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس علم کی بنا پر جو خدا تعالیٰ نے آپ کو دیا تھا یہ تسلی دی تھی کہ مخالفین جب جنسی لھا کریں تو پریشان نہ ہونا.چنانچہ آپ جماعت کو تسلی دیتے ہوئے رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں کہ: دو یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اُس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے كَتَبَ اللَّهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِي اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخمریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک نا کامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو نسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے.اور جب وہ جنسی ٹھٹھا کر سکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ سورة المجادلة- آیت 22
32 گیا.اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائیگی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردو میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا رض ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت کبھی گئی.اور بہت سے بادیہ نشین نادان مُرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نا بود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُم وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمُنًا یعنی خوف کے بعد وو پھر ہم اُن کے پیر جمادیں گے“.آپ اپنی جماعت کو فرماتے ہیں: سو اے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دوقدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جا ئیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر سورۃ النور.آیت 56 رسالہ الوصیت صفحہ 4-5- روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304-305- مطبوعہ انگلستان
33 ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا " براہینِ احمدیہ میں وعدہ ہے.آپ فرماتے ہیں وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیر وہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اِس کے وہ دن آوے جو دائی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے.وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے لے یہ آیت جس کا کچھ حصہ میں نے حضرت مسیح موعود اللہ کے اقتباس سے پڑھا ہے یہ پوری آیت اس طرح ہے جس کو ہم آیت استخلاف کہتے ہیں کہ وَعَدَ الله الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُم وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ رسالہ الوصیت صفحہ 5-6.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305-306 - مطبوعہ انگلستان
34 كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم میں سے جولوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.پس جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو 1 نافرمان ہیں.یہ آیت مومنین کے لئے ایک عظیم خوشخبری ہے اور دلوں کی بصیرت کے لئے ایک ایسی مرہم ہے جس پر جتنا بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے کم ہے.لیکن یہ فکر میں ڈالنے والی بات بھی ہے.اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ یہ میرا وعدہ ہے مومنین سے، ایسے لوگوں کے ساتھ جو ایمان میں پختہ ہیں، جو نمازیں ادا کرنے والے ہیں، جو زکوۃ دینے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کے تمام حقوق ادا کرنے والے ہیں.ایمان کی اللہ تعالی نے مختلف جگہ پر جو وضاحت فرمائی ہے اس میں سب سے پہلے غیب پر ایمان ہے.اگر یہ ایمان کامل ہوگا تو پھر انسان خالص خدا تعالیٰ کا عبد کہلانے والا ہوگا.پھر ایسے شخص کی تمام محبتیں خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوں گی.ایسے مومنین کے دل اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرزاں و ترساں رہیں گے اور وہ تقویٰ کی راہوں پر چلنے والے ہوں گے.وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو کامل فرمانبرداری سورۃ النور.آیت 56
35 سے ماننے والے ہوں گے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ بجالانے والے ہوں گے.صرف نمازیں پڑھنا ہی کافی نہیں ، صرف روزے رکھنا ہی کافی نہیں ، صرف زکوۃ دینا ہی کافی نہیں ، صرف حج کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جن اعمال صالحہ کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے ان کو بجالانے کی طرف توجہ بھی ضروری ہے.اصل میں تو ایمان اور اعمال صالحہ لازم وملزوم ہیں.ایمان کے بغیر اعمال کسی قابل نہیں اور اعمال صالحہ کے بغیر ایمان کامل نہیں.پس اللہ تعالیٰ خلافت کے ساتھ وابستہ کر کے ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جو حقوق اللہ ادا کرنے والا بھی ہو اور حقوق العباد ادا کرنے والا بھی ہو.ہیں کہ : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایمان اور عمل صالح سے تعلق میں فرماتے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی رکھا ہے.عمل صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرہ بھر فسادنہ ہو.یادرکھو کہ انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں.وہ کیا ہیں؟ ریا کاری ( کہ جب انسان دکھاوے کے لئے ایک عمل کرتا ہے ).عجب ( کہ وہ عمل کر کے اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے ) اور قسم قسم کی بدکاریاں اور گناہ جو اس سے صادر ہوتے ہیں ان سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں.عمل صالح وہ ہے جس میں ظلم، جب ، ریا، تکبر حقوق انسان کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو.جیسے آخرت میں عمل صالح سے بچتا ہے ویسے ہی اس دنیا میں بھی بچتا ہے“.فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عمل صالح والا ہو تو سب گھر بچارہتا ہے.
36 سمجھ لو کہ جب تک کہ تم میں عمل صالح نہ ہو صرف ما نا فائدہ نہیں کرتا“ لے فرماتے ہیں کہ " عمل صالح ہماری اپنی تجویز اور قرار داد سے نہیں ہوسکتا.ہر ایک کی اپنی مرضی کے مطابق عمل صالح نہیں ہے.عمل صالح کی تشریح ہر شخص نے خود نہیں کرنی.فرمایا کہ ” عمل صالح ہماری اپنی تجویز اور قرار داد سے نہیں ہو سکتا.اصل میں اعمال صالحہ وہ ہیں جس میں کسی نوع کا کوئی فسادنہ ہو.کیونکہ صالح فساد کی ضد ہے جیسے غذا طیب اس وقت ہوتی ہے کہ وہ نہ کی ہو نہ سڑی ہوئی ہو اور نہ کسی ادنی درجہ کی جنس کی ہو بلکہ ایسی ہو جو فوراً جزو بدن ہو جانے والی ہو.اسی طرح پر ضروری ہے کہ عمل صالح میں بھی کسی قسم کا فساد نہ ہو.یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو اور پھر آنحضرت ﷺ کی سنت کے موافق ہو.اور پھر نہ اس میں کسی قسم کا کسل ہو، نہ مجب ہو، نہ ریاء ہو، نہ وہ اپنی تجویز سے ہو.جب ایسا عمل ہو تو وہ عمل صالح کہلاتا ہے اور یہ کبریت احمر ہے“.یعنی ایک بہت نایاب چیز ہے اور ایک بہت قیمتی چیز ہے.یہی عمل ہے جو مومن کو اپنانا چاہئے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی حالت پیدا کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ خلافت سے فیض پاتے رہیں گے.ایسے لوگ ہوں گے جو خلافت کی حفاظت کرنے والے ہوں گے اور خلافت ان کی حفاظت کرنے والی ہوگی.اور یہ فیض اور حفاظت کے نظارے تبھی نظر آئیں گے جب اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھا میں گے.البدر - نمبر 9.جلد اوّل مورخہ 26 دسمبر 1902، صفحہ 66 کالم 2-3 الحکم- جلد 8 نمبر 14-15 مورخہ 30 اپریل.و 10مئی1904 ءصفحہ 1 کالم2.3
37 یعنی یہ وعدہ ان لوگوں کے لئے نہیں جو اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں.آج اُمت مسلمہ میں خلافت کے قیام کے لئے کتنی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن وہ بارآور نہیں ہوسکتیں اور کبھی نہیں ہوسکتیں.اس لئے کہ یہ لوگ اللہ کی مرضی کی بجائے اپنی مرضی کا دین جاری کرنا چاہتے ہیں.اللہ کی بھیجی ہوئی خلافت کی اطاعت کی بجائے بندوں کی بنائی ہوئی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں.باوجود اس احساس کے کہ ہم غلطی کر رہے ہیں پھر بھی اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کا انکار کر رہے ہیں.لیکن اس آیت استخلاف میں جو تسلی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو دی ہے اور جس کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے.آج جماعت احمدیہ کی تاریخ خاص طور پر خلافت احمدیہ کی سو سالہ تاریخ جو ہے ہر فرد کو آیت استخلاف کی حقیقی تصویر کا فہم و ادراک دے چکی ہے اور ہر احمدی کو عملی طور پر بھی اللہ تعالی کے انعامات کی بارش کا مصداق بنا دیا ہے.پس آج یہ بات ہر احمدی پر واضح ہے اور واضح رہنی چاہئے کہ اس کے مصداق وہی لوگ بنتے ہیں جو ایمان میں کامل ہونے کی کوشش کرنے والے اور اعمال صالحہ بجا لانے والے ہوں.آج تو غیر بھی ہمارے نظارے دیکھ کر اس بات کا بر ملا اظہار کرتے ہیں اور اس کا اظہار کرنے پر مجبور ہیں کہ خوف کی حالت کو امن میں بدلتے اگر کسی نے اس زمانہ میں دیکھنا ہے تو جماعت احمدیہ کو دیکھ لے.پس کتنے خوش قسمت ہیں ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر اس انعام کے مستحق ٹھہرے ہیں.پس یہ آیت جو آیت استخلاف کہلاتی ہے اور اس کے کچھ حصہ کا ذکر ہم نے
38 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس میں سنا، ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ اپنے ایمان اور اعمال کی طرف نظر رکھیں.یہ لوگ جیسا کہ میں بتارہا تھا کہ غیر کوشش کرتے ہیں کہ ہم میں بھی خلافت قائم ہو.اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں لیکن ان میں یہ قائم نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ اپنی مرضی سے اس کی تعریف کرنا چاہتے ہیں.بجائے اللہ تعالیٰ کی خلافت لینے کے اپنی خلافت ٹھونسنا چاہتے ہیں.پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ان کے خوف کی حالت امن میں بدلے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ان میں خلافت کا نظام قائم ہو.یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے.اللہ تعالیٰ اس نظام کے تحت جہاں مومنوں کے خوف کی حالت کو امن میں بدلتا ہے وہاں اپنے مقرر کردہ خلیفہ کے دل سے ہر قسم کے دنیاوی خوف نکال کر خوف کی حالتوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا فرماتا ہے.ہر مشکل حالت میں اپنے فضل سے تسلی دیتا ہے تا کہ خلیفہ وقت جماعت کو تسلی دے.پس کیا د نیادی تدبیریں الہی تو پیروں کا مقابلہ کر سکتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ اس آیت میں پھر اس بات کی تلقین فرماتا ہے، یہ تستی دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو تمہارے خوفوں کو امن میں بدلے گا، خلیفہ وقت کی رہنمائی تو کرے گا.اس کی عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہے گی اور وہ تو کل دنیا کے خوفوں اور چاہتوں کو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں شریک بنا کر کھڑا نہیں کرے گا.وہ تو ناشکری نہیں کرے گا.اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس بات کا ثبوت ہوں گی.اور اگر بشری کمزوری کی وجہ سے خلیفہ وقت سے لاشعوری طور پر کبھی ایسی صورت ہو بھی گئی جس سے غلط نتائج کا امکان ہوسکتا ہو تو خدا تعالیٰ خود خلیفہ وقت کا قبلہ درست کر دے گا.خدا تعالیٰ اپنے انعام کی وجہ سے، اپنے انتخاب کی وجہ سے ایسی حالت میں بھی بہتر نتائج پیدا فرمائے گالیکن
39 افراد جماعت کو بھی اس طرف توجہ کرنی ہوگی کہ عبادت کی طرف توجہ دیں ،شرک کی چھوٹی سے چھوٹی حالت سے بھی بچنے کی کوشش کریں اور ہمیشہ اللہ تعالی کے اس انعام کی قدر کرتے ہوئے اس کے شکر گزار بندے بنے رہیں.میں یہ کہہ رہا تھا کہ افراد جماعت کو بھی اس انعام کی قدر کرتے ہوئے اس کے شکر گزار بندے بنے رہنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جب یہ ہوگا تو پھر بے فکر ہو جائیں کہ خدا ان کے آگے بھی ہوگا ، پیچھے بھی ہوگا ، دائیں بھی ہوگا اور ہا ئیں بھی ہوگا اور کوئی نہیں جو انہیں نقصان پہنچا سکے.پس یہ حالت ہم نے خدا تعالی کی قائم کردہ جماعت پر اس وقت بھی دیکھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر ایک ایسی حالت طاری ہوئی جس نے ہر ایک دل کو ہلا کر رکھ دیا ، ہر ایک احمدی کو ہلا کر رکھ دیا.دشمن نے خوشی کے شادیانے بجائے کہ اب یہ جماعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد اپنے انجام کو پہنچی کہ اچھی.مخالفین کی بیہودہ گوئیاں اور ہرزہ سرائیاں جو تھیں ان میں سے بعض یہاں پیش کرتا ہوں تاکہ نئی نسل اور نئے آنے والوں کو بھی پتہ چلے کہ کس کس طرح مخالفین نے جماعت میں فتنہ کی افواہیں اڑائیں.مثلاً ایک پراپیگنڈہ پیر جماعت علی شاہ کے مریدوں نے کیا کہ کثرت سے مرزائی لوگ تائب ہوکر بیعت کر رہے ہیں“ لے یعنی احمدیت چھوڑ کر اُن کے اسلام میں داخل ہورہے ہیں.حالانکہ حقیقی اسلام اب احمدیت میں ہے.تو یہ ان کی باتیں تھیں.آج بھی بے چارے مولوی، ہمارے مخالفین ، اسی قسم کی باتیں کرتے ہیں.لیکن یہ ان کی خواہش ہے.نہ دیکھیں المجد و (لاہور) جون 1908 ء.بحوالہ تاریخ احمدیت مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد.جلد 3 صفحہ 204.مطبوعہ 2007ء.نظارت نشر و اشاعت قادیان.بھارت
40 پہلے پوری ہوئی اور نہ آج پوری ہوگی.آج تو یہ مخالفین بے چارے جماعت کی ترقی دیکھ کر اتنے حواس باختہ ہو چکے ہیں کہ ایک طرف تو یہ بات کرتے ہیں کہ ہم نے احمدیت کو ختم کر دیا اور ساتھ ہی یہ بیان دیتے ہیں، اسلامی حکومتوں پر زور دیتے ہیں کہ اسلامی حکومتیں قادیانیت کی پیش قدمی کو روکیں ورنہ یہ لوگ ساری امت مسلمہ کو گمراہ کر دیں گے.بہر حال یہ تو اُن کی باتیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی وفات کے بعد کس کس طریقہ سے انہوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی اس کے بھی ایک دو واقعات سن لیں.مولوی ثناء اللہ نے لکھا کہ مرزا (حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) انہوں نے اپنی زبان میں لکھا کہ " مرزا صاحب کی کل کتابیں کسی سمندر میں نہیں کسی جلتے تنور میں جھونک دیں.اسی پر بس نہیں بلکہ آئندہ کوئی مسلم یا غیر مسلم مؤرخ تاریخ ہند یا تاریخ اسلام ان کا نام تک نہ لے لے خواجہ حسن نظامی صاحب جو بظاہر بڑے سنجیدہ طبع اپنے میں مست رہنے والے آدمی تھے ، وہ احمدیوں کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت اور مہدویت سے صاف انکار کر دیں ورنہ اندیشہ ہے کہ مرزا صاحب جیسے سمجھدار اور منتظم شخص کی عدم موجودگی کے سبب احمدی جماعت مخالفین کی شورش کو برداشت نہ کر سکے گی اور اس کا شیرازہ بکھر جائے گا“.ہے اخبار وکیل امرتسر.13 جون 1908ء.بحوالہ الحکم نمبر 39 جلد 12.18 جون 1908ء.صفحہ 8 کالم نمبر 1 و تاریخ احمدیت.مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد.جلد 3 صفحہ 205-206 مطبوعہ 2007ء - نظارت نشر و اشاعت قادیان.بھارت پیسہ اخبار.لاہور.5 جون 1908ء.بعنوان ” قادیانی مشن بحوالہ اخبار بدر جلد 7 نمبر 24 مؤرخہ 18 جون 1908 ، صفحہ 13 کالم 2-3 و تاریخ احمدیت.مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد.جلد 2 صفحہ 554.مطبوعہ 2007ء- نظارت نشر و اشاعت قادیان.بھارت
