Language: UR
نام کتاب بیان فرموده خطابات طاہر جلد دوم حضرت مرزا طاہراحمدخلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ اشاعت طبع اول نومبر ۲۰۱۳ء
فهرست افتتاحی خطابات جلسہ ہائے سالانہ نمبر شمار افتتاحی خطاب فرموده 1 2 3 عنوان 26 دسمبر 1982ء نار بدلہی یقیناً شکست کھائے گی, نور مصطفوی یقیناً کامیاب ہوگا.26 دسمبر 1983ء نفرتوں کی آگ جتنی چاہو بھڑ کا وہمارے صبر کو تمہاری آگ جلا نہیں سکے گی.5اپریل 1985ء وہ ساری طاقتیں جو ہمیں منتشر دیکھنا چاہتی تھیں وہ آپ انتشار کا شکار ہوئیں.4 25 جولائی 1986 ء دنیا میں خدمت اسلام کا سہرا جماعت احمدیہ پاکستان کے سر ہے.ما 5 صفحہ نمبر 1 19 31 101 123 31 جولائی 1987 ء | سوسائٹی میں ہر طرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام شروع کریں.226 جولائی 1988ء مباھلہ کے نتیجہ میں ظاہر ہو نیوالے عظیم الشان نشانات کا تذکرہ، اسلم قریشی کی بازیابی 139 اله 7 11 اگست 1989ء پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر اور احمدیوں کے صبر کے نمونے 278 جولائی 1990ء پاکستانی قوم امام وقت کی تکذیب سے تو بہ کرے تو یہ ملک بچ جائے گا.9 26 جولائی 1991ء 10 محمد رسول اللہ ﷺ کا معراج در اصل حمد کا معراج ہے.26 دسمبر 1991ء قادیان میں تاریخی جلسہ سالانہ سوسال پورے ہونے پر مبارکباد 157 179 209 233 11 31 جولائی 1992 ء توحید کو پکڑو اور توحید کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ اس کے سوا کوئی نجات کی راہ نہیں 267 12 29 جولائی 1993ء تقومی کو پکڑ لو، تقویٰ کو پکڑ لواگر تمہیں تقویٰ نصیب ہو جائے تو سب کچھ نصیب ہو جائے 291 13 29 جولائی 1994ء جس کا نام خدا نے محمد رکھا کسی کی کیا مجال کہ اس کی توہین کر سکے.323 371 14 28 جولائی 1995 ء آپ ایسی نئی یو نائیٹڈ نیشن کو جنم دیں گے جو اللہ اور محد کی یو نائیٹڈ نیشن ہوگی 15 26 جولا ئی 1996ء توحید کی راہ ہی صراط مستقیم ہے.محمد مصطفی " کی محبت کے پیامبر بن کر آگے بڑھیں 391 16 25 جولائی 1997 ء لیکھر ام اور ضیاء الحق کی موت احمدیت کی سچائی پر گواہ ہے.17 31 جولائی 1998ء تمام دنیا کولا الہ الا اللہ کے نعروں سے بھر دیں.جماعت کی ترقی کی خوشخبری 18 30 جولائی 1999ء مباہلہ کے نتیجہ میں ملنے والی فتوحات.ایک سال میں ایک کروڑ سے زائد احمدی ہونا 417 447 467
نمبر شمار افتتاحی خطاب فرموده عنوان 19 28 جولائی 2000ء ۱۹۰۰ ء کے الہامات آج بھی بڑی شان سے پورے ہورہے ہیں.20 20 24 راگست 2001 ء سو سال پہلے کی تاریخ حیرت انگیز رنگ میں اس دور میں دہرائی جارہی ہے.صفی نمبر 481 499 21 | 26 جولائی 2002 ء اللہ تعالیٰ ہر حال میں اپنے نو کو کمال تک پہنچائے گا گر چہ مخالف کراہت ہی کریں.517 نوٹ :۱۹۸۴ء میں جلسہ سالانہ بوجوہ منعقد نہیں ہو سکا تھا.
خطابات طاہر جلد دوم 1 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء نارِ بولی یقیناً شکست کھائے گی نور مصطفوی یقیناً کامیاب ہوگا.افتتاحی خطاب جلسه سالا نه فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۸۲ء بمقام مسجد اقصی ربوہ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.۱۹۸۲ء کو احمدیت کی تاریخ میں ایک خاص امتیازی مقام بھی حاصل ہے اور وہ یہ مقام ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو پہلا ماموریت کا الہام ہوا وہ ۱۸۸۲ء میں ہوا تھا گویا ماموریت کے دعویٰ سے لے کر اب تک پورے سوسال ہو چکے ہیں اور اسی سال خدا تعالیٰ کی تقدیر نے جماعت احمدیہ کو تجدید عہد بیعت کی بھی توفیق عطا فرمائی.ہر آغاز کے ساتھ کچھ اُمیدیں بھی وابستہ ہوتی ہیں اور کچھ درد انگیز کہانیاں بھی.ہر آغاز کے ساتھ قربانیوں کی کچھ ایسی داستانیں بھی وابستہ ہوتی ہیں کہ زندہ قوموں کا فرض ہے کہ گاہ بگاہ اُن داستانوں کو دُہراتے رہا کریں.کسی نے کہا ہے: زنده خواهی داشتن گر داغہائے سینہ را گاہے گاہے بازخواں آں قصہ پارینہ را یا گاہے گاہے باز خواں آں دفتر پارینہ را کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اپنے سینوں کے داغوں کو ہمیشہ زندہ رکھو اور روشن رکھ تو کبھی کبھی
خطابات طاہر جلد دوم له 2 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء پرانے قصہ ہائے درد بھی دہراتے رہا کرو.اصلى الله اس پہلو سے جب میں نے آغاز احمدیت پر غور کیا تو میرا ذہن معاً آغاز اسلام کی طرف منتقل ہو گیا کیونکہ نور کا اصل چشمہ جو گل عالم کے لئے پھوٹا تھا اس کا آغاز تو حضرت محمد مصطفی ہے کی ذات سے ہی ہوا.اس لئے میں نے سوچا کہ درد کی وہ کہانیاں کیوں نہ بیان کروں جو آغاز اسلام سے وابستہ ہیں.نور کی باقی ساری شکلیں تو اُسی ایک شکل سے پھوٹ رہی ہیں جیسے درخت کی شاخیں ایک ہی تنے سے پھوٹا کرتی ہیں.چنانچہ اس جہت سے جب میں نے غور کیا تو مجھے یہ احساس ہوا کہ نور کے آغاز کے وقت دنیا کی ایک عجیب متضاد کیفیت ہو جایا کرتی ہے.ایک طرف تو عقلوں کو جلا دی جاتی ہے اور ٹورعلی ٹور کا منظر ہوتا ہے اور دوسری طرف سوچ بچار کی ساری قو تیں مفلوج ہو جاتی ہیں افکار بگڑ جاتے ہیں، نظریات بگڑ جاتے ہیں قلبی رجحانات بگڑ جاتے ہیں، اعمال بگڑ جاتے ہیں.اس دوسرے منظر (Phenomenan) کو پہلے سے کوئی بھی مناسبت نہیں ہوتی.یہاں تک کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا قرآن کریم کی یہ آیت اپنی پوری شان کے ساتھ اطلاق پارہی ہے کہ ہم نے انسان کو اَحْسَنِ تَقْوِیمِ صلى الله بنایا ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَفِلِينَ پھر اس کو أَسْفَلَ سفلین کی طرف لوٹا دیا.تو آنحور کے زمانہ میں یہ دو مناظر بڑی نمایاں اور امتیازی حیثیت سے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں.ایک طرف اسفل سفلین کا منظر ہے اور دوسری طرف أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ کا منظر ہے.میں اس مضمون کا آغاز تعاون کے دو تصورات پیش کر کے کرنا چاہتا ہوں.تعاون کا ایک وہ تصور ہے جو حضرت اقدس محمد وحی الہی کے مطابق پیش فرمارہے تھے اور اس کے مقابل پر تعاون کا ایک وہ تصور تھا جو کفارِ مکہ پیش کر رہے تھے.ان دونوں کو دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی آب و گل سے پلنے والے، ایک ہی روشنی اور ایک ہی ہوا میں سانس لینے والے وجودوں کے تصورات میں زمین و آسمان کا فرق پڑ گیا.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے یہ اعلان فرمایا.قُلْ يَاهْلَ الْكِتُبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ
خطابات طاہر جلد دوم 3 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء بَعْضًا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران : ۶۵) کہ اے اہل کتاب ! میں تمہیں ایک ایسے کلمہ کی طرف بلا تا ہوں جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے.معاشرہ کی اصلاح اور زمانہ کے دُکھ دُور کرنے کے لئے سب سے بہتر اصول یہی ہے کہ مشترک قدروں کو پکڑا جائے اور اختلافی باتوں کو پس پشت ڈال دیا جائے اور جہاں تک صلى الله تعاون کا تعلق ہے وہ مشترک قدروں ہی میں ہو سکتا ہے.پس آنحضور ﷺ نے یہ اعلان فرمایا کہ آؤ جس خدا کو تم بھی واحد خدا مانتے ہو اُسی خدا کی طرف میں تمہیں بلا تا ہوں.اختلاف مذہب اپنی جگہ لیکن یہ قدر مشترک ہمیں ایک تعاون کی طرف ضرور بلا رہی ہے.تعاون کا یہ تصور آپ نے اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق پیش فرمایا اور پھر فرمایا: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدہ : ۳) تم کوئی بھی مذہب رکھتے ہو اس سے کوئی غرض نہیں.دیکھنا یہ ہے کہ خدا کو واحد سمجھتے ہو یا نہیں سمجھتے لیکن نیکی پر تو تعاون کرو کیونکہ نیکی کا تعاون تو تمام انسانوں کے درمیان ایک قدر مشترک ہے.احادیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تعاون کی اس اپیل کے جواب میں کفارِ مکہ نے تعاون کی ایک عجیب راہ اختیار کی.اُن کے تعاون کا بگڑا ہوا اتصور یہ تھا کہ قدر اشتراک میں تعاون نہیں بلکہ قدر اختلاف میں تعاون ہونا چاہئے.کچھ ہم تمہارے خدا کی عبادت کرتے ہیں کچھ تم ہمارے خداؤں کی عبادت کرو.کچھ تم اپنے بیچ کو مانو کچھ ہمارے جھوٹ کو مانو اور اسی طرح ہم بھی کچھ تمہارے بیچ کو مانیں گے کچھ اپنے جھوٹ کو مانیں گے.تعاون کا یہ ایک عجیب وغریب بگڑا ہوا تصو ر تھا.ایک ہی وقت میں مکہ سے تعاون کے یہ دو اعلانات ہورہے تھے.پھر اس متضادصورت حال کا ایک عجیب منظر یہ نظر آتا ہے کہ عرب کی واضح اکثریت نے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے ماننے والوں کے دین کا نام ہم رکھیں گے کیونکہ ہم واضح عددی اکثریت رکھتے ہیں.یہ ہمارا حق ہے کہ ہم ان کے دین کا نام رکھیں اور جہاں تک علوس آنحضرت ﷺ اور آپ کے غلاموں کا تعلق ہے ان کا یہ نظریہ تھا کہ حضرت محمد مصطفی ہے اور آپ کے غلاموں کو یہ بھی حق نہیں کہ اپنے دین کا نام رکھیں.چنانچہ اس جرم میں ان کو طرح طرح کی
خطابات طاہر جلد دوم 4 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء اذیتیں دی جاتی تھیں کہ تم اپنے آپ کو مسلمان کیوں کہتے ہو اور ان کا نام صابی رکھا گیا چنانچہ ابوامامہ باصلی نے جب اسلام قبول کیا اور اپنی قوم کی طرف واپس لوٹے تو روایت آتی ہے کہ اُن کی قوم نے اُن سے کہا بلغنا انك صبوت الى هذا الرجل کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ تو صابی ہو گیا ہے.(المستدرک للحاکم جلد ۴ صفحه : ۳۶۸) با وجود اس کے کہ مسلمان اقلیت جانتی تھی کہ ہمارا مسلمانی کا دعوئی ان کو پسند نہیں پھر بھی وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے رہے.اسی طرح حضرت ثمامہ بن اثال کو رسول کریم ﷺ نے خوشخبری دی اور حکم دیا کہ وہ عمرہ کریں.جب وہ مکہ آئے تو لوگوں نے ان کو کہا صابی ہو گئے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں نہیں میں تو محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسلمان ہوا ہوں.( بخاری کتاب المغازی حدیث نمبر : ۴۰۲۴) حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ جب میرے باپ عمر مسلمان ہوئے انہوں نیکہا اے قریش ! تم میں سے کون ہے جو میری اس بات کا اعلان لوگوں میں کر دے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں.انہیں بتایا گیا کہ جمیل بن معمر میں یہ خوبی ہے کہ وہ بات سنتے ہی مشتہر کر دیتا ہے.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جمیل کے پاس تشریف لے گئیاور اس کو بتایا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں.وہ اس وقت اٹھا اور اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے چل پڑا اور مسجد حرام کے پاس پہنچ کر قریش مکہ کے اندر یہ اعلان کیا کہ اے لوگو! عمر بن الخطاب صابی ہو گیا ہے.حضرت عمرؓ جو پیچھے کھڑے تھے انہوں نے کہا یہ جھوٹ بولتا ہے میں تو مسلمان ہوا ہوں.چنانچہ وہ تمام قریش مکہ جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے معا حضرت عمر پر پل پڑے اور جس طرح جو کچھ کسی سے بن پڑا اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس جرم کی سزا دینے کی کوشش کی.(سیرت ابن ہشام) حضرت ابوذر غفاری بیان کرتے ہیں کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں پہلی مرتبہ جب مکہ آیا تو اس خوف سے کہ اگر کسی طاقتور آدمی سے میں نے پوچھا تو کہیں وہ مجھے مارنے نہ لگ جائے.میں نے اپنی طرف سے ایک کمزور آدمی کو چنا اور اس سے دریافت کیا کہ وہ شخص کہاں ہے جس کو تم صابی کہہ کر پکارتے ہو؟ ابوذر فر ماتے ہیں کہ اس نے میری طرف اشارہ کیا اور شور مچا دیا یہ صابی ہے، یہ صابی ہے.اہلِ وادی مجھ پر ٹوٹ پڑے.اینٹ، پتھر، روڑے اور ہڈیوں کے ساتھ مجھے اتنا مارا کہ میں ہوش وحواس کھو کر جس طرف سر اٹھا بھاگ پڑا.(مسلم کتاب الفضائل حدیث نمبر : ۴۵۲۰) پس یہ دو متقابل مناظر بھی ہمیں نظر آتے ہیں.جب قدریں بگڑ جاتی ہیں ، جب تصورات
خطابات طاہر جلد دوم 5 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء بدل جاتے ہیں، جب عقلوں پر پردے پڑ جاتے ہیں تو اس وقت نور نبوت کے مقابل پر کھڑے ہونے والوں کی یہ کیفیات ہو جایا کرتی ہیں.چنانچہ یہاں تک ظلم ہوا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی جا ہے اور آپ کے ماننے والوں کو کلمہ پڑھنے سے روکا گیا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا ذُكِرَ اللهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُونِةٍ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (الزمر:۴۶) کہ جب خدائے واحد کا ذکر اُن کے سامنے کیا جاتا ہے تو وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل اس پر مشتعل ہو جاتے ہیں اور وہ نفرت کرنے لگتے ہیں اور اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ خدائے واحد کا ذکر کیا جائے.حضرت زبیر بن عوام قبیلہ اسد سے تعلق رکھتے تھے اور ایک جوان مرد آدمی تھے.جب وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر ایمان لائے اور کلمہ شہادت پڑھا تو اس جرم میں ان کا ظالم چا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کے ناک میں آگ کا دھواں دیا کرتا تھا اور تو بہ کے لئے اصرار کیا کرتا تھا لیکن وہ اسی حالت میں چٹائی میں لیٹے لیٹے بے ہوش ہو جایا کرتے تھے مگر کلمہ کا انکار نہ کرتے.( تاریخ دمشق لابن عسا کر جلد ۲۰ صفحه: ۲۵۸) حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لو ہار تھے ایک غریب غلام تھے، تلواریں بنایا کرتے تھے.جب آپ نے آنحضور ﷺ کی رسالت اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کیا تو اس ”جرم“ میں ان کی مالکہ نے اُسی بھٹی سے جس کو وہ تایا کرتے تھے لوہے کی گرم گرم سلاخیں نکالیں اور ان کے جسم کو اُن سے داغا اور اسی طرح کرتی رہی لیکن راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئی.کتاب بے ہوش تو ہو جایا کرتے تھے مگر توحید باری تعالیٰ یا رسالت محمد مصطفی امیہ کا انکار نہیں کرتے تھے.(اسد الغابہ جلد اصفحہ: ۶۷۵) حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے اور ان مظلومین میں سے تھے جن پر طرح طرح کے مظالم توڑے جاتے اور مجبور کیا جاتا کہ کسی طرح توحید باری تعالیٰ کا انکار کر دیں.ابو جہل کے متعلق آتا ہے کہ وہ آپ کو منہ کے بل گرا دیتا اور تیز دھوپ میں او پر چکی رکھ دیتا تا کہ دھوپ اسے خوب گرم کرے اور کہتا محمد کے رب کا انکار کرومگر بلال نیم بیہوشی کی حالت میں بھی یہی فرمایا کرتے.احد احد، احد احد.وہ ایک ہے، وہ ایک ہے،اس کا انکار میری زبان سے ممکن نہیں اسی حالت میں آپ بسا اوقات بیہوش ہو جایا کرتے.
خطابات طاہر جلد دوم 6 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں سیرت ابن ہشام میں آتا ہے بہت سیچے مسلمان اور پاک دل انسان تھے.ابو جہل کی طرح اُمیہ بن خلف بھی آپ کو باہر لے جاتا جس وقت دو پہر کی چلچلاتی دھوپ میں ریت خوب گرم ہو جاتی تو پیٹھ کے بل آپ کو مکہ کی سنگریزہ زمین پر لٹا دیتا تھا پھر کسی کو حکم دیتا کہ بڑا سا پتھر اٹھا کے لاؤ.وہ پتھر آپ کے سینے پر رکھ دیتا.پھر آپ سے کہتا تو اسی حالت میں رہے گا یہاں تک کہ تو مر جائے یا محمد کا انکار کر دے مگر آپ اُس حال میں بھی یہی کہتے احد احد، احد احد.اس کے سوا اُن کی زبان سے اور کوئی کلمہ نہ نکلتا.(سیرت ابن ہشام صفحہ: ۲۳۵) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کلمہ توحید پڑھا تو آپ تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے.آپ نے تقریر میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی طرف لوگوں کو بلا یا.اس پر مشرکین مکہ حضرت ابو بکر پر ٹوٹ پڑے.عتبہ بن ربیعہ آپ کے نزدیک آیا اور دور نگدار جوتیوں کے ساتھ مارنے لگ گیا.وہ جوتیوں کے کناروں کی طرف سے آپ کے منہ پر مارتا تھا.پھر حضرت ابو بکر کولٹا کر ان کے پیٹ پر گو دایہاں تک کہ آپ کا منہ اور ناک پہچانا نہ جاتا تھا.بنو تمیم آئے اور وہ ان کو کپڑے میں ڈال کر گھر لے آئے.لوگوں کو آپ کی موت میں کوئی شک نہ تھا.آپ کے والد اور بنو تمیم آپ سے بات کرنے کی کوشش کرتے رہے.دن کے آخری حصہ میں جب آپ کو ہوش آیا تو آپ نے سب سے پہلی بات یہ کی کہ پوچھا رسو کر یم ﷺ کا کیا حال ہے؟ اس پر وہ سارے ہمدرد آپ کو لعن طعن کر کے چھوڑ گئے کہ اس کے دل سے تو محمد کی محبت نہیں نکلتی.(سبیل الھدی والرشاد جلد ۲ صفحہ ۳۱۹) پس دیکھئے زمانہ کی اقدار کیسی بگڑی ہیں اور کیسے دو متضاد وجود پیدا ہوئے.ایک طرف اصرار تھا کہ ہم کلمہ پڑھیں گے اور اس کے لئے ہر قربانی دیں گے اور دوسری طرف اصرار تھا کہ ہم ہر قربانی لیں گے اور تمہیں کلمہ نہیں پڑھنے دیں گے.اذان دینے سے بھی روکا گیا، اگر چہ شروع میں اذان کا طریق رائج نہیں تھا لیکن اس وقت تکبیر سے روکا جا تا تھا.جب اذان کا طریق شروع ہوا تو اس وقت ایک روایت کے مطابق عروہ بن مسعود ثقفی حضرت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اجازت چاہی کہ وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ جائیں.آنحضور ﷺ نے فرمایا میں ڈرتا ہوں کہ تمہاری قوم تمہیں قتل کر دے گی، تاہم آپ نے اجازت دے دی.آپ قوم کی طرف
خطابات طاہر جلد دوم 7 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء لوٹے رات وہاں گزاری ، صبح سحری کے وقت اُٹھے.جب فجر طلوع ہوئی تو اپنے گھر کے صحن میں کھڑے ہو کر اذان دی.اذان کی آوازسُن کر ایک بد بخت وہاں پہنچا اور پیشتر اس کے کہ آپ نماز شروع کرتے تیر چلا کر آپ کو اذان دینے کے جرم میں شہید کر دیا.عبادت سے بھی روکا گیا.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.أَرَعَيْتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صَتی (العلق :۱۱،۱۰) کہ تم اس بد بخت کو نہیں دیکھتے کہ جب میرا بندہ یعنی محمد یہ عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اس کو روکتا ہے.روایت آتی ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب حضرت اقدس محمد نے سجدہ کی حالت میں تھے اور ابوجہل نے آپ کی پیٹھ پراونٹنی کی بچہ دانی پھینک دی تھی اسی حالت میں آپ جب سرنگوں تھے تو آپ پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم نے سجدہ ریز تھے اور آپ کے گرد قریش بیٹھے ہوئے تھے.عقبہ بن ابی معیط ذبح کردہ اونٹنی کی بچہ دانی لایا اور حضور کی پیٹھ پر پھینک دی.حضور اس بوجھ سے اپنا سر نہ اُٹھا سکتے تھے اس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تشریف لائیں اور آپ کی پیٹھ پر سے اس بچہ دانی کو ہٹایا.حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ عبداللہ بن عمرو بن عاص سے صلى الله کہا! مجھے ان سختیوں کے بارہ میں کچھ بتاؤ جو آغاز اسلام میں کفار مکہ نے آنحضور ﷺ پر روا رکھیں.انہوں نے بتایا کہ ایک دن حضور اکرم یہ کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن معیط آ گیا.آتے ہی آپ کے کندھے مبارک کو پکڑا اور آپ کی گردن میں کپڑاڈالا اور اس شدت سے گل گھونٹا کہ گویا دم ہی نکل جائے گا.اس وقت حضرت ابو بکر آگے بڑھے اور عقبہ کے کندھے کو پکڑا اور کہا ا تَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللهُ وَقَدْ جَاءَ كُمْ بِالْبَيِّنَتِ (المومن : ۲۹) کہ اے ظالم ! کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو صرف یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور اپنی صداقت کے کھلے کھلے نشان لے کر آیا ہے.مساجد سے بھی آپ کو روکا گیا اور آپ کے غلاموں کو بھی روکا گیا.مساجد کی تعمیر کھلی جگہوں پر کرنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا اپنے گھروں میں بھی لوگ مساجد تعمیر کرنے سے روکے جاتے تھے.یہاں تک کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک شخص کی پناہ
خطابات طاہر جلد دوم 8 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء ملی تو یہ اجازت ہوئی کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنائیں.چنانچہ قرآن کریم ان لوگوں کے اس رویہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسْجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَبِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَابِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِرى وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (البقرة: ۱۱۵) یعنی اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے جس نے اللہ کی مساجد سے لوگوں کو روکا کہ ان میں اس کا نام لیا جائے اور ان کی ویرانی کے در پے ہو گیا.ان لوگوں کے لئے یہ جائز نہ تھا کہ اس بارہ میں دخل اندازی کرتے مگر ان کو تو یہ چاہئے تھا کہ خدا سے ڈرتے ڈرتے ایسے معاملات میں قدم رکھتے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ابتدائی ایام میں تکبیر تک کہنے کی اجازت نہیں تھی لیکن جب مسلمانوں کی تعداد کچھ بڑھی اور تمہیں تک پہنچ گئی تو پہلی مرتبہ ہم نبوی میں حضرت ارقم نے اپنا گھر پیش کیا جس میں آنحضور ﷺے اور آپ کے غلام اکٹھے ہو کر خفیہ خفیہ نمازیں پڑھا کرتے تھے.جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں حضرت ابو بکر کو یہ اجازت مل گئی تھی کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنائیں لیکن وہاں بھی جب آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھتے تو لوگوں کی دل آزاری ہوتی.چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو بکر گھر میں ہی اپنے رب کی عبادت کرنے لگے.وہ اپنے گھر کے سوا نہ نماز اعلانیہ پڑھتے تھے اور نہ تلاوت کرتے تھے.پھر انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک چھوٹی سی مسجد بنائی مشرکین کی عورتیں اور ان کے بچے وہاں جمع ہو جاتے اور یہ نظارہ دیکھتے کہ آپ تلاوت کرتے ہیں تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.اس بات کا اُن کے دل پر بڑا گہرا اثر پڑتا چنانچہ قریش نے گھبراہٹ میں ابن دغنہ کو بلا بھیجا جس نے آپ کو پناہ دی تھی اور صحن خانہ میں مسجد بنانے کی اجازت دی تھی.اس نے بڑی سختی سے حضرت ابوبکر کومسجد اور نماز کے بارہ میں روکا.کفار کے جذبات ، دل آزاری کے خیالی تصورات کو قبول کرنے کی طرف یہاں تک مائل تھے کہ حیرت ہوتی ہے کہ وہ باتیں جن سے دلوں کو خوش ہو جانا چاہئے اور سینے کھل جانے چاہئیں ان سے بھی ان کی دل آزاری ہوتی تھی.چنانچہ قرآن کریم کی تلاوت سے وہ سخت دل آزاری محسوس کرتے تھے.قرآن کریم ان کے اس رجحان کو یوں بیان کرتا ہے.
خطابات طاہر جلد دوم 9 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ أَيْتُنَا بَيِّنَتِ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنْكَرَ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِيْنَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ أَيْتِنَا ( ج ۷۳) اور جب ان کے سامنے ہماری کھلی کھلی آیات پڑھی جاتی ہیں تو منکروں کے چہروں پر شدید نا پسندیدگی کے آثار نظر آتے ہیں.تو دیکھتا ہے کہ ناپسندیدگی سے ان کے چہرے بگڑ رہے ہیں.قریب ہے کہ وہ ان لوگوں پرٹوٹ پڑیں جو ان کے سامنے ہماری آیات کی تلاوت کرتے ہیں.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے سب سے پہلے مکہ کی گلیوں میں تلاوت کے لئے مجھے منتخب فرمایا.وہ کہتے ہیں ایک دن صحابہ حضور اکرم ﷺ کے گرد بیٹھے ہوئے تھے کسی نے کہا خدا کی قسم ! قریش نے اس قرآن کو بلند آواز سے پڑھا ہوا کبھی نہیں سنا.کون ہے جو آج ان کو بلند آواز سے قرآن سُنا سکے.اس پر کسی نے کہا کہ ہمیں ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنا چاہئے جس کی کچھ ضمانت ہو.جس کا خاندان بڑا ہو اور وہ اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہو حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں میں نے کہا مجھے چھوڑو میں جا کر یہ فریضہ ادا کرتا ہوں.چنانچہ آپ گئے اور مقام ابراہیم کے پاس ضحی کے وقت پہنچے.قریش اپنی اپنی مجالس میں تھے آپ نے بلند آواز سے قرآن کریم پڑھنا شروع کیا.مشرکین متوجہ ہوئے اور کہنے لگے ام عبداللہ کے پوتے کی یہ جرات ! پھر کہا یہ کچھ حصہ اس وحی کا پڑھ رہا ہے جو محمد گایا ہے چنانچہ مشرکین آپ کو مارنے لگ گئے اور خاص طور پر منہ اور ہونٹوں پر مارتے تھے.یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے اتنادُ کھ پہنچا جتنا اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں رکھا ہوا تھا.پھر وہ اپنے ساتھیوں میں واپس لوٹ آئے.سارا چہرہ زخموں سے بھرا ہوا تھا.صحابہ نے کہا ہم کہتے نہیں تھے ہم تیرے بارہ میں ڈرتے ہیں.انہوں نے کہا اللہ کے دشمن کبھی بھی میرے نزدیک آج سے زیادہ ذلیل نہیں ٹھہرے.تم اگر چاہو تو کل بھی میں ایسا ہی کروں گا.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسی قسم کی دل آزاری کا ایک اور واقعہ بیان کرتی ہیں کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے محسن خانہ میں مسجد بنائی تو جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں لوگوں کی دل آزاری ہونے لگی اور وہ شکوہ کرتے ہوئے ابن دغنہ کے پاس پہنچے تو ابن دغنہ حضرت ابو بکر کے پاس آئے.انہوں نے جو باتیں کیں حضرت عائشہ نے ان کو تفصیل سے بیان کیا ہے.فرماتی ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 10 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء ابن دغنہ نے آتے ہی کہا کہ ابو بکر ! میں نے تمہیں اس لئے تو پناہ نہ دی تھی کہ تو میری قوم کو دُکھ پہنچائے.تو اتنادُ کھ پہنچا رہا ہے کہ اپنے صحن خانہ میں مسجد بنالی ہے اور تلاوت کرتا ہے.حضرت ابو بکر نے جواب میں اس سے کہا کہ میں تو اپنے رب کو یاد کرتا ہوں ، تلاوت کرتا ہوں میں تو کسی کو دُکھ نہیں دیتا.ہاں اگر تو یہ چاہتا ہے کہ میں تیری پناہ تجھ کو لوٹا دوں تو میں اس کام سے باز نہیں آؤں گا.ہاں تیری پناہ تجھ کو لوٹا دوں گا.اس پر ابن دغنہ نے کہا کہ ہاں میری پناہ مجھ کو واپس کر دے.تب ابو بکر نے کہا میں تیری پناہ تجھ کو واپس کرتا ہوں.صلى الله ایک طرف یہ کیفیت تھی.دوسری طرف حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا رد عمل ان لوگوں کے حق میں کیا تھا.آپ کا اتنا بڑا حوصلہ تھا، ایسا وسیع دل تھا، ایسی ہمدردی کا جذ بہ آپ کے دل میں پایا جاتا تھا کہ دنیا میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی.دنیا کے تمام معاملات اور اخلاق میں عام لوگوں سے تو در کنارا اپنے شدید دشمنوں کے ساتھ بھی رواداری کا سلوک فرمایا کرتے تھے.چنانچہ ایک موقع پر ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آنحضور یہ احتراماً کھڑے ہو گئے.صحابہ نے سمجھا کہ شاید آپ کو معلوم نہیں کہ یہ کس کا جنازہ ہے.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا.آپ نے فرمایا ہاں مجھے پتا ہے یہودی کا جنازہ ہے لیکن یہ رواداری کا تقاضا اور اخلاقی فرض ہے اس کے بغیر انسانیت کی قدریں مکمل نہیں ہوتیں.اس لئے آنحضور یہ اس علم کے باوجود یہودی کا جنازہ آنے پر احتراماً کھڑے ہو گئے.پھر آپ کے جذ بہ رواداری کا یہ حال تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق آپ نے اپنی قوم کو ہدایت دی کہ ٹھیک ہے میں افضل الانبیاء ہوں.میں خاتم النبین ہوں لیکن جب تم مجھے موسیٰ سے افضل کہتے ہو تو بعض لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے اس لئے میرے اس حق کے باوجود لَا تُخَيَّرُونِى عَلى موسى ( بخاری کتاب الانبیاء باب وفات موسیٰ علیہ السلام ) مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دیا کرو.مراد یہ تھی کہ یہود کے سامنے بلا وجہ اس ذکر کی ضرورت نہیں پھر حضرت یونس بن متی ایک عام نبی ہیں نبیوں میں ان کا کوئی بہت بڑا مقام نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برابری کریں لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں کے دل میں حضرت یونس بن متی کی بڑی قدرتھی اور بڑی محبت پائی جاتی تھی.چنانچہ ان کے متعلق آنحضور ﷺ نے فرمایا.مجھے یونس بن متی پر فضیلت نہ دیا کرو.
خطابات طاہر جلد دوم 11 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء جہاں تک آنحضور ﷺ کی مسجد کا تعلق تھا ایک طرف تو لوگ مسلمانوں کی مسجدیں ویران کر رہے تھے.اُن کو اپنی مسجدوں میں بھی نماز نہیں پڑھنے دیتے تھے لیکن آپ کا اُسوہ حسنہ یہ تھا کہ دس ہجری میں جب نجران کے عیسائیوں کا وفد حاضر ہوا جو ساٹھ سواروں کے قافلہ پر مشتمل تھا.وہ لوگ عصر کے وقت مسجد نبوی میں پہنچے اُس وقت اُن کی نماز کا وقت تھا.حضرت نبی کریم اللہ نے ان کو عیسائی طریق پر نماز پڑھنے کی مسجد نبوی کے صحن میں اجازت دے دی.چنانچہ انہوں نے اپنے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی.بعض مسلمانوں نے ان کو مسجد نبوی کے صحن میں عبادت کرنے سے روکنا چاہا تو آنحضور ﷺ نے ان کو منع فرمایا.اس طرح طائف بنو ثقیف کا ایک وفد آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ مشرک لوگ تھے.آپ نے اُن کو مسجد نبوی کے صحن میں خیمہ زن ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی.اس پر بعض صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ارشاد الہی میں نہیں آتا کہ اِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ (التوبه: ۲۸) کہ مشرکین تو نجس لوگ ہیں.آپ کی مسجد اور مشرکین یہاں آ کر خیمے لگائیں.یہ تو مسجد کو نا پاک کر صلى الله دیں گے.آنحضور ﷺ نے بہت پیارا جواب دیا.آپ نے فرمایا شرک کی نجاست خدا کی زمین کو ناپاک نہیں کیا کرتی وہ اپنے ہی وجود کو نا پاک کیا کرتی ہے.(احکام القران جلد ۳ صفحہ ۱۶) حج سے بھی مسلمانوں کو روکا گیا.چنانچہ قرآن کریم میں اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَهُ لِلنَّاسِ سَوَاءَ الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ وَمَنْ يُرِدْ فِيْهِ بِالْعَادِ بِظُلْمِ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (امج :٢٢) کیا ہو گیا ہے ان لوگوں کو.یہ بیت الحرام سے روکنے لگے ہیں جو تمام بنی نوع انسان کے درمیان ہم نے برابر بنایا ہے لیکن اس کے باوجود اگر الحا داور ظلم کی راہ سے یہ روکیں گے تو ہم ان کو متنبہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو عذاب الیم یعنی درد ناک عذاب دیا جائے گا.پھر فرماتا ہے:
خطابات طاہر جلد دوم 12 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ إِنَّ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ) (الانفال: ۳۵) ان کو کیا ہوگیا ہے.یہ اس غلط انہی میں مبتلا ہیں کہ باوجود اس کے کہ مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ سے لوگوں کو روک رہے ہیں پھر بھی اللہ ان کو عذاب نہیں دے گا.حالانکہ وہ درحقیقت اس کے متولی نہیں.خدا کے نزدیک اس کے متولی صرف وہی ہیں جو متقی ہیں لیکن افسوس کہ اکثر لوگ ان باتوں کو نہیں جانتے.یہاں تک نظریات میں اختلاف ہوا کہ دوسروں کے گھروں کو بھی اپنے گھر بنا کر رہنے کی اجازت نہ دی گئی.یعنی عددی اکثریت کا عجیب قسم کا دعویٰ تھا کہ نہ تمہیں اپنے مذہب کا نام رکھنے کی اجازت ہے.نہ تمہیں اپنے خدا کی عبادت کا حق ہے نہ تمہیں اپنی عبادت گاہیں بنانے کی اجازت ہے اور جو تم نے اپنے گھر تعمیر کئے ہیں وہ بھی تمہارے نہیں ہیں.اُن پر بھی ہمارا حق ہے تمہاراحق نہیں.چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَوْذُوْا فِي سَبِيلِى وَقْتَلُوا وَقُتِلُوْا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيَاتِهِمْ وَ لَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللهِ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ (آل عمران : ۱۹۲) که محمد مصطفی میں ہے اور آپ کے ساتھی وہ لوگ ہیں جن کو خدا کی خاطر ہجرت اختیار کرنی پڑی اور ان کو اپنے گھروں سے نکال دیا گیا.عبدالله ذو البجادين.یتیم تھے ، اپنے چچا کے ہاں پلے وہ ان پر احسان کرتا رہا لیکن جب اس کو یہ خبر ملی کہ عبداللہ نے حضرت محمد مصطفی اللہ کے دین کی اتباع کر لی ہے تو اس حالت میں اُن کو گھر سے نکال دیا کہ ان کے تن بدن پر کپڑے بھی نہ تھے.وہ اپنی ماں کے پاس آئے اور اس سے ایک چادر مانگی اور اس کے دوٹکڑے کئے.ایک تہ بند بنایا اور ایک او پر قمیض کے طور پر اوڑھنے کے لئے لے لیا اور یہی اُن کی جائیداد تھی جسے لے کر وہ خوش و خرم حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر
خطابات طاہر جلد دوم 13 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء ہونے کے لئے چلے گئے.(اسد الغابہ جلد ۳ صفحہ: ۱۲۳_۱۲۲) جب ابن دغنہ نے حضرت ابو بکڑ سے پناہ واپس لے لی اور ان کے لئے کوئی چارہ کار نہ رہا.ان کو اتنے دکھ دیئے گئے کہ وہ وہاں رہ نہیں سکتے تھے اس وقت حضرت ابو بکر کہیں جارہے تھے تو ابن دغنہ کی نظر ان پر پڑی.معلوم ہوتا ہے پرانے تعلقات تھے جذ بہ رحم لوٹ آیا.اس نے کہا ابو بکر تم کہاں چلے ہو؟ آپ نے فرمایا میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے.انہوں نے مجھے تکلیف اور دُکھ دینے میں انتہا کر دی ہے.( بخاری کتاب الحوالات حدیث نمبر ۲۱۳۴۰) حضرت عبید اللہ بن جحش مشرکین مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت عطا فرمائی.چنانچہ یہ مہاجرین کا پہلا قافلہ تھا جو اپنے گھروں سے نکالا گیا.(الاستعباب فی معرفۃ الاصحاب جلد ۳ صفحہ: ۱۴) حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ جب فتح مکہ کے روز آنحضور بڑی شان و شوکت کے ساتھ مکہ میں واپس لوٹے تو کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ اپنے گھر میں قیام فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا عقیل نے (یہ آپ کے چچا زاد بھائی تھے ) میرے لئے کون سا گھر چھوڑا ہے؟ ( بخاری کتاب الحج حدیث نمبر : ۱۳۸۵) یعنی میری ہجرت کے بعد میرے رشتہ داروں نے میری ساری جائیداد بیچ باچ کر کھالی ہے.اب مکہ میں میرے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں.صلى الله پھر یہ معاملہ یہاں تک آگے بڑھا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ماننے والوں کو اپنی منکوحہ بیویاں رکھنے کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا.اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھنے کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا اور زبردستی طلاقیں دلوائی گئیں.وہ کہتے تھے چونکہ تم لوگ صابی ہو گئے ہو نعوذباللہ من ذالک اس لئے تمہارا اب اپنی بیویوں پر کوئی حق نہیں رہا.یعنی نہ مکانوں پر حق رہا، نہ اپنی بیویوں پر حق رہا، نہ تجارتوں پر حق رہا، نہ اپنی ذات پر حق رہا.یہ حق بھی نہیں کہ ہم اپنے آپ کو کیا کہیں.یہاں تک حد کر دی کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اپنا ذاتی نام رکھنے کے حق سے بھی محروم کر دیا اور کہا گیا تم اپنے آپ کو محمد کہتے ہو.یہ تو بڑا پیارا نام ہے یہ تو بڑا اچھا نام ہے.تمہیں کیا حق ہے کہ تم ایسا نام رکھو.ہم تمہارا نام رکھیں گے اور مذمم “ نام رکھا.نعوذ باللہ من ذالک.( بخاری کتاب المناقب حدیث نمبر : ۳۲۶۸) پس جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جب حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ بیویوں کو خاوندوں سے
خطابات طاہر جلد دوم 14 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء الگ کر دیا گیا تو حضرت اُم سلمہ کہتی ہیں کہ جب ابوسلمہ نے مدینہ جانے کا فیصلہ کر لیا تو انہوں نے اپنے اونٹ کو خوب کھلا پلا کر موٹا کیا اور مجھے اس پر سوار کیا، ساتھ ہی میرے بیٹے سلمہ کو سوار کیا.پھر ہم اونٹ لے کر چل پڑے.جب بنو عبد اللہ بن عمر بن مخزوم نے دیکھا تو ہماری طرف لپکے اور ابوسلمہ سے کہا تیری ذات تو ہم سے جدا ہو سکتی ہے لیکن ہماری ساتھن کو کہاں لے کر جارہا ہے.یہ کہہ کر انہوں نے اونٹ کی نکیل ان کے ہاتھ سے چھین لی اور مجھے پکڑ لیا اور مجھے میرے خاوند سے الگ کر دیا اور اس کو اکیلے ہجرت کی اجازت دی.اس پر بنی عبد الاسد غصہ میں آگئے اور وہ سلمہ کی طرف آتے ہوئے یہ کہنے لگے کہ خدا کی قسم ! ہم اپنے بیٹے اس عورت کے پاس نہیں رہنے دیں گے.یعنی بیوی کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ خاوند کے ساتھ جا سکے اور بیٹیوں کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ ماں کے پاس رہ سکیں.یہ تمام حقوق تلف ہو چکے تھے.چنانچہ وہ کہتی ہیں میرا بیٹا بھی مجھ سے چھین لیا گیا.میرا حال اس وقت یہ تھا کہ میں ہر صبح کو باہر نکل جایا کرتی اور ویرانوں میں بیٹھ کر سارا دن روتی رہتی یہاں تک کہ شام ہو جاتی.اسی حالت میں سال یا سال کے قریب عرصہ گزر گیا.آخر بنو مغیرہ میں سے میرے چچا زاد بھائیوں میں سے ایک شخص کو مجھ پر ترس آگیا اور اُس نے مجھے اجازت دے دی کہ میں اپنے خاوند کے پاس چلی جاؤں (سیرت ابن ہشام صفحہ ۳۳۳) پس بگڑی ہوئی قدروں کا یہ بھی حال تھا کہ بیویاں رکھنے کے حق سے خاوند محروم ہو گئے اور بچے رکھنے کے حق سے مائیں محروم ہو گئیں اور مائیں رکھنے کے حق سے بچے محروم کر دئیے گئے.حضرت رقیہ بنت حضرت رسول اللہ اللہ کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا.قریش مکتبہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ تم رقیہ بنت محمدیہ کوطلاق دے دو.ابوجہل نے کہا میری راتوں کی نیند حرام ہوگئی ہے جب تک تم اس لڑکی کو طلاق نہیں دے دیتے اس وقت تک مجھے چین نہیں آئے گا.چنانچہ مکتبہ اس دباؤ کے نیچے آ کر حضرت رقیہ کو طلاق دینے پر راضی ہو گیا.(سیرت ابن ہشام صفحہ ۴۴۴۰) پھر جب یہ سب چیزیں حضرت محمد مصطفی حملے اور آپ کے غلاموں کو دین اسلام سے ہٹا نہ سکیں اور وہ استقامت کے بہترین نمونے دکھاتے رہے تب کفار مکہ نے یہ سوچا کہ مسلمانوں کو الگ کر کے ایک وادی میں قید کر دیا جائے.ان کا اس طرح سوشل بائیکاٹ کیا جائے کہ ان کے لئے خود زندہ رہنا ناممکن ہو جائے.چنانچہ اس واقعہ کا ذکر مختلف تاریخوں میں بڑی تفصیل سے ملتا ہے کہ کس
خطابات طاہر جلد دوم 15 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء طرح مشکل حالات میں صحابہ نے شعب ابی طالب میں شدید بھوک اور پیاس کی اذیتیں برداشت کرتے ہوئے وقت گزارا ہے.اس کی کیفیت کو اس تھوڑے سے وقت میں بیان کرنا ممکن نہیں.مختصراً میں صرف یہ بیان کرتا ہوں کہ صحابہ کہتے ہیں اُس وقت ہماری یہ حالت تھی کہ کئی کئی وقت فاقے کر کے ہوش نہیں رہتی تھی کہ کیا چیز کھانے کے قابل ہے اور کیا چیز کھانے کے قابل نہیں.چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص روایت کرتے ہیں کہ بھوک سے میرا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ رات کو میں چار ہا تھا تو میرے پاؤں کے نیچے کوئی نرم سی چیز آئی.اب میں نہیں جانتا کہ وہ کیڑا تھا یا کوئی اور چیز تھی.اس وقت بھوک کا یہ عالم تھا کہ میں نے یہی سوچا کہ کھجور ہوگی.چنانچہ اُٹھا کر میں نے اس طرح گلے میں ڈالی کہ میرے منہ کو مس نہ کر سکے اور مجھے پتہ نہ لگ سکے کہ کیا چیز ہے.وہ گلے میں گری اور اندر چلی گئی.وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے آج تک پتا نہیں کہ میں کیا کھا گیا تھا.پس یہ کیفیت تھی ان مظالم کی جس کی داستان جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تین سال پر پھیلی ہوئی ہے.ان کی حالت یہ تھی کر وہ شدید تکلیف میں باہر نکل کر بعض دفعہ پانی طلب کرنے پر مجبور ہو جایا کرتے تھے.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو امامہ باہلی نے جب اسلام قبول کیا اور وہ اپنی قوم کے پاس آئے اور ان کو تبلیغ کی تو انہوں نے اس کا انکار کر دیا.اس موقع پر انہیں سخت پیاس لگی انہوں نے پانی طلب کیا تو ان کی قوم نے جواب دیا پانی سے تمہارا کیا تعلق.پانی تو خدا کا پانی ہے تم پر حرام ہے.ہم ہیں خدا کے بندے تمہارا کیا تعلق خدا سے ہم تمہیں پانی نہیں دیں گے.خواہ تو پیاسا مر جائے.(المستدرک للی کم جلد ۲ صفحہ ۶۴۲) غرض ان تمام مظالم کی داستان بہت طویل ہے.اس عرصہ میں آنحضرت صلی ہے کا رد عمل کیا تھا اس کو ظاہر کرنے کے لئے میں نے ایک مختصر واقعہ کا انتخاب کیا ہے جس کو ابھی میں آپ کے سامنے پیش کرنے لگا ہوں.مظالم کی داستان بہت طویل ہے.اس کے جواب میں آنحضرت ہے کے دل کی کیا کیفیت تھی ہمارے لئے سب سے زیادہ قیمتی چیز یہی ہے.اسی پر ہمیں نظر رکھنی چاہئے یہی ہمارا مقصود متبوع ہے.آنحضور کے دل کی کیفیت، مظلومیت کے دور میں یہ تھی کہ ایک دفعہ حضرت خباب بن آرت آنحضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مسلمانوں کو قریش
خطابات طاہر جلد دوم 16 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء مکہ کے ہاتھوں اتنی تکالیف پہنچی ہیں.اتنی تکالیف پہنچ رہی ہیں کہ اب تو حد ہوگئی ہے.یا رسول الله ؟ آپ ان پر بددعا کیوں نہیں کرتے.آپ نے جب یہ سُنا اس وقت آپ لیٹے ہوئے تھے جوش سے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ غصہ سے تمتمانے لگا.آپ نے فرمایا دیکھو! تم سے پہلے وہ لوگ بھی گزرے ہیں جن کا گوشت لوہے کے کانٹوں سے نوچ کر ہڈیوں تک صاف کر دیا گیا اور ایسے بھی تھے جن کے جسم آروں سے چیر دیئے گئے لیکن انہوں نے اُف نہ کی.دیکھو! خدا اس کام کو ضرور پورا کرے گا جو کام اس نے میرے سپر د کیا ہے.(بخاری کتاب المناقب باب مالقی النبی ) یہ تھا حضرت محمد مصطفی امیہ کا رد عمل.یہی تربیت تھی جو آپ نے اپنے غلاموں کو دی اور یہی رد عمل تھا جو حضرت محمد مصطفی اللہ کے غلاموں سے ظاہر ہوتا رہا.چنانچہ حضرت خبیب بن عدی کے متعلق حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ جب جان دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور تلوار اُن پر گر کران کا سرتن سے جدا کرنے کو تھی تو کوئی گھبراہٹ نہیں تھی کوئی واویلا نہیں تھا ہاں دو شعر ان کی زبان پر جاری ہوئے اور ہمیشہ کے لئے ان کی یاد کو بھی زندہ جاوید کر گئے.انہوں نے قتل ہونے سے پہلے یہ شعر پڑھے.مَابَالَى حِينَ أَقْتَلُ مُسْلِمًا عَلى أَيِّ شِقٍ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِى وَ ذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِ لَهِ وَ اِنْ يَّشَا يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شَلْوِ مُمَزَّعٍ ( بخاری کتاب الجہا دالسید حدیث نمبر : ۲۸۱۸) کہ اے کفار ! میں تو اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ میں جب قتل کیا جاؤں گا تو کس پہلو پر گروں گا.یعنی میری موت چونکہ خدا کی خاطر ہے اس لئے مجھے تو اتنی بھی پرواہ نہیں ہے کہ جب میرا سرتن سے جُدا ہوگا تو میں کس کروٹ پر کروں گا.خدا کی قسم یہ سب کچھ خدا کی خاطر ہو رہا ہے اور اگر وہ چاہے تو میرے جسم کے ذرہ ذرہ کو برکتوں سے بھر دے.یہ تھا حضرت محمد مصطفی امیہ کے غلاموں کا رد عمل اور یہی ان کو تعلیم دی گئی تھی.پس آج آغاز اسلام کی باتیں کرتے ہوئے ہمیں درود بھیجنا چاہئے اس محسن اعظم پر جس
خطابات طاہر جلد دوم 17 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۲ء b کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ کس شان کا وہ رسول تھا اور کس شان کے وہ غلام تھے جو آپ کے ساتھ تھے.ان کی کیسی اعلیٰ تربیت کی گئی اور انہوں نے تربیت کا کیسا پیارا رنگ پکڑا.پس آؤ آج کی دعاؤں میں خصوصیت کے ساتھ ہم درود بھیجیں محسن اعظم محمد رسول اللہ نے پر اور سلام بھیجیں روح بلالی پر اور سلام بھیجیں رُوح خباب پر اور سلام بھیجیں روح خبیب پر.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا ادھر سے اُدھر ہو جائے زمین و آسمان ٹل جائیں مگر یہ تقدیر نہیں بدل سکتی کہ ہمیشہ ہر حال میں نار بولبھی یقیناً شکست کھائے گی اور نور مصطفوی یقینا کامیاب ہوگا.کوئی نہیں جو بلالی احد کی آواز کو مٹا سکے.کوئی پتھر کوئی پہاڑ نہیں جو سینوں پر پڑ کر لا الہ کی آواز کو دبا سکے.کوئی دُکھ اور کوئی غم نہیں، کوئی صدمہ نہیں جو حمد مصطفی ﷺ کی صداقت کی شہادت سے کسی کو باز رکھ سکے.یہ امر یقینا ہمیشہ ہمیش کے لئے زندہ اور قائم رہے گا.محمد مصطفی ﷺ وَالَّذِينَ مَعَةً غالب آنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں مغلوب ہونے کے لئے نہیں بنائے گئے.
خطابات طاہر جلد دوم 19 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۳ء نفرتوں کی آگ جتنی چا ہو بھڑ کا وہمارے صبر کو تمہاری آگ جلا نہیں سکے گی.افتتاحی خطاب جلسه سالا نه فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِة الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابٌ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَهُمْ جَنَّتُ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ : ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدَة إِنَّهُ هُوَ يُبْدِي وَيُعِيدَةً وَهُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُودَة ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيْدُهُ فَقَالَ لِمَا يُرِيدُ (البروج ۹ تا ۱۷) پھر فرمایا:.یہ دور جس میں سے ہم گزر رہے ہیں اس دور کا انسان بڑا ہی بد قسمت ہے بعض لحاظ سے اور بعض لحاظ سے خوش نصیب بھی ہے.خوش نصیب تو اس لحاظ سے کہ یہ وہ دور ہے جس میں داعی الی اللہ پیدا ہوا.وہ موعود آیا جس موعود کی حضرت محمد مصطفی امیہ نے خبر دی تھی.وہ آیا تا کہ زمانہ کو ہلاکتوں سے بچائے وہ آیا تا کہ ان انسانوں کو جو اپنے رب کی طرف پیٹھ دکھا کر دور جا رہے تھے واپس
خطابات طاہر جلد دوم 20 20 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۳ء اپنے رب کی طرف بلائے.بڑا ہی خوش نصیب دور ہے جب ہم اس پہلو سے اس دور کا جائزہ لیتے ہیں کہ ایک منادی الی اللہ پیدا ہو لیکن ایک اور پہلو سے جب ہم اس دور کا جائزہ لیتے ہیں تو بہت ہی تکلیف دہ حالات سامنے آتے ہیں.بہت کم ہیں وہ لوگ جن کو ابھی تک توفیق ملی ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے مصلح ، داعی الی اللہ اور نجات دہندہ کو پہچان سکیں اور باقی دنیا کا اس انکار کے نتیجہ میں جو حال ہے وہ اتنا تکلیف دہ ہے اور روز بروز اس انکار کے نتیجہ میں خطرات اتنے بڑھتے چلے جارہے ہیں کہ بعید نہیں کہ انسان خود دوسرے انسان کی ہلاکت کا سامان کرے اور ساری دنیا کو ایک عالمی جنگ کی لپیٹ میں لے آئے جس کے بعد خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کس حال میں بچے کھچے انسان باقی رہیں گے.آج یہ دنیا نفرتوں کی شکار ہے.شمال جنوب سے نفرت کر رہا ہے اور جنوب شمال سے.مغرب کو مشرق سے نفرت ہے اور مشرق کو مغرب سے اور پھر اپنے اپنے دائرہ میں یہ مزید نفرتوں میں بٹے ہوئے ہیں.مغرب کی تقسیمیں بھی نفرت کی بنا پر ہیں اور مشرق کی تقسیمیں بھی نفرت کی بنا پر ہیں.قومیں قوموں سے نفرت کر رہی ہیں اور ملک ملکوں سے اور ایسے ملک بھی ہیں جن میں ایک ہی ملک کے باشندے دوسرے ملک کے باشندوں سے نفرت کر رہے ہیں.ان سب نفرتوں کے نتیجہ میں دنیا امن کی راہ تو نہیں دیکھ سکتی.حقیقت یہ ہے کہ جنگ کی آگ دراصل پہلے سینوں میں بھڑ کا کرتی ہے.جب سینے جلتے ہیں تو وہی آگ ہے جو مختلف شکلیں اختیار کرتے ہی دوسرے انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے.کبھی وہ زمین سے اٹھتی ہے کبھی آسمان سے برستی ہے.نہ سمندر اس کی زد سے محفوظ رہتے ہیں نہ خشکمیاں، نہ کوہ نہ گاہ ، ہر جگہ یہ آگ لیکتی ہے جو پہلے سینوں میں تیار ہوتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے جہاں آخری زمانہ کی تباہی کا نقشہ کھینچا وہاں سینوں ہی کو ذمہ دار قرار دیا اس آگ کا جو آخری زمانہ میں انسان کو ہلاک کرنے کے لئے خود انسان اپنے ہاتھوں تیار کرے گا.فرمایا تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْدَةِ (الحمر :۸) یہ ایسی آگ ہے جو پھر دلوں پر واپس جھپٹے گی جن دلوں میں وہ پیدا ہوئی تھی جن دلوں میں سے باہر آ کر اس نے خوفناک شکلیں اختیار کی تھیں.پھر وہ واپس لیکے گی اور انہی دلوں کو جلا کر رکھ دے گی جن دلوں سے یہ پیدا ہوئی تھی.غرض اس نفرت کے نتیجہ میں اتنے شدید خطرناک حالات ہیں کہ امن کے جتنے سانس بھی نصیب ہوں یہی غنیمت ہیں اور بظاہر اس خوفناک انجام سے بچنے کی کوئی اور صورت نظر نہیں آ رہی جو اس وقت انسان کو در پیش ہے.ایک ہی صورت تھی اور
خطابات طاہر جلد دوم 21 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۳ء وہ صورت وہی تھی جس کا میں نے ذکر کیا کہ منادی للايمان پر ایمان لایا جائے.اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو بچانے کے جو سامان عطا فرمائے ہیں انہیں قبول کیا جائے ہم اپنے رب کی طرف واپس لوٹ آئیں اس کے سوا اب بچنے کی اور کوئی صورت نہیں لیکن عجیب بات ہے کہ دعوت الی اللہ کو بھی نفرت کے مارے ہوئے انسان نے مزید نفرت کی وجہ بنالیا محض اس لئے کہ کچھ لوگ اپنے رب کی طرف بلا رہے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ایک مصلح کو ، ایک نجات دہندہ کو بھیجا محض اس وجہ سے اُن سے نفرت کی جاتی ہے.چنانچہ قرآن کریم اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِة الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شهيدة کہ عجیب حال ہے انسان کا کہ بعض لوگوں سے محض اس لئے بھی نفرت کر رہا ہے کہ وہ اپنے رب پر ایمان لے آئے انہوں نے کوئی وجہ نفرت پیدا نہ کی ، انہوں نے کسی کے گھر لوٹے نہ کسی کو زندہ آگ میں جلایا، نہ کسی پر وہ نا واجب حملہ آور ہوئے اور نہ کسی کو گالیاں دیں، نہ یہ تعلیم دی کہ ان کے گھر لوٹو کہ یہ باعث ثواب ہو گا، نہ یہ کہا کہ فلاں کو قتل کرو تو تم جنت میں جاؤ گے.وہ تو خالصہ اللہ کی خاطر اس کے نام پر اس کی طرف بلانے والے تھے اس کے سوا کوئی وجہ نہیں ان سے نفرت کرنے کی لیکن جب انسان نفرتوں کا شکار ہو چکا ہوتا ہے تو پھر اُسے یہ بات بھی قبول نہیں ہوتی کہ کوئی ہمیں نجات کی طرف بھی بلائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ وہ رب ہے جس کی خاطر ان سے نفرت کی جارہی ہے لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وہ تو زمین و آسمان کا مالک خدا ہے اس کی بادشاہت صرف آسمان پر نہیں بلکہ زمین پر بھی ہے اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس خدا کے بندوں سے نفرت کر کے انہیں کوئی قوم ہلاک کر سکے.پس آج دنیا میں جتنی بھی نفرتیں ہیں ان کے خلاف امن کو کوئی ضمانت نہیں ہاں ایک نفرت ہے جس کے خلاف امن کی ضمانت ہے جس کے متعلق حتمی طور پر قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور وہ وہ نفرت ہے جو محض اللہ کی خاطر بعض قو میں قبول کیا کرتی ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 22 22 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۳ء دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے جو ان قوموں کو مٹادے گی جو محض اللہ کی رضا کی خاطر دنیا کو خدا کی طرف بُلانے والی ہوتی ہیں.انہی لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم ایک اور جگہ فرماتا ہے: أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (پاس:۶۳) کہ سُنو! خدا کے بندے جو خدا کے ولی بن جاتے ہیں جو خدا کے دوست ہو جاتے ہیں.اپنے رب سے پیار کرتے ہیں، اپنے رب کی محبت کے گیت گاتے ہیں، اللہ کی محبت ہی ان کی زندگی بن جاتی ہے.لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ اُن پر کوئی خوف نہیں ہے وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اور کوئی ایسا وقت ان کی زندگیوں میں نہیں آئے گا کہ وہ غم کریں اور پچھتائیں کہ کاش ہم نے یوں نہ کیا ہوتا اور یوں کیا ہوتا.آئندہ کے لئے بھی وہ فکروں سے آزاد ہیں اور ماضی سے متعلق بھی وہ فکروں سے آزاد ہیں اور ان کا حال بھی پر امن ہے کیونکہ آسمان کا خدا اُن کو امن کی ضمانت دیتا ہے.پس ساری دنیا کی نفرتوں میں سے سب سے زیادہ ممتاز نفرت جو جماعت احمدیہ کو دوسری ہر جماعت سے الگ کر دیتی ہے وہ یہی نفرت ہے جو اللہ کی خاطر ہم سے کی جارہی ہے.عجیب حالت ہے کہ ہم اللہ کی خاطر اس نفرت کو برداشت کر رہے ہیں اور بعض لوگ اللہ کی خاطر اس نفرت کو ہوا دے رہے ہیں.فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے وہی اَحكَمِ الحکمِینَ ہے اسی پر ہماری نظر ہے لیکن میں ان نفرت کرنے والوں کو خوب کھول کر بتا دینا چاہتا ہوں کہ تم نفرتوں کی آگ جتنی چاہو بھڑ کا ؤ ہمارے صبر کوتمہاری آگ جلا نہیں سکے گی.بغض و عناد کے الاؤ روشن کرو جتنی تم میں ہمت ہے اس میں ایندھن ڈالو اور اسے خوب بھڑ کا ولیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ احمدی جو تم سے محبت کرتا ہے اس محبت پر تمہاری نفرت کی آنچ نہیں آئے گی اور نہیں آئے گی اور نہیں آئے گی.محبت زندہ کرنے کے لئے ہوتی ہے اور زندہ رہنے کے لئے ہوتی ہے.آج تک کبھی نفرت، محبت پر غالب نہیں آئی اس لئے میں اپنے سے نفرت کرنے والوں کو یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ ہماری طرف سے تمہیں ہمیشہ امن نصیب رہے گا.تمہارے دُکھ اُٹھا کر مرنے والے آخری وقت میں ، آخری سانسوں میں تمہیں دعائیں دیتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوں گے اور مجھے یقین ہے کہ یہی دعائیں ہیں جنہوں نے تمہاری تقدیر بدلنی ہے اور تمہیں ہلاکتوں سے بچانا ہے.یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت محمد مصطفی میں اللہ کے غلام نفرتوں سے خوف کھا جائیں اور ڈر جائیں جبکہ موسیٰ علیہ السلام کے غلاموں نے تو ایسا نہیں کیا تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے غلاموں کو یعنی اُن
خطابات طاہر جلد دوم 23 23 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۳ء ساحروں کو جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ دیکھ کر قبول کیا، جب فرعون نے یہ دھمکی دی کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ کر پھینک دوں گا اور انتہائی دردناک عذاب دوں گاتم کون ہوتے تھے کہ میری اجازت کے بغیر اس شخص پر ایمان لے آؤ جبکہ اس ملک کی عنان میرے ہاتھ میں ہے، جبکہ میں بادشاہ ہوں اور میرے سوا اور کوئی بادشاہ نہیں.جبکہ ساری طاقتیں میرے قبضہ میں ہیں تم کون ہوتے ہو کہ مجھ سے پوچھے بغیر اس موسیٰ پر جس پر بہت تھوڑے آدمی ایمان لائے ہیں تم ایمان لے آؤ.اُن کا جواب کتنا پیارا اور کتنا عظیم الشان اور کیسا ابدی زندگی رکھنے والا جواب تھا جو کبھی مر نہیں سکتا وہ جواب یہ تھا: لَا ضَيْرَ إِنَّا إِلَى رَبَّنَا مُنْقَلِبُونَ (الشعراء: ۵۱) کہ ہاں جو کچھ ہے کرو ہمارا کوئی نقصان نہیں.ہمارا نقصان ہو نہیں سکتا کیونکہ ہم تو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف چلے جائیں گے.برے حال سے اچھے حال کی طرف منتقل ہو جائیں گے جس رب کی خاطر ہم جانیں دیں گے اسی رب کے حضور ہم نے حاضر ہونا ہے اس لئے ہمیں کس بات سے ڈراتے ہو.پس اگر موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے وقت کے جابر بادشاہ کو یہ جواب دیا تھا تو آج محمد مصطفی کے غلاموں کا بھی یہی جواب ہے اور یہی جواب ہے اور یہی جواب ہے.خدا کی قسم ! ہمارے بدنوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں، انہیں کوؤں اور چیلوں کو کھلا دیا جائے ، ہمیں جلا کر خاکستر کر دیا جائے اور ہماری راکھ کو سمندروں کے پانیوں میں بہا دیا جائے تب بھی ہمارے ذرہ ذرہ سے اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی آوازیں بلند ہوں گی.یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف بلا نا بھول جائیں.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف بلانا چھوڑ دیں، یہ تو ممکن نہیں، یہ تو ہمارے بس کی بات نہیں.یہ تکلیف ہمیں نہیں دی جاسکتی کیونکہ ہمیں اس کی تعلیم نہیں ہے، یہ ہماری سرشت کے خلاف ہے.اللہ کی خاطر اللہ کی طرف بلانے والے لوگ دنیا کی دھمکیوں سے نہ کبھی پہلے ڈرے ہیں نہ کبھی آئندہ ڈریں گے.دیکھو! ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفی یا اللہ نے ہمیشہ کے لئے یہ راستے طے کر کے معین فرما دئیے.خدا کی طرف بلانے سے آپ کبھی نہیں رکے.انتہائی دُکھ آپ کو دئے گے، انتہائی تکلیفیں آپ کو پہنچائی گئیں.وہ جو سرور دو عالم تھا جس کی خاطر کا ئنات کو پیدا کیا گیا اس حال سے ملکہ کی گلیوں سے گزرا کہ سر پر خاک اور راکھ پھینکی جاتی تھی.دنیا نے اتنے دُکھ دئے ہمارے
خطابات طاہر جلد دوم 24 24 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۳ء آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺے کو اور اس قدر شدید اذیتیں پہنچائی گئیں آپ کے غلاموں اور آپ کے ماننے والوں کو کہ اُن کے تصور سے بھی آج بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.یقین نہیں آتا کہ انسان کی ہمت اتنی بلند بھی ہوسکتی ہے.صبر اور حوصلے کے پیمانے اتنے بڑے ہو سکتے ہیں کہ کوئی یہ ساری چیزیں خدا کی خاطر برداشت کرتا چلا جائے لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی یہ دعوت الی اللہ سے باز نہیں آئے.وہ واقعہ یاد کریں جب ابو طالب نے حضرت محمد مصطفی امیہ کو ایک دن یہ کہا کہ اے محمد ! اب تو قوم تنگ آچکی ہے.تم نے اس دعوت کی وجہ سے قوم کو بہت دُکھ دئے ہیں، ان کے صبر کے پیمانے اب لبریز ہو چکے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں سمجھا کر کسی طریق سے آمادہ کریں کہ جو کچھ تم پسند کرتے ہوا سے قبول کرو لیکن تمہیں اس دعوت سے باز رکھا جائے اور پھر کفار مکہ کی طرف سے کچھ پیشکش کی گئی کہ یہ یہ چیزیں وہ تمہاری خدمت میں پیش کرتے ہیں تم انہیں قبول کر لو.اگر تم بادشاہت چاہتے ہو تو سارے عرب کی بادشاہت کی باگ ڈور تمہارے ہاتھوں میں دی جائے گی ، اگر تم مال و دولت کی تمنار کھتے ہو تو سارے عرب کی دولتیں سمیٹ کر تمہارے قدموں میں نچھاور کر دی جائیں گی ،اگر تم حسین عورتوں کی خواہش رکھتے ہو تو سارے عرب میں سے حسین ترین عورتیں تمہارے حرم میں داخل کر دی جائیں گی صرف ایک شرط ہے کہ تم دعوت الی اللہ سے باز آجاؤ جانتے ہو کہ ہمارے آقا ومولیٰ سرور دو عالم حضرت محمد مصطفی میں اللہ نے کیا جواب دیا ؟ آپ نے فرمایا.اے چچا ! معلوم ہوتا ہے کہ آپ تھک گئے ہیں آپ میں میرا ساتھ دینے کی مزید سکت نہیں رہی لیکن میں ایک غلط فہمی دور کر دینا چاہتا ہوں.اگر آپ کو یہ خیال ہو کہ آپ کی حفاظت کی وجہ سے میں دعوت الی اللہ کر رہا ہوں، اگر آپ کو یہ خیال ہو کہ آپ کے منہ کی خاطر عرب مجھ سے رکے ہوئے ہیں تو آج اپنی حفاظت واپس لے لیجئے.مجھے اس حفاظت کی کوڑی بھر بھی پرواہ نہیں.میں خدا کا ہوں اور خدا کی حفاظت میں رہوں گا.پھر آپ نے فرمایا یہ کیا لا لچھیں دیتے ہیں.خدا کی قسم اگر سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر لا کر رکھ دیں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر لا کر رکھ دیں تب بھی میں خدا کی طرف بلانے سے باز نہیں آؤں گا.(سیرت ابن ہشام ۱۹۹ تا ۲۰۱) پس ہماری سرشت میں تو یہ تعلیم داخل ہے.اس مٹی سے گوندھے ہوئے ہم لوگ ہیں.پھر
خطابات طاہر جلد دوم 25 25 افتتاح لاب جلسه سالانه ۱۹۸۳ء یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دُکھ اور تکلیفیں جن کے خوف سے حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلام پیچھے نہیں ہے اور تادم آخر آخری سانس تک اپنے رب کی طرف بلاتے رہے ہم بے وفائی کریں اس آقا سے اور ہم اس بات سے پیچھے ہٹ جائیں یہ ممکن نہیں.ہم جو تجدید عہد کر بیٹھے ہیں ہم جنہوں نے آج حضور اکرم ﷺ کے محبوب ترین روحانی فرزند مسیح موعود کو سچا سمجھا اور آپ کی باتوں پر ایمان لائے اور صلى الله آپ کے ہاتھ پر ان سارے نیک عہدوں کی تجدید کی جو اس سے پہلے حضور اکرم ﷺ کے ہاتھوں پر کئے جاچکے تھے ہم کیسے باز آجائیں، ہم کیسے رُک جائیں.دیکھو! حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس محبت اور کسی پیار سے خدا کی طرف بلایا ہے.یہی دعوت ہماری ہے ہم بھی اسی خدا کی طرف اسی محبت اور پیار سے بلانے والے ہیں.تمہیں ہماری ذات سے کوئی خوف نہیں.ہم کبھی نفرت کی تعلیم نہ دیتے ہیں نہ دی ہے اور نہ آئندہ کبھی دیں گے.ہمارا دعوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں صرف اتنا ہے کہ ”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ پھل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں ، کس دف سے بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تالوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.(کشتی نوح - روحانی خزائن جلد : ۱۹ صفحه ۲۱ تا۲۲) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ جاؤ اور دنیا کو ان الفاظ میں اپنے رب کی طرف بلاؤ کہ ”ہمارے خدا میں بے شمار عجائبات ہیں مگر وہی دیکھتے ہیں جو صدق اور وفا سے اس کے ہو گئے ہیں وہ غیروں پر جو اس کی قدرتوں کا یقین نہیں رکھتے
خطابات طاہر جلد دوم 26 26 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۳ء اور اس کے صادق و فادار نہیں ہیں وہ عجائبات ظاہر نہیں کرتا.کیا بد بخت وہ انسان 66 ہے جس کو اب تک پتا نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے“.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۲۱) پھر فرمایا:.” صادق تو ابتلاؤں کے وقت بھی ثابت قدم رہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ آخر خدا ہمارا حامی ہوگا اور یہ عاجز اگر چہ ایسے کامل دوستوں کے وجود سے خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہے لیکن باوجود اس کے یہ بھی ایمان ہے کہ اگر چہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں.میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے.اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں.تب بھی میں آخر فتحیاب ہوں گا.مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے.میں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا.دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لا حاصل ہیں.اے نادانو اور اندھو! مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا.کس بچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا.یقیناً یا د رکھو اور کان کھول کر سنو! کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ پیچ ہیں.میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا.پھر آپ فرماتے ہیں.میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں.کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا.دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا.میں اس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند تو ڑ نہیں سکتی اور مجھے
خطابات طاہر جلد دوم 27 27 افتتاح طاب جلسه سالانه ۱۹۸۳ء اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو.کسی ابتلاء سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگر چہ ایک ابتلاء نہیں کروڑ ابتلا ہو.ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے.من نه آنستم که روز جنگ بینی پشت من آں منم کاندر میانِ خاک و خون بینی سرے“ (انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۳) پس جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے ہم ہمیشہ ہمیش کے لئے امن اور محبت کی راہوں پر چلیں گے.ہمیں دنیا سے کوئی خوف نہیں کیونکہ خدا کے بندے جو خدا کے ولی ہو جاتے ہیں ان کو دنیا کے خوفوں سے آزاد کیا جاتا ہے.ہم وہ آزاد قوم ہیں غیر اللہ کے خوف سے جن کی آزادی پر کبھی کوئی تبر نہیں رکھ سکتا.ہم اللہ کے ہیں اور اللہ کے رہیں گے، اس دنیا میں بھی خدا کے ہیں اس دنیا میں بھی خدا کے حضور حاضر ہوں گے اس لئے ہم سے بہتر ہم سے یقینی امن کی زندگی اور کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی.خطرہ ہمیں اپنی ذات سے متعلق نہیں خوف ہمیں اپنے اوپر نہیں.ہاں بنی نوع انسان کے لئے خوف رکھتے ہیں، بنی نوع انسان کے لئے پریشان اور محزون رہتے ہیں ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں.پس آج ہم سب مل کر جو دُعا کریں اس میں بنی نوع انسان کے ہلاکت سے بچنے کے لئے بطور خاص دُعا کریں اور اس سے بڑھ کر امت محمد مصطفی ﷺ کے لئے دعا کریں.یہ امت بہت ہی دکھوں کا شکار ہو چکی ہے.کوئی ایک ملک بھی تو ایسا نہیں جہاں مسلمانوں کا حال غیر نہ ہو چکا ہو.طرح طرح کے مصائب نازل ہو چکے اور طرح طرح کے مصائب منہ پھاڑے دیکھ رہے ہیں اور اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں.مشرق سے مغرب تک تمام مسلمان سلطنتوں میں بے امنی کی روح ہے، بے چینی ہے، بے قراری ہے.بعض مسلمان بھائی ، بعض دوسرے مسلمان بھائیوں سے لڑ رہے ہیں.بعض مسلمان ملک بعض دوسرے مسلمان ممالک سے لڑ رہے ہیں.ایک ہی نعرہ بلند کرنے والے ایک ہی ملک کے باشندے ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں اور خدا تعالیٰ اور محمد مصطفی میے کے
خطابات طاہر جلد دوم 28 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۳ء نام پر ایسا کیا جارہا ہے.لبنان کے حالات آپ جانتے ہیں کتنے درد ناک ہیں.کس طرح مسلمان کی آزادی کے علمبر داروں نے ایک دوسرے کا خون بہایا اور کوئی پشیمانی نہیں ہوئی.کوئی احساس ندامت نہیں پیدا ہوا یہی حال ساری دنیا میں ہو رہا ہے.ایران، عراق کے ساتھ لڑ رہا ہے اور مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے.غیر قوموں سے ہتھیار مانگ مانگ کر اور خرید خرید کر مسلمان کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں اور ان کی زندگی بھر کی کمائیاں اور جائیداد میں آگ کی نذر کی جارہی ہیں اور مسلمان کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے.یہ وہ دردناک حالات ہیں جو ہمارے لئے فکر کا موجب ہیں.آج دنیا میں بعض لوگوں کو خطرہ صرف احمدیت سے نظر آ رہا ہے جن سے دنیا کو کوئی خطرہ نہیں ہے وہ جو ساری دنیا کے امن کی ضمانت ہیں.بعض لوگ ان کو خطرہ بیان کر رہے ہیں اور ان باقی سارے خطرات سے آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہوئے ہیں اس لئے دعائیں کریں ان آنکھوں کے لئے کہ ان کو بصارت نصیب ہو ان دلوں کے لئے جو بند ہو گئے ہیں اور صداقت کو دیکھ نہیں سکتے ان کی آنکھوں کے سامنے نہایت ہولناک واقعات رونما ہور ہے ہیں لیکن ان کو فکر پیدا نہیں ہوتی.ایک طرف اشتراکیت ہے جو مسلمان ممالک پر بھی قبضہ کرتی چلی جارہی ہے اُن کے ذہنوں پر بھی قابض ہورہی ہے اور ان کے دلوں کو بھی اپنا بنا رہی ہے.دوسری طرف مادہ پرستی ہے جو ایک اور قسم کا زہر لے کر مسلمان کے رگ وپے میں داخل ہو رہی ہے اور دونوں ہلاکتیں دراصل خدا سے دور لے کر جارہی ہیں.یہ وہ حقیقی خطرات ہیں جو آج بڑی کثرت کے ساتھ اور بڑی تفصیل کے ساتھ مسلمان دنیا کو در پیش ہیں اور دن بدن بڑھتے جارہے ہیں لیکن کچھ آنکھیں ایسی بھی ہیں جو ان کو دیکھنے سے انکار کر رہی ہیں.ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خدائے واحد کے بندے محمد مصطفی امیہ کے غلام دہریت کا شکار ہو جائیں یا مادہ پرستی کے زہر سے مارے جائیں ان کو سوائے احمدیت کے اور کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا.پس ان کے لئے دُعا کرنا ہمارا کام ہے.ہم اس بات کے لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ قول اور فعل ہی سے نہیں دعاؤں کے ذریعہ بھی اس دنیا کو بچانے کا انتظام کریں.پس اپنی دعاؤں میں بکثرت اپنے مسلمان بھائیوں کو یا درکھیں.فلسطین کے لئے بھی دعا کریں اور لبنان کے لئے بھی دعا کریں.سعودی عرب کے لئے بھی دعا کریں اور یمن کے لئے بھی دُعا کریں.دعائیں کریں عراق
خطابات طاہر جلد دوم 29 29 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۳ء کے لئے بھی اور ایران کے لئے بھی ، افغانستان کے لئے بھی اور پاکستان کے لئے بھی.ایک ایک مسلمان ملک کا حال اپنے ذہنوں میں حاضر کر کے درد کے ساتھ اور تڑپ کے ساتھ اُن کے بچنے کی دعائیں کریں.یہ امت مرحومہ آج بہت ہی مظلوم ہے، اتنے دکھوں کا شکار ہے کہ بعض دفعہ راتوں کو بے چین ہو کر میں خدا کے حضور گریہ وزاری کرتا ہوں کہ اے میرے مولا! ان کو بچالے.یہ ہم سے نفرتیں کرتے ہیں تو کرتے رہیں لیکن ہماری محبت میں آنچ نہیں آئے گی.ہم تو ان کا سکھ دیکھ کر ہی راضی ہوں گے ان کے دُکھ دیکھ کر راضی نہیں ہوں گے.ان دعاؤں میں آپ شریک ہوں آج بھی شریک ہوں کل بھی شریک ہوں.صبح بھی شریک ہوں اور رات کو بھی شریک ہوں.عرب دنیا کے دُکھ تو ہمارے لئے بطور خاص دکھ کا موجب ہیں.محسنِ اعظم ان لوگوں میں پیدا ہوا.جس نے ہمیشہ کے لئے سارے زمانوں پر احسان فرمایا.ہم اس احسان کو کیسے بھول سکتے ہیں.آج اگر ہم روحانیت کی لذت پا رہے ہیں ، آج اگر ہم خدا سے آشنا ہیں تو عرب قوم ہی میں ہمارا وہ آقا اور محسن پیدا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں آج ہم خدا آشنا ہو گئے.اس احسان کو ہم کیسے بھلا سکتے ہیں.ہمیں اس قوم سے گہری محبت ہے ان کے دکھ ہمارے دکھ ہیں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے دکھ ان سے بڑھ کر ہمارے دکھ ہیں.ان کے دکھ تو تقسیم ہو چکے ہیں یہ تو اندرونی نفرتوں کا شکار ہو کر بعض عربوں کا دکھ محسوس کر رہے ہیں اور بعض عربوں کے دکھ میں خوشی محسوس کرنے لگے ہیں مگر ہمارے لئے ان سب کے دکھ ہمارے دلوں میں جمع ہو کر ایک دکھ بن چکے ہیں اس لئے بہت دعائیں کریں اور کثرت سے دعائیں کریں.جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمیں کوئی خوف نہیں، ہمیں خدا نے امن کی ضمانت دی ہے.قرآن کریم ہمیں بار بار یاد کراتا ہے الا ان أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.پس ہمارے دکھ دوسروں کے لئے ہیں، ہمارے خوف دوسروں کے لئے ہیں، ہمارے حزن دوسروں کیلئے ہیں اس لئے بکثرت دعائیں کریں اور اس جلسہ کے دوران ذکر الہی پر زور دیں.صبح شام اٹھتے بیٹھتے بازاروں میں چلتے ہوئے گھروں کے اندر ہر وقت اپنی زبان کو ذکر الہی اور درود سے تر رکھیں.اس کثرت کے ساتھ ذکر الہی کریں اور درود بھیجیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کو قبول فرمائے اور سارے عالم اسلام پر رحمت کی بارشیں برسنے لگیں.آمین
خطابات طاہر جلد دوم 31 34 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء میرا خدا ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا.وہ ساری طاقتیں جو ہمیں منتشر دیکھنا چاہتی تھیں وہ آپ انتشار کا شکار ہوئیں.لندن کی جماعت کے اخلاص اور خدا کے فضلوں کا تذکرہ افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۱/۵ اپریل ۱۹۸۵ء بمقام اسلام آبادٹلفورڈ، برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ * وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ وَ لكِن لَّا تَشْعُرُونَ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ عنْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرْتِ وَبَشِّرِ الطَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ أُولَيكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتُ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقره ۱۵۲-۱۵۸) پھر فرمایا:.) تقریباً ایک سال کا عرصہ گزرا ہے یہی مہینہ تھا، اس مہینے کے آخری ایام میں مجھے پاکستان چھوڑ کر انگلستان آنا پڑا اور چونکہ ایک دورے کا پروگرام پہلے سے ہی بنا ہوا تھا اس لئے اُسی پروگرام
خطابات طاہر جلد دوم 32 32 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء کے مطابق ایک چھوٹا سا قافلہ میرے ساتھ آیا اور ایک عجیب بے سروسامانی کی سی حالت تھی.صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید انجمن احمدیہ، وقف جدید انجمن احمد یہ اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ، یہ تمام انجمنیں جو خلیفہ وقت کی ہمیشہ ہر حال میں مرکز میں مددگار رہتی ہیں اور تمام عملہ جوان انجمنوں سے وابستہ ہے یہ سب وہیں پاکستان میں اس حالت میں چھوڑے کہ اتفاق سے ان کا ایک بھی نمائندہ میرے ساتھ نہیں تھا.ایک چوہدری حمید نصر اللہ صاحب، ایک وقیع الزمان خان صاحب اور میرے ساتھ پھر اس کے علاوہ میری بیگم تھی اور دو بچیاں تھیں لیکن اس کے باوجود مجھے قطعاً کسی قسم کا کوئی بے بسی کا احساس پیدا نہیں ہوا.باوجود اس کے کہ بہت جلد یہ بات مجھ پر کھل گئی کہ تمام دنیا کے بوجھ تو اُسی طرح سر پر ہیں لیکن وہ بوجھ اٹھانے والے جو خدا کے نام پر مرکز میں اکٹھے ہو کر وہیں کے ہو گئے تھے وہ تمام کے تمام میرے ساتھی پیچھے رہ گئے ہیں.اس کے باوجود ایک لمحہ کے لئے بھی مجھے بے کسی اور بے بسی کا احساس نہیں ہوا کیونکہ میں یہ جانتا تھا اور آج بھی جانتا ہوں اور پہلے سے زیادہ یقین اور تجربے کی بنا پر کہتا ہوں کہ میرا خدا میرے ساتھ تھا، میرے ساتھ ہے اور ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا.میرا خدا آپ کے ساتھ ہے، آپ کے ساتھ تھا اور ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا.یہ یقین ، یہ زاد راہ تھا جسے لے کر میں چلا ، جسے لے کر یہاں پہنچا اور یہاں پہنچنے کے بعد میں نے تمام جماعت کو اکٹھا کیا اور اُن کے سامنے وہ پہلا خطاب کیا جس میں مَنْ أَنْصَارِى إِلَی اللہ کی دعوت دی اور میں آج آپ کو یہ بتا تا ہوں کہ اس دعوت کا ایک ایسا عمدہ جواب انگلستان کے احمدی احباب نے دیا کہ وہ ہمیشہ میرے دل پر نقش رہے گا اور ہمیشہ تاریخ عزت اور احترام اور محبت سے ان کو یاد کرے گی.ہر طرف سے نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ کی آوازیں اٹھنے لگیں اور پھر یہ آواز میں باہر سے سنائی دینے لگیں، یورپ کے باہر سے بھی اور امریکہ کے باہر سے بھی اور دنیا کے کونے کونے سے زمین کے وہ تمام کنارے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچا تھا، بلند آواز سے پکارنے لگے کہ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ ، نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ ، نَحْنُ اَنْصَارُ الله ، عورتیں کیا اور مرد کیا، بوڑھے کیا اور بچے کیا وہ ایک عجیب زمانہ تھا اس طرح وارنگی کے ساتھ ، اس طرح فدائیت کے ساتھ مجھے پیغام ملنے شروع ہوئے کے ساتھ میری زندگی یہ ایک زلزلہ طاری ہوجاتا ، ماؤں نے اپنے بچے پیش کہ ہر پیغام
خطابات طاہر جلد دوم 33 33 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء کئے ، بچوں نے اپنی مائیں پیش کیں، اپنی جائیدادیں، اپنے اموال، اپنی عزتیں سب کچھ احمدیت کی خاطر میرے قدموں میں نچھاور کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے اور جن کو توفیق ملی انہوں نے اس عہد کو نبھایا اور ایک بھی پیچھے نہیں ہٹا.یہ عہد کئے کہ آپ جس ضرورت کے لئے جب چاہیں گے، جو کچھ کہیں گے ہر وقت حاضر ہیں.تو کائنات کا خدا میرے ساتھ تھا، کائنات کا خدا ہمارے ساتھ تھا، آپ کے ساتھ تھا اور یہ اُسی کی شان تھی ، اُسی کی تقدیر تھی جو جاری ہوئی اور وہ جو اس خدا کے تعلق والے تھے وہ اُس کی خاطر سب میرے اردگرد حضرت اقدس محمد مصطفی کے جھنڈے کے اردگرد اکٹھے ہو گئے.کچھ کو خدمتوں کی توفیق ملی اور انہوں نے اپنے عہدوں کو پورا کیا، کچھ منتظر تھے اور آج بھی منتظر ہیں لیکن میں آج یہ یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ساری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک بدن کی طرح، ایک جان کی طرح، ایک مٹھی کی طرح قوم واحد تھی اور آج بھی قوم واحد ہے.خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ اور وہ ساری طاقتیں جو انتشار پھیلانا چاہتی تھیں، جو ہمیں منتشر دیکھنا چاہتی تھیں وہ آپ انتشار کا شکار ہوئیں، وہ آپ منتشر ہوئیں، ان کے اپنے گھروں میں جوتیوں میں دال بٹے گی.بڑے بڑے عجیب نظارے ہم نے اس کیفیت کے دیکھے اور دن بدن خدا تعالیٰ ہمارے حوصلے بڑھاتا رہا اور ہماری امیدوں کو سر بلند فرما تا رہا.ایک عجیب داستان ہے جو میں آج آپ کو سنانے لگا ہوں.سب سے پہلے تو مجھے انگلستان پہنچ کر اپنا ڈاک کا دفتر بنانا تھا اور آپ جانتے ہیں یعنی آپ میں سے اکثر جانتے ہیں کہ اس کثرت سے ڈاک موصول ہوتی ہے خلیفہ وقت کو کہ پاکستان میں تو 700 تقریباً اوسط بنتی تھی روزانہ اور اُن میں ایسے ایسے خطوط بھی تھے جن کے تفصیلی جواب دینے پڑتے تھے ، پھر بہت سے ایسے ہوتے تھے جن میں غور و خوض کرنا پڑتا تھا اور کافی دماغ سوزی سے کام لینا پڑتا تھا اور اس کے لئے مدد کے طور پر ایک پورا عملہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کا میرے ساتھ رہتا تھا اور سلسلہ کے دوسرے کارکنان بھی تھے اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کا یہ عملہ اور حفاظت کے کارکنان جو ساتھ تھے یہ ملا کر ایک سو سے زائد کا عملہ تھا، تو مجھے سب سے پہلے تو یہ فکر ہوئی کہ فوری طور پر یہاں ایک دفتر قائم کیا جائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام دفتر رضا کار انصار پر مشتمل تھا اور آج بھی اسی طرح چل رہا ہے.چار واقفین مبلغین رفتہ رفتہ ہم نے بیچ میں شامل کر لئے اور اس وقت جو اس دفتر
خطابات طاہر جلد دوم 34 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء کی کیفیت ہے چار مبلغین ہیں، آٹھ رضا کار مرد ہیں، چھ رضا کارخواتین ہیں اور اس کے علاوہ آنے جانے والے بہت سے رضا کار ہیں جن کو جب توفیق ملتی ہے وہ شامل ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نہایت عمدگی کے ساتھ یہ سارا بوجھ اٹھایا اور ایک ذرہ بھی مجھے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میرے مددگاروں میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع ہوئی ہے.اگر چہ خطوط کی تعداد یہاں گری لیکن اُس کی وجہ بہت سی مجبوریاں تھیں، زیادہ تر ڈاک تو پاکستان سے آیا کرتی تھی لیکن اُس کا متبادل ہم نے یہ کیا کہ دفتر مرکز یہ جو دفتر ڈاک یا پرائیویٹ سیکرٹری کا دفتر کہلاتا ہے وہ بھی جاری رہا اور جو خطوط ان تک پہنچ سکتے تھے وہ اُس کا خلاصہ بنا کے ہمیں بھیج دیتے تھے.بہر حال یہاں اوسط گر کر دواڑھائی سو خطوط روزانہ تک پہنچ گئی لیکن جب پاکستان کی ڈاک آ جاتی تھی اور وہ بھی وقتا فوقتا آتی رہتی تھی تو ایک دن میں بارہ سو بعض دفعہ پندرہ سو سے زائد بھی خطوط آ جاتے تھے.اس میں جو عملہ ہے اس نے اس قدر حیرت انگیز قربانی کا مظاہرہ کیا ہے کہ آپ سوچ نہیں سکتے کہ کس لگن اور وارفتگی سے بعض لوگوں نے ہمہ وقت حاضری دی ہے.یعنی کچھ ایسے تھے جو یوں لگتا تھا کہ نڈھال ہو کے گر جائیں گے تب ہمیں پتا لگے گا کہ ان کے اندر طاقت باقی نہیں رہی تھی.بعضوں کو دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ اپنی طاقت سے بڑھ کر یہ بوجھ اٹھا چکے ہیں لیکن کسی نے زبان سے اُف نہیں کی اور بشاشت کے ساتھ دیکھتے تھے، خوش ہوتے تھے اور شکریوں کے خط لکھتے تھے اور دعائیں دیتے تھے کہ آپ نے ہمیں یہ توفیق عطا فرمائی اور ہم تو مزے لے رہے ہیں زندگی کے اب ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ زندگی کا لطف ہوتا کیا ہے.تفصیل سے اس وقت ان کے ناموں کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں لیکن پھر انشاء الله یہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ احمدیت کی تاریخ کا ایسا حصہ ہے کہ جتنے کارکنان طوعی طور پر آگے آئے ، اُن سب کے نام اور اُن کی خدمت کے واقعات محفوظ کئے جائیں.اپنے اپنے شعبہ میں یہ اسماء درج کئے جارہے ہیں.دوسرا فوری کام بہت اہم یہ تھا کہ Publication Cell قائم کیا جائے اور Publication Cell کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ تمام پاکستان میں، تمام دنیا میں، جہاں تک بھی حکومت پاکستان کے بازو پہنچتے تھے انہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت احمدیہ کے خلاف انتہائی گندا اور زہریلا پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا اور جہاں تک غیر ممالک
خطابات طاہر جلد دوم 35 افتتاحی خ ب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء یعنی پاکستان سے باہر کے ممالک کا تعلق ہے، ان کی حکومت سے وابستہ لوگوں کو، ان کے صائب الرائے لوگوں کو اس کثرت کے ساتھ ہر مختلف زبانوں میں یہ لٹریچر ترجمہ کروا کے بھجوایا گیا کہ تمام دنیا کی فضا کو گویا انہوں نے احمدیت کے خلاف زہر آلود کر دیا.چنانچہ لازم تھا کہ فوری طور پر اس کا توڑ کیا جائے اور تمام دنیا کے احمدیوں کو حالات سے باخبر رکھا جائے اور اخبارات سے رابطہ اور تمام دنیا کے سیاستدانوں اور ذی شعور لوگوں سے رابطہ اور بروقت سب کو اعداد و شمار مہیا کرنا، پاکستان میں کیا ہورہا ہے، کیوں ہو رہا ہے ان حالات سے آگاہ کرنا بہت بڑا کام تھا.تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کام کے لئے بھی بہت ہی مخلص واقفین آگے آئے اور نہایت عمدگی کے ساتھ ان ساری ذمہ داریوں کو انہوں نے نبھایا.بعض ایسے تھے جو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ ہمہ وقت جماعت ہی کے تھے لیکن جو آنے جانے والے تھے ، اُن میں سے بھی اکثر کے اوقات صبح ساڑھے نو بجے سے رات گیارہ بجے تک ہوتے تھے اور یہ کام ابھی تک اسی طرح جاری ہے.اس میں بوڑھے، بچے، جوان سارے شامل ہیں ، مستورات بھی خدمت کر رہی ہیں.ان کے کام کی تفصیل کے ذکر کا موقع تو نہیں ہے، میں خلاصہ بعض اعداد آپ کے سامنے رکھتا ہوں.دنیا بھر کے 115 اخبارات ورسائل کو انہوں نے 2117 خطوط لکھے.24 پریس ریلیز جاری کئے اور 38 مضامین شائع کروائے.دنیا بھر کی 85 جماعتوں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا اور ہر قسم کی تمام اطلاعیں جو پاکستان سے موصول ہوتی تھیں، بلا تاخیر جماعتوں کو پہنچانے کی کوشش کی ہے.مجھ سے ہدایات لیتے تھے اور ان ہدایات کے مطابق جماعتوں کی راہنمائی کرتے تھے.مختلف دنیا کے ادارے جو کسی نہ کسی رنگ میں ان حالات سے تعلق رکھ سکتے تھے اُن کو 670 خطوط لکھے اور عالمی نوعیت کے مشہور اخبارات جن کا ایک عالم میں وقار ہے،ایسے اخبارات کو 281 خطوط لکھے اور جہاں تک جماعت احمدیہ کے تذکرے کا تعلق ہے آپ اندازہ کریں کہ کس حد تک اس سیل نے کامیابی سے کام کیا ہے اور گو مخالف بھی پور از ور لگا رہا تھا، ہمارے پاس تو وہ وسائل نہیں تھے، ہمارے پاس تو دنیا کے لحاظ سے اُس کا سوواں حصہ بھی وسائل نہیں تھے ، مگر جماعت احمدیہ نے بھی اپنی بھر پور کوشش کی ہے دعاؤں کے ساتھ.جو تراشے ریکارڈ کئے گئے ہیں اس وقت تک دنیا کے مختلف اخباروں میں جن میں پاکستان
خطابات طاہر جلد دوم 36 36 افتتاحی ب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء کی طرف سے ناموافق اور جماعت احمدیہ کی طرف سے موافق آراء کا اظہار ہوا ہے ان کی تعداد دس ہزار ہے.اتنا شور پڑا ہے دنیا میں، اتنا نام پھیلا ہے جماعت احمدیہ کا اور عزت کے ساتھ نام پھیلا ہے، جتنا ان کا گند تھا اس کا سارا اثر خدا نے دھو دیا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور احمدیت کا نام بڑی عزت کے ساتھ دنیا میں قائم ہوا ہے اور وہ سارے لوگ جو ان کے زہر یلے پروپیگنڈے سے متاثر تھے دیکھتے دیکھتے انہوں نے رنگ بدلے.جب اُن تک حالات پہنچے ہیں تو کا یا پلٹ گئی اُن کی ، ایسے لوگ بھی تھے جو حکومتی تعلقات کی وجہ سے مجبور تھے پاکستان کے ساتھ ہاں میں ہاں ملانے پر یا کچھ مدد کرنے پر، ان کو جب حالات بتائے گئے تو بعض ان میں سے ایسے تھے جنہوں نے کہا کہ اب ہم ہاں میں ہاں ملانے کے قابل تو نہیں رہے لیکن ہم احتجاج بھی نہیں کر سکتے.چنانچہ ہم نے ان سے کہا کہ ہم آپ کے احتجاج کے خواہاں نہیں ہیں ہم تو صرف حقیقت بتانا چاہتے ہیں آپ کو اور یہ اصولی ہدایت تمام جماعتوں کو میں نے بھجوائی کہ آپ نے کسی دنیا والے سے خیر کی بھیک نہیں مانگنی.ہم نہ اس کے محتاج ہیں، نہ ہماری عزت اور وقار اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ محتاج بھی ہوں تو غیر کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، نہ ہمارا ایمان یہ گوارا کرنے دیتا ہے ہمیں کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی طرف مدد کے لئے دیکھیں اور توقع رکھیں مدد کی.چنانچہ وہ میرے آنے سے پہلے یا آنے کے بعد شروع میں بعض جماعتیں اور بعض افراد غلطی سے مدد کے لئے پکار رہے تھے، اخباروں کو لکھ رہے تھے، بالکل رخ پلٹ دیا ہم نے اس پراپیگنڈے کا.ہم نے ان کو بتایا کہ ہم تمہاری مدد کے محتاج نہیں ہیں.ہم تمہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جس کی مدد کے ہم محتاج ہیں وہ ہمارے ساتھ ہے، آج نہیں تو کل تم ضرور دیکھو گے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے.اس لئے تمہاری بقا کا تقاضا ہے تمہارے اپنے مفادات اس بات سے وابستہ ہیں کہ حق کی بات کو حق کے طور پر تسلیم کر دور نہ تم محروم رہ جاؤ گے اور ہم تمہاری راہنمائی کر سکتے ہیں.تمہیں حالات کا علم نہیں ہے، تمہیں یہ پتہ نہیں کہ دنیا میں اس کے کیا بداثرات مترتب ہوں گے.تمہیں پتہ نہیں کہ ہم کون ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا خدا کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کے برابر ہو گیا ہے.یہ وہ باتیں تھیں جو ہم نے ان کو پہنچا ئیں اور پراپیگنڈے کا بالکل رخ بدل دیا.پھر یہ بھی بتایا اور یہ سارا کام ان انصار اللہ نے کیا ہے، اَنْصَارِی إِلَی اللہ نے کیا ہے.ان کو یہ بھی بتایا کہ پاکستان تو ایک مظلوم ملک ہے.ہم نہ پاکستان کے خلاف ہیں نہ پاکستان
خطابات طاہر جلد دوم 37 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء کے خلاف کچھ چاہتے ہیں تم سے، یہاں تک کہ بعض لوگوں نے خود پیشکش کی.پاکستان کے دوست بھی ہیں اور دشمن بھی ہیں تو بڑی سختی سے احمدیوں نے اُس کو رد کیا.انہوں نے کہا کہ ایک لمحہ کے لئے بھی تم یہ نہ سمجھو کہ ہم پاکستانی نہیں ہیں تو پاکستان کے خلاف ہو جائیں گے باوجود اس کے کہ ہماری وفاداریاں قانونا اور طبعاً اُس ملک کے ساتھ نہیں ہونی چاہئیں جو ہماری جماعت پر ظلم کر رہا ہے لیکن ہماری جماعت کی ہدایت یہ ہے کہ ہمارا مرکز وہاں ہے، ہماری ایک بڑی تعداد وہاں ہے، وہاں کا نمک کھایا ہے ہم نے ، وہاں کے پیسے باہر نکل کر تمہاری خاطر خرچ ہوئے ہیں، وہاں کے واقفین زندگی نے اپنا خون جلایا ہے تمہاری خاطر، تمہاری خاطر وہ روتے رہے، دعائیں کرتے رہے، تمہیں دعائیں دیتے رہے اور تمہیں اسلام کا پیغام پہنچاتے رہے.تو جو ہماری وفائیں ہیں وہ تمہاری بھی وفائیں بن چکی ہیں، جو ہماری وابستگیاں ہیں وہ تمہاری بھی وابستگیاں بن چکی ہیں اس لئے حیا کا، انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس ملک کے خلاف کوئی پرو پیگنڈا نہیں کرنا.یہ ملک تو خود مظلوم ہے، ہاں وہ ظالم جو قابض ہیں اس ملک پر، جو باقی سارے مسلمان بھائیوں پر اور پاکستانی دوسروں پر بھی ظلم کر رہے ہیں ان کے متعلق بتاؤ کہ یہ لوگ ظالم ہیں، انہوں نے ظلم کیا ہے، ان کے ہاتھ روکنے چاہئیں ظلم سے، ویسے تم نہیں روک سکتے ، مگر حق کو حق تو تسلیم کرو کہو کہ ہاں یہ ظالم ہیں، اس سے زیادہ ہم نہیں چاہتے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کا بھی بہت نیک اثر ہوا اور بہت سے پاکستانی بھائی جو شروع میں اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے کہ یہ گویا احمدیت بمقابل پاکستان قصہ چل رہا ہے وہ سمجھ گئے اور کئی جگہ احتجاجات میں ساتھ شامل ہوئے ہیں اور بڑی مدد کی ہے اور بڑی شرافت کا نمونہ دکھایا ہے.اگر یہ سارے پاکستانی جو غیر ملکوں میں بستے ہیں، اگر یہ حکومت پاکستان کے ظلم میں شریک ہوتے تو آپ کی کوششوں کا سوواں حصہ نتیجہ بھی نہیں نکل سکتا تھا.جو خدا نے بڑا فضل فرمایا اور یہ وقت پر سمجھے اور ان کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ ہوئیں اور چونکہ آزاد ملکوں میں رہتے تھے، ان کے دماغوں نے بھی آزادی سے سوچا.اس کے علاوہ ایک ہنگامی کمیٹی مجھے قائم کرنی پڑی جو اس سے زیادہ اوپر کے درجے سے تعلق رکھتی تھی.اور وہ اصولی باتیں اور ایسے امور جن کا پالیسی سے تعلق ہوتا ہے، ان میں میری مشیر
خطابات طاہر جلد دوم 38 888 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء بھی تھی اور مجھ سے ہدایت لے کر پھر آگے پہنچاتی تھی.یہ کمیٹی جو ایک اعلی سطح کی کمیٹی ہم کہہ سکتے ہیں تنفیذ کے سوا باقی سارے کام نظارت امور عامہ والے سرانجام دے رہی تھی اور بہت عمدہ انہوں نے کام کیا ہے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور ان کے بھی جوممبران تھے وہ ہمہ وقت حاضر تھے.انہوں نے مجھے صاف کہ دیا تھا کہ نوکریاں ہماری ہیں لیکن وہ ہم اس طرح وقت گزار رہے ہیں کہ جب چاہیں ایک لمحہ کے نوٹس کے بغیر بھی نوکریوں کو پس پشت پھینک کر ہم حاضر ہو جائیں گے.جس وقت چاہیں بلائیں ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر ہم حاضر ہوں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوتا رہا کبھی میں نے ان کو رات کو تکلیف دی، کبھی دن کو تکلیف دی، کبھی دفتروں سے بلایا لیکن کسی کی پیشانی پر کوئی بل نہیں آیا اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی محبت اور سمجھ اور فہم کے ساتھ اپنے فرائض کو سر انجام دیا.تیسرا اہم شعبہ جس کو فوری طور پر قائم کرنا پڑا وہ شعبہ سمعی وبصری تھا کیونکہ تحریری طور پر باتیں بعض دفعہ وہ اثر نہیں کرتیں جو اپنی آواز میں پہنچیں یا خلیفہ وقت کی آواز میں پہنچیں تو ویسا اثر کر سکتی ہیں اور دوسرے آواز میں بات پہنچنے کا فائدہ یہ ہے کہ بہت سے لا علم جو پڑھ نہیں سکتے ، ان تک بھی بات پہنچ جاتی ہے.پھر بعض ملکوں میں مشکلات بھی بہت تھیں ، اگر ہم شائع کروانے کے چکر میں پڑے رہتے تو ایک تو وقت کا بہت ضیاع تھا اور دوسرے بہت سے ملک محروم رہ جاتے ، وہ کیفیت ہی پیدا نہیں ہوسکتی تحریر میں، وقت بھی بہت لگتا ہے.پھر بعض ملکوں میں تحریر ضبط ہو جانی تھی ہمیں پتہ تھا.چنانچہ شعبہ سمعی و بصری بھی اسی طرح کلیہ رضا کا ر خدمت گاروں کے اکٹھے ہونے پر قائم کیا گیا اور ان سب نے بہت ہی محنت کی ہے، بہت کام کیا ہے.آپ اندازہ لگا ئیں اعداد وشمار سے ، گل وقت جو اس شعبہ کے تحت فلمیں تیار کی گئی ہیں، کیسٹس تیار کی گئی ہیں، ویڈیوفلمز تیار کی گئی ہیں.مجالس سوال و جواب کی 270 گھنٹے کی کیسٹس اور ویڈیوز انہوں نے تیار کی ہیں اور 270 گھنٹے کا مطلب یہ ہے کم و بیش اڑھائی سو دن اور وہ تھوڑا سا عرصہ جو میں شامل نہیں ہوا بعض مجالس میں اس کے سوا تقریباً روزانہ ان کا یہ کام تھا اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا کام کرتے تھے.دنیا میں ان کے بہت سے دھندے تھے ، بعضوں کی دکا نہیں تھیں ، کوئی ٹیکسی ڈرائیور کوئی کوئی اور کام کر رہا ہے اور کام سے فارغ ہوتے ہی یہاں پہنچ جایا کرتے تھے اور بعض دفعہ ساری ساری رات ان کو بیٹھنا پڑتا تھا کیونکہ پھر ان کی Editing کرنی پڑتی تھی ، ہر ریکارڈ کو
خطابات طاہر جلد دوم 39 38 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء 85 جماعتوں میں بھجوانا پڑتا تھا.بسا اوقات یہ ہوا ہے کہ یہ آئے ہیں، ریکارڈ کیا ہے اور پھر ساری رات بیٹھے رہے ہیں جب تک انہوں نے صبح تک جماعتوں کے نام یہ ویڈیوز یا ٹیسٹس پوسٹ نہیں کر دیں اس وقت تک انہوں نے آرام نہیں کیا اور شروع میں تو کیسٹس زیادہ تھیں پھر آرام کا وقت بھی نہیں رہتا تھا، پھر سیدھا اپنے کاموں پر چلے جایا کرتے تھے اور آج بھی یہ ہورہا ہے.خطبات 72 گھنٹے کے انہوں نے ریکارڈ کئے اور تقسیم کئے، دیگر خطابات اور جلسے اور درس 69 گھنٹے کے انہوں ریکارڈ کئے اور تقسیم کئے اور دورہ یورپ جو کیا تھا اس میں 60 گھنٹے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ انہوں نے ریکارڈنگ کی اور پھر اس کو تقسیم کیا.آج جو جلسہ سالانہ کا انتظام ہے یہ بھی اسی طوعی انتظام کے تابع ہو رہا ہے اور گزشتہ پندرہ بیس دن سے کم سے کم ، ویسے تو کئی مہینے سے یہاں یہ اس کام میں مصروف ہیں اور منصوبے بنا رہے ہیں لیکن گزشتہ پندرہ ، ہمیں دن سے تو حالت یہ ہے کہ بعض دفعہ مجھے ڈر ہوتا تھا کہ کہیں کام میں بے ہوش ہو کے نہ کوئی جاپڑے.خود یہاں انہوں نے کھدائی کی ہے، زیر زمین تاریں بچھائی ہیں، پلاٹنگ کی ہے، سامان حاصل کیا ہے، یہ سارا انتظام نہایت عمدگی کے ساتھ چلایا ہے.ایک شعشہ بھی اس میں Professional سے انہوں نے خدمت نہیں لی کیونکہ اس پر خرچ ہوتا تھا اور از خود ساری پلاننگ اور سارا کام ان نو جوانوں نے کیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ.پھر اس میں ہمارے پرانے دوستوں کا گروپ فرخ صاحب اور ان کے ساتھی بھی پاکستان سے پہنچ گئے اور انہوں نے یہ جو Interpretation کا انتظام ہے یہ بھی سنبھالا اور دوسری خدمات میں بھی ان کا ہاتھ بٹایا.شعبہ حفاظت کے لئے وہاں ایک بڑا عملہ تھا.آپ جانتے ہیں اور یہاں تو میرے ساتھ صرف ایک مبارک ساہی صاحب آئے تھے، یہ تیسرا نام تھا جو میں پہلے بتانا بھول گیا.تو انہوں نے بھی اللہ کے فضل سے اکیلے ہی بڑا لمبا عرصہ ساری ذمہ داریوں کو اس رنگ میں نبھایا کہ تمام طوعی رضا کار منظم کرنے ، ان سے کام لینا یہ ان کی ذمہ داری تھی اور یہ خود بھی طوعی رضا کار ہیں.رضا کار کے طور پر آئے تھے اور انہوں نے مڑ کے دیکھا نہیں، پتا بھی نہیں کیا کہ میری نوکری کا کیا بنا، کیا جاکے کروں گا.کچھ انتظام کیا ہے تو جماعت نے اپنے طور پر کیا ہے، کبھی ایک لفظ کا بھی مطالبہ نہیں کیا.تو یہ کیفیت تھی ساری جماعت کی اور یہی کیفیت ہے خدا کے فضل کے ساتھ اور یہاں کی
خطابات طاہر جلد دوم 40 40 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء جماعت نے جس حیرت انگیز طور پر اس ذمہ داری کو نبھایا ہے، ساری دنیا کی جماعتوں کا فرض ہے کہ ان کو دعاؤں میں یاد رکھیں.ان سارے کارکنان کو اور ان لوگوں کو جن میں بوڑھے بھی تھے،شدید سردیوں میں جبکہ درجہ حرارت منفی ہیں تک بھی پہنچ جاتا رہا ہے، یہ لوگ ڈیوٹیوں پر کھڑے رہے ہیں اور بالکل پرواہ نہیں کی.بعض دوستوں کو میں دیکھتا تھا، میں حیران ہوتا تھا کہ اس عمر کے آدمی اتنی تکلیف کیوں برداشت کرتے ہیں؟ ان کو میں سمجھاتا تھا، روکتا تھا لیکن مجال ہے جو اس معاملے میں میرے ساتھ تعاون کریں.ہر دوسری چیز میں کیا ہے، اس بارے میں میری بات نہیں سنتے تھے.کہتے تھے ! ٹھیک ہے آپ جائے ادب ہوں گے لیکن یہ کام ہم نے نہیں چھوڑنا اور بچے چھوٹے چھوٹے پیروں پر کھڑے ہیں اور پھر یہاں کے انگریز احمدیوں کے بچے بھی ، بعض ان میں سے آج کل بھی یہاں باہر کھڑے ہیں.بڑی فدائیت کے ساتھ یہ سارا کام کیا ہے اور جماعت کو محسوس بھی نہیں ہونے دیا کہ ایک بہت بڑا عملہ جو مستقل طور پر اس کام پر مقرر تھا وہ اب نہیں ہے، ایک منٹ کے لئے یہ احساس نہیں ہونے دیا.پھر مجالس سوال و جواب کے دوران، خطبات کے دوران، جلسوں کے دوران، مجھے مختلف ملاقاتیں کرنی پڑتی تھیں دنیا کے صائب الرائے لوگوں سے ان کی ملاقاتوں کے دوران سفروں کے دوران یہ ساری خدمات طوعی طور پر مجلس انگلستان کو ادا کرنے کی توفیق ملی ہے اور جب ہم سفر پر گئے تو یورپ والوں کو بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے حصہ ملا.شعبہ ضیافت بھی ایک اہم شعبہ ہے جس کے بغیر جماعت احمدیہ کمل نہیں ہوتی کیونکہ پانچ شاخیں جو خدمت اسلام اور خدمت خلق کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم فرمائیں ان میں ایک شاخ ضیافت کی بھی تھی اور آپ جانتے ہیں کہ جہاں خلیفہ وقت ہو وہاں ہر طرف سے دنیا سے لوگ آتے ہیں اور یہاں بھی دنیا کے کونے کونے سے پہنچ رہے تھے.ان کی سیر گاہ ہی انگلستان بن گئی تھی ، ان کا مقصد یہی تھا کہ جب موقع ملے، جب چھٹی ملے تو انگلستان پہنچیں اور پھر روزانہ باہر سے آنے والے بھی آیا کرتے تھے اور دودن تو خصوصیت کے ساتھ ، چھٹی کے دنوں میں کثرت سے اردگرد سے لوگ آتے تھے اور پھر مقامی طور پر ان میں لندن سے اور Greater London سے یعنی بڑے لندن سے جن دنوں میں روزانہ مجلس سوال و جواب ہوتی تھی اور بیش تر وقت جب سے میں آیا
خطابات طاہر جلد دوم 41 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء ہوں تقریباً چھ مہینے تو مسلسل روزانہ مغرب کے بعد ہم بیٹھتے رہے ہیں، جب تک وقت ملا بیٹھے رہے.تو یہ سارے دوست باہر سے آتے تھے اور ان کے لئے یہ تو ممکن نہیں ہے کہ یہاں آئیں اور مجلس سوال و جواب سن کر پھر واپس جاکے وقت پر کھانا کھا سکیں ، چنانچہ ان سب کے کھانے کا انتظام طوعی طور پر احمدی باورچیوں نے کیا، احمدی بیروں نے کیا ، احمدی مسلمین نے کیا اور آپ حیران ہوں گے یہ کیفیات سن کے کہ بعض ان میں ڈاکٹر ز بھی تھے، کوئی ائیر لائنز میں ملازم ہیں، کوئی کسی اور عہدے پر ہیں، کچھ لوگ ہیں جو ریٹائر ہو گئے تھے لیکن ہمہ وقت یہیں کے ہور ہے اور قطعاً ایک لمحہ کے لئے بھی کام میں کمی نہیں آنے دی.میں نے بلکہ کہا کہ اتنا بوجھ تو آپ اٹھا ہی نہیں سکتے ، ہمارے پاس تو بڑا عملہ ہوتا تھا، وہاں باورچی تھے ، کارکنان تھے ، دیگیں دھونے والے، برتن مانجھنے والے ،مصالحے کوٹنے والے بڑا کام ہے، آپ لوگ تھک جائیں گے.میں جماعت کو کہہ دیتا ہوں اپنی روٹی کوئی سینڈ وچ وغیرہ ساتھ لے آیا کرو وغیرہ یہاں اس کی عادت ہے مگر یہ نہیں مانے.انہوں نے کہا کہ ہم یہ خدمت ضرور کریں گے، چنانچہ کر رہے ہیں آج تک اور یہاں جو آپ آج مہمان ہیں، یہ بھی انہیں رضا کار باورچیوں کے مہمان ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر خانے کی خدمت کو اپنے لئے سب سے بڑا اعزاز سمجھ رہے ہیں.ان سے آپ پوچھیں کہ جناب! آپ ڈاکٹر ہیں تو ان کے چہرے پر کوئی تعجب نہیں ، کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی ، کوئی کسی قسم کے فخر کا احساس نہیں ہوگا، ڈاکٹر کیا ہے؟ دنیا میں ہر جگہ ہر موڑ پر ڈاکٹر مل جاتے ہیں لیکن آپ ان کو یہ کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر میں آپ کھانا بھی پکاتے ہیں پھر ان کا چہرہ تمتما تا ہوا دیکھیں.عجیب نظارے ہیں ایسے درویش آپ کو یہاں نظر آئیں گے کہ دنیا کی دوسری آنکھ پہچان بھی نہیں سکتی.دنیا والے تو جبہ و دستار کی پرستش کرتے ہیں اکثر ، میں نے دیکھا ہے لمبی لہا جاتی ہوئی داڑھیوں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سارا دین سارا تقویٰ ان میں پڑا ہوا ہے لیکن تقویٰ کسی اور چیز کا نام ہے.تقویٰ کے بعد انسان کا نفس رہتا نہیں وہ خدا اور خدا والوں کا ہو کے رہ جاتا ہے انانیت اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتی، ریا کاری سے اسے ایسی دشمنی ہوتی ہے اور ایسا بعد ہوتا ہے کہ مشرق اور مغرب میں بھی ایسا بعد نہیں ہوگا.اپنے نفس کو مٹا کر وہ زندہ رہتے ہیں اور کبھی یہ
خطابات طاہر جلد دوم 42 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء کوشش نہیں کرتے ، کبھی یہ خیال نہیں کرتے کہ ہماری اس وجہ سے عزت کی جائے.چنانچہ یہ درویش جن کا میں ذکر کر رہا ہوں اور یہ لنگر خانے والے بھی ان کا یہی حال تھا.بعض دفعہ مجھے تلاش کر کے دیکھنا پڑتا تھا کہ کون کیا کر رہا ہے اور ر پورٹ لینی پڑتی تھی ، اگر میں بیدار مغزی سے خود نہ ان کو تلاش کرتا تو یہ میری نظر سے غائب تھے.کچھ کام ہوتے ہیں جو سامنے آجاتے ہیں، کچھ لوگ ہیں جو پس منظر میں رہ کے کام کر رہے ہوتے ہیں.ان میں سے کسی ایک نے ایک دفعہ اشار تا بھی مجھ پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی کہ جی ہم تو پس منظر والے ہیں، ہمیں بھی یاد کرو، مجھے ڈھونڈ نا پڑتا تھا.پس دنیا کی آنکھیں تو ظاہر کو دیکھتی ہیں جب آپ دستار کی عزت کرتے ہیں مگر خدا کی قسم میری نگاہ بڑی محبت اور پیار سے ان پر پڑا کرتی تھی اور پڑتی رہے گی.میرا دل ان کی محبت میں اچھلتا تھا اور آج بھی اچھل رہا ہے اور ہمیشہ اچھلتا رہے گا، ان کی یاد میرے دل کی محبت کو گر ما دیا کرے گی.عجیب خدا کے بندے ہیں، ان کی مثالیں نہیں ہیں دنیا میں.یہ جماعت ہے جس کو وہ مٹانا چاہتے ہیں، کیا کا ئنات کا خلاصہ مٹادیں گے؟ کیا انسانیت کے مقاصد کو نا کام کر دیں گے؟ کیسے ممکن ہے کہ یہ پھل، یہ خدا تعالیٰ کی کائنات کا پھل کوئی مٹانے کی کوشش کرے اور خدا کا ہاتھ اس ہاتھ کو نہ کاٹ دے جو اس کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہو.ایک عالمی تبلیغی منصوبہ بھی تھا جو ہمیں فورا ساتھ بنانا پڑا اور اس کے بہت سے پہلو ہیں میں ان کا ذکر بعد میں کروں گا.ہاں انگلستان کے خدمت کرنے والوں میں جہاں تک مستورات کا تعلق ہے، ان کی بعض خدمات کے پہلو میں انشاء اللہ کل مستورات کے خطاب میں پیش کروں گا، وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہماری بات ہی کوئی نہیں ہورہی.تصنیف و تحقیق کا جہاں تک تعلق ہے یہ ایک الگ کام ساتھ جاری رہا.وہاں تو ہمارا ایک پورا شعبہ ہے اور بیسیوں علماء اللہ کے فضل کے ساتھ میسر ہیں ، جن پر جب چاہو جو بوجھ ڈالو، جو حوالے چاہئیں نکلوا ؤ، جو تحقیق کروانی ہے کرواؤ لیکن یہاں تو بہت تھوڑا عملہ تھا یعنی ایک ہی مبلغ ہیں جن سے میں زیادہ تر کام لیتارہا ہوں باقی سارے مصروف تھے.انگلستان کی مقامی ذمہ داریاں ساری اس کے ساتھ پہلو بہ پہلو چلتی رہی ہیں، اُن کا ان مرکزی انتظامات سے کوئی تعلق نہیں.چنانچہ
خطابات طاہر جلد دوم 43 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء انفرادی طور پر یہاں میں نے لوگ چنے ، تلاش کئے کہ ان کو علم کا شوق اور ذوق ہے اور ان سے کام لئے اور میں بہت حیران ہوا کہ اللہ کے فضل کے ساتھ ان لوگوں نے بھی مجھے کسی قسم کی کمی کا احساس پیدا نہیں ہونے دیا.چند مثالیں میں ان لوگوں کی خدمت کی آپ کے سامنے رکھتا ہوں پھر میں موضوع بدلوں گا.آج تو بہت زیادہ مواد ہے پتا نہیں اس وقت میں کچھ ختم بھی ہوسکتا ہے کہ نہیں لیکن یہ میں آپ کو چھوڑ چھوڑ کر باتیں بتارہا ہوں.ایک سال میں ایک مخلص فدائی جماعت جو وقف کی روح کے ساتھ پاگل ہوئی ہوئی ہو اس کے کاموں کو چند گھنٹے میں سمیٹا کیسے جا سکتا ہے، ناممکن ہے لیکن نمو نے بتانے ضروری ہیں، ان یادوں کو زندہ رکھنا ضروری ہے، تاریخ میں محفوظ کرنا ضروری ہے اور آپ جو شوق سے باہر سے آئے ہیں آپ کو علم ہونا چاہئے کہ یہاں کیا ہورہا ہے.کئی لوگ ہیں جو بیچارے میری فکروں میں گھل رہے تھے کہ پتا نہیں مجھے اکیلے کا کیا حال ہے.آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ ایک لمحہ بھی خدا نے مجھے اکیلا نہیں رہنے دیا محسوس ہی نہیں ہونے دیا، ایسے دوست تھے جن کو ہم زبردستی رخصت دیا کرتے تھے لنگر خانے میں آئے ہیں وہ دن رات بیٹھے ہوئے ہیں، جانے کا نام ہی نہیں لے رہے.چنانچہ ان کو زبردستی رخصت پر بھجوایا جاتا تھا تو وہ چلے جاتے تھے اور ان لوگوں میں ایک سیالکوٹ کے نوجوان بھی تھے، جو وہاں سے اپنے طور پر آئے ہوئے تھے اور وہ آ کر پھر لنگر خانے کے ہو کے رہ گئے اور مسلسل انہوں نے بھی یہی خدمت سر انجام دی اور جہاں تک دوسرے شعبوں کا تعلق ہے ان میں بعض نام ہیں، میں سمجھتا ہوں وہ اب یہاں نہیں لئے جاسکتے ویسے تو انشاء اللہ بعد میں شائع ہو جائیں گے.دوسرے شعبوں سے پہلے اس کے متعلق بتاتا ہوں کہ اس شعبے میں ایک ہمارے ڈاکٹر ولی شاہ صاحب ہیں اور منصور صاحب ہیں اور محمد حسین صاحب ہیں.اسی طرح منور احمد جو سیالکوٹ والے ہیں اور ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑا کام کیا ہے اور شعبہ سمعی وبصری میں بھی ڈاکٹر میاں عقیل اور ہاں ایک حنیف الرحمن صاحب بھی ہیں ان میں، وہ بھی خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور بھی ہیں بہت سارے، میں اسی لئے نام نہیں لے رہا تھا کہ اگر شروع کر دیئے تو پھر یہ نہیں پتا لگے گا ختم کہاں کرنا ہے، مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جن کے نام لئے گئے ہیں وہ بھی استغفار
خطابات طاہر جلد دوم 44 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء ہی کریں گے کہ ہمارا نام کیوں لوگوں کے سامنے آیا اور جن کے نہیں لئے گئے وہ شاید مطمئن ہوں کہ اچھا ہے ہم چھپے رہے.مگر خدا کی نظر سے تو وہ نہیں چھپے ہوئے ، ہماری نظر سے چھپنا بھی ہے تو بے معنی ہے، ہم تو کس کو کچھ بھی نہیں دے سکتے ، ہاں وہ خداوہ کائنات کا مالک خدا جو سب محسنین پر محبت کی نظر رکھتا ہے، جو کسی ادنی سی خدمت کو بھی ضائع نہیں کرتا.میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ اس سے نہیں چھپے ہوئے اور وہ بڑے پیار اور محبت کی نگاہیں ان پر ڈالتا ہوگا.ان سب کارکنان کی کیفیت تو یہ تھی کہ مجھے ان کے حالات دیکھ کر بعض دفعہ یہ شعر یاد آ جاتا تھا کہ تیرے کوچے اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا کبھی اس سے بات کرنا کبھی اُس سے بات کرنا ور کو پکڑ کے بیٹھ گئے تھے کبھی کہیں جاتے نہیں تھے کہ جناب آپ کا کام ختم ہو گیا ہے.اچھا جی! فلاں کام مجھے یاد آ گیا ہے.باتوں کے بہانے نہیں تھے، یہاں کاموں کے بہانے تھے، بچے بیمار ہوتے تھے تو ان کو پتا نہیں لگتا تھا.ایک دفعہ ایک نوجوان کو مجھے زبردستی بھجوانا پڑا کہ بچہ شدید بیمار ہے اور نہایت خطر ناک حالت ہے.اس وقت اس کی بیوی سے مجھے پتا چلا کہ جب سے آپ آئے ہیں ہم نے تو اس کو دیکھا ہی نہیں، رات کو اُس وقت آتا ہے جب ہم سب سو چکے ہوتے ہیں، صبح اُس وقت چلا جاتا ہے جب ابھی کوئی اٹھا نہیں ہوتا.خاوند کا کچھ پتا نہیں کہاں رہتا ہے، بیماری کی اطلاع دینے کے لئے میرے پاس آئی کہ ہمارے میاں کو اطلاع تو کریں چنانچہ پھر مجھے حکماً ان کو رخصت دینی پڑی.بعض تو ریٹائر ڈ آدمی ایسے ہیں جو مستقل خدمتیں یہاں دے بیٹھے ہیں، پہلے سے بھی کام کر رہے تھے اور اس دور میں بھی انہوں نے بہت ہی عظیم الشان خدمات کی ہیں.مثلاً سید امتیاز احمد شاہ صاحب ہیں واقف زندگی رضا کار، کیپٹن محمد حسین صاحب کافی بوڑھے آدمی ہیں لیکن خدمت کا جذبہ اور عشق بہت ہے.اور نو جوانوں کا یہ حال ہے کہ آپ سوچیں ایک نوجوان کے متعلق میں آپ کو بتاؤں کہ رات بارہ بجے بیٹھے وہ کھانا کھا رہے تھے تو ایک دوسرے دوست نے ان سے پوچھا کہ بڑی دیر ہوگئی ، آپ کھانا کھا رہے ہیں تو اس وقت باتوں باتوں میں ان کو یاد آیا کہ میں نے تو آج دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا.یعنی کاموں میں یہ مصروفیت اور انہماک ہے کہ دو پہر کا کھانا بھول گئے تھے
خطابات طاہر جلد دوم 45 افتتاحی خ ب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء اگر وہ پوچھتے نہ تورات کے بارہ بجے بھی یاد نہیں آنا تھا کہ میں نے دو پہر کا بھی نہیں کھانا کھایا ہوا.اس دور میں بعض نئے مخلصین دریافت ہوئے یعنی خدا تعالیٰ نے بنائے اور ہمارے سپرد کر دیئے.وہ لوگ جن کا مشن سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا، وہ فدائی بن گئے اور ایسا کاموں کا ان کو چسکا پڑا کہ واقعہ وہ یہیں کے ہور ہے اور یہ نئے دوست ایک دو نہیں ہیں ، خدا تعالیٰ نے بہت سے انصار یہاں ایسے عطا کئے ہیں جن کو احمدیت کی چاشنی کا پہلی دفعہ احساس ہوا ہے اور پھر ایسی گی ہے کہ وہ منہ سے چُھٹ نہیں سکی.مالی نقصانات کے متعلق میں جانتا ہوں بہت سے دوست ہیں جن کے کاروبار کو نقصان پہنچا اور بعض ترقیات رک گئیں اس وجہ سے کہ وہ زائد کام نہیں کر سکتے ، اور ٹائم ملتا تھا یعنی میں معین مثالیں آپ کو دے رہا ہوں، کوئی اندازے نہیں بتا رہا اور یہاں اوور ٹائم کے لئے تو لوگ بڑی کوشش کرتے ہیں، نہ ملنے پر بڑی تحریکیں بھی چلتی ہیں اوور ٹائم جولیا کرتے تھے پہلے، کام کرتے تھے اوور ٹائم کا ، بالکل چھوڑ دیا پر واہ ہی نہیں کی ، آنکھ اٹھا کے بھی نہیں دیکھا.ایک صاحب ہیں مکرم ملک رشید احمد صاحب وہ ایسا کام کرتے تھے دفتر میں کہ ان کو ایک دفعہ کسی نے مذاق میں کہا کہ میاں تم تو یہاں دفتر کے چپڑاسی لگے ہوئے ہو، ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے انہوں نے کہا! تم مجھے کیا طعنہ دیتے ہو؟ خدا کی قسم میں تو خاکروب لگوں تو اس پر بھی فخر کروں.مجھ سے ادنیٰ سے ادنی ، ذلیل سے ذلیل کام لیں، مجھے موقع تو دیں خدمت کا.دواور نو جوانوں کا قصہ سن لیجئے.بعض بوڑھے ہوتے ہیں ان کو بھی جب بیویاں فوت ہو جاتی ہیں، شادیوں کا بڑا شوق ہوتا ہے.آپ کے قافلے میں بھی آئے ہوئے ہیں دو ایسے بوڑھے جوان جو علاقے میں مشہور ہیں لیکن یہاں کے نوجوانوں کا حال سنئے کہ دو نو جوان ہیں ایک کے متعلق ان کے عزیزوں نے مجھ سے شکایت کی کہ شادی نہیں کرتے کہ ہمیں قرب جو نصیب ہے آج کل اس سے محروم رہ جائیں گے یعنی پاگل ہوئے ہوئے ہیں احمدیت کی محبت میں اور فدائیت میں اور پھر خلافت سے وابستگی کا عالم یہ ہے کہ یہ مزے کہ بیٹھے ہوئے ہیں پاس دیکھ رہے ہیں، ہل رہے ہیں، کہتے ہیں ! ہم تو یہ جگہ چھوڑ ہی نہیں سکتے ، اس لئے آپ خیال چھوڑ دیں، جب تک حضرت صاحب یہاں ہیں اُس وقت تک ہم نے شادی نہیں کرنی.دو نوجوان ایسے بھی ہیں ان کی تو خیر شادی زبر دستی کروائیں گے انشاء اللہ اور یہ ایک فائل میں سے چند باتیں سنائی ہیں یہ ساری فائلیں ہیں جو آپ کو دکھانی ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 46 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء اسلام آباد جو یہاں لیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانات کا ایک نشان ہے.جن حالات میں اسلام آباد ہمیں ملا، ہماری امیدوں ہماری کوششوں کے بالکل برخلاف اچانک یہ آیا ہے اور اس سے پہلے جتنی کوششیں کی گئیں اس سے بہت ادنی جگہیں حاصل کرنے کی کیونکہ یہاں بڑی جگہیں ملتی ہی نہیں ہیں ملتی ہیں تو وہاں تعمیرات کے حقوق نہیں ملتے اس لئے ساری جماعت لگی ہوئی تھی ، دن رات کوشش کر رہی تھی ہمارے انگریز احمدی بھی اور مقامی بھی لیکن جہاں ہاتھ ڈالنے کی کوشش بھی کرتے تھے ناکام ہو جاتے تھے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تقدیر رکھی تھی کہ ہم یہاں ضرور پہنچیں گے آخر اچانک یہ جگہ نکلی ہے اور اچانک خدا تعالیٰ کے فضل سے حالات پیدا ہوئے اور ہمارا سودا بھی ہو گیا اور جس وقت تک ہم یہاں پہنچے ہیں اس سے پہلے پہلے رقم بھی اکٹھی ہو چکی تھی خدا کے فضل کے ساتھ.یہاں بھی خدام نے اور بجنات نے جو خدمت کی ہے آپ کے آنے سے پہلے، آپ کو تکلیف تو شاید ہوگی ، جب اکھڑتا ہے انسان گھر سے تو دوسری جگہ تکلیف ہوتی ہے.اچھے ہوٹلوں میں بھی بعض دفعہ ہوتی ہے لیکن اس تکلیف کو آپ محسوس نہ کریں کیونکہ آپ سوچ نہیں سکتے کہ کیا جگہ تھی جو کیا بنا دی گئی ہے.بوڑھوں ، بچوں نے ، ایسوں نے جو دل کے مریض تھے اور ہیں اور اُن کے سپرد میں نے یہ کام کیا ہوا تھا، اس وقت تک وہ کام کرتے رہے جب ڈاکٹروں نے زبردستی ہسپتال بھجوایا ہے اور کہا ہے کہ زندگی کا خطرہ ہے اگر اب تم باز نہیں آؤ گے تو مر جاؤ گے اور جوان خود اپنے خرچ پر بڑی بڑی دور سے آتے تھے، یہ معمولی کام نہیں ہے انگلستان میں اکٹھے ہونا.یہاں تو شام کے لئے اکٹھا ہونا بھی ایک بڑا کام ہے.تو دوسری بستیوں سے، دوسرے قصبات سے یہاں پہنچتے تھے اور خدمت کرتے تھے.4521 گھنٹے انہوں نے یہاں کام کیا ہے تب اسے رہائش کے قابل بنایا ہے اور مجھے یہ خطرہ تھا کہ یہاں صحت کے محکمے اور دوسرے محکمے جو جائزہ لیتے ہیں کہ یہ جگہ انسانی رہائش کے قابل ہے یا نہیں ہے وہ اس کو پاس نہیں کریں گے، وقت تھوڑا تھا اور یہاں کے معیار بہت سخت ہیں چنانچہ ایک ٹیم آئی باقاعدہ اور انہوں نے اس کا معائنہ کیا تو حیران رہ گئے کہ یہ کیا ہوا ہے، وہ کہتے تھے کہ یہ کوئی جناتی کا رروائی ہے، ہو کیا گیا ہے یہ؟ چنانچہ ایک صاحب نے کہا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ مجھے پتا نہیں ہے، میں چھپ کر کھڑکیوں سے جھانک کر یہ ساری جگہ دیکھ گیا تھا اور مجھے یقین تھا کہ اس جگہ کو
خطابات طاہر جلد دوم 47 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء انسانی رہائش کے قابل بنایا جا سکے ناممکن ہے.کئی سال سے بند بوسیدہ حالت میں پڑا ہوا ایک سکول.جو کئی سال پہلے بند کیا جا چکا تھا بد بوئیں، گندگی سالہا سال سے بند فضا کی وجہ سے ایک ہمک اور بہت بُرا حال تھا بیچاری جگہ کا تو اس نے کہا میں تو تیاری کر کے آیا تھا کہ یہ اعتراض کروں گا، یہ اعتراض کروں گا.میں تو حیران رہ گیا ہوں مجھے بتاؤ یہ وہی جگہ ہے؟ پہچانا نہیں جاتا تھا ان سے.جو کارکنان ہیں ان کے اسماء اس کی ایک فہرست ہے میں انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کو کہوں گا یہ بعد میں شائع کریں گے، یہ پوری ایک سال کی جو تاریخ ہے ہماری یہ بڑی خاص تاریخ ہے، بڑے پیار سے یا درکھنے کے لائق تاریخ ہے.اتنے فضل خدا کے نازل ہوئے ہیں اس میں کہ آپ حیران ہو جائیں اگر ان کا سارا ذکر سنیں لیکن میں تو صرف چند نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں، یہ اسماء بھی انشاء اللہ اس میں چھپ جائیں گے.یہ جو یورپین مرکز کے لئے میں نے تحریک کی تھی دو مراکز کے لئے ان میں سے ایک کا پھل یہ اسلام آباد ہے اس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے جو قربانیوں کا مظاہرہ کیا ہے وہ ایک بہت ہی عظیم الشان مظاہرہ ہے تھوڑے ہی عرصے میں دوسرے تمام بوجھوں کے علاوہ بہت سے چندوں میں جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے حصہ لے رہی ہے بعض مقامی کاموں میں عام چندوں کے علاوہ حصہ لیتی ہے.امریکہ مشن ہے مثلاً وہاں کے مقامی بہت سے کام تھے اور مختلف جماعتوں کے سپر د میں نے کام ایسے کئے ہوئے ہیں کہ عام چندوں کے علاوہ ان پر بوجھ ہیں، ان کو میں جانتا ہوں لیکن اس کے باوجود تھوڑے ہی عرصے میں 2,103,67,640 روپے کے جماعت احمدیہ نے وعدے بھی کئے اور ادائیگی بھی کی ، ادائیگی کم و بیش اتنی ہو چکی ہے اور بہت سے احمدی خواتین کے زیورا بھی پڑے ہوئے ہیں لکھوکھا کے جن کو ابھی ہم فروخت نہیں کر سکے اور بہت سی رپورٹیں ہیں جو ابھی اس میں شامل نہیں ہوئیں.چنانچہ شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا ہو جبکہ نئے چندے کی رپورٹیں مجھے نہ ملتی ہوں دنیا سے مختلف خط لکھنے والے، خط لکھنے والے یا کوئی اور قربانی کا مظاہرہ نہ دیکھتا ہوں.آج صبح آنے سے پہلے میں دفتر گیا تا کہ جو فوری نوعیت کے کاغذات ہیں کم سے کم وہ تو میں ابھی دیکھ لوں، تو وہاں ایک پوری ڈھیری جو گٹھری بنی ہوئی پڑی تھی تو میں نے دیکھا تو وہ سارے زیورات تھے جو خواتین نے باہر سے بھجوائے تھے وہ ابھی اس میں شامل نہیں ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 48 افتتاحی خ ب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء چونکہ تفصیلات میں چھوڑ رہا ہوں وقت کے لحاظ سے ، اس لئے آپ کو یہ نہیں اس وقت پتہ لگ سکتا کہ اس میں ملک وار کس کس کا کتنا حصہ ہے.نمایاں ملک بہر حال خدمت میں انگلستان ہے، مغربی جرمنی ہے، امریکہ ہے اور خلیج کے ممالک ہیں اور پاکستان اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کراچی اوّل ہے اور ربوہ دوم ہے اور راولپنڈی اور اسلام آباد اور لاہور کے درمیان مقابلہ ہے کہ کون اول ہے، رقم کے لحاظ سے تو بہر حال لاہور آگے ہے مگر جو حیثیت اور توفیق ہے اس کے مطابق میں نہیں کہہ سکتا کہ لاہور آگے ہے یعنی راولپنڈی اور اسلام آباد نے بھی حیرت انگیز قربانی کا مظاہرہ کیا ہے اور جو قربانی کے واقعات ہیں وہ تو اتنے عظیم الشان ہیں کہ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ وہ جس شخص کو روزانہ ان کو پڑھنا پڑتا ہوگا اس دل کا کیا حال ہوتا ہوگا.ایسے حیرت انگیز واقعات ہیں کہ دنیا میں کوئی قوم آج ایسی نہیں ہے جو آپ کا لِلہ قربانی میں کسی رنگ میں بھی مقابلہ کر سکے.آپ تنہا ہیں اس میدان میں، اکیلے ہیں نمایاں ہیں اور یہ تو فیق یہ اعزاز آپ کو احمدیت کی وابستگی سے نصیب ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں پڑ کر ہم نے محمد مصطفی نے کے قدموں میں پڑنے کے مزے لے لئے اور ہمیں کہتے ہیں ان قدموں کو چھوڑ دو اور خدا تعالیٰ کے فضل بھی ساتھ ساتھ نازل ہوتے ہیں.بکثرت ایسے واقعات ملتے ہیں کہ ایک شخص کہتا ہے کہ جی میں نے قربانی کرنے کی خاطر کام کیا، یہ عزیز چیز چھوڑی اور دیکھتے دیکھتے خدا نے مجھے شرمندہ کر دیا.اس قربانی کے بدلے اتنا انعام کر دیا دنیا کے لحاظ سے بھی اور ملتا جلتا انعام کہ مجھے یقین ہو جائے کہ یہ خدا نے اس قربانی کا بدلہ دیا ہے.یہ واقعات اس کثرت سے ہوئے ہیں کہ کوئی معقول آدمی جو ان کا مطالعہ کرے یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اتفاقی حادثات ہیں.واقعات میں سے ایک نمونہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ایک ہمارے مربی سلسلہ ہیں ان کی شادی ہوئی تھی یا ویسے ان کو شوق آیا تھا گرم سوٹ سلوانے کا اور تین سو روپے ان کے پاس تھے جو سلائی کے لئے اتنے ہی بنتے تھے.جب تحریک ہوئی تو انہوں نے کہا سوٹ دیکھے جائیں گے خدا تعالیٰ نے زندہ رکھا، تو فیق دی تو دیکھ لیں گے.وہ تین سو روپے فوری طور پر یورپین مراکز کے لئے پیش کر دیئے اور چند دن کے اندر اندر امریکہ سے ان کے رشتے داروں میں سے کسی نے ایک نہایت خوبصورت کوٹ ان کو بھجوایا جو اس کپڑے کے مقابل پر اور اس سوٹ کے مقابل پر جو انہوں نے بنانا
خطابات طاہر جلد دوم 49 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء تھا اس سے کوئی بیسیوں گنا زیادہ خوبصورت اور دلکش تھا.ایک انگوٹھی ایک عورت نے دی اور مجھے لکھا کہ مجھے یہ بڑی پیاری تھی اور میں نے ذرا سا تذبذب کیا، پھر میں نے کہا نہیں خدا کی خاطر دینی ضرور ہے اور عجیب بات ہوئی کہ میں فلاں جگہ پہنچی تو میری فلاں بہن نے ایک نہایت پیاری انگوٹھی میری انگلی میں پہنادی، میں فلاں جگہ پہنچی تو ایک اور بہن نے ایک اور انگلی میں پہنادی.انہوں نے کہا کہ اب میری ایک بھی انگلی خالی نہیں ہے، اس ایک انگوٹھی کے بدلے آٹھ انگلیوں میں اب انگوٹھیاں ہیں خدا کے فضل کے ساتھ میں تو ان کو دیکھتی ہوں اور اللہ کی رحمتوں کو یاد کرتی ہوں.ان گنت مثالیں ہیں خدا تعالیٰ کے فضلوں کی کہ نقد نقد انعامات پر انعامات کرتا چلا جاتا ہے اور بتاتا ہے کہ انتُمُ الْفُقَرَآءُ تم فقیر ہو ہم تمہارے محتاج نہیں ہیں.جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے چونکہ ہماری تبلیغ کو نا کام بنانے کی کوشش کی گئی تھی اس لئے فوری طور پر اس کام کی طرف توجہ کی گئی اور دعوت الی اللہ کے منصوبے کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے ذکر سے پہلے میں آپ کو موجودہ طور پر جو جماعت کی اس وقت کیفیت ہے یا آج سے ایک سال پہلے جو کیفیت تھی وہ بتاتا ہوں کہ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ 80 ممالک میں جماعتیں قائم تھیں اور اب یہ تعداد بڑھ رہی ہے اور ان میں 307 مرکزی مبلغ اور 111 مبلغ اس کے علاوہ ہیں غالباً مقامی 111 ہیں.اس دوران جو ۱۹۸۴ء کا سال ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں نئے مشنز کھولنے کی بھی توفیق ملی اور کسی پہلو سے بھی ایک منٹ کے لئے بھی کام نہیں رُکا.۱۹۸۴ء کے سال میں ہم نے زائرے میں مشن کھولا ، زمبابوے میں کھولا ، آسٹریلیا میں کھولا اور اس وقت مبلغ چونکہ اجازت نہیں ملی تھی اب جا رہا ہے، یہاں اس وقت موجود ہے انگلستان میں، وہ نائیجیریا سے ان کو منتقل کیا گیا تھا وہ اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں اور تھائی لینڈ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نیا مشن کھولا ، گو یا چار نئے ممالک میں خدا تعالیٰ نے اس ایک سال میں مشن کھولنے کی توفیق عطا فرمائی.اس کے علاوہ میں نے رضا کار مبلغین کا نظام بھی جاری کیا اور بعض ممالک جہاں مبلغ نہیں جاسکتا تھا وہاں بعض دوستوں کو تحریک کی انہوں نے وہاں نوکریاں اس نیت سے تلاش کیں کہ ہم جا کر وہاں مبلغ بنیں.چنانچہ نبی کے قریب ایک جزیرے میں اس نیت سے ایک نوجوان کو میں نے تیار کیا
خطابات طاہر جلد دوم 50 50 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء تھا کہ تم نے درخواستیں دینی ہیں، کوشش کرنی ہے وہاں ضرور پہنچنا ہے اور تمہارے سپر د وہ ملک کر دیا ہے.چنانچہ اللہ کے فضل سے ۱۹۸۴ء میں ان کو بھی وہاں با قاعدہ ایک رضا کار مشن بنانے کی توفیق ملی اور اینٹی گوا، ویسٹ انڈیز کا ایک جزیرہ ہے وہاں ہمارے سوئس احمدی رفیق چانن نے اپنا نام رضا کار مبلغ کے لئے پیش کیا اور بہت خدمت کی ہے.بہت ہی عظیم الشان کام انہوں نے جماعت کی خدمت کا اور تبلیغ کا باقاعدہ ایک مبلغ کے طور پر کیا ہے.نیوزی لینڈ میں محمد اسلم ناصر ہمارے آنریری مبلغ بنے اور جو جزیرہ جس کا میں نے ذکر کیا تھا وہاں اب خدا نے ایک اور بھی آنریری مبلغ ہمیں عطا فرما دیا ہے.اس کا نام Tutuila یا اس قسم کا کوئی نام ہے جو پڑھا نہیں جاتا مجھ سے.ہمارے ایک اور دوست اب وہاں پوسٹ ہوئے ہیں اور ان کا بھی بڑا دلچسپ واقعہ ہے، ان کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا اور بڑی کوشش سے انہوں نے ملازمت کی تلاش کی.مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو اسی دن یا اس سے ایک دن پہلے مجھے یہ مبارک صاحب کی رپورٹ آئی تھی اس جزیرے سے کہ یہاں تو بہت کام ہے اور بڑا ضروری ہے تو میں یہ نیت لے کے بیٹھا تھا کہ ان کو یہ کہوں کہ تم اس جزیرے کے لئے کیوں نہیں کوشش کرتے ، دنیا بہت کمالی ہے اب وہاں جا کے کام کرو.وہاں اگر کام مل جائے تو اس سے اچھی اور کوئی جگہ نہیں ہوگی تو میں بات کرنے لگا تو انہوں نے کہا ! جی میں ایک بڑے ضروری مشورے کے لئے آیا ہوں.میں نے کہا !ہاں بتا ئیں، انہوں نے کہا ! مجھے بڑی تلاش کے بعد ایک نوکری تو ملی ہے لیکن اتنی دور ملی ہے کہ میرا دل نہیں چاہتا.میں نے کہا! کہاں ملی ہے، انہوں نے کہا! اس جزیرے میں ملی ہے.میں نے کہا! یہ تو خدا نے بھیجا ہے آپ کو، یہ رپورٹ مجھے آج ملی تھی یا کل اور میں یہ فیصلہ کر کے بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے علم تھا ان کے حالات کا کہ آپ کو مجبور کروں گا کہ ضرور وہاں جائیں اور وہاں نوکری لیں اور وہ یہ مسئلہ لے کے آئے تھے کہ و ہیں ملتی ہے اور کہیں ملتی نہیں، تو اس طرح خدا تعالیٰ زبردستی ہمارے کام کر رہا ہے کوئی ہماری چالاکیاں نہیں ہیں اس میں.نئی جماعتوں کے قیام کی تحریک کی گئی تھی چنانچہ اس عرصے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مندرجہ ذیل ممالک میں نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں.میں نے کہا تھا اسی ممالک ہیں.میں نے تحریک یہ کی تھی کہ بعض ممالک اپنے ذمہ یہ لے لیں کہ ہم اتنے ممالک کو احمدی بنائیں گے اور اسی ممالک کو
خطابات طاہر جلد دوم 51 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء کم از کم 100 تک پہنچانا ہے صد سالہ جو بلی سے پہلے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے موریطانیہ، ٹونگا، روانڈا، برونڈی، زنجبار اور موزمبیق میں ہمیں ان نئے ممالک میں احمدیت قائم کرنی کی توفیق ملی ہے.موریطانیہ تو گیمبیا مشن کی تبلیغ سے احمدی بنا شروع ہوا ہے، ٹونگا طاہر حسن صاحب منشی نجی کے ہیں انہوں نے وعدہ کیا تھا، ان کے ذریعہ اللہ کے فضل سے یہاں بیج لگا، ان کے ساتھ مختار علی مقبول بھی تھے.روانڈا میں اور برونڈی اور زنجبار اور موزمبیق میں یہ تنزانیہ مشن کی کوششوں کے نتیجے میں کام ہوا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور باقی ممالک کو میں یاد کرا رہا ہوں اب وہ اپنا فرض یا درکھیں تھوڑ اوقت رہ گیا ہے.میں تو یونہی میں نے کہا تھا اصل میں جو سکیم ہے وہ تو یہ ہے کہ ہر ملک کو ایک سے زائد نام دیئے گئے تھے اگر وہ سارے اپنا کام کریں تو ناممکن ہے کہ دنیا میں ایک بھی ملک ایسا باقی ، رہ جائے جہاں سو سال سے پہلے پہلے احمدیت کا پودا نہ لگ چکا ہو.امر واقعہ یہ ہے کہ انفرادی تبلیغ کے بغیر آپ دنیا میں اسلام کا جھنڈا نہیں گاڑ سکتے.مبلغین کے ذریعے ساری دنیا اسلام کے لئے فتح کرنی یہ تو محض خواب ہے ایک دیوانے کا خواب ہے صرف ایک امید کی صورت ہے کہ کچھ نہ کچھ خدا فضل فرما تار ہے لیکن اللہ تعالیٰ بھی تو جو ذمہ داریاں ڈالتا ہے، ان پر زیادہ فضل فرماتا ہے جو دیانتداری سے ان کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے اس بات کو نہ بھولیں کہ آپ نے کام کرنا ہے اور پھر تو کل کرنا ہے، کام نہ کر کے تو کل یہ جہالت ہے یہ اسلامی فلسفہ نہیں ہے.تو دنیا فتح ہوا کرتی ہے افرادی قوت سے ، یہ اشتہاری تبلیغی کتا بیں یہ ریڈیو پرو پیگنڈے یہ سارے تو دور کے فائر ہیں، جس طرح Tunnel فائر ہوتا ہے Cover دینے کے لئے ، علاقے تو نہیں فتح ہوا کرتے Territory تو ہمیشہ سپاہی سے فتح ہوتی ہے.چنانچہ ہمارا تجربہ ہے یورپ میں جہاں جہاں یہ بیدار ہوئے ہیں مثلاً جرمنی میں ان پڑھ، آدھے پڑھے ہوئے بیچارے زیادہ دین کا علم بھی نہیں رکھتے تھے ان کی تبلیغ کے نتیجے میں یہ تبدیلی پیدا ہوئی ہے کہ جہاں اس سے پہلے دس سال میں پچاس بھی نہیں ہوئے تھے وہاں ایک سال میں ایک سو پندرہ ہو گئے اور ہر معیار کے ہوئے ہیں، بڑے بڑے تعلیم یافتہ بھی ہوئے ہیں، مختلف ممالک کے ہوئے ہیں ، عرب بھی ہوئے ہیں غیر عرب بھی ہوئے ہیں، ایسٹ یورپین ممالک کے بھی ہوئے ہیں، اٹلی کے بھی ہوئے ، فرانس کے بھی ہوئے اور ان کا بڑا اعلیٰ اخلاص کا نمونہ ہے میں مل کے آیا ہوں ، تو
خطابات طاہر جلد دوم 52 52 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء انفرادی تبلیغ کی طرف جو جماعت نے توجہ کی ہے یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے.ناروے بھی میں سمجھتا ہوں بیدار ہو گیا ہے اور اس معاملے میں آگے بڑھ رہا ہے اور مشرق بعید میں انڈونیشیا میں اچھا کام ہورہا ہے، نجی میں اچھا کام ہو رہا ہے، بین میں ہے، گیمبیا میں ہے اور سیرالیون میں ہے اور گھانا بھی کوشش تو بڑی کر رہا ہے لیکن ابھی تک بعض ہمسایہ ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکا.تبلیغ کے نتیجے میں جو انفرادی تبلیغ کا عصر ظاہر ہوا ہے، اس سے آپ یہ اندازہ لگائیں کہ کس تیزی کے ساتھ خدا تعالیٰ نے ترقی عطا فرمائی ہے.۱۹۸۴ء جو ابتلاء کا سال ہے اس میں ۱۹۸۲ء کے مقابل پر رفتار میں سو فیصدی اضافہ ہو گیا ہے اور یہ درمیان کا جو ۸۳ ء کا سال ہے اس میں باون فیصدی تھا جس کا مطلب ہے Trend قائم ہوا ہے اور یہ ہے اصل خوشخبری تعداد میں اضافہ تو ہوتا رہتا ہے، کبھی اونچا ہو گیا کبھی نیچا ہو گیا لیکن جس کو Acceleration کہتے ہیں یہ ہے جس سے فتوحات ہوتی ہیں.چنانچہ اللہ کے فضل کے ساتھ ان تین سالوں میں Acceleration دکھائی دے رہی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کام اگر اسی طرح کرتے رہے دیانتداری اور اخلاص سے اور آگے بڑھاتے رہے تو دیکھتے دیکھتے جو پچھلے کاموں کا پھل ہے وہ بھی آپ کو ملنا شروع ہوگا اور بہت تیزی سے پاک تبدیلی پیدا ہوگی.یورپ کے ذکر میں میں ہالینڈ کا ذکر کرنا بھول گیا، ہالینڈ میں بھی اللہ کے فضل سے انفرادی تبلیغ پر توجہ ہوگئی ہے، بہت خدمت کرنے والے وہاں ہمیں مقامی بھی اور دوسرے پاکستانی بھی ملے ہیں.وقف عارضی کے وفود تو بہت گئے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ رپورٹیں سب نہیں بھیجتے اور یہ میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ وقف عارضی کی رپورٹیں ضرور بھیجا کریں کیونکہ اس سے لطف بھی آتا ہے اور مجھے پتا لگتا رہتا ہے کہ ہو کیا رہا ہے اور پھر میں راہنمائی بھی کر سکتا ہوں پھر ایک وقف عارضی کی رپورٹ دوسرے کے لئے بھی راہنمائی کا موجب بنتی ہے اور روشنی بڑھتی ہے جماعت کی.انسان تو روشنی میں سفر کرتا ہے، ہر ترقی کا تعلق روشنی سے ہے.تو علم کی روشنی ، حقائق کی روشنی ، تجارب کی روشنی اس سے کیوں محروم کرتے ہیں جماعت کو ، جب آپ کو حاصل ہوگئی ، خدا نے عطا فر مادی تو محض آپ کی خاموشی کے نتیجے میں ہم اس روشنی سے محروم رہ جائیں یہ تو بڑا ظلم ہے.جن وفود نے رپورٹیں بھجوائی ہیں ان میں ایک ناروے خاص طور پر قابل ذکر ہے، انہوں نے روس میں لینن گراڈ اور تھالین
خطابات طاہر جلد دوم 53 افتتاحی خ ب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء کے مقام پر خدا تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں سے بھی اور غیروں سے بھی رابطہ کیا اور باوجود اس کے کہ بظاہر خطرات بھی تھے ہو سکتا تھا کہ وہ برا مان جائیں لیکن پر واہ نہیں کی اور بہت عمدہ پیغام پہنچا کر آئے ہیں، فن لینڈ میں بھی یہ کام کر رہے ہیں اور اچھا کام کر رہے ہیں.انگلستان سے ہمارے دو وفد گئے تھے اٹلی ان میں ایک ہمارے ناصر وارڈ صاحب نو مسلم احمدی ہیں اور ایک میاں محمد افضل بٹ اور ان کے ساتھی، ناصر کے ساتھ تو ان کا بچہ بھی تھا چھوٹا واقف عارضی کے طور پر انہوں نے رپورٹیں دی ہیں اور بہت عمدہ کام کیا ہے دونوں گروپوں نے.حامد اللہ خان صاحب اور ان کی اہلیہ یہ پین گئے تھے اور بڑی پُر لطف رپورٹ ہے کس طرح ہماری بچی لمتہ ابھی بھی ساتھ شامل تھی برقعہ پہن کے اور برقعے کی وجہ سے بڑی کثرت سے لوگ آتے تھے اور زیادہ توجہ ہوتی تھی اور مانگ مانگ کر ، کہتے تھے ہمارے لئے تو مشکل یہ تھا کہ فورا لٹریچر ختم ہو جاتا تھا.کیسٹ ایک تھی تو انہوں نے کہا میں کیسٹ تھوڑی سی لگادیتی ہوں لٹریچر تو دیکھتے دیکھتے ہاتھوں سے نکل گیا تھا تو کیسٹ لگوائی اور جلدی بند کر دی کہ لوگ تھک نہ جائیں، تو وہ پیچھے پڑ گئے کہ ہم نے تو پوری سنی ہے چنانچہ کھڑے ہو کے ان کو پوری کیسٹ سنوائی.مانگ ہے طلب پیدا ہو چکی ہے دنیا میں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل لے کر آرہا ہے ، پھل پک رہا ہے آپ ہاتھ بڑھائیں اور اس پھل کو اسلام کا پھل بنا دیں، رحمت کا پھل بنادیں اگر آپ نہیں ہاتھ بڑھائیں گے تو قانون قدرت ہاتھ بڑھائے گا اور اس پھل کو Dicky کا پھل بنادے گا، ضائع کر دے گا ، بے معنی ہو جائے گا یہ پھل، گلے گا سڑے گا.اسی لئے جب پھل پکنے کے وقت آتے ہیں قوموں کی تاریخ میں تو بہت غیر معمولی جد و جہد اور ولولے کے ساتھ پھر کام کرنے چاہئیں اور یہ ہیں Fruit gathering یہ تو موسم ایسے ہوتے ہیں کہ دنیا کے پھل بھی جب پکتے ہیں تو سکول کے بچے بھی بلا لئے جاتے ہیں، جو عورتیں کام نہیں کیا کرتیں وہ بھی پہنچ جاتی ہیں، باسکٹس پکڑی ہوئیں ساری پھیل جاتی ہیں کھیتوں میں اور باغوں میں تو آپ کے لئے تو خدا نے باغ سجائے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں.بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں (درین صفحہ :۵۰) تو اس بہار سے فائدہ اٹھائیں اس کی خوشبو سے اپنے دل و جان کو معطر کریں اور حضرت
خطابات طاہر جلد دوم 54 5.4 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپاہی بن کر اسلام کے لئے ساری دنیا کے پھل سمیٹیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت آپ کو عطا کر رہی ہے.ڈنمارک میں سورم ہینسن صاحب نے ، ڈنمارک سے یوگوسلاویہ کا دورہ کیا تھا اور یہ بھی بہت ہی ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے والے ہیں، نہایت عمدہ رپورٹ ہے ان کی اور مجھے بہت خوشی ہوئی.اللہ کے فضل کے ساتھ کہ بہت اچھا کام انہوں نے کیا ہے، بڑی حکمت کے ساتھ رابطے قائم کئے اور لٹریچر تقسیم کیا اور ان لوگوں کو دعوتیں دیں، تلاش کئے وہ لوگ جو پہلے احمدی تھے ، بہت اچھا کام ہوا ہے.جہاں تک ممالک کا اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ ہونے کا تعلق ہے 100 ممالک والی سکیم میں ڈنمارک مشن نے آئس لینڈ میں تبلیغ کرنی تھی ، رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کچھ کام کیا ہے، ناروے نے فن لینڈ میں اور پولینڈ میں اور روس میں کام کرنا تھا.ناروے نے فن لینڈ اور پولینڈ اور وارسا پیکٹ کے علاقوں میں خصوصیت سے توجہ کرنی تھی وہ انہوں نے کچھ کام کیا ہے کچھ انشاء اللہ اور بھی کریں گے، تیونس کے دونو جوان خدا کے فضل سے ڈنمارک مشن کے ذریعے احمدی ہوئے ہیں اور تیونس میں بھی اللہ تعالیٰ نے با قاعدہ احمدیت قائم کر دی اور انہوں نے واپس جا کر ایک بیعت بھی بھیجی ہے مجھے اور بہت خوش ہیں خدا کے فضل سے ، وہ کہتے ہیں اب انشاء اللہ جلدی جلدی ہم یہاں پھیلیں گے.گیمبیا نے ملک گنی بساؤ میں اچھا کام کیا ہے اور موریطانیہ میں بھی انہیں کی وجہ سے ہوا ہے.اسی طرح نبی ، جاپان کو ریا کی طرف جاپان اُس طرف توجہ کر رہا ہے اور وہاں خدمت سر انجام دے رہا ہے.تنزانیہ کا میں بتا چکا ہوں ، ملاوی میں بھی اچھا کام ہوا ہے، سپین والے بھی توجہ دے رہے ہیں، بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں.ان کے سپرد پہلے تو مرا کو اور الجیریا تھا پھر انہوں نے کہا کہ ہمیں اٹلی بھی دے دو چنانچہ اٹلی بھی ان کے سپر داب کیا گیا ہے.انڈونیشیا نے اپنے اردگرد برونائی اور بعض دوسری جگہیں مانگی تھیں ، وہاں انہوں نے بھی کام شروع کیا ہوا ہے.صومالیہ میں خدا کے فضل سے ایک پھل لگا ہے وہ بھی بیرونی تبلیغ کے نتیجے میں صومالیہ میں مقامی طور پر نہیں.اب وہاں با قاعدہ جماعت قائم ہو گئی ہے.
خطابات طاہر جلد دوم 55 59 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء اور اب سنئے یہ جو تبلیغ میں نمایاں اور غیر معمولی حرکت پیدا ہوئی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اضافہ ہوا ہے.اس کے چند نمونے میں آپ کو بتاتا ہوں جو يَدٌ خُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا کا نظارہ پیش کرتے ہیں یعنی اس کا آغاز ہم دیکھ رہے ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت تیزی کے ساتھ احمدیت کو پھیلانے والا ہے، یہ تیاری ہورہی ہے یہ چند مزے آپ کو چکھا رہا ہے.اس لئے آپ اگر اس کام سے ہاریں گے نہیں تھکیں گے نہیں ، اسی ہمت اور خدا پر توکل کرتے ہوئے اور دعاؤں کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو ہر جگہ آپ کو يَدْخُلُونَ فِي دِيْنِ اللهِ افْوَاجًا کے نظارے نظر آئیں گے، اس کی تیاری شروع کر دیں چنانچہ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے پھر آخر بڑی چیزیں بنتی ہیں.فی الحال دنیا کی نظر میں شاید یہ چھوٹی ہوں لیکن ہمیں علم ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ ایسے واقعات ہیں جن کی تعداد بڑھ رہی ہے، ایک رحجان قائم ہو رہا ہے.سیرالیون کے مبلغ اطلاع دیتے ہیں مثلاً کہ ایک جگہ جہاں کوئی جماعت نہیں تھی وہاں ہم گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پہلے دن ہی گیارہ افراد کو تو فیق عطا فرمائی اور امام مسجد بھی ان میں شامل ہوئے اور پھر دس مزید افراد شامل ہوئے اور ان سب کے چونکہ خاندان بھی ساتھ شامل تھے تو دو چار دن کے اندر ہی 70 افراد پر مشتمل ایک جماعت قائم ہوگئی.کینما ضلع کے ایک گاؤں کیا کے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ وہاں سیرالیون کے اجتماع کے موقع پر وہاں کے تین افراد جلسے میں شامل ہوئے تھے اور اُس جلسے کی وجہ سے بیعت کر کے لوٹے ہیں.جماعت کی ویسے کوششوں کا کوئی دخل نہیں تھا.جب واپس گئے تو تین نہیں رہے، تین خاندان بن گئے اور پھر اب وہاں با قاعدہ ایک جماعت ہے اور بہت اچھے مبلغ بن گئے ہیں وہ سارے گاؤں کو تبلیغ کر رہے ہیں بلکہ علاقے میں بھی کام کر رہے ہیں.ایک اور خوشخبری وہ یہ بتاتے ہیں کہ روکمبی کے گاؤں میں جہاں پہلے احمدیت کا بوٹا لگا تھا وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے 43 افراد بیعت کر کے شامل ہوئے ہیں اور جماعت میں چیف اور امام مسجد بھی شامل ہو گئے ہیں.گیمبیا والے بتاتے ہیں کہ سار جیلیا نام کا تلفظ صیح نہیں ادا ہوسکتا مجھ سے، جو بھی ہے سار جیل قسم کا نام ہے.( کسی دوست نے نام بتایا سارے جبل حضور انور نے سوالیہ انداز میں کہا) سارے جبل اور سارے پکرے؟.(پھر بتایا گیا کہ سارے بگرے تلفظ ہے ).سارے بگرے، میں یہ حیران
خطابات طاہر جلد دوم 56 56 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء تھا سارے بکرے کس طرح ہو گئے تو میں نے احتیاطاً بکرے پڑھا، آپ نے پھر بگرے بنا دیئے.مگر خیر البہی جماعتوں کے ساتھ یہ نام لگے ہوتے ہیں میسیج کی بھی تو بھیٹر میں ہی تھیں مگر ہم نے ان بکروں کو شیر بنانا ہے یہ یادرکھیں تو یہ سارے کے سارے بگرے اور سارے جبل یعنی پہاڑ خدا کے فضل سے احمدی ہو گئے ہیں، یہ سارے دونوں گاؤں احمدی ہو گئے ہیں.کینیا کے مبلغ بتاتے ہیں کہ مادو مالو میں پبلک لیکچر کا انتظام تھا اور سارا گاؤں اس میں شریک ہوا، چار گاؤں کے افراد وہاں اکٹھے ہوئے تھے اور اسی لیکچر کے معابعد 407 افراد بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہو گئے.کینیا ہی سے ایک اور اطلاع یہ ہے کہ دو ماہ کے عرصے میں اس علاقے میں اب 582 بیعتیں ہو چکی ہیں اور سکول کے اساتذہ بھی شامل ہیں ،ایک ہیڈ ماسٹر بھی شامل ہے اور دو مساجد بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو عطا ہوگئی ہیں.ریپبلک آف ببین میں تین گاؤں میں تین مساجد اور 114 افراد جماعت کو مل گئے ہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے، اسی طرح افریقہ کے دوسرے ممالک سے بھی بڑی خوش کن اطلاعات ہیں.میں نے چند نمونے صرف آپ کو سنائے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب جوق در جوق، فوج در فوج احمدیت میں شامل ہونے کے دن آ رہے ہیں اور ہندوستان میں بھی یہی کیفیت ہے.حیرت انگیز طور پر پچھلے دو تین سال کے اندر ہندوستان میں جماعت نے ترقی کی ہے بلکہ بلاشبہ کوئی مبالغہ اس میں نہیں ہے کہ تقسیم کے بعد سے سن 83ء تک جتنی بیعتیں سارے ہندوستان میں ہوئی ہیں اس سے زیادہ بیعتیں اب خدا کے فضل سے بعض علاقوں میں ہوگئی ہیں.چنانچہ آندھرا پردیش میں ہمارے معلم لکھتے ہیں کہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی افواج کا نزول ہو رہا ہے ، ایک مہینہ میں چھور گاؤں کے 125 افراد نے احمدیت قبول کی ہے.پھر لکھتے ہیں وہاں کی رپورٹ ہے کہ عظیم الشان رو چل پڑی ہے يَدْخُلُونَ فِي دِینِ اللهِ أَفْوَاجًا کا نظارہ دیکھ رہے ہیں، روح اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہے.اللہ کے فضل سے ۱۹۸۳ء میں تو ایک بھر پور تحریک پیدا ہوئی تھی.یعنی جلسے پر ان کو میں نے کہا تھا کہ تم نے توجہ کرنی ہے اور جا کے اب تبلیغ کی طرف ساری توجہ مبذول کر دو.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ۸۴ء میں ایک پر شوکت تحریک میں تبدیل ہوگئی ہے اور شدید مخالفت کے باوجود یہ نہیں کہ علماء کو پتا نہیں.تمام
خطابات طاہر جلد دوم 57 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء ہندوستان سے تحریکوں کے نتیجے میں وہاں علماء فساد اور فتنہ پیدا کرنے کے لئے پہنچ رہے ہیں.شدید گندالٹر پچر پھیلایا جارہا ہے، احمدیت کے خلاف گندے الزامات لگائے جارہے ہیں اس کے باوجود یہ ہو رہا ہے.کہتے ہیں کہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ شدید مخالفت کے باوجود دیہات کے دیہات احمدی ہور ہے ہیں.اس سلسلے میں جب میں ۸۳ء میں دورے پر گیا تھا تو وہاں سیلون میں حیدر آباد دکن کے امیر صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے.ان سے میں نے بات پوچھی، میں نے کہا! یہ رپورٹیں ہیں آپ بتائیں مجھے، کہتے ہیں! میں تو اتنا جانتا ہوں کہ جب سے احمدیت قائم ہوئی ہے ہمارے علاقے میں اب تک جتنے احمدی اس وقت ہم موجود ہیں، اس سے زیادہ ایک سال کے اندر نئے آنے والے آچکے ہیں اور چونکہ زبان کا مسئلہ ہے اور تعلیم کی کمی کا بھی مسئلہ ہے اور کارکنان کی کمی کا بھی مسئلہ ہے اور انہوں نے کہا روپے کی کمی کا بھی مسئلہ ہے.میں نے کہا! یہ مسئلہ میں نہیں مانتا، باقی سب مان لیتا ہوں فی الحال یہ کوئی مسئلہ نہیں.جتنا خرچ کر سکتے ہیں، جتنا خرچ کھپا سکتے ہیں خدا تعالیٰ دے رہا ہے اور دے گا.ہم نے تو روپے کو آگے آگے ہی بھاگتے دیکھا ہے اور کبھی ایک موقع بھی ایسا نہیں آیا کہ کام کرنا ہو اور روپے نے تنگی پیدا کی ہو تو میں نے کہا یہ الزام نعوذباللہ خدا پہ نہ لگائیں.آپ کارکن پیدا کریں خدا کارکنوں میں بھی برکت دے گا.چنانچہ وہ ۸۳ء میں جو باتیں ہوئی تھیں.۸۴ء میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک عجیب بھر پور تحریک بن گئی ہے اور جہاں تک مشرقی پنجاب کا تعلق ہے، وہ تو حیرت ہوتی ہے خدا کے فضلوں کا حال دیکھ کر ایک رپورٹ لکھنے والے لکھتے ہیں ، وہاں سے امیر صاحب قادیان بھجواتے ہیں.نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الرعد: ۴۲) کا نظارہ پیدا ہو گیا ہے.ہوا یہ کہ ۸۳ ء کے جلسے میں یا ۸۲ ء کے آخر پر جب (۸۲ء کے جلسے میں ) ان سے میں نے پوچھا کہ آپ کے ارد گرد، قادیان کے ارد گرد جماعتیں کتنی ہیں.تو انہوں نے کہا کوئی بھی نہیں.میں نے کہا ظلم ہے اتنی دیر سے بس رہے ہو، تمہیں خیال ہی نہیں کہ اردگر دلوگوں کا حق ہے، تمہارے ہمسائے ہیں نکلو اور تبلیغ کرو اور گورداسپور تو خاص اہمیت کا حامل ہے، تم اکیلے وہاں کیا کام کرو گے؟ تمہیں مضبوط جماعتیں ملنی چاہئیں چاروں طرف سے ، خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ شان پیدا کرو جو پہلے تھی مرکز کی.
خطابات طاہر جلد دوم 58 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء چنانچہ پوری طرح تیار ہو کر اور جذبے سے بھر کے یہ لوگ واپس گئے اور اُس وقت سے اب تک یعنی دو سال کے عرصے میں آپ کو پتا ہے کہ وہاں کتنی جماعتیں پیدا ہوچکی ہیں؟۷۸ نئی جماعتیں پیدا ہو چکی ہیں قادیان کے اردگرد اور صرف ۸۴ء میں ۴۹ نئے دیہات شامل ہوئے ہیں.یہ سال جو وہ کہتے ہیں کہ، ہم بھی کہتے ہیں بعض دفعہ یونہی چھیڑنے کے لئے کہ تمہارا سال ہے.تمہارا کہاں سے سال ہو گیا.سارے سال ہمارے ہیں اور سارے ہمارے رہیں گے.انشاء الله تعالی تمہارا سال کیسے؟ جن کے ساتھ سالوں کا مالک، جن کے ساتھ سالوں کا خالق ہے، سارے سال سارے دن رات ان کے رہیں گے کبھی بھی تمہارے نہیں بن سکتے اور اٹھارہ گجر ڈیروں میں اس کے علاوہ احمدیت قائم ہوئی، کہتے ہیں جہاں پھل لگتا ہے وہاں مخالفت بھی ہوتی ہے.یہ لکھ رہے ہیں رپورٹ کہ جب گجروں میں تبلیغ شروع ہوئی تو وہاں شدید مخالفت ہوئی اور ایک حاجی صاحب کا بڑا اثر ہے، ان کی اجازت کے بغیر یہ قدم بھی نہیں اٹھاتے مگر ان کی مخالفت کے باوجود پہلے پہل تو چند گجروں نے بیعت کی، پھر ان کو ڈرایا دھمکایا گیا ، احمدیت سے منحرف کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے.چنانچہ انہوں نے ہی اپنے بیاہ شادیوں کے موقع پر قادیان سے معلم بلانے شروع کئے اور وہاں گفت وشنید کا سلسلہ چل پڑا چنا نچہ اب وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور تو اور مذکورہ حاجی صاحب کے اپنے داماد اور دولڑکے اور بیوی اور بچے کل 26 افراد احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں.اڑیسہ سے اطلاع ملی کہ وہاں علماء نے بہت اشتعال انگیزی کی اور جوش دلایا اور ساری فضا میں احمدیت کے خلاف نفرت پھیلا دی نتیجہ بعض نوجوانوں کو اتنا مارا گیا کہ لگتا تھا کہ وہ جان کھو دیں گے اپنی لیکن خدا تعالیٰ نے پھر ان میں سے ہی بعض شریف پیدا کئے ، جو پیشتر اس کے کہ وہ مر جاتے ان سے چھڑانے میں کامیاب ہو گئے اور حملے کی بھی سکیمیں بن رہی تھیں، بہت خوفناک حالات پیدا وگئے تو ایک دن کہتے ہیں! یہ واقعات ہو رہے تھے، دوسرے دن ان میں سے دو چوٹی کے تعلیم یافتہ اور بڑے معزز نو جوان آئے اور انہوں نے کہا کہ اب ہم پر سچائی ظاہر ہوگئی ہے، ہم بیعت کرتے ہیں اور بیعت کے بعد ان پر ابتلاء بھی خدا نے پھر نہیں آنے دیا.ایسے واقعات وہاں فورا رونما ہوئے کہ جو احمدیت کا مخالف گروپ تھا ان کو اب اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، وہ چھپتے پھرتے ہیں ان کی دوسروں کے ساتھ دشمنیاں جو تھیں وہ اچانک جاگیں اور وہاں چونکہ مخالف زیادہ طاقتور ہیں اس ہو.
خطابات طاہر جلد دوم 59 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء لئے اب ان کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں.قادیان کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن ہے بڑا پر لطف، مجھے لطف آیا تھا اس لئے میں سمجھتا ہوں آپ کو بھی آئے گا انشاء اللہ.ایک وہاں غیر مسلم کالج ہے لڑکیوں کا مضافات میں ، وہاں کسی قصبے میں تو ان کو خیال آیا قادیان کو، کہ لجنہ کو بھی تیز کرنا چاہئے عورتوں کی تربیت کے لئے ، انہوں نے کہا آپ بھی دورے کریں چنانچہ وہاں لجنہ کی طرف سے دورہ کیا گیا اور گرلز کالج لڑکیوں کا جو ہے وہاں بھی یہ پہنچیں اور وہاں تبلیغ کا سلسلہ شروع ہوا تو وہاں کے غیر مسلم پرنسپل نے خود پھر ان سے ایک درخواست کی.انہوں نے کہا! کہ آپ ہمیں حضرت مرزا صاحب کے کلام میں سے اقتباسات دیں، ہم وہ لکھ کر اپنے سکول میں مستقل طور پر وہاں چسپاں کریں گے اور پر گنے بٹالے والے گرو کے طور پر ان کا دن منایا کریں گے.اللہ کی عجیب شان ہے کہیں دن منانے پر چھری پھیر نے کی کوشش کی جارہی ہے، کہیں غیر ان دنوں کو منانا اپنے لئے برکت کا باعث سمجھ رہے ہیں.کام تو بہت زیادہ ہیں.خلاصے کی بھی خدا توفیق دے دے تو اس کا احسان ہے، آپ کے سامنے بیان کرسکوں.نصرت جہاں سکیم کا جو کام ہوا ہے وہ سنیے کہ چند سال پہلے ۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بڑی دعاؤں کے ساتھ محض دولاکھ پاؤنڈ کے چندے کی تحریک کے ساتھ شروع کی تھی اور اب اس نصرت جہاں کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضلوں کے ایسے پھل لگائے ہیں کہ 26 ہسپتال اس تحریک کے تابع کام کر رہے ہیں ، 38 ہائر سیکنڈری سکول کام کر رہے ہیں.اس میں سے نصرت جہاں کے 24 ہیں اور تحریک جدید کے 14 ہیں اور پرائمری اور مڈل سکول کی تعداد ملا کر ایک سو تعداد ہو چکی ہے خدا کے فضل سے اور تحریک جدید کے آٹھ ہسپتال اس کے علاوہ ہیں.اب تک 31,86,518 مریض استفادہ کر چکے ہیں اور کام میں خدا کے فضل سے روز بروز وسعت ہورہی ہے.اللہ کے فضل سے شہرت بھی اچھی ہے اور بعض علاقوں سے تو پتہ چلا ہے کہ شدید مخالف مثلاً یوگنڈا میں ہم نے ایک نیا مشن کھولا ہے، شدید مخالف جو مخالفت کا اڈا قائم کر چکا تھا اور وقف تھا مخالفت پر اور بااثر آدمی تھا ، اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور اس کو جب دوسرے ہسپتال میں لے جانے لگے تو اس کے دل نے اس کو کہا اصل میں تم جانتے ہو کہ شفا تو احمدیوں کے پاس ہے اس نے مجبور کیا، اس نے کہا ہوں تو میں ان کا دشمن لیکن شفا ان کے پاس ہے مجھے وہاں لے کے جاؤ چنانچہ وہاں آیا اور
خطابات طاہر جلد دوم 60 60 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء جب قریب سے اس نے دیکھا تو اس کی تو کایا پلٹ گئی خدا تعالیٰ کے فضل سے جسمانی شفا بھی نصیب ہوگئی اور روحانی شفا بھی نصیب ہوگئی.ہم نے اللہ کے فضل سے جو نئے مراکز قائم کئے ہیں ان میں غانا، نائیجیریا، گیمبیا نہ یہاں سے تو پہلے آغاز ہوا تھا ) آئیوری کوسٹ میں دو قائم ہوئے ہیں ، یوگنڈا میں ایک ہوا ہے اور گیمبیا میں بھی ایک اور قائم ہوا ہے.اسی طرح اب ہم اس تحریک کو دوسرے ممالک میں بھی پھیلانے لگے ہیں چنانچہ سکولوں اور ہسپتالوں کی تحریک کو اب مشرقی افریقہ بھی لے گئے ہیں نائیجیریا میں ایک نئے مقام پر نئے ہسپتال کی عمارت مکمل ہوگئی ہے اور پھر دور کے جزائر میں بھی مثلا نجی میں بھی تو چونکہ یہ کام اس وقت اپنی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں ہے اس لئے فی الحال میں اس کی رپورٹ چھوڑتا ہوں.یہ خوش کن بات ہے کہ اب صرف پاکستانی ڈاکٹروں پر انحصار نہیں رہا.بھارت کے ڈاکٹر کچھ سال سے شامل ہوئے تھے.اب تو مقامی افریقن ڈاکٹر بھی اور دوسرے ممالک کے مثلاً ماریشس کے ڈاکٹر بھی اور انگلستان کے ڈاکٹر بھی اپنے آپ کو اب پیش کر رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں.بعض لوگ تو جب بھو کے لوگ مرتے ہیں تو خوراک اس طرح دیتے ہیں جس طرح خیرات ڈال رہے ہیں لیکن جڑوں کی طرف توجہ نہیں کرتے.یہ جماعت احمدیہ کا پہلا منصوبہ ہے سارے افریقہ میں جس نے بنیادی ضرورت کی طرف توجہ کی ہے اور بعض چیزیں جو ان کی خوراک ہیں اور ان کو اگانی نہیں آتیں ان کے اوپر خاص توجہ مرکوز کی ہے چنانچہ یہاں اس کے تجربے کے بعد خدا کے فضل سے کینیا میں بھی اب ہمیں موقع مل گیا ہے وہاں بھی زمین مل گئی ہے، کینیا ہے یا تنزانیہ؟ نائیجیریا اور تنزانیہ یہ دو ممالک ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک، ایک ہزار ایکڑ زمین لے لی گئی ہے اور وہاں بھی انشاء اللہ اب کام شروع ہو جائے گا.تعلیمی اداروں کا جہاں تک تعلق ہے ہمارے نتائج بہت شاندار ہیں اور صرف یہ نہیں کہ سوسکول یا دوسو سکول چلا رہے ہیں بلکہ جو سکول ہم چلا رہے ہیں ان کا معیار اتنا بلند ہے کہ ملک میں بہترین نتائج پیدا کرتے ہیں.گیمبیا میں جو اول انعام حاصل کرنے والے طالبعلم وہ احمدی ہے اور اتنا اچھا نتیجہ کہ ریڈیو گیمبیا نے بڑی شان کے ساتھ اس کی رپورٹ پیش کی.سیرالیون میں احمدیہ سیکنڈری سکول کے نتائج بہت ہی شاندار نکلے.احمد یہ سیکنڈری سکول کے فری ٹاؤن میں بھی اور بو میں
خطابات طاہر جلد دوم 61 افتتاحی اب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء بھی اور تعلیم کی جہاں تک پاکستان کی رپورٹ ہے، انفرادی طور پر تو مجھے علم ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ احمدی طلباء کے بہت اچھے نتائج نکلے ہیں.ان مصیبتوں کے باوجود کہ ہر وقت کا ایک ذہنی عذاب، مصیبت، اعصاب توڑنے والی حرکتیں یعنی علماء تھکتے ہی نہیں گالیاں دیتے ہوئے اور اخبار تھکتے ہی نہیں ان کو شائع کرتے ہوئے اور حکومت تائیدی بیان دیتے ہوئے نہیں تھکتی ، ہر روز ایک نئی مصیبت ایک نئی گالی ایک نیا گند بھائیوں کی قید ان کی مشقتیں ان حالات میں پڑھ کون سکتا ہے لیکن اللہ کا فضل دیکھیں اس وقت خزاں میں بھی وہاں بہار آئی ہے اور مجھے بہت سے طلباء نے لکھا ہے کہ انہوں نے یورنیورسٹی میں گولڈ میڈل حاصل کیا ہے، کسی نے اپنے کالج میں گولڈ میڈل حاصل کیا ہے.جن طلباء کو مارا گیا، ان کی کتابیں چھین لی گئیں، ان کے نوٹس جلا دیئے گئے وہ بھی خدا کے فضل سے اچھے نمبروں پر کامیاب ہو گئے ہیں.یہاں اب ایک تعلیمی منصوبہ جاری کیا جا رہا ہے یہاں جہاں آپ اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں اور یورپ میں پہلا احمد یہ سکول اب یہاں قائم ہو گا.انشاء اللہ تعالیٰ اب ہمیں بچوں کا انتظار ہے.یہاں بہت ضرورت ہے کہ گندی تہذیب سے بچانے کے لئے ایک احمد یہ ماڈل سکول چلایا جائے خاص طور پر لڑکیوں کے معاملہ میں تو بہت پریشان ہیں ہمارے احمدی بھائی ، یہاں معاشرہ اتنا گندا ہو گیا ہے، اتنی بے چینی پیدا ہوگئی ہے، جنسی بے راہ روی کا یہ عالم ہے کہ پچہتر سالہ بوڑھی عورت سے بھی ریپ کرتے ہیں یہاں اور چھ سالہ ، سات سالہ بچی کو بھی ریپ کر کے جان سے بھی مار دیتے ہیں یعنی ساری قوم تو نہیں نعوذ باللہ من ذالک، لیکن قوم کا ایک حصہ بھی اگر ظلم کی اس حد تک پہنچ جائے تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ پھر احمدی ماؤں کے سکون کہاں رہیں گے.ایک ماں نے مجھے روتے ہوئے کہا کہ میں کیا کروں میں بچی کو بھیجتی ہوں تو میں سارا دن تڑپتی رہتی ہوں، بے چین ہو جاتی ہوں کہ پتا نہیں اس پر اگلے قدم پہ کیا بن رہی ہوگی.کہتی ہیں میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ وہ بُری نظر سے دیکھے لیکن یہاں تو حالات ہی اور ہیں کچھ پتہ ہی نہیں کہ کیا جرم پیدا ہو جائے ، کیا جرم کس وقت وقوع میں آجائے؟ چنانچہ یہاں کی بڑی ضرورت تھی تو اللہ کے فضل سے یہ انشاء اللہ ہوگا اور اگر چہ شروع میں خرچ بھی کرنا پڑے جماعت کو تو انشاء اللہ کریں گے لیکن میں سمجھتا ہوں جس طرح لوگ مجھے بتا رہے ہیں امریکہ والے بھی تیار ہیں ، ناروے والے کل کہہ رہے تھے کچھ ہم اپنے دو بچے
خطابات طاہر جلد دوم 89 62 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء بھیجنا چاہتے ہیں اور بھی جو ملاقات کر رہے ہیں وہ جرمنی والے اور جگہوں سے انشاء اللہ لوگ بھیجیں گے تو اگر ہم سو سے زائد بچے حاصل کر لیں پہلے سال تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ سکول خود کفیل ہو جائے گا.جو کام تصنیف میں ہوا ہے اس ایک سال کے عرصہ میں، یہ وہ کام ہے جو مرکزی نگرانی میں براہ راست کروایا گیا ہے اور بہت کم رضا کار اس میں شامل ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے تھوڑے کارکنوں میں بھی بہت ہی برکت دی ہے.تجویز یہ تھی کہ تمام دنیا میں ہر زبان میں احمدیت کا پیغام پہنچانا ہے اور جو لٹریچر نہیں ہے وہ پیدا کرنا ہے تو جب میں نے جائزہ لیا تو بڑا تعجب ہوا کہ بہت ساری زبانیں ہیں جن میں کلیۂ خلا تھا.کچھ بھی پیش کرنے کے لئے نہیں تھا چنانچہ ایک منصوبہ بنایا گیا لیکن اس کا آغاز قرآن کریم سے کیا ہے، قرآن کریم کی یہ ساری برکت ہے، کہتے ہیں ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں.قرآن کی ہم اشاعت شروع کر دیں تو اس کی برکت سے ہمارے سارے دوسرے کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے خود بخود ہونے شروع ہو جاتے ہیں.تو قرآن کریم کی اشاعت کے بارہ میں آپ کے لیے یہ خوشخبری ہے کہ فرانسیسی ترجمہ جس کا بڑی دیر سے آپ کو انتظار تھا اب اس وقت پریس میں ہے.چار مہینے تک.انشاء اللہ شائع ہو جائے گا اور اس کے ساتھ Introduction تو پہلے شائع ہوا تھا لیکن ہم دوبارہ بھی کر رہے ہیں اور فریج ترجمہ قرآن کریم پر خدا کے فضل سے بڑی محنت ہوئی ہے، یہاں آنے کے بعد بھی اس سے پہلے بھی اور خلافت ثالثہ کے زمانے میں بھی بڑی محنت ہوئی تھی ، بہت کام ہوا تھا اس پر لیکن چونکہ اطمینان نہیں ہوتا تھا کہ غیر زبان ہے ہم میں سے اکثر اس کو نہیں جانتے تو بہر حال اللہ نے فضل کیا اور اب پوری تسلی ہے کہ انشاء اللہ تعالی فرانسیسی زبان میں اس سے اچھا ترجمہ کہیں دنیا کو نظر نہیں آئے گا اور اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ساتھ مؤید بھی پیدا کر دیا.امریکہ میں ہمارے ایک احمدی ڈاکٹر ہیں ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ انہوں نے خود ہی مجھے لکھا کہ کسی زبان میں میں سارا خرچ برداشت کرنا چاہتا ہوں جتنا بھی ہے.تو میں نے کہا کہ دس ہزار ہم شائع کرنا چاہتے ہیں آپ دیکھ لیں ؟ انہوں نے کہا! یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ کتنا، یہ ان کی مرضی تھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ اتنے ہزار کا میں خرچ دوں گا ، آپ فیصلہ کریں مجھے صرف اتنا بتائیں کہ کتنا میں نے دینا ہے چنانچہ تمیں ہزار دوسو پاؤنڈ وہ بھجوا چکے ہیں نقد اور چھتیں ہزار کا Estimate تھا وہ چند روپے پیچھے رہ گئے ہیں وہ بھی بعد میں انشاء اللہ آ جائیں گے، ان کو
خطابات طاہر جلد دوم 83 63 افتتاحی خ ب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء اصل میں لکھا ہی یہ گیا تھا کہ اتنا خرچ ہو گا اس لئے وہ اپنی طرف سے سارا وعدہ نقد ادا کر چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.ان کے والد ڈاکٹر خلیل الرحمن خان صاحب ((ڈاکٹر نہیں ڈاکٹر تو یہ خود ہیں ) وہ بھی پشاور کے بڑے مخلص اور فدائی آدمی تھے، انہی کی تربیت اور دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ ان کی اولاد بھی اللہ کے فضل سے اسی طرح فدائی اور دین کی خدمت کرنے والی ہے.کویتی ترجمہ کی مبارک ہو یہ بھی پریس میں جاچکا ہے، یعنی پریس میں چلا گیا ہے اور کویتی زبان میں تو میرا خیال ہے یہ تاریخی بات ہے کہ پہلے کبھی بھی ترجمہ نہیں ہوا قرآن کریم کا پہلی دفعہ ہے.الحمد للہ ہم نے تو کہا تھا کہ آپ تھوڑا شائع کریں چونکہ زیادہ آدمی وہاں نہیں ہیں کو یتی پڑھنے والے ، مگر انہوں نے کہا کہ یہاں تو ابھی سے مانگ شروع ہو گئی ہے اس لئے آپ زیادہ کی اجازت دیں.میں نے کہا! جتنا پھر شائع کر سکتے ہیں ضرور کریں ، ہم نے تو ضرورت پوری کرنی ہے.لوگنڈی زبان میں ترجمہ تھا تو سہی لیکن ضرورت تھی ، یہ دوبارہ شائع کیا گیا خدا کے فضل سے.روسی زبان میں ترجمہ مکمل ہو گیا ہے نظر ثانی مکمل ہوگئی ہے، پریس سے گفت وشنید ہو چکی ہے اب صرف Introduction کا انتظار تھا، وہ بھی مکمل ہے.یہ کام وہاں اسلام آباد میں کروایا گیا تھا Introduction کا تو یہ بھی شائع ہو جائے گا.انشاء اللہ اس کے تقسیم کرنے کی تیاری بھی کر لی گئی ہے.جرمن زبان میں ضرورت تھی ایک قرآن کریم کی چنانچہ ان کو اجازت دے دی گئی ہے یعنی ترجمے کے بغیر شائع کرنے کی پاکٹ سائز کا نہیں بڑا ہے یہ ترجمے کے ساتھ چاہتے ہیں پاکٹ سائز، اس کی پانچ ہزار کی ان کو اشاعت کی اجازت دے دی ہے.اٹالین ترجمہ خدا کے فضل سے مکمل ہو گیا ہے.اٹالین ترجمے کا خرچ ، ترجمے کا اور سارے کام کا یہ بھی ہمارے ایک احمدی دوست ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے ادا کیا ہے اور ایک ہزار کی طباعت کا خرچ بھی وہ برداشت کریں گے اور روسی زبان کا سارا خرچ، اس کی تیاری کا بھی اور اشاعت کا بھی چوہدری شاہ نواز صاحب نے خود پیشکش کی تھی اور اصرار کے ساتھ کہا کہ میں ادا کروں گا، اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا عطا فرمائے.تو تین ترجمے جو اس وقت شائع ہورہے ہیں ان میں سے ایک آنہ بھی جماعت کا خرچ نہیں ہوگا.انشاء اللہ اور جو آمد ہوگی وہ ساری جماعت کی ہوگی اور اس سے
خطابات طاہر جلد دوم 64 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء ایک مضبوط فنڈ انشاء اللہ قائم ہوگا جس سے ہم باقی ترجمے بھی تیزی سے کروائیں گے.جاپانی چینی پینش، پرتگالی اور پولش زبان میں اب ترجموں کا پروگرام ہے، یہ شروع ہو چکے ہیں.جن میں نظر ثانی ہو رہی ہے ان میں اٹالین کے علاوہ ہندی کا بھی خدا کے فضل سے ترجمہ تیار ہے نظر ثانی ہورہی ہے تفسیر کبیر جز اول کا عربی نصف ، نصف تو نہیں کہنا چاہئے نصف سے زیادہ ہے، یہ ڈائجسٹ ہے یعنی من و عن حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے الفاظ میں وہی عبارتیں اٹھائی گئی ہیں، صرف جہاں تقریر کے نقطہ نگاہ سے لمبے بیان ہیں ان کو اور جہاں تکرار پائی جاتی ہے وہ چھوڑا گیا ہے تو نفس مضمون میں سے کوئی قربانی نہیں ہوگی.یہ بھی اس وقت ایک عرب جماعت کے سپرد ہے وہ جلدی سے نظر ثانی کریں تو وہ شائع ہو جائے گا اور اس کا خرچ بھی ایک عرب احمدی دوست نے ہی طہ اقتزک صاحب نے پہلے سے ادا کر رکھا ہے اور وہ کہتے ہیں یہ ساری تفسیر میں جتنی بھی چھپیں گی سارا خرچ مجھے موقع دیں کہ میں اپنی طرف سے برداشت کروں.دنیا میں جو ہمارا مشہور ترجمہ جس کی بہت تعریف ہے، حضرت مولوی شیر علی صاحب والا ترجمہ کہلاتا ہے اس کی نظر ثانی پر بھی ہم نے بڑا وقت خرچ کیا ہے اس عرصے میں اور پہلے تو روزانہ ہوتا تھا پھر دوسری مصروفیات کی وجہ سے ہفتے میں تین دن کرنا پڑا لیکن بڑا وقت دے کر میرے ساتھی خدا تعالی خود پیدا فرما تارہا.ایک ملک سیف الرحمن صاحب یہاں رہے وہ بھی شامل ہوئے، پروفیسر خلیل صاحب نے امریکہ سے آ کر کچھ عرصہ اس میں خدمت کی ، چوہدری انور احمد صاحب کا اہلوں، آفتاب خان صاحب یہ مستقل مسلسل ساتھ رہے ہیں اور مبلغین میں سے ہادی علی اور مبارک احمد ساقی کو تو فیق ملی ہے.ہم نے یہ دیکھا کہ واقعہ بعض جگہ ضرورت تھی اور بعض جگہ ٹیکسٹ کا بہت زیادہ چونکہ خیال رکھا گیا تھا، انگریزی درست ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن قرآن کا مفہوم پوری طرح سمجھ نہیں سکتا اور چونکہ اس طرح کے وہ محاورے انگریزی میں نہیں ہیں اس لئے وہ نہیں سمجھ سکتا تھا بعض جگہ کچھ اور دقتیں تھیں.تو بہت تھوڑی ہیں وہ جگہیں لیکن چونکہ سارا قرآن کریم پڑھ کر اس پر محنت کرنی تھی اس لئے وقت اتنا ہی لگا ہے لیکن خدا کے فضل سے وہ تھوڑی جگہیں ہیں، پھر ان کو بھی دوبارہ چیک کروایا گیا ہے، دوسرے علماء کو بھی دکھایا گیا ہے، اچھے انگریزی کے علماء کو بھی دکھایا جا رہا ہے.انشاء اللہ پوری احتیاط کے بعد جب قدم اٹھایا جائے گا تو امید ہے کہ نقش ثانی نقش اول سے
خطابات طاہر جلد دوم اور بھی زیادہ بہتر ہو جائے گا.65 59 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء ترکی زبان میں جو کمی تھی اس کو پورا کرنے کے لئے ٹرکش Turkish ڈیسک ایک یہاں قائم کیا گیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کی اشاعت کی طرف توجہ کی گئی اور گزشتہ ایک سال میں اس عارضی ہجرت کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے جو منصوبہ بنایا گیا، تئیس جلدیں روحانی خزائن کی ایک سو پچاس پاؤنڈ میں انشاء اللہ تعالیٰ ہم شائع کریں گے اور اس میں سے اب تک پہلی گیارہ جلدیں طبع ہو کر یہ ساتھ میرے پاس پڑی ہوئی ہیں، یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نہایت پیارا عمدہ معیار ہے اور آپ دیکھیں گے تو آپ کی آنکھیں خیرہ ہوں گی.نہایت صاف ستھرا کاغذ، اچھی پیشکش، اچھی جلد اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارتوں کے شایان شان تو ہم نہیں کہہ سکتے.الہی معارف جس کلام میں ہوں اس کے شایان شان تو کوئی لبادہ بھی نہیں ہوا کرتا لیکن انسانی کوشش کا جہاں تک تعلق ہے آپ انشاء اللہ دیکھیں گے کہ گزشتہ سب کوششوں سے زیادہ حسین اور دیدہ زیب کوشش ہے یہ اور جہاں تک رقم کا تعلق ہے ایک سو پچاس پاؤنڈ سارے سیٹ کی قیمت یہ تو کچھ بھی نہیں.پاکستان میں جو ہمارا اندازہ تھا جب تک حکومت پاکستان نے جبراً ہمیں اس نعمت سے محروم نہیں کیا، وہ اس سے زیادہ تھا اور طباعت کا معیار بہت گرا ہوا تھا.اس لئے یہ یہاں چھپوانا اور کوئی بُر اسودا نہیں ہے انشاء اللہ اس سال مزید جلدیں، یعنی گیارہ تو آچکی ہیں ایک سال کے اندر اس سال رفتار تیز ہوئی ہے پہلے سے اور اور جلدی چھپیں گی.انشاء اللہ نئی مطبوعات میں قادیانی مسئلہ کا جواب بڑی وسیع تعداد میں شائع کر کے جماعتوں کو بھجوایا گیا، آیت خاتم انہین اور جماعت احمدیہ کا مسلک اور دیگر بہت سے رسائل، پاکستان میں کیا ہورہا ہے، حکومت پاکستان کے پرو پیگنڈے کے جوابات مختلف نہج سے ،شریعت کورٹ اور اس پر تتبصرے، ان حالات سے متعلق خطبات بڑی کثرت سے شائع کر کے جماعتوں کی ضرورت کو پورا کر دیا گیا ہے اللہ کے فضل سے، کوئی جماعت اب یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہماری پیاس زیادہ تھی تم نے کم دیا ہے، ہم تو اب یہ کہہ رہے ہیں اور مانگو ہم سے اور جلدی سے تقسیم کروان کو.عربی زبان میں کمی رہ گئی تھی، کمی تو اس لحاظ سے نہیں تھی کہ لٹریچر تھا ہی نہیں ہمارے پاس.خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب بھی تھیں بہت ہی مؤثر اور بعد کے علماء
خطابات طاہر جلد دوم 99 66 افتتاحی ب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء نے بھی بڑے اچھے کام کئے ہوئے تھے مگر وہ مارکیٹ سے غائب تھیں، توجہ نہیں تھی اس لئے اب اللہ کے فضل کے ساتھ عربی زبان میں بھی متعدد کتب تیار ہو چکی ہیں طبع ہو چکی ہیں، عربوں میں تقسیم ہونی شروع ہوگئی ہیں، جماعتوں کو بھجوائی جارہی ہیں اور یہ لسٹ بڑی لمبی ہے اس لئے میں اس کو چھوڑتا ہوں.ایک، دو، تین ، چار، پانچ ، چھ ، سات، آٹھ ، نو ، اور یہ تو ہیں جو طبع ہو چکی ہیں ، دس تقریبا ہیں.کتا ہیں اور اس کے علاوہ تیزی سے یہ کام جاری ہے اور عرب شامل ہوئے ہیں بڑے شوق سے اس کام میں ، دہرا بھی رہے ہیں اور نئی تصنیفات میں بھی جس طرح میں ان کو کہتا ہوں وہ خدمات پیش کر رہے ہیں اور بڑی جلدی جلدی کام کر رہے ہیں.ہمارے تراجم پر نظر ثانی میں بھی محنت کر رہے ہیں، ایک ہمارے مصطفیٰ ثابت صاحب ہیں وہ تو پتہ نہیں کام کیا تھا اُن کا اور کیا نہیں تھا سب کچھ چھوڑ کر آئے ہوئے ہیں.چھ مہینے سے زائد عرصہ ہو گیا ہے وہ یہیں بیٹھے ہیں، یہاں بیٹھنے کا مطلب ہے کہ اپنے ملک واپس نہیں گئے پھر اور جس کام پر ان کو بھجوایا وہ اسی میں مصروف ہیں اور خدا کے فضل سے بڑے نیک نتیجے ظاہر ہورہے ہیں.فارسی میں لٹریچر کی بہت کمی تھی چنانچہ یہ جتنے ایرانی مہاجرین ہیں ان کو ہم کیا کہتے ؟ بہت فکر پیدا ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں بھی بڑی اچھی کتابیں تیار ہوئیں ، نئے مخلص بڑے چوٹی کے احمدی ایرانی علماء نے بھی اس میں حصہ لیا.چنانچہ سفیانی صاحب جو اقبال کے مضامین کا ترجمہ کرنے کے لئے، کتابوں کا ترجمہ کرنے کے لئے حکومت پاکستان کی طرف سے مقرر ہیں وہ اس سلسلے میں آئے تھے کہ اقبال کا ترجمہ کریں اور آتے ہی خدا کے فضل سے احمدی ہو گئے اور ان کا پیسے لے کے ترجمہ کرتے ہیں اور ہمارا اپنے خرچ سے ترجمہ کرتے ہیں اور انہوں نے ایک کتاب بہت پیاری لکھی ہے تاریخ احمدیت جس میں احمدیت کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے.ان کے انداز سے کہ ایرانی دماغ کیا چاہتا ہے وہ بھی پھر طبع ہوئی ہے پیام احمدیت حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی کتاب تھی وہ بھی نظر ثانی کے بعد نئی فارسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ، حجت بالغہ بہائیت کے خلاف بڑی ضرورت تھی لٹریچر کی ، یہ شائع ہوئی ہے.آنحضرت ﷺ کی سیرت کے متعلق اور اس قسم کے دیگر مضامین پر اب کتابیں زیر نظر ہیں اور یہ سارا کام خدا کے فضل سے گزشتہ ایک سال کے اندر ہوا ہے.در مشین فارسی“ شائع ہوئی ہے.بڑا اس کا Impact ہے بعض لوگ پڑھتے ہیں تو وجد "
خطابات طاہر جلد دوم 67 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء میں آجاتے ہیں چنانچہ وہاں کے ایک چوٹی کے لیڈر کے پاس ایک احمدی دوست پہنچے، ایک وفد پہنچا.انہوں نے کچھ دیر باتوں کے بعد تعارف کرایا اور کہا کہ آپ کو اصل پتا نہیں کہ ہمارے امام کا مقام کیا ہے تو بحثوں میں پڑنے کی بجائے ہم آپ کو چند شعر سناتے ہیں اور فارسی کی جو کتاب شائع ہوئی، در نمین نکالی انہوں نے اور وہ پڑھنی شروع کی تو وہ لکھتے ہیں کہ ہم حیران رہ گئے تھوڑا سا سننے کے بعد انہوں نے کہا! اچھا باقی مجھ سے سنو.انہوں نے کہا میں تو عاشق ہوں اس شاعر کا ہتم تو پڑھ رہے ہو دیکھ کر ، میں زبانی تمہیں سناتا ہوں اور بڑے لہک لہک کر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی درنمین کی نظمیں پڑھ کر ان کو سنانی شروع کیں.کہتے ہیں میں نے تو ایک دفعہ سنا تھا کہ سننا اور اس پر عاشق ہو جانا ایک ہی بات کے دو نام ہیں.چنانچہ اہل فارس نے دوبارہ دین کے زندہ کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور بے چارہ فارس ہی ننگارہ گیا تھا باقی ، اب انشاء اللہ تعالیٰ فارس کا حق بھی ادا ہو گا اور وہ کشمیر والا حال نہیں ہو گا کہ وہ غریب غیروں کو تو کپڑے بنا کے دیتے تھے اور آپ ننگے رہتے تھے.تو انشاء اللہ تعالیٰ اہل فارس تمام دنیا کی طرف سے اس احسان کا بدلہ اتاریں گے اور فارس کو خدا تعالیٰ کے نور سے انشاء اللہ تعالی ہم منور کر کے چھوڑیں گے.گورمکھی میں لٹریچر کی کمی تھی اس پر اب ہمارے گیانی عباداللہ صاحب وہ تو ویسے تو کام سے فارغ ہو گئے ہیں لیکن پنجابی میں کہتے ہیں نا کہ دیہاڑی پر لگا ہوا یہ پنجابی کی بات ہورہی ہے اس لئے پنجابی کا محاورہ زیادہ چسپاں ہوتا ہے تو دیہاڑی پر لگ گئے ہیں اب لٹریچر تیار کرنے پر اور بیٹس تیار کرنے پر اور ان کو ہم شائع بھی کر رہے ہیں خدا کے فضل سے تیزی کے ساتھ ”ہمارا رسول ، گیانی عباداللہ صاحب کی کتاب شائع ہو چکی ہے.پرگنہ بٹالہ کا گروہ شائع ہوگئی ہے.پیغام صلح، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب کا ترجمہ شائع ہوا ہے، یہ تو غالباً پہلے بھی موجود تھے.نئی کتا بیں بہت سی تیار ہوئی ہیں جو انشاء اللہ تعالیٰ جلد منظر عام پہ آجائیں گی اور ہندوستان سے بھی میں نے منگوائی ہیں وہاں جو کتابیں موجود تھیں اور اس پر تبصرہ بھی منگوایا ہے کہ آپ کے نزدیک آپ کو کس چیز کی زیادہ مانگ ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ست بچن کا ترجمہ تو وہاں پاکستان میں چوہدری محمد علی صاحب نے انگریزی میں کیا ہے باہر کے سکھوں کو اس کی بھی ضرورت ہے وہ بھی انشاء اللہ شائع کیا جائے گا.
