Language: UR
حضرت حافظ مرزاناصر احمد صاحب، خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے جلسہ ہائے سالانہ کے مواقع پر خطابات کا یہ مجموعہ دو جلدوں میں نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے مرتب کیا ہے۔ جلد اول آغاز تا 1973 تک اور جلد دوم 1974 سے 1981 ء کے خطابات پر مشتمل ہے۔ جلد اول میں کل 24 تقاریر ہیں جن میں سے 16 تقاریر قبل ازیں غیر مطبوعہ تھیں اور اس کتاب کی صورت میں پہلی دفعہ طبع ہوئیں۔ جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے جلسہ ہائے سالانہ کے مواقع پرمستورات سے خطابات المصابیح کے نام سے لجنہ اماء اللہ کی طرف سے الگ سے شائع شدہ ہیں، وہ اس مجموعہ کا حصہ نہیں ہیں۔ ان جلدوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خدائے قادر وقیوم جن وجودوں کو زمام خلافت سپرد کرتا ہے ان کو اپنی ایک خاص خارق عادت تائید و نصرت سے بھی نوازتا ہے اور ان کی زبان مبارک سے حقائق و معارف اور دقائق و لطائف کے سلسلے جاری فرما دیتا ہے۔ اس قیمتی مجموعہ کی دونوں جلدوں کے آخر پر انڈیکس شامل ہے۔
خطابات ناصر خطابات بر جلسہ ہائے سالانہ جماعت احمد یہ ۱۹۷۴ء تا ۱۹۸۱ء فرموده سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خليفة المسيح الثالث رحمه الله تعالى جلد دوم
خطابات ناصر جلد دوم.1974-1981ء ثالث رحمه الله تعالى خطابات جلسہ ہائے سالا نہ فرموده حضرت حافظ مرزا ناصراحم خلیفه مسیح الثالث.Khetabaat-e Nasir Volume: 2 1974-1981 Addresses at annuual gatherings from 1974 to 1981 delivered by Hadhrat Mirza Nasir Ahmad, Khalifatul Masih III (Rahemahu Allah) Islam International Publications Published by: First Published in 2010 ISBN: 1 85372914 0
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اصر هو النـ پیش لفظ سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفتہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطابات کی جلد دوم پیش خدمت ہے.یہ جلد ۱۹۷۴ء سے وفات تک کے جلسہ سالانہ کے افتتاحی خطاب دوسرے روز کے خطاب اور اختتامی خطابات پر مشتمل ہے.ان خطابات کی کل تعداد ۲۴ ہے جن میں سے تعداد۲۴ ہے سے ۱۹ خطابات غیر مطبوعہ ہیں (جن میں سے چار خطابات آڈیو کیسٹس سے ٹرانسکر پٹ (Transcript) کئے گئے ہیں اور پہلی دفعہ شائع کئے جارہے ہیں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے مجلس انصار اللہ سے خطابات سبیل الرشاد ( حصہ دوم ) مجلس خدام الاحمدیہ سے خطابات مشعل راہ (حصہ دوم) اور کے خواتین سے جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کے اور دیگر اہم مواقع کے خطابات لجنہ اماءاللہ پاکستان نے "المصابیح، کے نام سے الگ شائع کر دیئے ہیں اس لئے انہیں اس جلد میں شامل نہیں کیا جارہا.جن مقدس وجودوں کو خدائے قادر مقام خلافت پر فائز کرنے کے لئے منتخب فرماتا ہے انہیں اپنی بر معمولی تائید ونصرت سے نوازتا ہے.ان کی زبانِ مبارک سے حقائق و معارف اور دقائق ولطائف جاری فرماتا ہے.اس جلد میں مندرجہ ذیل اقتباسات جماعتی نقطہ نگاہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں.ہلا جلسہ سالانہ ۱۹۷۴ء کے ولولہ انگیز افتتاحی خطاب میں حضور انور نے فرمایا: پاکستان ہمارا وطن ہے.اس میں بسنے والے احمدیوں کا یہ وطن ہے.اس وطن میں اللہ تعالیٰ.جماعت احمدیہ کا مرکز بنایا ہے.اس ملک میں بسنے والوں کا ایک فیصد یا نصف فیصد یا چوتھائی فیصد یا اس سے بھی کم ایسا ہے جس میں شرافت نہیں ان کے کہنے سے ہمارا مرکز کسی اور ملک میں نہیں جائے گا.جس قدر چاہیں وہ افواہیں پھیلاتے رہیں.ہمارا یہ ملک ہے.جس طرح ایک لاکھ میں سے ننانوے ہزار نو سوننانوے پاکستانی شریف شہریوں کا یہ ملک ہے، اسی طرح احمدیوں کا بھی یہی ملک
ہے ہم نے بھی اسی ملک میں رہنا ہے اور اس ملک نے ہماری اسی طرح خدمت کرنی ہے جس طرح ماں اپنے بچے کی خدمت کر رہی ہوتی ہے جلسہ سالانہ ۱۹۷۴ء کے دوسرے روز کے خطاب میں غلبہ اسلام کی نوید سناتے ہوئے فرمایا: اس وقت ایک بڑی زبر دست جنگ شروع ہو چکی ہے.امریکہ چاہتا ہے کہ ساری دُنیا اس کے ساتھ مل جائے اور نوع انسانی امتِ واحدہ بن جائے.اشتراکیت بھی کہتی ہے کہ ساری دُنیا کی وہی خیر خواہ ہے.تمام دنیا کو اشتراکیوں کے ساتھ مل جانا چاہئے تا کہ ساری دُنیا ایک خاندان بن جائے.اسی طرح چین کا سوشلزم بھی یہی کہتا ہے کہ ساری دُنیا اُن کے ساتھ مل جائے اور ایک خاندان بن جائے.ان تین تحریکوں کے علاوہ گود نیا داروں کی نگاہ میں دھتکارا ہوا مگر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم روحانی فرزند مہدی معہود ہے جو یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے غلبہ اسلام کی جو بشارتیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھیں.اُن کی رو سے میں دُنیا میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل دُنیا کا ہر انسان ایک خاندان کی لڑی میں پرویا جائے گا اور آپ کے طفیل نوع انسانی امت واحدہ بن جائے گی.فرمایا.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف : ۱۰) تمام دنیا پر اسلام غالب آئے گا اور تمام ملکوں پر تو حید کا جھنڈا لہرائے گا.جلسہ سالانہ ۱۹۷۴ء میں نیشنل اسمبلی کے فیصلہ اور فقہ احمدیہ کی تدوین کا ذکر فرمایا: ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو ہماری نیشنل اسمبلی نے یہ قرارداد پاس کی کہ دستور یا قانون کی اغراض کے لئے احمدی مسلمان نہیں سمجھے جائیں گے پھر وہ یہ کہیں گے کہ جب قانون کی اغراض کے لئے آپ کو مسلمان نہیں سمجھا جائے گا تو شریعت کے اس حصہ کا جو قانون بن چکا ہے اس کا آپ کے اوپر اطلاق بھی نہیں ہو گا.اس واسطے یہ ضروری ہو گیا کہ ہم فقہ احمدیہ کی تدوین کریں اور اس وقت میں اس کا اعلان کرتا ہوں.کچھ دوست میں نے کام پر لگائے تھے چنانچہ نکاح اور ورثہ کے متعلق فقہ احمدیہ کے دو بابوں کا ابتدائی کام ہو چکا ہے.ہم اپنی یہ فقہ جماعت کی شوریٰ میں پیش کریں گے اور جماعت فیصلہ کرے گی کہ یہ فقہ ہے جس کے قانون کی پابندی جماعت احمد یہ کرے گی اور جس کے قانون کی پابندی اگر حکومت نے کروانی ہوئی تو وہ جماعت احمدیہ سے کروائے گی یہ نہیں کہ زید اور بکر جس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں وہ ہمارے لئے قانون بنانا شروع کر دے.یہ اتنی نا معقول بات ہے کہ کوئی سین (sane) آدمی اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.
۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء کو صد سالہ جو بلی فنڈ کا ذکرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا: میں نے صد سالہ جو بلی کا جب اعلان کیا اُس وقت جو میرے دماغ میں خیال تھا اس کے مطابق اعلان کیا جب خدا تعالیٰ میرے فیصلہ کو ٹھکرا کے ردی کاغذ کی طرح پھاڑ کے پرے پھینک دے نا ، تو اتنی خوشی ہوتی ہے مجھے کہ کوئی حد نہیں اور میں بتاتا ہوں کیوں خوشی ہوتی ہے میرا اندازہ تھا اور بڑے ڈر ڈر کے میں نے اعلان کیا کہ دو کروڑ پچاس لاکھ روپیہ اگلے پندرہ سال میں جمع کر دے جماعت تا کہ ہم آنے والی غلبہ اسلام کی صدی کا شایانِ شان استقبال کر سکیں.مگر جو وعدے ہوئے وہ نو کروڑ بانوے لاکھ کے یعنی قریباً دس کروڑ کے وعدے ہو گئے.میں نے کہا تھا ابھی دس سال رہتے ہیں اُس زمانہ میں کہ پندرہ سال تک اڑھائی کروڑ جمع کر دو اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جو وصولی ہو چکی ہے وہ قریباً دو کروڑ انیس لاکھ روپے کی.یعنی قریب قریباً اتنی جو میں نے سارے زمانہ کے لئے اعلان کیا تھا.۲۷ رسمبر ۱۹۷۹ء کو ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو نوبل انعام ملنے پر حضور نے فرمایا: بڑا عظیم یہ الہام ہے بڑی عظیم یہ پیشگوئی ہے کہ ”میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ اگلے دس سال کے بعد آنے والے سو سال میں جس صدی کو میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں ہمیں ایک ہزار سائنسدان اور محقق چاہئیں اور یہ جو اس سے پہلے دس سال ہیں اس میں ایک سوسائنسدان اور محقق چاہئیں لیکن آج تک یہ ایک پیشگوئی تھی جس کا ایک بھی مظہر ہمارے سامنے نہیں تھا.یعنی کچھ اس طرح وہ ابھرا ہو اور آسمانوں تک پہنچا ہو اپنی علمی تحقیق میں کہ واقع میں اُس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ علم اور معرفت میں اُس نے کمال حاصل کیا اور اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رُو سے سب کا منہ بند کر دیا.(اپنے حلقہ تحقیق میں ) آئن سٹائن بہت بڑا سائنسدان گزرا ہے.انہوں نے بھی کام کیا اور ناکام ہوئے اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے کام کیا اس پر اور وہ کامیاب ہوئے اور اُن کو نوبل پرائز ملا اور دنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں میں پہنچ گئے.حمله ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء کو پندرھویں صدی کے پہلے جلسہ کے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: پندرھویں صدی ہجری کا یہ پہلا جلسہ ہے اور پندرھویں صدی ہجری کے پہلے جلسے کا یہ پہلا دن
ہے اور پندرھویں صدی ہجری کے پہلے دن کی یہ پہلی تقریر، افتتاحی تقریر ہے.جب ہم ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو پچھلی صدی ، چودھویں صدی ایک ایسی صدی ہے جس کے ساتھ ہمارا اور ہمارے محبوب محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اور ہمارے پیارے مذہب اسلام کا بڑا گہرا تعلق ہے.مجموعی طور پر اگر نظر ڈالی جائے جانے والی صدی پر تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم روحانی قوت ، قوت قدسیہ کے نتیجہ میں جو انقلاب بپا ہوا اور جس نے اس زمانہ میں اپنے عروج کو پہنچنا تھا اس کی بنیاد پڑی.اگر ہر شخص دوسرے کی خدمت کے لئے تیار ہو جائے تو آج دنیا سے فساد مٹ جاتا ہے اور فساد نے مٹنا ہے اس صدی میں.میں تمہیں بتارہا ہوں فساد نے مٹنا ہے اس صدی میں انشاء اللہ اور میرے اور تمہارے ہاتھوں سے مٹنا ہے اور ہمیں اس کے لئے قربانیاں دینی پڑیں گی اور ہم اس کے لئے قربانیاں دیں گے.حیح ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء کو جماعت کو ستارہ احمدیت عطا کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: دل میں آپ کے یہ تڑپ تھی کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے پہلے ہزاروں ، لاکھوں ، خدا جانے کتنے؟ آسمان کے ستارے بنے جماعت احمدیہ کے سارے افراد ہی ستارے بن جائیں.یہ دیکھ کر پڑھ کے، غور کر کے دعا کر کے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ آج میں آپ کو ستارہ احمدیت دوں جو علامت ہو Symbol ہوان برگزیدہ احمدیوں کا جو آسمانی رفعتوں پرستاروں کی طرح پیدا ہوئے اور قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے، ۲۷ دسمبر ۱۹۸ء کو حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: منصورہ بیگم (نور اللہ مرقدها) نے میرے ساتھ دینی ذمہ داریوں کو نباہتے ہوئے اس طرح زندگی گزاری جس طرح دو چیزیں ایک زندگی گزار رہی ہوں.یعنی یہ بھی درست نہیں ہوگا کہنا کہ ہمیں ایک دوسرے سے پیار تھا کیونکہ اس میں بھی دُوئی پائی جاتی ہے.ہم دونوں نے ایک زندگی گزاری.خاموشی کے ساتھ جتائے بغیر، اظہار کئے بغیر وہ اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ میری زندگی کے کسی دن میں دومنٹ بھی ضائع نہ ہوں تا کہ وہ دومنٹ میں سلسلہ کے کاموں میں خرچ کر سکوں.ہر کام اپنے ہاتھ سے صفائی کے ساتھ ، وقت کے اوپر میرے کھانے کا خیال رکھنا، میرے پینے کا خیال رکھنا، میری حفاظت کا خیال رکھنا، میرے جذبات کا خیال رکھنا اور میں نے سوچا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نقش قدم پر چلنے والی صرف ایک تو نہیں ہوئیں پیدا ، نہ صرف ایک کی ضرورت ہے.
ہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء کو تعلیمی منصوبہ کا ذکر کرتے ہوئے حضورا نور نے فرمایا: میں نے اپنی جماعت کو کہا ہر جگہ جہاں میں گیا کہ جب تک ہم علم کے میدان میں انہیں شکست نہیں دیں گے اسلام کی بالا دستی ان سے نہیں منوا سکتے.یہ منصوبہ علمی ویسے ہی نہیں بن گیا.اسی کے پیچھے یہ تصور یہ حقیقت جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھائی تھی اس کے اوپر میں نے بنیاد رکھی تھی اس کی جس میں تمغے بھی ملے ، جس میں اور بہت ساری چیزیں شامل ہیں.ہم نے ساری دنیا کے سب سے بڑے عالموں کو علم کے میدان میں شکست دینی ہے.جس طرح ہم سے پہلے بزرگوں نے دی انہیں اور اس طرح اسلام کی برتری ثابت کرنی ہے.۲۷ دسمبر ۱۹۸۱ء کو مخزن الكتب العلمية کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں نے سوچا کہ جو ہماری بنیادی کتابیں ہیں.ان میں جو اخلاص ہے اور جو روحانی ضرورت ہے اس کو بلیک نہیں ہونے دوں گا.اس واسطے آپ نے دیکھا ہوگا کم از کم باہر سے بہت ساروں نے ) وہ ایک عمارت بن گئی.ظاہر سے بھی خوبصورت ہے اور جگہ بڑی ہے اندر کتا بیں رکھنے کی.ابھی تو کام شروع کرنا تھا.تعمیر میں کچھ دیر ہوئی تھی.تو ۱/۴ حصے میں بارہ تیرہ ہزار کتب آگئی تھیں اور میرے خیال میں خالی ہو جائے گا.خدا کرے کہ وہ سارا خالی ہو جائے پھر پھرنی پڑیں ہمیں.اگلے جلسے تک پچاس ساٹھ ہزار کتا بیں بکاؤ اس کے اندر ہوں گی.ہر وہ کتاب جو آپ کے لئے ضروری ہے وہاں اس کے نسخے موجود ہوں گے.ایک تو یہ ہے کہ وقت ضائع کئے بغیر آپ وہاں سے خرید سکتے ہیں دوسرے یہ کہ کنٹرول ریٹ پہ خرید سکتے ہیں.۲۷ دسمبر ۱۹۸۱ء کو نصرت جہاں ریز روفنڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: ایک سال کا بجٹ آمد و خرچ تین کروڑ گیارہ لاکھ چھتیس ہزار آٹھ سو چھیں (۳۶۸۲۶ ،۳۱۱) اور ریز رو بھی کافی وہاں پڑے ہوئے ہیں جہاں ہمیں کھڑا نہیں ہونے دیتا اللہ تعالیٰ.مثلاً ہسپتال ہے ایک بلاک ختم ہوا ہے، ضرورت ہے، اگلا بلاک بناؤ.اوزار ہیں منگوالو.یعنی کسی جگہ (میں نے بتایا تھا ناوہ تو کہتا ہے.يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (البقرة :۲۱۳) مجھے یہ سوچنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی کہ پیسے کہاں سے آئیں گے.میں بڑا عا جز انسان ہوں اور خدا تعالیٰ پھر انتظام کر دیتا ہے اور
۶ کرتا چلا جاتا ہے اور میں تو حیران ہوں ، حیرت میں گم ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی عظمت میرے اس زمانے میں اس بات سے ثابت ہوئی کہ میرے جیسے عاجز انسان کو اس نے ہاتھ میں پکڑا اور اعلان کیا دنیا میں کہ اس ذرہ ناچیز سے میں دنیا میں انقلاب بپا کردوں گا اور کر دیا.عليه ۲۸ دسمبر ۱۹۸۷ء کو عظیم الشان غلبہ اسلام کی پیشگوئی کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا: یہ جماعت احمد یہ ہے.تعداد میں مختصر سی جماعت.پیسے کے لحاظ سے دنیا میں سینکڑوں شاید ایسے امیر لوگ ہوں کہ جن کی دولت جماعت احمدیہ کی ساری دولت سے بھی زیادہ ہے لیکن جس کی خوشیاں جماعت احمدیہ کی خوشیوں سے کروڑواں حصہ بھی نہیں ہیں.جو دور بین نگاہ رکھتے ہیں ان کو نظر آنا شروع ہو گیا ہو گا.جو نو جوان ہیں انہیں میں کہتا ہوں جماعت احمدیہ کی زندگی میں انقلاب عظیم بپا ہو چکا حرکت میں ہے اور اس میں Momentum پیدا ہورہا ہے حرکت جو ہے روز بروز تیز ہوتی چلی جارہی ہے.آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں.ساری دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوگی.یہ خدا کا فیصلہ ہے اور خدا تعالیٰ نے اپنے اس فیصلہ کا بھی اعلان کیا کہ میرے منصوبوں میں کوئی ماں جایا مجھے نا کام کرنے والا نہیں پیدا ہوا.جوخدا نے کہا وہ ہوگا.خطابات ناصر کی تیسری جلد حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطابات قبل از خلافت و بعض دیگر مواقع کے اہم خطابات پر مشتمل ہوگی.انشاء اللہ تعالیٰ
نمبر شمار ۶ فہرست خطابات جلد دوم خطابات جلسه سالانه از ۱۹۷۴ء تا ۱۹۸۱ء) عنوان خطاب فرموده صفحہ جلسہ سالانه ۱۹۷۴ء ( منعقده ۲۶، ۲۷، ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۴ء) ماں کی طرح مادر وطن کے پاؤں تلے بھی جنت ہے افتتاحی خطاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۴ء شریعت محمدیہ نے دستور حیات کو نہایت شرح وبسط کے دوسرے روز کا خطاب ساتھ بیان کر دیا ہے.۲۷/ دسمبر ۱۹۷۴ء ہمارا ایمان ہے کہ اللہ بے عیب اور پاک ہے اور ہر حمد کا اختتامی خطاب مرجع و منبع اس کی ذات ہے ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۴ء جلسه سالانه ۱۹۷۵ء ( منعقده ۲۶، ۲۷، ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۵ء) ۲۶؍دسمبر ۱۹۷۵ء ۱۵ ۵۵ دعا کریں کہ اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افتتاحی خطاب دعاؤں کو ہمارے حق میں بھی قبول کرے مسجد اللہ کا گھر ہے اس پر کسی اور کی ملکیت اسلام تسلیم ہی دوسرے روز کا خطاب ۹۷ نہیں کرتا ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۵ء جماعت کو اسلامی آداب و اخلاق کے بارہ میں متوجہ کرنے اختتامی خطاب کے عظیم علمی جہاد کا اعلان ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۵ء ۱۳۳
نمبر شمار عنوان خطاب فرموده صفحہ جلسہ سالانہ ۱۹۷۶ء ( منعقدہ ۱۰، ۱۲،۱۱ / دسمبر ۱۹۷۶ء) ہم رب کریم کی رضا کے حصول کی خاطر یہاں جمع افتتاحی خطاب ہوئے ہیں ۱۰/ دسمبر ۱۹۷۶ء اسلام تو نرمی خوشی خلقی ، نرا پیار اور نری محبت ہے دوسرے روز کا خطاب ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۶ء و اس عالمین سے خدمت لینے کی قوتیں اور استعدادیں اختتامی خطاب ۱۲/ دسمبر ۱۹۷۶ء 1.۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ انسان کو دی گئی ہیں جلسہ سالانہ ۱۹۷۷ء ( منعقدہ ۲۶، ۲۷، ۲۸ دسمبر ۱۹۷۷ء) افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۷۷ء 171 ۱۶۹ ٢٠٣ ۲۳۳ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے ، ان کی ادائیگی اور دعاؤں کے ذریعہ خدا سے مدد مانگنے کے لئے جمع ہوتے ہیں انشاء اللہ وہ دن بھی آئے گا جب دنیا کے ہر ملک سے دوسرے روز کا خطاب ۲۴۱ جلسہ میں شمولیت کے لئے احمدی جمع ہوں گے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۷۷ء انسان کی پیدائش کا اصل مدعا خدا کی پرستش اور اس کی اختتامی خطاب معرفت ہے ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء جلسه سالانه ۱۹۷۸ء ( منعقده ۲۶، ۲۷، ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء) ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۸ء ۲۷۵ ۳۰۷ خالص توحید کو اپنے ذہنوں میں ، اپنے سینوں میں ، اپنی افتتاحی خطاب روح میں اور اپنی زندگی میں قائم کرو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی دفعہ اس حقیقت کو دوسرے روز کا خطاب ۳۱۷ آشکارہ کیا کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے تھے ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء آئندہ انشاء اللہ جب اسلام غالب آئے تو تاریک براعظم کو اختتامی خطاب نورانی براعظم ہی کا نام دیا جائے گا ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء ۳۵۵
نمبر شمار ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۳ ۲۴ عنوان خطاب فرموده صفحہ جلسہ سالانہ ۱۹۷۹ء ( منعقده ۲۶، ۲۷، ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء) دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے افتتاحی خطاب عاشق احمدی نہ بستے ہوں ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی ۲۶ دسمبر ۱۹۷۹ء ۳۸۳ دوسرے روز کا خطاب ۳۹۱ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء قبولیت دعائے ابراہیمی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اختتامی خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء جلسه سالانه ۱۹۸۰ء ( منعقده ۲۶، ۲۷، ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۰ء) ۴۲۷ چودھویں صدی کے ساتھ ہمارا ، ہمارے محبوب افتتاحی خطاب ۴۵۷ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا بڑا گہرا تعلق ہے ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء اصل زندگی کام اور ایسے اعمال کا نام ہے جن سے خدا دوسرے روز کا خطاب ۴۶۳ راضی ہو جائے اور وہ مقبول اعمال بن جائیں ۲۷ دسمبر ۱۹۸۰ء اس صدی میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اختتامی خطاب کا پیار قائم ہوگا اسلام غالب آئے گا ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء جلسه سالانه ۱۹۸۱ء ( منعقده ۲۶، ۲۷، ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء) ۴۸۵ ہماری خواہش ہے کہ ساری دنیا کو اکٹھا کر کے محمد افتتاحی خطاب ۵۱۳ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا جمع کریں ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۱ء ساری دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول دوسرے روز کا خطاب ۵۱۹ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے جائیں گے ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء قرآن کریم کی تعلیم پر بنیاد رکھ کر میں بتاؤں گا کہ سبحان اللہ کے معنے حقیقاً کیا ہیں؟ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء ۵۵۱
خطابات ناصر جلد دوم 1 ماں کی طرح مادروطن کے پاؤں تلے بھی جنت ہے افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۴ء افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۴ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہمارے دل خُدا کی حمد سے لبریز ہیں.گزشتہ برس ۲۶ کی صبح کو جس قدر دوست جلسہ گاہ میں موجود تھے.اس وقت جلسہ گاہ کو دیکھ کر میرے حافظہ نے بھی تصدیق کی اور میری نگاہوں نے بھی مشاہدہ کیا ہے کہ آج پچھلے سال سے قریباً ۵۰ فیصد زیادہ دوست یہاں موجود ہیں.فالحمد لله علی ذالک.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيمَانِ ( موضوعات کبیر صفحه ۴۰) اپنے وطن سے محبت کرنا جزو ایمان ہے.آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ماؤں کے پاؤں تلے جنت ہے.اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ مادر وطن کے پاؤں تلے جنت ہے.بعض لوگ یہ افواہیں پھیلاتے رہے ہیں کہ ہم اس جنت کو چھوڑ کر کہیں باہر جانے کا خیال رکھتے ہیں.ہم مادر وطن کے پاؤں کی جنت سے باہر کیسے جائیں گے، جب کہ ہمارے محبوب آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف یہ فرمایا ہے.حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيمَانِ اور دوسری طرف یہ کہ ماں کے پاؤں تلے جنت ہے.مادر وطن کا جو محارہ ہے.اس میں بڑی صداقت ہے جس طرح ماں کے پاؤں تلے جنت ہے اسی طرح انسان مادر وطن میں اپنے لئے جنت کا ماحول پیدا کرتا ہے.آخر وطن ہے کیا چیز ؟ وطن دُنیا کا ایک ایسا حصہ ہے جس میں انسانوں کا ایک گر وہ بطور شہری کے بستا ہے.اس کا تعلق ایک تو انسان کے ساتھ وہ ہے جو انسان سمجھتا اور بنالیتا ہے اور اُس ملک میں بسنے والوں کے ساتھ اُس ملک کا ایک تعلق وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے.
خطابات ناصر جلد دوم افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۴ء اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہے کہ ہم نے زمین و آسمان اور اس کی ہر چیز کو انسان کی خدمت کے لیے بنایا ہے اللہ تعالیٰ نے مثلاً مجھے اور آپ کو جو پاکستان کے شہری ہیں، ان کو پاکستان کے متعلق اور وہ دوست جو مختلف ممالک سے آئے ہوئے ہیں اور ہماری بیرونی جماعتوں کے نمائندے ہیں اُن کو ان کے ملکوں کے متعلق یہ کہا کہ تمہارے ملک کی ہر چیز تمہاری خادم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کی ہر شے کو حکم دیا ہے کہ وہ انسان کی خدمت کرے.جس طرح ماں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے بچے کو پالے اور اس کی خدمت کرے اسی طرح ملک کو حکم دیا مثلاً ہمارے اس ملک پاکستان کی ان پہاڑیوں کو بھی اور مٹی کے جن اجزاء سے یہ اینٹیں بنی ہیں اُن کو بھی ، ان درختوں کو بھی اور جو غذا یہ درخت لے رہے ہیں اُسے بھی ، علی هذا القياس ہر چیز کو خدا نے حکم دیا ہے کہ وہ اُس کے بندے کی خدمت کرے اور اُس نے اپنے بندے کو یہ کہا کہ دیکھو! تمہارے لیے خادم میں نے پیدا کر دیئے ہیں، لیکن ان کی خدمت پر ایک شرط بھی لگا دی ہے.فرمایا ان چیزوں کو صرف یہ حکم نہیں دیا گیا کہ وہ خدا کے بندوں کی خدمت کریں بلکہ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ اگر لوگ خدمت لیں تو خدمت کرنا ورنہ نہ کرنا.فرمایا: - لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (النجم : ٤٠) کہ انسان جتنی کوشش کرے گا.اپنے خادموں سے جتنی خدمت لے گا اتنی ہی وہ خدمت کریں گے.پاکستان ہمارا وطن ہے.اس میں بسنے والے احمدیوں کا یہ وطن ہے.اس وطن میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کا مرکز بنایا ہے.اس ملک میں بسنے والوں کا ایک فیصد یا نصف فیصد یا چوتھائی فیصد یا اس سے بھی کم ایسا ہے جس میں شرافت نہیں ان کے کہنے سے ہمارا مرکز کسی اور ملک میں نہیں جائے گا.جس قدر چاہیں وہ افواہیں پھیلاتے رہیں.ہمارا یہ ملک ہے.جس طرح ایک لاکھ میں سے ننانوے ہزار نوسوننانوے پاکستانی شریف شہریوں کا یہ ملک ہے، اسی طرح احمد یوں کا بھی یہی ملک ہے ہم نے بھی اسی ملک میں رہنا ہے اور اس ملک نے ہماری اسی طرح خدمت کرنی ہے جس طرح ماں اپنے بچے کی خدمت کر رہی ہوتی ہے.خدا نے ماں کو کہا کہ بچے کو دودھ پلا اور بچے کے کان میں یہ پھونکا کہ روئے گا تو ماں کی چھاتیوں میں دودھ اُترے گا ورنہ نہیں اُترے گا، ہم نے اس ملک سے خدمت لینی ہے، ہم نے اس ملک سے اس طرح خدمت لینی ہے کہ پاکستان جو ہمارا پیارا ملک ہے، وہ دُنیا کے معزز ترین ممالک میں شمار ہونے لگے.
خطابات ناصر جلد دوم افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۴ء ملکوں کا تنزل دو طرح ہوتا ہے.یا تو اس لیے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ماننے سے انکار کرتا ہے کہ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (النجم : ٤٠).یعنی جتنی خدمت تم لینا چاہو گے، اتنی خدمت تمہارا ملک کرے گا اور یا اس لئے ننزل آ جاتا ہے یا کمزوری پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان کا تعلق اپنے رب سے مضبوط نہیں رہتا اور انسان خود اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے شاید اس مضمون کے متعلق میں اپنی پرسوں کی تقریر میں احباب کو کچھ بتاؤں گا، میں چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے اعتقادات کے متعلق بڑوں کو یاد دلاؤں اور چھوٹوں کو سمجھاؤں کہ ہمارے کیا اعتقادات ہیں.غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے قرآن کریم نے یہ بھی کہا ہے کہ زمین کو انسان کا خادم بنایا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ وہ اپنے خادموں سے جتنی خدمت لینا چاہے گا.اتنی یہ خدمت کریں گے.پکے ہوئے پھل اس کی جھولی میں نہیں گریں گے.درختوں سے توڑنا پڑیں گے.بعض پھلدار درخت کانٹوں والے ہوتے ہیں.اُن پر سے پھل توڑنے والوں کو کانٹے بھی چھتے ہیں لیکن جب تک کانٹے نہ چھیں ، پھل حاصل نہیں ہوتا.لیکن جہاں خدا تعالیٰ کی یہ عام تقدیر اور قانون کارفرما ہے وہاں خدا تعالیٰ نے اپنا ایک خاص قانون بھی بنایا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی مخلوق کے ہر فعل کے متعلق اُسے حکم دیتا ہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ کوئی پتا درخت سے نہیں گرتا جب تک اُسے گرنے کا الہی حکم نہ ہو.گویا یہ قانونِ قدرت ہے کہ اپنے موسم پر پت جھڑ ہو اور اس میں خدا تعالیٰ کی شان نظر آتی ہے.کئی بیوقوف انسان دُنیا میں ایسے بھی پیدا ہوئے جو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اتنی بڑی ہستی ہے، زید یا بکر سے وہ ذاتی تعلق کیوں رکھے؟ آخر اس عالمین اور اس یونیورس (Universe) میں انسان کی کیا حیثیت ہے.خدا تو بڑی شان کا مالک ہے.یہ دراصل ایک شیطانی خیال ہے.اس قسم کے لوگوں کی اکثریت یہودیوں میں پائی جاتی ہے.قرآن کریم نے جس قادر و توانا، متصرف بالا رادہ اور تمام طاقتوں اور قدرتوں والے خدا کا ہم سے تعارف کروایا اور عرفان بخشا ہے، کوئی چیز بھی اُسے تھکانے والی یا کوفت دینے والی نہیں ہے نہ اسے نیند آتی ہے نہ اونگھ.وہ تو ہر چیز پر قادر ہے.اُس کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی.انسان سمجھتا ہے جس طرح مجھے تکلیف ہوتی ہے اسی طرح خدا کو بھی تکلیف ہوتی ہے.کسی کے ہاں پانچ بچے ہو جائیں تو گویا اُسے بڑی تکلیف کا سامنا کرنا پڑ گیا.چنانچہ اسی
خطابات ناصر جلد دوم افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۴ء تکلیف سے انسان کو فیملی پلاننگ کا خیال آ گیا.جن بچوں سے گھروں کی رونق تھی.لوگ ان بچوں کو گھروں سے باہر رکھنے کے سامان پیدا کرنے لگ گئے.ویسے یہ ایک الگ مضمون ہے، میں نے اس کا ضمنا ذکر کر دیا ہے.میں فیملی پلاننگ پر تنقید نہیں کر رہا.یہ آپ کے اور میرے سوچنے والی باتیں ہیں.غرض خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ اے لوگو! اگر تم مجھے اس حد تک ناراض کر لو کہ میں اپنا غضب تم پر نازل کرنا چاہوں تو بادل پانی برسانا چھوڑ دیں گے.کنوئیں خشک ہو جائیں گے، فصلوں میں دانہ نہیں لگے گا.یہ کائنات جو تمہاری خادم بنائی گئی ہے خدمت سے انکار کر دے گی.ہم نے بہر حال دعائیں کرنی ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض ایسے واقعات بتائے ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ پوری قوم نہیں تو اگر اس کا ایک حصہ بھی دعائیں کرنے والا اور دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کرنے والا اور اس کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو جذب کرنے والا ہو تو ساری قوم دنیوی رحمتوں اور برکتوں میں شامل ہو جاتی ہے..یہ ذمہ داری کہ دعاؤں کے ساتھ ہم اپنے ملک کے استحکام اور اس کی خوشحالی کے سامان پیدا کریں، بہت بڑی حد تک جماعت احمدیہ پر عائد ہوتی ہے.کیونکہ یہ تو ہمات کی دنیا ہے، یہ منطق و فلسفہ کی دنیا ہے، یہ ایسے سائنسدانوں کی دُنیا ہے جنہوں نے خدائی صفات کے ایک حصے کو سمجھا اور دوسرے کو سمجھ بھی نہ سکے، اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو یا تو خدا کو مانتے ہی نہیں اور اگر مانتے ہیں تو ان کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ اُن کے ساتھ خدا کا زندہ تعلق بھی پیدا ہو سکتا ہے چنانچہ اسلام نے صرف تعلیم ہی نہیں دی بلکہ اس پر عمل کرنے اور خدا کو پانے کی تلقین بھی کی ہے.اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کروڑوں انسان دُنیا کے گوشے گوشے اور ملک ملک میں ایسے پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اپنے رب کریم سے ایک زندہ تعلق پیدا کر کے اس کی طاقتوں کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دُنیا کو بھی مشاہدہ کروایا کہ دیکھو خدا تعالیٰ کیسی صفاتِ حسنہ کا مالک ہے.انسان اگر خدا کی قدرت کے جلوے دیکھنا چاہے تو وہ دیکھ سکتا ہے.غرض میں بتا یہ رہا ہوں کہ تدبیر کے علاوہ خدا تعالیٰ سے پیار کا ایک زندہ تعلق رکھ کر ہم نے
خطابات ناصر جلد دوم افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۴ء اپنے ملک کے لیے دعائیں کرنی ہیں اور اس کی خوشحالی کے سامان پیدا کرنے ہیں تد بیرا اپنی جگہ ضروری ہے مگر دعاؤں کے ذریعہ ملک کی خوشحالی کے سامان پیدا کرنا، اس کی ذمہ داری بڑی حد تک جماعت احمدیہ پر عائد ہوتی ہے.اس لیے وہ تھی جو مادر وطن کے بعض نا سمجھ سوتیلے رشتوں کی طرف سے ہماری زندگی میں پیدا ہو ، وہ ہمیں ان دعاؤں سے نہیں روک سکتی اور نہ ہمیں اس ملک سے باہر جانے پر مجبور کر سکتی ہے.جن لوگوں کے یہ خیالات ہیں وہ اپنے دماغوں سے ان کو نکال دیں.ہم نے پاکستان کے لیے دعائیں کیں.ہم اس کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں اور دیتے چلے جائیں گے اور دعائیں کر رہے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے.ہم اپنے رب کریم سے اُمید رکھتے ہیں کہ ایک دن وہ ہماری دعاؤں کو سنے گا اور اس ملک میں استحکام اور اس کی خوشحالی کے سامان پیدا کر دے گا اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سُنے گا اور ان لوگوں کی ہدایت کے لیے بھی سامان پیدا کرے گا جو سو تیلے رشتوں کی وجہ سے مادر وطن کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے نظر آتے ہیں خدا کرے کہ وہ بھی حقیقت کو سمجھیں اور پاکستان کی خوشحالی کے لیے کام کریں.اس سال ہمارے لیے کچھ برکتیں اور رحمتیں نئی شکل میں آسمان سے نازل ہوئیں.اس رنگ میں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ جن بزرگوں کے متعلق (یعنی ہماری نگاہ میں بزرگ ورنہ اللہ تعالیٰ کے تو سارے عاجز بندے ہیں) آپ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا اُن سے پیار کا تعلق ہے ، وہ اتنے سخت اور شدید ابتلاؤں میں مبتلا ہمیں نظر آتے ہیں.یہ کیوں؟ کیا خدا تعالیٰ اُن سے پیار نہیں کرتا؟ کیا خدا تعالیٰ کے پیار کا اس طرح اظہار ہوتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو شدید تکلیف پہنچائے حالانکہ جو لوگ خدا کو چھوڑ کر غیر اللہ کے بندے بن جاتے ہیں، ان کو بھی لوگ ایسی تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھتے.اس کے بہت سے جواب ہیں.ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑا پیارا جواب دیا ہے.آپ نے فرمایا جن چیزوں کو تم تکالیف سمجھتے ہو، خدا تعالیٰ کے اُن پیارے بندوں سے جا کر پوچھو کہ وہ کیا سمجھتے ہیں.اگر خدا کے پیارے بندے اُن تلخیوں اور تکلیفوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی لذت اور سرور سمجھتے ہیں اور اُس سے خوش ہیں تو جن کو احساس لذت اور سرور حاصل ہے، اُن کے متعلق تمہیں یہ کہنے کا کیا حق پہنچتا ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں تکالیف میں مبتلا کرتا ہے.
خطابات ناصر جلد دوم افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۴ء چنانچہ اس قسم کا پیار اور اس قسم کی لذت اور سرور بھی جماعت کے ایک حصہ نے اس سال حاصل کیا، تلخیاں پیدا کی گئیں، مکان جلائے اور لوٹے گئے ، دکا نہیں کوئی اور جلائی گئیں، انسانی زندگی میں بظاہر یہ واقعات بڑی تلخیاں لیے ہوئے تھے لیکن عجیب شان ہے خدا تعالیٰ کی جس نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل چودہ سو سال بعد اس زمانہ میں آپ سے پیار کرنے والے ایسے لوگ پیدا کئے کہ جو سب کچھ لٹا کر مسکراتے چہروں کے ساتھ میرے پاس آتے تھے اور مجھے یہ کہتے تھے کہ خدا نے ہمارے مال لے کر ہمیں قربانیوں کی توفیق دی اور اس کی رحمتوں کے جلوے ہم نے اپنی زندگیوں میں دیکھے.دنیا انہیں تلخیاں بجھتی تھی ، لیکن خدا کے یہ محبوب بندے خدا کا پیار سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ خدا نے ایک اور موقعہ دیا اس بات کے اظہار کا کہ ہم واقعہ میں اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے اور اس سے پیار کا تعلق رکھنے والے ہیں.ہمارا ایک نو جوان جو اپنے باپ کے ساتھ کام کرتا تھا.دو جگہ اُن کے کارخانے تھے اور جائز طور پر اچھے خاصے پیسے کما رہے تھے اُس کا تمیں لاکھ روپے کا نقصان ہوا.وہ میرے پاس آیا تو اُس کی یوں باچھیں کھلی ہوئی تھیں کہ اگر کوئی اور دیکھتا تو یہ سمجھتا کہ وہ شادی کروا کر آیا ہے، شادی اور خوشی ہی تھی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے زیادہ قریب ہو گیا تھا.لوگوں نے اس کی تمہیں لاکھ کی جائیداد کو آگ لگادی اس کا سب کچھ لٹ گیا مگر وہ مسکرا تا ہوا میرے پاس آ گیا اور کہنے لگا.اگر نقصان ہو گیا تو کیا ہوا.لوگوں کی ان حرکتوں سے خدا کے خزانے تو خالی نہیں ہو سکتے.اگر خدا کے خزانے خالی نہیں اور جو کچھ ملا تھا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ملا تھا تو اب انشاء اللہ اس سے بھی زیادہ ملے گا.اگر خدا کے خزانے خالی ہو جائیں یا انسان نے خدا کی رحمتوں کے علاوہ کسی اور گھر سے کچھ لیا ہو تو اس کو فکر ہو سکتی ہے لیکن جو شخص اس ایمان پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے اور خدا کی مرضی اور حکم کے بغیر انسان کو کچھ نہیں ملتا تو اس کو کیا فکر اور کیا غم ہے.چنانچہ میں اپنے دوستوں کے ان مسکراتے چہروں میں مزید بشاشت پیدا کرنے کے لیے ان کو ۱۹۴۷ء کے واقعات بتایا کرتا تھا.انسانی نفس کا یہ خاصہ ہے کہ وہ بعض دفعہ مشکلات کے وقت گھبرا جاتا ہے اس لیے بعض چہروں پر کچھ گھبراہٹ اور پریشانی بھی نظر آتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ دو تین سو یا چار پانچ سو احمدی احباب جن سے میں اُن دنوں روزانہ اجتماعی
خطابات ناصر جلد دوم افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۴ء ملاقات کیا کرتا تھا جب وہ میری مجلس سے اُٹھتے تھے تو اُن کے چہروں پر بشاشت کھیل رہی ہوتی تھی اور وہ چھلانگیں مارتے واپس چلے جاتے تھے.پاکستان میں جماعت کے افراد کا جو نقصان ہوا ہے ۱۹۴۷ء میں صرف قادیان میں میرا خیال ہے اگر ہزار گنا نہیں تو سو گنا یقیناً زیادہ تھا.دوستوں نے باہر سے کما کر وہاں نئے نئے مکان بنائے ہوئے تھے اور وہ سارے سال کی اجناس سے بھرے ہوئے تھے.کیونکہ نئی گندم آ گئی تھی.سکھوں اور ہندوؤں نے ایک محلے کے بعد دوسرے محلے کے مکان کوٹ لیے.فوج اور پولیس اُن کے ساتھ تھی.ہم اپنے تن کے کپڑے لے کر وہاں سے نکلے تھے.یہ کوئی فخر کی بات نہیں.میری اُن دنوں ذمہ داری تھی.حفاظت مرکز کا کام حضرت مصلح موعود درضی اللہ عنہ نے میرے سپرد کیا ہوا تھا.اس کام کی انجام دہی کے دوران ایک دن مجھے اطلاع ملی کہ سکھ اور ہندو جتے آئے ہیں اور انہوں نے مسجد اقصیٰ قادیان کے مغرب میں واقع ایک محلہ کوگھیرے میں لے لیا ہے جس میں زیادہ تر ایسے گھرانے آباد تھے جو احمدی نہیں تھے اور باور دی مسلح ہندو اور سکھ پولیس جتھوں کے ساتھ ہے اور ناکہ بندی ایسی کر رکھی ہے کہ ایک شخص بھی باہر نہیں جا سکتا اور گھیرا ڈالنے کے بعد اب اندر داخل ہورہے ہیں.مجھے بڑی فکر پیدا ہوئی.اس لیے نہیں کہ وہ جماعت احمد یہ سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ جماعت سے تو اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس لیے تشویش پیدا ہوئی کہ وہ تمام لوگ ہمارے محبوب آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خود کو منسوب کرنے والے تھے اور جو شخص خود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرے اس سے ہزار اختلاف کے باوجود کوئی شخص جو خود کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے والا ہے اُس کو بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا.یہ ایک احمدی کے دل میں اپنے محبوب آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غیرت کا برملا اظہار ہے.غرض اُس محلے تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا ایک چھوٹی گلی تھی اس کے اوپر ہم نے گیلیاں رکھیں اور ایک پل بنایا اور اس کے ذریعہ ہم نے وہاں رضا کار بھجوائے.جب ہمارے رضا کار وہاں گئے تو پولیس نے دو آدمیوں کو شوٹ کر کے وہاں شہید کر دیا لیکن دو آدمیوں کی موت آٹھ سو یا ہزار افراد کی زندگیوں سے زیادہ قیمتی نہیں تھی اس لیے ہمارے اور رضا کاروہاں پہنچ گئے اور اُن لوگوں سے کہا کہ چھوڑو ہر چیز اور اپنی جانوں کو
خطابات ناصر جلد دوم افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۴ء بچاؤ.چنانچہ عورتیں بچے اور مرد گھروں سے نکلے اور ایک چھوٹے سے پل پر سے ہوتے ہوئے ہمارے علاقے میں آگئے.یہ جو آٹھ سو یا ہزار جانیں بچائی گئیں ان میں تین چارسو مستورات تھیں.اُن کے لیے ہم نے دار سیح میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی حویلی کے اندر ایک اور حویلی تھی ، وہ خالی کروائی.بڑی اچھی صاف ستھری صحن اور بڑے بڑے کمرے تھے غسل خانے ، پانی سب کچھ تھا عورتوں کو وہاں ٹھہرایا گیا.باہر رضا کار مقرر کر دئیے.اب بارشیں شروع ہو گئیں.تو بیچاری غریب عورتوں کو جو ایک ایک کپڑے میں اپنے گھروں سے نکلی تھیں جب بارش میں باہر کام کرنا پڑتا تھا تو کپڑے گیلے ہوئے اور پھٹ گئے.ایک دن رضا کار میرے پاس آئے اور کہنے لگے.ہم وہاں کام نہیں کر سکتے.میں بڑا حیران ہوا کہ ان کے دماغ کو کیا ہو گیا ہے.کام سے کیوں انکار کر رہے ہیں.میں نے اُن سے پوچھا کیا ہوا؟ کیا کسی نے تمہیں کچھ کہا ہے؟ وہ کہنے لگے عورتوں کے تن پر صرف چیتھڑے رہ گئے ہیں کسی کام کے لیے وہ تھوڑا سا پردہ اُٹھاتی ہیں تو ان کے جسم کے بعض حصے ڈھپنے نہیں ہوتے.ہم وہاں کام نہیں کر سکتے.اب میں وہاں تین چارسو جوڑے کہاں سے لاتا.اگر بنواتے بھی تو اول تو درزی ہی کوئی نہیں تھا.اگر ہوتا بھی تو شاید دو مہینے لگ جاتے.دو مہینے اُن کو کپڑوں کے بغیر تو نہیں رکھا جا سکتا تھا.میں نے سوچا کیا کروں میرے اپنے گھر میں منصورہ بیگم کے جہیز کے کپڑے تھے جو نواب محمد علی خاں صاحب نے بڑے قیمتی قیمتی جوڑے شادی کے وقت دیئے تھے، ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو ہزار روپے ایک جوڑے کی قیمت ہو گی.میں نے سوچا میں ذمہ دار ہوں.اگر میں نے پہلے اپنے صندوق نہ کھلوائے تو میرے اوپر جائز اعتراض ہو گا.چنانچہ میں نے اپنے گھر کے زنانہ کپڑوں کے سارے صندوق کھلوا کر کپڑے عورتوں کے لیے بھیج دیئے اور ایک جوڑا بھی اپنے پاس نہیں رکھا.مجھے پتہ تھا کہ ابھی اور مانگ ہوگی.کیونکہ ابھی تو کچھ تھوڑی سی ضرورت پوری ہوئی ہے اور بہت سی عورتیں اسی طرح پھر رہی ہیں پھر میں نے کہا اب میرا ضمیر صاف ہے.میں نے اپنی بہنوں کے صندوقوں کے تالے تڑوا دیئے.بھائیوں کی بیویوں حتی کہ اپنی ماؤں اور چچیوں سب کے صندوق کھول کر کپڑے ان عورتوں کو دے دیئے اور اس طرح اُن کا تن ڈھانپا.اس لیے کہ انسان کا انسان سے خدا نے تعلق قائم کیا ہے اور جو غیرت ہمارے دلوں میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے
خطابات ناصر جلد دوم ۹ افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۴ء ہے اُس غیرت اور جذبہ کے تحت ہم نے ہر چیز بھیج دی.یہاں تو کچھ نہیں لائے.ایک دفعہ میں نے حساب کیا قادیان میں مارکیٹ ریٹ کے مطابق ساڑھے تین کروڑ روپے کی جائیداد ہمارے اپنے خاندان والے چھوڑ کر آئے تھے.ماشاء اللہ بہت بڑا خاندان تھا مگر یہاں بھو کے تو نہیں مرے.ہندوؤں اور سکھوں کی اس یلغار نے ہمارے ہاتھ میں مٹی کے کشکول تو نہیں پکڑوائے اور نہ وہ پکڑ واسکتے تھے.خدا تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کو بھیج کر ہماری ضرورتوں کو پورا کر دیا.اس نے ہمارے دلوں کو دُنیا کی حرص سے محفوظ رکھا ہے.یہ اس کی عنایت ہے لیکن یہ بھی اُس کا فضل ہے کہ وہ دیتا ہے اور ہمیں کہتا ہے کہ آگے تقسیم کرتے چلے جاؤ.غرض میں اپنے دوستوں کو ۱۹۴۷ء کے واقعات بتا تا تھا اور اُن سے کہتا تھا کہ دیکھو ہم خالی ہاتھ آئے تھے لیکن ہمارا گھر پھر خدا تعالیٰ نے بھر دیا.ہمارے ساتھ دوسرے لوگوں کے بھی کھیت ہیں.مگر ہمارے کھیت میں مونجی ہے، وہ جتنی ہماری ہوتی ہے اُس سے آدھی بھی دوسروں کی نہیں ہوتی.اب یہ تو میرا کام نہیں ہے.یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے.ہم اس پر الحمدللہ پڑھتے ہیں جب اُس نے لینا ہوتا ہے تب بھی الحمد للہ پڑھتے ہیں جب وہ دیتا ہے تب بھی الحمد للہ پڑھتے ہیں.ہمارا کیا ہے ، سب کچھ اُسی کا ہے.ہر چیز اس کی ہے.وہ جو مرضی کرے ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ وہ ہمیں ہر حال میں اپنا با وفا ، راضی برضا اور راضی بقضا پائے گا وہ ہر احمدی کو ایسا ہی پائے گا.مال لٹ جائیں.جانیں چلی جائیں اور بظاہر تلخی کی زندگی ہوگی مگر پھر بھی نہ ہمارے چہروں کی مسکراہٹیں چھینی جاسکتی ہیں نہ ہمارے دلوں کا اطمینان چھینا جا سکتا ہے.اس لیے کہ ہمارے چہروں کی مسکراہٹوں اور ہمارے دلوں کے اطمینان کا منبع اور سر چشمہ کوئی دنیوی طاقت اور ایجنسی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.جس وقت ہم دُنیا سے تنگ آ کر اپنے خدا کی طرف رجوع کرتے اور عاجزانہ اُس کے دامن کو پکڑ کر اس سے کہتے ہیں کہ اے خدا! دُنیا نے ہمیں چھوڑ دیا پر تو ہمیں نہ دھتکارنا.ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ہمیں اپنے سے علیحدہ نہ کرنا ہماری اس عاجزانہ پکار پر وہ بڑے پیار سے ہمیں تسلی دلاتا ہے.صرف مجھے ہی نہیں بلکہ جماعت کے ہزار ہا آدمیوں کو اُس نے ان دنوں میں تسلیاں دلائیں اور اتنے پیار سے دلائیں کہ انسان کو حیرت ہوتی ہے.بیوقوف ہے وہ انسانی گروہ جو یہ کہتا ہے کہ خدا تو اتنی عظیم ہستی ہے وہ بھلا عاجز بندوں سے ذاتی
خطابات ناصر جلد دوم افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۴ء تعلق کیسے رکھ سکتی ہے.خدا تعالیٰ اپنے بندہ سے یقیناً ذاتی تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہ ہماری زندگی کا مشاہدہ ہے.اس لیے ہم مسکراتے چہروں اور مطمئن دلوں کے ساتھ ساری افواہوں کو ٹھکراتے ہوئے یہاں مرکز سلسلہ میں جمع ہو گئے.اُس سے زیادہ جتنے پچھلے سال تھے.یہ خدا کی شان ہے اور اس کا عظیم فضل ہے جس پر ہمارے دل اس کی حمد سے لبریز ہیں.میں نے بتایا ہے کہ دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کا امتیاز اور فرقان جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتا ہے.گو اللہ تعالیٰ سب کا رب ہے.لیکن بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو پانے کے اعتبار سے یہ ایک منفرد جماعت ہے اب دنیا پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں بار بار دعائیں کرنی پڑتی ہیں.دنیا میں فتنہ وفساد کی ایک آگ لگی ہوئی ہے شرق اوسط میں ہمارے عربی بولنے والے مسلمان ممالک ہیں.اسرائیل نے اُن کو تنگ کیا ہوا ہے.ابھی پچھلے دنوں بڑی تشویشناک خبریں آ رہی تھیں ایک اور حملہ ہوگا ، امریکہ بھی مسلمان ملکوں پر حملہ کرے گا دوسرے لوگ بھی گھبرائے ہم بھی گھبرائے.لیکن جو دعا کی توفیق ایک احمدی کو ملتی ہے وہ دوسروں کو نہیں ملتی کیونکہ ایک احمدی ہی ہے جس کا ایک زندہ تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے محبوب مہدی علیہ السلام کے طفیل اپنے زندہ خدا سے ہے.یہ چیزیں اس زمانہ میں پھر مہدی نے ہمیں دیں.ہم اُس مہدی کو چھوڑ کر کہاں جا سکتے ہیں.جس نے زندہ خدا سے ہمیں متعارف کروایا.جس نے ہمیں اسلام کی وہ راہیں بتا ئیں جن کے نتیجہ میں خدا سے ہمارا زندہ تعلق پیدا ہو گیا اور خدا تعالیٰ کے پیار کے زندہ جلوے ہم نے اپنی زندگیوں میں دیکھے ہم اس خدا کو نہیں چھوڑ سکتے.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے دُوری ہم اپنے لیے موت سمجھتے ہیں اور مہدی علیہ السلام کی جماعت سے باہر نکلنے کا تصور ہی نہیں کر سکتے.ٹھیک ہے گردن پر چھری رکھ کر بعض لوگوں سے انکار بھی کروا دیا لیکن یہ بھی درست ہے کہ انکار کروانے والوں کی طرف سے ہمیں اطلاع بعد میں ملی اور وہ روتے ہوئے ہمارے پاس پہلے پہنچ گئے کہ مجبوری تھی اس لیے اعلان کر دیا.ہم نے کہا ٹھیک ہے خدا تمہیں معاف کرے گا.کوئی فکر نہ کرو.لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ( الزمر :۵۴) کا اعلان ان حالات کے لیے بھی کیا گیا ہے.میں بتا یہ رہا ہوں کہ دنیا میں ایک فساد برپا ہے.نوع انسانی کے لیے دعائیں کرنا
خطابات ناصر جلد دوم 11 افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۴ء جماعت احمدیہ کا کام ہے بلکہ اس کا یہ فرض ہے.حضرت مہدی علیہ السلام نے جماعت کی یہ ڈیوٹی لگائی ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا میں دُنیا کی فلاح و بہبود کے لیے اور اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کے لیے آیا ہوں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اسلام کے دو حصے ہیں ایک اللہ تعالیٰ کے حقوق کو ادا کرنا اور دوسرا بنی نوع انسان کے حقوق کو ادا کرنا.ظاہر ہے نوع انسانی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو خدا تعالیٰ کے منکر اور اس کو گالیاں دینے والے اور اُس کے خلاف جنگ کرنے والے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے علی الاعلان کہا کہ وہ زمین سے خدا کے نام کو اور آسمانوں سے اُس کے وجود کو مٹا دیں گے خدا نے ہمیں کہا تم اُن کے لیے بھی دعائیں کرو.اس لیے ہم ان کی ہدایت کے لیے بھی دعائیں کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ خدا کے حقیقی پیار سے محروم ہیں.دنیا کی یہ عارضی ترقیات تو کوئی معنی نہیں رکھتیں انسان نے پہلی دفعہ تو یہ ترقی نہیں کی ، اصطلاحاً بڑے بڑے فراعنہ دُنیا میں پیدا ہوئے اور ان میں ایک وہ بھی تھا جس کا نام بھی فرعون تھا جس کی قوم بڑی شاندار اور مہذب کہلاتی تھی دُنیا میں اُس نے بڑا رعب قائم کیا مگر کہاں گئے وہ لوگ؟ اور کہاں گئیں سرمایہ دارانہ حکومتیں؟ ایک وقت میں سرمایہ دار دنیا پر چھائے ہوئے تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ انسان کے اوپر سوائے سرمایہ داری کے اور کوئی چیز حکومت نہیں کر سکتی.وہ پیچھے چلے گئے دوسرے نمبر پر کمیونزم آ گیا.یہ بھی پیچھے چلا جائے گا.صدیوں کی بات نہیں.دوست میری بات یا درکھیں.یہ صدیوں کی بات نہیں درجنوں سالوں کی بات ہے کہ اشتراکی نظام بھی پیچھے چلا جائے گا اور پھر دوسری طاقتیں آگے آجائیں گی اور ایک وقت میں وہ بھی پیچھے چلی جائیں گی.پھر خدا اور اس کا نام لینے والی جماعت، حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والی جماعت، قرآن کریم کے احکام کا سکہ دنیا میں قائم کرنے والی جماعت اور اسلام کا جھنڈا دنیا کے گھر گھر میں گاڑنے والی جماعت آگے آئے گی اور پھر اس دنیا میں اُخروی جنت سے ملتی جلتی ایک جنت پیدا ہوگی اور ہر انسان کی خوشی کے سامان پیدا کئے جائیں گے اور تلخیاں دور کر دی جائیں گی اور مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کا انسان اپنی زندگی کی شاہراہ پر خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے قرب اور اُس کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتا چلا جائے گا اور اس طرح وہ اپنی زندگی کے آخر میں اپنی منزل ، اپنے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۲ افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۴ء مقدر یعنی خاتمہ بالخیر تک پہنچ جائے گا.یہ عمل نسلاً بعد نسل رونما ہوگا اور پھر قیامت آ جائے گی.بہر حال ہمیں تو اپنی نسل کی فکر ہے ہم پر اُن کی تربیت کی ذمہ داری ہے وہ احمدی نسلیں جو یکے بعد دیگرے پیدا ہو رہی ہیں اُن کو اسلامی رنگ میں رنگین کرتے چلے جانے کی ضرورت ہے.ابھی پچھلے دنوں ایک خطبہ نکاح کے موقعہ پر میں نے بتایا تھا کہ اعلان نکاح دو باتوں کو نمایاں کر کے ہمارے سامنے لاتا ہے ایک یہ کہ ہماری ایک نسل بلوغت تک پہنچ گئی اور اب اُن کے بالغ ہونے کی حیثیت سے اُن کے کندھوں پر ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں اس لیے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُن کو مذہبی اور روحانی ذمہ داریوں کے نباہنے کی توفیق عطا کرے اور دوسری بات نمایاں ہو کر ہمارے سامنے یہ آتی ہے کہ جن بچوں کے نکاح ہورہے ہیں اُن کے ذریعہ ایک اور نسل کی بنیاد رکھی جارہی ہے کیونکہ شادی کے بعد ہی بچے پیدا ہوں گے اور ایک نئی نسل پیدا ہوگی.اس لیے ہم ایسے موقع پر اُن کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور ہم نے اسی طرح دعائیں کرتے چلے جانا ہے جب تک نوع انسان اس جنت میں داخل نہ ہو جائے جوان دو جنتوں میں سے ایک ہے جن کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے اور جس کا تعلق اس دنیا سے ہے.پس ان سب دعاؤں کے ساتھ ہم اپنے اس جلسہ سالانہ کا افتتاح کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نوع انسان کی خوشحالی کے سامان پیدا کرے.اللہ تعالیٰ نوع انسان کے لیے روحانی ، اخلاقی ، ذہنی اور جسمانی طور پر حقیقی لذت اور سرور کے سامان پیدا کرے.نوع انسان کے دلوں میں جو ایک دوسرے کے خلاف بغض و عناد پیدا ہو چکا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دور کرنے کے سامان پیدا کرے.انسان اپنے محسن اعظم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور ہٹتا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کرے کہ اُسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس لوٹنے کی توفیق عطا ہو اور وہ بھی خدا کو پہچاننے لگیں اور خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کے افراد کو ہر قسم کی تلخیوں سے محفوظ رکھتے ہوئے اور ہر قسم کی تلخی کو لذت وسرور میں تبدیل کرتے ہوئے یہ توفیق عطا کرے کہ وہ اُس ذمہ داری کو کامیابی کے ساتھ نباہ سکیں جو اس زمانہ میں اُن کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے اور اس کے ساتھ بعض ضمنی دعائیں ہیں دوست وہ بھی کرتے چلے جائیں.میں نے شاید کچھ زیادہ وقت لے لیا ہے.لیکن میرا حق بھی ہے جتنا چاہوں وقت لے لوں
خطابات ناصر جلد دوم ۱۳ افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۴ء اور یہ بھی ضروری ہے کہ دوسروں کا وقت نہ لوں.میں نے بتایا تھا کہ ۲۶ نومبر سے میں بیمار چلا آ رہا ہوں.مجھ پر دو دفعہ بیماری کے بڑے سخت حملے ہوئے ہیں.انفیکشن (infection) دوسرے حملہ میں پہلے سے بھی زیادہ تھی.پہلے حملے میں گیارہ ہزار وائٹ سیلز (white cells) تھے اور دوسرے میں اٹھارہ ہزار تک پہنچ گئے تھے.تیسری دفعہ جو حملہ ہوا اس نے ایک نئی شکل بنائی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور مرض شروع میں ہی دب گیا.آج ۲۶ دسمبر ہے گویا بیمار ہوئے پورا مہینہ ہو گیا ہے.کل رات میں نے ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق اینٹی بائیوٹک دوائی کی آخری خوراک لی تھی پس ایک مہینے سے میں بیمار ہوں.لیٹے ہوئے وقت گزارتا ہوں.جسمانی طور پر کمزوری محسوس کرتا ہوں لیکن میرا جسم اس کمزوری کے باوجود میرے دل اور میرے دماغ کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا ہے.علاوہ ازیں دنیوی لحاظ سے وہ تلخیاں جو دوستوں نے انفرادی طور پر محسوس کیں وہ ساری تلخیاں میرے سینے میں جمع ہوتی تھیں اُن دنوں مجھ پر ایسی راتیں بھی آئیں کہ میں خدا کے فضل اور رحم سے ساری ساری رات ایک منٹ سوئے بغیر دوستوں کے لئے دعائیں کرتا رہا ہوں.میں احباب سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ میرے لیے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت د اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کرنے کی توفیق عطا کرے جو اُس نے اس عاجز کے کندھوں پر ڈالی ہیں.میں اور احباب جماعت مل کر ان ذمہ واریوں کو پورا کریں کیونکہ میرے اور احباب کے وجود میں میرے نزدیک کوئی امتیاز اور فرق نہیں ہے.ہم دونوں امام جماعت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور ایک ہی چیز کے دو مختلف زاویے ہیں.پس ہمیں اپنی زندگیوں میں اُن بشارتوں کے پورا ہونے کی جھلکیاں نظر آنے لگیں جو بشارتیں کہ مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے غلبہ کی ہمیں ملی ہیں.آمین.آداب دُعا کر لیں.(روز نامه الفضل ربوہ ۱۷ را پریل ۱۹۷۶ء صفحہ۲ تا ۷ )
۱۴ خطابات ناصر جلد دوم
خطابات ناصر جلد دوم ۱۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء شریعت محمدیہ نے دستور حیات کو نہایت شرح وبسط کے ساتھ بیان کر دیا ہے دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.آج میں پھر کچھ تکلیف محسوس کر رہا ہوں.گلے پر بھی بیماری کا اثر ہے.کچھ بخار کی کیفیت بھی محسوس کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور ذمہ داری کے نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.دوست جانتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے دوسرے اور تیسرے دن ظہر اور عصر کی نمازوں کے بعد خلیفہ المسیح امام جماعت احمدیہ کی تقاریر ہوتی ہیں.دوسرے دن کی تقریر میں عملاً أن فضلوں کا شمار ہوتا ہے جو دورانِ سال یا اس سے تعلق رکھنے والے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعت پر نازل ہوتے رہے.اور ہم رُوح کی گہرائیوں سے یہ دُعائیں کرتے ہیں کہ آنے والا سال اور آنے والا زمانہ پہلے سال اور زمانہ سے زیادہ برکتیں اور رحمتیں لے کر آنے والا ہو.جماعت احمد یہ دُنیا کے مختلف حصوں میں حقوق العباد یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے جو حقوق ہیں، اُن کی ادائیگی کے سلسلہ میں مختلف منصوبوں کے ماتحت کام کرتی رہتی ہے.ہمارے یہ مختلف منصوبے اور کام ایک سلسلہ میں بندھے ہوئے ہیں اور ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں.ان کاموں کی بنیاد اور وجہ یعنی یہ کہ ہم کیوں باہر نکل کر کام کرتے ہیں، یہ ہے کہ ہم نے غور کیا.ہم نے مطالعہ کیا ہم نے تاریخ کے اوراق اُلٹے.ہم نے کوشش کی کہ ہم قرآن کریم کی تعلیم کی گہرائیوں میں اتریں اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی غرض یہ تھی کہ نوع انسانی کو امت واحدہ کی شکل میں بنادیا جائے.ساری دنیا ایک خاندان اور ایک امت بن جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت رکھتی ہو اور خدا کے محبوب محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیار ہردل میں دھڑک رہا ہو.
خطابات ناصر جلد دوم ۱۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء میں نے کل حُبّ الوطن کا ذکر کیا تھا.حُبّ وطن کا اظہار حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عظیم صفت کا ایک پہلو اور ایک جلوہ ہے.قرآن عظیم میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق یہ فرمایا ہے.رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ (الاعراف: ۱۵۷) اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ آپ رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِینَ ہیں آپ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ زمانے کے بعد اور نہ مکان کی وسعتیں ہی آپ کی رحمت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر سکیں.اور جیسا کہ ہمارے پہلے بزرگوں نے قرآن کریم کی بعض آیات کی تفسیر کرتے ہوئے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی تشریح کرتے ہوئے اس حقیقت سے امت محمدیہ کو آگاہ کر دیا تھا کہ یہ جونوع انسانی کو ایک جان کر کے امتِ واحدہ بنا دینے کا کام ہے یہ عملاً آخری زمانہ میں دُنیا میں ظاہر ہو گا.یہ زمانہ آچکا ہے.لیکن اس زمانہ میں جہاں انسان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ نوع انسانی کو ایک خاندان کی طرح زندگی گزارنی چاہئے.وہاں دُنیا کو یہ پتہ نہیں لگ سکا کہ نوع انسانی کن ذرائع اور کن راستوں سے اور کس تعلیم کے نتیجہ میں ایک خاندان بنے گی.پچھلے ڈیڑھ سو سال پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے اندر جب یہ احساس بیدار ہوا کہ دُنیا کا انسان ایک خاندان بن جائے اور ایک خاندان کی حیثیت سے زندگی گزارے تو اُس وقت سرمایہ دارانہ انقلابی نظام نے سر اٹھایا اور اس طرح ”Colonization یعنی دوسرے ملکوں کو اپنے اندر جذب کر لینے کا خیال انسان کے دماغ میں آیا تو یہی انسانی فطرت یعنی انسان کی بحیثیت انسان جو تڑپ تھی کہ اُسے ایک خاندان بن جانا چاہئے سرمایہ دارانہ انقلاب اس کا ایک مظاہرہ تھا.لیکن چونکہ انسان ابھی اندھیرے میں ہاتھ مار رہا تھا انگریزی میں کہتے ہیں Grope کر رہا تھا یعنی اندھیرے میں آنکھیں بند کر کے ٹول رہا تھا کہ شاید کسی جگہ اس کا ہاتھ ٹک جائے اور وہ اس مقصد کو حاصل کر لے.مگر بجائے اس کے کہ سرمایہ دارانہ نظام نوع انسانی کو ایک مضبوط خاندانی حصوں میں جکڑنے میں کامیاب ہو جاتا ، یہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے طاقت اور دنیوی سامان دیئے تھے.عقل اور دنیوی فراست عطا کی تھی.اور انہوں نے ایجادات کیں.ہوائی جہاز بنائے.سٹیم شپ (Steam Ship) تیار کئے.پریس بنائے.کتابیں
خطابات ناصر جلد دوم ۱۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء شائع کیں اور پھر وہ جن جن ممالک میں پہنچے تو سب کچھ کرنے کے بعد بھی اپنے مقصد کو بھول گئے.میں جب ۱۹۷۰ء میں مغربی افریقہ کا دورہ کر رہا تھا تو ایک دن خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں ایک بات ڈالی جو کہ آج ایک تاریخی حقیقت ہے.میں نے اپنے افریقن دوستوں سے کہا کہ کچھ عرصہ ہوا تمہارے پاس مذہبی لوگوں یعنی پادریوں کی ایک فوج آئی اور وہ آہستہ آہستہ تمہارے ملکوں میں داخل ہوئی اور اُن کی زبانوں پر یہ تھا کہ وہ خداوند یسوع مسیح کی محبت کا پیغام لے کر تمہارے پاس آئے ہیں.لیکن اس فوج کی تربیت میں Colonization یعنی نو آبادیاتی نظام میں دوسروں کو جکڑنا اور ایکسپلائٹ (Exploit) کرنا داخل تھا.چنانچہ میں نے اہل افریقہ سے کہا کہ یہ ایک عجیب واقعہ رونما ہوا ہے کہ یہ لوگ فوج در فوج تمہارے ملکوں میں یہ اعلان کرتے ہوئے داخل ہوئے تھے کہ وہ تمہارے پاس خداوند یسوع مسیح کی محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں.لیکن صرف یہی فوجیں تمہارے ملکوں میں داخل نہیں ہوئیں بلکہ ان کے پیچھے ان کی باقاعدہ لڑنے والی فوج بھی داخل ہوئی جن کے پاس تو ہیں تھیں اور ان تو پوں کے دہانوں سے پھول نہیں بر سے تھے.ان تو پوں کے دہانوں سے جو نکلا تھا تم اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جانتے ہو اور میں نے اُن سے یہ بھی کہا کہ میں چند دن تمہارے اندر رہا.میری آنکھ نے یہ دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو تمہارے ساتھ بخل نہیں کیا تھا.دُنیا کی ساری دولتیں تمہیں عطا کی تھیں.تمہیں بڑے زرخیز علاقے دیئے تھے جو ہیرے جواہرات سے بھرے ہوئے تھے.جن میں ہر طرف جنگلات ہی جنگلات ہیں.وہاں چونکہ ہر وقت بارش ہوتی رہتی ہے.اگر سڑک کے کنارے ہر وقت آدمی لگ کر گھاس نہ کاٹیں تو اس قسم کی روئیدگی ہے کہ چار پانچ دن کے اندر میلوں کے نشان گھاس کے اندر چھپ جاتے ہیں گویا اتنے گھنے جنگل ہیں کہ وہاں سے گزرتے ہوئے میں نے کئی بار سوچا اگر کوئی شخص ہیں گز گھنے جنگل کے اندر چلا جائے اور اس کا کوئی رہبر اور رہنما نہ ہو تو وہ باہر نہیں نکل سکے گا اور وہ صرف ہیں گزاندر جا کر راستہ بھول جائے گا.پس اتنے گھنے جنگل دیئے ہیرے اور جواہرات کی دولت دی جو اس بات کی دلیل ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سے بخل نہیں برتا تھا.تمہیں ساری دولتیں عطا کیں مگر ہوا یہ کہ وہ قومیں جو خداوند یسوع مسیح کی محبت کا پیغام لے کر آئی تھیں وہ تمہاری ساری دولت لے کر چلی گئیں اور تمہیں ہر قسم کی دولت سے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء محروم کر دیا.اسی بات کا ذکر میں نے نائیجیریا کے سربراہ مملکت یعقو بو گوون سے کیا.میں نے اُن سے کہا میرا یہ مشاہدہ ہے تو اُن پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ جذباتی ہو کر انگریزی میں کہنے لگے.How True you are! How True you are!! How True you are!!! تین بار کہا کیسی سچی بات آپ کہہ رہے ہیں.میں نے کہا خدا تعالیٰ نے سب کچھ تم کو دیا تھا مگر یہ لوگ سب کچھ لوٹ کر لے گئے اور تم خالی ہاتھ رہ گئے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات درست ہے کہ جس وقت انگریز انگلستان کے چھوٹے سے جزیرے سے نکل کر ہزاروں میل دور ہندوستان میں بھی آ گیا.پھر آگے نبی آئی لینڈ تک چلا گیا اور ساری دُنیا کا چکر لگا کر امریکہ میں پہنچ گیا تو اس وقت دل کے کسی گوشہ میں کوئی طاقت کروٹیں لے رہی تھی اور وہ یہی خواہش تھی کہ نوع انسانی کو ایک خاندان کی طرح بن جانا چاہئے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان دنیوی طاقتوں کو نوع انسانی کے ایک بنانے کے لئے استعمال نہیں کرنا تھا اس لئے وہ کامیاب نہیں ہوئے اور دُنیا میں نیکی کا بیج بونے کی بجائے فساد کا بیج بو کر ان ملکوں سے اپنے اپنے وقت پر نکل کر پھر اپنے ملکوں یا جزیروں میں چلے گئے.میں انگریزی دانوں سے بات کرتے ہوئے انگریزی کا یہ فقرہ کہا کرتا ہوں."When capitalism refused to share its gain with the common man, it became a reactionary movement." خدا تعالیٰ نے سرمایہ دارانہ ملکوں کو جو دولتیں دی تھیں، جب انہوں نے ان کو آپس میں تقسیم کر لینے اور بانٹ لینے کے بعد اُن سے ایک جیسا فائدہ اُٹھانے کی سکیم نہ بنائی تو پھر اُس زمانہ میں وہی طاقت جو بظاہر انسان کے حق میں اُبھری تھی ، وہ انسانیت کے خلاف ہمیں نظر آنے لگی اور اس طرح انسان کا خون بہا.اسے دُکھ دیا گیا اور انسانیت کو سکھ پہنچانے کی بجائے ساری دُنیا میں ہمیں دُکھی انسانیت نظر آنے لگی.پھر اس کا ایک رد عمل پیدا ہوا اور روس میں کمیونزم آ گیا جو آہستہ آہستہ انٹرنیشنل بن گیا.گویا سرمایہ داری کی طرح اشتراکیت بھی ایک بین الا قوامی تحریک بن گئی.جس سے میں یہی نتیجہ نکالتا ہوں کہ انسان آہستہ آہستہ بیدار ہورہا تھا کہ اُسے ایک خاندان کی طرح زندہ رہنا چاہئے.
خطابات ناصر جلد دوم 19 دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء چنانچہ جب روس میں کمیونزم آیا اور وہ بین الاقوامی تحریک کی شکل اختیار کرنے لگا تو اس نے دُنیا میں یہ اعلان کیا کہ اے انسان! ہم دنیا میں تیری خیر خواہی کے لئے تیرے پاس آ رہے ہیں.یہ نعرہ پرانا ہے.غالباً پہلی جنگ عظیم کے معابعد کا نعرہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ۵۵٬۵۴ سال کے قریب ہو گئے ہیں اور اس عرصہ میں عملاً ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ دنیا میں جو غریب بستے ہیں اُن کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو روس کا نام لے کر تھر تھر کانپنے لگتے ہیں.پس یہ ردعمل ہے جو دنیا کے غریب آدمی پر کمیونزم یا اشتراکیت کا نام لینے سے پیدا ہوتا ہے اور یہ رد عمل ہمیں بتاتا ہے کہ اشتراکیت گویا نا کام ہوگئی ہے کیونکہ انہوں نے اعلان تو یہ کیا تھا اور بظاہر بڑا پیارا اعلان کیا تھا." To each according to his need" یعنی ہر فرد واحد کو اس کی ضرورت کے مطابق دنیا کے اموال دیئے جائیں گے لیکن need یعنی "ضرورت" جو ہے اس کی تعریف کہیں نہیں کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے ملک کی ضروریات بہت سمجھ لی گئیں لیکن چیکوسلواکیہ، یوگوسلاویہ اور رومانیہ وغیرہ ممالک کے لوگوں کی ضروریات اپنے ملک سے بدتر اور کم تر سمجھی جانے لگیں حتی کہ ایک وقت میں روسی اپنے ٹینک اور تو ہیں لے کر ان ممالک میں داخل ہو گئے.لیکن اس وقت میں نہ تو تفصیل میں جانا چاہتا ہوں اور نہ میرا مقصد تنقید کرنا ہے.اس وقت احباب کو صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اس زمانہ میں انسان کے اندر یہ احساس جاگنے لگ گیا تھا کہ سارے انسانوں کو ایک خاندان کی طرح امت واحدہ بن کر رہنا چاہئے اور اس احساس کے نتیجہ میں پہلے غلط قسم کا ایک سرمایہ دارانہ نظام اُبھرا.پھر اس کے بعد اشتراکیت آگئی.اس نے بھی نعرے بہت اچھے لگائے.وہی نعرے جن کا زمانہ تقاضا کرتا تھا لیکن عمل ان کے برعکس اور نا کام ہو گئے.پھر اب چین کا سوشلزم نو جوانی میں داخل ہو رہا ہے اور Theoretically‘ بڑا پر ہے.بظاہر حالات میں سوشلزم بھی ساری دُنیا کو ایک خاندان بنانے کا دعویٰ کرتا ہے.مگر آئندہ کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ مستقبل کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ، وہی جانتا ہے کہ سوشلزم کن راہوں کو اختیار کرتا ہے.بظاہر سوشلسٹوں نے بھی دنیا کے غریب لوگوں کی مدد کا نعرہ لگایا ہے اور جو میں استدلال کر رہا ہوں یہ اس کی دلیل ہے کہ انسان کے اندر یہ احساس بیدار ہو رہا ہے کہ
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء ساری نوع انسانی کو امتِ واحدہ بنانا ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ تمام تحریکیں نوع انسانی کو ایک خاندان بنانے میں اس لئے ناکام ہوں گی کہ ان تحریکوں کے متعلق خدا تعالیٰ کے کسی برگزیدہ شخص نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کے ذریعہ سے انسان امتِ واحدہ بن جائیں گے.یہ شرف صرف اسلام کو حاصل ہے جس نے ہمیں یہ خوشخبری دی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اور محبوب خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ کے رحمۃ للعالمین ہونے کے سبب، امت مسلمہ میں ایسے بزرگ انسان پیدا ہوں گے جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیوض حاصل کریں گے.خدا تعالیٰ سے نئے سے نئے علوم قرآنیہ اور اسرار روحانیہ سیکھیں گے اور دُنیا کے دُکھوں کے دُور کرنے کی کوشش کریں گے اور وہ اس میں بالآخر کامیاب ہوں گے.پس یہ چاروں تحریکیں جو چار مختلف جہات سے اس وقت دُنیا میں شروع ہوئی ہیں.یہ ہمیں اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ نوع انسانی کو امت واحدہ بن جانا چاہئے یا کم از کم ہر تحریک کا یہ دعوی ہے کہ وہ دکھی انسانیت کو دکھوں سے نجات دلا کر اور اُن کے لئے سکھ کے سامان پیدا کر کے نوع انسانی کو ایک خاندان اور ایک امت بنالے گی لیکن جب ہم زیادہ گہرائی میں جاتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ خوشحالی کے معنوں سے بھی واقف نہیں (اس کا میں نے اپنے خطبہ میں بھی مختصراً ذکر کیا تھا) غرض جس چیز کے معنے ہی کسی کو نہیں آتے اس پر عمل کیا ہی نہیں جاسکتا.تا ہم اس وقت ایک بڑی زبردست جنگ شروع ہو چکی ہے.امریکہ چاہتا ہے کہ ساری دُنیا اس کے ساتھ مل جائے اور نوع انسانی امتِ واحدہ بن جائے.اشتراکیت بھی کہتی ہے کہ ساری دُنیا کی وہی خیر خواہ ہے.تمام دنیا کو اشتراکیوں کے ساتھ مل جانا چاہئے تاکہ ساری دُنیا ایک خاندان بن جائے.اسی طرح چین کا سوشلزم بھی یہی کہتا ہے کہ ساری دُنیا اُن کے ساتھ مل جائے اور ایک خاندان بن جائے.ان تین تحریکوں کے علاوہ گود نیا داروں کی نگاہ میں دھتکارا ہوا مگر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم روحانی فرزند مہدی معہود ہے جو یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے غلبہ اسلام کی جو بشارتیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھیں.اُن کی رو سے میں دُنیا میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل دُنیا کا ہر انسان ایک خاندان کی لڑی میں پرویا جائے گا اور آپ کے طفیل نوع انسانی امت واحدہ بن جائے گی.
خطابات ناصر جلد دوم ۲۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء فرمایا.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف : ١٠) تمام دنیا پر اسلام غالب آئے گا اور تمام ملکوں پر تو حید کا جھنڈ الہرائے گا.اس وقت جماعت احمد یہ ایک کمزور جماعت ہے اس میں کوئی شک نہیں.اس وقت دنیا داروں کی نگاہ میں جماعت احمد یہ ایک دھتکاری ہوئی جماعت ہے اس سے بھی ہم انکار نہیں کرتے.اس وقت جماعت احمدیہ کو کوئی سیاسی اقتدار حاصل نہیں اور نہ اس کے دل میں سیاسی اقتدار کی خواہش ہے.لیکن اس بات سے بھی نہ ہم انکار کرتے ہیں اور نہ لوگوں کو انکار کرنا ہو گا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق نوع انسانی نے صرف جماعت احمدیہ کی کوششوں کے نتیجہ میں اور مہدی معہود کی قائم کردہ جماعت کے ذریعہ امت واحدہ بن کر ایک خاندان بن جاتا ہے.دوسری کوئی تحریک اس میں کامیاب نہیں ہوگی.رحمۃ اللعالمین کو عملاً رحمۃ للعالمین ثابت کرنے کے لئے ہماری تمام کوششیں اور ہماری زندگی کا ہر سانس وقف ہے.اس کے بغیر تو زندگی میں ہمیں کوئی مزہ ہی نہیں آتا نہ مجھے مزہ آتا ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جماعت میں سے کسی کو بھی مزہ نہیں آتا ہو گا.یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے جُدا ہو کر ہماری زندگی زندگی ہی نہیں رہتی.خدا تعالیٰ کی طرف پیٹھ پھیر کر ہمیں زندہ رہ کر کیا کرنا ہے.ہماری زندگی کا لطف تو ہمارے اس احساس میں ہے کہ ہماری تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں اور غفلتوں اور گناہوں کے باوجود خدا تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور خدا نے بڑے پیار کرنے والے باپ کی طرح اور پیار کرنے والی ماں کی طرح ہمیں اُٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا.کل میں نے بتایا تھا کہ ۱۹۴۷ء میں سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کو جن میں ہم بھی شامل تھے، گھروں سے نکال دیا اور ہمارا سب کچھ لوٹ لیا تھا لیکن وہ ہمارے ہاتھ میں کشکول نہیں پکڑوا سکے تھے اس لئے کہ ہمارا ہاتھ تو اللہ تعالیٰ کے اُس ہاتھ میں ہے جس میں دُنیا کے سارے خزانے ہیں.یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہو گا تو وہی جس کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر چھوڑا ہے اور وہ فیصلہ یہی ہے کہ وہ مہدی معہود کی جماعت کے ذریعہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو دُنیا میں غالب کرے گا.اس لئے ہم پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ہمیں قربانیاں دینی پڑتی ہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال کو پیش کرنا پڑتا ہے.ہمیں اپنی اولا د کو خدا کے حضور
خطابات ناصر جلد دوم ۲۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء پیش کرنا پڑتا ہے.ہمیں اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں وقف کرنی پڑتی ہیں.ہمیں اپنے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار اور آپ کے حسن و احسان کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے.ویسے تو میں نے بتایا تھا کہ ہمارا مرکز تو یہاں سے نہیں جاسکتا لیکن اس مرکز کے فدائی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر اپنی زندگیاں قربان کرنے کے لئے ملک ملک میں جاتے ہیں اور وہاں آپ کے پیار اور آپ کے حسن و احسان کو دُنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اتنی رحمت کرنے والا ہے کہ سیرالیون کے ایک وزیر جواچھے پایہ کے انسان ہیں.لاہور میں سربراہی کانفرنس کے موقع پر بھی تشریف لائے ہوئے تھے.انہوں نے ابھی پچھلے مہینے جماعت احمدیہ کی طرف سے سیرالیون میں قائم کردہ ایک ہسپتال کا معائنہ کیا.ہسپتال کی عمارت کو دیکھا تو جماعت کی خدمات کو بہت سراہا اور کہا جماعت احمد یہ دُنیا میں اسلام کی سر بلندی کے لئے جو جد و جہد کر رہی ہے اس کو دیکھ کر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ واقعی اسلام دُنیا پر غالب آ جائے گا.غرض یہ پس منظر ہے ہماری زندگی اور ہماری کوششوں کا اس حالت میں کہ جماعت احمدیہ کے علاوہ اس وقت دنیا کے دُکھ درد کو دور کرنے کے تین اور دعویدار بھی ہیں مگر یہ وعدہ کہ دُنیا امت واحدہ بن جائے گی ظاہر ہے کہ یہ وعدہ صرف ایک کے حق میں پورا ہونا ہے ورنہ یہ کہنا کہ ہر ایک کے حق میں دُنیا اکٹھی بھی ہو جائے اور ایک خاندان اور امت واحدہ بھی بن جائے اور پھر چاروں میں تقسیم بھی ہو جائے عقلاً ممکن نہیں ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک قاضی کے پاس ایک ایسے بچے کا مقدمہ آیا جس کے متعلق دو عورتیں دعویدار تھیں.دونوں ہی کہتی تھیں کہ یہ بچہ میرا ہے یہ مجھے دیا جائے.قاضی صاحب بڑے سمجھدار، متقی اور پر ہیز گار انسان تھے.انہوں نے گواہیاں مانگیں گواہیاں آگئیں.دونوں کے حق میں ایک جیسی مضبوط اور معتبر گواہیاں تھیں.ایک کہے میں فاطمہ ہوں.یہ میرا بچہ ہے دوسری کہے میں خولہ ہوں یہ میرا بچہ ہے ( نام میں نے مثال کے طور پر دیئے ہیں ) قاضی صاحب کو کچھ پتہ نہ لگے کہ وہ کریں تو کیا کریں.کس کے حق میں فیصلہ دیں.کیونکہ دونوں عورتوں کے حق میں معتبر گواہیاں تھیں.آخر خدا تعالیٰ نے قاضی کی رہنمائی فرمائی.جب وہ ایک دن پھر قضاء کی کرسی پر بیٹھا تو اس نے دونوں عورتوں کو بلایا اور اُن سے کہا میں نے بہت سوچا ہے مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آتا
خطابات ناصر جلد دوم ۲۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء کہ کیا فیصلہ کروں.بچہ ایک ہے اس کی دعویدار تم دو ہو، گواہیاں ایک جیسی مضبوط ہیں.مجھے سمجھایا گیا ہے کہ میں اس بچے کے نصف سر سے آرے کے ساتھ دوٹکڑے کر کے ایک بازو.ایک ٹانگ اور آدھا جسم ایک کو دے دوں اور آدھا حصہ دوسری کو دے دوں.اس طرح بچے کے دو حصے کر کے تم دونوں میں تقسیم کر دیتا ہوں.جب قاضی نے یہ فیصلہ سنایا تو بچے کی جو اصل ماں تھی وہ بے اختیار کہہ اٹھی.قاضی صاحب ! یہ میرا بچہ نہیں.اسے آپ دوسری عورت کو دے دیں.قاضی نے کہا مجھے پتہ لگ گیا کہ یہ بچہ کس کا ہے چنانچہ اس نے بچے کو اس عورت کے سپر د کر دیا جو کہتی تھی کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے اس کے ٹکڑے نہ کریں.جب اصل مامتا کا جذ بہ ظاہر ہو گیا تو اس بناء پر قاضی نے اس کو کہا کہ یہ بچہ تیرا ہے اس کو تو اپنے گھر لے جا.پس یہ دنیا جو مختلف تحریکوں کی شکل میں نوع انسانی کی ماں ہونے کا دعوی کر رہی ہے یہ اب اس دنیا کو بانٹنے لگی ہے اور Compromises کے طریق پر چل نکلی ہے.ایک دوسرے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ کچھ حصے ہمارے اثر ورسوخ میں رہنے دو اور کچھ تم اپنے پاس رکھ لو.حالانکہ ہم ایسے لوگوں سے یہ کہتے ہیں کہ تمہارا دعویٰ ایک طرف تو یہ تھا کہ تم نوع انسانی کی ماں ہو اور سب انسانوں کو ایک خاندان کے طور پر اکٹھا کرنے کے لئے میدان میں آگے آئے ہو مگر دوسری طرف جب دیکھا کہ اس میں کامیابی نہیں ہو رہی تو اس قاضی کی طرح یہ کہنا شروع کر دیا کہ دنیا کو آدھا آدھا کر کے بانٹ لیتے ہیں.پس موجودہ تحریکوں کے اس طرح باہمی طور پر Compromise کرنے یا مداہنت کا طریق اختیار کرنے یا اپنے دعاوی کو چھوڑ دینے اور اپنے اعلانوں کو پس پشت ڈال دینے حتی کہ اگر سو نہیں ملتا تو پچاس پر راضی ہو جانے کے رویہ نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ یہ لوگ دُنیا کے حقیقی خیر خواہ نہیں.حقیقی خیر خواہ اسلام ہے.وہی بنی نوع انسان کی ماں ہے کیونکہ اسلام کبھی Compromise کرنے کی تعلیم نہیں دیتا.بانی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ رحمۃ للعالمین ہونے کا دعوی ہے آپ نے اس دعوئی کے ذریعہ یہ اعلان فرمایا کہ خدا نے مجھے تمام عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.گویا تمام عالمین اور تمام بنی نوع انسان امت محمدیہ میں ایک نہ ایک دن شامل ہونے والے ہیں اور ایک خاندان بننے والے ہیں.اس کے لئے
خطابات ناصر جلد دوم ۲۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء وہ دنیا جو بنی نوع انسان کی حقیقی ماں نہیں وہ بھی پوری کوشش کر رہی ہے اور اس کے لئے ہم بھی.کوشش کر رہے ہیں.جماعت احمد یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے دنیوی نقطہ نگاہ سے ہماری حیثیت ہی کیا ہے.مجھ سے اگر کوئی بات کرتا ہے تو میں کہتا ہوں جو کچھ تم ہمارے خلاف کہو ، سب سچ ہے.ہم تعداد میں کم ہیں جو لوگ ہمیں پہچانتے نہیں ، وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں یہ سچی باتیں ہیں اور ان سے انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں.انسانوں کی طرف جدھر بھی ہماری نگاہ اُٹھتی ہے ہر طرف لوگوں کی آنکھوں میں ہمیں اپنے لئے نفرت اور غصہ اور وحشت کے آثار نظر آتے ہیں.مگر جب ہماری آنکھ ہمارے رب کی طرف اُٹھتی ہے تو اس عظیم ہستی کی آنکھوں میں ہم اپنے لئے پیار کو ایک سمندر کی طرح موجزن پاتے ہیں گویا اس وقت دنیا میں پیار کے دوسمندر موجزن ہیں ایک خدا تعالیٰ کی نگاہ میں جماعت احمدیہ کے لئے پیار ہے جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا ہے.دوسری طرف گودنیا کی آنکھوں میں ہمارے لئے نفرت اور غضب ہے.بعض لوگ ہم سے نفرت کرتے اور ہمیں ہلاک کرنے کے درپے ہیں مگر اس کے برعکس ہماری آنکھوں میں وہ اپنے لئے پیار اور محبت کا ایک سمندر موجزن پاتے ہیں اور یہی پیار اور محبت کے دوٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر ہیں جو جماعت احمدیہ کو امتیازی خصوصیت کا حامل بنا دیتے ہیں یعنی خدا کی نگاہ میں جماعت احمدیہ کے لئے اور جماعت احمدیہ کی نگاہ میں نوع انسانی کے لئے محبت اور پیار کا تعلق خواہ نوع انسانی کے کچھ حصے جماعت احمدیہ سے نفرت ہی کیوں نہ کر رہے ہوں.جب یہ دو ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر آپس میں ملیں گے تو نوع انسانی ان سے باہر نہیں رہ سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہمیں تو اس آدمی کے ایمان میں شک ہے جو اپنے دشمن کے لئے دعا نہیں کرتا اور اس کی خیر خواہی نہیں چاہتا.کیونکہ دشمن کے لئے دعا کرنا تو سنت نبوی ہے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو ہمارے لئے اُسوہ حسنہ بنایا ہے آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ ہمارے لئے از دیا دایمان کا باعث ہے.ایک دفعہ آپ کے ہاں ایک یہودی مہمان بن کر آ گیا.صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اسے ہم اپنے ہاں بطور مہمان ٹھہرا لیتے ہیں آپ نے کہا نہیں یہ میرا مہمان ہے اسے میں ہی اپنے
خطابات ناصر جلد دوم ۲۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء گھر رکھوں گا.آپ نے اکرام ضیف کے مطابق اس یہودی سے بہت اچھا سلوک کیا.اس کی بڑی خاطر کی اور عزت سے اپنے ہاں ٹھہرایا.اللہ تعالیٰ نے اس یہودی کو کوئی معجزہ دکھا نا تھا اس کے دل میں شاید کوئی نیکی ہو گی رات کو کسی وقت چار پائی پر اس کا اسہال نکل گیا.وہ بہت شرمندہ ہوا.اگر چہ اُس وقت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ان لوگوں کی نگاہ میں پیدا نہیں ہوئی تھی.تا ہم اُس نے سوچا کہ یہ اسلام کے نبی ہیں.انہوں نے مجھے بطور مہمان رکھا ہے میری خاطر کی ہے اور ہر طرح سے میرا خیال رکھا ہے مگر مجھ سے یہ حرکت ہو گئی ہے بے اختیاری میں ہوئی مگر ہو تو گئی نا! وہ بچارہ شرمندگی کے باعث رات کے اندھیرے میں باہر نکل کھڑا ہوا.رات کی تاریکی میں ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ اسے یاد آیا پیسوں والا بٹوہ تو وہ وہیں بھول آیا ہے.اب وہ چونکہ یہودی تھا پیسے تو نہیں چھوڑ سکتا تھا وہ واپس آیا اتنی دیر میں صبح ہو چکی تھی جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پہنچا تو اس نے دیکھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بستر صاف کر رہے ہیں جو لوگ آپ کے ارد گرد تھے ، وہ آپ پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار تھے.بستر صاف کرنا تو ایک معمولی بات تھی.مگر آپ نے صحابہ سے بستر صاف نہیں کروایا.بلکہ صحابہ کے اصرار پر آپ نے فرمایا کہ نہیں یہ میرا مہمان تھا اس لئے میں خود صاف کروں گا.یہ تو ایک چھوٹا سا واقعہ تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا کے سارے روحانی گند صاف کرنے کے لئے آئے تھے.غرض اس یہودی نے جب اپنے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں یہ پیار دیکھا تو وہ حیران رہ گیا اُس نے سوچا یہ کتنا بڑا انسان ہے مگر اپنے ہاتھ سے گند صاف کر رہا ہے.اس نے سمجھ لیا کہ یہ شخص جھوٹا نہیں ہوسکتا.کوئی شخص جو دوسرے کو پیار دیتا ہے اور حقیقی معنوں میں اس کے دُکھوں کو دُور کرتا ہے، وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا جب اُس پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی تو اس نے کہا یا رسول اللہ ! میری بیعت لیں میں مسلمان ہوتا ہوں.اس لئے ہم کہتے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح کی محبت کا پیغام جہاں نا کام ہوا، وہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور پیار کا پیغام انشاء اللہ کا میاب ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر اسی پیار کو لے کر ہم دنیا میں نکلے ہیں اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں کو خدائے واحد و یگانہ اور اس کے محبوب
خطابات ناصر جلد دوم ۲۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک نہ ایک دن ضرور جیت کے رہیں گے.لیکن یہ تو ایک نتیجہ ہے اور یہ تو ایک منزل مقصود ہے وہاں تک پہنچنے کے لئے ہمیں قربانیاں دینی پڑیں گی.اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے ہمیں لوگوں کے غضب اور غصے اور نفرت کی آگ کے شعلوں کو اپنی شفقت اور پیار کے پانی کے ساتھ بجھانا ہوگا.میرے پیارے بھائیو اور بہنو! یا درکھو کہ ہم دُنیا کو مارنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے.احمدی دُنیا کی ہلاکت کے لئے پیدا نہیں ہوئے بلکہ دنیا کو زندگی دینے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.ہم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آواز پر لبیک کہو کیونکہ وہ تمہیں زندگی دینے کے لئے بلا رہا ہے.ہم اس کے خادم ہیں.ہم نوع انسانی کے دلوں کو پیارا اور محبت سے جیتیں گے اور اُن کے مردہ جسموں کو روحانی اور اخلاقی طور پر از سر نو حیات بخشیں گے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے چراغ سے نور لے کر ان کے دلوں کو منور کریں گے.اس مقصد کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.لیکن آج ہمارا یہ مقابلہ تین بڑی طاقتوں کے ساتھ ہے.یہ بڑا سخت مقابلہ ہے اس کے برعکس ہمارے ذرائع بہت تھوڑے ہیں سوائے ایک ذریعہ کے جو اتنا بڑا ذریعہ ہے کہ اس سے بڑھ کر مادی ذرائع ہو ہی نہیں سکتے.وہ دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنا ہے.پس خدا کی راہ میں ہم جو کچھ کرتے ہیں ، وہ تو حقیر کوششیں ہیں لیکن وہ اپنے فضل سے ہمیں دعائیں کرنے کی توفیق دیتا ہے ہم تو بڑے عاجز بندے ہیں ہماری دعاؤں میں بھی کمی رہ جاتی ہے لیکن وہ اپنے فضل سے ہماری حقیر کوششوں کو نوازتا اور ہماری کمزور دعاؤں کو قبول کر لیتا ہے.اور ہماری توقع سے بڑھ کر نتائج نکالتا ہے.پس اس پس منظر میں ہم نے دُنیا کے دل خدائے واحد و یگانہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے ہیں مگر پیار اور شفقت کے ساتھ ، خدمت اور غم خواری کے ساتھ.ہم نے دنیا کے دکھوں کو دور کر کے دکھی انسانیت کو سکھ پہنچانا ہے.دُنیا کے دکھوں کو حقیقی طور پر سوائے احمدیت کے اور کوئی دُور نہیں کر سکتا اور احمدیت اس لئے یہ دکھ دُور کر سکتی ہے کہ اس کے ہاتھ میں شریعت محمدیہ کی شمع ہے اور یہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتی ہے.
خطابات ناصر جلد دوم ۲۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء غرض ہم اپنی ذات میں کچھ نہیں.میں پھر کہتا ہوں کہ احباب جماعت ہمیشہ اسی نہج پر سوچیں کہ وہ اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں ہیں لیکن جس کا ہم نے دامن تھاما ہوا ہے.وہی سب کچھ ہے یعنی اللہ تعالیٰ عزاسمہ وجل شانہ اور جس کو اُس نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے یعنی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بچی پیروی کئے بغیر تو کوئی انسان خوشحالی اور مسرت حاصل ہی نہیں کر سکتا.میں نے احباب کو بتایا ہے کہ دوسرے لوگوں کو خوشحالی کے مطلب ہی کا پتہ نہیں ہے اور اس لئے پتہ نہیں ہے کہ کوئی آدمی اُٹھا اُس نے کہا جسمانی قوتوں یا طاقتوں کی تشفی اور سیری کر دو تو دنیا خوش ہو جائے گی مگر اسے یہ علم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو ذہنی وعلمی اور دماغی قولی دیئے ہیں اُن کو بھلا دیا گیا ہے اگر ان قومی کی تسلی نہ ہوئی تو دکھی انسانیت کے دُکھ کیسے دُور ہوں گے ان کو سکھ کیسے پہنچے گا.ایک اور شخص اُٹھا اور اس نے کہا اچھا جسمانی طاقتوں کے ساتھ کچھ تھوڑا بہت علمی اور ذہنی قوتوں کی سیری کے بھی سامان پیدا کر دو.اور یہ نہیں سوچا کہ جسمانی اور ذہنی اور علمی طاقتوں کی ایک حد تک سیری کے علاوہ انسان کو ان سے بھی زبر دست اخلاقی طاقتیں دی گئی ہیں.ان کی سیری کے سامان پیدا نہیں کرو گے تو دُنیا کی خوش حالی کا سامان کیسے پیدا ہوگا.خدا تعالیٰ کی اس عظیم شریعت نے جسے شریعت محمدیہ کہتے ہیں، دستور حیات کو نہایت شرح وبسط کے ساتھ بیان کر دیا ہے حتی کہ میاں بیوی کے تعلقات کو بھی نہایت حسن اور خوبی کے ساتھ بیان کر دیا ہے.اگر اس تعلیم پر عمل کیا جائے تو گھر کا ماحول جنت بن جاتا ہے اس اخلاقی حصے کو اشترا کی نہیں سمجھے.فطرتِ انسانی کے بعض تقاضے ہیں.جن کا تعلق صرف مردوں کے ساتھ نہیں.ان کے متعلق تو یہ عام خیال ہے کہ وہ اس وقت دُنیا میں آگے نکل گئے ہیں.مگر عورتوں سے جا کر پوچھو کون سی بیوی ہے جو اس بات کو پسند کرتی ہے کہ اس کا خاوند آوارہ گردی کرے.کوئی عورت یہ پسند نہیں کرتی سوائے اس کے کہ اس کی انسانی فطرت مسخ ہونی شروع ہو چکی ہو.لیکن یہ جو د نیا دار لوگ ہیں ان میں سے بعض نے اس تجربہ کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ انہیں نا کامی نہیں ہوئی.اور تجربہ یہ کیا کہ گتے کئیاں بغیر شادی کے دن گزارتے ہیں.ہم انسان ہیں ہم بھی ایسا ہی کریں گے اور پھر جب اُلجھنیں پیدا ہوئیں اور جو اخلاقی تقاضے تھے وہ اخلاقی صورتوں میں جب
خطابات ناصر جلد دوم ۲۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء پرے نہ ہوئے اور سیری کے احساس کی بجائے بھوک ، تڑپ اور تکلیف کا احساس پیدا ہوا تب جا کے انہوں نے یہ تجربے چھوڑے.بہر حال اس وقت چار طاقتیں نوع انسانی کے دل جیتنے کے لئے میدان میں آئی ہیں اور اپنے اپنے رنگ میں وہ کوششیں کر رہی ہیں.ان میں سے چوتھی طاقت اسلام کی طاقت ہے.اور اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں حضرت مہدی علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ اس کا دوبارہ سلسلہ شروع ہوا ہے.ہم حضرت مہدی موعود علیہ السلام کی جماعت ہیں.ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ نوع انسانی کو امت واحدہ بنانے کے لئے قربانیاں دیں.اس پس منظر میں میں یہ بتا رہا ہوں کہ ہماری جد و جہد اور کوشش ساری دُنیا میں جاری ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے جب وطن رحمۃ للعالمین کے جلووں میں سے ایک جلوہ ہے.ہر ملک کے بسنے والے کو اسلام نے یہی کہا ہے کہ وہ اپنے ملک سے پیار کرے اور جو ساری دنیا میں بسنے والے ہیں انہیں ساری دُنیا محبوب ہے.اس سلسلہ میں ہماری کوششوں میں سے پہلی کوشش یہ ہے کہ اسلام نے انسان کے جو حقوق قائم کئے ہیں یہ بتا کر کہ ماڈی لحاظ سے انسان کے یہ حقوق ہیں.ذہنی لحاظ سے یہ حقوق ہیں اور اخلاقی لحاظ سے یہ حقوق ہیں اور روحانی لحاظ سے یہ حقوق ہیں اور اسلام کے نزدیک حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو قو تیں دی ہیں اُن کی پوری سیری کے سامان پیدا کئے جائیں اور کامل نشو ونما کے لئے ذرائع پیدا کئے جائیں.یہ اپنی ذات میں ایک لمبا مضمون ہے.یہاں اشارہ کر دینا کافی ہے اور اس ضمن میں ہمارا دُنیا سے مقابلہ اس بات میں ہے کہ نوع انسانی کے دلوں کو جیتنے کے لئے ضروری ہے کہ ساری دُنیا کو یہ بتایا جائے خصوصاً ان دعویداروں کو جو دُنیا کو ایک خاندان بنانے کے متمنی ہیں کہ تمہیں تو یہ بھی پتہ نہیں کہ انسان کا حق کیا ہے تم اس کی ادائیگی کیسے کرو گے؟ یہ تو انسانی تاریخ میں پہلی بار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو یہ بتایا ہے کہ خدا نے تیرے یہ حقوق قائم کئے ہیں اور انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے لئے رحمۃ للعالمین کو مبعوث کر دیا.اس مقصد کے لئے ہم کتابیں شائع کرتے ہیں.ہماری کتب کے شائع کرنے کی اصل غرض
خطابات ناصر جلد دوم ۲۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء یہی ہے کہ نوع انسانی کے ذہنوں کو تیار کیا جائے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو شریعت آئی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ پیغام دیا ہے کہ انسان کے یہ حقوق ہیں.اور اسلام سے باہر چونکہ یہ حقوق کسی کو نہیں مل سکتے اس لئے وہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے کے گرد جمع ہو جائیں.اور اپنی جبینوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا دیں اور جب لوگوں کو اُن کے حقوق مل جائیں گے تو وہ عملاً ایک قوم بن جائیں گے.پس یہ بھی ایک مقابلہ ہے اس مقابلہ کے لئے ہم کتابیں شائع کرتے ہیں.اخبارات شائع ووه کرتے ہیں.ہفتہ وار رسالے شائع کرتے ہیں ماہانہ رسائل نکالتے ہیں جیسے ”الفرقان“.تحریک جدید “ ہے انصار اللہ ہے ”خالد ہے ”مصباح “ ہے ان کے علاوہ روز نامہ الفضل اور ہفت روزہ لا ہور ہے.دوران سال سلسلہ کی بعض کتب بھی شائع ہوتی ہیں.احباب کو وہ بھی پڑھنی چاہئیں.ان کتابوں میں سے جو دوران سال شائع ہوئی ہیں ایک کتاب ” مقربان الٹی کی سرخروئی.روح کا فرگری کے ابتلاء میں.مولوی دوست محمد صاحب نے مرتب کی ہے ویسے اس کتاب کی آؤٹ لائنز (Out lines) میں نے ہی اُن کو دی تھیں بات اصل میں یہ ہے کہ ہزاروں ، لاکھوں اولیاء اللہ امت محمدیہ میں گزرے ہیں اُن کو دنیا نے بڑا دکھ دیا اور بہت تنگ کیا.بعض لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ تم کہتے ہو خدا اپنے بندوں سے پیار بھی کرتا ہے اور اُن کو زمانے کے رحم و کرم پر بھی چھوڑ دیتا ہے اور دنیا اُن کو تنگ کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس مسئلہ پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے.چنانچہ اس کتاب کے دیباچہ میں تمہیداً آپ کی کتابوں کے بعض اقتباسات کے بعد بتایا گیا ہے کہ کس طرح آغاز اسلام سے فتوے لگنے شروع ہو گئے تھے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتویٰ.حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتویٰ لگا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتویٰ لگا، حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتویٰ لگا.حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتویٰ لگا.حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ باقی تینوں ائمہ کرام حضرت امام احمد بن جنبل حضرت امام شافعی حضرت امام مالک پر بھی کفر کے فتوے لگے.صحیح بخاری جسے اصح الکتب بعد کتاب اللہ سمجھا جاتا ہے یعنی قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ صحیح اور مستند کتاب سمجھی جاتی ہے اس کے مؤلف حضرت امام بخاری پر بھی علماء نے
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء فتویٰ کفر لگایا.خالی کفر کا فتوی ہی نہیں لگایا بلکہ انہیں اتنی اذیتیں دی گئیں اور اس قدردُ کھ پہنچائے گئے کہ آج جب ہم وہ حالات پڑھتے ہیں تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور عقل حیران رہ جاتی ہے کہ آخر یہ دُکھ انہیں کیوں دیئے گئے؟ صرف اس لئے کہ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ خدا تعالیٰ ان سے پیار کرتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے پیار کرتے ہیں لوگ اُن کو دُکھ دیتے تھے لیکن وہ یہی کہتے تھے کہ دُنیا کا کوئی دُکھ ہمارے اس تعلق کو قطع نہیں کر سکتا اور دُنیا میں کوئی ایسی چھری نہیں ہے جو اس رشتہ محبت کو کاٹ دے جو ہمارے اور خدا کے درمیان ہے.اس لئے لوگ خدا کے بندوں پر فتوے لگاتے چلے گئے مگر خدا تعالیٰ نے کہا دیکھو! میرے یہ بندے اپنے دعوے میں بچے اور صادق ہیں.لوگ انہیں جتنی مرضی تکلیف دے لیں.میرے ساتھ ان کا جو تعلق محبت ہے اور ان کے دل میں میرے لئے جو عشق پایا جاتا ہے، وہ کسی طرح کم نہیں ہوگا.پس یہ کتاب بڑی دلچسپ ہے اس میں ہر صدی کے چند بزرگوں کی مثالیں دی گئیں ہیں کہ کس طرح اُن کو کا فر گری کے ابتلاء میں سے گزرنا پڑا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں سے قرآنی آیات کی تفسیر اکٹھی کر کے مرتب کی جارہی ہے.اس سال اس سلسلہ کی چوتھی جلد شائع ہوئی ہے جو سورہ مائدہ سے سورہ تو بہ تک کی آیات کی تفسیر اور اقتباسات پر مشتمل ہے.یہ بھی ایک بڑی ہی دلچسپ چیز ہے.اور پڑھنے اور روحانی طور پر مستفید ہونے کے لائق ہے.تاریخ احمدیت کی پندرھویں جلد بھی چھپ لیا ہے علاوہ ازیں جتنی بھی مفید کتب اس سال چھپی ہیں اُن کے متعلق میں دوستوں سے یہ کہوں گا کہ خدا تعالیٰ نے جن دوستوں کو توفیق دی ہے وہ انہیں ضرور خریدیں اور پڑھیں.یہ بھی تمہید میں نے اس لئے باندھی ہے کہ آپ احباب جماعت کو یہ پتہ لگے کہ ہم ان کتب کو پڑھیں اور ہمارے ذہن انہیں قبول کریں.مذہب اسلام ایک عظیم مذہب ہے اور اس کا دعوی بھی بڑا عظیم ہے اور جس شکل میں اس نے اپنے دعوی کو سچا ثابت کیا ہے وہ اسے اور بھی عظیم اور دلچسپ بنا دیتا ہے.اب دیکھو صحرائے عرب سے ایک شخص اٹھا اور اس نے یہ دعوی کیا کہ خدا تعالیٰ مجھ سے ہم کلام ہوا ہے اور اس نے مجھے ایک کامل اور مکمل شریعت دی ہے اور اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس قرآن عظیم میں قیامت تک انسان کے
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء تمام مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور طاقت رکھی گئی ہے.یہ کوئی معمولی دعوی نہیں ہے بلکہ اس کی ابدی صداقت کے طور پر یہ بھی فرما دیا: - لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : ۸۰) یعنی مطہروں کا ایک سلسلہ پیدا ہوتا رہے گا اور خدا تعالیٰ جو معلم حقیقی ہے وہی ان کا اُستاد ہوگا.وہ اُن کو نئے سے نئے اسرار قرآنی بتائے گا جن کے ذریعہ وہ دُنیا کے مسائل کو حل کرواتا چلا جائے گا.اس حقیقت کی رو سے ہوسکتا ہے کسی نے اشارہ پہلے بھی ایسا کہا ہو لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں تو ہر مسئلے کا بیج ہمیں نظر آتا ہے.میں یورپ میں جاتا رہا ہوں اور بڑے کر کمیونسٹوں سے باتیں کرتا رہا ہوں.میں اُن سے کہتا تھا تم اسلام کا کیا مقابلہ کر سکتے ہو.تمہیں تو پتہ ہی نہیں کہ انسان کا حق کیا ہے.مگر تم دعویٰ یہ کرتے ہو کہ ہم انسان کو اس کے حقوق دیں گے.پس احباب کتابیں پڑھیں اس رنگ میں کہ خود اپنی اور اپنی نسلوں کی اور اپنے بھائیوں کی تربیت کر سکیں.جو لوگ باہر جاتے ہیں وہ دنیا کو بتاسکیں کہ تمہارے مسائل کوئی دوسرا از محل نہیں کرسکتا.صرف اسلام حل کر سکتا ہے کیونکہ اسلام ازم نہیں ہے بلکہ اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والا ایک عظیم مذہب اور دستور حیات ہے.ہماری دوسری تحریک وقفِ عارضی کی تحریک ہے.اس وقت تک جماعت نے اس میں بڑے اخلاص سے حصہ لیا ہے.دو دو واقفین عارضی کا گروپ باہر جاتا ہے.استثنائی صورتوں کے علاوہ عام طور پر کم از کم دو ہفتوں کے لئے یہ وقف ہوتا ہے جب دوست با ہر تبلیغ کے لئے جاتے ہیں تو مرکز کے ساتھ خصوصی رابطہ قائم ہوتا ہے اور وہ مرکز سے خط و کتابت بھی کرتے ہیں.جب وہ وقف عارضی پر جاتے ہیں تو انہیں اپنے ماحول سے علیحدہ رہنے کا موقع ملتا ہے دعائیں کرنے کی توفیق ملتی ہے وہ خود بہتر نمونہ بننے کی کوشش کرتے ہیں کچھ دیکھتے ہیں کچھ سمجھتے ہیں.کچھ سمجھاتے ہیں اور کچھ دکھاتے ہیں اس طرح اُن کو نئے نئے تجر بے حاصل ہوتے ہیں لیکن دُنیا میں اس وقت ایک جماعت احمدیہ ہی ہے جس میں استقلال پایا جاتا ہے اور اگر ذرا بھی کہیں کمی ہو تو جماعت کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوستوں کی کمزوری کی طرف توجہ دلا کر اس کو دُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض کمزوریاں دوست خود ہی دُور کر لیتے ہیں.خدا نے کہا ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء وَذَكِّرْ فَانَ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذريت : ۵۶) مومنوں کی جماعت کے لئے یاد دہانی فائدہ دیتی ہے اس لئے میں اس قرآنی حکم کے ماتحت احباب کو یاد دلاتا ہوں کہ وہ اس وقف کی طرف خصوصی توجہ دیں.پچھلے سالوں میں بھی جلسہ کے موقع پر بہت زیادہ فارم پر کئے جاتے رہے ہیں.اس دفعہ بھی فارم پر کروائے جائیں اور دوست زیادہ سے زیادہ وقف عارضی پر جائیں.پھر اسی ضمن میں تعلیم القرآن کلاس کی ایک تحریک ہے جس کے متعلق اعلان ہوتا رہتا ہے.اس کی طرف بھی جماعت کو چاہئے کہ وہ خصوصی توجہ دے.تحریک جدید.تحریک جدید ایک لمبے عرصہ سے غیر ممالک میں کام کر رہی ہے.اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچاس سے زیادہ ممالک میں جماعتیں قائم ہوگئی ہیں.کہتے ہیں انگلی کٹا کر شہیدوں کا ثواب حاصل کر لینا.اسی طرح ہم بھی اس تحریک کے ذریعہ صرف ہاتھ لگا کر ثواب حاصل کر لیتے ہیں.ورنہ ہماری کمزوری شاید اس سے بھی زیادہ ہے.یہ تو محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس پر اُمید رکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں خدا شاید اس سے بھی زیادہ ثواب دے دے گا.اب دیکھیں اللہ تعالیٰ کس طرح ہم پر اپنی برکتیں اور بے پایاں رحمتیں نازل کر رہا ہے.اس پر ہم اس کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے.پچھلے سال پتہ چلا کہ سوڈان میں جماعت احمد یہ قائم ہوگئی ہے.حالانکہ نہ آج تک وہاں کوئی مبلغ گیا نہ ہماری ان سے خط و کتابت ہوئی.ایک آدمی نے بتایا کہ پتہ نہیں کس وقت غالباً ۱۹۳۰ ء سے بھی پہلے ایک آدمی ملا.اس کے ذریعہ ہمارا باپ احمدی ہوا تھا.وہ ایک خاندان تھا اس نے کہا کہ ہمارے اور بھی بہت سے بہن بھائی اور رشتہ دار بھی ہیں اور ہمارے باپ نے احمدیت ہمارے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے اور اس کو تو ہم چھوڑ نہیں سکتے لیکن مرکز سے ہمارا تعلق نہیں اور جب وہ نائیجیریا میں گئے تو جماعت احمدیہ کو دیکھ کر حیران ہو گئے اور کہنے لگے کیا نائیجیریا میں بھی جماعت ہے اور اتنی بڑی جماعت ہے؟ وہ کہنے لگے ہمارا مرکز سے تو کوئی تعلق نہیں ہے البتہ احمدیت سے ہمارا تعلق ایک لحظہ کے لئے نہیں ٹوٹا.کیونکہ ہمارا باپ جو فوت ہو چکا ہے لیکن اس نے ہم بہن بھائیوں میں احمدیت کا اتنا پیار اور محبت پیدا کر دیا ہے کہ ہما را احمدیت کو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.نائیجر ایک چھوٹی سی آزاد مملکت ہے اور نائیجیر یا کے پاس واقع ہے.وہاں بھی کبھی کوئی
خطابات ناصر جلد دوم ۳۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء مبلغ نہیں گیا.وہاں سے ایک دن ایک دوست کا خط آگیا کہ ہم اس شہر میں آٹھ دس افراد احمدی ہو گئے ہیں.ہم نے جماعت بنالی ہے ہمیں کچھ پتا نہیں کہ جماعت احمدیہ کا نظام کیا ہے اور بحیثیت جماعت ہمیں کیسے کام کرنا ہے.بہر حال ہم نے جماعت بنالی ہے اور میں کوشش کروں گا کہ ربوہ آؤں اور نظام سلسلہ کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کروں.اب یہ میری یا آپ کی کوشش کا نتیجہ تو نہیں ہے.یہ تو اللہ تعالیٰ نے پتہ نہیں کیسے انتظام کر دیا.ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ وہ احمدیت سے روشناس کس طرح ہوئے لیکن جماعت قائم ہوگئی ہے.پھر کمیونسٹ ممالک ہیں.ان کے متعلق دنیا میں ایک شور مچا ہوا تھا Iron Curtain !Iron Curtain گویا کہ لوہے کی دیوار ہے جو ان کے اور باہر کی دنیا کے درمیان حائل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کو تو لوہے کی دیواریں نہیں روکا کرتیں.مثلاً یوگوسلاویہ بھی ایک کمیونسٹ ملک ہے.وہاں سے دو احمدی نوجوان جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے آئے ہوئے ہیں.تو یوگوسلاویہ میں بھی احمدیت پہنچ گئی ہے.یوگوسلاویہ کا ایک بہت بڑا عالم جو کہ وہیں پہ رہتا تھا اس نے بیعت کر لی اور اس نے وہاں احمدیت کو پھیلایا.اسی طرح پولینڈ سے ایک خط آگیا کہ ہم کچھ لوگ احمدی ہو گئے ہیں.فالحمد للہ علی ذلک یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے پتہ نہیں کہاں کہاں تک اللہ تعالیٰ کے فرشتے احمدیت کو پھیلا رہے ہیں.ہمیں تو سمجھ ہی نہیں آرہی.اللہ تعالیٰ ہماری جھولیاں ثواب سے بھر رہا ہے.یہ تو اس کی شان ہے لیکن ہماری شان یہ ہونی چاہئے کہ ہمارے سر زمین سے کبھی نہ اُٹھیں اور کبھی بھی ہمارے دلوں میں فخر اور غرور اور کبر پیدا نہ ہو.یہ ہے جماعت احمدیہ کی اصلی حیثیت اور حقیقی شان.بعض دفعہ کئی لوگ ہمارے سامنے کہہ دیتے ہیں کہ ہم بہت بڑے لوگ ہیں مگر آپ کچھ بھی نہیں.میں جواب دیا کرتا ہوں کہ ہاں جی ! تم بہت بڑے لوگ ہوا اور ہم تو اتنے بھی نہیں جتنے تم سمجھتے ہو.ہم تو نیست محض ہیں.ہم تو لاشی محض ہیں.مگر جس ذرہ نا چیز کو خدا تعالیٰ نے اپنے دست قدرت میں پکڑا اور کہا کہ میں اس ذرہ ناچیز کے ذریعہ سے اسلام کو دنیا میں غالب کروں گا تو دنیا کی کونسی طاقت ہے جو خدائے قادر و توانا کو اس کے ارادوں سے روک دے.پس ہم تو کچھ نہیں ہیں.ہمارا یہ معیار ہے اور تم اسے قائم رکھو لیکن جس عظیم ہستی کے دامن کو
خطابات ناصر جلد دوم ۳۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء ہم نے پکڑا ہے اور جس کے ہاتھ کو ہم نے تھاما ہے اور اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور جس سے ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس کے ہو گئے اور اسی کے ہو کے رہیں گے.وہ ساری طاقتوں والا ہے اور جو کچھ ہمیں چاہئے وہ ہم اپنے لئے تو نہیں مانگ رہے بلکہ وہ تو ہمیں اس کی مخلوق کے لئے درکار ہے.ہمیں جو کچھ چاہئے وہ نوع انسانی کی خاطر چاہئے.خدا کی توحید کے قیام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کو دلوں میں پیدا کرنے کے لئے چاہئے.ذاتی طور پر مجھے کیا چاہئے یا ایک انسان کو کھانے کے لئے کس قدر خوراک درکار ہے.مثلاً میں صرف آدھا پھلکا یا نصف چپاتی کھاتا ہوں اور میرا پیٹ بھر جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے بے تکلف طبیعت دی ہے.جوانی کے دنوں کی باتیں ہیں کہ کئی دفعہ احمدیوں کے ہاں دیہات میں جھگڑا پیدا ہو جاتا تھا.جن کا جھگڑا ہوتا تھا ان کو باہر کھیتوں میں لے جا کر جہاں ہل وغیرہ چلا ہوا ہوتا تھا اور زمیں نرم ہوتی تھی ، میں اس پر چوکڑی مار کر بیٹھ جاتا تھا اور کہتا تھا کہ آؤ باتیں کریں.تو ہماری زندگی بڑی بے تکلف اور کھلی زندگی ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ نکلوا دیا ہے مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ ( م :۸۷) لیکن اگر تم تکلف کرو گے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اختیار نہیں کر سکو گے.اس لئے میں کہا کرتا ہوں کہ ہماری زندگی میں کوئی تکلف نہیں ہونا چاہئے.کئی دفعہ بیماری میں لیٹا ہوا ہوتا ہوں کہ باہر سے کوئی دوست ملنے آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابھی ملنا ہے انہیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ میں بیمار پڑا ہوا ہوں.ابھی پرسوں شام کی بات ہے کہ ہماری کچھ امریکن بہنیں ملنے آئیں.انہوں نے کہا کہ ابھی ملنا ہے.میں بیماری کی وجہ سے لیٹا ہوا تھا.جب اجازت ملنے پر وہ منصورہ بیگم کے ساتھ کمرے میں آئیں تو کہنے لگیں کہ ہمیں پتہ ہوتا کہ آپ بیمار ہیں تو ہم ملنے نہ آئیں میں نے دل میں کہا تمہیں کیوں پتہ ہوتا.میں نے جب تکلف نہیں کیا تو تم تکلف - کیوں کام لیتی ہو.اسی طرح آج صبح امریکن دوست ملنے کے لئے آگئے.اس وقت میری طبیعت بہت ناسا تھی میں نے اسی حالت میں ان سے کہا ٹھیک ہے، ملنے کے لئے آجائیں.چناچہ ان سے ملاقات کی.کئی اور دوستوں سے بھی ملاقات کی.پس ہم بے تکلف ہیں.ہماری زندگی میں کوئی تکلف نہیں ہے.ہمیں نہ کوئی فخر ہے اور نہ کوئی بڑائی.نہ ہمیں کپڑوں کا شوق ہے اور نہ کھانے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء کا.نہ ہمیں پہننے کا شوق ہے اور نہ اچھے فرنیچر کا.ہمارے دل میں صرف ایک شوق ہے اور وہ یہی شوق ہے کہ دنیا کے ہر دل میں خدائے واحد ویگانہ کی محبت پیدا ہو جائے اور محبوب خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق پیدا ہو جائے.ہم یہی دعائیں کرتے ہیں اور بس.خدا لوگوں کو دنیا کی دولتیں مبارک کرے جو روحانی دولت ہمیں مل گئی ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے.لوگ ہمیں پاگل کہنا چاہیں، کہہ لیں.لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے پیار کے مقابلہ میں دنیا کی یہ دولتیں اور دنیا کے یہ سیاسی اقتدار کوئی حیثیت نہیں رکھتے.ہم لا شے محض تھے اور اس نے اپنا پیار دے کر ہمیں سب کچھ دے دیا ہے.اسی کی خاطر ہم زندگی وقف کرتے ہیں.وقف عارضی کی میں بات کر رہا ہوں ، دوست جب وقفِ عارضی پر باہر جاتے ہیں تو کسی سے جان پہچان نہیں ہوتی بس مسجد میں چلے جاتے ہیں اور وہاں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور جو کچھ ملتا ہے کھا لیتے ہیں.میں نے ہدایت کر رکھی ہے کہ ہر واقف عارضی نے اپنا کھانا کھانا ہے.جماعت کی طرف سے مہمان نوازی قبول نہیں کرنی.چنانچہ اس ضمن میں کئی مثالیں سامنے آتی ہیں.کسی نے لکھا کہ جی روٹی پکائی اور وہ جل گئی.جلی ہوئی روٹی کھالی اور اگر کسی کو روٹی پکائی نہیں آتی تو وہ چنے کھا لیتا ہے.کبھی نیم گرم اور کبھی نیم سرد چائے بنا کر گزارہ کر لیتے ہیں اور انہیں بڑا لطف آتا ہے.وہ تو گویا اللہ کے مہمان ہوتے ہیں جہاں بھی جاتے ہیں.خدا انہیں خود ہی سکھاتا ہے اور کام کرنے کی طاقت دیتا ہے.ایک وقت تھا لوگ پیٹ کے اوپر پتھر باندھتے تھے اور یہ وہی تھے جن کے مقابل پر شکم پر لوگ آئے مگر انہوں نے خالی پیٹ ہوتے ہوئے بھی دشمن کو شکست دی اور اسلام کے لئے نمایاں کامیابی حاصل کی.تاہم اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اب میدان بدل گیا ہے.آج تو توپ و تفنگ اور ایٹم بم کی جنگ ہمارے نزدیک مذہب کی جنگ نہیں ہے.اس وقت ہم نے اخلاق کے ساتھ ، روحانی علوم کے ساتھ ، اخلاقی حسن کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی صفات کی شمع دکھا کر ظلمتوں کو دور کر کے اسلام کی جنگ جیتنی ہے.ہمیں دنیا سے پیار کرنا ہے اور لوگوں کو کچھ دینا ہے ان سے لینا کچھ نہیں.میں اس ضمن میں آگے چل کر بھی بتاؤں گا.جب ہم کہتے ہیں کہ ہم نے دنیا کو دینا ہے تو خدا پوچھتا ہے.کتنا لینا ہے.کئی دفعہ آپ بچوں سے پوچھتے ہیں کہ کتنے پیسے لینے ہیں.آپ کی نیت ہوگی کہ میں اسے دس روپے دوں گا.مگر بچہ کہتا ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء ابا جی ! دو آ نے لینے ہیں.اس بے چارے کو دو آنے ہی بہت نظر آتے ہیں.وہ یہ کہتا ہی نہیں کہ روپیہ لینا ہے.تو وہی ہماری حالت ہے.ہمیں کیا پتہ.خدا پوچھتا ہے کتنا لینا ہے اور کتنا دینا چاہتے ہو میری راہ میں ، وہ میں دے دیتا ہوں.ذرہ سا نام لیتے ہیں لیکن وہ اس کے مقابلہ میں اپنے انعامات کو کہیں کا کہیں لے جاتا ہے.اس کی آگے چل کر انشاء اللہ ایک مثال بتاؤں گا.پس پچاس سے زیادہ ممالک میں اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں قائم ہو چکی ہیں جو سب کی سب ایمان سے لبریز اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کرنے والی اور خدا اور اس کے رسول سے محبت کرنے والی ہیں.تعمیر مساجد: اسی طرح کئی ملکوں میں مساجد بھی تعمیر ہو چکی ہیں.خدا تعالیٰ کی خاطر مسجدیں بنانا ہمارا فرض ہے.نماز کی عبادت یعنی وہ عبادت جس کا مسجد سے تعلق ہے، اس کو صرف مسجد تک محدودنہ رکھنا یہ ہمارا کام ہے کیونکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا (صحیح بخاری کتاب التيمم) کہ خدا نے ساری زمین میرے لئے مسجد بنادی ہے.بعض علاقوں کے احمدی دوستوں کو تکلیف پہنچے تو کہتے ہیں کہ جی ! بڑی تکلیف ہے.ہماری مسجد میں چھینی جا رہی ہیں.میں تو ایسے دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ تمہاری مسجدیں کون چھین سکتا ہے؟ تمہیں تو محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ساری زمین تمہارے لئے مسجد بنا دی گئی ہے.اس لئے تمہاری مسجدیں کوئی نہیں چھین سکتا لیکن ان باتوں کے باوجود پھر بھی ہم جہاں موقع ملتا ہے مسجد میں تعمیر کرتے ہیں کیونکہ جمعہ کے لئے اکٹھے ہونے اور دینی مجالس کے انعقاد کے لئے مسجدوں کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر یہی مساجد ہمارے لئے مدرسہ کا کام دیتی ہیں.چنانچہ اس سال اس وقت تک پندرہ نئی مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور جو خطوط مجھے پہنچے ہیں، ان کے مطابق میں سمجھتا ہوں کہ میں چھپیں مساجد اس وقت زیر تعمیر ہیں اور وہ بھی دو چار ماہ تک مکمل ہو جائیں گی.ہماری جماعت میں بعض ایسے جو شیلے لوگ بھی ہیں کہ یہاں سے کسی دوست نے اپنے ایک رشتہ دار کو افریقہ میں خط لکھا جس میں اس نے اور باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا کہ یہاں ہماری ایک مسجد جلا دی گئی ہے.افریقنوں نے سنا تو ان میں سے کسی نے کہا کہ ہم یہاں ایک مسجد بنا دیں گے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء اور اس طرح مسجدوں کی تعداد کم نہیں ہونے دیں گے.چنانچہ انہوں نے وہاں ایک مسجد بنادی.تو مسجد خدا تعالیٰ کا گھر ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا انَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ (الجن : ۱۹) فرمایا کوئی شخص یہ دعوی نہ کر بیٹھے کہ مسجد اس کی ملکیت میں ہے.مسجد تو خدا کی ملکیت ہے کیونکہ یہ اس کا گھر ہے.فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًا (الجن: ۱۹) اور مسجد کی اتنی شان ہے کہ خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے والا ہر شخص اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق اس میں عبادت کر سکتا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا جو کہ عیسائیوں کے یونیٹیرین فرقہ سے تعلق رکھتا تھا.یہ فرقہ تثلیث کا منکر اور خدائے واحد و یگانہ کو ماننے والا تھا.عیسائیوں میں بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو خدا کو وحدہ لا شریک مانتے ہیں اور حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے.غرض جب وہ وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تبادلہ خیالات کے لئے آیا تو دورانِ گفتگو ان کی عبادت کا وقت آ گیا چنانچہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ چونکہ ان کی عبادت کا وقت ہو گیا ہے اس لئے اجازت دیں تا کہ وہ باغ میں جا کر عبادت کر سکیں تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باغ میں جانے کی کیا ضرورت ہے.یہ میری مسجد ہے.یہ خدا کا گھر ہے.اس میں خدائے واحد و یگانہ کی عبادت ہوتی ہے.کسی کا خواہ کوئی عقیدہ ہو وہ یہاں اپنی عبادت کر سکتا ہے.اس لئے وہ بھی یہاں عبادت کر سکتے ہیں.۱۹۶۷ء میں جب میں ڈنمارک گیا اور ڈنمارک کی مسجد کا افتتاح کیا تو وہاں کچھ عیسائی بھی افتتاحی تقریب میں شریک تھے.مجھے وہاں کے مبلغین نے کہا کہ یہ لوگ اسلام میں دلچسپی تو رکھتے نہیں.اگر آپ نے لمبی تقریر کی تو یہ لوگ بور ہو جائیں گے اور اُکتا کر چلے جائیں گے.میں نے کہا ٹھیک ہے تقریر مختصر کر دیتے ہیں.میں نے اپنے خطبہ میں تین چار پوائنٹس (Points) لئے اور صرف تین منٹ کے اندر بیان کر دیئے.میں نے اس موقع پر وَ أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ أَحَدًا ( الجن: ۱۹) کی مختصر تشریح کی اور نجران کے عیسائی وفد کی مثال دی.یہ تقریر دراصل خطبہ تھا جو میں نے جمعہ کی نماز سے قبل بطور افتتاح کے دیا تھا.خطبہ کے بعد نماز کے لئے جب میں کھڑا ہوا تو سینکڑوں عیسائی باقاعدہ نیت باندھ کر ہمارے ساتھ نماز میں
خطابات ناصر جلد دوم ۳۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء شامل ہو گئے.نماز کے بعد مجھے دوستوں نے بتایا کہ جب ہم رکوع میں جانے لگے تو ان کو چونکہ رکوع کرنے کا پتہ نہیں تھا اس لئے وہ ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد رکوع میں چلے گئے جب قیام کیا تو پھر ادھر اُدھر دیکھا اور دوسرے لوگوں کی طرح رکوع سے قیام کر لیا اس طرح سجدہ میں چلے گئے.گویا اس موقع پر موجود تمام عیسائیوں نے بھی ہمارے ساتھ پورے ارکان نماز ادا کئے.صرف اس لئے کہ میں نے خدا کے اس اعلان کو دہرایا تھا وَ أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ أَحَدًا (الجن : ١٩) تو یہ ہے خدا کے کلام کی برکت اور یہ ہے اسلام کی مسجد کی شان.یہ مسجد بہت خوبصورت ہے.اس کو دیکھنے کے لئے اب تک جب بھی کوئی عیسائی یا غیر مسلم آتا ہے تو اگر نماز کا وقت ہوتا ہے وہ بھی نماز میں شامل ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمیں اسلام جیسا عظیم مذہب دیا ہے اور قرآن جیسی حسین شریعت عطا کی ہے لیکن افسوس ہے لوگ اسے بھلا بیٹھے ہیں.لوگوں کی یہ بھول بھی بہت بڑی بھول ہے.پس میں بتایہ رہا تھا کہ اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام پندرہ نئی مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور میرے علم کے مطابق درجنوں مسجد میں اس وقت زیر تعمیر ہیں.تراجم قرآن مجید : پھر جہاں تک قرآن مجید کے تراجم کا سوال ہے، ہم نے انشاء اللہ دُنیا کی ہر زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنا ہے لیکن اس وقت تک صرف سات زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم ہو چکے ہیں.اس سال دونئی زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے ہوئے ہیں ، جن میں ایک لو گنڈی زبان بھی ہے.سکولوں اور کالجوں کا اجراء: عام دنیوی علوم بھی انسان کو خدا تعالیٰ کی قدرت کے نظاروں سے متعارف کراتے ہیں.چنانچہ تحریک جدید کے ماتحت علم کی روشنی سے انسانی دلوں کو منور کرنے کے لئے چھہتر سکول اس وقت جماعت مختلف ممالک میں ( پاکستان اور ہندوستان سے باہر ) چلا رہی ہے.یہ سکول زیادہ تر مغربی اور مشرقی افریقہ میں قائم ہیں.ان میں سولہ چھوٹے کالج ہیں جو ہمارے ملک میں انٹر میڈیٹ کالج کہلاتے ہیں.جہاں ایف اے اور ایف ایس سی تک تعلیم دی جاتی ہے.بیرون ملک میں انہیں ہم ہائر سیکنڈری سکول کہتے ہیں.ویسے افریقہ میں
خطابات ناصر جلد دوم ۳۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء تقریباًہمارے تمام سکولوں میں ایف ایس سی تک پڑھائی ہوتی ہے.یہ تمام سکول خدا کے فضل سے بڑی کامیابی سے چل رہے ہیں اور وہاں کے مقامی لوگ بھی درجنوں کی تعداد میں ان سکولوں میں اساتذہ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور وہ بڑے اچھے دل کے مالک ہیں.ایک وقت میں سیرالیون کی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ وہ تمام سکولوں کو نیشنلائز کرے گی یعنی قومی تحویل میں لے لے گی.ہمارے مبلغ بہت گھبرائے.انہوں نے مجھے اطلاع دی تو میں نے انہیں لکھا کہ ہم نے ان ہی کے لئے یہ سکول بنوائے تھے.حکومت ان کو نیشنلائز کرے گی تو کیا ہو جائے گا.یہ سکول ہم نے اپنے گھر میں تو نہیں لے جانے.اُنہی کی خاطر ہم نے بنائے ہیں تو اگر وہ قومیانہ چاہتے ہیں تو بڑی خوشی سے ایسا کر لیں.چنانچہ جب میں ۱۹۷۰ ء میں مغربی افریقہ کا دورہ کرتے ہوئے سیرالیون پہنچا تو اس وقت تک وہاں ہمارے تمام سکول قومیائے جاچکے تھے لیکن ان میں تعلیم و تربیت کا انتظام حسب سابق ہمارا ہی چل رہا تھا.نہ ہمارے استادوں کو نکالا گیا.نہ ہمارے انتظام کو بدلا گیا.جس طرح پہلے وہاں کے مقامی لوگ انتظام میں شامل تھے اسی طرح اب بھی ہیں.سیرالیون کے دارالحکومت فری ٹاؤن میں قائم شدہ ہمارے احمد یہ سیکنڈری سکول کی آخری کلاس جو ایف اے، ایف ایس سی کا امتحان پاس کر چکی تھی اس کلاس نے میرے وہاں پہنچنے سے پہلے سندات حاصل کرنی تھیں.پرنسپل کے ذہن میں یہ بات آئی اور انہوں نے لڑکوں سے کہا تم سندات لے لو گے کیا مزہ آئے گا.چونکہ ہیڈ آف دی کمیونٹی یعنی خلیفہ المسیح تشریف لا رہے ہیں ان کے ہاتھ سے دلوائیں گئے تو تمہارے لئے یہ امر بہت ہی خوشی کا موجب ہوگا.انہوں نے کہا کہ اگر ان کے ہاتھ سے ہمیں سندات دلوانی ہیں تو ہمارے بیعت فارم بھی پُر کروا ئیں.چنانچہ اس کلاس کے تمام عیسائی بچے جنہوں نے انٹر میڈیٹ امتحان پاس کر کے سندیں لینی تھیں بلا استثنا سب نے اسلام میں شمولیت اختیار کی اور وہ سندات لے کر چلے گئے.پس نوع انسانی کی ہم یہ خدمت کر رہے ہیں اور اس خدمت کے ذریعہ سے ہم ان کے دماغوں میں آہستہ آہستہ یہ بات بھی ڈالتے رہتے ہیں کہ چاہے تم کیمسٹری سیکھو یا فزکس پڑھوسب کچھ حاصل کرو لیکن یہ بات بھی یاد رکھو کہ تمہاری ترقی کا راز اسلام میں ہے.چنانچہ میں نے سیرالیون میں یونیورسٹی کے فارغ التحصیل بچوں سے ایک تقریر میں انہیں بتایا کہ خدا تعالیٰ
خطابات ناصر جلد دوم ۴۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء تمہیں اپنی نعمتوں سے نوازا ہے.اس نے تمہارے باغات کے درخت پھلوں سے بھر دیئے ہیں.یعنی نعمتوں کے طور پر تمہیں پھل عطا ہوئے ہیں لیکن یہ یاد رکھو کہ کوئی پھل خود بخود آ کے تمہاری گود میں نہیں گرے گا.تمہیں یہ پھل درخت پر چڑھ کر خود توڑنے ہوں گے.یعنی محنت کرنی پڑے گی.پس خدا نے تمہیں عقل و سمجھ عطا کی ہے.تم محنت کرو اور ترقی حاصل کرو.میں نے افریقن بھائیوں سے بھی کہا کہ دیکھو! دنیا علم میں بہت ترقی کر گئی ہے اور حصول علم میں بہت آگے نکل گئی ہے.یہ تو درست ہے لیکن جہاں تک خدا تعالیٰ کی قدرت کا سوال ہے، دنیا اس وقت علوم کے سمندروں کے کناروں پر کھڑی ہے.اس لئے تمہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں.تم حصول علم میں اس سے بھی آگے نکل سکتے ہو کیونکہ علموں کا خزانہ تو بند نہیں ہوا.پس یہ باتیں ان کے دماغوں میں ڈالنے کے لئے اور انہیں دینی اور دنیوی ہر دولحاظ سے ترقی دینے کے لئے ہم وہاں گئے ہیں، ان سے پیسے حاصل کرنے کے لئے تو نہیں گئے.میں نے اپنے دورہ کے دوران اس حقیقت کو کھل کر بیان کیا.چنانچہ میری ان باتوں سے وہاں کے تمام سربراہان مملکت ، افسرانِ بالا ، جملہ امیروں اور غریبوں نے اتفاق کیا اور کسی نے بھی اس کی تردید نہیں کی.میں ان سے یہی کہتا تھا کہ دیکھو ہم یہاں صرف تمہاری خدمت کے لئے آئے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ تمہارے دل میں خدائے واحد و یگانہ کی محبت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق پیدا ہو جائے.اس غرض کے لئے کسی جگہ پچاس سال سے اور کسی جگہ چالیس سال سے ہم با قاعدہ تمہاری خدمت میں مصروف ہیں.تم بھی گواہ ہو اور تمہاری حکومتیں بھی گواہ ہیں اور تمہاری انتظامیہ بھی گواہ ہے کہ اس عرصہ میں نہ ہم نے کبھی تمہاری سیاست میں دلچسپی لی ہے.نہ ہم نے تمہارے اموال پر نگاہ کی ہے بلکہ اس کے برعکس احمدیوں نے باہر کے ممالک میں کمائی کی اور اپنی کمائی خدا کی خوشنودی کے لئے تمہارے آگے ڈال دی تاکہ تم ترقی کرو.علاوہ ازیں تم نے بھی جو مالی قربانی دی وہ باہر نہیں گئی وہ بھی آپ کی بہتری پر خرچ ہوئی.خدا تعالیٰ تو بہت دینے والا ہے.وہ خدا جو تمہیں یہاں دیتا ہے، وہی خدا ایک احمدی کو انگلستان میں دیتا ہے اور اس طرح دوسرے ملکوں میں بھی اپنے پیاروں کو دیتا ہے لیکن یہ بات کہ خدا تعالی کس طرح چھپر پھاڑ کر دیتا ہے، میں اسے نصرت جہاں سکیم کے ضمن میں بیان کروں گا.
خطابات ناصر جلد دوم ام دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء وقف جدید : یہ تحریک تربیتی کام کرتی ہے اور اس کے علاوہ اصلاح وارشاد کا کام بھی کرتی ہے.اس کے تحت تھوڑی سی ٹریننگ کے بعد ہم مخلص دلوں کو باہر بھیج دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کے ذریعہ بڑے اچھے نتائج نکال رہا ہے.اس تحریک میں کام کرنے والے بعض اچھے اور بعض درمیانے درجے کے واقفین ہوتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے مجموعی طور پر کام تسلی بخش ہے.اس سلسلہ میں یہ کہوں گا کہ ایک تو نو جوانوں کو چاہئے کہ جن کو اللہ تعالیٰ ہمت دے کم از کم مڈل پاس کر کے آئیں.چند ماہ یا ایک سال کا کورس ہے.اس کے بعد اپنے اسی ملک میں خدمت دین کا کام کریں.معلمین وقف جدید جب سندھ میں ہندوؤں کے علاقے میں گئے اور انہوں نے ہندوؤں کو تبلیغ کی تو ہزاروں ہندو مسلمان ہو گئے.اب وہ بے چارے پریشان ہورہے ہوں گے کہ ہم کیا ہو گئے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کے تحت مختلف دیہات میں اس سال نو مساجد تعمیر کی گئی ہیں.فضل عمر فاؤنڈیشن: یہ ایک محدود ادارہ ہے جسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیاری یاد میں ایک فنڈ کی شکل میں قائم کیا گیا تھا.اس کی وصولیوں کا وقت گذر چکا ہے.جماعت نے اس فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیا.اب اس فنڈ کے ذریعہ مختلف کام ہو رہے ہیں.یہ فنڈ بھی جماعت ہی کا ہے.شکل ذرا بدلی ہوئی ہے.اس ادارہ نے بعض عمارتیں بنا کر جماعت کو تحفہ دی ہیں مثلاً ہماری خلافت لائبریری ہے اس کی عمارت اس فنڈ سے تعمیر ہوئی ہے.اس کا فرنیچر بھی فاؤنڈیشن نے تیار کروا کر دیا ہے.اس ضمن میں احباب جماعت سے میں یہ کہوں گا کہ جس دوست کے پاس کوئی فالتو کتاب ہو وہ اس کو لائبریری میں بھجوا دیا کریں بجائے پھاڑنے یا پھینک دینے کے بہتر ہوگا کہ اس لائبریری میں بھجوا دیں تا کہ وہ آئندہ کام آتی رہیں.پس جس کسی دوست کے پاس کسی قسم کی بھی کوئی کتاب ہو تو وہ ہماری خلافت لائبریری میں بھجوا دیا کریں.اگر وہ اس کے کام کی نہ ہوگی تو دوسرے کے کام ضرور آجائے گی.دنیا کی ہر کتاب کسی نہ کسی رنگ میں ضرور کام آنے والی چیز ہے.یہاں تک کہ بعض دفعہ ایسی کتابیں جن میں فضول قسم کی کہانیاں ہوتی ہیں، وہ بھی بعض دفعہ کام دے جاتی ہیں.میں ایسی کتابوں کو عام طور پر بکواس کہا کرتا ہوں بعض دفعہ کام کر کے آدمی تھک جاتا ہے مثلاً کئی دن ایسے بھی آتے ہیں کہ
خطابات ناصر جلد دوم ۴۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء مجھے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام کرنا پڑتا ہے.ایسی صورت میں جب دماغ تھک جائے اور رات کو نیند نہ آرہی ہو تو میں ایسے موقع پر اپنے گھر کہا کرتا ہوں کہ کوئی بکواس ہے تو لا ؤ ا سے پڑھوں کیونکہ اس وقت دماغ سنجیدہ کتاب پڑھنے کو تیار نہیں ہوتا.اس طرح جب اس قسم کی کتاب کے چند صفحے پڑھتا ہوں تو نیند آ جاتی ہے.غرض ہر کتاب کا کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ہے.چونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر چیز تمہاری خدمت کے لئے لگائی ہوئی ہے تو اس قسم کی بکواس کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہماری خدمت پر لگایا ہوا ہے.اسی طرح فاؤنڈیشن کے تحت مقالے لکھوائے جاتے ہیں.مقالوں کے لکھنے کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے.اس بات کو میں مختصر طور پر اصولی رنگ میں بیان کروں گا.ہمارا جو عالم طبقہ ہے یعنی Scholars of Ahmadiyyat in Islam کو مقالہ لکھنے میں دلچسپی لینی چاہئے.اس سلسلہ میں نئے نئے مضامین لکھنے چاہئیں.جو علماء سلسلہ کے ذاتی پسندیدہ مضامین ہیں ان کے لئے وہ مجھے لکھ دیں میں ان مضامین کو اس فہرست میں شامل کروا دوں گا جن پر مقالے لکھنے کی تحریک کی جاتی ہے.پس اپنے اپنے ذوق کے مطابق مقالے لکھو اور پوری تحقیق کرو اور ہر تحقیق کو اس کی انتہاء تک پہنچا دو.میں پہلے بھی کئی بار بتا چکا ہوں، ۱۹۷ء میں مغربی افریقہ کے دورہ پر جب میں سیرالیون پہنچا تو وہاں کے گورنر جنرل نے ہماری دعوت کا اہتمام کیا.اس دعوت میں سیرالیون کے لاٹ پادری کو بھی مدعو کیا گیا تھا.چنانچہ جب اس لاٹ پادری کا مجھ سے تعارف کروایا گیا تو چونکہ میرے اور گورنر کے درمیان صوفے پر جگہ خالی پڑی تھی اس لئے اس پادری کو ز بر دستی وہاں بٹھا دیا گیا.اب اس لاٹ پادری صاحب نے مجھ سے اس طرح باتیں شروع کیں کہ پتہ نہیں مشرقی ممالک سے یہ کون جاہل آ گیا ہے.اسے گویا دنیوی علوم کی کیا خبر ہے.میں نے جب یہ تاثر لیا تو میں دعا میں مشغول ہو گیا میں نے دل میں مختصر ا مگر بڑی تضرع سے دعا کی اور کہا اے خدا ! میں توحید کا نمائندہ ہوں اور یہ تثلیث کا نمائندہ ہے اور سر اونچا کر کے بڑے فخر سے تو حید کے نمائندے سے بات کر رہا ہے.تو مجھے اپنے فضل سے کوئی ایسی بات سکھا کہ توحید کے آگے اس کا سر جھک جائے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے میرے دماغ میں دو مضمون ڈالے.ایک Galaxies یعنی
خطابات ناصر جلد دوم ۴۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء ستاروں کا علم تھا جس کا اس نے نام بھی نہیں سُنا ہوا تھا اور اس مضمون کو بیان کر کے میں نے ثابت کیا کہ خدا ایک ہے.دوسرا مضمون ”Science of chance ، یعنی اتفاق کی سائنس سے متعلق تھا اور اس سے بھی میں نے یہی ثابت کیا کہ خدائے واحد و یگانہ ہے.خدا کی شان کہ اس کا بھی اس نے نام نہیں سنا ہوا تھا.جب میں نے ان دو مضامین پر گفتگو شروع کی تو اس کا سر آہستہ آہستہ جھکنا شروع ہو گیا.جب دعوت ختم ہوئی اور ہم واپس جانے لگے تو اس پادری کا سر میرے سامنے اس طرح جھکا ہوا تھا کہ گویا وہ کسی سے جھک کر مصافحہ کر رہا ہو.میں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور یہ کہتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا کہ اے میرے خدا! میں نے تو تجھ سے یہ دعا مانگی تھی کہ یہ پادری بڑے تکبر کے ساتھ تیرے نمائندہ کے سامنے بیٹھا ہے تو اپنے فضل سے اس کا سر تو حید کے سامنے جھکا دے.میں تیرا نمائندہ ہوں اور تیرا عاجز بندہ ہوں اور اپنے اندر کوئی خوبی نہیں دیکھتا لیکن یہ تثلیث کا نمائندہ ہو کر اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے تو نے اپنے تو فضل سے اس کا سر جھکا دیا.فالحمد للہ علی ذالک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اور آپ نے کیا ہی درست اور بیچ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری جماعت کے علماء کو اس قدر نور فراست عطا کرے گا کہ نہ صرف یہ کہ وہ اسلام کی برتری دنیا میں ثابت کریں گے بلکہ اسلام کے خلاف تمام مذاہب کا بودا اور جھوٹا ہونا اور کمزور ہونا دنیا پر ثابت کر دیں گے.چنانچہ علم کی یہ شمع لے کر ہم میدان علم میں اترے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے جو وعدے ہیں وہ پورے ہو رہے ہیں.میں نے اس ضمن میں ایک چھوٹی سی مثال دی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ ہی ہے جو ہمیں ہر موقع پر سکھاتا ہے.ایک اور مزے دار بات بھی سنا دیتا ہوں.۱۹۶۷ء میں جب میں یورپ کے دورے پر گیا تو دو عیسائی ایسوسی ایشنز اور ایک ادیبوں کی ایسوسی ایشن نے ڈنمارک میں ہمارے انچارج مبلغ کو ٹیلی فون کیا کہ وہ امام جماعت احمدیہ سے ملنا چاہتے ہیں.اس وقت میں یورپ کے دوسرے مشنوں کا دورہ کر رہا تھا.مجھے جب ہمارے مبلغ نے اطلاع دی تو میں نے اسے بذریعہ فون بتایا کہ قلتِ وقت کے پیش نظر میں ان تینوں جماعتوں سے الگ الگ نہیں مل سکتا بہتر ہوگا کہ وہ تینوں جماعتیں اکٹھی ہو کر ایک ہی وقت پرمل لیں.چنانچہ وہ تنظیمیں اس پر متفق ہو گئیں اور جب میں ڈنمارک پہنچاتو وہ اکٹھی ہو کر مقررہ وقت پر
خطابات ناصر جلد دوم ۴۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء ملنے آگئیں.وفد کے جملہ اراکین بڑی تہذیب سے بات کرتے تھے.اسلام کا نام بھی بڑے ادب سے لیتے تھے لیکن ان میں سے ایک شخص نے تھوڑی سی شوخی دکھائی.اس کا اعتراض یا جو مسئلہ وہ پیش کرنا چاہتا تھا اس کا تعلق اصول فقہ سے تھا.اب میں خدا کی شان بتا تا ہوں کہ جب اس نے اعتراض کیا تو میری طبیعت میں آیا کہ میں کج بحثی نہیں کروں گا.اس آدمی کے دائیں طرف ایک پادری بیٹھا ہوا تھا اور اس کے دائیں طرف ایک اور پادری بیٹھا ہوا تھا.پتہ نہیں مجھے کیا سوجھی (اب تو پتہ ہے اس وقت پتہ نہ تھا ) فرشتوں نے میرے دماغ پر عجیب تصرف کیا میں نے کہا میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتا.میں نے اس تیسری جگہ پر بیٹھے ہوئے پادری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ اس علم کا ماہر ہے.یہ تمہیں بتائے گا کہ میں ٹھیک بات کہہ رہا ہوں اور جو تم کہہ رہے ہو وہ غلط ہے.چنانچہ اس پادری نے معترض کی طرف منہ کر کے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ ٹھیک کہتے ہیں.تم غلط کہتے ہو.بعد میں وہ پادری صاحب ہمارے کمال یوسف صاحب سے ملے اور کہنے لگے میں تو ان بارہ میں سے ( وہ کل بارہ آدمی ملنے آئے تھے ) ایک تھا ہی نہیں.مجھے تو رات دس گیارہ بجے فون کے ذریعہ اطلاع دی گئی کہ جن بارہ آدمیوں نے ملنا تھا ان میں سے ایک آدمی کسی وجہ سے نہیں آ سکتا اس لئے تم بارہویں آدمی کی حیثیت میں وفد میں شامل ہو جاؤ.تو میں تو رات کے وقت شامل ہوا ہوں.صبح انٹرویو تھا میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم لوگوں نے تحقیق کر کے حضرت صاحب کو بتا دیا ہوگا کہ یہ شخص اس فن کا ماہر ہے اور میری طرف اشارہ کر دیا لیکن یہ بتاؤ حضرت صاحب کو کس نے بتایا تھا کہ میں اس فن کا ماہر ہوں.اب وہ کیسے جانیں کہ خدا تعالیٰ نے بتایا تھا جو علام الغیوب ہے.چنانچہ میرے منہ سے جب یہ فقرہ نکلا اور اسے مخاطب کیا تو میں خود بھی بڑا پریشان ہوا.میں نے دل میں کہا کہ اگر وہ شخص انکار کر دے کہ میں اس فن کا ماہر نہیں ہوں تو میری بے عزتی ہو جائے گی کہ یہ کیا بات میرے منہ سے نکل گئی.مگر یہ فقرہ تو خدا نے میرے منہ سے نکلوایا تھا اس لئے غلط کیسے نکل سکتا تھا.پس جہاں ہم اپنے علم سے بات کرنے کے ناقابل ہوتے ہیں، وہاں اس بشارت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فرشتہ آکر ہمارے منہ سے بات کہلوا دیتا ہے.۱۹۶۷ ء کا ایک اور واقعہ بھی بتا دیتا ہوں.ہالینڈ میں ایک پریس کانفرنس ہوئی جس میں بہت سے صحافی شریک تھے پچپیس تھیں صحافیوں
خطابات ناصر جلد دوم ۴۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء کے ایک ہجوم سے سارا کمرہ بھرا ہوا تھا.ان دنوں عرب اسرائیل جنگ کی وجہ سے عیسائیوں میں مسلمانوں کے خلاف بڑا سخت بغض تھا چنانچہ اس پر یس کا نفرنس کے دوران ایک صحافی نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آپ نے ہمارے ملک میں کتنے مسلمان بنالئے ہیں.اس نے سوچا تھا کہ ان کا یہاں تھوڑا بہت اثر ہو رہا ہے.میں سوال کروں گا یہ کہیں گے ایک دو در جن مسلمان ہوئے ہیں اور بس.اس طرح ان کا یہ اثر زائل ہو جائے گا.غرض جب اس نے یہ سوال کیا تو میں نے کہا میرا اور تمہارا اس بات میں اختلاف ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے کتنا زمانہ اس دنیا میں گذار ا یا وہ کتنا عرصہ زندہ رہے.چلو تم اس بات کو بھی چھوڑ دو تمہارے نزدیک وہ جتنے سال اس دنیا میں رہے تھے.انہوں نے ساری عمر میں جتنے عیسائی بنائے تھے، اس سے زیادہ ہم تمہارے ملک میں مسلمان بنا چکے ہیں.اب عمر بھر میں پہلی دفعہ اچانک مجھ سے ایسا سوال ہوا تھا اور اس کا جواب تو میرا دماغ سوچ بھی نہ سکتا تھا اور عین اس وقت جب کہ سوچنے کا وقت ہی نہیں تھا.اس صحافی نے اچانک یہ سوال کیا اور میں نے اس کا جواب دیا تو وہ بے چارہ اتنا شرمندہ ہوا کہ اس نے اپنا سر جھکا لیا اور دوبارہ مجھ سے سوال کرنے کی جرات نہ کی.قریباً چالیس منٹ کے بعد میں خود ہی اس سے مخاطب ہوا اور کہا تم نے سوال کر کے ہی دلچسپی لینی چھوڑ دی ہے لیکن میری دلچسپی برقرار ہے.تم کوئی اور بات پوچھو.اس نے ڈرتے ڈرتے کچھ اور سوال کئے مگر خدا نے ہر سوال کا جواب موقع پر سجھا دیا اور یہ خدا کا فضل تھا جس پر میں خدا کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہر احمدی کو یہ بشارت دی ہے.اس بشارت کے ہوتے ہوئے ہم میں سے اگر کوئی شخص پیچھے ہٹے، جھجکے اور گھبر ائے یا اس کی طبیعت میں اگر یہ خیال ہو کہ وہ دنیا میں کیسے آگے نکلے گا تو وہ شخص بیوقوف ہے.اسے چاہئے کہ ایسی جہالتیں چھوڑ دے.پس مجھے اور تمہیں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اتنا علم دیں گے کہ اسلام کے خلاف دنیا کی جہالتوں کو جہالت ثابت کر دیا جائے گا تبھی تو ہم دنیا کے دل اسلام کے لئے جیتیں گے.غرض یہ مقالے جو فضل عمر فاؤنڈیشن کی طرف سے انعامی مقابلہ میں لکھے جاتے ہیں ، ان کی تعداد بڑھنی چاہئے.ویسے ان کے لئے تھوڑا سا انعام بھی رکھا ہوا ہے، وہ بھی حاصل کرنا چاہئے.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی برکت ہے.یہ انعام ایک ہزار روپے سے بڑھا کر ڈیڑھ ہزار روپے فی مقالہ کر دیا گیا ہے.خطبات محمود کا ایک حصہ چھپ چکا ہے اور دوسرا تیار ہے.شوریٰ تک انشاء اللہ ہپ جائے گا اسی طرح سوانح حیات حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کی پہلی جلد تیار ہو چکی ہے.میرے چھوٹے بھائی مرزا طاہر احمد صاحب سوانح حیات حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کو ایڈٹ کر رہے ہیں.اس کا ایک حصہ مکمل ہو چکا ہے اور انشاء اللہ جلد چھپ جائے گا.یہ کتاب بعض مستحق طلباء کو بھی دی جائے گی.جماعت کی طرف سے اس سال دو جگہ بہت زیادہ ضرورت پیدا ہوگئی تھی.گوساری ضرورتیں تو ہم پوری نہیں کر سکتے تھے لیکن میں نے جماعت کو کہا کہ ایک تو تمہاری فوری ضرورتیں ہیں اور ایک اللہ تعالیٰ کے عظیم فضل ہیں.تو جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں نے تم کو دینا ہے، وہ تو نہ میں تم کو دے سکتا ہوں اور نہ جماعت دے سکتی ہے لیکن یہ کہ کوئی شخص حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی کی طرف منسوب ہو اور وہ بھوکا رہے تو یہ تو نہیں ہوگا.چنانچہ اس سلسلہ میں جماعت کو بارہ لاکھ سے زائد رقم خرچ کرنی پڑی.کیونکہ میرے دل میں غیرت تھی اس لئے اس کے لئے جماعت سے کوئی چندہ نہیں مانگا گیا.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، اس وقت پچاس سے زیادہ ملکوں میں ہماری جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.ان میں سے اکثر نے مجھے لکھا کہ ہم تڑپ رہے ہیں.ہمیں اجازت دیں.ہم پیسے اکٹھے کر کے اپنے پاکستانی بھائیوں کے لئے بھجوائیں.میں نے انہیں کہا کہ یہاں آپ کے بھائیوں کو آپ کے پیسے کی ضرورت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ یہیں سے ان کے لئے انتظام کر دے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے انتظام کر دیا.مگر جن لوگوں کا حق تھا اور جن کا یہ فرض تھا کہ وہ مدد کریں کیونکہ وہ دنیوی لحاظ سے مائی باپ سمجھے جاتے ہیں وہ اس موقع پر اپنا فرض بھول گئے لیکن ہم کسی پر اعتراض کیوں کریں جب کہ اس کے بدلے میں ہم نے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو آسمان سے نازل ہوتے ہوئے دیکھا.ویسے بھی بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کماتے تو ہیں لیکن وہ اپنی کم سے کم جو ضرورت ہے مثلاً یہ کہ ان کے افراد خانہ کوکھا ناملنا چاہئے یا کپڑے ملنے چاہئیں ، وہ اپنی آمد سے ان اخراجات کو پورا نہیں کر سکتے ایسے دوستوں کو بھی بھائیوں کی طرح کچھ نہ کچھ رقم چپ کر کے ان کے ہاتھ میں رکھ دی جاتی رہی ہے.چنانچہ بارہ لاکھ روپے
خطابات ناصر جلد دوم ۴۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء کے علاوہ تین لاکھ روپے کی یہ رقم بھی جماعت نے خرچ کی.مجلس نصرت جہاں : ۱۹۷۰ ء میں جب میں افریقہ کے دورے پر گیا تو گیمبیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے اشارہ ہوا کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ ان ملکوں کی خدمت کے لئے جماعت فوری طور پر خرچ کرنے کا انتظام کرے.اس وقت میں نے پاکستانی احباب کو بھی اور بیرون ملک کی جماعتوں سے بھی کہا تھا کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ایک لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ خرچ : کرو تو کم از کم وہ ایک لاکھ پاؤنڈ ضرور دے گا.مجھے جس بات کی فکر ہے وہ یہ ہے کہ میری اور آپ کی طرف سے جو حقیر سی قربانی خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہوگی وہ اسے قبول کرتا بھی ہے یا نہیں.اس کے لئے آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قربانی کی توفیق بھی دے اور اسے قبول بھی فرمائے اور ہم پر اپنی برکتیں نازل کرے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اندرون اور بیرون پاکستان کی تمام جماعتوں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اب ذرا خدا تعالیٰ کی برکتیں مشاہدہ ہوں.میں اس حصہ کو بھی مختصر بیان کروں گا.میں نے اس ضمن میں احباب جماعت سے یہ کہا تھا کہ میری یہ خواہش ہے کہ جتنے سال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ہیں ، اتنے لاکھ روپے اس فنڈ میں جمع ہو جائیں.آج کل کے حساب سے یہ قریباً دولاکھ پاؤنڈ سے زائد رقم بنتی ہے.چنانچہ میری اس تحریک پر جماعت نے اس وقت تک باون تریپن لاکھ روپے کے قریب رقم دے دی.ان ترپین لاکھ روپے میں سے اگر ساری کی ساری نہیں تو اسی فیصد موجود ہے اور یہ ترپن لاکھ روپے کی رقم ساری دنیا کے احمدیوں نے دی ہے.یہ سرمایہ قریباً سارا موجود ہے.اس میں سے تھوڑا سا خرچ ہوا ہے.پاکستان سے باہر کی جماعتوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے ماتحت جو کام کئے گئے ان پر پچھلے تین ساڑھے تین سال میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے بیرون پاکستان اور بیرون ہندوستان کی جماعتوں نے اس سکیم پر ایک کروڈ بائیس لاکھ روپے خرچ کئے اور جماعت نے دیا کیا تھا، تریپن لاکھ روپے.جس میں سے غالباً چالیس لاکھ روپے سے زائد رقم اس وقت نقد موجود ہے اور ایک کروڑ بائیس لاکھ روپیہ باہر کی جماعتوں نے خرچ کر دیا.وہ روپیہ کہاں سے آیا تھا؟ یہاں کی جماعتوں نے تو وہ روپیہ نہیں دیا تھا.احباب سوچیں اور
خطابات ناصر جلد دوم ۴۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور الْحَمْدُ لِلهِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ للہ پڑھیں.یہ ایک کروڑ بائیس لاکھ روپے کی جو رقم ہے یہ جماعت نے تو نہیں دی تو پھر آئی کہاں سے؟ میں بتا تا ہوں کہ یہ کہاں سے آئی.یہ خدا تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے.خدا کے کام تھے.اس نے ان کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے اور یہ رقم آگئی.ہمارے دل خدا کے شکر سے لبریز اور خدمت خلق کے جذبہ سے معمور ہیں.نائیجیریا کا ایک صوبہ سوکوٹو ہے وہاں کے گورنر نے اعلان کیا کہ اس کے صوبہ میں مسلمانوں کی بہت بھاری اکثریت ہے قریباً 99 فیصد مسلمان ہیں لیکن وہ تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اس لئے لوگ ان کی تعلیمی ترقی میں حکومت کی مدد کریں.یہ ۱۹۷۰ء کی بات ہے میں اس وقت نائیجیریا میں تھا.اگلی صبح میں نے ایک احمدی نائیجیرین دوست کو جو گورنمنٹ کے سیکرٹری تھے گورنر کے پاس بھیجا اس پیشکش کے ساتھ کہ ہم تمہارے صوبہ میں چار سکول کھولتے ہیں.اس سلسلہ میں حکومت ہم سے تعاون کرے.سکولوں کے لئے زمین دے اور استادوں کو رہنے کے لئے اجازت نامے دے.چنانچہ گورنر صاحب بہت خوش ہوئے اور حکومت کی طرف سے تعاون کا یقین دلایا.ہم نے ان سے دولڑکیوں اور دولڑکوں کے سکول کھولنے کا وعدہ کیا تھا.لڑکیوں کے سکولوں کے کھولنے کے لئے کچھ مشکل پیش آگئی تھی اس لئے ان کے کھلنے میں تو کچھ دیر ہوگئی مگر ایک دو سال ہی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقے میں لڑکوں کے دو سکول کھولنے کی توفیق مل گئی.ان سکولوں کی عمارتیں بھی بن گئی ہیں.ان سکولوں کے اجراء پر ابھی تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ وہاں کی حکومت نے اعلان کر دیا کہ وہ تمام سکولوں کو نیشنلائز کر لیں گے اور جو خرچ ہوا ہے وہ دے دیں گے.جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے اپنے دوستوں کو لکھ بھیجا کہ وہ وفد کی صورت میں گورنمنٹ کے پاس جائیں اور ان کو بتائیں کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں، ہم یہاں کوئی پیسے کمانے آئے ہیں؟ ہم تو تمہاری خدمت کے لئے آئے تھے اگر تم سکول سنبھال سکتے ہو تو یہ دونوں سکول ہماری طرف سے تحفہ پیش ہیں.ہم ایک دھیلہ بھی ان کا معاوضہ نہیں لیں گے اس پر وہی گورنر صاحب بڑے خوش ہوئے اور حیران بھی ہوئے.مگر عیسائی جن کے وہاں سکول تھے وہ ہم سے ناراض ہو گئے اور غصہ میں کہنے لگے کہ ہم نے تو حکومت سے پیسے لینے تھے.تم نے معاوضہ لینے
خطابات ناصر جلد دوم ۴۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء سے انکار کر کے ہمیں بد نام اور شرمندہ کر دیا ہے.پس خدا تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی خدمت کا جذ بہ دیا ہے.وہاں پتہ ہے اس وقت تک کتنی عمارتیں بن گئیں ہیں؟ افریقہ کے ان ملکوں میں جن کا میں نے دورہ کیا تھا اس وقت تک نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت سولہ جگہوں پر ہسپتال کام کر رہے ہیں جن میں انیس کوالیفائیڈ ڈاکٹر کام کر رہے ہیں.ان کے علاوہ نرسیں اور باقی عملہ وہاں کا مقامی ہے.ان ڈاکٹروں میں دو لیڈی ڈاکٹرز جو دو ڈاکٹروں کی بیویاں ہیں خدمت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں.میں نے شروع میں جو تحریک کی تھی اس میں کہا تھا کہ اگر میاں بیوی دونوں ڈاکٹر ہوں اور وہ اس غرض کے لئے وقف کریں تو ان دونوں کو وہاں بھجوا دیا جائے گا لیکن اکیلی لیڈی ڈاکٹر کو نامحرموں کے ساتھ کیسے بھیج دوں.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اسلام کی ایک خدمت کرتے ہوئے ، ہم اسلام کا دوسرا حکم توڑ دیں.چنانچہ اس بات کی اجازت دی گئی تھی کہ ڈاکٹر کے ساتھ ان کی بیوی بھی جاسکتی ہے.چنانچہ دولیڈی ڈاکٹر ز جن کے میاں بھی کوالیفائیڈ ایم بی بی ایس اور بڑے اچھے تجربہ کار ڈاکٹر ز ہیں وہ ہمیں مل گئی ہیں اور وہ بھی وہاں کام کر رہی ہیں.اس طرح کل انیس ڈاکٹر وہاں کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان ہسپتالوں میں اب تک دس لاکھ باسٹھ ہزار مریضوں کا علاج ہو چکا ہے اور آٹھ ہزار سات سو تیرہ آپریشن ہو چکے ہیں.بعض ایسے آپریشن بھی ہوئے ہیں جن کو داخل کرتے ہوئے عیسائی ہسپتال گھبراتے تھے.کیونکہ وہ کیس (Case) بہت الجھے ہوئے تھے لیکن ہمارے بعض ڈاکٹر بہت دعا کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے.انہوں نے خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ان کا آپریشن کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسے مریضوں کو شفا عطا کی.جس کی وجہ سے افریقی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا.پس جب کہ میں نے ابھی بتایا ہے ہمارے ان ہسپتالوں میں دس لاکھ باسٹھ ہزار مریضوں کا علاج ہوا.تقریباً نو ہزار آپریشن کئے گئے.ہمارا خیال تھا کہ ہم ان ہسپتالوں میں غریب لوگوں کا مفت علاج کریں گے لیکن خدا نے کہا ہم امیروں کو بھی بھیج دیں گے.ایک دفعہ علاج کی غرض سے گورنمنٹ کا ایک وزیر بھی آگیا.اس کے دوستوں نے کہا تمہارا گورنمنٹ کا ہسپتال ہے تم وزیر ہو اور گورنمنٹ کے ہسپتال میں ہر قسم کی سہولت ہے.تم یہاں کیوں آگئے؟.تو اس وزیر نے جواب
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء دیا کہ یہ درست ہے کہ مجھے اپنے ہسپتال میں ہر قسم کی سہولت مل سکتی ہے لیکن اس احمدی ڈاکٹر کے ہاتھ میں جو شفاء ہے وہ ہمارے ہسپتال کے ڈاکٹر کے ہاتھ میں نہیں ہے.اس لئے میں یہاں آ گیا ہوں اس طرح بڑے بڑے امیر لوگ ان ہسپتالوں میں آکر علاج کراتے ہیں اور شفا پاتے ہیں.یہی حال ہمارے سکولوں کی مقبولیت کا ہے.ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر نے مجھے بتایا کہ ایک ایک دن میں پانچ پانچ وزیر میرے پاس سفارش لے کر آئے ہیں کہ فلاں فلاں لڑکے کو اپنے سکول میں داخل کر لو.غرضیکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل نے ہمارے ہسپتالوں اور سکولوں کو غیر معمولی طور پر مقبولیت سے نوازا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.میں نے بتایا ہے سولہ جگہیں ہیں، جہاں ہمارے ہسپتال کام کر رہے ہیں.ان میں سے سات جگہوں پر ہسپتال کی بڑی اچھی عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں.ان عمارتوں میں باقی سہولتوں کے علاوہ بڑا اچھا اپریٹس بھی موجود ہے.آپریشن والے کمروں کے لئے ایک ایک میز پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ ہزار روپے کی ہم نے لندن سے بھجوائی ہے.ایک جگہ پر تو ہمیں مقامی طور پر پچھتر ، استی ہزار روپے میں اس لئے خریدنی پڑی کہ لندن سے آنے میں تاخیر ہونے کا اندیشہ تھا.غرض اچھے اوزار ، اچھے مکان ستھرا ماحول اور ستھرے دلوں کے ساتھ دعا کرنے والے ڈاکٹر خدمت کر رہے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اپنے ہاتھوں میں نشتر پکڑ کر آپریشن کرتے ہیں اور لوگوں کو شفا حاصل ہوتی ہے.غرض سات جگہوں پر ہسپتال تعمیر ہو چکے ہیں.تین جگہوں پر ہسپتال زیر تعمیر ہیں.وہ بھی انشاء اللہ جلد مکمل ہو جائیں گے اور اب مزید چار ہسپتالوں کی تعمیر کی منظوری میں دے چکا ہوں وہ بھی انشاء اللہ جلد بن جائیں گے.نصرت جہاں سکیم کے ماتحت دس ہائر سیکنڈری سکول مکمل ہو چکے ہیں.اس کے علاوہ میں نے بتایا ہے کہ تحریک جدید کے بھی سولہ ہائر سیکنڈری سکول کام کر رہے ہیں.جن کی عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں.سکولوں میں پینسٹھ اساتذہ کام کر رہے ہیں.جن میں اکثریت افریقن استادوں کی ہے اور اس سال ہم نے تین نئے سکول کھولنے کی منظوری دی ہے.ان کی عمارتیں بھی خدا کے فضل سے زیر تعمیر ہیں ایک سکول مزید کھلنے کا امکان ہے انشاء اللہ وہ بھی کھول دیا جائے گا.پس
خطابات ناصر جلد دوم ۵۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء خدا تعالیٰ ہم پر فضل کر رہا ہے اور ہم آگے ہی آگے بڑھ رہے ہیں.جن دلوں میں اسلام کی محبت ہے وہ بڑے خوش ہورہے ہیں خواہ وہ ہمارے ہم عقیدہ ہوں یا نہ ہوں.مغربی افریقہ میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں سارے علاقے میں لڑکیوں کا کوئی بھی سکول نہ تھا.اس علاقے کے لوگ ہمارے پیچھے پڑگئے پہلے تو مجھے کچھ گھبراہٹ تھی لیکن انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں احمدی ہی لڑکیوں کا سکول کھول سکتے ہیں.تب میں نے کہا میں ان کے اور خدا کے درمیان روک کیوں بنوں؟ میں نے اپنے مبلغوں سے کہا کہ خدا خود ہی رقم کا بندو بست کر دے گا.تم سکول شروع کر دو.چنانچہ اس سکول کی منظوری بھی مل گئی ہے.عمارت بھی انشاء اللہ جلد ہی بن جائے گی.غرض نصرت جہاں سکیم کے تحت اس وقت دس سکول کام کر رہے ہیں جن کی عمارتیں بھی مکمل ہو گئی ہیں اور چار کی منظوری ہو چکی ہے.عمارتیں زیر تعمیر ہیں.اسی طرح ایک سکول مزید کھلنے کی منظوری ہو گئی ہے ابتدائی کام ہو رہا ہے.اس لحاظ سے نصرت جہاں سکیم کے ماتحت پندرہ سکول ہو جائیں گے.صد سالہ جو بلی فنڈ : پچھلے سال میں نے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کا اعلان کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں اتنی محبت اور پیار پیدا کیا کہ ہم سوچتے کچھ تھے اور بن گیا کچھ اور.گویا اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ فضل فرمایا.بعد میں جب بڑا شور بپا ہوا تو ہم سے بڑا تعلق رکھنے والے بعض پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ میرے پاس بھی آئے اور جماعت کے بعض اور لوگوں کے پاس بھی گئے اور کہنے لگے آپ نے بڑا ظلم کیا.جو مالی قربانی جماعت دے رہی تھی ، آپ اس کا اعلان کر دیتے تھے.ہمارے دلوں میں حسد پیدا ہوا اور ہم نے آپ کی مخالفت شروع کر دی.اس (صد سالہ احمد یہ جوبلی ) سکیم کے تحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان اور ہندوستان سے باہر کی احمدی جماعتیں پانچ کروڑ سے زیادہ کا وعدہ کر چکی ہیں.فالحمد للہ علی ذالک.پہلے تو میں بھی یہی سمجھتا تھا اور میرا اندازہ بھی یہی تھا کہ تھوڑی سی رقم کے وعدے آئیں گے جو کہ پندرہ سال میں قابل وصول ہوں گے.اس وقت جو سکیم دماغ میں آئی تھی ، اس کی کامیابی کے لئے باہر کے ممالک نے اس سے کوئی دگنی تگنی رقم کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی اور ہمیں
خطابات ناصر جلد دوم ۵۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء فکروں سے آزاد کر دیا.یہ خدا کی شان ہے کہ اس نے پہلے ایک بین الاقوامی منصوبہ ہمارے دماغ میں ڈالا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ دنیا کے حالات بدلتے رہتے ہیں.چنانچہ باہر کی جماعتوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی اور یہ جذبہ دیا اور یہ ہمت عطا فرمائی کہ انہوں نے پانچ کروڑ سے زیادہ کے وعدے کر دیے.وصولیوں کا اندازہ بھی یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس سے زیادہ آمد ہو جا ئے گی.اس سے کم نہیں ہوگی.انشاء اللہ العزیز.اشاعت لٹریچر : اس وقت میں نے کہا تھا یعنی خدا تعالیٰ نے میرے دماغ میں بات ڈالی مگر پوری طرح وضاحت نہیں تھی کہ جماعت احمدیہ کی کتب کے وسیع تر ضرورتوں کے پیش نظر ہمیں اپنے اس ملک سے باہر کی جماعتوں میں کم از کم دو بڑے پریس کھولنے پڑیں گے تب ہم اپنی ضرورتوں کو پورا کر سکیں گے اور جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا اب ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ ہم اس کی طرف زیادہ توجہ دیں.باقی جہاں تک کتب کے چھپوانے کا سوال ہے، اس کا تعلق میرے کل کے مضمون سے ہے.وہ تو میں کل ہی بتاؤں گا.دنیا کی ہر زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنا اور اس کی تفسیر کرنا پھر دنیا کے ہر خطہ میں تبلیغ کے لئے آدمی بھیجوانا اور وہاں کی زبانیں سکھلانا.ان باتوں کی اب ہمیں یکدم ضرورت پڑ گئی ہے.یہ منصوبہ جو ہم نے بنایا ہے، یہ ایک سال کے اندر اُبھر کر سامنے آیا ہے.ہمیں مختلف زبانوں کے جاننے والے سینکڑوں آدمی در کار ہیں.چنانچہ اس وقت تک میری ہدایت پر آٹھ دس آدمی زبانیں سیکھ رہے ہیں.یوگو سلاوین زبان سیکھنے کے لئے بھی آدمی مقرر ہو گیا ہے.اس وقت وہ زبان سیکھ رہا ہے اور بھی ہیں کچھ یہاں ہیں مثلاً اسلام آباد اور لاہور میں اور کچھ باہر ہیں جو مختلف زبانیں سیکھ رہے ہیں.پس خدا تعالیٰ ایک بیج ڈال دیتا ہے اور جس وقت وہ بیج نکلتا ہے تو ایک نئی چیز سامنے آتی ہے تو آدمی حیران ہو جاتا ہے.اس وقت جلسہ گاہ میں بہت سے زمیندار دوست بیٹھے ہوئے ہیں.وہ جب گندم کا بیج ڈالتے ہیں تو ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ گندم کے دانے کے اندر کیا چیز چھپی ہوئی ہے.پھر وہ ایک تنا نکالتا ہے.پھر وہ موٹا ہو جاتا ہے جسے انگریزی میں Stock کہتے ہیں.پھر وہ کو ٹا مارتا ہے جس کے آگے شاخیں نکلتی ہیں پھر اس کا تنا سخت ہوتا جاتا ہے.کہیں سے موٹا اور کہیں سے باریک اور پھر اس میں دانے بنتے ہیں.خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ایک دانے سے
خطابات ناصر جلد دوم ۵۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء سات سو دانے یا اس سے زیادہ بن جاتے ہیں لیکن یہ سات سو دانے بظاہر ایک دانے میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں.وہ ہمیں تو نظر نہیں آتے.آپ عملاً بھی دیکھتے ہیں کہ کسی کی قسمت میں پچاس دانے ہوتے ہیں کسی کو سو اور کسی کو دوسو دانے ملتے ہیں اور کسی کو پانچ سو.اسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم بیج ڈال دو تو ہم زمین میں بیج ڈال دیتے ہیں اور ہمیں کچھ پتا ہی نہیں ہوتا کہ اس بیج سے کیا نکلے گا.پھر وہ پیچ روئیدگی نکالتا ہے.پھر جب وہ اپنی پوری شکل بنا تا ہے تو پھر یہ پتا لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے کتنا عظیم منصو بہ بنایا تھا ایک چھوٹے سے بیج سے اس نے ایک درخت بنایا تھا.تب ہمیں پتا لگتا ہے کہ ہم واقع میں حقیقتالا شی محض ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمتیں ساتھ نہ ہوں تو ہم کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں.یہ ایک حقیقت ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا رحم شاملِ حال نہ ہو تو انسان کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں.خدا کرے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہمارے شاملِ حال رہے.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
۵۴ خطابات ناصر جلد دوم
خطابات ناصر جلد دوم ۵۵ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء ہمارا ایمان ہے کہ اللہ بے عیب اور پاک ہے اور ہر حمد کا مرجع و منبع اس کی ذات ہے اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۴ء بمقام ربوہ کی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جو مضمون میں نے آج کے لئے منتخب کیا تھا.اس کی اہمیت بہت ہے اور جس قدر انسان اپنی تاریخ پر غور کرتا ہے اتنا ہی اسے یہ احساس زیادہ ہو جاتا ہے کہ اس طرف توجہ نہ کرنے کے نتیجہ میں انسان نے کس قدر دکھ اور مصائب اٹھائے.مضمون میرا یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں آگے ہی آگے بڑھنے کا ایک جذبہ اور ایک قوت رکھی گئی ہے اور اسی فطرتی تقاضے کی وجہ سے بندے کو اپنے قریب کرنے کی خاطر شروع سے ہی انبیاء مبعوث ہوتے رہے اور جب ہم انبیاء کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک کے بعد دوسرا نبی جو آیا اس کی دوضرور تیں ہمارے سامنے آتی ہیں ایک یہ کہ جو تعلیم وہ لے کر آیا اس کی طرف اس کے ماننے والوں نے توجہ چھوڑ دی اور دوسرے یہ کہ ایک قدم اس نے آگے بڑھا دیا اور اس کا کام ختم ہو گیا اب دوسرے نبی کی ضرورت ہوئی تا کہ انسان کی انگلی خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق پکڑ کے وہ اسے ایک قدم اور آگے لے جائے.لوگ کہتے ! ہیں کہ پہلے نبی سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ایک لاکھ سے اوپر انبیاء آئے.کچھ کو تاریخ انسانی نے محفوظ رکھا اور بعض کو بھلا دیا کیونکہ ان کو یاد رکھنے کی ضرورت اللہ تعالیٰ کے نزدیک باقی نہیں رہی تھی اسی طرح ہوتا چلا آیا پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامل شریعت اور ایک مکمل ہدایت لے کر انسان کی طرف مبعوث ہوئے لیکن جہاں انسان کی فطرت میں بے انتہا ترقیات کی خواہش بھی رکھی گئی ہے اور اس کے لئے اسے قو تیں اور استعداد میں بھی عطا کی گئی ہیں.وہاں اس کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے بد خواہش اس کے دل میں پیدا ہوتو وہ ترقیات کی طرف آگے بڑھنے کی بجائے تنزل کی طرف گر بھی سکتا ہے اور آزمائش اخلاقی اور روحانی انسان کے ساتھ لگی
خطابات ناصر جلد دوم ۵۶ اختتامی خطاب ۲۸ ر د سمبر ۱۹۷۴ء ہوئی ہے اور شیطان نے جو خدا سے اجازت لی تھی اور خدا تعالیٰ نے شیطان کو جو اجازت دی تھی اس کے نتیجہ میں انسان کو ٹھو کر گی وہ گرا ، وہ پچھلی طرف آیا اور اسے سہارے کی ضرورت پیدا ہوئی.شریعت کامل اور مکمل ہو چکی تھی.اس لئے اللہ تعالیٰ کے ایسے نیک بندے پیدا ہوئے کہ جنہوں نے اس کامل اور مکمل ہدایت سے علم سیکھ کر نئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے سامان پیدا کئے اور امت محمدیہ اور نوع انسانی جس کی طرف یہ شریعت بھیجی گئی تھی ان کو ہدایت کی طرف لانے اور ہدایت پر آگے چلانے کے سامان پیدا کئے.یہ سلسلہ امت محمدیہ میں جاری اور ساری ہے ایک زمانہ شیح اعوج کا زمانہ ابھی گذرا جس میں سے ہمارے آباء واجداد نکل کر اب مہدی کے زمانہ میں داخل ہوئے ہیں اس کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کے مقربین نہیں تھے.اس زمانہ میں بھی ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح امت محمدیہ میں ایسے مقربین موجود تھے لیکن شمع کی طرح تھوڑی سی روشنی پیدا ہو رہی تھی اور ظلمت بھی تھی اور شمعیں اس ظلمت کو دور کرنے کے لئے کوشش بھی کر رہی تھیں.شمعیں ٹمٹمار ہی تھیں، یلغار ظلمت کی بڑی تھی کہ مہدی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث کیا.ان بشارتوں کے ماتحت جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی کے متعلق امت محمدیہ کو دیں اور ان بشارتوں کے ماتحت جو امت محمدیہ کے سینکڑوں ہزاروں مقربین الہی کو دی گئیں.پانچ سو سال پہلے ایک کو کہا پانچ سوسال بعد مہدی آئے گا اور آٹھ دس سال پہلے ایک شخص کو کہا آٹھ دس سال بعد مہدی آئے گا.یہ میں مثال دے رہا ہوں.سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ہیں یہ بشارتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی سے چند سال قبل ایک بزرگ تھے حج کے لئے گئے ہوئے تھے خانہ کعبہ میں تھے وہاں ان کو کشف میں یہ نظارہ دکھایا گیا کہ ایک مریض ہے اور درجنوں اطباء اس کی چار پائی کے گرد ہیں اور اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس کا علاج کریں لیکن اس کو کوئی افاقہ نہیں ہورہا اور کشف میں دکھایا گیا کہ ایک شخص دس بارہ قدم پر بیٹھا ہے اور ان کو بتایا گیا کہ یہ ایسا طبیب ہے کہ اگر اس مریض کا علاج کرے تو یہ اچھا ہو جائے گا.لیکن انہوں نے دیکھا کہ وہ طبیب جو ہے وہ مریض کی طرف توجہ نہیں کر رہا.بڑے پریشان ہوئے کہ یہ کیا میں نے خواب دیکھ لی یہاں جب آئے تو ان کے جو بزرگ تھے ان کو کہا کہ میں نے خانہ کعبہ میں یہ خواب
خطابات ناصر جلد دوم ۵۷ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء دیکھی ہے سمجھ نہیں آرہاوہ گھبرا گئے.انہوں نے کہا کہ تمہیں سمجھ نہیں آئی خواب کی تعبیر یہ ہے کہ جو تمہیں مریض دکھایا گیا ہے وہ اسلام کی حالت ہے اور جو تمہیں طبیب دکھایا گیا ہے.وہ مہدی معہود ہے اور یہ جو تمہیں دکھایا گیا ہے کہ وہ توجہ نہیں کر رہا چند قدم کے فاصلے پر بیٹھا ہوا ہے وہ زمانہ مکان کی شکل میں تمہیں کشف میں دکھایا گیا ہے.چند سال بعد جتنے قدم تم نے اس کو پرے دیکھا اس کا ظہور ہوگا اور پھر مہدی کے ذریعہ حسب بشارات سابقہ امت محمدیہ کو وہ شان اور وہ عظمت جس کا وعدہ دیا گیا تھا ملے گی اور اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا لیکن جو خطرہ ہمارے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح چودہ سو سال میں ضرورت پڑی مقربین الہی کی اور اسلام کی طرف منسوب ہونے والی نسلیں اسلام سے بے پرواہ ہو رہی تھیں اور توجہ نہیں کر رہی تھیں اور اپنے عقائد کو بھول گئی تھیں اور انہوں نے عجیب و غریب روایتیں بنالی تھیں.مجھے تو شرم آتی ہے ان کے بیان کرنے سے اور یہ ہمارے جلسے کا مقدس وقت ہے اس میں موزوں بھی نہیں لگتا کہ آپ کو بتاؤں کہ کس قسم کی چیزیں عقائد اسلامیہ میں داخل کر دی گئیں.جب وہ باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.خیر ! وہ زمانہ گذر گیا.ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے.اس لئے میں نے مضمون یہ منتخب کیا ہے کہ ہمارے عقائد اسلام نے ہمیں کس عقیدہ پر مہدی معہود کے ذریعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل قائم کیا ہے یہ میرے مضمون کا عنوان تھا اور میں نے قرآن عظیم کو پہلے لیا ہے کیونکہ قرآن کریم نے ہی ہمیں اللہ تعالیٰ سے متعارف کرایا اور قرآن کریم میں ہی ہمیں مد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دکھائی گئی اور قرآن کریم میں ہی ہمیں دین محمدی کی عظمت بتائی گئی.قرآن کریم پر جب ہم غور کرتے ہیں تو اس میں دو بنیادی چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں جن کے اوپر قرآنی تعلیم کھڑی ہے ایک بنیادی چیز یہ ہے کہ قرآن کریم نے ابدی صداقتیں جو ہیں.جن میں زمانہ کے ساتھ کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی انہیں کھول کر بیان کر دیا اور دوسرے یہ کہ جو زمانے کے حالات پر ابدی صداقتوں کا اطلاق ہونا تھا.اس کی شکلیں بدلی ہوئی ہوئی تھیں اور ان بدلی ہوئی شکلوں میں قرآن کریم نے جو راہنمائی کرنی تھی اس کے لئے قرآن کریم کی تعلیم کے ایک حصے کو خود قرآن کریم کے دعوی کے مطابق مکنون کہا گیا یعنی چھپی ہوئی تعلیم جس کو ہم اسرار روحانی کہتے ہیں اسرار اور رموز سے یہاں مراد قرآن کریم کے وہ حصے ہیں جن کے متعلق خود قرآن کریم نے کہا فِي كِتُبِ مَّكْنُونِ (الواقعة : ٧٩)
خطابات ناصر جلد دوم ۵۸ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء کہ یہ ایک چھپی ہوئی کتاب بھی ہے اور ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق خدا تعالیٰ کا ایک بندہ اللہ تعالیٰ سے قرآن کریم کے معانی کو سیکھتا اور دنیا کی اصلاح کرتا ہے.میں نے پہلے بھی بتایا ہے آج کے زمانہ میں بے شمار نئی چیزیں آگئیں اس کے لئے کتاب مکنون“ سے حصہ لینے والے موجود ہونے چاہئیں اور پھر اس زمانہ میں جو ابدی صداقتیں تھیں وہ نظروں سے اوجھل ہو نے لگیں اس کے لئے قرآن کریم کا جو بین حصہ تھا.تبيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ والا حصہ خدا تعالیٰ کا کوئی بندہ کھڑا ہونا چاہئے جو ہمیں بتائے کہ یہ ابدی صداقتیں ہیں ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں پیدا ہوئی.قرآن کریم نے سور محل میں یہ فرمایا.وَنَزَلْنَا عَلَيْكَ الكِتبَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ ( النَّحل: ٩٠) یعنی جو مفہوم میں آپ کو بتا رہا ہوں اور پھر یہ بتایا کہ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ کے نتیجے میں ایک مشتمل ؟ ويه هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ (البقرة : ۳) ہے دوسرے رحمت ہے اور تیسرے یہ بشارتوں پر تی جو تبيَانًا یعنی تین چیزیں ہیں اس کے لئے عقلی دلائل بھی دیئے اور شواہد بھی اور محسوس ، جن کو ہماری حسیں محسوس کر رہی ہیں.وہ بھی اس نے بنائیں.قرآن کریم نے ابدی صداقتوں کو اپنے اندر محفوظ رکھا لیکن انسانی دماغ نے ابدی صداقتوں کو نہیں محفوظ رکھا.یا تو اپنے ذہن سے نکال دیا.یا جن کے ذہن میں تھا انہوں نے اپنے عمل سے نکال کے باہر پھینک دیا.خود قرآن کریم کو یہ اعلان کرنا پڑا يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : ۳۱) اے میرے ربّ میری اس قوم نے تیری اس عظیم کتاب اور شریعت اور ہدایت کو اپنی پیٹھوں پیچھے پھینک دیا.قرآن کریم نے خود یہ اعلان اس لئے کیا کہ اگر کوئی انسان کرتا تو ایک دنیا نا سمجھی کی وجہ سے اس کے پیچھے پڑ جاتی اس لئے قرآن کریم سے یہ اعلان کروایا کہ قرآن کریم ایک وقت میں یہ کہے گا یا ہر زمانہ میں کسی علاقہ میں یہ کہتا رہا ہے کہ اس قوم نے مجھے ( قرآن کریم کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا ہے مہجور بنادیا ہے.قرآن کریم نے جو ابدی صداقتیں پیش کیں اس کے پھر دو حصے ہیں ایک وہ ابدی صداقتیں جو کسی شکل میں حصوں میں بٹ کے پہلی کتب میں پائی جاتی تھیں.قرآن کریم نے ان کو محفوظ کر لیا اور دوسرے وہ ابدی صداقتیں جن کو انسانی دماغ بحیثیت کل سمجھنے کے قابل نہیں تھا ان صداقتوں کو مجموعی طور پر قرآن کریم نے محفوظ کر لیا.مثلاً ایک چھوٹی سی مثال میں دوں گا.اس بات کو سمجھانے کے لئے جو سزا کا حصہ ہے پہلی شریعتوں نے معین سزا معین جرم کی بتادی.