41 بڑے نرم الفاظ میں انہوں نے بڑی عزت سے نام لے کے ذکر کیا ہے لیکن وہی بات کہ احمدی اس بیعت سے نکل جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کی ہے اور آپ کے دعوئی سے انکاری ہوجائیں.تو یہ حالات اس وقت پیدا ہوئے.وہ لوگ جن کی فطرت میں فساد ہے وہ تو ہرزہ سرائیاں کر ہی رہے تھے سنجیدہ طبع لوگ بھی اپنے دلوں کے غبار نکالنے لگے.لیکن چونکہ ان کی صرف دنیا کی آنکھ تھی اس لئے خدائی وعدوں کی طرف ان کی نظر نہ گئی اور نہ جاسکتی تھی.ان کو خدا کے اس مسیح کے اعلان کا فہم ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ میں جب جاؤں گا تو خدا تعالیٰ تمہیں دوسری قدرت دکھائے گا.اور ایک دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کس شان سے مسیح محمدی کے حق میں پورے ہوئے.ان کی تعلیاں اور ان کی گھٹیا خواہشیں ان کے منہ پر ماری گئیں.جس لٹریچر کو جلانے کی تلقین کی جارہی تھی آج یہی لٹریچر دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو کر سعید روحوں کی رہنمائی کا باعث بن رہا ہے.جس شخص کے نام کو تاریخ سے نکالنے کی باتیں ہو رہی تھیں آج اس کی جے کے نعرے یورپ ،امریکہ ،ایشیا اور افریقہ میں لگ رہے ہیں.آج حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا نام تصویر اور لٹریچر ہواؤں کے دوش پر دنیا کے ہر خطہ اور ہر گھر میں پہنچ رہا ہے.جو یہ کہہ رہے تھے کہ مخالفین کی شورش جماعت احمد یہ برداشت نہیں کر سکے گی ، آج وہ زندہ ہوں تو دیکھیں کہ شورش برداشت کرنے کا تو کیا سوال، احمدیت کا نام دنیا کے ہر شہر میں پہنچ چکا ہے اور مخالفین، احمدیت کا نام سن کر دنیا کے ہر ملک میں پہلو بچاتے ہوئے راہ فرار اختیار کرتے ہیں.ہاں مغلظات جتنی ان سے سنی ہوں، سن لیں.اگر ان میں جرات ہے تو ہر اسلامی ملک کا
42 1 ٹی وی چینل اور ریڈیو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے احمدیوں کو ملکی ٹیلیویژن پر اپنا مؤقف پیش کرنے کی اجازت اور سہولت دیں.ملکی حکومتیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور احمدیوں کو تحفظ فراہم کریں.دین کے معاملہ میں تو کوئی جبر نہیں.ماشاء اللہ ہر بالغ، صاحب عقل، اپنا اچھائرا جانتا ہے تو پھر ان لوگوں کو خوف کس چیز کا ہے.زبر دستی تو کوئی کسی کو احمدی نہیں بنا سکتا.یہ مخالف حضرات ، آج کل جو ہمارا ایم ٹی اے چینل ہے اس کو بھی بند کرنے کے نعرے لگاتے رہتے ہیں اور کئی جگہ کوششیں کرتے رہتے ہیں.کوششیں ہوئی بھی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرماتا ہے کہ ایک جگہ سے اگر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسری جگہ سے ابھر کر اور نئی شان سے ابھر کر سامنے آجاتا ہے.ان کی یورش نے جماعت کا کیا بگاڑنا تھا آج کل تو ایم ٹی اے نے ہی ان کو خوفزدہ کیا ہوا ہے.یہ ہیں خدائی وعدوں کے پورا ہونے کے نظارے.اگر خدا تعالیٰ سے کسی نے جنگ کرنی ہے تو کرلے.پہلے بھی اپنا انجام دیکھتے آئے ہیں.آج بھی دیکھ لیں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر دشمنوں نے ہر طرح کوشش کی اور پوری قوت سے کوشش کی کہ احمدیت کے اس پودے کو ختم کر دیں اور اس کے لئے ہر حربہ انہوں نے استعمال کیا لیکن وہ خدا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاماً فرمایا تھا کہ غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِكْ رَحْمَتِيْ وَقُدْرَتِی کہ میں نے تیرے لئے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور اپنی قدرت کا درخت لگا دیا ہے.پس یہ دشمن کی بھول تھی کہ جو براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه 514 حاشیه در حاشیہ نمبر 3 روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 613 حاشیہ در حاشیہ.تذکرہ صفحہ 72ایڈیشن چہارم.مطبوعہ 2004ء
43 1 یہ سمجھتے تھے کہ احمدیت کا پودا اپنی ابتدائی حالت میں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد نعوذ باللہ ہی ختم ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے یہ درخت لگا دیا ہے اپنی رحمت اور قدرت کا ایسا درخت لگا دیا ہے جس کا مقدر پھلنا پھولنا اور بڑھنا ہے.جس کی جڑیں زمین میں مضبوط ہیں اور جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر جس دوسری قدرت کی خوشخبری دی تھی اور یہ اعلان فرمایا تھا کہ وہ دائمی ہے، وہ اللہ تعالی کی رحمت سے لگائے ہوئے درخت کے ثمر آور ہونے اور تناور ہونے کی پیشگوئی تھی.وہ درخت جس کو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا، جس نے تمام دنیا کی سعید روحوں کو اپنے سایہ عاطفت میں پناہ دینی تھی اور دے رہا ہے وہ ان بونوں کی ٹھوکروں سے بھلا کہاں ہلنے والا تھا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ فرمایا تھا کہ ”میں تیرے ساتھ اور تیرے تمام پیاروں کے ساتھ ہوں، لے یہ الہام ہر دن بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتا چلا جا رہا ہے.اس موقع پر لندن، قادیان اور ربوہ سے بلند ہونے والے نعروں پر حضور انور نے فرمایا.نعروں سے جوش بے شک اپنا نکالیں ليكن ابھی میں نے کافی کچھ کہنا ہے اس لئے ذرا تھوڑا سا صبر کر کے نعرے لگائیں خاص طور پر قادیان والے زیادہ جوش میں ہیں) اخبار الحکم جلد 11 نمبر 46 مؤرخہ 24 دسمبر 1907ء صفحہ 4.بحوالہ تذکرہ صفحہ 630 ایڈیشن چہارم مطبوعہ 2004ء
44 1 میں یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ الہام کہ میں تیرے ساتھ اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں ہر دن بڑی شان کے ساتھ پورا ہو رہا ہے اور ہوتا چلا جا رہا ہے جس کا پہلا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر ہوا جب مومنین کی تسکین کے سامان فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ مسیح الاوّل کے ہاتھ پر تمام جماعت کو جمع کر دیا.اس وقت غیروں کا خیال تھا کہ اس اسی سالہ بوڑھے نے جماعت کو کیا سنبھالنا ہے.ایک اخبار کرزن گزٹ نے لکھا کہ اب مرزائیوں میں کیا رہ گیا ہے ان کا سر کٹ چکا ہے ایک شخص جو ان کا امام بنا ہے اس سے اور تو کچھ ہو گا نہیں.ہاں یہ ہے کہ وہ تمہیں کسی مسجد میں قرآن سنایا کرے.لیکن اس شخص نے جس کے متعلق کہتے تھے کہ کچھ ہو گا نہیں، وہ کام تو یقیناً کیا جس کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی یعنی قرآن کریم کے حقائق و معارف بیان کرنا.اور اصل میں تو یہی حقیقی کام ہے جس کے لئے حضرت ابراہیم السلام کی دعا کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو عَلِيه مبعوث فرمایا تھا اور یہی کام تھا جس کے کرنے کے لئے آخرین میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا اور یہی کام تھا اور ہے جس کے لئے جماعت میں اللہ تعالی نے خلافت کا نظام جاری فرمایا ہے.لیکن دنیا کی آنکھ اس عظیم مقصد کو کیا سمجھ سکتی ہے.بہر حال حضرت خلیفہ اسی الاول نے اس بات پر فرمایا کہ اخبار بدر.نمبر 10.جلد 8-7 جنوری 1909 ء صفحہ 5 کالم 1-2 و تاریخ احمدیت.مؤلفہ مولا نا دوست محمد شاہد.جلد 3 صفحہ 221.مطبوعہ 2007ء - نظارت نشر و اشاعت قادیان.بھارت
45 1 "خدا کرے یہی ہو کہ میں تمہیں قرآن ہی سنایا کروں.لیکن مخالفین اور بعض اپنے جن کے دلوں میں نفاق تھا سمجھتے تھے کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول بوڑھے اور کمزور ہیں جماعت کو کیا کنٹرول کریں گے.دشمن سمجھتا تھا کہ انتظامی کمزوری کی وجہ سے آہستہ آہستہ جماعت ختم ہو جائے گی اور منافق طبع جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو جماعت کا ستون سمجھتے تھے ان کے خیال میں انجمن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حقیقی نائب ہے.ان کے سپرد سب کام ہونا چاہیے.ان ہر دو قسم کے فتنوں اور حملوں کو حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسی سختی سے دبایا کہ جو خدا تعالیٰ کی دی ہوئی خلافت کا ہی کام ہے.آپ نے خلافت کے منصب پر فائز ہوتے ہی پہلی تقریر جو فرمائی اس کے آخر پر فرمایا ” اب تمہاری طبیعتوں کے رُخ خواہ کسی طرف ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی اور اگر یہ بات تمہیں منظور ہو تو میں طوعا د کر ہا اس بوجھ کو اٹھاتا ہوں.وہ بیعت کے دس شرائط بدستور قائم ہیں.یعنی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر فرمائے تھے.ان میں خصوصیت سے میں قرآن کو سیکھنے اور زکوۃ کا انتظام کرنے ، واعظین کے بہم پہنچانے اور ان امور کو جو وقتاً فوقتاً اللہ میرے دل میں ڈالے شامل کرتا ہوں.پھر تعلیم دینیات.دینی مدرسہ کی تعلیم میری مرضی اور منشا کے مطابق کرنا ہوگی اور میں اس بوجھ کو صرف اللہ کے لئے اٹھاتا ہوں جس نے فرمایا وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُوْنَ اخبار بدرنمبر 10 جلد 8 مورخہ 7 جنوری 1909ء صفحہ 5 کالم 1-2 و تاریخ احمدیت.مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد.جلد 3 صفحہ 221.مطبوعہ 2007ء - نظارت نشر و اشاعت قادیان بھارت
46 إِلَى الْخَيْرِ یا درکھو کہ ساری خوبیاں وحدت میں ہیں جس کا کوئی رئیس نہیں وہ مر چکی ہے ،، غیروں کی خواہش کہ جماعت کو ٹوٹتا ہوا دیکھیں تو پوری نہ ہوئی اور نہ ہوسکتی تھی لیکن اندرونی خطرے بعض منافقین یا ان کے ہاتھوں کھلونا بنے والوں کی وجہ سے اٹھتے رہے اور جب بھی حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا علم ہو ا آپ ان کا پُر حکمت اور سختی سے نوٹس لیتے رہے.ایک ایسے ہی موقع پر آپ نے مسجد مبارک میں بڑا جلالی خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا: " تم نے اپنے عمل سے مجھے اتنا دکھ دیا ہے کہ میں اس حصہ مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہو اجو تم لوگوں کا بنایا ہوا ہے.مسجد مبارک کا کچھ حصہ بعد میں بڑھتا چلا گیا تھا جو پہلا حصہ تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا تھا.آپ اس حصہ میں کھڑے ہوئے جو حضرت مسیح موعود اللہ کے زمانہ میں تھا.اور بعد میں جو جماعت کے چندوں سے بناوہ علیحدہ ایکسٹینشن (Extension) ہے.آپ نے فرمایا کہ: تم نے اپنے عمل سے مجھے اتنا دکھ دیا ہے کہ میں اس حصہ مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہو ا جو تم لوگوں کا بنایا ہو ا ہے بلکہ میں اپنے میرزا کی مسجد میں کھڑا ہو ا ہوں“.نیز فرمایا ” میرا فیصلہ ہے کہ قوم اور انجمن دونوں کا خلیفہ مطاع ہے اور یہ دونوں خادم ہیں.وو السلام انجمن مشیر ہے.اس کا رکھنا خلیفہ کے لئے ضروری ہے“.اسی طرح فرمایا کہ: " جس نے یہ لکھا ہے کہ خلیفہ کا کام بیعت لینا ہے اصل حاکم انجمن ہے وہ تو بہ سورۃ آل عمران.آیت 104 الحکم نمبر 37 جلد 12.مؤرخہ 6 جون 1908ء - صفحہ 8 کالم 2-3 و تاریخ احمدیت.مؤلفہ مولا نا دوست محمد شاہد.جلد 3 صفحہ 190.مطبوعہ 2007ء - نظارت نشر و اشاعت قادیان.بھارت
47 کرے.خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ اگر اس جماعت میں سے کوئی تجھے چھوڑ کر مرتد ہو جائے گا تو میں اس کے بدلے تجھے ایک جماعت دوں گا.پھر آپ نے فرمایا کہ: 66 ” کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھانا یا جنازہ یا نکاح پڑھا دینا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے.یہ کام تو ایک ملا بھی کر سکتا ہے اس لئے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں.بیعت وہی ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور جس میں خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے ہے پس یہ خطاب آپ کا ایسا جلالی تھا کہ کہنے والے کہتے ہیں ، بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ مختلف جماعتوں سے جو سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع تھے اور جن پر خلافت کے مخالف اپنا اثر ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے انہوں نے انتہائی کرب اور درد سے رونا شروع کر دیا اور مسجد کے فرش پر اس طرح تڑپتے رہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی تڑپتی ہے.پس یہ ہے جماعت احمدیہ میں خوف کی حالت کو امن میں بدلنے کا پہلا جلوہ جو جماعت کے افراد پر بھی ظاہر ہوا اور خلیفہ وقت کی ذات میں بھی ایک شان سے نظر آیا.بغیر کسی خوف اور خطرہ کے حضرت خلیفہ اول نے یہ اعلان فرمایا کہ اگر کوئی مرتد ہوتا ہے تو ہو جائے خدا تعالیٰ مجھے اس کے بدلہ جماعت عطا کرے گا.ایک شخص جب جائے گا تو ایک جماعت ملے گی.پس جہاں مخلصین کی اصلاح آپ کے اس اعلان سے ہوئی اور مخلصین کے ایمان کے بڑھنے کا موجب ہوئی ، وہاں ان منافقین کا گروہ بھی کچھ وقت کے لئے دب گیا اور جماعت ترقی کی منزلیں طے کرتی چلی گئی.الفضل 11 اپریل 1914 ء صفحہ 11 کالم 3.بحوالہ تاریخ احمدیت.مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد.جلد 3 صفحہ 262 مطبوعہ 2007ء- نظارت نشر و اشاعت قادیان، بھارت
48 پھر آخر كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ کے مطابق 13 مارچ 1914 ء کو آپ اپنے رفیق اعلی سے جاملے.اس وقت جماعت میں پھر ایک زلزلہ کی سی کیفیت تھی.وہ سرکردہ انجمن کے عمائدین جو حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی وجہ سے چُپ تھے انہوں نے پھر سر اٹھایا اور کوشش کی کہ خلافت کی بجائے انجمن کو تمام اختیارات دئے جائیں اور انجمن سارے معاملات کی کرتا دھرتا بن جائے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی وفات کی وجہ سے مخلصین تو غم کی وجہ سے نڈھال تھے.نئی قدرت کے لئے دعاؤں میں مشغول تھے لیکن یہ عمائدین جو اپنے آپ کو بڑا اعلم والا سمجھتے تھے اور پھر ساز باز میں لگے ہوئے تھے ان لوگوں نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو بھی قائل کرنے کی کوشش کی لیکن آپ نے یہی فرمایا کہ جماعت کا ایک خلیفہ بہر حال ہونا چاہئے.انجمن پر انحصار نہیں کیا جاسکتا.اور فرمایا کہ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے ان لوگوں کو کہا کہ آپ لوگ جس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے میں اور میرا خاندان سچے دل سے اس کی بیعت کریں گے.آپ میرے سے خوف زدہ نہ ہوں.مجھے کوئی شوق نہیں خلیفہ بننے کا.لیکن اپنے زعم میں اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے ان عالموں فاضلوں کا پر نالہ و ہیں رہا کہ نہیں انجمن جو ہے وہی صحیح حق دار ہے.آخر جب ان کی یہ ڈھٹائی نہیں گئی تو جماعت کا ایک بڑا حصہ مسجد نور میں جمع ہوا اور چودہ مارچ 1914ء کو خلافت ثانیہ کا انتخاب ہوا اور دو ہزار کے مجمع میں ہر طرف سے حضرت میاں صاحب ، حضرت میاں صاحب یعنی حضرت میرزا محمود احمد صاحب کے نام کی آوازیں آنے لگیں اور لوگوں نے ایک دوسرے کے سروں پر سے پھلانگتے ہوئے بیتاب ہو کر حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد کے ہاتھ پر بیعت