خطابات طاہر جلد دوم 68 80 افتتاحی خ ب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء انگریزی زبان میں بھی بہت نمایاں طور پر لٹریچر میں کام ہوا ہے اور جو جہاں جہاں بھی کمی تھی کتابیں موجود تھیں لیکن منظر عام پر نمایاں نہیں تھیں یعنی ہمارے مربیوں کو بھی نہیں پتا تھا کہ یہ کتابیں ہمارے پاس ہیں اور مارکیٹ میں نہیں تھیں، اشاعت کا نظام مکمل نہیں تھا جس کے نتیجے میں مانگ پیدا ہوتی اور باہر سے کھینچا جاتا ہے چیز کو ، تو کتاب شائع ہوئی اور دس دس سال تک پڑی رہی سٹوروں میں، لائبریریوں میں، مبلغوں کے گھروں میں بعض جگہ تو بوریوں میں بند رہی تو کمزوری یہ تھی کہ باہر سے کھینچ کا نظام نہیں تھا.اب یہ پاکستان کی حکومت نے جو طلب پیدا کر دی ہے نا، ہمارے خلاف پروپیگنڈا اپنی طرف سے کیا اور خدا نے ہمیں اس کا جواب دینے کی توفیق عطا فرمائی.تو طلب ہوئی ہے اتنی طلب ہوئی ہے کہ بڑے بڑے ملکوں کے سفیر، بڑے بڑے دانشور، چوٹی کے علماء خود پیچھے پڑ کے مانگ رہے ہیں کہتے ہیں ہمیں لٹریچر دو ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں تم کیا چیز ہو تو اس طلب نے یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے یہ کوئی انسانی ہاتھ کی چالا کی نہیں ہے اللہ کا فضل ہے کہ اب حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ باہر سے مانگ آنی شروع ہو گئی ہے اور اب بعض جگہ تو ہم کتاب بھیجتے ہیں اور پیچھے پیچھے مبلغ کا خط آجاتا ہے کہ ختم ہوگئی اور بھیجو لیکن ہر جگہ ابھی یہ صورت نہیں ہے.اسی طرح ایک غلطی کا ازالہ جو فارسی میں ہے یہ بھی تیار ہے، احمدیت کا پیغام برمی زبان میں ، ہاں برمی زبان پیچھے رہ گئی تھی ، وہاں بھی تو آخر انسان بستے ہیں ان کا بھی حق ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ ہو چکا ہے، احمدیت کا پیغام کا ترجمہ ہو چکا ہے، امن کا پیغام کا ترجمہ ہو چکا ہے، احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا ترجمہ ہو چکا ہے، میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں یہ ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ ساری اکٹھی پر یس کو دی جارہی ہیں انشاء اللہ تعالی تا کہ دنیا میں کسی ملک کی انگلی نہ آئے ہمارے اوپر کہ ظالمو! تم نے کیوں ہمیں اطلاع نہیں دی کیوں ہمیں پیغام نہیں پہنچایا.ایک سیٹ تیار کیا ہے دس کتب پر مشتمل سر دست اور اس میں اب پھیلانے کا بھی میرے ذہن میں ایک پورا نقشہ ہے، سکیم یہ ہے کہ کچھ چھوٹا لٹریچر، کچھ پمفلٹس ، کچھ بڑی بنیادی کتابیں مختلف موضوعات پر جن میں دنیا کو طلب ہے.ان میں دنیا کی ہر زبان میں ایک مکمل سیٹ موجود ہو اور کوئی بھی دنیا کا مبلغ اپنے آپ کو بغیر ہتھیار کے محسوس نہ کرے.اچانک ایک برمی آ جاتا ہے، ایک اٹالین آ جاتا ہے، ایک پرتگال کا آدمی آجاتا ہے، ایک کو ریا کا آدمی آجاتا ہے، جاپان کا آجاتا ہے ہر ایک کے لئے
خطابات طاہر جلد دوم 69 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء آپ کے پاس لٹریچر ہونا چاہئے اور اس ملک کی ضروریات اور رحجانات کے مطابق ہونا چاہئے.چنانچہ جو زبانیں اختیار کی گئی ہیں اور ان میں تیزی کے ساتھ اب تر جموں کے کام شروع ہو چکے ہیں یہ میں شروع کروانے کے بعد آپ کو بتا رہا ہوں.عربی ، فریج، ٹرکش، اٹالین ، سواحیلی ، کچھ ان میں پہلے بھی ہیں بعض ، یہ نہیں کہ نہیں ہے سواحیلی میں مثلاً پہلے بھی کافی کام ہو چکا ہے مگر بڑی ضرورتیں باقی تھیں، جب ہم نے جائزہ لیا تو خلا بہت ہیں.جرمن، ڈینش، نارویجن سویڈش، پرتگیز ، سپینش ، جاپانی،گر یک اور Greek بالکل خالی تھی مثلاً کچھ بھی نہیں تھا اس میں، یوگوسلاوین اور کورین اور رشتین اور پولش اور چائنیز کا نام شاید میں نے نہیں لیا ابھی تک، چائنیز ہے.چائنیز میں تو ایک اسلامی اصول کی فلاسفی اب تیار ہے اشاعت ہورہی ہوگی اس وقت، کینیڈا میں بھجوا دی گئی تھی اور اسی طرح شاید ایک دو اور زبانیں بھی ہوں گی ہاں ٹرکش، ٹرکش کا میں نام لے چکا ہوں، چیکوسلواکین کا نام رہ گیا ہے اس میں بھی کام شروع کر دیا گیا ہے.تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ ایک سال کے مزید عرصے کے اندر اندر دیکھیں گے کہ دنیا میں کوئی بھی قابل ذکر زبان ایسی نہیں رہے گی جس میں احمد یہ لٹریچر کا ایک سیٹ مکمل موجود نہ ہو اور بے دھڑک ہو کر جرات کے ساتھ آپ ساری دنیا کو کہ سکیں گے کہ ہم نے خدمت کا حق ادا کر دیا ، ہم نے حجت پوری کر دی ہے.اب تم جوابدہ ہو خدا کو اگر تم توجہ نہ کرو اور تم اگر اس نور سے فائدہ نہ اٹھاؤ.، اسلامی اصول کی فلاسفی کے متعلق تو میری سکیم یہ ہے کہ ساری دنیا کی زبانوں میں اس کا ترجمہ کرنا ہے.پہلے بھی کافی زبانوں میں ہوا ہے لیکن بہت پیاس ہے اس کی دنیا کو، اتنا اہم مضمون ہے اور اس حیرت انگیز رنگ میں ان دقیق مضامین پر ، مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ جب میں بعض دفعہ سوال جواب کے موقع پر بعض دانشوروں کے سامنے بعض نکات رکھتا ہوں تو ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں.لکھتے ہیں بعد میں جا کر کہ ایسے عرفان کے موتی ہم تو حیران ہیں کہ یہ کیا باتیں تھیں.آپ نے کہاں سے لیں، کس طرح بیان کیں؟ تو اب جن زبانوں میں اس کا ترجمہ کروایا جائے گا فوری طور پر وہ میں نام بتا تا ہوں، اس کے علاوہ بھی ہوں گی.انشاء اللہ جاپانی ، Greek ، پرتگیز ، اٹالین ، سواحیلی ، ڈینش ، نارویجن، اللہ سویڈش ، چیکوسلواکین، کورین، رشتین، پولش ، ہنگرین، فارسی ، ہندی، تامل، تلگو، اور سنگالیز.اس کے
خطابات طاہر جلد دوم 70 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء علاوہ جن لوگوں کے ذہن میں کوئی زبان آئے جو اہمیت رکھتی ہو.اس کے سوا کچھ شائع ہو چکی ہیں.مثلاً انگریزی، عربی، فریج، جرمن، ڈچ، انڈو نیشین وغیرہ سپینش، چائنیز ، ٹرکش، البانین ان میں ترجمے ہو چکے ہیں.تو ان کے علاوہ ہیں یہ ، اگر کسی کے ذہن میں علم میں کوئی اور زبان آئے وہ سمجھیں کہ ہونی چاہئے تو ضرور لکھیں، انشاء اللہ اس میں بھی کروائیں گے.میں نے بتایا تھا آپ کو روپیہ کی آپ فکر نہ کریں میں ابھی مالی کوائف پڑھ کے سناؤں گا تو آپ حیران ہوں گے کہ خدا تعالی کس طرح فضلوں کی بارش نازل فرمارہا ہے.اس کے علاوہ خلفائے سلسلہ کا لٹریچر بڑی اہمیت کا حامل ہے.تفسیر صغیر بھی ہے، خلافت حقہ اسلامیہ، ذکر الہی، عرفان الہی، تقدیر الہی ، ہستی باری تعالیٰ ، اسلام میں اختلافات کا آغاز ،سیرت خاتم النبین.یہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی کتاب مراد ہے یہ خلفاء میں سے تو نہیں یہ بھی بڑی اہمیت کی مالک ہے.سلسلہ احمدیہ، یہ بھی حضرت میاں بشیر احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ صاحب کی کتاب ہے.ست بچن، گورمکھی کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ان سب کے تراجم مختلف زبانوں میں ہورہے ہیں اور یہ بھی امید ہے کہ بہت جلدی اب ان کے پھل بھی، نتائج بھی آپ دیکھیں گے.یہ لٹریچر بھی جو نایاب ہے اور دنیا کو ضرورت ہے بڑی سخت اس کی ، وہ مہیا ہونا شروع ہو جائے گا.فوری طور پر تو ساری زبانوں میں نہیں ہو سکتا لیکن بنیادی جو بڑی بڑی زبانیں ہیں ان سے شروع ہو کر رفتہ رفتہ انشاء اللہ پھیل جائے گا.ریویو آف ریلیجنز اس کا وعدہ کیا تھا میں نے گزشتہ سال کے جلسے میں ، کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا کرنا ہے کہ دس ہزار شائع ہو تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے گیارہ ہزار شائع ہوا.گزشتہ سے پیوستہ جلسے کی بات ہے یہ اور پہلے تو ہمارے بشیر رفیق صاحب کی نگرانی میں وہاں کام ہو رہا تھا.پھر حکومت پاکستان کو اچھی چیزیں موافق ہی نہیں آتیں پتا نہیں کیا معدہ خراب ہوا ہوا ہے؟ ہضم ہی نہیں ہوتی اچھی چیز ، بیماریاں ہوتی ہیں بعض، یہ بیمار مجبور بھی ہوتے ہیں لوگ، ہمارے ایک دوست ہیں، لکھ پتی ہیں لیکن اچھا کھانا ہضم ہی کوئی نہیں ہوتا.جو پھیکی غذا جس کو منہ مارنا بھی بڑا مشکل ہے ، کدو کھالیں گے خالی، تو یہ اللہ کی توفیق ہی نہیں جس کو ملی وہ بیچارا کرے گا کیا؟ نعمتیں ہیں مگر فائدہ نہیں اٹھا سکتا.تو ان کو ہضم نہیں ہوتی اچھی چیز.
خطابات طاہر جلد دوم 71 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء ایک بڑا اچھا رسالہ لا ہور نکلتا ہے، اس کے بھی دشمن ہو گئے.الفضل ضبط کر بیٹھے، ریویو ضبط کر بیٹھے، خالد ضبط کر لیا، تشحیذ ضبط کر لیا پھر خیال آیا کہ ابھی پورا نہیں ہوا چلو پر لیس بھی ضبط کرلو ساتھ ہی ، پہلے کتابیں ضبط ہورہی تھیں پھر یہ ساری چیزیں ضبط کر لیں.وہی حال ہے، وہ لطیفہ میں نے پہلے بھی سنایا تھا کہ ایک اندھا اور ایک سمجھا کا، دیکھنے والا بصیر انسان دونوں نے مل کر حصہ ڈال کے کھیر پکائی یا حلوہ پکایا اور جوکھانا شروع کیا تو اندھے کو خیال آیا کہ حصہ تو برابر کا ہے لیکن یہ دیکھتا ہے مجھے پتا کوئی نہیں تیز نہ کھا رہا ہو کہیں، تو اس نے کہا اچھا مجھے بھی تیز کھانا چاہئے ، اس نے تیز کھانا شروع کر دیا اور پھر خیال آیا کہ یہ تو دو ہاتھوں سے کھا رہا ہوگا مجھے کیا پتا؟ اس نے دو ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا.پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے سوچا کہ اب تو مجھے پتا ہی نہیں لگ رہا کہ اور کیا ترکیب کی ہے تو پورے ہاتھ ڈال کے پوری پلیٹ اٹھائی کہ میاں باقی میرا حصہ ہے.تو انہوں نے کہا کہ ساری پہلے کتا بیں ضبط کیں، رسالے ضبط کرنے شروع کئے اور پھر Ban کر دیئے تو پتا نہیں اب احمدی اور کیا کر رہے ہوں گے؟ تو پریس بھی ضبط کر لئے کہ باقی ہمارا حصہ ہے.لیکن احمدیت کی آواز تو نہیں رکی، احمدیت کی آواز تو زیادہ شدت کے ساتھ پھیلی بستی بستی، نگر نگر ، احمدی نے نئے ولولوں سے سرشار ہو کر نئے جذبات خدمت سے لبریز ہوکر قربانیوں کا عزم کرتے ہوئے ، قید کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہوئے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کو ذلیل بتاتے ہوئے بڑی جرات کے ساتھ تبلیغ کی ہے اور احمدیت کا پیغام بستی بستی پہنچایا ہے.جہاں تحریر نہیں پہنچ سکتی تھی وہاں کیسٹوں کے ذریعے پیغام پہنچایا ہے، جہاں خود مل سکتی تھی توفیق وہاں خود پیغام پہنچایا ہے.عدالتوں میں حاضر ہوئے اور جوں کو بھی تبلیغ کی ہے، پولیس نے پکڑا ہے تو پولیس کو تبلیغ کی ہے، جیل میں پہنچے ہیں تو مجرموں کو تبلیغ کی ہے یو نفتی سنت کو زندہ کیا ہے.اس جماعت کا پیغام کون روک سکتا ہے؟ جو حربے تھے تم نے سارے استعمال کر لئے لیکن آج بھی خود رور ہے ہو کہ احمدیت پہلے سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنی شروع ہوگئی ہے.ہندوستان میں مانگ زیادہ ہوئی، چونکہ ہندوستان کے وسائل تھوڑے تھے اور بعض وہاں صاحب وسیلہ لوگ ہیں بھی لیکن ابھی تک ان کے اندر اتنا حوصلہ پیدا نہیں ہوا جتنا باقی دنیا کی جماعتوں میں ہو چکا ہے اس لئے اللہ ان کے بھی دل زندہ کرے، ان کو بھی حو صلے دے، زیادہ روپیہ خدا کی راہ
خطابات طاہر جلد دوم 72 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء میں خرچ کریں مگر میں نے قادیان کی جماعت کو یہ لکھا کہ آپ پیسے کی فکر نہ کریں ، آپ کو ہم باہر سے لٹریچر بھجوانا شروع کر دیتے ہیں چنانچہ پانچ مراکز ہندوستان میں بنا کر ان کو بھی اس عرصے میں انگلستان سے ہی لٹریچر بھجوایا جارہا ہے اور مزید مطالبے کئے گئے ہیں اور جو وہ کہتے ہیں انشاء اللہ وہ سب کچھ پورا کیا جائے گا، ہم تو کہتے ہیں تم تقسیم کرنے والے بنو جو چاہتے ہو دیں گے.اور اس دوران جو ایک خاص جماعت کی طرف توجہ ہوئی ہے وہ گجراتی بولنے والی جماعت ہے.اس میں بھی کسی زمانے میں حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب نے خدمت کی تھی ، اپنے خرچ پر کچھ لٹریچر بھی شائع کیا تھا.بڑی اہم جماعت ہے صرف پیسے کے لحاظ سے نہیں بلکہ دینداری کے لحاظ سے، تمام مسلمان تاجر جماعتوں میں دینداری کے لحاظ سے یہ بہت اہم جماعت ہے.شیعہ غالی نہیں ہیں، اسماعیلیوں کی طرح الگ جماعت خانے یا اسلام سے بہت زیادہ دوری نہیں ہے بلکہ ٹھیٹھ اسلام ہے ان کے اندر اور خشکی کی طرف مائل ضرور ہے لیکن ہے اسلام.نمازیں پڑھنا عبادت کرنا غلو سے پر ہیز کرنا اور خدا کی راہ میں خرچ کرنا یہ بڑی خوبیاں ہیں اور یہ قوم محروم تھی چنانچہ خدا تعالیٰ نے یہاں ہمیں انگلستان میں ایک باپ، بیٹا عطا کر دیئے جو گجراتی ہیں.ایسٹ افریقہ سے آئے تھے اور انہوں نے بڑی محنت کی ، جس طرح میں نے ان کو کہانیا لٹریچر تیار کیا.اپنی قوم کے مزاج کو سمجھتے ہوئے مشورے دیئے کہ پہلے کیا دینا ہے بعد میں کیا دینا ہے.بڑی غلط فہمیاں ہیں ان لوگوں میں چنانچہ خدا کے فضل کے ساتھ اس میں بھی ایک بھر پور اشاعت کی سکیم چل پڑی ہے اور ہندوستان نے بھی اس سے بڑا استفادہ کیا ہے اور لکھا ہمیں کہ ہمارے پاس تو گجراتی لٹریچر ہے ہی کوئی نہیں ہمیں کثرت سے بھجوائیں ، چنانچہ بھجوانا شروع کر دیا گیا ہے اور مانگ پیدا ہوگئی ہے یعنی وہاں بھی بھجوایا، پہلے کچھ کتا بیں بھجوائیں انہوں نے کہا فورا ختم ہوگئی ہیں.مانگ رہے ہیں اور دو پھر بھجوایا اب پھر کہتے ہیں اور دو.چنانچہ وہ اور کی جو طلب ہے خدا کے فضل کے ساتھ یہ بہت خوش کن ہے.انشاء اللہ امید ہے خدا کے گھر سے اور اس کے در سے کہ انشاء اللہ بہت جلد اس قوم میں بھی اللہ تعالیٰ احمدیت کا نور پھیلائے گا.یورپ اور امریکہ میں اور اسی طرح دیگر ممالک میں کیسٹ کی جو سکیم چلائی گئی تھی اس سے بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت فائدہ پہنچا ہے.کیسٹس جو ہیں وہ دو طرح سے تعلق رکھتی ہیں،
خطابات طاہر جلد دوم الله 73 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء ایک تو وہ کیسٹس جو مثلاً میری مجالس سوال وجواب کی ہیں یا خطبات کی ہیں.ان میں خطبات کی تو اردو میں ہوتی ہیں اور یہاں کی جو مجالس ہیں وہ ساری انگریزی میں کیسٹس بھی دینی ہیں ان کی فہرستیں تیار کرنی ہیں.اس میں انگلستان کے یہی کیسٹ گروپ نے بہت زیادہ محنت کی ہے اور ہندوستان سے ہمارے ایک فضل صاحب آج بھی آئے ہوئے ہیں خدا کے فضل سے، وہ آئی.جی تھے اپنے علاقے میں مگر یہاں تو وہ نہ ڈی.آئی.جی تھے نہ آئی.جی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ادنیٰ خادم بڑی محبت کرنے والے، بڑے ہر دلعزیز بڑی رونقیں انہوں نے لگائی رکھیں اور دن رات کیسٹس کے کام میں مدد کی ہے، جتنی دیر یہاں رہے ہیں سیر و تفریح کا تو سوال ہی نہیں تھا.تو اس طرح خدا نے اس جہت میں ہمیں کافی اپنے مقصد کے اب قریب کر دیا ہے.بہت سے ایسے سوال تھے جن کا کوئی جواب ہمارے لٹر پچر میں نہیں تھا نہ کسی نے وہ کتابیں لکھیں نہ جواب آیا.یہاں چونکہ ہر طبقے کے لوگ آیا کرتے تھے آکسفورڈ یونیورسٹی کے، کوئی لندن یونیورسٹی کے، کوئی کیمبرج یونیورسٹی کے، کوئی Politicians، کوئی دیگر لکھنے والے، پادری، Churches کے نمائندے، غیر ممالک سے، مختلف ممالک کے نمائندے، بڑے بڑے Politicians ہر طبقے کے لوگ آئے ہیں اور ہر طبقے کے آدمی نے اپنی مرضی کا سوال کیا ہے.تو وہ جو جوابات احمدیت کے نقطہ نگاہ سے دیئے گئے ہیں وہ میرے تو نہیں وہ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم ہی ہے جو میرے منہ سے نکل رہی ہے ،مگر انگریزی زبان میں تو اس کا بہت خلا تھا وہ خدا کے فضل سے پورا ہو گیا ہے.تو اب ضرورت ہے اس بات کی کہ تمام دنیا میں جماعتوں میں یہ فہرستیں چھپ کر پہنچیں اور ہر احمدی کے ہاتھ میں ہو اور اس کو علم ہو کہ کس مضمون کی کیسٹ کہاں ہے، کیا نمبر ہے اس کا، کس حصے پر وہ مجھے مل جائے گی، تو انگریزی میں تو یہ کام اب اللہ کے فضل سے تقریباً مکمل ہے ویڈیوز کا بھی اور آڈیویسٹس کا بھی.لیکن میں نے یہ ہدایت کی کہ یہ تو کافی نہیں ہے ، دیگر زبانوں میں اس کے آپ ترجمے کب تک کریں گے؟ بڑا لمبا کام ہے.تمام ممالک اپنی اپنی زبانوں میں اپنے اپنے مزاج کو مد نظر رکھ کے کیسٹس تیار کرنی شروع کریں.چنانچہ یہ بہت عظیم الشان کام ہوا ہے جو اس ایک سال کے اندر اور یقین نہیں آتا کہ خدا نے جماعت کو یہ سارے کام کرنے کی توفیق عطا فرما دی.انگریزی میں ان
خطابات طاہر جلد دوم 74 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء تقاریر اور سوال و جواب کے علاوہ مختلف ممالک نے اپنے مزاج کے مطابق افریقن ، امریکن انہوں نے لیسٹس تیار کی ہیں ڈینش میں سپینش میں ، ٹرکش میں، جرمن میں، البانین میں، نارویجن میں یہ سب اب ہمارے پاسAvailable ہیں.غور سے سن لیں دنیا میں جس جماعت کو ضرورت ہے وہ جس زبان میں چاہے اب خدا کے فضل سے اس کو کیسٹ مہیا کر سکیں گے.مغربی افریقہ میں یوروبا میں، ہاؤ سا میں، مینڈے میں ہمنی میں اور شانٹی میں اور فانٹی میں.جو افریقہ کی زبانیں ہیں اور ان میں بھی مقامی مبلغین اچھے زبان دان جن کا بڑا تجربہ ہے اپنی قوم کے مزاج کو سمجھتے ہیں انہوں نے تیار کی ہیں.اب ہمیں یہاں بیٹھے کیا پتا تھا کہ منی والے کیا چاہتے ہیں اور شانٹی والے کیا چاہتے ہیں اور فانٹی والے کیا چاہتے ہیں.ان کو پتا ہے اور اس کا پھل بھی لگنا شروع ہو گیا ہے وہ کیسٹس مقبول ہوگئی ہیں خدا کے فضل سے مشرقی افریقہ میں سواحیلی میں اور لوگنڈی میں کیسٹس تیار ہوگئی ہیں.ایشیاء اور مشرق بعید میں اردو کے علاوہ عربی، فارسی، انڈونیشین، پشتو، سندھی ، گورمکھی ، پنجابی ان میں Sets تیار ہوئے ہیں.عربی میں تو مصطفیٰ ثابت نے گزشتہ سال یعنی ۸۴ء سے پہلے ہی کر دیئے تھے، لیکن اس میں اب اضافہ کیا ہے انہوں نے اور بعض اور دوستوں نے بھی شمولیت اختیار کی ہے.اب اس کے لئے ایک باقاعدہ ٹیسٹس سے استفادہ کرنے کی سکیم کی ضرورت تھی اور یہ ایک اتنی اہم ضرورت تھی کہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اس طرف توجہ پیدا ہوگئی.افریقہ کے اکثر ممالک جہاں احمدیت سے تعارف ہو چکا ہے ان کا تعلیم کا معیار اتنا تھوڑا ہے کہ ہماری کتابیں خواہ کروڑوں بھی شائع کریں فائدہ نہیں پہنچاسکیں گی.اکثریت پڑھنا نہیں جانتی اور زبانیں پھر مختلف چھوٹی چھوٹی کہاں کہاں تک آپ ان کی کتابیں شائع کریں گے، کیسٹ تو بڑی جلدی ستی تیار ہو جاتی ہے.حسب ضرورت اس کو بڑھائیں آپ ، جتنا چاہے بڑھالیں لیکن کس طرح ان تک پہنچیں ؟ اس کے لئے تمام ممالک کو یہ لکھا گیا پھر یاد دہانیاں کرائی گئیں، پیچھے پڑے.بعض نے تو جلدی تعاون کیا، بعض نے بڑا سر کھپایا ہمارا.کہتے ہم ان کو یہ تھے کہ ہم سے تم مفت کیسٹ پلیئر لو ، ویڈیو ریکار ڈلوان کے Duplicator لولیکن سکیم تو بناؤ پہلے بتاؤ کہ کتنے آدمی تمہارے تیار ہوں گے اور اس سکیم کے تابع وہ کام کریں گے.کاریں لو ، جیپیں لو پھرنے کے لئے لیکن پہلے سکیم بتاؤ، ہمیں یہ تسلی ہو جائے کہ
خطابات طاہر جلد دوم 55 75 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء تم ان چیزوں کو ضائع نہیں کرو گے، بریکار نہیں جائیں گی.وہ سکیمیں بھجوانے میں ہی چھ چھ مہینے ضائع کر دیئے ہیں بعض ممالک نے.یہ بڑے افسوس کی بات ہے مگر بہر حال بعض ممالک نے بڑا اچھا بھی تعاون کیا، بڑی جلدی بھجوائیں.زیادہ مشکل یہ پیش آرہی تھی کہ ہم یہاں سے چاہتے تھے کہ اکٹھا انتظام ہو اجتماعی ، یہ نہیں کہ کوئی کسی رنگ کا خرید لیا، کوئی کسی رنگ کا خرید لیا اور بعد میں خراب بھی ہوں تو مصیبت پڑے کوئی کمپنی ذمہ دارنہ ہو اس لئے یہاں ہم تیار بیٹھے تھے.اب اللہ کے فضل سے چوہدری حمید اللہ صاحب کے سپر د پھر میں نے کیا کہ اب اس کو Final آخری Touches دیں تو انہوں نے مجھے چند دن ہوئے بتایا ہے کہ جو بھی سامان ہے خریدا جا چکا ہے اور مبلغین اب جو واپس جائیں گے تو انشاء اللہ لدے، پھندے جائیں گے یہاں سے اور سینکڑوں دیہات میں اللہ کے فضل سے یہ چل پڑیں گی کیسٹس اور جو سب سے زیادہ لطف آئے گا وہ اس بات کا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظمیں بھی ان میں گائی گئی ہیں.ترجمے ہوئے ہیں اور بڑے اخلاص اور محبت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منظوم کلام کو، اپنی زبانوں میں ڈھال کر نغمگی میں سموکر پیغام پیش کیا جا رہا ہے اور بڑا اس کا اثر ہے.اور نئی تعمیرات، نئے مشن ہاؤس، نئی مساجد ، اب مختصر کرنے کی کوشش کرتا ہوں یہ سال ۷۴ء کا، جس کو یہ اپنا سال بتاتے ہیں ۸۴ ء کا جو خدا تعالیٰ نے جماعت کے اموال پر اثر ڈالا ہے، پاکستان پر جو اس کا اثر پڑا ہے وہ سن لیجئے.۸۳ء میں کل وصولی پاکستان سے 2,74,24,700 روپے کی ہوئی ہے تمام مدات میں اور جماعت مشکلوں میں مبتلا ، نوکریوں سے فارغ کئے ہوئے لوگ، تجارتوں پر اثر ، مشکلات میں گھرے ہوئے اس کے باوجود خدا تعالیٰ نے یہ داغ نہیں لگنے دیا پاکستان کی جماعت پر کہ مشکلوں کے وقت تم پیچھے رہ گئے اور دو کروڑ چوہتر لاکھ سے 3,10,87,000 تک ان کا بجٹ پہنچ گیا.یہ بجٹ نہیں، یہ ادائیگی ہے جماعت پاکستان کی خدا کے فضل سے اور بیرونی دنیا میں حال یہ ہے کہ صرف جہاں تک چندوں کا تعلق ہے میں خلاصہ آپ کو پڑھ کے سناتا ہوں کہ ۸۲ء میں تین کروڑ ، پہلا سال جو میری خلافت کا ہے اس وقت تین کروڑ کل چندوں کی آمد تھی.۱۹۸۳ء میں کل چندے 5,37,80,000 تک پہنچ گئے اور ۱۹۸۴ء میں 10,50,70,800 تک پہنچ گئے اور یہ اعداد و شمار ایسے ہیں جو ابھی مکمل نہیں ہیں.مثلاً قحط زدگان کی تحریک اس میں شامل نہیں ہے، اس میں
خطابات طاہر جلد دوم 16 76 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء بیرون پاکستان ، ہندوستان بھی تو ہے اور بنگلہ دیش بھی ہے ان کے فنڈ ان میں شامل نہیں ہیں اور اسی طرح سکول ہیں بہت سے تحریک جدید کے سکولوں کا تو چندہ ہے ہی الگ.بعض مقامی چندے بہت سے ایسے ہوتے ہیں مثلاً یا اتفاقی چندے قرآن کریم کی اشاعت اس میں میں نے تین قرآن کریم کے متعلق آپ کو بتایا کہ ایک ہی دوست نے مثلا تینتیس ہزار پاؤنڈ ادا کیا تھا میں ہزار پاؤنڈ وہ بھی ابھی اس میں شامل نہیں ہے تو وہ اصل اگر یہ ساری چیزیں ڈالیں تو خدا کے فضل سے اس سے بھی زیادہ ہو جائے گا.بہر حال کل میزان اگر آپ اس میں نصرت جہاں سکول شامل کر لیں تحریک جدید کے سکول چھوڑ کر ، نصرت جہاں ہسپتال شامل کر لیں تحریک جدید کے ہسپتال چھوڑ کر ان کی آمد کا ریکارڈ ہمارے پاس پورانہیں ہے تو 1983ء میں جو بارہ کروڑا کا نوے لاکھ وصولی تھی ، 1984ء میں میں کروڑ ستاسی لاکھ تک پہنچ گئی ہے خدا کے فضل سے.اب یہ باقی اعداد و شمار پڑھنے کا وقت نہیں ہے.ایک دلچسپ بات سنا کر اس حصے کو ختم کرتا ہوں.یہ جو حکومت پاکستان نے جماعت کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا ہوا ہے اس کے کچھ چھوٹے چھوٹے ضمنی پھل بھی ملتے رہتے ہیں، تلاش کرنے پڑتے ہیں ، حوالے دیکھنے پڑتے ہیں.کسی نے کیا کہا، کسی نے کیا کہا، تو مالی امور کے متعلق عبدالرحیم اشرف کا ایک پرانا ایڈیٹوریل دیکھنے میں آیا بڑا دلچسپ 1956ء میں وہ لکھتا ہے کہ: ”ہم نے تو ساری کوششیں کرلیں اور میں جانتا ہوں کہ میرا یہ لکھنا جماعت احمدیہ کو خوش کرے گا اور چند سال تک وہ فخر سے اس کو پیش بھی کرتے رہیں گے اور میں جانتا ہوں کہ بڑے سخت ، تلخ اور کڑوے گھونٹ ہیں جو میں بھر کہتا ہے:.رہا ہوں لیکن چوٹی کے ہمارے بزرگ، چوٹی کے علماء ہر بار نا کام اور رسوا ہوئے اور جماعت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے اور ہر دفعہ اس جماعت نے ہر مخالفت کے بعد ترقی کی طرف قدم اٹھایا ہے.“ اور اس وقت جو اس کو ترقی نظر آ رہی تھی مالی امور میں جو بڑی تکلیف دے رہی تھی اس کو وہ ان کی جرات دیکھو ان کے حوصلوں کی بلندی دیکھو کہ ۶۵۷.۱۹۵۶ء کا بجٹ چھپیں لاکھ روپے تجویز کر دیا ہے.“
خطابات طاہر جلد دوم 77 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء اور آج میں کروڑ روپیہ تک یہ بجٹ پہنچ چکا ہے اور 57ء.56ء کے بعد 87ء.86ء میں انشاء اللہ تعالیٰ یقیناً پچیس کروڑ سے زیادہ ہوگا اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انشاء اللہ اگلے ابتلا تک یہ کروڑوں میں نہیں رہے گا بلکہ اربوں میں بجٹ پہنچ چکا ہوگا خدا کے فضل ورحم کے ساتھ.ان لوگوں نے جماعت کا کیا مقابلہ کرنا ہے، ان کی حیثیت ہی کوئی نہیں.طاقتیں ہیں دنیا کی، دنیا کی عظمتیں حاصل ہیں، دنیا کے وسائل حاصل ہیں مگر پھل تو آسمان سے اترا کرتے ہیں.اللہ کی رحمت اور برکتوں کے پھل جس کو نصیب نہ ہوں اس کی ساری کوششیں اکارت جایا کرتی ہیں.اس عرصے میں خدا تعالیٰ نے جو نئی عمارتیں نئی جگہیں عطا فرمائی ہیں ان کا کچھ ذکر سنیئے.آسٹریلیا میں زمین تو پچھلے سال خریدی گئی تھی.اس سال وہاں ایک عمارت کھڑی کی گئی ہے جس میں جماعت کے کام چل پڑے ہیں خدا کے فضل سے لیکن مسجد اور اس کی تعمیر کے لئے اگر چہ چندہ تو اکٹھا ہو چکا ہے لیکن کچھ دقتیں تھیں نقشے کے متعلق ، اب وہ مجھے پتالگا ہے کہ نقشہ تیار ہو گیا ہے.میری کوشش اب اللہ کے فضل کے ساتھ، میں جب کہتا ہوں میری تو میری ذات ہرگز مراد نہیں ، ہم سب کی ، آپ کی ، میری ، ہم سب کی ، ہماری کوشش یہ ہوگی انشاء اللہ کہ اسی سال بلکہ آئندہ چند مہینے میں ہی وہ تعمیر کا کام شروع ہو جائے اور اس سال مکمل ہو جائے.انڈونیشیا میں ساڑھے سات ایکڑ زمین پر ایک بہت ہی عظیم الشان منصوبے پر کام شروع ہوا تھا جواب تکمیل کے مراحل تک پہنچا ہوا ہے.اس کی تصویریں جو آئی ہیں بڑی خوشی ہوئی ہے دیکھ کر اس پر وہ پتا ہے کتنا خرچ کر رہے ہیں؟ اکائی، دہائی ہسینکڑہ ، ہزار، دس ہزار ، لاکھ، دس لاکھ ، کروڑ ، دس کروڑ ، چوبیس کروڑ روپیہ خرچ کر چکے ہیں لیکن ابھی آپ تعجب نہ کریں کیونکہ ان کے روپے کی قیمت بہت تھوڑی ہے.وہ کروڑوں میں باتیں کرتے ہیں ہمارے یہاں وہ میرا خیال ہے سارامل کے چالیس کروڑ شاید ایک کروڑ بنے.( کیوں جی کتنا ہے فرق؟) 1/50 کا فرق ہے، تو گویا جو چالیس کروڑ وہ کہ رہے ہیں اس سے کچھ زائد خرچ ہو گا مکمل ہونے تک تو کم و بیش اسی لاکھ روپیہ تو بہر حال لگ جائے گا اس کے اوپر ہمارا پاکستانی حساب سے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے، بڑا عظیم الشان منصوبہ ہے.مبارک ہو کہ سنگا پور میں جماعت کی عمارت یعنی مسجد اور مشن ہاؤس مکمل ہو گیا.الحمد اللہ اللہ تعالیٰ مبارک کرے.یہ بھی ۸۴ء کا پھل ہے اور
خطابات طاہر جلد دوم 78 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء اسلام آباد میں تو آپ بیٹھے ہوئے ہیں یہ تو آپ کو پتہ ہی ہے.مغربی جرمنی میں وہاں ایک بڑی بھر پور سکیم بنائی گئی.میں جب وہاں گیا دورے پر تو میری خواہش تھی کہ تیزی کے ساتھ وہاں نئے مشن قائم ہوں کیونکہ اس قوم نے بڑی سعادت کا ثبوت دیا ہے.احمدی مصیبت زدگان کے لئے دل بھی کھولے ہیں اور ان کی مدد بھی کی ہے اور پھر احمدیت کے لئے خدا نے ان کے دل کھولے اور یورپ میں جس تیزی کے ساتھ جرمن قوم کو توجہ ہے اتنی اور جگہ نہیں ہے.انگریز اب بڑھتے ہیں، اب آ رہے ہیں لیکن پیچھے رہ گئے ان سے ، اب زور لگانا پڑے گا ان کو چیلنج ہے ان کے لئے ، ہمارے تو دونوں ہی گھوڑے ہیں.وہ نکلیں گے تب بھی میں شاباش ہی دوں گا ، یہ آگے نکلیں گے تب بھی شاباش ہی دوں گا.اگلے کے لئے بھی دعائیں کروں گا، پچھلے کے لئے بھی دعائیں کروں گا لیکن ان کے لئے بہر حال یہ بات اس طرح برابر نہیں.انگلستان والوں کو غیرت چاہتے ان کو آگے نکلنا چاہئے کیونکہ یہاں جماعت بڑی ہے تو بہر حال جرمنی میں چونکہ ان کے اطوار بڑے مجھے پیارے لگ رہے تھے میں نے کہا! یہاں زیادہ مشن بنانے ہیں.تو ہیمبرگ میں خدا تعالیٰ نے ساڑھے چھا یکڑزمین عطا فرما دی ہے، ہیمبرگ کے قریب ہی اور جرمنی کی زمینوں کا باہر کی زمینوں پر اندازہ نہ کریں وہاں بہت زیادہ مہنگائی ہے.بڑی خوبصورت جگہ ہے وہاں دو عمارتیں بھی بنی ہوئی ہیں اور ان میں سے ایک کو تو آگ لگ گئی تھی اس کو انشاء الله ہم دوبارہ بنائیں گے اور جب زمین مجھے پسند آ گئی اور لینے کا فیصلہ ہو گیا تو پھر کسی نے بتایا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو یہ جگہ بہت ہی پسند تھی اور سیر کے لئے یہاں آ کے شہلا کرتے تھے.اس وقت مجھے خیال آیا میں نے ہیمبرگ کہ دیا تھا غلطی سے فرینکفرٹ کی بات کر رہا ہوں.گروس گراؤ کی زمین ہے، تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث وہاں ٹہلا کرتے تھے.مجھے خیال آیا کہ معلوم ہوتا ہے وہ دل سے کوئی تمنا بھی ہے، کوئی دعا نکلی ہے کہ اے خدا! اتنی پیاری جگہ ہمیں ہی دے دے تو آج آپ کو خوشخبری ہو اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی روح کے لئے خوشخبری ہے کہ وہ جگہ جماعت کی ہو چکی ہے.الحمدللہ خدا کے فضل کے ساتھ.ہیمبرگ میں مشن بالکل چھوٹا ہو گیا ہے.ہر جگہ جماعت کے کپڑے چھوٹے ہونے لگ گئے ہیں یہ مزہ ہے ابھی کل بنواؤ آج چھوٹا ہو گیا، آج بنا ؤ کل چھوٹا ہو جائے گا، اس دور میں جماعت
خطابات طاہر جلد دوم 79 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء داخل ہورہی ہے.لندن مشن کا ہال دیکھا ہے کتنا چھوٹا سا رہ گیا ہے اور اب یہاں انشاء اللہ تعالیٰ میری تو دعا ہے کہ اسلام آباد بھی بڑی جلدی چھوٹا ہو جائے.تو جرمنی میں وہاں ہیمبرگ میں بھی زمین دیکھ رہے ہیں.میونخ میں نئے مشن ہاؤس کے لئے کہہ دیا گیا ہے وہاں بھی خریدا جارہا ہے اور Kiel میں خرید لیا گیا ہے.تیرہ سو مربع میٹر زمین پر دو منزلہ نہایت عمدہ تعمیر شدہ عمارت دو بڑے ہال اور ساری جماعت کی ضرورتیں وہ کہتے ہیں کہ آئندہ کئی سال تک پوری ہو جائیں گی.میں نے کہا یہ کوئی خوشخبری نہیں اگلے سال مطالبہ کرو کہ ہماری ضرورتیں نہیں پوری ہور ہیں تب مزہ آئے گا.ہالینڈ کو بھی کہ دیا ہے کہ وہاں بھی مسجد چھوٹی سی ہوگئی ہے، انہوں نے بھی جگہیں دیکھنی شروع کی ہوئی ہیں.فرانس میں ایک سودا ہوتے ہوتے اس طرح رہ گیا کہ اتنی اچھی جگہ تھی کہ کمیٹی نے کہا کہ ہم نے لینی ہے چنانچہ اللہ ہمیں اور دے دے گا اس میں بھی حکمت ہوگی، انشاء اللہ بہتر جگہ مل جائے گی.سپین میں غرناطہ میں مسجد کی زمین کے لئے کوشش کی جارہی ہے، ایک ہوٹل مل رہا تھا مگر اس پہ تو ابھی پوری طرح طبیعت رضامند نہیں.میرا خیال ہے اپنی زمین خرید کر ایک نئی شاندار مسجد وہاں بنائیں، خدا کے فضل کے ساتھ.گلاسگو میں ایک دو منزلہ بہت بڑی عمارت بہت تھوڑی قیمت پر مل گئی ہے اور تعجب کریں گے آپ دیکھ کر کتنی عمدہ جگہ اور اتنی بڑی عمارت اور کتنی ستی مل گئی اور جماعت نے خدا کے فضل سے بڑی محنت اس پر شروع کر دی ہے.وقار عمل بھی ہورہے ہیں ، دوسرے کام بھی ہورہے ہیں اور گلاسکو والے کہتے تھے کہ ہماری ضرورتیں انگلی تھیں چالیس سال کی پوری کرے گی اتنی بڑی عمارتیں ہیں.بعض کہتے تھے یخلخل لفافہ ساہم کریں گے کیا، ہم تو چند آدمی ہیں؟ میں نے کہا! کرو گے یہ کہ سوئے ہوئے ہو تو میں تمہیں جگاؤں گا اب، میں کہوں گا کہ بھر و اس عمارت کو اب اور اب تمہیں نکمے نہیں بیٹھنے دینا اور خدا کا جو سلوک پہلے ہوتا رہا ہے وہ اب بھی ہوگا، انشاء اللہ تعالیٰ یہ عمارت بھی اللہ کے فضل سے چھوٹی ہو جائے گی ،فکر کی بات نہیں ہے.سورینام میں دونئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں.امریکہ میں پانچ مراکز کی سکیم تھی اور اس میں بھی جماعت نے بڑی قربانی کا مظاہرہ کیا.کل وعدہ جات 22,047 ڈالر تھے اور پاکستانی روپوں میں 13,52,66,000 اس کی قیمت بنتی ہے پچھلے سال انہوں نے ۸۴ء سے پہلے سال کچھ ادا کیا،
خطابات طاہر جلد دوم 80 80 افتتاحی خ ب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء لیکن ۸۴ء میں تو پھر نمایاں تیزی پیدا ہوئی اس کام میں ہمشن ہاؤس خریدنے میں بھی اور وصولی میں بھی چنانچہ اس وقت نیو یارک میں سکول کی ایک عمارت ہمیں مل گئی ہے، نہایت عمدہ اور سارے نیو یارک والے بڑے خوش ہیں، جو ملتے ہیں بتاتے ہیں بہت اچھی عمارت ہے.اس پر بھی بڑی محنت کی ہے ہمارے احمدی دوستوں نے.شکاگو میں ایک پانچ ایکڑ کا پلاٹ اور مکان اس پر تعمیر شدہ خدا کے فضل سے نہایت عمدہ جگہ مل گیا ہے.لاس اینجلس میں ایک پونے پانچ ایکڑ کا پلاٹ بہت مہنگا علاقہ ہے وہ مگر بہت ہی اچھا پلاٹ لیول زمین ، بہت اچھے لوگ وہ بھی عمارتوں سمیت خدا کے فضل سے میسر آ گیا ہے،خرید لیا جا چکا ہے.Detroit میں سات ایکڑ کا ایک پلاٹ خرید لیا گیا ہے اور اس پر بھی دو مکان بنے ہوئے تھے Insured تھے دونوں، ایک مکان ذرا بوسیدہ تھا اور بعض دوستوں نے مجھے بتایا اب آکے کہ ہم تو کہتے تھے مشورہ بھی دیا تھا جماعت کو کہ اس کو گراؤ اور دوبارہ بناؤ تو وہ اللہ کا فضل ایسا ہوا کہ اس کو آگ لگ گئی اور وہ ساری عمارت ختم ہو گئی ، جل کر خاک ہو گئی مل جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ اور وہ بجائے اس کے کہ خود گرائیں اپنے خرچ پر، یہ اللہ کی تقدیر نے گرا بھی دیا اور اس کے لئے تعمیر کا بھی سامان مہیا کر دیا.واشنگٹن ڈی سی میں بہت اچھی ایک جگہ ملی تھی یعنی چوالیس ایکڑ زمین لیکن افسوس ہے کہ وہ ہم نہیں رکھ سکے، ہم نے خود نہیں رکھی کیونکہ جب اس کے جائزے لئے گئے تو زیر زمین پانی کی کیفیت ( اور ) بعض دوسری رپورٹیں ایسی تھیں کہ خطرہ یہ تھا کہ ہمارے لئے مفید ثابت نہیں ہوگی.دعا کریں اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اور جگہ دے دے.اور ہندوستان میں دلی میں مسجد کی تعمیر ہونے والی ہے اس ضمن میں ہندوستان کا جو چوٹی کا نقشہ بنانے والاArchitect ، وہ بہت مشہور آدمی ہے وہ ہم سوچ رہے تھے کہ اس کا ڈیزائن کس سے بنوائیں تو ہمارے آفتاب خان صاحب وہاں گئے وہ ان کا پرانا کلاس فیلو نکلا اور اس نے گھر بھی بلا یا دعوت بھی کی اور درخواست بھی کی کہ میں اعزاز سمجھوں گا اگر مجھے موقع ملے کہ میں یہ نقشہ بناؤں کیونکہ اس سے پہلے بعض اسلامی ممالک کی مساجد کے میں نے نقشے بنائے ہیں اور بہت ہی مقبول ہوئے ہیں.تو نقشے والا بھی ہندوستان ہی سے مل گیا ہمیں ، آفتاب صاحب نے لکھا تو ہے اس کو ، پتا نہیں کب وہاں سے جواب آئے.
خطابات طاہر جلد دوم 81 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء نجی میں بھی نیر یرے Narere کے مقام پر ایک نیا سکول جاری کیا گیا ہے اللہ کے فضل کے ساتھ اور یہ سارے نہیں ہیں یہ تو بہت رپورٹیں آتی ہیں، ہر ہفتے کوئی نہ کوئی اطلاع ملتی ہے.افریقہ میں تو یہ حال ہے کہ ادھر کوئی احمدی ہوا، ادھر ساتھ تحفے دینے شروع کر دیئے زمین کے، ابھی ایک چیف کے متعلق بتایا کہ وہ احمدی ہوا اور پچاس ایکڑ زمین بھی ساتھ تحفہ دے دی اور اب وہاں لکھوکھہا روپے سے وہاں عمارت تعمیر ہورہی ہے ، خدا کے فضل سے.امریکہ میں زمین کے جو عطیے ہیں وہ اندازہ آپ کر لیجئے.اب ساری لسٹیں میں آپ کو کہاں سنا سکتا ہوں.ایتھر میں 135 ایکڑ عطیہ، زائن شکاگو میں دو پلاٹس عطیہ، ہوسٹن ٹیکساس میں چار رہائشی پلاٹ عطیہ، Indianapolis ایک انڈسٹریل پلاٹ عطیہ، ولنگبر ا پندرہ ایکڑ کا پلاٹ ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب نے عطیہ دیا تھا، وہ پہلا ڈاکٹر بشارت احمد صاحب منیر نے دیا تھا.تو سان میں بائیس ایکڑ کا پلاٹ ڈاکٹر ظفر قریشی نے عطیہ دیا.بوسٹن میں ہمارے عابد حنیف صاحب ہیں انہوں نے ایک دوا یکڑ کے قریب تحفہ دی ہے زمین، یہ وہاں کے مقامی احمدی ہیں خدا کے فضل سے.ان کے علاوہ سینٹ لوئس میں تین پلائس جماعت کو ملے ہیں.یہ تو ایک امریکہ کا حال ہے اور اس قسم کی چیزیں ہر جگہ دنیا میں ظاہر ہو رہی ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا اس کو تو اب ہم count ہی نہیں کر سکتے یہ اخراجات ان پر، جو جماعت اس عرصے میں خرچ کر چکی ہے یہ تو بڑی لمبی فہرست ہے یہ بھی میں چھوڑتا ہوں.یہ سیرالیون اور غانا اور دوسری جگہوں کے دلچسپ واقعات ہیں یہ بھی وقت کم ہو گیا ہے.نئی جو مساجد تیار ہوئی ہیں بعض اہم ویسے تو ہر روز بن رہی ہیں کوئی دن بھی ایسا نہیں ہوتا جہاں جماعت احمدیہ کہیں مساجد نہیں بنا رہی ہوتی.سورینام میں دو، لائبیریا میں ایک، غانا میں چار، نائیجیریا میں ایک، سیرالیون میں دو، یوگنڈا میں دو، کینیا میں پانچ، انڈونیشیا میں دس اور سنگا پور میں ایک یہ کل 28 مساجد کی تعمیر کی توفیق ملی ہے.جو اہم مساجد ہیں بڑی بڑی، بڑے عظیم الشان منصوبوں والی اور پانچ زیر تعمیر ہیں اس وقت غانا میں دو، سیرالیون میں ایک، انڈونیشیا میں دو،اٹلی میں اب مسجد کی تعمیر کے لئے روپیہ تو موجود ہے زمین اچھی نہیں مل رہی ، اب وہاں میں ایک وفد دوبارہ بھجوا رہا ہوں.کئی دفعہ بھجوا چکے ہیں ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی اس کے لئے دعا کریں.برازیل میں بھی ابھی تک زمین نہیں مل سکی ، ان کا اتنا بڑا املک ہے مناسبت کے لحاظ سے ہی اتنے وہاں پہنچ کر
خطابات طاہر جلد دوم 88 82 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء نئے نئے زاویے سامنے آتے ہیں لوگوں کے کہ یہ فیصلہ ہی نہیں ہوا کہ کرنا کہاں ہے.اس کے لئے بھی دعا کریں، اللہ رہنمائی فرمائے اور وہاں اچھی جگہ ہمیں مشن بنانے کی توفیق عطا فرمائے.اس کے بھی پیسے موجود ہیں، یہ دونوں مشن خدام الاحمدیہ نے دینے کا وعدہ کیا تھا اور رقم مہیا کر چکی ہے.فرانس کا بھی میں نے بتایا ہے رقم موجود ہے اللہ کے فضل سے ( یورپ کا جو دورہ کرنے کی توفیق ملی ).دوسری مثال انڈونیشیا میں کن جایا“ کے مقام پر مسجد کی تعمیر کی ہے جس کی تمام تر تعمیر وقار عمل کے ذریعہ ہوئی جس میں نہ صرف احمدی احباب شامل ہوئے بلکہ غیر از جماعت احباب بھی شامل ہوئے.یورپ کا جو میں نے دورہ کیا تین چار ممالک کا یہ خصوصیت کے ساتھ نئے مشنز کے قیام کے لئے تھا.نئی زمینوں کے حصول، مساجد کی زمینوں کے لئے مشن کے لئے اور بعض مشنوں میں جو بنے ہوئے ہیں پہلے سے ان میں وسعت دینے کی سکیم بھی زیر غور تھی.چنانچہ سوئٹزر لینڈ میں خدا کے فضل سے فیصلہ ہو گیا ہے، ہالینڈ میں نقشہ بنے کا کہ دیا گیا ہے، نئی زمین خریدنے کا بھی کہا گیا ہے، نے مشن ہاؤس میں وسعت کا بھی فیصلہ ہو گیا ہے اور خدا کے فضل سے چندہ بھی دوستوں نے دینا شروع کر دیا ہے اپنا ہیمبرگ کا بتا چکا ہوں، فرینکفرٹ کا میں بتا چکا ہوں، فرانس کا بتا چکا ہوں زیورخ کے مشن ہاؤس کی توسیع کی گئی ہے.یہ تو تھا مشن کا اصل کام جس کی غرض سے میں گیا تھا یعنی اصل کام تو اس کو نہیں کہنا چاہئے بنیادی کام تو جماعت سے ملنا تھا اور خلیفہ وقت کا ہمیشہ ہی بنیادی کام رہے گا کیونکہ جماعت سے مل کر جو دوطرفہ فائدہ پہنچتا ہے، یہ جتنے پھل ہیں یہ اس فائدے کے پھل ہیں پھر آگے ایک نئی روح پیدا ہوتی ہے مجھے آپ سے مل کر آپ کو مجھ سے مل کر ، نئے ولولے جاگتے ہیں ،نئی امنگیں دلوں میں اٹھتی ہیں اور اللہ کے فضلوں اور احسانات کو ہم برستا دیکھتے ہیں، ایک ایسی عظیم اسلامی اخوت کو دیکھتے ہیں کہ باہر بیٹھے اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے ، یعنی وہ لوگ جو باہر بیٹھے ہوئے ہیں.جب تک وہ گزریں نہ ان راہوں سے ، تو اس پہلو سے یہ جو دورہ تھا یہ بہت ہی عظیم اثرات پیدا کر گیا ہے.جماعتیں جو پہلے بھی اخلاص میں نہائی ہوئی تھیں انہوں نے جو محبت کا سلوک کیا اس پر خدا ان پر فضلوں کے ساتھ ، اپنے فضل لے کر نازل ہوا اور ان کے ایمان اور اخلاص میں ترقی ہوئی.ان کی کوششوں
خطابات طاہر جلد دوم 888 83 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء میں برکت پڑی، جو مقدموں میں پھنسے ہوئے تھے ان کے مقدمے حل ہوئے ، ان کی مشکلات خدا نے دور فرما ئیں، کئی ضرورت مند تھے ان کے لئے دلوں سے دعائیں اٹھیں ، اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبول فرمایا اور جو مجھے خاص طور پر خوشی ہوئی وہ یہ دیکھ کر کہ وہاں احمدی جو مقامی لوگ ہیں ان کے اخلاص کا معیار بہت اچھا ہے اور ان میں اب وہ بات نہیں رہی East is East and West is west, and never the twine shall meetوہ تو اسلام کے نور نے مشرق اور مغرب کے فاصلے بالکل مٹا دیئے ہیں ، نئی تہذیب جنم لے رہی ہے ان کے دلوں میں نئی اقدار پیدا ہورہی ہیں، نئی محبت کے پیمانے ہیں جو بھرتے چلے جارہے ہیں اور پھر نئے تعمیر ہوتے چلے جارہے ہیں.عجیب اخلاص کے عالم ہیں میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مغربی دنیا کے لوگ احمدی ہوں اور عقل کے ساتھ دل کو بھی اس طرح وابستہ کر لیں کہ حیرت سے انسان ان کے نو راخلاص کو دیکھے اور ان کو دعائیں دے.اس کیفیت میں یورپ داخل ہو رہا ہے، یورپ کے احمدی داخل ہو چکے ہیں خدا کے فضل کے ساتھ.نمونے تو بڑے ہیں میں تو چند ایک مستورات کے مثلاً میں وہاں کل سناؤں گا واقعات ، یہ بڑی قربانی ہے اور خدمت کے جذبے اطاعت اور محبت کے جذبے، ان میں اب دماغ نہیں رہا پوری دل کی وابستگی اور اس کی شمولیت ہو چکی ہے.جہاں تک بیعتوں کا تعلق ہے ہر جگہ جہاں مجالس سوال و جواب ہوئیں ایک بھی ایسی جگہ نہیں جہاں فورا بیعتیں نہیں ہوئیں.کل کی بات ہے آج عربوں کو میں بتا رہا تھا کہ یونہی آپ نے اپنے بیچارے عربوں کو بدنام کیا ہوا تھا کہ احمدیت میں نہیں آتے.ظلم ہے اس قوم پر حضرت محمد مصطفی میت ہے کی قوم ہے، اس پر بدظنی کا حق کیا ہے کسی کو، ہم پیغام نہ دیں، ہم کوشش نہ کریں، ہم ان کی غلط فہمیاں دور نہ کریں اور الزام دے دیں کہ جی عرب نہیں آ رہے.میں نے تو یہ دیکھا کہ جہاں بھی عربوں سے بات ہوئی ہے الا ماشاء الله بعض ضدی ہوتے ہیں بہت جلدی ان میں تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، بہت جلدی انہوں نے Respond کیا ہے.میں ایک نمونہ مثلاً جرمنی کا آپ کو بتاتا ہوں فرینکفرٹ کا وہاں مجلس سوال و جواب ہوئی اکثر تو جرمن یا دوسرے لوگ تھے، کچھ پاکستانی غیر احمدی وہ تو کم تھے مگر اکثر غیر تھے چندان میں سے عرب بھی تھے، دولبنانی تھے اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے جو بڑے غالی قسم کے شیعہ آپ جانتے ہی
خطابات طاہر جلد دوم 84 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء ہیں.لبنانی ذرا خاص طور پر اپنے مذہب میں زیادہ متعصب پائے جاتے ہیں، تو ایک دوست نے سوال شروع کئے اور میں جواب دیتا رہا جس طرح خدا نے تو فیق عطا فرمائی.ایک دوسرے دوست اپنے بچے کو ساتھ لے کے بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے کوئی سوال نہیں کیا.بچہ بڑا پیارا سا چھوٹا سا تھا، لیکن میں حیران تھا بڑی توجہ سے باتیں سن رہا تھا اور اس کے چہرے پہ بڑی معصومیت تھی تو میں نے بچے کو بلا کے پیار دیا اور پھر اس کو واپس بھیج دیا.جب میں جدا ہونے لگا تو وہ آگے بڑھے ملنے کے لئے میں نے ان سے یونہی ، نرم گفتگو ہوتی ہے ہلکی پھلکی ، میں نے کہا! یہ بچہ تو مجھے بہت پیارا لگا ہے کہتے ! آپ کا ہو گیا میں نے کہا! ہاں ہاں میرا.کہتے ہیں ! نہیں نہیں، آپ نہیں سمجھے.آپ لے لیں اس کو، میں سچ سچ دے رہا ہوں جسمانی طور پر ابھی رکھ لیں.کہتے ہیں بالکل آپ غلط سمجھ رہے ہیں، میں محاورۃ نہیں دے رہا یہ آپ کا ہو گیا.میں نے کہا! بہت اچھا جزاک اللہ مگر میں تو ایک پر راضی ہونے والا نہیں، میں تو بچے کا باپ بھی لوں گا، اس کی ماں ،اس کے بہن بھائی بھی لوں گا،سارا خاندان لوں گا.انہوں نے کہا! اگر یہ بات ہے وہ سمجھ گئے کہ مذہب کے طور پر، انہوں نے کہا پھر میں معذور ہوں میں یہ کام نہیں کر سکتا.میں نے کہا ! جزاک الله مگر جب بھی آپ سارا خاندان لے کے آئیں گے تب آئیں میرے پاس.جب اندر داخل ہوئے تو میرے ساتھ شاید ماجد تھے یا کون، ان سے میں نے کہا کہ آج رات خدا کے فضل سے یہ فیصلہ کر لیں گے اور کل تک احمدی ہو جائیں گے اور دوسرے دن صبح خوشخبری ملی کہ وہ سارا خاندان احمدی ہو گیا ہے اور بڑے مخلص ہیں، محبت کرنے والے ہیں، باقاعدہ رابطہ رکھے ہوئے ہیں اور وہ دوسرے لبنانی جوان کے لئے ہدایت کا موجب بنے تھے وہ بھی ہو گئے اور اور بھی اب مجھے پتا لگا ہے وہاں ہورہے ہیں خدا کے فضل سے غالبا ہو بھی چکے ہیں بعض عرب اور ایک جگہ نہیں ہر جگہ ہورہے ہیں.شام میں وہاں کے حالات آپ جانتے ہیں مذہبی سختیاں ہیں لیکن وہاں کچھ غلط فہمیاں تھیں جماعت کے درمیان اس کی وجہ سے پوری برکت نہیں تھی، تو چند دن ہوئے ہیں میں نے اپنا نمائندہ مصطفیٰ ثابت کو بھیجا، خط بھی لکھے.ایک وہاں نواحمدی بڑے مخلص تھے ان کو تاکید کی کہ میرا یہ پیغام پہنچا ئیں چنانچہ ایک دم دلوں کی کیفیت بدلی مصطفیٰ ثابت کہتے ہیں کہ میں تو ہار بیٹھا تھا ، میں واپس مایوس ہو کے آ رہا تھا، میں نے کہا! ان لوگوں کو میں اکٹھا نہیں کر سکتا کہتے ! اچانک ایسی کا یا بیٹی کہ
خطابات طاہر جلد دوم 85 59 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء جماعت یکدم ایک ہوگئی اور خدا نے یہ فضل کیا کہ ایک ہوتے ہی پانچ بیعتیں ہوگئیں اور نو جوان بڑے اچھے احمدی ہوئے ہیں.تو ہماری بدظنیاں ہیں فلاں قوم نہیں ہوتی ، فلاں جگہ نہیں ہوتی.کام کریں، دعا کریں، تو کل کریں، مٹھاس پیدا کریں اپنی باتوں میں جو حق ہے تبلیغ کا اس طرح ادا کریں.شکست دینے کے لئے نہیں جیتنے کے لئے ان کو ، دھکے دینے کے لئے نہیں اپنا بنانے کے لئے اس روح سے اگر آپ کام کریں گے تو ممکن نہیں ہے کہ آپ کی تبلیغ بے اثر جائے.بیوت الحمد کا منصوبہ خدا کے فضل سے ہے، انشاء اللہ ۱۹۸۹ء تک ہمارا ارادہ ہے کہ سو کے قریب مکان بنا کر.غرباء کو تحفتاً پیش کریں گے شکرانے کے طور پر سوسالہ جشن اس طرح منائیں گے ، ایک سو کا خیال تھا لیکن اب میرا خیال ہے دوسو تک بنا ئیں گے، انشاء اللہ اور قریباً160 غرباء کی ابھی تک اس منصوبے سے مدد ہو چکی ہے.اس لئے جن لوگوں نے شرکت کی تھی ان کے لئے مبارک ہو.ایسے حالات ہیں غربت کے وہاں کہ بعضوں کا گھر اس طرح کا ہے کہ باورچی خانہ نہیں ہے اپنے سونے والے کمرے میں وہ کھانا پکاتے ہیں اور غساخانہ نہیں ہے بعض گھروں میں بعض گھروں میں ٹائلٹ نہیں ہے کوئی، بیت الخلاء نہیں بعض گھروں میں بعض کمروں کی چار دیواری ہے چھت ہے ہی نہیں اور بعض گھروں کی کوئی حفاظت نہیں چوروں کی طرف سے، چار دیواری ہی کوئی نہیں تھی.تو پہلے منصوبے کے حصے میں میں نے یہ ان کو ہدایت دی اس کمیشن کو کہ آپ یہ غریبانہ ضرورتیں تو فوراً پوری کریں اس میں انتظار نہ کریں اس سو سال کا، یہ بیچارے دکھوں میں مبتلا ہیں.یہ خدا کو ہم کیا جواب دیں گے کہ ہم یہ انتظار کر رہے تھے کہ پانچ سال بعد یا چھ سال کے بعد پھر ہم ان کو دیں گے تو 160 سے زائد آدمی استفادہ کر چکے ہیں اور ابھی خدا کے فضل سے زمین خرید لی گئی ہے روپی بھی کچھ ہے، کچھ باقی بھی آپ انشاء اللہ ادا کر دیں گے، تو یہ جو تمنا ہے ہماری کہ دوسوغریب احمدیت کے سوسال کا پھل ان مکانوں کی صورت میں کھائیں انشاء اللہ وہ بھی پوری ہوگی.اب آخر پر میں کلمہ سے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اور کچھ ایمان افروز واقعات بھی پاکستان میں جو یا دوسری دنیا میں بعض جگہ ہوئے ہیں وہ بھی بیان کرنا چاہتا ہوں.ایمان افروز تو سارے معاملات ہی ہیں، جتنی بھی گفتگو ہے آج کی یہ ساری اللہ کے فضل سے ایمان افروز ہے لیکن بعض خاص طور پر نشانات ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کے، وہ بھی آپ کے علم میں نمونیہ آنے
خطابات طاہر جلد دوم 98 86 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء چاہئیں.ایک خدا کی بجلی ، غیرت کی تجلی کے اظہار بھی بڑے کثرت سے معلوم ہورہے ہیں اور ایسے ایسے خوفناک نتائج نکل رہے ہیں بعض جگہ کہ آپ حیران ہو جائیں سن کے، لرزہ طاری ہو جائے جسم پر کہ بعضوں نے ظلم اور تعدی سے کام لیا ہے، غریب احمدیوں کو دبایا ہے اور پیشتر اس کے کہ وہ آگے بڑھتے خدا نے ان کو بالکل تباہ و برباد کر کے رکھ دیا.ظالم مولوی بعض ایسے جرموں میں پکڑے گئے کہ ایک عام انسان بھی ان جرموں میں پکڑا جائے تو وہ اگر حیا ہو تو خود کشی کر لے اگر خود کشی سے ڈرتا ہے تو وہ وطن چھوڑ کر بھاگ جائے اور ظلم کرنے والوں کو ہی نہیں بلکہ چیلنج دینے والوں کو بھی خدا وقتا فوقتا اس طرح پکڑتا رہا ہے.ہزار ہا خط جو وصول ہو چکے ہیں جن میں یہ داستانیں بکھری پڑی ہیں ہم ان کو مرتب کر رہے ہیں.انشاء الله نمونہ میں بتاتا ہوں ایک دوست کہتے ہیں کہ میری بیوی کی بیعت کا جواب آیا تو ڈاکیے نے گاؤں کے مولوی کو وہ جواب پکڑا دیا بجائے بیوی کو دینے کے، اس پر مولوی صاحب نے رقعہ لکھ کر اس کو بھیجا احمدیت سے تو بہ کرو ورنہ ذلیل ہو جاؤ گی اور کر دی جاؤ گی.کہتے ہیں مجھے اس وقت ایسی غیرت آئی کہ اس کی پشت پر لکھ کر بھیجا کہ اگر ہم غلط ہیں تو بے شک اللہ ہمیں غارت کرے اور اگر سچے ہیں تو خدا تمہاری ساری بددعائیں تمہارے خلاف لگا دے.جو کچھ بددعا ئیں اس نے دی تھیں وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی قہری تجلی اس طرح ظاہر ہوئی کہ چند دن کے اندر اندر اچانک اس کے بیٹے کی بینائی جاتی رہی اور اس کی بیوی کی انگلی پر ناسور ہو گیا جو اتنی تیزی سے بڑھا کہ وہ ہاتھ ہی کاٹنا پڑا ، سارا بازو کاٹنا پڑا اور فجر کے وقت مولوی صاحب باہر جارہے تھے تو خود بھی گر گئے اور ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی.اب اوپر تلے وہ کہتے ہیں کہ چند دن کے اندر اس چیلنج کے بعد یہ واقعات ہوں، تو کہتے ہیں میرا ایمان سما کیسے سکتا ہے میرے سینے میں؟ کہتے ہیں میری تو دنیا بدل گئی ہے یہ نظارہ دیکھ کر.ایک اور دوست لکھتے ہیں کہ ایک شخص خطبے کی کیسٹ مجھ سے لے گیا چونکہ لوگ بہت شوق سے مانگتے ہیں ہم دے دیتے ہیں ان کو بلا خوف اور اکثر بہت ہی اچھا اظہار کرتے ہیں ، آگے لوگوں کو سناتے ہیں.کوئی شکایت نہیں کرتے اس کے باپ کو پتا چل گیا اور اس کو بڑا غصہ آیا اور اس نے اس کیسٹ کے جواب میں نہایت گندی گالیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیں اور اس کو کہا کہ یہ میرا جواب ہے اور خبر دار جو میرے بیٹے کو تم نے آگے سے کیسٹ دی.انہوں نے کہا کہ دیکھو
خطابات طاہر جلد دوم 87 افتتاحی ب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء امام مہدی ہیں خدا کے نیچے ، ان کو گالیاں نہ دو.تو اس نے کہا کہ تمہارا امام مہدی میری ٹانگ تو ڑ دے گا، انہوں نے کہا ہاں اگر یہی بات ہے تو امام مہدی کی غیرت سے تمہاری ٹانگ ٹوٹ بھی سکتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ گدھے سے گرا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی، ٹانگ بھی گدھے سے گر کے خدا نے تڑوائی اور چونکہ یہ گفتگو عام ہوگئی تھی دیہات میں، وہ سارا گاؤں حیران رہ گیا کہ عجیب معجزہ ہے یہ ، خدا تعالیٰ کی شان دیکھیں.قبولیت دعا کے تو بڑے کثرت سے واقعات ہیں جو ہر ملک میں ہورہے ہیں.چند نمونے میں آپ کو بتاتا ہوں صرف ایک سیرالیون کا بڑا دلچسپ واقعہ ہے کہ وہاں کینما میں ایک احمدی دوست جو Chiefdom کے سپیکر ہیں اپنے بھتیجے کی حمایت کر رہے تھے جو وہاں کھڑے ہور ہے تھے اور ان کے مقابل پر جو آدمی تھا اس کو وزیر کی حمایت اور حکومت کی حمایت حاصل تھی اور ان کے بھتیجے کے خلاف حالات اتنے خطرناک تھے کہ خطرہ یہ تھا کہ ان کی Chiefdom بھی جائے گی اور بھتیجا تو ہو نہیں سکتا اور وہ جب نیا آدمی آیا تو اس نے اس علاقے میں جماعت کی شدید مخالفت کرنی ہے.ان کے مبلغ کا ایک خط آیا جس نے یہ حالات مجھے لکھے، ایک خط اس کا آیا جو کھڑا ہورہا تھا اور اس میں اتنی لجاجت تھی اور دعا پر اتنا یقین تھا اس کو کہ گو یا اس کو یقین تھا کہ ہو نہیں سکتا خلیفہ وقت کی دعا ہو اور میں رہ جاؤں اس نے کہا ٹھیک ہے حالات مخالف ہیں لیکن میری درخواست ہے مجھے اجازت بھی دیں اور دعا بھی کریں.بعض وقت ہوتے ہیں ، ایسا دل پر لرزہ طاری ہوا اور میں نے اس کو لکھا کہ بالکل فکر نہ کرو تم کھڑے ہو جاؤ خدا کے فضل سے اور مبلغ کہتا ہے کہ میں احتجاجی خط لکھ رہا تھا آپ کو کہ آپ کا جواب آ گیا.میں نے کہا بس پھر ٹھیک ہے جو ہو گیا ہو گیا، اب دیکھیں گے جو ہوگا اور حیرت انگیز طور پر نہ صرف وہ کامیاب ہوا بلکہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا اور سارے علاقے میں چونکہ یہ باتیں شروع ہوگئی تھیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی وہاں دھاک بٹھادی.احمدی جو اپنے طور پر روزانہ اللہ کی رحمت کے نظارے دیکھتے ہیں وہ تو بے شمار ہیں ، ادھر آپ نے کوئی خدمت کی اُدھر خدا کا جواب مل گیا، ادھر آپ نے کوئی نیت نیک باندھی اُدھر خدا تعالیٰ کی طرف سے جواب مل گیا.ایک دوست لکھتے ہیں دلچسپ واقعہ ہے کہ میری بیوی کا دوسال سے زیور گم تھا اور ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا تو اس کے دل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ کاش زیور ہوتا تو میں بھی
خطابات طاہر جلد دوم 8 88 افتتاحی ب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء حصہ لیتی.عورتیں اتنی قربانی دے رہی ہیں اور اس نے نیت باندھ لی کہ اچھا اللہ میاں اگر مل گیا تو میں دے دوں گی.کہتے ہیں پچھلے ہفتے ہی وہ زیور مل گیا اور ہم بھجوا رہے ہیں.جرمنی سے ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ میرے تین عرب دوست ہیں، ان میں میں تبلیغ کر رہا ہوں اور ایک عرب دوست ان بیچاروں کا کام ہو نہیں سکتا وہ معاملہ آخری طور پر رد ہو گیا ہے یا ہونے والا ہے اور بہت مایوس ہیں.میں نے آپ کو دعا کے لئے لکھا تھا تو ایک عرب دوست عمر احمد صاحب کو پتا چلا اس نے مجھے کہا کہ میرے لئے بھی دعا کے لئے لکھو.چنانچہ اس نے لکھا اور چونکہ یہ خاص ذکر کیا تھا اس لئے اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خاص دل میں دعا کی تحریک پیدا کی اور میں نے اس کو جواب دیا کہ مجھے امید ہے تم فکر نہ کرو، میں نے دعا کی ہے.وہ کہتے ہیں جس دن خط ملا ہے اسی دن اس کا کام ہو گیا.باقی دو عرب جو نہ دعا کے لئے کہنے کے لئے تیار تھے اور نہ تعاون کرتے تھے بلکہ جماعت سے نفرت کرتے تھے جب انہوں نے یہ واقعہ دیکھا تو انہوں نے بھی دلچسپی لینی شروع کر دی اور کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس کو مزید یقین دلانے کیلئے کہ یہ اتفاقی حادثہ نہیں ہے چند دن کے بعد اس کو یہ نظارہ بھی دکھایا کہ میں نے اپنے لئے دعا کے لئے لکھا تھا جس دن آپ کا مجھے تسلی کا خط آیا اس دن میرا بھی کام ہو گیا.خط ملا اور ادھر کام کی اطلاع مل گئی تو اس کا ایمان پھر کہتے ہیں بڑا قوی ہو گیا.اس نے کہا کہ یہ اتفاقی حادثات نہیں ہیں.ایک بیعت بنگلہ دیش کی خواب کے ذریعے بڑی دلچسپ ہوئی.خواب کے ذریعے بہت سی بیعتیں ہورہی ہیں میں وہ نمونہ آپ کو بتا دوں ایک دوست ہیں جن کو کبھی بھی احمدیت کا کوئی پیغام نہیں ملا تھا دھنورا گاؤں ہے وہاں نہ کوئی جماعت، نہ قریب جماعت وہاں محمد بلال حسین صاحب خواب کے ذریعے احمدی ہوئے.انہوں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ جمع ہیں جن میں سے پانچ افراد اجنبی ہیں، ان میں سے چار ایک ہی بستر پر لیٹے ہیں.پوچھنے پر سب نے یہ جواب دیا کہ میں احمدی ہوں، پانچواں شخص جو الگ بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا کہ میرا نام حضرت ابوطاہر احمد ہے.میں نے کہا آپ امام مہدی ہیں.اس نے کہا ہاں.تعبیر اس کی یہ ہے کہ چار خلفاء ہیں اور ایک حضرت امام مہدی جو میرے روحانی باپ بھی اور جسمانی باپ بھی ، تو ابو طاہر سے مراد میں نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھڑے تھے.گویا یہ چار خلفاء آرام
خطابات طاہر جلد دوم 89 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء کر رہے ہیں تو پھر بھی وہ کھڑے ہیں خدا کے حضور، وہ کہتے ہیں عجیب وغریب خواب تھی یہ خواب دیکھ کر ایک دم میرے دل میں احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور وہ احمدی ہوئے لوگوں نے مخالفت کی اور اب وہاں خدا کے فضل سے پانچ آدمیوں کی ایک جماعت قائم ہوگئی ہے اور کوئی مخالفت اثر نہیں دکھا رہی.غانا کے ایک کے دوست کا دلچسپ واقعہ ہے مسٹر بشیر دانکور کی اہلیہ کو چھ سال سے حمل ساقط ہو جایا کرتا تھا اور اب مجھے یہ واقعہ یاد نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ جس کے ساتھ ہوتا ہے وہ یاد رکھتا ہے اور پھر بتا تا ہے وقت کے اوپر ، وہ ہمارے مبلغ کے پاس پہنچے اور انہوں نے ان کو بتایا کہ میں نے یہ واقعات لکھ کر خلیفتہ امیج کی خدمت میں بھجوائے اور دعا کے لئے درخواست کی تو مجھے انہوں نے یہ جواب بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے ہاں لڑکی پیدا ہوگی اور ساتھ ہی اس بچی کا نام امتہ اٹھی تجویز کر دیا.چنانچہ وہ اسقاط بھی ختم ہو گیا اور اب جو بچہ پیدا ہو وہ واقعہ بچی تھی اور اس کا نام ہم نے امتہ اتنی رکھ دیا ہے.ایک دوست راولپنڈی کے نئے احمدی ہوئے انہوں نے خط لکھا، بڑا اصرار کیا کہ میں تو نشان مانگتا ہوں بیٹے کا ، بیٹے کا نام رکھ کے دیں اور ان کے ہاں بیٹے کی بجائے بیٹی ہوگئی اور وہ کہتے تھے.میں ایک سال کا نیا احمدی، میرے دل میں بڑ اوسوسہ سا بھی اٹھا کہ یہ کیا بات ہے خلیفہ وقت کی دعائیں، حالانکہ غلط ہے خدا مالک ہے خلیفہ وقت تو ایک ادنی چاکر ہے، وہ تقدیر کا مالک کیسے بن سکتا ہے.عاجزانہ درخواست کرتا ہے، خدا جماعت کی خاطر اپنی غیرت دکھانے کے لئے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ، حضرت اقدس محمد مصطفی مہینے کی برکت سے دعائیں سنتا ہے تا کہ ایمان میں اضافہ ہو.یہ حیثیت ہے صرف بہر حال اس سے تو وہ نا واقف ہے، نیا تھا.کہتے ہیں میرے دل میں ہلکا سا وسوسہ اٹھا کہ یہ کیا قصہ ہے؟ کہتے ہیں چند دن کے بعد میری ڈاک پہنچی جو آپ کے لنڈن سے بچی کی پیدائش سے ڈیڑھ مہینہ پہلے سے چلی ہوئی تھی اور وہ کسی اور امیر کی معرفت کسی جگہ سے وہ چکر کھا کے آئی اس کے پاس یعنی ربوہ پہلے گئی تھی اور پھر یہاں پہنچی.کہتے ہیں جب میں نے خط پڑھا تو میری درخواست یہ تھی کہ دعا کریں لڑکا پیدا ہو اور لڑکے کا نام رکھیں.آپ نے مجھے جواب میں یہ لکھا اللہ تعالیٰ آپ کو بچی مبارک فرمائے اور آپ کی بچی کا میں یہ نام تجویز کرتا ہوں.وہ کہتے ہیں میری تو
خطابات طاہر جلد دوم 90 90 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء چکی بندھ گئی، میں بدظنیاں کر رہا تھا، کہاں خدا نے مجھے یہ سبق سکھایا اور یہ بعض دفعہ تصرف کے تابع اللہ تعالیٰ خود بخود کر وا دیتا ہے لیکن اکثر تو دعا ہوتی ہے کبھی قبول نہیں بھی ہوتی مگر بہت دفعہ قبول ہوتی ہے اور جب ہوتی ہے تو اپنے نشان خود ساتھ لے کر آتی ہے تا کہ دعا کروانے والے کو علم ہو جائے کہ یہ اتفاقی حادثہ نہیں ہے.بعض دفعہ ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں.ایک مبلغ نے مجھے ایک دفعہ سیرالیون سے لکھا کہ فلاں جگہ کچھ احمدی ہوئے ہیں لیکن چیف بڑا پکا ہے، عیسائی تھا وہ اور بڑا کٹر ہے.اگر وہ نہ ہوتو ہمیں یہاں جگہ نہیں مل سکتی تو دعا کریں.میں نے کہا دعا بھی میں نے کی ہے اور تم جاؤ وہاں دوبارہ اور جب وہاں مجلس لگے تو ان کو میری طرف سے پیغام دو کہ میں آپ کو پیغام دیتا ہوں کہ آپ احمدی ہو جائیں، اسلام قبول کر لیں، کہتے ہیں، میں نے کہا ٹھیک ہے.حکم آ گیا ہے پورا کرنا ہے چنانچہ وہ گئے وہاں مجلس لگی ہوئی تھی.وہ چیف صاحب بھی آئے ہوئے تھے تو بالکل نہیں مان رہے تھے بات ، کہتے ہیں! اچانک مجھے یاد آیا ، میں نے کہا دیکھیں میں آپ کو ایک پیغام دینے آیا ہوں ہمارے خلیفہ اسیح نے مجھے پیغام بھیجا ہے کہ آپ کو یہ پیغام دے دوں کہ آپ بالکل تاخیر نہ کریں آپ احمدی ہو جائیں.اس نے کہا! امسنا میں ابھی احمدی ہوتا ہوں اور اس کے ساتھ اور بھی دوست احمدی ہو گئے خدا کے فضل سے.اللہ جس جماعت کے ساتھ ہے، روزانہ جلوے دکھاتا ہے، غم بھی ہوتے ہیں اس کے نام پر لیکن ہر غم ایک خوشی چھوڑ جاتا ہے ہر غم بعض خوشیوں کے، لامتناہی خوشیوں کے سلسلے چھوڑ جاتا ہے،اس جماعت کو کون شکست دے سکتا ہے.کلمہ کی مہم کا آغاز سنیئے یعنی اسلام کے ساتھ ایک ایسا دردناک مذاق کھیلا جارہا ہے، مذاق دردناک تو نہیں ہوتا لیکن ہے بھی مذاق اور دردناک بھی ہے اور ایسے ذمہ دار حلقوں میں کھیلا جا رہا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.مانسہرہ کے ایک دوست کو ابھی مجھے چند دن ہوئے ہیں با قاعدہ اس فیصلے کی نقل ملی ہے، پرسوں کی بات ہے السلام علیکم کہنے کے جرم میں پاکستان میں چھ ماہ قید بامشقت کی سزاسنادی گئی ہے اور بڑا لمبا ایک فیصلہ لکھا ہوا ہے.اس وقت مجھے خیال آیا کہ کیا ہو گیا ہے اس قوم کو ؟ اگر ہم نے دعائیں نہ کیں تو ہلاک ہو جائیں گے.ان کی طرف توجہ کریں، خدا تعالیٰ سے ان کے لئے رحم مانگیں، پتا ہے منسوب کس کی طرف ہوتے ہیں ؟ ہمارے آقا ومولا سرور دو عالم
خطابات طاہر جلد دوم 91 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء حضرت محمد مصطفی میں اللہ کی طرف اور سلام کے معاملے میں آپ کا اپنا اسوہ یہ تھا کہ ایک دفعہ آپ گزر رہے تھے تو کسی یہودی نے آپ کو کچھ منہ میں اس طرح کہا! جیسے سلام کر رہا ہوتا ہے.آپ نے کہا !علیکم اور گزر گئے.آپ کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے غالباً عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے سنا نہیں اس نے کیا کہا تھا ، اس نے کہا تھا السام علیکم، سلام نہیں آپ پر لعنت ہو.نعوذباللہ من ذالک، کہتے ہیں تم نے نہیں سنا کہ میں نے کیا کہا تھا میں نے بھی تو علیکم ہی کہا تھا.(بخاری کتاب الدعوات حدیث نمبر ۵۹۱۶) اس آقا کی طرف منسوب ہو کر اس سے سبق بھی نہیں سیکھے.اس میں یہ سبق ہے کہ اگر وہ مجھے السلام علیکم کہتا، تو میں ضرور اس کو سلام کی دعا بھیجتا.علماء یہ سبق وہ بھول جاتے ہیں کیونکہ علیکم نے تو بالکل اسی چیز کو الٹا نا تھا.ان کی نظر لعنتوں کی طرف ہے لیکن محمدمصطفی کی رحمتوں کی طرف کوئی نظر نہیں.بڑے سے بڑے، شدید سے شدید دشمن کے لئے بھی حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے رحمت کے جذبات تھے اس کی تو دنیا بھی سنور جاتی اور آخرت بھی سنور جاتی اگر اس نے السلام علیکم کہا ہوتا.لیکن یہاں السلام علیکم اسلامی مملکت پاکستان میں ایک ایسا جرم ہے جس کی کوئی ضمانت بھی نہیں ہے، پتا نہیں تاریخ ان کو کس طرح دیکھے گی، کیا کیا شکلیں ان کی سوچے گی کہ کسی حلیے کے یہ لوگ تھے جو ایسی حرکتیں کر رہے تھے.کلمہ کے جرم میں جو سزائیں دی جارہی ہیں وہ تو سارے پاکستان میں پھیلی پڑی ہیں.خدا کے فضل سے، جس حو صلے اور صبر ( نہیں حوصلے اور صبر نہیں ) بشاشت کے ساتھ اللہ کے شکر ادا کرتے ہوئے پاکستان کے احمدی قربانیاں دے رہے ہیں وہ تو ایک ایسی شاندار تاریخ ہے کہ وہ آسمان پر ہمیشہ ستاروں کی طرح چمکتی رہے گی.ایک امیر صاحب لکھتے ہیں دو چھوٹے بچوں ، نو جوانوں کے متعلق 16 اور 18 سال کی عمر ہے.کہتے ہیں ان کو گرفتار کر لیا گیا، تھانہ لے جا کر ہتھکڑی لگا کر رکھا گیا.جتنا عرصہ تھانے میں رہے ان پر شدید دباؤ ڈالا گیا کہ تم اپنے ہاتھ سے اپنے سینے سے کلمہ اتاردو، گزشتہ جو ہے وہ ختم ، ہم تمہیں باہر نکلنے دیں گے.انہوں نے جواب دیا ہم تو کلمہ طیبہ سے پیار کرتے ہیں ہمارے دین کی بنیاد ہے.ہم اس سے کبھی انحراف نہیں کر سکتے تم چھوڑنے کی کیا بات کر رہے ہو.تم ہمیں جتنی سزائیں دینا چاہتے ہو دو ہم یہاں سے نہیں جائیں گے، ہم تو اب یہیں بیٹھ رہیں گے، یہ نو جوانوں کا عمل ہے ان کے دل کی طبعی آواز ہے.
خطابات طاہر جلد دوم صلى الله 92 92 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء ایک ہمارے دوست جو کلمے کی خاطر قید میں گئے وہ اچھا لکھ لیتے تھے انہوں نے بہت خوشخط کر کے جیل کی دیواروں پہ بھی کلمہ لکھ دیا اور سزا پتہ کیا ہے؟ بیڑیاں ڈال کر ان کو الگ لٹا دیا گیا کہ اے ظالم بد بخت تو محمد رسول اللہ ہے اور خدا کی توحید کا کلمہ لکھتا ہے، تیری سزا یہ ہے کہ تجھے بیڑیاں ڈالی جائیں.پہلے ہتھکڑیاں تھیں پھر بیٹریوں کا اضافہ ہوا اور وہ ہیں جو ان کی موجیں لے رہے تھے اور مزے لوٹ رہے تھے یہ ان کا تاثر تھا.پھر کلمے کی خاطر مارنا پیٹنا، بعض لوگوں کے رحیم یارخان سے خط ہیں کہ ڈنڈے مار مار کر سارا جسم لہولہان کر دیا کہ تم نے کلمہ کیوں لکھا ہوا ہے.وہ ساری یادیں تازہ کر رہے ہیں جو حضرت محمد مصطفی اے کے آغاز کی یادیں تھیں.ایک جگہ ایک 17 سالہ نوجوان لکھتا ہے کہ مجھے جب یہ سعادت نصیب ہوئی تو ساری رات تو ہمیں حوالات میں رکھا، پھر آ کے ہتھکڑیاں پہنائی گئیں اور ہم تو کہتے ہیں حیران تھے ہمیں تو نیند بھی نہیں آتی تھی.عجیب وغریب مجرموں کی شکلیں تھی ، ہم نے کہا ہم بیچ میں کہاں سے آگئے.وہ مخلوق ہی اور لگتی تھی جرائم پیشہ اور ان کو بھی تعجب ہوتا تھا کہ یہ کس قسم کی مخلوق ہماری جیل میں آگئی ہے لیکن ان میں اکثر کا رویہ تو بہت ہی اچھا رہا ہے.جو جیل کے قیدی اور بڑے بڑے ان میں سے جرائم پیشہ بھی تھے کلمے کے معاملے میں آکر ان کے دل بدلے ہیں اور بعضوں نے بیعتیں کیں وہاں اور جیسا کہ میں نے کہا ہے سنت یوسفی تازہ ہوئی ہے.جو ہمارے ساہیوال کے معاملے میں ملوث ہیں، ابھی کل ہی ان کی اطلاع ملی ہے کہ ان کی تبلیغ سے بھی خدا کے فضل سے اسی ساہیوال جیل میں ایک احمدی ہو گیا ہے.کیا کرلیں گے ، کہاں کہاں یہ پہنچیں گے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ ایک بدمعاش لڑکا تھا اس کو بلایا اور کہا کہ اس کو ٹھوکریں مارو بوٹ پہن کے.اس نے ہم لڑکوں کو خوب ٹھوکریں ماریں.کہتے ہیں ہم خدا کا شکر ادا کرتے رہے.الحمد اللہ خدا کی خاطر ہے کوئی اس بات کی پر واہ بھی نہیں کی.ایک صاحب مکرم عبدالشکور صاحب فیصل آباد سے لکھتے ہیں ذرا دیکھئے ماحول کیسا ہے وہاں، جیل میں بیٹھ کر اپنے پیارے آقا کو خط لکھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں.جیل میں خاکسار، میرا چھوٹا بھائی ، ایک احمدی دوست اکٹھے آئے ہیں.ہمارے آنے سے پہلے بھی ماشاء الله خدام بھائی جیل میں موجود تھے.ہماری جیل میں آمد پر خدام بھائیوں نے جب کلمہ طیبہ کا بلند آواز سے ورد
خطابات طاہر جلد دوم 93 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء کیا تو عجیب سرور کی لہر دوڑ گئی.یہی خادم لکھتے ہیں کہ: یہاں پر تو عجیب سماں ہے.بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں (در مشین:۵۰) ایک یہ بھی تفسیر ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شعر کی ، جیلوں میں بہار آ گئی ہے.کلمہ گو کلمہ کی خاطر قید کئے جارہے ہیں اور دن رات وہاں کلمے کا ورد کرتے ہیں اور درود پڑھتے ہیں.ان جیلوں کی کوٹھریوں میں تو کبھی گندی گالیوں کے سوا کوئی آواز نہیں گونجی تھی، کلے کا نور وہاں کیسے پہنچ سکتا تھا؟ یہ احمدی ہیں جو اپنے سینوں سے لگا کر وہاں پہنچے ہیں اور خدا کے فضل سے ان اندھیری کوٹھریوں کو جگمگ کر دیا ہے.کہتے ہیں بہار آ گئی ہے، تہجد کی نمازیں ہورہی ہیں، پنجگانہ نمازیں تو چھوڑیں باجماعت نمازیں ہورہی ہیں اور پھر تلاوت کی آواز میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشعار پڑھے جاتے ہیں.عجیب روحانی منظر ہے، کہتے ہیں پیارے آقا اس جرم کی سزا تین سال قید ہے.سب خدام بھائی کہہ رہے ہیں، میں نہیں ہوں صرف کہ تین سال کی قید تو کیا ؟ ہم تو اس کلمے کے لئے پھانسی کے پھندے کو بھی چوم کر قبول کریں گے، اللہ تعالیٰ تیرا شکر ہے ہمیں احمدیت کے لئے قربانی دینے کے لئے پسند فرمالیا.یہ ہیں احمدیوں کے جذبات ان کو شکست دے گا کوئی ؟ اور قربانی کی تڑپ جو ہے لوگوں کے دلوں میں ان کا حال سنئیے.ایک قصہ ہے ”بچوں کا ذوق قربانی اور تھانیدار کی حیا“.یہ بھی عنوان لگنے تھے آج دنیا میں قصوں پر لیکن ہے یہ واقعہ، کچھ احمدی بچے پکڑے گئے کلمہ لگانے کے جرم میں، بالغ بھی نہیں تھے اور ایک تو جان کے لگا کے گیا کہ مجھے پکڑ لیں گے اس کو پکڑتے نہیں تھے.تو اس نے کہا میں نے واپس ہی نہیں جانا مجھے قید کر و.دوسرے کو لوگ نہیں جانے دیتے تھے اس نے کہا جی میں نے تو کھانا دینے جانا ہے اپنی ڈیوٹی لگوائی اور کلمہ لگا کے وہاں جا کے پکڑا گیا اور وہاں جب پہنچے بعض احمدی دوست تو تھانیدار میں اور ان بچوں میں بحث ہو رہی تھی، تھانیدار کہتا تھا کہ دیکھو میں بڑا حیادار ہوں مجھے تمہارے کلمے دیکھ کر حیا آتی ہے، میرا نہیں دل چاہتا کہ میں نوچوں ، تم نوچ لوتو میں تمہیں رکھنا نہیں چاہتا تمہیں نکالنا چاہتا ہوں.انہوں نے کہا تھانیدار کو حیا آ گئی ہے ہمیں نہیں حیا آئے گی، ہم تو جان دیں گے اس کلمے کے لئے تم کیا نوچ رہے ہو، ہمارے دلوں سے بھی نوچ لو گے.کہتے
خطابات طاہر جلد دوم 94 افتتاحی خ ب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء ہیں اس ولولے کے ساتھ بچے وہاں بحث میں تحریف میں مشغول تھے کہ آخر تھانیدار ہارگیا، اس نے کہا اچھا پھر میری شرم کی خاطر تم نکل جاؤ، یہاں سے بھاگ جاؤ یہ بھی واقعات ہورہے ہیں.عورتوں کے جو جذبات ہیں ان کا کچھ تو ذکر وہاں بھی میں کروں گا.انشاء اللہ اگر وقت ملا ایک خاتون لکھتی ہیں کہ میں تو ان عورتوں سے ملنے کے لئے گئی جن کے خاوند پکڑے گئے تھے، جن کے بھائی پکڑے گئے تھے، جن کے بیٹے پکڑے گئے تھے اور ابھی تک واپس نہیں آئے تھے.ان گھروں میں ایک عجیب نظارہ اور ایسی کیفیت دیکھنے میں آئی کہ عقل حیران رہ گئی.ہر عورت کے منہ سے یہ الفاظ سنائی دے رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قربانیاں قبول فرمائے اور ان کے چہرے خوشیوں سے تمتما رہے تھے اور ان کے منہ سے صبر وشکر کے کلمے نکل رہے تھے.جوں جوں احباب پکڑے جارہے تھے جماعت کا حوصلہ بڑھ رہا تھا اور ہر ایک کی یہ تڑپ تھی کہ میں قربانی دوں.“ کہتی ہیں مثال کے طور پر ایک بچے کی بات سنئے کہ ایک پانچ چھ سال کا بچہ تھا جس کے ابا قید میں تھے تو میں نے اس سے پوچھا کہ ابو کہاں ہیں؟ کہنے لگا! جیل میں، جیل سول لائنز میں“ اور کہتی ہیں اس طرح وہ خوشی سے تن گیا جیسے کسی محل میں جانے کی خبر دے رہا ہو اور بڑا فخر سے تن کے کہا کہ جیل میں ہیں ، سول لائن جیل میں ہیں.ماشاء الله کہتی ہیں میں حیرانگی سے اس بچے کو دیکھتی تھی اور میرا سارا وجود اس کے لئے پیار بن گیا.“ اب تو حال یہ ہے کہ غیر احمدیوں کو بھی سزائیں ملنے لگ گئی ہیں کلمہ لگانے پر، احمدی بھی اچھے دلچسپ لطیفے چھوڑتے رہتے ہیں.بعض غیر احمدیوں کو کہتے ہیں کہ کیوں جی بس چھوڑ دیا آپ نے کلمہ، ہمارے لئے رہ گیا ہے، جب تک مٹھائی ملتی تھی کلمہ لگاتے تھے جب سزا ملتی ہے کلمہ چھوڑ بیٹھے ، تو بعض غیرت میں آکے کہتے ہیں! ہاں جی لگاؤ.ایسے آدمی بعض پکڑے جاتے ہیں وہ ایک پکڑا گیا، تھانیدار سے بحث ہورہی ہے اس نے کہا میں نے تو نہیں چھوڑنا.اس کو مارا پیٹا کہ میں تمہیں قید میں ڈالوں گا.اس نے کہا! میں خدا کی قسم احمدی نہیں ہوں غیرت میں آکے لگایا ہوا ہے.احمدیوں نے گواہیاں دیں تب چھوٹا جاکے، منچلے تو کاروں پر بھی لگا رہے ہیں اور رپورٹ یہ ہے کہ جس کی کار پہ
خطابات طاہر جلد دوم 95 95 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۵ء لگ جاتا ہے وہ پھر نہیں اتارتا، حیا اور غیرت تو ہے نا بہر حال کلمہ تو بنیاد ہے.کلمے کی محبت تو کوئی دنیا کی حکومت نہیں چھین سکتی ، کوئی دنیا کا مولوی نہیں نکال سکتا مسلمان کے سینے سے.اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان میں جو شرافت گونگی تھی اب وہ جاگ رہی ہے، اب حالات میں ایک تبدیلی پیدا ہورہی ہے.اصحاب دانش، اصحاب اثر ورسوخ جو پہلے بھی شاید ہمدرد ہوں ان میں سے بعض لیکن جرات نہیں تھی کہ وہ اپنی زبان سے احمدیت کی تائید میں کوئی کلمہ نکالیں.اب کلمے کی برکت سے وہ جراتیں بیدار ہو رہی ہیں اور عوام الناس میں بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بڑی تیزی سے تبدیلی پیدا ہورہی ہے.ایک اقتباس ہے، امیر صاحب ضلع اوکاڑہ کا کہتے ہیں.ہم نے تو اپنے حساب سے کلمے شائع کئے جتنے احمدی ہیں، کہتے ہیں ! دیکھتے دیکھتے ختم ہو گئے.ڈیمانڈ آئی ، ہم نے کہا یہ کہاں گئے تم تو پورے ہو گئے ہو.انہوں نے کہا جی غیر احمدی چھین چھین کے لے جارہے ہیں اب وہ بھی لگا رہے ہیں اور کہتے ہیں پھر شائع کئے پھر تھوڑے ہو گئے ، پھر شائع کئے پھر تھوڑے ہو گئے.اب تو ہم اسی کام پر لگے ہوئے ہیں یہ Badge شائع کر کر کے غیر احمدیوں کو پہنچا رہے ہیں اللہ کے فضل کے ساتھ ، یہ تحریک بن رہی ہے اور بعض جگہ ظلم ہوتے ہیں تو ظلم کا جواب پھر وہیں سے پیدا بھی ہوتا ہے.ایک احمدی نوجوان کا قصہ بڑا دلچسپ ملا ہے کہ ایک بس میں سوار ہوا، سوار ہوتے ہی اس نے السلام علیکم کہا، جب ٹکٹ کٹانے لگار بودہ کا نام آیا، تو مولوی بیٹھا ہوا تھا.اس نے کہا کہ ٹھہر وجی بس روکو، سکھیکی کا یا پنڈی بھٹیاں کا تھا نہ تھا، وہاں جب پہنچے تو اس نے کہا! بس روک دو.خیر اس نے بس روک دی انہوں نے کہا ابھی ٹھہر و ایک منٹ، پولیس کو بلا کے لایا کہ یہ مجھے تبلیغ کر رہا تھا اور اس کو پکڑ لو.تھانیدار نے کہا کہ کیا تبلیغ کر رہا تھا، لوگوں نے کہا جھوٹ بولتا ہے مولوی،السلام علیکم کہا تھا.اس کو بڑا غصہ آیا اس نے کہا! السلام علیکم تمہیں کوئی شرم چاہتے ، اس کو السلام علیکم کے جرم میں میں پکڑلوں یہ تو نہیں ہوسکتا.خیر انہوں نے بٹھا دیا اور جب بس چل پڑی تو ایک ویران جگہ پر کنڈ کٹر نے پھر بس رو کی اور اس نے کہا اے مولوی اب یہاں میں تجھے اتاروں گا، بے غیرت اسلام کا نام لے کر جھوٹ اور ظلم ، ہمارے ناک کٹوانے والا تمہیں سزاملنی چاہئے ، دھکے دے کے وہاں اتار دیا اور وہ چیختا رہ گیا.اس نے کہا نہیں اب اگلی بس پکڑنا، تو ان باتوں سے بہت مجھے حوصلہ پیدا ہورہا
خطابات طاہر جلد دوم 96 96 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء ہے کہ انشاء اللہ یہ ملک اگر اس طرح جاری رہا تو پھر نہیں تباہ ہوتا.اور جہاں تک بڑے لوگوں کا تعلق ہے حنیف رامے صاحب کا بیان جو ایک معروف سیاسی رہنما ہیں اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں.انہوں نے بڑی ہمت کی ، بڑی جرات دکھائی اور جو گزشتہ بزدلیاں تھی جس کو جماعت کہتی تھی، ہے تو شریف مگر ہے بڑا بزدل وہ دھونے دھوئے.میرے ساتھ بھی ان کے تعلقات رہے ہیں اس لئے میں امید کرتا ہوں میری اس بات کا ،صاف گوئی کا برانہیں منائیں گے.سرگودھا والے تو ہمیشہ ان کا ذکر کرتے ہوئے افسوس کیا کرتے تھے کہ اچھا بھلا شریف اور معقول آدمی ہے.وہاں تقریر ہورہی ہے وزیر اعلیٰ کی اور سارے علاقے کی پولیس اور ساری سیکورٹی فورسز اور منتظم وہاں موجود ہیں اور ان کے سامنے ، ان کی موجودگی میں احمدیوں کے اور ہماری جماعت کے امیر کا گھر جل رہا تھا اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا لیکن ان کو خدا نے تو فیق عطا فرما دی، ان کو حوصلہ عطا فرمایا.بہت اچھا بیان دیا اور ایک ہی دن میں ہر احمدی کا دل دھل کے صاف ہو گیا ان کے لئے اور ابھی بھی امیر صاحب سرگودھا میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، مرزا صاحب میں نے ذکر ہی کیا تھا کہتے اسی ہون معاف کر چھڈیا.احمدی تو بڑا حو صلے والا ہے ہر ظلم معاف کرنے کے لئے تیار ہے بلکہ منتظر رہتا ہے کہ بہانہ تو دو ہمیں، دعائیں دیتے ہیں اس کے بدلے اور خدا نے یہ فضل کیا کہ اس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے.لاہور کی ہائی کورٹ نے بہت ہی عمدہ نمونہ دکھایا اور وہاں کے جو شوکت صاحب ہیں ، وہاں کے شیخ شوکت علی صاحب انہوں نے ، سابقہ حج بھی ہیں اور لاہور بارایسوسی ایشن کے وہ پریزیڈنٹ تھے اُس وقت ، انہوں نے باقاعدہ بیان جرات کے ساتھ شائع کیا ہے.سپریم کورٹ کے ایک جج نے اور پانچ دوسرے ہائیکورٹ کے ججوں نے مسٹر فخر الدین جی ابراہیم پاکستان سپریم کورٹ کے سابقہ حج، مسٹر محمد علی سعید اور مسٹر فضل غنی خان سابقہ حج مغربی پاکستان ہائیکورٹ اور مسٹر عبدالعزیز مومن، اور مسٹر جی ایم شاہ سابقہ حجز سندھ ہائیکورٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت کے مطابق پاکستان کے ہر شہری کو خواہ وہ کسی مذہب وملت یا عقیدہ کا پیرو ہو مذہبی آزادی ملنی چاہئے.احمدیوں کی طرز نماز اور کلمہ طیبہ پر پابندی ایک انتہائی ظالمانہ حرکت ہے اور انسان کے بنیادی حقوق کی پامالی ہے.پہلے کبھی آپ سوچ سکتے تھے آپ لاکھ پروپیگنڈا کرتے تو رائے عامہ اس
خطابات طاہر جلد دوم 97 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء طرح آپ کے حق میں نہیں ہوسکتی تھی.اور یہ وہ لوگ ہیں جو ۷۴ء میں آپ کے خلاف قراردادیں پیش کیا کرتے تھے.۸۴ء میں اللہ کے فضل کے ساتھ کا یا پلٹ گئی اور نہ یہ آپ کی کوششوں سے ہے نہ میری کوششوں سے، میں غلط فہمی نکال دوں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا کے وعدے تھے اور الہاما بتایا گیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جبکہ تم پر یہ مخلوق مسلط کی جائے گی اور اس کے بعد خیالات اور آراء تبدیل کر دی جائیں گی.اس لئے یہ بھی آسمان کا پھل ہے جو ہم کھا رہے ہیں ، ہم نے تو ہاتھ ہلا کر سمیٹنا ہے صرف اس پھل کو چنا نچہ بڑے وسیع پیمانے پر آراء تبدیل ہو رہی ہیں اور جو ہم نے رابطہ پیدا کیا ہے عرب سفراء وغیرہ سے، جب ان سے بات کی جاتی ہے تو وہ بھی بڑی جرات کے ساتھ اپنی پہلی رائے جماعت کے متعلق بدلتے ہیں.بتاتے ہیں، کہتے ہیں ہاں ہم سمجھ گئے ہیں اب، یہ سب آپ کے ساتھ دھوکہ اور ظلم ہورہا ہے باوجود اس کے کہ عربی میں یہ سارا گندان تک پہنچایا گیا ہے، جماعت کے متعلق جھوٹے الزامات کا گند لیکن اب وہ رائے بدل رہے ہیں.یہ الہام صرف پاکستان کے متعلق تو نہیں تھا ساری دنیا کے خیالات انشاء اللہ تبدیل ہوں گے.سید محمد تقی صاحب جنگ کے سابق ایڈیٹر اور جنگ آپ کو پتا ہے کہ وقف تھا جماعت کی مخالفت میں، انہوں نے ایک نہایت ہی عمدہ مضمون لکھا ہے.بہت لطف آیا مجھے پڑھ کے اور ایسے ایسے عمدہ دلائل جماعت کے حق میں اور مولویوں کے دلائل توڑنے کے دیئے ہیں کہ بڑا مزہ آیا یوں لگتا تھا جس طرح کوئی اچھا دانشور احمدی یہ مضمون لکھ رہا ہے اور بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے انہوں نے.وہ لکھتے ہیں:.لیکن سب سے آخر پر ایک رائے اب میں آپ کو بتا تا ہوں اور اسی پر میں اس خطاب کو ختم کروں گا اور یہ رائے ہے ایک بیوہ عورت کی ، جو تحصیل تونسہ کے ایک گاؤں کی بیوہ عورت ہے.غیر از جماعت ہے اس نے جب یہ کلمے کے واقعات سنے تو اس نے اپنے سارے بچوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ میں تمہیں نصیحت کرتی ہوں کہ جلد احمدیت میں داخل ہو جاؤ کیونکہ دوسرے مسلمان کلمہ مٹارہے ہیں اور احمدی کلمہ لکھ رہے ہیں اور کلمے کی خاطر قربانیاں دے رہے ہیں، اس لئے یہ جھوٹے نہیں ہو سکتے اور وہ سچے نہیں ہو سکتے.
خطابات طاہر جلد دوم 88 98 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء میرے نزدیک یہ بڑے بڑے دنیا کے لوگ اور بااثر لوگ اور حج اور دانشوران سب کی آوازیں ایک طرف اور اس بیوہ کے دل کی پکار ایک طرف اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ آواز پھیلتی چلی جائے گی اور پاکستان کی بستی بستی کی ماؤں کے دل کی آواز بن جائے گی.وہ اپنے بچوں کو نصیحتیں کریں گی کہ جلدی آگے بڑھو اور احمدیت کی سچائی کو قبول کرو کیونکہ یہ کلمہ گو ہیں اور کلمے کی حفاظت کرنے والے ہیں اور وہ جو کلمے کی حفاظت کا دعوی کیا کرتے تھے ان کی ساری محبتیں ساری غیرتوں کے پول کھل گئے ہیں.احمدیت کی فتح کے بیج بوئے جار ہے ہیں اور میں آپ کو اس موقعے پر دو باتیں یاد کراتا ہوں.اپنی خلافت کے بعد پہلے جلسہ سالانہ کی پہلی تقریر کے آغاز میں ہی میں نے یہ کہا تھا کہ احمدیت ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے جس کی مماثلت اسلام کے اول دور سے ہے اور اسلام کے اول دور میں یہ یہ باتیں ہوئی تھیں اور میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ یہ باتیں آپ کے ساتھ ہوں گی.پس آپ بلالی دور میں داخل ہوئے ہیں خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ، محمد مصطفی ﷺ کے دور میں داخل ہوئے ہیں.وہ مسلمان جو اس وقت کلمے کے لئے قربانیاں دے رہے تھے اور ان کی قربانیوں کو آسمان پر بھی قبول کیا اور زمین پر بھی خدا نے ان کو غلبہ عطا فر مایا اس مبارک دور میں آپ داخل ہوئے ہیں.دوسری بات میں آپ کو یہ یاد دلاتا ہوں کہ جب میں پہلی باہر انگلستان پہنچا تھا تو میں نے آپ کو ایک خواب بھی بتائی تھی ایک احمدی نوجوان کی نوجوان تو نہیں مگر جوانی کی عمر میں ہیں اور میں نے بتایا تھا کہ انہوں نے میرے چلنے سے پہلے ، اُس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا.ان حالات سے پہلے ایک خواب دیکھی کہ میں اکیلا ایک کنواں کھود رہا ہوں اور اتنا انہماک ہے کہ پسینے سے شرابور ہوں اور اپنے کام میں لگن سے مصروف ہوں اور اتنے میں اور لوگ شامل ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے ایک جماعت بن جاتی ہے جو اس کنویں میں میرے ساتھ شامل ہے کھودنے میں اور وہ کنواں گہرا ہوتا چلا جاتا ہے، گہرا ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ایک سرنگ بن کر خانہ کعبہ میں نمودار ہوتا ہے اور وہاں اس موقعے پر وہ دیکھتے ہیں کہ شہد ایک نعمت کے طور پر ، ایک پھل کے طور پر ہم سب کو عطا ہوتا ہے جس کے قطرے لعل و جواہر بنتے چلے جاتے ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 60 99 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء اب شروع سے جو میں نے پہلی بات آپ کو بتائی تھی اس وقت سے آج تک کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں یہ اسی خواب کے پورا ہونے کی تعبیر ہے اور کلمے تک جب ہم پہنچے ہیں تو یہ خانہ خدا تک پہنچے ہیں، خانہ کعبہ تک پہنچے ہیں کیونکہ خانہ کعبہ کی روح کلمہ ہے، خانہ کعبہ کی جان کلمہ ہے اور وہاں ہمارے لئے کامیابیوں کا شہر مقدر ہے، وہاں ہمارے خون کا ہر قطرہ لعل و جواہر بنایا جانا تھا اور بنایا جائے گا، وہاں خدا کی رحمتیں ہم پر نازل ہوں گی اور خدا کے فضل ہم پر نازل ہوں گے اور ہورہے ہیں اس لئے اب ان فضلوں کو سمیٹنے کی تیاری کریں.میں نے یہ سارے واقعات جو آپ کو بتائے ہیں یہ خلاصہ ہے ان فضلوں کا جو 84ء میں نازل ہوئے تھے مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ ان سے بہت بڑھ کر فضل ہمارے لئے مقدر ہو چکے ہیں.اب آسمان سے جب خدا کی رحمتوں کی بارش ہو تو چھتریاں تو اس کو روک نہیں سکتیں، سائبان تان کر بھی کبھی آسمانی بارشوں کی راہ میں کوئی حائل ہوا ہے؟ ان کی چھتریاں بھی بیکار گئیں احمدیت کے اوپر فضلوں کے نازل ہونے کی راہ میں، ان کے سائبان جو انہوں نے تانے وہ بھی سارے بیکار ثابت ہوئے.اگر کنکریٹ کی چھتیں یہ تعمیر کر سکتے ہیں تو ساری دنیا میں تعمیر کر لیں مگر خدا کی قسم آسمان سے نازل ہونے والا فضل چھتیں پھاڑ کر بھی آپ پر نازل ہوتا رہے گا اور ہمیشہ نازل ہوتا رہے گا اور ہمیشہ نازل ہوتا رہے گا اور ہر کوشش کے بعد بڑھے گا اور ہر ظلم کے بعد زیادہ ہوگا اور ہر روک آپ کی رفتار، آپ کی ترقی کی رفتار کو تیز سے تیز تر کرتی چلی جائے گی.آپ خدا کے فضلوں کے وارث بنانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، خدا کے فضلوں سے محروم کرنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا.اب ہم دعا کرتے ہیں.اُن کے لئے بھی دعا کرتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اُن قربانیوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی، ان کے لئے بھی دعا کرتے ہیں جو حسرتیں لئے بیٹھے رہے اور ان کی تمنائیں پوری نہ ہو سکیں، ان کے لئے بھی دعا کرتے ہیں جو مظلوم ہیں اور ان کے لئے بھی آج ہم دعا کریں گے جو ظالم ہیں اُنصُرُ أَخَاكَ ظَالِماً أَو مَظْلُوماً ( بخاری کتاب المظالم والغضب حدیث نمبر: ۲۲۶۴) کا پیغام ہمیں یاد ہے جو ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفی کا پیغام ہے.دعا کریں اللہ تعالیٰ اس ملک کو بچائے ، اس قوم کو بچائے جو کلے کے نام پر قائم ہوا تھا اور کلمہ توڑنے کے نتیجے میں ٹوٹنے کی حد تک جا پہنچا تھا.آپ دعا ئیں کریں تو میں پھر آپ سے کہتا ہوں کہ
خطابات طاہر جلد دوم 100 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۵ء اے غلام مسیح الزماں ہاتھ اٹھا موت آ بھی گئی ہو تو ٹل جائے گی ( کلام طاہر صفحہ (۶) اور اے ظلم وستم کی چکی میں پیسے جانے والو! میں پھر تمہیں کہتا ہوں کہ دو گھڑی صبر سے کام لو سا تھیو آفت ظلمت و جو رٹل جائے گی آہ مومن سے ٹکرا کے طوفان کا رخ پلٹ جائے گارت بدل جائے گی ( کلام طاہر صفحہ :۶) پس ان کے لئے بھی دعا کریں اور دعا کریں غلبہ اسلام کے لئے تمام دنیا میں اور دعا کریں کہ خدا ہمیں ان فضلوں کا حقدار بنائے جو وہ نازل فرماتا چلا جارہا ہے.دعا کریں اپنے کمزوروں کے لئے بھی ، اپنے طاقتوروں کے لئے بھی ، اپنے صحت مندوں کے لئے بھی ، اپنے بیماروں کے لئے بھی، ان کے لئے بھی جن کے سہاگ بس رہے ہیں، زندہ ہیں، ان کے لئے بھی جن کا سہاگ اٹھ چکا ہے.ماں باپ والوں کے لئے بھی دعائیں کریں، یتیموں کے لئے بھی دعائیں کریں.جلسے پر آنے والوں کے لئے بھی دعائیں کریں، جلسے پر سے جانے والوں کے لئے بھی دعائیں کریں، ان کو خوشیوں کے ساتھ خوش آمدید کہنے والوں کے لئے بھی دعائیں کریں اور اس تصور سے رونے والوں کے لئے بھی دعائیں کریں کہ کل جب یہ لوگ چلے جائیں گے تو ہمارا کیا حال ہوگا.اپنے بڑوں کے لئے ، اپنے چھوٹوں کے لئے ، اپنے پہلوں کے لئے آنے والوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ رحمتوں اور فضلوں کی اسی طرح رحمتیں برساتا رہے.خدا کی قسم ہم نے تو دکھ میں بھی لذتیں پائی ہیں اپنے رب سے، خدا کی قسم ان دکھوں پہ بھی ہم راضی ہیں، اللہ گواہ ہے کہ ہم راضی ہیں اور ہمیشہ اللہ کی ہر آزمائش پر راضی رہیں گے.انشاء اللہ.دعا کر لیجئے.
خطابات طاہر جلد دوم 101 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء تمام دنیا میں خدمت اسلام کا سہرا جماعت احمد یہ پاکستان کے سر ہے.احمدی بہر حال کلمہ توحید کا اعلان کرتا ہے.افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۲۵ / جولائی ۱۹۸۶ء بمقام اسلام آباد ٹلفورڈ برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اَلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ) (يونس :٦٣ - ٦٦) پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا بے انتہا احسان اور اُس کا فضل و کرم ہے کہ آج دنیا کے کونے کونے سے اللہ کے عاشق ، اُس کے رسول کے عاشق، اُس کے دین کے عاشق محض اللہ کی محبت میں اُس کا پیار سینوں میں سجائے ہوئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں.انگلستان میں آنے والوں میں ان کا ایک الگ مقام ہے، ایک ایسا امتیاز ہے جو تاریخی حیثیت رکھتا ہے.کبھی اس ملک میں خدا کے نام پر، اس کے دین کے پروانے محض اللہ کی محبت کی خاطر ہزار ہا میل کا سفر طے کر کے اس طرح اکٹھے نہ ہوئے تھے، اگر ہوئے تو گزشتہ سال یہ تاریخ کا نیا باب احمدیت ہی نے کھولا تھا اور اب زیادہ کشادہ باب کی شکل میں ایک دفعہ پھر کھولا گیا ہے.ایسے ایسے دُور دراز ملکوں سے بھی احمدی مسلمان اکٹھے ہوئے ہیں،
خطابات طاہر جلد دوم 102 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء تشریف لائے ہیں جو مشرق کا آخری کنارہ کہلاتے ہیں اور ایسے دور دراز ملکوں سے بھی احمدی احباب اللہ کی محبت دلوں میں لئے ہوئے یہاں تشریف لائے ہیں جو مغرب کا آخری کنارہ کہلاتے ہیں اور ان جگہوں سے بھی آئے ہیں جہاں مشرق اور مغرب میں مابہ الامتیاز مشکل ہے جہاں مشرق مغرب سے گلے ملتا ہے دور دراز نجی کے جزائر جہاں سے Date Line گزرتی ہے، جہاں یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ مشرق ہے اور یہ مغرب ہے، جہاں ایک قدم آپ کو مشرق میں پہنچا دیتا ہے اور دوسرا قدم آپ کو مغرب میں لے جاتا ہے.وہاں سے بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کا زندہ نشان بنے ہوئے احمدی اس جلسے میں حاضر ہوئے ہیں کہ: میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.( تذکرہ صفحہ ۲۶۰) اللہ کے فضل سے سب کا سفر کسی غیر معمولی حادثے کے بغیر خوشگوار گز را اور مختلف ملکوں سے آنے والوں نے جو رپورٹیں دی ہیں، جو اطلاعات پہنچائی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ ان کی حکومتوں نے بھی ان سے تعاون کیا اور یہاں آنے پر انگلستان کی حکومت نے بھی ان سے تعاون کیا اور کسی قسم کی کوئی تکلیف پیش نہ آئی لیکن افسوس کہ ایک ملک ایسا ہے جو اسلام کے عظیم نام پر قائم کیا گیا تھا، جہاں سب سے زیادہ وسعت حوصلہ نظر آنی چاہئے تھی ، جو کسی علاقائی نبی کے غلام کہلانے کا دعویدار نہیں بلکہ اس کا غلام کہلانے کا دعویدار ہے جو رحمتہ للعالمین ﷺ تھا.جس کی رحمتیں تمام جہانوں کے لئے تھیں، اپنوں کے لئے بھی تھیں اور غیروں کے لئے بھی تھیں، مردوں کے لئے بھی تھیں اور عورتوں کے لئے بھی تھیں،انسانوں کے لئے بھی تھیں اور حیوانوں کے لئے بھی تھیں اور جمادات کے لئے بھی تھیں غرضیکہ ساری کائنات کے لئے اسے رحمت بنایا گیا تھا.اس عظیم الشان نبی کی غلامی کا دم بھرنے والا یہ ملک جس کی وسعت حوصلہ کی کوئی مثال نظر نہیں آتی ، جس کی وسعت حوصلہ خدا تعالیٰ کی تخلیق کردہ کائنات کی وسعتوں کے ساتھ ہم آہنگ تھی اس ملک کے باشندوں نے اتنا حوصلہ بھی نہ دکھایا جتنا غیر مذاہب کی طرف منسوب ہونے والے ملکوں کے باشندوں نے دکھایا اور ان کی حکومتوں نے دکھایا.پس اگر تکلیف کی کچھ باتیں آج میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تو تمام کی تمام بد قسمتی اور بدنصیبی سے پاکستان سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں.عجیب خدمت اسلام کا ایک تصور وہاں قائم کیا جارہا ہے اور عجیب جوش و خروش کے ساتھ جاہلانہ طور پر اس تصور کو عمل کی دنیا میں ڈھالا جارہا ہے کہ
خطابات طاہر جلد دوم 103 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء حیرت ہوتی ہے کہ کیا ایک بھی اُن میں عقل سلیم رکھنے والا انسان باقی نہیں رہا یعنی اس حکومت میں جس حکومت کے کارندے محض حکومت کے حکم کی مجبوری سے ایسا کر رہے ہیں.جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، پاکستان کے عوام کا تعلق ہے جماعت احمدیہ کی بھاری اکثریت وہیں آباد ہے، انہی لوگوں سے نکل کے آئی ہے اور تمام دنیا میں اسلام کی خدمت کا جو بیڑا جماعت احمدیہ نے اٹھا رکھا ہے اُس کا سب سے زیادہ سہرا جماعت احمد یہ پاکستان کے سر ہے.اس لئے کہ پاکستان کی مٹی کا خمیر اچھا ہے، وہاں کے لوگ اچھے ہیں ، نیک دل ہیں اور خدا ترس ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو حکومت کی شہہ پر مظالم کا ایک ایسا بند ٹوٹنا تھا جس کو روکنا پھر مشکل ہو جاتا.ایک سیلاب کی صورت میں مظالم ملک کے ایک طرف سے بہتے اور دوسرے کنارے تک پہنچ جاتے اور دوسرے کنارے سے مڑتے اور پھر پہلے کنارے کی طرف لوٹتے.اتنا وسیع حوصلہ ظلم کو کبھی نصیب نہیں ہوا تھا جتنا پاکستان کی آمرانہ حکومت نے اپنے عوام کو دلایا اور اس شدت کے ساتھ عوام نے اُس شہر کورد نہیں کیا جس شدت کے ساتھ پاکستان کے عوام نے حکومت کی اس کوشش کو ر داور نا کام کر دیا ہے.بار بار اُن کو طعنے دیئے گئے ، بار بار ان کو انگیخت کیا گیا، بار بار اُن کو اٹھایا گیا کہ دیکھو ہم کہتے ہیں کہ احمدیت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکو اور تم کیوں ہم سے تعاون نہیں کرتے.اس کے باوجود یہ پاکستانی عوام کا حوصلہ تھا اور اُن کی انسانیت تھی جس نے اس ظلم میں اپنی حکومت کا ساتھ نہیں دیا.جہاں جہاں بھی ظلم کے واقعات ہوئے ہیں وہاں ہمیشہ کرائے کے خریدے ہوئے بعض مجرموں سے کام لے کر احمد یوں پر مظالم کروائے گئے ہیں.اُس میں پاکستانی قوم کا قطعا کوئی قصور نہیں.وہ تو خود مظلوم ہے وہ تو خود جبر کے تحت اس طرح پیسی جارہی ہے جیسے چکی ان دانوں کو پیستی ہے جو اُس چکی میں ڈالے جاتے ہیں ، وہ دانے تو نکلنے کی راہ پا جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے عوام کے لئے نکلنے کی کوئی راہ سر دست نظر نہیں آرہی.اس لئے جب میں کہوں گا اور جب بھی میں کہتا ہوں کہ پاکستان میں احمدیوں پر طرح طرح کے مظالم توڑے جا رہے ہیں تو ہرگز میری مراد یہ نہیں کہ پاکستان کے عوام ظالم ہیں یا پاکستان کے خواص ظالم ہیں نہ تو پاکستان کے عوام ظالم ہیں ، نہ پاکستان کے خواص ظالم ہیں.ہاں وہ ضرور ظالم ہیں جنہوں نے پاکستان کے اختیارات پر ڈاکہ زنی کر کے اُس پر قبضہ کر لیا ہے.اُن کو حکومت کا کوئی حق نہیں اور قطعاً قانونِ پاکستان کو توڑے بغیر وہ حکومت کے اوپر اس طرح
خطابات طاہر جلد دوم 104 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء قابض نہیں ہو سکتے تھے.انہوں نے پاکستان کے قوانین کی وفاداری کی جھوٹی قسمیں کھائیں اور خدا کے معزز نام لے لے کر قسمیں کھائیں اور اُن قسموں کو توڑا اور حکومت پر قبضہ کر لیا.پس جب ہم کہتے ہیں کہ پاکستان میں احمدیت پر ظلم ہو رہا ہے تو باہر کے سننے والے ہرگز یہ غلط تاثر نہ قائم کریں کہ نعوذ باللہ پاکستان کی قوم کے خلاف کوئی پرو پیگنڈا کیا جارہا ہے، ہاں یہ پرو پیگنڈا اسی حکومت کی طرف سے کیا جا رہا ہے.جب بھی احمدی آواز بلند کرتا ہے خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہو حکومت پاکستان ساتھ ہی ایک اور آواز اٹھاتی ہے کہ دیکھو دیکھو یہ لوگ پاکستان کی حکومت کے خلاف ہیں اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں.وہ پروپیگنڈا کیا ہے؟ اس کو وہ نہیں دیکھتے یا جان کر اس سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں.پروپیگینڈا صرف یہ ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ پاکستان کے اخباروں میں چھپ رہا ہے من وعن اُسے ہم دنیا کے سامنے پہنچا رہے ہیں.یہ عجیب قسم کا Cancer ہے جو وہاں کی حکومت نے عائد کر رکھا ہے کہ ملک کی آواز باہر نہ جانے دو.ملک کی آواز اگر باہر نکلی تو تم حکومت کے غدار ہو گے اور حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے مرتکب سمجھے جاؤ گے.چنانچہ آنے والوں میں جو احمدی قید کئے گئے اُن میں ایک ایسا بھی تھا جس کے پاس سوائے پاکستانی اخبار کے تراشوں کے اور کچھ بھی نہیں تھا پاکستانی اخبارات کے تراشے اُن کے پاس تھے، جن میں کچھ واقعات لکھے ہوئے تھے.ان تراشوں کے نتیجے میں اُن کو زدوکوب کیا گیا ، اُن کے اوپر سختی کی گئی اور اس وقت وہ آپ یہاں حاضر ہونے کی بجائے پاکستان کی کسی جیل میں قید و بند کی صعوبت برداشت کر رہے ہیں.نہایت ظالمانہ طریق پر ہر احمدی کی تلاشی لی گئی اور وہ تمام چیزیں جن میں سے ایک بھی حکومت پاکستان نے ضبط نہیں کی ہوئی تھی اُن کے نکلنے پر اُن کے پاسپورٹ چھین لئے گئے اور اُن کو قید میں ڈال دیا گیا.نظموں کی لیسٹس کسی نے بڑے پیار اور محبت سے بھر کے بھجوائی تھیں تو یہ بھی جرم تھا، کسی نے کوئی مضمون لکھا تھا وہ بھجوایا تو وہ بھی جرم تھا، ایسے رسالے اور کتب جن کو حکومت پاکستان نے ضبط نہیں کیا تھا وہ کسی کے سامان سے نکلے تو وہ بھی جرم تھا.غرضیکہ ہر راہ، ہر بہانہ جو تلاش کیا جاسکتا تھا آنے والے احمدیوں کو ہراساں کرنے کا اور اُن پر زیادتی کرنے کا وہ اختیار کیا گیا.پس آج کے افتتاحی اجلاس میں جبکہ عموماً دعا کی تحریک کی جاتی ہے میں سب سے پہلے ان
خطابات طاہر جلد دوم 105 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء مظلوم احمدی بھائیوں کے لئے دُعا کی تحریک کرتا ہوں جو بڑے ارمانوں کے ساتھ ، بڑے شوق سے، بڑے لمبے عرصے تک غربت کے باوجود پیسے جمع کر کے اس جلسے میں حاضر ہونے کے لئے نکلے تھے لیکن ہم تک نہیں پہنچ سکے.اللہ اُن کے حال پر بھی رحم فرمائے ، ان کی نیک تمناؤں کو قبول کرے، اُن سے بڑھ کر اُن کو ثواب دے جو یہاں پہنچ سکے ہیں تا کہ اُن کی حسرتیں پوری ہو جائیں اور اُن لوگوں پر بھی رحم کرے جو ناحق خدا کے بندوں پر ظلم کر رہے ہیں.اُن کو کوئی حق نہیں اور بڑی دلیری کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں، یہ کارندے حکومت کے جنہوں نے ایسا کیا یہ بھی مجبور تھے کیونکہ جہاں تک میر اعلم ہے یہی لوگ پہلے آنے والے احمدیوں سے شریفانہ برتاؤ کیا کرتے تھے لیکن معلوم ہوتا ہے اتنی سختی سے حکومت کی طرف سے اُن کو ہدایت ہے اور ایسی کڑی نگرانی کی جارہی ہے کہ اگر وہ اس ظلم میں شریک نہ ہوں تو پھر اُن کو اپنی نوکریوں کا خطرہ ہے، اپنی عزتوں کا خطرہ ہے، اپنی ترقیات کا خطرہ ہے.پاکستان کی حکومت کا یہ الزام ہے کہ احمدی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں، قطعاً جھوٹ اور بے بنیاد الزام ہے.میں نے تو اُن احمد یوں کو بھی جن کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں اور تمام دنیا میں مختلف ممالک میں پھیلے پڑے ہیں ، ان کو بھی بارہا یہی نصیحت کی ہے کہ ہر چند کہ پاکستان کی موجودہ آمرانہ حکومت نے احمدیوں پر، ان کے بھائیوں پر بڑے مظالم کئے تب بھی اُن کے لئے بددعا نہ کریں، ان کے لئے برا دل میں نہ بٹھا ئیں اور جہاں تک ممکن ہو، جہاں تک اللہ تو فیق عطا فرمائے اُن کی بہبود کے لئے دعا کریں اگر اور کچھ نہیں تو اتنا سوچیں کہ آپ تک جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا دین پہنچایا گیا اور اندھیروں سے نور کی طرف آپ کو بلایا گیا تو وہ پاکستان کی سرزمین سے آنے والے دیوانے ہی تو تھے جنہوں نے یہ کام کیا.اس لئے آپ پاکستانی نہ سہی کم سے کم پاکستان کی سرزمین کا یہ حق آپ پر ضرور ہے کہ اُن کے لئے اچھا سوچیں اور بھلا چاہیں.میں تو یہ نصیحت کرتا ہوں.اگر جماعت احمدیہ کو میں اجازت دیتا اگر چہ پاکستان کی جماعت اپنے قانون کی پابند ہے اور ہمیشہ رہے گی اور ہمارے بنیادی اساسی دستور میں، ہمارے اساسی دستور میں یہ بات داخل ہے کہ جس ملک میں رہو اُس کی اطاعت کرو اور اُس کی قانون شکنی نہ کرو.اس لئے اُن کو تو کسی قانون شکنی کی اجازت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن باہر کی جماعتوں کو تو میں اجازت دے سکتا تھا کہ اپنے غم وغصہ کو جس طرح چاہیں حکومت پاکستان کے
خطابات طاہر جلد دوم 106 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء خلاف نکالیں لیکن ایسا نہیں کیا اس لئے بالکل جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا ہے.ہاں یہ درست ہے کہ جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لئے حکومت پاکستان نے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے اپنے سفارت خانوں سے کام لے کر تمام دنیا میں انتہائی ظالمانہ، جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا کیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دی گئیں، جھوٹے الزام لگائے گئے ، وہ عقائد ہماری طرف منسوب کئے گئے جو ہمارے خواب وخیال کے عقائد بھی نہیں.ہمیں اسلام کا دشمن قرار دیا گیا ، ہمیں وطن کا دشمن قرار دیا گیا، ہمیں تخریب کار قرار دیا گیا.غرضیکہ جس حد تک بھی ایک حکومت کی طاقت میں ہو اس حد تک حکومت پاکستان نے جماعت احمدیہ کے خلاف دنیا کے کونے کونے میں پروپیگنڈا ضرور کیا ہے.لیکن اس کا جواب دینے کی ہمیں اس لئے ضرورت نہیں کہ خدا کے فرشتے اس کا جواب دے رہے ہیں اور اس سارے پرو پیگنڈے کا بالکل برعکس نتیجہ ظاہر ہو رہا ہے.آج جماعت احمد یہ دنیا میں اُس سے بہت زیادہ مرغوب اور محبوب ہو چکی ہے جتنی دو سال پہلے تھی ، آج جماعت احمدیہ اُس سے سینکڑوں گنا زیادہ معروف اور نیک نام ہو چکی ہے جتنی دو سال پہلے تھی.دنیا کا ایک ملک بھی ایسا نہیں رہا جہاں جماعت احمدیہ کے حق میں آواز نہیں اٹھائی گئی، جہاں کے دانشوروں نے حکومت پاکستان سے اس ظالمانہ رویے کے خلاف احتجاج نہیں کیا اور اُن کے پرو پیگنڈے سے متاثر ہونے کی بجائے اور بھی زیادہ جماعت احمدیہ کے قریب آئے اور محبت اور احسان کی نظر سے جماعت احمدیہ کو دیکھنے لگے.بکثرت ایسے ممالک ہیں جہاں اس پروپیگنڈے کے بعد بڑے واشگاف الفاظ میں حکومت کے سر براہوں نے بھی اور دیگر صاحب اثر لوگوں نے بھی جماعت کو خراج تحسین پیش کیا اور اُن باتوں کو جھٹلا دیا جو حکومت پاکستان ہمارے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر مشہور کر رہی تھی.چند نمونے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں، افریقہ کے ممالک کی طرف خصوصیت کے ساتھ اس دور میں پاکستان کی آمرانہ حکومت نے توجہ دی.روپیہ کہاں سے آیا یہ اللہ بہتر جانتا ہے مگر مانگا ہوا روپیہ تھا اور بے دھڑک افریقن ممالک کو وہ روپیہ پیش کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ تم اگر جماعت احمدیہ کے خلاف یہاں منظم کام کرو تو ہم اس سلسلے میں تمہیں اور بھی بہت سا روپیہ دینے کے لئے تیار ہیں.ان ممالک نے نہ صرف یہ کہ اس کوشش کو رد کر دیا بلکہ ہمیں مطلع کیا اور بتایا کہ اس قسم کا
خطابات طاہر جلد دوم 107 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء پرو پیگنڈا تمہارے خلاف کیا جا رہا ہے اور پوچھا کہ اس کا جواب کیا ہے تا کہ ہم تمہارا پیش کردہ جواب معلوم کرنے کے بعد مطمئن ہو کے پھر ان کو جواب دیں.چنانچہ ایک سے زیادہ ممالک میں بلکہ بیسیوں ممالک میں ایسا ہوا کہ جماعت احمدیہ سے مدد مانگ کر اُن کی ایک ایک چیز کا جواب لے کر اپنی حکومت کی طرف سے انہوں نے پاکستان کی حکومت کو یہ جواب پیش کیا کہ ہم مطمئن ہیں، یہ تمہارے الزام غلط ہیں اور جماعت احمدیہ کی یہ حیثیت ہے.افریقہ میں جہاں بہت زیادہ زور مارا گیا وہاں کے چند نمونے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.گھانا کی تعمیرات کے وزیر الحاج ڈاکٹر ابوبکر احسن نے جلسہ سالانہ سالٹ پانڈ (Saltpond) میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا.جماعت احمدیہ ایسی تنظیم ہے جس نے اسلام کی نہایت اعلیٰ تصویر ہمارے سامنے پیش کی ہے، بالخصوص عملی طور پر ہسپتال ، سکول اور زراعتی اداروں کے قیام کے ساتھ مقامی حکومت کی مدد کی ہے اور یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ واقعی اسلام ترقی کرنے والا مذہب ہے.جو اس غلط الزام کی تردید میں عملی جواب ہے کہ اسلام نعوذ باللہ ایک پسماندہ اور Backward مذ ہب ہے“.پس جہاں پاکستان کی موجودہ آمرانہ حکومت تمام دنیا میں اسلام کو ایک پسماندہ اور Backward مذہب مشہور کرنے کی نہایت ناپاک کوشش کر رہی ہے اور آنحضرت ﷺ سے اسلام کو شروع کرنے کے بجائے قرون وسطی کے اُس دور کا اسلام دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے جہاں اسلام اور جبر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کر دیئے گئے تھے.جہاں اسلام کو اس طرح پیش کیا جارہا تھا کہ ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآن ہے، اُس دور سے اسلام کا تصور لے کر آج کی حکومت اس بیسویں صدی میں یا اکیسویں صدی آنے والی ہے اب تو ، اس دور میں دنیا کے سامنے اسلام کی یہ بھیانک تصویر کھینچ رہی ہے اور جن لوگوں کے سامنے جماعت احمدیہ کے خلاف یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ یہ اسلام کو برے رنگ میں پیش کرتے ہیں، اُن کے متعلق ان حکومتوں کے بڑے بڑے صاحب اثر اور با اختیار لوگ یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اس غلط الزام کی تردید جماعت احمدیہ کر رہی ہے کہ اسلام نعوذ باللہ ایک پسماندہ اور Backward مذ ہب ہے ، وہ فرماتے ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 108 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء نیز یہ کہ جدید تقاضوں کے مطابق اس پر سو فیصدی عمل کی گنجائش موجود ہے.دور جدید کے انسان کو یہ فقرہ سننے کے لائق ہے.فرماتے ہیں.دور جدید کے انسان کو یہ سبق احمد یہ جماعت سے حاصل کرنا چاہئے.وو پھر انہوں نے فرمایا کہ ” میری حکومت ان خدمات کا بے حد احترام کرتی ہے اور ممنون احسان ہے اور وعدہ کرتی ہے جس حد تک بھی ممکن ہوا وہ جماعت احمدیہ کے ساتھ تعاون کرے گی.اسی طرح وہاں Eastern Region کے ایک نامور عیسائی پادری جب ہماری کانفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لائے تو انہوں نے اسلام کو پہلی بار اُس طرح سنا، جس طرح جماعت احمد یہ اسے دیکھتی اور جس طرح جماعت احمد یہ اس پر عاشق ہے.اسلام کے اُس حسین چہرے کو انہوں نے دیکھا تو اپنی تقریر میں انہوں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم عیسائیوں نے محمد اللہ جسے عظیم نبی کا انکار کر کے بہت ظلم کیا ہے“.عجیب ظلم ہے کہ باہر تو جماعت احمد یہ غیروں کے منہ سے یہ کہلوا رہی ہے کہ اس عظیم نبی یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا انکار ایک عظیم ظلم ہے اور پاکستان کی حکومت آنحضرت ﷺ کی صداقت کے اقرار کو ایک عظیم ظلم قرار دے رہی ہے اور سینکڑوں احمدی پاکستان کی حکومت کے ہاتھوں شدید ظلموں کا نشانہ بنائے گئے صرف اس لئے کہ انہوں نے کلمہ توحید کا انکار کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے اقرار پر قائم رہے، شدید دکھ اٹھائے ، ماریں کھائیں، گلیوں میں گھسیٹے گئے ، ذلیل ہوئے ، قید و بند میں ڈالے گئے لیکن ایک لمحہ کے لئے بھی وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ دنیا کے اس عظیم ترین نبی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی صداقت کا انکار کریں اور آج ایک ہی واحد ملک ہے جس ملک میں یہ اقرار جرم بن چکا ہے اور تعزیر پاکستان کے تابع ایک ایسا جرم ہے جس کے نتیجہ میں اگر مجرم پکڑا جائے تو اس کی ضمانت بھی قبول نہیں ہونی چاہئے.جیسا کہ میں نے بیان کیا سینکڑوں آدمی صرف اس جرم میں کہ انہوں نے لا اله الا الله محمد رسول اللہ کا برسر عام اقرار کیا
خطابات طاہر جلد دوم 109 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء تھا قید میں ڈالے گئے.احمدیت کو دنیا میں ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان مصائب کے باوجود بنی نوع انسان کی عمومی خدمت کی بھی بکثرت توفیق مل رہی ہے.اس کی تفاصیل کا تو یہ وقت نہیں، انشاء اللہ کل کی دوسری تقریر میں میں جماعت احمدیہ کی عالمی جدو جہد اور کوششوں اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے بے شمار نازل ہونے والے فضلوں کا ذکر کروں گا.اس وقت صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حکومت پاکستان کے یہ سارے پرو پیگنڈے خدا کی تقدیر نے ناکام بنا دیئے ہیں.چنانچہ سیرالیون کے صدر نے قرآن کریم اور احمد یہ لٹریچر کے تھنے کو چومتے ہوئے بڑے ادب اور احترام سے قبول کیا اور فرمایا." احمد یہ مشن طبی اور تعلیمی میدان میں ملک کی بڑی خدمت کر رہا 66 ہے.ہم چاہتے ہیں کہ آپ اسی طرح ملک کی خدمت کرتے رہیں.اسی طرح ہمارے وکیل اعلیٰ تحریک جدید چوہدری حمید اللہ صاحب جب دورے پر لائبیریا تشریف لے گئے تو لائبیرین نیوز نے ایک آرٹیکل اس پر لکھا اور یہ خبر دی کہ انفارمیشن منسٹر سے انہوں نے ملاقات کی ہے اور انفارمیشن منسٹر کا یہ بیان شائع کیا کہ احمد یہ مشن نے اپنی ابتداء ہی سے حقیقی بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے میں مدد کی ہے.کہاں یہ پروپیگنڈا کہ افریقہ کو مخاطب کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے جو So called مبینہ قرطاس ابیض شائع کیا تھا اُس میں یہ لکھا کہ افریقہ کو ہم متنبہ کرتے ہیں کہ جماعت احمد یہ جہاں جاتی ہے فساد برپا کرتی ہے اس لئے ہم آپ کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر آپ نے اس کو رد نہ کیا اور بر وقت پیش بندی نہ کی تو آپ کے ملک میں بھی فساد برپا کریں گے.وہاں کی حکومتوں کے سر براہ اس سے بالکل برعکس رائے رکھتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اپنی ابتداء ہی سے جماعت احمدیہ نے حقیقی بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے میں مدد کی ہے نیز مشن کی مساعی کے نتیجے میں بہت سے لائبیرین کے معیار زندگی میں نمایاں ترقی پیدا ہوئی“.بہر حال میں آپ کو یہ اطمینان دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ظالمانہ مہم سے جہاں تک بیرونی دنیا کا تعلق ہے وہاں بھی نہایت ہی خوشگوار نتائج پیدا ہور ہے ہیں اور جہاں تک
خطابات طاہر جلد دوم 110 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء اندرون پاکستان کا تعلق ہے، وہاں بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خوشخبری کے نتیجے میں آراء میں گہری تبدیلی اور بنیادی تبدیلی پیدا ہورہی ہے.پاکستان میں عوام الناس ایک اور نظر سے اب احمدیوں کو دیکھنے لگے ہیں.اُن کو یہ دوطرفہ جنگ اب کھلی کھلی اس بات پر مرکوز نظر آتی ہے کہ احمدی کہتے ہیں کہ ہم نے کلمہ توحید کا بہر حال اعلان کرنا ہے جو چاہے مخالفت کرے اور غیر احمدی علماء کہتے ہیں کہ ہم نے کلمہ تو حید نہیں پڑھنے دینا اور اس کی ہر وہ سزا دیں گے جو سزا کفار مکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلاموں کو دیا کرتے تھے.جب میں یہ کہتا ہوں تو ایسی بات نہیں جو میں ان کی طرف منسوب کر رہا ہوں.کوئٹہ کی عدالت میں بیان دیتے ہوئے وہاں کی جمعیت کے صدر، جو بلوچستان کی جمعیت ختم نبوت کے صدر ہیں انہوں نے ایک وکیل کے سوال کے جواب میں یہ اقرار کیا جوتحریری طور پر عدالت کی کاروائی کا حصہ بن چکا ہے کہ ہاں یہ درست ہے کہ ہم آج احمدیوں سے کلمہ توحید اور اذانوں کے سلسلے میں وہی سلوک کر رہے ہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلاموں کے ساتھ اس زمانے کے مشرکین مکہ کیا کرتے تھے.یہ عدالت کی کارروائی لکھی ہوئی موجود ہے، ریکارڈ کا حصہ ہے،اخباروں میں اس پر تبصرے چھپے ہیں.اگر میں آپ کو بتاؤں تو یہ جرم ہے، یہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا ہے.پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کی ایک نئی تعریف کی جارہی ہے، یعنی پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے، وہاں کے اخبار اگر اس کو شائع کریں تو حکومت کا محکمہ Cancer حرکت میں نہیں آتا کیونکہ ان کے نزدیک یہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا نہیں ہے.وہ باتیں اگر وہ شائع نہ کریں تو حکومت کا متعلقہ محکمہ حرکت میں آتا ہے کہ یہ اتنی اچھی اچھی خبر میں احمدیوں کے خلاف، احمدیوں پر ظلم کی داستا نہیں تم شائع کیوں نہیں کرتے ، انہیں نمایاں شہہ سرخیوں سے کیوں طبع نہیں کرتے ، ان کی جواب طلبیاں ہوتی ہیں اور جو لوگ شائع کرتے ہیں ان کو پاکستان کے خزانہ سے رقمیں تحفہ کے طور پر پیش کی جاتی ہیں اور وہی خبریں اگر جماعت احمد یہ باہر کی دنیا تک پہنچا دے تو یہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا ہے.عجیب Cancer ہے کہ اپنے ملک میں نہیں، غیر ملکوں میں جا کے Cancer کرنا چاہتے ہیں.کبھی ایسا Cancer بھی آپ نے دیکھا تھا کہ اپنے ملک کی حدوں میں تو نہیں کیا جارہا بلکہ اس
خطابات طاہر جلد دوم 111 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۸۶ء کے برعکس رجحان کو فروغ دیا جا رہا ہے اور تمام دنیا کے آزاد ملکوں میں وہ چاہتے ہیں Cancer ہو اور یہ خبریں شائع نہ کی جائیں.اسی سے پتا چلتا ہے کہ اس دور میں اس الٹی حکومت کی ہر بات الٹ چکی ہے.کوئی عقل کی بات ان میں باقی نہیں رہی اور کس قدر کمینگی ہے، حد ہو گئی ہے.حکومت کو یہ بات بجتی ہے کہ بیچارے لوگ، غریب لوگ، نیک دل، پر امن شہری پتا نہیں کب سے پیسے جوڑ جوڑ کر اس تمنا کے ساتھ نکلے کہ یہاں ہمیں اگر جلسہ نہیں کرنے دیتے تو باہر جا کے جلسے میں شامل ہوں، یہاں اذانیں بند کی ہیں تو باہر جا کر اذانوں کی آوازیں سنیں ، یہاں حضرت اقدس محمدﷺ کے پیار کے گیت نہیں گا سکتے تو وہاں جا کے یہ گیت گائیں اور ان کو جبراً اور بہانے تراش کر ان کو روکا جارہا ہے لیکن باہر کی دنیا میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس کے برعکس نتیجے پیدا ہو رہے ہیں اور جماعت احمد یہ پہلے سے زیادہ قوت اور شان اور عزم کے ساتھ اور ایک عظیم قوت متحرکہ کے ساتھ اس کے بالکل برعکس کارروائی کر رہی ہے.یہ وہاں کلمے کو روک رہیں ہیں اور ہم ہندوستان کو کلمے پڑھا رہے ہیں، یہ وہاں اذانوں کو روک رہے ہیں اور ہم ہندوستان کے مشرکانہ ملک میں اذانیں دلوا رہے ہیں ، یہ وہاں مسجدوں پر قبضہ کر رہے ہیں اور ہم ہندوستان کے مشرکانہ ملک میں مسجدیں بنا رہے ہیں اور قرآن سکھا رہے ہیں اور نمازیں پڑھا رہے ہیں.صرف ہندوستان کی مثال نہیں ساری دنیا میں یہ واقعہ ہو رہا ہے لیکن مختصر البعض باتیں بعض حوالوں سے زیادہ سمجھ میں آجاتی ہیں کیونکہ پرانی رقابت چل رہی ہے پاکستان اور ہندوستان کی.میں نے سوچا کہ شاید اس حوالے سے ان کو سمجھ آ جائے ، کچھ ہوش کریں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور یہ کیا کر رہے ہیں.قادیان کے مضافات میں جو ہندو سکھ آبادیاں ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی تبلیغ پہلے سے بہت زیادہ تیز ہو چکی ہے اور وہاں کی رپورٹ کے مطابق مضافات میں نو احمدی مستورات میں سے چھ برقعہ پہنے لگ گئی ہیں، 230 بچوں نے نماز سیکھ لی ہے، 30 بچے قاعدہ یسرنا القرآن پڑھ رہے ہیں ، چھ بڑی عمر کے افراد نے قرآن کریم ناظرہ ختم کرلیا ہے اور چار نصف قرآن کریم ناظرہ پڑھ چکے ہیں ، 15 افراد اردو لکھنا پڑھنا سیکھ لینے کے بعداب کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خود مطالعہ کرنے لگے ہیں، تین بچے وقف ہوکر مدرسہ احمدیہ
خطابات طاہر جلد دوم 112 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء میں داخل ہو چکے ہیں اور 9 بچے تعلیم کی غرض سے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں داخل ہوئے ہیں.یہ تعداد تھوڑی ہے، مجھے تسلیم ہے، گنتی کے چند ہیں مگر اسلام کے قریب لانے کی یہ ایک ایسی حسین کوشش ہے کہ اس ملک میں جہاں بالعموم یہ تاثر ہے کہ مسلمانوں کو سختی سے دبایا جارہا ہے وہاں اسلام کو ابھارنے والی اگر کوئی جماعت ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی کوششوں کے نتیجے میں وہاں ہندؤوں میں سے بھی لوگ مسلمان ہو رہے ہیں اور سکھوں میں سے بھی لوگ مسلمان ہورہے ہیں اور مسلمان ہونے والوں کے اندر ایک عجیب روحانی تبدیلی واقع ہورہی ہے.ایک خط کا اقتباس میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ جب ہم اللہ کے فضل سے وہاں ہندوؤں کو مسلمان بناتے ہیں تو کس قسم کے مسلمان بنتے ہیں.عبدالقیوم صاحب جن کا سابق نام جگدیش چندر تھا عرصہ ڈیڑھ سال سے احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور اس عرصے میں بڑی محنت کے ساتھ انہوں نے اردو بھی سیکھی اور اسلام کی تعلیم بڑے شوق اور شغف سے حاصل کی.آپ ان کا خط پڑھیں تو حیرت ہوتی ہے، کیسی صاف اردو میں انہوں نے مجھے مخاطب کیا، اپنے ہاتھ سے یہ خط لکھ کر بھجوایا ہے.لکھتے ہیں: اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے والدین، بیوی بچوں اور دیگر رشتہ داروں کی طرف سے انتہائی اذیت اور دکھ اٹھا رہا ہوں“.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ تو احمدیت کی تقدیر کا ایک لازمی حصہ ہے، ہر صداقت کے ساتھ یہ بات وابستہ ہے کہ جہاں صداقت کی روشنی پھوٹتی ہے وہاں اندھیرے لازماً کوشش کرتے ہیں اس کو دبانے کی.اس لئے ہندوستان میں بھی ، جہاں جہاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کو ترقی نصیب ہوتی ہے وہاں ایک رد عمل ہوتا ہے لیکن ایک فرق ہے، باہر کی دنیا میں حکومتوں کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ عوام کی طرف سے ہوتا ہے.یہ ایک دنیا ہے جہاں عوام کی طرف سے نہیں ہورہا بلکہ حکومت کی طرف سے ہو رہا ہے.وہ لکھتے ہیں : ایک دفعہ چند ماہ کے لئے قادیان چھوڑ کر جے پور کے علاقہ میں چلا گیا کہ شاید اس طرح ہی ان کی آتش مخالفت ٹھنڈی پڑ جائے.اب جبکہ میں واپس آیا ہوں میرے سسرال والے آکر میرے بیوی اور بچوں کو مع
خطابات طاہر جلد دوم 113 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء ساز وسامان کے واپس لے جاچکے ہیں اور مجھے بار بار مختلف قسم کی دھمکیاں دیتے ہیں اور بار بار یہی شرط عائد کرتے ہیں کہ اسلام چھوڑ دو، احمدیوں کے پاس آنا جانا ترک کر دو، ورنہ ہم تمہیں سخت سے سخت سزا دیں گے اور تمہارے بیوی اور بچوں کو تا زندگی تمہارے ساتھ نہیں ملنے دیں گے.اسی طرح انہوں نے مجھے یہ لالچ بھی دیا کہ ہم لوگ تیں، چالیس ہزار روپیہ خرچ کر کے تمہیں دکان اور مکان الگ بنوادیتے ہیں تم عیش سے اپنا کاروبار کرو.اب تم دھکے کھارہے ہو اور کرائے کی دکان پر رہتے ہو“.وہ لکھتے ہیں : وو پیارے حضور! میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس کے پاک نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری زندگی جانوروں سے بدتر تھی ، اب خدا کی مہربانی ہے کہ اس زمانے کے بچے رشی اور گرو کی تعلیم کے نتیجے میں میری زندگی کی کایا پلٹ گئی اور میں اپنے آپ کو صرف انسان ہی نہیں سمجھتا بلکہ محسوس کر رہا ہوں کہ سچائی کی برکت اور اسلام کے نور سے میرے اوپر آسمان کے دروازے کھل رہے ہیں.اس لئے اب اگر اسلام کی خاطر میری جان بھی چلی جائے اور یہ لوگ میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر ڈالیں تو مجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے“.پس میں پاکستان کی حکومت کو متوجہ کرتا ہوں کہ ہندوستان میں ایک مظلوم ہندوؤں سے مسلمان ہونے والے مخلص کے جو جذبات ہیں جس طرح اسلام کے نور سے وہ منور ہوا اور جس طرح اس کے دل میں حمد اور شکر کے جذبات پیدا ہوئے اور اسلام کو چھوڑنے کا تصور بھی اس کے لئے مکروہ ہو گیا اور وہ اس بات پر آمادہ ہے کہ جس طرح پہلے وہ بہت کچھ قربان کر چکا اگر اور بھی قربانیاں اس سے مانگی گئیں تو وہ سب کچھ اسلام کی راہ میں پیش کر دے گا.تو وہ کیسے پاکستان کے احمدیوں سے توقع رکھتے ہیں، جن کا دین آباؤ اجداد سے اسلام چلا آ رہا ہے، جو اسلام کے نور سے ہمیشہ سے وابستہ رہے اور اس کا زیادہ عرفان رکھتے ہیں کہ وہ اس نو مسلم سے بھی بدتر نکلیں گے اور یہ نو مسلم تو اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوگا اور نعوذ باللہ من ذالک حکومت پاکستان کی دھمکیوں اور جبر اور ظلم وستم
خطابات طاہر جلد دوم 114 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء کے نتیجے میں وہاں احمدی دین اسلام کو چھوڑ چھوڑ کر ارتداد اختیار کرنا شروع کر دیں گے ، ہرگز ممکن نہیں، ہرگز ممکن نہیں اور ہر گز یہ ممکن نہیں.جس طرح پاکستان میں مخالفت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بکثرت لوگ احمدیت کے متعلق جستجو ر کھنے لگے ہیں اور زیادہ قریب آنے لگے ہیں اسی طرح باہر کی دنیا میں بھی مخالفت یہی اثر دکھاتی ہے.ہندوستان کی مخالفت کا میں نے ذکر کیا وہاں کے ایک اور صوبہ مغربی بنگال میں موضع ہتھیاری کے متعلق یہ اطلاع ملی کہ وہاں جماعت کی اس تبلیغ کے نتیجہ میں شدید مخالفت شروع ہو گئی اور گھر جلانے اور لوٹ لینے کی دھمکیاں ملیں لیکن وہاں کے حاکم نے سخت رویہ اختیار کیا اور کہا کہ ایسا نہیں کیا جائے گا اور امن میں خلل پیدا کیا گیا تو قانون حرکت میں آئے گا اور ہرگز غیر منصفانہ کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی“.یہ جب رپورٹ مجھے ملی تو فی الحقیقت میرا سر شرم سے جھک گیا کہ وہ تو ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والا ایک فرمانروا تھا اس مذہب کا، مذہب ایک حکمران تھا جو تنگ نظری سکھاتا ہے جو عصبیت سکھاتا ہے اگر وہ یہ کہتا کہ ہرگز احمدیوں کو غیروں میں تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو کسی حد تک یہ بات قابل فہم تھی لیکن اسلام کی طرف منسوب ہو کر اتنا بھی نہ کر سکے، جو یہ ہندو حاکم کرتا ہے اور انصاف کے وہ تقاضے بھی پس پشت ڈال دیئے جو ایک عام دہر یہ حکمران بھی اختیار کرلیا کرتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا اللہ کا فضل اس مخالفت کے بعد آنا ہی تھا چنانچہ وہاں کی جماعت نے بڑی خوشی سے یہ اطلاع دی کہ اس علاقے میں احمدیت ایک عرصے سے رکی پڑی تھی اس مخالفت کے بعد خدا کے فضل سے سولہ نئی بیعتیں ہو چکی ہیں.پس خدا تعالیٰ کی تقدیر ہمیں یہ بتارہی ہے اور بار بار اس بات کی یاددہانی کروارہی ہے کہ تم نور سے وابستہ ہو کر اندھیروں سے نہیں ڈرو گے.تم وہ ہو کہ اگر اندھیروں کا سینہ چیرو گے تو وہاں سے خدا نور کے سوتے بہارے گا تم وہ ہو جو چٹانوں کا سینہ چیر کر حقیقتا دودھ کی نہریں نکال کر لا سکتے ہو، فرہاد کے متعلق تو محض یہ قصے ہیں، فرضی باتیں ہیں لیکن فی الحقیقت آج احمدیت کی تاریخ میں عملاً ہم یہ ہوتا دیکھ رہے ہیں کہ سنگلاخ زمینوں سے بھی احمدیت اسلام کے نور کی دودھیا نہریں بہا رہی ہیں اور ایک جگہ نہیں، دنیا کے ہر ملک میں یہ واقعات ہو رہے ہیں اور ان میں تیزی آتی چلی جارہی ہے.اس
خطابات طاہر جلد دوم 115 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء سلسلے میں بہت سی دلچسپ باتیں انشاء اللہ میں کل کی تقریر میں آپ کے سامنے رکھوں گا.بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پاکستان کی حکومت کا پروپیگنڈا اگر چہ بہت ہی نا قابل برداشت اور نہایت تکلیف دہ اور بہتان تراشی سے پر ہے، مگر میں جماعت کو مطمئن کرتا ہوں کہ اللہ کی تقدیر خود اس کے خلاف کام کر رہی ہے اور برعکس نتیجے پیدا کر رہی ہے.ہاں ایک،صرف ایک عیسائی پادری ہے جو پاکستان کی آواز کو سمجھا ہے اور اس کے پیغام کو اس نے قبول کیا ہے اور وہ عیسائی پادری ناروے کا ہے.وہ یہ بات خوب سمجھ گیا کہ حکومت پاکستان کیوں مخالفت کر رہی ہے احمد یوں کی ، وہ جانتا ہے کہ عیسائی دنیا احمدیت کے سوا کسی اور اسلامی جماعت سے اس طرح نہیں ڈرتی جتنا احمدیت سے ڈرتی ہے اور حقیقت میں عیسائیت کا مقابلہ کرنے کی سکت اگر کسی کو ہے تو اس احمد یہ جماعت کو ہے اس لئے وہ یہ پیغام سمجھا کہ حکومت پاکستان ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ جب ہم انہیں غیر مسلم قرار دے رہے ہیں تو تم یہ آواز لے کر دنیا میں کیوں نہیں نکلتے اور جب یہ عیسائیت سے ٹکر لیتے ہیں تو تم کیوں نہیں ان کو کہتے کہ تم تو مسلمان ہو ہی نہیں اس لئے عیسائیت سے تم کیسے مقابلہ کر سکتے ہو.پہلے اپنی حکومتوں سے مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ لے کر آؤ تب ہم تمہارے سامنے مناظرے کے لئے آئیں گے.چنانچہ ناروے کے اس بد نصیب پادری نے با قاعدہ ایک بیان شائع کروایا، ناروے کی زبان ذرا پڑھنی مشکل ہے اس لئے میں وہ اخبار کا نام نہیں پڑھ سکتا اور پادری صاحب کا نام بھی جس میں وہ شائع ہوا، بہر حال یہ مشہور بیان ہے.وہ لکھتے ہیں کہ احمدیت آج جو عیسائیت کے خلاف محاذ آرائی کر رہی ہے اسے اس کا کوئی حق نہیں کیونکہ احمدیت کو اسلام کی نمائندگی کا حق ہی حاصل نہیں.حکومت پاکستان سے جب تک احمدیت یہ سرٹیفکیٹ حاصل نہ کرے کہ یہ مسلمان ہیں اس وقت تک ہمیں ان سے ٹکر لینے کی کوئی ضرورت نہیں ان کو نظر انداز کر دو.لیکن ایک پیغام تو ان کو وہاں ملا اور ایک اور پیغام خدا تعالیٰ کی تقدیر نے غانا میں اس طرح پہنچایا کہ وہاں Western Region کے ایک عیسائی پادری نے جب ان حالات کا موازنہ کیا اُن واقعات سے جو اس سے پہلے عیسائیت پر اور دیگر چی تحریکات پر گزرتے چلے آرہے ہیں، تو اُس
خطابات طاہر جلد دوم 116 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء نے بڑے اخلاص کے ساتھ احمدیت کو سچا سمجھتے ہوئے قبول کیا اور قبول ہی نہیں کیا بلکہ اپنے گرجے کو خدائے واحد کی عبادت کے لئے پیش کر دیا.پس اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ایک ملک کا یہ حال ہے کہ مسجدوں پر حملے ہورہے ہیں اور جب تک ان کے قبلے تبدیل نہ ہوں اُن کو چین نہیں آتا.مسجدوں کو سنگسار بھی کیا جارہا ہے، ان کو آگیں بھی لگائی جارہی ہیں اور جہاں جہاں بس چلتا ہے سر بمہر کر دیا جاتا ہے کیونکہ وہاں خدا کی عبادت ان کو تکلیف دیتی ہے اور دنیا میں خدا کی تقدیر اس کا بدلہ اس طرح لے رہی ہے کہ خدا تعالیٰ جماعت کو بکثرت مساجد عطا کر رہا ہے یہاں تک کہ گرجے بھی خود عیسائی پادری جماعت احمدیہ کو مسجد بنانے کے لئے پیش کر رہے ہیں.قید و بند میں جولوگ ڈالے گئے ، جن کے لئے زندہ باد کے بڑے محبت بھرے اور پُر درد نعرے ابھی آپ نے لگائے ، وہ قید میں بھی ایسے مزے لوٹتے رہے ہیں کہ جن کا باہر والے تصور نہیں کر سکتے.انہوں نے سنت یوسفی کو وہاں زندہ کیا اور خدا تعالیٰ کی اُس تقدیر رحمت کو جاری ہوتے دیکھا جو ہزاروں سال پہلے حضرت یوسف کے زنداں خانے میں جاری ہوئی تھی.وہ لوگ جو وہاں قید تھے، اُن میں ایک ہمارے مربی سلسلہ بھی تھے سکھر کی بات ہے.انہوں نے بتایا کہ تبلیغ کے ذریعے ہی نہیں خوابوں کے ذریعے خدا تعالیٰ وہاں قیدیوں کو مسلمان بنا رہا ہے یعنی سچا مسلمان اور بعض قیدی محض خدا تعالیٰ کی طرف سے مبشر رویا دیکھنے کے نتیجے میں قید کے اندراحمدیت قبول کر رہے ہیں اور آٹھ بیعتیں ہوچکی ہیں اس قید خانہ میں.اُن میں سے ایک قیدی جو اس وقت یہاں موجود ہیں، وہ آزاد ہو کر یہاں تشریف لا چکے ہیں.انہوں نے اپنے خط میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ خدا کی قسم اب تو ایسا دل لگ گیا ہے یہاں کہ یہاں سے جانے کو دل نہیں چاہتا.یہ موجیں کہ تبلیغ اور پھر کامیاب تبلیغ اور پھر یہ لط یہ لطف کہ اللہ کی تقدیر آسمان سے ہماری مدد کر رہی ہے اور رؤیا دکھا دکھا کر لوگوں کو اس طرف مائل کر رہی ہے یہ باتیں باہر تو میں نے کبھی دیکھی بھی نہیں تھیں.جب وہ قید سے باہر تھے تو وہ درمیانے سے احمدی تھے، اچھے تھے لیکن بہر حال درمیانے سے تھے.قید میں جا کر تو وہ کندن بن کے نکلے ہیں ماشاء اللہ.ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں مربی صاحب کہ
خطابات طاہر جلد دوم 117 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء ایک صاحب جن کا میں نام نہیں لیتا.خواب کے ذریعے احمدی ہوئے.پہلے شدید مخالفت کرتے تھے ، اُن کا خاندان بھی جماعت کا سخت مخالف ہے.جو دوسرے غیر از جماعت دوست ہیں ، اُن کا خیال تھا کہ جب اس کے گھر والوں کو پتا چلے گا تو اسے گھر میں داخل بھی نہیں ہونے دیں گے.یعنی آزاد ہونے کے بعد ، خود اُن کو بھی اس بات کا فکر تھا لیکن انہوں نے کہا کہ مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے.شروع میں وہ کچھ تر ڈ دکر تے رہے اور گھر والوں کو اطلاع نہ دی لیکن ایک دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ بہر حال میں نے اپنے گھر کو یہ اطلاع کرنی ہے پھر جو بھی ہو، وہ ہو مجھے اُس کی پرواہ نہیں.خط لکھ کر ابھی رکھا ہی تھا کہ ان کے بھائی اُن کو ملنے کے لئے آگئے.چنانچہ انہوں نے وہ خط بھی اُن کے سامنے رکھا اور اُن کو کہا کہ اب آپ جو چاہے کریں، میں نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھے روشنی دکھائی ہے، میں اُس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا، میں اسے قبول کر چکا ہوں اور اس راہ میں ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہوں.ان کے بھائی نے کہا تم نے اب قبول کی ہے احمدیت، میں تو مہینہ پہلے سے کر چکا ہوں ، اُسے دوبارہ گلے لگایا.لیکن ایک اور بھائی چارے کی محبت تھی جو اسلام کا بھائی چارا تھا، وہ لطف ہی اور تھا جو دوبارہ اس کو سینے سے لگایا اور بتایا کہ میں نومبر کی گیارہ تاریخ سے احمدی ہو چکا ہوں.الحمد للہ کہ تم بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اس نور کو پاگئے.ایک دوست ملتان جیل میں عمر قید کی سزا بھگت رہے تھے.ویسے اپنے علاقے کے بڑے معزز اور طاقتور انسان کہلاتے تھے لیکن شریکا چلتا ہے، دشمنیاں ہوتی ہیں ، ان کو ایک مقدمے میں ملوث کیا گیا، قتل کے مقدمے میں اور عمر قید کی سزا ملی.ایک دن اچانک ان کو خیال آیا کہ جماعت احمدیہ کے جو اسیر یہاں ہیں ان کی تو حالت ہی اور ہے، ان کے رنگ ہی اور ہیں.میں دیکھوں تو سہی کہ یہ کیا کہتے ہیں اور ان کا فی الحقیقت مذہب کیا ہے.انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ کی کوئی تفسیر دو کیونکہ میں تفسیر کے ذریعہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ
خطابات طاہر جلد دوم 118 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء وہ اللہ والا تھایا کوئی اور چیز تھی.چنانچہ ان کو سورہ فاتحہ کی تفسیر دی گئی اور ساتھ ہی ان کو انہوں نے سمجھایا کہ اگر تم اس قید سے نجات چاہتے ہو تو دعا کا ایک ذریعہ ہے،اگر تم آزمانا چاہتے ہوتو ہمارے امام کو دعا کے لئے خط لکھو اور اس کے نتیجے میں ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ فضل فرمادے.تفسیر سورۂ فاتحہ کا گہرا اثر ان کے دل پر تھا کہ اچانک ایک دن ایک عجیب واقعہ ہوا ، ان کو میری طرف سے خط ملا کہ میں نے آپ کے لئے دعا کی ہے اور میں اللہ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کی مشکلیں آسان فرمادے گا اور اسی دن جیل کے داروغہ نے ان کو آ کر اطلاع دی کہ آپ کی عمر قید میں دس سال کی کمی کر دی گئی ہے.یہ دوست لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ زار و قطار رو رہا تھا اور اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہورہا تھا.یہ حیرت انگیز واقعہ میں نے دیکھا ہے اس کے بعد اب کون ہے جو مجھے احمدیت سے منحرف کر سکتا ہے.ایک اور واقعہ بھی میں آپ کو بتا تا ہوں جس کا پاکستان سے تعلق نہیں مگر میرا ایمان ہے کہ پاکستان کے اسیران راہ مولیٰ کی آہوں کا اثر ضرور ہے.عبدالوہاب بن آدم صاحب غانا کے امیر لکھتے ہیں کہ امسال ” بنکر و ہو ، پتا نہیں تلفظ غلط ہو تو مجھے غانا والے معاف فرمائیں.وہاں مقیم ایک دوست یعقوبو نامی ہمارے ایک سرکٹ مبلغ کے پاس آ کر بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.یعقو بو اپنے علاقہ میں بوجہ انتہائی باغیانہ اور سرکش طبیعت رکھنے کے مشہور تھے.مارکٹائی، دنگا فساد کی وجہ سے پورے علاقے میں بدنام تھے حتی کہ بارڈر کی پولیس بھی اُن سے ڈرتی تھی اور شراب کے رسیا ایسے کہ علاقے میں مشہور تھا کہ کسی کا نشہ ٹوٹا ہو تو اس کا سانس سونگھ لے اس کو نشہ آ جائے گا، ہر وقت بدمست رہتے تھے.ان کی بیعت پر وہاں تعجب ہوا اور نہ صرف یہ کہ ان کی بیعت پر تعجب ہوا بلکہ اس بات پر کہ اچانک اُن کی کایا پلٹ گئی ، تمام بدیوں کی جگہ حسن نے لے لی، ایک ایک بدی کی بجائے انہوں نے ایک ایک نیکی اختیار کر لی اور اتنے معزز ہوئے کہ علاقے کے چیف اور وزیر اعلیٰ تک اُن سے مشورہ لینے کے لئے جایا کرتے تھے.اُن سے کسی نے پوچھا کہ بتاؤ آخر یہ کیوں تبدیلی واقعہ ہوئی تو اُس نے کہا کہ واقعہ
خطابات طاہر جلد دوم 119 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء یہ ہے، 1985ء کی بات ہے مجھے ایک دفعہ انہوں نے قید خانے میں ڈال دیا.قید خانے میں میں نے بڑے بڑے حاجی دیکھے جو چرس سمگل کرنے کے جرم میں قید تھے، بڑے بڑے جبہ پوش دیکھے جو نہایت بھیانک جرائم کے نتیجے میں قید تھے اور طرح طرح کے مجرم دیکھے مگر سارے قید خانے میں مجھے احمدی کوئی نظر نہیں آیا، مجھے خیال آیا کہ جس کو کہتے ہیں سب سے گندی جماعت ان کا ایک آدمی بھی قید میں نہیں“.اس کو یہ خیال نہ آیا کہ اگر احمدی قیدی ڈھونڈنے ہیں تو پاکستان کا سفر اختیار کرے وہاں بھی جرموں کے نتیجے میں نہیں بلکہ خدائے واحد سے محبت رکھنے کے جرم میں قید ہوئے ہیں.بہر حال انہوں نے جب یہ واقعہ دیکھا تو کہتے ہیں میرے دل میں ایک کریدی لگ گئی کہ دیکھوں تو سہی یہ کون لوگ ہیں، چنانچہ جب میں نے باہر آ کر آپ کے مربی سے اور دوسرے احمدیوں سے رابطہ پیدا کیا تو اُس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھ عطا فرمائی اور پھر میں نے اس کے نتیجے میں ایک حیرت انگیز پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق پائی.چونکہ وہ جرم سے تو بہ کر چکے ہیں اس لئے اُس کے نتیجے میں جو نا جائز گندی آمدن تھی وہ ختم ہوگئی اور وہ غریب ہو گئے اور حالت یہ ہوئی ان کی کہ چندے دینے کا شوق اُس وقت آیا جب پیسے نہیں تھے.ایک صرف موٹر سائیکل بچا ہوا تھا حاضر ہو کر وہ موٹر سائیکل پیش کر دیا کہ میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں یہ تم لے لو اور اس موٹر سائیکل کے ذریعے سارے علاقے میں تبلیغ کرو.آخر پر میں حکومت پاکستان کے شکریہ کا ایک اعلان کرنا چاہتا ہوں ، جو بڑا دلچسپ شکریہ ہے اور اس شکریہ میں ہم سب شامل ہیں.غانا کے امور دفاع کے نگران اعلیٰ جو غانا حکومت کے اساسی رکن ہیں یعنی الحاج اور میں مہاما 1985ء کے جلسہ سالانہ میں سالٹ پانڈ Saltpond تشریف لائے اور اُس جلسے میں یعنی احمدیت کے جلسے میں انہوں نے تقریر کی.اس تقریر میں انہوں نے ایک نہایت دلچسپ واقعہ بیان کیا.وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ دنوں پاکستانی سفیر مس ایس.کے جان صاحبہ جب اپنے مشن کی تکمیل کے بعد واپس پاکستان تشریف لے جارہی تھیں تو غانا کے صدرمملکت نے ان کو فون پر یہ پیغام دیا کہ آپ نے یہاں قیام کے دوران بڑا اچھا نمونہ دکھایا ہے، میں چاہتا
خطابات طاہر جلد دوم 120 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء ہوں کہ آپ کی الوداعی تقریب میں میں بھی شامل ہوں اور میں خود حاضر ہوں شکر یہ ادا کرنے کے لئے.چنانچہ وہ خود وہاں تشریف لے گئے اور ساتھ یہ الحاج اور میں مہاما صاحب کو بھی لے گئے وہاں پہنچ کر انہوں نے جو شکریہ ادا کیا وہ یہ تھا کہ اے سفیر پاکستان ! احمد یہ مشن ، ملک کی گرانقدر خدمات سرانجام دے رہا ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ میری حکومت آپ کا شکر یہ ادا کرے.مہاما صاحب بتاتے ہیں.انہوں نے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ جب میں نے یہ سنا تو میری ہنسی نکل گئی اور صدر مملکت نے میری طرف مڑ کے پوچھا کہ تم ہنسے کیوں ہو؟ میں نے کیا کہا ہے جو تمہیں ہنسی آگئی؟ اُس پر میں نے اُن کو صرف اتنا کہا کہ آپ حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں جبکہ حالت یہ ہے کہ دنیا میں جماعت احمد یہ وہ واحد جماعت ہے جسے کسی ملک سے بھی کسی قسم کی اعانت نہیں ملتی اور کوئی مالی مدد کسی حکومت سے حاصل نہیں ہوتی ، جو کچھ بھی اس مشن کی مساعی ہیں وہ سب کی سب جماعت احمدیہ کے افراد کی انفرادی اور اجتماعی قربانیوں اور باہمی تعاون کے نتیجہ میں ہے.پس جہاں تک شکریہ کا تعلق ہے میں یقین دلاتا ہوں کہ حکومت پاکستان نہیں تو پاکستان کے عوام لاز ما تمام دنیا کے شکریہ کے مستحق ضرور ہیں کیونکہ یہ پاکستان ہی سے لوگ نکلے ہیں جو اؤل ہندوستان کے تھے بعد میں اکثریت پاکستان میں آگئی.پاکستان ہی سے نکلے ہیں جو دنیا کے کونے کونے میں امن اور بہبود اور پیار اور محبت اور صلح اور آشتی کا پیغام لے کے گئے اور دنیا کے کونے کونے میں ہر قسم کے رنگ وملت کے لوگوں کی خدمات کیں اور اسلام کو ایک نہایت احسن رنگ میں ان کے سامنے پیش کیا اس لئے حکومت جو چاہے کرے مَن لَّا يَشكُرِ النَّاسَ لَا يَشكُرِ الله ( ترندى كتاب البر والصله: حدیث نمبر: ۱۸۷۷) اگر تمام دنیا کی عالمی احمد یہ جماعت پاکستان کے عوام اور اس وطن کی شکر گزار نہیں ہوگی تو وہ خدا کا بھی شکر ادا کرنے والی نہیں ہوگی.اس لئے میں آخر پر دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر اللہ اس قوم کے لئے دعا کریں گے اور اللہ محض حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کی حسین تعلیم کے نتیجے میں ان کا شکر یہ ادا کریں گے اور ان کے لئے نیک خواہشات چاہیں گے تو اس کا بھی خدا آپ کو اجر عطا فرمائے گا.اس قوم کی مدد اس سے بہتر اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ ہم دعاؤں میں ان کی آہوں کے ساتھ
خطابات طاہر جلد دوم 121 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء اپنی دعائیں شامل کر دیں کہ اللہ ان کو ظلم اور بربریت سے نجات بخشے اور ایسی حکومت سے نجات بخشے جو تمام دنیا میں اسلام کی نہایت بھیانک تصویر کھینچنے پر کمر بستہ ہو چکی ہے اور انتہائی بدنامی کا موجب بن رہی ہے.ہمارے پاس ہم درویشوں کی دعائیں ہی ہیں.پس دعائیں کریں احمدیت کے مستقبل کے لئے دعائیں کریں اُن احمدیوں کے لئے دعائیں کریں جوظلموں کا نشانہ بنائے گئے ، اُن ظالموں کو دعادیں کہ خدا ان کو ظلم سے ہاتھ روکنے کی توفیق بخشے جوان احمدیوں کو ظلم کا نشانہ بنارہے ہیں.دنیا کے تمام عوام جو کسی نہ کسی رنگ میں ظلم کی چکی میں پیسے جارہے ہیں ان سب کے لئے دعائیں کریں.آج شرف انسانیت کا علم آپ کے ہاتھوں میں ہے، آج آپ نے ثابت کر دیا ہے کہ انسانی ضمیر کی آزادی کا علم ہرلمحہ ہر صورت میں آپ بلند کئے رکھیں گے.اس لئے یہ محض ایک دنیا کے دکھاوے کی بات نہیں ہے اگر فی الحقیقت اس علم کو بلند اور تاجو رکرنا ہے اور تمام دنیا کو فتح مند کرنا ہے تو دعاؤں سے خدا سے مدد مانگیں اور گریہ وزاری سے خدا سے مدد مانگیں اور دعا کریں کہ آج احمدیت کو اللہ تعالیٰ یہ توفیق بخشے کہ تمام دنیا کے مظلوموں کی مدد کرے، تمام دنیا کے مظلوموں کی نجات کا باعث بنے اور تمام دنیا کو اسلام سے دوری کے ظلم سے نجات بخشنے میں ممد و معاون ثابت ہو.اللہ ہماری ان کوششوں کو قبول فرمائے ، آنے والوں کے خلوص کو بھی قبول فرمائے اور پیچھے رہنے والوں کی حسرتوں کو بھی قبول فرمائے.اس ملک کے یعنی انگلستان کے باشندوں کی خدمتوں کو بھی قبول فرمائے اور ان کو بہترین جزا دے.جنہوں نے اسلام آباد (U.K) میں آپ کے آنے کے لئے بڑی محنت کی ہے، بڑے لمبا عر صے تک بہت ہی پیار اور محبت سے بڑوں نے اور چھوٹوں نے جوانوں نے اور بچوں نے بھی عورتوں نے بھی اور مردوں نے سب نے یکساں بے حد خلوص اور محبت کے ساتھ خدمت کے ایسے نمونے دکھائے ہیں کہ اس ملک آزادترقی یافتہ ملک کے لوگ بھی تصور نہیں کر سکتے کہ دنیا میں کوئی قوم اتنی عظیم الشان بھی ہو سکتی ہے کہ ایک مقصد کی خاطر بغیر کسی دباؤ اور بغیر کسی لالچ کے اتنی عظیم الشان خدمت سرانجام دے سکتی ہے.چنانچہ ابھی کچھ عرصہ پہلے یہاں اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کا ایک اجلاس ہوا اور اُس اجلاس میں مختلف پرانے طلباء جو یہاںStreet ہائی سکول کہلاتا تھا اس سکول کے پرانے طالبعلم تھے ، اب بڑے بڑے عہدوں میں مختلف کاموں میں وہ
خطابات طاہر جلد دوم 122 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۸۶ء مصروف ہو چکے ہیں، وہ شوق سے تشریف لائے تا کہ اپنے پرانے سکول کو دیکھیں یہاں آ کے جو انہوں نے حالت دیکھی، وقار عمل دیکھے کس طرح پیار اور محبت سے لوگ خدمت کر رہے ہیں تو ان کی طرف سے نمائندہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو کام آپ نے کر کے دکھایا ہے ہماری حکومت کے نمائندے بھی اگر چاہتے تو اس طرح نہیں کر کے دکھا سکتے تھے.پس ان کے لئے بھی دعا کریں اور یہ سارے دن حمد و ثنا میں گزاریں، اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کے گیت گائیں اور خدا کا شکر ادا کریں کہ جس طرح مخالفت کی موج اٹھی تھی آپ کو دبانے کے لئے اس سے سینکڑوں گنا قوت کے ساتھ اللہ کی تقدیر آپ کو اُبھار رہی ہے اور ہمیشہ بھارتی رہے گی.اس کے بعد حضور انور نے لمبی اور پُر سوز دعا کروائی.دعا کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ ابھی جلسہ جاری رہے گا، ابھی دوسرے اجلاس کی کارروائی شروع ہوگی جس میں ایک بہت ہی اہم تقریر برادرم مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی ہے، امریکہ میں بھی انہوں نے اس موضوع یہ تقریر کی تھی اور واقعی بہت ہی اعلیٰ پائے کی تقریر ہے جو سننے سے تعلق رکھتی ہے.اس لئے امید ہے سب دوست اسی طرح بیٹھے رہیں گے امن کے ساتھ جس طرح اب تک بیٹھے رہے ہیں.السلام علیکم
خطابات طاہر جلد دوم 123 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء اسلام دوسرے مذاہب کے مقابل پر وسعت حوصلہ کی تعلیم میں غیر معمولی امتیاز رکھتا ہے.سوسائٹی میں ہر طرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام شروع کریں.(افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۷ء بمقام اسلام آباد لفورڈ برطانیہ ) تلاوت قرآن کریم کے بعد اور اردو منظوم کلام پڑھے جانے سے قبل حضور انور نے فرمایا.اس دفعہ پروگرام میں یہ تھوڑی سی تقسیم پیدا کی گئی پہلے جو صرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا اردو منظوم کلام پیش کیا جاتا تھا اس پر میں نے فیصلہ کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عربی کلام کا بھی اضافہ کیا جائے اور عربی منظوم کلام کے نمونے بھی پڑھے جائیں لیکن کیونکہ نیا انتظام تھا ابھی اس اجلاس میں پڑھنے کیلئے تیار نہیں تھے آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ اردو منظوم کلام کے ساتھ عربی منظوم کلام کے پاکیزہ نمونے بھی پیش کئے جائیں گے اور باتوں کے علاوہ عربی کلام بے حد حسین ہے ، دلکش ہے اس کی ضرورت اس لئے بھی محسوس ہورہی ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے عربوں میں جماعت احمدیہ کی طرف توجہ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور جو عرب پچھلے دو تین سالوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہوئے ہیں اخلاص کا مرقع ہیں اور ان کو جماعت سے بے حد محبت ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حمد اور نعتیہ کلام ان کی اپنی زبان میں سنانا ان کا حق ہے اس لئے انشاء اللہ تعالی آئندہ اجلاسات میں اس بات کی پابندی کی جائے گی.