خطابات ناصر جلد دوم ۵۹ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا دانت کے بدلے دانت اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان.پورے الفاظ تو مجھے یاد نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت جس وقت نازل ہوئی اس وقت انسانی دماغ گہرائیوں میں جانے کے قابل نہیں تھا.ابھی ارتقائی مدارج میں سے گذرتے ہوئے وہ اس مقام تک نہیں پہنچا تھا کہ ان باتوں کو سمجھ سکے اس لئے جو دوسری شکل تھی اس ابدی صداقت کی وہ ہمیں وہاں نظر نہیں آتی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں نے اسلام پر اعتراض کر دیا اور اعتراض انہوں نے اس وجہ سے کیا کہ انہوں نے کہا کہ یہ شریعت تو لعنت بن گئی کیونکہ دانت کے بدلے دانت، اور ہر موقع پر دانت کے بدلے دانت نہیں نکالا جاسکتا.تو کیا فائدہ ہوا اس سزا کے بتانے کا جو بعض مقامات پر دی ہی نہیں جاسکتی.مثلاً ایک شخص دوسرے کا دانت نکال دیتا ہے اور اس کے اپنے سارے دانت پہلے ہی نکلے ہوئے ہیں وہ ڈینٹسٹ صاحب نے نکال دیئے ہیں تو اب اس کو دانت نکالنے کی سزا کیسے دی جائے گی.دانت کے بدلے دانت.تو قرآن کریم نے جو کامل اور مکمل ہدایت کی شکل میں ہمارے سامنے آیا صرف یہ نہیں کہا کہ دانت کے بدلے دانت بلکہ ایک اصول بیان کر دیا.جَزَ وَ اسَيْئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشوری: ۴۱) جیسے کوئی جرم کرے گا ویسی ہی اس کو سزا مل جائے گی.اپنے حالات کے مطابق انسان کو خدا تعالیٰ نے بعض ڈس کریشن (discretion) دیا کہ ہم نے بعض معین چیزیں تمہارے سامنے رکھ دی ہیں ان کی روشنی میں تم اپنے فیصلے کیا کرو گے اور اس کے اوپر کوئی اعتراض نہیں جب عیسائیوں نے یہ اعتراض کیا کہ شریعت تو لعنت بن گئی ہے.یہ کیسے ہر حالت میں حاوی ہوگی آپ نے کہا کہ تمہاری شریعت لعنت بنی ہوگی ہماری شریعت تو لعنت نہیں بنی.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواب دیا ہے.آپ نے کہا کہ ہمارے قرآن نے تو بات واضح کر دی کہ دانت کے بدلے دانت لیکن جہاں یہ نہ ہو سکے وہاں جَزْوَا سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلَهَا (الشوری: ۴۱) اور پھر آگے حکمت بیان کی.کیونکہ یہ اصل مضمون نہیں ہے میں نے مثال دینی تھی اس لئے ان باتوں کو میں چھوڑتا ہوں تو ابدی صداقتوں کے جو حصے پہلی شریعتوں میں موجود تھے ان کو بھی لے لیا اور ابدی صداقتوں کے جو حصے پہلی شریعتوں میں محفوظ نہیں تھے ان کو بھی لے لیا اور اس طرح اسلام نے اتنی حسین تعلیم ہمارے سامنے رکھ دی ہے کہ یہ بڑے بڑے جو دنیوی لحاظ سے صاحب علم لوگ ہیں ان سے مجھے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۶۰ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء یہاں بھی اور غیر ممالک میں بھی میں نے دورے کئے ہیں ان کو میں نے بڑے دھڑلے کے ساتھ یہ کہا کہ تم کوئی ایسی چیز سامنے پیش کرو کہ جو تمہارے نزدیک اعتراض والی بات ہو اور میں بتاؤں گا کہ اسلام کے اوپر اعتراض نہیں پڑ سکتا.بڑی حسین تعلیم ہے لیکن اتنی حسین تعلیم اب ہمیں تو سمجھ آ گئی.آپ کے چہروں پر بھی بشاشت میں نے دیکھی اور مجھے خوشی ہوئی لیکن یہی تعلیم ہے جو لوگوں نے مہجور بنادی.اس واسطے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے عقائد بڑوں کے سامنے رکھیں تاکہ یاد دہانی ہوتی رہے اور نوجوان اور نئے احمدیت میں داخل ہونے والوں کے سامنے رکھیں تا کہ ان کے علم میں یہ باتیں آتی رہیں اور وہ بھٹکیں نہ تو یہ قرآن کریم جو ہے اس کی شان خود قرآن کریم نے بیان کی ہے یہ بھی بڑی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم ایک دعویٰ کرتا ہے تو وہ کسی اور کتاب کا یا کسی انسانی ذہن کا محتاج نہیں ہے کہ اس دعوئی کو ثابت کرے بلکہ ساتھ دلیل دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تم یہ بہت مجھ پر احسان کرتے ہو جب اعتراض کرتے ہو اسلام پر، کہ جہاں جس آیت پر اعتراض کرتے ہو جب ہم غور کرتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں تو اس کے نیچے ہمیں روحانی خزائن چھپے ہوئے مل جاتے ہیں اپنی طرف سے تم نے اعتراض کیا ہوتا ہے اور ہمارے سامنے قرآن کریم کا حسن اور اس کا احسان آ رہا ہوتا ہے.قرآن کریم کی یہ دو صفات ایسی ہیں جنہوں نے اس کو اس قابل بنا یا کہ محد صلی اللہ علیہ وسلم پر آج سے قریباً چودہ سو سال پہلے نازل ہونے کے باوجود قیامت تک کے مسائل کو حل کرنے کی اہلیت یہ ہدایت اور یہ شریعت رکھتی ہے.یہ ہے ہمارا ایمان قرآن کریم پر.ہمارے اندر اگر کوئی بے وقوف پیدا ہو تو ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں جو یہ کہے کہ چودہ سو سال پہلے کتاب نازل ہوئی تھی ہمارے مسائل کو کیسے حل کرے گی.جن لوگوں نے دعوی کیا مسائل کے حل کرنے کا ان سے میں ! نے بات کی کہ تم لوگ مسائل سمجھتے ہی نہیں حل کیسے کرو گے.وہ جو تمہارا دعویٰ ہے کہ یہ مسئلہ پیدا ہوا اس مسئلے کو ہی تم نہیں سمجھ رہے تو اسے حل کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.مثلا حقوق انسانی ہیں کل میں نے بتایا تھا کہ اصل اس وقت جو ایک سٹرگل (Struggle) ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو بحیثیت مجموعی یہ تسلی کون دلاتا ہے کہ اس کے حق اس کو ملیں گے اور اس کو تسلی ہو اس بات کی.میں ان کو کہتا
خطابات ناصر جلد دوم ۶۱ اختتامی خطاب ۲۸ / د سمبر ۱۹۷۴ء رہا ہوں کہ تمہیں حق کا ہی نہیں پتہ تو تم نے انسان کو دینا کیا ہے؟ جس نے پیدا کیا وہی جانے.غیر کو غیر کی خبر کیا ہو.جس ہستی نے ، جس پاک ہستی نے ، قادر و توانا نے انسان کو پیدا کیا جس نے انسان کو استعدادیں اور قو تیں عطا کیں، جس نے انسانی فطرت میں فطری تقاضے پیدا کئے وہ بتا سکتا ہے کہ فطری تقاضہ یہ ہے اور انسان کی قوت یہ ہے فطری تقاضوں کی سیری ہونی چاہے اور انسانی قوتوں کی نشو ونما ہونی چاہئے اور یہ حقیقت ہے کہ ان کو نہیں پتہ.کوئی شخص مجھے آج تک نہیں ملا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ نہ آئندہ ملے گا جو یہ ثابت کر سکے کہ اسلام کے اندر یہ کمزوری پائی جاتی ہے کوئی کمزوری نہیں.دو چیزوں نے اس کو اس قابل بنایا، دو صفات جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی بیان کی ہیں ان صفات کے نتیجہ میں حقیقت میں خدا کی قسم کھا کر اور علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ قرآن کریم کی یہ شان ہے کہ وہ قیامت تک کے لئے انسانی مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے.ایک صفت تو اس میں یہ پائی جاتی ہے کہ صداقتیں پوری کی پوری اس میں موجود ہیں وہ صداقتیں بھی جو پچھلوں کے لئے ادھوری تھیں اور جو صداقت کا زائد حصہ تھا وہ بھی اس میں شامل کر دیا اور اس طرح ابدی صداقت جو زمانے کے ساتھ بدلا نہیں کرتی وہ بھی اس میں محفوظ کر دی گئی.موٹی مثال یہ ہے کہ سچ بولنا ہے جھوٹ نہیں بولنا.ہم میں سے بھی بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی اور انہوں نے یہ لکھ دیا.پھر مجھے فکر پیدا ہوا کہ اپنے عقائد کا اعلان ہونا چاہئے اور بار بار اعلان ہونا چاہئے اور اس لئے بھی کہ جو اس سال ہوا کچھ تو ہمیں پتہ لگنا چاہئے کہ ہمارے عقائد کیا ہیں اور دوسروں کے ساتھ ان کا موازنہ کیا ہے لیکن موازنے کا یہ وقت نہیں ہے میں صرف اپنے عقائد بتاؤں گا.مجھے غیر سے کیا.میں چاہتا ہوں کہ میں اور آپ خدا تعالیٰ نے جو تعلیم دی ہے اس کو ذہن میں رکھیں اور بھٹکیں نہ اور بھولیں نہ.اور وہ جو ایک چیز اس نے ہمیں دی ہے اس سے فائدہ اٹھانے کا ایک ولولہ اور جذ بہ ہمارے دلوں میں پیدا ہو کیونکہ ہم سمجھیں کہ ایک تو یہ صداقت ہے اور دوسرے ہمارے کام کی چیز ہے.تو ایک بات تو یہ ہے کہ ابدی صداقتیں ہمیشہ کے لئے اس میں محفوظ کر دی گئیں.إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ ( الحجر : ۱۰) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کئی طریقوں سے کی ہے وہ مضمون لمبا ہو جائے گا.کسی اور وقت بیان ہوگا ویسے پہلے بھی بیان ہو چکا ہے بہر حال خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا اور ہم اسے ثابت کر سکتے ہیں کہ اس کی حفاظت کا انتظام
خطابات ناصر جلد دوم ۶۲ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء ہے.دوسری بات یہ ہے کہ جو ابدی صداقتیں ہیں ان کے اطلاق کا ایکسی کیوشن (execution) کا زمانے کے لحاظ سے حالات کے لحاظ سے فرق پڑ جاتا ہے مثلاً ایک مستقل قانون ہے ملکی.اگر چه قانون انسان کے بنائے ہوئے ناقص ہوتے ہیں.وہ پوری مثال تو نہیں بنتے لیکن سمجھانے کے لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ایک قانون ہے.تو اس قانون کے توڑنے والے دس آدمی جز کے پاس، قاضیوں کے پاس جاتے ہیں اور ہر حج کا فیصلہ مختلف ہوتا ہے.اختلاف ہے حالانکہ فیصلہ اسی قانون کا ہے لیکن حالات کے مطابق ایک حج کے دماغ میں ایک بات آتی ہے اور حالات اور گواہیوں کے مطابق دوسرے حج کے دماغ میں ایک دوسری بات آتی ہے.تو فرق پڑ جاتا ہے.قرآن کریم کی ابدی صداقتوں کا انسانی مسائل کے بدلنے کے ساتھ اطلاق کس طرح کیا جائے یہ فرق آ جائے گا لیکن یہ شان ہے اسلام کی اور قرآن کریم کی کہ اس کا فیصلہ کرنا انسانی دماغ پر نہیں چھوڑا.اب یہ کہتے ہیں جی ، ایک حصہ ایسا ہے دہریوں میں سے، جو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دے دی اب شریعت کو مانا بھی جائے تو ٹھیک ہے ہم اپنی عقل سے کام لے کر قرآن کریم کے معانی حاصل کر لیں گے خدا تعالیٰ کے ساتھ کوئی زندہ تعلق رکھنے کی ضرروت نہیں.یہ دعویٰ اتنا مضحکہ خیز ہے اسلام نے کہا کہ تمہاری عقل ناقص ہے اور میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ دعویٰ مضحکہ خیز ہے مضحکہ خیز کی دو مثالیں دیتا ہوں.طب ہے.میڈیسن، ایلو پیتھی جو ہے.ہر پندرہ سال کے بعد ایک نیا فارمولا دنیا کے سامنے رکھ دیا.میں نے پہلے بھی بتایا تھا ایک وقت میں یہ اعلان کیا کہ ماں اگر اپنے بچے کو دودھ پلائے گی تو بچے کی صحت بھی خراب ہو جائے گی اور ماں کی بھی خراب ہو جائے گی اور لاکھوں شاید کروڑوں ماؤں کو بیمار کر دیا ، نہ نہ نہ نہ.بالکل بچے کو دودھ نہ پلانا تمہاری صحت خراب ہو جائے گی اور بچے کی بھی خراب ہو جائے گی اور چوسنیاں لگا دیں ان کو.اور پتہ نہیں کتنا نقصان عورت کو پہنچانے کے بعد یہ اعلان کیا کہ بڑا افسوس ہے ہم سے غلطی ہو گئی اب ہم مزید تجربوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب تک ماں ہے.اپنے بچے کو دودھ نہ پلائے نہ بچے کی صحت اچھی ہوسکتی ہے اور نہ ماں کی صحت اچھی رہ سکتی ہے ہیں سال میں تم نے اتنا بڑا نوع انسانی کو نقصان پہنچانے کے بعد کہ لاکھوں ماؤں کی صحتیں خراب کر دیں اب آرام سے کہہ دیا کہ ہمیں بڑا افسوس ہے.دوسری جو اس سے بھی واضح مثال
خطابات ناصر جلد دوم ۶۳ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء ہے وہ یہ ہے کہ انسانی عقل نے کچھ اصول مدوّن کئے ، سائینسز بنائیں، ان میں سے مثلاً ایک اقتصادیات ہے انسان بڑا پف (puff) ہوا اور بڑے بڑے نوبل پرائز لینے والے اقتصادیات کے ماہر بھی بن گئے.بڑا انعام دیا انسان نے ان کو عقل کے زور سے ہمارے اقتصادی مسائل حل کرنے کی ، وہ کہتے ہیں ہم میں اہلیت ہے دیکھو کتنے بڑے دماغ پیدا کئے.اب جب ہم ان دماغوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو چوٹی کا دماغ انگلستان کا اقتصادیات کے معاملے میں چوٹی کا انگلستان کا ماہر اقتصادیات میں آپ اور چوٹی کا ماہر اقتصادیات روس سے لیں اور کوئی مسئلہ ان کے سامنے رکھ دیں.ہر دو میں ہر دو کے نتائج میں اختلاف ہو گا وہ کہے گا کہ اس کا یہ حل ہے اور و کہے گا نہیں یہ حل ہے.جب دو انسانی عقلیں ایک جگہ متفق نہیں ہو سکتیں تو انسانی عقل پر ہم بھروسہ کس طرح کر سکتے ہیں.تو یہ ایک مثال ہے.ہر علم میں اسی طرح ہے کوئی عقل اگر اس کو الہام اور وحی کی روشنی حاصل نہ ہو تو یہ انسان کے لئے رحمت نہیں بلکہ زحمت ہے یہ انسانی عقل عذاب بن جاتی ہے.انسانی عقلوں نے فیصلہ کیا تھا کہ ایٹم بم انسان کو ہلاک کرنے کے لئے استعمال کریں گے.آسمان سے فرشتوں نے تو آ کر نہیں کہا تھا انسان کو کہ یہ استعمال کرو.کس نے تمہیں کہا تھا کہ ایٹم بم کو انسان کی ہلاکت اور جنگ کے فیصلے کرنے کے لئے تم استعمال کرو تمہاری عقل نے کہا.قرآن کریم نے بالکل یہ نہیں کہا اور نہ خدا نے اپنے فرشتوں کے ذریعے تمہیں یہ پیغام بھیجا.بنے ہوئے تھے، تمہارے دماغ نے تمہاری عقلوں نے تمہاری مہارتوں نے تمہاری دانائی نے یہ تمہیں مشورہ دیا کہ ایٹم کی طاقت کو انسان کی ہلاکت کے لئے استعمال کرو اور آج مصیبت میں پھنس گئے ہو! کل تو تم نے ایٹم کی طاقت کو ہلاکت کے لئے استعمال کرنے میں اپنی نجات دیکھی اور آج تم کہہ رہے ہو کہ خدا کے لئے کچھ ہونا چاہئے.خدا کا نام نہیں لیتے عقل کے لئے کچھ ہونا چاہئے ہم تو پھنس گئے ہیں اگر یہ جو ایٹم بم بنائے گئے ہیں اگر یہ استعمال ہو گئے تو اس کرہ ارض پر کوئی جان ہی باقی نہیں رہے گی ، خالی انسان نہیں بلکہ زندگی باقی نہیں رہے گی اور خدا کی شان یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں اس عذاب سے کہ اگر تم نے تو بہ نہیں کی اور خدا تعالیٰ نے وہ عذاب تم پر بھیجا تو علاقے کے علاقے کرہ ارض میں وہ ہوں گے جہاں زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا.جہاں مچھر بھی زندہ نہیں رہے گا ، جہاں بیکٹیریا بھی
خطابات ناصر جلد دوم ۶۴ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء زندہ نہیں رہے گا.جہاں حیوان درند، چرند، پرند، انسان زندہ نہیں رہے گا، تمہیں تنبیہ کی گئی تھی خدا کی وحی کے ذریعے لیکن تم نے اس کو ٹھکرا دیا اور اپنی عقلوں پر بھروسہ کیا اور یہ نتیجہ نکلا.تو قرآن کریم نے جو ایک عظیم کتاب ہے یہ نہیں کہا کہ میں نے اس میں ابدی صداقتیں اکٹھی کر دی ہیں اور اب تم اپنی عقل سے فائدہ اٹھا لو، اب مذہب کے معاملے میں عقل ہے.ایک مولوی صاحب کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شراب حلال.اللہ کو کیا پتہ تھا کہ اس نے زمین میں سرد علاقے بھی پیدا کئے ہیں عرب کا علاقہ گرم تھا وہاں شراب منع کر دی اور دوسرے علاقوں کا ذکر ہی نہیں کیا.یہ پاکستان سے باہر کا فتویٰ ہے اس لئے میں نے ذکر کر دیا ہے یہاں نہ کوئی مجھ پر غصے ہو جائے.بہر حال تو ایسی حرکتیں ہوتی ہیں انسانی عقل کی طرف سے ہمیں یہ سمجھانے کے لئے کہ قرآن کریم کی کامل اور مکمل ہدایت حاصل کر لینے کے بعد بھی ہم اپنی عقل پر بھروسہ نہیں کر سکتے.پس خدا تعالیٰ کے ایسے بندے پیدا ہوتے رہنے چاہئیں جو خدا تعالیٰ کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کرنے والے اور خدا تعالیٰ کی محبت میں اور عشق میں فنا ہو کر اس میں گم ہو جانے والے ہوں اور جن کی انگلی خدا پکڑے اور ہدایت کے راستے پر ان کو کھڑا کرے اور ان کو کہے کہ اس زمانہ کے مسائل کے حل کے لئے قرآن کریم کے جو مکنون حصے چھپے ہوئے حصے ہیں وہ میں تمہیں سکھاتا ہوں تم دنیا کی اصلاح کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعویٰ کیا کہ اس زمانہ میں.یہ زمانہ جوصدیوں کا ہے اس کے سارے مسائل حل کرنے کے لئے مجھے خدا تعالیٰ نے علوم قرآنی سکھائے ہیں جو شخص یہ کہتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے علوم قرآنی سکھائے ہیں تا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا میں قائم ہو عقل انسانی اس پر یہ اعتراض نہیں کر سکتی کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا باغی ہے.وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے جس دل اور دماغ اور جس کی روح کی آواز یہ ہو اس کے اوپر تم اعتراض یہ کرتے ہو کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا باغی ہو گیا ہے یہی بات بتا رہی ہے کہ تمہاری عقلیں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتیں.بہر حال قرآن کریم میں ابدی صداقتیں پائی جاتی ہیں اور ان ابدی صداقتوں کے مطابق زمانہ زمانہ کے مسائل حل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو ، قرآن کریم نے جو دعویٰ کیا ہے کہ وہ کتاب مکنون ہے قرآن کریم کا یہ حصہ بھی سکھاتا ہے یعنی اس کے اسرار روحانی اور اس
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء طرح وہ مسئلے حل کرتے ہیں.انسانی عقل پر نہیں چھوڑا.انسان کو اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کی ہر وقت اور ہر آن ضرورت تھی.خدا نے بشارت دی اور پیار سے کہا کہ میں تمہاری راہنمائی کروں گا تم میرا دامن نہ چھوڑنا.یہ ہے ہمارا عقیدہ قرآن کریم کے متعلق اسے نہ بھولنا اور نہ تباہی آجائے گی دنیا میں تمہی تو ہو جن کو خدا تعالیٰ نے دنیا کی حفاظت کے لئے آج کھڑا کیا ہے تم جو بڑے ہوا سے بھولو نہ اور تم جو بچے اور نوجوان ہو اسے یاد کرو اور یا درکھو، قرآن کریم کے متعلق احمدی کا یہ عقیدہ ہے کہ اس میں ابدی صداقتیں پائی جاتی ہیں اور اس کے جو مکنون اور اسرار روحانی پر مشتمل حصے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سکھاتا ہے اور جماعت احمدیہ میں اسی طرح خدا کے مقربین پیدا ہوتے رہیں گے جیسا کہ مہدی علیہ السلام سے پہلے امت محمدیہ میں کروڑوں کی تعداد میں پیدا ہوتے رہے اور وہ انسان کے مسائل حل کریں گے.خدائی آسمانی نور کے ذریعے عقل کے اندھیروں کے ذریعے نہیں.یہ ہے ہمارا ایمان اور عقیدہ قرآن کریم کے مطابق.اس لئے ہم نے تو اپنی عقلیں اپنے دماغوں سے نکال کے قرآن کریم کے قدموں میں لا کے رکھ دی ہیں اور ہم بڑے فخر سے سر اونچا کر کے کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی فکر نہیں کہ ہم اپنی عقل پہ بھروسہ کرنے والے نہیں ہم خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم پر بھروسہ کرنے والی جماعت ہیں یہ ہمارا عقیدہ ہے دوسروں کا حق ہے کہ کہیں کہ یہ عقیدہ غلط ہے دوسروں کا یہ بھی حق ہے کہ کہیں کہ ہم نہیں سمجھتے کہ تمہارا یہ عقیدہ ہے کسی کو زبر دستی تو نہیں منوا نا لیکن خدا یہ نہ کہے کہ تمہارا یہ عقیدہ نہیں خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہارے اندر قرآن کریم کے متعلق یہ زندہ عقیدہ قائم دیکھیں اور اللہ تمہاری یہ ذہنی اور عقلی اور اخلاقی اور روحانی حالت دیکھ کر اپنی رحمتوں سے تمہیں نواز تار ہے.یہ ہے ہمارا عقیدہ قرآن کریم کے مطابق.میں بتا رہا ہوں کہ میرا مضمون آج یہ ہے کہ ہمارے عقائد کیا ہیں.قرآن کریم پر ہم یہ اس قسم کا ایمان رکھتے ہیں میں نے بتایا کہ ہر علم خدا تعالیٰ نے ہی دینا تھا اور قرآن کریم ایک کامل اور مکمل ہدایت کے طور پر ہمارے سامنے آیا ہے.نمبر ۲.دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کا کیا تصور ہمارے سامنے رکھا ہے اور ہمیں اس سے ادھر ادھر نہیں ہونا چاہئے جب ہم کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے امنت بالله کیا مطلب ہوتا ہے ہمارا.تو اللہ تعالیٰ پر جو قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ ایمان لاؤ ہمارا
خطابات ناصر جلد دوم ۶۶ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء جماعت احمدیہ کا بنیادی طور پر عقیدہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سبوح ہے یعنی کامل ہے اور ہر نقص سے پاک ہے یہ معنے ہیں تسبیح کے يُسبّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ( الجمعة : ۲) خدا تعالیٰ کی صفت ہے سبوح ہونے کی.کوئی نقص اور عیب اور خامی اور برائی اللہ کی طرف منسوب ہی نہیں ہوسکتی اور وہ پاک ذات کامل ہے کیونکہ اگر وہ کامل نہیں تو یہ بھی برائی ہے نا.یہ بھی نقص ہے اس میں اصولی طور پر خدا تعالیٰ کے متعلق ایک صداقت کو بیان کیا گیا ہے جو بعد میں وضاحت کے ساتھ قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان ہوئی ہے.تو ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ پاک ذات ہے، کامل ہے اور منزہ ہے تمام عیوب اور خامیوں اور کمزوریوں اور کوتاہیوں اور نقائص سے.کوئی بدی اور کوئی نقص خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب ہی نہیں ہو سکتا.آپ کہیں گے کہ کیا انسان نے کبھی منسوب کیا ہے.میں کہوں گا ہاں! ایک وہ مذہب ہے میں انسان کو لیتا ہوں میں نے بتایا ہے کہ ہمارے جو اندرونی اختلافی مسائل ہیں ان میں نہیں پڑوں گا اور بعض دفعہ جو مثال دوں گا وہ بھی باہر کی دوں گا مثلاً ایک مذہب نے اس اللہ کو جو اسلام نے پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ کامل ہے اور کوئی نقص ، کوئی خامی اور کمزوری اس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی.اس کی بجائے اللہ کا تصور یہ دیا کہ تین لاشے پڑے ہوئے ہیں اور وہ خدا ہیں.وہ مل جاتے ہیں اور خدا بن جاتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ جب تین لاشے مل کر ایک زندہ نہیں بنتے تو خدا کیسے بن جائیں گے.تو بہر حال یہ ایک مذہب کا عقیدہ ہے اور میں اس موقع پر اپنے بھائیوں سے جو دوسرے فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں یہ کہوں گا کہ خدا کے لئے اپنی کتابیں پڑھو اور دیکھو کہ تمہارے فرقے کے علماء نے اللہ تعالیٰ کا کیا تصور تمہارے سامنے رکھا ہے.اگر تم اپنے فرقے پر پختہ ہو عقائد کے لحاظ سے تو وہ تصور رکھو.لیکن بہر حال میں نہیں بتاؤں گا آپ خود پڑھیں جنہوں نے پڑھنا ہے ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ سبوح ہے کامل بھی ہے اور ہر قسم کے نقص سے وہ پاک بھی ہے نمبر ایک، دوسرا یہ کہ الْحَمْدُ لِلہ ہر تعریف کا منبع اور سر چشمہ اس کی ذات ہے اور ہر خوبی جو کہیں نظر آئے وہ اس کی طرف راجع ہوتی ہے.مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کا جسم بڑا اچھا خوبصورت اور ویل ڈیویلپڈ (well developed) ہے ڈولے نکلے ہوئے ہیں جسم کا پورا مردانہ حسن ہمارے سامنے آتا ہے ایک احمدی یہ سوچے گا کہ جو قوت کا سر چشمہ ہے اس نے مہربانی سے اپنی قوت کا ایک چھوٹا سا حصہ اپنی اس مخلوق میں بھی پیدا ؟
خطابات ناصر جلد دوم ۶۷ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء کر دیا ہے تو وہ جو حسن ہمیں نظر آئے گا وہ راجع ہے قادر وتوانا خدا کی طرف.ابھی نظم بھی پڑھی گئی اور لمبا مضمون ہے دنیا کا ہر حسن راجع ہوتا ہے خدا کی طرف.اس کا مرجع اور منبع خدا تعالیٰ کی ذات ہے، اس واسطے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحة : ۲ ).اور ہر احسان کا سر چشمہ اور منبع بھی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے.( در مشین محمود کی آمین صفحه ۳۶) جو کچھ بھی انسان کے پاس ہے جسم کے لحاظ سے یا ذہن کے لحاظ سے یا اخلاق کے لحاظ سے یا روحانیت کے لحاظ سے اگر اللہ تعالیٰ نہ دے تو وہ نہیں ہو سکتا.یہ بڑا احسان ہے اس سے بڑا احسان ہم پر خدا تعالیٰ کا اور کیا ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم میں یہ اعلان کر دیا کہ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) دنیا جہان کی ، اس عالمین کی ، اس کائنات کی ہر چیز کو حکم دے دیا ہے کہ تمہاری خدمت کرے.اتنا بڑا احسان ! چھوٹی چھوٹی چیزوں کے اوپر کبھی آدمی اپنے علم پر فخر کرنے لگ جاتا ہے.شرک کرتا ہے.کبھی اپنے اثر و رسوخ پر بھروسہ کرتا ہے شرک کرتا ہے.بڑا پیارا ہے ہمارا مذ ہب اور بڑا ہی محبوب ہے ہمارا آقا اور حقیقت میں وہی محبت کے قابل ہے یعنی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم.آپ نے کہا ہے کہ بوٹ کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی خدا سے مانگو؟ ایک چھوٹا سا تسمہ ایک معمولی چیز ہے کئی دہریہ نہیں گے کہ عجیب حکم دے دیا اور آنکھیں بند کر کے ہنسیں گے کیونکہ دنیا نے ایسے واقعات کو بھی محفوظ رکھا ہے اور اس قسم کی بہت ساری باتیں ہمارے سامنے بھی آتی رہتی ہیں کہ تسمہ ٹوٹ گیا اور انسان نے کہا کہ کیا تمے کے لئے میں خدا کی طرف جاؤں میں آپ جا کر لے لوں گا اور بازار تسمہ خریدنے گیا اور راستے میں کوئی تیز چلانے والا موٹر ڈرائیور تھا اس نے اس کو دھکا دیا.نیچے لیا اور مار دیا.دوکان تک بھی نہیں پہنچاوہ شخص.اور گیا تھا کہ مجھے خدا کی کیا ضرروت ہے میں آپ جا کے تسمہ خرید لوں گا.تمہیں تو اپنے ہر سانس کے لئے خدا کی ضرورت ہے اور تسمہ تو ایک سانس سے بہر حال زیادہ سانس لے کے ہی انسان کو ملتا ہے ہر حمد خدا کی طرف راجع ہوتی ہے الْحَمْدُ لِلہ.پھر قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کی صفات اور ان صفات میں اس کے جلووں کی بہت تفصیل بتائی ہے.میں ایک پہلو سے دو بنیادی صفات لے لیتا ہوں ویسے ایک اور پہلو سے دوسری چار بنیادی صفات ہیں.سورۃ فاتحہ
خطابات ناصر جلد دوم ۶۸ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء.میں زندگی اور قیام کے لحاظ سے دو بنیادی لے لیتا ہوں.کیا ہے انسان؟ آپ میں سے ہر ایک سوچے کہ آپ کیا چیز ہیں ہر فرد جو ہے وہ کیا ہے.ایک انسانی فرد ہے جس میں زندگی پائی جاتی ہے یہی ہیں نا آپ ! زندہ ، زندہ انسان ، لاشہ نہیں.یہاں بیٹھے ہوئے ہیں آپ.اللہ تعالیٰ آپ کی عمروں میں برکت ڈالے.تو ایک ہے زندگی اور دوسرے آپ کے اندر اللہ تعالیٰ نے مختلف طاقتیں پیدا کی ہیں اور انسانی جسم کو ایک عالمین بنا دیا ہے آپ لوگوں کو پتہ نہیں یہ جو نمک آپ کھاتے ہیں نا اس نمک کا جسم کے اندر ایک بہت بڑا نظام ہے اور سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک اس کے فنکشنز (functions) ہیں.اس کا ایک کام ہے جس کو ہمارے یہ ڈاکٹر میٹابولیزم (Metabolism) کہتے ہیں ایک پانی ہے پانی آپ پیتے ہیں اور پی کے آپ کو سیری کا احساس ہوتا ہے پانی کے ڈسٹری بیوشن (Distribution) کا جسم میں ایک نظام ہے اور دو بیماریاں ہیں ان میں سے کوئی ہو جائے تو پتہ لگتا ہے کہ پانی کا نظام خراب ہو گیا ہے.ایک بیماری یہ ہے کہ جہاں پانی پہنچنا چاہئے تھا وہاں پہنچا نہیں.جس جگہ جس مقدار میں پانی پہنچنا چاہئے وہاں پانی پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں ایک بڑا ز بر دست نظام پیدا کیا ہے ڈاکٹر کے پاس مریض جاتا ہے یا مقرر ہی بعض دفعہ کہتے ہیں کہ گلا خشک ہو گیا ہے گلا کیسے خشک ہو گیا بیماری ہوگئی ہے.کیونکہ گلے کو مناسب پانی پہنچتے رہنے کا جو نظام تھا اس کے اندر خرابی پیدا ہوگئی ہے.دوسری بیماری یہ ہے کہ جہاں جتنا پانی پہنچنا چاہئے تھا اس سے زیادہ پہنچ گیا ہمارے پنجابی کا محاورہ ہے گوڈیاں وچ پانی پے گیا.آپ نے کبھی سنا ہو گا.میرے سامنے بھی جب میں کالج میں پرنسپل تھا ایک بیچارہ مزدور لایا گیا.ٹھیکیدار کہنے لگا ایدے گوڈیاں وچ پانی پے گیا اے.میں نے اس کو دیکھا اس نے دھوتی پہنی ہوئی تھی میں نے کہا ذرا اونچا کرو تو اس کا ایک گھٹنا فٹ بال کے برابر تھا اور وہ خود پتلا دبلا مزدور تھا.انڈ رنو رنڈ (under nourished) دوسرا گھٹن بیچارے کا پتلا سا تھا.بڑی تکلیف ہوئی مجھے.خدا تعالیٰ نے اس کو شفا دینی تھی ہو میو پیتھک کی دو دوائیں ہیں اور ہومیو پیتھک کہتی ہے اگر اللہ فضل کرے تو ایک کا کام ہے کہ جہاں پانی نہیں پہنچا وہاں پانی پہنچا دینا اور دوسری کا کام ہے کہ جہاں پانی زیادہ ہو گیا ہے وہاں سے پانی نکال لینا.میں نے کہا اس کو دونوں دے دیتے ہیں میں نے پڑیاں بنائیں اور پانچ سات اس کو دے دیں.چوبیس گھنٹے کے
خطابات ناصر جلد دوم ۶۹ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء بعد میں دفتر سے گھر جارہا تھا کہ اتفاقاً مجھے وہ مزدور ملا میں نے اس کو بلایا.میں نے کہا کیا حال ہے تمہارا وہ کہنے لگا اللہ نے فضل کیتا میں ٹھیک ہو گیا ہوں.مجھے یقین نہیں آیا میں نے کہا کہ غریب آدمی ہے تھوڑ اسا افاقہ ہوا ہوگا تو مزدوری کرنے آ گیا ہے.ممکن ہے کہ مزدوری کے بغیر ان کے گھر میں روٹی نہ پکتی ہو.میں نے اسے کہا کہ ذرا دھوتی اٹھا کے مجھے گھٹنا تو دکھاؤ.جب اس نے دھوتی اٹھا کے مجھے گھٹنا دکھایا تو مجھے یہ سمجھ نہ آئے کہ بیار گھٹنا کون سا تھا دایاں یا بایاں.چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس کی ورم بالکل جاتی رہی اور وہ ٹھیک ہو گیا.تو اتنا بڑا احسان خدا تعالیٰ نے کیا ہے کہ ساری دنیا کو تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے اور تمہارے اندر بھی ایک دنیا آباد کر دی ہے.تم جب باہر دیکھتے ہو تب بھی ساری کائنات کو اپنا خادم پاتے ہو اور جب اپنے اندر دیکھتے ہو تو وہاں بھی ایک کائنات چھپی ہوئی دیکھتے ہو اور اس کو بھی اپنا خادم پاتے ہو.قرآن کریم نے کہا ہے.اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ (الشعراء (۸۱) انسان بیمار آپ ہو جاتا ہے کہیں مزیدار کھانامل گیا تو بہت سارا کھا لیا اور جس کی عادت نہ ہوئی وہ کھالیا اب ہمارے ایک باہر سے آئے ہوئے بھائی ہیں.بے خیالی میں انہوں نے کہا کہ میرے یہ سارے بھائی مرچیں کھاتے ہیں میں بھی کھا کے دیکھوں.وہاں تو مرچیں کھائی نہیں جاتیں انہوں نے کھالیں تو ان کو ڈائیریا (Diarrhoea) شروع ہو گیا.تو مَرِضُرت خود غلطی کی اور ڈائیریا ہو گیا.پھر مجھے بھی پتہ لگا اور میں نے بھی ایک چھوٹی سی ہو میو پیتھک کی دوائی دے دی.دو ڈاکٹر ان کے علاج پر لگے رہے.ان کے لئے دعائیں کیں ، رات کے ایک دو بجے ان کو آرام آ گیا.تو خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے سوائے خیر و خوبی کے اور کوئی چیز نہیں بنائی لیکن انسان ہے وہ بیمار بھی ہو جاتا ہے انسان ہے وہ بداخلاق بھی ہو جاتا ہے انسان ہے وہ ظالم بھی ہو جاتا ہے.یہ نہیں دیکھتا کہ خدا تعالیٰ نے انسان پر اتنا احسان کیا ہے کہ ہر خیر و خوبی اس کے لئے پیدا کر دی اور یہ خدا کے مقابلے میں کھڑے ہو کر بعض لوگوں سے خیر اور خوبی چھینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کو غصہ آتا ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ پھر اس کی اصلاح کے لئے اللہ تعالی تلخ زندگی کے کوئی سامان پیدا کرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک کو محفوظ رکھے.بہر حال جس اللہ پر ہم ایمان لاتے ہیں ہمارا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ ایک تو وہ کامل اور بے عیب ذات اور پاک ذات ہے اور دوسرے یہ کہ ہر حمد کا مرجع اور منبع اس کی ذات ہے اور میں جس طرف آرہا ہوں ( کچھ دوسری طرف نکل گیا ).
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء وہ ہے زندگی.میں بتارہا تھا کہ آپ کیا ہیں آپ ایک زندہ ہیں دوسرا یہ جسم کا نظام ہے جس کے اندر ایک کائنات ہے یہ ایک چیز نہیں ہے.جس کو طب مفرد کہتی ہے بلکہ یہ مرکب ہے اور مرکب بھی پتہ نہیں کن کن چیزوں سے ہے.آپ کی انتڑیوں میں تو کروڑوں ایسی چیزیں ہیں کہ جب ڈاکٹر ایلو پیتھک دے کر انہیں مار دیتے ہیں یا اگر مار دیں تو آپ کھانا ہی نہیں ہضم کر سکتے.ان خادم کیڑوں کی شکل میں آپ کی انتڑیوں میں کروڑوں کی تعداد میں آپ کے خادم موجود ہیں.اب آجکل حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ باہر تو خدمت کرنے والا ملتا نہیں لیکن خدا تعالیٰ کا احسان دیکھو کہ کروڑوں کی تعداد میں وہ کیڑے آپ کا صرف یہ کام کرتے ہیں کہ کھانا ہضم کر دیں.تو ہماری ذات جو ہے میری اور تم میں سے ہر ایک کی.ایک ہے اس کی زندگی ، اور ایک ہے اس کی یہ حالتِ بقا.اس کے اندر ایک بیلنس (balance) ہے ایک کائنات ہے جو کہ اس کے آپس بالکل صحیح اور درست تعلقات کا نام ہے ذرا سی خرابی ہو جائے جگر میں کلجنکشن (conjunction) ہو جائے تو سر دردشروع ہو جاتی ہے ، بے چینی ہو جاتی ہے، نیند اڑ جاتی ہے یہ خرابی ہو جائے تو آدمی تکلیف میں پڑ جاتا ہے.قرآن کریم نے کہا کہ جو تمہیں پیدا کرنے والا خدا ہے وہ الحی القیوم ہے وہ زندہ بھی ہے.وہ اپنی ذات میں زندہ ہے ، صرف وہی اپنی ذات میں زندہ ہے اور کوئی نہیں.ہر غیر اللہ اپنی زندگی کے لئے اس کا محتاج ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر ایک سیکنڈ کے لئے الحی خدا کا تعلق کسی فرد واحد سے نہ رہے تو وہ فور مر جائے گا.سیکنڈ تو کیا سیکنڈ کے کروڑویں حصے کے لئے بھی تعلق نہ رہے تو جان نکل جائے گی کیونکہ اس کی زندگی خدا کے ساتھ ، جی خدا کے ساتھ تعلق قائم رہنے کی وجہ سے قائم ہے ورنہ وہ زندہ نہیں رہ سکتا ، اور خدا تعالیٰ القیوم ہے مجھے اور آپ کو خالی زندگی تو نہیں نا ہے بلکہ آپ کی ذات کا ایک بیلنس اور توازن جو خدا تعالیٰ نے بنایا ہے وہ قائم رہنا چاہئے ورنہ تو زندگی زندگی ہی نہیں رہتی مثلاً ایک پاگل آدمی ہے کیا وہ زندہ نہیں ؟ خدا تعالیٰ نے ہمیں سمجھانے کے لئے ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ ایک زندہ ہے اور جا کے گندگی اٹھا کے بھی منہ میں ڈال لیتا ہے اور کھالیتا ہے ایسے پاگل بھی موجود ہیں اور ہم نے خود دیکھے ہیں پاگل خانوں میں ایسے پاگل ہیں جو ماں باپ کو نہیں پہچانتے اور پاگل خانوں سے باہر ایسے بھی پاگل ہیں جو اپنے پیدا کرنے والے
خطابات ناصر جلد دوم 21 اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء رت کو نہیں پہچانتے لیکن میں اس وقت ان کی بات نہیں کر رہا.اپاہج ہیں مثلاً پولیو کا مرض ہے اس میں صرف جسم کا جو ایک بیلنس تھانا اس کے اندر نروز (nerves) کے اوپر اثر پڑا اور ایک لات یا نچلا دھڑ یا اوپر سے نیچے تک آدھا دھڑ مفلوج ہو گیا.تو زندگی تو ہے لیکن ایک حصہ ذات کے ساتھ قیوم خدا کا تعلق قائم نہیں رہا بلکہ ختم ہو گیا اب زندہ بھی ہے لیکن قیوم خدا کے ساتھ ایک حد تک تعلق قائم نہیں رہا.جو پاگل ہیں.بڑے خطر ناک قسم کے پاگل ہوتے ہیں ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.میں جانتا ہوں ایسے لوگ بھی ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے بڑی دولتیں دیں اور ان کے نظام ہضم کی صحت جو تھی یعنی صحت نظام ہضم وہ ان سے چھین لی.اب وہ کھانا کیا کھا ئیں، کئی دفعہ انہوں نے دیکھا کہ کچھ کھایا بھی جاتا ہے کہ نہیں اور ایک دو چیچے دہی کے منہ میں ڈال لئے یا اس قسم کی کوئی اور چیز لیکن وہ جو چیز کھاتے ہیں وہ پیٹ میں خرابی پیدا کر دیتی ہے تو قیوم خدا کے ساتھ اگر پختہ تعلق نہ رہے تو انسان کی ذات کے اندر اس طرح ہوتا ہے کہ جس طرح ایک بم پھٹ گیا اور انسان انسان نہیں رہتا.جس خدا پر ہم ایمان لائے یا درکھو کہ اسے ہم الحی بھی سمجھتے ہیں اور القیوم بھی سمجھتے ہیں.ہمیں اپنی زندگی کے لئے غیر اللہ کے پاس جا کے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں اور نہ اپنی صحت اور بقا اور ذات کے اس نظام، اس کائنات کے صحیح رہنے کے لئے کسی اور کے سامنے جھکنے کی ضرورت ہے اگر ہمارا تعلق الحی اور القیوم سے قائم رہے تو کسی اور کے ہم محتاج ہی نہیں.ہم اسی کے محتاج ہیں اور خدا ہمیں ہمیشہ اپنا ہی محتاج رکھے.یہ ہے خدا جس پر ہم ایمان لاتے ہیں یعنی ہم جب ایمان باللہ کہتے ہیں تو ہماری مراد یہ ہوتی ہے.یہ ہمارا عقیدہ ہے.ایک تو یہ کہ وہ پاک ہے، کامل ہے، ہر عیب سے منزہ ہے، ہر تعریف اسی کی طرف راجع ہوتی ہے الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحة :۲) اور پھر وہ الحی ہے اور القیوم ہے اور دوسرے سورۃ فاتحہ میں بیان شدہ صفات کے مطابق وہ رب العالمین ہے.اللہ.اللہ کی ہی ہم بات کر رہے ہیں نا.اللہ تعالیٰ کی صفات خود قرآن کریم نے بیان کیں قرآن کریم نے کہا کہ اللہ رب العالمین ہے ساری کائنات کا رب ہے.رب کے معنی ہیں پیدا کیا ، تمام خواص دیئے اور بتدریج یعنی درجہ بدرجہ ترقی کا اصول قائم کیا ( یہ ربوبیت کے معنی کے اندر آتا ہے ) اور پھر اس اصول کے مطابق جس چیز کو جس کام کے لئے بنایا تھا اسے اس حد تک ترقی دیتا چلا گیا.یہ زمین کے اندر مٹی کے ذرے، یہ جو تمہارے پاؤں کے نیچے آتے ہیں؟
خطابات ناصر جلد دوم ۷۲ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء تمہارے دل میں ان کی کوئی قدر نہیں ہمارا خدا جو رب العالمین ہے وہ ان ذروں میں پختگی پیدا کرتا ہے اس زمین کے ذرے مٹی کے ذرے ہی ہیں نا اور ان میں تبدیلی پیدا کرتا ہے.سینکڑوں ہزاروں سال کے بعد درجہ بدرجہ ( تدریج کا اصول اس نے بنایا ہے وہ اپنی حکمتوں کو خود جانتا ہے) ایک ہیرا بن جاتا ہے اور اتنا سا وہ ہیرا ہوتا ہے لیکن اگر وہ آدھ سیر آپ کی جیب میں آجائیں تو آپ شاید ساری دنیا سے زیادہ مالدار بن جائیں واللہ اعلم مجھے اس چیز کا زیادہ علم نہیں.بہر حال وہ ایک قیمتی چیز بن گیا.یہی صفت ربوبیت لے لیں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے میں انسان کو لیتا ہوں.میں انسان ہوں اور مجھے انسان سے زیادہ دلچسپی ہے باقی چیزیں میری خادم ہیں اس واسطے ان سے بھی دلچسپی ہے اور آپ کو بھی دلچسپی ہے.بچہ پیدا ہوتا ہے اب کوئی ماں یہ نہیں کہہ سکتی کہ میرے بچے کو خدا کی ضرورت نہیں یا رب العالمین کی ضرورت نہیں میں اسے اپنا دودھ پلاؤں گی عجیب شان ہے خدا نے ماں کو کہا کہ تو یہ دعویٰ نہ کر اس لئے کہ تیری چھاتیوں میں اس وقت تک دودھ ہی نہیں آ سکتا جب تک یہ بچہ دودھ کے لئے روئے نہ تو تیری چھاتیوں میں دودھ آنے کے لئے چابی ہم نے اس بچہ کو دی ہے اور یہ تجھ سے خود دودھ لے گا تو چاہے دے چاہے نہ دے ور نہ پریشان ہوگی تکلیف ہو جائے گی.اگر عورت بے احتیاطی برتے تو بعض دفعہ اس کی چھاتیوں پیپ پڑ جاتی ہے.عجیب شان ہے خدا کی جس جس چیز پر آپ نگاہ ڈالیں اس کی عجیب شان نظر آتی ہے ہر درخت کی عادت اور اس کے اجزاء اور ہیں.ہر انسان میں اور آپ جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں یہ ایک چیز نہیں ہیں.آپ کا گوشت انسانی گوشت ایک طرح کا نہیں ہے یہ جو بازو کا گوشت ہے اس کے کیمیاوی اجزاء اور ہیں اور آپ کی پنڈلیوں کا جو گوشت ہے اس کے کیمیاوی اجزاء اور ہیں اور آپ کے دل کا جو گوشت ہے یعنی ہارٹ مسل (heart muscle) اس کے کیمیاوی اجزاء بالکل مختلف ہیں اور خدا تعالیٰ نے گوشت کی ہر بوٹی کے لئے علیحدہ دوائی بنادی ہے وہ اتنا بڑا احسان کرنے والا ہے ورنہ اگر ایسا نہ ہوتا تو دوائی تو دیتے دل کے علاج کے لئے اور جا پہنچتی وہ پنڈلیوں کے گوشت میں.اب وہ آرام سے وہاں سے گذر جاتی ہے اور دل کو جاکے فائدہ پہنچا دیتی ہے کیونکہ ہر کیمیاوی اجزاء نے مل کر خدا تعالیٰ کے حکم کے ساتھ ایک اثر قبول کرنے والی طاقت حاصل کی ہے تو خدا الحی القیوم ہے اگر ایک سیکنڈ کے نامعلوم حصہ کے لئے ( کیونکہ
خطابات ناصر جلد دوم ۷۳ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء میں اب اربوں بھی کہوں تو وہ وقت بھی زیادہ ہے ) الحسی کے ساتھ تعلق قائم نہ رہے تو انسان کی جان نکل جائے اور اگر القیوم کے ساتھ ہمارا تعلق نہ رہے تو جسم انسانی کی کائنات تہ و بالا ہو جائے ، اور اس کے اوپر قیامت آ جائے.اگر انسان پاگل ہو جائے دست لگ جائیں اسہال لگ جائیں ، مفلوج ہو جائے دھڑ مارا جائے تو ساری عمر کے لئے ایک مصیبت بن جائے.مختلف شکلوں میں یہ تعلق ٹومتا ہے اور خدا تعالیٰ بتاتا ہے کہ میں الحی القیوم ہوں تم زندہ اسی وقت تک رہ سکتے ہو جب تک کہ میرے ساتھ یعنی الحسی کے ساتھ تمہارا زندہ تعلق ہو اور تمہاری اپنی ذاتی انفرادی کائنات کا نظام اسی وقت تک درست رہ سکتا ہے جب تک کہ میں جو القیوم ہوں میرے ساتھ تمہارا تعلق قائم رہے.اس خدا پر ہم ایمان لاتے ہیں.میں آپ کو بتاوں قرآن کریم بڑی عجیب کتاب ہے اس کے اوپر غور کیا کریں آج میں یہی سوچ رہا تھا تو مجھے آیت یاد آئی پھر میں نے اپنے ذہن کے مطابق وہ نکالی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مثالیں تو بہت ساری ہیں لیکن میں ایک لے لیتا ہوں خدا تعالیٰ فرماتا ہے أَفَرَعَيْتُمُ مَّا تَحْرُثُونَ وَ انْتُمْ تَزْرَعُوْنَةَ أَمْ نَحْنُ الزرعُونَ (الواقعة : ۶۴ ، ۶۵) بڑا عجیب مضمون ہے فرمایا کہ بتاؤ کھیت کو جو تم تیار کرتے ہو بہت سارے زمیندار میرے سامنے بیٹھے ہیں تم کھیت کو تیار کرتے ہو اور اس میں بیج ڈال دیتے ہو تو کیا کھیتیاں تم اگاتے ہو؟ یعنی تمہارا یہ سمجھ لینا کہ ہم نے دس ہل چلا دیئے اور آٹھ دفعہ سہا گہ کر دیا اور میدے کی طرح زمین نرم کر دی اور گھر سے دانے لے کر گئے اور وہاں پھینک دیئے تو کیا کھیتی اگانے کا کام تم اپنے ذمے لے لیتے ہو اور اعلان کرتے ہو کہ تم کھیتی اگا رہے ہو تَحْرُثُونَ کے معنی عربی زبان میں زمین کو تیار کر کے بیج ڈال دینے کے ہیں یعنی ایک لفظ بدل کر وہاں پورا مضمون ، عجیب و غریب بیان کر دیا ہے اَفَرَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ بتاؤ تو سہی کہ تم جو کھیتی تیار کر کے بیچ میں دانے ڈال آتے ہو تو کیا اس کا جو نتیجہ نکلنا ہے وہ تمہارے ہاتھ میں ہے.نہیں.وَأَنْتُمُ تَزْرَعُونَة أَمْ نَحْنُ الزرعُونَ کیا ان دانوں میں روئیدگی پیدا کرنا تمہارا کام ہے یا ہمارا کام ہے.میں نے قیوم خدا کے ساتھ تعلق کے بارے میں بتایا ہے کہ انسان کو سبق دینے کے لئے اور اس کو جھنجوڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی صفات کا مظاہرہ کرتا ہے تَحْرُثُونَ کے معنی ہیں جیسا کے میں نے بتایا ہے زمین تیار کر کے بیج ڈال دینا تو فرمایا کہ تم زمین میں ہل چلاتے ہو، راتوں کو جاگتے ا
خطابات ناصر جلد دوم ۷۴ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء ہو، پانی دیتے ہو، پہلے آرام نہیں کرتے ، پھر تم و تر آنے کا انتظار کرتے ہو، پھر تم ہل چلاتے ہو، زمین کو میدے کی طرح خشک کر دیتے ہو اور اپنا بیج ڈال آتے ہو کیا تم سمجھتے ہو کہ نتیجہ تمہاری کوششوں کی وجہ سے نکلے گا.نہیں.انتُمْ تَزْرَعُونَةً أَمْ نَحْنُ الزُّرِقُونَ بعض دفعہ بیج اُگتے ہی نہیں جب آگ جائیں تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ کئی ہزار تلیر اور شارک کو اللہ حکم دیتا ہے کہ اس کھیتی کے جا کر بیج کھا جاؤ اور وہ وہاں پہنچ جاتی ہیں وہ نظارہ عجیب ہوتا ہے.پچھلے سال یہاں میری اپنی زمین میں کھیتی دیر کے بعد لگائی جب کام کرنے والے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کئی ہزار تلیر اور شارک جو چھوٹی چھوٹی روئیدگی ہو چکی ہے اور دانے نے جو چھوٹا سا منہ سر باہر نکالا ہے وہاں سے چونچ سے پکڑ کر اور کھینچ کر دانہ نکال لیتے ہیں دانہ کھا جاتے ہیں اور جو پتہ سا بنا ہوا تھا وہ پھینک دیتے ہیں.ٹھیک.کھانے دوان کو.کیا کریں.اللہ کی مرضی ہے میرا خیال ہے کہ وہ کوئی ستر فی صد دانے کھا گئے خدا تعالیٰ جس کو عقل دے اس کے لئے ان چیزوں میں یہ سارے سبق بھی ہوتے ہیں نا.خیر ہم نے سوچا کہ دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے.جو میں فیصد دانے رہ گئے تھے خدا تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ خوب بوٹا بناؤ تو عام طور پر اگر آٹھ دس شاخیں نکلتی ہیں تو وہاں ہیں چھپیں شاخیں نکل آئیں اور خدا تعالیٰ نے ان کو کہا کہ تم خوب موٹے دانے ہو جاؤ چنانچہ دانے موٹے ہوگئے.جن کھیتوں سے تلیر اور شارک نے ستر فی صد دانے نہیں کھائے تھے ان میں سے نکلی بنتیں من گندم اور جن کے ستر فی صد دانے شارکیں اور تلیر کھا گئے تھے ان میں سے نکلی اٹھائیس من.دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں پہلے کہا کہ دیکھو تمہارا کوئی اختیار نہیں ہے اگر خدا کہتا ان کو تو وہ سارے دانے کھا جاتے انسان کا تو اختیار نہیں نا.بہر حال جزا دینا خدا کے اختیار میں ہے دوسری جگہ فرمایا وَ فِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ (الدريت :۲۳) آسمانوں میں تمہارا رزق وَمَا تُوعَدُونَ (الدريیت :۲۳) اور اس جگہ یہاں بڑا عجیب نتیجہ نکالا ہے کہ تمہارا رزق آسمانی حکم ہے سے پیدا ہوتا ہے اس سے تم یہ سمجھ لو کہ جو تمہیں خدا تعالیٰ نے وعدے دیئے ہیں وہ پورے ہوں گے عجیب مثال دے کر ہمیں خدا تعالیٰ کے وعدوں پر قائم رہنے اور بشاشت کے ساتھ اس بات کے سمجھنے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ خدا تعالیٰ صادق الوعد ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ وعدہ کرے اور اسے پورا نہ کرے تو آسمان جب تمہارے زمین کے رزق کا فیصلہ کر رہا ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ پاک ہستی تم
خطابات ناصر جلد دوم ۷۵ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء سے وعدے کرے اور وہ صادق الوعد وعدے پورے نہ کرے، زمینداروں کو خدا تعالیٰ نے کہا کہ جا کے اپنے کھیتوں کو دیکھو وَ أَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزُّرِعُونَ (الواقعة : ۲۵،۶۴) وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوعَدُونَ (الدريت : ۲۳) تو ہما را خدا الحی القیوم ہے.ایک بات اس سلسلے میں میں اور کہنا چاہتا ہوں ہمارا خدا وہ نہیں کہ جو اس کا ئنات کو پیدا کر کے اور قوانین قدرت بنا کے ہم سے علیحدہ ہو گیا اور ہم سے کوئی تعلق نہیں رکھا میں نے بتایا ہے کہ وہ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اور مُلِكِ يَوْمِ الدِّين بھی ہے لیکن زیادہ وضاحت سے میں نے بتایا ہے کہ وہ الحی القیوم ہے یہ جو میں نے بعد میں مثالیں دی ہیں یہ ایک اور وجہ سے دی ہیں خدا تعالیٰ نے دو قانون بنائے ہیں ایک کو ہم قانون قدرت کے نام سے موسوم کرتے ہیں یہ عام قانون ہے مثلاً یہ قانون ہے کہ فلاں فلاں قسم کے درختوں کی پت جھڑ موسم بہار کے شروع میں ہوگی اور فلاں درخت ہیں ان کی موسم خزاں کے شروع میں ہوگی.ایسے دونوں قسم کے درخت ہیں.فلاں درخت ہیں وہ سردیوں میں سو جایا کریں گے مثلاً سیب ہے، آلوچہ ہے، یہ سردیوں میں سو جاتے ہیں اور سیب جتنی گہری نیند سوتا ہے اتنا ہی یہ زیادہ پھولتا پھلتا اور پھل لاتا ہے اسی وجہ سے جو چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر سیب ہے وہ ہمارے میدان کے علاقے میں ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہاں اس کو آٹھ مہینے سونے کے ملتے ہیں اور پھر زندگی کے چار مہینے وہ خوب موجیں کرتا ہے پتے نکلتے ہیں ، شاخیں بنتی ہیں، اس کو پھل آتا ہے اور اس طرح وہ چار مہینے میں انسان کی اتنی خدمت کر جاتا ہے کہ بعض دوسرے درخت بارہ مہینے میں اتنی نہیں کر سکتے.بہر حال ایک ہے قانون قدرت یہ ایسا قانون ہے کہ جس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ دوسرا قانون آ جائے یعنی ہم اس قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے ، اس میں ایک پک بھی رکھی ہے مثلاً انسانی پھیپھڑے میں یہ لچک رکھی ہے کہ سطح سمندر سے لے کر چھ ہزار فٹ تک جس میں ویر پیٹیشن (variation) کے لحاظ سے ہوا کے اندر آ کسیجن کا فرق ہے ہمارے پھیپھڑے زندہ رہ سکتے ہیں.اوپر چلے جائیں تو کچھ تکلیف ہو جاتی ہے مثلاً الٹی آجاتی ہے سر درد شروع ہو جاتی ہے بعض لوگوں کے پھیپھڑوں میں کچھ زیادہ لچک ہے لیکن ہم اس وقت اس کو نظر انداز کرتے ہیں یہ ایک قانون ہے جو مستحکم ہے اور اس کے علاوہ ایک اور قانون ہے جو کہ اس قانون کے مطابق کہ
خطابات ناصر جلد دوم ۷۶ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء ان درختوں کے پتے موسم بہار میں گریں گے ہر پتے کو ایک علیحدہ حکم بھی آتا ہے کہ گر جا اور تب وہ گرتا ہے ورنہ نہیں گرتا.وہ قانون اپنی جگہ اور یہ اپنی جگہ.میں نے سوچا اور میں آپ کا بڑا منون ہوں کہ آپ کے لئے سوچتا ہوں اور اللہ تعالی علم دے دیتا ہے میں نے سوچا کہ کوئی فرق ہونا چاہئے ایسا کیوں ہے، یہ خدا تعالیٰ کی کیا حکمت ہے، تو آج صبح ہی میرے دماغ میں یہ آیا کہ حکمت یہ ہے کہ اگر قوانین قدرت نہ ہوتے یعنی اگر انسان کو یہ یقین نہ ہوتا کہ آگ ہمیشہ جلائے گی اور گرمی پیدا کرے گی تو انسان علمی ترقی نہ کر سکتا.یہاں تو شاید اتنی نہیں، لاہور کے رستے میں انڈسٹریز ڈیویلوپ ( develop) ہو گئی ہیں لیکن میں نے بعض دوسرے ملکوں کی تصاویر دیکھی ہیں کہ میل ہا میل تک کارخانے ہیں بلکہ پچھلے سال میں گیا تو دریائے رائن کے کنارے پر ہم فرینکفرٹ جا رہے تھے تو راستے میں پچاس میل کا ٹکڑا ایسا تھا کہ کارخانہ، کارخانہ، کارخانہ، کارخانہ.پتہ نہیں کتنے ہزار کا رخا نہ تھا اور چمنیوں میں سے دھواں نکل رہا تھا یہ آگ اگر گرمی پیدا نہ کرے تو انسان کا علم ترقی نہیں کر سکتا کہ کبھی تو وہ برف جما دے اور کبھی وہ پارے کو چار سو فارن ہائیٹ تک لے جائے.اگر اس قسم کا قانون ہوتا تو ہم علمی ترقی نہ کر سکتے تو اللہ تعالیٰ نے قوانین قدرت میں دنیا کو اپنی مخلوق کو باندھا اور اس طرح پر انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ علمی ترقی کرے اور اگر صرف قانونِ قدرت ہوتا مثلاً یہ کہ شیشم خزاں میں (آجکل) پتے جھاڑے گی یا پاپولر کا درخت ہے اگر یہ ہوتا کہ ضرور پتے جھاڑے گی کوئی استثناء نہیں ہے تو پتہ ہے کیا ہوتا؟ انسان کو دعا کی ضرورت نہ ہوتی تو خدا تعالیٰ نے انسان کے علاوہ اپنی کا ئنات کو جسے انسان کا خادم بنا دیا تھا قوانین قدرت میں جکڑ کر انسان پر اس کی علمی ترقیات کے دروازے کھول دیئے جتنی علم کی ترقی اور سائنس کی ترقی اور انڈسٹریز کی ترقی ہے وہ اس بنیاد کے اوپر ہے کہ قوانین قدرت میں عام حالت میں فرق نہیں پڑا.میں عام حالات اس طرح کہتا ہوں کہ خاص حالات میں خدا تعالیٰ کا اپنے پیاروں سے جو پیار ہے وہ اس کا ان کے لئے اظہار کرتا ہے.آگ عام طور پر ہمیشہ جلاتی ہے لیکن اسی آگ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے سے انکار کر دیا اور یہی آگ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میں مداری تو نہیں کہ دنیا کو یہ تماشہ دکھاؤں کہ تنور میں جا کر چھلانگ لگاؤں اور میرا جسم محفوظ رہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے انبیاء اس قسم
خطابات ناصر جلد دوم 22 اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء کا تمسخر نہیں کیا کرتے لیکن میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اگر میرے دشمن بے تحا شا آگ جلا کے مجھے اس میں پھینکیں تو خدا نے مجھے کہا ہے کہ وہ آگ تجھے نہیں جلائے گی.یہ استثنائی بشارتیں جو ہیں یہ دعاؤں کے نتیجے میں، یہ استغفار کے نتیجہ میں، یہ تسی اور تحمید کے نتیجہ میں، یہ زندہ خدا سے زندہ تعلق کے نتیجہ میں سامنے آتی ہیں.اگر قانون قدرت نہ ہوتا تو علمی ترقی کے دروازے بند ہو جاتے اور اگر استثنائی صورتیں نہ ہوتیں یا استثنائی صورتیں تو ہمیں نظر آتی ہیں ، ( میں دراصل کچھ تھوڑ اسا ادھر ہٹ گیا اپنے مضمون سے ) اگر قانونِ قدرت کے علاوہ ہر آگ کو جلانے کا حکم نہ ہوتا یعنی درخت کی ہر ٹہنی کو علاوہ قانونِ قدرت کے ایک خاص حکم آتا ہے کہ تو گر می پیدا کر ( یہ ہے اصل مضمون میرا) اور ہر پتے کو علیحدہ حکم آتا ہے کہ تو گر جا.میں نے پہلے بھی بتایا ہے ایک دن مجھے یہی خیال آیا کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر پتا خدا کے علم اور اس کی حکمت سے گرتا ہے تو ایک درخت کے پت جھڑ ہورہی تھی اور بعض پتے بالکل زرد ہو گئے تھے اور بعض ابھی سبز تھے میں نے ایک ٹہنی کا انتخاب کیا اس کے اوپر ایک پتا جو بالکل زرد تھا اور پتے کے ساتھ جو ایک چھوٹی سی پتلی سی ٹہنی ہوتی ہے جو بڑی ٹہنی کے لگی ہوئی ہوتی ہے وہ بھی زرد تھی.میں نے اس کو اپنی نظر میں رکھا میں نے کہا صبح دیکھیں گے کیا ہوتا ہے صبح میں اٹھا اس کے ساتھ کے جو پتے بالکل سبز تھے ان کو بھی میں نے نظر میں رکھا صبح میں نے جا کر دیکھا تو سبز پتا گرا ہوا تھا اور زرد اپنی جگہ پر تھا.تب میں نے کہا کیا شان ہے ہمارے خدا کی.قانون قدرت کے علاوہ ہر پتے کو علیحدہ حکم بھی آتا ہے اور ہر ٹہنی کو علیحدہ حکم بھی آتا ہے کہ تو اب یہ کر.ہر لقمے کو ، غذا میں توازن ہے بہترین بیلنسڈ ڈائٹ (Balanced diet) جس کو کہتے ہیں آپ کے سامنے آتی ہے اور آپ کو بھوک لگی ہوئی ہے اس کے ہر لقمے کو لقمے کے ہر ذرے کو خدا کا حکم آتا ہے کہ میرے اس بندے کا پیٹ بھر اور اس کے مادی جسم کی ضروریات کو پورا کر ورنہ وہ نہیں کرے گا.تو دو قانونِ قدرت ، دو قانونِ الہی اس دنیا میں نظر آتے ہیں ایک کو ہم قانون قدرت کہتے ہیں اور دوسرے کو ہم قانونِ انفرادی کہہ سکتے ہیں.اس قانون کے ماتحت ہر دفعہ حکم آتا ہے پانی کے ہر ذرے کو حکم آتا ہے میں میٹھا کھاتا نہیں اور یہ گرم گرم قہوہ پیتا ہوں.آپ کو تعارف کرا دوں کہ جو قہوہ میں پیتا ہوں وہ بغیر میٹھے کے سبز چائے کا قہوہ ہوتا ہے تو جب میں پیتا ہوں مجھے ضرورت پڑتی ہے لیکن میں اس عقیدے کا ہوں کہ جوضرورت میں محسوس کرتا ہوں
خطابات ناصر جلد دوم ZA اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء اس کو یہ پانی پورانہیں کر سکتا جب تک کہ آسمانوں سے اس کو یہ حکم نہ ہو کہ میرے بندے ناصر کی اس ضرورت کو پورا کر ورنہ نہیں کر سکتا.اس لئے خدا نے مجھے اور تمہیں مخاطب کر کے ایک تو یہ کہا کہ جاؤ اور علوم کے دروازے تمہارے لئے کھولے گئے ہیں علم میں ترقی کرو اور دوسری طرف یہ کہا کہ قوانین قدرت کی موجودگی میں ہر انفرادی واقعہ جو ہوتا ہے مثلاً ایک پتے کا گرنا ایک پانی کا فائدہ پہنچانا وغیرہ وغیرہ ( آپ میری بات سمجھ گئے ہوں گے ) اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا آسمانوں سے حکم نازل ہوتا ہے اگر وہ نہ ہوتا تو انسان علمی ترقی نہ کر سکتا اور اگر یہ نہ ہوتا تو انسان کو دعاؤں کی ضرورت نہ ہوتی خدا تعالیٰ سے تعلق قائم نہ ہو سکتا تو اس شان والے اللہ پر ہم ایمان لاتے ہیں جہاں تک ہمارا مجموعی ذہن بھی نہیں پہنچ سکتا وہاں تک اس کے احکام پہنچتے ہیں کیونکہ اس کے احکام تو ہر جگہ پر ہیں جن ستاروں تک ہماری دور بینیں نہیں پہنچیں وہاں پر اس کا حکم پہنچ رہا ہے.پس خدا نے دو قسم کے قوانین جاری کر کے دو احسان کئے ہیں.قانون قدرت میں باندھ کر اس نے انسان پر علوم کے دروازے کھولے تحقیق کے دروازے کھولے، سائنس میں ترقی کے دروازے کھولے اور پھر اس کے باوجود ہر قسم کے فعل پر انفرادی حکم نازل کر کے اس نے ہمارے لئے دعاؤں کے رستے کھولے دعاؤں کے دروازے کھولے کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ یہ درست ہے کہ یہ خدا کا قانون ہے کہ پانی پیاس کو بجھائے گا لیکن یہ بھی درست ہے کہ جب تک ہر گھونٹ کو حکم نہیں ہوگا.وہ پیاس نہیں بجھائے گا میں نے بتایا ہے کہ بعض دفعہ زمیندار یا کوئی اور محنتی آدمی باہر سے محنت کر کے آتا ہے گرمیوں کے دن ہوتے ہیں پیاس لگی ہوئی ہوتی ہے اور وہ گلاس بھر کے منہ کولگا تا ہے زمینداروں کا گلاس ویسے بڑا بھی ہوتا ہے اور ختم کر جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے میری سیری ہو گئی ہے لیکن پانچ منٹ کے بعد وہ مر جاتا ہے.وہی پانی اس کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے اس لئے کہ قانون قدرت نے تو اس کو حکم دیا تھا کہ انسان کی پیاس بجھاؤ لیکن اس گلاس کو خدا تعالیٰ کا آسمانوں سے حکم نہیں آیا تھا تو دو مختلف احکام الہی اس دنیا میں جاری اور ساری ہیں ایک کی وجہ سے علوم اور سائنس اور تحقیق میں ترقیات کے دروازے ہم پر کھولے گئے ہیں اور دوسرے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ دعائیں کرو اور میرے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم کرو اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ تمہیں کتنی ترقیات دیتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اور اصل وہی چیز ہے جس
خطابات ناصر جلد دوم ۷۹ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء کی طرف میں اب آرہا ہوں آپ نے فرمایا کہ تمہیں دعا کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ تدبیر کی یعنی قانون قدرت کے مطابق دنیا سے خدمت لینے کی اور تمہیں خدمت لینے کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ دعاؤں کی.آپ نے فرمایا کہ دعا کو اپنی انتہا تک پہنچاؤ اور تدبیر کو اپنی انتہا تک پہنچاؤ تب تم دنیا سے آگے نکل جاؤ گے.ہمارے نوجوان یہ چیز گرہ سے باندھ لیں کہ تمہیں خدا تعالیٰ نے دنیا میں آگے نکلنے کے لئے پیدا کیا ہے پیچھے رہنے کے لئے پیدا نہیں کیا اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں اسی وجہ سے دنیا میں حسد بھی پیدا ہوتا ہے لیکن ہمیں اس سے کیا ہمیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے غرض ہے.یہ ہے نسخہ آگے نکلنے کا.پس تدبیر کو اپنی انتہا تک پہنچاؤ اور دعا کو اپنی انتہا تک پہنچاؤ.ایک شخص ہمارے ساتھ گورنمنٹ کالج میں داخل ہوا اس نے وظیفہ لیا تھا اور اور اس کے بہت اچھے ٹاپ کے نمبر تھے بڑا ذہین بچہ تھا.ان دنوں میں.i.c.s ( انڈین سول سروس Indian civil service ) ہوا کرتی تھی اور وہ کہتا تھا کہ میں نے سپیرئیر سروسز ( superior services) کا امتحان دینا ہے اور میں آگے نکلوں گا.اس کے کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے ذہن تو دیا تھا اور اس نے تدبیر کرنی شروع کی لیکن دعا کرنے کی بجائے اس نے خدا تعالیٰ کے نیک بندے کو گالیاں دینی شروع کر دیں.وہ ہمارے ساتھ الجھتا رہتا تھا.سیکنڈ ائیر کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس پر تدبیر کے دروازے بند کر دیے اس کو جنون کا دورہ ہوا اور وہ جو سپیرئر سروسز کے امتحان کے خواب دیکھ رہا تھا وہ ایف.اے.میں فیل ہو گیا حالانکہ اس کو خدا نے دماغ دیا تھا لیکن کسی کے پاس دماغ ہونا اور چیز ہے اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی طرف سے دماغ کو آسمانوں سے حکم نازل ہونا کہ تو نے اس کی خدمت کرنی ہے یہ اور چیز ہے.تو جہاں ہمارے لئے خدا نے اپنی مہربانی سے تحقیق اور سائنس میں آگے بڑھنے کے سامان پیدا کئے ہیں وہاں ہمارے لئے دعاؤں کے ذریعہ سے اپنے قریب کے سامان بھی پیدا کئے ہیں اور ایک احمدی کو ہر دو چیزوں کو مضبوطی سے پکڑ لینا چاہئے.دعا کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لو اور تدبیر کو بائیں ہاتھ سے پکڑ لو اور دعا کو اپنی پوری شرائط کے ساتھ اور تدبیر کو اپنی پوری شرائط کے ساتھ ہر دو کو انتہا تک پہنچاؤ پھر دیکھو کہ دنیا تمہیں کس طرح پیچھے سے پکڑ کر پیچھے کو دھکیل سکتی ہے تم آگے ہی آگے بڑھنے کے لئے پیدا ہوئے ہو.خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور دعا اور تدبیر کے ساتھ اس کی نعمتوں کے حصول کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرو.یہ ہمارا عقیدہ
خطابات ناصر جلد دوم ۸۰ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء ہے جو قرآن کریم سے ہم نے اللہ کے بارے میں سیکھا ہے یعنی جب ہم کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے تو ہمارا یہ عقیدہ ہے اس سے ادھر ادھر ہونا ہلاکت ہے پہلے بھی کئی لوگ ہلاک ہوئے مگر آپ کو کوشش کرنی چاہئے کہ آپ ہلاک نہ ہوں.نا قرآن کریم نے محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہم سے کیا تعارف کروایا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمارا کیا ایمان ہے.قرآن کریم نے ایک ہی وقت میں ہمیں دو باتیں بتائی ہیں ایک طرف ہمیں یہ کہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں دیگر جو بشر ہیں ان کی طرح چنانچہ فرمایا : قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الْهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّةٍ أَحَدًا ( الكهف : ۱۱۱) مساوات انسانی کا ایک بڑ اہی عظیم نعرہ چودہ سو سال پہلے لگا یا گیا اس وقت تک انسان نے اس کی عظمت اور اس کی حقیقت کو نہیں سمجھا.ہم حیران ہوتے ہیں کہ اپنے آپ کو بڑے بڑے عقلمند کہنے والے انسانی مساوات کی حقیقت اور اس کی تعریف کو سمجھتے ہی نہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان نہ کسی ماں نے ویسا بچہ جنا اور نہ جن سکتی ہے اتنی عظمتوں والے انسان کے منہ سے قرآن کریم نے یہ کہلوایا قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ یہ اسلام کی صداقت کی ایک بڑی دلیل ہے میں نے ۱۹۷۰ ء میں اس سے فائدہ اٹھایا اور تقریروں میں اسے بیان کرتا رہا.ایک جگہ کچھ پادری منہ بنا کے بیٹھے ہوئے تھے اس ملک کا لاٹ پادری بھی وہاں تھا تو وہاں پر مجھے خیال آیا کہ ان کو اسلام سے تعارف تو کراؤں چنانچہ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو پیرا ماؤنٹ پرافٹ ہیں ( میں نے ان کی زبان کا محاورہ لیا) ان کی زبان سے خدا نے یہ کہلوایا قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کہ بشر ہونے کے لحاظ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور تم افریقن میں کوئی فرق نہیں تو وہ جو آپ کے نائب اور جوئیر قسم کے انبیاء تھے جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام گذرے ہیں انہیں اور ان کے متبعین کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو تم سے بڑا سمجھیں.اس پر وہ پادری یوں اچھلے انہوں نے کہا کہ یہ کیا بم شیل ہمارے اوپر گرا دیا ہے پس نعرے لگانا اور چیز ہے اور حقیقت کو سمجھ کر اپنی زندگی اور معاشرہ کو اس کے مطابق ڈھالنا یہ بالکل اور چیز ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک حقیقت قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے اور قرآن کریم نے
خطابات ناصر جلد دوم ΔΙ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء ہمارے محبوب آقا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک دوسری حقیقت یہ بیان کی کہ ھد جَاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُورُ (المآيد :۱۲) اور آپ کو سِرَاجًا منيرا ( الاحزاب: ۴۷) کہا یعنی ایک چمکتا ہوا سورج اور کہا کہ آپ مظہر اتم الوہیت ہیں اور جو کامل نور ہے جو کامل طور پر دنیا کو روشن کرنے والا سورج ہے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ مظہر اتم الوہیت ہو.اور جو مظہر اتم الوہیت ہے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے متعلق یہ اعلان ہو کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الاَ فَلاكَ ( موضوعات کبیر زیر حرف لام).یہ دو حقیقتیں ہیں جو ایک ہی وجود میں پائی جاتی ہیں اور نوع انسانی نے ان حقائق مقام محمدیت سے دو مختلف فائدے اٹھائے ہیں قُلْ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں یہ اعلان کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اسوہ کی شکل میں بنی نوع انسان کے سامنے پیش کیا گیا ہے کیونکہ اگر یہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں بلکہ سپر مین(super man) ہیں اور بشر سے کوئی بلند و بالا چیز ہیں تو انسان کہتا کہ میں عاجز انسان ایک ایسی ہستی کی جو بشر سے کہیں بالا ہے، پیروی کیسے کرسکتا ہوں وہ میرے لئے اسوہ کیسے بن سکتی ہے تو بشر کہہ کے آپ کو اسوہ بنایا اور نور کہ کے آپ کو خاتم الانبیاء بنایا کیونکہ کامل نور مظہر اتم الوہیت ہے ویسے اصل نور تو اللہ ہے اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ۳۶) لیکن اللہ کے بعد مخلوق میں سے جو کامل نور کی حیثیت سے دنیا کی طرف آیا وہ خاتم الانبیاء ہے اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بشر ہونے کے لحاظ سے مختلف ہے بشر کے مقام کے نتیجہ میں آپ اسوہ بنے اور نور ہونے کے لحاظ سے آپ ایک طرف مظہر اتم الوہیت بنے اور دوسری طرف لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الَّا فُلاكَ ( موضوعات كبير زیر حرف لام ) کی صداقت انسان کے سامنے رکھی گئی نور ہونے کی حیثیت سے آدم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء سے نور حاصل کیا لیکن بشر ہونے کے لحاظ سے چونکہ آپ نے اس دنیا میں زندگی بعد میں گزاری اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدم علیہ السلام کے لئے اسوہ تو نہیں بن سکتے تھے.آدم نے تو آپ کی شان دیکھی ہی نہیں ہزاروں سال کے بعد آپ کی پیدائش ہوئی لیکن بعد میں آنے والی امت کے لئے بشر ہونے کے لحاظ سے آپ اسوہ ہیں اور یہ اسوہ قیامت تک کے لئے ہے اور نور ہونے کے لحاظ سے لَولاک لَمَا خَلَقْتُ الَّا فَلاكَ کا نعرہ
خطابات ناصر جلد دوم ۸۲ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء لگایا گیا اور اس سارے جہان میں جہاں بھی ہمیں نور نظر آتا ہے انسان کے اندر یا دوسری مخلوق میں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء کے طفیل نظر آتا ہے.انبیاء نے بھی نور نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے حاصل کیا اور ذہنوں نے نور فراست بھی وہیں سے حاصل کیا اور درختوں نے نور روئیدگی بھی وہیں سے حاصل کیا اور گھوڑے اور بیل اور یہ جو جانور ہیں انہوں نے نور خدمت بھی وہیں سے حاصل کیا اس لئے کہ یہ جو آپ کا مقام نور ہونے کا ہے اس کے نتیجے میں آپ کو لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الا فلاک ( موضوعات کبیر زیر حرف لام ) کہا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کا منصو بہ اللہ تعالیٰ نے اس لئے بنایا کہ وہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء اور اپنے بعد نور کامل کے طور پر پیدا کرنا چاہتا تھا اگر حضرت خاتم الانبیاء محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے کامل نورانسانی یعنی انسان بھی اور کامل نور بھی، نہ بنایا ہوتا تو یہ کا ئنات نہ بنائی جاتی اور اگر یہ کائنات نہ پیدا کی جاتی تو پھر نہ درختوں کا نور ہوتا ، نہ حسینوں کے حسن کا نور نہ کام کرنے کے حسن عمل کانور، نہ نبیوں کا نور.یا مقربین الہی کا نور کوئی نور ہوتا ہی نہ.تو اس کا ئنات کی تخلیق کا منصوبہ نور ہے یہ نور ہے.جس کے متعلق انسان کو کہا گیا کہ وہ تمہیں بلاتا ہے تم لبیک کہتے ہوئے اس کی طرف دوڑو کیونکہ وہ تمہیں اس لئے بلاتا ہے کہ تمہیں زندگی دے اور اس کا ئنات میں جو سب سے حسین نوراور سب سے اچھا نو ر ہمیں نظر آتا ہے وہ زندگی کا نور ہے یعنی وہ نور جو الحی القیوم کے ساتھ وابستگی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاتم الانبیاء بنایا اور اس کے نتیجے میں یہ نور کا مقام ہے خاتم الانبیاء مقام کا نور کامل کا مقام ہے اور آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک اگر ایک لاکھ بیس ہزار نبی آئے تو ایک لاکھ بیس ہزار نبی نے اور اگر دوسروں کے نزدیک ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی آئے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی نے اس نور سے نور لیا اور خاتم الانبیاء کے نتیجہ میں آدم نبی بنے اور نوع نبی بنے اور موسی نبی بنے اور عیسی نبی بنے اور ابراھیم علیہم السلام نبی بنے اگر اس کائنات میں یہ نور نہ ہوتا یعنی پلینڈ (planned) نہ ہوتا اس کا منصوبہ نہ ہوتا تو نہ آدم کی ضرورت تھی نہ نوح کی نہ ابراہیم کی نہ موسیٰ کی نہ عیسی علہیم السلام کی کسی کی بھی ضرورت نہیں تھی.پہلوں نے بھی خاتم الانبیاء سے نور لیا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کیا اور بعد میں آنے والوں نے بھی قیامت تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء سے نور لیا یا لیں گے اور خدا تعالیٰ
خطابات ناصر جلد دوم ۸۳ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء کے قرب کے مدارج ان کو ملیں گے تو ایک لاکھ بیس ہزار آ گیا اور ایک کے اوپر اعتراض پیدا ہو گیا.یہ جو خاتم الانبیاء کا مقام ہے اس کے متعلق آپ نے فرمایا یہ میرا استدلال نہیں ہے بلکہ آر نے فرمایا ہے کہ میں خاتم النبیین تھا اور ابھی آدم پیدا نہیں ہوا تھا اس کا وجود مٹی کے ذروں میں گم ہوا ہوا تھا اور مٹی کے ذروں کے ساتھ رُل رہا تھا اور مجھے اس وقت خدا تعالیٰ نے خاتم الانبیاء بنا دیا تھا یہ بات تو واضح ہے کہ خاتم الانبیاء کا مقام بشر کا مقام نہیں ہے خاتم الانبیاء کا مقام نور کا مقام ہے، سراج منیر کا مقام ہے جس طرح چاند ہے یا جو سورج کے گردگھومنے والے ستارے ہیں وہ چاند اور وہ ستارے سورج سے نور لے کر اپنا نور ظاہر کرتے ہیں اسی طرح پہلوں نے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء کے نور سے نور لیا اور وہ دنیا میں چمکے اور بعد میں آنے والوں نے بھی آپ ہی کے نور سے نور لیا یعنی ہر قسم کا قرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی حاصل ہوتا ہے صدیق بھی نہیں بن سکتے جب تک آپ سے نور نہ لیں اور شہید یا صالح بھی نہیں بن سکتے جب تک یہ نور نہ حاصل کریں ان سے بھی جو کم ہیں یعنی چھوٹے سے چھوٹا پیار بھی خدا سے حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ اس نور کی جھلک ان کے اندر پیدا نہ ہو تب اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ (النور:۵۲) اپنی کچھ مشابہت دیکھ کر یعنی اس نور کی جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل کیا ہوتا ہے اپنے پیار اور محبت کا سلوک کرتا ہے.یہ ہے ہمارا ایمان اور یہ ہے ہمارا عقیدہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق، کہ ایک ہی وقت میں آپ بشر بھی ہیں اور نور بھی ہیں.نور کے متعلق میں نے ذرا تفصیل سے بتایا ہے اور بشر کے متعلق میں نے مختصر بتایا ہے لیکن بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ اسوہ بننے کے لئے سپر (super) کی ضرورت نہیں تھی.کوئی بن ہی نہیں سکتا.انسان انسان کے لئے اسوہ بن سکتا ہے اور بشر بشر کے لئے اسوہ بن سکتا ہے.فرشتے بشر کے لئے اسوہ نہیں بن سکتے.تو خدا نے آپ کو بشر بنایا اور قرآن کریم نے آپ کی وفات کا ذکر کیا.شعراء روئے کہ ہماری آنکھوں کا نور تو تھا.شاعر بھٹک بھی جاتا ہے اور یہاں بھی شاعر بھٹکا کہ میری آنکھوں کا نور تو تھا.اب میرے لئے دنیا اندھیر ہو گئی ہے یہ درست ہے کہ یہ جذبات کا اظہار ہے اور بڑا پیارا اظہار ہے لیکن آنکھوں کا نور تو ہم سے علیحدہ نہیں ہوا وہ تو جب سے دنیا بنی ہے وہ نور اس دنیا ، اس کا ئنات کے ساتھ لگا ہوا ہے سب سے پہلا نبی جو دنیا کی طرف آیا اس نے بھی اس ا
خطابات ناصر جلد دوم ۸۴ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء نور سے حصہ لیا وہ نور دنیا سے کس طرح علیحدہ ہو گیا لیکن یہ ٹھیک ہے کہ بشر کا جو وجو د تھا اس کے لحاظ سے کچھ عرصے کے بعد وفات ہو گئی لیکن بنی نوع انسان کے لئے اتنا عظیم اسوہ آپ نے چھوڑا ہے.بنی نوع انسان تو جب تک مانے نہیں فائدہ نہیں اٹھا سکتے.آپ نے اپنے متبعین ، امت محمدیہ کے لئے اتنا عظیم اسوہ چھوڑا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.بشر کے لحاظ سے بھی ہم آپ کی ذات اپنے تصور میں لائیں یا نور اور سراج منیر کے لحاظ سے آپ کی ذات اپنے تصور میں لائیں بے اختیار ہمارے منہ سے نکلتا ہے اللهم صل على محمد وعلى آل محمد میں نے بتایا ہے کہ اللہ پر جو ہم ایمان لاتے ہیں اس نے قانون قدرت بنایا ہے اور اس کے ذریعہ ہمارے لئے تحقیق اور سائنس میں آگے بڑھنے کے سامان پیدا کئے اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اس کی صفت کے، اس قدرت کے ہر جلوہ کا ایک خاص حکم آسمانوں سے نازل ہوگا.اس کے ذریعہ ہمارے لئے دعا کے سامان پیدا کر دیئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے بشر ہونے کے لحاظ سے قابل تقلید نمونہ اور اسوہ حسنہ ہیں اور نور ہونے کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا چاہتے ہو تو وہ پاک ہے تمہیں بھی پاک بننا پڑے گا وہ نور ہے تمہیں بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے حصہ لینا پڑے گا.پھر تم پیار حاصل کر سکو گے.اب میں بتاتا ہوں کہ دین محمدی کیا ہے اسے میں ذرا مختصر کر دوں گا.شریعت محمدیہ قرآن کریم کے ذکر سے میں نے یہ مضمون شروع کیا تھا اور اس کی کچھ بنیادی صداقتیں میں نے بیان کی تھیں لیکن میں ختم اس بات پر کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے جو سینکڑوں احکام، اوامر و نواہی ہیں.اگر تم ان میں سے ایک کو بھی چھوڑو گے تو تم خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل مواخذہ ہو گے ہماری زندگیاں قرآنی احکام کے مطابق ڈھلی ہوئی ہونی چاہیں.دنیا ہمارے خلاف یہ انگلی نہ اٹھا سکے کہ قرآن کریم یہ کہتا ہے اور تم اس پر عمل نہیں کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قیامت والے دن قرآن کریم تمہارے اوپر حجت ہوگا یعنی قرآن کریم کے ذریعے سے جو کہ اس کی تعلیم اور شریعت اور احکام اور اوامر و نواہی ہیں تمہیں پر کھا جائے گا.پس دعا ئیں کرو.دو قسم کی دعائیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل اور رحمت سے ہمیں قرآنی احکام پر چلنے کی توفیق عطا کرے اور دوسرے یہ کہ ہم کمزور انسان ہیں
خطابات ناصر جلد دوم ۸۵ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء اگر ہم اپنی کمزوریوں کی وجہ سے کہیں غفلت برتنے والے ہوں تو خدا تعالیٰ اپنی مغفرت کی چادر میں ہمیں ڈھانپ لے.اوّل تو ہم سے گناہ سرزد ہی نہ ہو اور اگر ہو جائے تو اتنی نیکیوں کی خدا ہمیں توفیق دے کہ اِنَّ الحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاتِ (هود: ۱۱۵) کے مطابق ہمارے وہ گناہ معاف کر دیئے جائیں اور خدا تعالیٰ ہمیں بشر کی حیثیت سے اس پر اسوہ پر عمل کرنے کی بھی توفیق دے اور نور کی حیثیت سے یعنی اس خاتم الانبیاء کے نور سے اپنے دل اور اپنی روح اور اپنے وجود اور اپنی ذات کو منور کرنے کی بھی توفیق عطا کرنے اور ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل خدا تعالیٰ کے نور سے حصہ لینے والے ہوں.اب جو دوست جانے والے ہیں وہ ذرا بیٹھ جائیں میں ختم کرنے لگا ہوں دعا کریں گے.اب میں دعا کے ساتھ اس جلسہ کے اختتام کا اعلان کروں گا.یہ جلسہ ہمارا سالانہ جلسہ ہے ہم اس ملک میں رہتے ہیں اس ملک میں رہنے والے بہت سارے دوست یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید کوئی خاص جلسہ ہو رہا ہے ہم ہر سال سوائے استثنائی حالات کے دسمبر کی ۲۶، ۲۷، ۲۸ تاریخ کو جلسہ کرتے ہیں اور کرتے آئے ہیں.ایک دو دفعہ چھوڑنا پڑا، اور بعض دفعہ تاریخیں بدلنی پڑیں لیکن وہ استثناء تھے اللہ کی توفیق سے اور اللہ کی رحمت سے ہم امید رکھتے ہیں کہ آنے والا سال اس ملک کے لئے اس سے زیادہ خوشحالی کا سال ہوگا اور ہمارے لئے زیادہ سہولتوں کا سال ہوگا اور پھر ہم یہاں خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جمع ہوں گے دنیا کے فوائد کے لئے نہیں.ہم اس لئے جمع ہوں گے کہ شاید ہمارے کانوں میں کوئی ایسی باتیں پڑیں جو خدا کو پیاری ہوں اور شاید ہمارے ذہن ان باتوں کو یاد رکھیں جو خدا کو پیاری ہوں اور شاید ہمارے جوارح ان کے مطابق عمل کریں اور خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے نیک خیالات کو اور نیک ارادوں کو اور نیک عزائم کو اور نیک تصدیق قلبی کو اور اپنے طرف سے اعمال صالحہ کے بجالانے کی کوششوں کو قبول کرے گا اور اپنی رحمتوں سے نوازے گا اور ہماری خوشیوں کے دن ہمیں دکھائے گا اور ہماری خوشیوں کے دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے دنیا کا منور ہو جانا ہیں.خدا کرے کہ وہ دن جلد آ ئیں کہ جب نوع انسانی اپنے محسن اعظم کے نور سے منور ہو اور بچے طور پر اور کامل طور پر خاتم الانبیاء کے مقام کو سمجھنے والی اور اس کی اطاعت کرنے والی اور اس کے نور سے
خطابات ناصر جلد دوم ۸۶ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء لینے والی بن جائے.جو دوست اس غرض کے لئے پاکستان سے باہر گئے ہوئے ہیں انہیں بھی اپنی دعاؤں میں یادرکھیں اور ہمارے جو بھائی غیر ممالک سے اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئے ہیں انہیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ وہ نور سے اپنی جھولیاں بھر کر واپس جائیں اور اپنے اپنے علاقوں میں نور محمدی کی شمع جلانے والے ہوں اور دنیا کے اندھیروں کو دور کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں اور اللہ تعالیٰ ان کے ذہنوں میں اور اللہ تعالیٰ ان کی سوچ اور عقل اور فراست میں اور اللہ تعالیٰ ان کی عمروں میں برکت ڈالے اور اللہ تعالیٰ ان کے جذبہ خدمت میں برکت ڈالے اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ وہ نوع انسانی کے ایسے خادم بن جائیں کہ نوع انسانی نے اس سے قبل یہ نظارہ نہ دیکھا ہو کہ ایک چھوٹی سی دھتکاری ہوئی قوم دن رات اس کی خدمت پر لگی ہوئی ہے اور کوئی احسان نہیں جتار ہی اور کوئی شکر یہ نہیں چاہتی.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو خوشحال بنائے اور مستحکم بنائے اور اس کے لئے انصاف اور عدل کی بنیادوں پر ترقی کے سامان پیدا کرے اور اللہ تعالیٰ دنیا کے سارے ممالک سے فساد کو دور کر دے اور اللہ کرے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کے نتیجہ میں یہ دکھی انسانیت اپنے دکھوں سے نجات حاصل کرے اور ان کے لئے سکھوں کے سامان پیدا ہوں اور ہر خیر جو خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے لئے خیر ہے خدا تعالیٰ اس کے سامان ہمارے لئے پیدا کرے.قرآن کریم کی یہ دعا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہو کر بیان ہوئی ہے.مجھے بڑی ہی پیاری لگتی ہے که رَبِّ إِنِّي لِمَا انْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (القصص: ۲۵) اے خدا ! جو تیری نگاہ میں میرے لئے خیر ہے میں اسی کا محتاج ہوں.انسان کا دماغ کیا چیز ہے اور اس کی سوچ کہاں تک پہنچ سکتی ہے اپنی خیر کے تعین میں.اللہ تعالیٰ ہمارے لئے خیر! خیر! خیر!!! اور بھلائی ہی کے سامان پیدا کرے.اب ہم دعا کر لیتے ہیں اور اس کے بعد پھر میں آپ کو الوداع کہوں گا آؤ دعا کر لیں.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات ناصر جلد دوم AL افتتاحی خطاب ۲۶ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کو ہمارے حق میں بھی قبول کرے افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۷۵ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہماری دعائیں سورۃ فاتحہ سے شروع ہوتی ہیں.سورۃ فاتحہ جو کہ پہلی سورۃ ہے اس میں اتنی زبر دست دُعائیں ہیں اور اتنی وسیع دُعائیں ہیں کہ ان کی وسعتوں میں تو اس مختصر سے وقت میں میں نہیں جا سکتا لیکن اس وقت کی دُعا بہر حال سورۃ فاتحہ سے ہی شروع کرتا ہوں.اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی چار بنیادی صفات کا ذکر ہے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے امہات الصفات کہا ہے.یعنی ہمارا اللہ رب العالمین ہے.ہمارا اللہ رحمن ہے.ہمارا اللہ رحیم ہے.ہمارا اللہ مالک یوم الدین ہے اور ہمیں یہ حکم ہے کہ تَخَلَّقُوا بِأَخْلاقِ اللهِ (التعريفات جلد اصفحہ ۲۱۶) کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا رنگ اپنے پر چڑھاؤ.اور پھر سورۃ فاتحہ میں یہ ذکر ہے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ کی بنیادی صفات ہیں ان صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ.ان صفات کے جلووں کے نتیجہ میں انسان کو بہت سی طاقتیں اور استعداد میں حاصل ہوتی ہیں.اس لئے اِيَّاكَ نَعْبُدُ (الفاتحة :۵) میں ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ خدا سے یہ دُعا کرو کہ اے خدا جو قو تیں اور استعداد میں تُو نے دی ہیں انہیں احسن اور بہتر رنگ میں استعمال کرنے اور ان استعدادوں سے پورے طور پر فائدہ اُٹھانے کی ہمیں تو فیق عطا کر پھر چونکہ انسان ہمیشہ کی ترقیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس لئے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحة : ۵) یعنی اے خدا جو کچھ تو نے دیا ہے اس سے جب ہم پورا فائدہ اُٹھا لیں تو وہ ہماری آخری منزل تو نہیں ہے اس کے بعد مزید منزلوں نے آنا ہے.پس ان کے
خطابات ناصر جلد دوم ۸۸ افتتاحی خطاب ۲۶؍دسمبر ۱۹۷۵ء لئے جن نئی استعدادوں اور قوتوں کی ہمیں ضرورت ہو وہ ہمیں عطا کر اور اپنے صراط مستقیم پر ہمیں قائم کر دے اور اپنی رضا کی جنتوں میں ہمیں داخل کر لے.سورۃ فاتحہ کی قرآنی دعا کے بعد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند دعا ئیں اس وقت کروں گا.دوست آمین کہتے ہوئے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو ہمارے حق میں بھی کہ جو آپ کی اُمت میں سے ہیں قبول کرے.ہمارے ایک بزرگ عالم اور مصنف اور جہاں تک انسانی نظر کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کے پیارے، جلال الدین السیوطی نام کے ہوئے ہیں ان کی ایک کتاب الجامع الصغیر ہے جس میں انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی دُعائیں لکھی ہیں ان میں سے چند دعاؤں کا انتخاب میں نے اس افتتاح کے موقع کے لئے کیا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے:.اللَّهُمَّ مَنْ آمَنَ بِكَ ، وَشَهِدَ أَنِّي رَسُولُكَ، فَحَبِّبْ إِلَيْهِ لِقَائَكَ وَسَهْلُ عَلَيْهِ قَضَاءَكَ، وَاقْلِلُ لَهُ مِنَ الدُّنْيَا، وَمَنْ لَّمْ يُؤْمِنُ بِكَ وَيَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُكَ فَلَا تُحَبِّبُ إِلَيْهِ لِقَانَكَ ، وَلَا تُسَهِّلْ عَلَيْهِ قَضَاءَكَ ، وَكَثِرُ لَهُ مِنَ الدُّنْيَا - (الجامع الصغير روایت ۱۵۰۰صفحه ۹۳ جلد ۱ تا ۲) اے میرے اللہ جو شخص تجھ پر ایمان لائے اور یہ شہادت دے کہ میں تیرا رسول ہوں تو وصل ولقا اس کی نظر میں محبوب کر دے اور اسے راضی بقضا ر کھ اور اسے قناعت نفس عطا کر.لیکن جو شخص تجھ پر ایمان نہ لائے اور یہ گواہی نہ دے کہ میں تیرا رسول ہوں تو نہ اپنی لِلقا ہی اس کے نزدیک پسندیدہ بنا اور نہ اپنی قضا و قدر ہی اس پر آسان کر البتہ دُنیا کی خواہش اسے دے اور اس دنیا میں اس کی خواہش کو پورا بھی کر دے.اسی طرح آپ یہ دُعا بھی فرماتے تھے.اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنْبُتُ وَبِكَ خَاصَمُتُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِعِزَّتِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَنْ تُضِلَّنِي أَنْتَ الْحَيُّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَ الْجِنُّ وَالْإِنْسُ يَمُوتُونَ (الجامع الصغیر روایت ۱۵۰۲ صفحه ۹۳ جلد ۱ تا۲)
خطابات ناصر جلد دوم ۸۹ افتتاحی خطاب ۲۶؍دسمبر ۱۹۷۵ء اے میرے اللہ میں تیری رضا کی خاطر اسلام لایا اور تجھ پر ایمان لایا.میرا تو کل اور بھروسہ تھی پر ہے میں تیری طرف ہی جھکتا ہوں اور تیری قائم کردہ حدود کے اندر دوسروں سے میرا مقابلہ ہے.نفسانی خواہشات کے نتیجہ میں میری کسی سے مخاصمت نہیں.اے میرے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں.تجھے تیری ہی عزت کا واسطہ مجھے گمراہی سے بچا.تو ہی زندہ ہے تجھ پر کبھی موت نہیں آئے گی اور جنّ و انس سب ہی جاندار مرنے والے ہیں.اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی فرمایا کرتے تھے:.اَللّهُمَّ اجْعَلُ فِي قَلْبِى نُورًا، وَفِي لِسَانِى نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمُعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِى نُورًا، وَعَنْ يَسَارِى نُورًا، وَمِنْ فَوْقِى نُورًا، وَمِنْ تَحْتِى نُورًا، وَمِنْ امَامِي نُورًا، وَمِنْ خَلْفِى نُورًا، وَاجْعَلُ لِي فِي نَفْسِي نُورًا، وَأَعْظِمُ لِى نُورًا.(الجامع الصغير روایت ۱۵۱۳ صفحه ۹۴ جلد ۱ تا ۲) اے میرے اللہ میرے دل کو اپنے نور سے بھر دے، میری زبان کو حسن بیان عطا کر ، میری آنکھوں کو نور بصیرت اور نور بصارت دے اور مجھے حسن سماع کی توفیق عطا کر.میرے دائیں اور میرے بائیں میرے اوپر اور میرے نیچے نور ہی نور پیدا کر دے.میرے آگے اور میرے پیچھے نور ہی نور ہو.میری روح کی گہرائیوں میں تیرا نور ہی موجزن رہے.مجھے بے حد نور عطا کر.اسی طرح ایک اور دعا انہوں نے الجامع الصغیر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھی ہے:.اللَّهُمَّ طَهَرُ قَلْبِى مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِى مِنَ الرِّيَاءِ وَلِسَانِي مِنَ الْكَذِبِ وَعَيْنِيْ مِنَ الْخِيَانَةِ فَإِنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ - (الجامع الصغير روایت ۵۲۹ صفحه ۹۵ جلد۲،۱) اے میرے اللہ میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریا سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک کر دے کیونکہ تو آنکھوں کی خیانت اور دلوں کی مخفی باتوں کو خوب جانتا ہے.
خطابات ناصر جلد دوم افتتاحی خطاب ۲۶ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء اسی طرح آپ سے یہ دُعا بھی مروی ہے:.اللَّهُمَّ ارْحَمُ خُلَفَائِيَ الَّذِينَ يَأْتُونَ مِنْ بَعْدِيَ الَّذِينَ يَرُوُوُنَ أَحَادِينِي وَسُنَّتِي وَيُعَلِّمُونَهَا النَّاسَ (الجامع الصغیر روایت ۱۵۴۴ صفحه ۹۶ جلد ۱ تا ۲) اے میرے اللہ میرے نائبین اور میرے خلفاء پر رحم کر جو میرے بعد آئیں گے اور میری باتیں اور میری سنت دُنیا کے سامنے بیان کریں گے اور میری باتیں اور میری سنت ہی دنیا کو سکھائیں گے.اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الْهَمِّ وَ الْحُزْنِ وَالْعَجْزِ وَالْكَسْلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَضَلَعِ الدَّيْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ ( الجامع الصغیر روایت ۱۵۵۳ صفحه ۹۷ جلد ۱ تا ۲) اے میرے اللہ میں تیرے حضور ہم و غم اور بے بسی اور ستی ،بخل ، بزدلی ، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے ناجائز تسلط سے پناہ چاہتا ہوں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا بھی مانگا کرتے تھے:.اَللّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي وَجَهْلِي وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِئُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي.اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطَأَى وَعَمَدِى وَهَزَلِي وَجِدَى وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ وَانْتَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (الجامع الصغیر روایت ۵۵۹ صفحه ۹۷ جلد ۱ تا۲) اے میرے اللہ ! میری خطا اور میری نادانی اور کاموں میں اسراف معاف فرما.اور ان باتوں کو جن کو تو مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے.اے میرے اللہ ! میری دانستہ اور نا دانستہ، میری سنجیدہ اور نا سنجیدہ ہر قسم کی لغزشوں کو معاف فرما دے.اے میرے اللہ ! جو مخفی اور ظاہر خطائیں مجھ سے سرزد ہو گئیں یا آئندہ ہوں گی اُن سے درگزر فرما.اٹھی تو ہی آگے بڑھانے والا اور تُو ہی پیچھے ہٹانے والا ہے اور تو ہر ایک عمل پر قادر ہے.اسی طرح آپ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ :.اَللَّهُمَّ اقْسِمُ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا تَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَا صِيْكَ، وَمِنْ طَاعَتِكَ
خطابات ناصر جلد دوم ۹۱ افتتاحی خطاب ۲۶؍دسمبر ۱۹۷۵ء مَا تُبَلِغْنَا بِهِ جَنَّتَكَ، وَمِنَ الْيَقِينِ مَا يُهَوّنُ عَلَيْنَا مُصِيبَاتِ الدُّنْيَا، وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِ نَا، وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا، وَاجْعَلْهُ الْوَارثَ مِنَّا وَاجْعَلُ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا وَانُصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا، وَلَا تَجْعَلُ مُصيبَتَنَا فِي دِينِنَا، وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا ، وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا، وَلَا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمْنَا.(الجامع الصغير روایت ۱۵۰۵صفحه ۹۴ جلد ۱ تا ۲) اے میرے اللہ ! ہمیں اپنی وہ خشیت عطا فرما جو ہمیں گناہوں سے روک دے اور اپنی وہ فرمانبرداری عطا کر جس کے ذریعہ تو ہمیں اپنی جنت میں پہنچاوے اور وہ یقین عطا کر جو دُنیا کی مصیبتیں ہم پر آسان کر دے اور جب تک تو ہمیں زندہ رکھے ہمارے کان آنکھ اور دوسری قو تیں سلامت رہیں اور ہماری نسلیں بھی تیری ان عنایات کی مستحق ٹھہریں اور جو ہم پر ظلم کرے ہماری طرف سے تو ہی ان سے انتقام لے اور جو ہم سے دشمنی کریں ان کے خلاف ہماری مددکر اور ہمارے دین کے بارہ میں ہم پر کوئی مصیبت نہ ڈال اور دُنیا کو ہمارا سب سے بڑا مقصد اور ہمارے علم کی انتہانہ بنا اور ہم پر کوئی ایسا شخص مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے.اسی طرح آپ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:.اَللَّهُمَّ اجْعَلْنِيْ اَخْشَاكَ حَتَّى كَأَنِّی أَرَاكَ، وَاسْعِدُنِي بِتَقْوَاكَ وَلَا تَشْقِنِي بِمَعْصِيَتِكَ، وَخِرُلِی فِی قَضَائِكَ وَبَارِكْ لِی فِی قَدْرِكَ حَتَّى لَا أُحِبَّ تَعْجِيْلَ مَا أَخَّرْتَ، وَلَا تَأْخِيرَ مَا عَجَّلْتَ ، وَاجْعَلْ عِنَايَ فِي نَفْسِى وَاَمْتِعُنِي بِسَمُعِي وَبَصَرِى وَاجْعَلْهُمَا الْوَارِثَ مِنِّى وَانْصُرْنِي عَلَى مَنْ ظَلَمَنِي، وَأَرِنِي فِيْهِ تَأْرِي، وَاقِرَّ بِذَلِكَ عَيْنِي (الجامع الصغير روایت ۱۵۲۶ صفحه ۹۵، جلد۲،۱) اے میرے اللہ! تو مجھے ایسا بنا کہ تیری خشیت مجھے سب سے زیادہ عطا ہو گویا میں تجھے دیکھ رہا ہوں مجھے اپنے تقویٰ کی سعادت بخش میں تیری نافرمانی کر کے بد بخت نہ بنوں اور تیری جناب میں جو بہتر تقدیر ہے وہ میرے لئے مقدر کر اور اپنی تقدیر میں میرے لئے برکت رکھ دے یہاں تک کہ میں اُس معاملہ کو جلدی نہ چاہوں جس میں تو نے تاخیر رکھ دی اور نہ اُس کی تاخیر
خطابات ناصر جلد دوم ۹۲ افتتاحی خطاب ۲۶؍دسمبر ۱۹۷۵ء چاہوں جسے تو نے جلد کرنا پسند فرمایا.اے اللہ مجھے استغنائے نفس عطا کر اور میری آنکھوں اور کانوں سے مجھے تمتع فرما اور میری نسل کو بھی ، اور جو مجھ پر ظلم کرے اس کے خلاف تو میری مددفرما اور جو بدلہ تو اس سے لے وہ مجھے بھی دکھا دے اور اس طرح میری آنکھ کو ٹھنڈک عطا فرما.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کے لئے بے حد دعائیں کی ہیں.جماعت کا قیام اسلام کے غلبہ کے لئے ہے اس لئے ہر وہ دُعا جو غلبہ اسلام کے لئے کی گئی ہے وہ در حقیقت استحکام جماعت کے لئے بھی ہے.خدا کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری ہی دُعائیں ہمارے حق میں قبول ہوں اور اللہ تعالیٰ نہ ہمارے کسی ہنر کے نتیجہ میں بلکہ محض اپنی رحمت اور اپنے فضل سے ہمیں اپنا پیارا بنالے اور ہمیں ان کاموں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہو جائے اور ہم سے وہ عمل کروائے جن کے نتیجہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہر انسان کے دل میں پختہ طور پر گڑ جائے.جیسا کہ آپ ہر سال جلسہ کے موقع پر بھی سنتے ہیں اور دورانِ سال بھی سنتے رہتے ہیں یہ جلسہ کوئی دنیوی میلہ نہیں ہے اور نہ کسی دنیوی غرض کے لئے اسے منعقد کیا جاتا ہے اس کا مقام اس قدر بلند ہے کہ دنیا دارانہ نگاہ اس کے مقام تک پہنچتی ہی نہیں اور نہ اس کی اہمیت کو سمجھ سکتی ہے اور نہ ہمیں ان سے کوئی شکوہ ہے.ہماری دعائیں ہیں اور ہماری خواہش ہے اور ہماری کوشش ہے کہ اسلام کو غالب کرنے کے لئے جو عظیم مجاہدہ مہدی علیہ السلام کی بعثت سے شروع ہو چکا ہے اسے انسان آہستہ آہستہ پہچاننے لگے اور وہ دن جلد آئے جب ساری دُنیا ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے اور ایک ہی پیشوا ہو یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور سارے انسان مل کر خدائے واحد و یگانہ کی ( بغیر کسی شرک کی ملونی کے ) پرستش کرنے لگیں.اس دنیا میں دنیا بھی ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہے.اگر خیر کی اور بھلائی کی دنیا ہو تو اس میں کوئی برائی نہیں اور نیکیاں کمانے والی دنیا ہو تو اس میں برکت ہے لیکن اگر وہ دنیا خدا سے دور لے جانے والی اور ان اخلاق کو تو ڑ دینے والی ہو جو اسلام ایک مسلمان میں پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ بد بختی کی دُنیا ہے وہ لعنت کی دنیا ہے خدا ہمیں دُنیا کی لعنت سے بچائے رکھے اور ساری
خطابات ناصر جلد دوم ۹۳ افتتاحی خطاب ۲۶؍دسمبر ۱۹۷۵ء.دنیا پر ہی خدا تعالیٰ فضل کرے اور وہ دن جلد لے آئے کہ جب خدا کی ناراضگی کی بجائے خدائے واحد و یگانہ کا پیار انسان حاصل کر لے.وہ خدا جس کی قدرتیں عظیم اور جس کی حکمتیں حسین ہیں اور جس کا پیار انسان کے لئے اس قدر ہے کہ انسان نہ اس کا تصور کر سکتا ہے اور نہ زبان اور جوارح سے اس کا شکر ادا کر سکتا ہے خدا کرے کہ اس کا پیارا نسان حاصل کر لے.خدا نے ہمیں اس کام کے لئے اپنا آلہ بنایا ہے وہ اُس وقت تک ہمیں اپنے ہاتھ میں رکھے گا ، اپنی حفاظت میں رکھے گا اور پیار سے ہمارا خیال رکھے گا جب تک ہم اس کی منشا کے مطابق وہ کام کریں گے جو وہ ( ہم سے ) چاہتا ہے کہ ہم کریں.لیکن اگر ہم اپنی کسی غفلت یا کوتا ہی یا گناہ یا معصیت کے نتیجہ میں ایسا نہ کر سکیں تو خدا تعالیٰ کو ہماری پر وانہیں.وہ تو غنی اور صمد ہے وہ ہمیں نجاست کے ایک ذرے سے بھی زیادہ حقیر سمجھے گا اور اُٹھا کر پرے پھینک دے گا.خدا کرے کہ کسی احمدی کو وہ گھڑی دیکھنی نصیب نہ ہو بلکہ ہمیشہ ہی اس کا پیار ہمیں نصیب رہے.اس وقت جماعت سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں آدمی دُنیا میں خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے ہر قسم کی تکالیف برداشت کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہمیشہ ان کے سروں پر رہے اور ہماری دعائیں ہمیشہ ان کے ساتھ ہوں اور خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمانوں سے اُتریں اور ان کی راہنمائی فرمائیں اور ان کی کوششوں میں برکت اور تاثیر پیدا کریں.یہاں پر ہمارے شاہد مربی بھی ہیں اور تبلیغ میں ہر وقت مگن رہنے والے ہمارے مخلص رضا کاربھی ہیں.اور بعض دفعہ انسان یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہے کہ ایک شخص جو بظاہر جامعہ میں نہیں پڑھا ہوا لیکن جس کا دل اخلاص سے بھرا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس احمدی کی کوششوں میں اس مربی کی کوششوں سے زیادہ برکت ڈال دیتا ہے جس نے سالہا سال تک مرکز میں رہ کر تربیت حاصل کی ہوتی ہے.انسان اپنی کوششوں سے نیکی کے نتائج اور رُوحانی نتائج نہیں نکال سکتا.یہ یاد رکھو، اچھی طرح یا درکھو کہ جب تک آسمانوں سے خدا کا فضل نازل نہ ہو یہ چیز نہیں ملا کرتی.اسی واسطے جب مجھ سے ہمارے شاہد مربی ملتے ہیں تو اگر میرے پاس وقت ہو تو میں ان کو لمبی نصیحتیں کرتا ہوں لیکن جب میرے پاس صرف اتنا وقت ہو کہ میں انہیں نصیحت کا صرف ایک فقرہ کہہ سکوں تو
خطابات ناصر جلد دوم ۹۴ افتتاحی خطاب ۲۶؍دسمبر ۱۹۷۵ء میں انہیں کہا کرتا ہوں کہ اپنے پیارے ربّ سے بے وفائی کبھی نہ کرنا اور میری یہی نصیحت آپ سب کو ہے.باقی خدا تعالیٰ نے قرآنِ عظیم میں اپنی رحمتوں کے حصول کے لئے بے شمار دروازے کھولے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کے دینے میں بخیل نہیں ہے یہ ہم ہیں جو اپنی جھولیوں کو سمیٹ لیتے ہیں اور اپنی مٹھیوں کو بند کر لیتے ہیں اور اس کے سامنے اپنے ہاتھوں کو نہیں پھیلاتے اس کا تو اس میں کوئی قصور نہیں.پس اس کے اوپر تو کل رکھو.دُنیا جو چاہے کر لے ہو گا وہی جو خدا چاہے گا.میں یہ نہیں کہتا کہ ہو گا وہ جو جماعت چاہے گی کیونکہ جماعت تو کوئی چیز ہی نہیں ہے تم اس کی حیثیت ایک مردہ کیڑے کی سمجھ لو.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہوگا وہی جو خدا چاہے گا اور خدا نے جو چاہا اس کی اطلاع اس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آج سے چودہ سوسال پہلے دی.خدا نے یہ چاہا کہ دنیا مہدی علیہ السلام کے مقام عزت واحترام کو پہچانے اور اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ دنیا کو کہو کہ مہدی کی عزت اور احترام کرے.چنانچہ آپ نے ساری امت میں سے ایک کو یعنی مہدی کو منتخب کر کے اسے اپنا سلام پہنچایا.ہمیں سینکڑوں ایسی احادیث ملتی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں اپنے اس روحانی فرزند سے جو آپ سے تیرہ سو سال کے بعد پیدا ہونے والا تھا اس قدر محبت موجزن تھی کہ یہ محمد ہی کا کام تھا کہ اس محبت کو الفاظ میں بیان کر سکیں میں اور آپ اس کو بیان نہیں کر سکتے تھے.ہر فرقے کی کتب میں ایسی روایات موجود ہیں جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں مہدی کی محبت کا ذکر کیا گیا ہے.پھر یہ خدا تعالیٰ کی شان اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے نظارے ہیں کہ وہ جسے گھر والے روٹی دینا بھول جاتے تھے (حالانکہ وہ ان کی دولت میں ان کا برابر کا شریک تھا) اور اسے اپنے ہی عزیزوں اور رشتہ داروں کی غفلت کے نتیجہ میں فاقہ کشی کرنی پڑتی تھی اسے اس کے خدا نے کہا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور وہ اکیلا اور غیر معروف شخص اُٹھا اور اس کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچ گئی.اس موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام غیر ملکی احباب کو جو وفود کی صورت میں
خطابات ناصر جلد دوم ۹۵ افتتاحی خطاب ۲۶؍دسمبر ۱۹۷۵ء جلسہ میں شامل ہوئے تھے کھڑے ہونے کا ارشاد فرمایا حضور کے ارشاد کے مطابق تمام غیر ملکی احباب کھڑے ہو گئے اس دوران جلسہ گاہ نعرہ ہائے تکبیر اور اسلامی عظمت کے دوسرے نعروں سے گونج اُٹھی.) یہ لوگ امریکہ سے آنے والے ہیں جو کہ مغرب کی طرف غالباً نو دس ہزار میل کے فاصلہ پر ہے.اور یہ مشرق کی طرف سے انڈونیشیا سے آنے والے ہیں.آسٹریا میں بھی آواز پہنچی اور وہاں احمدی ہوئے اور افریقہ کابر اعظم جس کو دُنیا نے اندھیرا اور ظلماتی بر اعظم کہا تھا اس افریقہ کے براعظم کے دل میں خدا تعالیٰ نے نور پیدا کر دیا اور یورپ جو بے راہ روی کا مرکز بن چکا تھا اس میں سے یہ پیارے وجود پیدا ہورہے ہیں.کتابوں میں سے یہ الہام مٹایا جا سکتا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو دُنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا کیونکہ وہ سیاہی سے لکھا ہوا ہے اور دیواروں پر سے بھی مٹایا جا سکتا ہے لیکن اس کرہ ارض کے چہرہ سے یہ نہیں مٹایا جاسکتا کیونکہ اس کے اوپر ان انسانوں نے اسے تحریر کیا ہے.لیکن میں پھر اپنی حقیقت کی طرف آتا ہوں ایک سیکنڈ کے لئے بھی تمہارے اندر کبر اور غرور پیدا نہ ہو.تمہارے سر عاجزی سے ہمیشہ خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جھکے رہیں.تمہارے سر اُس سے زیادہ جھکنے چاہئیں جتنا کہ اس جذ بہ کے وقت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر جھک جایا کرتا تھا مگر اس سے زیادہ ممکن نہیں ہے کیونکہ حدیث میں آتا ہے دیکھنے والوں نے دیکھا اور بیان کرنے والوں نے بیان کیا کہ ایک موقع پر جب کہ آپ سوار تھے خدا تعالیٰ کی نعمتوں اور رحمتوں کی یاد میں اور اس کی حمد کے گیت گاتے ہوئے آپ کا سر جھکنا شروع ہوا اور جھکتا چلا گیا یہاں تک کہ آپ کی پیشانی کاٹھی کے اوپر لگ گئی.اب اس سے زیادہ آپ کیسے جھک سکتے ہیں لیکن خدا کے پیار میں اور خدا کی حمد میں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے جہاں تک وہ سر جھک گیا تھا اگر اس سے زیادہ نیچے جھکنا تمہارے لئے ممکن نہیں تو اس حد تک جھکنا تو تمہارے لئے ممکن ہے اور بڑی ہی بے غیرت ہوگی وہ پیشانی جو اس کے بعد اپنا سر اٹھائے.پس جو عاجزی کا مقام تمہیں عطا ہوا ہے (اور یہ بڑا زبردست مقام ہے) اسے مت پھو لو.یہ درس سیکھنے کے لئے آپ دوستوں کو یہاں جمع کیا جاتا ہے جو پیار کرنے کا اور دکھوں کو
خطابات ناصر جلد دوم ۹۶ افتتاحی خطاب ۲۶ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء دور کرنے کا مقام ، جو بے نفس خدمت کا مقام آپ کو عطا ہوا ہے اسے ہمیشہ یادرکھو.ہمیشہ یاد رکھو کہ ایک احمدی کسی سے دشمنی نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے کیونکہ اس کے خدا نے اسے پیار کرنے کے لئے اور خدمت کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.اور خدا کرے کہ جس غرض کے لئے اس نے ایک احمدی کو پیدا کیا ہے وہ غرض ہمیشہ اس کی آنکھوں کے سامنے رہے اور ہمیشہ اس کے جوارح سے وہ ظاہر ہوتی رہے اور اس کے عمل سے پھوٹ پھوٹ کر نکلتی رہے اللهم امین آؤ اب مل کر دعا کریں کہ جس غرض کے لئے جماعت پیدا کی گئی ہے اس غرض کو جماعت ورا کرنے والی ہو اور جس غرض کے لئے اس جلسے کا انعقاد کیا گیا ہے خدا کرے کہ اس جلسہ میں آنے والے اس غرض کو پورا کرنے کے لئے کچھ سیکھیں، کچھ یادرکھیں اور اس پر عمل کریں اور اپنے خدا کو راضی کرنے والے ہوں.روزنامه الفضل ربوه ۲۱ فروری ۱۹۷۶ ء صفحه ۲ تا ۵ )
خطابات ناصر جلد دوم ۹۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء مسجد اللہ کا گھر ہے اس پر کسی اور کی ملکیت اسلام تسلیم ہی نہیں کرتا دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کچھ نوجوان جو غالبا نئے احمدیت میں داخل ہوئے ہیں یا ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں ابھی پوری طرح تربیت حاصل نہیں ہے وہ اس جلسہ گاہ میں بھی جس کا کہ اپنا ایک تقدس اور احترام ہے ”اوئے کی آواز نکال رہے ہیں.اس کے بعد میرے کان اس آواز کو نہ سنیں.پھر حضور انور نے فرمایا:.عام طور پر اس تقریر کے شروع میں اخباروں اور کتب وغیرہ کے متعلق تحریک کی جاتی ہے کہ میں دلچسپی اور دوست ان میں دلچسپی لیں.اس ضمن میں آج میں پہلے ایک اصولی اور اہم بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس دنیا میں جس میں ہم پیدا ہوئے اور زندگی گزار رہے ہیں دنیوی لحاظ سے دنیوی علوم نے دی ترقی کی ہے.تھیوریٹکل سائیڈ پر بھی اور پریکٹیکل سائیڈ پر بھی.اصولی طور پر علوم نے بڑی ترقی کی ہے.خدا تعالیٰ نے اس کائنات کو بے حد و حساب صفات سے متصف کر کے اپنے جلووں کے نتیجہ میں انسان کا خادم بنایا ہے.انسان نے اس کی ڈسکوریز (Discoveries) کیں اور اس کے خواص معلوم کئے اور ان سے فائدہ اٹھانے یا اپنے مخالفوں کو زک دینے کے سامان پیدا کئے.شروع میں جس وقت کہ یہ تحریک زوروں پر آئی تو چونکہ دنیا کے حاکم غیر مسلم تھے اس لئے ان حاکموں کے ساتھ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے علماء اور پادری وغیرہ منسلک تھے.اس لحاظ سے اگر مثلاً عیسائیت کو لیا جائے تو یہ لوگ مختلف ممالک میں گئے اور یہ کلونیل پاو پاورز (Colonial Powers) یعنی استحصال کرنے والی طاقتیں جب ان خطوں میں داخل ہوئیں
خطابات ناصر جلد دوم ۹۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء جن کی کہ وہ مالک نہیں تھیں اور جن کی وہ حاکم نہیں تھیں تو کبھی تو ان علاقوں میں پہلے ان کی فوجیں داخل ہوتی تھیں اور بعد میں پادری داخل ہوتے تھے اور کبھی پہلے پادری داخل ہوتے تھے اور بعد میں فوجیں داخل ہوتی تھیں.مغربی افریقہ میں پادری اور فوجیں آگے پیچھے ہی آئی ہیں البتہ زیادہ نمایاں ہو کر ان علاقوں میں پہلے پادری آئے.ایک موقع پر میں نے وہاں کے افریقن دوستوں سے کہا کہ یہ تو ایک تاریخی حقیقت ہے جسے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جس وقت پادری تمہارے ملکوں میں آئے تو انہوں نے اپنی زبان سے اعلان یہ کیا کہ ہم خداوند یسوع مسیح کی محبت کا پیغام لے کر تمہارے پاس پہنچے ہیں لیکن ان پادریوں کی قطاروں کے پیچھے ان ممالک کی فوجیں تمہارے ملکوں میں داخل ہوئیں اور ان کے ساتھ تو ہیں تھیں اور ان تو پوں کے دہانوں سے پھول نہیں جھڑے تھے.ان تو پوں کے دہانوں سے جو کچھ نکلا تھا اور جس طرح سے انہوں نے تمہیں تباہ کیا تھا وہ تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو.لیکن میں نے انہیں کہا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کا پیغام لے کر تمہارے پاس آیا ہوں اور اس پیغام کے پیچھے کوئی فوج تمہارے ملک میں داخل نہیں ہوگی.جیسا کہ تم دیکھ ہی رہے ہو.کیونکہ جب میں نے ان سے خطاب کیا تو بعض ملکوں میں تمہیں تمہیں چالیس چالیس سال سے اور بعض علاقوں میں پچاس سال سے ہمارے مبلغ کام کر رہے تھے.وہاں جو چیز ہمیں نظر آئی وہ یہ تھی کہ پہلا ملک جس میں میں گیانا کیجیر یا تھا.وہاں دو دن میں ہی میری طبیعت نے یہ تاثر لیا کہ خدا تعالیٰ نے اس قوم کو دنیوی مال و دولت سے مالا مال کیا تھا لیکن یہ باہر سے آنے والے ہر چیز لے کر باہر چلے گئے.میں نے ایک افریقن دوست سے کہا کہ تمہیں خدا نے سب کچھ دیا تھا لیکن ہر چیز سے ہی تمہیں محروم کر دیا گیا.اس وقت جو سربراہ مملکت تھے میں جب اگلے روز ان سے ملا تو میں نے انہیں یہ بات بتائی کہ کل میں نے ایک احمدی دوست سے جن کا تعلق نائیجیریا سے ہے اپنے اس تاثر کا اظہار کیا تھا تو وہ کہنے لگے کہ !How true you are, How true you are کہ کتنی سچی بات آپ نے کہی.یہ تو ان فوجوں کا حال تھا جو خداوند یسوع مسیح کی محبت کا پیغام لانے والے پادریوں کے پیچھے تھیں اور جو پادری وہاں آئے ان کا یہ حال تھا کہ عیسائیت کی تعلیم تو اپنا وقت گزار چکی اور انسانی ہاتھ نے اس میں تحریف اور تبدیلی کر دی تھی لیکن انہوں نے عیسائیت کو پھیلانے کے لیے یہ
خطابات ناصر جلد دوم ۹۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء حربہ اختیار کیا کہ اپنی دولت کے بل بوتے پر سکول کھولے، اور اگر اسلام کے ظاہری علوم رکھنے والے علماء کے بچوں کو بھی ان سکولوں میں داخل ہونے کا شوق ہوا تو جب ان کے محمد نام کے بچے کو اپنے سکول میں داخل کیا تو اس کا نام پہلے ہی دن محمد کی بجائے پہلا حرف ایم اور ساتھ پیر لگا کر لکھ دیا اور وہ ”محمد“ نام کا بچہ ایم پیڑ بن گیا اور جب سکول سے باہر نکلا تو وہ عیسائی تھا.بعض جگہ وہ یہ حرکت نہیں کر سکے مثلاً ہندوستان میں.لیکن ہندوستان میں ہندوؤں میں سے بھی اور سکھوں میں سے بھی اور دوسری اقوام میں سے بھی اور بدقسمتی سے کچھ لوگ مسلمانوں میں سے بھی عیسائی ہو گئے.ہم نے بڑا سوچا لیکن مسلمان کے عیسائی ہونے کی اور کوئی وجہ ہمیں نظر نہیں آئی سوائے اس کے کہ ایسے مسلمان جو اسلام کو چھوڑ کر کسی اور مذہب کی طرف جاتے ہیں وہ صرف وہی ہو سکتے ہیں کہ جن کو اپنے دین یعنی اسلام کا اور قرآن کریم جیسی حسین شریعت کا علم ہی نہیں ہے اور اس واسطے اس کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.فلسفے نے اور طبیعات وغیرہ سائنسز نے اسلام پر حملہ کیا اور ایک وقت میں یہ سمجھا گیا کہ سائنس اور مذہب ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور بڑے لیکچر بھی ہوئے کہ کیا سائنس کا مذہب کے ساتھ تصادم ہے.ان کی کوئی مخاصمت ہے اور کیا یہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں یا کیا مذ ہب سائنس کو کھا جائے گا یا سائنس مذہب کو کھا جائے گی.دنیائے اسلام میں اس وقت اتنی لاعلمی اور جہالت پھیلی ہوئی تھی کہ ساری دنیا میں ، افریقہ میں بھی اور جزائر میں بھی ، لوگ بڑی کثرت کے ساتھ اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہورہے تھے.اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے لوگ بھی موجود تھے جن کے دل میں اسلام کا درد تھا لیکن فلسفے کا اور سائنس کا جو اسلام پر حملہ تھا اور جو کہ محض جہالت کا حملہ تھا چونکہ ان لوگوں کو اس کا جواب نہیں آتا تھا اس واسطے انہوں نے یہ پر چار کرنا شروع کیا اور یہ تبلیغ کرنی شروع کی کہ ان کے سکولوں میں نہ داخل ہو اور ان کے علوم نہ پڑھو.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ : سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنهُ (المجانية : ۱۴) کہ خدا تعالیٰ نے اس یو نیورس (universe) کی ، اس عالمین کی ، اس کائنات کی ہر چیز کو بہت سے خواص دے کر تمہاری خدمت کے لئے پیدا کیا ہے اور انہیں تمہارے خادم بنا دیا ہے لیکن مسلمانوں کو ان کے بزرگوں کو یہ کہا گیا کہ خادموں کی جو عادات واطوار ہیں اور خواص ہیں اور ان کے متعلق جو علوم ہیں جن کے نتیجہ میں ہم ان سے خدمت لے سکتے
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء ہیں ان کو تم نے نہیں پڑھنا.اگر مسلمان ان کو جانتا ہی نہیں ہوگا تو پھر وہ ان سے خدمت کیسے لے گا؟ لیکن بہر حال ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب اس قسم کی باتیں کہی گئیں.یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور تاریخ کے صفحات نے اس کو محفوظ کیا ہے اس لئے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا.ان حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت مہدی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک خوشخبری اور بشارت دی چنانچہ اس علمی جنگ کے متعلق آپ فرماتے ہیں.یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا.حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں.کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کاران کے لیے ہزیمت ہے.میں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلی طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے جس علم کی رو سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کو جہالتیں ثابت کر دے گا.اسلام کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہو رہے ہیں.اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں.یہ اقبال روحانی ہے اور فتح بھی روحانی.تا باطل علم کی مخالفانہ طاقتوں کو اس کی الہی طاقت ایسا ضعیف کر دیوے کہ کا لعدم کر دیوے.“ ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۵۴، ۲۵۵ بقیه حاشیه ) پھر آپ نے فرمایا کہ یہ کام میری جماعت کے سپرد کیا گیا ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ”میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے“ تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۹) پس ہم جو کہ احمدی ہیں ہمارے ذمہ خدا تعالیٰ نے یہ کام لگایا ہے کہ علوم جدیدہ کے جو حملے اسلام پر ہورہے ہیں ( جو کہ بظاہر بڑے زبردست تھے اور اب بھی بعض لوگ جنہیں علم نہیں ہوتا وہ گھبرا جاتے ہیں ) ہم ان حملوں کا منہ بند کریں اور ان کی جہالتوں کو ثابت کریں.اس کا مطلب
خطابات ناصر جلد دوم 1+1 دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء یہ ہے کہ جماعت احمدیہ میں ایسے ذہین اور ہونہار نوجوان ہونے چاہئیں جن کی صحیح رنگ میں تربیت کی جائے اور وہ دین اسلام سے کما حقہ واقف ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پر ان کو عبور ہو اور وہ اس قابل ہوں کہ دنیا کا کوئی عالم ، خواہ وہ کسی سائنس یا علم سے تعلق رکھنے والا ہی کیوں نہ ہو جب ان سے بات کرے تو وہ اس بشارت کے مطابق اس کا منہ بند کرنے والے اور اسلام کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے والے ہوں.اس طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.اس کے لئے ذہن میں بہت سی تجاویز ہیں ان میں سے ایک تجویز یہ ہے کہ ہم ان علوم کو سیکھنے کے لئے جو کہ پاکستان سے باہر یا افریقہ سے باہر (افریقہ سے بھی ہمارے سکالر باہر جائیں گے ) یا انڈونیشیا سے باہر سیکھے جاسکتے ہیں نوجوان تیار کریں.مثلاً کئی علوم امریکہ میں سیکھے جا سکتے ہیں، انگلستان میں سیکھے جا سکتے ہیں، یورپ میں سیکھے جا سکتے ہیں ، رشیا میں سیکھے جا سکتے ہیں ، چین میں سیکھے جا سکتے ہیں.ان علوم پر عبور حاصل کرنے کے لیے ہم نوجوان تیار کریں جن کو جماعت وظیفہ دے اور ان کو وہاں پڑھائے اور وہ اپنے آپ کو صرف اس کام کے لیے وقف کریں یہ نہیں کہ وہ یہاں آ کر ہمارے دفتروں میں کام کریں.بلکہ ان کو یہ کہا جائے گا کہ تمھارا کام یہ ہے کہ تم اپنے دائرہ عمل میں اس علم کے ساتھ تعلق رکھنے والے چوٹی کے علماء کے ساتھ جا کر بات کرو اور ان کو کہو کہ تم یہ کہتے ہو اور اسلام یہ کہتا ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بشارت دی ہے ان کو کہو کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں آسمانوں سے ایسا نور فراست اور ایسے علوم عطا کئے ہیں کہ جن کے مقابلے میں تم ٹھہر نہیں سکتے.میں نے اپنے دوروں میں بڑے بڑے ہارڈ کور کمیونسٹ یعنی بڑے پکے اور سخت قسم کے اشتراکیوں سے بھی باتیں کی ہیں اور سوائے سر جھکا کے سننے کے ان کو یہ ہمت نہیں پڑتی تھی کہ وہ سامنے آ کر بات کریں یا اس کی تردید کریں یا اس کا جواب دیں.یہ بات میں صرف اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے.اس ضمن میں ایک اور بات ہے جو کہ میرا خیال تھا کہ میں آخر میں کہوں گا لیکن اسی وقت کہہ دیتا ہوں.خدا کا بے انتہا شکر ہے کہ احمدیت میں ذہین بچے پیدا ہور ہے ہیں ان ہونہار بچوں کو سنبھالنا ہمارا کام ہے اور ان سے فائدہ اٹھا نا ساری قوم کا کام ہے.اگر کسی ملک میں خدا کی طرف
خطابات ناصر جلد دوم ۱۰۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء سے عطا کردہ ذہن ہو لیکن وہ قوم اس ذہن کو ضائع کر دے تو نہ صرف یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری قوم ہے بلکہ وہ اپنے ملک کو نقصان پہنچانے والی قوم ہے کیونکہ اس ذہن سے اس نے فائدہ نہیں اٹھایا.یہاں بدقسمتی سے بعض لوگوں نے ہمارے بچوں کی تعلیمی اور ذہنی نشوونما میں روکیں ڈالنی شروع کر دی ہیں.ساری پاکستانی قوم پر اس کا الزام نہیں ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ لاکھ میں سے ننانوے ہزار پاکستانی ایسے ہیں جو ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے لیکن ان کی آواز کی طرف کوئی کان نہیں دھرتا.پس اس وجہ سے کہ کہیں اس کے رد عمل کے طور پر جماعت احمدیہ کی ذہنیت کو زنگ نہ لگ جائے آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ ایک سکالرشپ جو ایک ذہین بچے کے لئے انگلستان کے امام نے ابھی مجھے پیش کیا ہے اس کو میں کسی احمدی ہونہار بچے کے لئے استعمال نہیں کروں گا بلکہ میں اسے اوپن میرٹ سکالرشپ (Open Merit Scholarship) بناتا ہوں کہ جس میں شیعہ بھی اور دیو بندی بھی اور بریلوی بھی اور احمدی بھی اور دوسرے لوگ بھی آئیں اور جو اپنی کوالیفیکیشن (Qualification) اور اہلیت کے لحاظ سے برتر و اعلیٰ ہوگا اس کو جماعت ساٹھ پاؤ نڈ یعنی قریباً ڈیڑھ ہزا ر وپے کا سکالرشپ دے دے گی.یہ ایک تو اس لئے کہ میں جماعت احمدیہ کو بداخلاقی سے بچانا چاہتا ہوں اور یہ میرے فرائض میں سے ہے اور دوسرے اس لئے کہ شاید اس کے نتیجہ میں اس ملک کے رہنے والے ہمارے بھائی جو ہیں ان کو یہ احساس ہو کہ اس قسم کی حرکتیں جو بعض دفعہ بعض لوگوں کی طرف سے کی جاتی ہیں درست نہیں ہیں اور ان کے خلاف مؤثر آواز اٹھے.یہ دو باتیں میرے پیش نظر ہیں.یہ ۱۹۷۶ء کا سکالرشپ ہے یعنی ۱۹۷۶ء میں ایم.اے، ایم.ایس سی کرنے والوں کا سکالرشپ ہے اس کے لئے ہماری کمیٹی ایک خاص معیار مقرر کرے گی جو سب کے لئے برابر ہو گا جو بچے اس مقابلہ میں آئیں اور جو اس کم از کم معیار سے اونچی قابلیت رکھنے والے ہوں خواہ وہ کسی عقیدہ کے ہی کیوں نہ ہوں ان میں سے جو سب سے زیادہ قابل ہو گا اس کو وظیفہ دے دیا جائے گا.یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ اس کا تعلق دیوبندی فرقہ سے ہے یا اہل حدیث سے ہے یا شیعہ فرقہ سے ہے یا بریلوی فرقہ سے ہے یا احمد یہ جماعت سے ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آئندہ سالوں میں اس قسم کے اوپن میرٹ سکالرشپ جن میں عقیدہ نہیں بلکہ اہلیت کو مد نظر رکھا جائے گا.بڑھتے رہیں گے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۰۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء اور کسی وقت میں پانچ چھ ہو جائیں گے اگر پانچ وظیفے ہوں تو یہ قریباً اسی.نوے ہزار روپے کی رقم بن جاتی ہے ٹھیک ہے.جو اہل ہے وہ آئے اور ترقی کرے.Ph.D کرے اور واپس آ کر اپنی قوم کی خدمت کرے.ہم نے اپنے اخلاق کو نہیں گرنے دینا.اللہ تعالیٰ نے اپنی نگاہ میں ہمیں بڑی عزت اور احترام کا مقام دیا ہے.ہم تو اس قابل نہیں ہیں.یہ اس کی عطا ہے، اس کی مہربانی ہے اور اس کی رحمت ہے لیکن ہم اس کے ناشکرے بندے نہیں بننا چاہتے اور قوم کو بھی یہی پیار کا سبق دینا چاہتے ہیں.اس لئے ہمارے اوپن میرٹ سکالرشپ میں یہ نہیں ہوگا کہ یہ فلاں فرقے کے لئے ہیں اور فلاں کے لئے نہیں اور یہ کہ اس میں احمدیوں کو یا بریلویوں کو یا دیو بندیوں کو ترجیح دی جائے گی.بلکہ ہمارے سکالرشپ حقیقی معنی میں اوپن میرٹ سکالرشپ ہوں گے یعنی کھلے ہوں گے اور اہلیت کے معیار پر دئیے جائیں گے.اس کے علاوہ چونکہ ہمارے بچوں کا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو ذہنی طاقتیں دی ہیں ان کی کامل نشو و نما کا انتظام کیا جائے اس واسطے میں نے پچھلے سال بھی اعلان کیا تھا کہ ہر بچہ جو ذہین ہے جماعت اس کی ذہانت کو ضائع نہیں ہونے دے گی چاہے اس کے لئے جماعت کو کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں.ان بچوں کو سنبھالنا ساری دنیا کی جماعتہائے احمدیہ کا فرض ہے اور چونکہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس غیر ملکی سرمایہ نہیں فارن ایکیھنچ نہیں ہے.ہمیں اس کی بھی فکر نہیں.کیونکہ اگر ہم یہاں سے پیسہ نہیں بھیج سکیں گے تو باہر کی جماعتیں اس بوجھ کو اٹھا ئیں گی اور جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ایک سکالرشپ تو انگلستان نے دیا ہے، امریکہ سکالرشپ دے گا اور افریقہ جس کو تم آج تک حقارت کی نظر سے دیکھتے رہے ہو.وہ تمہاری ذہانتوں کو سنبھالنے کے لئے پیسے خرچ کرے گا.اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے جماعت کے اندر جو خدمت کا جذبہ پیدا کیا ہے اس کا اظہار اسی طرح ہوتا ہے.ہمیں اس وقت ہر قسم کے عالموں مثلاً زبان دانوں ، سائنسدانوں، فلسفہ دانوں وغیرہ کی بے حد ضرورت ہے آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ یہ بات میرے لئے کتنی پریشانی کا باعث ہوتی ہے سوئٹزر لینڈ میں بہت سارے یوگوسلا و مزدوری کرنے کے لئے آئے ہوئے ہیں وہاں پر ایک جگہ ان کے اتنی خاندان احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک سمجھ دار شخص نے ایک
خطابات ناصر جلد دوم ۱۰۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء ایسی بات کہی کہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام تھا.اس نے کہا کہ بات یہ ہے کہ تم ہماری زبان میں تو تبلیغ نہیں کرتے.ہم میں سے جو لوگ کسی قدر انگریزی سمجھتے ہیں انہوں نے احمدیت کی اصولی باتیں سمجھی ہیں.ہمارے سامنے مہدی علیہ السلام کے متعلق پیشگوئیاں رکھی گئیں.ہم نے ان پر غور کیا اور دعائیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں احمدیت قبول کرنے کی توفیق دے دی لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر تم ہماری زبان میں ہمیں مبلغ دو تو یورپ میں جو چھ لاکھ یوگوسلا و مزدوری کرتے پھرتے ہیں یہ سارے ہی احمدی ہو جائیں گے.اس لئے کہ اسلام کی جو حسین تعلیم جس حسین رنگ میں جماعت احمد یہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے وہ ہم نے اپنی کتابوں میں تو پہلے نہیں دیکھی.یوگوسلاویہ میں دو زبانیں بولی جاتی ہیں اگر ہر زبان کا ایک ایک عالم بھی ہو تو وہاں کے لئے کم از کم دو عالم چاہئیں.اب ہمیں بڑی مشکل پڑتی ہے مثلاً جرمن زبان جاننے والے اتنے تھوڑے ہیں کہ جس مبلغ کو واپس آنا چاہئے اس کو ہم بعض دفعہ واپس نہیں بلاتے بڑی الجھنیں ہیں اور وہ لوگ بڑی قربانیاں دے رہے ہیں آپ بھی اپنے مبلغوں کی قدر نہیں کرتے.ایک شخص اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر جاتا ہے ہم کہتے ہیں کہ تین سال کے بعد تمہیں واپس بلا لیں گے تم تین سال کے لئے قربانی دو اور اپنے بیوی بچوں کو یہاں چھوڑ جاؤ لیکن تین سال گزر جاتے ہیں اور ہمیں اس کی جگہ جرمن زبان جانے والا کوئی نہیں ملتا اور پھر اس کو چار سال پانچ سال اور بعض دفعہ چھ سال لگانے پڑتے ہیں اور وہ لوگ یہ قربانی دے رہے ہیں.اب تو نسبتا سہولت ہو گئی ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا کہ نذیر احمد صاحب مبشر نے چودہ سال باہر گزار دیئے یا شاید اس سے بھی زیادہ.وہ نکاح کرا کے باہر گئے تھے اور بوڑھے ہو کر واپس آئے اور رخصتانہ کرایا.پس ایسی قربانیاں دینے والے بھی ہیں.غرض ہمیں عالموں کی اشد ضرورت ہے.اب امریکہ دنیوی علم کے لحاظ سے بہت آگے نکلا ہوا ہے لیکن ان کو جو دنیوی علوم حاصل ہیں ان کے اندر خامیاں اور نقص اور تضاد ہیں لیکن ان کو اس کا علم نہیں ہے اور نہ اس نگاہ سے وہ دیکھتے ہیں اس کا علم تو سوائے احمدی عالم کے اور کسی کو نہیں ہو سکتا.بعض دفعہ میں مذاق مذاق میں دو چار باتیں کر جاتا ہوں تو سامنے والے آدمی حیران ہو جاتے ہیں کہ اچھا آپس میں اس قدر تضاد ہے.آپ امریکہ اور انگلستان کا ایک ہی پروفیشن (Profession) لے لیں مثلاً ڈاکٹری ہے.انگلستان کا ڈاکٹر کہتا
خطابات ناصر جلد دوم ۱۰۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء ہے کہ تم نے تمیں چالیس سال کی عمر کے بعد کیاشیم نہیں کھانی ( یعنی وہ چونا جو دوائی کے طور پر استعمال ہوتا ہے) کیونکہ اس سے تکلیف ہوگی اور امریکہ کا ڈاکٹر کہتا ہے کہ اگر سو سال عمر ہے تو سو سال تک کیلشیم کھاتے چلے جاؤ.پس بڑا تضاد ہے.پھر یہ عقل کے متعلق بڑی مہمل باتیں کرتے ہیں بعض احمدی بھی اس سے متاثر ہو جاتے ہیں اس واسطے میں اس کا مسئلہ بھی حل کر جاؤں.انہوں نے یہ سٹنٹ چلایا ہے کہ کہتے ہیں کہ جی عقل کافی ہے اب ہمیں قرآن کریم کی ہدایت یا آسمانی ہدایت کی کیا ضرورت ہے.اگر قرآن کریم کا نام لیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اسے اپنی عقل سے سمجھ لیں گے.حالانکہ قرآن کریم نے تو یہ اعلان کیا تھا کہ تم اپنی عقل سے مجھے نہیں سمجھ سکتے.قرآن کریم نے کہا تھا کہ فِي كِتُبِ مَّكْنُونِ (الواقعة : ۷۹) کہ میرے وہ حصے جو چھپے ہوئے ہیں اور آئندہ سے تعلق رکھتے ہیں.لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : ٨٠) صرف مقدس اور پاکیزہ اور مطہر لوگ ہی اللہ تعالیٰ سے اس کا علم حاصل کریں گے قرآن کریم نے یہ نہیں کہا تھا کہ فی كِتَبٍ مَّكْنُونِ (الواقعة : ۷۹) کہ یہ ایک چھپی ہوئی کتاب ہے اور سوائے عقل مند کے اس کو کوئی نہیں سمجھ سکے گا.قرآن کریم کا یہ اعلان نہیں ہے لیکن اس بات کو چھوڑو اور دنیا کی عقل ہی کو لے لو.اب عقل مند صرف امریکہ میں تو نہیں ہیں یا عقلمند صرف روس میں تو نہیں ہیں.اس وقت اقتصادیات ایک عام اور ہر ایک کے ساتھ تعلق رکھنے والا ایک ضروری مسئلہ ہے اور یہ پرابلم (Problem) اور یہ مسئلہ امریکہ میں بھی ہے اور روس میں بھی ہے اور دنیوی عقل رکھنے والے امریکہ میں بھی ہیں اور روس میں بھی ہیں.اگر دس چوٹی کے عقل مند اور دنیوی لحاظ سے صاحب علم و فراست ماہر اقتصادیات امریکہ سے لئے جائیں اور دس چوٹی کے ماہر اقتصادیات اور صاحب علم و فراست روس سے لئے جائیں اور ان کو اکٹھا بٹھا دیا جائے تو وہ ایک نتیجے پر نہیں پہنچتے.روسی کسی اور نتیجے پر پہنچتے ہیں اور امریکن کسی اور نتیجے پر پہنچتے ہیں.اب ہم کس کی عقل کو صحیح تسلیم کریں.وہ عقل کہاں سے آئے گی جو ان کے درمیان فیصلہ کرے گی پھر تو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ کہیں عالم بالا سے ہی آئے گی.کیونکہ دنیوی لحاظ سے تو ان سے بڑا کوئی نہیں ہے.اب چین کچھ نکل رہا ہے اور قریباً قریباً ان کے ساتھ پہنچ گیا ہے.لیکن وہ اپنا ایک الگ نتیجہ نکال رہا ہے جو کہ روس کا عقل مند نہیں نکالتا اور جو امریکہ کا عقل مند نہیں نکالتا.پس عقل مند تو خود آپس میں گتھم گتھا أ
خطابات ناصر جلد دوم 1+4 دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء ہیں اور ان کی کشتی ہو رہی ہے.ان کو بھی ہم نے کہنا ہے کہ بھلے مانسوں کی طرح پرے پرے ہو جاؤ لڑنے کا کیا فائدہ.خدا تعالیٰ کی ہدایت آگئی ہے اور اسلام کے غلبہ کے ایام آ گئے ہیں.تمہارے مسئلے ہم حل کر دیتے ہیں.روس نے ساری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹا ہے کہ ہم غریب کے بڑے ہمدرد اور خیر خواہ بن کر آ گئے ہیں Proletariat of the world unite که ساری دنیا کے عوام جن کا استحصال ہو رہا ہے وہ اکٹھے ہو جائیں ہم آگئے ہیں.یہ ان کا پرانا نعرہ تھا کہ لیپیٹلزم (Capitalism) یعنی سرمایہ دارانہ نظام تمہارا استحصال کر رہا ہے اس لئے تمام پرولیٹیریٹ (Proletariat) یعنی جن کا استحصال ہورہا ہے اکٹھے ہو جائیں لیکن اب چند سال ہوئے کہ اچانک ہم نے دیکھا کہ انہوں نے خود ہی آپس میں سمجھوتہ کر لیا اور آدھے وہ لوگ جن کے متعلق کہتے تھے کہ امریکہ کا سرمایہ دارانہ نظام ان کا استحصال کر رہا ہے ان کو روس نے امریکہ کے زیر اثر کر دیا اور آدھے اس نے خود سنبھال لئے.پس وہ Proletariat of the world unite کا نعرہ تو ختم ہو گیا اور حلقہ اثر و رسوخ محدود اور تنگ ہو گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے جو دینے کا وعدہ کیا تھاوہ تم دے نہیں سکے اور یہ اس واسطے ہے کہ انسانی عقل خدا تعالی کی رہنمائی کے بغیر ایک بھٹکتی ہوئی روح ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہے.اس وقت میں نے کتابوں اور اخباروں کے متعلق اعلان کرنا تھا لیکن اس سے پہلے میں نے علم کے سیکھنے اور خود کو اس بشارت کا اہل بنانے کی ضرورت بیان کی ہے کہ ہم علوم جدیدہ کے حملہ کا منہ بند کرنے والے ہوں.ایک تو ہمارے نزدیک ان کے حملہ کا کوئی خطرہ نہیں ہے.جس اسلام پر ہم ایمان لاتے ہیں اسے علوم جدیدہ کے کسی حملے کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور خدا کے فضل سے ہم جواب دینے کے لئے تیار ہیں اور اُن کو بھی اور اپنے نوجوان کو بھی سمجھا کر قائل کر دیں گے کہ جس کو تم حملہ کہتے ہو اس میں تو جان ہی نہیں ہے اگر کوئی دیمک خوردہ نیزے کے ساتھ جو کہ اندر سے بالکل کھایا گیا ہو اور اوپر باریک سا چھلکا ہی رہ گیا ہو کسی پر حملہ کر دے تو اس کے ہاتھ کا نیزہ ہی ٹوٹے گا دوسرے آدمی کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.ان کے حملوں کا یہی حال ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان کے اندر اتنے تضاد اور Contradictions ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ اس عقل کے برتے پر تم ساری دنیا کے عقل مند بنے پھرتے تھے.اگر مہدی علیہ السلام نہ
خطابات ناصر جلد دوم ۱۰۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء آئے ہوتے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ہماری عقلوں کونئی جلا نہ ملی ہوتی تو ٹھیک ہے کچھ زمانہ اور بھی ایسا چلتا.مگر اب وہ زمانہ ختم ہو گیا.اب علوم جدیدہ کے حملوں کے مقابلہ میں اسلام کے دفاع کے لئے جماعت احمدیہ کا ذہن اور نور فراست کھڑا ہے اور وہ اسلام کو کوئی زک نہیں پہنچنے دے گا انشاء اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ لیکن اس کے لئے ہمیں ایسے نوجوان چاہئیں.جن کو اللہ تعالیٰ نے ذہن دیئے ہیں بعض دفعہ ماں باپ بھی غلطی کرتے ہیں.آپ بچوں کو ہمارے پاس لے آیا کریں.ایک دفعہ ایک بچہ کہنے لگا کہ میں تو زبان سیکھنا چاہتا ہوں اور میرے ماں باپ کہتے ہیں کہ تم ( مجھے اب یاد نہیں رہا کئی سال کی بات ہے ) غالباً انہوں نے کہا کہ تم لاء (Law) کرلو اور وکالت کرو.میں نے اس کے ماں باپ کو کہا کہ بچے کو اللہ تعالیٰ نے زبان سیکھنے کا ملکہ اور استعداد دی ہے اور اس کو زبانیں سیکھنے کا ذہن دیا ہے تم اس ذہن کی ناشکری کیوں کرتے ہو.اگر یہ لاء میں جائے گا تو تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوگا اور تھرڈ کلاس وکیل بنے گا.نہ اس کی دنیا میں کوئی عزت ہوگی اور نہ یہ خدا تعالیٰ کی راہ میں کوئی قربانی پیش کر سکے گا.چنانچہ اس وقت ہمارا وہ بچہ دو تین زبانیں سیکھ رہا ہے.غالبا روسی زبان بھی ان میں شامل ہے اور شاید دو تین سال تک وہ ہمارے کام آ جائے.اب آپ یہ دیکھیں کہ ہمیں زباندانوں کی اتنی ضرورت ہے کہ روسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ موجود ہے لیکن ہم اسے شائع نہیں کر سکتے.کیونکہ ترجمہ کرنے والا احمدی نہیں ہے بلکہ وہ مسلمان بھی نہیں ہے اس لئے پتہ نہیں وہ کیا لکھ گیا ہے ہمیں یہ تسلی ہونی چاہئے کہ ہماری طرف سے جو ترجمہ شائع ہوا ہے وہ درست ہے.پس ہمیں ایسے دماغ چاہئیں جو بڑے اعلیٰ درجے کے عالم ہوں وہ جو ہمیں طعنہ دیا تھا یوگوسلا و نیز نے اس کے لئے تو ایک نوجوان کو بھجوایا ہے اس کے لئے آپ بھی دعا کریں.احمدیت میں وہ ایک نہایت ہی پیارا بچہ ہے میں نے یہاں مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اس کو زبان سیکھنے کا ملکہ ہے.میں نے اس کو کہا کہ یوگوسلاویہ میں جا کر زبان سیکھو.چنانچہ وہ اس غیر ملک میں جو کمیونسٹ ملک ہے چلا گیا.اب اس غیر علاقے میں اس کو زبان کا ایک لفظ بھی نہیں آتا تھا وہ یو نیورسٹی میں داخل ہو گیا لیکن وہاں پر وہ اپنی زبان بھی، اپنی زبان میں ہی پڑھاتے ہیں چنانچہ وہ بڑا گھبرایا لیکن پیچھے پڑا رہا، دعا کرتا رہا اور دعا کے لئے لکھتا رہا، اب اس کا پہلا امتحان ہوا ہے اور وہ بڑے اچھے نمبروں پر کامیاب
خطابات ناصر جلد دوم ۱۰۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷؍ دسمبر ۱۹۷۵ء ہوا ہے.سوائے ایک دو پرچوں کے جن کا امتحان نہیں ہوا یعنی یہ نہیں کہ اس نے کم نمبر لئے ہیں ان پر چوں کا امتحان انشاء اللہ اگلے مہینے یعنی جنوری میں ہوگا.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ان میں بھی وہ بہت اچھے نمبر لے.بہر حال پہلے امتحان میں وہ بڑے اچھے نمبر لے کر پاس ہوا ہے چنانچہ وہ لوگ جو کہتے تھے کہ ہمیں ہماری زبان میں شاہد دو اب تین چار سال تک ان کی زبان میں بھی شاہد ہو جائے گا لیکن دنیا میں تو سو سے زیادہ زبانیں ہیں اور ہر زبان زبانِ حال سے پکار کر جماعت احمدیہ کو یہ کہہ رہی ہیں کہ مجھے میری زبان میں اسلام سکھانے والا دو تا کہ ہم اس نعمت سے محروم نہ رہ جائیں.پس اس طرف جماعت کو توجہ دینی چاہئے خصوصاً اُن نوجوانوں کو کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے ذہن دیئے ہیں.یہ شرط ہے کہ جو بچے ذہین ہیں وہ آئیں کیونکہ خواہش اور چیز ہے اور ذہن اور چیز ہے.میں نے پہلے بھی شاید کسی موقع پر کہا تھا کہ ہمارا ایک بچہ تھا جس کو پڑھائی کا بڑا شوق تھا اس نے غالباً ایف اے کا امتحان دینا تھا اور وہ ہر دفعہ امتحان سے پہلے مجھے لکھتا تھا کہ دعا کریں کہ میں یونیورسٹی میں فرسٹ آ جاؤں اور وہ فیل ہو جاتا تھا پھر اگلے سال یہی دعا کرنے کے لئے لکھتا تھا.میں سمجھتا تھا کہ اس کی ایک خواہش ہے لیکن اس کے مطابق ذہن نہیں ہے.پس ایسی خواہشیں ہمارے پاس نہیں آنی چاہئیں بلکہ صاحب فراست اور نور رکھنے والے ذہن ہمارے پاس آنے چاہئیں اور پھر اگر ایک فزکس کا ذہن ہے تو اس کو میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ قرآن کریم کا ترجمہ کر.بلکہ اس کو میں یہ کہوں گا کہ تو فزکس میں چوٹی پر پہنچ اور اس میں مہارت حاصل کر اور اگر کوئی فزکس کا ماہر اسلام پر حملہ کرے تو تجھے اتنا علم ہونا چاہئے کہ تم اسے کہو کہ تم غلط کہ رہے.اور اسے بتاؤ کہ خدا یہ کہتا ہے اور دلیل سے ثابت کرو کہ واقعی وہ شخص غلط کہہ رہا ہے اور اسلام کی تعلیم ہی حق اور صداقت ہے اسی طرح ایک زباندان کو میں نے یہ تو نہیں کہنا کہ اگر کیمسٹری کے نقطہ نظر سے کوئی اعتراض ہو تو تم جا کر اس کا جواب دو.بلکہ ہر ایک کا میدان مختلف ہے.کسی کو خدا تعالیٰ نے ایک قسم کا ذہن دیا ہے اور کسی کو دوسری قسم کا ذہن دیا ہے لیکن بہر حال ہر میدان میں جو سب سے آگے بڑھے ہوئے ہیں وہ احمدی ہونے چاہئیں اور اس نیت کے ساتھ ہونے چاہئیں کہ ہم اپنا کام تو کریں گے ہی ( مثلاً فزکس والے نے اپنا کام کرنا ہے ) لیکن جب بھی علومِ جدیدہ میں
خطابات ناصر جلد دوم 1+9 دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء سے اس علم کی طرف سے اسلام پر حملہ ہو گا تو اس وقت ہم کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ تمہاراعلم غلط کہتا ہے اور خدا کا کلام صحیح کہتا ہے.یہ تو ایسی جاہل تو میں ہیں کہ ایک وقت میں انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ قرآنِ کریم تو خدا تعالیٰ کا جو کہ علام الغیوب ہے کلام ہی نہیں ہوسکتا.بھلا وہ کیوں نہیں ہو سکتا ؟ کہ جی اس میں تو یہ لکھا ہوا ہے کہ شہد کی مکھی اپنے جسم میں سے شہد بناتی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ (النحل : ۷۰) اور پھر میرا خیال ہے کہ سو ڈیڑھ سو سال تک پادری مختلف ملکوں میں یہ اعتراض کرتے رہے.ہماری بد قسمتی ہے کہ مسلمانوں میں سے ایسے سکالر پیدا نہیں ہوئے جو اس کے متعلق تحقیق کرتے لیکن خود عیسائی محقق عالموں نے شہد کی مکھی پر تحقیق کی اور اب پتہ لگا ہے کہ شہد کی مکھی جو شہد بناتی ہے اُس میں پچاس فی صد سے زیادہ اس کے اپنے جسم کے غدود میں سے جو سیکریشن (Secretion) یا مادہ نکلتا ہے وہ اس نے شہد میں شامل کیا ہوتا ہے اور شہد کے یا اس کے چھتے کے جو مفید اور صحت مند حصے ہیں وہ سارے شہر کی مکھی کے اپنے ہیں وہ پھول کے نیکٹر (Nectar) میں سے یہ لے کر نہیں آ رہی ، چھ قسم کے اینٹی بائیوٹکس ہیں پنسلین وغیرہ وغیرہ کے نام آپ نے سنے ہوں گے اب تو زمیندار بھی کہتے ہیں کہ سووا لگاؤ تو ہمیں آرام آئے گا ورنہ نہیں.یعنی وہ ٹیکوں وغیرہ سے واقف ہو گئے ہیں لیکن اب دریافت ہوا ہے کہ شہد کی مکھی جو اینٹی بائیوٹکس یعنی زہر کش چیزیں بنارہی ہے انسان ابھی تک ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا اور نہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کے اندر یہ چیز رکھی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے علم کامل اور اس کی وحی کے ذریعہ سے یہ کام کر رہی ہے.أوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ (النحل : ۶۹) خدا تعالیٰ نے مکھی کو وحی کی کہ یہ کام کر.پھر ہر قسم کے اینٹی بائیوٹک کی ایمونٹی (Immunity) ہو جاتی ہے یعنی بیماری کے کیڑوں کو دوائی کی عادت پڑ جاتی ہے لیکن اب کوئی پچھلے دس پندرہ سال میں یہ پتہ لگا ہے کہ شہد کی مکھی ایک جرم کش بناتی ہے کہ جو بیماری کے سارے کیڑے مار دیتا ہے اور پھر کوئی ایمونٹی (Immunity) پیدا نہیں ہوتی.یعنی یہ نہیں ہے کہ پھر کہیں کہ جی اب یہ دوائی دو گے تب بھی کیڑے نہیں مریں گے بلکہ اگر نیا حملہ ہوگا تو یہ اس کے کیٹروں کو بھی مار دے گا.
خطابات ناصر جلد دوم 11 + دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء بہر حال ہمارے پاس ہر میدان کا عالم ہونا چاہئے اور اس کے لئے ہمیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمی چاہئیں لیکن یہ کہنا کہ چونکہ اس وقت ہزار آدمی دستیاب نہیں ہو سکتے اس واسطے ہم پانچ بھی لینے کو تیار نہیں ہیں یہ نا معقول بات ہے.پس اگر آج ہمیں ایک ملتا ہے تو ہمیں ایک لے لینا چاہئے اور اگلے سال اگر ہمیں پانچ ملتے ہیں تو ہمیں پانچ لے لینے چاہئیں.اس سے اگلے سال اگر ہمیں دس ملتے ہیں تو ہمیں دس لے لینے چاہئیں.اس وقت جماعت کے خرچ پر فزکس کا ایک اور طالب علم باہر گیا ہوا ہے.( حضور کی تقریر کے دوران میں ہی امریکہ کی جماعت نے بھی ایک وظیفہ پیش کیا چنانچہ اس کا اعلان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.) امریکہ کی جماعت نے بھی ایک سکالرشپ پیش کیا ہے اور یہ بھی Open merit وظیفہ ہو گا.اس طرح پر یہ دو سکالرشپ ہو گئے ہیں اب دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والے سکالرز ائیں اور اگر ان میں اہلیت زیادہ ہوگی تو وہ لے جائیں گے اور اگر احمد یوں میں زیادہ ہوگی تو وہ لے جائیں گے اور احمدیوں کو زیادہ اہلیت پیدا کرنی چاہئے.تم خوب محنت کرو اور دعائیں کرو اور کسی کو آگے نہ نکلنے دو لیکن اگر دوسروں میں اہلیت زیادہ ہوگی تو وہ ضرور سکالرشپ لے جائیں گے.تم یہ کوشش کرو کہ تم میں ان سے زیادہ اہلیت پیدا ہو.اس موقع پر کینیڈا کی جماعت کی طرف سے بھی ایک وظیفہ پیش کیا گیا.چنانچہ حضور نے فرمایا) ایک تیسرا سکالرشپ آ گیا ہے کینیڈا کی جماعت نے کہا ہے کہ ایک سکالرشپ ہم دیں گے.اس کے بھی ساٹھ پاؤنڈ ہیں یہ (Open merit) کا وظیفہ نہیں بلکہ یہ سکالرشپ کسی احمدی کو دیا جائے گا لیکن اس کو جو اہل ہوگا.اس وقت ہمیں ڈاکٹروں کی بھی بہت ضرورت ہے اگلے آٹھ دس سال میں ہمیں کم از کم ہیں ذہین ڈاکٹر چاہئیں جن میں سے زیادہ تر سرجن ہوں یعنی چیرنے پھاڑنے والے.افریقہ میں جو کام ہم نے شروع کیا ہے اس کے لئے آدمی بدلنے ہیں.ابھی میں آپ کو بتاؤں گا کہ نصرت جہاں کا منصوبہ جو ۱۹۷۰ء سے شروع کیا تھا اس میں اللہ تعالیٰ نے کس قدر برکت ڈالی ہے لیکن اس کی وجہ سے ذمہ واری بھی بہت بڑھ گئی ہے.میں کہتا ہوں کہ تین ڈاکٹر چھ سال کے لئے مل جائیں.مثلاً ایک شخص جس کو ہم ڈاکٹر بنا ئیں وہ چھ سال تک جا کر
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء خدمت کرے اور اس کے بعد چھ سال میں اور دوست پیچھے سے آجائیں اور وہ خدمت کریں اور یہ دوست دوسرے میدانوں میں جا کر دنیا میں ترقی کریں کیونکہ ہر احمدی جو مخلص ہے وہ تو جو کام بھی کرے گا وہ جماعت کی تقویت کا باعث ہوگا اور ہماری اور آپ کی دعائیں اس کو ملیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام یہ بھی ہے کہ مستقبل میں احمدیت یعنی اسلام ہی علم کا شہر " مدينة العلم انت مدينة العلم تذكره صفحه ۱۹۰۰۳۲۰ء سنہ الہام ہوگا.اصل چیز تو اسلام ہے.احمدیت اسلام سے کوئی مختلف چیز نہیں ہے.ہر قسم کی بدعات سے پاک اسلام احمدیت ہے اصل چیز ہے ہی اسلام.ایک ہے بدعات سے پاک اسلام اور اسلام کی ایک شکل وہ نظر آتی ہے جس میں بہت سی بدعات شامل ہو چکی ہیں ہر دو کوممتاز کرنے کے لئے اس کا نام ( رکھنے والے نے ) احمدیت رکھ دیا ہے.اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں اللہ جانے اور اس کی مصلحتیں جانیں.اس الہام کو میں اس وقت اس غرض سے پیش کر رہا ہوں کہ اس سلسلہ میں ساری ذمہ واری جماعت احمد یہ پر ہے.تم ہو مکین اس شہر کے اس مدینۃ العلم کے.پس اگر دنیا میں صحیح اور ساری وسعتوں کو اپنے احاطے میں لئے ہوئے علم کو پھیلانا ہے تو وہ آپ ہی پھیلا سکتے ہیں کوئی اور نہیں پھیلا سکتا.اس تمہید کے بعد میں اخبارات کے متعلق تحریک کرتا ہوں ان کی طرف جماعت توجہ کرے.(اس موقع پر انڈونیشیا کی طرف سے بھی ایک سکالرشپ کی پیش کش ہوئی اس پر حضور نے فرمایا: ” چوتھا سکالرشپ ! انڈونیشیا کی جماعتوں نے ایک سکالرشپ پیش کیا ہے یہ بھی احمدی ہونہار ذہین بچے کے لئے ہوگا جزاک اللہ.اللہ تعالیٰ چاروں کو جزا دے اور اس کے بعد جو وظائف پیش کرنے والے ہیں ان کو بھی جزا دے.) الفضل ہے.الفرقان ہے.مصباح ہے.خالد ہے.تفخیذ الا ذہان ہے.انصار اللہ ہے.تحریک جدید ہے.ریویو آف ریجنز ہے اور ہفت روزہ لاہور ہے اور کتابوں میں سے تاریخ احمدیت جلد ۱۵ ہے.اسلام عصر حاضر میں ہے جو کہ ہمارے ایک مبلغ صوفی محمد اسحاق کی لکھی ہوئی کتاب ہے.ایک کتاب لجنہ نے شائع کی ہے.تفسیر القرآن انگریزی کا مکمل سیٹ پانچ جلدوں میں موجود ہے اور فضل عمر فاونڈیشن نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح شائع کی ہے جو کہ ابھی دو ایک دن ہوئے آئی ہے اس کی طرف بھی توجہ کریں.
خطابات ناصر جلد دوم ۱۱۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء اس موقع پر غانا کی جماعتوں نے بھی ایک سکالرشپ دیا.اس کا اعلان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا 'پانچواں سکالرشپ غانا کی جماعتوں نے ایک سکالر پیش کیا ہے یہ بھی احمدی سکالرشپ ہے.یہ اپنا بچہ بھی تیار کریں جو باہر جا کر پڑھےاور اپنے ملک میں آئے.) آپ جانتے ہیں کہ ساری دنیا میں مہنگائی ہو گئی ہے یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے.بعض جگہ تو inflation کی وجہ سے مہنگائی ہے.لیکن ہمارے ہاں مہنگائی دوطور پر ہے.ایک تو ساری دنیا کا اثر پڑتا ہے اور اس سے تو چھٹکارا نہیں ہے اور دوسرے نا اہلیت کی وجہ سے مہنگائی ہے.اتنی نا اہلیت ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے میں رات کو پڑھنے کا عادی ہوں اور بہت دیر تک پڑھتا رہتا ہوں.ایک دن میرے سرہانے کا بلب فیوز ہو گیا.میں نے دفتر سے ایک اور بلب منگوایا اور اپنے ہاتھ سے پہلا بلب اتارا اور دوسرا لگا کر جس وقت آن کیا تو وہ دو سیکنڈ بھی نہیں جلا.ایک سیکنڈ کے بعد وہ بھی فیوز ہو گیا.اب اس کی قیمت چار روپے ہے.میں نے سوچا کہ یہ جو بیچارے غریب زمینداروں کو ابھی مالیہ کی رعایت دی گئی ہے اگر ان کا کوئی بچہ پڑھنے والا ہو اور وہ رات کو بلب جلا تا ہوتو جتنا ان کو فائدہ ہوا ہے اس سے دس گنا زیادہ ان کا بلبوں کے اوپر ہی خرچ ہو رہا ہے.بلبوں کا اس سے بھی بڑا لطیفہ یہ ہے.میں نے ایک بلب کھولا تو اس میں جو تار ہوتی ہے جو کہ جلتی ہے وہ کارخانے نے لگائی ہی نہیں تھی اور پیک کر کے بھجوا دیا تھا.اب کوئی تو ہمارے ملک میں ایسا محکمہ ہونا چاہئے جو یہ دیکھے کہ کارخانے جو چیز میں تیار کرتے ہیں ان کا کوئی معیار بھی ہے؟ یا یہ ہے کہ ہر پاکستانی کو جرمانے ہی کرتے رہنا ہے ہر لحاظ سے.بہر حال ذکر یہ ہے کہ ہمارے جو صدرانجمن احمدیہ کے کارکن ہیں.مبلغ بھی، کلرک بھی اور دوسرے بھی وہ بڑی قربانی دے رہے ہیں اور باہر کے دوست بھی بڑی قربانی دے رہے ہیں.میں نے بتایا ہے کہ ہمارے ملک میں تو جن کا ایک بچہ بھی پڑھنے والا ہے وہ بلبوں کے لحاظ سے ہی بڑی قربانی دے رہے ہیں.مالی لحاظ سے بڑی تنگی ہے اور ساری ضرورتیں پوری کرنے کے تو ہم قابل ہی نہیں ہیں.اگر ہم اس قابل ہوں تو ایک سیکنڈ کے لئے بھی ہمیں ہچکچاہٹ نہ ہو اور ہم سب ضرورتیں پوری کر دیں.تا ہم جہاں تک ممکن ہے جماعتی نظام ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے.مثلاً صد را انجمن احمدیہ کی طرف سے اپنے کارکنوں کو ایک خاص اصول اور دستور کے مطابق ضرورت کا
خطابات ناصر جلد دوم ١١٣ دوسرے روز کا خطاب ۲۷؍ دسمبر ۱۹۷۵ء ایک حصہ مفت گندم دی جاتی ہے.اس دفعہ ہم نے یہ کیا ہے کہ کسی خاندان کو جتنی ضرورت ہے اس کا پچاس فیصد یعنی آدھی گندم اس کو مفت دے دیں گے.مثلاً آدھ سیر روزانہ کے حساب سے خص کو ساڑھے چارمن گندم کی ضرورت ہے اگر کسی پرانے کارکن کے ماشاء اللہ.ماشاء اللہ.چشم بد دور آٹھ بچے ہوں تو وہ دس کھانا کھانے والے ہوئے اور ان کی سال کی ضرورت پنتالیس من گندم ہے.صدر انجمن احمد یہ اسے ساڑھے بائیس من گندم مفت دے دیتی ہے اور باقی ساڑھے بائیس من گندم کے لئے اسے قرضہ دے دیتی ہے تا کہ وہ سستے زمانے میں گندم خرید لے اور ماہانہ اپنی تنخواہ میں سے رقم کٹوا تا رہے.اس پر صدرانجمن کا ایک لاکھ تہتر ہزار دوسو پچاسی روپے خرچ آیا ہے.پھر انہی کارکنوں کو موسم سرما کی بعض ضرورتوں کے لئے رقم دی جاتی ہے.بعض ضرورتیں ایسی ہوتی ہیں جو گرمیوں میں نہیں ہوتیں مثلاً گرم کپڑے بنانے ہوتے ہیں یا موٹے کپڑے اور بنیان وغیرہ لے لیتے ہیں.بیچارے غریبانہ گزارہ کرتے ہیں.یہ بات میں دو وجہ سے بتا رہا ہوں.ایک اس لئے کہ بعض منافق بعض دفعہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ یہ کارکنوں کا کوئی خیال نہیں رکھتے.میں بتا رہا ہوں کہ اتنا خیال رکھتے ہیں کہ سارے سال کی گندم کا پچاس فی صد یعنی بارہ مہینے کی گندم میں سے چھ مہینے کی گندم کا خرچ ان کو مفت دے دیا جاتا ہے.دوسرے میری غرض یہ ہے کہ آپ ان کے لئے دعائیں کریں کیونکہ اگر چہ وہ سارے لفظاً واقف زندگی تو نہیں ہیں لیکن وہ قربانی کرنے والے کارکن ہیں اور ہماری دعاؤں کے مستحق ہیں.میں نے بتایا ہے کہ موسم سرما میں بعض ضرورتیں پڑتی ہیں.چنانچہ اس کے لئے اس دفعہ انہیں فی کس چالیس روپے دیئے گئے.میں نے جو دس آدمیوں والی مثال دی تھی ان کو موسم سرما کی ضروریات کے لئے چار سو روپیہ نومبر کے آخر یا دسمبر کے شروع میں دے دیا گیا ہے.اس کے علاوہ صدرانجمن احمدیہ نے تہیں ہزار روپید ان کے علاج کے لئے ہسپتال کو دیا ہے اور اس میں ان کو بڑی سہولت ملتی ہے.پھر چونکہ سارے ربوہ والے یا باہر کے رہنے والے انجمن کے کارکن تو نہیں ہیں اس لئے دوسرے مستحقین کو اس کے علاوہ گندم دی جاتی ہے.چنانچہ چھہتر ہزار روپے کی گندم کارکنوں کے علاوہ اہل ربوہ کے مستحقین کو دی گئی اور میرے خیال میں بعض باہر کے دوستوں کو بھی دی گئی.پھر بہت کچھ میرے ہاتھ سے بھی جاتا ہے.یہ تین لاکھ چھیاسٹھ ہزار روپے کی رقم ہے جو
خطابات ناصر جلد دوم ۱۱۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء اس طرح سال رواں کے لئے منظور ہوئی ہے اور یہ رقم دی جا چکی ہے کیونکہ اس کا وقت ختم ہو گیا ہے.سوائے ویلفیئر فنڈ یعنی علاج کی رقم کے.کیونکہ وہ تو جو جنوری میں بیمار ہو گا وہ جنوری میں ہی اس سے فائدہ اُٹھائے گا لیکن جہاں تک گندم اور موسم سرما کی امداد کا تعلق ہے وہ عملاً ان کو مل چکی ہے اور پھر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ذریعہ سے ایک لاکھ پینتیس ہزارسولہ روپے تقسیم کئے گئے ہیں.مثلاً میں عید سے پہلے ان کو کہہ کر محلے کے صدر صاحبان سے اندازہ لگواتا ہوں کیونکہ بہت سے غریب گھر ہوتے ہیں اور ان بیچاروں کے پاس صاف ستھرے کپڑے بھی نہیں ہوتے.چنانچہ ان کو کپڑوں کے لئے اور دوسری ضروریات کے لئے کچھ مددمل جاتی ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ یہ کافی ہے اور ساری ضرورتیں پوری کر دیتی ہے.میں یہ بتا رہا ہوں کہ ہم غافل نہیں ہیں جتنا ہم سے ہوسکتا ہے اتنا ہو جاتا ہے یہ ساری رقم قریباً پانچ لاکھ روپیہ بن جاتی ہے.جو کہ اس طرح امداد میں مل رہی ہے.یہ امدا د صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے ہے وکالت مال تحریک جدید کی طرف سے جو مختلف قسم کی امداد دی جاتی ہے وہ ایک لاکھ اسی ہزار روپے اس کے علاوہ ہیں اور اسی طرح وقف جدید کی طرف سے بھی امداد دی جاتی ہے.ہم نے وقفِ عارضی کا ایک نظام قائم کیا تھا اور وہ یہ تھا کہ احمدی احباب تربیت کی غرض سے دو ہفتے کے لئے وقف کر کے دوسری جگہ جائیں کسی پر بار نہ بنیں.اپنا کھانا بھی آپ پکا ئیں وہاں نیکی کی تلقین کریں اور اپنا نمونہ دکھا ئیں اور اس چیز سے بڑا فائدہ ہوا ہے.پانچ سالہ دور ثانی میں اس سکیم میں بائیس ہزار دوسوستر واقف شامل ہوئے.سارے تو نہ شامل ہوئے نہ ہو سکتے ہیں.دور ثالث میں جو کہ ۱۹۷۴ء سے شروع ہوا ہے جماعت کو اس کی طرف کم توجہ ہے.اس سکیم میں آپ کو بھی فائدہ ہے یہ آپ کے اپنے نفس کی تربیت کے لئے مفید ہے اور آپ کے بھائیوں کو بھی اس میں فائدہ ہے.اس طرف جماعت کو توجہ دینی چاہئے.ایک تحریک میں نے یہ کی تھی کہ ایسے دوست جو کہیں ملازم ہیں وہ اپنے نام وقف بعد از ریٹائرمنٹ کے لئے پیش کریں یعنی یہ وقف کریں کہ جب وہ ریٹائر ہو جائیں گے تو اس وقت اگر سلسلہ ان سے خدمت لینا چاہے تو وہ سلسلے کی خدمت کریں گے.اس کے لئے ایک سو چھیالیس دوستوں نے نام پیش کئے تھے جو میرے خیال میں کم ہیں.ان میں بیالیس ریٹائر ہو چکے ہیں اور اس میں سے جتنوں
خطابات ناصر جلد دوم ۱۱۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء سے کام لیا گیا ہے میرے خیال میں وہ بھی کم ہیں.دفتر کو چاہئے کہ اس کی طرف توجہ دے.تحریک جدید تحریک جدید کو۱۹۳۴ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شروع کیا تھا اور جیسا کہ الہی سلسلوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک ہے اُس وقت کے لحاظ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساڑھے ستائیس ہزار روپے کی تحریک کی تھی لیکن جماعت نے ایک لاکھ روپیہ پیش کر دیا تھا.آپ سوچیں اور شکر کریں کہ ایک وہ بھی زمانہ تھا اور اس پر کوئی زیادہ لمبا عرصہ نہیں گزرا اور اب دو سال ہوئے کہ میں نے صد سالہ جو بلی فنڈ کے لئے ساڑھے ستائیس ہزار کی تحریک پیش نہیں کی بلکہ میں نے اڑھائی کروڑ روپے کی تحریک پیش کی اور جماعت نے دس کروڑ سے زیادہ کے وعدے پیش کر دیئے.اللہ تعالیٰ بڑی برکت ڈال رہا ہے.اُس وقت متحدہ ہندوستان تھا.چنانچہ اس وقت تحریک جدید نے ہندوستان سے باہر ساری دنیا میں زندہ اور حسین اسلام کی بنیادیں ڈالنے کے لئے جو کام کیا اس میں ہمیں خدا تعالیٰ کی شان نظر آتی ہے.بڑی برکتوں والا کام اس تحریک نے کیا.شروع میں جو مخلص باہر گئے انہوں نے بڑی قربانیاں دیں.میں جب افریقہ گیا تو ایک مبلغ کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ وہ بعض دفعہ کتابوں کی گھڑی اپنے سر پر رکھتے تھے اور کسی گاؤں میں چلے جاتے تھے گاؤں والوں کو کوئی پتہ نہیں ہوتا تھا وہ کہتے کہ تم یہاں کہاں آگئے ہو چلو! ہم تو تمہیں یہاں رات رہنے کی بھی اجازت نہیں دیتے.وہ کہتے ٹھیک ہے جو تمہاری مرضی میں فتنہ پیدا کرنے نہیں آیا اور وہ اگلے گاؤں میں چلے جاتے وہ گاؤں بھی ان کو کہتا کہ ہم بھی تمہیں رات رکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں وہ کہتے ٹھیک ہے پھر وہ تیسرے گاؤں میں چلے جاتے پھر چوتھے میں چلے جاتے.آخر کوئی نہ کوئی بھلا مانس خدا کا بندہ کہتا کہ اچھا ہمارے پاس بطور مہمان ٹھہر جاؤ.وہ رات وہاں ٹھہرتے ، باتیں کرتے ، اور پھر وہ میزبان یا کوئی اور شخص وہاں احمدی ہو جاتا اور وہاں پر ایک جماعت کی بنیاد قائم ہو جاتی.تحریک جدید نے وہاں جو کام کیا ہے اگر اس کی تفصیل میں میں جاؤں تو بہت لمبا وقت لگے گا لیکن سیرالیون کے سابق نائب وزیر اعظم نے جو بات کہی وہ در حقیقت اس کے کام کا خلاصہ ہے.جب میں نے سیرالیون کا دورہ کیا تو وہاں کے سابق نائب وزیراعظم
خطابات ناصر جلد دوم ۱۱۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء نے اپنی ریسیپشن (reception) میں سب علماء اور عمائدین اور سیاسی لیڈروں کے سامنے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے جس سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ احمدیوں کے آنے سے قبل ہم مسلمان اسلام کا نام لیتے ہوئے شرماتے تھے اور اگر کسی مجلس میں اسلام کا ذکر شروع ہو جاتا تو ہماری گردنیں جھک جاتی تھیں اور ہم بات نہیں کر سکتے تھے.پھر یہ احمدی ہمارے ملکوں میں آئے اور انہوں نے ہمیں اسلام سکھایا.ہر دو فقروں کے بعد وہ کہتا تھا کہ میں احمدی نہیں ہوں اور وہ احمدی نہیں تھا.وہ کہنے لگا کہ اب احمدی آئے اور انہوں نے ہمیں اسلام سکھایا.اب جس مجلس میں اسلام کا نام لیا جائے وہاں ہماری گردنیں تن جاتی ہیں اور ہم بڑے فخر سے اسلام کی بات کرتے ہیں.یہ خلاصہ ہے اس کام کا جو تحریک جدید نے وہاں کیا ہے اور اب نصرت جہاں کی سکیم بھی تحریک کا ایک حصہ اور اس کا چھوٹا بچہ ہے اس کا ذکر اپنے وقت پر آئے گا.تحریک جدید نے وہاں بے حد کام کیا ہے.اس صدی کے شروع میں بہ حال تھا کہ پادری جن کے پاس نہ کوئی دلیل تھی.نہ عقل کو Satisfy کرنے کے لئے کوئی بات تھی اور نہ کوئی آسمانی نشان تھے جو عیسائیت کی طرف کھینچتے انہوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ جب وہ سکول میں داخلہ کے وقت مسلمان بچے کا نام لکھتے تو اس کے نام کے ساتھ ایک عیسائی نام add کر دیتے تھے.مثلاً پیٹر، اور ہر روز جب اس کی حاضری ہوتی تو اس کا نام پیٹر، پیٹر کر کے پکارا جاتا اور جب وہ دسویں جماعت یا آٹھویں جماعت پاس کر کے نکلتا تو سچ مچ ہی اپنے آپ کو پیٹر سمجھنے لگ جاتا تھا اور اپنا نام محمد بھول جاتا تھا.اس طرح وہ عیسائی بن جاتا تھا.تحریک جدید نے وہاں پر بیسیوں سکول کھولے.غیرممالک میں جا کر بیسیوں پرائمری اور مڈل سکول کھولے اور اُن لوگوں سے کوئی پیسہ نہیں لیا بلکہ باہر سے لا کر وہاں پہیے لگائے.۱۹۳۴ء میںتو غیر ممالک سے ایک دھیلہ بھی نہیں آرہا تھا وہاں پر احمدی جماعتیں ہی نہیں تھیں اور نہ کوئی چندہ آ رہا تھا.( مقامی ضروریات کو پورا کرنے ) لیکن اُس وقت یہاں پر غیر مسلم حکومت تھی ان کو بعض دفعہ یہ خیال آجا تا تھا کہ اگر ہم نے یہ کہہ کر کہ جی ہمارے پاس غیر ملکی سرمایہ یعنی فارن ایکسچینج کم ہے ان کو اسلام کی تبلیغ سے روکا تو ہم پر اعتراض آ جائے گا اس لئے وہ فارن ایکسچینج دے دیا کرتے تھے لیکن اب تو مسلمانوں کی حکومت ہے ان کے اوپر تو کوئی اعتراض نہیں کر سکتا.مگر یہ فارن ایکسچینج نہیں دیتے.خدا کی عجیب شان ہے.ہم اس اللہ پر ایمان لاتے ہیں جو بڑی قدرتوں کا مالک ہے.اُس
خطابات ناصر جلد دوم ۱۱۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء وقت کسی کو نہیں پتہ تھا کہ دنیا میں کیا ہونے والا ہے.۱۹۴۴ء میں ہمارے رجسٹروں میں پہلا غیر ملکی چندہ درج ہوا.دس سال تک تحریک جدید ہندوستان کے احمدیوں کے چندے کے ذریعہ وہاں کام کرتی رہی.مخلصین دن رات ایک کر کے خدمت میں لگے ہوئے تھے سکول کھول رہے تھے اور مسجدیں بنارہے تھے.چنانچہ ویسٹ افریقہ میں کئی سو مساجد بن چکی ہیں.پھر میڈیکل سنٹرز کا سلسلہ شروع ہوا یعنی ڈاکٹر بھیج کر علاج کرنے کا سلسلہ تحریک جدید کے غالباً تین سنٹر ہیں اور اب نصرت جہاں کے سولہ سنٹر ہیں.ان کے ذریعے لاکھوں آدمیوں کا مفت علاج ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت ڈالی ہے اتنی برکت ڈالی ہے کہ وہاں خدا تعالیٰ کی قدرتوں کی جو شان ظاہر ہوئی ہے اس کو آپ تصور میں نہیں لا سکتے لیکن میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ اس میں آپ کے لئے کوئی فخر نہیں ہے یہ خدا کی قدرت کے نشان ہیں جو آپ نے بھی دیکھے اور میں نے بھی دیکھے اور افریقہ میں بسنے والے احمدیوں نے بھی دیکھے اور ان لوگوں نے بھی دیکھے جو تقریر کے ہر دو فقرے کے بعد کہتے تھے کہ میں احمدی نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.اکہتر مبلغین باہر کام کر رہے ہیں اور امسال یعنی ۱۹۷۵ء میں بیرونی ممالک میں انتیس نئی جماعتیں قائم ہوچکی ہیں.الحمد للہ.پانچ سو کے قریب مساجد تحریک جدید کے ذریعے بن چکی ہیں.اب میں سویڈن میں ایک مسجد کی بنیا در کھ کر آیا ہوں اس میں بھی ہم نے خدا تعالیٰ کے بڑے نشان دیکھے ہیں.اس مادی دنیا میں بھی خدا نے اپنی رحمت سے تغیر پیدا کیا تا کہ ہمیں تکلیف نہ پہنچے اور اخلاقی دنیا میں جو غیر اخلاقی روکیں تھیں ان کو دور کیا تا کہ خدا کے نام کو بلند کرنے کے لئے جو گھر وہاں تعمیر ہو رہا ہے اس کے راستے میں کوئی روک نہ ہو.ان لوگوں کو اسلام سے کیا تعلق یا پیارا اور محبت لیکن انہوں نے ایک پہاڑی کی چوٹی پر ڈیڑھ ایکٹر زمین ہمیں لیز (Lease) پر دے دی ہے جہاں سے سارا شہر ہمیں نظر آتا ہے.یہ سال ختم ہو رہا ہے اب اگلا سال آیا کہ آیا اس میں ٹھیکیدار نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ میں کوشش کروں گا کہ جولائی تک کام مکمل ہو جائے تو جولائی میں انشاء اللہ تعالیٰ وہاں مسجد ہو گی مینارہ ہوگا اور اس میں روشنیاں ہوں گی اور جس طرح اُس جگہ سے ہمیں سارا شہر نظر آ رہا ہے اسی طرح سارے شہر کو وہ مسجد نظر آئے گی اور یہ خدا کی شان ہے.ایک ایسے ملک میں کہ جن کو مذہب کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں ہے وہاں خدا تعالیٰ اپنے نام کو بلند کرنے کے لئے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۱۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء اڈے قائم کر رہا ہے.سکنڈے نیوین کنٹریز کے تین ملک ہیں ان میں سے ڈنمارک میں پہلے مسجد بن چکی ہے سویڈن میں میں اب بنیاد رکھ کر آیا ہوں.انشاء اللہ اگلے سال مسجد بن جائے گی اور ناروے رہ گیا تھا ان کو تاکید کی ہے کہ وہ وہاں پر زمین ڈھونڈ میں.میرا خیال ہے اور میری یہ دعا ہے اور آپ کی دعائیں بھی ساتھ ہونی چاہئیں کہ خدا ہمیں توفیق دے تو ۷۸.۱۹۷۷ء میں ناروے میں بھی مسجد بن جائے.پھر ہم اس علاقے سے یعنی سکنڈے نیوین کنٹریز سے اس لحاظ سے فارغ ہو جا ئیں گے کہ ابتدائی کام جو ایک ایک مسجد کا ہے وہ مکمل ہو گیا ہے کیونکہ ایک مسجد تو ابتدائی کام ہے ورنہ تو ہر محلے میں انشاء اللہ مساجد بنیں گی.تراجم قرآن: اس وقت فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ انگلستان میں طبع ہو رہا ہے.فرانسیسی بولنے والے علاقوں میں سے ماریشس میں اچھے پڑھے لکھے دوستوں کی جماعت ہے.ان میں سے ایک دوست پروف دیکھنے کے لئے لندن میں پہنچے ہوئے تھے اور جب میں واپس آیا ہوں تو وہ وہیں تھے وہ کہتے تھے کہ میں سارے پروف دیکھ کر اپنی تسلی کر کے واپس ماریشس جاؤں گا.خدا کرے کہ چند مہینے تک وہ ترجمہ تیار ہو جائے کیونکہ دنیا کی بہت بڑی آبادیاں فرانسیسی بولنے والی ہیں.ایک مسلمان ملک کے سفیر نے مجھے کہا کہ ہمیں آپ کے فرانسیسی ترجمے کی بڑی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے ہاں تو اس قسم کے ترجمے ہیں جن سے ہمیں تسلی نہیں ہوتی.آپ ہمیں جلدی ترجمہ دیں تا کہ ہم قرآن کریم کے علوم سے فائدہ اٹھائیں.یہ کام انشاء اللہ جلد ہو جائے گا.اسی طرح روسی زبان میں ترجمہ چھپنا چاہئے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا تھا ترجمہ تو ہو چکا ہے لیکن ہم اسے اس وقت تک شائع نہیں کروا سکتے جب تک ہمیں تسلی نہ ہو کہ اس کی زبان قابل اعتماد ہے.اس میں ہمیں پتہ نہیں کیا کچھ لکھ دیا ہے.کوئی شرارت کر کے بھی لکھ سکتا ہے یا عدم واقفیت کی وجہ سے بھی لکھا جاسکتا ہے.بہر حال ایسا مضمون لکھا جا سکتا ہے کہ جو صحیح نہ ہو.اس سلسلہ میں دعا کرنی چاہئے.یہ دعا بھی کریں کہ ہمیں اچھے زبان دان ملیں.انڈونیشیا میں ایک حصے کا ترجمہ ہو چکا ہے اور ایک حصے کا ہونے والا ہے.
خطابات ناصر جلد دوم ۱۱۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء چند دن ہوئے ہمارے ایران کے احمدی دوستوں نے مجھے ایران میں چھپے ہوئے قرآن کریم تحفتاً بھجوائے ان میں ایک تو قرآن کریم کا عربی متن بڑا ہی خوبصورت ہے اور پھر کھلا کھلا لکھا ہوا ہے جسے بوڑھا آدمی بھی بغیر عینک کے پڑھ سکتا ہے گویا اس کی ظاہری شکل بہت خوبصورت ہے.معلوم ہوتا ہے کہ شاہ ایران نے اسے بڑے پیار سے شائع کروایا ہے.شاہ ایران نے اس ایک نوٹ دیا ہے اور نیچے اس کے دستخط ہیں.دوسرا قرآن کریم حکومت نے ملکہ پہلوی کی طرف سے شائع کروایا ہے.اس میں مطالب کے متعلق تو بعد میں دیکھیں گے کہ انہوں نے کس شکل میں ترجمہ و تفسیر کی ہے لیکن اس کی ظاہری طرز وہی ہے جو تفسیر کبیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اختیار فرمائی ہے کہ ہر سورۃ سے پہلے اس سورۃ کے مضامین کا خلاصہ لکھ دیا ہے.ملکہ صاحبہ کے اس ترجمے میں اسی طرز پر انہوں نے ہر سورۃ سے پہلے اس کا خلاصہ لکھا ہے اور پھر تفسیر صغیر کی طرز پر ہر صفحے میں جس جگہ نوٹ دینے ہیں وہاں نوٹ دیئے ہیں.اس میں تو فیتنی کے معنے انہوں نے یہی کئے ہیں کہ تو نے مجھے مار دیا اور تفسیر آگے یہ کی ہے کہ مارنے کے بعد خدا نے پھر زندہ کیا اور آسمان پر لے گیا.اگر زندہ ہی آسمان پر لے کر جانا تھا تو وہاں یہ حکمت نہیں بتائی کہ پھر مارنے کی کیا ضرورت تھی.اللہ میاں اسی طرح زندہ کے زندہ ہی لے جاتے.بہر حال اس کی ظاہری طرز بہت اچھی ہے اور اس میں ملکہ فرح پہلوی کی طرف سے جو نوٹ ہے اس کی وجہ سے میرے دل میں ان کی بڑی قدر پیدا ہوئی.دراصل بادشاہ اور ان کی بیگم ایک ہی ہیں اس میں انہوں نے یہ لکھا ہے کہ ہم یہ ترجمہ اس لئے شائع کر رہے ہیں کہ ہمارے ملک کے باشندے قرآنی علوم سے واقفیت حاصل کریں اور اس کی برکات سے فائدہ اٹھانے والے ہوں.بڑی اچھی خواہش کا بڑے اچھے رنگ میں اظہار کیا گیا ہے.اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ ان کو قرآن کریم کے پھیلانے کی اور بھی زیادہ توفیق دے..تحریک جدید کی طرف سے سیکنڈری سکول تیرہ ، مڈل دس ، پرائمری اکاون ، عربی کا ایک اور مشنری ٹریننگ کالج ایک (جو غانا میں ہے ) یعنی کل چھہتر سکول کام کر رہے ہیں.میڈیکل سنٹر نائیجیریا میں دو ہیں اور گیمبیا میں ایک یعنی تحریک جدید کے کل تین میڈیکل سنٹر کام کر رہے ہیں.