49 کرنے کی کوشش کرنی شروع کر دی.اس نظارہ کے بیان کرنے والے لکھتے ہیں کہ یوں لگتا تھا کہ فرشتے لوگوں کے دلوں کو پکڑ پکڑ کر اللہ تعالیٰ کے اس انتخاب کی طرف لا رہے ہیں.آخر یہ نظارہ دیکھ کر خلافت کے منکرین جو انجمن اور انجمن کے پیسے کے مالک تھے وہاں سے غائب ہو گئے اور یوں اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے وعدہ کے مطابق خلافت احمدیہ کے ذریعہ جماعت کو تمکنت عطا فرمائی اور ان کے خوف کو امن میں بدلا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے اس اولو العزم فرزند اور مصلح موعود کے 52 سالہ دور خلافت میں جماعت نے ترقی کے وہ نظارے دیکھے جو اللہ تعالیٰ کی خاص تائید کے بغیر ممکن نہ تھے.خزانہ خالی کر کے جانے والے اور یہ دعویٰ کرنے والے کہ قادیان میں اب عیسائیوں کی حکومت ہوگی ، آج زندہ ہوں تو دیکھیں کہ قادیان میں عیسائیوں کی تو کیا حکومت ہوئی تھی ، اولو العزم موعود بیٹے نے ہزاروں عیسائیوں کو مسیح محمدی کے جھنڈے تلے جمع کر دیا ہے.احرار کا فتنہ اٹھا تو جب انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے تو حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک جدید کا آغاز کر کے تمام دنیا میں جماعت کے تبلیغی مشنوں کے جال پھیلانے کی بنیاد ڈال دی.قرآن کی تفسیر اور دوسر الٹریچر جو ہمیشہ کے لئے آپ کے علوم ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کی پیشگوئی پر گواہ بن گیا وہ دنیا میں پھیل گیا.ہجرت کا وقت آیا تو اس اولوالعزم نے جماعت کی ایسی راہنمائی فرمائی کہ کم از کم نقصان کے ساتھ افراد جماعت پاکستان میں آکر آباد ہوئے.تمام تر مشکل حالات کے باوجود قادیان میں اپنے بیٹوں سمیت ایسے قربانی کرنے والے لوگوں کو
50 چھوڑا جنہوں نے ہر قیمت پر شعائر اللہ کی حفاظت کی.پاکستان میں مرکز احمدیت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے ایک بے آب و گیاہ بستی کو اپنی عظیم راہنمائی اور فراست سے ایک سرسبز شہر بنا دیا جس کے نظارے آج بھی ہم کر رہے ہیں.پس وہی نوجوان جو 25 سال کا تھا اور جس کے مقابلہ پر بڑے بڑے عالم فاضل اور سر کردہ تھے جب خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہوا، جب اللہ تعالیٰ کی نظر انتخاب اس پر پڑی ، جب اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق قدرت ثانیہ کا مظہر بنا تو ایک کامیاب جرنیل کی طرح میدان پر میدان مارتا چلا گیا اور اپنے ماننے والوں اور مسیح محمدی کے غلاموں کی حالت کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے خوف کے بعد امن میں بدلتا چلا گیا.آخر الہی تقدیر کے مطابق جب آپ نومبر 1965ء میں اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر کا جلوہ دکھایا.خلافت ثانیہ کا 52 سالہ دور اتنا لمبا عرصہ تھا جس میں کئی نسلوں نے آپ سے فیض پایا.اس زمانہ میں ایک ذاتی تعلق ہر احمدی کا آپ سے پیدا ہو چکا تھا.آپ کی وفات کا صدمہ لگتا تھا که جماعت برداشت نہیں کر سکے گی.لیکن جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ موجود ہو تو پھر فوراًہی خدا تعالیٰ خوف کو امن میں بدل دیتا ہے.چنانچہ یہی نظارہ ہم نے خلافت ثالثہ کے دور میں دیکھا.ہر قدم پر جماعتی ترقی ، افریقہ میں سکولوں ،ہسپتالوں کا قیام تبلیغی میدان میں آگے بڑھنا.پھر 1974 ء کے حالات جو پاکستان کی جماعت کے لئے بڑے سخت تھے بلکہ خلیفہ وقت کی پاکستان میں موجودگی کی وجہ سے تمام دنیا کی جماعتوں کے لئے بڑے پریشان کن تھے لیکن خلافت کی ڈھال کے پیچھے جماعت ان خوفناک حالات سے کامیاب ہو کر نکلی اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگئی.
51 پھر 1982 کا سال آیا جب حضرت خلیفہ امسیح الثالث بھی ہم سے رخصت ہوئے.اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی جماعت کو سہارا دیا اور خلافت رابعہ کا انتخاب عمل میں آیا.آپ کے وقت میں جماعتی ترقی کا ایک اور نیا دور شروع ہوا.دشمن جماعت کی ترقی کو دیکھ کر حواس باختہ ہوا اور خلافت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی.جماعت کا سر کچلنے کی اپنے زعم میں کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیاروں کا ساتھ دیتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الرابع ” کو معجزانہ طور پر دشمن کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملاتے ہوئے یہاں پہنچا دیا.اور دشمن جو خلافت کا سر کچلنا چاہتا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح کچلا کہ اس کے جسم کا ایک ذرہ بھی باقی نہیں بچا.رح اور پھر ایک نیا دور یہاں آکر اسلام کی تبلیغ کا شروع ہوا.MTA کا اجراء ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ ایک نئی شان کے ساتھ زمین کے کناروں تک پہنچی.ہمارے خدا کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا گیا وعدہ عظیم الشان طور پر پورا ہو ا.دشمن تو خلافت پر ہاتھ ڈال کر اسے عضو معطل بنانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا منصوبہ اسے ایسے ذریعہ سے لوگوں کے گھر تک پہنچانے کا تھا جس کی راہ میں کوئی جغرافیائی روک حائل نہیں ہو سکتی تھی.اگر ان جماعتی ترقیات کا میں ذکر کرنے لگوں تو کئی گھنٹے لگنے کے بعد بھی یہ ذکر ختم نہیں ہوسکتا.جلسوں کی تقاریر میں یہ ذکر آرہا ہے اور کچھ انشاء اللہ آئندہ بھی آتا رہے گا.بہر حال خلافت رابعہ کا سنہری دور جماعت کو نئے نئے راستوں کی نشاندہی کرتا ہوا اپریل 2003 تک الہی منشا کے مطابق رہا اور جماعت آپ کی وفات پر ایک بار
52 پھر خوف کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوئی کیونکہ یہی ایک مومن کو حکم.اور یہی ایک مومن کی شان ہے کہ جب بھی تکلیف میں ہو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے.بہر حال الہی وعدوں کے پورے ہونے کا دور تو دائمی ہے.اس کی تسلی ہمیں اللہ تعالیٰ نے کروائی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد خوف کی حالت کو جو امن بخشا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا تھا کہ وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے لے اس وعدہ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی وفات پر نئی شان سے پورا فرمایا اور خلافت رابعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر جماعت کے امن کے سامان پیدا فرما دیئے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ وہ قدرت ثانیہ دائی ہے اس کا نظارہ تمام دنیا نے M.T.A کے ذریعہ سے ایک بار پھر دیکھا.اسلام کے ابتدائی دور میں اگر خلافت راشدہ کچھ عرصہ تک محدود ہوئی اور چار خلافتیں تھیں تو وہ بھی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی تھی جیسا کہ میں نے حدیث بیان کی ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد اسلام کی تاریخ نے ہر میدان میں ایک نیا باب کھولنا تھا.سو قدرت ثانیہ کا پانچواں دور بھی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ایک نیا باب ہے.دشمن پر ایک تازیانہ ہے.دشمن کی خوشیوں کو خاک میں ملانے کا ایک ذریعہ رسالہ الوصیت صفحہ 5.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305
53 ہے.آج دشمن کی آنکھ پہلے سے بڑھ کر حسد کی نظر سے جماعت کی ترقیات کو دیکھ رہی ہے.کیونکہ یہ خود اس بات کو حسرت سے دیکھتے ہیں کہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود جماعت احمد یہ خلافت کے سایہ تلے ترقی کرتی چلی جارہی ہے.چونکہ یہ لوگ یہ مخالفین خود اس بات کو حسرت سے دیکھتے ہیں کہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود جماعت احمد یہ خلافت کے سایہ تلے ترقی کرتی چلی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کی وارث بنتی چلی جارہی ہے کہ میں مومنین میں خلافت قائم کروں گا، اللہ تعالیٰ جماعت کو تمکنت عطا کرتا چلا جا رہا ہے.ہر روز اس کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جارہی ہیں.ان مومنین کے ہر خوف کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالی خلافت کی ڈھال کی وجہ سے اپنے تحفظ میں رکھے ہوئے ہے.باوجود دشمنوں کی تمام تر کوششوں کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام دنیا کے کونہ کونہ میں اس حبل اللہ کو پکڑنے کی وجہ سے احمدی پہنچا رہا ہے اور بھولی بھنگی انسانیت کو آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے لا رہا ہے تا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچائیں.خود یہ مخالفین بھی مانتے ہیں کہ خلافت کے بغیر امت مسلمہ کا اتحاد ناممکن ہے.نہ اسلام کی ترقی ممکن ہے، نہ یہ اتحاد ممکن ہے.لیکن آنکھوں پر پٹی پڑے ہونے کی وجہ سے جس کو خدا تعالیٰ نے خاتم الخلفاء بنا کر بھیجا ہے اور اس کے بعد جو خلافت جاری فرمائی ہے اس کے انکاری ہیں.خلافت کے بارہ میں جو ان کی حسرتیں ہیں اس کی ایک دو مثالیں میں پیش کر دیتا ہوں.ایک مولا نا ہیں عبدالرحمن صاحب مہتمم جامعہ اشرفیہ کراچی.وہ کہتے ہیں:
54 1 وو ” جہاں تک نظام خلافت اسلامیہ علی منہاج النبوۃ کا تعلق ہے اس سے بہتر اور اچھا کوئی نظام نہیں.کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بے شک اللہ تبارک و تعالی نے خرید لیا ہے مومنین کا جان مال بدلے جنت کے.لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں میں آپس کے تنازعات عروج پر ہیں.جہاں تک خلافت کا تعلق ہے تو خلیفہ کس کو مانیں اور اگر مکہ مکرمہ سے خلیفہ کا انتخاب کیا جائے تو سب سے پہلے تنازعہ بریلوی حضرات کریں گے.اور میں نے نظام خلافت کے بارہ میں ساتھیوں سے بھی مشورہ کیا ہے اور ہیں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں نظام خلافت ممکن نہیں ہے پھر ایک دانشور ہیں ہمایوں گوہر اپنے مضمون ”سفر کا آغاز ہوتا ہے دسمبر 2005ء میں لکھتے ہیں کہ : " آج ہم اپنے آپ کو فرسودہ خیالات، ناقص رسومات اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں پاتے ہیں.معاشرتی اور سماجی برائیاں ہمیں گھیرے ہوئے ہیں.عدم انصاف عروج پر ہے اور ماحولیاتی آلودگی گزرتے دن کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے.اس لئے ہمیں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی ضرورت ہے جواُمہ کی اصلاح کر سکے.اس کے لئے بہت زیادہ ہمت و جذبے کی ضرورت ہے جس کے لئے ارادہ کی پختگی اور ایمان کی مضبوطی درکار ہے.یہ مسلمانوں کے خلافت جیسے ادارے کی وجہ سے ممکن ہے“.ہے پس یہ ہیں ان کی حسرتیں کہ محسوس بھی کرتے ہیں لیکن قائم نہیں کر سکتے.خلافت خامسہ کے انتخاب اور بیعت کے نظارےMTA نے تمام دنیا کو دکھائے جن ماہنامہ ضرب حق کراچی.ماہ اپریل 2004، صفحہ 4 کالم -5-6 بقیہ صفحہ 3 کالم 3 نوائے وقت.19 دسمبر 2005 صفحہ 14
55 باتوں کا یہ حسرت سے ذکر کر رہے ہیں.خلافت خامسہ کے انتخاب کے وقت دنیا نے دیکھا کہ کس طرح جماعت نے ایک ہاتھ پر جمع ہو کر وحدت کا مظاہرہ کیا.ان میں سے بعض نے بر ما تسلیم بھی کیا کہ خدا تعالی کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ لگتی ہے.لیکن اس بات نے ان کو اصلاح کی طرف مائل کرنے کی بجائے حسد میں اور بڑھا دیا.آج پاکستان میں ملاں جماعت کے خلاف اس لئے جلسے کر رہے ہیں کہ جماعت کی اکائی اور ترقی ان کو برداشت نہیں.یہ حسرتیں اب ان لوگوں کا مقدر بن چکی ہیں.اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی ہوائیں بڑی شدت سے جماعت کے حق میں چل رہی ہیں.انشاء اللہ ان لوگوں کی تمام آرزوئیں اور کوششیں ہوا میں بکھر جائیں گی.اے دشمنان احمدیت ! میں تمہیں دوٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ اگر تم خلافت کے قیام میں نیک نیت ہو تو آؤ اور مسیح محمدی کی غلامی قبول کرتے ہوئے اس کی خلافت کے جاری و دائمی نظام کا حصہ بن جاؤ ورنہ تم کوششیں کرتے کرتے مر جاؤ گے اور خلافت قائم نہیں کر سکو گے.تمہاری نسلیں بھی اگر تمہاری ڈگر پر چلتی رہیں تو وہ بھی کسی خلافت کو قائم نہیں کر سکیں گی.قیامت تک تمہاری نسل در نسل یہ کوشش جاری رکھے تب بھی کامیاب نہیں ہو سکے گی.خدا کا خوف کرو اور اور خدا سے ٹکر نہ لو اور اپنی اور اپنی نسلوں کی بقا کے سامان کرنے کی کوشش کرو.یہ باتیں جو غیروں کے بارہ میں میں نے بیان کیں صرف ہمارے لئے ان کی حسرتوں پر خوش ہونے کی وجہ نہیں بننی چاہئیں.یا صرف چند ہمدردوں کے دلوں میں ان کے لئے ہمدردی پیدا نہ ہو بلکہ حسد کی جس آگ میں دشمن جل رہا ہے تو یہ نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتا ہے اور جہاں کمزور احمد یوں کو دیکھتا ہے ان پر حملے
56 بھی کرتا ہے.اس وجہ سے آج خلافت کے ساتھ چھٹے ہوئے احمدیوں کا فرض ہے کہ خلافت کی مضبوطی اور استحکام کی دعاؤں کے ساتھ افراد جماعت ایک دوسرے کے لئے بھی دعائیں کریں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان حاسدوں اور شریروں کے شر اور حسد سے محفوظ رکھے.یہ دور جس میں خلافت خامسہ کے ساتھ خلافت کی نئی صدی میں ہم داخل ہو رہے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی اور فتوحات کا دور ہے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ایسے باب کھلے ہیں اور کھل رہے ہیں کہ ہر آنے والا دن جماعت کی فتوحات کے دن قریب دکھا رہا ہے.میں تو جب اپنا جائزہ لیتا ہوں تو شرمسار ہوتا ہوں.میں تو ایک عاجز ، ناکارہ ، نا اہل پر معصیت انسان ہوں.مجھے نہیں پتہ کہ خدا تعالی کی مجھے اس مقام پر فائز کرنے کی کیا حکمت تھی.لیکن یہ میں علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس دور کو اپنی بے انتہا تائید و نصرت سے نوازتا ہوا ترقی کی شاہراہوں پر بڑھاتا چلا جائے گا.انشاء اللہ اور کوئی نہیں جو اس دور میں احمدیت کی ترقی کو روک سکے اور نہ ہی آئندہ کبھی یہ ترقی رکنے والی ہے.خلفاء کا سلسلہ چلتا رہے گا اور احمدیت کا قدم آگے سے آگے انشاء اللہ تعالیٰ بڑھتار ہے گا.گزشتہ پانچ سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کا ذکر بھی جلسہ کی تقریروں میں ہوتا رہا ہے اور اب بھی انشاء اللہ تعالیٰ ہوگا.پس خلافت احمدیہ کے ساتھ جو ترقی وابستہ کی گئی ہے اور جس کا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسالہ الوصیت میں بھی فرمایا ہے یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور ہر وہ شخص جو خلافت سے جُڑا رہے گا ، جو اپنے ایمان اور اعمال صالحہ میں ترقی کرے گا اُسے
57 اللہ تعالیٰ ان انعامات کے نظارے کرائے گا جو خلافت کے ساتھ جڑے رہنے سے ہر فرد جماعت پر بھی ہوں گے.اور اللہ تعالی خلافت احمدیہ کو بھی ایسے افراد عطا فرماتا رہے گا جو اخلاص و وفا میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں گے جو قیام و استحکام خلافت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دینے والے ہوں گے.جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ خود خلافت کی محبت سے بھر دے گا اور بھر رہا ہے اور بھرا ہوا ہے.اور میں تو ایسے نظارے روزانہ ہر قوم اور ہر ملک میں دیکھ رہا ہوں.ابھی افریقہ کے دورے کے نظارے آپ نے دیکھ لئے کہ وہ لوگ کس طرح محبت سے سرشار ہیں.میری تو بہت عرصہ پہلے خدا تعالیٰ نے یہ تسلی کروائی ہوئی ہے کہ اس دور میں وفاداروں کو خدا تعالیٰ خود اپنی جناب سے تیار کرتا رہے گا.پس آگے بڑھیں اور اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کا محاسبہ کرتے ہوئے آپ میں سے ہر ایک ان بابرکت وجودوں میں شامل ہو جائے جن کو خدا تعالی خلافت کی حفاظت کے لئے خود اپنی جناب سے نکلی تلوار بنا کر کھڑا کرے گا.گزشتہ دنوں مجھے ایک دوست نے لکھا کہ جہاں ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ خلافت کے سوسال پورے ہورہے ہیں وہاں اس بات سے فکر بھی پیدا ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ سے ہم سو سال دور چلے گئے ہیں اور اس وجہ سے ہم میں کمزوریاں بڑھتی نہ چلی جائیں.فکر بڑی جائز ہے لیکن خدا تعالیٰ کے وعدے، آنحضرت ﷺ کی حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کو اگر ہم سامنے رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے خلافت کے ساتھ جڑے رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں گے.انشاء اللہ.