خطابات طاہر جلد دوم 124 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں.وَلَوْاَنَّ أَهْلَ الْكِتَبِ امَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَرْنَا عَنْهُمْ سَيَاتِهِمْ وَلَاَدْ خَلَتْهُمْ جَنَّتِ النَّعِيمِ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرية وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِّن رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ مِنْهُمْ أُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ ) (المائده (۲۲ - ۱۷) دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو سب سے زیادہ دوسرے مذاہب کے لئے حوصلہ دکھاتا ہے اور سب سے زیادہ دوسرے مذاہب کی طرف سے سب وشتم کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس پہلو سے یہ دنیا کا مظلوم ترین مذہب ہے.جہاں تک غیروں کا تعلق ہے ان سے بالعموم خیر کی توقع نہیں رکھی جاتی اس لئے اسلام کے خلاف اگر غیر مذاہب کی طرف سے غلط پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے،غلط الزام لگائے جاتے ہیں، اس کی بھیانک تصویر کھینچی جاتی ہے تو ان کی عداوت کے پیش نظر کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن سب سے زیادہ دکھ، سب سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ خود اہل اسلام کی طرف سے اس معاملہ میں ان کی تائید کی جارہی ہے اور اسلام کی ایک ایسی بھیانک تصویر آج دنیا کے سامنے پیش کی جارہی ہے جس کا اس دین سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے قلب مطہر پر آسمان سے نازل ہوا، آپ کے کردار میں ڈھلا اور ایک حسن کامل کے طور پر اس نے دنیا کے سامنے جلوہ دکھایا.آج آپ جہاں بھی اسلام کا ذکر کرتے ہیں اس کے ساتھ جبر اور تشدد کے ایسے افسانے منسوب ہو چکے ہیں کہ ہر سنے والا سب سے پہلے اسلام کے نام سے چونکتا ہے اور بسا اوقات یہ سوال کرتا ہے کہ کونسا اسلام ہے جو دنیا کے سامنے تم پیش کر رہے ہو، ہے تو یہ جبر ہی مگر جبر کے کن طریقوں کی بات کر رہے ہو، ایران کے جبر کی بات کرتے ہو یا لیبیا کے جبر کی یا سعودی عرب کے جبر کی یا پاکستان کے جبر کی ؟ اس لئے وضاحت کے ساتھ ہمیں بتاؤ کہ تم کس اسلام کی نمائندگی کر رہے ہو؟ بسا اوقات جب مجھے مختلف ممالک کے دوروں میں اخباری نمائندوں سے گفت و شنید کا موقع ملا، ان کے سوالات کے جواب کے لئے میں ان کے سامنے حاضر ہوا تو ایک بھی موقع ایسا نہیں آیا جس میں اس قسم کے سوالات نہیں کئے گئے.بدنصیبی یہی ہے جس کا میں نے پہلے ذکر کیا کہ آج
خطابات طاہر جلد دوم 125 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء خود بہت سے مسلمان علماء اور بہت سی مسلمان حکومتیں اپنے بیان اور اپنے کردار کے ذریعہ دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ اسلام جبر و تشدد کا سب سے بڑا علم بردار ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ اسلام تو حسن کامل ہے.اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو تمام مذاہب میں عظمت حوصلہ اور وسعت حوصلہ کے لحاظ سے غیر معمولی امتیاز اور غیر معمولی شان رکھتا ہے.چنانچہ آج کے افتتاحی خطاب کے لئے مختصر میں نے اس مضمون کو اختیار کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جماعت احمدیہ کو یہ پس منظر بتا کر اس کی روشنی میں ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں.سب سے پہلی بات جو قرآن کریم کی تعلیم سے متعلق غیر معمولی امتیاز کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کی جانی چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ ایک ہی مذہب ہے اور بلاشبہ ایک ہی مذہب ہے جس کی الہی کتاب نے دیگر مذاہب کا عزت اور احترام کے ساتھ ذکر کیا ہے اور جب میں یہ کہتا ہوں تو تمام دنیا کی ان کتابوں پر نظر رکھ کر کہتا ہوں جو الہی کتب کے نام سے آج دنیا کے سامنے پیش کی جارہی ہیں.بلا امتیاز ، بلاشبہ ایک بھی ایسی الہی مذہبی کتاب نہیں جسے اس مذہب کے ماننے والے اپنی الہی کتاب کے طور پر پیش کرتے ہوں، الہی کلام کے طور پر پیش کرتے ہوں اور اس کتاب میں دیگر مذاہب کا عزت اور احترام کے ساتھ ذکر موجود ہو.سب سے پہلی بات جو ان مذاہب کے مطالعہ سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اکثر کتب اس رنگ میں صداقت کو پیش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں کہ گویا اس صداقت کے سوا جو اس مخصوص قوم کے اوپر نازل کی گئی تمام دنیا میں کلیۂ اندھیرا ہی اندھیرا ہے، کوئی ایک بھی روشنی کی کرن اس کے سوا انسان کے لئے کبھی آسمان سے اتاری نہیں گئی اور اس مذہب کے سوا باقی ہر طرف دجل اور فتنہ و فساداور شیطانی ہے اور اگر ہدایت ہے تو صرف وہی جو اس مذہب کی الہی کتاب میں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی جارہی ہے.ذکر ملتا ہے تو تشدد کے ساتھ ، ذکر ملتا ہے تو شدید نفرت کے ساتھ ، یا پھر ذکر ہی نہیں ملتا.قرآن کریم اس کے برعکس سب سے پہلے یہ عظیم الشان ہمہ گیر نظریہ پیش فرماتا ہے اور اس میں غیر معمولی امتیازی شان رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کے ہر حصہ میں ہر قوم کے لئے نذیر اور بشیر بھیجے اور مومن کے لئے اس کے ایمان میں یہ شرط لازم قرار دیتا ہے کہ وہ منجملہ تمام انبیاء پر ایمان لائے اور دیگر تمام مذاہب کے بزرگوں کی عزت اور احترام کرے.صرف یہی نہیں بلکہ جھوٹے خداؤں کا بھی عزت اور احترام کے ساتھ ذکر کرنا اسلام لازم قرار دیتا ہے یعنی اس حد تک کہ ان کے
خطابات طاہر جلد دوم 126 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء خلاف سب وشتم سے کام نہ لیا جائے.چنانچہ فرمایا.وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدْوا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذلِكَ زَيَّنَا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّتُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام:١٠٩) یعنی اے مسلمانو ! تم سب وشتم کے لئے نہیں نکالے گئے ، جھوٹے خداؤں کو بھی گالیاں نہ دو، ان کو بھی سخت الفاظ سے یاد نہ کرو کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا اور دشمن نے اشتعال کے نتیجہ میں خدائے واحد کو گالیاں دیں تو اس میں تم ذمہ دار ہو جاؤ گے ان کے جھوٹے خداؤں کو گالیاں دے کر اگر ایک سچے خدا کو گالیاں دینے کے لئے تم نے انکے ہاتھوں میں بہانہ دیا تو تم اس ذمہ داری سے بری الذمہ قرار نہیں دیئے جاسکتے.ایک تو یہ اصول بیان فرمایا.پھر ایک دوسرا نہایت ہی حسین اصول یہ بیان فرمایا کہ تم اپنے مذہب کو جس زاویہ نگاہ سے دیکھ رہے ہو تمہیں یہ حسین دکھائی دے رہا ہے کیوں اس بات کو بھول جاتے ہو کہ ہر مذہب کی پیروی کرنے والا اسی طرح تمہاری ہی مانند اپنے مذہب کو حسین دیکھ رہا ہے.گذلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ہم نے تو ہر امت کو ایسا بنایا ہے کہ وہ اپنے اعمال کو، اپنے تصورات کو حسین دیکھ رہے ہیں.اس بات کا فیصلہ کہ سچا کون تھا اور جھوٹا کون ہے قیامت کے دن ہو گا جب خدا تعالیٰ ان اعمال کا جائزہ لے گا اور ان اہل مذاہب کے سامنے اس بات کو کھولے گا کہ کس کے عمل کی کیا حیثیت تھی؟ تو یہ دو بنیادی ایسے اصول ہیں جو آج کی دنیا میں ، خصوصاًمذہب کی دنیا میں امن کی ضمانت ہیں اگر آج سے چودہ سو سال پہلے ان اصولوں کی پیروی کی ضرورت تھی تو آج بدر جہا زیادہ مرتبہ زیادہ شدت کے ساتھ ان اصولوں کی پیروی کی ضرورت ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ محض اسلام ہی کو بدنام نہیں کیا جا تا بلکہ بعض دوسرے مذاہب بھی اس فہرست میں شامل کئے جارہے ہیں کہ وہ بھی نفرت اور دشمنی کی تعلیم دینے والے ہیں.دیگر مذاہب کی طرف سے جو دوش اسلام پر لگایا جاتا ہے، دہر یہ لوگوں کی طرف سے وہی الزام تمام دیگر مذاہب پر عائد کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں دہریت پھیلتی ہے اس کے نتیجہ میں مذہب سے نفرت بڑھتی چلی جاتی ہے.پس آپ جب اسلام کی خدمت کرتے ہیں اور اسلام کے متعلق اس قسم کی اہم بنیادی غلط فہمیوں کو دور کرتے ہیں تو فی الحقیقت آپ
خطابات طاہر جلد دوم 127 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء تمام مذاہب کی خدمت کرنے والے ہیں اور خدا پر بچے ایمان اور اعتقاد کی حفاظت کرنے والے ہیں.قرآن کریم اس سے آگے بڑھتا ہے اور حیرت انگیز و عظیم الشان حوصلے کا مظاہرہ فرماتا ہے، فرمایا: اِنَّ الَّذِينَ امَنُوا وَ الَّذِينَ هَادُوا وَ النَّصْرِى وَالصَّبِينَ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقره:٦٣) کہ دیکھو وہ لوگ جو ایمان لائے، یعنی حضرت محمد مصطفی علی کے دعاوی پر ایمان لانے والے وَالَّذِينَ هَادُوا اور ان کے علاوہ وہ لوگ بھی جو یہودی کہلاتے ہیں و النصری اور نصاری یعنی عيسائى والطببین اور ایسے تمام دیگر مذاہب کے ماننے والے اور وہ لوگ جو کسی نہ کسی الہی کتاب کی طرف منسوب ہوتے ہیں.صابی عرب میں ان مذاہب کو کہا جاتا تھا جو معروف اہل کتاب کے علاوہ دیگر کتب کی طرف منسوب ہوتے تھے.فرمایا مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ان میں سے جو بھی حقیقتاً کامل سچائی کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ اللہ پر ایمان لاتا ہے اور یوم آخر پر ایمان لاتا ہے، نیک اعمال بجالاتا ہے فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ان کا اجر ان کے رب پر ہے وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ان پر کوئی خوف نہیں ہے اور انہیں غم کرنے کی کوئی وجہ نہیں.س تفصیلی بحث میں میں یہاں نہیں پڑتا کہ اس مضمون کا اس دوسری آیت کے مضمون سے کیا تعلق ہے کہ اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَاهُ (آل عمران: ۲۰) کہ دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے.اس مضمون پر میں اس سے پہلے جلسہ سالانہ ہی کی ایک گزشتہ تقریر میں تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں.میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا کی کسی کتاب میں اس مضمون کی آپ کو کوئی آیت دکھائی نہیں دے گی جہاں یہ بتایا گیا ہو کہ اگر تم اپنے ایمان میں خالص ہو اور حقیقتاً خدا پر ایمان لانے والے ہو اور اپنے تصور کے مطابق عمل صالح بجالانے والے ہو اور حساب کے قائل ہو، جانتے ہو کہ ایک دن آخرت کے روز تم خدا کے حضور پیش کئے جاؤ گے اور اس Accountability principle یعنی جواب طلبی کے اصول پر تم اپنے اعمال کی نگرانی کرتے ہو تو تمہاری کوئی نیکی ضائع نہیں جائے گی.اس سارے مضمون میں کسی مذہب کا کوئی نام نہیں لیا گیا.صاف معلوم ہوتا کہ یہ ایک عام وسیع تر انسانی اصول ہے جس کے اوپر تمام دنیا کے انسان پر کھے
خطابات طاہر جلد دوم 128 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء جائیں گے.یہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 63 تھی جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی.اسی طرح سورۃ المائدہ آیت 70 میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے اور دیگر بعض آیات میں بھی اسی مضمون پر مختلف رنگ میں روشنی ڈالی گئی ہے.جس آیت کی میں نے تقریر کے آغاز میں تلاوت کی تھی اس میں اس مضمون کو اور کھول دیا گیا ہے فرمایا وَلَوْاَنَّ اَهْلَ الْكِتَبِ امَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيَّاتِهِمْ وَلَقَدْ خَلَتْهُمْ جَنَّتِ النَّعِيمِ (المائده (۲۶) کہ اسلام کی ضرورت سے تو کوئی مفر نہیں ،کوئی انکار نہیں کر سکتا، کاش ایسا ہوتا کہ اہل کتاب بھی ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے ، ایسا کرتے تو ہم ضمانت دیتے ہیں کہ ہم ان کی برائیاں ان سے دور کر دیتے اور لازماً ان کو جَنَّتِ النَّعِيمِ عطا فرماتے لیکن ایسا نہ کرنے والوں میں بھی جومخلصین ہیں، جو اپنے اعمال میں سچے ہیں ان کے متعلق فرمایا وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَيةَ وَالْإِنجِيلَ جب تک تم اسلام کی توفیق نہیں پاتے کم از کم تم اپنی سچائی تو ثابت کرو اگر تم سچے ہو تو تم پر فرض ہے کہ جس تو رات پر تم ایمان لاتے ہوا سے قائم کر کے دکھاؤ اور جس انجیل پر تم ایمان لاتے ہوا سے قائم کر کے دکھاؤ اور جو اُن پر تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے، اس پر عمل کر کے دکھاؤ لَا كَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ يه غائب میں بات ہورہی ہے اگر چہ میں ترجمہ تخاطب کے رنگ میں کر رہا ہوں.درست ترجمہ یہ ہوگا وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَيةَ وَالْإِنجِيلَ اگر ایسا ہوتا کہ تو رات کو قائم کرتے ، انجیل پر عمل کر کے دکھاتے ، اسے قائم کرتے جو کچھ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے رب نے ان پر اتارا ہے اس پر عمل کرتے لَاكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمُ اللہ تعالیٰ کم سے کم دنیا میں ان پر اتنے فضل فرما تا کہ یہ اپنے اوپر سے بھی کھاتے اور نیچے سے بھی کھاتے یعنی ان کو رزق کی فراخی عطا کی جاتی.مِنْهُمُ أُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ اگر چه اکثران میں سے بداعمال کا شکار ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود بحیثیت قوم ان کو کلیۂ رد کرنے کا حق نہیں مِنْهُمْ أُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ ان میں آج بھی ایسی امت موجود ہے، ایسی قوم موجود ہے جو میانہ روی اختیار کرنے والی ہے.پھر ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نیسُوا سَوَاءَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ
خطابات طاہر جلد دوم 129 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء أمَّةٌ قَابِمَةٌ يَتْلُونَ أَيَّتِ اللهِ أَنَاءَ الَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ (آل عمران : ۱۱۴) کہ ان کو ایک پیمانے پر نہیں جانچا جا سکتا.وہ لوگ جو ابھی اسلام لانے کی توفیق نہیں پاسکے ان کو ایک حال پر نہ سمجھو ليسوا سواء ان کا ایک حال نہیں ہے مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ أُمَّةً ان میں سے ایسے لوگ موجود ہیں بعض ایسی جماعتیں موجود ہیں قائم جو اپنی تعلیم پر قائم ہیں يَتْلُونَ أَیتِ الله اناء الیل وہ راتوں کو اٹھ کر خدا تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں وَهُمْ يَسْجُدُونَ اور وہ خدا کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ.پہلی آیات میں فرمایا تھا کہ کاش ایسا ہوتا کہ وہ یہ کرتے یا اگر وہ ایسا کرتے تو ہم ان کو امن کی ضمانت دیتے ہیں.یہاں یہ فرمایا کہ خدا جانتا ہے کہ ان میں ایسے لوگ موجود ہیں يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں.وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ اور نیک باتوں کی نصیحت کرتے ہیں ويَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ اور برے کاموں سے روکتے ہیں وَيُسَارِعُونَ في الْخَيْراتِ اور نیک کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.وَأُولَئِكَ مِنَ الصَّلِحِینَ یقیناً یہ لوگ صالحین میں سے ہیں.وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوهُ اور جو کچھ بھی یہ بھلائی کی باتیں کرتے ہیں ان سے ناشکری کا سلوک نہیں کیا جائے گا.وَاللهُ عَلَيْهُ بِالْمُتَّقِينَ (آل عمران : ۱۱۶) اور اللہ تعالیٰ متقیوں کے حال سے خوب باخبر ہے.اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا مگر اختصار کی وجہ سے میں اب ان کی تفصیلی بحث چھوڑتا ہوں.کہنا یہ مقصود ہے کہ یہ درست ہے کہ جو بھی حضرت اقدس محمد مصطفی سے پر ایمان نہیں لایا اس پر کفر کا ہی فتویٰ لگے گا لیکن کفر کے فتویٰ سے یہ مراد نہیں ہے کہ لاز ماہر وہ شخص جو کسی وجہ سے ایمان لانے سے محروم رہ گیا ہے وہ جہنم کا ایندھن ہے.جب اس رنگ میں تشدد کے ساتھ غیر مذاہب سے بات کی جاتی ہے تو اسلام کے قریب آنے کی بجائے اور بھی زیادہ متنفر ہو جاتے ہیں لیکن جب قرآن کریم کی آیت کی روشنی میں آپ ان سے گفتگو کریں، ان کو بتائیں کہ اللہ تعالی نے آنحضرت ﷺ پر جو تعلیم نازل فرمائی اس کے عالمگیر ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تمام دنیا کے مذاہب کی دلداری کرنے والی تعلیم ہے اور دلداری میں اصولوں کو قربان کرنے والی نہیں بلکہ بڑی وضاحت کے ساتھ حقائق
خطابات طاہر جلد دوم 130 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء پر مبنی بات کرتی ہے اور بتا رہی ہے کہ اگر چہ ایمان لانا بہر حال بہتر ہے لیکن اگر لاعلمی میں اور غفلت کی حالت میں، بغاوت کی وجہ سے نہیں یا پیغام نہ پہنچنے کی وجہ سے تم ایمان سے محروم ہو تو خدا تعالیٰ تمہیں تمہاری سچائی کے پیمانوں سے ناپے گا.اگر تم اپنے ایمان میں بچے ہو تو پھر جس تعلیم کوتم الہی تعلیم سمجھتے ہو اس پر دیانت داری سے عمل کر کے دکھاؤ اور جو بھی تقویٰ کے اس معیار پر پورا اتر تا ہو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب بھی صحیح رنگ میں اسلام کا پیغام اس کو پہنچے گا وہ لازما اسلام کو قبول کرے گا کیونکہ عمل صالح اور صداقت کا انکار بیک وقت اکٹھے نہیں ہو سکتے.جو بھی تقویٰ کے ساتھ ایک صداقت کو صداقت سمجھتے ہوئے قبول کر لیتا ہے اور دیانت داری سے اس پر عمل کرتا ہے جب اس کے سامنے ایک بہتر رنگ میں اعلی درجہ کی روحانی تعلیم پیش کی جاتی ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اس کا انکار کرے.پس پہلے تو ان قوموں تک اسلام کا صحیح تصور پیش کریں، ان کو سمجھائیں کہ اسلام دنیا کے مذاہب سے کیا سلوک کرتا ہے، کس رنگ میں دیگر مذاہب کی گفتگو کرتا ہے اور تمہیں کیا نصیحت کرتا ہے.اس کے بعد اس محفوظ مقام پر ان کو قائم کر دینے کے بعد جب آپ اسلام کی گفتگو ان سے کریں گے تو چونکہ پہلا پیغام ان کو یہ ہوگا کہ تقویٰ اور صداقت سے چمٹے رہو اس لئے آپ کی بہت سی مشکلات گفتگو کے دوران اسی بناء پر حل ہو جائیں گی کہ بار بار ان کا ذہن صداقت کی ہی طرف مائل ہوگا اور ضد کر کے جب بھی وہ آپ کی بات کے انکار کرنے کی کوشش کریں گے تو قرآن کریم کی اس ضمانت سے خود بخود باہر نکل جائیں گے لیکن صرف قومی لحاظ سے نہیں، قرآن کریم انفرادی لحاظ سے بھی اس مضمون کو اٹھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ بڑے بڑے شریف النفس لوگ ان میں موجود ہیں، ایسے لوگ ان میں موجود ہیں جو خدا کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، ان کے وجود پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.پاکباز لوگ بھی ان میں موجود ہیں اس لئے تمام غیر قوموں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا اور یہ کہنا کہ تم سب جہنم کا ایندھن ہو اور زبردستی تمہیں مسلمان بنانے پر ہم مامور کئے گئے ہیں اور مجاز بنائے گئے ہیں.یہ ہرگز اسلام کی تعلیم نہیں، اسلام کی تعلیم کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں.تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں خوبی کو دیکھو وہاں خوبی کو تسلیم کرو.جہاں برائی کو دیکھو وہاں برائی کی طرف اشارہ کرو اور اس سے اغماض نہ کرو.چنانچہ جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں یہی مضمون بڑے کھلے کھلے الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے.برے بھی ہیں اور بدقسمتی سے اکثر برے ہیں لیکن
خطابات طاہر جلد دوم 131 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء جہاں خوبیاں دیکھو وہاں ان خوبیوں کا اقرار کرنا ہوگا.اس اصول کو اگر ہم اچھی طرح سمجھ لیں اور مضبوطی سے اس سے چمٹ جائیں تو مغربی دنیا میں آنے والے اس سے بہت سا فائدہ اٹھا سکتے ہیں.ان قوموں میں کچھ خوبیاں ہیں.ان خوبیوں کو ان سے سیکھیں اور کچھ برائیاں ہیں اور اکثر برائیاں ہیں.ان اکثر برائیوں سے پر ہیز کریں اور اپنا دامن بچا ئیں لیکن برائیوں سے بچتے ہوئے ان کی خوبیوں سے اغماض کر جانا اور ان سے احتراز کر جانا یہ اسلام کی تعلیم نہیں بلکہ شدید نقصان دہ ہے.چنانچہ یہاں آنے والی غیر قوموں کا جب آپ تجزیہ کرتے ہیں تو اکثر بالکل برعکس صورت نظر آ رہی ہے اس صورت سے جو قرآن کریم پیش فرما رہا ہے.وہ منہ سے ان کو گالیاں دیتے ہیں، ہر بات میں مین میخ کرتیہیں اور ہمیشہ مسلسل ان قوموں کے خلاف نفرت کی تعلیم دے رہے ہوتے ہیں.باوجود اس کے کہ ان ملکوں میں رہتے ہیں ان کے انسانی امن کے ماحول سے استفادہ کر رہے ہوتے ہیں، ان کے ان قوانین سے استفادہ کر رہے ہوتے ہیں جو مذہب اور مذہب میں تفریق نہیں کرتے اور ہر انسان کے لئے برابر اطلاق پاتے ہیں.اس کے باوجود مسلسل ان کے خلاف پرو پیگنڈا، ان کو گالیاں دینا ، ان کو جھوٹا کہنا، ہر قسم کی برائیاں ان کی طرف منسوب کرنا.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مشرق کی آزادی کا ایک نشان ہے.ہر بات میں مغرب کو ذلیل قرار دو اور جھوٹا اور غاصب قرار دو یہ اس بات کی علامت ہے کہ مشرق آزاد ہو چکا ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ ان کا عمل ان کی اس بات کو جھٹلا رہا ہوتا ہے اور قرآن کریم سے لاعلمی کے نتیجہ میں وہ دوہرے نقصان میں مبتلا ہور ہے ہوتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کی اکثریت آپ کو ان کے ساتھ رقص وسرود میں بھی مصروف دکھائی دیتی ہے.یہی وہ لوگ ہیں جن کی اکثریت ان کے ساتھ شرابیں پیتی ہے اور جوئے کھیلتی ہے اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ عظیم دولتوں کو بعض دفعہ ایک ایک رات میں اس طرح لٹا دیتی ہے کہ اگر وہ جوئے پر ضائع کی ہوئی رقم غریب قوموں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کی جاتی تو بعض غریب ملکوں کی سال بھر کی روٹی پوری ہو سکتی تھی بعض غریب ملکوں میں عظیم الشان شفا خانے قائم ہو سکتے تھے.پس ایک طرف گالیاں دے کر قرآن کی اس تعلیم کے خلاف بغاوت کرتے ہیں وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوًّا بِغَيْرِ عِلْمٍ كه ان کے فرضی خداؤں کو بھی گالیاں نہ دو اور ایک طرف ان کی برائیوں کو قبول کر لیتے ہیں اور ان کی
خطابات طاہر جلد دوم 132 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء خوبیوں سے دامن بچا جاتے ہیں.ان قوموں میں عام انسانی سطح پر بہتر انصاف دکھائی دیتا ہے اس انصاف کو قبول نہیں کرتے ، عام انسانی سطح پر ان میں بہت زیادہ سچائی پائی جاتی ہے.شاذ کے طور پر آپ کو ان میں ایسا آدمی دکھائی دے گا جو روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ بولنے کا عادی ہو.ہاں جب جرم کرتا ہے اور پکڑے جانے کا خوف ہوتا ہے تو چونکہ تہذیب سطحی ہے اور خدا پر گہرے اعتقاد کے نتیجہ میں یہ سچائی نہیں بلکہ ایک تمدنی سچائی ہے اس لئے اس کے نتیجہ میں وہ ایسے ابتلاء میں پڑ کر نا کام ثابت ہوتے ہیں اور عدالتوں میں یا پولیس کے سامنے یا دیگر معاملات میں جہاں پکڑے جانے کا خوف ہو، اپنی کمپنیوں کے سامنے ہو یا کسی اور جگہ وہ جھوٹ سے کام لینے سے پر ہیز نہیں کرتے لیکن اس پہلو سے بھی اکثر مشرقی ممالک سے ان کا نمونہ بہتر ہے.جتنا جھوٹ بعض مشرقی ممالک میں ایک دن میں بولا جاتا ہے اتنا بعض مغربی ممالک میں ایک سال بھر میں بھی نہیں بولا جاتا اور یہ امر واقعہ ہے.اگر قرآن کریم کی تعلیم پر عمل پیرا ہوں تو مسلمانوں کے لئے کھلم کھلا ایک لائحہ عمل یہ تھا کہ اپنی زبان کو بد اخلاقی سے بچاؤ سب وشتم سے محفوظ رکھو، ان کے ساتھ گفتگو میں متانت اختیار کرو، شرافت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو.یاد رکھو کہ ان میں بہت سی برائیاں ہیں ان برائیوں سے پر ہیز کرو، ان میں مبتلا نہ ہو اور یا درکھو کہ ان میں بعض خوبیاں بھی ہیں، بعض نہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان میں خوبیاں بھی ہیں مگر ان میں سے تھوڑے لوگ ہیں جو ان خوبیوں پر قائم ہیں ان خوبیوں سے تم نے قطع تعلق نہیں کرنا بلکہ وہ خوبیاں خود تمہاری اپنی ملکیت ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جن کا تمام تر کلام وحی الہی پر مبنی تھا اور ایک ذرہ بھی آپ کے کلام کا ایسا نہیں تھا جو نفس کے سرچشمہ سے پھوٹا ہو.آپ نے فرمایا الحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِن ( ترندی کتاب العلم حدیث نمبر : ۲۶۱) حکمت کی بات ، اچھا کلام مومن کی گم شدہ اونٹنی کی طرح ہے وہ اسے بے تکلف اس طرح سے قبول کرے جیسے کہ وہ اس کی اپنی ہی چیز تھی جو گم ہو چکی تھی.تو وہ اخلاق حسنہ جن کو قرآن کریم پیش فرماتا ہے، جن کو حضرت اقدس مد مصطفی اللہ نے ایک حسین صورت کی شکل میں ڈھالا وہ اخلاق آپ کو جہاں بھی غیر قوموں میں دکھائی دیتے ہیں ان کو اپنا نا آپ کا فرض ہے، ان کو تسلیم کرنا آپ کا فرض ہے اور جس حد تک آپ کو توفیق ہے ان کو اختیار کرنا آپ کے لئے ضروری ہے.برائی سے دامن بچا کے چلیں اور خوبیوں کو اپناتے چلے جائیں اور پھر نیکیوں کی تعلیم دیں اور برائیوں سے روکیں.
خطابات طاہر جلد دوم 133 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء ان آیات میں اس مضمون کو بھی بار بار بیان فرمایا گیا ہے.مومنوں کے متعلق تو یہ فرمایا کہ وہ سارے کے سارے گویا اس بات کے لئے وقف ہو چکے ہیں کہ وہ نیک کاموں کی نصیحت کرتے چلے جاتے ہیں اور برائیوں سے روکتے چلے جاتے ہیں لیکن یہ خوبی صرف انہی میں نہیں غیروں میں بھی ہے.ان میں بھی بعض لوگ ایسے ہیں جو ان کاموں کے لئے وقف ہیں.چنانچہ اگر چہ یہاں بہت سی اخلاقی خرابیاں ہیں لیکن آپ دیکھیں گے کہ خودان میں بہت سے شریف النفس ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں اخلاقی خرابیوں کے خلاف پر چار کرنے کے لئے.ایسی ایسوسی ایشنز (Associations) قائم کی ہوئی ہیں جن کو وہ اپنے خرچ سے چلاتے ہیں اور ہر طرح سے پروپیگنڈا کر کے نصیحت کر کے اپنی قوم کو برائیوں سے باز رہنے کی تلقین کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر نیکیوں کی تعلیم دینے والے ہیں.یہ شیوہ قرآن کریم کے مطابق سب سے زیادہ ، اتم طور پر ، سب سے زیادہ کامل طور پر مسلمان میں ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے اس پہلو سے بھی بہت سے مسلمان آج محروم دکھائی دے رہے ہیں.برائی دیکھتے ہیں تو ان کے دو قسم کے رد عمل ہیں.اگر وہ طاقت میں ہوں اور حکومت ان کو حاصل ہو تو تلوار کے زور سے اور تشدد کے ساتھ اس برائی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.حالانکہ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ میں تو تشدد کا کوئی اشارہ بھی موجود نہیں اور يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ کے کلام پر جبر کا کوئی بھی سایہ نہیں اس لئے ایسے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ جہاں جبر کے ذرائع ہاتھ میں نہ ہوں وہاں برائی کے معاملہ میں آنکھیں بند کر لیتے ہیں.پاک کلام کے ذریعہ اور دردمند نصیحت کے ذریعہ لوگوں کی اصلاح کی کوشش نہیں کرتے اور یہی حال اکثر ان لوگوں کا ہے جو اسلام ہی نہیں بلکہ مشرق کے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے مغربی قوموں میں آکر آباد ہوئے ہیں.یہ جلسہ چونکہ زیادہ تر اہل یورپ سے تعلق رکھنے والوں کا جلسہ ہے اس لئے ان کو میں بطور خاص یہ نصیحت کرتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جہادان پر فرض ہے.اس کے لئے اس بات کا انتظار ضروری نہیں کہ پہلے کوئی اسلام قبول کرے پھر آپ یہ کام شروع کریں.سوسائٹی میں ہر طرف نیک بات کی نصیحت کرنی شروع کریں، برائیوں سے روکنے لگیں اور وہ لوگ جو ان کاموں میں پہلے ہی منسلک ہیں ان کے ساتھ تعاون کریں کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے
خطابات طاہر جلد دوم 134 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوَى (المائدہ : ۳) تم اس کام کے لئے پیدا کئے گئے ہو کہ ہر نیک کام میں تعاون کرو، ہر تقویٰ کی بات کو تقویت دینے کی کوشش کرو.اس لئے ایسی (Association) جہاں جہاں بھی یورپ میں موجود ہیں جو غریبوں کی ہمدردی میں ہوں یا معاشرتی اور اخلاقی برائیوں سے لوگوں کو روکنے کے لئے ہوں احمد یہ جماعت کے جتنے افراد کے لئے ممکن ہو ان کا ممبر بننا چاہئے ، ان کو اسلامی تعلیم سے آگاہ کرنا چاہئے ، ان کے ساتھ مل کر ان کا ہاتھ بٹانا چاہئے اور پھر اس آیت پر نظر رکھنی چاہئے کہ تم دنیا میں صرف تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ کیلئے پیدا نہیں کئے گئے.وَلِكُل وَجَهَةً هُوَ مُوَ لَيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ (البقرۃ:۱۴۹) ہر قوم کے لئے ہم نے ایک وِجْهَةً بنایا، ایک نصب العین بنایا ہے.تمہارا نصب العین یہ ہے کہ صرف نیکیوں میں تعاون نہ کرو بلکہ تمام نیکیوں میں ہر دوسرے شخص سے آگے بڑھ جاؤ.یہ تمہارا نصب العین ہے اس کی پیروی کرنا تمہارا فرض ہے.پس صرف شامل نہ ہوں بلکہ اس طرح دل و جان سے شامل ہوں ، اس طرح بچے خلوص کے ساتھ ان کے کام میں ان کا ہاتھ بٹائیں اور ان کو نئی نئی اچھی راہیں دکھائیں کہ پھر آپ ان کی صف اول میں شمار ہوں، ان کے رہنما بن جائیں، ان کے آگے آگے چلنے والے ہوں تب آپ اسلام کے احکامات کو صحیح معنوں میں سمجھنے والے اور ان پر دیانت داری سے عمل کرنے والے ثابت ہوں گے.جہاں تک پاکستان کے احمدیوں کا تعلق ہے ان پر بھی ان سب باتوں کا اطلاق اسی طرح ہوتا ہے اور جتنا کل ہوتا تھا اس سے بہت زیادہ آج ہوتا ہے کیونکہ جس تیزی کے ساتھ پاکستان کا معاشرہ برائیوں کی نذر ہو رہا ہے بہت کم قوموں کے حالات میں آپ کو اس رفتار کے ساتھ ہلاکت کی طرف بڑھتی ہوئی تو میں دکھائی دیں گی.کوئی زندگی کا شعبہ باقی نہیں جو تیزی کے ساتھ انحطاط پذیرنہ ہو چونکہ آپ کو نفرتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اس لئے مجھے خطرہ ہے کہ آپ کہیں یہ رد عمل نہ دکھا ئیں کہ اچھا تم نے ہم سے برا سلوک کیا اس لئے جو کچھ تم سے ہوتا ہے ہم ایک طرف بیٹھ کر تماشا دیکھیں صلى الله گے.آنحضرت ماہ کے اس انتباہ کو ہمیشہ یادرکھیں کہ جو قو میں ایسے موقعوں پر تماشا دیکھنے کے لئے بیٹھ رہتی ہیں وہ بھی ہمیشہ غرق ہوتی ہیں اور برائی کرنے والی قوموں کے ساتھ ڈوب جایا کرتی ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے تمثیلات بیان کر کے اس بات کو خوب کھول دیا کہ ایسے وقت میں
خطابات طاہر جلد دوم 135 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء جبکہ کوئی قوم برائیوں میں مبتلا ہو کچھ ایسے لوگ جو برائیوں میں تو مبتلا نہیں ان کو دیکھ رہے ہوں ان کو نصیحت کر کے روکنے کی کوشش نہ کریں، جب ان کی غرقابی کا وقت آتا ہے تو وہ بھی ان کے ساتھ غرق ہوا کرتے ہیں.اس لئے جماعت احمد یہ اس پہلو سے اگر خاموشی دکھائے گی اور بے حسی کا ثبوت دے گی تو اس کے امن کی کوئی ضمانت نہیں کیونکہ جس کے امن کی خدا کا کلام ضمانت نہیں دیتا، جس صلى الله کے امن کی محمدرسول اللہ ﷺ کا کلام ضمانت نہیں دیتا میں کون ہوں جو اس کی ضمانت دے سکوں.اس لئے آپ بڑی توجہ کے ساتھ اس کام پر مستعد ہو جائیں اور اس بات سے قطع نظر کہ دنیا آپ کو کیا کہتی ہے اور کیا مجھتی ہے آپ باہر نکلیں اور لوگوں کو ان کی برائیوں سے روکیں اور ان کو سمجھائیں کہ قوم بڑی تیزی سے ہلاکت کی طرف بڑھ رہی ہے تم ہمیں جو چاہو سمجھو لیکن خدا کے لئے اپنی تو فکر کرو، اپنی آئندہ نسلوں کی تو فکر کرو، اس ملک کی تو فکر کرو جسے بڑی چاہتوں کے ساتھ بڑے لمبے قربانی کے دور سے گزر کر مسلمانوں نے کلمہ توحید کے نام پر حاصل کیا.پس نصیحت کریں ، ان کی مدد کریں مظلوم کی مدد کے لئے آگے بڑھیں.ہمارے احمدی وکلاء کو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس دور میں مظلوموں کی مدد کی اتنی عظیم الشان توفیق ملی ہے کہ بلاشبہ میں کہہ سکتا ہوں کہ ساری دنیا کے وکلا مل کر بھی ایک سال میں اتنی خدمت کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتے جتنی جماعت احمدیہ کے پاکستان کے وکلاء کو ایک ایک دن میں خدمت کی توفیق ملتی وہ اس خدمت کو احمد یوں تک محدود نہ کریں.میں جانتا ہوں کہ ان کا رزق ان کے پیشہ سے وابستہ ہے مگر اس کے باوجود اگر وَمِمَّارَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرہ:۴۰) کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے وہ اللہ بعض دوسرے غریبوں تک بھی اپنا فیض پہنچانے کی کوشش کریں، جن کو ویسے بھی غریبوں سے فیس نہیں مل سکتی.ہزار ہا ایسے غریب ہیں بیچارے جو ظلموں کی چکی میں پسے جارہے ہیں اور غربت کی وجہ سے وہ وکلاء کوفیں نہیں دے سکتے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں.وکیل سے ابتدائی مشورہ تک کے لئے بھی ان کے پاس پیسے نہیں.ایسے غرباء اگر آپ کے علم میں آئیں، آپ خدا کی خاطر اگر کچھ وقت ان کی خاطر بھی قربان کریں یعنی احمدیت کے علاوہ بھی احمدیت کے رشتے کے لحاظ سے تو آپ نے بہت ہی عظیم الشان کردار کا نمونہ دکھایا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی اگر ان کی تائید کریں ظلم کے خلاف ان کی مدد کریں تو میں یقین کے ساتھ آپ سے کہہ سکتا ہوں کہ اللہ آپ کے رزق کو مزید زیادہ کشادہ کر دے گا اور اس
خطابات طاہر جلد دوم 136 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء قربانی کے نتیجے میں آپ کے رزق پر کوئی زدنہیں آئے گی.پس پاکستان کے احمدیوں کے لئے جیسا کہ پہلے ضروری تھا آج بھی ضروری ہے بلکہ بہت بڑھ کر ضروری ہے کہ اپنے ان بھائیوں سے بھی حسن سلوک کریں جنہوں نے ظلم کے وقت آپ کے تماشے دیکھے اور آپ کی مدد نہیں کی اور وہ جنہوں نے تماشے دیکھے اور مدد کے لئے کوشش کی ان کا تو آپ پر دہر احق ہے هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْاِحْسَانُ (الرحمن: ۶۱) ان کی اس نیکی کو نہ بھولیں اور ان سے پہلے سے بہت بڑھ کر احسان کا معاملہ کرنے کی کوشش کریں اور اپنی گفتگو میں ان لوگوں کو جو احمدیت سے باہر ہیں سخت الفاظ سے یاد نہ کیا کریں.قرآن کریم ان لوگوں کو جو اسلام سے باہر ہیں سخت الفاظ سے یاد نہیں کرتا سوائے اس کے کہ ان لوگوں کا ذکر علیحدہ کرتا ہے جو بدیوں میں مبتلا ہیں.اس کے باوجود ان میں سے پاک نفس لوگوں کا الگ ذکر فرماتا ہے ان کی خوبیوں کا اقرار کرتا ہے.اگر کوئی احمدی من حیث الجماعت ہر اس فرقے اور ہر اس جماعت کو رد کرنا شروع کر دے جس کا احمدیت سے تعلق پیدا نہیں ہو سکا اور ان کے ہر فرد کو نعوذ بالله من ذلك جہنمی قرار دینا شروع کر دے تو یہ قرآن کریم کی تعلیم کے سراسر منافی بات ہوگی.اپنے دلوں کے حوصلے قرآن کریم کے مطابق بنائیں ، حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی وسعتیں اپنانے کی کوشش کریں ، تقویٰ اور سچائی کی بات کریں.جہاں کسی میں برائی دیکھیں وہاں برائی کا ذکر اس رنگ میں کریں کہ چڑانے کی بجائے اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہو.جہاں کسی خوبی کو دیکھیں وہاں اس خوبی کا اقرار کریں.بہت شریف النفس لوگ ان میں موجود ہیں جہاں تک میرا مطالعہ ہے بہت بڑی تعداد شرفاء کی ایسی موجود ہے جو بات محسوس کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے دور جا پڑے ہیں اس لئے خاموش ہو گئے ہیں.ہم جو کہتے ہیں کہ شرافت گونگی ہوتی ہے تو اس سے یہی مراد ہے کہ قوموں پر بد قسمتی سے ایسے وقت آتے ہیں کہ شریف النفس لوگ اپنے دلی جذبات کا کھل کر اقرار نہیں کر سکتے ، کھل کر اظہار نہیں کر سکتے ، نہ ناپسندیدگی کے اظہار کے لائق رہتے ہیں نہ پسندیدگی کے اظہار کے قابل رہتے ہیں.وہ یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ ہوا کس طرف کی چل رہی ہے اس طرف کی بات کر دیں لیکن اندرونی طور پر ان میں شرافتیں موجود ہیں اور ابھی زندہ ہیں.جہاں شرافتیں ڈوب رہی ہوں جہاں شرافتوں کو خطرہ لاحق ہوا نہیں کرید کر ان کی تلاش کر کے انہیں اجاگر کرنا ، انہیں زندہ کرنا، ان
خطابات طاہر جلد دوم 137 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۷ء کے شعلوں کو اٹھانا پہلے سے بہت زیادہ ضروری ہو جایا کرتا ہے.کیا آپ نے کبھی ایسے غریب کے گھر کو نہیں دیکھا جس کے پاس ماچس کی تیلیاں نہیں ہوتیں وہ راکھ میں انگاروں کو سمیٹ کر رکھتا ہے اور باہر سے آنے والا بسا اوقات یہ سمجھتا ہے کہ اس غریب کا چولہا ٹھنڈا پڑ گیا ہے لیکن جب ضرورت پڑتی ہے تو اسی راکھ کو کریدتا، اس کے انگاروں کو پھونکیں مارتا اور ان سے ایک نئی آگ روشن کر لیا کرتا ہے.خدا کی قسم محمدمصطفی ﷺ کی امت میں شرافت کے انگارے اس سے بہت زیادہ قوت کے ساتھ موجود ہیں اور خدا کی قسم آپ کے تقویٰ کی پھونکیں ان انگاروں کو شعلہ ہائے نور میں تبدیل کر دیں گی اس لئے ہرگز مایوس نہ ہوں.آپ کی قوم، آپ کی وطن کی محبت کے تقاضے تو الگ رہے محمد مصطفی امی ہے کے دین کے تقاضے آپ کو ان نیکیوں کی طرف بلا رہے ہیں لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھیں.اب ہم افتتاحی دعا میں شریک ہو جاتے ہیں ، جس حد تک بھی آپ کا ذہن ان امکانات تک پہنچتا ہے جن میں دعاؤں کی ضرورت ہے ان احتمالات تک پہنچتا ہے جس میں دعاؤں کی ضرورت ہے اپنے تصور کو دوڑائیں اور دعائیں کریں.سب سے اعلیٰ ، سب سے افضل ،سب سے جامع اور مانع دعا سورۃ فاتحہ ہے.اس لئے یہ بھی عادت ڈالیں کہ سورۃ فاتحہ کو بار بار مختلف زاویوں سے الٹ پلٹ کر نئے نئے مطالب اپنی ضرورتوں کے مطابق اس کے سانچے میں ڈھال کر خدا سے اس سورۃ فاتحہ کے ذریعہ دعا کی عادت ڈالیں چونکہ اسی کا نام فاتحہ ہے یعنی اس کا ایک نام فاتحہ ہے اس لئے ہر افتتاح پر اس کا پڑھا جانا ضروری ہے اور ہر افتتاح کے لئے اس سے بہتر اور کامل دعا اور کوئی ہو نہیں سکتی.اس لئے آج ہی اس بات پر عمل شروع کریں.اس سے پہلے بہت سے احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں جانتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ جیسی عظیم الشان دعا اور کوئی نہیں ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن آج خصوصیت کے ساتھ سورۃ فاتحہ کے مطالب میں گھل مل کر اپنی ضرورتیں سورۃ فاتحہ کی کشتی میں سجا کر اپنے رب کے حضور پیش کریں.
خطابات طاہر جلد دوم 139 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۸ء مباھلہ کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والے عظیم الشان نشانات کا تذکرہ، اسلم قریشی کی بازیابی اور مخالفین پر مباہلہ کی پہلی مار (افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۲ / جولائی ۱۹۸۸ء بمقام اسلام آباد لفورڈ برطانیہ ) افتتاحی خطاب سے قبل حضور نے مکرم بکر عبید صاحب کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا:.تنزانیہ کے ایک بہت ہر دل عزیز سیاسی راہنما جو بہت چھوٹی عمر میں ترقی کرتے ہوئے وہاں کی حکومت میں بہت بلند مناصب پر فائز ہوئے اور افسوس ہے اُس قوم کی بدقسمتی ہے کہ چھوٹی عمر میں ہی ایک سازش کے نتیجے میں ان کو زہر دے دیا گیا اور وہ بہت چھوٹی عمر میں وفات پاگئے ساری قوم آج تک ان کو یاد کرتی ہے اور ان کی کمی کو محسوس کرتی ہے.وہ ایک بہت مخلص احمدی تھے اور بہت عاجز، منکسر مزاج احمدی تھے.ان کے صاحبزادے بکر عبید نے زندگی وقف کی ہوئی ہے اور آج کل جامعہ احمد یہ ربوہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں.انہوں نے ایک دفعہ مجھے ایک کیسٹ بھجوائی.حضرت مسیح موعود کی اردو نظمیں اس میں پڑھی ہوئی تھیں.ایک افریقن کی زبان سے ایسی شستہ اردو میں اس طرح اپنا دل ڈال کر حضرت مسیح موعود کا کلام سنا تو میرے دل پر بڑا گہرا اثر ہوا.چنانچہ آج میں نے ان سے کہا ہوا ہے کیونکہ وہ تشریف لائے ہوئے ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام سے وہ نظم پڑھ کے سنائیں چنانچہ حضور کے ارشاد پر مکرم بکر عبید صاحب نے حسب ذیل نظم پڑھ کر سنائی :.خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے.(در نمین:۳)
خطابات طاہر جلد دوم 140 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۸ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.یوں کے کی جماعت کا یہ پانچواں جلسہ سالانہ ہے جس میں میں اور آپ شرکت کی توفیق پار ہے ہیں.جلسہ کے دوران اپنی دعاؤں میں اس دعا کو بھی شامل رکھیں کہ بار بار مجھے اس نہایت پیاری اور انصار کی روح رکھنے والی جماعت میں آنے کی توفیق ملتی رہے مگر میرا آئندہ جلسہ مرکز احمدیت ربوہ میں ہو اور وہ ہزار ہالکھوکھہا احمدی جو اس جلسے میں شرکت کی بے قرار تمنار کھتے ہیں جس میں میں شامل ہوتا ہوں لیکن اپنی کمائی کے باعث شرکت سے معذور ہیں اور ترستے اور تڑپتے رہتے ہیں، ان کی یہ تمنائیں پوری ہوں اور میری تمنا بھی پوری ہو کہ ان کے چہروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ان سے خطاب کروں.یہ جلسہ احمدیت کی پہلی صدی میں سال کا آخری جلسہ ہے.اس پہلو سے اسے خاص تاریخی اہمیت حاصل ہے لیکن ایک اور پہلو سے بھی یہ جلسہ غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ یہ احمدیت کی صدی کے اس آخری سال کا جلسہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے مجھے اپنے خاص فضل اور نصرت کے ساتھ تمام معاندین احمدیت کو مباھلہ کا چیلنج دینے کی توفیق عطا فرمائی.سب سے پہلا مباھلہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے معاندین سے کیا یا معاندین کو اس کی دعوت دی.اس کے متعلق تو کچھ اختلاف ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ 1892ء دسمبر کو 10 تاریخ کو آپ نے جو مباحصلے کا چیلنج دیا اس کے متعلق یہ وضاحت فرمائی کہ اس مباحصلے پر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور خاص مامور کیا گیا ہوں اور اس مباھلے کے نتیجے میں جو واقعات رونما ہوں گے ان کے متعلق خدا تعالیٰ نے مجھے بکثرت بشارات عطا فرمائی ہیں.اس کے بعد لمبے عرصے تک مباھلوں کا سلسلہ جاری رہا اور پھر بیچ میں ایک لمبے عرصے تک اس پہلو سے منقطع رہا کہ جماعت احمدیہ کے خلفاء کی طرف سے معاندین کو کوئی اجتماعی چیلنج مباھلے کا نہیں دیا گیا یا اگر دیا گیا ہے تو میری یادداشت میں اس وقت نہیں.اس پہلو سے میں نے آج کے افتتاحی خطاب کے لئے اس مباحصلے کو بطور موضوع اختیار کیا ہے.اگر چہ ابھی آغاز ہے اور خصوصیت کے ساتھ یہ بقیہ سال بہت ہی دعاؤں اور ابتہال کا سال ہونا چاہئے.لیکن اللہ تعالی کی یہ شان ہے کہ ابھی اس مباحلے کے چیلنج کو ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ایک حیرت انگیز نشان ظاہر کیا جس نے دشمنوں کو رسوا اور ذلیل کر دیا اور اس قدر بوکھلا دیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس شدت سے ان کے دل پر اس مباھلہ کے پہلے پھل کی چوٹ پڑی ہے.آپ سب جانتے ہیں کہ مباہلے کا یہ پہینچ
خطابات طاہر جلد دوم 141 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء 10 جمعۃ المبارک جون کے مہینے میں دیا گیا لیکن اس مباحلے کی بنیادیں اس سے پہلے دو خطبوں میں قائم کی گئیں یا استوار کی گئیں بلکہ اس سے بھی پہلے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں سورہ آل عمران کا درس دیتے ہوئے میں نے اس مباھلے کے ارادے کا ذکر کیا اور تفصیل سے اس پر روشنی بھی ڈالی لیکن جماعت کو یہ ہدایت دی کہ اس کے نتیجے میں خود لوگوں کو چیلنج دینے کے مجاز نہیں ہیں.میں مناسب وقت میں ازخود ساری جماعت کے سامنے خطبات میں اس موضوع پر روشنی ڈالوں گا.بہر حال، ارجون کا جمعہ ایک تاریخی دن ہے جماعت کی تاریخ میں کہ اس دن با قاعدہ ایک چیلنج دیا گیا جسے چھپوا کر بعد میں مشتہر بھی کیا گیا اور اخبارات میں بھی پاکستان اور پاکستان کے باہر اس کی خبریں شائع ہوئیں.عین ایک مہینے کے بعد 10 جولائی کو وہ شخص پاکستان پہنچ گیا جس کے قتل کا مجھ پر بحیثیت سر براہ جماعت الزام لگایا جاتا تھا اور ساری جماعت کو اس پر متہم کیا جاتا تھا اور کئی قسم کے مظالم کا نشانہ بھی بنایا گیا.وہ کونسے حالات ہیں جن میں وہ اچانک ظاہر ہوا اور کس طرح خدا کی تقدیر اسے گھیر کے لائی.اس میں ایسے بہت سے راز ہیں جو مخفی ہیں لیکن جوں جوں اس سے پردہ اٹھے گا آپ یقین کریں کہ اور بھی زیادہ دشمن کی رسوائی کے سامان مہیا ہوتے رہیں گے جو حالات اس وقت سامنے ہیں ان کو بیان کرنے سے پہلے میں آپ کو یاد دہانی کے طور پر اسلم قریشی صاحب کے متعلق کچھ باتیں بتا تا ہوں جو اخبارات کے حوالوں سے پیش کروں گا تا کہ وہ احمدی احباب خصوصاً وہ احمدی احباب جو بیرون پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں دنیا کے دیگر ممالک سے اور اس مضمون سے آگاہ نہیں ہیں وہ اچھی طرح واقف ہو جائیں کہ ہم کیا بات کر رہے ہیں، اچھی طرح ان کو علم ہو جائے کہ اس مباھلے کی اہمیت کیا ہے اور اس کا پس منظر کیا ہے.1983ء کی بات ہے 20 فروری کو میں کراچی کے سفر سے ربوہ پہنچا تو مجھے ایک عزیز نے کہا کہ آپ کو پتا ہے کہ ایک شخص اسلم قریشی غائب ہے اور اس کے غائب ہونے پر آپ پر قتل کا الزام لگایا جا رہا ہے.میں نے کہا میں تو یہ جانتا ہی نہیں کہ اسلم قریشی ہے کون؟ انہوں نے کہا کہ آپ کو نہیں پتا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب پر قاتلانہ حملہ کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کو بچالیا لیکن بڑی کھلی کھلی قتل عمد کی کوشش تھی اور ایسے مقام پر چھرا گھونپا گیا جہاں دراصل گردوں پر حملہ کرنا مقصود تھا اور اگر گردہ اس وار سے کٹ جاتا تو پھر زندہ رہنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں تھا لیکن اللہ
خطابات طاہر جلد دوم 142 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲ / جولائی ۱۹۸۸ء تعالیٰ نے بچالیا اور بالکل وہ چھرا گر دے کے نزدیک سے خراشتا ہوا گزر گیا اور فوری طور پر طبی امداد بھی میسر آگئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب خدا نے ان کو نئی زندگی عطا کی ہے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ وہ شخص ہے جو اسلام آباد میں کسی زمانے میں ایئر کنڈیشنر زکامکینک ہوا کرتا تھا اور یہ وہی دن ہے جب اس نے حملہ کیا ہے.اس کے بعد یہ نظر سے غائب ہو گیا ہمیں تو کوئی اس کا علم نہیں تھا کہ کہاں گیا اور اس کے ساتھ کیا ہوالیکن بعد ازاں اتنا ضرور معلوم ہوا کہ اس قاتلانہ حملے کے نتیجے میں یہ صاحب اچانک مولانا بن گئے اور مولانا بھی اس پائے کے تحفظ ختم نبوۃ کی مجلس میں اور مجلس احرار میں ان کو بے بدل عاشق رسول کے خطاب دیئے وہ اچانک ایک چاقو کے حملے سے کیسے وہ علم پا گئے اس کا را از تو کسی کو معلوم نہیں لیکن جب مجھ سے بعض دوست ملتے تھے اور ان کی بات آتی تھی تو میں ان سے کہا کرتا تھا کہ اتنے مدارس کا خرچ کیوں برداشت کر رہے ہو چاقو چلانے کی ٹریننگ دو تو علماء پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے.غرضیکہ یہ وہ صاحب ہیں جو اس طرح آنا فانا ایک قتل کی کوشش میں مولا نابن گئے اور پھر جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ مجھے تو کوئی علم نہیں تھا گئے کہاں اور رہتے کہاں تھے؟ لیکن ۲۰ فروری یا ۲۲ / فروری کا دن تھا جب میں واپس آیا ہوں کراچی کے سفر سے اس وقت مجھے پتا لگا.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ با قاعدہ اخبارات میں بھی مہم شروع ہوئی جو دن بدن تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی اور ہر روز شاید ہی کوئی ناغہ ہو کہ یہ مطالبہ اخبارات میں شدت سے نہ آیا ہو کہ مرزا طاہر احمد امام جماعت احمد یہ مولانا اسلم قریشی کا قاتل ہے اس نے اسے اغواء کیا ، اسے قتل کیا اور قوم اس خون کا بدلہ مانگتی ہے اور قوم مطالبہ کرتی ہے کہ اسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے.چنانچہ مسلسل یہ خبریں آتی رہیں اور اس تحریک میں ایک Momentum ایک نئی قوت پیدا ہوتی چلی گئی.یہاں تک کہ پھر معصوم احمدیوں کے گھروں پر حملے ہوئے گلیوں اور سڑکوں پر مولویوں نے اشتعال دلا دلا کر لوگوں کو گھروں سے نکالا ، احمدی عبادت گاہوں پر حملے شروع ہوئے اور ایک پوری مہم جاری ہوئی اسلم قریشی کے نام پر اور بڑی بڑی دعاؤں کی تحریکیں ہوئیں یہاں تک کہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ واضح طور پر حکومت اس تحریک میں ملوث معلوم ہونے لگی.یہ ایک لمبی داستان ہے جو کئی سال پر پھیلی ہوئی ہے لیکن ایک بات تو میں آپ کو یہ بتانی چاہتا ہوں کہ جب میں نے پاکستان سے آنے کا فیصلہ کیا.یعنی ۲۶ / اپریل ۱۹۸۴ء کے آرڈینینس کے
خطابات طاہر جلد دوم 143 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۸ء بعد تو اس وقت تک اس مہم کو چودہ ماہ گزر چکے تھے.۲۶ اپریل کو جب آرڈینینس جاری ہوا ہے تو میں نے آنے کا فیصلہ کیا.بعد میں لوگوں نے الزامات کے ساتھ ایسے حملے بھی کرنے شروع کئے کہ بزدل تھا، قاتل تھا بھاگ گیا اور انٹر پول کے ذریعے بلایا جائے وغیرہ وغیرہ اور جماعت کو بھی بہت طعنے دیئے اور بہت ہی دل آزاری کی باتیں کیں لیکن ظاہر بات ہے کہ جب ۱۴ ماہ تک شدید مطالبوں کے باوجود میں نے ایک ذرے کی بھی پرواہ نہیں کی اور ہرگز اس بات سے گریز نہیں کیا کہ مجھ سے پوچھا جائے اور میں اس کا جواب دوں تو ۱۴ / ماہ کے بعد وہ اچانک کونسا خطرہ پیدا ہوا تھا جو مجھے وہاں سے بھاگنا پڑا.در حقیقت میرے وہاں سے چلے آنے کا کوئی دور کا بھی تعلق اس مولانا کی زندگی سے نہ تھانہ ہے.جب تک وہ ظالمانہ قانون پاکستان میں جاری رہے گا جس سے خلفاء احمدیت اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے سے عاری رہیں گے اس وقت تک میں ہوں یا کوئی اور خلیفہ ہو اس ملک میں داخل نہیں ہوگا.خلیفہ وقت کی ساری دنیا کی ذمہ داریاں ہیں اور وہ کسی ایک جماعت کا خلیفہ نہیں بلکہ ساری جماعت کا خلیفہ ہے اس وقت تک جماعت احمدیہ کا خلیفہ 117 ممالک کے انسانوں کا خلیفہ بن چکا ہے یعنی خدا کا خلیفہ ان کے اوپر نگران کے طور پر مقرر فرمایا گیا اس لئے کسی خلیفہ وقت کو کسی ایک ملک کے اندر محدود نہیں کیا جا سکتا اور اسی لئے کسی ایسے ملک میں کوئی جماعت احمدیہ کا خلیفہ نہیں رہ سکتا جس میں وہ کھلے بندوں اپنے فرائض منصبی ادا کرنے سے قاصر رہے اور ساری دنیا کی جماعتوں کو اس ہدایت سے محروم کر دے جن کے لئے اس کو مقررفرمایا گیا ہے.یہ وجہ تھی جب مجھے آنا پڑا چنا نچہ میری یہ تاریخیں صاف بتاتی ہیں ۲۶ اپریل کو یہ ظالمانہ آرڈینینس نافذ ہوا ہے اور ۲۹ کی رات کو میں نے ملک چھوڑ دیا اور ۳۰ کو میں انگلستان پہنچ چکا تھا اس لئے اس واقعہ کا اس سے دُور کا بھی تعلق نہیں ہے.اب میں آپ کو بتاتا ہوں آپ کی یاد دہانی کے لئے اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کے نتیجے میں کس طرح مہم آہستہ آہستہ شروع ہوئی اور پھر زور پکڑ گئی.۱۲ مئی کے رسالہ لولاک میں منظور الہی صاحب ملک امیر مجلس تحفظ ختم نبوت اور رکن مجلس شوری پاکستان کا بنام صدر ایک کھلا چیلنج شائع ہوایا بنام صدر ایک کھلی چٹھی شائع ہوئی.اس میں انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ختم نبوت کے مجاہد اور جیالے مولانا اسلم قریشی مبلغ ختم نبوت سیالکوٹ نے معراجکے میں ا ر فروری کو تقریر کی اور ۷ ار فروری کو تقریر کرنے سے پہلے ہی انہیں قادیانیوں نے اغواء کر کے قتل کر دیا ہے.ختم نبوت کے پروانوں پر ایسا ظلم
خطابات طاہر جلد دوم 144 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۲۲ ؍ جولائی ۱۹۸۸ء پہلے کبھی نہیں ہوا.اٹھانوے سال میں یہ پہلا واقعہ ہے.اس حوالے کو میں نے اس لئے چنا ہے کہ دشمن نے یہ تو اقرار کر لیا کر قتل کروانا جماعت کی فطرت میں نہیں ہے.اٹھانوے سال میں پہلا واقعہ یہ کہتے ہیں کہ ہوا ہے اس واقعہ کی حقیقت میں آپ کو آگے بتاؤں گا کہ کیا حقیقت ہے.پھر لولاک نے ۲ ارمئی کو ایک ادار یہ لکھ وہ لکھتے ہیں مولانا اسلم قریشی کے سلسلے میں یوم دعا منایا جائے.اس کی شہادت کی قبولیت درجات کی بلندی ، مجرموں کی گرفتاری ، پسماندگان کے صبر جمیل اور ناموس مصطفیٰ کے تحفظ کا کام کرنے والوں کی کامیابی کیلئے دعائیں کی جائیں.ایسی باتیں روزمرہ پاکستان کے مشہور کثرت سے چھپنے والے اخبارات میں آئے دن چھپتی رہتی تھیں لیکن یہ چند نمونے میں صرف آپ کی یاد کو تازہ کرنے کیلئے پیش کر رہا ہوں.جن خطابات سے ان مولانا کو نوازا گیا.ان میں عاشق رسول ایک نمایاں خطاب تھا.چنانچہ لولاک نے ۲۰ مئی کو یہ خبر شائع کی کہ عاشق رسول ، مجاہد ختم نبوت مولانا اسلم قریشی کو اغوا کر کے شہید کر دیا گیا.پھر محمد حنیف ندیم صاحب نے یہ اعلان چھپوایا کہ مرزا طاہر مولانا اسلم قریشی کے اصل قاتل ہیں.مولانا زاہد الراشدی کے بقول جب تک اسلم قریشی کے قاتل مرزا طاہر اور اس کی جماعت مرزائیہ سے انتقام نہیں لیا جائے گا ہم چین اور آرام سے نہیں بیٹھیں گے.پشاور کی ختم نبوت کانفرنس میں یہ اعلان کیا گیا کہ مولانا کے قاتلوں مرزائیوں اور ان کے سرغنہ مرزا طاہر کو عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں.مطالبہ کرتے ہوئے یہ عظیم الشان اجلاس اعلان کرتا ہے کہ اگر حکومت اسلم قریشی شہید کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام رہی تو پھر مجلس کے قائدین کے حکم پر ہم مسلمان اسلم قریشی کے خون کا انتقام لینے کا عہد کرتے ہیں.ملک منظور الہی صاحب نے ایک اور کھلی چٹھی صدر اور گورنر کے نام لکھی اور اخبار میں شائع کروائی.وہ یہ تھی کہ مجاہد ختم نبوت سیالکوٹ کا اغوا اور قتل ایسا بہت بڑا کام مرزا طاہر کے حکم کے بغیر ہرگز ہر گز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی مرزا طاہر کے حکم کے بغیر کسی مرزائی کو اتنی جرات ہو سکتی ہے کہ وہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کے متفقہ عقیدہ ختم نبوت کے مبلغ کو دن دہاڑے اغوا اور قتل کر دے.یہ حوالہ بھی در اصل جماعت احمدیہ کو ایک عظیم الشان خراج تحسین ہے.نظام تو جھوٹا جیسا ہے ہی لیکن ان کو یہ پتا ہے اقرار کرتے ہیں کہ ساری دنیا میں یہ ایک جماعت ہے جو اپنے امام کے ایک اشارے پر اٹھنا اور بیٹھنا جانتی ہے اور ساری دنیا میں
خطابات طاہر جلد دوم 145 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲ / جولائی ۱۹۸۸ء ایک کروڑ احمدیوں میں ایک بھی ایسا نہیں جو اپنے امام کی منشا کے خلاف کوئی حرکت کرے.اگر اسلام یہ نہیں تو پھر اسلام اور کیا ہے؟ یہی وہ اسلام ہے جو حضرت اقدس محمد اللہ نے سکھایا اور آج خلافت احمدیہ سے وابستہ ہو چکا ہے.پھر عوام الناس کو اشتعال دلانے کی مزید کوششیں کرتے ہوئے ایسے ایسے اعلان کئے گئے جن میں سے میں ایک پڑھ کے سناتا ہوں.جب تک آپ اپنی محنت کا نشانہ مرزا طاہر احمد اور موضع معراجکے کے قادیانیوں کو نہیں بنائیں گے اس وقت تک آپ کی محنت بار آور ہونے کا کوئی امکان نہیں.پھر ایک بیان شائع ہوا جس پر پاکستان کی ختم نبوت کانفرنس میں شریک ہونے والے علماء نے صاد کیا اس میں جو مشہور علماء شریک ہوئے ان کے نام یہ ہیں.محمد اشرف انبالوی ، منظور چنیوٹی، عبدالمجید ندیم، مفتی مختار احمد نعیمی ، شریف جالندھری،عبدالحکیم، امیرحسین گیلانی، قاضی اسرار الحق، بغضنفر کراروی ، زاہد الراشدی ، گو ہر الرحمن ، قاضی احسان الحق اور مقامی کونسلر شیخ محمد رشید و دیگر متعدد علماء.اس میں بار بار حکومت سے پرزور مطالبہ کیا گیا کہ مرزا طاہر کو اسلم قریشی کے قتل کے جرم میں پھانسی دی جائے.کیونکہ اگر نواب محمد احمد کے قتل میں سابق وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی دی جاسکتی ہے تو مرزا طاہر کو کیوں نہیں دی جاسکتی.یہ تمام باتیں صاف ایک سازش کا پتا دے رہی ہیں.ان علماء نے ایک خاص سازش کے ذریعے ان صاحب کو اس نیت سے غائب کیا کہ خلافت احمدیہ پر حملہ کیا جائے اور اس کے نتیجے میں جو تحریک چلے اس سے جماعت احمد یہ کو اس کی مرکزیت سے محروم کر دیا جائے.یہ ایک با قاعدہ سازش تھی کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہوا.چنانچہ یہ جو کہا گیا در اصل یہ صدر ضیاء الحق کو تحریک اور تحریک اس رنگ میں کی گئی کہ تم تو بہت بڑے ہیرو ہو تم نے تو سابق وزیر اعظم کو نہیں چھوڑا تمہارے سامنے جماعت احمدیہ کے سربراہ کی حیثیت کیا ہے اس لئے اسے جوان ہیرو ! آگے بڑھو اور مرزا طاہر کو قتل کر کے عظیم الشان مقام حاصل کر لو.اس رنگ میں ان کو تحریص اور تحریک کی جانے لگی.پھر جب میں یہاں چلا آیا تو ان کو خیال آیا کہ جس کو ہم قاتل کہتے تھے وہ تو ہاتھ سے نکل گیا ہے.جب تک اس کے خاندان میں کسی اور کو حملے کا نشانہ نہ بنایا جائے اس وقت تک یہ تحریکیں اب زندہ نہیں رہیں گی.چنانچہ انہوں نے اس مقصد کیلئے مرزا لقمان احد کو جو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث مرحوم و مغفور کے صاحبزادے اور میرے داماد ہیں.ان کو چنا اور
خطابات طاہر جلد دوم 146 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۸ء ایسی خبریں اخباروں میں شائع ہونے لگیں.مرز القمان کو اسلم قریشی اغوا کیس میں فوری طور پر گرفتار کر کے قلعہ میں لے جا کر آئندہ سازش کے بارے میں تفتیش کی جائے.پھر یہ اعلان شائع ہوا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرزا لقمان کو اسلم اغواء کیس میں فوری طور پر گرفتار کیا جائے وغیرہ وغیرہ.یہ با تیں اخبارات میں شائع ہوتی تھیں اور حکومت ایک کے بعد دوسراکمیشن مقرر کرتی تھی لیکن ایک لمبے عرصے تک یعنی کم و بیش دو سال تک صدر پاکستان خود خاموش رہے اگر چہ ان کے ایماء پر ان کے حکم سے پولیس کے مختلف کمیشن بیٹھتے رہے اور کوشش کرتے رہے کہ جس حد تک ممکن ہو سکے علماء کو بھی راضی رکھیں اور تفتیش کا کام آزادانہ بھی آگے بڑھے لیکن آخر وہ خاموش نہیں رہ سکے اور ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء کو یہ اعلان اخبار میں شائع ہوا کہ صدر پاکستان نے سیالکوٹ کے مولانا اسلم قریشی کی گمشدگی کا معمہ حل نہ کرنے پر سخت نوٹس لیا اور پولیس کو ڈرایا دھمکایا ہے کہ تم کیوں اس معمے کو جلد حل نہیں کرتے.صدر پاکستان نے پنجاب پولیس کو ہدایت کی ہے کہ ان علماء کی گمشدگی کے بارے میں تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں.یہ ایک عالم کس طرح بن گیا.بات یہ ہے کہ اس کے بعد ایک دو اور علماء بھی روپوش ہونے لگے اور ان سب کا الزام بھی مجھ پر اور جماعت احمدیہ پر لگایا جاتا رہا.تو جب صدر مملکت نے دیکھا کہ بات بڑھ رہی ہے کہ ایک عالم کی بات نہیں رہی اب تو علماء کا قتل عام شروع ہو گیا ہے تو انہوں نے پھر دخل دینا ضروری سمجھا اور کہا اس معاملے کی تحقیق کی جائے لیکن جو باقی دو علماء تھے تین کا مجھے علم ہے ان کا نام آتا رہا ہے وہ تو بخیر و خوبی گھر پہلے ہی پہنچ گئے تھے یا پولیس نے ویسے ان کو نکلوالیا تھا کہیں سے مگر یہ صاحب غائب رہے.اس سلسلے میں منظور الہی ملک جو سب سے زیادہ اونچی آواز میں مولانا کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور نہایت ہی بھونڈی زبان میں مجھ پر ہی نہیں صدر مملکت پر بھی حملے کرتے رہے کہ تمہیں اپنی پڑی ہوئی ہے اپنی عیش وعشرت کی اور اتنا عظیم الشان مولا نا گم ہے اور تم کچھ نہیں کرتے.جب انہوں نے دیکھا کہ کوئی ایسی کارروائی نہیں ہوئی جس سے مولانا کا سراغ ملے تو انہوں نے پھر کھلے عام ایک دھمکی دی.وہ یہ تھی کہ وہ ۳۰ اکتو بر کو مرکزی جامع مسجد اسلام آباد میں اس وقت تک بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے جب تک مبلغ تحفظ ختم نبوت مولانا محمد اسلم قریشی کے قاتلوں کا سراغ لگا کر انہیں گرفتار نہیں کیا جاتا.اللہ تعالیٰ نے جب مجھے یہ توفیق عطا فرمائی کہ میں تمام معاندین احمدیت کو مباحصلے کا چیلنج
خطابات طاہر جلد دوم 147 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲ / جولائی ۱۹۸۸ء دوں تو اس میں میں نے یہ بات بطور خاص لکھی خطبے میں بھی بیان کی اور تحریر میں یہ بات شامل کی کہ تم بحیثیت سربراہ جماعت احمد یہ مجھ پر ایک شخص اسلم قریشی کے قتل کا الزام لگارہے ہو پانچ سال ہو گئے یہ سنتے ہوئے کان پک گئے.تم سے تو کچھ کلام نہیں مگر اپنے خدا سے تو کلام ہے اس لئے تمہیں مباھلے کا چیلنج دیتے ہوئے میں اس بات کو بھی شامل کرتا ہوں تم بھی خدا کی قسم کھا کر کہو کہ واقعہ اس شخص کو اغواء کر کے قتل کروایا گیا ہے اور جماعت احمدیہ کے سربراہ نے ایسا کیا ہے اور میں بھی اعلان کرتا ہوں کہ الف سے ے تک یہ سارا دروغ ہی دروغ ، جھوٹ ہی جھوٹ ہے.پس تم بھی خدا کی لعنت ڈالو جھوٹے پر اور میں بھی خدا کی لعنت ڈالتا ہوں جھوٹے پر.یہ دس تاریخ کا اعلان ہے اور ایک مہینے کے اندراندر بلکہ بعینہ ایک مہینے پر عین دس تاریخ کو جولائی ہی کی دس تاریخ کو اسلم قریشی صاحب ایران سے کوئٹہ پہنچ گئے.گو ان کے پہنچنے کی خبریں کچھ دن بعد شائع ہوئیں لیکن یہ بات مسلمہ اور مصدقہ ہے کہ وہ عین دس تاریخ کو پاکستان میں داخل ہوئے.جب ان سے پوچھا گیا.پہلے اس سے میں آپ کو یہ بتاؤں جب یہ داخل ہوئے اور پولیس کی تحویل میں آگئے تو وہاں بہت ہی ایک قسم کا مباحثہ ہوا بڑے لوگوں میں کہ اس شخص کو اب کیا کریں اور کیا کہیں؟ ایک ایسی ہڈی ہے جو اگلی جائے نہ نکلی جائے.لوگوں کو بتائیں تو کیسے بتائیں نہ بتائیں تو اس کے کیا خطرات ہیں.چنانچہ دو گروہوں میں فیصلہ کرنے والے بٹ گئے اور آخر وہ گروہ غالب آیا.انہوں نے کہا کہ عقل کے ناخن لو اس شخص کو اگر تم چھپاؤ گے تو تم ملوث ہو جاؤ گے اور ہمیشہ دنیا کہے گی کہ تم نے جان کر چھپایا تھا کیونکہ تم اس جرم میں شروع سے ہی شریک تھے اس لئے تمہیں بہر حال ظاہر کرنا پڑے گا اور اگر ظاہر کرنا ہے تو باقاعدہ ٹی وی پر ظاہر کرو اور آئی جی پولیس بڑی ذمہ داری کے ساتھ سارا اعلان کرے.چنانچہ ۱۳ جولائی ۱۹۸۸ء کو ایک پریس کانفرنس بلائی گئی.جس میں آئی جی پنجاب پولیس نے یہ انکشاف کیا اور اس پر مولانا اسلم صاحب کے ساتھ پریس والوں نے کچھ سوال بھی کئے جن کے جواب بھی اخبار میں شائع ہوئے.میں اس میں سے چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جب پوچھا گیا کہ مولانا آخر آپ غائب کیوں ہو گئے بیٹھے بٹھائے سوجھی کیا آپ کو ؟ ہنستا بستا گھر چھوڑ گئے علماء کو اتنا دکھ پہنچا کہ وہ آپ کی مغفرت کی دعائیں کرنے لگے اور آپ کو ہوش ہی کوئی نہیں.تو انہوں نے فرمایا میں نے نامساعد گھر یلو اقتصادی حالات اور نامواقف دینی ماحول سے
خطابات طاہر جلد دوم 148 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲ / جولائی ۱۹۸۸ء تنگ آکر خود ہی رخت سفر باندھا اور یہاں سے پہلے گوادر اور پھر ایران چلا گیا اور بعد میں ایرانی فوج میں بھرتی ہو گیا.مگر جسمانی کمزوری اور متعدد بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باعث میں نے ایرانی فوج کی ملازمت چھوڑ دی.میں خود اس لئے گم نہیں ہوا کہ قادیانی اقلیت کو پریشان کروں.انگریزی میں کہتے ہیں The cat is out of the bag یہ دل میں کھٹک رہی تھی بات.صاف پتا چلتا ہے کہ اس سازش میں پورا ایک حصہ لینے والے کل پرزے تھے اور بنیادی وجہ یہی تھی اس لئے بغیر کسی کے پوچھے ہی فورا ساتھ یہ کہہ دیا کہ میں قادیانیوں کو احمدیوں کو دکھ پہنچانے کی خاطر نہیں گیا.مولانا نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا اس تمام عرصے میں یعنی پانچ سال سے زائد عرصے سے انہوں نے اپنے گھر کوئی پیسہ نہیں بھجوایا.اب تعجب کی بات یہ تھی کہ مالی پریشانیوں سے گھبرا کر وہ نکلے تھے بیوی بچوں کو کسمپرسی کی حالت میں وہ چھوڑ گئے تو پیسہ کیوں نہیں بھجوایا.اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ یہ صحیح ہے کہ میں نے پیسہ نہیں بھجوایا مگر وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کا رازق ہے.اب بتائیں کہ اتنا بڑا عالم ہو کے میں یہ کیسے بھول جاتا کہ اللہ رازق ہے صرف رازق نہیں تو اسلم قریشی کا ہی نہیں ہے.جو مالی تنگی سے گھبرا کر باہر بھاگ گئے اور پانچ سال تک بیوی بچوں کی مڑ کر خبر تک نہ لی اور کہا ایک پیسہ بھی اس عرصے میں نہیں بھجوایا.پھر فرمایا کہ بات یہ ہے کہ چونکہ اتنا کامل تو کل تھا کہ اللہ تعالیٰ رازق ہے میں نے زمانہ بے وطنی میں اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں.پھر انہوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ مجھے کسی نے اغواء نہیں کیا تھا میں اپنی مرضی سے بعض وجوہ کی بنا پر ایران گیا تھا.میری طویل عرصہ تک روپوشی کے دوران پاکستان میں جو جانی و مالی نقصان ہوا میں اس میں برابر کا شریک ہوں اور اس پر شرمندہ ہوں.آئی جی پنجاب نے پریس کو بتایا کہ پولیس تو شروع سے ہی جانتی تھی کہ قتل و تل کا تو سوال ہی نہیں یہ سب فراڈ ہے اور پولیس ان کو بازیاب کرانے کی پوری کوشش کر رہی تھی لیکن کچھ پیش نہیں جاتی تھی.آخر یہ ایسا انتظام ہو گیا کہ یہ ہمارے ہاتھ آگئے.یہ جو خبریں شائع ہوئیں اور ٹیلی وژن پر اس کا چرچا ہوا.چونکہ یہ خبر فی ذاتہ جماعت کے معاند علماء کو ذلیل ورسوا کرنے والی تھی اور ساری دنیا میں ان کے ڈھول کا پول کھلتا تھا کہ کس قسم کے علماء ہیں کس قسم کے قماش کے لوگ ہیں یہ ایسا کھلم کھلا جھوٹ اور افترا ہے اور پھر ایسی ظالمانہ سازش کہ کثرت سے جماعت احمدیہ کو مظالم کا نشانہ بنایا جانا
خطابات طاہر جلد دوم 149 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۸ء ملک کے شمال سے جنوب تک تحریکیں چلائی جانی.کئی نہایت عظیم الشان احمدی اس تحریک کے دوران شہید بھی ہوئے.طرح طرح کے مظالم کا جماعت کو نشانہ بنایا گیا گلیوں میں گھسیٹے گئے ہر طرح کا زدوکوب کیا گیا غرضیکہ کوئی بھی کسر انہوں نے ظلم کی اٹھا نہیں رکھی.اس ساری تاریخ کو مد منظر ر کھتے ہوئے جب آپ دیکھتے ہیں کہ ثابت ہو رہا ہے کہ جماعت احمدیہ کا اس واقعہ سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے تو اس گروہ علماء کی ذلت ورسوائی تو ظاہر وباہر ہے ان کا جھوٹا ہونا تو ثابت ہو گیا لیکن عین اس وقت یہ ہوا جبکہ ایک مہینہ پہلے با قاعدہ ان کو مباحصلے کا نوٹس دے دیا گیا تھا اس لئے اس تکلیف میں مزید آگ لگ گئی اس قدر بے قراری ہوئی علماء کو اس واقعہ سے کہ وہ آپے سے باہر ہو گئے اور ایسی الٹی پیٹی باتیں کرنے لگے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ ایک ادنی عقل رکھنے والا بھی ایسی باتیں کر سکتا ہے چنانچہ علماء کے جو بیان اس واقعہ کے بعد شائع ہوئے ہیں میں ان میں سے چند آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں.مولا نا خان محمد صاحب نے اسلم قریشی کی برآمدگی کو ایک معجزہ قرار دیا اور ان کے بیان کو قادیانیوں اور انتظامیہ کی سازش قرار دیا.ان کا آجانا معجزہ اور ان کا بیان سازش.عطا المومن بخاری صاحب نے کہا پولیس اپنی روایت کے مطابق مرضی کی باتیں نکلوا کر قادیانیوں کو بری الذمہ کرنا چاہتی ہے اور قادیانیوں کے امیج کو بحال کرنے کے لئے نہایت مکروہ ڈرامہ رچایا گیا.یعنی اس کی برآمدگی مکروہ ڈرامہ ہے.اس کے قتل کا الزام کوئی ڈرامہ نہیں.یہ سب جھوٹ ہے تو زندہ کیسے ہو گیا پھر ؟ مجلس ختم نبوت بلوچستان نے کہا کہ اسلام آباد میں بازیابی کا ڈرامہ تیار کیا گیا.عطا المومن بخاری نے کہا کہ مولانا اسلم قریشی کی ڈرامائی بر آمدگی مذہبی قوتوں کو بدنام کرنے کی سازش ہے.حاجی سید شاہ محمد قائم مقام امیر مجلس تحفظ بلوچستان نے اعلان کیا کہ مولانا اسلم قریشی کو فوراً مجلس کی تحویل میں دیا جائے کیونکہ انہیں پولیس کی تحویل میں قتل کر کے اسے خود کشی قرار دے دیا جائے گا اور ایک مولا ناسب پر بازی لے گئے ان کا نام ہے مولوی احمد الرحمن صاحب مرکزی نائب صدر تحفظ ختم نبوت فرماتے ہیں کہ ہم سو فیصد یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ کہانی جعلی اور فرضی ہے اور حکومت کے ذمہ دار لوگوں سے ہم اس موضوع پر مباھلہ کرنے کے لئے تیار ہیں کہ اسلم قریشی ہے ہی نہیں.مباھلے کا ایک چیلنج میں نے ان کو دیا ہے وہ دوسری طرف وہی کسی اور کو چیلنج دینے لگ گئے ہیں اس میں غالب کا یہ شعر یاد آ گیا کہ
خطابات طاہر جلد دوم 150 تماشہ کہ اے محو آئینہ داری افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۸ء تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں (دیوان غالب صفحہ: ۱۵۸) ایک مولانا نے یہ اعلان کیا کہ اسلم قریشی صاحب اگر چہ جسمانی طور پر ہم میں واپس آگئے ہیں لیکن ذہنی طور پر وہ ابھی تک واپس نہیں آئے وہ دراصل پاکستان میں ذہن چھوڑ گئے تھے واپس کیا لاتے.بہت دلچسپ اعلانات ہیں ان کے.ایک جنگ اخبار لنڈن میں خبر شائع ہوئی ۱۵ جولائی کو انہوں نے کہا کہ مولانا اسلم قریشی کا واپس آجانا ہمارے مخالفین کے منہ پر قدرت کا طمانچہ ہے یہ طمانچہ ہمیں لگا ہے تکلیف تمہیں ہو رہی ہے یہ کیا عجیب بات ہے اور پھر اس سے بات دل کی باہر آگئی.ان کو دل میں یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک معجزہ ہے ادھر مباھلے کا چیلنج دیا گیا ادھر علماء نے منظور کرنا شروع کر دیا اور ابھی ایک مہینہ نہیں گزرا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان نشان ظاہر ہوتا ہے.چنانچہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنماؤوں نے مشترکہ بیان جاری کیا کہ مولانا اسلم قریشی کے گم ہو جانے یامل جانے سے مرزا غلام احمد کے بچے یا جھوٹے ہونے کا کوئی تعلق نہیں.دل کا چور ہے وہ باہر آ گیا ہے.یہ محسوس کر رہے ہیں کہ یہ ایک بہت عجیب واقعہ ہوا ہے جو ہونا نہیں چاہئے تھا.بجائے اس کے کہ شرافت دکھائیں، استغفار پڑھیں ، جھوٹ سے باز آئیں.ایک جھوٹ کے بعد دوسرے جھوٹ میں ملوث ہوتے چلے جارہے ہیں اور اس قدر دیدہ دلیری سے جھوٹ بول رہے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ علماء دین کہلوا کر کس طرح ان کو جرات ہے اور یہ جانتے ہیں سارے بلاشبہ جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹے ہیں.سب جھوٹی کہانیاں بنارہے ہیں لیکن باز نہیں آتے.اب یہ اتنی کھلم کھلا بات کہ میں نے پہینج مباھلے کا دیا وہ دس جون کو خطبہ بھی شائع ہوا،اخبارات میں اس کی خبریں بھی شائع ہوئیں.پھر ان میں سے بعض مولویوں نے اسے قبول بھی کر لیا.اس کے باوجود جھوٹ کی جسارت دیکھیں.جسارت اخبار ہی کا نام ہے.وہ ۱۴؍جولائی ۱۹۸۶ء کولکھتا ہے ٹی وی پر اسلم قریشی کے مبینہ ڈرامے کے فوراً بعد پاکستانی مسلمانوں کو قادیانی خلیفہ کا چیلنج لندن سے جاری کردہ دعوت مباھلہ ٹی وی شو کی دوسری صبح اخبارات سمیت پورے ملک میں پھیلا دی گئی.اس میں قادیانیت کے مخالفین کو کافرو کاذب قرار دیا گیا.منظم منصوبہ بندی کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے
خطابات طاہر جلد دوم 151 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۸ء کہ ٹی وی سے اس ڈرامہ کے نشر ہونے کے چوبیس گھنٹے کے اندراندر قادیانیوں کے پیشوا اور امام مرزا طاہر احمد کا ایک کھلا کھلا چیلنج ملک میں وسیع پیمانے پر پھیلا دیا گیا اور اس کی نقول اخبارات کے دفاتر میں پہنچادی گئیں.یعنی یہ جانتے ہیں دل میں کہ اگر مباہلے کے بعد یہ واقعہ ہوا ہے تو یہ ان کی صداقت کا نشان بن جاتا ہے اس لئے اب اس پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ مباھلہ وباھلہ سب بعد کا خیال ہے.ادھر مولانا اسلم قریشی دریافت ہوئے اُدھر انہوں نے مباحلے کا چیلنج پھیلا دیا اور بعض علماء نے اس کو اور رنگ میں پیش کیا.وہ یہ کہتے ہیں کہ غالباً اس اخبار نے بھی اس رنگ میں پیش کیا ہے.بعض نے کہا کہ مباھلہ تو انہوں نے دیا ہی دریافت ہونے کی وجہ سے ہے بعض نے کہا کیا ہے کہ ان کو لازماً پہلے پتا تھا اور اسی لئے انہوں نے مباحصلے کا چیلنج دیا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ادھر اسلم قریشی دریافت ہوا اور ادھر انہوں نے مباھلے کے چیلنج کو سارے ملکوں میں پھیلا دیا.اب بیوقوفی کی حد ہے اگر پہلے پتہ تھا تو دریافت ہونے سے پہلے پھیلانا چاہئے تھا.بعد میں پھیلانے کا کیا مطلب ہے.دلیل یہ بنائی جارہی ہے چونکہ ان کو پہلے ہی پتا تھا اس لئے ادھر اسلم قریشی دریافت ہوا اور اُدھر اس کے فوراً بعد مباھلے کا چیلنج پھیلا دیا حالانکہ پھر پہلے پھیلانا چاہئے تھا لیکن یہ سارا جھوٹ ہے یہ خود جانتے ہیں کہ جھوٹ ہے، خدا تو سب سے بہتر جانتا ہے.اس پر جو ردعمل ہوا ہے بعض دوسرے علماء کا اس کا ذکر بھی میں کرتا ہوں لیکن فوراً دعوت مباھلہ سے فرار کے بہانے ڈھونڈے جانے لگے اور ایسی ایسی شرطیں لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جس کے نتیجے میں یہ بچ جائیں اور دنیا کی نظر میں جھوٹے بھی ثابت نہ ہوں بگھوڑے ثابت نہ ہوں.ایک صاحب کہتے ہیں کہ مباھلہ ربوہ کے گول بازار اور اقصی چوک میں رکھا جائے، ایک صاحب کہتے ہیں کہ مباھلہ کا محل مدینہ منورہ ہونا چاہئے.ایک صاحب کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں آکر ان کے ساتھ مناظرہ کرنے کے علاوہ مباھلہ کریں ، ایک صاحب نے ان سے پہلے اعلان کیا تھا کہ مباھلہ ساؤتھ افریقہ میں ہونا چاہئے اور جو یہاں ختم نبوت کے علماء پہنچے ہیں ان کے نزدیک سب سے مقدس جگہ مباھلے کی ویمبلے ہال ہے.ویمبلے ہال میں جب وہ جلسہ کر رہے ہوں تو ہم مباحلے کا چیلنج دینے کیلئے وہاں پہنچ جائیں.اب سیدھی بات ہے کہ میں نے تو ساری دنیا کے مکفرین اور مکذبین کو چیلنج دیا ہے اور کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص ہر کس و ناقص کو چیلنج دے دے اور پھر ہر چیلنج کے جواب میں وہ دوڑتا پھرے کبھی
خطابات طاہر جلد دوم 152 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲ / جولائی ۱۹۸۸ء اس میدان میں کبھی اُس میدان میں کبھی اس میدان میں اور اس میدان کی احتیاج ہے کیا کوئی ضرورت نہیں کسی میدان کی بھی.حضرت اقدس ﷺ نے خدا کے اذن پر جو مباحلے کا پہلا چیلنج دیا تھا نجران کے عیسائیوں کے وفد کو اس میں صاف آیات سے ظاہر ہے کہ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَ نا وَنِسَاءَ كُمُ وَأَنْفُسَنَا وَ أَنْفُسَكُمْ (آل عمران :۱۲) تمام تفصیل قرآن کریم میں موجود ہے کہ آؤ اپنے بیوی بچوں کو ، اپنے مردوں کو عورتوں کو سب کو بلاؤ.اگر ایک میدان میں ضروری تھا ان سب کا اکٹھا ہونا تو تم لوگوں کے بیوی بچے کہاں اکٹھے ہو سکتے تھے وہاں وہ تو اپنے وطن میں بیٹھے ہوئے تھے اس لئے صاف پتا چلتا ہے کہ نزع کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ایک میدان میں اکٹھا کرو.پھر دوسری بات ان علماء کو معلوم نہیں.معلوم ہونی چاہئے اگر معلوم نہیں کہ جتنی روایات ملتی ہیں اگر ان پر اعتماد کیا جائے تو شکل یہ بنتی ہے کہ اس چیلنج کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تفصیل میں حضرت محمد مصطفی امی نے صرف مردوں میں سے حضرت علی کو ساتھ لیا اور خواتین میں سے فاطمتہ الزاہرہ کو ساتھ لیا اور دو نواسوں کو اپنے ساتھ لیا اور اس آیت کی تفصیل یہ سمجھی کہ وَانْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُم سے مراد بس ہم یہی ہیں اس کے سوا مسلمانوں میں کوئی اس لائق نہیں کہ مسلمانوں کی نمائندگی کر سکے.اسی وجہ سے چونکہ احادیث میں یہ بات ملتی ہے بہت سے علماء نے ان احادیث پر بڑی سخت تنقید کی ہے اور جامع الازھر میں کچھ عرصہ پہلے علماء نے اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات ثابت کی کہ یہ تمام روایتیں شیعہ روایتیں ہیں اور ان میں ایک راوی ایسا شامل ہے جو جھوٹا اور نا قابل اعتماد ہے اور اس شیعہ خیال کو تقویت دینے کی خاطر یہ روایتیں گھڑی گئی ہیں کہ آنحضرت مالی کے نزدیک یہی آپ کے خاندان کے چند افراد تھے جو جماعت مومنین میں سے تھے اور وَأَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُہ میں شامل تھے باقی نہیں تھے اس لئے پھر ان کو شیعہ مذہب اختیار کرنا چاہئے لیکن سیدھی بات یہ ہے کہ اگر اکثریت اس روایت کو سچا سمجھتی ہے تو شیعہ مسلک کی تائید کی روایتیں ہیں مگر امر واقعہ ہے کہ مباھلہ کسی مقام کا محتاج نہیں.مقام ایک کردار ضرور ادا کرتا ہے.پہلے زمانوں میں جب اخبارات نہیں ہوا کرتے تھے اشاعت نہیں ہوا کرتی تھی تو نمائندوں کو کسی ایک جگہ اکٹھا کرنا اس غرض سے تھا کہ وہ تمام دوسروں پر گواہ بن جائیں.اس میں بھی یہ ضروری نہیں تھا کہ ہر فریق کے خاندان کسی گروہ کے سارے افراد حاضر ہوں پس ان کو مباھلہ قبول کرنے
خطابات طاہر جلد دوم 153 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲ ؍ جولائی ۱۹۸۸ء سے انکار کیوں ہے؟ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی سوائے اس کے کہ یہ فرار کا بہانہ ہے.یہ ڈر رہے ہیں خوف کھا رہے ہیں جانتے ہیں کہ خدا کا ایک قہری نشان ظاہر ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ ان کو نہیں چھوڑے گا.اگر انہوں نے مباھلے کو کھلم کھلا تسلیم کیا لیکن ان کو میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ اگر ان شرارتوں اور دروغ گوئی سے باز نہیں آئے اور فرار کے اس طرح بہانے ڈھونڈتے رہے کہ دنیا کو مزید دھو کے میں مبتلا رکھیں اور ان کو پتا نہ لگے کہ خدا کس کے ساتھ ہے تو خدا خودان دھوکوں میں مبتلا نہیں کیا جاسکتا ہمارا خدا اس بات پر قادر ہے کہ تم فرار ہونے کی کوشش کرو تب بھی خدا کی لعنتیں تمہارا تعاقب کریں گی اور خدا کی لعنتیں تمام دنیا پر ظاہر کر دے.کہ بیچ مرزا غلام احمد قادیانی اور آپ کی جماعت کے ساتھ ہے اور آپ کے منکرین اور مکفرین کے ساتھ نہیں ہے اس لئے تو بہ اور استغفار سے کام لیں اور تمسخر اور تضحیک کو چھوڑ دیں.واقعہ یہ ہے کہ دعوت مباھلہ قبول کرنے والے جتنے علماء کی قبولیت کے دعوے کا میں نے مطالعہ کیا ہے ان سب نے فرار کی ایک بیچ لگا رکھی ہے اس لئے میں جماعت احمدیہ کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ جس طرح ہم پورے اطمینان کے ساتھ خدا پر توکل رکھتے ہوئے اور کامل یقین کے ساتھ لعنت ڈال رہے ہیں جھوٹے پر تم کیوں ڈرتے ہو اس بات سے اگر کسی جگہ کا ہونا ضروری ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ تم پر لعنت نہ پڑے لیکن فرار کی لعنت سے تو بچ جاؤ گے.اس لئے جرات کے ساتھ آگے بڑھو اور غیر مشروط طور پر اعلان کر دو اور واقعہ یہ ہے کہ یہ سارے علماء اس بات کو بھی جانتے ہیں کہ ایک مقام پر اکٹھا ہونا ضروری نہیں.اگر یہ ایسا نہ ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الزام نہ لگاتے کہ مولوی ثناء اللہ کے ساتھ مباھلے میں ہار گئے تھے کیونکہ وہاں تو کسی مقام پر ا کٹھے نہیں ہوئے تھے ایک مقابلہ تھا ، ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں اس الزام سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی ثناء اللہ سے مقابلہ میں ہار گئے تھے اور یہ مباھلہ تھا یہ جانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ مباھلہ تحریری طور پر ہوا تھا.پس آجکل کے زمانہ میں جبکہ اخبارات میں ریویو میں کثرت سے خبر میں شائع ہو جاتی ہیں اکٹھے ہونا ضروری نہیں ہے اور پھر ان کی نیتیں فساد کی ہیں اور فساد کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس پر قتل وغارت کریں اور پھر کہہ دیں ابھی مباھلہ شروع نہیں ہوا تھا کہ مارے گئے ہمارے ہاتھوں ، خدا کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں لوگ ایک دوسرے کے ہاتھوں اور اپنے دشمنوں کے
خطابات طاہر جلد دوم 154 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۲۲ ؍ جولائی ۱۹۸۸ء ہاتھوں نہیں مارے جاتے ، بڑے کھلے طور پر واضح طور پر نشان سورج کی طرح چمکتا ہوا ظاہر ہوتا ہے اور واضح ہو جاتا ہے کہ اس میں انسان کے ہاتھ کی کوئی کارروائی شامل نہیں ہے ان معاندین کے جنہوں نے مسیح موعود علیہ السلام کی گستاخی اور ان معاندین میں جنہوں نے بدکلامی میں تمام دوسرے علماء کو پیچھے چھوڑ دیا ہے.ایک شخص منظور چنیوٹی صاحب ہیں.حد سے زیادہ بدگو اور بد کلام اور چھوٹی ذات کے آدمی ہیں نعوذ باللہ من ذلک، میری ہرگز یہ مراد نہیں کہ چونکہ ترکھان ہیں اس لئے چھوٹی ذات کے آدمی ہیں.قرآن کریم کے مطابق ذات ہرگز چھوٹی ذات ہونے کی نشانی نہیں بلکہ یہ بیان کیا جاتا ہے روایات میں کہ خود حضرت نوح خدا کے نبی تھے اور ترکھان بھی تھے اس لئے ہرگز یہ غلط نہ سمجھیں.انسان اپنی عادات سے کمینہ بنتا ہے.پس جب میں چھوٹی ذات کہتا ہوں تو میں ان کی ذات کہتا ہوں ان کی ساری حرکتیں کمینوں والی ہیں.سفلا نا عادتیں ہیں اور اس قدر بے باک ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام پر گندا چھالنے اور احمدیوں کی دل آزاری کرنے میں شاذ ہی ایسا بے باک مولوی پیدا ہوا ہو گا.خدا تعالیٰ نے ان کی ذلت کا تو فوری سامان کروا دیا ہے.یہ وہ پہلے شخص ہیں یا دوسرے ہوں گے آغاز ہی میں جنہوں نے مباہلے کے اس چیلنج کو قبول کیا اور اس بات کو بھول گئے کہ جب مجھے پر اسلم قریشی کے قتل کا الزام لگایا کرتے تھے تو اخبار میں یہ اعلان بھی شائع کروایا کہ اسلم قریشی کی گمشدگی کے سلسلے میں مرزا طاہر احمد کو شامل تفتیش کیا جائے ہم نے حکومت کو چھ آدمیوں کے نام تفتیش کے لئے دیئے تھے جن میں مرزا طاہر احمد بھی شامل ہیں.اگر چھ میں سے ملزم برآمد نہ ہو تو ہم سر بازار گولی کھانے کو تیار ہیں.پس یہ تو کھل گئی بات کہ ان کے چھ میں سے تو ان کا ملزم گرفتار نہیں ہوا اگر عالم دین ہیں اگر کوئی تقویٰ ہے اگر سچائی سے کوئی تعلق ہے تو پھر سر بازار گولی کھانے کے لئے حکومت کے سامنے اپنے آپ کو پیش کریں اور ان کو یہ بھی دعوی ہے کہ ان کے مریدان سے بہت محبت رکھتے ہیں اور ان کی نافرمانی کی جرات نہیں کرتے تو اگر حکومت آمادہ نہ ہو تو اپنے مریدوں میں سے بلائیں بچے تو ہو کر دکھا ئیں.جب تک یہ سر بازار گولی نہیں کھاتے خدا کی تقدیر کی گولی ان کو لگ چکی ہے اور یہ کبھی دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتے.تبصرے تو اور بھی بڑے دلچسپ ہیں لیکن میں اب ان تبصروں کو ختم کرتا ہوں.
خطابات طاہر جلد دوم 155 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲ ؍ جولائی ۱۹۸۸ء صرف ایک تبصرہ ایک احمدی دوست کا آپ کو سنا تا ہوں ہمارے مربی سلسلہ جو انگلستان ایسٹ لندن میں کام کرتے ہیں مجید سیا لکوٹی صاحب انہوں نے جب یہ خبر سنی کہ اسلم قریشی صاحب کی بازیابی اور زندہ سلامت بچ جانے کی تو انہوں نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا.انہوں نے کہا مباھلے سے لوگ مرتے تو دیکھے تھے زندہ ہوتا پہلی دفعہ دیکھا ہے میں نے کہا تم نے زندہ ہونا تو دیکھا لیکن اس ایک کے زندہ ہونے سے جو سارے مر گئے ان کو نہیں دیکھا.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُن بشارات میں سے پڑھ کے سناتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے آپ کو ۱۸۸۲ء کے مباہلے کے چیلنج کے ساتھ آپ کو عطا فرمائیں.تا کہ آج کی دعا میں آپ اس بات کو خصوصیت کے ساتھ ملحوظ رکھیں کہ خدا سے التجا کریں کہ خدا یا ساری بشارتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو تو نے عطا کی تھیں آج ہمارے حق میں بھی پوری ہوں کیونکہ ہم نے بھی خالصتاً اپنے نفسوں سے آزاد ہو کر اور پاک ہو کر تیری رضا اور تیری اور تیری حمیت کی خاطر یہ مباھلہ کیا ہے اور کامل طور پر تجھ پر توکل کرتے ہیں.اس لئے آج ان بشارتوں کو ہمارے حق میں بھی ظاہر ہوئی تا کہ دنیا پر خوب کھل جائے کہ دین کس کا دین ہے اور جھوٹ کس کے ساتھ ہے.دنیا پر خوب کھل جائے کہ حضرت محمد مصطفی اس کے بچے عاشق کون ہیں اور آپ کے نام کو رزق کمانے کا بہانہ کرتے ہوئے اسلام کو ذلیل و رسوا کرنے والے لوگ کون ہیں؟ قرآن کریم فرماتا ہے کیا تم تکذیب کو رزق کمانے کا ذریعہ بناتے ہو.آج دنیا میں کون ہے ساری دنیا پر نظر ڈال کر دیکھ لیں جس نے تکذیب کو حصول رزق کا ذریعہ بنایا ساری دنیا میں جماعت احمدیہ پر یہ الزام نہیں لگا سکتے کسی عیسائی پر نہیں لگا سکتے کسی ہندو پر نہیں لگا سکتے، کسی قوم پر نہیں لگا سکتے.نہ چین پر، نہ جاپان پر نہ امریکہ پر، نہ روس پر، نہ کوریا پر، نہ جنوبی امریکہ پر نہ افریقہ کے ممالک پر.صرف ایک ٹولہ ہے احمدیت کے مخالفین کا ٹولہ ہے جنہوں نے تکذیب کو رزق کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور قرآن کریم نے چودہ سوسال پہلے یہ خبر دے رکھی تھی وَ تَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِبُونَ (الواقعہ: ۸۳) کیا یہ رزق کا ذریعہ ہے شرم نہیں آتی ایسا رزق کھاتے ہوئے کہ جو خدا کے پاک لوگوں کو جھٹلا کر کھاتے ہو.اس لئے میں کامل یقین کے ساتھ اب حضرت مسیح موعود کی وہ بشارتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور اس کامل یقین کے ساتھ کہ ہماری الحاح اور گریہ وزاری کو قبول فرماتے ہوئے ان بشارتوں کو
خطابات طاہر جلد دوم 156 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء آج بھی ہمارے حق میں پوری فرمائے گا.وہ الہام جو ۱۸۹۲ء کے مباھلے کے ساتھ اس کے پس منظر میں آپ کی پشت پناہی کرتے ہوئے کریں وہ یہ ہے.حق آئے گا اور صدق کھل جائے گا اور جو لوگ خسارہ میں ہیں وہ خسارہ میں پڑیں گے.تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا.مگر وہی جو رشد رکھتے ہیں ہم پھر تجھ کو غالب کریں گے اور خوف کے بعد امن کی حالت عطا کر دیں گے.نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہو جائے گا.خدا تیرے منہ کو بشاش کرے گا اور تیرے برہان کو روشن کر دے گا اور تجھے ایک بیٹا عطا ہو گا اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا اور میرا نور نزدیک ہے اور کہتے ہیں کہ یہ مراتب تجھ کو کہاں تو ان کو کہہ کہ وہ خدا عجیب خدا ہے اس کے ایسے ہی کام ہیں جن کو چاہتا ہے اپنے مقربوں میں جگہ دیتا ہے اور میرے فضل سے نومیدمت ہو یوسف کو دیکھ اور اس کے اقبال کو فتح کا وقت آ رہا ہے.فتح قریب ہے.مخالف یعنی جن کیلئے تو بہ مقدر ہے اپنی سجدہ گاہوں میں گریں گے کہ اے خدا ہمیں بخش کہ ہم خطا پر تھے.آج تم پر کوئی سر زنش نہیں.خدا تمھیں بخش دے گا اور وہ الرحیم اور الرحمن ہے.“ ( تذکرہ:۱۷۲) آئیے اب دعا کر لیتے ہیں.حضور نے لمبی اور پرسوز دعا کروائی اور دعا کے اختتام پر فرمایا:.اب میں آپ سے اجازت چاہوں گا باقی دوست یہاں تشریف رکھیں اس افتتاحی تقریر کے معابعد بقیہ جلسہ کی کارروائی شروع ہوگی.
خطابات طاہر جلد دوم 157 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر اور احمدیوں کے صبر کے نمونے، آپ وہ لوگ ہیں جو تاریخ احمدیت میں تابعین کے طور پر گنے جائیں گے.افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ا ا را گست ۱۹۸۹ء بمقام اسلام آبادٹلفورڈ برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں یہ سال ایک غیر معمولی اہمیت کا سال ہے اور اس سال دنیا کے ۱۲۰ ممالک میں جماعت احمد یہ صد سالہ جشن تشکر منارہی ہے.اس موقع پر جماعت احمد یہ کواللہ تعالیٰ نے غیر معمولی شہرت عطا فرمائی اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام جس طرح دنیا کے کونے کونے تک پہنچا اس کا ذکر انسان کو سر تا پا حمد سے بھر دیتا ہے اور اس جلسے میں میرے بقیہ خطابات اسی ذکر پر مشتمل ہوں گے لیکن آج کی افتتاحی تقریر میں میں اس پس منظر کی طرف جماعت کو متوجہ کرانا چاہتا ہوں جو پس منظر خدا تعالیٰ کے ان غیر معمولی فضلوں کو جذب کرنے کا موجب بنا.پاکستان میں جماعت احمدیہ پر گزشتہ تقریباً20 سال سے جو حالات گزر رہے ہیں وہ حالات دنیا کے سامنے اگر چہ بعض اعداد و شمار کے طور پر پیش تو کئے جاتے ہیں لیکن جو گہرا دکھ لکھوکھہا خدا کے بندے اس ملک میں مسلسل محسوس کرتے چلے آرہے ہیں اس دکھ کی تصویر کیلئے ہمارے پاس کوئی ایسا آلہ نہیں کوئی ایسا برش نہیں ، کوئی ایسا نقاش نہیں جو اس تصویر کو پوری طرح دنیا پر عیاں کر سکے اور جہاں تک دنیا کے سامنے ان حالات کو کھول کر بیان کرنے کا تعلق ہے یہ محض ایک کوشش
خطابات طاہر جلد دوم 158 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء ہے جو امتثال امر کے نتیجے میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ انسان کے بس میں جو بھی تدبیر ہو وہ جتی المقدور اختیار کرے لیکن ہمارا بھروسہ دنیا پر نہیں اور دنیا نے اپنے عمل سے یہ ثابت بھی کر دکھایا ہے جس دنیا کو ہم جماعت احمدیہ کے حالات سے اور نہایت درد ناک حالات سے مطلع رکھتے چلے آئے ہیں اس دنیا میں بعض ممالک نے کچھ ہمدردی تو کی ہے لیکن اس سنجیدگی سے ان حالات پر غور نہیں کیا جس کے نتیجے میں پاکستان میں حالات تبدیل ہوں.بعض ممالک میں سچی ہمدردی کا مظاہرہ ہوا ہے بعض میں نسبتاً زیادہ گہری ہمدردی کا لیکن جہاں تک اس قوت کا تعلق ہے جو غیر معمولی سنجیدگی سے پیدا ہوتی ہے اس قوت کا مظاہرہ آج تک دنیا کے کسی ملک نے نہیں کیا لیکن یہ میں شکوے کے طور پر نہیں بتا رہا بلکہ آپ کو یہ یاد کرا رہا ہوں کہ ہمارا تو کل خدا تعالیٰ پر ہے.إِنَّمَا اشْكُوا بَى وَحُزْنِي إِلَى اللهِ (یوسف) (۸) کے مضمون کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.وہی درگاہ ہے جو ہمارے دلوں پر نگاہ رکھتی ہے جسے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں.جس کے سامنے سارے احوال کھلے پڑے ہیں وہ پاکستان کے ہی نہیں دنیا بھر کے احمدیوں کے جذبات پر نگاہ رکھتا ہے.اس کی ایک خاص تقدیر ہے جو عالمی تقدیر ہے اور شر کے پردہ سے وہ خیر ظاہر کرنے والی تقدیر ہے اسی تقدیر پر ہماری بنا ہے اور ہماری دعائیں اور التجائیں اسی خدا کے حضور ہیں جو قادر مطلق ہے جب چاہے دنیا کے حالات کو پلٹ سکتا ہے، تبدیل کر سکتا ہے، بڑوں کو چھوٹا دکھا سکتا ہے اور چھوٹوں کو بڑا بنا کر ظاہر کر سکتا ہے لیکن جہاں تک کوششوں کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہم آج تک دنیا کے سامنے اعداد و شمار کی صورت میں حالات رکھتے ہیں لیکن دلوں کی کیفیت کو ان کے سامنے ظاہر کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں.مجھے اس مضمون پر غور کرتے ہوئے کچھ عرصے سے خیال آرہا ہے کہ وہ خطوط جو مجھے پاکستان سے موصول ہوتے ہیں جس میں بوڑھے، بچے، جوان عورتیں مرد بھی شامل ہوتے ہیں.ان خطوط میں بعض اوقات بے ساختہ دل کی کیفیات کا اظہار ہوتا ہے ان لوگوں کی آنکھوں سے جنہوں نے ان حالات کو خود دیکھا، جو آنسو برستے ہیں بعض دفعہ ان کے خطوط کو گیلا کر دیتے ہیں اور ان کی تحریر کو مٹا دیتے ہیں لیکن وہ مٹی ہوئی تحریریں میری نظر میں زیادہ شوخ ہو جاتی ہیں ، زیادہ نمایاں ہو جاتی ہیں اور جیسا گہرا اثر وہ مٹی ہوئی بجھی ہوئی تحریریں دل پر کرتی ہیں کوئی اور خوبصورت اور نمایاں
خطابات طاہر جلد دوم 159 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء کتابت ویسا اثر نہیں دکھا سکتی.مجھے خیال آیا کہ ان کے جذبات انہی کے الفاظ میں جن کے دل پر کچھ گزر رہی ہے نمونیہ آج آپ کے سامنے پیش کروں تا کہ جب آپ خدا کے فضلوں کے ذکر سنیں گے تو یہ خیال نہ کریں کہ جماعت احمدیہ کی اپنی ہوشیاریوں اور تدبیروں اور محنتوں کے نتیجے میں خدا کے فضل نازل ہوئے ہیں بلکہ ان مسکینوں اور مجبوروں کے حالات پر نگاہ رکھ کر ان کو دعائیں دیں گے جن کا دردان فضلوں کو جذب کرنے کا موجب بنا ہے.بسا اوقات دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ گرمی کی لہریں تو کسی اور ملک میں اٹھ رہی ہوتی ہیں اور برکھا کسی اور جگہ برس رہی ہوتی ہے.لیکن حقیقت میں بادوباراں کے جو طوفان اٹھتے ہیں وہ کسی اور ملک کی گرمی کی علامت کے طور پر اٹھا کرتے ہیں.پس بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی ایک ملک کو قربانیوں کے لئے چنتا ہے اور اسی ملک کو قربانیوں کے لئے چنتا ہے جس میں وہ اس بات کی صلاحیت پاتا ہے کہ وہ ایک لمبے عرصے تک خدا کے حضور قربانیاں دیتے چلے جائیں گے.لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ:۲۸۷) کا مضمون اس وقت اپنے کرشمے دکھاتا ہے اور بظاہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ مجھ میں تو یہ طاقت نہیں ہیں تو اس بوجھ کو اٹھا نہیں سکتا پھر خدا نے کیوں مجھ پر اتنا بوجھ ڈالا لیکن وہ خدا جو اپنی مصنوعات، اپنی کائنات، اپنی مخلوقات کی گنہ سے واقف ہے وہ کبھی کسی کی حیثیت سے بڑھ کر اس پر بوجھ نہیں ڈالتا یعنی ان لوگوں پر ان کی توفیق سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا جن کو دنیا میں اس نے زندہ و قائم رکھنا ہو.جو باقیات الصالحات کی طرح آئندہ نسلوں میں عزت کے ساتھ یاد کئے جانے والے ہوں ان پر جو بوجھ ڈالے جاتے ہیں وہ مٹانے کے لئے نہیں بلکہ ان کی استطاعت اور توفیق کے مطابق ڈالے جاتے ہیں.پس اے اہل پاکستان جو وہاں سے بڑے مشکل حالات سے دو چار ہوتے ہوئے محض للہی محبت میں یہاں پہنچے ہو میں تمہیں مبارک باد دیتا ہوں کہ خدا نے جو بوجھ تم پر ڈالے ہیں تمہاری استطاعت کی نشاندہی کر رہے ہیں.خدا کی نظر میں تمہارا ایک عظیم مقام ہے اور دنیا میں جو غیر معمولی خدا کی رحمتوں کی بارشیں نازل ہو رہی ہیں وہ تمہارے دلوں کی گرمی ہی ہے جو اٹھ کر آسمان پر پہنچتی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتی ہوئی رحمتوں کی بارش بن کر تمام دنیا پر نازل ہوتی ہے.پس دنیا کے ۱۲۰ ممالک میں جو جشن تشکر منایا جا رہا ہے اس کے حالات کچھ میں کل آپ
خطابات طاہر جلد دوم 160 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء کے سامنے پیش کروں گا کچھ پرسوں پیش کروں گا وہ حالات جب سنیں گے تو آپ کا دل خدا تعالیٰ کی غیر معمولی حمد سے بھر جائے گا.اس وقت اپنے ان مظلوموں کو بھی یادرکھیں اور ان کو اپنی دعاؤں میں خاص جگہ دیں جن کے ذکر پر مشتمل میرا آج کا خطاب ہے.یہ تو ممکن نہیں کہ میں اس مضمون کا حق ادا کرسکوں کیونکہ روزانہ مجھے کم سے کم تین سو اور بعض اوقات ہزار بلکہ اس سے زیادہ خطوط موصول ہوتے ہیں اور ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا جو میرے دل کیلئے آزمائش بن کر نہ آتا ہو اور ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا جبکہ آنسوؤں سے لکھی ہوئی تحریریں مجھ تک نہ پہنچی ہوں ، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے جو لکھنا نہیں جانتے اپنی ماؤں سے لکھواتے ہیں وہ معصوم طالب علم جو طرح طرح کے مظالم کا نشانہ بنائے جاتے ہیں، وہ کان جو گالیاں سنتے سنتے پک جاتے ہیں، وہ معصوم بچیاں جن کے سروں کی چادریں اتاری جاتی ہیں، وہ جو اپنے ہاتھوں سے اپنے قلم سے لکھنے سے معذور ہوتے ہیں تو دوسروں سے لکھوالکھوا کر مجھے خط بھجواتے ہیں ، ایک دن صرف ایک دن کی ڈاک کے افسانے اگر تمام دنیا سن لے تو ان کے دل غم سے پھٹ جائیں.یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے حوصلہ عطا کیا ہے وہ مجھے طاقت بخشتا ہے اور بعض دفعہ جب میں سمجھتا ہوں کہ میری طاقت سے بڑھ رہا ہے معاملہ تب خدا تعالیٰ کا یہ فرمان میری ڈھارس بنتا ہے کہ.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا ما اكتسبت خبر دار خدا تعالیٰ کبھی کسی انسان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا میری طاقت سے بڑھ کر جب بوجھ اس نے مجھ پر ڈالا تو میری طاقت کو بڑھا دیا.ایسے موقع پر بعض دفعہ مجھے غالب کا وہ شعر یاد آ جا تا ہے.میری قسمت میں غم گر اتنا تھا دل بھی یارب کئی دیے ہوتے (دیوان غالب صفحہ :۲۸۰) لیکن میں آسمان کے خدا کو گواہ ٹھہرا کر کہتا ہوں کہ اس نے میرے ایک دل کو ہزاروں دلوں میں تبدیل کر دیا ہے اور ہزاروں دلوں کی طاقت مجھے بخشا ہے ورنہ میرے جیسے کمزور دل کے انسان کیلئے ممکن نہیں تھا کہ ایک دن کے دکھوں کو برداشت کر سکتا اور بعید نہیں تھا کہ میرا دل ایک دن کے دکھوں کا مطالعہ کر کے ہی جواب دے جاتا لیکن وہ اپنے فضل سے میری ہمتوں کو بڑھاتا ہے، میرے
خطابات طاہر جلد دوم 161 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء دکھوں کو دعاؤں میں تبدیل کرتا ہے، مجھے ہنسنے کی توفیق بخشتا ہے، مجھے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ باہر نکلنے کی توفیق بخشتا ہے، مجھے ان تمام فرائض کو سرانجام دینے کی توفیق بخشتا ہے جو میں سمجھتا تھا کہ میری توفیق سے بہت بڑھ کر ہیں لیکن اپنے فضل سے اللہ تعالی اس توفیق کو بڑھاتا چلا جارہا ہے.اتنے کثرت کے ساتھ طالب علموں کے خطوط آتے ہیں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.چھوٹے چھوٹے دوسری تیسری میں پڑھنے والے بچوں سے لےکرایم.اے کے طالب علم تک پی.ایچ.ڈی کرنے والے سب کے ماحول جاہلانہ ہیں.کوئی ایک جگہ بھی نہیں آج پاکستان میں ایک تعلیمی ادارہ بھی ایسا نہیں خواہ وہ کسی مرتبے اور کسی مقام کا ہو جس کے متعلق انسان کہ سکتا ہو کہ یہ تہذیب کا گہوارہ ہے ہر جگہ جہالت دکھائی دیتی ہے اور احمدی طلباء سے روزانہ ایسا تذلیل کا سلوک کیا جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی اور قوم ہوتی تو یقینا صبر کا پیمانہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا.وہ بار بار ہمیں لکھتے ہیں کہ اگر عام حالات میں ، دنیاوی حالات میں ہم سے یہ سلوک ہوتا تو ہم ہرگز اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے اور اپنی عزتوں کا بدلہ لیتے لیکن آپ کا ہمیں حکم ہے کہ صبر سے کام لو اس لئے ہم صبر سے کام لیتے چلے جاتے ہیں لیکن کب تک.یہ سوال کب تک کا پہلے کم اٹھا کرتا تھا اب روز بروز زیادہ اٹھتا چلا جارہا ہے اور بعید نہیں کہ یہی سوال متى نصر الله (البقرہ: ۲۱۵) کی آواز آسمان تک پہنچے اور آسمان کے کنگرے ہلا دے.پس ہمارا تو کل خدا کی ذات پر ہی ہے.میں ان سب مسکین اور بے بس طالب علموں سے کہتا ہوں کہ اپنے کاموں میں مصروف رہو خدا کی خاطر اور برداشت کرتے چلے جاؤ، برداشت کرتے چلے جاؤ ، صبر کے نمونے دکھاؤ کیونکہ خدا تعالیٰ صبر کرنے والوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا.اس کے ہاتھ میں دنیا کی تقدیریں ہیں کوئی انسانی تقدیریں خدا کی تقدیروں کو تبدیل کر نہیں سکتیں.لیکن ایک دن ایسا ضرور تم دیکھو گے کہ خدا کی وہ رحمتیں جو تمام دنیا پر برس رہی ہیں ایک دن گھنگھور گھٹاؤں کی طرح تم پر بھی برسیں گی اور تمہیں بھی سرتا پا سیراب کر دیں گی اور خدا کے فضلوں کو تم اپنی آنکھوں سے برستا ہوا دیکھو گے.اس یقین پر قائم رہو اور صبر پر قائم رہو تو دنیا تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکے گی.میں نے تو صرف دو تین خطوط چنے ہیں ایک طالب علم لکھتا ہے جو چھوٹی عمر کا بچہ ہے آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے کہتا ہے پیارے آقا ! جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ہماری مسجد کے بالکل عین مشرق میں چند گز کے فاصلے پر ایک مسجد ہے.اس کا مولوی ہر وقت ہر روز حضرت
خطابات طاہر جلد دوم 162 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے خلاف گندی زبان استعمال کرتا چلا جاتا ہے اور اس کے لاؤڈ سپیکر کا منہ سیدھا ہماری طرف ہوتا ہے اور اس کے شور کی وجہ سے ہم دروازے بند کر کے بیٹھتے ہیں اور جمعہ بھی بند دروازوں میں پڑھتے ہیں اب تو اس کی بد زبانی حد سے بڑھتی چلی جارہی ہے.یہ صرف طالب علموں کا حال نہیں اس قسم کی بدزبانی کرنے والے پاکستان میں بسنے والے احمدیوں کی ہمسائیگی میں ہر طرف موجود ہیں.دن رات ان کے صبر کی آزمائش ہو رہی ہے.ایک لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) کے متعلق ایک صاحب اسلام آباد سے لکھتے ہیں کئی سالوں سے ایک لیفٹیننٹ کرنل ہمارا ہمسایہ ہے.رات کو دیوار پھاند کر گندی گالیاں لکھنے کا عادی ہے اور اسی طرح کاغذوں پر گندی گالیاں لکھ لکھ کر ہمارے گھر پھینکتا رہتا ہے.آج کل اس کے اس قبیح فعل میں شدت آگئی ہے میری تو خیر ہے بچوں پر بہت گراں گزرتا ہے.اپنی بساط کے مطابق دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کو ہدایت دے اور اس قبیح فعل سے باز رہنے کی توفیق عطا فرمائے.سید محمد صادق صاحب پھگلہ لکھتے ہیں یہ ایک معزز سید خاندان ہے جس کا علاقہ پر بہت رسوخ واثر تھا.ان کے والد کے بہت سے احسانات ہیں ماحول پر اور اس سارے علاقے میں بڑی عزت کے ساتھ یاد کئے جاتے تھے.مجھے بھی ایک دفعہ موقع ملا میں ان کے گھر مہمان بھی ٹھہرا.یہ کہتے ہیں کہ جب میں واپس پھگلہ پہنچا تو مکان جل چکا تھا اس کی حالت خراب تھی ، درندہ صفت مولوی نے تمام ماحول خراب کیا ہوا تھا لیکن اس خیال سے کہ ان کو یہ خوشی نہ پہنچے کہ احمدی بھاگ گئے ہیں مجھے یہ ہرگز قبول نہیں تھا کہ میں اس جگہ کو چھوڑ دوں.چنانچہ اس جلے ہوئے مکان میں میں نے ڈیرہ ڈال لیا ہے.وہ مسجد جو دو منزلہ مسجد تھی اب مٹی کا ڈھیر ہے اسی پر پردے ڈال کر ہم نے عید یہیں کی اور اللہ پاک کے در کے فقیر ہو کے یہ عید گزاری.مولوی نے سختی سے گاؤں والوں کو بات چیت کرنے سے منع کیا ہوا ہے.سخت فسادی ہے.لوگ دل سے اس سے متنفر ہیں لیکن اظہار کی جرات نہیں رکھتے.احمدیوں نے جہاں اپنے کلمے کے ساتھ چھٹے رہنے کے حق کو نہیں چھوڑا وہاں غیروں تک اپنی بات پہنچانے خصوصاً دفاعی رنگ میں اپنی بات پہنچانے کا حق بھی بہر حال استعمال کرتے رہتے ہیں.اگر چہ اس کے نتیجے میں ان کو نگین سزائیں دی جاتی ہیں.ایک صاحب سیالکوٹ کے ایک قصبے سے لکھتے ہیں ایک نوجوان مباھلہ کا پمفلٹ تقسیم کرنے پر مجھے اور صباح الدین کو پولیس نے گرفتار
خطابات طاہر جلد دوم 163 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء کر لیا پہلے صباح الدین کو ربڑ کے جوتوں سے بہت مارا پھر مجھے بلالیا اور کہا کان پکڑ لو.کوئی دس منٹ تک میں کان پکڑے رہا.پھر بوجہ ہرنیاں میری ماؤف جگہ پھول گئی تو میں نے سب انسپکٹر کو بتایا کہ مجھے ہر نیاں ہے جس طرح تم مجھے کان پکڑائے ہوئے ہو اس سے میرا ہر نیاں پھول کر پھٹ سکتا ہے میں وہاں زیرلب درود پڑھ رہا تھا کہ ایک سپاہی نے مجھے کہا کہ تم مجھے گالیاں دے رہے ہو اور یہ کہہ کر مجھے مکوں سے مارنا شروع کر دیا اور جب تھک گیا تو ہمیں حوالات میں بند کر دیا.رات کو دو شرابیوں کو پکڑ کر لائے اور ان کو مارنا شروع کر دیا، ساتھ ہی دوبارہ ہمیں بھی ربڑ کے جوتوں سے مارنے لگے.صباح الدین کو تو دو ہی مارے اور مجھے چھ سات مارے.جس سے میرے تمام جسم پرنشان پڑ گئے.ایک بار جب ہم نے اذان دی تو ایک سپاہی نے آکر اتنی گندی گالیاں دیں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.۲ اگست کو ہمیں سیالکوٹ جیل میں منتقل کر دیا گیا اور چکی کی مشقت پر لگا دیا.ایک معلم وقف جدید لکھتے ہیں کہ السلام علیکم کہنے کے جرم میں تحفظ ختم نبوت والوں نے مجھے اتنا مارا کہ میں بے ہوش ہو گیا اور پھر بے ہوشی کی حالت میں مجھے تھانے پہنچایا گیا جہاں میرے خلاف C-298 کا مقدمہ درج کر دیا گیا.آج آٹھ دن کی قید کے بعد میں ضمانت پر رہا ہو کر آیا ہوں.احمدی طلباء باوجودان شدید مشکلات کے جہاں تک جماعت کی ذمہ داریوں کا تعلق ہے ان میں بھی بھر پور حصہ لے رہے ہیں اور باوجود اس کے بعض دفعہ امتحانات کے تقاضے ایسے ہوتے ہیں کہ طالب علم ایک منٹ بھی اپنی تعلیمی مصروفیات سے الگ نہیں ہو سکتا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان بھر میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے طلبا ادھر ان مصیبتوں میں سے گزرتے ان دل شکنیوں سے دلوں کو پارہ پارہ ہوتے ہوئے دیکھتے اور محسوس کرتے اور پھر جماعتی ذمہ داریوں کو بڑے حوصلے کے ساتھ ادا کرنے والے ہیں.لاہور سے ایک طالب علم لکھتے ہیں یہاں دار الحمد کے خدام بڑی محنت اور جذبے سے جو بھی ڈیوٹی ان کے ذمہ لگائی جاتی ہے ادا کر رہے ہیں.اپنے امتحانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جس وقت بھی اور جہاں بھی بلایا جاتا ہے حاضر ہو جاتے ہیں.ایسے بھی کچھ خدام ہیں جن کا صبح پیپر ہوتا ہے اور وہ ساری ساری رات ڈیوٹیاں ادا کرتے ہیں آپ ہم سب کیلئے خصوصی دعا کریں.ایک بہن اپنی بہن کے متعلق لکھتی ہے کہ اس بیچاری کے خاوند کی فوٹو گرافی کی دکان تھی اس
خطابات طاہر جلد دوم 164 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء کے شیشے توڑ دیئے گئے تمام لوگوں کو کہہ کر اس کا بائیکاٹ کر دیا گیا اور اس کے رزق کے سب دروازے بند کر دیئے گئے.جب اس نے ناروے آنے کی کوشش کی تو ان کو پتا چل گیا اور مولویوں کا ایک وفد ناروے کی ایمبیسی پہنچا اور ان کو بتایا کہ فلاں شخص جب ناروے کا ویزہ لینے آئے گا تو اس کو نہیں دینا کیونکہ وہ اسائکم کی خاطر جانا چاہتا ہے چنانچہ اس بناء پر اس کو ملک سے نکلنے بھی نہیں دیا گیا.ایک پرائیویٹ سکول کے مالک لکھتے ہیں کہ میرے سکول کے متعلق پہلے تو پرو پیگنڈا چلتا رہا کہ کسی طرح طلباء کو یہاں آنے سے روک دیا جائے لیکن جب اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو یہ کہہ کر کہ اس سکول سے ہمارے جذبات مجروع ہوتے ہیں سکول پر حملہ کیا گیا فرنیچر کو توڑ پھوڑ دیا گیا اور سکول بند کر وا دیا گیا.حیدرآباد سے ہمارے ایک نوجوان مبشر احمد گوندل صاحب لکھتے ہیں جو آج کل یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں خدمت کیلئے.نکانہ صاحب کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ ڈاکٹر منور احمد صاحب سکرنڈ کی شہادت کا واقعہ ہوا.ارمئی کو کوٹری میں احمدی لڑکے کا ایک غیر احمدی سے معمولی جھگڑا ہوا اور آپس میں صلح صفائی بھی ہو گئی لیکن علماء نے اس کو بہت اچھالا اور اس کے نتیجے میں ہر احمدی کے گھر پر اتنی گندی گالیاں لکھی گئی ہیں کہ کوئی شریف آدمی اس کے چند فقرے بھی برداشت نہیں کرسکتا اور اس بات پر پہرے ہیں کہ کوئی گالیاں مٹانہ دے اور ہمیں مجبور کیا جارہا ہے اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ ابھی تو یہ آغاز ہے تم نے اگر اس جگہ کو خالی نہ کیا اس شہر کو چھوڑ کر نہ گئے تو ہم تمہارے مکانوں کو آگ لگائیں گے اور تمہیں مجبور کر دیں گے کہ اس شہر کو خالی کر دو.ان باتوں کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ احمدیت کی تبلیغ جاری ہے اور ایک دن بھی پاکستان میں ایسا نہیں آیا جبکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نئے لوگ احمدیت میں داخل نہ ہور ہے ہوں اور جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ خدا مجھے لازماً غلبہ دے گا.اس غلبے کے آثار صرف دنیا ہی میں نہیں پاکستان میں بھی دکھائی دے رہے ہیں جو کئی رنگ میں ظاہر ہورہے ہیں.چنانچہ اس دور میں جو لوگ احمدیت قبول کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ ان کو یہ توفیق عطا فرماتا ہے کہ وہ شدید مخالفتوں کو بڑی جرات کے ساتھ اور ہنستے ہوئے برداشت کرتے ہیں لیکن صرف انہی پر ظلم نہیں ہوتا جب یہ پتا چلتا ہے کہ کسی شخص نے خصوصیت کے
خطابات طاہر جلد دوم 165 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء ساتھ اس احمدی ہونے والے کو تبلیغ کی تھی تو اس کے ساتھ اور بھی زیادہ مظالم کا سلوک ہوتا ہے.اسی قسم کا ایک واقعہ ضلع گوجرانوالہ کے گاؤں کے ایک دوست لکھتے ہیں کہ ایک زمیندار چوہدری نذر محمد صاحب کو بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق ملی.چونکہ میں اس میں محرک بنا تھا میرے ذریعے سے انہوں نے بیعت کی تھی اس لئے ان کا لڑکا جو شدید مخالف ہے وہ اپنے باپ پر حملہ تو نہیں کر سکتا تھا اس نے مجھے دھوکے سے بلایا اور کہا کہ فلاں جگہ آؤ تو کچھ گفت و شنید کرنی ہے جب میں وہاں گیا تو مجھے بند کر کے اتنا مارا گیا کہ جتنا بھی وہ مارسکتا تھا اور کہا کہ یہ میرا پہلا پیغام ہے اور آخری نہیں.اگر میرا باپ واپس نہ آیا تو اگلی سزا اس سے زیادہ سخت ہوگی اور اگر وہ پھر واپس نہ آیا تو پھر تمہاری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں.اس قسم کی وارنگ کے یعنی تنبیہ کے خطوط کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ کے ممبران کومل رہے ہیں جن کے نمونے وہ مجھے بھجواتے رہے ہیں اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جن کو اب تک شہادت نصیب ہو چکی ہے اس لئے یہ خیال کہ یہ فرضی خطوط ہیں یونہی دھمکیاں ہیں یہ درست نہیں.ایک صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے بظاہر ایک بڑا مہذب خط ملا ہے لیکن جیسا کہ وہ اس کا مضمون کھلتا چلا جائے گا آپ کو معلوم ہوگا یہ کس قسم کا مہذب انسان ہے جو خط مجھے لکھ رہا ہے.وہ کہتا ہے السلام علیکم ہمارے واحد خدا پاک نے یہی حکم دیا ہے کہ ہر شخص سے خندہ پیشانی سے ملو.اب میں انتہائی ادب سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مرزائیت چھوڑ کر مسلمان ہو جائیں.میں آپ کو اسلام میں آنے کی دعوت دیتا ہوں.امید ہے آپ میری دعوت کو قبول کریں گے اگر نہ کیا تو آپ کی دکان کے باہر لوہے کے بڑے بڑے جنگے جو لگائے گئے ہیں وہ آپ کے کام نہیں آئیں گے.میں دوسرا خط آپ کو لکھوں گا، پھر میں تیسر اخط آپ کو لکھوں گا، پھر ایک ہفتے کی مہلت آپ کو دوں گا اس کے بعد میرے دین کے مطابق تمہارا قتل جائز ہوگا چونکہ نعوذ باللہ اس کے بیان کے مطابق قرآن پاک میں یہی لکھا ہے کہ کافروں کو جہاں دیکھو قتل کر دو.مگر میں چاہتا ہوں کہ تم کافر نہ مرواس لئے تمہیں مہلت دے رہا ہوں اگر مسلمان نہ ہوئے تو تمہیں بھی اور تمام مرزائیوں کو جن کو بار بار میں نوٹس دوں گا خدا کی قسم میں قتل کر دوں گا.آخر پر دستخط میں فقط رسول کا کتا ایک اور غازی علم الدین.لیکن رسول کا تو اس نے زیادتی کی ہے ویسے کتا لکھ دیتا اپنے آپ کو تو اور بات تھی کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا تو کتا بھی اس سے زیادہ رحم دل اور شریف ہوتا تھا ناممکن ہے
خطابات طاہر جلد دوم 166 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء کہ کوئی کتا جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے گھر تربیت پاتاوہ کسی پر کسی قسم کا ناجائز حملہ کرنا تو در کنار بھونکتا بھی نہیں اس لئے یہ شخص اس معاملے میں بہت بڑی زیادتی کر گیا ہے.گجرات سے ایک احمدی ڈاکٹر لکھتے ہیں کہ میرا بیٹا جشن تشکر کے موقع پر لاہور میں غرباء کو کھانا تقسیم کر رہا تھا مخالفین نے اس کو گالیاں دیں، پولیس کے ساتھ مل کر گھر کا گھراؤ کیا اور پھر اس کو قید کر کے جیل پہنچایا گیا آج بڑی مشکل کے ساتھ ۱۲ رمئی کو وہ ضمانت پر رہا ہوکر آیا ہے.جہاں تک احمدیوں کی ترقیات کا تعلق ہے ہزار ہا احمدی ایسے ہیں جن کی محکمانہ ترقیاں روک لی گئی ہیں الا ماشاء اللہ جہاں کہیں کوئی بہت غیر معمولی شریف النفس ہی نہیں بلکہ بہادر افسر ہو وہ احمدیوں کی ترقی میں روک نہیں بنتا اور ایسی بہت سی مثالیں ہیں لیکن بالعموم جو واقعہ گزررہا ہے وہ یہ ہے کہ اکثر احمدی اپنی جائز ترقیات سے محروم کر دیئے گئے ہیں.اس میں ایک وجہ تو احمدیت کی مخالفت ہی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک اور وجہ قوم کی بددیانتی ہے.پہلے سے بھی ایسے واقعات سننے میں آتے رہے ہیں کہ جہاں دفتر کا ماحول بددیانت ہے وہاں ایک احمدی کی دیانت ان کو بہت تکلیف دیتی ہے.اس وقت غالبا ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں تھا ایسے راہ کے پتھر کو راہ سے ہٹانے کا لیکن اب چونکہ جماعت احمد یہ کی مخالفت حکومت کے لحاظ سے ایک تسلیم شدہ چیز ہے اور ہر شخص کو حق ہے جو چاہے جس پر چاہے گند اچھالے، جس کو چاہے پتھر مارے اس لئے اب یہ احمدیت کی مخالفت دراصل ایک بہانہ بن گئی ہے ان لوگوں کیلئے اور ملک میں بڑھتی ہوئی بد دیانتی ہے جس کے نتیجے میں دیانتدار احمدی افسران کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں اور ان کی ترقیاں روکی جاتی ہیں اور بہت سوں کو احمدیت کا الزام لگا کر با قاعدہ فارغ بھی کیا گیا ہے.ایسی چٹھیاں دفتری چٹھیوں کی نقول میرے پاس موجود ہیں جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ چونکہ تم احمدی ہو اس لئے تمہیں اس ملازمت سے فارغ کیا جاتا ہے اور جب اس کے خلاف احتجاج کئے گئے تو کوئی اس احتجاج کی آواز کی پذیرائی نہیں ہوئی.حد یہ ہے کہ ایک ائیر فورس کے محکمے میں ایک احمدی افسر کو با قاعدہ یہ چٹھی لکھ کر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا کہ تم احمدی ہو تمہاری ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں.جب اس نے اپیل کی تو وہ اپیل یہ لکھ کر واپس کر دی گئی کہ تمہاری اپیل سننے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے تمہیں اس کا کوئی حق نہیں.اس عرصے میں حکومت تبدیل ہوئی تو اب اس نے ایک اپیل پرائم منسر کو بھیجی ہے اللہ بہتر جانتا ہے کہ اب اس اپیل کا کیا حشر ہوتا ہے مگر اس سے
خطابات طاہر جلد دوم 167 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء پہلے تو بڑی کھلی جرات کے ساتھ حیا کے بغیر کسی شرم کے بغیر کھل کر یہ کہ دیا جا تا تھا اورتحریر دے دی جاتی تھی کہ تم احمدی ہو اس لئے ہم تمہیں ملازمت سے فارغ کرتے ہیں.بعض دفعہ ملی ہوئی ترقی واپس لے لی گئی چنانچہ ایک دوست لاہور سے لکھتے ہیں کہ منیر احمد سنوری ان کے ماموں کے چیف انجینئر بننے کے آرڈر آچکے تھے لیکن وہاں آفس والوں نے شور مچایا کہ قادیانی کو چیف انجینئر نہیں بننے دینا.اس کے نتیجے میں اس ترقی کے جاری شدہ آرڈر کینسل کر دیئے گئے.اسی طرح اور بہت سی مثالیں ہیں لیکن چند ایک کافی ہوں گی.ربوہ کے ایک نوجوان لکھتے ہیں کہ آج ۲۳ / مارچ کا دن ہے اور تمام احباب جماعت اس دن علی الاعلان خوشیاں منارہے ہیں اور ہم ہیں کہ ہم پر پابندیوں کا دائرہ مزید تنگ کر دیا گیا ہے، ربوہ کی فضا میں ایک عجیب اداسی چھا گئی ہے.آج جب نماز فجر کے بعد دعا اور تقسیم مٹھائی سے فارغ ہو کر البیت سے باہر نکلے تو یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ شاہین فورس کے مجاہدین ہاتھوں میں لاٹھیاں ، راکفل اور آنسو گیس اور نا معلوم کیا کیا لئے اور اسلحہ سے لیس ہو کر مختلف مقامات پر کھڑے گویا کسی بڑے جلوس کو قابو کر نے کیلئے تیار تھے.جہاں دکھ ہورہا تھا وہاں ہنسی بھی تو آئی کہ بیچارے نادان کیسے گھوم رہے ہیں اور ہماری خوشیوں پر پہرا دے رہے ہیں.امیر صاحب جماعت احمد یہ مردان ایک شہید ہوئی مسجد کو جب دیکھتے ہیں تو ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے.وہ لکھتے ہیں ہماری مسجد شہید ہو چکی ہے اور ویران پڑی ہے جس میں ان ظالموں نے مختلف قسم کا گند پھینک رکھا ہے مسجد کا کیس عدالت میں دائر ہے اور حکومت کی طرف سے دفعہ 145 کا مقدمہ بھی درج ہے اور یہاں کی انتظامیہ خصوصی طور سے یہ نہیں چاہتی کہ ہم اپنی مسجد کے قریب بھی جائیں.میری دلی خواہش اور تمنا ہے کہ ہم لوگ وہاں جا کر مسجد کو صاف کریں اور پھر میں وہاں جا کر سجدہ کروں جہاں ہمارے بزرگوں نے خدا کے حضور سجدے کئے ہیں.ایک چار سالہ احمدی بچی قرۃ العین جو ننکانہ صاحب میں رہتی تھی اس نے اپنی آنٹی ( یہ لفظ آنٹی لکھا ہوا ہے ) ممانی یا پھوپھی یا خالہ جو بھی ہیں ان سے خط لکھوا کر بھجوایا ہے لکھنے والی نے کہا ہے کہ جو کچھ اس بچی نے مجھے لکھوایا میں نے اسی طرح امانت کے طور پر لکھ دیا ہے وہ کھتی ہے ۱۲ ر اپریل کو صبح 11 بجے ربوہ سے نکا نے پہنچے تو کیا دیکھا کہ ہمارے گھر کو اور سامان کو آگ لگی ہوئی تھی اور میں ڈرگئی
خطابات طاہر جلد دوم 168 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء کہ یہ کیا ہوا ہے کسی آدمی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ قادیانیوں کے تو سارے گھر اور سامان جلا دیئے گئے ہیں لکھتی ہے پیارے ابا حضور ! انہوں نے میرے کھلونے ،سائیکل سختی وغیرہ سب کچھ جلا دیا ہے جب میں نے پڑھا تو بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو برسنے لگےلیکن پھر معابعد مجھے شرمندہ ہونا پڑا اور اس چھوٹی سی بچی سے مجھے سبق سیکھنا پڑا.اس کے بعد وہ لکھواتی ہے لیکن میں بالکل نہیں روٹی کیونکہ اللہ نے پہلے سے بڑھ کر دینا ہے کوٹھی ، کار اور بڑی سی گڑیا، سائیکل دینی ہے اور کھلونے بھی.امی جان کہتی ہیں کہ جو خدا کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے خدا اس کو بہت زیادہ دیتا ہے.کیسی کچی بات اس بچی نے کہی ہے، کیسے عظیم کردار کا نمونہ دکھایا.اس میں کوئی شک نہیں کہ جن احمدیوں کے ماضی میں نقصان ہوئے تھے خدا نے اتنا بڑھا کر اس کو دیا اور ایسے ایسے فضل ان پر نازل فرمائے کہ اس سے پہلے وہ خواب میں بھی یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ ان کو خدا تعالیٰ ایسی ایسی نعمتیں عطا کرے گا.صبر کا امتحان جتنا لمبا ہو اتنے ہی فضلوں کا سلسلہ بھی زیادہ دیر تک جاری رہتا ہے اور غیر معمولی جزا خدا کی طرف سے ملتی ہے اس لئے اس بارے میں اک ذرہ بھر بھی نہ مجھے شک تھا نہ ہے، نہ ہوگا کہ وہ تمام احمدی جو پاکستان میں دکھ اٹھا رہے ہیں ان کے دکھوں کے نتیجے میں خدا تعالیٰ جو دنیا میں فضلوں کی بارش نازل فرما رہا ہے وہ ایک زائد فضل ہے.براہ راست ان لوگوں کو یقیناً خدا کی رحمت پہنچے گی اور اس کثرت کے ساتھ ان پر فضل نازل ہوں گے کہ وہ اپنے دکھوں کو یاد کر کے شرمندہ ہوا کریں گے اور کہیں گے اے خدا! ہم نے بے صبری دکھائی اور ہم نے جود کھ محسوس کیا حقیقت یہ ہے کہ تیرے فضلوں کے ساتھ اس دکھ کی کوئی نسبت نہیں.معمولی سے کانٹے کی چھن کے مقابل پر تو نے بے انتہا فضل ہم پر نازل فرمائے ہیں.اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ یقیناً وہ زمانہ آئے گا کہ تمام احمدی جو آج مظلوم ہیں خدا تعالیٰ ان کے مراتب بلند کرے گا.اس دنیا میں بھی ان کو عزتیں اور اموال دے گا اور خوشیاں نصیب فرمائے گا اور آخرت میں بھی اس قدر بے انتہا دے گا کہ ان کا تصور اس کو نہیں پہنچ سکتا.ننکانہ صاحب سے ہی ایک اور دوست لکھتے ہیں کہ ہمیں چند دن پہلے سے ان حالات کے متعلق اندازہ ہو چکا تھا اور ہم ہر طرح سے انتظامیہ کو متنبہ کر رہے تھے اور بڑے سے بڑے افسروں کو تاریں بھی بھجوائی جا چکی تھیں اور پھر ہم خود مل کر بھی مقامی و ضلعی انتظامیہ سے گفت و شنید کرتے تھے ان کو بتاتے تھے یہ خطرات ہیں اور آپ کو مناسب انتظام کرنا چاہئے.کہتے ہیں ایک موقع پر جب ہم
خطابات طاہر جلد دوم 169 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء متعلقہ اے سی اور ڈی ایس پی سے ملے انہوں نے کہا ہر گز فکر نہ کریں.تمام علماء نے ہم سے خدا کی قسمیں کھا کر وعدہ کیا ہے کہ ہم صرف جلوس نکالیں گے اس کے علاوہ کوئی کارروائی نہیں ہوگی.اس لئے آپ مطمئن رہیں اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں جلوس نکلنے دیں اس سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے.اس کے بعد یہ خدا کی قسمیں کھانے والوں نے جو سلوک کیا اس کے متعلق لکھتے ہیں.باقاعدہ پر وگرام بنا کر حملہ آوروں کو گروپوں کی شکل میں ترتیب دیا گیا تھا.تقریباً ایک گھنٹے کے اندر اندر سارے احمدی گھروں کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا.خاکسار نے بھی چار ماہ بیشتر نیا مکان تعمیر کیا تھا ابھی اس مکان کا 55 ہزار قرض بھی واجب الادا تھا کہ اسلام کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے ۱۲ اپریل ۱۹۸۷ء کو مکان کو شدید نقصان پہنچایا مکان کے دو کمروں کی چھت اور فرش بالکل خراب ہو چکے ہیں اور گھر کا ہر قسم کا اثاثہ نذر آتش ہو گیا ہے.خاکسار کا ذاتی ریکارڈ بھی ضائع ہو گیا ہے.ظالموں نے صرف ہمارے زیب تن کپڑے چھوڑے اور ہر قسم کے پار چات بھی نذر آتش کر دیئے.صرف ایک چیز یعنی ایک غیر احمدی دوست کا موٹر سائیکل بیچا جو کہ میرے پاس اس سے زیادہ وقت نہیں تھا کہ میں چند منٹ کے اندراندر اس موٹر سائیکل کو کسی محفوظ جگہ پہنچادوں کیونکہ یہ کسی کی امانت تھی.اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے خولا بنت ڈاکٹر عبدالغفور صاحب لکھتی ہیں۱۲ اپریل کو ہم صبح صبح جاگے تو اعلان ہوا کہ قادیانیوں کے خلاف جلوس نکالے جائیں گے، ہم تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ جانی و مالی نقصان پہنچانے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں ایک دم جلوس شعلوں کی طرح بھڑکتا ہوا ہمارے گھر کی طرف آ گیا ہمارے ہمسایوں نے ہمیں پناہ دی.جب وہ پہلے مسجد میں گئے تو انہوں نے مسجد کے مینار گرائے تو میری والدہ نے میرے ابا جان کو کہا کہ مسجد کی حفاظت کیلئے جیسا بھی ہو سکے ضرور پہنچو، میرے ابا جان اور میرے بہنوئی سلطان احمد صاحب مسجد کی حفاظت کیلئے چلے گئے تو انہوں نے ان دونوں کو بہت مارا پیٹا.میرے ابا جان تو ابھی تک چل پھر بھی نہیں سکتے اور نہ اٹھ بیٹھ سکتے ہیں.وہ دونوں ان دنوں شیخو پورہ ہسپتال میں جماعت احمدیہ کی طرف سے زیر علاج ہیں ان کی غیر موجودگی میں مخالفین ہمارے گھر آئے اور سارا گر تباہ و برباد کر دیا، قیمتی سامان تو ایک طرف سر چھپانے کیلئے بھی کوئی جگہ نہیں چھوڑی لکھتی ہیں کہ میں فرسٹ ائیر کی طالبہ ہوں اور تھوڑے دنوں کے بعد ہمارے پیپر بھی شروع ہونے والے ہیں.میری پڑھائی والی بھی تمام کتابیں جلا دی گئی ہیں دعا
خطابات طاہر جلد دوم 170 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے امتحان میں کامیاب کرے.خادم مسجد بھی حفاظت کیلئے گئے ہوئے تھے ان کو بھی زخمی کر دیا گیا اور ان کے بچوں کو آگ میں جلانے کی کوشش کی گئی لیکن خدا کے فرشتوں نے انہیں آگ سے نکال لیا.میرے بہنوئی کے سر میں کیل ٹھونکے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے مستقل نقصان سے بچالیا.یہ لمبے قصے ہیں یہ ننکانہ صاحب کے واقعہ کے چند دن بعد کی ڈاک ہے اس سے آپ اندازہ کریں کہ ہر روز کس قسم کے خطوط مجھے ملتے ہیں جو سارے کے سارے مبنی بر حقائق ہیں کوئی مبالغہ نہیں ہے.آنکھوں دیکھا کسی بچے نے اپنا دل کا حال بیان کیا کسی بڑے نے اپنے ماحول کی کیفیت بیان کی ، سارے پاکستان کی جماعت شدید دکھوں میں مبتلا ہے.ایک خاتون ننکانہ صاحب ہی سے آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں انتظامیہ نے چونکہ ہمیں بہت تسلی دی اس لئے ہم آرام سے گھروں میں بیٹھ رہے.ایک دن صبح اسی طرح بیٹھے ہوئے دس منٹ پہلے ہمیں اطلاع ملی کہ میرے بھائی کے گھر کو اور مسجد کو جلا دیا گیا ہے.میں نے جلدی میں بستر کی چادر اٹھائی اور اوڑھ کر اپنے بھائی کے گھر جانے لگی میرے میاں جلدی سے چھت پر چڑھے تو دیکھا کہ مرزا الطاف الرحمن کے گھر کی طرف سے شعلے اٹھ رہے ہیں انہوں نے مجھے کہا کہ تم جلدی بچوں کو لے کر کہیں چلی جاؤ شہر کی طرف نہ جانا اور میں گھر پہ رہتا ہوں.میں اپنے تینوں بچوں کو ساتھ لیکر اسی چادر کے ساتھ نکل کھڑی ہوئی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کدھر جاؤں.خدا تعالیٰ نے نہ جانے مجھ میں کہاں سے ہمت ڈال دی اور عقل دی میں نے فوراً کالونی کو چھوڑا اور آدھ میل پر گندم کے کھیتوں کی طرف چلی گئی.ادھر بچے شہر سے دھوئیں کے بادل دیکھ دیکھ کر رور ہے تھے کہ امی جلدی جاؤ اور ابو کو بھی لے کر آؤ.چنانچہ میں گھر کی طرف بھاگی اور گھر سے جب آگ کے شعلے بھڑکتے ہوئے دیکھے تو میں پاگل سی ہوگئی.میں دیوانہ وار اس آگ میں کود پڑی اور اپنے خاوند کو آواز دینے لگی.تب ہمسائے کی طرف سے مجھے آواز آئی کہ بی بی یہاں آجاؤ تمہارے خاوند کو ہم نے اپنے گھر پناہ دے دی ہے.تب معلوم ہوا گو وہ تو شہادت کیلئے تیار بیٹھا تھا مگر ہمسایوں نے زبردستی اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹ کر اسے اپنے گھر میں پناہ دی.کہتی ہیں کہ خاوند بیٹھا یہ ساری باتیں سن رہا تھا سارے واقعات کی براہ راست اس کو اطلاع ہو رہی تھی وہ کہتے ہیں کہ مسلسل جو چیزیں لوٹنے والی تھیں وہ لوٹی
خطابات طاہر جلد دوم 171 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء گئیں اور بعد میں ڈھیریاں بنا بنا کر سامان کو آگ لگائی گئی.پھر سارے گھر کو آگ لگائی گئی اور یہ دیکھا گیا کہ کوئی چیز بھی ایسی بیچ نہ جائے جونذر آتش نہ ہو.کہتی ہیں اس وقت میری یہ حالت تھی کہ میں پھر جب گھر پہنچی ہوں تو جو آگ سلگ رہی تھی اس پر میں نے دیچی سے پانی بھر بھر کر ڈالنے شروع کئے اور دوپہر کا وقت ہو گیا.ڈیڑھ بج گیا میں وضو کرنے بیٹھ گئی جب میں نے وضو کرتے ہوئے کلمہ پڑھا تو جو لوگ ارد گرد تماش بین اکٹھے تھے ان میں سے ایک نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ کلمہ تو ہمارا ہی پڑھ رہی ہے.یہ عجیب بات ہے اس قدر جھوٹ بولا گیا ہے پاکستان میں اس قدر نفرت کی ہوائیں چلائی گئی ہیں کہ جوار دگر درہنے والے ہمسائے ہیں وہ بھی یہ یقین کر بیٹھے ہیں کہ گویا نعوذبالله من ذالک احمدیوں کا کلمہ اور ہے.کہتی ہیں کہ اسوقت میرا عبر کا بندھن ٹوٹ گیا محلے والے لوگ میرا حشر دیکھ رہے تھے کس وقت صبر کا پیمانہ ٹوٹا یہ اور واقعہ ہے.ہھتی ہیں کہ اس وقت ملبے میں تلاشی لے رہی تھی کہ کوئی چیز بچی ہو تو جلے ہوئے قرآن کے ٹکڑے نظر آئے اس وقت میرے صبر کا پیمانہ ٹوٹ گیا.محلے والے میرا حشر دیکھ رہے تھے اور میرے منہ پہ یہی جملہ تھا کہ لوگو مجھے سامان کی پرواہ نہیں مجھ سے یہ قرآن مجید کا حشر نہیں دیکھا جارہا.محلے والے لوگ بھاگم بھاگ میری آواز پر دوبارہ اکٹھے ہو گئے ان کی موجودگی میں ایک اور تاج کمپنی کا قرآن کریم بھی اسی طرح جلا ہوا ملا.یہ اپنے گھر بچوں کو تعلیم دیا کرتی تھیں.غیر احمدی بچے بھی پڑھنے آتے تھے اس لئے وہ بتارہی ہیں لمبی کہانی ہے کہ کس طرح غیر احمدی بچوں کے چھوڑے ہوئے قرآن مجید بھی جب انہوں نے جلے ہوئے دیکھے تو پھر وہ سارے گاؤں میں سارے قصبے میں وہ خود وہ قرآن لے کے پھرے کہ یہ ایسے ظالم لوگ ہیں کہ قرآن کے جلنے کا بہانہ بنا کر یہ خود قرآن جلانے والے ہیں.جشن تشکر جہاں جہاں منایا گیا اس کی بھی سزائیں جماعت احمدیہ کودی گئیں اور جماعت احمد یہ نے مختلف علاقوں میں اس جشن تشکر کی قیمت ادا کی ہے.ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ہم جب مسجد سے جہاں کھانے کا انتظام تھا کیونکہ باہر تو کچھ تقسیم کرناممکن نہیں تھا.جب روانہ ہونے لگے تو ایک دوست نے کہا کہ میں نہیں آسکتا کچھ چاول ہمارے گھر کے لئے بھی لیتے آنا ہم نے بالٹی میں کچھ چاول ڈالے اور موٹر سائیکل پر روانہ ہوئے.باہر ا کرم طوفانی کے غنڈے نے ہمیں چلتے موٹر سائیکل سے دھکا دیا اور ساتھ ہی شور مچانے لگا کہ قادیانی کافر اپنے مندر سے چاول لے کر مسلمانوں میں تقسیم
خطابات طاہر جلد دوم 172 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء کر رہے ہیں ان کو پکڑو اور مارو.دومنٹ کے اندر اندر موٹر سائیکل کھڑا کرتے ہی چالیس پچاس غنڈے جمع ہو گئے اور آتے ہی انہوں نے ہمیں مارنا شروع کر دیا.ان کی باری ہی نہیں آ رہی تھی کہ ہمیں کہاں کہاں ماریں، مارتے مارتے اسی طرح ٹانگے پر گھسیٹ کر سوار کیا اور تھانے لے گئے جہاں ہمیں حوالات میں بند کر دیا گیا لیکن یہ عجیب واقعہ ہم نے دیکھا ہے کہ جب ہم حوالات میں پہنچے تو دوسرے مجرم جو حوالات میں قید تھے ان کو پتہ لگا کہ ہم کیوں قید کئے گئے ہیں کیا ہم سے سلوک ہوا ہے تو بے اختیار ہمارے زخم چومنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ آپ بڑے خوش نصیب لوگ ہیں جو اپنے دین کی حفاظت میں یہ تکلیفیں اٹھا ر ہے ہیں.اب اس تفصیل کو بیان کرنے کا وقت ہی نہیں ہے چند دن کے اندر اندر اتنے واقعات روزمرہ کی تکلیف کے اکٹھے ہو جاتے ہیں کہ جو بعض دفعہ ساری زندگی کو دکھوں سے بھر دینے کے لئے کافی ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ اتنی رحمتیں بھی ساتھ نازل فرمارہا ہے، جماعت کو اتنی ترقیات بھی عطافرمارہا ہے کہ وہ زخم ساتھ ساتھ ڈھلتے جاتے ہیں اگر چہ ان کی کسک تو باقی ہے وہ مٹ نہیں سکتی لیکن خدا کے فضل سہارے ضرور دیتے ہیں اور اس قوت کے ساتھ دلوں کو تھامتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ اپنے فرائض کی ادائیگی کو آسان فرما دیتا ہے.یہ باتیں میں کل کی تقریر میں اور پرسوں کی تقریر میں کچھ حصہ آپ کے سامنے پیش کروں گا.اس وقت میں آپ کو آخر پر دعا سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے کہا تھا ہمارا سہارا صرف خدا کی ذات ہے دنیا میں ہم ان باتوں کی تشہیر جس حد تک ممکن ہے کر تو رہے ہیں لیکن یہ دنیا سیاست کی دنیا ہے.مذہب کی دنیا نہیں اور مذہب میں جو بھیا نک واقعات ہو رہے ہیں ان کے پیچھے بھی سیاست ہی ذمے دار ہے اور یہ سب سیاسی کھیل ہیں ان کا حقیقت میں مذہب سے کوئی بھی تعلق نہیں.اگر پاکستان میں اسلام کی سچی ہمدردی ہوتی تو جس قسم کے جرائم وہاں کثرت سے بڑھتے اور پھیلتے چلے جارہے ہیں کسی ملاں کے دل میں ان کا بھی خیال آتا اور وہ خدا کا خوف کرتا کہ اسلام تو دراصل کردار کا نام ہے.جس ملک سے انسانیت اٹھ گئی ہو ، جس ملک سے بچوں کی حرمت اُٹھ گئی ہو، جس ملک سے عورتوں کی حرمت اُٹھ گئی ہو، جہاں روز مرہ بچے اغوا ہور ہے ہوں اور لاکھوں کی قیمت کے مطالبے ہوں کہ ہم تمہارے بچے کو ذبح کر دیں گے اگر تم نے یہ قیمت ادا نہ کی ، جہاں غریب لوگ
خطابات طاہر جلد دوم 173 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء اپنی ساری عمر کی کمائی ہوئی جائیدادیں بیچ کر اپنے بچوں کی جان چھڑانے پر مجبور کئے جارہے ہوں، جہاں دن بدن سفا کی بڑھ رہی ہو، جھوٹ بڑھ رہا ہو، غصب بڑھ رہا ہو ، رشوت بڑھ رہی ہو اور سارے معاشرے سے امن اٹھ چکا ہو وہاں ان حالات کو ہنستے ہوئے برداشت کرنا اور کبھی اشارةُ بھی اس بات کا اظہار نہ کرنا کہ اسلام تو تمہاری گلیوں میں تباہ ہورہا ہے تمہارے گھروں میں تباہ ہورہا ہے، تمہارے شہروں میں تباہ ہو رہا ہے، ہر جگہ اسلام کو ہلاک کیا جارہا ہے اس لئے تم کس اسلام کی حفاظت کی باتیں کر رہے ہو.یہ کہنے کی بجائے ایک فرضی نظریاتی بحث کو اٹھا کر ساری عوام الناس کو پاگل بنایا جارہا ہے.اس لئے وہاں بھی دراصل مذہب نہیں بلکہ سیاست کھیل رہی ہے اور سیاست پاکستان کی ایسی الجھ چکی ہے اور بدقسمتی سے ایسی گندی ہو چکی ہے کہ سر دست مجھے پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی واضح امید دکھائی نہیں دیتی کہ جلد حالات پلٹا کھائیں.یعنی ان حالات کے نقطہ نگاہ ، سے ظاہری تجزیے کے نقطہ نگاہ سے کوئی امید نہیں ہے لیکن جہاں تک خدا کی تقدیر کا تعلق ہے اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمائے ہیں ان کو ضرور پورا کرے گا اور وہ دن دور نہیں کہ جب اس ملک کو سنجیدگی کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ شرافت کے ساتھ اس ملک کو قائم رکھنا ہے یا خباثت میں بڑھتے ہوئے اس خدا کی عطا کو اپنے ہاتھوں سے ضائع کر دینا ہے.جب یہ سوال واضح طور پر ابھرے گا اور ابھرتا چلا جارہا ہے.دن بدن پاکستان کی عوام میں یہ احساس پیدا ہوتا چلا جارہا ہے کہ ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں بقاء اور فنا کا سوال ہے.To be or not to be کا سوال ہے، ہم نے زندہ رہنا ہے یا نہیں رہنا؟ یہ سوال ہے جو آج درپیش ہے جب یہ سوال اور زیادہ واضح ہوگا تو قوم کوکوئی فیصلہ کرنا پڑے گا.میری دعا یہ ہے اور میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ بھی اس کو اپنی دعا بنا ئیں کہ خدا اس قوم کو ایسے موقع پر اس دوراہے پر میچ فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ اس ملک پر جب تک ملاں کی لعنت سوار ہے یہ ملک کسی پہلو سے بھی ترقی نہیں کر سکتا.دن بدن ذلت اور مزید ذلت کا شکار ہوتا چلا جائے گا.آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جاہل ملاں کسی قوم پر سوار ہوا ہو اور اس نے اس قوم کو تباہی کے گڑھے تک پہنچا نہ دیا ہو.یہ تو پیر تسمہ پا ہے اور عجیب بات ہے کہ سیاست اس بات کو بجھتی نہیں، عجیب اندھی سیاست ہے ہمارے ملک میں کہ ماضی پر نگاہ رکھتے ہوئے سبق لینا نہیں جانتی.