خطابات ناصر جلد دوم وقف جدید ۱۲۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء وقف جدید کے بہتر معلمین کام کر رہے ہیں معلمین کا اپنے رنگ میں بہت فائدہ ہے لیکن ان کی تعداد کم ہے.دوست مجھے بھی لکھتے رہتے ہیں کہ ہمارے پاس معلم بھیجیں.یہ بچوں کو پڑھاتے ہیں اور تربیت کا کام کرتے ہیں لیکن اس کے لئے مناسب آدمی ملنے چاہئیں.انشاء اللہ اب ضرورت کے مطابق آدمی مہیا کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے گزارے کے لئے بھی سامان پیدا کر دے گا.فضل عمر درس القرآن کلاس ۱۹۷۵ء میں اس میں شامل ہونے والے طلبہ یعنی لڑکوں کی تعداد صرف چار سو اڑسٹھ ہے.جن میں سے بہت سارے یہاں بیٹھے ہوں گے لیکن جو ہماری بچیاں اس میں شامل ہوئی ہیں ان کی تعداد چھ سو سولہ ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ امتحان میں بھی لڑکوں سے آگے نکل جاتی ہیں.وہ بڑی توجہ دے رہی ہیں اور یہ بڑی خوشی کی بات ہے کیونکہ انہوں نے ماں بننا ہے اس لئے ان کو بھی تربیت لینی چاہئے لیکن میرا خیال ہے کہ اگر انہوں نے مائیں بننا ہے تو آپ نے بھی باپ بنتا ہے اور اگر ان ماؤں پر تربیت کی ذمہ واری ہے تو باپ ہونے کے لحاظ سے آپ پر بھی تربیت کی ذمہ واری ہے.پس قرآن کریم کے پڑھنے، سیکھنے اور اس پر غور کرنے کا ہر وقت مشغلہ رہنا چاہیئے.یہ کلاس تو ہم صرف عادت ڈالنے کے لئے منعقد کرتے ہیں ورنہ اصل بات تو یہ ہے کہ ہر گھر سوچ و بچار کے بعد کوئی وقت مقرر کر لے مثلاً یہ کہ صبح کی نماز کے بعد آدھا گھنٹہ یا مغرب اور عشاء کے درمیان آدھا گھنٹہ سوائے دین کی باتوں کے اور کچھ نہیں کریں گے.یہ میں مثال دے رہا ہوں اپنے حالات کے مطابق کرو.اگر ہر گھر یہ عہد کر لے تو اگلی نسل کو بڑا فائدہ ہوگا اور پھر آپ کو بھی پڑھنا پڑے گا.دیکھنا پڑے گا اور یا درکھنا پڑے گا.پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم بیکسوں کے درمیان یعنی انسان کے درمیان آج سے قریباً چودہ سو سال پہلے بہت ہی پیاری زندگی گزاری ہے.اتنی حسین زندگی ! کہ ہر پہلو اور ہر ورق آپ کی زندگی کا ہمارے لئے اسوہ ہے.اتنی عظیم ہے شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ اگر سارے انسانوں کی عقلوں کا نچوڑ نکالا جائے تو وہ نچوڑ بھی اس عظمت اور اس جلال کو نہیں سمجھ سکتا جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا.خدا تعالیٰ نے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۲۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنا پیار کیا او آپ کو آئندہ قیامت تک کے متعلق تسلیاں دیں اور آپ کو ایسی باتیں بتائیں کہ چودہ سو سال تک ان کو سمجھنے والا کوئی نہیں تھا اور چودہ سو سال کے بعد ایک دن ایک ڈینٹسٹ مجھے ملا، برش کے متعلق کوئی بات ہورہی تھی وہ شاید مجھے سمجھانے لگا کہ دانت صاف کرنے والا برش نچلے دانتوں کا نیچے سے اوپر اور اوپر کے دانتوں کا اوپر سے نیچے لے کر آئیں تا کہ مسوڑھے نہ چھلیں.میں نے کہا کہ تم نئی بات تو نہیں بتا رہے یہ تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے بتا چکے ہیں.کہنے لگا اچھا! مجھے اس کا حوالہ دیں.خیر وہ حوالہ نکال کر ان کو دیا گیا.اب اتنی سی چیز کا بھی آپ نے خیال رکھا.یہ بھی خیال رکھا کہ اپنے بوٹ کا تسمہ بھی خدا تعالیٰ سے مانگو.اُس زمانے میں تو تسمے والا بوٹ شاید خال خال ہی ہوتا ہو گا لیکن ایک ایسا زمانہ آنے والا تھا کہ قریباً ہر آدمی کے پاس تسموں والا بوٹ ہونا تھا اس لئے زیادہ تر اسی کو مخاطب کر کے کہا نا جس کو زیادہ ضرورت تھی کہ اگر تیرا تسمہ ٹوٹ جائے تو یہ نہ سمجھنا کہ میں خود بازار جا کر خرید سکتا ہوں بلکہ اپنے بوٹ کا تسمہ بھی اپنے پیار کرنے والے رب سے مانگنا اور یہ تو ایک آنکھیں رکھنے والے انسان کا مشاہدہ ہے کہ بہت سارے لوگ تسمہ لینے کے لئے گھر سے نکلے ہوں گے اور راستے میں ان کا ہارٹ فیل ہو گیا ہو گا اور وہ تسمہ بھی نہیں لے سکے ہوں گے.ایک شخص کے متعلق تو میں جانتا ہوں کہ وہ چند فرلانگ کے فاصلے پر اسٹیشن پر اپنے کسی عزیز کا استقبال کرنے کے لئے گھر سے نکلے.شاید ڈیڑھ فرلانگ کا فاصلہ ہوگا اور راستے میں ہارٹ فیل ہو گیا اور سائیکل سے گر کر مر گئے یہ ربوہ کا واقعہ ہے.پس زندگی اور موت تو نہ انسان کے اختیار میں ہے اور نہ اس کی کوئی فکر کرنی چاہئے.پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عظمت ہے کہ ایک دن آپ صحابہ میں بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے تو آپ نے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ میری امت میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو جائیں گے جو خروج مہدی کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ مہدی نے تو آنا ہی نہیں ہے یہ ساری حدیثیں وضعی ہیں لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ خروج مہدی کا انکار کرنے والے کا فر ہوں گے.یہ زمانہ جس میں خدا تعالیٰ نے اسلام کو غالب کرنا ہے یہ زمانہ جس کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کا پیار ہر انسان کے دل میں قائم ہوگا خواہ وہ امریکہ میں بسنے والا ہو یا روس میں بسنے والا ہو یا چین میں بسنے والا ہو یا جزائر کا رہنے والا ہو یا یورپ کی
خطابات ناصر جلد دوم ۱۲۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء طرف منسوب ہونے والا ہو.یہ زمانہ جس کے سپرد یہ کام کرنا تھا اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے اتنی باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور یہ بھی آپ کی عظمت ہی ہے نا.یہ قَابَ قَوْسَيْنِ (النجم : ١٠) والا مقام ہے.کسی نے اس کے متعلق یہ کہہ دیا کہ اِنَّ محمدا عشق ربَّة (المنقذ من الضلال صفحہ ۵۱) کہ محمد اپنے رب پر عاشق ہوگا اور کسی نے یہ کہہ دیا کہ فنا فی ربه کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں آپ فنا تھے آپ کی ساری زندگی ہمارے سامنے ہے اور وہ ہمارے لئے نمونہ ہے آپ نے چھوٹی بڑی ہر چیز کے متعلق ہماری رہبری کی اور ہمارے لئے اسوہ بنے.پس آپ کی بڑی عظمت ہے.تم اس عظمت میں فرق نہ آنے دینا تو خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو حاصل کرتے رہو گے.پس قرآن کریم کو سیکھو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا علم حاصل کرو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت یا آیت کے کسی ٹکڑے کی تفسیر ہے ورنہ تو یہ سمجھنا پڑے گا کہ قرآن کریم پر کچھ زائد کیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نعوذ باللہ قرآن کریم مکمل اور کامل نہیں ہے.یہ تو ہمارا ایمان نہیں ہے.اگر قرآن الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي ( المايدة : ٢) کا مصداق قرآن ہے تو پھر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ہر :۴) قول اور ہر ارشاد اس مکمل کتاب کی کسی آیت یا آیت کے کسی ٹکڑے کی تفسیر ہے زائد کچھ نہیں ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن: یہ اپنے رنگ میں ایک کام کر رہی ہے.۱۹۶۶ء میں اس کی ابتدا ہوئی تھی.ان کے عطیہ جات قریبا سینتیس لاکھ روپے تھے.انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اپنے سرمائے کو خرچ نہیں کریں گے بلکہ نفع دینے والی مختلف کمپنیوں کے حصے خرید کر ان میں سرمایہ لگائیں گے اور اس سے جو آمد ہوگی اس میں سے خرچ کریں گے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور ان کی آٹھ نو سال کی آمد تیرہ لاکھ چوالیس ہزار روپے ہوئی.اس کو انہوں نے خرچ کیا اور اس کے ذریعے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح ابھی شائع ہوئی ہے.آپ کے خطبات کی بھی ایک جلد شائع ہو چکی ہے تصانیف کے انعامی مقابلے ہوتے ہیں.لائبریری کی عمارت بنا کر جماعت کو دی گئی اور بڑا گیسٹ ہاؤس بنایا جا رہا
خطابات ناصر جلد دوم ہے.۱۲۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء نقشے کے مطابق اب اس کا ایک حصہ بن گیا ہے لیکن جتنی ہمیں ضرورت ہے اس کے مطابق دوسرا حصہ شاید جماعت خود بنائے کیونکہ اس پر جتنا خرچ آتا ہے ان کی اگلے دو تین سال میں اتنی آمد نہیں ہے.نصرت جہاں ریزروفنڈ ! جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء کے موقع پر میں نے اس کی تحریک کی تھی.شروع میں کم رقم کی تحریک کی تھی لیکن بعد میں میں نے کہا تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے جتنے سال ہیں اتنے لاکھ روپیہ جماعت جمع کر دے.اللہ تعالیٰ نے جماعت کو تو فیق دی اور جماعت نے اس میں ترپن لاکھ ترپن ہزار روپے ادا کئے ( یہ رقم ادا کی کیونکہ وعدوں کا وقت تو گزر چکا ہے) چنانچہ نصرت جہاں کا کل سرمایہ ترین لاکھ ترین ہزار کچھ سو ہے.جو دوست فضل عمر فاؤنڈیشن میں مختلف کمپنیوں کے حصص خرید کر اس کے نفع سے دینی کام کرنا چاہتے تھے انہوں نے مجھے بھی یہی مشورہ دیا.میں نے انہیں کہا کہ بات یہ ہے کہ جس سے میں تجارت کرتا ہوں وہ تو آٹھ فی صد یا دس فی صد یا بارہ صد فی نفع نہیں دیتا اور کمپنیوں میں تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دو سال نفع دیں اور تیسرے سال گھاٹا ظاہر کریں لیکن جس سے میں تجارت کرنا چاہتا ہوں وہ تو بغیر حساب دینے والا ہے پس میں تو اسی سے تجارت کروں گا چنانچہ کئی آدمیوں کی طبیعتوں میں انقباض پیدا ہوا کہ تر تین لاکھ کا سرمایہ ہو اور میں کہوں کہ ضرورت کے مطابق خرچ کرتے چلے جاؤ.کئی دوستوں نے سوچا کہ یہ کیا ہوگا.بعض مجھ سے دبی زبان میں ذکر کر دیتے تھے کہ بعد میں آپ کیا کریں گے.اس طرح تو روپیہ ختم ہو جائے گا لیکن جس سے میں نے تجارت کی اللہ اکبر ( حضور نے نعرہ لگایا ) اس نے ہمارے اعتماد کو اس طرح پورا کیا کہ افریقہ میں ہسپتالوں کی خالص بچت ملا کر نصرت جہاں ریزروفنڈ کی کل وصولی ایک کروڑ ستاسی لاکھ روپیہ ہوئی.ہسپتالوں سے آمد کی میں وضاحت کر دوں.نصرت جہاں کے ڈاکٹروں نے افریقہ میں کئی لاکھ غریبوں کا مفت علاج کیا ہے یعنی تشخیص بھی مفت کی اور دوائیاں بھی مفت دیں اور بعض لوگوں کی تشخیص مفت کی اور دوائی کی قیمت کا ایک حصہ لے لیا لیکن جیسا کہ میں ابھی بعض اقتباس پڑھ کر سناؤں گا.اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے بڑے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۲۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء بڑے صاحب اقتدار اور بڑے بڑے مالدار لوگوں کی طبیعتوں پر یہ اثر ڈالا کہ جماعت احمدیہ کے ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں خدا تعالیٰ نے شفا رکھی ہے اس واسطے وہاں جاؤ.چنانچہ جب امیر آدمی وہاں آتا تھا تو وہ اس سے پیسے لیتے تھے اور خوب پیسے لیتے تھے کیونکہ غریب آدمی پر خرچ کرنے ہیں ہم یہاں تو نہیں لے کر آتے.چنانچہ مختصراً اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نصرت جہاں ریز روفنڈ میں جماعت کے عطیے کی کل وصولی تو ترپن لاکھ ترین ہزار کے قریب تھی لیکن یہ ساری وصولیاں اور بچت ملا کر ایک کروڑ ستاسی لاکھ کی رقم بن گئی اور جماعت نے شروع میں جو تر پن لاکھ روپیہ بطور سرمایہ کے دیا تھا اس میں سے بھی ۲۷لاکھ روپیہ بھی ہمارے پاس موجود ہے اس کا مطلہ ہے کہ عملاً چھبیس لاکھ روپیہ خرچ ہوا ( ویسے خرچ تو زیادہ ہوا تھا لیکن پھر کچھ روپیہ واپس آ گیا.) چنانچہ اس وقت میرے سامنے جو شکل ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھبیس لاکھ روپیہ خرچ کروایا اور ہمیں ایک کروڑ ستاسی لاکھ روپیہ کی آمد ہوئی.گویا ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپیہ منافع ہوا اور اس رقم سے ہم نے وہاں ہسپتال بنائے جو کہ حکومت کے ضلعے کے ہسپتالوں سے بھی بڑے ہیں اور ان کی بڑی شاندار بلڈنگیں ہیں ان میں بڑا قیمتی سامان رکھا اور اوزار اور دوائیاں منگوا کر دیں اور بڑا خرچ کیا مثلاً آپریشن ٹیبل ہی تین ہزار پاؤنڈ میں آیا.میں نے شاید پچھلے سال بتایا تھا کہ وہاں کوئی یورپین سیکرٹری آگیا تھا اس نے کہا کہ جب تک تمہارے پاس پچاس ہزار روپے کی آپریشن ٹیبل نہیں ہوگی اس وقت تک تم آپریشن نہیں کر سکتے.اپنڈے سائیٹس کا مریض درد سے تڑپ رہا ہے لیکن تم اس کا آپریشن نہ کرو وہ بے شک مر جائے.یہ تو بڑا سخت تعصب تھا.جب تعصب آتا ہے تو اس قسم کی حرکتیں کیا کرتا ہے.خیر انہوں نے لکھا کہ یہاں آپریشن ٹیبل مل رہی ہے چونکہ ہمیں تنگ کر رہے ہیں اس لئے آپ اجازت دے دیں کہ ہم زائد رقم خرچ کر دیں.چنانچہ وہ دو ہزار پاؤنڈ کی بجائے تین ہزار پاؤنڈ میں مل رہی تھی یعنی ڈیڑھ گنا قیمت پر.میں نے کہا کہ لے لو.ہم وہاں ان لوگوں کا علاج کرنے کے لئے اور ان کی خدمت کرنے کے لئے گئے ہیں.وہ خود تو بڑے اچھے لوگ ہیں لیکن بعض غیر ملکی اس بات کو نہیں سمجھتے اور اس قسم کے لوگ کوئی تحکیم سے اور کوئی کہیں اور سے آئے ہوئے تھے اور یہ لوگ بیچ میں فتنہ پیدا کر رہے تھے.بہر حال ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپیران عمارتوں پر خرچ ہوا
خطابات ناصر جلد دوم ۱۲۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء جو ہم نے وہاں سکولوں اور ہسپتالوں کی بنائیں اور اس آپریٹیس پر خرچ ہوا اور ڈاکٹروں کی تنخواہوں اور سکول ٹیچر ز کی تنخواہوں پر جو خرچ ہوا وہ بھی اس میں شامل ہے.وہاں سولہ ہسپتال ہیں جن میں سے اکثر ایسے ہیں جن کی پوری عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں اور باقی ہسپتالوں کی عمارتیں بھی آہستہ آہستہ بن رہی ہیں.اللہ میاں پیسے دیتا جا رہا ہے.اُن لوگوں کو یہ پتہ ہے جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ جب پادری وہاں گیا تو وہ ان کی دولتیں لوٹ کر واپس لے آیا لیکن جب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ادنی غلام وہاں پہنچے تو وہ باہر سے بھی ان کے پاس روپیہ لے کر گئے اور جو کچھ انہوں نے وہاں کمایا تھا وہ بھی انہی پر خرچ کر دیا ایک دھیلہ بھی وہاں سے باہر لے کر نہیں گئے اور یہ مبالغہ نہیں ہے.ایک دھیلے کی رقم بھی جماعت احمدیہ نے ان ممالک سے باہر نہیں نکالی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں کے عوام بھی ہم سے پیار کرتے ہیں اور وہاں کی حکومتیں بھی ہمیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور یہ اللہ کا فضل ہے یہ کوئی میری اور تیری خوبی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے وہاں بڑا فضل کیا ہے.نیز اس نے جماعت کے نوجوان ڈاکٹروں کو وقف کی توفیق دی.۱۹۷۱ ء کے شروع سے کل بتیس ڈاکٹر وہاں گئے ہیں.بلکہ ۱۹۷۰ء کے آخر سے ہی سمجھیں اور اس وقت سولہ ڈاکٹر کام کر رہے ہیں باقی تبدیل ہو کر واپس آگئے.وہاں پر سولہ ہیلتھ سنٹر ہیں نیز وہاں سترہ سکول ہیں جن میں پینتیس اسا تذہ کام کر رہے ہیں.وہاں کے عمائدین کی آراء میں سے چند ایک یہ ہیں ( یہ آراء شروع سے لی گئی ہیں.) صدر جمہوریہ سیرالیون ڈاکٹر سٹیونسن نے ۲ / دسمبر ۱۹۷۱ء کو احمد یہ سیکنڈری سکول بو کے معائنہ کے وقت تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا.میں سب سے پہلے جماعت احمدیہ کا اس کام کے لئے جو یہ تعلیم کے میدان میں کر رہی ہے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں.اب اس جماعت نے تعلیم کے ساتھ ساتھ طبی میدان میں بھی ہماری مدد کرنی شروع کر دی ہے.میں ان تمام گرانقدر خدمات کے لئے جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں“ پھر غانا میں ۱۹۷۴ء میں احمد یہ ہسپتال اگونا کی نئی عمارت کا افتتاح کرنے سے قبل ریجنل
خطابات ناصر جلد دوم ۱۲۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء کمشنر نے تقریر کرتے ہوئے کہا:.میں گورنمنٹ کی طرف سے جماعت احمد یہ غانا کی دوراندیشی، عزم و ہمت اور کامیابی پر جو اس ہسپتال کی تعمیر سے ظاہر ہے اس کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.حکومت غانا جماعت احمدیہ کے اس کردار پر نہایت خوش ہے جو یہ ملک میں تعلیمی اور طبی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ادا کر رہی ہے جماعت احمدیہ کی غانا میں سرگرمیاں دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ملک بھر میں جابجا پھیلے ہوئے سکول اور ہسپتال اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ یہ جماعت ہمارے اس ملک کی تعمیر نو میں کس قدر حصہ لے رہی ہے.“ اسی طرح ۱۹۷۳ء میں غانا کے صدر مملکت کی طرف سے سالانہ کانفرنس میں ان کے جو نمائندے آئے تھے انہوں نے یہ کہا کہ ” غانا کی قومی کونسل ( یعنی صدر اور وزراء ) بہت ہی شکر گزار ہے کہ جماعت احمدیہ ایک لمبے عرصے سے ملک کی اقتصادی اور معاشرتی ترقی کے لئے مفید کام کر رہی ہے.جماعت احمد یہ ملک کے عوام کی طبی تعلیمی اور روحانی میدان میں جو شاندار خدمات بجالا رہی ہے ان سے لوگ متعارف ہیں اور وہ شکریہ کے لائق ہے.“ نائیجیریا کے کمشنر برائے تعلیم شمال مغربی سٹیٹ نائیجیر یا الحاج ابراہیم بساؤ نے فضل عمر احمد یہ سکینڈری سکول بساؤ کے افتتاح کی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا.یہ پہلا موقع ہے کہ ایک مسلم تنظیم اس امر کے لئے آگے بڑھی ہے کہ وہ ملک کی تعلیمی ترقی کے پروگرام میں حصہ لے.‘ ( یہ نیونائیجیرین اخبار کا حوالہ ہے ) اس کے علاوہ اور بہت سے حوالے ہیں ان کو میں چھوڑتا ہوں.صد سالہ جو بلی فنڈ : یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت برکت ڈالی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے ایسے آثار ظاہر ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی اس قربانی کو شرف قبولیت عطا کیا ہے اور آسمان کے فرشتے زمین کی تاریں ہلا کر ہمارے لئے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۲۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء اپنے منصوبہ کو کامیاب کرنے کی سہولتیں پیدا کر رہے ہیں.جیسا کہ صد سالہ جو بلی کے ایک منصوبہ یعنی سویڈن کی مسجد سے ظاہر ہے.میں نے غالباً پہلے کسی خطبہ میں بھی بتایا تھا چونکہ جلسہ میں ساری جگہوں سے دوست آئے ہوئے ہیں اس لئے اب پھر بتا دیتا ہوں جس وقت ہم مسجد کے افتتاح کے لئے لندن سے روانہ ہوئے تو انگلستان میں اتنی تیز موسلا دھار بارش ہو رہی تھی کہ وہاں ایسی بارش کم ہی ہوتی ہے اور جب ہم اگلے دن شام کو وہاں پہنچے تو میں نے موسم کے متعلق پتہ لیا کہ موسمی پیشگوئیاں کرنے والوں کی کیا رائے ہے.انہوں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ اگلے دو تین دن بڑی بارش ہوگی اور موسم اچھا نہیں ہوگا بلکہ خراب رہے گا اور دھوپ نہیں نکلے گی.میں نے پہلے ایک دعا کی لیکن پھر میں نے سوچا کہ وہ دعا ٹھیک نہیں ہے.میں نے یہ دعا کی تھی کہ اے خدا ہم تیری مسجد کے افتتاح کے لئے آئے ہیں تیری مسجد ہے تو موسم ٹھیک کر دے یعنی بیچ میں اپنا حصہ رکھ لیا.پھر میں نے سوچا کہ یہ تو غلطی کی ہے چنانچہ پھر اس کے بعد میں نے یہ دعا کی کہ اے خدا! تیرے گھر کی بنیا در رکھنے کے لئے ہم اکٹھے ہو رہے ہیں قرآن کریم کہتا ہے کہ اَنَّ الْمَسْجِدَ لِله (الحسن : ۱۹) کہ مسجد اللہ کا گھر ہے اور مسجد پر کسی اور کی ملکیت اسلام تسلیم ہی نہیں کرتا.اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلہ.پس تیرے گھر کی تیری عبادت گاہ کی بنیاد رکھنے کے لئے جس موسم کی تیرے نزدیک ضرورت ہے وہ ہمیں دے دے.صبح جب ہم اٹھے تو ڈرتے ڈرتے دیکھنا شروع کیا کہ باہر موسم کیسا ہے دیکھا تو باہر دھوپ نکلی ہوئی تھی.یعنی اس وقت آسمان صاف تھا.چنانچہ ہم وہاں گئے اور دھوپ میں وہ سارافنکشن ہوا.وہ بالکل Out of the way جگہ ہے.دنیا کے ایک طرف پڑی ہوئی ہے لیکن وہاں پر عیسائی بھی آئے ہوئے تھے اور وہاں تین سو سے زیادہ احمدی تھے وہاں ہمارا آرکیٹیکٹ (Architect) بھی تھا اس کو بڑا سخت انفلوئنزا ہوا ہوا تھا اور اسی حالت میں وہ شوق میں اٹھ کر آ گیا اور مجھے بھی انفلوئنزا لگا دیا.وہاں ٹھیکیدار بھی تھا.عیسائیوں کی کچھ ایسوسی ایشنز کے لیڈر بھی یہ تقریب دیکھنے کے لئے آئے ہوئے تھے.وہاں پر یوگو سلاو تھے، سویڈیش تھے، جرمن تھے، ڈنمارک کے احمدی تھے اور ناروے کے ملک کے اپنے احمدی تھے.غرض وہاں پر یورپین ممالک کے اپنے احمدی تھے جو لوگ وہاں جا کر بس گئے ہیں ان میں سے احمدی تھے اور جو وہاں کام کر رہے ہیں وہ احمدی تھے وہ
خطابات ناصر جلد دوم ۱۲۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء سب وہاں اکٹھے ہو گئے تھے.خدا تعالیٰ نے ہمیں بڑا اچھا موسم دیا.ہم نے کہا لو! ہم نے خدا سے یہ کہا تھا کہ تیرے گھر کے لئے جس قسم کے موسم کی تیرے نزدیک ضرورت ہے وہ ہمیں دے دو ہم اپنا گھر تو بنانے نہیں جار ہے اور خدا تعالیٰ نے ہمیں بڑا اچھا موسم دے دیا.وہاں انہوں نے ایک خیمہ لگایا ہوا تھا اس ڈر سے کہ بارش ہوگی تو کام خراب نہ ہو جائے لیکن اس کی بھی ضرورت نہیں پڑی.پھر وہاں پر کچھ مسلمانوں نے اس کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی.وہ ابھی سمجھتے نہیں انھم لا يعلمون.اس واسطے ایسی بات سن کر ان کے لئے دعائیں کیا کرو.ایسی بات میں اس واسطے نہیں بتاتا کہ آپ کو غصہ چڑھے بلکہ اس لئے بتاتا ہوں کہ باجع والی کیفیت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پیدا ہوئی تھی وہ آپ کے دلوں میں بھی ان کے لئے پیدا ہو اور آپ ان کے لئے تڑپ کر دعائیں کریں.انہوں نے کہا کہ یہ تو تھوڑے ہیں ان کو کیوں زمین دے رہے ہو ہم زیادہ ہیں ہمیں زمین دو.ایک احمدی کو پتہ لگاوہ کارپوریشن کے دفتر میں پہنچ گیا اس نے کہا بات یہ ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ ہم تھوڑے ہیں اور وہ زیادہ ہیں لیکن ان سے یہ پوچھو کہ اگر تم نے ان کو زمین دے دی تو کیا وہ احمدیوں کو اپنی مسجد میں نماز پڑھنے دیں گئے ؟ وہ نہیں پڑھنے دیتے اور ہماری یورپ کی ساری مساجد میں جس فرقے کا جو شخص بھی نماز پڑھنے کے لئے آئے وہ نماز پڑھ سکتا ہے.بعض موقعوں پر عید کی نماز کے لئے دو دو ہزار غیر احمدی وہاں آئے ہیں اور انہوں نے وہاں نمازیں پڑھی ہیں.کوئی جھگڑانہیں ہوتا.اس واسطے اگر تم نے ان کو زمین دی تو پھر بھی تم کو ہمیں زمین دینی پڑے گی کیونکہ ہمیں تو انہوں نے اپنی مسجد کے اندر گھنے نہیں دینا لیکن اگر ہمیں زمین دی تو پھر ان کو دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہماری مسجد کے دروازے ان کے لئے کھلے ہیں وہ بڑی خوشی سے آئیں اور نماز پڑھیں.ان کو یہ مسئلہ سمجھ آ گیا.انہوں نے کہا اچھا آپ تو لیں ان کے ساتھ ہم بعد میں نپٹ لیں گے.یہ بھی خدا کی شان ہے.وہ خود ہی عقل اور فراست عطا کرتا ہے.بہر حال یہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں.وہ ہمیں جو مرضی سمجھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہم انہیں اپنے مسلمان بھائی سمجھتے ہیں یعنی وہ امت محمدیہ کے فرد ہیں لیکن انہوں نے غلطی کی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم فرزند روحانی جس کے ذریعہ سے آج اسلام غالب آیا ہے اس کو ابھی پہچانتے نہیں.خدا کی تقدیر تو بہر حال پوری ہوگی.یہ نہیں پہچانتے تو ان کی نسلیں پہچا نہیں
خطابات ناصر جلد دوم ۱۲۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء گی اور ان کی نسلیں اس وقت کی نسل کے احمدیوں کو دعائیں دیں گی اور اپنے باپ دادوں کے متعلق کڑھا کریں گی کہ کیا ہو گیا تھا ان کو انہوں نے پہچانا کیوں نہیں اپنے وقت پر.بہر حال یہ ہمارا عقیدہ ہے اور اس پر ہم پختگی کے ساتھ قائم ہیں.ہم ان کو دائرہ اسلام کے اندر سمجھتے ہیں لیکن ہم ان کو مہدی کے منکر بھی سمجھتے ہیں اور وہ خود بھی کہتے ہیں کہ ہم منکر ہیں.اس میں تو ہمارا کوئی جھگڑا نہیں.اس میں بھی اتفاق ہے.کیونکہ اگر جھگڑا ہو تو وہ کہہ دیں کہ نہیں ! ہم تو ان کو مانتے ہیں تم غلط سمجھتے ہو اور جھگڑا ختم ہو جائے گا.ہمارا تو کوئی اختلاف ہی نہیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے ہر انسان سے ہمدردی کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.جو شخص خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے.اس کے لئے بھی ہم دعائیں کرنے والے ہیں.جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بکواس کرتا ہے اس کے لئے بھی ہم دعائیں کر رہے ہیں تو وہ جو اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر رہے ہیں.کا خر کنند ، دعوی حبّ پیمبرم ( در نمین فارسی صفحه ۱۰۷) ان کو ہم اپنی دعاؤں سے کیسے نکال سکتے ہیں.ان کے لئے ہمارے دل میں ہمدردی اور غمخواری کیسے نہیں پیدا ہوسکتی اور ان کے دکھوں کو دور کرنے کے لئے اور ان کو سکھ پہنچانے کے لئے ہم کیوں قربانی نہیں دیں گے.پس یہ ہمارا مذہب ، ہمارا عقیدہ، ہمارا عمل ، ہمارا جذبہ اور ہماری خواہش ہے اور ہماری دعائیں ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اس مقام سے کبھی ادھر ادھر نہ ہٹنے دے.سویڈن کی مسجد تو ابتدا ہے میں نے بتایا ہے کہ پھر اوسلو کی مسجد بنے گی وہ بھی صد سالہ جوبلی منصوبہ کے تحت بنے گی.اللہ تعالیٰ نے پچھلے دو سال میں جماعت پر بے حد فضل کیا ہے.دسمبر ۱۹۷۳ء میں جب کہ سال ختم ہو رہا تھا میں نے صد سالہ جوبلی منصوبہ کا اعلان کیا تھا.پھر ۱۹۷۴ء آ گیا وہ مرکز کے لئے ایک ابتلا کا اور ایک دکھ کا سال تھا بہر حال وہ گزر گیا اور پھر اب ۱۹۷۵ ء ختم ہو رہا ہے.ان دو سالوں میں اتنی رقم جمع ہو گئی ہے جتنی کہ نصرت جہاں کی تین سالوں میں جمع ہوئی تھی اور وہ امن کا زمانہ تھا اور احمدی چھلانگیں مارتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اور آ کر کہتے تھے کہ جی ہماری تجارتوں میں اور ہماری آمدنیوں میں بڑی ترقی ہو رہی ہے بڑے امن و امان میں ہم زندگیاں گزار رہے ہیں اُس وقت خدا تعالیٰ نے ان کو عام لازمی چندوں اور دوسرے نیم لازمی
خطابات ناصر جلد دوم ۱۳۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء چندوں کے علاوہ ان تین سالوں میں ترتین لاکھ روپے ادا کرنے کی توفیق دی تھی اور اب وہ جو فساد کا سال، آگ کا سال ، لوٹ کا سال، نفرت کا سال ، حقارت کا سال تھا اور ہماری طرف سے ان کے لئے دعائیں کرنے کا سال ، ان کی خاطر گڑ گڑانے کا سال اور اپنے رب کے حضور جھک کر اس کو یہ کہنے کا سال تھا کہ خدایا ان کو اپنے غضب اور قہر سے محفوظ رکھ اور ان کے لئے اپنی رحمتوں کے سامان پیدا کر.اس میں ہم اپنی جگہ اپنا کام کرتے رہے اور خدا کے فضل سے ہم نے دیکھا کہ خدا نے ہماری نیک نیتوں اور مخلصانہ دعاؤں کا یہ بدلہ دیا کہ ان دوسالوں میں جماعت نے اس میدان میں اتنی قربانی دے دی جتنی کہ اس سے پہلے تین سالوں میں نصرت جہاں ریز روفنڈ میں دی تھی.۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو ہماری نیشنل اسمبلی نے یہ قرارداد پاس کی کہ دستور یا قانون کی اغراض کے لئے احمدی مسلمان نہیں سمجھے جائیں گے.یہ ہے قرار داد که دستور یا قانون کی اغراض کے لئے احمدی مسلمان نہیں سمجھے جائیں گے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ شریعت حقہ مسلمہ کا وہ فقہی حصہ جس کو قانون میں باندھا جا چکا ہے اس کے متعلق پھر وہ یہ کہیں گے کہ جب قانون کی اغراض کے لئے آپ کو مسلمان نہیں سمجھا جائے گا تو شریعت کے اس حصہ کا جو قانون بن چکا ہے اس کا آپ کے اوپر اطلاق بھی نہیں ہوگا.یہ نتیجہ تو واضح ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہمارے جو آپس کے فقہی تعلقات ہیں.جن کو فقہ اسلامیہ یا فقہ یا قانون باندھتا ہے اور جن کی تدوین کرتا ہے ان کے متعلق فیصلے وہ قانون کرے گا وہ ہم نہیں بنائیں گے یہ نتیجہ تو نہیں نکلتا دنیا کی کوئی عقل سے ستمبر کے فیصلے سے یہ نتیجہ نہیں نکالتی.اس واسطے یہ ضروری ہو گیا کہ ہم فقہ احمدیہ کی تدوین کریں اور اس وقت میں اس کا اعلان کرتا ہوں.کچھ دوست میں نے کام پر لگائے تھے چنانچہ نکاح اور ورثہ کے متعلق فقہ احمدیہ کے دو بابوں کا ابتدائی کام ہو چکا ہے.ہم اپنی یہ فقہ جماعت کی شوریٰ میں پیش کریں گے اور جماعت فیصلہ کرے گی کہ یہ فقہ ہے جس کے قانون کی پابندی جماعت احمد یہ کرے گی اور جس کے قانون کی پابندی اگر حکومت نے کروانی ہوئی تو وہ جماعت احمدیہ سے کروائے گی یہ نہیں کہ زید اور بکر جس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں وہ ہمارے لئے قانون بنانا شروع کر دے.ی اتنی نا معقول بات ہے کہ کوئی سین ( sane) آدمی اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.پس
خطابات ناصر جلد دوم ۱۳۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء آپ بے فکر رہیں.مجھے اعلان کرنے کی اس لئے ضرورت پڑی کہ کئی آدمیوں کے کانوں میں جب یہ باتیں پڑیں تو وہ پریشان ہوئے اور ان کا پریشان ہونا قدرتی تھا اور میں جماعت کو بلا وجہ پریشانی میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا.اس واسطے میرے لئے یہ ضروری ہو گیا کہ میں اس جلسہ میں اس کا اعلان کر دوں.اس جلسہ میں کہ جس کی تعداد اگر چہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف سولہ سترہ ہزار ہے کل صبح بھی سواری کا صحیح انتظام نہیں ہو سکا تھا.میں نے کل بھی بتایا تھا کہ میرے لئے کل کی رات اور اس سے پہلی دو راتیں تکلیف میں گزریں کیونکہ ہماری عورتیں اور بچے اور ہمارے مرد مختلف سٹیشنوں اور اڈوں پر پڑے رہے اور ان کے لئے سواری کا انتظام نہیں ہو سکا.بہر حال اگر نا اہلی کا مقابلہ احمدیت کے عزم کے ساتھ ہو گا تو آپ کو یہ ثابت کرنا چاہئے کہ احمدیت کا عزم ہی بالا رہے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.چنانچہ لوگ جلسہ پر پہنچ گئے.تکلیفیں اٹھا کر پہنچے ، وقت سے بے وقت پہنچ مگر ٹھہرا تو کوئی نہیں اور واپس بھی کوئی نہیں گیا.احمدی دماغ اتنا ذہین ہے اور ہماری فکروں کو دور کرنے والا ہے کہ مجھے اس بات کی پہلی خبر کہ سواریاں ٹھیک نہیں مل رہیں اس بات سے ملی کہ (حالانکہ اور کوئی ذریعہ نہیں تھا ) انہوں نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ جو بسیں آ رہی ہیں ان میں عورتیں زیادہ ہیں اور مرد کم ہیں.اس وقت میں ٹھٹکا کہ ضرور کوئی گڑ بڑ ہے.اگر بس میں اڑتالیس سواریاں بیٹھتی ہیں تو وہ اپنی چالیس عورتوں اور بچوں کو بٹھا دیتے ہیں اور آٹھ مرد ساتھ کر دیتے ہیں اور باقی مرد کہتے ہیں کہ ہم یہاں بیٹھتے ہیں بعد میں آ جائیں گے رات سردی میں گزار لیں گے.جس قوم کے افراد نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ، جس قوم کے افراد نے نوع انسانی کی خدمت کے متعلق کچھ باتیں سننے کے لئے ، جس قوم کے افراد نے خدا تعالیٰ کی ان : رحمتوں کے متعلق واقعات سننے کے لئے آنا ہے جو اس خدمت کے نتیجہ میں نازل ہوئیں یا آئندہ جو اس کی رحمتیں نازل ہوں گی جن کے نتیجے آگے نکلیں گے وہ تو آئیں گے اس جلسہ کے لئے.وہ شام کو نہیں پہنچیں گے تو اگلے دن صبح پہنچ جائیں گے، اگلے دن صبح نہیں پہنچیں گے تو دو پہر کو پہنچ جائیں گے ( اور مجھے یہ علم ہوا ہے کہ آج دو پہر تک بھی رکے ہوئے مسافر اسی طرح آتے رہے ہیں لیکن اگر اس جلسے میں کوئی بندر کے اور ریچھوں کے تماشے ہوتے یا کتوں کی لڑائی دکھائی جانی ہوتی یا بچوں کے لئے چکر ہوتے اور اس سے انہوں نے خوش ہونا ہوتا تو بہت سارے لوگ کہتے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۳۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء کہ ہمارے ارد گرد بھی کافی کتے بستے ہیں کتوں کی لڑائی تو وہاں دیکھ لیں گے جلسہ پر جا کر کیا کرنا ہے لیکن جنہوں نے خدا تعالیٰ کی بشارتوں کو پورا ہوتے دیکھنا ہے.کیونکہ یہاں آپ انہیں دیکھتے بھی ہیں اور خدا تعالیٰ کی جو بشارتیں پوری ہوئی ہیں ان کے متعلق باتیں سننے کے لئے یہاں آنا ہے وہ تو خدا کے لئے ، اس کی رضا کے لئے ، اس کے پیار میں مست ہو کر ہزار روکوں کو پھلانگتے ہوئے بھی یہاں پہنچ جائیں گے اور پہنچ گئے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے.السّلام عليكم ورحمة الله و بركاته از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ ) 谢谢谢
خطابات ناصر جلد دوم ۱۳۳ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۵ء جماعت کو اسلامی آداب و اخلاق کے بارہ میں متوجہ کرنے کے عظیم علمی جہاد کا اعلان اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۵ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج صبح کے اجلاس میں جب بارش ہو رہی تھی تو منتظمین جلسہ نے مجھ سے پوچھا کہ جانے کا کیا پروگرام ہوگا.مجھے شبہ پڑا کہ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بارش اسی طرح جاری رہی تو میں جلسہ گاہ میں نہیں جاؤں گا.میں نے ان سے کہا کہ خواہ موسلا دھار بارش ہی کیوں نہ ہو رہی ہو میں جلسہ گاہ میں ضرور جاؤں گا اور اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر اس بارش کا مزہ لوں گا.جب بارش ہو رہی تھی.اس وقت احباب نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے یہاں بیٹھ کر دین اسلام جو قیامت تک زندہ رہنے والا مذہب ہے اس کی باتیں سنیں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کا ہمیں یہ جلوہ دکھایا کہ بارش بند ہوگئی اور موسم بڑا اچھا ہو گیا.پس آؤ ہم سب مل کر خدا تعالیٰ کی حمد میں اس کی تکبیر کا نعرہ لگائیں ( اس موقع پر نعرہ ہائے تکبیر اور دوسرے نعروں سے جلسہ گاہ گونج اٹھی ) جیسا کہ میں نے پہلے دن بتایا تھا اس سال سفر کی سہولتیں مناسب طور پر میسر نہیں تھیں.بعض لوگوں کا شاید یہ خیال ہو کہ جلسہ میں اس دفعہ کم احمدی شامل ہوں گے اور انہیں ہنسی کا موقع ملے گا.کل کی حاضری ( اور آج اس سے زیادہ ہے ) زنانہ اور مردانہ جلسہ گاہ کے اندر کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ ایک ہزار سات سو سے زائد ہے.جلسہ گاہ میں بیٹھنے کے مختلف احاطے.ہوئے ہیں ان میں ہمارے رضا کار گنتی کرتے ہیں اور ان اعداد و شمار میں وہ ہزاروں دوست شامل نہیں جو جلسہ گاہ سے باہر بیٹھے جلسہ سن رہے ہوتے ہیں اور ہمارے وہ ہزاروں احمدی دوست جن میں بڑی بھاری تعداد ربوہ میں رہنے والوں کی بھی ہے اپنی اپنی جگہ پر اپنی ڈیوٹیوں پر کھڑے ہوتے ہیں میرا اندازہ یہ ہے کہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے اللہ تعالیٰ نے اپنے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۳۴ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء پیار کا ہمیں یہ نشان دکھایا کہ جلسہ میں سوالاکھ سے زیادہ احمدی اکٹھے ہو گئے اور ان میں ہمارے وہ دوست بھی شامل ہیں جو ابھی احمدی نہیں ہوئے.اسلام ایک کامل مذہب ہے خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا.اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ ( المايدة : ٤) اور خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انسان کو مخاطب کر کے ہے اعلان فرمایا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین ہیں یہ کامل اور مکمل مذہب محض چند باتوں کا نام نہیں جیسا کہ عام طور پر لوگوں کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ کوئی زائد یا وسیع ذمہ داریاں نہیں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نماز پڑھ لی خواہ اوپرے منہ ہی سے نماز کے کلمات کہہ دیئے.یا روزے رکھ لئے خواہ پراٹھے کھا کر ہی کیوں نہ رکھے ہوں ، اگر زکوۃ کی توفیق ہوئی تو زکوۃ دے دی اور اگر حج کی توفیق ہوئی تو حج کر لیا زبان سے صرف کلمہ پڑھ لیا اور یہی گویا کافی ہو گیا یا بعض اخلاق کے متعلق چند باتیں ذہن میں ہوتی ہیں لوگ ان کا نام لے دیتے ہیں حالانکہ یہی باتیں تو انسانی زندگی کا کمال نہیں اور نہ ہی یہ باتیں ان قوتوں اور طاقتوں کا احاطہ کر سکتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اسلام بنیادی طور پر دو چیزوں میں منقسم ہے ایک تو حقوق اللہ ہیں جنہیں انسان کو ادا کرنا چاہئے اور ایک انسان کے حقوق ہیں جن کی طرف توجہ کرنی چاہئے جب یہ پورے طور پر ادا ہو جائیں تو انسان پورے طور پر اور کامل طور پر مسلمان بن جاتا ہے.جہاں تک حقوق اللہ کا سوال ہے اس سلسلہ میں میں اس وقت تفصیل میں تو نہیں جاؤں گالیکن اس کا جو آئیڈیل ہے یعنی جیسا کہ ہر ایک کو بنے کی کوشش کرنی چاہئے وہ بیان کروں گا تاہم ہر شخص اپنے دائرہ استعداد کے اندر رہتے ہوئے ان مدارج کو طے کرتا اور خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرتا ہے.میں اس بات کو واضح کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھوں گا.آپ فرماتے ہیں:.”انسان کا اپنی ذات کو اپنے تمام قوی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دینا اور پھر اپنی معرفت کو احسان کی حد تک پہنچا دینا یعنی ایسا پردہ غفلت درمیان سے اٹھانا کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے یہی اسلام ہے پس ایک شخص کو مسلمان اس وقت کہہ سکتے ہیں کہ
خطابات ناصر جلد دوم ۱۳۵ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۵ء جب یہ تمام قوتیں اس کی خدا تعالیٰ کی راہ میں لگ جائیں اور اس کے زیر حکم واجب طور پر اپنے اپنے محل پر مستعمل ہوں اور کوئی قوت بھی اپنی خودروی سے نہ چلے یہ تو ظاہر ہے کہ نئی زندگی کامل تبدیلی سے ملتی ہے اور کامل تبدیلی ہرگز ممکن نہیں جب تک انسان کی تمام قو تیں جو اس کی انسانیت کا نچوڑ اور لب لباب ہیں اطاعت الہی کے نیچے نہ آجائیں اور جب تمام قوتیں اطاعت الہی کے نیچے آ گئیں اور اپنے نیچرل خواص کے ساتھ خط استقامت پر چلنے لگیں تو ایسے شخص کا نام مسلمان ہوگا است بیچن روحانی خزائن جلده اصفحه ۱۴۷، ۱۴۸) پس یہ تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک آئیڈیل ہے اور ہر مسلمان کو یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کے جو احکام ہیں ان کے ماتحت اپنی زندگی گزارے اور اپنی تمام طاقتوں کو خدا تعالیٰ کے حوالے کر دے.اگر وہ یہ مطالبہ کرے کہ اس کی راہ میں جان قربان کی جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح اپنی گردن چھری کے نیچے رکھ دے اور جب خدا تعالیٰ یہ کہے کہ نہیں ! میں نے تمہاری جان تو نہیں مانگی تھی.میں نے تو یہ کہا تھا کہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ میری راہ میں قربان کر دو تو اس پر بھی وہ لبیک کہیں.یعنی وہ یہ کہیں کہ ہم اس پر بھی ایمان لائے.اس پر بھی اسلام لائے اور جہاں تک حقوق اللہ کا سوال ہے یہ بھی ایک اہم مضمون ہے اس کی تفاصیل کو جماعت کے سامنے بیان کرنا بہت ضروری ہے لیکن اس وقت اس کی تفصیل میں جائے بغیر اسے تقریر میں شامل کرتے ہوئے میں آخر میں ایک عظیم جہاد کا اعلان کروں گا.اسلام کا دوسرا حصہ حقوق العباد کی ادائیگی ہے حقوق العباد کی ادائیگی کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.إِنَّمَا بُعِثْتُ لا تَمِّمَ مَكَارِمَ الاخلاق ( الثفاء - الباب الثانی ) کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکارم اخلاق کو کامل کر دینے کے لئے اور ان کے اتمام کے لئے بھیجا گیا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے علاوہ تو کچھ نہیں لائے مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی ساری تعلیم انسان کی ساری قوتوں اور استعدادوں کے متعلق انسان کی رہنمائی کرتی ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں انسانی زندگی کے ہر پہلو میں ایک عظیم انقلاب نمودار ہوا کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.وہ باتیں جو اس وقت ہمارے اکثر دوستوں کے علم میں نہیں آتیں ان پر بھی صحابہ کا
خطابات ناصر جلد دوم ۱۳۶ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء روز مرہ کا عمل اور دستور تھا.وہ اس پر عمل پیرا تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کی طرف مبعوث فرمایا تو آپ نے فرمایا کہ جس تہذیب اخلاق کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوی کیا تھا اور جن مکارم اخلاق کا اتمام کیا تھا اور گویا آپ پر اتمام نعمت ہو گئی تھی اسی تہذیب اخلاق کے لئے خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ ساری دنیا میں اسلامی اخلاق کی تہذیب کی جائے.تہذیبیں بھی مختلف ہوتی ہیں لیکن ہم محاورہ اسلامی تہذیب کہہ سکتے ہیں جسے دنیا میں قائم کرنے کے لئے آپ کو بھیجا گیا ہے.اب ایک تہذیب امریکہ کی ہوگی.ایک یورپ کے مختلف ملکوں کی ہوگی.تاریخ میں یورپ کی تہذیب بہت مشہور رہی ہے پھر اس کے بعد ایک روس کی تہذیب آگئی مگر بڑے فرق کے ساتھ ، پھر اب اور زیادہ فرق کے ساتھ چین کی تہذیب آگئی لیکن مہدی علیہ السلام جن کو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم روحانی فرزند بنا کر دنیا کی طرف بھیجا آپ کی بعثت کا اصل مقصد تہذیب اخلاق ہے.اخلاق کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف قوتیں اور استعداد میں دی ہیں اور جیسا کہ میں مختلف مضامین کے سلسلہ میں متعدد بار بتا چکا ہوں انسان کو جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی طاقتیں دی گئی ہیں لیکن جسمانی طاقتوں اور ذہنی طاقتوں اور اخلاقی طاقتوں اور روحانی طاقتوں کی تہذیب کے لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ احکام جاری کئے ہیں اگر ان طاقتوں کو ان کے حال پر چھوڑا جائے تو قرآن کریم کہتا ہے کہ پھر انسان کا نفس امارہ ان طاقتوں کا استعمال کچھ اس رنگ میں کرتا ہے کہ وہ نیکی کی طرف لے جانے کی بجائے بدی کی طرف لے جاتا ہے لیکن جس مقصد حیات کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے یعنی یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کے حقوق کو کامل طور پر ادا کرے لیکن نفس امارہ کی وجہ سے وہ ان حقوق کو ادا نہیں کر سکتا اور ذمہ داری کو بجالا نہیں سکتا.غرض انسان کی طبعی حالتوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے میں اس میں نہیں جاؤں گا.کیونکہ میرا مضمون کچھ مختلف ہے آپ نے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو قو تیں اور استعدادیں دیں اور جوارح دیئے مثلاً ہمیں آنکھ دی اور کان دیئے اور زبان دی اور دوسری جسمانی طاقتیں دیں ان کو ترقی دے کر اخلاقی حالت میں لانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نظام قائم کیا.ایک تو اندرونی نظام ہے.ہر ایک انسان کے ساتھ جہاں نفسِ امارہ لگا ہوا ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۳۷ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء جو اس کو برائی کی طرف لے جاتا ہے وہاں اس کو نفس تو امہ بھی عطا ہوا ہے جب انسان غلطی کرتا ہے تو وہ احساس دلاتا ہے کہ اے انسان! تجھے اس غرض کے لئے پیدا نہیں کیا گیا تھا تجھے با اخلاق انسان بننے کے لئے پیدا کیا گیا تھا.اخلاق کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے.یہ ایک پرانا محاورہ ہے ایک کو ہم اسلامی آداب کہتے ہیں اور ایک کو ہم اسلامی اخلاق کہتے ہیں.مثلاً اگر آداب کو لیں تو اس کا مقصد یہ ہے کہ وحشی انسان کو جس نے اپنے طبعی قومی کے غلط استعمال کے نتیجہ میں اس مقصد سے دور لے جانے کی سعی کی تھی جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے اس وحشت کے مقام سے اٹھا کر اسے انسان بنانا چاہئے یہ ترقی کا پہلا قدم ہے اور وحشی انسان کو حقیقی انسان، انسانیت کے لحاظ سے بنانے کے لئے اسلام نے آداب سکھائے ہیں اور ایک دو نہیں سکھائے بلکہ ہزاروں آداب سکھائے ہیں.ان کی چند مثالیں میں اس وقت دوں گا.مثلا کھانا ہے کتا بھی کھاتا ہے.جن لوگوں نے پالتو کتے رکھے ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے سامنے پرات میں کھانا رکھ دیا جاتا ہے.کتا اپنے سامنے سے نہیں کھا تا بلکہ وہ کبھی ادھر منہ مار رہا ہوتا ہے اور کبھی ادھر منہ مار رہا ہوتا ہے اور کھائی جارہا ہوتا ہے.اس کا مقصد صرف کھانا ہے اس کا مقصد ادب کے ساتھ کھانا نہیں ہے.وہ اس کے لئے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے لیکن ایک انسان کا مقصد کتے کی طرح کھانا نہیں ہے انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ انسان بنے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی.كُلْ بِيَمِيْنِكَ وَكُلْ مِمَّا يَلِیکَ (صحیح بخاری کتاب الاطعمة ) اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور رکابی کے سامنے والے حصے سے کھاؤ.اب بد قسمتی ہے کہ جس امت کو اس کے ہادی نے اتنی تفصیل میں جا کر وحشی سے انسان بنانے کی کوشش کی تھی انہوں نے مغرب کی نقل میں بائیں ہاتھ سے کھانا شروع کر دیا کیونکہ بائیں ہاتھ سے کھانے والے ان علاقوں میں حاکم رہے.حالانکہ سارا مغرب بھی بائیں ہاتھ سے کھانا نہیں کھاتا مثلاً امریکن ہیں وہ عموم بائیں ہاتھ سے نہیں کھاتے بلکہ دائیں ہاتھ سے کھاتے ہیں مگر یورپین لوگ سُستی کے نتیجہ میں کہ جی ہم نے چھری اور کانٹے سے کھانا ہے اور چھری کا استعمال زیادہ اچھا ہے اور یہ دائیں ہاتھ سے ہو سکتا ہے بائیں ہاتھ سے نہیں ہوسکتا.اس لئے بوٹی یا تر کاری یا کوئی اور چیز کاٹنے کے لئے دائیں ہاتھ میں چھری پکڑ لو اور بائیں ہاتھ میں کانٹا پکڑ لو اور بائیں ہاتھ سے کھالو لیکن امریکن عام طور پر ایسا نہیں کرتے.یہ میرا مشاہدہ ہے میں اپنے مشاہدہ کی بناء پر
خطابات ناصر جلد دوم ۱۳۸ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء آپ کو بات بتا رہا ہوں اور میری شنید بھی ہے میں نے اس کے متعلق پتہ بھی لیا ہے.امریکن یہ کرتا ہے.مثلاً اس کے سامنے گوشت کی بڑی بوٹی ہو اور وہ اسے کاٹنا چاہے تو وہ دائیں ہاتھ میں چھری پکڑتا ہے بائیں ہاتھ میں کانٹا پکڑتا ہے اور اس کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں کر لیتا ہے پھر چھری کو رکھ دیتا ہے اور دائیں ہاتھ میں کانٹا پکڑتا ہے اور کھانا شروع کر دیتا ہے لیکن ایک مسلمان کو یہ پتہ ہی نہیں.یہ نہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے جانتے بوجھتے ہوئے بغاوت کرتا ہے ممکن ہے کچھ ایسے مسلمان بھی ہوں لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہے ان کے علم میں نہیں لایا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے.كُلُّ بِيَمِيْنِكَ وَكُلُّ مِمَّا يَلِيْكَ (صحیح بخاری کتاب الاطعمة) کہ اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ.شروع زمانہ میں لوگ اکٹھے کھانا کھایا کرتے تھے اس وقت تو یہ حکم اور بھی زیادہ ضروری تھا لیکن ایک چھوٹی سی پرچ میں کوئی چیز میرے سامنے آتی ہے تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا پیار پھر بھی مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں اس میں سے سامنے سے نوالہ اٹھاؤں اور کبھی ادھر اور کبھی اُدھر ہاتھ نہ لگاؤں.یہ ہے وحشی انسان سے انسان بنانا یا یوں کہو کہ وحشی سے انسان بنانا.یہ اخلاق کا نچلا درجہ ہے جسے ہمارے اسلامی محاورہ میں ادب و آداب کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے.کھانے کے متعلق اسلام نے عجیب پر حکمت تعلیم دی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ کھانا شروع نہ کرو جب تک کہ تمہارے سامنے پینے کے لئے پانی کا انتظام نہ ہو اور اب یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں بہت سی اموات ہو جاتی ہیں کہ پانی نہیں تھا اور نوالہ گلے میں پھنس گیا.جو شخص اتنا پیار کرتا ہے آپ سے کہ اس کو یہ پسند نہیں ہے کہ میرے ماننے والوں میں سے کسی کے گلے میں نوالہ پھنس جائے اور دم نکل جائے وہ کتنا پیار کرنے والا وجود ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے ہمیں یہ ہدایت دی اور یہی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی پرواہ نہیں.وحشی سے انسان بنانا جو بات ادب کے دائرہ کے اندر آتی ہے بالکل دوسری قسم کی وہ ہے.جنسی تعلقات کے اوپر آداب کے لحاظ سے جو پابندی لگائی گئی ہے.عرب میں لوگ ماں سے شادی کرنے کو جائز سمجھتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن کریم کی وحی کے نتیجہ میں حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ أُمَّهُتُكُمْ (النساء:۲۴) آپ میں سے کئی یہ آیت پڑھتے ہوں گے تو کہتے ہوں گے کیا انسان اپنی ماں سے بھی شادی کر سکتا ہے؟ لیکن عرب شادی کر رہا تھا
خطابات ناصر جلد دوم ۱۳۹ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء اس لئے یہ کہنے کی ضرورت پڑی حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهُتُكُمْ (النساء:۲۴) وحشی عرب ماں سے نکاح کو جائز قرار دیتا ہے اس لئے ایک ہم تمہیں یہ کہتے ہیں کہ اگر تم نے انسان بننا ہے تو ماں سے شادی نہیں کرو گے.نکاح کے سلسلہ میں اور بہت سارے قرآن کریم کے آداب سکھائے.یہ تو پرانے زمانے کی باتیں تھیں.چنانچہ اس زمانہ میں ایک کتاب میں لکھا ہوا جب میں نے پڑھا تو میں حیران ہو گیا کہ عقلاً اس بات پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی ماں سے تعلقات رکھے اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرة : ۳) یہ تو انسانیت کے خلاف ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے قرآن کریم کے صریح حکم کے خلاف ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ أُمَّهُتُكُمْ (النساء:۲۴) اس صریح حکم کے بعد اس قسم کے حوالے نظر آ جاتے ہیں اس دنیا میں جس میں میں اور آپ رہ رہے ہیں.اسی طرح لباس کے متعلق لوگوں نے عجیب و غریب قصے بنالئے ہیں حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لباس کے بارہ میں جو آداب سکھائے تھے ان کا لوگوں کو علم نہیں ہوتا.مجھے کسی نے کہا اور یہ میری شنید ہے اس واسطے شنید ہی میں بیان کر سکتا ہوں.میں نے سنا ہے کسی ملک کے کچھ مولوی کسی دوسرے ملک میں گئے جہاں لوگ پتلون پہن کر نماز پڑھتے تھے انہوں نے لوگوں کو نمازیں پڑھتے دیکھا تو آپس میں مشورہ کیا کہ ان کو سیدھا کرنا چاہئے کیونکہ مخنوں کے نیچے پتلونیں نہیں پہنی چاہئیں وہ ۳ ۴ مولوی تھے.انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک کی ڈیوٹی لگائی جائے کہ جب لوگ نماز پڑھنے لگیں تو ایک آدمی نماز میں شامل نہ ہو بلکہ ایک سوٹی پکڑلے اور جب نماز شروع ہو جائے اور نیت بندھ جائے تو لوگوں کے ٹخنوں پر سوٹی مارے اور کہے یہ تم نے کیا کیا ہوا ہے تمہاری پتلونیں ٹخنوں سے نیچے گئی ہوئی ہیں اب وہ بیچارے نماز پڑھ رہے ہیں اور یہ بچارہ ان کے ٹخنوں پر سوٹیاں لگا رہا ہے کسی جگہ یہ ہوا کہ گھٹنوں کے اوپر تمہاری دھوتی آ گئی ہے چلو تم بھی کافر ہو گئے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لباس کے متعلق جو آداب سکھائے ہیں ان میں نہ وہ سکھایا ہے اور نہ یہ سکھایا ہے.وہاں بھی غلط استدلال کر لیا اور یہاں بھی غلط استدلال کر لیا.وہاں یہ کہا تھا کہ تکبر نہیں کرنا.اس وقت عرب لوگ دولت کے غرور میں دوسروں پر رعب ڈالنے کے لئے قیمتی لباس پہنتے تھے جو زمین پر گھسٹ رہے ہوتے تھے.اس وقت یورپ میں جن لڑکیوں کی شادیاں
خطابات ناصر جلد دوم ۱۴۰ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء.ہوتی ہیں ان کے فراک کی ایک بڑی لمبی دم ہوتی ہے جسے چار پانچ چھوٹی لڑکیوں نے اٹھایا ہوا ہوتا ہے.اسی طرح عرب لوگ بھی غرور میں کہ ہمیں کیا پرواہ ہے بڑے قیمتی لباس زمین پر گھسٹ رہے ہیں خراب ہو جائیں گے تو ہم اور لے لیں گے اور یہ کام وہ اپنی دولت کے غرور میں اور دوسروں کو حقیر بنانے کے لئے کیا کرتے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ طریق اسلام میں نہیں چلے گا تم سب برابر ہو گئے ہو.پس اب دنیا بدل گئی جس شخص کی نیت یہ نہیں کہ اس سے غرور ظاہر ہو تو اگر اس کی پتلون ٹخنے کے نیچے آ گئی تو کوئی حرج نہیں ایسی صورت میں کسی کا یہ حق نہیں کہ اسے سوٹیاں ماری جائیں اسی طرح نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ضرور دھوتی گھٹنے کے نیچے ہو تو نماز ہوتی ہے ورنہ نہیں.ہمارے ایک بہت بڑے بزرگ مغربی افریقہ میں گزرے ہیں جو اپنے وقت کے مجددبھی تھے.انہوں نے جب اس قسم کی باتیں دیکھیں تو ایک کتاب لکھی جس میں لباس کے متعلق آداب پر زیادہ تر بحث کی اور بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کیا تھی.چنانچہ انہوں نے مختلف احادیث کو لکھنے کے بعد مختلف نتائج نکالے ہیں مثلاً لباس کے متعلق یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ جو لباس میسر آئے وہ پہن لو.انہوں نے سنت رسول کو معیار بنا کر نہایت صحیح معقول اور شاندار استدلال کیا ہے.انہوں نے احادیث اور سنت کی رو سے ثابت کیا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پگڑی بھی پہنی سر پر رومال بھی باندھا اور ٹوپی بھی پہنی اس لئے یہ کہنا کہ جو ٹوپی پہنتا ہے وہ کافر ہے یا جو پگڑی پہنتا ہے وہ کافر ہے غلط بات ہے.اسی طرح انہوں نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر رنگ کی (بٹنوں والی بھی اور دوسری قمیض بھی پہنی.جبہ بھی پہنا دھوتی بھی پہنی ، پاجامہ بھی پہنا.غرض لباس کے متعلق ساری احادیث لکھ کر انہوں نے کہا کہ اس سے ہر عقلمند آدمی کے نزدیک یہ نتیجہ نکلا کہ لباس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ جو بھی لباس کسی کو میسر آ جائے وہ پہن لے یہی اسلام کی روح ہے.اسلام گندگی کو دور کرتا ہے لیکن اسلام اپنے ماننے والوں کو مشقت میں نہیں ڈالتا.اسی طرح چلنے کے متعلق آداب سکھائے گئے ایک شخص پیچھے رہ گیا وہ نماز میں شامل ہونے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۴۱ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء کے لئے دوڑا یہ ضروری نہیں کہ اس کی نیت خراب ہو یا غرور ہو لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما ياالوقار الوقار (صحيح بخارى كتاب الاذان باب لا يسعى الى الصلوة وليأتها بالسكينة والوقار ) فرمایا وقار کو ہاتھ سے جانے دیتے ہو، تاکہ ایک رکعت ضائع نہ ہو جائے ؟ یہ تو نہیں ہوسکتا جو چلنے کے آداب ہیں ان کے مطابق تمہاری رفتار ہونی چاہئے پھر تمہیں ساری نماز ملتی ہے یا ایک رکعت ضائع ہو جاتی ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بعد میں پوری کی جاسکتی ہے.پس اسلام ایک وحشی کو آداب سکھا کر انسان بناتا ہے اور یہ آداب ہماری زندگی کے قریباً ہر شعبہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مثلاً جوتے پہننے کے متعلق آداب ہیں مجھے یاد آ گیا بچپن میں مجھے غصہ چڑھا کرتا تھا ہمارے ایک دوست تھے وہ یہ کہتے تھے کہ مسجد میں جوتوں سمیت نہیں جانا حالانکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ جوتوں سمیت مسجد میں نہیں جانا آپ نے یہ فرمایا ہے کہ مسجد میں گند لے کر نہیں جانا اگر کسی نے جوتے پہنے اور اس کے قدم ایسی جگہوں پر پڑتے رہے کہ ان کے تلووں کے ساتھ گند ہو تو پھر مسجد میں لے جانا منع ہے اور اگر ریتلے علاقے میں جہاں گند رہتا ہی نہیں وہاں کوئی شخص چل کر آئے مسجد میں نماز کھڑی ہو اور اس نے لمبے چوڑے تھے والے بوٹ پہنے ہوئے ہوں اور ان کو کھولنے لگ پڑے اور اس طرح نماز کی ایک رکعت ضائع ہو جائے تو یہ تو صیح نہیں ہے اسلام کے قرون اولیٰ میں بڑے لمبے چوڑے تسموں والے بوٹ ہوا کرتے تھے ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں آ رہے تھے آپ نے دیکھا ایک صحابی بیٹھے اپنے لمبے چوڑے تھے کھول رہے ہیں آپ نے فرمایا تم یہ کیا کر رہے ہو وہ کہنے لگے میں نے مسجد میں جانا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مسجد میں جانا ہے تو یہ ساری ریت ؟ پڑی ہوئی ہے اس کے ساتھ اپنے بوٹوں کو رگڑو.یہ صاف ہو جائیں گے پھر ان کے ساتھ مسجد میں چلے جاؤ.پس کچی اور حقیقی بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو وہ چیز پیاری نہیں جو ہم اپنی مرضی سے اس کے حضور پیش کرنا چاہتے ہیں خدا تعالیٰ کو وہ چیز پیاری ہے جس کے متعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ چیز خدا کے حضور پیش کرو.غرض ایک تو یہ خلق ہے کہ وحشی سے انسان بنایا جائے دوسرے درجہ کے اخلاق کی رو سے انسان کو با اخلاق انسان بنایا جاتا ہے.اس کے دو حصے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۴۲ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۵ء اسلامی اصول کی فلاسفی میں اس پر بحث کی ہے یہ کتاب قاری پر نہایت گہرا اثر ڈالتی ہے.یورپ کے علاوہ جن جن ملکوں میں وہ گئی ہے لوگ اسے پڑھ کر حیران ہوتے ہیں کہ اچھا یہ اسلام ہے؟ حالانکہ وہ اسلام کی out lines ہیں.آپ نے اسلامی اخلاق کی صرف ایک ایک مثال دے کر اس حقیقت کو بیان کیا ہے جس کے بیان کرنے کے لئے ہمیں ہزار ہا اوراق درکار ہیں لیکن وہ جو عملی زندگی ہے اس میں یہ نہیں کہ ہزار ورق کون پڑھے گا دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو سکھانا شروع کریں یہ کام کرنا ہے اور یہ کام نہیں کرنا.مسجد میں اونچی آواز سے نہیں بولنا یہ مسجد کے آداب میں سے ہے غرض مسجد کے آداب ہیں.چلنے پھرنے کے آداب ہیں.اٹھنے بیٹھنے کے آداب ہیں.باتیں کرنے کے آداب ہیں.گویا انسان کا ہر فعل اور ہر حرکت اور ہر قوت کا جو مظاہرہ ہے اسے آداب کے اندر باندھ دیا گیا ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ نے ہمیں زبان دی تو اس کا ایک کام باتیں کرنا ہے زبان کی جو قوت ہے اس کو ادب سکھایا پھر اس کو اخلاق سکھائے.زبان کو ایک خلق یا ایک وصف یہ سکھایا کہ وہ حرام سے لذت حاصل نہ کرے یہ اس کا ادب ہے اور زبان کو یہ بھی سکھایا کہ وہ ہمیشہ ذکر الہی کیا کرے.ذکر الہی سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے اور تعلق باللہ پیدا ہوتا ہے پھر اخلاق سے بھی اونچا درجہ روحانیت کا ہے اس لئے یہ مسئلہ بھی واضح کر دیا.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اخلاق دوحصوں میں تقسیم ہوتے ہیں.ایک ترک شر اور ایک ایصال خیر.بعض اخلاق اس موضوع سے تعلق رکھتے ہیں کہ کسی کو دیکھ نہ دیا جائے یا ہر ایک کو سکھ پہنچانے کی کوشش کی جائے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاق کے متعلق جو فرمایا ہے اس میں سے ایک دو حوالے میں پڑھ دیتا ہوں اس سے یہ مضمون آپ ہی کے الفاظ میں احباب کے سامنے آ جائے گا.میں نے بتایا ہے کہ انسان کو مختلف طاقتیں اور جوارح اور قو تیں دی گئی ہیں.وہ جب تک مؤدب نہ ہوں اور مہذب نہ ہوں اور با اخلاق نہ ہوں وہ طبعی حالتیں ہیں جن کو نفس امارہ کھینچ کر شیطان کی طرف لے جاتا ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.طبعی حالتیں...خدا تعالیٰ کے پاک کلام کے اشارات کے موافق اخلاقی حالتوں سے کوئی الگ چیز نہیں ہے کیونکہ خدا کے پاک کلام نے تمام نیچرل قومی اور جسمانی
خطابات ناصر جلد دوم ۱۴۳ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء خواہشوں اور تقاضوں کو طبعی حالات کی مد میں رکھا ہے اور وہی طبعی حالتیں ہیں جو بالا راده تربیت اور تعدیل اور موقع بینی اور محل پر استعمال کرنے کے بعد اخلاق کا رنگ پکڑ لیتی ہیں ایسا ہی اخلاقی حالتیں روحانی حالتوں سے کوئی الگ باتیں نہیں ہیں بلکہ وہی اخلاقی حالتیں ہیں جو پورے فنافی اللہ اور تزکیہ نفس اور پورے انقطاع الی اللہ اور پوری محبت اور پوری محویت اور پوری سکینت اور اطمینان اور پوری موافقت باللہ سے روحانیت کا رنگ پکڑ لیتی ہیں.طبعی حالتیں جب تک اخلاقی رنگ میں نہ آئیں کسی طرح انسان کو قابل تعریف نہیں بناتیں.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۲۶،۳۲۵) پھر آپ فرماتے ہیں:.عوام الناس خیال کرتے ہیں کہ خلق صرف حلیمی اور نرمی اور انکسار ہی کا نام ہے یہ ان کی غلطی ہے بلکہ جو کچھ بمقابلہ ظاہری اعضاء کے باطن میں انسانی کمالات کی کیفیتیں رکھی گئی ہیں ان سب کیفیتوں کا نام خلق ہے مثلاً انسان آنکھ سے روتا ہے اور اس کے مقابل پر دل میں ایک قوت رقت ہے وہ جب بذریعہ عقل خداداد کے اپنے محل پر مستعمل ہو تو وہ ایک خلق ہے ایسا ہی انسان ہاتھوں سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو شجاعت کہتے ہیں.پس جب انسان محل پر اور موقع کے لحاظ سے اس قوت کو استعمال میں لاتا ہے تو اس کا نام بھی خلق ہے اور ایسا ہی انسان کبھی ہاتھوں کے ذریعہ سے مظلوموں کو ظالموں سے بچانا چاہتا ہے یا ناداروں اور بھوکوں کو کچھ دینا چاہتا ہے یا کسی اور طرح سے بنی نوع کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو رحم بولتے ہیں اور کبھی انسان اپنے ہاتھوں کے ذریعہ سے ظالم کو سزا دیتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر ایک قوت ہے جس کو انتقام کہتے ہیں اور کبھی انسان حملہ کے مقابل پر حملہ کرنا نہیں چاہتا اور ظالم کے ظلم سے درگذر کرتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو عفو اور صبر کہتے ہیں اور کبھی انسان بنی نوع کو فائدہ پہنچانے کے لئے اپنے ہاتھوں سے کام لیتا ہے یا پیروں سے یادل اور
خطابات ناصر جلد دوم ۱۴۴ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء دماغ سے اور ان کی بہبودی کے لئے اپنا سرمایہ خرچ کرتا ہے تو اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو سخاوت کہتے ہیں پس جب انسان ان تمام قوتوں کو موقع اور محل کے لحاظ سے استعمال کرتا ہے تو اس وقت ان کا نام خلق رکھا جاتا ہے.اللہ جل شانہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.اِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ ( القلم : ۵ ) یعنی تو ایک بزرگ خلق پر قائم ہے.سواسی تشریح کے مطابق اس کے معنے ہیں یعنی یہ کہ تمام قسمیں اخلاق کی سخاوت ، شجاعت، عدل، رحم، احسان ،صدق، حوصلہ وغیرہ تجھ میں جمع ہیں.غرض جس قدر انسان کے دل میں قوتیں پائی جاتی ہیں جیسا کہ ادب، حیاء، دیانت، مروت، غیرت، استقامت، عفت، زہادت، اعتدال، مواسات یعنی ہمدردی، ایسا ہی شجاعت ، سخاوت، عفو، صبر، احسان،صدق ، وفا وغیرہ جب یہ تمام طبعی حالتیں عقل اور تدبر کے مشورہ سے اپنے اپنے محل اور موقع پر ظاہر کی جائیں گی تو سب کا نام اخلاق ہوگا اور یہ تمام اخلاق در حقیقت انسان کی طبعی حالتیں اور طبعی جذبات ہیں اور صرف اس وقت اخلاق کے نام سے موسوم ہوتے ہیں کہ جب عمل اور موقعہ کے لحاظ سے بالا رادہ ان کو استعمال کیا جائے.“ ( اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۳۲ ۳۳۳) پس یہ جو طبعی حالتیں ہیں یعنی وہ تمام جوارح اور وہ تمام قوتیں اور طاقتیں اور استعداد میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو ملی ہیں ان سب کو مہذب اور با اخلاق بنانے کے لئے قرآن کریم نے احکام دیئے اور آداب سکھائے ان قوتوں کو روحانی مدارج کے حصول کی طرف لانے کے لئے تعلیم عطا کی اور اس طرح ایک گرے ہوئے انسان کو گراوٹ کے مقام سے اٹھا کر خدا تعالیٰ کی گود تک پہنچا دیا یہ بنی نوع انسان پر اسلام کا ایک بہت بڑا احسان ہے.غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودات کی رو سے دو بنیادی قسم کے اخلاق میں ایک ہے ترک شر اور ایک ہے ایصال خیر.میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی out lines بیان کی ہیں یعنی آثار بتا دیئے ہیں ان کی تشریح میں آگے چل کر بیان کروں گا اب ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے کیا کچھ کرنا ہے اور کیا کچھ نہیں کرنا چاہئے.جہاں تک ان اخلاق کا تعلق ہے جو ترک شر کی قسم کے ہیں یعنی یہ کہ ہماری طاقتوں کو آسمانی تعلیم نے اس طرح
خطابات ناصر جلد دوم ۱۴۵ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء سے تربیت دی ہے کہ وہ دوسروں کے لئے شر کے سامان پیدا نہ کرے بلکہ خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے بھلائی کے سامان پیدا کرے.ان کو ہم آگے چار قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں ایک عفت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی کسی قوت کا غلط استعمال نہ کرے.جس کے نتیجہ میں کسی دوسرے کی عزت پر حملہ ہو یا معاشرہ کی عزت خراب ہونے کا ڈر ہو اور اس طرح شر اور فساد پیدا ہو.اس کی موٹی مثال بہیا نہ جنسی تعلقات ہیں..ترک شرکی دوسری قسم اخلاق کی ایسی تربیت ہے کہ دوسرے کے مال پر بد نیتی سے قبضہ کر کے اسے ایذاء پہنچانے سے باز رکھا جائے.اسلام نے انسان کے اخلاق کو بلند کرنے کے لئے ایک تعلیم یہ دی ہے کہ دوسرے کے مال پر نا جائز حملہ نہ کیا جائے.اسلام ایذاء رسانی کی اجازت نہیں دیتا خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی ہو یہودی ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو.خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والا ہو یا کوئی اور ہو.اسلام اس کی ایذا رسانی کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اسلام ایک بڑا ہی حسین مذہب ہے اسلام بڑا پیارا مذہب ہے.اسلام دلوں کو موہ لینے والا مذہب ہے.میں نے ۱۹۶۷ء میں جب پہلی دفعہ یورپ کا دورہ کیا تو ایک موقع پر ایک میٹنگ میں وہاں کی ایک جماعت میں مجھے بلایا گیا تھا اور کہا تھا کہ چھوٹی سی تقریر بھی کر دیں.میں نے دیکھا کہ وہاں کچھ غیر مسلم بھی تھے میں نے سوچا اپنے آدمی تو باتیں سنتے رہتے ہیں آج ان کو سنائی جائیں.میں نے ان کو یہ کہا کہ تم یہ سن کر حیران ہو گے کہ تم لوگ جو اسلام پر ایمان نہیں لاتے اسلام نے تمہارا بھی خیال رکھا ہے.تمہارے جذبات کا بھی خیال رکھا ہے تمہارے مالوں کی بھی حفاظت کی ہے.تمہاری عزتوں کی بھی حفاظت کی ہے پس اسلام کتنا اچھا مذہب ہے میری تقریر کا ان پر اتنا اچھا اثر ہوا کہ وہ میرے پیچھے پڑگئے کہ ہمارے ہاں آ کر تقریر کریں.میرا پروگرام تو پہلے سے بنا ہوا تھا.میں وہاں نہیں جا سکا.پس جلسہ میں تقریر کا جواثر ہوا اس میں میری اپنی تو کوئی خوبی نہیں تھی.میں نے اپنی طرف سے باتیں بیان نہیں کی تھیں.اپنی فلاسفی تو ان کے سامنے بیان نہیں کی تھی.اسلام کی عام فہم باتیں اسی وقت بیٹھے بیٹھے جو میرے ذہن میں آئیں وہ میں نے ان کے سامنے بیان کر دیں جنہیں سن کر وہ کہنے لگے کہ اچھا اسلام ایسا مذہب ہے لیکن فیج اعوج کے زمانہ میں اسلام میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے.جو اپنے نور کو کھو بیٹھے وہ کہنے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۴۶ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۵ء لگ گئے کہ اسلام نے اس کی اجازت ہی نہیں دی گویا اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے نعوذ باللہ کہ بے شک دوسروں کی عزتوں پر حملہ کر دو یا یہ کہ اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اخلاق باختہ ہو جاؤ اور تمہاری کوئی قدر نہ ان کی نظر میں باقی رہے اور نہ خدا کی نظر میں باقی رہے جس نے تم کو پیدا کیا ہے.پس اخلاقی تعلیم کی دوسری قسم جو ہماری قوتوں کو گراوٹ سے اٹھا کر بلند مقام تک لے جاتی ہے وہ وہ تعلیم ہے جو ہماری قوتوں کو اس طرح تربیت دیتی ہے کہ کوئی حقیقی مسلمان بد نیتی سے کسی کے مال کو نقصان پہنچا کر یا مال پر قبضہ کر کے اس کے لئے ایڈا کے سامان نہیں پیدا کر سکتا.تیسری قسم ترک شر کی یہ ہے کہ ظلم کی راہ سے کسی کو بدنی ایذاء پہنچانے کی اسلام نے اجازت نہیں دی یعنی اس بات کی اجازت نہیں دی کہ کوئی شخص جارہا ہو اور اس کو ٹھونگا مار دیا جائے.تمہیں اگر خدا تعالیٰ نے ایک حسین تعلیم دی ہے تمہیں اگر خدا تعالیٰ نے صداقت پر قائم کیا ہے اگر تمہارے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت گاڑی گئی ہے اور اگر تمہیں خدائے واحد و یگانہ کی صفات کے جلوے دیکھنے کے مواقع میسر آئے اور تم اس کے ہوئے تو تمہاری حالت تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنينَ (الشعراء :۴) کے مصداق ہونی چاہئے نہ کہ جو ترک شر کی تعلیم ہے اسے نظر انداز کر دیا جائے یعنی اس تعلیم کو ترک کر دیا جائے جو اس دنیا میں شر کو دور کرنے کے لئے آئی تھی.پس تیسری قسم ترک شر سے تعلق رکھنے والی تعلیم کی جو ہمارے مختلف قومی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جس کا ہماری قوتوں اور استعدادوں اور جوارح کے ساتھ تعلق ہے ایسی ہے کہ ہمیں ظلم کی راہ اختیار کرنے اور کسی کو بدنی ایذاء پہنچانے سے روک دیتی ہے.چوتھی قسم ترک شرکی یہ ہے کہ تیوری چڑھا کر نہ بولا جائے اور دوسرے کے سکون کو برباد نہ کیا جائے یہ ایک طبعی حالت ہے جسے عربی میں طلاقت کہتے ہیں.انسان کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ وہ خندہ پیشانی سے پیش آئے چنانچہ چھوٹا بچہ بھی جس کو کچھ پتہ نہیں ہوتا وہ بھی بالعموم ہنستا مسکراتا ہے مجھے بچوں سے بہت انس اور پیار ہے اپنے احمدی بچوں سے بھی اور دوسروں کے بچوں سے بھی.ہم کئی دفعہ سیر کے لئے باہر جاتے ہیں کئی بچے مل جاتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ چند مہینے کے بچے کی طرف مسکرا کر دیکھیں تو وہ بھی مسکرانے لگ جائے گا.پس یہ ایک طبعی قوت ہے جو خدا تعالیٰ نے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۴۷ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۵ء انسان کو دی ہے چنانچہ جب ہم اس قوت کو اسلامی تعلیم کے ذریعہ مہذب بناتے ہیں اور با اخلاق بنا لیتے ہیں تو اس کا نام اسلامی تعلیم میں رفق رکھا گیا ہے چنانچہ قرآن کریم نے فرمایا.قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ: ۸۴) اس کے دو حصے ہیں ایک چہرے کا expression اور ایک زبان کی نرمی بعض دفعہ کئی لوگ بلا وجہ دوسروں پر آوازہ کس دیتے ہیں اور یہ بلا وجہ آواز ہ صرف یہ نہیں کہ مختلف طاقتوں کی وجہ سے ہوتا ہے بلکہ بد عادت کی وجہ کے نتیجہ میں ہوتا ہے ایک ہی ملک میں رہنے والے اور ہم عقیدہ لوگ مثلاً عیسائیوں میں اس قسم کی بداخلاقی ہو گی کہ ایک عیسائی ! دوسرے عیسائی بھائی پر حقیرانہ آوازہ کس دے گا.ان کو تو قُولُو الِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة : ۸۴) کی تعلیم نہیں ملی لیکن مجھے اور آپ کو تو یہ تعلیم ملی ہے کہ بلاوجہ کسی کو زبان سے ایذا نہ پہنچائیں یا بلا وجہ بھیڑیئے کی نظر سے اپنے بھائی کو نہ دیکھیں.اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی.اسلام یہ کہتا.کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو قوت طلاقت عطا کی ہے.اس کو اسلامی تعلیم کے مطابق رفق میں تبدیل کر دو تا کہ تم اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر سکو.غرض یہ ساری طاقتیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہیں.ان کی بنیادی غرض یہ ہے کہ ان کا استعمال بالا رادہ برمحل اور باموقع ہو.اسی کو ہم عام طور پر عمل صالح کہتے ہیں.عمل صالح کا مطلب یہی ہے کہ موقع اور محل کے مطابق فعل سرزد ہو.مثلاً دو طاقتیں ہیں ایک طاقت ہے عفو کی اور ایک طاقت ہے انتقام کی.اسلام نے ان دونوں کو مہذب کیا ہے یعنی مہذب شکل میں جب وہ ہمارے سامنے آتی ہیں تو ہمیں یہ کہا گیا کہ تم اس طاقت کو موقع اور محل کے مطابق استعمال کرو اگر کوئی شخص ایک ایسے آدمی کو معاف کرتا ہے کہ جس کے متعلق اسے علم ہے کہ اگر میں نے معاف کیا تو اپنی شرارت میں اور بھی زیادہ بڑھ جائے گا تو وہ اس بیچارے پر رحم نہیں کر رہا بلکہ ظلم کر رہا ہے.اصلاح کی بجائے اسے خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر ایسے شخص سے اس نے انتقام لیا جس کے متعلق اسے یقین ہے کہ اگر وہ اسے معاف کر دے گا.تو وہ اپنی اصلاح کرلے گا تو اس وقت عفونہ کرنا اور انتقام لے لینا درست نہیں اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.پس ہر خلق کا اظہار بالا رادہ ہونا چاہئے یہ نہیں کہ سوتے ہوئے لات اٹھائی اور زور سے ایڑی لگائی زمین پر اور اتفاق سے وہاں ایک بچھو جا رہا تھا ساتھ والے آدمی کو کاٹنے کے لئے اس
خطابات ناصر جلد دوم ۱۴۸ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۵ء پر ایڑی کی چوٹ لگی اور وہ مر گیا.تو وہ یہ نہیں کہ سکتا کہ دیکھو میں نے کتنا اچھا کام کیا ہے.تم نے تو بغیر ارادہ کے سوتے میں ایک حرکت کی اور اس سے ایک نیکی عمل میں آ گئی.اس کا کریڈٹ تم نہیں لے سکتے.پس ہر کام بالا رادہ ہونا چاہئے اور موقع اور محل کے مطابق ہونا چاہیئے گویا ایک ترک شر کے ساتھ تعلق رکھنے والے اخلاق ہیں یعنی اسلام کی وہ تعلیم مثلاً کسی کی عزت پر حملہ نہیں کرنا.اس کے مال پر حملہ نہیں کرنا.اس کے بدن پر حملہ نہیں کرنا یعنی اسے بدنی ایذا نہیں پہنچانی.پس طلاقت اور رفق قُولُوالِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة :۸۴) کی رو سے خلق ہیں.اپنی زبان سے کسی کو ایذا نہیں پہنچانی.قرآن کریم نے دوسری جگہ کہا ہے تمہیں اپنے مخالفوں سے جب وہ زبان کے ذریعہ ایذا پہنچا ئیں تو تمہیں یہ ایذا برداشت کرنی پڑے گی خواہ کوئی کتنا ہی مخالف کیوں نہ ہواس کے ساتھ حسن خلق اور رفق کے ساتھ بات کرنی چاہئے اور قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة : ۸۴) پر عمل کرنا چاہئے.اس کے مقابلہ میں ایصال خیر ہے یعنی سکھ پہنچانا.نیکی کرنا.خیر پہنچانا.ہم اپنی تمام خدا داد قوتوں سے نوع انسانی کی خدمت کر سکتے ہیں اگر ہم اسلامی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں اور ہم اسلامی تعلیم پر صرف اسی وقت عمل کر سکتے ہیں جب وہ تعلیم ہمارے ہاتھوں میں دی جائے.اپنی زندگیوں کا جزو اس کو اسی وقت بنا سکتے ہیں جب بچپن سے لے کر بڑی عمر تک ہم اپنے بچوں کو کہتے رہیں کہ دیکھو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے متعلق یہ آداب سکھائے ہیں.چلنے کے متعلق یہ آداب سکھائے ہیں.مجلس میں بیٹھنے کے متعلق یہ آداب سکھائے ہیں، مسجد کے یہ آداب سکھائے ہیں، مسجد چھوڑنے کے یہ آداب سکھائے ہیں ، رفع حاجت کے لئے جانے کے یہ آداب سکھائے ہیں ، اور رفع حاجت کے لئے غسل خانے اور ٹیاں وغیرہ تعمیر کی جاتی ہیں ان کی تعمیر کے لئے یہ آداب سکھائے ہیں اور لباس کے متعلق یہ آداب سکھائے ہیں.شادی بیاہ کے متعلق یہ آداب سکھائے ہیں.یہ ساری تعلیم محض علمی نہیں.یاد تو نہیں کرانی.یاد کر وا نا مشکل سے البتہ بچوں سے اس پر عمل کروانا آسان ہے مثلاً اسلام کا ایک یہ حکم ہے کہ دوسروں کو چیز دو تو دائیں ہاتھ سے دو اگر بچہ بھی لے تو دائیں ہاتھ سے لے.کئی دفعہ اپنے گھر کے بچے آتے ہیں ان کو کوئی چھوٹی موٹی چیز کھانے کی دی تو بچہ بچہ ہی ہے ہم نے اس کو سکھانا ہے.وہ بایاں ہاتھ آگے کر دیتا ہے اور ہم اپنا دایاں ہاتھ پیچھے کر لیتے ہیں پہلے اس کو سمجھ نہیں آتی یہ کیا ہو گیا جن کے ساتھ دو تین
خطابات ناصر جلد دوم ۱۴۹ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء دفعہ پہلے یہ واقعہ ہوا ہوتا ہے ان کو یاد آ جاتا ہے تو پھر وہ بائیں کی جگہ دایاں ہاتھ آگے کر دیتا ہے اور جن کو ابھی اتنی سمجھ نہیں ہوتی ان کو خود بتانا پڑتا ہے یا اگر اس کی ماں ساتھ ہو تو وہ کہ دیتی ہے تم نے یہ غلطی کی ہے بایاں ہاتھ آگے نہ کرو دایاں آگے کرو تو تمہیں یہ چیز مل جائے گی.پس یہ چیزیں سکھانے سے بہت سہولت کے ساتھ یاد کی جاسکتی ہیں لیکن امتحان لینے لگو تو کئی بڑے بڑے مولوی بھی بہت ساری چیزیں بھول جائیں گے.پس آداب کے متعلق جو تعلیم ہے اخلاق کے متعلق جو تعلیم ہے اس کو یاد کرنا چاہئے.اس لئے تم خدا کے کہنے پر خدا کی رضا کے لئے اور اپنی نفسانی خواہشات کو کلی طور پر مٹا کر خدا کے ہو جاؤ اگر تم خدا کے لئے یہ رنگ اپنے اندر پیدا تو گی..کرلو گے تو تمہاری روحانیت بڑھ جائے گی.خدا تعالیٰ تم سے پیار کرنے لگ جائے گا اور اپنے پیار کا اظہار کرے گا وہ اپنے پیار کا اظہار کرتا ہے.میرا خیال ہے کہ ایک گونگی ماں سے بچہ کبھی نہ بھی بیزار ہو جاتا ہے.وہ سنتی نہیں ، وہ بولتی نہیں ، بچہ کو تسلی نہیں ہوتی تو گونگے خدا سے انسان کیوں بیزار نہیں ہو گا مگر ہمارا خدا گونگا خدا نہیں ہے وہ سنتا بھی ہے اور بولتا بھی ہے.پس جب ہم اپنے اخلاق کی صحیح تربیت کریں گے تو خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے اپنی زندگیوں میں دیکھیں گے بعض دفعہ ہنگامی حالات میں تسلی حاصل کرنے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں احمدی میرے پاس آ جاتے ہیں اور میں انہیں تسلی دیتا ہوں اور تسلی دینے کا ایک سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ میں چھوٹے بچوں سے پوچھتا ہوں کہ بتاؤ تمہیں کبھی کچی خواب آئی ؟ تو بلا استثناء ہر بچہ مجھے یہی جواب دیتا ہے کہ ہاں آئی ہے اور کئی ایک سے پوچھ بھی لیتا ہوں کہ کیا آئی.بچے کو تو اپنی عمر کے لحاظ سے کچی خواب آئے گی.بچے کو اپنی عمر کے لحاظ سے یہ خواب تو نہیں آ سکتی جس طرح مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عظیم پیشگوئی بتائی گئی تھی کہ زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی با حال زار.یہ اور اسی قسم کی اور بہت کی پیشگوئیاں ایسی ہیں جو مہدی علیہ السلام کے کان میں پڑ سکتی ہیں ہمارے بڑے لوگوں کے کانوں میں بھی نہیں پڑ سکتیں چہ جائیکہ ایک بچے کے کان میں پڑیں.چنانچہ بچہ کہے گا کہ میں نے یہ خواب دیکھی تھی کہ میری بھینس بچہ دینے والی ہے اس نے کھا دینا ہے اور پھر مہینے بعد بھینس نے جو بچہ دیا وہ کتا تھا.اب اس میں کوئی شک نہیں کہ بھینس کا کرتا دینا ایک معمولی بات ہے.بھینسیں کئے بھی دیتی ہیں اور کٹیاں بھی دیتی ہیں.اس میں تو کوئی بڑی بات نہیں
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء لیکن ایک مہینہ پہلے سے بچہ کو بتا دینا کہ یہ بھینس کٹا دے گی یہ بڑی بات ہے.ایک دن پہلے بھی سوائے خدا کے اور کوئی بتا نہیں سکتا.خدا تعالیٰ وحی کے ذریعہ بتاتا ہے اور جہاں تک میر اعلم ہے اور میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میر اعلم کامل ہے.ساری دنیا میں خدا کی صفات کے جو جلوے ہیں انسان ان کا احاطہ نہیں کر سکتا لیکن جتنا علم انسان کو دیا جاتا ہے وہ بھی بڑا دلچسپ ہے کہ صرف خدا تعالیٰ کی وحی شہد کی مکھی کو پہلے بتا دیتی ہے کہ تیرے انڈے میں نر نکلے گا یا مادہ نکلے گی.اس لئے اس نے اپنے چھتے میں مختلف جگہیں بنائی ہوئی ہوتی ہیں.اگر نر نکلنا ہو تو ایک اور جگہ جا کر رکھتی ہے اور اگر مادہ نکلنی ہو تو اور جگہ رکھتی ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے او لی رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ (النحل : ٢٩) یہ بھی وحی کا ایک حصہ ہے.پس خدا تعالیٰ تو ایک ایسی پیار کرنے والی ہستی ہے ایسی حسن و احسان کی حامل ہستی ہے جو شہد کی مکھی پر بھی قرآن کریم کی اصطلاح میں وحی کے ذریعہ اپنے پیار کا اظہار کرگئی تو پھر انسان سے وہ کیوں پیار نہ کرے گا لیکن خدا کی آواز سننے کے لئے پہلے خدا کا بندہ بنا ضروری ہے.پس جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا.میں آج ایک عظیم جہاد کا اعلان کرتا ہوں.یہ جہاد لاٹھیوں اور بندوقوں کا جہاد نہیں بلکہ یہ ایک عظیم علمی جہاد ہے جس کا میں اعلان کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کو فوری طور پر اسلامی آداب اور اخلاق کے بارہ میں متوجہ ہونا چاہئے اور اس میں تعلق باللہ سے متعلقہ مسائل کو بھی لینا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کس طرح کیا مسجد میں کس طرح جانا ہے.یہ مسائل انسان سے بھی تعلق رکھتے ہیں ایک حد تک بعض لحاظ سے، لیکن اصل تو ہم نے تعلق باللہ کے ساتھ نماز ادا کرنی ہے پس اس وقت میں اس عظیم علمی جہاد کا اعلان کرتا ہوں اور جماعت کو چاہئے کہ فوری طور پر ایسے آدمی مقرر کرے علماء میں سے جن سے دوسرے کام چھڑوا لئے جائیں اور وہ آداب اسلامی اور اخلاق اسلامی کے موضوع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے ارشادات جتنے بھی ممکن ہو سکیں اکٹھے کریں اور پھر ان کو اس رنگ میں جماعت احمدیہ کے ہر چھوٹے اور بڑے اور ہر مرد اور عورت کے سامنے پیش کیا جائے کہ وہ ہر وقت ان باتوں پر عمل کر کے اور کروا کر وحشی سے انسان بننے اور انسان سے با اخلاق بننے اور با اخلاق سے باخدا انسان بنے کی توفیق حاصل کریں.اگر ہم نے اس وقت ان چیزوں کی طرف توجہ نہ کی تو پھر اسلام کی جو مخالف طاقتیں ابھر رہی
خطابات ناصر جلد دوم ۱۵۱ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء ہیں وہ ہمارے راستے میں بہت سی روکیں پیدا کر دیں گی.اس وقت یہ صیح ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ آسمان سے فرشتے زمین پر آکر خدا تعالیٰ کے کلام کو غالب کرنے کی سعی نہیں کرتے اس کی ذمہ داری خدا تعالیٰ نے انسان پر ڈالی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کے پھیلنے کی اور اسلامی تعلیم کے غالب آنے کی بشارتیں دی گئیں.تو اس وقت مخالف طاقتوں نے مسلمانوں کی گردنیں کاٹنے کے لئے میان سے جو تلوار نکالی تو ان ہاتھوں کو جن میں مسلمانوں کی گردنیں کاٹنے کے لئے تلواریں تھیں فرشتوں نے آکر نہیں کا ٹا تھا بلکہ وہ نہتے اور غریب مسلمان تھے جن کے پاس تن ڈھانکنے کے لئے کپڑے نہیں تھے.وہ میدان جہاد میں آئے تھے ان کے کپڑوں کا یہ حال تھا اور ان کی کس مپرسی کی یہ حالت تھی کہ جب مرد سجدے میں جاتے تھے تو چونکہ گھٹنوں سے اوپر انہوں نے دھوتیاں باندھی ہوئی ہوتی تھیں.دھوتی کیا بس دو گز کا ایک کپڑا باندھا ہوتا تھاوہ سجدہ کرتے تھے تو ننگے ہو جاتے تھے اور عورتیں پچھلی صف میں ہوتی تھیں.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا مرد جب سجدہ سے سر اٹھا لیں پھر تم سجدوں سے سر اٹھایا کرو.پس ان کی غربت کی یہ حالت تھی لیکن جب مخالف اسلام طاقتوں نے کہا کہ ہم تلوار کے زور سے اسلامی تعلیم کو دنیا سے مٹا دیں گے تو ان ہی غریبوں اور مسکینوں نے کہا ہمارے ہاتھ میں کند تلواریں ہیں یہ تو درست ہے لیکن تمہاری تلوار کی دھار اسلام کے اوپر تب پڑے گی جب ہماری گردنیں کٹ چکی ہوں گی اور وہ میدان میں آگئے اور مقابلہ میں آگئے.اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی فرشتوں کے ذریعہ جیسا کہ مختلف جگہوں کے متعلق ہماری تاریخ نے ان حفاظتوں کو محفوظ رکھا ہے لیکن یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح کبھی یہ نہ کہیں کہ جا تو اور تیرا رب اپنے دشمنوں سے لڑتے پھرو ہم تو یہاں دھر نا مار کر بیٹھے ہیں.اس لئے کہ ہم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور خدا نے ہمیں مہدی علیہ السلام کے ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اس وقت وہ تمام طاقتیں جو دنیا میں فحش کو پھیلا کر اور جو دنیا میں بداخلاقی کو پھیلا کر اور جو انسان کو وحشی بنا کر اسلام کے خلاف کھڑی ہو رہی ہیں.ان وحشی انسانوں کو اور وحشی گرانسانوں کو تم نے انسان بنانا ہے اور با اخلاق انسان بنانا ہے اور با اخلاق انسان کے بعد با خدا انسان بنانا ہے.یہ جماعت احمدیہ کی
خطابات ناصر جلد دوم ۱۵۲ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء ذمہ داری ہے.اس لئے میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ یہ ہتھیار تمہیں سجانے پڑیں گے.تلواریں اس وقت نہیں تھیں نہ حکم تھا کہ اچھی تلوار میں ہوں تو لڑ نا لیکن جب تک تمہارا عملی نمونہ اخلاقی لحاظ سے ایسا نہیں ہوتا جو دنیا کو اسلام کی طرف کھینچنے والا ہو اس وقت تک تم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور تم اپنا عملی نمونہ دکھا نہیں سکتے جب تک آداب اور اخلاق اور روحانیت کے متعلق اسلامی تعلیم تفصیل کے ساتھ تمہارے ہاتھ میں نہ ہو اب تو مجھے شبہ ہے کہ جو روز مرہ کا دستور تھا اور ہمارے کانوں میں بالکل بچپن کے زمانہ میں باتیں پڑتی تھیں وہ بھی نہیں پڑتیں ہمارے بڑے اس بات کا خیال رکھتے تھے مثلاً اسلام نے کہا ہے سب انسان برابر ہیں حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا بڑا خیال رکھتی تھیں غریبوں کا.ایک دفعہ کوئی دو بہن بھائی یتیم ہو گئے بیچارے بڑے غریب تھے ان کے غریبانہ کپڑے تھے.نہانے کے لئے کبھی صابن میسر نہ آیا ہوگا.ان کے سر میں جوئیں پڑی ہوئی تھیں.ان کو اپنے گھر بلا لیا.یہ میرے بالکل بچپن کی بات ہے جب کہ مجھے شعور بھی نہیں آیا تھا.میں مدرسہ احمدیہ میں بھی اس وقت تک نہیں گیا تھا.غرض بالکل بچپن کا زمانہ تھا.اس وقت میں نے ایک احمقانہ بات بھی کی تھی.ابھی بتاتا ہوں کہ وہ کیا تھی.اگر چہ قادیان میں چھوٹی سی جماعت تھی لیکن بہت سی عورتیں حضرت ام المومنین رضی اللہ عنھا سے کہیں ہم ان کی جوئیں نکال دیتی ہیں لیکن حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نے خود ان کی جوئیں نکالیں گرمی کے دن تھے.ان کو خود اپنے ہاتھ سے نہلایا.نئے کپڑے پہنائے صبح اسی طرح گزرگئی.کھانے کا وقت آیا دستر خوان بچھا آپ نے ان کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا میری جو آئی شامت میں.نے کہا میں تو ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاؤں گا.مجھے انہوں نے سبق دینا تھا کیونکہ مجھے انہوں نے ہی پالا ہے اور بڑے پیار سے سبق دیا کرتی تھیں بالکل غصے نہیں ہوئیں.کہنے لگیں تمہاری مرضی ہے نہ کھاؤ.کھانا مجھے نہیں دیا لیکن مجھے غصہ نہیں ہوئیں کہنے لگیں کھانا تو تمہیں اسی دستر خوان پر کھانا پڑے گا ورنہ نہ کھاؤ.چنانچہ شام تک ہوش آ گئی کہ کھانے کے بغیر تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا.پھر ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور یہ واقعہ ابھی تک مجھے اچھی طرح یاد ہے.اسی طرح ایک اور موقع پر میرا خیال ہے کہ اس وقت میری عمر ۸.۱۰ سال کی ہوگی.ذرا بڑا تھا.ہم حضرت صاحب کے ساتھ کشمیر گئے ہوئے تھے.گھر کا نائی جس کو بعض لوگ باوجود اس بات کے کہ جماعت اتنی ترقی کر گئی.خدا نے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۵۳ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۵ء اتنے فضل کئے اب بھی ”ہمارا کمی “ کہہ دیتے ہیں بھلا وہ کمی تمہارا کہاں سے آگیا.خیر وہ ہمارے ساتھ کھانا پکانے کے لئے گیا ہوا تھا.میرا بچپن کا زمانہ تھا ۸.۱۰ سال کی عمر تھی.اتنی عمر میں دماغی تربیت تو ایسی نہیں ہوتی.وہ باہر پھر رہا تھا.ہم ہاؤس بوٹ میں دریا کے کنارے ٹھہرے ہوئے تھے.تو کسی بات پر اس نے مجھے چھوٹا بچہ سمجھ کر چھیڑا.اس نے مجھے کوئی بات کہی جو مجھے یاد نہیں رہی جو بات مجھے یاد ہے.وہ یہ ہے کہ اس کے جواب میں میں نے کہا میں تمہیں ماروں گا.ہاؤس بوٹ میں حضرت صاحب تشریف رکھتے تھے آپ غصہ میں فوراً باہر نکلے اور ایسا فقرہ کہا جو مجھے کاٹ دینے والا تھا آپ نے کہا یہ تیرے باپ کا غلام ہے کہ تو اسے مارے گا.میں نے حضرت صاحب کو اپنے اوپر غصہ میں کبھی نہیں دیکھا جتنا اس وقت دیکھا.خیر آپ نے مجھے جو سبق دینا تھا وہ دے دیا.کوا پس یہ چیزیں بچپن میں دماغ میں آنی چاہئیں.بچوں کے کانوں میں پڑنی چاہئیں کہ اسلام یہ ہے اور یہ اخلاق سکھاتا ہے.دنیا ان چیزوں کو بھول چکی ہے.جب تک ہم ان چیزوں کو اکٹھی کر کے پھر سے جماعت احمدیہ میں رائج نہ کر دیں اس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.اس لئے ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہمارا سونا اور جا گنا کس طرح ہونا چاہئے.ان سب کے متعلق احکام یاد ہونے چاہئیں.سونے کے متعلق بھی اسلامی آداب ہیں.جاگنے کے متعلق بھی اسلامی آداب ہیں.اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کے متعلق تعلیم دی ہے.کون سی چیز ہے جو اسلام نے چھوڑی ہے.ابھی میں نے اسی جلسہ میں بتایا تھا کہ اسلام نے مسواک کرنے کے متعلق آداب سکھا دیئے.آج کے ڈاکٹر بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ جی ہم نے یہ نئی بات ! معلوم کر لی کہ دانتوں کو بُرش اس طرح کرنا چاہئے لیکن یہ چیز تو ہمیں آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے بتادی تھی کہ مسواک اس طرح کرنی چاہئے.پھر تمہاری نئی discovery کہاں سے اُتر گئی.غرض اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کا علم دیا حتی کہ قیامت تک کے زمانے کا علم دیا گیا ہے.اسلام نے انسان کی زندگی کو مہذب بنایا اس کی ہر ضرورت کو پورا کیا، آداب کے میدان میں ، اخلاق کے میدان میں ، روحانیت کے میدان میں علمی تحقیق کے میدان میں.علم تو نئے سے نئے نکل رہے ہیں مگر اسلام نے علم کو اپنے اصول میں باندھ دیا کہ ہر علم سے ،
خطابات ناصر جلد دوم ۱۵۴ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء تعلق رکھنے والے مثلاً مغرب ہے یا مشرق ہے سرمایہ داری نظام ہے یا اشتراکیت ہے جب بھی یہ لوگ ان بنیادوں سے ہٹتے ہیں تو ہم ان پر گرفت کرتے ہیں کہ تم غلط راستے پر چلے گئے ہو.تمہارا علم درست نہیں ہے کیونکہ قرآن ہمیں یہ سکھاتا ہے ہم قرآن کی رو سے ان کی گرفت کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی لئے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن قرآن عظیم خدا کے سامنے تمہارا حکم ہوگا.پس اگر قیامت کے دن تم نے خدا کے پیار کو حاصل کرنا ہے اور اس کی رضا کی جنتوں کو تم نے لینا ہے تو قرآن عظیم کی تعلیم اس تفسیر کے مطابق جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور اس تشریح کے مطابق جو مہدی نے کی وہ تمہیں سیکھنی بھی پڑے گی اور اس پر تمہیں عمل بھی کرنا پڑے گا.اس کے لئے کمر ہمت کس لو کہ اب یہ زمانہ جیسا کہ میں نے کہا ہے وہ زمانہ ہے جس میں آخری جنگ کی پیش خبری دی گئی تھی کہ اسلام کی اپنی مخالفانہ طاقتوں سے مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں ایک آخری جنگ ہو گی.مہدی کے آنے کے ساتھ وہ جنگ شروع ہو گئی لیکن پہلے جنگ کی ابتداء ہوتی ہے پھر اس میں شدت پیدا ہوتی ہے پھر وہ اپنی انتہاء کو پہنچتی ہے یہ آخری جنگ اپنے انتہائی دور کے اندر پہنچ چکی ہے اور یہ معرکہ فیصلہ کن دور میں داخل ہو چکا ہے کہ کس نے جیتنا ہے اور کس نے شکست کھانی ہے.جتینا تو اسلام نے ہی ہے اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے ہاتھوں غالب ہو گا آپ اللہ تعالیٰ کا آلہ کار بنیں گے اسلام کو غالب کرنے کا.یا خدا تعالیٰ کوئی اور قو میں لے کر آئے گا جن کے ذریعہ وہ اسلام کو غالب کرے گا.خدا تعالیٰ نے جو کہا ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ تو انشاء اللہ پورا ہوکر رہے گا تمہیں اپنی فکر کرنی چاہئے تمہیں اپنے بچوں کی اور اپنی نسلوں کی فکر کرنی چاہئے تمہیں اپنی عورتوں کی فکر کرنی چاہئے.ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو اس بات کی توفیق عطا کرے کہ وہ اسلامی آداب کو اسلامی اخلاق کو اور اصول روحانیت کو مدون کر کے دنیا کے سامنے پیش کرے اور خدا کرے جماعت احمد یہ دنیا کو ایک سیدھی سادی اسلامی زندگی اور اسلامی معاشرہ پر لا کر کھڑا کر دے.ان ساری باتوں کے باوجود آپ گھبرائیں نہیں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اسلام کسی شخص کو مشقت میں نہیں ڈالتا.اور یہ حقیقت ہے کیونکہ اس کی اپنی فطرت کی صحیح آواز ہے اور خدا انسان کو اسی کی طرف لے کر جاتا ہے.ہمارے ایک بزرگ نے لکھا ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۵۵ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء جو دسویں صدی ہجری میں فوت ہوئے ہیں کہ اسلام تو کسی کو مشقت میں نہیں ڈالتا ہمارے جیسے فقیہ مسلمانوں کو مشقت میں ڈال دیتے ہیں کسی کو کہہ دیتے ہیں.تمہاری عبادتیں قبول نہیں ہوئیں اور کسی کو کہہ دیتے ہیں ( یہ ان کے اپنے الفاظ ہیں ) جاتیری بیوی کو ہم نے طلاق دے دی.لیکن اسلام کسی کو مشقت میں نہیں ڈالتا اس لئے کسی کو مشقت میں نہیں ڈالتا کہ اسلام دین فطرت ہے.انسان کے اندر کی جو صحیح آواز ہے جو مہذب آواز ہے اور آلائشوں سے بالکل پاک آواز ہے یہ دین فطرت کی مظہر ہے.یہ آواز انسان کو جس طرف لے جانا چاہتی ہے اسلام بھی اسی طرف اس کو لے کر جا رہا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم : ٣١) اس لئے کوئی مشقت نہیں ہے لیکن جذبہ کی ضرورت ہے.کوئی مشقت نہیں ہے لیکن ان باتوں کے اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے، کوئی مشقت نہیں ہے لیکن ان اسلامی آداب کو ، ان اسلامی اخلاق کو اور ان روحانی اصولوں کو جماعت احمدیہ کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے اور کوئی مشقت نہیں ہے لیکن آپ کو اپنے بچوں کا باپ بننے کی ضرروت ہے.باپ کی جو ذمہ داریاں ہیں اولاد کی تربیت کے سلسلہ میں وہ اسے بہر حال ادا کرنی چاہئیں.ہر باپ کو اپنے بیٹے سے یہ کہنا چاہئے دیکھو بیٹے! ہمارے پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کھانا کھاؤ تو دائیں ہاتھ سے کھاؤ اپنے سامنے سے کھاؤ یعنی پلیٹ کے اگلے حصہ سے نوالہ لو.آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کسی کے لباس پر اعتراض نہ کرو.بعض دفعہ یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ مثلا گاؤں میں کسی نے دھستا لے لیا تو کھدر کی چادر والے پر آوازہ گس دیا.یہ بداخلاقی ہے جو بالعموم بچوں میں کہیں کہیں پیدا ہو جاتی ہے.دنیا کو یہ بات زیب دیتی ہو گی لیکن ایک احمدی کو یہ زیب نہیں دیتی.خدا کرے ہم سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں حاصل کریں.یہی ہماری خواہش ہے یہی ہماری دعا ہے اور یہی وہ جہاد ہے جس کے شروع کرنے کا میں تم سے مطالبہ کر رہا ہوں پس دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ ہماری یہ خواہش پوری کر دے اور ہماری زندگیوں میں ہمیں غلبہ اسلام کے دن دکھاوے.اب ہم دعا کریں گے.دعا کریں گے ساری دنیا کے انسان کے لئے کیونکہ ساری دنیا کے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۵۶ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۵ء انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کے لئے پیدا کیا تھا وہ اپنے پیار کرنے والے رب سے دور چلا گیا کسی نے تو یہ کہہ دیا کہ ہم خدا کو مانتے ہی نہیں، کوئی ایک قدم آگے گیا اور اس نے کہا ہم خدا کو نہیں مانتے اور جولوگ مانتے ہیں ان کو یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ (نعوذ باللہ ) زمین سے خدا کے نام کو اور آسمانوں سے اس کے وجود کو مٹا دیں گے.چنانچہ جب وہ چاند پر گئے تو مذاق میں کہہ دیا کہ وہاں کوئی خدا نظر نہیں آیا.قرآن کریم کہتا ہے کہ جو ستاروں کی جو ہے یعنی جہاں یہ ستارے ہیں اور رات کو چمکتے ہیں یہ پہلا آسمان ہے تو پہلے آسمان کے ورلے کناروں تک پہنچ کر یہ بڑہانک دی کہ ہم آسمانوں پر گئے تھے لیکن ہمیں کوئی خدا نظر نہیں آیا.تمہیں آسمانوں پر جانے کی کیا ضرورت تھی تم اپنی شہ رگ کے پاس خدا کو تلاش کرتے وہ تمہیں وہاں مل جاتا لیکن عقل مند بعض دفعہ بے عقلی کی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں اور پھر حیرت ہوتی ہے کہ خود ہی اس نتیجہ پر پہنچنے کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ جوستارے ہیں ان کے جو آخری حصے ہیں یعنی ستاروں کے آسمان کے، وہاں تک ان کی بڑی سے بڑی دور بینیں بھی نہیں دیکھ سکتیں حالانکہ انہوں نے اس غرض کے لئے بڑی زبر دست دور بینیں بنارکھی ہیں مگر دعوے اس قسم کے کر دیتے ہیں جو ہنسی اور مذاق ہے اور بس.لیکن خدا تعالیٰ نے ان کو بھی بہر حال اپنے پیار کے لئے پیدا کیا ہے اور خدا یہ نہیں چاہتا کہ وہ اس کے قہر کی جہنم میں جائیں اس لئے ہمارا یہ کام ہے کہ ہم ان کے لئے دعائیں کریں ہم روس میں بسنے والے ان دھر یہ انسانوں کے لئے بھی دعا کریں جو خدا کے نام کو زمین سے اور اس کے وجود کو آسمانوں سے مٹانے کا دعوی کرتے ہیں ہماری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو معقل بھی دے اور ہدایت بھی دے.پھر سرمایہ دارانہ ممالک ہیں جن کے معاشرہ میں اتنا گند اور اتنا تنگ آچکا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے دوست دعا کریں، اللہ تعالیٰ ان کو بھی اس گندگی اور پلیدی سے بچائے.اسلام نے طہارت اور پاکیزگی کی جو تعلیم دی ہے وہ اس سے روشناس ہوں اور اپنی زندگیوں کو ضائع نہ کریں کیونکہ جو زندگی اس دنیا میں ضائع ہوگئی ظاہر ہے دوسری دنیا میں بھی اس نے خدا کے پیار کو حاصل نہ کیا تو پھر وہ تو ہلاک ہی ہوگئی اس دنیا کے جو چند سال ہیں ان کے مقابلہ میں وہ ابدی زندگی جس کا وعدہ دیا گیا ہے ان کی کوئی نسبت ہی نہیں دنیوی زندگی تو اتنی مختصر ہے گویا آپ کا یہاں سے اٹھنے کے بعد اپنی قیام گاہوں تک جانے پر جو مختصر سا وقت لگتا ہے اتنا بھی نہیں.پس دنیوی زندگی
خطابات ناصر جلد دوم ۱۵۷ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۵ء ہے کیا.ابدی زندگی کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.ابدی زندگی کے مقابلے میں انسان کی دس ، ہیں، پچاس سوسال کی زندگی کیا حقیقت رکھتی ہے ابدی حیات ہی حسین حیات ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے پیار کی حیات ہے اور صبح شام ترقیات کی حیات ہے اور یہی وہ زندگی ہے جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں وعدہ دیا گیا ہے یعنی جنت میں یہی وہ مقام ہے جس پر انسان صبح ہوگا اور شام کو نہیں ہو گا بلکہ خدا کے پیار میں آگے نکل چکا ہوگا.پس اخروی زندگی بڑی حسین زندگی ہے.روحانی دنیا بڑی حسین دنیا ہے خدا کی رضا کی جنتیں ہی زندگی کا اصل مقصد ہیں مگر لوگ ان سے محروم ہیں اور کہتے ہیں ہمیں ان کی پرواہ نہیں ہے.تمہیں اگلے پانچ سال کی پرواہ ہے تمہیں ریٹائر ہونے کے بعد پنشن وغیرہ کی تو پرواہ ہے اور پتہ نہیں ریٹائر ہونے کے بعد کوئی ایک سال زندہ رہتا ہے یا دو سال زندہ رہتا ہے.گویا انسان اپنی عمر تو سروس میں گزار دیتا ہے.پس پنشن کے زمانہ کی تو اسے پرواہ ہے لیکن ابدی زندگی کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہے آخر اتنی حماقت لوگوں کے سروں پر کیوں سوار ہو گئی لیکن سوار ہے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور ان کو نور بصارت اور نور بصیرت عطا فرمائے.اسی طرح وہ مذاہب جو اپنا وقت گزار چکے وہ اب منسوخ ہو چکے ہیں پہلے زمانہ میں وقت وقت اور علاقہ علاقہ کے لئے نبی آتے رہے، کوئی دس میل کے علاقہ کے لئے نبی آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بعض لحاظ سے بنی اسرائیل میں ایک ایک وقت میں نبوت کرنے والے یعنی خدا تعالیٰ سے کلام سن کر لوگوں کی رہنمائی کرنے والے سینکڑوں نبی موجود ہوتے تھے تو اس طرح گویا ایک نبی کے حصہ میں دس پندرہ میل کا علاقہ ہی آتا ہو گا وہ وقت تو گزر گیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم کو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نے منسوخ کردیا بلکہ موسوی شریعت میں ہر نبی نے جو موسی کے بعد آیا ترامیم کر دیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی یہ بھی ایک عجیب حقیقت ہے.حضرت عیسی علیہ السلام نے جو انہیں کی شریعت کے تابع اور یہ اعلان کرنے والے تھے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے استحکام کے لئے اور اسے دوبارہ قائم کرنے کے لئے آئے ہیں انہوں نے بھی کہا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام
خطابات ناصر جلد دوم ۱۵۸ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء نے یہ غلط کہا تھا کہ اگر کوئی ایک تھپڑ مارتا ہے تو اس کے منہ پر دو تھپڑ لگا کر اسے سیدھا کر دو اس لئے میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ اگر کوئی ایک تھپڑ لگاتا ہے تو تم دوسری گال بھی اس کے سامنے کر دو.پس یہ شریعتیں اپنے زمانہ کے لحاظ سے بھی محدود، جگہ کے لحاظ سے بھی محدود اور وقت کے لحاظ سے بھی محدود تھیں اور اپنا وقت گزار کر ختم ہو چکی ہیں مگر یہ اہل کتاب ہیں کہ بجائے اسلام کی صداقت کو مان لینے کے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے ہر وہ دلیل جو نہایت مؤثر ہے، قائل کرنے والی اور گھائل کرنے والی ہے اس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ کچھ عرصہ ہوا تین سوسائنسدانوں نے کفن مسیح پر تحقیق کر کے یہ ثابت کیا کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر سے زندہ اترے اور ان کے زخموں پر مرہم لگائی گئی اور جس غار میں ان کو رکھا گیا تھا.اس میں سے زندہ باہر نکلے یہ سائنسدان عیسائی اور کچھ دھر یہ ہیں اور یورپ کے رہنے والے ہیں ان کے نام نہیں بتائے گئے کہ ممکن ہے بعض عیسائی طاقتیں ان کو قتل کروا دیں.بہر حال انہوں نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ مسیح غار سے زندہ باہر نکلے اور کہیں چلے گئے.ہم عیسائیوں سے کہتے ہیں.تمہیں اپنے مسیح کا پتہ نہیں کہ کہاں چلے گئے اور یہ تم کو مسیح محمدی نے بتادیا کہ وہ کشمیر چلے گئے تھے.اب تو سمجھ جانا چاہئے تھا مگر نہیں.اپنے ایسے مذہب کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں جس کا وقت گزر چکا ہے.وہ مذہب جس کا یہ وقت ہے وہ اسلام ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے.آپ کو ایک ایسی کامل شریعت دی گئی.جس نے قیامت تک انسانی الجھنوں کو سلجھانا اور مسائل کو حل کرنا تھا.قرآن کریم نے یہ اعلان کیا تھا کہ میرے اندر علم و ہدایت کے چھپے ہوئے خزانے ہیں جو وقت وقت کی ضرورت کے مطابق مطہرین کے گروہ کو علم لدنی کے ذریعہ سکھائے جائیں گے.یعنی خدا تعالیٰ خودان کو علم سکھائے گا اور پھر وہ آگے لوگوں کو علم قرآن سکھائیں گے لیکن خدا تعالیٰ سے قرآن کریم کے لئے معارف حاصل کرنے کے بعد اور نئے اسرار روحانیہ حاصل کرنے کے بعد یہ عظیم کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے کی مصداق ہے یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ جہاں تک مذہب کا سوال ہے انسان اور کس چیز کے گرد گھومے گا.جہاں تک شریعت کا سوال ہے انسان اور کس چیز کو ہدایت کا ذریعہ بنائے گا.قرآن ہی تو ہے جس نے ہمارے سارے مسئلوں کو حل کر دیا ہے کر رہا ہے اور کرتا رہے گا.
خطابات ناصر جلد دوم ۱۵۹ اختتامی خطاب ۲۸ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء پس وہ لوگ جو اہل کتاب ہیں دوست ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اے خدا ! اہل کتاب جن کی کتابیں اپنا زمانہ گزار چکیں.تو ان کو یہ توفیق دے کہ وہ اس قرآن عظیم پر ایمان لے آئیں جو قیامت تک قائم رہنے والی کتاب ہے اور ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے والی کتاب ہے غرض دہریوں کے لئے بھی دعا کریں اہل کتاب کے لئے بھی دعا کریں بد مذہبوں کے لئے دعا کریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ محاورہ استعمال فرمایا ہے یعنی ایک ہے لامذہب دھر یہ اور ایک ہے بد مذہب.بد مذہب وہ لوگ ہیں جن کی طرف کسی وقت رسول آیا مگر پھر وہ اس رسول کا نام بھی بھول گئے.اس کی کتاب بھی انہیں یاد نہیں رہی صرف رسوم کا پلندہ رہ گیا اسے وہ مذہب سمجھ رہے ہیں.تو وہ مذہب ہے بھی اور مذہب نہیں بھی.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس گروہ کا نام بد مذہب رکھ دیا افریقہ میں بعض ایسے قبائل ہیں جن کو ہم بد مذہب کہہ سکتے ہیں دوست ان کے لئے بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے سامان پیدا کرے.پھر دنیا اپنے ہی ہاتھ سے ایسے سامان پیدا کر رہی ہے کہ اگر ان کا بس چلے تو شاید وہ دنیا کو مٹادیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں کو پکڑے اور ہلاکت کے سامان بنانے سے ان کو روک دے.ان کو انسان کی تباہی کے سامان نہ کرنے دے.بنی نوع انسان کو ان کی شرارت سے محفوظ کر دے.ہلاکت کے سب سامان خود بخود ہی ختم ہو کر رہ جائیں وہ انسان کو تباہ کر کے خود بھی تباہ نہ ہو جا ئیں.پھر وہ لوگ بھی جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.اے دل تو نیز ، خاطر ایناں ، نگاہ دار کا خر کنند ، دعوی حب پیمبرم ( در مشین فارسی صفحه ۱۰۷) غرض وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق دے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی پیار کریں اور عملاً جاں نثاری کا مظاہرہ کریں اور اسلامی تعلیم کی روشنی میں وہ اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہوں.پھر یہ ایک چھوٹا سا گروہ ہے جسے دنیا کبھی مرزائی کہتی ہے اور کبھی قادیانی مگر وہ تو جماعت احمد یہ ہے جو اگر چہ دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت ہے آج دنیا اسے حقیر سمجھتی ہے.دنیا اس پر ہر قسم کے جھوٹے اعتراض کرتی ہے اور کئی قسم کے الزام لگاتی ہے اور دنیا یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ایک ایک احمدی
خطابات ناصر جلد دوم 17.اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۵ء کی گردن کاٹ کر احمدیت کو مٹادیں گے لیکن اگر اسلام کو زندہ کرنے کے لئے ہمیں گردنیں کٹوانی پڑیں تو خدا کی قسم ہم میں سے ہر ایک خدا کی راہ میں گردن کٹوادے گا.(نعرہ ہائے تکبیر ) لیکن خدا تعالیٰ کی بشارتیں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ہم مرنے کے لئے نہیں بلکہ ہم خود زندہ رہنے اور دوسروں کو زندہ کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.خدا تعالیٰ کی بشارتیں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ہم شکست کھانے کے لئے نہیں بلکہ ہم کامیاب و کامران ہونے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.خدا کی آواز ہمیں یہ کہتی ہے کہ ہماری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے اور خدا تعالیٰ کی یہ بشارت کہتی ہے کہ ہم دکھ دینے کے لئے نہیں ہم دنیا کو سکھ پہنچانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ہم مارنے کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کو زندہ کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.دنیا ہمارے ساتھ جو چاہے سلوک کرے ہم اپنی طرف سے انشاء اللہ انتہائی کوشش کریں گے کہ ہمارے ذریعہ سے انسان کو وہ زندگی حاصل ہو جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے.پس ہم دعائیں کریں گے اس وقت کی دعا میں بھی اور ہمیشہ یہ دعائیں کرتے رہیں گے کہ اے خدا! وہ مردہ جو زندہ ہونے کے لئے بھی تیار نہیں اس کو زندہ کرنے کا کام تو نے ہمارے سپرد کیا ہے ہماری مدد کو آسمان سے فرشتوں کو نازل کرتا کہ تیری مرضی پوری ہو اور وہ جو آج دنیا میں مردہ لاشیں نظر آتی ہیں ان میں زندگی کی روح کروٹیں لینے لگے اور تیری بشارتوں اور تیرے ارادوں کے مطابق دنیا میں جلد ایک انقلاب عظیم بپا ہو جائے آ ؤ دعا کرلیں.ایک لمبی اور پر سوز اجتماعی دعا کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ تمام احباب کو خیر سے گھروں کو لے کر جائے اور خیر سے وہاں رکھے اور ہمیشہ خیر ہی خیر ان کے ساتھ رہے.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات ناصر جلد دوم 171 ہم رب کریم کی رضا کے حصول کی خاطر یہاں جمع ہوئے ہیں افتتاحی خطاب ۱۰ر دسمبر ۱۹۷۶ء افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۱۰ر دسمبر ۱۹۷۶ء بمقام ربوه حضور انور نے فرمایا:.اللہ کے محبوب کے پیارے کی جماعت السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.پھر تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت سے بھی یہ کہا اور دُنیا کے سامنے بھی اس بات کو رکھا کہ اس جلسہ کی بنیادی اینٹ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اس لئے آپ نے فرمایا جماعت احمدیہ کا جو سالانہ جلسہ ہے یا دوسرے اجتماعات ہیں انہیں اور ان جلسوں کے انعقاد کی غرض یہ اور صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید جیسی کہ قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے اس کا ذکر کیا جائے یعنی سُننے والوں کے سامنے خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق قرآنی تعلیم پیش کی جائے.ہم اکٹھے ہو کر اللہ کی باتیں سنیں.خدا تعالیٰ کی عظمت، اس کی کبریائی اور اس کے جلال کے جو جلوے دُنیا پر ظاہر ہو رہے ہیں اُن کے متعلق ہمارا علم بڑھے.خدا تعالیٰ کی عظمت اور شان کو دیکھ کر ایک طرف ہمارے دل میں اس کی خشیت پیدا ہو اور دوسری طرف اس کی محبت سے ہمارے دل معمور اور لبریز ہو جائیں.پس ہم یہاں اس لئے اکٹھے ہوتے ہیں کہ یہ باتیں جو تو حید خالص کے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم تک پہنچیں ، قرآن کریم جو اللہ کا کلام ہے یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جو تفسیر بیان فرمائی ہے اس کے ذریعہ سے یہ باتیں ہم تک پہنچیں.ان کی یاد دہانی ہوتی ہے جو نئی نسلیں ہیں اُن کے کانوں میں یہ باتیں پڑیں.اور اب تو ایک اور فوج آ رہی ہے جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کے اندر جن میں اس سے قبل اسلام کا کوئی پتہ ہی نہیں
خطابات ناصر جلد دوم ۱۶۲ افتتاحی خطاب ۱۰ر دسمبر ۱۹۷۶ء تھا.جو پتہ تھا وہ تعصب کے نتیجہ میں غلط اعتراضات کا پتہ تھا یعنی غیر مسلم لاکھوں کی تعداد میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کو قبول کرر.کر رہے ہیں.ہمارے اجتماعات میں اب باہر سے دوست آتے ہیں اور ان آنے والوں میں بہت سے وہ لوگ ہیں یا وہ وفود ہیں جو عیسائیت سے یاد ہریت سے نکل کر خدا تعالیٰ کے جھنڈے تلے جمع ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے سایہ میں انہوں نے سکون اور اطمینان حاصل کیا.ان لوگوں کے کانوں تک اسلام کی باتیں پہنچیں.اس وقت باہر کے جو وفود یہاں بیٹھے ہیں اُن میں سے بہت سے دوست ہماری زبان نہیں سمجھتے یہ تو درست ہے لیکن وہ اتنے مشتاق ہیں ان باتوں کے سمجھنے کے لئے کہ مجھے یقین ہے اور پہلی رپورٹیں بھی یہی ہیں اور ہمارا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ آج کا سورج غروب نہیں ہوگا کہ وہ باتیں جو اُردو زبان میں میں اس وقت آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں وہ پوچھ کر اپنی زبان میں جو وہ سمجھ سکتے ہیں ، اُن کا علم حاصل کر چکے ہوں گے.پس ہم یہاں خدا اور اس کے رسول کی باتیں سننے کے لئے جمع ہوتے ہیں ایک منادی نے نداء دی اور ایک پکارنے والے نے پکارا اور اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے رب کریم کی رضا کے حصول کی خاطر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جو پیار ہمارے دلوں میں ہے اس سے مجبور ہوکر ہم یہاں آتے ہیں.یہاں آکر بہت سے فوائد حاصل کرتے ہیں.ایک تو یہ کہ نیکی کی باتیں اور تقویٰ کی باتیں ، اللہ کی باتیں اور رسول کی باتیں ہمارے کان میں پڑتی ہیں.پھر آپس میں تعارف ہوتا ہے.علاقے علاقے کے لوگ یہاں آ کر ملتے ہیں اور اُن کا ایک دوسرے کے ساتھ تعارف ہوتا ہے ہماری فضا اخوت کی بجلی سے بھری ہوئی ہوتی ہے.بعض دفعہ بجلی بھی ہوا میں کوند رہی ہو اور بادل بہت چمکیں تو ہوا میں بجلی کی رو آ جاتی ہے لیکن یہ بہر حال ایک مادی رو ہوتی ہے.یہاں روحانی اور اخلاقی طور پر ہماری فضا اس قسم کی اخوت کی لہروں سے بھری ہوئی ہوتی ہے جو اپنی مثال آپ ہے.آپ بعض دوستوں سے ملتے ہیں اور بعض سے نہیں ملتے.بہتوں کے چہرے دیکھتے ہیں ان کو پہنچانتے نہیں لیکن یہ پہنچانتے ہیں کہ ان کے سینوں میں بھی ویسے ہی دل دھڑک رہے ہیں خدا اور اس کے رسول کے پیار سے جیسے ہمارے سینوں میں دھڑک رہے ہیں.غرض جلسہ سالانہ کی اس فضاء میں اخوت کا جذبہ بڑھتا ہے.دوری مٹ جاتی
خطابات ناصر جلد دوم ۱۶۳ افتتاحی خطاب ۱۰ر دسمبر ۱۹۷۶ء ہے قرب کی راہیں کھلتی ہیں اور نفاق کی بلا سے ہمیں نجات حاصل ہوتی ہے.جو دوری ہے اس کے نتیجہ میں بڑی کمزوری نفاق کی کمزوری ہے.کیونکہ جہاں قُرب ہو اور جہاں تک قرب ہو نفاق اس کے اندر داخل نہیں ہو سکتا.اگر کسی شخص کو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے تو شیطان بندے اور خدا کے تعلقات کے درمیان نفاق نہیں پیدا کر سکتا اگر کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانے ، آپ کی شان سے اُسے واقفیت حاصل ہو، اگر وہ آپ کی عظمت کو جانتا ہو اور وہ عالمگیر احسان جو نوع انسانی پر آپ نے کیا ہے، اس نے اپنی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کی جھلکیاں دیکھی ہوں تو شیطان کو یہ جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ خدا کے جو بندے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو تبعین ہیں ان کے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان نفاق پیدا کر سکے.دراصل معرفت نفاق کو کھا جانے والی چیز ہے جتنی کسی کی معرفت کافی ہوتی ہے اتنا ہی شیطان کے منافقانہ حملوں سے محفوظ ہو جاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس جلسہ کے انعقاد کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ باہمی نفاق کو دور کیا جائے اور وہ اس جلسہ میں اس طرح دور ہوتا ہے کہ ہم اصولی اور اعتقادی طور پر خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق علم حاصل کرتے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کا جس رنگ میں پیار ہم پر نازل ہو رہا ہے اور جس کا کوئی شمار نہیں اس کو ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں.ہمارے کان سنتے ہیں.ہمارا ذہن اور ہمارا نور فراست اس کو محسوس کرتا ہے اور اس طرح ہمارے لئے خوشحالی اور اطمینان کے سامان پیدا ہوتے ہیں اور نفاق ہم سے کوسوں دور بھاگ جاتا ہے کیونکہ نفاق ظلمت کا نام ہے اور یہ جلسہ نور کو پھیلانے والا اور نور کو اکٹھا کرنے والا اور ٹور سے جھولیاں بھرنے والا اور نور سے اپنے سینوں کو منور کرنے والا اور نور سے فراست کو جلا دینے والا اور انسان کو ظلمات سے نکال کر اس نور کی طرف لے جانے والا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اس لئے اس جلسہ پر ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا ئیں اور اپنے وقتوں کو کم سے کم ضائع کریں اپنے وقتوں کو خدا اور اس کے رسول کی باتیں سننے سنانے سے معمور رکھیں کیونکہ جس مہدی علیہ السلام پر ہم ایمان لائے ہیں اس کی اللہ تعالیٰ نے ایک یہ صفت بھی بیان فرمائی ہے.
خطابات ناصر جلد دوم ۱۶۴ افتتاحی خطاب ۱۰ر دسمبر ۱۹۷۶ء انت الشيخ المسيح الذى لا يُضاع وقته ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه ۵۵۰) که تو وہ بزرگ مسیح ہے کہ تیرا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.یعنی معمور الا وقات آپ خُود بھی تھے اور جماعت کو بھی معمور الاوقات دیکھنا چاہتے تھے.تاہم سب سے زیادہ معمور الاوقات تو ہمارے سید و مولا محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.میں نے سوچا اور بڑا غور کیا ہے عقل حیران ہو جاتی ہے کہ آپ اپنے وقت کو اتنا صحیح استعمال کرنے والے تھے کہ جس کی کوئی مثال نہیں.آپ باریکیوں میں جا کر ہماری ضرورتوں کے لئے ہدایت بہم پہنچانے کی فکر میں رہتے تھے.یہ فکر تھی آپ کو کہ لوگ مسواک کریں اور اُن کے مسوڑھوں کو تکلیف نہ پہنچے اس قسم کا احسان کرنے والا دل تھا.جو آپ کے سینہ میں دھڑک رہا تھا.یہ فکر تھی آپ کو کہ اگر کسی شخص کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو کہیں شیطان اسے یہ نہ ور غلا دے کہ وہ اپنے زور سے یا کسی کی ہمت سے جوتے کا تسمہ لے سکتا ہے اور اس طرح گویا بندے اور خدا کے درمیان دوری نہ پیدا ہو جائے اس لئے یہ فکر تھی آپ کو اور اسی لئے آپ نے فرمایا تسمہ ٹوٹ جائے تو خدا سے مانگو خدا تمہیں دینے والا ہے ( مجمع الزوائد جلد نمبر، اصفحہ ۱۶۶) ہم نے اپنی زندگیوں میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ حقیقتا خدا ہی دیتا ہے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہی یقینی طور پر سچے ہیں.کیونکہ بہت سے سہ لینے گئے اور دُوکان پر پہنچنے سے پہلے ہی اُن کی حرکت قلب بند ہوئی اور وہ مر گئے لیکن میں اس وقت جو بات بتا رہا ہوں وہ اس محسن کے احسان عظیم کی بات ہے اور اس کے معمور الاوقات ہونے کی بات ہے.آپ نے اتنی کثرت سے ہدایتیں دیں کہ ہماری عمر ان کو دوہراتے ہوئے تھک جاتی ہے بلکہ وہ ہمارا ساتھ نہیں دے پاتی.انسان ان سب کا احاطہ نہیں کر سکتا.ایک وقت میں ایک متعصب مستشرق نے کہا تھا کہ مسند احمد بن جنبل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث اکٹھی کی گئی ہیں وہ صرف اسی نے پڑھی ہیں.مسلمانوں میں سے اور کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے شروع سے لے کر آخر تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کو پڑھا ہو جو صرف اس حدیث کی کتاب میں ہیں جن کو مسند احمد بن جنبل کہتے ہیں اور جو حدیث کی بہت بڑی کتاب ہے.صرف بعض قسم کی احادیث کو اکٹھا کرنے پر امام بخاری نے ساری عمر لگا دی اور بہت سی ایسی احادیث تھیں جن کو وہ اکٹھا نہ کر سکے مگر اس کی شان دیکھو جس نے نیکی اور بھلائی
خطابات ناصر جلد دوم ۱۶۵ افتتاحی خطاب ۱۰ر دسمبر ۱۹۷۶ء کے اور جس نے صداقت اور ٹور کے یہ بول بولے اور دنیوی لحاظ سے وہ زندگی اور وہ عمر پائی جن کا فیضان قیامت تک ممتد ہے.قرآن کریم نے ہمیں کہا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر لحاظ سے تمہارے لئے اسوہ حسنہ بنایا.معمور الاوقات ہونے کے لحاظ سے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اُسوہ ہیں اور پھر آپ کے شاگردوں اور روحانی اولاد میں سے اس وقت مہدی علیہ السلام کا نمونہ ہمارے سامنے ہے کہ آپ نے دن رات کام کیا اور اس نے ہر زمانے کے لحاظ سے اتنا عظیم مجاہدہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کے تابع ہو کر اور آپ کی محبت میں مست ہو کر اسلام کی بے مثال خدمت کی.اتنا معمور تو میں نہیں کہہ سکتا جتنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معمور الاوقات تھے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قیامت تک کے لئے جن علوم کی ضرورت تھی اُن کی تفسیر یا اُن کا بیج اپنی تحریروں میں اور اپنی تقریروں میں آپ نے بتا دیا.پس یہاں آپ کچھ سیکھنے کے لئے آتے ہیں اس لئے کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ سیکھیں یہاں آپ کچھ حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں پس کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ حاصل کریں.یہاں آپ کچھ پانے کے لئے آتے ہیں خدا کرے کہ آپ کو اتنامل کہ آپ کی جھولیاں بھر جائیں اور آپ کے لئے اُس کا سنبھالنا مشکل ہو جائے.اس دفعہ بہت سی روکیں جماعت احمدیہ کے راستے میں حائل تھیں بعض وجوہات کی بناء پر اور بعض ضرورتوں کی خاطر حکومت وقت کی خواہش کو سمجھتے ہوئے اور اس کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہم نے جلسہ سالانہ کی تاریخوں کو اپنی جگہ سے بدلا اور ایسے وقت میں رکھا جب سکول کھلے ہیں کالج کھلے ہیں اور کراچی ، پشاور، لاہور اور سیالکوٹ وغیرہ میں ایسے بچے سکولوں میں ہیں جن کو اکیلا چھوڑ ا نہیں جاسکتا.ان کی خاطر گھر والوں میں سے بہر حال کسی نہ کسی کو وہاں رہنا پڑے گا.پھر جہاں تک راستے کا سوال ہے بڑی تکلیفیں اور بڑی بے آرامیاں اٹھا کر آپ میں سے ہزاروں دوست یہاں پہنچے.لیکن میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب آپ کو منزل مل گئی آپ یہاں پہنچ گئے تو راہ کے کانٹوں کا کیا شکوہ.
خطابات ناصر جلد دوم ۱۶۶ افتتاحی خطاب ۱۰ر دسمبر ۱۹۷۶ء خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا آپ یہاں پہنچ گئے.بعض لوگوں کا خیال تھا کہ جو روکیں پیدا ہو رہی ہیں اس کے نتیجہ میں شاید جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی تعداد کم ہو جائے گی لیکن وہ کانٹے جو راہوں پر بچھے ہوئے تھے.انہوں نے آپ کو روکا نہیں آپ کے قدموں کو اور تیز کیا.ضلع لا ہو رہی کی رپورٹ ہے ( باقی اضلاع میں بھی یہی ہوگا ) وہاں کی جماعت کے عہد یداران نے جائزہ لیا تو لوگوں نے کہا کہ پچھلے سال جو دوست رہ گئے تھے یا جتنے عام طور پر جلسہ سالانہ پر آتے ہیں اور ظاہر ہے جلسہ پر ایک حصہ ہی آتا ہے رپورٹ کرنے والے کے مطابق پچھلے سال سے سو فیصد زائد احمدی آنے کے لئے تیار ہیں.پس کیا دوست ان کانٹوں کا شکوہ کریں گے جنہوں نے آپ کی رفتار کو اور تیز کر دیا.ہم تو شکر ادا کرتے ہیں راہ کے ان کانٹوں کا اور راستے کی ان روکاوٹوں کا کہ انہوں نے اس محبت کے مظاہرے کے سامان پیدا کئے جو ہمارے دلوں میں خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے موجزن ہے.پس ہماری یہ دعا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جلسہ کے متعلق جو دعائیں کی ہیں اپنی جماعت کے اس حصہ کے لئے جو یہاں آنے والے ہیں یا نہیں آنے والے اللہ تعالیٰ ہم سب کے حق میں وہ ساری ہی دعائیں قبول فرمائے اور ان کا ہمیں وارث بنائے اور آسمان سے فرشتوں کے نزول کے ساتھ ہماری نصرت اور مد دفرمائے اور اسلام کا یہ قافلہ زیادہ تیزی کے ساتھ شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے بڑھتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے ہم وارث ہوں ہماری عقلوں میں پہلے سے زیادہ جلا پیدا ہو، ان میں نور پیدا ہو، اس کائنات کو سمجھنے کی پہلے سے زیادہ ہمیں توفیق ملے اور کائنات کے سمجھنے کے بعد ہر دو جہان کو معلوم کر لینے کے بعد اس کی ماہیت اور کیفیت اور حقیقت کیا ہے اور رب العلمین کے بے شمار فضلوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لینے کے بعد ہمارے دلوں میں جس قدر محبت اور پیار پیدا ہونا چاہئے ، ہمارے پیدا کرنے والے رب کے لئے اس سے کم نہ پیدا ہو کسی صورت میں ، اور ہماری ہر روح اور ہمارا ہر دل اور ہمارا ہر فردا اپنی اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق خدا کی محبت سے بھر جائے اور لبریز ہو جائے اور اوور فلو (overflow) کر جائے اور
خطابات ناصر جلد دوم ۱۶۷ افتتاحی خطاب ۱۰ر دسمبر ۱۹۷۶ء خدا تعالیٰ کی رحمتیں اس کثرت سے نازل ہوں کہ آپ کو اپنے وجود کا بھی احساس باقی نہ رہے اور آپ کی روح اور آپ کے ذہن اور آپ کے تخیل میں خدا ہی خدا ہو اور باقی ہر چیز لاشی محض اور نیستی محض ہو.خدا کرے کہ ہم خدا تعالیٰ کے پیار کو اس رنگ میں اور اس کی رحمتوں کو اس طور پر حاصل کرنے والے ہوں کہ وہ ہم سے ارضی ہو جائے.اب ہم دعا کرتے ہیں.خدا تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت میں لپیٹے رکھے اور اس جلسہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے.یہاں سے زیادہ سے زیادہ روحانی خزائن ساتھ لے جانے کی توفیق ملے اور ہر احمدی دنیا میں جہاں بھی ہے اور جس خطہ میں ہے خدا تعالی کی حفاظت اور اس کی امان میں رہے اور خدا کے فرشتے ان کی ہدایت اور رہبری کرنے والے ہوں.روزنامه الفضل ربوه ۵ /جنوری ۱۹۷۷ء صفحه ۲ تا ۴ ) 谢谢
۱۶۸ خطابات ناصر جلد دوم
خطابات ناصر جلد دوم ۱۶۹ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء اسلام تو نرمی خوش خلقی ، نرا پیار اور نری محبت ہے جلسه سالانه فرموده ۱۱ار دسمبر ۱۹۷۶ ء بمقام ربوہ تشہد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قریباً چھیاسی برس کا عرصہ ہوا قادیان میں ایک ایسا شخص جوانی کو پہنچ رہا تھا کہ ہر وقت اس کی توجہ اور اس کا خیال قرآن کی طرف رہتا تھا اور اس میں وہ خوش تھا اور جو روحانی غذا اسے قرآن عظیم سے ملتی تھی اس کے مقابلہ میں اگر اس کے اپنے عزیز اور رشتہ دار سے جسمانی غذا دینا بھول جاتے تو اس کی بھی وہ پرواہ نہ کرتا.نہ اسے اس کا احساس ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے اسے جس مقصد کے لئے پیدا کیا تھا اور جو کام خدا تعالیٰ اس سے لینا چاہتا تھا اس کے پیش نظر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا گیا کہ اٹھ اور دنیا کو مخاطب کر اور دنیا کے کونے کونے میں جا اور دنیا سے کہہ کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کا رسول اور خدا تعالیٰ نے اسے کہا کہ تجھے ان پیشگوئیوں کے پورا کرنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے جو تیرہ سو سال پہلے اسلام میں کی گئیں اور وہ بشارتیں جو غلبہ اسلام کے متعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تھیں ان کو تیرے ہاتھ سے اور تیرے ذریعہ سے پورا کیا جائے گا.اُس دن سے جس دن سے کہ اس شخص کو جسے ہم مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام سے یاد کرتے ہیں یہ کہا گیا اُس دن سے ایک عظیم آسمانی منصوبہ شروع ہوا اور اس کی بنیاد رکھی گئی اور میں تو علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کیونکہ میں نے اس پر بڑا غور کیا اور مجھے یہی سمجھ آئی کہ اُس دن سے دنیا میں کوئی بھی ایسی اہم بات نہیں ہوئی کوئی بھی ایسا اہم واقعہ نہیں ہوا جس نے انسانی زندگی میں کوئی انقلاب بپا کرنا تھا کہ اس کا تعلق اس تدبیر آسمانی سے نہیں تھا کہ مہدی علیہ السلام اور ان کی جماعت کے ذریعہ سے دنیا میں اسلام کو غالب کیا جائے.دنیا کی تاریخ تو بڑی وسیع ہے، بڑی دنیا ہے.اور واقعات بھی بڑے ہوئے اگر ہم زلزلوں ہی کو لیں جو اُس
خطابات ناصر جلد دوم ۱۷۰ دوسرے روز کا خطاب اار دسمبر ۱۹۷۶ء وقت سے لے کر اس وقت تک آ رہے ہیں یعنی جو پچھلے چھیاسی سال میں آئے تو ایک زمانہ میں کم تعداد میں اور ایک زمانہ میں کثرت کے ساتھ زلزلے آئے اور کثرت والا زمانہ اب پھر پچھلے چار پانچ سال کا ہے.اخباروں میں بھی اس کے متعلق خبر آئی تھی کہ زلزلے کے بعد زلزلہ آیا اور غالبا لاکھوں آدمی ان چند سالوں میں زلزلوں نے ہلاک کر دئے.اسی طرح اُن حادثات کو لیں جن کا بظاہر انسان سے تعلق ہوتا ہے جیسے کہ بسوں کو ڈرائیو کرنا ، چلانا ( یہ ذرا باریک فلسفہ ہے) یہ انسان کا کام ہے انسان ڈرائیو کرتا ہے لیکن جب ہم نے بسوں کی تاریخ پر غور کیا تو ایک زمانہ ایسا آیا کہ جب بسوں کے بہت کم حادثات ہمیں نظر آئے اور ایک وہ وقت آیا کہ ہمارے اپنے ہی ملک میں ( میں تو اس وقت دنیا کی بات کر رہا ہوں اپنے ملک کی بات نہیں کر رہا) تاہم ہمارے اپنے ہی ملک میں قریباً روزانہ دو تین چار بسوں کے حادثات ہو جاتے تھے.جن میں بہت سی جانیں ہلاک اور بہت سی زخمی ہوتیں.بہت سے لوگ اس سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور بہت سے اس کو نظر انداز بھی کر جاتے ہیں اور آنے والے حوادث کا انتظار کرتے ہیں کہ شاید وہ انہیں جھنجھوڑ کے رکھ دیں اور خدا تعالیٰ کی یاد کو ان کے دلوں میں تازہ کریں.کم و بیش ایک سال کی بات ہے کہ ایک دوست جو کہ ہم سب کے ہی دوست ہیں اور اُن کے چند ساتھی بس میں سفر کر رہے تھے کہ حادثہ ہوا اور ایک وہیں وفات پاگئے اور دو کی لاتیں وغیرہ جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں.یہ ایک گروپ تھا جو لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے مہدی معہود کے خلاف اور اس مہم کے خلاف جو آسمانوں سے اسلام کو غالب کرنے کے لئے جاری کی گئی ہے بہت باتیں کرتے تھے.اب چند دن ہوئے ان میں سے ایک صاحب نے ایک احمدی کو بلایا اور کہا کہ ہم نے جو زور لگا نا تھا لگا لیا لیکن تمہیں نا کام نہیں کر سکے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ تم حق پر ہو اور سچائی تمہارے ساتھ ہے.یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے، ساری دنیا میں بعض زمانوں میں الہی قدرت کی تاریں ہلائی جاتی ہیں اور بڑی کثرت سے اس قسم کے حادثات ہونے شروع ہو جاتے ہیں کبھی زلزلے آ رہے ہیں، کبھی سمندر میں غرق ہو رہے ہیں کبھی سال سال بھر آپ کو کوئی ایسی خبر نہیں ملتی کہ کسی ہوائی جہاز کا حادثہ ہوا ہو اور کبھی ہر روز دو دو حادثات کا ذکر آنا شروع ہو جاتا ہے.یہ جو نقشہ ہے ، جو پیٹرن (pattern) ہے یہ بھی اسلامی تعلیم کے عین مطابق ہے کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی جھنجھوڑتا ہے اور کبھی ڈھیل
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء دیتا ہے تا کہ سمجھنے والے سمجھیں اور پہچاننے والے پہچانے لگیں.پھر ایک حصہ اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہے اور اس کی طرف رجوع کرتا ہے.کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ پھر جھنجھوڑتا ہے اس طرح آہستہ آہستہ وہ انسان کو اپنی طرف کھینچتا ہے.آج صبح میں اپنی بہنوں کو بتا رہا تھا کہ انسان کو اس غرض سے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الثريت: ۵۷) ہماری اس کرہ ارض پر زندگی بہت چھوٹی ہے ہماری مجموعی طور پر گلی زندگی کے مقابلے میں.یہ کوئی زندگی ہے پچاس، ساٹھ سال ، ستر سال ، چند ایک آدمی ہوتے ہیں جو سو، سوا سو سال کی عمر پاتے ہیں لیکن مرنے کے بعد جس زندگی کا انسان کو وعدہ دیا گیا ہے وہ نہ ختم ہونے والی زندگی ہے.چونکہ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ تھا کہ انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کر ے اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ تھا کہ انسان کو اس لئے پیدا کیا جائے کہ وہ اس کی محبت اور پیار کو حاصل کرے اور اس کی رضا کی جنتوں کا وارث ہو.یہ منشا ہے اور یہ منشا اس طرح بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انسان دو قسم کے ہیں اور ان کے لئے دو قسم کے راستے ہیں.ایک سیدھا راستہ ہے جنتوں کے حصول کا.اور وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو تعلیم ہمارے سامنے رکھی ہے ہم اس پر عمل کریں.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو مومن ہونے کی حالت میں عمل صالح کرے گا ہمیشہ کی جنت اس کو دی جائے گی اور احسن جزاء اسے دی جائے گی اور حسابی طور پر جتنے کا وہ زیادہ سے زیادہ مستحق بنتا ہے خدا نے کہا ہے کہ میں اس سے بھی زیادہ دوں گا.پس ایک تو خدا کی جنتوں تک رسائی کا یہ راستہ ہے جو کہ سیدھا ہے.اس میں ابتلا آتے ہیں اس میں اس دنیا میں اس چھوٹی سی حیات میں تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اس میں بڑی پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہیں، اس میں ذہنی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ تم ان کی زبانوں سے بھی ایڈ اسنو گے.انسانی فطرت ہے کہ بعض باتیں اسے دکھ پہنچاتی ہیں اس کے لئے سکھ اور راحت کا باعث نہیں ہوتیں.خدا نے کہا کہ یہ سب درست ہے لیکن اگر میرے پیار کے حصول کے لئے تم یہ تکالیف برداشت کرو گے، اگر تم میرے انعامات کے حصول کے لئے ان امتحانوں میں سے کامیاب گزرنے کے لئے کوشش کرو گے تو تمہیں ایسی زندگی ملے گی جو نہ ختم ہونے والی ہے جو جنتوں کی زندگی ہے.یہ
خطابات ناصر جلد دوم ۱۷۲ دوسرے روز کا خطاب اار دسمبر ۱۹۷۶ء سیدھا راستہ ہے جنتوں تک پہنچنے کا اور یہ مشکل راستہ نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے فارسی کلام میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ خدا کو حاصل کرنا تو بڑا ہی آسان ہے ، وہ جان مانگتا ہے جان دے دو.کیا مشکل ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے عجیب شان تھی اُس جماعت کی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت یافتہ تھی.دشمن کی جو تدبیر تھی کہ ان کو سختی کر کے ہلاک کیا جائے ،تلوار سے اور نیزے سے اور تیر کمان سے ان کو مارا جائے اس کے مقابلے میں ان کو بھی تلوار میان سے نکالنی پڑی اور نہ اسلام تو پیار اور اخوت اور محبت کا مذہب ہے لیکن بہر حال ان کو تلوار نکالنی پڑی اور میدانِ جنگ میں جانا پڑا اور جانیں دینی پڑیں.ان کی سوانح زندگی پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آج کل لوگ کوٹھیاں بناتے ہیں اور اس قسم کی طرز تعمیر ہوگئی ہے کہ ایک سونے کا کمرہ ہے ایک بیٹھنے کا کمرہ ہے وغیرہ.تو آج کے دنیا دار انسان کو اپنے سونے والے کمرے سے بیٹھنے والے کمرے تک جانا یا بیٹھنے والے سے سونے والے کمرے تک جانا اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا کہ اُن لوگوں کے لئے اس دنیا کو چھوڑ کر خدا کی دوسری دنیا کی جنتوں کے اندر جانا آسان تھا.ان کے اندر کوئی احساس ہی نہیں پیدا ہوتا تھا آرام کے ساتھ اپنی زندگی خدا کے حضور پیش کر دیتے تھے.وہ چونکہ خدا تعالیٰ کی معرفت رکھتے تھے اس واسطے ان کو کوئی مشکل در پیش نہیں آتی تھی.یہ ہے سیدھا راستہ ، قرآن کریم کا بتایا ہوا صراط مستقیم : جو جنتوں کی طرف لے کر جاتا ہے.لیکن چونکہ انسان کو خدا نے پیدا ہی جنتوں میں داخل کرنے کے لئے کیا ہے اس لئے وہ لوگ جو اعمال سوء بجالاتے ہیں ، وہ لوگ جو اعمال صالحہ بجا نہیں لاتے ، جو ( ڈیزرو ) deserve نہیں کرتے کہ انہیں جنت میں بھیجا جائے ، جن کی بدیاں نیکیوں سے بڑھی ہوئی ہیں اور بدیوں کا پلڑا بھاری ہے ان کے لئے خدا تعالیٰ کا دوسرا اصول یعنی اس کے قہر کے جلووں کا، جوان پر ظاہر ہونا ہوتا ہے لیکن یہ سوچنے والی بات ہے کہ ان کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ اس انسان کو میں نے اپنی جنتوں کے لئے پیدا کیا تھا مگر اس نے اپنی دنیوی زندگی میں اپنے لئے جنتوں کا سامان اکٹھا نہیں کیا ، جس غرض کے لئے اس کو پیدا کیا گیا تھا اس غرض کو اس نے پورا نہیں کیا اس واسطے میں اس کی روح کو ہلاک کر دیتا ہوں اور وہ مالک ہے ایسا کر سکتا تھا لیکن یہ نہیں کہا بلکہ خدا
خطابات ناصر جلد دوم ۱۷۳ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء نے کہا کہ اگر چہ تم نے اپنی اس ورلی زندگی میں میری جنتوں کے حصول کا سامان اکٹھا نہیں کیا پھر بھی میں تمہیں اپنی جنتوں کی طرف لے کر جاؤں گا لیکن لے کر جاؤں گا دوزخ کے راستے کے ذریعہ سے.ورنہ تو ہلاکت تھی مگر فرمایا لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيى (طه: ۷۵) یہ نہیں کہ بالکل موت وارد ہو گئی اور اس کو ختم کر دیا کہ چل دفع ہو پنجابی میں کہتے ہیں کہ جادفع ہو دوڑ جا.یہ نہیں کہا.خدا نے کہا کہ میں نے تجھے جنت میں لے جانے کے لئے پیدا کیا ہے اور میں تجھے جنت میں لے کے جاؤں گا.اگر تو سیدھے راستے سے نہیں جاتا تو میں تجھے ہسپتال کے ذریعے سے لے کے جاؤں گا میں تجھے پہلے دوزخ میں ڈالوں گا اور پھر میں تجھے جنت میں لے کے جاؤں گا ، لے کے ضرور جاؤں گا تجھے جنت میں.اسی واسطے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دوزخ پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ تمثیلی زبان میں اس کے دروازے کھٹ کھٹ کر رہے ہوں گے.کوئی آدمی اندر نہیں ہو گا اس لئے نہ دربان کی ضرورت ہوگی نہ دروازے بند کرنے کی ضرورت ہوگی ، وہاں کسی انتظام کی ضرورت نہیں ہوگی سب لوگ اس ہسپتال سے صحت یاب ہو کر نکل چکے ہوں گے اور خدا کی انسان کے متعلق جو آخری منشا تھی کہ اس کو جنت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس کے مطابق سارے جہنمیوں کو سزا کے بعد جنت میں لے جایا جائے گا لیکن ہمارے لئے فکر کی بات یہ ہے کہ اگر ساری دنیا کے عذاب ایک طرف اکٹھے ہو جائیں تو اس سے بھی زیادہ اُس ایک لمحے کا عذاب ہے جو دوزخ کا عذاب ہے اور خدا تعالیٰ کے قہر کا عذاب ہے.اس کو تو کسی شریف کسی سمجھدار، کسی زیرک کسی ذہین انسان کو اپنی مرضی سے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہونا چاہئے.جہالتوں سے ہو جاتے ہیں.غرض انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی جنتوں کے لئے پیدا کیا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض ہی یہ تھی کہ نوع انسانی کو بحیثیت نوع انسانی ہدایت راستہ دکھایا جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف ان کا رجوع ہوا ور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ان کے دلوں میں پیدا ہو اور خبر یہ دی گئی تھی کہ هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ (الصف: ١٠) یہ جو غلبہ ہے اس کے متعلق ہمارے پہلے بزرگوں نے کہا ہے کہ اسلام کا جو آخری غلبہ ہے وہ آخری زمانے میں مقدر ہے کہ جب مہدی پیدا ہوں گے اور ان کی جماعت کے ذریعہ سے اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا.یہ جو تدبیر ہے، یہ جو
خطابات ناصر جلد دوم ۱۷۴ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء منصوبہ ہے آسمانوں کا ، اس کے لئے میں اور تم پیدا کئے گئے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشا پورا ہو کہ کم از کم اس زمانہ میں ہی انسانوں کی بڑی بھاری اکثریت سیدھے راستے پر چل کر خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کے اندر داخل ہو جائے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ صرف وہ زمانہ نہیں تھا بلکہ آپ کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے پس اس زمانہ میں ایسے حالات پیدا ہوں کہ نوع انسانی کا دل بحیثیت نوع انسانی خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت لیا جائے.چھیاسی سال پہلے یہ منصوبہ ظاہر ہوا اور اس کے کئی رخ ہیں.خدا تعالیٰ کا جماعت کو جھنجھوڑنا ایک رخ ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا جماعت پر نازل ہونا ایک دوسرا رخ ہے.وہ اکیلا تھا اور دوسرا اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا اور آج وہ کروڑ سے اوپر نکل گیا اور کوئی خطہ ارض ایسا نہیں جہاں اس کے ماننے والے نہ ہوں ( نعرہ ہائے تکبیر اور حضرت مرزا غلام احمد کی جے کے نعرے ) پہلے بڑی قوتوں اور استعدادوں والا ایک گروہ تھا جو خدا تعالیٰ نے اس مدعی مہدویت کے گرد جمع کر دیا اور ایک بنیاد قائم کر دی.پھر اس میں پھیلاؤ اور وسعت پیدا ہونی شروع ہوئی ، پھر وہ قادیان سے باہر نکلا اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بیج کی طرح بویا گیا کوئی ایک درخت یہاں لگا دیا خدا نے ، اور کوئی ایک درخت وہاں لگا دیا.نقشے پر ہمارے ملک کی اور دنیا کی یہ شکل بنی ہے.کھجور کا درخت ہمارے ہاں ایک مثالی درخت ہے جس طرح اس کی جڑوں سے اور بچے نکلتے ہیں جن کو اٹھا کے باغ میں لگا دیا جاتا ہے اسی طرح اس درخت کے نیچے سے اور پودے نکلے جو مختلف جگہوں پر لگائے گئے ان کی تربیت کی گئی پھر زمین سے اور پودے نکلے پھر وہ پھیلے اگر ان کی نسل سنبھالی گئی تو وہ پھیلی پھر اور آ کر ساتھ ملے اور بڑھنا شروع ہوئے.پھر وہ ہندوستان سے باہر نکلا.بعد میں پاکستان بن گیا اور جماعت ہندوستان اور پاکستان میں بٹ گئی.بہت ساری زندگیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ بٹنے کے بعد دو کی حیثیت سے زیادہ طاقتور ہو کر زندہ رہتی ہیں.یہی حال ہمارا ہوا بٹ کر بجائے کمزور ہونے کے زیادہ طاقتور ہو گئے.پھر باہر نکلے اور یورپ میں گئے وہاں قریباً ہر ملک میں احمدی ہوئے پھر نارتھ امریکہ (شمالی امریکہ ) میں گئے وہاں ہر ملک میں احمدی ہوئے (وہاں ویسے تھوڑے ملک ہیں ) پھر جنوبی امریکہ میں گئے پھر ایشیا میں گئے.آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بھائی جو مصر ہی میں بسنے والے ہیں یا سعودی عرب میں رہنے والے !
خطابات ناصر جلد دوم ۱۷۵ دوسرے روز کا خطاب اار دسمبر ۱۹۷۶ء معلوم ہیں یا جو Oil Rich Sheikhdom یعنی یہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں جہاں پٹرول تیل وغیرہ نکلا ہے اور یہ امیر ہو گئی ہیں وہاں کے بسنے والے ہیں ان میں احمدی نہیں ہیں ، غلط سمجھتے ہیں آپ.مڈل ایسٹ کے ہر ملک کے اندر احمدی موجود ہے اور خدا کے فضل سے وہاں کے لوگ ان کی عزت کرتے ہیں اور احترام کرتے ہیں.خدا نے ان کے اندر جو قوت اور استعداد رکھی ہے پیار کرنے کی اور نیکی کرنے کی اور بھلائی کرنے کی اور خیر خواہی کرنے کی اور بھلا چاہنے کی اور کسی کی برائی نہ چاہنے کی.اس کی وجہ سے ان کی عزت کی جاتی ہے اور ان کا احترام کیا جاتا ہے.پھر افریقہ ہے.افریقہ میں تو ایک انقلاب آیا ہے.صدیوں کے مظلوم ، ہم سے بھی زیادہ.یہاں بھی بیرونی حکومتوں نے غیر حکومتوں نے آ کر اپنا تسلط جمایا اور ہمیں سیاسی غلام بنا کر رکھا لیکن ہم سے زیا اُن لوگوں پر ظلم ہوا.ایک جگہ ۱۹۷۰ء میں مجھے کہنا پڑا کہ میں نے جو دیکھا اور مشاہدہ کیا ایسا ہوتا ہے کہ ,You had all,You have deprived of all تمہیں خدا نے سب کچھ دیا تھا اور سب کچھ ہی تم سے چھین لیا گیا ہے.باہر سے آئے اور سب کچھ سمیٹ کر جھاڑو دے کر نکال کر لے گئے.وہ لوگ مظلوم ہیں دنیوی لحاظ سے بھی مظلوم اور دین کے لحاظ سے بھی مظلوم.اُن علاقوں میں ، مغربی افریقہ کے کئی ممالک میں ہمارا کام ہو رہا ہے اور بڑا کامیاب ہے.لاکھوں کی تعداد میں عیسائیت اور دہریت اور بد مذہبیت سے تو بہ کر کے وہ لوگ اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے ہیں خدا کے فضل سے احمدیت کی کوشش کے نتیجہ میں.لاکھوں کی تعداد میں ! ( نعرے ) اس نے کہا تھا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو ، جو تفسیر قرآن کریم کی ہم تجھے سکھائیں گے اس کے ذریعہ سے تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا دنیا نے کہا کہ یہ ایک آواز ہے اور ہماری اکثریت کی آواز اس آواز کو دبا دے گی لیکن خدا نے کہا کہ تمہاری اکثریت کی آواز میری آواز کو نہیں دبا سکتی ( نعرہ ہائے تکبیر اور احمدیت زندہ باد کے نعرے).خدا تعالیٰ نے اس قدر قرآنی علوم مہدی علیہ السلام کو سکھائے اور خدا تعالیٰ کے محبوب بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کے ذریعہ سے پھر ہم نے ان علوم کو سیکھا اتنے زبر دست ہیں وہ علوم کہ میں بغیر کسی خوف و خطر کے اپنے اس دورہ میں ، جو کچھ عرصہ ہوا میں نے یورپ اور امریکہ کا کیا تھا ، ان لوگوں کو کہتا تھا کہ دیکھو میں اسلام کی تعلیم کا ایک حصہ تمہارے
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء سامنے پیش کرنے لگا ہوں اور قبل اس کے کہ وہ پیش کروں میں تمہیں پہلے کہتا ہوں کہ تم میں سے کسی کو یہ جرات نہیں ہوگی کہ تم کہو کہ یہ تعلیم اچھی نہیں اور ہمیں قابل قبول نہیں ( نعرے) پھر وہ سنتے تھے اور سر ہلاتے تھے اور بعض سر دھنتے تھے اور کسی ایک نے بھی یہ کہنے کی جرات نہیں کی دکھاوے کے لئے بھی جرات نہیں کی کہ نہیں جی ہمیں تو یہ تعلیم منظور نہیں.اگر کچھ کہا تو ایک جگہ مجھے شرمندہ کرنے کے لئے یہ کہا ، ایک صحافی ایک پریس کا نفرنس میں مجھے کہنے لگا کہ اتنی اچھی تعلیم ہے، اتنی حسین تعلیم ہے ، نوع انسانی پر احسان کرنے والی تعلیم ہے آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے ہمارے ملک کے عوام تک اس تعلیم کے پہنچانے کا کیا انتظام کیا ہے.بہر حال جب خدا تعالیٰ نے اپنے آسمانی منصوبے کا اعلان کیا تو ہر دو جہان کو کہا کہ آج کے بعد تمہارے اندر جو حرکت اور تبدیلی پیدا ہوگی وہ میرے اس منصوبے کی تائید میں پیدا ہوگی میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے دعوی کے بعد انسانی زندگی میں تین بڑے انقلاب آئے.ایک تو سرمایہ دارانہ انقلاب آیا میں اس کو Capitalist Revolution کہا کرتا ہوں.بڑا ز بر دست انقلاب تھا، بڑا ز بر دست.لوگ سمجھے تھے ، اس انقلاب کے بانی یہ سمجھے تھے کہ انقلاب آیا ہے اور ہم نے مسیح کے جھنڈے کو دنیا میں لہرا دیا ہے اور اس کے مطابق انہوں نے دعوی کر دیا لیکن ہوا یہ کہ یہ جو سرمایہ دارانہ انقلاب آیا اس نے مہدی معہود کی ، اس نے محمد کے مسیح کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا سامان کیا.پریس بن گیا ، ہمارے کام آیا.راستے کھل گئے ، ہم دنیا میں جا کر خدا کے نام کو بلند کرنے کے قابل ہو گئے.ورنہ تو مجھے امریکہ پہنچنے پر کئی سال لگ جاتے.نئے سامانوں نے دو دن میں مجھے وہاں پہنچا دیا.وہ لوگ یورش کر کے آگے بڑھے تھے اور ان میں سے بعض اتنے دلیر اور شوخ ہو گئے تھے کہ بعض عیسائی منادوں نے کہا کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ خانہ کعبہ پر خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا لہرائے گا.مگر محمد کے مسیح نے کہا کہ میں تمہارے دلوں سے عیسائیت کو مٹا دوں گا ( نعرہ ہائے تکبیر ) ایک کانفرنس میں مجھ سے پوچھا گیا کہ کوئی فرق کوئی تبدیلی نظر آئی آپ کو انگلستان میں، آپ اپنے طالب علمی کے زمانہ کے بعد ، لمبے عرصہ کے بعد یہاں آئے ہیں.میں نے کہا ہاں.تمہاری نوجوان نسلوں نے عیسائیت میں دلچسپی لینی بند کر دی.وہ کہنے لگے کہ آپ نے کس چیز سے اندازہ لگایا.میں نے کہا کہ اس چیز سے
خطابات ناصر جلد دوم 122 دوسرے روز کا خطاب اار دسمبر ۱۹۷۶ء اندازہ لگایا کہ میری آنکھوں نے تمہارے گر جاؤں کے سامنے برائے فروخت کا بورڈ دیکھا اور مجھے بتایا گیا کہ کچھ گرجے بک گئے اور قحبہ خانے اور شراب خانے بن گئے اور کچھ بک گئے اور موٹروں کی گیراج بن گئے.اگر نئی نسل کو ( جس کے نتیجہ میں تمہاری آبادی بڑھی تھی ) عیسائیت میں دلچپسی ہوتی اور ان کی دلچسپی قائم رہتی تو تمہیں نئے گرجے بنانے پڑتے پرانے گرجے ناکافی ہو جاتے لیکن یہاں تو الٹا حال ہے.تم تو پرانے گر جاؤں کو بیچ رہے ہو.اٹلی میں جو کیتھولکس کا گھر ہے ایک بہت بڑا گر جا ہے سینٹ مارکوس اس کے سامنے بہت بڑا میدان ہے ، بڑی اچھی پیومنٹ (pavement) ہے کئی ہزار ٹورسٹ وہاں پھر رہا ہوتا ہے.وہاں ایک جرمن نو جوان مجھے ملا.میں اس کو آہستہ آہستہ اسلام کی طرف لا رہا تھا میں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہمیں چھپیں سال کے اندر اندر تم لوگوں کو تمہارا جو چرچ ہے اس میں کوئی دلچسپی نہیں رہے گی.تو وہ آرام سے مجھے کہنے لگا کہ You are talking of twenty,twenty five years,this.might happen tomorrow کہ آپ میں پچیس سال کی بات کر رہے ہیں کل ایسا ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا تھا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ اگر میری تعلیم ان لوگوں تک نہ بھی پہنچی تو قبل اس کے کہ تعلیم پہنچے ان کے دلوں سے عیسائیت مٹا دی جائے گی (نعرہ ہائے تکبیر ).یہ انعامات، یہ تبدیلی چھیاسی سال سے ہو رہی ہے یہ تبدیلی اس منصو بہ کو کامیابی کی طرف لے جارہی ہے.ایک تھا کروڑ سے اوپر نکل گئے اس کے ماننے والے ، ایک جگہ قید تھا ساری دنیا میں پھیل گئے.ایک وقت تھا کہ مخالف یہ سمجھتا تھا کہ اس ایک کو مار دیا تو احمدیت ختم ہو گئی ، خدا کا منصو بہ ختم ہو گیا ، خدا کا منصوبہ بھی ہلاک ہو گیا عوذ بالله - خدا کا منصوبہ تو نہیں ہلاک ہوا کرتا.پھر ایک وقت آیا کہ انہوں نے کہا کہ ہندوستان سے مٹا دو تو یہ لوگ ختم ہو جائیں گے.خدا نے کہا کہ قبل اس کے کہ تمہارا منصوبہ کامیاب ہو میں اس جماعت کو ہندوستان سے باہر لے جا کر ساری دنیا میں پھیلا دوں گا.اس وقت مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ مظلوم اور اپنے حالات کے ظلم کی وجہ سے بھی اسلام سے دور وہ ممالک ہیں جہاں اشتراکیت یعنی کمیونزم آ گیا.وہاں یہ حال ہے کہ کمیونسٹ یوگوسلاویہ کے سینکڑوں خاندان احمدی ہو گئے ہیں.سینکڑوں خاندان ! اور یہ حال ہے کہ اس وقت
خطابات ناصر جلد دوم IZA دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء ہنگری کے ایک احمدی، کمیونسٹ ہنگری کے ایک احمدی یہاں موجود ہیں اور وارسا ( پولینڈ ) کے امام جو پچھلے سال احمدی ہوئے تھے وہ بھی جلسہ سالانہ پر تشریف لائے ہوئے ہیں.یوگوسلاویہ کے جو دوست ہیں ان سے آپ پچھلے دو تین سالوں سے ملتے رہے ہیں اس سال وہ کسی وجہ سے نہیں آ سکے.غرض جہاں تبلیغ کرنی قریباً ناممکن ہے اور ان لوگوں کے حالات ایسے ہیں کہ جن کو اسلام سے کچھ تعلق ہے وہ چھپ کر نمازیں پڑھتے ہیں اور بچوں کو قرآن کریم بھی پڑھاتے ہیں وہاں بھی لوگ احمدیت کی طرف توجہ کر رہے ہیں.ایک تحریک ہے جو ساری دنیا میں چلی ہوئی ہے، ملک ملک توجہ کر رہا ہے بچے توجہ کر رہے ہیں بوڑھے توجہ کر رہے ہیں جو ان توجہ کر رہے ہی مرد توجہ کر رہے ہیں عورتیں توجہ کر رہی ہیں.آہستہ آہستہ ایک تبدیلی آرہی ہے.ہمیں یہ وعدہ ہی نہیں دیا گیا تھا کہ تمہیں سال کے اندر اندر ساری دنیا میں اسلام کو غالب کر دیا جائے گا ہمیں یہ ور دیا گیا تھا کہ ابھی تین سو سال نہیں گزریں گے کہ خدا تعالی کی باتیں پوری ہو جائیں گی اور اسلام سے باہر رہنے والوں کی حالت چوڑھے چماروں کی طرح ہوگی اور سارا جائزہ لے کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بھی اور اس کے علم میں بھی درست ہے وہ یہ ہے کہ دوسری صدی ہماری زندگی کی یعنی جماعتی زندگی کی غلبہ اسلام کی صدی ہے اور اس کے لئے آپ قربانیاں دے رہے ہیں آپ وقت خرچ کر رہے ہیں آپ پیسے دے رہے ہیں.میرے لئے تو پیسے نہیں دے رہے نہ اپنے لئے پیسے دے رہے ہیں خدا اور رسول کے لئے دے رہے ہیں.جس کے لئے دے رہے ہیں وہ آپ کی اس پیشکش کو قبول کرتا ہے اور چونکہ وہ قبول کرتا ہے اس لئے نتائج ہماری اس پیشکش کے مقابلہ میں سینکڑوں ہزاروں گنا زیادہ نکل آتے ہیں.ہم پیش کیا کرتے ہیں وہ جو دنیا جہان کا مالک خالقِ کل اور مالک کل ہے اس کے حضور اتنی سی جماعت اپنی آمد کا بھی اتنا سا حصہ پیش کرتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ جاؤ ساری دنیا میں تمہیں عزت دیتا ہوں بڑا دیا لو ہے.ان حالات میں جو میں نے بتائے ہیں خدائی منصوبہ کو کامیاب کرنے کے لئے تبدیلیاں ہو رہی ہیں یہ تبدیلیاں ہم پر بدلی ہوئی ذمہ داریاں بھی ڈال رہی ہیں.ایک تو بنیادی ذمہ داریاں ہیں اور ایک بدلی ہوئی ذمہ داریاں ہیں.چنانچہ ان بدلی ہوئی ذمہ داریوں پر جب ہم نگاہ ڈالتے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۷۹ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء ہیں تو ایک ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم سے اب ساری دنیا کا یہ مطالبہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب اتنی عظیم تفسیر قرآنی لے کر دنیا کی طرف آئے ہیں تو ہمارے ہاتھ میں دودہ تفسیر.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک سوانح در دصاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھی ہے غالباً ۱۹۰۴ء تک کی ہے کچھ حصہ رہ گیا ہے.امریکہ والوں نے شور مچایا ہوا تھا اور کہتے تھے کہ اس کو مکمل کر کے ہمیں دیں بڑی عجیب کتاب ہے وہ داستان حیات ، وہ فدائیت کے واقعات.ایک ایک لحظ خدا کی یاد میں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں جس نے گزارا ہے.اس کی زندگی کے حالات امریکنوں پر بھی اثر انداز ہیں ، اس گندے ماحول میں پرورش یافتہ لوگوں پر بھی.پس یہ ان کا مطالبہ ہے.بچوں کے متعلق میں نے خطبہ میں اعلان کیا تھا کہ میرا اندازا ہے ہمیں ایک ہزار کتاب امریکہ اور یورپ کے بچوں کے لئے تیار کرنی پڑے گی ان کی اپنی اپنی عمر کے لحاظ سے ، چھوٹی عمر، پھر بڑی عمر ، پھر بڑی عمر.تا کہ ان کو پتہ تو لگے کہ اسلام کہتا کیا ہے اسلام کی تعلیم کیا ہے ، ان کو پتہ تو لگے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کتنی عظیم اور جلالت شان والی ہے اور ان کو پتہ تو لگے کہ جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کی چودہ سو سال سے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک انہوں نے پھر اس معرفت کے بعد کس طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی ہر چیز قربان کر دی.اسلام کے صحیح مفہوم کو ان کی زندگیوں میں ہم نے پہچانا اور وہ یہ ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح بکرے پر جبر کر کے قصائی اس کی گردن پر چھری رکھ دیتا ہے اس طرح ایک انسان رضا کارانہ طور پر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اسلامی تعلیم کی اس چھری کے نیچے جو گندگی اور نجاست کو کاٹ کر پھینکنے والی ہے اپنی گردن رکھ دے اور کہے کہ میں تیرے سامنے حاضر ہوں.ہماری چودہ سو سالہ تاریخ اس قسم کے حسین واقعات سے بھری ہوئی ہے.پس ہماری یعنی جماعت احمدیہ کی حقیقت یہ مطالبہ کر رہی ہے احمدیت سے اور احمدیت میں آنے والے سے کہ اگر تم نے دنیا تک پہنچنا ہے تو یہ کام کرو.ہزاروں کی تعداد میں بچے چیخ رہے ہیں ، پکار رہے ہیں کہ ہمیں یہ دو.میری آنکھوں نے دیکھا امریکہ میں، کہ مائیں آنسوؤں سے رو رہی ہیں کہ ہمارے بچوں کو شیطانی اثرات سے بچانے کا سامان پیدا کرو، ہم تو مسلمان ہو گئے یہ نہ
خطابات ناصر جلد دوم ۱۸۰ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء ہو کہ یہ بچے پھر دنیا دارانہ گند میں واپس لوٹ جائیں.اس قدر بے چینی ہے یہ میں مبالغہ نہیں کر رہا میری آنکھوں نے آنسوؤں کی جھڑیاں دیکھی ہیں ، آنسوؤں کی جھڑیاں ان کی آنکھوں سے نکلتی ہوئی ! یہ ہے ہماری آج کی زندگی کی صداقت، جماعت احمدیہ کی زندگی کی صداقت.ہم سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہمیں مبلغ دو.ہمارے رستے میں ہزار روکیں ہیں.بعض دفعہ کسی جگہ فارن ایکسچینچ نہیں ہوتا ہر جگہ کے احمدی اس ملک کے وفادار ہیں وہ فارن ایچینج نہیں لے سکتے.مجھے نانا کی جماعت نے کہا کہ ہمارا ملک غریب ہو گیا ہے ہم نے حکومت سے کہا تھا کہ ہم نے قرآن کریم منگوانے کے لئے باہر پیسے بھیجوانے ہیں تو ہماری حکومت کہتی ہے کہ ہمارے پاس پیسے ہیں ہی نہیں تمہیں کیسے دے دیں.تعصب کی وجہ سے نہیں بلکہ فارن اکھینچ کی کمی ہے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں اجازت دیں کہ انگریزی کا ترجمہ (جو کہ یہاں بڑا ستا شائع کیا ہے اور بڑا اچھا ہے ) ہم یہاں چھاپ لیں.میں نے کہا کہ مجھے پیار اس بات سے ہے کہ قرآن کریم کی اشاعت ہو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ وہ کہاں چھپا کہاں نہیں چھپا.اس لئے جتنا چاہو چھا پو اور اسے اپنے ملک میں شائع کرو.چنانچہ وہ تیاری کر رہے ہیں.میرا خیال ہے کہ پندرہ بیس ہزار تو چھپ جائے گا.میں نے امریکہ کو کہا کہ تم نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کرنا ہے اور یہ بالکل ابتدا ہے.کیونکہ لاکھوں کی تعداد سے زیادہ تو وہاں کی لائبریریاں ہیں اگر فی لائبریری ایک نسخہ بھی رکھا جائے تب بھی لاکھوں نسخے چاہئیں لیکن پہلے میں یہ کہتا ہوں کہ فوری طور پر پچاس ہزار قرآن کریم شائع کرنے کا انتظام کرو.یہ آج کی دنیا کا مطالبہ ہے.دنیا ہمیں کہتی ہے اور صرف ہمیں کہتی ہے کیونکہ ہمیں ہی اس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے دنیا آج ! ہمیں یہ کہتی ہے کہ اگر تم نے اسلام کو غالب کرنا ہے تو قرآن کریم میرے ہاتھ میں پکڑاؤ اور سچ کہتی ہے دنیا.اس واسطے آج کا مطالبہ یہ ہے کہ پریس بناؤ.کئی جگہ چھوٹے چھوٹے پر لیس بھیجے تھے.وہاں سے ان کی چھوٹے رسالوں کی شکل میں ایک ایک دو دو کتابیں آتی ہیں قرآن کریم اور حدیث کے متعلق.یہ ایک کام ہے لیکن یہ تو کافی نہیں.کل مجھے تھوڑی دیر کے لئے امریکن وفد ملا تھا تو میں نے ان سے کہا کہ تمہیں میں بہت.ނ پروگرام کے لئے چھ مہینے دے کر آیا ہوں اور آج میں اس لئے چپ ہوں کہ ابھی وہ چھ ماہ کا عرصہ :
خطابات ناصر جلد دوم ۱۸۱ دوسرے روز کا خطاب اار دسمبر ۱۹۷۶ء نہیں گزرا لیکن قبل اس کے کہ وہ عرصہ گزرے اپنے پروگرام پورے کر لو.اپنے منصوبے مکمل کرلو.ان میں سے یہ بھی ہے کہ امریکہ میں اپنا پر لیس ہونا چاہئے.اسی طرح انگلستان میں اپنا پر لیس ہونا چاہئے.میرے انگلستان سے آنے کے بعد ابھی اس تھوڑے سے عرصے میں وہاں ایک چھوٹا سا پر لیس بک رہا ہے، جو ہم لے بھی سکتے ہیں ہماری استطاعت اور طاقت سے باہر نہیں ہے.وہ ہمارا کچھ کام کر جائے گا.اس کے متعلق امام رفیق نے مجھے تار دی تھی یا شاید کسی کے ہاتھ خط بھیجا تھا کہ وہ اتنی قیمت میں مل جائے گا.یہ کام کرو.اس میں بعض چیزیں قابل غور ہیں مثلاً اس کی لیز (lease) سات سال یا نو سال کی رہ گئی ہے.ٹھیک ہے.اگر ہم سات سال میں پریس سے اپنا کام نکال جائیں تو بعد میں خواہ ہم اس کی مشینیں بچیں یاریموو (remove) کریں یا کچھ کریں.اس لیز کی جو ہمیں قیمت ادا کرنی پڑے گی وہ بہت خرچ ہے.ٹھیک ہے بے شک خرچ ہو لیکن اس وقت اصل چیز یہ ہے ، جو میرے دل کی تڑپ اور جو آپ کے دل کی آواز ہے کہ قرآن کریم کی کثرت سے اشاعت کی جائے اور میں امید کرتا ہوں کہ ہم اس میں کامیاب ہوں گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے الہاماً مجھے ایسا ہی بتایا ہے.میں تفصیل نہیں بتا سکتا.باہر سے یہ ڈیمانڈ (demand) ہے ، یہ آواز ہے انسانیت کی کہ اگر مسلمان بنانا ہے تو یہ چیزیں ہمیں دو، یہ ہتھیار دو.اس لئے پریس کی demand ہے ایک ملک سے، دوسرے ملک سے.بڑا نہیں تو چھوٹا پر لیس ہمیں لگوا کر دیں تا کہ ہم اپنا کام کرسکیں.باہر کے لوگ ہمیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اسلام تو نری خوش خلقی ہے نرا پیار ہے نری محبت ہے.چنانچہ عیسائی حاکم ہم سے خوش ہوتا ہے کہ تم ہماری خدمت کر رہے ہو اور ہم ان کے عوام کی خدمت کر بھی رہے ہیں، جسمانی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی ، جیسا کہ میں نے بتایا ہے افریقہ میں کئی لاکھ احمدی ہوا ہے.ایک ایک ملک میں دس دس لاکھ احمدی ہے.کئی لاکھ آدمی عیسائیت، سے دہریت سے اور لا مذہبیت سے نکل کر مسلمان احمدی ہو چکا ہے.عیسائیوں کے بچے باپ پر زور دے کر کہتے ہیں کہ ہمیں احمدیہ میں داخل کرو یعنی احمد یہ سکول میں احمدیہ وہاں کا محاورہ بن گیا ہے وہ سکول نہیں بولتے بلکہ کہتے ہیں کہ ہمیں احمدیہ میں داخل کرو.ایک جگہ حکومت نے کہا کہ کوئی سکول چھ سو سے زیادہ بچے نہیں رکھ سکتا یہ فری ٹاؤن ( سیرالیون ) کی بات ہے اس پر
خطابات ناصر جلد دوم ۱۸۲ دوسرے روز کا خطاب اار دسمبر ۱۹۷۶ء پیراماؤنٹ چیف نے جا کر شور مچا دیا.انہوں نے حکومت سے کہا کہ یہ کیا مطلب؟ چھ سو بچوں کی اگر تم ان کے اوپر قید لگاؤ گے تو ہمارے بچے تو ہماری جان کھا جائیں گے.اس واسطے تم اپنے قائدے میں یہ استثناء کرو کہ یہ قانون باقی سارے سکولوں پر جاری ہو گا احمد یہ سکول پر نہیں جاری ہوگا.وہاں کے پرنسپل نے ایک سال مجھے لکھا کہ داخلے کا زمانہ میرے لئے بڑا پریشان کن ہوتا ہے کیونکہ وزراء اپنے اور اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے بچوں کو لے کر میرے پاس آ جاتے ہیں داخل کروانے کے لئے اور بعض دفعہ جگہ نہیں ہوتی پھر بڑی مشکل پڑتی ہے.اب وہ لوگ کہتے ہیں کہ پیسے ہم دیتے ہیں تم نئے ونگز (wings) بناؤ نئے کمرے بناؤ نیا سٹاف رکھو نیا سائنس کا سامان منگواؤ.لیکن وہی وقت ہے پہلے شاید چارسو کی پابندی تھی پھر چھ سو ہوئی اب طلباء کی تعداد ہزار سے اوپر چلی گئی ہے لیکن اب بھی اس کی ضرورت ویسی ہی ہے اور یہ اس کی مقبولیت ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا منشا ہے ، ہم لوگ خدمت کر رہے ہیں لیکن میں اور آپ ہیں کیا چیز ؟ محض لاشئی محض ہیں.یہ خدا کا منصوبہ ہے اور خدا کے منصوبے کو دنیا کی کوئی طاقت نا کام نہیں کر سکتی.نا کام کرنے کا دعوی کرنا خدائی کا دعوی کرنا ہے، اسی سال سے آہستہ آہستہ آہستہ آہستہ یہ تبدیلی ہو کر اب ہم یہاں آج کی حالت کو پہنچے ہیں.میری خلافت کے زمانہ میں پہلے فضل عمر فاؤنڈیشن کا منصوبہ آیا، اس پر ابھی تین سال نہیں گذرے تھے اور اگر عام دنیا دار کی زبان استعمال کی جائے تو کہیں گے کہ ابھی تو احمدی ستایا بھی نہیں تھا کہ آپ نے نصرت جہاں آگے بڑھو کی سکیم ان کے سامنے رکھ دی ( ابھی میں مختصراً اس کے حالات بتاؤں گا ) ابھی نصرت جہاں کی سکیم پر تین سال نہیں گذرے تھے کہ صد سالہ جوبلی فنڈ کا بہت بڑا منصوبہ سامنے آ گیا اور یہ جو آخری منصوبہ ہے اسی کو لے کر اب میں اس کی تفصیل میں جاؤں گا.مجھے بہت سے غیر احمدی معززین نے جو ہمارے دوست ہیں یہ کہا ہے کہ آپ پیسے کی بات نہ کیا کریں ہمیں آپ پر بڑا غصہ آتا ہے.میرے لئے بڑی مشکل ہے.پیسے کی بات میں اس لئے تو نہیں کرتا کہ مجھے یا آپ کو پیسے کی لالچ ہے بلکہ اس لئے کرتا ہوں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کے نشان دیکھ رہے ہیں.تو اگر ہم بات نہ کریں تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا کہ تحدیث نعمت نہیں کرتے اور اگر کریں تو یہ غصے ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں غصہ آجاتا ہے.اس
۱۸۳ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء خطابات ناصر جلد دوم لئے درمیانی راہ یہی ہے کہ ہم بات بھی کریں اور یہ دعا بھی کریں کہ ان کو غصہ نہ آئے.صد سالہ احمد یہ جو بلی ! میں نے کہا تھا کہ دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے لیکن غلبہ اسلام کے لئے کوشش آسمان سے فرشتوں نے نازل ہو کر نہیں کرنی.فرشتوں نے نازل تو ہونا ہے لیکن ہماری مدد کے لئے.اگر ہم ہی خدا کی رسی کو چھوڑ دیں اور کام کرنے سے انکار کر دیں تو پھر فرشتوں نے ہمارے پاس کیا کرنے آنا ہے.جہاں تک کوشش کا سوال ہے.کام تو بہر حال انسان نے کرنا ہے اور جہاں ضرورت ہو وہاں فرشتے بھی نازل ہوتے ہیں.فرشتے اس لئے نازل نہیں ہوتے کہ ہمارے اندر کوئی بڑی شان پائی جاتی ہے بلکہ فرشتے اس لئے نازل ہوتے ہیں کہ خدا نے کہا ہے اور خدا کا کہا پورا ہوگا.پس یہ جو غلبہ اسلام کی صدی ہے میں نے کہا کہ اس کے لئے تیاری کرو اور تیاری کا ایک منصوبہ بنایا اور سیم جماعت کے سامنے رکھی.اتنی انقلابی تبدیلی تین سال کے اندر ہر لحاظ سے ہوگئی کہ جور تم جماعت نے نصرت جہاں آگے بڑھو کے منصوبہ کے ماتحت اس وقت خدا کے حضور پیش کی تھی ( آپ دیکھیں گے کہ وہ بھی کتنی برکتوں والا منصوبہ ہے ) ابھی وہ پیسے دینے کا تین سال کا پیریڈ ختم ہی ہوا تھا کہ اس سے ہیں گنے زیادہ ! ہیں گنے زیادہ رقم خدا کے حضور پیش کر دی.وعدہ کر دیا صد سالہ جوبلی کے لئے اور اس میں سے بڑی رقم عملاً Cash payment کر دی.پاکستان سے باہر خدا تعالیٰ نے ایسے سامان کئے ہیں کہ وہاں بھی بڑی مخلص جماعتیں ہیں جن کو خدا نے پیسے بھی بڑے دیئے ہیں اور ان پیسوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے دل بھی بڑے وسیع دیئے ہیں.انہوں نے قربانیاں پیش کیں اور میں نے بتایا ہے کہ اب میں گوٹن برگ کی مسجد کا افتتاح کر کے آیا ہوں جو سویڈن کے ملک میں ایک شہر ہے.وہاں میرا خیال ہے کہ سو کے لگ بھگ یوگوسلا واحمدی خاندان ہیں ، اتنے احمدی ہو چکے ہیں اور وہاں بستے ہیں.وہاں پچھلے سال صد سالہ جو بلی منصوبہ کے تحت مسجد اور بہت بڑے مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا تھا اور خدا تعالیٰ نے ایک سال کے اندر اندر بلکہ دس مہینے کے اندر اندر اس کو مکمل کر دیا.ہم نے اس کا افتتاح کیا.اس کا یہ حال ہے کہ اس میں ہمسائے نے بھی دلچسپی لی ، شہر نے بھی دلچسپی لی، ملک نے بھی دلچسپی لی ، باہر سے آنے والے سیاحوں (Tourists) نے بھی دلچسپی لی اور آج تک جو خط آ رہے ہیں ان میں وہ لکھتے ہیں کہ جس دن سے آپ نے افتتاح کیا ہے اس دن سے لوگوں کا ایک
خطابات ناصر جلد دوم ۱۸۴ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء تانتا بندھا ہوا ہے صبح سے لے کر شام تک آتے رہتے ہیں.ایک متعصب قلم نے یہ لکھ دیا کہ اسلام میں عورت کو مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، مسجد نا پاک ہو جاتی ہے اور ایک اور فضول سی بات لکھ دی اس کو تو میں چھوڑتا ہوں.اس پر عورتیں وہاں تما شا د یکھنے کے لئے آنے لگیں کہ کیا ایسی بھی کوئی عبادت گاہ ہے جہاں عورت داخل نہیں ہو سکتی.یہ دیکھنے کے لیے آتی تھیں لیکن جب وہاں پہنچتی تھیں اور ہمارے آدمی کہتے تھے کہ بوٹ اتارو جوتیاں اتارو اور اندر چلی جاؤ تو وہ کہتیں کہ ہیں؟ اندر جا سکتی ہیں ہم؟ اس کی اجازت ہے ہمیں؟ ہمارے اخبار نے تو یہ لکھا ہے.انہوں نے کہا کہ اجازت کیوں نہیں.اندر جا کر دیکھو.پھر وہ اندر جاتیں.مسجد خدا کا گھر ہے میرا تیرا گھر تو نہیں وَ اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ (الجن : ۱۹) اور اس کے درودیوار میں اور اس کے فرش میں ، اپنے اس گھر میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے برکتیں رکھی ہیں.سادہ سی ایک جگہ ہے.کوئی یہ دیکھ کر کہتا ہے کہ اچھا؟ ایسی سادہ کہ جہاں کوئی تصویر ہی نہیں لڑکائی ہوئی.انہوں نے تو خداوند یسوع مسیح کی اور حواریوں کی اور مریم کی تصویروں سے اپنے گر جاؤں کو سجایا ہوا ہے لیکن یہاں خدا کا ذکر اور اس کی یاد ہے.آدمی اس کے عشق میں مست ، گم سم ، دنیا جہان سے بیزار وہاں بیٹھا ہوا ہوتا ہے اس کو کسی اور چیز کی کیا ضرورت ہے.یہ چیز میں اثر کرتی ہیں.میں نے ۱۹۶۷ ء میں ڈنمارک میں یہی اعلان کیا کہ اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ اور اس وقت تک دس ہزار سے زیادہ غیر مسلم ہمارے ساتھ کھڑے ہو کر نماز میں شریک ہو کر نماز پڑھ چکا ہے.ہم خوش ہیں کہ خدا کے وہ بندے جنہوں نے خدا کی معرفت حاصل نہیں کی لیکن ان کے دماغوں میں خدائے واحد و یگانہ کا اندھیرا سا تخیل موجود ہے انہوں نے ہمارے ساتھ کھڑے ہو کر خدا تعالیٰ کی عبادت کی.ان کو یہی کہا گیا تھا کہ اگر ایک خدا کی پرستش کرنا چاہتے ہو تو یہ دروازے تمہارے او پر بند نہیں ہوں گے یہاں آ کر اپنے عقیدے کے مطابق جس طرح مرضی خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرو.شرک کی اجازت نہیں ہے.انہوں نے کہا کہ اگر خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنی ہے تو ان کے ساتھ کھڑے ہو کر کیوں نہ کر لیں.وہ ساتھ کھڑے ہو گئے.جس دن افتتاح تھا میں نے افتتاح کے ساتھ ہی جمعہ پڑھایا.اس دن تو یہ ہوا کہ تین سو غیر مسلم ہمارے ساتھ کھڑا ہو گیا.انہوں نے ادھر اُدھر دیکھ کر عبادت کی.جب رکوع میں گئے تو ان کو کچھ پتہ نہیں تھا انہوں نے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۸۵ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء ادھر اُدھر دیکھا اور کہا اچھا اس طرح رکوع کرتے ہیں پھر وہ رکوع میں گئے.پھر جب کھڑے ہوئے تو پھر انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور کھڑے ہو گئے.پھر جب سجدہ میں گئے تو وہ بھی ادھر اُدھر دیکھ کر سجدہ میں گئے.انہوں نے پوری نماز اس طرح پڑھی اور اسی طرح پڑھ رہے ہیں کیونکہ ان کو تو پتہ نہیں.بہر حال وہ ساتھ شامل ہو گئے.صرف اس اعلان پر جو قرآن کریم نے کہا ہے، بڑا عظیم اعلان ہے صلح اور امن اور سلامتی کا اعلان کہ اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ (الجن: ١٩) - قرآن کہتا ہے کہ مسجد خدا کا گھر ہے خدائے واحد و یگانہ کی ایک خدا کی اگر کوئی پرستش کرنا چاہے تو خواہ وہ کسی مذہب کسی خیال کسی عقیدہ کا ہو میرے گھر کے دروازے اس کے لئے کھولو.مسجد کو خدا نے آ کر تو نہیں سنبھالنا تھا وہ عظیم ہستی ہے وہ مادی چیز تو نہیں اس واسطے فتنہ وفساد کو دور کرنے کے لئے قرآن کریم نے اعلان کیا کہ مسجد کا کسٹوڈین وہ ہے لَمَسْجِدٌ أَيْسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمِ التَّوبة : ١٠٨) مسجد کا کسٹوڈین اور اس کا متولی وہ ہے جو مسجد کی نیت سے خدا کا وہ گھر بناتا ہے.کسی اور کو وہاں آ کر فتنہ کھڑا کرنے کی اجازت نہیں ہے.قرآن کریم کو کوئی نہ مانے تو اس کی مرضی مگر قرآن کریم نے فتنہ کا دروازہ بند کر دیا ہے قرآن کریم نے کہا کہ جس نے مسجد بنائی ہم اس کو مسجد ہی کہیں گے یعنی اگر کوئی گروہ ایسا ہے کہ خدا کی نگاہ میں بھی اس کی مسجد قابل قبول نہیں تو قرآن کریم نے علان کیا کہ تب بھی خدا اسے مسجد ہی کہے گا اور جو مجھ سے پیار کرنے والے ہیں وہ اسے مسجد ہی کہیں گے.باقی اگر کسی کی نیت میں فتور ہے تو میں آپ ہی سمجھ لوں گا اس کے ساتھ.تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے.پس ایک تو یہ کہ مسجد بنانے والا اس کا متولی ہے.یہ اعلان کیا ہے قرآن کریم نے.قرآن عظیم بڑی عظیم کتاب ہے.شرط یہ ہے کہ ہم اس کو اپنے لئے مشعل راہ بنا ئیں.چنانچہ میں نے بتایا ہے کہ دس ہزار آدمی اب تک ہمارے ساتھ نماز پڑھ چکا ہے اور کوئی فتنہ نہیں کوئی فساد نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد، مسجد نبوی، دنیا کی مقدس ترین مساجد میں سے ایک ہے بلکہ کہنا چاہئے کہ سب سے زیادہ مقدس ہے وہاں آپ نے نجران کے یونیٹیر ین(unitarian) یعنی موحد عیسائیوں کو کہا کہ عبادت کا وقت ہے یہیں کرلو.یہ بھی ایک روایت ہے کہ بعض صحابہ نے وہاں نماز پڑھنے پر اعتراض کیا آپ نے فرمایا کہ تم کون ہوتے ہو اعتراض کرنے والے یہیں پڑھیں گے ، اپنی عبادت یہیں کریں گے.آپ کی سنت نے سارے مسئلے حل کر دیئے ہیں.
خطابات ناصر جلد دوم ۱۸۶ دوسرے روز کا خطاب اار دسمبر ۱۹۷۶ء ردے دو.وہ 1 میں بتا یہ رہا ہوں کہ صد سالہ جوبلی میں آپ کی قربانی کو خدا نے قبول کیا اور گوٹن برگ کی ایک خوبصورت مسجد اور مشن ہاؤس ہمیں پہلا پھل مل گیا.بعض تصویر میں بھی چھپی ہیں اس دن بہت سارے آدمیوں نے بیعت کی اور جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے.اچھے امیر آدمی بھی اور اوسط درجے کے بھی.ایک شخص کا ریسٹورنٹ ہے اور وہ بڑا امیر ہے.ریسٹورنٹ چلانے والے، کھانے کے ہوٹل چلانے والے آجکل بڑے امیر ہیں.دنیا کھانا تو نہیں چھوڑ سکتی خواہ کتنی مہنگائی ہو جائے.چنانچہ اس نے بیعت کی اور میرے ہاتھ میں ایک کاغذ سا پکڑا دیا میں نے دیکھا تو وہ نوٹ تھا حالانکہ اس وقت وہ بیعت کرتا ہے.کمال یوسف صاحب ہمارے مبلغ ہیں میں نے ان کو بلایا اور کہا کہ یہ اس کا چندہ ہے.اس نے میرے ہاتھ میں پکڑایا ہے اس کو رسید لکھ کر دے شخص ایک ہزار کرونا یعنی کئی ہزار روپیہ بیعت کرتے وقت مالی قربانی کر گیا.اس سے پہلے اس نے دوروپے نہیں دیئے ہوں گے قرآن کریم کی اشاعت میں.یہ تبدیلی ہے جو آناً فاناً ، فوری طور پر احمدیت کی برکت سے انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے.دولیڈ رٹائپ احمدی ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقے میں ہمارا اتنا اثر ہے کہ ہم جا کر تبلیغ کریں گے اور جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں معقول تفسیر قرآنی ہے ( یہ ان کا بیان میں بتا رہا ہوں.جو میرا بیان ہے وہ تو اور ہی ہے، اس سے بھی بڑا ) اتنی معقول ہے یہ تفسیر کہ ایک نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ کئی لاکھ یوگوسلا و جو یورپ کے مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان میں سے ایک بھی اسلام سے باہر نہیں رہے گا لیکن ہماری زبان میں ان تک یہ تفسیر پہنچانے کا انتظام کرو اور انشاءاللہ جلد ہو جائے گا.صد سالہ جو بلی سے میں نے شروع کر دیا ہے.اس کا خدا نے ہمیں پہلا پھل دیا.اور میرا خیال ہے کہ پہلا پر لیس بھی دو ایک مہینے کے اندر اندر ہمیں مل جائے گا.امریکہ میں ایک منصوبہ بنایا تھا ( حضور نے امریکن وفد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کے پاس آدھا وقت رہ گیا ہے ) اب تین مہینے کے اندر اندر انہوں نے منصوبہ complete کرنا ہے.وہاں پریس کے سلسلہ میں بھی بڑی سہولتیں ہیں امریکہ میں بڑی آزادی ہے وہاں صحیح معنی میں جمہوریت ہے کوئی روک ٹوک نہیں.وہاں ہمارا پر لیس ہو تو وہاں سے ساری دنیا میں لٹریچر بھجوایا جا سکتا ہے.پھر کہتا ہیں ہیں.پریس تو کتا بیں شائع کرنے کا آلہ ہے ان کے مکمل ہونے تک مزید رقمیں جمع
خطابات ناصر جلد دوم ۱۸۷ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء ہو جائیں گی.میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ جو تیاری کے سال ہیں اور غلبہ ء اسلام کی صدی کے استقبال کے سال ہیں ان سالوں میں کئی ملین نسخے قرآن کریم کے دنیا میں پھیل جائیں.انشاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہو گا.ہمارا کام ہے سوچنا، دعائیں کرنا، تدبیر کرنا کوشش کرنا اور یہ بھی دعا کرنا کہ کہیں نیت کا فتور نہ ہواور پیہ دعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو قبول فرمائے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ کے فضل سے ہم خدا تعالیٰ سے سعی مشکور کی توفیق حاصل کریں گے اور ہمارے یہ منصوبے جو اسی کے نام کو بلند کرنے کے لئے اور اس کی توحید کو قائم کرنے کے لئے ہیں ان میں وہ ہمیں کامیاب کرے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.جماعت احمدیہ کے مختلف شعبے ہیں لیکن جو بڑا شعبہ ہے اس کو ہم صدر انجمن احمد یہ کہتے ہیں.جماعت احمد یہ جو ہے وہ کسی انجمن میں محصور اور محمد دو نہیں ہے: یہ مسئلہ آپ یا درکھیں.اب اس وقت میں اسے حل کر دوں.صدر انجمن احمد یہ جماعت احمدیہ کا نام نہیں ہے.خلیفہ وقت اور جماعت مل کر جماعت احمدیہ ہے.جس طرح کہ خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں اس کو قائم کیا ہے.باقی جماعت کا انتظام ہے اس کے لئے صدر انجمن احمد یہ بھی ہے اس کے لئے تحریک جدید انجمن احمد یہ بھی ہے اس کے لئے وقف جدید انجمن احمد یہ بھی ہے اس کے لئے ہماری باہر کی جماعتیں بھی ہیں.یباًہر ملک میں جماعتیں یا تو رجسٹر ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں کچھ وقت قانونی طور پر لگتا ہے بہر حال رجسٹر ہو جائیں گی.لیکن خلیفہ وقت ، جماعت“ یہ ایک ہستی ، ایک وجود، ایک چیز کا نام ہے اور ساری انجمنیں ماتحت ہیں.اس لئے خلیفہ وقت اور جماعت احمدیہ کے ماتحت ہے.صدر انجمن احمد یہ بھی ، تحریک جدید انجمن احمد یہ بھی اور دوسری انجمنیں اور جماعتیں بھی خواہ رجسٹرڈ ہوں یا unregistered.جماعت کو میں الخلافة بالمشورہ کہہ سکتا ہے.جماعت کو دوسرا نام یہ دیا جاسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے جماعت کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ وہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی تدبیریں بنائے.اس وقت تین نئی تدبیر میں چالو ہیں یعنی فضل عمرفاؤ نڈیشن اور نصرت جہاں آگے بڑھو اور صد سالہ جوبلی منصوبہ اور عام نوعیت کی صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید انجمن احمدیہ، وقف جدید انجمن احمد یہ اور بعض دوسری سکیمیں انصار اللہ وغیرہ ہیں یا باہر کی جماعتیں ہیں جو.میں نے بتایا ہے کہ کچھ رجسٹر ڈ ہیں اور کچھ ہو رہی ہیں وغیرہ وغیرہ.