58 یہ بھی الہی تو اردو ہی سمجھتا ہوں کہ اس خط کے ساتھ ہی امریکہ سے ہمارے ایک مبلغ نے حضرت مصلح موعودؓ کے ایک عہد کی طرف توجہ مبذول کروائی جو آپ نے 1959ء میں خدام کے اجتماع پر خدام سے لیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ ایسا عہد ہے جسے انصار بھی دہرایا کریں اور دہراتے چلے جائیں اور تمام جلسوں پر دہرایا جائے اور اگلی نسلوں کو منتقل کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ اسلام اور احمدیت کا غلبہ دنیا کے چپہ چپہ پر ہو جائے.مجھے پہلے دوست کے خط کی وجہ سے یہ تو جہ تھی اور یہ خط آنے پر مزید توجہ پیدا ہوئی اور مجھے یہ تجویز اچھی لگی کہ خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر تمام دنیا کے احمدی یہ عہد دہرائیں.پس آج میں معمولی تبدیلی کے ساتھ اس صد سالہ جو بلی کے حوالہ سے آپ سے بھی یہ عہد لیتا ہوں تا کہ ہمارے عمل زمانہ کی دوری کے باوجود ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تعلیم اور اللہ کے حکموں اور اسوہ سے دور لے جانے والے نہ ہوں بلکہ ہر دن ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی قدر کرنے والا بنائے.پس اس حوالہ سے اب میں عہد لوں گا.آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ بھی جو یہاں موجود ہیں احباب بھی کھڑے ہو جائیں اور خواتین بھی کھڑی ہو جائیں ،دنیا میں موجود لوگ جو جمع ہیں وہ سب بھی کھڑے ہو کر یہ عہد دہرائیں.أشْهَدُ أن لا إله إلا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدَهُ وَرَسُولُهُ.آج خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم
59 اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ ﷺ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فریضہ کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول ﷺ کے لئے وقف رکھیں گے.اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچارکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخری دم تک جہد و جہد کرتے رہیں گے.اور اپنی اولاد در اولا د کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفید ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تا کہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما - اللهم آمين.اللهم آمين اللهم آمين اَللَّهُمَّ پس اے صبیح محمدی کے غلامو! آپ کے درخت وجود کی سرسبز شا خوائیں امید کرتا ہوں کہ اس عہد نے آپ کے اندر ایک نیا جوش اور ایک نیا ولولہ پیدا کیا ہوگا.
60 شکر گزاری کے پہلے سے بڑھ کر جذبات ابھرے ہوں گے.پس اس جوش اور ولولہ اور شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ خلافت احمدیہ کی نئی صدی میں داخل ہو جائیں.یہ 27 مئی کا دن ہمارے اندر ایک نئی روح پھونک دے، ایک ایسا انقلاب برپا کر دے جو تا قیامت ہماری نسلوں میں یہی انقلاب پیدا کرتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ کا اس دور میں ہمیں داخل کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وو درخت وجود کی سرسبز شانھیں بنے کی ہم کوشش کرتے ہیں اور کر رہے ہیں.آپ علیہ السلام اپنی جماعت کو کس پیار کی نظر سے دیکھتے ہیں ، کتنا حسن ظن رکھتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: جو کچھ ترقی اور تبدیلی ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے وہ زمانہ بھر میں اس وقت کسی دوسرے میں نہیں ہے، لے کیا یہ حسن ظن ہم سے تقاضا نہیں کرتا کہ ہم اپنے اندر انقلاب پیدا کرنے کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں؟ اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہیں؟ اللہ تعالی کے اس احسان پر جو خلافت کی صورت میں اس نے ہم پر کیا اپنی روحانی ترقی کی نئی منزلوں کی نشاندہی کریں؟ اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر اپنے عہد بیعت کو نبھانے کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں؟ اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر، خلافت سے وفا اور اطاعت کے معیار بلند سے بلند تر کرتے چلے جائیں؟ اس احسان کے شکرانے کے طور پر اپنوں اور غیروں میں پیار اور محبت کے نغمے بکھیر تے چلے جائیں ؟ یقینا یہی نیکیاں اور شکر گزاری ہمارا صلح نظر ہونی چاہئیں.یقینا پیار اور محبت الحکم جلد 12 نمبر 30 صفحہ 1-2 مؤرخہ 26 اپریل 1908ء.بحوالہ ملفوظات جلد 5 صفحہ 536 مطبوعہ 2003ء
61 کے سوتے ہمارے دلوں سے پھوٹنے چاہئیں.یقیناً عہد وفا کے نئے نئے راستوں کا تعین ہماری زندگی کا مقصد ہونا چاہئے.اور جب یہ ہوگا تو ہم اللہ تعالیٰ کے انعام کی قدر کرنے والے ٹھہریں گے.جب یہ ہوگا تو ہم دائمی خلافت کے فیض سے فیضیاب ہونے والے بنتے چلے جائیں گے.اللہ تعالی کے انعاموں اور فضلوں کی نہ ختم ہونے والے بارشیں ہم پر برسیں گی.پس اے میرے پیار و اور میرے پیاروں کے پیارو! اٹھو.آج اس انعام کی حفاظت کے لئے نئے عزم اور ہمت سے اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گرتے ہوئے ، اس سے مدد مانگتے ہوئے میدان میں کود پڑو کہ اسی میں تمہاری بقا ہے.اس میں تمہاری نسلوں کی بقا ہے اور اس میں انسانیت کی بقا ہے.اللہ تعالی آپ کو بھی توفیق دے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ ہم اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں.اللَّهُمَّ آمِيْن.ہوں.اَللَّهُمَّ (اس کے بعد حضور نے دعا کروائی )
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین خلیفة امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 30 مئی 2008ء بمطابق 30 ہجرت 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ)
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ - أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ملِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ - اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ اس ہفتے، چند دن پہلے ، 27 مئی کو ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے یوم خلافت منایا.جیسا کہ میں اپنی تقریر میں بیان کر چکا ہوں اس سال کے یوم خلافت کی ایک خاص اہمیت تھی.یہ ایسا یوم خلافت تھا جو عموماً ایک انسان کی زندگی میں ایک دفعہ ہی آتا ہے.یا کسی کی بہت لمبی زندگی ہو تو اس کی شعور کی زندگی میں ایک دفعہ آتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالی کا خاص ہی کسی پر احسان ہو اور وہ پیچ طرح پورے شعور کی زندگی میں ہو اور لمبی عمر کے ساتھ اس کے اعضاء بھی اس قابل ہوں اور مشتعل نہ ہوئے ہوں.تو بہر حال یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں جماعت احمد یہ کی ، نہ صرف یہ جو بہت سارے ایسے احمدی ہیں ان کو خلافت جوبلی دکھائی بلکہ جماعت احمدیہ کی 120 سالہ تقریباً زندگی ہے اس پر تسلسل کے ساتھ جماعت کی دو مختلف جو بلیاں دیکھنے کا موقع فراہم فرمایا.اور اس حوالے سے ہر احمدی اللہ تعالیٰ کے حضور شکر اور احسان کے جذبات سے لبریز ہے.جماعت احمدیہ کی بنیاد کی پہلی صدی 1989ء میں آج سے اُنیس (19) سال پہلے ہم نے منائی.اس سال ہم نے جیسا کہ ہم سارے جانتے ہیں خلافت احمدیہ کے حوالہ سے، اس کے قیام کے حوالہ سے،
66 سوسالہ تقریب اظہار تشکر کے طور پر 27 مئی کو منائی اور دنیا کی مختلف جماعتوں میں منا رہے ہیں.اس وقت بہت سے بچے ایسے ہوں گے اور نئے آنے والے بھی جو 1989ء میں پیدا نہیں ہوئے ، اس کے بعد پیدا ہوئے یا شعور کی زندگی نہیں تھی یا بعد میں جماعت میں شامل ہوئے.انہیں اس جو بلی کا تو پتہ نہیں لیکن یہ جو بلی جو ایسے لوگوں نے اپنے ہوش وحواس میں منائی یا دیکھی اس نے انہیں یقینا ایک منفرد تجربہ سے گزارا ہوگا اور گزر رہے ہوں گے اور گزرے ہیں.دنیا کے ہر ملک میں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں ہر ایک نے اپنے پروگرام بھی کئے اور کر رہے ہیں.ایم ٹی اے کے ذریعہ سے مرکزی پروگرام میں بھی شامل ہوئے.مقامی جماعتوں کے پروگرام اپنے اپنے حالات کے مطابق شاید سارا سال چلتے رہیں.لیکن یہاں کا مرکزی پروگرام وہ تھا جب Excel سینٹر میں مرکزی جلسہ ہوا اور اس میں تقریباً 18- 19 ہزار کی حاضری تھی اور دنیا کے مختلف ممالک کی نمائندگی بھی ہو گئی جس میں قادیان اور ر بوہ، ان دونوں بستیوں کے جلسہ سننے والوں کے نظارے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں دکھائے گئے اس نے بھی لوگوں کے دلوں پر ایک خاص قسم کا اثر چھوڑا ہے.اس بارہ میں مجھے احباب وخواتین کے جو دلی تاثرات ہیں ان کے خطوط اور فیکسز بھی آنے شروع ہو گئے ہیں.الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص کیفیت میں اُس دن نہ صرف اُس ہال میں موجود میرے سامنے بیٹھنے والے لوگوں کو لے لیا تھا بلکہ دنیا کے ہر کونہ میں جہاں بھی احمدی یہ جلسہ سن رہے تھے خواہ جماعتی انتظام کے تحت یا انفرادی طور پر اپنے گھروں میں یا اپنے خاندانوں میں جو بھی کارروائی سن رہے اور دیکھ رہے تھے جن کو
67 بھی موقع مل رہا تھا سب اس خاص ماحول اور کیفیت سے حصہ لے رہے تھے.گویا خدا تعالیٰ نے تمام دنیا میں رہنے والے ہر ملک اور قوم کے احمدی کو ایک ایسے تجربہ سے گزارا جو انہیں وحدت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہے.یہ ایک منفرد اور روحانی تجربہ تھا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی صداقت اور آپ کے ساتھ اللہ تعالی کے وعدوں کے پورا ہونے کا ایک عظیم اظہار تھا جسے اپنوں نے بھی دیکھا اور محسوس کیا اور غیروں نے بھی دیکھا.27 مئی کا یہ دن جس میں خلافت احمدیہ کے 100 سال پورے ہوئے اپنوں اور غیروں کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نشان دکھا گیا.وہاں بیٹھے ہوئے احمدی مرد اور خواتین اور بچے سب اس کیفیت میں تھے کہ جو بھی مجھے ملے انہوں نے یہی کہا کہ ہمارے ایمان اس تقریب نے تازہ کر دیئے ہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا باہر کی دنیا کے احمدیوں کا بھی یہی حال تھا.ہر جگہ سے بے انتہاء خلافت سے محبت اور عقیدت اور اپنے ایمان میں مضبوطی کا اظہار ہو رہا ہے.ایک صاحب نے لکھا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ میں آج نئے سرے سے احمدی ہو ا ہوں.کئی ایسے جو بعض شکوک میں مبتلا تھے گو انہوں نے خلافت خامسہ کی بیعت تو کر لی تھی لیکن ان کے دل اس بات پر راضی نہیں تھے انہوں نے لکھا کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے حضور استغفار بھی کی اور آپ سے بھی عہد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس تقریر کی برکت سے ہمارے دلوں کو صاف کیا ہے بلکہ کہنا چاہئے کہ دھو کر چپکا دیا ہے.اس کے بعد ہم اب خلافت احمدیہ کے لئے ہر قربانی کے لئے بچے دل سے تیار رہیں گے اور اپنی نسلوں میں بھی وہ روح پھونکنے کی کوشش کریں گے جو ہمیشہ ان کو خلافت کے فیض سے فیضیاب ہونے والا رکھے.