خطابات طاہر جلد دوم 174 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء یہ پیر تسمہ پا کی کہانی شاید آپ میں سے بہتوں نے سنی ہو اور بعضوں نے نہ بھی سنی ہو اس لئے میں اس کہانی کو دوہراتا ہوں کیونکہ یہ بعینہ پاکستان کے حالات پر صادق آرہی ہے.کہتے ہیں ایک جزیرے میں ایک سند باد جہازی تھا یا جو بھی تھا اس کا جہاز تباہ ہوا ،ٹوٹ گیا تو وہ ایک جزیرے میں اتر گیا اور اس جزیرے میں بہت سے پھل دار درخت تھے اور بہت ہی امن کی جگہ تھی وہ پھل کھا رہا تھا کہ اتنے میں اس کو ایک آواز سنائی دی.ایک بوڑھے کی کہ میرا بھی تو کچھ خیال کرو.دیکھو میری ٹانگیں مفلوج ہیں میں اپنی ٹانگوں کے بل کھڑا نہیں ہو سکتا اپنی آنکھوں کے سامنے پھلوں سے لدے درختوں کو دیکھتا ہوں بھوک سے تلملاتا ہوں لیکن میرے مقدر میں تازہ پھل نہیں.ہاں جو درخت سے گر جاتے ہیں جانوروں کے کھائے گندے، بچے ہوئے پھل وہ کھانے پڑتے ہیں.تم مجھ پر رحم کرو اور مجھے اپنے کندھوں پر چڑھالو.اس بیچارے کو رحم آ گیا اس نے اسے اپنے کندھوں پر سوار کر لیا.وہ مفلوج ٹانگیں جور بڑ کی طرح تھیں وہ جس طرح سانپ اپنے جسم کو کتا ہے.بعض جانوروں کے اردگرد اپنے بل کو تنگ کرتا چلا جاتا ہے اسی طرح اس بوڑھے نے اپنی ٹانگوں کو اس کی گردن کے ارد گرد لپیٹا اور اس کا حلقہ تنگ کرتا چلا گیا.یہاں تک کہ اس کیلئے اس سے نجات ممکن نہ رہی.تب اس نے کہا کہ میں تو خوش ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ( اس نے خداتعالی کا لفظ کہایا نہیں کہانی یہ کہتی ہے کہ) مجھےاور دو ٹانگیں دے دی ہیں اب تم میری ٹانگیں ہو اور تمام عمر میں تمہاری گردن پر سوار ہوں گا اور تمہاری ٹانگیں میری ٹانگوں کا کام دیں گی.یہ کہانی ہے لیکن اس میں بڑا گہر اسبق ہے بعض لوگوں کی ٹانگیں اس لئے ماری جاتی ہیں کہ وہ اس لائق نہیں ہوا کرتے کہ دنیا کو اپنے مفاسد سے تباہ کریں، اپنے نفوس کے مفاسد سے تباہ کریں.اسی لئے ملاں جب بگڑ گیا تو خدا تعالیٰ نے اس کو قعر مذلت میں گرایا اور یہ ہمارے ملکوں میں کمین کے طور پر ظاہر ہوا.جن ملکوں میں ملاں نے اپنے نفس کی عزت کو قائم رکھا اسلام سے وفا کی وہاں یہ بہت معزز حیثیت رکھتا ہے اور میں ان کی بات نہیں کر رہا لیکن بدقسمتی سے پنجاب میں خصوصیت کے ساتھ اور ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں ملاں ایک ایسی ذلیل ہستی کے طور پر ابھرا ہے اس کو دیکھ کر حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی وہ حدیث یاد آ جاتی ہے کہ علماء هم شر من صلى الله تحت عديم السماء ( مشکوۃ کتاب العلم والفضل : ۳۸) ان لوگوں کے علماء آسمان کے نیچے بدترین قوم ہوں گے اس لئے ان کی ٹانگیں کوئی نہیں تھیں ان کو قوم پوچھتی نہیں تھی.رفتہ رفتہ آنحضرت ﷺ کے
خطابات طاہر جلد دوم 175 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء نام کا واسطہ دے دے کر اسلام کی عزت اور ناموس کے صدقے کہہ کہہ کر قوم کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ہمیں بھی اٹھاؤ.اگر کسی اور وجہ سے نہیں تو احمدیوں کی مخالفت ہی میں ہم سے کام لو.چنانچہ بعض بدنصیب اندھے سیاست دان ان کے قابو آئے اور اب یہ پیر تسمہ پا بن کر ان کی گردن پر سوار ہیں.لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان سے منافرت ملک میں دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے اور وہ لوگ جو احمدیوں کے گھروں پر گالیاں لکھتے ہیں اور لاؤڈ سپیکروں کے رخ ان کے گھروں کی طرف کر کے دن رات ان کو کوستے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دیتے ہیں ہر طرف سے مجھے یہ اطلاعیں مل رہی ہیں کہ عوام الناس پھر دن رات ان کو گالیاں دیتے ہیں اور یہ عوام کا اپنے علماء کو گالیاں دینے کا رجحان دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ لکھا کہ عزت مجھ کو اور تجھ کو ملامت آنے والی ہے ( در نشین : ۹۴) تو امر واقع تو یہ ہے کہ یہ الہامی پیش گوئی پوری ہو چکی ہے.دشمن تو گالیاں دیا کرتا ہے دشمن کی ملامت تو کوئی حیثیت نہیں رکھتی مگر وہ لوگ جو اپنے قائدین کو گالیاں دینے لگیں اور ان کے نام کو ذلت سے یاد کریں اور ان کا ذکر کر کے ان پرلعنتیں ڈالیں اور کہیں ہم تو وقت کا انتظار کر رہے ہیں کب حالات بدلیں تو ہم ان کو مزہ چکھا ئیں.یہ ہے حقیقی ذلت جو اس وقت ملاں کا مقدر ہو چکی ہے اور بڑھتی چلی جارہی ہے.اس لئے آپ اطمینان اور صبر کے ساتھ خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے دکھوں کے یہ چند دن جتنے بھی ہمارے مقدر میں لکھے ہوئے ہیں ان کو کاٹتے چلے جائیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ جو رحمتیں تمام دنیا میں احمدیت کوگھیر چکی ہیں ، جو احمدیت پر سایہ کئے ہوئے ہیں جو فضلوں کی بارش بن کر برستی ہیں.وہ آپ کے گھر تک بھی پہنچیں گی اور خدا تعالیٰ وہاں بھی حالات کو تبدیل کر دے گا اور آپ کی تشنگی بھی دور ہوگی لیکن جب آپ کل اور پرسوں میری دوسری تقاریر میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ذکر کو سنیں گے تو میں جانتا ہوں کہ جو پاکستان سے تشریف لائے ہوئے دوست ہیں ان کے دل بھی دھل جائیں گے ، وہ بھی خدا کا شکر ادا کریں گے کہ اے خدا! جو قربانیاں ہم نے دیں ان کے مقابلے پر تو نے اپنے فضل نازل فرمائے ہیں کہ اگر یہ ان کا نتیجہ
خطابات طاہر جلد دوم 176 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء ہے تو ہمیں کوئی شکوہ نہیں اور کوئی شکایت نہیں لیکن اس وقت تمام دنیا کے احمدیوں کو چاہئے کہ اپنے پیارے معصوم بھائیوں کو یاد کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ خدا تعالیٰ نے جو جماعت کو دنیا بھر میں ترقیات عطا فرمائی ہیں یہ کچھ ان کی چالاکیوں کے نتیجے میں یا ان کی کوششوں کے نتیجے میں ہیں نہ میرا کوئی منصوبہ ہے نہ آپ کا کوئی منصوبہ ہے.آپ دیکھیں گے اور محسوس کریں گے کہ آسمان پر خدا کی تقدیر ہے جو یہ سارے کام دکھا رہی ہے اور دن بدن احمدیت کو نئی عزت کے آسمان نصیب ہورہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام صرف احمدی دنیا میں ہی نہیں ، غیر احمدی دنیا میں بھی بڑی عزت وشان کے ساتھ یاد کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس الہام کو سچا کر دکھایا کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.( تذکرہ :۲۶۰) آج ہمارے اندر جو مختلف ممالک کے نمائندے تشریف لائے ہیں ان کے ملکوں کا ذکر میں کل کروں گا.لیکن کینیڈا کا یہ ذکر میں آج آپ کے سامنے کرتا ہوں کہ وہاں ایک مقتدر ہستی نے جب جشن تشکر میں جماعت احمدیہ کے ساتھ شرکت کی تو اس نے یہ اعلان کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر کو دکھاتے ہوئے کہ میں آج گواہی دیتا ہوں کہ یہ سچا شخص تھا جس نے آج سے سو سال پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.پھر ایک اور وہاں کی معزز ہستی نے کیونکہ مجھے معین یاد نہیں کہ وہ وزیر کے نمائندے تھے یا ممبر پارلیمنٹ تھے بہر حال اسی قسم کے ایک معزز بزرگ تھے انہوں نے یہ اعلان کیا کہ میں جانتا ہوں کہ آج پاکستان میں آپ کو جشن تشکر منانے کی اجازت نہیں ہے اور کینیڈا میں آپ کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ ہم سب مل کر پاکستان جا کر جشن تشکر منائیں گے.اب میں آخر پر دعا سے پہلے ایک اور شخص کا آپ سے تعارف کروانا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ” بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے.( تذکرہ: ۱۵۷) میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ یہ وہ صدی ہے کہ جس میں ہم بادشاہوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈتے ہوئے پائیں گے اور اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں.آج آپ کے سامنے بہت سے ملکوں کے معز زنمائندوں کا تعارف کروایا گیا ہے اور یہ واقعہ اپنی ذات میں عجیب بھی ہے اور لاثانی ہے.میرے علم کے مطابق آج تک دنیا کی تاریخ میں یہ واقعہ نہیں ہوا کہ ایک ایسی
خطابات طاہر جلد دوم 177 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء مذہبی جماعت کے جلسے میں جس کا کوئی اپنا ملک نہ ہو.بعض عظیم سیاسی ملک اپنے نمائندے بھیجیں محض اس جلسے میں شرکت کرنے کی غرض سے دور دراز کی مسافت کر کے وہاں پہنچیں.یہ ان ملکوں کا ایک عظیم احسان ہے ہم پر لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم نشان بھی ہے.ان کے آنے پر ان کو سو بسم اللہ کہتے ہیں، کھلے ہاتھوں سے ان کو سینے سے لگاتے ہیں بسر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، ان کا استقبال کرتے ہیں اور ہم ان کو یقین دلاتے ہیں کہ انشاء اللہ عالمگیر جماعت ان کے اس احسان کو اور ان کی اس انکساری کو اور ان کی خیر سگالی کے جذبے کو نہیں بھولے گی اور دعاؤں میں یادر کھے گی اور دعاؤں سے بڑھ کر اور کوئی تحفہ نہیں ہے جو ہم ان آنے والے مہمانوں کو پیش کر سکتے ہوں.لیکن یہ معزز ہستیاں بہت معزز ہیں مگر دنیا کے بادشاہوں کی نمائندہ ہیں.اب میں ایک ایسے شخص کا تعارف آپ سے کروانا چاہتا ہوں جو آسمانی بادشاہ کے نمائندہ کے طور پر آج یہاں آیا ہے.یعنی خلیفہ وقت کے طور پر میں یہ بات نہیں کر رہا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی کی بات کر رہا ہوں.مجھے چند دن پہلے یہ خیال آیا کہ جہاں دنیا کے بڑے بڑے معزز دوست تشریف لائیں گے ان کی عزت افزائی ہمارا فرض ہے اور ان کا حق ہے لیکن جماعت کہیں یہ بھول نہ جائے کہ سچی عزت آسمان کی عزت ہوا کرتی ہے اور کچی عزت وہی ہوتی ہے جو بچے مذہب سے وابستہ ہو اس لئے یہ صد سالہ جشن تشکر کیسا جشن تشکر ہوگا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کا کوئی صحابی شریک نہ ہو.چنانچہ میں نے فوری طور پر ربوہ کہلا کے بھجوایا کہ جس طرح بھی ہو سکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے جو چند گنتی کے صحابہ زندہ ہیں ان میں سے کسی ایک کو یہاں پہنچایا جائے.مولوی محمدحسین صاحب صحابی اپنی صحت کی کمزوری کی وجہ سے اس سے پہلے انکار کر چکے تھے مگر جب میرا پیغام انہوں نے سنا تو بڑے شوق سے لبیک کہی اور کہا میری ہر تکلیف بے حیثیت ہے اگر چہ میری حالت یہ ہے کہ نصف نصف گھنٹے کے بعد مجھے پیشاب کرنے کے لئے جانا پڑتا ہے لیکن خلیفہ وقت کا پیغام مجھے پہنچا ہے میں اس پر لبیک کہتا ہوں جو کچھ مجھ پر ہو میں وہاں ضرور پہنچوں گا.اس لئے یہ معزز مہمان آج ہمارے درمیان ہیں.میں آخر پران کا تعارف کرواتا ہوں اور ان سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے ساتھ کی کرسی پر آ کر تشریف رکھیں.یا درکھیں کہ کپڑوں سے مراد صحابہ بھی ہوا کرتے ہیں.جس طرح قرآن کریم میں بیوی کو مرد کے کپڑے اور مرد کو بیوی کے کپڑے کہا گیا ہے اس لئے یہ خیال نہ کریں کہ اس الہام کا معنی صرف ظاہری کپڑے ہیں.میرے نزدیک اس کے اول معنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ
خطابات طاہر جلد دوم 178 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء ہیں اور ان معنوں میں جب ہم اس الہام کا ترجمہ کریں گے تو مراد یہ ہوگی کہ لوگ ڈھونڈیں گے اور نہیں ملیں گے کوشش کریں گے کہ کاش ہمارے نصیب میں یہ ہوتا کہ ہم ان لوگوں سے برکت حاصل کرتے.جہاں تک کپڑوں کا تعلق ہے ظاہری کپڑوں کا وہ بھی انشاء اللہ ان معنوں میں بھی الہام پورا ہوگا یہ الہام اور ایک وقت میں لوگ ان کپڑوں کو بھی ڈھونڈیں گے مگر جب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ زندہ ہیں کپڑے کہلانے کا پہلا حق ان کا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ایک صدی گزرنے کے بعد آج جشن تشکر کے اس اہم جلسہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی ہمارے اندر موجود ہیں اللہ تعالیٰ ان کی صحت اور عمر میں برکت دے اور صحابہ کی برکت کا سایہ اور بھی ہماری اگلی صدی میں ممتد کرے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین لیکن ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے کہ جب آپ لوگ تابعین کے طور پر یاد کئے جائیں گے اور وہ سب لوگ جو آج اس صحابی کی زیارت کر رہے ہیں وہ تاریخ احمدیت میں تابعین کے طور پر گنے جائیں گے اور لکھے جائیں گے.اس لئے آپ سب لوگ خوش نصیب ہیں جنہوں نے اس سے پہلے کسی صحابی کو نہیں دیکھا کہ وہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ایک صحابی کو اپنی جسمانی آنکھوں سے بھی دیکھ رہے ہیں.ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اگلی صدی میں ہو سکتا ہے وہی عزت جو آج ایک صحابی کو دی جارہی ہے کسی تابعی کو دی جارہی ہو اور اس وقت کا خلیفہ وقت بڑے فخر کے ساتھ ایک تابعی کے گلے مل رہا ہو کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کو دیکھنے والے تبرکات میں سے ایک ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ اس برکت کو بڑھاتا جائے گا پھیلاتا چلا جائے گا اور جاگ سے جاگ لگتی چلی جائے گی.میرا آخری پیغام آپ کو یہی ہے کہ کوشش کریں کہ مسیح جاگ قبول کرنے والے بنیں.ایسے تابعی بنیں جو صحابہ کے ہم رشک ہوں اور صحابہ کے رنگ میں رنگین ہونے والے ہوں.ایسی قوم نہ ہوں جو ماضی میں زندہ رہا کرتی ہے ایسی قوم نہ بنیں جو یہ کہا کرتی ہے کہ پدرم سلطان بود که میرا باپ سلطان تھا، میرے آباؤ اجداد صحابہ تھے.دنیا کے سامنے وہ صحابہ کے رنگ پیش کریں کہ آپ میں صحابیت کی خوشبو سونگھی جائے اور آپ کی ذات میں صحابیت کے رنگ دکھائی دینے لگیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.آیئے اب ہم دعا میں شامل ہو جاتے ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 179 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء پاکستانی قوم امام وقت کی تکذیب سے تو بہ کرے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ احمدیوں کی دعاؤں سے یہ ملک بچ جائے گا.مظلوم احمدیوں کے خطوط کا تذکرہ افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۷ / جولائی ۱۹۹۰ء بمقام اسلام آباد شلفورڈ برطانیہ ) افتتاحی اجلاس کی کارروائی کے آغاز سے قبل حضور انور نے فرمایا:.جب حضرت محمد مصطفی کا نعرہ لگایا جائے تو اس کا جواب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور یہی قرآن کریم نے ہمیں سکھایا ہے اب میں یہ نعرہ لگاتا ہوں تو قرآن کے مطابق جواب دیں ( اس پر حضور انور نے پر شوکت اور بلند آواز میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نعرے لگوائے اور حاضرین نے پُر جوش جواب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ دیئے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ جلسہ سالانہ U.K کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ یہ صد سالہ جوبلی کا وہ جلسہ سالانہ تھا جس میں خلیفہ وقت کو بھی شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی اور اس وجہ سے دنیا کے کونے کونے سے ہزارہا کی تعداد میں احمدی اس جلسے میں شمولیت کے لئے حاضر ہوئے تھے.امسال بھی اس جلسے کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس جلسے میں حسب سابق خلیفتہ اسیح کو بھی نمائندگی کی توفیق نصیب ہو رہی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی اس جلسے کو ایک امتیاز حاصل ہے کہ یہ U.K کا پچیسواں جلسہ سالانہ ہے.اگر چہ ہماری نظر میں تو اعداد کو اہمیت حاصل نہیں ہوتی مگر دنیا کی نظر میں پچیسویں کا عدد ایک اہمیت رکھتا ہے اور اس
خطابات طاہر جلد دوم 180 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء عدد کے ساتھ دنیا میں سلور جوبلی منائی جاتی ہے.چنانچہ جہاں تک عام انسان کی نظر کا تعلق ہے اس جلسے کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اسے U.K کا سلور جوبلی کا جلسہ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن جلسہ خواہ کوئی بھی ہو، کہیں بھی ہو جماعت احمدیہ کا جلسہ ہو وہ ہر جگہ ہمیشہ خدا کی خاطر منعقد کیا جاتا ہے اور اس لحاظ سے احمدی جہاں تک ان کو تو فیق ملتی ہے بڑے ذوق شوق سے اس میں شامل ہوتے ہیں.بعض ایسے مواقع ہیں جبکہ شامل ہونے والے نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں اور تاریخ ان کی شمولیت کا اندراج کرتی ہے اور ان کی گنتی و محفوظ کیا جاتا ہے.بعض ایسے مواقع بھی ہیں اور ایسے ممالک بھی ہیں جہاں تاریخ کی ظاہری آنکھ ان جلسوں تک نہیں پہنچتی اور ان جلسوں میں شامل ہونے والوں کی قربانیوں کا اندراج نہیں ہوتا لیکن خدا کے فرشتے جو تمام نیکیوں کو درج کرنے پر مقرر ہیں وہ یقینا دنیا کے کونے کونے میں جہاں بھی خدا کی خاطر لوگ اکٹھے ہوتے ہیں ان کا اندراج کرتے ہیں اور ان کی اطلاع ملاء اعلیٰ میں خدا کے حضور پیش کرتے ہیں.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ایک موقع پر اس کی مثال یوں دی کہ خدا کے کچھ فرشتے ہیں جو صبح کو اپنی باری پوری کر کے خدا کے حضور رپورٹ پیش کرنے کے لئے رفع کرتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو شام کو اپنی باری پوری کر کے خدا کے حضور رپورٹ پیش کرنے کے لئے رفع کرتے ہیں.اُن میں سے بعض فرشتوں کا گزر ایک ایسی مجلس پر سے ہوا جو خدا کے ذکر سے معمور تھی.یعنی اس مجلس میں مختلف لوگ اپنے اپنے رنگ میں خدا کی محبت کا ذکر کر رہے تھے اور اس کی شان کے گیت گارہے تھے.ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے ان فرشتوں نے خدا کے حضور جب یہ معاملہ پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ان سے راضی ہوں اور میں ان کو بخشتا ہوں.یہ سن کر ان فرشتوں نے عرض کیا کہ اے خدا! ان میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل تھے یا ایک ایسا شخص بھی شامل تھا جو راہ چلتے ہوئے ستانے کے لئے اُس مجلس میں بیٹھ گیا تھا، وہ تیرے ذکر کی خاطر اس مجلس میں نہیں بیٹھا.تو خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فضل اس پر بھی نازل ہوگا، اس کو بھی میں بخشتا ہوں کیونکہ یہ میرے نیک بندے جو خالصۂ میرے ذکر کی وجہ سے اکٹھے ہوئے ہیں ان کی صحبت پانے والا بھی برکتوں سے محروم نہیں رہ سکتا.(مسلم کتاب الذکر حدیث : ۴۸۵۴) پس ہر احمدی جلسے میں خواہ وہ کہیں بھی ہو خدا کے فرشتوں کا یہ نظام جاری وساری اور متحرک
خطابات طاہر جلد دوم 181 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء رہتا ہے اور نہ صرف ذکر الہی کی خاطر ا کٹھے ہونے والے احمدی مسلمان خدا سے برکت پاتے ہیں بلکہ ان کی معیت میں آنے والے لوگ بھی خدا تعالیٰ سے برکت پاتے ہیں اور جہاں تک تکلیفیں اٹھانے کا تعلق ہے یہ مضمون بھی ایسا ہے جو تمام دنیا میں برابر جاری ہے.ابھی چند دن پہلے سیرالیون کے سالانہ جلسے کی رپورٹ پہنچی تو معلوم ہوا کہ سیرالیون میں چونکہ آج کل شدید اقتصادی بحران ہے اور بعض لوگوں کو بمشکل دو وقت کی روٹی میسر آتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اکثریت کو بمشکل ایک وقت کی روٹی میسر آتی ہے کیونکہ افریقہ میں بالعموم عوام الناس کو اگر چوبیس گھنٹے میں ایک وقت کا کھانا بھی مل جائے تو وہ اس کو غنیمت سمجھتے ہیں اور خدا سے راضی رہتے ہیں.اس کے باوجود ڈور ڈور سے جلسے میں شرکت کرنے والے آئے جنہوں نے سارا سال پیسے جوڑ جوڑ کر اس دن کے لئے بچار کھے تھے اور جن کو سفر کی سہولت مہیا نہیں ہوئی کیونکہ صرف روپے کی قلت نہیں بلکہ پٹرول کی قلت کی وجہ سے بہت سے علاقے ایسے ہیں جو بسوں کی سروس سے ہی محروم ہو چکے ہیں وہ دور دراز کا پیدل سفر کر کے اس جلسے میں شرکت کے لئے حاضر ہوئے.ان میں سے دوعورتوں کا خصوصیت کے ساتھ انہوں نے دعا کی غرض سے ذکر کیا اور اس دعا میں میں آپ کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں.انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون جو اسی برس سے متجاوز تھیں اس جلسے میں شمولیت کے لئے ساٹھ میل کا پیدل سفر کر کے پہنچی ہیں اور اسی طرح بعض خواتین اپنی پیٹھوں پر بچے باندھے ہوئے اتنی استی میل کا پیدل سفر کر کے اس جلسے میں شمولیت کے لئے پہنچی ہیں.اب جہاں تک دنیا کے نظام کا تعلق ہے نہ تو کسی ریڈیو نے ان کی خبر دی، نہ ٹیلی ویژن پر وہ لوگ دکھائے گئے، نہ ہی اخبارات میں ان کے چرچے ہوئے.وہ آئے اور بظاہر ان کا آنا بھلا دیا گیا لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے آقا و مولا سید نا حضرت اقدس محمد مصطفی میلہ کی یہ بات یقینا کچی ہے کہ خدا کے فرشتے یقیناً اس مقام پر نازل ہوئے ہوں گے اور یقیناً انہوں نے خدا سے ان پاک بندیوں کا ذکر کیا ہوگا کہ محض تیرے ذکر میں شامل ہونے کی خاطر یہ دُور دُور سے مشقت اٹھا کر یہاں پہنچیں.اسی قسم کے کچھ لوگ آج بھی پاکستان سے تشریف لائے ہیں بظاہر ان کے یہاں آنے کی کوئی وجہ اور کوئی حکمت سمجھ نہیں آتی کیونکہ عمر کے لحاظ سے اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جانا بھی مشکل ہے.ان میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک
خطابات طاہر جلد دوم 182 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء صحابی ہیں.ان کی بینائی زائل ہو چکی ہے، کمر جھک گئی ہے اور دوقدم بھی بغیر سہارے کے چلنا مشکل ہے.وہ اتنی لمبی ہزار ہا میل کی مسافت طے کر کے یہاں پہنچے ہیں آخر کیوں؟ پھر ایسی خواتین بھی ہیں جنہوں نے ساتھ کے گاؤں بھی نہیں دیکھے ہوئے اور انہیں دنیا کی کوئی خبر نہ تھی اور انہیں دنیا دیکھنے کا شوق بھی کبھی پیدا نہیں ہوا کیونکہ بعض لوگ ایسی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں دُنیا سے کٹ کر اور علیحدہ رہ کر کہ ان کو یہ علم ہی نہیں کہ دنیا ہوتی کیا ہے اور اس لاعلمی کی وجہ سے شوق بھی پیدا نہیں ہوتے لیکن وہ بھی بڑی دُور دُور کی مسافت طے کر کے یہاں پہنچی ہیں.ان میں سے ایک معمر خاتون کا ذکر کل میری اہلیہ نے مجھ سے کیا اور بتایا کہ ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ تو بڑی معمر ہیں اور بظاہر عدم تعلیم یافتہ ہیں ، آپ کو کیسے خیال آیا کہ اتنی تکلیف اٹھا کر یہاں پہنچیں؟ انہوں نے اس بات کا جواب تو نہیں دیا لیکن ایک اور خیال جس کی وجہ سے وہ محفوظ ہورہی تھیں اس کا ذکر کر دیا.انہوں نے کہا پنجابی زبان میں کہ پاکستان کے مولویوں نے تو ہم سے وہ سلوک کیا کہ جس سلوک کے نتیجے میں وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں دھتکار کر انہوں نے ہلاک کر دیا ہے مگر ہمارے ساتھ تو وہی معاملہ ہوا جو پنجابی میں کہتے ہیں کہ گئے نوں کسی نے لت ماری اُس کا گب سیدھا ہو گیا.ٹانگ مارنے والے نے لات مارنے والے نے تو دشمنی سے کہتے کو لات ماری اور اس خیال سے کہ یہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا لیکن خدا کی قدرت کا ایسا کرنا تھا کہ اس ٹانگ کے نتیجے میں اس کا گب سیدھا ہو گیا.وہ پتا نہیں کس مزے سے یہ بات سوچ رہی تھیں؟ ہو سکتا ہے ان کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ہم لوگوں کے کہاں یہ مقدر تھے کہ ایسے عظیم تاریخی جلسوں میں دُور دُور کے سفر کر کے پہنچیں گے.ہوسکتا ہے وہ یہ سوچ رہی ہوں کہ ان واقعات سے پہلے ہم میں بہت سی خرابیاں اور کمزوریاں تھیں جوں جوں ابتلاء کی چکی میں ڈالے گئے، جوں جوں دکھوں کی آزمائش میں مبتلا کئے گئے ہم سدھر کے، نکھر کے اس سے نکلتے رہے اور ہماری کمزوریاں دور ہوتی چلی گئیں اور ہوسکتا ہے کہ اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچ رہی ہوں کہ انگلستان آ کر انہوں نے تمام دنیا سے لوگوں کو اکٹھا ہوتے ہوئے دیکھا اور احمدیت کی ایک عجیب شان کا ملاحظہ کیا اور انہوں نے سوچا کہ دیکھو ان چند سالوں کے عرصے میں احمدیت کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے.تو جو بھی گب کا تصور ان کے ذہن میں تھا انہوں نے ہر گب کو سیدھا ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور یقیناً ان کی یہ گواہی سچی گواہی ہے کہ علماء کی ایذارسانی سے پہلے جو
خطابات طاہر جلد دوم 183 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء ہماری حالت تھی اب اس حالت میں بہت فرق پڑ چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر پہلو سے جماعت پہلے سے بڑھ کرشان کے ساتھ اس دنیا میں ابھری ہے.اب میں آپ کے سامنے ان چند دکھوں اور مشکلات کا ذکر کرتا ہوں جن کا اجمالی ذکر میں نے کیا ہے.یعنی پاکستان میں معصوم احمدیوں پر جو ابتلاء کا ہولناک دور چل رہا ہے اس کے ذکر کو کلیتہ اس چھوٹی سی مجلس میں بیان کرنا، اس کا حق ادا کرنا تو ممکن نہیں لیکن گزشتہ سال میں نے یہ تجربہ کیا تھا کہ اپنے نام موصول ہونے والے سال بھر میں دو لاکھ کے قریب خطوط میں سے چند اقتباسات پچن کر جلسے کے حاضرین کے سامنے پیش کئے تھے تا کہ میری زبان سے نہیں بلکہ دکھ محسوس کرنے والوں کی زبان سے اور ان تجارب میں سے گزرنے والوں کی زبان سے احباب جماعت ان واقعات کو سنیں اور سمجھیں اور جو لکھنے والے ہیں ان کے دل کی وارداتیں سنے والوں کے دل پر بھی جاری ہوں.چک سکندر سے ذکر چلتا ہے ہماری ایک مخلص خاتون حمیدہ بیگم صاحبہ چک سکندر کی رہنے والی لکھتی ہیں: میں ایک سال سے بیمار چلی آ رہی ہوں.حادثہ چک سکندر کے دوران میں بیمار تھی افراتفری کے دوران میں اپنی دو بچیوں کی جبکہ مکان جل رہا تھا جان بچانے کیلئے باہر نکلی تو دشمن نے مجھ پر فائر کیا جس سے میں شدید زخمی ہوئی اور میری بچیوں کو بھی کثرت سے شرے لگے.( چھروں کو شرے لکھا ہے اس لئے میں اسی طرح پڑھتا ہوں) اس حالت میں جب میں جارہی تھی تو راستہ میں میرا چھوٹا بھائی رفیق احمد ثاقب شہید پڑا ہوا تھا.دشمن مرے ہوئے کو زدو کوب کر رہا تھا، دیکھ کر غم در غم آتا مگر نوراحمدیت اور زیادہ روشن ہوتا چلا گیا، نصرت اور طاقت ملتی رہی مگر خون اس قدر بہہ رہا تھا کہ لباس تر بہ تر ہو رہا تھا اُدھر حشر برپا تھا مگر ادھر کلمہ شہادت لبوں پر جاری تھا.“ پھر چک دھوریہ سے ایک احمدی خاتون جو وہاں سکول میں استانی ہیں اور از راہ ستم، سراسر افتراء کے نتیجے میں ان کو بھی اسیر راہ مولیٰ بنے کا موقع ملا.سراسر بے بنیاد انتہائی جھوٹا اور بھیانک الزام ان پر یہ لگایا گیا کہ نعوذ باللہ من ذالک انہوں نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی گستاخی
خطابات طاہر جلد دوم 184 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء کی ہے اور اس کے نتیجے میں ان کو جیل کا منہ دیکھنے کی سعادت مل گئی.لیکھتی ہیں کہ اس کے بعد جو واقعات ہوئے ہیں وہ تفصیل لمبی ہے، اس کو میں نے چھوڑ دیا ہے کہ بالآ خر گاؤں کے شرفانے اٹھ کر ان کے حق میں گواہی دی اور شور ڈالا اور وہ خود پہنچے افسران تک، انہوں نے کہا کہ ایسی نیک خاتون، ایسی اچھی خدمت کرنے والی استانی اور ہم جانتے ہیں کہ یہ تو محمد مصطفی ﷺ کی عاشق ہے تم اس پر ظلم کر رہے ہو تو سارے گاؤں پر ظلم کر رہے ہو؟ چنانچہ گاؤں والوں کے اثر سے مرعوب ہوکر ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ ان کو رہائی دی بلکہ اسی سکول میں ان گاؤں والوں کے اصرار پر ان کو بحال کیا گیا لیکن چک سکندر کے شریر اور ان کے چیلے پھر بھی ان کی راہ کاٹتے رہے اور بیٹھ کر ان پر تمسخر کرتے رہے.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں: میں گرفتاری کے بعد ۲۹ مارچ ۱۹۹۰ء کو گرلز سکول سنت پورہ میں دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوگئی.ایک ہفتے تک تو حالات پر سکون رہے.پھر ایک روز مولوی امین محمد جوامیرمحمد چک سکندر والے کا دوست ہے اس نے گاؤں سنت پورہ کے کچھ شر پسند لوگوں سے مشورہ کر کے مجھے میرے گھر دھوریہ میں پیغام بھجوایا کہ میں سنت پورہ سکول میں ڈیوٹی نہ دوں ورنہ گولی کا نشانہ بن جاؤں گی.میں یہ سوچ کر کہ اگر میری موت اس کے ہاتھ میں لکھی ہے تو میں جہاں بھی چھپ کر رہوں گی موت آ ہی جائے گی ، اگلے دن سکول گئی.مولوی امین محمد میرے سکول جانے کے رستے میں سائیکل پر سوار درندوں کی طرح شکل بنائے میرے پاس سے گزرتا رہا.اسے دیکھتے ہی میری زبان پر آتا ہے کہ یہ مؤمن موت سے نہیں ڈرتے.میں سکول میں ڈیوٹی دے رہی ہوں لیکن کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اگر میں اس درندے کے ہاتھ چڑھ گئی تو بچے جو پہلے باپ کے پیار سے محروم ہیں، ماں کے پیار سے بھی محروم رہ جائیں گے.میں اپنے گاؤں میں اکیلی احمدی ہوں ، جب ڈیوٹی پر جاتی ہوں تو بچے خدا کے حوالے ہوتے ہیں.“ ( اس سے بہتر اور کوئی حوالہ نہیں ہوسکتا.) عزیزہ ناصرہ پروین صاحبہ جو ہمارے اسیر راہ مولی محمد الیاس منیر واقف زندگی کی ہمشیرہ ہیں.ویکھتی ہیں : ”میرا پیارا بھائی عزیزم محمد الیاس منیر واقف زندگی اسیر راہ مولیٰ آج کل B.A کا امتحان دے رہا ہے.اس غرض کے لئے اسے کیمپ جیل لاہور لے جایا
خطابات طاہر جلد دوم 185 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء گیا، اسے لاہور لے جاتے وقت دوبارہ بیڑیاں ڈالی گئیں جو تین دن لگی رہیں.بیٹریوں کے ساتھ ہی اس نے پرچے دیئے.“ عبدالرحمن صاحب صدر جماعت احمد یہ چک 35.شمالی سرگودھا لکھتے ہیں: اس سے قبل کئی نسلوں تک ہم نے نہ جیل دیکھی تھی اور نہ عدالت مگر خدا کے فضل سے دین کی خاطر ہمیں جیل جانے کی سعادت نصیب ہوئی.وجہ یہ تھی کہ ہم ایک عرصہ دراز سے ایک چھپر کے نیچے نماز پڑھتے تھے ، بادوباراں میں ہمیں شدید تکلیف ہوتی تھی.ہم نے ایک مسجد بنانے کا ارادہ کیا اور اس کی تعمیر کے دوران ہی پولیس ہمیں پکڑ کر لے گئی.بارہ دن جیل میں رہنے کے بعد ہمیں رہائی ملی ہے.اب یہ لوگ مقامی سکولوں میں ہمارے بچوں کو اسلامیات نہیں پڑھنے دیتے.“ مکرم محمد یوسف صاحب کا ٹھگڑھی میر پور آزاد کشمیر سے لکھتے ہیں، یہ اسی سال سے اوپر عمر کے بزرگ ہیں.ان کی بات سمجھنے کے لئے میں اس تحریر کا پس منظر بتا دیتا ہوں.جب ایبٹ آباد میں جماعت احمدیہ نے جلسہ کیا اور صاحبزادہ عبدالرشید صاحب کے ہاں یہ جلسہ منعقد ہوا ، تو اس جلسے کو اتنا بڑا جرم قرار دیا گیا کہ اس کے نتیجے میں صاحبزادہ عبدالرشید سمیت تمام ان احمدیوں کو حراست میں لینے کے احکام جاری کر دیئے گئے جو اس جلسے میں شریک تھے لیکن یہ صاحب وہ ہیں جو اس جلسے میں شریک بھی نہیں تھے.یہ بیچارے پنشن یافتہ ہیں اور آزاد کشمیر سے اپنی پینشن لینے کے لئے ایبٹ آباد آئے تھے اور جس دن پولیس صاحبزادہ صاحب کو گرفتار کرنے کے لئے آئی، یہ صاحبزادہ صاحب سے مل کر اپنی پنشن کے سلسلے میں کوئی مدد لینا چاہتے تھے.چنانچہ اس موقع پر اسی جرم میں دھر لئے گئے کہ یہ ایک ایسے احمدی سے ملنے آیا ہے جو اس جلسے میں شریک تھا.کہتے ہیں : وو پیارے آقا ! میں ۷۵ دن جیل میں رہنے کے بعد 90-3-28 کو ضمانت پر رہا ہو کر اپنے گھر پہنچ گیا ہوں.آگے لکھتے ہیں: مهدی نیا، ہتھ کڑیاں جھلیاں اساں چوم چوم لایاں بانہاں نال
خطابات طاہر جلد دوم 186 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء مہدی منیا، ہم نے مہدی کو مانا اور اس کے نتیجے میں ہمیں ہتھکڑیوں کے زیور پہنے نصیب ہوئے چنانچہ ہم نے چوم چوم کے انہیں بانہوں میں ڈالا.۸۱ سال کی عمر ، دمہ کا مریض ، کبھی ہسپتال میں کبھی جیل میں بس یونہی چکر لگتے رہے.نہ گھر رہا نہ دکان ، مکان والے نے کہا تم مکان خالی کردو، تم قادیانی ہو.دُکان پولیس نے قبضے میں کر لی.“ یہ وہ لوگ ہیں جو اتنے مصائب کے بعد اس قدر تکلیفوں کے ہوتے ہوئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے استقامت کا اعجاز پاتے ہیں اور ایسے ہی لوگ ہیں جن کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں.”اے خدا! اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جس سے صبر آ جائے اور ایسا کر کہ ہماری موت اسلام پر ہو.جاننا چاہئے کہ دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے دل پر ایک نور اتارتا ہے جس سے وہ قوت پا کر نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوت ایمانی سے ان زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں ان کے پیروں میں پڑیں.“ (اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد اصفحہ ۴۲۱) پس یہ باتیں جو آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں میں پڑھا کرتے تھے آج کثرت سے پاکستان کی گلیوں، ان کے شہروں، ان کے دیہات میں رونما ہورہی ہیں اور ہزار ہا احمدی ہیں جنہوں نے خدا کی محبت میں اس سے استقامت پا کر ان زنجیروں کو بوسے دیئے جوان کے ہاتھوں یا ان کے پاؤں میں ڈالی گئیں.خدیجہ بیگم صاحبہ لکھتی ہیں کہ کل جمعہ کی نماز کے بعد مسجد نور سے ایک خادم کو پولیس نے گرفتار کر لیا اور اس پر یہ الزام لگایا کہ ایک غیر احمدی مولوی پر حملہ کیا ہے.“ اب جہاں کلمے کا بہانہ نہ ملے یا اور کوئی ایسا بہانہ نظر نہ آئے ، وہاں سراسر جھوٹے الزامات لگا کر بھی پولیس جس کو چاہے اس کو پکڑ سکتی ہے اور ملک کا قانون پولیس کے جھوٹ کے پیچھے پشت پناہ
خطابات طاہر جلد دوم بن کر کھڑا رہتا ہے.مسر محمود صاحب ملتان سے لکھتی ہیں: 187 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء ” میری دو بچیاں کالج میں پڑھتی ہیں.بڑی بچی جو.B.A میں پڑھتی ہے اس کو کالج میں احمدیت کی وجہ سے بہت ستایا جاتا ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان کے خلاف لکھ لکھ کر میری بچی کو دوسری بچیاں دیتی ہیں جو نہایت گندے اور غلیظ الفاظ پرتی مشتمل ہوتا ہے.میرے اور بچوں کے دل بہت دکھ محسوس کرتے ہیں اور برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے.“ اب یہ جو وارداتیں ہیں یہ کھوکھا احمدیوں کے دل پر گزر رہی ہیں اور دنیا کے کوئی اعداد و شمار ان کا ریکارڈ نہیں کر رہے مگر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی صداقت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ان دلوں پر بھی خدا کے وہی فرشتے نازل ہوتے ہیں جن کا پہلے ذکر گزرا ہے اور ان کی کیفیات کو ریکارڈ کرتے ہیں اور ایک ذرہ بھی ان کے دل کی کیفیت کا خدا تعالیٰ کے ریکارڈ کی کتاب سے باہر نہیں رہتا.وہ قربانیاں جو ان لوگوں کی نظر میں نہ آئیں جن کی خاطر دی جاتی ہیں، ان قربانیوں میں لذت نہیں ہوتی لیکن اگر انسان کو علم ہو کہ میرا محبوب جس کی خاطر میں قربانی دے رہا ہوں اس کی مجھ پر نظر ہے تو اس کی قربانیوں میں ایک عجیب جلا پیدا ہو جاتی ہے، اس کا شوق اور اس کا ولولہ قربانی کرنے کے لئے اور بڑھتا ہے کیونکہ وہ اپنے محبوب کی نظر میں ہوتا ہے.پس جماعت احمدیہ کا وہ عظیم گروہ جسے ان گزشتہ سالوں میں غیر معمولی خدمت کی اور غیر معمولی قربانیوں کی توفیق عطا ہوئی ہے وہ یا درکھیں کہ ان کی قربانیوں میں سے ایک ذرہ بھی ضائع نہیں ہورہا اور اس خدا کی ان پر نظر ہے جو خدا ان قربانیوں کے نتیجے میں اور بھی زیادہ پیار کی نگاہیں ان پر ڈالتا ہے.یہ احساس ضروری ہے بسا اوقات انسان قربانیاں دیتا ہے اور یہ احساس نہیں رکھتا، یہ شعور نہیں رکھتا اس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ قربانیوں کی ہمت باقی نہیں رہتی ، رفتہ رفتہ تھک جاتا ہے اور اس کی استقامت میں فرق آجاتا ہے.اس لئے قربانی دینے والے احمدیوں کو خواہ وہ دنیا میں کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں
خطابات طاہر جلد دوم 188 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب بھی وہ خدا کی خاطر تکلیف اٹھاتے ہیں تو معا یہ سوچیں کہ ہمارے پیارے خدا کی ہمارے حال پر نظر ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ کلام جو بارہا آپ نے سنا ہے، اس کا ٹاپ کا مصرعہ یہ ہے یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی اے خدا میرے لئے یہ دن مبارک فرما، سبحان من یرانی پاک ہے وہ ذات جو ہمیشہ مجھے دیکھتی رہتی ہے، ہمیشہ اس کی مجھ پر نظر رہتی ہے.پس خدا کی نظر کے سامنے ہمیشہ آپ آگے بڑھتے رہیں تو حقیقت میں یہی راز ہے اصلاح کا بھی ، میں نے ابھی جمعہ میں آپ کے سامنے یہ ذکر کیا تھا کہ آپ دنیا کی نظر میں آرہے ہیں، باہر نکلے ہیں تمام دنیا آپ کو دیکھے گی لیکن ضروری نہیں کہ آپ دنیا کی نظر میں آئیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا بہت سے انسان اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور دنیا کی نظر سے اوجھل رہ جاتے ہیں مگر ہمیشہ وہ خدا کی نظر میں رہتے ہیں اس لئے دعا یہ کرتے رہیں اور کوشش یہ کریں کہ خدا کے پیار کی نظر ان پر پڑے، خدا کی ناراضگی کی نظر ان پر نہ پڑے.ایک میڈیکل کالج کا طالب علم راولپنڈی سے لا ہور رسالہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے باہر نکلتا ہے ایک ملاں کی نظر لاہور رسالے پر پڑھتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ احمدیوں کا اخبار ہے، ضرور یہ احمدی ہوگا.دو تین باتیں کرنے کے بعد وہ مجمع اکٹھا کر لیتا ہے اور گستاخی رسول کے الزام میں اسے دھکیلتے ہوئے پولیس کی طرف لے جاتے ہیں.اب رفتہ رفتہ محلے والوں میں یعنی پاکستان کے مختلف شہروں میں، محلہ داروں میں بھی یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے کہ احمدیوں پر ناحق ظلم ہو رہا ہے چنانچہ ایسے موقع پر محلے والے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے مولوی کو لعن طعن کی اور اسے کہا کہ اگر تم اس کولے کے جاؤ گے تو ہم بھی سب ساتھ چلیں گے اور گواہی دیں گے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو.اس پر مولوی نے اس کو چھوڑ تو دیا لیکن یہ کہتے ہوئے کہ اگر تم نے آئندہ کبھی محمد رسول اللہ ﷺ کا نام منہ سے نکالا تو ہم تمہارے دانت توڑ دیں گے.کیسا جرم ہے، وہ کیسا کالا قانون ہے؟ جہاں محمد مصطفی ﷺ کا نام زبان سے لینا اتنا بھیانک جرم بن جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کو منہ توڑنے اور دانت توڑنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 189 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء اسی طرح روز مرہ کی زندگی میں احمدی خطرات میں سے اس طرح گزررہے ہیں کہ ان کی روزمرہ کی زندگی اور خطرات میں کوئی تمیز باقی نہیں رہی.ہر قدم جو وہ اٹھاتے ہیں وہ دشمن کی نظر میں مغضوب بنتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ اپنی تکلیف کا اظہار مجھ سے کرتے ہیں، خطوط میں اپنے واقعات لکھتے ہیں.میری دلداری ان کو کیا سہارا دے گی قرآن کریم کے اس کلام پر نظر رکھیں جس میں خدا تعالیٰ ان ہی واقعات کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہر وہ قدم جو تم خدا کی خاطر اٹھاتے ہو اور دشمن کی نظر میں مغضوب بنتے ہو، ہر اسی قدم کی وجہ سے تم خدا کی نظر میں محبوب بنتے چلے جاتے ہو.اس لئے اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں اور یہی ان کا سہارا ہے.دشمن کی نظر کے سامنے، دشمن کی حقارت آمیز نظروں کے سامنے خدا کے پیار کی نظر اتنی عظمت رکھتی ہے کہ اس دشمن کی حقارت کی نگاہوں کی کوئی قیمت نہیں رہتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا کہ ہیں تیری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جس سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑ اغم اغیار کا درین صفحہ ۱۰) پس اگر غم اغیار کے جھگڑے کاٹنے ہیں تو یہی نسخہ استعمال کریں، خدا کے پیار کی نگاہیں حاصل کریں اور یقین جانیں کہ وہ تیغ تیز تمام اغیار کے جھگڑوں کو اس طرح کاٹ کر پھینک دے گی کہ ان اغیار کے جھگڑوں کی کوئی حیثیت کوئی قیمت بھی باقی نہیں رہے گی.پھگلہ میں ہمارا ایک بہت ہی معزز سید خاندان ہے، وہ معزز ان معنوں میں نہیں کہ محض سید ہیں بلکہ ان کی نیکی ، ان کی شرافت کی وجہ سے ایک لمبے عرصے سے گاؤں پر ان کا بہت ہی زیادہ اثر ہے اور ہمیشہ عزت اور احترام سے دیکھے جاتے تھے.وہاں اس دور میں مولویوں نے شرارت شروع کی، گندا چھالنا شروع کیا یہاں تک کہ گاؤں والوں کی نظریں بدلنے لگیں اور ان کی مسجد بھی جلا دی ، ان کے گھر بھی جلا دیئے.اس واقعہ کے بعد ان میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ستیدی! یہ عاجز ۳ / جولائی کو ربوہ سے اہل خانہ کو پھگلہ لے آیا تھا، جلے ہوئے مکان کی حالت تو کافی خراب تھی اور حالات بھی درندہ صفت مولوی نے کافی خراب کئے ہوئے تھے لیکن ان کی یہ خوشی کہ یہ بھاگ گئے ، ہرگز قبول نہ
خطابات طاہر جلد دوم 190 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء 66 تھی.مٹی کے ڈھیر پر سامنے دومنزلہ مسجد ہے، پردے وغیرہ لگا کر بیٹھے ہیں.“ مطلب یہ ہے مٹی کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں، سامنے اس مولوی کی دو منزلہ مسجد ہے جو ہر وقت ہمارے قتل کی اور ہمیں ملیا میٹ کرنے کی تلقین کرتا رہتا ہے.” پر دے وغیرہ لگا کر بیٹھے ہیں.عید بھی اپنے اسی گھر میں ہی اللہ پاک کے در کے فقیر ہو کر گزاری ہے.“ ایک احمدی نو جوان ڈا کٹر کوضلع نواب شاہ میں سکرنڈ میں شہید کیا گیا.ان کی بیگم لکھتی ہیں: ”میرے شوہر ڈاکٹر منور احمد کو مورخہ ۱۴ مئی کو دو پہر کے وقت سوتے میں شہید کر دیا گیا.انا للہ وانا اليه راجعون ، حضور ! مجھ پر صدمے کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے.ایک شفیق باپ کی حیثیت سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مجھ پر کیا بیت رہی ہے؟ ہماری شادی کو چھ سال اور دو ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ ظالموں نے میرا سہاگ لوٹ لیا.حضور! میرے شوہر بڑے مہربان اور ہمدرد انسان تھے، سلسلہ احمدیہ سے بے انتہا عقیدت تھی ، ہمارے درمیان محبت اور پیار کا رشتہ بہت گہرا تھا، وہ تین بچوں کے شفیق باپ تھے.حضور ! صدمے کی وجہ سے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں.“ چک 563 میں جو واقعات گزرے تھے ان سے آپ واقف ہیں.اب وہاں کے ہی ایک ایسے دوست کی قلم سے جو وہاں کی سرگزشت پہنچی ہے اس میں سے ایک اقتباس میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.وہ لکھتے ہیں : آپ کی خدمت میں میرا یہ پہلا خط ہے، میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جن کے گھر اور میری ویلڈنگ کی دکان جلا دی گئی.جب سرکاری مسلمانوں کا جلوس آیا تو انہوں نے سب سے پہلے ہماری مسجد کو آگ لگائی، ہمارا گھر بھی مسجد کے قریب ہے انہوں نے پہلے ہماری بیٹھک وغیرہ کے دروازے اور کھڑکیاں توڑیں.اس میں ہمارے جشن صد سالہ کے پمفلٹ بھی تھے ، پتا نہیں ان کو آگ لگادی یا کنویں میں پھینک دیا.احمدیوں نے جب
خطابات طاہر جلد دوم 191 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء انہیں مسجد کو آگ لگانے سے روکا ، تو انہوں نے مسجد کے قریب سے احمدیوں پر فائرنگ شروع کر دی.“ ایک دریدہ دہن مولوی کا ذکر کرتے ہوئے ایک صاحب ضلع وہاڑی سے لکھتے ہیں کہ : ”ہمارے گاؤں میں آیا ، احمدیت کی مخالفت میں سارا زور لگا کر اپنی علمی قابلیت کولوگوں کے سامنے بیان کرتا رہا.لوگوں سے پوچھنے لگا! یہ جو اس مسجد کے ساتھ ہی مسجد ہے یہ قادیانیوں کی ہے، یہ جگہ تو اہل اسلام کی جگہ ہے.تم A.C کے پاس درخواست دو، ان سے حکومت یہ جگہ لازماً تمہیں دلوائے گی.جو اس کی زبان پر آیا وہ حضرت سیدنا مسیح موعود علیہ السلام کی ذات بابرکات کے متعلق بولتا رہا.حضور میری بچیاں اپنے گھر میں روتی رہیں.حضور ! اس نامراد مولوی نے ہماری مسجد سے اور مکانوں سے بذریعہ مجسٹریٹ 66 پولیس کلمہ شریف مٹواد یا اور مجھے گرفتار کر کے تھانے لے گئے.“ ایک احمدی اپنے بیٹے کی شادی کی بارات لے جانے کے لئے تیار بیٹھے تھے کہ اچانک مولوی کی معیت میں پولیس نے چھاپہ مارا اور یہ فرد جرم ان پر عائد کیا گیا کہ تمہارے کارڈ پر بسم اللہ بھی لکھی ہوئی ہے اور السلام علیکم بھی، اور اس حد تک تم مجرم ہو کہ اسی پر بس نہیں کی ، آخر پر انشاء اللہ بھی لکھ دیا ہے.یعنی یہ احمدیوں کے جرائم ہیں، آپ پاکستان کی جیلوں میں جا کر دیکھیں تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ اتنے کر یہہ جرائم میں لوگ ملوث ہیں اور اس قدر بھیانک جرم کرنے والے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچوں پر ظلم کر کے اور سفا کا نہ ظلم کر کے ان کو مار دینے والے، ان کو اغوا کرنے والے، ان کی ہڈیاں تو ڑ کر ان کو فقیر بنا کر وہ رحم جوان پر لوگوں کو آتا ہے، اس رحم کی بنا پر پیسے بٹورنے والے وہ لوگ اور یہ سارے جرائم ایک طرف اور ایک احمدی ہیں جن کے جرم صرف یہ ہیں کہ انہوں نے بسم اللہ اپنے دعوتی کارڈوں پرلکھی ، انہوں نے السلام علیکم کہا، انہوں نے یہاں تک جرأت کی کہ انشاء اللہ کہہ دیا کہ وہی ہوگا جو خدا چاہے گا.چک سکندر کے متعلق ماسٹر مظفر احمد صاحب جو پریذیڈنٹ تھے اور انہوں نے بڑی عظیم قربانیاں دی ہیں اور جیل میں بھی خدا کے فضل سے بہت ہی غیر معمولی دباؤ کے نیچے ثابت قدم رہے،
خطابات طاہر جلد دوم 192 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء ان کے تفصیلی خطوط بہت ہی دردناک موصول ہوتے رہے.وہ سب تو پیش کرنے کا وقت نہیں ، ایک مختصر سا اقتباس میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.وہ لکھتے ہیں : آپ کو چک سکندر کے تفصیلی حالات کا علم ہو چکا ہے.ہمارے تمام احمدی بے گھر ہو گئے ہیں اور گھر جلا دیئے گئے ہیں اور ہمارے تمہیں آدمیوں کو قتل اور اقدام قتل کے مقدمے میں پھنسا کر جیل میں ڈال دیا گیا ہے.ہمارے دو آدمی اور ایک دس سالہ بچی شہید ہو گئے ہیں اور چھ شدید زخمی ہوئے ہیں.مخالف فریق میں سے کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا.مود ود احمد صاحب ابن مکرم مولوی عبد الخالق صاحب چک سکندر لکھتے ہیں : ”آپ کی خدمت میں خط لکھا تھا جس میں اپنے گاؤں چک سکندر کے شہیدوں اور زخمیوں، مہاجروں کے بارے میں دعا کے لئے لکھا تھا.سیدی ! میرے تایا زاد بھائی مکرم ماسٹر عبدالرزاق صاحب جو کہ زخمی تھے، پہلے تو لاہور ہسپتال میں زیر علاج تھے لیکن ان ظالموں سے یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ ان کا علاج ہو سکے، ابھی وہ مکمل طور پر صحت یاب بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کو لاہور ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا اور پھر وہ کھاریاں ہسپتال میں داخل کروائے گئے لیکن ان ظالموں نے ان کو اس حالت میں بھی بستر پر ہتھ کڑی لگائے رکھی.“ ایک احمدی خاتون جور بوہ میں چک سکندر کی ان خواتین سے ملنے گئیں جو مظالم کا نشانہ بنائی گئی تھیں.انہوں نے ایک لمباخط لکھا ہے اپنے تاثرات کا اور وہ بہت ہی درد ناک خط ہے جس کا پڑھنا مشکل ہے لیکن اس میں سے میں ایک اقتباس آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہو کہ جن کے دکھ سے ساری دنیا کے احمدیوں کے دل دکھ سے لبریز ہوکر آنکھوں سے برسنے لگتے ہیں ، وہ خود کتنے حوصلے میں ہیں خدا کے فضل کے ساتھ اور کتنے عزم کے ساتھ ان مشکلات اور مصائب کا مقابلہ کر رہے ہیں.وہ بھتی ہیں : ایک دن عاجز ہ مہمانوں کو رات کا کھانا کھلانے میں مصروف تھی کہ ہمارے شہید مکرم رفیق احمد ثاقب کی بیوہ اپنے ڈیڑھ دو سال کے بچے کو جو بہت
خطابات طاہر جلد دوم 193 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء رور ہا تھا، گود میں اٹھائے ہوئے بہلا رہی تھیں.میں نے ان سے پوچھا کہ بچہ کیوں رورہا ہے؟ وہ خاموش رہیں.جب بچہ بہت دیر تک روتا رہا تو عاجزہ نے اصرار سے پوچھا کہ بچے کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟ اس کی والدہ کے جواب نے مجھے ایک لمحہ کے لئے ہلا کر رکھ دیا.انہوں نے بتایا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ ے ابو آئیں گے تو کھانا کھاؤں گا.“ لکھتی ہیں کہ ”میری حالت تو ایسی تھی کہ نا قابل بیان تھی مگر والدہ بڑے حوصلے 66 میں تھیں اور مستقل بچے کو بہلائے چلے جارہی تھیں.“ پھر لکھتی ہیں: چک سکندر کی دس سالہ شہید بچی عزیزہ نبیلہ کی والدہ کی عظمت کا اعتراف کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتی کہ بڑے حوصلے سے انہوں نے بتایا کہ کیسے ان کی بچی کو گولی کا نشانہ بنایا گیا اور وہ ایک ڈیڑھ گھنٹے تک پانی کے لئے تڑپتی رہی مگر ظالم درندوں نے اسے پانی پلانے کی اجازت بھی نہ دی.مکرم نذیر نا قب صاحب شہید کی بہن اور خالہ بھی اپنے عظیم بھائی اور بھانجے کی بہادری اور شہادت کے واقعات بڑے صبر سے بتاتی رہیں کہ جب ان کے بھائی کو پولیس والے نے دھوکہ سے نیچے بلایا تو انہوں نے اترتے وقت یہ الفاظ کہے کہ میرے پیارے امام کا حکم ہے کہ حکومت کی اطاعت کرنی ہے، جب انہیں گولی کا نشانہ بنایا گیا تو انہوں نے کلمہ طیبہ کا ورد کیا اور آخری جملہ یہ فرمایا کہ مجھے جس موت کی خواہش تھی وہ خدا نے پوری کر دی.“ یہ واقعات جو ہیں یہ تو صرف نمونے مشتے از خروارے ہیں ان میں سے چند نمونے جو ایک سال میں لاکھوں خطوں میں سے میں نے وہ اقتباس اکٹھے کئے ہیں جو غیر معمولی اثر رکھنے والے اور دشمنوں کی غیر معمولی سفا کی کے ذکر پر مشتمل ہیں اس کی ایک بہت بڑی فائل بن گئی ہے اور میں صرف آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو پاکستان سے دوست یہاں تشریف لائے ہیں ، آپ دیکھیں کہ وہ کن
خطابات طاہر جلد دوم 194 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء حالات میں سے گزر کے آئے ہیں اور وہ کسی درد سے بے قرار ہوتے ہوئے وہاں زندگی بسر کر رہے ہیں اور کن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں.پس اپنی دعاؤں میں پاکستان کے احمدیوں کو یا درکھیں تو پہلے سے زیادہ بڑھ کر، دردمند ہوکر ان کے لئے دعائیں کریں.ہمارے بے شمار اسیران راہ مولیٰ ہیں جو ایک لمبے عرصے سے شدید تکلیفوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور اُف تک زبان پر نہیں لاتے ، ان کو بھی بھولنا جرم ہوگا اور انسانیت سے گری ہوئی بات ہوگی.اس لئے ہمیشہ ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں، اللہ تعالیٰ ان کو حو صلے عطا فرمائے ، وہ ہمارا فرض کفایہ ہیں.وہ قربانیاں جو ساری جماعت دینے کی حقدار ہے اور سزاوار ہے ، وہ قربانیاں وہ چند لوگ پیش کر کے آپ سب کی بلائیں اپنے گلے لئے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزا دے، اس دنیا میں بھی ان کو نیک جزا سے بار آور فرمائے اور اُس دنیا میں بھی ان کو لا متناہی انعامات کا وارث بنائے.اس دوران جیلوں میں احمدیوں نے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت سے نشانات بھی دیکھے اور جیلوں سے باہر بھی خدا تعالی کی پکڑ کا سلسلہ جاری ہو چکا ہے اور جودشمن اپنے عناد اور شرارت میں بہت بڑھتے رہے ہیں، ان کو خدا کی تقدیر اب گھیر رہی ہے اور اس قسم کے واقعات کی بھی ایک بڑی فائل بنتی چلی جارہی ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ بعد میں کسی وقت طبع کروا کر احباب جماعت کے سامنے پیش کی جائے گی.آپ کو حوصلے میں رکھنے کی خاطر، یہ بتانے کی خاطر کہ ہمارا جو خدا ہمیں دیکھ رہا ہے وہ خاموش نہیں دیکھ رہا بلکہ اس کی طرف سے مختلف رنگ میں پیار کے چھینٹے پڑتے ہیں، جنہیں دیکھ کر تمام اردگرد کے ماحول کے احمدی بھی نئے حوصلے پاتے ہیں اور ان کے ایمان کو نئی زندگی ملتی ہے.ناظر صاحب امور عامہ لکھتے ہیں: ایک ہفتہ قبل ضیاء اللہ ولد رحمت اللہ سکنہ چک سکندر جو جماعت کا شدید مخالف ہے اور مولوی محمد امیر کا دست راست ہے.یعنی وہ مجاہدین اسلام کے سرفہرست ہے، اس نے چک سکندر کی ایک لڑکی کو رقعہ لکھا، جس کا اس کے وارثان کو علم ہو گیا.جس پر انہوں نے ضیاء اللہ کو بہت مارا، اس کے منہ پر گوبر
خطابات طاہر جلد دوم 195 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء ڈالا اور اس سے ناک سے زمین پر لکیریں نکلوائیں، گاؤں والوں میں سے کسی نے اس کی مدد نہیں کی بلکہ لعن طعن کی.مکرم افضل زاہد صاحب آف چک سکندر لکھتے ہیں کہ : "میرا برادر اصغرعزیز محمد اکمل جو چک سکندر کے اسیران راہ مولیٰ میں سے ایک ہے، اس نے 15 اور 16 کی درمیانی شب کو ایک خواب دیکھا.جس میں اس نے دیکھا کہ ( یعنی قید کی حالت میں ) ایک دشمن احمدیت وارث ولد جلال آف چک سکندر جو چک سکندر کے سارے واقعہ میں لوٹ مار اور گھر جلانے میں، فائرنگ کرنے اور گالیاں بکنے میں پیش پیش تھا، اس کو مار رہا ہوں اور ڈنڈوں سے اس کی پٹائی کر رہا ہوں.دوتین ڈنڈے پڑنے کے بعد وہ گر گیا اور میں اپنے گھر چلا آیا ، اب پتا نہیں کہ وہ زندہ ہے یا نہیں.اس نے اپنی یہ خواب اپنی جیل کے سب ساتھیوں کو سنائی.دوسرے دن سولہ دسمبر کی صبح ملاقات کے لئے آنے والے ایک شخص نے ان اسیران کو بتایا کہ محمد وارث جو کہ مخالفت میں پیش پیش تھا وہ آج ہی ایک گھر سے بجلی کا میٹر اتارتے ہوئے کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا ہے.“ اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ اتفاقی حادثہ نہیں تھا، ایک رات قبل اس کو رڈیا میں یہ دکھا دیا گیا.چوہدری محمد شریف صاحب جو آج اس مجلس میں بھی شریک ہیں، مرالہ ضلع گجرات کے رہنے والے وہاں کی جماعت کے صدر ہیں.انہوں نے بھی بہت ہی صعوبتیں اٹھائی ہیں جیل میں، محض اس جرم میں کہ یہ مظلوم احمدیوں کی مدد کرنے والے تھے، با اثر تھے علاقے میں لوگوں کی دشمنی کے باوجود اور وہاں ضلع سیالکوٹ کے بد بخت ڈپٹی کمشنر کی انگیخت کے باوجود اس گاؤں کے لوگوں نے ان پر دشمنوں کو حملہ نہیں کرنے دیا.اس کی وجہ سے طیش میں آکر D.C نے ان کو قید کرنے کا خصوصی حکم دیا اور دفعہ وہ لگائی جو ڈ پٹی کمشنر کے خصوصی اختیار ہوتے ہیں جس پر کوئی بھی قانونی طور پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی.تین مہینے تک کے لئے وہ مختار ہے جس کو چاہے امن عامہ کے خوف سے
خطابات طاہر جلد دوم 196 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء تین مہینے کے لئے گرفتار کرا دے اور خصوصیت سے ان کے لئے حکم جاری کیا کہ ان کو تکلیف میں رکھا جائے.ان کے خطوط جیل سے بڑے ایمان افروز موصول ہوتے رہے ہیں اور بہت ہی خدا تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور جیل میں ہی اپنے قرب کے نشان دکھائے.وہ لکھتے ہیں : جیل میں میرے ساتھ عبدالرزاق نامی ایک شخص نظر بند تھا.اس نے ایک روز مجھے کہا کہ آپ کی خوا ہیں پوری ہوتی ہیں، آپ میرے بارے میں بھی دعا کریں اور خواب دیکھیں.چنانچہ اسی روز رات میں نے خواب میں دیکھا کہ چھوٹے قد کا ایک شخص میرے ساتھ چل رہا ہے، مجھے تشویش ہوئی کہ یہ آدمی کون ہے؟ اتنے میں ایک تیسرے شخص نے آ کر کہا کہ گھبراؤ نہیں اس کا نام بشیر احمد ہے، قد چھوٹا ہے، خدا تعالیٰ آپ کو چھوٹی بشارت دے گا.“ بشیر احمد ہے قد چھوٹا اس لئے ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ چھوٹی بشارت دے گا، یہ خواب ہی میں ان کو تعبیر بھی سکھائی گئی.رات بھر میں سوچتا رہا کہ یہ خواب میرے بارے میں نہیں کیونکہ مجھے تو بڑی بشارت چاہئے.صبح میں نے یہ خواب عبدالرزاق کو سنائی اور کہا کہ یہ تمہارے متعلق معلوم ہوتی ہے کیونکہ مجھے تو خدا نے بڑی بشارت دینی ہے تمہیں چھوٹی دینی ہے.ہیں، پچیس روز سے عبدالرزاق کو کوئی ملنے نہیں آیا تھا، بے حد پریشان تھا.اس خواب کے دوسرے دن جبیل کا ایک ملازم عبدالرزاق کے پاس آیا اور کہا کہ تمہارا بھائی باہر تمہیں ملنے آیا ہے، کل ہائیکورٹ نے تمہاری رہائی کا فیصلہ دے دیا ہے.جو جیل کا ملازم یہ پیغام دینے آیا تھا اس کا نام بشیر احمد تھا اور اس کا قد سارے جیل کے ملازمین میں سب سے چھوٹا تھا.چنانچہ اس نشان کو دیکھ کر عبدالرزاق نے بیعت کر لی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوا.“ سلطان احمد صاحب زعیم انصار اللہ چک.71 جنوبی سرگودھا لکھتے ہیں: ایک دن میرے پاس ایک غیر احمدی نوجوان زاہد ولد غلام قادر آیا اور کہنے لگا کہ کل رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے.وہ یہ ہے کہ ہمارے
خطابات طاہر جلد دوم 197 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء چک میں ایک جلسہ ہورہا ہے، تمام گاؤں شامل ہے،خلیفہ طاہر احمد تقریر کر رہے ہیں.( یعنی وہ احمدی نہیں ہے، نہ اس نے مجھے کبھی دیکھا لیکن خواب میں اسے یہ بتایا گیا کہ خلیفہ طاہر احمد تقریر کر رہے ہیں.ایک احمدی ان کے پیچھے کھڑا ہے، احمدی احباب اور دوسرے لوگ اکٹھے بیٹھے ہیں اتنے میں سورج نزدیک آ گیا ،سورج کی تپش سے لوگ سڑنے لگے، (یعنی جلنے کے معنوں میں سڑنے کا لفظ استعمال کیا ہے.تو انہوں نے اٹھ کر دوڑ نا شروع کر دیا اور دوڑتے ہوئے کہتے جا رہے ہیں کہ ہم سڑ گئے ، مر گئے.ادھر چک کے مکانوں کو بھی آگ لگ گئی، گاؤں کے سب آدمی اور گھر جل گئے اور آدمی مر گئے لیکن جلسہ میں احمدی امن اور سکون سے بیٹھے جلسہ سنتے رہے، ان کو اس خوفناک صورتحال کا پتا بھی نہیں.اس پر میں نے اپنے ابا کو کہا ( یعنی دوسرے دن اٹھنے کے بعد ) اتبا کو کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ احمدی جھوٹے ہیں ، یہ سارے کے سارے بچ گئے ہیں یہ تو جھوٹے نہیں، یہ تو سچے ہیں، اس لئے بچ گئے ہیں.“ ( معاف کرنا ، یہ خواب ہی کی بات ہے، اٹھنے کے بعد نہیں آگے وضاحت ہوگئی ہے.) خواب ہی میں یہ اپنے ابا کو کہتے ہیں کہ یہ لوگ سچے ہیں، دیکھیں سارے احمدی بچ گئے ہیں اور یہ جھوٹے کیسے ہو سکتے ہیں، بہتر ہے کہ ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائیں.اس کے بعد ان کی آنکھ کھل جاتی ہے.لکھنے والے لکھتے ہیں کہ: " دو دن کے بعد یہ لڑکا آیا، میں اسے ایک احمدی کے گھر لے گیا، وہاں چاروں خلفاء کی تصاویر تھیں.اس نے حضور کی فوٹو پر انگلی رکھ کر کہا کہ یہی تقریر کر رہے تھے.اس نشان کی وجہ سے لوگوں میں بہت تبدیلی پیدا ہوگئی ہے.“ یعنی اس کو نام بھی بتایا گیا اور ساتھ شکل بھی وہی دکھائی گئی اور جب اس نے دیکھیں تصویریں تو فوراً پہچان گیا، اب خدا کرے کہ اس کو اور اس کے والدین اور سارے خاندان کو احمدیت کی توفیق ملے.عموماً گاؤں میں تو کہتے ہیں کہ پاک تبدیلی پیدا ہورہی ہے.جوں جوں دشمن جماعت کو تکلیفیں دیتا چلا جارہا ہے، جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے
خطابات طاہر جلد دوم 198 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء سے بڑھ کر ترقی کر رہی ہے اور ساری دنیا سے خدا تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کی حکایات ان تک بھی پہنچتی ہیں، وہ ہوائیں جو خدا کے فضل لے کر ہمارے دلوں کو ٹھنڈا کرنے اور ہمارے دلوں میں پھول کھلانے کے لئے آتی ہیں، وہ ہوا ئیں جب ان تک پہنچتی ہیں تو ان کو اور بھی زیادہ آگ لگا دیتی ہیں.الفضل اخبار ان ہواؤں کو اپنے دوش پر اٹھا کر چلنے والا اخبار تھا اور جب یہ دوبارہ جاری ہوا تو اس کی وجہ سے جماعت احمدیہ کو بہت ہی زیادہ حوصلہ پیدا ہوا اور ان کی بہت لمبے عرصے کی پیاس بجھی.تمام دنیا کے واقعات، احمدیوں کے حالات ان تک پھر دوبارہ پہنچنے شروع ہو گئے.اس وجہ سے وہ دشمن اور بھی زیادہ جل گیا اور بہت زور لگا کر بالآخر وہ دوبارہ الفضل کو بند کر وانے میں کامیاب ہو گئے.اس کے متعلق ہمارے ڈاکٹر محمد علی صاحب جو سائیکالوجسٹ ہیں، حیدر آباد سندھ سے اپنے ایک دلچسپ خط میں لکھتے ہیں: کچھ دن پہلے ہمارا روز نامہ الفضل دوبارہ بند ہوا ہے، کسی کو علم نہیں کہ کیسے ہوا؟ بس اتنا پتا چلا کہ بند ہو گیا ہے.ایک دوست کی رائے ہے کہ کثرت احتیاط سے بند ہوا ہے کیونکہ Excess of every thing is bad، نیم سیفی صاحب نے احتیاط کو اپنی انتہاء تک پہنچایا، عربی کا رسم الخط تک اخبار سے خارج کر دیا.پھر بھی کسی نہ کسی طرح اس ظالم کی نظر پڑ گئی ، غالب نے شاید نسیم سیفی صاحب سے متعلق یہ کہا تھا: ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے (دیوان غالب : ۳۳۶) یہ خیال ہو سکتا ہے بعض اور احمدیوں کے دل میں بھی آیا ہو، تبصرہ تو دلچسپ ہے لیکن جائز نہیں اور یہ چونکہ مخلص دوست ہیں، ان سے شکوے کے طور پر نہیں بلکہ میں ایک غلط فہمی دور کرنے کے لئے یہ اقتباس آپ کو سنا رہا ہوں.نسیم سیفی صاحب ہرگز بزدل نہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ جواں مرد ہیں اور میدان جہاد کی صف اول میں کھڑے ہونے والے انسان ہیں.وہ اس خوف کی وجہ سے عربی کے استعمال سے نہیں رکے کہ نعوذ باللہ ان پر ہاتھ نہ پڑ جائے ، ان پر تو ہاتھ ویسے ہی ڈالے گئے اور بار بار ڈالے
خطابات طاہر جلد دوم 199 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء گئے.وہ محض اس خوف سے رکے رہے کہ ایک وسیلہ جماعت تک ان خبروں کو پہنچانے کا ہے، کوئی بہانہ دشمن کو نہ مل جائے.اس لئے اگر اس خط سے یہ تاثر پڑتا ہے کہ نعوذباللہ ہمارے سلسلے کے کارکنان بزدلی کے نتیجے میں احتیاطیں کر رہے ہیں تو یہ بالکل غلط تاثر ہے، یہ جماعت کی خاطر ان کی محبت میں احتیاطیں کرتے ہیں لیکن دشمن ایسا ظالم ہے کہ ان احتیاطوں کے باوجود جو اس نے کرنا ہے وہ تو بہر حال کر گزرے گا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے متعدد مقدمات میں اس وقت نیم سیفی صاحب کو ملوث کیا جا چکا ہے.یہ تو ہے احمدیوں کا حال یا احمدیوں کے حال میں سے کچھ تھوڑا سا ذکر اور اس کے نتیجے میں دن بدن احمدیوں کا بڑھتا ہوا اخلاص اور تمام دنیا میں خدا تعالیٰ کے بارش کی طرح نازل ہوتے ہوئے افضال، اب ذرا دیکھیں تو سہی کہ ان دشمنوں کا کیا حال ہے جو اسلام کے نام پر یہ مظالم تو ڑ رہے ہیں وہ تو بہت بڑے بڑے مجاہدین ہوں گے.اگر وہ بچے ہیں تو خدا کے فیض اور کرم اور رحمت کی نظریں ان پر پڑنی چاہئیں اور بارش کی طرح ان پر فضل برسنے چاہئیں.کیونکہ اتنی بڑی خدمت تو پھر دین کی کبھی کسی نے نہیں کی ، تاریخ انبیاء میں اس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی.جس قسم کے مظالم خدا کے نام پر پاکستان میں ان ملاؤں نے احمدیوں پر توڑے ہیں.آپ تاریخ عالم پر نظر ڈال کر دیکھ لیں کسی اور جگہ اس ظلم اور بے حیائی کے ساتھ اس طرح مسلسل کسی نبی کے ماننے والوں پر یہ ظلم نہیں توڑے گئے، جتنا حضرت اقدس محمد مصطفی میت ہے کے آخرین کے دور کی اس جماعت پر توڑے جارہے ہیں.پس اگر یہ بچے ہیں تو اتنی بڑی نیکی ہے کہ فقید المثال ہے، تمام عالم کی تاریخ میں ایسی کوئی شکل دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آئے گی.پس دیکھتے ہیں کہ خدا اب ان سے کیا سلوک کر رہا ہے ، ان کا کیا حال ہو رہا ہے؟ کیا واقعی خدا ان پر رحمت اور پیار کی نظریں ڈال رہا ہے یا معاملہ کچھ اور ہے؟ یہ کہانی بہت ہی لمبی ، بہت ہی دردناک اور بہت بھیانک ہے،اس لئے میں ایک ایک سطر کے اقتباس پڑھ کر اسی پر اکتفا کروں گا.نوابزادہ نصر اللہ خان صاحب جو پاکستان کے ایک بزرگ سیاستدان ہیں ، ان کا یہ بیان اخبارات میں شائع ہوا اور باقی سب بیانات ہیں، کسی احمدی کا تبصرہ نہیں بلکہ بزرگ سیاستدانوں یا دوسرے سیاستدانوں کے بیانات ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم شائع ہوا.200 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء یہ ملک پاگل خانہ بنتا جارہا ہے،صدر کو بتا دیا ہے ہم انارکی کی طرف بڑھ رہے ہیں ، ہمیں تباہی کے سوا کچھ نہیں ملے گا.“ اس کا مزید تجزیہ کرتے ہوئے معراج محمد خان صاحب سر براہ قومی محاذ آزادی کا یہ بیان پہلے جیل خانہ تھا اب پاگل خانہ ہے.“ یعنی چنداحمدیوں کو ظالمانہ طور پر اسیر بنا کر سارے ملک کو جیل خانہ بنادیا اور احمد یوں پر پاگلوں والے مظالم تو ڑ کر سارا ملک پاگل خانہ بن گیا ہے.کیا یہ خدا کے فضل کے نشان ہیں یا خدا کے عذاب کے نشان ہیں؟ غلام مصطفیٰ صاحب جتوئی لکھتے ہیں: ”سندھ جل رہا ہے.“ سید مراد علی صاحب صوبائی وزیر سندھ لکھتے ہیں: ملک شدیدترین اندرونی اور بیرونی بحران کا شکار ہے.“ ولی خان صاحب کا تبصرہ یہ ہے کہ: 66 حکمران پارٹی اور اپوزیشن والے سب چور ہیں.“ ( کسی سے خیر کی کوئی توقع نہیں رہی.) معراج خالد صاحب جو سپیکر ہیں پاکستان کی قومی اسمبلی کے ، وہ لکھتے ہیں: پاکستان میں قتل وغارت کا بازار گرم ہے، ملک میں لبنان جیسی صورت حال ہے.“ جسٹس جاوید اقبال صاحب لکھتے ہیں: ”ہمارا سورج غروب ہوتا نظر آ رہا ہے، حالات نہایت سنگین ہو چکے ہیں.“ ان میں سے ہر بیان کے پیچھے ایک ظلم کی حکایت ہے، ہر بیان کے پیچھے ایک ایسا ہی بیان احمدیت کے خلاف موجود ہے.ایسے لوگ اٹھے تھے جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ احمدیت کا سورج
خطابات طاہر جلد دوم 201 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء غروب ہو چکا ہے، آج اسی قوم کے سردار اپنی قوم کے متعلق یہ بیان دے رہے ہیں کہ ہماری قوم کا سورج غروب ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے.پروفیسر غفور احمد صاحب جماعت اسلامی کے سر براہ لکھتے ہیں : مظلوم عورتوں کا قتل ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے.“ جب مردان میں ہماری احمدی خاتون دردانہ شہید کی گئیں، اس وقت تو کسی کو خیال نہیں آیا کہ مظلوم عورتوں کا قتل ہماری تاریخ کا سب سے سیاہ باب ہے.یہ وہی مظالم ہیں جن کا جواب آسمان سے نازل ہو رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر پوری طرح اس صورتحال پر صادق آ رہا ہے قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا ادھار (درشتین صفحه ۱۵۱) جتنے تم مظالم کرتے چلے جارہے ہو، کرتے چلے جاؤ مگر یاد رکھنا کہ میرا خدا ان مظالم میں سے کسی کو نہیں بھولے گا.قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا ادھار نواز شریف صاحب لکھتے ہیں : کراچی اور حیدرآباد کے واقعات پر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے.“ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ننکانہ صاحب کے حالات پر جس دل نے خون کے آنسو نہیں بہائے، چک سکندر کی سفا کا نہ داستانوں نے جس دل کو نرم نہیں کیا ، آخر خدا کی تقدیر نے اور طرح سے اس دل سے انتقام لیا، اور وہ دُور دُور ہوتے ہوئے مظالم پر نظر ڈال کر خون کے آنسو بہانے لگا ہے.گجرات کے چوہدری شجاعت حسین صاحب، جن کے ضلع میں سب سے زیادہ احمدیت پر مظالم توڑے گئے.وہ لکھتے ہیں : ملک جل رہا ہے ہم آئین بچانے کی باتیں کر رہے ہیں.“ جس دن چک سکندر جلایا گیا تھا اس دن ملک جل چکا تھا، اس دن تم نے اپنے ہاتھوں سے اس ملک کو جلانے کے سامان پیدا کر دیئے تھے.کیوں تمہاری آنکھیں اس وقت بند رہیں؟ کیوں تمہارے دلوں نے اس ظلم کی آنچ کو محسوس نہیں کیا؟ اب بیٹھے رہو اور اپنے کردار کے پھل
خطابات طاہر جلد دوم 202 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء کھاتے رہو.جب خدا کسی قوم سے بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو بچانہیں سکتی.ہاں! دعا ئیں ہیں جو اسے بچا سکتی ہیں.آج بھی اگر تو یہ کرو تو جن پر تم نے ظلم توڑے ہیں، خدا کی قسم! ہماری دعا ئیں آج بھی تمہیں بچالیں گی.مولوی فتح محمد صاحب امیر جماعت اسلامی پنجاب ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی کو کبھی اتنا معاشرے پر نفوذ نہیں ہوا جتنا اس گزشتہ دور میں ہوا ہے، حکومت کی سر پرستی اس جماعت کو کبھی اتنی حاصل نہیں رہی.اب اس جماعت کو اگر صالحین کی جماعت شمار کیا جائے تو معاشرے پر اس کا کیا اثر ظاہر ہونا چاہئے؟ یہ کوئی سمجھانے کی بات نہیں ہر انسان اندازہ لگا سکتا ہے لیکن اس گیارہ سالہ دور میں جبکہ جماعت اسلامی کو کھل کھیلنے کی پوری اجازت ملی تھی کیا ہوا اور معاشرے کی کیا شکل ظاہر ہوئی ؟ مولا نافتح محمد صاحب امیر جماعت اسلامی ایک فقرے میں یہ بیان کرتے ہیں: ” یہ انسانوں کا نہیں درندوں کا معاشرہ ہے.“ پروفیسر غفور احمد صاحب اسی معاشرے کا ذکر کرتے ہوئے ، یہ بھی جماعت اسلامی کے لیڈر ہیں لکھتے ہیں: اشیاء مہنگی اور خون سستا ہو گیا ہے.‘“ مولا نادرخواستی صاحب لکھتے ہیں: قتل و غارت ، تشدد، اغواء اور ڈکیتیوں کی وارداتیں انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں.“ راجہ محمد افضل صاحب سابق ایم.پی.اے کا بیان ہے: 66 چکے ہیں.“ ” منافقت ، جھوٹ ، ذاتی مفاد پاکستانی سیاست کے اہم نکات بن اور وزیر اعظم پاکستان بینظیر صاحبہ کا بیان شائع ہوا ہے: ”سندھ کے حالات مشرقی پاکستان کی طرح ہیں ، میں حیدر آبادگئی تو مسجد سے اعلان کیا گیا کہ گھیراؤ کر لیا جائے.“ اس کے علاوہ اخبارات میں جو مختلف عنوانات شائع ہوتے رہے ہیں اور اہل فکر کے
خطابات طاہر جلد دوم 203 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء تبصرے شائع ہوتے رہے ہیں، ان میں سے بھی چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.روز نامہ جنگ لاہور اپنی ۱۲ ؍ دسمبر ۱۹۸۹ء کی اشاعت میں ملک بھر میں ہونے والی جرائم کی وارداتوں پر مبنی وفاقی وزارت داخلہ کی رپورٹ شائع کرتے ہوئے لکھتا ہے: ملک میں موجود دس لاکھ کلاشنکوفیں کس کس کا سینہ پھاڑیں گی؟ یکم دسمبر ۱۹۸۸ء سے ۳۰ /نومبر ۱۹۸۹ء تک ملک میں 5939 افراد قتل ہوئے ، 2326 ڈکیتیاں ہوئیں، 995 افراد کو اغواء کیا گیا اور سندھ میں 65 پولیس مقابلے ہوئے جن میں بہت سے لوگ مارے گئے.پنجاب میں فرقہ وارانہ فسادات کے 28 اور سندھ میں 9 واقعات ہوئے.“ ملت لکھتا ہے: ’۱۹۸۹ء پنجاب کے معاشی قتل کا سال تھا.“ یه ۱۹۸۹ ء وہ ہے جو تمام دنیا میں احمدیت کے اور اسلام کے احیائے نو کا سال ہے، جس میں کثرت سے خدا کے فضلوں کی رحمتیں بارش کی طرح نازل ہوئی ہیں اور یہی مباہلے کا سال بھی تھا اور اسی مباہلے میں یہ دعا کی گئی تھی کہ اے خدا! اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہم سے وہ کچھ کر جو ان لوگوں سے ہو رہا ہے جن کا واقعہ میں بیان کر رہا ہوں اور اگر ہم بچے ہیں تو تیرے فضلوں کی بارشیں ہم پر نازل ہوں اور ہمارے دشمنوں پر وہ کچھ گزر جائے جو ان پر گزر رہی ہے.تو کتنا حیرت انگیز اور کتنا دردناک اعتراف ہے کہ ۱۹۸۹ء پنجاب کے معاشی قتل کا سال ہے.شر پسندوں نے راولپنڈی میں مدینہ مسجد کو آگ لگادی.“ اب کوئی ایک ظلم کا واقعہ آپ بیان نہیں کر سکتے جو خودان پر دہرایا نہیں گیا ہو.ملتان کی ایک اور مسجد کو آگ لگادی گئی، جھنگ میں دینی مدرسہ کو آگ لگا دی گئی.ہمیں اعلیٰ شخصیتوں کے بیٹے ہیروئن کی سمگلنگ میں بیرون ملک پکڑے گئے ، چار ریٹائر ڈ اعلیٰ افسران کروڑوں روپے بھتہ لیتے ہیں، ہیروئن کے تمیں سمگلر وی.آئی.پی بن گئے.شر پسند عناصر نے قرآن پاک کے 350 نسخے شہید کر دئیے.احمد یوں پر جھوٹے الزام لگائے گئے کہ یہ قرآن کریم کو جلا دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں
خطابات طاہر جلد دوم 204 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء احمدیوں کے گھر جلائے گئے اور اب واقعہ خود یہ بد بخت قرآن کریم کو جلا رہے ہیں اور اخباروں میں خبریں شائع ہو رہی ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کہ ان سے بھی کوئی انتقام لیں.حیدرآباد میں پولیس آپریشن، 57 افراد ہلاک سینکڑوں زخمی، پولیس اور ایگل (Eagle) سکواڈ جوتوں سمیت مساجد میں داخل ہوگئی.مساجد کے میناروں پر مورچے بنائے گئے اور گولیاں برسائی گئیں.“ وہ آپ کو یاد ہو گا گزشتہ سال جب ایک نظم پڑھی گئی تھی اس میں تھا کہ دھرتی کے نصیب اجڑتے ہیں جب ناگ اذانیں دیتے ہیں پس یہی بدبختی ہے کہ جو خدا کے عاجز بندے ہیں ان کو اذانوں سے روک دیا گیا اور ظالموں نے اذانیں دیں.اب خدا کی تقدیر انہی مناروں سے خود ان کو آئینے دکھا رہی ہے اور بتارہی ہے کہ یہ ان کے ظلم ہیں جو خدا کی تقدیر میں کس شکل میں ظاہر ہو کر اب ہمیشہ کے لئے مرتسم ہوتے چلے جارہے ہیں.حیدر آباد پولیس والے جئے سندھ اور سندھو دیش کے نعرے لگاتے رہے، ایسا محسوس ہوا کہ قلعہ پر حملہ ہو گیا ہے.خواتین نے فائرنگ بند کرانے کے لئے قرآن کریم کا واسطہ دیا، جس پر پولیس والوں نے خواتین کو رائفلوں کے بٹ مار مار کر لہولہان کر دیا اور یہ کہا بلا وا اپنے رسول کو.“ کس قدر ظلم ہے کس قدرسفا کی ہے؟ احمدیوں کو قتل کرنے کے بہانے بنانے کی خاطر آرڈینینس بنائے گئے حالانکہ یہ وہ ملک ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی ناموس کی خاطر بنایا گیا، یہاں ناموس رسول کو بُری آنکھ سے دیکھنے والے کی سزا موت ہے اور جھوٹے مقدمے بنانے کی کوشش کی گئی اور اب اپنا یہ حال ہے کہ خدا نے ان کو، وہ آئینہ دکھایا ہے کہ کون ہے جو ناموس رسول پر حملہ کرنے والا ہے اور خدمت اسلام کے ان کے رنگ ڈھنگ دیکھیں کہ ربوہ میں جب مولویوں کا ختم نبوت کا اور موس مصطفی کے نام پر اجلاس ہوا تو واپسی پر ”حیدر“ اخبار راولپنڈی کی خبر ہے کہ ان مولویوں نے بسوں کی چھتوں پر ننگے ہو کر بھنگڑا ڈالا اور پولیس تما شاد دیکھتی رہی.“
خطابات طاہر جلد دوم 205 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء یہ تماشا پولیس ہی نے دیکھنا تھا اور کس نے دیکھنا تھا؟ خدا کے فرشتے تو ایسے تماشے نہیں دیکھا کرتے اور مسجد کے لاؤڈ سپیکروں سے اب احمدیوں کی اذانیں بند اور اخبار میں سرخی کا عنوان ہے کہ مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے گانے اور خبریں“ احمدیوں کے منہ سے اگر کلمہ شہادت نکلے، احمدیوں کے منہ سے اگر حضرت اقدس محمد مصطفی میت ہے کے لئے درود جاری ہو ، جو دل کی گہرائیوں سے اٹھ رہا ہو تو یہ سارے جرائم ہیں جو یہ قوم برداشت نہیں کر سکتی اور کسی احمدی کو اس کی اجازت نہیں ہے مگر ان کی یہ زود حسی صرف یہیں تک محدود نہیں، بعض اور بھی باتیں ایسی ہیں جن کو یہ قوم برداشت نہیں کر سکتی اور ان میں سے ایک ہے بازارحسن کی ناکہ بندی برداشت نہیں کی جاسکتی.چنانچہ اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ بازارحسن کے میاں محمود نے کہا ہے کہ اگر اس بازار کی ناکہ بندیاں فی الفور نہ کھولی گئیں تو پھر حالات کی ذمہ داری انتظامیہ پر ہوگی.“ یہ ہیں قوم کی حسیات اور یہ ہیں ان کی دو صورتیں، جو خود ان کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی تاریخ ظاہر کر رہی ہے.گویا ان کی صورتوں کے یہ نقوش خود ان کے ہاتھ لکھ رہے ہیں اور ان کے اعمال یہ نقشے بنارہے ہیں.ماہانہ حکایت لاہور مارچ ۱۹۹۰ء کے اداریہ میں لکھتا ہے: آج ہم خلوص نیت سے اپنے اعمال پر نگاہ ڈالیں تو یہ حقیقت بے نقاب ہوگی کہ ہم بھی ان اقوام مجرمین کی صف میں کھڑے ہو گئے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے.ہم نے ان بدیوں اور بدعتوں کو اپنے کلچر میں شامل کر لیا ہے جو قوم نوح اور قوم ھود اور قوم لوط وغیرہ نے جائز قرار دے کر اپنی 66 تہذیب و تمدن میں شامل کر رکھی تھیں.“ آپ کو یاد ہوگا کہ اس موضوع پر میں نے بعض خطبات دیئے تھے اور قرآن کریم سے تاریخ انبیاء پیش کرتے ہوئے قوم کو متنبہ کیا تھا کہ یہ وہ رخ ہے جس کی طرف آپ کے قدم بڑھ رہے ہیں اور ایک وقت آئے گا کہ جب آپ پکار پکار کر انہی الفاظ میں المدد المدد کہیں گے، جن الفاظ میں اس سے پہلے انبیاء کے دشمنوں نے اور مجرمین نے مدد مانگی تھی لیکن ایسی قوموں کی مدد کو کوئی
خطابات طاہر جلد دوم 206 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء نہیں پہنچ سکا تھا.اس لئے پیش تر اس کے کہ وَلَاتَ حِيْنَ مَنَاصِ (مت (۴) کی کیفیت پیدا ہو جائے جب بھاگنے کی کوئی راہ باقی نہ رہے، آپ استغفار کریں ورنہ آپ کی شکلیں وہی بن رہی ہیں جو اس سے پہلے انبیاء کی دشمن قوموں کی بنتی چلی جارہی تھیں.اب یہ اعتراف حقیقت دیکھیں، لکھتے ہیں کہ : جو قوم نوح، قوم هود، قوم لوط وغیرہ نے جائز قرار دے کر اپنے تہذیب و تمدن میں شامل کر رکھی تھیں ہم پاکستانی انہی قوموں کی طرح احکام الہی سے انحراف کے مرتکب ہورہے ہیں اور ہم تباہی کے اس مقام تک تقریباً پہنچ گئے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہوجاتی اور توبہ کے دروازے بند ہو جاتے.(وَلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ کا کیسا عمدہ نقشہ کھینچا ہے)، آج کے پاکستانیوں پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے.وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود (کلیات اقبال بانگ درا: ۲۳۱) افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سارے ظلم اور سفا کی کے نتیجے میں جو خدا کی تقدیر نے ان سے انتقام لیا ہے اس کے باوجود ان کو ہوش نہیں آئی اور اس کے باوجود ان کو یہ نہیں پتہ چلا کہ مدد کے لئے کس کو پکارنا ہے.چنانچہ حیدر آباد سندھ اور کراچی میں المدد المدد کے نام سے اشتہار شائع ہوئے اور ان میں پکارا گیا تو فوج کو مدد کے لئے پکارا گیا خدا کو مدد کے لئے نہیں پکارا گیا.کیسی حماقت ہے اور کتنے ظلم کی حد ہے کہ جس فوج نے گیارہ سال کی حکومت میں پاکستان کو وہاں تک پہنچایا جہاں آج پاکستان پہنچ چکا ہے.اگر ایک ظالم اور سفاک فوجی ڈکٹیٹر ملک پر حکمران نہ رہتا تو ناممکن تھا کہ آج پاکستان کی یہ شکل بنتی جو اسلام کے نام پر گیارہ سال کی ظلم وسفا کی سے بنائی گئی ہے اور آج یہی قوم اور اس قوم کے بعض سیاسی رہنما اسی فوج کو دوبارہ بلا رہے ہیں.بڑی دردناک بات ہے لیکن اس درد ناک حالت پر چسپاں ہونے والا ایک لطیفہ مجھے یاد آ گیا، یعنی فوج سے بھاگ کر سیاستدانوں کی طرف گئے، سیاستدانوں سے بھاگ کر فوج کی طرف دوڑے.فوج سے بھاگ کرسیاستدانوں کی طرف گئے ،سیاستدانوں سے بھاگ کر پھر فوج کی طرف دوڑے.گزشتہ 20، 25 سال کی پاکستان
207 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء خطابات طاہر جلد دوم کی تاریخ یہی ہے.کہتے ہیں! ایک دفعہ انگریزوں کی حکومت کے دوران ایک نمبر دار صاحب کو خیال آیا کہ سور و پیہ جو مالیہ کا میں نے پیش کرنا ہے ڈی سی کے سامنے اس میں سے ایک روپیہ اگر میں بچالوں تو کیا فرق پڑتا ہے.ہو سکتا ہے میں کہوں گا صرف ایک ہی روپیہ کم ہے وہ صاحب مجھے معاف کر دے گا، مگر انگریز ریونیو کے معاملے میں بڑے خطرناک اور بڑے کنجوس اور سخت مزاج تھے.اس نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ سرکار میں نانوے روپے لے آیا ہوں ایک روپیہ رہ گیا ہے آپ مجھے معاف کر دیں.انہوں نے کہا روپیہ تو معاف نہیں ہوسکتا، سرکار کی چیز ہے اس لئے اس کی سزا ملے گی.اس نے کہا اچھا پھر حضور سزا سنادیں.انہوں نے کہا ایک سو جوتے کھاؤ.اس نے کہا میں عزت دار آدمی، نمبر دار آپ ہی کا بنایا ہوا اتناظلم تو نہ کریں ، سو جوتے نہیں میں کھا سکتا مجھے سو پیاز یعنی گنڈے کہا اس نے ، سو گنڈے کھلا دومینوں.انہوں نے کہا اچھا ٹھیک ہے پھر سو پیاز اس کو کھلا ؤ.چند پیاز کھائے تھے آخر انسان تھا کوئی گدھا نہیں تھا، گو حرکت گدھوں والی تھی بیزار ہو گیا آنکھوں سے آنسو جاری برا حال اس نے کہا دیکھو صاحب میں آخر انسان ہوں، میں گنڈے نہیں کھا سکتا لا ؤ جو تیاں جتنی مارنی ہیں مارلو، آٹھ دس جو تیاں پڑی تھیں تو پھر وہ گھبرا گیا اس نے کہا دیکھیں میں شریف وضع دار انسان ہوں، لائیں گنڈے واپس لائیں.چنانچہ دس بارہ گنڈے پھر کھائے ، پھر دس بارہ جو تیاں کھائیں، پھر دس بارہ گنڈے کھائے ، پھر دس بارہ جو تیاں کھا ئیں.کہتے ہیں جب نانویں جوتی پڑ رہی تھی تو پگڑی کھل گئی اس نے جس میں احتیاطاً وہی روپیہ سنبھال کے رکھا ہوا تھا.فورا لپکا اور روپیہ اٹھا کر کہا! لو پھڑو اپنارو پیش شکر ہے عزت رہ گئی.پس اس طرح یہ قوم اپنی عزتیں بیچارہی ہے.کہتے ہیں اے فوج! دوبارہ ہماری عزت بچانے کے لئے آ، اور فوج کے چند سال دیکھیں گے پھر کہیں گے اے سیاستدانو! آؤ ہماری عزت کو بچالو.اس سے زیادہ درد ناک حال تاریخ میں شاید پہلے کبھی کسی قوم کا نہ ہوا ہو اور اس سے زیادہ سفا کی کے ساتھ کسی قوم نے اپنے وقت کے امام کی تکذیب بھی کبھی نہیں کی.اس لئے ایک ہی راہ ہے اور صرف ایک راہ ہے کہ یہ تو بہ کریں اور اگر موت آ بھی گئی ہوگی تو میں خدا کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ احمدیوں کی دعاؤں سے ان کی موت ٹل جائے گی اور یہ ملک بچ جائے گا.
خطابات طاہر جلد دوم 208 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۰ء پس دوست اس تمام عرصے میں دعائیں کرتے ہوئے وقت گزاریں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا نیک نمو نے ظاہر کریں اور اگر خدانخواستہ کچھ بدیاں ابھی تک آپ کی زندگی کا حصہ ہیں تو ان پر حیا کے پردے ڈالیں اور خدا تعالیٰ سے استغفار کریں تا کہ آپ ان ملکوں میں نیک اثرات چھوڑ کر جائیں ، بداثرات چھوڑ کر نہ جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو.آمین
خطابات طاہر جلد دوم 209 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء صلى الله محمد رسول اللہ ﷺ کا معراج دراصل حمد کا معراج ہے.جماعت احمدیہ کو اس لئے مبعوث کیا گیا ہے کہ بنی نوع انسان کوامت واحدہ بنادے.افتتاحی خطاب جلسہ سالا نه فرموده ۲۶ / جولائی ۱۹۹۱ء بمقام اسلام آباد، ٹلفورڈ برطانیہ ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.سورہ فاتحہ نے یہ عظیم الشان مضمون ہمیں سمجھایا ہے کہ تمام حمد اس ذات باری تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.یہ مضمون کائنات میں ہر جگہ اس طرح بکھرا پڑا ہے کہ اگر انسان کو بصیرت عطا ہو تو کائنات کے ہر ذرے میں یہ مضمون بولتا سنائی دے گا اور عمل پیرا دکھائی دے گالیکن اس کی انتہا انسانیت کے قیام کے بعد سے شروع ہوتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی حمد اگر چہ کا ئنات کا ہر ذرہ کر رہا ہے لیکن جس کامل شعور کے ساتھ ، جس گہرے احساس کے ساتھ انسان کو حمد کے لئے بنایا گیا اور اس کے مطابق اسے صلاحیتیں عطا فرمائی گئیں اس کی کوئی مثال کائنات میں کہیں اور دکھائی نہیں دیتی.پس سب سے زیادہ انسان کو حمد باری تعالیٰ میں مصروف اور محو اور مگن رہنا چاہئے لیکن یہ عجیب تضاد ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے کم انسان ہے جو حمد باری تعالیٰ کا شعور رکھتا ہے.ساری کائنات خاموشی کے ساتھ اس نظام کے تابع جس نظام کے تابع اسے بنایا اور جاری کیا گیا، ہر لمحہ، ہر لمحے کے ہر حصے میں خدا تعالیٰ کی حمد کر رہی ہے.اگر آپ گہری سائنسی نظر سے اس کائنات کے نظام کو دیکھیں اور اس کا مطالعہ کریں تو آپ کو ہر جگہ، ہر لمحہ، ہر لحظہ حمد کا
خطابات طاہر جلد دوم 210 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء مضمون دکھائی دے گا اور حمد کی آوازیں سنائی دیں گی.کوئی ایک لمحہ بھی اس کا ئنات پر ایسا نہیں آتا، کوئی ایک لمحہ بھی اس کائنات کے کسی ایک ذرے پر ایسا نہیں آتا جب وہ خدا تعالیٰ کی حمد کے گیت نہ گار ہا ہولیکن وہ انسان جسے حمد کے لئے کامل کیا گیا، جسے اس مقام عروج تک پہنچایا گیا جس کے ساتھ حمد کا مضمون اپنے معراج کو پہنچتا ہے وہ اپنی بدقسمتی اور بدنصیبی سے اس مضمون سے غافل ہوا ہے.پس جب ہم اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہتے ہیں تو اس کے دو معنے بنتے ہیں.ایک یہ کہ ساری کائنات اس کا ذرہ ذرہ خدا کی حمد میں مصروف ہے اور اس پہلو سے وہ کائنات جو حمد باری تعالیٰ میں مصروف ہے اسے اختیار نہیں ہے.وہ حمد کے لئے پیدا کی گئی ہے، اُس کی پیدائش فی ذاتہ حمد ہے لیکن جب انسان کو اختیار دیا گیا کہ چاہے تو وہ حمد کرے چاہے تو حمد نہ کرے، اُس وقت کائنات کا امتحان ہوا ہے اور انسان کو اس امتحان کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس وقت اگر وہ حمد کے مضمون کو سمجھے اور اس کا حق ادا کرے تو وہ انسان اس درجہ کمال کو پہنچتا ہے جس درجہ کمال کے لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو خلعت وجود بخشی گئی تھی.درحقیقت محمد کا معراج حمد کا معراج ہے.اس سے پہلے کبھی کسی نے حمد کے مضمون کو اس بلندی تک نہیں پہنچایا جیسا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ہے نے حمد کے مضمون میں ڈوب کر اُسے بلندیوں کے کمال تک پہنچا دیا.آج ہم اسی کامل رسول کے غلاموں کے طور پر یہاں اکٹھے ہوئے ہیں اور حمد کو اس مضمون کے ساتھ ہم نے ادا کرنا ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ حمد جو غیر شعوری طور پر اور شعوری طور پر ساری کائنات میں جاری ہے شعوری طور پر انسان میں جاری ہو اور انسانیت کی پیدائش کا مقصد نہ صرف پورا ہو بلکہ اپنے منتہا کو پہنچے اور اپنے معراج کو پہنچے اور یہ معراج حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامانہ پیروی کے بغیر ممکن نہیں ہے.پس اس پہلو سے جب ہم اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کو پھر دوبارہ پڑھتے ہیں تو اس میں ایک درد کا مضمون پیدا ہو جاتا ہے، ایک اور آواز دل سے اٹھتی ہے کہ وہ خدا جس کے لئے حمد زیبا ہے، اسی کا حق ہے.ساری کائنات اس کی حمد کے ترانے گا رہی ہے، ایک انسان بدنصیب ہے جو اس کی حمد سے محروم ہے اور تمام عالم پر جب آپ اس پہلو سے نگاہ ڈالتے ہیں تو دل گہرے غم سے بھر جاتا ہے.جماعت احمدیہ کے قیام کا اعلیٰ اور حقیقی مقصد یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی حمد کو انسان کے نفوس
خطابات طاہر جلد دوم 211 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء میں ، اس کے دل کی دھڑکنوں میں، اس کے خون کی روش میں جاری کرے اور ایک ایسا وقت آئے کہ کل عالم حمد باری تعالیٰ سے بھر جائے اور ہر دل خدا کی حمد کے ساتھ دھڑ کنے لگے.خون کا ذرہ ذرہ جو انسان کی رگوں میں جاری ہو وہ حمد باری تعالیٰ کے ساتھ جاری ہو اور باشعور طور پر ایسا ہو.یہ وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا اور اس اعلیٰ مقصد کو پورا کرنے کے لئے آج جماعت احمدیہ کو مامورفرمایا گیا ہے.پس تمام عالم کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا اور حمد باری تعالیٰ کے سلیقے سکھانے ،حمد باری تعالیٰ کے آداب سکھلانے ، حمد باری تعالیٰ کا مضمون ایسے سمجھانا جیسے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو سمجھایا گیا تھا اور پھر اس کو اپنی ذات میں جاری کرنا.یہ وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو کھڑا کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہوگا کہ حمد کے مضمون کو ہم اپنی ذاتوں میں جاری کریں اور اس کے بعد ہم اس لائق ٹھہرائے جائیں گے کہ تمام بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ کی اعلیٰ اور ارفع حمد کی طرف بلا ئیں اور حمد کے سلیقے سکھائیں.قرآن کریم کی جن آیات کی آپ کے سامنے تلاوت کی گئی ہے وہ آیات خصوصیت سے میں نے اس موقع کے لئے انتخاب کی تھیں اور ان کا اس مضمون سے ایک گہرا تعلق ہے.سب سے پہلے یہ نصیحت فرمائی گئی ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ ( آل عمران:۱۰۳) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے اور اس حق کی تشریح فرما دی گئی وَلَا تَمُوتُنَّ إلَّا وَأَنْتُم مُّسْلِمُونَ اور نہ مرد یہاں تک کہ تم کامل طور پر خدا تعالیٰ کے فرمانبردار نہ ہو چکے ہو.اس مضمون کے ایک حصے پر اس سے پہلے میں اپنے امریکہ کے دورے کے دوران روشنی ڈال چکا ہوں کسی انسان کے بس میں نہیں ہے کہ اپنی موت کالمحہ مقرر کرے، کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تقدیر کو تبدیل کر دے.پھر یہ کیسا حکم دیا گیا ہے کہ وَلَا تَمُوتُنَ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ تمہیں نہیں مرنا مگر اس حالت میں کہ تم کلیۂ خدا تعالیٰ کے فرمانبردار ہو چکے ہو.اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں جب انسان تقویٰ اختیار کرتا ہے اور تقویٰ کی زندگی بسر کرنا شروع کر دیتا ہے تو لازماً اس کی موت اسلام پر آیا کرتی ہے.یہی تقویٰ کے مضمون کا حقیقی معنی نے
خطابات طاہر جلد دوم 212 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی طرف نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہو.جب ٹھوکر کھاؤ تو پہلا خیال دل میں شرمندگی کا احساس بن کے پیدا ہو اور انسان خدا کی طرف دیکھے کہ وہ مجھے کیسے دیکھ رہا ہو گا.جیسے ایک بچہ جب ایک غلطی کرتا ہے تو بسا اوقات اپنے ماں باپ کی طرف ترچھی نظر سے دیکھتا ہے اور یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ اس کا کیسا اثر میرے ماں باپ پر پڑا ہے اور پھر غلطیوں کے وقت ان سے چھپنے کی کوشش کرتا ہے.تقویٰ کا مضمون چھپنے کے ساتھ بھی گہرا تعلق رکھتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے آدم کی کہانی میں اس مضمون کو اس خوبصورت انداز سے پیش فرمایا کہ جب آدم سے گناہ سرزد ہوا تو وہ چھپتا پھرتا تھا، وہ جنت کے پتوں سے اپنے بدن کو ڈھانپنے کی کوشش کر رہا تھا.یہ درحقیقت وہ پہلا قدم بیان فرمایا گیا ہے جس کے نتیجے میں انسان تقوی میں ترقی کرتا ہے اگر دیا اٹھ جائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور سب سے زیادہ ضروری تقویٰ کی راہوں پہ قدم مارنے کے لئے حیا ہے اور یہ حیا جب خدا کے تعلق میں بیان کی جاتی ہے تو ہر وقت انسان شرمندگی کی حالت میں زندگی بسر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کیونکہ ماں باپ کی آنکھ سے تو بچہ چھپ جاتا ہے، اپنے پیاروں کی آنکھ سے بھی نظر چرا کر ایسی غلطیاں کر جاتا ہے کہ اسے شرمندہ نہ ہونا پڑے.ہم میں سے اکثر انسانوں کی زندگیاں اس طرح کٹتی ہیں کہ اگر ان کے اعمال بنی نوع انسان کے سامنے پیش کر دیئے جائیں تو بہت سے انسان شرم سے غرق ہو جائیں اور اگر خود کشی ان کے لئے جائز ہو تو وہ خود کشی کی موت کو زیادہ قبول کریں.ہر روز ہماری زندگی پہ ایسی حالتیں آتی ہیں کہ جب ہم انسان کے رشتے سے شرمندگی کا خوف رکھتے ہیں،شرمندہ نہیں ہوتے.یہ دوالگ الگ چیزیں ہیں ایک شرمندگی کا خوف ہے اور وہ خوف ان لوگوں کو دامنگیر رہتا ہے جو کچھ حیا ضرور رکھتے ہیں لیکن انسان کے رشتے کے ساتھ ، وہ دیکھتے ہیں کہ میرا یہ فعل اگر کل کو فلاں کی نظر میں آجائے گا تو مجھے کیسی شرمندگی اٹھانی پڑے گی لیکن وہاں اگر کا سلسلہ جاری ہے جولا متناہی ہے، اگر میں پکڑا جاؤں، اگر یہ ہو جائے ،اگر وہ ہو جائے تو پھر میں شرمندہ ہوں گا.مگر وہ خدائے اعلیٰ عز وجل، وہ خدا جس کی نظر غیب پر اس طرح محیط ہے کہ وہ غیب ہوتے ہوئے بھی، اس سے کچھ بھی غیب میں نہیں.اس کا غیب میں ہونا ایک اور بھی مضمون رکھتا ہے کہ ہر چیز جو غیب میں کی جاتی ہے اس سے وہ باخبر ہے کیونکہ انسان
خطابات طاہر جلد دوم 213 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء اس کے غیب سے بھاگ نہیں سکتا، اس سے کوئی چیز غیب میں نہیں ہے.اگر یہ مضمون انسان پر کھل جائے تو اس کی ساری زندگی شرمندگی میں بسر ہو.آدم کی کہانی روزانہ ہر انسان کی زندگی میں دہرائی جائے اور وہ ہر روز خفت محسوس کرے اور ہر روز وہ چاہے کہ کسی طرح میں خدا تعالیٰ کی نظر سے چھپ جاؤں کیونکہ مجھ سے ایسے افعال سرزد ہورہے ہیں اور ہو جاتے ہیں جن کے نتیجے میں مجھے اپنے خدا سے شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے.یہ تقویٰ کا پہلا قدم ہے جو بیان فرمایا گیا کیونکہ آدم کی کہانی سے تقویٰ کے مضمون کا آغاز ہوتا ہے.آدم کی کہانی مذہب کے آغاز کی کہانی ہے، آدم کی کہانی خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کی مخلوق کے باشعور تعلق کی پہلی کہانی ہے.پس حَقَّ تُقیہ کے مضمون کو سمجھنے کے لئے ہمیں آغاز سے سفر کرنا ہوگا اور اس پہلو سے آدم کی کہانی سے سبق لینا ہوگا اور اگر چہ ہزار ہا سال گزر گئے اگر چہ آدم کو گزرے ہوئے اتنی مدت ہوگئی کہ اس عرصے میں مذہب ترقی کرتا ہوا اپنے درجہ کمال کو پہنچ گیا مگر ہم میں سے اکثر ایسے ہیں جنہیں پھر بھی چھ ہزار سال پہلے سے اپنے سفر کو شروع کرنا ہوگا اور آدم سے سیکھنا ہوگا کہ حیا کیا ہوتی ہے؟ نہ چھپ سکنے کے باوجود چھپنے کا احساس تقویٰ کا پہلا قدم ہے.پس وہ لوگ جو خدا کے وجود کو حاضر ناظر جانتے ہیں ان کی زندگیاں خواہ وہ کتنے ہی بزرگ کیوں نہ ہوں ہمیشہ ندامت میں صرف ہوتی ہیں، ہمیشہ حیا سے کٹتی ہیں اور وہ خود اپنی ذات میں حیا سے کٹتے چلے جاتے ہیں.دنیا انہیں نیک دیکھتی ہے، دنیا ان کے تن بدن کو ڈھانپا ہوا دیکھتی ہے لیکن خدا کے سامنے وہ ننگے ہیں اور کسی لباس سے ان کا تن چھپ نہیں سکتا لیکن ایک لباس ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں کو ڈھانپتا چلا جاتا ہے اور وہ لباس تقوی ہے.لباس تقویٰ قرآن کریم کا محاورہ ہے.فرمایا وَ لِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ (الاعراف: ۲۷) تقویٰ کا لباس اختیار کرو.تقویٰ کے لباس میں یہ خوبی ہے کہ اگر انسان سے غلطیاں سرزد بھی ہوں اور وہ متقی ہو تو خدا کا بھی ایک انداز ، صرف نظر کا انداز ہے.وہ بھی اپنے بندوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور خود اغماض فرماتا ہے لیکن شرط تقویٰ ہے، شرط حیا ہے.بعض دفعہ چھوٹے بچے بھی حیا سے اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس حالت میں جب ان کے ماں باپ ان کو دیکھتے ہیں حالانکہ وہ ہمیشہ سے ان کو دیکھتے چلے آرہے
خطابات طاہر جلد دوم 214 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء ہوتے ہیں لیکن ان کی حیا کی وجہ سے ان کی حیا کا ادب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے تو تمہیں نہیں دیکھا، کچھ نہیں ہوا.ابھی کچھ عرصہ پہلے میری ایک بیٹی کی بیٹی چھوٹی سی عمر کی ہے وہ کپڑے بدل رہی تھی تو اس کے ابا اندر آگئے تو اس نے اپنی امی سے کہا دیکھیں ! ابا نے کیا کیا ہے؟ مجھے اس حالت میں دیکھ لیا کہ ابھی میں نے کپڑے نہیں پہنے ہوئے تھے اور اس کے ابا نے یہ رنگ اختیار کیا گویا اس کو دیکھا ہی نہیں.تو دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھنے کی صفت بھی ایک حیا ہے اور یہ حیا اپنے درجہ کمال میں خدا تعالیٰ کی ذات میں پائی جاتی ہے.وہ اپنے ان بندوں کو تقویٰ کا لباس پہناتا ہے جس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خدا کو دکھائی نہیں دیتے جو متقی ہو جائیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ ان کی شرموں کی حیا رکھنے لگ جاتا ہے اور اسی کا نام ستاری ہے.جس کے گناہوں، جس کی کمزوریوں کی حیا خدا رکھتا ہے کوئی نہیں جو اس کے پردے چاک کر سکے اور مؤمن ان معنوں میں لِبَاسُ التَّقْوَى میں خیر اور امن کی زندگی بسر کرتا ہے.پس سب سے پہلی چیز جوحمد باری تعالیٰ کے سفر میں آپ کو اختیار کرنی ہوگی وہ خدا کے حضور حیا کو اختیار کرنا ہے.حیا کا احساس پیدا کریں، روزمرہ کی زندگی میں حیادار بنیں لیکن بندوں کے رشتے سے نہیں خدا کے رشتے سے.قرآن کریم ایک جگہ انسان پر بڑی حسرت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ دیکھو انسان سے ڈرتے ہیں کہ انسان کے سامنے میری بدی نہ آجائے لیکن خدا سے نہیں ڈرتے.یہاں تقویٰ کے مضمون کو کھول کر بیان فرمایا گیا اور یہ حالت ایسی نہیں جو ایک دن میں درست کی جا سکے.ساری زندگی کی محنت درکار ہے لیکن آپ کو اس سفر پر روانہ ہونا ہو گا اس طرف اور قدم اٹھانے ہوں گے.جب آپ ایسا کریں گے تو لَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ کی پناہ میں آجائیں گے کیونکہ ہر وہ قدم جو حیا کے ساتھ شرما تا ہوا خدا کی راہ میں اٹھتا ہے وہ تسلیم اور رضا کا قدم ہے.ہر وہ قدم خدا کے قریب تر کرتا چلا جاتا ہے، ہر وہ قدم اطاعت کے لئے آپ کو مزید آمادہ کرتا چلا جاتا ہے اور اسی سے انسان اطاعت کا جذبہ پاتا ہے ، اطاعت کی طاقت اسے نصیب ہوتی ہے.پس مُسْلِمُونَ کا یہ مطلب نہیں کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت کا حق ادا کردوان معنوں میں کہ تم نے اپنی اطاعت کو کمال تک پہنچا دیا.إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ کا مضمون تقویٰ سے شروع ہوا اور تقویٰ کا آغاز آدم کی حیا سے ہوتا ہے.پس ہر وہ حیا دار جو خدا سے شر ما تا ہوا، لجا تا ہوا خدا کی راہوں
خطابات طاہر جلد دوم 215 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء میں جھجکتا ہوا انکسار سے قدم اٹھاتا ہے اور حسرت سے نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتا ہے کہ اے خدا! اب بھی میں ننگا ہو گیا اور اب بھی میں ننگا ہو گیا ، اب بھی میرے بدن سے کپڑے اٹھ گئے میں تیری نظر کے سامنے ہوں میری حیا کی لاج رکھ.ایسے انسان کو خدا ئباس التَّقْوى سے زینت بخشتا ہے اور اس سے خدا جب انصراف فرماتا ہے تو اس کے گناہ مٹنے شروع ہو جاتے ہیں.اور یہ وہ مضمون ہے جس کو آپ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.یہ مضمون گناہوں پر جرات دلانے والا مضمون نہیں بلکہ گناہوں سے پاک ہونے کا راز اس میں سمجھایا گیا ہے.جب خدا صرف نظر فرماتا ہے تو گناہ کے داغ مٹنے شروع ہو جاتے ہیں اور انسان کو نئی طاقت نصیب ہوتی ہے گناہ کے مقابلہ کی اور اس طرح لباس التقوی میں اس کا اندرونی بدن نئی صحت پانے لگتا ہے، نیا حسن اختیار کرنے لگتا ہے، اس کے داغ دھلتے رہتے ہیں.ان کی جگہ خوبصورت رنگ ان داغوں کو ڈھانپ لیتے ہیں کیونکہ جس کو خدا لباس پہناتا ہے اس لباس کو محض اس رنگ میں نہیں پہنا تا کہ ایک منافق وجود ظہور میں آئے.خدا تعالیٰ کا لباس پہنانا بالکل ایک اور مضمون ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب خدا ڈھانپ دیتا ہے تو پھر اس کی اندرونی حالتوں کو درست کرنا شروع کر دیتا ہے اور وہی اندرونی حالتیں ہیں جو ترقی کرتے ہوئے خود ایک لباس بن جاتی ہیں.پھر انسان ایک نئے لباس میں ظاہر ہوتا ہے پھر اسے ایک نئی خلقت عطا کی جاتی ہے، خلق آخر ا سے نصیب ہوتی ہے.وہ لباس جو اوپر کالباس تھا جس طرح سانپ کی کینچلیاں اترتی رہتی ہیں اس طرح گناہ کے سانپ کی کینچلیاں اتر جاتی ہیں اور تازه وجود ایک نیا لباس اس کو اپنے اندر کے وجود سے عطا ہوتا ہے جو گناہوں سے پاک ہوتا ہے لیکن گنا ہوں سے کامل طور پر پاک ہونا انسان کے بس میں نہیں.اس لئے پھر وہ ظاہری لباس بھی داغدار ہوتا رہتا ہے پھر اس سے حیا پیدا ہوتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے ایک اور لِبَاسُ التَّقوى عطا کرتا ہے.یہ جاری وساری مضمون ہے جس کے نتیجے میں جب آپ باشعور طور پر اس راہ پر قدم بڑھائیں، آپ کا دل حمد و ثنا سے بھرتا چلا جاتا ہے.جب کوئی شخص دنیا میں آپ سے ایسا سلوک کرے آپ کے بار بار گناہوں سے صرف نظر کرے، آپ کو ڈھانپے ، آپ کو غیروں کی ظالمانہ نظروں سے بچائے اور پھر آپ کی اصلاح کرتا چلا جاۓ اور بہتر سے بہتر صورت عطا کرتا چلا جائے تب کچی حمد اس کے لئے پیدا ہوتی ہے اور یہی ربوبیت
خطابات طاہر جلد دوم 216 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء ہے.پس جب ہم کہتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ تو سچی ربوبیت کی تعریف کی آواز اس وقت اٹھتی ہے جب انسان اپنی ذات میں ربوبیت کو جلوہ گر دیکھتا ہے.تب وہ ساری کائنات پر نظر ڈالتا ہے اور دیکھتا ہے کہ سارے عالم سے خدا کا یہی سلوک ہے.تمام کائنات ادنیٰ حالتوں سے اعلیٰ کی طرف ترقی کرتی چلی جاتی ہے اور جب اپنی ذات میں اس مضمون کو جاری دیکھتا ہے تو اس کی رگ رگ میں حمد پھڑکنے لگتی ہے، اس کے خون کی رگوں میں حمد دوڑنے لگتی ہے، اس کے دل میں حمد دھڑ کنے لگتی ہے اور بے اختیار اس کے دل سے حمد کا ایک اور نعرہ بلند ہوتا ہے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کہ دیکھو خدا کیسی حمد والا ہے اس نے تمام عالم کو ترقی دی اور ادفی حالتوں سے اعلیٰ کی طرف اُس کو ترقی دیتا چلا جارہا ہے اور مجھے بھی اس نے ادنیٰ اور ذلیل حالتوں میں پکڑا اور ان ذلیل حالتوں سے بڑھاتے ہوئے ایک خوبصورت اور حسین انسان بناتا چلا گیا.پس ان معنوں میں جب آپ حمد کے مضمون پر غور کرتے ہیں تو آپ کو ایک اور پیغام بھی ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس خدا نے تمہیں اچھا بنایا ، جس نے تمہاری کمزوریوں کو دور فرمایا ، جس نے تم سے صرف نظر کی ، جس نے تمہیں توفیق بخشی کہ اس کی راہ میں آگے بڑھو اور اس کے فضل اور فیض کے ساتھ اپنے گناہوں کو کم کرتے چلے جاؤ اور اس کی اطاعت میں آگے بڑھتے چلے جاؤ.وہ شخص اپنے ماحول کے لئے دوسرے بنی نوع انسان کے لئے کل عالم کے لئے ایک رب بن کر اٹھنا شروع ہوتا ہے.یہ وہ ربوبیت ہے جس کے ذریعے سارے عالم کو حد سے بھرا جائے گا یہ ربوبیت ان انسانوں کے وجود میں ظاہر ہوتی ہے جور بوبیت کا فیض پانے والے ہوتے ہیں.پس جب تک آپ اپنی ذات میں خدا کے فیض اور اس کے فضل کے ساتھ چھوٹے چھوٹے رب نہ بن جائیں.ان معنوں میں رب نہ بن جائیں کہ جس کے نتیجے میں آپ کے وجود سے ادنیٰ حالتیں اعلیٰ حالتوں میں تبدیل نہ ہونے لگ جائیں، جب تک ایسا نہ ہو اس وقت تک آپ کو خود یقین نہیں ہوسکتا کہ آپ واقعی رب سے فیض پانے والے ہیں.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے فیض پا لیا وہ مجھتے ہیں گناہوں کی بخشش ہی کافی ہے اور خدا نے ہمارے پر دے ڈھانپ دیئے اس سے ثابت ہوا کہ خدا ہم سے راضی ہو گیا اور ہمارا سفر ختم ہوا، یہ درست نہیں ہے.رَبُّ العَلَمِینَ کہا گیا ہے وہ تمام جہانوں کا رب ہے.جواس کا ہو جائے جو اس سے فیض پائے اسے اپنے رب کی طرح لاز ماننا پڑے گا.اس کا فیض تمام جہانوں پر
خطابات طاہر جلد دوم 217 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء عام ہونا چاہئے اور عام ہوتے ہوئے اسے زندگی کے ہر جز و پر حاوی ہو جانا چاہئے.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی امی کی ذات میں رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء : ۱۰۸) کے طور پر دنیا کے سامنے پیش فرمایا گیا ہے.آپ کو رَبُّ الْعَلَمِینَ نہیں کہا گیا کیونکہ اس سے غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی تھیں مگر رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کا مضمون ربوبیت کی ایک اور شان ہے.بندوں کے تعلق میں جب انسان اپنے رب کے پیچھے چلتے ہوئے ربوبیت کی صفات اختیار کرتا ہے تو اسے رحمت کہا جاتا ہے اور رحمت کا مطلب ہے اس کا فیض دوسروں تک ضرور پہنچے گا.پس جب تک آپ کا فیض آنحضرت ﷺ کی غلامی میں تمام بنی نوع انسان پر ممند نہ ہو جائے ، جب تک آپ کا فیض کل عالم کو نہ ڈھانپ لے نہ حقیقت میں آپ حمد کا مضمون سمجھنے والے ہیں نہ حقیقت میں آپ تمام بنی نوع انسان کو اور کل عالم کو اللہ کی حمد کے لئے تیار کرنے والے کہلا سکتے ہیں.اس مضمون کی وسعتوں میں جانے کا تو وقت نہیں ہے.یہ ایک افتتاحی تقریر ہے مگر آج کی آیات کا انتخاب میں نے اسی خاطر کیا تھا کہ اس مضمون پر کچھ نہ کچھ روشنی ضرور ڈالوں.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ بِ شخص کا حَقَّ تُقَتِهِ الگ الگ معنے رکھتا ہے.ایک ادنی آدمی جو صرف حیا کا مقام اختیار کرتا ہے اس کا حق تقیہ یہ معنے رکھتا ہے کہ اس نے خدا کا تقویٰ اختیار کرنے کی طرف سفر شروع کر دیا ہے، وہ حیادار ہو گیا ہے اور جب وہ آگے بڑھتا ہے تو یہ مضمون ساتھ ساتھ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور حق بڑھنے لگتے ہیں یہاں تک کہ حق اتنے وسیع ہوتے چلے جاتے ہیں کہ انسان خوف کھاتا ہے.پہلے وہ ان حقوں سے واقف نہیں تھا پھر وہ حقوں سے واقف بنتا چلا جاتا ہے اس کے سارے تعلقات پر یہ مضمون چھا جاتا ہے.بیوی سے تعلقات کے وقت بھی حق تقیہ کی آواز اٹھنے لگتی ہے، بچوں سے تعلقات کے وقت بھی حَقَّ تُقتِہ کی آواز اٹھنے لگتی ہے، ہمسایوں سے تعلقات کے وقت بھی حق تقیہ کی آواز اٹھنے لگتی ہے، مالک سے تعلقات کے وقت بھی اور ان سے تعلقات کے وقت بھی جن کو آپ کے ہاتھوں کے تابع کیا گیا اور یہ مضمون ایک لامتناہی مضمون بن جاتا ہے اور اسی پہلو سے سارے عالمین پر چھا جاتا ہے کیونکہ انسان کے کل عالم سے تعلقات ہیں.پس انسان کا شعور بیدار ہوتا ہے اور اس شعور کی وسعت کے ساتھ رب العلمین کا مضمون اس کے ساتھ ساتھ پھیلتا چلا جاتا ہے.وہ مضمون تو ہمیشہ سے
خطابات طاہر جلد دوم 218 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء پھیلا ہوا ہے لیکن انسان اس سے واقف نہیں ہے.پہلا قدم واقفیت کا قدم ہے اور یہ قدم جیسا کہ میں نے بیان کیا حیا سے اٹھتا ہے.اس کے بعد جس حالت میں بھی موت آئے وہ مسلم کی حالت ہے.پس یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسی چیز کا پابند کر دیا جس کا اختیار نہیں دیا گیا.یہ تو نعوذ باللہ من ذالک ایک ظالم خدا ہے اگر وہ ہمیں یہ کہے کہ مرد نہیں جب تک تم مسلم نہ ہو جاؤ اور ہمیں موت کا اختیار نہ دے اور جب چاہے بلالے پیشتر اس سے کہ ہم مسلم ہو چکے ہوں.اس میں یہ عظیم خوشخبری عطا کی گئی ہے کہ اگر تم خدا کے لئے تقویٰ اختیار کرو گے اور اس کی راہ میں آگے بڑھنے کی پُر خلوص کوشش شروع کر دو گے تو چونکہ موت کا اختیار خدا کے ہاتھ میں ہے خدا تعالیٰ ایسا کرے گا کہ تم نہیں مرو گے جب تک تم اس کے حضور مسلم نہ بن چکے ہو.یہ وہ عظیم الشان وعدہ ہے جو ہمیں عطا کیا گیا ہے.جو اختیار ہمارا ہے وہ ہم نے کرنا ہے جو اختیار خدا کا ہے اور اس کو ہر اختیار ہے لیکن اس مضمون میں اس کا اختیار یہ ہے کہ آپ کو اس وقت واپس بلائے جب آپ مسلم ہو چکے ہوں.پس جو سفر آپ نے خدا کی راہ میں حیا سے شروع کیا وہ سفر بڑھتے بڑھتے اور مضامین کا سفر بن گیا، آپ کا حقوق کا سفر بن گیا.ہرلمحہ آپ کی زندگی کا ہر عمل خدا کی نظر کے سامنے آ گیا آپ کو چھپنے کی کوئی جگہ باقی نہ رہی.آپ خدا سے دعائیں کرتے ہوئے آگے بڑھے کہ اے خدا! میں تو نگا ہوتا چلا جارہا ہوں میرے بدن کو یہاں سے بھی ڈھانپ اور وہاں سے بھی ڈھانپ ، اور وہاں سے بھی ڈھانپ اور وہاں سے بھی ڈھانپ یہاں تک کہ مجھے پورا لباس تقوی نصیب ہو جائے.ایسی حالت میں جب بھی اس پر موت آئے وہ موت خدا کے نزدیک اسلام پر موت ہوگی اور خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ضر ور توفیق عطا فرماتا ہے کہ اس سفر کو مکمل کر لیں اور جن کا سفر مکمل نہ ہو جہاں سے بھی وہ کاٹا جائے خدا کی رحمت اسے مکمل سفر قرار دیتی ہے کیونکہ وہ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے، صرف رَبِّ العلمین نہیں ہے بلکہ اس مضمون کو وہاں پہنچایا گیا جس کے بعد ہر سوال حل ہو جاتا ہے.فرمایا! تم ربوبیت کا سفر اختیار کرو، لوگوں کے لئے رب بنے کی یعنی رحمت بنے کی کوشش کرو پھر سب معاملہ خدا کے سپرد کر دو اور یہاں مُسلِمُونَ کا یہ معنی بن جاتا ہے کہ تم اپنے حالات، اپنے وجود کو خدا کے سپر دکر دو، اپنے غموں اور اپنے فکروں کو بھی خدا کے سپر د کر دو، اپنی تمناؤں اور خوشیوں کو بھی خدا کے سپر د کر دو، اپنی آرزوؤں اور اپنے مقصود کو خدا کے سپرد کر دو.یہ کہتے ہوئے قدم
خطابات طاہر جلد دوم 219 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء بڑھاؤ کہ اے خدا! موت کا تو ہمیں کوئی اختیار نہیں.نہ زندگی پر اختیار نہ موت پر اختیار لیکن جتنا اختیار تو نے ہمیں دیا اس اختیار کے تابع ہم تیری طرف آگے بڑھنے لگے ہیں، یہ وہ راہ ہے جو لامتناہی ہے.کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی طاقت سے مسلم حالت میں مرجائے کیونکہ لا متناہی را ہیں وہ ہیں جو لا متناہی وجود کی طرف چلتی ہیں.پس کسی انسان کے اختیار ہی میں نہیں ہے.صرف موت وحیات کا مضمون نہیں ہے بلکہ کسی انسان کو ابدی زندگی بھی نصیب ہو تب بھی وہ اپنے طور پر مسلم ہونے کا حق ادا نہیں کر سکتا.تو حَقَّ تُقتِہ کا مضمون یہاں ان معنوں میں ظاہر ہوگا کہ تم اپنی سی کوشش ضرور کرو اور تمہارا حق ادا کرنا تمہاری کمزوریوں کے تعلق میں ہے.اگر تمہیں حق ادا کرنے کی توفیق ہی خدا نے نہیں دی تو ان معنوں میں تم حق ادا نہیں کر سکتے ، ان معنوں میں تم مکلف نہیں بنائے گئے.تمہیں جن باتوں کا مکلف کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی سی توفیق کے مطابق تقویٰ کا حق ادا کرنے کی کوشش شروع کر دو.چنانچہ جب یہ سفر انسان شروع کرتا ہے تو صاحب تجر بہ ہر انسان جانتا ہے کہ قدم آگے بڑھانے کے بعد نئی ذمہ داریاں ظاہر ہونے لگتی ہیں، اس کے تعلقات کے دائرے وسیع ہونے لگتے ہیں، اس کی ذمہ داریاں وسیع ہونے لگتی ہیں اور حق ادا کرنے کی توفیق بڑھتی چلی جاتی ہے.وہ باتیں جو آپ کی نظر سے غائب تھیں جن کو آپ حق سمجھتے ہی نہیں تھے وہ حق کے طور پر سامنے اٹھتی ہیں اور تقاضے کرنے لگتی ہیں اور آپ خدا سے دعائیں مانگتے ہوئے اور شرماتے ہوئے ان تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں.پھر جس حالت میں بھی موت آئے گی وہ انسانی نقطۂ نظر سے دیکھیں، انسانی زاویے سے دیکھیں تو وہ بظاہر ایک نامکمل موت ہوگی کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا خدا تعالیٰ کی جانب سفر تو ایک لامتناہی سفر ہے پھر کیسے مسلم کہلائیں گے؟ یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تسلی دینے کی خاطر مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کا مضمون بیان فرمایا کہ دیکھو جز اسرا کے دن کا مالک خدا ہے.جس حالت میں تم جان دو گے وہ تمہارا یوم جزا بن جائے گا اور چونکہ مالک خدا ہے اس لئے مالک کا حساب نہیں لیا جاتا.تمہارا حساب لیا جاتا ہے.مالک چاہے تو جو چاہے عطا کر دے.پس مالک سے تعلق جوڑو اور مالک سمجھتے ہوئے اس کی راہ میں آگے قدم بڑھاؤ.تب تمہیں ملکیت کی صفات عطا کی جائیں گی.
خطابات طاہر جلد دوم 220 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری راہنمائی فرمائی اور قرآن کریم اور سورہ فاتحہ کو سمجھنے کے لئے یہ مضمون چابی کا حکم رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سلسلے میں ایک بہت ہی عظیم الشان مرکزی بات یہ بیان فرمائی کہ جتنے بھی نبی آنحضرت ﷺ سے پہلے گزرے ہیں ان میں سے کوئی بھی خدا تعالیٰ کی ملکیت میں اس طرح حصے دار نہیں بن سکا.جس طرح سورۂ فاتحہ نے خدا تعالیٰ کو رب العلمین کے طور پر پیش کیا ہے.ان کا ملکیت سے حصے دار ہونا یا وقتی تھا یا قومی تھایا محدود جغرافیائی حدود سے تعلق رکھتا تھا.وہ مالک تو بنائے گئے لیکن ان محدود دائروں میں بنائے گئے جن محدود دائروں کی طرف ان کو مبعوث فرمایا گیا.فرمایا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو جب رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ قرار دیا گیا تو ملوکیت کو بھی وسعت عطا کر دی گئی اور ملکیت کو بھی وسعت عطا کر دی گئی اور اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے آپ کو رَبِّ الْعَلَمِینَ کے معنوں میں مُلِكِ يَوْمِ الدِین بھی بنا دیا.آپ نے فرمایا یہ وہ معنی ہے جس کی روح سے ہم یقین رکھتے ہیں کہ بالآخر بنی نوع انسان کا ایک ہی مذہب ہوگا اور وہ وہی مذہب ہوگا جو حضرت محمد مصطفی یہ ہے کے قلب صافی پر اتارا گیا.ایک آپ ہی ہیں جنہیں رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ کا قرار دیا گیا، ایک آپ ہی ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے عالمین کے تعلق سے ملکیت کی صفات عطا کی گئیں.آپ کیسے ملک کہلائیں گے، کیسے مالک بنیں گے؟ جب تک ساری بنی نوع انسان آپ کے ایک جھنڈے کے تابع اکٹھے نہیں ہو جاتے اور اس بنی نوع انسان کو امت واحدہ میں تبدیل نہیں کیا جاتا.اے جماعت احمد یہ ! آپ کو اس غرض سے مبعوث کیا گیا ہے، آپ کو اس لئے کھڑا کیا گیا ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ میں تبدیل کر دیں اور امت واحدہ میں تبدیل کرنے کے لئے آپ کے اندر اپنی اندرونی تبدیلیاں ضروری ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس کا حمد سے بہت گہرا تعلق ہے.اگر ہر احمدی حمد کے مضمون کو سمجھے اور حمد باری تعالیٰ میں مصروف ہو جائے ، زبان سے نہیں بلکہ اپنے اعمال کے ذریعے ، اپنے افعال کے ذریعے، اپنی جہتوں کے ذریعے اور جہت کا مضمون اس میں بہت ہی اہمیت رکھتا ہے.آپ خدا کی حمد بیان کرتے ہوئے اگر غیر اللہ کی طرف جہت اختیار کرلیں اپنا منہ غیر اللہ کی طرف موڑے رکھیں اور حمد خدا تعالیٰ کی بیان کر رہے ہوں تو کبھی بھی نہ آپ کی حمد قبول ہوگی نہ حمد کا مضمون آپ کی ذات میں جاری ہوگا.جہتوں کی درستی بہت ضروری ہے.
خطابات طاہر جلد دوم 221 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء پس خدا کی سمت اپنا چہرہ کر دیں اور ہمیشہ خدا کے چہرے کی طرف اپنا رخ رکھیں.جب اس طرح آپ سفر اختیار کریں گے تو پھر آپ کو حمد کا مضمون سمجھایا جائے گا ،حمد کا مضمون آپ کے وجود میں جاری کیا جائے گا.تب آپ بنی نوع انسان کو حمد سکھانے کے قابل بنائے جائیں گے ، آپ کو یہ توفیق عطا فرمائی جائے گی کہ آپ اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے مضمون کو اُس نقطۂ معراج صلى الله تک پہنچادیں جس نقطۂ معراج تک پہنچانے کے لئے بنی نوع انسان کو پیدا کیا گیا تھا.آنحضرت علی ان معنوں میں آخری نبی ہیں اور اے آخرین کی جماعت! ان معنوں میں تم آخری جماعت ہو جن کے سپرد یہ عظیم کام سونپا گیا ہے اس لئے اس مضمون کو قران کریم کی روشنی میں سمجھتے ہوئے بڑی گہرائی سے اس کا مطالعہ کرتے ہوئے اس مضمون کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اگر آپ آگے بڑھتے چلے جائیں گے تو یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ یہ سہرا آپ کے سر پہ لٹکائے گا، یہ سہرا آپ کو عطا فرمائے گا لیکن یہ سہرا آپ کا نہیں ہوگا.اس سہرے کا تعلق صرف اور صرف حضرت محمد مصطفی مے سے ہے، آپ کے قدموں کے طفیل آپ کے سروں کو زینت بخشی جائے گی اور آپ کی حمد کے ذریعے وہ حمد جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے خدا تعالیٰ کی کی ، ویسی حمد کے ذریعے آپ کو محمود بنایا جائے گا اور آپ کو مقام محمودیت عطا کیا جائے گا.اس پہلو سے ہمیں ابھی دنیا میں بہت سے کام کرنے ہیں مگر ایک ایک قطرے کی درستی ضروری ہے، ایک ایک قطرے کا مزاج درست کرنا ضروری ہے.یہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ اس کے تصور سے دل ہول کھانے لگتا ہے، دل ڈولنے لگتا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اس کا حق ادا کریں.جب انسان اس پہلو سے اپنی ذمہ داریوں کو سوچتا ہے تو اس کا سارا وجود لرز اٹھتا ہے اور حَقَّ تُفتِهِ کا ایک اور مضمون اس کے لئے ظاہر ہوتا ہے.صرف اپنے وجود کو نہیں بچانا بلکہ غیروں کو بھی بچانا ہے.صرف اپنے دائرہ اختیار میں خدا کی بادشاہت کو قائم نہیں کرنا بلکہ اس سے باہر کے دائروں میں بھی خدا کی بادشاہت کے دائرے کو بڑھاتے چلے جانا ہے یہاں تک کہ تمام عالم خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہو جائے.یہ وہ مضمون ہے جسے حضرت عیسی نے اپنے رنگ میں بیان فرمایا لیکن اس مضمون کو قرآن کریم نے کامل فرما دیا اور سورۃ فاتحہ نے اس کو اپنی پوری شان کے ساتھ ہمارے سامنے
خطابات طاہر جلد دوم 222 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء کھول کر رکھ دیا ہے.پس اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہتے ہوئے جب آپ اس مضمون میں ڈوبیں گے تو کتنے کتنے نئے عالم آپ کے سامنے ابھرتے چلے جائیں گے اور جتنے عالم آپ کے سامنے ابھریں گے اتنا آپ کے شعور کا دائرہ بڑھتا چلا جائے گا.اسی عالم سے نئے عالم پیدا ہوں گے یہاں تک کہ آپ عالمین کا وہ تصور اگر پانہیں سکتے تو اس تصور کی طرف ہمیشہ بڑھتے رہیں گے جس تصور کے تابع حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ قرار دیا گیا اور جس تصور کے تابع اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ نے ہمیں خدا کی عالمی ربوبیت کا پیغام دیا ہے.اس ضمن میں خدا تعالیٰ نے جو آسان رستے ہمارے لئے تجویز فرمائے ہیں ان رستوں کا ان آیات کریمہ میں ذکر ہے جن کی تلاوت کی گئی تھی.اللہ تعالیٰ سب سے پہلے یہ فرماتا ہے کہ یہ کام انفرادی طور پر کرنے والا نہیں کیونکہ اجتماعیت کا مضمون ہے.اس میں بحیثیت جماعت تم کو ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا.ایک فرد واحد کا کام نہیں ہے کہ وہ تقویٰ کے حق ادا کر سکے یہ وسیع جماعتی کام ہیں.فرمایا وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ( آل عمران :۱۰۴) اگر تم نے تفرقہ اختیار کیا تو تمہارا انفرادی تقویٰ کسی کام کا نہیں رہے گا اور وہ تقویٰ ہوگا نہیں ، اس حالت میں اگر تم مرو گے تو جان لو کہ تم مسلم ہونے کی حالت میں نہیں مررہے کیونکہ تقویٰ کا حق ادا کرنے والے نہیں ہو گے.تقویٰ کی تعریف کو آگے بڑھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا اللہ کی رسی کو اجتماعی طور پر تھام لو، انفرادی طور پر نہیں.پس وہ مسلمان جو آج احمدیوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم تو بہت اچھے مسلمان ہیں، ہم نیک بھی ہیں، ہم نمازیں پڑھتے ہیں، ہم درود وسلام بھیجتے رہتے ہیں.ظاہری طور پر وہ یہ بتاتے ہیں کہ ہم بدیوں سے پاک ہیں، اچھے مسلمان ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے جماعت احمدیہ کی کیا ضرورت ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تسلیم کرنے کی؟ اس کا جواب قرآن کریم نے یہ دیا وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا کیا واقعی اجتماعی طور پر تم نے خدا کی رسی پر ہاتھ ڈالا ہوا ہے کیا تمہیں اجتماعیت نصیب ہوگئی ہے، کیا تم ایک ہاتھ پر ا کٹھے ہو چکے ہو؟ اگر نہیں! تو پھر تفرقے کی حالت میں مرنا تقویٰ کی حالت میں مرنا نہیں ہے.یہ نہ تقویٰ ہے نہ اسلام ہے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ کی بہت سی تفسیر میں ہیں لیکن ایک تفسیر یہ ہے کہ
خطابات طاہر جلد دوم 223 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء حضرت محمد مصطفی حملے کے ذریعے جوری اتاری گئی آپ اس رسی کا مظہر بن گئے.پس محمد مصطفی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا حبل اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے اور چونکہ آنحضرت ﷺ کا اس دنیا میں قیام عارضی تھا اور پھر آپ کو لازماً آخر رفیق اعلیٰ میں لوٹ جانا تھا اس لئے بعد میں اس رسی کا کیا بنے گا؟ اس کے لئے خلافت کو جاری فرمایا گیا، اس کے بعد اس کے لئے مجددیت کو جاری فرمایا گیا لیکن مجددیت خلافت کا تیم تو تھی خلافت نہیں تھی یعنی اپنی اعلیٰ شان میں خلافت نہیں تھی تبھی اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو یہ خبر دی کہ جب مسیح موعود نازل ہوگاثم تكون خلافة على منهاج النبوة (مسند احمد حديث :۱۷۶۸۰) پھر خلافت کو منہاج النبوۃ کے طریق پر دوبارہ جاری کر دیا جائے گا.آج آپ ہیں جنہوں نے خلافت کی رسی پر ہاتھ ڈال کر محمد مصطفی کی ری پر ہاتھ ڈال دیا ہے.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا انفرادی طور پر تمہارا خلافت سے وابستہ ہونا کافی نہیں ہے.یعنی خلافت محمد رسول اللہ کی خلافت مراد ہے اجتماعی طور پر تمہارا اس رسی پر ہاتھ ڈالنا اور مضبوطی سے اسے تھامے رہنا ضروری ہے.وَاعْتَصِمُوا کا مطلب ہے مضبوط ہاتھ ڈالو، ہاتھ کاٹا جائے مگر چُھٹ نہ سکے.کوئی ابتلاء تمہاری راہ میں ایسا حائل نہ ہو جو تمہیں خلافت سے الگ کر دے اور یہ نہ سمجھو کہ خلیفہ وقت سے تمہارا ذاتی تعلق کافی ہوگا.یہ نہ سمجھو کہ انفرادی طور پر تمہارا تعلق قائم ہو گا.خلافت ایک نظام ہے جو تمام بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کے لئے جاری کیا گیا ہے.یہ وہ رسی ہے جس پر سب کا ہاتھ اجتماعی طور پر پڑنا ضروری ہے.پس وہ لوگ جو بعض دفعہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی سوچتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا خلیفہ وقت سے تو بہت محبت کا تعلق ہے مگر ہم امیر کی بات نہیں مان سکتے ، ہم اپنے حلقہ کے صدر کی بات نہیں مان سکتے ، ہم قائد کی بات نہیں مان سکتے ، ہم زعیم کی بات نہیں مان سکتے ہم تو خلیفہ وقت کے عاشق ہیں ہر مضمون میں اس کی اطاعت کریں گے لیکن یہ لوگ کون ہیں جو بیچ میں دخل دینے والے ہیں، نظام جماعت کیا چیز ہے؟ ان کو سمجھایا گیا ہے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا اگر اکٹھے ہوتے ہوئے تمہارا خلافت سے تعلق نہ ہوا تو انفرادی تعلق کے خدا کے حضور کوئی بھی معنے نہیں.جب تم نے انفرادی تعلق کی بات سوچی تو تم کاٹے جاچکے ہو.تمہیں لازماً اکٹھے رہ کر اجتماعی طور پر خلافت سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا.یہی وہ راز ہے جو تمہاری زندگی کا راز ہے.فرمایا اس کے
خطابات طاہر جلد دوم 224 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء نتیجے میں کیا ہو گا تم اکٹھے کئے جاؤ گے ظاہری طور پر نہیں بلکہ تمہارے دل اکٹھے کر دیئے جائیں گے اور ظاہری اجتماع کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتا.دیکھو بنی نوع انسان کا سب سے بڑا اجتماعی ادارہ United Nations لیکن دیکھو کیسے Ununited ہے Disunited ہیں.ہر قوم حقیقت میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنائے ہوئے ہے اور ہر قوم کی خواہش ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے ایسے تعلق جوڑیں کہ اس کے نتیجے میں اجتماعیت پیدا نہ ہو بلکہ بعض گروہوں کے خلاف مضبوط گروہ نمودار ہوں اور ان گروہوں کے اندر پھر انفرادی رسہ کشی کا مضمون ہمیشہ جاری رہتا ہے.بظاہر امریکہ کے تابع یورپ بھی ہے اور بعض بڑی بڑی دوسری مملکتیں بھی آچکی ہیں مگر یورپ کے اندر پھر انفرادیت ہے اور ہر روز آپ ایسی خبریں پڑھتے ہیں جس کے نتیجے میں بڑی بڑی یورپین حکومتیں ہر وقت اس کوشش میں مصروف رہتی ہیں کہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ حق یورپ کی اجتماعیت سے اپنی قوم کے لئے حاصل کریں.پس یہ جمیعا کے مضمون کے مخالف ہے.جمعیت کا مضمون بالکل اور خبر دیتا ہے.آپ کو ایسے اجتماع کی ضرورت ہے وہ اجتماع جو دلوں کو اکٹھا کرنے والا ہو.پس دیکھیں روحانی تاریخ میں کس طرح اس دنیا کی تعریف سے الگ اور ممتاز کر دیا ہے فرمایا وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ( آل عمران : ۱۰۴) الگ الگ نہ ہونا انفرادیت اختیار نہ کرنا ورنہ تم مارے جاؤ گے فرمایا وَ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ وه صلى الله وقت یاد کرو جب محمد مصطفی ﷺ بھی مبعوث نہیں ہوئے تھے.تم کس طرح گروہ در گروہ بٹے ہوئے تھے.سارا عرب منتشر اور ایسے مخالف گروہوں میں بٹا ہوا تھا کہ ان میں سے ہر ایک ایک دوسرے کا جان لیوا تھا.ہر ایک ایک دوسرے کے خون کا دشمن تھا.کیسا عجیب معجزہ ہوا ہے کہ محمد مصطفی میت ہے کی رسی پر ہاتھ ڈال کر نہ صرف وہ عرب متحد ہوا بلکہ اس عرب کو تمام دنیا کو متحد کرنے کی ذمہ داریاں سونپی گئیں وہ دین واحد اس عرب قوم کو عطا کیا گیا.ان کی قومیت کے طور پر نہیں بلکہ محمد مصطفی منانے کے قرب کے طور پر، پہلے اسلام کے سفیروں کے طور پر.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو اس طرح کھولا کہ یاد کرو تمہاری کیا حالت تھی تم کس طرح اکٹھے ہوئے ہو، کیا صرف قرآن پر ا کٹھے ہوئے ہو؟ ہرگز نہیں! کیونکہ وہ قرآن تو محمد رسول اللہ کے بعد بھی جاری رہا اور آنحضرت ﷺ کے بعد اس جمعیت میں خلل پیدا ہونا شروع ہو گیا.صل وہ
225 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء خطابات طاہر جلد دوم پس اس رسی کا معنی کچھ اور ہے صرف قرآن کریم نہیں ہے.قرآن کریم اس رسی کا تانا بانا ہے لیکن یہ رسی بعض وجودوں میں ظاہر ہوا کرتی ہے اور وہ سب سے پہلا وجود جو اس رسی کا اتم مظہر تھا، کامل مظہر تھا، اکمل مظہر تھا وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ملے تھے.آپ کے ہوتے ہوئے تمام عرب جس نے اسلام کو قبول کیا ایک ہاتھ کے تابع تھا، ایک آواز کے اوپر اٹھتا اور ایک آواز پر بیٹھ جایا کرتا تھا، کوئی افتراق کا شائبہ بھی وہاں دکھائی نہیں دیتا.جب آنحضرت ﷺ اپنے رب کے حضور لوٹے تو وہی عرب تھا، وہی مسلمان تھے ، وہی قرآن تھا، خلافت بھی تھی لیکن اس کے باوجود وہ لوگ جن کو اجتماع کی عادت نہیں تھی انہوں نے انفرادیت اختیار کرنی شروع کی اور یہ انفرادیت تھی جس نے اس جمعیت کو پارہ پارہ کرنا شروع کر دیا.یہ وہ انفرادیت تھی جس کے نتیجے میں پھر آخر خلافت کی نعمت ان سے اٹھالی گئی.فرمایا! دوبارہ ایسانہ کرنا.یہ ان آیات کا پیغام ہے جب میں آگے مضمون کو بڑھاؤں گا تو پھر آپ سمجھیں گے کہ یہ پیغام صرف ابتدائی حالات کا پیغام نہیں ہے بلکہ ایک ایسی جماعت کو تنبیہ فرمائی گئی ہے جو ایمان لا چکی ہے، جس نے رسی پر ہاتھ ڈال دیا ہے، جو اجتماعی طور پر ایک قوم بن کر کہ شہود پر اُبھر چکی ہے.اس کو یہ تنبیہ فرمائی جارہی ہے وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ یہاں مسلمان مخاطب ہیں.فرمایا ! یاد کرو اس دن کو جب تم ایک دوسرے کے کیسے دشمن تھے پھر خدا کی رحمت نے تمہارے دلوں کو اکٹھا کر دیا.یہ اجتماع کا معنی ہے کہ تمہارے دل مل جائیں ، ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو.فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا پھر دوستیوں کی باتیں نہیں رہیں تم ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے ، وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ یاد کرو تم آگ کے کنارے پر کھڑے تھے فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا تمہیں خدا تعالیٰ نے اس آگ سے بچالیا.منصة پس آج جو بنی نوع انسان آگ کے کنارے پر کھڑے ہیں ان کے لئے بھی یہی نسخہ ہے اور یہ نسخہ پہلے آپ کی ذات میں جاری ہوگا، آپ پر عمل دکھائے گا، آپ کو شفاء بخشے گا.تب آپ بنی نوع انسان کی شفا کے اہل بنائے جائیں گے.فرماتا ہے كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ ايَتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ دیکھو خدا کیسے کھول کھول کر مضامین کو بیان فرماتا ہے، کاش تم ہدایت پاؤ.
خطابات طاہر جلد دوم 226 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( آل عمران: ۱۰۵) اس کام کو ہمیشہ کے لئے جاری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ تم میں سے ہمیشہ گروہ در گروہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو اس کام کے لئے وقف ہو جائیں.ہمیشہ بنی نوع انسان کو برائیوں سے روکتے رہیں اور نیکیوں کی تعلیم دیتے رہیں.اس ضمن میں میں آپ کو یہ بات سمجھانا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کو نیکیوں کی تعلیم دینے کا حکم ہے اور برائیوں سے روکنے کا حکم ہے.یہاں مسلمان مراد نہیں بلکہ مومنوں کی جماعت ، وہ مومنوں کی جماعت مخاطب ہے جو خود نیکیوں کو اختیار کر چکی ہے اور بدیوں سے رک چکی ہے.ایک جگہ فرمایا يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَيَنْشَونَ عَنْهُ (الانعام: ۲۷) محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھی ایسے ہیں جو منع کرتے ہیں اور خود بھی منع ہوتے ہیں.ایسے لوگ نہیں ہیں جو دوسروں کو تو منع کرتے ہیں اور خود منع نہیں ہوتے تو یہاں غیر مراد ہیں اور یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ مذہب اسلام اختیار کریں تمہارے لئے ضروری ہے کہ ہدایت کا کام جاری کر دو.یہ انتظار نہ کرو کہ وہ تمہارے ساتھ اعتقاد میں اتفاق کریں.کیونکہ حسن و قبح کی ایک پہچان خدا تعالیٰ نے انسان کو بخشی ہے.کسی بھی مذہب سے وہ تعلق رکھتا ہو اس کو خدا تعالیٰ نے فطرت میں یہ ملکہ ودیعت فرمایا ہے کہ وہ برائی کو خوبی سے الگ دیکھتا ہے اور خوبی کو برائی سے الگ جانتا ہے.فرمایا! اس کی فطرت کی آواز تمہاری تائید کرے گی.کیوں اس تائید سے فائدہ نہیں اٹھاتے؟ جب خدا تعالیٰ نے فطرت کی ہوائیں تمہاری تائید میں چلا رکھی ہیں اور بدیاں فطرت کے خلاف کی جارہی ہیں تو تم نیکی کی تعلیم دینا شروع کر دو اور یہ انتظار نہ کرو کہ لوگ پہلے محمد رسول اللہ پر ایمان لے آئیں پھر تم ان کو نیکی کی تعلیم دو.اگر تم ایسا کرو گے تو لوگ تمہارے ہاتھ سے نکل جائیں گے جو لوگ بدیوں میں آگے بڑھ رہے ہیں وہ کیسے محمد رسول اللہ کی اطاعت میں داخل ہوں گے؟ ان کے حالات درست کرو، اس قابل تو بناؤ کہ محمد رسول اللہ کی پیروی کرسکیں.اس کے بغیر وہ کیسے محمد رسول اللہ کی پیروی کی اہلیت اختیار کریں گے؟ اب آپ دیکھیں آپ کا تجربہ ہے خصوصیت سے مغرب میں بھی، بعض پہلوؤں سے
خطابات طاہر جلد دوم 227 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء مغرب میں اور بعض پہلوؤں سے مشرق میں کہ وہ برائیاں جو معاشرے میں بڑھتی چلی جارہی ہیں وہ ہمیشہ اسلام کی راہ میں روک بنتی چلی جاتی ہیں.اب یہ جنگ معاشرتی جنگ بن چکی ہے.وہ لوگ جنہیں شرابوں کی عادتیں پڑ گئیں، جنہیں ناچ گانے کی عادتیں پڑ گئیں، جنہیں کھلم کھلا بے حیائیوں کی عادتیں پڑگئیں ان کو آپ کیسے حیا کی طرف بلائیں گے؟ اگر آپ نے رفتہ رفتہ ان کی تربیت کا کام شروع نہ کیا، اگر آپ نے معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنے کی کوشش نہ کی تو وہ آنحضرت ﷺ کی غلامی میں داخل ہو نہیں سکتے.میں نے بعض ایسے مسلمان غیر احمدی دوستوں کے واقعات سنے ہیں جو جانتے ہیں کہ احمدیت سچی ہے لیکن جب ان سے کہا جائے کہ بیعت کر لو تو یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ہم میں برائیاں بہت ہیں، کمزوریاں بہت ہیں ہم بیعت کے اہل نہیں ہیں.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لفظ تو ان پر غالباً اطلاق نہیں پائے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ نے بیعت نہیں کی) آپ سے جب یہ پوچھا جاتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب کیسے تھے؟ تو وہ عاشقانہ رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعریفیں کرتے تھے اور آپ کی تصدیق فرماتے تھے.جب ان سے کہا جاتا تھا کہ پھر آپ احمدی کیوں نہیں ہو جاتے اور بیعت کیوں نہیں کرتے ؟ وہ کہا کرتے تھے ! مجھ میں کمزوریاں بہت ہیں.یہ تو ایک انکساری کا اظہار تھا ایسے لوگ بھی دنیا میں ہوتے ہیں.مگر اُن آزاد قوموں میں خواہ وہ مشرق سے تعلق رکھتی ہوں یا مغرب سے تعلق رکھتی ہوں جہاں برائیاں بڑھتی چلی جارہی ہیں اور نیکیاں کم ہوتی چلی جارہی ہیں وہاں اسلام کے پھیلنے کے امکانات کم ہوتے چلے جارہے ہیں.اس لئے آپ کو برائیوں کے خلاف جہاد آج سے شروع کرنا ہے، بہت پہلے شروع کرنا چاہئے تھا.اگر آپ نے نہیں کیا تو ہر گز انتظار نہ کریں کہ لوگ پہلے اسلام کو قبول کریں پھر ان کو سمجھائیں کہ کیا با تیں غلط ہیں کن باتوں سے تمہیں رُکنا چاہئے ، کن باتوں کو اختیار کرنا چاہئے.ایک صلائے عام دنیا کو دیں نیکیوں کی طرف بلانے کی اور ایک انتباہ عام جاری کریں بدیوں سے ڈرانے کا اور انہیں سمجھائیں کہ تم جن راہوں پر چل رہے ہو وہ ہلاکت کی راہیں ہیں.یہ جینے کے اطوار نہیں ہیں.چنانچہ میں اپنے سفروں میں ہمیشہ ان باتوں کو لازم پکڑتا ہوں.جب بھی میری قوموں کے
خطابات طاہر جلد دوم 228 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء سر براہوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں بڑی عاجزی اور انکسار سے ان کو سمجھا تا ہوں کہ میں کوئی سیاستدان نہیں ہوں جو ان کی تعریف کے لئے آیا ہوں.میں ایک مذہبی نمائندہ ہوں، میں انہیں حقیقت بتانے آیا ہوں.میں سچائی کی زبان بولوں گا، میں آپ کو یہ بتاؤں گا کہ آپ کی قوم میں کیا کیا کمزوریاں پیدا ہو چکی ہیں ان کمزوریوں سے اس قوم کو بچائیں ورنہ آپ کی راہ ہلاکت کی راہ ہے اور میرا تجربہ ہے کہ سچائی کی آواز میں بڑی طاقت ہوتی ہے.جب بھی میں نے کھل کر مختلف قوموں کے سربراہوں سے یہ باتیں کی ہیں کبھی کسی نے بھی اس کو برانہیں منایا بلکہ ان کے دل میں اسلام کے پیغام کا احترام ہمیشہ بڑھا ہے اور انہوں نے پہلے سے بڑھ کر ادب اور عزت کے ساتھ مجھ سے سلوک کیا ہے.نیکی میں ایک طاقت ہے جس سے ادب پیدا ہوتا ہے، جس سے احترام پیدا ہوتا ہے.وہ طاقت کا سرچشمہ ہے جس کے نتیجے میں آپ کو طاقتور بنایا جائے گا، جس کے نتیجے میں آپ کو غلبہ عطا کیا جائے گا.اس سر چشمے سے پانی پئے بغیر کس طرح آپ دنیا کو ہدایت کی طرف بلائیں گے ، کس طرح آپ دنیا کے مذاہب تبدیل کریں گے.پس یہ وہ ابتدائی قدم ہے جسے آپ کو لازماً اٹھانا ہوگا، ابتدائی قدم تو حیا کا قدم تھا.میرا مطلب یہ ہے کہ جب آپ بنی نوع انسان کی طرف ان کو بچانے کے لئے نکلیں گے تو ہر گز اس بحث کو پہلے نہ چھیڑیں کہ تم پہلے مسلمان ہو، پہلے احمدی ہو پھر ہم تمہیں بتا ئیں گے کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے.ان کو بتائیں تم پہلے انسان بنو، تم انسانیت کی قدروں سے عاری ہوتے چلے جارہے ہو یہ ہلاکت کی راہیں ہیں.اس مضمون میں ہر انسان کے دل کی آواز آپ کی آواز کی تائید میں اٹھے گی ، ہر انسان کا دل گواہی دے گا کہ آپ سچ بول رہے ہیں.اس کے نتیجے میں آپ کو وہ اثر کی طاقت عطا کی جائے گی جس کے بعد بالآخر انسان ہمیشہ ہدایت کی طرف آگے قدم بڑھانے لگ جاتا ہے.حـمـد امـبـار کـا کے متعلق میں نے آپ کو جمعہ میں بتایا تھا ہر اچھی چیز میں دراصل ایک برکت کا مضمون پایا جاتا ہے.جب آپ نیکیوں کی تعلیم کے ذریعے، بدیوں سے روکنے کے ذریعے، نیک نمونوں کے ذریعے اچھے اثر قائم کرتے ہیں تو آپ کو ایک نفسیاتی غلبہ عطا ہوتا ہے، لوگ آپ سے محبت کرنے لگتے ہیں، آپ کی بات ماننے لگ جاتے ہیں اور پھر آپ کے مذہب میں ان کو دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور وہی حقیقی دلچسپی ہے.
خطابات طاہر جلد دوم 229 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء فرمایا وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اگر تم ایسا کرو گے تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ تم لازماً کامیاب ہو گے.دیکھو! کامیابی کا کیسا نسخہ ہمیں سمجھا دیا گیا ہے.یہی وہ نسخہ ہے جس پر عمل کرنے کے ذریعے ہم رب العالمین کی حمد سے تمام کائنات کو بھر سکتے ہیں.فرمایا وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ هُمُ الْبَيِّنَتُ دیکھیں کس طرح خدا تعالیٰ نے دوبارہ اس مضمون کو وہیں سے اٹھا لیا کہ یاد کرو جب محمد رسول اللہ نے تمہیں اکٹھا کیا تھا.یہاں خصوصیت سے مسلمان مخاطب ہیں اور مسلمان دور آخر کے مسلمان ہیں.یہ جو تکرار فرمائی گئی ہے یہ اس زمانے کے مسلمانوں کو مخاطب فرمایا گیا ہے.فرمایادیکھو وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنت یا درکھو تمہیں خدا نے ایک ہاتھ پر اکٹھا کیا تھا.تم گروہوں میں بٹ چکے ہو لیکن ہم تمہیں تنبیہ کرتے ہیں کہ ہرگز ایسا نہ کرو تمہیں لازماً دوبارہ ایک ہاتھ پر اکٹھے ہونا ہے.اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اس کے لئے فلاح کی خوشخبری نہیں ہے.فرما او أو لَكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ایسے لوگوں کے لئے یا عَذَابٌ عَظِيم مقدر ہے.يَوْمَ تَبْيَضُ وَجُوْهٌ وَتَسْوَدُّ وَجُوْهُ ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُم أكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمُ دیکھیں کیسے مضمون کو کھول دیا ہے.البيِّنت فرمایا اور قت البينت میں سے یہ بھی ایک بینہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس مضمون کو خوب کھول دیا شک کا کوئی پہلو باقی نہیں چھوڑا.فرمایا دیکھو بعض چہرے جزا سزا کے دن سیاہ ہوں گے اور ان چہروں سے یہ سوال کیا جائے گا.آكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيْمَانِكُمْ کیا تم وہ ہو جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا تھا.فرمایا أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيْمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ.پس اس عذاب کو چکھو جو اس وجہ سے ہے کہ تم نے سچائی کو قبول کرنے کے بعد اُس سچائی سے انکار کر دیا.یہ سچائی کونسی سچائی ہے؟ یہ وحدت کی سچائی ہے.سارا مضمون اسی سچائی کے ذکر سے بھرا پڑا ہے.یہ حبل اللہ پر ہاتھ ڈالنے کی سچائی ہے، یہ محمد رسول اللہ اللہ کے ہاتھ پر اکٹھے ہونے کی سچائی ہے، یہ آپ کے بعد اس خلافت پر اکٹھے ہونے کی سچائی ہے جو محمد رسول اللہ کے فیض سے آخرین میں دوبارہ جاری ہونے کا وعدہ دیا گیا تھا.
خطابات طاہر جلد دوم 230 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء پس آپ وہ سچائی ہیں، آپ وہ سچائی کے مظہر ہیں جس کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا گیا ہے اور مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب تک تم اس سچائی کی طرف لوٹو گے نہیں ، جب تک اس رسی کو دوبارہ مضبوطی سے تھام نہیں لو گے جو خدا تعالیٰ دوبارہ آخرین میں اتارے گا تا کہ تمہارا تعلق محمد مصطفی سے ہمیشہ کے لئے مضبوط تعلق بن جائے اُس وقت تک تمہاری نجات کی کوئی راہ نہیں ہے.وَأَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِى رَحْمَةِ اللهِ هُم فِيهَا خَلِدُونَ (آل عمران : ۱۰۸) وہ لوگ جن کو چہروں کا نور عطا کیا جائے گا وہ وہ لوگ ہیں جو دوبارہ اس رسی پر مضبوطی سے ہاتھ ڈال دیں گے اور پھر اولین سے ملائے جائیں گے.جیسے اولین کے چہرے نور سے پُر رونق تھے اور روشن تھے اسی طرح آخرین کے چہرے دوبارہ اسی نور سے پُر رونق کئے جائیں گے، اُسی نور سے ان کو زینت بخشی جائے گی جو محمد مصطفی ﷺ کا نور ہے جو آسمان سے اتارا گیا، وہ مجسم نور ہے جس کا سورہ نور میں ذکر فرمایا گیا ہے.فرمایا هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے.یہاں خوشخبری بھی ہے اور یہ بتایا بھی گیا ہے کہ اب نیکی کو اختیار کرنے کے بعد پیچھے قدم نہیں ہٹانا اور ایک خوشخبری بھی ہے، ایک اور خوشخبری بھی ہے وہ یہ ہے کہ اب خلافت دائی ہوگی ، هُم فِيهَا خَلِدُونَ کے مضمون کو سمجھنا ہو تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدے فرمائے ہیں ان پر غور کریں.آپ نے فرمایا قدرت ثانیہ جو عطا کی جائے گی وہ دائمی ہوگی ، وہ ہمیشہ کے لئے رہے گی.پس دیکھیں خلد فون کا مضمون کس طرح اس مضمون سے گہرا تعلق رکھتا ہے.پس خلافت کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہیں وفا کے ساتھ اور اجتماعی طور پر اور انفرادیت کو ترک کردیں یہ ہلاکت کی راہیں ہیں.انفرادیت کو ان معنوں میں بے شک ترقی دیں کہ آپ کی انفرادیت ذاتی اصلاح کی غرض سے ہو، آپ اپنے قطرے کی حالت بہتر بنانا چاہیں.آپ اس قطرے کو جب سمندر میں ڈالنا چاہتے ہوں اور وہ لازماً آپ کو سمندر کے سپرد کرنا ہوگا تو ان معنوں میں انفرادیت اختیار کریں کہ اس قطرے میں جتنے نقص ہیں اسے دور کرنے کی کوشش کریں تا کہ سمندر آپ کے وجود سے گدلا نہ ہو اور آپ کے وجود سے میلا نہ ہو اور آپ کے وجود سے زہریلا نہ بن جائے.انفرادیت کا مقام یہی مقام ہے اس سے آگے ایک قدم بھی انفرادیت کا اٹھانے کی اجازت نہیں ہے.پھر اپنے
خطابات طاہر جلد دوم 231 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء آپ کو اجتماعیت کے سپرد کر دیں اور وہ اجتماعیت وہی ہے جس کا میں نے بیان کیا جو خلافت کے ذریعے دوبارہ اس بنی نوع انسان کو بچانے کے لئے عطا کی گئی ہے.اگر اس مضمون کو سمجھنے کے بعد اس سے تعلق جوڑیں اور مضبوطی کے ساتھ وحدت قومی کو اختیار کرتے ہوئے، اجتماعی وحدت کو اختیار کرتے ہوئے آپ خلافت سے گہرا تعلق مضبوط اور قائم رکھیں تو میں آپ کو قرآن کے الفاظ میں خوشخبری دیتا ہوں كه أو ليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ آپ لازم فلاح پائیں گے، آپ لازماً ان مقاصد کو پورا کریں گے جن مقاصد کے لئے آپ کو پیدا کیا گیا ہے.آپ کو لاز ما تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ میں تبدیل کرنے کی طاقت عطا کی جائے گی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اب ہم دعا کرتے ہیں لیکن میں پھر آپ کو سمجھا دوں میں تجربے سے جانتا ہوں کہ خلافت کے نعرے بلند کرنے سے تعلق پیدا نہیں ہوا کرتا.خلافت سے سچا تعلق اسی کو ہے جس کا خلافت سے وابستہ ہر انسان سے تعلق قائم ہو جاتا ہے.جب تک تالیف قلب کا مضمون آپ کے وجود میں ظاہر نہ ہو اُس وقت تک آپ کے خلافت سے تعلق کا وعدہ یا خلافت سے تعلق کا نعرہ جھوٹا رہے گا اور خالی رہے گا اور بے معنی رہے گا.اس لئے ان معنوں میں اپنا تجزیہ کرتے چلے جائیں اگر آپ کا خلافت سے تعلق بڑھتا ہے اور اس تعلق کے ساتھ جماعت کے ساتھ آپ کا تعلق بڑھتا چلا جاتا ہے، نظام جماعت سے آپ کا تعلق بڑھتا چلا جاتا ہے، نظام جماعت کے ادنیٰ سے ادنیٰ عہدیداروں کے سامنے آپ سر تسلیم خم کرنے لگتے ہیں تو پھر آپ کو میں یقین دلاتا ہوں کہ لَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ کا مضمون آپ پر صادق آئے گا.آپ نہیں بلائے جائیں گے واپس، جب تک خدا کے نزدیک آپ مسلمان نہیں لکھے جائیں گے.پس اس تشریح کے بعد آئیے اب ہم دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور اس مضمون کا فیض پانے کے لئے دعا کرتے ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 233 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء قادیان میں تاریخی جلسہ سالانہ سوسال پورے ہونے پر مبارکباد اسلام کے احیاء نو کا جھنڈ اہندوستان کو عطا فر مایا گیا.افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۲۶ / دسمبر ۱۹۹۱ء بمقام قادیان.بھارت) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سب حاضرین جلسہ کو اور اُن سب کو بھی جو اس سعید بخت جلسہ میں شمولیت سے محروم رہے ہیں میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کی زبان میں ”مبارک سومبارک پیش کرتا ہوں.آج کا یہ تاریخی جلسہ کئی لحاظ سے منفرد ہے اور یکتا ہے.ایسا جلسہ ایک ہی دفعہ آنا تھا اور ایک ہی دفعہ آیا ہے اور یہ ماحول، یہ جلسے کے ساتھ وابستہ خاص تقدیریں اسی جلسے کا ماحول ہے اور اسی جلسے کے ساتھ وابستہ تقدیریں ہیں.اللہ تعالیٰ کا بے انتہا احسان ہے کہ اُس نے آج ہمیں اس میں شمولیت کی سعادت بخشی ہے.آج سے سو سال پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسے کا آغاز فرماتے ہوئے ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ء سے پہلے احباب جماعت کو یہ نصیحت فرمائی کہ وہ ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان پہنچ جائیں.چنانچہ کچھ مخلصین اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے قادیان تشریف لائے.بعد نماز ظہر اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی.سب سے پہلے مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے حضرت اقدس کی تازہ تصنیف ( جو اس زمانے میں تازہ اس غرض سے لکھی گئی تھی آسمانی فیصلہ پڑھ کر سنائی.پھر یہ تجویز رکھی گئی کہ مجوزہ انجمن کے ممبر کون کون صاحبان ہوں اور کس طرح اس کی کارروائی کا آغاز ہو.حاضرین نے بالا تفاق یہ قرار دیا کہ سر دست اس رسالہ کو شائع کر دیا جائے اور مخالفین کا عندیہ معلوم
خطابات طاہر جلد دوم 234 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء کر کے بتراضی فریقین انجمن کے مبر مقرر کئے جائیں.اس کے بعد جلسہ ختم ہوا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہر دوست سے مصافحہ فرمایا.یہ جماعت احمدیہ کا سب سے پہلا تاریخی اجتماع اور پہلا جلسہ سالا نہ تھا جس میں صرف 75 ا حباب شریک ہوئے.کارروائی کی یہ رپورٹ الحکم سے لی گئی ہے.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ جماعت میں ابھی چندوں کا نظام جاری وساری اور مستحکم نہیں ہوا تھا.اُس زمانے میں ہر قسم کے اخراجات کے لئے منتظمین حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی خدمت میں اپنے اپنے خرچ کے اندازے پیش کر کے حضور ہی کی طرف دست طلب بڑھاتے تھے اور خدا تعالیٰ مختلف ذرائع سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو قوم بھجوایا کرتا تھا آپ ان رقوم میں سے جن کا کوئی الگ حساب نہیں رکھا جاتا تھا حسب موقع خرچ کے لئے منتظمین کو رقم عطا فرمایا کرتے تھے.جلسہ سالانہ کے موقع پر جس طرح اخراجات ہوتے رہے اُس سلسلے میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی کی ایک روایت سننے کے لائق ہے تاکہ آج کی جماعتوں کو اندازہ ہو کہ یہ کتنا چھوٹا سا آغاز تھا جو آج اس عظیم الشان مقام اور مرتبے تک پہنچ چکا ہے.منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خرچ نہ رہا.اُن دنوں جلسہ سالانہ کے لئے چندہ جمع ہو کر نہیں جاتا تھا.حضور اپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے.میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لئے کوئی سامان نہیں ہے.آپ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت کر کے سامان کرلیں.(سیرۃ المہدی جلد دوم صفحه : ۹۷) چنانچہ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا زیور میر ناصر نواب صاحب لے گئے اور اسے فروخت کر کے جو تم ہاتھ آئی اُس سے مہمانوں کے سالن کا انتظام کیا گیا.روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ زیور فروخت کیا گیا تھا یار بہن رکھا گیا تھا.دونوں میں سے ایک واقعہ پیش آیا.” دو دن کے بعد پھر میر صاحب نے رات کے وقت میری موجودگی میں کہا کہ کل کے لئے پھر کچھ نہیں.فرمایا کہ ہم نے برعایت ظاہری اسباب
خطابات طاہر جلد دوم 235 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء کے انتظام کر دیا تھا.یعنی مؤمن کا کام ہے کہ جس حد تک اُسے استطاعت ہو، جس حد تک توفیق ہو وہ ضرور کچھ نہ کچھ کرے.پس جو ہمیں توفیق تھی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے تابع ہم نے وہ سب کچھ کر دیا.”اب ہمیں ضرورت نہیں جس کے مہمان ہیں وہ خود کرے گا.اگلے دن آٹھ یا نو بجے جب چٹھی رساں آیا تو حضور نے میر صاحب کو اور مجھے بلایا.چٹھی رسان کے ہاتھ میں دس پندرہ کے قریب منی آرڈر ہوں گے جو مختلف جگہوں سے آئے تھے.سوسو، پچاس پچاس روپے کے اور ان پر لکھا تھا کہ ہم حاضری سے معذور ہیں مہمانوں کے صرف کے لئے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں.آپ نے وصول فرما کر تو کل پر تقریر فرمائی کہ جیسا کہ ایک دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپوں پر بھروسہ ہوتا ہے کہ جب چاہوں گا نکال لوں گا اس سے زیادہ ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ پر پورا تو کل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر 66 یقین ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے تو فور أخدا تعالیٰ بھیج ریویو آف ریلیجنز اُردو جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۴۴، ۴۵) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ابتدائی زمانے کا ذکر کرتے ہوئے ایک دیتا ہے.شعر میں فرماتے ہیں:.لفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أُكُلِي وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الأهالي (قصائد الاحمدیہ صفحہ :۱۲) کہ دیکھو ایک وہ وقت تھا کہ میرا گزارہ دستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑوں پر تھا.مجھے اپنے گھر میں کوئی اہمیت حاصل نہیں تھی اور مجھے دستر خوان کے چنے ہوئے کھانوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی.جو کچھ بچ رہتا تھا وہ میں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کھالیتا تھا.وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الأهالي، اب دیکھو میں بڑے بڑے خاندانوں کا کھلانے والا بن گیا ہوں اور کیسا میراد نیا میں لنگر جاری ہوا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی لنگر کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
خطابات طاہر جلد دوم 236 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء اس کی بنیاد خدا کے مسیح موعود نے قائم کی ہے جس کو خدا نے یہ خبر دی ہے کہ تین سو سال کے اندر تیری جماعت ساری دنیا پر غالب آجائے گی اور تین سو سال میں یہ لنگر ربوہ میں نہیں رہے گا بلکہ تین سو سال کے بعد ایک لنگر امریکہ میں بھی ہوگا، ایک انڈیا میں بھی ہو گا، ایک جرمن میں بھی ہوگا، ایک روس میں بھی ہوگا، ایک چین میں بھی ہوگا، ایک انڈونیشیا میں بھی ہوگا، ایک سیلون میں بھی ہوگا، ایک برما میں بھی ہوگا، ایک شام میں بھی ہوگا، ایک لبنان میں بھی ہوگا، ایک ہالینڈ میں بھی ہو گا غرض دنیا کے ہر بڑے ملک میں یہ لنگر ہوگا“.(سیر روحانی جلد سوم صفحہ ۱۳۶) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین سوسال کے بعد جن ملکوں میں لنگروں کے جاری ہونے کی خبر دی تھی وہ آج ایک سوسال ہونے سے قبل ہی اکثر ملکوں میں پوری ہو چکی ہے.وہ آخری جلسہ سالانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں منعقد ہوا اور جس میں ایک بڑا لنگر جاری ہوا آج افریقہ کے مختلف ممالک میں بھی ہر جلسہ سالانہ پر اُس سے کئی گنا بڑے لنگر جاری ہوتے ہیں.غانا میں بھی وہ لنگر جاری ہوتے ہیں، نائیجیریا میں ہوتے ہیں، سیرالیون میں بھی ہوتے ہیں اور گیمبیا میں بھی ہوتے ہیں.اسی طرح یورپ کے مختلف ممالک میں بھی اُس سے بہت بڑے لنگر خدا تعالیٰ کے فضل سے جاری ہوتے ہیں اور نہایت عمدگی اور حسن انتظام کے ساتھ جاری رکھے جاتے ہیں، جرمنی میں بھی بہت ہی عظیم الشان لنگر مسیح موعود کا جاری ہو چکا ہے اور United Kingdom میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک بہت شاندار لنگر جاری ہو چکا ہے.انڈونیشیا میں بھی یہ ہو چکا ہے، قادیان میں تو جاری ہی ہے.ربوہ میں بھی آج تک یہ لنگر سارا سال اپنے فیض کے لحاظ سے جاری رہتا ہے.گو جلسہ سالانہ کے مبارک ایام میں اس لنگر کے جاری کرنے پر قدغن لگادی گئی ہے مگر فیض کے لنگر دنیا میں کون بند کر سکتا ہے؟ ایک لنگر حکومت پاکستان نے بند کرنے کی کوشش کی تو ایک سو چھیں ممالک میں مسیح موعود کے لنگر جاری ہو گئے.ایک وہ وقت تھا کہ لنگر کے اخراجات کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی زوجہ مطہرہ کے زیور بیچنے پڑے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان زیوروں ہی کی برکت ہے جو آج ساری دنیا کے لنگروں کے بے شمار اخراجات کی صورت میں ہمیں سال بہ سال عطا ہوتی چلی جارہی ہے اور
خطابات طاہر جلد دوم 237 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء ہمیشہ ہوتی چلی جائے گی.صرف ایک انگلستان کے سالانہ جلسے پر ہی آج ایک کروڑ روپے سے زائد خرچ کیا جا رہا ہے اور اسی طرح دنیا کے بڑے بڑے دیگر ممالک میں بھی کروڑ ہارو پے جلسہ سالانہ پر اس طرح خرچ کئے جاتے ہیں کہ خرچ کرنے والوں کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ رقم کیسے آئی، کس طرح اکٹھی کی گئی.از خود بہتے ہوئے دریا کی صورت میں یہ روپے پہنچ رہے ہیں مگر ان دریاؤں کے جاری کرنے والا وہی رازق خدا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر کو جاری فرمایا اور آپ سے یہ وعدہ فرمایا کہ اے دستر خوان کے ٹکڑوں پر پلنے والے انسان ! تو نے ہماری خاطر ہر مشقت برداشت کی ہم تیرے فیض کے لنگر تمام دنیا میں جاری کر دیں گے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو مالی قربانی کا نظام جاری فرمایا ہے اُس کا عام لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ کس طرح بے انتہا مالی قربانی جماعت احمدیہ کی طرف سے مسلسل گل عالم میں پیش کی جارہی ہے.گورے اور کالے اور مشرق اور مغرب میں کوئی تمیز نہیں رہی.امیر بھی مالی قربانی میں پیش پیش ہیں اور غریب بھی مالی قربانی میں پیش پیش ہیں.کچھ وہ رقوم ہیں جو چندوں کی صورت میں جلسہ سالانہ پر خرچ کی جاتی ہیں، کچھ وہ رقوم ہیں جو دُور دُور سے تکلیف اُٹھا کر اور بہت اخراجات کر کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کی غرض سے لوگ صرف کرتے ہیں اور اُن کا کوئی حساب نہیں رکھا جا تا.اس جلسہ سالانہ میں ، جس میں ہم آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ شرکت کی سعادت حاصل کر رہے ہیں اس کی تیاری کا خرچ بھی آپ میں سے اکثر کو معلوم نہیں اور اندازہ نہیں تقریباً ایک سال سے یہ اندازہ لگا کر کہ خدا تعالیٰ کی انگلی اب مرکز قادیان میں جلسہ منعقد کرنے کی طرف اشارے فرما رہی ہے اور خدا کی تقدیر یہ دکھا رہی ہے کہ مجھے بھی انشاء اللہ اس جلسے میں شرکت کی توفیق ملے گی.جب میں نے حالات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ یہاں رہائش کی جگہیں اتنی تھوڑی ہیں اور اتنی معمولی رہ گئی ہیں اور ایک لمبے عرصے سے عدم توجہ کی وجہ سے جو مکانیت ہمارے قبضے میں تھی وہ بھی ایک ایسے حال کو پہنچ چکی ہے کہ اعلیٰ معیار تو در کنار معمولی معیار کے انسان کے لئے بھی اس میں زندگی بسر کرنا مشکل ہو رہا ہے.پس اس علم کے بعد اس تکلیف دہ احساس کے بعد، بڑی تیزی کے ساتھ قادیان میں مکانیت کی حالت بہتر بنانے کا کام شروع کیا گیا اور بعض مزید مہمان خانے تعمیر کروائے گئے.اس تیاری پر اڑھائی کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہو چکا ہے اور اس کے علاوہ ایک لمبے عرصے
238 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء خطابات طاہر جلد دوم سے ویسے ہی قادیان کی بہبود پر جو خرچ کیا جا رہا ہے وہ بھی وہ خرچ ہے جو آج آپ کے کام آ رہا ہے.علاوہ ازیں جو یورپ اور امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے آنے والے ہیں ان کے اخراجات کا میں نے جو محفوظ اندازہ کیا ہے اسی طرح پاکستان سے آنے والے یا مشرق بعید سے آنے والے ان کو شامل کریں تو زائرین نے اپنی جیبوں سے اس سفر کے لئے دس کروڑ روپے سے زائد رقم خرچ کی ہے.تو کہاں یہ کہ 75 مہمانوں کے شام کے کھانے کے لئے سالن نہیں ہوتا تھا کہاں یہ کہ آج دنیا بھر سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شیدائی، آپ کی مقدس سرزمین کی زیارت کے لئے اس شوق اور ولولے سے حاضر ہورہے ہیں کہ کروڑوں روپے پانی کی طرح بہا دیئے اور اسے اپنی سعادت سمجھتے ہیں.جو شامل نہیں ہو سکے وہ روتے ہیں ، وہ بے انتہادُ کھ اور تکلیف محسوس کرتے ہیں.آنے سے پہلے مجھے بہتوں کے خط ملے انہوں نے بھی روتے ہوئے خط لکھے.مجھے بھی بہت رونا آیا کہتے تھے کاش ہماری غربت حائل نہ ہوتی ، کاش ہم بھی اس تاریخی جلسے میں شرکت کی سعادت پا جاتے.خوش نصیب ہیں وہ بھائی جن کو خدا نے پر پرواز بخشے.میں آپ سے یہ التجا کروں گا کہ اپنے ان پیارے بھائیوں، بہنوں اور بچوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یادرکھیں جو کچھ یہاں دیکھیں اُن کی آنکھوں سے بھی دیکھیں ان کے لئے بھی دلوں میں تڑپ محسوس کریں ، ان کے لئے بھی دعائیں کرتے رہیں تا کہ آج اس عظیم مبارک جلسے کی سعادت سے دنیا بھر کا کوئی احمدی محروم نہ رہے.اب میں آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں اس مبارک جلسہ سالانہ میں شمولیت کی غرض و غایت بتاتا ہوں تاکہ محض جذباتی لذت آپ کا مقصود نظر نہ ہو.محض چند گھنٹوں یا چند دنوں کی خاص کیفیات کا حصول اور جذبات کا تموج آپ کے آنے کا مقصد نہ رہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جن دعاؤں اور امنگوں اور تمناؤں اور توقعات کے ساتھ اس عظیم جلسے کی بنیاد ڈالی تھی آپ جس طرح چاہتے تھے کہ شریک ہونے والے شرکت فرمائیں، اس طرح آپ کو شرکت کرنی چاہئے اور ان سب برکتوں سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.جو برکتیں اس جلسے کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش نظر تھیں.حضور فرماتے ہیں.تمام مخلصین داخلین سلسلۂ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت دو کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول
خطابات طاہر جلد دوم 239 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء مقبول میہ کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو.“ ( یعنی موت کا ویسا ڈر نہ رہے جیسے دنیا دار کوڈر ہوا کرتا ہے بلکہ کچھ حرص بھی موت کے ساتھ وابستہ ہو جائے، کچھ اگلی دنیا کی دید کی خواہش بھی اس میں شامل ہو جائے اور موت کے لمحات مکروہ نظر نہ آئیں) و لیکن اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تا اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو کسی بُرہانِ یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دُور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے.سو اس بات کے لئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہئے اور دُعا کرنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئے کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروا نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی.“ ( آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۵۱) یہ جو حصہ ہے یہ بطور خاص بڑی شان کے ساتھ اس جلسہ سالانہ پر صادق آ رہا ہے.ہندوستان کی جماعتوں میں سے خصوصیت کے ساتھ اس کثرت سے لوگ اس جلسے میں شامل ہوئے ہیں کہ میں نے ایک ایک جماعت کا جائزہ لے کر یہ معلوم کیا کہ آغاز احمدیت سے لے کر آج تک اُن علاقوں سے کبھی اتنی تعداد میں لوگ یہاں تشریف نہیں لائے تھے اور جب اُن سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا قادیان کی زیارت کا شوق تو تھا ہی لیکن اُس صورت میں کہ خلیفہ وقت وہاں موجود ہو.اللہ نے ہمیں یہ موقع عطا فرمایا اور غربت کے باوجود تنگی ترشی کے باوجود جس حد تک بن سکا ہم نے یہاں پہنچنے کی کوشش کی.ایک جماعت کے دوستوں سے جب میں نے پوچھا کہ کتنے تشریف لائے انہوں نے کہا کیا پوچھتے ہیں گھروں کو تالے پڑ چکے ہیں پیچھے کوئی نہیں رہا اور اسی طرح دُور دُور کی جماعتوں سے تین دن اور تین راتوں کی سخت تکلیف دہ مسافت کا سفر اختیار کرتے ہوئے بہت کثرت سے ہجوم در ہجوم عورتیں اور بچے اور مرد یہاں شامل ہوئے ہیں اور اس پہلو سے بھی یہ جلسہ ایک تاریخی جلسہ بن چکا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشا مبارک کے عین مطابق ہے.فرمایا
خطابات طاہر جلد دوم 240 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئے کیونکہ سلسلۂ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پرواہ نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی.“ ’اور چونکہ ہر ایک کے لئے باعث ضعف فطرت یا کمی مقدرت یا بعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اُٹھا کر ملاقات کے لئے آوے.کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں لہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویه تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں.سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ ۲۷ / دسمبر سے ۲۹؍ دسمبر تک قرار پائے یعنی آج کے دن کے بعد جو۳۰ / دسمبر ۱۸۹۱ء ہے.آئیندہ اگر ہماری زندگی میں 27 دسمبر کی تاریخ آجاوے تو حتی الوسع تمام دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دُعا میں شریک ہونے کے لئے اُس تاریخ پر آ جانا چاہیئے.یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ۲۷ / دیسمبر اور ۲۸ / دیسمبر اور ۲۹/ دسمبر یہ تین دن جلسہ سالانہ کے مقرر فرمائے تھے.پھر یہ کیوں تبدیل ہوئے اور 26 کو کیوں یہ جلسہ شروع کیا گیا اور علم کے باوجود کیوں 26 ہی کو رکھا گیا ؟ جب جلسے کی تاریخیں 27،26، 28، مقرر ہوئیں تو چونکہ مجھے بچپن سے قادیان میں انہی تاریخوں میں جلسے کے منعقد ہونے کی یاد تھی اس لئے مجھے تعجب نہیں ہوا لیکن جلسے کی تیاری کے دوران جب پہلے جلسے کی روئیداد کا مطالعہ کیا تو اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے از خود اپنی طرف سے 27 تاریخ کو جلسے کا آغاز تجویز فرمایا تھا.اُسی وقت قادیان سے رابطہ کیا گیا اور اُس کے علاوہ ربوہ لکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں تمام جلسوں کی تاریخوں کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی ہی میں آپ کی اجازت سے ان تاریخوں میں تبدیلی کی گئی.ایک سے زائد بار تبدیلی کی گئی اور 26، 28،27 کی تاریخوں کا تقرر بھی حضرت
خطابات طاہر جلد دوم 241 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک دور حیات ہی میں ہو چکا تھا اور بعد میں جب خلافت ثانیہ کے زمانہ میں جیسا کہ مجھے یاد تھا 27،26، 28 تاریخیں مقرر کی گئیں تو یہ منشاء مبارک کے خلاف نہیں تھا بلکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت اس میں شامل تھی.یہ علم ہونے کے بعد پھر میں نے قادیان کی انتظامیہ کو اجازت دی کہ اگر اُن کے لئے ستائیس کو شروع کرنا مشکل ہے تو بے شک چھبیس ہی کی تاریخ رکھیں لیکن ستائیس تاریخ میں ایک اور بات یہ تھی کہ پہلا جلسہ بہر حال ستائیس کو شروع ہوا تھا اور پورے سو سال ستائیں کو ہی گزرنے تھے اور پہلے جلسے کی پہلی تاریخ کا اعادہ ستائیس ہی کو ہونا تھا پھر وہ مبارک دن جمعہ کا دن بھی ہے لیکن جلسے کی انتظامیہ نے محسوس کیا کہ اس سلسلے میں اب اگر تبدیلی کی گئی تو بہت سی وقتیں پیش آئیں گی اس لئے میں نے اس معاملے پر زیادہ زور نہیں دیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اُس تاریخ پر آجانا چاہئے اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں اور نیز اُن دوستوں کے لئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہو گی اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی اُن میں بخشے اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر یک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے.وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تو ڈ دو تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا.اس جلسہ میں اُس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی“.پس اس جلسے کی دعاؤں میں اپنے مرحوم بھائیوں، ساتھیوں اور بہنوں اور بچوں کو بھی یاد رکھیں جو گزشتہ سال اور اس سال کے جلسوں کے دوران وفات پاگئے ہیں ) پھر فرماتے ہیں:
خطابات طاہر جلد دوم 242 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء ”اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور ان کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرت عزت جلشانہ کوشش کی جائے گی اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اللہ القدر وقتا فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گئے.(آسمانی فیصلہ (روحانی خزائن ) جلد نمبر ۴ صفحه : ۳۵۱ تا ۳۵۲) پھر ”شہادۃ القرآن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اول.یہ کہ اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پر ہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی اُن میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں“.(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد نمبر ۶ صفحه ۳۹۴) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب ان جلسوں کا آغاز فرمایا تو مخالف بھی حرکت میں آئے اور مخالفت پر کمر باندھی اور بڑا جوش دکھایا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اس بات کے سمجھنے کے لئے کہ انسان اپنے منصوبوں سے خدا تعالیٰ کے کاموں کو روک نہیں سکتا.یہ نظیر نہایت تشفی بخش ہے کہ سال گزشتہ میں جب ابھی فتویٰ تکفیر میاں بٹالوی صاحب کا طیار نہیں ہوا تھا اور نہ انہوں نے کچھ بڑی جد و جہد اور جان کنی کے ساتھ اس عاجز کے کافر ٹھہرانے کے لئے توجہ فرمائی تھی صرف 75 احباب اور مخلصین تاریخ جلسہ پر قادیان میں تشریف لائے تھے مگر اب جبکہ فتویٰ طیار ہو گیا اور بٹالوی صاحب نے ناخنوں تک زور لگا کر اور آپ بصد مشقت ہر یک جگہ پہنچ کر اور سفر کی ہر روزہ مصیبتوں سے کوفتہ ہو کر اپنے ہم
خطابات طاہر جلد دوم 243 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء خیال علماء سے اس فتویٰ پر مہر میں مثبت کرائیں اور وہ اور ان کے ہم مشرب علماء بڑے ناز اور خوشی سے اس بات کے مدعی ہوئے کہ گویا اب انہوں نے اس الہی سلسلہ کی ترقی میں بڑی بڑی روکیں ڈال دی ہیں تو اس سالانہ جلسہ میں بجائے 75 کے 327 احباب شامل جلسہ ہوئے اور ایسے صاحب بھی تشریف لائے جنہوں نے تو بہ کر کے بیعت کی.اب سوچنا چاہئے کہ کیا یہ خدا تعالیٰ کی عظیم الشان قدرتوں کا ایک نشان نہیں کہ بٹالوی صاحب اور ان کے ہم خیال علماء کی کوششوں کا الٹا نتیجہ نکالا اور وہ سب کوششیں برباد گئیں.کیا یہ خدا تعالیٰ کا فعل نہیں کہ میاں بٹالوی کے پنجاب اور ہندوستان میں پھرتے پھرتے پاؤں بھی گھس گئے لیکن انجام کا رخدا تعالیٰ نے اُن کو دکھلا دیا کہ کیسے اُس کے ارادے انسان کے ارادوں پر غالب آجاتے ہیں آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵ صفحه ۶۳۰،۶۲۹ ) اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ ایک روایت سنی جو غالبا کسی تقریر کے دوران آپ نے بیان فرمائی کہ قادیان سے ایک صاحب کو بٹالے ڈاک لینے کے لئے بھجوایا جاتا تھا.جب گاڑی آتی تھی تو وہ وہاں سے ڈاک لے کر واپس آیا کرتے تھے یا کوئی ضروری پیغام آئے ہوئے ہوں یا مہمان آئے ہوں تو ان کی رہنمائی کرتے تھے وہ یہ دیکھا کرتے تھے کہ ہر روز جب گاڑی کے پہنچنے کا وقت آتا تھا تو مولوی محمد حسین صاحب بھی لوگوں کو بہکانے کے لئے اور قادیان جانے سے روکنے کے لئے وہاں پہنچ جایا کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ ان صاحب کو بھی مولوی صاحب نے پکڑ لیا.وہ سمجھے کہ یہ مسافر ہے اور انہوں نے کہا کہ میاں قادیان نہ جاؤ.اس نے کہا مولوی صاحب! میں بھی یہاں آتا ہوں آپ بھی یہاں آتے ہیں.میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ آپ کی جوتیاں گھس گئیں لوگوں کو روکتے روکتے اور لوگوں کی جوتیاں گھس گئیں مسیح موعود تک پہنچتے پہنچتے.قادیان آتے ہوئے مجھے یہ خیال آیا کہ بٹالہ پاس ہی ہے.دور دور سے زمین کے کناروں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شیدائی یا تـون مـن كـل فج عميق و ياتيک من كل فج عمیق.( تذکرہ صفحہ: ۴۶۵) کا مظہر بنے ہوئے جوق در جوق بھچے چلے آرہے ہیں.ہم
خطابات طاہر جلد دوم 244 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء بٹالے سے مولوی محمد حسین صاحب کا حال تو معلوم کریں کہ ان کا نام ونشان وہاں ہے بھی کہ نہیں.جنہوں نے قادیان کا نام ونشان مٹانے کے لئے اپنی زندگی مٹار کھی تھی آج ان کا نام لیوا کوئی بٹالہ میں موجود ہے کہ نہیں؟ چنانچہ اس غرض کے لئے میں نے عزیزم ہادی علی کو یہاں کے کچھ مقامی دوستوں کے ساتھ خاص طور پر بٹالے بھجوایا کہ سارے بٹالہ میں پھر کر ذاتی طور پر لوگوں سے ملیں ،عوام سے ملیں اور بڑے آدمیوں سے بھی ملیں اور معین طور پر سوال کریں کہ کیا آپ کسی صاحب کو جن کا نام مولوی محمد حسین بٹالوی تھا جانتے ہیں؟ آپ نے کبھی ان کا نام سنا آپ کو کچھ واقفیت ہے کہ اُن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں مخالفت کا کیا حال تھا؟ اُن کا جماعت کے معاملے میں کیا رویہ تھا؟ اس قسم کے سوالات کر کے اُن سے پتا کریں.سارا دن بٹالے پھرتے رہے لیکن کسی ایک شخص کو بھی خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو مولوی محمد حسین کے نام کا پتا نہیں تھا اور ایک بھی نہیں تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام نہ آتا ہو.آخر جب زندوں میں یہ اُن کا نام تلاش کرنے میں ناکام رہے اور مایوس ہو گئے تو ان کو خیال آیا کہ کیوں نہ مولوی محمد حسین صاحب کے قبرستان جا کر وہاں کتبے پر ان کا نام پڑھا جائے.چنانچہ جب قبرستان کی تلاش کی گئی تو اُس قبرستان کا کوئی وجود کہیں دکھائی نہ دیا گویا وہ صفحہ ہستی سے مٹ چکا تھا.اس تلخ حقیقت کو جاننے کے بعد جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرت کا ایک عظیم نشان ہے یہ اُس دفتر پہنچے جہاں تمام قبرستانوں اور مساجد اور مندروں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے یعنی وقف کا دفتر اُس کے سربراہ سے ملے اور اُس سے انہوں نے پوچھا کہ ہمیں زندوں میں تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آیا ، ہم اُس قبرستان کی تلاش میں ہیں جس میں مولوی صاحب دفن تھے.انہوں نے اپنا سارا ریکارڈ دیکھا.انہوں نے کہا نہ وہ قبرستان آج صفحہ ہستی پر موجود ہے نہ ہمارے ریکارڈ میں اس کا ذکر موجود ہے.کتنا عظیم الشان خدا تعالیٰ کی طرف سے عبرت کا نشان ہے.آج آپ جو دنیا بھر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شیدائی اور صداقت کے گواہ بن کر یہاں پہنچے ہیں.آپ سب گواہ ہیں کہ مسیح موعود سچے تھے اور آپ کے مخالفین جھوٹے تھے.صرف دوسروں کی گواہی پر اکتفا نہیں کرتا.اب میں گواہی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے نواسے کی آپ کے سامنے رکھتا ہوں، ان کا نام ڈاکٹر شیخ محمد سعید صاحب ہے.وہ تقسیم ہندو پاکستان کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
خطابات طاہر جلد دوم 245 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء والسلام کی بیعت میں داخل ہوئے اور اُنہوں نے اپنا یہ بیان ریکارڈ کروایا.اگر آج میں اپنے نانا محمد حسین بٹالوی کی زندگی کے تمام حالات بیان کروں تو یہ ایک عبرت ناک واقعہ ہوگا اور خوشی اس بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بچے کو سچا کر دیا اور جھوٹے کو جھوٹا کر دیا.دیکھیں! ایک وقت ایسا تھا کہ ابو جہل مکہ میں دندناتا پھرتا تھا اور حضرت اقدس محمد مصطفی ملے کو ظالمانہ ناموں سے یاد کرتا اور آپ کی تحقیر کرتا تھا.ایک وقت ایسا آیا جب اُس کا بیٹا عکرمہ خود اپنے باپ کی حرکتوں سے بیزار اور شرمندہ ہو گیا اور ہمیشہ کے لئے تو بہ کر کے وہ حضرت محمد مصطفی مے کے غلاموں میں داخل ہوا اور جتنی بار ابو جہل نے آنحضرت ماہ کے خلاف دشنام طرازی سے کام لیا تھا اُس سے بہت زیادہ وہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجتے ہوئے اپنی زندگی کے بقیہ دن کاٹ کر اپنے خدا کے حضور حاضر ہوا.آج آنحضرت ﷺ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے ویسا ہی ایک نشان پیدا فرما دیا.محمد حسین بٹالوی کے نواسے نے اپنے نانا کے جھوٹ پر مہر تصدیق ثبت کی اور اُس کے آخری ایام مسیح موعود پر سلام اور درود بھیجتے ہوئے صرف ہوئے.جہاں تک جلسہ سالانہ کی حاضری کا تعلق ہے اب تو یہ معاملہ بہت بڑھ چکا ہے دس دس ، پندرہ پندرہ، ہیں ہیں، چالیس چالیس، پچاس پچاس ہزار کے سالانہ جلسے دنیا میں مختلف جگہ منعقد ہو رہے ہیں لیکن بات اُس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے.اب تو خدا کے فضل سے ایک ایک سال میں بعض ملکوں میں پچاس ہزار سے زائد بیعتیں ہو رہی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال بعض ملکوں میں پورے جلسہ سالانہ کے سامان میسر آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ایک رُجحان ہے جو قائم ہو رہا ہے اور مستحکم ہوتا چلا جارہا ہے اور جب بعض ممالک کے متعلق یہ اطلاعیں دوسرے ممالک کو پہنچتی ہیں تو وہ بھی جوش رشک سے اُن سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.غرضیکہ تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسابقت کی یہ دوڑ جاری ہو چکی ہے.اے ہندوستان والو! اے بھارت کے احمد یو! کیا اس عزت اور سعادت کو جو خدا نے تمہیں تھمائی تھی دوسرے ملکوں کو تم اپنے سے چھین کر لے جانے کی اجازت دو گے.کیا تم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو گے اور افریقہ اور امریکہ اور یورپ اور دنیا کے یہ دوسرے ممالک تبلیغ کے ذریعے
خطابات طاہر جلد دوم 246 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء احمدیت کا پیغام پھیلانے میں تم سے آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں گے؟ اگر ایسا ہوا تو بہت ہی بڑی بدنصیبی ہوگی.خدا تعالیٰ نے احمدیت کے پیغام کے لئے حضرت اقدس محمد لے کے جانشین کو قادیان کی بستی میں مامور فرمایا اور ہندوستان کی سرزمین کو یہ اعزاز بخشا تھا چاہئے کہ اس اعزاز کو ہمیشہ آپ زندہ رکھیں ، ہمیشہ اپنائے رکھیں اور کسی دوسرے کو اجازت نہ دیں کہ اس اعزاز کا جھنڈا وہ آپ کے ہاتھوں سے چھین کرغانا میں گاڑ دے یا نائیجیریا میں گاڑ دے یا گیمبیا میں گاڑ دے یا جرمنی میں گاڑ دے یا امریکہ میں یا دور افریقہ یا مشرق کے دوسرے ممالک میں گاڑ دے.یہ آپ کی سعادت ہے اسے اپنے بازو اور سینے سے چمٹائے رکھیں.یہ وہ جھنڈا ہے جس کی خاطر جان بھی دینی پڑے تو جان دینی کوئی نقصان کا سودا نہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ نے ایک بار ایک سریہ پر اپنے ایک غلام کو جھنڈ استھمایا اور اُن کو اس جھنڈے سے ایسا پیار ہوا اُس کی ایسی عظمت اُن کے دل میں جانشین ہوئی کہ جب ایک وقت آیا کہ حملہ آوران تک پہنچا اور ان کا وہ بازو کاٹ دیا جس میں انہوں نے جھنڈا پکڑا ہوا تھا تو انہوں نے دوسرے بازو میں اس کو تھام لیا.پھر ایک اور ریلا آیا اور ایک حملہ آور نے اُن کا وہ باز و بھی کاٹ دیا.اس جھنڈے کو انہوں نے دانتوں میں دبایا اور سینے کے ساتھ اپنے کٹے ہوئے بازوؤں میں لپیٹ لیا اور نہیں چھوڑا جب تک خدا تعالیٰ کے حضور وہ حاضر نہیں ہو گئے.پس وہ جھنڈا جو حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے اعتماد کے ساتھ اپنے پیارے غلام کو عطا کیا تھا دیکھیں اُس کی اُن کے دل میں کیسی تو قیر تھی ، کیسی عظمت تھی ، کیسا اس کا عشق اور کیسی محبت تھی.آج خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کی غلامی کا جھنڈا ہندوستان کو عطا فرمایا ہے.آج اللہ تعالیٰ نے اسلام کے احیائے نو کا جھنڈا ہندوستان کو عطا فرمایا ہے.آج لوائے احمدیت قادیان کی نشانی بن چکا ہے.لوائے قادیان اور لوائے احمدیت ایک ہی چیز کے دو نام بن گئے ہیں اور یہی لوائے اسلام ہے جو آئندہ تمام عالم پر لہرائے گا اس کو کیوں آپ اپنے سینے سے چمٹا کر نہیں رکھتے ؟ کیوں اس سعادت کو دوسروں کو لے جانے کی اجازت دیتے ہیں.پس اے بھارت کی جماعتو! میں تمہیں بار بار بڑے بجز اور انکسار کے ساتھ اس اہم فریضے کی طرف متوجہ کرتا ہوں.اُٹھو! اور شیروں کی طرح دندناتے ہوئے غازیوں کی طرح فتح کے ترانے گاتے ہوئے تمام بھارت میں پھیل جاؤ کیونکہ آج
خطابات طاہر جلد دوم 247 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء بھارت کی نجات تمہارے ساتھ وابستہ ہو چکی ہے اور اگر آپ سارے بھارت کو اسلام کے پر امن پیغام کی رونق سے بھر دیں گے، اگر آپ آج تمام بھارت کو اسلام کے عالمگیر امن کے لواء کے نیچے اکٹھا کر دیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تمام دنیا کی قوموں کا امن آپ سے وابستہ ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ جلسوں کی برکت سے بعض اور برکتیں بھی ہمیں عطا فرمائی ہیں، جلسے کی کوکھ سے ایک نمائش کا نظام بھی پھوٹا ہے اور تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کی ترقی اور تبلیغ اور جماعت احمدیہ کے پھیلاؤ کے نقشے مختلف رنگ میں کتابی صورتوں میں بھی اور تصویری زبان میں بھی اور صوتی زبان میں بھی ان نمائشوں میں پیش کئے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ نمائشیں جگہ جگہ بے حد مقبول ہورہی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں بھی پیغام حق پہنچانے کے لئے ان نمائشوں سے جس حد تک توفیق ملے استفادہ کرنا چاہئے کیونکہ وہ لوگ جن کو آپ محض تبلیغی لٹریچر دیتے ہیں وہ پوری طرح جماعت کی اہمیت کولٹر بیچر سے نہیں سمجھ سکتے ان کو پتا نہیں آپ کون ہیں.ان میں سے لاکھوں، کروڑوں ایسے ہیں جنہوں نے احمدیت کا نام بھی نہیں سنا ہو گا یا سنا ہے تو سرسری طور پر ان کو احمدیت سے روشناسی کی خاطر اُن نمائشوں میں لانا چاہئے.جن جن ممالک میں ان نمائشوں سے استفادہ شروع ہوا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت ہی امید افزاء رپورٹیں وہاں سے ملتی ہیں.ہندوستان میں بھی بعض علاقوں میں ان نمائشوں سے بڑا فائدہ اُٹھایا گیا.پس ان نمائشوں کو ہمارے جلسہ سالانہ کا اب ایک مستقل حصہ بن جانا چاہئے.پچھلے دنوں اکرا (غانا) میں ایک نمائش کا افتتاح ہوا.ڈائریکٹر آف انفارمیشن تشریف لائے ہوئے تھے.اُس نمائش کو دیکھنے کے بعد ان کے جور یمارکس تھے وہ یہ ہیں کہ: اس حیرت انگیز ترقی کو دیکھ کر یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ آپ کی جماعت سوسال نہیں بلکہ پانچ سو سال پرانی ہے“.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس تیز رفتاری سے جماعت اب دنیا بھر میں آگے بڑھ رہی ہے.مجھے یقین ہے کہ آئندہ چند سالوں میں آنے والے یہ نہیں کہا کریں گے کہ سوسال نہیں بلکہ پانچ سو سال پرانی ہے وہ یہ کہا کریں گے کہ سو سال نہیں بلکہ ہزار سال پرانی ہے مگر میری نظر اس سے بھی پہلے پر ہے.میرے دل کی تمنا تو چودہ سو سال پہلے جانے کے لئے تڑپتی ہے.میرے دل کی خواہش یہ ہے
خطابات طاہر جلد دوم 248 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء کہ ہماری نمائشوں پر آنے والے بے اختیار یہ گواہی دیں کہ خدا کی قسم یہ جماعت آج یا کل یا سو سال کی جماعت نہیں یہ چودہ سو سال پہلے کی وہ جماعت ہے جسے حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے خود اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا تھا اور خود اپنے ہاتھوں سے اس کی نشو ونما کی تھی.پس وہ گواہیاں ہیں جو وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمع : ٤) کی گواہی کی تصدیق کریں گی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ وقت دور نہیں کہ جبکہ تمام دنیا سے ایسی گواہیاں از خود دلوں سے اٹھنی شروع ہو جائیں گی کہ بیوہ جماعت ہے جو آخرین میں ظاہر ہوئی لیکن پہلوں سے مل گئی اس کی تاریخ حضرت محمد مے کے صلى الله زمانے سے شروع ہوتی ہے اور آپ کے زمانے تک جاری رہے گی یعنی کبھی ختم نہیں ہوگی.جماعت احمدیہ نے جو مختلف خدمت کے کام کئے ہیں یہ جماعت احمدیہ کی سرشت میں داخل ہے.ہمارا مذ ہب یہ ہے کہ وہ مذہبی جماعتیں جو اللہ سے سچی محبت رکھتی ہیں، اللہ کی مخلوق سے بھی سچی محبت رکھتی ہیں، ایک دوسرے کی صداقت کو جانچنے کا پیمانہ ہے.اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ میں خدا کا عاشق ہوں اور اپنے رب سے اور اس کے جاری کردہ مذہب سے بے حد محبت رکھتا ہوں لیکن خدا کی مخلوق سے نفرت کرتا ہوں یا خدا کے نام پر دوسروں کو ظلم کی تلقین کرتا ہوں تو میرے نزدیک اس کا مذہب جھوٹا ہے یا مذہب سچا تھا تو وہ خود جھوٹا ہے کیونکہ بار ہا میں اس بات کا اظہار کر چکا ہوں کہ میری عقل میں یہ بات داخل ہی نہیں ہو سکتی کہ خالق سے تو محبت کی جائے اور مخلوق سے نفرت کی جائے.یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی مصوّر سے تو پیار ہولیکن اس کی بنائی ہوئی تصویروں اور نقوش سے نفرت ہو.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کسی Musician سے کسی موسیقی کے ماہر سے تو پیار ہو لیکن اس کی موسیقی کی ہر تخلیق سے نفرت ہو.یہ ناممکن ہے، یہ عقل کے خلاف بات ہے.پس جماعت احمدیہ اللہ سے اپنی محبت کے دعوے میں کچی ہے اسی لئے جماعت احمد یہ دنیا کے ہر ملک میں خدمت کے کاموں میں ہمیشہ مصروف رہتی ہے خواہ کوئی خدمت کو قبول کرے اور سرا ہے یا نہ سرا ہے، اس سے قطع نظر ہماری نظر اپنے خالق و مالک پر رہتی ہے.ہم اُس کی رضا کی خاطر اس کے بندوں کی تکلیفیں دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.یہاں تک کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا کی خاطر جن کی تکلیفیں دور کرنے کے لئے ہم کوشش کرتے ہیں ان میں سے بعض جاہل اس کی سزا کے طور پر تکلیف دور کرنے والے کو تکلیفیں پہنچاتے ہیں.چنانچہ بدنصیبی سے یہاں ہندوستان کے ہمسایہ ملک
خطابات طاہر جلد دوم 249 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء میں ایسے واقعات ہوئے کہ احمدی ڈاکٹر اور طب کے احمدی طلباء نے بہت قیمتی وقت خرچ کر کے بہت محنت اٹھا کر اور جماعت سے بہت سی رقم ان کاموں کے لئے وصول کر کے طبی کیمپ لگائے.ایسے علاقوں میں خدمت کے لئے ماہرین پہنچے جہاں طبی سہولتیں میسر نہیں تھیں اور جب بعض بد نصیب مولویوں کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے حکومت میں جا کر رپورٹیں لکھوائیں کہ یہ لوگ بنی نوع انسان کی خدمت کر رہے ہیں ان کو روکو.چنانچہ ان میں سے کئی ڈاکٹر کئی دن جیلوں میں قید رہے ہیں لیکن چونکہ وہ محض اللہ یہ کام کر رہے تھے انہوں نے قطعا پر واہ نہیں کی کہ جن کی خدمت کرتے ہیں اُن کا کیا رد عمل ہے اور مجھے بھی جو خط لکھے وہ شکایت کے رنگ میں نہیں بلکہ اپنے لطف کے اظہار کے طور پر لکھے.کہتے ہیں کہ ہم جیلوں میں بڑا ہی مزا اُٹھا رہے تھے.اُس وقت ہمارا ایمان سچا ثابت ہوا.اُس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ خدا کی خاطر کام کرنے کا مزا دنیا کی کوئی قوم چھین نہیں سکتی.جس کی خاطر ہم نے کام کیا وہ اس تکلیف سے اور بھی زیادہ راضی ہو گیا.پس بجائے اس کے کہ ہمیں ان نیک کاموں میں نامراد کر دیتے ہمارے نیک کاموں کی قبولیت کو انہوں نے اور بھی زیادہ بڑھا دیا لیکن ایسے بدنصیب واقعات مختلف ملکوں کی تاریخ میں گاہے بگاہے ہوتے رہتے ہیں اور کسی ایک ملک کی تاریخ کا حصہ نہیں.مخالفت ہمیشہ ترقی کے رد عمل کے طور پر ظاہر ہوا کرتی ہے.یہ مخالفت پاکستان کی جماعتوں کی خدمت کی گواہ بن گئی ہے اس بات کی گواہ بن گئی ہے کہ پاکستان کی جماعت کی نشو ونما سے غیر کو خطرہ محسوس ہورہا ہے اگر ہندوستان یا دیگر ممالک میں اُسی شان کے ساتھ جماعتیں آگے بڑھیں جیسا کہ اب بہت سی جگہ بڑھ رہی ہیں تو بعید نہیں کہ بعض دوسری جگہوں میں بھی اسی قسم کا تکلیف دہ رد عمل ظاہر ہو لیکن ضروری بھی نہیں کہ وہ ضرور ظاہر ہو.اس لئے ہمیں دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو عقل عطا فرمائے.حلم عطا فرمائے ، سعادت عطا فرمائے جوان کے لئے خیر لے کر حاضر ہوتے ہیں، اس خیر کا جواب وہ شر سے نہ دیں اور ہندوستان میں بھی جب جماعت احمد یہ کثرت سے پھیلنے لگے اور مجھے یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ایسا ضرور ہوگا تو ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ جن کی بھلائی کی خاطر ہم یہ کام کریں گے وہ اگر اُس بھلائی کا شکر ادا نہ بھی کر سکیں تو ناشکری کی صورت میں اور تکلیف کی صورت میں اُس کا اظہار نہ کریں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو امن عطا فرمائے.آپ کو امن میں رکھے اور اُس کی رحمت کا سایہ آپ پر دراز ہو.خدمت دین کے کاموں
خطابات طاہر جلد دوم 250 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء میں آگے بڑھیں، خدمت دنیا کے کاموں میں بھی آگے بڑھیں اور خدا کی رحمت کا سائبان اس سفر میں ہمیشہ آپ کے سر پر دراز رہے.ہندوستان میں پچھلے دنوں بہار میں مذہبی فسادات ہوئے اور مسلمانوں کو بھی تکلیف پہنچی اور بعض ہندوؤں کو بھی تکلیف پہنچی.اُس کے نتیجے میں جماعت بہار کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا اور قادیان نے اس کی تائید فرمائی کہ وہاں جماعت احمدیہ کی طرف سے مظلوموں کے اجڑے ہوئے گھروں کے لئے کچھ کرنا چاہئے تعمیر نو کے لئے کچھ خرچ کرنا چاہئے.چنانچہ جائزہ لینے کے بعد میں نے کچھ رقم منظور کی اور انہوں نے لکھا کہ ہم اس رقم سے طاہر کالونی آباد کریں گے یعنی وہ احمدی اور غیر احمدی مسلمان جن کے گھر جلائے گئے اور منہدم کئے گئے ان کے لئے ایک الگ سر چھپانے کی مناسب و موزوں جگہ مہیا کر دیں گے.ان کو میں نے لکھا کہ یہ بات تو آپ کے دعاوی کے خلاف ہے کہ اپنی خدمت خلق کی سرگرمیوں کو مذہب کے دائرے میں محدود کر دیں.اگر آپ نے طاہر آباد بنانا ہے تو ایک کرشن نگر بھی بنا ئیں اور جن ہندوؤں کو تکلیفیں پہنچی ہیں ان کو بھی سر چھپانے کے لئے جگہ مہیا کریں.چنانچہ کل رات بہار سے جو وفد آیا ہے اس نے مجھے یہ خوشکن اطلاع دی ہے کہ خدا کے فضل سے طاہر آباد ہی نہیں بلکہ کرشن نگر بھی مکمل ہو گیا ہے.تمام دنیا میں جو خدمت خلق کے کام ہو رہے ہیں ان کی تفصیل تو بہت لمبی ہے اور یہ موقع بھی نہیں یہاں اُس کے بیان کا جو جلسہ انگلستان میں ہوتا ہے اس کے دوسرے روز کی کارروائیوں میں میں مختصراً اس کا ذکر کیا کرتا ہوں.امسال بھی انشاء اللہ وہیں یہ ذکر کروں گا لیکن ہندوستان سے تعلق رکھنے والے واقعات میں سے اہم واقعات یہ ہیں کہ اڑیسہ کے سیلاب زدگان کی بھی مدد کی گئی.مضافات قادیان میں سیلاب زدگان کی بھی امداد کی گئی ، قادیان کے گردونواح میں آئی کیمپ لگائے گئے.ایک سوانہیں دیہات کو اُس سے فائدہ پہنچا اور ہندوستان میں دوسرے رنگ میں بھی احمدی اور غیر احمدی مسلم اور غیر مسلم غرباء کی حسب توفیق خدمت کی گئی.سلمان رشدی کا جو واقعہ ہوا اس پر علماء نے مسلمانوں کو اشتعال دلا کر فسادات کروائے.بمبئی میں اس فساد کے نتیجے میں کچھ مسلمان شہید ہوئے.اگر چہ ہم اُن فسادوں کے مؤید نہیں تھے ہم سب یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کسی مذہبی گستاخی کے جرم میں کسی کی بدنی سزا کا قائل نہیں ہے اور قرآن کریم میں کہیں بھی کسی مذہبی گستاخی کے نتیجے
خطابات طاہر جلد دوم 251 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء میں بدنی سزا کا کوئی حکم نہیں ملتا.کجا یہ کہ اس کو قتل کر دینے کا حکم ہولیکن اس کے باوجود میں نے پتا کروایا قادیان لکھا کہ ان فسادات کے نتیجے میں کچھ عورتیں بیوہ ہوئی ہیں، کچھ بچے یتیم ہوئے ہیں اُن بیچاروں کا قصور کوئی نہیں.اُن کو علماء نے جس طرف ڈال دیا پڑ گئے اور مجھے یہ ڈر ہے کہ ان واقعات کے بعد اُن کا کوئی والی وارث اُن میں سے پیدا نہیں ہوگا اور اُن کو اسی طرح اپنے حال پر چھوڑ دیں گے اس لئے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت میں خواہ ناسمجھی کے نتیجے میں لیکن محبت میں جن لوگوں نے جانیں دی ہیں اُن کی بیواؤں اور اُن کے تیموں کی احمدیت والی وارث ہے.آپ جائیں اور اُن گھروں کو تلاش کریں اور اُن کو بتائیں کہ آپ کی ساری ضرورتیں ہمیشہ انشاء اللہ جماعت احمد یہ پوری کرتی رہے گی اور خدا کے فضل سے ایسا ہی ہوا.ہندوستان کی طرف اور ہندوستان کی احمد یہ جماعتوں کی بہبود کی طرف خصوصیت سے میری توجہ چند سال پہلے ایک ایسی رؤیا کے نتیجے میں ہوئی جو کسی احمدی دوست نے مجھے ابھی یاد نہیں کہ وہ کہاں کے تھے لکھ کر بھجوائی.مجھے افسوس ہے کہ کاغذات میں اب وہ تلاش نہیں ہو سکی لیکن جن دنوں میں اس کا مضمون میرے ذہن میں تازہ تھا میں نے ایک جلسے پر اس کا ذکر بھی کیا تھا وہ رویا یہ تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قادیان تشریف لائے ہیں اور اس خواہش کا اظہار فرماتے ہیں کہ میری بگھی کو نکالو، میں چاہتا ہوں کہ سیر پر نکوں لیکن جب بگھی نکالی گی تو وہ عدم استعمال کی وجہ سے زنگ آلود ہو چکی تھی اور خستہ حالت میں تھی.پس فوری توجہ کی گئی کہ اس بگھی کو اس قابل بنایا جائے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس پر سوار ہو کر سیر فرماسکیں.اُس سے میں سمجھا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام بھجوا دیا گیا ہے کہ ہندوستان میں جماعتوں کو اب تیزی سے سفر اختیار کرنا ہے اُن کے پاس ذرائع میسر نہیں ہیں ، عدم توجہ کا شکار ہیں اس لئے ان کی طرف خصوصی توجہ دی جائے.چنانچہ اس وجہ سے قادیان کی جماعتوں سے دور دراز ہر جگہ براہ راست رابطے پیدا کئے گئے اُن کی ضرورتوں کا خیال کیا گیا اور جہاں تک خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی قادیان کی بھی اور بیرون کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن صرف یہی بات کافی نہیں ہے بلکہ مستقل نوعیت کے انتظامات جاری کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ خاص احسان ہے کہ اس جلسے کی برکت سے خدا تعالیٰ نے بغیر کسی خاص تحریک کے وہ سامان مہیا فرما دیئے ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 252 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء جب میں قادیان حاضر ہونے کی تیاری کر رہا تھا تو مجھے یہ خیال آیا کہ جانے والے ضرور قادیان اپنے درویش بھائیوں کے لئے اور ہندوستان کے ضرورت مندوں کے لئے کچھ تحائف لے کر جارہے ہوں گے اور وہ اپنے طور پر کسی نہ کسی کو کچھ دیں گے یہ طریق درست نہیں ہے.اس سے ذاتی احتیاج کا ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے جو مجھے معزز درویشوں کے حق میں پسند نہیں ہے.اسی طرح ہندوستان کی غریب جماعتیں ہیں کثرت سے بہت ہی مخلص اور فدائی مثلاً اڑیسہ کی جماعتیں ہیں، کشمیر کی جماعتیں ہیں.اسی طرح اور دیگر بڑے بڑے صوبوں میں بڑی غریب جماعتیں ہیں ان کی عزت نفس کو بھی اس بات سے ٹھوکر لگے گی کہ آنے والے از خود جس کو چاہیں کچھ تمیں تقسیم کرتے پھریں.ان سے میں نے کہا کہ جانے سے پہلے ہی جہاں تک ممکن ہو معلومات اکٹھی کریں اور وہ رقمیں مرکز کے سپر د کریں تا کہ اس جلسے کی برکت کو با قاعدہ منصوبے کے تحت ہندوستان کی ضرورت مند جماعتوں تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے.جب وہ اطلاعیں آنی شروع ہوئیں تو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کثرت سے لوگوں نے خدمت کے لئے تحائف بھجوائے یعنی نقدی کی صورت میں اور میں نے تاکید کی تھی کہ الگ تحریک نہیں ہے بلکہ از خود جن کے دلوں میں یہ تمنا ہے کہ قادیان جائیں تو کچھ خدمت کی سعادت پائیں وہ اپنی رقمیں پیش کریں اور باہر کی جماعتیں جو وفود بھجوا رہی ہیں وہ بھی کچھ قوم پیش کریں.اب میں آپ کو یہ خوشخبری پہنچاتا ہوں کہ ہندوستان کی احمدی جماعتوں کی بہبود کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک کروڑ روپیہ مہیا ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ انشاء اللہ جاری رہے گا.میرے ذہن میں یہ نقشہ ہے اور انشاء اللہ مجلس شوریٰ میں اس پر غور ہوگا کہ ہندوستان کی تمام احمدی جماعتوں کو یعنی صوبائی جماعتوں کو ان کی ضرورت کی ایسی چیزیں مہیا کی جائیں جس سے وہ عزت کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکیں.مثلاً چھوٹی چھوٹی صنعتیں وہاں لگائی جاسکتی ہیں، اسی طرح تعلیم کے لئے سہولتیں مہیا کی جاسکتی ہیں.مدارس قائم کئے جاسکتے ہیں، اچھے ذہین طالبعلموں کے لئے وظیفوں کا انتظام ہو سکتا ہے تا کہ وہ اس ملک میں اعلی تعلیم حاصل کریں، دیگر ممالک میں بھی جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کریں.اس کے علاوہ بھی جو فوری ضرورتیں ہیں وہ بھی نقدی کی صورت میں یا جنس کی صورت میں مہیا کی جاسکتی ہیں اور ان مدارس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ہسپتالوں کی تعمیر ہو جو آہستہ آہستہ انشاء اللہ بڑھ کر بڑے بڑے ہسپتال بن جائیں گے.ان کے فوائد غیروں کو بھی پہنچائے
خطابات طاہر جلد دوم 253 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء جائیں گے صرف احمد یوں تک محدود نہیں رکھے جائیں گے.پس انشاء اللہ مجلس شوریٰ میں ان باتوں پر غور ہوگا اور مزید جتنی ضرورت پیش آتی جائے گی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خدا تعالیٰ اپنی طرف سے از خودضرورتیں پوری کرتا چلا جارہا ہے.کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ خدا کے کاموں کی خاطر مجھے روپے کی ضرورت پڑی ہو اور اُس نے ضرورت سے زیادہ مہیا نہ فرما دیا ہو.پس اس بارے میں مجھے ادنی سا بھی تر د دی و ہم نہیں ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہی تو کل ہے جس کا آپ نے ابھی ذکر سنا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اسی تو کل کی خیرات ہم کھا رہے ہیں اور ہم بھی اُسی تو کل کے رنگ میں رنگین ہوتے ہوئے اپنے خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں اور وہ ہمیشہ ہمارے بھروسے کا بھرم رکھتا ہے اور کبھی اُس نے ہمیں شرمندہ نہیں کیا.ہندوستان میں تبلیغ کی طرف توجہ تو ہوئی ہے لیکن ابھی بہت ضرورت ہے.تبلیغ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ جاتے ہی اختلافی مسائل چھیڑ بیٹھیں اور یہ احساس ہو کہ آپ اپنی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں.وہ تبلیغ جو اپنی تعداد بڑھانے کی نیت سے کی جائے اس نیت میں ایک فتور ہوتا ہے.تبلیغ اس غرض سے اس مقصد سے ہونی چاہئے کہ خدا والوں کی تعداد بڑھے.جو اللہ والے ہیں وہ کثرت سے پھیلیں اور اگر یہ آپ کی جماعت میں داخل نہیں بھی ہونا چاہتے تو ان میں اللہ کے رنگ پہنچیں اور آپ کی نصیحت کا فیض عام ہو جائے یہ وہ حقیقی تبلیغ کی روح ہے.اگر آپ اس کو زندہ رکھیں گے تو تعداد تو از خود بڑھے گی گو آپ کا مقصود نہ ہو.جو لوگ اللہ کی خاطر بنی نوع انسان کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور اپنے نفس کی ملونی بیچ میں نہیں رکھتے اُن کی تبلیغ میں غیر معمولی برکت پڑتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ ان کے اعمال صالح ہوں.ان کے اعمال ایسے پاک ہوں کہ جن کو بلا رہے ہیں وہ پہچان لیں کہ اللہ والے ہمیں اللہ کی طرف بلا رہے ہیں.یہ نہ ہو کہ بلانے والا تو خدا کی طرف بلا رہا ہو اور اُس کے اعمال شیطان کی طرف اشارہ کرنے والے ہوں.اگر ایسا تضاد مبلغ کے کلام اور اُس کے عمل میں پیدا ہو جائے تو اس کا کلام برکت سے محروم رہ جاتا ہے.اس لئے خدمت کرتے وقت بھی یادر کھیئے اور میں اس کی تکرار کرتا ہوں کہ ضرور یاد رکھیں کہ خدمت مذہب کی طرف کھینچنے کی غرض سے نہیں ہونی چاہئے.خدمت بنی نوع انسان کا دکھ دور کرنے کی خاطر ہونی چاہئے.اگر چہ یہ ضرور ہے اور لازماً ایسا ہوتا ہے کہ خدمت کے نتیجے میں لوگ اس مذہب کی طرف بھی مائل ہوتے ہیں جس کے غلام بنی نوع
خطابات طاہر جلد دوم 254 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء انسان کی خدمت کرتے ہیں.یہ ایک طبعی سلسلہ ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا لیکن خدمت کا تعلق ایک اور خدمت سے بھی ہے اور اس اعلیٰ درجے کے عرفان کے ساتھ اگر خدمت کو دین کی نشر و اشاعت سے وابستہ سمجھا جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے.کوئی منافقت نہیں ہے وہ بات یہ ہے کہ ہم تو خدمت کرتے ہیں اللہ کی خاطر اور اللہ کی خاطر اللہ کے بندوں سے پیار رکھتے ہیں، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اب ہم سمجھتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے تو ایک سب سے اعلیٰ خدمت تو بنی نوع انسان کی یہ ہے کہ جس خزانے سے ہم دنیا جہان کی برکتیں پارہے ہیں اُس خزانے کی طرف دوسروں کو بھی تو بلائیں.پس تبلیغ کا کام بھی دراصل ایک اعلیٰ درجے کی خدمت ہے لیکن چھوٹے پیمانے پر جب ایک کو دوسرے سے وابستہ کریں تو اس کے نتیجے میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور بعض دفعہ بات کا اثر جاتا رہتا ہے.ایک طرف سے آپ خدمت کر رہے ہیں دوسری طرف سے لٹریچر تقسیم کر رہے ہیں کہ آؤ جی ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ نہ آپ کا لٹریچر کسی کام آئے گا نہ آپ کی خدمت کسی کام آئے گی.وہی بات ہوگی کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے تو خدمت کرتے وقت ہرگز فوری طور پر دین کے پھیلاؤ کی صورت میں اس کا اجر نہ چاہیں ان دونوں کو ایک دوسرے سے وابستہ نہ کریں اگر اس طرح کریں گے تو نہ آپ کو ایک فائدہ حاصل ہو گا نہ دوسرا فائدہ حاصل ہو گا.جب خدمت کریں تو خدمت کی نیت سے جب تبلیغ کے لئے جائیں تو تبلیغ کی نیت سے ، خدا کی طرف بلانے کی نیت سے.بہت سے واقعات ہندوستان کے ایسے تھے جو میرے پاس موجود ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن جماعتوں کے بڑے دلچسپ تذکرے ہیں جو بیدار ہو رہی ہیں اور تبلیغ کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں.اگر چہ افریقہ جیسا سماں تو پیدا نہیں ہوا لیکن یہ ضرور ہو گیا ہے کہ بعض دیہات جن میں سینکڑوں مسلمان بستے ہیں وہ پورے کے پورے اپنی مساجد سمیت احمدی ہونے شروع ہوئے ہیں لیکن اس سلسلے میں تربیت کی بہت ضرورت ہے مثلاً ابھی حال ہی میں آندھرا پر دیش سے یہ اطلاع ملی تھی کہ ہمارے تبلیغی وفد کے دورے کے نتیجے میں ایک ہی مقام پر آٹھ صد بیعتیں ہوئیں اور وہ تقریباً تمام کا تمام گاؤں ہی یعنی اس گاؤں کے مسلمان خدا کے
خطابات طاہر جلد دوم 255 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء فضل سے احمدیت میں داخل ہو گئے لیکن مجھے فکر تربیت کی ہے کہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں مذہب کا زیادہ علم نہیں جہاں مسلمان اکثر صورتوں میں نہ نماز جانتے ہیں نہ مساجد سے ان کا تعلق ہے اور بعض مساجد مسلمان گاؤں میں ہوتے ہوئے ویران پڑی ہیں.ایک آدمی ہے جس کے پاس چابی ہے اکثر تالا لگا رہتا ہے، کبھی اس کو خیال آیا تو جا کر اذان بھی دے دی یا بغیر اذان دیئے ہی نماز پڑھ لی اور سارا گاؤں اُس سے غافل ہے تو ایسی جگہ ہمیں ایسے مدرسین اور صوفیاء کی ضرورت ہے جیسے گزشتہ زمانوں میں جو بزرگ تشریف لائے اور جگہ جگہ دھونی رما کر بیٹھ رہے.اس لئے میں جماعت احمدیہ بھارت سے یہ توقع رکھتا ہوں اور ان سے ملتیجی ہوں کہ ان میں سے وہ لوگ جو زندگی کا اکثر حصہ گزار چکے ہیں اور عمر کے آخری کنارے پر پہنچ رہے ہیں وہ بے کار وقت نہ گزار ہیں.وہ اپنی خدمتیں اس اہم دین کے کام کے لئے پیش کر دیں اور اُن کو باقاعدہ نظام کے تحت مختلف جگہوں پر بٹھا دیا جائے گا ان کا کام وہاں بیٹھنا، دعائیں کرنا ہے اور اُن لوگوں کی دینی ضرورتیں پوری کرنا ہے.چھوٹے چھوٹے مدر سے جاری کر دینے ہیں جہاں کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی جائے.کسی سے جھگڑا نہیں کرنا، غیر معمولی علم کی بھی ضرورت نہیں ہے، تلاوت صحیح جانتے ہوں، پڑھ کر ہی ترجمہ سکھا نا شروع کر دیں.نیکیوں کی تعلیم دیں، اُن کو دعائیں سکھائیں ، ان کے لئے دعائیں کریں.غرضیکہ روحانیت کا ایک چشمہ جاری کر دیں.اس قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے جو ریٹائر ہو گئے ہیں یا ویسے اپنے کاموں سے فارغ ہو گئے ہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ یہ دوست اپنے نام پیش کریں گے لیکن متنبہ کرتا ہوں کہ کام مشکل ہے، آسان سمجھ کر نہ آئیں.دور دراز علاقوں میں ایسی جگہ جہاں دنیا کی ترقی یافتہ صورتوں کی بعض جگہ خبریں بھی نہیں پہنچیں بجلی نہیں ہے، پانی کا انتظام نہیں ہے، بعض جگہ ہے بھی بعض جگہ نہیں ہے.روزمرہ کی رہن سہن کی سہولتیں جن کی آجکل دنیا کو عادت پڑ چکی ہے وہ سہولتیں مہیا نہیں ہیں.پس جو لوگ بھی خدمت کا ارادہ کر کے وہاں جائیں اس نیت سے جائیں کہ ہم بیٹھیں گے.خدا کی خاطر دھونی رمائیں گے ، ایک فقیر بن جائیں گے، اُن بزرگوں کی پیروی کریں گے جو کسی زمانے میں ہندوستان آئے تھے جگہ جگہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اپنی درس گاہیں قائم کیں نصیحتوں کا سلسلہ جاری فرمایا اور آج اس عظیم مقام کو پہنچ گئے ہیں کہ سارے ہندوستان میں شمال سے جنوب تک اُن کی شہرت ہے اور بڑی عزت اور احترام کے ساتھ ان کا نام یاد کیا جاتا ہے.