خطابات ناصر جلد دوم ۱۸۸ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء صدر انجمن احمدیہ کے کارکن خدا کے فضل سے بڑے فدائی ہیں.استثناء ہیں ، بعض میں کمزوریاں ہیں اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا.چند ایک منافق بھی ہیں اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ، یہ چیزیں ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہیں، لیکن مجموعی لحاظ سے بڑے مخلص اور بڑے فدائی کارکن ہیں.ہم ان کو جو ماہانہ گزارہ دیتے ہیں وہ عام حالات میں ، آجکل کے مہنگائی کے حالات میں بہت تھوڑا ہے تاہم جتنا ہم سے ہوسکتا ہے وہ ہم کرتے ہیں.یہ بات میں آج اس لئے بتانے لگا ہوں کہ بعض منافق کہہ دیتے ہیں باہر والوں کو کہ جی بڑی تنگی ہے بڑی مشکل ہے وغیرہ.میں نے بتایا ہے کہ جو خلصین ہیں میں ان کے متعلق بات کر رہا ہوں کہ وہ بڑے پیار سے کام کر رہے ہیں.وہ خدا کی راہ میں قربانی دے رہے ہیں اور ہم خدا کی رضا کے لئے جتنا ہم سے بس پڑتا ہے ان کا خیال رکھتے ہیں.مثلاً سالانہ ضرورت کی آدھی گندم ان کو مفت دی جاتی ہے اس طرح ہم ان کو آزاد کر دیتے ہیں کہ وہ بھو کے نہیں رہیں گے.مالی لحاظ سے وہ اور تکلیفیں برداشت کر لیں گے لیکن گندم کے لحاظ سے ان کو تکلیف نہیں ہوگی روٹی جو ہمارے پاکستان میں زمیندار علاقے کی اکثریت کا کھانا ہے انہیں ملتی رہے گی زمیندار علاقے کا کھانا صرف روٹی ہے چٹنی کے ساتھ ، میں نے اکثر شکار پر جاتے ہوئے خود دیکھا ہے میری عادت ہے کہ میں جا کر بن بلائے کا مہمان بن کر ایک لقمہ لے لیا کرتا ہوں چنانچہ میرا مشاہدہ ہے کہ یہی ان کا کھانا ہے.تو اتنا اللہ کے فضل سے ان کومل جاتا ہے.پھر سردیوں میں کپڑوں کا خرچ اور کچھ اور خرچ ہوتے ہیں.چنانچہ سا را ملا کر ان کا مجموعی طور پر عملے کا جو سالانہ بجٹ ہے اس کا تمہیں فی صد ہم ان کو دوسری مدوں میں دیتے ہیں.گویا جس کا ماہانہ گزارہ سو روپے ہے وہ عملاً ایک سو تیس روپے بن جاتا ہے اور یہ تقسیم عقل کے مطابق ہے.تنخواہ یا گزارے کے نام سے جو ماہانہ رقوم ملتی ہیں وہ تو جس کے پانچ بچے ہیں اس کو بھی اتنی ہی ملے گی.کہ جی یہ میٹرک پاس ہے یہ اس کا گریڈ ہے اس لئے وہ اسے ملے گا اور جو بیچارہ دس بچوں کا باپ بن گیا، خدا کے فضل سے اس کی بیوی نے بڑی جلدی جلدی دو دو بچے پیدا کئے اس کو بھی وہی ملے گا کیونکہ گریڈ یہی ہے لیکن یہ جو ہم زائد رقم دیتے ہیں مثلاً موسم سرما کا الا ونس پچاس روپے فی کس ہے یہ اگر کسی کے دو بچے اور دو وہ میاں بیوی ہیں تو ان کو دوسوروپے ملا اور اسی گریڈ کا دوسرا آدمی اگر دس افراد خاندان پر مشتمل ہے تو اس کو دوسو کی بجائے پانچ سوملا.
خطابات ناصر جلد دوم ۱۸۹ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء اسی طرح گندم ہے ساڑھے چار من فی کس سالانہ کے حساب سے ہم آدھی گندم مفت دیتے ہیں جس کے تھوڑے کھانے والے ہیں ان کو تھوڑی گندم ملتی ہے لیکن ان کی آدھی ضرورت ہم نے پوری کر دی اور باقی کے لئے انہیں کہا کہ قرض لے لو اور سٹور کر لو جس کے چار افراد ہیں یعنی دو بچے اور دو خود ماں باپ اس کو نو من مفت اور جس کے دس افراد ہیں اس کو ساڑھے بائیس من گندم مفت دی جاتی ہے اور اس طرح عقل اور اسلامی تعلیم نے جو ایک اصول بتایا ہے اس کے مطابق ہم دیتے ہیں.دوسری تنخواہیں دنیا کے اصول کے مطابق دینی پڑتی ہیں.مجبوری ہے.جب اسلام ساری دنیا میں غالب آ جائے گا تو انسان کو بڑی سہولت ہو جائے گی.صدرانجمن احمدیہ کا یہ کام ہے ، میں نے بتایا ہے اب آپ ذہن میں فرق رکھیں کہ میں جماعت احمد یہ کہوں گا تو اور مطلب ہوگا، صدرانجمن کہوں گا تو اور مطلب ہوگا صدرانجمن احمدیہ کا یہ کام ہے کہ وہ پاکستان میں کتب وغیرہ کی اشاعت کرے.ہمیں کتابیں دو، ضرورتوں کے لئے چاہئیں ایک تو جس کو ہم اسلام سمجھتے ہیں اور جس کو ہم نے صداقت پایا ہے اس کی تبلیغ کے لئے.یہ تو نہیں ہے کہ جو دوسرے فرقے سمجھتے ہیں ہم نے اس کی تبلیغ کرنی ہے، ہم نے ان کی تبلیغ نہیں کرنی لیکن وہ بڑی خوشی سے اپنی تبلیغ کریں.ہمارے دل میں تو ایک لحظہ کے لئے بھی یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کیوں تبلیغ کرتے ہیں.ہم تو ہر لحظہ خیال کرتے ہیں کہ وہ تبلیغ کریں تاکہ پتہ تو لگے کہ حق اور صداقت کدھر ہے اور صحیح اور غلط چیزیں ملا کر معجون مرکب کہاں بنا ہوا ہے.بہر حال میں احمدی ہوں میں سمجھتا ہوں کہ احمدیت کچی ہے.اس پر نہ کسی کو غصہ آنا چاہئے اور نہ کسی کو کوئی رنج پہنچنا چاہئے ، اگر ایک بریلوی ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ میں سچا ہوں ہمیں بالکل غصہ نہیں آتا کبھی خیال بھی نہیں آتا.ٹھیک ہے تم جس کو سچائی سمجھتے ہو جب تک اسے سچائی سمجھتے ہو اس کی پابندی کرو.کالج کے زمانے میں جب میں پرنسپل تھا تو ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور انہوں نے غیر احمدی لڑکوں کو کہا کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھو اور اگر کوئی تمہیں مجبور کرے تو میرے پاس آؤ میں ان کی خبر لوں گا جو منتظمین بنے ہوئے ہیں.میں تمہیں یہ یہ کہتا ہوں ( دیکھیں خدا کے بندے کس طرح بات کرتے ہیں ) میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ جب تک تم نماز با جماعت کو فرض سمجھتے ہو اور تمہارا یہ عقیدہ ہے تو تم اپنا نماز با جماعت کا فریضہ ادا کرو.یہ میری
خطابات ناصر جلد دوم ۱۹۰ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء نصیحت ہے تمہیں اپنا امام بناؤ ، اپنے میں سے کسی کو آگے کر دو اور اس کے پیچھے نماز پڑھو لیکن میں کہتا ہوں کہ نماز پڑھو اور میں اس لئے نہیں کہتا نماز پڑھو کہ میں کہتا ہوں نماز پڑھو بلکہ اس لئے کہتا ہوں کہ تم کہتے ہو کہ تم پر نماز فرض ہے.اس واسطے میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ جو تم سمجھتے ہو کہ تم پر فرض ہے اسے ادا کرو.بہر حال ہمیں یہاں کے لئے سہولت پیدا ہونی چاہئے.انشاء اللہ ہم اس کے لئے کوشش کریں گے.اس جلسے نے تو پیدا نہیں کرنی.میں نے آپ کو ایک ضرورت بتائی ہے آپ دعا کریں کہ یہ سہولت پیدا ہو جائے.پس ایک تو ہم نے اپنے عقائد کی تبلیغ کرنی ہے اور اس میں چھپانے والی کوئی بات نہیں.ہمارے دستور نے ساری دنیا میں اعلان کیا کہ ہر شخص کو اپنے عقیدے کی تبلیغ کرنے کی اجازت ہے.پاکستان کے دستور اساسی کا یہ جو جھنڈا ہے اس جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ہم اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں.تم اگر قا نو نا بند کر دو گے تو اللہ تعالیٰ کوئی اور سامان پیدا کر دے گا مگر آج نہیں تم روک سکتے.دوسری ضرورت یہ ہے کہ ہمارے اپنے بچے پیدا ہوئے ہیں اور جوان ہوئے ہیں ہم نے ان کی تربیت کرنی ہے ہم نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھانی ہیں ہم نے ان کے دلوں میں اس نور کے پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہمارے دلوں میں پیدا کیا ہے ہم نے ان کو بتانا ہے کہ قرآن عظیم کتنی عظیم کتاب ہے کہ دنیا کا کوئی محقق اور کوئی عالم ہمارے سامنے آکر اسلام کے خلاف بات نہیں کر سکتا اور نہ صرف یہ کہ ہم نے ان کا اسلام پر حملہ رد کرنا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بشارت دی گئی کہ اللہ تعالیٰ آپ کی جماعت کو اس قدر قابلیت دے گا کہ نہ صرف یہ کہ اسلام پر جو حملے ہوں گے وہ ان کا دفاع کر سکیں گے بلکہ علمی میدانوں میں اور عقل کے میدانوں میں وہ دوسروں کے خیالات پر جارحانہ حملے کریں گے اور ان کے خیالات اور ان کے عقائد اور ان کی تحقیق کا بودا پن اور غلطیاں ان پر ظاہر کریں گے.میں سارا عرصہ یہی کام کرتا آیا ہوں.عقل عقل لئے پھرتے تھے کل بتاؤں گا کہ عقل کے متعلق ہمیں اسلام نے کیا بتایا ہے.بہر حال ہمارے بچوں کو ہمارے عقائد کا علم ہونا چاہئے ان سے زبردستی اپنے عقائد چھپائے نہیں جاسکتے.یہ ہمارا حق ہے اور یہ ہمیں ملنا چاہئے تو جیسا کہ میں کل صبح بھی بتا چکا ہوں.ایک ہی در ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۹۱ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء جہاں جا کر ہم ما نگتے ہیں.پس جب میں کہتا ہوں کہ ملنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ میں اور آ ہم سب خدا کے دروازے کو کھٹکھٹائیں اور اسے کہیں کہ اے خدا ایسے حالات پیدا کر کہ جوحق تو نے ہمارا قائم کیا ہے ہمارا وہ حق ہمیں ملنا شروع ہو جائے اور وہ سب قدرتوں کا مالک ہے وہ اس طرح کرے گا.انشاء اللہ.ادارۃ المصنفین بھی ایک شعبہ ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتب شائع کرنے کے لئے قائم کیا تھا.تفسیر صغیر انہی کے ذریعے شائع ہوئی تھی اور تفسیر کبیر بھی.وہ کہتے ہیں کہ تفسیر کبیر کی پانچویں جلد جو سورۃ یونس تا کہف تک کے حصے پر مشتمل ہے زیر طبع ہے اسی طرح تفسیر صغیر کا نیا ایڈیشن بھی زیر طبع ہے.بہت سے دوست شکوہ کرتے ہیں کہ وہ ہل نہیں رہی اب انشاء اللہ چھپ جائے گی.اس جلسے سے پہلے میری خلافت کے زمانہ میں دس جلسے ہوئے ہیں ان دس جلسوں کی افتتاحی تقاریر کے کچھ حصے مختلف موضوعات سے تعلق رکھنے والے ہیں اور کچھ دعائیہ ہیں.دعائیہ حصے اردو میں چھپ چکے ہیں.وہ آپ اپنے پاس رکھیں وہ قرآن کریم سے لی ہوئی دعائیں ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے لی ہوئی دعائیں ہیں.بڑے کام کی دعائیں ہیں.اُن الفاظ میں بھی کیا کریں اور اپنے الفاظ میں بھی دعائیں کیا کریں.بہر حال وہ کتاب اس وقت موجود ہے.شبہات وغیرہ کے روڈ پر قاضی محمد نذیر صاحب نے ایک کتاب ”ازالہ شبہات لکھی ہے وہ چھپ چکی ہے.تحریک احمدیت اور ختم نبوت نامی کوئی کتاب ہمارے خلاف چھپی تھی اس کا جواب چھپ چکا ہے.قریش محمد اسداللہ صاحب کا شمیری کی کتاب ”امام مہدی کا ظہور چھپ چکی ہے.”نشانِ آسانی“ اور دیگر رسالے چھپتے رہتے ہیں.ادارۃ المصنفین کی طرف سے بخاری شریف کی پندرہویں جلد، پندرہواں پاره نیز ” خلافت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ چھپ گئی ہیں.گیانی عباداللہ صاحب کی کتاب "غلبہ اسلام اور سکھ مت ہے.اسی طرح ماہنامے ہیں رسالہ الفرقان ہے، ماہنامہ انصاراللہ ہے، ماہنامہ خالد ہے، ماہنامہ تحیر الاذہان ہے، ماہانہ مصباح ہے، ماہانہ تحر یک جدید ہے پھر روز نامہ الفضل ہے.وکالت تبشیر نے مختلف جگہوں پر مختلف زبانوں میں جو کتب شائع کی ہیں ان میں دعوۃ الا میر کا عربی ترجمہ شائع ہو چکا ہے "Life of Mohammad" عبدالسلام صاحب میڈسن کی طرف
خطابات ناصر جلد دوم ۱۹۲ دوسرے روز کا خطاب اار دسمبر ۱۹۷۶ء سے ڈینش زبان میں شائع ہو چکی ہے سیرۃ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ترکی زبان میں شائع ہو چکی ہے ”کتاب الحج بزبان جرمن شائع ہو چکی ہے.ڈاکٹر عبدالہادی کیوسی ایک اٹیلین احمدی ہوئے تھے بڑے مخلص، بڑے فدائی ، بڑے عالم اور بڑے محقق تھے انہوں نے یہ کتاب لکھی ہے وہ احمدیت قبول کرنے کے بعد چند سال کے بعد ہی فوت ہو گئے انہوں نے اسپرانٹو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی کیا تھا.ذکر حبیب چھپ چکی ہے.میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں“ سپینش زبان میں چھپ چکی ہے ”من الرحمن انگریزی زبان میں زیر طبع ہے اور چھپنے والی ہے.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب انگریزی اور احمدیت کا پیغام انگریزی دوسری بار شائع ہو رہی ہیں.”ہماری تعلیم ، سپینش زبان میں زیر طبع ہے دیا چہ تفسیر القرآن، جو بڑی زبر دست کتاب ہے اس کا عربی ترجمہ تیار ہو رہا ہے اور عنقریب چھپ جائے گا.وقف جدید نے تربیت کے لئے بہت سی کتب شائع کی ہیں ان کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.اس کے بعد میں تعلیم القرآن کی طرف آتا ہوں تعلیم القرآن جو وقف عارضی کے ماتحت ایک تربیتی پروگرام ہے اس طرف جماعت کو زیادہ توجہ دینی چاہئے.توجہ تو جماعت دے رہی ہے لیکن اس سے زیادہ توجہ دیں.بڑی برکتیں ہیں اس کے اندر.فضل عمر درس القرآن ایک کلاس ہوتی ہے.یہ کلاس اس سال ۳۱ جولائی سے تین ہفتے کے لئے تھی اس میں تین سو پینتیس طلباء، ہمارے بچے اور پانچ سو بیاسی طالبات ، ہماری بچیاں شامل ہوئیں نوسوستر طلباء وطالبات کا امتحان لیا گیا.یہ خدا کا فضل ہے کہ ایک سو اکتیس بی اے یا اس سے زیادہ تعلیم کے طلباء وطالبات تھے لیکن اس میں سے سو سے زیادہ بچیاں تھیں.اس طرح ایک تو انہوں نے پڑھ پڑھ کر ہمارے لئے مسئلہ پیدا کر دیا کیونکہ عمر بڑی ہو جاتی ہے پھر بر نہیں ملتا.کئی دفعہ اتنی زیادہ عمر ہو جاتی ہے کہ میں کہتا ہوں کہ یہ تو کوئی خدائی تدبیر ہی ہو سکتی ہے جس نے کسی نوجوان کو شادی نہیں کرنے دی جب تک کہ وہ بتیس سال کا نہیں ہو گیا.میں کہاں سے بہتیں بتیس سال کے جوان ڈھونڈوں تمہاری اٹھائیس اٹھائیس سال کی بچیوں کے لئے.پس بے شک پڑھائیں لیکن وقت پر شادیاں کر دیا کریں.وقت سے مراد ہے جوانی کی ابتداء.بچیاں عام طور پر امتحان میں بھی بچوں کی نسبت زیادہ نمبر لے جاتی ہیں.ایک لحاظ سے تو اچھا ہے کہ اپنی اولاد کی زیادہ بہتر تربیت کر سکیں گی لیکن دوسری طرف
خطابات ناصر جلد دوم ۱۹۳ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء مجھے اور آپ کو جو اس مردانہ جلسہ گاہ میں بیٹھے ہیں غیرت بھی آنی چاہئے نا کہ لڑکیاں لڑکوں سے آگے نکل گئیں.تحریک جدید کی طرف سے انتیس ممالک میں مرکزی مبلغین کام کر رہے ہیں لیکن اسرائیل ان کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ وہاں کی علیحدہ احمدی جماعت ہے جس طرح کہ وہاں پر دوسرے مسلمان ہیں ہم چند ہزار ہیں اور دوسرے مسلمان چند لاکھ ہیں چنانچہ ہم پر اعتراض ان چند لاکھ کے سروں سے پھسلتا پھسلتا ہی ہم تک پہنچے گا نا.یہ جو انتیس ممالک ہیں جہاں ہمارے مرکزی مبلغ کام کر رہے ہیں ان میں نو سو پینتیس مشنز ہیں یعنی نو سو پینتیس ہیڈ کوارٹر ہیں جہاں سے تبلیغ اسلام واحمدیت ہو رہی ہے.امسال اٹھارہ نئے مشن کھلے ہیں چودہ غانا میں تین امریکہ اور ایک نجی میں.اس کے علاوہ اکیس ایسے ممالک ہیں جن کے متعلق تحریک جدید کو پتہ ہے کہ وہاں جماعتیں قائم ہیں اور منظم جماعتیں ہیں لیکن ابھی ہم وہاں مشنری نہیں بھجوا سکے.اس کے علاوہ قریباً ہر ملک میں ہماری جماعتیں ہیں کہیں چھوٹی ہیں کہیں بڑی ، کئی جگہ اتفاقاہی احمدیوں کا پتہ لگتا ہے مثلاً سوڈان میں بعض خاندانوں کا پتہ لگا.وہ اتنے مخلص ہیں کہ ان کا ایک بھائی ملا ( ان کا باپ مر چکا ہے ) اور اس نے کہا کہ ہم بھائی اور بہنوں کے دلوں میں تو احمدیت کو اس قدر گا ڑا ہے ہمارے باپ نے کہ ہم دنیا کی ہر چیز کو چھوڑ سکتے ہیں مگر احمدیت کو نہیں چھوڑ سکتے لیکن ہمارا مرکز سے تعلق نہیں.وہ افسوس کر رہے تھے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ جماعت کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی ہے.بہر حال دنیا کے ہر حصے میں جماعتیں ہیں لیکن جہاں ہمارے مرکزی مشن کا م کر رہے ہیں ان ممالک کی تعداد انتیس ہے اور کسی ایک ملک کے کسی ایک مشن میں بھی تالا نہیں پڑا اور ان ممالک کے مشنز کی کل تعداد نو سو پینتیس ہے.( نعرہ ہائے تکبیر ) سال رواں میں جو مساجد بیرون ملک بنی ہیں ان میں امریکہ میں ایک مسجد ، اور جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا ہے انگلینڈ کے ذریعہ صد سالہ جوبلی کے ماتحت گوٹن برگ میں ایک مسجد بنی ہے اور سیلون میں ایک مسجد اور غانا میں چھ مساجد بنی ہیں اور میرا خیال ہے کہ چند درجن مساجد زیر تعمیر ہیں جن کے متعلق انشاء اللہ اللہ خیر رکھے آپ اگلے سال خوشخبریاں سنیں گے.قرآن کریم کے تراجم ! کچھ تراجم تو میں نے پچھلے سال بھی بتایا تھا کہ ہو چکے ہیں مثلاً
خطابات ناصر جلد دوم ۱۹۴ دوسرے روز کا خطاب اار دسمبر ۱۹۷۶ء انگریزی کا ، ڈینش کا، ڈچ کا ، سواحیلی کا ، اسپرانٹو کا ، یوگنڈا کا اور یوروبا کا ترجمہ.اور انڈونیشین میں دس سپاروں کا ترجمہ ہو چکا ہے اور وہ اتنا اچھا ہے کہ انڈونیشین وفد مجھے ملا تو اس نے بتایا کہ ایک شخص وہ پڑھنے کے لئے لے گیا اور اب واپس نہیں کر رہا ، کہتا تھا کہ یہ میرے پاس بیچ دو.انہوں نے کہا کہ تم نے لینا ہی ہے اتنا تمہیں پسند آیا ہے تو پھر قیمت کیا لینی ہے.رکھو تم.اور سب کا یہی حال ہے.اٹیلین، فرانسیسی ترجمہ میں پتہ نہیں کیوں روک ہو گئی ہے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کی روک کو دور کرے.کیونکہ ہمیں بڑی ضرورت ہے.افریقہ کے فرانسیسی بولنے والے ممالک میں احمدیت میں بڑی دلچسپی پیدا ہو رہی ہے اور وہاں جماعتیں قائم ہورہی ہیں باوجود اس کے کہ ہم ان کو قرآن کریم کا ترجمہ ابھی تک نہیں دے سکے.ابھی چند ہفتے کی بات ہے کہ ہمارے ایک نائیجیریا کے مبلغ نائیجر میں گئے ، وہاں جماعت قائم ہوئی اور انہوں نے ایک جگہ مسجد بنا کر دی.بالغ افراد کی ایک جماعت بن گئی ہے اور بہت سے اور آدمی بیعت کے لئے تیار ہیں لیکن اگر ہم ان کو فرانسیسی زبان میں ترجمہ دے دیں اور ان کو پتہ لگے کہ قرآن کریم کی کس شان کی تفسیر اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب روحانی فرزند مہدی معہود کو سکھائی ہے تو لوگ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں کھنچے آئیں گے.نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم ۱۹۷۰ء میں شروع ہو ئی تھی.اس سے پہلے تحریک جدید ہائرسیکنڈری سکول تیرہ، مدل دس، پرائمری اکاون، عربی سکول ایک اور ایک مشنری ٹرینینگ کاری چلا رہی تھی.ممکن ہے ان میں سے کچھ بعد میں بھی بنے ہوں.نصرت جہاں کے ماتحت پچھلے چند سال میں ،۱۹۷۰ء کے بعد ، سولہ ہائر سیکنڈری سکول اور بن گئے.اس کا نتیجہ یہ ہے ویسٹ افریقن ممالک میں اس وقت ہمارے انتیس چھوٹے کالج کام کر رہے ہیں یہ انٹر میڈیٹ کالج کے معیار کے ہیں.انتیس کالج بڑی تعداد ہے اور میں نے بتایا ہے کہ یہ وہ ہائر سیکنڈری سکول ہیں جو بڑے مقبول ہیں اور جن پر ان کے قوانین بھی نہیں چلتے بلکہ استثناء کر دیا گیا ہے اور یہ وہ سکول ہیں کہ ان میں سے بعض میں ہر سال جتنے لڑکے آخری امتحان دے کر سرٹیفیکیٹ لے کر جاتے ہیں وہ سارے کے سارے لڑکے بیعت فارم پر کر کے جاتے ہیں ، عیسائی بچے اور دوسرے بھی اور اس طرح ، خدا تعالیٰ نے ان کے لئے ہدایت کا سامان پیدا کیا ہے.انتیس سکولوں کو چلانا کوئی معمولی کام نہیں
خطابات ناصر جلد دوم ۱۹۵ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء انٹرمیڈیٹ کالج کے سٹائل کے انتیس سکول.اور میں نے بتایا ہے کہ یہ سکول اور دوسرے سب ملا کر آٹھ کم سو سکول ہیں جو تحریک جدید اور نصرت جہاں کے ماتحت کام کر رہے ہیں.اسی طرح تحریک جدید کے ماتحت نصرت جہاں سے پہلے صرف تین ہسپتال کام کر رہے تھے دونائیجیریا میں اور ایک گیمبیا میں اور اس وقت نصرت جہاں کے ماتحت سولہ نئے ہسپتال کام کر رہے ہیں.۱۹۷۰ ء سے لے کر اب تک خدا تعالیٰ نے نصرت جہاں کو ان کے قائم کرنے کی توفیق دی.یہ ایک نئی سکیم ہے جس کی طرف خدا تعالیٰ نے اپنے منشا کے مطابق مجھے افریقہ کے دورے میں توجہ دلائی تھی اور حکم ملا تھا کہ یہ کرو.اس میں خدا نے اتنی برکت ڈالی ہے کہ اس تھوڑے سے عرصے میں سولہ ہسپتال ہم نے وہاں قائم کر دیئے ہیں اور انہیں ڈاکٹر وہاں کام کر رہے ہیں اور وہ بے حد مقبول ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا شفاء دینا اللہ کا کام ہے شفا دینا انسان کا کام نہیں.دوسری ہر چیز بازار سے مل سکتی ہے مگر منڈیوں سے شفا نہیں ملتی.شکر ہے الحمد للہ کہ نہیں ملتی ورنہ خدا کی طرف کوئی توجہ ہی نہ کرتا.اب تو کرنی پڑتی ہے.پس شفا خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور وہ ہمارے ڈاکٹروں کے ذریعہ شفا دیتا ہے.چنانچہ ایسے آپریشن جن کے متعلق ملک کے سارے یورپین ڈاکٹروں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ یہ آپریشن ہو ہی نہیں سکتا اگر کیا تو مریض مرجائے گا ہمارے ڈاکٹر نے کہا کہ چھوڑ و مجھے کرنے دو حکومت نے اس کو اجازت دے دی اس نے اپریشن کیا اور وہ اچھا ہو گیا.اب یہ چیز زمین سے تو نہیں خریدی جاسکتی یہ تو آسمان سے نازل ہوتی ہے.بہر حال خدا کا فضل ہے کہ اس وقت انہیں ہسپتال ویسٹ افریقن ممالک میں کام کر رہے ہیں.اب میں نے مبلغین کو کہا ہے کہ مشرقی افریقہ میں بھی ان کاموں کی طرف توجہ کریں.وقف جدید خدا کے فضل سے اچھا کام کر رہی ہے ان کی کتابیں بھی اور معلم بھی بہت اچھے ہیں.میں نے سوچا اور میرا خیال ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقف جدید کو اس لئے جاری کیا تھا کہ نئے بچے پیدا ہو رہے ہیں اور جوان ہو رہے ہیں ان کی تربیت ہونی چاہئے نئے احمدی ہورہے ہیں ان کی تربیت ہونی چاہئے چنانچہ وقف جدید اس لئے شروع کی کہ بحیثیت مجموعی جماعت کا دینی معیار گرنے نہ پائے.پس جوکم از کم معیار ہے اس پر قائم رکھنا وقف جدید کا کام ہے محکمہ والے معلمین کو سمجھا دیں کہ اس کو اپنے سامنے رکھو.جو معیار پہلوں نے قائم کیا ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۹۶ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء اس سے گر کر تو ہم ترقی نہیں کر سکتے.ہم اس سے آگے بڑھیں گے ، ہمارا ہر قدم پہلے قدم سے آگے جاتا ہے اور اس میدان میں بھی انشاء اللہ آگے جائے گا اور جس طرح مکان کی بنیاد رکھی جاتی ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ ایک مضبوط بنیاد بنادی ہے.وقف جدید غیر مسلموں میں بھی تبلیغ کر رہی ہے اور بڑی کامیاب تبلیغ ہے.پاکستان میں اس وقت بھی بہت سی ایسی pockets ہیں ایسے علاقے اور خطے ہیں جہاں غیر مسلم آباد ہیں.ان غیر مسلموں میں آگے پھر دنیوی لحاظ سے بڑے بڑے امیر بھی ہیں اور بڑے غریب بھی.غریبوں کو اٹھانا جماعت احمدیہ کا فرض قرار دیا گیا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی امیر خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا چاہے تو ہم اس کے رستے میں روک بنیں گے اور مزاحم بنیں گے بلکہ وہ بڑی خوشی سے خدا کے فضلوں کو حاصل کرے لیکن ہمارا مذہب یہ ہے کہ جو غریب ہے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ:۲۰۲) کی دعا کے مطابق اسے دین و دنیا کی حسنات ملیں اور اللہ تعالیٰ کے قہر کے طمانچے سے اسے محفوظ کیا جائے.چنانچہ یہ جو ہندو علاقے ہیں جہاں وقف جدید کام کر رہی ہے ان میں سینکڑوں کی تعداد میں غیر مسلم ہندو مسلمان ہو چکے ہیں اور ان علاقوں کے غیر مسلموں میں سے مسلمان ہونے والے ستر افراد اس جلسہ میں شامل ہیں (اس موقع پر فضا نعرہ ہائے تکبیر اور اسلامی عظمت کے دوسرے نعروں سے گونج اٹھی ) یہ جو غریب غیر مسلم ہیں ان پر تو اسلامی تعلیم کا پہلا اصول ہی بڑا کارگر ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان انسان میں کوئی فرق نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کہلوا دیا کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف : ١) کم میرے اور تمہارے درمیان بشر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ کہیں کہ میرے اور تمہارے درمیان بشر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں مگر کتنے ہیں جو یہ سمجھیں کہ ہاں ہمارے اور تمہارے درمیان بھی بشر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں.کمزور ، لا چار، ہر لحاظ سے مادی آلائشوں میں گھرا ہوا اور دلدل میں پھنسا ہوا انسان اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگ جاتا ہے.خدا تعالیٰ ان شیطانی حملوں سے ہمیں محفوظ رکھے.غرض ان لوگوں کو اسلام نے گلے سے لگایا.ہم ہیں آج اسلام کے ہیرو، ہم ہیں اسلام کے علمبردار اسلام کو ان تک پہنچانے
خطابات ناصر جلد دوم ۱۹۷ دوسرے روز کا خطاب اار دسمبر ۱۹۷۶ء والے.ہم نے ان کو گلے سے لگایا.وہ اسلام لے آئے.اس کے بعد دوسرا مرحلہ ہے کہ ٹھیک ہے بڑا اچھا مذہب معلوم ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ سکھاؤ.چنانچہ پھر انہوں نے نماز سیکھی (حضور کے دریافت فرمانے پر ایک دوست نے بتایا کہ ہندوؤں میں سے مسلمان ہو نے والے ان دوستوں میں سے قریباً سب کو نماز آتی ہے ) یہ ہمارے بھائی ہیں جیسی ہم زندگی گزاریں گے ویسی ہی یہ زندگی گزاریں گے.پھر وقف جدید کے ذریعے سے بہت سا مفت علاج بھی کیا جاتا ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن ! یہ میری خلافت کی سب سے پہلی تحریک ہے ۱۹۶۵ء میں کی تھی.ان کا ایک پروگرام تھا ( میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا ) اس پروگرام کے ماتحت ایک لائبریری کی عمارت بنی ہے آپ لوگوں نے دیکھا ہے بڑی اچھی عمارت ہے.جب یہ بنی تھی تو فضل عمر فاؤنڈیشن کے جو کرتا دھرتا ہیں ان کا خیال تھا کہ ہم نے لائبریری کے لئے بہت بڑی عمارت بنادی مگر اب دنیا کہہ رہی ہے کہ بہت چھوٹی عمارت ہے اس کو بڑھاؤ.یہ چیز تو ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہے ہم خوش ہیں کہ عمارت چھوٹی ہو گئی ویسے تو ساری دنیا کی کتا بیں ہمارے پاس ہونی چاہئیں اور اس کے لئے تو اگر سارار بوہ لائبریری بنے تب جا کر اس میں سمائیں گی یا پھر اوپر کو نکلنا پڑے گا جیسے کہ امریکہ کے اس دورے میں ایک احمدی نے نیو یارک میں دعوت کی تو جس ہوٹل میں دعوت تھی وہ ایک سو ساتویں منزل پر تھا اور ایک اور جگہ شاید پندرہ سوفٹ اونچا مینارہ تھا اور اس کے اوپر انہوں نے ریسٹورنٹ بنایا ہوا تھا.وہ تو جسمانی غذا کے جو عارضی سامان ہیں ان کے لئے ہے اور لائبریریاں تو پھر ہمیں سب سے اونچی لے جانی پڑیں.ربوہ میں اونچی عمارت انشاء اللہ تعالی جماعت احمدیہ کی لائبریری کی ہوگی.اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمارے مرکز میں یہ سب سے اونچی لائبریری ہماری زندگی کی اگلی صدی کے اندر جو کہ غلبہ ء اسلام کی صدی ہے بن جائے گی.ایک بڑا گیسٹ ہاؤس بھی انہوں نے بنا کر دیا ہے.اس کے علاوہ کچھ کتب ان کی طرف سے شائع ہوئی ہیں.فضل عمر فاؤنڈیشن کے مقاصد میں سے ایک بڑا اہم مقصد ہے لیکن اس کی طرف ابھی ہمارے اہل قلم حضرات نے پوری توجہ نہیں دی اور وہ ہے دینی علمی تصانیف.علم کا اتنا خزانہ قرآن کریم میں بھرا ہوا ہے کہ ہزاروں آدمی بھی قلم اٹھائیں اور لکھنا چاہیں تو مقالوں کے عنوان بڑھ جائیں گے اور لکھنے والوں کی تعداد ختم ہو جائے گی.کچھ دوستوں نے فضل عمر فاؤنڈیشن
خطابات ناصر جلد دوم ۱۹۸ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء کی وساطت سے تعلیمی وظائف بھی دیئے ہیں.اب میں اس موضوع کی طرف آ گیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل، جو دولت ہمیں آسمانوں سے دیتا ہے اس کا ذکر کیا جائے یا نہ کیا جائے تو میں نے کہا ہے کہ اس دعا سے کیا جائے کہ اس ذکر کے نتیجہ میں حسد نہ پیدا ہو اور اس دعا سے کیا جائے کہ اس ذکر کے نتیجہ میں بدظنی نہ پیدا ہو.چونکہ معرفت الہی کمزور ہو گئی ہے اس لئے لوگ یہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ خدا تعالیٰ بھی دولت دے سکتا ہے.ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ صرف انسان دولت دیتے ہیں لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صرف خدا دیتا ہے انسان تو صرف ذریعہ بنتا ہے، کبھی کوئی کبھی کوئی ذریعہ بن جاتا ہے لیکن اصل رزاق خدا تعالیٰ کی ذات ہے.پھر انسان جس شکل میں دیتا ہے وہ بھی محدود ہے لیکن خدا نے ہمیں کہا کہ إِنَّ اللهَ يَرْزُقُ مَنْ يشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ (ال عمران: ۳۸) پس جو بغیر حساب کے دینے والا ہے اسی کا در ہم کھٹکھٹاتے ہیں اور اسی کے در سے ہم پاتے ہیں.خدا ہمارے بھائیوں کو بدظنی اور حسد سے محفوظ رکھے.اس کے بعد میں آپ کو بتاتا ہوں کہ نصرت جہاں ریزروفنڈ میں اندرون پاکستان چھپیں لاکھ انتیس ہزار نو سو چورانوے روپے کی آمد ہوئی تھی اور بیرون پاکستان اٹھائیس لاکھ چوبیں ہزار آٹھ سو چونسٹھ روپے کی.یہ کل تر تین لاکھ چون ہزار آٹھ سو اٹھارہ روپے کی رقم بنتی ہے.ہم نے خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس سکیم کو دعاؤں سے شروع کیا.میں نے افریقہ کے دورے کے بعد پہلے لندن میں اس کا اعلان کیا تھا.ان کو میں نے یہ کہا کہ خدا نے مجھے یہ کہا ہے کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ ان لوگوں کی خدمت پر مزید خرچ کرنے کا منصوبہ بناؤ.یہ رقم جو میں نے بتائی تھی اس وقت کے لحاظ سے یہ قریباً دو لاکھ پاؤنڈ بنتی ہے.میں نے لندن میں اپنے دوستوں سے کہا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ یہ روپیہ کہاں سے آئے گا، نہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہسپتال کلینک اور سکول کھولنے کا جو حکم ہے ان میں کام کرنے والے کہاں سے آئیں گے کیونکہ جب خدا نے کہا ہے کہ یہ کرو تو خدا خود دے گا.مال بھی دے گا اور آدمی بھی دے گا.جس چیز کی مجھے اور تمہیں فکر چاہئے وہ صرف یہ ہے کہ جو حقیر نذرانہ ہم خدا کے حضور پیش کریں خدا اسے قبول بھی کرے گا یا نہیں.اس واسطے دعائیں کرو کہ تمہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں ایثار اور قربانی کی تو فیق بھی ملے اور ہمارا پیارا ربّ پیار سے قبول بھی کرلے اور ہماری غلطیوں کو نظر انداز کر دے.
خطابات ناصر جلد دوم ۱۹۹ دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء میں نے ۱۹۷۰ء میں لندن میں اس کا اعلان کیا تھا.جتنے پیسے مجھے کہا گیا تھا کہ کم از کم اتنے خرچ کرو.اس سے دگنے سے بھی کچھ زیادہ خدا تعالیٰ نے رقم دے دی اور جتنے آدمی کہا گیا تھا اس سے دو تین زیادہ مل گئے کیونکہ سولہ کلینکوں کے لئے سولہ آدمی چاہئیں تھے لیکن وہاں انیس ڈاکٹر کام کر رہے ہیں اور جیسا کہ میں نے آپ سے ابھی کہا تھا خدا نے ہمارے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفا رکھی.غریب کا علاج تو انہوں نے مفت کیا چنانچہ ان چند سالوں میں ایک لاکھ پنتالیس ہزار تین سو چھپن مریضوں کا مفت علاج کیا گیا اور کل مریض جو علاج کرانے کے لئے آئے ان کی تعداد چودہ لاکھ بیالیس ہزار تین سوسترہ بنتی ہے اس میں سے یہ ایک لاکھ پنتالیس ہزار نکال دیں تو قریباً تیرہ لاکھ مریض ایسا رہ جاتا ہے جن کو خدا نے پیسے دیئے تھے اور وہ اپنے علاج پر خرچ کر سکتے تھے اور جو خرچ کر سکتے ہیں ان کے متعلق اسلام کا یہی حکم ہے کہ ان سے لو اور غریبوں پر خرچ کرو چنانچہ ان سے پیسے لئے گئے اور چونکہ خدا تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا رکھی ہے اس لئے بڑے بڑے ملينر (millionair) لکھ پتی اور کروڑ پتی اپنے بہتر ہسپتال چھوڑ کر جن کی بڑی بڑی عمارتیں اور بہترین سامان تھا اور یورپ سے آئے ہوئے اچھے highly qualified ڈاکٹر تھے ہمارے پاس آ جاتے تھے جبکہ شروع میں تو ہمارے ڈاکٹر کے پاس ایک کچا پکا مکان تھا.اب تو خیر خدا تعالیٰ نے چودہ ہسپتالوں کی عمارتیں بنادیں اور باقی بن رہی ہیں.یہ سارے ہسپتال full-fledged بن چکے ہیں لیکن جس وقت بالکل سچی کی عمارتیں تھیں اس وقت بھی امیر وہاں آ جاتا تھا حکومت کا وزیر وہاں آجا تا تھا حکومت کے سربراہ کی بیوی ایک دن اپنے رشتہ داروں کو لے کر ہمارے hut میں پہنچ گئی.کئی لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا؟ ان کو خدا نے سمجھ بھی دی ہے مثلاً ایک وزیر سے کسی نے پوچھا کہ تمہیں تو بہت سہولتیں ہیں اس نے کہا ٹھیک ہے، میں وزیر ہوں اور مجھے اپنی حکومت کے ہسپتال میں ہر قسم کی سہولت ہے عمارت اچھی ، کمرے اچھے، نرسیں اچھیں ، کھانے کا انتظام اچھا، میری دیکھ بھال اچھی ، ڈاکٹر ا چھے، یورپ کے پڑھے ہوئے سارا کچھ ہے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ شفا وہاں نہیں ملتی.شفا ان کے پاس آکر ملتی ہے.اس لئے میں یہاں آجاتا ہوں.وہاں جو شفا ملتی ہے وہ خدا تعالیٰ نے اسلام کے نام کو بلند کرنے کے لئے جو منصوبہ بنایا ہے اسی کے ماتحت آتی ہے جیسا کہ میں نے شروع میں لمبی تمہید بنائی تھی کہ ہر واقعہ جو رونما ہوا ہے وہ الہی منصوبہ کے ممد اور معاون کے طور پر ہے.غرض چونکہ وہاں شفا تھی اس لئے امیر لوگ بھی آنے
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۶ء شروع ہوئے اور انہوں نے پیسے دینے شروع کئے ابھی آلات جراحی بھی پورے نہیں تھے لیکن ہمارے ڈاکٹروں نے بڑے خطرناک patients کا آپریشن کرنا شروع کر دیا، بجلی نہیں تھی تو مٹی کے تیل کی لالٹین جلا کر آپریشن کر دیا، اگر مثلاً رات کو اپینڈیکس کا تڑپتا ہوا مریض آگیا ہے تو اب اس کا یہ انتظار تو نہیں کرنا تھا کہ صبح تک بچ گیا تو اس کا آپریشن کر دیں گے بلکہ انہوں نے کہا کہ ابھی آپریشن کر دو.خدا کا نام لیا، دعا کی (بڑے دعا کرنے والے ہیں احمدی ) اور آپریشن کر دیا، اور اس کو آرام آ گیا.ضرورت کی چیزیں بعد میں ملی ہیں اور ان پر خرچ ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے پیسے اسی لئے دیئے تھے کہ ان قوموں کے امیروں سے پیسے لے کر ان قوموں کے غرباء کے لئے علاج کا سامان پیدا کریں اور دوسرے سامان پیدا کریں.چنانچہ اس برکت کے نتیجہ میں اس منصوبہ کے ذریعے جس کا سارا سرمایہ تر تین لاکھ اور کچھ ہزار روپے تھا اور جس میں سے ایک حصہ اب بھی ہمارے پاس بچا ہوا ہے یعنی یہ ترپن لاکھ سارا خرچ نہیں ہوا بلکہ کچھ یہاں اور بہت سا بیرونی ممالک میں اس میں بچا ہوا ہے.تو شروع میں ہمارے پاس یہ سرمایہ تھا اور خدا تعالیٰ نے جو شفا اور مقبولیت رکھی اس کے نتیجے میں ان چند سالوں میں نصرت جہاں کے منصوبہ کے ذریعہ ہیلتھ سنٹروں اور مدارس وغیرہ کے عطایا کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے جو دولت ہمیں دی ہے وہ تین کروڑ باسٹھ لاکھ روپے ہے.( نعرہ ہائے تکبیر ) اب یہ کوئی نسبت ہے اس سرمائے کی جو آپ نے دیا اس خدائی فضل اور رحمت کی دولت کے ساتھ جو آسمانوں سے نازل ہوئی.کئی بزرگوں نے کہا تھا کہ کمپنیوں کے حصے خرید لیں اور جو نفع آئے اس میں سے خرچ کیا کریں ان کو میں نے اُس وقت یہی جواب دیا تھا ، اپنی پوری مسکینی اور عاجزی کے احساس کے ساتھ ، کہ جس سے میں تجارت کرنا چاہتا ہوں وہ بغیر حساب کے دیا کرتا ہے اور دیکھ لو بغیر حساب کے دے دیا.سرمایہ جو سارا لگا بھی نہیں وہ تر تین لاکھ اور جو خدا نے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفا رکھی یا جو تھوڑا بہت سکولوں کی فیسوں وغیرہ سے ملا وہ تین کروڑ باسٹھ لاکھ ستر ہزار روپے ہے.یعنی جو اصل سرمایہ تھا اس سے تین کروڑ دس گیارہ لاکھ روپے زیادہ ، اصل سرمائے سے تین کروڑ اور کچھ لاکھ روپے زیادہ.یہ آسمانوں سے آیا ہے.یہ کسی اسرائیلی حکومت نے نہیں دیا، یہ کسی سرمایہ دارانہ حکومت نے نہیں دیا یہ کسی اشترا کی حکومت نے نہیں دیا یہ اُس حکومت نے دیا ہے جس کے لئے سارے انسان برابر ہیں اور جس نے مساوات محمدی پیدا کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے.( نعرہ ہائے تکبیر اور اسلام زندہ باد اور احمدیت زندہ باد کے نعرے)
خطابات ناصر جلد دوم ۲۰۱ دوسرے روز کا خطاب اار دسمبر ۱۹۷۶ء اللہ تعالیٰ کو عاجزانہ را ہیں پسند ہیں جب تک ہم عاجزی اور انکسار اور تواضع اور بے کسی کی حقیقت پر اپنے قدم جمائے رکھیں گے اس وقت تک دعاؤں کے نتیجہ میں، جن کی تو فیق پھر خدا ہی دیتا ہے، جماعت اللہ تعالیٰ کی برکتیں پہلے سے زیادہ سے زیادہ حاصل کرتی چلی جائے گی.یہ اس لئے نہیں ہوگا کہ قادیان میں ایک بچہ پیدا ہوا تھا اور اس نے کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا تھا.یعنی مہدی علیہ السلام نے بلکہ یہ اس لئے ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے پہلے سے بشارتیں دی تھیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اور قرآن کریم میں اور پہلے بزرگوں کو.پس یہ اس لئے ہوگا کہ ان بشارتوں کے مطابق مہدی کے زمانہ میں اسلام دنیا میں غالب آئے اور بیچ اور صداقت کا بول بالا ہو اور اسلام تمام ادیان باطلہ کو ان کی حقیقت بتلا کر پیار اور سلامتی اور امن کے ساتھ ، ان کے دلوں کو اس گند سے نکال کر اور اس دلدل سے نکال کر جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں ایک روشن ایک خوشگوار ایک پر سکون ایک اطمینان بخش ماحول میں لا کھڑا کرے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ( فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی ) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا: انشاء اللہ کل ملیں گے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.( از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات ناصر جلد دوم
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء اس عالمین سے خدمت لینے کی قوتیں اور استعداد میں انسان کو دی گئی ہیں اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده ۱۲ دسمبر ۱۹۷۶ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج کی دنیا کا ایک حصہ علم اور سائنس میں بہت ترقی کر چکا ہے اور وہ ممالک جنہوں نے علمی اور سائنٹیفک تحقیق کی ہے اور علم کے میدانوں میں آگے نکلے ہیں وہ خود کو بڑا عقلمند اور مہذب کہتے ہیں اور شاید زبان پر تو وہ یہ بات نہ لاتے ہوں مگر باتیں کرتے کچھ اس طرح سے ہی ہیں کہ گویا وہ انسانوں سے کوئی بالا انسان ہیں جو اس دنیا میں بس رہے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے علمی اور سائنسی لحاظ سے اس قدر ترقی نہیں کی ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور شاید انہیں نیم انسان سمجھتے ہیں اور وہ دنیا جس نے سائنس کے میدانوں میں اور علم کی دوڑ میں ترقی نہ کی اور آگے نہ بڑھے اس میں ایک بڑا حصہ ان لوگوں کا بھی ہے جو امت مسلمہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس مت مسلمہ کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو یہ یقین رکھتا ہے کہ ان کے ذریعہ سے اللہ تعالی اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرے گا اور وہ لوگ بھی جو اپنے زعم میں اپنی برتری کا یقین رکھتے ہیں انہیں یہ یقین دلایا جائے گا کہ ان کی عقلیں ان سے دعا کر گئیں اور ان کی حالت ایک پوری طرح صحت مند وجود کی نہیں بلکہ ایک ایسے جسم کی ہے جس کے اکثر حصہ پر فالج گرا ہوا ہے.تاہم جو تھوڑا سا حصہ فالج سے بچا ہوا ہے وہ بڑا فعال اور کام کرنے والا ہے.یہ جو پچھلا میں نے دورہ کیا ہے اس میں مختلف ممالک میں مجھے بڑے بڑے مدبروں سے اور محققوں سے اور عالموں سے اور پروفیسروں سے اور علوم کے ماہرین سے بات کرنے کا موقع ملا.میں وہاں ان تک اسلام کا نور پہنچانے کے لئے گیا تھا.اسلام کی صداقت اور حقانیت اور اسلام کی عظمت کی معرفت سے انہیں روشناس کرانے کے لئے گیا تھا ان کا اثر قبول کرنے کے لئے
خطابات ناصر جلد دوم ۲۰۴ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء نہیں گیا تھا.میں نے دعائیں کیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت کا یہ راستہ دکھا دیا ہے کہ جو ہماری دعائیں ہیں وہ یہ نہیں کہ ان کے جو اعتراض ہیں یا ان کا جو کبر ہے انہیں توڑنے کے لئے خدا ہمیں کچھ سکھائے بلکہ ہماری ہمیشہ یہ دعا ہوتی ہے کہ اے خدا! ہمیں قرآن کے علوم سکھا کیونکہ تیرے قرآن میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی آج کی دنیا کو ضرور تہے مثلاً مغربی قوموں کو عقل پر بڑا ناز ہے وہ سمجھتے ہیں کہ عقل کے زور سے وہ آگے نکل گئے ہیں چنانچہ میں ان کو بتا تا رہا ہوں کہ جس عقل پر تم ناز کر رہے ہو اس کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں تمہارے چوٹی کے عظمند ڈاکٹروں کے ماں کو یہ نصیحت کی اور مشورہ دیا کہ دیکھنا ! بچے کو دودھ نہ پلانا ورنہ تمہاری صحت بھی خراب ہو جائے گی اور بچے کی بھی خراب ہو جائے گئی.میرے خیال میں ۳۰.۴۰ سال تک کئی نسلوں میں یہ اثر نفوذ کرتا رہا انہوں نے کئی نسلوں کو یہ مشورہ دیا ایک ماں کی نسل کے بعد دوسری ماں کی نسل پیدا ہوئی.چھوٹی بچیاں جوان ہوئیں.انہوں نے بچے جنے اور وہ مائیں بہنیں اور ان سے کہا بچے کو دودھ بالکل نہ پلانا اور جس وقت میرے اندازہ کے مطابق لاکھوں شاید کروڑوں ماؤں کی صحتیں خراب کر دیں اور بچوں کی زندگیاں تباہ کر دیں تو کہنے لگے کہ ہم نے تمہیں یہ مشورہ دے کر غلطی کی تھی اصل تو یہ بات ہے کہ بچے کو دودھ پلاؤ گی تو تمہاری صحت بھی اچھی رہے گی اور بچے کی صحت بھی اچھی رہے گی.تم بڑے عقلمند ہو کہ لاکھوں شاید کروڑوں ماؤں کی صحتیں خراب کرنے کے بعد تم نے آرام کے ساتھ عقل کا نتیجہ ؟ پھر ان میں چوٹی کے دماغ ہیں یعنی جو آج کی دنیا ہے اس میں وہ چوٹی کے دماغ سمجھے جاتے ہیں.فزیشنز ہیں.طب میں ریسرچ کرنے والے ہیں اب ایک ملک کے چوٹی کے دماغ لے لو اور ان کے مقابلے میں دوسرے ملک کے چوٹی کے دماغ لے لو.اگر ہمیشہ عقل کا فیصلہ درست ہے اس عقل کا فیصلہ جس کو کہیں اور سے مدد نہ ملی ہو تو پھر اس ملک کی عقل کو اور اس ملک کی عقل کو ایک نتیجہ پر پہنچنا چاہئے مگر وہ ایک نتیجہ پر نہیں پہنچتے.امریکہ کہتا ہے کہ اگر کوئی سوسال بھی زندہ رہے تو اسے چونا (کیلشیم) کھانا چھوڑ نا نہیں چاہئے انہوں نے ابھی ماضی قریب میں بڑی ریسرچ کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دیکھو چونا کھانا چھوڑنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بڑی عمر میں پاؤں پھسلا اور کو لہے کی ہڈی ٹوٹ گئی عورت ہی مرد کی نسبت چونے کی کمی زیادہ ہوتی ہے.وہاں
خطابات ناصر جلد دوم ۲۰۵ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء سینکڑوں ایسی مثالیں ہیں کہ اپنے ہی گھر میں چلتے ہوئے تیز قدم اٹھایا اور کہنی لگی میز کے ساتھ اور بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی.کہتے ہیں یہ چونے کی کمی کا نتیجہ ہے چونا کھانا چھوڑ نا نہیں چاہئے یہ امریکہ کی عقل کہہ رہی ہے یو کے (انگریز) کی عقل کہتی ہے ۳۵ - ۴۰ سال کی عمر کے بعد تم نے چونا نہیں کھانا ور نہ بیمار ہو جاؤ گے.اب اگر عقل انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوتی ( اور عقل سے میری مراد جیسا کہ میں نے کہا ہے وہ عقل ہے جس کو کسی اور جز کی جس کا میں بعد میں ذکر کروں گا اعانت اور اس کی امداد حاصل نہ ہوئی ہو ) اگر عقل کافی ہو اس شکل میں کہ وہ عقل ہی کا فیصلہ ہے تو ہر دو کو ایک نتیجہ پر پہنچنا چاہئے لیکن نہیں پہنچتی.اقتصادیات کے میدان میں لے لو.دنیا میں بڑا ہنگامہ ہے ملک ملک بٹ گیا الگ الگ اقتصادی تھیوریز بنالی گئیں.جوان اپنے فیصلے تھے ان کے اختلاف کی وجہ سے سرمایہ دارانہ علاقے ایک قسم کے اقتصادی اصول اپنانے لگ گئے اور جو اشتراکی ممالک تھے ایشیا وغیرہ انہوں نے بھی دنیوی میدانوں میں بڑی ترقی کی مگر ان کے اقتصادی اصول بالکل مختلف ہیں.مجھے ان ہر دو سے باتیں کرنے کا اتفاق ہوا ہے یعنی میں نے سرمایہ داروں اور کمیونسٹوں سے بھی باتیں کیں.اصل مضمون تو اس تمہید کے بعد آئے گا لیکن مجھے اس کی بعض مثالیں دینی پڑیں گی.مثلاً کمیونسٹوں سے میں نے کہا کہ دیکھو تم نے دنیا میں ایک اعلان کیا اور بظاہر وہ بڑا اچھا اعلان تھا اس کے ظاہری الفاظ ایسے تھے کہ ہم نے بھی سمجھا بڑا اچھا اعلان ہے اور وہ اعلان یہ تھا..to each according to his need ہر ایک آدمی کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے اب عام عقل یہ کہتی ہے کہ یہ اعلان بڑا اچھا ہے لیکن اس اعلان کی خامی یہ ہے کہ جو need (ضرورت) کا لفظ یا اصطلاح استعمال کی گئی ہے اس کی تعریف ہی کوئی نہیں کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ اپنی ضرورت کے مطابق ضرورت کی تعریف بنالی جس سے بعض لوگوں کو نقصان پہنچا دیا اور بعض کو فائدہ پہنچا دیا.میں نے ایک دفعہ روس کے ایک بہت بڑے ماہر قانون سے یہ کہا کہ تمہارے اعتقادات کا یہ فقرہ تو میں نے پڑھا to each according to his need.لیکن باوجود اس کے کہ میں نے تمہارے سارے بڑے بڑوں کی کتابیں پڑھ لی ہیں مثلاً
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء کارل مارکس کا دس کا بیٹل میں نے دو سے زیادہ دفعہ پڑھا ہے اسی طرح اینجلز ہے لینن ہے ان سب کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں اس لئے کہ مجھے علم سے دوستی ہے اور اسلام سے پیار ہے.اگر میں نے اسلام کی تعلیم کی برتری ثابت کرنی ہے یا جماعت نے ثابت کرنی ہے تو ان باتوں کا علم ہونا چاہئے غرض میں نے ان سے کہا آپ کا سارا لڑ بچر میں نے پڑھا ہے مجھے کہیں بھی need کی تعریف نہیں ملی اس لئے میں بڑا ممنون ہوں گا اگر آپ مجھے need کی تعریف (Definition) بتا دیں.ہم بارہ منٹ تک باتیں کرتے رہے لیکن وہ اس طرف نہیں آئے چنانچہ اس مجلس میں جو دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور وہ بھی بڑے اونچے درجے کے قانون دان تھے وہ روسی قانون دان کو دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ سوال کیا گیا ہے جواب نہیں دیا گیا کسی نے کبھی جواب نہیں دیا.ایک سے زائد دفعہ پریس کانفرنسوں میں باتیں کرنے کا موقع ملا ہے بڑے کڑا قسم کے اشترا کی بھی ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم سے ملتے ہیں ساری دنیا سے ہم پیار کرتے ہیں اسلام نے ہمیں بنی نوع انسان سے پیار کرنا سکھایا ہے ہم پیار سے باتیں کرتے ہیں اشترا کیوں سے باتیں کرتے ہیں ان سے جواب نہیں بن پڑتا انہیں سر نیچا کرنا پڑتا ہے پھر میں ان کو بتا تا ہوں کہ اسلام نے needs یعنی ضرورتوں کا لفظ استعمال نہیں کیا.اسلام نے اس کو اصطلاح نہیں بنایا.بلکہ اس کی بجائے حق کا لفظ استعمال کیا ہے اسلام کہتا ہے ہر ایک کو ہر فرد واحد کو اس کا حق ملنا چاہئے پھر وہی سوال آ جاتا ہے کہ اسلام کے نزدیک حق کی تعریف کیا ہے چنانچہ اسلام نے حق کی ایسی تعریف کی ہے کہ جس سے بہتر تعریف ممکن نہیں ہے میں لوگوں سے یہ کہتا رہا ہوں کہ اس سے بہتر تعریف تمہارے ذہین میں ہے تو بتا ؤ لیکن آج تک کوئی شخص یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکا کہ اس سے بہتر تعریف بھی ہوسکتی ہے.اسلام یہ کہتا ہے کہ ہر شخص کو اس کا حق ملنا چاہئے اور اس کا حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو مختلف قوتیں اور استعداد یں دی ہیں ان کے نشو و نما کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ اس کا حق ہے اور جب وہ نشو و نما کر کے اپنے دائرہ استعداد میں ایک خاص مقام پر پہنچ جائے تو اس مقام پر رہنے کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ اس کا حق ہے اور وہ اسے ملنی چاہئے اگر کسی کی استعدا د ضائع ہوتی ہے تو گویا اس کا حق مارا جارہا ہے.
خطابات ناصر جلد دوم ۲۰۷ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء ہمارے اس ملک میں میں نے دیکھا ہے.میں ۱۹۶۵ء سے پہلے پرنسپل رہا ہوں میری نظروں کے سامنے سے ایسے واقعات گزرے ہیں اور یہ میرا مشاہدہ ہے کہ ہزاروں پاکستانی ذہین بچے جن کو اللہ تعالیٰ نے ذہانت دی تھی اور خداداد ذہانت کی جو استعداد ہے وہ ایک بہت بڑی نعمت ہے اگر خدا تعالیٰ کسی قوم کے بچوں کو ذہانت دینے لگ جائے تو اس سے اچھی اور کیا نعمت ہو سکتی ہے لیکن قوم نے ان کو نہیں سنبھالا ایک دفعہ ہمارے ایک سائنسدان نے ایک مقالہ لکھا اور اس میں لکھا کہ ہم کیسے ترقی کر سکتے ہیں ہمارے پاس پانچ ہزار سائنسدان ہیں یہ ۱۵.۲۰ سال کی بات ہے یعنی ہماری موجودہ حکومت سے برسوں پہلے کی بات ہے میں نے انہیں کہا کہ پانچ ہزار اس لئے ہیں کہ آپ کے پاس پچاس ہزار سائنسدان ذہین تھے ان کو چھری سے کاٹ کر پرے پھینک دیا ان کو سنبھالا نہیں ضائع کر دیا اور آج آپ اس بات کا رونا رو ر ہے ہیں کہ سائنسدان نہیں.غرض وہ دنیا جسے میں نے مفلوج کہا ہے اور فالج بھی بڑی سخت قسم کا ہے جس نے ان کے جسم کے ایک بڑے حصہ کو نا کارہ کر کے رکھ دیا ہے لیکن ان کا دوسرا حصہ بڑا فعال ہے اس نے بڑی ترقی کی ہے ایسے آلات بنا لئے کہ چاند پر جا کر چہل قدمی کر لی مریخ کے گرد چکر لگا کر وہاں کی خبریں لے آئے ایٹمی میدانوں میں ترقی کی اٹیم بم تیار کر لیا یہ کر لیا وہ کر لیا کوئی شبہ نہیں جو حصہ ان کا مفلوج نہیں ہے وہ بڑا تیز ہے اور علمی و سائنسی میدانوں میں بہت آگے نکلا ہوا ہے.میں نے ان دوروں میں سوچا آخر وہ کیا چیز ہے جو ہمیں ایسی ملی ہے جس سے ہم ان کو قائل کر لیتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم درست اور برتر ہے اور وہ قرآن کریم کی نئی تفسیر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے جس سے ہمیں پتہ لگا کہ یہ ایک ایسی عجیب چیز ہے جو غیر مسلموں کے ذہن میں نہیں آسکی.پس یہ اسلام کا کام ہے اللہ تعالیٰ کی اس عظیم کتاب قرآن کریم کا کام ہے کہ وہ ان کو بتائے کہ اسلامی تعلیم کیوں برتر ہے چنانچہ قرآن کریم نے اس عالمین کے متعلق باہر دو جہان کے متعلق مجموعی طور پر ایک عظیم اصول کا اعلان کیا ہے اور وہ اعلان یہ تھا یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ یہ ہے کیونکہ یہ اعلان قیامت تک کے لئے قائم ہے اور وہ اصول یہ ہے.الرَّحْمَنُ : عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ ) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدُنِ.وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِيزَانَ )
خطابات ناصر جلد دوم ۲۰۸ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء الَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ (الرَّحْمنِ : ۲ تا ۹) سورۃ رحمان کی ان آیات میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمن ہے وہ کسی عمل کرنے والے کے عمل کے بغیر اپنی نعمتیں نازل کرتا ہے انسان ابھی اس کرہ ارض پر پیدا نہیں ہوا تھا کہ یہ زمین اور یہ آسمان آدم یعنی پہلے انسان کے استقبال کے لئے تیاریاں شروع کر چکے تھے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے انسان کے لئے ہاتھ میں ایک تو قرآن کریم دے دیا فرمایا عَلَّمَ الْقُرْآنَ (الرحمن :٣) اور دوسری طرف فرمایا خَلَقَ الْإِنْسَانَ (الرحمن : ۵) انسان کو اس نے بے انتہا قوتوں اور استعدادوں کے ساتھ پیدا کر دیا اور تیسرے یہ کہ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (الرحمن : ٦) اس کو بیان کرنے کی طاقت دی جس کے نتیجہ میں انسان کے ہاتھ میں تاریخ آئی خطوط اور مراسلات آئے اور علمی تحقیق کی جو findings تھیں اور جونتائج نکلے تھے وہ انسان کو ملے اس لئے کہ ہمار خدا رحمان خدا ہے اس نے رحمانیت کے جوش میں انسان کو قرآن کریم دیا اور وہ ساری قوتیں اور طاقتیں عطا کیں جو انسان کو حیوان سے ممتاز کرنے والی ہیں اور اسے بیان دیا جس کے نتیجہ میں تاریخ کا مدون کرنا آسان اور ممکن ہو گیا اور خطوط اور مراسلات کا ایک طریق جاری ہوگیا اور علمی تحقیق سے یہ ثابت ہو گیا کہ چاند اور سورج اور ستارے اور جڑی بوٹیاں اور درخت وغیرہ سب خدا تعالیٰ کے حکم کے نیچے ہیں رحمان خدا نے ان کو قانون قدرت میں باندھ دیا ہے اور آسمان کو اتنا بلند کر دیا ہے کہ آج کا مہذب اور ترقی یافتہ انسان علمی میدانوں میں اس عالمین کے ورلے کناروں پر کھڑا ہے تو جاہل لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اس عالمین کو فتح کر لیا ہے لیکن سائنسدان اب بھی یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے ( پنجابی کے ایک محاورہ کے مطابق ) عالمین کو ابھی بھورا ہے یعنی ناخنوں سے کھرچ کے ذراسی چیز ان کے ہاتھ میں آئی ہے اور اس پر انہوں نے ریسرچ کی ہے گویا اس کا ئنات میں اتنی وسعتیں ہیں کہ وہ ہمارے ذہن میں نہیں آسکتیں یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَضَعَ الْمِيزَانَ الرَّحْمٰنِ : ۸) کہ خدا نے اس یو نیورس اس عالمین میں توازن (Balance) کا اصول قائم کیا ہے خدا نے انسان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ اس میزان کو un set کر سکے لیکن ا.کو un set کر سکے لیکن اسے حکم یہ دیا ہے کہ تم نے unset نہیں کرنا ورنہ فساد پیدا ہو جائے.مختصراً ایک دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اَنزَلَ الكتب بِالْحَقِّ (الشورى : ١٨)
خطابات ناصر جلد دوم ۲۰۹ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء گویا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے اسی طرح میزان کے اصول کو حق کے ساتھ قائم کیا ہے.یہ جو میزان ہے یا Balance ہے اس کا مفہوم ہر ایک بچے بڑے کے ذہن میں آجانا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ ایسی نسبتیں قائم کی گئی ہیں جو عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے والی ہیں مثلاً ہم آج کی سائنس کے نیوٹریشن کے محاورہ میں کہتے ہیں.balanced diet مثلاً یعنی متوازن غذا جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مثلاً انسان کو روزمرہ کی غذا میں اتنا گوشت کھانا چاہئے لحمیات کا حصہ، اتنی شکر کھانی چاہئے سٹارچ کا حصہ، اتنی چکنائی کھانی چاہئے.مکھن وغیرہ کا حصہ اتنا پھل کھانا چاہئے اتنے ڈرائی فروٹ یعنی اخروٹ اور بادام وغیرہ غرض اس بارہ میں انسان بڑی تفصیل میں گیا ہے.اور اس کو لوگ کہتے ہیں balanced diet متوازن غذا اس معنی میں balanced اس کے مقابلہ میں انسانی صحت ترازو کے ایک پلڑے میں ہو اور دوسری طرف یہ balanced غذا ہو تو صحت قائم رہے گی نہ بنیوں کی طرح گھی اور میٹھا زیادہ کھا کر کہ پیٹ موٹے ہو جائیں وہ ہر وقت لڈو کھاتے رہتے ہیں اور نہ ان لوگوں کی طرح کہ جن بیچاروں کو پوری طرح کھانے کو بھی نہیں ملتا ان کی ہڈیاں نکلی ہوئی ہیں کلے پچکے ہوئے آنکھیں اندر گڑھے میں گئی ہوئی ہوتی ہیں اصل صحت کو جو چیز قائم رکھتی ہے وہ یہی balanced diet یعنی تو ازن غذا ہے.خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں مختلف غذائی اجزاء اور انسانی صحت کے ساتھ balance یعنی توازن کو قائم کیا ہے خدا تعالیٰ کہتا ہے میں نے عالمین میں اس میزان کا اصول چلایا ہے یہ میری قدرت کی بنیاد ہے دست قدرت سے یہ کائنات بنی اور اس میں تو ازم پایا جاتا ہے مثلاً میں دوسری انتہا کو لیتا ہوں جو وسعتوں والی انتہاء ہے.ہمارا ایک سورج ہے اس کے گرد چند سیارے ہیں جسے نظام شمسی کہتے اس خاندان میں زمین بھی شامل ہے یہ ایک خاندان ہے اور اتنی زیادہ تعداد میں ہے کہ ان کو انسان ابھی تک گن بھی نہیں سکا وہ جب اکٹھے ہو جائیں تو ان کا ایک قبیلہ بنتا ہے اور اس کو galaxy کہتے ہیں اور یہ تعداد میں بے شمار ہیں ان خاندانوں کے مجموعے یعنی نظام ہائے شمسی کا مجموعہ galaxy کہلاتا ہے جو لوگ ستاروں کا علم رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو galaxias ہیں ان کی تعداد ہم سے گئی
خطابات ناصر جلد دوم ۲۱۰ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء نہیں گئی.میں نے بتایا ہے کہ میں اس کائنات کی وسعتوں کی بات کر رہا ہوں balance یعنی توازن کو قائم رکھنے کے لئے نظام شمسی کو لے لو فر مایا الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ( الرَّحْمَن :) ایک اصول ہے جو ایک رفتار پر ایک جہت میں ایک ہی زاویہ اور محور پر کارفرما ہے زمین ایک ہی محور پر گردش کرتی ہے.اسی طرح چاند ہے سائنسدان کہتے ہیں کہ اگر چند نیزوں کے فرق سے زیادہ قریب ہوتی زمین سورج سے تو یہاں اتنی گرمی ہوتی کہ انسان زندہ نہ رہ سکتا اور اگر چند نیزوں کے فرق سے پرے ہوتی دور ہوتی تو یہاں اتنی سردی ہوتی کہ انسان زندہ رہ سکتا.یہی balance ہے جسے وَضَعَ الْمِيزَانَ (الرحمن : ۸) میں بیان کیا گیا ہے.اس کائنات میں ایک خاص توازن قائم کیا گیا ہے سورج اور ان زمین کے درمیان ایک خاص فاصلہ ہے زمین ایک محور.اس کی اپنی جہت اور رفتار ہے جس کے مطابق وہ گھوم رہی ہے.غرض قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے اعلان کر دیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اس یو نیورس اس عالمین میں میزان یعنی توازن کا ایک اصول قائم کر دیا ہے آج کل کئی دہر یہ لوگ کہہ دیتے ہیں خدا ہے ہی نہیں یعنی وہ خدا نہیں جس نے چودہ سو سال پہلے ہمیں بتا دیا تھا کہ یہ اصول قائم ہے قرآن کریم ایسے ہی کئی دوسرے علوم سے بھرا ہوا ہے.انسان کو تو پچھلی دو ایک صدی میں ان علوم کا پتہ لگنا شروع ہوا ہے جو اس میں بتائے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس عالمین میں ایک تو میزان کا قانون بنایا ہے دوسرے ہم نے عالمین میں ایک اور اصول قائم کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنة (الجاثية : ١٤) اس عالمین کی ہر شے کو بلا استثنا یہ حکم ہے کہ وہ انسان کی خدمت میں لگی رہے یعنی وہ galaxy جہاں تک ہمارا تخیل بھی نہیں پہنچا وہ ستارے جن کی تعداد ہم گن نہیں سکے.ان کو ہم گن نہیں خدا تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ تم انسان کی خدمت کرو.تیسرا اصول جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا اسلام نے ہمیں بتایا قرآن کریم نے ہمیں بتایا وہ یہ ہے کہ انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا گیا ہے یعنی جہاں ایک طرف عالمین کو انسان کی خدمت کے لئے حکم دیا گیا ہے وہاں انسان کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ ہر وہ خدمت جو یہ عالمین انسان کی
خطابات ناصر جلد دوم ۲۱۱ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء کر سکتا ہے وہ اس عالمین سے لے خدمت لینے کی ایسی قوتیں اور استعداد میں دی گئی ہیں کہ جو عالمین کے نزدیک چیزیں یا اجزا ہیں یا دور کے اجزاء ہیں ان سے خدمت لینے کی طاقت اور قوت اور استعداد انسان کو دی گئی ہے یہ بڑے زبر دست اصول ہیں جن کا اعلان کیا گیا ہے یہ جو میزان ہے یہ اپنے مختلف یونٹوں میں اور حصوں میں منتشر اور پراگندہ نہیں ہے بلکہ کسی ایک جگہ کو آپ پکڑ لیں تو دیکھیں گے کہ پھر اس کا تعلق اگلے کے ساتھ پھر اس کا اگلے کے ساتھ پھر اس کا اگلے کے ساتھ پھر اس کا اگلے کے ساتھ پھر اس اگلے کے ساتھ یہاں تک کہ اس میزان میں اس balance میں ہر چیز بندھ جاتی ہے پھر جب ایک مکمل یو نیورنس بنتی ہے تو وہ اپنی تکمیل میں balanced ہوتی ہے یعنی جو balance جو نظام ہائے شمسی کا اپنی galaxy ہے اور galaxis کا اپنے درمیان ہے یہی نظام انسان کے دل کے کیمیکل اجزاء میں اور galaxy کے اندر بھی.کیونکہ یہ جو balance ہے یہ جو میزان کا اصول ہے یہ جو توازن قائم کیا گیا ہے اس میں بھی آگے انتشار نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی واحدانیت اس کو برداشت نہیں کر سکتی.اب انسان کو یہ کہا کہ تجھے ہم نے عقل تو دی لیکن خالی تیری عقل صحیح راہوں پر نہیں چل سکتی اس کے لئے کچھ اور چاہئے اور ہمیں سمجھانے کے لئے کہ ان کی عقل کچھ نہیں کر سکتی ہمیں فائدہ نہیں پہنچاتی بلکہ بعض دفعہ ہمیں بہت خراب کرتی ہے ( جب کہ میں نے بعض مثالیں دی ہیں ) جب تک اس کو ایک ایسا رفیق نہ ملے جو اسے راہ راست پر چلائے.ویسے تو ہر چیز کے لئے اس کا رفیق ہے لیکن عقل کے رفیق تین بنیادی قسموں میں محصور ہیں جب تک وہ رفیق نہ ملیں عقل کام ہی نہیں کر سکتی ہر شخص یہ کہے گا حتی کہ ایک دہر یہ بھی یہ کہے گا کہ اس کے بغیر عقل کام نہیں کرتی آج کا عالم بھی یہ کہتا ہے کہ نہیں کرتی.خدا تعالیٰ نے عقل کو پہلا رفیق دیا ہے مشاہدہ اور تجربہ.خدا تعالیٰ نے عقل کو کہا اب عقل فی ذاتہ جتنا مرضی زور لگالے مشاہدہ کے بغیر وہ صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچے گی اس کو کمال حاصل نہیں ہو گا مثلاً ہمارے ایک احمدی سائنٹسٹ ہیں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ان کا علم تھیوری سے تعلق رکھتا ہے غالباً تھیوریٹکل فزکس ان کا مضمون ہے وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر اور اپنی عقل کے زور سے اربعے لگاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا چھا ذہن دیا ہے اور بڑی عقل دی ہے وہ حساب کی رو سے بڑے اربعے لگاتے ہیں مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ فلاں قسم کے ذرے میں یہ balance توازن موجود ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۲۱۲ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے اور اس طرح ایک فارمولا تیار ہو جاتا ہے.آج کی سائنس کی دنیا ان کو یہ کہتی ہے اس کا تجربہ لیبارٹری میں ہوگا سائنٹسٹ ان کی بڑی قدر کرتے ہیں میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ساری دنیا کے مشہور سائنسدان اگر کسی ہال میں بیٹھے ہوں تو جب یہ داخل ہوتے ہیں تو سب ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اتنا ہی منکسر المزاج ہے ہمارا یہ احمدی بھائی اور بڑا honest ہے بہر حال ان کا ایک فارمولا بنتا ہے یہ ان کی عقل کا کام ہے یعنی تصیور مشکل عقل کے ذریعہ ایک فارمولا تیار ہوتا ہے مگر سائنسدان کہتا ہے جب تک لیبارٹری میں ہم اس کا تجربہ نہ کرلیں گے تمہاری بات نہیں مانیں گے.پچھلے ایک دو سال کے اندر انہوں نے اپنے دفتر میں بیٹھ کر ز بر دست فارمولے تیار کئے مگر یہ ایسے ہی گپ لگا کر نہیں بنائے بلکہ بڑا حساب لگانا پڑا ہے وہ خودMathematician بھی ہیں اور بڑے حساب لگا کر لاکھوں کروڑوں ضر ہیں اور جمع اور بہ اور وہ کر کے انہوں نے ایک چیز کے متعلق کہا کہ یہ یوں ہے یعنی مادی دنیا میں اس کی یہ شکل ہے انہوں نے کہا تجربہ ہوگا تو مانیں گے اب وہ اتنا ز بر دست فارمولا ہے کہ اس وقت دنیا میں صرف دو لیباریٹیز اس کا تجربہ کرسکتی ہیں ایک امریکہ میں اور دوسرا یورپ کے کسی حصہ میں ہے.انہوں نے کہا کہ ہم مصروف ہیں اگلے دو یا چار سال کے بعد تجربہ کر سکتے ہیں پہلے نہیں کر سکتے.پس جب تک لیبارٹری ٹسٹ ہو کر پتہ نہ لگ جائے کہ جس نتیجہ پر عقل پنچی تھی وہ درست ہے یا نہیں اس وقت تک ہماری عقل کہتی ہے کہ میری بات نہ مانو.عقل کا کہنا ہے جب تک میرا رفیق میرے ساتھ شامل نہ ہو میری بات نہ مانوچنانچہ مشہودات اور محسوسات کی دنیا میں یعنی اس مادی دنیا میں یہ پانی یا یہ غذا ئیں یہ درخت یہ جڑی بوٹیاں یہ پتھر یہ ہوا یہ چاند یہ ستارے ان کے متعلق لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب تک وہ تجربہ نہ کر لیں عقل کے نتیجہ کو صحیح ثابت نہیں کر سکتے.غرض خدا تعالیٰ نے عقل کو مشہودات کی دنیا میں مشاہدہ اور تجربہ ( لیبارٹری ورک ) کو اس کا رفیق بنایا ہے جب یہ دونوں اکٹھے ہو جائیں عقل بھی کہے یہ ٹھیک ہے اور لیبارٹری ( تجربہ ) بھی کہے یہ ٹھیک ہے تب انسان کہتا ہے ٹھیک ہے.ورنہ ٹھیک نہیں ہوتا اور عقل ناکام ہو جاتی ہے اس کی بات نہیں مانی جاتی خود ہماری عقل بات نہیں مانتی.بعض ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق ماضی سے ہے یا مکانی لحاظ سے بعد ہے مثلاً ہزار میل دور واقع ہوا ہے اب اگر کوئی عقلمند تاریخ دان ان کے متعلق
خطابات ناصر جلد دوم ۲۱۳ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء کچھ لکھنا چاہے تو وہ عقلی اربعے لگا کر ہی کچھ لکھے گا اور اس طرح ہندووں کی تاریخ تو بن سکتی ہے مگر اصل تاریخ تو نہیں بن سکتی یعنی واقعاتی طور پر یوں ہو گیا یہ تو عقل نہیں کہہ سکتی عقل اگر یہ عقل کہتی ہے کہ آج سے دو ہزار سال پہلے میں نے یوں اربعے لگائے اور یوں واقعات رونما ہوئے مگر جب تک تاریخ کا رفیق اس کے ساتھ نہ ہو تاریخ کے متعلق عقل کا فیصلہ نا قابل قبول ہوتا ہے.یہی احباب کو ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں جب میں نے میٹرک کا امتحان دیا تو ہمارے تاریخ کے پرچے کا ایک حصہ ہند و تاریخ تھی.میں نے ایک دن ہندو تاریخ کی کتاب اٹھائی تو مجھے یہ سمجھ آئی کہ جس نے یہ کتاب لکھی ہے اسی نے تاریخ بنادی ہے کیونکہ تاریخی ثبوت کوئی نہیں دیا.پانچ ہزار سال پہلے کی باتیں ہیں لیکن کہیں ریکارڈ نہیں ہے.گئیں مار کر اپنی تعریفیں کر کے کہ یوں ہو گیا اور یوں ہو گیا تاریخ بنادی گئی چنانچہ طبیعت میں بڑی نفرت کی پیدا ہوئی اور میرے دماغ نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر یہ ہندو کتاب لکھنے والا ہمارے اور کسی کی تاریخ بنا سکتا ہے تو میرا دماغ بھی بنا سکتا ہے اس لئے میں خواہ مخواہ اپنا وقت کیوں ضائع کروں میں امتحان کے ہال میں ہندووں کی تاریخ بناؤں گا.میرے ساتھی کہتے اپنے نمبر کیوں خراب کر رہے ہو کچھ پڑھا کرو میں نے کہا نہیں پڑھوں گا اس نے تاریخ بنائی ہے میں بھی بناوں گا چنانچہ یہ امر واقعہ ہے کہ امتحان کے ہال میں سوالوں کے ایک حصہ کی ہندووں کی تاریخ بنائی اور ہندو متحن نے مجھے بہت اچھے نمبر دیئے لیکن اصل تاریخ تو اس طرح نہیں بنتی یا مثلاً امریکہ ہے ایک آدمی یہاں بیٹھ کر والڈ روف ہوٹل جس میں ہم ٹھہرے تھے اس کے متعلق ایک مقالہ لکھ دے جسے نہ تو اس نے دیکھا ہو اور نہ اس کے متعلق کچھ سنا ہو تو اس کی بات تو غلط ہوگی.پس اگر انسان کسی واقعہ سے زمانی یا مکانی لحاظ سے فاصلے پر ہے تو اس کے متعلق اس کی بات ماننے کے لئے یا تو متعبر تاریخی کتب کی شہادت چاہئے یا پھر سماع چاہئے کہ ایک آدمی آیا ہے وہ کہتا ہے کہ وہاں یہ واقعہ ہوا ہے مثلاً میں نے امریکہ کے والڈروف ہوٹل کی ۱۰۷ ویں منزل پر ایک دن ایک احمدی دوست کی دعوت پر وہاں کھانا کھایا بیٹھ کر تو کوئی آدمی یہ بات نہیں بنا سکتا کہ اتنویں منزل پر بیٹھ کر کھانا کھایا جا سکتا ہے یہ تو وہی بتائے گا جس کو پتہ ہے یا مستند کتابوں سے اس نے استفادہ کیا ہو یا مثلاً کسی ملک میں زلزلہ آ گیا ہو تو وہاں کی خبر وہ صحیح نہیں ہوتی جو اخبارات رطب و یا بس شائع کر دیتے ہیں.میں اپنے اخباروں پر تنقید نہیں کر رہا ساری دنیا کے اخبار ہی اسی
خطابات ناصر جلد دوم ۲۱۴ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء طرح ہیں پچھلے دنوں میں چین زلزلہ آیا تو صیح خبر وہ ہے جو چین ہمیں بتائے گا کہ وہاں کیا ہوا.اب اگر کوئی زید یا بکر یہاں بیٹھ کر اور حساب کے اربعے لگا کر کہے کہ چین میں یوں ہوا تو عقل کہتی ہے عقل کی اس بات کو قبول نہ کرو خواہ وہ کتنی ہی معقول باتیں اپنے حق میں لکھ گیا ہے.پس جہاں تک مشہورات اور محسوسات کا تعلق ہے عقل کو اللہ تعالیٰ نے رفیق دیا تجربہ اور مشاہدہ جہاں تک عقلی استدلال کا تعلق ہے ایسے واقعات سے جو ماضی میں ہوئے زمانی لحاظ سے دور یا ہزار میل پرے مکانی لحاظ سے دور اس میں عقل کے ساتھ یا تاریخ چاہئے یا اخبار چاہئیں یا مراسلات چاہئیں یا خطوط چاہئیں دونوں چیزیں ملیں گی تو صحیح نتیجہ نکلے گا ورنہ نہیں نکلے گا کہ عقل مشاہدہ اور تجربہ کے بغیر صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچی.دنیا نے اس اصول کو تسلیم کیا ہے جو تاریخی بات ہے اسے مستند تاریخ بتائے گی پھر آگے عقل نتیجہ نکالے گی.تاریخ ہمیں یہ بتائے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کے موقع پر اتنے انسان تھے یہ تاریخ کا کام ہے یہ حساب دان کا کام نہیں ہے کہ وہ اربعے لگا کر بتائے کہ اتنے لوگ تھے تاریخ ہمیں یہ بتائے گی کہ ان کے ہتھیاروں کی یہ حالت تھی پرانی تلوار میں کند تلواریں زنگ آلود تلوار میں تھیں.تاریخ ہمیں یہ بتائے گی کہ بہتوں کے پاس پہننے کی جو یاں بھی نہ تھیں.تاریخ ہمیں یہ بتائے گی کہ ان کے پاس سواری کے لئے گھوڑے اور اونٹ بھی نہیں تھے.یہ تاریخ کا کام ہے.ہماری عقل ان سب چیزوں کو لے کر کہے گی کہ عظیم تھا وہ انسان جس نے اپنے گرد جمع ہونے والے لوگوں کی ایسی عظیم تربیت کر دی کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر وقت قربان ہونے کے لئے تیار رہتے تھے.یہ ہے ہماری عقل لیکن اگر تاریخ ہمیں کچھ بھی نہ بتائے جیسا کہ میں نے ہندو تاریخ کے متعلق بتایا ہے کہ لوگ خود ہی بنا لیتے ہیں اور ہم یہ کہیں کہ فلاں واقعہ بڑا عظیم تھا تو عقل کہے گی کہ ابھی یہ بات ماننے والی نہیں پہلے شہادت لے لیں دو چیزیں آگئیں.عقل کے رفیق آگئے.جہاں تک ماورای امحسوسات کا تعلق ہے.یا الہیات کا تعلق ہے اسلام کہتا ہے عقل کو ہم نے الہام کا رفیق عطا کیا ہے.بغیر الہام کے رفیق کے عقل کسی نتیجہ پر پہنچ ہی نہیں سکتی.اس کا یہ کام ہی نہیں جو چیز محسوسات کی دنیا سے باہر ہے عقل کا کیا کام کہ وہاں تک پہنچے جب تک عقل کے ساتھ الہام نہ ہو.عقل یہ نہیں کہ سکتی کہ اس نے یہ اربعہ لگایا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ بعض آدمی مستقبل کی
خطابات ناصر جلد دوم ۲۱۵ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء خبریں دیتے ہیں یا دے سکتے ہیں ہماری عقل یہ کہے گی تمہارے سب اربعے غلط ہیں لیکن الہام کہے گا کہ خدا تعالیٰ جسے چاہے غیب کی خبروں کا ایک حصہ عطا کرتا ہے اور پھر وہ واقع ہو جاتا ہے اور عقل کی بھی اس پر مہر لگ جاتی ہے اور خود وہ واقعہ بھی شہادت دے رہا ہوتا ہے.میں جب الہام کی بات کرتا ہوں تو میں زید یا بکر کے الہام کی بات نہیں کر رہا ہوتا بلکہ میں اس کامل الہام کی بات کرتا ہوں جو ہماری اصطلاح میں قرآن عظیم کہلاتا ہے قرآن کریم ایک الہامی کتاب ہے اور وحی کے ذریعہ نازل ہونے والی کتاب ہے.قرآن کریم کی یہ وحی ہمیں بتاتی ہے کہ عقل ماورای ! الہیات کام کرتی ہے ویسے عقل کے جو دوسرے دور فیق ہیں الہام ان کی بھی ایک اور رنگ میں مدد کرتا ہے یعنی لیبارٹری کا تجربہ اور مشاہدہ ضروری ہے محسوسات اور مشاہدات کی دنیا میں اور جہاں تک تاریخ سے استدلال کرنے کا سوال ہے وہ بھی ضروری ہے لیکن عقل کے ان دور فیقوں کی مدد کے لئے بھی الہام ہوتا ہے اور وہ اس طرح پر کہ عقل کو سرگرداں بھٹکنے نہیں دیتا بلکہ الہام آ کر صحیح راستے کی رہنمائی کر دیتا ہے بجائے اس کے کہ لوگ پھر رہے ہیں کبھی ایک گلی میں گئے تو پتہ لگا آگے سے blind یعنی راستہ بند ہے پھر دوسری طرف گئے پھر تیسری طرف گئے اور جو کام چھ مہینے میں ہوسکتا تھا وہ دس سال میں کہیں جا کر ہوا.یوں ہی پھرتے رہے اور ادھورا کام ہوالیکن بسا اوقات الہام عقل کی مدد کرتا ہے وہ اسے ایک روشنی دیتا ہے اور کہتا ہے یہ راستہ ہے اس پر چلو گے تو منزل پر پہنچ جاؤ گے میں نے کئی سائنسدانوں سے بات کی ہے یہ جو روشنی نظر آتی ہے یہ بھی ایک قسم کا الہام ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی ایک ہدایت ہے اور اسے ہم ہدایت کے بڑے دائرہ کے اندر رکھنے پر مجبور ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ ایک سائنسدان ریسرچ کرتا ہے اسے کچھ پتہ نہیں لگتا اور ریسرچ کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور پریشان ہو جاتا ہے وہ دہر یہ ہے خدا کو نہیں مانتا.پھر وہ کسی نامعلوم چیز کی طرف تڑپ کر جاتا ہے اور اس کے دل میں آتا ہے کہیں سے تو مجھے مددملنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے تو نے مجھ سے ہی گویا دعا کر لی.چنانچہ اس کے لئے روشنی پیدا ہو جاتی ہے سائنسدان کہتے ہیں.وہ اپنی ریسرچ میں بہت پھنسے ہوتے ہیں.بعض دفعہ ۲۰.۲۰.سال تک ان کی عقلی کاوش کے نتائج نہیں نکلتے اور پھر ایک دن خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے ( ان لوگوں نے brain wave کا محاورہ بنالیا
خطابات ناصر جلد دوم ۲۱۶ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء ہے اس کی رو سے ان کے دماغ میں روشنی آجاتی ہے جو دراصل خدا تعالیٰ کی طرف سے مدد کے طور پر آتی ہے جو الہام کے بڑے دائرے کے اندر آتی ہے ویسے صحیح الہام اور وحی کا لفظ اس کے لئے استعمال نہیں ہوسکتا لیکن خدا کی طرف سے ایک ہدایت آتی ہے اور سائنسدانوں کو راہ مل جاتی ہے اور وہ ریسرچ میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اسی لئے جب اسلام نے علوم کے میدان میں بہت ترقی کی.چین اس کام میں بڑا معروف اور مشہور ہے.تاریخ اس بات کے ذکر سے بھری ہوتی ہے کہ وہاں کے مسلمان علماء اور محققین نے ریسرچ کی اور اس پر انہوں نے سینکڑوں ہزاروں کتابیں لکھیں اور وہ بھی اتنے تھوڑے وقت میں کہ اس وقت کی دنیا حیران ہو گئی تھی کہ یہ کیا ہو گیا ہے چنانچہ بڑے بڑے لاٹ پادری وہاں جاتے تھے اور مسلم یونیورسٹیوں میں داخل ہوتے تھے اور تعلیم حاصل کرتے تھے.پس عقل کے یہ تین رفیق ہیں.ان کی وجہ سے عقل انسان کے کام آرہی ہے ویسے یہ ہے بڑے کام کی چیز لیکن اس کی عقل کسی کام کی نہیں بعض لوگ کہتے ہیں عقل کا قصور نہیں نیم عقل عاقل کا قصور ہے عقل کئی حیثیت میں کوئی کام نہیں کر سکتی.یہ ایک فلسفیانہ مسئلہ ہے تاہم جب وہ تھیوری میں آئے گی یعنی کسی فرد کی عقل بنے گی تبھی کام آئے گی کبھی آپ نے آسمانوں پر عقل کو اڑتے یا زمین پر چلتے دیکھا ہے؟ عقل تو ایک گلی ہے ایک نام ہے ایک خاص سمت کا.لیکن آپ نے عاقل تو بہت دیکھے ہیں دنیا میں کوئی ایسا عاقل نہیں جس نے الہیات کے معاملات میں ایک بھی اصول ایسا بتایا ہو جسے ہم قرآن کریم میں سے نکال کر نہ دکھا سکیں اور دہر یہ خیالات کو مٹانے کے لئے یہ بڑی زبر دست دلیل ہے.دنیا کا کوئی عقلمند انسان ایسا نہیں ہے جو قرآن کریم کے کسی ایک اصول کی نقل ہی بنا سکتا ہوا اپنے طور پر بھی نہیں بنا سکتا.قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے اور ہم جماعت احمدیہ کے افراد اسے سچا اور ثابت کرنے کے ذمہ دار ہیں اور میں جماعت احمدیہ کے امام کی حیثیت سے اس بات کا ذمہ دار ہوں کہ جو شخص آئے اسے میں قائل کروں گا کہ یہ بات صحیح ہے کہ قرآن کریم بے مثل و مانند ہے یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا کلام ہے جس کے ساتھ ملتا ہوا اس پایہ کا کلام کوئی انسان بناسکانہ بنا سکتا ہے.اور نہ کبھی بنا سکے گا ایسا ہو ہی نہیں سکتا.پس ہماری عقل اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ انسان کے ہاتھ کی بنائی ہوئی ہر چیز بے مثل و مانند نہیں کوئی چیز بھی بے مثل و مانند نہیں ہے.آج کوئی ایک
خطابات ناصر جلد دوم ۲۱۷ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء لے لیں جس نے ارتقائی مدارج میں سے گزر کر ترقی کی ہو مثلاً موٹر کار ہے کسی زمانے میں اونچے ڈھانچوں والی زمین سے دوگز اونچی یکہ کی طرح عجیب شکل کی ایک چھکڑ اسی موٹر پھرا کرتی تھی اور لوگ بڑے خوش تھے کہ جی ہم نے موٹر بنالی ہے.اس کے بعد اس میں اور تبدیلی پیدا ہوئی پھر اس میں اور تبدیلی پیدا ہوئی بعض تبدیلیاں اچھی تھیں اور بعض خراب.اس کے ساتھ انہوں نے سٹرکیں اتنی اچھی بنالیں کہ اگر سات انچ کے اوپر باڈی پڑی ہوئی ہے تو وہ زمین سے نہیں ٹکراتی اگر ایسی کاریں یہاں آجائیں.تو مصیبت پڑ جاتی ہے کیونکہ ہماری سٹرکیں خراب ہیں سٹرکوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے وہ یہاں نہیں چل سکتیں.بہر حال ہر کمپنی یہ کہتی ہے کہ اس کی بنائی ہوئی موٹر دنیا کی بہترین موٹر ہے.اگلے سال ایک اور کمپنی کہتی ہے یہ غلط بات ہے اس نے اچھی موٹر بنالی ہے.غرض جس میدان میں چاہو سوچ لو غور کر لو نہ سمجھ آئے ہم سے آکر سمجھ لو انسان کے ہاتھ کی بنی ہوئی کوئی چیز بے مثل و مانند نہیں ویسی ہی بلکہ اس سے اچھی بھی انسان بنا سکتا ہے.اگر ہمارے علم میں ایسی چیز پھر آ جائے جو بے مثل و مانند ہو تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ یہ انسان کی بنائی ہوئی نہیں ہے کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ انسان کی بنائی ہوئی کوئی چیز بے مثل و مانند نہیں ہوتی.جب یہ بات ثابت ہو گئی تو اگر ہمیں کوئی چیز ایسی مل جائے.جو بے مثل و مانند ہے تو ثابت ہوگا کہ وہ انسان کے ہاتھ کی بنی ہوئی نہیں ہے اس واسطے قرآن کریم نے یہ دعوی کیا ہے کہ میں بے مثل و مانند ہوں اگر کسی کی ہمت ہے تو میرے مقابلے میں آئے مختلف موقعوں پر contet کے لحاظ سے کہیں ایک مطالبہ ہے کہیں دوسرا مطالبہ کیا اور کہیں تیسرا کہ ایسا قرآن بنا کر مجھے دکھا دو.چودہ سوسال گزر گئے مگر کوئی مقابلے پر نہیں آیا میں کہتا ہوں آج مہذب دنیا کی اکثریت دہر یہ ہو چکی ہے اس دہر یدا کثریت میں برے بڑے عربی دان موجود ہیں.خود مصر میں لاکھوں عیسائی بستے ہیں اور ان لاکھوں عیسائیوں میں سے پتہ نہیں کتنے دہر یہ ہو چکے ہیں ایسی اچھی عربی لکھنے والے غیر مسلم ہیں جنہوں نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں تو ساری دہر یہ دنیا کے سامنے جماعت احمدیہ نے ایک اور چیلنج رکھ دیا اب اگر دہریت میں پھنسی ہوئی دنیا قرآن کریم کی مثل قرآن کریم کے مطالبہ کے مطابق بنادے اور ہم ان کی غلطی ثابت نہ کر سکیں تو جو مرضی ہمیں سزا دے لیں.قرآن کریم
خطابات ناصر جلد دوم ۲۱۸ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء خدا کا کلام ہے اور خدا تعالیٰ کے دست قدرت سے نکلی ہوئی ہر چیز بے مثل و مانند ہوتی ہے اس لئے قرآن کریم بھی بے مثل و مانند ہے یہ اتنی عظیم کتاب ہے مگر قرآن کریم ہی کے الفاظ میں.يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : ۳۱) امت کے ایک حصہ نے اس کو مہجور بنا دیا عیسائیوں کے مقابلہ میں ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.تم بائیبل کے مقابلے میں قرآن کریم کا نام نہ لو.کسی عیسائی نے کہا تھا اتنی بڑی الہامی کتاب بائیبل مقدس موجود ہے تو قرآن کریم کے نزول کی کیا ضرورت پڑ گئی تھی.یہ تو بائیل کے مقابلہ میں ایک چھوٹی سی کتاب ہے آپ نے فرمایا قرآن کریم کا نام نہ لو.قرآن کریم کے شروع میں سات آیات پر مشتمل ایک سورہ فاتحہ ہے.سات آیات کی اسر اس سور ہ فاتحہ میں جو اسرار روحانی اور علوم الہیات پائے جاتے ہیں اگر تم ساری کتب مقدس میں سے اسرار روحانی نکال کر ہمیں دکھا دو تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارے پاس کچھ ہے لیکن عیسائیت نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا یہ چیلنج ابھی تک اپنی جگہ پر موجود ہے.اس پیج کو میں نے ۱۹۶۷ء میں یورپ کے دورے میں دہرایا تھا.چوٹی کے آٹھ عیسائی پادری آئے ہوئے تھے انہوں نے کہا تھا ملاقات کرنی ہے تبادلہ خیال کرنا ہیمیں نے کہا ٹھیک ہے چنانچہ وہ آئے تو ہم ڈیڑھ گھنٹے تک باتیں کرتے رہے.بعد میں میں نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اسی چینج کا انگریزی ترجمہ دیا.میں نے کہا میں اس کے متعلق بحث نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں چاہتا ہوں تم سوچو تم غور کر تم سر جوڑ و تم مشورہ کرو پادریوں کی دنیا میں.اور پھر اس چیلنج کو قبول کرو.یہ نہ کہنا کہ جس نے یہ چیلنج دیا تھا اس کا تو ۱۹۰۸ء میں وصال ہو چکا ہے اگر چیلنج قبول کیا گیا تو کون مقابلے میں آئے گا میں تمہارے مقابلہ میں آوں گا کیونکہ میں ان کا نائب اور خلیفہ ہوں.یہ ڈنمارک کا واقعہ ہے.پچھلے سال ڈنمارک کے ایک صحافی یہاں آئے وہ کہنے لگے وہاں کے پادری تو آپ کے خلاف بڑا شور مچا رہے ہیں.میں نے کہا کیا کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے یوں کہا اور یوں کہا.میں نے کہا میں نے یوں کہا ہے.وہ کہہ رہے ہیں کہ سختی کی ہے.میں نے کہا میں نے ان کو یہ چیلنج دیا تھا لیکن انہوں نے ابھی تک مانا نہیں.۱۹۶۷ء سے اب تک ایک زمانہ ایک دور گزر گیا وہ بولا اچھا میں جا کر ان کی خبر لوں گا.پتہ نہیں اس نے خبر لی ہے یا نہیں لیکن یہ ایک
خطابات ناصر جلد دوم ۲۱۹ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء 66 حقیقت ہے کہ ہر آدمی جو اس چیلنج پرصحیح اور نیک نیتی سے غور کرے اس کو ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم کا نازل کرنے والا اللہ ہے جو اپنی تمام عظمتوں اور بڑائیوں اور ہرقسم کی جلالت شان والا ہے اور اس نے یہ کہا ہے اور دنیا کو چیلنج دیا ہے کہ قرآن کریم میرا کلام ہے اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.اس وقت عرب میں روسائے مکہ بڑی خوبصورت عربی بولنے والے تھے.انہوں نے سبعہ معلقہ خانہ کعبہ میں لڑکا رکھے تھے.عرب میں عربی زبان ایک مثالی زبان تھی بعض دفعہ ہر فقرے کے بعد وہ ایک شعر پڑھ دینے والے لوگ تھے.ان کو خدا نے کہا تھا کہ ہمت ہے تو اس کے مقابلے میں آکر قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی سورت کے مقابلے میں سورت بنا کر دکھا دو مگر انہوں نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا آج تک قبول نہیں کیا اب اگر ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ اس عظیم بے مثل و مانند کے مقابلہ میں کوئی چیز تو ہم بیش نہیں کر سکتے لیکن اس بے مثل و مانند کلام کے زمانے دوسرے اللہ کا انکار کر دیتے ہیں تو اگر یہی سمجھ اور عقل ہے تو ہم ان کے لئے دعا کریں گے اللہ تعالیٰ نہیں فراست عطا کرے.میں بتا یہ رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس عالمین کی ہر چیز میں ایک جوڑ پیدا کیا ہے اور ان جوڑوں میں بھی انتشار نہیں ہے بلکہ جس طرح زنجیر کے مختلف حلقے ایک دوسرے کے اندر جاتے ہیں اسی طرح اس کائنات کی ہر چیز ایک دوسری کے ساتھ بندھی ہوئی ہے پورا عالمین اصول میزان کے اندر بندھا ہوا ہے اور اس کو ہم اپنی زبان میں جوڑ بھی کہہ سکتے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس میں اس وقت سنانا چاہتا ہوں آپ فرماتے ہیں.خداوند کریم نے جیسا ہر یک چیز کا باہم جوڑ باندھ دیا ہے.ایسا ہی الہام اور عقل کا باہم جوڑ مقرر کیا ہے اس حکیم مطلق کا عام طور پر یہی قانونِ قدرت پایا جاتا ہے.کہ جب تک ایک چیز اپنے جوڑ سے الگ ہے.تب تک اس کے جو ہر چھپے رہتے ہیں.“ مثلاً میں نے جو مثال دی تھی سارے عالمین اور انسان کی کہ وَسَخَّرَ لَكُمُ مَّا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ اور دوسری طرف انسان کی فِی أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ میں سے گویا ساری یونیورس اور سارے عالمین کے مقابلے میں ایک balance قائم کر لیا گیا ہے.ایک پلڑے میں انسانی قوتیں ہیں دوسرے پلڑے میں عالمین ہے جو سارے فائدے پہنچا
خطابات ناصر جلد دوم ۲۲۰ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء سکتا ہے اور انسان کی طاقتیں اسے حاصل کر سکتی ہے.بلکہ اکثر اوقات نفع کی جگہ ضرر ہوتا ہے.ایسا ہی عقل کا حال ہے کہ علم دین میں اس کے نیک آثارتب مترتب ہوتے ہیں جب وہ جو ڑ یعنی الہام اس کے ساتھ شامل ہو جائے.ورنہ اپنے جوڑ کے بغیر ڈائین ہو کر ملتی ہے.سارا گھر نگلنے کو طیار ہو جاتی ہے“ ہیروشیما میں یہی کہا تھا نا عقل نے.ناقل ) سارا شہر ہی کھا گئی.عقل نے اٹیم بم بنایا تھا اور اس طرح وہ کئی لاکھ کی آبادی کھا گئی.”سارا شہر سنسان ویران کرنا چاہتی ہے.پر جب جوڑ میسر آ گیا تب تو چشم بد دور کیا ہی پاک صورت اور پاک سیرت ہے.جس گھر میں رہے مالا مال کر دے.جس کے پاس جائے اس کی سب نحوستیں اتار دے.تم آپ ہی سوچو کہ جوڑا کے بغیر کوئی چیزا کیلی کس کام کی ؟ پھر تم کیوں یہ ادھوری عقل اس قدر ناز سے لئے پھرتے ہو.کیا یہ وہی نہیں جو کئی بار دروغگوئی میں رسوائیاں اٹھا چکی ( براہین احمدیہ چہار حصص روحانی خزائن جلدا صفحه۱۷۰ حاشیہ) بڑی طاقتوں کی عقل یعنی ڈپلومیسی کا یہ کمال ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ جو معاہدے کرتے ہیں اور گفت و شنید کرتے ہیں اس میں اتنی خطرناک دروغگو ئیاں چھپی ہوئی ہوتی ہیں اور عقل کے اتنے لپیٹ ہوتے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ عقل اس قدر گراوٹ اور اس قدر گہرائیوں میں کیسے پہنچ گئی.حضور فرماتے ہیں.و کیا تمہیں خبر نہیں کہ اس نے تم سے پہلے کتنوں کا لہو پیا.کتنوں کو گمراہی کے کنوئیں میں دھکیل کر مارا تم جیسے کئی یاروں کو کھا چکی.صد بالاشیں ٹھکانے لگا چکی.بھلا تم نے اس اکیلی عقل کے ذریعہ سے کون سی ایسی دینی صداقتیں پیدا کی ہیں جو قرآن شریف میں پہلے سے موجود نہیں.اور اس سے دھو کا مت کھانا کہ عقل ایک عمدہ چیز ہے ہم ہر یک تحقیق عقل ہی کے ذریعے سے کرتے ہیں بلاشبہ عمدہ چیز ہے لیکن اس کا جو ہر تب ہی ظاہر ہوتا ہے جب وہ اپنے جوڑ کے ساتھ شامل ہو ورنہ وہ دھوکا دینے میں دشمنوں سے بدتر ہے.دورنگی دکھلانے میں منافقوں سے بڑھ کر ہے.سو تمہاری بد نصیبی تم اس کے جوڑ کے
خطابات ناصر جلد دوم ۲۲۱ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء نام سے بھی چڑتے ہو.دوستو ! خوب سوچو.بن جوڑا کسی بات کی بھی گت نہیں.خدا نے جوڑ بھی ایک عجیب چیز بنادی ہے جہاں دیکھو جوڑ ہی سے کام نکلتا ہے ہم تم سب آنکھوں ہی سے دیکھتے ہیں پر آفتاب کی بھی ضرورت ہے.کانوں ہی سے سنتے ہیں پر ہوا کی بھی حاجت ہے آفتاب چھپا تو بس اندھے بیٹھے رہو.کانوں کو ہوا سے ڈھانک لو.تو بس سننے سے چھٹی ہوئی.‘ ( براہین احمدیہ چہار حصص روحانی خزائن جلد نمبر اصفحہ ۱۷۰.۱۷۱ حاشیہ) جب عقل کا الہام سے جوڑ قائم ہو جائے جب عقل کی کاوش قرآن کریم کی صداقتوں کی روشنی میں چلنے لگے.جب قرآن کریم کی بتائی ہوئی سیدھی راہ پر عقل تیزی سے آگے بڑھ رہی ہو پھر تو فائدہ کی چیز ہے ورنہ نہیں.قرآن کریم نے ہر عقلی کاوش کے مقابلے میں انسان کو ایک تو عقل دی ہے اور دوسرے اس عقل کو الہامی نور عطا ہوا ہے.قرآن کریم کی ایک اور عظمت یہ ہے کہ جو عقل کا کام تھا یعنی عقلی فارمولے بنانے کا کام.وہ باتیں بھی بہت سے مواقع پر قرآن کریم خود ہی بتاتا ہے کسی چیز کے متعلق عقلی شہادت کے بعد قرآن کریم الہام کی شہادت سے اس کی صداقت پر مہر لگا دیتا ہے مثلا عقل یہ کہتی ہے آنکھ دیکھنے کے لئے ہے.کان سننے کے لئے ہیں.عقل یہ کہتی ہے کہ قدرت نے ہمیں جو طاقتیں دی ہیں وہ استعمال کرنے کے لئے ہیں اور وہ آزاد ہیں قرآن کریم کہتا ہے خدا تعالیٰ نے طاقتیں دی ہیں لیکن ان کو معین راستوں پر باندھ دیا ہے ورنہ خرابی پیدا ہوتی.قرآن کریم کہتا ہے کہ جو مشاہدہ ہے یعنی عقل نے جو حاصل کیا ہے وہ یہ ہے کہ آنکھ دیکھنے کا چیز کان سننے کی چیز اور اس طرح دوسری طاقتیں استعمال کرنے کا چیزیں ہیں لیکن اگر الہام کی راہنمائی نہ ہو تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے الہام کامل قرآن کریم کا الہام ہے تو اگر عقل وحی قرآن کی روشنی کے اندر نہ ہو تو آنکھ نے دیکھا اور کان نے سنا اور دوسری قوتوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور لاکھوں حرامزادے امریکہ میں پیدا کر دیئے.یہ عقل کا کرشمہ ہے قرآن کریم یہ نہیں کہتا وہ کہتا ہے.آنکھ دیکھنے کی چیز ہے کان سننے کی چیز ہے اور دوسری طاقتیں استعمال کرنے کی چیزیں ہیں اور اس لحاظ سے عقل صحیح نتیجہ پر پہنچتی ہے مگر ان کو آزادی نہیں ہے اگر انسان نے روحانی رفعتوں کو پانا ہے اور اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کرنا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہدایت یعنی قرآن کریم کی تعلیم پر چلنا پڑے گا اور وہ یہی ہے جیسا کہ قرآن کریم
خطابات ناصر جلد دوم ۲۲۲ اختتامی خطاب ۱۲ر دسمبر ۱۹۷۶ء نے کہا آنکھ دیکھنے کی چیز ہے لیکن آنکھ کو یہ کہا گیا.قُل لِلْمُؤْمِنتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ (النور (۳۲) اور دوسری طاقتیں استعمال کے لئے ہیں لیکن ان کے متعلق یہ کہا گیا وَ يَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ ( النور : ۳۲) وہ اپنی عصمت کی حفاظت کریں.قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے زبان بولنے کے لئے ہے لیکن یہ نہیں کہ عقل نے کہا کہ فطرت نے ہمیں زبان بولنے کے لئے دی ہے تو پرور ہی بتا ہی جولوگوں کے منہ میں آئے وہ بکتے چلے جائیں.قرآن کریم کہتا ہے یہ نہیں ہو گا.وہ کہتا ہے قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا (الاحزاب : ١) تم ایسی بات منہ سے نکالو جو سدید ہو جس میں فساد کا کوئی شائبہ اور رمق نہ ہو.اور یہ حکم صرف ایک چیز کے متعلق نہیں بلکہ خدا نے جو بھی طاقت اور قوت دی ہے وہ اس کا حساب لے گا.یہ ایک اصولی ہدایت ہے جسے ہمیشہ یادرکھنا چاہیے.عقل کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ جس قدر چاہے ان قوتوں اور طاقتوں کے گھوڑوں کو ایڑی لگا کر صحیح اور غلط راستوں پر دوڑاتی پھرے.خدا تعالیٰ نے اپنے کلام قرآن عظیم میں ہر قوت اور طاقت کو صیح راستہ دکھایا اور اس کو یہ کہا کہ دیکھو ہر طاقت اور قوت کا دینے والا بھی خدا ہی ہے اور حساب کرنے والا بھی وہی ہے تم اس کے حساب سے بچو اور خوف اور خشیت اپنے اندر پیدا کرو اور قرآن کریم کے سات سو کے لگ بھگ جو احکام ہیں ان کے اندران کے سایہ میں ان کی حفاظت میں اور ان کی امان میں اپنی قوتوں اور طاقتوں کو عقل کے بتائے طریقوں پر اور نو ر الہام کی روشنی میں آگے بڑھو تو تم اس مقام پر پہنچ جاؤ گے جسے انسان کے لئے ا کیا گیا ہے لیکن انسان اس کا خیال نہیں کرتا.ایک اور اقتباس سن لیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.غرض کلام الہی کا یہ نہایت عمدہ کام ہے کہ جو جو طاقتیں اور قوتیں انسان کی فطرت میں ڈالی گئی ہیں کہ ان کو بطور اصلح اور انسب کے استعمال میں لانے کی تاکید کرے تا کوئی قوت اور طاقت جو عین حکمت اور مصلحت سے انسان کو عطا کی گئی تھی ضائع نہ ہو جائے یا بطور افراط یا تفریط کے استعمال میں نہ لائی جائے اور منجملہ ان سب طاقتوں کے ایک عقل بھی طاقت ہے کہ جس کی تکمیل شرف انسان کا ہے اور جس کے ٹھیک ٹھیک استعمال میں لانے سے انسان حقیقی طور پر انسان بنتا ہے اور اپنے کمال مطلوب کو پہنچتا ہے اور وہی ایک
خطابات ناصر جلد دوم ۲۲۳ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء آلہ انسان کے ہاتھ میں ہے.جو بے انتہاء ترقیات کے حاصل کرنے کے لئے عام طور پر اس کو دیا گیا ہے.پس ظاہر ہے کہ اگر الہامی کتاب اس آلہ کی حمد اور معاون اور محافظ نہ ہو بلکہ یہ تعلیم دے جو اس آلہ کو بالکل معطل چھوڑ دینا چاہئے.تو ایسی کتاب بجائے اس کے جو انسان کو فطرتی طاقتوں کو وضع استقامت پر چلا وے خودان طاقتوں کو وضع استقامت پر چلنے سے روکے گی اور بجائے اس کے جو کچھ یاری اور مددگاری کرے.خو در ہرن اور مضل بن جائے گی.“ ( براہین احمدیہ حصہ اوّل صفحه ۱۰۲ حاشیہ نمبر ۵) اس سلسلہ میں ایک اور اقتباس بھی سن لیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.بذریعہ قیاسات عقلیہ کے جو کچھ خدا اور امور آخرت کے بارے میں سوچا جاتا اور فکر کیا جاتا ہے.اس سے نہ یقین کامل حاصل ہوتا ہے نہ معرفت کامل.اور جو جو وساوس قیاس پرستوں کے جی میں کھٹکتے رہتے ہیں ان کا تدراک بجزا لہام کے ہوہی نہیں سکتا اگر عقل سے ہی پورا پورا کام نکلتا ہے تو پھر کیوں عقل ہمیں راستہ چھوڑ کر آگے چلنے سے انکار کرتی ہے.کیا مرتبہ اعلیٰ ہماری معرفت اور خدا شناسی کا یہی ہے کہ ہم صرف اتنے پر ہی کفایت کریں کہ کوئی بنانے والا چاہئے.جس یقین کامل کے لئے ہماری روح تڑپتی ہے.اگر وہ صرف عقل سے ہم کومل جا تا تو پھر یہ قول بھی ہمارا بجا ہوتا کہ اب ہمیں الہام کی کچھ حاجت نہیں کیوں تمہاری آنکھیں دیکھنے سے عاجز ہو رہی ہیں.عقل نے تم سے کیسی بے وفائی کی کہ تم جیسے پوجاریوں سے دور بھاگ گئی.حضرات! تم خودسوچ کر دیکھ لو کہ الہام کے بغیر نہ یقین کامل ممکن ہے نہ غلطی سے بچنا ممکن نہ توحید خالص پر قائم ہونا ممکن.نہ جذبات نفسانیہ پر غالب آنا حتیز امکان میں داخل ہے.وہ الہام ہی ہے جس کے ذریعہ سے خدا کی نسبت ہے کی دھوم مچی ہوئی ہے اور تمام دنیا ہست ہست کر کے اس کو پکار رہی ہے لیکن فقط عقل کے پردے سے جس قدر دنیا کو ضرر پہنچا ہے وہ کچھ پوشیدہ نہیں بھلا تم آپ ہی بتلاؤ کس نے افلاطون اور اس کے توابع کو خدا کی خالقیت سے بنایا ؟ کسی نے جالینوس کو روحوں کے باقی رہنے اور جزا سزا کے بارے میں شک میں ڈال دیا؟ کس نے تمام حکیموں کو خدا کے عالم بالجزئیات ہونے سے انکاری.
خطابات ناصر جلد دوم ۲۲۴ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء رکھا؟ کس نے بڑے بڑے فلاسفروں سے بت پرستی کرائی؟ کس نے مورتوں کے آگے مرغوں اور دوسرے حیوانات کو ذبح کرایا؟ کیا یہی عقل نہیں تھی جس کے ساتھ الہام نہ تھا.اگر یہ کہو کہ عقل کا بگاڑ بھی نیم عاقلوں کا قصور ہے نہ عقل کامل کا قصور.تو یہ قول صحیح نہیں.ظاہر ہے کہ عقل اپنے اطلاق اور کلیت کے مرتبہ میں تو کوئی کارروائی نہیں کر سکتی.کیونکہ اس مرتبہ میں وہ ایک کلی ہے اور کلی کا وجود بجز وجود افراد متفق نہیں ہوسکتا بلکہ کیفیت اس کی بذریعہ اس کے افراد کے معلوم ہوتی ہے.لیکن ایسے فرد کامل کوکون دکھاسکتا ہے جس نے فقط عقل تابعدار ہو کر اپنے خود تراشیدہ عقائد میں کبھی غلطی نہیں کی.الہیات کے بیان میں کبھی ٹھو کر نہیں کھائی.ایسا عاقل کہاں ہے جس کا یقین وجود ضائع عالم اور جزا سزا وغیرہ امور معاد پر ہے کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہو جس کی توحید میں شرک کی کوئی رگ باقی نہ رہی ہو.جس کے جذبات نفسیانیہ پر رجوع الی اللہ غالب آ گیا ہو.اور ہم ابھی اس سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ خود حکماء کا اقرار ہے کہ انسان مجرد عقل کے ذریعہ سے الہیات کے مسائل میں مرتبہ یقین کامل تک نہیں پہنچ سکتا.“ ( براہین احمدیہ چہار حصص روحانی خزائن جلد اول صفحه ۱۶۱ تا ۱۶۵ حاشیہ نمبر ۱۱) اس مضمون میں جو میں نے اس وقت بیان کیا ہے میں یہ بات آپ کے دلوں میں گاڑنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم قرآن کریم پر پختہ پنجہ ماریں اور اس کی تعلیم کو سمجھنے والے ہوں تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو بشارت ملی ہے نہ صرف یہ کہ وہ اسلام کے مخالفین کے حملوں کا دفاع کریں گے یعنی ان حملوں کا جو وہ علمی ، سائنسی اور فنی ایجادات کی صورت میں اسلام پر کرتے ہیں ان کا دفاع کریں گے بلکہ ان کو ایسا نور عطا کیا جائے گا.قرآن کریم کے کامل الہام اور وحی کے نتیجہ میں کہ وہ لوگوں کے علوم ، ان کی عقلی کاوشوں اور ان کے عقل نتائج کا بودا پن ثابت کریں گے ان کی غلطیاں نکالیں گے.ان کو بتائیں گے کہ دیکھو عقل تمہارے ساتھ کیا سلوک کرتی رہی ہے کبھی کچھ اور کبھی کچھ کرتی رہی ہے کبھی تمہارے ایک حصہ کو بیمار کرتی ہے کبھی تمہارے دوسرے حصہ کو بدنام کرتی ہے.کبھی تمہارے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کے نام پر تمہارے لئے نئے مسائل پیدا کر دیتی ہے کسی کی عقل نے بیچارے بچوں کو کہہ دیا کہ جنسی تعلقات میں تم آزاد ہو
خطابات ناصر جلد دوم ۲۲۵ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء کون تمہیں روکتا ہے تمہاری طاقتیں ہیں تم ان کو استعمال کرو چنانچہ اس طرح ساری قوم کے لئے لاکھوں حرامزادوں کا ایک مسئلہ پیدا ہو گیا.اسی طرح شراب خوری ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا تھا.رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَنِ (المآيدة : ۹۱ ) شراب پینا ایک پلیدی ہے ایک نا پا کی ہے اور شیطانی عمل ہے اس لئے فرمایا فَاجْتَنِبُوهُ ( المآيدة : 91 ) اس کے قریب نہ جانا.لیکن بڑے بڑے عقل والوں نے کہا کہ اس میں تو کوئی حرج نہیں.چنانچہ ان کی اس سوچ کا جو نتیجہ نا.وہ ساری دنیا جانتی ہے.پہلے بھی اور اس دورے میں بھی مجھ سے پوچھا جاتا رہا کہ کیا وجہ ہے یورپی ممالک نکلا اتنا گناہ ہورہا ہے اور لوط کو قوم کی سزا مل گئی تھی ان کو خدا سزا ئیں کیوں نہیں دیتا.تو میں نے سوچا اور قرآن کریم ہی نے مجھے یہ مسئلہ سمجھایا کہ لوط کی قوم کو تو سزا اس لئے ملی تھی کہ گنتی کے چند آدمی بھی وہاں نیک نہیں رہے تھے لیکن انگلستان میں لاکھوں ایسے آدمی موجود ہیں جو شراب نہیں پیتے.ان کی فطرت نیک ہے وہ برائیاں نہیں کرتے.وہ ہر وقت قوم کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اس لئے وہ الہی عذاب سے بچے ہونے ہیں کیونکہ مذہبی امور کی خلاف ورزی کرنے کی سزا تو آخرت میں ملتی ہے مذہبی رنگ کی جو بدیاں ہیں اور اسلام کے احکام کی جو خلاف ورزی ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کی سزا انسان کو مرنے کے بعد دی جائے گی.اس دنیا میں سزائیں اسی وقت ملتی ہیں جب ساری کی ساری قوم بلا استثناء خراب ہو جاتی ہے اور دنیا میں فساد پیدا ہو جاتا ہے تب دنیا کو فساد سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک روز ز بر دست جلوہ ظاہر ہوتا ہے لیکن ان ملکوں میں لاکھوں کی تعداد میں نیک بندے موجود ہیں جو ان قوموں کو عذاب سے بچائے ہوئے ہیں وہ نیکی کرنے والے اور بدیوں سے بچنے والے ہیں.ان کے پاس اسلام نہیں اور وہ اخلاقی قدریں نہیں جو اسلام ہمیں بتاتا ہے.یہ تو درست ہے لیکن وہ برائیاں جن کے نتیجہ میں پہلوں کو سزا ملی تھی جس قوم میں ان برائیوں سے بچنے والے لاکھوں کی تعداد میں ہوں گے وہ عذاب سے بیچ جائے گی.کیونکہ کہا یہ گیا تھا کہ اتنے نیک ہوں تو قوم بیچ جائے گی اور ان کو خدا تعالیٰ بچائے گا ان سے تو لاکھوں زیادہ ہیں اس لئے مغربی اقوام عذاب سے بچی ہوئی ہیں.لیکن یہ تو کوئی بات نہ ہوئی.ہم یہ کہیں کہ کچھ حصہ نیک ہے تو بس کافی ہے اس دینا میں سزا سے بچنے کے لئے کافی ہے مگر یہ
خطابات ناصر جلد دوم ۲۲۶ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء چیز دوزخ میں گھسیٹے جانے سے بچاؤ کی صورت نہیں کرسکتی.اور دنیا کو نیکی کی طرف لا نا دنیا کو موڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف لانا یہ جماعت احمدیہ کا کام ہے.اسی واسطے ہم کہتے ہیں کہ دائیں طرف سے شور بپا ہو بائیں طرف سے شور بپا ہو.دوست بالکل توجہ نہ دیں ان کے لئے ایک کھلا راستہ ہے ایک شاہراہ ہے غلبہ اسلام کی.اس سے نہ ہٹیں اس پر چلتے رہیں خدا تعالیٰ پر توکل رکھیں اس سے عاجزانہ دعائیں کریں وہ اپنے وعدوں کا سچا ہے اس نے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے وعدہ کیا ہے کہ آخری زمانہ میں اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب آئے گا اور نوع انسانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوگی.یہ وعدہ تو ضرور پورا ہو گا.ہم اس سلسلہ میں جو قربانی پیش کر رہے ہیں.وہ تو انگلی کٹوا کر شہیدوں میں داخل ہونے والی بات ہے کیا ہماری قربانیاں اور کیا وہ نتائج جو اللہ تعالیٰ ان سے نکالنا چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے.مجموعی لحاظ سے جماعت میں کمزور بھی ہیں اور بڑے فدائی بھی ہیں کبھی فکر بھی پیدا ہوتی ہے.قرآن کریم آکر تسلی بھی دلا دیتا ہے قرآن کریم نے یہ اعلان کیا بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النحل : ۹۷) کہ دس نیکیوں میں سے ایک نیکی جوسب سے اچھی ہو گی اور سو فیصدی نمبر لینے والی ہو گی اس کے مطابق دس کے نمبر دے دوں گا تو میں نے سوچا کہ فرد کے متعلق جب یہ حکم ہے تو ساری جماعت کے متعلق یہ کیوں نہیں اگر دسواں حصہ بھی جماعت کا ایسا ہو جو خدا سے یہ توفیق پائے کہ خدا کی منشا کے مطابق اس کے حضور ہر چیز قربان کرنے والا ہو تو اللہ تعالیٰ کہے گا باقیوں کو بھی تمہارے ساتھ آگے لے جائیں گے.جو آدمی کئی دنوں سے بھوکا ہو اور جو آدمی پیاسا ہو اور اسے کھانے پینے کے لئے کچھ نہ ملا ہو اور سامنے ایک محل نظر آئے اور اس کو بتایا جائے کہ دنیا جہاں کی نعمتیں یعنی پھلوں کے رس اور غذا ئیں وہاں پڑی ہوئی ہیں.وہ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہو رہا ہے اس محل تک پہنچنے کے لئے تھوڑ اسا فاصلہ رہ گیا ہے مگر وہ کانٹوں سے بھرا ہوا ہے تو کیا وہ بیٹھ کر پاوں کے کانٹے نکالنے شروع کر دے گا یا کانٹوں کی پرواہ کئے بغیر دوڑتا ہوا اس محل میں جسے خدا نے اس کے لئے تیار کیا ہے اس میں داخل ہو جائے گا اور خدائی نعمتوں سے وہ حصہ لینے لگے گا.پس ہمارا کام ہے دعائیں کرنا ہم دعائیں کرتے ہیں ہم دعائیں کرتے ہیں.کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کے استحکام اور اس کی خوشحالی کے سامان پیدا کرنے ہمارے ملک میں انصاف کا
خطابات ناصر جلد دوم ۲۲۷ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء ماحول پیدا کرے.ہمارے ملک میں لوگوں کے اندر ایک دوسرے سے ہمدردی اور خیر خواہی پیدا کرے اور ہمارے دلوں میں سارے ملک اور اس میں بسنے والوں کی خدمت کا جذبہ اور بھی زیادہ کر دے اور ساری دنیا کے انسان کو خدا تعالیٰ جھنجوڑ کر یا جہاد کے جذبہ کے ساتھ لیکن تباہ کئے بغیر ہوش میں لائے تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو پہچاننے لگیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے آشنا ہونے لگیں اور آپ کی طرف دوڑیں استغفار کرتے ہوئے اور وہ اپنی سستیوں اور غفلتوں کی مغفرت چاہتے ہوئے اور گناہوں کی بخشش مانگتے ہوئے خدا کے حضور جھکیں.ہم یہ دعا بھی کرتے ہیں میں بھی اور سب حاضرین جلسہ بھی کہ خدا تعالیٰ نے جس طرح اس جلسہ گاہ کو احمدی جسموں کے ساتھ بھر دیا ہے اس سے زیادہ ہمارے گھروں کو اپنی برکتوں کے ساتھ معمور کر دے.کہنے والے کہتے تھے کہ روکیں بڑی ہیں اور دوست جلسے میں بہت کم آئیں گے لیکن دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ روکیں تھیں یا نہیں ہر آدمی یہاں کثرت سے موجود ہیں خدا کرئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری دعاؤں ہی کے ہم وارث ہوں اور اللہ تعالیٰ کی ساری نعمتوں ہی سے ہم فائدہ اٹھانے والے ہوں خدا تعالیٰ ہماری مدد اور نصرت فرمائے تا کہ ہم بنی نوع انسان کی پیار کے ساتھ خدمت کر کے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ان کے دل جیتنے میں کامیاب ہو جائیں.ہماری اس کوشش میں مدد کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں اور ہماری یہ دعا ہے کہ ہمارے سینے خدا کے نور سے بھر جائیں اور ہماری یہ دعا ہے کہ ہمارے دلوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سمندر کی طرح موجزن ہو جائے اور ہماری یہ دعا ہے کہ ہمارے ذہنوں کو جلا حاصل ہو.اور ہماری یہ دعا ہے کہ ہماری زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے کچھ اس طرح ظاہر ہوں کہ خدا کا منکر اپنے انکار پر قائم نہ رہ سکے اور اسے یہ ماننا پڑے کہ خدا جو اس جہان کا مالک ہے اور اپنے نیک بندوں سے پیار کرنے والا ہے وہ واقع میں ہے اور پیار کرتا ہے.اور ہماری یہ دعا ہے کہ ہمارے بھائی جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کر رہے ہیں اور اسلام کے جھنڈوں کو جگہ جگہ گاڑ رہے ہیں خدا ان کا حافظ و ناصر ہو اور
خطابات ناصر جلد دوم ۲۲۸ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء ان کی زبان میں تاثیر پید کر دے اور ان کو عقل و فراست عطا کرے اور اسلام کا رعب ان کو عطا کرے اور اسلام کی روحانی طاقت ہر دوسری طاقت کو مغلوب کرنے والی ہو.اور ہماری یہ دعا ہے کہ ہمارے جو غیر ملکی بھائی وفود کی شکل میں یا اپنے طور پر اس جلسہ کی برکات سے حصہ لینے کے لئے ایک لمبا سفر طے کر کے یہاں پہنچے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اس سفر کے ایک ایک قدم پر اتنی برکتیں نازل کرے کہ وہ اپنی جھولیوں میں سمیٹنا چاہیں مگر سمیٹ نہ سکیں تب خدا کے فرشتے ان کے پیچھے پیچھے برکتیں لے کر ان کے گھروں میں جائیں اور ان کا علاقہ بھی خدا کی برکتوں سے حصہ لینے والا ہو.اور ہماری یہ دعا ہے کہ جو لوگ کسی وجہ سے اس جلسہ پر نہیں آ سکے لیکن ان کے دل یہاں آنے کے لئے تڑپتے تھے، وہ خاص برکتیں جو خدا آنے والوں کو دے ان میں ان کو بھی حصہ دار بنائے.اور ہماری یہ دعا ہے کہ جن مریضوں کو ہم اپنے گھروں میں چھوڑ کر آئے تھے جب ہم واپس جائیں تو ان کو چنگا اور صحت مند پائیں.اور ہماری یہ دعا ہے کہ جن پریشانیوں میں ہم نے اپنے مکانات کو چھوڑا تھا ہم واپس جائیں تو ہماری پریشانیاں دور ہو چکی ہوں یا اگر ہمارے لئے امتحان ہے تو جو پریشانیاں ہیں وہ ہمارے اندراستقامت دیکھیں اور ہمیں سرخرو کرنے کا باعث بنیں خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث نہ بنیں.اور ہماری یہ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے بچوں کو ذہین رسا عطا کرے اور علم کے میدان میں ہما را جوان کسی سے پیچھے نہ رہے صرف یہی دعا نہیں کہ کسی سے پیچھے نہ رہے بلکہ ہر دوسرے آدمی سے آگے بڑھے جیسا کہ چھوٹے پیمانے پر اب بھی ہے.انگلینڈ میں امریکہ میں ہمارا احمدی بچہ تعلیمی میدان میں ان ملک کے باشندوں میں آگے نکلتا ہے اور وہاں کے لوگ حیران ہوتے ہیں یہ دیکھ کر کہ زبان غیر ہے ماحول غیر ہے بچپن کی تربیت اور ہے اور جن سکولوں میں پڑھتے ہیں ان کا طریق تعلیم اور ہے لیکن خدا تعالیٰ فضل کرتا ہے.ہمارے بعض بچے امریکہ میں امریکنوں سے اور انگلستان میں انگریزوں سے آگے نکل جاتے ہیں.ہماری یہ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں اس کروت سے ذہن عطا کرے کہ دنیا یہ مان لے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل خدا تعالی کی عف برکتیں جماعت احمدیہ پر نازل ہو رہی ہیں.
خطابات ناصر جلد دوم ۲۲۹ اختتامی خطاب ۱۲ار دسمبر ۱۹۷۶ء اور ہماری یہ دعا ہے کہ ہماری نسلیں اس سے زیادہ اسلام سے چھٹی رہیں جتنا کہ دودھ پیتا بچہ اپنی ماں کی چھاتیوں سے چمٹا رہتا ہے کیونکہ بچے کو ماں سے جو کچھ ملتا ہے اسلام ہمیں اس سے کہیں زیادہ عمدہ کہیں زیادہ مفید اور کہیں زیادہ صحت مند غذا روحانی طور پر اور اخلاقی طور پر اور ذہنی طور پر عطا کرتا ہے جتنی کہ ایک ماں کبھی کسی بچے کو عطا کر سکتی ہے..اور ہماری یہ دعا ہے کہ ہم نے اپنے بچوں سے کل اسی جلسہ میں جو عہد کیا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں اسلام سے دور لے جانے والی نہیں بنے گی.خواہ اس کے لئے ہمیں کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے.میں نے کل یہ کہا تھا مگر بعض اخبارات نے بعض باتیں غلط طور پر شائع کر دی ہیں میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں کا فرنہیں کہہ سکتی.کا فر تو ہمیں ایک آدمی کھڑا ہو کر بھی کہہ سکتا ہے جس کو اسلام کی الف باء بھی نہ آتی ہو.اُسے احمدیوں کو کافر کہنے سے کون روک سکتا ہے اور ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی ہمیں کا فر کہہ سکتی ہیں لیکن ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی ہمیں اسلام سے پرے نہیں لے جاسکتیں.اسلام ہی تو ہمارا سب کچھ ہے اسلام کو چھوڑ کر پھر ہم نے زندہ رہ کر کیا کرنا ہے انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا.میں تو بلکہ جب باہر جاتا ہوں تو ان قوموں کے بچوں سے کہا کرتا ہوں کہ تمہارے بڑے شاید اسلام میں نہ آئیں لیکن ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے اسلام کی اتنی پیاری تعلیم ہے کہ خدا کے فضل سے اور خدا کی منشا کے مطابق تم ضروری اسلام کے اندر آؤ گے خدا تعالیٰ کی طرف سے بچوں کے دلوں میں اسلام اور مساجد کے ساتھ بڑا پیار پیدا کیا جاتا ہے.مسجدیں اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں ہم تو ان کے کسٹوڈین ہیں.مسجدوں کے ساتھ ان کا تعلق دیکھ کر آدمی حیران ہوتا ہے.میں نے بتایا تھا ڈنمارک میں لوگ ہمارے ساتھ نمازیں پڑھنے لگ جاتے ہیں لیکن اب میں بتا رہا ہوں کہ کس طرح چھوٹے چھوٹے بچے جن کو اپنے گر جاؤں کا بھی پتہ نہیں اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ عیسائی ہیں یا دھریہ ، وہ اپنا سا را فارغ وقت ہماری مسجدوں میں آ کر گزارتے ہیں ہر وقت درجنوں وہاں موجود رہتے ہیں اور اس میں کسی کی کوشش نہیں کسی کی سکیم یا منصوبہ کا دخل نہیں.کسی نے کسی بچے یا بڑے کو کچھ نہیں کہا.مگر وہ آتے ہیں پوچھتے ہیں کیا وہ اندر آ سکتے ہیں تو جب ہم کہتے ہیں کھلی آزادی ہے جب مرضی آئے ، آؤ جتنی دیر مرضی ہو ٹھہرو، صرف تمیز سے یہاں رہو.تو وہ بڑی خوشی سے اندر آ جاتے ہیں کھانا تیار ہو تو
خطابات ناصر جلد دوم ۲۳۰ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء باوجود یکہ وہ بڑی reserve قوم ہے.ان کے بچے بھی بڑے سنجیدہ ہوتے ہیں لیکن وہ ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاتے ہیں ایک دفعہ مسجد گوٹن برگ میں ایک روز آیا وہ شاید پہلی دفعہ بڑی دور سے آیا ہوگا.میں نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں آ گیا تھا وہ کہنے لگے کیا ہم مسجد میں ٹھہر سکتے ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ آپ نماز کس طرح پڑھتے ہیں.میں نے کہا کیوں نہیں ٹھہر سکتے تم بڑی خوشی سے یہاں بیٹھو.صرف ایک بات ہے ہم نماز پڑھیں گے ہماری توجہ دعا کی طرف ہوگی.اس عرصہ میں تم نے بولنا نہیں تا کہ ہماری توجہ کسی اور طرف نہ ہو جائے.انہوں نے کہا ٹھیک ہے چنانچہ وہ بالکل خاموشی کے ساتھ وہاں بیٹھے رہے پتہ نہیں لگا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں بعد میں سلام پھیر کر دیکھا دیوار کے ساتھ لگے بیٹھے تھے.غرض ہماری یہ دعا ہے کہ ساری دنیا کی نوجوان نسل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جتنی جلد آ سکتی ہو آ جائے.اور ہماری یہ دعا ہے کہ وہ قومیں جو دنیا میں ایک حد تک ترقی کر چکی ہیں وہ دین میں بھی ترقی کریں اور دنیوی ترقیات میں ان کی عقل کو الہام کی روشنی عطا ہوتا کہ وہ آگے نکلیں کیونکہ جب عقل کو الہام کی روشنی ملے گی تو ایٹم کی طاقت انسان کی تباہی پر خرچ نہیں ہوگی کیونکہ خدا کا کلام قرآن کریم اس کی اجازت نہیں دیتا.ایٹمی طاقت بھی انسان کی بھلائی کے لئے خرچ ہو گی اسی طرح دوسری ایجادات بھی جن کے ذریعے دنیا میں تباہی چھائی جارہی ہے وہ انسان کے فائدہ کے لئے استعمال ہوں گی اللہ تعالیٰ ان کی عقل کو نور وحی اور نور الہام عطا کرے اور وہ قرآن کریم کے نور سے فائدہ اٹھائیں.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے میرے اس مضمون میں جس وحی کا ذکر کیا گیا ہے وہ قرآن کریم کی مکمل اور کامل وحی ہے قرآن کریم بڑی عظیم کتاب ہے خدا تعالیٰ اس کا مل اور مکمل کتاب سے بنی نوع انسان کو فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے.اور ہماری یہ دعا ہے کہ جو دوست اس جلسے میں شریک ہوئے ہیں لیکن وہ احمدی نہیں ہیں شریک ہوئے اس لئے بھی کہ ان کی ڈیوٹی یہاں لگی ہوئی تھی اور اس لئے بھی کہ ان کے دوست احمدی تھے وہ ان کے ساتھ آئے اور کچھ اس لئے بھی شاید آئے ہوں کہ یہاں کچھ دیکھیں گے اور کچھ اعتراض کریں گے لیکن وہ آئے اس جلسہ میں شریک ہونے کے لئے اور یہ جلسہ اور اس کی
خطابات ناصر جلد دوم ۲۳۱ اختتامی خطاب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۶ء فضاء اور اس کا ماحول اللہ تعالیٰ کی برکتوں سے معمور ماحول اور فضاء ہے خدا کرے کہ وہ جس جہت سے بھی آئے ہوں اور جس وجہ سے بھی یہاں جلسے میں شامل ہوئے ہوں ان کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے اور ان کے لئے ایسے سامان پیدا کرے کہ وہ پہلے سے زیادہ برکتوں کے حصول کے قابل ہو جائیں.آؤ اب ہاتھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرلیں.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
۲۳۲ خطابات ناصر جلد دوم
خطابات ناصر جلد دوم ۲۳۳ افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے ، ان کی ادائیگی اور دعاؤں کے ذریعہ خدا سے مدد مانگنے کے لئے جمع ہوتے ہیں افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۷۷ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہمارا یہ جلسہ عام جلسوں، اجتماعوں یا میلوں کی طرح کوئی معمولی جلسہ نہیں اس جلسہ کی بنیاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی جس کے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ جب وہ روحانی فرزند دنیا میں ظاہر ہو تو اسے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچایا جائے.اس عظیم دعا میں صرف مہدی علیہ السلام ہی شامل نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سلامتی کی جو دعا مہدی معہود کے لئے تھی اس میں مہدی کی جماعت بھی شامل ہے.پس ہماری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دعاؤں اور بشارتوں کا اہل بنائے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں دی گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اس جلسہ کو جماعت سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ یہ جلسہ جماعت احمدیہ کا جلسہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور جس سلسلہ کی بنیادی اینٹ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے رکھی جائے اور اس کے اوپر ایک عظیم عمارت کھڑی کرنے کا اللہ تعالیٰ کا جو منصوبہ ہو اس کے راستے میں دنیا کی طاقتیں روک نہیں بنا کرتیں.جماعت احمدیہ کی بنیاد اس لئے رکھی گئی ہے اور یہ سلسلہ عالیہ اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ دین حق کو مضبوط کیا جائے اور کلمہ اسلام کو دنیا میں پھیلایا جائے قرآن کریم میں لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ گیلہ (الصف:۱۰) کی جو پیشگوئی کی گئی تھی اس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عظیم بشارت دی گئی تھی کہ دین اسلام تمام دنیا پر غالب آجائے گا.مگر یہ کام تلوار کے ساتھ
خطابات ناصر جلد دوم ۲۳۴ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۷۷ء نہیں ہوگا اور نہ ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ بلکہ یہ کام محبت اور پیار اور خدمت کے جذبہ کے ساتھ کیا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے حسن و احسان کو دنیا کے سامنے پیش کر کے بنی نوع انسان کے دل جیت کر یہ مشن پورا کیا جائے گا.پس یہ وہ پیشگوئی اور بشارت ہے جس کے متعلق پہلے بزرگوں نے بھی کہا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے ماتحت کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس زمانہ میں جماعت احمد یہ اپنی کمزوریوں کے باوجود اور کم مایہ ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی مورد بنے گی اور وہ قادر و توانا اسے اپنا ہتھیار بنائے گا تا دنیا میں اسلام کو غالب کرے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم منصوبہ ہے اور یہ ایک عظیم خدائی تدبیر ہے جس کے پورا ہونے کا یہی وقت ہے.تاہم اس کے پورا ہونے کے لئے جن قربانیوں کی ضرورت ہے ان کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.آپ اپنے نفس کے لئے یہ قربانیاں نہیں دیں گے اور نہ اپنے خاندانوں کے لئے.دنیا کی دولت کے لئے یا دنیا کے اقتدار کے لئے آپ یہ قربانیاں نہیں دیں گے بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے جماعت احمد یہ قربانیاں دے گی.وباللہ التوفیق.پس یہ اس سلسلہ عالیہ احمدیہ کا جلسہ ہے جس کے ذمہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا کام ہے.یہ ایک بڑا اہم موقع ہے جب کہ ہم ادھر ادھر سے اکٹھے ہوکر یہاں جمع ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ یہ سلسلہ جو قائم کیا گیا ہے اس کے لئے خدا تعالیٰ نے قو میں تیار کی ہیں جو اس کے ساتھ آملیں گی اور یہ اس زمانے کی بات ہے جب قوموں کا تو کیا افراد بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد کثرت کے ساتھ جمع نہیں ہوئے تھے.آپ کے گھر والوں نے بھی اور دنیا نے بھی آپ کو دھتکار دیا تھا مگر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے قو میں تیار کی ہیں جو سلسلہ عالیہ احمدیہ کی حقیر کوششوں کے ذریعہ اسلام میں شامل ہو جائیں گی.غرض ایک وقت آئے گا جب انشاء اللہ ساری دنیا کی قومیں اسلام میں شامل ہو جائیں گی.یہ ایک حرکت ہے جو دنیا میں جاری ہو چکی ہے اور وہ قومیں جنہوں نے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو کر اسلام کو غالب کرنا ہے ان کے ہر اول دستے پیدا ہو چکے ہیں اور ان ہر اول دستوں کے کچھ نمونے غیر ملکی
خطابات ناصر جلد دوم ۲۳۵ افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۷ء وفود کی شکل میں آپ کے سامنے یہاں موجود ہیں.جس زمانہ میں یہ کہا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے قو میں تیار کی ہیں جو جماعت احمدیہ میں داخل ہوں گی اس وقت جو لوگ سلسلہ عالیہ احمدیہ کو نہیں پہچانتے اور یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ.اس زمانہ میں کیا منصوبہ تیار کیا اور کن لوگوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ یہ کام لینا چاہتا ہے، وہ تو یہی سمجھتے ہوں گے کہ ایک پاگل ہے (نعوذ باللہ ) جو اس قسم کی باتیں کر رہا ہے.گھر والے تو اس کو پوچھتے نہیں اور کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قومیں تیار کی ہیں جو غلبہ اسلام کی مہم میں جماعت احمدیہ کے ساتھ شامل ہو جائیں گی لیکن خدا تعالیٰ تو اپنے وعدوں کا سچا ہے.وہ علام الغیوب بھی ہے اور قادر مطلق بھی ہے.اس نے دنیا میں ایک انقلاب عظیم کی بنیاد رکھ کر اسلام کے حق میں اب ایک رو پیدا کر دی ہے اور دنیا باطل عقائد سے برگشتہ ہو رہی ہے اور دین حق کی طرف ایک میلان ہے.گو یہ ٹھیک ہے کہ اس میلان میں شدت نہیں ہے لیکن یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ اسلام کے حق میں ایک رو پیدا ہوگئی ہے.مثلاً پچھلی صدی میں اسلام کے مقابلے میں سب سے زیادہ جوش عیسائیوں میں پایا جاتا تھا انہوں نے اسلام کو مٹانے کے بڑے بڑے دعوے کئے تھے لیکن اب ان کے متعلق ہم ہی نہیں خود عیسائی کہنے لگ گئے ہیں کہ عیسائیت رو بہ زوال ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ یورپ میں میں نے ایک موقع پر ایک جرمن نو جوان سے یہ کہا کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے یعنی عیسائی نوجوانوں کے اندر چرچ کے خلاف ایک انقلابی رو پیدا ہوگی اور میرا خیال ہے کہ یہ انقلاب میں چھپیں سال کے اندر اندر بپا ہو جائے گا تو وہ حیران ہو کر میرا منہ دیکھنے لگا اور کہنے لگا آپ میں پچیس سال کی بات کر رہے ہیں چرچ کے خلاف تو یہ انقلاب کل پیدا ہو سکتا ہے اور وہ خود عیسائی نوجوان تھا.چنانچہ اگر جوں کے سامنے ' بکاؤ : for sale‘ کا بورڈ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.کئی پادریوں اور عیسائی سکالرز کی طرف سے عیسائیت کے خلاف اس وقت تک بیسیوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں یہ کتابیں عیسائیت کے بنیادی عقائد کے خلاف ہیں یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کے خلاف ہیں حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بنا لینے کے خلاف ہیں.بہت سے عیسائی سکالرز نے اپنی تحقیق کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جو خدا تعالیٰ کے ایک پیارے رسول تھے اور جن کی ہمارے دلوں میں اسی طرح عزت اور
خطابات ناصر جلد دوم ۲۳۶ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۷۷ء احترام ہے جس طرح دوسرے رسولوں کی ہے.وہ خدا تعالیٰ کے ایک بندے تھے خدا نہیں تھے اور یہ بھی کہ وہ صلیب پر سے زندہ اترے تھے اور ان کا جو مشن تھا جس کے پورا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ان کو مبعوث کیا تھا یعنی یہ کہ وہ یہود کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو اکٹھا کریں اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی لمبی زندگی عطا کی کیونکہ بنی اسرائیل ( یہود ) کی جو کھوئی ہوئی بھیڑیں تھیں وہ یروشلم سے لے کر افغانستان، ہندوستان اور کشمیر کی پہاڑیوں کے بہت وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی تھیں ان تک پیغام حق پہنچانے کے لئے انہوں نے بڑے لمبے لمبے سفر کئے ہیں اور چونکہ خدا تعالیٰ کا رسول جس غرض کے لئے بھیجا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس وقت تک وفات نہیں دیتا جب تک اس غرض کی بنیاد کو پختہ نہ کر دے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو صلیب سے بچا کر دنیا کو اپنی قدرت کا نشان دکھایا اور ان کو موقع دیا کہ وہ اپنے مشن کی تکمیل کریں یعنی یہود کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو اکٹھا کریں اور یہ صرف ہمارا ہی عقیدہ نہیں بلکہ اب بڑے بڑے پادریوں نے بھی تحقیق کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر سے زندہ اترے اور وہ ہجرت کر کے کشمیر اور دوسری جگہوں میں بھی گئے.جہاں وہ یوز آسف کے نام سے پکارے گئے.پس یہ ایک عظیم اور بڑا حیران کن انقلاب ہے جو عیسائیت کے بنیادی خیالات میں پیدا ہو گیا ہے.اس میں میری یا آپ کی کوشش کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا تھا کہ آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے جو تیری تائید میں ساری دنیا میں کام کر رہے ہوں گے ویسا ہی ثابت کر دکھایا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.غرض یہ اس عظیم جماعت کا جلسہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے اس لئے ہمیں اپنے مقام کو سمجھنا چاہئے.ہم میں سے ہر ایک کو یہ مجھنا چاہئے کہ وہ انتہائی طور پر حقیر ہے اور بڑا ہی عاجز ہے.اس کے اندر کوئی طاقت نہیں ہے.وہ ایک ذرہ ناچیز ہے.میں تو جب یہ سوچتا ہوں کہ میں کتنا نا چیز ہوں تو تمثیلی زبان میں یہ کہتا ہوں کہ اے خدا! میں جوتی کے تلے کے نیچے جو ذرے ہوتے ہیں ان کا مقام رکھتا ہوں تب بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ بھی میں نے بڑے تکبر کی بات کہہ دی ہے ورنہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے مقابلے میں اتنا بھی مقام حاصل نہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے دنیا سے فرمایا کہ طاقت میری ہے اور حکم میرا چلتا ہے.میں حقیر ذروں کو پکڑوں گا اور مذہبی اور روحانی دنیا میں
خطابات ناصر جلد دوم ۲۳۷ افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ایک انقلاب عظیم برپا کروں گا جو نوع انسانی کی زندگی میں آج تک نہ کبھی رونما ہوا اور نہ کبھی ہو گا.پس ان ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لئے اور ان کی ادائیگی کا عزم کرنے کے لئے اور دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے اس کی مدد مانگنے کے لئے جلسہ سالانہ کے موقع پر ہم یہاں اکٹھے ہوتے ہیں.بعض چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ان کو بھی نہیں بھولنا چاہئے.اگر چہ بظاہر وہ چھوٹی باتیں معلوم ہوتی ہیں لیکن عملاً ہر ذمہ داری جو ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہے وہ چھوٹی نہیں ہوتی بلکہ وہ نتائج کے اعتبار سے عظیم ذمہ داری ہوتی ہے مثلاً وقار کے ساتھ زندگی گزارنا بظاہر ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن اسلام میں اس کے بارہ میں بہت تاکید کی گئی ہے.چنانچہ ایک بار حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک رکعت کو چھوڑ دینا جائز ہے لیکن اپنے وقار کو ٹھیس پہنچانا جائز نہیں.ایک شخص کو آپ نے دیکھا کہ وہ وقار کو چھوڑ کر بڑی تیزی کے ساتھ مسجد کی طرف آرہا تھا یا مسجد میں دوڑ رہا تھا کہ پہلی رکعت ضائع نہ ہو جائے تو آپ نے فرمایا الوقار ( صحیح بخاری کتاب الاذان ) دیکھو تم و قار کو ہاتھ سے چھوڑ رہے ہو.وقار کو ہاتھ سے نہ چھوڑو.ان باتوں کی طرف خیال رکھنے کی ضرورت ہمارے اس جلسے میں بھی پیدا ہو جاتی ہے.ہر قسم کے لوگ یہاں آتے ہیں.چھوٹے بچے اور عورتیں بھی کثرت سے آتی ہیں اس لئے وقار کے ساتھ چلنا چاہئے ویسے ہم اس طریق کوملحوظ رکھتے ہیں مثلاً عورتوں کے لئے جو راستے مقرر ہیں ان پر عورتیں چلتی ہیں اور مردوں کے لئے جو راستے مقرر ہیں ان پر مرد چلتے ہیں اور یہ بات دنیا کے لئے حیرت کا باعث بھی بنتی ہے لیکن دنیا کی حیرتوں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہم تو اپنے مولائے حقیقی کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور بس.پس وقار کے ساتھ یہ دن گزاریں.بچوں کو وقار کے ساتھ چلنے کی تلقین کریں.جمعہ کا خطبہ جب ہورہا ہوتا ہے تو حکم ہے کہ اگر کوئی بولے تو اسے منع نہیں کرنا.اس لئے اگر ان دنوں میں بچے شور مچائیں تو اگر آپ ان سے زیادہ شور مچا کر ان کو خاموش کرائیں گے تو یہ اس سے بھی بڑا گناہ ہوگا جس کے وہ ( بچے ) مرتکب ہورہے ہوں گے.اس لئے اگر بچے شور مچائیں تو ان کو پیار کے ساتھ نرمی کے ساتھ اور ہلکی آواز کے ساتھ سمجھا ئیں کہ دیکھو بیٹے تم اس موقع پر شور نہ کرو.خدا سے دعائیں کرو.ہر بچہ اپنے رنگ میں دعا کرتا ہے اور اپنے رنگ میں دین سیکھتا ہے اور دین کے لئے قربانیاں کر رہا ہوتا ہے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ احمدی بچہ نہیں.احمدی بچے تو وہی ہیں
خطابات ناصر جلد دوم ۲۳۸ افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۷ء جو اپنی عمر کے لحاظ سے ذہنی اور روحانی ارتقاء کے مطابق خدا کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں.اگر وہ کوئی چھوٹی سی غلطی کر بیٹھیں یا اونچی آواز میں بول پڑیں یا آپس میں لڑ پڑیں تو ایسے موقع پر اگر آپ ان سے بھی زیادہ اونچی آواز میں بات کریں گے تو آپ بچوں سے بھی زیادہ چھوٹے بچے بن جائیں گے.پس پیار کے ساتھ بچوں کو سمجھائیں یہاں پیار کی ایسی فضا ہونی چاہئے کہ خدا کے فرشتے یہ سمجھیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی رضا جوئی میں واقع میں فرشتوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں.غرض دوست ان دنوں میں خاص طور پر ایک دوسرے سے محبت اور پیار سے پیش آئیں.شور نہ مچائیں.غصے کی نگاہ نہ اٹھا ئیں.غض بصر سے کام لیں.ہر ایک سے ملیں اور سلام کہیں خواہ آپ اس کو جانتے ہیں یا نہیں.آخر جب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی معہود کو سلام بھیجا تھا تو وہ صرف ایک شخص کے لئے نہیں تھا بلکہ مہدی علیہ السلام کی وساطت سے آپ کی جماعت کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سلامتی کی یہ دعا پہنچی ہے.حضرت مہدی علیہ السلام تو اب ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن آپ کو ماننے والے، آپ کے فدائی، آپ کی باتوں کو سن کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہونے والے اور دین متین اسلام کو دنیا میں پھیلانے والے تو موجود ہیں اور یہ سب اپنے اپنے رنگ میں اس اجتماعی کوشش میں حصہ لے رہے ہیں جو اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے کے لئے شروع ہے.اس لئے جماعت میں سے ہر ایک شخص کی بڑی عزت ہے اور بڑا وقار ہے خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی نگاہ میں.اس مقام کو حاصل کرنے کے بعد آپ ایک دوسرے کو سلام نہ کہیں تو یہ بڑی عجیب بات ہوگی.میں دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جب بھی راستے میں ایک دوسرے سے ملیں سلام کہیں.ہماری فضا کوتو ہمیشہ السلام علیکم اور و علیکم السلام کی آوازوں سے گونجتے رہنا چاہئے.پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دوست اپنے وقت کو ضائع نہ کریں.مختلف جگہوں سے دوست یہاں اکٹھے ہوتے ہیں.دوستوں اور رشتہ داروں سے ملاقات اور آپس میں محبت و پیار اور اخوت وموڈت کو بڑھانے کے مواقع میسر آتے ہیں.ان سے فائدہ اٹھا ئیں.علاوہ ازیں بہشتی مقبرہ میں جائیں جہاں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا مزار ہے.آپ نے دین اسلام کی اتنی خدمت کی ہے اور جماعت پر آپ کے اتنے احسان ہیں کہ ان کا یہ حق ہے کہ ہم ہمیشہ ان کے لئے دعائیں
خطابات ناصر جلد دوم ۲۳۹ افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۷ء کرتے رہیں.پھر وہاں ہمارے وہ ایثار پیشہ بزرگ دفن ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں مالی اور دوسری قربانیاں دیں.ان کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں.اسلام ایک بڑا عظیم مذہب ہے.اس نے دعا کے لئے کسی جگہ یا وقت کی تعیین نہیں کی.انسان ہر وقت اور ہر جگہ دعا کر سکتا ہے.بعض چھوٹے چھوٹے استثناء ہیں جو اس قابل بھی نہیں کہ ان کا ذکر کیا جائے.بہر حال ہر وقت دعائیں کریں.دل میں دعائیں کریں.دوسروں کو دعائیں دیں.ہمارے مبلغین جو باہر گئے ہوئے ہیں ان کے لئے دعائیں کریں.اپنے لئے دعائیں کریں.اپنے نفس کے لئے دعائیں کریں.اصل میں تو اگر احمدیت کی طرف منسوب ہونے والا ہر نفس خدا کی نگاہ میں پاک اور مطہر بن جائے تو پھر ہمیں اور کیا چاہئے.ہمیں تو خدا تعالیٰ کا پیار چاہئے.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک کو خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہو جائے.فرشتے ہر ایک پر خدا تعالیٰ کی رحمتیں لے کر نازل ہوں.ہمارے بچوں پر بھی اور ہمارے بڑوں پر بھی.ہمارے مردوں پر بھی اور ہماری عورتوں پر بھی.خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں.پس اپنے اوقات کو ضائع نہ کریں.دعاؤں میں اپنا وقت خرچ کریں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کل شام کی رپورٹ کے مطابق پچھلے سال سے دو ہزار کے قریب عورتیں زیادہ تھیں اور سترہ ہزار کے قریب مرد زیادہ تھے.مجھے بڑی کثرت سے یہ دعا کرنے کا بھی موقع ملا کہ خدا تعالیٰ نے جس طرح گزشتہ سالوں میں دو جلسوں کے موقع پر بادل اور ہوا اور بارش اور سردی سے آزمایا تھا اور ان کا امتحان لیا تھا اور سرخرو کیا تھا.اسی طرح اب بھی میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ ! تو نے امتحان لیا اور یہ تیرا ہی فضل تھا کہ جماعت امتحان میں پوری اتری اور اب ہمیں دھوپ دے تا کہ ہم دھوپ میں بیٹھ کر جلسہ سنیں اور تیرا شکر ادا کریں.چنانچہ اب بھی اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا میں تو خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ ہوں.مجھ پر خدا کے اتنے احسان ہیں کہ میں تو سمجھتا ہوں اس کے ایک احسان کا بھی ساری عمر شکر ادا کرنے اور الحمد پڑھنے کی کوشش کرتارہوں تب بھی شکر ادا نہیں ہوسکتا.کل ظہر وعصر کی نمازیں پڑھانے کے لئے جب میں مسجد مبارک میں گیا تو اس وقت میں نے دیکھا بادل ہیں اور ہلکی سی بوندا باندی بھی ہو رہی ہے تو نماز ہی میں خدا نے مجھے دعا کرنے کی
خطابات ناصر جلد دوم ۲۴۰ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۷۷ء توفیق دی.چنانچہ نماز بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ بادل چھٹ گئے اور دھوپ نکلنی شروع ہوگئی.پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا فضل ہے لیکن ہم اس کے بندے ہیں.اگر وہ اپنی رحمت کی بارش سے ہمیں نوازے تب بھی الحمد للہ اور اگر اپنی دھوپ کی گرمی سے ہم پر احسان کرے تب بھی الحمد للہ ! خدا تعالیٰ کا شکوہ کیوں ہو جس نے ہم پر اتنے احسان کئے اور اتنی نعمتیں نازل کیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا.پس باہر سے آنے والے بھائیوں اور بہنوں کو بھی اور ربوہ کے مکینوں کو بھی جلسہ سالانہ کے ان مبارک ایام میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے.یہ ایک قافلہ ہے جو بڑھتا چلا جاتا ہے تعداد کے لحاظ سے بھی اور بڑھتا چلا جاتا ہے قربانی اور اخلاص کے لحاظ سے بھی.جماعت احمد یہ میں مجموعی طور پر اخلاص اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ دنیا اس کو سچ سمجھنے کے لئے تیار نہیں.وہ کہتے ہیں یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جماعت احمدیہ جیسی غریب جماعت غلبہ اسلام کے لئے اتنی بڑی قربانیاں دے دے.ہم نے اگر ان کے لئے قربانیاں دینی ہوتیں تو ان کو سمجھاتے کہ اس طرح ہم قربانیاں دے رہے ہیں.ہم تو اپنے خدا کی رضا کے حصول کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں اس لئے ہم ان کے اعتراضات کو سنتے ہیں اور مسکرا دیتے ہیں اور اپنے خدا کے سامنے جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدایا! تیرا یہ بھی احسان ہے کہ تو لوگوں کے سامنے ہماری قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیتا.پس بعض دفعہ شیطان اس طرح بھی بعض لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال دیتا ہے.اللہ تعالی شیطانی وساوس سے ہمیں محفوظ رکھے اور نواہی سے بچنے کی ہمیں توفیق دے اور اوامر پر عمل کرنے کی ہمیں طاقت عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں کا ہمیں وارث بنائے.اللهم آمین! ویسے تو ہم ہر وقت ہی دعا کرتے ہیں لیکن ہاتھ اٹھا کر جسے انگریزی میں فارمل طریقے پر دعا کرنا کہتے ہیں.اس طریق پر بھی اب ہم دعا کریں گے.اس طریق میں بھی برکتیں ہیں اور انفرادی طور پر جو دعا کی جاتی ہے اس میں برکتیں ہیں.اس لئے آؤ اب ہم اجتماعی دعا کر لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ توحید خالص کو دنیا میں قائم کرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کو دنیا کے ہر دل میں گاڑ دے.(روز نامه الفضل ربوه ۱۸ر جون ۱۹۷۸ء صفحه ۲ تا ۵ )
خطابات ناصر جلد دوم ۲۴۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء انشاء اللہ وہ دن بھی آئے گا جب دنیا کے ہر ملک سے جلسہ میں شمولیت کے لئے احمدی جمع ہوں گے دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۷ ء بمقام ربوہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کس منہ سے اللہ تعالیٰ کے کس کس احسان کا ہم شکر ادا کریں میں آج کی گفتگو اللہ تعالیٰ کی حمد سے ہی شروع کرتا ہوں گزشتہ سال کے مقابلہ میں امسال کل کی رپورٹ کے مطابق بیس ہزار سے زیادہ باہر سے احباب تشریف لائے ہیں.الحمد للہ.اور اکتیس بیرونی ممالک کے احمدی جلسہ میں شمولیت کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں اور ہم خدا کے فضل سے امید رکھتے ہیں کہ ان ممالک کی تعداد ہر سال بڑھتی ہی چلی جائے گی اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ دن بھی آئے گا کہ جب دنیا کے ہر ملک سے جلسہ میں شمولیت کے لئے احمدی یہاں جمع ہوں گے.آج کی تقریر کے شروع میں کتب کا کچھ ذکر کیا جاتا ہے جونئی چھپتی ہیں ان کے متعلق دوست ان میں دلچسپی لیں لیکن قبل اس کے کہ میں چھپی ہوئی کتابوں کے متعلق کچھ کہوں میں کتابیں پڑھنے والوں کے متعلق اور کتابیں لکھنے والوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طه: ۱۱۵).اے ہمارے رب ! ہمارے علم میں ہمیشہ زیادتی کرتا چلا جا.ایک طرف یہ اعلان ہے کہ انسان جتنی بھی نئی سے نئی تحقیق کرتا چلا جائے علم کے مختلف میدانوں میں کبھی وہ ان میدانوں کی انتہا تک نہیں پہنچ سکتا.اور دوسری طرف یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو مخلوق ہے اس کی خواص غیر محدود ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ چونکہ خدا تعالی کی ساری صفات اس کا ئنات پر ہر آن اثر انداز ہو رہی ہیں اس لئے کوئی چیز بھی خدا کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ایسی نہیں کہ جس کے متعلق انسان کسی وقت بھی اپنی علمی تحقیق میں آگے بڑھتے بڑھتے کسی موقعے پہ بھی یہ کہہ سکے کہ اس چیز میں جتنے خواص تھے وہ میں نے حاصل کر
خطابات ناصر جلد دوم ۲۴۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء لئے اور اب اس چیز کے متعلق اب میر اعلم کامل ہو گیا ہے اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا آپ پ نے فرمایا ہے کہ خشخش کا دانہ بڑی چھوٹی سی چیز ہے اس کے متعلق بھی انسان کا علم اپنی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا.اس زمانہ میں رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا کے ساتھ ایک اور دعا بھی ہمیں سکھائی گئی اور وہ ہے رَبِّ أَرِنِي حَقَائِقَ الْأَشْيَاء (التذکرہ: صفحہ ۶۱۳ ) وہ اس کی رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا کی تفسیر کے طور پر بِرَبِّ اَرِنِى حَقَائِقَ الْاَشْيَاءِ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعے دعا سکھلائی اس لئے کہ یہ زمانہ کچھ عجیب سا بن گیا ہے علم علم کے لحاظ سے، جو تو ٹھوس علوم ہیں سائنسز ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بہت کچھ حقیقتیں معلوم ہو جاتی ہیں ان میں بھی حقیقتیں معلوم نہیں ہوتیں اور انسان جتنا اپنے علم میں ہر سال اضافہ کرتا ہے اتنا ہی اس کی غلطیاں جو اس نے پہلے سالوں میں کی ہوتی ہیں وہ آشکار ہو کے اس کے سامنے آ جاتی ہیں یعنی جن کو وہ حقائق سمجھتارہا تھا وہ حقیقت نہیں رہتی باقی.سینکڑوں مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں، کئی میں پہلے بتا بھی چکا ہوں ایک نئی چیز یہ آئی سامنے، کہ ۱۹۷۵ء میں جب میں بیمار ہوا اور انگلستان گیا چیک اپ کروانے کے لئے تو وہاں کے چوٹی کے ماہر نے مجھے یہ مشورہ دیا، ( مجھے تھوڑی سی تکلیف ذیا بیطیس کی بھی ہے تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا) کہ ڈیا بنیز (Diabeneze) یہ اس کی ایک دوا ہے وہ مجھے موافق آئی ہوئی تھی وہ زیادہ خوراک میں کھانے کی بجائے ، ۲۵۰mg کھانے کی بجائے ۱۰۰mgالیس اور ایک اور دوائی وہ نہار کھانی پڑتی ہے ناشتے کے بعد ڈائیووٹین (Diowotin) ایک اور دوائی ہے وہ ۵۰۰mg کی لے لیا کریں اور اس کی زیادہ کھانے کی ضرورت نہیں رہے گی.خیر وہ انگلستان کے چوٹی کے ماہر کا مشورہ تھا میں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا یہ ۱۹۷۵ء کی بات ہے اور ۱۹۷۷ء یعنی اس کو سمجھو دوسرا سال ہوا تھا کہ وہاں سے مجھے خط آنے شروع ہوئے کہ نئی تحقیق یہ ہے کہ ڈائیوٹین جو انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ ناشتے کے بعد کھاؤ اور بہت اچھی دوائی ہے وہ زہر ثابت ہوئی ہے فوراً چھوڑ دیں کیونکہ اس سے موتیں واقع ہونا شروع ہوگئی ہیں.تو یہ کہنا مشکل ہے کہ آج کا سائنسدان نئی ایجادات زیادہ کرتا ہے، یا اس کے علم میں یہ اضافہ زیادہ ہوتا ہے کہ جو پہلی تحقیقات میں اس نے سچ سمجھا تھا وہ سچ نہیں بلکہ غلط بات ہے ،حق نہیں بلکہ باطل ہے اور اس سے بھی زیادہ خطر ناک آج کے زمانہ میں یہ تحقیق ہوگئی ہے غیر سائنسی علوم جو ہیں ان
خطابات ناصر جلد دوم ۲۴۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء کے متعلق، مثلاً تاریخ ہے تاریخ سے آگے تاریخ اقتصادیات ہے، تاریخ معاشیات ہے، تاریخ تمدن ہے، تاریخ واقعات ہے، تاریخ کے مختلف شعبے ہیں ، اس میں تحقیق نے ایک رنگ یہ اختیار کر لیا جو بڑا خطرناک ہے اور وہ یہ کہ سو آدمیوں نے مثلاً کسی زمانہ کے متعلق کتب لکھیں اپنی اپنی تحقیق کے مطابق ، تو ایک سو ایک آدمی نے جب لکھیں ، تو اس نے ان سو کتابوں میں سے کچھ یہاں سے، کچھ وہاں سے، کچھ وہاں سے ساری سو کتابوں میں سے لیا اور ایک ایسی چیز دنیا کے سامنے رکھ دی جس کا تاریخی حقیقت سے کوئی واسطہ بھی نہیں تھا.اور اس نے اس کو زیادہ جوش دلایا ہے، مذہبی تعصب نے جو اسلام کے خلاف کتابیں لکھی گئیں یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہم بالکل غیر متعصب ہیں اسلامی مصنفین کی کتابیں لے کر اور ان کی مختلف آراء جو تھیں ان میں سے کوئی یہاں سے لیا، کوئی یہاں سے لیا، کچھ وہاں سے لیا ، اور ان کو جوڑ جوڑ کے ایک نئی تحقیقی کتاب لکھی گئی اور بڑا شور مچا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی اور خوب شاباش ملی اور تالیاں پیٹی گئیں ، اور وہ دراصل تاریخ تھی ہی نہیں ، وہ آپ ہی بنائی ہوئی تھی اور اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اور اسلام کے حسین چہرہ پر داغ لگانے کے لئے ، اور احسان جو اسلام نے کیا تھا بنی نوع انسان پر ، وہ اس کو چھپانے کے لئے اس قسم کی تحقیق شروع ہو گئی تو تحقیق تو ہے، لیکن حقائق نہیں ہیں.اس واسطے ضرورت پڑ گئی یہ جو الہام ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا، جو رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا ( طه : ۱۱۵) کی تفسیر کرتا ہے، یہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان کو اس بات کی ضرورت پڑ گئی ہے کہ وہ حقائق اشیاء کی طرف متوجہ ہو، نہ یہ کہ رطب و یابس ، ادھر سے لیا اُدھر سے لیا اور ایک کتاب نئی بنا دی اس قسم کی کتابوں کو دیکھ کر ہمارے بعض بزرگ جو تھے انہوں نے دوسری غلطی دوسری طرف یہ کر دی کہ مثلاً ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں افریقہ میں انہوں نے اپنے متبعین کو یہ کہا کہ تم قرآن کریم پڑھا کرو، قرآن کریم کی تفاسیر جو ہیں اس کو ہاتھ بھی نہ لگایا کرو کیونکہ وہ غلط باتیں اسلام کے خلاف تمہارے سامنے آجاتی ہیں اس لئے آخر انسان غلطی کا پتلا ہے، سو آدمی جو ہیں کتاب لکھنے والے ایک ہی مضمون پر، انہوں نے سوغلطیاں کی ہوں اگر ، ہر مصنف نے ایک غلطی کی ہو اور جو ایک سو ایک واں وہ تواس ایک اور مصنف ہے وہ سوغلطیاں اکٹھی کر کے اور ایک کتاب لکھ دے تو اس میں ایک بھی حقیقت نہیں ہوگی اور وہ تحقیق بن جائے گی اور وہ حوالہ دے گا کہ جی فلاں نے یہ کھا فلاں نے یہ لکھا اور فلاں نے یہ لکھا اور وہ
خطابات ناصر جلد دوم ۲۴۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اغلاط کا مجموعہ اور تحقیق کی ایک کتاب بن جائے گی اس طرف رحجان ہو گیا ہے جس کو مقبولیت عطا کی ہے اسلام کے خلاف جو تعصب رکھنے والے سکالرز تھے The so called Scholars بڑے محققین سمجھے جاتے تھے ، انہوں نے ، اس تعصب نے اس کو مقبولیت دی ہے.ایک دفعہ ہمارے Oxford کی یونین کی ڈبیٹ ہو رہی تھی تو اس میں امریکہ سے ٹیم آئی ہوئی تھی ایک بڑا ذہین مسخرہ تھا ہمارا مقر ر آ کسفورڈ کا ، اس نے کھڑے ہو کے یہ تقریر کی کہ ، جو میں نے بتایا ناں کتنا جمع کیا.اس نے کہا فلاں اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ اتنے امریکن باہر چلے گئے ہیں سیر و سیاحت کے لئے اور فلاں اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ اتنے باہر چلے گئے ہیں، اور ان کا جب ہم مجموعہ کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ آج یعنی اس دن جس دن وہ بول رہا تھا امریکہ میں ایک آدمی بھی نہیں موجود، سارے کے سارے وہاں سے جاچکے ہیں.تو وہ تو اس نے ایک مذاق کیا تھا اس ٹیم کے ساتھ لیکن حقیقت ہے یہ، اس نے تو چند آدمی تھے نا ان کو ہنسانے کے لئے ایک بات کہہ دی لیکن انسانیت کے ساتھ یہ مذاق کیا گیا ہے کہ ایک یہاں سے غلط بات لی ایک وہاں سے غلط بات لی اور ایک کتاب لکھ دی اور بڑی شاباش مل گئی ایسے شخص کو.اس واسطے ضرورت تھی، کہ یہ کہا جاتا انسان کو ، کہ یہ دعا کرو، کہ اے ہمارے رب ہمارے محض علم میں زیادتی نہ کر کیونکہ جو غلط باتیں ہوئی ہیں اس میں بھی علم میں یہ زیادتی تو ہو جاتی ہے کہ غلط کتا میں لکھی جارہی ہیں یہ بھی علم میں زیادتی ہے نہ ایک، کہ پہلے نہیں تھیں اب کتا ہیں لکھی جانے لگیں زیادتی ہوئی.تو محض اتنا نہیں کافی آج کی دنیا میں ، بلکہ یہ ہے کہ جو حقائق ہیں ان کی ہمیں اطلاع دے.رَبِّ اَرِنِى حَقَائِقَ الْاَشْيَاءِ تو احمدی جو ہیں مصنفین ، ان کا یہ فرض ہے کہ اس پس منظر میں جن باتوں کی ضرورت ہے ان کو سامنے رکھے اور پھر وہ کتب لکھیں دنیا کی ہدایت اور ان راہنمائی کے لئے اور ان کی خیر خواہی میں اور ہر علمی میدان میں حقائق ان کے سامنے رکھ کے اور اس لحاظ سے ان کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی کوشش یہ ہمیں ہی کرنی پڑے گی ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس قسم کی غلطیاں جو ہیں، احمدی جماعت کو اللہ تعالیٰ یہ روشنی عطا کرے گا، کہ وہ جو اسلام کے مخالف اسلام پہ اعتراض کر رہے ہیں نہ صرف یہ کہ ان اعتراضات کو غلط وہ ثابت کر کے دکھائیں گے بلکہ اسلام کی خوبیاں ان کے سامنے رکھیں گے اور
خطابات ناصر جلد دوم ۲۴۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ان کے دلوں کو اسلام کے لئے جیتیں گے.ہمارے مصنف جو ہیں وہ تعداد کے لحاظ سے اور ان کی جو کوشش ہے اس کا نتیجہ، کتب کی تعداد کے لحاظ سے اتنا نہیں جتنی کہ آج کی دنیا کوضرورت ہے، اس طرف جماعت کے جو علماء ہیں صرف دینی علماء نہیں ، اچھے دماغ ہیں ، ڈاکٹر سلام ہیں وہ تھیوریٹیکل فزکس میں بڑے اچھے ہیں، اور ہیں، ان کو یہ چیزیں سامنے رکھ کے، اور دنیا کو بتانا چاہئے کہ کس طرح تم غلطی کر رہے ہو اور اگر تم نے اصلاح نہ کی تو پھر تباہی کی طرف تم لے کے جاؤ گے دنیا کو.باہر دوروں پہ جب میں جاتا ہوں تو تھوڑا سا تنگ یہ کہہ کے بھی کیا کرتا ہوں کہ تمہاری کس بات پر ایمان لائیں آج تم کچھ کہتے ہو کل کچھ اور کہنے لگ جاتے ہو بالکل متضاد بات ایک وقت میں کہہ دیا عورت ماں بچے کو دودھ نہ پلائے ، بچہ بھی بیمار ہو جائے گا، ماں بھی بیمار ہو جائے گی دوسرے وقت میں لاکھوں شائد کروڑوں ماؤں کی صحتیں اور بچوں کی صحبتیں خراب کرنے کے بعد کہ دیا ، ہو ہو ہو بڑی غلطی ہو گئی تھی بھئی معاف کرنا ہم نے یہ غلط کہا تھا کہ نہ پلائیں دراصل پلانا چاہئے تب صحت اچھی رہتی ہے.ایک وقت میں ایک دوائی کہہ دی بڑی اچھی ہے دوسرے وقت میں کہہ دیا کہ یہ زہر ہے اس طرح کی ہزاروں مثالیں سامنے آتی ہیں ، وقت ہے کہ ہم انسانیت کو اس قسم کے خطرات سے محفوظ کرنے کے لئے علمی میدانوں میں بھی کوشش کریں اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں میں برکت ڈالے اور انسانیت کی ہدایت کے لئے اسلام کے نور کے نیچے کھڑے ہو کر ہم کوئی سامان پیدا کریں.جن کتب کے متعلق مجھے کہا گیا ہے کہ میں آج کے جلسے میں اعلان کروں نظارت اشاعت و تصنیف کی طرف سے ایک کتاب نجات کے نام سے شائع ہوئی ہے جس میں تفسیر کبیر سورہ مریم کی تفسیر کا ایک حصہ عیسائیت اور اسلام کا موازنہ یعنی عیسائیت کے نزدیک نجات کسے کہتے ہیں اور اسلام کے نزدیک نجات کسے کہتے ہیں یہ موازنہ کیا گیا ہے.دوسری کتاب احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک ہے اس میں حوالے بہت سے درج ہوتے ہیں بڑی مفید کتاب ہے اور مکرم ابوالعطاء صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے بہائیت کے متعلق پانچ مقالے اسے بھی غالباً دوسری دفعہ یا شاید پہلی دفعہ شائع کیا گیا ہے.تحریک جدید کی طرف سے مجموعی طور پر
خطابات ناصر جلد دوم ۲۴۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء چھپیں نئی کتب اور تراجم شائع ہوئے ہیں.انڈونیشیا میں بہت بڑے جزائر ، ان کا بہت بڑا وفد آب ہوا ہے تمہیں سے بھی زیادہ کا، ان جزائر میں، ان کی زبان میں ، انڈونیشین زبان میں اسلامی اصول کی فلاسفی اور میرا مذہب اور نبراس المومنین یہ شائع ہوئی ہیں سال رواں میں ، آئیوری کوسٹ میں فرانسیسی زبان میں قرآن مجید کی آخری اٹھائیس سورتوں کا ترجمہ شائع ہوا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بائیل کی بشارات“ کے نام سے کتاب شائع ہوئی ہے فرانسیسی زبان میں.آئیوری کوسٹ میں اور فرانسیسی زبان میں ادعیۃ القرآن اور ادعیۃ الرسول کے تراجم شروع ہوئے ہیں اور اسلامی نماز پر مشتمل ہدا یتیں کہ کس طرح نماز پڑھنی ہے اور کیا پڑھنا ہے کس حالت میں وہ شائع ہوئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر احادیث رسول“ کے نام سے کتاب شائع ہوئی ہے فرانسیسی میں اور لائف آف محمدصلی اللہ علیہ وسلم فرانسیسی میں ترجمہ آئیوری کوسٹ میں شائع ہوا ہے.نائیجیریا میں یورو با زبان میں تعلیم الاسلام ادعیہ القرآن اور ہاؤسا (Hausa) زبان میں نماز شائع ہوئی ہیں.تنزانیہ میں سواحیلی زبان میں ابراہیم علیہ السلام کا فرزند اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس نام سے یہ کتاب انہوں نے شائع کی ہے.یہ کوئی پادریوں کے کچھ اعتراضات وغیرہ کا یا مناظرے کے ساتھ اس کا تعلق ہے یہ سواحیلی زبان میں ہے.اور ماریشس میں فرانسیسی زبان میں ماریشس وہاں سے بھی دوست آئے ہوئے ہیں اس جلسے میں شامل ہونے کے لئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب فتح اسلام اور اس کے علاوہ اسلام میں نبوت اور رڈ الزامات دو رسالے ہیں.یہ فرانسیسی زبان میں وہاں شائع کئے گئے ہیں.انگلستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کا مجموعہ تذکرہ کا ترجمہ انگریزی زبان میں، ایک غلطی کا ازالہ انگریزی زبان میں اور اسلام اینڈ ہیومن رائیٹس کا انگریزی زبان میں اور جرمنی میں اسلام کا تعارف جرمن زبان میں اور مکالمہ مابین مسلمان اور عیسائی جرمن زبان میں اور The Quran on space and interplanetry flights یعنی یہ جو باہر جارہے ہیں چاند کے اوپر اور دوسری جگہوں پر اپنے سیارے بھیج رہے ہیں اس کے متعلق اسلام کا نظریہ.ہالینڈ میں ڈچ زبان میں برکات الدعاء، ہماری تعلیم ، اسلامی اصول کی فلاسفی اور ترجمہ سورۃ بقرہ بالاقساط ماہنامہ اسلام میں یہ چھپتے ہیں وہاں.وکالت تبشیر کی طرف سے من الرحمن دوسرا ایڈیشن،
خطابات ناصر جلد دوم ۲۴۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ہماری تعلیم عربی زبان میں دوسرا ایڈیشن، پیغام احمدیت فارسی زبان میں دوسرا ایڈیشن اور مہدی حقانی عربی زبان میں اَلْكُفْرُ مِلَّةَ وَاحِدَة عربی زبان میں What is Ahmadiyyat انگریزی زبان میں آٹھواں ایڈیشن How to get rid of the Bondage of Sin یعنی گناہ سے نجات کیسے حاصل کی جاسکتی ہے انگریزی زبان میں تیسرا ایڈیشن.انویٹیشن ٹو احمدیت (Invitation to Ahmadiyyat) یہ زیر طبع ہے.ادارۃ المصنفین کی طرف سے یہ ختم ہو چکی تھی تفسیر صغیر، یہ یہاں والوں کے لئے ہے پاکستان میں جو ہیں اردو جاننے والے اور انڈیا میں اور دوسری جگہ کہتا ہیں وہاں بھجوائی جاسکیں بہر حال پہلے تو ان کو ضرورت ہے جو پاکستان میں بسنے والے ہیں.تفسیر صغیر بڑی عجیب کتاب ہے اگر آپ اپنے کسی دوست کو جواحمدی نہیں پڑھنے کے لئے دے دیں تو وہ آپ کو واپس نہیں کرے گا اور اگر آپ نے خریدی نہیں ہے تو آپ کے گھر میں نہیں ہوگی ، عجیب بات ہے کہ جو احمدی نہیں وہ اپنے گھر میں رکھنا چاہتا ہے، اور آپ خریدنے میں سستی اور غفلت برت رہے ہیں، کچھ تو غلطی ہوگئی ادارۃ المصنفین سے بھی.بڑی سخت ، میرے نزدیک، اور وہ یہ کہ یہ بدظنی کرتے رہے جماعت پر.مثلاً یہ شائع ہوئی ، یہاں کوئی تفسیر صغیر ہے تو کاپی مجھے ہیں.ایک ایک ہزار ، اتنی بڑی جماعت ایک ہزار تفسیر صغیر، کیسے تم چھاپ رہے ہو.خیر وہ میں نے جب یہ دیکھا تو میں نے پیچھے پڑ کے ان کو کہا کہ ایک ہزار تو بہت کم ہے بڑی مشکل سے اور مجھے یہ کہہ کے کہ چھپوانے میں کچھ وقت ہو جاتی ہے تین تین ہزار شائع کرنی شروع کی اور اتنے لمبے عرصے میں ایک ایک ہزار شائع کر کے بڑی تھوڑی شائع کی تھیں اور میرے زمانہ خلافت میں اس سے قریباً ڈیڑھ گنا زیادہ تفسیر صغیر قرآن کریم با ترجمہ اردو چھپی اور بک گئی، اس وقت جو چھپی ہے یہ ایڈیشن ، اس میں دو قسم کا کاغذ لگا ہے.ایک جسے میں اور ہم ، میں اور جب میں کہتا ہوں تو میں اور آپ ہو گئے ، میں اور آپ قرآن کے اوپر کہتے ہیں، جو کسی زمانہ میں جب عیسائیت کی مادی طاقت بہت بڑھ چکی تھی بائیبل پر کہلاتا تھا اور اب چونکہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے اس واسطے بائیبل پیپر کا نام مہدی علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت نے بدل دیا ہے اور اس کا نام قرآن پیپر رکھا گیا ہے تو قرآن پیپر کے اوپر آدھا حجم بھی نہیں رہا بڑا خوبصورت چھپتا ہے باہر سے آیا ہوا تھا کچھ پڑا
خطابات ناصر جلد دوم ۲۴۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء تھا اور ایک اچھا یہاں کا کاغذ.قیمت پتہ نہیں ان میں کوئی فرق ہے یا نہیں بہر حال دونوں میں فرق بہت ہے.بعض لوگ جو ہلکا شاید قرآن کریم پکڑ نا پسند نہ کریں وزنی ان کو چاہئے تو وہ موٹے کاغذ والا جو ہے وہ لے لیں اور اور نہ قرآن پیپر والا بڑا اچھا، بڑا خوبصورت، حجم بھی اس کا چھوٹا بن گیا ہے بہت فائین (Fine) پیپر ہے، وہ انہوں نے شائع کیا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیان فرمودہ تفسیر قرآنی مختلف حصوں میں چھپ رہی ہے.پہلے چار حصے جو ہیں وہ سورۃ یونس تک چھپ چکے تھے.اب یہ پانچواں حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تفسیر قرآنی جو مختلف کتب میں بکھری ہوئی ہے انہیں اکٹھا کر کے مجلد کر کے شائع کیا جا رہا ہے.یہ تفسیر سورۃ یونس تا سورۃ کہف یہ بھی چھپ چکی ہے اور اصل تو جان ہی ہمارا قرآن اور قرآن کریم کی تفسیر ہے.ایک مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی کوئی ڈائری ہے وہ ایاز محمود کے نام سے ان کے فرزند شائع کرتے ہیں اس کی بھی ایک جلد مارکیٹ میں آگئی ہے.شان قرآن مجید تعلیم القرآن نظارت اصلاح وارشاد تعلیم القرآن کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں آپ کے اقتباسات جو قرآن مجید کی شان کے متعلق ہیں شان میں ہیں وہ شائع کی ہے.مکرم چوہدری علی محمد صاحب بی اے بی ٹی نے ان دا کمپنی آف دا پر امسڈ مسا یا ( In the Company of thepromised Messiah) کتاب لکھی.شائع کی ہے.تذکرہ کا چوتھا ایڈیشن شرکت الاسلامیہ کی طرف سے شائع ہو چکا ہے.اخبارات و رسائل میں الفضل، الفضل کی طرف ہر سال ہی توجہ دلانی پڑتی ہے.مگر اس کی بکری جو ہے وہ زیادہ نہیں دراصل الفضل ہے تو روزانہ ، مگر یہ خبر نامہ نہیں ہے، بلکہ جماعت کی خبریں دیتا ہے یعنی جو دوسرے اخبار ہیں نوائے وقت ہے یا مساوات ہے یا مشرق ہے یا امروز ہے یا جنگ ہے یا اور بہت سارے اخبارات ہیں مختلف ناموں سے چھپتے ہیں وہ روز کی روز خبریں دیتے ہیں وہ خبریں تو الفضل دے ہی نہیں سکتا نہ وقت پہ آپ کے پاس پہنچ سکتے ہیں الفضل.تو یہ جماعت کی کچھ خبریں دیتا ہے یہ ویکلی (Weekly) ہے دراصل اپنے Character کے لحاظ سے، خاصیت کے لحاظ سے ، اور چھپتا ہے روزانہ لیکن اس میں کبھی مواد ہوتا ہی نہیں کبھی
خطابات ناصر جلد دوم ۲۴۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۷۷ء درمیانہ درجے کا ہوتا ہے، کبھی بڑا اچھا ہوتا ہے، ہر قسم کا ہے، روزانہ اس قسم کا اخبار ایک معیار کے او پر چھا پنا ممکن تو ہے مگر آسان نہیں تو چونکہ آسان نہیں مشکل ہے اس لئے اس طرف اتنی توجہ نہیں جو اس ممکن کو واقعہ بنا دے اور وہ اس طرح چھپنے لگ جائے.بہر حال الفضل کی طرف توجہ کرنی چاہئے.رسالہ تحریک جدید ہے، یہ اپنی نوعیت کا ہے، یہ بیرونی دنیا کی خبریں دیتا ہے بڑا مفید ہے دوستوں کو پڑھانا چاہئے اپنے.ماہنامہ انصار الله ، انصار اللہ کے لئے ہے اور ان کے لئے بھی ہے جو انصار اللہ نہیں کیونکہ کام کی باتیں، یہ تو نہیں کہ ماہنامہ انصار اللہ میں کام کی بات چھپ گئی ، یا خالد ، خدام الاحمدیہ کا جو رسالہ ہے اس میں کام کی بات چھپ گئی تو دوسروں نے فائدہ نہیں اٹھانا.اب بچوں کا ہے رسالہ تفخیذ الاذہان اگر اس میں کام کی بات چھپتی ہے تو بوڑھوں کو بھی پڑھنی چاہئے ضرور.اور اگر ماہنامہ انصار اللہ میں کوئی کام کی بات ہے تو بچوں کے علم میں بھی وہ بات لانی چاہئے اسی طرح لا ہور ہے.لاہور جماعت کا رسالہ تو نہیں ، نہ یہ جماعت کی آواز ہے، لیکن ایک احمدی کا رسالہ ہے اور اپنے طور کے اوپر وہ ہرممکن خدمت جو ہے کر رہے ہیں ان کا اپنا ایک رسالہ ہے ایک اپنی کوشش اور جد و جہد ہے اس کے متعلق.تیسرا عنوان ہے تحریک جدید کے متعلق کچھ تحریک جدید اب کافی دنیا میں پھیل چکی ہے اور ایک وقت میں تحریک جدید کا سارا بار جماعتہائے احمد یہ ہندوستان پر تھا یعنی پارٹیشن سے پہلے کی بات ہے اس واسطے ہم ہندوستان کہیں گے جب پارٹیشن نہیں ہوئی تھی.اور باہر جماعتیں یا تھیں نہیں یا قربانی کے سلسلے میں ان کی تربیت نہیں تھی.نہ ہونے کے برابر ان کی مالی قربانیاں تھیں.قریباً سارا باران کو اٹھانا پڑ رہا تھا اور اسی کے مطابق پھر کوشش بھی تھی لیکن آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ایک انقلابی تبدیلی اس حرکت میں پیدا کی جو تحریک جدید کے نام سے حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع کی تھی اور یہ تبدیلی جو ہے یہ کئی پہلو اپنے اندر رکھتی ہے.مثلاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جس طرح ہمارے دلوں میں موجزن ہے اسی طرح بیرونی ممالک کی ایسی جماعتیں پیدا ہو گئیں، اتنی تربیت انہوں نے حاصل کر لی کہ کہنا مشکل ہے کہ کس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ محبت ہے، پاکستانی احمدی مخلص کے دل میں یا
خطابات ناصر جلد دوم ۲۵۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء غانین احمدی مخلص کے دل میں ، یا سیرالیون کے رہنے والے احمدی مخلص کے دل میں ، یہ کہنا مشکل ہے ایسا مزہ آتا ہے ان کے اس عشق رسول کو دیکھ کر کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے ، وہ تجربہ کرنے والا ہے.سن کے کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا.میں یعنی ایک دفعہ ہی جاسکا ہوں افریقہ کے ممالک میں مثلاً اور جتنا جنون ہو وہاں آزادی بہت ہے اور بردباری اور حمل ٹالرنس (tolerance) بہت ہے اور وہ اپنی گاڑیوں کے اوپر لاؤڈ سپیکر لگا کے صل علی نبینا صل على محمد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر درود بھیجتے گلیوں میں پھر رہے ہیں عیسائی بھی سنتے ہیں مسلمان بھی سنتے ہیں لیکن بولتا احمدی ہے اور وہ فضا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کے جو فضا کو معمور کر دیتے ہیں، آنکھوں میں ان کے پیار آتا ہے، نم ہو جاتی ہیں آنکھیں ذکر سن کے اور اسی وجہ سے میں جب گیا تو میں نے یہ محسوس کیا کہ اتنا پیار مجھ سے کرتے ہیں نہ جان نہ پہچان ظاہری طور پر سوائے جماعت احمدیہ کے امام ہونے کے اور تو میری ان کے ساتھ کوئی واقفیت نہیں ، نہ کبھی ان سے واسطہ پڑا، نہ ایک دوسرے کی شکلوں کے واقف ، نہ عادات کے واقف نہ تربیت کے لحاظ سے کہ وہ کتنے آگے گئے ہیں وہ واقفیت، اتنا پیار، اتنا پیار اور پھر جماعت سے مرکز سے ان کا پیار میں سوچ میں پڑ گیا کوئی وجہ ہونی چاہیئے اس کے پیچھے، پھر مجھے یہ سمجھ آیا کہ یہ لوگ ہم سے اس لئے پیار کرتے ہیں کہ پہلے تو غنودگی کی حالت تھی جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بھی ہوتے تھے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور آپ کے نور سے نا آشنا بھی تھے لیکن جب احمدیت نے جا کر ان کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو بیان کیا اور آپ کی شان اور بلند مقام اور وہ نور جو خدا تعالیٰ نے آپ کو انسانیت کے لئے رہتے دم تک عطا کیا تھا قیامت تک اس سے وہ آشنا ہوئے اور معرفت ان کو حاصل ہوئی محمد کے مقام کی.(صلی اللہ علیہ وسلم ) تو انہوں نے یہ سوچ کر که اتنی عظیم چیز جس سے پہلے ہم محروم تھے ان احمدیوں کی وجہ سے ہمیں ملی ہے انہوں نے احمد یوں کے مرکز سے بھی پیار کیا، اور احمدیوں کے امام سے بھی پیار کیا ، کہ وہ ان کا بھی امام ہے ایک تو یہ انقلابی تبدیلی کسی ملک میں زیادہ کسی ملک میں کم بیرون پاکستان کے ممالک میں جہاں ہمارے مشن قائم ہوئے ہیں اور جماعتیں قائم ہو چکی ہیں ان میں پیدا ہوئی ہے اور دوسری انقلابی تبدیلی تعداد کے لحاظ سے ، اور ان لوگوں کا اندازہ ہے ( ہمیں تو نہیں پتا ) ان لوگوں کا اندازہ یہ ہے کہ مثلاً
خطابات ناصر جلد دوم ۲۵۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء یسٹ افریقہ میں غانا اور سیرالیون کے متعلق ہر دو ملک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہاں احمدیوں کی تعداده الا کھ سے اوپر نکل چکی ہے.تو تعداد کے لحاظ سے وسعت اس عرصے میں بڑا انقلاب ہے، دوسرے ممالک ہیں اس میں اتنی نہیں.یورپ ہے وہاں اتنی نہیں لیکن یہ ہے کہ وہاں زمین تیار کی جارہی ہے اور امریکہ جو کہتا ہے جب لگانے ہوں انار کے پودے اور مالٹے کے پودے تو دو سال تک زمین تیار کرنی چاہئے پھر درخت لگانے چاہئیں ورنہ کامیابی نہیں ہوتی.میں نے خود پڑھا ہے امریکہ کے رسالوں اور کتابوں میں تو جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا باغ ، پھلدار ، خوشگوار ، صحت مند دوسروں کی بھلائی والا لگانا ہے.اس کے لئے تو پہلے زمین تیار کرنی پڑے گی تو زمین تیار ہو رہی ہے، یورپ میں بھی ہو رہی ہے زمین تیار، امریکہ میں بھی ہو رہی ہے زمین تیار.جزائر میں بھی ہو رہی ہے افریقہ مغربی ہو یا مشرقی ہو یا جنوبی ہو یا شمالی ہو ان کے اندر بھی زمین تیار ہورہی ہے.کسی جگہ کچھ ، کسی جگہ کچھ ، میں ان کو بھی کہتا ہوں جو بات کرتے ہیں میں انہیں بھی کہتا ہوں ابھی وقت نہیں آیا تعداد گننے کا نہیں کہ اگر یہ دیکھو کہ تمہارے اندر کیا تبدیلی ہوئی.یعنی وہ تو میں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام گالی دیئے بغیر نہیں لیتے تھے ان کے اخباروں اور کتابوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان کو کچھ حد تک پہچان کے اس کے متعلق اظہار کرنا شروع کر دیا ہے.یہ تبدیلی ، یہ انقلاب جو ہوا ہے مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو جو محد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکتیں آپ کے طفیل ملی ہیں ،اس کے نتیجہ میں یہ کہیں آپ کو نظر نہیں آتا یعنی کوئی اور کوشش اس قسم کا نتیجہ نہیں دکھا رہی کہیں بھی.میں نے پہلے بھی بتایا کہ وہ جو مخالف ہے وہ تو تعداد کی کمی سے بھی اپنا نتیجہ نکالے گا.۱۹۶۷ء میں مجھ سے پوچھنے لگے.بڑا تیز قسم کا ایک کیتھولک صحافی تھا کہ ہمارے ملک میں آپ کتنے مسلمان بنا چکے ہیں.پریس کا نفرنس میں بھی آدھا گھنٹہ میری گفتگو ہوئی تھی.اس نے دیکھا کہ یہ تو اثر ہو رہا ہے تعلیم کے لحاظ سے.تو اس نے کہا اس کا اثر زائل کرتے ہیں اس طرح.خدا تعالیٰ کی بڑی شان ہے کہ اچانک ایک سوال یہ ہو جائے ، جو نہ پہلے کبھی سنا نہ کچھ.خدا تعالیٰ نے مجھے جواب ایسا سمجھایا کہ اس کا منہ بند ہو گیا.میں نے اس کو تعداد نہیں بتائی.میں نے اس کو کہا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی ساری عمر میں جتنے عیسائی بنائے تھے اس سے زیادہ تمہارے
خطابات ناصر جلد دوم ۲۵۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۷ء ملک میں مسلمان بنا چکے ہیں.وہ تو بیچارہ اس طرح ہو گیا جس طرح کسی پہ بجلی گری ہو بالکل زرد اور منہ اس کا سرخ، بولا نہیں.پھر میرے دل میں رحم پیدا ہوا کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد اسے کہا کہ تم نے مجھ میں دلچسپی لینی چھوڑ دی، میری دلچسپی تو تمہارے اندر قائم ہے اور کوئی سوال کرو.تو اس نے کیا سوال کرنا تھا پھر.لیکن کتابیں پھر خرید کے لے کے گیا اپنے پیسے خرچ کر کے.قرآن کریم ڈچ زبان میں اور دوسری کتابیں.تو وہاں ( درست ہے کہ ) ابھی سر گنے کا وقت نہیں لیکن یہ دیکھیں خدا کی شان کہ ڈنمارک میں چند احمدی ہوئے ان میں سے ایک وہ بھی ہوا.جس کے دل میں قرآن کریم کی عظمت اس طرح گھر کر گئی کہ بڑے تھوڑے زمانہ میں اس نے قرآن کریم کا (عیسائی بڑا غالی قسم کا ، کہتے تھے کمیونسٹ تو واللہ اعلم ، مجھے تو نہیں پتا ذاتی طور پر وہاں بیٹھے بھی ہیں شاید بعض ان میں سے بتائیں.لیکن بڑا غالی قسم کا غیر مسلم سمجھ لیں.آپ چند سال کے اندر جہاں سے بھی قرآن مجید کا علم سیکھ سکتے تھے انہوں نے سیکھا اور اپنی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کر دیا.ڈینش زبان میں اور وہ چھپ گیا اور ہم سے مشورے کے بعد ہی وہ دیا گیا ایک کمپنی کو ، اور انہوں نے چھاپا اور ہزاروں کی تعداد میں.پہلا ترجمہ تھا بڑا مقبول ہوا.یہ انقلاب ہے گویا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے ایک اٹالین جو جرمنی میں رہتے تھے کیو سی بڑا پڑھا لکھا آدمی ، یہ بھی پڑھے لکھے ہیں.ان کے دل میں ایسی محبت پیدا ہوئی کہ احمدی مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا اور اسپرانتو ایک زبان ہے کوئی دو گلی سی.کئی زبانوں کا مجموعہ بنا کے تو وہ یو.این.او (U.N.O) کی طرز پر زبان ہے کہ سارے ملکوں کی زبانوں کے الفاظ اس کے اندر آجائیں اسپرانتو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ انہوں نے شائع کر دیا تیار کر کے.کوئی یہ کہے مجھے کہ ڈنمارک میں تو آپ نے بڑے تھوڑے احمدی مسلمان بنائے ہیں اس واسطے آپ کامیاب نہیں ، میں اس کو کہوں گا کہ پہلے وہ ہمارا پہلا پھل، پہلی کوشش کا نتیجہ ایک قرآن کریم کا ترجمہ کرنے والا انسان مل جانا اگر وہ اکیلا بھی ہوتا تب بھی ہم کامیاب تھے.پھر یہ تبدیلی وہاں کہ جب میں وہاں گیا ڈنمارک کی مسجد کا افتتاح کیا تو وہاں اخباروں میں افتتاح کے موقع پر پریس کانفرنس، عیسائی ملے ان کے ساتھ باتیں اور اتنا اثر قرآن کریم کا اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًا (السجن : ۱۹) کی میں نے ان کو بتائی تفسیر عظیم اعلان ہے ہم بھول جائیں تو ہماری بدقسمتی
خطابات ناصر جلد دوم ۲۵۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء " ہے یعنی مسلمان کو کہا ہے کہ یہ مسجد تیری نہیں میری ہے ، انتہا کر دی نا ، خدا نے پیار سے میں تو سمجھتا ہوں کہ میرے ساتھ پیار کی انتہا کر دی کہ جب میں نے مسجد بنائی تو خدا نے کہا کہ یہ مسجد تیری نہیں میری ہے اور چونکہ میری ہے اس لئے ہر موحد کے لئے اس کے دروازے کھلے رہیں گے.مسلمان ہو یا نہ ہو موحد ہونا چاہئے میں نے ان کو یہ بتایا اس وقت تک وہ کہتے ہیں کہ دس ہزار سے زیادہ غیر مسلم اگر نماز کے وقت مسجد دیکھنے آ جائے بڑی خوبصورت جگہ ہے، سیاح آتے ہیں وہاں ، تو وہ نماز میں شامل ہو جاتے ہیں.اس دن جس دن میں نے افتتاح کیا اور یہ اعلان کیا تو تین سو کے قریب غیر مسلم جمعہ کی نماز میں شامل ہو گئے اب بے چاروں کو یہ تو پتہ نہیں تھا کہ رکوع کس طرح کرتے ہیں اور سجدہ کس طرح کرتے ہیں اور قعدہ کس طرح کرتے ہیں وہ ادھر ادھر دیکھ لیتے تھے اور جس طرح مسلمان کرتے تھے.وہ بھی کر لیتے تھے.ہمیں بڑا لطف آیا اور یہ قرآن کریم کی تاثیر ہے یہ میرا یا آپ کا کام نہیں ہے کہ اتنی تبدیلی دومنٹ میں پیدا کر دیں.یہ اعلان بڑا عظیم - قرآن کریم کا.ان کو میں نے یہ آیت بتا کے تھوڑی سی مختصراً تفصیل بتائی اور نجران کا وفد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا اور انہوں نے اجازت مانگی کہ ہمیں اجازت دیں ہم باہر جا کے کہیں اپنی عبادت کر لیں آپ نے کہا کہ باہر کیوں جاتے ہو مسجدى هذا (السيرة النبوية لابن هشام الجز الثانی صفحه ۲۲۴).یہ میری مسجد - مسجد نبوی جو ہے اس میں اپنی عبادت کر لو.اور انہوں نے وہاں عبادت کی تو مسجد نبوی سے زیادہ مکرم اور مستند تو دنیا کی اور کوئی مسجد نہیں جس کے دروازے موحد غیر مسلم کے اوپر بند کر دیئے جائیں.تحریک جدید جب شروع ہوئی تو ایک یہ انقلاب، ایک جگہ وسعت ہوئی نمبر کے، تعداد کے لحاظ سے، دوسرے ملکوں میں ایسے دل خدا تعالیٰ نے تلاش کر کر کے دیئے احمدیت کو ، جو فدائی اسلام کے اور ہر جگہ فون کے اوپر کسی نے اسلام کی بات کی ہے ( یہ واقعات ہوئے ہیں وہاں ، وہاں تین منٹ کے بعد ایکسچینج جو ہے وہ فون بند نہیں کر دیتا، نہ یاد کراتا ہے کوئی آدھا گھنٹہ بات کرنا چاہتا ہے کرتا رہے ) تو ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ جتنی مہینے کی آمد تھی اس سے زیادہ فون کا بل آ گیا کیونکہ انہوں نے اسلام کی بات شروع کر دی تھی اور انہوں نے اسلام کی تبلیغ شروع کر دی تھی اور یہ بھول ہی گئے کہ پیسے بھی دینے پڑیں گے.بڑا انقلاب ہے معمولی بات نہیں ہے یہ.تو تعداد کے لحاظ سے اور اخلاص کے لحاظ
خطابات ناصر جلد دوم ۲۵۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء سے.اخلاص کا جو یہ انقلاب ہے جہاں بڑی جماعت ہے وہاں بھی بڑے مخلص ہیں جہاں چھوٹی جماعت ہے وہاں بھی بڑے مخلص ہیں.تعداد کے اخلاص کو ہم نے تعداد میں تو نہیں تو لنا.اخلاص تو دل کا اخلاص ہے وہ تو اسی طرح خدا تعالیٰ کسی کو جب وہ اس پر انعام کرتا ہے وہی اس کا اجر ہمیں بتا رہا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مقبول کر لیا اسے.اور تیسری چیز یہ ہے کہ میں نے بتایا پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں قریباً آٹھ سال تک تحریک جدید کے بعد.باہر جب جماعتیں پیدا ہوئیں تو ان کے چندے جو تھے کوئی نہیں تھے اور اب مثلاً غانا ہے وہ ایک ایک ماہوار بھی دیتے ہیں کچھ لوگ لیکن اپنے قبائل کے لحاظ سے اور علاقائی لحاظ سے جو وہاں میٹنگ ہوتی ہے اس میں اپیل ہوتی ہے اور وہیں وہ لے کر آئے ہوتے ہیں پیسے.وہاں دینا شروع کرتے ہیں وہاں بعض اوقات قبائل کا مقابلہ ہو جاتا ہے کہ کون سبقت لے جاتا ہے نیکی کے کاموں میں ، تو لاکھوں کی تعداد میں پیسے، لاکھوں روپے کی مقدار جو ہے پیسوں کی ، وہ چندہ دے دیتے ہیں بڑا انقلاب ہے.۱۹۴۴ء کے بعد.یا وہ دن تھے کہ ایک پیسہ بھی ان کے بجٹ پر ان کے ملک سے خرچ نہیں ہوتا تھا اور یا یہ ہے کہ ایک پیسہ بھی ان کے ملک میں باہر سے آکر خرچ نہیں ہوتا.اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے سارے سینکڑوں مساجد بنائیں.اللہ کی مساجد ، جن کو تالے نہیں پڑتے اور جن کے دروازے کسی موحد کے لئے بند نہیں.سال رواں میں چارنئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں متعدد جگہ پر.اور بہت سی مساجد زیر تعمیر ہیں مختلف ملکوں میں اور کئی ایک جگہ مساجد اور مشن ہاؤس کے لئے زمین لینے کی کوشش شروع ہوگئی ہے اور امید ہے کہ انشاء اللہ اگلا سال جو ہے اس میں ہمیں بعض اہم یورپ کے ممالک جو ہیں اس میں زمین مل جائے گی.ممکن ہے وہاں مسجد بھی تیار کر لیں ہم.مسجد کی تعمیر کرنے میں ہم کامیاب ہو جائیں یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے.لیکن کام شروع ہو چکا ہے.ایک نیا مشن کینیا میں کھلا ہے اور ایک نیا مشن کینیڈا میں کھلا ہے.یعنی یہاں سے کینیڈا میں مبلغ گئے ہیں اور انہوں نے ( مبلغ جو ہے وہ بڑا ضروری ہے حالانکہ وہاں زیادہ کینیڈا میں تعداد ان لوگوں کی ہے جو اس علاقے سے جا کے وہاں آباد ہوئے یا نوکری کر رہے ہیں یعنی بہت ساروں نے امیگریشن لے لی اور بہت سارے ایسے ہیں جنہوں نے امیگریشن نہیں لی لیکن ان کو نوکری ملی ہوئی ہے وہاں کام کر رہے ہیں اور کافی مقامات کے اوپر جماعتیں قائم ہوگئی ہیں.