68 ایک لکھنے والے نے لکھا کہ اگر مُردوں کو زندہ کرنے کا ذریعہ کوئی تقریب بن سکتی ہے تو وہ یہ تقریب اور آپ کا خطاب تھا.خدا کرے کہ حقیقت میں ایک انقلاب اس تقریب سے دنیائے احمدیت پر آیا ہو اور وہ قائم بھی رہے.ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے اپنے دلوں کی پاک تبدیلیوں کو ہمیشہ قائم رکھنے والے بنے رہیں.اس وقت وہاں اردگرد کے ماحول میں ایکسیل (Excel) سینٹر کے مقامی لوگ بھی حیرت سے لوگوں کو جمع ہوتے اور ایک عجیب کیفیت میں دیکھ کر حیران تھے کہ یہ کون لوگ ہیں.عموماً تو یہ تاثر ہے کہ مسلمان ڈسپلنڈ (Disciplined) نہیں ہوتے ، عجیب و غریب ان کی روایات ہیں.یہی مغرب میں تاثر دیا گیا ہے.لیکن اُس وقت ان کی حالت عجیب تھی اور یہ دیکھ رہے تھے کہ یہ تو عجیب قسم کے لوگ ہیں جو لگتے تو مسلمان ہیں لیکن ان میں ایک طرح کی تنظیم ہے.ایشیائی اکثریت ہونے کے باوجود ان میں مختلف قومیتوں کے لوگ بھی شامل ہیں اور ہر بچے ، جوان، مرد، عورت اور مختلف قوموں کے لوگوں کا رخ جو ہے ایک طرف ہے.خلافت سے محبت اور عقیدت جو ان کے دلوں میں ہے اس کا اظہار ان کے چہروں سے بھی ظاہر وعیاں ہے بلکہ جسم کے ہر عضو سے ہو رہا ہے.Excel سنٹر کی ایک سیکیورٹی خاتون کارکن جو وہاں تھیں ، انہوں نے ہماری خواتین کو کہا کہ یہ ایسا نظارہ ہے جو میرے لئے بالکل نیا ہے، بالکل ایک نیا تجربہ ہے اور اس کو دیکھ کر آج مجھے پتہ چلا کہ اسلام کیا ہے.میں تو اس نظارہ کو دیکھ کر ہی مسلمان ہونا چاہتی ہوں.بہر حال ان لوگوں میں تو عارضی کیفیت فوری رد عمل کے طور پر پیدا ہوتی ہے، اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں لیکن دعا ہے کہ اس خاتون اور اس جیسے بہت
69 سوں کے دلوں میں یہ نظارہ پاک تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے.ہمارا مقصد اور مدعا تو یہی ہے کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانے اور آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے چاہے جس ڈھب سے بھی کوئی سمجھے یا کسی بات سے بھی کوئی سمجھے.پس اس خلافت جو بلی کے جلسہ میں جس میں اپنوں اور غیروں نے وحدت کی ایک نئی شان دیکھی ہے یہ آج صرف اور صرف حضرت مسیح موعود اس کی السلام جماعت کا خاصہ ہے.آج اس وحدت کی وجہ سے عافیت کے حصار میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق کوئی جماعت ہے تو وہ صرف اور صرف مسیح محمدی کی جماعت ہے.باقی سب انتشار کا شکار ہیں اور رہیں گے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے انعام کی قدر نہیں کریں گے.جب تک کہ وہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کو نہیں مانیں گے کہ جب میر اسیح و مہدی ظاہر ہو تو اس کو میر اسلام پہنچاؤ.مسلمانوں کی حالت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے.غیر مذاہب کی خدا تعالیٰ سے ڈوری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ شیطان کی گود میں جا پڑے ہیں.اپنے پیدا کرنے والے کو بھول چکے ہیں.اس مقصد کو بھول چکے ہیں جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے بلکہ اب تو اس کا فہم و ادراک بھی ان کو نہیں رہا کہ ان کی پیدائش کا مقصد السلام کیا ہے.پس آج اگر کوئی جماعت ہے تو یہ مسیح موعود کی جماعت ہے جو اس مقصد کو جانتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرتی ہے.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہی ہے جس نے اس عروہ وُثقی کو پکڑا ہوا ہے جس سے ان کے صحیح راستوں کا تعین ہوتا رہتا ہے.اس مضبوط کڑے کو پکڑا ہوا ہے جس
70 کے نہ ٹوٹنے کی ضمانت خود خدا تعالیٰ نے دی.اللہ تعالیٰ نے آج اپنے فضل سے احمد یوں کو اس برتن کے کڑے کو مضبوطی سے پکڑایا ہوا ہے جس میں مسیح محمدی کے ذریعہ سے اللہ تعالی نے تازہ بتاز و روحانی پانی بھر دیا ہے.وہ زندگی بخش پانی جس کو پینے سے روحانیت کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار ایک مومن طے کر سکتا ہے.پھر اس مضبوط کڑے کو پکڑنے کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ اس پکڑے رہنے والوں کے ایمان ہمیشہ سلامت رہیں گے.مسیح محمدی کی غلامی میں آ کر اس سے عہد بیعت باندھنے والے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے اپنے ایمان میں ہمیشہ ترقی کرتے چلے جائیں گے.ہر حالت میں ہر مخالفت کے دور میں اس کڑے کے پکڑے رہنے والوں کے ایمان محفوظ رہیں گے.اس کڑے سے چمٹنے والا مومن اپنی جان تو دے سکتا ہے لیکن اس کڑے کو نہیں چھوڑتا جس کے چھوڑنے سے اس کے ایمان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہو.چنانچہ جماعت احمدیہ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ مخالفت کی آندھیاں حقیقی مومنین کو، ان کے ایمان کو اپنی جگہ سے نہ ہلا سکیں.ماؤں کے سامنے بیٹے قتل کئے گئے ، بیٹوں کے سامنے باپوں کو آہستہ آہستہ اذیت دے کر مارا گیا، شہید کیا گیا، باپوں کے سامنے بیٹوں کو شہید کیا گیا.پھر احمدیت کو چھوڑنے کے لئے انتہائی اذیت سے کئی احمدیوں کو گزرنا پڑا.آہستہ آہستہ ٹارچر دے کر مارا گیا.اور یہ ڈور کے واقعات نہیں ہیں.اس سال بھی کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں.لیکن جس ایمان پر وہ قائم ہو چکے تھے یہ اذیتیں اُن کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں لاسکیں.پس آج جب ہم جو بلی کی خوشی منارہے ہیں تو دراصل یہ خوشی خلافت کے
71 سوسال پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کی خوشی ہے اور اس سو سال میں جولہلہاتے باغ اس انعام سے چمٹے رہنے کی وجہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا کئے ، اس کی خوشی میں ہے.ان لہلہاتے باغوں کو دیکھ کر جب ہم خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں تو ان شہدائے احمدیت کو بھی یادرکھیں اور ان کے لئے اور ان کی اولادوں کے لئے بھی دعائیں کریں جنہوں نے اپنے خون سے ان باغوں کو سینچا ہے.اپنے ایمان کی مضبوطی کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جو تاریخ کے سنہری باب ہیں.عُروہ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایسا سبزہ زارجو ہمیشہ سرسبز رہتا ہے.بارش کی کمی بھی اس پر کبھی خشکی نہیں آنے دیتی.پس یہ ایسا سبزہ زار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ اصلوۃ و السلام پر ایمان کی وجہ سے جماعت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے جو ہمیشہ سرسبز رہنے کے لئے ہے.جس کو شبنم کی نمی بھی لہلہاتی کھیتیوں میں اور سرسبز باغات کی شکل میں قائم رکھتی ہے.پس اس عُروة وثقی کو پکڑے رہیں گے تو انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ جس نے شیطان کی باتوں کا انکار کیا اور ایمان پر قائم رہا تو فرمایا کہ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا " یعنی ایک نہایت قابل اعتماد مضبوط چیز کو مضبوطی سے پکڑ لیا جو بھی ٹوٹنے والا نہیں اور پھر آخر پر فرمایا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ کے اللہ بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے.پس جو لوگ دلوں کی صفائی کے ساتھ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے چمٹے رہیں گے دیکھیں المنجد.زیر مادہ عری“.ایڈیشن پنجم.مؤلفہ لولیس معلوف سورة البقرة - آيت 257 سورۃ البقرۃ.آیت 257
72 اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اُس سے اس مضبوط کڑے سے چھٹے رہنے کیلئے دعائیں مانگتے رہیں گے تو ایسے لوگ یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ بہت دعائیں سننے والا ہے.وہ ہمارے دلوں کا حال بھی جانتا ہے.وہ نیک نیتی سے کی گئی دعاؤں اور کوششوں کو ضائع نہیں کرے گا اور ہمارے دل بھی ایمان سے لبریز رہیں گے اور ہم اللہ تعالیٰ کے انعام سے فیضیاب بھی ہوتے رہیں گے.ہم میں سے ہر ایک کا ایمان بھی مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا اور معمولی کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمارے نیک نیت ہونے کی وجہ سے ہم میں بھی اور ہماری نسلوں میں بھی ایسا ایمان پیدا کرتا چلا جائے گا جس سے ہماری نسلیں بھی اور ہم بھی لہلہاتی فصلوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے.پس آج خلافت کے سو سال پورے ہونے پر ہم جو نظارے دیکھ رہے ہیں، ایمانوں کو تازہ کر رہے ہیں، جماعت کی وحدت اور ترقی کی ہری بھری فصلیں ہمیں نظر آ رہی ہیں.غیروں کو بھی عجیب سا لگ رہا ہے اور بعض حاسدوں کو حسد میں بڑھا بھی رہا ہے، جیسا کہ پاکستان کے حالات ہیں.یہ بھی اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعوعلیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے اور خلافت سے چمٹے رہنے کی وجہ سے ہے.وو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : پہلے نبیوں کے معجزات ان کے مرنے کے ساتھ ہی مر گئے مگر ہمارے نبی ﷺ کے معجزات اب تک ظہور میں آرہے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے.جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت ﷺ کے معجزات ہیں“ لے تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 35 - روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 468-469
73 اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہمیشہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ بھی اور اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ بھی ہر احمدی کو حقیقت میں چمٹائے رکھے.اور آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے ساتھ وفا کا تعلق رکھنے والا بنائے رکھے اور خلافت احمدیہ کی حفاظت کے لئے قربانی کے عہد کو پورا کرنے والا بنائے رکھے.اور آج ہم نے جو نظارے دیکھے، جو ایک اکائی دیکھی، جو وحدت دیکھی ، خلافت سے محبت و وفا کے جذبات کا اظہار و یکجہتی جو غیروں کے لئے ایک متاثر کرنے والی چیز اور ایک معجزہ تھا اسے قائم رکھنے کے لئے جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے حضور ہم جھکنے والے بنے رہیں تا کہ اس شکر گزاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے انعاموں کو ہم میں سے ہر ایک کے لئے اور ہماری نسلوں کے لئے بھی دائمی کردے کیونکہ یہ اللہ تعالی کا مومنین سے وعدہ ہے کہ اگر تم شکر گزار بنو گے تو میں اپنے انعام مزید بڑھاؤں گا.تمہارے ایمانوں کو مزید ترقی دوں گا.نتیجةً تم میرے فضلوں کے وارث بنتے چلے جاؤ گے جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ یعنی اور جب تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا.آج ان دنوں میں جب اپنی ڈاک دیکھتا ہوں تو دل کی عجیب کیفیت ہوتی ہے.سوچتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں.اس کے انعامات کی بارش اس طرح جماعت پر ہورہی ہے کہ اس کے مقابل پر اگر جسم کا رواں رواں بھی شکر گزار ہو جائے تو شکر ادا نہیں ہوسکتا.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کس طرح اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر جو خلافت کی صورت میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی سورۃ ابراہیم.آیت 8
74 جماعت کو دیا ہے شکر گزار بنتی ہے.اتنے زیادہ شکر گزاری کے خطوط آ رہے ہیں کہ میں بغیر کسی شک کے یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ہی ایسے افراد ہیں جو شکر گزاری میں اس قدر بڑھے ہوئے ہیں.اور جب تک ایسے شکر گزاری کے جذبے بڑھتے چلے جائیں گے اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث ہم بنتے چلے جائیں گے اور ہماری نسلیں بھی بنتی چلی جائیں گی.پس اس شکر گزاری کے جذبے کو کبھی ماند نہ پڑنے دیں کہ یہی شکر گزاری ہے جو ہمارے لئے نئے سے نئے سرسبز باغوں کو لگاتی چلی جائے گی اور ہمارے ایمانوں میں ترقی کا باعث بنے گی.آج جب دنیا لہو ولعب میں مبتلا ہے اور کوئی ان کی راہنمائی کرنے والا نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہی ایک واحد جماعت ہے جو خلافت کے جھنڈے تلے اپنی ہمتیں درست کرتی رہتی ہے.یہ یقیناً ایسا انعام ہے جس کے شکر کا حق تو ادا نہیں ہو سکتا، لیکن اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم شکر ادا کرنے کی کوشش بھی کرتے رہو گے صرف زبانی نہیں بلکہ عملوں کی درستگی کی کوشش کی صورت میں تو تب بھی میں اپنے انعامات سے تمہیں نو از تار ہوں گا.پس اس کیلئے دعا بھی کرتے رہیں.آپ میرے لئے دعا کریں اور میں آپ کیلئے دعا کروں تا کہ یہ شکر گزاری کے جذبات اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کبھی ختم نہ ہوں اور ہر آن اور ہر لمحہ بڑھتے چلے جائیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ بے شمار فیکسیں اور خطوط بچوں، بہنوں اور بھائیوں کے آ رہے ہیں.میں کوشش تو کرتا ہوں کہ ان شکر گزاری اور اخلاص سے بھرے ہوئے خطوط کا جواب دوں اور جلدی جواب دوں لیکن دیر ہوسکتی ہے کیونکہ آج کل مصروفیت ہے کچھ دوروں کی تیاری کی وجہ سے بھی.