خطابات طاہر جلد دوم 256 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء اس عزت کی خاطر نہیں کیونکہ مومن کو دنیا کی عزتوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی بلکہ محض عجز اور انکساری کے ساتھ خدا کے حضور اپنا سب کچھ حاضر کر دینے کے لئے اگر ایسے واقفین ہمیں ملیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد ہی ان علاقوں میں نہ صرف یہ کہ تعداد کے لحاظ سے لوگ اسلام میں داخل ہوں گے بلکہ اصل مقصد حاصل ہو گا.تعداد بڑھانا مقصد نہیں ہے اُن کی ذاتی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا مقصد ہے.ایسے لوگوں کو خدا والا بنانا مقصد ہے.اُن کو اسلام کے اعلیٰ اخلاق سکھانا مقصد ہے.ان کو بنی نوع انسان کا ایک بہت ہی اعلی پایہ کا جزو بنانا مقصد ہے.ان مقاصد کو پیش نظر رکھیں تو محض تعداد سے آپ راضی نہیں ہو سکتے اور آپ کو راضی نہیں ہونا چاہئے.اس لئے جب یہ لوگ رپورٹیں بھیجتے ہیں تو مجھے یہ فکر لاحق ہوتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ مجھے خوش کرنے کے لئے اتنی بڑی تعداد لکھ دی.پھر پتہ کرواتا ہوں پتا لگ جاتا ہے کہ سچ بات تھی.محض مبالغہ نہیں تھا لیکن جب دوبارہ آدمی بھجواتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ جن جگہوں میں ہزار احمدی ہوئے تھے وہاں اکثر غافل ہی ہو گئے ہیں.ایک دفعہ وقتی جوش آیا انہوں نے قبول کر لیا پھر وہ ٹھنڈے پڑ گئے.پوچھو تو اپنے آپ کو احمدی کہتے تھے مگر جیسے احمدی ویسے غیر احمدی ، جیسے مسلم ویسے غیر مسلم کوئی کردار میں ایسا نمایاں فرق نہیں پڑا.عبادت کے نقطہ نگاہ سے ان کو کوئی فیض حاصل نہیں ہوا.تو اس احمدیت کا کیا فائدہ.پس میں یہ نہیں کہتا کہ ان کو جب تک پہلے اصلاح نہ کر لیں ، قبول نہ کریں.قبول کریں اور پھر اصلاح ضرور کریں کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں اس کی ہی تعلیم دی ہے.اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجَالُ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ (انصر ۲۰تا۴) لوگ جوق در جوق فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے تو یہ نہ کرنا کہ ان کی راہ روک دینا اور کہنا پہلے تم ٹھیک ہو جاؤ پھر ہم تمہارے لئے کچھ کریں گے.تمہیں داخلے بند کرنے کا حق ہی کوئی نہیں ہے.إذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ کہ یہ اُن لوگوں کی مرضی ہے.ان کا اختیار ہے، جب چاہیں جس طرح چاہیں شوق سے آئیں اور اسلام میں داخل ہوں.تمہارا کام یہ ہے کہ استغفار کرو اُن کے لئے بخشش طلب کرو اور خدا کی تسبیح و تحمید کرو اور اس رنگ میں ان کی تربیت کرو کہ جیسے تم خدا والے ہو.وہ بھی خدا والے بن جائیں.پس تربیت کا ایک مستحکم نظام اس کے ساتھ جاری ہونا چاہئے اور ہر جگہ جہاں خدا کے فضل سے
خطابات طاہر جلد دوم 257 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء تبلیغ پھیل رہی ہے وہاں ایک بہت ہی مضبوط متوازی نظام تربیت جاری ہونا چاہئے جس کا فوراً چارج سنبھال لینا چاہئے.ادھر مبلغ پہنچے اور انہوں نے مسلمان اور احمدی بنائے اور ادھر تربیت والے پیچھے پہنچے اور انہوں نے ان کو سنبھالا اور ان کے متعلق اطلاعیں بھیجیں.پس اس غرض سے ہمیں بہت سے واقفین کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے اور آپ لوگوں کے دلوں کو اس کام کے لئے کھولے.اس سے اچھی کوئی موت نہیں کہ خدا کی راہ میں وقف کر کے آپ مریں.یہی آپ کی دعاؤں کی قبولیت کا پھل ہو گا.جب آپ یہ کہتے ہیں وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ( آل عمران :۱۹۴) اے اللہ ہمیں ابرار میں مارنا تو میں آپ کو ابرار میں مرنے کی طرف دعوت دیتا ہوں.آئیے اور ان ابرار میں شامل ہو جائیں خود اپنی بقیہ زندگی کے دن خدا کی خاطر پیش کر دیں.پھر جب آپ کی موت ہوگی مجھے اپنے رب کے حضور سے کامل یقین ہے کہ اس کے ہاں آپ ابرار میں لکھے جائیں گے.اس ضمن میں جماعت کو عمومی تلقین بھی ہے اور مجالس کو علیحدہ علیحدہ بھی میری یہ نصیحت ہے، خدام الاحمدیہ ہے، انصار اللہ ہے، لجنات ہیں، ان کو اپنے اپنے رنگ میں ، اپنے اپنے دائرے میں اسی قسم کے کام کرنے چاہئیں اور ان کاموں کو آگے بڑھانا چاہئے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ نظام جماعت کے ساتھ کوئی تصادم نہ ہو کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہو کوئی ایسی نعوذ باللہ من ذالک آپس میں چپقلش نہ شروع ہو جائے جس سے جماعت کی وحدت کو نقصان پہنچے.اگر خدانخواستہ کہیں ایسا ہو تو ہر ایسی تنظیم کو ختم کر دیا جائے گا جو نظام جماعت سے الگ ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی کوشش کرے.پس ان ساری خدمتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ اور مدغم ہونا چاہئے.ایک دوسرے کے ساتھ ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہوئے آگے بڑھیں.ایک گاڑی کے دو پیسے جو متوازی ہوں اور ان کی Lubrication ٹھیک ہو ان کو اچھی طرح تیل ملا ہوا ہو وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کیا کرتے.پس اس طرح کام مل کر کریں کہ جس سے اسلامی مواخات کا مضمون ثابت ہو اور دیکھنے والا یقین کرے کہ آپ اسلامی مواخات کے مضمون کو سمجھتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہیں.انتظامی نقطہ نگاہ سے ہر صوبے کا امیر آخری انتظامی اتھارٹی ہے.وہ صاحب اختیار ہے جماعت کی طرف سے جو خلیفہ وقت کی طرف سے بطور امیر مقرر ہے اور اس کا تعلق مرکز قادیان سے ہے اور یہاں کے جو شعبے قائم ہیں وہ اُن شعبوں میں اُن کو جواب دہ ہے.پس اس پہلو سے امراء
خطابات طاہر جلد دوم 258 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء صوبائی اور امرائے اضلاع کو بھی اگر امرائے اضلاع قائم ہیں اور مقامی امراء کو بھی اس بات کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ یہ ذیلی تنظیمیں نیک کاموں میں اپنی انانیت یا دکھاوے کی خاطر کسی قسم کی بدی کے عناصر شامل نہ کریں.محبت سے مل جل کر کام کریں.اگر کسی ایک مجلس کی زیادہ بیعتیں مل جاتی ہیں تو کیا اور اگر ان کی بنائی ہوئی بیعتیں کوئی اور لے جاتا ہے تو کیا ، اجر تو خدا سے پانا ہے اور خدا کے علم میں ہے کہ کس نے کس حد تک کام کیا.چنانچہ ایک دفعہ وقف جدید میں مجھ سے معلمین نے شکایت کی کہ جی ہم نے بیعتیں کرائی تھیں وہ اب مربی لے گئے.میں نے کہا کہ مربی لے گئے تو لے جانے دوان سے تمہیں کیا فرق پڑتا ہے.قیامت کے دن مربی وہ بیعتیں خدا کے حضور پیش کریں گے کیا خدا کو یہ علم نہیں ہوگا کہ کس غریب نے محنت کی تھی؟ تم چھوٹی چھوٹی باتوں میں کیوں جھگڑے پیدا کرتے ہو؟ مجھے اطلاع کر دیا کرو.بس اتنا ہی کافی ہے اگر مربی لے جائے اس کو لے جانے دو، اگر امیر لے جائے اس کو لے جانے دو کہو ٹھیک ہے خدا کے حضور یہ بیعتیں حاضر ہوئیں تم سنبھا لو تو بڑی اچھی بات ہے.تمہیں بھی ثواب مل جائے گا.اسی روح کے ساتھ مل جل کر تعاون کے ساتھ کام کریں.وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدہ:۳) یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے.اسے کبھی بھلا ئیں نہیں.اب وقت بہت زیادہ ہو گیا ہے.افتتاحی تقریر عموماً مختصر ہوا کرتی ہے لیکن ایک مشکل یہ در پیش تھی کہ کل کے دن کی تقریر غائب ہے وہ نہیں ہے.لجنہ میں تو ہے لیکن مردوں میں نہیں ہے تو جو مضامین کل بیان کرنے تھے ان میں سے کچھ نہ کچھ میں نے یہاں بیان کر دیا ہے.اس وجہ سے خطاب لمبا ہو گیا ہے.قادیان آنے سے متعلق یہ پہلا سفر ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ جب دوبارہ خدا مجھے یہاں لے کے آئے گا اور آئندہ خلفاء کو بھی لے کے آئے گا اللہ بہتر جانتا ہے کہ اُن آئندہ خلفاء کی راہ میری ہمیشہ کی آمد سے ہموار کر دی جائے گی یا یہ تو فیق کسی اور خلیفہ کو ملے گی لیکن یہ تو مجھے کامل یقین ہے کہ جس خدا نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قادیان آخرین کا امام بنا کر بھیجا تھا وہ ضرور اپنے وعدے بچے کر دکھائے گا اور ضرور بالآخر خلافت احمد یہ اپنے اس دائمی مقام کو واپس لوٹے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قادیان واپسی کے متعلق کثرت سے الہام بھی
خطابات طاہر جلد دوم 259 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء وو ہوئے اور رؤیا اور کشوف بھی دکھائے گئے.ایک دفعہ ایک غیر احمدی دوست میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند کے وقت تک میں احمدیت کی طرف بہت ہی مائل تھا بلکہ میں شوقیہ قادیان ان لوگوں میں بھی حاضر ہوا جو آخری دنوں میں یہاں خدمت کر رہے تھے لیکن بیعت نہیں کی تھی تقسیم ہند کے بعد میرا ایمان اُٹھ گیا کیونکہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں کہیں یہ ذکر نہیں ملا کہ آپ کو قادیان چھوڑنا پڑے گا.میں نے اُن سے کہا کہ اگر ” داغ ہجرت“ ( تذکره: ۲۱۸) سے آپ کو یہ پیغام نہیں بھی ملا اور آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے مراد شاید آخری رحلت ہو دنیا سے عقبی کا سفر ہو تو کبھی آپ نے یہ نہیں سوچا کہ قادیان سے جانے کا ذکر نہیں تو قادیان میں آنے کا کیوں اتناذ کر ملتا ہے اور اس رنگ میں ملتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس بستی میں پیدا ہوئے یہاں بڑے ہوئے ، یہاں نشو و نما پائی.یہی احمدیت کا مرکز بنا اور آپ کو الہام اللہ تعالیٰ ایسے کر رہا ہے جیسے آپ قادیان سے باہر ہیں اور وعدے کر رہا ہے کہ ضرور لے کر آئے گا.یہ حیرت انگیز مضمون ہے تمام الہامات میں قادیان آنے کے الفاظ نہیں ملتے.قادیان جانے کے الفاظ ملتے ہیں.حالانکہ جو شخص قادیان بیٹھا رویا دیکھ رہا ہے اس کو یہ نظر آنا چاہئے تھا کہ میں باہر سے قادیان واپس آرہا ہوں یعنی میرا مقام قادیان ہے اور میں واپس لوٹ رہا ہوں، یہ نظر آنا چاہئے.ایک بھی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح اس نقشے کو نہیں کھینچا بلکہ یہ اظہار فرمایا کہ میں قادیان جارہا ہوں اور رستے میں روکیں ہیں اور خدا تعالیٰ نے مختلف رنگ میں آپ کو آئندہ آنے والی خبریں عطا فرمائیں.ایک الہام تھا:.مَثْنَى وَقُلْتَ وَرُبَعَ جس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ دو دو، تین تین، چار چار مرتبہ لیکن اس کے ساتھ اردو میں یہ الہام ہوا اب تو امن اور برکت کے ساتھ اپنے گاؤں میں جائے گا اور میں تجھے پھر بھی یہاں لاؤں گا“.(تذکرہ صفحہ: ۶۸۴) پس میں یقین رکھتا ہوں ذرہ بھی مجھے اس میں شک نہیں کہ اس جلسے پر میری اور دور دور سے قدوسیوں کی آمد اس الہام کی صداقت کی گواہ بن گئی ہے.کیونکہ جو وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا گیا تھا وہ آج حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس انتہائی عاجز اور ادنی غلام کے حق میں
خطابات طاہر جلد دوم 260 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء پورا ہوا ہے اور آپ کبھی خوش نصیب ہیں جو اس وعدے کو پورا کرنے میں مددگار اور شریک اور محد اور انصار بن کر یہاں پہنچے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے اور خدا کا ہم کیسے شکر یہ ادا کریں جس نے یہ سعادت ہمیں بغیر کسی ظاہری حق کے عطا فرمائی.کوئی مخفی حق اس کے علم میں ہے تو وہی جانتا ہے.میں تو جب اپنے حال پر نگاہ کرتا ہوں تو ہر گز اپنے آپ کو ان فضلوں کا مستحق نہیں پاتا اور خدا کی قسم اس میں کوئی جھوٹے عجز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.میں جانتا ہوں میں کون ہوں مجھے اپنی حیثیت کا علم ہے.ان فضلوں کو دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں اے خدا! میں کیا کروں تیرے لئے کس طرح ان کے شکر کا اظہار کروں.اظہار بھی میرے بس میں نہیں.شکر ادا کرنا تو بہت دور کی بات ہے.دیکھیں اللہ تعالیٰ نے یہی وعدہ فرمایا تھا.اب تو امن اور برکت کے ساتھ اپنے گاؤں میں جائے گا اور میں تجھے پھر بھی یہاں لاؤں گا“.جس کا مطلب ہے کہ پہلی واپسی عارضی ہوئی تھی اور امن کے ماحول میں ہوئی تھی.بعض احمدی باہر کے ملکوں میں پتہ نہیں کیسے ان خوابوں میں بسے رہے گویا جس طرح فوج کشی ہوتی ہے اس طرح بڑے زور سے احمدیت کی فوج نعوذ باللہ من ذالک قادیان پر حملہ آور ہو گی اور فتح حاصل کرے گی اور اس طرح وہ پرانی تاریخ انہی لفظوں میں دہرائی جائے گی جیسے بعض دفعہ پہلے رونما ہوئی ہے.یہ سب فرضی باتیں ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ کیا مقدر تھا اور وہ یہی مقدر تھا.فرمایا تو امن اور برکت کے ساتھ اپنے گاؤں میں جائے گا اور میں تجھے پھر بھی یہاں لاؤں گا.اب اس مضمون کو مثنى وَتُلْكَ وَرُبع کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ ایک بار نہیں دو دو، تین تین، چار چار بار آنا ہوگا اور بالآخر اللہ تعالیٰ کی وہ تقدیر ظاہر ہوگی کہ جب خلافت قادیان میں دائمی مرکز قادیان کو واپس پہنچے گی.۲۶ جولائی ۱۹۰۴ء کو یہ رویا ہوا اور انبیاء کے رویا اور کشوف بھی وحی کا درجہ رکھتے ہیں اس لئے اس رؤیا کی بڑی اہمیت ہے.آپ نے دیکھا کہ ہم قادیان گئے ہیں.اب دیکھیں عجیب بات ہے قادیان رہتے ہیں اور دیکھا کہ قادیان گئے ہیں.میں نے سب الہامات کا مطالعہ کیا ہے.ایک بھی جگہ یہ نہیں لکھا قادیان آئے ہیں بلکہ ہر جگہ گئے ہیں کا مضمون ہے جس کا مطلب ہے بہت لمبے عرصے سے باہر رہ رہے ہیں.واپس آنے کی تمنا ہے پوری نہیں ہو رہی، دعائیں کرتے ہیں،
خطابات طاہر جلد دوم 261 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء اندھیرے رستے میں حائل ہیں اور پھر خدا تعالیٰ توفیق عطا فرما دیتا ہے کہ قادیان گئے ہیں.فرمایا: ”اپنے دروازے کے سامنے کھڑے ہیں ایک عورت نے کہا.السلام علیکم اور پوچھا کہ راضی خوشی آئے.خیر و عافیت سے آئے“.( تذکرہ: ۴۳۵) جب میں یہاں آیا تو بعض اسی قسم کی کثرت سے آواز میں اُٹھ رہی تھیں.السلام علیکم، خیریت سے پہنچے ، راضی خوشی آئے.راضی خوشی کا لفظ تو مجھے یاد نہیں لیکن خیریت سے پہنچے اس قسم کے کلمات خیر بار ہا عورتوں کی آواز میں میرے کان میں پہنچتے تھے.ہر دفعہ میری روح خدا کے حضور سجدے کرتی تھی کہ خدا نے ہمیں وہ دن دکھایا جس کے وعدے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے آج سے تقریباً نوے برس پہلے کئے گئے تھے.بہت سے ایسے الہامات ہیں میں ان کا ذکر چھوڑتے ہوئے چند ایک کا ذکر کر دیتا ہوں.میں کسی اور جگہ ہوں اور قادیان کی طرف آنا چاہتا ہوں، ایک دو آدمی ساتھ ہیں.کسی نے کہا راستہ بند ہے.ایک بڑا بحر ذخار چل رہا ہے.میں نے دیکھا کہ واقع میں کوئی دریا نہیں بلکہ ایک بڑا سمندر ہے اور پیچیدہ ہو ہو کر چل رہا ہے جیسے سانپ چلا کرتا ہے.ہم واپس چلے آئے کہ ابھی راستہ نہیں اور 66 ی راہ بڑا خوفناک ہے.(تذکرہ : ۳۶۷) یہ واقعہ بھی گزر چکا ہے اس سے پہلے صد سالہ جشن کے موقع پر بھی ہمیں یہی تمنا تھی.جائزے لئے گئے تو تمام طرف سے خود قادیان والوں نے بھی یہی لکھا کہ ابھی حالات سازگار نہیں ہیں اور حالات خطرناک ہیں.پنجاب میں بھی امن نہیں ہے اس لئے آپ نہ تشریف لائیں جبکہ میری دلی خواہش یہ تھی کہ میں آؤں تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ رویا بھی بڑی شان کے ساتھ پورا ہو چکا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا:.إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلى مَعَادٍ ( تذکره: ۲۵۷) وہ خدا جس نے قرآن کریم پر عمل کرنا تیرے لئے فرض قرار دیا ہے وہ لازماً تجھے اپنے وطن کی طرف اس آخری مستقل قیام گاہ کی طرف واپس لے کر آئے گا.اِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيكَ بَغْتَةً.يَاتِيكَ نُصُرَتِي.
خطابات طاہر جلد دوم 262 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء صلى الله 66 إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ ذُو الْمَجْدِ وَالعُلَى “.(تذکره: ۲۵۷) پھر آپ کو الہام ہوا: " وَقُل رَّبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ “ اور کہہ کہ اے میرے رب! مجھے نیک طور پر (دوبارہ مکہ میں ) داخل کر.( تذکرہ: ۳۸) یہ ترجمہ جو ہے چونکہ لکھنے والے نے تفسیر صغیر سے لیا ہے اس لئے یہاں لفظ مکہ کا لکھا گیا ہے.قرآنی دعا میں نہ صرف یہ کہ ملکہ کا ذکر نہیں بلکہ جس مقام کا ذکر ہے وہ کوئی ظاہری مقام نہیں ہے بلکہ وہ ایک مرتبے کا ذکر ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کو نصیب ہونا تھا لیکن اس کی ذیل میں ظلی طور پر ملے کا ذکر شامل ہے.اس لئے ہر ایسی دعا کرنے والا محض مکہ میں داخل ہونے کے لئے ایسی دعا نہیں کرتا بلکہ آنحضرت ﷺ کی غلامی میں یہ التجا کرتا ہے کہ اے خدا تو نے جس طرح اپنے پاک محمدﷺ کو بار بار بلند سے بلند مقامات میں داخل فرمایا اور ہر بلند مقام سے ایک بلند مقام کی طرف نکلنے کی توفیق بخشی ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک فرما.پس اسی ذیل میں قادیان بھی آتا ہے اور یہاں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خطاب ہے اس میں ان معنوں میں قادیان واپسی کے لئے پیشگوئی تھی.حضرت مصلح موعودؓ نے سورۃ فجر کی آیت وَالَّيْلِ إِذَا يَسْرِ (الفجر (۵) کی تفسیر میں جو مضمون بیان فرمایا اُس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ۱۹۹۱ء کا سال جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 529 پر اس مضمون کی تفسیر اور حساب درج ہے جس کے ذریعے آپ نے اس مضمون کو ظاہر فرمایا دو تین امکانات کا ذکر فرمایا اس میں ایک یہ بھی ہے.اب میں آخر پر اس سلسلے میں ایک ایسی خواب کا ذکر کرتا ہوں جو لاہور کے ایک احمدی دوست نے مجھے ۱۹۸۸ء میں لکھ کر بھیجی تھی جبکہ ابھی میرے قادیان واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا تھا اور جماعت احمد یہ عالمگیر کا یہاں جلسہ منعقد کرنے کا کسی کو وہم بھی نہیں تھا.وہ لکھتے ہیں کہ و گزشتہ دنوں دو تین بار میں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو موضع تتلہ کے قریب نہر کے پل کے پار جانب قادیان دیکھا کہ میں نے حضور علیہ السلام کو السلام علیکم کہا.حضور نے لمبا کوٹ عمامہ اور گرگابی پہنی ہوئی ہے اور ہاتھ میں سوئی ہے.آپ نے نہایت محبت و شفقت سے سلام کا
خطابات طاہر جلد دوم 263 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء جواب دیا اور ٹہلتے ہوئے حضور فرمانے لگے کہ جاؤ اور طاہر احمد کی مدد کرو.بعینم یہی خواب دو مرتبہ اور اس کے بعد آئی.قادیان متلے کی نہر تک پھیل گیا ہے اور بڑی بڑی بلڈنگز بنی ہوئی ہیں.میں نے حضور علیہ السلام سے پوچھا کہ ہم قادیان کب جائیں گے؟ تو حضور نے 5 کا ہندسہ خواب میں بتلایا.میں نے کہا ۱۹۹۵ء تک تو فرمایا نہیں.پھر میرے پوچھنے پر بتایا کہ جب 45 سال ہوں گے.اس کے بعد آنکھ کھل گئی.پس چوالیس سال کے انقطاع کے بعد آج پینتالیس سال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ عاجز غلام احمد اور خلیفہ آپ کے سامنے اس جلسے میں حاضر ہے.پس جن لوگوں نے بھی اس جلسے کو کامیاب بنانے میں مدد فرمائی ان کو مبارک ہو آپ میں سے جس نے بھی اور دنیا بھر کی جماعتوں میں سے بہت کثرت کے ساتھ احمدیوں نے اس جلسے کو کامیاب بنانے میں مدد کی ہے جس نے بھی کی ہے اس کو مبارک ہو کہ کئی سال پہلے رویا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ایک احمدی کے اوپر ظاہر ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ طاہر کی مدد کرنا اس موقع پر.پس اللہ تعالیٰ کے حکم اور اذن سے آپ نے مدد کی ہے.وہی ہے جو آپ کو جزا دے گا ورنہ میرے پاس کیا ہے کہ میں آپ کو جزا دے سکوں.ہاں اپنی عاجزانہ دعاؤں میں آپ کو یاد رکھوں گا اور ہمیشہ اس احسان کو دعا کے احسان کے ذریعے اتارنے کی کوشش کرتا رہوں گا.اب آخر پر دعا سے متعلق میں یہ عرض کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے مدد کی ہے ان سب کے لئے آپ بھی دعا کریں اور ہندوستان کی حکومت کا بھی ہم شکر یہ ادا کرنا چاہتے ہیں.انہوں نے بے حد اعلی درجے کا انسانی ہمدردی کا سلوک فرمایا اور میں جانتا ہوں کہ ان پر بہت سی مذہبی جماعتوں کا بڑا شدید دباؤ تھا کہ ہرگز احمدیوں کو یہاں جلسہ منعقد کرنے کی اجازت نہ دی جائے لیکن انہوں نے انسانی قدروں کو زندہ رکھا اور ان کا علم بلند رکھا اور اُس دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا.اتنا تعاون کیا ہے کہ اس تعاون کے نتیجے میں ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالی اس ملک کے باشندوں کو بھی ہدایت فرمائے ، ان کے سیاسی راہنماؤں کو بھی ہدایت فرمائے ، ایسے کام کرنے کی توفیق عطا نہ فرمائے جن سے خدا ناراض ہو.بندوں میں انصاف قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، انصاف کا قیام ذاتی
خطابات طاہر جلد دوم 264 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء اغراض اور محب علی اور بغض معاویہ کے نتیجہ میں نہ ہو بلکہ انصاف کی محبت کے نتیجے میں ہو اور خدا تعالیٰ اس ملک کو انصاف کی اعلیٰ قدروں پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور جنہوں نے ہم سے نیکی کی ہے ہمارا رب ان سے نیکی کرے کیونکہ ہمارے پاس تو کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ ہم ان احسانات کا براہ راست بدلہ اُتارسکیں.اتنا تعاون کا رنگ تھا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ گاڑی جس کا ایک لمبے عرصے سے یہاں قادیان کا آنا منقطع تھا ہماری درخواست پر اُسے دوبارہ جاری کرنے کا حکومت ہند نے فیصلہ کر لیا ہے اور احکامات جاری ہو گئے ہیں.اکیس تاریخ کو انہوں نے فیصلہ کیا کہ دوبارہ گاڑی چلائی جائے.میری پیدائش ۱۸؍ دسمبر کو ہوئی تھی اور پہلی گاڑی قادیان 19 دسمبر کو آئی تھی.میں نے انگلستان کے وقت کے لحاظ سے رات کے وقت ناظر صاحب امور عامہ کو یہ فیکس (Fax) بھجوایا جو اُس وقت دہلی میں تھے کہ ان سے مل کر یہ کہیں کہ میری تمنا ہے کہ اس تاریخ کو اکیس کی بجائے انیس میں بدل دیں اور ایک قسم کا ذاتی پیغام دیں.ان سے کہیں کہ میں اٹھارہ کو پیدا ہوا تھا اُنیس والی پہلی گاڑی تو مس کر دی کیونکہ قادیان ہی میں پیدا ہوا تھا.اب جب دوبارہ گاڑی جاری ہو گی تو میں وہ مس نہیں کرنا چاہتا.ہفتے کا دن تھا دفاتر بند ہو رہے تھے.وہ فوری طور پر میرا پیغام لے کر ریلوے ہندوستان کے ایک بڑے افسر کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کو وہ جانتے بھی نہیں تھے.جاتے ہی گھبرا کر دفتر میں داخل ہوئے کہ وقت ختم ہو رہا ہے چھٹی ہونے والی ہے اور مجھے یہ پیغام ملا ہے.اُس نے کہا اگر آپ کے امام کی یہ ذاتی خواہش ہے تو میں اُس خواہش کا احترام کرتا ہوں اور باوجود اس کے کہ دفتر بند ہورہے تھے وہ خود بیٹھا.اس وقت فیکس بھیجی پنجاب حکومت کو کہ فوری طور پر اس تاریخ کو بدل کر اُنیس میں بدل دیا جائے تو انسانیت کا مظاہرہ جہاں بھی ہو جس مذہب میں بھی ہو جس قوم اور جس وطن اور جس ملک میں بھی ہو بہت ہی پیارا لگتا ہے کیونکہ مذہب کے اعلیٰ مقاصد میں سے انسانیت سکھانا ہے.پس ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تمام دنیا کے انسانوں کو انسانیت عطا کرے.اگر انسان کو انسانیت مل جائے تو سب دکھ درد دور ہو جائیں گے.مذہب کو قبول کرنا بعد کی باتیں ہیں.پہلے آدمی ، آدمی تو بن جائے اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کے قیام کا مذہب کے ساتھ بہت گہرا بنیادی تعلق ہے.جب تک اخلاقی قدروں کی طرف آپ انسان کو واپس نہیں لائیں گے اس وقت تک عالمگیر
خطابات طاہر جلد دوم 265 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء مذہب کے قیام کا تصور ہی ناممکن ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تو فیق عطا فرمائے اور غیب سے ہماری اس بات میں مدد کرے کہ دنیا کو از سر نو انسانیت کے سبق دیں.اب ہم دعا کریں گے.افتتاحی اجلاس ختم ہوگا لیکن اس اجلاس کے اختتام سے پہلے میں یہاں کچھ عرصہ دعا کے بعد بیٹھوں گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا بھر سے جن خواص کے آنے کا ذکر فر مایا تھا پیشگوئی فرمائی تھی ان خواص میں آپ بھی شامل ہیں اور ایسے بھی شامل ہیں جو جماعت احمدیہ میں تو شامل نہیں لیکن اس پیشگوئی کے مستحق ہیں.دنیا کے بعض ممالک میں بڑے عزت اور شرف کے مقامات تک پہنچے ہوئے ہیں.انہوں نے از راہ شرافت جماعت احمدیہ کو ایک خراج تحسین پیش کرنے کے لئے تکلیف اٹھائی اور دور دراز ممالک سے محض اس جلسے میں شمولیت کی غرض سے آئے ہیں.پس ان کے احترام کی خاطر جب تک اُن کے مختصر خطاب ختم نہ ہوں میں آپ کے ساتھ بیٹھا رہوں گا.جب وہ خطاب ختم ہوں گے پھر میں رخصت ہوں گا.اس کے بعد اگر وقت رہا تو بقیہ کارروائی جاری ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تلقین کے مطابق اپنے اُن بھائیوں کو ضرور دعاؤں میں یاد رکھیں جو اس عرصے میں سرائے فانی سے انتقال کر چکے ہیں.اپنے تمام بھائیوں کو جو روحانی لحاظ سے خشکی محسوس کر رہے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ان کو دعا میں یا درکھیں.ان کی تروتازگی کے لئے دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ان سے اجنبیت اور نفاق کو دور فرما دے.اپنے چھوٹوں بڑوں کے لئے دعا کریں.اپنے مردوں اور عورتوں کے لئے دعا کریں.بیماروں اور مصیبت زدگان کے لئے دعا کریں، بیوگان اور یتامیٰ کے لئے دعائیں کریں.دعائیں کریں ہر اُس شخص کے لئے جو کسی رنگ میں خیر کا محتاج ہے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالی کی درگاہ کی طرف نظر رکھتا ہے کہ جو کچھ خدا اپنے فیض سے اس کی جھولی میں ڈال دے وہ اس کے لئے کافی ثابت ہو.پس ایسے سامعین کے لئے بھی دعائیں کریں اور محرومین کے لئے بھی دعائیں کریں.دعائیں کریں سفر میں آنے والوں کے لئے ان کی بخیریت واپسی کے لئے.دعائیں کریں اپنے اور غیروں کے لئے جنہوں نے مدد کی ہے اس جلسے کو کامیاب بنانے میں.دعائیں کریں اپنے محروم بھائیوں کے لئے جو اس جلسے میں
خطابات طاہر جلد دوم 266 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء شامل نہیں ہو سکے اور سب سے بڑھ کر دعائیں کریں اُن اسیران راہ مولا کے لئے جن کو تو فیق ظاہری ہوتی بھی تو وہ شامل نہیں ہو سکتے تھے.ان کی طرف سے بڑے پیار اور محبت اور بڑے حوصلے کے خط ملے ہیں وہ گویا مجھے تسلی دے رہے ہیں کہ ہماری فکر نہ کر و.ہم ٹھیک ہیں ہم اچھے حال میں ہیں ، خوش رہیں آپ.آپ کو خدا نے توفیق بخشی کہ دیار حبیب میں پہنچے ہیں.ہاں دعاؤں میں ہمیں بھی یادرکھ لینا.پس ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.بنی نوع انسان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.یہ دعا تو کچھ عرصہ رہے گی اور پھر ختم ہو جائے گی لیکن ایک دعا کا سلسلہ جاری ہو جانا چاہئے.اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے آپ کے دل مجسم دعا بن جائیں تا کہ خدا اس جلسے کو محض ایک تاریخی جلسہ نہ بنائے رکھے.اسے ایک تاریخ ساز جلسہ بنادے.ایک سوسال کی تاریخ نے یہ جلسہ پیدا کیا ہے.یہ جلسہ کئی سو سال کی تاریخوں کا بنانے والا جلسہ بن جائے اور ایسی عظمتوں کا حامل جلسہ ہو جس کے بعد عظیم الشان انقلاب دنیا میں رونما ہوں.آئیے اب ہم سب مل کر ان دعاؤں میں اپنے اور غیروں اور سب کو شامل کرلیں.اللهم آمین
خطابات طاہر جلد دوم 267 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء تو حید کو پکڑو اور مضبوطی سے تو حید کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ اس کے سوا کوئی نجات کی راہ نہیں.(افتتاحی خطاب جلسه سالا نه فرموده ۳۱ / جولائی ۱۹۹۲ء بمقام اسلام آباد لفورڈ برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.تَبْرَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَلَمِينَ نَذِيرَ ا ل الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِةٍ أَلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتَا وَلَا حَيَوةً وَلَا نُشُورًا (الفرقان: ۴۲) پھر فرمایا:.احمدیت دوسری صدی کے آغاز سے جس نئے انقلابی دور میں داخل ہو چکی ہے اس کی مختلف علامتیں مختلف رنگ میں ظاہر ہورہی ہیں اور احمدیت نے کل عالم میں امن کے قیام کے لئے جو کردار ادا کرنا ہے اس سے پیدا ہونے والی ذمہ داریوں سے متعلق میں آج آپ سے کچھ گزارشات کروں گا.وہ علامات جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ظاہر کرتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے پہلے مواصلاتی ذرائع سے میرا رابطہ انگلستان سے باہر دوسری جماعتوں سے بھی کر واد یا اور جاپان
خطابات طاہر جلد دوم 268 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء تک بھی خدا کے فضل سے براہ راست میرے پیغام پہنچنے شروع ہوئے اور پھر اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرمایا کہ ٹیلی ویژن کے ذریعے سارے یورپ تک میرے خطبات براہ راست نہ صرف سنے جانے لگے بلکہ دیکھے بھی جانے لگے.کانوں سے سننے کا بھی ایک اثر ہوتا ہے اور آنکھوں سے دیکھنے کا بھی، تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی (در مشین: 11) اب تو اللہ تعالیٰ نے گفتار کے بھی انتظام فرما دیئے اور دیدار کے بھی انتظام فرما دیئے اور آج یہ انقلابی دن آیا ہے کہ اس وقت جو میں آپ سے یہاں گفتگو کر رہا ہوں اسے نہ صرف پاکستان اور ہندوستان میں سنا جارہا ہے بلکہ دیکھا بھی جا رہا ہے اور صرف پاکستان اور ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ انڈونیشیا میں بھی اور سنگا پور میں بھی اور جاپان میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ آواز براہ راست پہنچ رہی ہے اور یہ تصویر بھی براہ راست پہنچ رہی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کو ہم نے بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتے دیکھا کہ میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ ( تذکرہ: ۲۶۰) اس الہام کو پڑھنے کے مختلف انداز ہیں آج تک بالعموم اسے اس رنگ میں پڑھا گیا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا لیکن آج میں اللہ تعالیٰ کے شکر سے مغلوب ہوکر، اس کے احسانات سے مغلوب ہو کر اسے یوں پڑھتا ہوں کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.خدا کے سوا اور کوئی نہیں جو یہ کام کر سکتا تھا اور وہی ایک واحد ذات ہے جس نے آج یہ انتظام فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ادنی چاکر کو یہ توفیق دی کہ مسیح موعود کی نمائندگی میں جو کلام کر رہا ہے، وہ کلام بھی تمام دنیا کے کناروں تک پہنچ رہا ہے اور اس کی تصویر بھی اور اس جلسے کے مناظر بھی براہ راست ساری دنیا تک نشر ہورہے ہیں.آج خدا کے فضل سے اس الہام کے پورا ہونے کے ایک نئی شان سے دن آئے ہیں کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ اللہ تعالیٰ کے ان احسانات پر جو شکر ہم پر واجب ہے اسے محض نعروں سے تو ادا نہیں کیا جاسکتا، عمل سے ادا کرنا ہوگا کیونکہ وہی کلام خدا کے ہاں احسن اور مقبول ہے جس کی تائید انسان کے اعمال کریں.پس جس خدا نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر نظر کرم فرماتے ہوئے آپ
خطابات طاہر جلد دوم 269 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء کی تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچانے کے مختلف انتظام فرمائے اور فرماتا چلا جا رہا ہے ہم اس کے نام اور جلال کی عظمت کو تمام دنیا میں پھیلا کر رہیں گے اور دم نہیں لیں گے جب تک ایک ہی خدا د نیا پر حاوی نہ ہو جائے ، جب تک وہی خدا جو آسمان پر ہے اس کی بادشاہت زمین پر بھی قائم نہ ہو جائے.یہی ہمارا مقصد حیات ہے اور اس مقصد کیلئے ہماری ساری زندگیاں بھی فنا ہو جا ئیں تو ہمیں کوئی غم نہیں.ایسی ہر زندگی کام آئے گی جو خدا کی عزت اور جلال کے اظہار کے لئے کام آئے ، ہر وہ زندگی جو اس کے سوا ضائع ہو وہ ضائع ہوگئی ، اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں.پس آج کی اس تقریر کے لئے میں نے توحید باری تعالیٰ کا مضمون چنا ہے اور جن آیات کی آپ کے سامنے تلاوت کی ہے وہ تو حید ہی سے تعلق رکھنے والی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، تَبَرَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَلَمِيْنَ نَذِيرًا کہ بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا اور بڑی شان کے ساتھ اتارا ، بڑی قوت کے ساتھ اتارا، سنک میں جو طاقت پائی جاتی ہے اور جو تکرار پائی جاتی ہے وہ محض نزول کے استعمال میں نہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خدا جس نے بڑی شان اور بڑی قوت اور بڑی تکرار کے ساتھ اپنے بندے محمد پر یہ کلام اتارا ب لِيَكُونَ لِلْعَلَمِيْنَ نَذِيرًا کہ وہ تمام جہانوں کے لئے نذیر بن جائے.پس جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کی بات کرتے ہیں تو آپ کی حضرت اقدس محمد مصطفی کی تبلیغ کے سوا اور کوئی تبلیغ نہیں، وہی تبلیغ ہے جو مد عربی ﷺ کی تبلیغ ہے، وہی پیغام ہے جو قرآن کا پیغام ہے اور اسی پیغام کو ہم نے لازماً دنیا کے کناروں تک پہنچانا ہے.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ نَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْ فَقَدَّرَهُ تَقْدِیرا کہ وہی ذات ہے جس کے ہاتھ میں آسمان اور زمین کی ملوکیت کی چابیاں ہیں.وہی مالک ہے اور وہی بادشاہ ہے اور اس نے کوئی بیٹا نہیں اپنایا اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے.اس کی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک نہیں اور ہر چیز اسی نے پیدا فرمائی اور ہر چیز کے اندازے مقرر فرمائ.وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِةٍ أَلِهَةً لیکن ان بدنصیبوں کو دیکھو جو اس کے سوا معبود بنائے بیٹھے ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 270 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء اتنی بدنصیبی ہے اُس خدا کے مقابل پر جس کی شان کا اظہار ان آیات کریمہ میں فرمایا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیسے بد نصیب لوگ ہیں کہ اس کے سوا معبود بنائے بیٹھے ہیں لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُون وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے اور وہ تمام کے تمام پیدا کئے گئے ہیں.وَلَا يَمْلِكُونَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعَاوہ اپنے لئے نہ کوئی فائدہ رکھتے ہیں نہ نقصان ان کے ہاتھوں میں ہے.وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا موت کے بھی تو مالک نہیں وَلَا حَیٰوةً اور زندگی پر بھی اختیار نہیں رکھتے.وَلَا نُشُورًا اور پھر اٹھائے جانے پر بھی ان کو کوئی مقدرت حاصل نہیں.یہ عظیم الشان کلام توحید الہی کا ہے جس سے روح لرزہ براندام ہو جاتی ہے اور اس میں بڑی قوت کے ساتھ تو حید باری تعالیٰ کو دنیا کے تمام مذاہب باطلہ کے خلاف ثابت کیا گیا ہے اور مذاہب باطلہ سے میری مراد وہ مذاہب ہیں جو آغاز میں توحید ہی کے سرچشمے سے پھوٹے تھے مگر بدنصیبی سے رفتہ رفتہ بہتے بہتے دور ہوتے چلے گئے اور بالآخر یہاں تک پہنچے کہ وہ پہچانے نہیں جاتے.وہ پاک سر چشمہ جو تو حید کا سر چشمہ تھا، جو ہر مذہب کا سرچشمہ ہے وہ گدلا ہونا شروع ہوا، اس کی نئی شاخیں بنی شروع ہوئیں یہاں تک کہ توحید باری تعالیٰ پھیلتے اور پھر پھیلتے ہوئے شرک میں تبدیل ہو گئی.وہ بت خانے جو مختلف شہروں اور آبادیوں میں بنائے گئے، وہ بت خانے ایک ایک دل میں بن گئے اور آج انسانیت کی سب سے بڑی بدنصیبی ہے کہ انسان بحیثیت انسان شرک میں مبتلا ہو چکا ہے.دنیا کے مسائل کے حل سے متعلق آپ بڑی بڑی طاقتوں کے سربراہوں کی باتیں سنتے ہیں اور بڑے فخر کے ساتھ عظیم دنیاوی طاقتوں کی طرف سے اعلان کئے جاتے ہیں اس دنیا کے نئے نقشے کی تعمیر ہم کریں گے، میں خدا کی قسم کھا کے کہتا ہوں یہ جھوٹ ہے.دنیا اور نئی دنیا کی تعمیر صرف اور صرف محمد مصطفی ﷺ کی ذات کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہے.اس ذات کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہے جس نے اپنے وجود کومٹا کر تمام تن تو حید باری تعالیٰ میں مدغم کر دیا.پس تو حید کے سوا اس مرتی ہوئی دنیا کے لئے کوئی امرت نہیں، کوئی پانی نہیں جو اسے نئی زندگی بخش سکے، کوئی پیغام نہیں جو انسانیت کو ایک ہاتھ پر پھر اکٹھا کر سکے اور یہ عظیم الشان کام ہم عاجز بندوں کے سپر دفرمایا گیا ہے.ہمیں بہر حال یہ کرنا ہوگا کیونکہ اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو پھر دنیا میں اور کوئی یہ کام کرنے والا نہیں.ایک وہ وقت تھا جب جنگ بدر کے وقت حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ نے
خطابات طاہر جلد دوم 271 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء طاقتور دشمن کے مقابل پر یہ دعا کی تھی کہ اللهم ان اهلـكـت هــذه العصابة فلن تعبد في الارض ابدا (مسلم کتاب الجہاد والسیر حدیث: ۳۳۰۹) اے خدا! اگر تو نے ان عبادت کرنے والے بندوں کے گروہ کو آج ہلاک ہونے دیا تو پھر کبھی دنیا میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی.وہ تو حید کی عبادت، توحید خالص کے علمبردار، خدائے واحد کی عبادت کرنے والوں کا وہ خلاصہ تھا، وہ گر وہ تھا جو ساری کائنات کی جان تھی اور اس حقیقت میں ایک ذرہ بھی شک نہیں.اگر بفرض محال جیسا کہ الله آنحضرت ﷺ نے اپنی دعا میں ایک امکان کو نہیں پیش فرمایا، ایک فرض محال کو پیش فرماتے ہوئے خدا کی رحمت کو طلب کیا تھا اگر وہ ہلاک کر دیئے جاتے تو پھر دنیا میں خدائے واحد کی عبادت کبھی نہ کی جاتی.مختلف بندوں کو خدا بنانے والے مادر پدر آزاد ہو کر شرک میں ایسے ڈوب جاتے کہ پھر کبھی ان کو اس شرک کے سمندر سے نکالا نہیں جا سکتا تھا.یہ ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفی ﷺ ہی کا احسان ہے اس دنیا کو ایک نئی زندگی بخشی اور پھر خدائے واحد کی طرف بلایا اور بڑی شان کے ساتھ بلایا اور آج یہ کام اے احمد یو! اے احمدی عبادت کرنے والوں کی جماعت ! تمہارے سپرد کر دیا گیا ہے اگر تم اس سے غافل ہوئے تو اپنی ہلاکت کے تم ذمہ دار ہو گے لیکن اگر تم ہلاک ہوئے تو تو حید اس دنیا سے مٹا دی جائے گی اور میں جانتا ہوں کہ خدا کبھی ایسا نہیں ہونے دے گا.وہ خدا جس کو ہر دوسری چیز سے اپنی تو حید زیادہ پیاری ہے یہ ناممکن ہے کہ اپنے ان بندوں کو اس دنیا میں مٹنے دے جو اس کی توحید سے چھٹے ہوئے ہوں اس کی توحید اور تفرید ہی کے نتیجے میں آپ کو زندہ رکھا جائے گا، اسی کی برکت سے آپ کو دنیا پر غلبہ عطا ہو گا.جب تک آپ تو حید کے بندے ہیں جب تک آپ خدائے واحد کی وحدت کے ترانے گانے والے ہیں دنیا کی کوئی طاقت آپ کو گزند نہیں پہنچا سکتی.پس اس دامن کو مضبوطی سے پکڑلیں یہ وہ دامن ہے جس میں آپ کی نجات ہے اور ہمیشہ کے لئے آپ ہی کی نہیں بلکہ دنیا کی نجات اس دامن سے وابستہ ہو چکی ہے.توحید ہے کیا؟ جب تک آپ اس کو سمجھیں گے نہیں جب تک آپ توحید کی حقیقت سے آشنا نہیں ہوں گے، کیسے آپ خود تو حید پر قائم ہوں گے اور کس طرح آپ بنی نوع انسان کو تو حید کی طرف بلائیں گے.اس غرض سے کہ آپ کو توحید کے باریک نکات سمجھاؤں، اس سے پہلے بھی میں نے بعض خطبات دیئے اور آج اس اہم جلسہ کی تقریر کے لئے میں نے کچھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ
خطابات طاہر جلد دوم 272 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء والسلام کی تحریروں میں سے اقتباسات لئے ہیں جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی تعلیم کا عرفان رکھنے والے کلمات ہیں.وہ ایسے کلمات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے دل سے نہیں پھوٹے بلکہ پہلے اس بادی کامل سے آپ نے ہدایت پائی اور پھر اسی کی زبان کو سمجھ کر نئے رنگ میں دنیا کے سامنے اس طرح سمجھا سمجھا کر پیش کیا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا کلام رہتی دنیا تک ایک انسان سے دوسرے انسان تک مختلف پیمانوں میں پہنچتا رہے.کہتے ہیں کہ پرانی شراب نئی بوتلوں میں بٹتی رہے، اگر یہ بات درست ہے کہ پرانی شراب کی کوئی قیمت ہے اگر نئی بوتلوں میں پرانی شراب کا بانٹنا پرانی شراب کی بہتک نہیں بلکہ اس کی شان کو بڑھانے والی بات ہے.تو یہ نئی بوتلیں جو آج مسیح موعود نے آپ کے ہاتھوں میں تھمائی ہیں ان میں وہی شراب کہنہ ہے جو محمد مصطفیٰ کی توحید کی شراب ہے اس کے سوا اور کوئی شراب نہیں.جب تک اس شراب سے بھر بھر کے گھونٹ نہیں پئیں گے، جب تک اس میں مست ہو کر تمام دنیا میں یہ شراب کے پیمانے ہاتھوں میں لے کر نہیں نکلیں گے اور دنیا کو اس شراب سے مدہوش نہیں کریں گے یہ دنیا واپس خدا کی طرف نہیں آئے گی اور اس دنیا کی نجات کے اور کوئی سامان ممکن نہیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اسلام وہ مصفا اور خالص تو حید لے کر آیا تھا جس کا نمونہ اور نام ونشان بھی دوسرے ملتوں اور مذہبوں میں پایا نہیں جاتا.یہاں تک کہ میرا ایمان ہے کہ اگر چہ پہلی کتابوں میں بھی خدا کی تو حید بیان کی گئی ہے اور کل انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض اور منشاء بھی تو حید ہی کی اشاعت تھی لیکن جس اسلوب اور طرز پر خاتم الانبیاء ﷺہ توحید لے کر آئے اور جس نہج پر قرآن نے توحید کے مراتب کو کھول کھول کر بیان کیا ہے کسی اور کتاب میں اُس کا ہر گز پتا نہیں ہے.پھر جب ایسے صاف چشمے کو انہوں نے مکڈ ر کرنا چاہا ہے تو بتاؤ اسلام کی تو ہین میں کیا باقی رہا.اس پر ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ جب ان کو وہ اصل اسلام جو آنحضرت مال لے کر آئے تھے پیش کیا جاتا ہے اور قرآن شریف کے ساتھ ثابت کر کے دکھایا جاتا ہے کہ تم غلطی پر ہو تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اسی طرح مانتے آئے ہیں...“
خطابات طاہر جلد دوم 273 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء جب انہیں کہا جاتا ہے کہ داتا کے مزاروں میں کچھ نہیں ، اس خدا سے مانگو جو تمہارے داتا کا داتا تھا جو تمام کائنات کا داتا تھا تو وہ تمسخر کرتے ہوئے منہ موڑ کر چلے جاتے ہیں.وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وزارتیں بھی اسی داتا سے ملتی ہیں اور ولایتیں بھی اسی داتا سے ملتی ہیں اور اولادیں بھی اسی داتا سے ملتی ہیں.یہی ان کی مقدرت کی حد ہے اس سے آگے نہیں بڑھتے اور پھر بھی حضرت محمد مصطفی مے کے چشمہ توحید سے منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وو..تم غلطی پر ہو تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اسی طرح مانتے آئے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ کیا اتنی بات کہہ کر یہ اپنے آپ کو بری کر سکتے ہیں؟ نہیں بلکہ قرآن شریف کے موافق اور خدا تعالیٰ کی سنت قدیم کے مطابق اس قول سے بھی ایک حجت ان پر پوری ہوتی ہے جب کبھی کوئی خدا کا مامور اور مرسل آیا ہے تو مخالفوں نے اس کی تعلیم کو سن کر یہی کہا ہے مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِى أَبَا بِنَا الاَوَّلِينَ (مومنون: ۲۵) (ملفوظات جلد۲ صفحه: ۱۸۸تا۱۸۹) کہ ہم نے تو اپنے پہلے آبا واجداد میں کبھی ایسی باتیں نہیں سنی تھیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یادر ہے کہ حقیقی تو حید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بُت ہو، خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو منزہ سمجھنا.“ ہر باطل خدا کے انکار سے اسلام کا آغاز ہوتا ہے.لا الہ الا اللہ ، جب تک لا اللہ کا اثبات نہ کریں، جب تک لا الہ کے مفہوم اور اس کی معرفت کو خود سمجھ کر اپنی ذات میں جاری نہ کریں اس وقت تک الا اللہ کا اقرار بالکل بے معنی ہے کیونکہ خدا کا رنگ دوسروں کے ساتھ مل کر نہیں چڑھا کرتا.یہ وہ رنگ نہیں ہے جس کو آپ ہر رنگے ہوئے کپڑے پر ڈال دیں تو کچھ نہ کچھ اپنا رنگ اس پر دکھائے گا.یہی توحید کا مفہوم ہے کہ یہ رنگ تنہائی چاہتا ہے، یہ اکیلا ہے.یہ رنگ کسی شریک کو
خطابات طاہر جلد دوم 274 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء برداشت نہیں کرتا، یہ وہ رنگ ہے جب تک کپڑا صاف اور پاک اور ہر داغ سے منزہ نہ ہو جائے اس پر نہیں چڑھتا.اس لئے خدا کی توحید کے علمبرداروں کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اپنے نفس کو دلی خیالات سے پاک اور صاف کرتے رہیں، اپنا جائزہ لیتے رہیں کہ ہمارے ہاں اور کون کون سے بت ہیں جو بھی توڑنے والے باقی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان ظاہری بتوں کا ذکر بھی فرمایا اور باطنی بتوں کا ذکر بھی فرمایا.فرماتے ہیں.خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس...“ اور یہ اپنا نفس انسان کی عبادت میں سب سے بڑا معبود بن کر اس کے لئے ظاہر ہوتا ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ کیسے بد نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنی نفسانی تمناؤں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور آج سب سے بڑا خدا تعالیٰ کی توحید پر ڈاکہ ڈالنے والا بت ، ویسے تو خدا کی توحید پر کوئی ڈاکہ نہیں ڈال سکتا مگر ان معنوں میں ڈاکہ ڈالنے والا کہ خدا کے بندوں کو ہتھیا کر لے جانے والا ، خدا کے بندوں کو خدا سے اپنانے والا بت اگر کوئی ہے تو وہ انسانی نفس کا بت ہے اس سے بڑا مکر وفریب والا اور کوئی بت نہیں.پھر فرماتے ہیں....یا اپنی تدبیر اور مکر وفریب ہو( یہ اسی بت کی پیداوار ہیں جو انسانی نفس کا بت ہے ان سب سے ) منزہ سمجھنا، ان سب سے پاک سمجھنا ) اور اُس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا ، کوئی رازق نہ ماننا...“ کسی مشکل میں مبتلا ہوں ، کوئی کام در پیش ہو، کوئی مرحلہ زندگی کا سامنے کٹھن آئے ہر بات میں اگر انسان خالصہ خدا کے حضور گہرے اقرار اور صدق وصفا کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ اے خدا! تو میرا قادر خدا ہے اور یہ باقی سب وسیلے اگر میں اختیار کرتا ہوں تو تیری ہدایت اور تیرے ارشاد پر ان کو اخذ کرتا ہوں، ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں یہ میرے خدا نہیں ہیں.یہ وہ واضح سوچ ہے جس کے بغیر انسان کی ذات میں تو حید ثبات نہیں پکڑ سکتی اور زندگی کے ہر فیصلے سے اس سوچ کا گہرا تعلق ہے.روزمرہ کی زندگی میں ہم ہمیشہ بارہا آزمائے جاتے ہیں اور بسا اوقات خدا کے موحد بندے بھی بدنصیبی میں غیر شعوری حالت میں دوسرے بتوں کو بھی سجدے کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر کعبتہ اللہ کی طرف بھی سفر جاری رہتا ہے.
خطابات طاہر جلد دوم 275 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء جب تک ہم خدا کی طرف پاک وصاف ہو کر خالصہ اللہ ہوکر منہ نہ کر لیں اس وقت تک ہماری عبادتوں میں رخنے پڑتے چلے جائیں گے.یہ تو ہم عرض کر سکتے ہیں کہ اے خدا ہم کمزور ہیں، ہم داغدار ہیں ، ہم گنہ گار ہیں تو ہماری کمزوریوں سے صرف نظر فر مالیکن محض یہ دعا کافی نہیں.جب تک خدا سے نور نہ مانگیں، خدا سے ہدایت طلب نہ کریں ، اس سے طاقت حاصل نہ کریں اور اس سے یہ شعور نہ مانگیں کہ ہم اپنے نفس کے پیچ در پیچ اندرونی حالات سے واقف ہو جائیں اور اپنی نیتوں کے بل اور فریب سے پوری طرح آگاہ ہو جائیں، یہ وہ مشکل سفر ہے جسے لا الہ کا سفر قرار دیا جاسکتا ہے.بے انتہابت ہیں جو انسان کی زندگی میں اُس کے نفس میں چھپے پڑے ہیں.ان بتوں کو ایک ایک کو تلاش کر کے اس کا سر پاش پاش کرنا یہ موحد کا کام ہے اور جہاں ایک بت ٹوٹے گا وہاں خدا کا ایک جلوہ آپ کی ذات میں ظاہر ہو گا.یہ وہ توحید کا سفر ہے جس کی طرف میں تمام بنی نوع انسان کو بلا تا ہوں اور جماعت احمدیہ کو تاکید کرتا ہوں کہ تمام بنی نوع انسان کو بلانے سے پہلے اپنے دلوں کو توحید خالص کے لئے خدا کے حضور پیش کر دیں اور اپنے ہر باطل بت کو پاش پاش کر دیں.جب تک وہ خالص نہیں ہوتے بنی نوع انسان کو خالص کرنے کا حق نہیں رکھتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.وو...اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا کوئی رازق نہ ماننا...“ وہی ہے جو روزی دیتا ہے اسی کے ہاتھ میں تمام دولتیں ہیں، رزق کے تمام سر چشمے اس کے ہاتھ میں ہیں ، وہ چاہے تو رزق وافر دے وہ چاہے تو رزق چھین لے.جب وہ رزق چھینتا ہے تو بڑی بڑی قوموں کی بھی کچھ پیش نہیں جاتی.آج کل انسان بحیثیت مجموعی جس اقتصادی بحران کا شکار ہو رہا ہے وہ لوگ جو اقتصادیات پر نظر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بڑی بڑی حکومتوں کے کوئی منصوبے خدا تعالیٰ کی تقدیر کے سامنے کچھ کام نہیں کر سکتے.وہ جتنی چاہیں تدبیریں کریں جتنی چاہیں سربراہی کانفرنسیں منعقد کریں ، جب خدا کی طرف سے یہ حکم آتا ہے کہ دنیا کو رزق کی تنگی دی جائے اور اس طرح اسے خدائے واحد کی طرف واپس لانے کی کوشش کی جائے تو پھر تمام دنیا کی طاقتیں بیکار ہو جاتی ہیں، ان کے سارے منصوبے باطل ہو جاتے ہیں، ان کو ہوش نہیں آتی ، ان کو عقل نہیں رہتی ، ان کی ساری تعلیمات صفر کی طرح ہو جاتی ہیں اور انسان کو اگر خدا چاہے کہ ایک عالمی اقتصادی
خطابات طاہر جلد دوم 276 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء بحران میں مبتلا کیا جائے تو وہ لازماً اس میں مبتلا ہو گا.وہ بحیثیت مجموعی اس کی طرف دھکیلا جائے گا اور اس کے نتیجے میں پھر جو خوفناک نتائج نمودار ہوں گے ، خوفناک جنگوں میں جھونکا جائے گا.یہ سب خدا کی طرف سے ظلم کے طور پر نہیں بلکہ انسان کے شرک کے ظلم کے نتائج ہیں جو اسے دکھائے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:...کوئی معز اور کوئی مذل خیال نہ کرنا...“ خدا کے مقابل پر نہ کوئی عزت دینے والا ہے نہ کوئی ذلت دینے والا ، جو خدا کے ہو جاتے ہیں وہ دنیا کی عزتوں اور دنیا کی ذلتوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں انہیں کسی اور عزت اور ذلت کی پرواہ نہیں رہتی.وو...کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا...“ وہی ہے جو نصرت فرماتا ہے ، وہی ہے جو مصیبت زدہ کی مدد کرتا ہے.وو...اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اسی سے خاص کرنا...یہ وہ لا اللہ کا یعنی کلمہ طیبہ کا دوسرا جز ہے الا اللہ محض منفی کوششوں تک نہ ٹھہر جانا اپنے دلوں سے بھی دوسرے بتوں کو نکال باہر پھینکنا اس سفر کی پہلی منزل ہے.اس کے معا بعد دوسری منزل میں داخل ہونا ضروری ہے اور وہ منزل ہے اللہ تعالیٰ کی خالص محبت دل میں پیدا کرنا اور خدا کی خالص محبت ان دلوں میں جاگزیں ہو ہی نہیں سکتی ، ان دلوں میں پناہ لے ہی نہیں سکتی جن دلوں میں غیر کی محبت موجود ہو.پس یہ ایک منطقی نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نکالا کہ پہلے باطل خداؤں کو دل سے نکال باہر پھینکو پھر خدا کی محبت کے طلبگار ہو....اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا، اپنا تدل اسی سے خاص کرنا...“ لوگ دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں، تو میں مرعوب ہو جاتی ہیں اور ان کے سامنے تذلل اختیار کرتی ہیں اور انسان حیرت سے دیکھتارہ جاتا ہے کہ کل تک یہ لوگ کس طرح سرفرازی کے دعوے کرتے تھے اور آزادی کے دعوے کرتے تھے اور یہ کہا کرتے تھے کہ نہ ہمیں امریکہ کی پرواہ ہے، نہ ہمیں انگلستان کی پر واہ ہے، نہ ہمیں جاپان کی پرواہ ہے، نہ چین کی پرواہ ہے، کون ہے جو ہمارے معاملات میں دخل دے لیکن جب حالات بدلیں اور وہ مجبور ہو جائیں ان سے
خطابات طاہر جلد دوم 277 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء کسی مدد کے طالب ہونے پر یا ان کے کسی شر سے بچنے پر تو ایسے تذلل سے ان کے سامنے گر جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہی انسان جو کل تک بڑے بڑے دعوے کرتا تھا، اب کس طرح معبودان باطلہ کے سامنے جھک کر ذلیل و خوار ہو چکا ہے اور یہ صرف حکومتوں کی بات نہیں.حکومتیں مجموعہ ہیں انسانی سوچ کا ، ہر ملک کے باشندے جو سوچ رکھتے ہیں جوطر زفکر رکھتے ہیں، جو ان کا قبلہ ہے وہی ان کی حکومتوں کے طرز عمل میں منعکس ہوتا ہے.پس حکومتوں کے یہ رویے اگر عوام الناس برداشت کرتے ہیں تو دراصل وہ جانتے ہیں کہ یہی ہماری آخری تمنا ہے.ہمیں روٹی ملے خواہ ذلت اور رسوائی کے ساتھ ملے ہمیں طاقت نصیب ہو خواہ غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر طاقت نصیب ہو، ہمیں اس دنیا کی دولتیں ملیں خواہ غیروں کے بھکاری بن کر یہ دولتیں ملیں ، ہمیں پیٹ کی روٹی ملے خواہ اس کے لئے مشرق کے سامنے بھی ہاتھ پھیلا نا پڑے اور مغرب کے سامنے بھی ہاتھ پھیلا نا پڑے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں یہ سارے جھوٹے خدا ہیں.ان سے جب تک تو بہ کر کے خدا ہی کو اپنا رازق نہ بنایا جائے ، اسی کو سب عزتوں کا مالک نہ بنایا جائے ،سب ذلتوں کا اختیار اسی کے ہاتھ میں نہ سمجھا جائے اس وقت تک انسان تو حید کامل کو اختیار نہیں کر سکتا اور جب یہ ہو جائے تو پھر خدا کی محبت دل میں اس طرح موجزن ہوتی ہے جیسے سمندر کی لہریں طوفانوں کے وقت موجزن ہوا کرتی ہیں.کوئی غیر وہاں نہیں رہتا خدا کی بادشاہی ہے جو اس دل پر قائم ہوتی ہے اور اس کی موج کی ہر حرکت اس کی طرف ہوتی ہے پھر فرماتے ہیں.دو...اپنا تذلل اسی سے خاص کرنا ، ( اسی کے سامنے جھکنا اور غیر کے سامنے نہ جھکنا ) اپنی امیدیں اسی سے خاص کرنا ، اپنا خوف اسی سے خاص کرنا.پس کوئی تو حید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہوسکتی...“ وہ تین کون سی قسمیں ہیں جو ابھی بیان ہو گئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.وو...اول ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو هالكة الذات اور باطلة الحقیقت خیال کرنا.“
خطابات طاہر جلد دوم 278 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے سوا جتنی موجودات ہیں ان کو فی ذاتہ کچھ نہ سمجھنا یہ کامل یقین رکھنا کہ خدا کی ذات سے قائم ہیں.اپنی ذات میں ان کے اندر قیام کی کوئی استطاعت، کوئی طاقت نہیں اگر خدا نہ چاہے تو آن واحد میں بلکہ آن واحد کے تصور سے بھی پہلے یہ کالعدم ہوسکتی ہیں، ساری کائنات کالعدم ہوسکتی ہے.اس یقین کو دل میں جاگزیں کرنے کا نام تو حید خالص ہے اور تمام کو هالكة الذات اور باطلة الحقیقت خیال کرنا یہ اسی مضمون کی تشریح ہے.وو دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا.“ حقیقت یہ ہے کہ ربوبیت اور الوہیت ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ملی ہوئی ہیں کہ جو انسان غیر اللہ کو اپنا رب بناتا ہے لازماً اس کی عبادت کرتا ہے اور جو غیر کی عبادت کرتا ہے اسی کو اپنا رب سمجھتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دونوں بنیادی صفات اکٹھی اس لئے بیان فرمائیں تا کہ ہم اپنی دنیا کے معاملات میں ہمیشہ نگران اور متنبہ رہیں کہ جب تک ربوبیت کو خدا سے خالص نہیں کیا جاتا ہماری عبادت اس اللہ واحد کے لئے خاص نہیں ہو سکتی.پھر فرمایا....ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری تعالیٰ کسی میں قرار نہ دینا اور جو بظاہر رب الانواع یا فیض رساں نظر آتے ہیں یہ اسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا...“ کہ دنیا میں جو وسیلے ہیں ربوبیت کے اور ملوکیت کے اور دیگر اقتدار کے، یہ یقین کر لینا کہ خدا کی مرضی اور منشا کے بغیر یہ کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتے اور اسی کے بنائے ہوئے وسیلے ہیں....تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وو وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گردانا اور اسی میں کھوئے جانا..(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ: ۳۵۰،۳۴۹) سیہ وہ صفات حسنہ ہیں ایک موحد کی جن پر ساری دنیا کی حیات کا دارو مدار ہے، تمام دنیا کی بقا کا دار ومدار ہے اور ہر احمدی کو اس حقیقت کا عرفان حاصل کرنا ہوگا اور اس حقیقت کو اپنی زندگی میں جاری کرنا ہو گا.ورنہ تمام دعاوی جو بنی نوع انسان کی بہبود کے ہم کرتے ہیں وہ سارے بے معنی اور
خطابات طاہر جلد دوم بے حقیقت ہو جائیں گے..279 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء آنحضور یہ تو حید کے ایسے عاشق تھے کہ دنیا میں کبھی کوئی ایسا عاشق پیدا نہیں ہوا.آپ کی اس محبت کو دیکھ کر آپ کے مخالفین اور آپ کے معاندین نے آپ کو مجنون کہا اور اس مجنون ہونے کی تشریح ان الفاظ میں کی کہ عشق محمد ربه (غزالی:۱۵۱) کہ یہ عشق کا جنونی ہے، یہ اپنے رب پر عاشق ہو گیا ہے.وہ جو آپ کی جان کے دشمن تھے جو آپ کے پیغام کو مٹانے کے درپے تھے ، آپ کے ماننے والوں کو ایک آنکھ دیکھنا برداشت نہیں کر سکتے تھے ان کی طرف سے کتنا بڑا اعتراف حقیقت ہے.ان میں سے ہر ایک کا دل گواہی دیتا تھا کہ اگر یہ مجنون ہے تو جنون عشق کا مارا ہوا ہے اور اسے اپنے رب سے عشق ہو چکا ہے.یہی وہ محبت خالص ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام آپ کو بلاتے ہیں اور اسی کا تذکرہ ہے جو پہلے پیش کردہ عبارت میں گزرا ہے.صحابہ بیان کرتے ہیں ایک موقع پر حضرت اقدس محمد مصطفی علی سٹیج پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی توحید اور تفرید کا ذکر شروع کیا، اس کے جلال اور جمال کے گیت گائے اور ایسا اس میں کھوئے گئے کہ جوش اور طاقت کے ساتھ سارا منبر لرزہ براندام ہو گیا اور ہم یہ خوف کرنے لگے کہ اس جوش اور قوت سے یہ منبر ٹوٹ کر پارہ پارہ ہو جائے گا اور آنحضور ﷺ کو گر کر تکلیف نہ پہنچے.پس اس خیال سے ہم دل میں بس بس کہتے تھے کہ یا رسول اللہ آپ نے پیغام کا حق ادا کر دیا، آپ نے خدا کی تو حید اور تفرید کے گیت خوب الا پے اور بڑی شان کے ساتھ اس کا ذکر کیا لیکن یا رسول اللہ کہیں آپ کو چوٹ نہ لگ جائے کوئی تکلیف نہ پہنچے.ایسی کیفیت تھی جو بیان کرنے والے نے اس سے بہتر الفاظ نہ پائے بیان کرنے کے کہ ہمیں ڈر تھا کہ آپ کے جوش اور آپ کی خدا کے حضور گریہ وزاری اور بے انتہا ہا تھ سے نکلے ہوئے ولولے کے نتیجے میں ایسی عظیم طاقت پیدا ہوئی تھی کہ وہ مضبوط منبر جس پر آپ کھڑے تھے ہمیں ڈر تھا کہ وہ پارہ پارہ ہوکر زمین پر جا پڑے گا.(مسند احمد : ۸۸/۲) حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا کہ للہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو میں نے اپنی ذات پر ظلم حرام کر رکھا ہے اور میں نے اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو.(مسلم کتاب البر والصلہ حدیث :۴۶۷۴)
خطابات طاہر جلد دوم 280 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اتنا رحیم وکریم ہے، اس نے اپنی ذات پر ظلم حرام کر رکھا ہے تو دنیا میں یہ کیا مصائب ہیں انسان کتنی مصیبتوں کا شکار ہے، کتنے دکھوں میں مبتلا ہے.ان کا جواب حضوراکرم علیہ کے اس سادہ سے دو نکتوں کے بیان میں آجاتا ہے.فرماتا ہے! میں نے اپنی ذات پر ظلم کو حرام کر رکھا ہے، تم پر بھی حرام قرار دیا ہے.اگر ظلم ہوگا تو تم ظلم کرو گے، میری رحمت کے سائے میں آنا چاہتے ہو تو ظلم سے باز آؤ.پس دنیا میں جتنے مظالم ہیں انسان ان کا خالق ہے.انسان کے ہاتھ جب تک ظلم سے نہیں رو کے جاتے اس وقت تک بنی نوع انسان کو کہیں امن نصیب نہیں ہوسکتا.کوئی ظلم نہیں ہے جو خدا کی طرف سے اترتا ہو، یہ سارے وہ ظلم ہیں جو زمین سے پیدا ہوتے ہیں اور انسان ایک دوسرے کو ان ظلموں کے ذریعے ہلاک کرتا ہے.پس جن خطرات کی میں نے نشاندہی کی ہے جن کی طرف دنیا بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے وہ انسان ہی کے مظالم ہیں.ان کا ایک ہی حل ہے کہ خدائے واحد و یگانہ کی طرف بنی نوع انسان کو واپس بلایا جائے، وہیں امن ہے اور وہیں ہمیشہ کی نجات ہے.جب تک ہم خدا کی طرف واپس نہیں لوٹتے ، اس کی توحید کو دنیا میں دوبارہ قائم نہیں کرتے ہماری بقا کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ فرماتے ہیں کہ خدا نے مجھے فرمایا، یہ حدیث قدسی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کے علاوہ بھی آپ سے کلام فرمایا اور اس تمام کلام کو حدیث قدسی کہا جاتا ہے یعنی وہ مقدس کلام جو خدا تعالیٰ نے آپ کے دل پر نازل فرمایا.فرماتے ہیں خدا کہتا ہے: ”اے میرے بندو تم سب گم گشتہ راہ ہو سوائے ان لوگوں کے جن کو میں صحیح راستے کی ہدایت دوں.“ یہ مضمون جوں جوں آگے بڑھے گا اور جوں جوں آپ اس پر غور کریں گے آپ پر یہ راز کھلتا چلا جائے گا کہ یہ تو حید ہی کا مضمون ہے اور توحید کا مضمون اس شان اور اس رفعت کے ساتھ اس سے پہلے کہیں اور بیان نہیں ہوا.سوائے اس کے کہ کلام پاک میں بیان ہوا ہو اور اسی کلام پاک کی یہ تشریحات ہیں جو خدا تعالیٰ نے مختلف رنگ میں حضور اکرم ﷺ کے قلب مطہر پر نازل فرمائیں.فرماتے ہیں اللہ کہتا ہے.”اے میرے بندو! تم سب گم گشتہ راہ ہو سوائے ان لوگوں کے جن کو
خطابات طاہر جلد دوم 281 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء میں صحیح راستے کی ہدایت دوں.پس مجھ سے ہدایت طلب کرو اور کوئی نہیں ہے جو ہدایت دینے والا ہو میں تمہیں ہدایت دوں گا.اے میرے بندو! تم سب بھو کے ہو سوائے اس کے جس کو میں کھانا کھلاؤں...“ عجیب شان کا کلام ہے بظاہر وہ بڑی بڑی طاقتیں اور وہ دنیا کی عظیم قو میں ہیں جن کے ہاں رزق کی ریل پیل ہے اور اتنی فراوانی ہے کہ جتنا رزق ان کے ہاں روز ضائع ہوتا ہے اس پر قو میں سالوں گزارہ کر سکتی ہیں لیکن خدا کے کلام کی شان دیکھیں فرماتا ہے تم سب بھو کے ہو سوائے اس کے جس کو میں کھانا کھلاؤں.پس خدا ہی ہے جو انہیں کھانا کھلاتا ہے اور جب وہ اس کھانے کی ناقدری کرتے ہیں تو جوسزا ان کو ملتی ہے وہ خود اس سزا کے خالق ہیں اور وہ جو بھو کے ہیں ان کی بھوک کے بھی وہی ذمہ دار ہیں کیونکہ خدا نے ربوبیت کا جو نظام جاری فرمایا ہے وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے مشترک ہے.وہ نہ کسی گورے کے لئے ہے نہ کسی کالے کے لئے ہے، نہ سفید کے لئے نہ سرخ کے لئے وہ خدا کے سب بندوں کے لئے ہے.پس رزق کے سرچشموں پر جو قبضہ کر لیتے ہیں وہ اپنے حق سے زائد پر قبضہ کرتے ہیں.خدا نے تمام بنی نوع انسان کے کھانے کے جو سامان کئے ہیں ان پر چند لوگ قابض ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ وہ ظلم ہے جس سے آگے ان کی ہلاکت کے سامان پیدا ہوتے ہیں.فرماتا ہے.پس مجھ سے ہی رزق طلب کرو میں تم کو رزق دوں گا...“ پس وہ لوگ جو اپنے آپ کو محروم جانتے ہیں ان کے لئے کتنا بڑا نجات کا گر اس میں بیان ہو گیا.جب غریب قومیں اپنے آپ کو رزق سے محروم دیکھتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان کے دل کا طبعی فوری ردعمل کیا ہوتا ہے؟ اگر وہ خدائے واحد کے پجاری ہیں اگر وہ خدا ہی کو رازق مانتی ہیں تو خدا پر ان کا رزق لازم ہے اور خدا نے اپنی ذات پر ان کا رزق فرض فرمالیا ہے لیکن وہ اس امتحان میں ناکام ہوتے ہیں وہ ان امیر قوموں کی طرف دوڑتے ہیں اور ان کے ہاتھ ان کے سامنے کشکول لے کر پہنچتے ہیں اور گریہ وزاری سے ان سے رزق طلب کرتے ہیں.تو وہ جو بظاہر مظلوم دکھائی دیتے ہیں وہ جو بغیر رزق کے دکھائی دیتے ہیں وہ اس لئے ہیں کہ خدا سے نہیں مانگتے.جبکہ آنحضرت ﷺ نے خدا کا صیات یہ پیغام تمام بنی نوع انسان تک پہنچا دیا کہ جب تم رزق کے بغیر اپنے آپ کو دیکھ تو بندوں کی طرف نہ
خطابات طاہر جلد دوم 282 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء دوڑا کرو، میری طرف دست طلب دراز کرو، میں ہی ہوں جو تمہیں رزق عطا کرے گا.”اے میرے بندو تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جس کو میں لباس پہناؤں.“ وہی رزق کا مضمون ہے جو لباس کی صورت میں آپ کے سامنے پیش فرمایا گیا.”اے میرے بندو تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جس کو میں لباس پہناؤں پس مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا.اے میرے بندو ! تم دن رات غلطیاں کرو تو بھی تمہارے گناہ بخش سکتا ہوں پس مجھ سے ہی بخشش مانگو میں تمہیں بخش دوں گا.“ اسی خدا کے سامنے بخشش کے طلبگار ہوں گے تو آپ کے تمام گناہ وہ بخش سکتا ہے.کتنی بڑی آزادی کا پیغام ہے حقیقت میں توحید تمام بنی نوع انسان اور ہر غیر اللہ سے آزادی کا نام ہے.لا اللہ کا دوسرا معنی آزادی ہے.کوئی شخص تو حید کے بغیر دنیا میں آزاد نہیں ہوسکتا اگر توحید کامل کا غلام نہیں ہوگا تو لازماً دوسری غلامیوں میں جکڑا جائے گا.پھر فرماتے ہیں: ”اے میرے بندو! تم مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کہ نقصان پہنچانے کا ارادہ کرو اور نہ ہی تم مجھے نفع پہنچا سکتے ہو کہ نفع پہنچانے کی کوشش کرو.اے میرے بندو! اگر تمہارے سب اگلے اور پچھلے جن وانس سب کے سب اول درجہ کے متقی اور پر ہیز گار بن جائیں اور اس شخص کی طرح بن جائیں جو تم میں سے سب سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہے.“ جانتے ہیں کیا پیغام ہے؟ وہ خدا کا بندہ جو یہ پیغام ہمیں پہنچارہا تھا وہ وہی تھا جو تمام بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ خدا کا تقویٰ رکھتا تھا.خدا فرماتا ہے اگر تم سارے اس محمد کی طرح ہو جاؤ جو تقویٰ میں تم سب سے بالا ہے تب بھی فرماتا ہے.وو سب سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہے تو تمہارا ایسا ہو جانا میری بادشاہت میں ایک ذرہ بھر اضافہ نہیں کر سکتا.“ خدا کی بادشاہت کسی متقی کی محتاج نہیں ہے، ہر بادشاہت خدا کی محتاج ہے اور ہر متقی خدا کا
خطابات طاہر جلد دوم 283 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء محتاج ہے.یہ وہ تو حید خالص ہے جس کا پیغام حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے خدا سے پا کر اس صلى الله شان کے ساتھ ہمیں پہنچایا.پھر حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی.”اے میرے بندو! اگر تمہارے سب اگلے اور پچھلے جن وانس تم میں سے جو سب سے زیادہ بدکار ہے اس کے قلب بدنہاد کی طرح ہو جائیں.“ ایک طرف تقویٰ کا مضمون بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کو پیش فرمایا پھر بغیر نام لئے یہ بتایا کہ بنی نوع انسان میں جو سب سے زیادہ بدنہاد اور بدکردار ہے جس کا قلب سیاہ ایسا ہے کہ اس سے زیادہ سیاہی کا تصور نہیں کیا جاسکتا اگر تم سارے اس کی طرح ہو جاؤ فرماتا ہے.تو بھی میری بادشاہت میں کسی چیز کی کمی نہیں کر سکتے.“ ( یہ ہے تو حید خالص ) ”اے میرے بندو ! اگر تمہارے سب اگلے اور پچھلے جن وانس ایک میدان میں اکٹھے ہو جائیں اور مجھ سے حاجات مانگیں اور میں ہر ایک انسان کی حاجات پوری کردوں تو بھی میرے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہیں آئے گی جتنی سمندر میں سوئی ڈال کر اس کو باہر نکالا جائے تو سمندر کے پانی میں اس پانی کی وجہ سے کمی آسکتی ہے جو سوئی کی نوک سے لگارہ جائے.اے میرے بندو یہ تمہارے اعمال ہیں جن کا میں نے حساب کیا ہے میں تم کو ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا.پس جس شخص کا اچھا نتیجہ نکلے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور جو شخص اس کے علاوہ کوئی اور چیز پائے یعنی ناکامی کا منہ دیکھے تو اپنی ہی ذات کو ملامت کرے کہ اس کی اپنی ہی بد عملی کا نتیجہ ہے.(مسلم کتاب البر والصلة باب تحریم انظام حدیث: ۴۶۷۴) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اے غافلو اور دلوں کے اندھو! قرآن جیسے ضلالت کے طوفان کے وقت میں آیا ہے کوئی نبی ایسے وقت میں نہیں آیا.اس نے دنیا کو اندھا پایا اور روشنی بخشی اور گمراہ پایا اور ہدایت دی اور مردہ پایا اور جان عطا فرمائی.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۵۶) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
خطابات طاہر جلد دوم 284 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء ضرور ہے کہ جھگڑے ہوں اور اختلاف ہو مگر آخر سچائی کی فتح ہے.“ خدا کے موحد بندوں کے رستے آسان نہیں ہوا کرتے.ان کی راہ میں کانٹے بوئے جاتے ہیں اور دنیا اپنی تمام طاقتوں کو بروئے کار لا کر ان کی راہ روکنے کی کوشش کرتی ہے اور منزل پر پہنچنے سے پہلے ان کو دنیا سے نیست و نابود کرنے کی پوری کوشش کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں تمہیں اس سفر کے خطرات سے بھی آگاہ کرتا ہوں اور اس کے پاک انجام سے بھی ، فرمایا: ضرور ہے کہ جھگڑے ہوں اور اختلاف ہومگر آخر سچائی کی فتح ہے کیونکہ یہ امر انسان سے نہیں ہے اور نہ کسی آدم زاد کے ہاتھوں سے بلکہ اس خدا کی طرف سے ہے جو موسموں کو بدلا تا اور وقتوں کو پھیرتا اور دن سے رات اور رات سے دن نکالتا ہے.وہ تاریکی بھی پیدا کرتا ہے مگر چاہتا روشنی کو ہے، وہ شرک کو بھی پھیلنے دیتا ہے مگر پیار اس کا توحید سے ہی ہے اور نہیں چاہتا کہ اس کا جلال دوسرے کو دیا جائے جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے اس وقت تک کہ نابود ہو جائے خدا کا قانون قدرت یہی ہے کہ وہ توحید کی ہمیشہ حمایت کرتا ہے.( مسیح ہندوستان میں روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ:۶۵) پس آپ کی کامیابی کا راز توحید میں ہے آپ کی فلاح و بہبود کی جان توحید میں ہے.آپ نے اگر دنیا پر غالب آتا ہے تو محض توحید کی برکت سے غالب آنا ہے اور تو حید کو غالب کرنے کی خاطر غالب آنا ہے نہ کہ خود غالب ہونے کی خاطر.جہاں آپ کے اپنے غلبے کا فتنہ آپ کے دل کو مجروح کر دے، جہاں اس ابتلا میں پڑ کر آپ اپنی جان کھو دیں و ہیں تو حید کا سفر ختم ہو جائے گا اور انانیت کا سفر شروع ہو جائے گا اور پھر آپ کی فلاح و بہبود اور آپ کی بقا کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.پس یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ تو حید کی ہمیشہ حمایت کرتا ہے.اگر آپ چاہتے ہیں کہ خدا آپ کی حمایت کرے اور آپ کو فتح مند کرے اور آپ کو تمام دنیا میں تو حید خالص کا پیغام پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے تو اسی سے توفیق مانگیں اور تو حید پر قائم ہوجائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک الہام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ تاکید فرمائی خُذُوا التَّوْحِيدَ التَّوْحِيدَ يَا أَبْنَاءَ الفَارِسِ ( تذکرہ صفحہ: ۱۹۷) اے فارس کے بیٹو! تو حید کو پکڑو تو حید کو پکڑو اور مضبوطی سے تو حید کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ
خطابات طاہر جلد دوم 285 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء اس کے سوا کوئی نجات کی راہ نہیں ہے.فارس کے بیٹوں میں اول درجے پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے اور پھر وہ سارے احمدی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی اولاد ہیں.پھر فرمایا وبشر الذين امنوا ان لهم قدم صدق عند ربهم ( تذکرہ: ۱۹۷) وہ جو تجھ پر ایمان لائیں گے اور توحید خالص سے وابستہ ہو جائیں گے ان کو یہ خوشخبری دو کہ خدا کے نزدیک ان کا قدم سچائی پر ہے اور جس کا قدم خدا کے نزدیک سچائی پر ہو کوئی دنیا کی طاقت اسے متزلزل نہیں کر سکتی.پس آپ کے قیام اور آپ کے ثبات کا ایک ہی راز ہے کہ آپ تو حید پر قائم ہو جائیں اور خدا کے نزدیک آپ کا قدم صدق پر ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.غرض یہ دو خبیث مرضیں ہیں جن سے بچنے کے لئے کچے مذہب کی پیروی کی ضرورت ہے یعنی اول یہ مرض کہ خدا کو واحد لا شریک اور متصف بتمام صفات کا ملہ اور قدرت تامہ قبول نہ کر کے اس کے حقوق واجبہ سے منہ پھیرنا.“ ( نصرة الحق روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰) دوہی مرضیں ہیں جو دنیا کو ہلاک کر رہی ہیں.ایک یہ کہ تمام صفات حسنہ کو خدا کی طرف منسوب نہ کرنا اور اس سے کسی اور طرف منہ پھیر لینا اور ایک نمک حرام انسان کی طرح اس کے ان فیوض سے انکار کرنا جو جان اور بدن کے ذرے ذرے کے شامل حال ہیں.کتنا بڑا مضمون اور وسیع مضمون ہے انسان کے لئے غور اور فکر کا.آپ کے ذرے ذرے میں، آپ کے بدن کے ذرے ذرے میں خدا تعالیٰ کے احسانات شامل ہیں.کسی ایک ذرہ بدن پر بھی آپ غور کریں اور اس میں ڈوب کر دیکھیں تو ان احسانات کا شمار ممکن نہیں.ہے.بہت ہی وسیع مضمون ہے اور دنیا کے تمام سائنسدانوں نے اب تک جتنی دریافت کی ہے، جو کچھ حاصل کیا ہے وہ تمام تر بھی اگر بیان ہو جائے تب بھی خدا تعالیٰ کے ان احسانات کا احاطہ نہیں کرسکتا جو ہر ذرہ تخلیق میں مضمر ہیں.ایک لامتناہی کہانی ہے، ہمیں ارب برس گزر چکے ہیں کہ جبکہ Big Bang کے ذریعے دنیا یعنی کائنات کا یہ دور وجود میں آیا جس میں ہم ہیں اور اس تمام نہیں ارب سالوں کے عرصے میں جس کا تصور بھی ایک عام انسان نہیں کر سکتا کہ کتنا لمبا عرصہ ہے ایک لامتناہی
خطابات طاہر جلد دوم 286 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء عرصہ دکھائی دیتا ہے، ازل کا عرصہ دکھائی دیتا ہے.اس کے ہر ہر لمحے کے ہر ہر ذرے میں ، ہر ہر حصے میں خدا تعالیٰ کے احسانات جلوہ گر ہوئے ہیں اور اس نے کائنات کونئی شکل دی ہے اور ترقیات کی منازل کی طرف آگے بڑھایا ہے.وہ تمام احسانات جو اس میں ارب سالوں کے عرصے پر پھیلے پڑے ہیں انسان کی ذات میں مجتمع کئے گئے ہیں اور ساری کائنات کو انسان کے لئے مسخر کیا گیا ہے.پس جب یہ کہا جاتا ہے کہ تمہاری ذات کے تمہارے وجود کے ایک ایک ذرے میں جو خدا کے احسانات ہیں ان کا شمار ممکن نہیں تو اس میں ایک ادنی بھی مبالغہ نہیں ہے.پھر فرماتے ہیں.وو دوسرے یہ کہ بنی نوع کے حقوق کی بجا آوری میں کوتاہی کرنا.“ توحید کامل کا یہ دوسرا پہلو ہے جس کو نظر انداز کر کے بڑی بڑی قوموں نے اپنی ہلاکت کے سامان کئے اور غریب قو میں بھی اس کو نظر انداز کر کے اپنے مستقبل کو تاریک تر کرتی چلی جارہی ہیں وہ ہے خدا کی مخلوق سے خدا کی خاطر محبت کرنا.تو حید کے مضمون کو سمجھتے ہوئے تمام بنی نوع انسان کو خدا کے تعلق میں ایک قسم کی برابری کا درجہ دینا اور ہر دنیاوی تفریق کو اپنی نظر سے مٹادینا اور خدا کی خاطر خدا کے ہر بندے سے پیار کرنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کی تشریح کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں.اور ہر ایک شخص جو اپنے مذہب اور قوم سے الگ ہو یا اس کا مخالف ہو اس کی ایذاء کے لئے ایک زہریلے سانپ کی طرح بن جانا اور تمام انسانی حقوق کو یکدفعہ تلف کر دینا ایسے انسان در حقیقت مردہ ہیں اور زندہ خدا سے بے خبر.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰) میں نے جب ہندوستان کا دورہ کیا مختصر، قادیان جلسہ کی خاطر گیا تھا لیکن وہاں میری بڑی بڑی ملاقاتیں مختلف دانشوروں سے بھی ہوئیں ، عوام الناس کی سطح پر ہوئیں ان سب کو میں نے اجتماعی تقریروں میں بھی اور ملاقاتوں کے دوران بھی اور دیگر ذرائع سے بھی ایک ہی پیغام دیا ہے کہ توحید کی طرف لوٹ آؤ اور توحید کا یہ تقاضا ہے کہ تم اپنے آپس کے تعلقات کو درست کرو.ان کے بڑے بڑے دانشوروں سے جب گفتگو ہوئی تو پہلے وہ یہ سمجھے اپنی غلطی اور نا سمجھی کے نتیجے میں، ویسے تو بڑے بڑے سمجھدار تھے لیکن بڑے بڑے سمجھدار بھی بعض اندازوں کی غلطیاں کر جاتے ہیں کیونکہ ان
خطابات طاہر جلد دوم 287 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء کے اخلاق اس طرح نہیں بنائے جاتے جس طرح ایک مخاطب کے اخلاق ہوتے ہیں.وہ یہ سمجھے کہ میں اس جماعت کا نمائندہ ہوں جس پر پاکستان میں مظالم ہوئے ہیں اور گویا میں ہندوستان کی پناہ میں آنے کے لئے وہاں آیا ہوں.میں نے ان پر خوب کھول دیا کہ میں پاکستان کا نہ نمائندہ ہوں نہ پاکستانی احمدیوں کی نمائندگی میں یہاں آیا ہوں.خدا کی قسم میں بنی نوع انسان کا نمائندہ ہوں، اس خدا کا نمائندہ ہوں جس نے بنی نوع انسان کو پیدا کیا ہے.پس مجھ سے ہرگز کوئی ایسی توقع نہ رکھو کہ کسی کا مارا ہوا کسی اور کی پناہ میں آنے والا ہوں.میں خدا کی پناہ میں ہوں مجھے اور کسی پناہ کی ضرورت نہیں، میری جماعت خدا کی جماعت ہے اور خدا کی پناہ میں ہے اسے کسی اور پناہ کی ضرورت نہیں.تمہیں ہماری ضرورت ہے تم آج ہمارے محتاج بنائے گئے ہو کیونکہ خدا نے ہماری عقلوں کو تقوی سے جیسے صیقل فرمایا ہے جب تک تم ہماری ہدایت کو قبول نہیں کرتے اور ہماری عقل کے اس نور سے روشنی نہیں پاتے جو خدا کے نور سے روشن ہوئی ہے تم نجات نہیں پاسکتے تمہارے مسائل کا حل نہیں ہوسکتا.چنانچہ ان کو میں نے سمجھایا کہ سیاست کی چالاکیوں سے بالا ہو کر انسانی سطح پر پاکستان سے اپنے تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کرو اور پاکستان کے سر براہوں کو بھی میں یہی پیغام دیتا ہوں کہ چھوٹے چھوٹے ادنی سیاسی اغراض و مقاصد میں ملوث ہو کر تم بنی نوع انسان کے اعلیٰ اور اولیٰ مقاصد کو نظر انداز نہ کرو.دونوں ممالک کے غریب تمہارے ظلموں میں پیسے جارہے ہیں، تمہاری سیاست کی چکی میں یہ پارہ پارہ کئے جار ہے ہیں.ایک ہندو جب دکھ میں مبتلا ہوتا ہے تو خدا کا ایک بندہ مبتلا ہوتا ہے، ایک سکھ جب دکھ میں مبتلا ہوتا ہے تو خدا کا ایک بندہ مبتلا ہوتا ہے ، ایک مسلمان جب دکھ میں مبتلا ہوتا ہے تو خدا کا ایک بندہ مبتلا ہوتا ہے.جب تک تو حید کی برکت سے تم یہ سوچ پیدا نہ کرو جب تک تمام بنی نوع انسان کے لئے اپنے دل میں وسعتیں پیدا نہ کرو تم تو حید سے وابستہ نہیں ہو سکتے اور بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا نہیں کر سکتے اور ان کی بہبود کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے.تمہاری ہر سوچ ٹیڑھی ہو جائے گی کیونکہ وہ سیاست کے بتوں کی عبادت کرنے والی سوچ ہے اور غیر اللہ کی عبادت کرنے والی سوچ کبھی بنی نوع انسان کو نجات نہیں بخش سکتی.اسی وجہ سے جب اس جلسے سے پہلے مجھ سے سوال کیا گیا کہ ہم جس طرح اور ایمبیسیڈ رز کو اور سفیروں کو دعوت دیتے ہیں، پاکستان کے سفیر کو بھی دعوت دیتے ہیں کیا ہندوستان کے سفیر کو بھی
خطابات طاہر جلد دوم 288 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء دعوت دینی چاہئے؟ میں نے کہا ضرور دی جائے وہ بھی خدا کا بندہ ہے ، وہ ملک بھی وہ ملک ہے جس میں خدا کے بندے بستے ہیں.ہم خدا سے تعلق رکھنے والے ہیں تمام دنیا ہمارا وطن ہے اور مذہبی اقدار میں نیکیوں سے تعاون کرنے والے ہیں اور اس تعاون کی خاطر ہمیں پیدا کیا گیا ہے.ہمیں یہ پیغام ہے کہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدۃ:۳) یہ پیغام نہیں ہے کہ فلاں ملک سے تعاون کرو اور فلاں ملک سے نہ کرو، فلاں رنگ سے تعاون کرو اور فلاں رنگ سے نہ کرو بلکہ تقویٰ سے تعاون کرو.ہر اور تقوی کی بات جہاں بھی تم پاؤ تم اس کے مددگار بن جاؤ اور ہر اور تقوی کی طرف بلا ؤ اس لئے میں نے کہا مجھے اس کی قطعا کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ان کو بلانے کے نتیجے میں ، ان کو اعزاز دینے کے نتیجے میں اگر یہ قبول فرما ئیں پاکستان کا ملاں مجھے کیا کہتا ہے.میں نے ملاں کے حضور تو جان نہیں دینی ، میں نے جس خدا کے حضور جان دینی ہے اس کے حضور تو یہ ملاں موجود ہی نہیں ہوں گے.جس حشر کے میدان میں میں پیش کیا جاؤں گا.پس میں نے کہا کہ میں تو خدائے واحد و یگانہ کا پجاری، اسی کی عبادت کرنے والا ہوں.اسی پر میری نگاہ ہے اور اسی کی نظر کی پر واہ رکھتا ہوں اس لئے نیکی کے جذبے کے ساتھ ، خلوص کے جذبے کے ساتھ بنی نوع انسان کے آپس کے تعلقات کو بڑھانے کی نیت سے میں جو بھی قدم اٹھاؤں گا مجھے ایک ذرہ کی بھی پرواہ نہیں ہے کہ وہ قدم اٹھا نا کسی کو پسند ہے یا نا پسند ہے.جب تک میرا خدا مجھ سے راضی ہے میں ہر وہ قدم جرات کے ساتھ بے خوف ہوکر اٹھاؤں گا جو اس کی رضا کا طالب ہو.لیکن افسوس کہ دنیا آج تک ان حقیقتوں کو نہیں سمجھ سکی جو تمام مذاہب کی بنیادی حقیقت ہے اور اس بنیادی حقیقت سے پھوٹنے والی حقیقتیں ہیں.وہ توحید کا سر چشمہ ہے جس سے تمام سچائیاں پھوٹتی ہیں اور وہ نہیں سمجھ سکے کہ دنیا میں انسانی تعلقات کے جو بد پہلو آج دنیا پر قبضہ جما چکے ہیں وہ سارے شرک کی مختلف قسمیں ہیں اور خدائے واحد سے دور ہونے کا ایک طبعی نتیجہ ہیں.پس اس کے نتیجے میں جیسے پہلے انسان اپنے ظلموں کے ہاتھوں پکڑا گیا اور اس کی کچھ پیش نہیں گئی آئندہ زمانے میں میں انہیں خطرات کو دوبارہ منڈلاتا ہوا دیکھتا ہوں.اس لئے آج پہلے سے بہت بڑھ کر میرے دل میں یہ جوش پیدا کیا گیا ہے کہ میں جماعت احمدیہ کو متنبہ کروں کہ ہلاک ہوتی ہوئی دنیا کو اگر آپ بچانا چاہتے ہیں تو خود توحید پر قائم ہو جائیں اور تمام بنی نوع انسان کو توحید
خطابات طاہر جلد دوم 289 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء کی طرف بلائیں اور اس راہ میں اپنی جان، مال، عزت اپنی اولا دوں اور اپنے سب پیاروں کو قربان بھی کر دیں تو یہ سودا گھاٹے کا سودا نہیں بلکہ نفع کا سودا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو انسان کے مظالم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ظلموں کی جو اطلاع دی گئی اس کی ہیبت سے دل لرزتا ہے.آپ فرماتے ہیں.”اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد و یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا، جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں.“ آج یہی کوشش ہے جس کو آپ نے اپنی جان، مال، عزت اور ہر طاقت کے ساتھ جاری کرنا ہے اور تمام دنیا میں پھیلانا ہے اور زمین کے کناروں تک یہ وہ پیغام ہے جسے آپ نے پہنچانا ہے.وو 66 پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.“ کتنا درد ہے ان باتوں میں ، تقدیر کے نوشتوں سے یہ مراد نہیں کہ خدا نے ظلم کا فیصلہ کر لیا تھا بلکہ تقدیر کے نوشتے اس طرح پورے ہونے تھے جیسا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ خدا ظالم نہیں ہے تم بھی ظالم نہ بنو.اگر تم ظالم بن گئے تو تمہارے ظلم کے عواقب سے کوئی طاقت تمہیں نجات نہیں دے سکے گی.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے مگر خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه: ۲۶۹) آخر پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ پیغام آپ تک پہنچا کر میں اس
خطابات طاہر جلد دوم 290 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۲ء افتتاحی خطاب کو ختم کرتا ہوں.اس کے بعد افتتاحی اجلاس کے بعد کی دُعا ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اس کی توحید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو اور اس کے بندوں پر رحم کرو اور اُن پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کروگو اپنا ما تحت ہو اور کسی کو گالی مت دوگو وہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ.“ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۱۱) سیر وہ راز ہے قبولیت کا اگر آپ ایسے ہو جائیں تو خدا کی قسم آپ آسمان پر بھی قبول کئے جائیں گے اور زمین پر بھی قبول کئے جائیں گے اور خدا کی خدائی کی تمام طاقتیں آپ کی تائید میں اٹھ کھڑی ہوں گی اور جسے خدا کی خدائی کی طاقتیں حاصل ہو جائیں دنیا میں کوئی اسے شکست نہیں دے سکتا.پس آگے بڑھو فتح تمہارے قدم چومنے کا انتظار کر رہی ہے مگر پہلے توحید کے قدم چومو کیونکہ ہر فتح کار از توحید کے قدم چومنے میں ہی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آخری دعا سے پہلے میں اپنے ان سب مہجور بھائیوں اور بہنوں اور بچوں کو سلام بھیجتا ہوں جو اس وقت پاکستان میں ٹیلی ویژن کے ذریعے ہمارے اس جلسے میں شریک ہیں.ان کو میں یاد دلاتا ہوں کہ ان کا درد ہمارے دل میں ہے ان کا خیال ہمیں ہمیشہ بے تاب رکھتا ہے، صبح کی دعاؤں میں بھی اور شام کی دعاؤں میں بھی وہ یاد رہتے ہیں، وہ ہمیں بے حد محبوب ہیں.خدا نے جس طرح ہجرت کو اس رنگ میں ٹال دیا کہ گفتار کے ساتھ دیدار کے بھی کچھ سامان مہیا فرمائے.وہی قادر اور تو انا خدا ہے جو ہمارے دوسرے دیدار کے سامان بھی فرماسکتا ہے، اسی کے حضور جھکیں.خدا کرے کہ ہمارے اسیران راہِ مولیٰ کی آزمائش کے دن بھی ختم ہوں اور خدا کرے کہ ان کی لامتناہی جزا کا دور بھی شروع ہو جائے.خدا کرے کہ سارے پاکستانی احمدی امن میں آجائیں کیونکہ یہ بات میں آپ کو یقین سے کہتا ہوں کہ جب تک پاکستان کے احمدیوں کے لئے امن نہیں ہے کسی پاکستانی کے لئے کوئی امن نہیں ہے.پس دعا کریں اگر اپنے ملک سے آپ محبت رکھتے ہیں تو احمدیوں کے امن کے لئے دعا کریں، اسی میں پاکستان کے امن کی دعا شامل ہوگی.
خطابات طاہر جلد دوم 291 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۳ء تقویٰ کو پکڑ لو، تقویٰ کو پکڑ لو، تقویٰ کو پکڑا اگر تمہیں تقویٰ نصیب ہو جائے تو سب کچھ نصیب ہو جائے.افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۹ جولائی ۱۹۹۳ء بمقام اسلام آباد ٹلفورڈ برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.سورۃ فاتحہ نے جو حد کا مضمون بیان فرمایا ہے یہ ایسا عظیم الشان، بے کنار اور بے پاتال سمندر ہے کہ جس میں جتنا بھی سفر کیا جائے اور جیسے جیسے بھی غوطہ زنی کی جائے اس کا دوسرا کنارہ دکھائی نہیں دیتا.یہ مضمون وہ ہے جس کے لئے کوئی فصاحت و بلاغت کافی نہیں، یہ مضمون وہ ہے جس کے بیان میں انسان کی یہ زندگی ہی نہیں، نسلاً بعد نسل انسان کی زندگیاں صرف ہو جا ئیں اس مضمون کے ادنی سے حق کو بھی ادا نہیں کر سکتیں، حمد ہی حمد ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں.ہمارے آقا ملا محمد یہ بھی تو حمدہی کی پیداوار ہیں، ہمارے امام جواس زمانے کے امام بنائے گئے یعنی حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام وہ بھی حمد ہی کی غلامی کے نتیجے میں اس مرتبے اور مقام کو پہنچے.پس حمد کے ترانے گاؤ کیونکہ اُس کے فضل حمد کی صورت میں نازل ہوتے ہیں حمد کے نتیجے میں نازل ہوتے ہیں.اس کے فضل نازل ہوتے ہیں تو حمد کا جوش اور زیادہ ابھرتا ہے اور انسان کے دل میں موجیں مارنے لگتا ہے اور جوں جوں حمد تمدن میں آتی ہے فضلوں کی بارش اور تیز ہوتی چلی جاتی ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انسان کی قوت بیان عاجز آ جاتی ہے اور اس کا حق ادا نہیں کر سکتی.آج کا یہ جلسہ بھی خصوصیت کے ساتھ حمد کے ترانے گانے کا جلسہ ہے.جیسے جیسے یہ جلسہ آگے بڑھے گا آپ دیکھتے چلے جائیں گے اور سنتے چلے جائیں گے کہ کس کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے
خطابات طاہر جلد دوم 292 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء فضلوں کی بارش نازل فرمائی اور سراسریہ حمد ہی کے نتیجے میں ہے اورحد کو اور زیادہ لازم کرتی ہے.آج کی حاضری سے میں بات شروع کرتا ہوں، اس سے پہلے میں نے مختلف منتظمین سے رابطے کئے ، اندازہ لگانے والوں سے پوچھا، سب نے یہی بتایا کہ آج کے دن تھوڑی حاضری کی توقع ہے.جمعہ یہ بعضوں کا خیال تھا کہ شاید یہ شامیانہ بھر نہ سکے اور ایک بڑی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس دفعہ انگلستان کی حکومت.نے پاکستان میں ویزہ دینے میں بہت ہی کنجوسی سے کام لیا ہے اور بہت تھوڑے ویزے دیئے گئے.جبکہ پہلے سال جب یہ جلسے پر پاکستان کو اجازت دی گئی تھی تو تین ہزار افراد کو جماعتی نظام کے تابع ویزے دیئے گئے تھے اور اب بمشکل تین سو ویزے دیئے گئے ہیں.تو خیال تھا اندازہ لگانے والوں کا کہ زیادہ تر تو حاضری پاکستان سے متوقع تھی وہاں سے بہت تھوڑے لوگ آئیں گے.اس ضمن میں ایک یہ بات بھی بتادوں کہ حکومت انگلستان نے تین سو ویزے جو دیئے وہ احسان کیا ہے،شکوے کی جانہیں ہے.ویزے کم دینے میں بعض ایسے ظالموں کا قصور ہے جو یہ عہد کر کے آئے کہ ہم جلسے کی خاطر آرہے ہیں اور واپس جائیں گے لیکن انہوں نے دین پر دنیا کو ترجیح دے دی اور عہد شکنی کر کے وہ یہاں ٹھہر گئے.یہ الگ بات ہے کہ جماعت نے کوشش کر کے اور لمبا عرصہ محنت کر کے ان لوگوں کا کھوج لگایا اور ان میں سے بھاری اکثریت کو واپس جانے پر مجبور کر دیا یا ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا لیکن گنتی کے چند ایسے بھی تھے جنہوں نے بات نہ مانی ، ان کو نظام جماعت سے خارج کر دیا گیا اور اب ان کا جماعت احمدیہ سے ان کی موت تک کوئی تعلق نہیں ہو گا لیکن یہ ظالمانہ سودا کرنے کے نتیجے میں جو دنیا کا عارضی فائدہ ان کو پہنچا ہے وہ تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب تک کیسے ان کا ساتھ دے گا؟ لیکن جو نقصان جماعت کے وقار اور نام کو انہوں نے پہنچایا ہے اس کی سزا لامتناہی معلوم ہوتی ہے.پس وہ مخلصین ، وہ محبت کرنے والے، وہ فدائی ، وہ عاشق جو جلسے پر آکر اس کی شمولیت کی سعادت حاصل کرنا چاہتے تھے وہ محروم رہ گئے یہ ان ہی بدنصیبوں کی وجہ سے ہے اس لئے حکومت انگلستان سے شکوہ بے جا ہے.اس کے باوجود خدا کے فضل سے جلسے کی رونق میں کوئی کمی نہیں آئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور احسان سے یہ ثابت کر دیا کہ رونقیں دینا میرا کام ہے، حکومت انگلستان کا کام نہیں.میں جس کو چاہوں عزت دیتا ہوں، میں جس کو چاہوں رونق بخشتا
خطابات طاہر جلد دوم 293 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۳ء ہوں.پس مجھ سے ہی عزتیں مانگو، مجھ سے ہی رونقیں طلب کرو میرے فیض لامتناہی ہیں اور جب انسان اس ذکر میں داخل ہوتا ہے تو پھر حمد کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاتا ہے.اللہ کے فضل کے ساتھ سب اندازے والوں کے اندازے غلط نکلے، بار بار میں ان سے کہتا رہا کہ تمہیں نہیں اندازہ تمہارے اندازے غلط ہوں گے، اللہ کے فضل ہمیشہ ہماری توقع سے بڑھ کر نازل ہوا کرتے ہیں اس دفعہ بھی دیکھنا یہی ہو گا.پس آج مجھے امیر صاحب کی طرف سے یہ بتایا گیا بلکہ یہ اقرار کیا گیا یعنی اقرار لاعلمی کہ ہم سے غلطی ہوگئی، آج پہلے دن اس سے زیادہ حاضری ہے جتنی گزشتہ سال آخری دن تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ سالانہ کی بنیاد ڈالی اور اس کے متعلق بارہا متعدد مواقع پر صیحتیں فرمائیں ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار اس طرف توجہ دلائی کہ یہ جلسہ خالصہ اللہ ہے اور حمد اور درود کے لئے منعقد کیا جا رہا ہے، اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اس میں صرف کرو اور تقویٰ حاصل کرنے کی کوشش کرو کیونکہ ہر نیکی کی جان تقویٰ ہے.اس جلسے کی غرض بیان فرماتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ یہ سب کچھ جو میں کہ رہا ہوں ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ تقویٰ کو پکڑ لو، تقوی کو پکڑ لو، تقویٰ کو پکڑ لو کیونکہ اگر تمہیں تقویٰ نصیب ہو جائے تو سب کچھ نصیب ہو جائے.پس تمام آنے والے مہمانوں سے میں مخاطب ہوں کہ اپنے تقویٰ کی طرف توجہ دیں اور تقویٰ کا معیار بلند کرنے کی کوشش کریں.جب میں کہتا ہوں تقویٰ کا معیار بلند کرنے کی کوشش کریں تو میری مراد یہ ہے کہ خدا کے حضور اور جھکنے اور گرنے کی کوشش کریں کیونکہ انکسار ہی میں تقویٰ ہے، سجدوں ہی میں ربّ اعلیٰ سے وصال ہوتا ہے.جتنا آپ خدا کے حضور گریں اور عاجزی اختیار کریں اتنا ہی اللہ اپنی رحمت سے آپ کو وہ بلندیاں عطا کرتا ہے جن بلندیوں کی طرف حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا قدم ہمیشہ جاری وساری رہا، یہاں تک کہ آپ ان بلندیوں تک پہنچے جن تک انسان کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام آپ نے سنا ہے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے زیادہ کسی کو حضور اکرم ﷺ کا عرفان نصیب نہیں ہوا لیکن دیکھیں کس عاجزی اور انکساری سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ میں سب تعریفیں کر رہا ہوں مگر پھر بھی میں وہاں تک نہیں پہنچ سکا نہ
خطابات طاہر جلد دوم 294 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء پہنچ سکتا ہوں کیونکہ وہ مقام معراج ہے.تنہا محمد مصطفی ہے اس مقام پر پہنچے اس مقام سے آگے خدا کی یکتائی کا مقام ہے اور انسان کا ہر آخری مقام وہاں ختم ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ ہم اس جلسے میں حاضر ہوئے ہیں جس جلسے کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقویٰ اور تقویٰ اور تقویٰ پر قائم کی اور پھر تقویٰ اور تقویٰ اور تقویٰ کے حصول کے لئے ہمیشہ نصیحت فرماتے رہے.یہ تقویٰ ہی تو ہے جو معراج میں تبدیل ہوا تھا، تمام بلندیاں تقویٰ سے وابستہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قو میں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه: ۲۸۱ تا ۲۸۲) پس آج کا جلسہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ایک اور منظر پیش کرتا ہے جو پہلے مناظر سے زیادہ بلندی پر قائم فرمایا گیا ہے.آج کا جلسہ قوموں کے ملنے کے ایسے نظارے آپ کو دکھائے گا کہ اس سے پہلے آپ کے تصور میں بھی وہ نظارے نہیں آئے تھے.یہ قوموں کا ملاپ اس ذریعے سے مقدر تھا.کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ منصہ شہود پر عالم حقیقت میں ابھر رہا ہے.اس کے متعلق میں پہلے چند امور آپ کے سامنے رکھوں گا، چند پیشگوئیاں اور ان کا مفہوم آپ کو سمجھاؤں گا اور پھر انشاء اللہ اس سلسلے میں اسی مضمون کو مختلف پیرائے میں آگے بڑھاؤں گا.حضرت اقدس محمد مصطفی یا ہے اور اسلام کے متعلق جتنی پیشگوئیاں گزشتہ صحیفوں میں ملتی ہیں، ان میں ایک صحیفہ انجیل مکاشفات یوحنا ہے.جس میں یوحنا عارف نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر حیرت انگیز صفائی کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی عمل اللہ کا ، آپ کے دین کا ، سورہ فاتحہ کا اور آپ کے مقام اور مرتبہ کا نظارہ کشفا دیکھا اور اسے بڑی صفائی کے ساتھ بیان کیا.اس ضمن میں حضرت یوحنا فر ماتے ہیں:.
خطابات طاہر جلد دوم 295 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۳ء پھر میں نے ایک اور فرشتے کو آسمان کے بیچ میں اڑتے ہوئے دیکھا جس کے پاس زمین کے رہنے والوں کی ہر قوم اور قبیلے اور اہل زبان اور امت کے سنانے کے لئے ابدی خوشخبری تھی.“ یہ ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا ذکر بڑی شان اور صفائی کے ساتھ، بڑی وضاحت کے ساتھ کیا گیا ہے.ایک ہی نبی ہے جس کے پاس دنیا کی ہر قوم ہر قبیلے اور دنیا کے بسنے والے کے لئے خدائے واحد سے ملانے کی ابدی خوشخبری ہے.”اس نے بڑی آواز سے کہا (یعنی فرشتے نے ) کہ خدا سے ڈرو اور اس کی تمجید کرو.“ ( یوحنا عارف کا مکاشفہ صفحہ: ۳۴۹) یہ وہی تقویٰ کی بات ہے.تقویٰ اختیار کرو اور خدا کی حمد اور مجد کے ترانے گا ؤ اور اسی کی عبادت کرو جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور پانی کے چشمے پیدا کئے ہیں.قوموں کے اس عالمی اجتماع کی طرف امت محمدیہ کا قدم آگے بڑھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مواصلاتی سیاروں کے ذریعے ایک عالمی اجتماع کی صورت پیدا فرمائی ہے.یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں، یہ ہمیشہ سے مقدر تھا اور اس ذریعے سے تمام ادیان باطلہ پر یا تمام دیگر ادیان اور قوموں پر اسلام کے غلبے کے سامان پیدا کئے جانے تھے.اس سلسلے میں میں بعض پیشگوئیوں کا ذکر کرتا ہوں جو بعض گزشتہ علماء امت نے بیان فرمائیں اور وہ بیان کرنے والے خود نہیں سمجھتے تھے کہ کیا کہہ رہے ہیں لیکن آج اس زمانے میں جماعت احمدیہ نے اپنی آنکھوں سے ان پیشگوئیوں کو حیرت انگیز صفائی کے ساتھ پورا ہوتے دیکھا ہے.تفسیر القمی میں آیت کریمہ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ (ق: ۴۲) کی تفسیر میں لکھا ہے.اس کا ترجمہ ہے توجہ اور غور سے سنو ! اس دن جس دن ایک منادی کرنے والا منادی کرے گا.یعنی تمام دنیا کی قوموں کو دین واحد کی طرف بلائے گا.کہتے ہیں: قال ينادى المنادى باسم القائم واسم ابيه عليهم وہ کہتے ہیں کہ مراد اس سے یہ ہے کہ ایک منادی کرنے والا اپنے نام سے منادی نہیں کرے گا یا اپنے نام کی منادی نہیں کرے گا بلکہ امام قائم کے نام پر منادی کرے گا اور اس کے باپ کے نام پر یعنی حضرت محمد مصطفی ہے
خطابات طاہر جلد دوم 296 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء کے نام پر منادی کرے گا.اس کی علامت کیا ہوگی کہ جس سے تم پہچان لو یہمنادی کرنے والا خدا کی طرف سے امام قائم کے نام اور اس کے باپ محمد مصطفی ﷺ کے نام کی منادی کر رہا ہے؟ وہ کہتے ہیں.نشان یہ ہوگا کہ وہ قریب کی مجلس سے مخاطب کر رہا ہوگا اور کل عالم میں اس کی آواز سنائی دے رہی ہوگی.پس یہ پیشگوئی حیرت انگیز صفائی اور شان کے ساتھ آج پوری ہورہی ہے کیونکہ آج کا یہ خطاب اصلى الله جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام غلام محمد مصطفی ہے اور آپ کے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے نام پر دنیا کو پیغام پہنچارہا ہے.یہ منادی ریڈیو کے ذریعے تمام دنیا میں سنائی دے رہی ہے.اب ٹیلی ویژن سے متعلق بھی ایک پیشگوئی سن لیجئے.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ساری باتیں ازل سے مقدر تھیں، کسی انسان کی چالا کی یا کوشش کا کوئی دخل نہیں.یہ آسمان سے نازل ہونے والے وہ فضل ہیں جن کا وعدہ دیا گیا تھا اور یہ وعدہ خالصہ حضرت اقدس محمد مصطفی میلہ کے پیغام کے دنیا میں انتشار کی غرض سے دیا گیا تھا.اسی غرض سے ہمیں قائم فرمایا گیا ہے اور یہی اعلیٰ مقصد ہے جس کے حصول کے لئے ہم آج اکٹھے ہوئے ہیں اور ہمارے اس اجتماع کو ساری دنیا دیکھ رہی ہے.انوار نعمانیہ صفحہ ۱۶ پر یہ پیشگوئی درج ہے دراصل اس کی بنیاد قرآن کریم اور احادیث کی تفسیر پرمبنی ہے، تفسیر ہے لیکن واضح طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ کہاں سے یہ پیشگوئی لی گئی.لیکن پیشگوئی جو بڑی صفائی کے ساتھ من و عن پوری ہو جائے پھر یہ غرض نہیں رہا کرتی کہ اس کی بنیاد کیا تھی.کہتے ہیں.آم کھانے سے غرض ہے پیٹر گننے سے کیا، جب پیشگوئی کا پھل مل گیا تو پھر کیا بحث ہے کہ کس نے کی اور کب کی اور کیوں کی.اس پیشگوئی میں بیان فرمایا گیا ہے.ينور الله سبحانه سماعهم وابصارهم حتى انهم اذا كانوا في بلاد والمهدى فى بلاد الاخرى يقول لهم من السمع والبصر ما يراؤنه ويشاهدونه وانوارة ويسمعون كلامه ومخاطبته ويتكلمون معه (انوار نعمانیه صفحه (۱۶) کہ وہ زمانہ جب خدا تعالیٰ کا قائم کردہ مہدی دنیا میں ظاہر ہوگا ، اس میں یہ نشان ظاہر ہوں گے کہ لوگوں کی قوت سامعہ اور باصرہ تیز کر دی جائے
خطابات طاہر جلد دوم 297 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء گی.یعنی وہ دُور کی آوازیں سن سکیں گے اور دُور کے واقعات کو دیکھ سکیں گے.اگر کوئی فردا یک شہر میں ہوگا اور امام دوسرے ملک میں تو لوگ اس امام کو دیکھ لیں گے اور اس کے کلام کو سن لیں گے اور اس سے باتیں کر سکیں گے.یہ پہلا حصہ تو خدا کے فضل کے ساتھ آپ کی آنکھوں کے سامنے پورا ہو چکا اور بڑی صفائی کے ساتھ پورا ہورہا ہے.اس دوسرے حصے سے متعلق مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ ہماری نسلیں اس کو بھی پورا ہوتے دیکھیں گی اور عالمی رابطوں کے ذرائع پہلے ہی اتنی ترقی کر چکے ہیں اور عنقریب اور ترقی کریں گے اور جماعت احمدیہ کے تصرف میں آئیں گے.جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ان الہی جلسوں کی کارروائیاں دور بیٹھے کل عالم میں لوگ سن اور دیکھ سکیں گے بلکہ ہم ان کی تصویریں یہاں یکھ سکیں گے اور وہ جو سوال کریں گے ان کی آوازیں یہاں پہنچیں گی.پس یہ خدا کے کام ہیں، اسی کا کارخانہ ہے اسی نے جاری فرمایا ہے.وہی اس کارخانے کی حفاظت فرمائے گا اور جو روکیں بیچ میں آئیں گی ان کو اٹھا دے گا اور کوئی دنیا کی طاقت ان رابطوں کی راہ میں حائل نہیں ہو سکے گی کیونکہ اللہ کی طرف سے یہ مقدر ہو چکا ہے اور جماعت احمدیہ کی خاطر یہ سارے کارخانے جاری فرمائے گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے حیرت انگیز صفائی سے ان امور کی خبریں دی تھیں جبکہ ٹیلی ویژن کا کوئی تصور بھی موجود نہیں تھا لیکن جو عبارت ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وہ حیرت انگیز صفائی سے اسی مضمون پر صادق آ رہی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ ذکر فرما رہے ہیں کہ اب تو دور دور سے بیعتیں آرہی ہیں اور ان کے متعلق حضور ہدایت فرماتے ہیں کہ ان کے ریکارڈ رکھے جائیں اور پھر وقتا فوقتا وہ ریکارڈ یہاں بھجوائے جاتے رہیں.پھر فرماتے ہیں کہ: یہ جو سلسلہ ہے یہ ہمیشہ اس طرح نہیں رہے گا بلکہ خدا کے ہاں ایک بات مقدر ہے جب اس مقدر کو پہنچے گی وہ بات تو پھر ایک اور نظام جاری ہوگا.“ اور وہ کیا ہو گا؟ اس کے متعلق فرماتے ہیں: ایسا ہی ہوتا رہے جب تک ارادہ الہی اپنے انداز ہ مقدر تک پہنچ
خطابات طاہر جلد دوم 298 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۳ء جائے.یہ انتظام جس کے ذریعے سے راست بازوں کا گروہ کثیر ایک ہی مسلک میں منسلک ہو کر وحدت مجموعی کے پیرایہ میں خلق اللہ پر جلوہ نما ہوگا اور اپنی سچائی کے مختلف المخرج شعاعوں کو ایک ہی خط ممتد میں ظاہر کرے گا.خداوند عز وجل کو بہت پسند آیا ہے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه: ۵۵۹) یعنی تمام دنیا کے مومنین گویا ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں گے ، تمام نظاروں میں شریک ہوں گے اور یہ اس طرح ہوگا کہ مختلف روشنیاں ایک ہی روشنی کے اندر سے جو مختلف رنگ رکھتی ہیں ایک ہی روشنی کی شعاع کے ذریعے دنیا تک پہنچیں گی اور وہ دنیا اس سے فیض پا کر وہ نظارے دیکھے گی.پس ٹیلی ویژن میں ہر رنگ الگ الگ سفر نہیں کرتا بلکہ برقی لہریں تمام رنگوں کو سمیٹے ہوئے اسی طرح جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خبر دی گئی تھی اکٹھی سفر کرتی ہیں اور جہاں جہاں پہنچتی ہیں، وہاں وہاں ٹیلی ویژن کے آلے اُن کو پھر الگ الگ کر کے مختلف رنگوں میں مختلف تصویروں کی صورت میں دیکھتے ہیں.اب سنیئیے وقت کا تعین دیکھیں کس طرح اور واضح ہوتا چلا جاتا ہے.پرانے بزرگوں نے پیشگوئیاں کیں یہ واقعات ہوں گے.ان کی تفسیر ایسی بیان فرمائی کہ اس زمانہ میں جب ہم نے ان کو ہوتے دیکھا تو ایک ذرہ بھی شک نہیں رہا کہ یہی باتیں تھیں جن کی خوشخبریاں دی گئی تھیں.پھر جس امام کا ذکر چلا ہے جس کے پیغام رسانی کے نظام کو آسان تر کرنے کے لئے اور وسیع تر کرنے کے لئے یہ سارا کاروبار جاری کیا گیا.اس کو اللہ تعالیٰ نے خبر دی اور معلوم ہوتا ہے کہ ٹیلی ویژن کا چونکہ تصور نہیں تھا اس لئے بجلی کی لہروں کے انداز بیان کئے گئے کہ اس طرح وہ باتیں پھیلیں گی اور پوری طرح یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ علم نہیں ہوسکا کہ یہ کیا بنے گی ، کیا بات ہوگی، کس طرح پوری ہوگی.لیکن اس کا بنیادی مرکزی نکتہ سمجھا دیا گیا اور یہ بتا دیا گیا کہ اس وقت تک جب تک خدا کی تقدیران واقعات کو ظاہر نہیں کرے گی اس وقت تک یہ ڈاک کا نظام ہی جاری رہے گا.اب سنیئے ! کس کے زمانے میں یہ ہونا تھا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کس غلام کے زمانے میں یہ واقعات رونما ہونے تھے.اس سے متعلق ۱۹۷۰ء کی ایک رؤیا ہے جو ایک
خطابات طاہر جلد دوم 299 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء احمدی خاتون نے دیکھی اور جو بعد میں الفضل میں شائع ہوئی.اس رؤیا کے الفاظ سنیں تو انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ کس طرح اس زمانے میں جب ان باتوں کا تصور بھی نہیں تھا اور یہ بھی تصور نہیں ہوسکتا تھا کہ کب یہ باتیں پوری ہوں گی ؟ خدا نے کس صفائی کے ساتھ ایک احمدی خاتون کو یہ نظارہ دکھایا.وہ لکھتی ہیں.66 میں حلفیہ عرض کرتی ہوں کہ ۱۹۷۰ء میں جبکہ میں بانی منزل دار البرکات ربوہ میں مقیم تھی.میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا زمین سمٹ کر چھوٹی ہو کر میرے سامنے آگئی ہے اور گول دائرے کی شکل میں ہے.اس کے گرد رنگ برنگی اور سفید لیکن تیز روشنیاں گھوم رہی ہیں جو سب ہی بہت خوبصورت ہیں اور دل کو بہت پیاری معلوم ہوتی ہیں.پھر دیکھا اس زمین کے اندر سے ایک نام ابھرا اور وہ تھا مرزا طاہر احمد ۱۹۷۰ء کا سال وہ ہے جبکہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث منصب خلافت پر قائم فرمائے گئے اور ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا اس وقت ، چند سال ہی گزرے تھے چار، پانچ سال کی بات تھی اور کوئی وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آئندہ زمانے میں میرا اس خلافت سے تعلق ہوگا اور اس زمانے میں ہوگا جبکہ برقی لہریں مختلف رنگ کی اس طرح دنیا کے گردگھو میں گی کہ دنیا سمٹ کر چھوٹی سی رہتی ہوئی دکھائی دے گی.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ میں ایک ادنی معمولی خادم کے طور پر گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر تک سائیکل پر جایا کرتا تھا اور چھوٹے چھوٹے سفر بھی میرے لئے لمبے سفر ہوتے تھے لیکن خدا نے دیکھیں کیسا آسان فر ما دیا یہ سفر کہ آج میں تمام دنیا سے مخاطب ہورہا ہوں اور وہی برقی لہر میں جو اس خاتون کو دکھائی گئی تھیں وہ میری آواز کو بھی اور تصویر کو بھی اور آپ کی تصویروں کو بھی تمام دنیا میں خوبصورت رنگارنگ روشنیوں میں اس طرح پھیلا رہی ہیں کہ گویا د نیا سمٹ کر ایک چھوٹے سے گولے کی شکل اختیار کر گئی ہے.اب میں جہاں تک تمام دنیا میں اسلام کی اشاعت کا تعلق ہے، مجھے کامل یقین ہے کہ اس نظام کے ذریعے اب بہت تیزی کے ساتھ ہمارے سفر طے ہوں گے اور دنیا بہت تیزی کے ساتھ حلقہ بگوش اسلام ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ.خدا مجھے اور آپ کو زندہ رکھے کہ ہم اس نظام کے درجہ کمال کو پہنچنے
خطابات طاہر جلد دوم 300 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۳ء اور اس کے عظیم دائی پھلوں کو چکھنے کی توفیق پائیں.آمین.جو فیض تربیت کے سلسلے میں جاری ہور ہے ہیں اور تبلیغ کے سلسلے میں بھی وہ اس کثرت سے ہر جگہ تمام دنیا میں نازل ہورہے ہیں کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سلسلہ کتنا بابرکت اور مفید ثابت ہوگا.ایک خاتون نے ایک نقشہ اپنے خط میں کھینچا ہے بہت ہی پیارا نقشہ ، و لکھتی ہیں : ”خدا کے فضل سے جب سے خطابات ٹی.وی پر شروع ہوئے ہیں مسجد میں جاگ اٹھی ہیں، ( سبحان اللہ کتنا پیارا کلام ہے ،مسجد میں جاگ اٹھی ہیں.خدا ہمیشہ ان کو جاگتا ر کھے ) چہروں پر شادمانی ہے، مربی صاحبان کے خطابات میں بھی جان پڑ گئی ہے.وہ جو ایک دلی غم کی جھلک تھی چہروں پر کسی حد تک بلکہ کافی حد تک خوشی میں تبدیل ہو چکی ہے.آپس میں ہر وقت یہی تذکرہ ہوتا ہے اس دفعہ حضور نے کیا فرمایا اور اب کیا حکم ہے.ربوہ کے گھر اور گلیاں تو لگتا ہے کہ آپ کی آواز سے گونج رہی ہیں.جب میں اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کو بتاتی ہوں تو حیرت سے دیکھتے ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے اور یہ مادہ پرست لوگ یقین نہیں کرتے کہ کچے مکانوں میں رہنے والے جن کے چہرے ربوہ کی دھول میں آٹے ہوتے ہیں ، جن کے گھروں میں دنیا کے تعیش کے سامان نہیں ہوتے ، یکا یک کیسے کا یا پلٹ گئی کہ وہاں لوگوں نے ڈش انٹینے خرید لئے اور سب سے معجزانہ بات جس کا مجھے بہت لطف آتا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے ہم سال میں تین دن خلیفہ وقت کے خطابات سنا کرتے تھے ، اس کے لئے دور دور سے سفر کر کے آتے تھے.مجھے یاد ہے کہ جب بچے چھوٹے تھے اور ملازمت سے رخصت بھی بہت کم ملا کرتی تھی اس پر آمدنی کی کمی اور پھر ریل کی بکنگ الگ مشکل تو کراچی سے ہم بھاگم بھاگ جلسے کے لئے آیا کرتے تھے، سارا سال دعائیں کرتے تھے کہ خدا یا جلسے میں شمولیت کی توفیق دینا.اب یہ حال ہے کہ مہینے میں چار بار جلسہ تو ویسے ہی ہو جاتا ہے اس پر رمضان المبارک میں درس القرآن الحمد لله ثم الحمد للہ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ “
خطابات طاہر جلد دوم 301 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۳ء دوسرا اقتباس مختلف نو جوانوں کا ڈش انٹینا کا شوق خدا تعالیٰ نے کس طرح قبول فرمایا ہے اور جو قربانی پیش کی ہے خدا اسے کس طرح ثمرات سے نوازا ہے.اس کے بھی بکثرت نظارے مختلف خطوں میں دکھائی دیتے ہیں اور بعض خط تو معلوم ہوتا ہے ایسے جذبات کی صورت میں لکھے گئے ہیں کہ ان کی سیاہی آنسوؤں سے بھیگی ہوئی دکھائی دیتی ہے.امریکہ کے ایک نوجوان نے ڈش انٹینا کے ذریعے خطبہ سننے کے شوق کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ” میرے پاس چالیس ڈالر رہ گئے تھے جس میں سارے مہینے کا گزارہ کرنا تھا اور جہاں ڈش انٹینا نیویارک میں لگا ہوا تھا وہاں تک پہنچنے کے لئے مجھے اڑ نہیں ڈالر کی ضرورت تھی.ساری رات میں بیقرار رہا کہ اے خدا کیا فیصلہ کروں اپنا روحانی شوق پورا کروں یا جسمانی زندگی کے سامان کی فکر کروں اور جلسے میں جانے کا پروگرام چھوڑ دوں.“ کہتے ہیں.اس بے چینی اور بیقراری میں رات گزری.صبح میں نے فیصلہ کر دیا جو ہوگا دیکھا جائے گا، میں یہ اڑ میں ڈالر خرچ کر کے ضرور ٹی.وی انٹینا پر خطبہ سننے جاؤں گا.کہتے ہیں.” جب میں چلنے لگا تو مجھے چلتے ہوئے خیال آیا کہ یونیورسٹی سے ہوتا جاؤں ، وہاں مختلف امور پر نوٹس لگے ہوتے ہیں.وہاں گئے تو بورڈ پر نوٹس لگا ہوا تھا کہ فلاں شخص ابھی چند منٹ کے اندراندر کار پر نیویارک جارہے ہیں اگر کسی نے جانا ہے تو تھوڑی قیمت پر یعنی عام کرایوں سے کم قیمت پر اس کو وہ لے جاسکتے ہیں.“ کہتے ہیں.میں دوڑا دوڑا گیا کار پکڑی اور بیٹھ کر خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گائے.اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو، کہاں جا رہے ہو؟ میں نے یہ واقعہ سنایا.اس کے دل پر اتنا اثر پڑا کہ اس نے کہا! میں تم سے ایک پیسہ بھی وصول 66 نہیں کر سکتا.“
خطابات طاہر جلد دوم 302 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء پس دیکھو خدا نے کس شان سے اس کے اخلاص کو بھی قبول فرمایا، اس کی مرادیں پوری کر دیں اور وہ جو مہینے کے خرچے کی فکر تھی وہ خدا نے خود دور فرما دی.ایک صاحب لکھتے ہیں.بذریعہ ڈش انٹینا خطاب سن کر ایسے لگتا ہے جیسے خشک سالی سے اور دھوپ کی تیزی سے زمین خشک ہو جائے ، ہر طرف پژمردگی چھائی ہوئی ہو یکدم باران رحمت برس پڑے اور کملائی ہوئی کونپلیں اور پودے دوبارہ جی اٹھیں اور ان پر جمی ہوئی گرد بھی دھل گئی ہو.میری زبان تو اس نعمت کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہے، اللہ بہت ہی رحیم و کریم ہے.“ چھوٹی چھوٹی باتیں بچے نو جوان لکھتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے کس طرح اس ذریعے سے تربیتی فیض جماعت کو پہنچائے ہیں.میں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ نمازوں میں ٹوپی پہن کر آیا کرو کیونکہ ہر قوم اور ہر مذہب کی ایک تہذیب ہوتی ہے اور مذہبی معاملات میں اس مذہبی تہذیب کی رعایت رکھنی چاہئے.مغرب میں یہ دستور ہے کہ جب کسی بڑے کے سامنے جائیں تو ٹوپی اتار لیتے ہیں کسی کی تعریف کرنی ہو تو کہتے ہیں Hats Off to You ہم ہیٹ اتار کے تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں، ججوں کے سامنے جائیں تو ٹوپی اتار کر بیٹھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے دربار میں ٹوپیاں پہنائی ہیں، عزتیں اتاری نہیں.اس لئے اسلامی سنت یہی ہے کہ خدا کے دربار میں جو جائے عزت اتارنے کے لئے نہیں عزت حاصل کرنے کے لئے جائے اور اپنا تقویٰ ، اپنا حسن اور اپنی عزت لے کر جائے.یہ جب میں نے سمجھایا تو اس سلسلے میں بہت سے بچوں اور نو جوانوں کے دلچسپ خطوط ملے.ایک صاحب لکھتے ہیں کہ.” میں نے حضور کے ارشاد پر سب کی باتوں کی پرواہ کئے بغیر ٹوپی پہنی شروع کر دی ہے، غیر احمدی کہتے ہیں کہ یہ قائد اعظم کی ٹوپی کہاں سے لے آئے ہو، کسی نے کہا جو نیجو مرحوم کی ٹوپی لے آئے ہو، کسی نے کچھ کسی نے کچھ کہا.مجھے تو اس سے تبلیغ کا بہت موقعہ ملا ہے اور میں ان سے کہتا ہوں ہمارے امام نے ہمیں یہ فرمایا اور ہم نے اطاعت کی.ٹوپی پہن کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی گواہ
خطابات طاہر جلد دوم 303 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء کے طور پر سر پر آبیٹھا ہے کہ جو ہمارے اعمال کی نگرانی کر رہا ہے.“ اور واقعہ ہر قسم کے لباس کا انسان کے کردار سے ایک گہرا واسطہ ہو جاتا ہے اگر لباس غیر ذمہ دارانہ ہو، نگا اور بے حیائی کا لباس ہو تو ایسا شخص ہر جگہ بے حیائی کی دعوت دیتا پھرتا ہے، خواہ زبان سے بولے یا نہ بولے.اگر لباس میں تقوی شعاری ہو اور ذمہ داری پائی جائے تو ایسے شخص سے لوگ بھی اپنی تو قعات اونچی رکھتے ہیں اور اس کا ضمیر بھی اسے یاد دلاتا رہتا ہے کہ تم کون ہو اور تم سے کیا توقعات وابستہ ہیں.ایک مربی صاحب لکھتے ہیں: 66 وہ احباب جو بھول کر بھی جمعہ ادا نہیں کرتے تھے.“ یعنی اندازہ کریں کہ بعض علاقوں میں اتنی لمبی دوری کے نتیجے میں کیسے کیسے تربیتی مسائل پیدا ہو چکے تھے.کہتے ہیں: وہ احباب جو بھول کر بھی کبھی جمعہ ادا نہیں کرتے تھے اب بفضلہ تعالیٰ ان خطبات کے فیض سے نہ صرف یہ کہ خطبات سنتے ہیں بلکہ جمعہ اور باقی نمازوں میں بھی نسبتاً بہت بہتر ہو گئے ہیں.بلکہ ان میں ایک مثال تو ایسی ہے کہ جنہوں نے کبھی پندرہ سال سے روزے نہ رکھے تھے مگر اب تمام روزے رکھ رہے ہیں اور تو اور اعتکاف بھی بیٹھے ہیں.“ ایک اقتباس United Arab Emirates سے ایک دوست کا ہے.وہ کہتے ہیں: " یکم جون کو میں.U.A.E کی ایک سٹیٹ سے دوسری سٹیٹ کی طرف جا رہا تھا ، یہ عید کا دن تھا ( یعنی عید قربانی کا دن تھا ) راستے میں ریگستان اور خشک پہاڑیوں کا طویل سلسلہ ہے وہاں سے جب میں گزر رہا تھا تو راستے میں ریڈیو کے پروگرام کی Searching کرتے وقت اچانک آپ کی آواز سنائی دی، اس وقت آپ عید کی نماز پڑھا رہے تھے.اس وقت میری خوشی کی انتہا نہ رہی ، میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں چیخ چیخ کر لوگوں کو اکٹھا کروں اور بتاؤں کہ یہ جو آواز عرب کے ریگستانوں میں گونج رہی ہے، یہ سچائی کی آواز ہے.اس
خطابات طاہر جلد دوم 304 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء وقت میں نے ریڈیو کی آواز بلند کر دی اور ریگستان میں خطبہ سنا.یہ میری زندگی کا خوشگوار ترین لمحہ تھا، آپ تصور کریں کہ جس کو انسان دل و جان سے چاہے اور وہ اسے ویرانے اور سنسان ریگستان میں مل جائے تو اس کی کیا حالت ہوگی.“ بعض دفعہ خدا تعالیٰ ایک قربانی کے لئے محض آزماتا ہے اور جب قربانی کے لئے تیار پاتا ہے تو قربانی لئے بغیر اس کا پھل دے دیتا ہے.اس کی ایک مثال شالا مارٹاؤن لاہور کے دو بھائیوں نے اپنے تجربے کی صورت میں لکھی ہے.وہ کہتے ہیں: ہمیں بہت شوق تھا کہ ٹیلی ویژن کا بوسٹر لگا کر اردگر دلوگوں کو بھی ٹیلی ویژن پر خطبات سنائیں اور دکھا ئیں.“ کہتے ہیں.” ہمارے پاس جو پیسے تھے وہ لے کر بوسٹر خریدنے کے لئے چلے تو خیال آیا کہ بانڈز بھی ساتھ لیتے جائیں، دو بانڈز ہمارے پاس تھے وہ بھی ساتھ لے جائیں شاید کچھ پیسہ کم ہوتو یہ بانڈ زلگادیں گئے.کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور بانڈ ز بیچے بغیر بوسٹر مل گیا اور اسی بانڈ پر جو ہم بوسٹر کے لئے لگانا چاہتے تھے ، پانچ ہزار کا انعام بھی ہاتھ آیا.“ تو یہ چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جن سے خدا تعالیٰ اپنے قرب اور پیار کے اظہار کرتا ہے.دنیا کی نظر میں معمولی ہوں گے مگر احمد یوں کی نظر میں ان کی بڑی عظمت ہے کیونکہ اللہ کے پیار کے اظہار ہیں اور روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں.کسی ایک ملک سے وابستہ نہیں ساری دنیا میں ہر جگہ سے خدا کے پیار کے ایسے حسین نظارے احمدیوں کے تجربے میں آتے ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے.یہ عالم گواہی ہے جس کا ذکر میں نے آج خطبے میں کیا تھا کہ آپ کے تقویٰ کا نشان ہے، خدا اس نشان کو ہمیشہ زندہ رکھے اور روشن تر بنا تا چلا جائے.جہاں تک غیر مسلموں میں تبلیغ کا تعلق ہے یہ ذریعہ خدا کے فضل سے نہایت مؤثر ثابت ہورہا ہے اور تمام دنیا سے یہ خبریں مل رہی ہیں کہ روز بروز غیر مسلموں کی دلچسپی ان خطبات میں بڑھتی چلی جارہی ہے اور کئی غیر مسلموں نے ان خطبات کو دیکھ کر خود مجھ سے خطوں کے ذریعے رابطہ کیا ہے اور دعاؤں کے لئے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت کی توفیق بخشے.اس ضمن میں ایک سکھ دوست کا
خطابات طاہر جلد دوم 305 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۳ء ذکر کرتے ہوئے امریکہ سے ایک دوست لکھتے ہیں کہ: ”ان کی ایک سکھ دوست فیملی نے بتایا کہ وہ حضور کا خطبہ بڑے احترام سے سنتے ہیں.“ ( مطلب ہے اس سکھ دوست کی بیگم نے یا بچوں میں سے کسی نے بتایا ) جب احمدیوں کا پروگرام شروع ہوتا ہے اور وہ حضور کو دیکھتے ہیں تو احترام کی وجہ سے صوفہ سے نیچے اتر کر قالین پر بیٹھ جاتے ہیں اور سارا پروگرام دیکھتے ہیں.ایک دفعہ ان کی ایک بزرگ رشتہ دار ہندوستان سے تشریف لائی تھیں ان کو بھی انہوں نے پروگرام میں شامل کر دیا، تو انہوں نے بے ساختہ کہا! یہ - شخص جو تصویر میں ہے یہ نہیں بول رہا بلکہ اس کے منہ سے بھگوان بول رہا ہے.“ پس خدا تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ جس منادی کا ذکر کیا تھا وہ تو ایک عاجز منادی ہے.اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں مگر جن کا ذکر چلتا ہے ہمارے آقا و مولا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے آقا ومولا اور مالک کل جہان ، خدا کے بعد جو سارے جہان کے مالک ہیں حضرت محمد مصطفی ہے، یہ انہی کے ذکر خیر کی برکت ہے کہ اس طرح دلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں.ایک غیر احمدی نوجوان نے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، بہت کثرت سے دوست خط لکھتے ہیں.یہاں تک کے بعض ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں نے بھی لکھے، ہر طبقہ فکر کے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ بہت تیزی کے ساتھ دلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں.ایک نوجوان لکھتے ہیں." مجھے بڑا افسوس ہے کہ میری زندگی گزرگئی اور میں حضور کے اتنے پروگرام اور ان کی سچائی پر مبنی باتیں نہیں سن سکا.اب میں اس مقام پر کھڑا ہوں کہ اگر سب دنیا کہے کہ آپ راہ حق پر نہیں تو میں انشاء اللہ آپ کا ساتھ دوں گا.اس سے پہلے جہاں جہاں پر میں رہتا رہا ہوں، احمدی مذہب کے بارے میں غلط باتیں ذہن نشین کرائی جاتی تھیں اور ہم ان باتوں کو ماننے پر مجبور تھے کیونکہ ہمیں تو آپ کے بارے میں صحیح بات بتائی ہی نہیں جاتی تھی.جب میں نے آپ کا پہلا خطبہ سنا تو اسی وقت میں نے فیصلہ کر لیا کہ آپ غلط نہیں کہہ سکتے
خطابات طاہر جلد دوم 306 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء کیونکہ سچائی تو آپ کے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی اور گفتگو کا انداز ایسا تھا کہ اس زمانے میں اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا.آپ کے لئے میرے دل کی تمام دنیا حاضر ہے.میں اپنی انفرادی کوشش کروں گا کہ احمدیت کی تبلیغ اپنے گاؤں جا کر کر سکوں اور اپنے قریبی رشتے داروں کو سمجھاؤں چاہے وہ جو کچھ کہیں.“ امریکہ سے طاہر عبداللہ ھا گورا ایک دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں.کہتے ہیں: ڈش انٹینا سے متعلق میں دوستوں کو سکھا رہا تھا کہ اس طرح کم قیمت پر آپ ڈش انٹینا لگا سکتے ہیں تو ایک صاحب پر نظر پڑی، ان کو بھی میں نے سکھانا شروع کر دیا اور بتایا کہ اس طرح خرید و، وہاں سے لو اور وہ مسکرا مسکرا کر مجھے دیکھتے رہے مگر کچھ کہا نہیں.جب وہ چلے گئے تو کسی نے بتایا کہ یہ تو غیر احمدی ہیں جن کو آپ بتا رہے تھے کہ ڈش انٹینا کیسے لگتا ہے لیکن دو دن کے بعد ہی اسی دوست نے ان کو خبر دی کہ وہی دوست جو غیر احمدی تھے یہ پروگرام دیکھنے کی وجہ سے خدا کے فضل کے ساتھ اپنے پانچ بچوں اور بیگم سمیت بیعت فارم پُر کر چکے ہیں.“ ہمارے ربوہ کے ایک بہت ہی مخلص فدائی دوست ہیں بشارت احمد خان صاحب، جن کو ڈش ماسٹر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.انہوں نے افریقہ میں جا کر بہت عظیم خدمات سرانجام دی ہیں، ابھی بھی یہ غانا ہی میں ہیں.ان کے جانے کے بعد کثرت سے غانا میں انٹینے لگے اور بہت ہی سستی قیمت پر اور افریقہ کے باقی ممالک سے آنے والوں کو بھی انہوں نے تربیت دی اور وہ بھی اپنے اپنے ملکوں میں جا کر آگے دوستوں کو سکھا رہے ہیں اور اپنے ملکوں میں ڈش انٹینے نصب کر رہے ہیں.یہ سب کچھ کرنے کے بعد انہوں نے اپنی آنکھوں سے جو نظارے دیکھے ہیں، اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ.سماسی اور بچی مان اور کمالی میں ڈش انٹینا کی فٹنگ کے دوران نظاره قابل دید تھا ، ہزاروں لوگ ڈش انٹینا دیکھنے کے لئے امڈ آئے ، لوگ سڑکوں پر کھڑے ہو گئے اور ٹریفک رک گیا.اردگرد کے مکانوں کی بالکونیوں
خطابات طاہر جلد دوم 307 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۳ء سے دیکھنے لگے، ہر کسی کی زبان پر احمد یہ مسلم کا ڈش انٹینا لفظ تھا.اس وقت تک ہم غانا میں خدا کے فضل سے دس انٹینے مکمل طور پر فٹ کر چکے ہیں.اب حضور کا خطبہ غانا کے آخری دُور کے علاقے میں بھی دیکھا اور سنا جا رہا ہے.کشمیر کے ایک گاؤں میں جب ڈش انٹینا لگا تو وہاں سے جور پورٹ آئی وہ یہ ہے.” جب انہوں نے پہلا خطبہ سنا تو ان کی عجیب حالت تھی، یہ گاؤں پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا ہے.(یعنی سڑک سے بہت ہٹ کر ہے ) پیدل جانا پڑتا ہے، جذبات سے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور زبانیں خدا کی حمد سے تر تھیں کہ کہاں ان پہاڑوں کے بیچ میں بیٹھے آج ہم اپنے آقا کی زیارت کر رہے ہیں.“ بنگلہ دیش سے مربی صالح احمد صاحب جو یہاں جلسے میں شمولیت کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں.وہ لکھتے ہیں.بنگلہ دیش میں جب پہلی مرتبہ خطبہ جمعہ بذریعہ سیٹیلائٹ سنا گیا تو ڈھاکہ، احمد نگر، چٹا گانگ اور تر وہ میں بڑا دردناک نظارہ تھا ، لوگ رور ہے تھے اور سسکیاں لے لے کر رو ر ہے تھے.احمد نگر میں تو حضور کی تصویر ٹی.وی پر آتے ہی لوگوں نے نعرے لگائے اور اس موقعے پر روتے جاتے تھے اور نعرے لگاتے جاتے تھے.تر وہ میں تو ٹیلی فون اور جدید سہولیات بھی مہیا نہیں ،سڑک بھی نہیں ہے ، وہاں ڈش انٹینا پر پہلا خطبہ دیکھنے کا جو نظارہ تھا وہ نا قابل بیان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے یہ جدید سہولت ہم کو میسر آئی.“ بنگلہ دیش ہی کا ایک اور دلچسپ واقعہ ہے.ایک احمدی کو جو نئے نئے احمدی ہوئے تھے ،ایک مخالف مولوی پکڑ کر اپنے ساتھیوں کے پاس لے گیا، اس کو جان سے مار ڈالو.اس نے کہا میری گردن حاضر ہے بیشک مار ڈالیں، دیر نہ کریں، یہ سر آپ کے سامنے ہے.شاید اُس کی اس بات کا، اس صداقت کا ایسا رعب پڑا کہ وہیں سے کچھ آواز میں اٹھیں.انہوں نے کہا اچھا ایک ہفتے کی مہلت دے دیتے ہیں، ایک ہفتے کے بعد اگر تم نے تو بہ نہ کی تو ہم تمہارا سر کاٹنے کے لئے آئیں گے.اس نے کہا
خطابات طاہر جلد دوم 308 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء کہ ہفتے کے بعد آ کے لے جانا، آج لے جاؤ یہ تمہارا ہے.میرا سر میر انہیں رہا خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لئے تیار بیٹھا ہے، آج نہیں کل آ کے لے جانا مگر میں تو دین سے نہیں پھروں گا.لیکن اس کے بعد خدا تعالیٰ نے ان کے دل میں ایک بات ڈالی، اس گاؤں کے جو دنیا کے لحاظ سے سب سے بااثر لیڈر تھے ان سے جا کے وہ ملے اور انہوں نے کہا کہ تم نے اگر مجھے مارنا ہی ہے تو اپنے پاک ہاتھوں سے مارو.مولوی سے کیوں مرواتے ہو؟ میری عاقبت خراب نہ کرو تم مارو اور کوئی گاؤں کا شریف آدمی مار دے.مولوی سے نہ مردوانا اور پھر کہا کہ اچھا مارنے سے پہلے ایک ہمارے امام کا خطبہ تو سن لو.اس نے کہا اچھا پھر مجھے سناؤ.چنانچہ اس کو خطبہ سنایا گیا.کہتے ہیں سنتے سنتے اس کی حالت بدل گئی اور اس نے اعلان کیا کہ اب میں بھی احمدی ہوں، مجال ہے کسی کی اس کو ہاتھ لگا کے دیکھے.بنگلہ دیش ہی کا ایک اور واقعہ ہے.ایک مخالف لیڈ ر جو جماعت کے خلاف جلوس کی قیادت کرتے تھے اور پتھراؤ میں پیش پیش تھے اور مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.ان کو کسی نے کہا کہ تم ایک دفعہ آکر ٹیلی ویژن پر خطبہ تو دیکھ لو سن لو، پھر جو چاہے کرنا.چنانچہ وہ بات مان گئے.کہتے ہیں خطبہ سنتے سنتے ان کی حالت غیر ہونی شروع ہوئی اور بلک بلک کر رونے لگے اور خطبہ ختم ہوتے ہی کہا! ابھی میری بیعت کرواؤ.عجیب اللہ کی شان ہے، ہمارے وسائل کتنے محدود تھے اور راہ میں کتنی روکیں کھڑی کی گئیں تھیں.ساری دنیا کی طاقتیں کہتی تھیں تم کون ہوتے ہو آگے بڑھنے والے، ہم تمہیں ایک قدم آگے بڑھنے نہیں دیں گے اور خدا کی شان کیسے عظیم انتظام کئے ہیں ،اس دنیا کی کوئی طاقت ان کو روک نہیں سکتی.میں نے پہلے بھی کہا تھا جو فضل آسمان سے برستے ہیں کوئی چھتری ہے جو ان کو روک سکے، کوئی شامیانہ ہے جو ان کی راہ میں حائل ہو سکے.جب آسمان سے فضل برستے ہیں تو پھر ساری دنیا میں ہر طرف پھیلتے چلے جاتے ہیں اور آج جماعت احمدیہ پر ساری دنیا میں آسمان سے فضل نازل ہورہے ہیں.ہر جگہ خدا کی طرف سے جو فضل نازل ہورہے ہیں وہ تبشیر کی صورت میں بھی ہورہے ہیں، انذار کی صورت میں بھی ہورہے ہیں اور ایسی کمزور جماعتیں جن کو مخالفوں نے گھیر رکھا تھا، زندگی ان کی عذاب بنا رکھی تھی.ان کے لیڈروں کو ، ان کے سربراہوں کو خدا نے کس طرح سزادی اور عبرتناک
خطابات طاہر جلد دوم 309 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء سزادی، جب انہوں نے ڈش انٹینا کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی.اس کی ایک مثال سندھ کی ایک چھوٹی سی غریب جماعت کی مثال کے طور پر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.وہ لکھتے ہیں کہ.” جب ہم نے ڈش انٹینا لگایا تو جماعت میں جان پڑنی شروع ہوئی ، جو لوگ پہلے اردگرد جارہے تھے وہ ایک دم اکٹھے ہو کے آگئے ، یہاں تک کہ کثرت سے غیر احمدی مخالفین آکے باقاعدہ خطبہ سننے لگے.اس کے نتیجے میں حسد کی آگ اور بھڑک اٹھی اور گاؤں کا مولوی جو شرارت میں پیش پیش تھا، اس نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور اعلان کیا کہ اب تو یہ سب کو بے دین کر کے چھوڑیں گے.( یعنی ان کے خیال میں ) اس لئے ایک ہی علاج ہے کہ حملہ کرو، ان کی اینٹ سے اینٹ بجادو، ڈش انٹینا کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو تا کہ یہ اپنے امام کی آواز اور تصویر ہمیں نہ دکھا سکیں.( اس اعلان کے نتیجے میں لوگ اکٹھا ہونے شروع ہوئے ، ابھی اکٹھے نہیں ہوئے تھے ) اس نے اعلان کیا کہ اگلے جمعہ کو یہ پروگرام ہوگا ، دور دور تک پیغام پہنچا ؤ سب اکٹھے ہو جاؤ.جس دن لوگوں نے اکٹھے ہونا تھا اس دن اس کا بیٹا شدید بیمار ہو گیا اور ایسی شدید پیٹ میں تکلیف اٹھی کہ اس کو لے کر افراتفری میں وہ ہسپتال پہنچا.24 گھنٹے کے اندر تڑپ تڑپ کر اس کے سامنے اس نے جان دے دی اور کوئی ڈاکٹر اس کو بیچا نہ سکا.اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ مولوی کا منصوبہ خاک میں مل گیا بلکہ لوگوں نے کہا یہ خدا کی تائید کا نشان ہے، اس لئے آئندہ بدنظر سے اس ڈش انٹینا کو نہیں دیکھنا.اب یہ مولوی خود سخت بیمار ہے اور حالت اتنی دردناک ہے کہ باہر سے کسی بچے کے رونے کی آواز آئے تو چھینیں مار مار کر روتا ہے کہ یہ میرا بچہ ہے، میرا دم گھٹ رہا ہے مجھے بچاؤ.“ پس خدا کی تبشیر کی بھی عجیب شان ہے اور اس کے انذار کی بھی عجیب شان ہے.تبھی قرآن کریم میں انبیاء کے ذکر کے ساتھ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا، مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا کا ذکر ملتا ہے.
خطابات طاہر جلد دوم 310 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء پس آپ بھی دنیا کو تبشیر بھی کریں اور انذار بھی کریں کیونکہ یہ دن تھوڑے ہیں اور بڑی بڑی بلائیں، ان بلاؤں نے دنیا کوگھیر رکھا ہے اور وہ وقت دور نہیں جبکہ آپ دنیا کو عالمی عذاب میں مبتلا ہوتا دیکھیں گے.اس لئے اس عذاب سے پہلے کثرت سے انذار کریں اور دنیا کو متنبہ کریں کہ ایک ہی امن کی راہ ہے اور وہ اسلام کی راہ ہے.اسلام کی وہ راہ ہے جو احمدیت نے دیکھی اور خدا کے قائم کردہ امام نے اسے دکھائی.یہ محمد مصطفیٰ کی راہ ہے.اس راہ پر آؤ گے تو بچو گے، ورنہ ہر طرف لٹیرے ہیں.دنیا میں اور کہیں کوئی امن کی ضمانت نہیں دی جاسکتی.پس اس کثرت سے لوگوں کو صرف تبشیر ہی کے ذریعے نہیں بلکہ انذار کے ذریعے بھی بلا ئیں چونکہ یہی سنت انبیاء ہے.بنگلہ دیش کا ذکر کرتے ہوئے میں آپ کو بتاؤں کہ ہم نے جو آٹھ زبانوں میں ساتھ مسلسل ٹرانسلیشن کا انتظام کیا ہوا ہے یعنی ترجمے کا، اس میں پہلے بنگلہ دیش شامل نہیں تھا، بنگالی زبان شامل نہیں تھی.آج سے دو دن پہلے، مجھے ان کی طرف سے فیکس موصول ہوئی کہ ہمیں بھی محروم نہ کیا جائے اور اس جلسے سے آئندہ بنگالی کو بھی ترجمے والی زبانوں میں شامل کر لیا جائے.میرے خیال میں وقت بہت تھوڑا تھا اور ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ اتنی جلدی کسی اور زبان کو ہٹا کر یہ انتظام کریں.لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک بات ڈالی اور میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ یہ ضرور انتظام کیا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے کہ.پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہوگی.“ ( تذکرہ صفحہ: ۵۰۸) اور بنگال کی جماعت نے جس طرح اخلاص کے نمونے دکھائے ہیں، جس طرح بہادری کے اور سرفروشی کے نمونے دکھائے ہیں.ان کا اول حق ہے کہ ان تک ان کی زبان میں پیغام پہنچے.پس میں نے کہا کہ جب خدا نے فرمایا ہے کہ 'بنگالہ کی دلجوئی کی جائے گی.تو میں کون ہوتا ہوں اس دلجوئی کی راہ میں حائل ہونے والا ، میں تو ادنی راہ کا ایک معمولی غلام ، خاک پا ہوں.پس ضرور بنگالہ کی دلجوئی کی جائے گی.پس آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنگال میں پہلی مرتبہ بنگالی زبان میں یہ آج کا خطبہ بھی نشر ہوا اور یہ جلسہ بھی نشر ہو رہا ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ مستقلاً بنگالی زبان میں ان کو مخاطب کیا جاتا رہے گا.
خطابات طاہر جلد دوم 311 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء بنگلہ دیش کی جماعت خدا کے فضل سے بہت ہی مخلص اور اخلاص میں دن بدن ترقی کر رہی ہے اور خوبی یہ ہے کہ وہاں کے مخالفین میں بھی تقویٰ کا بیج موجود ہے، مخالفین میں کم ہیں جو نہایت ہی حد درجہ مسموم ہو چکے ہیں ، زہر آلود ہیں ، ان کی آنکھیں بھی بند ، ان کے کان بھی بند ، ان کے دلوں پر بھی مہریں.لیکن نسبتا میں نے دیکھا ہے بنگال کے علماء میں تقویٰ زیادہ ہے، سخت مخالفت کے باوجود جب وہ کوئی دلیل سنتے ہیں تو قائل ہونا شروع ہو جاتے ہیں.اسی لئے بنگال میں خدا کے فضل سے اب بڑی تیزی کے ساتھ احمدیت کو قبول کیا جا رہا ہے اور امید ہے یہ آئندہ چند سالوں میں رفتار انشاء اللہ بہت زیادہ بڑھ جائے گی.وہاں کی مخالفت کے متعلق میں بیان کر رہا ہوں کہ ڈش انٹینا کی مخالفت میں قطعاً کسی جگہ پرواہ نہیں کی گئی.بڑے بڑے حملے ہوئے ، بڑے بڑے گھیراؤ کئے گئے، بنگال کی جماعت کا مرد، عورت، بچہ ایک ایک ثابت قدم رہا.انہوں نے کہا ہم جانیں دے دیں گے مگر اس رابطے کو اب نہیں ٹوٹنے دیں گے.بعض سرداروں نے مسجد میں آکر کہا یہ ڈش اتار لیں.صدر جماعت نے جواب دیا کہ ہم اس سے خلیفہ وقت کے خطبات سنتے ہیں، بیشک ہماری جان چلی جائے یہ ڈش نہیں اترے گی.ساری جماعت اس موقع پر متحد ہوگئی کہ جو کچھ سر پہ گزر جائے ، ہم ڈش انٹینا کو نہیں اترنے دیں گے.چنانچہ مخالفین نے ایک میٹنگ کی کہ سارا علاقہ اکٹھے ہوکر احمدیوں کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجادے اور ان کا یہ نظام برباد کر دے.اسی میٹنگ میں آپس میں اختلاف ہوا سر پھٹول ہوئی، ایک دوسرے پر حملے کئے گئے اور ساری قوم دو حصوں میں بٹ کر ایک دوسرے کی جان کے در پے ہوگئی اور ایک دوسرے کے خون کی دشمن ہوگئی اور اب ان کو اپنی ہی ہوش نہیں ہے، وہ جماعت کی طرف کیا توجہ دیں گے.پس یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک انذاری نشان ہے اور دنیا میں ہر جگہ ظاہر ہورہا ہے یہ بتانے کے لئے کہ اللہ کی تقدیر ہے جو چل رہی ہے یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے.منیر احمد صاحب چوہدری مبلغ انچارج Eastern Region کینیڈا سے لکھتے ہیں: اوٹاوا (Ottawa) میں پاکستان سے آئے ہوئے ایک دوست سے تبلیغی رابطہ تھا، انہوں نے ( میرا ذکر کر کے کہ ) آپ کے خطبات کی ویڈیوز دیکھنی شروع کیں.رمضان المبارک میں درس قرآن سے بہت متاثر تھے،
خطابات طاہر جلد دوم 312 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۳ء ہتے تھے کہ اپنی بیوی کو بھی یہ دکھائیں لیکن وہ سخت متعصب اور کٹڑ گھرانے سے تعلق رکھتی تھی آخر انہوں نے منت کی ، بہت منت سماجت سے اسے کہا کہ بیوی اچھا ایک دفعہ میری خاطر آ کر ٹیلی ویژن پر خطبہ تو سُن لو اور دیکھ لو پھر جو چاہو گی میں تمہارے ساتھ ہوں گا.چنانچہ وہ آئی دیکھنے لگی اور دیکھتے دیکھتے مولویوں کے متعلق سخت کلامی شروع کر دی، جوالفاظ میں بیان نہیں کرنا چاہتا ) اور ساتھ کہا کہ میں شرح صدر کے ساتھ حاضر ہوں.آؤ ہم سب بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں.“ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جو فضلوں کی بارش نازل ہورہی ہے، یہ بہت بڑے اور اعلیٰ مقاصد سے وابستہ ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ احمدیت اب اُس دور میں داخل ہورہی ہے جہاں بہت تیز رفتاری پیدا ہو جائے گی اور آپ عنقریب قوموں کو فوج در فوج اسلام کی آغوش میں داخل ہوتے دیکھیں گے، اسلام کی گود میں آتا دیکھیں گے.یہ وہ مضمون ہے جس کا تعلق بہت گہرا استغفار سے ہے.کیونکہ قرآن کریم نے جب ایسی عظیم الشان فتوحات کا نظارہ کھینچا تو ساتھ ہی فرمایا کہ جب تم دیکھو گے.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ( النصر : ۲ تا ۴) کہ دیکھو تمہیں عظیم نظارے دکھائے جائیں گے.لوگ تو یہ دیکھتے ہیں کہ فوجیں علاقوں میں فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے داخل ہوتی ہیں اور ملکوں اور تاجوں کو اپنے قدموں تلے روندتی ہیں اور علاقوں پر علاقے فاتح فوجیں اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندتی چلی جاتی ہیں اور بڑے تکبر سے ان ملکوں میں داخل ہوتی ہیں.تمہیں اے محمد مصطفی یہ ہم فوجوں کے داخل ہونے کا ایک اور نظارہ دکھائیں گے، مخاطب آنحضور کو کیا گیا ہے.اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان اس مضمون کو یاد رکھیں، یہ ساری برکتیں محمد مصطفی اے کی ہی برکتیں ہیں.فوجوں کا ذکر کرتے ہوئے خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ اے مسلمانو! جب تمہارے دین میں شامل ہونے کے لئے فوجیں آئیں گی.فرمایا اے محمد جب تیرے حضور فو جیں
خطابات طاہر جلد دوم 313 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۳ء حاضر ہوں گی ، جب خدا کی نصرت اور فتح کے دن آئیں گے، تو کیا ہوگا.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِيْنِ اللَّهِ أَفْوَاجًا یہ فوجیں اپنے ملک حضور کے قدموں میں نچھاور کرنے کے لئے آئیں گی ، اپنے تاج و تخت حضور کے قدموں پر نچھاور کرنے کے لئے آئیں گی.یہ عجیب قسم کا فوجوں کا داخلہ ہے ، جن ملکوں میں داخل ہوتی ہیں ان کو فتح نہیں کرر ہیں بلکہ اپنے تاج و تخت کو ان کے قدموں میں ڈالنے کے لئے حاضر ہورہی ہیں.اپنے خزانوں کی چابیاں، اپنی سلطنت کی کنجیاں ان کے سپرد کرنے کے لئے حاضر ہورہی ہیں.فرمایا! جب تو یہ نظارہ دیکھے تو کیا کر.فَسَبِّحْ بِحَمْدِرَ تِكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًاO تو تو خدا کی تسبیح وتحمید میں مصروف ہو جا کیونکہ یہ تیرے خدا نے تیری خاطر انتظام کیا ہے.اگر حضرت محمد مصطفی امی ﷺ کو یہ پیغام ہے کہ تیری خاطر خدا نے انتظام کیا ہے اس لئے اپنی فتح کے نقارے نہیں بجانے بلکہ خدا کی فتح کے نقارے بجانے ہیں ، خدا کی تسبیح کرنی ہے، خدا کی حمد کے گیت گانے ہیں.تو ہم غلامان ، غلامان محمد مصطفی اللہ بڑے ہی جاہل اور بیوقوف ہوں گے اگر ان کامیابیوں کو اپنی طرف منسوب کرنے لگیں ، اپنی چالاکیوں کو ان باتوں کا محرک اور ان ( یوں کہنا چاہئے کہ ) اپنی چالا کیوں کے سر پر یہ سہرا ڈالیں کہ ہم نے چالا کیوں ، ہوشیاریوں سے، تدبیروں سے یہ بڑے بڑے کام کئے ہیں.پس جتنے بڑے بڑے کام اسلام کی خاطر ہونے والے ہیں اور عنقریب آپ دیکھیں گے کہ فوج در فوج اس کثرت سے قومیں داخل ہوں گی کہ وہ لوگ سنبھالنے مشکل ہو جائیں گے، اتنا ہی زیادہ انکسار کی طرف مائل ہوں.کامل طور پر دل میں یہ یقین رکھیں اور اس یقین کی پرورش کریں اور اس کی حفاظت کریں اور اپنی جان سے اس یقین کو چمٹا لیں کہ ہماری کوششوں اور ہماری محنتوں کا پھل نہیں ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی برکت سے خدا نے جو فضل ان پر نازل فرمائے ، وہی فضل ہیں جو ہم آج دنیا پر نازل ہوتے دیکھ رہے ہیں.پس تسبیح وتحمید کے ترانے گانے کے دن ہیں نہ کہ اپنی فخر و مباہات کے ذکر کے دن.اس ضمن میں آگے فرمایا وَ اسْتَغْفِرْهُ ، اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو.بعض پیغامات حضرت اقدس محمد مصطفی کے حوالے سے دوسروں کو دیئے جاتے ہیں اور یہاں خصوصیت کے ساتھ اس دوسرے پیغام میں زیادہ خصوصیت کے ساتھ عام مسلمان محمدمصطفی امیہ کے واسطے سے مخاطب
خطابات طاہر جلد دوم 314 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۳ء ہیں.استغفار کرو کیوں؟ فتح کے نتیجے میں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ دیکھو ہم نے اپنے اعمال کو اور اپنی سوچوں اور اپنی تدبیروں کو درجہ کمال تک پہنچا دیا ہے اور پھر اتنی بڑی فتوحات ہوئیں.استغفار کا مضمون تو اس صورت حال سے تعلق رکھتا ہے کہ ہم ناکام ہوئے، ہم نامراد ہوئے ، پتا نہیں کیا کیا غلطیاں ہم سے ہوگئی تھیں جو ہم نتیجوں سے محروم رہ گئے.تب انسان استغفار کرتا ہے، تو بہ کرتا ہے، اوہو! مجھ سے غلطیاں ہو گئیں، پتا نہیں کیا کیا نقائص تھے جن کے نتیجے میں کوئی فیض نہ پاسکا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک طرف تو فوج در فوج لوگ داخل ہوں گے، فتح کے نقارے بجیں گے مگرتم استغفار کرنا.اس کی حکمت یہ ہے کہ ہماری کمزوریوں کے باوجود یہ فضل نازل ہورہے ہیں اور ان فضلوں کے نتیجے میں ہمیں کمزوریاں دور کرنے کی طرف توجہ کرنی ہوگی اور خدا سے بخشش مانگنی ہوگی کیونکہ آنے والی قوموں کی مہمان نوازی کا حق ادا نہیں ہوسکتا جب تک ہم اپنے نفسوں کی اصلاح کی طرف متوجہ نہ ہوں.پس جتنی فتح خدا تعالیٰ کے فضل سے وسیع تر صورت میں احمدیت کو نصیب ہورہی ہے اور ہونے والی ہے، اس کے نتیجے میں اسی نسبت سے خدا کی تسبیح اور تحمید کے گیت گانے شروع کریں اور اپنی کمزوریوں کی طرف توجہ کریں.اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگیں اور استغفار کریں اور اپنی کمزوریوں کا کھوج لگا کر ان پر خدا کی رحمت کے پردے ڈالنے کی کوشش کریں.اللہ ہی ہے جولوگوں کے پردے ڈھانکتا ہے، انسان کے بس میں تو کچھ بھی نہیں اگر خدا کی ستاری کا پردہ نہ رہے تو ہم سارے تو ایک کوڑھی کی طرح اس دنیا کو دکھائی دینے لگیں کہ جس کا تن بدن رستے ہوئے ناسوروں سے چھدا ہوا ہو.حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان پر خدا کی ستاری کا پردہ ہی ہے، جب تک وہ رہے اس وقت تک وہ لوگوں کو حسین دکھائی دیتا ہے.جب وہ پردہ اٹھ جائے تو اندر سے کچھ بھی نظر نہیں آتا سوائے مکر وہ چیزوں کے.بچپن میں ہم یہ غلطی کیا کرتے تھے کہ پہاڑی جونکوں پر نمک ڈال کر ان کو پگھلایا کرتے تھے کیونکہ یہ بچپن کی بیوقوفی کہہ لیں ،مگر ایک ایسی غلطی تھی جس میں سارے بچے اس علاقے کے مبتلا تھے.جب پہاڑوں پہ جایا کرتے تھے تو جونکوں کے اوپر بڑی چکنی سے ایک جلدسی ہوتی ہے، ایک فلم سی ہوتی ہے، جو نمک سے فوراً پگھل جاتی ہے اور اس Film کے ساتھ وہ جونک چلتی ہوئی بڑی پیاری معلوم ہوتی ہے لیکن نمک ڈالیں تو اندر سے محض گوبر کا ڈھیر ہے کچھ بھی باقی نہیں رہتا.پس اگر دنیا کوخدا موقع دے دے کہ وہ ہم کمزوروں اور نا اہلوں پر نمک ڈال دیں تو اس نمک سے پکھل کر ہمارا
خطابات طاہر جلد دوم 315 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۳ء کچھ بھی باقی نہیں رہے گا لیکن خدا ہماری حفاظت فرما رہا ہے.خدا کی رحمت اورستاری کا پردہ ہے جو ہمارے عیوب کو ڈھانپے ہوئے ہے، اس پر دے کی حفاظت کے لئے استغفارضروری ہے.پس استغفار کا مضمون اس لئے بھی ہے کہ قو میں آئیں گی اور تمہیں دیکھیں گی.اگر انہوں نے تمہارا اندرونہ دیکھ لیا، اگر تمہاری کمزوریوں سے آگاہ ہوگئیں تو اسلام سے متنفر ہونے لگیں گی.پس خدا سے بخشش مانگتے ہوئے جس طرح کیٹر امٹی میں چھپتا ہے اس طرح خدا کے فضلوں اور رحمتوں اور ستاری کے پردے میں چھپ جاؤ تا کہ تمہارا صرف حسین چہرہ دکھائی دے.دکھاوے کی خاطر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کی حفاظت کے لئے اور خدا کے دین میں داخل ہونے والوں کی اخلاقی قدروں کی حفاظت کے لئے تمہیں لازماً اچھا بنا ہوگا اور وہ اچھا بنا استغفار کے ذریعے ہوسکتا ہے.پر دے دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک پردہ وہ ہے جو بیماریوں کو اس طرح ڈھانپتا ہے کہ بیماریاں اندر اسی طرح پلیتی رہتی ہیں اور صرف پردہ ہی رہتا ہے.مگر خدا جس پر دے کی طرف آپ کو بلا رہا ہے یعنی ستاری کا پردہ اس کے متعلق جب سے دنیا بنی ہے تمام عارف باللہ گواہ ہیں اور واقعاتی طور پر اپنے تجارب سے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ خدا کی ستاری کے پردے میں انسان کی کمزوریاں دور ہونے لگتی ہیں ، وہ ویسا نہیں رہتا جیسے پہلے تھا.پس وہ پردہ جس کے ہٹانے سے برائیاں نہ صرف اسی طرح دکھائی دیں بلکہ پہلے سے بڑھ کر دکھائی دیں وہ عیاری کا پردہ ہے ، وہ ستاری کا پردہ نہیں.وہ دکھاوے کا پردہ ہے،وہ بخشش کا پردہ نہیں ، وہ استغفار کا پردہ نہیں.استغفار کے پردے کی یہ قطعی علامت ہے اور جب سے دنیا بنی ہے یہی اس پردے کی خوبی اور یہی اس پردے کا خاصا ہے کہ جو اس پردے کے تلے آئے اس کے اندر اصلاح ہونی شروع ہو جاتی ہے، اس کی بیماریاں دور ہونی شروع ہو جاتی ہیں.پس پردہ وہاں وہاں سے اٹھتا ہے جہاں جہاں سے جسم اور روح اصلاح پذیر ہو چکے ہوتے ہیں، ایک نئے روپ میں انسان دنیا کے سامنے ابھرتا ہے.پس ان آنے والوں کو یہ نظارے دکھائیں اور یہ نظارے صرف استغفار کی برکت سے حاصل ہو سکتے ہیں.اب میں ایک دو اور باتیں آپ کے سامنے کچھ جذباتی سی بھی ہیں کچھ واقعاتی سی بھی وہ رکھتا ہوں آپ کو یاد ہو گا چند سال پہلے میں نے ایک نظم میں اپنی عاجزانہ تمناؤں کا اظہار کیا تھا.جس کے شعر کچھ ایسے تھے کہ
خطابات طاہر جلد دوم 316 ہم آن ملیں گے متوالو بس دیر ہے کل یا پرسوں کی افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء تم دیکھو گے تو آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی دید کے ترسوں کی ( کلام طاہر : ۳۷) یہ جو نظم ہے اس کے حوالے سے بسا اوقات پاکستان سے خصوصیت سے لوگ، خصوصاً نوجوان لڑکے مجھے لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کل اور پرسوں گزرے ہوئے تو دیر ہوگئی.آپ کب آئیں گے؟ آپ تو کہتے تھے یہ جھوٹی باتیں نہیں نکلیں گی ، دشمن کی باتیں جھوٹی نکلیں گی.تو پھر کیا بات ہے کہ آپ ابھی تک وہاں ہیں ؟ میں ان کو بتا تا ہوں کہ ٹیلی ویژن کے ذریعے خدا تعالیٰ نے مجھے جو آپ کے گھروں تک پہنچایا ہے یہ اللہ تعالیٰ نے میری عاجزانہ تمناؤں کا پھل ہی تو دیا ہے، میری بے قراریوں اور بے کسیوں پر اس طرح اپنی ستاری کا پردہ ڈالا ہے.میں نے جوا ظہار کیا تھا یہ کوئی ایسی پیشگوئی نہیں تھی جس کی بناء کسی الہام پر ہو بلکہ خدا تعالی کی عمومی تقدیر پر تھی ، جو خدا کی راہ میں ہجرت اختیار کرتے ہیں خدا ضرور بالآخر کامیابی سے ان کو اپنے وطنوں کی طرف واپس لے کے آیا کرتا ہے، یہ وہ بات ہے جو لازماً ہو کے رہے گی.اس کے دفاع میں میں کوئی عذر پیش نہیں کر رہا بلکہ آپ کو حقیقت بتا رہا ہوں.جہاں تک کل اور پرسوں کی بات ہے، یہ تو محاورہ ہے، ایک دل کی تمنا ہے، اگر شعر اجازت دیتا تو میں آج چند لمحوں کی باتیں کرتا، کل اور پرسوں کی بجائے.تو میری تمناؤں پہ تو نہ پہرے بٹھائیں، میری بے قرار یوں پر اس طرح ضرب تو نہ لگائیں کہ تم تو کہتے تھے کل، پرسوں آجائیں گے.کہاں بیٹھے ہو، کیوں آنہیں رہے؟ میں تو ایک عاجز انسان ہوں، میری خواہش ہے ، میری محبت ہے، جو ان شعروں میں ڈھلتی ہے.اللہ تعالیٰ اس پر رحمت کی نظر ڈالتا ہے اور وہ سامان فرما رہا ہے جس کے نتیجے میں ہماری دُوریاں قربتوں میں تبدیل ہو رہی ہیں.آپ کیوں نہیں دیکھتے کس طرح خدا نے اپنے فضل کے ساتھ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے لئے وہ سامان پیدا فرمائے جس کا یہ شعر مظہر ہے.تم دیکھو گے تو آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی دید کے ترسوں کی ٤ کثرت کے ساتھ لوگ لکھتے ہیں کہ جب ہم نے پہلی دفعہ دیکھا تو آنکھوں سے اس طرح آنسو بر سے جیسے موسلا دھار جھڑی لگ گئی ہو اور یہ نظارہ صرف پاکستان کا نہیں ساری دنیا سے اس کی خبریں مل رہی ہیں.ابھی غانا کے نظارے آپ کے سامنے پیش کئے گئے ، وہاں بھی یہ حال ہے تو اللہ تعالیٰ نے تو اپنے فضل کے ساتھ معنوی طور پر اس پیشگوئی کو یا جواظہار تمنا تھا ، اس کو پورا کرنے کے
خطابات طاہر جلد دوم 317 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۳ء سامان کر دیئے ، غیروں کو تو دکھائی دے رہا ہے اور غیر اس کا اقرار کرنے لگے ہیں.ان نو جوانوں کو پتہ نہیں کیوں یہ بات دکھائی نہیں دے رہی ؟ ایک مربی صاحب لکھتے ہیں کہ : " مخالفین کے ایک اجلاس میں بعض سر کردہ شیعہ احباب کو بھی مدعو کیا گیا اور جماعت احمدیہ سے متعلق کس طرح ان کو مٹایا جائے ، کس طرح ان کی راہ میں روکیں کھڑی کی جائیں، موضوع زیر بحث تھا.اس موقعے پر ایک جرات مند شیعہ دوست بر ملا اس مجلس میں کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا جو تم نے پہلے کوششیں کی تھیں ان کے نتیجے تو دیکھ لو، ان کو تو سنبھال لو.تم نے مرزا طاہر کو ملک سے ملک بدر کر دیا تھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہمارے سارے گھروں میں داخل ہو گیا ہے.“ اس نے کہا: تم کیا اور تمہاری کوششیں کیا؟ اپنے گھروں کو تو اب بچاؤ.ہماری عورتیں ہمارے بچے بڑی محبت اور شوق سے اس کو دیکھنے اور سننے لگے ہیں.کون ہوتا ہے جو اس راہ میں حائل ہوسکتا ہے؟ اس لئے جو پہلے کر بیٹھے ہو اسی کو بھگت لو، مزید کوششیں کوئی نہ کرنا.“ مجھے اس پر حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ شعر یاد آ گیا ، جو اقبال کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ نہ دکھائی دوں تو یہ فکر کر کہیں فرق ہو نہ نگاہ میں (ڈر عدن: ۷۱ ) تو اب تو اللہ تعالیٰ نے سب دنیا کو یہ نظارے دکھا دیئے ہیں ، اگر کسی کو ابھی بھی دکھائی نہیں دیتا تو اپنی نگاہ کی فکر کرے کہیں اس میں فرق نہ ہو.اب میں اس ضمن میں ایک اور نصیحت کر کے اس مضمون کو ختم کروں گا، اب چند منٹ باقی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسے کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے ایک یہ غرض بھی بیان فرمائی تھی کہ آپس میں ملنے سے، ایک دوسرے سے تعلقات بڑھانے سے محبت بڑھتی
خطابات طاہر جلد دوم 318 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء ہے اور عالمی برادری کا ایک نظام جاری ہوتا ہے.ڈش انٹینا کے بعد بعض دوستوں نے یہ کہا کہ اب تو ہم ڈش انٹینا پر دیکھ سکتے ہیں، اب آنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن بعض دوسرے لوگوں نے کہا کہ ڈش کے ذریعے دیکھنا اور بات ہے وہاں پہنچ کر دیکھنا اور بات ہے، بڑا فرق ہے.یہ باتیں جو مختلف جگہوں سے پہنچی ہیں تو مجھے یہ خطرہ پیدا ہوا تھا کہ یہ ڈش انٹینا کہیں بعض لوگوں کے آنے کی راہ میں حائل نہ ہو جائے مگر جیسا کہ آپ آج دیکھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جوق در جوق شوق محبت اور شوق وصال میں ساری دنیا سے احمدیت کے پروانے آج یہاں اکٹھے ہو گئے ہیں اور یہ سلسلہ ڈش انٹینا کے نتیجے میں کم نہیں ہوا بلکہ بڑھ رہا ہے.وہ جنہوں نے پہلی دفعہ ڈش انٹینا کے ذریعے جماعت کے جلسوں کو دیکھا ہے ان کا شوق دیدار تیز ہوا ہے، مدھم نہیں ہوا اور آج بڑی کثرت سے ایسے ملکوں سے لوگ آئے ہیں جو پہلے کبھی نہیں آئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس ڈش انٹینا کی برکت سے عالمی مواصلاتی ذریعے سے جو نظارے انہوں نے دیکھے ہیں، انہوں نے شوق دید کو اور زیادہ بیتاب کر دیا ہے اور بڑھا دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو بات بیان فرمائی تھی وہی حق ہے.جومل کر بیٹھنے اور صحبت اختیار کرنے کی برکت ہے وہ اپنی جگہ ہے، اس کو کوئی دوسری چیز ہٹا نہیں سکتی ، اس کے بدلے میں کوئی اور چیز اس کی جگہ نہیں لے سکتی.فرماتے ہیں.کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئے کیونکہ سلسلہء بیعت میں داخل ہوکر پھر ملاقات کی پرواہ نہ رکھنا ، ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی اور چونکہ ہر یک کے لئے باعث ضعف فطرت یا کمی مقدرت یا بعد مسافت یہ میسر نہیں آ سکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کیلئے آوے کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے اوپر روا رکھ سکیں.لہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کیلئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قو یہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ: ۲۳۸)
خطابات طاہر جلد دوم 319 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کی راہ میں ڈش انٹینا حائل نہیں ہوا، کوئی دنیا کی طاقت حائل نہیں ہو سکتی.اس خواہش کی پیاس کو اور زیادہ بھڑ کا دیا ہے اور آپ دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تعالیٰ تمام دنیا سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عشاق اور پروانے آئندہ سب جلسوں میں خواہ یہاں ہوں یا دنیا کی کسی اور جگہ واقع ہوں، جہاں بھی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ادنی غلام جائے گا، لوگ جوق در جوق ان جلسوں میں شامل ہوا کریں گے.ڈش انٹینا والے بھی اس لذت سے فیضیاب ہوں گے، دُور بیٹھے ہوئے وہ بھی خدا تعالیٰ سے برکتیں پائیں گے مگر جو آ کر مل بیٹھنے کی برکتیں ہیں وہ اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسے کی اغراض کے بیان میں ایک یہ بھی نصیحت فرمائی تھی کہ مغربی ملکوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنا ایک بہت ہی اہم مقصد ہے جو اس جلسے کے مقاصد میں داخل ہے.فرمایا.جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں.پس دیکھیں آج خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ جلسہ جو یورپ اور مغربی قوموں کے درمیان منعقد ہورہا ہے، اس میں بہت سے ایسے منصوبے ہیں جن کا گہرا تعلق یورپ کی اصلاح سے ہے اور وہ انشاء اللہ تعالیٰ روز بروز اور زیادہ منظم اور مربوط ہوتے چلے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کا فیض پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ کر مغربی قوموں میں پھیلتا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے طیار ہورہے ہیں اور اسلام کے تفرقہ مذاہب سے بہت لرزاں اور ہراساں ہیں.( یورپ میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو اسلام میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں.کچھ وہ سعید روحیں ہیں جو تفرقے کو دیکھ کر لرزاں اور ترساں ہیں اور ہراساں ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے.) چنانچہ انہیں دنوں میں ایک انگریز کی میرے نام چٹھی آئی (یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے نام) جس میں لکھا تھا کہ آپ تمام
خطابات طاہر جلد دوم 320 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء جانداروں پر رحم رکھتے ہیں اور ہم بھی انسان ہیں اور مستحق رحم کیونکہ دین اسلام قبول کر چکے اور اسلام کی بچی اور صحیح تعلیم سے اب تک بے خبر ہیں.سو بھائیو! یقیناً سمجھو کہ یہ ہمارے لئے ہی جماعت طیار ہونے والی ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۲۸۱) پس آج جو پاکستان سے علماء نے بہت سے احمدیت کے جگر گوشے باہر نکال پھینکے اور آج جن کو یورپ میں پناہ ملی، یہ الہی منصوبے کے تابع ہے.اب آپ کا فرض ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تمنا کو اس شان کے ساتھ پوری کریں کہ یورپ کے دکھتے ہوئے بیمار دلوں کی تسکین اور آرام کے اور ان کی صحت اور ان کی شفا کے سامان کریں.اپنے پاک نمونے سے، پاک نصیحتوں کے ذریعے کثرت کے ساتھ ، یورپ کی دکھی انسانیت آپ کی نظر شفقت کی محتاج ہے اور آپ کے پاک عمل کے نمونے دیکھنے کے لئے تیار بیٹھی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو یہ توفیق عطا فرمائے.آخر پر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ ہر یک صاحب جو اس للّہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے (کیسی پیاری دعا ہے ) اور ان کے ہم وغم دور فرمادے اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفران کے بعد ان کا خلیفہ ہو ( ایک یہ بھی خلیفہ کے کتنے پیارے معنے ہیں جو خدا کے خلیفہ بن جاتے ہیں جب وہ جگہیں چھوڑتے ہیں تو خدا ان کا خلیفہ ہو جاتا ہے.) اے خدا، اے ذوالمجد والعطاء اور رحیم اور مشکل کشا! یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر ایک قوت اور طاقت تجھی کو ہے.آمین ثم آمین والسلام على من اتبع الهدى (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه: ۲۸۲)
خطابات طاہر جلد دوم 321 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ء پس آپ بہت ہی سعید بخت ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان دعاؤں کا پھل اور فیض پانے کے لئے اس مبارک جلسے میں اکٹھے ہوئے ہیں.خدا ان سب دعاؤں کو آپ کے حق میں بھی پورا فرمائے اور تمام دنیا میں جو اسی جلسے میں شمولیت کی غرض سے ہر جگہ آج عالمگیر اجتماع ہورہا ہے خدا ان سب کو بھی ان دعاؤں کے فیض سے محروم نہ رکھے.ان پر بھی اسی طرح برکتیں نازل ہوں.آئیے اب ہم دعا کر لیتے ہیں.حضور انور نے لمبی اور پر سوز دعا کروائی اور دعا کے بعد آپ نے فرمایا: ہمارے ایک بہت ہی مخلص فدائی دوست ہیں برا در صادق جو بہت زبردست میوزیشن (Musician) تھے، جب احمدی ہوئے تو سب باتیں چھوڑ کر سب کچھ اپنا قرآن اور حدیث کے مطالعہ کے لئے اپنی ساری طاقتیں خرچ کیں اور بہت ہی اعلیٰ درجہ کے مقرر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دن سے احمدیت کی خدمت اور احمدیت کی تعلیم میں وقف ہیں.آنکھوں کا نور جاتا رہا ہے مگر دل کا نور بڑھ رہا ہے، ہر سال خرابی صحت کے باوجود ضرور اس جلسے میں تشریف لاتے ہیں.تو جانے سے پہلے جب میں نے ان کی آواز سنی تو میرے دل کی جو کیفیت تھی ، میں ان کو مخاطب ہو کے کہنا چاہتا ہوں کہ Brother Sadiq! your voice was music to my ears and ecstasy to my heart, Allah bless you.