خطابات ناصر جلد دوم ۲۵۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء جب میں پچھلے سال گیا ہوں تو ٹورانٹو میں سارے احمدی تو نہیں آسکے تھے لیکن جو آ سکے وہ ان کی تعداد بھی میرے سامنے ، میرا خیال ہے مرد ہی ہوں گے ۸۰۰ کے قریب بڑی تعداد ہے اور اس کے علاوہ مستورات تھیں جو تھوڑی بہت آئیں.وہاں انہوں نے ٹورانٹو میں شہر کے بالکل قریب مضافات میں جو آبادیاں بنی شروع ہوئی ہیں ساڑھے چھ ایکڑ زمین خرید لی پہلے آرام سے بیٹھے ہوئے تھے.میں نے ان کو ذرا جا کے جھنجھوڑا کیا کرتے ہو تم ؟ زمینیں مہنگی ہو جائیں گی جو چیز آج تمہیں پچاس ہزار ڈالر میں مل سکتی ہے وہ پانچ لاکھ میں بھی نہیں ملے گی بڑی تیزی سے قیمتیں بڑھ رہی ہیں.وہ تو جگہ بھی بہت اچھی مل گئی بالکل شہر کے قریب بہت اچھی وہاں آبادی بھی بڑی جلدی ترقی کر رہی ہے انشاء اللہ وہاں مسجد بن جائے گی.اسی طرح کوشش کر رہے ہیں سپین میں ہمیں امید ہے کہ محنت اور پیسہ، شاید زیادہ خرچ کرنا پڑے لیکن کچھ ہماری غیرت کا بھی سوال ہے نا سپین کے متعلق.کئی صدیاں اسلام وہاں رہا.مسلمان حاکم ، دنیا میں دنیوی لحاظ سے بھی انقلاب بپا کرنے والے، ہر چیز میں آگے ، فلسفے میں ، دوسرے علوم میں ، حساب میں طبیعیات میں، کیمیا میں ( کیمسٹری جس کو کہتے ہیں ) اتنا آگے نکلے.بڑے بڑے محقق جو تھے وہ یورپ کے مختلف علاقوں سے وہ ان کی یو نیورسٹی میں آ کے پڑھتے تھے.اور پھر یہ دیکھونا، کبھی نسلوں کو اپنی ست نہیں ہونے دینا چاہئے ، پھر وہ نسلیں مست ہو گئیں اور سارا ملک جو ہے وہ ہاتھ سے نکل گیا.اسلام.کچھ نام چھوڑ گئے.بعض گاؤں ہیں جن کے نام اب بھی عربی سے ملتے جلتے ہیں کچھ انسانوں کے نام ہیں جوعر بی ناموں سے ملتے جلتے ہیں لیکن وہاں نہیں رہا.کچھ تو ساری دنیا کو ہم نے اللہ کے فضل سے نہ کہ اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں ، ساری دنیا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.وہ تو ہوں گے انشاء اللہ کیوں کہ خدا کا یہ منصوبہ ہے لیکن وہ علاقے جو کسی وقت مسلمان علاقے تھے اور اب وہ غیر مسلم علاقے بن گئے ہیں ان کی طرف تو پہلے اور زیادہ توجہ کرنی چاہیئے.پہلے تو اتنا تعصب تھا کہ کوئی سوال ہی نہیں تھا مسجد بنانے کا یا مسجد لینے کا اور اب کچھ حالات بدلے ہیں کچھ آزادی مل گئی ہے مذہبی.اب انشاء اللہ میں امید رکھتا ہوں کہ جب بھی زمین خرید لیں گے پھر اوپر تعمیر بھی ہو جائے گی.وہ جو صد سالہ جو بلی کا منصوبہ ہے اس میں سپین بھی ہے، اٹلی بھی ہے.ان میں بھی بنیں گی مسجدیں.ہمیں ایک ان لوگوں کے نظریات کی وجہ سے یہ کچھ تھوڑی
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء سی تکلیف ہوتی ہے.یعنی مالی لحاظ سے کہ بعض جگہ وہ مسجد بنانے کی اجازت دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں ذہنی طور پر لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایک عالی شان مسجد نمازی ہو نہ ہو وہ مسجد بنا دو تا کہ یاد رہے، وہ کہتے ہیں ہمارے شہر کی خوبصورتی بڑھ جائے گی بہت بڑی مسجد جس طرح لاہور کی جامع مسجد ہے ہماری، کہ ایسی ہی بنا دو تو زمین لے لو.تو ہمیں چاہئے وہ مسجد جس کی چھت پر کھجوروں کے پتے پڑے ہوئے ہوں پانی بھی پڑکا کرے.وہیں سے تو ہماری مسجد میں شروع ہوئی تھیں ناں.تو ہم وہیں سے آج شروع کرنا چاہتے ہیں ان علاقوں میں.ان کے ذہن کچھ اور قسم کے ہیں اس واسطے وہ روک پیدا ہو جاتی ہے.بہر حال یہ روکیں جو ہیں یہ تو اٹھیں گی ایک دن انشاء اللہ تعالیٰ.یہ ہمیشہ کے لئے قائم نہیں رہتیں.یہ آپ یا درکھیں.قربانیاں آپ کو دینی پڑیں گی لیکن کوئی روک دنیا کی ایسی نہیں ہے جو آپ کو ہمیشہ کے لئے کھڑا کر دے ایک جگہ پہ وہ تو ہٹے گی اور آپ آگے بڑھیں گے.نئے مشنز کے علاوہ نئی جماعتوں کا قیام انگلستان میں دو مقامات پر دونئے شہروں میں ، اور منجی آئی لینڈ میں تین ، نجی آئی لینڈ میں جو بہت خوشی کی بات ہے اس سال ہوئی ہے وہ یہ کہ مبلغ بدلے پہلے بھی ہم ان کو کہتے تھے کہ اس طرف توجہ کرو کہ جو اصل باشندے ہیں نجیئن ان کی زبان سیکھو ان کو تبلیغ کر واصل تو نجی کے جزائر جو ہیں وہ نجی کے رہنے والوں کے ہیں نا.باقی تو باہر سے گئے ہیں آباد ہو گئے جس دن ان کو غصہ آ گیا وہ باہر بھی نکال سکتے ہیں.انہیں احمدی کرو تو وہ اس سال خدا سے فضل سے متعدد جین احمدی ہو چکے ہیں.عیسائیت یا بت پرستی سے.زیادہ تر عیسائی بنے ہوئے ہیں وہاں.تو یہ ایک نئی چیز اوپر آ گئی ناں.ایک نیا میدان.ایک نیا فرنٹیئر ہمارے لئے کھل گیا ترقی کا انشاء اللہ.اور اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے گا اور ایسے لوگ اگر وہ توجہ کریں تو جلد ہی اسلام کو قبول کر کے ( کیونکہ بڑاحسن ہے بڑا احسان ہے اسلام میں ) اور یہ رزسٹ (Resist) نہیں کر سکتے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے جس طرح اس جلسہ میں پاکستان کے ایک علاقہ سے دوسو ( پاکستان کا علاقہ ہے اس واسطے وہ اکتیس ملکوں میں شامل نہیں ہوگا ) دو سوا چھوت نو مسلم احمدی بھی بیٹھے ہیں آپ کے اندر.باوجود اس کے کہ وہاں کے امراء اس علاقہ کے جو ان کو غلام سمجھ کے ان سے کام لیتے تھے وہی روکیں ڈال رہے ہیں کہ غلامی سے آزادی مل رہی ہے ہمارے کام کے نہیں رہیں گے لیکن وہاں ایک رو پیدا ہوگئی ہے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان مظلوموں کو جلد نجات دلائے اس ظلم سے.
خطابات ناصر جلد دوم ۲۵۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اور اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں کے اندر وہ اپنی زندگیاں گزاریں ہر سال ہمارا تربیتی اور اصلاحی کام دنیا میں بحیثیت دنیا آگے بڑھ رہا ہے.اور اس وقت میں چونکہ تحریک جدید کی بات کر رہا ہوں یہ میرا فقرہ جو ہے وہ بیرون پاکستان کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے.لیکن خاص طور پر ایک تو منجی آئی لینڈ جس کا میں نے ذکر کیا وہاں ایک نئی سرحد ہم نے پار کی ہے پھلانگ گئے ہیں.وہ سرحد وہاں کے مقامی لوگوں کے اور ہمارے درمیان حائل تھی پہلے ان سے رابطے نہیں تھے.اور بڑے غور سے سنے لگ گئے ہیں گاؤں کے گاؤں ایسے ہیں جہاں مبلغ جاتا ہے تو سارا گاؤں اکٹھا ہو کے اسلام کی خوبیوں کا لیکچر سنتا ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ آئیں گے.کیونکہ اپنی دنیا بدل دینا، زندگی میں انقلاب بپا کر دینا، بڑی ہمت کا کام ہے.اور انگلستان ہے انگلستان میں کام بعض لحاظ سے بہت اچھا ہو رہا ہے بعض لحاظ سے سستی بھی ہے لیکن وہ جماعت ایک تو بڑی مضبوط ہوگئی کچھ افریقہ کے احمدی وہاں آ کے لیے اور کچھ یہاں سے جاکے لیے وہاں کے اپنے تو انگلستان میں بسنے والے تعداد کے لحاظ سے بڑے تھوڑے ہیں لیکن بڑے مخلص مثلاً وہ آرچرڈ ہیں ہمارے مبلغ بن گئے فوج سے ریٹائر ہو گے.یہ بھی ایک انقلاب ہے اس تحریک کا.تو وہ بڑا کام کر رہا ہے اس نے سکاٹ لینڈ کو سنبھالا ہوا ہے تبلیغ کے لحاظ سے اور تعلیم اور سیکھ رہے ہیں لیکن کتابوں کی اشاعت اور مذہبی آزادی اور بہت دوسری آزادیاں ابھی اس ملک میں میسر ہیں ہمیں.مثلاً کتابیں شائع کر کے غیر ممالک میں بھیج دینا.بعض ممالک تو پابندی لگا دیتے ہیں ناں کہ اس طرح بھی ہمارے پیسے خرچ ہوتے ہیں کہ تم غیر ممالک کے لئے کتب شائع کرتے ہو اور ہماری دولت جو ہے ان کتب پر جنہوں نے باہر جانا، بند کر دو.لیکن انگلستان اور امریکہ میں ابھی نہیں اور انگلستان میں یہ کوشش ہے کہ ہم وہ کر لیں.اس کا تعلق تو ویسے صد سالہ جو بلی کے ساتھ ہے لیکن اب میں یہیں بیان کر دوں.کوشش ہم یہ کر رہے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ بڑی جلدی.سال دو سال لگ جائیں اا کاموں میں تو کوئی ایسی دیر نہیں ہوتی بڑی جلدی امریکہ اور انگلستان میں اپنے پر لیس لگا دیئے جائیں.اس سے پہلے ایک اور کوشش ہے وہ کر رہے ہیں دنیا میں بعض ممالک میں سپیشلائز کر دیا ہے.یعنی انہوں نے مہارت حاصل کی ہے اور مہارت کے نتیجے میں سستی چھپائی کر دی ہے.تو دو ایسے ملکوں کا ہمیں پتا لگا ہے جہاں پاکستان سے بھی زیادہ ستی کتابیں شائع ہوسکتی ہیں اور
خطابات ناصر جلد دوم ۲۵۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء انگلستان سے بھی.تو کوشش یہ کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی تعلق ہو جائے ہمارا.اور پھر وہاں سے کتابیں شائع کر کے تو اس کو مرکز بنایا جائے.اور وہاں سے وہ دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف زبانوں میں جہاں انگریزی بولنے والے جو ملک ہیں مختلف وہاں ان کو بھیجا جائے.یہ نمبر ایک ہے کہ جو موجود ہیں دنیا کے پریس ان کو اسلام کی خدمت میں لگانے کی کوشش کی جائے.اسلام کے قرآن کریم کے تراجم اور دوسری کتب شائع کی جائیں اور دوسرے امریکہ میں جو اصل اور انگلستان میں پریس لگانے کی سکیم ہے انشاء اللہ ابھی جو وفد آیا ہے امریکہ سے وہ سارا لٹریچر، میں نے ان کو ہدایت کی تھی.پچھلے سال ساتھ لے کے آئے تھے قیمتیں پریس کی ، اور جگہ کہاں ہو اور کیسی عمارت چاہئے وغیرہ وغیرہ.ابتداء تو تھوڑی چیز سے کرنی چاہئے کیونکہ بتدریج ایک نظام کائنات میں چل رہا ہے سال دو سال کے بعد جب تجربہ ہو جائے پھر بڑے پریس بھی آجائیں گے.کام بڑھ جائے گا.مشورہ ان سے کر لیا ہے انشاء اللہ وہ کام بڑی جلدی شروع ہو جائے گا.چھوٹا ،لیکن بڑے پیمانے پر دو چار سال کے اندر شروع ہو جائے گا.اصل تو میں نے امریکہ کو کہا تھا میرے دل میں تڑپ ہے اور آپ کے دل میں بھی اگر یہ تڑپ پیدا ہو جائے اور سارے مل کے دعا کریں تو شاید بڑی جلدی ہم اس میں کامیاب ہو جائیں کہ پہلے مرحلے پر دس لاکھ ، ایک ملین قرآن کریم کے تراجم امریکہ میں تقسیم کئے جائیں اور وہ سوچ بھی رہے ہیں سکیم بھی بنارہے ہیں اور یہ کوئی ایسی مشکل بات نہیں کیونکہ ہم نے جو اندازہ پچھلے سال لگایا تھا کہ امریکہ میں سارے امریکہ میں چھوٹی اور بڑی لائبریریاں وہاں ہر سٹریٹ میں ، ہر گلی میں، چھوٹی سی لائبریری ہوتی ہے.اور شہر میں بڑی لائبریری بھی ہے تو وہاں کی میرے خیال میں چھوٹی بڑی ۶۰ لاکھ سے زیادہ ہیں اور اگر فی لائبریری ایک قرآن کریم کا ایک ترجمہ بھی ہم شروع میں رکھنے کی کوشش کریں ہمت کرنی پڑے گی وقت دینا پڑے گا زور لگانا پڑے گا.دوسرے کو قائل کرنا پڑے گا کہ پیسہ خرچ کرو اور خرید کے دس لاکھ قرآن رکھ لیں.تو ہم ہیں لاکھ قرآن، مزید قرآن اسی پیسے سے بھی شائع کرنے کے قابل ہو جائیں گے تو خدا کرے کہ جلد ایسا ہو جائے.مغربی افریقہ میں اسلام کی روکافی تیز ہو گئی ہے لیکن بعض اقتصادی الجھنیں ان ملکوں میں ایسی پیدا ہو رہی ہیں جو ہوسکتا ہے کہ ہمارے رستے میں کچھ روک پیدا کریں یا ہو سکتا ہے کہ نہ کریں واللہ اعلم.بہر حال ان ملکوں کے
خطابات ناصر جلد دوم ۲۵۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء لئے یہ دعا کریں.غانا کے ایک آئے ہوئے ہیں ہمارے احمدی دوست حسن عطا صاحب یہاں بیٹھے ہوں گے بڑے بوڑھے بزرگ ہیں ہمارے پرانے احمدی، ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے مجھے کہنے لگے ہمارے ملک کی حالت بڑی خراب ہے ملک کے لئے دعا کریں.تو ہم سب کو ان کے ملک کے لئے بھی دعا کرنی چاہیئے.جیسا کہ ہم دنیا کے ہر ملک کے لئے دعا کرتے ہیں اور ہر انسان کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وہاں کی اقتصادی جو تنگیاں اور ترشیاں ہیں وہ دور کر دے اور خوشحالی کے ان کے وہاں سامان پیدا کرے اور ہمارے لئے بھی دین اسلام کو زیادہ پھیلانے کے وہاں سامان پیدا کرے وہاں مغربی افریقہ میں جو تیزی اور شدت پیدا ہوئی ہے ہماری اصلاحی اور تربیتی کاموں میں، اس کا بہت بڑا تعلق نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے ساتھ ہے وہ علیحدہ عنوان ہے اس میں میں زیادہ تفصیل سے بتاؤں گا آپ کو.مہنگائی، مہنگائی صرف غانا یانا یجیریا میں نہیں ہمارے ہاں بھی ہے وہاں بعض لحاظ سے تو ہم سے زیادہ ہے کیونکہ غانا سے مجھے ایک دوست نے لکھا کہ اچھی چائے ایک پاؤنڈ ، ہمارے ملک کے لحاظ سے ستر روپے میں ملتی.ہے.ستر روپے کا ایک پاؤنڈ.بڑی مہنگائی ہے اور بڑی تکلیف میں ہیں وہ لوگ.یہ ٹھیک ہے کہ ان کی تنخواہیں ہمارے مقابلے میں زیادہ ہیں لیکن یہ قیمتیں بھی بڑی زیادہ ہیں.گوشت بڑا مہنگا، انڈے بڑے مہنگے ، کپڑے بڑے مہنگے بڑی تکلیف میں ہیں.ویسے پیسہ بھی زیادہ ہے اور وہ تنخواہوں کی شکل میں لوگوں کومل بھی جاتا ہے.اتنی تنگی نہیں جتنی ستر روپے سُن کے آدمی محسوس کرتا ہے.ہمارے ملک میں بھی بڑی مہنگائی ہے اور اس کی ذمہ واری غلط اور غیر اسلامی اقتصادی منصوبوں کے اوپر ہے.اتنا فقرہ میرے خیال میں تنقید کا کافی ہے ہمارے ملک کی جو مہنگائی ہے اس کی ذمہ واری غلط غیر اسلامی اقتصادی منصوبوں پر ہے اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا کرے اور ہم اسلامی تعلیم کے مطابق اپنے منصوبے بنا کر اپنے عوام کی خوشحالی کے سامان پیدا کرسکیں.اس مہنگائی کا اثر ایک تو مرکز میں یا مرکز سے وابستہ کارکن جو ہیں ، یہ جو نہیں بھی واقف وہ بھی وقف کی طرح اپنی زندگی گزار رہے ہیں ان پہ بھی فرق پڑتا ہے اس واسطے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید اور تحریک وقف جدید انہوں نے اپنے کارکنوں کے لئے اور خلافت نے غیر کارکنوں کی امداد کے لئے کچھ منصوبے بنائے ہوئے ہیں ان کی تفصیل میں اس وقت میں نہیں جاتا
خطابات ناصر جلد دوم ۲۶۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء کوئی فائدہ نہیں لیکن یہ جو ساری کوشش ہے کہ کسی طرح اقتصادی تکلیف کو مہنگائی کے نتیجہ میں جو پیدا ہوتی ہے اسے دور کیا جائے اس کے اوپر مجموعی طور پر جو سال نو میں جو بجٹ رکھا ہوا ہے جس کا اکثر حصہ خرچ ہو چکا ہے یہ دس لاکھ چودہ ہزار تین سو باون روپے ہے.یعنی امداد کارکنان و غیر کارکنان یہ کچھ حصہ اس کا وظائف پر ہے، کچھ بیواؤں پر ہے، کچھ یتامی پر ہے، کچھ زیادہ جن کے بچے ہیں اور آمد کم ہے ان کی بھوک دور کرنے کے لئے ہے.کارکنوں کو سردی میں بڑی تکلیف ہوتی ہے وہ تھوڑی سی مدد یہ کرتے ہیں مثلاً سردی کی.ایک تو گندم کی ایک چوتھائی مفت ہر سال کی ضرورت ہر خاندان کی ، خاندان کی ضرورت کا رکن کی نہیں ، ہر کارکن کے پورے خاندان کی خواہ وہ دس افراد پر مشتمل ہو ایک چوتھائی ضرورت مفت اور باقی قرضہ اس کو دیا جاتا ہے تا کہ ستے زمانے میں وہ گندم خرید لے.دس لاکھ چودہ ہزار روپیہ کچھ سو یہ دی جاتی ہے اور موسم سرما کی میں بتا رہا تھا اگر دومیاں بیوی اور چھ بچے ہیں تو آٹھ افراد ہو گئے ناں تو پچاس روپے فی فرد چار سو روپیہ اس خاندان کو سردیوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دے دیتے ہیں علاوہ تنخواہ کے اور علاوہ گندم کی امداد کے یہ بعض جو چھوٹی تنخواہ والے وہ تقریبا دو مہینے کی بن جاتی ہے ان کی تنخواہ.اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن: عرصہ زیر رپورٹ میں ایک ہزار پانچ سو ایک واقفین اور واقفات نے وقف عارضی کے تحت کام کیا، یہ وقف عارضی کی سکیم میں نے شروع کی تھی اور بڑی مفید ہے اور اس وقت تک جو پھیلا ہوا زمانہ ہے سارے سالوں کی طرح جمع کی جائے تو یہ چونتیس ہزار فردیعنی اگر کوئی چار دفعہ گیا تو وہ چار دفعہ ہی شمار ہوئے ہیں ایک دفعہ نہیں شمار ہوا تو چونتیس ہزار افراد نے اس زمانے میں یہ کام کیا ہے.اس کا ڈبل فائدہ ، اس کے دو فائدے ہمیں پہنچے ایک اجتماعی اور ایک انفرادی.انفرادی واقف کو پہنچا کہ اس کو جب وہ باہر جاتا ہے ناں ایک آدمی، پندرہ دن اس نے رہنا ہے وہ تو اس کی تربیت کے لئے آپ کھانا پکاؤ ان کے اوپر بوجھ نہ بنوکسی کے ہاں سے دعوت بھی نہ کھاؤ وغیرہ وغیرہ یہ شرائط ہیں لیکن باہر جانے سے پہلے جب وہ وقف کرتا ہے، دو مہینے بعد اس نے جانا ہے وہاں، وہ یہ سوچتا ہے کہ جب میں وہاں جاؤں گا تو علمی لحاظ سے ان کے سوالات کے جواب دینے کے لئے مجھے تیار ہونا چاہیئے اس واسطے دو مہینے وہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطابات ناصر جلد دوم ۲۶۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اور دوسرا لٹریچر پڑھتا ہے یہ بڑا فائدہ ہو جاتا ہے پھر ہر احمدی خدا تعالیٰ سے تھوڑایا بہت اپنی اپنی ہمت اور استعداد کے مطابق تعلق رکھنے والا ہے وہ یہ سوچتا ہے کہ میرے اندر بڑی کمزوریاں ہیں اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر میں کوئی کام نہیں کر سکتا دعاؤں میں لگ جاتا ہے اور بڑے لوگوں نے اس سلسلے میں دعائیں کیں اور بڑے فوائد حاصل کئے خود بھی اور دوسروں کو بھی فوائد پہنچائے اور اس کا علم بڑھ گیا اور اس کو دعا کا زیادہ موقع مل گیا اللہ تعالیٰ کی زیادہ برکتیں اس نے حاصل کر لیں ان دعاؤں کے نتیجے میں اور اس جماعت کو جب باہر سے آدمی آیا تو وہ ویسے ہی اس آدمی کا پہنچنا ہی ان کے اندر ایک زندگی اور حرکت پیدا کر دیتا ہے.باہر سے آیا ہے کیا اثر لے کر جائے گا.ہم نمازوں میں سست ہیں ہم آپس میں لڑتے ہیں وغیرہ وغیرہ یعنی ساری جو چیزیں ہیں ان کے سامنے آ جاتی ہیں نمایاں ہو کے پھر وہ تیار ہوتے ہیں اپنی اصلاح کی طرف اور یہ آدمی بھی ان کے ساتھ بھائی بھائی کی طرح تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقوى (المائدة: ۳) کے ماتحت تعاون کرتا ہے اور ان کی اصلاح کرتا ہے بڑا فائدہ ہوا ہے جماعتوں کو لیکن جتنی جماعتیں ہیں ہماری خدا کے فضل سے اتنا بڑا ملک ہے یہ تعداد ان کے لئے کافی نہیں ہے.اس لئے جو دوست اس طرف پہلے توجہ نہیں کر سکے ان کو میں یہ کہوں گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس طرف توجہ کریں پندرہ دن کے لئے جانا ہوتا ہے باامر مجبوری ہم استثنائی طور پر ایک ہفتے کی بھی اجازت دیتے ہیں لیکن اصل وقف جو ہے وہ پندرہ دن کا ہے تو نوجوان ہیں طالب علم ، ان کو نکلنا چاہئے باہر ، ان کو چھٹیاں مل جاتی ہیں دو ہفتے سے زیادہ کی.ان میں سے دو ہفتے ادھر لگا دیں.ایک تحریک شروع کی گئی تھی تعلیم القرآن کی اس میں ایک دلچسپ چیز نظر آئی گزشتہ جو کلاس ہوئی ہے ناں بڑی خوشکن بھی ہے اور ایک پہلو سے تھوڑا سا افسوس بھی ہوا.جو کلاس یہاں آئی کلاس میں بچیاں بھی ہماری آتی ہیں.وہ لجنہ انتظام کرتی ہے ان کی رہائش وغیرہ نگرانی کا اور بچے بھی آتے ہیں نظارت انتظام کرتی ہے ان کا ، پھر اس کلاس میں علمی جو ڈگری ہے اس لحاظ سے اکیس طلباءصرف صرف اکیس طلباء بی اے یا بی اے سے زیادہ تھے، اس بی اے یا بی اے سے زیادہ کی قابلیت کے.اور ان کے مقابلے میں، اس اکیس کے مقابلہ میں ایک سو سولہ طالبات بی اے یا بی اے سے زیادہ علم رکھنے والی تھیں.تو بڑی خوشی کی بات ہے دو خوشیاں ہیں ایک تو ہماری بچی جو ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۲۶۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اس کو علم کا شوق ہے اور دوسرے اس علم کے ساتھ اس کو یہ شوق بھی ہے کہ جب دینی تعلیم کے حصول کے مواقع اسے میسر آئے تو وہ ان سے فائدہ حاصل کرے.لیکن لڑکے ہو سکتا ہے ان کے حالات مختلف ہیں کسی کو نوکری مل گئی وہاں چلا گیا کسی کو نوکری کی تیاری کے لئے وقت دینا پڑا وغیرہ وغیرہ لیکن فرق یہ اتنا ہے کہ میں جماعت کے بی.اے کے احمدی طالب علموں کو کہوں گا کہ تمہاری جگہ مجھے بڑی شرم آئی، تو اس شرم میں تھوڑا سا تم بھی شریک ہو جاؤ اور اگلی دفعہ زیادہ آنا.یہ جو تعلیم القرآن ہے ناں یہ تو ہماری جان ہے قرآن کریم سیکھنا اور پھر اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنا لیکن پہلا قدم تو سیکھنے کا ہے ناں.اس لئے یہ میری تجاویز ہیں اور نظارت اس کی طرف توجہ کرے اور افراد جماعت بھی اور جماعتوں کا نظام بھی کہ ہر جماعت میں تعلیم القرآن کے کام کی نگرانی کے لئے ایک انتظامیہ کمیٹی بنادی جائے اور بہتر یہ ہوگا کہ اس میں جو عہد یدار ہیں منتخب یا دوسرے مستقل کام کرنے والے وہ کم ہوں اور جو غیر عہدیدار ہیں محلے محلے میں وہ زیادہ ہوں تا کہ وہ رضا کارانہ طور پر اس طرف زیادہ وقت دے کے اور کام کی طرف توجہ دیں اور یہ انتظامیہ کمیٹی جو ہے یہ کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم وقت میں قرآن کریم کا ترجمہ سکھنے کا انتظام بھی ہو اور جماعت قرآن کریم کا ترجمہ سیکھ بھی جائے عملاً.دوسرے اس سلسلے میں وہ یہ کام کریں کہ جو یک ایک پارہ حفظ کرنے کی تحریک ہے اور اس میں نوجوان اور بڑے سارے بیچ میں حصہ لے سکتے ہیں کوئی ایسی بات نہیں توجہ کی بات ہے نہ کوئی وقت خرچ ہوتا ہے نہ پیسہ مفت کا ثواب ہے قرآن کریم کی برکتیں ملتی ہیں ایک پارہ حفظ کر لینا کوئی ایسی بات نہیں ہے آخر وہ بھی تو ہیں جو تمھیں تمہیں پارے حفظ کر کے پھر رہے ہیں آپ کی طرح آپ پہچانتے بھی نہیں ہوں گے ان کو ، کوئی ان کو نقصان تو نہیں پہنچا.تو شاید چہرے پر نور زیادہ آ گیا ہو لیکن نقصان بہر حال کوئی نہیں پہنچا اس میں حصہ دار بنیں.ایک اسی تعلیم القرآن کے اندر ہی آتا ہے، تحریک وقف بعد از ریٹائرمنٹ ایک سو پچپن مختلف کام کرنے والوں نے اس تحریک میں اپنے آپ کو پیش کیا ہے لیکن جو انتظام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ جو بعد از ریٹائرمنٹ خود کو وقف کرتا ہے وہ سارا عرصہ پھر خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کرے تا کہ جس قسم کا ہم اس سے کام لینا چاہیں اس کا اہل بھی ہو یہ تو نہیں کہ کہے جی
خطابات ناصر جلد دوم ۲۶۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء میں اپنا دایاں ہاتھ سلسلے کے کام کے لئے دیتا ہوں اور جا کے دایاں ہاتھ دس ہزار روپے میں بیچ آ.کسی کے پاس.تو ہا تھ ہو گا ہی نہیں تو کام کیسے کرے گا.تو جب تک وہ قرآن کریم کی تفسیر نہیں جانتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری تحریرات قرآن کریم کی تفسیر ہیں نہ کم نہ زیادہ نہ اس سے مختلف، زیادہ مختلف ایک ہی ہے ذرا پہلو مختلف ہیں کیونکہ قرآن کریم کے نزول کے بعد ، وحی قرآن کے نزول کے بعد اب کسی ہدایت کی ضرورت نہیں رہی نہ تھوڑی نہ بہت اور قرآن کریم الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى ( المايدة :۴) خدا تعالیٰ نے ایک کامل مکمل شریعت کو ہمارے ہاتھ میں دے کر اپنی نعمتوں کو انتہا تک پہنچا دیا تو کوئی چیز قرآن سے باہر نہیں قرآن کی تفسیر ہے قرآن کی تفسیر خود قرآن کے مطابق زمانوں زمانوں میں بدلتی جائے گی بدلتی اس معنی میں نہیں کہ اختلاف ہوگا پہلی کے ساتھ بلکہ اس معنی میں کہ جو مسائل اس زمانہ کے ہوں گے اور پہلے زمانوں کے وہ مسائل نہ ہونے کی وجہ سے پہلے زمانوں کے خدا رسیدہ بزرگ اولیاء کو وہ تفسیر نہیں سکھائی گئی ہوگی وہ خدا تعالیٰ اس زمانے میں ایسے مقربین پیدا کرے گا مطہرین جن کو وہ خود معلم بن کر قرآن کریم سکھائے گا اور دنیا کی ہدایت کے سامان پیدا کرے گا.تو اصل قرآن کریم ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سوائے قرآن کے اور کسی چیز کی بات ہی نہیں کی.یا قرآن کریم کی اس تفسیر کی آپ نے بات کی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی کی ہے.آپ نے فرمایا ہے کوئی کچی حدیث ایسی نہیں جو قرآن پر کچھ زائد کرتی ہو یا اس سے کچھ کم کرتی ہو.قرآن کریم کی تفسیر ہے جو قرآن کے مخالف حدیث ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکل ہی نہیں سکتی کیونکہ آپ مورد وحی قرآنی تھے اور آپ کو خدا تعالیٰ خود قران کریم کے علوم سکھاتا تھا قرآن کریم کے خلاف آپ کیسے بات کر سکتے تھے.تو تحریک وقف بعد از ریٹائر منٹ کے متعلق یہ جو تعلیم القرآن انتظامیہ کمیٹی مختلف جماعتوں میں بنے وہ ان پر نگاہ رکھیں ، ان کو مشورے دیں ان سے رپورٹیں لیں مرکز سے مشورہ کر کے رپورٹیں لیں اور ان کو تیار کریں کہ جب یہ ریٹائر ہوں تو خدا اور اس کے رسول کے کسی کام آ سکیں.فضل عمر فاؤنڈیشن: اب میں فضل عمر فاؤنڈیشن اور نصرت جہاں اور صد سالہ جوبلی کے
خطابات ناصر جلد دوم ۲۶۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء متعلق کچھ کہوں گا اس سے پہلے قرآن کریم میں جو میں نے بتایا کہ تمام علوم کا حامل ہے اور ہر معاملہ اور مسئلہ جو ہے اس کے متعلق بنیادی طور پر روشنی ڈالتا ہے.قرآن کریم نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ایسے انسان بھی دنیا میں بستے ہیں کہ جو مومن خوشی اور بشاشت سے اپنے مالوں کو بڑھ بڑھ کر خدا کی راہ میں پیش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو مال دیئے ہیں اور وہ خدا کی راہ میں پیش کرتے ہیں بڑا اخلاص ہے ان میں ، اور ایسے گروہ ہیں جو ایسے لوگوں پہ بھی طنز کرتے ہیں، ریا ہے یا دنیا کو دکھانے کے لئے ہے یا یہ ہے یا مال حلال نہیں ہے اس کے پاس اس واسطے یہ دے رہا ہے یعنی ہزار قسم کی غلط باتیں طنز کرتے ہیں اور اپنے پاس مال ہونے کے باوجود خدا کی راہ میں پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَوَّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِى الصَّدَقَتِ (الثوبة : ٧٩) تو ایسے گروہ بھی ہیں ایسی جماعتیں بھی ہیں دنیا میں جو ان مومنوں پر جو خوشی سے بڑھ بڑھ کر صدقہ دینے اور خدا کی راہ میں اور اس کی رضا کے حصول کے لئے قربانیاں دیتے ہیں وہ ان پر طنز کرتے ہیں اور وہ طنزان پر بھی کرتے ہیں اسی وقت میں کہ جن کے پاس پیسہ کوئی نہیں ہوتا اور وہ دیتے نہیں ایک کو کہتے ہیں کہ اس نے دیا لیکن خدا کی رضا کے لئے نہیں دیا اور دوسرے کو کہتے ہیں کہ اس کو دینا چاہئے بڑھ تھا اس کے پاس تھا اور اس نے دیا نہیں حالانکہ جو اس کے پاس تھا وہ اس نے دے دیا اور زیادہ وہ دے ہی نہیں سکتا تھا.تو کہیں سنا کرتے تھے بچپن میں تفصیل تو مجھے نہیں اس وقت ذہن میں حاضر کہ کوئی ہے حضرت یوسف کو خریدنے کے لئے ایک روٹی کا کالا لے گئی تھی اور اب اس بیچاری کو حضرت یوسف تو نہیں مل سکتے تھے لیکن ہمارا خدا بڑی عظمتوں والا ہے اس شخص کو بھی جو خدا کے حضور ایک دھیلا دے سکتا تھا اور وہ دھیلا پیش کر دیا خدا مل جاتا ہے.تو یہ مہنگے سو دے نہیں ہیں اور پھر خدا تعالیٰ جو مال لیتا ہے بندے سے اس میں اپنی برکت کا اتنا حصہ ڈالتا ہے کہ انسان کی عقل خدا کی برکت کے نتیجہ میں جو مالوں میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور جو پھر مال میں آگے برکت پیدا ہوتی ہے نتیجہ نکالنے کے لحاظ سے وہ انسان کی عقل بتا ہی نہیں سکتی کہ ایسا کیوں ہو گیا جیسا کہ ابھی بعض مثالیں میں آپ کو دوں گا.
خطابات ناصر جلد دوم ۲۶۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء فضل عمر فاؤنڈیشن یہ ۱۹۶۵ء میں شروع کی تین سال کے لئے اور ایک کمیٹی اس وقت بنا دی گئی تھی جو منتظم تھی کمیٹی اور وہ بہت ساری دیکھ بھال اور روپیہ لگانا اور ان کا منصوبہ یہ تھا کہ جو آمد ہو اپنے منافع سے خدا کے جو دین کی ضرورتیں ہیں وہ پورا کریں گے خدا کے دین کی ضرورتیں تو بے شمار ہیں جو انہوں نے اپنے لئے منتخب کیں وہ ایک تو یہ کہ جماعت کو جو ایسی تعمیری ضروریات ہیں کہ جس پر جماعت اس وقت پیسے نہیں خرچ کر سکتی اس وقت کا لفظ میں نے جان کے لگایا ہے کیونکہ اب تو حالات بہت زیادہ بدل گئے ہیں کہ جن پر جماعت اس وقت پیسے خرچ نہیں کر سکتی تھی یہ آئیں اور خدا توفیق دے اور ان کی انوسٹمنٹ میں جو نفع کے لئے لگا ئیں پیسہ مختلف کمپنیوں میں حصے خرید کر اس میں برکت پیدا ہو تو یہ عمارتیں بنا کے دے دیں.چنانچہ فضل عمر فاؤ نڈیشن نے ایک تو پہلے تو اپنی ضرورت پوری کی کہ اپنے دفتر کی عمارت بنائی پھر جماعت کی ضرورت پوری کی کہ خلافت لائبریری کی عمارت جو یہ خوبصورت عمارت ہے جو چھوٹی ہو چکی ہے اس وقت وہ بنائی لیکن اس وقت ہم سمجھتے تھے کہ یہ اتنی بڑی عمارت پتہ نہیں کس کے کام آئے گی ہمارا خیال تھا کہ یہ بہت بڑی ہے لیکن اب ہمیں پتہ لگا کہ یہ کم ہے ایک اور اس کے ساتھ جماعت بنانا چاہتی ہے ایک بلڈنگ اور پہلے اپنی عمارت بنائی پھر جماعت احمدیہ کے لئے خلافت لائبریری کی عمارت بنائی پھر یہ جو بین الاقوامی مہمان ہیں ہمارے یہاں آ رہے غیر ممالک کے وفود کی شکل میں ان کے لئے ایک گیسٹ ہاؤس خاصا بڑا جو اس وقت ان کے معیار کے مطابق، ان کی عادات کے مطابق پچاس آدمی مہمان جو ہیں وہ رکھ سکتا ہے.جیسے ہمارے لحاظ سے تو شاید پانچ سو بھی رہ جائے.یعنی اگر پرالی بچھا کے ان کو سلا دیں.ویسے یہ ہے کہ یہ حس پیدا ہوگئی ہے ان میں بعض شکوہ کرتے ہیں کہ ہم سے یہ سلوک کیوں کیا جاتا ہے کہ ہمیں چار پائی دی جاتی ہے یہاں ہر دوسرا مہمان پرالی کے اوپر سویا ہوا ہے.ہم بھی سونے کے لئے تیار ہیں.تو انشاء اللہ ان کو سلائیں گے کسی وقت پر الی پر بھی ، ان کی تعداد تو بڑھ ہی رہی ہے گیسٹ ہاؤس نے تو کافی نہیں رہنا.دوسرے فضل عمر فاؤنڈیشن نے تحقیقی میدان میں علمی میدان میں علمی انعامی مقابلے کا منصوبہ بنایا اور اس کی تحریک کی اور ابھی تک پندرہ مقالے، مقالے تو بہت آئے ہیں ان کے پاس پندرہ مقالے انعام کے مستحق قرار دیے جاچکے ہیں.پہلے ایک ہزار روپیہ انعام رکھا تھا اور اب ڈیڑھ ہزار کر دیا
خطابات ناصر جلد دوم ۲۶۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ہے اس وقت تک ساڑھے سترہ ہزار روپے خرچ کئے ہیں.پھر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کے خطبات و تقاریر کو جمع کر کے شائع کر دیں اس وقت تک خطبات عیدین یعنی چھوٹی اور بڑی عید کے خطبات علیحدہ علیحدہ دو جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں.خطبات نکاح کا مسودہ تیار ہو چکا ہے اور کہتے ہیں کہ اس میں عید کے خطبات حضرت فضل عمر رضی اللہ کے اور وہ ہمارے پاس پڑے ہوئے ہیں اور بکے نہیں میں کہتا ہوں کہ آپ تو وہاں لے کے نہیں گئے ورنہ وہ ہاتھوں ہاتھ بک جاتے.بہر حال وہ یہ کہتے ہیں کہ اب ہم انتظار کر رہے ہیں کہ خطبات نکاح کا مسودہ تیار ہے شائع اس وقت کریں گے جب جماعت خطبات عیدین خرید لے گی.خرید لیں آپ خطبات نکاح آپ کے کام آجائیں آپ کے نہیں تو آپ کی بچیوں اور بچوں کے کام آجائیں نکاح کے موقع پہ اور چوتھی چیز یہ کہ حضرت فضل عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح لکھی جائے پہلی جلد شائع ہو چکی ہے دوسری جلد کا مسودہ زیر تصنیف ہے میاں طاہر احمد صاحب اس کو تیار کر رہے ہیں.وقف جدید معلمین وقف جدید کی ضرورت بہت ہے.جماعتیں معلمین کے مطالبات کرتی ہیں.یعنی جو تھوڑی سی ملاقات اس وقت تک ہو چکی ہے اس ملاقات میں بھی بہت سی جماعتوں نے مجھے کہا کہ ہمیں معلم دیں ان کو تو میں نے بتا دیا کہ دفتر سے پتہ کریں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر دوسو جماعتوں میں معلم وقف جدید کی ضرورت ہو اور آپ صرف سو معلم دیں جماعت کو تو باقی ہم نے آٹے کی بوریاں بنا کے تو وہاں نہیں بھیجنی.معلم دیں گے آپ تو تیار کئے جائیں گے وہاں تب جاکے اور وہ کام کر سکیں گے اور اس طرح میں سمجھتا ہوں قصور وقف جدید کی انتظامیہ کا بھی ہے جو آپ کے اس حصے کے سامنے دیکھیں ناں جماعت کا ہر حصہ اس قابل نہیں ہے کہ جو معلم وقف جدید بن جائے بعض ایسے ہیں جو اپنے علم کے لحاظ سے معلم وقف جدید سے بہت آگے نکلے ہوئے ہیں.ایک ایم اے جو ہے وہ بطور معلم کے تو اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتا جبکہ اس کا معیار انہوں نے آٹھویں جماعت رکھا ہوا ہے اور کچھ وہ ہیں جو ان کے معیار سے کم ہیں چوتھی جماعت والا بھی نہیں کر سکتا تو ایک محدود حلقہ رہ گیا جنہوں نے آٹھویں جماعت پاس کی ہے اور وہ ذہین ہیں اور مخلص ہیں اور دین کی طرف ان کی توجہ ہے اور دینی علوم سیکھ سکتے ہیں یہ بڑا محدود دائرہ ہو گیا اس دائرے کو یہ سوچ کے کہ صرف یہ دائرہ ہے جس کو اپروچ (Approach) ہو سکتی ہے ان کو جاکے
خطابات ناصر جلد دوم ۲۶۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ضرورت بتائی نہیں گئی ورنہ ان میں سے سینکڑوں نکل آتے خدا کے فضل سے جو یہ کام کرتے.یہ جو دوسو ایک ہیں ناں ہمارے وہاں سے آئے ہوئے نو مسلم احمدی، ضلع تھر پارکر.آئے ہوئے اس علاقے میں جہاں سے وہ آئے ہیں مجھ سے غلط بات نکل گئی تھی وہ دوسو ایک ہیں لیکن سارے ابھی مسلمان نہیں ہوئے بہت ساری اکثریت ان میں مسلمانوں کی ہے (حضور نے اس کے متعلق دریافت فرمایا: اکثریت تو وہ ہیں ناں جو غیر مسلم ہیں حضور انور کے دریافت فرمانے پر جوا با عرض کیا گیا اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو تحقیق کرنے کے لئے یہاں آئے ہوئے ہیں.دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو بھی مسلمان کرے.وقف جدید اپنی ضرورت کے لئے کچھ لٹریچر تیار تو کرتی ہے یہ میں کمنٹری کر رہا ہوں اب لیکن اس میں وسعت کی ضرورت ہے.وقف جدید کے جو معلم ہیں ان کا دائرہ تبادلہ خیال کرنے کا جو ہے وہ اپنا ہے ایک، اور اس دائرے کی سمجھ کے مطابق اس معلم کے ہاتھ میں لٹریچر ہونا چاہئے مثلاً عام کتا ہیں ہم لیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کو ہی لیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو براہین احمدیہ کھی وہ اتنی دقیق ہے اور اس میں اتنی گہرائی ہے اور اس میں اتنی رفعت ہے اور اس میں اثر کے لحاظ سے اتنی وسعت ہے کہ مجھے یقین ہے کہ ایم.اے پاس بھی اکثر اس کو سمجھنے کے قابل نہیں ان کو پڑھانا پڑے گا تو اگر آپ وقف جدید کے معلم کو براہین احمدیہ دے کے کسی گاؤں میں بھیج دیں تربیت کرنے کے لئے احمدیوں کی وہ کر ہی نہیں سکتا وہ آپ ہی نہیں سمجھے گا ان کو کیا سمجھائے گا تو وقف جدید کے شعبے کے لئے ایک خاص قسم کا لٹریچر چاہئے جو اس دائرے میں ، حلقے میں کام کر سکے جس دائرے میں اس کا اٹھنا بیٹھنا، باتیں کرنا ہے اس میں وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے.ایک تحریک میں نے کی تھی اور وہ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے لئے بڑی اہم ہے اور وہ تھی رضا کار معلم.رضا کار معلم سے یہ مراد لی گئی تھی کہ باہر کی جماعتیں اپنے میں سے کسی سمجھدار لبھی ہوئی طبیعت کے آدمی کو دو ایک ماہ کے لئے دو ماہ میں کم از کم غالبا یا دو ماہ ہی ہیں دوماہ کے کورس کے لئے یہاں بھیج دیں اور وہ دوماہ میں بہت کچھ سیکھ جائیں گے سارا کچھ تو نہیں سیکھیں گے سارا کچھ تو کوئی آدمی بھی نہیں سیکھ سکتا قرآن کریم کے غیر متناہی علوم محدود
خطابات ناصر جلد دوم ۲۶۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء زندگی میں کون انسان سیکھتا ہے لیکن بہر حال تھوڑا بہت دو مہینے کم ہیں لیکن کچھ سیکھیں گے اور اپنی جماعت کی تربیت ان کی واقفیت کے لئے نماز کے ارکان ہی ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اپنا طریق تھا ناں وہ ضروری نہیں یعنی آگے فقہا نے وہ کیا ہے تھوڑا یا بہت وہ، آپ کا اپنا ایک طریق تھا وہ بڑا پیارا ہے وہ ان کو بتایا جائے اس طرح کریں اور مثلاً جہاں اونچی تلاوت کی جاتی ہے آپ نے دیکھا ہو گا کہ اکثر جوامام الصلوۃ ہیں وہ سورۃ الناس کی اگر تلاوت کی ہے تو والناس کے ساتھ ہی اللہ اکبر کر کے رکوع میں چلے جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ ایک چھوٹا سا وقفہ دیتے تھے اور پھر اللہ اکبر کہہ کے جاتے تھے بڑی باریکی ہے لیکن اس میں بڑی حکمت ہے اسی طرح اور بہت ساری باتیں ہیں غالباً بخاری میں کہیں ، مجھے یاد ہے پوری تفصیل سے آپ کی نماز کا نقشہ الفاظ میں کھینچا ہوا ہے.وہ ان کو دینا چاہئے ہمارے احمدی کی نماز اس طرح ہونی چاہئے جس طرح ہمارا محبوب نماز پڑھتا تھا صلی اللہ علیہ وسلم ، بہر حال ان کی ضرورت کے مطابق ان کو لٹریچر مہیا کیا جانا چاہئے اور رضا کار معلمین جو ہیں ان کو بھی اسی (میں بات کر رہا تھا لیکن میں واپس لوٹ گیا ہوں) ان کو بھی زیادہ تر اسی قسم کے لٹریچر کی ضرورت ہوگی دو مہینے کے لئے.اور پھر یہ ہے کہ مثلاً بہت سارے ایسے مسائل ہیں جن میں مختلف اسلامی فرقوں نے آپس میں اختلاف کیا ہے ہم نے بھی کیا تو ہمارا جو ہے عقیدہ اس کے حق میں ہمارے پاس سو دلیل ہے.دو مہینے میں ہر ایسی بات کی سود لیلیں تو ہم کسی کو نہیں دکھا سکتے تو جو وزنی اور زیادہ مضبوط دلیلیں اور عام فہم دلیلیں ہیں ان کا انتخاب کر کے ہم دو دلیلیں سمجھا دیں گے اور وہ ایسی دلیل ہو بنیادی جو توڑی نہ جا سکے اور عام فہم طریقے سے ہو تو پھر اگلا علاج آپ ہو جائے گا سوچنا پڑے گا کم از کم کہ کیا بات ہے بہر حال تو یہ جو ہے رضا کار معلمین دو مہینے کے قرآن کریم نے اس کی ضرورت کو واضح کر کے اس کا مطالبہ کیا ہے اور قرآن کریم کہتا ہے وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً (التوبة: ۱۲۲) یہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ لاہور کی ساری جماعت دین سیکھنے کے لئے ربوہ آجائے.میں نے یہ مثال دے کے ترجمہ کیا ہے کہ یہ تو نہیں ہوسکتا تھا کہ سارے کے سارے کسی ایک جگہ کے علم سیکھنے کی جگہ دین کا علم سیکھنے کے لئے آجائیں تو کیوں نہ یہ کیا گیا آسان طريق فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَابِفَةٌ (التوبۃ:۱۲۲) کہ ہر جگہ کے گروہ میں
خطابات ناصر جلد دوم ۲۶۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء سے ایک چھوٹی سی جماعت ایک دو آدمی آئیں وہ تفقہ فی الدین تا که تفقه في الدين حاصل کریں اور اپنی قوم کو جا کے پھر برائیوں سے روکنے والے ہوں اور نیکیوں کی طرف بلانے والے ہوں.اس آیت پر میں نے جو یہاں نوٹ کی اس کے لئے پھر اس نے میرے دماغ میں یہی تھا کہ میں نے رضا کار معلمین ہزاروں کے لئے بنایا تو میری توجہ ایک اور بڑے لطیف علم کی طرف جیسا بیان ہوا ہوگئی کہ اس آیت میں جس میں دین سیکھنے کی طرف بلایا گیا ہے، نہ ملکہ کا نام لیا گیا ہے دین سیکھنے کی جگہ کے طور پر نہ مدینہ کا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ مکہ اور مدینہ میں دین سیکھا نہیں جانا، یہ بنیادی گڑھ ہیں ، بنیادی مدارس ہیں بنیادی ماحول ہے دین کے سیکھنے کا اس میں کوئی شک نہیں مکہ اور مدینہ جو ہے وہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب اسلام پھیل جائے گا ساری دنیا میں تو اس قسم کے جو گروہ جنہوں نے دین سیکھنے کی خاطر تفقہ فی الدین کے حصول کے لئے ایسی جگہوں پر جانا ہوگا جہاں ان کو دین حاصل ہو جائے وہ مکے کے پیٹرن پر اس کی مثال کے طور پر بہت ساری جگہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے ایسے ہوں گے جو دین اسلام سکھانے والے ہوں اس واسطے وہ وہاں جائیں اس لئے کسی جگہ کا نام نہیں دیا گیا اور بتا دیا گیا کہ ایسی جگہ لاکھوں ہوسکتی ہیں کروڑوں ہوسکتی ہیں ایک وقت میں لیکن جہاں بھی موزوں جگہ اور قریب جگہ اور سہولت کی جگہ ہو کیونکہ اسلام نے کوئی سختی نہیں کی.وہاں تم جاؤ اور دین سیکھو یہ ضروری نہیں ہے کہ لاہور میں جاؤ ، ضروری نہیں ہے کہ سیالکوٹ میں جاؤ ، ضروری نہیں ہے کہ پنڈی میں جاؤ، ڈسکہ میں بھی ایسا ایک آدمی ہوسکتا ہے جو دین کی باتیں سکھا سکتا ہے وہاں جاؤ تو لیکن کچھ لوگ ہم سہولت کے ساتھ یہاں بھی بنا لیتے ہیں.مثلاً ہمارا مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ اب دونوں اکٹھے ہو گئے ہیں جامعہ احمدیہ کے نام سے موسوم ہوتے ہیں وہ یہاں ہے لیکن جو بڑھتی ہوئی ضروریات مغربی افریقہ کی تھی وہ سارے بچے یہاں آ کے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تھے ان کے لئے بھی دقت اور ہمارے لئے بھی دقت ، اس لئے وہاں کچھ مدارس ایسے کھول دیئے گئے ہیں جہاں وہ دین کی باتیں سیکھتے ہیں اور اسلام اور تربیت کا وہ کام کرتے ہیں تو یہ ہمیں سکھایا گیا ہے کہ یہ رستے کھلے ہیں مایوس نہ ہو جانا.نصرت جہاں ریز روفنڈ ، پانی گرم کرنے کے وہ ہیں حمام بنائے ہوئے گیزر سوئی گیس کے اس میں ایک چھوٹا سا شعلہ ہوتا ہے جو ہر وقت جلتا رہتا ہے اور وہ آٹو میٹک ہے جس وقت پانی ٹھنڈا
خطابات ناصر جلد دوم ۲۷۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ہو جائے ذرا، ایک خاص حرارت سے جس کو آدمی کنٹرول کر لیتا ہے تو پھر جو بڑا چولہا ہے وہ خود بخود آگ پکڑتا ہے اور بھڑ کنے لگ جاتا ہے.دین کے معاملے میں بھی بہت ساری ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں.نصرت جہاں کی جو سکیم ہے وہ اس چھوٹے برنر کی ہے جس نے بڑے چولہے کو ایک وقت میں گرمی پہنچا کے اور وہ روحانی طور پر ایک شعلہ دان ہو کے اور دنیا کی خیر خواہی کے سامان پیدا کر دیئے.۱۹۷۰ء میں میں نے یہ تحریک کی اور یہ تحریک کی میں نے پچیس لاکھ روپے کی ، اور کی الہی منشا کے مطابق اور میں نے یہ تحریک کی کہ یہ تین سال کے بعد ختم ہو جائے گی اس کے بعد اس تحریک میں دوستوں سے پیسے نہیں وصول کئے جائیں گے اور کچھ تحریکیں شروع ہو جائیں گی پھر اس کے لئے تیار ہو جاؤ.مگر اس میں نہیں دینے.دوستوں نے ہمت کر کے چھپیں لاکھ کی بجائے ترین لاکھ سرسٹھ ہزار سات سو تہتر رو پیدان تین سالوں میں اس میں جمع کر دیا.لیکن یہ رقم برنر کے طور پر جیسا کہ میں نے کہا ابھی میں بتاؤں گا کیوں میں اس کو برنر کے طور پر کہتا ہوں جو ہر وقت جلتا ہے اور وقت ضرورت چولہوں کو آگ لگا دیتا ہے اور سارا پانی جو ہے وہ گرم ہو جاتا ہے اور ضرورت پوری ہو جاتی ہے.پانی وہاں کا آہستہ آہستہ گرم ہونا شروع ہوا اور جو وعدہ ان سے کیا گیا تھا ان مغربی افریقہ کے ممالک سے اس ترتیب کے ساتھ تو اس کی شکل نہیں بنی لیکن وہاں کے حالات کے مطابق جو سولہ ہسپتالوں اور سولہ سکولوں کا وعدہ دیا گیا تھا وہ بجائے سات سال کے جس کا مجھے خیال تھا کہ سات سال لگ جائیں ہمیں پہلے تین سال کے اندراندرو خدا تعالیٰ نے وہ وعدہ پورا کرنے کی توفیق دے دی جماعت احمدیہ کو.اور جس وقت وہاں کی ضرورتیں بڑھیں اور جو پانی بہت بڑا حجم جس کا ہے وہ برنر اس کو گرم ہی نہیں کر سکتا اس کے لئے زیادہ آگ کی ضرورت پڑی گرمی پہنچانے کے لئے تو اس وقت جو وہاں کا برنر تھا ناں مقامی ، بڑا چولہا اس نے آگ لگائی اور کام ہونے لگ گیا جو یہ چھوٹا سا شعلہ تریپن لاکھ کا تھا اس نے اس عرصے میں چار کروڑ چھیالیس لاکھ روپیہ وہاں پیدا کیا.اور وہاں کے ہسپتالوں اور سکولوں کی ضرورتیں پوری کر دیں یہ ان کی اطلاع ہے بعض دفعہ نادان یہاں یونہی شور مچانا شروع کر دیتے ہیں بغیر سمجھے کے، ان ممالک کی یہ اطلاع ہے یہ ان کا روپیہ ہے اس میں نہ میرا دخل ہے نہ آپ کا دخل، ان کی اطلاع ہے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے اس سکیم کے ذریعہ
خطابات ناصر جلد دوم ۲۷۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء سے چار کروڑ چوالیس لاکھ اٹھتر ہزار تین سو اکیس روپے دے دیئے.اور ہم نے جو چھوٹے چھوٹے کلینک تھے ان میں سے بہتوں کو بڑی بڑی ہسپتال کی بلڈنگز میں منتقل ، کنورٹ کر دیا، تعمیر کر دیں بلڈنگز سکول بنا دیئے.تنخواہیں دیں، ہسپتالوں کی بھی ، استادوں کو بھی دیں سامان خریدا ہسپتالوں کا اور ان ملکوں کی خدمت خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے کرنے کی توفیق عطا کر دی.ثواب میں تو آپ پورے شریک ہو گئے ہیں، تھوڑی سی رقم دے کے اور ان رحمتوں میں پورے طور پر جو مقامی رحمتیں ہیں وہ تو انہی کی ہیں وہ نعمتیں جو ان کو ملی ہیں اور اسکے نتیجے میں صرف ایک حصہ میں لیتا ہوں ، اس کے نتیجہ میں جو صرف ہسپتال والا حصہ ہے سترہ لاکھ باون ہزار تین سو چھپن مریضوں کا علاج کیا گیا اور اللہ کے فضل سے سوائے بعض استثناؤں کے پندرہ ہزار چار سو سرسٹھ آپریشن خدا کے فضل سے کامیاب طور پر کئے گئے اور ان میں سے بعض بڑے الجھے ہوئے کیسز تھے.وہاں کے جو یورپ کے ڈاکٹر تھے وہ کہتے تھے کہ ہم اس مریض کو ہاتھ نہیں لگانے کے لئے تیار کیونکہ بہت بری حالت.تب پہلے ہمارے ڈاکٹر کو ہمارے سر جن کو اللہ تعالیٰ نے جرات عطا کی اور اس کے دل میں اپنا تو کل پیدا کیا اور دعا کی اس کو توفیق دی اور اس نے کہا جس کو یہ ہاتھ لگانے کے لئے تیار نہیں میں ہاتھ لگانے کے لئے تیار ہوں.ایک واقعہ یہ بھی ہوا کہ حکومت نے کہا ہم تمہیں ہاتھ لگانے نہیں دیں گے کیونکہ اتنے بڑے ماہر یورپ سے آئے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں ہاتھ لگا یا کسی نے اور یہ مر جائے گا تو ہم تمہیں اجازت نہیں دیں گے تو اس کے جو رشتہ دار عزیز تھے مریض کے انہوں نے شور مچا دیا انہوں نے کہا ہم غریب لوگ ہمیں ہمارے اس غریب بیمار کو حکومت اپنے خرچ پر یورپ علاج کے لئے بھیجنے کے لئے تیار نہیں اور یہاں ان سے علاج کروانے کے لئے ہمیں اجازت نہیں دیتی یہ کیا تماشہ بنایا ہوا ہے تم نے.چنانچہ شور مچا کے مجبور کیا حکومت کو کہ وہ اجازت دیں کہ احمدی ڈاکٹر سرجن جو ہے وہ اس کا آپریشن کرے اور فرشتوں کو کہا جاؤ اور اس کو صحت دے دو.وہ جس کو یعنی انہوں نے کہا تھا کہ صحت ہو ہی نہیں سکتی یہاں، علاج ہی نہیں ہو سکتا آپریشن ہی ناممکن ہے اس کو خدا تعالیٰ نے صحت دے دی.اور صحت مند ہو کے وہ چلا گیا اور کم و بیش دولاکھ مریضوں کا پورے طور پر مفت علاج کیا گیا وہاں کئی قسمیں بن گئی ہیں ایک وہ مریض ہے جو ایک دھیلا بھی نہیں خرچ
خطابات ناصر جلد دوم ۲۷۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء کر سکتا اس کا سارا علاج ، نہ ڈاکٹر فیس لیتا ہے نہ دوائی کی قیمت لیتا ہے نہ وہاں رہنے کا کوئی پیسہ لیتا ہے اگر وہ وہیں رہے پورا مفت علاج.ایک وہ ہے جو اپنی رہائش کا انتظام کرتا ہے لیکن فیس اور دوائی کے پیسے نہیں دیتا، ایک وہ ہے جو دوائی میں تھوڑے سے پیسے دے دیتا ہے ڈاکٹر کی فیس نہیں دیتا اور ایک وہ امیر ہے جب اس قسم کے آپریشن ہو گئے تو مقبولیت بہت بڑھ گئی ، بڑھنی چاہئے تھی وہ مقبولیت جب بڑھی تو امیر آ گیا.ڈاکٹر نے کہا، یعنی وہاں یہ واقعہ ہوا ہے کہ حکومت کا وزیر آیا تو وزیر تھا وہ پھلانگ کے سٹول لگا ہوا تھا مریضوں کا پھلانگا اور اس کے آفس میں آ گیا جہاں وہ دیکھ رہا تھا.ہمارے ڈاکٹر نے کہا کیو (Queu) میں کھڑے ہو جاؤ دیکھوں گا ورنہ نہیں دیکھوں گا میرے لئے سارے برابر ہیں.وزیر صاحب کو وہاں بھیج دیا وہاں جا کے کھڑے ہوں اپنی باری پہ آئیں اور پیسے دیئے انگلستان میں مثلاً دس ہزار روپیہ دے گا وہ انہوں نے کہا ہم تمہیں چار ہزار روپے دیتے ہیں آپ تو نہیں لینا ڈاکٹر نے غریب پر ہی خرچ کرنے ہیں یہ جو پیسے آئے ہیں ناں جو میں آپ کو بتا رہا ہوں یہ اس طرح آئے ہیں امیر سے خدا تعالیٰ نے چھین کر وہاں کے غریب کے لئے پیدا کر دیا وہ سامان کہ میں تمہارا علاج کرتا ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنایا ہے.اس نعمت عظمیٰ کا.اس کو میں کہتا ہوں بڑا چولہا جس نے یہ سامان پیدا کر دیئے ہمارا تو ایک چھوٹا سا ، تریپن لاکھ روپیہ دیا تھا اس میں اب بھی کئی لاکھ روپیہ یہاں اب بھی اس رقم میں سے بھی پڑا ہوا ہے.اور کئی لاکھ یورپ میں اور دوسرے ملکوں میں پڑا ہوا ہے سارا خرچ نہیں ہوا.لیکن خدا تعالیٰ نے اتنی برکت دے دی اتنی برکت دی تبھی تو میں کہا کرتا ہوں تمہیں کہ ایک نعمت جو خدا کی ہے ساری عمر شکر میں گزار دیں ہم تب بھی شکر نہیں پورا ہوتا.تو شکر کی ہم میں کہاں طاقت اس واسطے ہم تو یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا یا جتنا ہم شکر کر سکتے ہیں ممکن طور پر اس کی ہمیں توفیق دے اور باقی ہمیں معاف کر دے.تبھی کام چلتا ہے ورنہ تو مارے جائیں اگر خدا رحمن نہ ہو، اس میں نصرت جہاں میں ایک منصوبہ یہ بنایا گیا تھا اشاعت قرآن کا بھی اور بیس ہزار کی تعداد میں قرآن کریم ترجمہ انگلش جو ہے اس کے نسخے ان ممالک میں تقسیم کئے گئے اور ہوٹلوں میں، ہر کمرے میں رکھے گئے بہت سارے ہوٹلوں میں اور بعض دوست
خطابات ناصر جلد دوم ۲۷۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء جو تنقید بھی کرتے رہتے ہیں.اخباروں میں پڑھتے ہیں وہ کہتے کہ جی یہ دیکھیں احمد یوں نے وہاں یہ کر دیا ہر کمرے میں قرآن کریم انگریزی ترجمہ رکھ دیا ہمیں بھی رکھنا چاہئے.ہم کب کہتے ہیں کہ نہیں رکھنا چاہئے ہمارے لئے تو دوہری خوشی ہے اگر ایک کی بجائے دو قرآن کریم کے ترجمے وہاں ہوں گے تو ہم تو خوش ہوں گے ہمارے لئے تو دکھ کا باعث نہیں ہے.ہم ایک رکھتے ہیں تم دس رکھو.پھر دنیا کو یہ بھی پتہ لگ جائے گا کہ ان کے مسائل کو کون سی تفسیر قرآنی حل کرتی ہے.چند باتیں اس کی میں نے لے لی ہیں.صد سالہ جو بلی یہ لمبی رپورٹ ہے میں مختصر کروں گا.اس میں ایک تو یہ بات بڑی دلچسپ ہے اور خدا تعالیٰ کی بڑی حمد ہم کرتے ہیں کہ اپنے ملک میں جو دھتکارا گیا تھا اور اس حالت میں اسے بشارتیں دی گئی تھیں اس کی وہ بشارتیں اس وقت تک بڑھتی جارہی ہیں جو بشارت کا پورا ہونا ہے خدا تعالیٰ کی جو نعمتیں ہیں ان میں تو ہر روز اضافہ ہورہا ہے اس سے کوئی انکار نہیں ہے لیکن یہ پہلی دفعہ سامنے آیا کہ صد سالہ جوبلی میں چون ممالک نے حصہ لیا.چون ملکوں نے اس کے وعدے لکھائے اور اس میں پیسے دیئے ہیں چون ملکوں نے اور اس کی جو ہم نے کہا تھا پھیلا یا تھا وعدہ سارا، اس کے وعدے ہو گئے تھے قریباً دس کروڑ سے اوپر تو اس کو پھیلا دیا تھا سال بہ سال پندرہ سالوں کے اوپر تو ہر سال ۱/۱۵ اپنے وعدے کا دو، ستی بھی کرتے ہیں ہم بھی تو ان کو ہم پیار سے سمجھا دیتے ہیں، بستیاں دور بھی ہو جاتی ہیں بعض کی مجبوری بھی ہو جاتی ہے مثلاً ایک نے پیسے رکھے ہوئے ہیں اس کام کے لئے چوری ہو گئے بہت کم ہوتے ہیں لیکن ہو جاتے ہیں ایسے واقعات.اس سے غصے ہوں گے کہ تیرے گھر میں چوری کیوں ہوئی.چوری تو ہوگئی پیسے تو وہ نہیں دے سکتا ٹھیک ہے جب ہوں گے پھر دینا.دعائیں کریں گے اللہ تعالیٰ اس کو دے بہت پیسے تا کہ یہ خلش اس کے دل میں نہ رہے کہ میں نے اس سال کا وعدہ نہیں پورا کیا اور پیچھے ہٹ گیا.میں نے اس وقت یہ تحریک کی تھی کہ جو بچے پڑھ رہے ہیں مثلاً ایک بچہ ہے وہ میڈیکل کی تعلیم لے رہا ہے ڈاکٹر اس نے بنا ہے دو سال کے بعد.اب وعدہ لکھا دے اس امید پر کہ مجھے خدا دے گا.امید سے وعدے لکھاؤ خدا برکت ڈالے گا تمہارے مال میں اب پہلے دو سال تو اس نے دینا ہی نہیں کیونکہ ابھی اس نے کمانا ہی نہیں شروع کیا.اسی طرح اور بہت سارے ہیں جنہوں نے اس امید پر کہ ہم کمانے لگیں گے تو دیں گے تو جب کمائیں گے اسی وقت دیں گے ان چیزوں کو اگر
خطابات ناصر جلد دوم ۲۷۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۷ء ہم مد نظر رکھیں اور اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ واقعہ میں جو دے سکتے ہیں اور ستی ہوگئی اور غفلت ہو گئی توجہ نہیں رہی ان کی ، ان کو توجہ دلا کے اور کہا جاسکتا ہے وعدے پورے کرو تو وہ جو ان کو کہا گیا تھا ۱۵ را اس کے مطابق ہی یہ آرہے ہیں اس میں کمی کوئی نہیں لیکن جو باہر کی جماعتیں ہیں یہ چوآن ملک جنہوں نے وعدہ لکھوایا ہے وہاں کی جماعتوں کو میں کہوں گا تھوڑا سا زور اور لگا دو تا کہ اس میں سے بہت سارا حصہ جو ہے وہ تو یہ ہے ناں، اگلی صدی جس کو میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں اس کا استقبال کرنا ہے اس کے لئے تیار ہونا چاہئے زمین و آسمان کا انقلابی ، ایک فرق پڑ جائے گا، انقلابی تبدیلی پیدا ہو جائے گی احمدیت کی آج کی زندگی اور پندرہ سال بعد کی زندگی میں اس وقت کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے یہ نہیں کہ ضرورتیں سمیٹ لیں ہم اور ان کو پورا کرنے کا سامان ہی کوئی نہ کریں لیکن بعض حصے ایسے ہیں جو ابھی سے ان کا کام شروع ہو گیا جیسا کہ میں نے اعلان کیا تھا مشن ہاؤس یورپ میں بنانے ، تراجم کرنے سو زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ ہم نے کرنا ہے اس زمانے میں اس پر بھی پیسہ خرچ ہو گا اسی کے لئے پر لیس بنا رہے ہیں.اس سے پہلے بھی کام کرنے والے ہیں بہت سارے، ایک اور آج ذہن میں خدا نے بات ڈالی ہے لیکن اس کا اعلان میں سمجھتا ہوں اس جلسے میں ہمیں نہ کروں اگلے جلسے یہ آپ کو بتاؤں گا وہ بھی صد سالہ جو بلی کے ساتھ ہی تعلق رکھتے ہیں اور کام ہے پہلے کرنے والا وہ کر دیں گے تو جو وصولی ہے ٹھیک ہو رہی ہے تسلی بخش تھوڑا سا زور لگانے کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ عہدیداروں کو سمجھانے کی توفیق عطا کرے اور جنہوں نے خدا پر توقع رکھتے ہوئے اور بھروسہ رکھتے ہوئے وقت سے پہلے آئندہ کمائی میں سے خدا کی راہ میں قربان کرنے کا عہد کیا تھا خدا تعالیٰ ان کی کمائی میں بڑی برکت ڈالے اور اپنے آپ سے بھی زیادہ وہ دینے لگ جائیں.آمین.اب میں رخصت ہوتا ہوں السلام علیکم و رحمتہ اللہ (از آڈیو کیسٹ)
خطابات ناصر جلد دوم ۲۷۵ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر۱۹۷۷ء انسان کی پیدائش کا اصل مدعا خدا کی پرستش اور اس کی معرفت ہے اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۷ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.بنیادی اور سب سے زیادہ ضروری سوال ایک عقل مند انسان کے ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ اس کی پیدائش کی غرض کیا ہے کیوں وہ اس دنیا میں پیدا کیا گیا.جب ہم آج کی مہذب دنیا پہ نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تہذیب کی اس ارتقاء کے باوجود مہذب دنیا اپنی سمت بھول چکی ہے اور اسے نہیں معلوم کہ کس غرض کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا اور سچی بات تو یہ ہے کہ انسان خود اپنے طور پر اپنی پیدائش کا مقصد نہ پاسکتا ہے نہ بیان کر سکتا ہے جس نے پیدا کیا اللہ رب العالمین نے ، وہی بتائے گا کہ کیوں اور کس غرض سے اس نے انسان کو اس دنیا میں پیدا کیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ ( الثريت : ۵۷ ) کہ میں نے جن وانس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے عبد بن جائیں.اور قرآن کریم نے انسان کے منہ سے یہ کہلوایا اِيَّاكَ نَعْبُدُ (الفاتحة : ۵) کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں، تیرا بندہ بننے کی کوشش کرتے ہیں یا بنتے ہیں.اس اعلان کی دو سمتیں ہیں ایک تو یہ فطرت انسانی کا اعلان ہے کہ انسان کو جب خدا نے بنایا اور انسان کو جب اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو اس کی فطرت میں یہ رکھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق قائم کرے اور اس طرح اپنی پیدائش کے مقصود کو حاصل کرے.اور دوسری طرف ایک عارف کے منہ سے یہ کلمہ نکلتا ہے، جو اپنے رب کی معرفت رکھتا، جو اس کی صفات کا عرفان رکھتا ہے.اور جو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے علی وجہ البصیرت کہ اسے اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اللہ کا بندہ بنے.اس عبد بننے کے اس عبادت کے معنی بھی قرآن کریم سے ہی ہمیں پتہ لگنے چاہئیں یا ان بزرگ
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ہستیوں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تفسیر بنائی اور انہوں نے ہمارے سامنے اس تفسیر کو رکھا اس سلسلہ میں ، میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک آدھ اقتباس پڑھ کے سناؤں گا ابھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ مدعا جو خدا تعالیٰ اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا ہے کہ کیوں انسان کو پیدا کیا ، وہ مدعا جو خدا تعالیٰ اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا ہے یہ ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الثریت : ۵۷) یعنی میں نے جن اور انسان کو اسی لیے پیدا کیا کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں.پس اس آیت کی رو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے مقرر کرے کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جاتا ہے بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قومی اس کو عنایت کئے اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدعا ٹھہرا رکھا ہے.خواہ کوئی انسان اس مدعا کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مدعا بلاشبہ خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا تعالیٰ میں فانی ہو جانا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ پرستش البہی ایک فطرتی عمل ہے پس جب تو حید الہی اور پرستش الہی سب بنی آدم کے لئے فطرتی عمل ہوا اور کوئی آدمی سرکشی اور بے ایمانی کے لیے پیدا نہ کیا گیا تو پھر جو امور بر خلاف خدا دانی و خدا ترسی ہیں کیونکر فطرتی عمل ہو سکتے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں جن اور انس کی پیدائش اور ان کی تمام قوای کا میں ہی مقصود ہوں.ان کی تمام قوای کا میں ہی مقصود ہوں، وہ اسی لئے میں نے پیدا کئے کہ تا مجھے پہچانیں اور میری عبادت کریں تو اس نے اس آیت میں اشارہ کیا کہ جن وانس کی خلقت میں اس کی طلب معرفت اور اطاعت کا مادہ رکھا گیا ہے.اگر انسان میں یہ مادہ نہ ہوتا تو نہ دنیا میں ہوا پرستی ہوتی ، نہ بت پرستی نہ انسان پرستی کیونکہ ہر یک خطا ثواب کی تلاش میں پیدا ہوتی ہے.پھر آپ فرماتے ہیں اسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقق ہو سکتی ہے کہ جب اس کا وجود مع اپنی باطنی و ظاہری قوالی کے محض خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی راہ میں وقف ہو جائے اور جو امانتیں اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اس معطلی تحقیقی کو واپس کی جائیں.اور نہ صرف اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینے میں بھی اپنے اسلام اور اس کی حقیقت کاملہ کی ساری
خطابات ناصر جلد دوم ۲۷۷ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء شکل دکھلائی جائے یعنی شخص مدعی اسلام یہ بات ثابت کر دیوے کہ اس کے ہاتھ اور پیر اور دل اور دماغ اور اس کی عقل اور اس کا فہم اس کا غضب اور اس کا رحم اور اس کا علم اور اس کی تمام روحانی اور جسمانی قوتیں اور اس کی عزت اور اس کا مال اور اس کا آرام اور اس کا سرور اور جو کچھ اس کا سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک با اعتبار ظاہر و باطن کے ہے یہاں تک کہ اس کی حیات اور اس کے دل کے خطرات ( جو خیالات آتے ہیں) اور اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں.کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اس شخص کے تابع ہوتے ہیں.غرض یہ ثابت ہو جائے کہ صدق قدم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اس کا ہے وہ اس کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہو گیا ہے اور تمام اعضاء اور قوی الہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا وہ جوارح الحق ہیں.پس اسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے.اور کوئی انسان کبھی اس شریف لقب اہل اسلام سے حقیقی طور پر ملقب نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنا سارا وجود مع اس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخدا نہ کر دیوے اور اپنی انانیت سے مع اس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اُٹھا کر اس کی راہ میں نہ لگ جاوے.پھر آپ فرماتے ہیں واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کا کلامِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحة : ۵) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تمام کی تمام سعادت خدائے رب العالمین کی صفات کی پیروی کرنے میں ہے.اور عبادت کی حقیقت محبوب کے رنگ میں رنگین ہونا ہے اور راستبازوں کے نزدیک کمال سعادت یہی ہے چنانچہ خدا شناس لوگوں کے نزدیک بندہ در حقیقت اسی وقت عبد کہلا سکتا ہے جب اس کی صفات خدائے رحمان کی صفات کا پر تو بن جائیں.پس عبودیت کی نشانیوں میں سے ایک نشان یہ ہے کہ انسان میں بھی حضرت رب العزت کے رنگ کی ربوبیت پیدا ہو جائے.اور اسی طرح بطور ظلیت اس میں رحمانیت ، رحیمیت اور مالکیت یوم الدین کی صفات، صفات حضرت احدیت پیدا ہو جائیں.یہی وہ صراط مستقیم ہے جس کے متعلق ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اسے طلب کریں اور یہی وہ راستہ ہے جس کے متعلق ہمیں تاکید کی گئی ہے کہ کھلے کھلے فضل والے خدا سے اس کے ملنے کی امید رکھیں.مختصر ااس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا کہ جو قوتیں
خطابات ناصر جلد دوم ۲۷۸ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اور صلاحیتیں اور طاقتیں اور استعداد میں اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق ان کی نشو و نما کر کے خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو تلاش کرے اور ایک زندہ تعلق اس کے ساتھ قائم کرے.یہ جو دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے عبد بننے کی قوتیں اس کی راہ میں خرچ ہوں یا اپنی صفات پر خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ چڑھایا جائے اور انسان خدا کے لئے ہو جائے اس سلسلے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے ہمیں کیا بتایا ہے کہ وہ کونسی صفات ہیں جو انسان کے اندر پیدا کی گئی ہیں.اور ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے چار فیوض کا نام دیا ہے اور ان کا تعلق سورۃ فاتحہ کی چار صفات باری سے ہے.جنہیں ہم امہات صفات کہتے ہیں.یعنی رب اور رحمان اور رحیم اور مالک یوم الدین.یہ جو رب کی صفت ہے یہ ایک سب سے عام فیض ہے اللہ تعالیٰ کا اس کا ئنات پر اور اس کا جلوہ ہر مخلوق پہ ہے.قرآن کریم نے کہا ہے کہ ربُّ كُلِّ شَيْ (الانعام : ۱۶۵) ہر چیز کا رب وہ ہے، ربّ العالمین سورۃ فاتحہ میں کہا گیا ہے کا ئنات کا رب وہ ہے کا ئنات میں ہر چیز جو پائی جاتی ہے، خدا تعالیٰ کی ربوبیت اس کے شامل حال ہے یعنی اگر ربوبیت باری نہ ہوتی تو معرض وجود میں وہ شے نہ آتی.اور اگر ر بو بیت ایک لحظہ کے لئے بھی اس سے علیحدہ ہو جائے تو ختم ہو جائے وہ چیز ، اور ربوبیت کے معنی ہیں پیدا کرنا اور تدریجی ترقیات دیتے ہوئے اس چیز کو اس کے کمال تک پہنچا دینا.رب کے یہ معنی ہیں.وہ پیدا بھی کرتا ہے اور صفات کو تدریجی ارتقائی ادوار میں سے گزار کے اس نشے کو کمال تک پہنچا دیتا ہے.اس کو سمجھنے کے لئے عام بچے بھی سمجھ جائیں گے کہ ایک گٹھلی آم کی ہے اس کو جب ہم زمین پر لگاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ پھوٹتی ہے گٹھلی ، اور ایک پودا بنتا ہے.پھر وہ تو آہستہ آہستہ شاخیں نکالتا ہے اس کی شاخیں بنتی ہیں پتے بنتے ہیں پھر اس کی غذائیت جو ہے اس کی ضرورت کے مطابق کچھ زمین سے اسے ملتی ہے کچھ آسمان سے اسے ملتی ہے سورج کی شعائیں ہیں اور ہوا ہے اس میں سے وہ اپنی غذائیت لیتی ہے.پھر وہ آہستہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے اور تخمی آم جو ہے وہ عام طور پر چھ سات سال کے بعد اپنی بلوغت کو پہنچتا پھر اسے پھل لگنے شروع ہو جاتے ہیں.اور پھر وہ پھلوں کی مقدار میں اس میں زیادتی ہوتی ہے.اور پھل بننے شروع ہوتے ہیں.یہاں تک کہ اس درخت کو جو سب سے زیادہ پھل دینے کی ، پھل پیدا کرنے کی قابلیت تھی وہ وہاں
خطابات ناصر جلد دوم ۲۷۹ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۷ء تک پہنچتا ہے.پھر اس درخت کے اوپر کچھ عرصے کے بعد کئی سال وہ جوانی کے اس عروج پر رہتا ہے پھر دور ایک دوسرا شروع ہوتا ہے اس میں کمی آتی ہے، پھر اس کی عمر ختم ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی تقدیر جو ہے وہ چل رہی ہے اور اس فیض سے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فیضان عام کہا ہے یعنی سب سے زیادہ فائدہ ہوا.یہ آسمانوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یا زمین کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.یہ فیضان جو ہے وہ جمادات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یہ فیضان نباتات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.یہ فیصان جو ہے وہ بیکٹیریا جو نہ نظر آنے والے چھوٹے چھوٹے کیڑے ہیں اچھے اور برے ان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.بُرے اس لحاظ سے کہ بعض دفعہ انسان اپنی غفلت کی وجہ سے ان سے نقصان اٹھا لیتا ہے ورنہ ہر چیز فائدے کے لیے بنائی گئی ہے.اور یہ فیصان جو ہے وہ چرندوں سے تعلق رکھتا ہے اور پرندوں سے تعلق رکھتا ہے.اور انسانوں سے تعلق رکھتا ہے اور مومن اور کافر سے تعلق رکھتا ہے اور یہ کوئی فرق نہیں کرتا یہ فیضان.بڑے بڑے جو اولیاء ہیں ان کے ساتھ بھی اور جو خدا تعالیٰ کی راہ میں بڑے بڑے روڑے اٹکانے والے پیدا ہوتے رہے ہیں ان کے اوپر بھی یہ فیضان جو ہے، جاری اور ساری ہے.ساری مخلوق پر اللہ تعالیٰ کا فیضان ربوبیت جاری اور ساری ہے اور ایک متسند و بالا راده قادر المطلق ہستی نے یہ کائنات ہستی پیدا کر کے اپنا یہ فیضان اپنا یہ انعام اپنی مخلوق کو دیا اور کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کو یہ نہ ملا ہو.یعنی ایک طرف انسان ہے اس کو بھی خدا تعالیٰ کی ربوبیت سے فائدہ پہنچ رہا ہے.سور ہے اسے بھی پہنچ رہا ہے، کتے کو بھی پہنچ رہا ہے ، گھوڑے کو بھی پہنچ رہا ہے، درخت کو بھی پہنچ رہا ہے، یہ جو ہماری اجناس ہیں ان کو بھی پہنچ رہا ہے، یہ جو جمادات ہیں ان کو بھی پہنچ رہا ہے، پتھروں کو بھی پہنچ رہا ہے، ہیروں کو بھی پہنچ رہا ہے.ہر چیز کو خدا تعالیٰ کی ربوبیت سنبھالے ہوئے ہے.اور ہر چیز کو خدا تعالیٰ کی ربوبیت ترقی دے کر اس کے کمال تک بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس کے نوعی اور انفرادی کمال تک پہنچاتی ہے.نوعی کمال تک کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً آم میں، مختلف قسم کے آم ہیں، ایک پھل ہے جس کو ہم آم کہتے ہیں.اور تھی ہم تو جتنے تم سے نکلے اتنی قسمیں بن جاتی ہیں جو پیوندی آم ہیں ان کی قسمیں بھی سینکڑوں تک ہیں.تو جو خدا تعالیٰ کی ربوبیت آم کے درخت کے ساتھ ہے وہ اس کی نوع کو اپنے کمال تک پہنچاتی ہے اور جو فردا فرد درختوں کے ساتھ ہے وہ انفرادی طور پر پہنچاتی
خطابات ناصر جلد دوم ۲۸۰ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ہے مثلا لنگڑا آم ہے ایک ہی باغ میں ہیں لنگڑے لگے ہوئے ہیں ہر ایک کے اندر انفرادیت ہمیں نظر آتی ہے یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کشــرت شـاں گواه وحدت او ( در مشین فارسی صفحہ ۲) کہ ان چیزوں کی کثرت خدا تعالیٰ کی واحدانیت پر دلیل بنتی ہے.تو دس آم ہیں لنگڑے کے، تو دس مختلف ہیں کسی کا سائز چھوٹا ہے کسی کا بڑا کسی کے مزے میں فرق، کسی کے ہفتوں اور دنوں کا ہی ہو اور ان کے پھل لانے ، پھل کے پکنے میں فرق کسی کے اوپر ، کیڑے حملہ کر رہے ہیں.ساتھ کا درخت ہے اس کے اوپر کیڑے حملہ نہیں کر رہے.خدا تعالیٰ تو غیر محدود طاقتوں والا ہے اس کی ربوبیت جو ہے وہ افلاک سے زمین تک اپنا کام کر رہی ہے اور انسان پر بھی کر رہی ہے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں میں تضاد ہمیں کبھی نظر نہیں آتا.اور اس لئے یہ جو جلوے ربوبیت کے ہیں سارے جلوے شروع سے آخر تک ان کے اندر ایک اتصال ہے اور ان کے اندر ایک وحدت ہے اور ان کے اندر ایک حسن ہے اور یہ ان کو اس ایک طرح پر دیا گیا جس طرح موتی لڑی میں پروئے جاتے ہیں یعنی ہر چیز جو ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں یہ بتایا کہ بنیادی طور پر کائنات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے.ایک انسان جو کائنات کا مخدوم ہے اور ایک انسان کے علاوہ ساری کائنات جو انسان کی خادم ہے ، یہ رشتہ ، یتعلق قائم کیا ہے خدا تعالیٰ کی ربوبیت نے ، اگر خدا تعالیٰ کی ایک جیسی یہ صفت کے جلوے یعنی جلووں میں تو اختلاف ہے کسی کو کچھ بنادیا لیکن ربوبیت کی صفت کا ئنات میں جلوہ گر نہ ہوتی تو یہ ساری کائنات جو ہزارہا کیا، کروڑہا گیا، اربوں کیا، غیر محدود، نامعلوم افراد پر مشتمل ہے، اجزا پر مشتمل ہے ان کا آپس کا یہ تعلق نہ ہوتا.مثلاً جمادات ہیں یہ پتھر اور یہ مٹی کے ذرے وغیرہ.انسان بھی اور درخت بھی اپنی غذا ان سے لے رہے ہیں.حالانکہ درختوں کی زندگی اور قسم کی ہے اور جمادات کی زندگی اور قسم کی ، وہ وہی خدا تعالیٰ کی ربوبیت میں جا کے سارے وہ اکٹھے ہو جاتے ہیں.اور ایک سلسلے میں ان کو باندھا ہوا ہے، ویسے نہیں ہیں جس طرح ہوا میں ذرے پھر رہے ہوں ہمارے نزدیک ہوا میں جو ذرے ہیں ، خدا تعالیٰ کے نزدیک تو وہ بھی بندھے ہوئے ہیں.تو ایک طرف درخت جو ہیں نباتات جو ہیں وہ جمادات کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں.دوسری طرف انسان جو ہیں وہ بھی جمادات سے بندھا ہوا ہے کیونکہ ہماری صحت کے لئے جس
خطابات ناصر جلد دوم ۲۸۱ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء کے اوپر پچھلے میں چالیس سال میں زیادہ تجربہ ہوا ہے ویسے اطباء اس سے پہلے بھی استعمال کرتے تھے.پتھروں کو، اور اس قسم کی دوسری چیزوں کو ، جو جمادات سے جن کا تعلق ہے انسان کی ادویہ میں.اب انہوں نے یہ کہا ہے کہ مثلاً زنک ہے مثلاً یہ سونا ہے یہ چاندی ہے یا اسی قسم کی اور دھاتیں ہیں.یہ انسانی جسم کا لازمی اور ضروری حصہ ہیں اگر ان کی کمی ہو جائے تو انسان بیمار ہو جاتا ہے اور اگر چہ ہے base element یعنی اتنا تھوڑا ہے کہ نہ ہونے کے برابر لیکن وہ تھوڑا بھی اگر نہ رہے اتنا بھی تو انسان بیمار ہو جاتا ہے.تو اس طرح یہ ساروں کو اکٹھا کر کے اور یہ باندھ دیا اور خدا تعالیٰ کی ربوبیت کے عام فیض سے جس طرح دوسری کائنات نے فائدہ اٹھایا ، زیادہ فائدہ انسان کے حق میں پہنچا کیونکہ جس جگہ بھی فائدہ پہنچا وہ انسان کے حق میں وہ فائدہ پہنچ گیا.اور اس میں جو یادرکھنے والی بات ہے ہمارے اور خصوصاً اس مضمون کے تعلق میں جو آخر میں میں نتیجہ نکالوں گا.لمبی ایک تمہید مجھے یہ باندھنی پڑی نتیجہ نکالنے کے لئے، یہ ساری کائنات انسان کو فائدہ پہنچا رہی ہے.قرآن کریم میں اعلان کیا کہ وَسَخَّرَ نَكُمُ مَّا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا منه ( المجانية: ۱۵).بغیر استثناء کے ہر چیز کو تمہارا خادم بنا دیا.اور اس میں یہ جو خدمت ہے کائنات کی ہر چیز انسان کی خدمت کر رہی ہے رب العالمین نے کوئی ایسا قانون نہیں بنایا قوانین قدرت نے کہ یہ خادم جو ہیں انسان کے یہ نیک اور بد میں مومن اور کافر میں فرق کر دیں.زنک ابو جہل کو بھی اتنا ہی فائدہ پہنچا تا جتنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہنچا تا اور اگر زنک کی کمی ہوتی تو ہر دو کے لئے برا برتھی یعنی ایک قانون چل رہا ہے اس میں مومن اور کافر کی کوئی تمیز نہیں ہے یہ جو جلوے ہیں رب العالمین کے، ربوبیت باری کے، ان سے سارے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور جو کائنات انسان کے علاوہ خادم انسانیت بنائی گئی ہے.ان کی خدمت جو ہے وہ آنکھ، ہمارے والی آنکھ نہیں خدا تعالیٰ کی مخلوق کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آنکھ دی گئی ہے اور وہ آنکھ انسان کو پہچانتی ہے تبھی اس کی فیور (Favour) کرتی ہے نا اور وہ جو پہچانتی ہے وہ کوئی نیکی اور بدی کو نہیں پہچانتی وہ انسان کو پہچانتی ہے.خدا تعالیٰ نے ہر چیز کو کائنات کی یہ کہا کہ میرے بنائے ہوئے انسان کی خدمت کر.سورۃ فاتحہ میں دوسری قسم کا انعام جو ہے وہ رحمان کے لفظ میں بیان ہوا ہے اور رحمان کے لفظ سے ربوبیت کی تربیت کے بعد ایک خاص حصے مخلوقات کو اس عام حصے
خطابات ناصر جلد دوم ۲۸۲ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اوپر سے اٹھا کر بلند کیا.یہ میں مثال دے رہا ہوں ورنہ ایک وقت میں سب کچھ ہو رہا ہے.اور وہ یہ کہ جور بوبیت تھی اس میں جاندار اور غیر جاندار ذی شعور اور غیر ذی شعور سارے شامل تھے.ان کے ر بو بیت رب العالمین جو تھی وہ جلوہ گر ہو رہی تھی.لیکن رحمانیت کا جلوہ خدا تعالیٰ کی جو رحمانیت ہے اس کا جلوہ جو ہے وہ صرف جاندار کے اوپر ہے، غیر جاندار کے اوپر نہیں.لیکن جانداروں میں سے پھر وہ بڑا عام ہے یعنی کیڑے مکوڑے بھی ہیں، بیکٹیریا بھی ہے جس جگہ زندگی پائی جاتی ہے اس جگہ رحمانیت کا جلوہ جو ہے وہ نظر آتا ہے انسان کو ، اگر وہ غور کرے، اگر وہ غور کرے اس قدرت کے کرشموں پر بھی اور غور کرے خدا تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم پر بھی.رحمانیت نے زندگی اور حیات کا امکان پیدا کیا اور یہ ذی شعور اور غیر ذی شعور اور نیک و بد کی پھر وہی آ گیا سب کے قیام کے لئے اور بقائے نو کے لئے ، اس کا ذاتی وجود جو ہے اس کی بقاء کے لیے بھی کہ وہ قائم رہے اور بقائے نو کے لئے بھی اور ان کی تقدیر کے لئے اسباب مطلوبہ میسر کرتی ہے یعنی زندہ رہنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت نے ہر زندہ چیز کے لئے پیدا کر دی.اور یہ اس میں بھی جو اسباب خدا تعالیٰ نے زندہ رکھنے کے لئے پیدا کئے ہیں ان اسباب میں پھر نیک و بد اور مومن اور کافر کا کوئی فرق نہیں بلکہ وہ اسباب ایک گھوڑے کی زندگی بھی رکھ رہے ہیں اور ایک انسان کی زندگی کو بھی قائم رکھ رہے ہیں.اور ایک گھوڑے کی نوع کو بھی قائم رکھ رہے ہیں اور انسان کی نوع جو ہے نوع انسانی اس کے قیام کے لئے بھی ، یہ جلوے رحمانیت کہلاتے ہیں اور اس کے لئے ذی روح یا شعور والی جو زندگی ہے اس کو کچھ محنت نہیں کرنی پڑتی.بلکہ حیات پیدا ہی ہوتی ہے رحمانیت کے جلوؤں کے نتیجے میں ، یعنی وہ تمام اسباب جن کے نتیجہ میں زندگی پیدا ہوسکتی ا تھی وہ تمام اسباب جب مہیا کئے گئے تو پھر زندگی پیدا کر دی خدا تعالیٰ نے اور اس کے لیے کسی دعا کی ضرورت نہیں ہے کسی تضرع کی ضرورت نہیں ہے انسان ہونے کی ضرورت نہیں ہے مومن ہونے کی ضرورت نہیں ہے مخلص ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ تمام ذی شعور ہستیوں کے لئے.بہت ساری قسمیں ہیں اس میں بھی بے تحاشہ وہ ان کے اوپر خدائے رحمان کے جلوے ہورہے ہیں.اور پھر یہاں یہ ہے کہ انسان کو باقی تمام زندہ چیزوں سے علیحدہ کر کے انسان کو مخدوم بنایا خدا تعالیٰ
خطابات ناصر جلد دوم ۲۸۳ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۷ء نے اور دوسری ہر زندہ چیز کو انسان کا خادم بنایا.اس جلوے میں بھی ہمیں یہ تو فیق نظر آتی ہے.اور مخدوم جو ہے وہ انسان ہے.وہ مومن نہیں وہ انسان ہے وہ محض با اخلاق انسان نہیں ، وہ انسان ہے وہ عالم انسان نہیں ، وہ محض انسان ہے وہ آج کا مہذب انسان صرف نہیں ہے بلکہ انسانیت کو علیحدہ کر کے ہر زندہ چیز کو کہا کہ تو انسان کی خدمت کر پہلے تو ہر زندہ مردہ کو کہا تھا کہ وہ ربوبیت العالمین کے جلوے سے یہاں ایک اور قسم کا جلوہ ہے سورہ فاتحہ میں یہ بتایا گیا ہے، اور پھر یہ کہا گیا ان کو کہ تم نے انسان کی خدمت کرنی ہے.پھر ان کو خدا تعالیٰ نے زندگی عطا کی ان میں سے انسان کو اس نے چنا.اور رحیمیت کا جلوہ خدا تعالیٰ کا ظاہر ہوا.یعنی وقت کے لحاظ سے آگے پیچھے نہیں ہے.ضرورت کے لحاظ سے ہے انسان کو اس کی ضرورت ہے.یہ خاص فیض ہے اللہ تعالیٰ کا جس نے زندوں میں سے جو ، شاید حیات ہیں ان میں سے انسان کو چنا اور اسے جیسا کہ ہم ابھی دیکھیں گے ایک صاحب اختیار زندگی عطا کی.یعنی اس رحیمیت کے جلوے سے ایک صاحب اختیار نوع جو ہے وہ پیدا ہو گئی.اور اسے ہم انسان کہتے ہیں اور یہ جو صاحب اختیار زندگی ہے اس میں یہ اپنے اختیار سے کوشش کرتا ہے.یعنی درخت تو کوشش نہیں کرتا نہ دعا کے ذریعے سے نہ کوئی تدبیر کے ذریعے سے.کبھی آپ نے اس قسم کا جلسہ سالانہ درختوں کا نہیں دیکھا ہوگا کہ اکٹھے ہو کہ کوئی منصوبہ بنائیں کہ ہم نے دنیا میں بنی نوع انسان کی خدمات کس کس طرح کرنی ہیں.یہ صرف انسان کا کام ہے تو بعض اختیار انسان اپنی مرضی سے نیک و بد تد بیر کرتا ہے نیک و بد تد بیر جو ہے اس کا تعلق دوزندگیوں سے ہے.ایک اس زندگی سے کہ اس زندگی میں ایسے انسان ہیں جو نیکی کی تدبیر کرتے ہیں، جو بھلائی کی تدبیر کرتے ہیں، جو خیر خواہی کی تدبیر کرتے ہیں جو بنی نوع انسان کی خدمت کی تدبیر کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ قربانیاں دیتے ہیں.مال کی بھی ، اوقات کی بھی ، اور وہ دعائیں کرتے ہیں اپنی تدبیر کو کامیاب کرنے کے لئے اور ایک وہ انسان ہے جو صرف دنیا کمانے کے لئے تدبیر کرتا ہے.خواہ اس میں بہت ساروں کو نقصان ہی پہنچ جائے مثلاً.کلونیل پاور جو تھیں پچھلی صدی میں انہوں نے افریقہ میں جاکے اور ایشیاء میں جا کے تدبیر کی محنت کی انہوں نے لوٹنے کی ایک تدبیر کی اور بڑی کوشش کی اور جو قوی خدا تعالیٰ نے دیئے تھے اس کے لئے انہوں نے وہ خرچ کئے اور وہ تدبیر ان کی کامیاب
خطابات ناصر جلد دوم ۲۸۴ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ہوئی لیکن دوسرے انسانوں کو نقصان پہنچا.یہ ایک تدبیر ہے جو باوجود اس کے کہ سارے انسانوں کا فائدہ اس میں نہیں ، بعض کا ہے اور بعض کا نقصان ہے.اس رحیمیت کا جلوہ صرف کوشش اور جدو جہد اور سعی اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے قربانی دینا اس کو پھل اور بنا دیتا ہے اس کا ثمرہ نکلتا ہے نتیجہ اس کا ایک برآمد ہوتا ہے جیسا کہ میں نے کہا کلونیل پاور، میں نائیجیریا میں گیا مجھے بہت دکھ ہوا ایک دو دن میں ہی دیکھ کے، میں نے اپنے احمدی دوستوں کو وہاں نائیجیرین کو کہا کہ تمہارا ملک تو خدا نے اتنا امیر بنایا تھا کہ دنیا کی کونسی چیز ہے، کون سی دولت ہے جو تمہارے پاس نہیں لیکن تم پھر بھی لنگوٹیئے ، غریب کے غریب.تو میں نے انگریزی میں کہا کہ میرا ایمپریشن (Impression) میرا تاًثر ہے (.You had all and You were deprived of all تمہیں خدا نے سب کچھ دیا تھا اور سب کچھ ہی چھیننے والے چھین کے لے گئے.اور تمہارے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا.یہ جو رحیمیت کا جلوہ ہے یہ سعی کے اوپر، کوشش کے اوپر نتیجہ نکالتا ہے خدا تعالیٰ.جو اچھا کام ہے اس کا نتیجہ بھی نکلتا ہے اس کے مطابق جو پوری کوشش اور خدائی تدبیر کے مطابق دنیا کمانے کی جو کوشش ہے خدا کی تدبیر کے مطابق ، خدا نے وہ تدبیریں بنائی ہیں خدا کے بنائے ہوئے اسباب کو غلط استعمال کر کے مضر استعمال کر کے ، مگر اپنی طاقت ہے.جب یہ گئے وہاں لوٹنے کے لئے تو بڑی جانی قربانی دینی پڑی ان کو ، لڑائیاں انہوں نے لڑیں آدمی بھی قربان کر دیئے جسمانی طاقت تھی زندگی تھی طاقت کا سرچشمہ یوں ابلتا ہے انسان کے جسم میں سے اس کے وجود میں سے طاقت نکل رہی ہوتی ہے وہ انہوں نے قربان کی تو جو خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق کوشش کرتا ہے خواہ وہ غلط کوشش ہو اس کا نتیجہ نکل آتا ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ جو لوگ دنیا کی محض تلاش میں رہتے ہیں ہم ان کو دنیا دے دیتے ہیں.اس دنیا میں وہ ، یہ نہیں کہ وہ نا کام کر دیتا ہے خدا.ان کو کامیاب کر دیتا ہے یا مر جائیں یا خدا پکڑ بھی لے گا.یہ قانون چل جائے گا اگلی صفت کے ساتھ.اور ایک وہ کوشش ہے جو آگے دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے وہ رحیمیت کے جو ہیں نا جلوے، رحیمیت کا جو فیضان ہے وہ انسان کی کوشش کو ثمر آور کرتا ہے اور اس کی کوشش اور تدبیر کو ضیاع سے بچاتا ہے.ناکامی سے محفوظ رکھتا ہے.اگر وہ قوانین قدرت کے مطابق کی جائیں اور انسان اس صفت کے ماتحت جب کام کر رہا ہوتا ہے تو وہ بُرے بھی کام کر رہا ہوتا ہے اور اچھے بھی کام کر رہا
خطابات ناصر جلد دوم ۲۸۵ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء.ہوتا ہے چونکہ بُرے کاموں کا تعلق صرف اس دنیا سے، اچھے جہاں تک نتائج نکل رہے ہیں ، خدا کہتا ہے ٹھیک ہے تم دنیا لینا چاہتے ہو تو لے لو.لیکن دوسرا گروہ وہ ہے خدا تعالیٰ کی معرفت رکھنے والا اور اپنے ایمان میں اخلاص رکھنے والا جو اتنا في الدُّنْیا (البقرۃ:۲۰۲).کہہ کے خاموش نہیں ہو جاتے بلکہ اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً (البقرة :۲۰۲) کے بعد و فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً کی بھی دعا کرتے اور تضرع کے ساتھ ، عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ کوشش اور سعی اور تدبیر میں لگے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان دونوں کے مجموعے کے نتیجہ میں یعنی دعا اور تضرع اور توجہ الی اللہ اور اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اور پھر عملاً کوشش جو ہے پیسے کمانا اور دوسروں پر خرچ کر دینا نیکی ہے خدا نے کہا تھا کہ خرچ کرو خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ مریضوں کا خیال رکھو، خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ مسافروں کا خیال رکھو وغیرہ وغیرہ سینکڑوں اعمال ہیں جن کو ہم اعمال صالحہ کہتے ہیں.اور دنیا میں بھی یعنی یہ گروہ وہ ہے جو دنیا کے لئے بھی دعائیں کرتا ہے جو دنیا کے لئے بھی خدا کے حضور جھکتا ہے جو دنیا کے لئے بھی یہ خدا سے کہتا، یہ نہیں کہتا کہ مجھے مال دے خدا سے یہ دعا مانگتا ہے کہ مجھے مال حلال دے.خدا سے یہ نہیں کہتا کہ مجھے کھانے کو دے خدا سے یہ کہتا ہے کہ مجھے حلال اور طیب کھانا دے اور پھر خدا تعالیٰ اس کی دعاؤں کو بھی سنتا ہے اور اس کی جو عملی کوششیں ہیں اور اعمال ہیں ان کو بھی دیکھتا ہے اور اپنے فضل سے اس دنیا میں بھی خیر اور برکت کا نتیجہ نکلتا ہے اور اخروی دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو انعام ملتا ہے.یہ جو ہے صفت یہ ہے تو دراصل نیکوں کے لئے لیکن قرآن کریم سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اس میں اگر کوئی بد ہیں اور انسان کو دکھ پہنچانے والے ہیں ان کی کوششیں بھی دنیا کے لیے خدا تعالیٰ نے جو اصول بنائے ہیں.اور وہ ان کے مطابق ہوں گی تو اس دنیا کے لئے نتیجہ نکل آئے گا اور پھل مل جائے گا لیکن اخروی زندگی میں اتنی سخت گرفت اور شدید العقاب کی طرف سے پکڑ ہو گی کہ جو میں نے بار بار کہا ہے آپ کو اور اب بھی کہوں گا کہ گرفت جو ہے اس کا تصور ہم ایک سیکنڈ کے لئے بھی اگر سوچیں کہ خدا نہ کرے ہم میں سے کسی کو ، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جسم کانپ اٹھتے ہیں اس کے.تو یہ گروہ جو ہے وہ دو طور پر تدبیر کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمایا اس کے متعلق کہ دعا کو اپنی انتہا تک پہنچاؤ اور تدبیر کو اعمال صالحہ کے ذریعے جو کی جاتی ہے اس کو
خطابات ناصر جلد دوم ۲۸۶ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۷ء اپنی انتہا تک پہنچاؤ تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے تم وارث بن جاؤ گے اس دنیا میں بھی تمہیں جنت ملے گی اور اُخروی دنیا میں بھی تمہیں جنت ملے گی.چوتھی صفت یا چوتھا انعام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے مخلوق کو جس کا ذکر سورہ فاتحہ میں ہے وہ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحة :۴) میں بتایا گیا ہے اور اس صفت کا تعلق صرف مومن کے ساتھ ہے.اور کافر کے ساتھ یعنی اس معنی میں.مومن کے ساتھ ہے.سزا میں کا فربھی شامل ، یعنی سزا اور جزا جب ہم کہیں ، تو کافر کی روح کو بھی ، فاسق کی روح کو بھی ، خدا تعالیٰ سے دور جانے والے کی روح کو بھی ، خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والے کی روح کو بھی ، ایک ہسپتال میں رکھا جائے گا مرنے کے بعد، اور کافی مناسب سخت علاج کے بعد خدا جانے کتنا عرصہ گزرنے کے بعد پھر وہ جب ان کے گناہ سب دھل جائیں گے اور داغ کوئی باقی نہیں رہے گا تب خدا تعالیٰ اپنی رضا کی جنتوں میں انہیں بھی لے جائے گا کیونکہ اصل پیدائش کی غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ پیار کا تعلق انسان کا قائم ہو.یہ جو گروہ ہے مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحة :۴) جن کو خدا تعالیٰ نے مرنے کے بعد اپنے فضلوں سے نو از نا اور اپنی رحمتوں کی ہر آن ان پر بارش کرنی ہے یہ اپنی زندگی میں ان کو جو حکم ہے نا اس دنیا میں ان کو ، پھر اس کے نیچے بھی یہ ہے کہ تم نے انسان انسان میں فرق نہیں کرنا.اس واسطے کہ جیسا کہ میں نے بتایا.یہ بہت سارے جو جلوے خدا تعالیٰ کے ربوبیات کے سلسلے میں ہیں یہ قو تیں اور صلاحیتیں اور استعداد یں پیدا کرتی ہیں انسان میں ، اور یہ قوتیں اور صلاحیتیں اور استعداد میں اس لئے نہیں پیدا کی گئیں کہ انسان گمراہ ہو جائے بلکہ اس لئے پیدا کی گئی ہیں کہ انسان گمراہی سے بچے یہ اس لئے نہیں پیدا کی گئیں کہ انسان شیطان کا بندہ بن جائے یہ اس لئے پیدا کی گئی ہیں کہ انسان عباد الرحمن میں شامل ہو جائے اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا ایک تو یہ ہے نا کہ صاحب اختیار ہے انسان وہ اپنی مرضی سے خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینا چاہتا ہے تو اور اقدامات کرتا ہے گناہ کرتا ہے بستیوں میں محو ہو جاتا ہے غفلت کے پردے پڑ جاتے ہیں اس کے اوپر ، وہ اور بات ہے لیکن جو صلاحیتیں دی گئی ہیں ان کا مقصد یہ ہے جیسا کہ ہم نے شروع میں دیکھا تھا عبد بننے کا کہ ساری صلاحیتیں اس لئے دی گئی ہیں انسان کو کہ اللہ تعالیٰ کا وہ بندہ بنے اور اس کے فیوض سے وہ فیض حاصل کرنے والا ہو.اور اس کی رحمتوں کا وارث بنے اس دنیا میں بھی خیر اور خوبی اور
خطابات ناصر جلد دوم ۲۸۷ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۷ء خوشحالی کی زندگی اس کو ملے اور اخروی زندگی میں بھی اس کو جنت ملے.یعنی مقصد یہ ہے صاحب اختیار جب تک نہ ہوتا یہ مقصد نہیں مل سکتا تھا ، ظاہر ہے کیونکہ جب اس کو اس کی مرضی پہ نہ چھوڑا جائے اور یہ اختیار نہ دیا جائے کہ تیری مرضی تو نیکی کر ، تیری مرضی ہے تو گناہ کر ، اس وقت تک ثواب کا اور اچھی جزا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آپ درختوں کو انعام تو نہیں دیا کرتے انسانوں کو دیتے ہیں کل علم انعامی یہاں مل گیا تھا حالانکہ دنیا میں بڑے اچھے اچھے درخت ہیں کسی کو انعام نہیں لیتا، یہ صاحب اختیار ہونا انسان کا یہ اس کو مستحق بناتا ہے کہ اگر نیکی کی راہوں کو وہ اختیار کرے گا تو ثواب اسے مل جائے گا خدا تعالیٰ کا پیارا سے مل جائے گا اور اس کو کہا یہ گیا ہے کہ پیدا تو تجھے ہم نے نیکیوں کے لئے کیا ہے لیکن تجھے اختیار دیتے ہیں کہ چاہے تو نیکی نہ کر پھر سزا اس کی بھگتنی پڑے گی جو نیک ہیں ما لک یوم الدین کی صفت کے نیچے آنے والے ہیں ان کو حکم خدا تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ تم اپنی صلاحیتوں کو کمال نشو ونما تک پہنچاؤ.اور تم کسی دوسرے کو اس بات سے نہ روکو کہ اس کی صلاحیتیں اپنے کمال نشو و نما تک پہنچیں، منع کیا گیا ہے ہمیں.یعنی کسی کو گناہ گار بنانے کی اجازت نہیں.اس حد تک کہ ایک دفعہ رات کے وقت پردہ کا حکم اترنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک پاک زوجہ کے ساتھ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف جارہے تھے.وہاں بجلی کی روشنی تو نہیں تھی جھولے میں ایک صحابی نظر آئے تو رات کے وقت جارہے تھے آپ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کہیں شیطان اس کے دل میں وسوسہ نہ پیدا کرے اور آپ نے اس کو آواز دی اور کہا کہ دیکھ لو یہ وه میری بیوی ہے فلاں.یعنی اس حد تک اس بات کی احتیاط رکھی گئی ہے.ایک مسلمان کے لئے کہ دوسرے کو فتنہ اور ابتلاء میں نہ ڈالے.اور جو نیک صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب کے حصول کے لئے اس کو عطا کی ہیں ان کی ترقیات کے راستے میں روک نہ بنیں.اختیار دیا گیا ہے لیکن نیک آدمی کو یہ کہا گیا ہے کہ ہر دوسرے کا تو نے خیال رکھنا ہے.اور ایک اور جگہ قرآن کریم نے ایک اور رنگ میں زیادہ وضاحت کے ساتھ بعض چیزوں کو بیان کیا ہے اور وہ ہے سبح اسم رَبَّكَ الْأَعْلَى الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى (الاعلی :۲) اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت جو ہے وہ کسی شعبہ میں بھی کسی قسم کا نقص اور کمی اپنے اندر نہیں رکھتی.دوسرے یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت ضرورت اور تدریج کے اصول کو سامنے
خطابات ناصر جلد دوم ۲۸۸ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۷ء رکھ کے جو اس نے بنائے ہیں خود ہی تدریجی طور پر ترقی دیتے ہوئے کمال تک پہنچاتی ہے.اور چونکہ انسان نے بھی خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھانا تھا یہاں اس واسطے کہا گیا کہ اعلیٰ جو ہے ربوبیت وہ اللہ تعالیٰ کی ہے بعض دوسروں کو تو اپنے محدود قوالی اور صلاحیتوں کے اندر ایک عکس ایک ظل رکھا ہوا ہے.الَّذِي خَلَقَ فَسَوی ، سوی کے دو معنی لغت عربی نے کئے ہیں.ایک یہ کہ درست اور اعتدال پر یعنی نہ دائیں جھکا ہوا نہ بائیں جھکا ہوا، بلکہ صراط مستقیم پر چلتے رہنے کی طاقت رکھنے والا اور ترقی کا مادہ اپنے اندر رکھنے والا، بے عیب بنایا.الَّذِي خَلَقَ فَسَوی یہاں انسان کا ویسے ذکر ہے کیونکہ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى میں انسان کو مخاطب کیا گیا ہے نا.تو انسان کو یعنی ویسے دوسروں کو بھی بنایا ہے لیکن یہاں انسان ہے کیونکہ یہ مضمون انسان کے ساتھ نہی تعلق رکھتا ہے.انسان کو اعتدال بخشا اور اس میں ترقی کا مادہ پیدا کیا اور ترقی کرنے کے لئے اسے کامل طاقتیں عطا کیں.اور استعداد میں موہبت کیں اور ہر قسم کے عیب اور کمزوری سے اسے پاک بنایا.اور کیونکہ اللہ تعالیٰ نے طاقتیں عطا کیں اور استعداد میں دیں اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس اعتدال پر قائم کیا اور ترقی کا مادہ اس کے اندر رکھا اس لئے ہر انسان کا یہ حق ٹھہرا کہ اس کی صلاحیتوں کی کامل نشو و نما کے لئے جن اشیاء اسباب اور حالات اور ماحول کی ضرورت ہے وہ اسے میسر ہو.یہ ہر انسان کا حق ہے قرآن کریم نے یہاں یہ اعلان کیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں بلکہ اگر ایسا کام کرے کوئی شخص تو یہ بڑا گناہ ہوگا کہ وہ انسانوں کو اس حق سے محروم کرے یعنی اس حق سے کہ وہ جسمانی طور پر، جو جسمانی قوی ہیں ان کو کمال نشو و نما تک پہنچائیں.یا اپنی اخلاقی طاقتوں کو کمال نشو و نما تک پہنچائیں.اس کے رستے میں وہ روک بنے اس کا کسی کا حق نہیں یا یہ کہ وہ اپنی روحانی طاقتوں کو کمال نشو ونما تک پہنچائے.جسمانی اور روحانی طاقتیں جتنی بھی دی گئی ہیں ان کے کمال نشو ونما تک پہنچانے میں روک نہیں بنا بلکہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوَى ( المايدة : ٣) کے ماتحت کمال نشو و نما تک پہنچنے میں ان کی مدد کرنی ہے.ان ہدایتوں کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کی ہیں.دوسرے معنے خَلَقَ فَسَوی کے یہ ہیں کہ جب انسان اپنی ہی کسی غفلت یا گناہ کی وجہ سے عیب
خطابات ناصر جلد دوم ۲۸۹ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اور کبھی پیدا ہو جائے اور خرابی پیدا ہو جائے.اس عیب کو دور کرنے اور اس گناہ کو غفلت کے اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپنے کے سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دئے خَلَقَ فَسَوی میں یہ دونوں معنیٰ آتے ہیں کہ اس کو بڑی زبر دست قو تیں عطا کی ہیں اس مقصد کے حصول کے لئے جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا کہ وہ اپنے رب سے زندہ تعلق قائم کرنے والا ہو اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر انسان خود ہی گناہ کرے اور اس کے اندر خرابی پیدا ہو جائے جسمانی طور پر بھی یا اخلاقی اور روحانی طور پہ بھی تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے ہیں کہ وہ اس کجی کو دور کر سکے اور پھر واپس آجائے اپنے بیج مقام کے اوپر اس سے یہ نتیجہ نکلا ایک تو یہ کہ انسان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ گناہ کرے.دوسرا یہ کہ خدا تعالیٰ کو یہ پسند نہیں ہے کہ وہ گناہ کرے تیسرا یہ کہ خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے اور اس نے ایسے سامان پیدا کئے ہیں کہ گناہ کے بداثرات سے وہ محفوظ رہ جائے.اور پھر اس کا خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم ہو جائے.جب خدا تعالیٰ نے انسان کو ، انسان کے لئے ، اس کی جو گناہوں کی سزا ہے اس سے بچنے کے اس زندگی میں سامان پیدا کئے ہیں تو کسی اور کو یہ اختیار نہیں پہنچتا کہ جو اصلاح کے لئے اسے زمانہ چاہئے تھا اس سے اس کو محروم کر دے.یعنی یہ کہے کہ تو بہت گناہ گا رہے تیری گردن اڑا دیتے ہیں تو مارنا ہوگا تو آپ ہی خدا تعالی ماردے گا.لیکن جب خدا تعالیٰ کسی کی جان نہیں لیتا وَ أُمَلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِى مَتِينَ (الاعراف: ۱۸۴) اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو ایک مہلت دے رہا ہے تا کہ وہ ان اسباب باری سے فائدہ اٹھاسکیں جو ان کی اصلاح کے لئے اس نے جسمانی اصلاح کے لیے یا روحانی اصلاح کے لئے پیدا کئے.جسمانی اصلاح کے لئے اس طرح کہ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (الشعراء :۸۱) کہا : ہے خدا تعالیٰ نے ، قرآن کریم میں آیا ہے حضرت ابراہیم کی زبانی ، تو اس میں یہ بتایا گیا کہ انسان غلطی کر کے بیمار ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ نے صحت کے دو قوانین بنائے ہیں ان قوانین سے ذرہ بھر ادھر ادھر ہوئے بیمار ہو جاؤ گے پھر انسان سمجھتا ہے، پھر وہ دعا کرتا ہے پھر وہ خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے اسباب کی طرف توجہ کرتا ہے.پھر وہ ڈاکٹر سے مشورہ کرتا ہے وہ دوائی دیتا ہے اور اگر وہ روحانی بیماری ہے یا اخلاقی بیماری ہے تو یہ ہم کیسے مان لیں کہ خدا تعالیٰ نے انسان کی جسمانی بیماریوں کو دور کرنے کے لئے تو بے شمار لاکھوں نہیں بے شمار ادویہ پیدا کر دیں اس کائنات میں
خطابات ناصر جلد دوم ۲۹۰ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء لیکن اس کی روحانی بیماری کو دور کرنے کے لئے اس نے کوئی انتظام نہیں کیا.یہ ماننے والی بات نہیں ، اس واسطے خدا تعالیٰ نے یہاں یہ اعلان کیا ہے کہ بیماری جسمانی ہوا خلاقی یا روحانی اس کو دور کرنے کے لئے اور صحت کو قائم کرنے کے لئے سامان مہیا کیا ہے.یہ انسان کا کام ہے ان سامانوں سے فائدہ اٹھائے اور اپنی صحت کو قائم کرے اگر اخلاقی اور روحانی بیماریاں ہیں تو وہ دور ہو سکتی ہیں.یہ زندگی.لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ (الزمر : ۵۴) کا اعلان کیا ہے قرآن کریم نے یہ تو نہیں کہا اگر یہ کہا جاتا نا کہ اگر تم گناہ گار ہو گئے تو میں تمہیں کبھی نہیں بخشوں گا تو لاکھوں آدمی ،صرف اس ایک اعلان کے ساتھ ہی ان کا دم فنا ہو جاتا کہ ہمارے لئے تو بہ کا دروازہ ہی کوئی نہیں ، ہم اس خدا کی طرف اس وقت جب کہ ہم نے اس کو پہچان لیا ہے کہ دوری اس سے جو ہے وہ عذاب ہے اس کی طرف ہم واپس جاہی نہیں سکتے تو خدا تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کئے اور کسی انسان کو یہ حق نہیں دیا کہ کسی دوسرے انسان کو جس طرح جسمانی بیماریوں کے علاج کے رستے میں روک نہیں بن سکتا وہ، اس کی اجازت نہیں اس کو دی گئی اسی طرح اخلاقی اور روحانی بیماریوں کے راستہ میں بھی وہ روک نہیں بن سکتا یعنی قانونا اور خدا تعالیٰ کی شریعت کے مطابق اس سے یہ ثابت ہوا یہ جو سامان پیدا کئے ہیں بھلائی کے اور تو بہ کے دروازے جو کھلے رکھے گئے ہیں اس سے یہ ثابت ہوا کہ گناہ گار بنانا اللہ تعالی کی منشا نہیں ہے اس کائنات میں، یعنی یہ کہ کوئی شخص گناہ گار بن جائے یہ الہی منشا نہیں ہے.الہی منشا یہ ہے کہ ہر انسان خدا تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق رکھنے والا فرد ہو.یہ منشا ہے خدا کا کہ خدا مل جائے ہر انسان کو خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا ہر انسان اپنی صلاحیتوں کی کامل نشو ونما کرنے کے بعد اپنی استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا ہو.یہ ہے خدا تعالیٰ کا منشاء، خدا تعالیٰ کا یہ منشا نہیں ہے کہ کوئی ایک انسان بھی اس کی ناراضگی مول لے، ایک انسان بھی اس سے دور ہو جائے اور اس کے قرب کی راہیں اس کے اوپر بند ہو جائیں، اس کے اپنے گناہوں سے، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے.ورنہ اتنا بڑا کارخانہ روحانی طور پر لوگوں کو کم نظر آتا ہے.اس واسطے جسمانی مثال خدا تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں دے دی ہے.یعنی اب تک لاکھوں دوائیوں کا پتہ لگ چکا ہے انسان کو ، اور ہر روز پتہ نہیں کتنی نئی نکال لیتے ہیں کئی لاکھ، چین نے ایک دفعہ سروے کروایا اپنے گاؤں میں بھیج کے کہ کون سی ادویہ کن کن امراض کے لئے ،
خطابات ناصر جلد دوم ۲۹۱ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء بزرگ گاؤں کے جو تھے اپنے جس وقت ڈاکٹر نہیں بنا کرتے تھے یونیورسٹیز میں ، وہ استعمال کرتے تھے ، کن ادویہ کو کس علاج کے لئے.تو کئی لاکھ نسخے ان کو مل گئے ، اکٹھے کر لئے انہوں نے ، ہر گاؤں میں آدمی بھیج دیئے اپنے سٹوڈنٹس بھیج دیئے میڈیکل کالجز کے اور سکولز کے اور وہ وہاں سے لکھ کے لائے کہ فلاں نے بتایا فلاں بوٹی ہے یہ اس کی شکل ہے تو لوگوں کو یہ بھی حکم تھا کہ وہ اس علاقے میں چونکہ ہوتی ہے تبھی استعمال کر سکتے ہیں اور دیکھیں جا کے اس کو پہچانیں اس کے نقشے بنائیں اس بوٹی کی جو عادت ہے اس کا پتہ کریں، ان عادتوں کا کس موسم میں اگتی ہے، کیا ہے، پھول کیسے آتے ہیں پھل بھی آتا ہے اس کا رنگ کیا ہوتا ہے، پوری تفصیل لکھ کے لاؤ.کئی لاکھ ادویہ ان کو اس تدبیر کے نتیجے میں مل گئی تو خدا تعالیٰ نے جسمانی ضرورت اور اس کے پورا کرنے کے لئے اسباب جو تھے ان کا ذکر کر کے کہا کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو بنایا تھا روحانی طور پر بلند درجات حاصل کرنے کے بعد اس کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم کرے.یہ جو جسمانی صحت ہے یہ تو ایک زمینہ تھی بلند ہونے کے لئے تو جب اس زینہ کے متعلق اتنی احتیاطیں برتی گئی ہیں تو جو اصل مقصود ہے تو ان کو کیسے نظر انداز خدا تعالیٰ کر سکتا تھا.اور اگر خدا تعالیٰ نے لاکھوں راستے ہدایت پانے کے کھولے ہیں تو کوئی ایک راستہ کوئی ایک انسان دوسرے پر نہیں بند کر سکتا، کیونکہ خدا تعالیٰ کی منشا کے خلاف ہے یہ بات.پھر فرمایا وَ الَّذِي قَدَّرَ فَهَلى (الاعلى :۴) اس کے ایک معنی تو یہ ہیں جو پہلے بھی میں نے بیان کئے.سورہ فاتحہ کے سلسلے میں کہ ترقی کی استعداد اور کامل قوای بنایا.انسان کو قابل بنایا یعنی وہ پہلی طاقتیں اور قو تیں اس کو عطا کیں جس سے وہ قابل بن گیا کہ وہ ہدایت پائے اور ہدایت یافتہ ہو اور مطہر ہو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اور دوسرے اس کے معنی ہیں قدر کے کہ روّی وفكر في تصفية امره جب خرابی پیدا ہو جائے تو خرابی کا اندازہ کر کے اس کے مطابق خرابی دور کرنے اور ہدایت کی تجویز کی خداتعالی نے.یہاں یہ بتایا کہ ہدایت پانے کے لیے تو خدا تعالیٰ نے بڑی تفصیل میں جا کے انسان کے لئے چھوٹی روحانی اخلاقی بیماری ہے، اس کا بھی علاج بتایا اور درمیانے درجے کی ہے اس کا بھی علاج بتایا، بڑی بیماری ہے اس کا بھی علاج بتایا.یہ اعلان کر دیا کہ مایوس کبھی نہ ہونا جب تک زندہ ہو آخری سانس ہے اس وقت تک تم اپنی حالت بدل سکتے ہو، یہ ٹھیک ہے، فرعون کو جب نظر آ رہی تھی موت توبہ کی ، تو فرعون کی نہیں تو بہ منظور ہوئی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی اور کی
خطابات ناصر جلد دوم ۲۹۲ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۷ء بھی نہیں ہوگی.یہ تو خدا تعالیٰ نے تو کہا ہے کہ اس دنیا میں میرا کام ہے کسی کو معاف کرنا یا نہ کرنا وہ علیحدہ ہے لیکن خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ قَذَرَ فَهَدی کہ ہر مرض جسمانی ہو یا روحانی خدا تعالیٰ نے روحانی اگر ہے تو اپنے کلام قرآن مجید میں اندازے کئے ہوئے ہیں کہ ان امراض کا یہ علاج ہے وہ کرو وہ مرض جو ہے وہ دور ہو جائے گی.جس طرح خدا تعالیٰ نے اندازہ کیا ہے جسمانی امراض کا اور اس کے ایک اور معنی ہیں جو خدا تعالیٰ کی قدرت عظیمہ اور اس کی بلندشان کی طرف دلالت کرتی ہے کہ ہر فرد کا اندازہ مختلف ہے یعنی ہر فرد کے لئے علاج مختلف ہے ایک دفعہ مجھے ہو گیا پاؤں کے زخم ، داد جس کو کہتے ہیں.نیا نیا آیا تھا ولائت سے پڑھ کے، اخبار میں دعا کے لئے چھپا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے پیار کرتی ہے جماعت ، میرے پاس بیسیوں خط آئے اور میرے علم میں بڑی زیادتی ہوئی ایک شخص نے لکھا کہ الف ایک دوائی ہے وہ میں نے بڑی استعمال کی مجھے بھی داد ہو گئی تھی ، بالکل نکمی ہے اور یہ کوئی فائدہ نہیں دیتی میں نے یہ ب دوائی ہے اس کو استعمال کیا مجھے فائدہ ہو گیا آپ الف بالکل استعمال نہ کریں یہ دوائی جو دوسرا نسخہ ہے یہ میں لکھ رہا ہوں یہ آپ استعمال کریں.اور دوسرے خط میں یہ نکلا کہ میرے داد ہو گئی تھی اور میں نے ب دوائی استعمال کی اس کا کوئی فائدہ نہیں بڑی لکھی دوائی ہے اور آپ یہ کبھی استعمال نہ کریں اور الف دوائی بہت اچھی ہے اور میں نے استعمال کی اور مجھے آرام آیا.تو ہر فرد کے لئے خدا تعالیٰ نے ، یعنی اتنی عظیم ہستی ہے اور اتنی پیار کرنے والی ہستی ہے کہ ہر فرد کی جو انفرادیت ہے.انفرادیت جسمانی لحاظ سے بھی پہلے بھی بتایا ہے کہ ہر فرد کے کیمیاوی اجزا جو ہیں وہ بھی مختلف ہیں.تو ہر فرد کے کیمیاوی اجزا کے مطابق جو دوائی اس کو ملنی چاہئے تھی وہ خدا نے پیدا کر دی.خدا نے تو یہ اعلان کیا کہ میں نے اپنے بندوں میں سے ایک کی مرض کو بھی نہیں بھولا میں.ایک فرد ہے اس کو بیماری ہے اس کا بھی علاج میں نے پیدا کر دیا.تو وہ اپنے بندوں کی روحانی بیماری کو دیکھ کے خاموش ہو جائے یا کسی کو یہ اجازت دے گا کہ ان کی اصلاح کی کوشش نہ کرو بلکہ ان کی اصلاح کے دروازے بند کر دو.انسان کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا ایک زندہ تعلق پیدا ہو جائے اور یہ عبد بننے کے معنی اسلام نے یہ کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اس کی صفات پر بھی چڑھے خدا کا ہم رنگ ہو جائے.ہم خلق ہو جائے.تخلقوا باخلاق اللہ ہمیں کہا گیا ہے اور تیسرے یہ
خطابات ناصر جلد دوم ۲۹۳ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا ہم رنگ ہونے کے لئے جس قدر طاقتیں اور استعداد میں ضروری تھیں وہ انسان کو مہیا کر دیں.اور چوتھی بات غالبا یہ کہ انسان کو صاحب اختیار بنایا وہ بھٹک بھی جاتا ہے اپنی غفلت یا گناہ یا اباء اور استکبار کے نتیجہ میں.لیکن اس کو یہ کہا کہ تو مایوس نہ ہو تیرے اوپر اس زندگی میں کبھی بھی تو بہ کے اور خدا کی طرف واپس لوٹنے کے دروازے بند نہیں کئے جائیں گے اور تیری جسمانی بیماریاں ہوں یا روحانی ان کا علاج ہم نے پیدا کر دیا ہے اور ایک اور بات یہ نکلی اس میں سے کہ کسی انسان کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ کسی دوسرے انسان کو اس کی جسمانی بیماری کی حالت میں علاج کرنے سے روکے اور منع کرے اس کی دوائی اٹھا کے زمین پہ پھینک دے اسی طرح کسی انسان کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ دوسرے کی روحانی بیماری جو ہے اس کی اصلاح کے رستے میں روک پیدا ہوا اور یہ نکلا کہ خدا تعالیٰ کا جو قرب کا حصول ہے اسے خدا جانتا ہے یعنی جیسا کہ ہمیں یہ بتایا گیا کہ تم یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکتے کہ تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا بندہ بننا.یہ انسان کا تو کام نہیں ہے نہ اپنی مرضی سے آیا یہاں نہ مرضی سے جائے گا.اسی طرح کوئی انسان اپنے متعلق بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ ایک تندرست روح کی صورت میں مرنے کے بعد پیش ہوگا یہ خدا تعالیٰ نے فیصلہ کرنا ہے انسانوں کا کام ہی نہیں ہے یہ فیصلہ کرنا.اور اگر کسی کی اپنی ضمیر اور فطرت اندر سے یہ پکارے کہ اے خدا کے بندے خدا کو بھول گیا ہے اس کی طرف واپس لوٹ اور وہ پھر قرآن کریم پر غور کرے اور اپنے بھلائی کے رستوں کو تلاش کرے اور اپنی روحانی بیماری جو ہے اس کا علاج کرنے کی کوشش کرے تو کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کا ہاتھ پکڑے اور اس کو کہے کہ نہیں میں تیرا علاج نہیں ہونے دوں گا.قرآن کریم پر بڑا غور کیا ہم نے ، ہمارے بزرگوں نے ہم سے بھی زیادہ کیا سارے قرآن کریم میں کوئی ایک جگہ نہیں ہے جہاں یہ لکھا ہو کہ کسی فرد یا گروہ کو اس کے خدا داد جو ہیں اس کے حقوق ان کو نہ دو اور محروم کر دو کوئی ایک حکم ایسا نہیں.قرآن کریم کے جتنے اوامر اور نواہی ہیں وہ حکم یہ دیتے ہیں کہ دوسروں کی خیر خواہی کرو اور ان کے حقوق ادا کرو اور جو نواہی ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کے حقوق قائم ہیں ان میں رخنہ پیدا نہ کرو ان کو نہ توڑو ، یہ نہ کرو، یہ نہ کرو، یہ نہ کرو وہ ہے نا، نواہی ، نہ کر ، نہ کر ، جھوٹ نہ بول، جھوٹ بولنے سے انسان کے اپنے نفس کا حق بھی مارا جاتا ہے اور بہت
خطابات ناصر جلد دوم ۲۹۴ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر۱۹۷۷ء سارے دوسروں کا حق بھی مارا جاتا ہے.قرآن کریم نے جب تفصیل میں ہم جائیں تو میں نے کہا ہر امر اور ہر نہی جو ہے کر بھی اور نہ کر بھی کاٹنے سے بھی بعض ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں.لیکن بغیر ضرورت کے کسی درخت کو کاٹنا نہیں نقصان نہیں پہنچانا یعنی حلال ہے آپ نے اس کو ذبح کر کے کھانا ہے تو ذبح کا طریق.جانور کے نقطہ نگاہ سے اس کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی.ایک سیکنڈ کے سویں حصے میں کوئی تکلیف ہوتی ہو.فوری طور پر بے ہوشی طاری ہوتی ہے اس واسطے جو گھر کے جانور بغیر کسی تیر کے یا لاٹھی کے پکڑے جا سکتے ہیں.حدیث میں منع ہے کہ پالتو جانوروں کو تیر سے شکار نہ کرو.میں نے پہلے بھی کہا تھا کس قدر ز بر دست یہ حق ایک زندہ کا قائم کیا گیا ہے کہ دس گز کے فاصلے پر ہے، کتنے سیکنڈ میں آپ وہاں پہنچ جائیں گے ذبح کرنے کے لئے لیکن یہ دس سیکنڈ بھی اس کو تکلیف نہیں دینی یہ اس کا حق ہے.یہ تو تمہارا حق ہے کہ ایک بکرا ذبح کرو اور کھا جاؤ لیکن یہ تمہارا حق نہیں ہے کہ ذبح کرنے سے پہلے بکرے کو دکھ پہنچاؤ اور تکلیف دو اس کو ، ذبح کرتے وقت اجر کے جو دوسرے ہیں ان سے کہو کہ ان کو پرے کر دو جن کو ذبح کرنا ہے وہ دیکھیں ان کو تکلیف نہ ہو یہ میں رب العالمین والے جلوؤں کی بات کر رہا ہوں یعنی جس میں نباتات بھی ، جمادات بھی ، حیوانات بھی انسان بھی آتے ہیں سارے، تو سارے قرآن میں کوئی شخص یہ نکال کے نہیں ہمیں دکھا سکتا کہ کہا ہو قرآن کریم نے کہ اس بات میں خدا تعالیٰ نے جو انسان کا کوئی حق قائم کیا ہے اس کو توڑنے کی ہمیں اجازت نہیں دی گئی کسی کو گالیاں دینے کی اجازت نہیں ، بُرا بھلا کہنے کی اجازت نہیں.خدا تعالیٰ کے شریک بنانے والے جو سب سے بڑا ظلم انسان کر سکتا ہے ملوث ہو جاتا ہے اور شرک کرنے لگ جاتا ہے اور شرک بھی بت پرستی پتھر کو بنا کے یعنی نامعقول شرک جو ہے وہ کرتا ہے.نا معقول یہ غلط نہیں.حقیقت ہے عقل کے مطابق تو نہیں ہے نا وہ.اور کہا لَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ (الانعام : ۱۰۹) اچھا میں نے باہر بھی.یہاں بھی کہتا ہوں کئی دفعہ کہ جو پتھر کا بت ہے کہا ہے کہ اس کو گالی نہ دو پتھر کے بت کے کان ہیں، وہ سنتا ہے، اس کے جذبات ہیں اسے کوئی تکلیف ہوتی ہے، نہیں، اس واسطے کہا کہ نہ دو کہ جو اس کی پرستش کرنے والے ہیں ان کے تو جذبات ہیں ان کے تو کان ہیں وہ تو سنتے ہیں ان کو تکلیف ہوگی.شرک جیسے عظیم گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں جو ان کے جذبات کی حفاظت کر دی کہ یہ نہیں کرنا.
خطابات ناصر جلد دوم ۲۹۵ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء قرآن کریم نے کی یعنی تفسیر میں نہیں، بعض چیزیں ہمیں قرآن کریم کی تفسیر میں ملتی ہیں قرآن کریم نے یہ اعلان کر دیا.یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ان تعلقات کو قائم رکھو جن کے قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے وہ خدا کے جو رسول ہیں ان کے ساتھ تعلقات ہیں خود قرآنی ہدایت نے بتائے ہیں کہ اس قسم کا تعلق ہے جس میں اونچی آواز سے نہیں بات کرنی.ملنے سے پہلے صدقہ دو.بہت ساری اور ہدایتیں ہیں.اطاعت کرو، فیصلہ سمجھ آئے نہ آئے بشاشت کے ساتھ اس کو قبول کرو اور رسول کی جو فراست ہے اور رسول کا جو فیصلہ ہے اس سے اچھا اپنا فیصلہ نہ سمجھو.ملائکہ سے تعلق ہے وہ بتایا ہے کس قسم کا تعلق ہے ملائکہ ایک تعلق تو یہ ہے مثلاً ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ ( حق التجدة : ۳۱) یہ ایک تعلق بتایا گیا ہے ناں ملائکہ کے ساتھ اس واسطے یہ حکم دیا کہ استقامت کر تو دین کی راہ میں، اور ملائکہ تمہارے ساتھ باتیں کرنی شروع کر دیں گے آئے.ایک تعلق جو ہے وہ قائم کیا گیا ہے خلفاء سے ، اولیاء سے، ابرار سے اور قومی نظام کے چلانے والے جو ہیں، انتظامیہ ان کے اپنے فرائض ہیں ان کو وہ ادا کرنے چاہئیں لیکن جو رعایا کے فرائض ہیں وہ یہی ہیں کہ جو نظام چلانے والے ہیں ان کے ساتھ تعلقات جو ہیں وہ درست ہونے چاہئیں.رشتے دار ہیں، ہمسائے ہیں، غربا ہیں ، مساکین ہیں، مسافر ہیں، اہل وطن ہیں افراد انسانیت ہیں، حیوانات ہیں، کیڑے مکوڑے ہیں، نباتات ہیں، جمادات ہیں ہر ایک کے ساتھ تعلق کو قائم کیا گیا ہے اور حکم یہ ہے کہ یہ جو ان کے حقوق ہیں وہ تم نے توڑنے نہیں.جو خدا تعالیٰ نے حق قائم کیا ہے وہ کسی کا حق غصب نہیں کرنا اور انسانوں میں سے مومن و کافر کی کوئی تمیز ہی نہیں یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے تعلقات قائم رکھنے کا حکم دیا ہے اور وہ مومن ہیں ان سے تعلقات قائم رکھو.اگر وہ مومن ہیں تو تعلقات رکھو یعنی حکم یہ ہے سارے انسانوں سے قائم کرو.لیکن یہ نہیں کہا کہ اگر وہ مومن ہو تو کرو کا فر ہو تو نہ کر وحکم توڑ دو اور یہ خشیت باری کے خلاف نہیں ہے یہ نہیں کیا گیا.پھر کہا گیا ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران (۱۱) انسان کے مقام کے اوپر یہ کہا گیا کہ تم خیر امت ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت خیر امت ہے.اور اس لئے خیر امت ہے کہ سارے دنیا کے انسانوں کے لئے بھلائی کا موجب یہ ہے ہر ایک کی خیر خواہ ہے ہر ایک کی
خطابات ناصر جلد دوم ۲۹۶ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ہمدرد ہے، ہر ایک سے نیکی کی باتیں کرنے والی ہے، ہر ایک کو بہ اور تقویٰ کا حکم کرنے والی ہے، ہر ایک کو معروف باتیں بیان کرنے والی ہے، ہر ایک کو جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النَّحل : ١٢٦) کے مطابق...جو بری باتیں ہیں ان کو پیار کے ساتھ سمجھانے والی ہیں اور یہ تمہارے ایمان کا تقاضا ہے ایک دفعہ یہ وہاں انگلستان میں کچھ بڑے پیدا ہو گئے تھے جو ویسے ہی بد اخلاقیاں تھیں ان کے اندر پیدا ہو گئے اور بڑے اخباروں میں آنے لگ گئے تھے.تو ۱۹۷۰ء میں پریس کا نفرنس میں انہوں نے مجھے سے سوال کر دیا کہ ان کے متعلق کیا خیال ہے؟ میں نے کہا میرا خیال یہ ہے کہ وہ انسانوں کی طرح زندگی نہیں گزارر ہے.خدا تعالیٰ نے جو طاقتیں اور قو تیں انسان کو دی ہیں اس کے مطابق اس کی زندگی ہونی چاہئے.پھر مجھے فورا خیال آیا کہ یہ نہ سمجھیں کہ میں غصے کا اظہار کر رہا ہوں میں نے کہا مجھے ان پر غصہ نہیں آتا ، مجھے ان پر رحم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نیک زندگی، ایک پاک زندگی ایک بہتر زندگی ، ایک اطمینان والی زندگی کا سامان ان کے لئے پیدا کیا تھا اور اس زندگی کی طرف وہ متوجہ نہیں ہور ہے اور دوسری طرف بہک گئے یہ اس واسطے قابل رحم حالت ہے.نہ میں حقارت کی نگاہ سے ان کو دیکھتا ہوں نہ مجھے ان پر غصہ کوئی آتا ہے اور یہ اسلامی تعلیم نہیں ہے کہ جہاں کوئی اس قسم کی کوئی چیز دیکھو احسن رنگ میں اس کو دور کرنے کی کوشش کرو اس کو اپنا بھائی سمجھو ایسی بات نہ کرو کہ اور ضد پیدا ہو جائے اور چڑ پیدا ہو جائے طبیعت میں ! اور اصلاح کی بجائے وہ اپنی بدی کے اوپر کہے کہ میں کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا اس نے کیوں مجھ سے بات کی.تو بڑی تفصیل كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : ۱۱۱) امت محمدیہ بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے پیدا کی گئی ہے.امت محمدیہ کے کسی فرد کو کس نے یہ حق دیا کہ وہ حقوق جو خدا تعالیٰ نے دوسروں کو دئیے ان کو توڑنے لگ جائیں اس اعلان کے بعد.پھر قرآن کریم نے اس میں، مومن اور کافر کا کوئی فرق نہیں ہے صرف یہ کہا کہ تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إلَى أَهْلِهَا ( النِّساء : ۵۹) جو یہ امانتیں ہیں یہ قرآن کریم کے اور اسلام کی اصطلاح میں خدا تعالیٰ نے جو قو تیں اور استعداد میں انسان کو عطا کی ہیں نیکی کی اور خدا تعالیٰ کی راہوں پر چلنے کی ان کو امانات بھی کہا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے عبد بننے کے سلسلے میں ایک اور جگہ غالباً جو حوالے میں نے پڑھے ہیں اس میں یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی امانتیں !
خطابات ناصر جلد دوم ۲۹۷ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء واپس کرو یعنی جب ساری ہماری قوتیں اور طاقتیں اور استعداد میں خدا تعالیٰ کی ہمارے پاس بطور امانت کے ہیں تو واپس کرنے کا مطلب ہے کہ جس طرح وہ کہتا ہے اس کی چیز ہے نا پھر جس طرح وہ کہتا ہے اس طرح استعمال کرو.اگر تمہاری چیز ہوتی تم کہتے اے خدا ساڈی چیز اے جس طرحاں مرضی ایس نوں استعمال کریئیے.جو خدا نے کہا تہاڑی ہے اسی نہیں ، میری اے.تو امانتیں تُؤَدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء: ۵۹) امانت جس کی ہے خدا نے یہ طاقتیں دیں خدا کی ہدایت کے مطابق ان کو استعمال کرو اور دوسری بات اس میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ پائی جاتی ہے یعنی یہ سارا منصوبہ بنا کے، ایسا ماحول پیدا کر کے کہ خدا تعالیٰ نے جو قوتیں اور صلاحیتیں پیدا کی ہیں ان کی کامل نشو و نما ہو جائے یعنی ایسے سامان پیدا کر دئیے.ایک وقت میں ہوا ایسا مثلاً خلافت راشدہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ اور آپ کے بعد خلافت راشدہ کا ہم اس لئے نام لیتے ہیں کہ اس وقت باہر سے بھی لوگ آ کے غیر مسلم اس معاشرے میں شامل ہو سکتے تھے ، ہو گئے تھے، کر لئے جاتے تھے تینوں شکلیں ہمیں نظر آتی ہیں.تو جس کی قوتوں اور استعدادوں کی کامل نشو و نما ہوگئی کسی فیلڈ میں کسی بھی جہت سے اس لحاظ سے جو اس کا مقام معاشرے میں ہے وہ اس کو ملنا چاہئے یہ نہیں کہ فلاں جو ہے ان کو نوکریوں سے برخاست کر دو اور فلاں کو نہ کرو یہ قرآن کریم نہیں کہتا قرآن کہتا ہے تُؤَدُّوا الْأَمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء:۵۹) جو Appointments ہیں جہاں تم نے کسی کو عہدہ دینا ہے یا نوکری دینی ہے اس کی اہمیت کو دیکھو کہ وہ اس کام کا اہل ہے یا نہیں ہے.اور جب ہم اپنی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ پتا لگتا ہے کہ خلافت راشدہ میں یہ جو ز کوۃ وغیرہ کا نظام تھا تو اس وقت عرب ویسے تو حساب ان کو زبانی تو بڑے آتے تھے لیکن یہ کہ لیجر بنے ہوئے ہوں اور کتابوں پر لکھا جائے سارا آمد و خرچ وغیرہ یہ رواج ہی نہیں تھا وہاں ، کاغذ کا ہی رواج نہیں تھا تو اس تمام دفتر جو تھے جو شعبے تھے ان میں فارسی اور شامی اور رومی اور قبطی ان زبانوں میں یہ تھا اور حضرت عمرؓ کے عہد میں خوراک کے محکمہ میں جس طرح قدیم سے فارسی لوگ ، فارسی غیر مسلم ، ایران کے غیر مسلم، یونان کے غیر مسلم مصر کے غیر مسلم ، فارسی، یونانی اور قبطی ملازم تھے آپ سے پہلے آپ نے ان کو کہا کہ
خطابات ناصر جلد دوم ۲۹۸ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء یہ اہل ہیں ان کو اپنی ملازمتوں کے اوپر قائم رکھا.اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک ماہر کی ضرورت پڑی تو وہاں کوئی نہیں مل رہا تھا تو آپ نے خود حکم دے کے ایک غیر مسلم رومی کو مدینے بلایا اس کام کا چارج اس کو دیا کہ یہ تم کام کرو.پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوجی محکمہ جو تھا اس میں ایک وسعت بھی پیدا کی اور اہل عجم جو اہل تھے اس کے مطابق غیر مسلموں کو عزت کے عہدے دیئے اور فوج کے جس طرح ہماری ڈویژنز ہوتی ہیں ان کو انہوں نے فوج کا ایک حصہ بنایا اور اس میں بڑے بڑے عہدے دیئے اور تاریخ میں آتا ہے کہ ڈھائی ڈھائی ہزار، دو دو ہزار تنخواہ پانے والے غیر مسلم فوجی افسر اسلامی فوج کے اندر تھے.أنْ تُؤَدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا ( النِّسَاء:۵۹) کا ایک مطلب یہ ہے کہ جس وقت خدا تعالیٰ کی اس سکیم اور منصوبہ کے ماتحت انسان خدا کی عطا کردہ قابلیتوں کی صحیح پرورش کرے اور نشو ونما کرے اس کے اندر اہلیت پیدا ہوگی جس حد تک ، جس میں یہ اہلیت ہو اس کے مطابق معاشرے میں اس کوفٹ کر دور نہ تو اس اہلیت کو ضائع کرنا ہے.تو ایک لقمہ کو ضائع کرنے کی تو اجازت نہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنی رقابی میں اتنا ہی سالن ڈالو کہ آخری لقمہ جو تم نے کھایا ہے وہ سارا سالن ختم کر جائے ورنہ ضائع ہو جائے گا تو ایک کھانے کے ایک لقمے کو ضائع کرنے کی تو اجازت نہیں اور ایک انسان کو ضائع کر دینے کی اجازت دے دی خدا نے یہ کیسے ہو سکتا ہے.تُؤَدُّوا الآمنتِ إِلَى أَهْلِهَا ( النساء:۵۹) جو جس چیز کا اہل ہے اس کے مطابق اس سے سلوک ہونا چاہئے معاشرے میں وہ جگہ وہ مقام بڑا یا چھوٹا جتنی اہلیت ہے اس کے مطابق اس کے ساتھ سلوک ہونا چاہئے اور اس میں قرآن کریم نے کافر اور مسلم میں کوئی تفریق نہیں کی.پھر سورۃ دہر میں فرمایا کہ میرے بندے وہ ہیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور جو کھانے والے ہیں، بے شمار مخلوق اس کی جاندار، کیڑوں سے لے کے انسان تک سب کو ان کا کھانا دے رہا ہے.خدا نے کہا ہے کہ میں ان کو دے دیتا ہوں تم گھبرا جاتے ہو اپنے متعلق تو وہ رنگ چڑھانا ہے ناں اپنے مطابق وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَيَتيما و أسيرًا (الدھر: ۹) جو خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت ایک مومن کو ہوتی ہے خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاتا ہے وہ پھر خدا تعالیٰ کی محبت کے واسطے یعنی اس لئے کہ وہ محبت تقاضا کر رہی ہے اس کے بغیر رہ نہیں سکتا.خدا سے پیار کر رہا
خطابات ناصر جلد دوم ۲۹۹ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ہے خدا کی مخلوق کو بھوکا کیسے مارے گا.وہ مسکین کو کھانا کھلاتے ہیں، مسلمان مسکین نہیں ، مسکین کو ، يتيمًا خواہ وہ مسلمان ہو یا کا فر ہو، خواہ وہ موحد ہو یا بت پرست ہو، اسے وہ کھانا دیتے ہیں.اور وہ یتیم کی غذا کا انتظام کرتے ہیں مومن اور کافر کے فرق کے بغیر اس ٹیرا اور اسیر کی اور اس زمانے میں جس زمانے میں انہوں نے عمل کر کے دکھایا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اسوہ بنے.اس وقت تو اسیر تھا ہی غیر مسلم.یعنی وہاں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ مسلمان بھی اسیر ہے.مسلمانوں کے پاس اور تھا ہی غیر مسلم اور اعلان یہ کر دیا کہ غیر مسلم ہوں گے یہ نہیں کہا کہ خدا کا واسطہ ہے لیکن تمہارا یہ فرض ہے کہ بھوکا رکھنے کے نتیجہ میں جو جسمانی طاقتیں کمزور ہوتی ہیں اس کمزوری پیدا کرنے کی تمہیں اجازت نہیں دی جاسکتی.ویسے ضمنا جسم کی جو پرورش ہے اس سلسلے میں میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ نے کھانے کے متعلق ، غذا ہمارے جسموں کی زیادہ تقویت کرنے والی ہے ویسے ہوا ہے پانی ہے ہمارے لباس ہیں وہ ہمیں بیماریوں سے بچاتے ہیں لیکن بڑی چیز کھانا ہے غذا ہے جو ہمیں ملتی ہے.- غذا کے متعلق حکم یہ دیا وَ كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ حَلَلاً طيبا ( المايدة : ۸۹) کہ جو اللہ تعالیٰ نے رزق دیا ہے حلال اور طیب کھاؤ.حلال کا جو لفظ ہے اس کے معنی ہیں جو ہر مسلمان کے لئے حلال ہے.مثلاً بکرا ہے، بکرے کا گوشت یہ نہیں کہ کسی کے لئے حلال ہے اور کسی کے لئے حرام ہے.سارے مسلمانوں کے لئے حلال ہے نا.بکرا تو اس کو حلال کہتے ہیں یعنی جس کا اطلاق مسلمان دنیا سے تعلق رکھتا ہے وہ چیز حلال ہے زید کے لئے بھی حلال ہے بکر کے لئے بھی.پاکستانی مسلمان کے لئے بھی اور قریش کے رہنے والے مسلمان کے لئے بھی.ایران کے رہنے والے مسلمان کے لئے بھی.لیکن طیب جو ہے یہ ہر مسلمان کے لئے نہیں ہے یعنی حلال چیزوں میں سے جو طیب ہے وہ کھانا ضروری ہے.میرے خیال میں اسلام پہلا مذہب ہے جس نے حلال کے ساتھ طیب کی شرط لگائی ہے اور طیب یہ کہتا ہے ہمیں ، طیب کا لفظ یہ ہمیں بتارہا ہے کہ ایک بات یہ بتا رہا ہے کہ جو ہر فرد کے مناسب حال ہے یعنی حلال بھی ہو لیکن کھانے والے کی جو ضرورت ہے اس ضرورت کے مناسب حال بھی ہو.اس کی جو انتہا ہے، شکل جو نہیں ضرورت مناسب حال یعنی انتہائی شکل جو مناسب حال نہ ہونے کی صورت میں نظر آئی مجھے مثلاً میرے بھائی کا ایک بیٹا ہے وہ
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء پھل نہیں کھاتا اس کے لئے پھل طیب نہیں ہے اس کے اندر سے آواز ہے نہیں کھانا چھوٹا ہوتا تھا کبھی بہت زیادہ دیر کرے اور میں نے جو اس کو زیادہ سے زیادہ سزا دینی ہوتی تھی تو یہ میں کہا کرتا تھا کہ دیکھو تم بعض آجاؤ اور اب یہ حرکت نہ کرنا ورنہ میں تمہیں کیلا کھلا دوں گا تو وہ شور مچاتا تھا کہ چا ابا بالکل نہیں مجھے کیلا نہ کھلا ئیں میں یہ بات نہیں کروں گا تو وہ طیب نہیں ہے اس کے لئے اور یہ تو ایک رخ ہے نا اس کا ، ہر فرد کا دائرہ استعدا د مختلف ہے.جسمانی طور پہ بھی اس کے لئے متبادل غذا کا جو دوسری جگہ حکم ہمیں ملتا ہے ہر فرد کا توازن مختلف ہے.اتنی تفصیل میں انسان نہیں جاتا اس لئے اس نے گروہ بنالئے.گروہ گروہ کی تقسیم ہوگئی کہ یہ ایسا گر وہ ہے مثلاً اس عمر تک یہ کھانے دو.اس کے بعد یہ کھانے دو اور یا ان علاقوں میں جو گرم علاقے ہیں ان میں گوشت زیادہ نہ کھاؤ ترکاریاں زیادہ کھاؤ جو ٹھنڈے علاقے ہیں ان میں گوشت زیادہ کھاؤ یا جن کی طبیعتیں جو ہیں وہ گرمی کی طرف مائل ہیں وہ زیادہ گوشت نہ کھائیں یا جن کے جسموں میں نقرس کی تکلیف ہے یورک ایسڈ آ جاتا ہے وہ گوشت نہ کھائیں.یہ تقسیم اپنی چلی ہے لیکن ہر فرد کی بھی ہے لیکن ہم اس کے اندر نہیں جاتے گروہ ہم نے بنالئے.تو ایک تو حلال کے ساتھ طیب کی یہ شرط لگائی دوسرے مفردات میں ہے کہ طیب اس کو کہتے ہیں وہ کھانا یعنی حلال ہے لیکن طیب تب بنے گا جب اسے جائز طریق سے حاصل کیا گیا ہو.طیب کے معنی ہیں وہ کھانا جسے جائز طریق سے حاصل کیا گیا ہو عام طور پر کسی زمانہ میں ہمارے ملک میں ہوتی تھی میرا خیال ہے احمدیوں میں یہ نہیں ہوگی کہ زمیندار دوسرے کے کھیت ہر زمیندار دوسرے کے کھیت میں سے گنا کاٹ کے چوپ جاتا تھا اور برابر کر دیتا تھا حساب.یعنی اس نے ادھر کے کھا لئے اُس نے اُدھر کے کھالئے.تو طیب نہیں ہے وہ.طیب وہ کھانا ہے جو جائز طریقے سے حاصل کیا جائے.دوسرے یہ کہ وہ جائز جگہ سے حاصل کیا جائے مثلاً جائز جگہ کی میں مثال دیتا ہوں کہ وہ بطخیں جو گندی نالیوں میں چرتی رہتی ہیں ان کے گوشت میں بھی اور انڈے میں بھی بڑی بد بو ہے.اسلامی تعلیم کے مطابق گندی نالیوں میں اپنی غذا تلاش کرنے والی بلخ جو ہے وہ طیب نہیں ہے انسان کے لئے.وہ نہیں کھانی چاہئے اس کے لئے حوض رکھیں بطخوں کے ساتھ.
خطابات ناصر جلد دوم ۳۰۱ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اور تیسری طیب کی شرط یہ ہے کہ اس کی مقدار کا جائزہ اندازہ ہو.یعنی وہ اسراف نہ ہو.نہ کمی کی طرف نہ زیادتی کی طرف.تو حلال کھاؤ جائز جگہ سے لے کے کھاؤ اور جائز طریق سے حاصل کردہ کھاؤ اور اندازہ کے مطابق کھاؤ جتنی کسی کو ضرورت ہے مثلاً میں نے پہلے بھی شاید یہاں جلسے میں کسی وقت بتایا تھا کہ ایک امریکن ڈاکٹر نے ریسرچ Research کی.بچوں کے کھانے پر تو اس نے یہ خاص خاص ڈاکٹر ا کٹھے ہو گئے تھے ان کو ریسرچ کے پیسے بڑے مل جاتے ہیں اور کوئی دس بارہ سال ریسرچ کرتے ہوئے چھوٹی عمر کے بچوں کے کھانے.تو اس نے یہ نتیجہ نکالا ہے مختصر ایک وہ یہ تھا کہ اٹھارہ سال تک کی عمر تک انسان کھانے کے لحاظ سے بچارہتا ہے اور اٹھارہ سال کی عمر تک کھانے کا جو صحیح طریق طیب جو ہے وہ یہ ہے کہ جس چیز کی جس وقت جتنی مقدار میں بچے کو خواہش پیدا ہو اس کو ملنی چاہئے.اگر اس کی صحت قائم رکھنی ہے.اندر سے آواز ہے ہر آدمی کوئی کہتا ہے مونگ پھلی کھلاؤ، کوئی کہتا ہے میں نے مونگ پھلی کھانی نہیں، کوئی کہتا ہے مجھے چنے کھلاؤ.ماں باپ کہتے ہیں تیرا پیٹ خراب ہو جائے گا چنے تجھے دینے نہیں.تو اس میں بالکل عین قرآن کے اس تعلیم کے مطابق اس کی ریسرچ کا نتیجہ نکلا کہ جو بچے جس چیز کی جتنی مقدار میں جس وقت بچے کے دل میں خواہش پیدا ہو وہ اس عمر کی طبیب ہے وہ اس کوملنی چاہئے اگر اس کی صحبت آپ نے پوری طرح قائم رکھنی ہے.پھر اموال ہیں ہمیں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مال دیئے ہیں ہم تو اپنے ماؤں کے پیٹوں میں سے تو نہیں لے کے آئے دولت یہ دنیا کی.اس کے متعلق ہمیں یہ حکم دیا وفي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ (الذریت : ۲۰) ان کے اموال میں ہم حق قائم کرتے ہیں اور یہ حق ہم قائم کرتے ہیں لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الثریت :۲۰) ان کے اموال میں سائل کا بھی حق ہے اور محروم کا بھی حق ہے.اس کے مختلف معنے کئے جاتے ہیں دیر ہوگئی ہے اس وقت میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن سائل اور محروم دو کا حق جو ہے، حق کہہ کے وہ قائم کیا گیا ہے یہ نہیں کہا گیا کہ اگر سائل مسلمان ہے تو ان کے اموال میں اس کا حق ہے یا اگر محروم مسلمان ہے تو ان کے اموال میں اس کا حق ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ سائل جو ہے خواہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم، خواہ وہ نیک ہے یا بد خواہ وہ مخلص ہے یا کمزور ہے کوئی فرق نہیں پڑتا اعتقاد کا یا امر کا جہاں تک اس کی مالی ضروریات کا تعلق ہے امراء کے اموال میں، سائل کا بلا تمیز اور تفرقہ عقیدہ حق قائم کیا جاتا ہے.اسی طرح محروم کہا گیا ہے مسلمان محروم نہیں کہا گیا.
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۷ء پھر گواہی دینا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے انصاف کے ساتھ گواہی دے دیا کرو كُونُوا قَوْمِينَ لِلهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ (المائدة : 9) اور یہ انصاف کے ساتھ گواہی اس لئے دو تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب جو ہے تمہیں حاصل رہے قَومِینَ لِلہ ہے ناں.خدا تعالیٰ کے لئے تم یہ کام کرو.یہاں یہ نہیں کہا کہ اگر کافر ہے تو اس کے خلاف خوب جھوٹ بولو کہیں نہیں کہا قرآن کریم نے بلکہ یہ کہا ہے کہ تم نے جب گواہی دینی ہے تو سچی گواہی دینی ہے.یہ نہیں دریافت کرنا کہ جی اس کے عقائد کیا ہیں.یہ دیکھنا ہے کہ وہ ایک انسان ہے خدا نے اسے انسان پیدا کیا اس کے حقوق کچھ قائم کئے ہیں اور ایک یہ حق قرآن کریم اس کا یہ دیتا ہے کہ جب اس کے متعلق گواہی دی جائے تو جھوٹ نہ بولا جائے.پھر دوسری جگہ آتا ہے کہ جب اس کے متعلق بات کی جائے تو غلط بات نہ کی جائے جیسا کہ پہلے میں نے بتایا اس کے جذبات کو ٹھیس لگانے والی بات ہوتی ہے.بہت سارے حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کی باتوں کے ساتھ ہے اور جن میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں کیا گیا.قرآن کریم نے اس عملی ہدایت کو ایک ثابت اور مکمل رہنے والا دین قرار دیا ہے اور اس کے معنی مفردات راغب نے جو ہمارے ایک بڑے بزرگ لغت والے ہیں قرآن کریم کی لغت لکھی ہے.ویسے بڑے بزرگ ہیں اللہ تعالیٰ نے بڑی فراست ان کو دی ہے افہام قرآن ان کو عطا کیا ہے وہ کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ معاش و مال کے امور کو درست کرنے والا.یعنی قرآن کریم کی تعلیم یہ دنیا کی یہ جو ہماری زندگی ہے ناں معاشرہ ہمارا اس کو بھی اور اخروی زندگی کے حالات کو بھی درست کرنے والی تعلیم ہے یہ ہے دین ان کے اندر جوشخص یہ سمجھتا ہے کہ مال کے متعلق میں تھوڑا بہت میں عمل کرلوں گا لیکن معاش کے متعلق قرآنی حدود کو پھلانگتا ہوا مسلم اور کافر میں فرق میں کروں گا یہ دین اسلام نہیں ہے نہ قرآن کریم کا یہ دعوئی ہے.پھر فرمایا وَ قَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا ( طه : ۱۱۲) جس نے اپنی طاقتوں اور قوتوں کا غلط استعمال کیا وہ ناکام ہو گیا.زبر دست قوتیں عطا کیں ان کی ہدایت کے سامان پیدا کئے اور یہ اس لئے پیدا کئے کہ خدا تعالیٰ کا قرب انسان کو حاصل ہو جائے اور وہ حقیقی معنی میں اس کا بندہ بن جائے اور اس کے سارے قومی خدا کے لئے ہو جائیں اس کی زندگی خدا میں فانی ہو جائے جیسا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے پڑھ کے آپ کو سنائے.یہ ہے اسلام، اسلام سیاست
خطابات ناصر جلد دوم ٣٠٣ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء بھی ہے اسلام اقتصادیات بھی ہے، اسلام معاشرہ بھی ہے اسلام جمہوریت نہیں اور اسلام یہ جو آجکل کی مغربی ممالک کی اقتصادیات ہیں وہ نہیں.اسلام کی اپنی سیاست ہے اس کے اپنے اصول ہیں اسلام کے اپنی اقتصادیات کے اصول ہیں.اسلام میں خدا تعالیٰ نے انسان کے جو حقوق قائم کئے ہیں ان کا بتایا ہے انسان کو ، یہ بتایا ہے کہ جو تمہیں طاقتیں اور قوتیں دی گئی ہیں ان کی اس رنگ میں نشو و نماتم کر سکتے ہو.انسان کو یہ بتایا ہے اگر تم ہمارے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہماری امانتیں ہمیں واپس کر دو گے یعنی اپنی قوتوں کا استعمال اس طرح کرو گے جس طرح ہم چاہتے ہیں تو ہم تمہیں زمین سے اٹھا کے آسمانوں تک لے جائیں گے تم ہمارے مقرب بن جاؤ گے.تمہیں وہ نعمتیں ملیں گی جو اسلام کا وعدہ ہے تمہیں وہ نعمتیں ملیں گی کہ پہلے آنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آنے والے کسی نبی کی امت کو وہ نہیں ملیں.یہ بشارتیں ہیں میں آپ کو مخاطب کروں گا آپ میرے پیارے میرے سامنے بیٹھے ہیں مجھے دوسروں سے یہ ہمدردی ہے کہ آپ کے ہاتھ سے انہیں کوئی دکھ نہ پہنچے مجھے ان سے یہ ہمددردی ہے کہ پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ جہاں اپنی سمجھ کے مطابق احمدی کو اصلاح کا کوئی معاملہ کوئی مسئلہ نظر آئے وہ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے.مجھے اس چیز سے تعلق ہے کہ جو یورپ کا غریب اپنے حقوق کو جانتا ہی نہیں اور جو کچھ اپنے پاس ہے وہ بھی اپنے ان حقوق کے لئے جو اس کے ہے ہی نہیں اس سے کہیں زیادہ حقوق ہیں اس کے ان پیسوں کو وہ ضائع کرتا رہتا ہے اس کے وہ پیسے ضائع نہ ہوں جو اسلام نے حقوق قائم کئے ہیں لیبر کے، جو اس نے حقوق قائم کئے ہیں سرمایہ دار کے، وہ سارے ہر ایک کو اس کا حق ملنا چاہئے کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے اور آپ کو میں مخاطب کرتا ہوں اس لئے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کے ایک بندے نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرزند نے ، ایک آپ کے اتنے پیار کرنے والے نے کہ آپ کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ اے میرے سردار میں تو ادنی غلام ہوں تیرا.ان کی طرف آپ منسوب ہوتے ہیں ان کی بیعت کی خدا نے توفیق دی ہے آپ کو ، ان کے او پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں جو اکیلا آدمی کر نہیں سکتا.ان کو وعدہ دیا گیا تھا کہ تجھے ایک جماعت دیں گے جو یہ کام کیا کرے گی اس واسطے یہ جو بنیادی چیز ہے اسلام کی کہ کسی شخص سے کبھی کوئی اس کا حق چھینا نہیں ، غصب نہیں کرنا اس کا حق توڑ مروڑ کے پرے نہیں پھینک دینا.اس کی صحت کے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۰۴ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۷ء رستے میں روک نہیں بننا اس کی روحانی اصلاح کے رستے میں روک نہیں بنا اور یہ کوشش کرنی ہے اور یہ جذ بہ دل میں رکھنا ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء :٢) محمدصلی اللہ علیہ وسلم تو مرتے تھے اس بات کے لئے کہ یہ لوگ مسلمان ہو جا ئیں اور ہم خوش اس بات پر ہوں کہ وہ لوگ قرآن پر عمل نہیں کر رہے.یہ تو پھر ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیسے منسوب ہوں گے تو جو پیار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بنی نوع انسان کے لئے خدا نے پیدا کیا تھا اس کے ہم بھی وارث ہیں کیونکہ وہ پیار صرف ایک شخص کے لئے نہیں تھا وہ تو آگے بانٹنے کے لئے تھا وہ تو اسی رنگ میں بانٹنے کے لئے تھا جس طرح خدا کی نعمتیں بٹ بھی جاتی ہیں اور کمی بھی نہیں ہوتی.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کیلئے اپنے اس پیار کو دنیا میں بانٹا اتنی سخاوت کی کہ اس جیسا کوئی سخی ہمیں نظر نہیں آتا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی دولت میں کوئی فرق نہیں پڑا.ہمیں بھی ملا جو کچھ ہم سب کو مجھے اور آپ کو ، کوئی اس بات کو بھولے نہ اور یہ پکا عزم کریں کہ آج کی دکھی دنیا جو ہے وہ اس جماعت کی محتاج ہے جو ان کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھے.جوان پر ظلم نہ کرنے والی ہو جو ان کے حقوق ان کو دینے اور دلانے والی ہو.جو محبت اور پیار کے ساتھ خدا تعالیٰ کا نور ان تک پہنچانے والی ہو.جو خدا تک پہنچانے والی راہیں ان پر کھولنے والی ہو.اس جماعت کی ضرورت ہے، وہ جماعت بن جائیں پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے پہلے سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے آپ وارث بنتے ہیں اور بنی نوع انسان آپ سے فائدہ اٹھاتا ہے اور بنی نوع انسان کی خوشحالی کے سامان پیدا کرنے کی آپ کو اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے.قرآن کریم نے جو حقوق بلا امتیاز مذہب و ملت، بلا امتیاز نیک و بد، بلا امتیاز کسی امتیاز کے بغیر قائم کئے ہیں ان پر سختی سے کاربند ہوں اور اس طرح پس ثابت کریں کہ واقعہ میں اور حقیقی معنی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے محسن اعظم تھے.(حضور نے فرمایا نعرے لگا دو.) اب ہم دعاؤں کے ساتھ اس جلسے کو ختم کریں گے اس امید پر کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں سے آئندہ سال کا جلسہ بھی ہمارے نصیب میں کرے اور اس سے زیادہ برکتوں کا حامل ہو وہ جلسہ.اور زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہو وہ جلسہ اور زیادہ کثرت کے ساتھ یہاں آنے کی اپنے بھی اور اپنے دوست بھی توفیق پائیں.اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں آپ پر بھی اور ان پر بھی جو
خطابات ناصر جلد دوم ۳۰۵ اختتامی خطاب ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء یہاں آنے کی خواہش تو رکھتے تھے لیکن جائز عذروں کی وجہ سے وہ یہاں پہنچ نہیں سکے.اور ان کے دل دردمند ہوئے خدا تعالیٰ اس درد کا مداوی کرے اور جہاں درد ہے ان کے دل میں وہاں خدا کی رحمت کا سایہ ان کو وہاں لگے اور اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں جن عظیم بشارتوں کا وعدہ اسلام سے کیا ہے وہ ہماری زندگیوں میں پورا ہو.اس کا کم از کم کچھ حصہ تا کہ ہماری روح بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھ کر خوشی محسوس کرے اور ہم جب یہاں سے جائیں تو ہمارے دل مطمئن ہوں کہ جس طرح روٹی کا ایک گالالے کے بڑھیا وہاں پہنچ گئی تھی ہم نے بھی کوئی حقیر سی کوشش اس عظیم مجاہدہ میں، اس عظیم سعی میں، اس عظیم تدبیر میں کی ہے اللہ تعالیٰ ہماری حقیر کوششوں کو قبول کرے اور احسن جزاء دے ہم میں سے ہر ایک کو اور اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں اپنی محبت ذاتیہ پیدا کرے اور اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو اور پھر کبھی ناراض نہ ہو اور ہم سے خوش ہو اور ہمیشہ ہی خوش رہے اور خدا کرے کہ ہمارے وہ بھائی جو ساری دنیا میں اسلام کو پھیلا رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت اور اس کے فضل اور اس کی رحمت ان کے مقدر میں ہوں اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں سے انہیں نوازے اور ان کی زبان اور ان کی قلم میں برکت ڈالے اور اسلام کے نور کو پھیلانے والے ہوں اور انسانیت کے دل کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے والے بنیں.اور خدا کرے کہ ہمارے انسان بھائی دنیا کے جس خطہ میں بھی بس رہے ہیں اور جس حد تک وہ مظلوم ہیں جس حد تک ان کی قوتوں اور طاقتوں اور صلاحیتوں کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور جس حد تک ان کے حقوق ان سے چھینے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں صحیح استعمال کی توفیق عطا کرے اپنی صلاحیتوں کی اور اللہ تعالیٰ ان کو ان کے حقوق دلائے اور ان کے جسم بھی راحت اور خوشی محسوس کریں اور ان کی ارواح بھی خدا تعالیٰ کے پیار میں مسرور رہیں اور خدا تعالیٰ کے اس پیار کی لذت وہ بھی محسوس کریں جس طرح خدا کے لاکھوں بندے پاکستان میں خدا کے پیار کو محسوس کر رہے ہیں اور اس کی پیاری بشارتوں کو پارہے ہیں بچے بھی ، بڑے بھی عورتیں بھی ، مرد بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی ہی رحمتیں ہیں جماعت کے اوپر خدا نہ کرے کہ وہ ہم سے ناراض ہو جائے اور ہمیں محروم کر دے ان بشارتوں سے اور وہ ہمارا مالک یوم الدین، دوسری زندگی میں ، اخروی زندگی میں بھی پیار کی نگاہ سے ہمیں دیکھے اور پیار کے ہاتھ اپنے آگے کر کے ہمیں قبول کرے اور اپنی رضا کی جنتوں کی
خطابات ناصر جلد دوم ۳۰۶ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۷ء طرف ہمیں لے جائے اور اپنے پیار سے ہی ہمیں مالا مال کر دے اور تو پھر کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور خدا کرے کہ ہماری نسلیں بھی اپنے مقام کو پہچانیں اور ہمیں خدا توفیق دے کہ ہم اپنے بچوں کی صحیح تربیت کر سکیں اور ہم میں، ہمارے بچوں میں قرآن کریم کا پیار پیدا ہو اور قرآن کریم کی عظمت اور شان سے وہ واقفیت حاصل کریں اور قرآن کریم کو پڑھنے کا شوق اور جذبہ ان کے دلوں میں پیدا ہو اور مختلف تحریکوں کے ماتحت قرآن کریم سکھانے کی جو کوشش کی جارہی ہے اس سے وہ فائدہ اٹھانے والے ہوں اور وہ دین کے وہ سپاہی بنیں ، لاٹھیوں اور بندوقوں کے ساتھ نہیں بلکہ خدا کے پیار کو لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کو لے کر وہ دنیا میں نکلیں اسلام کے سپاہی کی حیثیت سے اور دنیا کومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور احسان سے گھائل ہونے والے بنیں اور پھر ان کی نسلیں اور پھر ان کی نسلیں یہاں تک کہ اسلام کا غلبہ اپنے آخری عروج کو پہنچ جائے اور دنیا میں بسنے والے انسان سارے کے سارے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں اور چند گنتی کے چند بدقسمت باقی رہ جائیں جن کو توفیق نہ ملی ہو ان کی اپنی غفلتوں اور اپنے گناہوں کی وجہ سے اور خدا کرے کہ ہمارا ہر دن پہلے دن سے زیادہ برکتیں پانے والا ہو اور خدا کرے کہ ہماری ہر نسل پہلی نسل سے زیادہ شدت کے ساتھ غلبہ اسلام کی شاہراہ پر آگے بڑھنے والی ہو.اور خدا کرے کہ ہمارے اموال میں وہ برکتیں قائم رہیں جن کی بشارتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند حضرت مہدی موعود کو جماعت کے متعلق دی گئی تھیں اور خدا کرے ہمیں وہ برکت نصیب رہے کہ جب جس جگہ ہمارا ہاتھ لگے وہ بھی بابرکت ہو جائے اور دنیا کے لئے برکت اور خیر کا موجب ہم بنیں اور خدا کی رضا میں ہم زندہ رہیں اور اس کی رضا میں ہی ہمارا دم نکلے.(آواب دعا کر لیں ) (از آڈیو کیسٹ)
خطابات ناصر جلد دوم ۳۰۷ افتتاحی خطاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۸ء خالص تو حید کو اپنے ذہنوں میں ، اپنے سینوں میں، اپنی روح میں اور اپنی زندگی میں قائم کرو افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۸ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مہدی معہود اور مسیح محمدی علیہ السلام کے وجود کی سرسبز شا خو! جو پھلوں سے لدی ہوئی اور جھکی ہوئی ہو! میں تم پر قربان اللہ تعالیٰ کے فضل کے ہمیشہ وارث رہو اور اس کی حفاظت میں رہو اور اس کی برکات سے حصہ لینے والے ہو اور اس کی نعماء جو آسمانوں سے برستی اور زمین جنہیں اگلتی ہے بے حد و بے حساب، خدا کرے کہ ان میں سب سے زیادہ حق خدا تعالیٰ کی تقدیر تمہارے حصہ میں رکھے.تمہارے مالوں میں برکت ڈالے.تمہارے نفوس میں وہ ہے وہ برکت ڈالے.تمہاری زبانوں میں تاثیر رکھے.تمہارے جذبہ ایثار کو ثمر آور بنائے.تمہاری اس خواہش کو وہ پورا کرے کہ تم خدا اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بنی نوع انسان کے دلوں کو جیتنے والے ہو.ہمارا یہ جلسہ کوئی دنیوی میلہ نہیں ہے جیسا کہ دورانِ سال بھی اور ہر جلسہ پر نئے آنے والوں کو بتایا جا تا اور پرانے احمدیوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے، بلکہ یہ وہ جلسہ ہے جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت مہدی معہود علیہ السلام نے اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے رکھی تھی اور مقصد یہ تھا کہ یہاں آنے والے خدا اور اس کے رسول کی باتیں غور سے سنیں ، ان کو سمجھنے کی کوشش کریں، ان پر عمل کریں ، ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے والے ہوں، ان راہوں کو اختیار کریں جن پر چل کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کریم کے پیار کو حاصل کیا اور ان راہوں پر چل کر وہ بھی اپنی اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق اپنے خدا کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے والے ہوں.