75 بہر حال جیسا کہ میں نے کہا اور دوبارہ کہتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کے ایمان اور اخلاص کو بڑھائے.ایسے ایسے خط ہیں کہ میں جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہوں.کیسے کیسے حسین خوبصورت پھول اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چمن میں کھلائے ہوئے ہیں جن کی خوبصورتی کا بیان بھی بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ آپ سب کو ایمان اور اخلاص میں بڑھاتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور احسانوں میں سے ایک انعام اس زمانہ کی ایجاد سیٹلائٹ ٹیلی ویژن بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمایا ہے.اس کے بارہ میں میں کچھ بتانا چاہتا ہوں.اس میں بہت سارے ہمارے والنٹیئرز بھی کام کرتے ہیں اور بڑی محنت سے کام کرتے ہیں.بہت تھوڑے ہیں جو Paid ملازمین ہیں.اکثر اپنا وقت بغیر کسی معاوضے کے دیتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ تمام پروگرام دنیا دیکھتی بھی ہے.اس کو کامیاب بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں.یہ لوگ ایسا کام کر رہے ہیں تا کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دکھا سکیں اور اس وحدت کے نظارے دکھا سکیں جو اللہ تعالیٰ نے انعام کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو عطا فرمائے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے پیغام کو دنیا تک پہنچاسکیں تا کہ سعید روحوں کو اس طرف توجہ پیدا ہوتو حق کو پہچان سمیں.جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہامات کے ذریعہ جماعت کی ترقی کی خبریں دیں اور آپ کو یقین سے پر فرمایا کہ یقینا آپ کا غلبہ ہونا
76 ہے، جماعت کا غلبہ ہونا ہے جیسا کہ بے شمار الہامات اس بارہ میں ہیں.ایک جگہ آپ نے فرمایا كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی یہ آپ کو الہام بھی ہو ا تھا، آیت بھی ہے.تو آپ نے اس کا یہی ترجمہ فرمایا کہ خدا نے ابتداء سے مقدر کر چھوڑا ہے کہ وہ اور اس کا رسول غالب رہیں گے.یہاں اسلام کی طرف بھی اشارہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی طرف بھی کیونکہ اس زمانہ میں اسلام کی ترقی آنحضرت کی پیشگوئیوں کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وابستہ ہے.پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غلبہ عطا فرمانا ہے.لیکن اس کے لئے دنیاوی سامان بھی ہوتے ہیں اور یہ سامان بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے اور فرماتا رہا ہے اور اب بھی فرما رہا ہے.آپ نے اپنے زمانہ میں جو کتب لکھیں اور ان کی اشاعت کی ، بلکہ ایک خزانہ تھا جو کہ دیا اور دنیا کے سامنے پیش فرمایا وہ بھی اس غلبہ کے لئے ایک ذریعہ تھا.اور اب اس زمانہ میں اس خزانہ کو ایم ٹی اے کے ذریعہ دنیا تک پہنچانے کے سامان بھی اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں.پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعت کی ترقی اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق جاری کردہ آپ کی خلافت کے نظام کی برکات ہیں، ان کو دکھانے کا ذریعہ بھی ایم ٹی اے کو بنایا.پس ایم ٹی اے ان سامانوں میں سے ایک سامان ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچایا اور پہنچا رہا ہے اور اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ اس زمانہ کی ایجادات کا اگر صیح استعمال ہو رہا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سورة المجادلة آيت 22
77 ذریعہ سے ہو رہا ہے.اس وقت ایم ٹی اے کے تین چینلز نہ صرف اپنوں کی تربیت کا کام کر رہے ہیں بلکہ مخالفین اسلام کا ان دلائل سے منہ بند کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے ہمیں دیئے.پس ایم ٹی اے کو جہاں اللہ تعالیٰ نے غلبہ دکھانے کا ذریعہ بنایا ہے وہاں غلبہ عطا فرمانے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر بھی مہیا فرمایا ہے جو اُن مقاصد کو لے کر ہر گھر میں داخل ہو رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کا مقصد تھے.یعنی وہ کام جو آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کئے تھے اور اس زمانہ میں وہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د تھے.گویا اُن کاموں کو آگے چلاتے چلے جانا آپ کے سپر د ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے سپر دفرمائے تھے.جس میں معجزات دکھانا بھی تھا.جس میں دلوں کا تزکیہ بھی تھا.جس میں قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلانا بھی ہے.جس میں انسانیت میں حکمت کے موتی بکھیرنا بھی ہے.اور اگر آج ہم دیکھیں تو اس زمانہ میں اس زمانہ کی ایجادوں کا صحیح استعمال کرتے ہوئے باوجود اسلامی ملکوں کے چینلوں کے اور اس کے علاوہ بعض اسلامی تنظیموں کے چینلوں کے یہ صرف اور صرف ایم ٹی اے ہے جو ان تمام کاموں کو انجام دے رہا ہے.اگر غور سے انہیں سنیں تو یہ چاروں باتیں آپ کو نظر نہیں آئیں گی.اگر ایک بات صحیح کرتے ہیں تو دوسری جگہ ایک ایسی مضحکہ خیز بات کر جاتے ہیں جس سے کوئی عقلمند انسان اسلام کا صحیح تصور قائم نہیں کر سکتا.پھر دنیا کے دوسرے ٹی وی چینل ہیں ان کا اشتہاروں کے بغیر چلنا مشکل ہے جس میں لغویات اور بیہودگیاں ہیں.اسلامی ملکوں کے چینلز کا بھی یہی حال ہے کہ تفریح کے نام پر پروگرام بھی لغو اور بیہودہ
مقصد.78 ہیں.پس آج ایک ہی چینل ہے جو مسیح محمدی کے غلاموں کا ہے جو انسان کی پیدائش کے مقصد کو پورا کر رہا ہے.اس مقصد کو پورا کر رہا ہے جو آنحضرت ﷺ کی بعثت کا رہے.تو اس طرف بھی احمدیوں کو خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے کہ اپنی تربیت کے لئے بھی اور اس لئے بھی کہ آخر بڑی محنت سے یہ چینلز چل رہے ہیں، ان کو با قاعدہ دیکھا کریں، سنا کریں.خاص طور پر خطبات اور جو دوسرے عام تربیتی پروگرام ہیں اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بات اس طرف توجہ مبذول کروانے کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں انعامات دیئے ہیں ان کا شکر ادا کریں.اللہ تعالیٰ کے انعام کا شکر ادا کریں جو خلافت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو اپنے وعدوں کے مطابق عطا فرمایا ہے.اور یہ پیغام ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں پہنچتا ہے.یہ بھی بات واضح ہونی چاہئے کہ اگر خلافت نہ ہوتی تو جتنی چاہے نیک نیتی سے کوششیں ہو تیں نہ کسی انجمن سے اور نہ کسی ادارے سے یہ چینل اس طرح چل سکتا تھا.تو یہ جو ایم ٹی اے اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے یہ بھی خلافت کی برکات میں سے ایک برکت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے.اس لئے اس سے پورا فائدہ اٹھانا چاہئے اور ان باتوں کا جن کا میں نے ذکر کیا ہے کہ خلافت کے بغیر نہیں چل سکتی تھیں اس لئے کیا ہے کہ ہر ایک کو یہ احساس پیدا ہوتا رہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے جو جو نظام بھی جاری فرمایا اس کو خلافت کے انعام سے باندھا ہے.پس ہمیشہ اس کی قدر کرتے رہیں.
79 اس خلافت جو بلی کی تقریب سے ہر احمدی میں جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے یہ عارضی تبدیلی نہ ہو، عارضی جوش نہ ہو، بلکہ اس کو ہمیشہ یادرکھیں اور جگالی کرتے رہیں اور اس کو مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں.میں نے جو عہد لیا تھا اس عہد کا بھی بڑا اثر ہوا ہے.ہر ایک پر یہ اثر ظاہر ہو رہا ہے.اسے ہمیشہ یاد رکھنے کی کوشش کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جو عہد کرو اسے پورا کرو کیونکہ تمہارے عہدوں کے بارہ میں تم سے پوچھا جائے گا.پس آج جب کہ یہ بات ابھی آپ کے ذہنوں میں تازہ ہے، میں اس بات کو اس لئے دہرارہا ہوں کہ اس بات کو ہمیشہ تازہ رکھیں اور یہ عہد آپ میں مزید مضبوطی پیدا کرتا چلا جائے.یہ بھی ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ کوئی عہد بھی ، کوئی بات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی.کئیوں کو احساس بھی ہے.خطوط میں بھی لوگ لکھتے ہیں کہ ہم نے تو عہد کیا ہے اب ہم انشاء اللہ اس پر عمل کریں گے ، کار بند ر ہیں گے.لیکن یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر قائم رہنے کی تو فیق عطا فرمائے کیونکہ اس کے فضلوں کے بغیر ممکن نہیں ہے.پس اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے طریقہ بتایا ہے اس پر بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنی عبادتوں کے معیار پہلے سے بڑھا ئیں.اس میں بڑھیں.نیکیوں میں پہلے سے بڑھیں اور اعمال صالحہ بجالانے کی کوشش کرتے چلے جائیں.نیکیوں میں نظام جماعت کی اطاعت بھی ایک اہم بات ہے.خلافت کی اطاعت میں نظام جماعت کی اطاعت بھی ایک اہم بات ہے.اس کے بغیر نہ نیکیاں ہیں اور نہ عہد کی پابندی ہے.نظام جماعت بھی خلافت کو قائم کرتا ہے اس لئے اس کی پابندی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو توفیق دے کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہے اور
80 اللہ تعالیٰ سے قریب تر ہوتا چلا جائے.27 مئی کو اللہ تعالیٰ نے ایک یہ خوشخبری بھی ہمیں دی.بڑی دیر سے اٹلی (Italy) میں مشن و مسجد کے لئے کوشش ہو رہی تھی اس کے لئے جگہ نہیں مل رہی تھی.تو اب عین 27 مئی کو کونسل نے بلا کے ایک ٹکڑہ زمین کا اس مقصد کے لئے دیا ہے.سودا ہو گیا ہے.اس ملک میں جہاں عیسائیت کی خلافت اب تک قائم ہے اللہ تعالیٰ نے خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر ایک ایسی جگہ عطا فرمائی ہے جہاں انشاء اللہ تعالیٰ مسیح محمدی کے غلاموں کا ایک مرکز قائم ہوگا اور ایک مسجد بنے گی جہاں سے اللہ تعالیٰ کی توحید کا اعلان ہوگا.انشاء اللہ.اسی طرح ہمارا یہ فنکشن جو یہاں ہوا تھا، اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ باوجود مولویوں کے شور کے پاکستان میں بھی جماعتوں نے اس میں شمولیت اختیار کی اور اپنے طور پر بھی جو ان کے پروگرام تھے وہ پورے کئے.گو کہ اس کے بعد آج یا کل پابندی لگ گئی لیکن جماعت کو وہاں اُس طرح سے محرومی کا وہ احساس نہیں رہا جس طرح 1989 ء میں صد سالہ جو ہلی پر ہوا تھا کہ ساری تیاریوں کے باوجود حکومت کی طرف سے ایک آرڈی نینس آیا تھا جس کے تحت جماعت احمدیہ کسی بھی قسم کا خوشی کا پروگرام نہیں کر سکتی تھی.نہ ہی بچوں میں اردگر دمٹھائی اور ٹافیاں تقسیم کرسکتی تھی.یہ حال تھا اس ملک کا اور ہے اور اس وقت فکر یہی تھی کیونکہ اب بھی پنجاب میں وہی حکومت تھی جو اس زمانہ میں تھی لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور وہ دور گزر گیا اور 27 مئی کا جلسہ بھی جس طرح منانا تھا منایا، دوسرے فنکشن بھی کئے.کھانے اور مٹھائی وغیرہ بھی تقسیم کرنی تھی وہ بھی ہو گئی.ان مولویوں کا یہ حال ہے کہ چونکہ خاموشی سے ہو گیا تھا
81 زیادہ شور نہیں تھا اس لئے بعضوں کو پتہ بھی نہیں لگا اور ان کا خیال تھا کہ شاید حکومت نے روک دیا ہے یا حکومت کی طرف سے اعلان بھی اخباروں میں آگئے لیکن اتنی سختی نہیں ہوئی.بہر حال مولویوں نے یہ بیان دیئے کہ قادیانیوں کو یہ فنکشن نہیں کرنے دیا گیا اور بچوں کو مٹھائی تقسیم نہیں کرنے دی گئی اور خوشی نہیں منانے دی گئی تو یہ حکومت نے بہت اہم کام سرانجام دیا ہے اور اُمت مسلمہ کو اس بات سے تباہی سے بچالیا ہے.امت مسلمہ کی تباہی صرف بچوں کو مٹھائی کھلانے سے ہوئی تھی.یہ تو ان کی عقلوں کا حال ہے اور نہیں جانتے کہ اس وجہ سے خود تباہی کے گڑھے کی طرف جارہے ہیں.اس لئے پاکستان کے لئے بھی دعا کریں.ان ملاؤں کو تو شاید عقل نہیں آئی لیکن جو عوام ہیں ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو سیدھے راستہ پر چلائے.سیاستدان جو وہاں کے ہیں وہ صرف اپنی خود غرضیوں میں نہ پڑے رہیں بلکہ حکومت کا حق ادا کرنے والے ہوں.غریبوں کا حق ادا کرنے والے ہوں.اس وقت جو پاکستان کے حالات ہیں وہ انتہائی نا گفتہ بہ ہیں.خزانہ خالی ہے.کھانے کو کچھ نہیں لیکن اس کے با وجود الوٹ مار مچی ہوئی ہے.قدم قدم پر رشوت لی جاتی ہے.عوام بھوکے مر رہے ہیں اُس کی کوئی پرواہ نہیں.صرف اپنی کرسیوں کی آج کل ان کو پرواہ پڑی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ عوام پر بھی رحم کرے.تو جہاں ہم خوشی مناتے ہیں دنیا کے دوسرے احمدی بھی خوشی منارہے ہیں، خلافت جو ہلی بھی منارہے ہیں، شکرانے کے طور پر دوسرے پروگرام کر رہے ہیں، پاکستان کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ ان غریبوں کی حالت بھی سنوارے.اگر حکمران ظالم ہیں تو ان سے بھی نجات دلائے اور ان کو صحیح راستہ پر چلائے.مسلمان ملکوں کے لئے خاص طور پر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو
82 مسیح محمدی کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے.اور عموما دنیا کے لئے بھی دعا کریں کہ جس طرح وہ تباہی کی طرف جا رہی ہے اللہ تعالیٰ اپنے عذابوں سے انہیں محفوظ رکھے اور حقیقت پہچانے کی توفیق دے تا کہ دنیا ایسے نظارے دیکھے جہاں صرف اور صرف خدا کی حکومت ہوا اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا لہراتا ہو.آمین
اختتامی خطاب حضرت خلیقه آسیح الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بر موقعه جلسہ سالانہ جرمنی فرمودہ مؤرخہ 24 اگست 2008ء
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ملِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ آجکل جماعت احمدیہ میں، افراد جماعت میں خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر ہر بچے ، جوان، بوڑھے، مرد اور عورت کے دل میں خلافت سے تعلق اور اس کی اہمیت کا احساس پہلے سے کئی گنا بڑھ کر نظر آتا ہے جس کا اظہار زبانی بھی اور خطوط میں بھی بہت زیادہ احباب و خواتین کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے خلافت احمدیہ کے سو سالہ سفر کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیاری جماعت کے افراد کو خلافت سے وفا اور اخلاص میں بڑھایا ہے.پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زمانہ کے امام کا یہ دعویٰ کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی تائید و نصرت کے شامل حال رہنے کا وعدہ فرمایا ہے سچا دعویٰ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر سو سال گزرنے کے بعد بھی افراد جماعت اس رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں بلکہ ہر وقت اسے مزید مضبوطی سے پکڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جس کو پکڑنے کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالی سے اطلاع پا کر اپنی جماعت کے افراد کو حکم دیا تھا اور نصیحت فرمائی تھی اور یہ اعلان فرمایا تھا کہ یہ قدرت ثانیہ جو میرے بعد آئے گی خدائی وعدوں کے مطابق دائمی
86 صلى الله قدرت ہوگی اور اس سے چھٹے رہ کر ہی ہر فرد جماعت اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے بھی دیکھے گا اور اپنی روحانی ترقی کی طرف بھی قدم بڑھائے گا کیونکہ خلافت کی طرف سے ملنے والی ہدایات اور نصائح وہی ہوں گی جو خدا تعالیٰ نے اپنے آخری فی ﷺ کے ذریعہ سے آئندہ تمام زمانوں کے انسانوں کے لئے ہمیں بتائی تھیں اور جو قرآن کریم کی تعلیم اور احادیث کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں.لیکن سامنے ہونے کے باوجود دنیا انہیں بھلا چکی ہے یا اس کی جاہلانہ وضاحتیں کرتے ہوئے اور تفسیریں بیان کر کے اُسے بگاڑ دیا ہے.آپ غیروں کی تفسیر میں پڑھ لیں بعض آیات کی عجیب مضحکہ خیز قسم کی تفسیریں کی ہوئی ہیں جو کسی کو اسلام کے قریب لانے کی بجائے مزید ہٹانے والی ہوں گی.ان تعلیمات کا صحیح فہم اور اور اک اس زمانہ میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عطا فرمایا اور آپ علیہ السلام کے بعد خلافت احمدیہ کے جاری نظام نے اسے دنیا میں پھیلانے کی ہمیشہ کوشش کی اور کر رہی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ یہ کوشش جاری رہے گی کیونکہ جس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مبعوث فرمایا تھا اس مقصد کو آگے چلانے کے لئے اس زمانہ میں آپ ﷺ کے عاشق صادق کو خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا.صلى الله آنحضرت ﷺ کو جب اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تو آپ کے ذریعہ یہ اعلان کروایا: قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا یعنی اے رسول! : تو اعلان کر دے، اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.اور پھر خاتم انہین کہہ کر اس بات پر بھی مہر ثبت کر دی کہ اب آپ کے بعد کوئی سورۃ الاعراف.آیت 159