خطابات طاہر جلد دوم 323 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء جس کا نام خدا نے محمد رکھا کسی کی کیا مجال کہ اس کی تو ہین کر سکے.توہین رسالت اور آپ کا اپنا عظیم کردار نیز توہین رسالت کے حقیقی مرتکب لوگوں کا ذکر افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۹ جولائی ۱۹۹۴ء بمقام اسلام آباد تلفورڈ برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ایک مادی کائنات کو روشن کرنے والا سورج ہے اور ایک روحانی کائنات کو روشن کرنے والا سورج ہے.مادی کائنات کو روشن کرنے والا سورج تو ہر روز اسی آب و تاب اسی شان کے ساتھ طلوع ہوتا ہے لیکن روحانی کائنات کو روشن کرنے والا سورج یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہر روز نئے جلوؤں اور نئی شان کے ساتھ طلوع ہورہے ہیں اور آپ کی شان روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے.آج یہ شان احمدیت کی صورت میں دنیا کے سامنے جلوہ گر ہے اور خدا کا فضل حضرت اقدس محمد مصطفی میت ہے کے فیض اور برکتوں کو جماعت احمدیہ کے ذریعے روز بروز دنیا میں پھیلاتا چلا جارہا ہے.یہ اللہ تعالیٰ ہے اور اسی کی شان ہے جو آنحضور ﷺ کا نور بن کر چمکی اور وہی شان ہے جسے آج ہم ہر روز ترقی یافتہ صورت میں یعنی ایسی صورت میں کہ دنیا کی آنکھیں زیادہ سے زیادہ اس سے خیرہ ہوتی چلی جارہی ہیں اور زیادہ سے زیادہ روشن ہوتی چلی جارہی ہیں دیکھ رہے ہیں.اس افتتاحی خطاب کا موضوع تو میں پہلے بیان کر چکا ہوں لیکن افتتاحی خطاب کی کچھ ایسی باتیں ہوتی ہیں جو اصل موضوع سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ روزمرہ کے افتتاحی خطاب کے مضمون سے
خطابات طاہر جلد دوم 324 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء بنفسہ تعلق رکھتی ہیں.آج جو U.K کے اس جلسہ سالانہ کا افتتاح ہورہا ہے، اس نئے دن کی ایک خوشخبری میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے MTA یعنی مسلم ٹیلیویژن احمدیہ کا سورج بلا استثناء تمام دنیا پر طلوع ہو چکا ہے.آج اسی لمحہ یہ تصویریں جو یہاں بن رہی ہیں دنیا کے کناروں تک دیکھی جارہی ہیں اور وہ آوازیں جو یہاں بلند ہو رہی ہیں دنیا کے کناروں تک سنائی دے رہی ہیں.آج جمعہ سے پہلے صرف ایک پریشانی کی خبر تھی کہ ماریشس والے براہ راست اس پروگرام کو دیکھنے اور سننے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے.حالانکہ جو مشرق بعید کے لئے ہم نے نیا سیارہ استعمال کیا ہے اس کی رو سے حساب مجھے بتا تا تھا کہ ماریشس میں بھی ضرور یہ پروگرام دیکھا اور سنا جاسکتا ہے.پس وہ اصرار کرتے رہے کہ ہمیں اجازت دی جائے کہ سابق کی طرح ٹیلیفون کے رابطے سے ہم اس پروگرام کو سن سکیں اور میں بند رہا کہ کوشش کرتے چلے جائیں، مجھے امید ہے کہ اللہ کے فضل کے ساتھ آپ بھی اس پروگرام میں شامل ہونے کی توفیق پائیں گے.پس ابھی ماریشس سے یہ اطلاع ملی ہے کہ خدا کے فضل سے اس عالمی رابطے کے ذریعے بغیر کسی ٹیلیفونک رابطے کے براہ راست ماریشس میں بھی یہ پروگرام پوری شان کے ساتھ دیکھا اور سنا جارہا ہے.اسلام کا جو حسین چہرہ جو اصلی اور حقیقی ہے جو حضرت مسیح موعود ، مہدی موعود کے ذریعہ دوبارہ ہم سب پر روشن ہوا اور ازمنہ وسطیٰ کے اندھیروں سے نکال کر ہمیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے نور، اولین نور کی طرف واپس لے گیا ، وہی چہرہ ہے جو تمام دنیا کے دل جیتنے والا ، ان کی روحیں جیتنے والا ، ان کے دماغ جیتنے والا ہے اور وہ سارے چہرے جو اس کے مقابل پر اسلام کو داغدار صورت میں پیش کر رہے ہیں ان کے مقدر میں فنا ہونا ہے.وہ چہرے بناوٹی چہرے ہیں اور جیسا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں مطلع فرمایا کہ خدا شیطان کو یہ اجازت نہیں دے گا کہ محمد رسول اللہ کا فرضی چہرہ بنائے.( بخاری کتاب العلم حدیث نمبر : ۱۱۰) پس آسمان پر یہ تقدیر طے شدہ ہے اور کوئی اس کو بدل نہیں سکتا کہ محمد رسول اللہ کا وہی چہرہ دنیا پر روشن ہوگا جو آپ کا حقیقی اور اصلی چہرہ ہے اور آج خدام احمدیت کو یہ توفیق مل رہی ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ ملتی چلی جائے گی کہ اس نور کو جو اللہ کا نور تھا اس کی اصلی صورت میں ساری دنیا کے سامنے پیش کریں.خدا کا عجیب فضل ہے کہ افتتاحی تقریر جو آسٹریلیا میں بھی بڑی صاف دکھائی دے رہی تھی اور
خطابات طاہر جلد دوم 325 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء سنائی دے رہی تھی ، اس تقریر کے دوران ( یعنی افتتاحی تقریر نہیں جمعہ کا خطاب ) اس کے دوران ایک غیر مسلم آسٹریلین کا فون آیا.اس نے سعید جسوال صاحب سے کہا کہ میں حیرت زدہ ہوں کہ اسلام اتنا خوبصورت مذہب ہے.آج جو اسلام میرے سامنے ہے میں ایک لحظہ کے لئے بھی اس پروگرام کو چھوڑ نہیں سکتا.مجھے بتائیں کہ یہ کون ہیں جو اسلام کو اس خوبصورتی سے دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں؟ پس ایک وہ چہرہ ہے اسلام کا جو ہم اپنی قربانیوں سے از سر نو دنیا کے سامنے نئے رنگ بھر کر پیش کر رہے ہیں اور ایک وہ چہرہ ہے جو اسلام کو ظالم اور سفاک اور تنگ نظر مذہب کے طور پر دنیا کے سامنے دکھا رہا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ فتح حقیقی اسلام ہی کی ہوگی ، ان فرضی چہروں نے بہر حال مٹنا ہے اور مٹ جانا ہے اور تاریخ کے انبار تلے دب جانا ان کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے.میں یہ مضمون بیان کر رہا تھا کہ بہت سے ظالموں نے قرآن کریم کی حقیقی تعلیم سے منہ پھیر کر ازمنہ وسطی کے بعض فقہاء اور بعض حدیثیں جمع کرنے والوں کی ایسی احادیث پر بنا کرتے ہوئے جن کی کوئی اصل نہیں ہے جو قرآن کریم کے مضمون سے واضح طور پر ٹکرانے والی ہیں ایسے مفتی پیدا ہوئے ، جن مفتیوں نے اپنی عقل اور فہم کے مطابق بظاہر اسلام کی خدمت کی مگر ایسا بھیانک تصور اسلام کا پیش کیا کہ اس تصور کی رو سے اسلام دنیا پر فتح یاب نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تصور انسانی فطرت کے خلاف ہے.اور قرآن کا دعوی ہے کہ قرآنی تعلیم فطرت کے مطابق ہے، فطرت پر انسان کو پیدا کیا گیا اور فطرت ہی کی تعلیم ہے جو اسلام نے دی.پس ہر وہ تعلیم جس سے فطرت مناسبت نہیں رکھتی ، ہر وہ تعلیم جو انسان کی سچی فطرت کے معاند اور مخالف ہے وہ کسی صورت بھی اسلام کی تعلیم نہیں کہلا سکتی.یہ ایک ایسا دائی ، بنیادی قطعی اصول ہے جس میں آپ کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے.بہر حال ان لوگوں نے قرآن کریم اور سنت سے بعض غلط معانی اخذ کر کے، شروع میں ممکن ہے کہ اس زمانے کی سادگی کے نتیجے میں ایسا ہوا ہو مگر آج کل کے زمانے میں ان معانی کو اخذ کرنے کا ان لوگوں کے پاس کوئی جواز نہ تھا.اس کے باوجود بضد ہیں کہ اسلام یہی ہے جو ہم سمجھ رہے ہیں اور جس پر ہم عمل پیرا ہیں.اس صورت میں اسلام کی جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ نہ صرف یہ کہ بھیا تک ہے بلکہ ان کا عمل اس تصویر کو خود جھٹلا رہا ہے.قرآن کریم کی جو آیات میں نے آپ کے سامنے رکھیں ، جوتعلیم سنت نبوی کے حوالے سے
خطابات طاہر جلد دوم 326 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء آپ کے سامنے پیش کی اس میں اسلام کے نام پر جبر ظلم اور زبردستی اور کسی گستاخی کی خواہ وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو، انسانی سزا کا کوئی تصور پیش نہیں کیا گیا لیکن ان مفتیان نے جن کا میں ذکر کر رہا ہوں اور آج بھی جو آج کے مفتیوں کی لگا میں تھامے ہوئے ہیں انہوں نے یہ کھلم کھلے فتوے دیئے کہ کفر کی سز اقتل ہے، اس کے سوا اور کوئی سزا نہیں اور بار بار اس بات کو ہرایا اور جہاں جہاں گستاخی رسول کے حوالے سے ان لوگوں نے قتل کے فتوے دیئے ہیں وہاں یہ استنباط قائم کیا ہے کہ چونکہ گستاخی رسول کرنے والا کافر ہو جاتا ہے اور کفر کی سزا قتل کے سوا اور کچھ نہیں ، اس لئے لازماً ایسے شخص کو قتل کیا جائے گا.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کیا کوئی علاقائی مذہب ہے یا جغرافیائی یا قومیائی مذہب ہے یا بین الاقوامی اور کل عالم کا مذہب ہے ؟ اگر کل عالم کا مذہب ہے تو اس کا فتویٰ یکساں ہر ملک میں برابر صادق آنا چاہئے اور برابر چلنا چاہئے.وہ مسلمان جو غیر قوموں میں دوسری دنیا میں بستے ہیں ان کا کوئی حق نہیں کہ اسلام کی ایک تعلیم کو سچا سمجھتے ہوئے اپنی جان بچانے کی خاطر اس تعلیم سے وہاں روگردانی کریں جہاں ان کو طاقت نہیں ہے کہ اُس تعلیم پر عمل کر سکیں.پس یہ محض ایک دھوکہ ہے ایک نفس کا دھوکہ ہے اور دنیا کو دھو کہ میں ڈالنے والی بات ہے.مثلاً یہ جو کہا جاتا ہے کہ کفر کا نتیجہ لاز ماقتل ہے، تو اس صورت میں آج بھی دنیا میں یہودی اور عیسائی اور ہند و ہر جگہ بس رہے ہیں ، جہاں مسلمان موجود ہیں.غیر قوموں میں اگر ان کو اختیار نہیں تو اپنے دائرہ حکومت میں تو اختیار ہے وہاں ان کو قتل کر کے دکھائیں اگر ان میں طاقت ہے، اگر ان میں سچی غیرت ہے.یہ کہتے ہیں کہ اور کوئی سزا تک رسالت کے نام پر پہلے تجویز نہیں ہوئی تھی ، یہ اس نئے دور کا کرشمہ ہے.بعض علماء لکھتے ہیں کہ یہ تعلیم خاص حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عصمت کی حفاظت کے لئے جاری کی گئی ہے اور کوئی دوسرا نبی اس میں شریک نہیں، حالانکہ قرآن کریم اس مضمون کو بالکل جھٹلا رہا ہے.بار بار نمونے ہتک اور گستاخی کے پیش کرتا ہے، سب نبیوں کے حوالے سے پیش کرتا ہے اور اس کے مقابل پر آنحضرت ﷺ کے ساتھ یہی سلوک دکھلاتا ہے اور تعلیم یہ دیتا ہے کہ پس صبر کر ، صبر کر، صبر کر اور ان لوگوں سے اعراض کر اللہ ان سے نپٹنے والا ہے.پس ان سب کے دعاوی جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ گستاخی رسول کی سزا قر آن کریم نے اور صرف قرآن کریم نے دوسرے مذاہب کے برعکس یہ تجویز فرمائی ہے کہ ایسے شخص کو مہلت بھی نہ دی
خطابات طاہر جلد دوم 327 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۹۴ء جائے ، اس کی تو یہ بھی قبول نہ کی جائے ، سنو کہ گستاخی ہوئی اس کا خون تم پر مباح ہو گیا ، حلال ہے ہر مسلمان کے لئے کہ اس پر چڑھ دوڑے اور اس کو قتل کر دے.پہلا سوال یہی ہے کہ کیا یہ تعلیم کسی خاص علاقے سے تعلق رکھتی ہے یا تمام دنیا سے؟ اگر تمام دنیا سے تعلق رکھتی ہے تو ہر ملک میں تمہارا یہی فرض ہے کہ اس تعلیم کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کر دو اور چڑھ دوڑو ہر دشمن پر اور کفر کے نام پر قتل کا بازار گرم کر دو.مگر تم جانتے ہو اور خوب جانتے ہو اگر ایسی گستاخی کرو گے یعنی قرآن اور اسلام اور حدیث اور نبی کی گستاخی کرو گے اور اپنی تعلیمات اس پاک مذہب کی طرف منسوب کرو گے تو تمہارے خون کا بازار گرم ہو گا تم صفحہ ہستی سے نابود کر دیئے جاؤ گے.تمہیں طاقت نہیں ہے کہ اس بات پر عمل کر کے دکھاؤ جس بات کا تم دعوی کرتے ہو.الله پھر گستاخی کا کیا مطلب ہے؟ کیا آنحضرت ﷺ کو جھوٹا کہنا یا جھوٹا یقین کرنا گستاخی ہے کہ نہیں ؟ کیا یہودی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو سچا مانتے ہیں؟ ان کا مذہب ان کو مجبور کرتا ہے یہ کہنے پر کہ آنحضرت ﷺ مفتری ہیں.جیسا کہ قرآن بتاتا ہے کہ اُس زمانے کے یہود کا بھی یہی دعوی تھا اور یہی مسلک تھا.کیا عیسائی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو سچا جانتے ہیں؟ اگر نہیں اور تم جانتے ہو کہ نہیں تو کیا یہ گستاخی رسول نہیں کہ عیسائی آنحضور ﷺ کو مفتری قرار دیتے ہیں.کیا ہندو آپ کو سچا جانتے ہیں؟ کیا دنیا کے دیگر مذاہب والے آپ کو سچا جانتے ہیں؟ اگر وہ سچا جانتے تو آپ کی صداقت کا اقرار کرتے اور اسلام سے باہر ایک آن بھی نہ رہتے.پس ان لوگوں کے متعلق تمہارا کیا فتویٰ ہے؟ کیا آنحضور کو جھوٹا کہنے والا اور جھوٹا سمجھنے والا گستاخ رسول ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو پھر گستاخی کا کیا تصور تمہارے ذہن میں ہے؟ کیا اس سے زیادہ بھی کسی کی گستاخی ہو سکتی ہے کہ کسی کو جھوٹا کہہ دیا جائے.تم لوگوں کا اپنا یہ حال ہے کہ جتنا چاہو جھوٹ بولوا گر تم پر کوئی کھلے بندوں یہ الزام لگائے کہ تم جھوٹے ہو تو تن کر سامنے کھڑے ہو جاتے ہو کہ ہیں ہیں ہمیں جھوٹا کیوں کہا، اور جو مرضی ہوں ہم جھوٹے نہیں، حالانکہ سرتا پا جھوٹے، جھوٹا کہنے پر قتل ہو جاتے ہیں اور سوئی ہوئی غیرت انسان کی یا نیم مردہ غیرت اچانک جاگ اٹھتی ہے اور جھوٹے بھی اپنی سچائی کی حفاظت کے لئے جان دینے پر تیار ہو جاتے ہیں اور اگر طاقتور ہوں تو جان لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.پس کسی کو جھوٹا کہنا بہت بڑی گستاخی ہے اور تم جانتے ہو کہ تمام غیر مسلم اقوام
خطابات طاہر جلد دوم 328 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو مفتری اور جھوٹا قرار دیتے ہیں ( اور اقوام ہیں تو قرار دیتی ہیں ) اور تمہارا کوئی بس نہیں، کوئی پیش نہیں جاتی ، کچھ بھی ان کا نہیں کر سکتے اس لئے کہ یہ تمہارا دین اسلام کا دین نہیں ، یہ دین فطرت نہیں ہے.دین فطرت وہی ہے جو خدا نے ہر روح میں اس طرح داخل فرما دیا ہے کہ اس دین فطرت سے انسان کا خمیر اٹھایا گیا ہے.اس خمیر کے خلاف تم کوئی دین دنیا میں رائج نہیں کر سکتے.وہی دین رائج ہوگا اور فتح یاب ہوگا جس کا خمیر انسانی فطرت میں گوندھا گیا ہے اور وہ بین الاقوامی انسانیت کا تصور ہے.اسلام کا کوئی حکم بھی اس بین الاقوامی انسانی تصور سے ٹکر انہیں سکتا.اب ان کے دلائل سنیئے ، مولویوں کے دلائل اب میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.توہین رسالت کے متعلق دو آیات پیش کرتے ہیں.وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنَّ قُلْ أذُنَ خَيْرِ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمُ (التوبه (1) کہ ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو نبی کو اذیت پہنچاتے ہیں، تکلیفیں دیتے ہیں.وَيَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُ اور کہتے ہیں کہ یہ تو ہر وقت سنے کا کان بنا ہوا ہے.یعنی لوگوں کی چغلیاں سنتا اور ان پر عمل کرتا اور ان پر ایمان لاتا ہے اور یکطرفہ باتیں سن کر ان کے مطابق فیصلے کرتا ہے.قُلْ أذن خَيْرِ لَكُم كان تو ہے مگر بھلائی کی باتوں پر کان دھرتا ہے، ایسا کان ہے جو تمہاری بھلائی کا کان ہے.تمہارے لئے شر کی بات کو قبول نہیں کرتا تمہاری خیر کی بات کو قبول کرنے والا ہے.يُؤْمِنُ بِاللهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے اور مومنوں پر ایمان لاتا ہے.یعنی مومنوں کی سچی باتیں سنتا ہے.وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ اور وہ لوگ جو تم میں سے ایمان لائے ہیں ان کے لئے مجسم رحمت ہے.وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ اور وہ لوگ جو اللہ کے رسول کو اذیت دیتے ہیں.لَهُمْ عَذَاب الیم ان کے لئے درد ناک عذاب ہے.کہاں لکھا ہے کہ ان کی گردنیں مارنا تم پر دینی فرض ہے.اللہ کی طرف سے عذاب کی خبریں سارے قرآن کریم میں بکھری پڑی ہیں.تمام کجیاں خواہ وہ عقائد سے تعلق رکھتی ہوں یا اعمال
خطابات طاہر جلد دوم 329 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء سے تعلق رکھتی ہوں خدا کے حضور نا پسندیدہ ہیں اور ان سب کجیوں کے ذکر کے بعد خدا کسی نہ کسی عذاب کی خبر دیتا ہے.پس اس سے یہ استنباط کر لینا کہ اس کے نتیجے میں قرآن ہر ایک کو اجازت دیتا الله ہے اگر وہ سمجھے کہ کسی نبی کی ہتک ہوئی ہے یا خصوصیت سے حضرت رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کی گئی ہے تو اس کا خون اس پر حلال ہو جاتا ہے، یہ کسی خاص مولوی منطق کے سوا انسان کو سمجھ نہیں آسکتا.پھر ایک دوسری آیت یہ پیش کی ہے إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا (الاحزاب :۵۸) کہ وہ لوگ جو اللہ اور رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر اس دنیا میں بھی لعنت کی گئی اور آخرت میں بھی لعنت کی گئی اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا ، رسوا کن عذاب مقدر ہے.اس سے استنباط کرتے ہیں کہ دیکھو دنیا میں بھی تو لعنت ہے اور وہ لعنت ہم ہیں ، ہم ان پر لعنت بن کے برسیں گے.واقعہ یہ ہے کہ یہ محاورہ قرآن کریم میں عام ہے، یہود کے متعلق بھی کثرت سے ہے کہ دنیا میں بھی ان پر غضب نازل ہوا ، آخرت میں بھی غضب نازل ہوگا، اس دنیا میں غضب نازل ہوتا رہے گا.تو کیا اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آپ کو قرآن کریم یہ حق دیتا ہے کہ ہر یہودی کو جہاں دیکھو اس کا قتل و غارت کر دو.قرآن کریم سے بھی تو وفا کرو جیسا ترجمہ ایک جگہ کرتے ہو ویسا دوسری جگہ بھی تو کر کے دکھاؤ.یہ تو نہیں کہ اپنے من مانے ترجمے قرآن کو پہناتے رہو.ویسی ہی آیات دوسری جگہ ہوں تو ان کے کچھ اور ترجمے کر لو اور جہاں اپنی مرضی ہو، جہاں بس چلے وہاں ترجمے بدلتے رہو.یہ کتاب اللہ کی گستاخی ہے، اس گستاخی کی قرآن تمہیں اجازت نہیں دیتا.پس ہم یہ تو نہیں مانتے کہ انسان کو طاقت ہے کہ وہ تمہیں ذلیل ورسوا کرے، مگر انہی آیات کو پیش کرتے ہوئے میں تمہیں کہتا ہوں اگر تم اس ظالم مسلک سے باز نہ آئے تو خدا کا وعدہ ہے کہ وہ تمہیں ضرور ذلیل ورسوا کرے گا اور اسلام کو تمہارے ہاتھوں ذلیل ورسوا نہیں ہونے دے گا.جہاں تک تاریخ اور خصوصاً اس تاریخ کا تعلق ہے جو آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بنی ہے.حضور اکرم کے کردار، آپ کے احکامات کی روشنی میں اسلام کی ایک تاریخ آپ کے زمانے میں بنی شروع ہوئی.اس تاریخ کے حوالے سے دشمنان اسلام دو ایسے واقعات پیش کرتے ہیں جن پر وہ
خطابات طاہر جلد دوم 330 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء صلى الله بہت بڑھ بڑھ کر آنحضور ﷺ کے کردار کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو محمد کا چہرہ بے داغ نہیں رہا کیونکہ اس نے بعض لوگوں کے قتل کا حکم جاری کیا.ان دو قتل کے واقعات میں سے ایک کعب بن اشرف کا قتل ہے اور دوسرا ابورافع کا قتل ہے.یہ وہ یہودی لیڈر تھے جو مدینہ چھوڑ کر دوسری جگہوں میں آباد ہو گئے تھے، جن کی شرارتوں اور بدعہدیوں کے نتیجے میں ان کو مدینے سے نکال دیا گیا تھا مگر نکلنے کے باوجود یہ اپنی بد عہدیوں کے اوپر قائم رہے اور جو نئے معاہدے اس اخراج کے وقت ہوئے ان کو بھی انہوں نے توڑا اور بار بار توڑا اور اسلام کے خلاف قوموں کو بھڑ کا نا یعنی عرب قوموں کو بھڑکانا اور ان کی اموال سے مدد کرنا انہوں نے اپنا پیشہ بنارکھا تھا.وہ زمانہ آج کا زمانہ نہیں تھا جہاں کہ Established حکومتیں مستحکم حکومتیں قائم ہوں اور ایک حکومت کا دائرہ خاص طور پر ایک جغرافیائی حدود سے تعلق رکھتا ہو، ایک دوسری حکومت کا دائرہ ایک اور جغرافیائی حدود سے تعلق رکھتا ہو بلکہ عرب سب کا ایک مشترک ملک تھا.اس ملک میں علاقائی تقسیمیں سیاسی علاقائی تقسیمیں نہیں تھیں بلکہ محض قبائلی اور خطی تقسیمیں تھیں جوحکومتوں کے درمیان کوئی خط نہیں کھینچی تھیں، کوئی Demarcation لائن قائم نہیں کیا کرتی تھیں.پس عرب میں سب مشترکہ طور پر حقیقت میں باہمی دوستیوں کے معاہدے اور دشمنوں کے خلاف اکٹھے ہونے کے معاہدوں کی صورت میں رہا کرتے تھے.اس لئے آج کا مستشرق جب آنحضور ﷺ کے ان دو فیصلوں کے خلاف احتجاج کرتا ہے تو اس کو اس کا کوئی حق نہیں، کیونکہ وہ آج کے حالات کو اس زمانے کے حالات پر صادق کرنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ بالکل مختلف حالات ہیں.اس زمانے میں اگر عہد شکنی کی جائے تو جس کی عہد شکنی کی جاتی تھی اس کو تمام اخلاقی اور رواجی حق تھا کہ وہ اس کا انتقام لے.پس آنحضور ﷺ نے ان دونوں ظالموں کے ظلم و ستم پر بہت صبر کیا لیکن یہ اسلام کے خلاف سازشوں میں اور ان سازشوں کی مدد میں روپیہ پیسہ خرچ کرنے سے باز نہیں آئے.تب بعض صحابہ نے جب اجازت لی تو آنحضور ﷺ نے ان کو اجازت دی.پس ان دونوں کے قتل کو آنحضرت ﷺ کی گستاخی کے نتیجے میں قتل قرار دینا حد سے بڑھی ہوئی حماقت ہے اور دشمنان اسلام کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے والی بات ہے.اس بات کا قطعی ثبوت خودان واقعات کی تاریخ میں ملتا ہے.مثلاً جب کعب بن اشرف کا
خطابات طاہر جلد دوم 331 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء قتل ہوا اور یہودی اس پر بہت سیخ پا ہوئے یہ بنو قینقاع سے تعلق رکھتے تھے.تو انہوں نے اپنا ایک وفد آنحضور ﷺ کی خدمت میں اس قتل کے خلاف احتجاج کے لئے بھیجا.اس وفد نے آنحضور کی خدمت میں حاضر ہو کر احتجاج کیا کہ آپ کو کیا اخلاقی حق تھا کہ آپ ہمارے اس رہنما کے قتل کا حکم دیتے یا صحابہ کو اجازت دیتے کہ وہ قتل کرتے.آنحضور ﷺ نے فرمایا ! بیٹھوں، میری بات سنو.یہ واقعہ ہوا ہے ان کی بد عہدی کا، یہ واقعہ ہوا ہے ان کے ظلم و ستم کا ، یہ واقعہ ہوا ہے ان کی مفسدانہ کارروائیوں کا، ایک ایک کر کے وہ واقعات بیان فرمائے.جن کو سن کر وہ وفد لا جواب ہو کر بغیر کسی بعد میں پیدا ہونے والی انتقامی کارروائی کے خیال کے وہاں سے رخصت ہوا اور پھر یہ معاملہ اس وقت کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا گیا.پس یہ حقیقت حال ہے اس کے خلاف اور کوئی کسی قسم کی گواہی نہیں ملتی کہ یہ دو واقعات آنحضور ﷺ نے ، یعنی یہ دو قتل جن کی اجازتیں وقت کے دستور کے مطابق اور اخلاقی دستور کے مطابق اور شریعت کی اجازت کے مطابق ظالموں کو بدعہدی کی سزا کے طور پر صادر ہوئیں، یہ دونوں احکامات ظالموں کو ان کے ظلم کی سرکوبی کے لئے بد عہدی کے نتیجے میں وہ سزائیں وارد کرنے کے لئے جو ان کا طبعی نتیجہ تھیں، آپ نے جاری فرمائے اور اس کا ہتک رسول سے کوئی تعلق نہیں تھا.ور نہ ہتک رسول تو مدینے کی گلیوں میں ہورہی تھی ، گستاخان رسول وہاں آزادانہ دندناتے پھرتے تھے.وہ کون لوگ تھے جن کا قرآن کریم کی اس سورۃ میں ذکر کیا گیا ہے جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھی کہ مدینے کی گلیوں میں آنحضور کی گستاخیاں ہورہی تھیں ،صحابیات کی گستاخیاں ہورہی تھیں اور قرآن کریم بتا تا ہے کہ پردے کے احکام میں حکم کی ایک وجہ یہ تھی تا کہ یہ لوگ پہچان لیں کہ کون ہیں؟ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں پتا نہیں تھا کہ یہ مسلمان عورتیں ہیں اس لئے جیسا کہ ہمارا اپنا رواج ہے ہم نے او باشی کا طریق اختیار کیا.پس قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ اور آنحضرت ﷺ کے صحابہ کی تک صلى الله الله کے کوئی ایسے واقعات پیش نہیں کئے جن کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو جوابی حملے میں قتل عام کی اجازت دی ہو.پس سنت رسول کو سنت رسول کے خلاف کیسے تم استعمال کر سکتے ہو، یہ ناممکن ہے کہ آنحضور کے کردار میں تضاد ہو، اگر تضاد ہو تو قرآن کی رُو سے آپ سچے نبی نہیں بنتے کیونکہ قرآن کریم
خطابات طاہر جلد دوم 332 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء فرماتا ہے کہ اگر اس نے جھوٹ گھڑا ہوتا تو تم اس کی باتوں میں بہت سا اختلاف دیکھتے.پس نہ آپ کے کلام میں کوئی اختلاف ہے نہ آپ کی سنت میں کوئی اختلاف ہے، نہ آپ کا قرآن کریم کی تعلیم سے کوئی اختلاف ہے اور ہر وہ تاریخی واقعہ جس سے یہ استنباط کیا جائے کہ گویانعوذ باللہ من ذالک آنحضور ﷺ ایسے ہی حالات میں ایک جگہ ایک اور حکم جاری فرما رہے تھے اور ایک دوسری جگہ ایک اور حکم جاری فرما رہے تھے بالکل غلط اور جھوٹا الزام ہے.آنحضور ﷺ کا کردار وہی پاک یکساں کردار ہے جس کا ظاہر و باطن ایک تھا، ظاہر بھی نور تھا اور باطن بھی نور تھا.آپ کے کردار میں آپ کو کہیں کوئی تضاد دکھائی نہیں دے گا.ان کے علاوہ ایک واقعہ اُس یہودیہ کے قتل کا پیش کیا جاتا ہے جس نے آنحضرت ﷺ کو زہر دینے کی کوشش کی تھی بلکہ دیا تھا.آنحضور ﷺ کو ستی کا گوشت پسند تھا ( بکرے کا بازو ہے اس کو دستی کہا جاتا ہے ) اس عورت نے اخلاص ظاہر کیا دھوکہ بازی کے طور پر اور کہا کہ مجھے شوق ہے میں کچھ پکا کے بھیجوں اور دستی بھجوائی.جس کے اندر نہایت ہی خوفناک زہر داخل کیا گیا آنحضور ﷺ نے تھوڑا سا چکھا اور چھوڑ دیا اور آپ کے ساتھ ایک صحابی تھے جنہوں نے جلدی میں کئی لقمے کھالئے.آنحضرت ﷺ کو اسی وقت پتا چلا کہ یہ زہر والی دستی ہے، آپ نے تحقیق کا حکم دیا.تحقیق ہوئی اور ثابت ہوا کہ اس یہودیہ نے آپ کو زہر دیا تھا چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس کو معاف فرما دیا.یہ قطعی تاریخی حقیقت ہے جس کا کوئی انکار کرنے کی جرات نہیں کر سکتا لیکن جب وہ صحابی جو آپ کے ساتھ بیٹھے تھے اور آپ کی دعوت میں شریک ہوئے تھے ، اس زہر سے مارے گئے جو آپ کے لئے بنایا گیا تھا تو آنحضرت ﷺ نے قصاص کے طور پر پھر اس یہود یہ کو اس صحابی کے قتل کے جرم میں قتل کرنے کا حکم دیا ( ابو داؤد کتاب الدیات حدیث نمبر : ۲۹۰۹).اب بتائیے ! اس میں ہتک رسول کا کون سا موقع ، کون سا محل ہے، اس کا کوئی دُور سے بھی اس مضمون سے تعلق نہیں ہے.اب سنیئے وہ حدیثیں جو آج کل کے علماء کہلانے والے اور آج کل کے بعض سیاستدان بھی جن کو علم کے میدان میں قدم رکھنے کا شوق ہے، اس مسلک کے حق میں پیش کرتے ہیں کہ اسلام ہتک رسول کرنے والے کو قطعی موت کی سزا دیتا ہے بلکہ ہر کس و ناکس کو اجازت دیتا ہے کہ جو چاہے اٹھ کے اس کو قتل کر دے.گویا کہ سوسائٹی سے ہر جگہ سے امن اٹھ جائے ، یہ ایک بہانہ ہے جس کے
خطابات طاہر جلد دوم 333 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء خلاف کوئی عذر اسلامی حکومت قبول نہیں کرے گی.اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر دے اور یہ کہے کہ اس نے گستاخی کی تھی تو ان لوگوں کے مسلک کے مطابق اس کا خون ریاست پر حرام ہو جائے گا اور جو مقتول ہے اس کا خون مباح ہو جائے گا اور کوئی ایسے شخص کو سزا دینے کی طاقت نہیں رکھتا جو کہے کہ اس نے گستاخی کی تھی اور اس گستاخی کے نتیجے میں ہم نے اسے قتل کر دیا.اس ضمن میں جو حوالے پیش کئے گئے ہیں، جن کتابوں کے حوالے پیش کئے گئے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے.ان میں ایک الشفاء “ نامی کتاب ہے جس کا جز 2 صفحہ 951 پر قاضی عیاض ایک سپین کے مفتی تھے، انہوں نے اس معاملے میں فتوے دیئے ہیں اور چند حدیثیں بیان کی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں، کوئی حقیقت نہیں ہے.وہ حدیثیں ( اور بعض حدیثیں بھی نہیں ہیں ) بعض ایسے واقعات ہیں جن کو سن کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس زمانے کے قاضی کیسے فتویٰ دیا کرتے تھے، وہ دیتے چلے جاتے ہیں اور صاف حدیثوں کی طرز بیان کرتی ہے.ایک ہی محاورہ بار بار دہرایا جارہا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ کسی نے بیٹھ کر یہ ساری باتیں گھڑ رکھی ہیں.مثلاً ایک شخص نے نبی کریم کو گالی دی ، حضور نے فرمایا مَنْ يَكْفِینِی عَدُوّی کون ہے جو اس دشمن کے مقابل پر میرے لئے کافی ہو اور فلاں اٹھا کبھی زبیر اٹھے، کبھی حضرت خالد بن ولیڈا اٹھے، کبھی حضرت علیؓ اٹھے.انہوں نے کہا! یا رسول اللہ ہم کافی ہوتے ہیں اور تلوار نکالی اور اس کی گردن کاٹ دی.ایک خاص ٹکسالی کی حدیثیں بیان کی گئیں ہیں.جن کی استناد کا یہ حال ہے، جن کے مستند ہونے کا یہ حال ہے کہ خود اسی کتاب کے حاشیے میں علی محمد الحاری کا نوٹ ہے.مثلاً یہ ایک حدیث ہے اسی مضمون کی ، ایک شخص حضور اکرم ﷺ کو گالیاں دیتا تھا آپ نے فرمایامَنُ يَكْفِيُنِي عَدُوّى وہی فقرہ دہرایا، میرے دشمن کو کون کفایت کرے گا ؟ حضرت خالد نے عرض کیا یا رسول اللہ میں اور آپ نے اجازت دی اور خالد بن ولیڈ نے اس کو قتل کر دیا.ایسی من گھڑت باتیں ہیں جن کا تاریخ اسلام کے ساتھ کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ، مزاج نبوی سے کوئی دور کا تعلق نہیں اور اس ایک حدیث کے متعلق تو اس کتاب کا حاشیہ نگار لکھتا ہے، محقق علی محمد صاحب لکھتے ہیں کہ یہ حدیث نسیم الریاض میں ہے مگر اس میں کسی راوی کا کوئی ذکر نہیں.یہ فتووں کی بناء ہے؟ ایک حدیث بیان کی جارہی ہے ایک کتاب میں جہاں کسی راوی کا ذکر ہی کوئی نہیں اور قرآن کی تعلیم اور محمد رسول اللہ ﷺ کے کردار کے مخالف ایک
خطابات طاہر جلد دوم 334 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۹۴ء بیان کر رہی ہے اور اس کے نتیجے میں تم بنی نوع انسان کا خون حلال کر رہے ہو، جس کی خدا نے بڑی حرمت بیان فرمائی ہے اور قرآن کریم کی شریعت انسانی دم بہانے کے متعلق بار بار متنبہ کرتی ہے، بہت سی شرائط مقرر کرتی ہے.ان سب کو نظر انداز کر کے اس ازمنہ وسطی کے فرضی انبار کے پیچھے چلتے ہوئے تمہیں کیا حق ہے کہ شریعت اسلامی کو بگاڑو.بہت سی ایسی روایات ہیں جن کو میں اس وقت بیان نہیں کر رہا، مثالیں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ قاضی عیاض صاحب کے فتوے اگر کوئی پڑھ لے تو آج کسی مسلمان کا خون حرام نہیں رہتا ،ساراہی مباح ہو جاتا ہے.وہ فتاوی پڑھ کر دیکھیں اور کبھی وقت ملا تو انشاء اللہ میں آپ کو سناؤں گا.یہ جو فتویٰ دینے والے قاضی عیاض کے فتوے دیتے ہیں جب اپنے خلاف فتویٰ جاری ہو گا تو اس وقت کیا کریں گے.اس میں تو ہر قسم کے فتوے موجود ہیں، ایسے عقل کے خلاف اور ایسے انسانی فطرت کے خلاف فتاویٰ موجود ہیں کہ اگر ان کو دنیا میں مشہور کیا جائے اور شائع کیا جائے تو دنیا کے دل اسلام سے متنفر ہو جائیں.ان کو ان لوگوں نے خدا بنا رکھا ہے حالانکہ شارع تو حضرت محمد رسول اللہ بھی نہیں، یہ عوام الناس کی غلط فہمی ہے.جب شارع کہا جاتا ہے تو صرف خدا ہے جو شارع ہے.اللہ ہی ہے جس کو شریعت نازل کرنے کا حق ہے اور اسی نے نازل فرمائی.آنحضرت ﷺ پرتو نازل ہوئی ہے اور آپ اس کی بہترین تفسیر سمجھنے والے اور اپنے پاک کردار میں اس تفسیر کو جاری فرمانے والے تھے.پس جنہوں نے قاضی عیاض کو خدا بنا لیا یا کسی اور مفتی کو ان کا حقیقت میں اسلام سے کوئی تعلق نہیں ایک فرضی دین ہے جو انہوں نے بنا رکھا ہے، فرضی مفتی ہیں جن کو شارع بنالیا گیا ہے اور آنحضرت علی اور قرآن کی کسوٹی پر ان فتووں کو نہیں پر کھتے.اب ایک کتاب شائع ہوئی ہے الطاف حسین صاحب گورنر پنجاب کی.جب پاکستان میں احمدیوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات پیش ہوتے تھے تو اس زمانے میں، اب بھی یہی دستور جاری ہے کہ پنجاب کے اٹارنی جنرل ایسا جاہلانہ مؤقف اختیار کرتے تھے کہ عقل دنگ رہ جاتی تھی کہ یہ اندھیرا چھوٹا کہاں سے ہے، پہلے مجھے پتا نہیں لگ رہا تھا.میں کئی دفعہ کہتا تھا کہ کوئی بات ہے، کہیں نہ کہیں سے یہ اندھیر ضرور پھوٹ رہا ہے.اب پتا چلا ہے کہ یہ گورنر الطاف حسین صاحب کے دماغ کی پیداوار ہے اور انہوں نے جس طرح اس کتاب میں رطب و یابس فتوے اکٹھے کر کے اسلام کا حلیہ
خطابات طاہر جلد دوم 335 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء بگاڑنے کی کوشش کی ہے اس کی چند مثالیں میں آپ کے سامنے رکھوں گا.اس سے آپ اندازہ لگائیں گے کہ قوم کن ظالم ہاتھوں میں جا چکی ہے، جہاں پنجاب کے گورنروں کے دماغ کی ایچ یہ ہو، جہاں ان کی فطرت ان باتوں کو ساتھ کر رہی ہو جن کو ساری دنیا کی انسانی فطرت دھکے دے رہی ہے.وہاں عوام الناس کا کیا حال ہوگا، وہاں گوجر انوالہ میں واقعات اگر ہوں گے تو ہوتے رہیں گے کوئی ان کو روک نہیں سکتا.پس میں ان کی مثالیں دیتا ہوں ،سنن بیہقی کی روایت ہے.اب سنن بیہقی وہ کتاب ہے جس میں تمام حدیث کی کتابوں میں سب سے زیادہ غلط روایتیں اکٹھی کی گئی ہیں.ایسی فرضی باتیں ہیں کہ ان کو پڑھتے پڑھتے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی طرف یہ باتیں منسوب ہیں اور چھ سو سال کے بعد وہ محدث صاحب حدیثیں اکٹھی کر رہے ہیں.وہ حدیثیں جن کا پہلی صدیوں میں نام ونشان بھی نہیں ہے اگر ڈھونڈنی ہوں تو بیہقی میں جا کے ڈھونڈ لیں چنانچہ انہوں نے بیہقی کو ایک مستند کتاب بنا کر اس سے ایک روایت پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابوعلی روز باری کی روایت ہے کہتے ہیں ابوعلی الروز باری نے ہم سے روایت کی ہے اور آخری روایت یہ بنتی ہے کہ ایک یہودی عورت آنحضرت علی کو گالیاں دیا کرتی تھی ، آنحضرت کے متعلق بد گوئی کرتی تھی.ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مرگئی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا خون باطل قرار دے دیا ( یعنی اس کا بدلہ نہ دلوایا ).اس سے کیا استنباط ہوتا ہے اگر یہ حدیث درست ہو تو اس سے کیا استنباط ہوتا ہے؟ وہی جو میں بیان کر چکا ہوں کہ ہر مسلمان کو حق ہے کہ کسی کا گلا دبا دے، گھونٹ دے، ماردے قتل کر دے اور بعد میں اگر وہ یہ کہہ دے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں صلى الله دیتا تھا یا دیتی تھی تو اس کا خون حرام اور جس کو قتل کیا گیا اس کا حلال ہو گیا.یہ اسلام ہے؟ نعوذباللہ من ذالک جو دنیا میں پنپنے کے لائق اسلام ہے؟ انسانی فطرت اس تصور کو دھکے دیتی ہے ، قبول کر ہی نہیں سکتی.لیکن اب میں بتاتا ہوں کہ اس حدیث کی اصل کیا ہے اس کی حیثیت علماء نے کیا بیان فرمائی ہے؟ اس روایت میں ابو علی الروز باری کا ذکر ہے جسے اسماء الرجال نے ضعیف قرار دیا ہے.اسماعیل الصفاء لکھتے ہیں کہ ابو علی الروز باری احمد بن عطالا یــعـــمـد عـلیہ کبھی اس پر اعتماد نہ کیا
خطابات طاہر جلد دوم 336 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء جائے.وہ نا قابل اعتبار انسان ہے، ایک ایسا شخص جس پر محقق علماءلکھ چکے ہیں کہ وہ نا قابل اعتماد ہے.اس کی روایت پر تمام بنی نوع انسان کا امن اٹھا دیا جائے ، یہ کہاں سے عقل انہوں نے حاصل کی ہے.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ خدا کی پیدا کردہ معقل کو مسخ کئے بغیر یہ نتیجے نہیں نکالے جاسکتے.لسان المیزان میں اور تہذیب التہذیب میں جو اسماء الرجال کی چوٹی کی کتابیں ہیں.جن میں راویوں پر ابن حجر نے بہت ہی عمدہ تحقیق فرمائی ہے اور بہت عمدہ بحث فرمائی ہے وہ لکھتے ہیں کہ یہ جو حدیث ہے وہم کا نتیجہ ہے ، وہم کے سوا کچھ نہیں.غلط غَلَطاً فَاحِشَاً اس ظالم راوی نے بخش غلطی کی ہے غلط غَلَطاً فَاحِشاً پرگورنر صاحب پنجاب فتوے جاری کر رہے ہیں.اسی طرح ابن جریر نے ان کی بہت سی ، اکثر روایتوں کو یا بہت سی روایتوں کو موضوع قرار دیا ہے کہ جان بوجھ کر جھوٹ گھڑا گیا ہے، ان میں کوئی اصل نہیں.یہ ہیں وہ Socalled حدیثیں یعنی مبینہ حدیثیں جن پر ان ظالموں کے فتوؤں کی بنیادیں ہیں.ایک حدیث مجمع الزوائد ومنبع الفوائد البیمی المتوفی ۵۸۰۷، ۸۰۷ ہجری کے ایک مصنف کی صلى الله ایک کتاب کا حوالہ دے کر جو رسول کریم ہے کے ۸۰۷ سال بعد مرا ہے.اس پر بنا کرتے ہوئے یہ روایت ایک بیان کرتے ہیں یہاں حضرت علی والی روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب سے منسوب روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو قتل کا حکم دیا ، جو رسول کریم ﷺ کی گستاخی کرتا تھا یا عورت تھی جو گستاخی کرتی تھی اس کے قتل کا حکم دیا.اس حدیث کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ حدیث طبرانی اور جامع الصغیر للسیوطی اور دوسری بعض کتب میں بھی یہ حدیث ملتی ہے لیکن اس کا راوی عبداللہ ابن محمد الا مری وہ کیسا انسان تھا.اس کے متعلق علماء حق لکھتے ہیں رماہ النسائي بالكذب امام نسائی نے اس کے قطعی طور پر جھوٹا ہونے کا فتویٰ دیا.ایک ایسا راوی جس کے قطعی طور پر جھوٹا ہونے کا فتویٰ امام سعی دے چکے ہیں، یہ معلوم ہونے کے باوجود اس کو فتوؤں میں داخل کیا جار ہا ہے اور اس کے نتیجے میں قرآنی تعلیم تبدیل کی جارہی ہے.محمد ناصرالدین البانی اپنی کتاب سلسلہ الا حادیث الضعیفہ والموضوعہ میں اس روایت کو بطور مثال کے ایک جھوٹی گھڑی ہوئی روایت کے طور پر پیش کرتے ہیں.انہوں نے بھی لسان المیز ان کے حوالے سے عبید اللہ بن محمد الا مری کو قیس بالکذب بیان فرمایا ہے.یعنی ایسا جھوٹا ہے جو جھوٹ پر پوری طرح قائم اور ہمیشہ قائم رہنے والا تھا.
خطابات طاہر جلد دوم 337 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء ابن حجر العسقلانی متوفی ۸۵۲ھ اپنی کتاب لسان المیز ان جلد ۲ صفحہ ۱۱۲ میں ایسے غیر ثقہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں.رمـاہ النسعى بالكذب کہ یہ وہی شخص ہے جس کو سعی نے قطعی طور پر جھوٹا قرار دیا تھا.لسان المیزان جلد ۴ صفحہ ۱۱۲ میں بھی عبید اللہ الامری کوضعیف قرار دیا گیا اور مذکور حدیث کو خاص طور پر اس مثال کے طور پر پیش کیا ہے کہ موضوع حدیثیں گھڑی ہوئی حدیثیں کیسی ہوتی تھیں ان میں یہی حدیث بیان کی ہے.جس میں حضرت علی کی طرف روایت منسوب ہوئی اور جس کو آج کے بعض علماء اور بعض اسلامی صوبوں کے گورنر اپنے علم کی شیخی بگھارتے ہوئے وہ پیش کرتے ہیں کہ دیکھو! ہم کتنے بڑے عالم ہیں، ہم نے وہ حدیث بھی معلوم کر لی جس میں ہتک رسول کی قطعی سزا حضرت علیؓ سے مروی ہے.ایک اور کتاب ہے جس پر ان صاحب نے بنا کی ہے اس کے مصنف ہیں عبدالرزاق، ان کا پورا نام ہے ابوبکر عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی ۱۲۶ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۲۱۱ ھ میں وفات پائی.بہت سی حدیثیں عبدالرزاق کی کتاب سے لی گئی ہیں، جن پر بنا کی گئی ہے.میں اصل کا حال بتا دیتا ہوں، باقی حدیثوں کی تفصیلی بحث کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی.ان کے متعلق تہذیب التہذیب میں لکھا ہے.وقال العباس العنبرى انه لكذاب والواقدى اَصْدَقُ مِنہ لکھا ہے یہ ایسا جھوٹا ایسا کذاب انسان ہے کہ واقدی بھی اس کے مقابل پر بہت سچا دکھائی دیتا ہے.اور واقدی وہ مؤرخ ہے جس نے سب سے زیادہ رطب و یابس تاریخ اسلام کے حوالے سے اکٹھا کیا ہوا ہے اور جس کو مغربی مصنف سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کیونکہ جو گندان کو چاہئے واقدی میں دکھائی دے دے گا اور یہ تہذیب التہذیب میں جو ایک مستند کتاب ہے لکھتے ہیں.کہتے ہیں ! یہ اتنا جھوٹا انسان ہے جس کی یہ روایتیں ہیں مصنف عبدالرزاق صاحب کہ واقدی کو اس کے مقابل پر دیکھو تو واقدی سچا دکھائی دیتا ہے.اور زید ابن مبارک کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ كان عبدالرزاق كذاب يسرق الحديث وہ صرف کذاب ہی نہیں تھا بلکہ دوسروں کی حدیثیں بھی چوری کیا کرتا تھا اور اپنی طرف سے منسوب کر دیا کرتا تھا.انہوں نے ایک باب میں پانچ حدیثیں پیش کی ہیں، جس کو آج کل کے زمانے کے علماء اور گورنر ہتک کرنے والے کے قتل کے حق میں فتوؤں کے طور پر پیش کر رہے ہیں.جن کا منبع جھوٹ ہو ان کے فتوے کا کیا حال ہو گا ؟
خطابات طاہر جلد دوم 338 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء یہ مثالیں سن لیجئے ان کی ، وہی بات ہر جگہ یہی مصنف عبدالرزاق صاحب ہیں جو حدیثیں گھڑ گھڑ کے پیش کئے چلے جارہے ہیں کہ ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ کوکسی نے گالی دی.آپ نے فرمایا کون ہے جو مجھے میرے دشمن سے بچائے؟ یہ فقرہ تو ٹکسالی کا ہر جگہ چلایا جارہا ہے اور ایک شخص کھڑا ہوتا ہے اور وہ کون تھا حضرت زبیر انہوں نے اس کو قتل کر دیا، یہ حوالہ دیا جارہا ہے اور اصل بات کیا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ کے موقع پر جب کہ مبارزہ ہو رہا تھا، یعنی جب پرانے زمانے میں جنگ ہوا کرتی تھی تو ایک ایک دشمن کا ہیر و یا بہا در پہلوان نکلا کرتا تھا اور اس کے مقابل پر وہ آواز دیتا تھا تو ایک دوسرا نکلتا تھا.تو اس وقت ایک دشمن اسلام نے جنگ کے دوران نکل کر للکارا آنحضرت ﷺ نے اعلان فرمایا اور یہی آپ کا دستور تھا کہ اس دشمن سے نپٹنے کے لئے کون ہے جو نکلے گا ؟ اس وقت حضرت زبیر نکلے اور اس کو قتل کر دیا.اس کا ہتک رسول کے مضمون سے کیا تعلق ہے، دور کا بھی کوئی تعلق نہیں.پس جو ایک حدیث سچی نکلی اس جھوٹے کی اس کا حال میں نے آپ کے سامنے کھول دیا ہے، باقی حدیثوں کی تو نہ کوئی سند نہ کوئی بنیاد، کوئی لائق ہی اس بات کے نہیں ہے کہ ان پر غور کیا جائے.کیونکہ مصنف جھوٹا اور اول درجے کا جھوٹا، ایسا جھوٹا کہ واقدی بھی اس کے چہرے کے سامنے سچا دکھائی دے.ہے.اب سنیئے ایک ایسی حدیث درج کرتے ہیں نعوذ باللہ من ذالک کہ وہ حدیث اس لائق ہے یعنی مصنوعی حدیث کہ جس شخص کے منہ سے نکلے اسے اول درجے کا گستاخ رسول قرار دیا جائے، جس قلم سے نکلے اس قلم کے خلاف فتویٰ دینا جائز ہے کہ وہ نہایت ہی منحوس اور بد بخت قلم ہے، جس نے اس حدیث کو اختیار کر کے لکھنے کی جرات کی ہے.اب آپ سنیں گے تو آپ حیران رہ جائیں گے اور یہ احمدیوں کے خون مباح کرنے والے گورنر صاحب کا حال ہے، اس حدیث کو قبول کر کے اپنی کتاب میں جگہ دینے کے نتیجے میں اگر پاکستان کے قانون میں کسی کی جان حلال ہوتی ہے تو ان گورنر صاحب کی ہے، پہلے ان کو پھانسی چڑھانا چاہئے.اب سن لیجئے حدیث یہ بیان کرتے ہیں.عنوان یہ لگایا ” حضرت علی کا حضرت ماریہ کے چچازاد بھائی کے قتل کے لئے بھیجا جانا.حضرت ماریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضرت ﷺ کے حرم میں تھیں جن کے بطن سے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے یہ وہ مقدس عورت ہے جس کے پیٹ سے ایک
خطابات طاہر جلد دوم 339 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۹۴ء ایساوجود پیدا ہوتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا رسول گواہی دیتا ہے کہ:لــوعــاش ابراهيم لكان صديقاً نبياً (سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز حدیث نمبر : ۱۵۰۰) صلى الله خدا کی قسم ہے کہ اگر یہ بچہ زندہ رہتا جو ماریہ کے پیٹ سے مجھے عطا ہوا ہے تو ضرور صدیق نبی بنتا.ان بد بختوں کا یہ حال ہے ان کے متعلق یہ لکھا ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ کو یہ اطلاع پہنچی کہ اس ماریہ کے پاس ان کا ایک چچازاد بھائی آتا جاتا ہے اور لوگ ان پر الزام لگارہے ہیں.آنحضرت ﷺ نے قرآنی تعلیم کے بالکل بر خلاف یکطرفہ بات سن کر، نہ ماریہ کو سوال جواب کا موقع دیا نہ تحقیق فرمائی ، حضرت علی کو مامور کیا کہ جاؤ اور اس کو قتل کر دو ، اس کے سوا اور کوئی سزا نہیں ہے اس کی اور اگلا واقعہ سنیں.یعنی یہ وہ حدیثیں ہیں جن کے بطن سے ہزارسلمان رشدی پیدا ہو سکتے نہیں اور ایسی ہی وہ حدیثیں ہیں جن سے سلمان رشدی پیدا ہوتے ہیں.لکھا ہے کہ حضرت علی نے اس شخص کو ایسے حال میں جالیا کہ جب وہ نہار ہا تھا کنویں میں ، اس کونگی تلوار کر کے کھینچ کر جو باہر نکالا قتل کرنے کے لئے تو پتا لگا وہ تو زنخا ہے نامرد ہے، خدا نے اس کو وہ اعضاء ہی نہیں دیئے جن کے ساتھ انسان کسی عورت سے مباشرت کر سکے.اسی وقت تلوار نیام میں ڈالی اور رسول اللہ ﷺ سے جاکے عرض کیا کہ میں مار نہیں سکا، مجبوری ہے.انا للہ یعنی ہنسنے کی بات ہے لیکن میرا تو خون کھول اٹھا جب میں نے یہ پڑھا.انا للہ ایسا خبیثانہ، ایسا نا پاک حملہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات پر کیا گیا ہے کہ ایک نہیں، میں نے صحیح کہا ہے ہزار سلمان رشدی اس روایت کے بطن سے پیدا ہو سکتے ہیں.آنحضور ﷺ جن پر قرآن نازل ہوا ہے، جو فرماتا ہے کہ اگر کوئی فاسق اطلاع کرے تو تحقیق کرلیا کرو.وہ قرآن جو کہتا ہے کہ پاکباز عورتوں پر جو الزام لگاتے ہیں ان کو اسی کوڑوں کی سزا دو، وہ جھوٹے ہیں جب تک وہ چار گواہ پیش نہ کریں.ساری قرآنی تعلیم اگر کوئی بھولا تو محمد رسول اللہ بھول گئے.اے بد بخت دما غو! تمہیں ادنیٰ بھی، ذرا بھی ہوش نہیں کہ کیا بکواس کر رہے ہو.محمد رسول اللہ جن پر قرآن نازل ہوا ہے، جو زندہ قرآن تھے، ان کو قرآن کی تعلیم کا ایک ادنی بھی پاس نہیں تھا.اور پھر اس مقدس خاتون پر آنحضرت ﷺ نے بغیر کسی تحقیق کے بغیر سوچے سمجھے وہ الزام قبول کرلیا جس کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ پاکباز عورتوں کے متعلق اگر کوئی بات کہے تو وہ لعنتی اور ملعون ہے.اور فتویٰ صادر فرما دیا اور یہ نہ سوچا کہ خدا نے اس کے بطن سے مجھے وہ بیٹا عطا کیا تھا، جس کے متعلق خدا
خطابات طاہر جلد دوم 340 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۹۴ء سے خبر پاکر میں نے اعلان کیا تھا لو عاش ابراهيم لكان صديقاً نبياً اس ماریہ کے پیٹ سے جو بیٹا پیدا ہوا ہے، خدا کی قسم ! اگر یہ زندہ رہتا تو صدیق نبی بنتا.اور پھر نکلا کیا نعوذباللہ من ذالک آنحضور غلط ثابت ہوئے اور ثابت ہوا کہ یہ جلد بازی کا فیصلہ تھا، قرآنی اور خدا کی تعلیم کے خلاف تھا اس لئے اس پر عمل بھی نہ ہو سکا.یہ محمد رسول اللہ کا کردار ہے جوتم پیش کرتے ہو اور ناموس رسول کے محافظ ہونے کے دعوے کرتے ہو.تم ہی سے ناموس رسول کو خطرہ ہے، تم ہی سے سب دنیا میں آنحضرت اور اسلام اور قرآن کی عزت کو خطرہ ہے.ایک اور روایت ، وہ بھی ایسی بدبخت روایت ہے.وہ کنویں کی بجائے ، ایک تو کنویں سے نکالنے والی روایت ہے، ایک کھجور سے اتار نے والی ہے.کہتے ہیں وہ بیچارہ بدنصیب آدمی کھجور پر چڑھا کھجوریں کھا رہا تھا ، چھوٹا سا کپڑا اس کے اوپر لپٹا ہوا تھا.اس نے جو حضرت علیؓ کے ہاتھ میں تلوار دیکھی تو ڈر کے مارے ایسا کا نیا کہ کپڑا اتر گیا.(کھجور سے بعد میں اترا کپڑا پہلے اتر چکا تھا.) اتنی جاہلانہ باتیں ایک انسان پاؤں کی ٹھوکر سے بھی ان چیزوں کو رد کرنے میں تر قد محسوس کرے گا.اس لائق نہیں ہیں یہ چیزیں، یہ خبیثانہ باتیں جو رسول اللہ اللہ کی طرف منسوب کی گئی ہیں.اس لائق بھی نہیں ہیں کہ ان کو ٹھوکر ماری جائے ، اعراض اور استغفار کا مقام تھا لیکن ان لوگوں نے اپنے ذاتی گند کو اس طرح اچھالا ہے، اپنے دماغوں کو اس طرح نگا کیا ہے کہ شاید ہی کم کسی دنیا کے مذہب کے علماء کی تحریروں میں ایسی مثال ملتی ہو.اور وہ لفظ تو میں نے پڑھ کے سنائے نہیں، وہ میں آپ کو پڑھ کے سناؤں تو شرم کے مارے آپ پسینہ پسینہ ہو جائیں ، جس طرح بیان کیا ہے وہ مزے لے لے کر قلم نے.یہ واقعہ یوں ہوا، پھر یہ دیکھا گیا، پھر یہ دیکھا گیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ ، لوگ تو اس دنیا کے اس دور کے انسان کیا از منہ گزشتہ کے بھی انسان نہیں ہیں.قرآن کریم جب نازل ہوا، تو محاورہ عربوں میں رائج ہوا تھا، یہ زمانہ جاہلیت کی باتیں ہیں.یہ باتیں جو ہیں زمانہ جاہلیت سے بھی پہلے کی جب ابھی انسان نہیں بنا تھا، جانوروں کی دنیا کی باتیں ہیں.دوسری بنا انہوں نے فتاویٰ پر کی ہے، حدیثوں کے بعد فتوے پر فتویٰ جاری کرتے ہیں.امام شافعی کا فتویٰ، فلاں امام کا فتویٰ اور اس پر بنارکھ کر جھوٹی باتیں منسوب کرتے ہیں، جھوٹے دعوے کرتے ہیں اور قطعی طور پر ان کا جھوٹ ظاہر و باہر اور عیاں ہے.میں مثال کے طور پر آپ کے
خطابات طاہر جلد دوم 341 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء سامنے یہ فتاویٰ رکھتا ہوں.حضرت امام شافعی کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے اس معاملے میں وہ سب سے زیادہ متشدد تھے.مگر ان کا ایک فتویٰ تھا، اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی.لیکن فتویٰ یہ بیان کرتے تھے که تمام امت مسلمہ اس پر متفق ہے، امام شافعی یہ فتویٰ دیا کرتے تھے کہ شاتم رسول کا قتل لازم ہے اور اس پر تمام امت مسلمہ متفق ہے.قاضی عیاض صاحب پھر دوبارہ آدھمکے ہیں ان کا بھی یہی فتویٰ تھا اور انہوں نے ایک عجیب و غریب حدیث بیان کی ہے.اب سنئیے حضرت امام مالک کا بھی حوالہ اس میں ملے گا، حضرت امام مالک کا زمانہ 93ھ سے 189 ھ تک ہے اور ہارون رشید کا زمانہ 170ھ یعنی وہ خلیفہ بنا ہے اس سے 193 ھ تک کا ہے.یعنی چند سال ہارون رشید کے حضرت امام مالک نے دیکھے ہیں.قاضی عیاض وہ مفتی ہے جو سپین میں رہا کرتا تھا جب بنو امیہ کے زمانے میں عباسیوں میں سے ایک حصہ ہجرت کر کے پین میں آباد ہوا اور وہاں انہوں نے حکومت قائم کی تو وہاں پھر کئی قسم کے علماء پیدا ہوئے ہیں، ان میں ایک قاضی عیاض بھی تھا.اب ان کے فتوؤں کی سند اور ان کی حقیقت جو ہے وہ اس مثال سے ظاہر ہے.قاضی عیاض صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہارون رشید نے حضرت امام مالک سے یہ مسئلہ پوچھا کہ جو شخص رسالت مآب ﷺ کو بُرا کہے اس کے بارہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ بعض علماء اس کے لئے کوڑے تجویز کرتے ہیں.امام مالک نہایت غصے میں آگئے اور فرمایا کہ امت کے نبی ﷺ کے خلیفہ وقت، امت کے نبی ﷺ کو گالی دی جائے اور امت اسے ختم نہ کرے تو کیا ایسی امت زندہ رہ سکتی ہے؟ جو شخص کسی نبی کو گالی دے اسے قتل کیا جائے.یہ فتویٰ امام مالک کا ہے، موطا امام مالک کو پڑھ لیجئے وہاں کسی فتوے کا ذکر نہیں ، امام مالک کی کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا گیا.چین بیٹھے ہوئے قاضی عیاض کو یہ قصہ کہاں سے پہنچا، کس نے روایت کی کچھ پتا نہیں اور بغداد میں ہونے والا ایک واقعہ مصنوعی طور پر امام مالک کی طرف منسوب کیا گیا ہے.اس زمانے کے قاضیوں کا عجیب حال تھاوہ پوچھتے تو سہی کہ امام مالک کو کیا حق تھا یہ فتویٰ جاری کرنے کا، کیا وہ شریعت بنانے والے ہیں قرآن کی کسی آیت کا حوالہ دیا، کسی حدیث کا حوالہ دیا کوئی ذکر کہیں نہیں ملتا.بس انہوں نے جو چاہا قلم اٹھایا اور لکھ دیا اور اس کو ان لوگوں نے قبول کر لیا کہ ہاں اب تو ثابت ہو گیا کہ امام مالک بھی اس فتوے کے قائل تھے.
خطابات طاہر جلد دوم 342 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء امام شامی آئمہ امت کی رائے بیان کرتے ہوئے ، ( یہ شافعی مسلک کے ہیں ) تمام آئمہ کے متعلق کہتے ہیں کہ تمام آئمہ اس بات پر متفق تھے، یہ تمام امت کا اجماع ہے کہ شاتم رسول یا رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کرنے والے کو قتل کیا جائے.امام ابن ہمام اس فتوے کو تفصیل سے یوں بیان کرتے ہیں کہ جو شخص بھی حضور اکرم ﷺ سے بغض رکھے وہ مرتد ہوجاتا ہے، گالی دینے والا تو بطریق اولی مرتد ہوگا.ہمارے نزدیک ایسے شخص کو بطور حد قتل کرنا ضروری ہے اور اس کی توبہ قبول کرتے ہوئے اسے معاف نہیں کیا جائے گا.قرآن کریم مرتد کے متعلق کئی جگہ ذکر فرماتا ہے، ایک جگہ فرماتا ہے جو مرتد ہو پھر مسلمان ہو جائے پھر مرتد ہو پھر مسلمان ہو جائے پھر مرتد ہو اور ایسی حالت میں مرجائے کہ ابھی وہ مرتد ہے اس کو خدا نہیں بخشے گا.یہ خدا سے بڑھ کر انبیاء کی غیرت رکھنے والے علماء ہیں ، جہاں خدا اجازت دیتا ہے ارتداد کے بعد توبہ کی ، وہاں یہ اجازت نہیں دیتے.کس خدا کی بات دنیا مانے گی ؟ محمد رسول اللہ کے خدا کی، جس نے قرآن نازل فرمایا یا ان فتویٰ دینے والوں کے خدا کی ، جو بغیر کسی قرآن کے حوالے کے، بغیر کسی قطعی دلیل کے اپنی طرف سے فتوے جھاڑتے چلے جارہے ہیں اور آج کل کے علماء آنکھیں بند کر کے ان کو قبول کرتے چلے جارہے ہیں.لیکن ان کی غلطیاں میں بتاتا ہوں یہ کہنا بالکل جھوٹ ہے کہ تمام علماء اس بارے میں متفق تھے.طاہر القادری نے بھی ایک لمبا مضمون لکھا ہے سب اوٹ پٹانگ باتیں وہی ہیں جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں اور وہ بھی یہی فتویٰ دیتا ہے کہ ایسے شخص کا قتل واجب فرض ہے اور دلیل یہ پکڑ رہا ہے مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أَخِذُوا وَقُتِلُوْاتَفْتِيلًا (الاحزاب :۶۲) یہ ملعون لوگ ہیں جہاں بھی ان کو پاؤ فرض ہے کہ یہ پکڑے جائیں اور خوب اچھی طرح قتل کئے جائیں.کون لوگ ہیں وہ کیا رسول اللہ ﷺ کو ان کی سمجھ آئی تھی کہ نہیں یہ باتیں میں بعد میں بیان کروں گا.اب سنئیے یہ دعویٰ کہ تمام مسلمان فقہاء متفق ہیں ایک بھی اختلاف نہیں کہ شاتم رسول گستاخی رسول کرنے والے کو لازماً قتل کیا جائے گا.تو سنیئے حضرت امام ابو حنیفہ کا فتویٰ جن کی ولادت ۸۰ ھ کی ہے جو آنحضرت ﷺ کے قریب تر امام پیدا ہوئے تھے اور ۱۵۰ھ میں آپ نے وفات پائی.ان کے متعلق روایت ہے قطعی طور پر ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہا ! حضرت نعمان بن ثابت کا مسلک ہے کہ شاتم رسول مقتل نہیں ہوگا کیونکہ وہ
خطابات طاہر جلد دوم 343 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۹۴ء شرک پر قائم ہیں جو اس سے بھی بڑا جرم ہے اور اس کی کوئی سزا نہیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ کا فتویٰ یہ ہے اور جو معقولی وجوہات بیچ میں رکھتا ہے.کہتے ہیں تم کہتے ہو رسول اللہ ﷺ کا شاتم لاز ما قتل ہونا چاہئے ، ایک جذباتی بات ہے جو قرآن کے اصولوں سے ٹکرا رہی ہے.فرمایا شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور قرآن کریم نے اس کو سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے اور مشرک تو قتل نہ ہوں اور اس سے ادنی ادنیٰ جرائم والے قتل ہوں، یہ انسانی عقل میں آنے والی بات ہی نہیں.اس لئے امام ابوحنیفہ نے کلیہ اس فتوے کو رد کر دیا.وَقَالَ سُفْيَان وابو حنيفة واصحابه إن سب الله تعالى او رسوله صلى الله عليه وسلم باي شيءٍ فانّه لا يقتل لكن ينهى عنه المحلى ابن حزم.ابن حزم یہ روایت کرتے ہیں کہ سفیان ثوری نے بھی اور ابو حنیفہ نے بھی دونوں نے یہ فتویٰ صادر فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ کو گالیاں دے اور رسول کو گالیاں دے تو کسی مسلمان کو یہ حق نہیں ہے کہ ان کو قتل کرے، ہاں ان کو منع کرنا ضروری ہے.کیسی پاک تعلیم ہے، کتنے عظیم حو صلے والی تعلیم ہے.اور امام ابوحنیفہ وہ ہیں جنہیں آئمہ اربعہ میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے، تمام تر کی حنفی ہے.ہندوستان کی بھاری اکثریت، پاکستان اور ہندوستان کی حنفی ہے.اب وہ حنفی پتا نہیں بیٹھے کیا سوچ رہے ہیں اور کیا دیکھ رہے ہیں ، جن کے امام کے خلاف دوسرے آئمہ کے فتوؤں کو جاہلا نہ طور پر ملک میں صادر کیا جارہا ہے اور چپ کر کے بیٹھے ہیں، وہ اپنی عزتیں اور اپنی جانیں بچائے پھرتے ہیں.پھر تفسیر مظہری میں لکھا ہے.امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ اگر معاہد رسول اللہ علیہ کو گالی دے تو اس کو قتل کرنا نا جائز ہے، یعنی مسلمان ہو یا غیر مسلم ہوا گر ذمی ہے اور معاہدے کی رو سے ملک میں رہتا ہے تو فرمایا کہ وہ گالیاں دے تب بھی اس کا قتل کرنا حرام ہے کیونکہ گالی دینا کفر ہے اور کفر سے معاہدہ کی شکست نہیں ہوتی.جو ذمی ہے اس کا ایک معاہدہ ہے اور کفر اس معاہدے کو نہیں تو ڑتا، اس لئے اس کا قتل کسی صورت میں جائز نہیں ہے خواہ وہ اس حد تک بد کردار ہو کہ رسول کو گالیاں دے.واما ابو حنيفة واصحابه فقالوا لاينقض العهد بالسب ولا يقتل الذمى بذالك لكن يعزر على اظهار ذالك كما يعذر على اظهار المنكرات (الصارم المسلول بحوالہ ردالمختارعلى الدار المختار شرح تنویر الابصار جلد 4 صفحہ ۱۰۷) کہتے ہیں ایسی صورت میں کہ کوئی رسول اللہ یہ کو گالیاں دے اس کا قتل ہرگز جائز نہیں، زیادہ سے زیادہ اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ اسے
خطابات طاہر جلد دوم 344 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء توبیخ کرو،اسے سمجھا دیا سختی سے ڈانٹو.اس سے زیادہ کی تمہیں اجازت نہیں ہے.كما يعذر علی اظهار المنكرات یہ ایسا ہی معاملہ ہے جیسے ہر نا پسندیدہ چیز کو تم روکتے ہو اور نا پسند کرتے ہو، اس سے زیادہ شریعت میں اس کا کوئی حکم نہیں.پس وہ دعوے کہاں گئے کہ تمام امت کا اجماع ہو چکا ہے اور اس اجماع کی رو سے تمام امت کا مسلسل یہی فتویٰ چلا آ رہا ہے کہ شاتم رسول کو اور گستاخی کرنے والے کو قتل کی سزادی جائے.وہ اجماع بھی ٹوٹا اور بڑے زور اور قوت کے ساتھ ٹوٹا ہے لیکن میں اعلان کرتا ہوں، خدا گواہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا یہ مسلک ہے کہ ساری دنیا کے اجماع بھی دعویٰ کریں ، اگر وہ اجماع قرآن کے خلاف ہوگا تو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا، اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں.اگر وہ محمد رسول اللہ کے عظیم کردار کے خلاف ہوگا تو اس اجماع کی کوئی کوڑی کی بھی حیثیت نہیں ہے.محمد رسول اللہ کا جو کر دار قرآن نے پیش فرمایا ہے، الہبی تعلیمات جو قرآن نے پیش فرمائی ہیں وہ کھلی کھلی محکمات ہیں.ان کے خلاف یہ تمام رطب و یا بس ایک ذرہ ، کوڑی کی بھی حیثیت نہیں رکھتے اور پھر عجیب بات ہے کہ قرآن کریم کی وہ آیات جو کھلم کھلا یہ واقعات بیان کرتی ہوئی ان امور پر بحث کرتی ہیں ان کا ذکر تک بھی یہ نہیں کرتے.وہ احادیث بھی تو دیکھنی چاہئیں تھیں جن میں واضح طور پر گستاخی رسول کے واقعات درج ہیں، لکھے گئے ہیں اور آنحضرت ﷺ نے نہ خود اس کی سزادی نہ کسی کو سزا دینے کی اجازت دی، عبد اللہ بن ابی بن سلول کا واقعہ میں آپ کے سامنے پیش کر چکا ہوں.اب سیے احادیث میں سے چند نمونے مسند امام احمد بن حنبل جلد ثانی صفحہ 221 پر صحیح مسلم کتاب السلام میں بھی یہ حدیث موجود ہے.لکھا ہے ، ابوعبداللہ بن عمر سے روایت ہے.ان اليهود اتت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت السام علیک و قالوآ فی انفسهم لولا يعذبنا الله بما نقول فانزل الله عز وجل وإذا جاء وک حیوک بمالم یحیک به الله وقرأ الى قوله وبئس المصير (مسند احمد حدیث نمبر: ۶۷۶۴) عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ یہودی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے.(یعنی تانیث کا صیغہ یہ مطلب نہیں کہ یہودی تھی ، اکٹھے جمع کے لئے بھی قوم اکٹھی ہو تو اس کے لئے تانیث کا صیغہ استعمال ہوتا ہے) پس ترجمہ اس کا صحیح یہ ہے کہ کچھ یہودی آنحضور ﷺ کی خدمت
خطابات طاہر جلد دوم 345 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء میں حاضر ہوئے اور کہا آپ پر لعنت ہو اور ہلاکت ہو.اس سے زیادہ آمنے سامنے گستاخی اور کیا ہوسکتی ہے.اس پر انہوں نے کہا اور دل میں یہ باتیں سوچیں کہ ہم نے جو اتنی بڑی جرأت کی ہے کہ رسول خدا کہلانے والے کو اس کے منہ پر لعنت ڈالی ہے اور کہا ہے تجھ پر ہلاکت ہو تو پھر خدا ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا.کہتے ہیں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم میں یہ آیات نازل ہوئیں وَ إِذَا جَاءُوكَ حَيَّوكَ بِمَالَمْ يُحَيْكَ بِهِ الله (المجادلة: ٩) پس جب یہ لوگ یہ بد بخت جب تیرے پاس حاضر ہوتے ہیں تو اس طرح تجھے خوش آمدید کہتے ہیں یا اس کی جو Greeting کرتے ہیں، انگریزی میں لفظ Greeting ہے.ایسی Greeting کرتے ہیں جو خدا نہیں کرتا ، خدا کی Greeting تیرے لئے اور ہے، یہ بد بخت اور طرح کرتے ہیں اور یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد قرآن کریم نے ان کو عذاب کی خوشخبری تو دی ہے، لیکن ان کے قتل کا کوئی حکم جاری نہ فرمایا اور آنحضرت ﷺ نے بھی اس کے نتیجے میں کوئی سزا ان پر مقرر نہیں کی حالانکہ یہ واقعہ لازماً اور ظاہر مدینے کا واقعہ ہے جس میں آنحضرت ﷺ کو سیاسی اقتدار بھی حاصل ہو چکا تھا، آپ کو اختیار تھا کہ جس کو وہ واجب القتل سمجھتے اس کے قتل کا حکم جاری فرماتے.پھر آپ کے متعلق مسلسل روایات ملتی ہیں کہ کفار آتے تھے اور آپ کو مذمم کہا کرتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے اللہ نے تو میرا نام محمد رکھا ہے تم مجھے مذمم کہتے ہو.مذمم کا مطلب ہے سب سے زیادہ مذمت کیا گیا، یعنی سب سے زیادہ نہیں شدید مذمت کیا گیا.جس کے اوپر ، جس پر کئی قسم کے عیب ڈالے جائیں اور بہت گندے عیب ڈالے جائیں اس کو مذمم کہتے ہیں.تو آپ اس کے جواب میں صحابہ کو یہ تو نہیں کہا کرتے تھے کہ کون میرے لئے کافی ہوگا ان بدبختوں کے خلاف ؟ اور حضرت عمرؓ اور حضرت علی اور خالد بن ولید و غیرہ تلوار میں سونت لیا کرتے تھے کہیں اشارہ بھی اس کا ذکر نہیں.آپ کا خلق عظیم دیکھیں ! آپ فرماتے ! اللہ نے تو میرا نام محمد رکھا ہے، یہ کسی نزم کو گالیاں دیتے ہوں گے یہ گالیاں مجھے تو نہیں پہنچتیں.اس طرح اللہ نے مجھے ان کے بُرا بھلا کہنے سے بچالیا، پس اللہ نے بچالیا ہے محمد رسول اللہ کو، اللہ نے آپ کا نام محمد رکھا ہے ایک کیا کروڑوں ، اربوں بد بخت بھی تمام عمر محمد رسول اللہ کو گالیاں دیتے چلے جائیں، محمد رسول اللہ کا یہ کلام ہمیشہ سچار ہے گا کہ خدا نے خود آپ کا نام محمد رکھ کے ہر بد بخت کی بدزبانی سے آپ کو بچالیا ہے.
خطابات طاہر جلد دوم 346 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء اسی طرح قرآن کریم میں راعنا کے لفظ کی طرف ، بیان کر کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ یہ منافقین اور گندے لوگ آنحضور کی خدمت میں جب حاضر ہوا کرتے تھے، تو لفظ راعنا یعنی ہماری رعایت کر، کو بگاڑ کر ٹیڑھا کر کے اس طرح پڑھا کرتے تھے جیسے کہتے ہیں راعینا اور راعینا کا مطلب ہے ہمارے چروا ہے.تو اپنی طرف سے آپ کی تذلیل کے لئے یہ بتانے کے لئے کہ تم ہو کیا، ہمارے چرواہے ہی ہو ، نا.راعنا کا بہانہ ڈھونڈ کر ، کہ ہم نے تو راعنا کہا تھارا عینا کہہ دیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ داعِنانہ کہا کرو، وانظرنا کہا کرو.تا کہ تمہاری زبانیں ٹیڑھی بھی ہوں تو غلط مطلب نہ نکل سکے لیکن کہیں کسی سزا کا کوئی ذکر نہیں ملتا.حالانکہ بخاری کتاب النفسیر میں اس واقعہ کو تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے.خطیب یا خطیب سہیل بن عمرو کی رہائی اور معافی کا واقعہ بھی اس ضمن میں قابل ذکر ہے.جنگ بدر کے قیدیوں میں ایک شخص سہیل بن عمر د بھی تھا ، یہ قریش کا مشہور خطیب تھا.یہ خطیب قریش سہیل بن عمرو کی رہائی کا واقعہ ہے یہ وہ خطیب تھا.سخت دشنام طراز بدگو، بدزبان، بے لگام اور اپنی زبان کی چالاکیوں سے وہ ہمہ تن ہمیشہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے خلاف گند بکا کرتا تھا، حضرت عمرؓ اس سے بہت خفا تھے.عموماً اس موقع پر حضرت عمر کا نام لیا جاتا ہے کیونکہ ان کے اندر ذرا زیادہ جوش پایا جاتا تھا.ورنہ ہر عاشق رسول اس سے خفا تھا، کون تھا جس کا دل راضی تھا.وہ جنگ بدر میں قید ہو کر آیا تو اس کا کوئی عزیز اس کا فدیہ لے کر اس کی رہائی کے لئے پہنچا.اس موقع پر حضرت عمر نے آنحضو ہے سے اجازت طلب کی کہ یا رسول الله انزع ثنیتی سہیل ابن عمرو و يدلع لسانه فلايقوم علیک خطیبا فى موطن أبدا ( سيرة ابن ہشام جلد اول صفحہ: ۶۴۹ ) کہ اے اللہ کے رسول مجھے اس سہیل بن عمرو کے اگلے دو دانت توڑنے کی اجازت دیں.جانتے تھے کہ رسول اللہ اللہ نے فیصلہ فرما لیا ہے کہ جو شخص رہائی چاہے گا وہ وہاں سے ان کا فدیہ دے کر آئے اور ان کو چھڑالے.تو یہ نہیں کہا کر قتل کرنے کی اجازت دیں.کہا کہ مجھے دو دانت تو توڑنے دیں اس بد بخت کے، جن دانتوں اور زبان سے وہ آپ کو گالیاں دیا کرتا تھا اور اس کی زبان کچلنے کی اجازت دیں.میں اس کی زبان کو مسلوں اور کوٹ کے کچل دوں تا کہ پھر آئندہ کبھی کوئی خطیب کسی وطن میں آپ کو گالی نہ دے سکے.آنحضرت ﷺ نے اس بات کو سنا اور فرمایا میں ہرگز اس کا مثلہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا.نہ
خطابات طاہر جلد دوم 347 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء موت کے بعد نہ زندگی میں اور اگلی بات سنیں عظیم کردار ہے، اتنا عظیم کردار کہ انسان کی عقل ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتی ہے.اپنا انکسار اور عاجزی دیکھیں فرمایا ! میں نہیں اجازت دوں گا باوجود اس کے کہ میں خدا کا نبی ہوں اس لئے کہ کہیں اللہ میرے ساتھ یہ سلوک نہ کرے.یہ ہے اللہ کا تقویٰ، یہ تقویٰ خدا کا تھا جو محمد رسول اللہ کے سینے میں بسر کرتا تھا، آپ کے سینے میں رہا کرتا تھا اور آپ نے اسی لئے اس تقویٰ کا ذکر کرتے ہوئے بار بار اشارہ فرمایا! تقویٰ یہاں ہے، یہاں ہے، یہاں ہے (مسلم کتاب البر والصلہ حدیث نمبر : ۴۶۵۰ ) اس سینے میں محمد کے سینے میں تقوی رہتا ہے.جس نے تقویٰ سیکھنا ہے اس سے سیکھے.پس فرمایا کہ میں تو اتناڈرتا ہوں اللہ سے کہ کسی انسان پر کوئی ایسی زیادتی کروں جس کے بدلے میں کہیں خدانخواستہ ایسا واقعہ ہو کہ خدا مجھ سے ناراض ہو.جو شریعت میں اتنا ادنی سے دخل کی بھی اپنے آپ کو اجازت نہیں دیتا تھا اس کی طرف ایسے ظالمانہ فتاویٰ منسوب کر دیئے جائیں کہ گویا قرآن کی تعلیمات کو بھلا کر ان کے بالکل برعکس اور پھر ایک دفعہ نہیں ، دودفعہ نہیں بارہا مسلسل قرآن کریم کی تعلیمات کے برعکس فتوے جاری کرتے رہے اور وہ جو مجسم رحمت تھا، نعوذ باللہ من ذالک وہ دنیا کے لئے مجسم زحمت بن کر ابھرا.یہ وہ شیطانی خیالات ہیں جو ہتک رسول ہیں اور اس تک رسول کی ہم تمہیں سز انہیں دیں گے مگر خداضر ور تمہیں سزا دے گا.غزوہ اُحد میں نبی اکرم ﷺ جب مدینے سے نکلے تو اپنے صحابہ سے فرمایا! کون ہے جو ہمیں لشکر کفار سے بچاتے ہوئے کسی رستے سے ان کے قریب لے جائے ؟ یہ غزوہ اُحد کے بعد جب آنحضرت ﷺ نے مکہ واپس لوٹتے ہوئے لشکر کفار کا تعاقب کیا اور سخت زخمی حالت میں صحابہ آپ کے ساتھ روانہ ہوئے، یہ ثابت کرنے کے لئے کہ مسلمان کسی کے رعب میں نہیں ہیں اور جو وقتی شکست تھی وہ بعض لوگوں کی غلطی کے نتیجے میں ایسا واقعہ ہوا ہے.ورنہ ہم تم سے ڈر کر جان بچانے والے نہیں اور یہ کمزور نسبتاً بہت کم تعداد کا لشکر دشمن کی پیروی کرتے ہوئے ان کے عقب میں پہنچ رہا تھا.آنحضرت ﷺ نے رہنمائی طلب فرمائی کسی سے کہ تم علاقے کو جانتے ہو، ایسی جگہ بتاؤ کہ رستے میں نہ مڈ بھیڑ ہو جائے ، ہم اس مقام تک پہنچ جائیں جہاں وہ لشکر خیمہ زن ہے.یہ وہ واقعہ ہے چنانچہ ایک شخص حاضر ہوا، اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں جانتا ہوں اور اس نے آنحضرت ﷺ کو اور آپ کے لشکر کو ایسے رستوں سے گزارا کہ دشمن کو اس کی کوئی خبر نہ ہوئی.رستے میں ایک زمین پڑتی تھی جو
خطابات طاہر جلد دوم 348 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء صلى الله الله ربع بن قیظی کی زمین تھی جو ایک منافق انسان اور نابینا بھی تھا.ظاہر وباطن کا اندھا اور رسول اکرم علی کا اتنا دشمن تھا کہ اس نے جب آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کی آوازیں سنیں تو سامنے کھڑے ہو کر ان پر مٹی پھینکنے لگا اور کہنے لگا! کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو میں آپ کو ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ میرے احاطہ زمین میں داخل ہوں.اور روایت ہے کہ اس نے مٹھی بھر کر یہ کہا کہ خدا کی قسم اے محمد ! اگر مجھے پتا چل جائے تو یہ مٹی آپ کے سوا کسی اور کے چہرے پر نہیں پڑے گی اور خدا کی قسم میں آپ کے منہ پر یہ مٹی دے مارتا.صحابہ تیزی سے جوش سے آگے بڑھے کیونکہ جنگ کا وقت تھا اور ایسے موقع پر بے اختیاری میں تلواروں کا چل جانا کوئی بعید نہیں تھا مگر آنحضرت ﷺ نے ان کو روک دیا اور فرمایا! ہرگز نہیں، اس کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی.(سیرۃ ابن ہشام جلد دوم صفحہ ۶۵) یہ ہے ہتک رسول اور گستاخی رسول کی وہ سزا اور جزا جومحمد رسول اللہ ﷺ نے خدا سے سیکھی ، کلام الہی سے سمجھی اور خود اس کو اپنے کردار میں جاری فرمایا اور اس کی صحابہ کو تلقین فرمائی.یہ روایت کس کتاب میں ہے؟ سیرت ابن ہشام میں یہ روایت درج ہے باب غزوہ اُحد کے تابع.دوسری روایت ہے مسند امام احمد بن حنبل کی دار الفکر العربی مصر کی طبع شدہ ہے.جلد ثانی صفحہ 219 عبد اللہ بن حارث بن نوفل کے آزاد کردہ غلام مقسم ابی القاسم سے روایت ہے کہ میں اور کلیب بن کلاب عبد اللہ بن عمرو بن العاص کے پاس آئے اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے اور ان کے جوتے ان کے ہاتھ میں تھے.ہم نے ان سے کہا کہ آپ اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھے جب غزوہ حنین کے روز بن تمیم کے ایک شخص نے حضور سے سخت کلامی کی تھی ؟ آپ نے کہا! ہاں، بنوتمیم کا ایک شخص آیا اس کا نام ذوالخویصرہ تھا وہ آنحضرت ﷺ کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور حضور لوگوں کو عطا فرما رہے تھے.اس نے کہا اے محمد ! آج جو کچھ آپ نے کیا ہے میں نے دیکھا.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں تو پھر تو نے کیسا پایا.اس نے کہا میرے خیال میں آپ نے عدل و انصاف سے کام نہیں لیا.آپ اموال میں بد دیانتی اور خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں.آنحضرت ﷺ کے او پر اس بھیا نک الزام کو سنتے ہی جیسا کہ عموماً روایتوں میں درج ہے حضرت عمر بن الخطاب اس موقع پر بھی کھڑے ہوئے اور رسول اکرم ﷺ سے پوچھا کہ کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں؟ آپ نے فرمایا نہیں اسے چھوڑ دو.یقیناً ان لوگوں سے ایک گروہ پیدا ہونے والا ہے جو دین میں شدت اور سختی اختیار کریں
خطابات طاہر جلد دوم 349 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء گے یہاں تک کہ دین سے ایسے باہر نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے باہر نکل جاتا ہے، آرپار ہو جاتا ہے.اب یہ عجیب ہے فصاحت و بلاغت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سختی کی اجازت چاہی تھی اور آنحضرت نے سختی کو نا پسند فرماتے ہوئے نہ صرف اجازت نہیں دی بلکہ یہ فرمایا! کہ عمر تمہیں زیب نہیں دیتا.اس بدبخت کی پشت سے وہ بد بخت قوم پیدا ہونے والی ہے اور آئندہ زمانے میں وہ لوگ آنے والے ہیں جو اس طرح دین کے معاملے میں جہالت سے حد سے زیادہ تجاوز کیا کریں گے اور سختی کیا کریں گے.پس ان بدبختوں کا معاملہ ان پر چھوڑ دو، ان کا دین سے کوئی بھی تعلق نہیں رہے گا.( مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر ۱۱۵۵۴۰) پس آج کا وہ بدنصیب زمانہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جبکہ یہ حدیث اپنی پوری شان کے ساتھ تمام تر وضاحت کے ساتھ تمام تر صفائی کے ساتھ پوری ہو چکی ہے.اسی قسم کی اور روایات بھی درج ہیں ایک صحیح بخاری میں بھی روایت درج ہے اور اس میں بیان کیا گیا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ پر یہ الزام لگایا گیا تو اس وقت آنحضرت نے کیا جواب دیا یہ واقعہ سننے سے تعلق رکھتا ہے.ایک دفعہ ایک شخص نبیکریم ﷺ کے مال تقسیم کرنے کے موقع پر اعلانیہ اعتراض کر رہا تھا اور بار بار کہہ رہا تھا کہ عدل سے کام نہیں لیا گیا.آنحضرت ﷺ اس کے جواب میں یہی فرماتے رہے اتق اللہ ،اللہ کا خوف اختیار کرو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.خالد بن ولید کھڑے ہوئے ، آنحضرت ﷺ سے اس کے قتل کی اجازت چاہی.آپ نے فرمایا نہیں ایسا مت کرو، شاید کہ وہ نماز پڑھتا ہو.عجیب شان ہے اللہ کی اور اللہ کے رسول کی.یہ اسلام ہے، یہ اسلام ہے جو اپنے حسن کے ساتھ تمام دنیا پر غالب آنے کی صلاحیت رکھتا ہے.کون ہے جو اس اسلام کی راہ روک سکتا ہے؟ وہ اسلام تم نے کہاں سے سیکھا ہے جو من و عن اسلام کے دشمنوں پر صادق آ رہا ہے، جو ابو جہل اور عقبہ اور شیبہ کے کردار پیش کر رہا ہے، جو تاریخ انبیاء میں انبیاء کے تمام دشمنوں کے کردار پیش کر رہا ہے.تم کن بد بختوں کے پیچھے چل پڑے ہو، محمد رسول اللہ کا دامن چھوڑ کر کن اندھیروں میں تم ب رہے ہو.ایک ہی دامن ہے جو نجات کا دامن ہے، ہر نجات محمد رسول اللہ کے اسوہ سے وابستہ ہے.سنئے حضرت رسول اکرم ﷺ کی اس طرح گستاخی کی گئی.وہ جھوٹی باتیں ہیں جو یہ کہا کہ کون ہے جو اس کے متعلق میرا کفیل ہو جائے ، میرے لئے کافی ہو.خالد بن ولیڈ کھڑے ہوئے قتل کر دیا.سب افسانے ہیں، جھوٹی گھڑی ہوئی باتیں ہیں.ان واضح قطعی احادیث کے جو صحیح بخاری میں صلى الله بھٹکتے پھر
خطابات طاہر جلد دوم 350 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء موجود ہیں مخالف اور معاند ہیں، ان سے کھلم کھلا ٹکراتی ہیں، متصادم ہیں اور ناممکن ہے کہ اگر بخاری کی یہ حدیث کچی ہے تو وہ حدیثیں کسی توجہ کے لائق ہوں.یقیناً جھوٹی ہیں، فرمایا کہ دیکھو میں تمہیں اس کے قتل کی اجازت نہیں دیتا شاید کہ وہ نماز پڑھتا ہو.یہ عذر کیسا عمدہ اور کیسا پیارا پیش فرمایا ہے کہ کیسیہوسکتا ہے عبادت کرتا ہو، بدکار سہی بد بخت سہی، مجھے گالیاں دیتا ہے مگر شاید اس کی عبادتیں اس کو بچالیں.لیکن خالد بن ولید نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کتنے ہی نماز پڑھنے والے ہیں جن کے دل میں کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور کرتے ہیں.یہ وہی آواز ہے جو آج پاکستان کی گلی گلی میں گونج رہی ہے اور احمدیوں کے قتل کا عذر پیش کرتے ہوئے عدالتیں بھی یہی اعلان کر رہی ہیں اور گلیوں میں بھی ملاں یہ اعلان کرتا ہے کہ ان کی نمازوں پر نہ جاؤ یہ نمازوں میں کچھ اور دکھاتے ہیں اندر سے کچھ اور پڑھتے ہیں، ان کے کلے پر نہ جاؤ یہ ظاہر میں محمد کا کلمہ پڑھتے ہیں اور اندر سے کسی اور کا کلمہ پڑھتے ہیں.اس لئے ہمارا حق ہے، ہمارا فرض ہے کہ ان کو قتل و غارت کریں آنحضرت ﷺ نے جب خالد بن ولیڈ کے اس عذر کو سنا تو جانتے ہو کیا جواب دیا، فرمایا: اني لم آؤمر ان انقب عن قلوب الناس ولا اشق بطونهم (السنن الكبرى صفحه: ۱۹۶) اے خالد! میں اس لئے مبعوث نہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے سینے پھاڑ کر دیکھوں ، میں تو اسی کو قبول کروں گا جو زبانیں کہتی ہیں اور اسی پر فتوے صادر کروں گا، میں مبعوث نہیں کیا گیا.آج کے بد بخت ملاں اس لئے مبعوث کئے گئے ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگا ئیں.اب اس کا عذر، احمدیوں کے خلاف ظلم وستم کا جو عذر انہوں نے تراشا ہے یہ وہی ہے جو حضرت محمد رسول اللہ ہمیشہ کے لئے رد فرما چکے ہیں.اقبال حیدر صاحب وزیر قانون یہ بیان دیتے ہیں کہ اے ملا نو ! تم ہمیں کیوں ڈراتے ہو کہ ہم تو ہین کے مرتکب ہوئے ہیں.ہم تو ظاہری تو ہین کو بھی برداشت نہیں کریں گے اور مخفی تو ہین کو بھی برداشت نہیں کریں گے.اور مخفی تو ہین سے مراد ان کی یہ ہے کہ اگر کوئی ظاہری طور پر رسول اللہ ﷺ کے عشق کے گیت گائے گا اور تم یہ کہو گے کہ دل میں بد بخت ہے تو ہم یہ بھی مان لیں گے.ہم تو اتنے تمہارے نوکر، چاکر ، غلام ہیں جو قانون تمہارے پاؤں کے نیچے مسلا جانے کے لئے تیار بیٹھا ہے اس کے محافظوں پر کیا اعتراض ہے اور کیا ان کے خلاف تم زبانیں کھول رہے ہو.یہ اس اعتراض کا مفہوم ہے، یہ اس کی حقیقت ہے.
خطابات طاہر جلد دوم 351 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء پس سنئے کہ قرآن کریم ان سب بد بخت باتوں کو کس طرح رد فرماتا ہے اور کھلا کھلا ردفرماتا ہے.اگر اس بخاری کی حدیث کے پیچھے نہیں چلنا چاہتے تو ان آیات کو غور سے سنیں جو سورہ منافقون کی میں نے آغاز میں پڑھ کے سنائی تھیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوْا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ ، وَاللهُ يَشْهَدُ إنَّ الْمُنْفِقِينَ لَكَذِبُونَ کہ اے محمد ! جب یہ منافق یہ دوغلے لوگ تیرے پاس آتے ہیں اور گواہی دیتے ہیں کہ یقیناً تو خدا کا رسول ہے اور اللہ جانتا ہے کہ تو خدا کا رسول ہے، پھر بھی خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ سب بد بخت جھوٹ بول رہے ہیں، دل میں کچھ اور باتیں کرتے ہیں.کیا اس سے بڑی پکی گواہی بھی کوئی دی جاسکتی ہے؟ خدا کا رسول تو کہتا ہے کہ میں دلوں میں نقب زنی کے لئے قائم نہیں فرمایا گیا.مگر اللہ تو دلوں کا حال جانتا ہے، اللہ خود دلوں کے حال، ان کے اصرار پرمحمد رسول اللہ کو قرآن کریم میں مطلع فرما رہا ہے، اس کے بعد کون سا عذر باقی رہ جاتا ہے.اللہ گواہی دیتا ہے کہ جھوٹ بول رہے ہیں، اوپر سے کچھ اور کہتے ہیں دلوں میں اور بکواس ہے.اِتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً انہوں نے اپنے ایمان کو ڈھالیں بنایا ہوا ہے.جب پوچھا جاتا ہے کہ دنیا میں اور بھی تو کافر ہیں ، رسول اللہ ﷺ کو کھی کھلی گالیاں دینے والے ہیں ان کے پیچھے نہیں پڑتے ،محمد رسول اللہ کے عشق کے گیت گانے والوں کے پیچھے پڑتے ہو.تو مسلمان عوام کو سمجھاتے ہیں اس میں ایک حکمت ہے یہ منافق لوگ ہیں ، انہوں نے اپنے ایمان کو ڈھال بنایا ہوا ہے اور مسلمان ہونے کی آڑ میں مسلمانوں میں فتنہ پھیلا رہے ہیں.یہ کوئی نئی بات نہیں ہے چودہ سو برس پہلے قرآن نے یہی بات بیان فرمائی تھی کہ اس وقت واقعہ ایسے لوگ تھے.اب تو ان بدبختوں کی گواہیاں ہیں جو ظاہراً بھی جھوٹی اور باطنا بھی جھوٹی، اتنا جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں کہ ان کے اردگردان کے ماحول میں وہ پولیس والے جن میں جا کے یہ احمدیوں کے خلاف جھوٹے مقدمے درج کرتے ہیں وہ سارے گواہ ہیں.ان سے علیحدگی میں قسمیں لے کے پوچھ لو کہ یہ واقعہ جو بیان ہوا ہے سچا ہے کہ جھوٹا ہے.وہ کہتے ہیں سراسر جھوٹا ہے لیکن ہم مجبور ہیں قانون سے، ہم اپنے گورنروں اور بادشاہوں کے حکم کے تابع ہیں.خدا کا حکم چلتا پھرے لیکن وہ تو قیامت کے دن.
خطابات طاہر جلد دوم 352 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء دیکھی جائے گی.پنجابی میں کہتے ہیں کٹن نیڑے کہ موت کٹن ، مکا تو نزدیک ہے نا، اس سے بچنا چاہئے ، موت کی دیکھی جائے گی.پس ان کا مسلک یہ ہے کہ وقت کے حاکم کی بات مانو ، خدا کی بات دیکھی جائے گی ، کیا ہوگا قیامت کے دن.اور کہتے یہ ہیں کہ دیکھو! ہم مجبور ہیں ، احمدی لوگ اوپر سے دعوے کرتے ہیں محمد رسول اللہ کی صداقت کے بیچ میں سے مرزا غلام احمد کا نام لیتے ہیں.یعنی نقب زنی کی اجازت جو خدا نے رسول کو نہیں دی تھی اور وہ صلاحیت نہیں بخشی تھی ، وہ ان لوگوں کو عطا ہوگئی.شرک فی الرسالت اس کو کہتے ہیں بلکہ اس سے بھی بالا یہ تو شرک فی الالوھیت ہے.خدائی کے دعویدار بن بیٹھے اور وہ دعویدار جو جھوٹے مشہور ہیں، بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں.ان عدالتوں سے احمدیوں کے خلاف فتوے لے رہے ہیں جن کے متعلق خود ان کے پرانے قانون دان ماہرین کہتے ہیں کہ ساری زندگی کا نچوڑ یہ ہے کہ سارے ہی گواہ جھوٹے نکلے اور جھوٹ پر ہی کاروبار چل رہا ہے.گلی گلی میں جھوٹ بولا جارہا ہے، آپس کے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں جھوٹ بولا جا رہا ہے، حد سے زیادہ بدکرداریاں نشو ونما پاچکی ہیں.ایسی بدکرداریاں جن کے متعلق اگر اسلام کا شہادت کا قانون نافذ کیا جائے تو ایک بھی گواہ کی گواہی قبول کرنا ایک بہت ہی کارے دار کام ہوگا، بڑا مشکل کام ہوگا.قسمت سے وہ گواہ نکلیں گے جن پر اسلامی شرائط کی رو سے ان کی گواہی کو قبول کرنے کا حق صدور پا آتا ہو.مگر یہ کہتے ہیں اور وہاں کون گواہ تھا جس کی بات میں بیان کر رہا ہوں.اللہ علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ اس کی گواہی پیش کر رہا ہوں، کسی ملاں کی گواہی پیش نہیں کر رہا اور یہ گواہی محمد رسول اللہ کے سامنے خدا نے خود دی ہے.اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً ان بدبختوں نے اپنے ایمانوں کو ایک ڈھال بنا رکھا ہے کس لئے ، تاکہ مومنوں کو ، خدا کی راہ پر چلنے والوں کو خدا کی راہ سے گمراہ کریں.یہ عذر وہاں سچا تھا، قبول کرلیا گیا اور پھر بھی کوئی قتل کی سزا، کوئی بدنی سزا تجویز نہیں فرمائی گئی.کیا یہ خدا سے بھی بالا ہستیاں ہیں؟ جو اپنے جھوٹ پر پھر خدا سے بڑھ کر وہ سزائیں تجویز کرتے ہیں جو خدا نے تجویز نہیں فرمائیں.سورۃ المنافقون کو جب تک قرآن سے تم نکال نہیں سکتے تمہاری نسلیں مرتی چلی جائیں قرآن کریم سے تم ایک شعشہ بھی ، ایک حرف، ایک نقطہ بھی نکال نہیں سکتے ، یہ سورۃ تمہارے جھوٹا ہونے پر قیامت تک گواہی دے گی اور قیامت کے بعد بھی گواہ بن کے کھڑی ہوگی.
خطابات طاہر جلد دوم 353 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء پس ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ اے مسلمانو! تم لوگوں کو تو پتا ہی نہیں دین کا ، دین کے تو ہم علمبر دار ہیں.تم نے تو اپنا کتابوں کا بوجھ اٹھا کر جن لوگوں کی پیٹھ پر لاد دیا ہے ان سے پوچھو کہ یہ کتا بیں کیا کہتی ہیں اور وہ جس قسم کے لوگ ہیں جن پر یہ بوجھ لا دے گئے ہیں.قرآن نے ان کی حقیقت کھول دی ہے پھر تو ایسے ہی فتوے جاری ہوں گے.اذا كان الغراب هاد قوم فيهديهم طـريـق الهالكين کو ابھی ہلاکت کے طریق کی طرف لے جاتا ہے یہ گدھے کہاں لے کے جائیں گے.قرآن کہتا ہے کہ وہ تو میں جو اپنے بوجھ کو اتار پھینکتی ہیں، خود شریعت سے غافل ہو جاتی ہیں، بے اعتناعی کرتی ہیں ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے مسافر گدھوں پہ کتابوں کا بوجھ ڈال دیں اور پھر ان گدھوں سے فتوے پوچھیں اور رستہ پوچھیں کہ ہدایت کا رستہ کون سا ہے؟ ان کے ایسے ہی فتوے ہوں گے.قرآن نے یہ لکھا ہے، ان گدھوں کے دماغ میں کچھ اور لکھا ہوا ہے.اس کے مخالف ہے اور عوام الناس کو پتا ہی نہیں کہ یہ بد نصیب لوگ قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں اور قرآن کے نام پر قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں محمد رسول اللہ کی گستاخی کر رہے ہیں.محمد رسول اللہ کی عزت کے نام پر محمد رسول اللہ کی گستاخی کر رہے ہیں ، اسلام کے نام کی محبت کے نام پر سب دنیا میں اسلام کے خلاف نفرتیں پھیلا رہے ہیں.فرماتا ہے: ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ أَمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا یہ اس بدبختی کو اس لئے پہنچے ہیں کہ پہلے ایمان لائے تھے، اللہ گواہ ہے کہ ایمان لے آئے تھے.ثُمَّ كَفَرُ وا پھر کفر اختیار کیا.تو مرتد کی سزا بھی ساتھ ہی گئی ، وہ جو بڑے بڑے ڈینگیں مارتے تھے کہ ہم نے ثابت کر دیا کہ مرتد کی سزا اسلام میں قتل ہے اس آیت کو کہاں لے جاؤ گے.اللہ گواہی دے رہا ہے ،معروف لوگ ہیں، محمد رسول اللہ جانتے ہیں، صحابہ جانتے ہیں کون ہیں.ان کے متعلق مولوی کا فتویٰ نہیں ہے کہ مرتد ہیں، خدا کا فتویٰ ہے اور ہم کلام محمد رسول اللہ سے اور محمد رسول اللہ خدا کی یہ گواہی دنیا کے سامنے پیش فرما رہے ہیں کہ اللہ کہتا ہے یہ سارے لوگ پہلے مومن تھے پھر مرتد ہوئے ، پھر منافق بھی ہوئے اور دہرا، تہرا ان کا گناہ ہے لیکن قتل نہیں قتل کی اجازت نہیں.اور پھر دل پر مہریں بھی لگ گئیں، یہ بھی خطرہ نہیں کہ شاید بعد میں ایمان لے آئیں اس لئے چھوڑ دو ان کو نہیں نہیں ان کے تو مہریں لگ چکیں ، اب اس کفر کی حالت میں مریں گے اور کوئی ان کو بیچا نہیں سکتا.پھر بھی قتل کا فتویٰ جاری نہیں ہوتا.پھر اس بات کو خوب کھو لتے ہوئے اللہ تعالیٰ ایک آیت کے بعد پھر یہ فرماتا ہے: وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرُ لَكُمْ
خطابات طاہر جلد دوم 354 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء رَسُولُ اللہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ سنو بھائیو! آؤ ہدایت کی طرف آجاؤ محمد رسول اللہ سے معافی مانگو، ہدایت کے طریق اختیار کرو.محمد رسول اللہ اتنا رحم فرمانے والے ہیں کہ وہ ضرور تمہارے لئے بخشش کی دعا کریں گے.نووا رُءُوسَهُم سرمٹکاتے ہیں.کہتے ہیں اس دعا کی ہمارے نزدیک کوئی بھی قیمت نہیں.کس طرف بلا رہے ہو محمد رسول اللہ کی دعا ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں اور مسلسل خدا کے رستے سے روکتے چلے جاتے ہیں اور تکبر اختیار کرتے ہیں.اس فتوے کے بعد پھر قتل کا فتوی آنا چاہئے ، وہ نہیں ہے.ان باتوں کے بعد اُس واقعہ کا ذکر ہے جس میں محمد رسول کریم عله عبد اللہ بن ابی بن سلول کا جنازہ پڑھنے کے لئے نکلتے ہیں اور قرآن کریم کی دیکھو کیسی عظیم پیشگوئی محمد رسول اللہ کے حق میں پوری ہوتی ہے یہ تو مجسم رحمت ہے.جو بد بخت بد زبانی میں، بدکلامی میں، گستاخی میں سب سے بڑھا ہوا تھا یہ تو ان کے لئے بھی بخشش چاہتے ہیں.اگر وہ خود معافی نہ بھی مانگ سکا تو مرنے کے بعد بھی یہی تمنا ہے کہ خدا کے حضور بخشا جائے.جب تک اللہ تعالیٰ نے دوٹوک فیصلے کی رُو سے آنحضور کو حکماً منع نہیں فرما دیا کہ نہ کبھی ان کی قبر پر کھڑا ہو، نہ کبھی ان کے لئے استغفار کر، اس وقت تک محمد رسول اللہ اس فیصلے سے باز نہیں آئے.یہ ہے کردار مصطفوی علی ، یہ وہ حسن ہے جو تمام دنیا کے قلوب کو لازماً فتح کر کے رہے گا.کوئی دل نہیں ہے جو اس حسن پر اطلاع پائے اور اس پر عاشق ہوئے بغیر رہ سکے.اس حسن کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کر کے اپنی بدزبیبیوں ، بدکرداریوں کو اسلام کے نام پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہو.ابوجہل اور عتبہ اور شیبہ کے اُسوہ کو گستاخی کی رو سے، از حد گستاخی کی رو سے محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے غلاموں کی طرف منسوب کر کے پیش کرتے ہو.خدا تمہیں ضرور اس کی سزا دے گا.تم وہ منافقین ہو، ہاں تم وہ منافقین ہو جن کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ خدا کا رسول اگر ستر مرتبہ بھی تمہارے لئے بخشش طلب کریں تو خدا تمہیں نہیں بخشے گا.کیونکہ تم نے خدا سے بے وفائی کی تم نے خدا کے رسول سے بے وفائی کی تم نے اسلام سے بے وفائی کی اور اپنے دنیاوی اقتدار کی خاطر اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا.پس تمہارے متعلق یہ فتویٰ ہمیشہ کے لئے جاری ہو چکا ہے.سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ ۖ لَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ (المنافقون:۷) مگر اس کے باوجود میں صلى الله
خطابات طاہر جلد دوم 355 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء وہی راہ اختیار کرتا ہوں جو انسان کو اپنی لاعلمی میں عاجزی کی راہ اختیار کرنی چاہئے.تم میں سے ان لوگوں کے حق میں ضرور یہ فتویٰ جاری ہو چکا جن کے متعلق خدا جانتا ہے کہ ان کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں.مگر میں خدا سے توقع رکھتا ہوں ، اس کی رحمت سے امید رکھتا ہوں ، محمد رسول اللہ اللہ کی امت کے متعلق میرا دل یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک اس امت کی طرف منسوب ہونے والے اکثر لوگوں کے دل پر مہر لگائی جاچکی ہے.چند بد بخت لوگ ہیں، وہ گدھے ہیں جنہوں نے یہ فیصلے دے کر اس امت کا ناک کٹا دیا ہے اور عوام الناس کے مذہب اور مزاج کو بگاڑ رکھا ہے.پس ان کے لئے ہم ضرور دعا کریں گے اور دعا کرتے چلے جائیں گے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہم حضرت محمد رسول اللہ کے اُسوہ کے تابع سچے دل سے ان لوگوں کے لئے استغفار کریں جن لوگوں کے متعلق خدا کے نزدیک مہروں کا فتویٰ ابھی صادر نہیں ہوا، ابھی یہ موت کے کنارے تک پہنچے ہیں، قبروں میں گاڑے نہیں گئے.تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے اس قوم میں عظیم انقلاب پیدا ہو گا اور یہ لوگ جن کے دین پر خودان کے دینی رہنما حملہ کر رہے ہیں اور ان کو زندہ درگور کر رہے ہیں، ایک وقت ہے اور ایسا وقت آئے گا کہ یہ مردے اٹھ کھڑے ہوں گے یا نیم مردے اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنے ان ظالم رہنماؤں کو دفن کر دیں گے اور ہمیشہ کے لئے دفن کر دیں گے، تاریخ کی اس مٹی تلے یہ دب جائیں گے جس مٹی کے نیچے فاسقوں کا دبنا مقدر ہو چکا ہے.اور تم دیکھو گے کہ اسلام کی وہ تاریخ جو احمدیت کے ذریعے دن بدن روشن سے روشن تر ہوتی چلی جائے گی.یہ تاریخ ان شہداء کو زندہ کرے گی جو ان ظالموں کے ہاتھوں مارے گئے اور ان ظالموں کو ہمیشہ کے لئے موت کے گھاٹ اتار دے گی.میں نے جہاں تک غور کیا ہے ان علماء کا جو بہتر فرقوں کی تھیلی میں ہیں.ان کا آپس کا ایک غیر تحریری معاہدہ سا ہو چکا ہے اور اس معاہدے کی روح یہ ہے کہ ہم آپس میں جتنی مرضی تذلیل کریں، جتنی مرضی گستاخیاں کریں رسول کی ، قرآن کی ہمیں کھلی چھٹی ہے.ہم ایک دوسرے کے خلاف نہ بات کریں کیونکہ ہم ایک ہی تھیلی میں آچکے ہیں.ہاں تھیلی سے باہر اجازت نہ دو اور اسلام کے دشمنوں کو تو اجازت دو مگر وہ ایک فرقہ جس کے متعلق رسول اللہ کا فتویٰ یہ ہے کہ وہ بہشتی اور جنتی ہے، اس کو اجازت نہ دو کہ وہ رسول اللہ اللہ کی حمد اور مدح کے گیت ہی گائیں اگر وہ گائیں تو ان کو کہو
خطابات طاہر جلد دوم 356 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء کہ یہ گستاخی رسول ہے.یہ کوئی جیسے Unwritten Traditions ہوتی ہیں، غیر تحریری قانون بنائے جاتے ہیں ویسا ہی کوئی قانون ہے.آپس میں ایک دوسرے کو کھلی چھٹی ہے جو چاہیں بدتمیزیاں کرتے پھریں.میں چندان کی مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ یہ گستاخی رسول کے جرم میں قتل کا مطالبہ کرنے والے ہیں کون لوگ ؟ بریلوی فرقے کے متعلق شمع توحید مصنفہ ثناء اللہ صاحب امرتسری جو اہلحدیث کے چوٹی کے مستند علماء میں شمار ہوتے ہیں اور جن کا آج بھی یہ نام بڑھا چڑھا کر بڑی عزت سے لیتے ہیں.ان کا فتویٰ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ کا درجہ دینے والے لوگ ہیں ، یعنی مشرک ہیں.پھر کہتے ہیں ! خدا کے علاوہ بزرگوں کو مشکل کشا سمجھتے اور مدد مانگتے ہیں، یعنی ان کے متعلق شرک کا قطعی فتویٰ اور پھر بھی یہ مسلمان یعنی اسلام میں اگر اجازت نہیں تو لا اله الا الله مـحـمـدرســول الله کی اجازت نہیں ہے لیکن اللہ کا شریک ٹھہر الو اس کی کھلی اجازت ہے.سید جماعت علی شاہ کو ہادی اور شافع سمجھتے ہیں.یعنی اپنے پیروں کو وہ مقام دے دیا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا بھی شریک بنالیا، خدا ہی کا نہیں.تو کہاں گیا وہ دعویٰ کہ ہم خدا کا شرک تو برداشت کرلیں گے، محمد رسول اللہ کا شرک برداشت نہیں کریں گے.یہ سید جماعت علی شاہ صاحب کو تو ان کے فتوے کی رو سے محمد رسول اللہ ی کا ہمسر بنالیا گیا، آپ کا شریک بنالیا گیا.یہ فتویٰ سید جماعت علی شاہ کو ہادی اور شافع سمجھتے ہیں، انوار الصوفیاء لاہور ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۲۳ واگست ۱۹۱۵ء صفحه ۳۲ پر درج ہے.پھر لکھا ہے اسی انوار الصوفیاء میں ،سید جماعت علی شاہ کو حضور کے برابر سیدوں کے سید ، مظہر خدا، نور خدا، شاہ لولاک اور ہادی کل قرار دیتے ہیں اور کسی مسلمان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی.ساری غیر تیں ان کی مری ہوئی سہمی ہوئی اسی طرح بیٹھی رہ جاتی ہیں اور کہیں سے کوئی رد عمل نہیں ہوتا.اور پھر گلدستہ کرامات میں ان بریلویوں کے متعلق لکھا ہے کہ آنحضرت کو عرش تک حضرت سید عبدالقادر جیلانی نے پہنچایا تھا.یہ کہتے ہیں شرک فی النبوت نہیں ، یہ شرک تو رسول الله له سے اوپر بیان کیا گیا ہے، اس کو ہم کیسے شرک کہہ لیں.کہتے ہیں! حضرت سید عبدالقادر جیلانی نے آنحضرت ﷺ کو خو عرش تک پہنچایا تھاور نہ آپ میں کہاں طاقت تھی کہ آپ خود پہنچ جاتے.اور عقیدہ یہ ہے، اور گلدستہ کرامات کا یہ حوالہ ہے اور ابوالحسنات سید محمد احمد قادری رسالہ العقائد کے صفحہ ۲۴ پر
خطابات طاہر جلد دوم 357 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء صلى الله لکھتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ آنحضور عالم الغیب اور حاضر ناظر ہیں، یعنی آنحضرت ﷺہ خود خدا کے شریک ہیں اس لئے جب رسول اللہ کو خدا کا شریک بنالیا تو پھر شرک پر غصہ ان کو کیسے آسکتا ہے.دیوبندی فرقہ کے متعلق اب فتوے سن لیجئے.ان کے اہل علم کے جو ان بہتر فرقوں میں داخل ہیں.فتاوی رشیدیہ جو دیوبندی مذہب حصہ اول صفحہ 19 پر یہ درج ہے.یہ حوالہ لیا گیا ہے دیوبندی مذہب از مولانا غلام مہر شاہ گولڑوی کی کتاب سے اور فتاوی رشیدیہ یہ دیوبندیوں کی کتاب ہے.رشید گنگوہی ان کے بہت بڑے اور چوٹی کے عالم کہلاتے ہیں.ان کا یہ فتویٰ درج ہے کہ خدا تعالیٰ جھوٹ بولنے پر قادر ہے.اللہ چاہے تو بیشک جھوٹ بول لے.چوں کفر از کعبه برخیز و کجا مانند مسلمانی جن کا اللہ نعوذباللہ جھوٹا ہو ان لوگوں کا کیا حال ہو گا ،سب کچھ جائز ہو جاتا ہے پھر.ایسے بد بخت فتوے ہیں کہ ان کے تصور سے بھی انسان کی رگِ حمیت پھڑک اٹھتی ہے.یہ مذہب ہے ان لوگوں کا، یہ باتیں کرنے والے ہیں جو آنحضرت ﷺ کی عزت کا نام لے کر احمدیوں پر حملہ کرتے ہیں.محض خون چوسنے والی جونکیں ہیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے.کوئی ان کو دین کی غیرت نہیں ، نہ خدا کی ، نہ رسول کی.آگے سنئے حفظ الایمان مصنفہ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مطبوعہ دیو بند صفحہ 9 پر اب اشرف علی تھانوی کا مرتبہ اور مقام تو کسی مبحث کا محتاج نہیں، یہ تو سارے مسلمہ طور پر ہندوستان کے دیو بندی علماء میں ایک چوٹی کا مرتبہ رکھنے والے ہیں.لکھتے ہیں سنئے اب تک رسول : د محضرت عیہ کا علم بچوں اور مجنونوں اور جانوروں کے علم کے صلى الله برابر سمجھتے ہیں.“ ایک طرف وہ بریلوی ہیں، جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے علم میں اور عالم الغیب ہونے میں خدا کے شریک ہیں.دوسری طرف یہ دوسرے انتہا پسند ہیں جو ایسا بد بخت کلمہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد کسی غیرت اور حمیت کا دعویٰ کرنے والے کے لئے سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ ان لوگوں کے لئے ذرا بھی دل میں عزت اور احترام کا کوئی مقام رکھے، لیکن یہ جو فتوی دینے والے ہیں ان کے لئے تو لازم ہے کہ ان کے پیروکاروں سب کو تہہ تیغ کر دیں کیونکہ ان کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی فرقہ
خطابات طاہر جلد دوم 358 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۹۴ء کے بزرگ نے کوئی ایسی بات لکھی ہو جس کا ترجمہ ہمارے نزدیک گستاخی رسول پر منتج ہوتا ہو، اس فرقہ کی طرف منسوب ہونے والے ہر شخص کا قتل لازم ہے.یہ ان کا مسلک ہے جو عدالتوں میں پیش کیا گیا ہے، اس مسلک کی رو سے کہاں گئی ہیں ان کی تلواریں ، کہاں محمد رسول اللہ کی عزت اور حمیت کے لئے ان کے پھڑکنے والے دل اور جگر ہیں، کیوں وہ تلواریں اٹھ کر اب ان دیو بندیوں کو قتل عام کا حکم نہیں دیتیں؟ اس سے بڑھ کر نہایت ہی خبیث نہ زبان استعمال کرتے ہوئے براہین قاطعہ مصنفہ خلیل احمد مصدقہ رشید احمد گنگوہی ، تصنیف ہے مولوی خلیل احمد صاحب کی اور تصدیق فرمائی گئی ہے رشید احمد صاحب گنگوہی کی طرف سے ، صفحہ ۵۱ پر لکھا ہے: " شیطان کا علم حضور علیہ السلام سے وسیع تر تھا.“ کوئی کہیں گنجائش باقی رہ جاتی ہے کسی نرمی کی کسی استثناء کی.یہ بد بخت لوگ پاکستان کی گلیوں میں دندناتے پھرتے ہیں اور احمدی کلمہ گوؤں کے خلاف یہ اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ یہ محمد رسول اللہ کی تصدیق کرتے ہیں ان کی گردنیں ماردو، یہ بے عزتی اور گستاخی کر رہے ہیں اور یہ ہیں محمد رسول اللہ کی شان بیان کرنے والے ان کے علماء اور چوٹی کے مسلمہ علماء، ایسا بد بختی کا کلمہ ان کے قلم سے نکلا ہے کہ کاش اس سے پہلے ان کی موت واقعہ ہو جاتی اور اس لعنت کا شکار نہ ہوتے قلم نے لکھا کہ شیطان کا علم حضور علیہ السلام سے وسیع تر تھا.افاضات الیومیہ از مولانا اشرف علی تھانوی میں لکھا ہے: ”حاجی امداداللہ صاحب کو صلى الله رحمۃ للعالمین کہتے ہیں.“ آنحضرت ﷺ کے لئے، آنحضور ﷺ کا ایک محاورہ رائج ہے.کسی احمدی نے الفضل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضور ﷺ نہیں لکھا، حضور لکھا ہے.جو ہر یکہ بان ہر تانگے والا ہر مسافر کو، ہر مسافر دوسرے کو عام گلیوں میں کہتا پھرتا ہے حضور ، حضور ، حضور اور پاکستان کے جوں کا حال یہ ہے، کہتے ہیں یہ گستاخی رسول برداشت نہیں ہو سکتی.دفعہ C-295 کا اطلاق ہوگا اور اس کے مطابق مقدمہ درج کیا جائے ، یہ شخص پھانسی کے لائق ٹھہرتا ہے.جو حضرت مسیح موعود کو حضور کہتا ہے، کیوں کہتا ہے اور حضور کا محاورہ سارے ہندوستان میں عام ہے اور مسلمہ کتب میں داغ دہلوی کی
خطابات طاہر جلد دوم 359 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء کتابوں میں کثرت سے اس کا ذکر ملتا ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں پر حضور، حضور، آنحضور کا لقب بھی ملتا ہے.صرف حضور ہی نہیں اور جہاں ایک احمدی مسیح موعودؓ کو عزت کے لحاظ سے حضور کہہ دیتا ہے تو کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی گستاخی ہوگئی.لیکن آپ کیا کہتے ہیں؟ کہتے ہیں شیطان کا علم حضور ﷺ صلى الله کے علم سے وسیع تر ہے اور حاجی امداداللہ رحمتہ للعالمین اور کسی کی گستاخی نہیں ہوئی.آگے ان کی کچھ کشوف اور رویاء کے ذکر ملتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک کشف میں، رؤیا کی حالت میں حضرت فاطمۃ الزہرا کو اپنی ماں کے طور پر دیکھا اور اپنے آپ کو ایک بچے کے طور پر پایا.جس نے آپ کے زانو سے سر لگایا، اتنا چھوٹا قد مقابل پہ دکھائی دیا.رسول اللہ اللہ بھی ساتھ ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہ بھی ساتھ ہیں اور اس حالت میں آپ نے بیان کیا کہ مجھے شفقت مادری کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے سے لگایا اور میر اسر آپ کے زانو کو لگا.پاکستان کی گلیوں میں ان بدبختوں نے لکھ لکھ کے منہ کالے کر دیئے ، کہ دیکھو کتنی بڑی گستاخی ہوگئی.سب احمدیوں کو تہہ تیغ کر دو.اور ان کا حال یہ ہے کہ بلغت الحیر ان بحوالہ دیو بندی مذہب صفحہ ۸ پر لکھا ہے.دیوبندیوں نے نعوذ باللہ محمد رسول اللہ کو جہنم میں گرنے سے بچایا.“ یہ شانِ رسول بیان ہو رہی ہے، کیا کہتے ہو اس کو ؟ کہاں ہیں گورنر پنجاب اور دیگر حکمران پاکستان.ان کو کوئی ادنی حیا اور غیرت بھی باقی نہیں ، ان لوگوں سے دوستیاں ہیں، ان لوگوں کے ساتھ پہلو بہ پہلو چلتے ہو اور فخر سے کام لیتے ہو کہ یہ مولوی ہمارے ساتھ ہیں.جن کے بزرگوں، جن کے بڑوں نے یہ یہ بد بختیاں کی ہوئی ہیں اور آج بھی ان کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ بچے اور بزرگ لوگ تھے اور کوئی اور اس کی تشریح ممکن نہیں.” براہین قاطعہ حوالہ دیوبندی مذہب صفحہ ۲۶ میں لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ کواردوسیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی.تو پتا ہے کس سے سیکھی؟ دیو بندیوں کے شاگرد ہوئے ، دیو بندیوں نے رسول اللہ ﷺ کو اردوسکھائی ہے.بدبختی پر روئیں کہ، کہتے ہیں : حیران ہوں سر کو پیٹوں کہ روؤں جگر کو میں (دیوان غالب :۱۶۳)
خطابات طاہر جلد دوم 360 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء ނ ان کی حالت پر روئیں، پیٹیں یا نہیں کیا کریں.ایک بے اختیاری کا عالم ہے ،ان لوگوں سے ہمیں واسطہ پڑ گیا ہے.مذہب کی تاریخ میں کسی مذہبی قوم کو اس سے زیادہ گدھوں.واسطہ بھی نہیں پڑا.ر سالہ الامداد مولانا اشرف علی صاحب تھانوی بابت ماہ صفر ۶ ۳۷ ہجری صفحہ ۴۵ پر لکھا ہے دیو بندیوں کا کلمہ لکھا ہوا ہے، جو مولانا اشرف علی تھانوی نے خواب میں دہرایا اور دہراتے رہے اور رکنے کی کوشش بھی کی لیکن نہیں رکے.اور وہ کلمہ یہ تھالا الہ الا الله اشرف على رسول الله اور درود کیا تھا اللهم صل على سيدنا و نبينا مولانا اشرف علی تھانوی.یہ عزت رسول ہورہی ہے، یہ رسول اللہ ﷺ کی مدح کے گیت گائے جارہے ہیں؟ اور احمدی جو جیلوں میں سخت گرمی میں سخت عذاب کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے کہا تھا.اللهم صل على محمد و على آل محمد و بارک وسلم انک حمید مجید، نحمده ونصلى على رسولہ الکریم، کہ اے اللہ محد اور آپ کی امت اور آپ کی آل پر ہمیشہ درود بھیجتا رہ اور ہم حمد کرتے ہیں اللہ کی اور سلام اور درود بھیجتے ہیں محمد رسول اللہ پر.یہ گستاخی رسول کا تصور ہے جو اس ملک میں رائج ہو چکا ہے.صراط مستقیم کتاب ہے اس میں دیکھیں بات کیسی ٹیڑھی کی گئی ہے.صفحہ ۱۵۹ پر صلى اللهم مولوی اسماعیل صاحب دہلوی لکھتے ہیں: نماز میں حضور علیہ السلام کا خیال گدھے اور بیل کے خیال میں ڈوبنے سے بھی بُرا ہے.“ بدبختی پر بدبختی ، منہ کالے پر منہ کالا یہ ان کے دینوں کا حال ہے اور احمدیت پر بڑھ چڑھ کے بکواس کرتے ہیں کہ ہم نعوذ بالله من ذالک گستاخ رسول ہیں.لیکن اجازت ہے آپس میں، ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں.جو مرضی گستاخیاں کریں جب تک بہتر کی تھیلی میں شامل ہیں سب اجازت ہے.وہ جسے محمد رسول اللہ نے باہر نکالا اور فرمایا کہ یہی ہے جنتی فرقہ ، اس کی حمد بھی ان کو بُری لگتی ہے، اس کی ثناء بھی ان کو تکلیف دیتی ہے..کتاب التوحید ، صفحہ ۷۸ محمد بن عبد الوہاب نجدی لکھتے ہیں:
خطابات طاہر جلد دوم 361 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء حضور ﷺ کی قبر کی زیارت کے واسطے سفر کرنا شرک کی طرف لے 66 جانے والا ہے.اب کہاں ہیں آج ملے اور مدینے کے سر براہ ، وہ لوگ جو سخت گرمیوں میں تکلیف اٹھا کر بھی زیارت روضہ رسول کے لئے جاتے ہیں.ان کے بڑے امام ان کے بانی و مبانی کا فتویٰ یہ ہے کہ یہ محض شرک ہے.اگر قرآن کی تعلیم کی تمہیں پرواہ نہیں اور غیرت نہیں تو اپنے امام کے نام کی ہی الله غیرت کرو جس کے نام پر وہابی فرقے کی بنیاد ڈالی گئی.کہتے ہیں ! رسول اللہ ﷺ کی قبر کی زیارت کے لئے جانا شرک ہے.اور براہین قاطعہ صفحه ۵۵ پر مولوی خلیل احمد صاحب امیٹھوی ( یہ نام عجیب سا ہے مگر ہے صحیح نام امیٹھوی، امیٹھا جگہ ہے اس سے بنا ہوا ہے ) کہتے ہیں کہ رسول کو ، رسول اللہ ﷺ کو دیوار کے پیچھے کاعلم نہیں تھایہ کیا با تیں کر رہے ہیں.” تقویۃ الایمان میں جو دیو بندیوں کے بانی ومبانی کی کتاب ہے.لکھا ہے ! کروڑوں محمد پیدا ہو سکنے کا عقیدہ رکھتے ہیں.یہ حوالہ ہے دیوبندی مذہب کی طرف سے، اس میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ خود ان کا عقیدہ ہے کہ پیدا ہو سکتے ہیں، یعنی امکان پیدا ہو سکتے ہیں.بانی دیوبند خود بزرگ اور تقویٰ شعار انسان تھے.ہم بھی متقی ہیں ہم ان کے او پر ناجائز زبان دراز نہیں کرنا چاہتے.میں اس لئے غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں ان کا ہرگز مسلک یہ نہیں تھا کہ نعوذ باللہ من ذالک کروڑوں محمد پیدا ہو سکتے ہیں.ان کا مسلک یہ تھا کہ جہاں تک کائنات کونِ امکان کا تعلق ہے اگر نہ ہو سکتے تو پھر محمد رسول اللہ کو فضیلت نہ ہوتی.کونِ امکان میں ہو سکنے کے باوجود کوئی نہیں ہے جو پیدا ہو سکے.یہ وہی مسلک ہے جب حضرت مصلح موعودؓ نے بیان کیا تو یہی دیوبندی حضرت مصلح موعود کے خلاف پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑگئے کہ دیکھو کتنی بڑی گستاخی کی ہے حالانکہ یہاں تو وضاحت نہیں، مگر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسی خطبے میں وضاحت فرمائی.چند سطریں ہیں اور اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ پیدا ہو سکتے ہیں ، یعنی امکان ہے مگر کسی ماں نے وہ بچہ نہیں جنا، نہ قیامت تک جن سکتی ہے کہ جو محمد رسول اللہ سے آگے بڑھ سکے.صراط مستقیم میں لکھا ہوا ہے کہ اھل حدیث کئی خاتم النبیین پیدا ہونے کے قائل ہیں اور جہاں تک احرار اور ختم نبوت والوں کا تعلق ہے ان کے امیر اور رسول کون تھے تاریخ حقائق صفحہ
خطابات طاہر جلد دوم 362 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء ۲۹ پرمحمد صادق صاحب خطیب لکھتے ہیں کہ اسلام اور گاندھی کا امام مہدی بالقوی یہ احراری اس زمانے میں تعریفوں کے پل باندھ دیا کرتے تھے.یہ الزام نہیں ہے واقعی کہا کرتے تھے کہ نبی الکلام ہے اور گاندھی امام ہے، ہدایت دینے والا ، ہدایت پر جاری ہوئی کس امام نے وہ ان کے خلافت کے جلسوں میں آکر تقریر کیا کرتے تھے اور یہ احراری لوگ ختم نبوت کے So Called محافظ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے تھے گاندھی جی کا دیدار کر لیں.جہاں تک شیعہ مذہب کا تعلق ہے تذکرۃ الائمہ میں لکھا ہوا ہے صفحہ 91 پر : ”حضرت علی “خدا ہیں.“ مناقب مرتضوی حیات القلوب‘ جلد ۲ باب ۴۹ پر لکھا ہے: 66 حضرت علی خدا ہیں اور محمد اُس کے بندے ہیں.“ تک رسول مل نہیں ہے یہ؟، اس لئے کہ شیعوں کے پاس طاقت ہے.طاقتور کو تو اجازت ہے جس کی چاہے گستاخی کرے، شرک کرے، گستاخی رسول کرے سب تسلیم ہے.لیکن کمز ور قابو آئے تو وہ حمد بھی کرے تو اس کو قابل گردن زدنی قرار دے دو، یہ ان کا مذہب یہ ان کا دین ہے، اس کو اسلام کہہ رہے ہیں.جو مرضی نام رکھ لیں اسلام تو نہ کہیں، یہ ظلم ہے جس کی خدا ان کو اجازت نہیں دے گا اور ضرور ان کو ذلیل ورسوا کرے گا.رسالہ نورتن صفحہ ۲۶ میں لکھا ہے: 66 حضرت علی فرزند خدا ہیں.“ رسالہ نورتن صفحہ ۳۵ پر لکھا ہے: قرآن در اصل حضرت علی کی طرف نازل ہوا تھا.“ اور ایک دوسری روایت شیعہ مصنف لکھتے ہیں کہ: صلى الله نحضرت ﷺ کی شکل چونکہ حضرت علی سے ملتی تھی اس لئے جبرائیل علیہ السلام کو دھوکہ لگ گیا، وہ قرآن لے کر آئے تھے حضرت علیؓ کی صلى الله طرف آگے رسول اللہ ہی بیٹھے ہوئے تھے ، ان کو قرآن پکڑا دیا.“ اس گستاخی پر آدمی روئے یا حماقت پر ہنسے کہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا لوگ ہیں اور یہ اعلان
خطابات طاہر جلد دوم 363 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۹۴ء کرتے پھر رہے ہیں سب دنیا میں کہ احمدی کے قریب نہ جانا، یہ تمہیں گمراہ کر دیں گے.آج کتنے ہی بوسنین بیٹھے ہوئے ہیں اور باہر بھی سن رہے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کو پیغام دے رہے ہیں کہ اسلام سے مرتد اور باہر اور تمام عالم اسلام کی رو سے احمدیوں کا کوئی اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں.سیہ ان لوگوں کا مذہب ہے، اس کی طرف آپ کو بلا رہے ہیں.احمدیت آپ کو اندھیروں سے روشنی کی طرف دعوت دے رہی ہے.یہ وہ لوگ ہیں جو روشنی سے پھر آپ کو اندھیروں کی طرف لوٹانا چاہتے ہیں.خود فیصلہ کریں، اپنی عقل سلیم کے حوالے سے فیصلہ کریں کہ آپ کو روشنیوں میں بیٹھنا منظور ہے یا اندھیروں میں لوٹ کر ہمیشہ کے لئے گمراہ ہوجانا منظور ہے.پھر حریت الطالبین اور حق الیقین مجلسی باب صفحہ ۵ پر لکھا ہے: " حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمیع انبیاء سے افضل ہیں.اگر 66 حضرت علی شب معراج میں نہ ہوتے تو محمد رسول اللہ کی ذرہ بھی قدر نہ ہوتی.“ یہ کفر کا کلمہ ، یہ بے حیائی، گستاخی کا کلمہ ان کی کتب میں خوب اچھی طرح راہ پاچکا ہے.مسلمہ مصنف یعنی ایسی کتابوں میں جو سند کا حکم رکھتی ہیں ان میں جگہ پائے ہوئے ہے اور کسی کو جرات نہیں ہے کہ ان کے متعلق یہ اعلان کرے کہ یہ گستاخ رسول یا مشرک لوگ ہیں.دین کہاں گیا ؟ یہ سب سیاست کی جھوٹی باتیں ہیں، یہ حکومت پر آ کر غالب آنے کی تمنا ئیں ہیں.جن کو پورا کرنے کے لئے تم نے اسلام کی چھاتی پر قدم رکھ دیا ہے مگر خدا یہ برداشت نہیں کرے گا.تمہیں اسلام کو روندتے ہوئے کسی طرف کوئی ترقی نصیب نہیں ہوگی تم ذلتوں کے گروہ میں ضرور لوٹائے جاؤ گے کیونکہ ایسے لوگوں سے ہمیشہ خدا کی تقدیر یہی سلوک کیا کرتی ہے.اور پھر قرآن کی حفاظت کا نام لیتے ہوئے احمدیوں پر الزام ہے کہ تحریف معنوی کی ہوئی ہے اور ان کا عقیدہ انبات الخلافہ تفسیر جلد مصنفہ علی الحائری تفسیر صافی جلد ۲۲ صفحہ ۴۱۱ پرلکھا ہے: اصل قرآن امام مہدی کے پاس ہے جو چالیس پارے کا ہے.موجودہ قرآن بیاض عثمانی ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.“ حضرت عثمان نے جو بیاض پیش کی ہے وہ وہ قرآن ہے لیکن اصل قرآن چالیس پارے کا تھا جو امام مہدی کے پاس محفوظ ہے.جب وہ اتریں گے جہاں سے اتریں گے تو قرآن ساتھ لے
خطابات طاہر جلد دوم 364 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء کر اتریں گے.یہ وہ عقیدے ہیں جن کی طرف یہ احمدیوں سے ڈرا کر دنیا کو بلا رہے ہیں.آپ تھوڑی سی تو عقل کریں دیکھیں تو سہی کہ آپ کو کس طرف بلایا جارہا ہے.جماعت اسلامی یہاں آئی ہوئی ہے، آج کل ان کا بڑا چرچہ ہے.ان کی بڑی کتابیں ترجمے کر کے امریکہ نے مختلف یونیورسٹیوں میں رکھوائی ہوئی ہیں.ایک زمانے میں امریکہ کی پوری حمایت ان کو حاصل تھی اور امریکہ کے خرچ پر ان کی کتب کے تراجم کر کے عرب ممالک میں پھیلائے گئے ، انگلستان اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں رکھائی گئیں.یہ ہیں وہ خاص طور پر امریکہ کے غلام اور نمائندے جو جماعت احمدیہ پر برٹش ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں.ان کا کیا حال ہے مودودی اپنی تفسیر و تفہیم القرآن میں لکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تفہیم القرآن اسلام کے دشمنوں کو اتنی عزیز ہے کہ مختلف لائبریریوں میں رکھوائی جاتی ہے.دیباچہ صفحہ ۲۵ پر لکھا ہے: قرآن مجید میں نہ تصنیفی ترتیب پائی جاتی ہے نہ کتابی اسلوب“ یعنی مودودی کو تو تصنیفی ترتیب نصیب ہوگئی اور اس کی کتب کو تو کتابی اسلوب نصیب ہو گیا مگر اللہ کو نہیں پتا تھا ک تصنیفی ترتیب کیا ہوتی ہے اور کتابی اسلوب کیا ہوا کرتا ہے.اور اسلام کا کیا تصور ان کے ذہن میں ہے اسلام کا سیاسی نظام بحوالہ طلوع اسلام ۱۹۶۳ء صفحہ ۱۳ پر لکھا ہے.مودودی صاحب کا فتویٰ سن لیجئے ! اسلام فاشزم اور اشتراکیت سے مماثل نظام ہے.اسلام کیا ہے؟ اشتراکیت اور فاشزم کو جوڑ لو تو ان کے بطن سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ اسلام ہے.جس میں خارجیت اور Anarchism تک کی گنجائش موجود ہے.یعنی اسلام اتنا وسیع پھیلا ہے کہ یہ ایک طرف تو فاشزم اور اشتراکیت یعنی کمیونزم سے ترتیب پاتا ہے، ان سے ملکر یہ عجیب الخلقت چیز ظاہر ہوتی ہے اور دوسری طرف اس میں اتنی وسعت ہے کہ انار کی بھی پائی جاتی ہے.کوئی بدنظمی اور ہر طرح سے مطلق العنانی کی بھی گنجائش اسلام میں موجود ہے اور خار جیت بھی اس کے اندر پنپ سکتی ہے.اور حقیت جہاد میں لکھتے ہیں کہ : در محضرت علی نے قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کر دیا
خطابات طاہر جلد دوم 365 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء ور تفصیل اس کی یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں.میری کتاب مذہب کے نام پر خون Murder in the Name of Allah میں جس نے دیکھنا ہو یہ مودودی صاحب کے فقرات کو وہاں سے مطالعہ کر لیں.ترجمان القرآن جلد ۲ نمبر اصفحہ ے پر لکھا ہے: آنحضرت معہ سے لے کر مصطفیٰ کمال تک کی تاریخ کو اسلامی کہنا مسلمانوں کی غلطی ہے.“ صلى الله رسول اللہ ﷺ کے بعد نہیں ، رسول اللہ ﷺ کو شامل کر کے آپ کے زمانے سے لے کر مصطفی کمال کے زمانے تک جو تاریخ گزری ہے اس کو اسلامی کہنا مسلمانوں کی غلطی ہے.انبیاء کے متعلق مودودی صاحب لکھتے ہیں : موسیٰ علیہ السلام کی مثال اس جلد باز فاتح کی سی ہے جو اپنے اقتدار کا استحکام کئے بغیر مارچ کرتا ہوئے آگے چلا جائے.“ حضرت موسی ، قرآن کریم نے فرمایاؤ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيْهَا خدا کو ان غلطیوں کا علم نہیں تھا، خدا کے نزدیک وہ وجیہ ہی رہے.اور دو ہزار برس کے بعد مودودی صاحب کو اطلاع ہوئی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ، دو ہزار برس تو حضرت عیسی کو گزرے ہیں اس سے بھی پہلے تیرہ سو سال پہلے موسی آئے تھے.اکتیس سو سال کے بعد یہ بات جو خدا کے علم میں نہیں آئی تھی ، مودودی صاحب نے آخر پالی اور نقطہ یہ بیان فرمایا کہ موسق کی مثال تو ایسے جلد باز فاتح کی سی ہے جس کو مودودی قیادت نصیب نہ ہو اور وہ فتوحات کو مستحکم کئے بغیر سر اٹھائے آگے بھاگا چلا جائے.یہ موسیٰ کی شان ہے جو مودودی پر ظاہر ہوئی ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے قول کی تفسیر سن لیجیے.یہ مودودی کا اندرونہ ہے جو اچھل رہا ہے انبیاء کے حوالے سے اور یہ سب قابل قبول ہے اور یہ سچا اسلام بنا ہوا ہے آج پاکستان میں، لکھتے ہیں : ” جب حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دو.“ اجْعَلْنِى عَلَى خَزَايِنِ الْأَرْضِ فرمایا تھا حضرت یوسف نے تو مودودی کہتے ہیں: یہ محض وزیر مالیات کا منصب نہیں تھا جیسا کہ بعض دوست سمجھتے ہیں ، بلکہ یہ ڈکٹیٹر شپ کا مطالبہ تھا.“
خطابات طاہر جلد دوم 366 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء اتنا احمق انسان جو قرآن کریم کی اس آیت کی یہ تفسیر کر رہا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام بیچارے ایک بادشاہ کے نیچے مدتوں قید میں رہے مظلوم اور کوئی ان کو چھڑا انہیں سکتا تھا.جو نجات کے بعد اس منصب پر فائز ہونے کے بعد جو انہوں نے طلب کیا تھا یہ بھی طاقت نہیں رکھتے تھے کہ اپنے بھائی کو روک رکھیں.اللہ فرماتا ہے اس کو طاقت نہیں تھی اس حکومت میں کہ یہ کام کر سکے، خدا نے چاہا تو اس کے لئے تدبیر فرمائی.فہم قرآن کا دعویدار مودودی صاحب فرما رہے ہیں کہ یہ مطالبہ منصب وزارت کا نہیں تھا، یہ مطالبہ تھا مجھے ڈکٹیٹر بناؤ تو تب میں کام کروں گا.یہ ان کا دین، یہ ان کا مسلک، یہ ان کا مبلغ علم یہ ان کی طبیعتوں کا فساد ہے.جسے اچھال اچھال کر اسلام کے چہرے کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ابھی عزت رسول اور ناموس رسالت اور ناموس انبیاء کا بھی دعوئی ہے جو ساتھ ساتھ جاری وساری ہے.اب سنئے جماعت احمدیہ کے وہ مظلوم جو آج بھی سخت اذیتوں میں اور سخت شدید گرمی میں کال کوٹھریوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں.جن کے اوپر موت کے فیصلے کی تلوار لٹکائی گئی ہے یہ کہہ کر کہ تم شاتم رسول اور تمہاری سز اقتل کے سوا اور کوئی نہیں.وہ کون لوگ ہیں کیا سب و شتم سے انہوں نے کام لیا ؟ اس کا بھی موازنہ کر کے دیکھ لیجیے کہ ان کا مسلک کیا ہے؟ اس کے مقابل پر احمدی کس جرم کی سزا پاتے رہے ہیں.آج وہ چار اسیران راہ مولیٰ ہمارے اندر بیٹھے ہیں ان کی داستانیں دس سال جو انہوں نے اذیت کی زندگیاں بسر کی ہیں.اتنی درد ناک ہیں، اتنی دردناک ہیں کہ خدا کی قسم میں روزانہ عرش کے خدا کے سامنے رویا کرتا تھا.دن کے بعد دن اور رات کے بعد رات خدا کے حضور روتے ہوئے ان کے لئے گڑ گڑاتا رہا ہوں.کتنے دردناک خطوط ان کے موصول ہوا کرتے تھے کہ ایک موقع پر ایک مظلوم اسیر راہ مولیٰ نے مجھے لکھا کہ میں شرمندہ ہوں کہ میں نے کیوں آپ کو اپنی باتیں لکھیں.مجھے آپ کی اذیت کا علم ہو کر بہت ہی اذیت پہنچی.ہم جس حال میں ہیں ہمیں چھوڑ دیں، آپ اذیت میں مبتلا نہ ہوں.“ کیا جرم تھا ان لوگوں کا اور کیا جرم ہے اُن کا جو آج کال کوٹھریوں میں زندگی کی سانس لے رہے ہیں.وہ جرم یہ ہے کہ انہوں نے حضرت محمد رسول کریم ﷺ پر سلام بھیجا اور درود بھیجا اور
خطابات طاہر جلد دوم 367 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء سیرت رسول پر مضمون شائع کرنے کی جرات کی.رسالہ انصار اللہ کی انتظامیہ پر مقدمہ اس لئے درج ہے اور ابھی مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوا اور اس پر علماء کے سارے دباؤ پڑے ہوئے ہیں کہ ان لوگوں میں سے کسی کو نہیں چھوڑنا.مقدمہ کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ کی سیرت کیوں بیان کرتے ہو.ہم جو بد بختیاں کر رہے ہیں کیا وہ کافی نہیں ، ہم جو گند اچھالتے ہیں یہ کافی نہیں ہے.تمہیں کیا ضرورت ہے رسول اللہ ﷺ کی تعریف کرنے کی اور آپ کا حقیقی اور اصلی خوشنما چہرہ دنیا کے سامنے ظاہر کرنے کی.ایک مقدمہ درج ہوا ہے بنک رسول کا C-295 ، جس کی سزا موت کے سوا کوئی نہیں ہے.جرم کیا تھا؟ رسالہ انصار اللہ ایک غیر احمدی کو دیا گیا اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ہتک ہوگئی ، اس لئے موت کے سوا اس کی کوئی اور سزا نہیں.قرآنی آیات اور درود شریف پڑھنے کی وجہ سے مقدمہ جاری ہوا اور یہ ثابت کیا گیا اور یہ بات سچی تھی کہ احمدی قرآن پڑھتے ہیں اور درود شریف پڑھتے ہیں.کہتے ہیں ان کو گستاخی رسول کی سزا میں ان کو موت کی سزادو اور ان لوگوں کی ضمانتیں بھی مستر دہوئیں.کہ اتنا واضح گستاخی کا کیس تم رسول اللہ ﷺ پر درود بھیج رہے ہو.او بے حیاؤ! ہماری طرح کیوں نہیں کرتے.جیسی باتیں ہم کرتے ہیں ویسی باتیں کرو، سب اجازت ہے لیکن دیوبندی ہو جاؤ، شیعہ ہو جاؤ،اہلحدیث بن جاؤ پھر کھلی چھٹی ہے مگر احمد ی ہوتے ہوئے تم رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تمہیں تختہ دار پر لٹکا یا جائے گا.اب سنئے لیٹر ہیڈ پر بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم.وعلى عبده المسیح الموعود شائع کرانے پر دفعہ -295 کے تابع جن احمدیوں پر یہ موت کی پھانسی کا پھندا لٹکایا گیا، جن کے سروں پر وہ کیا واقعہ ہواتھا؟ یہ بھی سننے سے تعلق رکھتا ہے شہداد پور ضلع سانگھڑ میں تین آدمیوں مکرم محمد دین صاحب ناز اور مکرم قاضی منیر احمد صاحب اور محمد ابراہیم صاحب جو دفتر انصار اللہ میں سیکرٹری ہیں ان کے خلاف C-295 کا ایک مقدمہ زیر سماعت ہے.اس مقدمہ کی F.I.R،11-9-90 کو ٹنڈو آدم میں کاٹی گئی، جس کی بنیا د ایک پوسٹ کارڈ پر رکھی گئی.جس پر محمد ابراہیم صاحب مینیجر ماہانہ انصاراللہ ربوہ کے دستخط تھے، جور بوہ سے کراچی کے کسی احمدی کے نام لکھا گیا تھا اور مضمون یہ تھا کہ رسالہ کی تجدید کے چندہ کی ہم تمہیں یاد دہانی کراتے ہیں، یہ مضمون ہے.بد بخت حمادی نے ڈاکخانے والوں سے مل کر وہ کارڈ نکلوالیا.اس پر تحریف کی ، اس پر اس احمدی کا نام
خطابات طاہر جلد دوم 368 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء کاٹ کر اپنا نام لکھا اور یہ اس کارڈ سے صاف پتا لگ رہا ہے کہ پھر اصل نام کو مٹا کر اپنا نام لکھا گیا ہے اور عجیب وغریب باتیں اس سے ظہور میں آئیں اور ساری سنیں گے تو آپ کو پتا چلے گا کتنے دیانتدار مولوی ہیں، کیسے بدبخت لوگ ہیں؟ جو دیانت کے نام پر کلیہ ہر قسم کے جھوٹ اور افتراء کی آزادی حاصل کر چکے ہیں، آپ پورا واقعہ سنیں تو آپ حیران رہ جائیں گے.میں جب پڑھ رہا تھا یقین نہیں آتا تھا کہ ایسا واقعہ بھی ہو سکتا ہے.حالانکہ میں ان ملانوں کو جانتا ہوں کہ کس قسم کے لوگ ہیں پھر بھی یقین نہیں آتا تھا.اس کیس کے مدعی حمادی صاحب کے ہاتھ یہ کارڈ لگ گیا جس کے متعلق میں نے بیان کیا ہے ہماری اطلاعیں ہیں کہ ڈاکخانے سے انہوں نے حاصل کیا ، ورنہ اس احمدی نے تو نہیں پکڑا دیا تھا ان کو.اس کارڈ کو لفافے میں بند کر کے کراچی سے اپنے پتا پر ٹنڈو آدم پوسٹ ہونا دکھایا گیا.یعنی انصار اللہ کے سیکرٹری نے ربوہ سے کراچی خط لکھا حمادی کو اور یہ لکھا کہ انصار اللہ کا چندہ تمہارا Over Due ہے اور پھر پتا غلط ہونے کی وجہ سے وہاں سے لفافے میں ڈالا گیا اور حمادی کے پتا پر سندھ روانہ کیا گیا.آگے سنئیے اور اس کارڈ کو لفافے میں بند کر کے کراچی سے اپنے پتا پر ٹنڈو آدم پوسٹ کروایا گیا، وہ پوسٹ کارڈ بھی فائل میں لگا ہوا ہے اور لفافہ بھی ساتھ لگا ہوا ہے.بیان کیا گیا ہے کہ اس لفافے میں ڈالا گیا تھا اور لفافے میں وہ کارڈ آ ہی نہیں سکتا، لفافہ چھوٹا ہے کارڈ بڑا ہے اور ہماری عدالتوں کو دیکھیئے کھلی کھلی صاف بات اور کا ر ڈ صرف اس صورت میں لفافے میں آ سکتا تھا کہ اس کو دہرا کیا جائے اور دہرا کیا گیا کارڈ کا بل مٹتا ہی نہیں اور وہ اسی طرح صاف ستھرا کھلا کھلا اکیلا کارڈ ہے اس میں کوئی بل نہیں ہے صرف مولوی کی طبیعت میں بل ہے، کارڈ میں کوئی بل نہیں اور با قاعدہ درج ہوا ہے مقدمہ کہ اس لفافے میں انہوں نے یہ ڈالا ہے اور شاید ان کے نزدیک یہ گستاخی رسول ہے کہ چھوٹے لفافے میں بڑا کارڈ ڈال دیا.آگے ہے اس کارڈ کے اوپر پیشانی پر بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الکریم لکھا ہوا ہے.جس کا مطلب ہے اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا اور بار بار رحم فرمانے والا ہے، نـحــمــدہ ونصلی علیٰ رسوله الکریم ہم جس کی حمد کے گیت گاتے ہیں اور درود بھیجتے ہیں علی رسولہ الکریم اس کے رسول نبی اکرم ﷺ پر اور ساتھ یہ بھی درج ہے وعلی عبدہ المسیح الموعود یعنی یہ دو الگ الگ وجود ہیں.ان بد بختوں کا الزام یہ ہے کہ ہم نے نقب ڈال دیئے دل پر اور اس بات کے گواہ بن
خطابات طاہر جلد دوم 369 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء چکے ہیں کہ جب یہ لکھا گیا تھا کہ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم تو لکھنے والے کا منشاء تھا علی مرزا غلام احمد قادیانی اس لئے ہتک رسول ہو گئی اور ساتھ پھر اتنی جرأت کہ حمادی کو چندے کی یاددہانی بھی کرادی اور بڑے کارڈ کو چھوٹے لفافے میں ڈال دیا.تین گستاخی رسول کے واقعات ہیں جو دراصل اس مقدمے میں شامل ہیں اور پھر ہے نحمدہ و نصلی میں نے جیسے بیان کیا ہے علی عبدہ المسیح الموعود کی پھر کیا گنجائش رہی.اگر وہ رسول اللہ ﷺے ہیں تو مسیح موعود کا کیا ذکر ہوا.ایک اور واقعہ جس کا ذکر، اسی قسم کا مضمون ہے کہ کس طرح احمد یوں پر جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں محمد اشرف صاحب ننکانہ سے لکھتے ہیں : خاکسار بس میں سفر کے دوران شان خاتم الانبیاء کے چند پہلو پڑھ رہا تھا.چھلی سیٹ پر ایک باریش مولوی صاحب بیٹھے ہوئے تھے ، مجھ سے کہنے لگے ! یہ کتاب کسی بہت اچھے مصنف کی لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہے.میں اس سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں.خاکسار نے یہ کتاب انہیں پیش کر دی، جس پر انہوں نے لٹریچر تقسیم کرنے کا الزام لگا کر جھوٹے گواہ بنا کر مجھ پر مقدمہ درج کروادیا اور چوبیس سے زائد پیشیاں میں بھگت چکا ہوں.“ اور الزام یہ ہے کہ تم نے گستاخی رسول کی ہے کیونکہ ایک باریش مولوی جھوٹے مولوی کو کتاب پکڑا دی.شاید یہ گستاخی ہو کہ جھوٹے مولویوں کو کتاب پکڑائی جائے.ان کو تو یہ تھانیدار زیادہ بہتر سمجھتا ہے جس نے ایک دفعہ ایک احمدی کو ، جس کو اس وجہ سے تھانے میں پیش کیا گیا تھا کہ اس نے ایک مولوی کو سلام کہ دیا تھا، السلام علیکم کہہ دیا تھا.اس کو چھوڑتے ہوئے یہ تنبیہ کی اور کھلی کھلی وارننگ دی کہ خبر دار جو دوبارہ تم میرے سامنے پیش ہو اور تم پر پھر یہ الزام لگے کہ تم نے کسی مولوی کو السلام علیکم کہا ہے.ہاں ! لعنتیں جتنی مرضی ڈالو میں کوئی مقدمہ درج نہیں کروں گا.ڈسٹرکٹ جیل قصور سے تین احمدی انتہائی شدید گرمی میں سخت عذاب میں مبتلا اس جیل خانے کی کوٹھری سے مجھے خط لکھ رہے ہیں : نہ پانی میسر ہے نہ ہوا کا کوئی جھونکا میسر آتا ہے.تقریبا آٹھ دس فٹ کی چکی ہے جس میں ہم نو آدمی رہتے ہیں.نہ سو سکتے ہیں نہ جاگ سکتے ہیں.“
خطابات طاہر جلد دوم 370 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء ایک عجیب دردناک حالت ہے اور جرم کیا ہے حضرت اقدس محمدمصطفی ﷺ پرانہوں نے درود بھیجا تھا.کون سچا ہے؟ جو اس درود کی خاطر اپنی جان، مال، عزتوں کو قربان کرتا چلا جارہا ہے وہ سچے ہیں یا تم سچے ہو جو جھوٹے الزام لگا کر اسلام کے چہرے کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہو.مگر ہم احمدی اپنے سینوں پر یہ داغ لیں گے اور اسلام کا چہرہ داغدار نہیں ہونے دیں گے.یہ جنگ ہے اور آخری جنگ جو حق اور باطل کے درمیان لڑی جارہی ہے اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بات خدا کی ضرور پوری ہوگی کہ جاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا حق ضرور جیتے گا اور باطل ضرور بھاگ جائے گا کیونکہ اس منحوس باطل کے مقدر میں بھاگنے کے سوا اور کچھ نہیں لکھا ہوا.پس میں آپ کو اب نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے مظلوم بھائیوں کے حق میں اپنی دعائیں جاری رکھیں.کچھ اسیران راہ مولیٰ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے موت کے چنگل سے نکال کر حیرت انگیز اعجاز کے طور پر آج ہمارے درمیان لاکھڑا کیا ہے، جن کو سینے سے لگا کر دل ٹھنڈے ہوتے ہیں.مگر وہ دس سال کے عذاب کا عرصہ جنہوں نے گزارا ہے اس کا تصور بھی ابھی تک بھیانک ہے.لیکن اور بہت سے ہیں، 122 ایسے ہیں جن پر سلام اور درود کے نتیجے میں پھانسی کے پھندے ان کے سروں پر لٹکا دیئے گئے ہیں، وہ سخت عذاب کی حالت میں آج بھی زندگی بسر کر رہے ہیں.ان اسیروں کو جہاں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں وہاں اُن اسیروں کو بھی یادرکھیں.آپ کی دعاؤں نے پہلے بھی اعجاز دکھائے تھے، خدا کرے کہ آپ کی دعائیں آئندہ بھی ہمیشہ اعجاز دکھاتی رہیں.خدا آپ کے ساتھ ہو،خدا ہمارے ساتھ ہوں الھم آمین.آئیے اب دعا کر لیتے ہیں.حضور نے لمبی اور پُر سوز دعا کروائی.دعا کے اختتام پر فرمایا ! ان اسیروں کو آپ کے سامنے کھڑا کرنے میں صرف ایک روک مانع ہے کہ ایک اسیر راہ مولی دعا کریں وہ آجائیں کہ سب آپ کے سامنے اکٹھے پیش کئے جائیں گے تاکہ آپ کے دل ٹھنڈے ہوں آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر اتنا عظیم الشان احسان فرمایا کہ دوبارہ ان کے پیارے چہرے ہمیں دکھائے یہ نہیں ہے کہ ان کو نظر انداز کیا گیا ہے.میں ایک اور آدمی کا انتظار کر رہا ہوں خدا کرے کہ وہ مجھے آکر ملیں تو پھر ا کٹھے ان کو آپ کے سامنے پیش کیا جائے گا.
خطبات طاہر جلد دوم 371 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۵ء آپ ایسی نئی United Nation کو جنم دیں گے جو صلى الله اللہ او محمد ﷺ کی یونائیٹڈ نیشن ہوگی اور تمام کائنات پر چھا جائے گی.جلسہ سالانہ کی برکات کا تذکرہ.افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۸ / جولائی ۱۹۹۵ء بمقام اسلام آباد ٹلفورڈ برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (الاحزاب ۳۴ -۴۳) اور پھر فرمایا:.آج دنیا کے مختلف ممالک سے، مختلف بر ہائے اعظم سے احمدیت میں داخل سعید روحیں اور کچھ وہ سعید روحیں بھی جو احمدیت میں داخل ہونے کے لئے دروازے کھٹکھٹا رہی ہیں اس اجلاس میں محض اللہ حاضر ہوئی ہیں اور اس جلسے کا مقصد ذکر الہی کے سوا اور کچھ نہیں ، قیام توحید کے سوا اور کچھ نہیں.پس وہ لوگ جو محض اس جلسے میں شرکت کے لئے آتے ہیں اور دور دور سے تکلیفیں اٹھا کر اور بڑے بڑے خرچ برداشت کر کے پہنچتے ہیں وہ اللہ کے مہمان ہیں اور اللہ کے ذکر کے باغات میں اللہ کے ذکر کے پھل ہی ان کی دعوت اور ان کی مہمانی ہیں.پس اس عرصے میں جہاں تک بس چلے جہاں تک دوسرے مصارف اجازت دیں، آپ
خطبات طاہر جلد دوم 372 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۹۵ء صبح بھی اور شام بھی ذکر الہی کرتے رہیں.اللہ کے ذکر سے اپنے دلوں کو سیراب کریں اور اجتماعی طور پر جس جگہ یہ ذکر بلند ہورہا ہو اس کے متعلق بہت ہی عظیم خوشخبریاں ہیں.آج اس مجلس میں وہ بھی شامل ہیں جو یہاں موجود نہیں اور دنیا کے کونے کونے میں احمد یہ ٹیلی ویژن کے ذریعے یہ جلسہ عام ہو چکا ہے اور وہ سب بھی اس میں شامل ہیں جو اس وقت مختلف ممالک میں ٹیلی ویژن کے ساتھ آنکھیں لگائے اور دل چپکائے بیٹھے ہیں.ان میں بڑے بھی ہیں، چھوٹے بھی ، بوڑھے بھی اور بچے بھی اور ایک عجیب جذب کی کیفیت سے وہ آج ہمارے اس جلسے میں شامل ہیں.حسرت ان کو یہ ہے کہ ہم وہاں ہوتے جہاں یہ سب خدا کے بندے ذکر الہی کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں مگر ٹیلی ویژن کے ذریعے ایک رنگ میں اس میں شرکت کی بناء پر اللہ کی حمد کے گیت گا رہے ہیں اور شکر گزار ہیں.پس وہ سب آج اس جلسے میں شریک ہیں جو یہاں پہنچ گئے اور وہ بھی جو یہاں پہنچ نہیں سکے اور پھر کچھ ایسے بھی ہیں جن کو ٹیلی ویژن کے ذرائع بھی میسر نہیں یا وہ ریڈیو کے ذریعے جماعت کے پیغامات کو سنتے ہیں یا انتظار کرتے ہیں کہ چھپی ہوئی خبروں کے ذریعے ان تک جماعت احمدیہ کی کارروائی پہنچے.مگر اس وقت اس لمحے یہ جلسہ تمام دنیا کے براعظموں میں سنا اور دیکھا جارہا ہے کہیں رات ہے کہیں دن ہے، کہیں صبح ہے کہیں شام.پس اس پہلو سے جب میں نے اس آیت کی تلاوت کی کہ یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا تو حقیقت یہ ہے کہ لفظاً لفظاً اس آیت کا اطلاق اس جلسے پر ہورہا ہے، کہیں ذکر الہی صبح جاری ہے، کہیں شام کو اور چوبیس گھنٹے کے ہر لمحے اس جلسے میں شمولیت کرنے والے ذکر الہی میں مصروف ہیں.پس اس عالم میں یہ ایک ہی جلسہ ہے اور اس کی کوئی مثال دنیا میں اور کسی جگہ دکھائی نہیں دیتی.ایک ہی جلسہ ہے جو کل عالم میں دکھائی دے رہا ہے، ایک ہی جلسہ ہے جو کل عالم میں سنائی دے رہا ہے ، ایک ہی جلسہ ہے جس میں مختلف قومیں ہر جگہ سے گورے بھی اور کالے بھی ، شمالی اور جنوبی اور مشرقی اور مغربی سب برابر کے شریک ہیں.تو اس ذکر کی مجلس کے متعلق میں حضرت اقدس محمد مصطفی میت اللہ کے الفاظ میں آپ سب کو خوشخبری دیتا ہوں.سب سے پہلی بات تو یہ کہ ذکر ہے کیا اور سب سے اعلیٰ ذکر کیا ہے؟ وہ قیام توحید ہے اور کلمہ تو حید ہی ہے جو سب ذکروں سے افضل ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا.
خطبات طاہر جلد دوم 373 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۵ء یہ حضرت جابر کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بہترین ذکر کلمہ توحید ہے.یعنی اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بہترین دعا الحمدالله ہے.(ترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر : ۲۳۰۵) پس آج تمام دنیا کے احمدی اس کلمہ توحید کے ذریعے ذکر الہی بلند کر رہے ہیں اور اس توفیق پانے کے نتیجے میں حمد میں مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ اس سلسلے کو ہمیشہ جاری وساری رکھے اور یہ ذکر بڑھتا ر ہے اور پھیلتا رہے اور کل عالم پر ممتد ہوتا چلا جائے.یہاں تک کہ ایک ہی خدا ہو جس کا اقرار کیا جائے ، ایک ہی کلمہ شکر ہو یعنی الحمد اللہ جو تمام بنی نوع انسان کی زبانوں پر جاری ہو جائے اور ان کے دل سے چشموں کی طرح پھوٹے.خدا کرے کہ ہم خدا کے عاجز بندوں کو یہ توفیق ملے کہ کل عالم کو اس وحدت کی کڑی میں، وحدت کی زنجیر میں لپیٹ لیں اور خدا کا کوئی بندہ ایسانہ رہے جو خدا کا بندہ کہلانے کا مستحق نہ ہو.خوشخبری جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان سے میں آپ تک پہنچاتا ہوں وہ بھی حضرت جابر ہی کی روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ہے ایک روز ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے لوگو! جنت کے باغوں میں چرنے کی کوشش کرو.ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! جنت کے باغ سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایاذکر کی مجالس جنت کے باغ ہیں.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ صبح اور شام کے وقت خصوصاً اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو.جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے اس قدر ومنزلت کا علم ہو جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس کی ہے، تو وہ یہ دیکھے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا کیا تصور ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ایسی ہی قدر کرتا ہے جیسے اس کے دل میں اللہ تعالی کی ہو.(حدیقہ الصالحین :۹۲) پس یہ ذکر کے باغ جو یہاں لگے ہیں اور تمام دنیا میں لگ چکے ہیں ، یہ وہ پودے ہیں جو خدا کے اذن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں نے لگائے ہیں.اللہ ان باغوں کو پھولتا اور پھلتا ر کھے اور پھیلاتا رہے یہاں تک کہ تمام دنیا کی سعید روحیں پرندوں کی طرح اس کی شاخوں پر آ کے آرام کریں، اس کی شاخوں پر بسیرے ڈالیں اور اس کی رحمت کے سائے تمام عالم کو اپنی رحمت کے سائے تلے لے لیں.
خطبات طاہر جلد دوم 374 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۵ء یہاں آنے والوں کو اس سلسلے میں کچھ نصیحتیں کرنا ہیں کیونکہ یہ باتیں جو میں بیان کر رہا ہوں یہ جب تک کچی نہ ہوں ، جب تک روز مرہ ہماری زندگی میں جاری نہ ہو جائیں اس وقت تک یہ باتیں بہت حسین اور دلکش تو ہیں مگر محض دعوے ہیں اور محض دعوؤں سے دنیا میں انقلاب برپا نہیں ہوا کرتے.ذکر الہی سے ہی انقلاب بر پا ہوں گے مگر وہ ذکر جو دلوں میں جاری ہوں ، جو ہمارے خون میں مل جل جائیں اور خون کے ساتھ رگوں میں دوڑنے لگیں، جو ہمارے دلوں کے ساتھ دھڑ کنے لگیں، جو ہمارے خیالات پر چھا جائیں، ہماری تمنائیں بن جائیں.ایسے مجسم ذکر ہمیں پیدا کرنے ہیں اور اسی غرض سے آپ لوگ دُور دراز سے تکلیفیں اٹھا کر یہاں پہنچے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دُعا میں شریک ہونے کے لئے اُس تاریخ پر آ جانا چاہئے.( محض اللہ اور ربانی باتوں کو سننے کے لئے اس مقررہ تاریخ کو یہاں پہنچنا چاہئے ) اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں اور نیز اُن دوستوں کے لئے خاص دُعا ئیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہِ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی اُن میں بخشے...“ اس کے علاوہ کچھ فوائد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو بیان فرمائے ہیں میری دُعا ہے کہ وہ سارے فوائد بھی جماعت کو پہنچیں.آپ فرماتے ہیں.ہر یک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے مُنہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تو ڈ دو تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا ( یعنی محبت کا رشتہ قائم ہوگا اور اسی طرح تمام دنیا کے ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرتے ہوئے ملتِ واحدہ بنتے رہیں گے ) اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے
خطبات طاہر جلد دوم 375 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۹۵ء انتقال کر جائے گا اس جلسہ میں اُس کے لئے دُعائے مغفرت کی جائے گی...“ پس یاد رکھیں اس جلسے میں جو دعائیں ہوں گی.خصوصیت کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ، اس دوران جو بھی ہمارے بھائی اور بہنیں جو بھی خدا تعالیٰ کی خاطر ہم سے محبت کرنے والے اس دنیا سے گزر گئے ہیں.اب ہماری ان سے محبت کا یہ تقاضا ہے کہ ہم بھی ان سے محبت کریں اور اس محبت کو جاری رکھیں اور ہمیشہ اپنی دعائے خیر میں ان کو یا درکھیں.پھر فرمایا:.اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور اُن کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اُٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرت عزت جلشانہ کوشش کی جائے گی اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی رُوحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اللہ القدير وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے.“ ( آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه : ۳۵۲) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اول یہ کہ اس جلسے سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ: ۳۶۰) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ بہت ہی احتیاط سے چنے جاتے ہیں اور بعض اوقات انسان یہ توقع رکھتا ہے کہ یہ فقرہ اس لفظ پر ختم ہو گا مگر اس سے ہٹ کر کسی اور لفظ پر ختم ہوتا ہے.بعض جگہ انسان یہ سوچتا ہے کہ یہاں یہ لفظ موزوں ہوگا اور اس کے برعکس کوئی اور لفظ دکھائی دیتا ہے.ہر ایسے موقع پر ٹھہر کر توجہ سے اس پر غور کرنا چاہئے.اس میں ان الفاظ کے چناؤ میں گہری حکمت ہوتی ہے.مثلاً ابھی میں نے آپ کے سامنے یہ فقرہ پڑھ کے سنایا ہے.”ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی.یہ نہیں فرمایا کہ اپنے اندر کر لیں ، اپنے اندر حاصل کر لیں.اب روزمرہ کی گفتگو میں تو یہ نہیں کہا جاتا کہ ایک تبدیلی حاصل کر لیں.مگر ایک
خطبات طاہر جلد دوم 376 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۵ء عارف باللہ کا کلام ہے، مراد یہ ہے کہ کوئی تبدیلی بھی انسان خواہ وہ پاک تبدیلی ہی ہو خالصہ اپنی نیت اور کوشش سے نہیں کر سکتا جب تک خدا کا فضل نازل نہ ہو.پس یہ تبدیلی بھی عطا ہوتی ہے.حاصل کرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ کوشش کریں اور اللہ اس کوشش کو قبول فرمائے اور وہ تبدیلی ان کے دلوں میں نازل ہو اور وہ اس تبدیلی کو حاصل کر لیں.پھر فرماتے ہیں اس کے نتیجے میں کیا ہو؟.ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں، یہ وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کی خاطر ہم سب یہاں اکٹھے ہوئے ہیں اور وہ بھی شامل ہیں جو یہاں اکٹھے نہیں ہو سکے.امر واقعہ یہ ہے کہ دلوں کا خدا کی طرف جھک جانا ایک بہت بڑی کامیابی ہے، ایک بہت بڑا انعام ہے اور یہی دلوں کا جھک جانا ہے جو انسان کی دنیاوی اور اخروی نجات کے لئے ضروری ہے.پس ہر وہ انسان جو اپنے دل کو غیر اللہ کی طرف جھکا ہوا دیکھتا ہے وہ خطرے کے مقام میں ہے.یادرکھیں کہ ایسے لوگ اپنی ذات کو خود سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ پہچان سکتے ہیں.جب ذکر کی مجالس سے اٹھتے ہیں تو ان کی توجہ جو دنیا پر جھکے ہوئے ہوں تیزی کے ساتھ اپنے کاموں کی طرف دوڑتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ چھٹی ملی نجات ہوئی ، اب ہم واپس ان مشاغل میں جاتے ہیں جو ہمارے دل کو مرغوب ہیں، جو حقیقتاً ہمارے دل کو عزیز ہیں لیکن وہ لوگ جو حقیقتا اللہ کی طرف جھکے ہوئے دل رکھتے ہیں ان کا ایسی مجالس سے اٹھنا ایک طرح دو بھر ہوتا ہے، وہ لذتوں اور خوابوں کو لئے ہوئے اٹھتے ہیں، وہ مدتوں ان کے متعلق سوچتے رہتے ہیں اور ان روحانی لذتوں میں ڈوب کر ایک فیض پاتے چلے جاتے ہیں.جس طرح ایک پیارے کی ملاقات ختم ہونے کے باوجود ختم نہیں ہوتی وہ یاد بن جاتی ہے، وہ زندگی کا سہارا بن جاتی ہے.بعض دفعہ عمر بھر سونے سے پہلے بعض یاد کے مناظر انسان کی نظروں میں خواب کی طرح آتے ہیں اور خواب ہی کی طرح اس کی نیند میں گھل مل جاتے ہیں.پس ذکر الہی سے مراد یہ نہیں کہ ذکر الہی کیا اور دل پھیر لیا اور آنکھیں بدل لیں.ذکر الہی سے مراد یہ ہے کہ ایسا ذکر کریں جو محبوب کا ذکر ہو، جس ذکر میں ایسی لذت ہو کہ ذکر ختم ہونے کے با وجود وہ لذت آپ کا ساتھ نہ چھوڑے، آپ اس سے چھٹے رہیں اور بار بار اس لذت کی طرف اپنے دل کو مائل پائیں.یہی مقصد ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں.ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر
خطبات طاہر جلد دوم 377 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۵ء خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راست بازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ: ۳۶۰) دینی مہمات جو آج کل عالم میں جاری ہیں ان میں سرگرمی پیدا کرنے کے لئے جو ضروری شرائط ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرما دی ہیں.وہ محرکات جن کے نتیجے میں وہ سرگرمی پیدا ہوتی ہے دوبارہ غور سے سنیں.وہ کیا ہیں؟ دلوں کا بکلی آخرت کی طرف جھک جانا.خدا تعالیٰ کا خوف دلوں میں پیدا ہونا.زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات ، ایک دوسرے سے پیار اور رشتہ موڈت میں باندھے جانا اور بڑھتے چلے جانا.پھر فرمایا : ” دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں.“ نمونے کی بات بارہا آپ سنتے ہیں کہ دوسروں کے لئے اچھا نمونہ بنولیکن یہ دو طرح سے کی جاتی ہے بعض دفعہ مراد یہ ہوتی ہے کہ تم ب تو ہو لیکن کم سے کم لوگوں کے سامنے اپنی بدی ظاہر نہ کرو.دکھانے کی خاطر ، اپنے ماں باپ کے نام کی خاطر ، اپنے خاندان کی عزت کی خاطر تمہیں کچھ نہ کچھ اپنے آپ کو سنبھال کر رکھنا چاہئے تا کہ دنیا تمہارا بد نمونہ دیکھ کر تمہارے بزرگوں کو بھی بد نہ سمجھنے لگے.ایک یہ بھی طریق ہے اور اکثر دنیا میں اسی نیت سے نصیحتیں کی جاتی ہیں کہ نیک نمونہ بنو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نیک نمونہ کو بذاتہ مقصد قرار دیا ہے.نیکی کی باتوں کوفی الذات مقصود بتایا ہے اور فرماتے ہیں، نیکی کی باتیں اختیار کرتے چلے جاؤ یہاں تک کہ اس جوش کے ساتھ وہ تمہارے دل سے ابلنے لگیں جیسے بھرا ہوا پیالہ چھلکنے لگتا ہے.تمہاری نیکیاں دکھانے کی خاطر باہر نہ لائی جائیں بلکہ اپنے وفور کی وجہ سے تمہارے دلوں کو، تمہارے وجود کو اس طرح بھر دیں کہ وہ چھلکنے لگیں اور دنیا ان کو دیکھنے لگے.یہ وہی مضمون ہے جو ہر نبی کی ذات میں ہمیشہ اسی طرح صادق آتا ہے.خدا کی خاطر وہ پاک لوگ خدا کی ذات میں کھوئے جاتے ہیں یہاں تک کہ دنیا سے بالکل بے رغبت ہو جاتے ہیں اور دنیا کی کوئی پر واہ ان کو باقی نہیں رہتی.پھر خدا کی محبت ان کے دلوں کو ایک لافانی عشق کے ساتھ بھر دیتی
خطبات طاہر جلد دوم 378 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۵ء ہے، ایک لافانی دائمی نیکی کے ساتھ بھر دیتی ہے یہاں تک کہ ان کے لئے اس محبت کو چھپانا ان کے بس کی بات نہیں رہتی.از خود وہ خوشبوؤں کی طرح پھوٹتی ہے، از خود وہ پہاڑی شفاف چشموں کی طرح ابل کر باہر آتی ہے.پھر وہ لوگ شناخت کئے جاتے ہیں، دیکھے جاتے ہیں اور جو اُن پر نظر ڈالتے ہیں وہ پیار کی نظر ڈالتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی نمونہ تقلید کے لائق ہے تو ان لوگوں کا نمونہ ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تمام نیکیوں کو بالذات مقصود بتاتے ہوئے اختیار کرنے کی نصیحت فرماتے ہیں.پھر فرماتے ہیں کہ اس حد تک تمہارا پیار اور محبت آپس میں بڑھے جو للہی پیار اور لہی محبت ہو کہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راست بازی ان میں پیدا ہو.انکسار، اپنے اندر خوبیوں کو دیکھ کر تکبر اختیار نہ کرنا بلکہ اور زیادہ اپنے وجودکو عاجز اور اپنی نظر میں بریکار دیکھنا یہ حقیقی انکسار ہے اور تواضع اس انکسار کا نتیجہ ہے.ہر دوسرا شخص اپنے سے بہتر دکھائی دینے لگتا ہے.پس کئی قسم کے لوگ ہیں جو روز مرہ کی زندگی میں تواضع کرتے دکھائی دیتے ہیں.ایک انسان کوئی بڑا آدمی کسی مجلس میں آتا ہے تو کچھ لوگ ادب سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں آئے آپ یہاں تشریف رکھیں لیکن یہ تواضع وہ نہیں ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ذکر فرما رہے ہیں.وہ تواضع تو دنیا کی خاطر ہے مگر اس کے علاوہ کچھ ایسے لوگ بھی آپ دیکھیں گے جو اللہ کی محبت میں ایسے عاجز ہو جاتے ہیں، ایسا معجز اختیار کر لیتے ہیں کہ ہر ایک کو اپنے سے اچھا دیکھتے ہیں.جب بھی آپ کسی ایسی مجلس میں جائیں جہاں ایسے لوگ بیٹھے ہوں تو بے ساختہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ ہم سے بہتر ایک اور آ گیا.پھر ایک اور آتا ہے تو اسے بھی ایسا ہی دیکھتے ہیں کہ گویا ان سے بہتر ایک اور آ گیا اور ہر ایک کے لئے وہ اپنی جگہ خالی کرتے چلے جاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے یہی وہ لوگ ہیں جن کو آسمان پر جگہیں عطا کی جاتی ہیں.ہر وہ جگہ جو خدا کی خاطر وہ کسی اور کے لئے خالی کرتے ہیں اپنے دل میں وہ خدا کو سمو لیتے ہیں اور خدا ان کے دلوں میں جگہ بنا تا چلا جاتا ہے اور ایسے ہی لوگ ہیں جن کو آسمان پر مسندیں عطا کی جاتی ہیں.پس تواضع کرنی ہے تو ان معنوں میں کریں کہ لیلی تواضع ہو لیہی انکسار ہو اور حقیقتا آپ اپنے آپ کو خدا کی محبت اور اس کے عشق میں فنا کر کے کچھ بھی نہ پائیں.یہاں تک کہ آپ سمجھیں کہ
خطبات طاہر جلد دوم 379 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۹۵ء سب کچھ اللہ ہی ہے.آپ کی ذات ہر خوبی سے عاری اور خالی ہے سوائے اس کے کہ جو رحم اللہ کی طرف سے عطا ہو، جو فضل اس کی جودت ، اس کی منت ہو وہی ہے جو آپ کی عزت کا موجب ہے.پس ایسا انکسار ہے جو حقیقت میں ماحول میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، تکبر دنیا میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتا.حقیقی انکسار ہے جس کے ساتھ انقلاب کے تار وابستہ ہوتے ہیں.یہی منکسر المزاج بندے ہیں جو دنیا میں عظیم الشان روحانی انقلاب برپا کیا کرتے ہیں.پھر فرماتے ہیں: ”اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں.اب ایسے لوگوں کے لئے باقی رہ کیا جاتا ہے سوائے اس کے کہ ہمہ تن صبح شام دین کی خدمت میں مصروف رہیں اور ہمیں بکثرت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دنیا کی مختلف جماعتوں میں خدا کے ایسے بندے نہ صرف دکھائی دے رہے ہیں بلکہ بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور میری دعا یہ ہے کہ خدا کے ایسے پاک بندے جن کا ذکر مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے بکثرت پیدا ہوں اور جماعت کی اکثریت بن جائیں.یہاں تک کہ دوسرے شاذ کے طور پر استثناء کی حیثیت سے دیکھے جائیں اور عملاً خدا کے یہ پاک بندے ایک غالب اکثریت ہو جائیں.دنیا میں انقلاب ہم ہی نے برپا کرنا ہے اس میں کوئی شک نہیں ، ایک ادنیٰ ایک ذرہ کا بھی شک نہیں.میرا دل لبالب اس یقین سے بھرا ہوا ہے، سر سے پاؤں تک میں اس ایمان پر قائم ہوں کہ آج اگر دنیا میں کوئی پاک تبدیلی کسی نے پیدا کرنی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس عاجز جماعت نے پیدا کرنی ہے جو کچھ میرے سامنے بیٹھی ہے اور کچھ مجھے اپنے سامنے دیکھ رہی ہے، تمام دنیا کے کونے کونے سے وہ ٹیلی ویژن کے ساتھ آنکھیں لگائے دل چپکائے بیٹھے ہوئے ہمارے اندر شامل اور ہماری ہر ادا کو دیکھ رہے ، ہماری ہر آواز کو سن رہے ہیں انہی عاجز بندوں سے آئندہ دنیا کے انقلاب وابستہ کئے گئے ہیں.پس حقیقی معنوں میں آپ یہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کریں پھر دیکھیں کہ انقلاب پیدا کرنا خدا کا کام ہے.ہماری تقریریں کچھ کام نہیں آئیں گی.اللہ کی تقدیریں ہی ہیں جو کام آئیں گی اور مجھے یقین ہے کہ ضرور ایسا ہی ہوگا.میں نے آپ کو بتایا تھا کہ جو اللہ کی خاطر محبت کرتے ہیں اور اللہ کی خاطر ہی اپنے تعلقات کے رشتے از سرنو استوار کرتے ہیں کچھ رشتوں سے وہ کاٹے جاتے ہیں، کچھ نئے رشتے ان کو عطا
خطبات طاہر جلد دوم 380 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۵ء ہوتے ہیں.ان پر خدا کے پیار کی نگاہیں پڑتی ہیں اور ان کے اللہ سے تعلق نئے رنگ اختیار کر جاتے ہیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : دوم محضرت عمﷺ نے فرمایا ! اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں؟ آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں میں انہیں اپنے سائی رحمت میں جگہ دوں گا.(مسلم کتاب الزکاۃ،حدیث : ۱۷۱۲) پس کتنی عظیم ایک نعمت ہے، کتنی عظیم ایک فضیلت ہے جو الہی محبت کے نتیجے میں بنی نوع انسان کو عطا ہونے والی ہے.پس میں آپ کو اس کامیابی کی طرف بلا رہا ہوں جو سب سے اعلیٰ کامیابی ہے.اس سائے کی طرف بلا رہا ہوں جو اس وقت نصیب ہوگا جب کوئی اور سایہ نہیں ہوگا.پس اللہ سب سے پہلے ان کو بلائے گا جو اللہ کے جلال اور اس کی عظمت کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے لوگ ہیں.پس خدا کرے کہ جب یہ آواز بلند ہو تو ہم میں سے لاکھوں کروڑوں ایسے ہوں جو لبیک لبیک کہتے ہوئے خدا کے حضور حاضر ہوں کہ اے خدا ہم وہ لوگ ہیں ہم وہ لوگ ہیں اور اللہ کی محبت کی آواز اس بات کی تصدیق کرے اور ہمیں وہ سایہ نصیب ہو جو خدا کی محبت اور رحمت کا سایہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.لوگ میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ تو کہہ جاتے ہیں کہ دین کو دنیا پر ترجیح دوں گا لیکن یہاں سے جا کر اس بات کو بھول جاتے ہیں.وہ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ وہ یہاں نہ آویں گے.دنیا نے ان کو پکڑ رکھا ہے اگر دین کو دنیا پر ترجیح ہوتی تو وہ دنیا سے فرصت پاکر یہاں آتے.یہ اس زمانے کی بات ہے جبکہ ابھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پوری طرح خود اُن لوگوں میں بھی پہنچانے نہیں گئے تھے جنہوں نے آپ کو قبول کر لیا تھا اور ایک بڑی جماعت ایسی تھی جو دُور دُور بیٹھے آپ کے دلائل کو سن کر آپ کے نشانات کو دیکھ کر آپ کو قبول تو کر چکی تھی مگر قادیان آ کر وہ چہرہ دیکھنے کی توفیق نہ پاسکی تھی.ایسے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار بلایا، بار بار دعوت دی اور آپ جانتے تھے کہ
خطبات طاہر جلد دوم 381 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۵ء ایمان پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ صالح کی صحبت نصیب نہ ہو، جب تک اس آسمانی وجود کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں جو خدا نے ان کو نجات کے لئے عطا فر مایا ہے.پس اس میں ایک قسم کے درد کا اظہار ہے اور ان لوگوں کا نہ آنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل پر بہت بوجھل تھا.آپ کے دل کی تمنا یہ تھی کہ سب دنیا کشاں کشاں چلی آئے ، تمام لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھیں تو سہی کہ آسمان سے کیا نورا ترا ہے اور کیسا نورا ترا ہے.آج ایک زمانہ ہے کہ خدا نے اس نور کو تمام دنیا میں پھیلا دیا ہے.جو نہیں آسکتے تھے وہ نور ان تک جا پہنچا ہے، ان کے گھروں میں جلوہ گر ہورہا ہے اور انٹر نیشنل ٹیلی ویژن کے ذریعے آج تمام دنیا کے کونے کونے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر مجسم نور کا مظہر بن کر دکھائی جارہی ہے.پس وہ درد جو لِلہ دل میں پیدا ہو وہ نا مقبول نہیں ہوا کرتا.وہ بظاہر حسرت کا اظہار ہے مگرایسی حسرت جو مقبول ہوتی ہے اور حیرت انگیز پاک تبدیلیاں دنیا میں کر کے دکھاتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل کا وہ درد ہے جو میں نے یہاں پڑھ کر سنایا ہے، اس کا ایک نمونہ آپ کے سامنے پیش کیا ہے.جو آج ان عالمی برکتوں میں تبدیل ہو گیا ہے.اس جلسے میں بہت سے ایسے ہیں جو شرکت کی خواہش کے باوجود قانونی مجبوریوں کی وجہ سے یا مالی مجبوریوں کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے.ان کے بے حد درد کے خط مجھے پہنچتے ہیں اور جب میں وہ درد ناک خط پڑھتا ہوں تو مجھے مسیح موعود علیہ السلام کا وہ درد یاد آتا ہے اور میرا دل اس درد کے تصور سے تڑپنے لگتا ہے.کہاں وہ وقت کہ مسیح موعود ان نہ آنے والوں کے لئے دکھے ہوئے دل کے ساتھ دعائیں کیا کرتے تھے کہ کاش ان کو سمجھ آ جائے.وہ کیا ہے جو یہ نہیں دیکھ رہے، وہ کیا ہے جس کی صحبت کو نہیں پاسکے ؟ اور آج لاکھوں کروڑوں دل تڑپ رہے ہیں کہ کاش ہم وہاں پہنچتے جہاں آج مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو نہیں مگر مسیح موعود کا ایک ادنی چاکر کھڑا ہے ان کے مقام پر، ان کے نام پر آوازیں دینے کے لئے اور تمام دنیا کو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آقا حضرت اقدس محمد مصطفی کی طرف بلا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پھر اسی درد کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں.