خطابات ناصر جلد دوم ۳۰۸ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۷۸ء اس جلسہ میں شامل ہونے والوں پر ، خواہ وہ باہر سے آنے والے ہوں یار بوہ کے مکین، بہت سی ذمہ داریاں ہیں.جس طرح ہم میں سے ہر فرد کی زندگی کا ہر پہل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے مطابق اور آپ کے نور سے نور لے کر اس نور کو دنیا پر ظاہر کرنے والا بننا چاہئے اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی بھی خالص اسلامی زندگی ہونی چاہئے.جہاں اونچی آواز سے بولنے کو بھی پسند نہیں کیا مثلاً مسجد میں شور کرنا منع ہے.مسجد میں شور نہ کرنا چاہئے.مسجد کو خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے بنایا گیا ہے.مسجد میں جو باتیں کی جاتی ہیں وہ بھی دین کی باتیں کی جاتی ہیں اور جب ہم کہتے ہیں دین کی باتیں کی جاتی ہیں تو دین اسلام ہماری زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے.ہر شعبہ کا اس نے احاطہ کیا ہوا ہے.ہماری زندگی سے تعلق رکھنے والی ہر صحیح اور نیک بات مسجد میں کی جاتی ہے.ہم پر ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا ہی احسان ہے کہ آپ نے ہمیں مخاطب کر کے یہ اعلان کیا ( جو قیامت تک قائم اور زندہ رہنے والا اعلان اور عمل کئے جانے والا اعلان ہے کہ جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا ( صحیح مسلم کتاب المساجد ) خدا تعالیٰ نے ساری کی ساری زمین کو میرے لئے مسجد بنا دیا.پس وہ برکات جو دوسرے مذاہب اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جا کر حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، وہ ایک مسلمان زمین کے ہر چپہ سے حاصل کر سکتا ہے، اگر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے والا ہو.یہ جلسہ گاہ بھی اسی طرح برکتوں والی ہے جس طرح کوئی اور مقام.یہاں آپ آتے ہیں غور سے سنیں.آپ سنتے تو ہیں غور سے لیکن بعض دفعہ کوئی بچہ یا نیا آنے والا ( شاذ ) اونچی آواز سے بھی بول دیتا ہے.اس کو بھی بول دیتا ہے.اس کو بھی اشارہ سے سمجھانے کا حکم ہے اور بعد میں پیار سے سمجھانے والی بات ہے کہ جلسہ گاہ میں ہم بیٹھتے ہیں سننے کے لئے سمجھنے کے لئے اور یادر کھنے کے لئے.اس نیت کے ساتھ کہ جو ہم نے سنا اور سمجھا اور یا درکھا اس پر ہم عمل بھی کریں گے اپنی عملی زندگی میں.یہ ہمارا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے ” ہمارا اس لئے کہ ہمارا مرکز ہے یہاں.ویسے یہاں سینکڑوں دوست ایسے بھی رہتے ہیں جن کا تعلق جماعت احمدیہ سے نہیں.بچے ہیں جو احمدی نہیں.وہ یہاں کے زنانہ اور مردانہ سکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں.ان کے رشتہ دار ہیں وہ
خطابات ناصر جلد دوم ۳۰۹ افتتاحی خطاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۸ء یہاں کرایہ پر مکان لے کر رہتے ہیں لیکن یہاں ہمارا مرکز ہے اس لئے ہم کہتے ہیں یہ ” ہمارا قصبہ یہ ہمارا قصبہ جو ہے اس نے بھی خدا تعالیٰ کے بڑے نشان دیکھے ہیں.جس جگہ احباب بیٹھے ہیں اور اردگرد ہزاروں مکان دیکھ رہے ہیں.وہ مکان جو جلسہ کے دنوں میں خدا تعالیٰ کی ان برکتوں کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اتنی بڑی تعداد کو اتنی چھوٹی جگہ کے اندر سمیٹ لیتے ہیں اور یہ مکان کوشش کرتے ہیں کہ آپ کو تکلیف نہ پہنچے اور خدا تعالیٰ کی شان اس میں ہمیں نظر آتی ہے.یہ ایسا علاقہ تھا کہ بڑی دیر کی بات ہے پارٹیشن سے پہلے ایک دفعہ ہمارے تایا زاد بھائی حضرت مرز ا عزیز احمد صاحب جو گورنمنٹ کے افسر تھے.کسی سرکاری کام کے سلسلہ میں یہاں سے گزر کر سرگودہا گئے.واپسی پر ان کے ڈرائیور نے کہا کہ شام کے وقت وہ اس علاقہ سے نہیں گزرے گا.اس لئے آپ رات سرگودہا میں رہیں.کیونکہ یہ علاقہ جو پہاڑوں کے اردگرد پھیلا ہوا ہے اس میں سانپ ہیں اس میں بھیڑیئے ہیں اس میں چور ہیں.اس میں ڈا کو بستے ہیں اور اب خدا نے اتنا انقلاب عظیم بپا کر دیا اس علاقہ میں کہ چھیننے والے تو یہاں بستے ہیں لیکن ساری دنیا کے دلوں کو خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چھینے والے بستے ہیں.پہلے دکھ دینے والے یہاں بستے تھے.اب خدمت کرنے والے یہاں بستے ہیں.اسلام بڑا عظیم مذہب ہے.بڑا حسین مذہب ہے.قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی آیت بلکہ اس کا ایک ٹکڑا ہے جس میں كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : ااا) کا اعلان کیا قرآن کریم نے اور سب بنی نوع انسان کو خادم اور مخدوم کی حیثیت سے ایک مقام پر لا کر کھڑا کر دیا.خادم مسلمان اور مخدوم جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے جن کی ہم نے خدمت کرنی ہے.جن کی ہم نے اصلاح کرنی ہے اور ان تک اس نور کو پہنچانا ہے جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے.انسان انسان میں قطعاً کوئی فرق نہیں.اسلام نے انسان کو اتنی آزادی ضمیر دی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ہر وہ مضمون جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے وہ انسان کو اس بات کا قائل کر دیتا ہے کہ واقع میں یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والا کلام ہے اور اگر انسانی معاملات کو عقل پر چھوڑ دیا جاتا تو انسانی عقل تو وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی.اب بھی جبکہ قرآن کریم
خطابات ناصر جلد دوم ۳۱۰ افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۸ء نے ان مسائل کو بیان کر دیا ہے.انسان کی عقل پھر بھی بہک جاتی ہے.مثلاً اسلام نے جس قسم کی آزادی ضمیر انسان کو عطا کی اور اس کی ذمہ داری لی اور گارنٹی دی ہے وہ ہمیں کہیں نظر نہیں آتی.ہماری عقلیں وہاں تک نہیں پہنچ سکتیں.لیکن اس مضمون کو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انشاء اللہ جلسہ سالانہ کے معاً بعد آنے والے جمعہ کے دن بیان کروں گا.جمعرات کو جلسہ ختم ہو رہا ہے.اگلے دن جمعہ ہے.خطبہ جمعہ میں میں یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ اس حصہ کو بیان کر دوں کہ قرآن کریم کی تعلیم میں کتنا حسن پایا جاتا ہے.میں اس وقت بتا یہ رہا ہوں کہ اب یہ جگہ بڑی برکتوں والی بن گئی ہے اس لئے نہیں کہ مجھ میں اور تم میں کوئی خوبی تھی بلکہ اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ پیار کرنے والے آپ کے خادم اور روحانی بیٹے نے ایک ایسی جماعت پیدا کی.جس کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ وہ خدا تعالیٰ کے نور سے دنیا کو منور کرے اور دین اسلام کو پیار اور محبت اور بے لوث خدمت کے ساتھ ساری دنیا میں غالب کرے اور دوسرے ادیان جو اپنے اپنے وقت پر خدمت کر چکے ہیں ان کی اب ضرورت نہیں رہی کیونکہ انسان روحانی طور پر ترقی کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں وہ اسلامی تعلیم کو سمجھنے کے بعد اس پر عمل کرسکتا ہے.پس ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا میری یا آپ کی کسی ذاتی خوبی یا کمال کی وجہ سے نہ ہوگا یہ تو خدا تعالیٰ کا ایک منصوبہ ہے جو اپنے وقت پر پورا ہوکر رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جنوری ۱۹۰۰ ء میں ایک دعا کی جو آپ کی کتاب تریاق القلوب کے آخر میں چھپی ہوئی ہے.اس دعا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے رب کو مخاطب کیا ہے اور کہا ہے کہ اے خدا میں صرف تجھ سے مخاطب ہوں اور صرف تیرے ساتھ تعلق رکھنے والا ہوں جو لوگ میری مخالفت کر رہے ہیں میں ان کی بات نہیں کر رہا.تو نے مجھے بھیجا؟ تو نے میرے لئے نشان ظاہر کئے.میں نے تیرے نشانوں کو دیکھا.میں سمجھتا ہوں کہ تو نے مجھے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ میں ساری دنیا میں اسلام کو پھیلا دوں اور اس غرض کے لئے نیکو کارلوگوں کی ایک جماعت پیدا کر دوں جو دنیا میں نیکی اور تقویٰ کو پھیلانے والے ہوں.لیکن دنیا کی اکثریت مجھے قبول نہیں کر رہی.اس لئے میں کہتا ہوں کہ اگر جیسا کہ سمجھا جا رہا ہے میں تیری نگاہ میں بھی
خطابات ناصر جلد دوم ۳۱۱ افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۸ء مغضوب ہوں اور دھتکارا ہوا ہوں اور تیرے پیار کو حاصل کرنے والا نہیں.تیرے غضب کو حاصل کرنے والا ہوں تو اے خدا مجھے ہلاک کر دے تا کہ میری وجہ سے دنیا کسی ابتلا میں نہ پڑے لیکن اگر تو جانتا ہے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے اور میں تیرا پیارا ہوں اور مجھے اس مقصد کے لئے بھیجا ہے کہ میں دنیا میں اسلام کو غالب کروں تو تین سال کے اندر جو ا۳ / دسمبر ۱۹۰۲ء کو ختم ہوتے ہیں مجھ کو ایک ایسا نشان دکھا کہ جس کا انسانی ہاتھ کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو.آپ نے فرمایا یہ درست ہے کہ انسانی ہاتھوں سے بھی تو اپنی قدرت کے نشان ظاہر کیا کرتا ہے.درمیان میں ایک پردہ ہوتا ہے جیسا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبانہ ماحول میں غیر تربیت یافتہ صحابہ کے ساتھ ایسے دشمنوں کا مقابلہ کیا جو بڑی زبردست فوجوں کے ساتھ حملہ آور ہوئے تھے.رؤسائے مکہ بڑے امیر تھے اور بڑے ماہرین جنگ بھی تھے.سیوف ہندی جو اس زمانہ میں دنیا کی مشہور اور بہترین تلواریں سمجھی جاتی تھیں وہ دشمن کے ہاتھوں میں تھیں.ادھر مسلمانوں کا یہ حال تھا ، ٹوٹی ہوئی تلوار میں لے کر ننگے پاؤں ان کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے دنیا کو یہ معجزہ دکھایا کہ وہ لوگ جو تعداد میں زیادہ تھے اور بڑے طاقتور اور دولتمند تھے ان کو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست ہوئی.چند آدمیوں کے مقابلہ میں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دعا میں فرمایا ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ تیری قدرت کے نشان انسانی ہاتھ سے بھی ظاہر ہوتے ہیں.پراے میرے رب ! میری دعا تجھ سے آج یہ ہے کہ میرے لئے ایسا نشان دکھا جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو.وہ ایک ایسا نشان ہو جس میں کوئی شبہ بھی نہ کر سکے کہ کوئی انسانی ہاتھ ایسا کر سکتا ہے.یہ تین سال جس میں انیسویں صدی کا آخری سال اور بیسویں صدی کے پہلے دوسال تھے.اس تین سال کے عرصہ میں اس دعا کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدے کئے اور آپ کی صداقت کے لئے جو نشان دکھائے.وہ تذکرہ کے صفحہ ۳۳۴ سے صفحه ۴۶۴ تک یعنی قریباً ایک سو تھیں صفحات پر مشتمل ہیں ” تذکرہ “ وہ کتاب ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات چھپے ہوئے ہیں.ایک نشان مانگا تھا اپنے رب کے حضور عاجزانہ جھک کر ، لیکن پیار کرنے والے رب نے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۱۲ افتتاحی خطاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۸ء ایک نشان نہیں بلکہ ایک کے بعد دوسرا، ایک کے بعد دوسرا، ایک کے بعد دوسرا نشان دکھایا ان تین سالوں کے اندر علی ہذا القیاس کئی نشان دکھائے اس کی تفصیل میں جانے کا یہ وقت نہیں.میں دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ گھر جا کر تذکرہ کے یہ صفحات ضرور دیکھیں کہ ان تین سالوں میں خدا تعالیٰ نے کیا کیا نشان دکھائے ہیں.ابھی یہ تین سال ختم نہیں ہوئے تھے دسمبر ۱۹۰۲ء کی بات ہے خدا تعالیٰ نے آپ سے یہ فرمایا کہ تو مجھے کہتا ہے کہ اگر میں تیری نگاہ میں ایسا ہی کذاب اور جھوٹ بولنے والا اور افتر ا کرنے والا ہوں تیرے پر ، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں تو تو مجھے مٹا دے.اس کا جواب میں یہ دیتا ہوں کہ اے ابراہیم تجھ پر میرا اسلام ہو تو کامیاب ہوگا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اس دعا سے قبل بھی اگر چہ جماعت احمد یہ ترقی تو کر رہی تھی لیکن تعداد کے لحاظ سے بہت ہی آہستہ ترقی ہو رہی تھی لیکن ان تین سالوں میں یک دم خدا تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں ایک ایسا انقلاب عظیم بپا کر دیا جو انسانی ہاتھ اور انسانی طاقت سے بالا ہے اور انسان کے بس کی بات نہیں ہے.یہ انقلاب عظیم بپا ہوا کہ جماعت کی ترقی کی رفتار جو پہلے بڑی آہستہ تھی اس میں تیزی پیدا ہوگئی اور پچھلے سارے زمانہ کی نسبت ان تین سالوں میں کئی گنا زیادہ لوگ احمدیت میں داخل ہو گئے.جماعت مضبوط ہوگئی اور یہ ایک ایسا نشان ہے جو بڑا واضح ہے.میں نے اسے خاص طور پر لیا ہے اور اس کے متعلق میں یہ کہتا ہوں کہ احباب خود جا کر پڑھیں اور تذکرہ کا مطالعہ کریں.اس لئے کہ یہ نشان ایک جگہ کھڑا نہیں رہا.یعنی یہ نہیں ہوا کہ یہ نشان وہاں پر ختم ہو گیا ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو وعدہ فرمایا تھا کہ جس مقصد کے لئے آپ کو کھڑا کیا گیا ہے جب تک اس میں کامیابی نہیں ہو جاتی اور نوع انسانی کی بڑی بھاری اکثریت خدا تعالیٰ کے جھنڈے تلے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جمع نہیں ہو جاتی اس وقت تک یہ نشان اپنے جلوے ظاہر کرتا چلا جائے گا.اگر اس صدی کے پہلے دو سال نکال دیں تو قریباً ۶ ۷ سال پر یہ نشان پھیلا ہوا نظر آتا ہے.یعنی آخر ۱۹۰۲ء تک کے زمانہ میں نشان مانگا تھا اور اسی کے متعلق آپ نے لکھا ہے کہ جماعت کی ترقی کی رفتار ایک دم بڑھ گئی اور لوگ کثرت سے احمدی ہونے لگے.چنانچہ اس ۶ ۷ سال میں یہ
خطابات ناصر جلد دوم ۳۱۳ افتتاحی خطاب ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۸ء تعداد اسی وعدہ کے مطابق جو خدا تعالیٰ نے اپنے ایک عاجز بندے سے کیا تھا.ایک کروڑ تک پہنچ گئی.الحمد لله علی ذالک جیسا کہ میں نے کئی بار پہلے بھی بتایا ہے میرے اندازے کے مطابق جماعت احمدیہ کی جو دوسری صدی ہے، وہ غلبہ اسلام کی صدی ہے اس میں ساری دنیا میں اسلام غالب آئے گا اور کیا مسلم اور کیا غیر مسلم جماعت احمدیہ کی ان خدمات کے قائل ہو چکے ہوں گے کہ واقعی یہی جماعت احمد یہ اسلام کی خدمت کے لئے قائم کی گئی تھی اور اس نے دنیا کے دل جیت کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالے ہیں.مگر اس وقت تک (۱۹۰۲ ء تک) جن کمزور کندھوں پر اس ذمہ واری کا بوجھ ڈالا گیا تھا وہ تو اب تعداد میں کم ہو گئے.جماعت احمدیہ کی تعداد جب بڑھی تو جو لوگ پرانے احمدی تھے وہ بقضائے الہی فوت ہو گئے اور نئی نسلوں پر یہ بوجھ پڑتا چلا گیا.میں خود ایک الہام کی تشریح کے مطابق صحابہ میں شامل ہوں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ تم بھی صحابہ مسیح موعود علیہ السلام میں سے ہو لیکن میری پیدائش تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد کی ہے.پس چونکہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کی ذمہ داری کو نسلاً بعد نسل اٹھاتے چلے جانا ہے.اس لئے نئی آنے والی نسلوں سے میں مخاطب ہوں اور شاید اس سارے جلسہ کے دوران ان ہی سے مخاطب رہوں.میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ تمہارے اوپر بڑی بھاری ذمہ داری ہے.اس کے ساتھ ہی تمہارے لئے آسمانوں کے سب دروازے کھول دیئے گئے ہیں کہ تم ان دروازوں میں سے داخل ہو کر آسمانی رفعتوں کو حاصل کرو اور أَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمن : ۲۱) کی رو سے خدا تعالیٰ کی نعمتیں جو موسلا دھار بارش کی طرح نازل ہوتی ہیں.وہ تمہاری جھولیاں بھرنے کے لئے ہوتی ہیں.تم جھولیاں آگے کرو.تم اس میں دلچسپی لو.تم خدا تعالیٰ کے حضور کچھ تھوڑا سا پیش کرو وہ تمہیں سب کچھ دے گا.وہ تم سے ہر چیز نہیں مانگتا.میں نے پہلے بھی بتایا ہے.وہ تم سے ضرورت کے مطابق نہیں مانگتا.وہ تم سے قربانی اور ایثار چاہتا ہے لیکن تمہاری طاقت کے مطابق لیکن دیتا ہے اپنی قدرت کاملہ سے وہ ساری دنیا کا مالک ہے.اس کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے.وہ بڑا دیالو ہے.وہ تم سے قربانی اور ایثار کا مطالبہ کرتا
خطابات ناصر جلد دوم ۳۱۴ افتتاحی خطاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۸ء ہے مگر تمہاری عاجزانہ اور کمزور حیثیت کے لحاظ سے مطالبہ کرتا ہے.پس اس جلسہ کے دوران بھی دوست دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جلد غلبہ اسلام کے سامان پیدا کر دے ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جماعت احمدیہ کی ترقی کی رفتار میں جو تیزی اور شدت پیدا ہو چکی ہے اور جماعت ہر سال پہلے سے زیادہ تعداد میں بڑھتی چلی جاتی ہے یہ ہر سال ہی پہلے سے زیادہ بڑھتی چلی جائے اور ہماری کسی نسل کی کمزوری کے نتیجہ میں اس میں کمزوری نہ پیدا ہو.خدا کرے غلبہ اسلام کے حسین جلوے ہم بھی اپنی زندگیوں میں دیکھ لیں اور ہماری آنے والی نسلیں خدا تعالیٰ کی اتنی حمد کریں کہ ان کے دل حمد سے معمور ہو جائیں.سوائے خدا کے، ان کے دلوں میں ، ان کی روح میں اور کوئی چیز باقی نہ رہے.ان کے دل میں ہمیشہ یہ احساس قائم رہے کہ وہ خدا کے عاجز بندے ہیں.ساری دنیا کے دھتکارے ہوئے اور غریب ہیں لیکن بایں ہمہ خدا تعالیٰ نے انہیں یہ توفیق دی کہ ساری دنیا کے دل جیت کر انہیں تو حید حقیقی کے جھنڈے تلے جمع کر دیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا رکھا.اس سے زیادہ برکت اور کیا ہوسکتی ہے.اس سے زیادہ خوشی ہمارے لئے اور کیا ہوسکتی ہے.پس اپنے مقام کو پہچانیں اور خدا سے یہ دعا کریں کہ اے خدا! جس غرض کے لئے تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے.وہ غرض ہماری زندگیوں میں پوری ہو اور آپ کی بعثت کی غرض کو پورا کرنے کے لئے اب نئی نسلوں کے کندھوں پر بوجھ پڑنے ہیں.ہم نئی نسلوں میں شامل ہیں.ہمارے بعد اور نئی نسلیں آئیں گی.میں بخیل نہیں ہوں.میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے جتنی تمہیں خدمت دین کی توفیق ملے.میں یہ کہتا ہوں کہ تمہیں مجھ سے بڑھ کر تو فیق ملے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے کی اور مجھ سے زیادہ تم اس کے فضلوں کے وارث بنو.جو شخص خدا تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے.خدا اپنے ایسے بندہ کے لئے اس دروازے کو کھولتا ہے لیکن یہ دروازہ اسی کے لئے کھلتا ہے جو خلوص نیت کے ساتھ اس کے حضور جھکتا ہے اور اپنے دل کوشکر کی ہرقسم کی ملونی سے پاک کر لیتا ہے.یاد رکھو اگر تمہارے صحن سینہ میں شرک کا شائبہ بھی ہوگا تو خدا تعالیٰ کی غیرت اس سینہ میں داخل ہونا گوارا نہیں کرے گی.پس خالص تو حید کو اپنے ذہنوں میں، اپنے سینوں میں، اپنی روح میں اور اپنی زندگی میں
خطابات ناصر جلد دوم ۳۱۵ افتتاحی خطاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۸ء قائم کرو اور ہر دوسری چیز کو مرے ہوئے کیڑے سے بھی کم حیثیت دو تب خدا تعالیٰ تم سے پیار کرے گا اور تمہاری یہ خواہش کہ تم خدا کے نام کو کامیابی کے ساتھ ساری دنیا میں پھیلا ؤ اور اس کی محبت کا جھنڈا ہر دل میں گاڑ دو ( تمہاری یہ خواہش ) وہ پوری کر دے گا.اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو.ہماری نسلیں اس ذمہ داری کو پورا کرنے والی ہوں اور جیسا کہ خدا تعالیٰ کا منصوبہ ہے اس میں کوئی دیر نہ ہو.یہ جو کہا گیا ہے کہ تین صدیوں کے اندر اندر اسلام کا غلبہ ہو جائے گا میں کہتا ہوں دنیا تین صدیوں کا انتظار کیوں کرے.دوسری صدی میرے نزدیک غلبہ اسلام کی صدی ہے.خدا کرے کہ ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو یہ توفیق ملے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.خدا کے پیار کو حاصل کریں.اللہ کی طاقت سے طاقت پائیں اور اس کے علم سے نور فراست حاصل کریں.آؤاب دعا کرتے ہیں.یہ دعا بھی کریں کہ آئندہ نسلیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی ہوں اور ان کو نباہنے والی ہوں اور جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی حقیقتا اور واقعی طور پر غلبہ اسلام کی صدی ثابت ہو اور نوع انسانی جو اس وقت خدا تعالیٰ کے غضب کی جہنم کی طرف حرکت کر رہی ہے اس کی یہ حرکت رک جائے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور وہ بھی اس کے پیار کو حاصل کرنے لگ جائیں اور ساری دنیا کے لئے دعائیں کریں اور ان کے لئے بھی دعائیں کریں جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے دنیا کی اصلاح کے لئے کوششیں کر رہے ہیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ فروری ۱۹۷۹ء صفحه ۲ تا ۵ )
خطابات ناصر جلد دوم
خطابات ناصر جلد دوم ۳۱۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی دفعہ اس حقیقت کو آشکارہ کیا کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے تھے دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن کریم نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ جتنی طاقتیں اور صلاحیتیں اور استعداد میں انسان میں پائی جاتی ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں اور ان ساری قوتوں صلاحیتوں اور استعدادوں کی صحیح اور کامل نشو ونما کے لئے جو چیز چاہئے وہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دی ہے کا ئنات کی ہر چیز کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ انسان کامیاب ہو اس بات میں کہ اللہ تعالیٰ نے جو اسے صلاحیتیں دی ہیں ان کی صحیح اور کامل نشو و نما ہو صحیح اور کامل نشو و نما کے لئے ، کچھ مادی ذرائع کی ضرورت ہے اور کچھ علمی ذرائع کی ضرورت ہے اور کچھ اخلاقی ذرائع کی ضرورت ہے اور کچھ روحانی ذرائع کی ضرورت ہے.روحانی ذرائع جو ہیں ان کی بنیاد تو عاجزانہ دعاؤں پر ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک حسین اسوہ اس کے لئے ہمارے سامنے رکھا اور قائم کیا وہ وہ کیفیت ہے جسے قرآن کریم نے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء :۴) اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ انسان غور کرے تو عرب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ایک انقلاب عظیم بپا ہوا.عرب جس میں آپ مبعوث ہوئے تھے جو پہلے مخاطب تھے آپ کے مخاطب تو آپ ساری دنیا کے تھے یعنی ساری دنیا کو آپ نے خطاب کیا اور ان کو دعوت دی خدائے واحد و یگانہ اور اپنی رسالت اور قرآنی ہدایت کی طرف لیکن پہلے مخاطب عرب تھے اور عرب کی حالت اس وقت یہ تھی که دنیا دارانہ زندگی میں اس قدر دھنسے ہوئے تھے کہ انسان ان کی تاریخ پڑھ کے کانپ اٹھتا ہے لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینا اور اپنی گندی حرکتوں پر بڑے فخر سے نظمیں لکھنا.اور سارے عرب کا دماغ اتنا خراب تھا کہ ایسی نظموں کو اتنی مقبولیت حاصل ہوتی تھی کہ خانہ کعبہ کے پردوں کے ساتھ
خطابات ناصر جلد دوم ΓΙΑ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء ان کی عزت افزائی کے لئے ان نظموں کو لٹکایا جاتا تھا اور ان کے اندر نہایت فحش اور گندے شعر ہوتے تھے لیکن وہ لوگ جو نہ خدا کو پہچانتے تھے وہ لوگ جو نہ اخلاق کو پہچانتے تھے وہ لوگ جو نہ انسانی حقوق کو پہچانتے تھے وہ لوگ جو نہ اپنے ذاتی حقوق کو پہچانتے تھے یکدم ان کی کایا پلٹ گئی اور ایک انقلاب عظیم ان میں بپا ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ انقلاب اس لئے بپا ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم راتوں کو اٹھ کر عاجزانہ خدا کے حضور جھکتے اور ان کی بھلائی کے لئے ان کی نیکی اور ان کے تقویٰ کے لئے ان کے اخلاق کی بلندی کے لئے ان کی روحانیت کے لئے ایسی تڑپ کے ساتھ دعائیں کرتے تھے کہ آج تک کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کے لئے اس قدر تڑپ کے ساتھ کبھی دعا نہیں کی.یہ جو چار قسم کی قوتیں اور صلاحیتیں ہیں جن کے سامان اسلام نے پیدا کئے ان میں سے پہلی کا تعلق جسمانی طاقتوں کے ساتھ ہے.اس کے لئے ایک تفصیلی تعلیم اسلام نے دی ہے اس تفصیل میں تو اس وقت میں اس لئے نہیں جاؤں گا کہ وہ میرا مضمون نہیں.آج تو میں ، جو سال گذرا ہے اللہ تعالیٰ کے جو فضل جماعت پر نازل ہوئے ہیں ان کی میں بات کروں گا.پہلی چیز ہے جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنا جسمانی حقوق کی ادائیگی جن کے بغیر جسمانی طاقتوں کی نشو و نما نہیں ہو سکتی.اس کے لئے ضروری ہے کہ جسمانی طاقت بچپن سے لے کر بڑی عمر تک صحیح نشو ونما کے لئے اس طاقت کو جس غذا کی ضرورت ہے وہ ملے اور جب وہ اپنے عروج کو پہنچ جائے اور جوان ہو جائے اور پوری جوانی کی طاقت میں ہو انسان اس وقت اس کو اس معیار کے اوپر قائم رکھنے کے لئے جس غذا کی ضرورت ہے وہ اسے ملے.اس میں کم سے کم یہ ہے کہ بھوک جو ہے یعنی جو جسم چاہتا ہے کہ مجھے کھانے کو دو یہ احساس اتناہی بس رہ جائے جتنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ابھی بھوک ہو تو کھانا چھوڑ دو.اس سے زیادہ احساس جو ہے وہ انسان کی جسمانی طاقتوں کو کمزور کرنے والا ہے.اس کے لئے دنیا تو اس طرف توجہ نہیں کرتی اور ہمارے پاس اس کے پیسے نہیں ہیں اتنے ، جماعت احمدیہ کے پاس.لیکن چونکہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ہم ساری دنیا کی ضرورتوں کو پورا کر سکیں اس سے یہ نتیجہ نکا لنا غلط ہے اور بداخلاقی ہوگا اور مہلک ہوگا کہ اگر ہم کہیں کہ جتنا ہم کر سکتے ہیں اتنا بھی نہ کریں تو اسلام نے جو یہ تعلیم دی ہے اسی کو سامنے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۱۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء رکھتے ہوئے جماعت کی طرف سے یہ انتظام کیا جاتا ہے کہ جماعت کے کارکن صدر انجمن احمد یہ کے اور تحریک جدید کے اور دوسرے شعبوں کے جو ہیں ان کو کھانے کے لحاظ سے کافی مدد دے دی جائے ، علاوہ جو گزارہ وہ لے رہے ہیں.مثلاً سارے سال کی گندم کی ضرورت کا اندازہ جماعت نے یہ لگایا کہ اگر آدھ سیر روزانہ فی کس ہو تو ساڑھے چار من آنا چاہئے سارے سال کے لئے اگر آدھ سیر روزانہ ہو اور اس کے لئے سارے جو خاندان کے افراد ہیں ان کے لحاظ سے یہ نہیں کہ ہر ایک کو ایک جیسے پیسے گندم کی مدد میں دے دو.یعنی اگر ہمارا ایک کارکن میاں بیوی ہیں صرف تو ان کونومن گندم کا ایک حصہ اور اگر اس کے چھ بچے بھی ہیں تو آٹھ چوکے بتیس اور چار چھتیں من گندم کا وہ مقر رحصہ جو ہے جو ابھی میں بتا تا ہوں آپ کو کیا ہے اتنا گندم کے لحاظ سے اس کو دے دیا جاتا ہے اور وہ ساری ضرورت کا نصف یعنی ساڑھے چار من گندم میں سے دو من دس سیر گندم جماعت احمد یہ اپنے کارکنوں کو بغیر قیمت لے کے دے دیتی ہے سال کے شروع میں کہ اسے رکھو تا کہ تمہارے او پر کھانے کے لحاظ سے کبھی تنگی نہ آئے اور جو بقیہ نصف ہے ضرورت گندم کی کا اس کو خرید کے سٹور کرنے کے لئے سال کے شروع میں جب عام طور پر گندم سستی ہوتی ہے قرض دے دیا جاتا ہے جو ان کی تنخواہ میں کتا جاتا ہے.اسی طرح سردیوں میں بعض ضرورتیں زائد آ جاتی ہیں گرمیوں میں تو بڑے ہلکے کپڑے ہیں اور غذا کا بھی فرق ہے.بہر حال بہت سارے فرق ہیں جن میں جانے کی ضرورت نہیں.تو ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے جو ہماری اس وقت طاقت ہے اس کے مطابق ہم نے اس سال اپنے کارکنوں کو فی کس افراد ہر خاندان کے ہر فرد کے پچھتر روپے دیئے ہیں یکمشت یعنی اگر دس افراد پر مشتمل ہے خاندان تو اس کو سات سو پچاس روپیہ زائد مل گیا کہ تا کہ سردیوں کی ضرورتیں وہ پوری کریں.میں جانتا ہوں کہ یہ بہت کم رقم ہے کیونکہ ہمارے ملک میں مہنگائی اتنی بڑھ چکی ہے کہ مجھے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے سوچ کے کہ کس طرح گزارہ کرتا ہوگا پاکستانی ان تنخواہوں پر جو گورنمنٹ بھی دیتی ہے.یعنی ہم تو گزارہ دیتے ہیں نا ، گورنمنٹ تو اپنے شاہانہ جو بادشاہ ہیں اس ملک کے وہ شاہانہ طریق پر دیتے ہیں وہ بھی گزارہ نہیں کر سکتے عام ایک بوٹ درمیانہ درجے کا بچے کے لئے ساٹھ ، ستر اسی روپے کا اب جس کو تم پانچ سو روپیہ تنخواہ دیتے ہو اور سمجھتے ہو ہم نے بڑا تیر مارا اور بہت کچھ دے دیا اگر اس کے دو تین بچے ہیں تو ایک مہینے کی
خطابات ناصر جلد دوم ۳۲۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء ساری تنخواہ تو اس کے بوٹوں کے اوپر خرچ ہو گئی وہ کھائیں گے کیا اس مہینے میں؟ بہر حال یہ ویسے ساری دنیا میں ہے.صرف ہمارے ملک میں نہیں یہ جو مہنگائی کا ایک ایسا چکر چلا ہے کہ ہر جگہ یورپ میں بھی مصیبت پڑ گئی ہے اور سمجھ نہیں آ رہی دنیا کو کہ اس کا حل کیسے کیا جائے ہم نے یہ کوشش کی دنیا تو یہ نہیں کرتی اور میں یورپ میں اپنی پریس کا نفرنسز میں اسلام کی یہ تعلیم بتا تا ہوں بڑے حیران ہوتے ہیں اور اپنا عمل بتاتا ہوں میں کہہ دیتا ہوں کہ جتنا ہمیں کرنا چاہئے ہمارے پاس دنیوی وسائل اتنے نہیں ہیں جتنا میرا دل کرتا ہے.میرا دل تو یہ کرتا ہے کہ اچھا اب بوٹ ہے، بیچ میں ضمناً بات میں کر رہا ہوں ایک وہ بھی بوٹ ہے ساٹھ ، ستر روپے میں آنے والا جو پندرہ دن کے بعد بچہ تو ڑ دیتا ہے یا ایک مہینے کے بعد توڑ دیتا ہے اتنا ناقص بنا ہوا ہے قیمتیں زیادہ ہیں مال ناقص ہے جس کا مطلب ہے کہ سال میں بارہ اس کو جوڑے چاہئیں بوٹوں کے جو نتیوں کے یا چھ چاہئیں اگر دو مہینے چلے لیکن یورپ میں ان سے زیادہ مہنگی ہیں لیکن ان کی تنخواہیں بھی بہت زیادہ ہیں جو شخص یہاں مثلاً پانچ سو روپیہ کمارہا ہے اس کے ساتھ کا مزدور جرمنی میں کوئی پانچ دونی دس ہزار روپے سے بھی زیادہ کما رہا ہے وہاں بعض اچھی جو کمپنیاں ہیں وہ پانچ سوروپے میں بوٹ دیتی ہیں اور بڑے اچھے یعنی پانچ سو روپے میں وہ جو بوٹ دیتی ہیں میں نے بھی ان کا خرید کے استعمال کیا ہے وہ چھ سات سال تک نہیں پھٹتا اور کام دیتا ہے جو بوٹ اس وقت میں نے پہنا ہوا ہے.وہ بھی ۱۹۷۳ء میں خریدا تھا میں نے ، اور آج میں پہن کے وہ یہاں آیا ہوا ہوں اور یہاں پاکستانی بنا ہوا کوئی بوٹ بھی کسی کے پاؤں میں نہیں ہو گا آج ، جو ۱۹۷۳ء میں اس نے خریدا ہوا ، ایک سال پہلے بھی ، اتنا ، سال بھی نہیں گذرا ہوگا یعنی یہ فرق ہے اور تنخواہیں کم جو آمد کے ذریعے خالی تنخواہ نہیں ، وہ کم.سوائے اس کے جن کی تجارت چمک اٹھے.باقی تو چھوٹے چھوٹے تاجر جو ہیں پانچ سو ، ہزار دو ہزار تک بھی مہینہ کمانے والے وہ بڑی مشکل سے گزارہ کر رہے ہیں ہم نے یہ سوچا کہ کہنے والے نے تو کہا تھا نا کہ.ہے جہاں میں نان شعیر پر مدار قوت حیدری کہ کم از کم اتنا دے دیں آٹا کہ کوئی شخص بھوکا نہ رہے.ہمارے ملک میں اس وقت بھی میرا اندازہ ہے کہ ایک کروڑ سے زیادہ انسان ایسا ہوگا جو چٹنی کے ساتھ روٹی کھاتا ہے یعنی اس کا اصل جو
خطابات ناصر جلد دوم ۳۲۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء کھانا ہے وہ روٹی ہے اور باقی تو گڑ کی روڑی لے لی زمیندار نے.میں ان کے ساتھ شریک ہوا ہوا ہوں کبھی ہم باہر سیر کو جاتے ہیں کسی زمیندار کا کھانا آ جائے تو میری عادت ہے صرف علم بڑھانے کے لئے جاکے شامل ہو جاتا ہوں سلام کر کے ایک لقمہ تو ڑا.تو مجھے بہت سے ایسے لوگ ملے ہیں جو سرخ مرچ کی چٹنی اور اتنی سی روڑی، اتنی سی کھجور جتنی اور یہ ان کا عیش ہے ایسے لوگ بھی ہیں.تو ہم نے کہا کہ کوئی شخص بھوکا نہیں رہے گا جس وقت خدا پیسے دے گا جتنی دنیا سمجھتی ہے کہ ہمارے پاس پیسے ہیں اتنے تو پیسے نہیں ہیں ہمارے پاس اس سے زیادہ آجائیں گے.ایک دن انشاء اللہ تعالیٰ اور پھر ساری ضرورتیں پوری ہو جائیں گی پھر وہ اقتصادیات اسلامی ضرورتیں پوری کر نے والا ہو گا.جس شخص کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس کو ملنی چاہئے خدا کہتا ہے وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقُ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ ( الأريت : ۲۰) قرآن کریم کی یہ آیت ہے اور جب تک ہر فرد واحد کو اس دنیا میں اس کی جائز ضرورت جو میں نے بتایا ہے کہ چار قسم کی قوتیں اور استعداد میں ہیں.ان کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اس کی جائز ضرورت ہے اگر ایک آدمی بھی دنیا میں ایسا ہے جس کی جائز ضرورت پوری نہیں ہو رہی تو خدا کہتا ہے کہ کسی اور کے مال میں اس کا حصہ ہے جو اس کو ادا نہیں ہوا اور غصب کیا گیا ہے اس کا حصہ.کیونکہ پیدا کرنے والے نے پیدا کی، یورپ اور امریکہ نے تو دنیا کی دولت نہیں پیدا کی، پیدا تو خدا نے کی ہے.بہر حال جو بڑے شرمسار ہو کر اور بڑے دکھ اٹھاتے ہیں ہم جب سوچتے ہیں کہ کیا ہم نے مدد کی اپنے بھائی کی لیکن چونکہ نہیں ہیں پیسے اس لئے اور کچھ کر نہیں سکتے اس کی ، اس ہمارے ملک کے لحاظ سے تھوڑی سی رقم تو یہ بن جاتی ہے.بہر حال اس کا ٹوٹل بنتا ہے بارہ لاکھ بارہ ہزار دو سو چھپن روپے جو مثلاً سال رواں میں ہم نے تقسیم کی ہے.لیکن اس رقم میں سارے کارکنوں والی رقم شامل نہیں بلکہ ایسے ہمارے احمدی دوست جو کارکن نہیں ہیں جماعت کے، مثلاً روڑی کوٹ رہا ہے وہ سامنے پہاڑ ہے اس کے اوپر بہت سارے کارخانے کام کر رہے ہیں.روڑی کوٹنے کے بعض احمدی بھی کام کر رہے ہیں.تو دو طرح ان کی مدد کرتی ہے خدا کے فضل سے جماعت.اگر مجھے پتہ لگ جائے تو کوئی ایسا نہیں آدمی جس کی مدد نہ کی گئی ہو.ایک تو یہ کہ بیمار ہو گیا بیچارہ وہ مزدوری کرتا تھا کھا رہا تھا جب بیمار ہو گیا کیا کرے گا.اس کی ضرورت کے مطابق اس کو اندازہ کر کے ہم دے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۲۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء دیتے ہیں کہ تو آرام سے گھر بیٹھ.بھوکا نہیں رہے گا، نہ تو نہ تیرے بچے نہ تیری بیوی.اور ایک وہ ہیں جو مثلاً ایک سو پچاس یا دوسور و پید انہوں نے کمایا بچے زیادہ ہیں بڑی غربت ہے ان کو ہزار قسم کی مدد ہے.کوئی کہتا ہے باقی سارا انتظام ہو گیا مجھے تین لحاف دے دیں ان کو لحاف دے دیتے ہیں.کسی کو علاج کے سلسلے میں تو ویسے میری اپنی طبیعت ایسی ہے اگر پانچ ہزار روپیہ بھی کسی غریب کو ضرورت ہو واقع میں علاج کرنے کی تو پانچ ہزار روپیہ خرچ کر دے گی جماعت.اور اس سے بھی زیادہ اہم ہے علم میں نے بتایا ہے نا کہ ذہنی استعدادیں اور قو تیں بھی ہیں.اب خدا تعالیٰ نے ہمارے بچوں میں محض اپنے فضل کے ساتھ بڑی فراست پیدا کی اور بڑے ذہن پیدا کئے ہیں بڑے ہی ناشکرے ہوں گے ہم اور بڑی ہی ناشکری ہوگی جماعت احمد یہ اگر خدا تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کے شکر گزار نہ بنیں اور جو ہمارے گھروں میں ذہین بچہ پیدا ہوتا ہے اس کی پڑھائی کا انتظام نہ کریں جو لائق بچے ہمارے پیدا ہوئے اس وقت بھی کئی پڑھ رہے ہیں جماعت کے خرچ کے اوپر غیر ممالک میں.یہاں ہم دیتے ہیں ان کو وظیفہ اور اس میں بھی ہم نے جہاں تک ممکن ہے ہمارے لئے ہم ایک غریب جماعت ہیں ابھی اتنے نہیں ہمارے پاس پیسے جتنے ہمارے دوست بعض سمجھتے ہیں لیکن بہر حال ہم نے بہتوں کی مدد کی جن کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں.میں پرنسپل رہا ہوں میں ہر سال تھیں، چالیس ، پچاس غیر احمدی طالبعلموں کی کسی نہ کسی طرح مددضرور کرتا تھا اور کوئی احسان نہیں ان کے اوپر جو خدا نے ان کے لئے چیز پیدا کی ہے وہ ان کو ملنی چاہئے.میں کون ہوتا ہوں احسان محسوس کرنے والا بھی ، جتانا تو علیحدہ رہا تو اس میں یہ رقمیں شامل ہیں ، سوائے ان رقموں کے جو مثلاً نصرت جہاں کی طرف سے وظائف دیئے گئے ہیں تعلیمی.یا اور بعض وظائف ہیں جو انگلستان میں دیئے جا رہے ہیں وہ اس رقم میں شامل نہیں لیکن یہاں کے بہت سارے وظائف ہیں یہ دیئے ہیں.یہ بارہ لاکھ باون ہزاران خاص وظائف کے علاوہ یہ رقم یہاں خرچ کی گئی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا میں جانتا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ ضرورتیں پوری نہیں ہوں گی پھر بھی.لیکن کیا کروں جتنا بوجھ جماعت برداشت کر سکتی ہے اس وقت اتنا ہی ہم ادا کرتے ہیں.تو وہ جو اسلامی تعلیم تھی کہ ہر فرد واحد کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام ہونا چاہئے ، پورا انتظام تو نہیں ہو سکا اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق لیکن اس راہ پر ایک چھوٹا سا قدم ضرور
خطابات ناصر جلد دوم ۳۲۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء اٹھایا گیا ہے ہر سال اس کے مطابق دیئے جاتے ہیں رقمیں ان کو دی جاتی ہیں.گندم اس سال سے پچھلے سال سے شاید دو سال سے نصف ہوگئی ہے پہلے سستی تھی تو چوتھا حصہ دیا جاتا تھا.دو سال سے نصف یعنی سارے سال کی ضرورت کی نصف مفت دی جاتی ہے ہر کارکن کو اور اس کے علاوہ دوسروں کو سینکڑوں دوسرے افراد ہیں جو جماعت کے کارکن نہیں جو جن کو ضرورت ہے کہ ان کو گندم دی جائے ان کو گندم دی جاتی ہے.دوسری بات اس وقت جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے بتایا کہ ذہنی قوتوں اور صلاحیتوں کی نشو و نما کے لئے جو بھی چاہئے وہ مہیا ہونا چاہئے ہر شخص کے لئے.جو بھی چاہئے بہت ساری چیزیں ہیں.ان میں سے ایک چیز ہے کتب.یعنی ہر مضمون میں جو بہترین کتب دنیا کی شائع ہو چکی ہیں وہ پاکستانی طالبعلم کو مہیا ہونی چاہئیں.یہ میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی تعلیم ہے مجھے افسوس ہے کہ ہماری لائبریریز میں بھی ابھی پوری طرح کتب نہیں آئیں.گورنمنٹ توجہ کرتی رہتی ہے لیکن گورنمنٹ بھی ہماری ، طرح ہی غریب ہے نا.تو وہ پورے پیسے تو نہیں وہ اتنے خرچ کر سکتی.مثلاً میں ۱۹۳۶ء میں آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا یہاں چھٹیوں میں مجھے اجازت ملی کہ میں دو مہینے کے لئے واپس آ جاؤں تو ایک عام کتاب ، بہت بڑا فلاسفر ہے کانٹ ، وہ میرے کورس کی تھی اور اتنی موٹی کتاب commentary والی.تو میں اس کو ساتھ لانے لگا تھا ان دنوں میں وہ میرے زیر مطالعہ تھی.پھر میں نے سوچا کہ میں اتنا بوجھ چار من چارسیر کا کیوں اٹھاؤں ، میں وہاں لائبریری سے منگوالوں گا پڑھ لوں گا اور یہ میری غلطی تھی میں جب یہاں آیا اور میں نے لاہور کی ساری بڑی لائبریریاں تلاش کیں وہ کتاب اتنی مشہور وہ لاہور کی کسی لائبریری میں موجود نہیں تھی.تو دنیا میں تو ایسا اب انہوں نے ، یورپ وغیرہ نے کیا ہے سسٹم ، ایک نظام ایسا بنا دیا ہے کہ جو اچھا مضمون انگلستان میں چھپتا ہے وہ میرے خیال میں چند ہفتوں کے اندر اندر اس کا ترجمہ روس کے طالبعلم کے سامنے پڑا ہوا ہوتا ہے یہ بہت بڑے ذہین سائنسدان نے ایک نئی چیز دریافت کی ہے جب تک جو دریافت ہو چکا ہے وہ اچھے ذہن کے سامنے نہیں آتا وہ آگے قدم اٹھا ہی نہیں سکتا.وہ تو دس سال پیچھے چل رہا ہو گا نا.اگر اس نے آج کے بعد کل آنے والے کل میں قدم اٹھانا ہے تو جو آج تک ہو چکا ہے وہ اس کے سامنے آنا چاہئے.جو آج تک ہو چکا ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۲۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء روحانی طور پر وہ دنیوی سائینسز سے ، دنیوی علوم سے زیادہ اہم ہے کیونکہ دنیا کے علوم دنیوی زندگی جو ایک چھوٹی سی زندگی ہے چالیس، پچاس، ساٹھ ،ستر ، استی ، سوسال سمجھ لو.اس کے کام آتے ہیں لیکن دین کی باتیں تو ایک ابدی زندگی نہ ختم ہونے والی زندگی خدا تعالیٰ کے بڑے پیاروں کو حاصل کرنے والی زندگی ، اس کے ساتھ تعلق ہے.تو جو کتابیں چھپنی چاہئیں جماعت کی طرف سے وہ پوری نہیں چھپ رہیں اس کی طرف بھی ہمیں توجہ کرنی پڑے گی.مثلاً اب میں جاتا ہوں یورپ بیدار ہوا ہے، یورپ میں دنیا کے ہر ملک اور دنیائے اسلام کے ہر فرقہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے وہاں مسلمان ہیں اور وہ فضا جو چونکہ مذہبی لحاظ سے مثلاً جرمنی ہے مذہبی لحاظ سے الا ما شاء اللہ غیر متعصب فضا میں جب خاندان جاتے ہیں تو اس وقت پھر وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں ہمارے بچے دین سے دور جا رہے ہیں ان بچوں کے لئے آپ دینی معلومات کی کتب ہمیں مہیا کریں.دعا کریں اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق دے کہ وہ ان ساری دنیا میں پھیلے ہوئے جو بچے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ان کو صحیح اسلام سکھانے کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اقوال ہیں.کہ کھانا کس طرح کھانا ہے، آداب کیا ہیں.چلنے پھرنے کے آداب کیا ہیں، ہم بھول گئے ہیں ہمارے بازاروں میں بازار کے آداب جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے ہیں ان کا بھی نہ علم ہے نہ اس کے اوپر عمل ہو رہا ہے.ہمارے علماء کو چاہئے اس طرف توجہ دیں.ہماری زندگی کی کایا پلٹ ایک انقلابی تبدیلی آنی چاہئے تاکہ پتہ لگے کہ ہم اللہ اور محمد کی طرف جائز طور پر منسوب ہونے والے ہیں محض زبانی دعوی نہیں ہے.بہر حال جو کتابیں چھپتی ہیں تھوڑی سی ان کی طرف تو توجہ ہونی چاہئے.جو چھپتا ہے اس میں کتابیں نہیں صرف اس میں اخبارات ہیں اس میں، ہفتہ وار ہیں اس میں دو ہفتہ رسالے ہیں، اس میں ماہانہ رسالے ہیں، اس میں quarterly تین مہینے کے بعد ایک چھپنے والا جو بہت علمی ہیں رسالے ایسے بھی ہیں دنیا میں جو سال میں صرف چار دفعہ چھپتے ہیں.تین تین مہینے کے بعد چھپتے ہیں.ہمارے جو چھپنے والے ہیں ان میں اچھے مضمون بھی ہیں ان میں ایسے بھی ہیں جن کے متعلق.بڑی سخت تنقید ہوتی ہے پرچے کے متعلق.اور میرے پاس خطوط آجاتے ہیں کہ آپ توجہ دلائیں کہ اس الفضل میں کوئی ایسا مضمون نہیں تھا جو ہماری تسلی کرا تا کہ
خطابات ناصر جلد دوم ۳۲۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء ہم نے آج کا پرچہ خریدا ہے.ہمیں کچھ ملنا چاہئے اس پرچے سے جس پر ہم نے پیسے خرچ کئے ہیں.بہر حال یہ نہیں کہ کسی پرچے سے کچھ بھی نہیں ملتا میں سمجھتا ہوں ہر پرچے سے کچھ نہ کچھ تو مل جاتا ہوگا.الفضل ہے.خالد ہے، انصار اللہ ہے تفخیذ الا ذہان ہے ، عورتوں کا مصباح ہے ، ان کو آج صبح میں نے جھاڑا ہے تحریک جدید ہے ، ان کا اپنا ذاتی اخبار ہے ثاقب زیروی صاحب کا لا ہور ہے یہ تو اسی طرح ممکن ہے اور بھی ہوں تو وہ اس وقت میرے سامنے ان کے نام نہیں.ویسے اس ضمن میں یہ کہہ دوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر ترقی دی ہے کہ ساری دنیا کے مختلف ممالک میں بہت سے اخبار روزانہ یا ہفتہ وار یا ماہانہ رسالوں کی شکل میں چھپ رہے ہیں لیکن وہ تو اپنے اپنے ایک ملک کی ضروریات کو پورا کرنے والے ہیں مثلاً فرانسیسی بولنے والا ماریشس ہے وہ وہاں ان کا اپنا رسالہ چھپ رہا ہے جو ویسٹ افریقہ میں انگریزی زیادہ بولی جاتی ہے پہلے وہ صرف انگریزی میں تھا اب وہ انہوں نے بڑا اچھا ایک نیا اقدام یہ کیا ہے کہ قبائل کی زبان لینی شروع کر دی ہے بڑے بڑے جو قبائل کی زبانیں ہیں ان میں سے کسی ایک زبان کو لے کے اس میں مضمون کوئی آ جاتا ہے.کتب جو ہیں شائع ہوئی دوران سال ایک تو ہے اردو میں مسیح ہندوستان میں اور انگریزی میں اس کا ترجمہ ابھی اس موقع پر جو لندن میں کا نفرنس ہوئی ہے کہ مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی رحمت نے صلیبی موت سے بچا کر اس لعنت سے بچایا کہ جو یہود ان کی طرف منسوب کرنا چاہتے تھے.کیونکہ وہ کہتے تھے کہ جو چور، ڈاکو اور یہ اور وہ ہو اور اس کو اُس کی سزا دی جائے موت میں.صلیب پر لٹکا کے موت تو خدا کی لعنت کے نیچے وہ آ جاتا ہے اور ہم نے مسیح کو صلیب پر لٹکا دیا اور و لعنتی تھے نعوذ باللہ وہ تو خدا تعالیٰ کے پیارے رسول تھے برگزیدہ تھے خدا سے پیار کرنے والے تھے.لعنت کے مفہوم میں ہے کہ نہ خدا اس سے پیار کرے جس پر اپنی لعنت بھیجے.نہ وہ شخص خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والا اور پیار کرنے والا ہو.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس قدرز بر دست دلائل جو ہیں وہ ہمارے ہاتھ میں دیئے ہیں کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے.ابھی تک پورے دلائل سے شائد فائدہ بھی نہیں اٹھایا گیا میرا خیال ہے.ساری کتب سے اکٹھا کر کے ایک کتاب میں کسی وقت شائع کر دیئے جائیں انشاء اللہ لیکن ایک کتاب ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطابات ناصر جلد دوم ۳۲۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء کی مسیح ہندوستان میں، تو اس کا انگریزی ترجمہ اس موقع پر جو میں نے بتایا ہے وہ کانفرنس ہوئی، نہایت خوبصورت لندن میں بھی شائع کیا گیا ہے پہلے بھی تھا لیکن وہ اتنا اچھا نہیں تھا اور یہ جو انگلستان وغیرہ ہیں اس میں ایک اور بات سامنے آئی اس دفعہ میرے اور آپ کو بھی میں بتا دیتا ہوں بڑی دلچسپ ہے کس طرح تبدیلیاں ہوتی ہیں جو ٹائپ ہے یعنی رسم الحظ ٹائپ کیا ہوا جواب چھپا ہے وہ ہے جسے انگلستان کے جو بہت چوٹی کے پڑھے ہوئے لوگ ہیں وہ پسند کرتے ہیں عام آدمی اسے پسند نہیں کرتا.عام آدمی جو ہے وہ کہتا ہے مجھے کھلا دو جسے میں آسانی سے پڑھ لوں لیکن جو ان کے محقق اور عالم ہیں وہ کہتے ہیں ہمیں وہ ٹائپ دو.یہ پرانا ایک رواج معلوم ہوتا ہے ان کے اندر چلا ہوا ہے وہ اس میں یہ چھاپا گیا ہے تا کہ ان کے ہاتھ میں ہم یہ دیں.بہر حال یہ اردو میں یہاں چھپی ہے مسیح ہندوستان میں براہین احمدیہ حصہ پنجم.اور زیرطبع ہے حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیب سے نجات یہ چھپ رہی ہے.مکرم محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے یہ لکھی ہے اور اس میں بہت حوالے جمع کر دیئے ہیں خود عیسائی کتب کے بھی.اور قاضی محمد نذیر صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے اور مسیح کشمیر میں محمد اسد اللہ صاحب کشمیری نے یہ کتاب لکھی ہے یہ بھی چھپ رہی ہے.آپ کے ہاتھ میں آجائے گی، کشف الغطا ، ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لیکچر لدھیانہ، فتح اسلام، راز حقیقت، تجلیات الہیہ، لیکچر سیالکوٹ، آسمانی فیصلہ سبز اشتہار، اور پیغام مصلح، اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں اس قدر علم کے خزانے ی بھرے ہوئے ہیں کہ جس کو ان کتب پر عبور ہو جس کو ان کتب پر پچاس فی صدی عبور ہو وہ بھی یورپ کے بڑے سے بڑے آدمی کے ساتھ جب بات کرے گا تو اس کو نیچا دکھائے گا مذہبی امور کے متعلق جب بات ہو رہی ہوگی اور اگر وہ دعاؤں کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا اور قرآن کریم کی ان تفاسیر پر غور کرنے والا ہو گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں پائی جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اُسے نور فراست بھی عطا کرے گا ، پھر جو بھی سوال سامنے آئے گا.اللہ تعالیٰ اسے خود اس کا جواب بھی سکھائے گا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تین کتب شائع ہوئی ہیں یہاں اردو، احمدیت یعنی حقیقی اسلام سیر روحانی جلد اول اور ہمارا رسول ، اور انصار اللہ مرکزیہ کی طرف سے اسلامی معاشرہ اور
خطابات ناصر جلد دوم ۳۲۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء یہ صدر صاحب انصار اللہ کی مختلف تقریریں ہیں ان کی یا انہوں نے کتاب یہ کھی ہے اور انصار اللہ کی تاریخ.یہ تھا تو انصار اللہ کے ساتھ تعلق آپ پڑھیں اور ان کو ان اپنے بچوں نوجوانوں کو بھی پڑھائیں جو آج نہیں تو کل انشاء اللہ اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں لمبی کرے، انصار میں شامل ہونے والے ہیں وکالت تبشیر کی طرف سے دعوت الامیر کا انگریزی ترجمہ نظر ثانی کے بعد انگلستان میں چھپ رہا ہے.ہاں اب ایک نیا دروازہ یہ کھلا ہے کہ انگلستان کی ایک بہت بڑی فرم ہے کتا بیں چھاپنے والی جن کا ایک حصہ امریکہ میں بھی کام کر رہا ہے ، ان کے ساتھ بات ہوئی تو پہلے تو انہوں نے کہا کہ یہ جو مذہبی کتابیں ہیں اس میں تو ہمیں دلچسپی نہیں وغیرہ وغیرہ لیکن پھر وہ دعوت الامیر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی انگریزی ترجمہ ہو چکا تھا revise کیا ہے اب پھر نظر ثانی ہوئی ہے اس ترجمہ پر، اس کو اپنے خرچ پر شائع کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور وہ غالباً جنوری میں منڈی میں آجائے گا کتب فروشوں کے پاس پہنچ جائے گا لیکن دس ہزار کا انہوں نے ہمارے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا جماعت کے ساتھ وہ دس ہزار کی تعداد میں چھاپنے کا ہے اور جب میں وہاں سے چلا ہوں اکتوبر کے آخر میں تو ان کی طرف سے یہ اطلاع ملی تھی کہ ان دس ہزار میں سے چھ ہزار کا پہیاں انگلستان کی لائبریریز خرید چکی ہیں ان سے یعنی آرڈر place کر چکی ہیں.تو یہ ایک نیا دروازہ ہے یعنی ہم جب چھاپتے ہیں خرچ کرتے ہیں پھر سستی ہو جاتی ہے پھر وہ لوگوں تک پہنچانا تیار کرنا ان کو کہ خریدیں یا نہ خریدیں.ان لوگوں کا تو بڑا منتظم ایک محکمہ ہے بڑا تیز وہ ہر جگہ ہر لائبریری کے پاس ان کا ایجنٹ پہنچتا ہے کہتا ہے یہ آرہی ہے نئی کتاب تو دروازہ اگر کھل جائے تو آگے ہمیں بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے.یہ قرآن کریم کے ترجمے کے متعلق ایک کمپنی نے تھوڑی سی بات کی تھی لیکن وہ یہ کہتا تھا کہ مجھے ایک لاکھ کاپی پہلے ابتداء میں دے دو.English translation of the Holy Quran تو قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ تو اور ۴۰ ۴۴ فی صد قیمت جو مرضی رکھ لو ۶۰ فی صد مجھے کمیشن دے دو تو یہ لاکھ کا پی میں امریکہ کی لاکھ جگہوں پہ ، ( میں جگہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بہت سارے گھر ہوں گے لیکن بہت ساری لائبریریاں بھی ہوں گی تو وہاں پہنچا دوں گا.یہ ہماری ذمہ داری ہے پھر آپ کی ذمہ داری کوئی نہیں ہم آپ کو پیسے دے دیں گے.
خطابات ناصر جلد دوم ۳۲۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء اسی طرح ” گناہ سے نجات کیوں کر مل سکتی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عیسائیت پر تبصرہ، چشمه سیحی، ہماری تعلیم ،انتخاب در مشین فارسی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کی تصنیف انقلاب حقیقی، یہ بھی تحریک جدید کی طرف سے چھاپی گئی ہیں اور اسی طرح ذکر حبیب میاں مبارک احمد صاحب کا ایک لیکچر ہے وہ کتابی صورت میں ہے اچھا ہے.دیباچہ تفسیر القرآن کا عربی ترجمہ ہو رہا ہے وہ چھپ جائے گا اور ویسے تحریک نے میرے پاس غلط رپورٹ کر دی تھی کہ ہمارا خدا، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا تھا اس عنوان پر ہمارا خدا ، یہ بھی ترجمے کے لئے اس کا بھی ترجمہ ہو رہا ہے لیکن بعد میں مجھے پتہ لگا کہ وہ دفتر کے کسی کلرک کی غلطی ہے اس کا ترجمہ وہ نہیں کروار ہے لیکن میں نے وہاں یہ انتظام کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ مضمون ہے نا.یہ عنوان اگر ہو تو اللہ تعالیٰ پر جو کچھ لکھا ہے اس کے منتخب اقتباسات، اسلام، محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور قرآن عظیم پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں اقتباسات کا ترجمہ کر کے انگریزی میں یہ شائع کیا جائے ، تا کہ دنیا کو یہ پتہ لگے کہ اسلام کا عقیدہ اور اسلام کا تصور اللہ تعالیٰ کے متعلق کیا ہے اور اسلام کی تعلیم کیا ہے بنیادی، اس کی روح کیا ہے (اسلام کی ) اور قرآن کریم کی عظمت کیا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور جلال کیا ہے اور آپ کا مقام جو ہے وہ کیا ہے تو وہ میر داؤ د احمد صاحب مرحوم نے اقتباسات اکٹھے کئے ہوئے تھے میرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے عنوان سے وہ موٹی بارہ تیرہ سو صفحے کی کتاب چھپ چکی ہے وہ وہی دیئے ہیں اقتباسات ترجمہ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بڑی تکلیف کر کے میری خواہش پر کر دیا، وہ چلا گیا پریس میں ، اس کے پروف بھی دیکھے گئے.وہ بھی میرے خیال میں جنوری میں آجائے گا مارکیٹ میں ، اور وہ یورپ کے سارے ملکوں میں ان لوگوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا.سارے نہیں ان لوگوں میں سے بعض کے ہاتھ میں چلا جائے گا جو انگریزی جانتے ہیں.رسالہ تحریک جدید.وقف جدید نے آیت خاتم انبین کا صحیح مفہوم فیضان نبوت وصال ابن مریم، خلافت کا منصب اور مقاصد ، حدیقہ الصالحین ، نماز مترجم سندھی زبان میں اور اس کے علاوہ کچھ کتابیں بعض دوستوں نے شائع کی ہیں عقیدت کے پھول کے نام سے اور مہدی موعود کے علمی خزانے کے نام سے اور قادیان دارالامان کے نام سے اور راجہ نذیر احمد صاحب ظفر نے جو
خطابات ناصر جلد دوم ۳۲۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء ہومیو پیتھ ہیں وہ نعت مرکب نام رکھا ہے حالانکہ ہومیو پیتھی میں عام طور پر مرکب ادویہ نہیں دی جاتیں مگر بہر حال انہوں نے نام رکھا ہے نعت مرکب اور تفسیر کبیر کی جو حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر کبیر ہے اس میں سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ کہف کا میں نے یہاں عربی ترجمہ کر والیا ہے کیونکہ اس میں بہت سی قرآن کریم کی ایسی پیشگوئیاں ہیں جو اس زمانہ میں حالات پیدا ہوئے ہیں شرق اوسط میں اس کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور بڑی تفصیل کے ساتھ اور بڑے حوالے دے کر اس مضمون کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تفسیر کبیر میں بیان کیا ہے اور کئی سو صفحوں پر یہ دوسورتوں کی تفسیر بنتی ہے ترجمہ اس کا ہو چکا ہے اور میرا خیال ہے کہ کسی غیر ملک میں بہت اچھا چھپ جائے گا کیونکہ ہمارے یہاں عربی کے مطبع خانے اتنے اچھے نہیں اور جو اب سال شروع ہونے والا ہے اس کے شروع میں انشاء اللہ امید ہے یہاں پہنچ جائے گا.اچھا تحریک جدید اب میں لے رہا ہوں کہ اس سال میں اس دفعہ زیادہ تفصیل سے بتا رہا ہوں اور آپ کو دلچپسی ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کتنا فضل ہم یہ کر رہا ہے تو جو چھوٹا سا کانٹا چھ جائے اس سے تو سی بھی نہیں کرنی چاہئے اتنے فضل نازل ہورہے ہیں.اَلْحَمْدُ لِلهِ ہر وقت کرنی چاہئے ذرا تفصیل سنیں.جو دوسرے ملکوں کے طالبعلم یورپ کی یو نیورسٹیز میں پڑھ رہے ہوتے ہیں ان میں سے بہت سارے احمدی ہو جاتے ہیں اب یہاں میرے سامنے تو ایک افریقن عیسائی ، افریقہ کا باشندہ اور عیسائی ، اس نے ہیمبرگ میں قبول اسلام کیا ہمارے مشن میں آکر اور اس کے علاوہ یہ بہت سارے عیسائی یورپ میں اسلام لا رہے ہیں اور بعض جگہ تو یہ ہے کہ مثلاً سوئٹزر لینڈ میں ایک عورت یا شاید اس کے ساتھ بچہ بھی تھا بہر حال اس نے ہماری مسجد میں آ کے اور کتب پڑھنی شروع کیں اور وہ مائل ہو گئی اسلام کی طرف تو اس کو کوئی شخص اور مل گیا کسی ملک.اس نے کہا وہاں تم کیوں جاتی ہو تم ہماری کتابیں پڑھو کتا ہیں تو وہ بھی پڑھ لیں گی اور اس نے کتابیں پڑھ لیں وہ تو تحقیق کر رہی تھی نا کتا بیں پڑھ کے اس کو کہنے لگی بات یہ ہے کہ مجھے تو انہی کی کتابیں پسند آئی ہیں.ان کے جو دلائل ہیں اسلام کے حق میں انہوں نے مجھ پر زیادہ اثر کیا ہے بجائے ان کتب کے جو تم نے مجھے پڑھنے کے لئے دیں تو وہ مسجد میں آکے اس طرح وہ بھی مسلمان ہوگئی اور بہت لوگ یعنی ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں ہماری مساجد میں اور مشن ہاؤسز
خطابات ناصر جلد دوم ۳۳۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء میں اور کتابیں لیتے ہیں اور پڑھتے ہیں اپنے بچوں کو پڑھواتے ہیں.وہاں میں نے بتایا ہے نا وہ ان ملکوں کی چونکہ فضا غیر متعصبانہ ہے اس واسطے، چھوٹی چھوٹی باتوں میں وہاں تعصب نظر نہیں آتا ہمیں.انہی کے لئے انہی کا مطالبہ ہے کہ ہمیں کتابیں دیں اور کثرت سے دیں اور بڑے جذبے کے ساتھ.یہ بڑی عجیب چیز ہے اللہ تعالیٰ نے پھر اسلام کی محبت لوگوں کے دلوں میں شدید کرنی شروع کر دی ہے اس میں ایک شدت پیدا ہوئی ہے.اچھا مساجد ! کتابیں بھی آجائیں گی انہی کے اندر.بیرونی ممالک میں پچھیں نئی مساجد اس سال جس کا جلسہ اب ہم کر رہے ہیں نا اس سال چھپیں نئی مساجد تعمیر ہوئیں نائیجیریا میں تین غانا میں پندرہ جن میں سے چار مساجد کی تصویر میں غانا سے ، غانین ہیں وہاں انچارج اس وقت ، عبدالوہاب بن آدم، انہوں نے جلسے سے کوئی دو ہفتے پہلے مجھے بھجوائی تھیں تو میں نے الفضل کو کہا کہ اگر تمہارے پاس جگہ ہو تو یہ بھی شائع کر دو تو انہوں نے وہ شائع کر دیں تو وہ آپ الفضل دیکھیں گے.تو بڑی خوبصورت ان میں سے تین تو خاصی بڑی اور بڑی خوبصورت.مساجد ہیں اور یہ وہاں بن گئیں اور انڈونیشیا میں تین اور مشرقی افریقہ میں دو اور سری لنکا میں ایک اور نجی میں ایک مسجد زیرتعمیر ہے اور ایک مسجد کا افتتاح وہ دسمبر کے شروع میں کر چکے ہیں اور گیا نا اور کینیڈا میں تین مساجد کے لئے زمین خرید لی گئی ہے اور اچھی.اچھا یہ جو ساری ) یہ جو بچھپیں مساجد ہیں نا یہ یہاں والوں کو میں کہتا ہوں اپنے دوستوں کو پاکستانی احمدیوں کو کہ ان میں سے میرا نہیں خیال کہ کسی ایک نے بھی مرکز ، اپنے مرکز ، ہم یہاں سے تو پیسہ نہیں بھیج سکتے مثلاً غانا نے پندرہ مسجدیں بنائی ہیں مختلف جگہوں پر پندرہ جماعتوں نے بنائیں نا ایک جماعت نے بھی غانا کے جماعت احمدیہ کے مرکز کو یہ نہیں کہا کہ مسجد بنانے کے لئے ہمیں تم مدد دو اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو کے بنا ئیں جتنی جس میں ہمت تھی اتنی انہوں نے بنالی تو ہمت کریں یہاں بھی مسجد تو خدا کا گھر ہے جس کو خدا سے پیار ہے وہ خدا کا گھر بننے میں روک نہیں بنے گا لیکن جہاں تک یہ تو ہے نا اس نقطہ نگاہ سے، خدا تعالیٰ کو تو اینٹوں کی یا پتھروں کی یا سنگ مرمر کی مسجد کی ضرورت نہیں وہ تو ہر چیز کا مالک اور خالق، خالق اور مالک ہے اس نے پتھروں کو لے کے کیا کرنا ہے اس کو تو وہ وہ پاک دل چاہیں جو اس کی محبت سے بھرے ہوئے ہوں نا جو وہاں آ کے عبادت کریں اس
خطابات ناصر جلد دوم ۳۳۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء واسطے اس نے خدا تعالیٰ نے جب یہ کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ہمیں کہ جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا (صحيح بخارى كتاب التیمم ) خدا نے ساری زمین میرے لئے مسجد بنا دی اس میں یہی اعلان تھا کہ جب میں یہ کہتا ہوں خدا کی طرف سے یہ اعلان کہ میرے ساتھ پیار کرو تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس پیار کا اظہار مسجدوں میں جا کے صرف کرو بلکہ اگر مسجد کے دروازے تمہارے اوپر بند ہیں یا مسجدوں کے دروازوں تک تم پہنچ نہیں سکتے ایسے حالات ہیں، ایک آدمی سفر کر رہا ہے نہر کا کنارا آتا ہے، تمہارے دل میں خدا کہتا ہے میرا پیارا اتنا موجزن ہونا چاہئے کہ ہر وقت میرے دل میں تمہارا پیار میرا ذکر ، میری حمد ، میری تسبیح جو ہے وہ موجیں مار رہی ہو اس پیار کی وجہ سے اور اس میں کوئی شرط نہیں ہے کہ وہ مسجد اینٹ پتھر گارے سیمنٹ اور کنکریٹ یا سنگ مرمر کی بنی ہوئی ہو بلکہ جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا (صحیح مسلم کتاب المساجد) اس ساری زمین کو میں نے تمارے لئے مسجد بنا دیا.اب تمہارا کام ہے کہ اس ساری زمین کو میری حمد اور میری تسبیح سے معمور کر دو.نے مشن ہاؤس ! نائیجیریا میں دوتنزانیہ میں دو اور انڈونیشیا میں ایک.قرآن مجید ، سواحیلی کا تیسرا ایڈیشن دس ہزار کی تعداد میں شائع کیا جارہا ہے نائیجیریا کی جماعت نے یورو با ترجمہ قرآن مجید پانچ ہزار کی تعداد میں ہانگ کانگ سے چھپوایا اور جس وقت وہ پہنچا وہاں اس وقت میں انگلستان میں تھا وہاں آتے رہتے ہیں وہاں سے لوگ وہ میرے لئے نمونہ کے طور پر یوروبا کا ترجمہ، مجھے تو زبان نہیں آتی بہر حال وہ بھیجتے ہیں مجھے دکھانے کے لئے اور ساتھ خط میں یہ تھا ابھی چند ہفتے ہوئے پہنچے.یہ اتنا مقبول ہوا ہے کہ ختم ہو رہا ہے اور ہم سوچ رہے ہیں کہ مزید پانچ ہزار یا دس ہزار کے آرڈر دے کے ہانگ کانگ کو اور وہ بھی منگوائیں.تو اللہ تعالیٰ نے یہ ایک رو پیدا کی ہے کہ جو لوگ قرآن کریم کو صحیح طور پر سمجھنا چاہتے ہیں وہ ہمارے تراجم کی طرف توجہ کرتے ہیں متوجہ ہوتے ہیں.انڈونیشین زبان میں دوسری جلد دسویں پارہ سے بیسویں پارہ تک چھپ رہی ہے.غانا کی ایک مقامی زبان ہے اس میں بھی ایک ترجمہ کیا جارہا ہے اور نائیجیریا نے اس ترجمے کے علاوہ جو یوروبا میں کیا ہے انہوں نے حضرت پیر منظور احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے قاعدہ لیسرنا القرآن ایک بڑا ان کا تھا بڑا مفید ترجمہ، قاعدہ جس سے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا بچے کے لئے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۳۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء چھوٹی عمر سے بڑا آسان ہو جاتا ہے اور جو بچوں کو آپ میں سے جو پڑھا رہے ہیں قرآن کریم ، اس عمر کے ہیں وہ اس سے فائدہ اٹھائیں یہ یہاں اب اسی خط میں قرآن کریم متن یعنی بغیر ترجمے کے، میں سادہ جان کے نہیں کہہ رہا کیونکہ قرآن کریم کو سادہ کون کہے وہ تو ساری دنیا کی برکتوں سے بھرا ہوا ہے وہ سادہ کہاں سے آگیا.بہر حال متن اس کا جو ہے وہ چھپ چکا ہے وہ بھی پڑھنے والے بچوں کو اس سے پڑھانا چاہئے وہ قاعدے کے بعد وہاں روانی ہو جاتی ہے.اس کی رسم الحظ میں.حضرت پیر صاحب نے کچھ قواعد بنائے تھے کہ یوں اس طرح اس کا غیر زبانوں میں ترجمہ ہو تو ان چیزوں کا خیال رکھا جائے اس کے مطابق جو انہوں نے قواعد بنائے تھے اس کے مطابق نائیجیریا کی جماعت نے ، نائیجیر یا بہت بڑا ملک ہے، انگریزی قاعدہ میسرنا القرآن انگریزی کے نوٹوں کے ساتھ اس کے مطابق انہوں نے شائع کر دیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزاء دے، برمی زبان میں سورۂ فاتحہ اور تیسویں پارے کا ترجمہ اور تفسیر شائع ہو رہی ہے.ہاؤ سا زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کا کام شروع ہو چکا ہے، یہ بھی نائیجیریا کی زبان ہے نائیجیریا میں قرآن کریم اور دوسرے اسلامی لٹریچر کی وہ نمائش ہر سال کرتے ہیں جو بڑی ہی مقبول ہوتی ہے اور پڑھا لکھا طبقہ جو ہے بڑی کثرت سے وہاں جاتا ہے اس سے استفادہ کرتا ہے وزراء بھی آ جاتے ہیں بعض دفعہ اور بڑے بڑے تجار بھی آجاتے ہیں اور بڑا فائدہ ہورہا ہے نائیجیریا کو قرآن کریم کی برکات سے اس تحریک کے نتیجے میں.غانا میں میں نے بتایا ہے نا پندرہ نئی مساجد اس سال بنی ہیں.غانا میں اس وقت تک کل مساجد دوسو ہوگئی ہیں اور ویسے بہت چھوٹا ملک ہے میرا خیال ہے اس کی آبادی کوئی چالیس پچاس لاکھ کے قریب ہے ( کیوں جی غانا کی آبادی؟ بتایا گیا کہ نوے لاکھ کے قریب ہے ایک کروڑ سے کم ہی ہے نوے لاکھ کے قریب ہے ) اور دوسومساجد یہاں بن چکی ہیں.اچھا غانا سے وہاں کے مشنری انچارج عبدالوہاب بن آدم نے ایک خط لکھا ہے بڑا جذباتی ہو کر اور ہے بھی جذباتی ہونے والی بات وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں غیر مذاہب والے آئے اور اپنی اپنی اپنے اپنے مذہب کی مقدس کتاب لے کے آئے.مثلاً یہ عیسائی پہنچے عیسائیوں کے مختلف فرقے پہنچے وہاں یہودی بھی پہنچے وہ پتہ نہیں لے کے گئے ہیں بہر حال عیسائی اپنی انجیل اور تورات لے کے آئے.
خطابات ناصر جلد دوم ۳۳۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء اور یہ جو واقعہ آگے انہوں نے لکھا ہے کہ اس سے پہلے آج تک کسی بیرونی مذہب نے اپنی مقدس کتاب ہمارے ملک غانا میں شائع نہیں کی یعنی وہاں طبع نہیں کروائی باہر سے منگواتے تھے اور ہمارا فارن اینچ خرچ کرتے تھے ہمارے ملک کا.یہ پہلا واقعہ ہے کہ جماعتہائے غانا نے ، وہ لکھتے ہیں کہ صرف جماعت ہائے احمد یہ ہی ایک ایسی واحد مذہبی جماعت ہے جس نے غانا میں پہلی مرتبہ اپنی مقدس مذہبی کتاب قرآن مجید کو پرنٹ ، طبع کروایا اور شائع کیا اور یہ پہلا واقعہ یعنی یہ غانا کی تاریخ میں ایک نمایاں واقعہ بن کے آگیا کہ پہلی بارغانا کے اندر کسی نے اپنی مقدس کتاب قرآن عظیم کو وہاں انگریزی ترجمے کے ساتھ اپنے ملک میں طبع کروایا دس ہزار کی تعداد میں اور وہ اس کی وہاں اشاعت ہو رہی ہے اس کی کاپی جو جلسے پر وہاں سے آئے ہیں ، وفد جلسے پر آیا ہے نانا سے، ایک کاپی میرے لئے لے کے آئے تھے.وہ بڑا اچھا خوبصورت چھپا ہے.میں بڑا خوش ہوا دیکھ کے.میرا خیال نہیں تھا کہ اس کا معیا را تنا بلند ہوگا.وہ و سیرالیون میں ایک بہت بڑی مسجد بواجے بو کے مقام پر مکمل ہوئی ہے بواجے بو ہمارے نیشنل پریذیڈنٹ وہاں کے چیف گمانگا وہ دو سال ہوئے غالبا یا تین سال ہوئے یہاں آئے بھی تھے دو دفعہ آچکے ہیں جلسے پر ، پچھلے سال فوت ہو گئے ہیں بڑے مخلص بڑے فدائی بڑے زیرک اور سمجھدار تھے تو وہاں یہ انہوں نے اپنے گاؤں میں شروع کی ، اور بڑے مدد کرنے والے لوگوں کی ان کے متعلق بات تو غلط ہو گی لیکن ان کی طبیعت ایسی ہی تھی کہ لوگوں نے مشہور کیا ہوا تھا، احمدی ہونے سے پہلے وہاں لوگ دس دس بیویاں بھی کر لیتے ہیں اب بھی.تو ان کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ کون میرا بیٹا ہے کون نہیں ہے یعنی اپنے بچوں کی تعداد اور ان کی شکلیں بھی وہ نہیں جانتے تھے اور لوگ جو طالبعلم یونیورسٹی میں داخل ہونا چاہتا تھا ان کی طبیعت کو جو جانتا تھا وہ آ جاتا تھا ان کے پاس اور کہتا تھا کہ میں تو آپ کا بیٹا ہوں میرا خرچ برداشت کریں اور چپ کر کے اس کو خرچ دے دیتے تھے تو اس طرح اس وجہ سے ان کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں رہی تھی آخر میں.لیکن بڑے ہی مخلص.انہوں نے مسجد وہاں شروع کی تھی پھر وہ مجھے پتہ تھا کہ یہ اپنے پہ تو خرچ نہیں کرتا انسان ، بالکل سادہ زندگی گزارنے والا ہے تو کچھ جماعت کی طرف سے بھی ان کو مددملی.یہ ایک ہی مسجد ہے جس کو جماعت کی طرف سے افریقہ میں کوئی مدد لی ، ویسے میں نے کہا نا کوئی نہیں ، اب میں
خطابات ناصر جلد دوم ۳۳۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء اس میں استثنی اس کو کر رہا ہوں تھوڑی سی مدد دے دی تھی وہ بہت بڑی مسجد ہے اور وہ مکمل ہوگئی ہے ان کی یاد بھی اور وہاں دعائیں کرنے والے ان کے لئے بھی دعا کریں گے آپ بھی ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے دعا کریں اللہ فضل کرے ان پر.سری لنکا میں ۱۹۲۰ء میں اس وقت کے حالات اور جماعت کی تعداد کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر ہوئی تھی اب اس کی جگہ جماعت بڑی ہو گئی حالات بہتر ہو گئے تین منزلہ عمارت تعمیر کی گئی ہے اور اس میں ایک منزل غالباً پوری ایک مسجد کی ہوگی اور اس کے علاوہ دارالمطالعہ اور لائبریری کا قیام بھی عمل میں آ گیا ہے اس کے علاوہ سری لنکا میں نگومبو ( تلفظ نہیں مجھے آتا ) نگومبو میں ایک پورے محلے کا نام احمد یہ گارڈن ہے.گیا نا جنوبی امریکہ میں ایک قطعہ زمین خرید لیا گیا ہے جس پر انشاء اللہ مسجد اور مشن ہاؤس دار المطالعہ وغیرہ جو ہے وہ بن جائے گا جو کینیڈا میں مسجد کے لئے زمین خریدی گئی ہے وہ کوئی اسی ہزار سے زائد ، اسی ہزار ڈالر، روپیہ نہیں.اسی ہزار ڈالر سے زائد رقم ان کی ہے وہ.اور ایک سو چالیس فٹ لمبی اور پچاس فٹ چوڑی ، اچھا خاصا بڑا یہ رقبہ ہے کچھ تھوڑی سی اس میں الجھن ہے وہ دور ہو جائے گی.انشاءاللہ سکول تو ہمارے اللہ کے فضل سے چھوٹے بڑے ملا کے تو سینکڑوں افریقہ میں کام کر رہے ہیں یعنی ہمارے پرائمری سکول بھی ہیں مڈل بھی ہیں اور ہائر سیکنڈری سکول بھی ہیں.ہائرسیکنڈری سکول جو ایف اے ایف ایس سی تک کے کالج جو یہاں انہوں نے بائی فرکیشن (Bifurcation) کے بعد بنائے تھے وہ تو سولہ نصرت جہاں کی سکیم کے ماتحت ۱۹۷۰ء کے بعد جب میں نے وہاں دورہ کیا ہے وہ بن چکے ہیں اور اسی طرح وہاں ہسپتال کچھ پہلے تھے.سکول تو نصرت جہاں کی سکیم سے پہلے بھی بہت تھے لیکن ہائر سیکنڈری سکول سولہ نہیں تھے سارے ملا کے.یہ نصرت جہاں میں جو قربانی دی مغربی افریقہ کے لئے جماعت نے اللہ تعالیٰ نے اس کو قبول کیا اور بڑے کامیاب ہیں یہ چل رہے اور اس کے ساتھ میں یہ بھی کر دوں کہ کچھ ہاسپیٹل یا کلینک پہلے بھی موجود تھے لیکن سولہ کلینک جو شروع کئے گئے تھے نصرت جہاں کے ماتحت ان میں سے میرا خیال ہے نصف سے زیادہ بڑی بڑی عمارتوں میں تبدیل ہو کر ہاسپیٹل بن چکے ہیں یاز بر تعمیر ہیں مثلاً غانا میں ہی ٹا چی مان ایک جگہ ہے وہاں انہوں نے نقشہ بھیجا اور میں نے جو ان کو منظوری دی ہے ایک لاکھ سیڈیز
خطابات ناصر جلد دوم ۳۳۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء کتنے روپے بنتے ہیں نیز غانا میں اور کسی کو پتہ ہے؟ ( آپ کو بتایا گیا کہ ساڑھے نو سولا کھ روپے) all-right ) تو انہوں نے اب مجھ سے منظوری لی ہے چون لاکھ روپے کی عمارت بنانے کی اور خدا تعالیٰ نے ان کو پیسے دیئے ہیں یہ پھر میں کہہ دوں آپ (ہاں یہ پھر بجا ئیں گے بعد میں نعرے لگا ئیں گے اب ذرا چپ کرو ) یہ لوگوں کو بڑی غلط فہمی ہے، سمجھتے ہیں کہ ہر جگہ سے انسان کو پیسہ مل سکتا ہے اگر نہیں مل سکتا تو خدا سے نہیں مل سکتا اور ہمارا تجربہ یہ ہے کہ کسی جگہ سے پیسہ نہیں مل سکتا اگر ملتا ہے تو خدا سے ملتا ہے تو یہاں اب یہ ہماری وہاں کوئی مالی لحاظ سے کوئی پوزیشن ہی نہیں تھی ایسا اللہ تعالیٰ نے انقلاب عظیم بیا کیا اب جو ٹا چی مان کی بات کر رہا ہوں نا وہاں اردگرد کے تین چار ملکوں کے وزیر بھی وہاں آ جاتے ہیں اور لکھ پتی وہاں کے جو ہیں وہاں ، ہر ملک میں لکھ پتی ہے، وہ وہاں آ جاتا ہے علاج کرانے کے لئے اتنی برکت ڈالی ہے ہمارے ڈاکٹر کے ہاتھ میں اور شفا رکھی ہے کہ اردگرد کے ملکوں میں بھی شہرت ہے شفا کے لحاظ سے اور جب وہ آتے ہیں تو وہ پیسے دیتے ہیں تو جہاں ہم لاکھوں مریضوں کا مفت علاج کر چکے ہیں یعنی نہ ڈاکٹر نے فیس لی نہ ڈاکٹر نے دوائیوں کے پیسے لئے وہاں ہمیں ایسے آدمی بھی ملتے ہیں جو کہتے ہیں یہ آپریشن کرنا ہے ڈاکٹر کہتا ہے پانچ ہزار لوں گا سیڈیز یا ایک ہزار سیڈیز لوں گا یعنی نو ہزار روپیہ وہ کہتا ہے ٹھیک ہے وہ تو ایک لاکھ روپیہ بھی دینے کو تیار ہے اتنا پیسہ خدا نے اس کو دیا ہے وہ اس طرح خدا اس کی جیب میں سے نکال کے خدمت خلق کے لئے ویسٹ افریقن ممالک کی دھتکاری ہوئی قوموں کے لئے جس کو کہا گیا تھاblack continent، ان کے دلوں میں نور بھرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے پیسے اکٹھے کرنے کا سامان پیدا کر دیا اور اسلام کی عزت اور وقار کو قائم کرنے کے لئے یہ سارے سامان ہو گئے تو یہ ان کو پہلے بھی میں نے بتایا جو ڈاکٹر میں نے بھیجا اس کو میں نے کہا دیکھو نصرت جہاں سکیم کا اپنا سرمایہ تو بڑا تھوڑا ہے اور آدھا قریباً یہاں تھا اور آدھا باہر تھا کوئی پچیس لاکھ کے قریب کم و بیش باہر کے ملکوں میں پڑا تھا وہاں سے میں ان کو دیتا تھا میں یہ آرڈر کرتا تھا کہ دے دیئے جائیں پانچ سو پاؤنڈ صرف.میں کہتا تھا چھپر ڈالو اور کام شروع کرو.باقی خدا برکت ڈالے گا پھر تم محل تیار کر لینا مجھے تو کوئی اعتراض نہیں.وہاں سے ایک دھیلہ باہر نہیں نکالا گیا نہ کسی کی ذات پر خرچ کیا گیا ہے، ساری رقمیں ، اور خدا نے دیں اور in millions دیں یعنی صرف
خطابات ناصر جلد دوم ۳۳۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء ایک ایک ہسپتال کے لئے پانچ ملین روپے سے زیادہ کی پانچ پانچ کے قریب بن جاتی ہے اتنے کا.وہ ہسپتال جو ہے ، وہ انہوں نے منظوری لی ہے وہ ممکن ہے وہاں بھی inflation ہے، یہ اس کی بڑھ جائے گی ، اور چونکہ غیر ملکوں سے بھی علاج کے لئے آتے ہیں اس ملک کے بھی امیر وہاں آتے ہیں.ڈاکٹر کے ہاتھ میں بڑی شفا ہے دعا کرنے والا ڈاکٹر ہے اب خدا کے آسمانوں کے دروازے تو کوئی نہیں نا بند کر سکتا ہمارے اوپر.زمین کے جہاں تک ہوسکتا ہے جتنا تمہارا زور ہے کرو دروازے بند ہمیں تو فرق نہیں پڑتا لیکن آسمانوں کے دروازے تو کھولے گئے ہیں ہمارے لئے تو آسمان سے آتا ہے خدا کی مخلوق پہ خرچ ہو جاتا ہے.بڑا خدا تعالیٰ فضل کر رہا ہے ہماری تو اگر ہمارے جسموں کا ذرہ ذرہ خدا پر قربان ہو جائے تب بھی ہم اس کا شکر ادا نہیں کر سکتے کہ دنیا کی نگاہ میں تو یہی تھے نا، کیا پدی کیا پدی کا شوربہ.اتنی سی جماعت ہے ایک دن میں ختم کر دیں گے لیکن یہ اتنی سی جماعت بڑی سخت ہے.اس لئے نہیں کہ اس کے اندر کوئی طاقت ہے اس لئے کہ اس کے گرد فرشتوں کا حصار ہے اور فرشتوں کے حصار کو کوئی توڑ کے اس کے اندر داخل نہیں ہوسکتا.اور آسمان کے دروازے کھلے ہیں اور آسمان سے برکتوں کا نزول ہوتا ہے.شفا کھیتوں پر نہیں اگائی جاتی یہ جو میں نے کہا ہے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفا دی.کبھی آپ نے دیکھا کہ جو یہاں ہزار آپ زمیندار بیٹھا ہے آپ کے گاؤں میں کسی کھیت میں شفا بھی اگی ہے.یعنی یہ ہنر کہ مریض اچھا ہو جائے یہ کسی کھیت میں نہ بیج بویا گیا نہ بیچ کا ٹا نہ فصل کاٹی گئی.یہ زمین کا کام نہیں یہ آسمان کا کام ہے کہ آسمانوں سے حکم آئے کہ اس کے ہاتھ میں شفا ہو جائے.ایسے ایسے کیس کہ جو ساری دنیا نے ان کو کہہ دیا تھا کہ بیچنے والا کیس ہی نہیں وہ جب ہمارے کلینک میں آیا تو ہماری کسی خوبی کی وجہ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے اسلام کی عزت اور وقار کو قائم کرنے کے لئے سارا منصوبہ بنایا ہے خدا تعالیٰ نے کہا ہو جا ٹھیک ہو جا، ہو گیا ٹھیک.ایک وہ ، وہ بھی بڑے تیز تھے ہمارے ڈاکٹر ، بڑا انہوں نے کام کیا ( ایک شخص کے نعرہ لگانے پر حضور نے فرمایا: ابھی نعروں کے متعلق ایک اور بات میں نے آپ کو بتانی ہے وہ آپ کو اور ہوشیار ہونا پڑے گا ) ان کے پاس بجلی وغیرہ کوئی نہیں تھی، اور سرجن، انہوں نے مجھے کئی دفعہ لکھا ، رات کے دس بجے مریض تڑپتا ہوا اپنڈے سائیٹس کا کیس آگیا کوئی نہیں.میں صبح تک انتظار نہیں کر سکتا ایسا کیس ہے مر جائے گا
خطابات ناصر جلد دوم ۳۳۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء وہ.تو عام وہ لیمپ رکھے ہوئے تھے انہوں نے کچھ گیس کے کچھ اور جو بڑا مشکل ہے سر جن کے لئے کرنا وہ اس سے آپریشن کر دیتے تھے اور خدا کے حضور جھک جاتے تھے کہ اے خدا تیرے نام کی سر بلندی کے لئے میں نے کر دیا ہے آپریشن تو میں تو اس کو شفا نہیں دے سکتا تو اسے شفا دے دے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے.تو وہاں یعنی اتنا خدا کا فضل وہاں ہے خدا کی شان دیکھ کے تو آپ سمجھ ہی نہیں سکتے میرے جذبات کا کیا حال ہوتا ہے اب انہوں نے آہستہ آہستہ لگا دیا ہے کہ کوئی روپیہ باہر نہیں جا سکتا ہم تو ویسے بھی نہ نکالتے اب وہاں غانا کا نائیجیریا نہیں جاسکتا نائیجیریا میں تیل نکل آیا سب کچھ ہے لیکن نائیجیریا کا پیسہ غانا میں نہیں جا سکتا جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر جماعت احمدیہ کی مساعی نے عیسائیوں میں اور بدمذہبوں میں اور بت پرستوں میں کامیاب ہونا ہے تو غانا میں اس تبلیغ کے لئے اور اسلام کی عزت کو قائم کرنے کے لئے وہیں جتنی رقم کی بھی ضرورت ہے وہاں سے ملنی چاہئے ہمیں.باہر سے وہاں جانہیں سکتا اپنے ملکوں سے بھی وہاں نہیں جاسکتا تو ہر ملک کی ضرورت اپنی اپنی جگہ پوری ہو رہی ہے ایک ملک ہے وہاں پتہ نہیں کیا گناہ انہوں نے کیا ہے وہ تھوڑی سی تنگی محسوس کیا کرتے ہیں کبھی کبھی لیکن باقی تو ان کے ریزرو میں پڑے ہیں ہم بھی خوش وہ بھی خوش یعنی ایک ہفتے میں مجھ سے وہ عبدالوہاب بن آدم بعض دفعہ ایک ، ہفتے میں چھ ، چھ لاکھ کی منظور یاں لیتا ہے یہ ان کو کہا ہوا ہے کہ آخر میں نے دعا کرنی ہے میں نے پہلے بھی دعائیں کیں اگر تم برکت رکھنا چاہتے ہو اپنے پیسوں میں.میں نے تو نہیں خرچ کرنا نہ اپنے پر نہ اپنوں پر نہ پاکستان کے احمدیوں پر تم پہ ہی خرچ ہو گا لیکن مجھ سے اجازت لئے بغیر نہ خرچ کرو پھر وہ آ جاتا ہے ایک کہ فلاں ہسپتال کے لئے یہ رقم اتنی رقم چاہئے فلاں سکول کے لئے اتنی چاہئے پانچ ، پانچ لاکھ دس دس لاکھ کی منظوری یعنی بلڈنگ تو وہ میں نے کہہ دیا ہے نا ایک کی منظوری چون لاکھ کی اس کے علاوہ سکول کی مرمتیں طالب علم زیادہ ہو گئے ہیں تین لاکھ ہمیں اور دے دیں فلاں سکول کے لئے فلاں سکول کے بجلی نہیں تھی اگر ہم اتنے پیسے خرچ کر دیں تو بجلی آ جائے گی اس کی منظوری دے دیں خدا دیئے جاتا ہے آسمان سے منظوری.میں اس کا بڑا ہی عاجز اور ناکارہ بندہ میں یہاں سے منظوری دے دیتا ہے اور وہ کام اس طرح چل رہا ہے اور بڑی شان کے ساتھ چل رہا ہے.دنیا اس واسطے حیران ہے کہتے ہیں شاید وہاں سے مل گیا ہو وہاں
خطابات ناصر جلد دوم ۳۳۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء.سے مل گیا ہو وہاں سے مل گیا ہو.بس ایک ہی بات سوچا کرو کہ ہمیں وہاں سے ملتا ہے اور کہیں سے نہیں ملتا.truth میں نے کچھ وہاں ، میری طبیعت پہ اثر تھا کچھ میرے صد سالہ سے پہلے میرا دماغ اپنے طور پہ سوچ رہا تھا تو میری طبیعت پہ اثر تھا کہ ہمارا کام نہیں چلے گا جب تک کہ چھوٹے موٹے پر لیس ہر ملک میں نہ ہوں لیکن بڑے پریس میں نے کہا تھا دو تین جگہ ہونے چاہیں میں نے غالباً ۱۹۷۳ء کی بات ہے بالکل چھوٹا پریس آفسٹ پر لیس جس کی قیمت وہاں کے لحاظ سے کم و بیش ، دو ٹائپ کے تھے ، تین تین ہزار پاؤنڈ کوئی ایسی قیمت نہیں ہے تو وہ میں نے بھجوا دیئے تین چار جگہ.وہاں میں نے نائیجیریا میں بھجوا دیا میں نے غانا میں بھجوا دیا میں نے گیمبیا میں بھجوا دیا.تین جگہ ہی گیا ہے مجھے پتہ تھا کہ جب ان کے پاس جائے گا تو ان کے پاس کوئی آدمی نہیں ہے جو ان کو استعمال کر سکے لیکن میرے دماغ نے مجھے یہ کہا کہ جب بھی تم بھجواؤ گے ان کے پاس کوئی آدمی نہیں ہو گا جو کام کر سکے اس واسطے بہتر ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے پر لیں اب بھجوا دو تا کہ اس کو خراب کر دیں تو ڑ دیں پھوڑ دیں ، کام تو سیکھ جائیں گے نا.تو اب یہ ہوا ہے اب نائیجیریا کی رپورٹ میرے سامنے آئی ہے انہوں نے اس سے فائدہ اٹھایا پہلے چھوٹے چھوٹے پمفلٹ اپنے پروگرام وغیرہ شائع کرنے شروع کئے یہاں سے ہمارا ایک مبلغ اس کا دماغ مشین کے اوپر اچھا چلتا تھا اس نے کام سیکھ لیا اس نے وہاں کے مقامی جو تھے ہمارے احمدی نوجوان ان کو کام سکھانا شروع کر دیا اب وہاں اتنا بڑا انہوں نے ایک اور بڑا پر لیس پھر بعد میں منگوالیا با ہر سے اور اپنی کتابیں اپنے پریس میں شائع کر رہے ہیں اتنی میری طبیعت خوش ہوئی کہ خدا تعالیٰ اس طرح مدد کرتا ہے اگر ہر جگہ اپنی کتابیں جب تک نہ یہ شائع کرنا شروع کریں اس وقت تک یہ جو ہمارا پروگرام ہے کروڑوں میں قرآن کریم کے تراجم جو ہیں وہ شائع کر دینے ساری دنیا میں یہ کام تو نہیں ہو سکتا اب میں نے ان کو کہا تھا امریکہ کو کہ تمہارا پر لیس ہونا چاہئے.وہاں ایک احمدی کے پاس چھوٹا سا پر لیں تھا لیکن وہ اس قابل نہیں تھا کہ اس کو جماعت کے کاموں کے لئے لیا جاتا وہ تو تیار تھے کہ دے دیں میں نے نہیں لیا وہاں زمینیں تو اب مل گئی ہیں بہت سی تحفتاً کچھ ہاں تحفتا ملی ہیں اب تک.ایک دو تین، تین زمینوں کے ٹکڑے مختلف جگہوں پر امریکہ میں بڑی قیمتی ، وہ جماعت میں سے ہی بعض نے جماعت کو دے دیں.وہاں اب پریس بھی لگ سکتا ہے یہ چیزیں
خطابات ناصر جلد دوم ۳۳۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء لگ سکتی ہیں.انگلستان میں قریب تھا کہ پریس ایک خرید لیں لیکن وقت کے اوپر توجہ اس طرف گئی تو وہ اچھا ہوا نہیں خریدا کچھ تھوڑا ہم نے جو بیانہ دیا وہ چھوڑنا پڑا لیکن بہر حال جو کام شروع ہی نہ کیا جائے وہ تو انتہاء کو پہنچ ہی نہیں سکتا.ناممکن.جو شروع کیا جائے شروع میں وہ ”جوں “ جس طرح رینگتی ہے اس طرح رینگے کی سکیم.پھر جس طرح کچھوا چلتا ہے اس طرح چلے گی وہ سکیم پھر جس طرح خرگوش دوڑتا ہے اس طرح دوڑ نے لگ جائے گی، جس طرح نائیجیریا میں ہو گیا ہے باقی جگہ بھی ہو جائے گا اللہ نے بڑا ہی فضل کیا ہے اب اتنا اچھا چھاپ رہے ہیں، ان کا رسالہ ہے Truth.ایک ہی مسلمان رسالہ جو وہاں چھپ رہا ہے اب غالبا ان کی سکیم ہے کہ اس کو روزانہ بھی کر دیں روز نامہ ہو جائے وہ لیکن ابھی تو غالباً ہفتہ وار ہے ہفتہ وار ، لیکن بڑا خوبصورت اپنے پریس میں چھپ رہا ہے اور ایک ہی نمائندہ ہے سارے نائیجیرین جہاں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے مختلف فرقوں کی وہ نمائندہ ان کا ایک ہی اخبار ہے اب شاید پچھلے ایک دو سال میں کوئی اور ہو گیا ہو تو میں کہہ نہیں سکتا لیکن بڑا لمبے عرصے تک صرف اس اخبار نے سب کی خدمت کی انہوں نے نائیجیریا نے Jesus in India بھی انگریزی زبان میں وہاں شائع کی ہے صلی اللہ علیہ وسلم Muslim Prayer Book, Life of Mohammad Shroud of Jesus, Atonement, سیرالیون میں تین نئی کتابیں اور پندرہ پمفلٹ شائع ہوئے انڈونیشیا میں مسئلہ زکوۃ ، ایک غلطی کا ازالہ کشتی نوح، اسلامی اصول کی فلاسفی ، تجلیات الہیہ، یہ کتا بیں انڈونیشین ، انڈونیشیا میں شائع کی گئیں.اچھا تنزانیہ میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہوا.ایک تنزانیہ کا ایک بہت مشہور شاعر افریقی و ہیں کا رہنے والا باشندہ اس نے سواحیلی زبان کی شاعری کے متعلق ایک کتاب شائع کی جو سواحیلی زبان وہاں بولی جاتی ہے ان تینوں ملکوں میں بڑی زبان جو ہے وہ سواحیلی ہے.کینیا ، یوگنڈا اور تنزانیہ ( کیوں جی ! شیخ مبارک احمد صاحب یہ کا من ہی ہے نا انہوں نے بتایا کہ جی یہ کامن زبان ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے اچھی ترقی یافتہ زبان ہے سواحیلی زبان میں شاعر بھی بہت پیدا ہوئے ہوں گے.اس شخص نے سواحیلی زبان کی شاعری کے متعلق ایک کتاب لکھی اور وہ شائع ہو چکی ہے اس میں سواحیلی اشعار کا ( یہ اچھے غور سے سنیں ) اس نے یہ احمدی نہیں ہے لیکن یہ محقق ہے )
خطابات ناصر جلد دوم هه لده دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء رائٹر ہے مصنف ہے پڑھا لکھا ہے اس نے اس میں اس کتاب میں سواحیلی اشعار کا عربی فارسی اور اردواشعار سے موازنہ کیا ہے.یعنی یہ شعر ہمارے شاعر نے لکھا ہے اس کے مقابلہ میں یہ اردو کا شعر ہے یہ فارسی کا شعر ہے یہ عربی کا شعر ہے اور یہ موازنہ جو کیا ہے یہ اردو فارسی عربی کے اشعار جو اپنی کتاب میں اس نے موازنہ کرتے ہوئے لئے ہیں وہ سارے کے سارے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشعار ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہاں کے پڑھے لکھے طبقہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شاعری کا تعارف کروا دیا.سپین میں بھی کام ہورہا ہے اور مضمون وغیرہ وہ لکھتے رہتے ہیں اور رسالے لکھتے رہتے ہیں کچھ تھوڑا سا لٹریچر تیار ہو چکا ہے.سپینش زبان میں انگریزی نہ انگریزی کہتا ہوں قرآن کریم کا ترجمہ بھی چکا ہے لیکن ابھی تک نظر ثانی ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوسکی اس لئے وہ شائع نہیں ہوا.لندن میں انگلستان میں ان دنوں میں جو کتابیں چھپ چکیں یا چھپ رہی ہیں دو ایک مہینے کے اندر آ جائیں گی وہ مسیح ہندوستان میں انگریزی میں ، دعوت الامیر انگریزی کا ترجمہ مکرم شمس صاحب مرحوم کی کتاب Where did Jesus die چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے احمدیت اور اس میں ان کا مقصد یہ تھا کہ تعارف کرایا جائے احمدیت سے عام پڑھے لکھے غیر مسلم طبقہ میں جولندن کے عیسائی پڑھے لکھے یاد ہر یہ ہیں ان کو پتہ تو لگے کہ احمدیت ہے کیا، تو اس میں انہوں نے ویسے ہر مصنف اپنے مزاج کے مطابق انتخاب کرتا ہے ناسارے تو لمبی تاریخ تو نہیں چھوٹی سی تاریخ ہے تین ساڑھے تین سو صفحے کی غالبا لیکن انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے حالات اور جو آپ کی بعثت کا مقصد ہے اور جو مسئلے حل کئے ہیں حضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضانِ روحانی کو حاصل کرنے کے بعد ان کا ذکر کیا اچھا لمبا.اصل بڑا مضمون وہ ہے پھر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے متعلق صفحات ہیں اور پھر اس کے بعد ایک لمبا حصہ ہے کتاب کا اتنا لمبا تو نہیں جتنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے متعلق ہے یا آپ کے مشن کے متعلق مقاصد کے متعلق لیکن اچھا خاصا بڑ ا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ساتھ چو ہدری صاحب مل کے کام بھی کرتے رہے.بہت سارے واقعات کی تفصیل بھی ان کے دماغ میں تھی چھوٹا سا نوٹ میری خلافت پر بھی دیا ہے لیکن ابھی تک تو میں تاریخ کا حصہ نہیں بنا.
خطابات ناصر جلد دوم ۳۴۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء میں زندہ ہوں خدا کے فضل سے تو بعد میں تاریخ بنتی ہے دیکھیں کیا بنتی ہے تاریخ دان کیا کہتا ہے تو یت یہ وہاں کے لئے اور یہاں بھی اگر دیکھیں گے یہاں بھی آپ کو مل جائے ، چاہے یہیں چھپے.لندن کا نفرنس میں جو مقالے پڑھے گئے تھے جن میں چیکو سلا و یکیہ اور کشمیر اور انگلستان اور سپین ان ممالک کے تھے اور ہمارے احمدی امریکہ سے ایک آئے اور چوہدری صاحب تھے اور مشنری انچارج بشیر احمد خاں رفیق تھے اور ایم.ایم احمد ان کا مضمون بڑا اچھا تھا سارے ہی اچھے ہیں مضمون اور سب سے آخر میں ایڈریس میں نے کیا تھا.اس کا نفرنس میں ان سب کو اکٹھی کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا.یہ آ گئی ہے مارکیٹ میں چھپ گئی ہے.پاکستان میں زیادہ نہیں آئی چند کا پیاں ہیں کچھ دو ایک لے آیا تھا کچھ اور اب ملی ہیں تو جو دور دراز کے ممالک ہیں ان کو میرا دل کرتا ہے کوئی ایک ایک کاپی بھجواد میں قبل اس کے کہ وہاں انگلستان سے پہنچے اور انگلستان میں دس مضامین پر اکہتر ہزار پمفلٹ شائع کر کے زیادہ تر لندن میں دوسرے حصوں میں بھی تقسیم کئے ہیں.اچھا پولینڈ میں نئی جماعت قائم ہوئی ہے.اور وہاں جماعت احمدیہ کے عقائد اور تعارف پر اس وقت تک پولش زبان میں دو پمفلٹ چھپ چکے ہیں امریکہ نے مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا مضمون My faith اور پمفلٹ What is Islam اور پمفلٹ.Reasons why Islam should be prefered یہ امریکہ نے پانچ ، پانچ.دس، دس ہزار کی تعداد میں شائع کئے ہیں جاپان ٹائمز کی ۱۸ اکتوبر کی اشاعت میں حج اور عید کے بارہ میں ہمارے احمدی مبلغ کا لکھا ہوا ایک مضمون شائع ہوا ہے.اسی طرح ریڈیو پہ وقت مل رہا ہے ساری دنیا میں بہت سارے ممالک میں ہمارے احمدیوں کو.اور سالانہ جلسے ہر جگہ ہو رہے ہیں اور سیرت النبی اور مذاہب کے پیشوایان مذاہب کا جلسہ یہ ہر جگہ ہو رہا ہے بڑا کامیاب ہو رہا ہے اور ہمارے جو سکول وہاں ہیں ان ملکوں میں مثلاً گیمبیا میں ہمارے سکول کی تقریب میں خودصد رمملکت آئے اور ان کے ساتھ وزیر بھی تھے اور بڑی تعریف کی کہ بڑی خدمت کر رہے ہو ( ایک نوجوان نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا نعرہ لگایا تو حضور نے فرمایا: گیمبیا میں وہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نہیں ، سویلین ہیڈ آف داسٹیٹ ہیں اس نے پھر صدر پاکستان کا نعرہ لگایا تو حضور نے فرمایا: نہیں نعرے نہیں لگانے بھئی ٹھہر و.)
خطابات ناصر جلد دوم ۳۴۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء اچھا جو بہت نمایاں شخصیتوں کو بھی جماعت کے مبلغ اور دوسرے احمدی لٹریچر دیتے ہیں نا تو پین کی ملکہ کو شہنشاہ جاپان کے چھوٹے بھائی ہر ایمپیریل ہائی نس شہزادہ ہریکا ہیتو خانو بہ کو تلفظ مجھے نہیں پتہ کیا ہے، اور کینیڈا کے وزیر اعظم کو.پہلوں کو لٹریچر قرآن کریم اس میں ضرور ہوگا یا شاید نہ ہولیکن کینیڈا کے وزیر اعظم کو قرآن مجید پیش کیا گیا عراق کے بعض بڑے آدمیوں کو بھی یہ دیا گیا.اس سال جو سب سے نمایاں چیز ہمارے سامنے آئی وہ لندن کا نفرنس ہے لندن کا نفرنس کا مضمون تھا Deliverance of Christ from the cross مسیح کا صلیبی موت سے نجات پا جانا.تو یعنی یہ کہ قرآن کریم نے ہمارے عقیدے اور ہمارے نور فراست کے مطابق ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہود اپنے اس نہایت خطر ناک منصوبہ میں ناکام ہو گئے کہ خدا کے ایک رسول کو صلیب پر لٹکا کر ماردیں اور دنیا میں مشہور کر دیں کہ وہ ملعون تھا اور خدا تعالیٰ کی لعنت تھی نعوذ باللہ اس پر.ہمارے نزدیک نہ مسیح ملعون تھے نہ خدا تعالیٰ کی ان پر لعنت تھی وہ خدا کے بزرگ انبیاء میں سے ایک بزرگ نبی تھے اور خدا کے پیارے تھے اور خدا سے پیار کرنے والے تھے اور اپنا سب کچھ اس پر قربان کرنے والے تھے اور ایک سو بیس سال پہلے ابتدائی چند سالوں کے علاوہ انہوں نے خدا کی مخلوق کو خدائے واحد و یگانہ کی طرف بلانے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کے لئے تیار کرنے پر اسی سال کا وقفہ گزارا.نہیں نہیں ہاں ٹھیک کوئی نوے سال، ستاسی سال انہوں نے پاؤں پاؤں چل کے، گھوڑا بھی ایک دفعہ ان کو دیا گیا انہوں نے کہا میں گھوڑے کو سنبھالوں گا یا خدا کی مخلوق کو سنبھالوں گا.اسی طرح جاؤں گا میں ہر روز.نوجوان نے پھر نعرہ لگایا اس پر حضور نے فرمایا: دیکھو میں نے کہا ہے نہ بولو.پھر کیوں بول رہے ہو تم.ایک دفعہ کہنا کافی ہونا چاہئے احمدی کو.حکمتیں سمجھانا میرا کام ہے اور ساری حکمتیں بتائی بھی نہیں جاتیں.(ایک رضا کار اس نوجوان کی طرف جارہے تھے حضور نے فرمایا نہیں بس ٹھیک ہے آ جاؤ.ٹھیک ہے اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں) یہ اصل بنیادی فائدہ اس کا نفرنس کا یہ ہوا کہ عیسائی دنیا آرام سے مگن ہو کے سوئی پڑکی تھی.اس لئے کہ صدیوں خدا تعالیٰ کی حکمت نے ان کو عروج دیا اور دولت دی اور پتہ نہیں.خدائی تو نہیں تھا وہ کسی غیر خدائی جگہ سے مقام سے انہوں نے ظلم کی اور Exploit کرنے کی اور مال لوٹنے کی اور محکوم بنانے کی طاقت حاصل کی اور ساری دنیا کے یہ حاکم بن گئے اور
خطابات ناصر جلد دوم ۳۴۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء colonization کر دی.جزائر میں گئے.آسٹریلیا میں گئے ایوریجینز کو کچھ کو مارا کچھ کو زیر کیا.افریقہ کے ممالک کو گئے اور حال یہ کہ میں جب گیا ہوں وہاں دورے پر پہلا ملک نائیجیریا تھا اور میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ میں نے ان کے ہیڈ آف دی سٹیسٹ کو بھی جب ملا تو میں نے کہا دیکھو میرا تاثر یہ ہے کہ you had all you are deprived of all تمہیں خدا نے سب کچھ دیا تھا لیکن تم سے سب کچھ چھین لیا گیا.تو اس نے فوری مجھے یہ جواب دیا How true you are how true you are کہ کتنی سچی بات کہہ رہے ہو اور حالانکہ وہ خود عیسائی تھا.انہوں نے وہاں جو عیسائیت پھیلائی ہے وہ اس طرح کہ ایک مولوی صاحب کا جو اسلامی کتب کو جاننے والا ظاہری علوم سے واقف اس کو ، اس کے بیٹے نے کہا میں نے انگریز کی مدرسے میں جانا ہے انہوں نے وہاں داخل کرا دیا ذہین بچہ ہے پڑھے گا آگے ترقی کرے گا.پہلے دن اس کا نام محمد ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر رکھا ہوا برکت کے لئے.رجسٹر پہ پہلے دن جو نام لکھا اس کا نام لکھا محمد کی بجائے ایم اور انگریزی نام اپنا عیسائی دے دیا پیٹر تو رجسٹر پر ایم پیٹر ہو گیا اور کچھ پتہ نہیں اس کے باپ کو بھی اور اس کے رشتہ داروں کو بھی کہ کیا ظلم ہو گیا اور جس وقت وہ سکول سے نکلا وہ عیسائی.اس طرح انہوں نے عیسائی بنایا یعنی میں علی وجہ البصیرت بات کر رہا ہوں ساری دنیا کو اس طرح سمیٹ کے اور پھر یہ کہنا کہ آؤ اب گلے ملتے ہیں اور تم بھی آرام سے رہو اور ہم بھی آرام سے رہتے ہیں اور نہ تم عیسائیوں میں سے مسلمان بناؤ نہ ہم اب آئندہ مسلمانوں میں سے عیسائی بنا ئیں گے اور یہ بھی دنیا میں ہر جگہ نہیں جہاں کسی اور کا زور پڑ جائے وہاں آگے سے یہ کہہ دیتے ہیں اور مداہنت کر لو.اس کا نفرنس نے ان کو اس طرح جھنجھوڑ کے رکھا ہے.اور اتنی کثرت سے اشاعت ہوئی اور اتنا عظیم اس کا اثر ہوا ہے دنیا پر.اس وقت میر.پاس وقت کم رہ گیا ہے میں جو ساری باتیں جو میں کہنا چاہتا تھا وہ تو نہیں کہہ سکوں گا کہ آدمی حیران ہوتا ہے ایک تو وہاں ہم نے ایک فرم سے کیا ہوا تھا.پراپیگنڈہ کی خبریں وغیرہ دینی تھیں اس نے ہمیں.اس کا اندازہ تھا کہ جو ریڈیو پر خبریں آئیں اور جو اخباروں میں چھپیں چودہ کروڑ انسان کے کانوں تک یہ خبر پہنچی اور کچھ تفصیل کے ساتھ کچھ اختصار کے ساتھ کہ لندن میں جو عیسائیت کا مرکز ہے اور جس کی ملکہ کو یہ بادشاہ کو اگر بادشاہ ہو Defender of Faith کا خطاب عیسائی
خطابات ناصر جلد دوم ۳۴۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء ہے دنیا نے دیا ہوا ہے محافظ عیسائیت، وہاں یہ کیا ہو گیا اور کئیوں نے کہا اور لکھا پادریوں کو کہ کیا ہوگا ہے تمہیں اتنا بڑا واقعہ ہو گیا ہے اور تم آرام سے خاموش بیٹھے ہو اور یہ جو چودہ کروڑ میں کہہ رہا ہوں اس میں جو امریکہ کے اخبار ہیں وہ شامل نہیں.اس میں جو ساؤتھ امریکہ کے اخبار ہیں وہ شامل نہیں.میں لندن میں ہی تھا تو ہمیں اطلاع ملی کہ ساؤتھ امریکہ کے اخبار نے قریباً ایک صفحہ اسی مضمون پر کہ حضرت مسیح کی موت صلیب پر نہیں ہوئی لکھا ایک صفحے کے قریب کم و بیش ایک صفحہ.اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تصویر بھی اس نے شائع کی اور یہ جتنے اب سکالر ہیں انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھ دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلی دفعہ اس حقیقت کو دنیا پر آشکارہ کیا کہ ریح صلیب پر نہیں مرے تھے اور دلائل دے کر اور موثر طریق پر اور Convince کر کے اس چیز کو آپ نے کیا وہاں اسی کا نفرنس میں ایک انگریز نے چھوٹا سا مضمون پڑھا تھا ویسے تو وہ کتاب لکھ رہا ہے اس میں اس نے کہا ہے کہ عیسائی دنیا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ممنون ہونا چاہئے کہ انہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرے اس لئے وہ ملعون نہیں تھے بلکہ وہ نیک بندے تھے خدا کے تو ہم تو ان کے زیرا حسان ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسا کیا.- انہوں نے پتہ نہیں خدائی تصرف میں اسے کہتا ہوں ، کانفرنس سے چند دن پہلے ایک میٹنگ کی ان کی ایک کونسل آف برٹش چرچز ہے وہ اکٹھے ہو گئے ہیں مختلف فرقے ، انہوں نے سر جوڑ کے ایک پریس میں خبر دی کہ یہ اس طرح یہ کا نفرنس کر رہے ہیں اور بعض عیسائی جو ہیں وہ غصے میں بھی ہیں ،اس خبر میں یہ کچھ اس قسم کے تھے الفاظ ، تو ان کو غصہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ایک وقت میں ہم بھی اسلام کے خلاف بہت کھل کے اعتراض کرتے رہے ہیں اسی قسم کے اور ہم تیار ہیں کہ احمدی اور کوئی چاہے تو ہم سے تبادلہ خیال کر لے مذاکرہ کر لے تو ہمیں اور کیا چاہئے تھا.انہوں نے پریس میں یہ خبر بھیجی اور اس کی نقل ایک جو پریس ریلیز تھی ہمیں بھی بھجوادی لندن مشن کو براہِ راست.تو یہ پریس کانفرنس سے پہلے کا واقعہ تھا میں نے پریس کا نفرنس میں یہ انتظام کیا کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب جو ان کی ریلیز ہے وہ پڑھ کے سنا دیں گے اور جو جواب ہے وہ میں پڑھ کے سنادوں گا تو میں نے ، ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا مشورے کے بعد کہ زیادہ تیز نہیں
خطابات ناصر جلد دوم ۳۴۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء ہونا کیوں کہ پھر یہ پیچھے ہٹ جائیں گے یہ نہیں پتہ تھا ہمیں اس وقت کہ ہم نرم رہے تب بھی پیچھے ہٹ جائیں گے.بہر حال ان کو کہا کہ ہم تو بڑے خوش ہیں کہ آپ نے یہ کہا ہے اور ہم تیار ہیں اور صرف لندن میں نہیں اور صرف آپ سے نہیں کیتھولکس سے بھی جو بھی عیسائی فرقہ ڈائیلاگ (Dialogue) کرنا چاہتا ہے اس سے کرنے کے لئے تیار ہیں اور خالی لندن کیوں امریکہ میں بھی ایک ہونی چاہئے افریقہ میں بھی ایک ہونی چاہیئے مشرقی ممالک میں بھی ہونی چاہئے جزائر میں بھی جاپان میں بھی ایک ہونی چاہیئے ہر جگہ ہوں مذاکرے تا کہ دنیا کو پتہ لگے کہ اصل حقیقت کیا ہے صداقت کس چیز میں ہے جو ان کو ویسے بھجوا دی خط کے ذریعے پھر ان کو یاددہانی کرائی.پھر ان کا ایک پہلا جواب یہ آیا آپ کا خط ملا لیکن جس شخص نے دستخط سے ہمیں دعوت نامہ بھیجا تھا.اس نے اپنے ایک ساتھی کو کہا کہ میری طرف سے لکھ دو.اس نے لکھا کہ میں ان کی طرف سے لکھ رہا ہوں اس نے لکھا یعنی جو جس کے دستخط سے دعوت نامہ آیا تھا اس کا یہ جواب ، کہ مجھے تو اسلام کے متعلق کچھ پتہ ہی نہیں تو جو پوائنٹس آپ نے اٹھائے ہیں ان کے متعلق میں کچھ کیا کہ سکتا ہوں مشورہ کئے بغیر ہم کچھ نہیں جواب دے سکتے کہ جواب تو میں نے دینا تھا میں نے دے دیا آپ تو دعوت نامہ دے چکے لیکن نہیں.اچھا پھر اب میرے پیچھے وہ کہا کہ ہاں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ، میں نے کہا تھا شرائط طے ہونی چاہئیں مل کے بیٹھیں سر جوڑ میں شرائط طے کریں ، ہو جائے.کہ ہم آدمی مقرر کریں گے آپ بھی آدمی مقرر کر دیں اور بیٹھ کے وہ ہم کر لیں گے سارا خط کہ مثلاً بس تیار ہیں ہم اور آخر میں لکھا کہ آپ کو فی الحال آدمی لے کے ہمارے پاس نہیں آنا چاہئے پہلے ہم آپ کو فون کریں گے پھر بتائیں گے اور میرے علم کے مطابق ابھی تک فون نہیں آیا ( کیوں شمس صاحب! منیر الدین شمس ہیں کہیں ؟ ) بہر حال میرے علم کے مطابق نہیں آیا لیکن ہم تو چاہتے ہیں کہ آ جائے.پھر میں نے سارے اپنے مبلغوں کو لکھا کہ یہ تو کیتھولک نہیں ہیں اور دنیا میں سب سے امیر ، تعداد میں سب سے زیادہ اور سب سے منظم اور طاقتور کیتھولک فرقہ ہے ان کا.باقی نسبتاً چھوٹے کوئی بڑا کوئی چھوٹا، لیکن کیتھولک کے مقابلے میں چھوٹے ہیں میں نے کہا ان کے بشپس کو لکھو کہ اس طرح ہمیں آیا ہے اور ہم نے کہا ہے ہم کرنا چاہتے ہیں.اکثر کیتھولک بشپس نے جواب نہیں دیا جن بعض نے جواب دیا انہوں نے یہ جواب دیا کہ ہم احمدیوں سے کوئی بات
خطابات ناصر جلد دوم ۳۴۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء کرنے کے لئے تیار نہیں ہاں وہ شمس صاحب کہتے ہیں کہ وہ انہوں نے کہا تھا کہ پہلے ہم فون پر بات کریں گے پھر آپ آئیں بات کرنے کے لئے ابھی تک فون پہ بات نہیں کی انہوں نے.یہ ابھی پرسوں ہی آئے ہیں تئیس کو چلے تھے وہاں سے.لیکن دنیا میں تو ایک حرکت ہوگئی نا شروع صرف جاپان میں اس موضوع پر کچھ ہمارے حق میں کچھ عیسائیوں نے یا ان کے پادریوں نے اپنے عقیدے کے حق میں چونسٹھ خطوط یا نوٹ اور مضامین جاپان کے چار انگریزی اخباروں میں چھپ چکے ہیں اس کے بعد چونسٹھ.اور نجی میں اسی طرح بہت سارے مضمون سولہ کے قریب اور ابھی یہ سلسلہ جاپان میں بھی جاری ہے اور نجی میں بھی جاری ہے مضمون کوئی چھوٹے خط کوئی لمبے مضمون یہ وہ چھپ چکا ہے تو یہ ہر جگہ اب غانا کے اخبار نہیں شامل ویسٹ افریقہ کوئی اخبار نہیں شامل جو تعداد میں نے بتائی ہے نائیجیریا میں چار صفحے کا سپلیمنٹ اس مضمون کے اوپر آ گیا.اسی طرح دوسرے جو ملک تھے ان کے اندر یہ آ گیا.تو اصل چیز یہ ہے کہ یہ جو تھا نا وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ (القلم : ١٠) قرآن تو بڑی عظیم کتاب ہے ہر حالات کے متعلق ہمیں ہدایت دے گیا ہے کہ یہ مداہنت کرنا چاہتے ہیں اور اس لئے کہ تم بھی مداہنت کرو اور حکم یہ ہے کہ تم نے مداہنت نہیں کرنی ہم تو ہر اس شخص سے جو خدا تعالی کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے متعلق ہم سے بات کرنا چاہے ہر وقت دن ہو یا رات، مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب اس سے بات کرنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ ہمیں خدا تعالیٰ نے اس صداقت پر قائم کیا ہے کہ خدا ایک ہے اور محمد اس کا رسول.اور ہمیں بتایا ہے کہ صرف یہ نہیں کہ ہم اس صداقت پر قائم ہیں بلکہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب دنیا کی اکثریت بھی اس صداقت پر قائم ہو چکی ہو گی کہ خدا ایک اور محمد اس کے رسول ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلے بغیر خدا تعالیٰ سے کوئی برکت حاصل نہیں کی جاسکتی اس کا کوئی فیض حاصل نہیں کیا جاسکتا کوئی ایسا نہیں جو فضل اور رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پہ کھڑا ہو کر آپ کو نظر انداز کر کے آپ کو چھوڑ کے آپ سے بے پرواہ ہو کر خدا سے حاصل کر سکے نہیں ایسا نہیں ہو سکتا تو اب ایک زندگی اس مسئلے میں پیدا ہو گئی نا.وہ جو یہ تھا کہ بس ہم نے اپنے ا پیٹ بھر لئے ، ہم بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ اور تم بھوکے پیٹ کے ساتھ اپنی اپنی جگہ کے اوپر
خطابات ناصر جلد دوم ۳۴۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء آرام کے ساتھ بیٹھ جاؤ ہماری بھوک تو ایسی نہیں کہ جو جتنے تم نے عیسائی بنائے اتنے بنا کے بھی ہمارے پیٹ بھر جائیں ہمارے پیٹ کو تو خدا نے کہا کہ میں نے اتنا بڑا بنایا ہے کہ نوع انسان جب تک تمہارے اس روحانی پیٹ کے اندرسا نہیں جاتی اور یہ سارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جمع نہیں ہو جاتے اس وقت تک نہ ہمیں سیری ہو سکتی ہے نہ ہم آرام سے اور چین سے نیندیں لے سکتے ہیں.تو یہ ہمارا کام ہے اس معنی میں کہ خدا نے یہ ہمارے سپرد کیا یہ خدا کا کام ہے اس معنی میں کہ اتنا عظیم کام کرنے کی اس نے طاقت ہمیں نہیں دی لیکن اس نے ہمیں ہم سے یہ وعہ کیا ہے کہ تم اپنی سی کوشش کرو اور میں اپنی شان کے مطابق برکتیں دوں گا اور تمہیں کامیاب کر دوں گا اور میرا منصوبہ کامیاب ہو جائے گا.یہ جو ہے منصوبہ اس کا تعلق ہے صد سالہ جو بلی سے.صد سالہ جو بلی جو شروع ہوئی تھی دوستوں نے میری اپیل سے چار گنا زیادہ اس میں رقم ، اس وقت کے حالات سے بہت زیادہ تھی.میرا خیال ہے شاید اس سے بھی زیادہ ہو جائے اور وعدے بھی کم و بیش تھوڑا سا فرق ہوتا رہتا ہے اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے وہ آ رہے ہیں.پہلے ہمیں جو بلی کی برکت سے گوٹن برگ کی ایک نہایت خوبصورت مسجد دی خدا نے.اور اس سال ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ کا نفرنس کرنے کی توفیق عطا کی.یہ بھی سارا خرچ صد سالہ جو بلی کا ہے اور جو کتا بیں شائع ہوئیں ہیں وہ بھی صد سالہ جو بلی.اور ایک حرکت دنیا میں اسلام کے حق میں اور چیز پیدا ہو گئی.میں نے کہا تھا کہ یہ ایک چھلانگ نہیں ہے جو ہم نے چودہ سال کی چھلانگ مار کے اور غلبہ اسلام کی صدی میں داخل ہو جانا ہے.ہم نے ایک ایک قدم ایثار اور قربانی کی راہوں میں اٹھانا اور پھر غلبہ اسلام کی صدی میں داخل ہونا ہے.اور اب آخر میں میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ ہمارے چھوٹے چھوٹے قدم اور بہت ہیں صد سالہ جو بلی کے ان کو تو میں چھوڑ رہا ہوں تیسرا بڑا قدم یہ ہے کہ ہاں ایک بات پہلے بتادوں، کینیا کے جو چیف قاضی ہیں انہوں نے تھوڑا ہی عرصہ ہوا یہ فتویٰ دیا ہے ایک سنی مسلمان کے استفسار کے جواب میں کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے امام غزالی اور امام مالک کے اقوال بھی پیش کئے ہیں یہ فتویٰ سواحیلی رسالہ جس کے چیف ایڈیٹر سابق چیف قاضی ہیں ( تو دو چیف قاضی اکٹھے ہو گئے نا اس فتوے میں ) شیخ محمد قاسم مزروعی ہیں
خطابات ناصر جلد دوم ۳۴۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء اور یہ ۱۵ را کتوبر ۱۹۷۸ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے اور یہ جو قاضی ہیں یہ اس فتوے کے دن تک جماعت احمدیہ سے ہر موقع پر اس مسئلے میں الجھتے رہے کہ حضرت مسیح فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ آسمان پر ہیں لیکن اب اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ خود ان کی قلم سے یہ فتویٰ لکھا یا کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.لوا بھی تو میرے کئی مضمون رہ گئے ہیں مختصراً ان میں سے گذرتا ہوں.آخری وقف جدید.اللہ کا فضل ہے بڑا اچھا کام کر رہی ہے ایک کام جو بڑا پیار اوہ کر رہے ہیں وہ ہندوؤں میں اور بت پرستوں میں تبلیغ کا ہے اور آہستہ آہستہ یہ بہت پرست اور خدائے واحد و یگانہ کو نہ ماننے والے جو قبیلے ہیں یہ خدائے واحد و یگانہ کی طرف توجہ کر رہے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں اسلام لا چکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں صداقت اسلام کے متعلق تحقیق میں مشغول ہیں.دوست دعا کریں ان کو بھی اسلام کا نور حاصل ہو.وقف جدید کی ایک فری ڈسپنسری ہے وہ بھی بڑا اچھا کام کر رہی ہے.وقف عارضی میں اور وفود دیں.دسمبر ۱۹۷۸ ء تک چھ سو چالیس و فود یعنی بارہ سواسی افراد جو اس میں اس کام کے لئے پندرہ دن یا زائد عرصہ کے لئے کام کرتے رہے ہیں.ایک ہماری ہے تعلیم القرآن کی جو سکیم ہے اس کے ذریعہ سے سترہ سو ستائیس بچوں کو یا بڑوں کو جن کو ضرورت تھی قرآن مجید سادہ یا با ترجمہ کروا دیا گیا.یا جہاں حفظ کرنا چاہتے تھے اس میں ان کی مدد کی گئی.ربوہ میں فضل عمر درس القرآن کلاس ہوتی ہے گذشتہ سال میری غیر حاضری میں گرمیوں میں چھٹیوں میں ہوئی ہے ، گیارہ سو گیارہ طلبہ اور طالبات اس میں شامل ہوئے اور ان میں اڑتالیس طلباء اور ایک سوستائیس طالبات تھیں ماشاء اللہ ہماری بچیاں جو ہیں وہ علم کے میدان میں بھی آگے بڑھ رہی ہیں خدا کرے کہ وہ اپنے علم کی اپنے اخلاق سے حفاظت بھی کرنے والی ہوں.ایک ہزارستاسی دوستوں نے اپنے نام جو میں نے تحریک کی تھی ہر شخص ایک پارہ حفظ کر لے اس تحریک کے مطابق نام دیئے ہیں اور مجھے علم ہے بہت سوں نے سارا پارہ یا بہت سا حصہ اس کا وہ کر لیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام قرآن مجید کے محاسن سے بھرا ہوا ہے پچھلے سال یہ تحریک میں نے کی تھی کہ دس قطعات خوبصورت سیٹ کی شکل میں محاسن قرآن مجید پر شائع کی جائیں اور دو ہزار پچھلے سال اور ایک ہزار یہ سیٹ ہے پورا.یہ اپنے ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد
خطابات ناصر جلد دوم ۳۴۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء یہ کرتے ہیں اس کے علاوہ ہم نے یہ کیا ہے کہ جو لیٹر ہیڈ ہیں یہ خط لکھنے کے ہمارے پیڈ ان کے او پر مختلف فقرے جو ہیں وہ ہمارے دفا تر لکھیں اور انہوں نے لکھ دیئے ہیں قرآن کریم کی خوبیوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام اس سے بھرا ہوا ہے اور یہ اس لئے لکھے ہوئے ہیں کہ ہماری حالت یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شعر میں جو بیان ہوئی ہے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے ( در مشین صفحه ۸۴) ہاں وقف بعد از ریٹائرمنٹ.ایک سو سات دوستوں نے وقف کئے تھے چون ریٹائر ہو چکے ہیں اور میرے علم یا یاد داشت کہنا چاہئے ، میری یادداشت کے مطابق ابھی تک صرف ایک کو میں نے کام پہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے باقیوں کے متعلق سوچیں گے.فضل عمر فاؤنڈیشن کا سرمایہ شروع میں تھا اس سے جو آمد ہے وہ تھوڑی سی آمد ہے تھوڑا سا سرمایہ ہے یہ سارا سرمایہ اس وقت ان کے پاس ستائیس لاکھ کا تھا جو بٹا ہوا ہے پاکستان اور غیر ممالک میں اس کی جو آمد ہے اس سے انہوں نے فضل عمر فاؤنڈیشن کا دفتر بنایا لائبریری کی جدید طرز کی عمارت جو بننے کے ساتھ ہی چھوٹی بھی ہو گئی تھی وہ انہوں نے بنائی ، کافی روپیہ خرچ کر کے اور گیسٹ ہاؤس.اور وظائف دیتے ہیں اور بعض اور مقالے لکھوا کے انعامی نام دیتے ہیں انعامی مقالے لکھوا کر اپنے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبات عیدین دو جلدوں میں اور خطبات نکاح زیر اشاعت ہیں وہ دو جلدوں میں شائع ہو چکی ہیں اور حضرت فضل عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح زیر تالیف ہے بعض دوست ان کے ذریعہ سے بھی وظائف دے دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے.مجلس نصرت جہاں کا ضمناً میں نے ذکر کر دیا تھا اتنا کافی ہے سترہ کے قریب ہمارے ہاسپیٹل اور سولہ نئے ہائی سیکنڈری سکول وہ جو چھوٹا کالج ہے وہ ہیں اور جو ہمارے ہسپتال کما رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اس کی عطا شفا کے رنگ میں جو نازل ہوئی ہے وہاں اس کے نتیجہ میں اس سے ملک ملک کو بڑا فائدہ پہنچ رہا ہے ان کی آمد ا نہی پہ خرچ کی جارہی ہے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس منصو بہ کو اور بھی با برکت کرے اس کی جو وصولی تھی وہ ختم ہو چکی ہے اور جو پہلے سرمایہ تھا اس کا
خطابات ناصر جلد دوم ۳۵۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء ایک حصہ خرچ ہوا ہے ابھی ایک حصہ محفوظ ہے جو خرچ ہوا ہے ہسپتالوں کی شکل میں خرچ ہوا ہے اس کی آمد میں نے بتایا ہے نا کتنی ہوتی ہے.اور صد سالہ جو بلی کے متعلق میں بتا چکا ہوں لندن ، گوٹن برگ اور لندن کا نفرنس ” اور اب میں ایک آئندہ کی بات کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے جس صدی میں سے ہجری صدی میں سے ہم گذررہے ہیں قمری ہجری وہ ختم ہونے کو آئی ہے اور یہ صدی جو ہے جس کو چودھویں صدی کہا جاتا ہے یہ اپنے بعض پہلوؤں میں بڑی اہم ہے.بہت اہم ہے اس میں ایک تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئیاں جو چودھویں صدی کے انسان پر بھی آپ کی صداقت کو روزِ روشن کی طرح عیاں کرنے والی تھیں وہ اس صدی میں پوری ہوئیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر سینکڑوں نہیں تو بیسیوں کی تعداد میں بڑی عظیم پیشگوئیاں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے قرآن کریم میں چودھویں صدی کے متعلق کی گئیں وہ اس صدی میں پوری ہو چکی ہیں.انقلابی پیشگوئیاں انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں انقلاب عظیم بپا کرنے والی پیشگوئیاں ، وہ چودھویں صدی میں پوری ہوئیں اور سب سے بڑی پیشگوئی جو اس میں پوری ہوئی اس صدی میں وہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ اعلان کیا تھا اپنی بعثت کے وقت کہ خدا تعالیٰ نے جن کاموں کے متعلق جن مقاصد کے پیش نظر مجھے مبعوث کیا ہے.ان میں سے ایک یہ مقصد ہے کہ صلیب کو دلائل اور حج کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ پارہ پارہ کر دیا جائے.Brute force یا مادی طاقت کے ساتھ نہیں بلکہ دلائل اور حج اور آیات اور معجزات کے ساتھ.صلیب کو صلیبی مذہب کو صلیبی عقائد کو پارہ پارہ کر دیا جائے اس معنی میں کہ عقائد جو ہیں ان کو غلط ثابت کیا جائے اور عقیدہ رکھنے والے جو ہیں ان کے دلوں کو خدائے واحد و یگانہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتا جائے.یہ حدیث میں ہے کہ خدا نے مجھے کسر صلیب کے لئے یا محق صلیب کے لئے وہاں لفظ ہے محق کا ، اس کے لئے مبعوث کیا ہے.یہ جو عیسائیت کے عقائد تھے ان کے غلط عقائد عیسائیت کے جو غلط عقائد تھے ان کو دلائل کے ساتھ چھوڑنے کا کام تو پہلے دن سے شروع ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اب مجھے یاد تو نہیں لیکن ہونا چاہئے.یہ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مجھے یاد آ گیا شکر ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۵۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء جزاک اللہ آپ کے لئے سوچا نا یاد آ گیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں عیسائی ، مسلمان ہوا ہے بلکہ یہ جو ارتداد کا قصہ ہے یہ وہ عیسائی بہت سارے قبائل تھے جن کو یہ ٹھوکر لگی اور پھر بعد میں وہ ٹھیک بھی ہوئے.بہر حال یہ تو ہے لیکن پھر یہ پیشگوئی کی آپ نے یعنی کہا کہ میری بعثت کا مقصد صلیبی عقائد کو غلط ثابت کرنا اور ان عقائد پر ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ کے نور سے منور کر دینا اور ان کے دلوں کو اسلام کے لئے جیتنا ہے اور یہ کام اس وقت سے شروع ہو گیا.لیکن آپ نے کہا یہ مقصد اپنی آخری کامیابی کے دن اس وقت دیکھے گا جب چودھویں صدی میں میرا ایک روحانی فرزند مسیح موعود پیدا ہو جائے گا اور چودھویں صدی میں پوری شان کے ساتھ وہ پیشینگوئیاں پوری ہوئیں پوری تفصیل کے ساتھ وہ پیشینگوئیاں پوری ہوئیں جو ہر عقلمند در ددل رکھنے والا درد رکھنے والا دل جو ہے اس کو یقین دلانے والی ہیں کہ مسیح آپ کا مثلاً یہ کہنا کہ چاند اور سورج کو معینہ دنوں میں، دن اور رات ، معینہ دن اور رات میں رمضان کے مہینہ میں گرہن لگے گا اور یہ ایک نشانی ہوگی کہ مہدی آ گیا اور یہ ایک ایسا نشان ہوگا کہ جب سے خدا تعالیٰ نے اس جہان کو پیدا کیا ہے کسی موعود کے لئے یہ نشان نہیں رکھا خدا نے ، یعنی جتنے پیار کا اظہارمہدی سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا جو بیسیوں حدیثیں ہمارے سامنے ہیں وہ اسی لئے کیا کہ آپ نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ میرے اس محبوب، روحانی فرزند سے کتنا پیار کرنے والا ہے اصل یہ ہے کہ شرک کو ختم کر کے وحدانیت کو اس کی جگہ قائم کر دینا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ شرک سے بدترین نفرت کرتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ وحدانیت سے انتہائی پیار کرنے والا ہے.تو چونکہ وحدانیت سے وہ پیار کرنے والا ہے اس کی وحدانیت کو جو قائم کرنے والا ہے اس سے بھی وہ پیار کرے گا.تو سب سے بڑا نشان جو چودھویں صدی نے خدا تعالیٰ کا دیکھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت جس نے ظاہر کی وہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا.تو نشانات یوں بکھرے ہوئے ہیں جس طرح چاندنی رات میں چاندنی نکھری ہوئی ہوتی ہے.چودھویں صدی میں اس طرح نشان بکھرے ہوئے ہیں.اس لئے میرے دل میں یہ تحریک پیدا کی گئی ہے کہ ہم چودھویں صدی کے آخری تین ماہ میں چودھویں صدی میں جو خدا تعالیٰ نے نشان ظاہر کئے ہیں اس صدی کو با برکت
خطابات ناصر جلد دوم ۳۵۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء کیا ہے ان کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے شکر میں گزاریں آخری تین مہینے یعنی چودھویں صدی کے آخری سال کے آخری تین مہینے ہم خدا تعالیٰ کی حمد اور ثناء میں گزاریں کہ اس نے ہمیں اس صدی میں پیدا کیا کہ جس صدی نے خدا تعالیٰ کے اتنے زبر دست نشان دیکھے اور جس سے خدا تعالیٰ کی وحدانیت ثابت ہوئی ایک طرف اور دوسری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر مہر لگی.اور پھر ہم یکم تاریخ کو پندرھویں کی پندرھویں صدی کی ( چودھویں کے تو ہم نے تین مہینے خدا کی حمد میں گزارنے ہیں اور ساری دنیا میں ایسے منظم طریقے کے اوپر یہ کام کرنا ہے وہ سکیم جو ہے وہ بعد میں بیان کریں گے ہم ) لیکن یکم کو ، پندرھویں تاریخ کی کیم کو ہم ایک اور جشن منائیں گے اور وہ یہ کہ ایک اور سال گذر گیا جو چودھویں صدی کا آخری سال ہے اور ہم ایک اور سال اس صدی کے قریب ہو گئے جس کے متعلق کہا گیا ہے ہمارے نزدیک کہ اس صدی میں اسلام غالب آ جائے گا پھر اس کے بعد جو ہم نے صد سالہ جوبلی منانی ہے وہ تو ۱۹۸۹ء میں ہے اس کو تو ابھی دس سال ہیں نا.تو اور قدم بیچ میں آئیں گے آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ سکھاتا ہے وہ آ جائیں گے.تو دوست یہ عہد کریں کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو اس طرح گزارنا ہے ان بقیہ سالوں میں کہ وہ تین مہینے جن میں ہم خاص طور پر خدا تعالی کی حد اور شکر کر رہے ہوں گے کہ اس نے اتنے عظیم نشان ہمیں اس چودھویں صدی میں دکھائے ، ہماری اس حمد اور اس شکر کو اور اس تسبیح کو خدا تعالیٰ قبول کرے اور ہماری کمزوریوں غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے کہیں قبولیت کے اندر کوئی فرق نہ آئے.اور اس عرصہ میں، آج صبح میں نے اپنی بہنوں کو یہ کہا ہے کہ بقیہ عرصہ جو ہے صد سالہ کا، یہ تواب کا ہے نا اس میں وہ شامل ہو جائیں گی لیکن اس کے بعد تو اور جو ہوگا کام وہ تو ہوگا ان کو میں نے اس واسطے آپ کو بتا رہا ہوں کہ بہر حال کوئی آپ کی بیوی ہے کوئی آپ کی ماں ہے کوئی آپ کی بہن کوئی آپ کی دوسری عزیز رشتہ دار یا دوست سے تعلق رکھنے والی عورت ہے، ان کو میں نے یہ کہا ہے کہ شیطان چور دروازے سے اندر داخل ہو کر ہماری زندگیوں میں بدعات کو قائم کرنا چاہتا ہے اور اس عرصے میں ہم اپنی زندگیوں کو کلیۂ بدعات سے پاک کر کے خالص اسلامی لباس اوڑھ لیں گی اور تا کہ ہم خدا کی نگاہ میں مقبول ہو جائیں وہ ذمہ داریاں وہ انشاء اللہ کوشش کریں گی آپ ان کا ہاتھ بٹائیں.اور اس پر اور اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رنگ میں ان تین مہینوں میں حمد اور شکر
خطابات ناصر جلد دوم ۳۵۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۸ء اور اس کی تسبیح کرنے کی توفیق عطا کرے کہ پھر وہ قبول بھی کر لے، اس دعا کے ساتھ اس تقریر کو اس وقت میں ختم کرتا ہوں اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے پھر کل ملیں گے.اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.لیکن ذرا ٹھہرو ذرا ٹھہرو! اب رہے نعرے ٹھہرو! سنو! پچھلے سال ایک واقعہ ہوا ہے وہ میں آپ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ چند ایسے نو جوان جو احمدی نہیں تھے انہوں نے جب آخری تقریر کے بعد میں باہر نکلا سڑک کے اوپر نعرے لگا کے تو ایک ایسی فضا پیدا کر دی کہ ہمارا احمدی نوجوان بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا اور رستہ انہوں نے روک دیا اور اتنی تکلیف دی را ہیوں کو چلنے والوں کو کہ خدا کی پناہ نہیں ہو گا اس دفعہ ایسا.اس واسطے کوئی احمدی اس جلسہ گاہ سے باہر نعرہ نہیں لگائے گا اس وقت کے بعد.کل یہاں آئیں گے اس جلسہ گاہ کے اندر مناسب موقعوں پر آپ نعرے لگا ئیں بے شک.لیکن اس جلسہ گاہ سے باہر کوئی احمدی نعرہ نہیں لگائے گا اور جو نعرے لگائے ، ہو سکتا ہے کہ کوئی احمدی بھی غلطی کر جائے لیکن اغلب یہ ہوگا کہ وہ احمدی نہیں ہوگا بلکہ تکلیف کے سامان پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہوگی.اس واسطے ان کو آپ نوٹ کریں کہ کون ہے وہ شخص جو اس قسم کی حرکت کر رہا ہے تو باقی یہاں حکومت کے لوگ پھر رہے ہیں وہ آپ ہی دیکھیں گے.السلام عليكم ورحمة الله وبركاته از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ ) 谢谢谢
۳۵۴ خطابات ناصر جلد دوم
خطابات ناصر جلد دوم ۳۵۵ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء آئندہ انشاء اللہ جب اسلام غالب آئے تو تاریک بر اعظم کو نورانی بر اعظم ہی کا نام دیا جائے گا اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں اپنے پیارے بچوں ، اطفال اور نوجوانوں سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں.اس لئے کہ جب میں اے بچو! آپ کی عمر کا تھا ہم قادیان ہی تھے.جب میری عمر آٹھ سال کی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کو قریباً نو سال ہو چکے تھے اور مہدی علیہ السلام کا جو ذکر پہلی کتب میں آیا ہے اور وہ اخبار جو قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں، ان کا کثرت سے ذکر ہوتا تھا اور وہ علم کا ایک سمندر جس کا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں مہدی علیہ السلام سے تعلق رکھنے والا ہے، وہ باتیں ہمارے کانوں میں پڑتی تھیں اور بار بار پڑتی تھیں اور کوئی شک اور شبہ ہمارے دلوں میں اُس وقت اس مسئلہ کے متعلق باقی نہیں رہا جو بچہ تھا اس کے کان میں یہ بات پڑتی تھی.جماعت چھوٹی تھی باہر سے دوست آتے تھے قادیان میں.ان کے کانوں میں پڑتی میں.وہ واپس جاتے تھے.وہ اپنے اپنے گاؤں میں یا شہر میں وہ ذکر کرتے تھے اور ساری جماعت کو ی علم تھا کہ قرآن کریم نے اس آخری زمانہ کے متعلق کیا کیا با تیں ہمیں بتائیں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات قرآن کریم کی پیشگوئیوں کی تفسیر میں کیا ہے؟.ہمارے پہلے بزرگوں نے ان سے کیا سمجھا اور کیا بیان کیا؟ لیکن اب ایک زمانہ گذر گیا اس بڑے ہی پیارے زمانہ کو جب ہم بچے تھے؟ اور قادیان میں تھے اور ہمارے گر د صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حصار تھا اور یہ باتیں کثرت سے ہوتی تھیں اور ہمارے دلوں کو اس یاد سے تازہ رکھتی تھیں اور اس حقیقت کو بیدار اور زندہ رکھتی تھیں ہماری زندگیوں میں لیکن اب اس کی نسبت جس زمانہ کی میں بات کر رہا ہوں جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے سو گنا زیادہ ہوگئی قریباً.کچھ کم ہو گی شاید لیکن سو گنا زیادہ ہوگئی اور
خطابات ناصر جلد دوم ۳۵۶ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء پھر جماعت جو ہے وہ صرف پارٹیشن تو بعد میں ہوا اور ہندوستان کا بٹوارہ ہونے کے بعد پاکستان بعد میں بنا پہلے تو ایک متحد ہندوستان تھا جس میں سارے بستے تھے اور جماعت زیادہ تر اس وقت کے ہندوستان ہی میں تھی باہر کے ممالک میں اکا دکا تھے لوگ.وہ آتے تھے ان کو کچھ علم ہوتا تھا.زیادہ ان کو علم نہیں تھا.اب لاکھوں کی تعداد میں ایک ایک ملک میں احمدی باہر بھی پایا جاتا ہے.خود پاکستان میں ہمارے اندازہ کے مطابق census لینا تو گورنمنٹ کا کام ہے صحیح تو اس سے پتہ لگتا ہے.اگر census صحیح ہو ہمارے اندازہ کے مطابق قریباً کم و بیش چالیس لاکھ احمدی اللہ کے فضل سے پاکستان میں ہیں.ان میں چھوٹے شیر خوار بچے بھی ہیں ان میں بوڑھے بھی ہیں.ان میں وہ بھی ہیں جن کو ان مسائل کا علم ہے.صحابہ میں سے بھی بہت سے زندہ ہیں ان سے سننے والے بھی ہیں لیکن جو میرے مخاطب ہیں اطفال اور نو جوان، خدام الاحمدیہ کی عمر کے یا بچے جن کو میں کہوں گا یا نو جوان ہیں جنہیں کہوں گا وہ دو قسم کے ہیں اور ایک تو وہ ہے جو احمدی گھر میں بچہ پیدا ہوا پھر وہ اپنی عمر سے گزرتا ہوا ایک طفل جو ہمارا نظام ہے اطفال کا اس کی عمر کو پہنچا.پھر اس سے نکلا.پھر وہ خدام الاحمدیہ کی عمر کو پہنچا.پھر اس سے نکلا.پھر وہ انصار اللہ کی عمرکو پہنچا.انصار میں سے بھی ہیں بہت سے جن کو ان باتوں کا علم نہیں.ایک دوسرے بچے بھی ہیں میرے، اور نوجوان اور وہ وہ ہیں جو بیعت کر کے بعد میں جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں.ان میں سے بعض کی عمر پانچ سال، سات سال، آٹھ سال، دس سال کی ہے اور بعض کی عمر پندرہ بیس سال کی ہے اور شاذ و نادر ہی ہیں جو اس گروہ میں آئیں گے جو بڑی عمر کے ہیں مثلاً جب افریقہ میں ہمارے مبلغ گئے تو ۱۹۴۴ ء تک بہت تھوڑے احمدی ان ممالک میں تھے.سینکڑوں ہوں گے.میرے خیال میں ہزاروں کی تعداد اس وقت شاید ہی کسی ملک میں بنی ہولیکن اب غانا جو چھوٹا سا ملک ہے وہ اندازہ کرتے ہیں کہ ان کے ملک میں دس لاکھ احمدی ہو چکا.یہ دس لاکھ احمدی اللہ کے فضل سے ہوا لیکن ان دس لاکھ احمدیوں کے کانوں میں اس قسم کی صداقتیں اس رنگ میں جو ہمارے کانوں میں پڑی تھیں نہیں پڑیں.تو ایک تو وہ طفل ہے جو احمدی کے گھر میں پیدا ہوا اور طفل کی عمر کو پہنچا اور ایک وہ طفل ہے جو جماعت احمدیہ میں داخل ہوا اور پھر ایک وقت گزرنے کے بعد کچھ اس کو واقفیت ہوئی.زیادہ
خطابات ناصر جلد دوم ۳۵۷ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء واقفیت ہوئی.ویسے تو بنیادی چیزیں سمجھ کے ہی جماعت میں داخل ہوتے ہیں لوگ لیکن پوری تفصیل کے ساتھ جو میں تفصیل بتاؤں گا آپ کو، کتنی زبر دست ہے، وہ واقفیت ان کو ہوئی.ان میں سے کوئی طفل کی عمر کے سمجھے جانے چاہئیں کوئی خدام الاحمدیہ کی عمر کے سمجھے جانے چاہئیں.مجھے خیال آیا کہ ہم بڑے خوش قسمت تھے کہ ہمارے چاروں طرف صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بطور ہمارے معلم کے موجود تھے اور ہمارے کانوں میں وہ یہ باتیں دن رات ڈالتے تھے.قادیان میں وہاں ایک.آپ میں سے بہتوں نے شاید قادیان دیکھی بھی نہ ہوا اور جو بچے وہاں سے ہم گودوں میں اٹھا کے لائے تھے ۱۹۴۷ء میں ان کو بھی کیا یا د پتہ ہو ہی نہیں سکتا کہ قادیان کا نقشہ کیا ہے.وہاں مسجد مبارک جو ہے اس کے سامنے چوک میں ایک دفعہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بڑا سارا بورڈ لگا دیا کالا اور اس کے اوپر کوئی فقرے آپ لکھ دیتے تھے.اسی طرح ان کے چھوٹے بھائی ہمارے چھوٹے ماموں یعنی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے چھوٹے ماموں ہم بھی ان کو ماموں ہی کہتے رہے ہیں.وہ کوئی حدیث.ارشاد نبوی کوئی قرآن کریم کی چھوٹی آیت لے کے آداب کھانے کے آداب.مجلس کے آداب ، سڑکوں کے آداب یہ بتاتے تھے اور مہدی کے متعلق ہر وقت ذکر تھا ذ کر تازہ تھا.تو بڑے خوش قسمت تھے ہم لوگ جن کے گرد اس قسم کے سکھانے والے تھے لیکن آپ بد قسمتی سے ایسے ماحول میں طفل کی عمر کو اور نوجوانی کی عمر کو اور اس سے نکل کے کچھ آپ میں سے انصار اللہ کی عمر کو پہنچے ہیں جنہوں نے اصولی طور پر تو ان مسائل کو سمجھا لیکن جس رنگ میں اور جس کثرت کے ساتھ اور جس پھیلاؤ میں اور تیرہ سو سال میں پھیلے ہوئے لٹریچر میں جس طرح مہدی کا ذکر آیا جس رنگ میں آیا جن الفاظ میں بیان کیا جس طرح ان چیزوں کو دنیائے اسلام نے محفوظ رکھا وہ آپ کے کان میں باتیں نہیں پڑیں.تو میں نے جب مجھے یہ خیال آیا میں نے سوچا کہ اس جلسہ کی یہ تقریر میں ، تقریر میں عام طور پر نہیں کرتا گفتگو تو یہ گفتگو جو ہے اس کا موضوع میں نے یہ بنایا.پھر میں نے سوچا اور پھر وہ اپنی یاد کو تازہ کر کے اس عرصہ میں ریسرچ بھی اور ہوئی.تحقیق ہوئی کوئی اور نئے حوالے بھی ملے.تو مجھے خیال آیا کہ جو چیز آپ کے سامنے رکھوں وہ اس ترتیب سے رکھوں کہ قرآن کریم نے مہدی کا ذکر
خطابات ناصر جلد دوم ۳۵۸ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء کیا یا مہدی کے زمانہ کا ، یا نہیں.یہ دونوں اکٹھی چیزیں بن جاتی ہیں کیونکہ وہی اس کی علامات اور پیشنگوئیاں ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس رنگ میں کیا اور کس پیار سے کیا.پھر بڑے ہیں کثرت سے جن سے یہ روایتیں مہدی کے آنے کے متعلق ہمیں نظر آتی ہیں.پھر جو حدیث لکھنے والے ہیں ہمارے مثلاً اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہا جاتا ہے امام بخاری کی حدیث کی کتاب کو جو بخاری کے نام سے ہی معروف اور مشہور ہے.انہوں نے اور صحاح ستہ چھ بہت ہی زیادہ ثقہ مجھی جانے والی اہل سنت کی کتب حدیث ہیں ان کے لکھنے والوں نے مہدی کا ذکر کیا.پھر ہمارے بھائی اهل التشيع ہیں یعنی شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے.ان کی احادیث کی کتب میں بڑی کثرت سے ان کا ذکر آیا ہے.وہ حوالے لئے جائیں یعنی اس ترتیب سے میں نے سوچا.پھر مفسرین قرآن ہوئے ہیں.انہوں نے کچھ اپنی سمجھ کے مطابق کچھ روا یتا اور روایتیں بہت کی جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی تھیں ان کی بنا پر انہوں نے تفاسیر لکھیں اور قرآن کریم کی بہت سی نہیں متعدد آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ اس کا تعلق آنے والے مہدی معہود سے ہے.یہ باتیں فلاں وقت پوری ہوں گی.پھر صوفیاء ہیں ہمارے بڑے بزرگ اور ہر وقت خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور خدا تعالیٰ سے معجزات اور نشانات اور کرامات حاصل کرنے والے اُن کی کتابوں میں ہم نے اپنے بچپن میں سنا تھا.میں نے کہا وہ بھی آپ کے سامنے رکھوں.اس طرح یہ جب میں نے اکٹھی کیں تو یہ منتخب جو میں نے چنیں ویسے تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں یہ حوالے کوئی دوسو کے قریب یہ میرے سامنے پڑے ہوئے ہیں.یہ حوالے مجھے ملے.اب یہ اتنا لمبا مضمون بن جاتا ہے.میرے بعض ساتھیوں نے کہا کہ یہ آپ ختم کیسے کریں گے.میں نے کہا اللہ تعالیٰ کوئی سامان پیدا کر دے گا.میرے دماغ میں یہی تھا کہ میں یہ جو حدیث یا ان کا قول ہے اس کو بیان کرنے لگوں تو کل چار بجے تک بھی یہ ختم نہیں ہوگا.یعنی اس وقت سے شروع کر کے ساری رات اور سارا دن بھی میں آپ سے گفتگو کرتا رہوں تب بھی یہ باتیں ختم نہیں ہوتیں بڑی وسعت ہے اس کے اندر تو کچھ کی تفصیل بتاؤں گا کچھ کے صرف نام بتاؤں گا.بعض اور چیزیں جو ہمارے سامنے اس وقت آتی تھیں میں ان کا ذکر کروں گا.مثلاً قرآن کریم سے اب میں لیتا ہوں قرآن کریم نے کچھ زبر دست پیشنگوئیاں کی ہیں اور اللہ تعالیٰ بھلا کرے ان لوگوں کا جنہوں نے خدا تعالیٰ سے پیار کیا اور اس کی نگاہ میں وہ پاکیزہ بنے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۵۹ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء اور اللہ تعالیٰ نے ان کو معانی قرآن تفسیر قرآن سکھائی.انہوں نے ایسی تفسیریں کی ہیں کہ جو صدیوں پہلے واقعات سے کی ہیں وہ درست ثابت ہوئیں.تو قرآن کریم میں میرے خیال میں بیسیوں ایسی آیات ہیں جن میں آنے والے مہدی معہود کے زمانے کا ذکر ہے اور زمانہ سے ان کا تعلق ہے اور پیشنگوئیاں ایسی ہیں جن میں سے بہتوں سے مہدی کا تعلق ہے کہ اس نے ان سے فائدہ اٹھانا تھا.اس وقت میں قرآن کریم کی بھی اختصار کے ساتھ ساری باتیں نہیں بیان کر سکتا کیونکہ وہ خود ایک بڑا لمبا مضمون بن جاتا ہے.بڑے اختصار کے ساتھ میں بعض باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اور وہ یہ ان کو ہمارے محاورہ میں وہ آثار نبویہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں.وہ آیات قرآنیہ اور آثار نبویہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں وہ آیات قرآنیہ اور آثار نبویہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں اور پورے ہو گئے جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ پہلوں کو خدا تعالیٰ نے علم سکھایا ورنہ وہ اگر ایسی کوئی تفسیر کر دیتے جو عملاً انسانی تاریخ میں وہ واقعہ ہی نہ ہوتا تو ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ نعوذ باللہ قرآن کریم میں غلط بات آئی ہے.ہمیں یہ کہنا پڑتا کہ جو مفسر نے کہا ہے اس نے غلطی کھائی اور قرآن کریم کی اس آیت کا یہ منشانہیں تھا جو منشا سمجھا گیا اور بیان کیا گیا جیسا کہ خسوف و کسوف کا ایک ہی مہینہ میں یعنی رمضان میں ہونا جس کی تصریح آیت وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (القيمة :١٠) میں کی گئی ہے.قرآن کریم کی آیت ہے وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ اب میں بعد میں آیات قرآنی پڑھوں گا اردو کے فقروں کے بعد اور اونٹوں کی سواری کا موقوف ہو جانا.جس کی تصریح وَإِذَا الْعِشَارُ عُلَتْ ( التكوير : ۵) سے ظاہر ہے اور ملک میں نہروں کا بکثرت نکلنا جیسا کہ آیت: وَإِذَا الْبِحَارُ فَجَرَتْ (الانفطار :۴) سے ظاہر ہے اور ستاروں کا متواتر ٹوٹنا جیسا کہ آیت وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَتَرَتْ (الانفطار :٣) : سے ظاہر ہے اور قحط پڑنا اور وباء پڑنا اور امساک باراں ہونا یہ تین قرب قیامت کی علامتیں ہیں جن کا تعلق زمانہ مہدی معہود سے ہے اور قحط پڑنا اور و با پڑنا اور امساک باراں ہونا جیسا کہ آیت: إذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ (الانفطار :۲) سے منکشف ہے اور سخت قسم کا کسوف شمس واقع ہونا جس سے تاریکی پھیل جائے جیسا کہ آیت: إِذَا الشَّمْسُ مُورث (التکویر ۲) سے واضح ہے اور پہاڑوں
خطابات ناصر جلد دوم ۳۶۰ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء کو اپنی جگہ سے اُٹھا دینا جیسا کہ آیت وَإِذَا الْجِبَالُ سُئِرَت (التکویر : ۴) سے سمجھا جاتا ہے اور جو لوگ وحشی اور اراذل اور اسلامی شرافت سے بے بہرہ ہیں، ان کا اقبال چمک اٹھنا اور ان کا صاحب اقتدار ہو جانا اور دنیا کے حاکم بن جانا جیسا کہ آیت وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ (التكوير : ٢) سے مترشح ہو رہا ہے اور تمام دنیا میں تعلقات اور ملاقاتوں کا سلسلہ گرم ہو جانا اور سفر کے ذریعہ سے ایک دوسرے کا ملنا سہل ہو جانا جیسا کے بدیہی طور پر وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ (التكوير: ۸) سے سمجھا جاتا ہے اور کتابوں اور رسالوں اور خطوط کا ملکوں میں شائع ہو جانا اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک آسانی سے پہنچ جانا خطوط کا جیسا کہ آیت: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التكوير : ۱۱) سے ظاہر ہو رہا ہے اور جو چھوٹے چھوٹے تقویٰ کے چشمے تھے ان کا مکدر ہو جانا اس زمانہ میں جیسا کہ وَإِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ (التكوير : ۳) سے صاف معلوم ہوتا ہے اور بدعتوں اور ہر قسم کے فسق و فجور کا پھیل جانا جیسا کہ آیت وَإِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ (الانشقاق :۲) سے معلوم ہوتا ہے.یہ تمام علامتیں قرب قیامت کی ظاہر ہو چکی ہیں اور دنیا پر ایک انقلاب عظیم آ گیا ہے اور جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قرب قیامت کا زمانہ ہے جیسا کہ آیت اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ( القمر :۲) سے سمجھا جاتا ہے تو پھر یہ زمانہ جس پر تیرہ سو اور گزر گیا اس کے آخری زمانہ ہونے میں کس کو کلام ہے.بہر حال قرآن کریم نے جیسا کے میں نے بتایا بہت سی ایسی پیشگوئیاں زبر دست کی ہیں جن کا تعلق اس آخری زمانہ سے ہے جس میں مسیح موعود کے متعلق پیشگوئی تھی کہ وہ ظاہر ہوگا.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک کام یہ بتایا گیا تھا کہ وہ یہ حدیث میں ہے آگے.میں ایک ٹکڑا یہاں لے آیا ہوں کہ وہ بیج اور دلائل کے ساتھ دلائل قاطعہ کے ساتھ اور آیات اور معجزات کے ذریعہ سے اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے گا اور اس طرح پر وہ لوگوں کے دل خدا اور اس کے رسول کے لئے جیتے گا.اب جس شخص کا ساری دنیا سے تعلق ہو.جس کی بعثت کا مقصد یہ ہو کہ وہ اسلام کا نور مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں پھیلائے اور دنیا کا چکر لگاتا ہو وہ مغرب کی طرف جائے.پیدا ہو گئے وہ ہندوستان، میں اس واسطے میں اسی کو مرکزی نقطہ بنا کر آگے بات کرتا ہوں تو مشرق اوسط میں سے پھلانگتا ہوا پھر سمندروں سے پار ہوتا ہوا پھر وہ یورپ
خطابات ناصر جلد دوم ۳۶۱ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء کے اندر داخل ہوتا پھر وہ آگے جائے گا پھر سمندر پار کرے گا پھر امریکہ میں پہنچے گا.اس کے لئے ضرورت تھی بہت سی باتوں کی جن کا ذکر کیا گیا تھا کہ اس زمانہ میں وہ ایجادات ہو جائیں گی جیسے کہ ریڈیو ہو گیا.تار ہو گئی اور ٹیلیکس ہو گئے اب.بڑی بڑی خبریں ہم بھیج دیتے ہیں.کتب کی اشاعت جو ہے وہ ممکن ہوگئی.ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے ذرا قبل کہ جب بعض لوگوں کی یہ روایت ہے کہ ایسے دوست بھی تھے ہمارے اس ملک میں یعنی جو اس وقت متحدہ ہندوستان تھا کہ جن کے دل میں شدت سے یہ آرزو تھی کہ ایک دفعہ مرنے سے پہلے صحیح بخاری پر نظر پڑ جائے ہماری.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات جہاں جمع ہیں وہ آپ کے ارشادات ہم دیکھ سکیں لیکن ان کی یہ حسرت اور یہ آرزو پوری نہیں ہوئی اور بغیر دیکھے کے وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے لیکن اب یہ ہے کہ اگر ایک جگہ کتاب چھپے اور انتظام ہو تو میرا خیال ہے کہ ۴۸ گھنٹے کے اندر اندر وہ دنیا کے ہر ملک میں پہنچائی جاسکتی ہے.اس انتظام کے بغیر کسی ایسے شخص کا خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہو جانا جس کا پیغام یا جس نے اسلام کا پیغام ساری دنیا میں پھیلانا تھا، یہ عبث بن جاتا.تو اس واسطے آخری زمانہ کی علامات اور آخری زمانہ میں آنے والے مہدی معہود جو ہیں، وہ ایک ہی زمانہ سے ان کا تعلق ہے اور وہ دونوں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں.یعنی مہدی نے ان واقعات سے فائدہ اٹھانا تھا یا مہدی کی صداقت پر ان واقعات نے دلیل ہونا تھا جیسا کہ چاند اور سورج کا گرہن ہونا اور ان ایجادات اور جو انقلابی تبدیلیاں انسانی زندگی میں آنی تھیں انہوں نے بطور خادم کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائیوں کے لئے کام کرنا تھا تا کہ اسلام کا نور دنیا میں پھیلایا جا سکے.بیسیوں ، بیسیوں ایسی خبریں آخری زمانہ کے متعلق قرآن کریم نے دی ہیں میں نے مختصر آلی ہیں اور اکثر حصہ جو میں نے پڑھا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے.بیچ میں کہیں میں نے تشریح کر دی ہے.یعنی آپ نے بیان کیا ہے.پھرا حادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مہدی معہود کا بڑی کثرت سے ذکر کیا ہے اور جب ہم راویوں کو دیکھتے ہیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے ثقہ راوی مہدی کی باتیں کرتے ہیں.حضرت انس بن مالک کرتے ہیں.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے.حضرت ثوبان
خطابات ناصر جلد دوم ۳۶۲ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مولیٰ تھے ان سے.حضرت عبداللہ سے حضرت حذیفہ سے.حضرت ابو سعید خدری سے.حضرت ثوبان سے.حضرت سعید بن المسیب سے اور حضرت نعمان بن بشیر سے اور حضرت محمد بن علی سے اور حضرت ام سلمیٰ سے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جنہوں نے بڑا علم پہنچایا خصوصاً عورتوں میں اور یہ سنیوں کی کتب حدیث میں روایتیں ہیں.میں نے میں نے بتایا ہے کہ سارا اگر میں پڑھنا شروع کروں تو اس کے لئے بڑا وقت ہوگا.میں نہ کے طور پر آپ کو بتا رہا ہوں.اور اہل التشیع کی احادیث میں حضرت عبداللہ بن عباس سے اور حضرت ابوسعید خدری سے.انہوں نے بھی کہا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور امام حسین رحمۃ اللہ علیہ سے اور بہت سارے بہت سے ہیں.تو وہ ، وہ راوی آجاتے ہیں تو یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں.جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں سنیں اور آگے لوگوں تک پہنچائیں.اس کے بعد ہم خلفائے راشدین کو لیتے ہیں تو ہمیں ایسی حدیثیں ملتی ہیں کہ حضرت عمرؓ اور حضرت علی دونوں مل کے آنے والے مہدی کے متعلق گفتگو فرمارہے ہیں.اسی طرح حضرت عثمان کے متعلق ہمیں پتہ لگتا ہے کہ آپ نے مہدی کے متعلق آپ سے جو مذکور با تیں ہیں، وہ مختلف کتب حدیث میں اور دوسری کتب میں پائی جاتی ہیں اور حضرت علی سے جو ہمارے چوتھے خلیفہ تھے ان سے تو بڑی کثرت سے روایات ہیں سنیوں کی کتب میں بھی اور غیر سنیوں کی کتب میں سے بھی.اچھا وہ صحابہ میں سے حضرت جابر بن عبد اللہ ہیں.اب ہم آجاتے ہیں قرآن کریم کی تفسیر کرنے والے.قرآن کریم کی بہت سی پایہ کی ثقہ مشہور تفاسیر پائی جاتی ہیں اور ان میں سے جن کا میں نے انتخاب کیا ہے اس وقت وہ اٹھارہ تفاسیر ہیں.قرآن کریم کی اٹھارہ پایہ کی تفاسیر میں آنے والے مہدی کا ذکر ہے یعنی ان کی صفات یہ ہوں گی اور انہوں نے آنا اس امت میں سے ہے وغیرہ وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا.ابھی تو میں صرف یہ بتا رہا ہوں کہ کس طرح زمانے پر پھیلا ہوا ہے یہ علم کہ مہدی علیہ السلام نے امت محمدیہ میں پیدا ہونا ہے.سب سے پہلے مشہور اورا کا بر مفسرین میں سے جو مجھے نظر آئے ، وہ حضرت سعید بن خبیر ہیں جن کو ۹۴ ہجری میں شہید کیا گیا تھا اور ان کا شمار بڑے اکا بر تابعین میں
خطابات ناصر جلد دوم ۳۶۳ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء سے ہے.انہوں نے اپنی تفسیر میں مہدی کا ذکر کیا.پھر ۱۰۵ ہجری میں فوت ہونے والے اضحاک بن مزاحم بلخی ہیں انہوں نے بھی تفسیر لکھی اور اس تفسیر قرآنی میں مہدی علیہ السلام کا ذکر کیا.پھر مقاتل بن سلیمان خراسانی ہیں جن کی وفات ۱۵۰ ہجری میں ہوئی انہوں نے اپنی تفسیر میں مہدی علیہ السلام کا ذکر کیا.پھر ایک سُدی الکبیر ہیں.تین ستی اسلامی کتب میں معروف ہیں ایک ستی کبیر.ایک سدی صغیر اور ایک سدی ، نہ صغیر اور نہ کبیر.تو جو سدی صغیر ہیں ان پر بہت اعتراض ہوئے ہیں کہ ان کی قابل قبول روایتیں نہیں ہیں.ضعیف ہیں وہ لیکن سنڈی کبیر جو ہیں وہ پایہ کے ہیں اور ان کی روایتوں کو ہمارے ان علماء نے جو بڑی چھان بین کرنے والے تھے قبول کیا ہے.تو سدی کبیر کی تفسیر کے اندر مہدی علیہ السلام کا ذکر ہے.پھر حضرت ابو جعفر محمد بن جریر الطبری نے تفسیر جامع البیان میں، یہ بہت بڑے مفسر ہیں انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر ابن مسعود الفراء نے تفسیر معالم التنزیل میں مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر زمخشری صاحب کشاف نے.میں ان کا سن وفات بھول گیا پڑھ دیتا ہوں یہ خراسانی کے بعد طبری آئے تھے وہ ۳۱۰ ہجری میں فوت ہوئے.پھر یہ اب الفراء جو ہیں یہ ۵۱۶ ہجری میں ان کی وفات ہوئی انہوں نے ذکر کیا پھر زمخشری ان کی وفات ۵۳۸ ہجری میں ہوئی انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر ابن جوزی نے زاد المسیر فی علم التفسیر یہ بھی مشہور مفسر ہیں یہ ۵۹۷ ہجری میں ان کی وفات ہوئی انہوں نے مسیح کے آنے کا ذکر کیا.پھر فخر الدین رازی تفسیر کبیر والے بہت بڑی تفسیر انہوں نے لکھی ہے بڑے مشہور ہیں ۶۰۶ ہجری میں ان کی وفات ہوئی.انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر قُر طبی ہیں بڑے مشہور مصنف اور مالکی فقہ کے جو ہماری مختلف ہیں نام تمہیں ہماری حنفی اور مالکی اور شافعی اور حنبلی تو یہ مالکی فقہ کے ممتاز عالم ہیں قرطبی.۶۷۱ ہجری میں ان کی وفات ہوئی.انہوں نے اپنی تفسیر میں مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر نظام الدین نیشا پوری جن کی وفات ۷۲۸ ہجری میں ہوئی اور یہ بھی بڑے مشہور مفسر ہیں انہوں نے اپنی تفسیر میں مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر الخازن ہیں.ان کا لمبا نام ہے.الخازن ہیں یہ ا۴ ۷ ہجری میں ان کی وفات ہوئی.یہ بھی بڑے مفسر اور محدث اور فقیہ اور مورخ بہت سی علوم کی کتب انہوں نے لکھی ہیں انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر ابو حیان بحر الحيط والے ہیں انہوں نے جن کی وفات ۷۴۵ھ میں ہوئی
خطابات ناصر جلد دوم ۳۶۴ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر علامہ جلال الدین مصری شافعی نے جلالین کے اندر مہدی کے آنے کا ذکر کیا پھر جامع البیان کی تفسیر لکھنے والے شیخ نورالدین سید معین بن سید صفی الدین نے جو۸۹۴ ہجری میں وفات پائی انہوں نے اپنی تفسیر میں مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر علامہ حسین بن علی واعظ کاشفی مؤلف تفسیر حسینی نے جو ۹۱۰ ہجری میں فوت ہوئے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر اسماعیل حقی بروسی جو ۱۱۳۷ ہجری میں فوت ہوئے انہوں نے اپنی تفسیر روح البیان میں مہدی کے آنے کا ذکر کیا.اسی طرح علامہ الامام السید محمود بن عبداللہ الحسینی بغدادی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں مہدی کے آنے کا ذکر کیا.یہ ۱۸ تفاسیر میں نے جو بہت بلند پایہ کی تھیں ان کو منتخب کیا اور ان میں سے حوالے نکالے اور ان سب نے یہ بتایا ہے کہ امت محمدیہ میں مہدی موعود پیدا ہوگا.اس کے بعد یہ تو مفسر تھے نا، جو محدث ہیں جو حدیثیں لکھنے والے ان میں امام مالک جن کی کتاب ہے موطا امام مالک، جو ۱۷۹ ہجری میں فوت ہوئے اور چار ائمہ مجتہدین میں وہ شامل ہیں.فقہ کے امام ہیں نا یہ.انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.فقہ کے امام ہیں اور اس وقت میں ان کو بطور محدث کے لے رہا ہوں جنہوں نے حدیث کی کتاب موطا امام مالک لکھی انہوں نے ذکر کیا پھر امام محمد بن اسماعیل بخاری نے بہت سی روایات میں مہدی کے آنے کا ذکر کیا یہ بخاری وہی ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ سمجھی جاتی ہے.پھر صحیح مسلم میں جو دوسرے نمبر پہ ہے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر یہ بخاری اور مسلم کے ساتھ اب جو میں چار حدیثیں جن کا میں نام لوں گا یہ چار اور وہ دول کے صحاح ستہ یعنی چھ حدیث کی مستند کتب اہل سنۃ والجماعتہ میں مانی ہوئی ہیں.ترمذی نے جامع ترمذی میں مہدی کے آنے کا ذکر کیا.ابوداؤ دسلیمان بن اشعث نے سنن ابی داؤد میں مہدی کے آنے کا ذکر کیا.نسائی نے سُنن نسائی میں مہدی کے آنے کا ذکر کیا.ابن ماجہ نے سُنن ابن ماجہ میں مہدی کے آنے کا ذکر کیا.یہ ابوداؤ د سنن ابی داؤ د والے ۲۷۵ ھ میں وفات پائی.نسائی سنن نسائی لکھنے والے ۳۰۶ ہجری میں انہوں نے وفات پائی اور ابن ماجہ کے لکھنے والے ۲۷۳ ہجری میں انہوں نے وفات پائی.اور ان کے علاوہ بہت سی مستند حدیث کی کتب ہیں اور جو فقہ کے امام بڑے پایہ کے محمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل کے لکھنے والے.یہ حدیث کی کتاب ہے.۲۴۲ ہجری میں وفات پائی انہوں نے.
اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء خطابات ناصر جلد دوم ۳۶۵ انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر علی بن محمد دارقطنی مؤلف سُنن دار قطنی ۳۸۵ هجری میں وفات پائی انہوں نے ، مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر محمد بن عبد اللہ الحاکم مرتب مستدرک للحاکم ۴۰۵ ہجری میں وفات پائی انہوں نے ، مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر بیہقی نے جن کی یہ سنن بیہقی ہے اور ۴۵۸ ہجری میں انہوں نے وفات پائی، انہوں نے مہدی کا ذکر کیا آنے کا.پھر حدیث کی کتابیں لکھنے والوں میں نہا یہ ابن اثیر ہے اس میں ذکر ہے.پھر تبریزی کی کتاب مشکوۃ میں.بڑی مشہور کتاب ہے عام پڑھی جانے والی کتاب ہے مشکوۃ ، اس میں مہدی کے آنے کا ذکر کیا اور یہ نہا یہ ابن اثیر جو ہیں یہ ۶۰۶ ہجری میں انہوں نے وفات پائی اور مشکوۃ لکھنے والے جو ہیں، ۷۳۷ ہجری میں انہوں نے وفات پائی.پھر ابن حجر الھیثمی جنہوں نے الفتاوی الحدیثیہ لکھی ہے ۹۰۹ ہجری میں انہوں نے وفات پائی.انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر ابن الربیع الشیبانی الشافعی جنہوں نے ۹۴۴ ہجری میں وفات پائی انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر علامہ علاؤالدین علی المنتقی ۹۷۵ ہجری میں وفات پائی کنز العمال بہت مشہور کتاب ہے، انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر حضرت مولانا الامام الشیخ محمد طاہر گجراتی ۹۸۶ ہجری انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر امام القاری ۱۰۱۴ ہجری میں جنہوں نے وفات پائی.امام اہل سنت ہیں شارح مشکوۃ شریف ہیں انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر علامہ عبدالرؤف مناوی ۱۰۳۱ ہجری میں وفات پائی.کنوز الحقائق کے مرتب ہیں، انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر علامہ سندھی مشہور ہیں ۱۳۸ ہجری میں وفات پائی.انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر علامہ محمد بن احمد سفارینی ۱۸۸ ہجری میں انہوں نے وفات پائی.حنبلی فقہ سے ان کا تعلق ہے اور مشہور محدث ہیں انہوں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.تو یہ اکیس حدیث کی کتابیں ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ امت محمدیہ میں مہدی آئے گا.پھر فقہ کی جو کتابیں ہیں ان میں سے، اب میں مختصر کروں گا اس کے بعد تفصیل میں نے آپ کو بتادی کافی.پانچ کتب کا میں نے انتخاب کیا ہے پانچوں میں مہدی کے آنے کا ذکر ہے.پھر علم متکلمین جو ہیں کی الدین، ابن تیمیہ ، تفتازانی اور آخر میں محمد قاسم نانوتوی ۱۲۹۷ ہجری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے قریباً دس سال پہلے ان کی وفات ہو گئی اور مدرسہ دیو بند کلام
خطابات ناصر جلد دوم ۳۶۶ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء کے یہ بانی عیسائیوں کے ساتھ یہ مناظرے کرتے رہے.اللہ تعالیٰ انہیں جزاء دے.تو ان سب متکلمین نے ویسے تو بہت سی اور کتب میں سے بھی ملا تھا لیکن یہ تین کافی سمجھی گئیں.پھر جو ہمارے مختلف اوقات میں بہت زیادہ تجدید دین کا کام کرنے والے مشہور مسجد دین ہیں ان میں سے یہاں جو میں نے لئے ہیں حوالے وہ صرف پانچ کے لئے ہیں اور انہوں نے بڑے کھل کے مہدی کے آنے کا ذکر کیا.پھر صوفیاء ہیں حسن بصری جیسے، حکیم ترمذی جیسے، یحیی بن عقب جیسے ، حضرت نعمت اللہ ولی جیسے ، جن کا مشہور قصیدہ ہے.فرید الدین عطار شہید جیسے، شرف الدین عمر بن الفارض جیسے محی الدین ابن عربی جیسے، صدر الدین قونوی جیسے شمس تبریزی جیسے ، حافظ شیرازی جیسے ، راجو قتال جیسے اور بسطامی جیسے اور عبدالرحمن جامی جیسے اور شافی جیسے.یہ ہیں صوفیاء کا انتخاب میں نے کیا.میں نے بتایا کہ میں نے تو منتخب آپ کے سامنے یہ رکھنے کے لئے چنے تھے ان میں کے میں نے مہدی کے آنے کا ذکر کیا ہے.بہت ساری باتیں بتائی ہیں.ان کے اندر ان میں سے کچھ کے متعلق میں ابھی بتاؤں گا.صوفیاء یہ اپنا ایک ہے نا گر وہ اچھا ان میں سے صوفیاء میں سے ایک حوالہ میں پڑھ دوں یہ عبدالرزاق قاسانی ہیں یہ کہتے ہیں کہ.: المهدى الذى يجيءُ في آخر الزمان فانه يكون في الاحكام الشريعة تابعاًلمحمدصلی الله عليه وسلم“.که آخری زمانہ میں پیدا ہونے والے مہدی جو ہیں وہ احکام شریعت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے تابع ہوں گے.وفى المعارف والعلوم والحقيقة تكون جميع الانبياء والأولياء تابعين له اور جو تفسیر احکام قرآنی ہے معارف جو قرآن کریم سے حاصل کئے جاسکتے ہیں ان معارف اور ان علوم اور ان حقائق قرآنی جو خدا تعالیٰ جن کا علم ان کو دے گا اس لحاظ سے وہ تمام انبیاء اور اولیاء سے بالا ہیں اور سارے انبیاء اور اولیاء ان کے تابع ہیں یعنی شریعت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع اور اس شریعت محمدیہ قرآن عظیم کے علوم سیکھ کر جو معارف وہ حاصل کریں گے اور جو علوم ان کو عطا کئے جائیں گے اور جن صداقتوں پر ان کو کھڑا کیا جائے گا اس لحاظ سے وہ تمام انبیاء
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء ان کے تابع ہیں.وہ ان سے بڑے ہیں.لان باطنه باطن، محمدعلیه السلام (شرح فصوص الحکم صفحه ۳۵ طبع بمطبعة اليمنية بمصر ) کیونکہ مہدی کا باطن ان کی جو روح ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باطن کے ساتھ ملتی.یعنی کوئی فرق نہیں ہے.یعنی اس میں بتایا گیا ہے کہ آنے والا مہدی فنافی محمد کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوگا.پھر مؤرخین میں نے لئے.ان کی جب کتابوں کو دیکھا تو جو بڑے مؤرخ ہیں لکھنے والے تاریخ ان کی کتابوں میں مہدی کے آنے کا ذکر.پھر میں نے شیعہ بزرگ لئے تو ان کی کتابیں تو بھری ہوئی ہیں اس سے.اس کثرت کے ساتھ یا اس وسعت کے باوجود کہ قرآن کریم نے ایک آخری زمانہ کا ذکر کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کریم نے وہ جن چھوٹی چند ایک میں نے علامتیں جو قرآن کریم میں ہیں جو پیشگوئیاں بیان کی ہیں ان کا ذکر کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں پیدا ہونے والا مہدی موعود آخری زمانہ میں پیدا ہوگا اور وہ ساری جو قرآن کریم کی علامات ہیں ان کے متعلق بغیر کسی اختلاف کے سب کا یہی کہنا ہے کہ یہ آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گی اور ان کا کیا کہنا خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے ثابت کیا ہے کہ وہ آخری زمانہ میں ظاہر ہوئیں اور اس سے بڑی شہادت کوئی ہو نہیں سکتی جو خدا تعالیٰ کی شہادت ہے لیکن یہ تازہ نہیں.یہ دیر سے ہی چند ایک بیچ میں ایسے آدمی پیدا ہوتے رہے ہیں امت محمدیہ میں جو یہ کہتے رہے ہیں کہ کسی مہدی نے آنا ہی نہیں صدیوں پہلے آج سے ہوتے رہے ہیں یہ جو وسوسہ ہے کہ آنا ہی نہیں کسی مہدی معہود نے ، اس سلسلہ میں چند ارشادات نبوی آپ سن لیں اور بعض دوسروں کے قول بھی.ینابیع المودہ اہل التشیع کی ایک مشہور کتاب ہے.خواجہ کلاں اس کے لکھنے والے ہیں.اس میں ہے صفحہ ۱۰۸ پر حاشیہ میں ہے قال من انكر خروج المهدى فقد كَفَرَ بما انزل على محمد (ينابيع المودة جزء الثالث صفحہ ۱۶۲،۱۰۸) کہ جس شخص نے مہدی کے خروج کا ، اس کے مبعوث ہونے کا ، اس کے آنے کا انکار کیا تو جو خدا تعالیٰ کی وحی سے خبر دی گئی تھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ وہ آئے گا فقد کفر اس نے اس کا
خطابات ناصر جلد دوم ۳۶۸ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء انکار کیا.اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مہدی موعود کے آنے کی مہدی موعود کی بشارت کی جو خبر تھی اس کا انکار کرنے والا ہے وہ.اور بیج الکرامہ میں ہے کہ محمد بن علی الشوکانی فرماتے ہیں:."إن الاحاديث الواردة فى المهدي المنتظر متواترة ( حجج الكرامة صفحه ۴ ۴۳ در مطبع شاہجہانی) کہ وہ احادیث جو مہدی موعود کے آنے کی خبر دیتی ہیں وہ تواتر کا حکم رکھتی ہیں یعنی بڑی کثرت سے ہیں.ہر فرقہ ، ہر کتاب، ہر عالم جو ہے جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے نا تفصیل سے ایک حد تک اور پھر مختصراً باقی ساری.تیرہ سو سال کے زمانے میں سے ہم گزرے ہیں ابھی تو یہ اس کو کہتے ہیں تو اتر تو وہ کہتے ہیں شوکانی صاحب که ان الاحاديث الواردة في المهدى المنتظر متواترة كم مہدی کی خبر دینے والی جو احادیث ہیں وہ متواتر کا حکم رکھتی ہیں اور متواتر اصطلاح ہے انکی.اور شیخ نظام الدین شاشی نے اصول الشاشی میں لکھا ہے.المتواترة يوجب العلم القطعية (اصول الشاشی صفحہ ہے کہ جو متواتر حدیث آئی ہے وہ قطعی صحیح اور قطعی علم ہمیں دیتی ہے.ويكون رَدُّه كفراً اور اس کا رد کرنا کفر تک انسان کو لے جاتا ہے.اور اسی طرح علی بن محمد الجرجانی نے اپنی کتاب التعریفات صفحہ ۶۶ میں لکھا ہے.يكون جاحدالخبر المتواتر كافراًبالاتفاق“ کہ جو شخص متواتر خبر کا انکار کرتا ہے وہ بالا تفاق کافر بن جاتا ہے.اس طرح امام حجر سیمی نے اپنی کتاب الفتاوی الحدیثیہ کے صفحہ ۳۷ پر لکھا ہے کہ اسکافی ایک ہیں ان کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.مَنْ كَذَّبَ بِالْمَهْدِى فَقَدْ كَفَرَ ، الفتاوى الحديثية میر محمد کتب خانه آرام 66 باغ کراچی صفحه ۳۷) جس شخص نے مہدی کے آنے کی تکذیب کی اور کہا کہ کسی مہدی نے نہیں آنا ” فقد کفر “ اور حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت شیعوں کی ایک کتاب میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے ظہور مہدی کا انکار کیا وہ یقیناً محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کا کافر
خطابات ناصر جلد دوم ۳۶۹ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء بنا.جیسا کہ عربی میں میں نے آپ کو ابھی پڑھ کر بتایا تھا یہ ایک کتاب بڑی مشہور ہے کتاب المهدی اس کے صفحہ 19 پر ہے.مینا بیع المودہ کے صفحہ ۴۴۰ پر یہ عبارت ہے جسے کتاب المہدی کے صفحہ ۱۸ پر لکھا ہے.روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے بہت سی باتیں مہدی کے متعلق بیان کیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو ! تمہیں مہدی کے ظہور کی خوشخبری ہو کیونکہ خدا کا وعدہ برحق ثابت ہوگا.یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور یہ برحق ثابت ہوگا.قضاء وقدر کو رد نہیں کیا جاسکتا اور اسی طرح کتاب المہدی میں سے ایک اقتباس لیا ہے.Reference ایک بزرگ گزرے ہیں محقق ان کی کتاب.کتاب بیان کا کہ انہوں نے کنجی نے اپنی کتاب ، یہ بڑے ثقہ ہیں ان کی میں نے تحقیق کی آپ کے پاس بیان کرنے سے پہلے انہوں نے کتاب بیان میں لکھا ہے.مہدی علیہ السلام کے متعلق بہت سی باتیں انہوں نے لکھی ہیں اور اس کے بعد ایک نتیجہ نکالا ہے اور وہ یہ ہے.وو پس نبابریں جمیع اهل اسلام که شیعه و سنّی باشند دربارء اثبات وجود مهدی اجماع و اتفاق دارند " کہ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ تمام اہل اسلام شیعہ ہوں یاسنی ، وجود مہدی کے متعلق وہ متفق ہیں.ان کا اجماع ہے کہ مہدی کا وجود ہے اور وہ آئے گا یعنی مہدی آنے والا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا.یہ چند حوالے جو ہم میں اصل تو کہانی سنا رہا ہوں نا آپ کو اپنے بچپنے کی اور جوانی کے ایک حصہ کی کہ یہ ساری باتیں جو ہیں یہ ہمارے کانوں میں تو پڑ رہی تھیں جب ہم بچے تھے تو چونکہ آپ کو اس طرح سنائی نہیں جاتی رہیں حالات بدل گئے اس لئے آج میں اس وقت یہ باتیں آپ کو بتا رہا ہوں.ایک سوال یہ ہے کہ احادیث میں نزول عیسی کا بھی ذکر ہے اور نزول مہدی کا بھی ذکر ہے اس واسطے بعض ہمارے محققین کے سوچ میں یہ خلط پیدا ہوا کہ آیا یہ دو علیحدہ علیحدہ وجود ہیں یا ایک ہی وجود کے دو پہلو ہیں یہ نسبت دو مختلف کاموں کے جو مہدی کے سپر د کئے جائیں گے.کاموں کی وجہ سے ایک کام کی نسبت سے یا ایک مقام کی نسبت سے اسے عیسی کہا گیا اور دوسرے کی نسبت سے اسے مہدی کہا گیا.
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء السلام یہ جو میں نے آپ کو پہلے مختصر ا صرف نام تفاسیر کے بتائے تھے نا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ مہدی آئے گا.بعض نے لکھا ہے کہ مسیح آئے گا.نازل ہوں گے حضرت مسیح علیہ السلام یا مہدی موعود علیہ ال آئیں گے ان کو میں نے یکجائی جب نظر ڈالی تو شکل یہ بنی، حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے ان تفاسیر میں جن کا میں ذکر کر چکا ہوں پہلے پانچ جگہ نزول عیسی کہا ہے.حضرت عیسی نازل ہوں گے اور چار جگہ خروج عیسی کہا ہے کہ حضرت عیسی کا خروج ہو گا.وہ پیدا ہوں گے اور حضرت مہدی علیہ السلام کے لئے چھ جگہ ان تفاسیر میں خروج مہدی آیا ہے کہ مہدی کا خروج ہوگا اور چار جگہ ہے کہ عیسی کا خروج ہوگا.تو دس جگہ خروج کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور پانچ جگہ نزول کا لفظ استعمال کیا ہے.اس وقت نزول کی لمبی بحث میں تو جایا نہیں جاسکتا لیکن یہاں خاموش بھی نہیں رہا جا سکتا.اس لئے کہ ہم اس عقیدہ پر قائم ہیں کہ میسی اور مسیح ایک ہی شخصیت کے دو پہلو ہیں اور ایک ہی وجود کے جو فنافی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر دنیا میں آخری، بڑے پیارے اور بڑی برکتیں لانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند نے آخری زمانہ میں کرنے تھے.جب آخری فتح جب ایک جنگ شروع ہونا.یہ روحانی جنگ ہے بغیر ہتھیاروں کے لیکن جب جنگ ہو تو ایک لڑائی چھوٹی سی لڑی جاتی ہے پھر دوسری.ایک محاذ پر پھر دوسرے محاذ پر.آخر ایک وقت میں ایسا ہوتا ہے کہ اس جنگ کا فیصلہ ہو جاتا ہے.تو جنگیں چودہ سو سال سے جنگیں لڑی گئیں بیج اور دلائل کے ساتھ اور آیات اور معجزات کے ساتھ.اسلام نے کوئی جنگ اس کے علاوہ نہیں لڑی یہ بات سمجھ لیں آپ اسلام نے جو جنگ تلوار سے لڑی وہ بھی معجزہ کی جنگ تھی.وہ تلوار کی جنگ نہیں تھی.یہ کہنا کہ ۳۱۳ نسبتے ، ننگے پاؤں، بغیر سواریوں کے، کپڑے پھٹے ہوئے ، بدر کے مقام کے اوپر جانیں دینے کے لئے گئے تھے تلوار کے زور سے روسائے مکہ کو شکست دینے ، بڑا ظلم ہے اس قوم پر.وہ تلوار سے مارنے نہیں گئے تھے.وہ خدا تعالیٰ کا نشان بن کر خدا کا ایک معجزہ دنیا کو دکھانے کے لئے گئے تھے اور بدر کے میدان کی ریت کا ذرہ ذرہ اس پر گواہ ہے کہ انہوں نے معجزہ دکھایا اور اس معجزہ سے انہوں نے اسلام کے غلبہ کو اور خدا کے نزدیک اسلام کے پیارے ہونے کو ثابت کیا.تو اسلام کی جنگ ہے حج کے ساتھ اور دلائل کے ساتھ اور آیات آسمانی کے ساتھ اور معجزات کے ساتھ.زندہ نبی ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم.آپ آج بھی اسی طرح زندہ ہیں اپنے فیوض کے لحاظ
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء سے جس طرح آپ اپنی جسمانی زندگی میں زندہ تھے.بڑا ناشکرا ہے وہ دل جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مردہ سمجھتا ہے.خدا کی قسم مردہ نہیں ، زندہ ہیں اور ہم نے اپنی زندگیوں میں آپ کی زندگی کے جلال اور جمال کو دیکھا ہے(نعرے) اب میں نے پہلوں کے بھی کچھ حوالے لیے آپ کو بتانے کے لئے جو ہمارے کانوں میں پڑے تھے اس وقت بڑی کثرت سے پہلوں نے یہ مسئلہ چھوڑا نہیں.خدا تعالیٰ جزا دے ان کو.انہوں نے بڑا کام کیا اس پر.ابن عربی نے محی الدین ابن عربی بڑے مشہور ہمارے بزرگ ہیں اور صوفی ہیں انہوں نے اپنی تفسیر کی جلد اول ۸۲ صفحہ پر لکھا ہے لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ (النِّسَاء :۱۶۰) کے نیچے، انہوں نے قرآن کریم میں کہا ہے کہ بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ ( النساء : ۱۵۹).صلیب پرو مرے نہیں اور منصوبہ یہود کا کہ صلیب پر لٹکا کے مار کر ان کا ملعون ہونا ثابت کریں ، یہ نا کام ہو گیا.محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں اس جگہ جس رفع کا ذکر ہے.ہم کب کہتے ہیں نہیں ذکر.اس کے معنے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ اسلام کی روح جو ہے جسم نہیں رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی روح اس سفلی دنیا کی جو یہ دنیا جو ہے نا، مادی دنیا اس عالم سفلی یہ محاورہ ہے عالم سفلی سے جدا ہو کر جسم سے علیحدہ ہو کے عالم علوی یا علوی ( یہ سارے جائز ہیں عربی میں سے متصل ہو گئی اور چوتھے آسمان پر چلی گئی جیسا کہ یعنی یہ انہوں نے نہیں لکھا یہ میں اب بیان کر رہا ہوں.انہوں نے کہا عالم علوی جو اوپر کا عالم ہے زمین کے ساتھ جس کا تعلق نہیں آسمانوں سے ہمارے محاورے میں جس کا تعلق ہے اور معراج کا جو واقعہ ہے اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی روح کو چوتھے آسمان پر دیکھا تھا اور وہی عالم علوی ہے.تو یہ کہتے ہیں کہ جو وجود حضرت عیسی علیہ السلام جب آئے اور جب انہوں نے وفات پائی تو ان کی روح ان کے جسم سے علیحدہ ہوئی اور ان کی روح کا رفع ہوا اور وہ عالم علوی میں چوتھے آسمان پر جا کر ٹھہر گئی خدا تعالیٰ کے حکم کے ساتھ لیکن وہ اس میں یہ صوفی کا ایک دماغ چلا ہے بڑا تیز.وہ یہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو فیوض حاصل کر کے مسیح ناصری نے مسیح موسوی نے حضرت عیسی نے ایک کوشش کی تھی واحدانیت پر قائم کرنے کی اور اس کا ایک نتیجہ تو ٹھیک نکلا اور وہ یہ کہ دس قبائل بنی اسرائیل کے یہاں سے یروشلم کے گردونواح سے مجبور کر.
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء بادشاہوں نے ظلم کر کے ان کو وہاں سے بکھیر دیا تھا اور کشمیر اور ہندوستان اور افغانستان اور ایران کے مختلف مقامات پر وہ دس قبائل بارہ میں سے.بارہ میں سے دس قبیلے یروشلم میں نہیں تھے جس وقت حضرت مسیح مبعوث ہوئے ہیں تو وہاں وہ جب گئے تو انہوں نے دو بڑے زبر دست کام کئے ایک یہ کہ انہوں نے جو یہودی یہ دس قبائل شریعت موسوی کو چھوڑ چکے تھے ان میں تبلیغ کی اور اپنی رسالت منوائی اور شریعت موسوی کی طرف ان کو واپس لے کر آئے.ان میں سے بعض تو بدعات کا شکار ہو گئے تھے.دہریت کا شکار ہو گئے تھے کچھ بدھ مذہب اختیار کرنے والے تھے.کچھ ہندو ہو گئے تھے بت پرستی کرنے والے یعنی جن میں ہزاروں انبیاء آئے تھے وہ خدائے واحد کو چھوڑ کر وہ بت پرستی کی طرف چلے گئے تھے یعنی یہ تاریخ سے ثابت ہے جو میں آپ کے سامنے باتیں رکھتا ہوں.یہ وہاں گئے.انہوں نے تبلیغ کی ۹۰ سال ۸۷ سال کے قریب اور خدا تعالیٰ نے برکت ڈالی اور ان کو پھر واپس شریعت موسویہ کی طرف لے کے آئے.اکثر کو کچھ رہ گئے بیچ میں خاندان اور موسوی شریعت کی طرف یہ آئے.خدا تعالیٰ کی واحدانیت پر ان کو انہوں نے قائم کیا.دوسرا کام ان کا یہ تھا کہ چونکہ یہ بنی اسرائیل میں آخری رسول تھے اور ان کے بعد رسالت بنو اسحاق سے منتقل ہو کر بنی اسماعیل کی طرف محمدصلی اللہ علیہ وسلم جیسے وجود میں ظاہر ہوئی تھی اور اس سے یہ خطرہ تھا کہ وہ محروم نہ ہو جائیں یہ کیا ہو گیا کہ ہم سے رسالت چھن گئی اور دوسرے بیٹے کی اولا دکو چلی گئی اس واسطے ان کے ذہنوں کو تیار کیا کہ جب بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہو تم ان پر ایمان لے آنا اور ان کو قبول کر لینا اور نتیجہ یہ ہوا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ کی تبلیغ ان علاقوں میں پہنچی تو بہت جلد ان لوگوں نے اسلام کو قبول کیا.بڑے تھوڑے عرصہ میں یہ مسلمان ہو گئے لوگ اور وہ اثر تھا حضرت مسیح علیہ السلام کی تربیت کا.یہ تو ان کا وہ پہلو ہے جس میں وہ کامیاب ہوئے لیکن دوسرا پہلو جو داغ لگانے والا ہے ان کی رسالت پر اور اس بات پر کہ انہوں نے خیر و برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ سے تو اس لئے حاصل کی تھی کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو قائم کریں لیکن ایک دنیا کو ان کے دوسرے حصہ ماننے والوں نے تثلیث کا قائل کر دیا اور ایک قسم کی بت پرستی شروع کر دی اور خدائے واحد و یگانہ سے بیزار کر دیا.تو اس لحاظ سے یہ ہیں یعنی جو میں نے سوچا ہے ان کا دماغ اس طرف گیا ہے اور وہ
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء لکھتے ہیں کہ وہ ابھی اپنے کمال حقیقی کو نہیں پہنچی تھی روح ان کی اس واسطے خدا تعالیٰ نے ایک بروز کی شکل میں مسیح کو یعنی ان کی خوبو کے ساتھ اور اس کام کے لئے جو انہوں نے کرنا تھا تا کہ ان کے اوپر سے داغ ناکامی جو ہے وہ مٹ جائے ان کو بروز کی شکل میں آنے والے مہدی ہی ان کا وہ دوبارہ آئے اپنے پہلے جسم کے ساتھ نہیں.اس لئے وہ لکھتے ہیں وہ ابھی اپنے کمال حقیقی کو نہیں پہنچا اس لئے ضروری ہوا کہ وہ آخری زمانہ میں فقرہ سنیں غور سے، اس لئے ضروری ہوا کہ وہ آخری زمانہ میں کسی اور بدن کے ساتھ نازل ہوگی.پہلے بدن کے ساتھ آئیں گے ہی نہیں.پہلے بدن کے ساتھ نہ گئے.کیونکہ انہوں نے لکھا ہے کہ رفع عیسی یہ ہے کہ روح چلی گئی اوپر.نہ پہلے بدن کے ساتھ آسمانوں پر گئے نہ پہلے بدن کے ساتھ انہوں نے واپس آنا ہے بلکہ ضروری ہوا کہ وہ آخر زمانہ میں کسی اور بدن کے ساتھ نازل ہوگی اور آخر زمانہ میں روح عیسوی مهدی محمدی، محمد مہدی کی روح میں بروز کی شکل میں وہ ظاہر ہوئی اور محمد مہدی کے سپرد یہ کام ہوا کہ وہ داغ جو حضرت مسیح کی رسالت پر ان تثلیث کے ماننے والوں نے قائم کیا تھا اس کو اپنی کامیاب دعاؤں اور عاجزانہ تضرعات کے ساتھ دھو ڈالیں اور ساری دنیا سے کفر والحاد اور شرک کی تعلیم کو مٹا کر اسلام کی خالص تو حید قائم کریں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ساری دنیا کے دل میں ڈالیں تا کہ یہ سرخرو ہو سکیں.ان کی روح جو ہے وہ بے چین جو ہے.یہ ہم محاور ے بولتے ہیں اس سے ایک صوفی زیادہ اچھی طرح سمجھتا ہے غیر صوفی کی نسبت.: جیسا کہ میں نے بتایا ایک کتاب ہے المستدرک للحاکم.اس میں انہوں نے یہ روایت بیان کی ہے کہ لا مهدی الا عیسی ابن مریم(المستدرک جزء ۴ صفحه ۴۴۱) اور اسی طرح یہی لا مهدى الا عيسى ابن مريم يه سنن ابن ماجہ میں ہے اور ایک اور روایت میں ہے.وہ کاغذ علیحدہ شاید میں نے کہا نہیں غلطی ہو گئی اس میں یہ الفاظ اس طرح نہیں ہیں لا مهدی الا عيسى اس میں یہ ہے : ”المهدی هو عیسی (ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدة الزمان ) کہ مہدی ہی عیسی ہوگا.تو بڑا واضح کر کے یہ پہلوں نے یہ مسئلہ صاف کیا ہوا ہے.ہم اگر بھولنے کی کوشش کریں تو نہیں کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ ہمیں میں تو آپ سے مخاطب ہوں نا.ہمیں احمدی بچے اور جوان جو میری تعریف میں جو میں نے ابھی کی تھی ان کو ہی مخاطب ہوں.تو ہمیں بھولنا نہیں چاہئے.یہ
خطابات ناصر جلد دوم ۳۷۴ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء واضح ہو چکی ہے بات کہ مسیح اور مہدی ایک ہی شخص کے دو نام ہیں بوجہ دو مختلف ذمہ داریوں کے جو اس پر ڈالی گئیں دو مختلف جہات کے جن جہات دو مختلف جہات سے ہم اس کی شخصیت کو دیکھتے ہیں.تو ایک تو یہ ثابت ہو گیا ہمارے ذہنوں میں ثابت ہوا اس وقت اور وہ جو ذہن ہماری پختگی تھی ہمارے ذہنوں کی وہ آپ تک میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ مہدی نے اس امت میں ضرور پیدا ہونا تھا.دوسرے یہ ثابت ہو گیا ہمارے ذہنوں میں یہ ساری باتیں دیکھ کے اور پڑھ کے اور حالات اور قرآن کریم کے معجزات اور ان کا ظاہر ہو جانا جیسا کہ بیان کیا گیا تھا کہ مہدی اور مسیح جن کے متعلق نزول یا خروج کا لفظ استعمال ہوا ہے، یہ دو علیحدہ علیحدہ وجود نہیں بلکہ ایک ہی وجود ہیں کیونکہ اگر نازل ہونا ہوتا آسمانوں نے عیسیٰ نے تو اتنے بزرگ عالم محقق مہدی کے لئے ایک سیکنڈ کے لئے بھی خروج کا لفظ استعمال نہ کرتے.وہ اس کا نکلنا جس طرح یعنی جو چیز مہدی کے لئے ان کے دماغ نے چینی جو لفظ expression جو بیان ، وہ آسمانوں سے اتر نے والے مسیح کے لئے استعمال ہو ہی نہیں سکتا لیکن انہوں نے کیا اور ساری یہ جو تفسیر میں ہیں باتی تو بہت ساری جگہوں میں یہ آیا ہے.دونوں آئے ہیں.خروج بھی اور نزول بھی لیکن میں نے تو صرف تفاسیر کولیا ہے تو ساری جو تفاسیر میں نے چنی ہیں آپ کے سامنے رکھنے کے لئے اس میں دس جگہ خروج اور پانچ جگہ نزول لفظ ہے.یہ بھی ایک اشارہ ہے ہمارے لئے کافی لیکن اگر عقلی دلیل اب میں دینے لگا ہوں.اگر حضرت مسیح علیہ السلام نے اس لئے آنا تھا کہ ایسے دلائل انسان کے ہاتھ میں دیں کہ عیسائیت کے غلط عقائد جو ہیں وہ پاش پاش ہو جائیں اور عیسائیت ان سے بیزار ہوکر اسلامی عقائد کی طرف آجائے تو وہ تو جتنے ہو سکتے تھے ممکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دے دیئے اپنی کتب میں.ان میں تو کوئی کسر باقی نہیں رہی.تو وہ کیا کرنے آئیں گے اب.آخر خدا تعالیٰ کے جو کام ہمارے ذہن سوچ سکتے ہیں کہ اگر انہوں نے آنا ہوتا تو وہ یہ کرتے کہ عیسائیوں کو سمجھاتے کہ کسی غلطی پر ہو تم قائم.تثلیث کا عقیدہ تم نے اختیار کر لیا حالانکہ یہ عقیدہ غلط ہے.شرک سے اللہ تعالیٰ بیزار ہے اور مجھے بھی ساتھ تم نے ملعون بنانے کی کوشش کی.عیسائیوں نے بھی بنا دیا نا ملعون نعوذ باللہ اور آپ بھی خدا کے نزدیک صحیح معنے میں ملعون بن گئے مشرک بن کر.کیونکہ کہ شرک کو تو خدا پسند نہیں کرتا اور یہی ملعون کے معنے ہیں کہ خدا جس چیز سے نفرت
خطابات ناصر جلد دوم ۳۷۵ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء کرے قرآن کریم نے صاف کہا ہے کہ شرک کو خدا کسی صورت میں پسند نہیں کرتا.تو شرک مٹانے کے لئے عیسائی دنیا سے وہ کام تو اس شخص نے کر دیا جو کہتا ہے کہ میں مہدی موعود کی حیثیت میں.موعود جس کا وعدہ دیا گیا تھا وہی ہوں جو آ گیا.تو وہ مہدی تو آ گیا اور اس نے جو ایک کام کرنا تھا وہ بھی کر دیا اور جو آنے والے مسیح کا ہم سوچ سکتے ہیں عقلاً کہ اس کو یہ کام کرنا تھا وہ بھی اس نے کر دیا.اب کیا کرنے آئیں گے حضرت مسیح اپنے پرانے جسم کے ساتھ یہاں.اتنا کیا کہ کل میں نے کچھ مختصر بتایا تھا کہ اب میں انہی کی ایک دو باتیں بتا دیتا ہوں مثلاً تو رات ہے اس میں اتنی تحریف ہو چکی ہے.انسانی ہاتھ نے اس کو اتنا بگاڑا ہے کہ اس کی کوئی حیثیت قابل قبول ہونے کی مقبولیت کی کہ ہم اس کو مان لیں اور اس سے فائدہ اُٹھا ئیں باقی نہیں چھوڑی.ایک دفعہ ایک یہاں پادری آئے تھے.یہاں کے باہر کے تھے یورپ یا امریکہ کے لیکن یہاں کے مشن میں کام کرتے تھے.مجھے ملنے کے لئے آئے شروع خلافت میں.میرے ساتھ باتیں کرتے رہے.دو سال کے بعد انگلستان سے ہمارے ایک احمدی آئے.وہ اسی جگہ کے رہنے والے تھے جہاں وہ پادری کام کر رہے تھے.ان کو میں نے کہا تم اپنے قصبے میں جاؤ گے.تو ان کو ضرور ملنا اور ان سے دو باتیں کہنا یا سوال دو پوچھنا.ایک کہنے والا ہے ایک پوچھنے والا ہے.میں نے کہا ایک تو یہ کہنا وہ Seventh day adventist کہ قریباً سوا سو ڈیڑھ سو سال سے انتظار کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح آسمانوں سے نازل ہوئے کہ ہوئے اور ہو گیا ہے اس کو سوا سو ڈیڑھ سوسال میں نے کہا ان کو کہنا تم اتنے لمبے عرصہ سے انتظار کر رہے ہو آ نے والا آ چکا.قیامت تک انتظار کرتے رہو کسی اور نے نہیں آنا.( نعرے) انسان کا دل تو خدا تعالیٰ کا فضل ہی بدلتا ہے.میں بہت دفعہ گیا باہر اور درجنوں پر لیس کا نفرنسز کر چکا ہوں.میں نے ان کو کہتا تھا کہ دیکھو تم کہتے ہو ہم بڑے ترقی کر گئے.تمہارے سارے اٹیم بم اور ہائیڈ روجن بم اور اس دفعہ میں نے کہا اس سے بھی خطرناک اور مہلک تم نے ہتھیار بنالئے ہیں سارے مل کے ایک انسان کا دل نہیں بدل سکتے.تو کتنی طاقت تھی اس عظیم انسان میں جس نے عرب جیسے ملک میں چند سالوں کے اندر ساری قوم کے دل بدل دیئے.خاتم الانبیاء زندہ باد.(اس موقع پر خاتم الانبیاء زندہ باد کے فلک شگاف نعروں.