87 شرعی نبی نہیں ہوسکتا اور رہتی دنیا تک صرف اور صرف آپ کی شریعت قائم رہے گی جو آپ پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صورت میں اتاری ہے.- الله پس اگر اب خدا تعالیٰ کا قرب پانے کا کوئی ذریعہ ہے تو آنحضرت نے کی ذات ہے.اب اگر نجات پانے کا کوئی ذریعہ ہے تو آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آکر یہ نجات مل سکتی ہے.پس آؤ اور خالص ہو کر اس کی غلامی اختیار کرو کہ اس در کے علاوہ اب اور کوئی راہ نجات نہیں ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بتانے کے لئے کہ آپ کا یہ دعویٰ کہ میں تمام دنیا کے انسانوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور اب ہر زمانہ کے انسان کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، سچا دعوی ہے، یہ بھی اعلان فرمایا کہ میرے اس نبی کی غلامی میں ہی وہ مسیح و مہدی مبعوث ہوگا جو میرے اس رسول کے پیغام کو محفوظ رنگ میں تمام دنیا تک پھیلائے گا جب وہ ذرائع بھی میسر آئیں گے جب یہ پیغام پھیلانے میں کوئی روک مانع نہیں ہوگی.اگر زمینی روکیں پیدا کر دی جائیں گی تو فضاؤں سے یہ پیغام نشر ہوگا.اگر ایک علاقہ میں مخالفت کا زور ہوگا تو دوسرے علاقہ میں مسیح محمدی کی جماعت کی لہلہاتی کھیتیوں کے پنپنے کے لئے زرخیز زمینیں میسر آجائیں گی.اگر ایک ملک میں پابندیاں لگیں گی تو دوسرے ملکوں میں مسیح محمدی کے قبول کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی.کہ دراصل یہی وہ حقیقی اسلام ہے جو صلى الله آنحضرت ا لے کر آئے تھے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں آج مسیح محمدی کے غلام آنحضرت ﷺ کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے وعدے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہیں جن کا
88 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے متعدد الہامات میں ذکر فرمایا ہے اس لئے وہ شریعت جو آنحضرت ﷺ تمام دنیا کے لئے لے کر آئے تھے وہ مسیح موعود کے غلاموں کے ذریعہ دنیا کے کونہ کونہ میں کامیابی سے پھیل رہی ہے.دو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: اس وقت کے تمام مخالف مولویوں کوضرور یہ بات ماننی پڑے گی کہ چونکہ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء تھے اور آپ کی شریعت تمام دنیا کے لئے عام تھی.اور آپ کی نسبت فرمایا گیا تھا: وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ اور نیز آپ کو یہ خطاب عطا ہوا تھا : قل يأيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا.سواگر چہ آنحضرت ﷺ کے عہد حیات میں وہ تمام متفرق ہدایتیں جو حضرت آدم سے حضرت عیسی تک تھیں، قرآن شریف میں جمع کی گئیں لیکن مضمون آیت قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا آنحضرت ﷺ کی زندگی میں عملی طور پر پورا نہیں ہوسکا کیونکہ کامل اشاعت اس پر موقوف تھی کہ تمام ممالک مخالفہ یعنی ایشیا اور یورپ اور افریقہ اور امریکہ اور آبادی دنیا کے انتہائی گوشوں تک آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی تبلیغ قرآن ہو جاتی اور یہ اس وقت غیر ممکن تھا بلکہ اس وقت تک تو دنیا کی کئی آبادیوں کا ابھی پتہ بھی نہیں لگا تھا اور دور دراز سفروں کے ذرائع ایسے مشکل تھے کہ گویا معدوم تھے.بلکہ اگر وہ ساٹھ برس الگ کر دیئے جائیں جو اس عاجز کی عمر کے ہیں تو 7 125 ہجری تک بھی اشاعت کے وسائل کاملہ گویا کا لعدم تھے.اور اس زمانہ تک امریکہ کل اور یورپ کا اکثر حصہ قرآنی 1 ٣،٢ سورۃ الاحزاب.آیت 41 سورۃ الاعراف.آیت 159
89 تبلیغ اور اس کے دلائل سے بے نصیب رہا ہو اتھا بلکہ دُور دُورملکوں کے گوشوں میں تو ایسی بے خبری تھی کہ گویا وہ لوگ اسلام کے نام سے بھی ناواقف تھے.غرض آیت موصوفہ بالا میں جو فر مایا گیا تھا کہ اے زمین کے باشندو ! میں تم سب کی طرف رسول ہوں ، عملی طور پر اس آیت کے مطابق تمام دنیا کو ان دنوں سے پہلے ہر گز تبلیغ نہیں ہو سکی اور نہ اتمام حجت ہوا کیونکہ وسائل اشاعت موجود نہیں تھے اور نیز زبانوں کی اجنبیت سخت روک تھی.اور نیز یہ کہ دلائل حقانیت اسلام کی واقعیت اس پر موقوف تھی کہ اسلامی ہدایتیں غیر زبانوں میں ترجمہ ہوں اور یا وہ لوگ خود اسلام کی زبان سے واقفیت پیدا کر لیں اور یہ دونوں امر اُس وقت غیر ممکن تھے.لیکن قرآن شریف کا یہ فرمانا کہ وَمَنْ بَلَعَ یہ امید دلاتا تھا کہ ابھی اور بہت سے لوگ ہیں جو ابھی تبلیغ قرآنی اُن تک نہیں پہنچی.ایسا ہی آیت وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اس بات کو صلى الله ظاہر کر رہی تھی کہ گو آنحضرت ﷺ کی حیات میں ہدایت کا ذخیرہ کامل ہو گیا مگر ابھی اشاعت ناقص ہے.اور اس آیت میں جو مِنْهُمْ کا لفظ ہے وہ ظاہر کر رہا تھا کہ ایک شخص اُس زمانہ میں جو تکمیلِ اشاعت کے لئے موزوں ہے مبعوث ہوگا جو آنحضرت ﷺ کے رنگ میں ہوگا اور اس کے دوست مخلص صحابہ کے رنگ میں ہوں اس وقت حسب منطوق آیت وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ اور نیز حسب منطوق آیت قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو گے.صل الله سورۃ الانعام - آیت 20 سورۃ الجمعۃ.آیت 4 سورۃ الاعراف.آیت 159
90 ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہوگئی صلى الله تھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہ علی ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کے لئے بدل و جان سرگرم ہیں.آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے کیونکہ آپ کا دعوی ہے کہ میں تمام کافہ ناس کے لئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ اُن تمام قوموں کو جوز مین پر رہتی ہیں قرآنی تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں اور اتمام حجت کے لئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیں.تب آنحضرت ﷺ کی روحانیت نے جواب دیا کہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتا ہوں.مگر میں ملک ہند میں آؤں گا کیونکہ جوش مذاہب و اجتماع جميع ادیان اور مقابلہ جمیع ملل ونحل اور امن اور ،، آزادی اسی جگہ ہے.پس ہم وہ خوش قسمت ہیں جو آنحضرت ﷺ کے بروز کی اس جماعت میں شامل ہیں جو آنحضرت ﷺ کی تعلیم کو نہ صرف اپنے اوپر لاگو کرنے کا دعوی کرتے ہیں بلکہ دنیا میں اس تعلیم کے پھیلانے والے ہیں جو آنحضرت نے لے کر آئے تھے.ہم خوش قسمت ہیں کہ آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ ذرائع مہیا فرما دیئے ہیں.جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی وجود نہیں تھا گو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا پر نٹنگ پریس ایجاد ہو چکی تھی.دوسرے ذرائع تحفہ گولڑویہ صفحہ 99 تا 101.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 260 تا263
91 الله موجود تھے لیکن جماعت کا اپنا پریس لگانے کے لئے اس وقت وسائل نہیں تھے اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک علیحد و تحریک فرمانی پڑی تھی.لیکن آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور غلام صادق سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ایشیا، یورپ اور افریقہ کے کئی ملکوں میں جماعت کے اپنے پر یس کام کر رہے ہیں اور اس پیغام کو پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جس کے لئے آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا.پھر صرف پر یسوں تک ہی بات نہیں بلکہ انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ ٹیلی ویژن کے ذریعہ جدید ترین اور تیز ترین ذریعہ تبلیغ بھی خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو میسر فرما دیا جو دنیا کے کونہ کونہ میں آنحضرت نے کے پیغام کو پہنچانے کا کردار ادا کر رہا ہے.یہ کوئی ہماری خوبی نہیں یہ خدا تعالیٰ کا آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کے وعدہ کا عملی اظہار ہے جو آج پورا ہورہا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تائید و نصرت کے وعدہ کے پورے کرنے کا عملی ثبوت ہے.حضرت خلیلة اسبح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے ایم ٹی اے کے اجرا پر اس حقیقت کا اعلان فرمایا تھا کہ MTA کا اجرا کوئی ہماری خوبی نہیں ہے.ہم تو اس بارے میں ابھی سوچ ہی رہے تھے بلکہ ریڈیو کے بارہ میں سوچ رہے تھے کہ خدا تعالیٰ نے MTA کی شکل میں ہمیں انعام عطا فرما دیا اور تبلیغ کا ایک نیا ذریعہ مہیا فرما دیا.یہ تو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کا اظہار ہے کہ ”میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ لے الله الحکم جلد 2 نمبر 24- 25 مؤرخہ 20-27 اگست 1898 ، صفحہ 14 - و الحکم جلد 2 نمبر 5-6 مؤرخہ 27 مارچ و 2 اپریل 1898 صفحہ 13.بحوالہ تذکرہ صفحہ 260.ایڈیشن چہارم مطبوعہ 2004ء
92 پس یہ تبلیغ کو زمین کے کنارے تک پہنچانے کا کام اصل میں تو اُس اعلان کی کڑی ہے جو آنحضرت ﷺ سے اللہ تعالیٰ نے کروایا تھا یعنی قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا کہ اے لوگو! تمام دنیا کے انسانوں میں ،سب کی طرف میں اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.چنانچہ دیکھ لیں.پریس بھی، انٹرنیٹ بھی، MTA بھی دنیا کی مختلف زبانوں میں اسلام کا پیغام پہنچارہے ہیں.مختلف زبانوں میں جماعت کی Website کام کر رہی ہے.اٹلی میں بھی وہاں احمدی نوجوانوں نے بڑی اچھی اٹالین زبان میں Website بنائی ہے.اسی طرح دوسری زبانوں میں بھی ہے.اٹلی کی مثال میں نے اس لئے دی ہے کہ یہی وہ ملک ہے جہاں اس وقت عیسائیت کی خلافت، یعنی پوپ کا مرکز ہے.اللہ تعالیٰ نے چند دن پہلے وہاں ہمیں اپنے فضل سے مرکز اور مسجد کے لئے جو جگہ خریدنے کی کوشش ہو رہی تھی اسے بھی فائنل شکل دے کر مہیا فرما دی ہے اور ایک نیا میدان کھل گیا ہے مسیح محمدی کے غلاموں کا مسیح موسوی کے ماننے والوں کو اس آخری نبی کے قدموں میں لانے کی کوششوں کا جسے اللہ تعالیٰ نے صرف بنی اسرائیل کے لئے نہیں بھیجا تھا بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا تھا.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ وہ شخص جو تکمیل اشاعت دین مصطفیٰ ﷺ کے لئے ، اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے بروز کے طور پر مبعوث ہونا تھا اور میں اور آپ ان خوش قسمتوں میں سے ہیں جنہیں یہ ترقیاں دیکھنی نصیب ہورہی ہیں اور جن کو یہ توفیق ملی کہ اس کی جماعت میں شامل ہو جائیں.سورۃ الاعراف.آیت 159
93 الله پس اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو بھی اس بات کا اہل ثابت کرنے کی کوشش کریں جس سے ہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ ان برکات سے فیض پاتی چلی جائیں جو حضرت محمد مصطفی، خاتم الانبیاء ﷺ کے غلام صادق کی جماعت سے جڑے رہنے والوں کے ساتھ وابستہ ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا که وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ اس بات کو ظاہر کر رہی ہے کہ ہدایت کا ذخیرہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں مکمل ہو گیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اليوم أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْأَسْلَامَ دینا تے یعنی آج میں نے تمہارے فائدہ کے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تمہارے پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا ہے اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا ہے.پس اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہدایت کامل ہو گئی اور اب کوئی شرعی کتاب نہیں آسکتی.اب کوئی شرعی رسول نہیں آسکتا.لیکن اشاعت دین کا کام باقی ہے جو آخرین نے کرنا ہے اور وہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.وہ میں نے حوالہ پڑھا ہے کہ اس زمانہ میں یہی اشاعت کا کام ہی ہونا تھا اور ہورہا ہے.وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ے کی سچائی اُس وقت کچی ثابت ہوتی ہے جب ہم یہ تسلیم کریں کہ اشاعت کا کام آئندہ زمانہ کے لئے ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ، آپ کے صحابہ اس پیشگوئی کے مصداق بنے جیسا کہ اس کی وضاحت میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.آپ فرماتے ہیں: صلى الله وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ یعنی آنحضرت ﷺ کے اصحاب ۳،۱، ۴ سورۃ الجمعۃ.آیت 4 سورۃ المائدہ - آیت 4
94 میں سے ایک اور فرقہ ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوا.یہ تو ظاہر ہے کہ اصحاب وہی کہلاتے ہیں جو نبی کے وقت میں ہوں اور ایمان کی حالت میں اس کی صحبت سے مشرف ہوں اور اُس سے تعلیم اور تربیت پاویں.پس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم صلى الله میں ایک نبی ہوگا کہ وہ آنحضرت ﷺ کا بروز ہوگا.اس لئے اُس کے اصحاب آنحضرت ﷺ کے اصحاب کہلائیں گے اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عظم نے اپنے رنگ میں خدا تعالی کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں، وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گئے پس اشاعت دین کی تکمیل کا کام نئے زمانہ کی ایجادات کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں شروع ہوا اور آپ کے صحابہ نے بھی بھر پور رنگ میں اس میں حصہ لیا.آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب جو قر آن کریم کے علم و معرفت کے خزانہ سے بھری پڑی ہیں، قرآن کریم کی آیات کی تفسیر کے رستے دکھاتی ہیں، قرآن کریم کے اُن خزانوں کی نشاندہی کرتی ہیں جو اس زمانہ میں ظاہر ہونے تھے.الله پس آنحضرت ﷺ کے لائے ہوئے دین کو جو آپ ﷺ پر کامل ہوا.اللہ تعالیٰ نے آپ کے غلام صادق کے زمانہ میں تمام دنیا تک پہنچانے کا انتظام فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات اور آپ کے صحابہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ " کا وعدہ پورا فرمایا.ہم احمدی خوش حقیقة الوحی صفحہ 67 - روحانی خائن جلد 22 صفحہ 502 سورة الجمعة - آيت 4
95 قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے پورا ہونے کے گواہ بن کر مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہو گئے اور ایک لڑی میں پروئے گئے.جبکہ دوسرے مسلمان اس انکار کی وجہ سے آپس میں پھٹے ہوئے ہیں اور اُن کے ہر کام میں بے برکتی ہے باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں سے تمکنت اور رعب کا وعدہ فرماتا ہے، کمزوری اور محتاجی کا یہ مسلمان شکار ہیں.چاہے وہ اسلامی ملکوں کے لیڈر ہوں یا ملکوں کی حکومتیں ہوں ، آپس کے معاملات کو طے کرنے کے لئے غیروں کی جھولی میں جا کر گرتے ہیں.ایک ہی ملک میں رہنے والے مسلمان لیڈ ر غیروں کو آواز میں دیتے ہیں کہ آؤ اور ہماری مدد کرو، اسلامی حکومتیں ہیں تو وہ غیر مسلم حکومتوں کی مرضی پر اپنے معاملات طے کرتی ہیں اور چلاتی ہیں.مسلمانوں کی ملکی دولت ہے تو وہ غیر مسلموں ج کے ہاتھ میں چلی گئی ہے.اگر لیڈروں اور ملکی سربراہوں کو کوئی دلچسپی ہے تو صرف اتنی کہ ہماری جائیدادیں بن جائیں ، ہمارے بینک بیلنس بن جائیں ، ہم امیر ہو جائیں.ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے، اسلامی ملکوں کے اندرونی فسادات کو روکنے کے لئے غیر اسلامی ملکوں کی فوجوں سے مدد لی جاتی ہے.یہ سب نتیجہ ہے اُس نافرمانی کا جو خدا تعالیٰ کے کلام کو نہ مان کر اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرتے ہوئے اس زمانہ کے امام کا انکار کرتے ہوئے کی گئی ہے.بجائے اس کے کہ آج مسلمان ممالک اپنی دولت کا صحیح استعمال کرتے اور مسیح موعود کے ماننے والوں میں شامل ہو کر تکمیل دین کے لئے آخری مقصد یعنی اشاعت دین کا کام سرانجام دیتے، اس دولت کو مسیح محمدی کے قدموں میں رکھ کر غیر مسلم دنیا میں اشاعت اسلام کے اہم فریضہ میں ہاتھ بٹاتے ، آنحضرت ﷺ کے اس عاشق صادق کی مخالفت کر کے نہ