خطبات طاہر جلد دوم 382 ” ہم نے بارہا اپنے دوستوں کو نصیحت کی ہے.“ افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۵ء اور پھر کہتے ہیں کہ : وہ بار بار یہاں آکر رہیں اور فائدہ اٹھا ئیں مگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے.لوگ ہاتھ میں ہاتھ دے کر دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں مگر اس کی پرواہ کچھ نہیں کرتے.یا درکھو! قبر میں آواز میں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جاتی ہے.ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب کرتا جاتا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے ہو.( یا درکھیں قبریں آوازیں دے رہی ہیں اور ہر لحہ تمہیں موت کے قریب کرتا چلا جارہا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے ہو) اللہ تعالیٰ سے مکر کرنا مومن کا کام نہیں ہے.جب موت کا وقت آ گیا پھر ساعت آگے پیچھے نہ ہوگی.(ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۲۴) پس تمام دنیا کی جماعت کو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الفاظ میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندر جو پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں اب وقت ہے کہ وہ کر لیں، اب وقت ہے کہ اپنی ہستیوں پر ایک انقلاب برپا کر دیں اور وہ انقلاب حقیقی ذکر الہی کے سوا نصیب نہیں ہوسکتا.اللہ کا ذکر ، اس کی توحید کا ذکر ، وہ ذکر جو ہر دوسرے ذکر پر غالب ہے حقیقت میں انسان کو تو حید پر قائم کرتا ہے اور ایسی توحید پر قائم کرتا ہے جس کے نتیجے میں تمام بنی نوع انسان کو تو حید پر قائم کرنے کی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں.خدا کا موحد بندہ اکیلا ہو جاتا ہے یعنی دنیا سے قطع کر کے ایک ہو جاتا ہے.آسمان پر ایک خدا اور زمین پر وہ ایک بندہ اکیلا ہو جاتا ہے.اس کے کیا معنے ہیں؟ اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر دوسرا تعلق کٹ جاتا ہے، ہر دوسری محبت سے وہ ان معنوں میں منہ پھیر لیتا ہے کہ اللہ کی محبت ہر دوسری محبت پر غالب آجاتی ہے.پھر اس اکیلے انسان کو خدا اکیلا نہیں رہنے دیتا کیونکہ وہ عرش پر اکیلا تو ہے مگر ساری کائنات اس کی ہے.ربِّ كُــل شــي خــادِ مُک اے ہمارے رب ہر چیز تیری خادم ہے.یعنی ہر وہ وجود جو ہمیں خدا کے سوا دکھائی دیتا ہے وہ خدا کے علاوہ وجود نہیں بلکہ خدا کے حضور جھکا ہوا ایک وجود ہے جو خدا کی قدرت کا ملہ سے پیدا ہوتا ہے اور ہمیشہ اسی کا رہتا ہے.پس ان معنوں میں جب ایک خدا کا بندہ توحید اختیار کرتا ہے تو بظاہر وہ دنیا سے کاٹا جاتا
خطبات طاہر جلد دوم 383 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۹۵ء.ہے اور از سر نو پیدا ہوتا ہے.جیسے ماں کے پیٹ سے اکیلا آتا ہے وہ بھری دنیا میں پھرا کیلا ہو جاتا ہے مگر خدا پھر اس کو اکیلا نہیں رہنے دیتا.وہ ضرور بڑھتا ہے، وہ ضرور پھیلتا ہے، وہ ضرور شناخت کیا جاتا ہے.کثرت کے ساتھ لوگ اس سے تعلق جوڑنے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں یہاں تک کہ اس سے تعلق جوڑنے والے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور دوسرے گھٹتے چلے جاتے ہیں.یہی وہ روحانی انقلاب ہے جو دنیا میں ہر نبی بر پا کرتارہا اور یہی وہ روحانی انقلاب ہے جو سب سے بڑھ کر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے برپا فرمایا اور یہی وہ روحانی انقلاب ہے جس کا آخری دور آج ہے، جس دور سے ہم گزر رہے ہیں یہی وہ زمانہ ہے جس میں آنحضرت ﷺ کے تمام دنیا پر غالب آنے کی پیشگوئیاں کی گئی ہیں.پس حقیقت میں آنحضرت ﷺ ہی کے دل کی توحید ہے جو دنیا پر غالب آئے گی مگر ان دلوں کے ذریعے جو محمد رسول اللہ اللہ کے مشابہ موحد دل اپنے سینوں میں پیدا کریں گے.جب وہ توحید کے دل دھڑ کیں گے تو پھر وہ اکیلے نہیں دھڑ کیں گے اور دلوں کی دھڑکنیں ان کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں گی ، اور دل ہیں جو ان کی ضربات پر زیر و بم دکھائیں گے، اونچے ہوں گے اور نیچے ہوں گے.ان میں ولولے پیدا ہوں گے، ان کی ہر حرکت اور سکون ان دلوں کے تابع ہو جائے گی.یہ وہ روحانی انقلاب ہے جس کو پیدا کرنے کے لئے آج اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پیدا کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے ہم خدام کو ہم ادنی چاکروں کو اس زمانے کا امام بنایا گیا ہے.پس آپ اس زمانے کے امام ہیں، آپ اس زمانے کے خلیفہ ہیں کیونکہ وقت کے امام کے چا کر اور وقت کے امام کے کامل تابع اور فرمانبردار ہیں.اس امام کے کامل تابع اور فرمانبردار ہیں جس کا سب کچھ مھم مصطفی کا ہو چکا تھا، جس کا اپنا کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا.پس یہ سلسلہ بہ سلسلہ روحانی تعلق ہے جو اوپر تک چڑھتا ہے اور جب محمد رسول اللہ کے دل پر بات چلی جاتی ہے تو پھر اللہ اور اس دل میں کوئی فرق باقی دکھائی نہیں دیتا.ہاں ! خالق اور مخلوق کا فرق تو ہے جو اس دل اور خدا کے درمیان ہے مگر خالق اس دل پر ایسا جلوہ گر ہوتا ہے کہ وہ دل اس کا عرش بن جاتا ہے.اس کی تمام تر صفات اس دل میں جلوہ گر ہونے لگتی ہیں.ان معنوں میں ایک نئی تو حید جنم لیتی ہے کہ ہر وہ بندہ جو خدا کی خاطر اپنا سب کچھ فنا کر کے اسی میں ہو جاتا ہے خدا کی توحید اس میں جلوہ گر ہوتی ہے.وہ بڑھتا ہے تو توحید
خطبات طاہر جلد دوم 384 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۹۵ء کے سوا نہیں بلکہ توحید میں ہو کر بڑھتا ہے.اس مضمون کو سمجھیں اور اس پہلو سے اپنے اندر تو حید کو راسخ کریں، توحید کے ہر پہلو پر غور کریں ، اس پر نگاہ رکھیں.شرک کے ہر پہلو کو مٹائیں اور اس کو قطع کر دیں.اپنے دل کو پاک وصاف بنائیں.اپنے تعلقات کو وسیع کریں مگر تو حید کی راہ سے، توحید کے دروازے سے ان تعلقات میں داخل ہوں.غیر اللہ کے دروازوں سے ان تعلقات میں داخل نہ ہوں.یہی ایک راز ہے جس کو سمجھنے کے نتیجے میں ، یہی وہ ایک حکمت ہے جس کو اپنے دلوں میں جاری کرنے کے نتیجے میں در حقیقت دنیا میں روحانی انقلاب بر پا ہوں گے.آج دنیا مختلف قوموں میں بٹی ہوئی ہے، آج دنیا مختلف مذاہب میں بٹی ہوئی ہے، آج دنیا مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی ہے اور ان کے دل پھٹتے چلے جارہے ہیں.وہ عالمی ادارہ جس کا نام اقوام متحدہ ہے جس کو United Nations کہا جاتا ہے وہ پھٹے ہوئے دلوں کا ایک مصنوعی طور پر باندھا ہوا ایک مجموعہ ہے اس کے سوا اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں.کوئی ایک بھی قوم اس میں ایسی نہیں جو جذبہ ایثار کے ساتھ آراستہ ہو.جو جذبہ ایثار میں سرشار ہو کر بنی نوع انسان کو اکٹھا کرنے کے ارادے کے ساتھ اس عالمی ادارے میں شامل ہوئی ہو.ہر شخص نفس پرست ہے، ہر قوم جس کی وہ نمائندگی کر رہا ہے وہ نفس پرست ہے.کیا یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں توحید کو قائم کریں گے؟ پس ناموں پر نہ جائیں.دنیا کے بڑے بڑے اقتدار کے حیلوں کو حقارت کی نظر سے دیکھیں.یہ اقتداری خیلے دنیا کے کسی کام نہیں آئیں گے اور اگر آپ خدا کے نام پر اکٹھے ہو جائیں گے تو آپ وہ ہیں جو اُس United Nation کو جنم دیں گے جو محمد اور اللہ کی یونائیٹڈ نیشن ہوگی اور تمام کائنات پر چھا جائے گی.ہر دل کو باندھ دے گی ، ہر وجود کو ایک کر دے گی ، ساری قومیں اس ایک چشمے سے سیراب ہوں گی.خدا کرے کہ جلد از جلد وہ دن آئیں.ہمیں اس کی تیاری کرنی ہے کیونکہ ہمارے سپرد یہ کام سونپا گیا ہے.پس اپنی حقیقت کو پہنچا نہیں ، ان توقعات پر نظر ڈالیں جو آپ کے ساتھ وابستہ ہیں.اگر آپ نے پوری نہ کیں تو اور کوئی دنیا میں ان توقعات کو پورا کرنے کے لئے نہیں آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فرماتے ہیں ( درد کے ساتھ فرماتے ہیں ) کہ لوگ توجہ نہیں کر رہے.ابھی تک جیسا کہ میری تمنا ہے اس طرح ولولے اور جوش اور جذبے کے ساتھ
خطبات طاہر جلد دوم 385 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۵ء میری صحبت میں آ کر نہیں رہتے.تو یہ مطلب نہیں کہ نعوذ بالله من ذالک آپ اپنے مقصد میں ناکام ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو چھوڑ دیا.ہرگز نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اس درد کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے آپ سے کلام فرمایا اور آپ کو عظیم خوشخبریاں دیں اور بتایا کہ تو چندلوگوں کی نادانی پر کیوں اتنا اداس اور اتنا حزیں ہو جاتا ہے.چندلوگوں کی غفلتیں تجھے کیوں اتنا غمگین کرتی ہیں؟ میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تیرے پیغام کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.میں تجھے بتا تا ہوں کہ دنیا میں ایک نذیر آیا مگر دنیا نے اسے قبول نہ کیا مگر خدا اسے قبول کرے گا اور زور آور حملوں کے ساتھ اس کی سچائی کو دنیا پر روشن کر دے گا.ان الفاظ میں کوئی تبدیلی ہوتو ہومگر مضمون یہی ہے جو مجھے یاد ہے.پس آج ہم اس بات کے گواہ بن گئے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو خوشخبریاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائیں آج ہم اپنی آنکھوں سے ان کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.ان خوشخبریوں کی تعبیروں کا ایک جز بن چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اس جلسے کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.آج یہ وہی جلسہ ہے مسیح موعود علیہ السلام ہی کا جلسہ ہے جو یہاں بھی ہورہا ہے، کل جرمنی میں بھی ہوگا اور پھر دوسرے ممالک میں بھی ہوگا اور ہوتا چلا جائے گا.یہ ایک جلسہ ہے جو کل عالم پر محیط ہو گیا ہے.مگر آج یہ جلسہ ان سب جلسوں میں ممتاز ہے کیونکہ ایک مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے.آج یہ وہ جلسہ ہے جو کل عالم کو یکساں دکھایا جارہا ہے ، وہ جو شامل نہیں بھی ہو سکے وہ بھی شامل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس جلسے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو خوشخبریاں دیں آپ فرماتے ہیں: یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اس کے لئے قو میں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ: ۲۸۱-۲۸۲) اب دیکھیں اللہ تعالیٰ نے ان وعدوں کو کس شان سے پورا فرمایا.آج اس جلسے میں جو مختلف تو میں حاضر ہیں ان میں دنیا کے کونے کونے سے ، بڑے بڑے براعظموں سے نمائندگی موجود
خطبات طاہر جلد دوم 386 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۵ء ہے.کہیں کم کہیں زیادہ مگر کوئی دنیا کی ایسی عظیم قوم نہیں ہے جو بطور نمائندہ آج یہاں موجود نہ ہو.سابق رشتین ریاستوں میں سے قازقستان اور تاتارستان کے وفود یہاں موجود ہیں.قازقستان کا وفد تو بہت بڑا تھا جو آنا تھا مگر ابھی تک دو مرد اور 19 عورتیں یہاں پہنچ چکے ہیں.پس آپ بتائیں کہ کیا آپ ان قوموں میں شامل ہیں کہ نہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ خدا ایسی قوموں کو بھیج دے گا جو تو میں انتظار کر رہی ہیں ، آج نہیں تو کل وہ ضرور آئیں گی.کیا آپ ان میں موجود ہیں، کیا آپ ان قوموں میں شامل ہیں؟ دیکھیں اور خواتین کی طرف بھی رشین خواتین یہ گواہی دے رہی ہوں گی.اس کے علاوہ عرب قوم ہے وہ قوم جس کو خدا نے تمام دنیا کی سیرابی کے لئے چنا تھا اور جس کے ریگستانوں سے وہ دائمی کوثر پھوٹا جو ہمیشہ ہمیش کے لئے ساری کائنات کو سیراب کرنے کے لئے کافی ثابت ہوا اور ہمیشہ اس کا فیض جاری و ساری رہے گا.پس اے عرب قوم کے نمائندو! بتاؤ کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی بچی نکلی کہ نہیں؟ (اس پر عرب احمدیوں نے لبیک یا امیرالمومنین کے الفاظ میں جواب دیا اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ، جزاكم الله احسن الجزاء.افریقہ کا براعظم ایک عظیم براعظم ہے.آج افریقہ میں اس کثرت سے احمدیت پھیل رہی ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی.اس براعظم سے بھی لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کے گواہ بن کر آج یہاں اکٹھے ہوئے ہیں.پس اے افریقہ سے آنے والو بتاؤ کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی سچی نکلی کہ نہیں نکلی؟ (افریقی نمائندوں نے بھی لبیک یا امیرالمومنین لبیک کے الفاظ میں جواب دیا ) اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ، جزاكم الله احسن الجزاء.ایشیا میں انڈو نیشیا کی قوم ایک بہت عظیم قوم ہے اور ایشیائی قوموں میں اس کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ممالک ہیں، دوسرے ممالک میں جو اس سے پہلے شامل نہیں تھے ان میں سے آج کمبوڈیا کو بھی شمولیت کی تو فیق مل رہی ہے.پس اے ایشیا کے لوگو! جو مشرق سے تعلق رکھتے ہو لیکن مختلف عظیم قوموں میں بٹے ہوئے ہو،اے ایشیا کے لوگو! جو جاپان سے تعلق رکھتے ہو یا انڈونیشیا سے تعلق رکھتے ہو یا کمبوڈیا وغیرہ سے تعلق رکھتے ہو.اے ایشیا کے لوگو! جو بنگلہ دیش سے یا ہندوستان سے یا پاکستان سے تعلق رکھتے ہو آج گواہ بن کر کھڑے ہو کہ
خطبات طاہر جلد دوم 387 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۵ء کیا خدا کے اس عظیم امام مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوئی کہ نہیں ہوئی ؟ (اس پر ان ممالک سے تعلق رکھنے والوں نے بھر پور نعروں سے جواب دیا ) آپ کی آوازیں تو سب دنیا تک پہنچ رہی ہیں مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان آوازوں میں وہ آوازیں بھی شامل ہیں جو آپ کے کانوں تک نہیں پہنچ رہیں مگر آسمان تک پہنچ رہی ہیں.پاکستان میں وہ مجبور بھائی جو یہاں شامل نہیں ہو سکے، وہ بہنیں بھی آج ان نعروں میں آپ کے شریک ہیں، وہ بھی لبیک اللھم لبیک کی آوازیں بلند کر رہے ہیں.اے مسیح موعود ! تو خدا کا سچا مسیح ہے جسے خدا نے اپنے ہاتھ سے بھیجا تھا، جسے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا اور اپنی طرف سے آسمان سے بھیجا تھا.وہ مسیح آ گیا، اب تمام دنیا کی قوموں کی گواہیاں اس میں شامل ہو گئیں.بدنصیب ہیں وہ جو ان آوازوں کو نہ سنیں.بدنصیب ہیں وہ جن کے دلوں کی گہرائیوں تک یہ آواز لبیک بنتے ہوئے نہ اتر جائے.اب یورپ کی قوم ایک عظیم قوم ہے.ایک قوم نہیں مختلف قوموں میں بٹی ہوئی ہے مگر بحیثیت یورپ اگر چہ آبادی کے لحاظ سے یہ ایشیا سے بہت پیچھے ہیں مگر طاقت کے لحاظ سے یہ ایک عظیم مرکزی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.اب جو نئے سیاسی حالات پیدا ہور ہے ہیں بعید نہیں کہ طاقت کا مرکز امریکہ سے ہٹ کر یورپ میں آجائے اور ہرگز بعید نہیں کہ یہ وہ وسطی طاقت بن جائے جس کا اثر تمام دنیا پر پڑے.پس الحمد للہ کہ یورپ کی عظیم قوموں میں سے بھی اس وقت بکثرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہنے والے موجود ہیں.پس اے یورپ کے احمد یو! بتاؤ کہ کیا مسیح موعود کی یہ پیشگوئی سچی نکلی کہ نہیں نکلی.کیا تم یہ گواہ بن کر یہاں حاضر نہیں ہوئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا نے جو کچھ کہا تھاوہ سچ کہا تھا؟ امیر صاحب جرمنی بتائیے (امیر صاحب جرمنی نے نعرہ ہائے تکبیر بلند کر کے جواب دیا اور تائید کی ).اے انگلستان کے احمد یو! بتاؤ کہ کیا یہ بچی پیشگوئی تھی کہ نہیں تھی ؟ لبیک کہو اور بلند آواز سے لبیک کہو.اے بوسنیا کے رہنے والو! اے البانیہ کے رہنے والو! اے سوئٹزر لینڈ کے رہنے والو! اے شمالی یورپ اور جنوبی یورپ سے آنے والو! خدا گواہ ہے اور تم بھی گواہ بن جاؤ کہ جو کچھ خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا تھا ایک ایک لفظ اس کا سچا نکلا.ان ممالک نے بھر پور نعروں
خطبات طاہر جلد دوم 388 افتتاحی خطاب جلسہ سالانه ۱۹۹۵ء سے جواب دیا اور تائید فرمائی.البانیہ کے لوگوں نے بھر پور نعروں سے جواب دیا اور تائید فرمائی.) Albania is there and Albania is here as well.رئیس ڈیکا صاحب یہ امیر ہیں البانیہ کے اور البانیہ کے متعلق میں جرمنی کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اب تک تو وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ یورپ کی سب سے بڑی احمدی جماعت ہیں مگر البانیہ بعد میں آیا ہے اور تیزی سے آگے نکل رہا ہے اگر آپ نے فکر نہ کی تو کل کو البانیہ یہ کہہ سکے گا کہ ہم خدا کے فضل سے یورپ کی سب سے بڑی یور بین احمدی جماعت ہیں.کیوں رئیس ڈیکا یہ ٹھیک ہے یا غلط ہے؟ درست ہے، کتنے ہو چکے ہیں آپ؟ امیر صاحب نے بتایا !Fortyfive Thousand.ابھی آگے نکل چکے ہیں.معاف کرنا میں نے دیر میں تنبیہ کی ، میں جرمنی سے معذرت کے ساتھ یہ عرض کر رہا ہوں کہ تنبیہ میں دیر ہوگئی.یہ پہلے ہی آگے نکل چکے ہیں.اس وقت ایک یورپین ملک ہے جس میں پینتالیس ہزار احمدی مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا اقرار کرنے والے موجود ہیں.(حضور نے امیر صاحب البانیہ کو سٹیج پر بلوایا اور فر مایا کہ) یہ وہ البانیہ کے مجاہد اول ہیں جن کو ابھی لمبا عرصہ نہیں ہوا کہ وہ احمدیت میں شامل ہوئے.یہ سویڈن میں احمدیت میں شامل ہوئے اور یہ فیصلہ کر کے، یہ بتا کر کہ اب مجھے تمہارے ملک میں کوئی دلچسپی نہیں رہی.میں جب تک اس پیغام کو ، اس زندگی بخش پیغام کو اپنی قوم تک نہیں پہنچا تا میں چین سے نہیں بیٹھوں گا اس لئے الوداع کہہ کے واپس گئے اور اپنے کئے ہوئے وعدوں کو پورا فرمایا.اس طرح توحید ہے جو پنپتی ہے اور پھیلتی ہے اور بہت سے کثرت سے موحد پیدا کرتی ہے.ایک سال کے اندر خدا کے فضل سے، خدا کے اس موحد بندے کو پینتالیس ہزار احمدی مسلمان بنانے کی توفیق ملی ہے.اب میرا خیال ہے کہ چند منٹ رہ گئے ہیں، دعا پہ اب ہم اس اجلاس کی کارروائی کو ختم کرتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی میے کے سب کام دعا ہی سے چلتے تھے اور یہ سب فیض جو آج آپ دیکھ رہے ہیں، یہ خدا کا فیض جو آسمان سے نازل ہورہا ہے تمام دنیا کے براعظموں پر آسمان سے رحمتوں کی بارش بن کے برس رہا ہے.میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ محمد مصطفی کی دعاؤں کا فیض ہے جو آج نازل ہورہا ہے ، آپ ہی سے خدا کا وعدہ تھا کہ آخرین میں وہ جماعت پیدا کروں گا جو آخر پر
خطبات طاہر جلد دوم 389 افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۱۹۹۵ء آنے کے باوجود پہلوں سے آملے گی اور ان کو ملانے والا وہ وجود ہوگا کہ اگر زمین سے ایمان اٹھ کر ثریا پر بھی چلا گیا تو وہ جا کر اس ایمان کو ستاروں سے نوچ کر واپس زمین پر لے آئے گا.پس آج خدا کا وہ وعدہ پورا ہوا اور ان دعاؤں ہی کی برکت ہے کہ جماعت احمدیہ کو دنیا میں قائم کیا گیا.پس دعاؤں ہی کا فیض ہے جو آپ پارہے ہیں، دعاؤں ہی کا فیض ہے جو آئندہ آپ کے لئے تمام قسم کی سعادتیں اور برکتیں لاتا رہے گا اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی ، آنحضرت ﷺ دعا کی تحریص کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ہے بڑا کریم اور سخی ہے.(ایک حیا کریمی کی حیا ہوتی ہے، ایک حیا گنہگار کی حیا بھی ہوتی ہے.آنحضرت ﷺ نے حیا والا کہتے ہی فرمایا ! اس کی حیا کریمی کی حیا ہے، ایک معزز انسان بعض دفعہ انکار کر ہی نہیں سکتا ) فرما یا بڑا کریم اور سخی ہے.جب بندہ اس کے حضور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے.(ترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر : ۳۴۷۹) یعنی صدق دل سے مانگی ہوئی دعا کو وہ رد نہیں کرتا بلکہ قبول فرماتا ہے.آئیے اب ہم دعا کر لیتے ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 391 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء توحید کی راہ ہی صراط مستقیم ہے.محمد مصطفی اللہ کی محبت کے پیامبر بن کر آگے بڑھیں.(افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۲۶ / جولائی ۱۹۹۶ء بمقام اسلام آباد لفورڈ برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَإِذْ قَالَ إِبْرَ هِمُ رَبِّ اَرِنِي كَيْفَ تُنِي الْمَوْتُى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْ مِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَبِينَ قَلِي قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرُهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعيًا وَاعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمُ پھر فرمایا:.(البقره: ۲۶۱) آج میں نے خطبہ جمعہ میں توحید کے مضمون کا آغاز کیا تھا جس کا مرکزی نقطہ وہ شہادت ہے جو ہم ہر نماز میں دیتے ہیں کہ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُه - اسی تسلسل میں مضمون کو آگے بڑھانے کے لئے اب میں آپ کو درود کی طرف متوجہ کرتا ہوں جو اس شہادت کے معابعد آتا ہے اور اُس درود میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر درود کے ساتھ ایک اور نبی یعنی ابراہیم کا ذکر ملتا ہے اور یہی دو انبیاء ہیں جو اس درود میں بیان ہوئے ہیں.چونکہ مضمون تو حید کا ہے اور تو حید کی گواہی کا ہے اس لئے قطعی طور پر ہم اس سے یہ نتیجہ نکالنے میں برحق ہوں گے، جائز ہوگا ہمارے لئے یہ نتیجہ نکالنا کہ توحید کے مضمون میں جو مرتبہ
خطابات طاہر جلد دوم صلى الله 392 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے، حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے بعد اور کسی کو وہ مرتبہ نصیب نہیں ہوا کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر درود کے حوالے سے ایک اور موحد نبی کا ذکر فرمایا گیا جس کا نام ابراہیم تھا.فرمای محمد پر بھی ویسے ہی درود بھیج، ویسے ہی سلام بھیج جیسے اس سے پہلے ابراہیم پر بھیجے تھے.پس توحید کا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے ایک گہرا تعلق ہے اور ایک ایسا تعلق ہے جو قرآن کریم میں اظہر من الشمس ہے.توحید کے نمائندہ کے طور پر آنحضرت ﷺ سے پہلے جتنے نبی گزرے ہیں جس شان کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ملتا ہے اُس شان کے ساتھ کسی اور نبی کا ذکر نہیں ملتا.پس وہ مجسم تو حید تھے اور یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے یہ حضرت ابراہیم کے بنی نوع انسان کوامت واحدہ بنانے سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا تعلق حج سے ہے.امت واحدہ ، واحدہ بنے گی تو حج اپنے اعلیٰ مقاصد کو پہنچے گا اور چونکہ یہ اعزاز حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کو نصیب ہونا تھا اس لئے حضرت ابراہیم کی دعاؤں کا منتہی حضرت اقدس محمدمصطفی تھے اور وہ خواب جو آپ نے دیکھے اُن کو پورا کرنے کا اعزاز حضور اکرم یا اللہ کو نصیب ہوا.یہ حکمت ہے کہ جس کے پیش نظر اقرار توحید اور رسالت کے بعد ہمیں سب سے پہلے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر درود سکھایا گیا اور اس حوالے سے ابراہیم کی یا دکو بھی زندہ رکھا گیا.اس آیت میں ایک ایسا مضمون ہے جس کا آج ہماری جماعت کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور یہ مضمون وہی امت واحدہ بنانے والا مضمون ہے کہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے لوگ کیسے زندہ ہوکر حضرت اقدس رسول اللہ ﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آپ کی طرف دوڑے چلے آئیں گے.مثال پرندوں کی دی ہے اور ہمیشہ قرآن کریم میں جب انسانوں پر یہ لفظ بولا جاتا ہے تو روحانی پرندے مراد ہوتے ہیں.پس حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے رب کے حضور یہ سوال کیا، یہ عرض کیا رَبِّ اَرِنِي كَيْفَ تُخيِ الْمَولى.اب دیکھیں اس کا ایک ایک لفظ طرز کلام کی ایک ایک ادا توحید پر مبنی ہے.یہ نہیں کہا کہ اے خدا! تو نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں ان مر دوں کو زندہ کر دوں.تو بتا میں کیسے زندہ کروں عرض کرتے ہیں رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُنِي الْمَوْلى اے میرے رب ! زنده کرنے کا مجھے تو کوئی اختیار نہیں، مجھ میں تو طاقت نہیں.مجھے یہ تو دکھا کہ تو کیسے زندہ کرے گا اور اس
خطابات طاہر جلد دوم 393 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا تو ایمان نہیں لاتا ؟ ابراہیم عرض کرتے ہیں کہ اے خدا ! کیوں نہیں میں ایمان لاتا ہوں ،مگر دل کا اطمینان چاہتا ہوں.یہ طرز کلام بتا رہا ہے کہ ایک مستقبل میں ہونے والے ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اپنے وقت میں اگر تمام دنیا کے پرندوں کو بلانے کی طاقت رکھتے یا خدا اُن کو یہ طاقت بخشتا تو پھر یہ تعجب آمیز سوال نہ اٹھتا.یہ سوال بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ روشن فرما دیا تھا، آپ کو یہ خوشخبری دی تھی کہ تیری ذریت اور نسل سے وہ داعی الی اللہ پیدا ہو گا جو تمام دنیا کے مُردوں کو زندہ کرنے والا ہو گا.وہ محی جب آئے گا تو شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کی کوئی تمیز نہیں رہے گی، اُس کی آواز پر مردے جی اٹھیں گے اور لبیک کہتے ہوئے اس کی طرف دوڑے چلے آئیں گے.اس تعلق میں میں نے عرض کیا تھا کہ یہ مضمون حج سے تعلق رکھتا ہے اور ایک تو وہ حج ہے جو ظاہری حج ہے، ایک وہ ہے جس کا وعدہ آنحضرت ﷺ کو اس آیت کریمہ میں دیا گیا لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله (الفتح (۲۹) که محمد مصطفی ﷺ کو اس لئے مبعوث فرمایا ہے کہ وہ تمام ادیان پر غالب آجائے اور تمام بنی نوع انسان اس کی اطاعت میں، اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خدا کے حضور حاضر ہوں.پس یہ وہ دور ہے جس میں ہم اللہ کے فضل کے ساتھ داخل ہو گئے ہیں.آج دنیا کے روحانی پرندوں کو زندہ کرنے کے لئے خدا نے اپنے جلوے دکھانے کے لئے ہمیں چن لیا ہے، ہم عاجز بندوں کو چن لیا ہے.زندہ تو وہی کرے گا ہم میں تو زندہ کرنے کی کوئی طاقت نہیں مگر اس کے وہ وعدے جو ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمائے گئے ، اس کے وہ وعدے جو اس نے حضرت اقدس محمد مصطفی سے فرمائے.جب آپ سے یہ کہا، جب بنی نوع انسان سے اور مسلمانوں سے بالخصوص یہ کہا کہ جب یہ رسول ﷺ تمہیں اپنی طرف بلائے تا کہ تمہیں زندہ کرے تو یہ وہی وعدہ ہے جو اس آیت میں ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا، جس کے پورا کرنے اور خوشخبری کے دن آنے کا ذکر وہاں ملتا ہے.فرمایا دیکھو ابراہیم نے خدا سے پوچھا تھا اپنے رب سے پوچھا تھا کہ بتا تو کیسے ان مردوں کو زندہ کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال دے کر ان کو سمجھایا.مگر وہ زندہ کرنے والا نبی اب آیا ہے جس کے ہاتھوں پر مردوں کو زندہ کیا جانا تھا.
خطابات طاہر جلد دوم 394 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء یہ تفسیر ذوقی تفسیر نہیں ہے سارا قرآن کریم تلاش کر کے دیکھ لیں حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے سوا مخی کسی کو نہیں فرمایا گیا.آپ ہی ہیں جن کے متعلق فرمایا! جب یہ تمہیں بلائے تا کہ تمہیں زندہ کرے.یہ جو مضمون ہے آنحضرت ﷺ کے زمانے میں اپنے درجہ کمال کو پہنچا ہے.حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے تعلق میں بھی اسی قسم کی زندگی کا ذکر ملتا ہے کہ جب وہ مٹی سے پرندے بنا تا تھا اور کہتا تھا کہ زندہ ہو جائیں یا اڑنے لگیں.اللہ کے اذن کے ساتھ مگر آنحضرت ملے کے ذکر میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے تو ان کو بلاتا کہ تو ان کو زندہ کرے یا جب میرارسول ” تمہیں بلاتا ہے تا کہ تمہیں زندہ کرے تو پھر اس آواز پر لبیک کہا کرو.پس ان معنوں میں وہ ایک نبی جسے خدا تعالیٰ نے زندگی کی قدرت بخشی، روحانی زندہ پیدا کرنے کی آپ کو طاقت عطا فرمائی وہ حضرت اقدس محمد مصطفی الہ ہی تھے.پس آج کا عالمی اجتماع جو تمام بنی نوع انسان کے نمائندوں کو خلا سے آج یہاں کھینچ لایا ہے اور مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے پرندہ صفت روحیں ، ابراہیمی طیور اڑتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں تو یہ اس آواز کا نتیجہ ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ایک بیابان سے بلند کی تھی.آج تمام دنیا میں اسی آواز کی برکت ہے کہ ایک آواز پر یہ روحانی پرندے مختلف ممالک سے مختلف بر ہائے اعظم ا صلى الله سے شمال اور مشرق اور جنوب اور مغرب اور ہر ملک سے ہر رنگ کے یہاں اکٹھے ہو گئے ہیں.پس یہ طاقت جو آپ سب کو بھینچ لائی ہے یا درکھیں یہ اللہ کی وہ طاقت ہے جومحمد مصطفی میت ہے میں جلوہ گر ہوئی ہے.یہ اس لئے یاد کرانے کی ضرورت ہے کہ بسا اوقات انسان جب کامیابیاں حاصل کرتا ہے تو اپنے نفس کی طرف انہیں منسوب کرنے لگتا ہے اور جو ظالم ہوں جب وہ تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں تو تکلیفوں کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اعزازات کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں اور یہی شرک ہے اور بدترین شرک ہے.پس ہم جو کہ کامیابیوں کے دور میں پیدا فرمائے گئے اس میں ہمارا ادنی بھی کوئی ایسا ذاتی اعزاز نہیں جو ہم نے خود کمایا ہو.یہ حقیقت ہے اور اس کو بیان کرتے ہوئے مجھے ایک ادنیٰ بھی شبہ یا ایک ذرہ بھی شک نہیں کہ ہم لوگوں کو خدا کا اختیار کرنا تجب انگیز ہے.کم سے کم میں تو سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ ہم چیز کیا تھے اور کیا ہیں اور کیا کیا کام ہمارے سپر دفرمائے گئے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرماتے ہیں کہ
خطابات طاہر جلد دوم 395 اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء میں خاک تھا اسی نے ثریا بنا دیا (در نمین: ۱۱۷) یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے امر واقعہ یہ ہے کہ ایک نبی کبھی بھی مبالغہ نہیں کرتا ، وہ اپنے عجز کے اظہار میں بھی مبالغہ نہیں کرتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام تو ایسا محتاط ہے کہ ایک ایک لفظ چنا ہوا اور ایک ایک مضمون مناسب جگہ پر اس طرح بٹھایا ہوا ہے ایک ذرہ بھی اس میں مبالغے یا کسی پہلو سے کمی بیشی کی گنجائش نہیں اور جتنا غور سے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام پڑھیں اتنا ہی بے اختیار آپ کیلئے دل سے دعائیں اٹھتی ہیں.میں ایک دفعہ غور کر رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ دیکھیں کیسے نپے تلے اور چنے ہوئے ہیں کہ ان کو اپنی جگہ سے ہٹایا نہیں جاسکتا.آپ فرماتے ہیں: ه سورج پہ غور کر کے نہ پائی وہ روشنی جب چاند کو بھی دیکھا تو اس نور سا نہیں (درمین :۱۵۲) اب آپ دیکھیں ، کبھی غور کیا ہے کہ ان دونوں مضمونوں کے بیان میں کیا فرق ہے؟ انسان سورج کو دیکھ نہیں سکتا اور ایک شاعر بے دھڑک ہو کر کہہ دیتا ہے جب سورج کو بھی دیکھا تو ویسا نہیں تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صداقت میں اتنے محتاط ہیں چاند کو دیکھ سکتے ہیں تو کہتے ہیں.جب چاند کو بھی دیکھا تو اس نور سا نہیں جب سورج کی بات کرتے ہیں تو فرماتے ہیں.سورج پہ غور کرکے نہ پائی وہ روشنی سید امام ہے جو ہمیں عطا کیا گیا ہے.یہ صداقت کا شہزادہ ہے جو اس زمانے میں ہمیشہ تازگی بخشتے آیا ہے.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو بڑے غور اور گہرائی میں اتر کر پڑھا کریں اور وہی رنگ سیکھیں، وہی ڈھنگ اختیار کریں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے تھے.ہم نے جب دنیا کو زندہ کرنا ہے تو یہ یقین رکھتے ہوئے زندہ کرنا ہے کہ ہم خاک ہیں ہم میں ہرگز کوئی طاقت نہیں ہے مگر خاک کی وہ چٹکی ہیں جو خدا کے ہاتھوں میں تھا می گئی ہے اور یہ خاک ہے جو تمام دنیا پر ایک طوفان بن کر اٹھے گی اور ایسا طوفان جو عظیم انقلاب بر پا کر دے گا.یہ وہ قطرہ
خطابات طاہر جلد دوم 396 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء ہے جس میں بارش ہونے کی صلاحیت موجود ہے، یہ وہ قطرہ ہے جس میں سمندر بننے کی صلاحیت موجود ہے مگر اُس وقت جبکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے فیوض کے سمندر کا قطرہ بنے.پس عجز کے اس مقام کو کبھی نہ بھولیں کیونکہ یہ بجز ہے جو تو حید کو سمجھنے کا پہلا قدم ہے اور وہ تو حید جو میں کہتا ہوں کہ آپ اپنے نفوس میں جاری کریں وہ بجز کے سوا ممکن نہیں ہے اور بجز وہ جو سچا عجز ہے، جو حقیقت آشنا ہو اور ایسا عجز اپنے نفس پر گہری نظر ڈالے بغیر حاصل ہونا ممکن ہی نہیں ہے.فرضی بجز کی خدا کو کوئی ضرورت نہیں، بڑے بڑے عجز کے اظہار کرنے والے موجود ہیں لیکن بے حقیقت بجز ، ایک طرف بعجز کا اظہار کرتے ہیں دوسری طرف اپنی بڑائی کی ڈینگیں مارتے ہیں مگر وہ بجز جو خدا کے مقابل پر ، خدا کے سائے تلے انسان اپنی حقیقت پر غور کرتے ہوئے پاتا ہے وہ بجز اس کو مٹاتا چلا جاتا ہے، وہ بجز ایسا ہے جو مٹنے کے بعد پیدا ہوتا ہے.انسان جتنا بھی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے اس معرفت کا ایک طبعی حصہ ہے کہ اپنے وجود کی معرفت بھی حاصل کرتا ہے، جتنا اپنے وجود کی معرفت حاصل کرتا ہے اس کا ایک طبعی تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کی معرفت بھی نصیب ہو.پس یہ حقیقی تو حید ہے جو انسان کو اس وقت نصیب ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ کی عظمت کے تصور کے تابع اپنی حقیقت کو ٹو لتا اور تلاش کرتا ہے کہ میں کیا ہوں، پیاز کے چھلکوں کی طرح اس کے نفس سے چھلکے اترتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے اندر کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور وہ آخری نقطہ خلا کا ہے.جس خلا کو خدا اپنی ذات سے بھر دیتا ہے پھر ایک نیا وجود اٹھتا ہے وہ خدا کا نمائندہ بن کر اٹھتا ہے، وہ اور خدا کی توحید ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں.یہ وہ توحید کا انقلاب ہے جو انبیاء نے دنیا میں برپا کیا اور یہی وہ انقلاب ہے جو آج خدا اپنے فضل سے ہمیں توفیق بخش دے گا تو ہم برپا کریں گے مگر ہم میں سے ہر ایک کو اپنے وجود سے اپنے نفس کو خالی کر کے وہ خلا پیدا کرنا پڑے گا جس کو خدا اپنے نور توحید سے بھر دیا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ الہاما فرمایا.خذوا التوحيد التوحيديآ ابناء الفارس ( تذکره : ۱۹۷) اور میں یقین رکھتا ہوں اس یا ابنَاءَ الفَارِسِ میں آپ بھی شامل ہیں اور میں بھی شامل ہوں، وہ تمام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے روحانی خاندان کا جزو بن گئے وہ تمام کے
خطابات طاہر جلد دوم 397 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء تمام اس میں مخاطب ہیں.پس اے ابنائے فارس ! میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ تو حید کو پکڑ لو اور مضبوطی سے پکڑ لو اور تو حید کو اپنے نفس میں جاری کرو اور موحد بندے بنو اور خدا کی توحید کا مظہر بن کر اٹھو.پھر لازم ہے کہ دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا ہو تب خدا کی توحید آسمان پر نہیں رہے گی بلکہ زمین پر اتر آئے گی اور زمین و آسمان کا خدا ایک ہو جائے گا.تب تمام بنی نوع انسان ایک ہاتھ پر اکٹھے ہوں گے ، تب مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب کا فرق مٹ جائے گا.جب تک یہ فرق نہیں مٹتے شرک جاری رہے گا اور بنی نوع انسان ہمیشہ ایک تباہی سے ایک دوسری تباہی کے دہانے کی طرف ہمیشہ رواں دواں رہیں گے یہاں تک کہ وہ آخری دہا نہ آئے گا جو ہمیشہ کے لئے ان کو ختم کر دے گا.وہ دہانہ تو آ بھی چکا ہے مادی طور پر وہ دہانہ جس میں داخل ہو کر پھر کبھی باہر نکلنے کی توفیق نصیب نہیں ہوسکتی ، وہ جو کھا کر ہمیشہ عدم بنادیا کرتا ہے وہ دہانہ مادی طور پر تو شاید ابھی نہیں آیا مگر روحانی طور پر آچکا ہے.کتنی کثرت سے بنی نوع انسان ہیں جو شرک میں مبتلاء ہو کر اس اثر دھا کے منہ میں جاچکے، اس کے منہ کا لقمہ بن گئے.پس ہم نے بہت بڑے کام کرنے ہیں، بہت اہم کام کرنے ہیں لیکن یہ کام تقویٰ سے سرانجام ہوں گے.یہ کام عرفان کے ساتھ عاجزی اختیار کرنے سے سرانجام پائیں گے لیکن عاجزی وہ جو حقیقی ہو اور حقیقی عاجزی کی طرف سفر بہت لمبا سفر ہے.یہ بات میں بارہا آپ کو پہلے بھی کئی طریق سے سمجھانے کی کوشش کر چکا ہوں کہ محض یہ کہ دینا کہ ہم اپنی حقیقت کو پالیں، جو حقیقت ایک خلا ہے اگر خدا نہ ہو تو وہ کوئی بھی حقیقت نہیں.خدا کے سوا جو عدم ہے وہ ہر ذات میں موجود ہے مگر ہم اس کا اقرار نہیں کرتے.یہ توحید کا ، لا الہ کا اقرار ہے جس سے توحید کی طرف سفر شروع ہوگا مگر یہ اتنا آسان نہیں ہے.آپ اس سفر کو اختیار کریں تو تمام عمر آپ کا سفر جاری رہے گا جو تو حید کی جانب ہوگا اورشاذ ہی ایسا ہوگا ، آپ میں سے کچھ ہی خوش نصیب ایسے ہوں گے جو اپنے آخری حقیقی خلا تک پہنچ سکیں مگر اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ جو قدم بھی اس راہ میں اس کی طرف اٹھتا ہے ہر اس قدم کے نتیجے میں وہ جزاء عطا کرتا ہے اور اپنا نور لے کر آتا ہے اور ہر قدم جو اندھیروں سے روشنی کی طرف بڑھتا ہے اللہ اسے نوازتا، اسے قبول فرماتا ہے اور ساتھ ساتھ چلتا ہے.پس اگر یہ سہارا نہ ہوتا کہ خدا اندھیروں میں بھی ہمارے ساتھ ہے اور یہ انتظار نہیں کرتا کہ
خطابات طاہر جلد دوم 398 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء ہم آخری مقام تک پہنچیں.تو ہمارا ساتھ دے تو یہ زندگی بے معنی اور بے حقیقت ہو جاتی، یہ زندگی اپنا مطلب کھو دیتی لیکن سفر ضروری ہے اور ہر احمدی کے لئے یہ سفر ضروری ہے.اب جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے اس میں اتنے بت رستے میں ملیں گے کہ آپ کے ہاتھ توڑتے توڑتے شل بھی ہو جائیں تو پھر اور بت دکھائی دیں گے.بسا اوقات ایک انسان سمجھتا ہے کہ میں نے بڑی منازل طے کر لی ہیں اور اچانک ایک اور بت سراٹھا لیتا ہے اور یہ جو اقرار لاعلمی ہے، یہ اقرار لا علمی بھی علم کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہ علم ذاتی مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے.اس کا تعلق اَشْهَدُ سے ہے جس کا میں نے ذکر کیا تھا.پس ہر بت جو آپ تو ڑیں گے تب آپ گواہی دے سکتے ہیں کہ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی خدا نہیں ہے اور اس سفر میں ہمیں بہت سے تجارب حاصل ہوں گے اور اس سفر میں ہمارا سہارا خدا تعالیٰ بنے گاور نہ اس کے سہارے کے بغیر یہ سفر مکن ہی نہیں ہے.انسان کا نفس اتنا سرکش ہے، اتنا دھو کے باز ہے کہ بار بار اپنی برائیوں کی تائید میں وہ خوبصورت جواز پیدا کرتا چلا جاتا ہے، گھڑتا چلا جاتا ہے.ہر انسان سے جب پوچھا جائے تم نے یہ حرکت کیوں کی ؟ تو بلا استثناء بلاتر قد پہلا بیان جو منہ سے جاری ہوتا ہے وہ اپنے دفاع میں ہوتا ہے اور جب آپ وہ بیان دے چکیں ، پھر کبھی ٹھنڈے دل سے بیٹھ کر غور تو کریں اس میں کتنا سچ تھا اور کتنا جھوٹ تھا.انسان نے بہر حال اپنا دفاع کرنا ہے لیکن اگر وہ غور کرے تو صلاحیت موجود ہے کہ وہ جان لے کہ میں کس حد تک جھوٹا ہوں.بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَلَوْ الْقَى مَعَاذِيرَهُ ) (القمة : ۱۵-۱۶) اتنی عظیم آیت ہے اتنی حیرت انگیز ، میں تو ہزاروں مرتبہ بھی اس کو پڑھتا ہوں تو اس کے حسن سے میں ہمیشہ اس طرح متاثر ہوتا ہوں جیسے پہلی بار دیکھی ہو اور اپنے ہر تجربے پر جب اس کو لگا تا ہوں تو ایک نئی شان کے ساتھ ابھرتی ہے.اس کا حسن کبھی پرانا نہیں ہوتا مگر اگر اپنے ذاتی تجربے پر اس کو اطلاق کر کے دیکھیں، اپنی چوریاں پکڑنا تو سیکھیں، پتا تو کریں کہ آپ ہیں کتنے چور، ہر بات میں بہانہ ہر بات میں عذر اور ہر عذر حقیقت پر پردہ ڈالنے والا اور ہر وہ پردہ جو آپ اٹھاتے ہیں وہ بھی جھوٹ، بسا اوقات اپنے ایسے حسن سے پردہ اٹھاتے ہیں جو موجود ہی نہیں ہوتا.پس یہ وہ شرک کی دنیا ہے جس میں ہم بس رہے ہیں اور موحدین بھی اس دنیا کے ظلم اور
خطابات طاہر جلد دوم 399 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء اندھیروں سے پاک نہیں ہیں جب تک پوری صفائی اور پورے قلب سلیم کے ساتھ ، پورے تقویٰ کے ساتھ ہم اپنے نفس کو نہیں پہچانیں گے ہمارا سفر تو حید کی جانب ممکن ہی نہیں ہے اور توحید کے بغیر یہ دنیا زندہ نہیں ہوسکتی.ایک ہی راہ ہے اس دنیا کو زندہ کرنے کی اور وہ تو حید کی راہ ہے.اس راہ پر چلنے کے لئے آمادہ ہوگی تو دنیا زندہ ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بعض ایسے الفاظ سے مخاطب فرمایا جن کا بہت گہرا تعلق آپ کے منصب سے تھا جو آج ہمارا بھی منصب ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا منصب ہی ہمارا منصب ہے اگر وہ نہیں تو ہم کچھ بھی نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.انتَ مِنّى بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَتَفْرِيدِي فَحَانَ أَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ ( تذکرہ:۵۳) تو مجھ سے ایسا ہے جیسا میری توحید اور تفرید سودہ وقت آ گیا جو تیری مدد کی جائے اور تجھ کو لوگوں میں معروف و مشہور کیا جائے ، تو میرا ہے اور ایسا میرا ہے جیسے میری توحید و تفرید اور میرا یکتا ہونا ایک ہونا فَحَانَ اَنْ تُعَانَ پس وقت آ گیا ہے کہ تیری مدد کی جائے وَتُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ اور تجھے دنیا سے روشناس کرایا جائے.یہ وہ الہام ہے جس پر بسا اوقات جہلاء اعتراض کرتے ہیں اور تمسخر کرتے ہیں کہ دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو گویا خدا ہونے کا دعوی کر دیا.کہتے ہیں الہام ہوا ہے أَنتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِی کہ تو میری توحید کی طرح پیارا ہے، میری تو حید ہی کی طرح ہے.پس وقت آگیا ہے کہ تیرا تعارف کروایا جائے.سوال یہ ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ خدا کی توحید کو قائم کیا جائے یا وقت آ گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف کروایا جائے.اس مضمون کو ذرا سا پلٹیں تو ایک اور طرح کا مضمون دکھائی دیتا ہے ذرا پلٹیں تو پھر ایک اور مضمون اس سے ابھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے.دیکھنے والے کی نیت اور اس کے تقویٰ سے یہ بدلتے ہوئے مناظر پیدا ہوں گے اگر ٹیڑھی نظر سے اور شرک کی نظر سے کوئی دیکھے گا تو اسے ایک شرک کا مضمون سمجھے گا، اگر صاف سیدھی تقویٰ کی نظر سے دیکھے گا اور توحید کی نظر سے دیکھے گا تو توحید کا عظیم الشان بیان اس میں پائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب اللہ نے مخاطب فرمایا تو آپ نے کیا سمجھا، آپ فرماتے ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 400 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء ”میرے نزدیک اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص بمنزلہ تو حید کے ہوتا ہے جو کہ ایسے زمانے میں آوے جبکہ توحید کی حقارت اور بے عزتی ہوتی ہو.“ اب غور سے سنیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو مفہوم سمجھا ہے یہی مفہوم ہم پر عائد ہو گا ، اطلاق پائے گا اور اس مفہوم کو سمجھ کر اور اپنی ذات میں زندہ کر کے ہم دنیا کو تو حید کی طرف بلانے کے اہل بنیں گے.فرمایا: و شخص بمنزلہ توحید کے ہوتا ہے جو کہ ایسے زمانہ میں آوے جبکہ توحید کی حقارت اور بے عزتی ہوتی ہو اور شرک کی عظمت اور قدر کی جاتی ہو.اس شخص مامور شدہ کو تو حید کی پیاس ایسی لگائی جاتی ہے کہ وہ تمام اپنے اغراض اور مقاصد کو ایک طرف رکھ کر تو حید کے قائم کرنے میں خود ایک مجسم تو حید ہو جاتا ہے اور وہ عزت کے مقام کی خاطر تو حید کے مرتبہ پر نہیں آتا وہ جانتے ہوئے کہ توحید ذلت کا نشانہ بنائی جارہی ہے تب تو حید کا نمائندہ بنتا ہے.“ پس یہ الزام کہ ایسا شخص گویا اپنی بڑائی کی خاطر ایسے دعوے کر رہا ہے اسی بات کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جھٹلا دیا اور بالکل اس الزام کی حقیقت کو پارہ پارہ کر دیا.فرماتے ہیں یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ تو حید ذلت کا نشان بن جاتی ہے جبکہ موحد ہونا عزت کا مقام نہیں رہتا جبکہ شرک کو عزت دی جاتی ہے.اب آپ دیکھ لیں جتنی بھی مشرک قو میں ہیں اور شاید ہی کوئی ایسی قوم ہو جو مشرک نہ ہو وہاں توحید ایک اجنبی سی ، ایک ایسی حقیقت بن گئی ہے جسے دھتکار دیا جاتا ہے اور موحد بندے کی کوئی قدر اور قیمت نہیں رہتی ،عزت ہے تو مشرک کی ہے.مشرک جھوٹے خداؤں کو جھوٹی عزتیں دیتا، ان کے سامنے سر جھکا تا اور اپنی مرادیں ان سے مانگتا ہے جو کچھ سمجھتا ہے ان کو ہی سمجھتا ہے.پس ہر مشرک کی جہاں عزت کی جارہی ہو وہاں ایک شخص کا بمنزلہ تو حید ہونا ایک بہت ہی عظیم مقام ذلت ہے اور اس ذلت میں ہی اس کی تمام عزت کی روح رکھ دی گئی ہے یعنی مقام ذلت ہونے کے باوجود یہ ایک عزت کی روح رکھتا ہے اور خدا کی نظر جب اس مقام پر پڑتی ہے تو فرماتا ہے تو مجھے ایسا ہے جیسا میری توحید اور خدا اپنی تو حید کو خود ایک ایسی غیرت کی شان کے ساتھ دنیا میں پھر
خطابات طاہر جلد دوم 401 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء ظاہر کرتا ہے کہ جو بمنزلہ توحید ہو چکا ہو اس کی بے عزتی گویا خدا کی بے عزتی ہو جاتی ہے اور تب دنیا میں ایک نیا دور توحید کے غلبے کا شروع ہوتا ہے مگر ہوتا انسانوں کے ساتھ ہے.پس تو حید کہیں فضاؤں میں نہیں اترا کرتی ، تو حید انسانوں میں اترتی ہے اور ایک انسان توحید کا مجسمہ بنتا ہے.وہ توحید کی خاطر جو ذلتیں برداشت کرتا ہے وہی ذلتیں ہیں جو آئندہ اس کی عزت کی ضمانت دیتی ہیں مگر وہ عزت اس کی نہیں رہتی کیونکہ وہ اپنے نفس کو مٹا کر پھر توحید کا مظہر بنتا ہے.یہ مضمون ہے جس کی مزید تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالوں سے آپ کے سامنے رکھوں گا.فرماتے ہیں: اس کے اٹھنے بیٹھنے اور حرکت اور سکون اور ہر ایک قول و فعل میں توحید کی لوا سے لگی ہوئی ہوتی ہے.دنیا میں لوگوں نے اپنے اپنے مقاصد کو بت بنارکھا ہے مگر جب تک خدا کسی کو یہ سوز و گداز توحید کے واسطے نہ لگائے تب تک نہیں لگ سکتا.“ یعنی یہ جوسوز و گداز حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمارہے ہیں کہ مجھے لگ گیا ہے یہ تو حید ہی کا کرشمہ ہے اور آپ کے موحد ہونے کا ثبوت ہے کہ کہتے ہی خیال اس طرف جاتا ہے اسے کوئی میرے نفس کی بڑائی کے طور پر نہ سمجھ لے.فرماتے ہیں تب تک نہیں لگ سکتا جب تک خدا یہ سوز و گداز عطا نہ کرے.یہ پہلا مقام بھی خدا کے فیض اور اس کے فضل کے بغیر نصیب نہیں ہوسکتا.” جیسے لوگ اولا د اور اپنی دوسری اغراض کے لئے بے قرار ہوتے ہیں حتی کہ بعض خود کشیاں کر لیتے ہیں اسی طرح وہ تو حید کے لئے بے قرار ہوتا ہے کہ خدا کی خواہشات، اس کی توحید اور عظمت اور جلال غالب آویں.اس وقت کہا جاتا ہے کہ اَنْتَ مِنْئُ بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَتَفْرِيدِی ( کہ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا میری توحید اور تفرید )‘ ( تذکرہ صفحہ ۵۳) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو آگے بڑھا کر پھر فرماتے ہیں.پس چونکہ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے خدا کا شناخت کرنا نبی کے شناخت کرنے سے وابستہ ہے.“ اب یہ دوسرا پہلو ہے جسے آپ کو یا درکھنا ہو گا خدا کی شناخت کرنا نبی کی شناخت کرنے سے
خطابات طاہر جلد دوم 402 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء وابستہ ہے.ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس میں ساری کائنات میں ایک بھی استثناء نہیں ،تو حید کا کوئی چشمہ پھوٹتا ہوا دکھا ئیں جو نبی کے بغیر پھوٹا ہو، کل عالم کی مذہبی تاریخ پر نگاہ ڈال کر دیکھ لیں تو حید کے چشمے جب بھی پھوٹے نبی سے پھوٹے ہیں.پس ایک یہ بھی معنی ہے اَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَتَفْرِيدِی کہ سب نبیوں کو خدا تعالیٰ اپنی توحید کا سر چشمہ بناتا ہے اور ان کے بغیر دنیا کو بھی سچی توحید نصیب نہیں ہوئی اس لئے یہ خود غیر ممکن اور محال ہے کہ بجز ذریعہ نبی کے تو حید مل سکے.توحید کی خاطر، تو حید کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے لئے لازم ہے کہ کسی نبی کا دامن پکڑیں.” جب خدا تعالیٰ اپنے تئیں دنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو نبی کو جو اس کی قدرتوں کا مظہر ہے دنیا میں بھیجتا ہے اور اپنی وحی اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی ربوبیت کی طاقتیں اس کے ذریعے دکھلاتا ہے تب دنیا کو پتا لگتا ہے کہ خدا موجود ہے.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه: ۱۱۶،۱۱۵) یعنی خدا جب ایک ایسے مظہر کی صورت میں دکھائی دیتا ہے جس میں خدائی طاقتیں نظر آتی ہیں اور ہر طاقت کے اظہار پر وہ کہتا ہے یہ میری نہیں ہے بلکہ اس کی ہے جس نے مجھے عطا کی ہے.پس تو حید کمال درجہ انکسار کے ساتھ وہ تو حید ہے جو خدا نما ہے اور یہ تو حید خالص جیسی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو عطا ہوئی دنیا کے پردے پر کبھی کسی کو ایسی توحید عطا نہیں ہوئی.آپ ﷺ کو خدا نے وہ کچھ دیا جو کسی اور کو نہیں دیا اور جو کچھ لوگوں کو دیا ان سے بڑھ کر آپ ﷺ کو عطا کیا.ہر خوبی کا مضمون آپ ﷺ کی ذات پر ختم ہوا اور خاتم انبیین کا یہ معنی ہے جو دراصل حقیقی معنی ہے جو علو اور مرتبت کے لحاظ سے سب معنوں سے بلند اور بالا تر ہے.ہر نبی کی تمام صفات آپ ﷺ پرختم ہوگئیں یا ہر نبی کی تمام صفات کو آپ نے ختم کر دیا اور اس سے بلند تر ہو گئے.کوئی ایک بھی صفت کسی نبی کی نہیں ہے جس میں آپ نے اسے اپنے سے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو.پس خاتمیت کا عرفان اگر ہو تو اس سے بڑھ کر عظیم الشان خاتمیت کا تصور ممکن ہی نہیں ہے اور اس کے باوجود آنحضرت ﷺ کے بجز اور انکسار کا یہ عالم تھا کہ ساری ساری رات استغفار کرتے اور شکر ادا کرتے گزار دیتے تھے.یہ وہ مضمون ہے جس کو میں انشاء اللہ آخری تقریر میں آنحضرت ﷺ کی سیرت کے تعلق میں بیان کروں گا مگر یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ توحید کا
خطابات طاہر جلد دوم 403 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء مقام اس کو عطا ہوتا ہے جو اپنے نفس کوفا کر دیتا ہے اور جس کی ہر عظمت خدا کی عظمت بن جاتی ہے اور اس پہلو سے ہرانسان کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی بھرا جاتا ہے اور یہ بھی اللہ کی شانِ عدل اور شان قسط ہے، ہر ظرف کو اس کے مطابق بھر دیتا ہے اور اس پہلو سے حضرت محمد رسول اللہ کا ظرف سب ظرفوں سے بڑا تھا تبھی آنحضور ﷺ کا ظرف بھرا ہے تو گویا کل عالم کے سمندر بھر گئے، ہر خشکی اور تری کو آپ نے بھر دیا.یہ وہ مرتبہ ہے اور مقام محمد یت ہے جو کل عالم کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اور اس کے سوا دنیا ایک ہاتھ پر اکٹھی نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اس دن سے جو ظہور فرمایا تا اس دن تک جو اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے بجز اپنے مولا کریم کے کسی کو کچھ چیز نہ سمجھا.“ براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد اصفحہ :۲۹۰) یہ آنحضرت معہ کے متعلق عشق کا ایک عجیب اظہار ہے اور عجیب عرفان کا اظہار ہے.فرماتے ہیں اس دن سے جو ظہور فرمایا اس دن تک کہ اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے اللہ کے سوا کسی کو کچھ نہ سمجھا.اب سوال یہ ہے کہ کسی کو کیسے نہیں سمجھا کیوں کچھ نہ سمجھا، آپ تو ہر کمزور کے سامنے جھک جایا کرتے تھے، آپ تو بوڑھی اور غلام عورتوں کی آواز پر بھی قدم روک لیتے تھے اور ان کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے اپنے مقدس وقت کو خرچ فرماتے تھے.ایک یتیم کی آواز بھی آپ کے لئے ایسی تھی جیسے کسی استاد کی آواز ہو، کسی بالا ہستی کی آواز ہو.تو کچھ نہ سمجھا کے کیا معنی ہیں؟ آپ تو ہر اس چیز کو کچھ سمجھتے تھے جو خدا نے پیدا فرمائی تھی مگر فیض پہنچانے کے لئے ، فیض حاصل کرنے کے لئے نہیں.پس اس مضمون کو غلط نہ سمجھیں اگر آپ دنیا کو کچھ نہیں سمجھیں گے تو آپ موحد نہیں ہوں گے بلکہ اول درجہ کے مشرک ہوں گے.دنیا کو کچھ نہ سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو بھی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر، اس کا فیض پہنچانے کے لئے رکھتے ہیں اور جب دنیا کو کچھ نہیں سمجھتے تو اس سے لینا کچھ نہیں ہے، اس سے حرص کوئی نہیں ، اس سے طلب کچھ نہیں، اس کی ضرورت کچھ نہیں، ہر ایک سے آپ کی گردن آزاد کی جاتی ہے.تب خدا ان سب گردنوں کو آنحضرت عیہ کے حضور جھکا دیتا ہے.پس یہ عجیب سلسلہ ہے آقا اور غلامی کا کہ دیکھنے میں آقا ہر ایک کا غلام بنا پھرتا ہے.آپ
خطابات طاہر جلد دوم 404 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء کی سیرت کا حیرت انگیز مضمون ہے کہ کیسے چھوٹے سے چھوٹے انسان کی خاطر بھی آپ گویا جھک گئے اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آپ نے اپنی ہمہ تن کوششیں صرف فرما دیں اور سر بلندی ایسی ہے کہ خدا کے سوا کسی کو کچھ نہیں سمجھا.جب بھی ضرورت پیش آئی خدا سے مانگا اور جب خدا کے سوا غیر اللہ کی طرف جھکنے کا سوال آیا تو اس طرح دھتکار دیا کہ اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں سمجھی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات پر غور کریں اور پھر سمجھیں کہ آپ کو کیا بننا ہے؟ ہرگز یہ مراد نہیں کہ آپ دنیا کو کچھ نہ سمجھیں، بڑے بن بن کے ان سے باتیں کریں اور کہیں ہم اعلیٰ اور افضل ہیں، ہمیں خدا نے اتنا بڑا مرتبہ عطا فرمایا ہے تم کیا چیز ہو.جب آپ یہ کریں گے دنیا بھی آپ کو دھتکار دے گی اور خدا بھی آپ کو دھتکار دے گا.دنیا کو کچھ نہیں سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ دنیا کی طرف جاتے ہیں تو ان سے طلب کرنے کے لئے نہیں جاتے اور اس میں ایک بہت بڑا گہرا مضمون ہے جو دعوت الی اللہ کرنے والوں کے لئے ایک بڑی روشنی بخشتا ہے اگر آپ دنیا کے عدد کی خاطر ، عددی برتری کی خاطر، ان کے اموال اور دولت کی برتری کی خاطر اگر ان کی سیاسی برتری کی خاطر ان کی تمنا کرتے ہیں اور ان کی طرف پہنچتے ہیں تو آپ کے متعلق یہ بات درست نہیں کہ آپ نے دنیا کو کچھ نہ سمجھا لیکن اگر خدا کی خاطر ان کو کچھ عطا کرنے کے لئے بطور ترحم ان کی طرف بڑھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کی نجات آپ سے وابستہ ہے کیونکہ آپ خدا سے وابستہ ہیں اور پھر ان کی خدمت کرتے ہیں اور ان کے سامنے جھکتے ہیں تو یہ توحید کا مضمون ہے تو ایک ہی طرح کے ملتے جلتے مضامین ایک طرف سے دیکھیں تو وہ شرک خالص دکھائی دیتا ہے، دوسری طرف سے دیکھیں تو وہ تو حید کامل دکھائی دیتی ہے، یہ فیصلہ خدا کی نظر نے کرنا ہے جو انسان کے ضمیر کی پاتال تک نگاہ رکھتا ہے.پس اپنے ضمیر کو ٹولتے ہوئے اس راہ میں آگے بڑھیں ، اپنے نفس کا تجزیہ کرتے رہیں.ہمیں حقیقت میں دنیا سے کچھ نہیں لینا اگر ہم خدا کے موحد بندے خدا کی نظر میں آجائیں تو غربت کی حالت میں جان دیں تب بھی ہم دنیا کے ہر متمول انسان سے بڑھ کر ہیں، اگر سیاسی لحاظ سے غلامانہ زندگی بسر کرتے ہوئے بھی جان دیں اگر ہم خدا کی نظر میں آتے ہیں تو یہی سب کچھ ہے لیکن جب آپ خدا کی نظر میں آتے ہیں تو خدا کی عظمت اور اس کے عرفان اور اس کی معرفت کو بڑھانے کے
خطابات طاہر جلد دوم 405 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء لئے آپ کے دل میں ایک بے اختیار آگ سی لگ جاتی ہے، یہ وہ آگ ہے جو دنیا کی آگ کو ٹھنڈا کیا کرتی ہے اور اس تڑپ کے ساتھ آپ دنیا کی طرف بڑھتے ہیں کہ جو کچھ میں نے پایا ہے میں دنیا کو بھی عطا کروں.اس پہلو سے آپ نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سیرت کو سمجھ کر قدم پر قدم ملا کر ، قدم پر قدم رکھتے ہوئے بلکہ جب بھی میں یہ کہتا ہوں تو میرے دل پہ ایک قسم کا زلزلہ سا آجاتا ہے آنحضرت کے قدم پر کیسے قدم رکھیں؟ میرا تو تصور بھی محمد رسول اللہ کے قدموں پہ سر رکھنے کی جرات نہیں پاتا.میں تو اس مضمون کو اپنے دل پہ یوں جاری کرتا ہوں کہ محمد مصطفی ﷺ کے قدموں کے نشان کو بوسے دیتے ہوئے آگے بڑھیں سجدے خدا کو کریں اور محمدمصطفی ﷺ سے اس عشق کا اظہار کریں جو خدا کو ہم سے ملانے کے احسان کے نتیجے میں بے اختیار دل سے پھوٹتا ہے.یہی وہ راہ تو حید ہے جو ساری دنیا کے لئے آج صراط مستقیم بنائی جائے گی مگر آپ نے اس صراط مستقیم کے نقوش کو اجا گر کر کے، اس کے کناروں کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہوئے جانتے ہوئے کہ کہاں قدم رکھنا ہے اور کہاں سے قدم کو روک لینا ہے، تمام خطرات کے مقامات سے آگاہ ہوتے ہوئے آپ نے سفر کرنا ہے.جب اپنے لئے آپ یہ صراط مستقیم تراشیں گے تو پھر دنیا کو دعوت الی اللہ کرنے کے مستحق ٹھہریں گے اور صراط مستقیم کوئی فرضی چیز نہیں جو باہر پڑی ہوئی ہے، ہر انسان اپنے نفس کے اندر ایک صراط تراشتا ہے، ایک رستہ بناتا ہے.جو شروع میں ایک چھوٹی سی پگڈنڈی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے پھر وہ بڑھتا چلا جاتا ہے پھیلتا چلا جاتا ہے اور اگر وہ اس کی روش آنحضرت ﷺ کے قدموں کی روش سے مماثلت رکھتی ہو یعنی ان کی غلامی میں وہ قدم اٹھائے جارہے ہوں تو ہر اگلے قدم کے ساتھ یہ صراط بڑھتی چلی جاتی ہے، چوڑی ہوتی چلی جاتی ہے، محفوظ تر ہوتی چلی جاتی ہے.پس اس جذبے کے ساتھ اس مضمون کو سمجھتے ہوئے ہم نے دنیا کو تو حید کی طرف بلاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: نادان اور جاہل لوگ نفس امارہ کی تعلیم سے ایک بات سیکھ لیتے ہیں کہ صرف توحید کافی ہے نبی کریم ﷺ کی پیروی کی ضرورت نہیں.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه : ۱۸۰)
خطابات طاہر جلد دوم 406 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء فرماتے ہیں یہ بات کس سے سیکھتے ہیں؟ نفس امارہ کی تعلیم سے یعنی اس بات کے پیچھے کوئی نیکی کا جذ بہ نہیں ہوتا ، ان کی انانیت کی گمراہی ہے جو ان کے لئے یہ بہانہ تراشتی ہے اور توحید کے نام پر وہ شرک پیدا کرتے ہیں اور خود خدا بن بیٹھتے ہیں.وہ کہتے ہیں محمد مصطفی ﷺ کی یا کسی اور خدا کی طرف سے آئے ہوئے بندے کی ضرورت کیا ہے ، توحید کافی ہے.مگر یادر ہے کہ توحید کی ماں نبی ہی ہوتا ہے جس سے توحید پیدا ہوتی ہے اور خدا کے وجود کا اس سے پتا لگتا ہے اور خدا تعالیٰ سے زیادہ اتمام حجت کو کون جانتا ہے.اس نے اپنے نبی کریم کی سچائی ثابت کرنے کے لئے زمین و آسمان نشانوں سے بھر دیا ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه: ۱۸۰) اب دیکھیں قرآن کریم نے جس کثرت سے نشان ہمارے سامنے رکھے ہیں اگر آنحضرت ﷺ کے وجود کو بیچ سے نکال دیں تو قرآن کہیں فضا سے لٹکتا ہوا تو نہیں اتر سکتا تھا؟ قرآن نبی کے دل پر نازل ہوا ہے اور قرآن عظیم جس کو ” الکتاب“ کہتے ہیں جو ”القرآن“ ہے وہ صلى الله صرف حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دل پر نازل ہوا ہے.پس آپ سے فیض پائے بغیر کوئی انسان کہے کہ میں تو حید کو سمجھ سکتا ہوں اس سے بڑی جہالت اور کوئی ممکن نہیں ہے.جتنے بھی نشانوں کی طرف آپ کی راہنمائی ہوتی ہے آج قرآن ہے جو انگلیاں اٹھا اٹھا کر وہ نشان دکھا رہا ہے اور ہر زمانے کے نشان قرآن کے مرہون منت ہیں.اس قرآن کے مرہون منت ہیں جو حضرت محمد مصطفی مے کے عرش قلب پر نازل ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”خدا تعالیٰ اس زمانہ میں بھی اسلام کی تائید میں بڑے بڑے نشان ظاہر کرتا ہے اور جیسا کہ اس بارہ میں میں خود صاحب تجربہ ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اگر میرے مقابل پر تمام دنیا کی قو میں جمع ہو جائیں اور اس بات کا بالمقابل امتحان ہو کہ کس کو خدا غیب کی خبریں دیتا ہے اور کس کی دعائیں قبول کرتا ہے اور کس کی مدد کرتا ہے اور کس کے لئے بڑے بڑے نشان دکھاتا ہے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی غالب رہوں گا.ہزار ہا نشان خدا نے محض اس لئے مجھے دیئے ہیں کہ تادشمن معلوم کرے کہ دین اسلام سچا ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد۲۲ صفحه: ۱۸۲٬۱۸۱)
خطابات طاہر جلد دوم 407 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فرماتے ہیں کہ جو کچھ تم میرے ہاتھ پہ رونما ہوتے دیکھتے ہو یہ آنحضرت ﷺ کے فیوض کے سمندر کا ایک قطرہ ہے اس میں ہرگز کوئی شک کی بات نہیں، سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اقرار کرتے ہیں خدا کو گواہ بنا کے سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا ( در مشین : ۸۴) پس آنحضرت ﷺ کی کامل پیروی کے بغیر اور آپ سے فیض یافتہ ہونے کے بغیر دنیا میں کوئی زندگی نہیں ہے، زندگی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے.پھر عرض کرتے ہیں کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کا ذکر کر رہے ہیں اس لئے میں کہتا ہوں پھر عرض کرتے ہیں: ”میں اپنی کوئی عزت نہیں چاہتا بلکہ اس کی عزت چاہتا ہوں جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۸۲) یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی شان صداقت کو ظاہر کریں اور ان سچائیوں کو دنیا کے سامنے پیش کریں جو آنحضرت ﷺ کے دل پر اتری تھیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: تو حید ایک نور ہے جو آفاقی و انفسی معبودوں کی نفی کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه : ۱۴۸) ابھی میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ اپنے دل کے شرک کے پردوں کو ایک ایک کر کے اتارتے چلے جائیں اور اگر آپ سچائی کا سفر اختیار کرتے ہیں اگر اپنی خواہشات کے بت دیکھنے کی تمنا لئے بغیر آپ اپنے نفس کے پردوں کو دور کرتے ہیں تو آخر خلا کے سوا آپ کو کچھ نہیں ملے گا،خدا کے سوا کوئی اور وجود نہیں ہوگا.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہایت عارفانہ رنگ میں آفاق کے حوالے سے بھی بیان کر رہے ہیں اور انفس کے حوالے سے بھی بیان فرمارہے ہیں.فرماتے ہیں تو حید ایک نور ہے جو آفاقی اور انفسی معبودوں کی نفی کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے.“
خطابات طاہر جلد دوم 408 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء مضمون کے تمام پہلوؤں پر یہ حاوی ایک چھوٹا سا جملہ ہے.آفاقی طور پر ہم خدا کے سوا بہت سی چیزوں کو بڑاد یکھتے ہیں اور بڑا سمجھتے ہیں.وہ دنیا کی کسی قسم کی عظمتوں سے تعلق رکھنے والی بات ہو، اس کا نام جو بھی آپ رکھیں.حقیقت یہ ہے کہ وہ فرضی عظمت جو انسان نے اپنا رکھی ہے وہ انسان کو آفاقی طور پر بت بنا کر دکھاتی ہے.یہاں تک کہ ناچنے گانے والے بھی ایک عظمت اختیار کر لیتے ہیں اور حقیقہ ان کی بھی عبادت شروع ہو جاتی ہے.وہ لوگ جوسر منڈا کے پھرتے ہیں ان کی بھی ایک عظمت کا رعب طاری ہو جاتا ہے.پس وہ انسان جس نے ضرور پوجنا ہے، کسی کو ضرور پوجنا ہے جب خدا کو نہیں پوجتا تو اس کے معبود ذلیل سے ذلیل تر ہوتے چلے جاتے ہیں.دنیا کی کمینی چیزوں کو پوجنے لگتا ہے جن میں کوئی بھی حقیقت نہیں.جو اس کو کچھ دے نہیں سکتے بلکہ اُس سے اس کا سکون چھین لے جاتے ہیں.کسی مشکل میں اس کے کام نہیں آسکتے ، کوئی ذاتی مرتبت اس کو عطا نہیں کر سکتے مگر انسان پوجے بغیر رہ نہیں سکتا.پس اس دنیا میں شرک دراصل اس تڑپ سے پیدا ہوتا ہے جو خدا کی خاطر لگائی گئی مگر اس کا رخ ہم موڑ کر غیر اللہ کی طرف کر دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں یہ آفاقی معبود ہیں جو ہمیں اپنے چاروں طرف سے گھیرے میں لئے ہوئے ہیں.کبھی ہم اس کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں، کبھی اُس کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں، کبھی مال و دولت کی خاطر، کبھی سیاسی عظمتوں کے لئے کبھی جاہ ومرتبت کے لئے، کبھی اپنے نفس کی شان بنانے کی خاطر کہ ہماری ادائیں زیادہ حسین ہیں، ہمارا لباس زیادہ دلکش ہے.کئی قسم کے روپ دھارتے رہتے ہیں اور ہر روپ ایک خدا کا مظہر ہے جو جھوٹا خدا ہے اورنفس کے معبود، بت اور ہیں جو کثرت کے ساتھ دل میں پیدا ہوتے ہیں ، ہر وقت انسان کے اندر کوئی نہ کوئی بت جنم لے رہا ہوتا ہے.پس بعض لوگوں کی دنیا بتوں سے بھر رہی ہوتی ہے اور بعضوں کی دنیا جب وہ توحید کی طرف سفر شروع کرتے ہیں بتوں سے خالی ہو رہی ہوتی ہے اور ان دو حالتوں میں سے کوئی انسان دو میں سے ایک سے خالی ہے ہی نہیں.لاز مایا اس کے اندر بت بڑھ رہے ہیں یا بہت کم ہورہے ہیں.درمیانی حالت محض ایک جھوٹ اور فرض ہے، ایک فرضی بات ہے اور آپ نے دیکھنا ہے کہ آپ کا قدم کسی طرف اٹھ رہا ہے اگر نئی نئی خواہشات جنم لیتی چلی جا رہی ہیں اور آپ کو ذکر الہی سے غافل کر رہی ہیں، دین کے اعلیٰ مقاصد سے آپ بے خبر ہوتے چلے جارہے ہیں آپ کی لگن
خطابات طاہر جلد دوم 409 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء آپ کی تو جہات کا مرکز اور سے اور چیزیں بنتی چلی جارہی ہیں، اگر تجارتیں ہیں جو ایسے غالب آ جاتی ہیں کہ ہمیشہ ان کے گھٹنے کا خوف آپ کے لئے جان لیوا بنتا رہتا ہے اور ان کے بڑھنے کی تمنا آپ کی حرص کو بڑھاتی چلی جاتی ہے.تو یا درکھیں آپ بت پرست ہیں اور یہ بت وہ ہیں جو آگے اور بتوں کو پیدا کرتے چلے جاتے ہیں، نہ ختم ہونے والا بتوں کی پیدائش کا ایک سلسلہ ہے جو جاری ہو جاتا ہے اور جب آپ بت توڑنے لگتے ہیں تو پھر یہ واپسی کا سفر ہوتا ہے جوتو حید کی طرف ہے.پس باشعور طور پر آپ کو توحید کی طرف سفر اختیار کرنا ہوگا.بیرونی بتوں کو بھی توڑ نا ہوگا جو آفاقی بت ہیں اور انفسی بتوں کو بھی ، اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فصاحت و بلاغت کا کمال ہے کہ نفسی نہیں فرمایا انفسی فرمایا ہے کیونکہ انفسی بت محبت کے تعلقات کے بت ہوتے ہیں کبھی وہ اپنی ذات سے ہوتے ہیں، کبھی اپنے محبوب کی نسبت سے وہ انفسی بت بن جاتے ہیں اور کئی قسم کے انفسی بت ہیں جو بچے بھی ہیں، بیویاں بھی ہو سکتی ہیں ، خاوند بھی ہو سکتے ہیں، بھائی بھی بن جاتے ہیں اور اپنے رومانی محبوب یا فرضی معشوق ہیں ان سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام انفسی بت کہہ رہے ہیں.پس فرماتے ہیں جب ان سے وجود خالی ہوگا تو پھر تم دیکھو گے کہ تب وہ نور جو خدا کی توحید کا نور ہے وہ تمہارے دلوں میں تمہارے ذرے ذرے میں سرایت کر جائے گا.پہلے انخلاء کا دور ہے لا الہ کا دور ہے پھر اِلَّا اللہ کا دور شروع ہوتا ہے لیکن پہلے بھی میں آپ کو سمجھا چکا ہوں اس خیال سے آپ دلبر داشتہ نہ ہوں مایوس نہ ہوں کہ بہت لمبا سفر ہے اور زندگی کے دن تھوڑے ہیں اور پتا نہیں کہ ہم کب مر جائیں اور ہماری طاقت محدود ہے، ہماری تمنائیں زیادہ شدید ہیں اور ایک مدت سے ہمیں غیر اللہ کی غلامی کی عادت پڑ چکی ہے کیسے ان غلامی کی زنجیروں کو تو ڑ کر خدا کی غلامی کی زنجیریں پہنیں گے؟ جو در حقیقت ہر دوسری غلامی سے آزاد کرنے والی زنجیریں ہیں.اس خوف سے مرعوب ہوکر ، خوف زدہ ہو کر سفر کے ارادے ترک نہ کریں کیونکہ یہ وہ سفر ہے جو ہر حال میں گناہ کے انتہائی مقام سے بھی شروع ہوسکتا ہے.وہ مثال بھی میں آپ کے سامنے بار ہا رکھ چکا ہوں جو آنحضرت ﷺ نے ہمارے سامنے بیان فرمائی، اس کا مرکزی نقطہ یہی تھا.ایک ایسا شخص تھا جو اتنے گناہ کر چکا تھا کہ ان گناہوں سے
خطابات طاہر جلد دوم 410 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء بڑھ کر اضافے کا کوئی تصور اس کو نہیں آتا تھا.وہ تلاش بھی کرتا تو سوچ نہیں سکتا تھا کہ ان پر میں کیسے اب کسی گناہ کا اضافہ کر سکوں.تب اسے واپسی کا خیال آیا تب اس کے دل میں بے قراری پیدا ہوئی کہ میں مرنے سے پہلے پہلے ایسی توبہ کرلوں کہ خدا تعالیٰ یہ سارے گناہ بخش دے.ایک کے بعد دوسرے بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہر بزرگ نے اسے مایوسی کا پیغام دیا اور کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے اس حد تک جانے کے بعد واپسی ممکن نہیں.مگر آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں پھر بھی اس کی واپسی ممکن تھی.یہ ایک ایسا مضمون ہے جو بارہا آپ کو سنا چکا ہوں اور بالآخر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ بدیوں کے شہر سے نیکیوں کے شہر کی طرف ہجرت شروع کر دیتا ہے.یہی مضمون ہے جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں بت شکنی کا دور لمبا ہے اور پتا نہیں ہماری عمر کتنی ہے، ہم زندگی میں اپنے سارے بت تو ڑ بھی سکیں گے کہ نہیں اور ہر ٹوٹے ہوئے بت کی جگہ خدا کی توحید کا کوئی نور جگہ بنائے گا کہ نہیں بنائے گا ؟ آپ کے لئے یہ خوشخبری کا پیغام ہے کہ وہ شخص جس کی مثال آنحضرت ﷺ نے دی وہ ابھی نیکیوں کے شہر سے بہت دور تھا کہ رستے میں اس کی واپسی کا حکم آ گیا لیکن آخری دم تک کہنیوں کے بل، الٹا اوندھے لیٹا ہوا ، وہ سرکتا ہوا نیکیوں کے شہر کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ قضاء کے فرشتے نے اسے آلیا.تب خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ یہ میری طرف حرکت کر رہا تھا، بدیوں کے شہر سے نیکیوں کی طرف حرکت توحید کی طرف حرکت ہے.اس کا فیصلہ میں ایسے کروں گا کہ تم ان دو شہروں کے درمیان فاصلے ناپو، نیکیوں کے شہر کا فاصلہ مرتے وقت جہاں اس نے دم تو ڑا ہے جہاں اس کا جسم گرا اور خاک ہوا اس جسم سے اس شہر کا فاصلہ کتنا تھا جو نیکیوں کا شہر تھا یعنی نیکیوں کا شہر مراد ہے نیکیوں کی طرف حرکت کرتے ہوئے کامل طور پر نیک ہو جانا اور پھر وہ فاصلہ نا پو جو بدیوں کے شہر سے تھا اگر یہ ایسی حالت میں مرا ہے کہ بدیوں کے شہر کے قریب تر تھا تو پھر بے شک یہ جہنم کا سزاوار ہوگا لیکن اگر ایسی حالت میں جان دی ہے کہ نیکیوں کے شہر کے قریب تر تھا تو پھر اس پر جنت واجب ہو جائے گی اور یہ حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے یہ حیرت انگیز رحمت کی تقدیر دکھائی کہ فرشتوں کے وہ گز جو بدیوں کی طرف کی سمت ناپ رہے تھے چھوٹے ہو گئے اور اتنے چھوٹے ہوئے کہ وہ فاصلہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا.جیسے ایک گز کو ایک ملی میٹر میں آپ تبدیل کر دیں تو ایک گز کا فاصلہ طے کرنے میں کتنے ملی میٹر استعمال ہوں گے غرضیکہ وہ فاصلہ اتنا دور کا دکھائی دینے لگا جیسے وہ ختم ہونے میں نہیں آتا
خطابات طاہر جلد دوم 411 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء تھا.جب نیکیوں کی طرف کی پیمائش شروع ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے گز لمبے کر دیئے یعنی ایک ایک میل گویا ایک ایک گز میں ناپا جانے لگا اور باوجود دوری کے وہ شہر بالکل قریب دکھائی دیا.یہ ایک تمثیل ہے جو آنحضرت ﷺ نے خدا تعالیٰ کی رحمت سمجھانے کی خاطر ہمیں دی ہے اور بہت ہی پیاری تمثیل ہے.آخری نقطہ اس کا یہ ہے کہ تم سفر شروع کرو، سفر شرط ہے انجام کی فکر نہ کرو اگر اخلاص کے ساتھ تو حید کی جانب تمہارا سفر ہوگا تو جس قدم پر جان دو گے وہاں خدائے واحد و یگانہ تمہیں سنبھالنے کے لئے کھڑا ہو گا، تو خدا کی گود میں جان دو گے.اس عظیم وعدے کے بعد پھر آپ کو کیا فکر ہے کہ کتنے بت پڑے ہیں جو ابھی ہم نے توڑنے ہیں، کتنا سفر پڑا ہے جو ہم نے اختیار کرنا ہے.کامل خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہوئے بجز کے ساتھ اس کے حضور جھکتے ہوئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ یہ سفر شروع کر دے.پھر اس کی آواز میں ایک غیر معمولی طاقت پیدا ہو جائے گی، پھر خدا اسے بھی وہ اعجاز دکھائے گا جو ابراہیم کو بتایا گیا تھا کہ امت محمدیہ کے لئے یہ اعجاز مخصوص فرمایا گیا ہے کیونکہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے لوگوں کو زندگی کے لئے بلانے والا ایک ہی نبی ہے جومحمد مصطفی ﷺ ہے.اس کے سوا کون ہے جو پہلے عالمی نبی بر پا ہوا ہو.پس لازماً جو تمثیل میں نے آپ کے سامنے رکھی جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو سمجھائی.وہ تمثیل حضرت محمد مصطفی ﷺ کے زمانے میں پوری ہونی تھی اور آپ ہی کے زمانے پر صادق آنی تھی.پس آپ ابراہیمی طیور بہنیں اور ابراہیمی طیور بنانے کے لئے خدا سے پہلے دعائیں مانگیں، تو ابراہیمی طیور بنیں گے، زندگی پائیں گے اور یہ ایک عجیب مضمون ہے کہ ہر پرندہ جو ابراہیمی پرندہ بنتا ہے وہ آگے ابراہیمی پرندہ بنانے کی صلاحیت پا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ سے وہ فیض حاصل کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی آواز پر بھی دنیا لبیک کہتی ہے مگر یہ فَصُرْهُنَّ کا مضمون ہے جو آپ کو نہیں بھولنا چاہئے.بنی نوع انسان کو حقیر نہ سمجھیں ، یہ دعوے نہ کریں کہ گویا آپ ہی خدا کے خاص بندے ہیں جن کو خدا نے اپنے لئے چن لیا ہے اور باقی سب دنیا حقیر اور بے حقیقت ہے.یہ مضمون توحید سے متصادم مضمون ہے، تمام بنی نوع انسان جب آپ کے دل میں ایک مقام حاصل کر لیں ایک کی جاپالیں جبکہ مذہب وملت کی تفریق بھی اٹھتی ہوئی دکھائی
خطابات طاہر جلد دوم 412 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء دے جب کالے اور گورے کی تمیز مٹ جائے ، جب شمال اور مشرق کی سمتیں بے معنی اور بے حقیقت ہو کر دکھائی دیں تب توحید کا قیام ممکن ہے اور یہ تصور اپنے دل میں ایک حقیقت کے طور پر جاگزیں کریں کہ وہ تصور نہ رہے بلکہ ایک حقیقت بن کر آپ کی عادات آپ کی حرکات وسکنات میں رونما ہونے لگ جائے.آپ اس تصور کی تصویر بن کے جاگ اٹھیں تب آپ کو توفیق ملے گی کہ آپ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے جن روحانی پرندوں کو بھی بلائیں گے وہ آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے دین واحد پر جمع ہو جائیں گے.الله مگر نقطہ فَصُرْهُنَّ کا یا درکھیں.بلانا ہے تو پیار اور محبت سے بلانا ہوگا تکبر اور نخوت سے نہیں، پرندے بھی اگر آپ ان سے پیار نہ کریں تو آپ کی بات کا جواب نہیں دیتے اور جانور بھی یہاں تک کہ خونخوار جانور بھی اگر آپ ان سے پیار کا سلوک کریں تو آپ کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں.آپ نے کبھی چڑیا گھر کے شیروں کو دیکھا ہے؟ جو ان کو روٹی ڈالتا ہے جو ان کو گوشت دیتا ہے، اس کے سامنے دیکھیں کیسے وہ سر جھکا دیتے ہیں.کبھی سرکس کے شیروں کو دیکھا ہے کہ کس طرح وہ اپنے مالک کے حکم پر گردنیں جھکاتے اور اُس کو سواری کے لئے اپنی پیٹھ اس کے سامنے پیش کر دیتے ہیں.تو فصرهُنَّ کا مضمون ایک بہت ہی عظیم مضمون ہے.آپ کی راہ میں ہر قسم کے انسان آئیں گے، زیادہ سے زیادہ ایک درندہ صفت ہے جو آپ کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے.جو خود آپ کو چیر پھاڑ کر کھانے کے لئے آگے بڑھتا ہے مگر یہ فصر ھن کا مضمون ایسا مضمون ہے جو ان اخلاق حسنہ سے جو آنحضرت ﷺ کو بطور خاص عطا ہوئے ، اس میں ادنیٰ بھی شک نہیں ہے کہ دین کی راہ کے خونخوار بھیڑیے بھی آپ کے قدموں پر لوٹنے والے فدائی بن جائیں گے.جنگل کے شیر بھی بپھریں گے تو اوروں پر بپھریں گے ، آپ کے سامنے اطاعت کے ساتھ گردنیں جھکا دیں گے.پس آنحضرت ﷺ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کے لئے وہ ابراہیمی روح پیدا کریں جو دلوں کو گرویدہ بنا دینے والی روح تھی مگر اس کا آخری کامل اظہار آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ہوا اور آپ نے کر کے دکھا دیا.پس ان چاروں سمتوں کا تصور جو قرآن کریم میں پیش فرمایا گیا ہے مجھے اس میں ادنیٰ بھی شک نہیں یہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں رونما ہونے والا معجزہ تھا اور یہ آپ کے رحمۃ للعالمین ہونے کے نتیجے میں رونما ہونا تھا اور آج بھی آپ کے رحمۃ للعالمین ہونے کے نتیجے
خطابات طاہر جلد دوم 413 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء میں رونما ہو گا.تمام دنیا کے اوپر اپنی رحمت کا پر جھکا دیں، دنیا کے سامنے اپنے نفس کو کالعدم کر دیں اور گرا دیں، اس غرض سے نہیں کہ آپ نے ان سے کچھ لینا ہے اس غرض سے کہ آپ نے کچھ عطا کرنا ہے اگر آپ ان سے پیار کا سلوک نہیں کریں گے تو عطا کرنے کی بھی اہلیت نہیں ہوگی.ماؤں سے سبق سیکھیں بعض دفعہ وہ ضدی بچوں سے جو ان کو ٹانگیں مارتے ہیں جو ان کے منہ نوچتے ہیں کہ ہم نے دوائی نہیں پینی، دیکھیں کس طرح پیار اور محبت کا سلوک کر کے سینے سے لگا کر ، بار بار محبت کی لوریاں دے دے کر، پیار سے چمٹا کر منتیں کر کے روتے ہوئے آخر ان کو منا ہی لیتی ہیں اور وہ بچے بالآخر ، وہ بگڑے ہوئے بچے بالآخر سدھ کر اپنی ماں سے وہ کڑوے گھونٹ پی لیتے ہیں.میں نے خود دیکھا ہے اپنے گھر میں دیکھا ہے بچہ ضد کر رہا ہے میں نے یہ نہیں کرنا، مائیں پیار کرتی چلی جاتی ہیں ان کے نخرے برداشت کرتی چلی جاتی ہیں یہاں تک کہ بچے کا دل نرم پڑ جاتا ہے.تو یہی وہ روح ہے کامیابی کی روح جو آنحضرت ﷺ کو تمام دنیا کے لئے عطا کی گئی تھی اور تمام دنیا کی طرف مبعوث ہونے والا ایک ہی نبی ہے اسی کی نمائندگی میں آپ نے تمام دنیا کو خدا کی طرف بلانا ہے لیکن یا درکھیں رعونت اور تکبر کے ساتھ نہیں پیار اور محبت کے ساتھ اگر آپ ایسا کریں گے اور مجھے یقین ہے کہ آپ ایسا کریں گے کیونکہ پہلے ہی میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ اس سفر پر روانہ ہو چکے ہیں وہ عظیم انقلابات جن کو ہم دور کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اب تیزی کے ساتھ ہماری طرف بڑھ رہے ہیں.ہم خدا کے فضلوں کی بارش ہوتی دیکھ رہے ہیں، ہر سال نئے فضل لے کر آتا ہے.پس مجھے یقین ہے کہ احمدی کا قدم صدق کی راہوں پر ہے کمزوریوں کے باوجود، دنیا دیکھتی ہے کہ یہ احمدی کمزور ہیں مگر چونکہ اپنی کمزوریوں کے باوجود وہ کامل خلوص کے ساتھ خدا کی خاطر یہ تکلیفیں برداشت کرتا ہے، خدا کی خاطر اپنی عزتیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتا ہے، گالیاں کھا کر دعا کرنے کے لئے اس کا دل اسے مجبور کرتا ہے تصنع سے نہیں کرتا.یہ محبت اور یہ پیار جب آپ کے دل میں بنی نوع انسان کا پیدا ہو گا تو میں یقین دلاتا ہوں کہ شرق و غرب کی دیوار میں مسمار کر دی جائیں گی، کوئی قومی دیوار آپ کی راہ میں حائل نہیں ہو سکے گی.آپ کے مقدر میں پھر بڑھنا لکھا ہے اور بڑھتے چلے جانا لکھا ہے.آگے بڑھیں اور محمد مصطفی ﷺ کی محبت کے پیامبر بن کر آگے بڑھیں، آپ کی رحمت کے پیامبر بن کر آگے بڑھیں.ہر نفرت کو آپ رحمت میں تبدیل کر دیں گے، ہرانا کو
خطابات طاہر جلد دوم 414 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء بحجز میں تبدیل کردیں گے، ہر تکبر ٹوٹ کر آپ کے قدموں پہ بکھر جائے گا تب دنیا میں وہ توحید ظاہر ہوگی جو اللہ کی تو حید محمد مصطفی ﷺ کے حوالے سے، آپ کی برکت سے، آپ کے واسطے سے ہمیں عطا ہوئی ہے.خدا کرے کہ وہ دن جلد سے جلد تر آئیں.آمین اب کل کا دن خدا کے فضلوں کے ذکر کا دن ہو گا.میں آپ کے سامنے انشاء اللہ تعالیٰ اس مضمون کو نسبتاً کھول کر زیادہ معتین حوالوں کے ساتھ پیش کروں گا.جب میں کہتا ہوں کہ جن راہوں پر میں آپ کو بلا رہا ہوں اللہ نے خود آپ کو بلا لیا ہے اور آپ کے قدم ان راہوں کی طرف تیزی سے اٹھ رہے ہیں تو اس میں ایک ادنیٰ بھی مبالغہ نہیں ہے، بالکل حقیقت کا اظہار ہے مگر اس کے باوجود میں دیکھ رہا ہوں کہ ابھی بہت سی کمزوریاں ہم میں ہیں جنہیں دور کرنا باقی ہے.کسی نخوت کی وجہ سے نہیں بلکہ اظہار حقیقت کے طور پر میں یہ تسلیم کرنے پہ مجبور ہوں کہ مجھ میں بھی بہت سی کمزوریاں ہیں جن کا دور کرنا باقی ہے، آپ میں بھی بہت سی کمزوریاں ہیں.اگر خدا نے اتنے فضل فرمائے ہیں تو ان فضلوں کے تشکر کے اظہار کا ایک یہ بھی تو ذریعہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو پہچانیں اور جان لیں کہ ان کمزوریوں کے باوجود خدا فضل فرما رہا ہے.اگر خدا کی خاطر ان داغوں کو دھونا شروع کریں گے، اگر خدا کی خاطر اپنے اندرونوں کو صاف کرنا شروع کر دیں گے تو پھر دیکھیں خدا اپنے فضلوں کو کس طرح بڑھاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اقتباس پر میں اب اس افتتاحی خطاب کو ختم کرتا ہوں.جو اللہ کے عشق سے پھوٹا ہے اس کی توحید کے سرچشمے سے جاری ہوا ہے فرماتے ہیں.” میری ہمدردی کے جوش کا اصل محرک یہ ہے کہ میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے.( میں جو بنی نوع انسان سے ہمدردی کا اس قدر جوش رکھتا ہوں تو کیوں رکھتا ہوں ) اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولت مند ہو جائیں گے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے.وہ ہیرا کیا ہے سچا خدا!
خطابات طاہر جلد دوم 415 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1996ء اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچاننا اور سچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا اور کچی برکات اس سے پانا.پس اس قدر دولت پا کر سخت ظلم ہے کہ میں بنی نوع انسان کو اس سے محروم رکھوں اور وہ بھوکے مریں اور میں عیش کروں.یہ مجھ سے ہر گز نہیں ہوگا.( اربعین ، روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۳۴۴۰) پس اس جذبے کے ساتھ آپ کی دعوت الی اللہ و رنگین ہو جانا چاہئے پھر اللہ تعالیٰ آپ کی بھوک بھی مٹائے گا اور آپ بنی نوع انسان کی بھوک مٹانے والے بھی بنیں گے، پھر قو میں آپ کے دستر خوان سے توحید کی نعمت کھائیں گی.اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین دعا میں شامل ہو جائیں.جو افتتاحی خطاب ہوا کرتا ہے اس کے بعد افتتاحی دعا ہوا کرتی ہے.تو آئیے اب دعا میں شامل ہو جائیں.
خطابات طاہر جلد دوم 417 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء ۱۸۹۷ء میں لیکھرام کی درد ناک موت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فتح ۱۹۸۸ء میں ضیاء الحق کی موت بھی احمدیت کی سچائی پر گواہ ہے.افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۲۵ جولائی ۱۹۹۷ء بمقام اسلام آباد لفورڈ برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.جلسہ سالانہ یو.کے ۱۹۹۷ء کے اس افتتاحی اجلاس میں میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہونے والا ۱۸۹۷ء کا جلسہ موضوع تقریر بنایا ہے.یعنی اُس جلسہ میں کیا کچھ ہوا اور کیا کیا خصوصیات ایسی تھیں جو اُس زمانہ میں ظہور پذیر ہوئیں اور آج ایک سوسال کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ برطانیہ کے اس ۱۹۹۷ء کے جلسہ میں بھی ان مماثلتوں کا کچھ ذکر چلے گا.حیرت انگیز طور پر اُس جلسہ میں اور اس جلسے میں کچھ مماثلتیں پائی جاتی ہیں.مگر اس سے پہلے کہ میں ان کی تفصیل بیان کروں میں مختصر آپ کے سامنے یہ بات رکھتا ہوں کہ تین دن کے جلسہ کی مماثلت بہر حال اُس جلسے میں اور اس جلسہ میں نہیں تھی.وہ ایک عجیب جلسہ تھا جو آٹھ دن تک برابر جاری رہا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں نہ کبھی ایسا جلسہ پہلے آیا نہ کبھی ایسا جلسہ بعد میں رونما ہوا.پس یہ تنہا ایک ہی جلسہ تھا جو مسلسل آٹھ روز جاری رہا اور اس جلسہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تین تقاریر فرما ئیں اور وہ تقاریر جب میں نے دیکھیں تو میں حیران ہوا کہ وہ تمام مضامین ان تقاریر میں بیان ہوئے ہیں جو مضامین میں گزشتہ ایک
خطابات طاہر جلد دوم 418 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء سال سے جماعت احمدیہ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اور میرا دل اس یقین سے بھر گیا کہ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آسمانی تائید تھی جو مجھے ان مضامین کو آپ کے سامنے پیش کرنے پر آمادہ کر رہی تھی.اُس جلسہ کی خصوصیات جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.اوّل یہ کہ آٹھ دن جاری رہا.آج بھی ۲۵ تاریخ ہے ، یہ جلسہ بھی ۲۵ دسمبر کو شروع ہوا تھا اور یکم جنوری کو اختتام پذیر ہوا اور یہ پہلا جلسہ ہے اور آخری جلسہ ہے جس کی تمام روئیداد محفوظ کی گئی.ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کسی جلسہ کی تمام تر روئیدادمحفوظ نہیں کی گئی اور شائع کی گئی اور آج وہ روئیداد مکمل طور پر ہمارے سامنے ہے.دیگر تقاریر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ دیگر مقررین نے کی تھیں ان میں ایک حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی تقریر تھی.”جو قر آنی تحریوں اور پیشگوئیوں کے فلسفہ اور اعجاز قرآنی پر مشتمل دو تقاریر تھیں.پس حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کو اس جلسہ میں دو تقاریر پیش کرنے کا موقع ملا جو تمام تر قرآنی اعجاز کے تعلق میں تھیں.دوسری تقریر حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب بھیروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تھی.آپ نے آیت استخلاف پر تقریر فرمائی اور اُس کی ایک بہت ہی لطیف تشریح پیش فرمائی.یہ دونوں تقاریر بھی محفوظ ہیں.۱۸۹۷ء احمدیت کے لئے برکتوں اور نصرتوں کا سال اور غیروں کے لئے عام الحزن تھا.یہ بات آپ کے یادرکھنے کے لائق ہے کہ یہ وہ سال تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بہت سے پہلوؤں سے عظیم الشان نفرتیں عطا ہوئیں اور یہ وہ سال ہے جو اُس زمانہ کی تاریخ میں عام الحزن کہلا تا تھا کیونکہ طرح طرح کے آسمانی اور زمینی ایسے عذاب نازل ہوتے رہے اور اس کثرت سے دنیا کو دکھ ملے کہ اُس زمانہ کے لکھنے والوں نے اُس سال کو عام الحزن قرار دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں یہ سال بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں درین صفحہ :۵۰) کی صورت میں ظاہر ہوا اور بہت کثرت کے ساتھ احمدیت کے حق میں نشانات ظاہر ہوئے.۱۸۹۷ء اپنی نوع کے لحاظ سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمنوں کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے لئے ایک غموں کا سال کہلاتا ہے.قحط، مصائب و شدائد کثرت سے
خطابات طاہر جلد دوم 419 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء دنیا پر نازل ہوئے اور ایک ایسی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ کی سنت تھی جو جاری ہو رہی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید میں." دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہیں کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.(تذکرہ صفحہ: ۸۱) یہ الہام تھا جو اُس سال بڑی شان اور شوکت کے ساتھ پورا ہورہا تھا.عجیب بات یہ ہے کہ ۱۸۹۷ء کے عام الحزن کے مقابل پر ۱۹۹۷ ء کا سال پاکستان کے لئے عام الحزن بن چکا ہے اور یہ ایک ایسی مماثلت ہے جو ہماری بنائی ہوئی نہیں بلکہ غیروں نے اسے عام الحزن ہی قرار دیا یعنی اُس پاکستان کے لئے جو احمدیت کو مٹانے کے درپے ہے.اور ہر طرح سے جماعت احمدیہ پر مظالم توڑے گئے اور جماعت احمدیہ کی ترقی کے راستے روکے گئے.ان سب چیزوں میں وہ نامرادر ہے جو کچھ حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ آج پاکستان کے اخبارات میں یہ سرخیاں چھپ گئی ہیں کہ یہ آج کا سال عام الحزن ہے.قتل وغارت، دہشت گردی ، اغواء، ڈکیتی ، گینگ ریپ یہ سارے واقعات یہ سال اپنے پیچھے چھوڑ کے جا رہا ہے اور ملک سے امن اٹھ چکا ہے.یہ ایک ایسی گواہی ہے.جس کے حق میں ایک منہ پھٹ احمدیت کے دشمن مولوی کو بھی یہ کہنے کی تو فیق ملی کہ ملک میں امن وامان کی صورت حال ابتر ہوگئی ہے.ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے.کسی کی جان اور مال اور آبرو محفوظ نہیں.(دیکھوروز نامہ جنگ لاہور ۱۵ جون ۱۹۹۷ء) سال ۱۸۹۷ء میں پچھلے سالوں کی نسبت جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے کثرت کے ساتھ کتابیں شائع کی گئیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی کو خدا تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ بہت ہی عظیم الشان کتابوں کی تصنیف فرمائی جن میں سے انجام آنقم ، مجتہ اللہ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، استفتاء، سراج منیر اور کتاب البریہ مشہور ومعروف ہیں.اب یہ تعجب ہے کہ اُس ایک سال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دوسری تمام مصروفیات کے باوجودان کتب کی تیاری کی فرصت کیسے ملی.بہت ہی عظیم کتابیں ہیں.بہت ہی گہرے مضامین پر مشتمل کتابیں ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس طرح ظاہری طور پر تصنیف میں مددگار بھی
خطابات طاہر جلد دوم 420 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء میتر نہیں تھے جس طرح آج خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں میسر ہیں.وہ تن تنہا یہ سارے کام خود کیا کرتے تھے.سوائے ایک دو ایسے علماء کے جو خدمت میں حاضر رہ کر کچھ نہ کچھ ثواب حاصل کرتے تھے.اس کے بالمقابل یہ سال ۱۹۹۷ء جماعت احمد یہ برطانیہ کے لئے بھی اور جماعت احمدیہ عالمگیر کے لئے بھی تصانیف کے لحاظ سے ایک امتیازی سال ہے.اس سال تحریری طور پر جو کچھ ہوا ہے وہ بہت وسیع ہے.مختصر آمیں آپ کے سامنے اپنی چند کتا بیں رکھتا ہوں جن کی دوبارہ اشاعت یا جن کا ترجمہ اس سال میں کر کے کثرت سے دنیا میں پھیلایا گیا ہے.اس میں سے ایک An Elementry Study of Islam ہے جس کے مطالعہ کے بعد مختلف ممالک سے یہ مطالبہ ہوا کہ اس کا جلد از جلد ہماری زبان میں ترجمہ ہونا ضروری ہے.کیونکہ پڑھنے والوں کا خیال تھا که نام تو An Elementry Study ہے لیکن در حقیقت اس میں اسلام کی عبادات اور اسلام کی مختلف موضوعات پر جو رہنمائی کی گئی ہے.ان سب پر روشنی پڑتی ہے اور آسان زبان میں ہے اس لئے اس کو دنیا میں پھیلانا چاہئے.چنانچہ ناروے کی طرف سے سب سے پہلے یہ تحریک اٹھی تھی اور انہیں کی زبان میں اس کا اب ترجمہ شائع ہو چکا ہے.مذہب کے نام پر خون اس کے متعلق دوبارہ اصرار ہوا کہ اسے عربی میں پھر شائع کرنا چاہئے کیونکہ آج کل پھر یہ موضوع دنیا میں عام ہو رہا ہے چنانچہ اَلْقَتْلُ بِاسمِ الدّین کے نام پر اس کا دوسرا ایڈیشن اس سال شائع ہوا.’Islam's response to contemporary issues “ یہ انگریزی میں پہلے طبع ہوئی تھی.مگر ساری دنیا کے مطالبات کی وجہ سے اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہو چکا ہے اور اس کے تراجم میں سے روسی ترجمہ خاص طور پر قابل ذکر ہے.جو ہمارے راویل بخارائی کیف صاحب نے کیا ہے اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے مددگار بھی تھے.راویل صاحب نے مجھے مل کر کہا کہ U.S.S.R, Islam's Response to Contemporary Issues کی تمام ریاستوں کے لئے ایک انتہائی اہم کتاب ہے.چنانچہ ایک دوسری ریاست کے جو ترجمہ کرنے والے تھے اُنہوں نے خود ر اویل صاحب سے مطالبہ کیا کہ ہمیں جلد از جلد ہماری زبان میں بھی یہ کتاب دی جائے.مگر سر دست روسی زبان میں اس کا ترجمہ مکمل ہوا ہے اور باقی U.S.S.R کی زبانوں میں یہ ترجمہ زیر نظر ہے.
خطابات طاہر جلد دوم 421 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء عیسائیت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس سال میں خاص توجہ تھی اور جیسا کہ میں نے آج خطبے میں بیان کیا تھا.جھوٹے خداؤں کا سر توڑنے کے لئے ۱۸۹۷ ء کا سال ایک نمایاں حیثیت رکھتا تھا.اسی سال ۱۹۹۷ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے Christianity-A journey from facts to fiction لکھنے کی توفیق عطا فرمائی.یعنی لکھنے کی تو پہلے تو فیق عطا فرمائی تھی مگر چونکہ اس کی دوبارہ اشاعت کا مطالبہ تھا اس لئے انگریزی زبان میں اسی سال یہ دوبارہ شائع کی گئی تھی.اس سال میں جہاں روحانی طور پر انسانوں کی صحت کی خدمت کی توفیق ملی.وہاں بدنی طور پر بھی ان کی صحت کی خدمت کی توفیق ملی اور ہومیو پیتھی جلد اول کا نظر ثانی شدہ نسخہ جو جلسہ انگلستان کے اختتام سے پہلے احباب کے ہاتھوں تک پہنچ چکا ہو گا وہ لکھنے کی توفیق ملی.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دنیا کے بعض چوٹی کے ہومیو پیتھس نے مجھے لکھا کہ جس رنگ میں آپ نے یہ کتاب لکھی ہے.اس سے پہلے ہومیو پیتھی پر ایسی کتاب نہیں لکھی گئی اور پاکستان کے جو ہو میو پیتھی کے بعض علاقہ کے صدر ہیں غالباً سارے پاکستان کے بھی ہیں ان کا مجھے خط ملا اور اُنہوں نے بھی یہ لکھا کہ جس رنگ میں آپ آج ہو میو پیتھی سے ہمیں مستفیض کر رہے ہیں، جو پاکستان کی کونسل کے صدر ہیں، اُس کے متعلق وہ کہتے ہیں میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں آپ سے بیان کر سکوں مگر میرے سارے ساتھی آپ کے خطبات سے جو ہومیو پیتھی پر مشتمل ہیں.یعنی ان کی مراد تقریریں تھیں ان سے مستفیض ہو رہے ہیں اور ہم کئی دفعہ اکٹھے مل کر ٹیلی ویژن پر ان باتوں کو سنتے ہیں اور آپس میں یہ کلام کرتے ہیں کہ بہت کتابیں پڑھیں مگر یہ باتیں پہلے نظر نہ آئیں.جو باتیں ان کو پہلے نظر نہ آئیں وہ دراصل مذہب سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں.میں نے ہومیو پیتھی کو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے اور ایسے قطعی شواہد پیش کئے ہیں کہ اگر ہو میو پیتھی میں کوئی جان ہے.تو لاز م ہمارا ایک خدا ہے اور خدا کے وجود کے سوا ہومیو پیتھی کا کوئی وجود ممکن نہیں.بہر حال اس کی تفصیل میں میں نہیں جاتا.مگر میں غیروں کی گواہی بتارہا ہوں کہ ان کے مطالبہ کے پیشِ نظر اُس کو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک عمدہ کتابی صورت میں ڈھالا گیا ہے اور اُمید ہے کہ ہر گھر میں یہ کتاب ان کے لئے ایک خاندانی ڈاکٹر کی حیثیت اختیار کر جائے گی.لندن میں تو میرا یہی تجربہ ہے کہ جن لوگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے.اُن میں سے اکثر خاندانوں کو کبھی ہسپتالوں میں جانے کی
خطابات طاہر جلد دوم 422 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء ضرورت پیش نہیں آئی.کسی ڈاکٹر کوگھر بلانے کی ضرورت پیش نہیں آئی.پس اگر عالم احمدیت میں یہ سب کچھ ہو جائے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑا احسان ہوگا.چنانچہ انڈونیشیا میں یہ کام بڑی تیزی سے شروع ہو چکا ہے اور انڈونیشین وفد نے مجھے بتایا کہ بہت سی ایسی لاعلاج بیماریاں تھیں.جن کے متعلق ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا.مگر ہومیو پیتھک لیکچر زسن کے جو شاگرد تیار ہوئے ہیں ان کو خدا تعالیٰ نے ایسا ملکہ عطا فرمایا ہے کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ ان بیماریوں کا علاج مؤثر طور پر کر سکتے ہیں اور یہ سلسلہ اب کثرت سے انڈونیشیا میں پھیلتا جا رہا ہے.افریقن ممالک میں سے خانا کو توفیق ملی ہے کہ انہوں نے اس میں بڑے نمایاں قدم آگے بڑھائے ہیں.مگر باقی ممالک کو بھی میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس سے فائدہ اٹھا کے دیکھیں.انشاء اللہ ، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ ذریعہ ہمارے لئے بنی نوع انسان کی ہدایت کا ذریعہ بن جائے گا یعنی بدن کی صحت تو ہوگی ہی رُوح کی صحت بھی انشاء اللہ تعالیٰ اسی ذریعہ سے ہمیں حاصل ہوگی.ایک کتاب جس کا میں تذکرہ بڑی دیر سے کرتا چلا آ رہا ہوں "Revelation, Rationality Knowledge and Truth" سیہ وہ کتاب ہے جو اب خدا کے فضل سے مکمل طور پر دہرانے کے بعد میرے ہاتھ سے نکل چکی ہے.یعنی میرے ہاتھ سے ان معنوں میں نکل چکی ہے کہ اب پریس والے اس کی آخری تیاری بھی کر رہے ہیں اور ایک ٹیم جو میں نے اس غرض کے لئے بنائی تھی.مولوی منیر الدین صاحب شمس جو حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس کے صاحبزادے ہیں، ان کو ان باتوں کا بہت ملکہ ہے.ان کے ساتھ ایک انگلستان کی تعلیم یافتہ بچی فریدہ جو علمی لحاظ سے کافی ٹھوس مقام رکھتی ہے اور ایک بچی فرینہ جو چو ہدری اعجاز احمد صاحب کی بیٹی ہے.یہ تین کی ٹیم ہے جو اس کی آخری نوک پلک درست کرنے کے ذمہ دار ہیں.یہ اپنی طرف سے ہر گز کسی مضمون کا اضافہ نہیں کرتے.بلکہ قومہ بھی ٹھیک کرنا ہو تو مجھ سے پوچھ کر لگاتے ہیں.اس لئے ان کا عمل دخل آخری نوک پلک درست کرنے تک ہے.مگر وہ بہت اہم ہے.بہت سی ایسی باتیں جو میں نے دوبارہ نہیں دیکھی تھیں.ان کی توجہ دلانے پر مجھے اُس کی طرف توجہ مبذول ہوئی.یہ کتاب جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے.اب پریس کے لئے تیار پڑی ہے اور امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اب یہ جلد از جلد پر یس کی طرف سے شائع کی جائے گی.سر دست اس میں دیر اس لئے
خطابات طاہر جلد دوم 423 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء ہو رہی ہے کہ بعض اقتباسات جن کتابوں سے لئے گئے تھے.ان کے مصنفین سے ان کی اجازت لینے کی ضرورت تھی.پس اب یہ مراحل اجازت کے مراحل ہیں.جب تک کسی کتاب کے مصنف سے اجازت نہ لی جائے.اُس کا اقتباس پیش نہیں کرنا چاہتے.پس اُمید ہے کہ اگلے ایک ماہ کے اندر اندر یہ سب اجازتیں حاصل ہو جائیں گی اور انشاء اللہ اب یہ کتاب آپ کومل جائے گی.میری جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۸۲ء کے موقع پر عدل، احسان اور ایتاء ذی القربی کے موضوع پر کی جانے والی پہلی تقریر کا انگریزی ترجمہ Absulute Justice, Kindness and Kinship Three Creative Principles کے عنوان سے پہلے حصہ کے طور پر اس سے قبل ۱۹۹۶ء میں پیش کیا گیا تھا.دراصل یہ انگریزی ترجمہ میری تقریر کا بعینہ ترجمہ نہیں بلکہ اس اردو تقریر کو بنیاد بناتے ہوئے میں نے اس میں بہت سے اضافے بھی کئے ہیں جن کا وقت کی کمی کے باعث تقریر میں ذکر کرنا ممکن نہیں تھا.انہیں اس کتاب میں شامل کر لیا گیا ہے.اب اس کا دوسرا حصہ تیار ہے اور یہ بھی اس سال کے اختتام تک طبع ہو جائے گا.پس اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اُس نے اس سال مجھے بھی حضرت مسیح موعود علیہ ال به الصلوة والسلام کے قدموں کی برکت سے نمایاں طور پر تحریری اور تصنیفی خدمت کی توفیق عطا فرمائی.اشتہارات کا سلسلہ بہت وسیع ہے.رقیم پریس اسلام آباد نے بھی بہت عظیم الشان خدمات سرانجام دی ہیں.جو کتب رقیم پریس کی طرف سے اور افریقن ممالک کے احمدی پریس کی طرف سے اس سال شائع ہوئی ہیں اُن کی تعدا د نولا کھ ستر ہزار پانچ سو ہے.جہاں تک سال ۱۸۹۷ء کا تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس میں آنے والے خطوط کا ذکر فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ خطوط پہلے سے بہت بڑھ گئے.گویا کہ سال بھر میں بارہ ہزار خطوط حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو لکھے گئے اور آپ نے ان کے جواب دیئے.بارہ ہزار خطوط اُس زمانہ میں آج کے دولاکھ خطوط سے بھی زیادہ بنتے ہیں.کیونکہ سارے خطوط خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دیکھتے تھے اور ان کا جواب لکھتے تھے یا لکھاتے تھے.یقین نہیں آتا کہ آپ کو کیسے اتنی توفیق ملی.اب اس سال ۱۹۹۷ء میں اگر چہ دو لاکھ خطوط ہیں جو ہمارے مرکزی دفتر کو ملے ہیں.مجھے اور ہمارے
خطابات طاہر جلد دوم 424 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء مرکزی دفاتر کو میری وساطت سے ملتے ہیں مگر میرے نزدیک ان بارہ ہزار خطوط کی قیمت ان دو لاکھ سے بہت زیادہ ہے، کیونکہ میرے ساتھ یہاں کثرت سے ایک ٹیم ہے جو خواتین پر بھی مشتمل ہے، مردوں پر بھی اور بعض بچے بھی اُس میں حصہ لیتے ہیں اور طوعی طور پر یہ خدمت سر انجام دے کر مجھے یہ موقع بہم پہنچارہے ہیں کہ ایک سال میں تقریباً دولاکھ خطوط کو وصول کروں اور اُن کے جواب دوں لیکن اُس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اکیلے یہ کام تھا.ساری تصانیف ایک طرف ، دنیا کے سارے کام ایک طرف اور پھر ان خطوط کی طرف توجہ.سال ۱۸۹۷ء میں مہمانوں کی بھی کثرت رہی اور یہ تعداد سال بھر میں ڈیڑھ ہزار سے کسی صورت کم نہ تھی.اُس زمانہ میں ڈیڑھ ہزار مہمانوں کو سنبھالنا ایک بڑا کام تھا.جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکثر مہمانوں کی طرف خود توجہ دیا کرتے تھے.بسا اوقات اپنے گھر سے کھانا پکوا کے لاتے تھے.بسا اوقات خود دودھ لے کر باہر مہمانوں کی خدمت کے لئے آیا کرتے تھے ، بسا اوقات سردی زیادہ ہو تو اپنا لباس ، اپنا اوڑھنا یعنی کوٹ اُتار کے وہ بھی بھیج دیا کرتے تھے.کوٹ کی نوبت اس لئے آتی تھی کہ اُس سے پہلے گھر کے تمام بستر مہمانوں کے لئے جاچکے ہوتے تھے.تو اُس زمانہ میں ڈیڑھ ہزار مہمانوں کی دیکھ بھال کرنا جس میں اوّل ذمہ داری خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تھی ایک بہت بڑا کام تھا.اب تو سارا انگلستان اس مدد میں ہمارے ساتھ حاضر ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس گھر کے سپر د جو ذمہ داری کی جائے وہ شوق سے امنا اور صدقنا کہتے کہتے آگے بڑھتا ہے اور خوشی محسوس کرتا ہے کہ ہمیں کچھ خدمت کی توفیق ملی.۱۸۹۷ء کے سال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دو اہم سفر کرنے پڑے اور ۱۹۹۷ ء کے سال میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے بھی بہت کثرت سے سفر کرنے کی توفیق ملی ہے.۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پہلا جلسہ ڈائمنڈ جو بلی کی تقریب پر ہوا.دوسرا جلسہ محمود کی آمین پر مشتمل تھا اور تیسر اوہ آخری جلسہ ہے جس کی میں بات کر رہا ہوں.اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے مختلف ممالک میں جو جلسے ہوئے ، جن میں بعض دفعہ میں ایم.ٹی.اے کے ذریعہ شامل ہوا ہوں.اُن کی بہت بڑی تعداد ہے مگر یہ میرے نزدیک ۱۸۹۷ء کی برکتیں ہی ہیں ، جو ۱۹۹۷ء میں دہرائی جا رہی ہیں اور خدا تعالیٰ یہ ظاہر فرما
خطابات طاہر جلد دوم 425 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء رہا ہے کہ اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ اٹھائے ہوئے چند قدم سینکڑوں میل تک کے سفر کا متبادل بن سکتے ہیں اور آنے والے بڑھتے ہوئے سفر انہیں چند قدموں کا آگے بڑھنے کا مضمون ہی پیش کرتے ہیں.اگر چہ وقت ان قدموں کا رستہ روک دیتا ہے مگر خدا تعالیٰ کے ہاں رُکے ہوئے وقت کی کوئی حیثیت نہیں وہ ان کو بڑھاتا چلا جاتا ہے.پس وہ سفر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۸۹۷ء میں اختیار فرمایا، آج وہی سفر ہے جو ہمارے لئے بہت بڑی بڑی مسافتیں لے کے آیا ہے اور تمام عالم پرمحیط ہو چکا ہے.یہ و مختصر کار روائی کا خلاصہ تھا.جو ۱۸۹۷ء میں ہوئی.اب میں ایک اہم بنیادی مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں.۱۸۹۷ء کا سال وہ سال ہے جو مباہلہ کے لئے ایک غیر معمولی شہرت اختیار کر گیا اور ہمارا یہ سال بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے مباہلہ کی وجہ سے ایک بہت بڑی شہرت اختیار کر گیا ہے.اُس زمانہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک مباہلہ جو لیکھرام پشاوری کے ساتھ ہوا تھا اور اُس کی ہلاکت پر ہی منتج نہیں ہوا بلکہ اُس کے بعد پے در پے نشانات کی صورت میں ظاہر ہوا.آج میں اُس کا تذکرہ آپ کے سامنے کرتا ہوں.۱۸۹۷ء کا سال ہے جس میں قطعی طور پر آخری صورت میں حکومت اور عدالتوں کی طرف سے یہ فیصلہ سنایا گیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس ہلاکت میں کوئی بھی عمل دخل نہیں حالانکہ تمام ہندوستان کے آریہ اور ان کی پشت پناہی میں دوسرے ہندو بھی اس بات پر مصر تھے کہ جیسے بھی بن سکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس میں ملوث کیا جائے اور ۱۹۹۷ء ہی میں اب آخری صورت میں وہ رپورٹ حکومت کی طرف سے شائع ہوئی ہے جس میں مجھے ضیاء الحق کے جہاز کے پھٹنے سے بری الذمہ قرار دیا گیا ہے یعنی ان تمام رستوں کی پیروی کے باوجود جو غیروں نے پیش کئے کہ ان رستوں کو تلاش کرو، وہاں مرزا طاہر احمد ملوث دکھائی دے گا اُن رستوں کو تلاش کرو وہاں ملوث دکھائی دے گا.ساری کوششوں کے بعد آخر حکومت کو یہ تسلیم کرنا پڑا اور یہ اُس عدالت کا یہ بیان جو اس پر قائم کی گئی تھی اس حادثہ کی کوئی بھی وجہ سمجھ نہیں آئی.ہر طرح کوشش کر کے دیکھ لی گئی اس کا کسی انسانی سازش کے ساتھ کوئی بھی تعلق ثابت نہیں ہوا اور ہوا کیوں؟ خود یہ بھی ایک معمہ ہے.جس کی ہمیں کچھ سمجھ نہیں آسکی اس لئے اس دفتر کو بند کیا جاتا ہے.بالکل اسی طرح لیکھرام کا دفتر بند ہوا تھا.تمام کوششوں کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوملوث نہیں کیا جا سکا.آپ کی برات
خطابات طاہر جلد دوم 426 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء فرمائی گئی اور یہ فیصلہ ہوا کہ برات تو ہے مگر یہ کیا واقعہ ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیسے ممکن تھا؟ ہمیں اس کی کچھ سمجھ نہیں آئی.پس دیکھیں اسی سال میں یہ دونوں متھے اسی طرح معنے بنے رہے جن کو خدا کی تقدیر ہی سمجھ سکتی ہے اور کسی انسان کی طاقت میں نہیں کہ ان کو حل کر سکیں.عام طور پر یہ جو افتتاحی تقریر ہوا کرتی ہے یہ ایک گھنٹے کے اندر ختم ہو جاتی ہے.مختصر باتیں نصیحتیں ، السلام عليكم وعليكم السلام بس یہاں تک چلتی ہے.مگر اس دفعہ لیکھرام کا سال ہونے کی وجہ سے اس میں کچھ اضافہ کرنا پڑے گا.ممکن ہے ڈیڑھ ، دو گھنٹے تک یہ تقریر چلے لیکھرام کا جو تعارف ہے خلاصۂ ۱۸۵۹ء میں سید پور ضلع جہلم میں پیدا ہوا.ضلع جہلم سے معذرت کے ساتھ.۱۸۸۱ء میں پشاور میں آریہ سماج قائم کی.اہلِ پشاور سے معذرت کے ساتھ.معذرت اس لئے کہ یہ شخص اتنا منہ پھٹ تھا اور اس قدر دیدہ دلیر تھا کہ حضرت رسول اللہ کے خلاف کسی دشمن نے اتنی خبیثا نہ زبان استعمال نہیں کی جتنا یہ شخص کرتا رہا اور مسلسل آخر وقت تک اُسی پر قائم رہا.پس چونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا ایک دشمن ہے.جس کا میں ذکر کر رہا ہوں کہ جہلم میں پیدا ہوا اور پشاور میں اُس نے اپنی شرارتوں کی بناء ڈالی اس لئے میں ان دونوں یعنی جہلم اور پشاور کے باشندوں سے معذرت کے ساتھ یہ بات پیش کرتا ہوں.۱۸۸۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہینِ احمد یہ شائع فرمائی.اس وقت تک ابھی جماعت کی بناء نہیں ڈالی گئی تھی.اس کے جواب میں لیکھرام نے تکذیب براہین احمد یہ حصہ اوّل اور دوم شائع کی.یہ کتاب مغلظات کا مجموعہ ہے.اس کی تفصیل میں میں نہیں جانا چاہتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لیکھر ام سے صرف یہ جھگڑا تھا کہ تم ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کو گالیاں دینی بند کر دو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی کہتے رہے بار بار کہتے رہے کہ مجھے تم سے کوئی جھگڑا نہیں.صرف میرے آقا و مولا کو کچھ نہ کہو تو اسی پر بس ہے میرا تمہارے ساتھ مقابلہ ختم ہو جائے گا لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۸۸۶ء میں وہ معرکۃ الآراء کتاب تصنیف فرمائی جو سرمه چشم آریہ کے نام سے معروف ہے اور اس کتاب میں آپ نے پہلی بار آریوں کو دعوت مباہلہ دی اور آپ کے الفاظ یہ ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 427 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم ” بعد حمد وصلوٰۃ میں عبد الله الاحد الصمد احمد ولد میرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم ( جو مؤلف کتاب براہین احمدیہ ہوں ) حضرت خداوند کریم جل شانہ وعز اسمہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اکثر حصہ اپنی عمر عزیز کا تحقیق دین میں خرچ کر کے ثابت کر لیا ہے کہ دنیا میں سچا اور منجانب اللہ مذہب دینِ اسلام ہے.اور حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی یہ خدائے تعالیٰ کے رسول اور افضل الرسل ہیں اور قرآن شریف اللہ جل شانہ کا پاک و کامل کلام ہے جو تمام پاک صداقتوں اور سچائیوں پر مشتمل ہے اور جو کچھ اُس کلام مقدس میں ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وجوب ذاتی اور قدامت ہستی اور قدرت کاملہ اور اپنے دوسرے جمیع صفات میں واحد لاشریک ہے اور سب مخلوقات کا خالق اور سب ارواح اور اجسام کا پیدا کنندہ ہے اور صادق اور وفادار ایمانداروں کو ہمیشہ کے لئے نجات دے گا اور وہ رحمان اور رحیم اور تو بہ قبول کرنے والا ہے ایسا ہی دوسری صفات الہیہ و دیگر تعلیمات جو قرآن شریف میں لکھی ہیں یہ سب صحیح اور درست ہیں اور میں دلی یقین سے ان سب امور کو سچ جانتا ہوں اور دل و جان سے ان پر یقین رکھتا ہوں اور اگر چہ ان کی سچائی پر صد ہا عقلی دلائل جو قطعی اور یقینی ہیں اللہ جل شانہ نے مجھ کو عطا کی ہیں لیکن ایک اور فضل اُس کا مجھ پر یہ بھی ہوا ہے جو اُس نے براہ راست مجھ کو اپنے کلام اور الہام سے مشرف کر کے دوہرا ثبوت ان سچائیوں کا مجھ کو دے دیا ہے.اب میری یہ حالت ہے کہ جیسے ایک شیشه عطر خالص سے بھرا ہوا ہوتا ہے ایسا ہی میرا دل اس یقین سے بھرا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن شریف تمام برکات دینیہ کا مجموعہ ہے اور فی الحقیقت خدائے تعالیٰ سب موجودات کا موجد اور تمام ارواح اور اجسام کا پیدا کنندہ اور الله ہر قسم کی خیر اور نیکی اور فیض کا مبدء ہے اور اُس کا پاک رسول محمد مصطفی حملے
خطابات طاہر جلد دوم 428 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء سچا و صادق و کامل نبی ہے جس کی پیروی پر فلاح آخرت موقوف ہے.لیکن میرا فلاں مخالف ( اس جگہ اس مخالف کا نام جو مباہلہ کیلئے بالمقابل آئیگا ،لکھا جائے گا جو اس وقت میرے مقابلہ کے لئے حاضر ہے.(آپ نے نام سے پہلے اجازت طلب کی تھی اور پیش نظر لیکھر ام ہی تھا.مگر اُس زمانہ میں کچھ قانونی تقاضے ایسے تھے جن کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بغیر کسی شخص کی خواہش کے اور اس کے اقرار کے جو شائع ہو چکا ہو اس کے خلاف کوئی پیشگوئی جو اُس کی ہلاکت پر منتج ہو شائع نہیں فرما سکتے تھے.پس آپ نے یہاں نام نہیں لکھا لیکن یہ فرمایا.اس وقت میرے مقابلہ کے لئے حاضر ہے ) یہ دعویٰ کرتا ہے کہ نعوذ باللہ جناب سید نا محمد مصطفی احہ سچے نبی نہیں ہیں اور جعل سازی سے قرآن شریف کو بنا لیا ہے اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ خدائے تعالیٰ ارواح اور اجسام کا پیدا کنندہ نہیں اور کسی پرستار اور بچے ایماندار کو نجات ابدی کبھی نہیں ملے گی اور جو کچھ ویدوں میں بھرا ہوا ہے وہ حقیقت میں سب سچ ہے اور اس کے برخلاف جو قرآن شریف میں ہے وہ سب جھوٹ ہے سوائے خدائے قادر مطلق ! تو ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر اور ہم دونوں میں سے جو شخص اپنے بیانات میں اور اپنے عقائد میں جھوٹا ہے اور بصیرت کی راہ سے نہیں بلکہ تعصب اور ضد کی راہ سے ایسی باتیں منہ پر لاتا ہے جن پر یقین کرنے کے لئے کوئی قطعی دلیل اُس کے ہاتھ میں نہیں اور نہ اُس کا دل نور یقین سے بھرا ہوا ہے بلکہ سراسر ضد اور طرفداری اور نا خدا ترسی سے ایسی باتیں بناتا ہے جن پر اُس کا دل قائم نہیں اُس پر تو اے قادر کبیر ایک سال تک کوئی اپنا عذاب نازل کر اور اُس کی پردہ دری کر کے جو شخص حق پر ہے اُس کی مدد فرما اور لعنت سے بھرے ہوئے دکھ کی مارا ایسے شخص کو پہنچا کہ جو دانستہ سچائی سے دور اور راستی کا دشمن اور راست باز کا مخالف ہے کیونکہ سب قدرت اور انصاف اور عدالت تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین یارب العالمین.فقط ( سرمہ چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۰۵،۳۰۲) آپ نے یہ اعلان فرمایا.اس دعوت مباہلہ کے ساتھ ہی کتاب سرمہ چشم آریہ میں
خطابات طاہر جلد دوم 429 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مضمون مباہلہ کا نمونہ پیش کیا تحریرا اور خاص طور پر آریہ مخالفین کو اس طرف متوجہ فرمایا.اس کے شائع ہونے پر چیک کرنا ہے.نمونہ مضمون مباہلہ از طرف آریہ صاحب فریق مخالف میں فلاں ابن فلاں قسم کھا کر اور حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اوّل سے آخر تک رسالہ سرمہ چشم آریہ کو پڑھ لیا اور اُس کے دلائل کو بخوبی سمجھ لیا.میرے دل پر ان دلیلوں نے کچھ اثر نہیں کیا اور نہ میں ان کو سچ سمجھتا ہوں اور میں اپنے پر میشر کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ ویدوں میں لکھا ہے میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ میرے رُوح اور جیو کا کوئی رب یعنی پیدا کنندہ نہیں ایسا ہی میرا جسمی مادہ بھی پیدا کرنے والے سے بکلّی بے نیاز ہے.میں پر میشر کی طرح خود بخود ہوں اور واجب الوجود اور قدیم اور انادی ہوں.میری روح اور میراجسمی مادہ کسی دوسرے کے سہارے سے نہیں بلکہ قدیم سے یہ دونوں ٹکڑے میرے وجود کے قائم بالذات ہیں.ایسا ہی وید کی اس تعلیم پر بھی میرا کامل یقین ہے کہ مکتی یعنی نجات ہمیشہ کے لئے کسی کو نہیں مل سکتی اور ہمیشہ عزت کے بعد ذلّت کا دورہ لگا ہوا ہے.میں وید کی ان سب تعلیموں کو دلی یقین سے مانتا ہوں کہ پر میشر ایک ذرہ کے پیدا کرنے پر بھی قادر نہیں اور نہ بغیر عمل کسی عامل کے ایک ذرہ کسی پر رحمت کر سکتا ہے اور نہ بغیر ہزاروں جونوں میں ڈالنے کے ایک ذرہ گناہ تو بہ یا استغفار یا کچی پرستش اور محبت سے بخش سکتا ہے اور میں وید کے رُو سے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ چاروں وید ضر ور ایشر کا کلام ہے جو ہمیشہ اور قدیم سے ہر نئی دنیا میں ہمارے ہی آریہ دیس میں چار رشیوں پر جو اگئی اور والیو وغیرہ ہیں اتر تا رہا ہے.کبھی اس سے باہر نہیں اترا اور نہ کبھی ہماری زبان سنسکرت کے سوا کسی دوسری زبان میں آیا اور ہمارے دیس سے باہر جو ہزاروں پیغمبر آئے ہیں.( یعنی آریہ ورت کے دلیں ہندوستان سے باہر جو ہزاروں پیغمبر آئے ہیں ) اور کئی کتابیں لائے ہیں.میں دلی یقین سے ان سب
خطابات طاہر جلد دوم 430 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء کو جعل ساز اور ان کی کتابوں کو جعلی تحریریں خیال کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان غیر ملکوں میں سب جھوٹے آتے رہے کبھی ایک ملہم بھی سچا نہیں آیا.( یعنی ہندوستان کے سوا ساری دنیا میں ہمیشہ سے جو خدا کے برگزیدہ ظاہر ہوتے رہے ہیں.وہ تمام تر ہر ایک ان میں سے جھوٹا اور مفتری تھا اور کسی پر خدا کا کوئی کلام نازل نہیں ہوا ) یہ سچائی ہمارے آر یہ دلیں سے ہی خاص رہی اور اسی سے پر میشر کا دائمی تعلق اور پیوند رہا ہے اور ہمیشہ آئندہ بھی اُسی سے رہے گا.ایسا ہی میں قرآن اور اُس کے اصولوں اور تعلیموں کو جو دید کے اصولوں اور تعلیموں سے برخلاف ہے جھوٹ اور جعل جانتا ہوں.لیکن میر افریق مخالف جو مؤلف رسالہ سُرمہ چشم آریہ ہے.وہ قرآن کو خدا کا کلام جانتا ہے.( آج جو پاکستان میں یہ منحوس کوشش ہو رہی ہے کہ ہمیں قرآن کریم سے الگ کر دیں.اُس زمانہ میں ایک ہی قرآن کا علمبر دار تھا.جس نے آریوں سے ٹکر لی اور آریوں نے تسلیم کیا کہ یہ ہمارا مخالف قرآن کو سچا الہی کلام جانتا ہے ) اور اس کی سب تعلیموں کو درست اور صحیح سمجھتا ہے ( جو آج کے مولویوں کو بات سمجھ نہیں آئی.وہ اُس زمانہ کے آریوں کو بھی سمجھ آگئی تھی ) اور وید اور اُس کے ان اصولوں اور دوسری تعلیموں کو جو قرآن کے مخالف ہے سراسر غلط اور جھوٹ خیال کرتا ہے.سواب اے ایشر! تو ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر اور جس فریق کے اصول اور اعتقاد جھوٹے اور ناپاک ہیں.جن کو وہ کسی نا پاک کتاب کی رُو سے مانتا ہے.اُس کو ذلیل اور رسوا کر اور ہم دونوں میں سے وہ شخص جو تیری نظر میں کا ذب اور دروغ گو ہے اور اُس کے عقائد اور اصول تیری تو ہین اور بہتک عزت کا موجب ہیں اور دانستہ ان کا پابند ہورہا ہے اُس کو اے ایشر ایسے دکھ کی مار پہنچا اور ایسی لعنت سے بھری ہوئی اُس کی رسوائی کر کہ ایک سال کے عرصہ تک وہ لعنت کا اثر جو عذاب مؤلم ہے ظاہر ظاہر اُس کو پہنچ جائے.اے ایشر تو ایسا ہی کر کیونکہ کاذب صادق کی طرح کبھی تیرے حضور میں عزت نہیں پاسکتا.آمین.فقط سرمه چشم آرید روحانی خزائن جلد۲ صفحه: ۳۰۵ تا ۳۰۸)
خطابات طاہر جلد دوم 431 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء یہ مخالفین کی جو یاوہ گوئی تھی اُس کا خلاصہ میں نے خود تیار کیا ہے.ان میں ایک بھی ایسی بات نہیں جو انہوں نے نہ کہی ہو.لیکن یاوہ گوئی کی جو خوستیں تھیں جو ایسا گندا کلام تھا جو پیش نہیں کیا جاسکتا.اس کو چھوڑ دیا گیا ہے.مگر بعینہ یہی آریوں کی تحریروں کا خلاصہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی قدر تفصیل سے درج فرمایا اور میں نے اُس کا خلاصہ آج آپ کے سامنے رکھا ہے.اس کے بعد پنڈت لیکھرام نے ۱۸۸۶ء میں ہی کتاب سرمہ چشم آریہ کے جواب میں نسخہ حبطا حمدیہ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نعوذ باللہ پاگل پن کے ثبوت کا ایک نسخہ اور آریوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت مباہلہ کے جواب میں اپنی طرف سے حضور کو خود ایک مباہلے کا چیلنج دیا.اُس کا مضمون مباہلہ شاید سارانہ بھی پڑھ سکوں مگر اُس کا کچھ حصہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.وہ لکھتا ہے.میں نیاز التیام لیکھر ام ولد پنڈت تاراسنگھ صاحب شر مامصنف تکذیب براہین احمدیہ درسالہ ہذا اقرار صحیح بدرستی ہوش وحواس کر کے کہتا ہوں کہ میں نے اوّل سے آخر تک رسالہ سرمہ چشم آریہ کو پڑھ لیا اور ایک بار نہیں بلکہ کئی بار اس کے دلائل کو بخوبی سمجھ لیا بلکہ ان کے بطلان کو بروئے ست دھرم رسالہ ہذا میں شائع کیا.میرے دل میں مرزا جی کی دلیلوں نے کچھ بھی اثر نہیں کیا اور نہ وہ راستی کے متعلق ہیں.میں اپنے جگت پتا پر میشر کو ساکھی جان کر اقرار کرتا ہوں کہ جیسا کہ ہر چہاروید مقدس میں ارشاد ہدایت بنیاد ہے اس پر میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ میری رُوح اور تمام ارواح کو کبھی نیستی یعنی قطعی ناش نہیں ہے اور نہ کبھی ہوا اور نہ ہوگا.(اس کے بعد وہ وید کی تعلیم سے متعلق جو کچھ سمجھا اُس کو پیش کرتا ہے.آخر پر وہ یہ لکھتا ہے.) اے پر میشر ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر کیونکہ کا ذب صادق کی طرح کبھی تیرے حضور میں عزت نہیں پاسکتا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ: ۳۲۸ تا۳۳۲) یہ اُس کی تحریر تفصیل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حقیقۃ الوحی میں درج فرمائی.اس کے بعد جو ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء آیا.اُس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اندر من مراد آبادی اور لیکھرام پشاوری کو اس بات کی دعوت دی.۱۸۸۶ء کو یا درکھیں.ان کو دعوت دی.اندرمن نے تو اعراض کیا اور اُس دعوت کا جواب نہیں دیا اور کچھ عرصہ کے اندر خود اپنی موت
خطابات طاہر جلد دوم 432 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء مرگیا.لیکن لیکھر ام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف روانہ کیا اور یہ پیشگوئی اُس نے کی اور لکھا کہ جو چاہو شائع کر دو.میرا نام لکھو.مباہلہ لکھو.مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں.یہ تحریر بڑی گندی ہے.اسے آپ کے سامنے پڑھنے کی ضرورت نہیں.لیکھرام کی طرف سے یہ تحریر ملنے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا اس میں آپ فرماتے ہیں.سو اُس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو اللہ جل شانہ کی طرف سے یہ الہام ہوا.عِجُلٌ جَسَدٌ لَهُ خُوَارٌ.لَهُ نَصَبٌ وَّ عَذَابٌ.یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے ( یعنی بچھڑا ہے ) جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اُس کے لئے ان گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اُس کو مل رہے گا اور اس کے بعد آج جو ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء روز دوشنبہ ہے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی گئی تو خدا وند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ ﷺ کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا.سواب میں اس پیشگوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الہی ہیبت رکھتا ہوتو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اُس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیشگوئی میں کا ذب نکلا.تو ہر یک سزا کے بھگتنے کے لئے میں طیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رستہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے اور باوجود میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی انسان کا اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے.زیادہ اس سے
خطابات طاہر جلد دوم 433 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء کیا لکھوں.واضح رہے کہ اس شخص نے رسول اللہ ﷺ کی سخت بے ادبیاں کی ہیں جن کے تصور سے بھی بدن کانپتا ہے.اس کی کتابیں عجیب طور کی تحقیر اور تو ہین اور دشنام دہی سے بھری ہوئی ہیں.کون مسلمان ہے جو ان کتابوں کو سُنے اور اس کا دل اور جگر ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو.باایں ہمہ شوخی و خیر گی یہ شخص سخت جاہل ہے.عربی سے ذرہ مس نہیں بلکہ دقیق اُردو لکھنے کا بھی مادہ نہیں اور یہ پیشگوئی اتفاقی نہیں بلکہ اس عاجز نے خاص اسی مطلب کے لئے دعا کی جس کا یہ جواب ملا اور یہ پیشگوئی مسلمانوں کے لئے بھی نشان ہے کاش وہ اس حقیقت کو سمجھتے اور ان کے دل نرم ہوتے.اب میں اُسی خدا عز وجل کے نام پر ختم کرتا ہوں جس کے نام سے شروع کیا تھا.والحمد لله والصلوة والسلام على رسوله محمد المصطفى افضل الرسل و خير الورى سيدنا و سيد كل ما في الارض والسماءِ خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپوره (۲۰ فروری ۱۸۹۳ء) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه: ۶۵۱-۶۵۰) پھر آپ نے اپنے منظوم کلام میں فرمایا: الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ بُران محمد الا کے منکر از شان محمد ہم از نور کہا یان محمد کرامت گرچه بے نام ونشان است بیا بنگر ز غلمان محمد ۲ را پریل ۱۸۹۳ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اور اشتہار شائع فرمایا جس میں رویا میں اُس شخص کے دکھائے جانے کا ذکر ہے جو لیکھرام کی سزا دہی کے لئے مامور کیا گیا.
خطابات طاہر جلد دوم آپ فرماتے ہیں.434 لیکھر ام پشاوری کی نسبت ایک اور خبر افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء " آج ۲ را پریل ۱۸۹۳ء مطابق ۱۴ ماہ رمضان ۱۳۱۰ھ ہے صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں.اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل ،مہیب شکل گویا اُس کے چہرے پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا.میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ، ملا یک شدّ ادغلا ظ میں سے ہے اور اُس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اُس کو دیکھتا ہی تھا کہ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے.تب میں نے اُس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام اور دوسرے شخص کی سزا دہی کے لئے مامور کیا گیا ہے.مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے ہاں یقینی طور پر یاد ہے کہ وہ دوسرا شخص انہیں چند آدمیوں میں سے تھا جن کی نسبت میں اشتہار دے چکا ہوں اور یہ یک شنبہ کا دن اور چار بجے صبح کا وقت تھا.فالحمد اللہ علی ذالک.برکات الدعا.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کا یہ ایک لمبا سلسلہ تھا جو جاری رہا.اس میں خاص بات یہ قابلِ توجہ ہے کہ ۱۸۸۶ء میں آپ نے پہلی بار یہ پیشگوئی کی.۱۸۹۳ء کی بات ہے کہ لیکھر ام نے کلیہ اس مباہلے کو قبول کر لیا اور اُس کے مقابل پر ایک پیشگوئی شائع کی.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ چھ سال کا عرصہ کیوں بتایا حالانکہ اُس سے کم بھی ہو سکتا تھا.پہلے شروع میں آپ نے ایک سال کا اظہار کیا تھا مگر جب خدا تعالیٰ نے آپ کو خبر دی.وہ چھ سال کی خبر تھی.اُس کی وجہ لیکھرام کی جوابی کارروائی پڑھنے سے سمجھ آجاتی ہے.لیکھرام نے ۱۸۹۳ء میں جو جوابی مباہلہ شائع کیا.اس میں اُس نے یہ لکھا کہ تین سال کے اندر یہ میری پیشگوئی ہے.قادیان سے مرزا کا وجود.اُس کا نام ونشان مٹا
خطابات طاہر جلد دوم 435 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء دیا جائے گا.جس بچے کی یہ خوشخبریاں دے رہا ہے وہ پیدائشی پاگل ہوگا اور کچھ دن رہے گا اور مر جائے گا اور اُس کو ہرگز وہ سعادتیں نصیب نہیں ہوں گی.جو یہ مصلح موعود کے نام پر اُس کے متعلق بیان کرتا ہے.چنانچہ اُس نے کہا تین سال کے اندر تم دیکھنا میری پیشگوئی کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی کا وطن ایسا اُجاڑ دیا جائے گا کہ قادیان میں جب تم پوچھو گے کہ مرزا غلام احمد کون تھا تو کوئی بتانے والا نظر نہیں آئے گا.کوئی ہوا کرتا تھا.جس کا نام ونشان یہاں سے مٹا دیا گیا.یہ جوابی کارروائی اُس کی تین سال چاہتی تھی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے چھ سال کا عرصہ بتایا اور تین سال ختم ہوتے ہی چوتھے سال میں لیکھر ام کو پکڑ لیا.ایک بڑی، ذلت اور مار کا ایک بڑا نشان جو اُس نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا.وہ یہ تھا کہ اُس کی تمام پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بستی کو اس تین سال کے عرصہ میں ترقی پر ترقی ملتی رہی اور بڑی حسرت کے ساتھ لیکھرام نے اپنی پیشگوئیوں کو جھوٹا اور جعلی اور مصنوعی ثابت ہوتا ہوا دیکھ لیا.پس بعض لوگ جو خیال کرتے ہیں کہ چھ سال کا عرصہ تو لمبا عرصہ ہے.یہ لمبا عرصہ نہیں اس عرصہ میں لیکھرام کی پیشگوئی کا جھوٹا ہونا شامل کر دیا گیا تھا.پس جب اُس نے اپنی پیشگوئی کو نا کام اور نامراد ہوتے ہوئے دیکھ لیا.پھر ۱۸۹۷ء میں اُس کی پکڑ کا سال آیا ہے یہ کیسے واقعہ ہوا؟ اس کی تفصیل میں اب آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لیکھرام کی عبرت ناک موت کے متعلق جو پیشگوئی ۱۸۹۳ء سے کر رکھی تھی.اُس کی چھ سالہ معیاد مقررتھی.جو اب اختتام کو پہنچ رہی تھی اور مارچ کے مہینے میں عید الفطر کا دن بھی آرہا تھا.جو اس واقعہ کی معتین علامت بتائی گئی تھی.پانچ مارچ کو عید الفطر کا دن تھا.جو بظاہر سکون سے گز را.لیکن اگلے دن سات بجے شام لیکھرام مکان کی بالائی منزل پر بیٹھے سوامی دیانند کی سوانح عمری لکھ رہا تھا.۱۸۹۷ء کا سال جو شروع ہوا ہے.اس وقت تک لیکھرام کی نا کامی تو ثابت ہوگئی.مگر لیکھرام کو کیسے قتل کیا گیا اور وہ قاتل کہاں گیا.یہ سارا واقعہ جو مخالف لکھنے والوں کو بھی تسلیم ہے کہ اسی طرح ہوا اُس کا خلاصہ یہ ہے.کہ پانچ مارچ کو جو عید الفطر کا دن تھا اور یا درکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی میں یہ الفاظ تھے...ستعرف يوم العيد والعيد اقرب ( تذکرہ: ۲۰۱) تو اس بات کو عید کے دن
خطابات طاہر جلد دوم 436 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء دیکھے گا اور وَالْعِیدُ اقْرَب اور عید قریب ترین ہوگی.مراد یہ ہے کہ عید اس دن سے ملی ہوئی ہوگی.جس دن یہ واقعہ ہو گا.گویا معتین طور پر اُس دن کی بھی خبر دے دی.جس دن یہ واقعہ رونما ہونے والا ہے.۱۸۹۷ء میں جو عید آئی وہ جمعہ کے دن تھی اور اُس کے ساتھ ہفتے کا دن تھا جو ملحق تھا.ستعرف يوم العيد والعيد اقرب اُس عید کو پہچان لے گا کیونکہ اس واقعہ کے دن وہ عید قریب ترین ہوگی.جو ہفتے کا دن بنتا ہے.ہفتے کے دن جو واقعات رونما ہوئے وہ یہ تھے کہ لیکھر ام اپنے مکان کی بالائی منزل پر بیٹھا ہوا سوامی دیانند کی سوانح عمری لکھ رہا تھا اور اُس کے پاس ایک ایسا شخص بیٹھا ہوا تھا جس نے لیکھرام کو یہ بیان دیا تھا کہ میں پہلے ہندو ہوا کرتا تھا.پھر مسلمان ہو گیا اور پھر مسلمان سے دوبارہ میں آپ کے ہاتھ پر ہندو ہوتا ہوں.یہ شخص کبھی کبھی لیکھر ام کو آ کے ملا کرتا تھا اور اُس دن وہ آیا اور اُس نے کمبل اوڑھا ہوا تھا اور لیکھر ام کے پاس حاضر ہوا اور اُس نے اُس کو بلا کر اپنے ساتھ بٹھا لیا اور یہ سوامی دیانند کی تاریخ لکھنے لگا.اُس کے ساتھ اُس صحن کے پر لی طرف دروازے بند تھے.جن میں اُس کی بیوی اور ماں تھے اور نیچے بازار بس رہا تھا.جو آریوں کا بازار تھا اور آریوں پر ہی زیادہ سمل تھا.پر لی طرف سیدھی دیوار تھی.جس پر سے چھلانگ لگانے والا بچ نہیں سکتا تھا اور دوطرف پختہ دیواریں گھری ہوئی تھیں.گویا اس شخص کے نکل بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں تھا.جب لیکھرام نے وہ تصنیف مکمل کی اور آخری فقرہ لکھ کر اپنے ہاتھ انگڑائی کے لئے اونچے کئے اُس وقت اس نے خنجر کا اُس پر وار کیا اور اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں اور جگہ جگہ سے کٹ گئیں.لیکھرام کی چیخ اور دہائی سن کر اُس کی ماں اور اُس کی بیوی دوڑے اور اُنہوں نے اس شخص کو دیکھا.اُس وقت تک یہ وہیں تھا اور اُس کا دیکھنا الہی تقدیر کے مطابق تھا جو بعد میں میں بیان کروں گا.اس شخص نے اس کے ہاتھ میں جو چیز تھی اُس کی ماں کے سر پر ماری اور وہ بے ہوش ہو کر جا پڑی اور پھر یہ نکلا ہے اس دہائی کے بعد، نیچے بازار والوں نے کہا کہ ہمارے پاس سے تو کوئی گزر کے نہیں گیا.وہ شخص او پر چڑھ گیا ہوگا.چھت پر جاکے دیکھا تو وہاں سے نیچے اترنے کی کوئی جگہ ہی نہیں تھی.یعنی دومنزلہ مکان کی چھت کے اُوپر سے وہ اگر گر تا تو اُس کی ہڈیاں، پسلیاں ٹوٹ جاتیں.لیکن اُس کا کوئی نشان نہیں تھا ہر طرف تلاش کی گئی.لیکھرام کو ہسپتال پہنچایا گیا مگر اُس شخص کا کوئی نام ونشان نہیں ملا اور پولیس چھان بین کے باوجود اُس کو مہیا نہ کرسکی لیکھرام کے منہ سے اُس وقت بیل کی طرح نہایت زور کی آواز نکلی.حضرت مسیح موعود
خطابات طاہر جلد دوم 437 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء کے الفاظ یہ تھے کہ وہ ایک گائے کے بچھڑے کی طرح ہے جس کے اندر سے خوار یعنی بچھڑے کی آواز نکلے گی.بیوی ، ماں دوڑے.لیکھرام کو فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا.شام کا وقت تھا.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب یہ احمدی تھے.وہ ڈیوٹی پر تھے اور ڈاکٹر پیری جو انگریز ڈاکٹر تھے.جنہوں نے آ کر آپریشن کرنا تھا وہ موجود نہیں تھے.ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب نے پیغام بھیجا.ڈاکٹر پیری آخر آ پہنچا اور اُس نے آپریشن کیا اور آپریشن کے دوران جب وہ ڈاکٹر یعقوب صاحب کو مرزا صاحب کر کے مخاطب ہوتا تھا.تو لیکھرام کانپنے لگتا تھا.کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب یہاں بھی پہنچ گئے ہیں اور اس حالت میں بہت ہی کرب کے ساتھ تڑپ تڑپ کے اُس نے جان دی.جب لیکھر ام کے ساتھ یہ واقعہ گزر گیا تو اُس کی لاش جلا دی گئی اور دریا میں بہا دی گئی.جس طرح پہلے سامری کی لاش جلائی گئی تھی اور عِجُلٌ جَسَدٌ لَّهُ خَوَارٌ ( تذكره :٢٠٠) اُسی بچھڑے کے متعلق قرآن کریم کی آیت ہے.یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہوا تھا جس سے ایک اور مماثلت اور الہی تائید حاصل ہوئی.یعنی لیکھرام جو بولتا تھا وہ بچھڑے کی طرح ڈکارتا تھا اور اس کے سوا اس کے منہ سے کوئی واضح کھلی بات سمجھ نہیں آتی تھی اور اُس کی لاش کو بھی جلا دیا گیا خاکستر کر دیا گیا اور اُس کی راکھ پانی میں بہا دی گئی.یہ پیشگوئی جب پوری ہوئی اور بڑی شان کے ساتھ عین وقت کے مطابق ، تاریخوں کے مطابق سو فیصدی درستی کے ساتھ پوری ہوئی تو ہند و اخباروں نے بہت شور مچایا اور انہوں نے حکومت کو توجہ دلائی کہ اس نے یعنی حضرت مسیح موعود نے واقعہ سے پہلے کیسے وہ بیان دیا جس کا ایک ایک لفظ سچا نکلا.اس کو کیسے پتا چلا کہ بعینہ یہ واقعات ہوں گے.اس کو دن کا کیسے پتا چلا ؟ اس کو مہینوں کا کیسے پتا چلا ؟ عید کا کیسے پتا چلا ؟ لازماً اس شخص نے خود قاتل تیار کر کے ہے.چنانچہ اس پر بہت سے اخبارات نے بہت شور ڈالا.اخبار رہبرِ ہند لاہور نے اپنی ۵/ مارچ ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں لکھا کہ :." کہتے ہیں کہ ہند و قادیاں والے کو قتل کرائیں گے.“ یعنی جوابی کارروائی کیلئے اُس نے اس طرح آمادہ کرنا شروع کیا کہ لوگوں سے سنتے ہیں کہ ہند ولوگ اب مرزا غلام احمد قادیانی کو نہیں چھوڑیں گے.پھر آفتاب ہند نے ۱۸ / مارچ ۱۸۹۷ء کو مرزا قادیانی خبر دار“ کے عنوان سے خبر شائع کی.
خطابات طاہر جلد دوم 438 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء ”مرزا قادیانی بھی امروز وفردا کا مہمان ہے.بکری کی ماں کب تک خیر مناسکتی ہے.پس مرزا قادیانی کو خبر دار ہنا چاہئے کہ وہ بھی بقر عید کی قربانی نہ ہو جاوے.“ سارے ہندوستان میں احمدیت آریوں کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی تھی جبکہ آریوں کے ساتھ تمام ہندو قوم شامل ہو چکی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دستور یہ تھا کہ بغیر پہریدار کے ، آج میرے ساتھ تو آپ پہریدار دیکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کوئی پہریدار مقرر نہیں تھے.آپ اُسی طرح صبح کی سیر کو جاتے ،اسی طرح واپس آتے.اکیلے گھر میں ، گھر کے دروازوں پر کوئی نگہدار، کوئی نگہبان مقرر نہیں تھا اور تن تنہا سارے سفر کرتے تھے اور ان ساری دھمکیوں کو آپ ذرا بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے ساتھ حفاظت کا وعدہ تھا.ہندوؤں کی طرف سے بہت سے اشتہار شائع کئے گئے اور انعام مقرر کئے گئے کہ کسی طرح اُس قاتل کو ڈھونڈ و وہ کون ہے؟ اُس کا ماضی کیا ہے؟ وہ کہاں چلا گیا ؟ اور اس ضمن میں بعض خبر یں دی گئیں.یہاں تک کہ کشمیر سے بھی لوگ پکڑ کے لائے گئے اور دور دور سے اس جیسے میں کہ یہ وہ شخص ہے جس کا نہ سر نہ پیر ، بعید نہیں کہ یہی قاتل ہو.ان کو پولیس نے پکڑا اور حاضر کیا تو اُس وقت ماں اور بیوی جنہوں نے قاتل کو دیکھ لیا تھا.انہوں نے گواہی دی کہ ہرگز یہ وہ نہیں.اس کی شکل اُس سے نہیں ملتی.تو خدا تعالیٰ نے ایک ایک چیز کا انتظام کر رکھا تھا ، وہ کون تھا ؟ کہاں سے آیا کہاں چلا گیا ؟ کسی کو کوئی خبر نہیں.لیکن ان دھمکیوں کے ساتھ بعض مسلمان علماء تھے جو خاموش ہو گئے.ان کو یہ تو ہمت نہیں پڑتی تھی کہ اس کی تائید میں اٹھ کھڑے ہوں.ان کو پتا تھا کہ سارے مسلمان پھر یہ نشان دیکھ کے احمدی مسلمان ہو جائیں گے لیکن ان میں سے بعض مخالف ایسے تھے جنہوں نے خفیہ پیغام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھجوائے کہ ایک آپ ہی تو ہیں جولڑے صلى الله ہیں رسول اللہ ﷺ کی عزت کی خاطر اور آپ کو خطرہ ہے اس لئے اس خطرہ میں ہم آپ کے ساتھ ہیں.ہم آپ کو متنبہ کرتے ہیں کہ اپنے لئے ساری احتیاطیں برتیں.ہر قسم کی احتیاطی کارروائی لي کریں.پہریدار مقرر کریں.وغیرہ وغیرہ.بہت سے مشورے دیئے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی مشورے کو قبول نہ کیا اور اپنی زندگی اور طرز بود وباش میں کوئی بھی تبدیلی نہ کی وہی اکیلے تن تنہا کبھی صبح جلدی سے سیر کو نکل جانے والے تھے یہاں تک کہ
خطابات طاہر جلد دوم 439 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء صلى الله بعض دفعہ صرف ایک خادم ساتھ ہوا کرتا تھا.گھر پہ کوئی پہریدار نہیں، ہر شخص آتا جا تا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے روز مرہ کاموں میں کوئی ذرہ بھر بھی تبدیلی نہ آئی.ہاں ایک مولوی تھا جس کو یہ بد بختی نصیب ہوئی کہ اُس نے آریوں کی تائید میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف زبان درازی شروع کر دی.اُس مولوی کا نام محمد حسین بٹالوی ہے.انتہائی استہزاء کی زبان جو آنحضرت ﷺ کے خلاف لیکھرام استعمال کیا کرتا تھا.اُسے خاطر میں نہ لایا اور اپنے رسالہ اشاعۃ السنت میں الہامی قاتل کے عنوان سے مضمون لکھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس سلسلہ میں بار بار تنگ کیا گیا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مولوی محمد حسین بٹالوی بھی رسول اللہ ﷺ کے دشمن کے حق میں آپ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام الہامی قاتل رکھا.ہندو اخبارات نے جہاں تک ان کی بن پڑی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے خلاف شور ڈالا.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق اتنی زیادہ کھچڑی پک چکی تھی اور ہندو اخبار اتنی زہر چکانی کر چکے تھے کہ اچانک ایک دن غیر متوقع طور پر پولیس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر کوگھیرے میں لے لیا.اُس وقت جو سپر نٹنڈنٹ پولیس تھا وہ انگریز تھا اور اُس کے نائبین میں سے ایک انسپکٹر پولیس جو مسلمان تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف ہمیشہ پلید زبان استعمال کیا کرتا تھا اور اُس نے یہ اعلان کیا تھا کہ میں ان ہاتھوں سے مرزا قادیانی کو تھکڑی پہناؤں گا، دیکھو وہ کیسے مجھ سے بچ کے نکلتا ہے.چنانچہ جو تلاشی شروع ہوئی اُس میں حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک بیان کا خلاصہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ فرماتی ہیں کہ (میری پھوپھی جان حضرت ) مبارکہ بیگم کا چھلہ نہائے ہوئے ابھی دو تین دن ہی گزرے تھے کہ اوپر کے مکان سے زور زور کی آوازیں آنی شروع ہوئیں.مسجد کا دروازہ بڑے زور سے کھٹکا اور اس طرف سے بھی ایک سپاہی نمودار ہوا.حضرت صاحب اندر دالان میں بیٹھے کام کر رہے تھے.آپ کو پیغام بھجوایا گیا کہ سپاہی آگئے ہیں.آپ بڑے اطمینان سے اٹھے مسجد کی طرف گئے.دیکھا تو وہاں انگریز پولیس کپتان کھڑا تھا.حضور نے اُسے مکان کے اندر آنے کی دعوت دی اور اُس کے ساتھ ہی پولیس نے مکان پر ہر جگہ سے قبضہ کر لیا اور تمام اونچی جگہوں پر کھڑا ہو کر مکان کی حرکات و سکنات کا ملاحظہ کرنے لگے.اُس وقت ہمارے چچا جان حضرت مرزا
خطابات طاہر جلد دوم 440 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء بشیر احمد صاحب چھوٹے تھے اور اماں جان کو سب سے پہلے اس واقعہ کی اطلاع اُنہوں نے یہ دی کہ پائی آیا ہے.پائی آیا ہے.اماں جان حیران تھیں.یہ پائی آیا ہے کیا مطلب ہے.تو وہ سپاہی کو دیکھ رہے تھے.اس سپاہی کو پائی کہتے تھے.تو سب سے پہلی جو اطلاع ملی ہے وہ اس بچے کی طرف سے ملی کہ سپاہی آگیا ہے.لیکن پولیس کا جیسا کہ رواج ہے چاروں طرف سے، ہر طرح سے مسلح پولیس نے مکان کو گھیر رکھا تھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس سپر نٹنڈنٹ پولیس کو جو انگریز تھا سے فرمایا کہ اجازت ہو تو آپ کی کوئی خاطر کی جائے.گرم دودھ یا اور کوئی چیز.اس لئے کہ اس بیچارے کو تلاشی کے دوران ایک چھوٹے دروازے سے گزرنا پڑا تھا اور سر اتنی زور سے ٹکرایا تھا کہ بھتا گیا تھا اس لئے نہیں کہ آنے والے پولیس کی کوئی خاطر کی جارہی ہے.اُس کی بیماری کے پیش نظر مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.کہ میں گرم دودھ لے آؤں، کوئی چیز لاؤں، تو تھوڑی دیر کے بعد اُس نے کہا نہیں میں ٹھیک ہوں میں سنبھل گیا ہوں.اب جو تلاشی ہوئی ہے اُس کا حال یہ تھا کہ تمام تالے توڑے گئے ہر کونہ کھد را دیکھا گیا، تمام ڈاک کی تلاشی لی گئی ، بعض اینٹیں اکھیڑی گئیں ، بعض دیوار کے پیچھے جہاں خیال تھا کہ کوئی چیز چھپائی جاسکتی ہے ان دیواروں کو اکھیڑ دیا گیا اور کوئی امکان باقی نہیں چھوڑا.جس سے کہ چھپانے والا کوئی چیز چھپا سکے.یہاں تک کہ بعض خطوط نکالے گئے جن خطوط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لیکھرام کی موت پر مبارک باد لکھی گئی تھی.وہ خطوط اس پولیس افسر کے سامنے پیش کئے گئے.تو یہ انسپکٹر پولیس دوڑا دوڑا گیا کہ دیکھو یہ پکڑا گیا اس شخص کو اس کے مریدوں نے مبارک باد کے خط لکھے ہیں.ثابت ہوتا ہے کہ اس کا دخل ہے.وہ انگریز بہر حال منصف مزاج تھا.اُس نے کہا کیا باتیں کر رہے ہو.اس خط سے اس کا ملوث ہونا کیسے ثابت ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ تو ایک خط ہے میرے پاس ایک صندوتچی بھری پڑی ہے.اجازت ہو تو میں وہ لے آؤں.اُس صند و مچی میں سارے مبارک باد کے خط تھے.غرضیکہ اتنی تلاشی ہوئی ہے کہ اُس تلاشی میں اشارہ بھی کوئی ثبوت کسی قسم کا اگر مہیا ہوتا تو وہ ضرور وہاں سے نکلنا چاہئے تھا.یہ جب واقعہ گزر گیا اور پولیس نے بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بری الذمہ قرار دے دیا.تب بھی سارے ہندوستان سے آریہ سماج کی طرف سے اور بعض دوسرے ہندوؤں کی طرف سے دشمنی کا شور بڑھتا رہا اور باوجود اس دشمنی کے شور کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطابات طاہر جلد دوم 441 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء نے کچھ نہیں کہا.اسی طرح آپ نے بقیہ زندگی بسر فرمائی اور یہ ۱۸۹۷ء کا جلسہ تھا جو اس لیکھر ام کی پیشگوئی کے بعد اس شان کے ساتھ منایا جا رہا تھا.بابو گھانسی رام ایم.اے.ایل.ایل.بی کا اعلان تھا.اُس نے یہ بات حق کہی کہ صوبہ پنجاب کے دارالخلافت لاہور میں یہ قتل ہوا مگر پولیس قاتل کا پتا چلانے میں نا کامیاب رہی.اتفاق یہ دیکھئے غلام احمد کی پیشگوئی پوری ہوئی اور پنڈت لیکھرام کو شہادت نصیب ہوئی.اس بات کو پر میشر ہی جان سکتا ہے کہ یہ اُس کا بھیجا ہوا عذاب تھایا انسان کا.“ چنانچہ ہندوؤں نے کھلے عام بڑے بڑے لیڈروں اور لکھنے والوں نے یہ تسلیم کیا.پنڈت مدن گوپال مون پارا شر سناتن دھرمی سابق ایڈیٹر ” اندھیر“ پٹی ضلع لاہور کا یہ اعتراف ہے.وہ لکھتے ہیں.و لیکھر ام کے مارے جانے کی نسبت پیشگوئی اور الزام قتل سے انجام کار اپنے بری ہونے کی پیشگوئی پوری ہوئی.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بریت کے لئے پیشگوئی فرمائی تھی.آپ نے فرمایا تھا یہ میری پیشگوئی ہے.لفظ لفظ پوری ہوگی.لیکن تم دیکھنا کہ مجھ پر الزام لگانے والے جھوٹے نکلیں گے اور میری بریت بھی شائع ہوگی.چنانچہ یہ بریت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے واقعۂ ظہور پذیر ہوئی.یہ ایک واقعہ ہے جو مشہور آریہ سماجی پنڈت دیو پر کاش نے لیکھرام کے قتل کے متعلق خود لکھا ہے اور ان سب باتوں کی تصدیق کی ہے.وہ یہ لکھتا ہے عین اُس وقت جبکہ پنڈت جی نے مہرشی کے جیون کے اس آخری حصہ کو جس وقت کہ انہوں نے اپنی زندگی کا ویدک دھرم کے راستہ میں قربان کیا اور کہا ایشور تیری اچھیا ( خواہش پورن (پوری ) ہو.( یعنی اے خدا تیری خواہش پوری ہو.تیری رضا پوری ہو.) ختم کیا اور تھکاوٹ کے سبب اٹھ کر سات بجے شام کے وقت انگڑائی لی.اُس وقت وہ خنجر اُس کے پیٹ میں گھونپ دیا.یہ ہندو لکھنے والا اقرار کر رہا ہے کہ لیکھر ام کے آخری الفاظ اُٹھتے ہوئے یہ تھے.کہ اب میں نے اپنا کام ختم کر لیا.اے ایشور تیری اچھیا ہو.اے خدا اب جو تو چاہتا ہے وہ کر.عین اُس وقت وہ فنجر اس کے پیٹ میں گھونپ دیا گیا.وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کو ویدک دھرم میں اس راہ پر قربان کر دیا.وہ کہتے ہیں تب پنڈت جی کی ما تا اور دھرم پتنی اُس کی طرف دوڑیں.اب یہ واقعہ ہماری تاریخ میں نہیں ملتا اس لئے میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.
خطابات طاہر جلد دوم 442 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء کہ ہندو لکھنے والوں کا جو لیکھرام سے گہراتعلق رکھتے تھے ان کا یہ اقرار ہے اور یہ وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اُس کی شکل دکھادی تھی ورنہ پتا نہیں کس مظلوم کو وہ پکڑ کر تختہ دار پر چڑھا دیتے اور یہ لکھ دیتے کہ قاتل پکڑا گیا.وہ لکھتا ہے.تب پنڈت جی کی ما تا اور دھرم پتنی اُس کی طرف دوڑیں.اُس وقت اس بے رحم ظالم نے پنڈت جی کی بوڑھی ماتا کو بیلنا اس زور سے مارا کہ وہ اچانک چوٹ لگنے کے سبب سے بے ہوش ہو کر گر گئیں اور وہ بے ایمان قاتل فرار ہو گیا.کچھ دیر کے بعد لوگ جمع ہو گئے.اور پنڈت جی کو ہسپتال لے گئے.یہ کچھ دیر کے بعد والی بات غلط ہے یہ جو شور پڑا تھا.اُس کے ساتھ ہی دھڑا دھڑ لوگ اُوپر چڑھنے شروع ہوئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سے تو قاتل نہیں گزرا، او پر جا کے دیکھو، اوپر جا کے دیکھا تو وہاں اُس کا کوئی نشان نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بریت پر اس لحاظ سے اکتفا نہیں فرمایا کہ حکومت کی طرف سے تحقیقی کارروائی کے نتیجہ میں آپ کو بری قرار دیا گیا.آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے بریت چاہتے تھے.دشمن مسلسل آپ پر الزام لگا رہا تھا اور بے حد غلیظ زبان استعمال کر رہا تھا کہ یہ قاتل ہے، یہ الہامی قاتل ہے، یہ فلاں قاتل ہے، اس سے ہم پیٹیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب باتوں کا ازالہ اس طرح فرمایا.اب دیکھئے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شخصیت کس شان کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے.فرمایا کہ یہ لوگ الزامات لگا رہے ہیں.ابھی تک کہہ رہے ہیں کہ میں قاتل ہوں.اس کا ایک حل ہے جو میں پیش کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایسا شخص میرے سامنے قسم کھائے جس کے الفاظ یہ ہوں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہوا ہے.پس اگر یہ میچ نہیں ہے تو اے قادر خدا ایک برس کے اندر مجھ پر عذاب نازل کر جو ہیبت ناک عذاب ہو گر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو.(کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو ورنہ لوگ پھر شک کریں گے ) اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور ہو سکے.پس اگر یہ شخص ایک برس تک میری بددعا سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں اور اس سزا کے لائق کہ ایک قاتل کے لئے ہونی چاہئے.اب اگر کوئی بہادر کلیجے والا آر یہ جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑاوے تو اس
خطابات طاہر جلد دوم 443 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء طریق کو اختیار کرے.“ (سراج منیر ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۹) لیکھرام اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا.حکومت کی طرف سے بریت جاری ہوگئی اور شائع کر دی گئی اور حضرت مرزا صاحب ہیں کہ میدان چھوڑ ہی نہیں رہے.اُسی طرح دنگل میں کھڑے ہیں.فرماتے ہیں کہ میرا خدا فیصلہ کرے گا.اے الزام لگانے والو اگر تم سچے ہو تو آؤ میدان میں اور میں بھی خدا کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ ایک سال کے بعد جو کچھ تم مجھ سے کرنا چاہو گے وہ کرلو اور میری جان حاضر ہے.اس مقابلہ کے بعد گنگا بشن کی آمادگی اور فرار کا واقعہ ہے.گنگا پشن نے ۳ را پریل ۱۸۹۷ء کو یہ اعلان کیا کہ میں قسم کھانے کو تیار ہوں لیکن کچھ شرطیں ہیں اگر مرزا صاحب یہ شرطیں مان جائیں تو میں حاضر ہوں شرطیں کیا تھیں؟ پیشگوئی پوری نہ ہونے کی حالت میں آپ کو پھانسی دی جائے گی.پہلی شرط.میرے لئے دس ہزار روپیہ گورنمنٹ کے پاس جمع کرا دیا جائے تا کہ آپ کو پھانسی دینے کے بعد جو میں جشن مناؤں.اُس کے لئے کچھ روپیہ پیسہ بھی ہو.جب میں قادیان میں قسم کھانے کے لئے آؤں اس بات کا ذمہ لیا جائے کہ مجھے لیکھرام کی طرح قتل نہ کیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گنگا بشن کی تینوں شرائط منظور فرمالیں اور لکھا کہ :.غرض میں طیار ہوں نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ گورنمنٹ کی عدالت میں یہ اقرار کر سکتا ہوں کہ جب میں آسمانی فیصلہ سے مجرم ٹھہروں تو مجھ کو پھانسی دی جائے.میں خوب جانتا ہوں کہ خدا نے میری پیشگوئی پوری کر کے دین اسلام کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے یہ فیصلہ کیا ہے.پس ہرگز ممکن نہیں ہوگا کہ میں پھانسی لگوں.یا ایک خرمہرہ کسی تکذیب کرنے والے کو دوں یا ایک خرمہرہ یعنی ایک پائی ایک پیسہ جو کچھ بھی آپ اُسے کہہ لیں کسی تکذیب کرنے والے کو دوں.بلکہ وہ خدا جس کے حکم سے ہر ایک جنبش وسکون ہے.اس وقت کوئی اور ایسا نشان دکھائے گا جس کے آگے گردنیں جھک جائیں گی.(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۷۵) میدان میں کھڑے ہیں اور دشمن کو دعوت پہ دعوت دے رہے ہیں.یہ اشتہار پڑھ کر لالہ جی نے کہا ایک سال کو میں نہیں مانتا.چاہتا ہوں کہ فورا زمین میں غرق کیا جاؤں.تو اُس کا مطلب تھا کہ اس طریق پر میں بھاگنے کیلئے ایک راہ نکالوں گا.یا یہ کہ مہینہ اور گھنٹہ موت کا مجھے بتا دیا جائے.