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء جلسہ گاہ گونج اُٹھی ) اور میں اُن کو چھیڑتا تھا.میں نے کہا تمہاری تہذیب مارنا جانتی ہے زندہ کرنا نہیں جانتی.زندہ کرنے والا زندہ کر گیا.تم ٹھیک ہے ایک بم گرادیا جاپان میں اور پتہ نہیں کتنے آدمی وہاں مار دیئے اور پانچ کر دیئے یہ تو کوئی خوبی نہیں ہے تہذیب کی کہ ہم مارتے ہیں بڑا اچھا اور بڑے وسیع پیمانے پر قتل و غارت کرتے ہیں لیکن وہ تو کمال کا انسان تھا.اس کی تو خو بیاں بیان نہیں ہو سکتیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سمجھانے کے لئے فرمایا کہ دیکھو.آپ نے مثال دی اس طرح انگلی کر کے کہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں انسان کا دل اس طرح ہے.تو اس کے جو Angles زاویے ہیں خاص جگہ ہیں جس میں پکڑا ہوا اگر مرضی ہے یوں کر دیتا ہے اس کے زاویے بدل جاتے ہیں.یوں کر دیتا ہے اس کے زاویے بدل جاتے ہیں پھر وہ جہاں اس کو نور نہیں نظر آتا وہاں نظر آنا شروع ہو جاتا ہے.وہ تو عظیم نور لے کر آئے اور خدا تعالیٰ نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس مہدی کے ذریعہ جس کے متعلق میں ابھی تک باتیں کر رہا تھا، خدا تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب عظیم کو اپنے عروج تک پہنچا دے گا اور دنیا میں پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی حکمرانی ہوگی اور کسی کی نہیں ہوگی.(نعرے) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر قرآن عظیم سے ارشادت نبویہ سے بیسیوں دلائل دیئے جا سکتے ہیں.ان دلائل میں سے ایک تو یہ ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہنچانا جاتا ہے.اگر یہ مدعی جو ہمارے نزدیک حقیقتاً موعود مہدی اور موعود مسیح ہے.مسیح اور مہدی نہ ہوتا تو اس نے ایک ایسی جماعت پیدا کرنی تھی جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت اس طرح موجزن ہو کہ وہ افریقہ کے صحرا میں جا کر اس وقت تک پانچ لاکھ سے زیادہ عیسائیوں کو مسلمان بنا چکی ہے؟ ( نعرے).خدا تعالیٰ کے فضلوں پر خوش بھی ہے اور حمد کے ترانے بھی گاتی ہے لیکن یہ جماعت سمجھتی ہے کہ اب بھی وہ ذمہ داریاں پوری نہیں ہوئیں جو ان کے کندھوں پر ڈالی گئیں.اسی دورے میں ایک کیتھولک صحافیہ نے مجھ سے پوچھا آپ نے عیسائیوں کو بھی مسلمان بنایا ؟.میں نے اس کو کہا بڑے تھوڑے.یہ مانتا ہوں میں لیکن ابھی ابتداء ہے.میں نے کہا صرف ویسٹ افریقہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ عیسائیوں کو مسلمان بنایا مگر ہمیں تسلی تو نہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنی کوششوں کو اور تیز کرنا چاہئے اور اور دلوں کو لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں انسانوں کے
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء دلوں کو جیت کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا ڈالنا چاہئے.اس واسطے میں نے کہا کہ میں تو تھوڑے سے ہم نے کام کیا ہے اور اس واسطے کوئی فخر کی بات نہیں ہے.اللہ تعالیٰ توفیق دے گا انشاء اللہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو اور ہم جیسا کہ خدا تعالیٰ نے نوع انسانی سے یہ وعدہ کیا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک وقت ایسا آئے گا جب میں شیطان کے پنجہ سے تمہیں نجات دلا ؤں گا اپنے مہدی اپنے محمد کے مہدی کے ذریعہ سے اور پھر تم میرے پیار کو حاصل کرو گے اور شیطانی وساوس اور شیطان کے ہر حملہ سے محفوظ کر دیئے جاؤ گے.انشاء اللہ وہ دن آئیں گے ضرور آئیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ کی باتیں تو پوری ہو کر رہتی ہیں.یہ تو قضاء وقد ر ہے.آپ کو ہی یہ کہتا ہوں اے میرے بچو اور جوانو! کہ ہر کام کے لئے بشاشت کی بنیاد علم ہے علم کی وجہ سے بشاشت پیدا ہوتی ہے.اگر آپ کو یہ پتہ ہی نہ ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پیار سے مہدی کا ذکر کیا تو آپ کے دل میں بشاشت نہیں پیدا ہوگی لیکن اگر آپ کا ذہن اگر کسی صبح جب خالی الذہن ہوں آپ.یہ سوچیں کہ کتنا پیار کیا ہے محمد نے اپنے بیٹے مہدی سے کہ ان الفاظ میں اس پیار کا اظہار کیا ان لـمـهـدينا أيتين (ســـن الـدار القطني كتاب العيدين باب صفة صلاة الخسوف والكسوف ) کہ ہمارے مہدی کے لئے دو نشان خدا نے مقرر کئے ہیں اور اس پیار میں ساتھ یہ کہا کہ خدا کو بھی وہ پیارا ہے اور کہا کہ جب سے دنیا بنی اور رہتی دنیا تک کسی اور مدعی کے لئے یہ نشان اس کی صداقت کا مقررنہیں کیا گیا.مہدی منفرد ہے اس نشان کے اندر.(نعرے) خدا تعالیٰ کے اس پیار کی تیز شعاعیں اتنی تیز تھیں کہ جس وقت وہ دُنیا پر ظاہر ہوئیں.خدا تعالیٰ کا پیار تو چاند کی روشنی بھی مدہم پڑ گئی اور سورج کی شعاعوں نے بھی روشنی دینی بند کر دی اور کسوف اور خسوف کا معجزہ جو تھا وہ ظاہر ہو گیا.( نعرہ ہائے تکبیر ) انشاء اللہ تعالیٰ میں ایسا انتظام کروں گا کہ یہ جو میں نے دوسو کے قریب حوالے اور اور بھی اگر کوئی مل گئے تو وہ زائد کر کے نوجوانوں اور بچوں نئے احمدیوں اور پرانوں، ریفریشر کورس کے طور پر ان کے سامنے رکھے جائیں.وہ پڑھیں اور دیکھیں کس کس طرح خدا تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے پیار کا اور اعتماد کا اظہار کیا ہے مہدی کے متعلق.ایک حدیث میں ہے کہ میری بعثت کی غرض ( کل بھی میں نے بتایا تھا ) صلیبی عقائد کو غلط ثابت کرنا ہے اور حقیقت کو جو اس ہر دو جہان کی جو بنیادی حقیقت ہے وہ وحدانیت باری تعالیٰ ہے اس کو قائم کرنا ہے اور پھر خود ہی آپ نے یہ کہا
خطابات ناصر جلد دوم ۳۷۸ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء کہ میں اس لئے مبعوث ہوا ہوں.محق صلیب کے لئے اور ساتھ یہ کہا کہ آنے والا میرا روحانی فرزند صلیب کو توڑنے والا ہوگا اور مادی طاقت کے ساتھ نہیں بلکہ نشانوں کے ساتھ اور نشانات میں پیار کرنا بے لوث خدمت بھی ایک نشان ہے اور دلائل.دلائل کا تو ایک سمندر ہے جو ہمارے ہاتھ میں مہدی موعود نے عطا کر دیا ہے.تو یہ باتیں آپ کے آپ کے جو بچے ہیں اور آپ جو جوان ہیں اور آپ جو mature دماغ کے بلوغت کو پہنچے ہوئے ہیں پوری.ان کو ریفریشر کورس کے طور پر.یہ چیزیں سامنے آنی چاہئیں.باقی یہ درست ہے کہ جس وقت کسی t ی event کسی واقعہ ہونے والے واقعہ کی اہمیت قوم میں قوم کے ذہنوں میں بہت بلند ہو تو اس واقعہ کے متعلق غلط باتیں بھی بیچ میں شامل کر دیتے ہیں لوگ.یہ ایک انسانی کمزوری ہے لیکن اس میں اور ہر چیز کو چھوڑ دو بہت سارے محک ہیں اور ایسے طریقے ہیں جن سے صحیح اور غلط میں فرق کیا جاسکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت جہاں آجائے اور جس حد تک خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت ہو اس حد تک تو ماننا ہی پڑے گا کہ بات صحیح ہے.بعض لوگوں نے پہلے یہ کہا کہ ہم نہیں مانتے کیونکہ چاند اور سورج کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادت کے مطابق گرہن نہیں لگا اور جب گرہن لگ گیا تو ماننے کی بجائے کہ دیا کہ یہ حدیث جھوٹی ہے کہ یہ حدیث جھوٹی تھی تو چاند نے جھوٹ کو سچ کیسے ثابت کر دیا اور سورج کیسی گواہی دینے کے لئے آ گیا اس کی سچائی پر.تو اس واسطے میں یہ کوئی تدبیر کروں گا انشاء اللہ تعالی.آپ دعا کریں کہ مجھے اس کی توفیق ملے اور آپ دعا کریں کہ آپ کو اس کی توفیق ملے کہ آپ سمجھیں اور یہ بوجھ ہی کوئی نہیں یعنی جو کام ہے ہمارے ذمہ بڑا اہم ، بڑا مشکل بہت کوشش کا مطالبہ کرتا ہے.بڑی قربانی اور ایثار چاہتا ہے لیکن ان ساری قربانیوں اور ایثار کے بعد جو ہمیں مل رہا ہے اس کے تو ہزارویں حصے پر ہر دو جہان قربان ہوتے ہیں.خدا کا پیار مل گیا اور کیا چاہئے کسی کو.تو بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں Pin Pricks انگریزی کا محاورہ ہے بڑا اچھا.میں تو ہمیشہ کہا کرتا ہوں.ہمیں جو تکلیف پہنچتی ہے ایسا ہی ہے جیسے چلتے ہوئے کانٹا کچھ گیا.تو کانٹے تو پچھا ہی کرتے ہیں.بچو! تمہیں زیادہ چھتے ہیں کیونکہ تم ننگے پاؤں پھرنے کے عادی ہوا کثر.بڑوں نے تو جوتیاں پہن لیں اور کانٹوں کے چھنے سے محفوظ ہو گئے.تو تمہیں زیادہ تجربہ اور احساس ہے.کیا فرق پڑتا ہے.اسی وقت کانٹا نکلوا کر چھلانگیں مارنے لگ جاتے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۷۹ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء ہو.چھلانگیں مارو اس وقت اگر کانٹا چھے تمہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں بھی.کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جس طرف جا رہے ہو ادھر سے اس قسم کی نورانی شعاعیں ، اس قسم کا حسن ، اس قسم کی پیاری آوازیں آرہی ہیں ہمیں ، کہ ہمیں تو مست کر دیا ہے ان وعدوں نے جو ہمیں دیئے گئے ہیں کہ اگر تم یہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں کرو گے خدا تعالی تمہیں یہ عطا کر دے گا.کر رہا ہے.ہماری زندگیاں زندہ گواہ ہیں اس بات پر کہ جو وعدے دیئے گئے تھے مہدی موعود کو جماعت کے متعلق، وہ پورے ہو رہے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں جو خدا تعالیٰ کے منصوبے کو نا کام کر سکے.خدا کرے کہ ہمیں اس کی توفیق ملے ہم بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں آگے بڑھنے والے ہوں اور ہمار- دل میں ایک آگ ہمیشہ بھڑکتی رہے کہ ہم بنی نوع انسان کی خدمت کر کے اور ہر ممکن طریقے.ان کے دل جیت کے ان کے لئے ، بنی نوع انسان کے لئے جو خدا تعالیٰ سے دور چلے گئے ہیں بھلائی کے اور جنتوں کے اور خدا کے پیار کو حاصل کرنے کے سامان پیدا کر دیں.اب دعا کے بعد اس جلسہ کا اختتام اس سال کے لئے ہو جائے گا.بڑی برکتوں والا یہ جلسہ بھی آیا.بہت تعداد لے کر آیا.بہت سے نئی جگہوں سے غیر ممالک سے آئے لوگ اور سارا سال ہی.میں نے کل بتا یا کچھ حصہ جلدی میں سے گزرنا پڑا مجھے.بڑی خدا تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوئیں اتنی کثرت سے.مجھے تو بڑا فکر یہ تھا کہ ربوہ کے یہ معجز نما.معجزے ظاہر کرنے والے مکان آپ کو کیسے سمیٹیں گے لیکن وہ معجزہ انہوں نے پھر بھی ظاہر کیا اور کھانے کی بھی جہاں تک مجھے علم ہے کوئی ایسی تکلیف نہیں ہوئی کہ جس کو آپ محسوس کرتے.آپ کی طاقت سے بالا ہوتی.چھوٹی موٹی تکلیفیں تو ہوتی رہتی ہیں.ایک دفعہ قادیان میں جلسہ کے موقع پر میں نے دیکھا کہ رات کے گیارہ بجے تک کھانا تقسیم ہو رہا تھا.تو کسی نے کوئی پرواہ نہیں کی.اس وقت ابھی آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہے نا.روایات قائم ہو جاتی ہیں.ایک وہ دن اور میں، یہاں افسر جلسہ سالانہ اور ساڑھے آٹھ بجے ایک جماعت نے حضرت صاحب کے پاس میری شکایت کر دی کہ ساڑھے آٹھ بج گئے ہیں اور ابھی تک ہمیں کھانا نہیں ملا.تو خیر وہ میری جواب طلبی ہوئی.وہ میں نے جواب دیا اس کا لیکن میری طبیعت میں اتنی بشاشت پیدا ہوئی کہ ایک وہ وقت تھا کہ گیارہ بجے کھانا نہیں ملتا تھا تو تب بھی شکایت نہیں جاتی تھی.اب اتنا انتظام اچھا ہو گیا ہے کہ ساڑھے آٹھ بجے تو کہا ساڑھے آٹھ
خطابات ناصر جلد دوم ۳۸۰ اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء کیوں بجائے آٹھ بجے ہمیں ملنا چاہئے تھا کھانا تو یہ بھی خدا کا فضل ہے اور ایک دفعہ میرا با قاعدہ کورٹ مارشل ہوا.مجھے چھوٹا سا وہ ہمارا ہائی سکول والا حصہ تھا تو میں وہاں پڑھاتا بھی تھا تو وہاں کا اس کا ناظم مجھے لگا یا چھوٹے چھوٹے ان دنوں میں لنگر ہوتے تھے.تو میں نے کچھ محنت کی.کچھ توجہ کی کچھ دعائیں کی.ایک دن شام کو نو بجے میں سب کو کھانا کھلا کے فارغ ہو گیا اور بڑا خوش کہ بڑے آرام کے ساتھ دوستوں نے کھانا کھا لیا ہے.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ افسر صاحب جلسہ سالانہ کی طرف سے ایک نائب افسر جلسہ سالانہ ساڑھے دس بجے آکر میرا یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ کیوں تم فارغ ہوئے ہو.ساڑھے نو بجے ساڑھے آٹھ بجے یہ تو تم نے ساڑھے آٹھ یا نو بجے جو بھی تھا وقت بڑی جلدی اتنی جلدی کیسے تم فارغ ہوئے.ضرور لوگ بھو کے پڑے ہوئے ہوں گے یہاں تم نے جن کو کھانا نہیں دیا اور ویسے ہی سلا دیا ہے.کہا آپ دیکھ لیں جا کر ہر جگہ.تو اس طرح بدلتی ہے دنیا ہماری ہم زمین سے بلند ہو رہے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے اور خدا تعالیٰ کا فضل ہماری اس بلندی اور رفعت اور بڑائی کی بنیاد ہے.ہمارے اندر کوئی ہنر نہیں.کوئی فخر کرنے کی جگہ نہیں.اللہ کا فضل ہے.دعائیں کرو کہ ہمیشہ وہ ملتا رہے.یہاں سے بھی آپ برکتیں لے کر اپنے گھروں کو واپس جائیں اور وہاں بھی آپ کے گھر ہمیشہ خدا تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں سے بھرے رہیں اور سفر و حضر میں خدا تعالیٰ کے فرشتے آپ کو ہر قسم کی تکلیف سے محفوظ رکھیں اور آپ کے محافظ ہوں اور آپ کے مددگار ہوں اور آپ پر برکتیں نازل کرنے والے ہوں اور وہ لوگ جن کے دل تڑپ رہے تھے اور آنہیں سکے اللہ تعالیٰ ان کے بھی سکون کے ان کے دلوں کے سکون کا سامان پیدا کرے اور ان کی خوشیوں کا سامان پیدا کرے مثلاً انڈو نیشیا میں بہت سارے ہمارے مہمان وہاں سے جو آئے ہیں وہ اس وجہ سے جو نہیں آسکے کہ آنے سے کوئی ہفتہ دو ہفتے پہلے ان کا جو سکہ تھا وہ Devalue ہوا اور قیمت ٹکٹ کی جو پہلے ساڑھے تین لاکھ روپیہ تھی وہ ساڑھے چار لاکھ ہو گئی.پچاس فیصد زیادہ.ہمارے ساتھ ایک انڈونیشین پڑھا کرتے تھے.جب میں سکول میں تھا تو اب تو وہ بڑی عمر ہے ان کی.ان کے گھر سے اہلیہ بھی آئی ہوئی ہیں.تو وہ کہنے لگیں کہ ہم دونوں آرہے تھے.
خطابات ناصر جلد دوم ۳۸۱ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء تو آئے کیوں نہیں پھر وہ.سمیع ان کا نام ہے.مراد تھا پہلے.کہیں اس لئے کہ قیمتیں بڑھ گئیں.پہلے ہمارا خرچ ہوتا تھا چھ لاکھ روپیہ.اب یہ جو ساڑھے چار تھے وہ بن گیا نو لاکھ روپیہ.تو نو لاکھ ہم نہیں دے سکتے تھے.تو اس طرح بھی تکلیفیں پہنچ جاتی ہیں جذباتی.دلوں کو تکالیف پہنچتی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا بھی مداوا کرے اور بدن کی تکلیف کا بھی مداوا کرے.یہ بھی تکلیف ہوتی ہے کہ بہت سارے آنکھوں میں آنسو آئے ہوتے ہیں.کہتے ہیں دعا کریں ہمارے بچے نماز میں ست ہیں نماز ادا کرنے لگ جائیں.میرے بچو اور جوا نوا یہ تکلیف اپنے پیار کرنے والے باپوں اور ماؤں کو تو نہ دیا کرو کہ نماز میں ستی تم کرو اور آنکھیں ان کی نم ہو جایا کریں.تمہاری آنکھیں سجدوں میں نم ہونی چاہیں تا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ملتی رہے.باہر ہمارے یہاں سے گئے ہوئے مبلغ اور باہر کے مبلغ بھی اب بڑی کثرت سے خدا تعالیٰ نے دے دیئے ہیں.کچھ ایک ملک سے دوسرے ملک جا کے کرتے ہیں کام اور بہت سارے اپنے ملکوں میں کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان پر بھی اپنی رحمتیں نازل کرے اور ان کو بہترین جزاء دے اور ان کی زبانوں میں تاثیر ڈالے اور ان کے دلوں میں بنی نوع انسان کی ہمدردی کا جذبہ پیدا کرے اور انہیں وہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ (الشعراء : ۴) والی کیفیت نصیب ہو جس کے نتیجہ میں دنیا میں روحانی انقلاب بپا ہوا کرتے ہیں.اور جو ہمارے بھائی ساری دنیا میں رہ رہے ہیں.کسی ملک کے کچھ حالات ہیں اور کسی کے کچھ کسی کے آج اچھے ہیں کل اتنے اچھے نہیں رہتے.آج اتنے اچھے نہیں.کل اچھے ہو جاتے ہیں.یہ دنیا اسی کا نام ہے.اللہ تعالیٰ جس رنگ میں بھی ان کے حالات کروٹ پلٹیں.اللہ تعالیٰ ان کے لئے سہولت ہی کے سامان پیدا کرنے والا ہو اور ان کو تکلیفوں سے بچانے والا ہو اور ان قوموں کو جن کو دنیا نے دھتکار کے ان کو سیاہ Continent کا نام دیا تھا ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے حصول کے بعد اور اس نور کے پھیلانے کا ذریعہ بننے کی وجہ سے وہ اس کو نورانی براعظم کا نام دیا جائے آئندہ تاریخ میں اور انشاء اللہ جب اسلام غالب آئے گا تو نورانی براعظم ہی کا نام ان کو دیا جائے گا.یہ بھی ہوگا ایک دن اور جلنے والا کوئی نہیں ہوگا کیونکہ جو آج جلنے والے ہیں وہ بھی تو پھر اسی نور کی چادر کے اندر لپیٹ لئے جائیں گے.
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۸ء اللہ کرے اس گند میں اور بداخلاقی میں اور جہالت میں روحانی طور پر پھنسی ہوئی جو قومیں ہیں.جو غلطی سے اپنے آپ کو مہذب سمجھتی ہیں.اللہ تعالیٰ صحیح اور حقیقی تہذیب سے انہیں آشنا کرے اور اللہ تعالیٰ کچی تہذیب کے پھل ان کے لئے مہیا کرے اور ان کو سمجھ عطا کرے اور ان کو توفیق دے کہ وہ دنیا کے لئے دکھ پیدا کرنے کے بجائے ان کے سکھوں کے لئے کام کریں اور اپنے پیسے کو ضائع کرنے کے بجائے پیسے کو صحیح مصرف میں لانے والے بنیں.اللہ تعالیٰ صبح اور شام، دن اور رات ، بڑے اور چھوٹے، بچے اور بوڑھے اور جوان اور عورت اور مرد سب پر ہم میں سے اپنی بے انتہاء برکتوں کو نازل کرے اور ہماری جھولیاں ہمیشہ اس کے پیار اور اس کی محبت : سے اور اس کی نعماء سے بھری رہیں اور ہمیں شکر کے جذبات سے معمور سینے عطا کرے اور ایسی زبانیں جو چوبیس گھنٹے اس کی حمد اور اس کا شکر کرنے والی ہوں اور شکر نہ کر پائیں اور احساس یہ رکھیں کہ ابھی ہم اس قابل نہیں ہوئے کہ اپنے خدا کا شکر کر سکے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنے میں ایک سچا خادم محمدصلی اللہ علیہ وسلم بنائے اور سچار فیق مہدی موعود کا بنائے اور جس منصب پر ان کو قائم کیا گیا اور جس مقصد کے لئے انہیں مبعوث کیا گیا اس کے حصول کے لئے ہمارا بھی جس حد تک ممکن ہو ہمارے لئے حصہ ہو اور جس حد تک اس کے نتیجہ میں ہمیں خدا تعالیٰ کی نعمتیں مل سکتی ہوں وہ ہمیں اس میں ہم حصہ دار بنیں.آداب دعا کر لیں.(حضور کی اقتداء میں لمبی اور پر سوز اجتماعی دعا کے ساتھ یہ نہایت ہی بابرکت جلسہ سالانہ اختتام پذیر ہوا ) از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات ناصر جلد دوم ٣٨٣ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۷۹ء دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق احمدی نہ بستے ہوں افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۹ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پرسوں شام میں اچانک بیمار ہو گیا.مغرب سے پہلے سارا جسم برف کی طرح ٹھنڈا ہو گیا.شدید سر درد، پیٹ میں درد اور دل کی دھڑکن اس کے ساتھ تیز ہوگئی پہلے بھی کبھی ہوتی ہے.معدہ کی سوزش کی وجہ سے اور سخت ضعف کی کیفیت.اپنی ہمت کے مطابق مقابلہ کیا بیماری کا.ڈاکٹروں نے اپنے علم کے مطابق دوائیں دیں.اس وقت پہلے سے بہت بہتر ہوں لیکن ابھی پوری طرح آرام نہیں آیا اور اس وقت بھی میں ضعف محسوس کر رہا ہوں اور دل کی دھڑکن بھی تیز ہے.لیکن خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے میں یہاں آ گیا ہوں اسی پر ہمارا بھروسہ ہے اور اسی کے آگے عاجزانہ جھک کر ہم دعائیں کرتے ہیں.آپ بھی دعا کریں میں بھی دعائیں کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ مجھے بھی صحت دے.آپ کو بھی صحت سے رکھے.ہمارا یہ جلسہ سالانہ ۸۷ واں جلسہ سالانہ ہے.اس سے قبل ۸۶ ( چھیاسی ) جلسہ سالانہ گزرچکے ہیں جماعت احمدیہ کی زندگی پر.ایک آدھ ناغے بھی ہوئے بیچ میں لیکن بہر حال جو جلسوں کی تعداد ہے وہ ۸۷ ویں ہے.ہمارے جلسوں نے چند درجن چہروں کو بھی دیکھا ابتداء میں.پھر سینکڑوں کے ساتھ ہمارا جلسہ متعارف ہوا.حاضری سینکڑوں سے نہیں بڑھتی تھی.پھر دو ایک ہزار کے ساتھ تعارف ہوا ہمارے جلسہ کا.پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ، اس کے فضل نے ہمارے نفوس میں برکت ڈالی اور جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے یہ برکت اپنی وسعتوں کے لحاظ سے ساری دنیا کو احاطہ کئے ہوئے ہے.دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں خدا تعالیٰ کی خالص تو حید پر قائم ہونے والے
خطابات ناصر جلد دوم ۳۸۴ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۷۹ء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق احمدی نہ بستے ہوں.سب تو نہیں آتے ، نہ آ سکتے ہیں اس جلسہ پر.نمائندے یہاں آتے ہیں.تعداد بڑھتی چلی گئی.ہمارا جلسہ خوشیوں سے معمور ہوتا گیا.برکتوں سے، فضلوں سے بھرتا چلا گیا.پچھلے سال جلسہ کی تعداد لگ بھگ ایک لاکھ چالیس ہزار ایک لاکھ پچاس ہزار تھی.اس سال دیکھیں ہمارے گنتی کرنے والے ہمیں کیا تعداد بتاتے ہیں.سب سے زیادہ تعداد آخری دن کی آخری تقریر جو میری ہے اس میں اور پھر دعا میں ہوتی ہے.ہم امید رکھتے ہیں کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ہمارے ساتھ آج تک سلوک رہا ہے ہمارا قدم آگے ہی بڑھے گا، پیچھے نہیں ہٹے گا.آج صبح یہ اطلاع ملی کہ بعض جگہ پر بعض حالات کی بناء پر ہمارے بہت سے احمدی دوست جو جلسہ سالانہ کے لئے گھروں سے نکلے تھے وہ بعض لاری کے اڈوں کے اوپر یاسٹیشنوں کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسی وجہ سے ان کو سواری نہیں مل سکی اور نہیں پہنچے.دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی اس گھبراہٹ کو اور اس تشویش کو دور کرے اور وہ جلد ہی یہاں پہنچ جائیں اور اپنی نیت اور اخلاص کے مطابق اور اپنے جذبہ کے مطابق اپنے رب سے اجر کو حاصل کریں.کیونکہ یہ جلسہ جو ہے.یہ اجتماع ہمارا، آج کی دنیا کے سوائے ایک اجتماع کے بالکل ہی نرالا اجتماع ہے.اجتماع، اجتماع میں فرق ہے.لوگ خوشیوں پر میلے کرتے ہیں.لوگ پرانے بزرگوں کے عرس کرتے ہیں.لوگ پرانے سکالرز ، علماء کے دن مناتے ہیں.اپنی نیتوں کے لحاظ سے وہ بھی خدا سے اجر پائیں گے.خلوص نیت کا سوال ہے.اس جلسہ کی بنیاد جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ ہے کہ دوست ایک جگہ اپنے مرکز میں اکٹھے ہوں اور خدا کی باتیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سنیں.ان کے ایمانوں میں تازگی پیدا ہو.ان کے تعلق باللہ ور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو محبت اور پیار کا تعلق ہے.اس میں اور بھی زیادتی پیدا ہو.وہ جو تزکیہ نفس کے لئے جہاد کرتا ہے ہر انسان ، اس میں آگے بڑھیں.اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو اور بھی قبول کرے.اللہ تعالیٰ کی رضا کو وہ پہلے سے زیادہ حاصل کرنے والے ہوں.ساری دینی اغراض ہیں.دنیا کی ذرہ بھر ملونی ہمارے اس جلسہ میں نہیں ہے.آپ نے فرمایا:.ایک فقرہ میں اس وقت سناؤں گا آپ کو.آپ نے فرمایا:.ہم اس لئے جمع ہوتے ہیں یہاں کہ جماعت کا زہد و تقویٰ اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور
خطابات ناصر جلد دوم ۳۸۵ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۷۹ء باہمی محبت واخوت اور بنی نوع انسان کے لئے ان کی ہمدردی اور پیار اور جذ بہ خدمت میں وہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جائیں.دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں اور اشاعت اسلام کے لئے ساری جماعت ایک ہو کر متحد ہو کر قرآن کریم کو ہاتھ میں لے کر جہاد کبیر میں ہمہ تن مصروف ہو جائے.پھر آپ نے فرمایا اور بھی فوائد ہیں.تم یہاں آؤ گے.اپنے بھائیوں سے ملو گے.آپس میں تعارف بڑھے گا.وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى ( المائدة : ۳) کا جذبہ پیدا ہوگا اور اجتماعی مخلصانہ کوشش کی برکات سے سارے ہی مستفید ہوں گے.اکٹھے ہوں گے.باہوں میں باہیں ڈال کے جب آپ آگے بڑھتے ہیں تو کمزور بھی بہادروں کے ساتھ اور قومی کے ساتھ زیادہ حرکت کر کے آگے بڑھ رہا ہوتا ہے اور اب تو اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ آپ یہاں دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کونے کونے سے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے احمدی آتے ہیں.آج بھی موجود ہیں.امریکہ سے آئے ہیں جو یہاں سے شاید دس ہزار میل کے فاصلے پر ہے.یورپ سے انگلستان سے آئے ہیں.قریباً پانچ ہزار کا فاصلہ ہے کم و بیش.صحیح فاصلے نہیں مجھے یاد، انڈونیشیا سے آئے ہیں وہ بھی آٹھ دس ہزار میل کا فاصلہ ہے کوالا لمپور سے، ملائیشیا سے ابھی مجھے علم نہیں لیکن اس سے بھی دور سے آئے ہیں.بعض جلسہ میں شامل ہونے والے نجی سے بھی آئے ہیں جو آسٹریلیا سے بھی پرے ہے علاقہ.اور امریکہ کا جو مشرق ہے وہی یہاں سے کم و بیش آٹھ دس ہزار ہے اور جو مغربی ساحل ہے امریکہ کا میرا خیال ہے وہاں سے بھی آتے ہیں اور وہی مشرقی ساحل سے آگے چار پانچ ہزار میل پرے ہے.جزائر سے آنے والے ہیں.کوئی براعظم یقیناً ایسا نہیں جہاں سے احمدی خدا تعالیٰ کی باتیں سننے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے عرفان میں مزید روشنی پیدا کرنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کی محبت میں آگے بڑھنے کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں اور آپ کی محبت میں، مستی میں اور تیزی پیدا کرنے کے لئے یہاں جمع نہ ہوئے ہوں.آپ کو ملتے ہوں گے راستے میں.بعض دفعہ آپ شاید ضرورت سے زیادہ ان کو تنگ بھی کر دیتے ہیں یعنی سینکڑوں آدمی ایک دفعہ مجھے نظر آئے جو ان سے معانقہ شروع کیا ہوا تھا.تو ٹھیک ہے.وہ بھی ایک جذبہ ہے اور بڑا پیارا جذبہ ہے لیکن اس سے اہم
خطابات ناصر جلد دوم ۳۸۶ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۷۹ء باتیں بھی ہیں جو کرنے والی.معانقہ تو ایک چھوٹی سی چیز ہے.ملیں باتیں کریں، حالات پوچھیں، سنیں ، اپنی سنائیں ایک بین الاقوامی برادری کی ابتداء ہو چکی جو پیشگوئی کی گئی تھی آخری زمانہ میں نوع انسانی کو امت واحدہ بنادیا جائے گا.اس کی بنیاد رکھ دی گئی.اس کے چھوٹے چھوٹے نظارے یہ تو درست ہے لیکن اس کا نظارہ ہمیں نظر آ رہا ہے اس بنیاد کا.کالے اور گورے میں کوئی فرق نہیں رہا.مشرق اور مغرب میں کوئی دوری نہیں رہی.کوئی نفرت نہیں رہی.آپس میں کوئی حقارت نہیں رہی.ہر ایک دوسرے کی عزت کرنے والا ، دوسرے سے پیار کرنے والا ، دوسرے کا احترام کرنے والا ، دوسرے کی خاطر تکلیف اٹھانے والا اور ایثار اور قربانی پیش کرنے والا بن گیا.عجیب انقلاب عظیم نوع انسانی کی زندگی میں بپا ہو چکا.ابھی ابتداء ہے سارے ہی عظیم انقلابات کی ابتداء چھوٹے پیمانے سے شروع ہوتی ہے.لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انقلاب عظیم تو اتنا بڑا ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا اتنا بڑا انقلاب دنیا میں بپاہی نہیں ہوا.(نعرے) اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی تھی کہ تیرے ذریعہ سے میں نوع انسانی کوامت واحدہ بنادوں گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ بشارت دی تھی کہ میرا ایک فدائی آخری زمانہ میں پیدا ہوگا اور وہ زمانہ ہوگا نوع انسانی کو امت واحدہ بنانے کا.وہ فدائی پیدا ہو چکا وہ زمانہ آ گیا.اب میرا اور آپ کا کام ہے کہ اس حقیقت کو پہچانیں اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہر اس مطالبہ کو پورا کریں جو یہ انقلاب ہم سے کر رہا ہے.یہ معمولی انقلاب نہیں ہے دنیا کے دل کو بدلنا، ان قوموں کے دلوں کو بدلنا جو آج خدا کو پہنچانتیں نہیں اور خدا کے مقابلہ میں استکبار اور ابا کو اختیار کرنے والی اور بغاوت کرنے والی اور دعویٰ کرنے والی ہیں کہ ہم زمین سے خدا کے نام اور آسمانوں سے خدا کے وجود کو مٹادیں گے.ان کے دل بھی ہم نے جیتنے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور خدائے واحد و یگانہ کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے.بڑی ذمہ داری ہے ہم پر.اور جب میں سوچتا ہوں لرز جاتا ہوں اور اس کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ خدا مجھ سے کہتا ہے تیرے پاس ایک ذرہ ہے.ایک ذرہ میرے حضور پیش کر دے.باقی سارے کام میں کر دوں گا تمہارے.اس کام کے لئے ایسی باتوں کو سننے کے لئے اس قسم کے عزم کرنے کے لئے.اپنی ہمتوں کو
خطابات ناصر جلد دوم ۳۸۷ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۷۹ء بلند کرنے کے لئے ہم یہاں آتے ہیں اور جمع ہوتے ہیں.اس لئے جس غرض کے لئے ہم آتے ہیں اس غرض کو پورا کرنے کے لئے جو باتیں ضروری ہیں ان کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے.ایک ان میں سے یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس جلسہ گاہ میں جو تقاریر ہوتی ہیں اور بعض دوسری جگہ بھی ہوتی ہیں ان میں ہم حاضر رہیں.جو تقاریر ہوں ان کو غور سے سنیں.جو تقاریر ہم غور سے سنیں ان سے اپنی استعداد کے مطابق زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.سننے کے بعد جو ہم سمجھیں کہ یہ ہماری ذمہ واری ہے عزم کر کے یہاں سے اٹھیں کہ اے خدا! ہم ذلیل سہی دنیا کی نگاہ میں ، دھتکارے ہوئے سہی ، ہماری جیبیں خالی سہی ، سب کچھ اپنی جگہ درست لیکن ہیں تیرے عاشق بندے اور جو کچھ ہے تیرے حضور پیش کر دیں گے.پھر خدا کہتا ہے اگر تم خود میرے حضور عاجزانہ پیش کش کرنے کے لئے دوفٹ بلند ہو گے اس گندی زمین سے اور زمین کی طرف جھکو گے نہیں اور دنیا تمہارے دل میں حکومت نہیں کرے گی بلکہ دین کی حاکمیت ہوگی تمہارے دلوں میں.تو اگر تم دوفٹ اٹھو گے تو میرے فرشتے وہاں سے اٹھا کر تمہیں ساتویں آسمان پر لے جائیں گے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ بشارت دی ہے.خدا تعالیٰ کے حکم سے کہ امت محمدیہ کے وہ افراد جو عجز کی راہوں کو اختیار کریں گے.اللہ تعالیٰ ان کو ساتویں آسمان تک اٹھا کر لے جائے گا.یہ جو میں نے بات کی ہے اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا.میں اپنے محبوب اپنے محمد کی بات دہرا رہا ہوں.صلی اللہ علیہ وسلم.تو آپ کا کام یہ نہیں.آپ کر ہی نہیں سکتے.آپ میں سے کوئی خواہ کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو.اتنا مال خدا کے حضور پیش نہیں کر سکتا کہ اس انقلاب عظیم کے لئے جس دولت کی ضرورت ہے اس دولت کا سامان ہو جائے.خدا تعالیٰ علام الغیوب تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا.تمہارے دلوں کو دیکھ رہا ہے.وہ تمہاری طاقت پر نگاہ نہیں رکھتا.تمہارے دماغ کی.تمہارے ذہنوں کی جو کیفیت ہے اس کے ساتھ پیار او محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جوعشق ہے اس میں جو شدت ہے، وہ اس کی نگاہ میں ہے.لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا (الحج : ٣٨) تمہاری قربانیاں جو ہیں ان کا خون اور ان کا گوشت خدا تک نہیں پہنچتا.جو تقویٰ کی لہریں تمہارے دلوں میں موجزن ہیں وہ خدا تعالیٰ تک پہنچتی اور خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو
خطابات ناصر جلد دوم ۳۸۸ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۷۹ء جذب کرنے والی ہیں.پس تقویٰ کی بنیاد پر اپنی زندگی کی عمارت استوار کرو اور خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کے وارث بنو.ہم دعاؤں کے ساتھ اس جلسہ کو شروع کرتے ہیں.ہم دعائیں کرتے ہوئے اس جلسے کے ایام کو گزارتے ہیں اور دعاؤں پر اس جلسہ کو ختم کرتے ہیں.کچھ دعائیں ہیں جو میں شروع میں کروا دیا کرتا ہوں سب سے بڑی اور اہم دعا جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ہماری ذمہ واری کے لحاظ سے وہ یہ ہے کہ ہم نوع انسانی کے لئے دعا کریں.بھٹک گیا انسان.اپنے پیدا کرنے والے رب کریم سے دور چلا گیا انسان اسے بھول چکا انسان.جس غرض کے لئے جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا وہ مقصد بھی اسے یاد نہیں رہا.دعا ئیں کریں کہ انسان جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا تھا اس مقصد کو سمجھنے لگے اور اپنے پیدا کرنے والے رب کی طرف واپس آئے.ایسی راہوں کو اختیار نہ کرے کہ دور سے دور تر ہوتا چلا جائے.ایسی راہوں کو اختیار کرے کہ جو اس دوری کو قرب میں بدلنے والی ہوں.جو خدا تعالیٰ کے غضب کو اس کے پیار میں تبدیل کرنے والی ہوں.ان راہوں کو وہ اختیار کرے.نوع انسانی کے لئے دعائیں کریں.آپ نہیں جانتے ان کو لیکن آپ کا رب انہیں جانتا ہے.جس وقت آپ اپنے خدا سے یہ دعا کریں گے کہ اے خدا! جو افریقہ میں رہنے والے ہیں اور تجھ سے دور ہیں اور تیرے پیار کی لذت سے وہ محروم ہیں جو لذت تھوڑی یا بہت اپنی استعداد کے مطابق ہم حاصل کر رہے ہیں تو انہیں بھی ہمارے ساتھ ملا دے اور اپنے پیار کی لذت میں انہیں شریک کر.اور جو امریکہ میں شمالی اور جنوبی اور جو یورپ میں اور جو جزائر میں بسنے والے اور دوسرے براعظموں میں رہنے والے ہیں.ان سب کو ان راہوں کی طرف ہدایت دے.اے ہمارے رب ! کہ جو راہیں تیری طرف لے جانے والی ہیں اور جلد تر.وعدہ تو ہو گا پورا خدا کا ایک دن.لیکن ہمارے دل میں یہ تڑپ ہونی چاہئے کہ جو بشارت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانے کی دی گئی تھی وہ جلد تر پوری ہو اور دیر نہ لگے کہ نوع انسانی خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں آبیٹھے.یہ دعا کریں آپ.سب سے بڑی دعا،سب سے اہم دعا، تضرع اور عاجزی کے ساتھ کرنی والی سب سے بڑی دعا یہی ہے.
افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۷۹ء خطابات ناصر جلد دوم ۳۸۹ فضلوں پھر حب الوطن من الايمان(موضوعات كبير حرف الحاء صفحہ ۳۵) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس ملک میں تم رہتے ہو.جہاں تم پیدا ہوئے ، جہاں کے تم شہری ہو، جہاں کی مٹی سے اگنے والا اناج تم نے کھایا ہے، جہاں کے پانی سے تم سیراب ہوئے ہو، جہاں میری پیدا کرنے والی نعمتوں سے تم نے حصہ لیا ہے اس کی محبت تمہارے دل میں پیدا ہونی چاہئے.ہر شخص کی محبت کا اظہار مختلف ہے.اپنی سمجھ اپنی عقل کے مطابق ، خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ، ہماری سمجھے اور عقل کے مطابق ہماری محبت اپنے ملک کے لئے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے دل میں بڑی محبت ہے اپنے ملک کی.ہمارے ملک کے لئے یہ ہے کہ اے خدا! اس ملک میں استحکام پیدا کر.اس ملک کو مضبوط بنا.اس ملک میں بسنے والوں کے لئے اپنی رحمتوں کے سامان پیدا کر.اپنے فنی سے انہیں نواز.ان کے اعمال کو ایسا بنا جو تیرے حضور مقبول ہوسکیں اور تیری رضا کو اور تیرے پیار کو حاصل کر سکیں.ہم تو خدمت کے لئے ، ہم تو پیار کے لئے پیدا ہوئے ہیں.ہم تو احسان کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.ہم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کی جھلکیاں دکھانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.ہم کسی پر غصہ کرنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے.۱۹۷۴ء میں عارضی طور پر ایک فساد پیدا ہوا.بعض دوستوں کو (سب کو نہیں ) تکلیف بھی ہوئی.میرے پاس آتے تھے.میرا فرض تھا ان کو تسلی دلاؤں.میں ان کو اس وقت بھی کہتا تھا بڑے زور سے کہتا تھا ہمیشہ کہتا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں.میں انہیں یہ کہتا تھا کہ جس نے تمہیں دکھ پہنچایا.میر حکم صرف یہ نہیں کہ اس ظلم کا بدلہ نہ لو ظلم سے.میرا حکم یہ ہے کہ تمہارے دل میں بھی ان کے خلاف غصہ نہ رہے بلکہ محبت کا جذبہ ہو اور دعائیں کرنے کا طریق ہو ان کے لئے ، اور خدا کے فضل سے یہ بڑی پیاری جماعت ہے.اتنا عظیم اور اتنا حسین نمونہ ساری جماعت نے اس سختی کے زمانہ میں دکھایا.میرے علم میں نہیں الا ماشاء اللہ چند ایک کے کہ زیادہ لوگ پھیلے ہوں.یہ کیفیت دماغ کی ، پاکے دکھ آرام دو.ہمارے آقا نے اسلامی تعلیم کی روشنی میں ہمیں یہ حکم دیا تھا اس زمانہ میں.اس میں کہا گیا تھا تمہیں دکھ دیا جائے گا لیکن میں کہتا ہوں مہدی علیہ السلام نے ہمیں کہا.میں کہتا ہوں پاکے دکھ آرام دو.دکھ تو تمہیں دیا جائے گا لیکن دکھ کا بدلہ نہیں لینا بلکہ آرام دینا ہے.گالیاں سن کے دعا دو.زبان سے جو اذیت پہنچائی جائے.زبان سے اذیت نہیں پہنچانی.خاموش نہیں رہنا اور دل میں غصہ نہیں رکھنا.بلکہ تمہارے دل میں ہمدردی
خطابات ناصر جلد دوم ۳۹۰ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۷۹ء اور پیار اور جوش مارے اور تم دعاؤں میں لگ جاؤ.جتنی شدت لسانی ایڈا کی ہو اس سے زیادہ شدت تمہاری دعاؤں میں پیدا ہو اور خدا کے فضل سے جماعت نے سب کے لئے دعائیں کیں.ہمارے بھائی ہیں.جس کو خدا تعالیٰ نے اپنا بندہ بننے کے لئے پیدا کیا انسان.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الدريت: ۵۷) میں یا آپ اس سے نفرت کریں گے؟ خدا کہتا ہے کہ میں نے اس کو اپنا بندہ بننے کے لئے پیدا کیا ہے اور آپ اس سے دشمنی کریں گے.وہ اس کا بندہ ابھی بنایا نہیں بنا لیکن اس کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ وہ خدا کا بندہ بنے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى ( المايدة :٣) کے ماتحت اس کی پوری مدد کریں اور کچھ نہ ہو تو دعاؤں کے ساتھ.ایسے بھی ہیں جو پیار سے بات سننے کے لئے بھی نہیں تیار.ٹھیک ہے تب بھی ہمیں غصہ نہیں آتا.لیکن دعاؤں کے ساتھ ان کی مددکو شروع کریں اور دعائیں کرتے رہیں.کرتے رہیں.کرتے رہیں.حسن سلوک کرتے رہیں.کرتے رہیں.کرتے رہیں.اور یا درکھیں آپ اور دنیا بھی یادر کھلے کہ ہم نے اپنے خدا سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس کے لئے اس کے بندوں کے دل جیتیں گے اور ہم پیار کے ساتھ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے ایک دن انشاء اللہ تعالی ، اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ.اب دعا کر لیتے ہیں ہاتھ اٹھا کر اور پھر جلسہ کی دوسری کا رروائی شروع ہوگی اور میں تو یہاں سے آپ سے اجازت لے کر چلا جاؤں گا.اگر میری طبیعت ٹھیک نہ ہوئی تو شاید میں ظہر اور عصر کی نماز جو یہاں پڑھایا کرتا ہوں وہ نہ پڑھا سکوں.آپ دعا کریں کہ جلدی میری طبیعت ٹھیک ہو جائے اور میری خواہش پوری ہو اور زیادہ سے زیادہ میں آپ میں بیٹھنے کے قابل ہو جاؤں.آؤ دعا کرلیں.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات ناصر جلد دوم ۳۹۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.میری تکلیف میں پہلے کی نسبت تو افاقہ ہے لیکن ابھی پوری طرح آرام نہیں آیا.بعض علامتیں کچھ نمایاں ہو گئی ہیں انفلوئنزا کی بعض علامتیں ظاہر ہوئی ہیں.گلے پر اثر ہے.اس طرح معلوم ہوتا ہے جس طرح گلا کسی نے چاقو سے چھیل دیا ہوا گلے میں خراش ہے اور جو Palpitation ( دل کی دھڑکن ) کی تکلیف زیادہ تھی اسے فرق ہے مگر پوری طرح آرام نہیں آیا.کچھ بے چینی ہے.ذمہ داری جلسہ کی جلسہ کے ایام میں ہی پوری کی جاسکتی ہے.میں کوشش کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ توفیق دے تو پوری دیانت داری کے ساتھ اور اس کی اہمیت کے مطابق اپنی ذمہ داری کو نبھاؤں.آپ دوست بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے پوری صحت دے اور اپنے فضل سے جو میرے دل میں یہ خواہش ہے کہ ایسی باتیں میرے منہ سے نکلیں جو دُنیائے اسلام کے لئے مفید ہوں اور آپ کے دلوں پر اثر کرنے والی ہوں اور آپ کو عمل پر ابھارنے والی ہوں وہ خواہش خدا تعالیٰ پوری کرے.ستائیں تاریخ کی جو تقریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نائب خلیفۃ المسیح کرتا ہے، اُس کا عنوان ہمیشہ ہی یہ ہوتا ہے.”ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی“ اللہ تعالی سال بھر جو جماعت احمدیہ پر بے شمار فضل اور رحمتیں کرتا ہے اُس کا ہم مختصراً ذکر کرتے ہیں.پورا تو نہیں کر سکتے کیونکہ کوئی ساعت بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے خالی نہیں اور خدا تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے پیار کے رنگ میں اور اسلام کو مضبوط کرنے کے رنگ میں اور دُنیا میں ایک انقلاب عظیم اسلام کے حق میں پیدا کرنے کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں وہ تو
خطابات ناصر جلد دوم ۳۹۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء بے حد و شمار ہیں.اُن کو تو تھوڑے سے وقت میں بند نہیں کیا جاسکتا.انسان اپنی سمجھ کے مطابق بعض فضلوں کا انتخاب کرتا اور اُنہی کا ذکر کرتا ہے.ہر سال رسائل اور کتب جو شائع ہوتی ہیں نئی یا پرانی اہم کتب اُن کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے جماعت کو.ایک کتاب جو ہے وہ محض کاغذوں کا اور جو سیاہی سے کچھ لکیریں گھسیٹی جاتی ہیں اُس کا نام تو نہیں ، کتاب تو اس کا نام ہے کہ اس کے اندر بعض انسان جو حقائق کا ئنات ہیں ان میں سے بعض کو لے کے اس رنگ میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پڑھنے والا ان کو سمجھ سکے ان سے فائدہ اٹھا سکے.یہی حال اصولاً ہمارے روز نامچوں اور ہفتہ واروں اور جو ماہوار رسالے ہیں کچھ ان کا ہونا چاہئے.اس کی طرف شاید پوری توجہ نہیں کی جا رہی یا موجودہ حالات میں اتنے اور ایسے آدمی نہیں مل رہے جو ہماری زندگی کے مطابق ہماری ذمہ داریوں کے مطابق مضامین لکھ سکیں.لیکن ایک بات میں آپ کو بتادوں میں کئی سال آکسفورڈ میں پڑھتا رہا ہوں اور جو میں نے سمجھا تھا کہ میں کیوں وہاں بھیجا گیا مجھے اجازت دی گئی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے وہاں مجھے بھیجا اور خرچ ہوا مجھ پر.یہ اس لئے نہیں تھا کہ میں اُن سے کچھ سیکھوں بلکہ اس لئے تھا کہ میں اس قابل ہو جاؤں کہ آپ کو کچھ سکھا سکوں.اپنے وقت پر اور اُن کو غور سے زیر مطالعہ رکھوں.میں نے اُن کی زندگی اُن کی عادتوں کا بڑے غور سے مطالعہ کیا.علم کے میدان میں ایک چیز جو نمایاں طور پر میرے دماغ پر اثر انداز ہوئی وہ یہ تھی کہ اُن کا اگر کوئی ایک شخص صرف ایک چھپی ہوئی صداقت قوم کے سامنے پیش کرتا ہے (اُس وقت پیش کرتا تھا میں کہنے لگا تھا پھر میں نے بدل دیا کیونکہ وہی طریق جاری ہے ) تو وہ اس کو سر پر اٹھا لیتے ہیں کیونکہ ساری قوم نے مل کے آگے بڑھنا ہے.اگر ہر سال کسی قوم کے دس ہزار آدمی ( دس کروڑ میں سے ) ایک نئی چیز اپنی قوم کو دیتے ہیں تو اُس قوم کے پاس ( دس ہزار نئے علوم کا خزانہ ) جمع ہو گیا.وہ اس حقیقت کو سمجھتے تھے.اُن کی آنکھ اُن فقروں کی طرف ، اُن عبارتوں کی طرف نہیں جاتی تھی پڑھتے وقت جو وہ دہرا رہے تھے پہلوں سے حاصل کردہ علوم کے متعلق.صرف وہ ایک نئی بات جو انہوں نے کہی ہوتی اور اُن کی وضاحت کی ہوتی تھی اُس کو وہ لیتے تھے اور اُس کو دوسروں پہ بٹھا لیتے تھے.کہتے تھے
خطابات ناصر جلد دوم بڑے خادم ہیں یہ.۳۹۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء اگر آپ کوشش کریں تو ساری کمزوریوں کے باوجود ہمارے اخبار اور رسالے ایک بات تو آپ کو ضرور بتا دیں گے ہر موضوع پر جو آپ سمجھتے ہوں گے کہ آپ کو اس سے پہلے معلوم نہیں تھی یا اگر کبھی معلوم تھی تو اُسے آپ بھلا چکے تھے.یہ بھی بڑا فائدہ ہے.اگر آپ آٹھ دس رسالے جو چھپتے ہیں اُن کو پڑھیں ماہانہ جو ہیں تو ایک سو ہیں باتیں آپ کو مل گئیں اور روزانہ جو الفضل چھپتا ہے (اُس میں سے ایک بات اگر آپ کو ایسی ملے جو آپ کی زندگی میں حسن پیدا کرنے والی ثابت ہو آئندہ تو سال میں شاید ۳۶۰ یا وہ چھٹی کرتے ہیں اگر وہ تو اُس سے کم اتنی باتیں مل گئیں.لوگ کہہ دیتے ہیں الفضل کا ہر مضمون اعلیٰ پایہ کا ہونا چاہئے.میں بھی کہتا ہوں الفضل کا ہر مضمون اعلی پایہ کا ہونا چاہئے.وہ کہتے ہیں ( بعض لوگ ) کہ اگر الفضل کا ہر مضمون اعلیٰ پایہ کا نہیں ہوگا تو اس کو لے کے پڑھنے کی کیا ضرورت.میں کہتا ہوں کہ اگر الفضل کا ایک مضمون بھی اعلیٰ پایہ کا ہے تو اسے لے کے اسے پڑھنے کی ضرورت ہے.میں اس سے بھی آگے جاتا ہوں.میں کہتا ہوں اگر الفضل میں ایک ایسا مضمون ہے جس میں ایک بات ایسی لکھی ہے جو آپ کو فائدہ پہنچانے والی ہے تو اُس فائدہ کو ضائع نہ کریں آپ اگر آپ نے بحیثیت قوم آگے ترقی کرنی ہے.کتا بیں بھی بہت سی چھپتی ہیں ہر سال.اب تو اتنی ہو گئی ہیں کہ اصولی طور پر ہی باتیں کی جاسکتی ہیں سوائے اُن اخباروں کے متعلق اور کتابوں کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی Out of Print پہلے نایاب تھیں اب وہ پھر طبع ہو گئیں اور آگئیں آپ کے لئے دُکانوں پر یا کوئی بہت ہی اعلیٰ کتاب کسی نے بڑی تحقیق کے بعد لکھی یا تر جے آ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض کتابوں کے یا بہت سے اقتباسات کے.باقی جو دوسرے درجے پہ یا شاید پھر تیسرے درجے پر کتابیں ہیں جن کا ہم ذکر کرتے ہیں یہاں وہ ہیں ایسی کتابیں جن کے مصنفین نے نظام جماعت سے تعاون کیا اور جو یہ قاعدہ بنایا گیا ہے کہ جماعت میں کوئی شخص اپنے طور پر کوئی کتاب شائع نہ کرے کیونکہ اس طرح پر بہت سے فتنوں کے دروازے کھلتے ہیں بلکہ نظارت تصنیف سے رابطہ قائم کرے اور اُن کے مشورے کے ساتھ اور اُن کو اپنا مسودہ دکھانے کے بعد اور اُن سے منظوری لے کر وہ کتاب کو شائع کرے اُن
خطابات ناصر جلد دوم ۳۹۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء کے تو اشتہار بھی آنے چاہئیں الفضل میں اُن کا ذکر بھی ہونا چاہئے ہماری تقریروں میں اس کے علاوہ وہ شخص جو نظام جماعت سے تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں اور کہتا ہے مجھے کیا ضرورت ہے ان سے ملاپ کرنے کی ، ان سے مشورہ لینے کی ان سے اجازت لے کے شائع کرنے کی اس کو جماعت احمدیہ میں پھر کتاب بیچنے کی بھی کیا ضرورت ہے.وہ آتا کیوں ہے پھر جماعت اور احمدیوں کے پاس کہ تم کتاب خرید لو.یہ بہت ضروری ہے عام لوگ شاید اس کی اہمیت کو نہ سمجھتے ہوں.یہ بہت اہم باتوں میں سے ہے کہ ہم اس قسم کے فتوں کے دروازے بند کر دیں اور اگر کوئی شخص کہے کہ بعض کتا بیں ایسی بھی چھپ سکتی ہیں جن میں کوئی فتنے والی بات نہ ہو.میں بحث میں نہیں پڑوں گا.میں کہوں گا ٹھیک ہے کوئی کتاب ایسی بھی چھپ سکتی ہے نظامِ جماعت سے باہر نکل کے ایک احمدی مصنف کی طرف سے جس میں فتنے کی کوئی بات نہیں لیکن اگر یہ دروازہ کھول دیا تو اگر پانچ کتابیں ایسی ہوں گی تو دس ایسی بھی ہوں گی جن میں فتنے کی بات ہوگی.اس واسطے فتنے کا دروازہ ہم نے بہر حال بند کرنا ہے اور اس لئے مصنف کی انانیت کو بھی بہر حال ہم نے توڑنا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد امت مسلمہ کو واحد بنانے کا پروگرام بنایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کو امت واحدہ بنا دے.اس کے لئے بڑا مضبوط اتحاد چاہئے.اس میں ہم سوئی کے ایک نکتے کا رختہ بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ آپ کو تیار ہونا چاہئے.میرا دماغ تو بالکل نہیں تیار اس کو قبول کرنے کے لئے اور جو میرے پیارے بھائی اور بہنیں ہیں مجھے یقین ہے کہ وہ بھی ہر گز تیار نہیں ہیں اس کے لئے.ٹھیک ہے اگر تمہارے دماغ میں کوئی اچھی بات آئی ہے لکھوضرور اور خدمت کرو جماعت کی بھی، بنی نوع انسان کی بھی ، لیکن صحیح راستے پر چلو.دیوار میں پھاند کے گھروں کے اندر داخل نہ ہو.دروازے ہیں اُن کے ذریعہ سے اندر داخل ہو.الفضل ہے ہمارا، لا ہور وہ پرائیویٹ ہے.جماعت کے ساتھ اس کے نظام کا یا اس کے ادارہ کا کوئی تعلق نہیں ایک احمدی ہے وہ اپنی ذمہ داری سے لکھتا ہے.کسی اور پر اپنی تحریر کی ذمہ داری نہیں ڈالتا ثاقب زیر وی لیکن بہت اچھا بھی لکھتا ہے اور اگر اُس میں (لاہور) نصف بھی اچھا ہو.چوتھا حصہ بھی اچھا ہو.دسواں حصہ بھی اچھا ہو تو جو میں نے اصول بتایا ہے اُس کے مطابق
خطابات ناصر جلد دوم ۳۹۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء اسے لینا چاہئے.اُس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے.رسالوں میں تحریک جدید کا رسالہ تحریک جدید، انصار اللہ کا رسالہ انصار الله خدام الاحمدیہ کا رسالہ ”خالد انہوں نے ہی بچوں کے لئے تفخیذ الا ذہان، لجنہ اماء اللہ کا ” مصباح “ اور بھی ہوں گے جو میں کہتا ہوں اُن کو خریدو.اور خدام الاحمدیہ نے اب ایک بڑا چھا کام کرنا شروع کیا ہے ضرورت کا ہزارواں حصہ پورا کر رہے ہیں لیکن نہ ہونے سے بہر حال بہتر ہے.چھوٹے چھوٹے رسالے چھاپتے ہیں.یہ ہے میرے ہاتھ میں (۱) سوانح حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل یہ کسی ترتیب میں نہیں رکھی ہوئیں یہ ہے (۲) پیارے اسلام کی پیاری باتیں یہ بچوں کے لیے ہیں ایک بچہ ہے جو اس کتاب کو پڑھ سکتا ہے یہ اُس کے لئے ہے لیکن ہر بچہ اس کو سُن سکتا ہے اُس کے کان تو نہیں بند ہو جاتے، اگر آپ یہ کتاب سُنانا چاہیں.اُس کو سنائیں یہ باتیں ، بچپن سے سُنا ئیں.آپ نے اذان سُنا دی اُس کو پیدائش کے وقت تکبیر اقامت کی جو ہے وہ سُنا دی اور اُس کا اثر ہے اور تحقیق کی ہے دُنیا نے کہ اُس وقت بھی اس کا یہ نہ سمجھیں کہ کان نے سُنا اور اُس کا اثر ہی کوئی نہیں اس کا.دماغ اُس کے اثر کو قبول کرتا اور محفوظ رکھتا ہے یہ ایک ساتھ ہے (۳) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں (انہوں نے تو بعض نہیں لکھا لیکن بعض لکھنا چاہئے ) یہ ہے (۴) ہمارے مہدی کی پیاری باتیں یہ ہے (۵) سوانح مصلح موعودؓ یہ ہے (۴) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں.یہ ہے (۷) سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.یہ کتابیں اس وقت جو مجھے دی گئی ہیں اُن کی طرف سے یہ ایک، دو، تین، چار، پانچ ، چھ سات ہیں مجھے سات نہیں چاہئیں مجھے سات ہزار اس قسم کی کتاب چاہئے اور صرف اردو میں نہیں چاہئے یعنی اس وقت جو کیفیت دُنیا کے دماغ کی ہے نا.اسلام کی باتیں سننے کے لئے تیار ہے، اثر قبول کرنے کے لئے تیار ہے.مجھے سوئٹزر لینڈ میں سوئس احمدیوں نے ، سوئٹزرلینڈ میں ان لوگوں نے جو احمدی نہیں بعض دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے ہیں انہوں نے الحاح کے ساتھ اور اصرار کے ساتھ مجھے کہا کہ ہمارے بچوں کے لئے کتابیں آپ شائع کریں.انہیں کچھ پتہ نہیں اسلامی تعلیم ، اسلامی تاریخ کا.اتنے واقعات اتنے واقعات حسین، پیارے ،سبق آموز، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان
خطابات ناصر جلد دوم ۳۹۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء کے نتیجہ میں چودہ سو سال میں رونما ہو چکے ہیں کہ لاکھوں کتابیں لکھی جاچکی ہی لکھی جانی چاہئیں جو ہم نہیں کرتے وہ دوسرے بھی بعض دفعہ کر دیتے ہیں.پچھلے سال میں لندن میں تھا تو ایک دوست کسی مطبع خانہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے.وہ میرے پاس آئے.کچھ کتابیں تحفہ لائے اُس کمپنی کی طرف سے.اُن میں سے ایک کتاب بلال رضی اللہ عنہ پر تھی.حضرت بلال وہ حبشی جس کی جلد کا ظاہر تو کالا تھا لیکن جس کے اندر سے اس قسم کا نور نکلتا تھا کہ آج شاید سارے امریکہ کے سفید فام کے ٹو رکواکٹھا کیا جائے تو تب بھی ایک ذرہ کے برابر نہ ہو اُس کے مقابلے میں.اور اتنی اچھی کتاب لکھی آپ بیتی کے رنگ میں.بلال کہتے ہیں مجھ پر یہ واقعہ گزرا مجھے میرے مالک نے ( غلام تھے نا اسلام سے پہلے اور پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خریدا اور آزاد کیا) ریت پر لٹا دیا مجھے.میرے سینہ پر پتھر رکھا.مجھے کوڑے لگائے.میں بے ہوش ہو گیا.اُس وقت نیم بے ہوشی تھی.کبھی میں پورا بے ہوش ہو جا تا تھا.کبھی کچھ ہوش آ جاتی تھی.نیم ہوش اُس وقت کوئی شخص آیا.اُس نے میرا سودا کیا اور مجھے لے گیا اپنے گھر اور مجھے اپنے بچے کی طرح اُس نے اپنے گھر میں رکھا اور کہتے ہیں اُس وقت مجھے دہندلا سا یاد ہے کہ کوئی شخص میری چار پائی کے پاس مصلی بچھا کر نماز پڑھتا ہے.کہتے ہیں مجھے یہ پتہ لگا کہ مجھے خریدنے والے حضرت ابوبکر تھے اور آزاد کرنے والے تھے.تو اُن سے میں نے پوچھا میرا خیال ہے نیم بے ہوشی کی حالت میں مجھے شبہ ہے یہ احساس ہوا کہ میرے قریب مصلی بچھا ہوا ہے اور کوئی شخص وہاں نفل پڑھ رہا ہے اُس نے کہا تم نہیں جانتے کون تھا وہ میں نے کہا نہیں انہوں نے کہا وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم تھے.اُن کی دعاؤں نے تمہیں زندہ کیا آسمانوں سے تمہارے لئے زندگی لے کے آئی ہیں وہ دُعائیں ورنہ تمہاری حالت بچنے والی نہیں تھی.کہنے کو چھوٹا سا واقعہ ہے.چھوٹا نہیں.اس قدر پیار ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں انسان کے لئے خواہ وہ انسان زار روس ہے خواہ وہ انسان حبشی غلام کوڑے کھانے والا تپتی ریت پہ لٹا کے اُس کے اوپر پتھر رکھے جارہے ہیں وہ ہے.کوئی فرق نہیں کیا انسان، انسان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ، یہ تو اس وقت باتیں کرتے ہوئے آپ سے میرے دماغ میں ایک مثال آگئی.ہزار ہا کتابیں لکھی جاسکتی ہیں.چھوٹی چھوٹی لکھیں بچوں کے لئے.
خطابات ناصر جلد دوم ۳۹۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء ایک ایک واقعہ لکھیں.حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے متعلق ہی اُردو میں درجنوں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں آئیں آگے لکھنے والے اور لکھیں گے اور آپ آگے آئیں اور خرید میں اُن کتابوں کو.تا کہ جو لکھنے والے اور طبع کروانے والے ہیں اُن کے پیسے ضائع نہ ہو.جو شخص مثلاً حضرت بلال پہ یہ کتاب لکھ گیا مجھے یقین ہے کہ اُس کے پیسے ضائع نہیں ہوں گے.تو یہ تو میں نے بتایا ناسات کتابیں ہیں.مجھے تو ایک دو سال کے اندراندر سات ہزار چاہئیں.پھر اُن کے ترجمے چاہئیں اُن کا ترجمہ مجھے جرمن زبان میں چاہئے انگریزی زبان میں چاہئے اُن کا ترجمہ مجھے فرینچ زبان میں چاہئے سپینش زبان میں چاہئے اُن کا ترجمہ مجھے اٹالین زبان میں چاہئے اُن کا ترجمہ مجھے یوگوسلاوین زبان میں چاہئے جہاں کے احمدی کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے لئے کتابیں دولا کے.اُن کا ترجمہ مجھے پولش زبان میں چاہئے.اُن کا ترجمہ ہنگرین زبان میں چاہئے جہاں ایک خاصی جماعت احمدیوں کی ہے.کمیونسٹ ملک ہے زیادہ باہر نہیں آتے.ملاپ نہیں اُن کے ساتھ لیکن کبھی کسی کے نام، پرانے واقفوں کے نام ان کا ابھی تک خط آتا رہتا ہے کہ ہم احمدیت پر قائم ہیں، ہمیں عربی زبان میں کتابیں چاہئیں.احیائے اسلام کے لئے ، ان باتوں کو مسلمانوں کے ذہنوں میں تازہ کرنے کے لئے.جتنے ہمارے جماعتی یا نیم جماعتی اخبار وغیرہ ہیں ان کو خریدنا چاہئے ، ان کو پڑھنا چاہئے بہت کم توجہ ہے اس طرف.آپ حیران ہوں گے کہ اگر آپ ( آج کا نہیں میں کہتا جس وقت آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا اُس وقت کی میں بات بتا رہا ہوں ) تھرڈ کلاس میں سوار ہو جائیں مزدوروں سے بھری ہوئی گاڑی.ہر آدمی کے ہاتھ میں اخبار پکڑا ہوا ہے وہ اخبار پڑھ رہا ہے.ساڑھے تین سالہ طالب علمی کا زمانہ میں نے وہاں گزارا ہے اس میں کسی ایک آدمی کو دوسرے سے اخبار مانگ کر پڑھتے نہیں دیکھا.مانگتا ہی کوئی نہیں.اپنا خریدتا ہے ہر شخص.پھر رڈی میں یوں پھینک دیتا ہے وہ، اُن کے اخبار پھینکنے کے قابل ہیں.لیکن پڑھنے کے قابل بھی ہیں.جو پڑھنا ہوتا ہے اس نے وہ پڑھ لیتا ہے پھر پھینک دیتا ہے.ایک شخص اخبار پڑھ کے اپنی سیٹ پر چھوڑ کے اسٹیشن پر اُتر جاتا ہے وہاں ایک اور آدمی آ بیٹھتا ہے جس کے پاس اخبار نہیں، جب گاڑی کھڑی ہوتی ہے وہ پلیٹ فارم پر جا کر اپنے لئے وہی اخبار خرید کے لاتا ہے.وہ نہیں اُٹھاتا جو اُس کی سیٹ
خطابات ناصر جلد دوم ۳۹۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء کے اُوپر پڑا ہوا ہے.یہ جذ بہ پیدا کریں.عادت ڈالیں.خرید کے پڑھنے کی عادت ڈالیں.میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں عادت ڈالیں پڑھنے کی.خرید کے پڑھنے کی عادت ڈالیں ویسے لوگ لیموں نچوڑ تو ساری دنیا میں ہیں امریکہ میں بھی ہیں ، انگلستان میں بھی ہیں یورپ میں بھی ہیں یہاں بھی ہیں جو کسی کی کتاب پڑھنے کے لئے لیتے ہیں پھر واپس ہی نہیں کرتے.وہ تو ہیں چند ایک.ساری قوم اگر تیار ہو جائے اور ہزار میں دو ایک ایسے ہوں تو معاف کر دو اُن کو.وہ اپنا شوق اس طرح پورا کرلیں لیکن قوم کو عادت ہونی چاہئے کم از کم ہماری قوم کے اس حصے کو تو عادت ہونی چاہئے جو میری بات سنتا اور غور سے سُنتا اور دل میں اُس کے جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ میں اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کروں.میں نے بتایا پڑھنے کی عادت ، لکھنے کی عادت ہونی چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو کلام ہے اس کے اندر اتنا اثر اور اتنا حسن ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اسی کے قریب کتا ہیں لکھیں، عربی میں ہیں فارسی میں بھی ہیں.اکثر اُردو میں ہیں.سب کے تراجم شائع کرنا.پھر دُنیا اُن تراجم کو پڑھنے کے لئے تیار بھی ہوا بھی تو نہیں تیار تمہیں، چالیس، پچاس سال ساٹھ سال شاید لگیں ان کو تیار ہونے میں لیکن اس وقت ضروری ہے کہ آپ کی کتب کے اقتباسات کو شائع کر دیا جائے.اس وقت ایک کتاب تو صد سالہ جوبلی کے انتظام میں شائع ہوئی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات.اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق.اسلام کیا چیز ہے؟ اسے روشناس کرانے کے متعلق.قرآن عظیم کے متعلق اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان اور آپ کے خاتم النبین ہونے کا جو مقام ہے اُس کے متعلق.۳۲۸ صفحے ہیں ان حوالوں کے ، کچھ صفحے اور بھی ہیں یہ شائع ہوئی ہے اور بڑی سستی اللہ کے فضل سے شائع ہو گئی.بہترین مطبع خانے نے شائع کی ہے بہترین کاغذ ہے، بہترین Get up ہے اور صرف اڑھائی پاؤنڈ قیمت ہے جو کچھ بھی نہیں اُن ملکوں کے لحاظ سے ، اتنی ہی قریباً سائز کی ایک invitation ہے کتاب جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لکھی ہوئی ہے اور ایک فرم نے ہم سے اجازت لے کے دس ہزار شائع کی ہے اپنے طور پر اور اُس میں بہت سارا تعارف ہو گیا اسلام کا اور احمدیت کا پچھلے سال اُس
۳۹۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء خطابات ناصر جلد دوم مطبع خانے نے ہمیں اطلاع دی تھی کہ چار ہزار انگلستان کی لائبریریوں نے آرڈر بک کر دیئے ہیں اس کتاب Invitation کے اور اُس کی قیمت اُنہوں نے دس پاؤنڈ رکھی ہے اور صفحے اس سے کم ہیں اور کاغذ اور طباعت ایک جیسی ہے تو یہ ہمیں اللہ تعالیٰ توفیق دے رہا ہے.قرآن کریم کا ترجمہ بڑا ضروری ہے.غانا نے دس ہزار شائع کر دیا انگریزی ترجمہ.امریکہ میں بہت اچھے اچھے کاغذ پر اچھی پرنٹنگ پر ہیں ہزار انگریزی ترجمے کے نسخے ابھی پچھلے مہینے میں شائع ہوئے ہیں.یہ ابتدا ہوئی ہے اُن کی.اسی طرح انڈونیشیا کوشش کر رہا ہے سواحیلی زبان میں ترجمے ہوئے ہیں یوگنڈا، یوگنڈن زبان میں ترجمہ ہوا ہے.اس کی تفصیل تو پھر بتاؤں گا لیکن ہمیں ترجمہ کرنے والے بھی چاہئیں اور لکھنے والے بھی رسالے لکھنے والے کتابیں لکھنے والے چاہئیں.اب مثلاً یہ جو کتاب Essence Of Islam Vol:No1 صد سالہ جو بلی کے نظام مشتمل کے ماتحت شائع ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کوٹیشنز (quotations) پر ۳۲۸ صفحے کی کتاب ہے.یہ ایک میٹریل (Material) ہے اس میں سے چار ورقے شائع کئے جاسکتے ہیں عام تقسیم کرنے کے لئے بڑا اچھا مواد تیار موجود ہے اس سے انشاء اللہ ہمارے دوست امریکہ اور انگلستان اور آسٹریلیا اور افریقہ کے ممالک میں جہاں انگریزی بولی جاتی ہے وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور جرمنی اور سوئٹزر لینڈ اور فرانس اور سپین وغیرہ ملکوں کے لئے انگریزی سے ترجمہ کرنا آسان اور اردو کی نسبت ہے.کیونکہ وہاں اس قسم کے اُردو دان اٹالین جاننے والے اور انگریزی جاننے والے نہیں ملیں گے.لیکن انگریزی سے فریج میں ترجمہ کرنے والے عام مل جائیں گے پیسے لیں گے اُجرت پر کام کر دیں گے تو یہ ایک رستہ کھل گیا ہے.اصل چیز یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے متعلق جو پیش خبریاں دیں اُن میں ایک یہ بھی ہے آپ نے فرمایا.میرے فرقہ کے لوگ اس ” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے ( تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۹)
خطابات ناصر جلد دوم ۴۰۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء بڑا عظیم یہ الہام ہے بڑی عظیم یہ پیشگوئی ہے کہ ” میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سبہ کا منہ بند کر دیں گئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ اگلے دس سال کے بعد آنے والے سوسال میں جس صدی کو میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں ہمیں ایک ہزار سائنسدان اور محقق چاہئیں اور یہ جو اس سے پہلے دس سال ہیں اس میں ایک سو سا ئنسدان اور محقق چاہئیں لیکن آج تک یہ ایک پیشگوئی تھی جس کا ایک بھی مظہر ہمارے سامنے نہیں تھا.یعنی کچھ اس طرح وہ ابھرا ہو اور آسمانوں تک پہنچا ہو اپنی علم تحقیق میں کہ واقع میں اُس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ علم اور معرفت میں اُس نے کمال حاصل کیا اور اپنی سچائی کے ٹور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رُو سے سب کا منہ بند کر دیا.اپنے حلقہ تحقیق میں ) آئن سٹائن بہت بڑا سائنسدان گزرا ہے.انہوں نے بھی کام کیا اور ناکام ہوئے اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے کام کیا اس پر اور وہ کامیاب ہوئے اور اُن کو نوبل پرائز ملا اور دُنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں میں پہنچ گئے.(اس موقع پر حضور نے مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو سٹیج پر آ کر حاضرین سے خطاب کرنے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنی مختصری تقریر میں فرمایا.) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (الفاتحة :)) نحمده و نصلّى على رسوله الكريم سیدنا حضرت خلیفۃ ایچ.احباب جماعت.السلام علیکم ورحمۃ اللہ آج سے تقریباً پندرہ سال پیشتر حضرت والد صاحب.چوہدری محمد حسین صاحب مرحوم جن کی مغفرت کے لئے دُعا کی درخواست کرتا ہوں.اُنہوں نے اپنی ڈائری میں مندرجہ ذیل سطور رقم فرمائی تھیں :.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے مرحوم نے بندہ کو بمقام لندن ایک خط لکھا جس میں درج تھا کہ میں آپ کے عزیز فرزند کے متعلق دُور افق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں.“
خطابات ناصر جلد دوم ۴۰۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء اس کے بعد حضرت والد صاحب نے الفاظ پیشگوئی نقل کئے.” میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نو ر اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے..سواے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا تجلیات الہیہ روحانی خزائن ۲۰ صفحه نمبر ۴۱۰،۴۰۹) میں اُس پاک ذات کی حمد وستائش سے لبریز ہوں کہ اُن نے امامِ وقت کی ، میرے والدین کی ، اور جماعت کے دوستوں کی مسلسل ، متواتر اور دیرینہ دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا اور عالم اسلام اور پاکستان کے لئے خوشی کا سامان پیدا کیا.پاکستان زندہ باد قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی جسمانی اور روحانی اولاد کے لئے دُعا فرمائی تھی:.فَاجْعَلْ أَفْبِدَةٌ مِنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمُ (ابراهيم : ۳۸) اے خدا تو لوگوں کے دلوں کو اُن کی طرف مائل کر دے پچھلے چند ہفتوں میں اسی قسم کا محبت کا اظہار جناب صدر اور ساری قوم کی جانب سے ہوا ہے جس کے لئے میں اُن کا انتہائی شکر گزار ہوں اور آخر میں رب العزت کی بارگاہ میں سر بسجو د ہوں کیونکہ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا " ( النساء:۱۴۰) (اس کے بعد ڈاکٹر صاحب موصوف السلام علیکم کہہ کے اپنی نشست پر بیٹھ گئے اور حضور نے پھر سلسلہ خطاب شروع فرمایا ) اس سلسلہ میں جو نعرے لگے ہیں ایک نعرہ ہے مکان کے ساتھ تعلق رکھنے والا.وہ نعرہ اس طرح ہوگا کہ اِنَّ اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ ( ال عمران : ۹۷) خانہ کعبہ زندہ باد (خانہ کعبہ زندہ باد کے نعرے) مکان سے تعلق رکھنے والا دوسرا نعرہ یہ ہوگا کہ خانہ کعبہ کے پیار میں مست رہنے والے پاکستانی نے یہ انعام حاصل کیا ”پاکستان زندہ باد ( پاکستان زندہ باد کے نعرے) تیسرا انعرہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کے فیضان کے نتیجہ میں آپ کی طرف منسوب ہونے والے خدا کے ارادہ اور منشا اور حکم کے مطابق ڈینوی عزتیں حاصل کرتے ہیں اس نقطہ نگاہ
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء سے محمد زندہ باد صلی اللہ علیہ وسلم.” خاتم النبیین زندہ باد انسانوں کی نسبت سے دُوسرا نعرہ یہ ہوگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی عشق کرنے والا اور اس زمانہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کو دُنیا میں تقسیم کرنے والا مسیح موعود (علیہ السلام) زنده باد ( مسیح موعود علیہ السلام زندہ باد کے نعرے) اور ایک تیسرے پہلو کے لحاظ سے وہ تعلیم جو انسانی دماغ میں جلا پیدا کرتی اور ظلمات کو مٹا کے اُن کی جگہ نو ر کو قائم کرتی ہے اسلام زندہ باد (نعرے) اور چوتھے پہلو کے لحاظ سے سب سے بڑا نعرہ اور سب سے بنیادی نعرہ اللہ جو خالق اور مالک ہے اور جو حاکم کل ہے " اللہ اکبر“ ( نعرہ تکبیر کے فلک شگاف نعرے ) اور.اور.اور.اور.اور اور اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اور کوئی نعرہ نہیں (اور پانچویں بات یہ ہے کہ خاموشی سے اب میری باتیں سنو ) میں تعلیم کے متعلق باتیں کر رہا تھا کتابوں کے متعلق کہ پڑھنی چاہئیں لکھنی چاہئیں ( کچھ باتیں کہیں ) توجہ کریں.آپ کی توجہ کے بغیر یعنی خریداروں کی توجہ کے بغیر نہ رسائل کا معیار بلند ہوسکتا ہے نہ رسالوں اور کتابوں کا معیار بلند ہوسکتا ہے.اب ہم اسی سلسلہ میں جو دوسرا بڑا ہی اہم پہلو ہے اُسے لیتے ہیں وہ ذہن رسا ہے جو ماں کی گود میں خدا تعالیٰ کی رحمت سے آتا ہے پیدائش کے وقت ضائع کر دیا جاتا ہے یا سنبھال لیا جاتا ہے.میں نے پہلے بھی کہا اب بھی کہنے لگا ہوں اور کہتا رہوں گا کہ اصل بات تو یہ ہے کہ کوئی ذہین بچہ خواہ وہ افریقہ کے جنگلات میں پیدا ہو یا نیو یارک کے محلات میں وہ ماسکو میں پیدا ہو یا خانہ کعبہ کے علاقہ میں پیدا ہو کوئی ذہین بچہ ( جو ذہن خدا کی عطا ہے ) ضائع نہیں ہونا چاہئے اور نوع انسانی کو اُس بچے کو اُس کے ذہن کو سنبھالنا چاہئے.یہ بنیادی حقیقت اور اصول ہے جو اسلام نے ہمیں بتایا اور جسے اسلام قائم کرنا چاہتا ہے لیکن جماعت احمد یہ اس بنیادی اصول کو عملاً آج قائم نہیں کرسکتی.یہ بھی ایک حقیقت ہے.جتنا ہم سے ہو سکتا ہے ہم کرتے ہیں.ایک وقت میں ہم سے یہ ہوا کہ جب ۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام کالج کی بنیاد پڑی.(اُس وقت منصورہ بیگم بیمار تھیں حضرت صاحب نے ہم دونوں میاں بیوی کو بھیج دیا تھا د بلی علاج کے لئے میں وہاں تھا میری غیر حاضری میں ) مجھے پرنسپل مقرر کر دیا گیا.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۰۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء جب میں نے قرآن کریم حفظ کیا اور مولوی فاضل پاس کیا تو میں نے انگریزی تعلیم شروع کر دی پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی پھر آکسفورڈ چلا گیا.جب واپس آیا تو حضرت صاحب کو خیال تھا شاید کہ میں عربی بھول گیا ہوں گا دینی تعلیم بھول گیا ہوں گا مجھے جامعہ احمدیہ میں استاد لگا دیا.پھر میں نے از سر نو تیاری کی.پڑھا اور پڑھایا اور ۱۹۳۸ء کے آخر سے لے کر ۱۹۴۴ء تک جامعہ احمدیہ میں ایک اُستاد کی حیثیت سے پھر پرنسپل کی حیثیت سے میں نے کام کیا.پھر ۱۹۴۴ء میں جب کالج بنا تو مجھے جامعہ احمدیہ سے نکال کے (میں واقف زندگی ہوں.میں یہ واقعہ بتا رہا ہوں ہر قدم پر ہر حکم میں نے بشاشت سے قبول کیا.میں نے اپنی زندگی وقف کی تھی.خدمت کے لئے اپنے آرام کے لئے نہیں کی تھی مجھے کہا گیا کہ تم کالج کے پرنسپل لگ جاؤ.خیر میں بن گیا پرنسپل.ایک ہدایت جو مجھے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے دی، وہ یہ تھی کہ کالج ہم نے اس پسماندہ ملک کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے جاری کیا ہے، تبلیغ کے لئے جاری نہیں کیا.اُس کے لئے ہمارے دوسرے محکمے ہیں.اس واسطے اس کالج میں ہر عقیدہ کا لڑکا جو غریب اور ذہین ہے اُس کو اگر تمہاری طاقت ہے اور جس حد تمہاری طاقت ہے تم نے پڑھانا ہے.یہ چیز میرے دماغ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اچھی طرح داخل کر دی تھی.اللہ جانتا ہے وَلَا فَخُر ہماری جماعت کا مزاج ہے بے لوث خدمت کرنا اور ہر احمدی کا بھی یہی مزاج ہے.یونیورسٹی کا قاعدہ یہ ہے کہ ایک پرنسپل کل تعداد طلباء کی جو ہے اس کی دس فیصدی کو نصف فیس معاف کر سکتا ہے اور بس.یعنی اگر چار سولڑ کا ہو.تو صرف چالیس لڑکوں کی آدھی فیس معاف کر سکتا ہے اس سے زیادہ کی نہیں کر سکتا.مجھے جو حکم تھا وہ یہ تھا کہ ذہین بچے کو پڑھا سکتے ہو پڑھاؤ.سچی بات یہ ہے کہ کسی سے نہیں پوچھا میں نے کہ یو نیورسٹی کا قاعدہ میں توڑنے لگا ہوں تو ڑ دوں یا نہ توڑوں میں نے یہ سوچا جب میرا امام حضرت مصلح موعود یہ کہ رہا ہے کہ جس حد تک پڑھا سکتے ہو پڑھاؤ تو میں پڑھاتا جاتا ہوں.میں نے سو میں سے پچاس لڑکوں کی فیس معاف کر دی.چارسو میں سے چالیس کی نہیں.سو میں سے پچاس کی یعنی دس فیصدی کی بجائے پچاس فیصد کی معاف کر دی جن میں سے آگے پچاس فیصد وہ طلبہ تھے جن کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں تھا.مجھے کہا گیا تھا کہ یہ تعلیم کا ادارہ ہے تبلیغ کا ادارہ نہیں ہے جو غریب لڑکا، ذہین بچہ آیا میرے پاس.اُس کو میں نے داخل کیا.نہ صرف اس کی فیس
خطابات ناصر جلد دوم ۴۰۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء معاف کی.اُس کے کھانے کا انتظام کیا بعض دفعہ اُس کے کپڑوں کا انتظام کیا.اُس کے علاج کا انتظام کیا.لا ہور میں جب ہم آئے کٹ لگا کر.اُس وقت لاہور کا ایک طالب علم داخل کیا بڑا ہی پیارا خاندان وہ، اُس کا ایک بھائی کمانے والا.ایک سو دس روپے تنخواہ لے رہا تھا.نابینا باپ.نابینا ماں.وہ اُن کی پرورش کر رہا تھا اُس نے اپنے چھوٹے بھائی کو میٹرک تک پڑھایا.وہ میرے پاس آ گیا اور کہا سارے لاہور میں گھوما ہوں مجھے کوئی کالج پڑھانے کے لئے تیار نہیں.اُس نے چھ سو چالیس کے قریب نمبر لئے ہوئے تھے یعنی وظیفہ کے نمبروں سے ذرا کم.اور میں نمبر لیتا تو اُسے وظیفہ مل جانا تھا.وہ مجھے کہنے لگا کہ مجھے کسی نے کہا ہے کہ اگر تو نے پڑھنا ہے تو جا تعلیم الاسلام کا لج میں چلا جا.میں نے کہا بڑا چھا کیا آگئے.میں نے کہا میں تمہیں داخل کروں گا.کل صبح آ جانا اور دس روپے لے آنا.اب میں آپ سے بات کر رہا ہوں مجھے دُکھ ہو رہا ہے میں نے دس روپے اُس سے لے کے اُسے تکلیف پہنچائی.ممکن ہے کئی دن انہوں نے اپنا نصف پیٹ بھرا ہو.اتنی غربت تھی اُس گھر میں لیکن میرے ذہن نے فیصلہ کیا کہ اگر میں نے اس سے قربانی نہ لی تو اپنی پڑھائی میں یہ کمزور ہو جائے گا.اس کو اپنی پڑھائی کے لئے قربانی دینی چاہئے دس روپے اُس سے لئے.چار سال پڑھایا اس کو ، بی اے کر کے وہ ہمارے پاس سے گیا.ایک دفعہ وہ بیمار ہو گیا.ڈاکٹروں کے پاس بھجوایا.ساتھ پروفیسر بھیجا.ڈاکٹر بڑا مشہور بڑی فیس لینے والا.مجھے جانتا تھا وہ ڈاکٹر پیرزادہ صاحب.اللہ تعالیٰ ان کا بھلا کرے.وہ خود بھی بڑے اچھے ڈاکٹر تھے، خیال رکھنے والے، میں نے کہا وہ اس کے کپڑے دیکھے گا کہے گا غریب سا لڑکا کہاں آ گیا ہے میرے پاس، ٹالے گا.یوں ہی کوئی معمولی نسخہ لکھ دے گا.ٹھیک طرح دیکھے گا نہیں.میں نے کہا تم کہنا میں نے بھیجا ہے تعلیم الاسلام کالج میں پڑھتا ہے، یہ لڑکا غریب تمہیں نظر آتا ہو گا لیکن جس کالج میں پڑھتا ہے وہ غریب نہیں ( خدا پر جو بھروسہ رکھنے والے ہیں وہ غریب تو نہیں ہوا کرتے ) پس میں نے کہلوا بھیجا اچھی طرح دیکھو.جو فیس لینی ہے لو.بہترین نسخہ لکھ دوائی تو ہم نے خرید کر دینی ہے.اس کی غربت پر نہ جانا.تین سوساڑھے تین سور و پیہ اُس ایک بیماری پر خرچ ہوا اور دس روپے اُس سے وصول کئے تھے چار سال میں.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۰۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء بیسیوں سینکڑوں وہ بچے ہمارے جو غریب گھروں میں پیدا ہوئے لیکن خدا تعالیٰ نے اُن کو ذہن عطا کیا تھا اُن کا جماعت احمدیہ کے عقیدہ سے کوئی تعلق نہیں تھا.اُن کو ہم نے پڑھایا.ہر طرح سے خیال رکھا.اُن سے باپ کی طرح پیار کیا.اُن کی تربیت کی.اُن میں سے ایک اسی قسم کا بچہ ہمارے ہاں سے انٹر میڈیٹ کر کے فوج میں گیا پھر ڈی سی لگ گیا.پھر وہ کمشنر صاحب لگ گئے.داخلہ کے وقت اُس کی خالہ لے کے آئی تھی.کہتی تھی کہ یہ بچے (دو بھائی تھے) پڑھ نہیں سکتے.مجھے کسی نے بتایا ہے آپ پڑھا دیں گے.میں نے کہا ٹھیک ہے میں پڑھا دوں گا مستحق تھے ذہین تھے.پارٹیشن کی وجہ سے لٹ لٹا گئے تھے ماں باپ دونوں مارے گئے تھے غالباً اسی فساد میں یا اُس کے قریب.جس حد تک کر سکے کیا یہ تو ماضی کی باتیں ہیں نا.اب حال کی یا ماضی قریب کی بات کرتے ہیں میں نے اعلان کیا کہ جو ایم ایس سی میں بہت اچھا طالب علم ہے اُس کے لئے میں وظیفے مقرر کرتا ہوں.غیر ممالک میں وہ جا کے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں.اُس وقت فیسیں کم تھیں.ہم نے کہا ساتھ پاؤنڈ ہم دے دیا کریں گے کچھ تم خرچ کرو اچھا وظیفہ ہے ہمارے ملک کے لحاظ سے لیکن بعد میں ملکوں کے حالات بدلے.ڈاکٹر صاحب بتائیں کہ کتنا خرچ کرنا پڑتا ہے انگلستان میں اگر میں پڑھائی کے لئے بھیجوں ایک ایم ایس سی کو اور وہاں جاکے پی ایچ ڈی کرے تو اس کو سالانہ کتنا خرچ کرنا پڑے گا.مکرم ڈاکٹر سلام صاحب کھڑے ہوئے عرض کیا اڑھائی تین ہزار پاؤنڈ ) اس کا مطلب ہے قریباً ۷۰-۷۵ ہزار روپیہ سال کا ہو گیا نا.اُس وقت کم تھا.میں نے کوشش کی کہ جو بہت ہی ذہین بچہ ہے اس کو ہم ضائع نہیں ہونے دیں گے ہمارا جینیس (Genius) نو جوان ضائع نہیں ہوگا.دوسرے میں نے کہا کہ کچھ وظیفے ایسے ہوں گے جو اوپن (open) ہوں گے اگر کوئی بچہ احمدی نہیں ہے ہمارے بچے سے وہ آگے نکلتا ہے تو آئے ہم بڑی خوشی سے اُسے پڑھائیں گے.اب میں نے پچھلے دنوں سوچا کہ اگر کوئی غریب ہے تو وہ بی اے بھی پاس نہیں کر سکتا.اس کو میں نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا.استغفار کی اور آج میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ جماعت احمد یہ ذہین بچے کو پرائمری کے امتحان سے سنبھالے گی.پانچویں جماعت کا جب امتحان دے گا ( بورڈ کا)
خطابات ناصر جلد دوم ۴۰۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء اور ذہین ہوگا اور غریب ہوگا تو اس کو جماعت سنبھال لے گی لے کے پالے گی نہیں.سنبھال لے گی اور میں نے اندازے لگوائے تو اگر بورڈنگ میں رہے پرائمری پاس لڑکا یعنی اپنے گھر میں وہ نہیں رہ سکتا کسی وجہ سے تو اس کا ایک سو باون روپے ماہانہ خرچ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قریباً دو ہزار سالانہ خرچ ہوتا ہے اور دہم تک اسی طرح چلتا ہے قریباً اور کالج میں (گیارھویں بارہویں میں ) قریباً دوسو پچھپیں ماہانہ خرچ ہے اور یہی تھر ڈائیر اور فورتھ ائیر میں اور ایم اے.ایم ایس سی میں تین سو ساٹھ روپے ماہانہ خرچ ہے.یہ ہم نے اندازہ لگایا ہے کچھ باہر کی جماعتوں کو بھی کو خدا تعالیٰ نے تحریک کر دی میرے ذہن کی رو کے ساتھ ہی مثلاً قریباً بیس پچیس ہزار کے وظائف کا وعدہ کر لیا انگلستان کی جماعت نے.میں اس وقت جو اعلان کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی طرف سے اس نئی سکیم میں سوالاکھ روپے سال کے وظیفے دیں گے.یہ وہ طلبہ ہیں جو Genius سے ذرا نیچے ہیں.جو Genius ہے یعنی غیر معمولی طور پر ذہین بچہ اُس کا پتہ لگ جاتا ہے بعض دفعہ پرائمری میں بھی.خدا اگر ہمیں ایک ہزار ایسا بچہ دے گا تو جماعت آدھی روٹی کھائے اور اُن کو پڑھائے اور پڑھائے گی یہ میں ان کی نہیں بات کر رہا.میں اُن کے بعد جو قسم ہے طالب علم کی یعنی ذہین ہے مگر غیر معمولی ذہین نہیں اچھا ذہین ہے غیر معمولی ذہین نہیں اور غریب ہے یہ انعام نہیں ہے یہ حق کی ادائیگی ہے.دو علیحدہ چیزیں ہیں.ایک ہے انعام کے طور پر ملتا ہے وہ تو کروڑ پتی ہے وہ بھی لیتا ہے انعام آ کے.ایک ہے، حق ہے اُس کا.اس کا حق ہے کہ اُسے پڑھایا جائے اس کا حق اس کو دیا جائے گا.ایک لاکھ پچیس ہزا ر وپے سالانہ کا وظیفہ انشاء اللہ تعالیٰ ہم دیں گے اس کے لئے ایک کمیٹی میں مقرر کر دوں گا جس کے صدر میں ابھی مقرر کر دیتا ہوں.یہ یہاں نہیں رہتے زیادہ لیکن مشورے ان سے لئے جا سکتے ہیں یہاں رہنے والا نائب صدر ان کی قائمقامی کرے گا.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی یہ عزت افزائی جماعت کرتی ہے اس وقت کہ میں ان کو اُس کمیٹی کا صدر بناتا ہوں جن کے ذریعہ سے سوالاکھ روپے کے وظائف ذہین بچوں میں تقسیم کئے جائیں گے.آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے.میرا خیال ہے خدا چاہے تو شاید ہم اگلے سال
خطابات ناصر جلد دوم ۴۰۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء ہی اسے بڑھا کر اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کر دیں اور اس کے لئے آپ سے کسی ایک پیسے کی بھی اپیل نہیں کی جائے گی.اللہ میاں خود ہی انتظام کرے گا انشاء اللہ تو آپ میری مدد کریں دعاؤں کے ساتھ دو دعاؤں سے آپ میری مدد کریں.ایک یہ کہ یہ سکیم جو ہے اس کا اجراء جماعت اور قوم کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو اور اس سے بھی اہم دُعا یہ کریں اپنے رب سے کہ اے خدا! مرزا ناصر احمد کی یہ خواہش ہے کہ اگلے سو سال میں ایک ہزار انتہائی غیر معمولی ذہین سائنسدان جماعت احمدیہ کو ملے، تو اس خواہش کو پورا کر اور اس خواہش کے لئے جو وہ دعائیں کریں اُن کو بھی قبول کر اور جو ہم کریں انہیں بھی قبول کر.میری خواہش یہ ہے کہ اگلے دس سال میں ہم سوسائنسدان اچھے خدا سے مانگیں.یہ نہیں میں کہتا ہم پیدا کر دیں.میں کہاں سے پیدا کر سکتا ہوں آپ نے کہاں سے پیدا کر لینے ہیں ساری دنیا مل کے ایک اچھا سائنسدان پیدا نہیں کر سکتی.میں یہ خواہش رکھتا ہوں کہ اگلے دس سال میں اللہ تعالیٰ ہمیں ایک سو چوٹی کا سائنسدان عطا کرے اور میری یہ خواہش ہے کہ ان دس سال کے بعد اگلے سو سال میں جس کو میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں ایک ہزار سائنسدان ہر فیلڈ کا ایک فیلڈ کا نہیں سائنس کے ہر میدان میں بکھرا ہوا پھیلا ہوا آسمانوں کی سیر کرنے والا دماغ رکھنے والا اللہ تعالیٰ ہمیں عطا کرے.سائنس کا جتنا ہمیں علم ہے اس نے دو شکلیں تھیوری اور پریکٹیکل اختیار کی ہیں.اس کی ایک بڑی دلچسپ تصویر بنتی ہے مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب (تھیوریٹیکل فزکس ان کا مضمون ہے ) لیبارٹری میں کام نہیں کرتے.یہ تو اپنے ڈیسک پر بیٹھ کر حساب میں فارمولے بناتے ہیں اور جس بلندی تک لیبارٹری کے ٹیسٹ نے بعد میں پہنچنا ہوتا ہے اُن رفعتوں تک ان کا دماغ اپنے کمرے میں بیٹھ کے پہنچ جاتا ہے یعنی ہر طرح اندھیرا ہے مگر روشنی خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ایک فارمولا یہ بنادیتے ہیں جس وقت فارمولا بنتا ہے تو دو قسم کے رد عمل ہوتے ہیں ایک وہ طبقہ ہے جو کہتا ہے نری بکواس.چھوڑ و جی پتہ نہیں ڈاکٹر عبد السلام کے دماغ کو کیا ہو گیا ہے.یہ تو ہے ہی غلط اور ایک حصہ سائنسدانوں کا وہ ہے جو کہتا ہے اس کا تجربہ کر کے دیکھنا چاہئے دیکھیں کیسے نکلتا ہے یہ تھیوریٹیکل جو تھیوریٹیکل فزکس ہے فزکس نہیں سائنس کہنا چاہئے کیونکہ جتنی ڈاکٹر صاحب کو اپنے مضمون تھیوریٹیکل فزکس سے دلچسپی
خطابات ناصر جلد دوم ۴۰۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء ہے اُس سے زیادہ مجھے تھیوریٹیکل سائنس میں دلچسپی ہے اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں بار بار بتایا کہ جو میری صفات کے جلوے اس دنیا میں ظاہر ہورہے ہیں جو گندم اُگ رہی ہے جو کانوں کے اندر چیزیں پیدا ہو رہی ہیں یہ میری عظمت اور شان اور کبریائی اور وحدانیت کی دلیلیں ہیں ان کو کھو دو ان کا علم حاصل کرو.پھر پتہ لگے گا تمہیں کہ میں کس عظمت اور شان کی ہستی ہوں.اور جو یہ کائنات ہے اس کے متعلق خدا نے کہا سات آسمان اور ایک زمین پر مشتمل جہاں تک انسان کا تعلق ہے وہ ایک زمین باقی تو گرہ گروہ اپنا جانے.سات آسمان ہوئے نا.قرآن کہتا ہے کہ: إِنَّا زَيَّنَا السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِزِينَةِ الْكَوَاكِبِ ( الصفت :۷) کہ ان سات آسمانوں میں سے پہلا آسمان وہ ہے کہ سارے ستارے اس کے اندر ہیں دوسرا جو آسمان ہے وہاں ستارہ نہیں کوئی سمجھے ستاروں کی جو خوبصورتی آپ کو نظر نہیں آتی.بارش ہوئی ہوئی ہو اور مطلع صاف ہو بالکل آسمان میں فضا میں گردو غبار نہ ہو اور دس ستاروں کی جگہ کروڑوں ستارے آنکھ ہماری دیکھ رہی ہو بالکل اور اس کی تصویریں بن رہی ہوں اور ایک پیٹرن ہو خدا تعالیٰ کی عظمت اور شان ہمارے تصور میں.جہاں تک ہماری نظر پہنچی وہ تو بڑا چھوٹا حصہ ہے نا.جہاں تک سائنسدانوں کی فلکیات سے تعلق رکھنے والوں کی تحقیق پہنچی وہ یہ ہے کہ یہ جو سماء الدنیا ہے پہلا آسمان اس میں ایک تو قبیلے ہیں ستاروں کے اُس کو یہ کہتے ہیں گلیکسی (Galaxy) اور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ پہلے آسمان میں ستارے ہیں اس یہ تو ستاروں کے سارے قبائل پہلے آسمان میں ہیں اور قبیلے کا نام ہے گلیکسی (Galaxy)اور سائنسدان کہتا ہے کہ گلیکسی کے اعداد و شمار نہیں غیر محدود ہیں اُن کے علم کے لحاظ سے غیر محدود اور ہر قبیلے میں اتنے سورج ہیں کہ وہ بھی حد و شمار سے باہر سمجھتے اور یہ سارا پہلا آسمان ہے.ہماری جو عملی سائنس ہے جہاں ٹیسٹ ہوتے ہیں یا ہماری دُور بینیں دیکھتی ہیں اُن کا تعلق تو پہلے آسمان سے ہے پنجابی کا ایک محاورہ ہے پھورنا.وہ پھور یا بھی نہیں پوری طرح زمین لیکن خدا نے مجھے کہا آپ کو بھی کہا ہر شخص کو کہا مخاطب کر کے کہ تم تھوڑا سا علم پہلے آسمان کا حاصل کر کے میرے خلاف کھڑے ہو جاتے اباء اور استکبار کرتے ہو.اعلان کر دیتے ہو کہ ہم
خطابات ناصر جلد دوم ۴۰۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء زمین سے خدا کا نام اور آسمانوں سے اُس کے وجود کو مٹا دیں گے.تم تو اس کی انتہاء بھی نہیں جانتے اور یہ تو پہلا آسمان ہے جو دوسرا ، تیسرا ، چوتھا ، پانچواں ، چھٹا اور ساتواں آسمان ہے اُس کے جوڑ و حانی پہلو ہیں اُن کے متعلق قرآن کریم میں ، احادیث میں کچھ ذکر آتا ہے.جو اُس کے مادی پہلو ہیں.اثرات.کیا اثر اُن کے ہو رہے ہیں وہ ابھی محض تھیوری ہے خدا کرے ہمیں پانچ دس ایسے سائنس دان بھی مل جائیں جو ڈاکٹر سلام صاحب کی طرح اپنے ڈیسک پر بیٹھ کر دوسرے تیسرے آسمان کے متعلق تھیوریز بنایا کریں.فارمولے.جو آج سے پچاس سال بعد یا سو سال بعد یا ڈیڑھ سو سال کے بعد انسان کی عملی تحقیق جب وہاں پہنچتے تو حیران ہو کہ ڈیڑھ سو سال پہلے ایک احمدی کے دماغ کو خدا تعالیٰ نے وہاں تک پہنچا دیا تھا اور آج ہم وہاں پہنچ رہے ہیں.ہمارے سیکھنے کا بڑا علم ہے پھیلا ہوا اس دُنیا اور کائنات میں.بہر حال یہ کتابوں کے ذکر کے ساتھ علم کا ذکر آیا اور علم کے ذکر کے ساتھ اس وعدہ اور بشارت کا ذکر آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان پہنچاننے والوں کے علوم وتحقیق میں برکت ڈالی جائے گی اور وہ اپنے اپنے میدان میں اُس جگہ پہنچیں گے کہ دوسروں کا منہ بند کرنے والے ہوں گے.اُس کا ایک پہلو آ گیا سامنے کل کو ایک دوسرا آ جائے گا پھر تیسرا آ جائے گا.دروازہ کھل گیا اب آگے ہی آگے چلیں گے انشاء اللہ تعالی.پھر میں نے اسی سلسلہ میں اپنی دو خواہشات کا ذکر کر دیا اور دعاؤں کا ذکر کر دیا وہ آپ کریں ہم آپ کو یاد دلاتے رہیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.یہ آج کے لئے جو میں نے بتایا نا فضل تو بڑے ہیں.تھوڑے سے نوٹ کئے ہیں وہ بھی چوہتر صفحوں پہ تھے تو دو ایک میں سے گزروں گا میں انشاء اللہ.اچھا اب ہم ماڈی ضرورتیں جو ہیں ان کو لیتے ہیں بات یہ ہے کہ مہنگائی بہت ہو گئی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے کارکن جو ہیں وہ بڑی قربانی دے رہے ہیں.بعض قربانی سمجھ کے دے رہے ہیں بعض تکلیف محسوس کرتے ہوئے پھنسے ہوئے ہیں.بعض بشاشت رکھتے ہیں.کہتے ہیں خدا تعالیٰ ہمیں جزا دے گا.بعض تنگ آئے ہوئے ہیں ہم سب.اُن کو تو میں کہا کرتا ہوں.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۱۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء میرے سامنے ذرا سا بھی کوئی اشارہ کرے تو میں اس کو مشورہ دیتا ہوں ہم یہاں جبرا نہیں بٹھا رہے جاؤ کہیں اور اپنی روزی تلاش کرو یہ ہم مانتے ہیں کہ اس مہنگائی میں تم پہ بڑی تختی ہو رہی ہے پھر بھی صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید اور وقف جدید نے ( اور چھوٹی چھوٹی رقمیں خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ کی طرف سے بھی دی جاتی ہیں) گزشتہ سال امداد کے طور پر بڑی رقم اپنے کارکنوں میں تقسیم کی ہے.(لیکن باہر والے بھی ایسے ہیں جو مستحق ہیں، اُن کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا نہ کیا جاتا ہے ) پندرہ لاکھ اکاون ہزار روپیہ اُن کے جو گزارے ہیں اُن کے علاوہ پندرہ لاکھ اکاون ہزار روپیہ تقسیم ہوا ہے.اس کے باوجود میں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پھر بھی اُن کی ساری ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں لیکن جو جماعت کے پاس نہیں وہ دیا نہیں جاسکتا اور ایک جگہ پہ آ کے جو ترجیحات ہیں اُن کے مد نظر اگر یہ سوال ہو کہ آپ نے مبلغ غیر ممالک میں بھیجنے ہیں یا اپنے کارکنوں کے پیٹ بھرنے ہیں تو ہم کہیں گے جو خوشی کے ساتھ بھوکے رہ کے مبلغوں کو باہر بھیجنے کے لئے تیار ہیں، وہ رہیں لیکن مبلغوں کو بہر حال باہر جانا چاہئے کیونکہ اصل مقصد جماعت احمدیہ کی زندگی کا یہی ہے کہ اسلام کو دنیا میں پھیلایا جائے.۱۹۷۳ء کے جلسے میں میں نے صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کا اعلان کیا تھا اور یہ جو ہے اگلی صدی ہماری زندگی کی جماعتی زندگی کی.جو ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء سے شروع ہوتی ہے لیکن ۲۳ / مارچ سے یہ پروگرام شروع ہونا ہے اور جلسہ سالانہ پہ آکے اپنے عروج کو پہنچنا ہے.شروع میں جو منصوبے بنائے گئے تھے اس میں اب حالات کے بدلنے سے کچھ تبدیلیاں بھی کرنی پڑیں گی.وہ میں خطبے میں بیان کروں گا اس وقت اُس کا وقت نہیں ہے.یہ جو بتانے والی بات ہے کچھ تو میں نے پہلے بتادی کہ کثرت سے انگریزی ترجمہ قرآن کی اشاعت کا سامان ہو گیا ہے.جو امریکہ میں ترجمہ چھپا ہے (میری آواز پہنچ رہی ہے آپ کو ؟ ) جو امریکہ میں میں ہزار میں نے بتایا ابھی چھپا ہے اُس سے ہمیں ہزار ترجمہ کے ملنے سے ہمیں خوشی نہیں ہوئی جتنی اس بات سے کہ ایک بہت بڑا مطبع خانہ ہے جس کے ساتھ ہمارا تعلق قائم ہو گیا اور وہ اس طرح کہ پہلے تو شروع میں انہوں نے تیاری شروع کی.پھر یہاں خط آتا تھا کاغذ کون سا لگانا ہے.جلد کیسی ہو گی.آنے جانے میں بڑا وقت لگتا ہے.وہ سارا میں نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا تھا
خطابات ناصر جلد دوم ۴۱۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء آخر جب ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ اب شائع کر دو تو انہوں نے چوبیس گھنٹے کے اندر بیس ہزار نسخے شائع کر کے ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیئے اور یہ جو خواہش، تڑپ رہی ہے میرے دماغ میں کہ دس سال کے اندراندرا مریکہ میں ایک ملین ، دس لاکھ تراجم قرآن کا پہیاں انگلش قرآن کی.یہ تقسیم کی جائیں ، اس کا ایک دروازہ کھل گیا.دو سال ہوئے ایک تھوک فروش نے کہا میں ایک لاکھ نسخہ قرآن کریم انگریزی ترجمہ کا لیتا ہوں.کتنی دیر میں دیں گے؟ ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا اُس وقت تجربہ ہی کوئی نہیں تھا.میں نے کہا اب اس سے آگے بات نہ کرو.کیونکہ اس کو تو شاید چار سال لگ جائیں پانچ سال لگ جائیں ، مذاق بن جائے گا سودے کا لیکن اگر آج کوئی تھوک فروش کہے کہ دس ملین لیتا ہوں تو دس ملین کا مطلب ہے پچاس دنوں کے اندر یہ مطبع جو ہے یہ چھاپ کے دے دے گا یا اس سے بھی جلدی.ایک رستہ کھل گیا نا حرکت میں برکت ہے جب انسان کوشش کرتا ہے اور اپنی کوشش میں بالکل اندھیرے میں گھس جاتا ہے پھر خدا تعالیٰ وہاں کوئی روشنی پیدا کر دیتا ہے.وہ کام ہو جاتا ہے.عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ فرانسیسی زبان میں جو دیباچہ تفسیر القرآن ہے حضرت مصلح موعود مشتمل ہے.رضی اللہ عنہ کا کوئی ساڑھے تین سو صفحے کی کتاب ہے بہت سارے مضامین پر سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اور پروف ریڈنگ اب ہورہی ہے میرا خیال ہے اگلے تین مہینے کے اندر اندر یہ ہو جائے گی.دُنیا میں کئی کروڑ انسان مختلف دنیا کے علاقوں میں فرانسیسی پڑھنے والے ہیں اور بڑی خواہش رکھتے تھے.میرے پیچھے پڑ گئے کئی فرانسیسی بولنے والے افریقین جب میں ۱۹۷۰ء میں وہاں گیا تھا کہ ہمیں جلدی قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ دیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی اچھا ترجمہ نہیں.وہ انشاء اللہ ہو گیا تو جسے نصف دُنیا کہتے ہیں ویسے نصف نہیں لیکن مشہور ہے کہ نصف دُنیا میں انگریزی بولی جاتی ہے اور نصف میں فرانسیسی تو اُتنے حصے کے لئے بھی ترجمہ ہو جائے گا.پھر اگر چہ روسی زبان کا ترجمہ ہو چکا ہے Revision ہونے والا ہے ( یعنی نظر ثانی ) وہ چھپ جائے اور چینی زبان میں چھپ جائے ( جہاں ہمارا نو جوان شاید، جامعہ احمدیہ کا فارغ التحصیل مبلغ زبان سیکھ رہا ہے اللہ نے یہ انتظام کر دیا.تو پھر دُنیا کے کم از کم اسی فیصد آبادی کے
خطابات ناصر جلد دوم ۴۱۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء ہاتھ میں ہم قرآن کریم کی برکتیں پہنچا سکتے ہیں اُن سے فائدہ اٹھانا نہ اُٹھانا پھر اُن کا کام ہوگا اور انشاء اللہ میں آپ کے پاس آؤں گا خطبوں کے ذریعہ اس کے سلسلہ میں بھی.میں نے صد سالہ جو بلی کا جب اعلان کیا اُس وقت جو میرے دماغ میں خیال تھا اس کے مطابق اعلان کیا جب خدا تعالیٰ میرے فیصلہ کو ٹھکرا کے ردی کاغذ کی طرح پھاڑ کے پرے پھینک دے نا ، تو اتنی خوشی ہوتی ہے مجھے کہ کوئی حد نہیں اور میں بتاتا ہوں کیوں خوشی ہوتی ہے میرا اندازہ تھا اور بڑے ڈر ڈر کے میں نے اعلان کیا کہ دو کروڑ پچاس لاکھ روپیہ اگلے پندرہ سال میں جمع کر دے جماعت تا کہ ہم آنے والی غلبہ اسلام کی صدی کا شایانِ شان استقبال کر سکیں.مگر جو وعدے ہوئے وہ نو کروڑ بانوے لاکھ کے یعنی قریباً دس کروڑ کے وعدے ہو گئے.میں نے کہا تھا ابھی دس سال رہتے ہیں اُس زمانہ میں کہ پندرہ سال تک اڑھائی کروڑ جمع کر دو اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جو وصولی ہو چکی ہے وہ قریباً دو کروڑ انیس لاکھ روپے کی.یعنی قریباً قریباً اتنی جو میں نے سارے زمانہ کے لئے اعلان کیا تھا.اس کا سارا کام جو ہے حساب وغیرہ رکھنا، تحریکیں کرنا، بہت کم اس کے اوپر خرچ کر رہے ہیں.کوئی سیکریٹریٹ نہیں بنایا صد سالہ جو بلی نے جو تیاری کرنی تھی استقبال کے اگلی صدی کی اُس کے کئی کام میں نے اُس وقت اعلان بھی کئے تھے.کئی نئے مشن وغیرہ.ایک تو جو ہمیں پھل ملا خدا کے فضل اور اُس کی رحمت سے اس تحریک سے پہلا پھل تو سویڈن میں گوٹن برگ میں ایک نہایت خوبصورت مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر اس فنڈ سے کی گئی.یہ ایک چوٹی پر ہے گوٹن برگ کی اور قریباً سوائے اس کے کہ بعض حصے پہاڑوں کی اوٹ میں آئے ہوئے ہیں باقی سارے شہر سے مسجد نظر آتی ہے رات کو دن کو بھی رات کی بجلیاں نظر آتی ہیں اور وہ سارا شہر اس مسجد سے نظر آتا ہے.پھر جب یہ ایک جگہ بن گئی جہاں خطبہ ہوتا ہے جہاں لوگ اکٹھے ہوتے تھے.جہاں لائبریری ہوتی تھی جہاں لوگوں نے آنا شروع کر دیا تو ایک سلسلہ بیعتوں کا شروع ہو گیا اور مختلف ممالک کے لوگوں نے گوٹن برگ کے مشن ہاؤس میں آ کر جو صد سالہ جو بلی فنڈ سے اور اُس منصوبہ کے ماتحت بنی تھی وہاں آ کے احمدیت کو قبول کرنا شروع کیا اور قربانیاں دینی شروع کیں.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۱۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء اسی منصوبہ کے ماتحت گزشتہ برس عالمی کسر صلیب کا نفرس لندن میں منعقد کی گئی جس کے او پر میرے لڑکے انس نے اسی جلسہ سالانہ میں ) تقریر بھی کی ہے جنہوں نے سنی ہوگی اُن کو پتہ لگا ہوگا کہ کس قدر وسیع اثرات کی وہ حامل بنی.اور اسی طرح لندن مشن میں اس منصوبہ کے خرچ پر کتاب Truth about the Crucification صلیب مسیح کی حقیقت اور صداقت اس واقعہ میں کیا ہے چھپی, کانفرنس میں جو پیپر پڑھے گئے تھے وہ کتابی شکل میں شائع ہوئے اور ساری دنیا میں وہ پھیلے اور دوسری کتاب Essence of Islam حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے اقتباسات کا چار مضامین پر ( جیسا کہ میں نے بتایا ہے ) ترجمہ اسی فنڈ سے شائع ہوا ہے اور بہت ساری رقم واپس بھی آگئی ہے.وہ جماعتوں نے خرید لی ہے وہاں کی.اسی طرح اس فنڈ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی“ اس کا جو پہلے ترجمہ تھا اُس میں بعض نقائص تھے پھر میں نے محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب سے کہا کہ آپ مہربانی فرما کے اس کا از سر نو ترجمہ کریں.پچھلے سال اُن کو کہا تھا.وہ ترجمہ بھی ہو گیا ہے اور پچاس ہزار نسخے چھپ کے اور قریباً ساری پہنچ گئی ہوگئی.بہر حال چھپ چکی ہے وہ پہلے خیال تھا کہ اس اسلامی اصول کی فلاسفی کی قیمت ہوگی قریباً آٹھ روپے.پہلے یہ بھی ایک بات تھی کہ اس کا نام غلط لکھا گیا تھا یعنی Teaching of Islam.اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اس کا نام رکھا ہے The philosophy of The Teachings of Islam اب اس نام کے ساتھ یہ ترجمہ آ گیا ہے Revised translation لیکن جب پچاس ہزار کا ہم.آرڈر دیا تو جو قیمت انہوں نے بل بھیجا اُس کے لحاظ سے وہ ۲۳ Penny جس کا مطلب یہ قریب پانچ روپے کی وہ کتاب پڑی اور ان لوگوں کے لئے جہاں وہ زیادہ تر تقسیم ہونی چاہیے بہت ہی سستی ہے.بلکہ بعض لوگ شاید کہیں کہ ضرورت سے زیادہ سنتی ہے.پھر ایک اور خوشی کی بات ہے ہمیں ایک نیا پھل بہت ہی میٹھا یہ ملا کہ تین ملک ہیں یورپ کے ڈنمارک سویڈن اور ناروے بہر حال وہ کچھ ڈنمارک میں مسجد پہلے بن گئی ۱۹۶۷ء میں.میں نے اُس کا افتتاح کیا.سویڈن میں گوٹن برگ میں مسجد مشن ہاؤس بنا.۱۹۷۵ء میں میں نے سنگ بنیاد
خطابات ناصر جلد دوم ۴۱۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء رکھا اور ۱۹۷۶ء میں میں نے جا کے اُس کا افتتاح کیا اور اب پچھلے ہفتے ایک بہت بڑی عمارت چار کنال ناروے کے شہر اوسلو کے وسط میں بہت عمدہ علاقے میں تین منزلہ عمارت ہے (اور انہوں نے لکھا ہے کہ ہماری جماعت کی ضرورتیں پوری کر کے دو خاندانوں کے رہنے کی رہائش یعنی دو کوارٹر بھی نکل آئیں گے ) وہ خریدی گئی پندرہ لاکھ کرو نے ( یہ اُن کا سکہ ہے ) میں، بہت اچھی جگہ ہے عین اُس کے سامنے وہاں کے بادشاہ کا ایک پارک ہے.بادشاہ کے نام پر موسوم.اُس کے دوسری طرف بادشاہ کا محل بھی ہے لیکن بہر حال سامنے کھلا پارک ہے اُس کے سامنے سٹرک ہے.سٹرک کے اس طرف وہ بڑا اچھا بنا ہوا مکان.بڑی موٹی موٹی پتھر کی دیواریں سروے وغیرہ کروا کے انجینئر سے پھر وہ خریدا گیا.یہ نئی جگہ مل گئی.سپین میں جہاں بڑی مشکل پیدا ہو رہی تھی میں ۱۹۷۰ ء سے کوشش کر رہا تھا اور بڑی دعائیں کر رہا تھا آپ کو بھی شاید کئی دفعہ کہا.اب اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ قرطبہ ۱۹۷۰ء کے میرے دورے پر جس نے مجھ پہ یہ اثر چھوڑا تھا کہ اچھے لوگ ہیں ملنسار ہیں مسلمان سے تعصب نہیں رکھتے.ہمیں دیکھ کے آجاتے تھے.بڑے پیار سے باتیں کرتے تھے.وہاں سے قریباً چوبیس میل پر ایک چھوٹے سے گاؤں میں سات آٹھ ہزار پاؤنڈ پر وہ زمین مل گئی ہے اچھی خاصی بڑی، اس طرح ہے.تھوڑا ساڑتا بھی ہے.بڑی سٹرک سے ایک چھوٹی سٹرک سے نکلتی ہے وہاں سے ایک فرلانگ کے اوپر سٹرک تک یہ زمین ملتی ہے پانی ساتھ ہے بجلی کا کھمبا ساتھ جا رہا ہے بہت اچھی جگہ ہے اور سب سے زیادہ اہم خوشخبری کی بات یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں نے ہمیں اجازت دے دی ہے کہ بڑی خوشی سے یہاں مشن ہاؤس اور مسجد کو تعمیر کریں.یہ بڑا متعصب کیتھولک ملک رہا ہے اب تو اللہ تعالیٰ نے وہاں یہ تبدیلی پیدا کی.عظیم انقلاب میں سمجھتا ہوں خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے اُس ملک میں پیدا کیا ہے کہ وہ سہولت ہو گئی.باقی رہ گئی ہمارے پروگرام کے مطابق اور آپ کی اور میری خواہشوں کے مطابق ایک فرانس میں زمین ملنی چاہئے ایک اٹلی میں.فرانس کی زمین کے لئے میں نے ایک شخص کو جو جنیوا میں رہتے ہیں مقرر کیا تھا.انہوں نے تین چار ٹکڑے دیکھ لئے ہیں اور مجھے اُمید ہے کہ اگلے تین چار مہینوں کے اندر اسی طرح آٹھ دس ہزار میں جو بہت سستی قیمت ہے آٹھ دس ہزار پاؤنڈ کوئی قیمت نہیں ہے.صد سالہ جو بلی
خطابات ناصر جلد دوم ۴۱۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء کے لئے زمین خریدی جائے گی.اٹلی میں بھی زمین خریدی جاسکتی ہے ویسے تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے ہمیں کسی کے محتاج نہیں اپنوں کے بھی محتاج نہیں اپنی ذات کے بھی محتاج نہیں ہم مولی بس.ڈاکٹر عبد السلام صاحب ٹریسٹے (Trieste) میں رہتے ہیں یہ علاقہ ہے جس کے قریب آسٹریا کی سرحدیں بھی ہیں اور یوگوسلاویہ کی سرحدیں بھی ہیں اور وہاں سے زیادہ دُور ہنگری بھی نہیں اور اُس علاقے میں اگر ہمارا مشن ہو تو کئی ملکوں میں جو پرانے احمدی ہیں اُن سے ملاپ کی تجدید ہو سکتی ہے اور وہاں بھی اسی طرح ایک چھوٹے سے گاؤں میں کوئی چار کنال یا آٹھ کنال کا ٹکڑا آٹھ دس ہزار کا مجھے چاہئے محل نہیں بنانے ہم نے آج محل بنانے والے بناتے رہیں گے.آج تو ہم اس بات میں خوش ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے ایسی مسجد بنالیں جس کی چھت کھجور کے پتوں اور ٹہنیوں کی ہو اور الحمد للہ کہہ کے ہم نماز پڑھیں اور بارش ہو جائے تو ہمارے ناک کو مٹی لگے اور بڑی خوشی اور بشاشت کے ساتھ ہم اپنے ہاتھ اور اپنے کپڑوں سے اُس مٹی کو پونچھیں اور کہیں کہ وہ نشان جو اُس وقت اسلام نے دیکھا تھا آج اُسی کے اُسوہ کے مطابق ہم نے بھی دیکھ لیا.سپین میں بھی دیر اس لئے ہوئی کرم الہی صاحب ظفر یہاں آئے ہوئے ہیں.ان کو میں نے بڑا سمجھا یا شروع خلافت سے ہی کہ میڈرڈ مہنگی جگہ، بداخلاق جگہ وہاں لوگ آتے ہیں ، لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی ایک وقت میں ہوتا ہے عیش کرنے آتے ہیں وہاں آپ کی بات سننے کا تو وقت ہی نہیں اُن کے پاس ، توجہ ہی نہیں کریں گے چھوڑیں میڈرڈ کو ، دار الخلافہ ہے اُن کا.باہر نکلیں جب سے یہ گئے ہیں بڑی ہمت سے گئے اپنا کام کیا اور انہوں نے تبلیغ کی.اللہ تعالیٰ انہیں جزاء دے.بڑے پیارے ہیں لیکن کچھ میڈرڈ کا پیارا اتنا شدت اختیار کر گیا تھا کہ ہماری زمین خریدنے میں دس بارہ سال کی تاخیر ہو گئی.اب وہ اور ایک اور مبلغ گئے تھے قرطبہ کے قریب انہوں نے وہاں بڑی اچھی جگہ تلاش کی ( کام انہوں نے ہی کیا.اصل انچارج ہیں یہ ) بہر حال وہاں زمین مل گئی.دُعا کریں دو جگہیں فرانس اور اٹلی میں مل جائیں کے مشنوں کے منصوبوں اور اُن کے بنانے سے ہمارے ذہن فارغ ہو کے پھر اور آگے جائیں.ہمارے دماغ نے تو فارغ نہیں رہنا.اُس وقت تک میرا اور آپ کا دماغ کام
خطابات ناصر جلد دوم ۴۱۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء کرتا رہے گا جب تک دُنیا کا ایک آدمی ایسا ہے جس نے خدا کی معرفت حاصل نہیں کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پہنچا نا نہیں لیکن جب ایک کام سے فارغ ہوں گے تو اگلے کام کی طرف توجہ کریں گے نا.محدود دماغ ہیں ہمارے.اللہ تعالیٰ کی قدرتیں غیر محدود ہیں اپنی قدرتوں سے جو وہ کر دے کر دے کرے گا بھی انشاء اللہ.ہم یہ کیا اُس نے بھروسہ کرنا ہے آپ ہی کرنا ہے سب کچھ.ہاں سرینگر جو ہے وہ بڑی مشہور جگہ ہے کشمیر میں ہے.آپ میں سے اکثر جانتے ہیں اکثر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ سرینگر میں ایک محلہ ہے اس کا نام ہے خانیار.خانیار محلہ ہے وہاں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کر کے دُنیا میں یہ اعلان کیا کہ خانیار محلہ میں جو ایک قبر ہے یوز آسف نبی کی.وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر ہے.وہاں جماعت ہے پرانی لیکن ٹھیک ٹھکانا نہیں تھا.اب یہ تحریک ایک زوروں پر چلی نا کہ مسیح فوت ہو گئے خدا کے رسول تھے علیہ السلام.اللہ تعالیٰ اُن کو غریق رحمت کرے.دوسرے انبیاء کے ساتھ اُن کو ہر روز نئی سے نئی رفعتوں تک پہنچائے.ہماری دعائیں ہیں اُن کے ساتھ بڑا احترام اور پیار ہے اُن کا.انہوں نے بڑی خدمت اسلام کی بھی کی ہے اپنے وقت میں بنی اسرائیل کے اندر، علیحدہ مضمون ہے وہ.لیکن بہر حال ایک انسان تھے اور وہ فوت ہو گئے اور وہ دفنائے گئے کسی جگہ جس طرح ہر انسان کو دفنا دیتا ہے ایک دوسرا انسان ، مسلمان تو اب جب یہ تحریک ہوئی ساری دنیا میں شور مچا تو غیر مسلم سیاح بھی وہاں جانے لگ گئے اور ہمارے احمدی بھی بہت سارے جو آتے ہیں یہاں جلسہ پر بھی اُن کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہاں جائیں دیکھیں تو وہاں مشن ہاؤس بن گیا ہے صد سالہ جو بلی کی کافی رقم لگ کے.ایک اچھی بڑی تعمیر ہو گئی ہے وہاں مسجد بھی بڑی ہو گئی.مشن ہاؤس بھی بڑا ہو گیا.تحریک جدید غانا: غانا میں قرآن کریم انگریزی ترجمہ کی دس ہزار کا پیاں خود غانا کے ملک میں شائع ہو کی کا نانا کے گئیں اور وہ ملک بہت خوش ہے وہاں ایک گرلز ٹریننگ سنٹر کا اجراء ہوا ہے.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۱۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء وہاں ایک اور خوشی کی بات ہوئی ہے میں نے کئی دفعہ اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ جہاں ممکن ہو وہاں ہم بڑی عید اُس روز کریں جس دن مکہ مکرمہ میں عید الاضحی کی جاتی ہے.تو وہاں عبدالوہاب بن آدم آئے ہوئے ہیں جلسہ میں شریک ہونے کے لئے.انہوں نے بھی میری بات سُنی ہوئی تھی.اس دفعہ انہوں نے پوری تحقیق کر کے ایسا انتظام کر دیا کہ عید الا ضحیہ غانا کے ملک میں جماعت احمدیہ نے اُس روز کی جس دن خانہ کعبہ میں سعودی عرب میں عید ہورہی تھی اور اس کا بڑا چرچا ہوا اخباروں میں.کیونکہ ایک نئی چیز تھی نا.ایک نئی حرکت پرانی برکت کی طرف منہ کر کے شروع ہو گئی.خانہ کعبہ اَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ (ال عمران: ۹۷) ہے.اس سے جماعت احمدیہ کا بھی ساتھ ہی چرچا ہوا اور بڑی خوشی کی اور برکت کی لہر دوڑی.سیرالیون : ایک نئی مسجد وہاں تعمیر ہو گئی.لوگ خدا تعالیٰ کی برکتوں کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں.صرف احمدی نہیں بلکہ دوسرے بھی اُس ملک والے ہی نہیں باہر سے آنے والے بھی.کوریا کے سفیر فری ٹاؤن میں ہیں.وہ احمد یہ مسلم سیکنڈری سکول کی ایک تقریب میں شامل ہوئے.انہیں قرآن کریم کا تحفہ دیا گیا.بہت خوش ہوئے.کہنے لگے کو ریا میں تو ہمیں.ان کا یہ فقرہ بہت مزیدار ہے.وہ سفیر جو کوریا کے تھے اُن کو قرآن کریم کا جب تحفہ دیا گیا تو اُن کے منہ سے یہ فقرہ نکلا کہ ہمیں کوریا میں تو صرف بائیبل ہی ملتی ہے ، مگراب قرآن کریم پا کر بہت خوشی ہوئی.نائیجیریا: الا رو کے مقام پر احمد یہ مشنری ٹرینینگ کالج کا اجراء کیا گیا.اب وہاں ضرورت بہت بڑھ گئی ہے اور یہاں سے اتنے آدمی ہم جامعہ احمدیہ کے بھیجو انہیں سکتے.اس میں بہت ساری روکیں ہیں.کچھ ہماری ہیں.ہمارے پاس اتنا پیسہ بھی نہیں جو خرچ کریں.اس واسطے ایک غانا میں ٹریننگ کالج ہے اور وہاں مختلف ملکوں کے احمدی آ جاتے تھے.پھر اب ان کے آپس میں بھی فارن ایکسچینج کی مشکلیں ہیں.تو اب دوسراٹر یننگ کا لج نائیجیریا میں کھل گیا ہے.ایک نئے سیکنڈری سکول کا اجراء ہوا ہے.ایک نئے ہسپتال کھولنے کی اجازت مل گئی ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۴۱۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء انشاء اللہ بن جائے گا.دونئی مساجد کا افتتاح ہوا ہے.دارالخلافہ لیگوس کا مشن ہاؤس کام کی وسعت کے نتیجہ میں تنگ ہو گیا تھا.وہ میں نے بھی دیکھا ہوا ہے بڑا تنگ.اس کے لئے شہر سے با ہر زمین لے لی ہے اور وہاں نیا مشن ہاؤس تعمیر ہورہا ہے.نائیجیریا کے ساتھ لگتا ہے ایک اور ملک ، آزاد ملک.بین اُس کا نام ہے.ری پبلک ہے.وہاں ہمارا کوئی مبلغ نہیں.وہی لوگ جب ادھر آتے ہیں نائیجیر یا تو اُن کا ملاپ ہوتا ہے ہمارے مشن سے.وہ ہماری باتیں سنتے ہیں.کتابیں پڑھتے ہیں لے جاتے ہیں.گھر جاتے ہیں.اپنے علماء سے باتیں کرتے ہیں.اُن کو بتاتے ہیں مسئلے مسائل کہ یہ ایک جماعت ہے جو یہ باتیں پیش کر رہی ہے.اس طرح اُن کو تبلیغ ہوتی ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا ہے کہ بغیر کسی مبلغ اور مشن کے ایک مخلص اور فعال جماعت اللہ تعالیٰ نے ہمیں دے دی.اس سال بینن کے جلسہ سالانہ پر سینکڑوں افراد جمع ہوئے.چھوٹی جماعت ہے نئی نئی بنی ہے اور مشن ہاؤس کی تعمیر انہوں نے شروع کر دی ہے جس کے اخراجات وہ خود ہی اکٹھے کر رہے ہیں.نائیجیریا کا ایک اہم اخبار ہے اس میں ایک اہم Personality، ایک معروف ہستی ہیں وہاں کی الحاج ابوبکر.انہوں نے ایک مضمون شائع کیا ہے احمدیت پر اور اُس میں وہ لکھتے ہیں کہ If today, I could stand before any christian and an able to discuss about religion with confidence, it was to the Ahmediyya literature and books at my disposal.کہ اگر آج میں اس قابل ہوا ہوں کہ مجلسوں میں بیٹھتے ہوئے عیسائیوں کے ساتھ بات کرسکوں، خود اعتمادی کے ساتھ مذہبی گفتگو کر سکوں.تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے جماعت احمدیہ کا لٹریچر رکھا ہوا ہے اور بہت سی کتابیں ہیں میرے پاس جن کو میں نے پڑھا ہے اور اس وجہ سے میں عیسائی پادریوں کے ساتھ بات کرنے کے قابل ہو گیا ہوں.گیمبیا: ایک اور ویسٹ افریقن ملک وہاں کے وزیر برائے اکنامک اینڈ پلانگ نے احمد یہ سکول
خطابات ناصر جلد دوم ۴۱۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء کا معائنہ کیا اور انہوں نے فرمایا.ہمارے ملک میں احمد یہ سیکنڈری سکول واحد سکول ہے جو اکنا مک کا مضمون بھی پڑھاتا ہے یعنی سارے ملک میں ہمارا سکول جو ہے جماعت کا ، وہ اکیلا سکول ہے جس میں اقتصادیات کا مضمون پڑھایا جاتا ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ہم اس کے فارغ التحصیل طلباء کو اپنے دفاتر میں بڑی خوشی سے جگہ پیش کرتے ہیں.اس واسطے کہ علمی لحاظ سے وہ اچھے ذہین طالب علم ہیں اور اعتماد کے لحاظ سے وہ دیانت دار ہیں.سکول کے پاکستانی پرنسپل کو (یعنی ملک میں ہمارا پاکستانی پرنسپل ہے اور وہ مجھے بھی عجیب لگا کہ انہوں نے بجائے اس کے کہ کسی کیمپین کو اس کام کے لئے منتخب کیا ہوتا ، انہوں نے ہمارے پاکستانی پر نپل کو ، ہمارے سکول کا پرنسپل جو پاکستانی ہے اُسے ) ویسٹ افریقن اگزامینیشن کونسل کی نیشنل کمیٹی کا رکن منتخب کر لیا.وہ دوسرے ملکوں میں دوروں پر بھی جاتے ہیں.سالانہ جلسہ کی صدارت ملک میں وائس پریذیڈنٹ صاحب نے کی.بعض جلسوں میں اُن کے پریذیڈنٹ صاحب بھی آجاتے ہیں.گیمبیا میں امسال الاسلام کے نام سے رسالہ جاری کیا گیا ہے.یہی حال پوری طرح تندہی کے ساتھ پوری ہمت کے ساتھ ، پورے جذبہ کے ساتھ ان ممالک میں جنہیں ایک وقت میں عیسائیت نے اسلام کی گود سے یا پیکنزم سے، بد مذہبی سے جیتا، اب ہم واپس اُن کو اسلام کی طرف لا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے مبلغوں کو یہ توفیق دی ہے.ولا فخر ہمارے لئے فخر کی کوئی بات نہیں.خدا ہی ہے جو منصوبے بناتا اور ہمیں کامیابیاں عطا کرتا ہے.مشرقی افریقہ مشرقی افریقہ میں کینیا میں سکول کے اجراء کے لئے کوشش کی جارہی ہے اور ایک زمین کا ٹکڑا خرید لیا ہے.کینیا کے پڑوسی ملک روانڈا (Rwanda) میں خدا کے فضل سے ایک جماعت قائم ہو چکی ہے.تنزانیہ میں ایک نئے مشن کا قیام عمل میں آچکا ہے.ایک مقامی مبلغ عیسی احمدی وہاں متعین
خطابات ناصر جلد دوم ۴۲۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء کئے گئے ہیں.اب وہاں تنزانیہ میں مشنوں کی تعداد دس ہو گئی ہے.تین نئی مساجد اس سال تعمیر ہوئی ہیں.اس ایک سال کے اندر تین نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور ایک مشن ہاؤس کی تعمیر ہو رہی ہے.تنزانیہ کی جماعت کا جلسہ سالانہ کامیاب رہا.پانچ ہزار کی نفری اُس میں شامل ہوئی.جولٹر پچر شائع ہوا : نماز سواحیلی زبان میں پانچ ہزار.اسلام کے اسباق سواحیلی زبان میں پانچ ہزار کشتی نوح سواحیلی ایڈیشن دوسرا ایڈیشن دو ہزار، اور ایک اور کتاب تیار ہورہی ہے.یہ سارے مشن غیر ممالک میں افریقہ میں، یورپ میں ، امریکہ میں، جزائر میں ، انڈونیشیا میں سب جگہ یہ مشن جو ہیں وہ پوری تندہی سے یہ کام کر رہے ہیں.جاپان جاپان میں بھی مشن بڑا active ہو گیا ہے اور وہاں انہوں نے رسالے شائع کرنے شروع کر دیئے ہیں ، جلسے کرتے ہیں ، اخباروں میں خطوط لکھتے ہیں.اتنی اُن کی عزت ہے کہ اخبار اُن کے خطوط کو شائع کرتے ہیں اور جب عیسائی یا دوسرا کوئی مذہب والا اُن سے تنگ آ جاتا ہے تو پھر وہ اخبار کو کہتا ہے کہ اب یہ سلسلہ بند کر دو.امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ اس کا ترجمہ ہو چکا ہے جاپانی میں.یہ میرا ایک چھوٹا سا مضمون ہے.انگریزی میں بھی وہ شائع کر رہے ہیں.بھی آئی لینڈ : نجی میں جو آئی لینڈ ہیں وہاں کی مقامی آبادی میں احمدیت اثر و رسوخ قائم کر رہی ہے اور بہت سے مقامی لوگ جو ہیں، وہ احمدی ہو چکے ہیں.کینیڈا کینیڈا میں دو جگہ ہمارے مبلغ والے مشن قائم ہو چکے ہیں.ویسے بہت سارے مشن ہیں.امریکہ امریکہ کے مغربی ساحل سان فرانسسکو میں مشن کی ایک نئی برانچ کھول دی گئی ہے اور
خطابات ناصر جلد دوم ۴۲۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء ہمارے یہاں کے پڑھے ہوئے ایک مبلغ وہاں کام کر رہے ہیں.آسٹریلیا: آسٹریلیا میں نئی جماعت قائم ہوئی ہے.مغربی جرمنی : جرمنی میں فرینکفرٹ کے مقام پر اسلامی موضوعات پر ایک کا نفرنس منعقد کی گئی.اسی طرح سوئٹرز ر لینڈ میں جو بہت کامیاب ہوئی.وقف جدید : اسی طرح وقف جدید بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام کر رہی ہے مگر وقف جدید چونکہ اچھا کام کر رہی ہے اس لئے جماعتیں کہتی ہیں وقف جدید کے معلم ہمیں بھیجو لیکن ساتھ ہی جماعت یہ بھی کہتی ہے کہ ہم آپ کو وقف جدید کے معلم بنانے کے لئے اپنے بچے نہیں دیں گے.تو یہ دو متضاد باتیں ایک وقت میں کیسے ہوں گی.اگر آپ بچے نہیں دیں گے تو آپ کی یہ خواہش کیسے پوری ہوگی کہ آپ کی ضرورت کے مطابق آپ کی مطلوبہ تعداد کے مطابق آپ کو مبلغ اور معلم مل جائیں.اس واسطے ہر گاؤں منگائے ہم سے معلم وقف جدید لیکن ہر گاؤں میں معلم وقف جدید بننے کے لئے اپنا ایک بچہ دے.تبھی جائے گا نا.آسمان سے فرشتوں کو میں پکڑ کے نہیں لا سکتا.یہ اپنا لٹریچر بھی شائع کرتے ہیں.ان کے ذریعہ جو مقامی زبانیں ہیں نا مثلاً پشتو میں بھی کچھ رسالے شائع ہوئے ہیں.اسی طرح اور بعض سندھی وغیرہ میں بھی.یہ بھی کام لیتے ہیں ہم ان سے.نصرت جہاں ریزروفنڈ : ’نصرت جہاں ریز روفنڈ خدا کے فضل سے ہماری وہ قربانی اللہ کے حضور مقبول ہوگئی اور
خطابات ناصر جلد دوم ۴۲۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء اس کا ہمیں اس سے پتہ لگتا ہے کہ جو ریز روفنڈ ۱۹۷۰ء میں اکاون لاکھ کی اپیل پر اور ترپن لاکھ چھہتر ہزار کی عملاً وصولی پر قائم ہوا تھا.اس میں خدا نے برکت ڈالی.دوست بڑی ہمت کرتے ہیں.جوا پیل ہے اُس سے زیادہ چندہ آ جاتا ہے.یہ سرمایہ تھا.اس کے متعلق بہت سی باتیں میں پہلے بتا چکا ہوں.دہرانے کی ضرورت نہیں.ترپن لاکھ کا سرمایہ تھا جو وہاں لگایا گیا اور ترپن لاکھ کا سرمایہ جو آپ نے دیا.قربانی دی خدا کے حضور، خدا نے اُسے قبول کیا اور اُس میں برکت ڈالی.اتنی برکت ڈالی کہ اس ترپن لاکھ میں سے آپ کئی کروڑ روپے پہلے خرچ کر چکے ہیں.یہ آپ جمع تفریق کر کے نکالیں.ترتین لاکھ میں سے کئی کروڑ روپیہ ہم خرچ کر چکے ہیں اور اس سالِ گذشتہ میں اُس ایک سال میں ترتین لاکھ جو تھا اس میں کئی سے کروڑ خرچ ہونے کے بعد ایک کروڑ انتالیس لاکھ چوالیس ہزار روپیہ ہمارے پاس تھا اور اس میں ایک کروڑ سات لاکھ چوبیس ہزار روپیہ خرچ ہو گیا اور باقی چھہتر لاکھ روپیہ پیچ گیا.یہ تر پن لاکھ میں سے سب کچھ ہوا.تو ترپن لاکھ میں تو حساب کی رو سے ایسا نہیں بنتا.اگر ترپتن لاکھ میں آپ خدا تعالیٰ کی برکت اور رحمت شامل کر دیں تو یہ بن جاتا ہے.ترپن لاکھ جو آپ نے قربانی پیش کی خدا کے حضور اُس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی برکت ڈالی.پھر جو تر پن لاکھ جمع برکت ، اُس نے یہ شکل بنائی کہ کئی کروڑ روپیہ خرچ ہو گیا اور پھر بھی بچ رہا اور سال رواں جواب ختم ہو رہا ہے.اس میں ایک کروڑ انتالیس لاکھ چوالیس ہزار ( یہ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں کتنا کمزور ہوں بیماری کی وجہ سے ) یہ رقم تھی پڑی ہوئی.اس سال خرچ ہوا ایک کروڑ سات لاکھ چوبیس ہزار روپیہ اور پھر ترپن لاکھ میں سے چھہتر لاکھ روپیہ بیچ بھی گیا.اس کے علاوہ ایک کروڑ پینتیس لاکھ کی عمارات وغیرہ ہیں وہاں موجود یعنی ترین لاکھ میں سے سارے کروڑ خرچ کرنے کے بعد دو کروڑ گیارہ لاکھ پینتیس ہزار روپیہ سرمایہ کی صورت میں نقدی کی صورت میں یا سرمایہ عمارتوں وغیرہ کی صورت میں رہا.یہ ہے اللہ کی برکت ! ایک بزرگ نے مجھے کہا تھا آپ کے پاس ترپن لاکھ روپیہ ہے تجارت پر لگا دیں جو آمد ہو، اُس سے آپ اپنا منصوبہ چلائیں.میں نے اُن سے پوچھا آپ زیادہ سے زیادہ کیا امید رکھتے ہیں، کتنی آمد ہوسکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر بہت ہی حد ہو جائے تو بارہ چودہ فیصد نفع ہو جائے
خطابات ناصر جلد دوم ۴۲۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء گا.میں نے انہیں کہا جس سے میں تجارت کرنا چاہتا ہوں.وہ کہتا ہے میں بغیر حساب کے دیتا ہوں.مجھے اُس سے تجارت کرنے دیں.دیکھا آپ نے بغیر حساب کے کس طرح مل گیا.جو مجھے بھی حساب یاد نہیں رہ رہا.مجلس نصرت جہاں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے اُن ممالک میں مغربی افریقہ کے.جن کے لئے یہ منصوبہ تھا سترہ ہسپتال کھولے اور بہت سے سکول.نصرت جہاں کے ہسپتالوں میں اب تک اکیس لاکھ دو ہزار سات سو سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا گیا.اللہ نے بڑی توفیق دی ان کی خدمت کرنے کی.جن میں سے ایک لاکھ تہتر ہزار آٹھ سو مر یضوں کا علاج مفت کیا گیا.کوئی اُن سے پیسہ نہیں لیا گیا.وقف عارضی : یہ تو دو ہفتے آپ نے دینے ہیں کبھی سستی کر جاتے ہیں.کبھی میں کہتا ہوں پھر تیز ہو جاتے ہیں.اب میں پھر کہتا ہوں پھر تیز ہو جائیں.( انشاء اللہ ) دو ہفتے کے لئے وقف عارضی کریں.بڑی برکتیں ہیں.مجھے تو سب نے نہیں لکھا.جنہوں نے لکھا ہے انہوں نے کہا ہے.ہم نے اپنی تھوڑی سی کوشش کا پھل برکتوں کی شکل میں وصول کیا.فضل عمر درس القرآن : یہ اچھی خاصی چل رہی ہے.اتنی نہیں جتنی ہونی چاہئے مگر کوئی ڈیڑھ ہزار کے قریب لڑکے اور لڑکیاں اس میں آ جاتے ہیں.فضل عُمر فاؤنڈیشن : فضل عمر فاؤنڈیشن بھی اپنا کام کر رہی ہے.ان کا سرمایہ تھوڑا تھا.صرف پینتیس لاکھ تھا.انہوں نے ہمت کر کے ایک بہت بڑا ہمیں بنا دیا گیسٹ ہاؤس، جس میں ہمارے غیر ملکی مہمان ٹھہرتے ہیں.کوئی ضرورت سے زیادہ خرچ کر دیا شروع میں تھوڑی سی ان کو تنگی پیدا ہوئی.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے چند ایک کا منادی بن کے میں یہاں کھڑا ہوں اور میں
خطابات ناصر جلد دوم ۴۲۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء نے بتایا اور آپ نے دیکھا دنیا کے کونے کونے میں جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بارش، موسلا دھار بارش سے بھی زیادہ ہو رہی ہے.ہمارے منہ میں وہ زبان نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر سکیں جو اُس کا حق ہے اور ہمارے جو بولنے کے الفاظ ہیں جس کو زبان کہتے ہیں (ہماری زبانیں مختلف، اُردو زبان، انگریزی زبان ، اُس معنی میں زبان جو ہے ) اُس میں وہ الفاظ نہیں جو خدا تعالیٰ کی عظمت و جلال و وحدانیت، اُس کی قدرت ، اُس کی محبت ، اُس کی رحمانیت ، اُس کی رحیمیت جو ہے اس کے جلوؤں کو اپنے احاطہ میں لا سکیں.خدا کی باتیں خدا ہی سمجھ سکتا ہے اور بد بخت ہے وہ انسان جو خدا سے اُس کے پیار کو پاتا اور خدا کے ساتھ بیوفائی کرتا.اس واسطے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اگر میں ایک فقرہ میں نصیحت کرنا چاہوں اور ہمیشہ وہ کرتا چلا جاؤں تو وہ فقرہ یہ ہوگا.یاد رکھو! اتنے پیار کرنے والے رب کریم سے کبھی بے وفائی نہ کرنا کوئی ہمیں تکلیف نہیں پہنچائی اس نے کبھی اگر کہیں اور سے تکلیف پہنچی تو جتنی تکلیف پہنچی اس سے ہزار گنا ،لاکھ گنا، کروڑ گنا، بے شمار گنا زیادہ ہمارے سکون کے، اطمینان کے ، آرام کے سامان پیدا کر دئیے.ایک شخص کو اُس کی غلطی تھی یا نہیں بہر حال وہ سمجھا مجھے بلا وجہ نکالا گیا نوکری سے.بڑا گھبرایا ہوا آیا.میں نے کہا دیکھو! ہم تو ایک خدا پر ایمان لاتے ہیں.جتنے تمہیں اس وقت پیسے مل رہے ہیں ماہانہ اُس سے سات گنا زیادہ خدا تمہیں دے گا.میرے منہ سے نکل گیا.میری عزت خدا نے رکھ لی.میں تو خدا کے سامنے سر نہیں اُٹھا سکتا.اتنا پیار کرتا ہے.ابھی مہینہ، ڈیڑھ مہینہ ہوا اُس کا خط آیا میں تو بھول گیا.مجھ سے تو ملتے ہیں ہزاروں آدمی.اُن سے میں باتیں کرتا ہوں.پھر وہی مجھے یاد کراتے ہیں.اُس نے خط میں لکھا کہ جب میں پریشانی کی حالت میں آپ سے ملا تو آپ نے مجھے نصیحت کی تھی کہ دیکھو! رزاق خدا ہے.انسان نہیں.جس تنخواہ کو تم چھوڑ رہے ہو اس سے سات گنا زیادہ خدا تمہیں تنخواہ دے سکتا ہے یا دے گا.کوئی اس قسم کا فقرہ بولا اور آج میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ میں بالکل سات گنا زیادہ تنخواہ آج لے رہا ہوں اور آپ کی بات خدا نے پوری کر دی.یہ خدا ہے جس کے دامن کو ہم نے پکڑا.جس سے ہمارا واسطہ ہے.اسے چھوڑ کے تو ہم نے کہیں نہیں جانا اور یہ درایسا ہے یہاں دھونی رما کے بیٹھے رہو کسی سے دشمنی نہ کروکسی کی بدخواہی نہ
خطابات ناصر جلد دوم ۴۲۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۹ء چاہو.کسی کا غصہ تمہارے دلوں میں جگہ نہ پائے.کسی کے خلاف ایک لفظ بھی تمہاری زبانوں سے نہ نکلے.دعائیں کرو اپنے لئے.اُن لوگوں کے لئے بھی جو غلطی سے خود کو تمہارا دشمن سمجھتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے اُس کی خیر چاہو.اُس کی رحمتوں کی تجلیات اپنی زندگی میں اُس سے مانگو.وہ تمہیں اتنادے گا اتنا دے گا کہ تمہاری نسلوں سے بھی وہ چیزیں نہیں سنبھالی جائیں گی.اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ہمیں صحیح معنی میں اور حقیقی رنگ میں مسلم بنائے.خادمِ اسلام بنائے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام بنائے.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا نور ہمارے سینوں میں ہمیشہ چمکتا رہے.دُنیا کی ظلمات کو دور کرنے کی ہمیں طاقت عطا کرے اور اس میں ہمیں کامیابی عطا کرے.آمین.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکات (از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ ) 谢谢谢
۴۲۶ خطابات ناصر جلد دوم
خطابات ناصر جلد دوم ۴۲۷ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء قبولیت دعائے ابراہیمی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تیسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۹ ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.طبیعت ابھی خراب چلی آرہی ہے بعض علامتوں میں افاقہ ہے.آج صبح مسجد میں میں گیا نماز فجر کے لئے تو مسجد میں جا کے مجھے احساس ہوا کہ میرا گلا قریباً بیٹھ چکا ہے.کوشش کی ہے اپنی طرف سے کہ کچھ گلے کو کمک پہنچاؤں دوائیوں سے وہ کام کرنے لگے.پوری طرح کھلا نہیں لیکن صبح کی نسبت کافی فرق ہے بہر حال انشاء اللہ آواز آپ تک پہنچ جائے گی نہ پہنچے تو آپ ہاتھ کھڑا کر دیں جس کو میری آواز نہ آئے.آج یعنی جلسہ سالانہ کے تین ایام میں سے آخری اور تیسرے دن علمی کوئی مضمون لیا جاتا ہے یا علمی عملی کوئی مضمون لیا جاتا ہے.دوستوں کو یاد ہو گا بعض کو تو ہوگا ، ہی ، کہ کچھ عرصہ ہوا میں نے تعمیر بیت اللہ کے مقاصد پر کچھ خطبے دیئے تھے جو ایک رسالے کی چھوٹی مختصر سی کتاب کی شکل میں شائع ہو چکے ہیں.ان میں میں نے بتایا تھا کہ تعمیر نو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے کروائی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قریباً دو ہزار سال قبل اس میں تئیس مقاصد ملحوظ تھے.اور میں نے بتایا کہ سارے کے سارے مقاصد ایسے تھے جن کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے نہیں تھا نہ اس زمانہ سے تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قبل کا زمانہ تھا.نہ اس زمانہ سے تھا جو حضرت ابراہیم کے زمانہ سے بعد کا زمانہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت تک کا زمانہ تھا بلکہ یہ سارے ہی مقاصد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت سے تعلق رکھتے تھے اور جو چار بنیادی فرائض آپ کے تھے اور جو مقاصد تھے آپ کی بعثت کے، ان چاروں سے تعلق تھا ان مقاصد کا.مثلاً قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ :
خطابات ناصر جلد دوم ۴۲۸ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَيَّة ( ال عمران : ۹۷) کہ نوع انسان جو ہے ساری کی ساری ، سب انسانوں کیلئے پہلا گھر ، افادیت کے لحاظ سے، خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول کے لحاظ سے، دنیوی ترقیات کے لحاظ سے، روحانی رفعتوں کے لحاظ سے، جو تعمیر کیا گیا جس کی بنیاد رکھی گئی ، وہ بیت اللہ ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ اعلان بعثت نبوی سے قریباً دو ہزار سال پہلے کیا اس وقت جبکہ دنیا کی آبادی کی اکثریت شاید خانہ کعبہ کا نام بھی نہیں جانتی تھی جس وقت یہ اعلان ہوا یہ دعا خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جس وقت سکھائی تو اس وقت یا جو باتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتا ئیں اس وقت تو نوع انسانی میں سے ایک چھوٹے سے حصہ کا تعلق تھا خانہ کعبہ سے.اکثریت تو ایسی تھی یا ان کو علم ہی نہیں تھا، علم تھا تو ان کو کوئی تعلق ہی نہیں تھا، کوئی پیار ہی نہیں تھا ، خانہ کعبہ کے ساتھ تو ان کا کوئی مقصد ہی وابستہ نہیں تھا نہ دنیوی اور نہ دینی.پھر وہ عظیم رسول دنیا کی طرف آیا جس نے یہ اعلان کیا قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: ۱۵۹) دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے مردو اور عور تو ، اللہ تعالیٰ نے تم سب کی طرف مجھے رسول بنا کر بھیج دیا.اور آج کے بعد تمہاری ہر قسم کی فلاح اور بہبود مجھ سے وابستہ ہو گئی اور اس تعلیم کے ساتھ جو میں لے کے تمہاری طرف آیا ہوں یہ پہلا ہی جو اِنَّ اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ.الناس کے لئے.الناس کل میں نے اپنی بہنوں میں عورت کے مضمون کے اوپر تمہیدی لیکچر دیا تھا وہ بھی بہت لمبا ہے مضمون.انشاء اللہ کوشش کروں گا ہو جائے.ان کو میں نے بتایا تھا آپ کو بھی بتا دوں بڑا ضروری ہے.عربی زبان میں اَلنَّاس بالانس یا انسان یہ سارے لفظ مرد و زن ہر دو کے لئے بولے جاتے ہیں یعنی عورت کے لئے بھی اور مرد کے لئے بھی اور اگر سیاق و سباق مضمون کا محض مرد کو منتخب نہ کرتا ہو یا محض عورت کے لئے اس مضمون کو بیان کرنا ظاہر نہ کرتا ہو تو ہر دو مراد ہوں گے.تو یہاں یہ اعلان کیا گیا کہ دنیا کی ہر عورت اور ہر مردسن لے کہ میں ساری دنیا کی طرف رسول بن کے آ گیا.پھر آپ نے کہا کہ رسول کے معنے پیغام لایا ہوں ایک، اس کی بنیاد کیا ہے، کیا وہ پیغام ہے، اس کی حقیقت کیا ہے تمہیں جو میں کہتا ہوں کہ لوگوسنو کہ میں تمہاری طرف آیا ہوں، تمہارا فائدہ کیا ہے؟ آپ نے کہا رحمت اللعالمین بن کے آیا ہوں.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۲۹ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء تم میں سے ہر مرد اور ہر عورت کے لئے میں رحمت بن کر آیا ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ان مقاصد کا آخری مقصد جو میں نے منتخب کیا تھا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا تھی.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق ابھی آؤں گا اس طرف لیکن بتا میں یہ رہا ہوں کہ پہلا مقصد بتاتا ہے کہ ان لوگوں نے جن کو کہا گیا تھا کہ یہ سارے انسانوں کے لئے ان کی فلاح و بہبود کے لئے ان کی بھلائی کے لئے ان کی خیر کے لئے پہلا گھر جو بنایا گیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں از سر نو اس کی تعمیر ہورہی ہے وہ خانہ کعبہ ہے.بڑی عظمت ہے خانہ کعبہ میں، لوگ اس کو بھی نہیں جانتے اسی واسطے میں نے پیچھے تحریک کی تھی کہ میرے خطبے پڑھ لو.اور خدام الاحمدیہ پڑھوا بھی رہی ہے ( یہ اب میں ضمناً بات کر گیا ہوں بیچ میں بہر حال ) اور تیئیسواں مقصد میں نے لیا تھا یہ دعا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ، کہ اے خدا تو وہ رسول بھیج ان میں، جس کی تعلیم ، جس کی ذات، جس کی ابدی روحانی زندگی ، جس کے فیوض روحانی جو ہیں ان کا تعلق ہر انسان سے ہو خواہ وہ مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا، جنوب کا یا شمال کا ، براعظموں کا رہنے والا ہو یا چھوٹے چھوٹے جزائر میں بسنے والا ہو، ہر انسان کے ساتھ اس کا تعلق ہو.اس لئے وہاں میں نے اشارے کئے تھے اپنے ان لیکچروں میں کہ ہمارے جو ہم کہتے ہیں کہ غلبہ اسلام کی صدی جو آ رہی ہے جماعت احمدیہ کے سارے پروگرام ان مقاصد کے گرد گھومتے ہیں جن کا میں نے ان میں ذکر کیا ہے مجھے افسوس ہے کہ میں آج، ویسے بھی شاید ممکن نہ ہوتا لیکن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے جو تین دن سے میں ٹھیک نہیں محسوس کر رہا اس وقت بھی مجھے چکر آرہے ہیں لیکن ابتدا اس وقت ضرور کر دینا چاہتا ہوں آخری مقصد کو بیان کر کے ، وہی جو میں تفصیل سے بتاؤں گا کچھ میں نے پروگرام پہلے بتا دیئے تھے، صد سالہ جوبلی کے پروگرام وہ سارے تعمیر کعبہ کے مقاصد سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ مختصر تھے ان میں وسعت پیدا کروں گا انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ اور آپ کو بتاؤں گا کہ یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ناں کہ.قرآن کے گردگھوموں کعبہ میرا یہی ہے ( در نشین صفحه ۸۴) ہماری زندگی کا ہر پروگرام اور منصو بہ اللہ تعالیٰ کے کلام قرآن عظیم کے گردگھومنے والا ہے.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۳۰ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء وُضِعَ لِلنَّاسِ سے جو استدلال کئے جاسکتے ہیں وہ یہ ہیں کہ تمام اقوام عالم بلا امتیاز رنگ و نسل ، بلا دیگر امتیازات کے جو انسان انسان کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور ممتاز کر دیتے ہیں اور ان میں تفرقہ اور انتشار پیدا کر دیتے ہیں دینی اور دنیوی فوائد حاصل کریں گے ہر انسان مرد و زن مکہ سے یعنی اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو قرآن عظیم جیسی شریعت کا ملہ لے کر دنیا کی طرف مبعوث ہوگا، برکت حاصل کرے گا اور کرے گی.اور یہ کہ جو شریعت اس دعا کے قبولیت کے بعد جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی ، جس کا ذکر ابھی آتا ہے جو شریعت آئے گی وہ ہر لحاظ سے کامل اور مکمل ہوگی اور انسان کی تمام ضروریات کو پورا کرنے والی ہوگی اور درخت انسانی کی ہر شاخ کو سیراب کرنے والی ہوگی اور ہمیں بتایا گیا تھا قرآن کریم میں ہی کہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے ذاتی کمالات اور فضائل اور بے نظیر تعلیمات کے ساتھ اپنی ضرورت اور صداقت کو ثابت کرتی ہے اور فطرت انسانی کے سب حقیقی تقاضوں کو پورا کرنے والی ہے.انسان کی روحانی اور جسمانی اور اخلاقی اور معاشرتی اور سیاسی اور اقتصادی وغیرہ وغیرہ ضرورتیں بھی اسی طرح پوری کی جاسکتی ہیں.قرآنی تعلیم انسان کو ظن اور گمان کے بے آب و گیاہ ویرانوں سے اٹھا کر دلائل اور آسمانی نشانوں کے ساتھ یقین کی رفعتوں تک پہنچاتی ہے اور یہ بھی کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے، شیطانی دجل اس میں راہ نہیں پاسکتا، اس لئے اپنی روحانی تاثیرات میں ابدی ہے جو روحانی تاثیرات رکھنے والا کلام ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت ہوا گر اس کی حفاظت خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو اور اس کے اندر خرابی پیدا ہو جائے اس کی تاثیر اسی وقت ختم ہوگئی ، اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ جس طرح یہ تعلیم اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے اسی طرح اس پر عمل کرنے والے بھی خدا تعالیٰ کی پناہ میں ہوں گے اور انہیں ہر قسم کی آفات اور مصائب سے محفوظ رکھا جائے گا اور دنیا کا کوئی دجل اور دنیا کی کوئی طاقت اور دنیا کی کوئی سازش ان کا حقیقی اور واقعی نقصان نہیں کر سکے گی چیں بہ جبیں ہوتی رہے گی.وہ آیت جو پڑھی تھی یا يُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمُ فَأَمِنُوْا خَيْرًا نَّكُمُ النِّسَاء ( ۱۷ ) ایمان لاؤ ساری بھلائی تمہیں مل جائے گی.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی اور جسے میں نے اپنے خطبوں میں تیئیسواں مقصد
خطابات ناصر جلد دوم ۴۳۱ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء بیان کیا تھا وہ دعا یہ تھی رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة : ۱۳۰) اے ہمارے رب ہماری یہ بھی التجا ہے کہ تو انہی میں سے ایک ایسا رسول مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے یقینا تو ہی غالب اور حکمتوں والا ہے.یہ دعا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے قبول ہوئی اور جو رسول اس دعا کے ذریعہ سے مانگا گیا تھا عاجزانہ جھک کر خدا کے حضور وہ آ گیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ، قبولیت دعائے ابراہیمی کے نتیجہ میں، اللہ تعالیٰ کی یہ ساری تدبیر تھی انسان کے ہاتھ کا کوئی منصوبہ نہیں ہے خدا کا ہی منصوبہ تھا، وہ ہمیں میں یہ جو ابھی ایک آیت پڑھوں گا اس سے پتا لگے گا لیکن اس سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَ كَيْهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة: ۱۳۰) یہ جو چار مقاصد لے کے دنیا کی طرف آنے والے رسول کے لئے دعا کی گئی تھی یہ قرآن عظیم میں اس یہ البقرۃ کی آیت ۱۳۰ ہے اس کے علاوہ چار اور جگہ بالکل انہیں چار مقاصد کا ذکر ہے کچھ زوائد کے ساتھ.سورۃ بقرۃ کی ہی ایک اور آیت ہے اور وہ ۱۵۲ ہے اور اس سے ہمیں پتا لگتا ہے اس میں یہ بتایا گیا ہے اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو قبول کیا گیا اور وہ نبی جن کو دعا خدا نے سکھائی تھی کہ یہ دعا کر ومحمد صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے ہیں، یہ لمبا مضمون میں نے اس میں بیان کیا ہے وہ تعلق رکھنے والے ہیں تمہارے خونی رشتہ کے لحاظ سے یا آپ کی تعلیم کے پیچھے چلنے والے ان کو تیار کر ومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کے لئے جب آپ نازل ہوں دنیا کی طرف اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کر کے خدا تعالیٰ کے حضور ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے والے ہوں ان کے اندر یہ ہمت ہو اور ان کے اندر اس تربیت کے نتیجہ میں جو دو ہزار سال تقریباً ان کی ہوگی اس وقت وہ ان کے اندر طاقت ہوگی ان کو پریکٹس ہوگی وہ قربانیاں دینے کی.بڑا لمبا سلسلہ یہ چلا ہے کسی کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو وہ اولا د جو تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ تو جانی دشمن بن گئے تھے روسائے مکہ
خطابات ناصر جلد دوم ۴۳۲ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۹ء یہ ٹھیک ہے بن گئے لیکن جو جانی دشمن تھے ان کے اندر وہ ساری استعداد یں اور صلاحیتیں موجود تھیں جن کی ضرورت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تکمیل کے لئے تھیں.حضرت خالد بن ولیڈ کولو، وہ خالد اپنے ذہن رسا کے ساتھ ایک وقت میں احد کے موقع کے اوپر اس چھوٹے سے درے پر نظر ڈالتا اور اسلام کی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتا ہے عارضی طور پر.بڑا ذہین ہے، بڑا دلیر ہے، چند آدمیوں کو لے کر حملہ آور ہو جاتا لیکن جو صلاحیتیں اور قو تیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی تھیں ان کا غلط استعمال ہو گیا لیکن وہی دل جب بدلا گیا اور بدلا گیا منٹوں کے اندر، گھر سے نکلے تھے قتل کرنے کی نیت سے اور جب پہنچے تو ہاتھ آگے بڑھا یا بغیر تلوار کے اور کہا میری بیعت لے لیں.سوگز دوسوگز کا ہی رستہ ہو گا گلیوں کا مکے میں جو اپنے گھر سے وہاں پہنچنے کا اس رستے میں ہی خدا تعالیٰ نے ان کا دل بدل دیا.فطرت اس لئے بنائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کے قتل کرے، تجھے تو تیرے آباواجداد نے دو ہزار سال تک اس لئے تربیت دی ہے، کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں اپنا سارا کچھ لٹا دیں.یہی خالد جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا، وہی خالد جس نے احد کی جنگ میں اپنی فراست اور اپنی ہمت اور جرات کے نتیجے میں جنگ کا پانسہ پلٹا ہے عارضی طور پر، وہی خالد اٹھارہ ہزار کے لشکر کا سردار جب بنایا گیا کسری جیسی عظیم اس وقت کی طاقت کے مقابلے میں کہ ہر جنگ میں جو دو چار دنوں کے بعد لڑی گئی ایک تازہ دم فوج ، ایک نئے سپہ سالار کے ساتھ اس کے مقابلے پر آئی.اور اس کے پاس وہی تھی اٹھارہ ہزار فوج جن میں سے کچھ شہید ہو گئے تھے، کچھ زخمی ہو گئے تھے ، سارے کے سارے تھکے ہوئے تھے، اور ان کے مقابلے میں ہر جنگ میں وہ فوج تھی اور ہر معرکے میں خالد نے خدا دا د استعدادوں کے نتیجے میں اور خدائی منشا کے مطابق اور اس منصوبہ کے ماتحت جس کا اجراء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے ہوا اور جس کی تکمیل کا زمانہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ہوا پر نچے اڑا دیئے کسری کے.اتنی طاقتور تھی جتنے آپ کے دماغ آج امریکہ کو یا روس کو یا بعض اسی قسم کے دوسرے ملکوں کو سوچتے ہوں گے ، سوچ ہی نہیں سکتا تھا کوئی، کہ اتنی عظیم طاقتیں دنوں کے اندر مٹھی بھر فوج کے مقابلے میں ختم کر دی جائیں گی ان کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا.یہی خالد پھر خلیفہ وقت کے حکم
خطابات ناصر جلد دوم ۴۳۳ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء کے ماتحت قیصر عیسائیوں کا جو دوسری مملکت، دو مملکتیں اس وقت ساری دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور، امیر تجربہ کار، ہر قسم کے اسباب کی مالک، دو تھیں یہ اور یہ دونوں ختم ہوئیں آگے پیچھے قیصر کو کسی طرح خیال پیدا ہوا کہ مسلمان نہتے ، ناتجربہ کار، غریب تھوڑا کھانے والے، اور کمزور جسموں والے ، ان کا خون تو تقریباً نچوڑ ہی لیا ہے کسری نے اب وقت ہے اسلام کو مٹا دو.اسلام کو مٹانے کے لئے اس نے لڑائیاں شروع کیں اور دو چار شکستوں کے بعد اس نے فیصلہ کیا یہ تاریخ میں محفوظ ہے اس نے فیصلہ کیا کہ ایک آخری جنگ، فیصلہ کن جنگ کر لینی چاہئے چنانچہ اس نے تین لاکھ کی فوج بھیجی دمشق شام کی سرحدوں میں ہماری مسلمانوں کی کچھ چوکیاں تھیں خلیفہ وقت نے ان کو اکٹھا کر دیا ساری فوج جو ان علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی ان کو کہا کہ ایک جگہ اکٹھے ہو جاؤ سارے اکٹھے ہو کے وہ بنے چالیس ہزار اور ان سے جنگ کرنے کے لئے ان کو ختم کرنے کے لئے تین لاکھ کی فوج ، جن میں چالیس ہزار کے قریب گھوڑ سوار فوج تھی ان کا مقابلہ ہو گیا اور اس میدان میں یہ تربیت یافتہ جنہوں نے اپنی ماؤں کے دودھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار اور جانثاری حاصل کی تھی لیکن اس وقت جانتے نہیں تھے انہوں نے اس میدان میں وہ اسلام کو ختم کرنے کے لئے آیا تھا ان کو حکم یہ تھا کہ جو یہ چھوٹے موٹے دستے تمہیں رستے میں ملیں گے ان کو ختم کر کے تم مدینے جاؤ اور ایک آدمی بھی زندہ نہ چھوڑ و ختم کر دو اسلام کو یہ روز روز کی لڑائیاں لڑنے کا کیا فائدہ لیکن آپ سارے کے سارے قریباً ختم ہو گئے.وہ چالیس ہزار گھوڑ سوار فوج کا کہیں دستہ نہیں تھا.تو یہ جو دعا جو قبول ہوئی اس کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرۃ کی میں نے بتایا ۱۵۱ تا ۱۵۴ آیات میں ہے وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (البقرة : ۱۵۱) یہ آیات یہاں سے شروع ہوتی ہیں بتانے کے لئے کہ اسی دعا کے ساتھ اس کا تعلق ہے.وَ مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (البقرۃ: ۱۵۱) اور تو جس جگہ سے بھی نکلے اپنی پوری توجہ مسجد حرام کی طرف پھیر دے وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُوْا وُجُوهَكُمْ شطرة (البقرۃ: ۱۵۱) اور تم جہاں کہیں بھی ہو اپنے منہ اس کی طرف کیا کرو فَوَنُوْا وُجُوهَكُمُ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمُ (البقرة:۱۵۱) تا ان لوگوں کے سوا جوان مخالفوں مرتکب ہوئے ہیں باقی لوگوں کی طرف سے تم پر الزام نہ رہے.الزام ایک
خطابات ناصر جلد دوم ۴۳۴ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء بہت سے معانی ہیں قرآن کریم کے، ایک یہ الزام بھی تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا تمہارے متعلق نہیں قبول ہوئی تم اس گروہ میں نہیں ہو یہ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمُ (البقرة : ۱۵۱) الزام باقی نہ رہے فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِى (البقرة : ۱۵۱) ان ظالموں سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو.یہ حکم میں نے اس لئے دیا ہے کہ تم پر لوگوں کا الزام نہ رہے تا کہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کر دوں اور تاکہ تم ہدایت پاؤ آگے پھر وہ كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ (البقرة : ۱۵۲) اس : طرح جس طرح ہم نے تم میں تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات پڑھ کر سنا تا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جوتم پہلے نہیں جانتے تھے.پس جب میں اس قدر فضل کرنے والا ہوں تو تم مجھے یاد رکھو، میں بھی تمہیں یاد کرتا رہوں گا اور میرے شکر گزار بنو اور میری ناشکری نہ کرو اس میں لمبی تفصیل بھی ہوسکتی ہے لیکن اس وقت میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہی چار مقاصد لے کے مبعوث ہوئے.اعلان کیا گیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا میں جن چار مقاصد کا ذکر تھا ان مقاصد کے ساتھ مبعوث ہو گئے.اور اسی دعا کے ساتھ تعلق ہے تبھی کہا ہے ناں شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (البقرة : ۱۵۱) کا ذکر کر کے اور واضح اشارہ کر دیا کہ اس کے ساتھ تعلق ہے.باقی جو ہیں پوائنٹس وہ میں چھوڑتا ہوں پھر چار جگہ یہ ذکر ہے چوتھی جگہ سورہ جمعہ میں ہے یہ اتفاق ہوا ہے کہ میرے کہے بغیر آج قاری صاحب نے وہی سورۃ جمعہ کی آیات پڑھ دیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللهِ كَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللهِ وَمَاومَهُ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (ال عمرن : ۱۶۳) کہ وہ شخص جو اللہ کی رضا کے پیچھے چلتا ہے یعنی جو خدا چاہتا ہے وہ کرتا ہے کوئی ایسا کام نہیں کرتا کہ سمجھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا ، ہر وہ کام سمجھتا ہے کہ اللہ خوش ہوگا اللہ کو خوش کرنے کے لئے وہ کام کرتا ہے.پھر میں سارے حصے نہیں لے رہا اس کے بعض چیزیں لے رہا ہوں آپ کو بات سمجھانے کے لئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُمْ دَرَجتُ عِنْدَ اللهِ (ال عمران : ۱۶۴) وہ جماعت وہ امت مسلمہ جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر خدا کی خواہش کے مطابق اس کی ہدایت کی اتباع میں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ، اعمال صالحہ بجالانے والے نہیں هُمْ دَرَجتُ عِنْدَ اللهِ (ال عمران : ۱۶۴) وه
خطابات ناصر جلد دوم ۴۳۵ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء ایک جیسے درجات رکھنے والے نہیں وہ مختلف درجات رکھنے والے لوگ ہیں اور وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (ال عمران : ۱۶۴) اور یہ جو چھوٹا درجے کا مومن خدا کا پیارا لیکن درجے میں بڑا کم اس سے ذرا اوپر ، اس سے ذرا اوپر سب سے اوپر یہ جو ہے یہ اس لئے نہیں ہے کہ ویسے ہی فیصلہ کر لیا بغیر کسی حکمت اور دلیل کے بلکہ وَالله بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (ال عمران : ۱۶۴) ہر حص نے اپنے اعمال کے مطابق ثواب حاصل کرنا اور ایک مقام کو ، ایک رفعت کو حاصل کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (آل عمران : ۱۶۴) ہے اور وہ عالم الغیب ہے وہ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق ، اس کے خلوص کے مطابق، اس کی نیت کے مطابق ، ثواب دے گا اور اسی کے مطابق اس کا ایک درجہ ہوگا.سارے ایک درجہ کے نہیں ہیں بلکہ ترجیحات ہیں کچھ لوگ خدا کو بہت پیارے، کچھ لوگ اس سے کم پیارے، کچھ لوگ اس سے کم پیارے، لیکن سارے کے سارے ہی خدا کے پیار کی جنتوں میں جانے والے ہیں پھر فرمایا کہ اے وہ لوگوں جو ہمارے اس رسول پر ایمان لائے اور جس کے نتیجہ میں تم نے اپنے عقائد کو درست کیا اور اعمال صالحہ بجالائے اور وہ درجے درجے میں تقسیم ہوئے لیکن میری رضا کی جنتوں میں تم داخل ہوئے.لَقَدْ مَنَ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ (ال عمران : ۱۶۵) ایسے مومنوں جنہوں نے اس طرح میرے پیار کو حاصل کیا ہے تم پر خدا کا احسان ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں ہدایت پانے کی خدا کا پیار حاصل کرنے کی خدا کی رضا کی جنتوں میں جانے کی توفیق عطا کی.تمہارا احسان نہ محمد پر ہے اور نہ خدا تعالیٰ پر ہے صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ فرمایا خدا نے لَا تَمُنُوا عَلَى اِسْلَامَكُمُ (الحجرات : ۱۸ - احسان نہ جتاؤ مجھ پر کہ ہم مسلمان ہو گئے اور مسلمان ہونے کے بعد جن قربانیوں کا اور جس شہر کا اور جس تکلیف کو برداشت کرنے کا اور جس قسم کا جگرا تا کرنے کا اور دن کے اوقات میں روزے رکھنے کا اور بھوکے رہنے کے متعلق کئے گئے تھے یہ ہم نے کسی پر احسان کیا لَقَدْ مَنَ الله عَلَى الْمُؤْمِنِينَ اور وہاں كيا لا تمنوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَن (الحجرات : ۱۸ - خدا کا احسان ہے تم پر اگر تم اس دعوئی میں بچے ہو کہ تم واقعہ میں مومن اور خدا کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوتو خدا کا احسان ہے اپنے زور سے تم ایسا نہیں کہہ سکتے تھے کہ اگر یہ ہدایت نہ نازل ہوتی اور اگر اتنی عظیم تعلیم نہ آتی اگر اتنی بشارتیں ساتھ نہ لاتی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ وعدے نہ دیئے جاتے کہ
خطابات ناصر جلد دوم ۴۳۶ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء تیری امت کے وہ لوگ جو تیری اتباع کریں گے وہ میری محبت کو میرے پیار کو، حاصل کر لیں گے.تو پھر کہاں سے تم پاتے یہ سب چیزیں فرمایا لَقَدْ مَنَ الله عَلَى الْمُؤْمِنِينَ (ال عمران : ۱۶۵) خدا تعالیٰ نے ان مومنوں پر احسان کیا اِذْ بَعَثَ فِيهِمْ (ال عمران : ۱۶۵) کہ جب ان میں ایک رسول بھیجا ہے جو انہی میں سے ہے يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيته (ال عمران : ۱۶۵) وہی چار مقاصد آگئے جو خدا تعالیٰ کی آیات ان کے اوپر پڑھتا ہے وہ کھول کے ان کے سامنے بیان کرتا ہے اور سمجھاتا ان لوگوں کی طبیعتوں پر اثر پیدا کرتا ہے خیرِ کل جو ہے اس کو وہ قبول کرو اور اس سے استفادہ کرے اور خالی یہ نہیں کہتا کرو بلکہ بتاتا ہے اگر ایسا کرو گے تمہیں فائدہ ہے وَالْحِكْمَةَ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِيْنِ (ال عمران:۱۶۵) اس میں ایک اور چیز بڑی زائد آ گئی کہ وہ باتیں بتا تا ہے جو تمہیں پہلے پتا نہیں تھیں.اگر چہ تم یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں.راہی میں تھے پہلے لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ پر شریعت قرآنیہ نازل ہوئی ایک عظیم کتاب اور بحر بے کنار جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے اتنے علوم اس میں بھرے ہوئے ہیں آگے ہی ، کہ ہر ایک نے اپنی ہمت کے مطابق غوطے لگائے ہر ایک نے اپنی صلاحیت کے مطابق، اس سمندر کی تہہ سے بڑے قیمتی موتی اور جواہرات نکالے خدا کا احسان ہے اگر یہ نہ ہوتا تو تم خدا کے پیار کو حاصل نہ کر سکتے ، اس کی ترتیب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعا میں ترتیب یہ رکھی تھی تو ایسا رسول آئے جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے پہلے آیات وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب پھر کتاب کا ذکر وَالْحِكْمَةَ پھر حکمت کا ذکر اور اس کے بعد چوتھی بات حضرت ابراہیم کی دعا میں تزکیہ نفس کا ذکر لیکن جو قبولیت دعائے ابراہیمی ہے اس میں اس ترتیب کو بدل دیا گیا اور اس میں یہ کیا گیا کہ آیات پڑھ کے سنائے اور ان کا تزکیہ کرے.پھر کتاب سکھائے اور حکمت سکھائے اور اس میں علاوہ اور بہت سارے مضمون کے جن سے قرآن بھرا پڑا ہے ایک حکمت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو ترتیب اختیار کی اس وقت کی ہدایت ، آسمانی ہدایت اسی ترتیب کو چاہتی تھی اس وقت کی آسمانی ہدایت کیونکہ تزکیہ نفس پر ساری کوشش ختم ہوگئی ابدی ترقیات کا وعدہ نہیں تھا ان کو الكتاب كامل كتاب أو تُوْا نَصِيبًا مِنَ الكِتب (ال عمران (۲۴) ایک حصہ دیا گیا تھا.اس واسطے ان کی روحانی ترقیات اور دوسری خیر جوان ہدایتوں کے ذریعے سے ان کو ملتی تھی وہ ایک جگہ
خطابات ناصر جلد دوم ۴۳۷ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء پر ختم ہو جاتی تھی ابدی طور پر نہ ختم ہونے والی ترقیات ہمیشہ بڑھتے رہنے والا ہر آن بڑھتے رہنے والا اللہ تعالیٰ کا پیار یہ وعدہ ان ہدایتوں ان شریعتوں میں نہیں دیا گیا تھا.اس واسطے ان کے نزدیک کمال جو ہے وہ تزکیہ نفس ہے اور اسی ترتیب سے انہوں نے ذکر کر دیا لیکن جو ہدائت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آئی وہ نہ ختم ہونے والی ترقیات، نہ ختم ہونے والے انعامات، ہمیشہ مسلسل بڑھتے چلے جانے والے اللہ تعالیٰ کے انعام کا وعدہ اس کے اندر ہے اور لیکن جو نشان ہیں ، سکتے ، وہ صرف چار ہیں آیات سے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی میں ترتیب لیتا ہوں آیات ہیں اور کتاب ہے اور حکمت ہے اور تزکیہ نفس ہے.یہ چا رہی ہے ناں.وہاں آ کے ان کی شریعت ترقیات کو ختم کر دیتی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ختم ہونے والی ترقیات ہمیشہ آگے بڑھتے رہنے والی.تو یہ چار جو ہیں پوائنٹ ( نکتے ) اس میں تو محدود بن جاتے ہیں یعنی جب چوتھے پہ پہنچیں گے تو پانچواں نہیں آئے گا لیکن اگر چکر چلے تو پھر نہ ختم ہونے والا بن گیا اور چکر اس طرح چلا یہ میں آپ کو بتاتا ہوں جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہے اس کو مختصر اشروع میں بیان کیا تھا ھڈی لِلْمُتَّقِینَ جو متقی ہیں ان کے لئے بھی ہدایت ہے متقی بناتی بھی ہے متقیوں کو مزید ہدایت دیتی ہے.پھر پہلے سے بڑا ایک بڑھ کر متقی بن جاتا ہے انسان.پھر جب بڑھ کر متقی بن جاتا ہے بڑھ کر انعام حاصل کرتا ہے.جب بڑھ کر انعام حاصل کرتا ہے جو اس کی صلاحیت ہے وہ اس قابل ہو جاتی ہے کہ اسے پہلے کی نسبت زیادہ ہدائت نصیب ہو، پھر اس جب زیادہ ہدایت نصیب ہوتی ہے زیادہ تزکیہ نفس نصیب ہوتا ہے زیادہ تزکیہ نفس ہوتا ہے زیادہ پیار ملتا ہے، جب زیادہ تزکیہ نفس ہوتا تو پھر، وہ حقدار ہو جاتا ہے ہدایت اس کو اور ملے تو اس تسلسل کی وجہ سے جو ایک دائرہ ہے چھوٹا ہو یا بڑا جب اس کے گرد آپ چکر لگائیں وہ نہ ختم ہونے والی حرکت ہے ہماری عقل کہتی ہے.بے شک پنسل سے لگا کے دیکھ لو اپنے کاغذوں کے اوپر ختم ہی نہ ہوگی ختم تو وہ ہوتی ہے جو ایک جگہ آگے آگے ختم ہو گئی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دماغ میں جس شریعت کا تصور تھا اپنی وہ وہ تصور تھا ایک نصیب من الکتاب کامل کتاب کا ایک حصہ ہے ان کے پاس اور آیات ہیں آسمانی نشان ہیں پھر ہدایت ہے چھوٹا سا، اس کی تھوڑی بہت حکمت بھی بیان کی گئی ہے، اس طرح کی نہیں ، لیکن کچھ نہ کچھ ہے ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۳۸ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء کامل سمجھ کامل فراست کے مطابق نہیں.پھر اطمینان مل گیا پھر ختم ہو گیا وہ شخص اپنی استعداد کی انتہا کو پہنچ گیا.امت مسلمہ میں کوئی شخص بھی اپنی وقتی استعداد کی انتہا کو پہنچنے کے بعد وہاں ٹھہرتا نہیں کیونکہ جو وقتی استعداد تھی اللہ تعالیٰ کا فضل اس استعداد میں شدت اور وسعت پیدا کرتا ہے اور مزید ہدایت کے قبول کرنے کے سامان پیدا کرتا اور مزید فضلوں کے حصول کے سامان پیدا کر دیتا ہے، اسباب پیدا کر دیتا ہے.دوسری تین جگہ جہاں آیا ہے جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جہاں آیا ہے کہ خدا نے وہ رسول مبعوث کر دیا کہ جس کے لئے دعا مانگی تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اور جو وہ چار مقاصد لے کے آ گیا جن چار مقاصد والے رسول کے لئے دعا مانگی تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وہ تو ایسا رسول ہے، فرق کر دیا پہلے سے کہ جس کے متبعین جو ہیں وہ غیر محدود ترقیات کے وارث بن سکتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت شامل حال ہو.یہ تو اطلاقی زندگی ہے ناں امتحان ہے یہاں، جنت جو ہے وہ وہاں امتحان کوئی نہیں وہاں ابتلاء کوئی نہیں مجھے کہنا چاہے لیکن امتحان ہوتا ہے، کچھ کرنا پڑتا ہے لیکن فیل ہونے کا اندیشہ نہیں، انعام ملنے کا امکان ہر وقت ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر صبح خدا اپنے بندوں سے پوچھے گا جنت میں کل شام کو جو میں نے تم پر فضل کئے تھے جن فضلوں کے سایہ میں تم نے ایک رات گزاری.اس میں اور زیادتی چاہتے ہو تو جنہوں نے خدا کی تسبیح اور حمید اور اس کے شاکر بندے بن کے وقت اپنا گزارا ہوگا وہ کہیں گے ہاں ہم چاہتے ہیں وہ پوچھا بھی گیا ہو گا اس لئے اور ہوں گے ہی سارے ایسے جن کے اندر ایک رات میں تبدیلی ایسی پیدا ہو جائے گی کہ مزید ترقیات کے دروازے کھولے جائیں اس بات کے وہ مستحق ہو جائیں گے.پھر اللہ کہے گالاؤ میں تمہیں اور ترقی دے دیتا ہوں.پھر شام کو پوچھے گا جو صبح تم نے ترقیات کیں بلند درجات حاصل کئے ، میرے پہلے سے بڑھ کر انعامات لئے ، ایک دن گزر گیا اس میں فرق ، وہ کہیں گے ہاں جی ہم آگے جانا چاہتے ہیں زبان حال سے کہیں گے ان کی کیفیت یہ ہوگی ، خدا تعالیٰ پھر ان کو کر دے گا.یعنی صبح کی حالت پچھلی شام سے بہتر اور شام کی حالت پچھلی صبح سے بہتر ، اس طرح ترقیات کرتے چلے جائیں گے.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۳۹ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء وہ تو زندگی ہے تو امتحان تو کہا جاسکتا ہے اس معنوں میں لیکن ابتلاء یعنی جس میں فیل ہونے کا خطرہ کوئی نہیں ، اس زندگی میں بھی ہمیں کہا گیا ہے هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة :٣) اس وجہ سے ترتیب بدل دی اور یہ کہہ دیا کہ یہ رسول ایسا ہم نے بھیجا ہے جو آیات پڑھ کر بتاتا ہے آیات کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں ایک یقین ان کے ذہن میں ایک بشاشت پیدا ہوتی ہے اس تعلیم کے متعلق جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں اس کے اوپر وہ غور کرتا ہے تو خالی حکم نہیں خالی امر اور نبی نہیں بلکہ اس کو حکمتوں کا ایک حسین باغ جس میں ہر رنگ کے پھول کھلے ہوئے ہیں اس کے سامنے آ جاتا ہے پھر جب وہ یہاں پہنچتا ہے تو اس کے نفس میں اس کے وجود میں مجموعی حیثیت میں تزکیہ طہارت پاکیزگی پیدا ہوتی ہے.پھر خدا کہتا ہے میرا بندہ پہلے سے زیادہ پاکیزہ ہو گیا میں اس کے ذریعے اور سامان پیدا کرتا ہوں ترقیات کے، پھر خدا تعالیٰ آیات دکھا دیتا ہے اس چکر میں جارہا ہوتا ہے اپنے آیات اس کو بتایا کرتا ہے آیات کے متعلق آیات ظاہر کرتا ہے نشان ظاہر ہوتے ہیں اس کے اور پھر قرآن کریم کا جو حسن ہے اور اس کی حکمتیں زیادہ اس کے اوپر کھلتی ہیں پھر زیادہ روحانی کیفیت اس کے وجود میں پیدا ہو جاتی ہے خدا تعالیٰ کا زیادہ پیار اور خدا تعالیٰ کا شکر کا زیادہ احساس اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں جو فضل اس کے اوپر ہوا اس کے دل میں آپ کی محبت اور زیادہ شدت اختیار کر جاتی ہے اس دنیا میں بھی جو عاشق ہیں ان کا جنون ایک جگہ تو نہیں رہتا، کبھی کیسا کبھی کیسا تو وہ تو اور ہی قسم کا جنون ہے وہ تو ایسی شراب ہے، خمار ہے جنون کی بھی مستی ہوتی ہے نا ایسا خمار ہے جس میں تلخی کوئی نہیں ایسا نشہ ہے ( میں غلطی سے خمار بول گیا ) ایسا نشہ ہے جس میں خمار کوئی نہیں جس میں تلخی کوئی نہیں.پھر وہ زیادہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے جب زیادہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے تو وہ امور روحانی اسباب روحانی جو زیادہ پاکیزگی حاصل کرنے والے ہی سمجھ سکتے تھے اس کے مطابق ان کے اوپر آیات کا نزول ہو جاتا ہے پھر یہ چکر ایک اور شروع ہو جاتا ہے چکر کے بعد چکر ، چکر تو کبھی ختم ہی نہیں ہوا دنیا میں خدا کا قانون قدرت یہ ہے اس واسطے یہ ترتیب بدلی.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تزکیہ نفس آخری پوائنٹ پر ختم کر دیا تھا.شریعت محمدیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمہ وقت نازل ہونے والے فضل کے نتیجہ میں اس چکر کی وجہ سے ہمیشہ
خطابات ناصر جلد دوم ۴۴۰ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء ترقیات، ابدی ترقیات کا حصول ممکن ہو گیا اور ترتیب کا بدلنا ضروری ہو گیا.جیسا کہ میں نے کہا میں جو آل عمران ہے اس میں چیک کرلوں.یہ جو میں نے بتایا ناں فرق جو ہے یہ اس وجہ سے ہے اس کو خو د الفاظ میں بھی ظاہر کیا ہے تینوں جگہ دوسری جانب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہو جانے کا ذکر ہے ان تینوں جگہ یہ ہے کہ تمہیں وہ دیا جاتا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے.یہی میں نے بتایا ہے ناں.چکر میں تزکیہ آپ آتا ہے پھر وہ چیز دی جاتی ہے جو پہلے ان کے پاس نہیں تھی پھر ایک نیا دور شروع ہوتا ہے، پھر ایک نیا دور شروع ہوتا ہے کیونکہ ہر دور کے بعد يُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (البقرة : ۱۵۲) اور وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ ( الجمعة :٣) اور جو چوتھی قرآن کریم کی ترتیب میں بھی آخری موقعے پر یہ دوہرائے گئے ہیں چار مقاصد وہ سورہ جمعہ ہے.یہ جو ابدی ترقیات کا حصول ممکن ہونا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں یہ خیال گزرسکتا تھا کہ یہ انفرادی طور پر ہوتا ہے اور اسی کا ذکر کیا گیا ہے لیکن سورۃ جمعہ میں امت محمدیہ کے لئے ، امت اور محمد یہ بحیثیت امت محمدیہ ان دائروں میں سے گزرتی چلی جائے گی.سمجھ نہیں آئے گی ان کو اور دنیا کے بدلے ہوئے حالات میں جو فضل أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ (الجمعة :۴) پر نازل ہوں گے وہ بعض پہلوؤں کے لحاظ سے اس میں کہیں خلط کر جائیں کیونکہ پہلوں کو جو ملا.وہ بڑا عظیم تھا.وہ بے حد عظیم تھا لیکن بعض پہلوؤں کے لحاظ سے ہر آنے والی نسل پہلوں سے کچھ زیادہ فضل بھی لے رہی ہے اس لئے چودہ سو سال جو گزرے اس کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر صدی نئے مسائل لے کر آتی ہے جب ہر صدی نئے مسائل لے کر آئی ہے تو ان مسائل کو حل کرنے کے لئے جو بطون قرآنی ہیں اور قرآن کریم کے بطون ہر چار چیزوں سے تعلق رکھنے والے ہیں یعنی آیات جو پہلے ظاہر نہیں ہوئیں وہ ظاہر ہونی شروع ہوئیں کتاب کے معنی جو یعنی اصول اور فلسفہ مثلاً اشتراکیت کے مقابلے میں میں ہی جاکے بات کرتا ہوں پہلوں کو ضرورت ہی نہیں تھی قرآن کریم کی آیات سے اس استدلال کی جو مجھے آج ضرورت پڑ گئی، میرے رب نے مجھے وہ سکھا دیئے اور حکمت اور حکمت تو اب بہت پوچھتے ہیں جب نیا مسئلہ ہو گا نئے معنی ہوں گے تو نئی حکمت بھی بتانی پڑے گی اور اگر ان تین کے نتیجہ میں نیا تزکیہ ہو گا تو وہ پہلوں سے بہر حال مختلف ہوگا اور پہلے تو معروف ہیں یعنی ہر شخص جانتا ہے تو یہاں کچھ زیادہ مل گیا لیکن اپنی عظمت اور شان کے لحاظ سے وہ جو دیوانہ وار
خطابات ناصر جلد دوم ۴۴۱ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھومے اور جنہوں نے آپ کے جسم کی بھی حفاظت کی اور آپ کے پیغام کی بھی حفاظت کی ان کے رہتے تو بہت بلند ہیں، اس لئے بھی کہ اس وقت سے لے کے آج تک ہم ان پر بھی درود بھیج رہے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے وقت اور ہماری دعائیں ۱۴ سو سال کی قبول ہونے والی دعائیں جو ہیں انہوں نے ان کی رفعتوں کو بلند کر دیا ہے اس لحاظ سے وہ بلند ہیں بعض دوسرے پہلوں سے آنے والے زیادہ تزکیہ نفس حاصل کر لیتے ہیں.بہر حال مقام ان کا مقام ، آنے والوں کا مقام ، سورۃ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے وہ بادشاہ ہے ہر چیز اس کی بادشاہت اور اس کی پاکیزگی اور اس کے غلبہ اور اس کے حکیم ہونے کا اظہار کر رہی ہے.وہ جو ہر زمانے میں نئے سے نئے علوم قرآن کریم سے نکلتے ہیں اس میں بھی خدا تعالیٰ نے جو کہا وہ میں بتا دیتا ہوں آپ کو اِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمُ فِي كِتَبٍ مَّكُنُونٍ لَّا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطْهَرُونَ تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ (الواقعة : ۷۹ تا ۸۱) نئے علوم جو ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم رب العالمین کی طرف سے آئی ہے تا کہ ہر زمانے کے مسائل کو حل کر دے اور رب العالمین ہے صرف پہلے زمانوں کا رب نہیں تھا بلکہ قیامت تک کے لئے ہر زمانے کا وہ رب ، ہر زمانے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اس نے قرآن عظیم کو نازل کیا ہے.اس واسطے يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقَدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيْم ( الجمعة :۲) جو بادشاہ بھی ہے اور پاکیزگی مجسم اور پاکیزگی کا سر چشمہ اور منع اور سب خوبیوں کا جامع اور غالب اور حکمت والا اور قرآن کریم کو ہر زمانہ کے لئے نئی سے نئی حکمتوں سے معمور کر دینے والا ہے، هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِّنْهُمُ (الجمعة :٣) الله تعالى کے متعلق پہلی آیت میں ذکر کا یہ اعلان کیا وہ اللہ جس کی تسبیح کر رہے ہیں مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (الصف:۲) وہ خدا جو بادشاہ بھی ہے، پاک بھی ، سب خوبیوں کا جامع بھی ہے، غالب اور حکمت والا بھی اس خدا نے بَعَثَ فِي الْأُمَيَّنَ رَسُولًا مِّنْهُمْ (الجمعة :٣) امیوں میں سے ہی دنیوی لحاظ سے ان پڑھ لوگوں میں سے ایک شخص کو رسول بنا کے بھیج دیا امی میں سے رسول اور رسول وہ جو رسولوں کا سرتاج جو خاتم الانبیاء جس کے سامنے ہر ایک نے ہر آن
خطابات ناصر جلد دوم ۴۴۲ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء گزشتہ نبی نے اس کی عظمت کا اقرار کیا اور اس کے مقابلے میں اپنے لاشئے ہونے کا اقرار کیا اس اُمّی کے سامنے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمی ہونا اور آپ پہ جو کلام نازل ہوا اس کا ایک کامل اور مکمل ہونا اور اتمام نعمت کرنے والا ہونا یہ بتا تا ہے کہ یہ کلام جو ہے اس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جو اس کی تسبیح کر رہی ہے، ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو بادشاہ بھی ہے پاک بھی ہے پاکیزگی کا سرچشمہ بھی ہے.غلبہ کا مالک بھی ہے اور ہر ایک کو اسی کا غلبہ عطا ہوتا ہے وہ حکیم بھی ہے حکمت والا بھی ہے اس کی تعلیم حکمتوں سے بھری ہوئی اس کے نیک بندے اس معنوں میں حقیقی تھے ئی ضرورتوں میں نئی حکمتیں سیکھتے اور دنیا میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی عظمتوں کو بیان کرتے اور اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور اس کی عظمت کے نعر لگانے والے ہیں.ان آیات میں جو پہلی آیت ہے يُسبّحُ لِلهِ مَا فِي السَّماواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ( الجمعة : ٢) اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة : ۴) کہ یہ ایک نسل یا ایک صدی یا صرف ایک محدود زمانہ کے اندر اس کی برکتیں اور اس کی رحمتیں اور اس کی حکمتیں اور اس کے پاک کرنے اور تزکیہ کرنے کی قوت جو ہے اور اس کا حسن جو ہے وہ ختم نہیں ہو جائے گا کیونکہ اس خدا کی طرف سے اُمی کے اوپر نازل ہوا ہے ایک اور ، جماعتیں اس میں شامل ہوتی رہیں گی.وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة : ۴) اور آخرین میں بھی ایک جماعت ہے جو انہیں کے ساتھ ، پہلوں کے ساتھ صحابہ کے ساتھ جا ملے گی اور ان کے سپر د جو کام ہوگا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ( الجمعة : ٤ ) ان کی کامیابیاں غلبہ اسلام کی جد و جہد اور جہاد میں دنیا پر یہ ثابت کریں گی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والا کلام غالب ہستی کی طرف سے نازل ہوا اور اس ہستی کی طرف سے نازل ہوا جو حکیم ہے حکمت والا ہے اور حکمت سکھانے والا ہے پھر جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ جب یہ آخرین پیدا ہو جائیں گے تو دنیا میں ایک طمانیت اٹھے گی ، یہ ذلیل لوگ یہ غریب لوگ یہ بے سہارا لوگ یہ بے بس لوگ یہ بے مایہ لوگ جن کی کوئی قدر نہیں ہے جن کا سیاست میں کوئی دخل نہیں اس میں کوئی دلچسپی بھی نہیں.انہیں کو چنا تھا خدا نے.اسی واسطے یہاں امتین کا لفظ پہلے پڑھایا گیا کہ جس طرح امتین میں سے ایک کو چنا اور اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنا دیا اسی طرح وہ