96 دین کے رہے اور نہ دنیا کے.اور جب تک یہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے کہ خدا تعالی کا وعدہ آخرین منھم پورا ہو چکا ہے، آنے والا بیج آچکا ہے، اس کی مخالفت کی بجائے اس کی مدد کرنا ہمارا فرض اولین بنتا ہے، اُس وقت تک وہ اسی موجودہ حالت سے دو چار ہوتے رہیں گے اور ذلت کا سامنا کرتے رہیں گے.پس مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر ایک احمدی کا ایمان اور زیادہ بڑھتا ہے، اللہ کے حضور شکر گزاری کے جذبات اور زیادہ ابھرتے ہیں کہ اُس نے ہمیں اس نعمت سے نوازا ہے.پھر یہی نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، آنحضرت ﷺ کے بروز کے طور پر مبعوث ہوئے اور قرآنی علم وعرفان کے خزانے شائع کر کے اسلام کی اشاعت کے سامان پیدا فرما دیئے اور مخالفین اسلام پر اتمام حجت کر دی، دلائل سے ان کے منہ بند کر دیئے اور اپنی زندگی میں قربانیاں کرنے والوں کی ایسی جماعت قائم کردی جنہوں نے صحابہ کا رنگ اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور انہوں نے الله عنهم اور رضواعنه کا درجہ پایا بلکہ آنحضرت ﷺ نے جو پیشگوئی صلى الله فرمائی تھی کہ آخرین میں جو میرا بروز کھڑا ہوگا وہ صرف اپنی زندگی تک ہی اشاعت اسلام کا کام نہیں کرے گا بلکہ اس کے بعد خلافت کا سلسلہ بھی شروع ہوگا جو دائمی ہوگا.پھر مسیح محمدی نے بھی یہ اعلان فرما دیا کہ میرے سلسلہ کی سچائی کی ایک بہت بڑی دلیل یہ ہوگی کہ میرے بعد نظام خلافت چلے گا جو اشاعت اسلام کے کام کو آگے بڑھائے گا.جو میرے مشن کی تکمیل کرے گا اور جب تک ان باتوں کی تکمیل نہ ہو جائے اور جب تک وہ مشن جو آنحضرت ﷺ کے پیغام کو دنیا کے کونہ کونہ میں پہنچانے کا ہے مکمل نہ ہو جائے.جب تک تمام دنیا پر اتمام حجت نہ ہو جائے ، قیامت رضی الله
97 نہیں آئے گی.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ: ” خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہونگے جو دوسری قدرت کا مظہر ہونگے.سوتم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو.اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود ہی حقیقت میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ کا وجود ہے کیونکہ اس طرح وآخرين منهم لَمّا يلحقوا بھم کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے.لیکن آنحضرت ﷺ کا ارشاد کہ مسیح موعود کے بعد خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی.یعنی وہ خلافت جو نبوت کے کام کو آگے بڑھائے گی اور اس کے طریق پر چلنے والی ہوگی ، قائم ہوگی اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمانا کہ وہ قدرت رسالہ الوصیت صفحہ 6، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305-306 سورۃ الجمعۃ.آیت 4
98 آسمان سے نازل ہوگی ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو بھی خلیفہ بنائے گا اس کے ساتھ آسمانی تائیدات اور قدرت کے نظارے بھی ہمیشہ دکھائے گا اور خلافت احمد یہ الله ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ اشاعت دین محمد ﷺ کا کام کرتی چلی جائے گی اور اس کام کی تکمیل کے لئے خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ بن جائے گا، اس کے بازو بن جائے گا اور ہر فیصلہ جو خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے خلیفہ وقت اسلام کی اشاعت کے لئے کرے گا ، خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہوگا.اگر یہ نہ ہو تو پھر خلافت نہ ہی خدا تعالیٰ کی قدرت ہے اور نہ ہی آسمان سے نازل ہونے والی ہے.اور اس بات نے اس معاملہ کو بھی حل کر دیا کہ بندوں کے انتخاب کو خدا تعالیٰ کا انتخاب کس طرح سمجھا جائے.اگر بندوں کے انتخاب کو خدا تعالیٰ کی تائید حاصل نہ ہو تو بیشک یہ بات سوچنے پر مجبور کرتی ہے.لیکن اگر اس انتخاب کے ساتھ، اس بات کو آسمانی تائیدات مضبوط کر رہی ہوں کہ یہ بندوں کا انتخاب نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا بندوں کو ذریعہ بنا کر اپنی قدرت کو نازل کرنا ہے تو کسی قسم کا ابہام باقی نہیں رہتا بشرطیکہ تقویٰ کی آنکھ سے دیکھا جائے.آج ہر لمحہ اور ہر دن جماعت کی ترقی ہر شہر اور ہر ملک میں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی وہی آخرین میں مبعوث الله ہونے والے نبی ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی اشاعت کرنی تھی اور آپ کے بعد خلافت احمد یہ بھی یقیناً اسی سچے وعدوں والے خدا کی تائید یافتہ ہے جس کے ذریعہ سے یہ کام آگے بڑھنا تھا.پس آج ہر احمدی کا بھی کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے حصہ لینے کے
99 لئے، اپنے آپ کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بنانے کے لئے، خلافت احمدیہ کا ہاتھ بٹاتے ہوئے ، اشاعت اسلام کے کام میں حصہ لے تا کہ ہمیشہ ان لوگوں میں شامل رہیں جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُم وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا 1 اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لانے والوں ، مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے وہ اسے مضبوطی سے ان کے لئے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد امن کی حالت میں تبدیل کر دے گا.پس وعدہ ہے ایمان میں مضبوطی والوں کے ساتھ اور اعمال صالحہ بجالانے والوں کے ساتھ کہ وہ خلافت کے انعام سے فیض پاتے رہیں گے کیونکہ یہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اس دین کو اختیار کیا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پسند کیا.اللہ تعالیٰ نے کون سا دین پسند کیا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (اور یہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے) کہ رضیت لکم الاسلام دینا تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” میں تمہارا دین اسلام ٹھہرا کر خوش ہوا یعنی دین کا انتہائی مرتبہ وہ امر ہے جو اسلام کے مفہوم میں پایا جاتا ہے یعنی یہ کہ محض خدا کے لئے ہو جانا اور اپنی نجات اپنے سورۃ النور.آیت 56 سورة المائدة - آيت 4
100 وجود کی قربانی سے چاہنا نہ اور طریق سے اور اس نیت اور اس ارادہ کو عملی طور پر دکھلا دینا ہے یہ وہ مقام ہے جو ایک احمدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اس بات کو سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی حقیقت کامل فرمانبرداری ہے اور اپنے وجود کی قربانی ہے اور یہی کامل فرمانبرداری ہے جو بہترین اعمال کی انتہاء ہے اور یہ فرمانبرداری اور کامل اطاعت دکھانے والے قربانی کے لئے تیار رہنے والے بھی وہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے پیغام کی نشر و اشاعت میں ہاتھ بٹانے والے ہیں اور اس کام کے لئے اپنا مال، جان اور وقت قربان کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَ قَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ - یعنی اور اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوگی جو کہ اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور نیک اور صالح عمل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں.یہ حکم پھر ای طرف توجہ پھیرتا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف بلانے والے کو اپنے عمل بھی اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے چاہئیں جس کی طرف دوسرے کو بلا رہا ہے، جس پیغام کی اشاعت میں ممد و معاون بن رہا ہے.اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تیک مکمل طور پر اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کا جو اپنی گردن پر نہ ڈالے.اور جب یہ صورتحال پیدا ہوگی اور جب ہر احمدی کی یہ کیفیت ہوگی تو وہ جہاں خلافت کے انعام سے فیض پانے والا ہوگا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 54.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 368 سورة حم السجدہ - آیت 34
101 میں شامل ہونے والوں سے وابستہ انعامات کا وارث بنے گا.آنحضرت ﷺ کی حقیقی امت میں شامل ہوگا.صرف دعوئی ہی نہیں ہوگا جیسا کہ آجکل کے مسلمان کرتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ دنیا میں امن وسلامتی کا پیغام پہنچانے والا بھی ہوگا.اس خوبصورت پیغام کی وجہ سے اس خوبصورت تعلیم کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر اتاری مخالفین کو بھی اس ذریعہ سے یہ پیغام پہنچایا جا سکتا ہے کہ ان کی سختی کا جواب پیار سے دیا جائے اور جب سختی کا جواب نرمی سے ہو، غصے کا جواب صبر سے ہو تو ایک وقت آتا ہے جب مخالف سے مخالف بھی بات سننے کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، سوائے اس کے جن کے دل اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت کر دیئے گئے ہیں، جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ ان کو ہدایت نہیں ملنی.اور جب مخالف اسلام، اسلام کے محاسن کا علم حاصل کرے گا تو یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہے گا کہ واقعی یہ ایک کامل دین ہے.ہر احمدی کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ خلافت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے اور آنحضرت کے دین کی اشاعت کے لئے ہر قربانی کرتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جائے.اس زمانہ میں مسیح محمدی کے غلاموں میں شامل ہو کر نحن انصار اللہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنے ایمان کو بھی کامل کرتے چلے جائیں اور اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کے معیار بھی بلند سے بلند کرتے چلے جائیں.اور جب یہ ہوگا تو ہر فر د بھی اس زمانہ کے امام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو انفرادی طور پر بھی اپنے ساتھ پورا ہوتے ہوئے دیکھے گا.اور اجتماعی طور پر تو یہ مقدر ہو ہی چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے مومنوں کی اس جماعت نے جو مسیح محمدی سے منسوب ہے تمام دنیا پر غالب آنا ہے.
102 دشمن کا ہر حملہ چاہے وہ سامنے سے ہو، چاہے وہ پیچھے سے ہو دائیں سے ہو یا بائیں سے ہو، اس کام کو جو مسیح موعود کے سپر د ہو چکا ہے اس میں روک نہیں ڈال سکتا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ جماعت خدا تعالیٰ کی تائید ونصرت اور حفاظت کی ڈھال میں محفوظ ہے.اور یہ ایسی ڈھال ہے جس نے ہر طرف سے جماعت کو اپنی حفاظت میں لیا ہوا ہے، اپنے حصار میں لیا ہوا ہے اور گزشتہ ایک سو بیس سال کی جماعت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر جماعت کی ، احمدیت کی حفاظت فرمائی اور جماعت کو ختم کرنے کی دشمن کی ہر تدبیر نے نا کامی و نامرادی کا منہ دیکھا ہے اور جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی منازل طے کرتی چلی گئی.آج اللہ تعالی کے فضل سے دنیا کا کوئی براعظم نہیں، بڑے بڑے ملکوں میں آنحضرت ﷺ کا پیغام مسیح محمدی کے غلاموں نے نہ پہنچا دیا ہو بلکہ اکثر چھوٹے چھوٹے ملک اور جزائر بھی اس نور کی روشنی سے فیضیاب ہورہے ہیں جو خدا تعالی کے نور کا پر تو ہے اور آج یہ کام ہم صرف اس لئے با اثر انجام دے رہے ہیں کہ خلافت کے انعام سے انعام یافتہ ہیں.آج جب میں دنیا کے کسی بھی ملک میں بسنے والے احمدی کے چہرہ کو دیکھتا ہوں تو اس میں قدر مشترک نظر آتی ہے اور وہ ہے خلافت احمدیہ سے اخلاص و وفا کا تعلق.چاہے وہ پاکستان کا رہنے والا احمدی ہے یا ہندوستان میں بسنے والا احمدی ہے.انڈونیشیا اور جزائر میں بسنے والا احمدی ہے، بنگلہ دیش میں رہنے والا احمدی ہے.آسٹریلیا میں رہنے والا احمدی ہے یا یورپ اور امریکہ میں بسنے والا احمدی ہے یا افریقہ کے دور دراز علاقوں میں بسنے والا احمدی ہے.خلیفہ وقت کو دیکھ کر ایک خاص پیار،
103 ایک خاص تعلق، ایک خاص چمک چہروں اور آنکھوں میں نظر آ رہی ہوتی ہے اور یہ صرف اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بیعت اور وفا کا تعلق، سچا تعلق ہے اور یہ صرف اس لئے ہے کہ آنحضرت عیہ سے کامل اطاعت اور محبت کا تعلق ہے اور یہ اس لئے ہے کہ اس بات کا مکمل فہم وادراک ہے کہ آنحضرت ﷺ صلى الله صلى الله ہی ہیں جو کل انسانیت کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے نجات دہندہ بنا کر بھیجے گئے اور خلافت احمد یہ آپ تک لے جانے کی ایک کڑی ہے.اس وحدت کی نشانی ہے جو خدائے واحد کے قدموں میں ڈالنے کے لئے ہمہ وقت مصروف ہے.پس کیا کبھی ایسی قوم کو ایسے جذبات رکھنے والی روحوں کو، کوئی قوم شکست دے سکتی ہے.کبھی نہیں اور کبھی نہیں.اب جماعت احمدیہ کا مقدر کا میابیوں کی منازل کو طے کرتے چلے جانا ہے اور تمام دنیا کو آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.یہ اس زمانہ کے امام سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جو کبھی اپنے وعدوں کو جھوٹا نہیں ہونے دیتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وو الله یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا.اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اُٹھا دے گا.اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.( عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جوگھوڑوں پر سوار تھے اور کہا گیا کہ یہ ہیں جو اپنی گردنوں پر تیری اطاعت کا بڑااٹھا ئیں گے اور خدا انہیں برکت دے گا.منہ ) سواے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو.اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ
166 104 رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.لے پس آج بعض جگہ پر ہمیں مخالفین بظاہر دور میں نظر آرہے ہیں اور احمدی فلم میں پتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن یہ عارضی تکلیفیں ہیں، یہ عارضی حالت ہے.انشاء اللہ تعالیٰ جلد اب وہ دن طلوع ہونے والا ہے جب احمدیوں پر ظلم کرنے والے خس و خاشاک کی طرح اڑا دیئے جائیں گے کیونکہ یہی خدا تعالیٰ کا منشا ہے.اور کوئی طاقت نہیں جو خدا تعالیٰ کا مقابلہ کر سکے.پس آج دنیا میں بسنے والے وہ مظلوم احمدی جو چاہے انڈونیشیا میں بس رہے ہوں یا بنگلہ دیش میں بس رہے ہوں یا پاکستان میں رہنے والے ہوں ،صبر اور دعا سے خدا کا فضل مانگتے ہوئے ، اس کے حضور سجدہ ریز رہیں.انشاء اللہ تعالیٰ آخری فتح مسیح محمدی کے غلاموں کی ہی ہے کیونکہ آپ ہی وہ قوم ہیں جو اخلاص و وفا سے آنحضرت ﷺ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے ہر کوشش میں مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ استقامت دکھاتے ہوئے ہمیں اس کام کی توفیق دیتا چلا جائے.ہمیشہ یاد رکھیں ہم وہ خوش قسمت ہیں جن کے ساتھ مسیح الزمان کی دعائیں شامل ہیں.اس شخص کی دعائیں شامل ہیں جس کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس کا آنا میرا آنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ہم تو یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا جماعت کو محفوظ رکھے اور دنیا پر یہ ظاہر ہو جائے کہ تجلیات الہیہ صفحہ 17.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409-410
105 نبی کریم ﷺ برحق رسول تھے اور خدا کی ہستی پر لوگوں کو ایمان پیدا ہو جائے“ لے اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان اور یقین میں بڑھاتا چلا جائے اور ہم ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بنتے چلے جائیں.اب اس جلسے کا اختتام ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ جو پاک تبدیلیاں آپ لوگوں نے اپنے اندر ان دنوں میں پیدا کیں انہیں ہمیشہ اپنے اندر قائم رکھیں اور ہر دن آپ کے ایمان اور ایقان کو بڑھاتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو خیریت سے اپنے اپنے گھروں میں واپس لے جائے اور ہمیشہ آپ کا حافظ و ناصر ہو.ہمیشہ آپ کی حفاظت کرے اور ہر وہ فیض اور ہر وودعا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے فرمائی اس کو ہمارے حق میں قبول فرمائے.آمین (اس کے بعد حضور نے دعا کروائی ) ملفوظات جلد چہارم صفحہ 261.ایڈیشن 2003 ء
106
107
108
109
110