خطابات طاہر جلد دوم 444 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء حضرت اقدس نے جواب دیا کہ یہ آپ کے پہلے اقرار کے خلاف ہے.آپ نے خود جو شرطیں لکھی تھیں ان شرطوں کو میں من و عن تسلیم کر چکا ہوں.ان شرطوں میں ایک سال والی بات موجود ہے.پس آپ کے پہلے اقرار سے پھرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں.علاوہ اس کے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں اُس کے حکم سے زیادہ نہیں کر سکتا.اُس نے مجھے ایک سال کا وعدہ فرمایا ہے.میں اپنی طرف سے تو باتیں بنا نہیں رہا چونکہ خدا نے مجھے ایک سال کا کہا ہے.میں ایک سال پر قائم رہوں گا.ہاں اگر معیاد کے اندر کوئی زیادہ تشریح خدا تعالیٰ کی طرف سے کی گئی تو میں اُس کو شائع کر دوں گا.مگر کوئی عہد نہیں.آپ اگر اپنی بہادری پر قائم ہیں تو ایک سال کی شرط قبول کر لیں.میں یہ اقرار بھی کرتا ہوں کہ صرف اس حالت میں یہ نشان نشان سمجھا جائے گا.جب کسی انسانی منصوبہ سے آپ کی موت نہ ہو اور کسی دشمن بداندیش کے قتل کا شبہ نہ ہو.لالہ گنگا بشن نے اب کی دفعہ یہ شرط بھی زائد کی تھی کہ اگر آپ جھوٹا نکلنے کی صورت میں پھانسی دیئے جائیں.تو لاش گنگا پشن کے حوالے کی جائے جو چاہے تو جلا دے یا دریا بُر د کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس شرط کی منظوری کا بھی اعلان فرماتے ہیں اور آپ نے اس کے ساتھ لکھا.” میرے نزدیک بھی جھوٹے کی لاش ہر ایک ذلت کے لائق ہے اور یہ شرط در حقیقت بہت ضروری تھی جو لالہ گنگا بشن صاحب کو عین موقع پر یاد آگئی لیکن ہمارا بھی حق ہے کہ یہی شرط بالمقابل اپنے لئے بھی قائم کریں.ہم نے مناسب نہیں دیکھا کہ ابتداء اپنی طرف سے یہ شرط لگا دیں مگر اب چونکہ لالہ گنگا بشن صاحب نے بخوشی خود یہ شرط قائم کر دی ہے اس لئے ہم بھی تہہ دل سے شکر گزار ہو کر اس شرط کو قبول کر کے اسی قسم کی شرط اپنے لئے قائم کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ گنگا پشن صاحب حسب منشاء پیشگوئی مر جائیں تو ان کی لاش بھی ہمیں مل جائے تا بطور نشانِ فتح وہ لاش ہمارے قبضہ میں رہے اور ہم اس لاش کو ضائع نہیں کریں گے بلکہ بطور نشان فتح مناسب مصالحوں کے ساتھ محفوظ رکھ کر کسی عام مندر میں یالا ہور کے عجائب گھر میں رکھوا دیں گے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ: ۸۵-۸۶) کس شان کا انسان ہے.کیسی باتیں کرتا ہے.جس شخص نے خود قتل کا منصوبہ بنایا ہو اس کو
خطابات طاہر جلد دوم 445 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء علم ہو کہ خدا کا اس میں کوئی بھی دخل نہیں وہ دنیا کی عدالتوں سے بری ہو چکا ہو.اُسے ضرورت کیا پڑی ہوئی تھی کہ دوبارہ خدا کی عدالت میں جاپڑے اور اس شان اور اس دلیری اور اس بہادری کے ساتھ یہ اعلان کرے کہ ہاں میری لاش تم لو اور تمہاری لاش میں.میری لاش کو تو تم کہتے ہو ناں کہ جلاؤ گے اور بکھیر دو گے میں تمہاری لاش کی عزت کروں گا اور فرعون کی طرح اُس کی تھی بنا کر لاہور کے عجائب گھر میں رکھوائی جائے گی.اب لالہ جی کے لئے کوئی راہ فرار باقی نہیں تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کی شرطوں کو تسلیم کرتے ہوئے بار بار للکار رہے تھے کہ آؤ میدان میں آؤ.مگر لاله گنگا اپشن صاحب کو اپنی لاش سامنے نظر آرہی تھی.وہ مردخدا کیسے بنتے.لاچار ایک اشتہار میں اپنی لاش دینے سے انکار کر کے اس قصے کو ختم کر دیا.انہوں نے لکھا کہ یہ جولاش دینے والی شرط ہے اگر چہ میں نے ہی لگائی تھی مگر میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں اس لئے اس قصے کو ختم کر دیا جائے.یہ وہ الہی مناظرہ تھا جو آسمان کے نیچے، خدا تعالیٰ کی نگاہ کے سامنے اس دنیا میں کیا جا رہا تھا.اور یہ وہ مباہلہ تھا جو اس طرح اپنے انجام کو پہنچا.عجیب بات ہے کہ عین سو سال کے بعد اسی سال یعنی ۱۹۹۷ء میں ضیاء الحق کی ہلاکت کے سلسلہ میں بھی میری اسی طرح بریت ہوئی.زمین سے بھی میری بریت ہوئی اور آسمان سے بھی میری بریت ہوئی.جو قاتل کہنے والا تھا وہ خود مباہلہ کا نشان بن کر ہلاک ہو گیا.اُس کا ذکر میں بعد میں پھر کروں گا.لیکن ضیاء الحق کے متعلق یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امریکی فضائیہ کے ریسرچ سیل نے سابق صدر پاکستان کے طیارہ کے حادثہ کے بارہ میں اپنی رپورٹ مکمل کر لی ہے جو شائع کر دی گئی ہے.وہ یہ کہتے ہیں کہ کسی فنی خرابی کی وجہ سے جس کا ہمیں علم نہیں ہو سکا یہ طیارہ تباہ ہوا ہے.۱۹۸۸ء میں ہونے والے حادثہ میں تخریب کاری کے کوئی شواہد نہیں ملے، کسی قسم کی تخریبی کارروائی کا کوئی شبہ نہیں.بلیک بکس جو ہر قسم کی خرابی کو ریکارڈ کرتا ہے وہ ملا ہے قطعی طور پر اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی قسم کی کوئی تخریبی کارروائی اُس جہاز میں نہیں کی گئی تھی.یہ معلوم ہے کہ جہاز کے تمام انجنوں نے حادثہ کے وقت فوری طور پر کام کرنا بند کر دیا تھا..یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عجیب نشان ہے.تمام انجنوں نے بیک وقت بغیر کسی ایسی وجہ کے جو بلیک بکس ریکارڈ کرتا کام کرنا بند کر دیا.پس اُس کے اچانک بند ہونے کی وجہ بھی سمجھ نہیں آئے
خطابات طاہر جلد دوم 446 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1997ء گی کیونکہ ایک بلیک بکس ہی گواہ تھا.تو جس طرح لیکھرام اپنے انجام کو پہنچا اور اس کی ہلاکت کی وجہ بھی سمجھ نہیں آسکی اسی طرح اس زمانہ کا لیکھر ام بھی اپنے اس انجام کو پہنچا جو اس کے لئے مقدر تھا.جس کے متعلق میں اپنی نظم میں پاکستان میں ہوتے ہوئے ان صاحب کی موجودگی میں یہ اعلان کر چکا تھا کہ: کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغ دعا، آج بھی اڈن ہوگا تو چل جائے گی (کلام طاہر صفحہ ۱۴۰) اُس خدائی تقدیر نے اس دور کے اس لیکھرام کا بھی صفایا کیا اور یہ ۱۸۹۷ء کی بات ہے اور آج ۱۹۹۷ء ہے پس دیکھو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کس طرح ایک سوسال کے بعد ایک سال دہرایا جارہا ہے.یہ میں دہرانے کا لفظ اس لئے خصوصیت سے استعمال کر رہا ہوں کہ آپ دیکھیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جماعت کی ترقی کے جتنے بھی الہامات اس سال میں ہوئے تھے وہ انشاء اللہ جماعت کے حق میں بھی اُسی طرح اس سال میں پورے ہوں گے.پس اس الہی جشن منانے کی تقریب کے لئے تیاری کریں جو عالمی جشن ہو.اس میں توحید کی فتح ہوگی اور خدا تعالیٰ کی منہ کی ساری باتیں پوری ہوں گی.جولیکھرام پہلے قتل ہوا ویسا ہی لیکھر ام دوبارہ آپ کی آنکھوں کے سامنے اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے.وہی باتیں جو اُس کے اُس زمانہ میں ظاہر ہوئیں جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس سے بری الذمہ فرمایا وہی باتیں آج اس زمانہ میں بھی پوری ہو رہی ہیں.یہ وہ زمانہ ہے جبکہ میں نے بھی اس سال دوبارہ مباہلہ کا چیلنج دیا ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان بد بختوں کو ایک مبلہ کا چیلنج دیا تھا.میں نے بھی ایک آخری مبلہ کا چیلنج دیا ہے اور اس مبللہ کے متعلق انشاء اللہ تعالیٰ میں کل کی تقریر میں کچھ آپ کے سامنے پیش کروں گا.آسمان سے شہادتیں اتر رہی ہیں آسمان سے گواہیوں کا نزول ہو رہا ہے، خدا بڑے زور آور حملوں کے ساتھ دنیا پر یہ ثابت کر رہا ہے کہ احمدیت سچی ہے اور خدا کی جماعت ہے.اس جماعت کو دنیا میں پھیلنا ہی پھیلنا ہے.اسے تمام عالم پر محیط ہونا ہے.تمام کائنات پر اگر ایک بادشاہی ہوگی تو وہ تو حید کی بادشاہی ہوگی.ہم ادنی غلام ہیں جو اس بادشاہی کو قائم کرنے کے لئے چنے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اب میں اس خطاب کو جو کچھ اندازے سے زیادہ ہی لمبا ہو گیا ہے ختم کرتا ہوں.جو مضمون میں آج آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں اللہ کے فضل کے ساتھ اس سے پہلے اس طرح احمدیت کی تاریخ میں پیش نہیں کیا گیا.اب دعا کرلیں.(دعا) امین
خطابات طاہر جلد دوم 447 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء تمام دنیا کو لا الہ الا اللہ کے نعروں سے بھر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی روشنی میں جماعت کی ترقی کی خوشخبری افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۳۱ / جولائی ۱۹۹۸ء بمقام اسلام آباد لفورڈ برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی تلاوت کی.وَلْتَكُنْ مِنْكُمُ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران : ۱۰۵) پھر فرمایا:.اور چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت خیر کی طرف بلانے والی ہو اور نیکی کا حکم دینے والی اور برائیوں سے روکنے والی ہو.اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ یو کے کا آغاز ہو چکا ہے.مگر عملاً یہ اس وقت ساری دنیا کی نمائندگی میں جلسہ ہورہا ہے.دراصل آغا ز تو جمعہ کے خطبہ سے ہی ہو گیا تھا مگر جیسا کہ روایت چلی آتی ہے ایک افتتاحی تقریر اس کے بعد بھی ہوا کرتی ہے.سب سے پہلے تو میں آپ کی خدمت میں یہ عظیم الشان خوشخبری پیش کرتا ہوں کہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جلسہ کی حاضری اس وقت تک چودہ ہزار چار سو چھہ ہو چکی ہے جبکہ گزشتہ سال یہ حاضری ساڑھے سات ہزار تھی.تو عملا پہلے دن
خطابات طاہر جلد دوم 448 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء کی افتتاحی تقریر کے وقت گزشتہ سال کی سب سے زیادہ حاضری سے دگنی حاضری ہو چکی ہے اور ابھی آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کہاں تک یہ حاضری بڑھے گی مگر میں یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ کے پاک بندوں سے حاضری بڑھے ان پاک بندوں سے جن پر اللہ کے پیار کی نظریں پڑیں.اس کے بعد اب میں افتتاحی خطاب کا با قاعدہ آغاز کرتا ہوں.جو تلاوت میں نے کی ہے اسی تعلق میں چند احادیث نبویہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.صلى الله عَنْ أَبِي ذَرِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ لا تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ وَأَمُرُكَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهْيُكَ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ وَ ارشَادُكَ الرَّجُلِ فِي أَرْضِ الضَّلَالَ لَكَ صَدَقَةٌ وَبَصَرُكَ لِلرَّجُلَ الرَّدِيءِ الْبَصَرِ لَكَ صَدَقَةٌ وَاء مَاطَتُكَ الْحَجَرَ وَالشَّوكَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيقِ لَكَ صَدَقَةٌ وَافْرَاغُكَ مِنْ دَلْوِكَ فِي دَلْوِأَخِيُكَ لَكَ صَدَقَةٌ ( ترمذی کتاب البر والصلۃ حدیث: ۱۸۷۹) یہ حدیث ترمذى أَبْوَابُ الْبِرِّ وَالصَّلَةِ سے لی گئی ہے.حضرت ابوذرغفاری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.اپنے بھائی کے سامنے تیرا مسکرانا تیرے لئے صدقہ ہے.تیرا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی اچھی باتوں کا حکم دینا اور بُری باتوں سے روکنا ایک صدقہ ہے.بھٹکے ہوئے کو رستہ دکھانا تیرے لئے صدقہ ہے.کسی نابینا کی دستگیری کرتے ہوئے راہ دکھانا تیرے لئے صدقہ ہے.پتھر کا نٹایا ہڈی رستہ سے ہٹا دینا تیرے لئے صدقہ ہے اور اپنے حق میں سے اپنے بھائی کو کچھ دے دینا تیرے لئے صدقہ ہے.اس حدیث نبوی کے سننے کے بعد اس افتتاحی تقریرکا سارا مضمون آپ کی سمجھ میں آجانا چاہئے.آپ اس وقت ایک ایسے جلسے میں تشریف لائے ہیں جو اللہ کی خاطر ہے اور اللہ ہی کی خاطر آپ کو اپنا اسلوب بنانا ہو گا.اس پہلو سے یا درکھیں کہ رستہ چلتے مسکراہٹیں بکھیر دیں ایسی مسکراہٹیں جو اور چہروں پر مسکراہٹیں پیدا کرنے والی ہوں.پھر رستہ چلتے اپنے ایسے بھائیوں کی راہنمائی کریں جو کسی جگہ کی تلاش میں ہوں اور اگر خدا
خطابات طاہر جلد دوم 449 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء توفیق دے اور ضرورت مند اس کا محتاج ہو تو اسے ساتھ لے کر چلیں اور جس منزل کی تلاش میں ہے اسے وہاں تک پہنچادیں.اسی طرح اپنے بھائیوں کے لئے نرم نظر رکھیں ، ان کے اوپر پیار اور محبت کی نظر ڈالیں اور رستہ چلتے تکلیف دہ چیزوں کو دور کریں.اس سلسلہ میں پہلے بھی میں نے لندن میں ہونے والے خطبہ میں ہدایت دی تھی کہ اپنا دستور بنالیں کہ وہ چیز جو تکلیف پہنچاتی ہے اسے دور کرنے کی کوشش کریں.بعض لوگ کیلے کا چھلکا پھینک دیتے ہیں کوئی اور ایسی چیز مثلاً ہڈی یا کوئی اور نوک دار چیز جہاں کہیں بھی آپ کو یہ چیزیں دکھائی دیں ان کو اٹھا لیں اور جہاں تک ممکن ہے پلاسٹک کا کوئی ہلکا تھیلا اپنی جیب میں رکھیں اور میں انتظامیہ سے توقع رکھتا ہوں کہ کثرت سے ایسے تھیلے طلب کرنے والوں کو مہیا کر دیں جنہیں وہ اپنی جیب میں رکھیں.ہلکی سی چیز ہے جہاں کہیں بھی آپ کوئی ایسی چیز دیکھیں جو نقصان دہ ہو سکتی ہے اس کو اٹھا کر تھیلے میں ڈال لیں، بائیں ہاتھ سے اٹھا ئیں کیونکہ یہ بھی سنت ہے کہ رڈی چیزوں کو دائیں ہاتھ سے نہیں اٹھانا چاہئے جیسا کہ آپ سے توقع ہے ہاتھ اچھی طرح دھو لیں گے.اس کا ایک دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب آپ دوسروں کی پھینکی ہوئی تکلیف دہ چیزیں اٹھاتے ہیں تو لازماً اپنی طرف سے بھی کوئی ایسی چیز نہیں پھینکیں گے جو دوسروں کے لئے تکلیف کا موجب ہو.اسی طرح گلیوں میں شور ڈالنا، بازاروں میں اس طرح پھر نا کہ لوگوں کے لئے ایک تکلیف کا موجب ہو، ان کی نظر کو تکلیف دے یا ان کے کانوں کو آپ کا شور تکلیف دے ان سب چیزوں سے کلیہ پر ہیز رکھیں.آپ کو دیکھنے والی آنکھیں دیکھ رہی ہیں.کچھ ایسی آنکھیں ہیں جو اس غرض سے دور دور سے چل کے آئی ہیں کہ دیکھیں جماعت احمدیہ کے جلسہ میں کیا تصویر ابھرتی ہے، کس قسم کے یہ لوگ ہیں اور اتنے بڑے اجتماع میں کیا ان کا نظم و ضبط قائم رہتا ہے یا نہیں؟ سب دنیا کو تو تعلیم دیتے ہیں کہ ہم تمہاری بھلائی کے لئے ہیں، کیا خود بھی دنیا کی بھلائی کے لئے ہونے کا حق ثابت کرتے ہیں کہ نہیں ؟ اس لئے کچھ آنکھیں تو اس غرض سے دیکھنے کے لئے آئی ہیں.کچھ آنکھیں ایسی ہیں جن کو ویسے ہی آپ دکھائی دیں گے اور جلسے کے متعلق اس کا کوئی نہ کوئی اثر ان کی طبیعتوں پر پڑے گا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ یہ ساری باتیں پیش نظر رکھیں.مزید حدیث نبوی میں آیا ہے کہ اپنے بھائی کو کچھ دے دینا تیرے لئے صدقہ ہے.یہاں اکثر آنے والے خدا تعالیٰ کے فضل کے
خطابات طاہر جلد دوم 450 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء ساتھ ایسے ہوں گے جن کو کسی مادی صدقہ کی ضرورت نہیں ہے مگر بھائی کو کچھ دے دینا ان معنوں میں صدقہ ضرور ہے کہ آپ اچھی بات کہیں.آنحضرت ﷺ نے اچھی بات کہنے کو بھی ایسا ہی قرار دیا ہے کہ جیسے آپ نے اپنے بھائی کو واقعہ کچھ دے دیا ہو اس لئے ان سب باتوں کا خیال رکھتے ہوئے جو خلاصہ میں نے ان امور کا اخذ کیا ہے وہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.اس میں مہمانوں کے لئے بھی نصائح ہیں اور میز بانوں کے لئے بھی.نمازوں کا التزام کریں کیونکہ یہ دین کی جان ہیں.آج کے خطبہ میں آپ نے سن لیا ہے کہ نماز وہ مرکزی نقطہ ہے جس پر اسلام کی تمام عمارت بنائی گئی ہے اس کی تلقین وہ بنیادی اینٹ ہے جس کے اوپر تمام اسلام کی عمارت بنائی گئی ہے.پس نمازوں کا التزام کریں اور اچھی بات کہنے میں نمازوں کی طرف توجہ دلانے کو بھی شامل کر لیں.میں چاہتا ہوں کہ اس دفعہ نمازوں کے دوران کوئی ارد گرد بے کارٹولیاں دکھائی نہ دیں.جو لوگ مختلف فرائض سرانجام دے رہے ہیں ان کو میں پہلے ہی تفصیل سے ہدایت دے چکا ہوں کہ جب بھی توفیق ملے یعنی وقت کے اندر جب ان کا نظام ان کو بتائے کہ اس وقت تم نماز کے لئے الگ ہو جاؤ اور ان کی جگہ دوسرے پہریدار مقرر کئے جاچکے ہوں یا منتظمین مقرر کئے جاچکے ہوں اس وقت جہاں تک توفیق ہے باجماعت نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اگر باجماعت نماز پڑھنے کا وقت نہیں مل رہا ، اتنے دوست اکٹھے نہیں ہو رہے تو اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس حدیث کے پیش نظر خود ہی اپنی امامت کرائیں جس میں آنحضرت ﷺ نے خوشخبری دی ہے کہ اگر تمہارے ساتھ کوئی اور باجماعت نماز پڑھنے والا نہ ہوتو اللہ اپنے فرشتے اتار دے گا جو تمہاری امامت میں پیچھے نماز پڑھیں گے اور تمہاری نماز کو باجماعت کر دیں گے.پس ذکر الہی کی طرف خصوصی توجہ دیں.ذکر الہی ہر ذکر سے بڑھ کر ہے جو نماز میں ہی نہیں بلکہ نماز کے بعد بھی جاری رہتا ہے.پس اگر آپ اپنے دل کو ذکر سے سجائیں گے تو طبعی طور پر لغو باتوں کی طرف توجہ ہو ہی نہیں سکتی.ناممکن ہے کہ ایک انسان اللہ کو یا دکر رہا ہو اور ساتھ ہی لغو باتیں کر رہا ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ لغو باتیں تو سبھی ہیں لیکن اس کے دل میں ذکر بہر حال نہیں ہے کیونکہ ذکر الہی سے پاک کلام جاری ہوتا ہے اور انسان کی زبان پر اللہ تعالیٰ کا تصرف ہو جاتا ہے.بازار بھی جلسہ کے دوران بند رہنے چاہئیں.انتظامیہ کو اس کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے کہ بازار بند
خطابات طاہر جلد دوم 451 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء رہیں.ہاں مجبوری کے پیش نظر بیماروں کی ضروریات کے لئے یا دیر سے آنے والے مہمانوں کی فوری ضروریات کی خاطر کچھ دکانیں اگر کھلی رکھی جائیں تو ان پر نگران مقرر ہوں تا کہ وہ دیکھیں کہ وہ مقامی لوگ جن کے لئے کوئی جائز ضرورت نہیں ہے وہ اس موقع سے ناجائز فائدہ نہ اٹھا ئیں.آپس میں سلام کو رواج دیں آفشو السلام ( ترندی کتاب الاطعمۃ حدیث نمبر: ۱۷۷۷) کسی کو جانیں یا نہ جانیں اس کو سلام کہیں اور آپ کی طرف سے سلام کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تم میری طرف سے امن میں ہو، تمہیں میری طرف سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.تو ایک دعا بھی ہے اور ایک یقین دہانی بھی کہ اللہ کے فضل نے ہمیں وہ جماعت بنا دیا ہے جولوگوں کی بھلائی کے لئے بنائی گئی ہے اور ہم سے کسی کو کوئی شہر نہیں پہنچ سکتا.سرڈھانپنا صرف عورتوں کے لئے ہی نہیں مردوں کے لئے بھی اس لحاظ سے ضروری ہے کہ سر ڈھانپنے کے ساتھ ایک ذمہ داری کا احساس پیدا ہو جاتا ہے اور آپ بازار میں ٹوپی پہن کر پھرنے والوں کو آوارگی کرتے ہوئے نہیں دیکھیں گے ، شاذ کے طور پر دیکھیں گے ٹوپی یا پگڑی یا اس قسم کا کوئی اور انتظام یہ احساس پیدا کر دیتا ہے کہ ہم سے سرداری کی توقع کی جانی ہے.عورتوں کو نصیحت میں پہلے بھی کر چکا ہوں کہ پردے کا خیال رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انگلستان میں پلنے والی بچیاں اس پہلو سے بہت سی باہر کی آنے والی بچیوں کے لئے بھی نمونہ ہیں.جب سے میں نے نصیحت کی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اوڑھنی کے ذریعہ اپنے سر اور زینت کو چھپا کر رکھنا الا ماشاء اللہ یہاں کی بچیوں کی عادت بن چکی ہے سوائے چند استثمیات کے.لیکن بہت سے دوسرے ممالک سے آنے والی خواتین خواہ احمدی ہوں یا غیر احمدی ہوں اور پردہ میں بے احتیاطی کر رہی ہوں ان کو ٹھہرا کر متوجہ کریں.رستہ چلتے مردوں کا یہ کام نہیں مگر خواتین کی طرف سے ایسی نمائندہ کارکنات مقرر ہونی چاہئیں جو احتیاط اور نرمی، محبت اور پیار کے ساتھ ایسی بچیوں کو سمجھائیں اور بتائیں کہ ایک ایسے جلسہ میں آپ شامل ہیں جس سے بہت اونچی تو قعات کی جاتی ہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں ان میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہوگی اور وہ بچیاں جو بعض بیماریوں کی وجہ سے مجبور ہیں کہ وہ پوری طرح سر کو ڈھانپ بھی نہیں سکتیں، اس سے بھی ان کو تکلیف ہو جاتی ہے.ان کو چاہئے کہ ہر گز سنگھار پٹار کر کے باہر نہ نکلیں.سادگی اختیار کریں اور ان کی سادگی ہی ان کا پردہ ہوگی.جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں.حفاظت کا سب سے اعلیٰ اور سب دنیا سے الگ
خطابات طاہر جلد دوم 452 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء نکھیں ممتاز نظام جماعت احمدیہ کو عطا ہوا ہے.ہر احمدی سے توقع ہے کہ وہ آنکھیں کھول کر چلے ، آ کھول کر بیٹھے، آنکھیں کھولنے سے مراد یہ ہے کہ نگران رہے اور جہاں بھی اس کو کسی قسم کا ایسا آدمی دکھائی دے جس سے وہ سمجھے کہ خطرے کا احتمال ہے اس کے متعلق اگر وہ کچھ دیر اس کے ساتھ جا سکے تو بہتر ورنہ رستے میں جو تظمین دکھائی دیں ان کو بتا دے کہ فلاں شخص ہمارے خیال میں ایسا ہے کہ اس سے خطرہ ہو سکتا ہے لیکن اس کو خود کچھ کہنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے.نیز جب بھی جلسہ میں بیٹھیں کہ اب بیٹھے ہوئے ہیں تو اپنے دائیں بائیں کا خیال کریں قطع نظر اس کے کہ آپ کے نزدیک کوئی شخص قابل اعتماد ہے یا نہیں ہے، آپ اسے جانتے ہیں یا نہیں.یہ اصول بنالیں کہ دائیں بائیں ہلکی مخفی نظر ڈالتے رہیں.اکثر خطرے ان لوگوں سے درپیش آیا کرتے ہیں جن پر اطمینان ہوا کرتا ہے اکثر خطرات ان سے ظاہر ہوتے ہیں جن کے متعلق نہ صرف حفاظت کے افسران کو بلکہ ساتھ بیٹھے ہوئے آدمیوں کو بھی پورا اطمینان ہوتا ہے کہ ان سے کسی قسم کا کوئی خطرہ ہوہی نہیں سکتا.ایسے ہی لوگ ہیں جو خطرے کا موجب بنا کرتے ہیں.اس لئے بدظنی کا سوال نہیں ، ہوشیاری کا سوال ہے.کسی پر بدظنی نہ کریں مگر ہر ایک سے ہوشیار رہیں.یہ چند مختصر باتیں ہیں جو میں عمومی طور پر آج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا.اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند حوالے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ان میں جو نصیحتیں فرمائی گئی ہیں اور دعائیں دی گئی ہیں وہ مسافروں اور مقیموں پر برابر چسپاں ہوتی ہیں.ان کے علاوہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند الہامات بھی رکھوں گا جن کا تعلق ۱۸۹۸ء سے ہے.پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ دیکھا گیا ہے کہ جو الہامات انیسویں صدی میں ہوئے تھے کم و بیش ویسے ہی واقعات بیسویں صدی میں بھی ظاہر ہورہے ہیں ، یہ سلسلہ خصوصیت سے ۱۹۸۲ء سے میں نے محسوس کیا اور بار بار اپنی تقاریر میں جماعت کو متوجہ کرتا رہا ہوں کہ مثلاً ۱۸۸۲ء میں یہ الہام ہوا تھا اور ۱۹۸۲ء پر دو الہامات چسپاں ہورہے ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ ۱۸۹۸ء میں جو الہامات ہوئے تھے ان کی خوشخبریاں ہم تک پہنچیں گی اور میں امید رکھتا ہوں کہ جن خطرات کے بارہ میں وحی فرمائی گئی ہے جہاں تک ممکن ہو ہم دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان خطرات کو ٹال دے.
خطابات طاہر جلد دوم 453 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998 ء سراج منیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” خدا کی رحمت سے نومید نہ ہو.کیونکہ خدا کی رحمت اس ابتلا کے دنوں کے بعد جلد آئے گی.خدا کی نصرت ہر ایک راہ سے آئے گی.لوگ دور دور سے تیرے پاس آئیں گے.خدا نشان دکھلانے کے لئے اپنے پاس سے تیری مدد کرے گا.“ (سراج منیر ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه :۳۲) یعنی خدا بالواسطہ تیری مدد کرے گا ، وہ لوگ بھی مدد کریں گے جن کے دلوں پر خدا آسمان سے وحی کرنے پر یعنی بعض نشان ہم بالواسطہ بھی ظاہر کریں گے، پھر فرماتے ہیں یعنی یہ ۱۸۹۸ء کی تحریر نہیں ہے جو میں آپ کے سامنے پیش کرنے لگا ہوں.۱۸۹۸ء کے متعلق الہامات اور تحریرات بعد میں پیش کروں گا.اب دیکھ لیں ۱۹۹۸ء کے جلسہ میں جس کثرت سے لوگ آئے ہیں ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اور اس کے لئے تیاریاں نہیں تھیں مگر احتیاط کے طور پر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم ہمیشہ متوقع مہمانوں سے زیادہ مہمانوں کی میز بانی کے لئے تیاری کیا کرتے ہیں.کچھ ہنگامی چیزیں منگوانی پڑتی ہیں اس لحاظ سے کوئی دقت نہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام اس زمانہ میں تھا جو آج بعینہ پورا ہو رہا ہے.مهمان نوازی سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمومی ہدایات کے بعد اب میں بالعموم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نصائح اور جماعت سے آپ کی تو قعات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں.کم مقدرت احباب کے لئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اس جلسہ میں حاضر ہونے کی فکر رکھیں.اور اگر تدبیر اور قناعت شعاری سے کچھ تھوڑا تھوڑا سرمایہ خرچ سفر کے لئے ہر روز یا ماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بلا دقت سرمایہ سفر میسر آجاوے گا.(آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه : ۳۵۲) اس جلسہ پر بھی میں نے ایسے غریب زائرین دیکھے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے پاکستان سے انگلستان تک کے دور دراز کے سفر کے
خطابات طاہر جلد دوم 454 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء اخراجات پورا کرنے کی توفیق پائی.ملاقات کے دوران بعض غرباء نے مجھے بتایا کہ ان کا کوئی عزیز رشتہ دار باہر ایسا نہیں جس نے ان کی یہاں آنے کے سلسلہ میں مالی مدد کی ہو بلکہ لمبے عرصہ تک وہ تنگی ترشی سے گزارا کرتے ہوئے کچھ رقم بچاتے رہے تا کہ جلسہ میں شمولیت اختیار کر سکیں اور آخر خدا تعالیٰ نے انہیں یہ توفیق عطا فرما دی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ارشاد ایک گہری برکت رکھتا ہے.جو لوگ لہی سفر کا ارادہ کریں ان کو چاہئے کہ وہ اپنے امیر رشتہ داروں سے خواہ وہ پاکستان کے ہوں یا باہر کے مدد نہ مانگیں بلکہ خود مسلسل قربانی کے ساتھ کچھ نہ کچھ پس انداز کریں للہی سفر کا جو ثواب اس صورت میں عطا ہو سکتا ہے ویسا ثواب کسی اور صورت میں عطا نہیں ہوسکتا.یہ بھی یاد رکھیں کہ خدا کی راہ میں ایک انسان جب دوسروں سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خود اس کی ضرورت پوری کر دے تو اللہ تعالیٰ یقیناً اس کا کفیل ہو جاتا ہے.غیب سے اس کی مدد فرماتا ہے.بہت سے واقعات میں سے کینیڈا کے ایک دوست عبد الحفیظ صاحب کا ایک واقعہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.انہوں نے کینیڈا میں مستقل رہائش کے لئے درخواست دی تھی اور سماعت ۱۳ جنوری ۱۹۹۸ء کو مکمل ہوئی ، کہا گیا کہ فیصلہ کی اطلاع آپ کو ڈاک کے ذریعہ بھیجی جائے گی.انہوں نے مجھے دعا کے لئے فیکس دیا ، اسی پر اکتفا کیا اور کوئی انتظامی درخواست نہیں دی کہ ہماری اس بارہ میں مدد کی جائے.امیگریشن آفیسر کی طرف سے ۲۲ اپریل کی مرسلہ چٹھی ملی کہ آپ کی درخواست نامنظور کی جاتی ہے.اس اطلاع سے پریشانی ہوئی ، اپیل کے لئے ایک ماہ کا عرصہ دیا گیا.اس موقع پر ایک فیملی کی طرف سے خاکسار کو یہ کہا گیا کہ آپ روزانہ تبلیغ کرتے ہیں اس لئے آپ نیشنل امیر سے کہیں کہ میں ہر روز آپ کا کام کرتا ہوں آپ امیگریشن کو میری مدد کے لئے متوجہ کریں مگر وہ لکھتے ہیں میں نے جواب دیا کہ میں لوگوں کو رب کی طرف بلاتا ہوں یہ کام امیر صاحب پر احسان نہیں ہے.اس نے کہا اللہ کریم نے بھی آپ کی کوئی مدد نہ کی.اس کا یہ کہنا گویا اللہ تعالیٰ کی غیرت کیلئے ایک چیلنج تھا.میں نے کہا ہم اللہ کو پکاریں گے اور اسی کو پکاریں گے اور انشاء اللہ ضرور کامیابی ہوگی.دو دن تک ہم سب نے دعا کی.چار مئی کو ہماری وکیل کا فون آیا کہ دفتر کی غلطی سے آپ کو غلط فیصلہ سنایا گیا تھا.چنانچہ ۴ رمئی کو ترمیم شدہ فیصلہ آگیا کہ آپ کی درخواست منظور کی جاتی ہے.اب یہ ہے اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والوں کا ، خدا تعالیٰ پر بھروسہ
خطابات طاہر جلد دوم 455 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء کرنے والوں کا حال کہ کس طرح اللہ تعالیٰ خود ان کی مددفرماتا ہے.مگر جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ عرض کی تھی.یادرکھیں کہ بھروسہ اس نیت سے نہیں کرنا کہ وہ ضرور اس معاملہ میں آپ کی مدد فرمائے گا.جب بھروسہ اس نیت سے کریں گے تو بھروسہ ختم.پھر ایک قسم کا سودا شروع ہو جاتا ہے.جن صاحب سے خدا نے یہ شفقت کا سلوک فرمایا انہوں نے سودا نہیں کیا تھا.وہ ہر انجام کے لئے تیار بیٹھے تھے لیکن یہ دل کا فیصلہ تھا کہ انسان کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قادیان کے جلسہ کی اپیل کرتے ہوئے ایک اشتہار میں فرماتے ہیں: جمیع احباب مخلصین سے التماس.بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ’بعد ہذا بخدمت جمیع احباب مخلصین سے التماس ہے کہ ۲۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کو مقام قادیان میں اس عاجز کے محبوں اور مخلصوں کا ایک جلسہ منعقد ہوگا.اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کی معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو.پھر اس کے ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں گے ماسوا اس کے جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں.کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ 66 یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے طیار ہورہے ہیں.“ پس اس زمانہ میں یہ توقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تھیں اور آپس میں مل کر یہ تدبیریں بھی سوچنے کی ہدایت فرمائی گئی کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں کے دل اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیں، ہمیں ان کیلئے کیا کرنا چاہئے.آپ فرماتے ہیں.اور مکر رلکھا جاتا ہے کہ اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ
خطابات طاہر جلد دوم 456 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قو میں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۲۸۱ تا ۲ ۲۸ ایڈیشن دوم) پس آج آپ جو بکثرت قوموں کا رجوع دیکھ رہے ہیں یہ انہی پیشگوئیوں کا نتیجہ ہے جن کو اللہ بات انہونی نہیں.“ نے پورا کرنا تھا کیونکہ اسی کی عطا فرمودہ تھیں.پھر فرماتے ہیں.تیسری شاخ اس کارخانہ کی وار دین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرقہ سے آنے والے ہیں جو اس آسمانی کارخانہ کی خبر پا کر اپنی اپنی نیتوں کی تحریک سے ملاقات کے لئے آتے رہتے ہیں.“ اور دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ بات بھی کیسی سچی نکلی ہے.بکثرت احمدی دُور دُور سے ملاقات کی نیت لے کر چلے آتے ہیں.آپ علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں.یہ شاخ بھی برابر نشو ونما میں ہے.اگر چہ بعض دنوں میں کچھ کم مگر بعض دنوں میں وو 66 نہایت سرگرمی سے اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.چنانچہ ان سات برسوں میں ساٹھ ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے.“ اب اندازہ کریں ان سات برسوں میں ساٹھ ہزار سے کچھ زائد مہمان آئے ہوں گے.قادیان میں جو انتظامات تھے وہ ساٹھ ہزار کو اگر سات میں تقسیم کر لیں تو فی سال تقریبا آٹھ ہزار سے کچھ اوپر بنتے ہیں.اس زمانہ میں آٹھ ہزار مہمانوں کا انتظام کرنا ایک بہت مشکل کام تھا لیکن یہ سارا انتظام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود فرماتے تھے.آپ فرماتے ہیں.اور جس قدر ان میں سے مستعد لوگوں کو تقریری ذریعوں سے روحانی فائدہ پہنچایا گیا اور ان کے مشکلات حل کر دیئے گئے اور ان کی کمزوری کو دور کر دیا گیا اس کا علم خدا تعالیٰ کو ہے مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زبانی تقریریں جو سائلین کے سوالات کے جواب میں کی گئیں یا کی جاتی ہیں یا اپنی طرف سے محل اور موقعہ کے مناسب کچھ بیان کیا جاتا ہے یہ طریق بعض صورتوں میں تالیفات کی نسبت نہایت مفید اور مؤثر
خطابات طاہر جلد دوم 457 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء اور جلد تر دلوں میں بیٹھنے والا ثابت ہوا ہے.(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفہ ۱۵،۱۴) پھر انہیں اشتہارات میں سے ایک اشتہار میں آپ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ہر یک صاحب جو اس ملہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دور فرمادے.اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھا وے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو.“ خلافت کا یہ مضمون حیرت انگیز ہے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اپنے پاک بندوں کی رخصت کے بعد ان کے پیچھے ان کا خدا ہی ان کا خلیفہ ہوا کرتا ہے.آپ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.”اے خدا! اے ذوالمجد والعطاء اور رحیم اور مشکل کشا! یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے.آمین ثم آمین.والسلام علیٰ من اتبع الهدی الراقم خاکسار غلام احم از قادیان ضلع گورداسپور بھی اللہ عنہ دسمبر ۱۸۹۲ء مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۸۲.ایڈیشن دوم ) اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ الہامات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن کا تعلق ۱۸۹۸ء سے ہے.یعنی آج سے سو سال پہلے یہ الہامات ہوئے تھے اور جیسا کہ آپ دیکھیں گے.ظاہر ہے کہ یہ الہامات اس دور میں آجکل کے دور میں بھی چسپاں ہورہے ہیں.وَأَوْحَى إِلَيَّ رَبِّي وَوَعَدَنِي أَنَّهُ سَيَنْصُرُنِي حَتَّى يَبْلُغَ أَمْرِى مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا وَتَتَمَوَّجُ بُحُورُ الْحَقِّ حَتَّى يُعْجِبَ النَّاسَ حُبَابُ غَوَاربها.(تذکره:۲۶۰) ترجمہ :.میرے رب نے میری طرف وحی بھیجی اور وعدہ فرمایا کہ وہ مجھے مدد دے گا.
خطابات طاہر جلد دوم 458 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء یہاں تک کہ میرا کلام مشرق و مغرب میں پہنچ جائے گا اور راستی کے دریا موج میں آئیں گے.یہاں تک کہ اس کی موجوں کے حباب لوگوں کو تعجب میں ڈالیں گے.الحکم ۱۸۹۸ء میں یہ عبارت چھپی ہے.جس کا مطلب ہے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان الہامات کا ذکر کیا تھا اور ایڈیٹر نے اس بات کو اپنی طرف سے پیش کیا ہے.حضرت اقدس سید نا میرزا صاحب ایدہ اللہ نے کم و بیش ہر قوم کو تبلیغ کی ہے اور تبلیغ کے متعلق نت نئے سامانوں اور ذریعوں کا میسر آتے جانا اس عزیز خدا کے وعدہ کی صداقت کو خوب ظاہر کر رہا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.(الحکم جلد ۲ نمبر ۶،۵ - مورخہ 27 / مارچ ۱۸۹۸ء صفحه ۱۳) پس آج جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچ چکی ہے اور یہ کنارے پھیلتے چلے جا رہے ہیں.یہ بھی ۱۸۹۸ء کے اس الہام کی ایک برکت ہے جسے ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں.فرمایا:.خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دے دی ہے کہ بہت سے اس جماعت میں سے 66 ہیں جو ابھی اس جماعت سے باہر اور خدا کے علم میں اس جماعت میں داخل ہیں.“ بکثرت ایسے لوگوں کی اطلاع مل رہی ہے جو پاکستان میں بھی بڑھتے جارہے ہیں اور بیرونی دنیا میں بھی ، عرب دنیا میں بھی، ہر طرف ان کی تعداد بڑھ رہی ہے جو دل سے جماعت سے محبت رکھتے ہیں اور اللہ کے علم میں ہیں کہ ان لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس اسلام کی احیاء نو کی تحریک سے کیسی محبت ہو چکی ہے.فرمایا: بار بار ان لوگوں کی نسبت یہ الہام ہوا.یخــون ســجــدا ربنا اغفر لنا انا کنا خاطئین.یعنی سجدہ میں گریں گے کہ اے ہمارے خدا! ہمیں بخش کیونکہ ہم خطا ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۶) پر تھے.“ ۱۸۹۸ء میں ہی ضرورۃ الامام میں یہ تحریر شائع ہوئی.
خطابات طاہر جلد دوم 459 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء ”خدا نے...مجھے بار بار الہام دیا ہے ( یہاں کیا ہے کا لفظ نہیں الہام دیا ہے.جس سے غیر معمولی موہبت کی طرف اشارہ ہے.) کہ اس زمانہ میں کوئی معرفت الہی اور کوئی محبت الہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں ( ضرورة الامام روحانی خزائن جلد ۱۳ صفه ۵۰۲) یعنی اس تمام زمانے میں اللہ تعالیٰ نے جو معرفت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائی اور جو محبت اپنے رب کے لئے آپ کے دل میں موجزن تھی تمام زمانہ میں ڈھونڈ کر دیکھواس جیسا انسان تمہیں اور کہیں دکھائی نہیں دے گا.وو 4 جولائی 1898ء کو یہ الہام ہوا.جہاں براہین احمدیہ میں اسرار اور معارف کے انعام کا اس عاجز کی نسبت ذکر فرمایا گیا ہے وہاں احمد کے نام سے یاد کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا یـا احـمـد فـاضـت الرحمة علی شفتیک اور جہاں دنیا کی برکات کا ذکر کیا گیا ہے وہاں عیسی کے نام سے پکارا گیا ہے جیسا کہ میرے الہام میں براہین احمدیہ میں فرمایایا عیسی انی متوفیک ورافعک الی و مطهرك من الذين كفروا وجاعل الذين اتبعوك فوق الـذيـن كـفـروا الى يوم القيامة _ایسا ہی وہ الہام ہے جوفر مایا کہ ”میں تجھے برکت دوں گا، یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے یہ وہ ستر ہے جو مہدی اور عیسی نام کی نسبت مجھے کو الہام الہی سے کھلا ( تذکرہ : ۲۶۴) یہ بہت عظیم الشان ستر ہے جس سے آپ نے الہام کی بنا پر پردہ اٹھایا ہے کہ جہاں بھی مہدی کی فتوحات کا ذکر ہے وہاں اسلام کے روحانی غلبہ کا ذکر ہے.جہاں عیسی نام سے خوشخبریاں دی گئی ہیں وہاں دنیاوی طور پر جماعت کی غیروں پر برتری کا ذکر ہے اور ان دونوں میں نمایاں فرق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسول اللہ ﷺ کی برکت سے مہدویت کے طور پر جو دین اسلام کی خدمت کی ہے اور جو خدمت ابھی جاری ہے اس کا دنیاوی کامیابیوں کے مقابل پر بہت اونچا مقام ہے.جولائی ۱۸۹۸ء کی چوتھی تاریخ تھی جبکہ یہ الہام ہوا اور آجکل یہ جولائی کے دن ہی ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاص طور پر یہ لکھنا کہ جولائی کی چوتھی تاریخ تھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں متوجہ کرنا مقصود ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی متوجہ کرنا مقصود ہے کہ انہی
خطابات طاہر جلد دوم 460 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء دنوں میں تم ان دونوں قسم کے الہامات کو پورا ہوتے دیکھو گے جو اسلام کے دوسرے دینوں پر غلبے سے تعلق رکھتے ہوں گے اور احمدیت کے اپنے مخالفین پر غلبے سے تعلق رکھتے ہوں گے.۱۸۹۸ءکا الہام ہے:.آئندہ موسم بظاہر وہی معلوم ہوتا ہے.جو کچھ الہاما معلوم ہوا تھا.وہ خبر بھی اندیشہ ناک ہے میرے نزدیک ان دنوں میں دنیا کے عموم و ہموم کچھ مختصر کرنے چاہئیں...دن بہت سخت ہیں...مجھے تو یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ دن دنیا کے لئے بڑی بڑی مصیبتوں اور موت اور دکھ کے دن ہیں.“ مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحب مورخه ۲۱ / جولائی ۱۸۹۸ء مکتوبات احمد یہ جلد دوم صفحه : ۲۲۷) اب آپ دیکھ لیں.کہ بعینہ اسی حال میں ہم دنیا کو دیکھتے ہیں.جو بڑے بڑے خطرے آج کے سال کے ظاہر ہوئے ہیں.جس طرح کثرت سے موتا موتی لگ رہی ہے.ہر طرح کی بلائیں منہ پھاڑے ہوئے انسانیت کو نگلنے کی کوشش کر رہی ہیں.ایسا سال آپ نے پہلے شاذ ہی کوئی دیکھا ہو گا.مجھے تو کوئی ایسا سال یاد نہیں جو کچھ اس سال میں ہو رہا ہے.خصوصیت سے احمدیت کے مخالفین کے ساتھ اگر عبرت کی آنکھیں ہوں وہ ایک عبرتناک نشان ہے.پھر ۱۸۹۸ء کا الہام :.میں نے تہجد میں اس کے متعلق (یعنی طاعون کا ذکر ہو رہا تھا.طاعون کے متعلق ) دعا کی تو الہام ہوا.ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بانفسهم ( تذکره صفحه:۲۶۰) اللہ تعالیٰ ہرگز کسی قوم کی حالت تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ اپنے حالات خود درست نہ کر لیں اور انہیں تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں.اب طاعون کے تعلق میں یہ بات ہے.اور بار ہا میں جماعت کو پہلے متوجہ کر چکا ہوں کہ دنیا میں خصوصیت سے اس صدی کے آخری دور میں جو ایڈز کی بیماری پھیلی ہے یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کے مطابق طاعون ہی کی ایک شکل ہے اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ نے بھی اس بیماری کو بے حیائی سے باندھا ہے اور طاعون ہی کی ایک شکل کے طور پر اس کی وضاحت فرمائی ہے.تو میں سمجھتا ہوں کہ ۱۸۹۸ء کا یہ الہام دراصل اس زمانے میں جو ایڈز سے انسانیت کو خطرات درپیش ہیں ان سے متعلق ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.
خطابات طاہر جلد دوم 461 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998 ء اب خیال ہوتا ہے کہ وہ الہام جو ہوا تھا کہ کون کہہ سکتا ہے اے بجلی آسمان سے مت گر شاید اسی سے متعلق ہو.اگر آسمانی بجلی نے گرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو یا درکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان الفاظ میں الہام ہوا.کون کہہ سکتا ہے اے آسمانی بجلی.اے بجلی آسمان سے مت گر.میں سمجھتا ہوں کہ یہ الہام بھی اسی کے متعلق تھا.پھر ۱۸۹۸ء میں ہی یہی الہام دوسرے لفظوں میں ہوا.ان اللہ لايغير ما بقوم حتى يغيروا ما بانفسهم يقينا اللہ تعالی کسی قوم کی حالت تبدیل نہیں کرتا جب تک کہ وہ اپنے حال کو خود تبدیل نہ کریں.انه اوى القرية اني مع الرحمن اتيك بغتة.ان الله مــوهـن كيد الکفرین.ترجمہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اس چیز کو نہ بدلیں جو ان کے نفسوں میں ہے.وہ اس بستی کو کچھ تکلیف کے بعد پناہ میں لے لے گا.میں رحمان کے ساتھ تیرے پاس اچانک آنے کو ہوں.اللہ تعالیٰ کافروں کے منصوبوں کو توڑنے والا ہے.( تذکرہ صفحہ ۲۶۱) یہاں اس بستی سے کیا مراد ہے؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں اس بستی سے مراد تو قادیان ہی تھی اور اب اس بستی سے میں سمجھتا ہوں وہی بستی مراد ہے جو قادیان کی نمائندگی میں ربوہ کے طور پر قائم کی گئی ہے اور اس بستی کے متعلق دشمنوں کے بہت بد ارادے ہیں اور انہیں بہت تکلیف پہنچائی گئی ہے.اس بستی کو کچھ تکلیف کے بعد پناہ میں لے لوں گا.یہ ایک بہت عظیم الشان خوشخبری ہے جس کے لئے ہمیں دعائیں بھی کرنی چاہئیں اور جہاں تک مقدور ہے کوشش بھی کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ اس بستی کو اب اپنی پناہ میں لے لے اس کی پناہ میں تو ہمیشہ رہی ہے مگر ظاہری طور پر دشمن کے شر سے بھی اپنی پناہ میں لے لے کیونکہ اب زمانہ لمبا ہو رہا ہے.خاص طور پر میں نے قریہ کی تعریف میں ربوہ ہی کو پیش کیا تھا کیونکہ ربوہ پر یہ حالات پورے آ رہے ہیں.پھر رحمان کے ساتھ تیرے پاس اچانک آنے کو ہوں انى مع الرحمن اتیک بغتة یہ عجیب ہے کہ رحمن خود یہ الہام فرمارہا ہے اور یہ فرمارہا ہے کہ میں رحمان کے ساتھ اچانک تیری مددکو آؤں گا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی مددکروں گا کہ میری رحمانیت ہر پہلو سے جلوہ گر ہوگی اور اسی رحمانیت ہی کا نتیجہ ہے کہ میں تیری مدد کے لئے آنے والا ہوں.اللہ تعالیٰ کافروں کے منصوبوں کو توڑنے والا ہے.یہ بھی ایک پیشگوئی ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ میں امید رکھتا ہوں کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھوں کے سامنے پوری ہوگی.
خطابات طاہر جلد دوم 462 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998 ء ۲۶ ستمبر ۱۸۹۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: رات میں نے دیکھا کہ ایک بڑا پیالہ شربت کا پیا.اس کی حلاوت اس قدر ہے کہ میری طبیعت برداشت نہیں کرتی.بایں ہمہ میں اس کو پیئے جاتا ہوں اور میرے دل میں یہ خیال بھی گزرتا ہے کہ مجھے پیشاب کثرت سے آتا ہے.اتنا میٹھا اور کثیر شربت میں کیوں پی رہا ہوں.مگر اس پر بھی میں اس پیالے کو پی گیا.شربت سے مراد کامیابی ہوتی ہے اور یہ اسلام اور ہماری جماعت کی کامیابی کی بشارت ہے.( تذکرہ: ۲۶۷) اس ضمن میں یہ بات یاد رکھیں کہ شربت با وجود زیادہ مٹھاس کے پینا یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ اس شربت کی مٹھاس میں کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن کے نتیجہ میں فکر بڑھتی ہے اور پریشانیاں ہوتی ہیں.یہ میں آپ کو اپنے دل کا حال اپنے تجربے سے بتا رہا ہوں کہ جوں جوں جماعت پھیلتی چلی جارہی ہے یہ میٹھا شربت ہر طرف سے مجھ تک پہنچ رہا ہے.یہ شربت پیتا ہوں اور دل فکر سے بھی بھر جاتا ہے کہ ان لوگوں کو ہم کیسے سنبھالیں گے.کیا انتظام ہوگا جس کے نتیجہ میں ہم اس وسیع تر دنیا کی تربیت کر سکیں گے جو دن بدن وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جارہی ہے.پس اس رویا سے یہ مراد تھی کہ شربت میٹھا تو ہے مگر اس شربت سے کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں ان کی فکر ہے مگر ان فکروں کی وجہ سے شربت پینا نہیں چھوڑنا.جس تیزی کے ساتھ آپ پھیل سکتے ہیں پھیلتے چلے جائیں اللہ تعالیٰ آپ کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی خود آپ کو تو فیق عطا فرمادے گا.۲۱ دسمبر ۱۸۹۸ء کو الہام ہوا.آپ فرماتے ہیں.آج صبح کے وقت مجھ کو یہ الہام ہوا.قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے ( تذکرہ: ۲۷۲) پس اس الہام کے پیش نظر میں امید رکھتا ہوں کہ بارگاہ الہی ہمارے ٹوٹے کام بنادے گی.جتنے جماعت کے کام ہمیں ٹوٹے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، اللہ اپنے فضل سے ان کو جوڑ دے گا اور وہ جو سمجھ رہے ہیں کہ ہمارا بن بنایا کام ہے اس کو ایسا تو ڑے گا کہ کوئی اس کا بھید نہیں پاسکے گا.
خطابات طاہر جلد دوم 463 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998 ء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.میں امام الزمان ہوں اور خدا میری تائید میں ہے اور وہ میرے لئے ایک تیز تلوار کی طرح کھڑا ہے.“ کتنا پر شوکت کلام ہے.میں امام الزمان ہوں.جس کو خدا امام الزمان بنا تا ہے اس کو یہ حو صلے بھی عطا فرماتا ہے.تمام دنیا کی مخالفت کے علی الرغم وہ یقین کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ دنیا میرا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے گی.پھر فرمایا:.اور مجھے خبر دی گئی ہے کہ جو شرارت سے میرے مقابل پر کھڑا ہو گا وہ ذلیل اور شرمندہ کیا جائے گا.دیکھو میں نے وہ حکم پہنچا دیا جو میرے ذمہ تھا“ اس کے بعد اب میں اس افتتاحی خطاب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عبارت پر ختم کرتا ہوں.آپ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمہ کے قریب آپہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا ہے.ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے.“ (ضرورت الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه: ۴۹۷) پس اے تمام دنیا میں پھیلتے چلے جانے والے احمد یو! یاد رکھو تم اس چشمہ کے قریب تو پہنچ گئے ہو، تمہاری دسترس میں تو آ گیا ہے لیکن یہ غلط نہی دل میں نہ رکھو کہ تم نے اس کا پانی پی لیا ہے.بکثرت ایسے احمدی احباب ہیں جن کی دسترس میں یہ آسمانی پانی ہے لیکن ابھی پینا باقی ہے.جب وہ پی لیں گے تو ان کے سینے سے وہ کھو کھا چشمے پھوٹ پڑیں گے جو تمام دنیا کی سیرابی کا موجب بنیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو.پانی تک پہنچنا بھی اس کا فضل تھا مگر پانی پینے کی توفیق بھی اس کے فضل کے بغیر ممکن نہیں.پس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کے بدوں کچھ بھی نہیں ہوسکتا.یہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ جو اس چشمہ سے پٹے گا وہ ہلاک نہ ہوگا کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور
خطابات طاہر جلد دوم 464 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998ء ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے.اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو د وحق تم پر قائم کئے ہیں ان کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو.ان میں سے ایک خدا کا حق ہے دوسر مخلوق کا.“ پس اگر آپ چاہتے ہیں کہ خدا آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ اس چشمے سے پانی پیئیں اور سیراب ہوں اور دنیا کو سیراب کریں تو دعاؤں کے ساتھ عملاً بھی یہ پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کریں.ہمہ وقت اس بات پر نظر رہے کہ کیا ہم خدا کا حق ادا کر رہے ہیں یا نہیں اور اس حق کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ اس کی مخلوق کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں.فرماتے ہیں:.”اپنے خدا کو وَحْدَهُ لا شَریک سمجھو جیسا کہ اس شہادت کے ذریعہ تم اقرار کرتے هو أَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا الله یعنی میں شہادت دیتا ہوں کہ کوئی محبوب مطلوب اور مطاع اللہ کے سوا نہیں ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۳۶) تمام دنیا کو لا الہ الا اللہ کے نعروں سے بھر دو.ایسے نعرے جو فلک شگاف بھی ہوں.مگر آپ کے دلوں میں بھی خدا کی خاطر وہ شگاف پیدا کر دیں جن میں خود خدا اتر آئے.اگر آپ ایسا کریں گے تو ابد الآباد کی زندگی پائیں گے.کوئی دنیا میں نہیں ہے جو آپ کو ہلاک کر سکے.اب میں افتتاحی خطاب کے بعد جو دعا ہونی ہے اس دعا کے بعد رخصت چاہوں گا.کل انشاء اللہ تعالیٰ وہ دن چڑھے گا جب تمام سال میں اللہ تعالیٰ کے اترنے والے فضلوں کا ذکر ہوا کرتا ہے اور امید ہے کہ وہ ذکر آپ کے دل بھر دے گا.انشاء اللہ آئیے اب افتتاحی دعا میں شامل ہو جائیں (دعا).آمین یہ موسلا دھار بارش جس کا آپ شور سن رہے ہیں میں اسے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نشان کے طور پر دیکھ رہا ہوں.جن فضلوں کا میں نے ذکر کیا ہے آپ دیکھیں گے کہ اسی طرح موسلا دھار فضل آسمان سے اتریں گے.کوئی شامیانہ ان کو روک نہیں سکے گا.تمام دنیا میں احمدیت کو یہ فضل سیراب کرنے والے ہیں اور آپ یقین رکھیں جیسا کہ مجھے یقین ہے کہ ہم عنقریب اپنے اللہ کے فضل کے ساتھ ان فضلوں کو اترتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے.اگر چہ اس سے پہلے بھی دیکھ چکے ہیں
خطابات طاہر جلد دوم 465 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1998 ء مگر اب جو دیکھیں گے وہ دیکھنا اور ہوگا.انشاء اللہ العزیز.اس کے علاوہ میں ایک مختصر اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ملاقات کا شوق رکھنے والے بھی شوق رکھ کر بڑی دور دور سے آتے ہیں جہاں تک مجھے توفیق ہے میں ملاقات کا وقت ضرور دیتا ہوں ، بڑی تعداد میں جرمنی سے آنے والوں کو ملاقات کا وقت نہیں دیا جا سکا کیونکہ میرے پاس وقت ہی نہیں تھا کیونکہ میں کوئی تقریر نہیں تیار کر سکا اس لئے افراتفری میں مجھے تقریریں بھی تیار کرنی پڑیں اور پاکستان اور دنیا سے دوسرے ممالک سے آنے والوں سے ملاقات بھی کرنی تھی میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو یہ کہہ دیا تھا کہ یہاں ہی افتتاحی تقریر کے بعد زیادہ سے زیادہ ملاقاتیوں کیلئے گنجائش رکھیں کسی کو بھی شکوہ ہے جائز طور پر میں سمجھتا ہوں تو وہ اپنے خاندان، بچوں وغیرہ کو لے کر بے شک تشریف لائیں اور یاد رکھیں کہ صرف سلام کا وقت ہو گا آپ کیلئے ، میں اپنی پیاس بجھاؤں گا، آپ اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کریں اور جو دستور ہے لمبی ملاقاتوں کا وہ ان ایام میں نہیں ہوگا، چھوٹی ملاقات.ہاں دوباتیں ضرور چلیں گی ، بچوں کیلئے چاکلیٹ اور آپ کی تصویریں انشاء اللہ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
خطابات طاہر جلد دوم 467 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء مباہلہ کے نتیجہ میں ملنے والی فتوحات کا ذکر.ایک سال میں ایک کروڑ سے زائد احمدی ہونا اس مباہلہ کا ہی پھل ہے.۱۸۹۹ء میں ظاہر ہونے والے نشانات کا تذکرہ.افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۳۰ جولائی ۱۹۹۹ء بمقام اسلام آباد تلفورڈ برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اپنے افتتاحی خطاب سے پہلے میں نے جس سورۃ کو دہرایا ہے یہ قرآن کریم کا افتتاح ہے یعنی سورۃ فاتحہ اور اس میں سارے قرآن کریم کے مضامین کا خلاصہ موجود ہے.اس پر جتنا بھی غور کریں اتنا ہی کم ہے اور اس کی گہرائی میں جتنا بھی اترنے کی کوشش کریں اس کی اتھاہ کو کوئی نہیں پاسکتا.اس وقت سب سے پہلے میں حاضری کا جائزہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ابھی ابھی امیر صاحب نے یہ اعداد و شمار کا خلاصہ پیش کیا ہے آپ فرماتے ہیں کہ گزشتہ سال کے آخری دن کی حاضری سے آج پہلے اجلاس کی حاضری زیادہ ہے.الحمد لله ثم الحمد للہ گزشتہ سال آخری دن کی حاضری سترہ ہزار پانچ سو (17,500) تھی.امسال پہلے دن کی حاضری اٹھارہ ہزار پانچ - (18,500) ہے.الحمد للہ علی ذالک، اس حاضری میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ تو یہی ہے کہ غلطی سے لوگوں نے اس سال کو اس صدی کا آخری سال سمجھ رکھا تھا اور ہر ایک نے دوڑ لگائی ہوئی تھی کہ ہم پہلے پہنچیں اور اس صدی کا آخری جلسہ ہماری شمولیت کے بغیر نہ رہے.امر واقعہ یہ ہے کہ 1999 ء صدی کا آخری سال نہیں جو سن اس کے بعد آئے گا وہ اس صدی کا آخری سال ہوگا.
خطابات طاہر جلد دوم 468 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء چنانچہ جماعت احمدیہ کی نئی صدی کا آغاز 2001ء میں ہوگا اور آئندہ سال اس صدی کا آخری سال ہوگا.بہر حال یہ تو ایک ضمنی بات تھی.اب میں آپ کے سامنے چند ایسے امور رکھتا ہوں جن کا جماعت احمدیہ کی تاریخ سے اس قدر گہرا تعلق ہے کہ ان کو سنگ میل قرار دیا جا سکتا ہے.خدا ہماری ان فتوحات کی نئی راہوں کو اور زیادہ وسیع فرمادے اور جماعت احمد یہ کوفتح پر فتح کا نظارہ دکھا تا چلا جائے.ایک ہی سال میں ایک کروڑ سے زائد احمدی ہونے کی اطلاع ہمیں مل چکی ہے اور یہ بھی اس صدی کا خاص سنگ میل ہے.آج تک دنیا میں کسی مذہب کو یہ تو فیق عطا نہیں ہوئی کہ ایک سال میں ایک کروڑ سے زائد بندگان خدا کے دل خدا کے قدموں میں پیش کر سکے اور ساری دنیا میں بے انتہا عیسائی ترقی کے باوجود کوئی دنیا کا عیسائی ملک یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتا ، ثابت کرنا تو در کنار یہ دعوی بھی نہیں کر سکتا کہ اس ایک سال میں ہمیں ایک کروڑ کے لگ بھگ نئی روحیں عطا ہوئی ہیں لیکن ابھی اطلاعیں آ رہی ہیں اس لئے آخری اعداد و شمار انشاء اللہ حسب موقع بیان کروں گا.سورة النصر میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ( انصر ۲۰ تا ۴) کہ جب بھی تم دیکھو گے کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہور ہے ہوں وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا تو یہ ایک ایسا منظر ہے جو دنیا کی فتوحات میں کہیں دکھائی نہیں دیتا.فوجیں جوق در جوق اور دستہ بدستہ غیر ملکوں کی زمین میں داخل ہوا کرتی ہیں.یہاں الٹ منظر ہے فوج در فوج لوگ اسلام کی سرزمین میں داخل ہورہے ہیں.اس موقع پر نصیحت یہ ہے کہ اس وقت اپنے غرور اور تکبر اور نفسانی بت توڑ دو اور خدا کے حضور جھک جاؤ اور اسی سے دُعا مانگو، اسی سے استغفار کرو، اسی کی حمد بلند کرو.پس آج کا جلسہ اس پہلو سے بھی خاص سورۃ النصر کا جلسہ ثابت ہوگا جو انشاء اللہ تعالیٰ رفتہ رفتہ کھلتا چلا جائے گا.اس ضمن میں ایک ایسی بات کا میں ذکر کرنے لگا ہوں جو براہ راست تو اس جلسے سے تعلق نہیں رکھتی مگر مجبوراً مجھے اس کا ذکر کرنا پڑ رہا ہے.بات یہ ہوئی کہ کچھ عرصہ پہلے کراچی میں ایک جاہل نے مباہلہ کی جرات کی ہے حالانکہ میں نے جماعت کو یہ ہدایت کی تھی کہ اب مباہلہ کی بات چھوڑ دیں
خطابات طاہر جلد دوم 469 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء کئی بار بڑی شان کے ساتھ مباہلہ پورا ہو چکا ہے.میرے لئے ضروری تھا کہ قوم کے مسلمہ راہنماؤں کے ساتھ مباہلہ کروں نہ کہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے ساتھ.اس ضمن میں آپ کو یاد ہوگا کہ جنرل ضیاء الحق کو مباہلہ کی دعوت دی گئی تھی اور اس شان کے ساتھ خدا نے وہ مباہلہ پورا کیا کہ اب یہ بیٹھے پیٹتے رہ جائیں جو ہو چکا سو ہو چکا ، اس کو کالعدم نہیں قرار دے سکتے.بھٹو کے تعلق میں میں نے بڑی وضاحت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام کے حوالے سے بیان کیا تھا کہ اگر یہ وہی شخص ہے جس کے متعلق الہام میں بتایا گیا تھا کہ گویا جماعت پر کتے مسلط کئے جائیں گے تو پھر اس کے حق میں یہ الہام ضرور پورا ہوگا کہ كَلْبٌ يَمُوتُ عَلی كَلْبِ ( تذکرہ:۱۴۵) کہ ایک کتے کے بعد دوسرا کتا مرے گا ایک تو یہ بھی ہے جس میں دراصل ایک اور آنے والے کتے کی طرف اشارہ کیا گیا تھا لیکن اس کے معنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عجیب رنگ میں سمجھائے گئے.آپ نے فرمایا کہ وہ شخص جس کے متعلق یہ دعوی کیا جا رہا ہے وہ باون سال کی عمر سے پہلے نہیں مرے گا جب وہ باون سال میں داخل ہو گا تو جب تک وہ باون سال کے اندر ہے اسی عرصہ میں وہ ہلاک کیا جائے گا اور باون سال اُس پر پورے نہیں ہو سکیں گے.یہ دعوی تھا جس کو میں نے اسی الہام کے حوالہ سے کھول کر ساری قوم کے سامنے پیش کیا اور قوم مطلب سمجھ بھی گئی.چنانچہ مختلف اخبارات میں بارہا خصوصاً ملاؤں کی طرف سے حکومت پر زور دیا جاتا رہا کہ ہم آپ سے زیادہ ان کے مخالف ہیں لیکن بھٹو آپ کے قبضہ قدرت میں ہے اس کے باون سال میں داخل ہونے سے پہلے تو آپ اس کو نہیں مار سکے مگر اب ایک سال انتظار کر لیں.جب باون سال پورے ہو جائیں گے پھر مارنا تا کہ ہم کھلم کھلا اعلان کر سکیں کہ احمدیت جھوٹی نکلی اور حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی غلط ثابت ہوئی.اتنا زور دیا گیا، ہر اخبار نے بار بار حکومت کی منتیں کیں مگر خدا کی تقدیر کے سامنے کسی کی کچھ پیش نہیں گئی.آخر اسی ایک سال کی مدت میں جو باون کا سال تھا اس کی موت اس طرح واقع ہوئی کہ اس وقت کی فوج نے اس مخفی کارروائی کا نام Black Dog Operation رکھا.اب یہ دیکھیں کہ کیسے یہ انسان کی طرف منسوب ہو سکتا ہے؟ سو فیصد لازماًیہ الہتعالیٰ کی کارروائی تھی اور پھر وہ نام کس احمدی نے تجویز کیا تھا؟ بلیک ڈاگ آپریشن اس کا نام رکھا گیا اور باون سال کی عمر کے اندر ہی اسے پھانسی چڑھا دیا گیا.پس یہ اللہ کی شان ہے کہ مباہلہ اس رنگ میں پورا ہوا کرتا ہے کہ جیسے دن کو سورج چڑھ جائے
خطابات طاہر جلد دوم 470 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء اس طرح جماعت احمدیہ کی صداقت کا سورج ہر ایک آنکھ پر طلوع ہو جاتا ہے سوائے اندھوں کے.اب میں واپس اُس مباہلے کی طرف آتا ہوں.ہمارے علماء کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ میں ساری دنیا کی جماعتوں کا سر براہ ہوں اور میرا کام یہ نہیں ہے کہ ہر للو پنجو کو جو اٹھ کر مباہلہ کا چیلنج کرے اس کا مباہلہ قبول ہی کروں یا اُسے جوابی چیلنج دوں لیکن پتا نہیں کیوں لوگ سمجھتے نہیں ہیں؟ اس لئے واقعہ یہ ہوا کہ کراچی کے دو مربی صاحبان نے بظاہر ایک مخالف کے جال میں پھنس کر مباحثہ میں اس کو بلوالیا اور وہ پہلے سے ارادہ لے کر آیا تھا کہ مباحثہ کے دوران میں اچانک مباہلہ کا چیلنج پیش کر دوں گا.چنانچہ اس نے مناظرہ کے دوران ایک مباہلے کا چیلنج پیش کر دیا.باوجود اس کے کہ مجھ پر لازم نہیں تھا کیونکہ میں نے تو اس کو کوئی چیلنج نہیں دیا تھا.مجھ پر ہرگز لازم نہیں تھا کہ اس کے چیلنج کو من وعن قبول کرتا.اگر کرنا بھی تھا تو اس سے شرطیں لگائی جاتیں کہ تم اپنے پیچھے قوم کے راہنما بتاؤ.کون تمہاری تائید میں ہیں؟ کون تسلیم کرتا ہے کہ ہاں اگر تم ہار گئے تو پھر ہم احمدیت کی فتح کو قبول کر لیں گے مگران سب باتوں سے قطع نظر ہمارے دو بھولے بھالے مربیان نے اس کا مباہلے کا چیلنج نہ صرف قبول کر لیا بلکہ میرا چیلنج اس کو دے دیا.اب اس کا اُس سے کیا تعلق تھا ان کو کوئی حق نہیں تھا یہ کام کرتے مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ احمدی فوج کے لڑنے والے ہی تھے اس لئے انہوں نے جو تسلیم کر لیا میں بھی تسلیم کرتا ہوں اور اس پہلو سے میں اس مباہلے کے چیلنج کو قبول کر چکا ہوں.اب میں وہ مباہلہ جس پر دستخط ہوئے ہیں اس کے بعض ضروری الفاظ آپ کے سامنے سناتا ہوں تا کہ آپ اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ مباہلہ کرنے والا دراصل اسی مباہلہ کے دوران ہی جھوٹا ثابت ہو چکا ہے.الفاظ جو پیش کئے گئے وہ یہ ہیں.میں نے بڑے واشگاف الفاظ میں احمدیت کے دعاوی دشمن کے سامنے رکھے تھے جن کے متعلق یہ کہا تھا کہ ایک ایک کے متعلق یہ اعلان کرو کہ یہ جھوٹا دعوی ہے، یہ جھوٹا دعوی ہے، یہ جھوٹا دعویٰ ہے.اس نے کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا اور جو الفاظ ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جماعت احمدیہ کے معاندین یہ کہتے ہیں کہ ”جماعت احمد یہ یہ عقائد رکھتی ہے کہ بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی خدا تھے.لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِین.(حضور انور نے حاضرین کو فرمایا کہ آپ سب بھی کہیں لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِین.جس پر حاضرین نے لَعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِین کہا.( حضور انور نے فرمایا کہ آج ایک کروڑ داخل ہونے والوں کے
خطابات طاہر جلد دوم 471 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء علاوہ جب سے جماعت بنی ہے کر وڑ ہا احمد یوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو خدا کہتا ہو یا خدا تسلیم کرتا ہو.دوسرا دعوی : وہ خدا کا بیٹا تھے.“ لَعْنَتُ اللَّه عَلَى الْكَاذِبِین اور پھر یہ دعویٰ ایک دوسرے کو بھی جھٹلا رہے ہیں.خدا تھے تو خدا کا بیٹا کیسے ہو گئے؟ یہ مولویوں کا پاگل پن ہے یعنی پاگل پنوں میں سے ایک پاگل پن ہے.ایک اور دعوی : ” خدا کا باپ بھی تھے.اس پر تو لعنت سے زیادو انا للہ پڑھنے کو دل چاہتا ہے.پھر یہ خوفناک دعویٰ کہ تمام انبیاء سے بشمول حضرت محمد مصطفی ام افضل و برتر تھے.“ کوئی احمدی ساری دنیا میں اس دعوے کا وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا.پھر کہتے ہیں کہ ان کی وحی کے مقابلہ میں حدیث مصطفی امی کی کوئی حیثیت نہیں.نعوذ بالله من ذالك لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبین.ان کی عبادت کی جگہ عزت و احترام میں خانہ کعبہ کے برابر ہے.یعنی ہر احمدی مسجد خانہ کعبہ کے برابر ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ يَا لَعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ قادیان کی سرزمین مکہ مکرمہ کے ہم مرتبہ ہے.“ قادیان سال میں ایک دفعہ جانا تمام گناہوں کی بخشش کا موجب بنتا ہے.ہمارا تو دعویٰ یہ ہے کہ دنیا میں کسی مقدس مقام پر جانا بخشش کا موجب نہیں بنا کرتا.تقویٰ ہے جو بخشش کا موجب بنتا ہے اگر تقویٰ لے کر جاؤ گے تو پھر یقینا اللہ تعالیٰ بخش دے گا اگر تقویٰ کے بغیر جاؤ گے تو پھر اس کی مرضی ہے چاہے تو بخش دے چاہے تو سزا دے.میں نے ان کو یہ چیلنج دیا کہ بتاؤ یہ کہاں سے بیچ ثابت کیا ہے تم نے اور حج بیت اللہ کی بجائے قادیان کے جلسہ میں شمولیت ہی حج ہے.لَعْنَتُ اللَّه عَلَى الْكَاذِبِينِ ان الزامات کے علاوہ حسب ذیل نہایت مکروہ الزامات بھی جماعت احمدیہ پر لگائے جاتے ہیں.احمدیوں کا کلمہ الگ ہے اور مسلمانوں والا کلمہ نہیں.“ لَعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ، لا اله الا الله محمد رسول الله جب احمدی مسلمانوں والا کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں تو دھوکہ دینے 6
خطابات طاہر جلد دوم 472 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء کی خاطر پڑھتے ہیں اور محمد سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی لیتے ہیں.“ لَعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ احمدیوں کا خداوہ خدا نہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کا خدا ہے.“ لَعْنَتُ الله عَلَى الْكَاذِبِین، ایک ہی خدا ہے سب کا وہی خدا ہے.قادیانی جن ملائکہ پر ایمان لاتے ہیں وہ وہ ملائک نہیں جن کا قرآن اور سنت میں ذکر ہے.“ لَعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ قادیانیوں کے رسول بھی مختلف، ان کی عبادت بھی اسلام سے مختلف، ان کا حج بھی مختلف غرضیکہ تمام بنیادی اسلامی عقائد میں قادیانیوں کے عقائد قرآن وسنت سے جدا اور الگ ہیں.“ ان سارے الزامات کا ذکر کر کے میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ یہ سارے الزامات سراسر جھوٹے ہیں، کھلم کھلا افتراء ہیں ان میں ایک بھی سچا نہیں اور لَعْنَتُ اللَّهُ عَلَى الْكَاذِبِینِ آخر پر میں خدا کی لعنت ان جھوٹوں پر ڈالتا ہوں.میں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ اگر یہ باتیں جھوٹ ہیں جیسا کہ جھوٹ ہیں تو پھر اے خدا! جماعت احمدیہ پر رحمتیں نازل فرما لعنتیں ان پر پڑیں اور رحمتیں جماعت پر اور اس کی سچائی کو ساری دنیا پر روشن کر دے.پس آج ساری دنیا سے آنے والے گواہ ہیں کہ خدا کی قسم جماعت احمدیہ کی سچائی سب دنیا پر روشن ہو چکی ہے.تا کہ دنیا دیکھ لے کہ تو ان کے ساتھ ہے اور ان کی حمایت اور پشت پناہی میں کھڑا ہے اور اگر دشمن کے الزامات سچے ہیں تو ہم پر ہر سال اپنا غضب نازل فرما اور ذلت اور نکبت کی مار دے کر اپنے عذاب اور قہری تجلیوں کا نشانہ بنا اور اس طور سے اپنے عذاب کی چکی میں پیں تا کہ دنیا خوب اچھی طرح دیکھ لے کہ ان آفات میں بندوں کی شرارت اور دشمنی اور بغض کا دخل نہیں بلکہ محض خدا کی غیرت اور قدرت کا ہاتھ ہے.یہ سب عجائب کام ہیں جو تو دکھلاتا ہے.اس ضمنی ذکر کے بعد جو مجھ پر ٹھونسا تو گیا مگر میں نے قبول کر لیا تھا.میں اب آپ کے سامنے یہ بات کھول رہا ہوں کہ صرف یہ ایک سال اس مباہلہ کرنے والے کو جھوٹا ثابت کر دے گا کیونکہ اس سال جماعت کو مٹنا چاہئے تھا بجائے مٹنے کے یہ اور بھی زندہ ہوگئی ، زندہ سے زندہ تر ہوتی چلی جارہی ہے.پس ان سب کی تعلیمات الٹی ان پر پڑتی ہیں.ہمیں اس کی کوئی بھی پرواہ نہیں آئندہ
خطابات طاہر جلد دوم 473 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء کے لئے میری نصیحت یہ ہے کہ اس معاملے کو خدا پر چھوڑ دیں.آپ دیکھیں گے کہ دن بدن جماعت ترقی پر ترقی کرتی چلی جائے گی اور ہر سال خواہ کوئی مباہلہ قبول کرے یا نہ کرے اس کے اوپر ہماری طرف سے یہ لعنت کا انبار بڑھتا ہی چلا جائے گا.اللہ کرے گا تو ایسا ہی ہوگا اور ہم میں سے جو زندہ رہیں گے وہ سب اس کو دیکھیں گے.اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ۱۸۹۹ء کے الہامات میں سے کچھ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.غور سے مطالعہ کیا ہے کیونکہ میرا تجربہ ہے کہ اکثر جو ۱۸۹۹ء میں الہامات تھے وہ ۱۹۹۹ء میں پورے ہوئے ہیں اور ان سالوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے.پس اب جو الہام آپ کے سامنے رکھنے لگا ہوں ان پر غور کریں تو انشاء اللہ آپ کو یہ واضح تعلق بھی دکھائی دے گا.۴ ار ستمبر ۱۸۹۹ء کو یہ الہام ہوا.ایک عزت کا خطاب.ایک عزت کا خطاب.لَكَ خِطَابُ العِزَّة ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا.یہ تمام خدائے پاک قدیر کا کلام ہے...میں اپنے اجتہاد سے اس کے یہ معنے سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جھگڑے کے فیصلہ کرنے کے لئے جو کسی حد تک پرانا ہو گیا ہے اور حد سے زیادہ تکذیب اور تکفیر ہو چکی ہے.کوئی ایسا برکت اور رحمت اور فضل اور صلح کاری کا نشان ظاہر کرے گا کہ وہ انسانی ہاتھوں سے برتر اور پاک تر ہوگا.تب ایسی کھلی کھلی سچائی کو دیکھ کر لوگوں کے خیالات میں ایک تبدیلی واقع ہوگی اور نیک طینت آدمیوں کے کینے ایک دفعہ رفع ہو جائیں گے.“ (تذکرہ صفہ ۲۸۳) پس یہ جو صلح کی بنا ڈالی گئی ہے ۱۸۹۹ء کے الہام میں یہی صلح کی بنا آج بھی پھر ڈالی جارہی ہے.جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے اب مباہلہ کو چھوڑیں صلح کی کوشش کریں کہ جس طرح بھی ہو سکے یہ قوم سمجھ جائے اور اُن کو دیکھنے کی آنکھیں عطا ہوں.ایک عزت کا خطاب.ایک عزت کا خطاب.لَكَ خِطَابُ الْعِزَّةِ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس سال جماعت میں بکثرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی عزت و تکریم کو قائم کیا جائے گا اور تمام بنی نوع انسان میں
خطابات طاہر جلد دوم 474 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء صلى الله محمد رسول اللہ ہے کے اس غلام کی تکریم ہوگی اور یہ سال اس خاص تکریم کا ایک نشان بن جائے گا.ایک الہام ۱۸ ستمبر ۱۸۹۹ء کا یہ ہے.آج رات میں نے ۱۸ ستمبر ۱۸۹۹ء کو بروز دوشنبہ خواب میں دیکھا که بارش ہورہی ہے.آہستہ آہستہ مینہ برس رہا ہے.میں نے شاید خواب میں یہ کہا کہ ہم تو ابھی دعا کرنے کو تھے کہ بارش ہو.سو ہو ہی گئی.( تذکرہ صفحہ ۲۸۳) اب یہ دیکھیں بارش بھی کیسی خدا کے فضلوں کی ساری دنیا پر ہونے لگ گئی ہے اور بعینہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام پورے سو سال کے بعد پھر بڑی شان کے ساتھ پورا ہو گیا ہے.فرماتے ہیں: میں نہیں جانتا کہ عنقریب بارش ہو جائے یا ہمارے الہام ۱۳ ستمبر ۱۸۹۹ ء ایک عزت کا خطاب.ایک عزت کا خطاب.لَكَ خِطَابُ الْعِزَّةِ ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا“ کے متعلق خدا کی رحمت اور فتح ونصرت کی بارش ہماری جماعت پر ہوگی.( یعنی ایک تو یہ روحانی معنی ہیں.) یا دونوں ہی ہو جائیں.( تو بعید نہیں کہ آغاز میں اس نشان کے طور پر ایک سچ سچ کی ظاہری بارش بھی ہو جائے.) ہماری خواب سچی ہے.اس کا ظہور ضرور ہوگا.دونوں میں سے ایک بات ضرور ہوگی یعنی یا تو خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے باران رحمت کا دروازہ آسمان سے کھلے گا یا غیر معمولی کوئی نشان روحانی فتح اور نصرت کا ہوگا.مگر نشان ہوگا نہ معمولی بات.“ ( تذکرہ صفحہ ۲۸۳) اب آپ دیکھیں کہ اس سال جب آپ کے سامنے رپورٹ پیش کی جائے گی تو دنیا کے ہر ملک کا بارش کے ساتھ ایک تعلق ہے.روحانی بارش ہونے سے پہلے ظاہری بارش بھی ہوتی ہے اور ایسے حالات میں ہوتی ہے کہ اس کا وہم و گمان بھی انسان نہیں کر سکتا.دشمن مطالبہ کرتے ہیں کہ بچے ہو تو بارش کر کے دکھاؤ اور پیشتر اس کے کہ ہمارے معلمین اور مبلغین کے دعا سے ہاتھ گریں آسمان سے بدلی اٹھتی ہے جس کا کوئی نام ونشان بھی نہیں ہوتا اور موسلا دھار بارش شروع ہو جاتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام بڑی شان کے ساتھ اپنی ظاہری صورت میں بھی پورا
خطابات طاہر جلد دوم 475 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء ہورہا ہے اور ہر جگہ ہورہا ہے اور باطنی صورت میں بھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.۲۰ /اکتوبر ۱۸۹۹ء کو خواب میں مجھے یہ دکھایا گیا کہ ایک لڑکا ہے جس کا نام عزیز ہے اور اس کے باپ کے نام کے سر پر سلطان کا لفظ ہے.وہ لڑکا پکڑ کر میرے پاس لایا گیا اور میرے سامنے بٹھایا گیا.میں نے دیکھا کہ وہ ایک پتلا سالڑ کا گورے رنگ کا ہے.میں نے اس خواب کی یہ تعبیر کی ہے کہ عزیز عزت پانے والے کو کہتے ہیں اور سلطان جو خواب میں اس لڑکے کا باپ سمجھایا گیا ہے.یہ لفظ یعنی سلطان عربی زبان میں اُس دلیل کو کہتے ہیں جو ایسی بین الظہور ہو جو باعث اپنے نہایت درجہ کے روشن ہونے کے دلوں پر اپنا تسلط کر لے گویا سلطان کا لفظ تسلط سے لیا گیا ہے اور سلطان عربی زبان میں ہر ایک قسم کی دلیل کو نہیں کہتے بلکہ ایسی دلیل کو کہتے ہیں جو اپنی قبولیت اور روشنی کی وجہ سے دلوں پر قبضہ کر لے اور طبائع پر اس کا تسلط عام ہو جائے.پس اس لحاظ سے کہ خواب میں عزیز جو سلطان کا لڑ کا معلوم ہوتا ہے اس کی یہ تعبیر ہوئی کہ ایسا نشان جولوگوں کے دلوں پر تسلط کرنے والا ہو گا ظہور میں آئے گا اور اس نشان کے ظہور کا نتیجہ جس کو دوسرے لفظوں میں اس نشان کا بچہ کہہ سکتے ہیں دلوں میں میرا عزیز ہونا ہوگا جس کو خواب میں عزیز کے تمثل سے ظاہر کیا گیا ہے.“ ( تذکرہ: ۲۸۵،۲۸۴) ضمناً یہ بھی میں بتادوں کہ یہ رویا اپنے ظاہری معنوں میں بھی پوری ہو چکی ہے.جب حضرت اقدس مسیح موعوعلیہ الصلوۃ والسلام کو یہ رویا دکھائی گئی تھی تو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اور مرز ا عزیز احمد صاحب کا بطور نشان آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.چنانچہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرزا عزیز احمد صاحب کے پیچھے پیچھے آئے اور یہ نشان ظاہری صورت میں بھی پورا ہو گیا.مرز ا عزیز احمد صاحب جو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے صاحبزادہ ہیں فروری ۱۹۰۶ء میں اپنے دادا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے.فروری ۱۹۰۶ء
خطابات طاہر جلد دوم 476 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء میں، یہ یاد رکھیں اور یہ الہام کب کا ہے؟ اشتہار ۲۲ ا کتوبر۱۸۹۹ء کا.پس میں نے جو ظاہری طور پر اس کا پورا ہونا دکھایا ہے اس میں کسی تعبیر کی ضرورت نہیں.لفظاً لفظاً سو فیصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کے کئی سال کے بعد وہ بیٹا آیا جس کے باپ کا نام سلطان تھا.سلطان کا تاج اس کے سر پر رکھا ہوا تھا.19 ستمبر ۱۸۹۹ء کو خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے اپنا کلام مجھ پر نازل کیا انا اخرجنا لک زروعًا یا ابراهیم یعنی اے ابراہیم ہم تیرے لئے ربیع کی کھیتیاں اگائیں گے.( تذکرہ صفحہ ۲۸۳۰) اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے زمانے سے تعلق رکھنے والا ہے.اس کے دو معنے ہو سکتے ہیں.ایک تو جو احمدیت کی ہری بھری کھیتیاں اُگ رہی ہیں اور سارے عالم میں اُگ رہی ہیں وہ مراد ہوسکتی ہیں.دوسرے ابراہیم کے خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی روحانی ذریت بڑی کثرت سے پھیلے گی اور ربیع فصل ربیع کو بھی کہتے ہیں یعنی وہ کھیتیاں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود لکھا ہے ربیع کی فصلیں بھی ہوسکتی ہیں جیسے گندم یکو وغیرہ.یہ حصہ ممکن ہے ۱۹۰۰ء کی ربیع کی شکل میں کسی صورت میں پورا ہو جائے.دُعا کریں کہ ہمارے زمانہ میں بھی ربیع کے موسم میں جو آئندہ آنے والا ہے اللہ تعالیٰ بڑی شان کے ساتھ اس الہام کو دوبارہ پورا کرے.رؤیا۷ ارجون ۱۸۹۹ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے حضرت اقدس کیا دیکھتے ہیں کہ آگ اور دھواں اور چنگاریاں اڑ کر آپ کی طرف آتی ہیں مگر ضر نہیں دیتیں.اس حال میں آپ یہ پڑھ رہے ہیں: یا حی یا قیوم برحمتک استغیث ان ربی رب السموات والارض ( تذكره صفحه ۲۷۹) اب یہ چنگاریاں اور آگ اور دھواں کس شکل میں نازل ہوگا یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے.یہ نقشہ تو اٹا مک بم کا ہے مگر خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ ہم کب چلے گا اور کیسے چلے گا اور کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید میں ایک نشان کے طور پر ظاہر ہوگا ؟ یہ لازماً پورا تو ہونا ہے مگر ساتھ ہی یہ جماعت کے لئے خوشخبری ہے کہ چنگاریاں اُڑ اُڑ کر جماعت کی طرف بھی آئیں گی مگر جماعت کو اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر محفوظ رکھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض چھوٹے چھوٹے الہامات بظاہر بالکل چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے اور اس قدر تیزی سے پورا ہوتے تھے کہ بعض چند
خطابات طاہر جلد دوم 477 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء گھنٹے کے اندر بعض اس سے بھی کم عرصہ میں ، بعض دس پندرہ منٹ کے اندر پورے ہو جایا کرتے تھے اور یہ وہ نشانات تھے جو بارش کی طرح نازل ہوتے رہتے تھے اور بظاہر چھوٹے مگر عظمت میں بہت بڑے ہوتے تھے.چنانچہ اس کی ایک دو مثالیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا.تـرى فـخـذا اليماً “ کہ تو ایک دردناک ران دیکھے گا.اب بھلا یہ بھی کوئی الہام ہے جو کوئی شخص اپنی طرف سے بنائے کہ تو ایک دردناک ران دیکھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو بھی الہام ہوتا تھا بڑی امانت اور حفاظت کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو بتا دیا کرتے تھے.کس رنگ میں اس نے پورا ہونا ہے یہ خدا پر چھوڑتے تھے اور توکل کا ایک عظیم مقام تھا کہ الہامات مخفی نہیں رکھتے تھے.چنانچہ آپ نے حضرت شیخ حامد علی صاحب کو سنایا کہ مجھے ظہر کی نماز کے وقت یہ الہام ہوا ہے ترى فخذا اليما “ ( تذکره صفحه: ۲۷۷) کہ تو ایک درد ناک ران دیکھے گا.یہ الہام حافظ صاحب کو سنا کر آپ نماز کے لئے زینہ سے نیچے اترے تو دو گھوڑوں پر دولڑ کے سوار دکھائی دیئے ( یعنی یہ واقعہ آئے ہوئے تھے وہاں جن کی عمر بیس برس کے اندر اندر ہوگی ) اور ایک کچھ چھوٹا اور ایک بڑا تھا.وہ سوار ہونے کی حالت میں ہی آگے آئے اور ایک نے ان میں سے کہا یہ دوسرا میرا بھائی ہے اور اس کی ران میں سخت درد ہو رہا ہے.تو ایک دردناک ران دیکھے گا.دیکھیں کس حیرت انگیز صفائی سے لفظاً لفظاً یہ الہام پورا ہوا ہے اور چند منٹ کے وقت کے اندر اور پھر اس کا پورا ہونا دیکھئے.ان لڑکوں نے کہا کہ ہم علاج کی خاطر آپ کے پاس آئے ہیں تا کہ آپ سے استفادہ کریں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ران پر ہاتھ رکھا اور بغیر کسی دوا کے دیکھتے دیکھتے وہ ران خدا کے فضل سے ٹھیک ہوگئی.یہ تھا اعجاز مسیحائی.اس طرح بیمار شفا پاتے ہیں اور مردے زندہ ہوتے ہیں.اسی تعلق میں آپ بیان فرماتے ہیں.۱۸۹۹ء کو الہام ہوا ایک دفعہ مجھے دانت میں سخت درد ہوئی.ایک دم قرار نہ تھا.کسی شخص سے میں نے دریافت کیا کہ اس کا کوئی علاج ہے.اس نے کہا علاج دنداں اخراج دنداں اور دانت نکالنے سے مرادل ڈرا.تب اس وقت مجھے غنودگی آگئی اور میں زمین پر بیتابی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا اور چار پائی پاس بچھی تھی.میں نے بے تابی کی حالت میں اس چار پائی کی پائینتی پر اپناسر رکھ دیا اور تھوڑی
خطابات طاہر جلد دوم 478 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء سی نیند آ گئی.جب میں بیدار ہواتو درد کا نام ونشان نہ تھا اور زبان پر یہ الہام جاری تھا.اِذَا مَرِضْتَ فَهُوَ يَشْفِی یعنی جب تو بیمار ہوتا ہے تو وہ تجھے شفا دیتا ہے.فَالحَمدُ لِلهِ عَلى ذلِک ( تذکرہ صفحہ: ۲۸۱) اب اس کے برعکس ایک اور واقعہ بھی ضمناً بیان کرتا ہوں.بعینہ یہی تکلیف حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو بھی ہوئی اور بڑھتی چلی گئی.حالانکہ آپ غیر معمولی طبیب تھے.ایسے کہ ہندوستان میں شمال سے جنوب تک آپ کی شہرت پھیلی ہوئی تھی.مہینہ بھر اپنا علاج کیا مگر وہ دانت در دٹھیک ہونے میں نہ آیا.آخر وہ دانت نکلوانا پڑا.تو ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کی برکت سے کیا واقعہ ہوا، اس کا اعجاز کس شان سے ظاہر ہوا.ایک محض طبابت کی وجہ سے باوجود اس کے کہ بہت بزرگ اور بہت اعلیٰ مقام رکھتے تھے مگر خدا نے دونوں کی شان میں فرق دکھانا تھا.تو محض ایک دعا سے ایک دانت کو اچھا کر دیا اور ایک دانت کو نکلوانا پڑا.اب یہ وہ زمانہ ہے جس میں یہ الہام اب پورا ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.”خدا نے مجھے خبر دی کہ تیرے ساتھ آشتی اور صلح پھیلے گی.ایک درندہ بکری کے ساتھ صلح کرے گا اور ایک سانپ بچوں کے ساتھ کھیلے گا.یہ خدا کا ارادہ ہے گو لوگ تعجب کی راہ سے دیکھیں.“ ( تذکرہ صفحہ: ۲۸۵) ۱۸۹۹ء ہی کا ایک اور الہام.مبشروں کا زوال نہیں ہوتا.گورنر جنرل کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آ گیا.“ (تذکرہ صفحہ : ۲۸۵) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس دور کے گورنر جنرل ہیں اور آپ کی پیشگوئیاں لازماً پوری ہوں گی ایک ذرہ بھی ہمیں اس میں شک نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس رؤیا کی تعبیر کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں: ”ہمارا نام حکم عام بھی ہے ( یعنی حضرت رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جو حکم قرار دیا ہے کہ عام حکم ہوگا.سب پر حکومت کرے گا.) جس کا اگر انگریزی ترجمہ کیا جائے تو گورنر جنرل ہوتا ہے.“ ( تذکرہ : ۲۸۵) یعنی عام گورنر جو خدا کی طرف سے اختیارات عطا کیا گیا ہے.بہر حال یہ تشریح تھی.کوئی بھی تشریح کریں.یہ الہام اللہ کے فضل سے پورا ہورہا ہے اور دن بدن پورا ہوتا چلا جائے گا.
خطابات طاہر جلد دوم ۱۸۹۹ء کو فر مایا.479 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء رات کے وقت جب ہر طرف خاموشی ہوتی ہے اور ہم اکیلے ہوتے ہیں اُس وقت بھی خدا کی یاد میں دل ڈرتا رہتا ہے کہ وہ بے نیاز ہے.“ اکثر شب تنہائی میں لوگوں کے دل پر پتا نہیں کیا کیا گزرتی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس وقت خدا کی یاد غلبہ کر لیتی ہے اور دل ڈرتا رہتا ہے کہ جب تک نیک انجام کو کوئی نہ پہنچے کسی کو کیا پتا کس انجام کو پہنچے گا.پھر فرمایا.”جب انسان کو کامیابی حاصل ہو جاتی ہے اور عجز و مصیبت کی حالت نہیں رہتی تو جو شخص اس وقت انکسار کو اختیار کرے اور خدا کو یا در کھے وہ کامل ہے.“ ( ملفوظات جلدا، صفحه : ۳۰۶) پھر آخر پر چند امور ضروری پیش کرتے ہوئے جن کا حوالہ بھی ۱۸۹۹ء کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ خطاب آپ کے سامنے رکھتا ہوں.”ہمارے دوستوں کو کس نے بتایا ہے کہ زندگی بڑی لمبی ہے.موت کا کوئی وقت نہیں کہ کب سر پر ٹوٹ پڑے.اس لئے مناسب ہے کہ جو وقت ملے اسے غنیمت سمجھیں.66 فرمایا: ”یہ ایام پھر نہ ملیں گے اور یہ کہانیاں رہ جائیں گی.“ (ملفوظات جلد اول صفحه: ۳۰۲) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی ۱۸۹۹ء کی ایک پُر درد دعا ہے جو میں آپ کے الفاظ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.”اے میرے حضرت اعلیٰ ذوالجلال قادر وقد وس حتی و قیوم جو ہمیشہ راستبازوں کی مدد کرتا ہے تیرا نام ابد الآباد مبارک ہے.تیرے قدرت کے کام کبھی رک نہیں سکتے.تیرا قوی ہاتھ ہمیشہ عجیب کام دکھلاتا ہے.تو نے ہی اس چودھویں صدی کے سر پر مجھے مبعوث کیا...مگر اے میرے قادر خدا تو جانتا ہے کہ اکثر لوگوں نے مجھے منظور نہیں کیا اور مجھے مفتری سمجھا اور میرا نام کافر
خطابات طاہر جلد دوم 480 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1999ء اور کذاب اور دجال رکھا گیا.مجھے گالیاں دی گئیں اور طرح طرح کی دلآ زار باتوں سے مجھے ستایا گیا...سواے میرے مولا قادر خدا! اب مجھے راہ بتلا اور کوئی ایسا نشان ظاہر فرما جس سے تیرے سلیم الفطرت بندے نہایت قوی طور پر یقین کریں کہ میں تیرا مقبول ہوں اور جس سے ان کا ایمان قوی ہو اور وہ تجھے پہچانیں...اور دنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے نام کی روشنی اس بجلی کی طرح دکھلائی دے...دیکھ ! میری روح نہایت تو کل کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کر رہی ہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے.سو میں تیری قدرت کے نشان کا خواہش مند ہوں لیکن نہ اپنے لئے اور نہ اپنی عزت کے لئے بلکہ اس لئے کہ لوگ تجھے پہچانیں اور تیری پاک راہوں کو اختیار کریں...میں تجھے پہچانتا ہوں کہ تو ہی میرا خدا ہے اس لئے میری روح تیرے نام سے ایسی اُچھلتی ہے جیسا کہ شیر خوار بچہ ماں کے دیکھنے سے لیکن اکثر لوگوں نے مجھے نہیں پہچانا اور نہ قبول کیا.اس لئے نہ میں نے بلکہ میری روح نے اس بات پر زور دیا کہ میں یہ دعا کروں کہ اگر میں تیرے حضور میں سچا ہوں...تو ایسا کر کہ جنوری ۱۹۰۰ء سے اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک میرے لئے کوئی اور نشان دکھلا اور اپنے بندے کے لئے کوئی اور گواہی دے جس کو زبانوں سے کچلا گیا ہے.دیکھ! میں تیری جناب میں عاجزانہ ہاتھ اٹھاتا ہوں کہ تو ایسا ہی کر.“ 66 تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه: ۵۰۷ تا ۵۱۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس آخری اقتباس کے ساتھ آئیے ہم سب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں ہاتھ اٹھا ئیں اور ہماری روح بھی اسی طرح خدا کے حضور بے چین ہو کر اچھلے جس طرح بچہ اپنی ماں کے دودھ کے لئے اچھلتا ہے اور اسی بے قراری کے ساتھ ہمارے دل سے دعائیں بلند ہوں اور رب العزت ان دعاؤں کو قبول فرمائے.آمین آئیے اب اس افتتاحی دُعا میں میرے ساتھ شامل ہو جائیں.(دعا) امین
خطابات طاہر جلد دوم 481 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء ۱۹۰۰ء کے الہامات آج بھی بڑی شان سے پورے ہورہے ہیں.اللہ تعالیٰ فرشتوں کو دلوں پراتارے گا اور حیرت انگیز انقلاب برپا کر دے گا.افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۸ / جولائی ۲۰۰۰ ء بمقام اسلام آباد ٹلفورڈ ، برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُوْرَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِه وَلَوْكَرِهَ الْكَفِرُونَ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى پھر فرمایا:.وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں حالانکہ اللہ ہر حال میں اپنا نور پورا کرنے والا ہے خواہ کا فرنا پسند کریں.وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اُسے دین (کے ہر شعبہ ) پر کلیۂ غالب کر دے خواہ مشرک بر امنا ئیں.گزشتہ سالوں سے میرا یہ طریق رہا ہے کہ سوسال پہلے کے اس سال سے تعلق رکھنے والے جو الہامات ہوتے ہیں میں اپنی افتتاحی تقریر میں ان کا ذکر کرتا ہوں کیونکہ اللہ کے فضل سے ایک سوسال بعد عین اسی سال بھی ان کے کرشمے پھر نظر آتے ہیں اور وہ الہام ایک نئی شان کے ساتھ
خطابات طاہر جلد دوم 482 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء پورے ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.آج سے سو سال پہلے یعنی ۱۹۰۰ ء کے الہامات میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر ہندوؤں کے کرشن اور آریوں کے بادشاہ کے طور پر ملتا ہے.چنانچہ اس سال ہندوستان میں احمدیت کو جو غیر معمولی پذیرائی اور قبولیت نصیب ہوئی ہے، وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے انہی الہامات کا ایک کرشمہ ہے جو ہندوستان میں اللہ تعالیٰ نے ان الہامات کو پورا کرتے ہوئے غیر معمولی برکت عطا فرمائی ہے اس کا ذکر انشاء اللہ آخر پر ہوگا.ناقابل یقین کامیابیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے وہاں عطا فرمائی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہ حقیقۃ الوحی میں لکھتے ہیں: جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا اِن دنوں میں انتظار کرتے ہیں.وہ کرشن میں ہی ہوں اور یہ دعویٰ صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے بار بار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ تو ہی ہے.آریوں کا بادشاہ.تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۲۲٬۵۲۱) ۱۹۰۰ء کے الہامات میں سے ایک الہام یہ ہے: ایک بڑا تخت مربع شکل کا ہندوؤں کے درمیان بچھا ہوا ہے جس پر میں بیٹھا ہوا ہوں.ایک ہندو کسی کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے.کرشن جی کہاں ہیں.جس سے سوال کیا گیا وہ میری طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ یہ ہے.پھر تمام ہندو روپیہ وغیرہ نذر کے طور پر دینے لگے.اتنے ہجوم میں سے ایک ہندو بولا : ہے کرشن جی روڈ ر گوپال (تذکرہ : ۳۱۲) خدا تعالیٰ نے کشفی حالت میں بارہا مجھے اس بات پر اطلاع دی ہے کہ آریہ قوم میں کرشن نام ایک شخص جو گزرا ہے، وہ خدا کے برگزیدوں اور اپنے وقت کے نبیوں میں سے تھا اور ہندوؤں میں اوتار کا لفظ در حقیقت نبی کے ہم معنی ہے اور ہندوؤں کی کتابوں میں ایک پیشگوئی ہے اور وہ یہ کہ آخری زمانہ
خطابات طاہر جلد دوم 483 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء میں ایک اوتار آئے گا جو کرشن کی صفات پر ہوگا اور اس کا بروز ہوگا اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ میں ہوں.کرشن کی دو صفت ہیں.ایک روڈر یعنی درندوں اور سُوروں کو قتل کرنے والا یعنی دلائل اور نشانوں سے.دوسرے گوپال یعنی گائیوں کو پالنے والا یعنی اپنے انفاس سے نیکوں کا مددگار اور یہ دونوں صفتیں مسیح موعود کی صفتیں ہیں اور یہی دونوں صفتیں خدا تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہیں.“ ( تذکرہ:۳۱۱) 2 / مارچ 1900 ء کو الہام ہوا : " الامراض تشــاع والـنـفـوس تضاع...ایسا ہی انـا لـلـه وانا اليه راجعون کا بھی الہام ہوا.یعنی بیماریاں پھیلیں گی اور جانیں ضائع ہوں گی.انا لله و انا الیه راجعون.(تذکرہ:۲۸۹) ”خدا نے مجھے کہا کہ اُٹھ اور ان لوگوں کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے.پس کیا تم خدا کی گواہی رڈ کر دو گے.خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوا.اُس کے یہ الفاظ ہیں.قل عندى شهادة من الله فهل انتم مومنون.قل عندى شهادة من الله فهل انتم مسلمون.قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله وقل يا يها الناس انی رسول الله اليكم جميعا.اى مرسل من الله - ( تذکره صفحه : ۲۹۲-۲۹۳) ” ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے.پس کیا تم ایمان لاؤ گے یا نہیں.ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے.پس تم قبول کرو گے یا نہیں.کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو.تو آؤ میری پیروی کرو.تا خدا بھی تم سے محبت رکھے.“ ( تو کہہ.اے لوگو! میں تم سب کی طرف خدا تعالیٰ کا رسول ہو کر آیا ہوں.مرتب) یہ حضرت اقدس محمد مصطفی عنہ کو خدا نے الہام کیا تھا اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ صلى الله فَاتَّبِعُونِي يُحببكم الله ( آل عمران : ۳۲) پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے عشق میں ڈوبے ہوئے انسان کو بھی جزوی طور پر یہی درجہ عطا کیا گیا.یعنی غلاموں کے غلام اور کامل طور پر حضرت محمد رسول الله الا اللہ کے عشق میں ڈوبا ہوا اور جس طرح آپ تمام بنی نوع انسان کی طرف بھیجے گئے تھے.آج دنیا گواہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے تمام
خطابات طاہر جلد دوم 484 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء قوموں کی طرف بھیجا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں : آج ۲ جون ۱۹۰۰ء کو بروز شنبه بعد دو پہر دو بجے کے وقت مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ ایک ورق جو نہایت سفید تھا دکھلایا گیا.اس کی آخری سطر میں لکھا تھا:.اقبال باقبال ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ آخر سطر میں یہ لفظ لکھنے سے انجام کی طرف اشارہ تھا.یعنی انجام پھر ساتھ ہی یہ الہام ہوا.قادر کے کاروبار نمودار ہو گئے کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے اس کے یہ معنی مجھے سمجھائے گئے کہ عنقریب کچھ ایسے زبر دست نشان ظاہر ہو جائیں گے.جس سے کافر کہنے والے، جو مجھے کافر کہتے تھے، الزام میں پھنس جائیں گے اور خوب پکڑے جائیں گے اور کوئی گریز کی جگہ ان کے لئے باقی نہیں رہے گی.یہ پیشگوئی ہے ہر ایک پڑھنے والا اس کو یاد رکھے.(تذکرہ:۲۹۳) پھر آپ فرماتے ہیں.اس کے بعد ۳ / جون ۱۹۰۰ء کو بوقت ساڑھے گیارہ بجے یہ الہام ہوا.کافر جو کہتے تھے وہ نگونسار ہو گئے جتنے تھے سب کے سب ہی گرفتار ہو گئے یعنی کا فر کہنے والوں پر خدا کی محبت ایسی پوری ہو گئی کہ ان کے لئے کوئی عذر کی جگہ نہ رہی.یہ آئندہ زمانہ کی خبر ہے کہ عنقریب ایسا ہو گا اور کوئی ایسی چمکتی ہوئی دلیل ظاہر ہو جائے گی کہ فیصلہ کر دے گی.“ ( تذکرہ صفحہ: ۲۹۴) پھر لکھا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کل در دسر کے وقت بار بار یہ الہام ہوا.انى مع الامراء اتیک بغتةً ( تذکره: ۳۱۰) میں صاحب امرلوگوں کے ساتھ تیری طرف اچانک آؤں گا.یہاں امراء سے مراد امیر
خطابات طاہر جلد دوم 485 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء لوگ نہیں ہیں بلکہ صاحب امر لوگ ہیں.۱۹۰۰ء کا ایک اور الہام جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ایک دفعہ مجھے مرض ذیا بیطس کے سبب بہت تکلیف تھی.کئی دفعہ سو سومرتبہ دن میں پیشاب آتا تھا.دونوں شانوں میں ایسے آثار نمودار ہو گئے.جن سے کار بنکل کا اندیشہ تھا.تب میں دُعا میں مصروف ہوا تو یہ الہام ہوا.وَالْمَوْتِ إِذَا عَسْعَسَ “ یعنی قسم ہے موت کی جب کہ ہٹائی جائے.چنانچہ یہ الہام بھی ایسا پورا ہوا کہ اس وقت سے لے کر ہمیشہ ہماری زندگی کا ہر ایک سیکنڈ ایک نشان ہے.“ ( تذکرہ : ۳۱۳) ۱۹۰۰ ء کا ایک اور الہام کہ.بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں برمنار بلند تر محکم افتاد پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار وروشن شد نشا نہائے من.بڑا مبارک وہ دن ہوگا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کریگا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دیگا.آمین ( تذکرہ : ۳۲۴) ۱۹۰۰ ء کا ایک اور الہام ہے.ایک عزت کا خطاب.ایک عزت کا خطاب.لَكَ خِطَابُ الْعِزَّةِ.ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا.خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھاوے اور آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھاوے.میں اپنی چہکار دکھلاؤں گا.اور قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاؤں گا.آسمان سے کئی تخت اُترے.مگر سب سے اونچا تیرا تخت بچھایا گیا.یہ ایک بائبل کی پیشگوئی ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی حلیہ کے حق میں بڑی شان - پوری ہوئی ہے کہ جتنے نبیوں کا نام قرآن کریم میں آیا ہے اتنے ہی نبیوں کے متعلق کہ ۲۴ تخت تھے یا صلى الله.۲۵ تھے غالبا وہ اتارے گئے ہیں.سب سے اوپر پھر ایک اور تخت اترا ہے جو حضرت محمد مصطفی سے کا تخت ہے.تو اس زمانے کی یہ پیشگوئیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں بھی بروزی
خطابات طاہر جلد دوم 486 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء طور پر پوری ہو رہی ہیں.آسمان سے کئی تخت اترے مگر سب سے اونچا تیرا تخت بچھایا گیا.دشمنوں سے ملاقات کرتے وقت فرشتوں نے تیری مدد کی خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا.ربّ الافواج اس طرف توجہ کرے گا.اگر مسیح ناصری کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس جگہ اُس سے برکات کم نہیں ہیں اور مجھے آگ سے مت ڈراؤ کیونکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.(تذکرہ صفحہ ۳۲۴۳۲۳۰) ۱۹۰۰ ء کا ایک اور الہام ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.لوگ آئے اور دعویٰ کر بیٹھے.شیر خدا نے ان کو پکڑا.شیر خدا نے فتح پائی.( تذکر صفحہ ۳۲۴) پھر ہے.” ہم نے احمد کو اس کی قوم کی طرف بھیجا.تب لوگوں نے کہا کہ یہ کذاب ہے اور انہوں نے اس پر گواہیاں دیں اور سیلاب کی طرح اس پر گرے.اُس نے کہا کہ میرا دوست قریب ہے مگر پوشیدہ.تجھے میری مدد آئے گی.میں رحمان ہوں.تو قابلیت رکھتا ہے اس لئے تو ایک بزرگ بارش کو پائے گا.میں ہر یک قوم میں سے گروہ کے گروہ تیری طرف بھیجوں گا.میں نے تیرے مکان کو روشن کیا.یہ اس خدا کا کلام ہے جو عزیز اور رحیم ہے“.( تذکرہ صفحہ: ۳۲۰) پھر ہے." کیا یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک بڑی جماعت ہیں انتقام لینے والے.یہ سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے.وہ خدا قابلِ تعریف ہے جس نے تجھے دامادی اور آبائی عزت بخشی.اپنی قوم کو ڈرا اور کہہ کہ میں خدا کی طرف سے ڈرانے والا ہوں.ہم نے کئی کھیت تیرے لئے تیار کر رکھے ہیں اے ابراہیم ! اور لوگوں نے کہا کہ ہم تجھے ہلاک کریں گے.مگر خدا نے اپنے بندہ کو کہا یہ کچھ خوف کی جگہ نہیں.میں اور میرے رسول غالب ہوں گے اور میں اپنی
خطابات طاہر جلد دوم 487 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء فوجوں کے ساتھ عنقریب آؤں گا.میں سمندر کی طرح موجزنی کروں گا.خدا کا فضل آنیوالا ہے اور کوئی نہیں جو اس کو رڈ کر سکے...یہ کلام خدا کی طرف سے ہے جو غالب اور رحیم ہے، تا تو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تا دوسری قوموں کو دعوت دین کرے.عنقریب ہے کہ خدا تم میں اور تمہارے دشمنوں میں دوستی کر دے گا اور تیرا خدا ہر چیز پر قادر ہے.اس روز وہ لوگ سجدے میں گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے خدا ہمارے گناہ معاف کر ہم خطا پر تھے.آج تم پر کوئی سرزنش نہیں خدا معاف کرے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے.مکڈ مین کے لئے مجھ کو چھوڑ دے.میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.میرا دن بڑے فیصلہ کا دن ہے اور تو سیدھی راہ پر ہے اور جو کچھ ہم ان کے لئے وعدے کرتے ہیں.ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ تیری زندگی میں تجھے دکھلا دیں اور یا تجھ کو وفات دے دیں اور بعد میں وہ وعدے پورے کریں اور میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا.یعنی تیرا رفع الی اللہ دنیا پر ثابت کر دوں گا اور میری مدد تجھے پہنچے گی.میں ہوں وہ خدا جس کے نشان دلوں پر تسلط کرتے ہیں اور ان کو قبضہ میں لے آتے ہیں.“ (تذکرہ صفحہ: ۳۲۲،۳۲۱) ترجمہ پھر الہام ہوا.ظالموں کے بارے میں مجھ سے کچھ کلام نہ کر وہ تو ایک غرق شدہ قوم ہے اور تجھے ان لوگوں نے ایک ہنسی کی جگہ بنا رکھا ہے اور کہتے ہیں کہ کیا یہی ہے جو خدا نے مبعوث فرمایا اور تیری طرف دیکھتے ہیں اور تو انہیں نظر نہیں آتا اور یاد کر وہ وقت جب تیرے پر ایک شخص سراسر مکر سے تکفیر کا فتوی دے گا....وہ اپنے بزرگ ہامان کو کہے گا کہ اس تکفیر کی بنیاد تو ڈال کہ تیرا اثر لوگوں پر بہت ہے اور تو اپنے فتویٰ سے سب کو افروختہ کر سکتا ہے.سوتو سب سے پہلے اس کفر نامہ پر مہر لگا ، تا سب علماء بھڑک اٹھیں اور تیری مہر کو دیکھ کر وہ بھی مہریں لگا دیں اور تا کہ میں دیکھوں کہ خدا اس شخص کے ساتھ ہے یا نہیں کیونکہ میں اس کو جھوٹا سمجھتا
خطابات طاہر جلد دوم 488 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء ہوں ( تب اُس نے مہر لگا دی ) ابولہب ہلاک ہو گیا اور اُس کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے ( ایک وہ ہاتھ جس کے ساتھ تکفیر نامہ کو پکڑا اور دوسرا وہ ہاتھ جس کے ساتھ مہر لگائی یا تکفیر نامہ لکھا) اس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس کام میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے اور جو تجھے رنج پہنچے گا وہ تو خدا کی طرف سے ہے.جب وہ ہامان تکفیر نامہ پر مہر لگا دے گا تو بڑا فتنہ برپا ہوگا.پس تو صبر کر ، جیسا کہ اولوا العزم نبیوں نے صبر کیا یہ فتنہ خدا کی طرف سے فتنہ ہوگا تا وہ تجھ سے بہت محبت کرے.جو دائمی محبت ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی اور خدا میں تیرا اجر ہے.خدا تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے نام کو پورا کر لگا.بہت ایسی باتیں ہیں کہ تم چاہتے ہومگر وہ تمہارے لئے اچھی نہیں اور بہت ایسی باتیں ہیں کہ تم نہیں چاہتے اور وہ تمہارے لئے اچھی ہیں اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“.( تذکرہ صفحہ ۳۱۸،۳۱۷) یہ پیشگوئی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بار بار پوری ہو چکی ہے.سب سے پہلے تو بھٹو کے زمانہ میں جب اس نے اس وقت کے ہامان یعنی سعودی عرب کے بادشاہ سے درخواست کی تھی کہ تم دستخط کرو تو اس سے ساری قوم تیرے پیچھے لگ جائے گی اور بھڑک اٹھے گی اور سب علماء آپ کے دستخط کرنے کے بعد اس فتوے پر دستخط کر دیں گے.یہ واقعہ ہوا لیکن اللہ نے اس ہامان کو بھی ہلاک کر دیا اور ایسے معجزانہ طور پر ہلاک کیا کہ کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا.اس کے اپنے بھتیجے نے اس کو تلوار سے قتل کر دیا اور پھر بھٹو کا جو انجام ہوا وہ آپ سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں.پھر اس کے بعد ضیاء الحق کی باری آئی اس کے ساتھ خدا نے کیا سلوک کیا، یہ بھی آپ سب لوگ جانتے ہیں.پس یہ پیشگوئی ہے جو بار بار انشاء اللہ پوری ہوتی رہے گی.ہمارے زمانہ میں بھی ، انشاء اللہ اللہ جانتا ہے کہ کس رنگ میں پوری فرمائے مگر انشاء اللہ ہم ضرور اسے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھیں گے.پھر الہام ہوا ہے.إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ إِهَانَتَكَ.وَ مَا كَانَ اللَّهُ لِيَتُرُ كَكَ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ.سُبْحَانَ اللَّهِ أَنْتَ وَ قَارُهُ.فَكَيْفَ يَتْرُكُكَ.
خطابات طاہر جلد دوم 489 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء إِنِّي أَنَا اللَّهُ فَاخْتَرْنِى قُلْ رَّبِّ إِنِّي اخْتَرْتُكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ.ترجمہ :.میں اُس کو ذلیل کرونگا جو تیری ذلت چاہتا ہے اور میں اُس کو مدد دونگا جو تیری مدد کرتا ہے اور خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق نہ کر لے.خدا ہر ایک عیب سے پاک ہے اور تو اس کا وقار ہے.پس وہ تجھے کیونکر چھوڑ دے.میں ہی خدا ہوں.تو سراسر میرے لئے ہو جا.تو کہہ اے میرے رب ! میں نے تجھے ہر چیز پر اختیار کیا.( تذکرہ صفحہ: ۳۱۹) پھر یہ الہام ہے ”ہم نے احمد کو ( یعنی اس عاجز کو ) اُس کی قوم کی طرف بھیجا.پس قوم اُس سے رُوگردان ہوگئی اور انہوں نے کہا کہ یہ تو کذاب ہے، دنیا کے لالچ میں پڑا ہوا ہے.( یعنی ایسے ایسے حیلوں سے دُنیا کمانا چاہتا ہے ) اور اُنہوں نے عدالتوں میں اُس کے خلاف گواہیاں دیں تا اُس کو گرفتار کرا دیں اور وہ ایک تند سیلاب کی طرح جو اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اُس پر اپنے حملوں کے ساتھ گر رہے ہیں مگر وہ کہتا ہے کہ میرا پیارا مجھ سے بہت قریب ہے.وہ قریب تو ہے مگر مخالفوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے.(تذکرہ صفحہ: ۳۰۷) یہ مخالفوں کی آنکھ سے پوشیدہ کا ذکر پہلے بھی گزر چکا ہے.اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اور شعر میں اس کی تشریح ہے.عد وجب بڑھ گیا شور وفغاں میں نہاں ہم ہو گئے یا رنہاں میں (درین صفحہ :۵۰) ہم تو یارنہاں میں پوری طرح ڈوب گئے اور خدا کی امان میں آگئے.یہ مراد ہے اس سے.لوگ تجھے اپنی شرارتوں سے ڈرائیں گے پر خدا تجھے دشمنوں کی شرارت سے آپ بچائے گا گولوگ نہ بچاویں اور تیرا خدا قادر ہے.وہ عرش پر سے تیری تعریف کرتا ہے.یعنی جو لوگ گالیاں نکالتے ہیں ان کے مقابل پر خدا عرش پر تیری تعریف کرتا ہے.ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں اور
خطابات طاہر جلد دوم 490 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء جو ٹھٹھا کرنے والے ہیں ان کے لئے ہم اکیلے کافی ہیں.خدا نے قدیم سے لکھ رکھا ہے یعنی مقرر کر رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوں گے.یعنی گوکسی قسم کا مقابلہ آپڑے جو لوگ خدا کی طرف سے ہیں وہ مغلوب نہیں ہوں گے اور خدا اپنے ارادوں پر غالب ہے، مگر اکثر لوگ نہیں سمجھتے.خدا وہی خدا ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے.کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو بدل دئے“.( تذکرہ صفحہ : ۳۱۶ ، ۳۱۷) ”اے میرے احمد تجھے بشارت ہو.تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.میں نے اپنے ہاتھ سے تیرا درخت لگایا.تیرا بھید میرا بھید ہے اور تو میری درگاہ میں وجیہہ ہے.میں نے اپنے لئے تجھے چنا.تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.پس وقت آگیا ہے کہ تو مدد دیا جائے اور لوگوں میں تیرے نام کی شہرت دی جائے.اے احمد! تیرے لبوں میں نعمت یعنی حقائق اور معارف جاری ہیں.اے احمد ! تو برکت دیا گیا اور یہ برکت تیرا ہی حق تھا“.( تذکرہ صفحہ : ۳۱۵) پھر الہام ہوا.اُن کو کہہ دے کہ میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی وحی اور حکم سے یہ سب باتیں کہتا ہوں اور میں اس زمانہ میں تمام مومنوں میں سے پہلا ہوں.ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے اور یہ لوگ مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور خدا بہتر مکر کرنے والا ہے اور خدا ایسا نہیں کرے گا کہ وہ تجھے چھوڑ دے جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق نہ کر لے اور تیرے پر دنیا اور دین میں میری رحمت ہے اور تو آج ہماری نظر میں صاحب مرتبہ ہے اور ان میں سے ہے جن کو مدد دی جاتی ہے.اور مجھ سے تو وہ مقام اور مرتبہ رکھتا ہے.جس کو دنیا نہیں جانتی اور ہم نے دنیا پر رحمت کرنے کے لئے تجھے بھیجا ہے.( تذکرہ صفحہ: ۳۱۵)
خطابات طاہر جلد دوم 491 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء ترجمہ : اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا.اگر چہ لوگ تیری حفاظت نہ کریں اور اگر لوگ تیری حفاظت نہ کریں تو اللہ تیری حفاظت کرے گا.پاک ہے اللہ.تو خدا کا وقار ہے.پس وہ تجھے ترک نہیں کرے گا.تو وہ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاسکتا.اللہ تعالیٰ کافروں کے لئے مومنوں پر الزام لگانے کا کوئی ذریعہ نہیں رکھے گا.کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو کم کرتے چلے آتے ہیں اس کی تمام طرفوں سے.کیا تو نے نہیں دیکھا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے.پس تم ایک وقت تک نشانات کی انتظار کرو.تو برگزیدہ مسیح ہے اور میں تیرے ساتھ اور تیرے انصار کے ساتھ ہوں اور تو میرا اسم اعلیٰ ہے.تو مجھے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.تو میرے تمام محبوبوں کا قائم مقام ہے.پس صبر کر یہاں تک کہ ہمارا حکم آوے اور اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو ڈرا اور اپنی قوم کوڈرا اور کہہ میں کھلا کھلا نذیر ہوں.یہ ایک بدخلق قوم ہے.انہوں نے میرے نشانوں کی تکذیب کی اور ٹھٹھا کیا.سو خُدا اُن کے لئے تجھے کفایت کرے گا اور اس کو تیری طرف واپس لائے گا.اللہ تعالے کے کلمات کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں اور اللہ کا وعدہ حق ہے اور تیرا رب جو چاہتا ہے کرتا ہے.کہہ مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تو شک کرنے والوں میں سے مت ہو.(تذکرہ صفحہ : ۳۰۵،۳۰۴) پھر الہام ہے.”خدا اپنے پاس سے تیری مدد کرے گا.وہ لوگ تیری مدد کریں گے جن کے دلوں میں میں الہام ڈالوں گا“.( تذکرہ صفحہ: ۲۹۸) یہ نظارے بکثرت دنیا نے دیکھے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مدد الہامات کے ذریعہ اور وحی و کشوف کے ذریعہ ہوئی ہے.اب بھی ہو رہی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی.میں غم سے تجھے نجات دوں گا.میں خدا قادر ہوں.ہم تجھے ایک گھلی فتح دینگے.جو ولی کو فتح دی جاتی ہے وہ بڑی فتح ہوتی ہے اور ہم نے اس کو
خطابات طاہر جلد دوم 492 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء خاص اپنا راز دار بنایا.سب انسانوں سے زیادہ بہادر ہے اور اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو وہیں سے وہ لے آتا.خدا اُس کے بُرہان کو روشن کرے گا.اے احمد رحمت تیرے لبوں پر جاری کی گئی.تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.خدا تیرے ذکر کو اونچا کرے گا اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا.دو اے میرے احمد ! تُو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.میں نے تیرا درخت اپنے ہاتھ سے لگایا اور ہم نے تیری طرف نظر کی اور کہا کہ اے آگ جو فتنہ کی آگ قوم کی طرف سے ہے اس ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہو جا...“...تو مجھ سے ایسا ہے جیسے میری تو حید اور تفرید.پس وقت آ گیا ہے کہ تجھ کو لوگوں میں شہرت دی جائے گی.اب تو تیرے پر وہ وقت ہے کہ کوئی بھی تجھ کو نہیں پہچانتا اور نزدیک ہے کہ تو تمام لوگوں میں شہرت پا جائے گا...اور یاد کر وہ آنے والا زمانہ جبکہ ایک شخص تیرے پر تکفیر کا فتویٰ لگائے گا اور اپنے کسی ایسے شخص کو جس کے فتوی کا دنیا پر عام اثر ہوتا ہو کہے گا کہ اے ہامان میرے لئے اس فتنہ کی آگ بھڑ کا تا میں اُس شخص کے خدا پر اطلاع پاؤں اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے.ہلاک ہو گئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے اور وہ بھی ہلاک ہو گیا.( یعنی جس نے یہ فتویٰ لکھا یا لکھوایا ) اس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے...اس فتویٰ تکفیر سے جو کچھ تکلیف تجھے پہنچے گی.وہ تو خدا کی طرف سے ہے.یہ ایک فتنہ ہو گا.پس صبر کر وجیسا کہ اولوا العزم نبیوں نے صبر کیا اور آخر خدا منکرین کے مکر کوئست کر دے گا.سمجھ اور یا درکھ کہ یہ فتنہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا تا وہ تجھ سے بہت سا پیار کرے.یہ اس خدا کا پیار ہے جو غالب اور بزرگ ہے اور اس مصیبت کے صلہ میں ایک ایسی بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی“.( تذکر صفحہ: ۲۹۸ تا ۳۰۰) پھر یہ الہام ہے.
خطابات طاہر جلد دوم 493 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء ”اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا میں تیری جماعت کو تیرے مخالفوں پر قیامت تک غلبہ دوں گا.ایک گروہ پہلوں میں سے ہو گا جو اوائل حال میں قبول کرلیں گے اور ایک گروہ پچھلوں میں سے ہو گا جو متواتر نشانوں کے بعد مانیں گے اور میں اپنی چھپکار دکھلاؤ نگا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤ نگا.دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا، لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.خدا اُس کا نگہبان ہے خدا کی عنایت اس کی نگہبان ہے.ہم نے اس کو اُتارا اور ہم ہی اُس کے نگہبان ہیں خدا بہتر نگہبانی کر نیوالا ہے اور وہ رحمن اور رحیم ہے.کفر کے پیشوا تجھے ڈرائیں گے تو مت ڈر کہ تُو غالب رہے گا.خدا ہر ایک میدان میں تیری مدد کرے گا.میرا دن ایک بڑے فیصلہ کا دن ہے.میری طرف سے یہ وعدہ ہو چکا ہے کہ میں اور میرے رسول فتحیاب رہیں گے.کوئی نہیں کہ میری باتوں میں کچھ تبدیلی کر دے.تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں.تیرے لئے میں نے رات اور دن پیدا کیا.جو چاہے کر کہ تو مغفور ہے.تو مجھ سے وہ نسبت رکھتا ہے جس کی دُنیا کو خبر نہیں.“ (تذکرہ صفحہ ۳۰۰) ” خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا اور وہ ہنسی کرنے والوں کیلئے کافی ہو گا.یہ تمام کاروبار خدا کی رحمت سے ہے.وہ اپنی نعمت تیرے پر پوری کریگا، تا کہ لوگوں کے لئے نشان ہو.ان کو کہدے کہ اگر خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے اور ان کو کہدے کہ میرے پاس میری سچائی پر خدا کی گواہی ہے پس کیا تم خدا کی گواہی قبول کرتے ہو یا نہیں اور ان کو کہہ دے کہ تم اپنی جگہ پر کام کرو اور میں اپنی جگہ پر کرتا ہوں پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ خدا کس کے ساتھ ہے.خدا نے تجلی فرمائی ہے کہ تا تم پر رحم کرے اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو وہ بھی منہ پھیر لے گا اور سچائی کے مخالف ہمیشہ کے زندان میں رہیں گے.تجھ کو یہ لوگ ڈراتے ہیں.تو ہماری
خطابات طاہر جلد دوم 494 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء ا آنکھوں کے سامنے ہے.میں نے تیرا نام متوکل رکھا.خدا عرش پر سے تیری تعریف کر رہا ہے.ہم تیری تعریف کرتے اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے مونہہ کی پھونکوں سے بجھا دیں.مگر خدا اُس نور کو نہیں چھوڑے گا جب تک پورا نہ کر لے اگر چہ منکر کراہت کریں.ہم عنقریب اُن کے دلوں میں رعب ڈالیں گے.جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرلے گا تو کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا.جیسا کہ تم نے سمجھا اور کہتے ہیں کہ یہ صرف بناوٹ ہے.اُن کو کہہ دے کہ خدا ہے جس نے یہ کاروبار بنایا.پھر ان کو چھوڑ دے تا اپنے بازیچہ میں لگے رہیں“.(تذکرہ صفحہ: ۲۹۷، ۲۹۸) ترجمہ : ”ہم جب کسی چیز کو چاہیں.تو ہمارا حکم اس کے متعلق صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم کہتے ہیں.ہو جا.پس وہ ہو جاتی ہے.ہم انہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دے رہے ہیں.جونز د یک وقت ہے اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بیشمار فضل ہے.تیرے پاس میری نصرت آئے گی.میں ہی رحمن ہوں اور جب اللہ کی نصرت آئی اور میں فیصلہ کے لئے متوجہ ہوا تو کہیں گے اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے.ہم خطا کار ہیں اور ٹھوڑیوں کے بل گریں گے.( تب انہیں کہا جائے گا کہ ) آج تم پر کوئی گرفت نہیں.اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب سے زیادہ معاف کرنے والا ہے.ان دنوں میں تمہیں بشارت ہو.دشمنوں کے چہرے متغیر ہو جائیں گے.اس دن ظالم کفِ دست ملے گا اور کہے گا.کاش میں اس رسول کا راستہ اختیار کر لیتا اور کہتے ہیں یہ تو انسان کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے.کہ اگر یہ غیر اللہ کا کلام ہوتا تو تم اس میں بہت اختلاف پاتے اور مومنوں کو بشارت دو کہ اُن کے لئے اُن کے رب کے حضور میں ایک ظاہر و باطن طور پر کامل درجہ ہے.اللہ انہیں ہرگز رُسوا نہیں کرے گا.(تذکرہ صفحہ ۳۰۵) اار دسمبر ۱۹۰۰ء کا الہام ہے: (1) میں ہرگز یقین نہیں رکھتا کہ میں اس وقت سے پہلے مروں جب تک
خطابات طاہر جلد دوم 495 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء کہ میرا قادر خدا ان جھوٹے الزاموں سے مجھے بری...ثابت نہ کرے...اسی سے متعلق قطعی اور یقینی طور پرمجھ کو اردسمبر ۱۹۹۰ء، روز پنجشنبہ کو یہ الہام ہوا.بر مقام فلک شده یا رب گرامیدے دہم مدار عجب بعد 11.انشاء اللہ تعالیٰ.میں نہیں جانتا کہ گیاراں دن ہیں یا گیاراں ہفتہ یا گیاراں مہینے یا گیاراں سال.مگر بہر حال ایک نشان میری بریت کے لئے اس مدت میں ظاہر ہوگا.(تذکرہ صفحہ: ۳۲۷) بر مقام فلک شده یارب گرامیدے دہم مدار عجب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری دُہائی اب آسمان پر پہنچ گئی ہے.اب میں اگر تجھے کوئی امید اور بشارت دوں تو تعجب مت کر ، میری سنت اور موہبت کے خلاف نہیں ) بعدا.انشاء اللہ فرمایا اس کی تفہیم نہیں ہوئی.کہ اسے کیا مراد ہے گیارہ دن یا گیارہ ہفتے یا کیا یہی ہندسہ اکا دکھایا گیا ہے).( تذکرہ صفحہ: ۳۲۷) 66 ۱۹۰۰ء کے الہامات میں سے آخری الہام یہ ہے.ترجمہ ” ہم تجھ پر بعض اور آسمانی اسرار اتارنا چاہتے ہیں اور دشمنوں کو پارہ پارہ کر دیں گے اور ہم فرعون اور ہامان اور اُس کے لشکر کو وہ کچھ دکھائیں گے جس سے وہ ڈرتے ہیں.کہہ اے کا فرو! میں سچا ہوں.پس تم ایک وقت تک میرے نشانات کا انتظار کرو.ہم عنقریب انہیں اپنے نشان اُن کے ارد گرد اور ان کی ذاتوں میں دکھائیں گے.اس دن حجت قائم ہوگی اور گھلی گھلی فتح ہو جائے گی.خدائے رحمان کا حکم ہے اس کے خلیفہ کے لئے جس کی آسمانی بادشاہت ہے.اس کو ملک عظیم دیا جائے گا اور خزانے اس کے لئے کھولے جائیں گے اور تمام زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اُٹھے گی.یہ اللہ کا فضل ہے اور تمہاری نگاہ میں عجیب.تجھ پر سلامتی ہو.ہم نے تجھے ایک عظیم الشان
خطابات طاہر جلد دوم 496 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء حجت کے طور پر اُتارا ہے اور تیرا رب قادر ہے.تجھ پر برکات اور سلامتی ہو تم پر اس خدا کا سلام جو رحیم ہے.تو قابلیت رکھتا ہے اس لئے تو ایک بزرگ بارش کو پائے گا.تیرے تین عضووں پر خاص طور پر خدا کی رحمت نازل ہوگی.ایک تو آنکھ اور باقی دو اور ، اور ہم تجھے پاکیزہ زندگی دیں گے.ہم نے تجھے خیر کثیر دی ہے.پس تو اپنے رب کی عبادت کر اور قربانیاں کر.اللہ میں ہی ہوں پس میری ہی عبادت کر اور میرے غیر سے مددمت طلب کر.میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں.میری طاقت کے سوا کوئی طاقت نہیں.ہم جب کسی قوم کی حدود میں اُترتے ہیں.تو ان لوگوں کی صبح خراب ہوتی ہے جنہیں ڈرایا گیا ہو.میں اپنی فوجوں کے ساتھ یکدم آؤں گا.(اس دن) گھلی گھلی فتح ہو گی اور کامیابی ہوگی.میں سمندر کی طرح موجزن ہوں گا.اس جگہ ایک فتنہ برپا ہوگا.پس صبر کر جیسا کہ اولوا العزم نبیوں نے صبر کیا.( تذکرہ صفحہ ۳۰۶)......دشمن چاہتے ہیں کہ اللہ تعالے کے نور کو بجھا دیں اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے.لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے.بلندی تیرے لئے ہے اور پستی تیرے دشمنوں کے حصہ میں اور جدھر تم منہ پھیرو گے.ادھر ہی اللہ کی توجہ ہوگی.کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا.( تذکرہ صفحہ: ۳۰۸) اس سے پہلے کئی بار فوجی انقلابات آچکے ہیں اور احمدیوں نے اپنے بھولے پن میں یہ لکھا کہ دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوگی اور یہ اللہ کی فوج ہے.وہ اللہ کی فوج کیسے ہوگئی جس پر ملاں حکومت کرتا ہے اور گردن پر پیر تسمہ پا کی طرح سوار ہواس کو اللہ کی فوج کب کہا جاتا ہے اس لئے صبر کریں اور یقین رکھیں.اللہ کی فوج آسمانی فوج ہے.وہ فرشتوں کو دلوں پر اتارے گا اور حیرت انگیز انقلاب بر پا کرے گا.پس اللہ انشاء اللہ آپ کے ساتھ ہے، اللہ آپ کے ساتھ ہے، اللہ آپ کے ساتھ ہی رہے
خطابات طاہر جلد دوم گا یقین رکھیں ،اس پر تو کل کریں.497 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2000ء ماشاء اللہ ایک اور بڑی خوشخبری ابھی امیر صاحب نے مجھے دی ہے.رجسٹریشن کے اعدادو شمار کے مطابق آج کی حاضری ہیں ہزار چھ سو سینتیس ہے اس کے بالمقابل گزشتہ سال پہلے دن کی حاضری چودہ ہزار چھ سو تھی.اب تک ہے ممالک کے وفد پہنچ چکے ہیں.گزشتہ سال یہ تعداد صرف ۲۰ تھی.اس وقت جلسہ میں ۴۷۳ غیر از جماعت ایسے دوست شامل ہیں جو بیرونی ممالک سے تشریف لائے ہیں الحمد للہ علی ذلک.اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا.انشاء اللہ کل اور پرسوں ابھی باقی ہیں.یہ جگہ تو ابھی بہت تنگ ہو گئی ہے.کچھ لوگوں کو باہر بھی کھڑے دیکھ رہاہوں.امیر صاحب کیا انتظام کریں گے آپ.اب اس جلسہ کی افتتاحی دعا میں میرے ساتھ شامل ہو جائیں.(دعا) امین
خطابات طاہر جلد دوم 499 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء سوسال پہلے کی تاریخ حیرت انگیز رنگ میں اس دور میں دہرائی جارہی ہے.(خطبه جمعه بر موقع جلسه سالانه فرموده ۲۴۰ اگست ۲۰۰۱ ء بمقام ناصر باغ فرینکفرٹ جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ جو سلسلہ خطبات ہے یہ خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت کے تعلق میں ہے اور لفظ ملک کے جو مختلف Derivative ہیں ان کے جو مختلف استعمالات قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں وہ اس خطبہ کا بھی موضوع ہیں، اس سے پہلے خطبہ کا بھی موضوع تھے.پہلی آیت سورۃ بقرہ نمبر ۱۰۸ پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِي وَلَا نَصِيرٍ کیا تو نہیں جانتا کہ وہ اللہ ہے جس کی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے؟ اور اللہ کو چھوڑ کر تمہارے لئے کوئی سر پرست اور مددگار نہیں.اس ضمن میں ایک حدیث ہے حضرت ابی مسعودؓ سے مروی ہے.حضرت ابومسعود روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا.آپ ﷺ نے اس سے گفتگو شروع کی تو اس کے شانے کا پنپنے لگے.آنحضرت نے اس کی یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا اپنے آپ کو قابو میں رکھو.میں کوئی بادشاہ نہیں.میں تو ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھایا کرتی تھی.(سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ حدیث: ۳۳۵۳) یہ آنحضرت ﷺ کی انکساری کی شان ہے.حقیقت میں آپ صرف اللہ ہی کو بادشاہ سمجھتے تھے
خطابات طاہر جلد دوم 500 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء اور آپ کے سامنے جو ر تایا خوف کھاتا تھا اس کو تسلی دیا کرتے تھے کہ مالک ایک ہی ہے اور بادشاہ وہی ہے.ایک حدیث اسی تعلق میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے آنحضرت اپنی بیویوں کے درمیان باریاں تقسیم کیا کرتے تھے اور اُن میں عدل فرماتے اور یہ دعا بھی کرتے "اے اللہ ! یہ میری تقسیم ہے اس چیز میں جس کا میں مالک ہوں“.یعنی ظاہری طور پر جو بھی عدل کا تعلق ہے وہ میں بہر حال روا رکھتا ہوں.باریاں مقرر ہیں ، ہر ایک کو برابر حصہ دیتا ہوں، یہ تو وہ چیز ہے جس کا میں مالک ہوں لیکن ” جس چیز کا میں مالک نہیں بلکہ تو مالک ہے اُس بارہ میں مجھے ملامت نہ کرنا.(ابو داؤد کتاب النکاح حدیث نمبر : ۱۸۲۲) صلى الله اب اس سے مراد یہ ہے کہ دل کا تعلق جہاں تک ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے دل کو چاہے جس کی طرف زیادہ پھیر دے جس کی طرف چاہے کم پھیر دے.تو آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ میں اگر کسی سے طبعی اور زیادہ محبت کرتا ہوں تو اس میں میرا قصور کوئی نہیں.میں تو تیرا ادنی چاکر ہوں اور تیرے ہاتھ میں میرا دل بھی ہے جس طرح سب دنیا کے دل ہیں لیکن ظاہری انصاف کا جہاں تک تعلق ہے وہ میں ہر طرح سے پورا کرتا ہوں.اسی تعلق میں ایک حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺہ جب نماز سے فارغ ہوتے اور سلام پھیر دیتے تو یہ ذکر کرتے.اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، وہی بادشاہ ہے، وہی مستحق حمد وثنا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے.اے میرے اللہ ! جو تو دے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو تو رو کے اسے کوئی دے نہیں سکتا.کسی مالدار اور طاقتور کو اس کا مال اور اس کی طاقت تجھ سے نہیں بچاسکیں گے اور نہ ہی کوئی فائدہ دے سکیں گے“.(مسلم کتاب الصلوۃ باب حدیث :۹۳۳) اب ایک اور آیت کریمہ ہے سورۃ المائدہ کی ۱ ویں آیت أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قدیر کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ ہی ہے جس کی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے.وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے.
خطابات طاہر جلد دوم 501 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء اس ضمن میں ایک حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے.عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: میں دوزخیوں میں سب سے آخر پر دوزخ سے نکلنے والے کو جانتا ہوں.یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کا نظارہ دکھایا ہے.” نیز اہل جنت میں سے سب سے آخر پر جنت میں داخل ہونے والے کو بھی جانتا ہوں“.یہ دونوں ایک ہی چیز کے دورخ ہیں.جو دوزخ میں سب سے آخر پر نکلے گا وہی جنت میں سب سے آخر پر داخل ہو گا.پس جب وہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا، جب وہ دوزخ سے نکلے گا تو رینگتے ہوئے نکلے گا.جب وہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا تو اُسے خیال پیدا ہو گا کہ وہ بھر چکی ہے.پھر وہ واپس لوٹ جائے گا اور اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گا کہ اے میرے رب ! میں نے اُسے بھری ہوئی پایا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اُسے فرمائے گا کہ جا اور جنت میں داخل ہو جا.تجھے دنیا کے برابر نیز اس سے دس گنا مزید دیا جاتا ہے.راوی کہتے ہیں کہ یا حضور نے فرمایا تھا کہ تجھے دنیا سے دس گنا بڑھ کر دیا جاتا ہے.تب وہ شخص کہے گا کہ اے اللہ! تو مالک الملک ہے، میر امذاق تو نہ اڑا.راوی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اس پر آنحضرت سے بھی ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک نظر آنے لگے.حضور نے فرمایا پھر کہا جائے گا کہ یہ شخص اہل جنت میں سے سب سے کم درجہ پر ہے کیونکہ سب سے آخر پر داخل ہوا ہے.(مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر: ۲۷۲) اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام الحکم ۳۱ راگست کے حوالہ سے فرماتے ہیں: دنیا کی گورنمنٹ کبھی اس امر کا ٹھیکہ نہیں لے سکتی کہ ہر ایک بی اے پاس کرنے والے کو ضرور نوکری دے گی.مگر خدا تعالیٰ کی گورنمنٹ کامل گورنمنٹ اور لا انتہا خزائن کی مالک ہے، اُس کے حضور کوئی کمی نہیں.کوئی عمل کرنے والا ہو وہ سب کو فائز المرام کرتا ہے اور نیکیوں اور حسنات کے مقابلہ میں بعض ضعفوں اور سقموں کی پردہ پوشی بھی فرماتا ہے“.(الحکم ۳۱ اگست ۱۹۰۱ صفحہ ۲۰)
خطابات طاہر جلد دوم 502 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نوکری کرو گے تو اس کے ہاں جو بھی تم درجہ پاؤ گے مثلاً اس دنیا میں بی.اے، ایم.اے وغیرہ ہوتے ہیں خدا کے حضور تم جو بھی ڈگری پاؤ گے اس کے بعد نوکری کی فکر نہیں رہے گی.تم اسی مقام پر اللہ کے نوکر رکھ لئے جاؤ گے.ایک سورۃ الاعراف کی ۵۹ اویں آیت ہے.قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ اِنّى رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِ وَيُمِيتُ فَامِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُتِيَ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ تو کہہ دے کہ اے انسانو ! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے قبضے میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے.اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.وہ زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے.پس ایمان لے آؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر جو اللہ پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اُسی کی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پا جاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں.لوگوں کو کہہ دے کہ میں خدا کی طرف سے تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں وہ خدا جو بلا شرکت الغیر کی آسمان اور زمین کا مالک ہے، جس کے سوا اور کوئی خدا اور قابل پرستش نہیں.زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے.پس اس خدا پر اور اس کے رسول پر جو نبی امی ہے ایمان لاؤ.وہ نبی جو اللہ اور اس کے کلموں پر ایمان لاتا ہے اور تم اس کی پیروی کرو تا تم ہدایت پاؤ“.(براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۵۶۷،۵۶۶) اسی تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں.جو مختلف قوموں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ، سوچو تو سہی کس قدر کامل اور زبر دست قومی کا مالک ہو گا.اب آنحضرت ﷺ تمام قوموں کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے ہیں جو اول و آخر تمام دنیا پر پھیلی ہوئی ہیں جن میں سے مشرق بھی ہے اور مغرب بھی.تو آنحضرت ﷺ پر یہ ذمہ داری بے انتہا
خطابات طاہر جلد دوم 503 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء تھی اور اسی ذمہ داری کے متعلق قرآن کریم اشارہ کرتا ہے کہ أَنْقَضَ ظَهْرَكَ (الم نشرح ۴) اس ذمہ داری نے تیری کمر توڑ دی ہے.اتنا بوجھ تو نے اٹھا لیا اپنے سر پر.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کامل قومی کا مالک تھا.صلى الله اب رسول اللہ ﷺ اور آپ کی جماعت کی طرف غور کرو تو پھر کیسا روشن طور پر معلوم ہوگا کہ آپ ہی اس قابل تھے کہ محمد نام سے موسوم ہوتے اور اس دعوی کو جیسا کہ زبان سے کیا گیا تھا کہ اِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيعًا اپنے عمل سے بھی کر کے دکھاتے.چنانچہ وہ وقت آگیا کہ اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا اس میں اس امر کی طرف صریح اشارہ ہے کہ آپ اس وقت دنیا میں آئے جب دِین اللہ کو کوئی جانتا بھی نہ تھا اور عالمگیر تاریکی پھیلی ہوئی تھی اور گئے اس وقت کہ جبکہ اس نظارہ کو دیکھ لیا کہ یدْخُلُونَ فِي دِيْنِ اللَّهِ أَفْوَاجًا “.( الحکم ۷ ارجنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۳) تو انشاء اللہ آنحضرت ﷺ کے قدموں کی برکت سے آپ بھی اس جلسہ کے اختتام پر یہی نظارہ ایک دفعہ پھر دیکھیں گے کہ يَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللهِ أَفْوَاجًا گویا فوج در فوج لوگ دین اللہ یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہو رہے ہوں گے.ایک اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس ہے.آنحضرت ﷺ کے ظہور کے وقت تبلیغ عام کا دروازہ کھل گیا تھا اور آنحضرت ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے بعد نزول اس آیت کے کہ قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمُ جَمِيعَا دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کی طرف دعوتِ اسلام کے خط لکھے تھے ، کسی اور نبی نے غیر قوموں کے بادشاہوں کی طرف دعوت دین کے ہرگز خط نہیں لکھے کیونکہ وہ دوسری قوموں کی دعوت کے لئے مامور نہ تھے.یہ عام دعوت کی تحریک آنحضرت ﷺ کے ہاتھ سے ہی شروع ہوئی“.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ: ۷۶.۷۷)
خطابات طاہر جلد دوم 504 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء تو یہ دیکھ لیں کہ یہ ایسی کامل دلیل ہے آنحضرت ﷺ کے سب دنیا کو مخاطب کرنے کی کہ اس زمانہ میں مشرقی حکومتوں کے سربراہوں کو بھی آپ نے خط لکھے اور روم کے بادشاہ کو جو مغرب کا حاکم تھا اس کو بھی خط لکھے اور دنیا میں کوئی ایک نبی بھی ایسا نہیں جس نے دنیا کے بادشاہوں کو مخاطب کر کے خط لکھے ہوں.پس یہ اللہ تعالیٰ کی خاص شان ہے کہ آنحضرت ﷺ کو وہ خط لکھنے کی تو فیق عطا فرمائی.خط بالکل سادہ تھے.بسم اللہ سے شروع ہوتے تھے اور سادہ سی دعوت عام تھی کہ قبول کرلو.أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا “ تم اسلام قبول کر لو تمہیں بھی سلامتی عطا کی جائے گی.تو ان چھوٹے سے تھوڑے سے لفظوں میں بے انتہا رعب تھا.یہاں تک کہ ایک بادشاہ نے جب یہ خط دیکھا تو اس کو چوما اور تخت سے نیچے اتر آیا.پس آنحضرت ﷺ کے تھوڑے الفاظ میں بھی بہت رُعب تھا اور صداقت کی بات ہوتی تھی جو دل سے نکلتی تھی اور دل پر اثر کرتی تھی.اب سورۃ التوبہ کی ۱۱۶ ویں آیت ہے اِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ يُحْيِ وَيُمِيْتُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيْ وَلَا نَصِيْرِ یقینا اللہ ہی ہے جس کی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے.وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا بھی ہے اور تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی دوست اور مددگار نہیں.ایک اور آیت ہے سورۃ بنی اسرائیل کی ۱۲ اویس وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيُّ مِنَ الذُّلِ وَكَثِرُهُ تَكْبِيرًا اور کہ کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے کبھی کوئی بیٹا اختیار نہیں کیا اور جس کی بادشاہت میں کبھی کوئی شریک نہیں ہوا اور کبھی اُسے ایسے ساتھی کی ضرورت نہیں پڑی جو گو یا کمزوری کی حالت میں اُس کا مددگار بنتا.اب یہ کمزوری کی حالت میں اس کا مددگار بننا، اس کا معنی یہ ہے کہ بعض دفعہ انسان دوست بناتا ہے اس لئے کہ مشکل وقت میں وہ کام آئے گا مگر اللہ تعالیٰ جب دوست بناتا ہے تو اس لئے کہ کسی دوسرے کو جس کو دوست بناتا ہے اس کے مشکل وقت میں اس کے کام آئے.تو گویا اس کا دوست بنانا کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ جس شخص کو دوست بناتا ہے اس کی کمزوری کے پیش نظر اس کا خیال رکھتا ہے اور اس کا ولی بن جاتا ہے.اس کے بعد آخر پر ہے اور تو بڑے زور سے اُس کی بڑائی بیان کیا کر.
خطابات طاہر جلد دوم 505 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اُس کا کوئی بیٹا نہیں اور اس کے ملک میں اُس کا کوئی شریک نہیں اور ایسا کوئی اس کا دوست نہیں جو درماندہ ہو کر اُس نے اس کی طرف التجا کی.(ست بچن ، روحانی خزائن جلده اصفحه: ۲۲۸) اب یہی بات جو میں بیان کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی دوست نہیں پکڑا کہ اللہ تعالیٰ، نعوذ بالله خود در ماندہ ہو کر اس کی مدد چاہے بلکہ وہ جب درماندہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کی ولایت کی تشریح کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں: "خدا کی ولایت کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اس کو کوئی ایسی احتیاج ہے جیسے ایک انسان کو دوست کی ہوتی ہے یا ڈر کرکسی کو اپنا دوست بنالیتا ہے بلکہ اس کے معنے ( ہیں ) فضل اور عنایت سے کسی کو اپنا بنا لیتا ہے اور اس سے اس شخص کو فائدہ پہنچتا ہے نہ کہ خدا کو“.(البدرجلد ۳ نمبرا ابتاریخ ۱۶/ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۳) دو آیات کریمہ سورۃ الفرقان سے لی گئی ہیں: تَبْرَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَلَمِينَ نَذِير ان الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا وَّ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدْرَهُ تَقْدِيرًا ) ( الفرقان :٣:٣) بس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تا کہ وہ سب جہانوں کے لئے ڈرانے والا بنے.وہی جس کی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اس نے کوئی بیٹا نہیں اپنایا اور نہ بادشاہت میں کوئی اس کا شریک ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اسے ایک بہت عمدہ اندازے کے مطابق ڈھالا.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں.لَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ
خطابات طاہر جلد دوم 506 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرً ا یعنی اس کے ملک میں کوئی اس کا شریک نہیں.وہ سب کا خالق ہے اور اس کے خالق ہونے پر یہ دلیل واضح ہے کہ ہر ایک چیز کو ایک اندازہ مقرری پر پیدا کیا ہے کہ جس سے وہ تجاوز نہیں کرسکتی بلکہ اس اندازہ میں محصور اور محدود ہے“.(پرانی تحریریں.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۸) پس ہر چیز کی ایک ایسی لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقره: ۲۸۷) والی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ ہر چیز کی ایک حد وسعت ہے.اس وسعت سے وہ آگے بڑھ نہیں سکتا اور جو کسی کو پابند کرتا ہے لازماً اس کی پابندی، پابند کرنے والے کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے.کسی نے پابند کیا ہے تو اس کو پابند ہونا پڑا.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں: د یعنی زمین اور آسمان اور جو کچھ اُن میں ہے سب خدا تعالیٰ کی ملکیت ہے کیونکہ وہ سب چیزیں اُسی نے پیدا کی ہیں اور پھر ہر ایک مخلوق کی طاقت اور کام کی ایک حد مقرر کر دی ہے تا محدود چیزیں ایک محد دپر دلالت کریں.( جو حد لگاتا ہے اس پر جس پر حد گتی ہے وہ دلیل بن جاتا ہے کہ مجھ پر کوئی حد لگانے والا ہے.تو ہر چیز کی ایک حد مقرر کر دی ہے.جو خدا تعالیٰ ہے.سو ہم دیکھتے ہیں کہ جیسا کہ اجسام اپنے اپنے حدود میں مقید ہیں اور اس حد سے باہر نہیں ہو سکتے ، اسی طرح ارواح بھی مقید ہیں اور اپنی مقررہ طاقتوں سے زیادہ کوئی طاقت پیدا نہیں کر سکتے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ ، صفحہ: ۱۷) اب سورۃ الحشر کی ایک آیت ہے.هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَثِرُ سُبْحْنَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (الحشر (٢٣) وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.وہ بادشاہ ہے، پاک ہے،سلام ہے.امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، کامل غلبہ والا ہے، ٹوٹے کام بنانے والا ہے (اور ) کبریائی والا ہے.
خطابات طاہر جلد دوم 507 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء پاک ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی داغ عیب نہیں.یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں.اگر مثلاً تمام رعیت جلا وطن ہو کر دوسرے ملک کی طرف بھاگ جاوے تو پھر بادشاہی قائم نہیں رہ سکتی“.(ایسا بادشاہ کس پر حکومت کرے گا.''یا اگر مثلاً تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے تو پھر خراج شاہی کہاں سے آئے اور اگر رعیت کے لوگ اس سے بحث شروع کر دیں کہ تجھ میں ہم سے زیادہ کیا ہے تو وہ کونسی لیاقت اپنی ثابت کرے“.پس دنیا کے بادشاہوں سے اس قسم کے سوال ہوتے ہیں.آج کل بھی پاکستان میں جو حکومت کے مخالف ہیں وہ یہی سوال کر رہے ہیں کہ مشرف صاحب! آپ میں ہم سے زیادہ کیا بات ہے.آپ اس قابل نہیں کہ ہمیشہ کے لئے صدر بنیں.ہم بھی تو قابلیت رکھتے ہیں.تو یہ سوال بھی بادشاہوں سے ہوتے رہتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کی بادشاہی ایسی نہیں ہے.وہ ایک دم میں تمام ملک کو فنا کر کے اور مخلوقات پیدا کرسکتا ہے“.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد اصفحه۳۷۳) اب یہ جو بات ہے اور مخلوق پیدا کر سکتا ہے، یہ بھی بہت گہری حکمت کی بات ہے اور قرآن کریم میں اس کا ذکر موجود ہے اور کئی دفعہ موجود ہے کہ اگر اللہ چاہے تو اے خلق خدا تم سب کی صف لپیٹ دے اور تمہاری جگہ ایک نئی مخلوق لے آئے جو پھر تم سے بہتر ثابت ہوگی اور ایک جگہ تو فرمایا ہے اگر ایسا ہو تو ایسا ہوسکتا ہے لیکن دوسری جگہ فرماتا ہے کہ ایسا ہوگا اور جب اللہ چاہے گا وہ تم لوگوں کی صف لپیٹ دے گا اور ایک تم سے بہتر مخلوق دنیا میں لے آئے گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تمام کلام قرآنی آیات کی تفسیر میں ہے اور قرآنی آیات کے عین مطابق ہے.ایک سورۃ الجمعہ کی آیت جو جماعت احمدیہ میں بار ہا تلاوت کی جاتی ہے: يُسَبِّحُ لِلهِ مَا في السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ اللہ ہی کی تسبیح کرتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے.وہ بادشاہ ہے، قدوس ہے، کامل غلبہ والا (اور )
خطابات طاہر جلد دوم 508 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء صاحب حکمت ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی تشریح میں فرماتے ہیں.زمین کے پات پات اور ذرہ ذرہ کی نسبت قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہر ایک چیز اُس کی اطاعت کر رہی ہے، ایک پتا بھی بجز اُس کے امر کے گر نہیں سکتا اور بحجز اُس کے حکم کے نہ کوئی دوا شفا دے سکتی ہے اور نہ کوئی غذا موافق ہوسکتی ہے“.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۳۲) اب یہ جو سوال ہے کہ ایک پتا بھی بغیر اس کے حکم سے گر نہیں سکتا اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر پتا کوگرنے کا حکم ملتا ہے.مطلب یہ ہے کہ ہر پتا خدا تعالیٰ کی تقدیر کے تابع ہے اور اس کے اندر جو بھی کمزوری پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ آخر گر جاتا ہے وہ ایک قانون قدرت کے تابع ہے جس کو وہ ٹال نہیں سکتا.پس ہر پتا اسی کے حکم کے مطابق یا اس کی اجازت کے ساتھ گرتا ہے، اسی کے قانون کے تابع ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.کوئی دوا شفا نہیں دے سکتی جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو.کوئی غذا موافق نہیں ہو سکتی جب تک اللہ کی مرضی نہ ہو.اب دیکھیں کتنی اچھی سے اچھی غذائیں ہیں بعض لوگوں کو موافق ہی نہیں آتیں.بعض لوگ بے حد امیر اور اعلیٰ سے اعلیٰ غذاؤں کو خرید کر استعمال کرنے کی طاقت رکھتے ہیں مگر معدہ ہی اجازت نہیں دیتا.صرف وہی پر یا اُبلے ہوئے چاولوں پر گزارہ کر لیتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس کی تخلیق میں سے جتنی بھی کھانے کی چیزیں ہیں جب تک اذن نہ ہو اُس وقت تک کوئی شخص ان سے پورا استفادہ نہیں کر سکتا اور ان کا لطف نہیں اٹھا سکتا، اپنے زور سے نہیں کر سکتا.ایک آدمی بیمار ہو جائے تو وہ انگور جولوگوں کے لئے بہت نعمت سمجھے جاتے ہیں وہ اس کی متلی کا موجب بن جاتے ہیں.وہ برداشت ہی نہیں کر سکتا.انگور کا نام تک لو تو اس کو گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے تو یہ سب خدا تعالیٰ کی شان ہے کہ اس کے اذن اور حکم کے بغیر اس کی پیدا کردہ غذائیں اپنی ساری لذتیں کھو دیتی ہیں جب اللہ تعالیٰ کا اذن نہ ہو اور ساری لذتیں بحال ہو جاتی ہیں جب اللہ کا اذن ہو.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” پہاڑوں اور زمین کا ذرہ ذرہ اور دریاؤں اور سمندروں کا قطرہ
خطابات طاہر جلد دوم 509 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء قطرہ اور درختوں اور بوٹیوں کا پات پات اور ہر یک جز اُن کا اور انسان اور حیوانات کے کل ذرات خدا کو پہچانتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اُس کی تحمید و تقدیس میں مشغول ہیں.اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا يُسَبِّحُ لِلہ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ “ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفه ۳۳) اب یہاں قابل غور بات یہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کو غور سے پڑھنا چاہئے تب سمجھ آتی ہے.یہاں مَن فِي السَّموت نہیں فرمایا.وہ آیت پیش کی ہے جس میں مَا فِي السَّمواتِ ہے اور ھا“ جو ہے بے جان چیزوں کے متعلق بولا جاتا ہے تو صافي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہے خواہ وہ تمہیں بے جان دکھائی دیتا ہو یا جاندار ہر صورت میں وہ اللہ تعالیٰ کی تحمید و تقدیس میں مشغول ہے.اگر چہ تمہیں ان کی تحمید و تقدیس کی سمجھ نہیں آتی.ایک سورۃ التغابن کی دوسری آیت ہے: يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اللہ ہی کی تسبیح کر رہا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے.اسی کی بادشاہت ہے اور اُسی کی سب حمد ہے اور وہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے.حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں.لوگ یا تو اس واسطے کسی کی فرماں برداری کرتے ہیں کہ وہ پاک اور مقدس ہے.یا اس لئے کہ وہ بادشاہ ہے اگر نافرمانی کریں گے تو سزا دے گا یا اس واسطے کہ وہ ہمارا محسن ہے ہم پر انعام کرتا ہے اس لئے اس کی اطاعت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت کی طرف اپنی انہی تین صفتوں کا ذکر فرما کر بلاتا ہے لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ملک بھی اسی کا اور سب خوبیوں کا سرچشمہ بھی وہی اور ہر چیز پر قادر بھی وہی، وہی پیدا کرنے والا ، وہی نگرانِ حال.پس عبادت کے لائق بھی وہی.اگر تم کسی کی اس لئے اطاعت کرتے ہو کہ وہ حسن رکھتا ہے.تو یا درکھو تمام کائنات
خطابات طاہر جلد دوم 510 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء کے حسن کا سر چشمہ تو وہی ذات بابرکات ہے.کوئی خوبی اگر کسی میں ہے تو اس کا پیدا کرنے والا وہی اللہ ہے.اسی طرح اگر تم کسی کی اس لئے اطاعت کرتے ہو کہ وہ حسن ہے تو سب محسنوں سے بڑا محسن تو اللہ ہے جس نے تمہارے محسن کو بھی سب سامان اپنی جناب سے دیا اور پھر اس سامان سے تمتع حاصل کرنے کا موقعہ اور قومی بھی اسی کے دیئے ہوئے ہیں.اگر کسی کی طاعت اس لئے کرتے ہو کہ وہ بادشاہ حکمران ہے تو تم خیال کرو اللہ وہ احکم الحاکمین ہے جس کا احاطہ سلطنت اس قدر وسیع ہے کہ تم اس سے نکل کر کہیں باہر نہیں جاسکتے.“ چنانچہ فرماتا ہے: يُمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَنِ (الرحمن : ۳۴) یہ دنیا کے حاکم تو یہ شان نہیں رکھتے.جب ان کی اطاعت کرتے ہو تو پھر اس احکم الحاکمین کی اطاعت قر ضروری ہے‘ تحمید الا زبان جلد نمبر ۵ صفی ۱۳۶۹) اس آیت کی تشریح حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہاں نہیں فرمائی.محض اس کا ذکر کیا ہے اور اس کا معنی بہت قابل غور ہے.میں پہلے بھی کئی بار بیان کر چکا ہوں کہ زمین کے احاطہ سے تو لوگ باہر جاسکتے ہیں راکٹس جاتے ہیں ، چاند پر بھی پہنچے ہیں، Mars تک بھی پہنچے ہیں اور اس سے آگے بھی سفر کر رہے ہیں لیکن اقطارِ السّمواتِ وَالْأَرْضِ آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نہیں جاسکتے، کلیہ ناممکن ہے.اِلَّا بِسُلْطن سلطان کہتے ہیں غالب دلیل کو.پس غالب دلیل کے ذریعہ اب سائنسدان جب دور دراز کی خبر میں لاتے ہیں.کوئی بیس ملین سال سے چلی ہوئی روشنی کی باتیں کرتے ہیں تو کسی دلیل کی بناء پر کرتے ہیں اور غالب دلیل ان کی صداقت کا اعلان کر رہی ہوتی ہے.پس زمین و آسمان کی بادشاہت سے ان کی حدود سے کوئی تجاوز نہیں کر سکتا مگر ایک سلطان کے ذریعہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض الہامات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.۱۸۶۸ ء یا ۱۸۶۹ء میں یہ الہام ہوا.
خطابات طاہر جلد دوم 511 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.(تذکرہ: ۸) ایک دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مناظرہ مقرر ہوا اور جو باتیں اس نے کیں وہ آپ کو ٹھیک لگیں.وہ قرآن وحدیث کے مطابق تھیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر کوئی تعرض نہیں کیا اور تسلیم کر لیا اور اُٹھ کر آگئے.محمد حسین بٹالوی کے جومرید تھے انہوں نے شور مچادیا کہ مرزا ہار گیا اور کوئی بھی اس کی بن نہیں پڑی مگر آپ چونکہ حق پرست تھے اس لئے حق بات آپ کو تسلیم کرنی پڑی اور آپ نے تسلیم کر لی.اتنی بات جو اس نے کہی تھی وہ ضرور بچی تھی.اس کے متعلق الہام ہوا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈ میں گئے“.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم نے میری خاطر ایک حق بات کو قبول کیا ہے اور لوگوں کی تضحیک کا نشانہ بنا ہے اور کچھ پروا نہیں کی تو اب میں تجھے اتنی عزت دوں گا تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.پھر فرمایا : پھر ” بعد اس کے عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے.چونکہ خالصاً خدا اور اس کے رسول کے لئے انکسار اور تذلل اختیار کیا گیا اس لئے اس محسنِ مطلق نے نہ چاہا کہ اس کو بغیر اجر کے چھوڑے“.( براہین احمدیہ ہر چہار صص روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۲۲ حاشیه در حاشیه ) ایک اور جگہ بادشاہوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں." مجھے اللہ جل شانہ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا اور مجھے اس نے فرمایا ہے کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.( برکات الدعار وحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵) پھر ایک اور جگہ تجلیات الہیہ میں آپ فرماتے ہیں:.عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور کہا گیا کہ یہ ہیں جو اپنی گردنوں پر تیری اطاعت کا جوا اٹھائیں گے اور خدا
خطابات طاہر جلد دوم 512 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء انہیں برکت دے گا ( تجلیات الهیه روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۹ حاشیه ) اب ایک ۴ جولائی ۱۸۹۸ء کا الہام ہے اور بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ جب یہ الہام میں نے پڑھا تو میرا پرانا تجربہ یہی ہے کہ جب ۱۸۹۸ء کا الہام ہو تو ۱۹۹۸ء میں وہ ضرور پورا ہو جاتا ہے.یعنی سو سال کے بعد یہ تاریخ دہرائی جاتی ہے اور وہ الہام یہی ہے.میں تجھے برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.( یہ بار بار الہام ہوا ہے اور اس موقع پر یہ جولائی ۱۸۹۸ ء کا ہے.) یہ وہ ستر ہے جو مہدی اور عیسی کے نام کی نسبت مجھ کو الہام الہی سے کھلا اور پیر کا دن اور تیرھویں صفر ۱۳۱۶ ھ تھا اور جولائی ۱۸۹۸ء کی چوتھی تاریخ تھی جبکہ یہ الہام ہوا.( ایام اصلح روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ: ۳۹۸) اب میں نے پتا کیا ہے تو واقعہ ۱۹۹۸ء کو بیس بادشاہ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں پر میرے غور سے جو بات ثابت ہوئی وہ بالکل یہی ہے کہ سوسال پہلے جو الہام ہوئے تھے پورے سو سال کے بعد وہ اسی شان سے پورے ہوئے ہیں.اب اس کے متعلق میں نے قطعی شہادت لی ہے کہ ۱۹۹۸ء کو بیس بادشاہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں داخل ہوئے ہیں.پھر ایک الہام ہے.حُكْمُ اللهِ الرَّحْمَنِ لِخَلِيفَةِ اللَّهِ السُّلْطَان يُؤْتَى لَهُ الْمُلْكُ الْعَظِيمُ وَتُفْتَحُ عَلَى يَدِهِ الْخَزَائِنُ وَتُشْرِقُ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ وَفِي أَعْيُنِكُمُ عَجيبٌ.اربعین نمبر ۲ روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۳۸۴٬۳۸۳) اس کا ترجمہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کرتے ہیں.” خدائے رحمان کا حکم ہے اس کے خلیفہ کے لئے جس کی آسمانی بادشاہت ہے.اس کو ملک عظیم دیا جائے گا اور خزانے اس کے لئے کھولے جائیں گے اور تمام زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اُٹھے گی.یہ اللہ کا فضل ہے اور تمہاری نگاہ میں عجیب“.
خطابات طاہر جلد دوم 513 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء پس یہ ملک عظیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت کا عام ہونا ہے جو مشرق اور مغرب میں پھیل رہی ہے اور اس کے عظیم الشان نظارے انشاء اللہ اس جلسہ کے آخر پر آپ دیکھیں گے.ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام آریوں کا بادشاہ بھی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں.جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنوں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن میں ہی ہوں اور یہ دعویٰ صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے بار بار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ تو ہی ہے آریوں کا بادشاہ“.( تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۲۲٬۵۲۱) ۱۱ جون ۱۹۰۶ ء کا ایک الہام ہے.مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور ان کی تعظیم ملوک اور ذوی الجبروت کرتے ہیں.( اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم مقبول الہی ہیں اور بڑے بڑے دعوے کرنے والے موجود ہیں لیکن ان کی کوئی نشانی ساتھ نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ جس کو ذوالجبروت قرار دے، بڑے بڑے بادشاہ اس کے سامنے سر جھکاتے ہیں اور اس کی غلامی میں آنا اپنا فخر محسوس کرتے ہیں پس ) ” مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور ان کی تعظیم ملوک اور ذوی الجبروت کرتے ہیں“.یہاں جرمنی میں بھی میرے علم کے مطابق ایک بیچارہ دماغی فتور میں مبتلا شخص ہے جو اپنے آپ کو زمانے کا مصلح سمجھتا ہے اور چار بھی اس کے مرید نہیں ہیں.دو چار ایجنٹ ہوں گے شاید با تیں کرنے والے لیکن ساری جرمنی کی جماعت گواہ ہے کہ ایک کوڑی کی بھی اس کی پرواہ کسی کو نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس دعوی کے ثبوت میں یہاں وہ بادشاہ خدا کے فضل سے آئے ہوئے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے اپنی گردن اطاعت جھکا رکھی ہے.ان پر کوئی غالب نہیں ہو سکتا ہے.اور سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں.فرشتوں کی کھینچی
خطابات طاہر جلد دوم 514 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء ہوئی تلوار تیرے آگے ہے“.(تذکرہ صفحہ ۵۳۶) اب یہ تو ملوکیت کے متعلق آیات اور الہامات کا میں ذکر کر رہا تھا.اب میں کچھ مہمانوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں جودُور دُور سے یہاں آئے ہیں.پہلی تو یہ ہے کہ اپنا وقت ضائع نہ کریں اور جہاں تک ہو سکے ذکر اللہ کیا کر یں.باتیں کرنا بھی ایک مجبوری ہے لیکن باتوں سے خیال پھر ذکر اللہ کی طرف جائے اور مسجد میں بیٹھ کر تو ذکر الہی بہت ضروری ہے.نمازوں کا التزام.نمازوں کے علاوہ وقت میں خاموشی سے تسبیحات میں مصروف رہیں.اب جو پہریدار ہوں اس وقت تو نماز میں شامل نہیں ہو سکتے لیکن بہتر یہی ہے کہ ان کے لئے باجماعت نماز کا انتظام کیا جائے اور انہی میں جو اس وقت نماز نہیں پڑھ سکتے کوئی ان کا امیر بن جائے اور ان کا امام بن کر ان کی امامت کروائے.تقاریر بڑی محنت سے تیار کی جاتی ہیں صرف میری نہیں بلکہ سلسلہ کے دوسرے علماء بھی انشاء اللہ آپ کے سامنے تقریریں کریں گے تو آپ پوری توجہ سے اس طرح جس طرح میری تقریر سنتے ہیں ان کی تقریریں بھی سنیں اور ان کی محنت کو ضائع نہ جانے دیں.سلام کو رواج دیں.افسو السَّلام “ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، آتے جاتے ، چلتے پھرتے سلام کیا کریں.ہمارے حافظ محمد رمضان صاحب ہوتے تھے قادیان میں، ان کو بہت شوق تھا پہلے سلام کرنے کا.دُور سے بعض دفعہ کسی بکری کسی بھینس کی چاپ کی آواز آئے تو فوراً السلام علیکم کہہ دیا کرتے تھے.تو بعد میں کسی نے ان سے پوچھا کہ حافظ صاحب یہ کیا کرتے ہیں.انہوں نے کہا مجھے پتہ نہیں، مجھے اتنا پتا ہے کہ جو پہلے سلام کرتا ہے اس کو فائدہ ہوتا ہے.تو مجھے پتہ نہیں لگتا ، دیکھ نہیں سکتا کہ جانور ہے یا آدمی ہے چاپ سنتا ہوں تو میں سلام پہلے کر دیتا ہوں.بڑوں سے ادب سے پیش آئیں اور چھوٹوں کا خیال رکھیں.عورتیں پردہ کا خیال رکھیں.کھانا ضائع نہ کریں بلکہ کسی بھی قابل استعمال چیز کو ضائع نہ ہونے دیں.اپنے برتن میں اتنا ہی ڈالیں جتنا آپ کھا سکتے ہیں اور برتن خالی کر دیا کریں.جو برتنوں میں سے کھانا اٹھا کر پھینکا جاتا ہے یہ ایک بہت ہی بیہودہ رواج ہے.آپ نے جہازوں میں سفر کر کے دیکھا ہوگا کتنا کھانا وہاں
خطابات طاہر جلد دوم 515 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء ضائع جاتا ہے اور وہ سارا ڈسٹ بنز (Dust Bins) میں پھینک دیتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ سمندری جہازوں میں بھی یہی دستور ہے.ہوائی جہازوں میں بھی یہی دستور ہے.اگر یورپ کا کھانا اور امریکہ کا کھانا جو پھینکا جاتا ہے غریب ملکوں میں تقسیم ہو سکتا ہو تو پورے افریقہ کے لئے ایک سال کی غذا کا موجب بن سکتا ہے.تو دیکھو Waste نہ کئے جانے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا کتنا بنیادی فائدہ ہے.لڑائی جھگڑوں سے پر ہیز رکھیں.فضول بحثوں میں نہ الجھا کریں.کارکنان سے تعاون کیا کریں.جہاں تک حفاظت کا تعلق ہے اصل حفاظت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے مگر میرا تجربہ ہے کہ جب بھی کوئی جلسہ کا وقت قریب آنے والا ہولوگوں کو بڑی ڈراؤنی خوا میں آتی ہیں اور مجھے لکھ لکھ کر بھیجتے ہیں کہ احتیاط کریں.اب میری احتیاط اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے جو حفاظت کرنے والا ہے.مجھے قطعاً کوئی پروا نہیں کہ خدا کی راہ میں مجھے کیا در پیش ہو لیکن حفاظت کے لئے ایک اصول میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں.ہر جلسے پر بیان کیا کرتا ہوں کہ ہر آدمی اپنے گرد و پیش پر گہری نظر رکھے اور اگر کسی کو اجنبی دیکھے اور یہ محسوس کرے کہ اس اجنبی میں کچھ غیریت پائی جاتی ہے اس کی حرکتوں سے لگتا ہے کہ خطرہ کا موجب ہو گا اس پر نظر رکھیں اس سے بہتر اور کوئی حفاظتی اقدامات نہیں ہو سکتے اپنے گرد و پیش پر نظر رکھیں اور خیال رکھیں کہ کسی قسم کی شرارت نہ ہونے دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کی اغراض میں یہ بھی فرمایا ہے کہ باہمی مودت پیدا ہو.دور دور سے لوگ آتے ہیں اور آپ کے ملک میں اس وقت سب دنیا سے لوگ اکٹھے ہوئے ہیں.ان سے محبت اور پیار سے ملیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس حکم کی اطاعت کریں.سفر کے متعلق بارہا میں کہہ چکا ہوں کہ احتیاط برتیں.اگر نیند غالب ہو تو سفر نہ کیا کریں.نوکری جانے کا بھی خطرہ ہو تو نوکری جانے دیں.جان نہ جانے دیں اور ہمیں پھر اس کا دُکھ پہنچتا ہے.مرنے والا تو گزر جاتا ہے لیکن پچھلوں کو اس کا دُکھ پہنچتا ہے اس لئے بہت سی چیٹیں ایسی کاروں کے سامنے لگائی جاتی ہیں کہ جس میں احتیاط سے سفر کرنے کی تاکید ہوتی ہے.جو اللہ کی طرف سے تقدیر ہو اس کا تو کوئی علاج نہیں.کاریں پھسل بھی جاتی ہیں.دوسرے ڈرائیوروں کی غلطی سے بھی فکر لگ جاتی ہے.تو جہاں تک تقدیر الہی کا تعلق ہے اس سے تو ہر گز لڑا نہیں جاسکتا لیکن جہاں تک احتیاط
خطابات طاہر جلد دوم 516 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2001ء کا تعلق ہے ہر احتیاط اختیار کرنا انسان کا فرض ہے.پھر اپنے معاملے کو تقدیر الہی پر چھوڑ دے.اس کے بعد ایک آخری نصیحت یہ کرنی چاہتا ہوں کہ جرمنی میں امسال پہلی دفعہ انٹرنیشنل جلسہ سالانہ کا انعقاد ہوا ہے اور بڑی کثرت سے بیرونی ممالک سے لوگ تشریف لائے ہوئے ہیں.ان میں اکثر کے متعلق جو باہر سے تشریف لائے ہیں مجھے یقین ہے کہ وہ واپس اپنے ملکوں کو جائیں گے.خصوصاً مغربی ممالک سے جو آئے ہوئے ہیں ان کو کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ جرمنی میں ٹھہریں اور جہاں تک پاکستان سے آنے والوں کا تعلق ہے میں نے اپنی ملاقاتوں کے دوران ان سے دریافت کیا ہے بلا استثناء ہر ایک نے یہ کہا کہ ہم جلسہ کے بعد واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں.تو یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ جماعت کو اس بات کا احساس ہے.مگر اگر کسی کے دماغ میں یہ فتور ہو کہ ویزا میں نے اپنی کوشش سے حاصل کیا ہے اور میں یہاں رہ کر اسائکم لے سکتا ہوں تو یہ بالکل غلط ہے.ہرگز جماعت اس کی اجازت نہیں دیتی.خواہ وہ اپنی کوشش سے لیا گیا ہو یا جماعت کی گارنٹی سے لیا گیا ہو جو بھی جرمنی میں اس سال اس جلسہ پر آیا ہے اس کا لازمی فرض ہے کہ وہ جلسہ کے بعد اپنی قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے واپس اپنے ملک میں چلا جائے.جتنے دنوں کی اجازت ملی ہے جرمن حکومت کی طرف سے یہ حکومت کا احسان ہے اور اس احسان کی ناشکری ہرگز نہ کریں کیونکہ اس سے جماعت کے وقار کو اور نیک نامی کو بہت دھچکا لگتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہئے مگر اگر خدانخواستہ فرض کریں اتفاق سے کوئی ایسا حادثہ ہو جائے تو اس کے لئے میرے پاس اور تو کوئی ذریعہ نہیں صرف یہ کہ سکتا ہوں کہ یا جرمنی سے چلے جاؤ یا جماعت سے باہر چلے جاؤ اور ایسے موقعہ پر جب کہ جماعت کی ساکھ کا سوال پیدا ہوتا ہے اگر آپ جرمنی سے باہر نہیں جائیں گے تو ہمیشہ کے لئے جماعت سے باہر نکلیں گے.بعد میں اس کی معافیاں مانگنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس صورت میں ہم ہرگز معاف نہیں کریں گے کہ آپ نے حکومت کو دھوکہ دیا اور جماعت کی ساکھ بگاڑ دی.اب اس مختصر خطبہ کے بعد میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.(دعا) امین
خطابات طاہر جلد اول 517 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2002ء اللہ تعالیٰ ہر حال میں اپنے نور کو کمال تک پہنچائے گا رجہ مخالف کراہت ہی کریں.افتتاحی خطاب جلسه سالانه ۲۶ / جولائی ۲۰۰۲ ء بمقام اسلام آباد تلفورڈ برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.آج کا یہ خطبہ جس کے ساتھ جماعت احمد یہ انگلستان کے جلسہ سالانہ کا افتتاح بھی ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ کی صفت النور کے مضمون پر ہی مشتمل ہوگا.اس صفت کا تذکرہ گزشتہ چند خطبات سے جاری ہے اور آئندہ بھی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا یہ ذکر چلتا رہے گا.اللہ تعالیٰ سورۃ الصف کی آیت نمبر 9 میں فرماتا ہے : يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُوْرَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْكَرِهَ الْكَفِرُونَ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں گے حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر حال میں اپنا نور پورا کرنے والا ہے خواہ کافر نا پسند کریں.حضرت زھری بیان کرتے ہیں کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ انہوں نے دوسرا خطبہ سنا جو آپ نے منبر پر بیٹھ کر آنحضرت یہ کی وفات کے اگلے روز ارشاد فرمایا تھا.تو یہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت ہے کہ بیٹھ کر خطبہ پڑھیں ،سو میں بھی آج بیٹھ کر ہی خطبہ پڑھ رہا ہوں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تشہد پڑھی جبکہ ابو بکر بالکل خاموش تھے.حضرت عمرؓ نے کہا کہ
خطابات طاہر جلد اول 518 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2002ء صلى الله مجھے امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ زندہ رہیں گے اور ہم سب کے بعد وفات پائیں گے.پس اگر محمد مفوت ہو گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان ایسا نور رکھ دیا ہے کہ اس کے ذریعے تم ہدایت پاتے رہو صلى الله گے.اللہ تعالیٰ نے محمد کو راہنمائی بخشی تھی کیونکہ ابو بکر رسول کریم ﷺ کے ساتھی اور غار میں بھی آپ کے ساتھ دوسرے فرد تھے.پس وہ یقینا تمہارے امور کے متعلق مسلمانوں میں سب سے زیادہ اہل ہیں پس اُٹھو اور ان کی بیعت کرو.اس سے قبل ثقیفہ بنی ساعدہ میں ایک گروہ آپ کی بیعت کر بھی چکا تھا.چنانچہ عام لوگوں کی بیعت منبر پر ہوئی.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دن رات ختم نہیں ہوں گے یعنی قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ لات و عزمی کی پھر پرستش کی جائے گی.میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! جب قرآن شریف کی یہ آیت اتری کہ وہ خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت دی اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ تمام دینوں پر اس دین کو غالب کرے خواہ مشرک اسے ناپسند ہی کریں“.تو میں یہ خیال کرتی تھی کہ یہ غلبہ مکمل اور دائی ہے.آپ نے فرمایا: غلبہ جب تک خدا چاہے گا رہے گا، پھر خدا تعالیٰ خوشگوار ہوا چلائے گا اور وہ شخص جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا وفات پا جائے گا اور صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں کوئی بھلائی نہیں.وہ اپنے آباؤ اجداد کے مشرکانہ دین کی طرف لوٹ جائیں گے اور پھر لات و عزمی کی دوبارہ پرستش شروع ہو جائے گی.(مسلم کتاب الفتن : ۵۱۷۴) علامہ ابن حیان سورۃ الصف کی آیت يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ کے متعلق لکھتے ہیں کہ ابن عباس کو ابن زید نے کہا کہ اطفائے نور سے مراد یہاں یہ ہے کہ وہ قرآن کا ابطال کریں گے اور اس کی تکذیب فوری طور پر کرنا چاہتے ہیں.سُدی کہتے ہیں کہ وہ اسلام کو کلام کے ذریعہ رڈ کرنا چاہتے ہیں.ضحاک کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ جھوٹی خبریں پھیلا پھیلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہلاکت چاہتے ہیں.ابن انبار کہتے ہیں کہ وہ اپنی تکذیب کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے دلائل کو باطل کرنا چاہتے ہیں.ابن عباس نے اس آیت کا شان نزول یہ لکھا ہے کہ وحی الہی چالیس دن تک موقوف رہی تھی.تو کعب بن اشرف نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہود یو! خوشخبری ہو کہ اللہ نے محمد کے نور کو جو اس پر
خطابات طاہر جلد اول 519 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2002ء نازل ہوا کرتا تھا بجھا دیا ہے، اس نور کو مکمل نہیں کرنا چاہتا.اس پر رسول اللہ یہ غمزدہ ہو گئے چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی اور وحی الہی کا سلسلہ پھر جاری ہو گیا.(بخاری کتاب بدء الخلق حدیث نمبر : ۶۹۹۹) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں.یعنی بہت سے مکر کام میں لاویں گے مگر خدا اپنے نور کو کمال تک پہنچائے گا اگر چہ کافر لوگ کراہت ہی کریں.( نزول مسیح.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۵۲۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ :- ناعاقبت اندیش نادان دوستوں نے خدا تعالیٰ کے اس سلسلہ کی قدر نہیں کی بلکہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ یہ نور نہ چمکے.یہ اس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ یادرکھیں کہ خدا تعالیٰ وعدہ کر چکا ہے.(الحکم مورخہ، ارمئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- اس آیت میں تصریح سے سمجھایا گیا ہے کہ مسیح موعود چودھویں صدی میں پیدا ہوگا کیونکہ اتمام نور کے لئے چودھویں رات مقرر ہے“.اب منظوم کلام کا ترجمہ ہے :- صلى الله (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۲۴) اے میرے دل ! محمد ﷺ کو یاد کر جو ہدایت کا سرچشمہ ہے اور دشمنوں کو فنا کرنے والا ہے...وہ اللہ کا نور ہے جس نے علوم کو نئے سرے سے زندہ کر دیا ہے...آج کمبینہ کوشش کرتا ہے کہ اس کی ہدایت کو بجھا دے اور ٹھنڈا کر دے اور اللہ اس کے نور کو ظاہر کر دے گا کسی نہ کسی دن خواہ مدت لمبی ہی ہو جائے.(کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد نمبرے صفحہ ۷۰، قصائد احمدیہ صفحہ : ۲۶،۲۵) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید اپنے عربی کلام میں فرماتے ہیں : " کیا تو اس نور کو بجھاتا ہے جس کے ظہور کا ارادہ ہو چکا ہے.تیرا دونوں جہانوں میں ستیا ناس ہو اور نور تو میں روشن ہی رہے گا.اور میں دیکھتا ہوں
خطابات طاہر جلد اول 520 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2002ء کہ تیرا سارے کا سارا منصوبہ برباد ہو گیا ہے.اور میرا رب ہر اس امر کی پردہ دری کرتا ہے جسے تو چھپاتا ہے.علام الغیوب خدا تجھ کو بتائے گا کہ جو کچھ تو چھپاتا رہا ہے اور وہ تیرے سامنے اس کو ظاہر کر دے گا جس کا تو آج انکار کر رہا ہے.( قصائد الاحمدیہ صفحہ: ۴۱ و ۴۸) حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی بیان فرماتے ہیں کہ : ”ایک دفعہ کا ذکر ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز ظہر سے فارغ ہو کر مسجد مبارک میں ہی تشریف فرما ہوئے اور آپ نے دائیں ہاتھ میں اپنی پگڑ مبارک ( پگڑی مبارک ) کا شملہ پکڑ کر اپنی پیشانی مبارک پر رکھ دیا اور خاموش ہو کر بیٹھ گئے جیسے کوئی کسی گہری فکر میں ہو اور میں نے آپ کے پیر مبارک دبانے شروع کر دیئے اور آپ کے خدام بھی آپ کی طرف منہ کر کے خاموش ہوئے بیٹھے رہے.پانچ سات منٹ خاموشی ہی رہی.آپ نے حضرت خلیفہ اول کو مخاطب ہو کر فرمایا : مولوی صاحب ! افسوس آتا ہے اس نازک وقت کو بھی علماء نے نہ دیکھا کہ ہر طرف سے اسلام پر دشمنان اسلام نے تیر چلا کر اسلام کو زخمی کر دیا اور اسلام کے پاک اور مصفا منور چہرہ پر داغ لگا کر بھونڈے سے بھونڈے اعتراض کر کے لوگوں کو دکھلا رہے ہیں اور ان اعتراضوں کی وجہ سے سینکڑوں معمر مولوی اور مسلمان اسلام سے روگردانی کر کے دوسرے مذہب میں داخل ہو چکے ہیں اور خود اسلام کو گندے سے گندے اعتراضوں سے بد نام کر رہے ہیں.افسوس ہے ان علماء پر کہ انہوں نے اس وقت کے حالات پر بھی غور نہ کیا.اے غافلو ! تم نے تو اسلام کی خبر بھی نہ لی.کیا خدائے تعالیٰ بھی تمہاری طرح سے ہی غافل تھا جو وہ اسلام کی خبر نہ لیتا.وہ غفلت سے پاک ہے اس لئے عین وقت پر خبر لی اور مجھے آسمانی پانی پلا کر اسلام کی حفاظت کے لئے بھیجا ہے تا میرے ذریعہ اپنے اسلام کو زندہ کرے اور تمام مذاہب پر اسلام کی برتری کو ظاہر کرے اور وہ اب میری ہی
خطابات طاہر جلد اول 521 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2002ء تائید کرے گا اور تمہاری روکوں کو وہ خود دور کر دے گا اور مجھے میرے مقصد میں اُسی طرح کامیاب کرے گا اور مجھے ایسے ایسے مخلص بندے عطا کرے گا جو میرے مقصد کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیں گے اور میں نہیں کہتا بلکہ خدا خود بار بار مجھے تسلی دیتا ہے اور جو میں نے کہا ہے یہ اُسی کا کہا ہوا میں نے کہا ہے.پس جو پانی مجھے پلایا گیا ہے وہی پانی میرے مخلص دوستوں کو بھی پلائے گا اور میرے مقصد کو جو پورا کریں گے اللہ تعالیٰ ان کی بھی تائید کرے گا اور کامیابیوں پر کامیابیاں ان کو عطا کرے گا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کو پورا کرنے والے ہوں گے.“ وو اے غافلو ! تم بے شک زور لگا لو خدا نے بھی اب یہی ارادہ کیا ہے کہ میرے ذریعہ سے اسلام کو زندہ کرے اور تمام مذاہب پر اسلام کو غلبہ دے.کون ہے جو خدائے قادر کے ارادے کو بدل دے.میں سچ سچ کہتا ہوں خدائے قادر کا اب یہی ارادہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب پر اسلام کو غالب کرے.میں نے تمام مذاہب کے پیروؤں کو دعوت دی کہ آؤ اپنے اپنے مذہب کا مقابلہ اسلام کے ساتھ کر ومگر کوئی مقابلہ پر نہیں آیا.دنیا دیکھ لے گی اسلام ہی کے ذریعہ سے دنیا میں امن قائم ہو گا.اے نادانو! تم نے مجھے اسلام کا دشمن قرار دیا میں تو اسلام کا ادنیٰ خدمت گزار ہوں اور آنحضرت علیہ کا ادنی غلام ہوں.میں اس مقدس کی خوبیوں کو دنیا کے اندھوں کو دکھلا کر اس پاک کے چہرہ کو منور کر کے دکھلانے کے لئے بھیجا گیا ہوں.اس سورج کے سامنے میں ایک ذرہ ہوں وہ میرا مطاع ہے.میں اس پاک کا مطیع ہوں.اسی کے نور سے مجھے خدائے تعالیٰ نے منور فرمایا میں اس پاک کی ہمسری کس طرح کر سکتا ہوں، ہاں میں نبی ہوں.میری نبوت اسی پاک نبوت (کے) ظاہر کرنے کے لئے ہے.میں اس کا ظل ہوں.ظل اپنے اصل سے جدا نہیں ہوسکتا.(رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۶ صفحه ۸۶ تا ۸۹)
خطابات طاہر جلد اول 522 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2002ء فارسی منظوم کلام کا ترجمہ : جو میری روشنیوں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں مجھے اس کا خوف نہیں بھلاوہ نور کب چھپ سکتا ہے جو خدا نے میری فطرت کو بخشا ہے.ان کے شور و غوغے سے میرے دل کو گھبراہٹ نہیں.صادق کبھی بز دل نہیں ہوتا خواہ قیامت کو دیکھے.مارچ ۱۸۸۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عربی زبان میں ہونے والے ایک لمبے الہام سے متعلقہ حصہ کا ترجمہ پیش کرتا ہوں : ”ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر خدا اس نور کو نہیں چھوڑے گا جب تک پورا نہ کر لے اگر چہ منکر کراہت کریں.ہم عنقریب ان کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے.جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرے گا تو کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا.آپ کو عربی میں ایک الہام ہوا: ( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد اول صفحه ۲۶۶ حاشیه در حاشیه نمبرا) ان کو کہہ دے کہ اے منکر و! میں صادقوں میں سے ہوں اور کچھ عرصے کے بعد تم میرے نشان دیکھو گے.ہم انہیں کے ارد گر داور خود انہیں میں اپنے نشان دکھائیں گے.حجت قائم کی جائے گی اور فتح کھلی کھلی ہو گی.خدا تم میں فیصلہ کر دے گا.وہ کسی جھوٹے حد سے بڑھنے والے کا رہنما نہیں ہوتا.چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں مگر خدا اُسے پورا کرے گا اگر چہ منکر لوگ کراہت ہی کریں.ہمارا ارادہ یہ ہے کہ کچھ اسرار تیرے پر آسمان سے نازل کریں اور دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکروں کو وہ باتیں دکھا دیں جن سے وہ ڈرتے ہیں.وہ خدا جو رحمان ہے اور اپنے خلیفہ سلطان کے لئے مندرجہ ذیل حکم صادر کرتا ہے کہ اس کو ایک ملک عظیم دیا جائے گا اور خزائن علوم و معارف اس کے ہاتھ پر کھولے جائیں گے
خطابات طاہر جلد اول 523 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2002ء اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب“.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحہ ۵۶۶) س و الهام ۱۸۹۳ء بَشْرَ نِي رَبِّي وَ قَالَ: انِّي سَأَوْتِيكَ بَرَكَةً وَأُجْلِيَ آنُوارَهَا حَتَّى يَتَبَرَّكَ بِثِيَابِكَ الْمُلُوكُ وَالسَّلاطِينُ.میں تجھے برکت دوں گا اور اس کے انوار کوروشن کروں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.( تذکرہ:۱۹۴) ۱۸۸۲ء کے عربی الہام سے کچھ حصے کا ترجمہ : خدا عرش پر سے تیری تعریف کر رہا ہے ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر خدا اس نور کو نہیں چھوڑے گا جب تک پورا نہ کر لے اگر چہ منکر کراہت کریں.ہم عنقریب ان کے دلوں میں رعب ڈالیں گے جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرے گا تو کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا جیسا کہ تم نے سمجھا.( تذکرہ صفحہ ۳۷، ۳۸) ۱۹۰۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوعربی میں ایک اور الہام ہوا: ” یہ تیرے رب کی رحمت سے ہے.وہ اپنی نعمت کو تجھ پر پورا کرے گا تا کہ مومنوں کے لئے نشان ہو.اللہ تعالیٰ کئی معرکوں میں تیری نصرت کرے گا اور اللہ اپنا نور پورا کرے گا اگر چہ کافر نا پسند کریں اور وہ مکر کرتے ہیں اللہ انہیں ان کے مکر کی سزا دے گا اور اللہ سب سے بہتر تد بیر کرنے والا ہے.دیکھ اللہ تعالیٰ کی رحمت تجھ سے قریب ہے اس کی مد تجھ سے قریب ہے.( تذکرہ صفہ ۳۰۱) 1900ء کا الہام ہے انِّی حَاشِرِ كُلَّ قَوْمٍ يَّاتُونَكَ جُنُبًا وَإِنِّي أَنَرْتُ مَكَانَكَ تَنْزِيلٌ مِّنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ.میں ہر یک قوم میں سے گروہ کے گروہ تیری طرف بھیجوں گا.میں نے تیرے مکان کو روشن کیا.یہ اس خدا کا کلام ہے جو عزیز اور رحیم ہے.(تذکرہ صفحہ : ۳۲۰)
خطابات طاہر جلد اول 524 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 2002ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں دعا پر یہ خطبہ ختم کرتا ہوں: ”اے قادر خدا! اے اپنے بندوں کے رہنما! اب اس زمانہ کو اپنی طرف اور اپنی کتاب کی طرف اور اپنی توحید کی طرف کھینچ لے کفر اور شرک بہت بڑھ گیا اور اسلام کم ہو گیا.اب اے کریم ! مشرق اور مغرب میں توحید کی ایک ہوا چلا اور آسمان پر جذب کا ایک نشان ظاہر کر اے رحیم ! تیرے رحم کے ہم سخت محتاج ہیں.اے ہادی! تیری ہدایتوں کی ہمیں شدید حاجت ہے.مبارک وہ دن جس میں تیرے انوار ظاہر ہوں.کیا نیک ہے وہ گھڑی جس میں تیری فتح کا نقارہ بجے.آئینہ کملات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صحی۲۱۴۲۶۳ حاشیه در حاشیه)