خطابات ناصر جلد دوم ۴۴۳ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء عزیز اور حکیم خدا آخرین میں سے ایک کو چنے گا اور اسے مہدی بنادے گا اسے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم روحانی فرزند بنادے گا اور اس حقیر جماعت دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت سے خدا جو قد رتوں والا خدا ہے کام لے گا تاکہ انسان کا دل شیطانی امور سے نہ بھر جائے بلکہ ہر نفس اپنے گریبان میں جھانکے اور اعلان کرے کہ میں خدا کا عاجز بندہ مجھے خود پتا نہیں کہ یہ انقلاب کیسے اور کیوں بپا ہورہا ہے لیکن خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ بپا ہو اور اسلام غالب آئے خدا تعالیٰ نے بشارت دی تھی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة): ۴) وہ زمانہ آ گیا وہ حالات پیدا ہو گئے انقلاب په انقلاب یہ انقلاب پر انقلاب دیکھنے والی آنکھ دیکھتی ہے کم از کم پندرہ سولہ سال سے کچھ تھوڑا بہت دھند لکا سا تھا پہلے بھی ، میرے دماغ میں.ہر تبدیلی انسانی زندگی میں اس لئے آ رہی ہے کہ آخر کار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت جو ہے وہ انسان پر ظاہر ہوا اور وہ تبدیلیاں ہم کر رہے ہیں تم کر رہے ہو کون کر رہا ہے ہمارے مرد کر رہے ہیں عورتیں کر رہی ہیں خدا کر رہا ہے خدا کے فرشتے جو انسان کو نظر نہیں آتے وہ آسمانوں سے نازل ہوتے اور دلوں میں تبدیلیاں پیدا کر دیتے ہیں وہ لوگ جن کی زبانیں اسلام کو برا بھلا کہتے تھکتی نہیں تھیں ان کی آنکھوں سے آنسوؤں سے خود میری آنکھوں نے اسلام کی تعریف سننے کے بعد آنسو ٹپکتے دیکھے ہیں.یہاں پہلی بات پہلا مقصد یہ بتایا گیا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ الته (ال عمران : ۱۶۵) یہ جو آیات ہیں یہ خانہ کعبہ کا مقصد بھی ہے ایت بینت چوتھی غرض میں نے بتائی تھی آیت بینت اور میں نے بتایا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کعبہ سے ظاہر ہونے والا نور ایسے نشانات اور تائیدات سماوی کا منبع بنے گا جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں گے آسمانی نشانوں کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھولا گیا ہے فرما یا بل هُوَایت یہ دوسری آیت ہے قرآن کریم کی بَلْ هُوَايَتٌ بَيْنَتُ في صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ (العنکبوت :۵۰) کہ قرآن کریم کا حقیقی علم رکھنے والوں کے سینوں کے اندرایت بيّنت ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ان کے سینوں میں پیدا ہوئیں اور ہر لحظہ وہاں سے نکلتی اور دنیا کو عظمت قرآنی اور عظمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بتا رہی ہیں.آیت کے معنی ہیں يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايته (ال عمران : ۱۶۵) آیات کا مفرد ہے الایہ اور اس کے معنی لغت میں لکھے ہیں ھی العلامة الظاهرة ظاہری علامت ، ہر وہ ظاہری چیز ، ظاہری علامت
خطابات ناصر جلد دوم ۴۴۴ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء جس کے ذریعے کسی دوسری مخفی چیز کا پتہ لگے، ایک معنے اس کے یہ ہیں اور دوسرے، یہ جو آیات ہیں آیات وہ عقلی امور ہیں جو خدا کی ذات یا صفات کی نشاندہی کرتی ہیں ان کی طرف راہنمائی کرنے والی ہیں ان میں دلائل عقلیہ بھی آتے ہیں وہ بھی آیت بنتی ہے دلائل عقلیہ جو قرآن کریم میں زبردست عقلی دلائل ہیں ان کو بھی قرآن کریم کی زبان میں آیت کہا گیا ہے.قرآن کریم کی ہر آیت ، آیت کہلاتی ہے ناں.ہم کہتے ہیں اس سورۃ کی اتنی آیات اتنی آیات جو دلائل عقلیہ جو خدا تعالیٰ کی معرفت عطا کرنے والی ہیں.اسی طرح آیات سے وہ آسمانی نشانات اور معجزات مراد لئے جاتے ہیں جو اپنے پاک بندہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ ظاہر کرتا اور ان کے نتیجہ میں انسان کی ہدایت کے سامان پیدا کرتا ہے.آسمانوں اور زمین کی پیدائش کو بھی ، یہ یاد رکھیں بہت سارے لوگ اس چیز کو بھول جاتے ہیں آسمانوں اور زمین کی پیدائش حرکت اور زمانہ کو بھی آیت کہا گیا قرآن کریم میں یعنی سورج کی پیدائش یہ آیت اللہ ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے سورج نہیں بنایا تو تم نے بنایا کسی اور نے بنایا.کون ہے دعوی کرنے والا کہ میں نے جا کے سورج کو بنادیا تھا.جو چیز بھی اس کا ئنات میں اس مادی دنیا میں اور جو غیر مادی ہے اس میں بھی ظہور پذیر ہوتی ہے جو عدم سے وجود میں ظاہر ہوتی ہے یعنی پہلے نہیں تھی ہوگئی وہ آیت ہے اس کی ایک موٹی مثال ہے تو وہ چھپی ہوئی لیکن موٹی بھی ہے وہ دے دیتا ہوں جو فلکیات کے ماہر ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو پہلا آسمان ہے سات آسمانوں میں سے جس میں ستارے اور سورج وغیرہ ہیں یہ قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں ستارے، یعنی ان کے اندر اپنی ایک اجتماعی زندگی ہے ان کی ، ان کو انگریزی میں گلیکسی کہتے ہیں اور بے شمار سورج ایک ایک گلیکسی میں ہیں.بے شمار سورج ایک گلیکسی میں اور ہر گلیکسی اپنے راستے پر حرکت میں ہے کسی نامعلوم طرز کی طرف اس کی حرکت ہے جہت کی طرف اس کی حرکت ہے لیکن گلیکسی اور گلیکسیز بے شمار ہیں ان کی بھی گنتی نہیں کر سکا انسان لیکن یہ حرکت پیرال (parallel) نہیں بلکہ اس طرح ہے یعنی ہر آن دو گلیکسیز کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور جب اتنا فاصلہ ہو جائے دو گلیکسی کے درمیان کہ غیر محدود بے حد و حساب سورج اس کے ایک، جس کے اندر ہوتے ہیں ناں ایک نئی گلیکسی وہاں سما سکے اتنا فاصلہ ہو جائے وہ تو کہتے ہیں وہاں وہ گلیکسی پیدا ہو
خطابات ناصر جلد دوم ۴۴۵ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء جاتی ہے اب یہ جو پیدائش ہے یہ ہے خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ (ال عمران : ۱۹۱) یہ آیت نہیں عظیم نہیں نشان خدا تعالیٰ کی عظمتوں اور اس کے جلال کی طرف راہنمائی نہیں کرتی یہ چیز.تو اس چیز کو بھی آیت قرآن کریم نے کہا اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتِ لِأُولى الْأَلْبَابِ (آل عمران: ۱۹۱) ہاں یہ ضرور کہا ہے صاحب فراست ہونا چاہئے آدمی کو پتا لگ جائے گا کہ معمولی واقعات نہیں رونما ہونے والے بلکہ خدا تعالیٰ کی عظمتوں کے نشان ظاہر کرنے والے عظیم نشان ہیں اللہ تعالیٰ کے.اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے آیات قرآن کریم میں میں نے نوٹ تو کئے تھے بہت ساری آیات جو قرآن کریم نے سینکڑوں یہ ظاہری چیزیں ہیں پانی کا سمندروں سے بخارات کے ذریعے اٹھایا جانا قرآن کہتا ہے یہ آیت ہے پھر اس کو اس بخار کا سمٹ کے اور گاڑھا ہو جانا تھک (Thick) ہو جانا پانی کا اکٹھا ہو جانا.جس میں سے قطرے بہہ سکیں اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے یہ آیت ہے.پھر اس بادل کا کسی خاص جہت کی طرف چل پڑنا ہوا کا آنا اور اس کو اڑا کر لے جانا خدا کہتا ہے یہ آیت ہے، پھر کسی ایک جگہ جا کے ہوا کا رک جانا ار بادل کا ٹھہر جانا اور نہ برسنا.خدا کہتا ہے یہ آیت ہے یا برس جانا خدا کہتا ہے یہ آیت ہے.سینکڑوں ہزاروں تو شاید نہیں سینکڑوں تو یقیناً قرآن کریم میں اس کا ئنات سے مادی کائنات سے تعلق رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے جو عظیم جلوے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ہر جلوہ ہی عظیم ہے ان کو آیت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.تو ایک تو خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ( آل عمران : ۱۹۱) یہ آیت ہوئی دوسرے زمانے کو وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ (ال عمران : ۱۹۱) یہ زمانہ ہی ہے ناں.آپ کہہ دیتے ہیں کل جو گزر گیا دن کل کا دن اور پرسوں جو آنے والا دن ہے وہ پرسوں کا دن وہ زمانہ جو ہے وہ اپنی مستقل ایک حیثیت میں آپ کے ذہن میں آتا آپ کی زندگیوں میں آتا اور ایک ایک دن جس کو آپ ایک معمولی سی چیز سمجھ کے اس پر توجہ نہ کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں اور ایک دن آپ کو پتا لگتا ہے کہ ایک ایک دن کر کے ۸۰ سال ہماری عمر گزرگئی اور بوڑھے ہو گئے کمر یں جھک گئیں چلا نہیں جاتا کان جو ہیں ٹھیک طرح سن نہیں رہے آنکھیں ٹھیک طرح دیکھ نہیں رہیں وہ جو رعب اور دبدبہ خاندان کے اوپر تھا وہ بابے بڑھے کا رہا نہیں.اور بولا ایک ایک دن تھا.تو ایک دن بھی
خطابات ناصر جلد دوم ۴۴۶ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء بڑ از بر دست تھا اور واقعہ میں آیت تھا خدا کی.یہ بھی آیت ہے اور شق قمر جو ہے وہ بھی آیت ہے قرآن کریم کی اصطلاح میں یعنی جو انبیاء علیہم السلام یا دوسرے برگزیدہ اولیاء کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ معجزات اور نشانات آسمانی دکھاتا ہے ان کو بھی قرآنی اصطلاح میں آیت کہا جاتا ہے تو اس لحاظ سے دو بنیادی طور پر ختمیں ہیں آیات کی.ایک وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے جو اس کا ئنات میں ظاہر ہوتے اور عدم سے وجود میں اور وجود سے عدم میں تبدیلی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں وہ جلوے اسی کا ئنات میں، مادی کائنات میں پیدا ہوتے ہیں اور حرکت پیدا کر دیتے ہیں عمر کو ایک دن بڑھا دیا ہر صبح سورج اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ہر صبح جو سورج چڑھا اس نے ایک دن آپ کی عمر کا بڑھا دیا اور یہ ہمارا محاورہ ہے لیکن موت کہتی ہے کہ تمہارا ایک دن زندگی کا کم کر دیا.موت نے اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھنا ہے ، ہم نے اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھنا.ہم کہتے ہیں ہمارا ایک دن بڑھا دیا.موت مسکرا کے کہتی ہے ایک دن تمہارا ، عمر کا کم کر دیا اور اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَإِنْ يَرَوْا أَيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرُّ ( القمر : ۳۲) اى طرح کے الفاظ ہیں ذہن سے نکل گئے بہر حال ہر دو کو اللہ تعالیٰ نے آیات کہا ہے تو يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ایت کا مطلب یہ ہے کہ وہ نبی دنیا کو انسان کو ہر مرد کو ہر عورت کو امریکہ میں رہنے والے کو اور افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والوں کو اور عربی بولنے والے علاقوں میں رہنے والوں کو اور رشیا میں رہنے والوں کو آیات بتائے گا پہلے کب یہ آیات بتائی گئی ہیں ہمیں ہمیں کب کہا گیا کہ بے تو جگہی سے گزر نہ جایا کرو آیات اللہ کے پاس سے بلکہ ہر ظہور ہر ایک چمکا ر خدا تعالیٰ کی صفت کی خدا تعالیٰ کی طرف نشاندھی کرنے والی ہے.وہ تمہیں بلاتی ہے تمہارے پیدا کرنے والے رب کریم کی طرف اس کی طرف توجہ کرو اور اسی سے خیر مانگو خیر پاؤ.دوری کی راہوں کو اختیار نہ کرو اور اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک ہی نبی ہیں جنہوں نے حیات جاودانی پائی ہے اپنے رب کریم سے ان کی قوت قدسیہ کے نتیجے میں جس طرح ہزاروں زبر دست معجزات اور آیات اس زندگی نے جو ظاہری جسمانی زندگی تھی ظاہر ہوئے اسی طرح آخری زندگی میں ظاہر ہورہے ہیں ہماری تاریخ بھری پڑی ہے بہت ساری کتابیں بدقسمتی سے ضائع ہو گئیں ہیں لیکن جن کو خدا تعالیٰ
خطابات ناصر جلد دوم ۴۴۷ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء کی نگاہ نے ایک پاک اور مطہر اور تزکیہ یافتہ پایا ان کو بغیر نشانوں کے نہیں چھوڑا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ایتیم پھر دوسروں کے لئے محرم بنے انہوں نے کہا دیکھو تم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ایسا رسول ہے جو آیات تمہیں بتائے گا.ہمارے پاس آؤ ، ہماری زندگی کو دیکھو، ہمارے ارد گرد دیکھو ، آیات ہر قسم کی ظاہر ہو رہی ہیں.والكتب یہ جو کتاب ہے یہ تو مضمون ویسے ساری دنیا کو ہی اپنے اندر سمیٹنے والا ہے قرآن کریم کی تعلیم جو ہر شعبہ زندگی کو اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز کے متعلق حکم دیا قرآن کریم نے یا قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے.مثلاً کھانا ، کتنے لوگ ہیں شرم آتی ہے مجھے آپ سے بھی پوچھتے ہوئے کہ آپ سے آپ تو بڑے آگے نکل گئے دین میں، لیکن ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے جو کھانے کے متعلق سوچتے ہیں کیا ہمیں تعلیم دی اتنی چھوٹی بات کہ قل بیمینک و قُل مِمَّا يَلِیگ اس وقت تھال میں سارے کھاتے تھے کہا دائیں ہاتھ سے کھا اور جو سامنے تیرے کھانا پڑا ہوا ہے پرات میں اسی میں سے لقمہ لوادھر ادھر بوٹیوں کی تلاش نہ کر دوسرے کو متلی شروع ہو جائے گی.یعنی اس کو با اخلاق با ادب بنایا دوسرے کو گھن کی تکلیف سے بچایا بڑے احسان کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ پر.پہلے اس سے کہ دیا تھا کہ گندے ہاتھ لے کے.مثلاً آدمی ورکشاپ میں کام کرتا ہے کوئی اعتراض کی بات نہیں گریں لگی ہوئی ہوتی ہے موبل آئل لگا ہوا ہے موٹر ورکشاپ میں اور اسی طرح ہاتھ دھوئے بغیر آکر وہ خوراک والے شوربے میں سے بوٹیاں یا لقمے لینے شروع کر دے دوسرے آدمی کو گھن آئے گی.کہا ہاتھ دھو پہلے آئے.پاکیزگی کے متعلق اتنی تفصیل سے تعلیم دی گئی ہے جسم کے حصے ہیں میں نے اسی مضمون کے سلسلے میں بہت سارے حوالے نکلوالیا کرتا ہوں.وقت کے لحاظ سے مجھے پتا ہوتا ہے کام نہیں آئیں گے علم بڑھ جاتا ہے زبان کی پاکیزگی ، اب زبان کی پاکیزگی کئی طرح کی ہے کتاب کے متعلق یعنی جو تعلیم قرآن کریم نے دی الکتب ہے ناں اس کی تفاصیل بتا رہا ہوں، جھوٹ نہ بول ہر وقت سچ نہ بول ، موقع اور محل کے مطابق بات کر محض سچ نہیں بولنا بلکہ قول سدید کرنا ہے بعض آدمی اس طرح سچ بولتے ہیں وہ تھوڑا سا پیچ دار بھی کر دیتے ہیں اس کو یہ نہیں کرنا اور طیب کہنا ہے اور قول حمید یعنی ایسی بات کہو، منہ سے نکالو اپنے ، معاشرے میں ، کہ دنیا تمہاری
خطابات ناصر جلد دوم ۴۴۸ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء تعریف کرے مگا لے کر تمہارے پیچھے نہ پڑے ایسے بھی سچ ہیں جو غصہ دلا دیتے ہیں اگلے آدمی کو کیوں دلاتے ہو غصہ، نبی کریم نے منع فرمایا ہے.یہ زبان کی پاکیزگی چل رہی ہے.دھونے کے علاوہ کسی کی چغلی نہیں کرنی کسی کی غیبت نہیں کرنی زبان سے کرتے ہیں ناں آپ کسی پر تہمت نہیں لگانی ، کسی کو گالی نہیں دینی، کسی کو زبان سے ایذا نہیں پہنچانی ، دکھ نہیں دینا وغیرہ وغیرہ.اتنی تفصیل میں گئی ہے شریعت اسلامیہ اور کوئی فلسفے تو نہیں ہیں جن کو سمجھانے کے لئے کسی بہت بڑے فلاسفر کی ضرورت ہو اور آپ کو سمجھنے کے لئے مہینوں کی ضرورت ہو.اگر آپ توجہ سے سنیں اور یاد رکھیں تو میرا ایک دفعہ کہنا ٹھیک ہے منہ میں لقمہ پڑ گیا دا ئیں ہاتھ سے لیا مِمَّا يَلِیگ لیا پھر کیا کرنا ہے اس کو چبا کے کھاؤ اور کتنے لقمے کھانے ہیں کہ بھوک لگے تو شروع کرو اور ابھی بھوک ہو تو ختم کر دو انہوں نے بڑا معرکہ مارا ڈائیٹنگ (dieting) کا ایک جنون پیدا کر دیا جس سے بڑی بیماریاں پیدا ہو گئیں میں ذاتی طور پر ایسے آدمیوں کو جانتا ہوں جو بیمار ہو گئے ڈائٹنگ (dieting) کے نتیجہ میں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈائیٹنگ کا اتنا اچھا بنایا تھا یہ فارمولا کہ بھوک لگے تو شروع کرو اور ابھی بھوک ہو تو ختم کر دو.یہ پانچ سات چیزیں میں نے ایک دوست کو دی تھیں کہ نکالو سارے حوالے تو اتنا موٹا مسودہ تیار ہو کے آ گیا بڑا لطف آیا اس میں سے ایک ایک لے کے کبھی کوئی اور لے لے گا ایک میں لے لوں گا کام آتے رہیں گے مسودہ ہو گیا ریفرنس کے لئے ، بتا میں یہ رہا ہوں کہ اتنی عظیم کتاب ہے.اور عورت کے متعلق آج بڑا اعتراض ہو رہا ہے بعض ہماری اپنی نالائقیوں کے نتیجہ میں کہ اسلام میں عورت کے حقوق نہیں بتائے ، قائم کئے ، حفاظت کی ، یہ بات نہیں چار سو دس آیت سے زیادہ تو ایسی ہیں جن میں عورت کا عورت کر کے ذکر کیا گیا ہے، کتنا بڑا مضمون ہوگا کہ ایک ہی آیت چار مختلف جگہ سے میں نے لی ہے وہ اس کے اندر ہی مضمون نہیں ختم ہو رہا چار سو دس جگہ لیکن ان میں سے بعض جگہیں ایسی ہیں کہ ایک ہی آیت کہہ رہی ہے کہ جہاں بھی کم کر کے قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے یا ایھا الذین کہہ کے بات کی گئی ہے اس میں مرد اور عورت ہر دو شامل ہیں تو ساری قرآن کریم کی جو تعلیم ہے اس میں عورت اسی طرح شامل ہے گیلی مٹی سے بنایا مردکو بھی عورت کو
خطابات ناصر جلد دوم ۴۴۹ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء - بھی یہ مدارج میں سے گزار کے ارتقائی مدارج میں سے گزار کے اس کا جسم بناوہ ایک جیسے ہے کوئی فرق نہیں جو اس جسم میں اس کے نفس میں طاقتیں تھیں نوع کے لحاظ سے جو مرد میں ہیں قرآن کریم کہہ رہا ہے جو مرد میں ، وہ عورت میں ہیں.جو طاقتیں ساری کائنات کے مقابل انسان کو رکھ کے خدا تعالیٰ نے انسان میں پیدا کیں سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا (الجاثية :۱۴) کہ نوع انسانی کو تمام وہ قو تیں اور صلاحیتیں دے دی گئیں جن کے نتیجہ میں وہ کائنات پر حکمرانی قائم کر سکتا ہے کیونکہ کائنات کی ہر چیز اس کی خادم بنا کے پیدا کی گئی ہے یہ جو قو تیں اور صلاحیتیں ہیں جس طرح مردوں کو دی گئیں قرآن کریم کہتا ہے عورتوں کو بھی دی گئیں، پاکیزگی جو آپ کا مقصد تھاناں، ہر حکم جو ہے وہ پیار کے ساتھ ، وہ محبت کے ساتھ حکمت بتا کے دلیل دے کے، وہ عقل کو قائل کر کے، جذبات کو اپیل کر کے لے جا رہا ہے کہ پاک بن جاؤ، مطہر بن جاؤ خدا کی نگاہ میں دعوئی نہ کر بیٹھنا اپنی طرف سے لیکن خدا کی نگاہ میں پاک بنے کی کوشش کرو ہر چیز تمہاری پھر یہ دنیا جو ہے ی زندگی جو ہے یہ تو ہے ہی وقتی لیکن اس پاکیزگی تک پہنچانے کی ذمے داری جو ہے وہ تو ان لوگوں کی ہے ناں جنہوں نے قرآن کریم کو سمجھ اور محمصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت سے واقف ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا احسان حاصل کیا.یہ خانہ کعبہ کے تیس مقاصد جن کا میں نے ذکر کیا جن کا پہلا اور آخری حصہ مل گیا آئے.یعنی ایسی تعلیم جو سارے نوع انسانی کے لئے ہے ہر انسان کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی ایسی تعلیم نہیں لایا اور آپ کی تعلیم چار حصوں میں تقسیم، جن میں سے دو کے متعلق مختصراً میں نے کہا ہے اور تیسری چیز ہے حکمت اس کے بڑے پہلو ہیں.قرآن کریم کے ہر حکم میں ہمیں ایک دو بنیادی حکمتیں ہیں وہ بیان کرنے لگا ہوں ہر حکم جو ہے اس کے اندر اعتدال کے پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے تا کہ انسان تھک نہ جائے اور دلبر داشتہ نہ ہو جائے ، اعتدال کا پہلو مثلاً کھانے پینے کے متعلق اعتدال کا حکم ، روزہ رکھنے کے متعلق اعتدال کا حکم، ایک تو یہ کہ ہر روزہ مہینے کے سارے دنوں کے چوبیس گھنٹے کا روزہ نہیں بلکہ دن کا روزہ رکھا، تو دن اور رات میں ایک اعتدال پیدا کر لیا جو دن کی جسمانی کوفت تھی یا جسمانی تکلیف تھی یا جو جسمانی طور پر روزمرہ کی عادت میں فرق پڑا تھا عام طور پر لوگ کھانا کم نہیں کرتے میں نے بڑا مطالعہ کیا ہے کچھ زیادہ ہی کھا لیتے ہیں مثلاً جولوگ رمضان سے باہر پراٹھا نہیں کھاتے وہ رمضان
خطابات ناصر جلد دوم ۴۵۰ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۹ء میں کھا لیتے ہیں با قاعدہ گھی کے ساتھ ، پھر قطع نظر اس کے فوائد اس کے پھر بھی ہیں، اس بحث میں نہیں میں اس وقت پڑتا.پھر ایک ہمارے صحابی تھے ان کا اسلام جوش میں آیا اس نے اپنی بیوی کو کہا کہ میں تو روز ہی روزہ رکھوں گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی اس نے کروا دی یہ تو کہتا ہے میں روز روزہ رکھوں گا آپ نے اس کو بلایا کہا نہیں تم مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے تمیں روزوں کا ثواب تمہیں مل جائے گا.انہوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ میں اس سے زیادہ رکھتا ہوں اسی طرح وہ کرتے کرتے پھر آپ نے کہا سب سے زیادہ جو ہے وہ یہ ہے شکل کہ ایک دن رکھو ایک دن چھوڑو.روز نہیں رکھو گے تم اور بھی حقوق ہیں جو تم نے ادا کرنے ہیں تو یہ کتنی بڑی ہے ہر چیز میں یہ حکمت ہے.کھانا ہے مثلاً قرآن کہتا ہے كُلُوا کھاؤ، قرآن نے یہ نہیں کہا کہ نہ کھاؤ.قرآن کہتا ہے جو حلال ہے کھاؤ قرآن کریم نے کہا ہے کہ ہر کھانے کی نعمت میں نے اے مسلمان میں نے تیرے لئے پیدا کی ہے لولاک لما خلقت الافلاک آپ کے متبعین کے لئے ہوئی ناں ہر چیز اچھی کھاؤ وَاشْرَبُوا اور اچھی حلال پینے کی چیزیں ہیں پیو کوئی نہیں روکتا جس چیز سے ہم روکتے ہیں وَلا تُسْرِفُوا اسراف نہ کرنا.اس زندگی میں بیمار ہو جاؤ گے اخروی زندگی میں بداخلاقوں میں تمہارا نام شمار ہو گا ثواب تمہیں نہیں ملے گا بہت ساری بداخلاقیاں پیدا ہو جائیں گی بہت سے حقوق ہیں جو تلف ہو جائیں گے بہت سے لوگ ہیں جو تمہاری توجہ کو اپنی طرف کھینچ نہیں سکیں گے اگر تم نے کھانے میں اسراف کیا آپ ضرورت سے زیادہ موٹاپے کی طرف مائل ہو کے بیمار رہنے لگ جاؤ گے مستقل بیماری آ جائے گی یہ اعتدال کھانے میں اور باریکیوں میں ، خدا تعالیٰ تو علام الغیوب، کھانا کھاؤ لیکن جو ہم نے مختلف اقسام کے کھانے پیدا کئے ہیں سب کا حصہ دو کھانے میں تمہارے لئے پیدا کیا ہے.بنیئے کی طرح جو اپنی دوکان پہ بیٹھ کے لڈو ہی کھائی چلے جاتا ہے اور موٹا ہو جاتا ہے میٹھا بھی کھاؤ مقدار کے مطابق ، گھی بھی کھاؤ تھوڑ اسا ، سٹارچ بھی کھاؤ یہ جو آئے ہیں گندم وغیرہ کے پروٹین بھی کھاؤ ، پروٹین میں پھر آگے قسمیں بنادیں اللہ تعالیٰ نے ، بڑا دیالو ہے خدا ، بڑا مہربان ہے، بڑا اس نے ہم پر رحم کیا ہے بڑی چیزیں پیدا کر دیں پروٹین ہمیں اس نے دی عام گوشت جو ہے کئے کا گوشت ،
خطابات ناصر جلد دوم ۴۵۱ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء گائے کا گوشت ، بکرے کا گوشت بھیٹر کا گوشت اور مرغی کا گوشت اور پرندوں کا گوشت پھر آگے آبی پرندے اور خشکی کے رہنے والے ہیں پرندے کا گوشت.پھر مچھلی کا گوشت ان سب میں پروٹین پائی جاتی ہے اور اب اطباء نے ایلو پیتھی میں تجربہ کر کے یہ کہا ہے کہ ہر ایک کو اس کا حصہ دو اگر تم نے اپنی صحت ٹھیک رکھنی ہے.اور نٹس (Nuts) جو خشک میوہ ہے جو آج کل اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ بہت سارے ترستے ہی ہوں گے کہ کھا ئیں یا نہ کھا ئیں یہ بڑی اچھی ہے صحت کے لئے چیز، بادام، پستہ ، اخروٹ ،مونگ پھلی یہاں ہماری ہے ہاں نٹس جو ہیں کم ہیں امریکہ میں تو ۵ قسم کے نٹس پائے جاتے ہیں یہ بڑے اچھے ہیں تھوڑا سا مکھن کھاؤ ہر چیز تھوڑی تھوڑی کھاؤ تا کہ کسی چیز میں اسراف نہ ؟ جائے ایک تو ہے کھانے کا اسراف ایک اس کے جو Components ہیں حصے ہیں ان میں اسراف نہیں کرنا تھوڑا تھوڑا کھاؤ ہر ایک کا صحت بڑی اچھی رہے گی جنہوں نے اس کو معلوم کیا اور جن کے خیال میں آیا توجہ کرتے ہیں وہ اسی طرح کرتے ہیں چار پانچ بادام کھالئے ، آدھا انڈا کھالیا ایک ربع مچھلی کا کھا لیا تھوڑا سا، یعنی یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی وقت میں چوزا اور بکری کا گوشت کھالیا ایک وقت وہ کھالیا ایک نوالہ ادھر سے کھا لیا بہر حال آگے پیچھے کر کے اور صحت قائم رہتی ہے.اگر تم نہ کرو گے گوشت بالکل نہیں کھاؤ گے جرات نہیں ہوگی بزدل بن جاؤ گے تجربہ ہے گوشت نہ کھانے والے عام طور پر بزدل ہوتے ہیں الا ما شاء اللہ.اگر صرف گوشت کھاؤ گے تر کاریاں نہیں کھاؤ گے دوسری چیزیں نہیں کھاؤ گے تو خونخوار وحشی بن جاؤ گے اعصاب پر اثر پڑتا ہے کھانے کا یہ اور ہے اعتدال دنیا کی مخلوقات میں.یہ بڑی حکمتوں والی کتاب ہے حکمتیں اس لئے بتا رہا ہوں احکام میں اعتدال رکھا مثلاً معاف کر وحکم ہے معاف کرو ساتھ ہی قرآن نے کہا ہر وقت معاف نہیں کرنا.انتقام اور عفو کے درمیان ایک اعتدال قائم کیا ہے کہ اگر عفو سے فائدہ ہو عفو سے کام لو.اگر انتقام سے اگلے آدمی کی اصلاح ہوتی ہے انتقام سے کام لو.حکمت یہ جو میں نے مثال دی تھی وہ اخلاق فاضلہ میں اور قوتوں اور صلاحیتوں میں توازن پیدا کر کے اور عجیب اصول دنیا کے سامنے رکھ دیا کہ جو بداخلاقی ہے وہ کوئی ایسا کام نہیں جو اپنی ذات فی نفسہ بداخلاقی کا کام ہو بلکہ بے موقع اور بے محل اس کا کرنا جو انسان کو خدا نے قوت دی ہے وہ بغیر وجہ کے تو نہیں لیکن بے موقع بے محل بے وقت کسی کا کوئی کام کرنا یہ بد اخلاقی ہے.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۵۲ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء جب طبعی قوتوں کو موقع محل اور ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے وہ اخلاق فاضلہ بن جاتے ہیں.پھر پاکیزگی ہے، پاکیزگی کے متعلق دو باتیں اصولی بیان کیں ایک انسان کو یہ کہا فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ (النجم :۳۳) اپنے آپ کو پاک نہ کہا کرو گنہگار ہو جاؤ گے غرور پیدا ہو جائے گا شیطان کی گود میں چلے جاؤ گے ہمیشہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو کبھی جوش میں آکے نہ کہو میں بڑا پاک، میں بڑا ولی میں بڑا یہ میں بڑا وہ ہر شخص خدا کے حضور ایک عاجز وجود ہے اور جس چیز کو اسلام پاکیزگی کہتا ہے وہ یہ لپ سٹک اور سرخی کلوں پر لگانے کا نام نہیں ہے ظاہری آنکھ نے جسے دیکھنا ہے اس کا دل سے تعلق ہے قرآن نے کہا فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ (النجم :۳۳) دیکھ کبھی اپنے آپ کو پاک نہ کہنا هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم : ۳۳) اس بات کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے کہ کون متقی ہے اور کون نہیں ہے.جب یہ کہا کہ خدا کو ہی علم ہے کہ کون پاک اور کون نہیں اور کون مطہر اور کون نہیں کون متقی اور کون نہیں تو پھر انسان کو تو تبھی پتا لگے گا ، جب خدا بتائے گا کسی استاد سے اس کی سند نہیں لے سکتے قرآن کہتا ہے نہیں نہیں هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقی اللہ کو پتا ہے یہ بھی استاد کو نہیں پتا کسی مجسٹریٹ سے لے کے جا کے کوئی پرانا کاغذ جو ہے اس کی تصدیق اور ثبوت مہیا نہیں کیا جاسکتا ہے اس کے سامنے، گواہوں کے ساتھ ، اسلام نے یہ اعلان کیا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں پاک اور متقی ہوگا خدا تعالیٰ خود اس کے متقی اور پاک ہونے پر گواہی دے گا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بتایا ہے کہ جو میری نگاہ میں پاک اور مطہر ہوں میں ان کے ساتھ اس قسم کا سلوک کرتا ہوں.ایک جگہ فرمایا إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ( حم السجدة : ۳۱) جنہوں نے کہا کہ رب حقیقی ہمارا اللہ تعالیٰ ہے ہم ہر قسم کی ربوبیت اور نشو و نما کے لئے اس کے محتاج ہیں اسی سے مانگیں گے اسی سے لیں گے وہ دے گا تو ہماری نشو و نما ہوگی ورنہ نہیں ہوگی ثُمَّ اسْتَقَامُوا ( حم السجدة : ۳۱) پھر وہ اپنے اس عہد پر سختی سے قائم رہتے ہیں استقامت سے قائم رہتے ہیں تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا ( حم السجدۃ:۳۱) اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو ان کے پاس بھیجتا ہے انہیں تسلی دیتا ہے خوف کے اوقات میں ، ان کو تسلی دیتا ہے جس وقت کوئی کوتاہی اور غفلت ہو جائے اور وہ بے چین ہو کر خدا سے تو بہ اور استغفار کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان کی
خطابات ناصر جلد دوم ۴۵۳ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء تو بہ اور استغفار قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں اور بے چینی میں ان کے اوقات گزر رہے ہوتے ہیں آسمان کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں لَا تَحْزَنُوا غم نہ کرو خدا نے تمہیں معاف کر دیا.آسمانی نشانوں کے ساتھ وہ ان کی پاکیزگی کو ظاہر کرتا ہے اس نے قرآن کریم کی عظمت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم میں یہ اعلان کیا تھا لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة) :۸۰) که قرآن کریم کا فہم وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو پاک اور مطہر ہو کیونکہ یہ پاک کا کلام ہے اور پاک کے سینے میں ہی یہ نور پیدا کر سکتا ہے.تو جو اس کے نیک بندے ہیں ان کو وہ قرآن کریم کے مطابق سکھاتا ہے لیکن نیک بندے اور نیک بندے میں فرق ہے ناں ان کو جو سکھاتا ہے یہ تو تسلی ان کو ہو جاتی ہے کہ خدا کا پیار ہمیں حاصل ہو گیا لیکن یہ ان کو شوق نہیں ہوتا کہ یہ کہیں کہ ہم ساتویں آسمان پر پہنچ گئے جو ملتا ہے اس پر وہ خوش ، جتنا ملتا ہے اس پر خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم سب کو اپنا شکر گزار بندہ بنائے رکھے اور اپنی رحمتوں سے ہمیں ہمیشہ نواز تار ہے.اب میں اس مضمون کو اسی پر ختم کرتا ہوں اور آخر میں دعا سے قبل ، دعا ہماری دوطریقوں یہ ہے کچھ میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ ان باتوں کے لئے دعا کریں پھر ہم ہاتھ اٹھا کے دعا کرتے ہیں ان پر دو قسم کی دعاؤں سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھ کے سنانا چاہتا ہوں.حضور فرماتے ہیں:."خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو، ( گروہ سے مراد جماعت احمد یہ ہے ) خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہی اور توبتہ النصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کو پھیلا دے.سو یہ گروہ اس کا وہ خالص گروہ ہوگا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا.وہ جیسا کہ اس نے اپنی پانچ پیشن گوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے.وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو
خطابات ناصر جلد دوم ۴۵۴ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء نشو ونما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نسلوں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے اور وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین پر رحم بھی کرے گا اور انہیں قبولیت اور نصرت دی جائے گی اس رب جلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے ہر ایک طاقت اور قدرت اسی کو ہے جو وعدے دیئے گئے ہیں وہ بڑے عظیم ہیں یہ عظیم وعدے ہم پر جو ذمے واریاں ڈالتے ہیں بہت ہی عظیم ہیں یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے اخلاص سے ، ہم اپنے ایثار سے ، ہم انسانوں سے اپنی ہمدردی سے ہم بے لوث خدمت کے ساتھ خدا کی مخلوق کی ہم ہر ایک کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کے نتیجہ میں ہم ہر ایک کو سکھ پہنچانے کی کوشش کی وجہ سے اپنے رب کریم کی نگاہ میں وہ مقام حاصل کریں چھوٹا یا بڑا جس کا ذکر اس اقتباس میں پایا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم میں سے اکثر کو اس کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں میں نسلاً بعد نسل اس کے مطابق نیک اور پاک اور خدا کی خدائی میں امن کو قائم کرنے والے اور لوگوں کی بھلائی چاہنے والے اور نیکی کرنے والے پیدا ہوتے رہیں اور اللہ تعالیٰ اس دنیا میں امن کو قائم کرے، اس وقت دنیا اگر سوچے بلکہ پریشان کن حالات میں سے زندگی گزار رہی ہے اور کہا نہیں جاسکتا کہ کب اور کس وقت کوئی عالمگیر ہلاکت کا سامنا نہ کرنا پڑے انسان کو.دعائیں کریں کہ انسان اپنی خاطر ، اپنی نسلوں کی خاطر تو بہ کرے اور خدائے واحد و یگانہ کی طرف رجوع کرے اور خدا کی باتوں کو مانے اور اپنے اندھیروں کو دور کرنے کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نور کی بھیک مانگیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے حصہ لے کر دنیا میں نور پھیلانے والے بنیں اور ہر ایک دوسرے کا بھائی بن کر زندگی گزارنے والا ہو دشمن بن کر نہیں.ہر ایک دوسرے کا خیر خواہ ہو بدخواہ نہ بنے.اللہ تعالیٰ ہر جہت سے، ہر پہلو سے ہر ایک کو امن کے قیام میں کچھ کرنے کی طاقت عطا کرے اور اس کی طرف ان کی راہنمائی کرے اور اللہ تعالیٰ جو مختلف قوموں کے درمیان اختلافات اور انتشار اور شکر رنجیاں ہیں انہیں دور کر دے اور بین الاقوامی سطح پر امن کا سورج طلوع ہو جائے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اسلام کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں خواہ وہ دنیا کے
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء کسی حصہ میں ہی کیوں نہ ہوں اپنی برکتوں سے نوازے اپنے فرشتوں سے ان کی نصرت کرے اور مد دکو آئے اور ان پر موسلا دھار بارش کی طرح ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے اور ان کی قلم اور زبان میں برکت ڈالے اور ان کے دلوں کو ہر عیب اور ناپاکی سے پاک کر دے اور انسان کی محبت سے بھر دے اور خدا کی مخلوق کا خیال کرنے والے وہ ہوں صرف انسان پر ہی نہیں خدا کی دوسری مخلوق پر بھی وہ رحم کرنے والے اور اس کی تکلیف کو دور کرنے والے بن جائیں اور خدا کرے کہ دولت کی کمی کی وجہ سے اگر کسی جگہ انسان دکھ اٹھا رہا ہے تو دولت کی مساوی تقسیم اس دکھ کو دور کرنے کا باعث بن جائے اور دنیا میں کوئی پیٹ رات کو بھوکا نہ سوئے اور کوئی پیٹ زیادہ کھانے کی وجہ سے رات کو پیٹ درد میں مبتلا نہ رہے اللہ تعالیٰ ہر طرف سے ہم پر رحم کرے، ہمیں بخشے ، ہماری غلطیوں کو معاف کرے ہماری کوتاہیوں کو نظر انداز کرے قیامت کے دن ان لوگوں میں ہمیں اٹھائے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نیچے اٹھائے جائیں گے.آمین.آؤ اب مل کر دعا کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ ناصر ہو دوست احباب واپس تشریف لے جائیں گے کچھ آج کچھ کل کچھ پرسوں.جہاں بھی ہوں آپ ، راہ میں ہوں، گھروں میں ہوں پھر سفر میں کسی نکلیں اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت کرے.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اللہ تعالیٰ ہر خیر کے سامان آپ کے لئے پیدا کرے.اللہ تعالیٰ ہر دکھ سے آپ کو محفوظ رکھے آپ کی زندگیوں میں برکت ڈالے.عمریں بڑھائے نیتیں جو ہیں ان میں اور زیادہ اخلاص پیدا کرے اور خدا توفیق دے ہم سب کو کہ آئندہ سال انشاء اللہ اسی کی توفیق سے ہم پھر جمع ہوں اس کی حمد کے ترانے گانے کے لئے ، اس کے حضور عاجزانہ جھک کر دعائیں مانگنے کے لئے ، اپنے جسم کے پانی کا کچھ حصہ آنسوؤں کی شکل میں اس کے آستانہ پر چھڑکاؤ کرنے کے لئے پیش کرنے کے لئے ، اس کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے.میں اس کے جھنڈے کو بلند کرنے کے لئے ، دلوں میں محمد کے نام کی محبت پیدا کرنے کے لئے.آؤ دعا کرلیں.(از آڈیو کیسٹ)
۴۵۶ خطابات ناصر جلد دوم
خطابات ناصر جلد دوم ۴۵۷ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء چودھویں صدی کے ساتھ ہمارا ، ہمارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا بڑا گہرا تعلق ہے افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۰ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآن کریم کی مندرجہ ذیل دعائیہ آیات دو دو تین تین دفعہ مع ترجمہ پڑھیں :.رَبَّنَا اتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيْئُ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (الكهف : ١١) اے ہمارے رب! ہمیں اپنی رحمت سے نواز.اے ہمارے رب ہمارے دلوں میں اپنی مخلوق کے لئے رحمت کے جذبات پیدا کر اور اے ہمارے مولا ! ہمیں آزادی اور کامیابی کا رستہ دکھا.رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَ اَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّلِحِينَ (النمل: ٢٠) اے میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ تیری نعمت کا جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے شکریہ ادا کر سکوں اور ایسا عمل کر سکوں جو تیری رضا کے مطابق ہو اور اپنے رحم کے ساتھ تو مجھے اپنے بزرگ بندوں میں داخل کر اور ایسے سامان پیدا کر اور مجھے ایسی توفیق دے کہ ہمیشہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق سے آراستہ رہوں.رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرُ (القصص: ۲۵) اے ہمارے رب ! کون کسی کا ہوتا ہے.ہم تیرے نالائق مزدور ، دنیا کے دھتکارے ہوئے ہیں مگر ہیں تو تیرے، اے ہمارے رب تو بہتر جانتا ہے کہ کس چیز میں ہماری بھلائی ہے.پس تو جو کچھ بھی بھلائی کا سامان ہمارے لئے کرے.ہم اس کے محتاج ہیں.رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (التخريم : ٩) اے ہمارے ربّ! تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نوع انسانی کے لئے ایک کامل نور بنا کر
خطابات ناصر جلد دوم ۴۵۸ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء بھیجا.تو نے اس نور سے ہمیں بھی حصہ دیا اپنی رحمت اور فضل سے.اے خدا اس نور کو ہمارے لئے مکمل کر.تو ہر چیز پر قادر ہے.رَبَّنَا أُتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة : ۲۰۲) اے ہمارے رب! ہمیں اس دنیا کی زندگی میں بھی کامیابی دے اور حسنات سے نواز اور آخرت میں بھی کامیابی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.ربنا اے ہمارے رب! ہم تمام دوسرے ارباب سے تو بہ کرتے ہوئے تیری طرف لوٹتے ہیں.انسان نے بہت سے ارباب بنالئے.اپنے حیلوں اور دغا بازیوں پر اسے بھروسہ ہو گیا.اپنے علم یا قوت بازو کا انہیں گھمنڈ، اپنے حسن یا مال و دولت پر انہیں فخر ، اسی طرح کے ہزاروں اسباب ہیں جو ان کی زندگیوں کے ساتھ بطور ار باب کے لگے ہوئے ہیں.اے خدا ! ہم نے ان سب ارباب کو ترک کیا.ان سے بیزار ہوئے.اے واحد لاشریک کچے اور حقیقی رب ! ہم تیرے حضور سر نیاز کو جھکاتے ہیں.اے خدا ! ہماری دعاؤں کو سن اور ہماری مرادوں کو پورا کر اور اپنے وعدوں کو جو اس زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں ہماری زندگی میں ہمیں دکھا.اے خدا ! لوگ جھوٹ ہی کو اپنا رب بنا بیٹھے ہیں.کہتے ہیں جھوٹ کے بدوں گزارا مشکل ہے.بعض ہیں جو چوری اور رہزنی اور فریب دہی کو اپنا رب بنائے ہوئے ہیں.ان کا اعتقاد ہے کہ اس راہ کے سوا ان کے واسطے حصول رزق کی کوئی راہ نہیں.بعض ایسے ہیں جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسہ ہے.ان کو خدا سے استعانت اور دعا کرنے کی کیا حاجت.لیکن اے خدا! ہمیں تو تجھ سے دعا کرنے کی اور مدد مانگنے کی حاجت ہے.ہماری حاجت روائی کر.ہماری دعاؤں کوسن اور انہیں قبول کر اور ہم پر رحم کر.ہم ناچیز انسان ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں، ہم میں کوئی خوبی نہیں.ہمارے عمل بھی ان بلندیوں تک نہیں پہنچے جن بلندیوں تک تو انہیں دیکھنا چاہتا ہے.مگر اے خدا! تو تو دیالو ہے.یخشن ہار ہے.تو دینے والا ہے، تو عطا کرنے والا ہے.تو نے ہماری زندگیوں سے بھی پہلے ، ہمارے وجود سے بھی پہلے بے شمار ، ان گنت نعماء ہمارے لئے پیدا کر دیں.اب جب تو نے ہمیں پیدا کیا تو ہمیں توفیق دے کہ ہم تیرے حضور کچھ پیش کر سکیں اور ایسا کر کہ جو بھی ہم عاجزانہ رنگ میں ٹوٹی پھوٹی چیزیں تیرے حضور پیش کریں تو انہیں قبول کرلے اور اپنی رضا کی جنتیں ہمارے لئے مقدر کر دے.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۵۹ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء پندرھویں صدی ہجری کا یہ پہلا جلسہ ہے اور پندرھویں صدی ہجری کے پہلے جلسے کا.پہلا دن ہے اور پندرھویں صدی ہجری کے پہلے دن کی یہ پہلی تقریر، افتتاحی تقریر ہے.جب ہم ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو پچھلی صدی ، چودھویں صدی ایک ایسی صدی ہے جس کے ساتھ ہمارا اور ہمارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ہمارے پیارے مذہب اسلام کا بڑا گہرا تعلق ہے.جو صدی گزرگئی اس میں ہم نے ابتلا بھی دیکھے.ہم نے اس میں آگیں بھی بھڑکتی پائیں ہم امتحانوں میں سے بھی گزرے.ہم نے ان تمام ابتلاؤں اور امتحانوں میں اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کو آسمانوں سے بارش کے قطروں سے بھی زیادہ برستے بھی پایا.ہم نے خدا تعالیٰ کے نام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے حقیر کوششیں بھی کیں.ہم نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ ہماری حقیر کوششوں کے ایسے نتائج نکلے کہ جن کی کوئی نسبت ہی نہیں تھی ہماری کوششوں کے ساتھ.جہاں ہم نے پیسہ دیا وہاں ایک کروڑ روپیہ نتیجہ نکل آیا محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ.مگر مجموعی طور پر اگر نظر ڈالی جائے جانے والی صدی پر تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم روحانی قوت، قوت قدسیہ کے نتیجہ میں جو انقلاب بپا ہوا اور جس نے اس زمانہ میں اپنے عروج کو پہنچنا تھا اس کی بنیاد پڑی.آنے والی صدی میں ان بنیادوں پر وہ عمارتیں تعمیر کی جانے والی ہیں کہ جن میں نوع انسانی بسیرا کرے گی اور اس کے لئے ہمیں ہی کچھ کرنا ہے.ہم پر بہت سی ذمہ واریاں عائد ہوتی ہیں.ہم نے اپنوں کے بھی اور غیروں کے بھی دل جیتنے ہیں.غلط فہمیاں دور کرنی ہیں.اسلام کے حسن اور نو رکوان کونوں تک پہنچانا ہے جہاں شیطانی ظلمات کی حکومت قائم ہے.ہم نے بھولے بھٹکوں کو صراط مستقیم دکھانی ہے.ہم نے ان لوگوں کو جو بداخلاقیوں کو تہذیب سمجھ رہے ہیں، با اخلاق اور مہذب بنانا ہے.ہم نے ان کو جو انسان کے شرف اور اس کی عزت کو پہچانتے نہیں، یہ یقین دلانا ہے کہ انسانی زندگی میں اطمینان صرف اس وقت پیدا کیا جاسکتا ہے جب انسان، انسان کی عزت اور احترام کرنے لگے.ہم نے ان کو جو انسانوں کے حقوق غصب کر رہے ہیں، اسلام کی یہ تعلیم دینی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر فرد واحد کے حقوق قائم کئے اور جب تک ان حقوق کی ادا ئیگی کا صحیح اور پورا سچا انتظام نہ ہو، نوع انسانی اطمینان قلب حاصل نہیں کر سکتی.ہم نے اس جگہ
خطابات ناصر جلد دوم ۴۶۰ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اور حسن نہیں پہنچا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور اور حسن کو پہنچانا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.ہم کمزور ہیں.ہم غریب ہیں.ہم بے کس ہیں.ہم دنیا کے دھتکارے ہوئے ہیں.لیکن خدا کے دھتکارے ہوئے ہم نہیں.ہم غریب ہیں.ہمارے پاس دولت نہیں لیکن ہم نے اس کا دامن پکڑا ہے جو ہر دو جہان کا مالک ہے اور سارے خزانوں کی بادشاہت اس کے ہاتھ میں ہے.( نعرے ) اور جس نے قرآن عظیم میں یہ اعلان کیا:.اِنَّ اللهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (ال عمران: ۳۸) اور اس کے لئے ہم دعا کرتے ہیں اور ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ اس زمانہ میں وہ ہمارے ساتھ یہی سلوک کر رہا ہے کہ بغیر حساب کے وہ دینے والا ہے.ہم کمزور ہیں کوئی طاقت ہم میں نہیں.اچھی طرح سمجھ لو اور یا درکھو کہ کوئی طاقت ہم میں نہیں لیکن سب طاقتوں کا جو سر چشمہ ہے اس کے قدموں میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں.( نعرے) قرآن کریم نے فرمایا ہے:.وَلِكُلٍ وَجْهَهُ هُوَ مُوَلِيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقرة : ۱۴۹) پچھلی صدی میں میں نے تمہیں اس آیت کی روشنی میں دو ماٹو دیئے تھے.حمد اور عزم.قیامت تک وہ قائم رہیں گے.اللہ تعالیٰ کے اتنے احسان ہیں ہم پر کہ پندرھویں صدی تو کیا اگر قیامت تک کی ساری صدیاں ان احسانات پر ہم خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں اور اس کی حمد کے گیت گاتے رہیں جو چودھویں صدی میں ہم پر ہوئے تب بھی ہم اس کا شکر ادا نہیں کر سکتے.لیکن نعماء اور فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں کی یہ بارش بند تو نہیں ہوئی.اس میں تو شدت پیدا ہو رہی ہے ہر روز.حمد ہم نے کرتے چلے جانا ہے.چاہے اس کو اس کی انتہا ء تک نہ پہنچا سکیں کمزور انسان ہیں لیکن جس حد تک ممکن ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے اس کی حمد میں مشغول رہیں اور جو کچھ ہم نے دیکھا اور جو کچھ ہم نے پایا چودھویں صدی میں اس نے ہمیں یہ وضاحت سے سمجھا دیا کہ خدا تعالیٰ ہماری کوششوں میں برکت ڈالتا ہے اگر ہماری کوششیں اس کی رضا کے لئے ہوں اور ہماری کوششوں کے ساتھ عاجزانہ دعائیں شامل ہوں اس لئے ہم نے تھک کے بیٹھ نہیں جانا بلکہ پورے عزم کے ساتھ ، پورے حوصلہ کے ساتھ اور پوری جرات کے ساتھ اس پندرھویں صدی میں
خطابات ناصر جلد دوم ۴۶۱ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء اسلام کی خدمت میں آگے سے ہی آگے بڑھتے چلے جانا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ لیکن اس صدی میں جو اور ذمہ واریاں ہیں ان کے مد نظر میں کچھ اور اصولی ماٹو زآر دیتا ہوں اور وہ ہیں یہ.محبت اور پیار - حمد ، عزم.محبت و پیار عزم کا نتیجہ اور تعلق عمل سے ہے، کرنا کیسے کرنا، محبت اور پیار سے، دنیا کے دل ہم نے اس صدی میں خدا اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محبت اور پیار سے جیتنے ہیں.ہم نے محبت اور پیار کرنا ہے.ان لوگوں سے بھی جو آج خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والے ہیں.ہم نے پیار کے ساتھ ان کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرنی ہے لیکن اس محبت اور پیار کے سب سے زیادہ مستحق وہ ہیں.کا خر کنند دعوای حب پیمبرم ( در مشین فارسی صفحه ۱۰۷) ہمارے مسلمان بھائی، ان کو ہم نے محبت اور پیار سے ایک نقطہ پر جمع کرنے کی کوشش کرنی ہے تا کہ اسلام اور امت مسلمہ جو پہلے زمانوں میں بنیان مرصوص کی طرح دنیا کے سامنے کھڑی ہوئی اور تمام طاغوتی طاقتوں کو اس کے نتیجہ میں شکست ملی، پھر سے بنیان مرصوص بن جائے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو آپ کی عزت اور احترام کو اور آپ کے نور اور حسن کو دنیا میں پھیلانے والے سارے ہی لوگ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں اور کوئی اختلاف با ہمی نہ ہے اور یہ سب کچھ محبت اور پیار سے ہوگا.اس واسطے سارے غصے دل سے نکال ڈالو.ساری تلخیاں بھول جاؤ.صرف اپنا مقصد سامنے رکھو کہ ہم نے محبت اور پیار سے دنیا کے دل جیتنے ہیں اور سب سے زیادہ مستحق ہماری محبت، ہمارے اس پیار کے وہ لوگ ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.اور چوتھا مائو خدمت یعنی حمد ، عزم، پیار، خدمت.نوع انسانی یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ ہمارے خیر خواہ پیدا ہوں.دنیا یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ دنیا انانیت کو چھوڑے اور خدمت کے مقام پر کھڑی ہو.اگر ہر شخص دوسرے کی خدمت کے لئے تیار ہو جائے تو آج دنیا سے فسادمٹ جاتا ہے اور فساد نے مٹنا ہے اس صدی میں.میں تمہیں بتارہا ہوں فساد نے مٹنا ہے اس صدی میں انشاء اللہ اور میرے اور تمہارے ہاتھوں سے مٹنا ہے اور ہمیں اس کے لئے قربانیاں دینی پڑیں گی اور ہم اس کے لئے قربانیاں دیں گے.(نعرے)
خطابات ناصر جلد دوم ۴۶۲ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۸۰ء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک نام خیر مجسم ہے اور اسی کی وجہ سے امت مسلمہ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : 11) قرار پائی یعنی ایسی امت جو دوسروں کی بھلائی اور خیر خواہی کے لئے قائم کی گئی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے.کسی کی برائی نہیں چاہتا.کسی کو دکھ نہیں پہنچانا، اس دنیا سے جو اس وقت گند میں پھنسی ہوئی ہے، جو اس وقت مصائب میں پھنسی ہوئی ہے.جو اس وقت دکھوں میں پھنسی ہوئی ہے.جو اس وقت بے چینی اور بے اطمینانی میں پھنسی ہوئی ہے.یہ سارے دکھ اور بے چینیاں اور بے اطمینانیاں ہم نے دور کر کے ان کے ماحول میں ، ان کی معیشت میں خوشی اور اطمینان کے سامان پیدا کرنے ہیں تا کہ وہ محسوس کریں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقع میں اور حقیقی طور پر دنیا کے محسن اعظم ہیں.اب ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم اپنی ذمہ واریوں کو سمجھنے والے ہوں.ان کو ادا کرنے والے ہوں.خدا کے حضور کچھ پیش کرنے والے ہوں اور دعاؤں کے ذریعہ اور دعاؤں کے ذریعہ اور دعاؤں کے ذریعہ ، بے حد دعاؤں کے ذریعہ اس کی رحمت اور فضل کو جذب کرنے والے ہوں.آمین آؤ دعا کرلیں.حضور انور کی اقتدا میں اجتماعی دعا ہوئی جس میں تمام حاضرین جلسہ شامل ہوئے.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات ناصر جلد دوم ۴۶۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء اصل زندگی کام اور ایسے اعمال کا نام ہے جن سے خدا راضی ہو جائے اور وہ مقبول اعمال بن جائیں دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء بمقام ربوه ده تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.اس وقت تعلیمی میدان میں آگے نکلنے والوں میں سے بعض کو تمغات بطور انعام کے دیئے گئے ہیں.جو ایک بڑا اور بڑا ہی اہم منصوبہ تعلیم کا میں نے اس سال شروع کیا، اس کی یہ ابتداء ہے اور سالِ رواں میں تمغے حاصل کرنے والوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے چودہ بنتی ہے یعنی چودہ احمدی طلبہ وطالبات ایسے ہیں جنہوں نے بورڈ میں یا یو نیورسٹی میں اول پوزیشن یا دوئم یا سوئم پوزیشن حاصل کی ہے.ان میں سے آٹھ وہ ہیں جنہوں نے اول پوزیشن حاصل کی ہے.الحمد للہ اور چار وہ ہیں جنہوں نے دوئم پوزیشن حاصل کی ہے اور دو وہ ہیں جنہوں نے سوئم پوزیشن حاصل کی ہے.یہ ایک چھوٹا سا حصہ ہے اس منصوبہ کا لیکن ایک بڑے منصوبے کا ایک ضروری حصہ ہے.جو میرا منصوبہ ہے اس کا اہم حصہ دعا ہے.وہ دعا جو میں نے کی اور کرتا ہوں.وہ دعا ہے جس میں آپ کو شریک ہونا چاہئے.جب میں نے اعلان کیا اس سکیم کا ، اس منصوبہ کا تو میں نے یہ دعا بھی کی کہ اے خدا! اگلے دس سال میں جماعت احمدیہ کو ایک سو جینیس (Genius) ذہن عطا کر.اس کے لئے میں دعائیں کر رہا ہوں اور اس کے لئے آپ سے بھی میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ دعائیں کریں.فرسٹ آنا یا دوسری یا تیسری پوزیشن لینا بڑی اچھی چیز ہے یعنی بڑا اچھا مقام طالب علم حاصل کرتا ہے لیکن Genius نہیں.ان میں سے بعض Genius ہوتے ہیں، بعض نہیں ہوتے.پہلے بھی میں نے بتایا تھا کہ قریباً چار سال ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے ایک طالب علم نے ایم ایس سی فزکس میں اتنے نمبر لئے کہ اس کا نتیجہ کچھ عرصہ اس خیال سے روکا گیا کہ اگر اسی طرح
خطابات ناصر جلد دوم ۴۶۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء نمبر شائع کر دیئے جائیں تو بعد میں آنے والوں کے لئے اس ریکارڈ کو توڑنا مشکل ہو جائے گا اور یہ نمبر جو اس نے لئے یہ ڈاکٹر عبدا السلام صاحب کے نمبروں سے بہر حال زیادہ تھے کیونکہ اس نے ریکارڈ قائم کیا.بہر حال نتیجہ نکلا اور گزشتہ سال ہماری ایک احمدی بچی نے پنجاب یونیورسٹی سے اس بچے کا ریکارڈ توڑ دیا اور وہ اس وقت آکسفورڈ میں تعلیم حاصل حاصل کر رہی ہے اور ہمارا جو بچہ جس نے پہلے ریکارڈ توڑا تھا، اس نے ابھی پی ایچ ڈی کا کورس ختم نہیں کیا تھا کہ آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی مشہور ترین یونیورسٹیز اس کو لیکچر دینے کے لئے بلا لیتی تھیں.سو دنیا میں نمبر دینے میں انصاف بھی برتا جاتا ہے اور بے انصافی بھی برتی جاتی ہے.ساری دنیا میں یہ ہو رہا ہے.کسی کی شکایت نہیں میں کر رہا.ایک واقعہ ہے لیکن دنیا میں کسی بچے کو ذہن عطا کرنا، یہ انسان کا کام نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور اسی سے ہمیں مانگنا چاہئے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنے گا اور جماعت احمدیہ میں اگلے دس سال میں ایک سوGenius دماغ، جو ذہین دماغوں سے بھی اوپر نکلے ہوئے ہوتے ہیں، وہ پیدا ہو جائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ اس کے فضل کے ساتھ.اس کے لئے جو ذمہ واری ہم پر ہے.وہ دو حصوں میں بٹ جاتی ہے.ایک ہمارے بچوں کی ذمہ واری کہ وہ اپنے اوقات کو اور اپنی صلاحیتوں کو ضائع نہ کریں اور اسی کے ساتھ ہی حصہ یہ ہے کہ ان کے گارڈین کی ، ان کے ماں باپ کی یہ ذمہ واری کہ وہ ان کی تربیت صحیح کریں کیونکہ ذہنی آوارگی بھی ذہنی صلاحیت کو مجروح کر دیتی ہے.دوسرے ان کی صحت کا خیال رکھیں اور ان کے کھانے کا خیال رکھیں.کھانے کے لحاظ سے بعض چیزیں ذہنوں کو مضبوط کرنے والی ہیں.ذہنوں میں جلا پیدا کرنے والی ہیں.پرانے زمانے میں تو بادام اور اخروٹ اس کام کے لئے بہت اچھے سمجھے جاتے تھے.اس نئے زمانہ میں نئی تحقیق نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ سویا بین جو عام بینز (Beans) یعنی دالیں ہیں ان ہی میں سے ایک ہے لیکن دوسری ہر دال سے مختلف کیونکہ اس میں ایک تو لحمیات.پروٹینز بہت زیادہ ہیں.دوسرے اس کی پروٹینز کا اثر جسم پر Acid نہیں یعنی یہ گاؤٹ وغیرہ کی بیماری نہیں پیدا کرتیں بلکہ اس کو دور کرنے والی ہیں الکلائین ہیں.تیسرے یہ کہ اس کے اندر چکنائی بہت ہے.چوتھے یہ کہ اس چکنائی میں ایک کیمیا ہے.کیمیاوی جزو ہے اس کا نام ہے سو یا لیسے تھن (Soya lecithin) اور
خطابات ناصر جلد دوم ۴۶۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء اب نئی تحقیق پچھلے چند سال کے اندر ہوئی ہے خصوصاً سو یا لیے تھن سب سے اچھی ہے.سو یا لیسے تھن ایک طالب علم کے ذہن کو تیز کرتی ہے.اس کے حافظہ کو بھی تیز کرتی ہے.انہوں نے تجربہ یہ کیا ہے کہ ایک طالب علم سومنٹ میں جو چیز یاد کرتا ہے عام حالات میں اگر سو یا لیسے تھن اس کو دی جائے تو ساٹھ منٹ میں وہ یاد کر لیتا ہے.یعنی چالیس فیصد اس کا وقت بچ جاتا ہے یا چالیس فیصد وہ زیادہ مواد اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتا ہے اور بعض تجربے جو میں نے کئے ہیں اس وقت تک وہ بڑے مفید ثابت ہوئے ہیں.وہ طالب علم بھی تھے اور نہیں بھی تھے.ایک ڈاکٹر انگلستان میں ریسرچ کا کام کر رہے تھے جب میں نے وہاں اپنے بچوں کو کہا (جب میں دورے پر تھا) کہ تم سو یا لیسے تھن استعمال کیا کرو تو انہوں نے بھی شروع کر دی اور وہ بتاتے ہیں کہ انہیں بہت ہی فائدہ ہوا ہے.ویسے بھی ذہین تھے.اللہ تعالیٰ نے یہ چیز بھی انسان کے لئے پیدا کی ہے.اس سے انہوں نے فائدہ اُٹھایا اور جب ان کا پیپر (Paper) پڑھا گیا تو انہیں بہترین ریسرچ سکالر declare کیا گیا.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی عطا ہے.ایک اور بچہ ہاراtop پر آگیا.دنیا کی نگاہ میں آگیا.یہ تو ایک دوسرا حصہ ہے اس سکیم کا تیسرا حصہ یہ تھا کہ جو اچھے طالب علم ہیں.جو Genius ہے اسے ہر قیمت پر جماعت نے سنبھالنا ہے.ہر خرچ جو اس کا ذہن مانگتا ہے یعنی اس کے حالات ، اس کی قابلیت ، وہ اس کے اوپر خرچ کرنا چاہئے جماعت کو کیونکہ یہ تو انتہائی ناشکری ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنے اور ہمیں انتہائی قابل بچے دے اور ہم جب وہ بچے آگے نکلیں تو انہیں سنبھالیں نہ اور وہ ضائع ہو جائیں.اس سے بڑی نالائقی ہماری ،اس سے بڑا گناہ، اس سے بڑی ناشکری کوئی نہیں ہوسکتی.وہ تو ہم نے بہر حال سنبھالنے ہیں انشاء اللہ اس کے علاوہ جوان سے ذرا نچلے درجے کے ہیں.اچھی فرسٹ ڈویژن لیتے ہیں.لیکن Genius نہیں.فرسٹ بھی آجاتے ہیں.اب یہ جولڑ کے آٹھ فرسٹ آئے ہیں.ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان میں سے کوئی Genius نکلے گا یا نہیں.ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا کرے سارے ہی Genius نکلیں لیکن ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن جو فرسٹ ڈویژن ، اچھی فرسٹ ڈویژن لینے والے لڑکے ہیں.ان کو جہاں تک ممکن ہو جماعت آگے پڑھائے یعنی اچھی فرسٹ ڈویژن لینے والے لڑکوں کو
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء پانچویں جماعت سے پکڑے.پانچویں پھر آٹھویں.وظیفے کا امتحان دیا جاتا ہے.پھر دسویں.پھر بارہویں پھر چودھویں.پھر سولہویں اور جماعت کے بچوں کو سنبھالے اس کے لئے ایک حد تک ریکارڈ منصوبہ کے مطابق بن گیا ہے لیکن پورا ریکارڈ نہیں بنا.کیونکہ کئی مختلف شکلوں میں اسے میں محفوظ کرنا چاہتا ہوں.رجسٹروں میں وہ ہو گیا ایک حد تک.ایک حصہ اب بھی طلباء کا ایسا ہے کہ جن کی اطلاع ہمارے پاس نہیں اور وہ رجسٹروں پر ان کے نام نہیں چڑھائے گئے لیکن پنتالیس پچاس ہزار طالب علم کا نام تو آ گیا ہے.میرا اندازہ ہے کہ ایک لاکھ طالب علم ہے ہمارا.ایک لاکھ اس کا مطلب ہے کہ قریباً پچاس فیصدی ایسے بچے ہیں جن کے ناموں کی اطلاع ہمیں نہیں ملی.یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ ہمیں ان کی اطلاع دیں.پھر کارڈ سسٹم پر ان کو لے کے آتا ہے.پھر کمپیوٹر پر ان کو لے کے آنا ہے.کمپیوٹر کا یہ فائدہ ہے کہ بڑی جلدی وقت کا ضیاع نہ کرتے ہوئے ان کے کوائف سامنے آسکتے ہیں یہ انعامات دینے کا جو حصہ ہے لطیفہ یہ ہوا کہ ہمارے ایک ناظر صاحب نے کہا کہ حضرت صاحب نے کیا انعام کا سلسلہ شروع کیا ہے ایک تولہ سونا ایک تمغے میں.کوئی اڑھائی ہزار کا خرچ آجاتا ہے اگر سو بچے آجائیں فرسٹ سیکنڈ تو اڑھائی لاکھ روپیہ خرچ کرنا پڑے گا.مجھے جب کسی نے بتایا میں نے کہا جو خدا ہمیں ایک سو ذہین بچہ دے گا جو یو نیورسٹی اور بورڈ میں فرسٹ آئے گا وہ اڑھائی لاکھ روپیہ بھی دے دے گا ان پر خرچ کرنے کے لئے.اس واسطے مجھے فکر نہیں ہے اس کی نیز ہم نے ان کی تعلیم پر خرچ کرنا ہے غریب خاندان میں ذہین بچہ پیدا ہو جاتا ہے صرف اس وجہ سے اس کے ماں باپ غریب ہیں اس کو اس کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا لیکن جائز حق ہونا چاہئے.بعض ماں باپ نا مجھی اور عدم علم کی وجہ سے لکھ دیتے ہیں کہ ہمارا بچہ ساتو میں آٹھویں میں پڑھتا ہے اس کا چار سو روپیہ وظیفہ مقرر کر دیں اور عام طور پر میرا خیال ہے اوّل تو فیس ہی کوئی نہیں اور کتابوں کا زیادہ سے زیادہ خرچ بھی تمیں چالیس سے زیادہ نہیں ہے.تو اس مطالبہ پر شاید کسی کو غصہ آتا ہو مجھے تو نہیں آتا.میں مسکرایا کرتا ہوں کہ بہر حال ایک جوش ہے کہ اس کو آگے نکلنا چاہئے باقی ہم سمجھا دیتے ہیں کہ تمہارے اندازے غلط.جو اس کا حق ہے وہ اس کو ضرور مل جائے گا اور بچے کی ذہانت کو ماں باپ کے عیش کے لئے تو نہیں استعمال کیا جا سکتا کہ بچے کی وجہ سے اتنے پیسے مل جائیں کہ ہم اپنا معیار کچھ زیادہ بڑا کر لیں.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۶۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں.میں تو ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ آپ کے اقتصادی معیار خدا تعالیٰ بڑھاتا ہی چلا جائے اور آپ میں سے ہر ایک اپنے بچے کیا دوسروں کے بچے جو ابھی تک احمدی نہیں ہوئے ( انشاء اللہ ہو جائیں گے ) ان کو پڑھانے کی بھی آپ کو تو فیق مل جائے.اس وقت تک دو متضا د تصور اور فلسفے علم کے متعلق دنیا میں رائج ہیں.ایک دنیا تو یہ کہتی ہے کہ ہماری ساری ترقیات کا انحصار د نیوی علوم پر ہے اور ایک دنیا یہ کہتی ہے کہ دنیوی علوم سیکھنا کفر ہے.قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ نہ دنیوی علوم سیکھنے پر تمہاری ساری ترقیات کا انحصار اور نہ اس کا سیکھنا کفر.قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ئنات کو پیدا کیا اور جتنے بھی مروجہ علوم ہیں اور وہ علوم بھی جو دس بیس سال کے بعد پھر مروجہ کی فہرست میں آجائیں گے ان میں جو اصول بھی انسان کو نظر آئے بنیادی طور پر وہ بنیادی اصول جن پر ان علوم کی عمارت تعمیر کی گئی ہے.وہ خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا ایک قانون ہے.تو قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ کائنات کے گوشے گوشے میں اور قرآن کریم کی آیات میں تلاش کر و خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے اور قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ اس دنیا کے ذرے ذرے میں اور قرآن کریم کے لفظ لفظ میں میری صفات کے جلوے تلاش کرو اور جو بھی خدا تعالیٰ کی صفات کا جلوہ ہے ، وہ کفر نہیں ہو سکتا اور صرف ایک حصہ لے کے اور دوسرے حصہ کو چھوڑ دینا تقویٰ نہیں ہوسکتا یہ ناشکری ہے.یعنی جو حصہ چھوڑ دیا وہ ناشکری ہے جو شخص یہ کہتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے مادی دنیا میں ظاہر ہوئے ، ان اصولوں پر جن علوم کی عمارتیں بنیں ، ان میں تو مجھے دلچسپی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے ہماری زندگیوں کی خوشحالی کے لئے قرآن کریم کی آیات اور اس کے الفاظ میں نظر آتے ہیں اس میں مجھے کوئی دلچپسی نہیں میں تو ایسے شخص کو مفلوج سمجھوں گا کہ جس کے وجود کا آدھا دھڑ ( نچلا ) تو زندہ ہے لیکن آدھا دھر (اوپر کا ) مردہ ہو چکا ہے.اس لئے میں تو جماعت کو یہ کہوں گا دنیا کا ہر علم اس لئے سیکھنا ضرور ی ہے کہ دنیا کے ہر علم کی بنیاد خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں پر ہے اور قرآن کریم کے اسرار اور رموز کی تلاش اس لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم کی آیات میں بھی تمہیں خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے نظر آ ئیں گے.یہ کائنات ہے کیا ؟ سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کی صفات جو اس کا ئنات سے تعلق رکھتی ہیں ان کے جلووں کا مجموعہ ہے یہ کائنات.بعض جلو وں نے کیمسٹری بنا دی.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۶۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء بعض جلووں نے فزکس بنادی.بعض نے بیالوجی (Biology) بنا دی.بعض جلووں نے انسان بنا دیا.بعض نے انسان کی نفسیات بنادی.سائیکالوجی بنادی.بعض نے انسان کی اخلاقیات کی ہدایت کے سامان پیدا کر دیئے.بعض نے روحانی رفعتوں کے لئے جن راہوں کی ضرورت تھی ، وہ متعین کر دیں اور واضح اور روشن کر دیں.کس کو آپ چھوڑ سکتے ہیں ، اس خیال سے کہ اس کو چھوڑ کے بھی بھر پور زندگی گزار سکیں گے جو خدا کو پیاری ہوگی اور خدا تعالیٰ کی جنتوں میں ہمیں لے جانے والی ہوگی.اگر آپ جلووں کی ناشکری کریں گے جو اس دنیا میں ظاہر ہوئے جس کے متعلق قرآن کریم نے اعلان کیا تھا کہ:.سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجانية :۱۴) تو آپ جیسا نا شکرا کوئی نہیں ہوگا اور اگر آپ دنیا اور اس کا ئنات اور سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جو ہے اس کے صحیح استعمال کو نظر انداز کر دیں گے، ہلاکت ہے آپ کے لئے ، مر جائیں گے آپ.کیونکہ جس نے کوئی چیز پیدا کی ہے وہی بتائے گا کہ اس کا استعمال کیسے کرنا ہے.آپ کو تو پتہ ہی نہیں کیسے استعمال کرنا ہے.مثلا کھانا ہے.بڑی موٹی سی مثال دے رہا ہوں آپ کہیں گے ہر آدمی کہہ سکتا ہے میں نے کھانا کھانا ہے.میں کہتا ہوں نہیں کہ سکتا.قرآن کریم نے کہا ہے اسراف نہیں کرنا.میں کہتا ہوں نہیں کر سکتا کیونکہ بعض آدمی انسانوں میں سے ہیں جو میں نے خود دیکھے ہیں مثلاً بنئے دکان پر بیٹھے ہوتے ہیں کوئی ورزش نہیں ہضم کرنے کا کوئی صحیح طریق نہیں Calories burn کرنے کا کوئی سامان نہیں اور میٹھا کھا رہے ہوتے ہیں اور یوں پیٹ بڑھا ہوتا ہے کہ جہاں میں کھڑا ہوں ان کا پیٹ وہاں ( تین فٹ آگے ) تک پہنچا ہوا ہے.ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے.ہزار بیماریاں.بلڈ پر یشر دل کی تکلیفیں.وہ مٹھائی کھاتے کھاتے مر جاتے ہیں.یہ کوئی زندگی ہے مٹھائی کھاتے کھاتے مرنا.زندگی تو یہ ہے کہ مرکے بھی خدا کی جنت میں پہنچ جانا ( نعرے) اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ دنیوی علوم دنیا کی خاطر سیکھو.یا قرآن کریم کو پڑھو اس واسطے کہ تم ملا بن جاؤ.میں یہ کہتا ہوں کہ تم دنیوی علوم اور قرآن کریم کے اسرار اور رموز اس لئے سیکھو کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال اور اس کا حسن اور اس کا احسان اور اس کی قدرتیں اور اس کی رحیمیت کے اور رحمانیت کے جو جلوے ہیں اور جس طرح وہ غفور ہو کے
خطابات ناصر جلد دوم ۴۶۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء اپنے بندوں کو معاف کرتا اور جس طرح وہ حفیظ ہو کے حفاظت کرتا ہے اپنی مخلوق کی ان جلووں کو دیکھو تمہارے دلوں میں پیار پیدا ہوا اپنے رب کا اور پھر یہ دنیا بھی تمہارے لئے جنت اور دوسری دنیا بھی تمہارے لئے جنت بن جائے.اس لئے یہ منصوبہ بنایا گیا ہے.میں نے کہا تھا کہ جو شخص قرآن کریم کو سیکھنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی ان صفات کے جلووں کا اسے زیادہ سے زیادہ علم حاصل ہو جو د نیوی علوم کہلاتے ہیں.یعنی اس کا ئنات میں ، اس مادی دنیا میں جوصفات خدا تعالیٰ کی ظاہر ہو رہی ہیں اپنے جلوے دکھا رہی ہیں ان کا علم حاصل ہو گا تو قرآن زیادہ سمجھ آئے گا ور نہ تھوڑا آئے گا.جتنا جتنا علم اس کا ،صفات باری تعالیٰ کے متعلق جتنی جتنی اس کی معرفت ، اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے متعلق بڑھتی چلی جائے گی اتنا اتنا وہ اس قابل ہوتا چلا جائے گا کہ قرآن کریم کی گہرائیوں میں جائے اور وہاں سے قیمتی موتی اور ہیرے اور جواہرات ان گہرائیوں سے نکالے اور خود بھی فائدہ اٹھائے اور دنیا کے فائدے کے بھی سامان پیدا کرے.علم سیکھا جاتا ہے تحقیق سے جو آدمی خود کرتا ہے.مشاہدہ سے جو آدمی آنکھیں کھلی رکھتا ہے اپنے آگے پیچھے دیکھتا ہے کیا ہو رہا ہے.علم سیکھتا ہے انسان کسی دوسرے کی تحقیق اور اس کے مشاہدے سے علم سیکھتا ہے انسان اپنے ذاتی تجربہ سے.مثلاً بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو پتہ نہیں ہوتا کہ فلاں چیز کی انہیں الرجی ہے یعنی کھانے سے انہیں پھنسیاں.پست اچھل آئے گی تو وہ جب چیز کھاتا ہے اس کو فورا پتہ لگ جاتا ہے وہ پت اچھل آتی ہے الرجک ہے وہ اس چیز کا.تو یہ تجربہ ہو گیا نا.کتابیں پڑھنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ انسان اکیلا اپنی چھوٹی مختصر سی زندگی میں اس ساری کائنات کی سیر تو نہیں کر سکتا.دوسروں نے جو علوم حاصل کئے انہوں نے یا ان کو ، اور کسی شخص نے کسی کتاب میں اکٹھا کر دیا.کتابیں پڑھنا بہت ضروری ہے.بہت ضروری ہے.سپین میں ایک بادشاہ گزرا ہے (کسی انگریز نے لکھا ہے کہ جو بہت کتابیں پڑھنے والا انسان ہو وہ اچھا بادشاہ نہیں بنا کرتا ) اس نے کمزوریاں دکھائیں لیکن اسے اتنا شوق تھا علوم کے حصول کا کہ دنیا کے کونے کونے میں اس نے اپنے آدمی مقرر کئے ہوئے تھے کہ ہر اچھا لکھنے والا ابھی کتاب لکھ نہیں پاتا تھا کہ وہ اس سے معاہدہ کر لیتا تھا کہ جو تمہارا پہلا نسخہ.ان دنوں میں یہ مطبع خانے تو ہوتے نہیں تھے ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں.جو پہلا نسخہ تمہارا لکھا جائے ہاتھ سے وہ ہیں ہزار روپے،
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء چالیس ہزار روپے، لاکھ روپے میں خرید لوں گا.مجھے دے دینا اپنی زندگی میں.کچھ تو پہلے کتب خانہ ہوگا.شاہی محل میں لاکھ ، ڈیڑھ لاکھ کتاب اس نے اکٹھی کی اور ساری کتب کو پڑھا اور حاشیے پر نوٹ لکھے اور بڑے علمی وہ نوٹ تھے بعد محققین اور علماء بڑی قدر کی نگاہ سے جنہیں دیکھا کرتے تھے.باتیں جو میں آپ سے کر رہا ہوں یہ خدا تعالیٰ نے ایک چھوٹی سی آیت میں مجھے سمجھائیں.إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعَلَمُوا (فاطر : ٢٩) عالم اس آیت میں اس شخص کو کہا گیا ہے جو خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت رکھنے کی وجہ سے اپنے اندر خشیة اللہ پیدا کرتا ہے.تو خدا تعالیٰ کی صفات کا علم رکھنا صحیح عالم بننے کے لئے ضروری ہے.ہمارے ہاں بہت سی کتب چھپتی ہیں.جب نہیں چھپتیں بہت کی شکایتیں میرے پاس آنی شروع ہو جاتی ہیں.یہ شکایتیں آتی ہیں کہ کتابیں نہیں چھپ رہیں.جب چھنے لگتی ہیں تو پھر بھی بہت سی شکایتیں میرے پاس آنے لگتی ہیں.یہ شکایتیں آنے لگتی ہیں کہ ہم نے کتابیں شائع کی ہیں.لوگ ان کولے کے پڑھتے نہیں.یہ تو درست نہیں ہے.ایک تو رسالے ہیں اخبار ہیں.الفضل ہے.درست ہے میرے پاس شکایت بھی آتی ہے اور میں اسے صحیح تسلیم کرتا ہوں کہ ہر روز کا الفضل بہت سے لوگوں کے لئے (ساروں کے لئے نہیں) ایسا ہوتا ہے کہ وہ دومنٹ دیکھ کے کہتا ہے کہ اس میں میرے مطلب کی کوئی چیز نہیں لیکن بہت سارے ایسے ہیں جن کے مطلب کے لئے اس میں بھی چیزیں ہیں لیکن اگر ایک مہینے میں پانچ ایسے Issue روزانہ افضل کے جو ہیں وہ آپ کومل جاتے ہیں کہ دس نئی کام کی باتیں آپ کے علم میں آگئیں تو اس مہینے میں جو آپ نے خرچ کیا چند روپے الفضل کے اوپر اس قیمت سے زیادہ کی علمی با تیں آپ کومل گئیں اگر آپ کے دل میں علم کی قدر ہے.انصار اللہ کا ماہنامہ ہے وہ بھی محنت کرتے ہیں.ماہنامہ خالد اچھا اُبھر رہا ہے بہت اچھا ہو گیا ہے.تحریک جدید کا یہ ماہنامہ ہے.مصباح ہے.تشخیز الا ذہان ہے.ہفتہ وار لا ہور ہے.کچھ اور بھی ہوں گے.اب ماہنامہ خالد نے بڑے پیار کے ساتھ ایک باتصویر نمبر نکالا اور وہ کہتے ہیں وہ پکا نہیں.ان کو لیتا ہوں میں پہلے انہوں نے بچوں کے لئے بہت سی کتابیں لکھوائیں اور بچوں کی کتابوں کی ضرورت بھی تھی اور میں نے اس کی تحریک بھی کی تھی.بچوں کے لئے کچھ ایسی کتب بھی چھپی ہیں جو خود میرے کہنے پر وہ لکھی گئیں.ان کے پاس اس وقت بڑی تھوڑی کتابوں کا سیٹ ہے.صرف بارہ.
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء ہمارے نبی پیارے نبی.رحمت للعالمین اور عالم اطفال - سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام.پیارے اسلام کی پیاری باتیں.رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی باتیں.پیارے مہدی کی پیاری باتیں.سیرت حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ.سیرت حضرت عمر رضی اللہ عنہ.سوانح فضل عمر رضی اللہ عنہ سوانح حضرت علی رضی اللہ عنہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیاں.حضرت بلال رضی اللہ عنہ.اب یہ بلال جو ہے یہ میرے کہنے پر بچوں کے لئے لکھی گئی ہے.مجھے اس لئے خیال آیا کہ غالبا ۱۹۷۸ء میں جب میں لندن میں تھا.یہ Deliverance of Christ from the Cross پر ہماری کانفرنس تھی.تو وہاں ایک دوست نے مجھے تحفہ دی ایک انگریز کی لکھی ہوئی کتاب بلال وہ کتاب پڑھ کے عجیب کیفیت ہوتی ہے دل کی.میں نے بعض دوستوں کو کہا کہ یہ بڑی اچھی ہے پڑھنی چاہئے کہ ہمارے ایک نو مسلم کمال ڈنمارک کے ہیں.اس دفعہ بات ہورہی تھی تو کہنے لگے میں نے وہ منگوائی تھی انگلستان سے (وہ انگریزی جانتے ہیں ) اور میں نے پڑھی اور میری آنکھوں میں آنسو آگئے.میں نے انہیں کہا کہ جب میں نے پڑھی میری بھی آنکھوں میں آنسو آئے.وہ عجیب کتاب ہے.جو اس انگریز نے لکھی وہ بھی عجیب ہے.میں نے یہاں کہا کہ بچوں کے لئے بچوں کی زبان میں ( ہماری تاریخ بھری ہوئی ہے.حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ذکر سے ترجمہ نہیں کرنا.اپنی کتاب لکھو بچوں کے لئے ).تین حصوں میں اس نے شائع ہونا ہے پہلا حصہ چھپ گیا ہے اور بڑی اچھی ہے.میں سمجھتا ہوں ہر احمدی بچے کو وہ پڑھنی چاہئے اور ہزاروں کی تعداد میں ہوں گی ( دو چار ہزار ) کہتے ہیں بک نہیں رہی اور یہ رسالہ جو ہے خالد.بہت سے تو اس کے اندر مضمون تھے میرے اپنے ہی سفر کے ساتھ تعلق رکھنے والے.میں نے پڑھے.میں تو اس لئے بھی پڑھتا ہوں کہ دیکھوں کوئی غلط باتیں نہ لکھ گئے ہوں لیکن میں نے ہی محسوس کیا کہ یہ جماعت کے نوجوانوں کو ( نو جوانوں کا ہے ) یہ پڑھنا چاہئے.اس لئے میں اس وقت ہر ضلع کے ضلعی قائد اور ضلعی امیر دونوں کی ایک کمیٹی بنا تا ہوں اور میری ہدایت یہ ہے کہ آپس میں سر جوڑو اور سارے خدام کو خالد دو.ان کے Issue ہیں بڑے اچھے جو نئے ہیں باقی تو ان کی خریداری اچھی چل رہی ہے.تین تین ہزار ہیں.انا للہ.میں سمجھا تھا کہ دس دس ہزار ہیں.اتنی چھوٹی تعداد ہے.مشاورت سے پہلے ساری بک جانی چاہئے نمبر ایک نمبر دو یہ کہ مشاورت سے پہلے آپ کے
خطابات ناصر جلد دوم ۴۷۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۸۰ء بچوں نے پڑھ لینی چاہئیں اور اگر آپ کو یہ تین ہزار سے زیادہ چاہئیں ہوں گی تو پھر یہ ہدایت ہے خدام الاحمدیہ کے لئے کہ وہ مزید شائع کریں.یہ بارہ جو بچوں کی کتابیں ہیں، ان کی مجموعی قیمت بتیس روپے ہے.کوئی ایسی زیادہ نہیں ہے.کلمیں بنالیں جو کریں.مشاورت سے پہلے ان کے پاس کوئی کتاب نہ ہوا اور مشاورت سے پہلے آپ کے گھر میں کوئی کتاب سلامت نہ ہو.بچہ پڑھے گا تو پھاڑ بھی دے گا نا کہیں سے.اس لئے کہ مشاورت کے بعد ان کتب کو دوبارہ چھپوا کے میں بیرون پاکستان بھجوانے کا انتظام سوچ رہا ہوں.اس سے پہلے آپ اپنا حصہ لیں.قرآن پبلیکیشنز نے قرآن کریم معرلی یعنی متن بغیر ترجمے کے ہے اور اسی طرح قرآن پبلیکیشنز نے سیپارے بھی اول دوئم اور سوئم شائع کئے ہیں اور قرآن کریم متن بغیر ترجمہ جو جیسی سائز ہے زیر طباعت ہے زیر طباعت جو جیسی سائز ہے وہ افریقہ میں بڑا مقبول ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو تفسیر پانچ جلدوں میں شائع ہوئی تھی.جب میں نے کراچی اور بعض دیگر مقامات پر تحریک کی تو انہوں نے کہا کہ جی ہمیں تو ملتی نہیں.ہم لینا چاہتے ہیں وہ سن لیں کہ اس وقت مل رہی ہے اور دو مہینے کے بعد میرے پاس شکایت کریں کہ اب نہیں مل رہی.پھر میں اور چھپوا دوں گا انشاء اللہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب جس چھپیں تو جلد تر نکل جانی چاہئیں.آپ کی لائبریری میں ہونی چاہئیں.آپ کو عادت ہونی چاہئے ان کے پڑھنے کی.بار بار پڑھنے کی.گھر میں سنانے کی.بچوں کو پڑھانے کی.جماعت بڑھ رہی ہے demand بھی ، مطالبہ بھی بڑھنا چاہئے.بہت سارے نام ہیں جنہیں میں چھوڑتا جاتا وں.جتنی کتابیں بھی چھپتی ہیں یہ اس کا اشتہار دیں گے ان کی طرف توجہ ہونی چاہئے.اس کا آپ کے ساتھ تعلق نہیں.جماعت ہائے کرہ ارض کے ساتھ تعلق ہے.لندن مشن سے دیباچہ تفسیر قرآن انگریزی میں چھپ گیا.لندن مشن سے دیباچہ تفسیر قرآن فریج زبان میں چھپ گیا.اس کی بڑی ضرورت تھی.ترجمہ قرآن جرمنی اور سوئٹزر لینڈ سے دس ہزار چھپا ہے.جرمن ٹرانسلیشن اور ڈنمارک میں ڈینیش ترجمہ قرآن کریم کا اور امن کا پیغام ڈینش زبان میں اور انڈونیشین زبان میں ترجمہ قرآن مع مختصر نوٹ گیارہ سے اکیس سیپاروں تک چھپ چکے ہیں وہاں کی جماعتیں اس سے فائدہ اُٹھائیں.نائیجیریا مشن نے ترجمہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ یورو با زبان
خطابات ناصر جلد دوم ۴۷۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء میں مع نوٹس شائع کیا ہے.نجی مشن قرآن کریم کا کویتی زبان میں ان کی جو لوکل زبان ہے شائع کر رہی ہے.آئیوری کوسٹ مشن نے فریج زبان میں مختلف قسم کے پمفلٹس شائع کئے ہیں.احمد یہ اکیڈمی ربوہ نے احمدیت کی امتیازی شان مصنفه مولوی دوست محمد صاحب اور جماعت احمدیہ کی ملی خدمات محمد اور احمدیہ خ مولوی دوست محمد صاحب کی لکھی ہوئی شائع کی ہیں.اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے بعض نئے خیالات اپنی رحمت سے عطا کئے اُن میں سے ایک فولڈر کا تصور تھا.منصوبہ تھا وہ یہ کہ گرمیوں میں لکھوکھا بلکہ کروڑوں سے زیادہ ایک وقت میں سیاح یوروپین ممالک میں اور امریکہ میں ساؤتھ امریکہ میں جاپان وغیرہ یعنی ساری دنیا میں سیاح پھر رہا ہوتا ہے.ملینز (millions) کی تعداد میں تو یورپ میں پھر رہا ہوتا ہے اس وقت وہ فارغ بھی ہوتا ہے گھر سے دور بھی ہوتا ہے.اگر چھوٹا سا دو ورقہ فولڈر دو ورقہ اگر چار نہیں اس کی ہو جائیں یعنی دو ورقوں کا چھوٹا سائز بن جاتا ہے تو وہ فولڈر بن جاتا ہے.تو یہ مجھے خیال آیا اور وہاں میں نے فوری طور پر تو کہا وہ یورپ کو کہ تم شائع کرنے شروع کر دو.چنانچہ وہ فولڈر شائع ہو گیا.ٹرکش زبان میں اور البانین زبان میں اور اٹالین زبان میں اور جرمن زبان میں جو سوئٹزر لینڈ میں بولی جاتی ہے اس میں اور فرنچ سوئٹزر لینڈ میں اور جرمن ، جرمنی میں اور ڈینش زبان میں اور سویڈیش زبان میں اور نارو بکنین زبان میں اور ہسپانیہ کی زبان میں اور انگلستان کی زبان میں.یہ بارہ ہو گئے اور گی آنا میں چھپ گیا تیرہ اور ماریشس میں چھپ گیا چودہ اور نبی میں چھپ گیا پندرہ شاید اور بھی کچھ ہوں لیکن سب سے آگے نکل گئی ماریشس کی جماعت.انہوں نے ایک لاکھ پانچ ہزار کی تعداد میں یہ فولڈر چھاپا دو صفحے کا.اس کا عنوان تھا.”مہدی موعود اور مسیح موعود آگئے احمدیت کیا 9266 ہے انگریزی زبان میں اور فرنچ میں شائع کیا.ایک دن ساری جماعت نے یوم تبلیغ منایا اور ماریشس کے قریباً ہر گھر میں فولڈر پہنچا دیا.پچہتر ہزار فولڈر جماعت احمدیہ نے ایک دن میں تقسیم کر دیا.اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے.انہوں نے نمونہ قائم کر دیا دوسروں کے لئے.اصل سکیم جو ہے وہ اگلے سال کا سیاحت کا جو موسم آئے گا.اس سے پہلے میں نے کہا ہے کہ ہر ملک کو کوئی پچپیں تمہیں ملکوں سے فولڈر چھپ کے دوسرے ملکوں میں جانے چاہئیں مثلاً جاپان کا جاپانی زبان میں جو چھپے وہ
خطابات ناصر جلد دوم ۴۷۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۸۰ء یورپ کے ہر ملک میں ہو.وہاں سے جو سیاح چلے ہر ملک میں اس کے ہاتھ میں اگر اس کی اپنی زبان میں وہی فولڈر ملتا رہے بار بار اس کی طبیعت پر بڑا ہی اثر پڑے گا.تبلیغ بڑے زور شور سے جماعت احمدیہ نے شروع کر دی ہے کہ جہاں میں جاتا ہوں میرے ہاتھ میں پکڑانے والا ایک فولڈر موجود ہوتا ہے وہاں.وقف جدید نے کچھ ٹرانسلیشنز (Translations) شائع کئے ہیں.دعوت الا میر کا ترجمہ سندھی میں اور گورونانک جی سندھی میں اور یا در رکھنے کی باتیں پشتو میں اور احمدیت کا پیغام پشتو میں اور احمدیت کا پیغام اردو میں اور وصال ابن مریم اردو میں اور آیت خاتم النبین اور جماعت احمدیہ کا مسلک اردو میں اور انصار اللہ نے چودھویں اور پندرھویں صدی کا سنگم اور بعض دوستوں نے اور بھی کتابیں لکھی ہیں.ان سب کتابوں کی طرف توجہ کریں اور سارے جو ہیں نا کتابیں لکھنے والے ادارے بھی اور افراد بھی مجھے پندرہ روزہ ر پورٹ دیا کریں کہ ان کی کتنی پکری ہورہی ہے.امداد دوران سال ہماری ساری جماعتی انجمنیں جو ہیں ادارے ہیں وہ کارکنوں کو گزارہ دیتے ہیں.گزارے کے علاوہ امداد بھی دیتے ہیں.مثلاً ایک طریقہ یہ ہے کہ سارے سال کی سارے dependents جو گھر میں کھانا کھانے والے ہیں ، ساڑھے چار من سالانہ فی کس کا اندزاہ کر کے نصف گندم ان کو مفت بطور ہدیہ کے ادارہ دے دیتا ہے.تو اس پر کافی رقم خرچ ہوتی ہے.مثلاً اگر کسی کے گھر میں دس افراد ہیں بہت سارے بچے ہیں ماشاء اللہ.تو پنتالیس من گندم کی ضرورت پڑی ان کو.تو ساڑھے بائیس من گندم صد را انجمن احمد یہ مفت اس گھر کو دے دیتی ہے اور بقیہ ساڑھے بائیس من کے پیسے قرض دے دیتی ہے.جو ماہوار تنخواہ سے کٹ جاتے ہیں.سارے سال کا اناج روٹی کی شکل میں ان کے پاس ہوتا ہے.اس شکل میں کوئی آدمی بھوکا نہیں رہ سکتا.اگر غلطی نہ کر بیٹھے.تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جا سکتا تھا خلاصہ یہ نکالا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے ۱۲۴۸۷۴۳ روپے کی امداد دی گئی ان میں سے ۱۲۳۷۱۱ روپے کی امداد انجمن کے کارکنوں کو دی گئی اور ۶۲۵۰۳۲ روپے کی امداد ان مستحقین کو دی گئی جو صدرا انجمن احمدیہ کے کارکن نہیں لیکن جو ضرورت مند ہیں ان کی ضرورتیں پوری ہونی چاہئیں.تحریک جدید کی طرف سے اپنے کارکنوں کو
خطابات ناصر جلد دوم ۴۷۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء ۳۲۲۷۰۰ کی امداد دی گئی.وقف جدید کی طرف سے مستحقین کو ۱۲۰۰۰ اور ا ۱۲۸۵۸۴ کی امداد دی گئی.اپنے عملے کو انصار اللہ نے اپنے عملے کو ۲۰۲۷۲ کی امداد دی.خدام الاحمدیہ نے اپنے عملے کو ۲۶۷۰۰ کی امداددی.لجنہ اماءاللہ نے اپنے عملے کو۱۵۷۰۲ کی امداد دی اور ۶۵۰۰۸ روپے کی ان بہنوں کو دی امداد جوان کی کارکن نہیں ہیں ویسے حاجتمند ، مستحق تھیں ان کی استحقاقی امداد ان کو دی گئی.یہ کل سارے سال میں اٹھارہ لاکھ انتالیس ہزار سات سونو (۱۸۳۹۷۰۹) روپے کی امداد اس طرح دی گئی.تعلیم القرآن کلاس تعلیم القرآن کلاس میں وقف عارضی.واقف اور واقفہ پندرہ دن کا وقف بنیادی طور پر کر کے جاتے ہیں.کوئی تھوڑی سی سستی پیدا ہو گئی ہے.سال رواں میں صرف گیارہ سو بہتر واقفین گئے ہیں جماعت کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.صرف پندرہ دن وقف کرنا ہے اور بہت سے دینی اور روحانی فوائد ہیں جو اس کے حاصل ہوتے ہیں.یہاں ایک درس القرآن کلاس غالباً تین ہفتے کی ہے دو ہفتے کی کلاس ہے اس میں دو ہزار سے زائد طلبہ وطالبات شامل ہوئیں اور عام طور پر طالبات اس میں زیادہ آتی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے اور اللہ تعالی طلبہ کے دل میں شرم پیدا کرے اور غیرت پیدا کرے.وہ آگے بڑھیں اپنی بہنوں سے.وقف بعد از ریٹائر منٹ ایسے واقف ایک سو پندرہ ہیں ہمارے پاس لیکن جو ریٹائر ہونے والے ہیں وہ وقف کر دیں اور ثواب لیتے رہیں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اسے وہ کیا کرے گا ان کے ساتھ سلوک.تحریک جدید سپین.سپین میں پیڈرو کے مقام پر ۹ / اکتوبر ۱۹۸۰ء بروز جمعرات اس خاکسار نے ۷۴۴ برس کے بعد مسجد کی بنیادرکھی ( نعرے) میں نے ایک خطبہ میں بتایا تھا کہ جب سپین کے مسلمان اسلام کے اخوت کے سبق کو بھول گئے
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء اور آپس میں لڑنا شروع کر دیا تو آج سے قریباً ۷۴۴ برس قبل عیسائیوں نے اس حالت کو دیکھ کے قرطبہ اور اس کا نواحی علاقہ جو بہت بڑا تھا اس پر حملہ کیا اور بعض مسلمان نوابزادے جن کو اپنی فکر تھی.اسلام کی فکر نہ تھی.وہ عیسائیوں کے ساتھ مل کر اس حملہ میں شامل ہوئے اور ان کی مدد کی اس بات میں کہ یہ علاقہ اسلام کے ہاتھ سے نکل کے عیسائیت کے ہاتھ میں چلا جائے.اس پر ۴۴ ۷ برس گزر گئے.اب اس علاقے میں پہلی دفعہ یہ مسجد بنی ہے لیکن جو آخری معرکہ ہوا غرناطہ میں اس پر کچھ کم پانچ سو سال گزرے ہیں.اس واسطے اخباروں میں ہمارے کبھی پانچ سوسال کے بعد مسجد کی بنیاد رکھی گئی لکھا گیا کبھی سات سو سال کے بعد لیکن جیسا کہ میں نے بتایا قرطبہ جہاں یہ بنیا درکھی گئی ہے ، وہ علاقہ عیسائیوں کے ہاتھ میں چلا گیا جس کے بعد وہاں کوئی مسجد نہیں بنی اس دردناک واقعہ یعنی جو شکست کھانی پڑی اسلام کو اس کے ۷۴۴ برس کے بعد پہلی مسجد کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے وہاں رکھی گئی.جو فضاء وہاں پیدا ہوئی ( جسے الفاظ بیان نہیں کر سکتے ) وہ سوائے خدا کے اور کوئی پیدا نہیں کر سکتا یعنی پیڈ رو آباد جہاں زمین خریدی ہم نے پہلے یہ پوچھ کے کہ مسجد بنانے دو گے یا نہیں.انہوں نے کہا ٹھیک ہے بنالو.پھر اس کا نقشہ وغیر ہ Approve ہو گیا.اور اس دن وہ گاؤں جو تھا اس طرح ہماری خوشی میں شامل تھا جس طرح ان کی عبادت گاہ کی بنیاد رکھی جارہی ہے.اتنے خوش تھے کہ ان کے چہروں سے خوشی اور مسرت کے دھارے پھوٹ کر باہر آرہے تھے.یہ ان کے دل کی کیفیت نہ میں پیدا کر سکتا ہوں نہ آپ کر سکتے ہیں.یہ تو خدا نے پیدا کردی ( نعرے ) اس کی تعمیر پر قریباً ہمیں لاکھ روپیہ خرچ آئے گا یعنی اتنی ہزار پاؤنڈ سٹرلنگ اور یہ سارا خرچ جماعت ہائے احمد یہ انگلستان اپنی صد سالہ جو بلی کی مد سے خرچ کر رہے ہیں.ہمارے حالات ایسے ہیں کہ ہم مجبور ہیں کہ اس قسم کی نیکیوں میں حصہ نہ لے سکیں جن کا تعلق بیرون پاکستان سے ہے کیونکہ ہمارے ملک کو فارن ایکسچینج کی تنگی رہتی ہے اور باہر پیسہ جانا مشکل ہے بہر حال اللہ تعالیٰ جزا دے ہمارے ان بھائیوں کو جو انگلستان میں رہتے ہیں اور وہ یہ قربانی دے رہے ہیں اور انشاء اللہ اس عظیم کام میں قریباً سارا حصہ جو ہے وہ انہی کا ہوگا معمولی معمولی رقمیں یورپ کے دیگر ملکوں سے بھی آئی ہیں کنٹریکٹ جو ہمارے آرکیٹیکٹ نے تیار کیا ہے.ان ملکوں میں کنٹریکٹ تیار کرنا پڑتا ہے قانونا، اور اس کی پابندی کرنی پڑتی ہے ہر دو کو، بنانے والے ٹھیکیدار کو بھی
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء اور جو بنوار ہے ہیں ان کو بھی اس میں یہ بھی لکھنا پڑتا ہے کہ اتنی دیر میں میں ٹھیکیدار تیار کر کے دوں گا.اس نے یہ معاہدہ لکھا ہے کہ میں دس مہینے میں یہ مسجد اور مشن ہاؤس تیار کر دوں گا اور اگر کسی وجہ سے دیر ہوئی تو ایک مہینے سے زیادہ دیر نہیں ہوگی یعنی زیادہ سے زیادہ وہ گیارہ مہینے میں تیار ہو جائے گی.جس کا مطلب یہ ہے کہ انشاء اللہ انشاء اللہ انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے آئندہ سال کے جلسہ سالانہ سے قبل وہ مسجد اس بات کے لئے تیار ہو چکی ہوگی کہ خلیفہ وقت کسی وقت وہاں جا کے اس کا آفیشل افتتاح کر دے.دعائیں کریں کہ بڑی برکتوں کا موجب ہو اور اس علاقہ میں اسلام کو پھیلانے کا موجب ہو.( نعرے) گیا نا جنوبی امریکہ میں ایڈنبرگ ایک مقام ہے وہاں ایک مسجد تعمیر ہو چکی ہے.امریکہ میں ایک احمدی دوست ہیں جہاں تک مجھے اطلاع ہے مسجد قریبا تعمیر کر چکے ہیں ایک نئی مسجد کی تعمیر امسال مکمل ہوئی ہے.جب میں گیا ہوں اس وقت وہ کہتے تھے قریباً تیار ہے.سپین یورپ کے سب سے جنوبی حصہ میں ہے.سب سے دور اس کے مخالف سمت ناروے ہے یعنی شمال میں.سپین جنوب میں ہے وہ شمال میں ہے.وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک انتظام کیا ہے بہت بڑی عمارت جو خرید لی گئی ہے اور یکم اگست کو اس مسجد کا جس کا نام میں نے مسجد نور رکھا میں نے افتتاح کیا تو دو بڑے مقامات پر مساجد کا اور مساجد کی برکات کے پھیلانے کا انتظام سال گزشتہ کے اندر ہو گیا.اسی طرح مغربی اور مشرقی افریقہ میں تو اتنی مساجد بنتی ہیں کہ وہ ایک لمبی فہرست بن جاتی ہے ہر مہینے مجھے خط ملتے ہیں وہاں سے کہ فلاں جگہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھ دیا فلاں جگہ بن گئی.افتتاح ہو گیا.کام شروع کر دیا.تحریک جدید کے ماتحت مشن ہاؤسز گیانا جارج ٹاؤن میں تعمیر ہو گیا نیا مشن ہاؤس.انگلستان میں پانچ مقامات پر جہاں ہمارے احمدیوں کی کافی آبادیاں تھیں لیکن مل بیٹھنے، اجتماعی، پروگرام کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی.وہاں پانچ عمارتیں خرید کر پانچ مراکز قائم کر دیئے گئے.ان میں سے ایک کے علاوہ باقی چار کا میں نے افتتاح کیا.جب میں وہاں تھا اس سال کی گرمیوں میں.کچھ ٹیکنیکل تھوڑا سا سقم تھا برمنگھم کے
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء پتہ متعلق.وہاں میں جانہیں سکا لیکن میرے ہوتے ہوئے اس پر پورا قبضہ ہو چکا تھا.نبی آئی لینڈ میں بڑی شاہراہ پر ایک بہت شاندار Complex یعنی مسجد بھی ہے اور مشن ہاؤس بھی ہے.پن نہیں کتنی دکانیں بھی انہوں نے بنالی ہیں.نائیجیریا میں دو نئے مشن ہاؤسز.چار نئے سیکنڈری سکول اور ایک نئے ہسپتال نے کام شروع کیا ہے.نائیجیریا میں جماعت کی طرف سے لیگوس (جو ان کا موجودہ دارالخلافہ ہے ) سے قریباً بارہ میل دور ایک بڑی شاہراہ پر احمد یہ سیٹلمنٹ کی تعمیر شروع ہو گئی ہے.وہاں ایک مشن ہاؤس اور ایک ہسپتال بھی بنایا جا رہا ہے اس جگہ بعض احمدی دوستوں نے اپنے مکانات تعمیر کئے ہیں اور میں بعض حصوں کا سنگ بنیاد بھی رکھ کے آیا ہوں.اسی طرح غانا کے تین مقامات پر زمینیں لی گئی ہیں اور بڑی تیزی سے وہاں کام ہو رہا ہے.یوگنڈا میں سیاسی حالات کی وجہ سے ہماری تبلیغ رک گئی تھی.پھر پچھلے سال شروع ہو گئی اللہ کے فضل سے اور وہاں کے عوام کا بڑا رجوع ہے جماعت احمدیہ کی طرف اور وہ بڑے ذہین ہیں.بڑی دور کی سوچتے ہیں.انہوں نے دور کی سوچی اور ہمیں تار دی کہ فوری طور پر ہم چھ طالب علم دینی تعلیم کے لئے ربوہ بھجوار ہے ہیں کیونکہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ہمارے ملک کے حالات کس وقت کیا پلٹا کھا جائیں.ہمارا ایک سیکنڈری سکول وہاں کام کر رہا ہے.جاپان کے ایک سہ ماہی رسالہ Voice of Islam شائع ہونا شروع ہو چکا ہے.ابھی چھوٹا ہے بڑھ جائے گا انشاء اللہ.انڈونیشیا میں بھی مربی تیار کرنے کے لئے انتظام کر دیا گیا ہے.وقف جدید وقف جدید کے ۶۶ معلمین کام کر رہے ہیں اور جو مانگ ہے آپ کی جو میرے سامنے بیٹھے ہو وہ کئی سو کی ہے.اب مجھے آپ بتائیں کہ میں کئی سو معلم چھیاسٹھ میں سے کیسے پورا کر دوں.کیونکہ معلم بچے دے کے تو اپنی تعداد نہیں بڑھاتا جس طرح بھیڑیں دے دیتی ہیں.آپ تھک گئے ہوں ایک لطیفہ آپ کو سنا دوں.میں نے ایک وقت میں کئی سال ہوئے آٹھ بھیر میں خریدیں یعنی یہ واقعہ ہے.سات مادہ اور ایک نر.ان آٹھ میں سے ہیں مرگئیں اور انیس میں نے بیچ دیں اور پچپیں میں نے کھا لیں اور اکیس بائیس میرے پاس ہیں.معلم نہیں اس
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء طرح کر سکتے.آپ کو اپنے بچے بطور واقف دینے پڑیں گے.معلم بنانے کے لئے تب کام چلے گا.فضل عمر فاؤنڈیشن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبات فاؤنڈیشن نے کتابی شکل میں شائع کئے ہیں.ان سے بھی جماعت کو فائدہ اٹھانا چاہیئے.ان کے اندر بڑے علوم بھرے ہوئے ہیں.انعامی مقابلہ جات کے سلسلہ میں اہل علم اصحاب سے بعض مقالے موصول ہوئے ہیں جن پر غور کیا جا رہا ہے ہاں انہوں نے اس سال جو نمایاں کام کیا ہے وہ یہ ہے کہ جو بیرونی ممالک سے آئے ہوئے ہیں ان کے لئے دو زبانوں میں انگریزی اور انڈونیشین میں ترجمہ کا انتظام کیا ہے.یہ دوکھو کھے ادھر بنے ہوئے ہیں.یہاں چاٹ نہیں سکتی.یہاں وہ ترجمہ کرنے والے بیٹھے ہوئے ہیں جو تر جمہ ساتھ ساتھ کرتے ہیں وہ بالکل بند ہیں.آواز ان کی باہر نہیں جاتی انہوں نے کانوں کے ساتھ یہ لگائے ہوئے ہیں.(غیر ملکیوں نے ) جو انگریزی جانتے ہیں یا انڈونیشین.اور یہ مترجم ان کو اسی وقت ترجمہ کر کے بتاتے جاتے ہیں.اس کی ابتدا ہوگئی ہے اور اس کا اندازہ جب باہر سے مختلف ایجنسیز سے لگایا گیا تو ان کا خیال تھا کہ ہم شاید ڈیڑھ سو ایسے ہیں چھپیں لاکھ میں تیار کر کے دیں گے.تو اللہ بھلا کرے احمدی انجینئر ز کا انہوں نے کہا ہم بہت ستا بنا سکتے ہیں پیسے نہ ضائع کریں.چنانچہ میرا خیال ہے یہ دو سو اٹھائیس ہیں اور اسی ہزار روپے میں انہوں نے تیار کر دیئے ہیں.ان کے لئے بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے.اور انشاء اللہ یہ بھی بڑھ جائے گا.پھر اور بھی ہو جائیں گے.ہمیں تو ڈرایا گیا تھا کئی سال سے تجویز تھی لیکن باہر کی ایجنسیز اننار و پیہ مانگتی تھیں کہ جرات نہیں ہوئی.( تین بچے کہتے ہیں کہ ہم گم گئے ہیں اور اگر تین باپ یہ سمجھتے ہوں کہ وہ گم ہو گئے ہیں اپنے بچوں سے تو یہاں آجائیں) صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ اللہ تعالیٰ نے اس میں بھی برکت ڈالی.جو گوٹن برگ میں مسجد بنی ایک پہاڑی کی چوٹی کے او پر بہت خوش نما جگہ.آدھے شہر سے نظر آتی ہے رات کو بھی دن کو بھی اور ایک مرکز بن گیا تبلیغ کا وہ صد سالہ جو بلی فنڈ جو یورپ میں جماعت احمدیہ نے اکٹھا کیا تھا اس فنڈ سے یہ مسجد بنی.
۴۸۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء خطابات ناصر جلد دوم صد سالہ جوبلی فنڈ کا ایک ثمرہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ دے دیا.پھر جو ایک عالمی کسر صلیب کا نفرنس Deliverance of Christ from" the cross لنڈن میں ۱۹۷۸ء میں ہوئی اس کے اوپر بھی بڑا خرچ کرنا پڑا تھا.وہ بھی صد سالہ جوبلی انگلستان نے خرچ کیا.اس کے بہت اچھے نتائج نکلے اور سپین کی مسجد کا میں ذکر کر چکا ہوں یہ بھی صد سالہ کا ثمر ہے.ہاں میں یہ بھی بتا دوں قرطبہ کے نواح میں مسجد کی جو بنیاد رکھی گئی.دنیا میں متعدد مسلم ممالک نے اس مسجد کی بنیاد کی جو خبر شائع کی ہے اس میں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ عالم اسلام کے لئے یہ بڑی خوشخبری ہے کہ 9 اکتوبر کو قرطبہ کے قریب ایک مسجد کی بنیا دمرزا ناصر احمد نے رکھی.تو آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ عالم اسلام کے لئے خوشیوں اور برکتوں کا اسے موجب بنائے.یہ جو تعلیمی پالیسی جس کا پہلے ذکر کیا میں نے ، وہ بھی صد سالہ جو بلی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اس کا بار عام چندوں پر تو پڑہی نہیں سکتا اس لئے کہ وہ آپ مجلس مشاورت میں پاس کر چکے تھے تو اس واسطے میں نے اس کو منسلک کر دیا.صد سالہ جو بلی کے ساتھ.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے تسلی بخش طریق پر صد سالہ جو بلی اس ذمہ داری کو بھی نباہ لے گی.تعلیمی امنصوبہ کا ایک حصہ بہت ضروری ہے.اتنا ضروری ہے کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ پوری طرح اگر نہ سمجھے تو جماعت کو بڑا نقصان ہوگا.وہ یہ ہے کہ میں نے اعلان کیا کہ اگلے دس سال میں اور پھر ہمیشہ کے لئے سکول کی عمر کا کوئی بچہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جو میٹرک سے پہلے سکول چھوڑ دے.یہ سن لیں پھر سنیں.اگلے دس سال میں اور پھر ہمیشہ کے لئے سکول کی عمر کا کوئی بچہ ایسا نہیں ہونا چاہئے جو میٹرک سے پہلے سکول چھوڑ دے اور ہرلڑ کی مڈل ضرور پاس کرے.لڑکیوں کے لئے میں نے مڈل اس لئے کہا ہے کہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بعض ایسے علاقے ہیں جہاں لڑکیوں کے لئے ہائی سکول نہیں ہیں.اس واسطے جہاں ہائی سکول ہیں ان کے لئے تو یہی ہے کہ وہ دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کریں لیکن جہاں نہیں ہیں میں ان کے اخلاق خراب نہیں کرنا چاہتا.وہCoeducation میں نہ جائیں مڈل تک رہیں.قریباً ہر جگہ وہ مڈل تک جائیں اور جہاں زیادہ تعداد ہوگی احمدی بچیوں کی وہاں کوشش کریں گے کہ کو چنگ سنٹر ان کے لئے بنا دیئے
خطابات ناصر جلد دوم ۴۸۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء جائیں.استانیاں رکھ کر جہاں وہ تیاری کریں دسویں جماعت تک کی.جہاں ایسی ضرورتیں ہوں کافی بچیاں ہوں اور دوست چاہیں تو وہ مجھے اپنی تجویز لکھ کر بھجوادیں.بچوں میں تعلیم کا شوق پیدا کرنے کے لئے ایک اعلان میں نے یہ بھی کیا.شاید اس کا کثرت سے اعلان نہیں ہوا، ہونا چاہئے ہوتے رہنا چاہئے کہ وہ تمام طالبعلم اور طالبات جو بورڈ میں یا یو نیورسٹی میں دو یا تین سو سے اوپر کے جو ہیں وہ ( مختلف امتحانات میں مختلف تعداد رکھی ہے ) اگران میں آئیں تو ان کو میں دعائیہ کلمات لکھ کے اپنے دستخطوں سے کوئی کتاب تحفہ ہ دوں گا تو جو تین سو یا دوسو کے اندر آنے والے ہیں.وہ بہر حال ذہین بچے ہیں ان کے اندر مزید شوق پیدا کرنے کے لئے یہ منصوبہ بنا و منتظم ہیں اس لئے ان کو چاہئے کہ اس کی طرف توجہ دیں اور بار بار یاد دلا ئیں کیونکہ بعض نے مجھے کہا کہ ہم نے لکھا تھا اور ہمیں کوئی جواب نہیں ملا.نصرت جہاں سکیم ۱۹۷۰ء میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک منصوبہ شروع کیا گیا تھا مغربی افریقہ کے چھ ممالک میں ہائر سیکنڈری سکول کھولنے کا اور کلینک کھولنے کا اور اس وقت میں نے ایک لاکھ پاؤنڈ چندہ کی جماعت سے اپیل کی تھی.جماعت نے دولاکھ سے زیادہ اکٹھا کر دیا یعنی دو لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ قریباً تین لاکھ پاؤنڈ اکٹھا ہو گیا.اس سے ہم نے کام شروع کیا اللہ پر توکل کرتے ہوئے.ہمارے نوجوان ڈاکٹروں نے وقف کیا تین تین سال کے لئے یا بعض نے کچھ زیادہ سالوں کے لئے اور منصوبہ یہ تھا کہ ہر ملک میں چار چار ہسپتال اور چار چار نئے سکول کھولے جائیں گے.اس میں اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت ڈالی ہے کہ ساری دنیا کے دماغ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے.جو منصوبہ ترین لاکھ روپے کے سرمایہ سے شروع ہوا تھا اس سے جو کام ہورہے ہیں اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ صرف غانا میں اس دفعہ جب میں گیا ہوں تو چلتے وقت میں نے عبد الوہاب بن آدم وہاں کے امیر جو ہیں ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس اس وقت ریز رو میں کتنے پیسے ہیں نصرت جہاں کے تو انہوں نے کہا کہ two and half million پچیس لاکھ سیڈیز اور ایک سیڈی تین روپے پچپن پیسے کا ہے.جس کا مطلب ہے کہ قریباً اسی لاکھ روپیہ ایک ملک کے ریزرو میں اور کام شروع کیا تھا
خطابات ناصر جلد دوم ۴۸۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء تر پن لاکھ سے.چار ملکوں میں سولہ ہسپتال اور سولہ سکول.سولہ سے زیادہ ہی کام کر رہے ہیں وہاں اور اتنی برکت اتنی مقبولیت ہے وہاں کہ ساتھ سے ملکوں سے آ جاتے ہیں millionair اور آپریشن کرواتے ہیں اور فیس دیتے ہیں.پیسہ بڑا ہے ان کے پاس کہتے ہیں دس ہزار، بیس ہزار روپیہ جو فیس لینی ہے لو ہمارا علاج کرو.کیونکہ سارے علاقہ میں چھ ممالک ہمارے( اور اس کے علاوہ اور بہت سارے ملک ) عام شہرت ہو چکی ہے کہ ہمارے بہت سے اچھے ہسپتال ہیں.بلڈنگوں کے لحاظ سے یورپین ڈاکٹرز ہیں دوائیاں ہیں اوزار ہیں.سارا کچھ ہے لیکن شفا صرف جماعت احمدیہ کے ہسپتال میں ہے.یہاں تک کہ بعض اوقات وزراء اپنے ہسپتال کے بجائے ہمارے چھوٹے چھوٹے ہسپتالوں میں آجاتے تھے.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ایک ونگ (Wing) بنا پھر دوسرا بنا اور پھر تیسرا بنا اور عمارتیں بھی شاندار بن چکی ہیں.خدا تعالیٰ پیسے دیئے جاتا ہے اور ان ہی پر ہم خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.کیونکہ نہ ہمیں ان کی سیاست سے کوئی غرض ہے نہ ہمیں ان کی دولت سے کوئی دلچسپی ہے.ان کا مال ہے ان پر خرچ ہورہا ہے اور یہ تو ہم نے نظارہ دیکھا خدائے قادر و توانا کی قدرتوں کو مگر دنیا اتنی اندھی کہ دنیا ہی بجھتی ہے کہ امریکہ کسی کو دولت دے سکتا ہے دنیا نہ بجھتی ہے کہ اسرائیل کسی کو دولت دے سکتا ہے دنیا یہ بجھتی ہے کہ سعودی عرب کسی کو دولت دے سکتا ہے لیکن اندھی دنیا یہ بجھتی ہے کہ اگر کوئی نہیں دے سکتا تو خدا تعالیٰ کسی کو دولت نہیں دے سکتا.(نعرے) لیکن ہر احمدی یہ سمجھتا ہے کہ اِنَّ اللهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ (ال عمران : ۳۸) اگر پیسہ دیتا ہے تو خدا ہی دیتا ہے وہ پیسہ جو برکتوں والا.وہ پیسہ جو افا دیت والا وہ پیسہ جو اسلام کے نور کو پھیلانے والا.وہ پیسہ جو قائم رہنے والا.باقی ساری دولتیں عارضی ظلمتیں پھیلانے والی.خدا سے دور لے جانے والی ہیں.(نعرے) اتنی مقبولیت ہو چکی ہے کہ ایک امیر ملک میں یہ واقعہ ہوا.ایک بڑے ملک کے ان ہی ملکوں میں سے.جس میں بہت ساری سٹیٹس ہیں.ایک سٹیٹ کے ایک بہت ذمہ دار آدمی نے مجھے اس وقت لکھا جب میں یورپ کے سفر پر روانہ ہونے والا تھا لیکن سفر میں پھر مجھے خط ملا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا جو صوبہ ہے سٹیسٹ ہے اس میں 1/3 مسلمان ہیں ، 1/3 عیسائی ہے.1/3 بد مذہب ہے.بت پرست ، عیسائی بد مذہب لوگوں میں تبلیغ کر رہے ہیں.انہیں عیسائی بنارہے ہیں اور
خطابات ناصر جلد دوم ۴۸۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء ہمارے ملک میں کوئی ایسی جماعت نہیں جو عیسائیوں کا مقابلہ کر سکے.صرف آپ لوگ ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں اگر آپ یہ نہیں چاہتے کہ یہ سٹیسٹ عیسائی سٹیٹ بن جائے تو فوری طور پر یہاں چارنے ہائر سیکنڈری سکول جو انٹر میڈیٹ کا لجز ہمارے ہاں کہلاتے ہیں وہ کھولیں.میں نے سفر میں ہی اس کی اجازت دے دی اور دو کے متعلق تو ابتدائی کام شروع ہو گئے ہیں وہ میرا خیال ہے شاید کھل گئے ہیں یا ایک آدھ مہینہ میں کھل جائیں گے.باقی دو کے متعلق زمین کی ہوئی ہے.جگہ کے انتخاب کے بعد.بہت سارے ریڈ ٹیپ ازم (Red-tapism) ہوتے ہیں.دفتری کام ہے لمبا ہوتا رہتا ہے لیکن وہ ملک جو احمدیت کی قدر کو پہچانتا ہی نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان کیا نصرت جہاں سکیم کے ذریعہ کہ خود ہمیں کہہ رہے ہیں کہ آؤ اور سکول کھولو.پھر جب میں اس سفر میں ہی تھا تو مہینے ڈیڑھ مہینے بعد ایک اور خط مجھے ملا کہ ہمیں صرف سکولوں کی ہی ضرورت نہیں ہمارے ہاں دو ہسپتال بھی چاہئیں.تا کہ یہ جو بد مذہب ہیں ان کو مسلمان بنایا جائے اور عیسائی سٹیٹ بننے سے اس سٹیٹ کو روکا جائے.انسان تو ایک عاجزانہ تدبیر کرتا ہے اور کر سکتا ہے لیکن وہ جو سب قدرتوں کا مالک ہے اس کے حضور آپ دعا کریں کہ ان کے دل میں جو یہ تڑپ پیدا ہوئی ہے اور جو ان کو یہ نظر آرہا ہے کہ جماعت احمد یہ اس سٹیٹ کو عیسائی سٹیٹ نہیں بنے دے گی ، اللہ تعالی ان کی خواہش اور ان کے اندازے کے مطابق ایسا کرے کہ جماعت احمدیہ کو توفیق ملے کہ اس سارے 1/3 کو وہ اسلام میں داخل کرنے میں کامیاب ہوں.اور وہ ہمیشہ کے لئے ایک مسلم سٹیٹ بن جائے.بعض تفاصیل تو میں نے چھوڑ دیں اس لئے کہ پرسوں تک اینٹی بائیوٹک کھا تا رہا ہوں اپنی بیماری کی وجہ سے.اس کی وجہ سے اتنا ضعف ہو گیا تھا آج صبح کہ میں نے مستورات میں جو تقریر ہوتی ہے اس کو چھوٹا کرنے کی کوشش کی تھی بہر حال بہت ضعف محسوس کر رہا تھا اور اب بھی کر رہا ہوں لیکن اب میں نے ضعف کی بات کی ہے اور ضعف کی بات کر رہا ہوں ویسے جب میں کام کر رہا ہوتا ہوں اس وقت مجھے احساس نہیں ہوتا کہ کتنا ضعف ہے مجھے.دوسرے میری یہ عادت ہے کہ جب میں کام کر رہا ہوں تو میں کھانا اپنا کم کر دیتا ہوں ویسے بھی میں کم خور ہوں اس لئے کہ آدمی زیادہ کھالے تو سر بھاری ہو جاتا ہے.غنودگی آجاتی ہے.چوکس اور بیداررہ کے چوبیس
خطابات ناصر جلد دوم ۴۸۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۰ء گھنٹے کام کرنا چاہتا ہوں.تو جتنا کم سے کم کھانا میں کر سکتا ہوں وہ کر دیتا ہوں لیکن جو خلا پیدا ہو جاتا ہے اس میں کوئی چیز تو بھری جانی چاہئے.آپ اپنی دعاؤں سے اس خلا کو پُر کر دیں.میں بھی دعا کرتا ہوں.آپ بھی کریں اللہ تعالیٰ کام لیتا رہتا ہے.اصل چیز تو زندگی میں کام ہے.اصل زندگی ہے ہی کام کا نام اور ایسے اعمال کا نام جن سے خدا راضی ہو جائے اور وہ مقبول اعمال بن جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی مقبول اعمال کی توفیق دیتا چلا جائے اور مجھے بھی توفیق دے کہ میں جب تک زندہ ہوں ایسے عمل کرتا رہوں جو اسلام کی عظمت کو قائم کرنے والے ہوں.خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو انسان کے دل میں گاڑنے والے ہوں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار جو ہے اور آپ کا جلال اور جمال جو ہے اس سے دنیا آشنا ہو جائے ان کے نتیجہ میں.ایک دوسرے کے لئے دعائیں کرتے ہوئے غلبہ اسلام کی شاہراہ پر اللہ تعالیٰ ہمیں آگے سے آگے بڑھنے کی توفیق عطا کرتا چلا جائے.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.(نعرے) پھر حضور انور نے فرمایا نعرے لگاؤ.نعرہ تکبیر.اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر.خاتم الانبیاء.زندہ باد.اسلام زندہ باد، زندہ با د احمدیت.زندہ باد.پھر حضور انور نے فرمایا.ذرا ٹھہریں.ذرا ٹھہریں.اب میرے ساتھ شامل ہو جائیں.لا اله الا الله لا اله الا الله لا اله الا الله لا اله الا الله _ لا اله الا الله لا اله الا الله لا اله الا الله لا اله الا الله اور پھر حضور انور نے فرمایا.السلام علیکم ورحمته الله وبركاته از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات ناصر جلد دوم ۴۸۵ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء اس صدی میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار قائم ہو گا اسلام غالب آئے گا اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.﴾ آج میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ عظیم مرتبہ اور مقام بتاؤں گا جس کا ذکر ہمیں قرآن کریم میں نظر آتا ہے.مضمون شروع کرنے سے قبل میں ایک دو باتیں ایسی کہنا چاہتا ہوں جو آپ ذہن میں رکھیں تا کہ نتیجہ نکالنے میں آپ کو آسانی رہے.ہمارے لٹریچر میں یعنی جو کتا ہیں امتِ مسلمہ کے عظیم صلحاء اور اولیاء نے اور محققین نے لکھیں ان میں خاتم کا لفظ مختلف شکلوں میں بڑی کثرت سے ہمیں ملتا ہے.سات نمونے میں نے اس وقت نوٹ کئے ہیں.ویسے بڑی کثرت سے پایا جاتا ہے.مثلاً خاتم الشعراء ہے.خاتم الشعرا بہتوں کو کہا گیا.خاتم الاولیاء لکھا گیا.خاتم الائمہ لکھا گیا.خاتم المجتھدین لکھا گیا.خاتم المحققین لکھا گیا.خاتم المحدثين المفسرین لکھا گیا انسان خاتم المخلوقات الجسمانیہ یہ بھی آیا ہے ہماری کتب میں.اور یہ جو آخری خاتم المخلوقات الجسمانیہ ہے.یہ تفسیر کبیر میں ہے جو امام فخر الدین رازی کی ہے.بیسیوں جگہ اس محاورے کو استعمال کیا گیا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور فضیلت دو طرح بیان ہوئی ہے.قرآن کریم
خطابات ناصر جلد دوم ۴۸۶ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء میں.ایک نسبتی لحاظ سے اور ایک نسبتی لحاظ سے نہیں بلکہ حقیقتاً جو ساری دنیوی نسبتوں سے بالا ہو کر آپ کی فضیلت ہے وہ بھی بیان ہوئی ہے.جو عنوان اس وقت میرے مضمون کے ہیں وہ یہ ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن عظیم کی تعلیم کی روشنی میں خاتم الکل ہیں.یعنی تمام کائنات میں سب سے زیادہ افضل یعنی جو آپ کی نسبت، آپ کا مقام اور مرتبہ اس عالمین ، اس کائنات کے ساتھ ہے.اس لحاظ سے آپ خاتم الکل ہیں.انسان جس کی خاطر اور حقیقتا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہی مجھے یوں کہنا چاہئے انسان جس کی خدمت کے لئے ہر دوسری چیز پیدا کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کے لئے یہ کائنات بنائی گئی تو انسان کی نسبت سے آپ خاتم انسانیت ہیں.اور پھر انسانوں میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو مومنین کی ایک جماعت پیدا ہوئی.مومنین کی اس جماعت میں آپ کا مقام خاتم المومنین ہے.یعنی مومنوں میں سب سے زیادہ فضلیت رکھنے والے مومن، اول المسلمین محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہیں.ان مومنین میں عارفین ہیں جو مومنوں میں بڑا درجہ ہے.اس لحاظ سے ، اس نسبت کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم العارفین ہیں.اور دنیا کی طرف جو رسول اور انبیاء آئے ان کی نسبت سے آپ خاتم النبیین ہیں.اور خاتم النبین جو آپ ہیں انبیاء کی نسبت سے یعنی باقی تمام انبیاء سے افضل، اس کی بہت سی جہتیں ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے.(الف).آپ خاتم النبین ہیں تمام انبیاء سے افضل ہیں اس لئے کہ آپ کی رسالت اور نبوت ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رہنے والی ہے.آپ ایک ابد تک قیامت تک زندہ رہنے والے نبی ہیں اور سلسلہ نبوت میں آپ کے علاوہ کوئی ایسا نبی نہیں.(ب).جو الکتاب آپ لے کر آئے.جو شریعت کا ملہ آپ نے مبعوث ہونے کے بعد نوع انسانی کے ہاتھ میں دی.اس کے لحاظ سے آپ خاتم النبیین ہیں یعنی کوئی اور ایسا رسول نہیں ، شریعت لانے والا رسول جسے الکتاب، یعنی کامل شریعت ملی ہو.جس کے متعلق یہ کہا گیا ہو.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المادة : (۴) تفصیل میں میں آگے جاؤں گا.اس وقت :
خطابات ناصر جلد دوم MAL اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء صرف عنوان بتا رہا ہوں.اور یہ الکتاب جو ہے اس میں صرف یہ خوبی نہیں کہ انسانی فطرت کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والی ہے بلکہ اس میں یہ قوت اور طاقت بھی ہے کہ اس کے فیوض قیامت تک جاری رہنے والے ہیں.یعنی جو مفہوم ایک زندہ رہنے والے نبی کے اندر پایا جاتا ہے وہی مفہوم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی الکتاب کے اندر بھی پایا جاتا ہے.یعنی یہ نہیں کہ قرآن کریم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے مسائل کو حل کیا بلکہ دنیا میں ہر نسل جو نئے مسائل لے کر پیدا ہوتی ہے اُن نئے مسائل کو حل کرنے کی طاقت اور قوت اس کتاب عظیم میں ہے.اس لحاظ سے (1) دنیا کا کوئی نبی ایسا نہیں جو نوع انسانی کے لئے کامل اسوہ ہو.اسوۂ حسنہ کے لحاظ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سلسلہ نبوت میں منفرد ہیں اور فضیلت کا یہ ایک عظیم پہلو ہے جو آپ میں پایا جاتا ہے.اور (ح) اس معنی میں کہ آپ ایک ایسے رسول ہیں کہ روحانی نعماء کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ آپ کی اتباع کی جائے.کوئی شخص جو آپ سے آزاد ہو کر یہ دعوی کرے کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض سے بالا ہو کر خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جھوٹا ہے اور دُنیا میں اور کوئی ایسا نبی نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت ایک بزرگ نبی تھے اس میں شک نہیں.لیکن اسی زمانہ میں جو بنی اسرائیل میں انبیاء کا زمانہ ہے دنیا کے دوسرے خطوں میں ایک اور شریعت لانے والا نبی تھا اور ان لوگوں کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر عمل کرنا ضروری نہیں تھا یعنی یہ مطالبہ ہی ان سے نہیں تھا.(ضروری کا لفظ بھی غلط ہے ) ان کے لئے حکم تھا کہ نہ کریں اس پر عمل، بلکہ ایک اور شریعت تھی جس کے اوپر عمل کرنا ان کے لئے ضروری قرار دیا گیا تھا.صرف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلہ نبوت میں ایک واحد اور منفرد اور عظیم فضیلت والے نبی ہیں کہ روحانی مدارج کے حصول کے لئے آپ کی اتباع ضروری ہے.اس کے بغیر کوئی روحانی مقام حاصل نہیں کیا جاسکتا.اور ( واو ) اس معنی میں آپ خاتم النبیین ہیں کہ تمام گزشتہ انبیا کے تمام کمالات اور جب میں یہ فقرہ آپ کے سامنے بول رہا ہوں کہ تمام انبیا کے تمام کمالات تو میری مراد صرف ان انبیاء سے نہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ان کا نام لے کر آتا ہے بلکہ قرآن کریم نے خود کہا ہے ایک جگہ کہ بعض انبیاء کا ہم نے نام لے کر ذکر کر دیا.اور بہتوں کا ہم نے ذکر نہیں کیا.جو ایک لاکھ چوبیس ہزار یا ایک لاکھ بیس ہزار پیغمبر
خطابات ناصر جلد دوم ۴۸۸ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء دنیا کی طرف آیا ان تمام کے کمالات متفرقہ جو تھےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کمالات متفرقہ کو اپنے وجود کے اندر جمع کرنے والے ہیں.اور اس لحاظ سے آپ افضل الانبیاءاور خاتم النبین ہیں.جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ نسبتی طور پہ بھی فضیلت ہے اور مستقل حیثیت میں بھی بغیر نسبتوں کے بھی آپ کو عظمتوں کا نہایت اعلیٰ مرتبہ اور مقام دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے.ایک مثال دیتا ہوں قرآن کریم میں آتا ہے.لَا يَسْتَوِي الْقَعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِى الضَّرَرِ وَالْمُجهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللهُ الْمُجْهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَعِدِينَ دَرَجَةً : وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللهُ الْمُجْهِدِينَ عَلَى الْقَعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (النَّسَاء : ٩٦) یہاں مومنوں کے دو گروہوں کا ذکر ہے.ایک وہ جو اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں.اور ایک وہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والے نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ان دونوں کا درجہ، مرتبہ اور مقام فضیلت کے لحاظ سے برابر نہیں ہے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنہوں نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ذریعہ سے جہاد کیا ان کو ہم نے دوسروں پر فضیلت دی ہے وہ افضل ہیں ان سے باوجود اس کے کہ سب سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے سب کو اللہ تعالیٰ اجر دے گا اور اپنی رضا کی جنتوں میں انہیں داخل کرے گا.لیکن مومن مومن میں فرق ہے.ایک وہ مومن جو مال اور نفوس سے جہاد کرنے والا ہے اور ایک وہ مومن خدا تعالیٰ سے اجر پانے والا جو ایسا نہیں کرتا دونوں کو اجر ملے گا.لیکن وَفَضَّلَ اللهُ الْمُجْهِدِينَ عَلَى الْقَمِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا ( النِّسَاء : ٩٦) جو جہاد کرنے والے ہیں اپنے اموال اور نفوس کے ساتھ ان کو اجر عظیم ملے گا.ایک وہ مومن ہیں جن کو اجر ملے گا لیکن اجر عظیم نہیں ملے گا.اسی طرح قرآن کریم میں جہاں رُسُل کا ذکر آیا ہے.وہاں یہ بھی حکم دیا.لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ (البقرة :۲۸۶) کہ رسول رسول میں فرق نہیں کیا جاتا اس واسطے کہ یہ ایک ب ہے.اللہ تعالیٰ خود اپنی حکمتِ کاملہ سے ایک وقت میں ایک شخص کو چُنتا اور کہتا ہے کہ جا اور میرا پیغامبر بن اور جو تعلیم میں تجھے دیتا ہوں وہ اپنی قوم کی طرف جا کے ان کو سنا اور ان کو کہو خدا تم سے یہ مطالبہ کرتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے شریعت دی اور ان کو یہود کی
خطابات ناصر جلد دوم ۴۸۹ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء طرف بھیجا.باوجود اس کے رسولوں میں سے ایک دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا قرآن کریم میں تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ (البقرة : ۲۵۴) بعض کو بعض پر فضیلت ہے.یہ نسبتی فضیلت کا ذکر جہاں انبیاء کی فضیلت کا اور رسولوں کی فضیلت کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے وہاں نسبتی فضیلت کا ذکر آتا ہے اور اس نسبتی فضیلت میں سورۃ البقرہ میں ہی ہے.تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتِ (البقرة :۲۵۴) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتِ بعض کے درجات کو بہت بلند کیا اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے درجات اللہ تعالیٰ نے تمام دوسرے رسولوں سے زیادہ بلند کئے اور آپ کو افضل الرسل اور خاتم النبین بنادیا گیا.اس کے علاوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کلی فضیلت حاصل ہے قطع نظر اس کے کہ دنیا میں جو بیشمار اور چیزیں ہیں.قطع نظر اس کے کہ انسان بنائے اور انسانوں کو خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا کہ وہ اس کے عبد بنیں.قطع نظر اس کے کہ مومن ایمان لانے والے ہیں ان کا ایک گروہ ہے ان میں سے عارفین ہیں.رسل ہیں جو ان کی طرف آتے ہیں خود اپنی ذات میں ایک عظیم فضیلت کے مالک ہیں.جو فضیلت اپنی انتہا تک پہنچی ہوئی ہے.اس کا قرآن کریم کی اس آیت بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ وَاَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا ( النِّساء :۱۱۴) قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں ، ایک بطن ، ایک معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کامل کتاب اتاری اور اس کتاب کا اصول یہ ہے کہ جب یہ حکم دیتی ہے تو حکمت بھی ساتھ بیان کرتی ہے بڑی عظیم کتاب ہے اور جو کچھ تو نہیں جانتا تجھے سکھایا اور تجھ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عظیما یہ جو کتاب ملی اور حکمت ملی اُس میں تو ذکر تھا رسول کا یعنی وہ فضیلت جو آپ کو الرَّسُولُ النَّبِی کی حیثیت سے ملی لیکن وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا اس کے علاوہ بھی فضل عظیم تجھے عطا کیا گیا جس کا ذکر میں اس مضمون کے آخر میں انشاء اللہ تعالیٰ کروں گا.پہلا عنوان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرتبہ کے لحاظ سے اور نسبتی فضیلت کے لحاظ
خطابات ناصر جلد دوم ۴۹۰ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء سے جب ہم کائنات کو ، پوری کی پوری کائنات کو اپنے سامنے رکھتے ہیں تو آپ کا مقام خاتم الكل کا ہے یعنی سب سے ارفع و اعلی مخلوق.خدا تعالیٰ نے جو چیز بھی پیدا کی اس کے اندر کمال رکھا ہے اُس نے جس غرض کے لئے پیدا کی اس غرض کو پورا کرنے کی طاقت اس میں رکھی.چاند کو اس نے پیدا کیا اور ایک دور کے اندر راتوں کو چاندنی بکھیرنے کی اس کے اندر طاقت رکھی.یہ اس کا کمال ہے سورج میں اپنا کمال ہے ایک گاجر ہے اس میں اپنا کمال ہے چھپے ہوئے کمال ہیں سارے.اب تازہ کمال گاجر کا یہ نکلا ہے کہ دل کو طاقت دیتی ہے یہ بہت ساری یعنی بیشمار صفات اس کے اندر پائی جاتی ہے.تو میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ خاتم الکل کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ تمام کمالات جو اس کائنات کی ہر شے میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے ان کو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کو جو اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو پ کا پلڑا بھاری ہو گا اس واسطے بھی آپ خاتم الکل ہیں.دوسرے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفَلاكَ ( موضوعات كبير زیر حرف لام ) یہ حدیث ہے یعنی خدا تعالیٰ کا یہ منشا ظاہر ہوا ہم پر کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مقصود نہ ہوتی تو یہ کائنات بھی پیدا نہ کی جاتی.اس نقطہ کے لحاظ سے، اس حیثیت میں ، اس جہت سے آپ خاتم الکل ہیں.اور اس لحاظ سے آپ افضل ہیں ساری کائنات سے کہ قرآن کریم نے اعلان کیا کہ رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِینَ ہیں.صرف انسان کے لئے رحمت نہیں.بلکہ اس عالمین کی ہر شے کے لئے رحمت بنا کے نبی اکرم بھیجے گئے ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم نے ہمیں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا بڑا اہم مضمون ہے، بہت وسیع مضمون ہے، لیکن قرآن کریم کی تعلیم نے ایسے اصول بیان کئے ہیں جن میں کائنات کی ہر شے کے حقوق متعین کئے گئے ہیں اور ان کی حفاظت کی گئی ہے.ایک طرف یہ کہنا کہ ہر چیز کو تمہاری خدمت پر لگایا یعنی انسان کو کہا ہے تیرے لئے پیدا کی ہے تو اس سے فائدہ اُٹھا.انسان کی صحت کو قائم رکھنے کے لئے ایک جانور کی جان لی جاتی ہے تا کہ اس کو بہترین قسم کی پروٹینز (Proteins) ملیں.یہ درست ہے جائز ہے.اللہ تعالیٰ کا انعام ہے بڑا.لیکن اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ جس جانور کو ذبح کرنے کی اجازت ہے اپنی صحت کے قائم کرنے کے لئے اس کو دکھ دینے کی اجازت نہیں ہے آپ نے
خطابات ناصر جلد دوم ۴۹۱ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء فرمایا جو پالتو جانور ہے تمہارے گھر کا اس پر تیر نہیں چلاؤ گے تم اس واسطے کہ تیر کے چلنے اور ذبح ہونے کے درمیان شاید چند سیکنڈ کاممکن ہے ایک منٹ کا وقفہ لگے.اگر تیر مرغی کے اوپر چلایا ہےممکن ہے ایسی جگہ لگے کہ وہ تکلیف میں تڑپتی ہوئی دور چلی جائے اور چند منٹ لگ جائیں اس کے پکڑنے میں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چند سیکنڈ کے بعد اسے پکڑا جائے اور اس کو ذبح کر لیا جائے.ایک سیکنڈ کی بھی تکلیف نہیں دینی لیکن کھا لینا ہے.اتنا لطیف اور حسین بیلنس (Balance) توازن قائم کیا ہے اس سے خدمت لینے میں اور اس کے حقوق کو ادا کرنے میں صلی اللہ علیہ علی و آلہ وسلم.تو اس لحاظ سے آپ خاتم الکل ہیں کہ اعلان کیا گیا کہ آپ رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِینَ ہیں.یہ بھی حدیث میں آیا ہے کہ ایک فاحشہ کو خدا تعالیٰ نے اس لئے معاف کر دیا کہ کتنے کا ذکر ہے یا بلی کا کہ وہ پیاسی مر رہی تھی اور اس نے اپنی جوتی میں پانی نکال کر اسے پانی پلا دیا.اس کی زندگی کی حفاظت کی ہے نا رحمة للعالمین نے.پھر تو ازن غذا کا.کھانے کو ضائع نہ کرو.اسراف نہ کرو.جو کھاؤ ہضم کرو.اتنی لمبی تعلیم ہے اتنی وسیع تعلیم ہے، اتنی حسین تعلیم ہے اس قدر افادیت سے پر تعلیم ہے کہ آدمی اور اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ( الجاثية : ۱۴) اور لَو لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک ( موضوعات کبیر زیر حرف لام) کو سامنے رکھ کے اس نتیجے پہ پہنچتے ہیں کہ ہر چیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیدا کی گئی ہے.باقیوں نے آپ کے طفیل لی ہے.تو اس واسطے میں تو کہا کرتا ہوں کہ جو بہترین چیز میرے زمانہ میں میرے ماحول میں پیدا ہوئی میرے لئے ہے.اگر مجھے نہیں ملتی کسی وجہ سے، کوئی اور غاصب لے لیتا ہے وہ بہترین چیز اور مجھے یقین ہے مجھے خدا تعالیٰ ثواب دیتا ہے.ورنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین نہیں بنتے.بہر حال اس کو ذوقی مسئلہ سمجھ لیں لیکن میرا یہی مسئلہ ہے.تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کل کائنات کی نسبت سے خاتم الکل ہیں یعنی ساری دنیا کے کمالات کے مقابلہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کو افضیلت حاصل ہے.اس کا ئنات میں ایک نوع ہے نوع انسانی جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم انسانیت ہیں.اس کے لئے ہم انسانِ کامل کا لفظ بھی بولتے ہیں یعنی جب سے انسان پیدا ہوا جب تک رہے گا اس کرہ ارض پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسان میں ایک فرد واحد انسان کامل کی
خطابات ناصر جلد دوم ۴۹۲ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء حیثیت میں ہمارے سامنے پیش ہوئے.تین ایسی چیزیں چاہئیں تھیں انسان کامل جس کے نتیجے میں بنے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کامل ترین استعدادیں ، صلاحیتیں اور قابلیتیں عطا کیں.ان قابلیتوں اور صلاحیتوں کی نشوونما کے لئے جو مناسب حالات تھے وہ پیدا کئے.اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تو فیق دی کہ ان موافق حالات میں اپنی صلاحیتوں کی نشو و نما کریں اور اس نشو ونما کو کمال تک پہنچائیں.انسانِ کامل بن گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر انسانیت ختم ہو گئی.خاتم انسانیت ، بن گئے تمام کمالات انسانیت آپ پر ختم ہوئے اور آپ انتہائی نقطہ ارتفاع پر جہاں تک نشو و نمائے انسانیت کا سوال ہے انتہائی نقطہ کمال پر جا پہنچے.انسانِ کامل ہیں تو اس نسبت سے آپ خاتم انسانیت ہیں.جہاں تک نوع انسان کا سوال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پوری شان کے ساتھ اس کو اس طرح بیان کیا.تیسرا درجہ محبت کا وہ ہے جس میں ایک نہایت افروختہ شعلہ محبت الہی کا انسانی محبت کے مستعد فتیلہ پر پڑ کر اس کو افروختہ کر دیتا ہے اور اس کے تمام اجزا اور تمام رگ وریشہ پر استیلا پکڑ کر اپنے وجود کا اتم اور اکمل مظہر اس کو بنادیتا ہے.اور اس حالت میں آتشِ محبت الہی لوح قلب انسان کو نہ صرف ایک چمک بخشتی ہے بلکہ معاً اس چمک کے ساتھ تمام وجود بھڑک اٹھتا ہے اور اس کی لوئیں اور شعلے ارد گرد کو روز روشن کی طرح روشن کر دیتے ہیں اور کسی قسم کی تاریکی باقی نہیں رہتی اور پورے طور پر اور تمام صفات کاملہ کے ساتھ وہ سارا وجود آگ ہی آگ ہو جاتا ہے اور یہ کیفیت جو ایک آتش افروختہ کی صورت پر دونوں محبتوں کے جوڑ سے پیدا ہو جاتی ہے اُس کو روحِ امین کے نام سے بولتے ہیں کیونکہ یہ ہر ایک تاریکی سے امن بخشتی ہے اور ہر یک غبار سے خالی ہے....اور اس کو رائی مارائی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے.کیونکہ اس کیفیت کا اندازہ تمام مخلوقات کے قیاس اور گمان اور وہم سے باہر ہے اور یہ کیفیت صرف دنیا میں ایک ہی انسان کو ملی ہے جو انسانِ کامل ہے جس پر تمام سلسلہ انسانیہ کا ختم ہو گیا ہے اور دائرہ استعدادات بشریہ کا کمال کو پہنچا ہے.“ ( توضیح مرام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۳ ۶۴۷) پھر آپ فرماتے ہیں.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۹۳ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء ”وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قومی کے پُر زور دریا سے کمالِ تام کا نمونہ علماً وعملاً وصدقاً وثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا.( اتمام الحجة روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۰۸) پھر آپ فرماتے ہیں کہ:.”صاف ظاہر ہے کہ کامل انسان جو شفیع ہونے کے لائق ہو وہی شخص ہوسکتا ہے جس نے ان دونوں تعلقوں سے ایک طرف خدا سے تعلق اور دوسری طرف بنی نوع انسان سے تعلق.یہ بریکٹ میں میں نے لکھا ہے جس نے ان دونوں تعلقوں سے.ناقل ) کامل حصہ لیا ہو اور کوئی شخص بحجز ان ہر دو قسم کے کمال کے انسان کامل نہیں ہوسکتا.ریویو آف ریلیجنز جلد نمبر ۵ صفحه ۱۷۹) تیسری نسبت جس نسبت سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم ہیں وہ ہے مومنین کے ساتھ آپ کا تعلق جب خدا تعالیٰ نے کہا ایمان لاؤ تو آپ کو بھی تو فرمایا تھا نا خدا نے کہ ایمان لاؤ اور جو ماننے والے تھے ان کو بھی کہا تھا.تو مومنوں کی ایک جماعت بن گئی.پھر وہ بڑھی لاکھوں کروڑوں ہوگئی آپ کی بعثت کے بعد.اس وقت بھی آپ کی طرف منسوب ہونے والے کروڑوں میں ہیں.تو خاتم المومنین، یعنی مومنوں میں جو ایمان کا کمال ہے جو مومن ہونے کے کمالات ہیں سب سے زیادہ کمالات رکھنے والا انسان.اس کو دوسرے لفظوں میں اول المسلمین “ بھی کہتے ہیں یعنی سب سے بلند سب سے بلندشان والا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ جل شانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ( طه : ۱۱۵) یعنی اے میرے رب تو مجھے اپنی عظمت اور معرفت شیون اور صفات کا علم کامل بخش.اور پھر دوسری جگہ فرمایا.وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ المُسْلِمِينَ (الانعام: ۱۶۴) اِن دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اول المسلمین ٹھہرے تو اس کا یہی باعث ہوا کہ اوروں کی نسبت علوم معرفت الہی میں اعلم ہیں یعنی علم ان کا معارف الہیہ کے بارے میں سب سے بڑھ کر ہے اس لئے ان کا اسلام بھی سب سے اعلیٰ ہے اور وہ اول المسلمین ہیں.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸۷،۱۸۶)
خطابات ناصر جلد دوم ۴۹۴ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء تو اس نسبت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم المومنین، ٹھہرے اور قرار دیئے گئے قرآن کریم میں پھر مومنین میں سے اور اوپر اٹھنے والے روحانی رفعتیں حاصل کرنے والے، ایک جماعت بن گئی جو عام مومنین سے بلند ہو کر عارفوں کے گروہ میں شامل ہوئی اور ایک عارفوں کا گروہ بن گیا.عارفین کی نسبت سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم خاتم العارفین ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اقتباس پڑھنے سے پہلے ایک وضاحت چاہئے.آپ 'خاتم العارفین ہیں اور آپ عارف بنانے والے ہیں.یعنی آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ قوت عطا کی ہے کہ جو آپ کی پیروی اور اتباع میں مومنوں کے مقامات سے بلند ہو جائے وہ عارفین کے گروہ میں خود آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجے میں شامل ہو جاتا ہے.یعنی آپ بطور استاد کے، بطور معلم کے، بطور مربی کے ایک گروہ کی تربیت کر کے ان کی استعدادوں اور صلاحیتوں کے مطابق ان کو عام مومنین کے گروہ سے بلند کرتے ہیں شروع سے بعثت کے وقت سے قیامت تک کیونکہ روحانی زندگی خدا تعالیٰ نے آپ کو ابدا لآباد تک دی ہوئی ہے.اور یہ عارفین کا ایک گروہ ہے تو جو عارف بنانے والا ہے.اسی کو ہم کہیں گئے خاتم العارفین، کہ جس سے عارفوں نے اپنے کمال حاصل کئے اور جس کے نہایت منجھے ہوئے ہاتھ سے اُن کی روح کو پالش کیا گیا اور مہذب بنایاوہ بہر حال خاتم العارفین ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت خاتم العارفین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عظمہ اس شکل میں بیان کرتے ہیں کہ آپ نے کس طرح عارفین کے گروہ کے اندر اپنی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں کمال پیدا کئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اور منجملہ ان عطیات کے (جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امت محمدیہ کے گروہ کو ملے.ناقل) ایک یہ ہے کہ ان کی معرفت اور خدا شناسی بذریعہ کشوف صادقہ و علوم لدنیہ و الہامات صریحہ ومکالمات ومخاطبات حضرت احدیت و دیگر خوارق عادت بدرجہ اکمل وا تم پہنچائی جاتی ہے.یہاں تک کہ ان میں اور عالم ثانی میں ایک نہایت رقیق اور شفاف حجاب باقی رہ جاتا ہے جس میں سے ان کی نظر عبور کر کے واقعات اخروی کو اسی عالم میں دیکھ لیتی ہے.(یہ عارفین کا گروہ ہے تربیت یافتہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا.ناقل ) برخلاف دوسرے لوگوں
خطابات ناصر جلد دوم ۴۹۵ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء کے کہ جو باعث پر ظلمت ہونے اپنی کتابوں کے اس مرتبہ کاملہ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے بلکہ ان کی کجھ تعلیم کتابیں ان کے حجابوں پر اور بھی صد ہا حجاب ڈالتے ہیں اور بیماری کو آگے سے آگے بڑھا کر موت تک پہنچاتے ہیں اور فلسفی جن کے قدموں پر آجکل بر ہمو سماج والے چلتے ہیں اور جن کے مذہب کا سارا مدار عقلی خیالات پر ہے وہ خود اپنے طریق میں ناقص ہیں اور ان کے نقصان پر یہی دلیل کافی ہے کہ ان کی معرفت باوجو دصد با طرح کی غلطیوں کی نظری وجوہ سے تجاوز نہیں کرتی اور قیاسی انکلوں سے آگے نہیں بڑھتی اور ظاہر ہے کہ جس شخص کی معرفت صرف نظری طور تک محدود ہے اور وہ بھی کئی طرح کی خطا کی آلودگیوں سے ملوث.وہ شخص بمقابلہ اس شخص کے جس کا عرفان بداہت کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہے اپنی علمی حالت میں بغایت درجہ پست اور منزل ہے ظاہر ہے کہ نظر اور فکر کے مرتبہ کے آگے ایک مرتبہ بداہت اور شہود کا باقی ہے یعنی جو امور نظری اور فکری طور پر معلوم ہوتے ہیں وہ ممکن ہیں کہ کسی اور ذریعہ سے بدیہی اور مشہود طور پر معلوم ہوں.سو یہ مرتبہ ہداہت کا عند العقل ممکن الوجود ہے اور گو بر ہمو سماج والے اس مرتبہ کے وجود فی الخارج سے انکار ہی کریں پر اس بات سے انہیں انکار نہیں کہ وہ مرتبہ اگر خارج میں پایا جاوے تو بلاشبہ اعلیٰ و اکمل ہے.اور جو نظر اور فکر میں خفایا باقی رہ جاتے ہیں ( پیچیدگیاں اور اندھیرے.ناقل ) ان کا ظہور اور بروز اُسی مرتبہ پر موقوف ہے اور خود اس بات کو کون نہیں سمجھ سکتا کہ ایک امر کا بدیہی طور پر کھل جانا نظری طور سے اعلیٰ اور اکمل ہے.مگر نہایت بدیہی اور روشن طریق معرفت الہی کا جو اس کے وجود پر بڑی ہی مضبوط دلیل ہے یہ ہے کہ اس کے بندوں کو الہام ملتا ہے اور قبل اس کے جو حقائق اشیا کا انجام کھلے ان پر کھولا جاتا ہے اور وہ اپنے معروضات میں حضرت احدیت سے جوابات پاتے ہیں اور اُن سے مکالمات اور مخاطبات ہوتے ہیں اور منظر کشفی ان کو عالم ثانی کے واقعات دکھلائے جاتے ہیں اور جزا سزا کی حقیقت پر مطلع کیا جاتا ہے اور دوسرے کئی طور کے اسرار اخروی ان پر کھولے جاتے ہیں اور کچھ شک نہیں کہ یہ تمام امور علم الیقین کو تم اور اکمل مرتبہ تک پہنچاتے ہیں اور نظری ہونے کے عمیق نشیب سے بداہت کے بلند مینار تک لے جاتے ہیں بالخصوص مکالمات اور مخاطبات حضرت احدیت ان
خطابات ناصر جلد دوم ۴۹۶ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء سب اقسام سے اعلیٰ ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے صرف اخبار غیبیہ ہی معلوم نہیں ہوتے بلکہ عاجز بندہ پر جو مولیٰ کریم کی عنائتیں ہیں ان سے بھی اطلاع دی جاتی ہے اور ایک لذیز اور مبارک کلام سے ایسی تسلی اور تشفی اس کو عطا ہوتی ہے اور خوشنودی حضرت باری تعالیٰ سے مطلع کیا جاتا ہے جس سے بندہ مکروہات دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑی قوت پاتا ہے گویا صبر اور استقامت کے پہاڑ اس کو عطا کئے جاتے ہیں.اسی طرح بذریعہ کلام اعلیٰ درجہ کے علوم اور معارف بھی بندہ کو سکھلائے جاتے ہیں اور وہ اسرار خفیہ و دقائق عمیقہ بتلائے جاتے ہیں کہ جو بغیر تعلیم خاص ربانی کے کسی طرح معلوم نہیں ہو سکتے اور اگر کوئی یہ شبہ پیش کرے کہ یہ تمام امور جن کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ قرآن شریف کے کامل اتباع سے حاصل ہوتے ہیں کیونکر اسلام میں ان کا تحقق في الخارج ہونا بہ پایۂ ثبوت پہنچ سکتا ہے.تو اس وہم کا جواب یہ ہے کہ صحبت سے.اور اگر چہ ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں لیکن بغیر اندیشہ طول کے پھر مکر رہر یک مخالف پر ظاہر کرتے ہیں کہ فی الحقیقت یہ دولت عظمی اسلام میں پائی جاتی ہے.کسی دوسرے مذہب میں ہرگز پائی نہیں جاتی اور طالب حق کے لئے اس کے ثبوت کے بارے میں ہم آپ ہی ذمہ دار ہیں بشرط صحبت و حسن ارادت و حقق مناسبت اور صبر اور ثبات کے یہ امور ہر یک طالب پر بقدر استعداد اور لیاقت ذاتی اس کی کے کھل سکتے ہیں.( براہین احمدیہ چہار حصص روحانی خزائن جلد اول صفحه ۵۴۳ تا ۵۴۵ حاشیه در حاشیه نمبر۳) تو یہ وہ گروہ ہے جس کے مربی اور استاد اور تربیت دینے والے اور اس مقام تک پہنچانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.خدا تعالیٰ کے ہزاروں ہزار درود اور سلام ہوں اس کو اس شخص پر جو اس گروہ کا خاتم خاتم العارفین ہے.اب میں لیتا ہوں انبیاء کی نسبت.ایک گروہ ہے سلسلہ نبوت حضرت آدم سے لے کے کہتے ہیں ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آچکے ہیں.اس نسبت سے جیسا کہ میں نے بتایا تھا بہت سارے پہلو ہیں یعنی خاتم الانبیا کے انبیا کی نسبت سے بھی بہت سارے پہلو ہیں.کیوں ہم کہتے ہیں کہ آپ تمام انبیا کے خاتم ہیں؟ وہ کون سے کمالات آپ کو دیئے گئے جس کے نتیجہ میں آپ تمام انبیا سے افضل ہو گئے.اب میں ایک ایک لے کے ان کا بیان کروں گا.
خطابات ناصر جلد دوم ۴۹۷ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ایک خاص فخر دیا گیا ہے کہ وہ ان معنوں سے خاتم الانبیا میں کہ ایک تو تمام کمالات نبوت ان پر ختم ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا رسول نہیں اور نہ کوئی ایسا نبی ہے جو ان کی امت سے باہر ہو.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۸۱) انبیاء کی نسبت سے خاتم النبیین جو ہیں آپ یعنی وہ افضلیت، وہ کمال، بہت سارے کمالوں کی وہ انتہا جس نے آپ کو ممتاز کر دیا سارے انبیا پر ، پہلی حیثیت، پہلا جو مقام آپ کا ہے وہ ہے ” زندہ نبی، زندگی بخش نبی کوئی ایسا نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سوا دنیا میں نہیں کہ جس کی روحانی زندگی قیامت تک ممتد ہو.آئے شریعتیں بھی لائے.بزرگ نبی تھے اس میں شک نہیں.انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خدمت کی.اخلاقی اور روحانی طور پر ان کے درجات کو بلند کرنے کی اللہ کی نگاہ میں کوشش کی.یہ درست ہے مگر وہ ایک ہی ہے.جو زندہ ہے اپنے روحانی فیوض کے لحاظ سے اور زندگی بخش ہے.یعنی اس کے اندر یہ قوت اور طاقت پائی جاتی ہے کہ وہ زندگی دے اور اس کی توفیق بھی ملتی رہی اور ملتی رہے گی خدا تعالیٰ کی بشارتوں کے ساتھ کہ مردوں کو زندہ کیا اس نے اور زندگی کرتا چلا جائے گا قیامت تک.آپ کی نبوت قیامت تک جاری رہے گی.آپ کی اس زندگی کا تعلق تمام اقوام عالم سے ہے اور ہر زمانہ سے تعلق رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام فرماتے ہیں.( جو شروع میں جو زندگی آپ نے عطا کی.وحشی قوم عرب کے حالات آپ پڑھیں تو ان سے زیادہ شاید درندہ قوم ہی کوئی دنیا میں پیدا نہ ہوئی ہو.پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کامل اور اکمل نبی اور محسن اور زندگی بخش رسول بن کے آ.تھے.انہوں نے اپنا کام وہاں سے شروع کر دیا.وہاں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کے حالات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ).وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گز را کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یکدفعہ
خطابات ناصر جلد دوم ۴۹۸ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو وہ کیا تھا.وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا.اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امّی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.“ ( برکات الدعار وحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۱۷۱۰) جس کو روٹی دینے کے لئے بھی وہ تیار نہیں تھے اس نے ان کی جھولیاں روحانی خزائن سے بھر دیں.اللَّهُمَ صَلّ وَسَلَّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ (نعرے) پھر آپ کی قوت قدسیہ اور روحانی فیوض و ہیں ختم نہیں ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جاودانی زندگی پر یہ بھی بڑی ایک بھاری دلیل ہے کہ حضرت ممدوح کا فیض جاودانی جاری ہے اور جو شخص اس زمانہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے.ایک روحانی زندگی اس کو بخشی جاتی ہے.اور آسمانی مد دیں اور سماوی برکتیں اور روح القدس کی خارق عادت تائیدیں اس کے شامل حال ہو جاتی ہیں اور وہ تمام دنیا کے انسانوں میں سے ایک منفر دانسان ہو جاتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اس سے ہمکلام ہوتا ہے اور اپنے اسرار خاصہ اس پر ظاہر کرتا ہے اور اپنے حقائق ومعارف کھولتا ہے اور اپنی محبت اور عنایت کے چپکتے ہوئے علامات اس میں نمودار کر دیتا ہے اور اپنی نصر تیں اس پر اتارتا ہے اور اپنی برکات اس میں رکھ دیتا ہے اور اپنی ربویت کا آئینہ اس کو بنا دیتا ہے اس کی زبان پر حکمت جاری ہوتی ہے اور اُس کے دل سے نکات لطیفہ کے چشمے نکلتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد پنجم صفحه ۲۲۱ ۲۲۲) دوسری نسبت خاتم الانبیا ہونے کے لحاظ سے، دوسرا پہلو جس کی رو سے آپ تمام انبیا سے افضل اور خاتم الانبیا ہیں وہ یہ ہے کہ آپ کو ایک کامل کتاب ملی.ایک ایسی شریعت جس کے اندر وہ علوم کوٹ کوٹ کے بھر دیئے گئے کہ قیامت تک انسانی نسل کو کوئی ایسا مسئلہ پیش نہیں آ سکتا جس کا حل اس قرآن عظیم میں نہ ہو.میں نے بہت سے دورے کئے ہیں باہر.اور وضاحت کے ساتھ یہ بات ان کے سامنے
خطابات ناصر جلد دوم ۴۹۹ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء پیش کی کہ تمہارا یہ مسئلہ تھا.تم نا کام ہوئے اسلام اس کا یہ حل پیش کرتا ہے.تم نہیں کہو گے مجھے کہ یہ حل جو ہے وہ ٹھیک نہیں ہے.اور کسی کو جرات نہیں ہوئی یہ کہنے کی کہ جوحل آپ بتا رہے ہیں قرآن کریم کی طرف سے جو پیش ہوا ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ ٹھیک نہیں کیونکہ وہ واقعہ میں ٹھیک ہے اور ان کو ماننا پڑتا ہے اسے.خدا نے اعلان کیا.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المآيدة : ٤) اے نوع انسانی قیامت تک کے لئے میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا تمہارے لئے اور اس لئے وَاتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المآيدة : ۴) قیامت تک جس نعمت کی بھی تمہیں ضرورت پڑے گی تمہیں اس قرآن میں سے وہ مل جائے گی وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ( المايدة : ۴) اس کو نہ چھوڑنا.اس پر عمل کرتے رہنا میری رضا کو پا لو گے.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا آج کہ چودہ سو سال پہلے یہ کتاب نازل ہوئی تھی ہمارے مسائل کو کیسے حل کرے گی.چودہ سو سال پہلے جو کتاب خدا کی طرف سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی چودہ سوسال پہلے اعلان کیا گیا تھا کہ آج کے مسائل کو یہ حل کرے گی.( نعرے) (ب) تو دوسرا پوائنٹ (Point) یہ تھا افضیلت کا کہ ایک کامل کتاب کامل شریعت دی گئی.اور اس کو میں نے اکٹھا بیان کر دیا ہے.تیسرا پہلو یہ ہے کہ یہ کتاب زندہ رہنے والی کتاب ہے.قیامت تک کوئی ایسا زمانہ نہیں آئے گا کہ کوئی کہے جی یہ اب مردہ ہو گئی.اس کو طاق نسیان پر رکھ دو.جو ایسا کرے گا حماقت کی بات کرے گا اور نقصان اُٹھائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.مگر ہمارا مشاہدہ اور تجربہ اور اُن سب کا جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اس بات کا گواہ ہے کہ قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے بچے پیروکو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کے دل کو منور کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلا کر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جو ٹکڑہ ٹکڑہ کرنا چاہتی ہے.وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے اور خدا کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشتا ہے اور علوم غیب عطا فرماتا ہے اور دعا قبول کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتا ہے اور ہر ایک جو اُس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآن شریف کا سچا پیرو ہے خدا
خطابات ناصر جلد دوم ♡ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ اُس بندہ کے ساتھ ہے جو اس کے کلام کی پیروی کرتا ہے.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۰۹،۳۰۸) چوتھا پہلو جس کی رو سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم باقی سب انبیا پر افضلیت رکھتے ہیں اور اس وجہ سے آپ خاتم النبین ہیں یہ ہے کہ آپ اسوۂ حسنہ ہونے کے لحاظ سے کامل ہیں یعنی ایک تو تھی قرآن کریم کی تعلیم دوسرے آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ آپ قرآن کریم پر عمل کر کے نوع انسانی کو دکھا دیں.ہر حکم پر آپ نے عمل کر کے دکھا دیا.کچھ پر اس طرح کہ وہ آپ کی زندگی کا حصہ بن گئے.کچھ پر اس طرح کہ آپ کے صحابہ کی زندگی کا وہ حصہ- اور آپ نے فیصلہ کیا کہ اسلام یہ کہتا ہے کہ یعنی آپ کا کلام بھی اسوہ بنا آپ کا عمل بھی اسوہ بنا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ اعلان کیا.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا (الاحزاب : ۲۲) ہر وہ شخص جو خدا کا پیار حاصل کرنا چاہتا ہے اور ہر وہ شخص جو اخروی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے پیار کی جنتوں میں رہنا چاہتا ہے اس کے لئے ایک ہی طریقہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم کو تلاش کرے اور پھر ان کے اوپر چلے.(نعرے) اور ایک اور پہلو جس کی رو سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باقی تمام انبیا پر افضلیت رکھتے ہیں اور اس وجہ سے خاتم الانبیاء ہیں یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر چھوٹے سے چھوٹا مقام بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران:۳۲) یعنی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آدھی باتیں تو ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کر لیتے ہیں اور اپنی زندگی کا نصف جو ہے وہ کسی اور کے سپرد کر دیتے ہیں.کچھ ہم اسلام کی مانیں گے کچھ ہم یورپ کی تہذیب کی طرف مائل ہو جائیں گے.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جب تک ہر بات میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تم خدا تعالیٰ کا انعام نہیں پاسکتے.پہلے تو ایسا نہیں تھا ( نعرے) حضرت عیسی علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کی اس تعلیم کو بدل دیا کہ جو تیرے چیڑ مارتا ہے تو اس کے بھی چھیڑ لگا اور انتقام
خطابات ناصر جلد دوم ۵۰۱ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء لے.بزدلی نہیں دکھانی.حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا جو تیری ایک گال پہ چپیڑ مارتا ہے دوسری بھی اس کے آگے کر دے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نہ اتباع کی نہ اپنے ماننے والوں سے اتباع کروائی اور خدا سے نبوت حاصل کر لی.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ذرہ بھر خلاف کرنا، خلاف جانا ہلاکت ہے خدا تعالیٰ کے غضب اور قبر کی آگ آپ کے او پر بھڑ کنی شروع ہو جائے گی.اس وجہ سے خدا نے کہا کہ میں نے محمد کو افضل الرسل اور خاتم الانبیا بنادیا اور اسی وجہ سے ہم آپ کو، ان ساری چیزوں کو دیکھتے ہوئے.افضل الرسل اور خاتم النبیین سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.”ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلۂ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا بی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں.جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا اور ایسی قبولیت اس کو ملے گی کہ کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں رہے گی.زندہ خدا جو لوگوں سے پوشیدہ ہے اس کا خدا ہو گا.اور جھوٹے خدا سب اس کے پیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے.“ (سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۸۳٬۸۲) اور وہ آخری پہلو جو میں نے نوٹ کئے ہیں ان میں سے آخری یہ ہے کہ تمام انبیاء جو پہلے گزرے تھے ان میں جو بھی ہر نبی میں کمال تھا تمام انبیاء کے کمالاتِ متفرقہ جو تھے وہ اس ایک وجود میں جمع کر دیئے.( نعرے) اور اس حقیقت کی طرف قرآنِ کریم کی آیت کا یہ حصہ اشارہ کرتا ہے.فَيَهُدُهُمُ اقْتَدِه (الانعام:۹۱) تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کر لے جو ایک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام ان اخلاق فاضلہ کا جامع ہیں جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے.إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ( القلم : ۵) تو خلقِ عظیم پر ہے...اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ و شمائل حسنہ نفسِ انسانی کا حاصل ہو سکتے ہیں وہ تمام اخلاق کاملہ نامہ نفس محمدی میں موجود ہیں.سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں.اور
خطابات ناصر جلد دوم ۵۰۲ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء اسی کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ کہ آنحضرت صلی علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے.وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ( النساء:۱۱۴) یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے.( کیونکہ سارے انبیاء کے کمالات جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کئے تھے اللہ تعالیٰ نے وہ تجھے عطا کر دیئے اور ایک وجود میں وہ سارے کمالات جمع ہو گئے کمالات متفرقہ.ناقل ) براہین احمدیہ حصہ چہار قصص روحانی خزائن جلد نمبر صفحه ۶۰۶ حاشیه در حاشیه نمبر۳) اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کو ختم کرنے والے اپنے کمالات تامہ کے ساتھ.اللہ تعالیٰ کی برکات اور رحمتیں اور صلوات وسلام ہوں آپ پر ( نعرے).یہ تو نسبتی فضیلتیں جن کا میں نے ذکر کیا.کائنات کے لحاظ سے خاتم الکل انسان کے لحاظ سے خاتم انسانیت مومنوں کے لحاظ سے خاتم المومنین عارفوں کے لحاظ سے خاتم العارفین انبیاء کے لحاظ سے خاتم الانبیاء لیکن ایک فضیلت ایسی ہے جو نسبت سے نہیں بلکہ اپنی ذات میں وہ ایک کامل فضیلت نے اور وہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم الوہیت کے مظہر اتم تھے تمام صفات الہیہ کے اتم و اکمل مظہر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور اسلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۸) رای مارای میں بھی یہی بتایا گیا ہے یہ وہ جو ہے اپنی ذات میں افضیلت اور کمال قطع نظر نسبتوں اور موازنہ کے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا کہ آپ افضل ہیں اپنی ذات میں وہ یہ ہے وہ مقام کہ جس کا انسان کی عقل اندازہ نہیں لگا سکتی.اشارے قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں اور
خطابات ناصر جلد دوم ۵۰۳ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء اسی پر ہم ایمان رکھتے ہیں اور وہی چیز ہمارے دلوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو اور پیار کو پیدا کرتی ہے.وہی چیز ہمارے دلوں میں یہ تڑپ پیدا کرتی ہے کہ ہم آپ کے نقش قدم کی تلاش کریں اور ان راہوں پر چلیں جن راہوں پر آپ چلتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جس کا نفسی نقطہ انتہائی درجہ کمال ارتفاع پر واقع ہے.یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه ۲۵۱ بقیه حاشیه ) اس کے لئے اس کے سمجھنے کے لئے دو چیزوں کا سمجھنا ضروری ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے عبودیت کی راہوں کو اس طرح اختیار کیا نا عبدُه وَرَسُولُهُ کہ کسی اور انسان کو وہ مقام حاصل نہیں.اور محبت ذاتی یعنی جس میں لالچ کوئی نہیں تھی.جو معرفت اور خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کی شناخت کے بعد پیدا ہوتی ہے ایک ایسا عشق جو کلی طور پر اپنے محبوب میں فنا کو چاہتا ہے اور عملاً ایسا ہی ہو جاتا ہے.ان دو چیزوں کے نتیجے میں مظہر اتم صفات الوہیت جسے ہم کہتے ہیں وہ حالت پیدا ہوئی عبودیت اور محبت ذاتی.اور اس مقام کے نتیجہ میں آپ نے امت محمدیہ میں ایسے گروہ پیدا کئے جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ اپنے پر چڑھائے ہوئے تھے اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت ہے عبودیت کی اور جو آپ کی کیفیت ہے محبت ذاتی کی وہ تو ہم جان نہیں سکتے وہاں تک ہماری پہنچ نہیں.لیکن جو آپ نے اپنی امت میں عبودیت کے رنگ میں رنگے ہوئے اور محبت ذاتی میں مست اور خدا کے عشق میں فنا ہونے والے پیدا کئے وہ ہمارے سامنے آ جاتے ہیں.اس سے ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کا معلم اور استاد اور ان کا بادشاہ اور آقاکس بلندشان کا تھا.صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان دو گروہوں کی جن کی تربیت عبودیت اور محبت ذاتی کے رنگ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے یہ بیان کی ہے.آپ فرماتے ہیں.اور منجملہ ان عطیات کے ایک کمال عظیم جو قرآن شریف کے کامل تابعین کو دیا جاتا ہے عبودیت ہے یعنی وہ باوجود بہت سے کمالات کے ہر وقت نقصانِ ذاتی اپنا پیشِ نظر رکھتے ہیں اور بشہود کبریائی حضرت باری تعالیٰ ہمیشہ تذلل اور نیستی اور انکسار میں رہتے ہیں اور اپنی اصل حقیقت ذلت اور مفلسی اور ناداری اور پر تقصیری اور خطاواری سمجھتے ہیں اور ان
خطابات ناصر جلد دوم ۵۰۴ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء تمام کمالات کو جو ان کو دیئے گئے ہیں اس عارضی روشنی کی مانند سمجھتے ہیں جو کسی وقت آفتاب کی طرف سے دیوار پر پڑتی ہے.جس کو حقیقی طور پر دیوار سے کچھ بھی علاقہ نہیں ہوتا اور لباس مستعار کی طرح معرض زوال میں ہوتی ہے پس وہ تمام خیر و خوبی خدا ہی میں محصور رکھتے ہیں اور تمام نیکیوں کا چشمہ اس کی ذات کامل کو قرار دیتے ہیں اور صفات الہیہ کے کامل شہود سے ان کے دل میں حق الیقین کے طور پر بھر جاتا ہے کہ ہم کچھ چیز نہیں ہیں.یہاں تک کہ وہ اپنے وجود اور ارادہ اور خواہش سے بکلی کھوئے جاتے ہیں اور عظمت الہی کا پُر جوش دریا ان کے دلوں پر ایسا محیط ہو جاتا ہے کہ ہزار ہا طور پر نیستی ان پر وارد ہو جاتی ہے اور شرک خفی کے ہر یک رگ وریشہ سے بکی پاک اور منزہ ہو جاتے ہیں.“ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد نمبر اصفه۵۴۳٬۵۴۲ حاشیه در حاشیہ نمبر۳) یہ وہ ایک گروہ ہے امتِ مسلمہ میں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں عبودیت کے اس مقام کو حاصل کیا جو مقام ان کے استاد اور مربی کا ہے وہ تو جیسا کہ قرآن کریم نے بتایارای مارای ہماری سمجھ اور عقل سے بالا ہے بہر حال عبودیت کا ایک بلند مقام اور افضیلت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوئی.اور دوسرے محبت ذاتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.از انجملہ ایک مقام محبت ذاتی کا ہے جس پر قرآن شریف کے کامل متبعین کو قائم کیا جاتا ہے اور ان کے رگ وریشہ میں اس قدر محبت الہی تاثیر کر جاتی ہے کہ ان کے وجود کی حقیقت بلکہ ان کی جان کی جان ہو جاتی ہے اور محبوب حقیقی سے ایک عجیب طرح کا پیاران کے دلوں میں جوش مارتا ہے اور ایک خارق عادت انس اور شوق ان کے قلوب صافیہ پر مستولی ہو جاتا ہے کہ جو غیر سے بکلی منقطع اور گستہ کر دیتا ہے اور آتشِ عشق الہی ایسی افروختہ ہوتی ہے کہ جو ہم صحبت لوگوں کو اوقات خاصہ میں بدیہی طور پر مشہود اور محسوس ہوتی ہے بلکہ اگر محبانِ صادق اس جوش محبت کو کسی حیلہ اور تدبیر سے پوشیدہ رکھنا بھی چاہیں تو یہ ان کے لئے غیر ممکن ہو جاتا ہے.جیسے عشاق مجازی کے لئے بھی یہ بات غیر ممکن ہے کہ وہ اپنے محبوب کی محبت کو جس کے دیکھنے کے لئے دن رات مرتے ہیں اپنے رفیقوں اور ہم
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء صحبتوں سے چھپائے رکھیں بلکہ وہ عشق جو ان کے کلام اور ان کی صورت اور ان کی آنکھ اور ان کی وضع اور ان کی فطرت میں گھس گیا ہے اور ان کے بال بال سے مترشح ہورہا ہے وہ ان کے چھپانے سے ہرگز چھپ ہی نہیں سکتا.اور ہزار چھپائیں کوئی نہ کوئی نشان اس کا نمودار ہو جاتا ہے اور سب سے بزرگ تر ان کے صدق قدم کا نشان یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب حقیقی کو ہر یک چیز پر اختیار کر لیتے ہیں اور اگر آلام اس کی طرف سے پہنچیں تو محبت ذاتی کے غلبہ سے برنگ انعام ان کو مشاہدہ کرتے ہیں اور عذاب کو شربت عذب کی طرح سمجھتے ہیں.کسی تلوار کی تیز دھاران میں اور ان کے محبوب میں جدائی نہیں ڈال سکتی اور کوئی بلدیہ عظمیٰ ان کو اپنے اس پیارے کی یادداشت سے روک نہیں سکتے اسی کو اپنی جان سمجھتے ہیں اور اسی کی محبت میں لذات پاتے اور اسی کی ہستی کو ہستی خیال کرتے ہیں اور اسی کے ذکر کو اپنی زندگی کا ماحصل قرار دیتے ہیں.اگر چاہتے ہیں تو اسی کو اگر آرام پاتے ہیں تو اسی سے.تمام عالم میں اسی کو رکھتے ہیں اور اسی کے ہو رہتے ہیں.اسی کے لئے جیتے ہیں.اسی کے لئے مرتے ہیں.عالم میں رہ کر پھر بے عالم ہیں اور با خود ہو کر پھر بے خود ہیں نہ عزت سے کام رکھتے ہیں نہ نام سے نہ اپنی جان سے نہ اپنے آرام سے بلکہ سب کچھ ایک کے لئے کھو بیٹھتے ہیں اور ایک کے پانے کے لئے سب کچھ دے ڈالتے ہیں.لا یدرک آتش سے جلتے جاتے ہیں اور کچھ بیان نہیں کر سکتے کہ کیوں جلتے ہیں اور تفہیم اور فہیم سے صسم و بکم ہوتے ہیں اور ہر یک مصیبت اور ہر یک رسوائی کے سہنے کو طیار رہتے ہیں اور اُس سے لذت پاتے ہیں.( براہین احمدیہ چہار حصص روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۴۰،۵۳۹ حاشیه در حاشیه نمبر۳) یہ شاگرد ہیں جو استاد ہے اس کا مقام ہم نہیں سمجھ سکتے وہ اتنا بلند ہے یہ عبودیت کا مقام اور یہ محبت کا افضل مقام ، ان دو افضلیتوں کے نتیجہ میں وہ عظیم افضلیت، وہ فضیلت، وہ مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا جو اپنی ہی شان رکھتا ہے اور دنیا جو ہے وہ سمجھ ہی نہیں سکتی کہ یہ کیسے ہو گیا کہ ہم میں سے ایک انسان مظہر اکمل واتم صفات باری تعالی بن گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.کہ وہ اپنے جیسا خدا بھی نہیں بناتا کیونکہ اس کی صفت احدیت اور بے مثل اور مانند ہونے کی جو ازل ابدی طور اس میں پائی جاتی اس طرف توجہ کرنے سے اس کو روکتی ہے ہاں
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء اس طرح پر وہ اپنی ذات بیمثل و مانند کانمونہ پیدا کرتا ہے کہ اپنی ذاتی خوبیاں جن پر اس کا علم محیط ہے عکسی طور پر بعض اپنی مخلوقات میں رکھ دیتا ہے اور (اپنے.ناقل ) کمالات کا انتہائی درجہ جو حقیقی طور پر اس کو حاصل ہے ظلی طور پر اس مخلوق کو بھی بخش دیتا ہے جیسا کہ اسی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ بھی ہے.وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتٍ (البقرة :۲۵۴) اس جگہ صاحب درجات رفیعہ سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں جن کو ظلی طور پر انتہائی درجہ کے کمالات جو کمالات الوہیت کے اظلال و آثار ہیں بخشے گئے.“ سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۲۳۲ تا ۲۳۵ حاشیه ) پھر آپ فرماتے ہیں اور جو تشبیہات قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخلقی طور پر خداوند قادر مطلق سے دی گئیں ہیں ان میں سے ایک یہی آیت ہے.جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ثُمَّ دَنَا فَتَدَتی.فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى (النجم: ۱۹) یعنی وہ (حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی ترقیات کا ملہ قرب کی وجہ سے دو قوسوں میں بطور وتر کے واقع ہے بلکہ اس سے نزدیک تر.اب ظاہر ہے کہ وتر کی طرف اعلیٰ میں قوس الوہیت ہے سو جب کہ نفس پاک محمدی اپنے شدتِ قرب اور نہایت درجہ کی صفائی کی وجہ سے وتر کی حد سے آگے بڑھا اور دریائے الوہیت سے نزدیک تر ہوا تو اس نا پیدا کنار دریا میں جا پڑا اور الوہیت کے بحر اعظم میں ذرہ بشریت گم ہو گیا.اور یہ بڑھنانہ مستحدث اور جدید طور پر بلکہ وہ ازل سے بڑھا ہوا تھا اور ظنی اور مستعار طور پر اس بات کے لائق تھا کہ آسمانی صحیفے اور الہامی تحریریں اس کو مظہر اتم الوہیت قرار دیں اور آئینہ حق نما اس کو ٹھہر اویں پھر دوسری آیت قرآن شریف کی جس میں یہی تشبیہ نہایت اصفی و اجلی طور پر دی گئی ہے یہ ہے.اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدَ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمُ (الفتح :(1) یعنی جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں.خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے.واضح ہو کہ جولوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرتے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کیا کرتے تھے اور مردوں کے لئے یہی طریق بیعت کا ہے سو اس جگہ اللہ تعالیٰ نے بطریق مجاز
خطابات ناصر جلد دوم ۵۰۷ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو اپنی ذات اقدس ہی قرار دے دیا.اور ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا.یہ کلمہ مقام جمع میں ہے جو بوجہ نہایت قرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بولا گیا ہے اور اسی مرتبہ جمع کی طرف جو محبت تامہ دوطرفہ پر موقوف ہے اس آیت میں بھی اشارہ ہے.مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَبِّي (الانفال: ۱۸) تو نے نہیں چلایا خدا نے ہی چلایا جب کہ تو نے چلا یا ایسا ہی یہ اشارہ اس دوسری آیت میں پایا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (النمر : ۵۴) یعنے ان کو کہہ دے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر اسراف کیا ( یعنی ارتکاب کبائر کیا ) تم خدا کی رحمت سے ناامیدمت ہو وہ تمہارے سب گناہ بخش دے گا.اب ظاہر ہے کہ بنی آدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تو بندے نہیں ہیں بلکہ سب نبی و غیر نبی خدائے تعالیٰ کے بندے ہیں لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مولیٰ کریم سے قرب اتم یعنی تیسرے درجہ کا قرب حاصل تھا سو یہ خون بھی مقام جمع سے سرزد ہوا اور مقام جمع قاب قوسین کا مقام ہے جس کی تفاصیل کتب تصوف میں موجود ہے ایسا ہی اللہ تعالیٰ نے مقام جمع کے لحاظ سے کئی نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے رکھ دیئے ہیں جو خاص اس کی صفتیں ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد رکھا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ نہایت تعریف کیا گیا سو یہ غایت درجہ کی تعریف حقیقی طور پر خدائے تعالیٰ کی شان کے لائق ہے مگرظاتی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ایسا ہی قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور جو دنیا کو روشن کرتا ہے اور رحمت جس نے عالم کو زوال سے بچایا ہوا ہے آیا ہے اور رؤف اور رحیم جو خدائے تعالیٰ کے نام ہیں ان ناموں سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پکارے گئے ہیں اور کئی مقام قرآن شریف میں اشارات و تصریحات سے بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اتم الوہیت ہیں اور ان کا کلام خدا کا کلام اور ان کا ظہور خدا کا ظہور اور ان کا آنا خدا کا آنا ہے چنانچہ قرآن شریف میں اس بارے میں ایک یہ آیت بھی ہے وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
خطابات ناصر جلد دوم ۵۰۸ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء (بنی اسراءیل :۸۲) کہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے بھا گنا ہی تھا.حق سے مراد اس جگہ اللہ جل شانہ اور قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور باطل سے مراد شیطان اور شیطان کا گروہ اور شیطانی تعلیمیں ہیں سو دیکھو اپنے نام میں خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیونکر شامل کر لیا اور آنحضرت کا ظہور فرمانا خدا تعالیٰ کا ظہور فرمانا ہوا ایسا جلالی ظہور جس سے شیطان معہ اپنے تمام لشکروں کے بھاگ گیا اور اس کی تعلیمیں ذلیل اور حقیر ہو گئیں اور اس کے گروہ کو بڑی بھاری شکست آئی.اسی جامعیت تامہ کی وجہ سے سورۃ آل عمران جز تیسری میں مفصل یہ بیان ہے کہ تمام نبیوں سے عہد و اقرار لیا گیا کہ تم پر واجب و لازم ہے کہ عظمت و جلالیت شان خاتم الرسل پر جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ایمان لاؤ اور ان کی اس عظمت اور جلالیت کی اشاعت کرنے میں بدل و جان مدد کرو.اسی وجہ سے حضرت آدم صفی اللہ سے لے کرتا حضرت مسیح کلمہ اللہ جس قدر نبی و رسول گزرے ہیں وہ سب کے سب عظمت و جلالیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کرتے آئے ہیں.(سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه ۴ ۲۷ تا ۲۸۰) اسی طرح آپ فرماتے ہیں:.قرآن شریف میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو.....خدا کا قول اور فعل ٹھہرایا گیا ہے مثلاً قول کی نسبت یہ آیت ہے.وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يُوحَى (النجم :۵،۴) یعنی اس نبی کا قول بشری ہواؤ ہوس کے چشمہ سے نہیں نکلتا بلکہ اس کا قول خدا کا قول ہے.اب دیکھو کہ اس آیت کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کل اقوال خدا تعالیٰ کے اقوال ثابت ہوتے ہیں پھر اس کے مقال پر ایک دوسری آیت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے افعال بھی خدا تعالیٰ کے افعال ہیں جیسا کہ فرمایا ہے.وَمَا رَمَيْتَ اذْرَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَلَى (الانفال: ۱۸) یعنی جو کچھ تو نے چلایا یہ تو نے نہیں بلکہ خدا نے چلایا.پس اس آیت سے ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال بھی خدا تعالیٰ کے افعال ہیں.“ ریویوآف ریلیجنز اردو جلد اوّل نمبر ۵ صفحه ۲۰۵)
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء میں نے بتایا تھا کہ ایک خاتم ہیں آپ نسبتی فضیلتوں اور کمالات کے لحاظ سے جن میں.خاتم الکل خاتم انسانیت خاتم المومنین خاتم العارفین خاتم النبین اور ایک آپ کو افضلیت حاصل ہوئی ہے جو ایک صاف اور مصفی مشفی اور کامل اور حقیقی اور نسبتوں سے پاک افضلیت اور وہ یہ افضلیت ہے کہ آپ نے ایک ایسے مقام عبودیت اور مقام محبت ذاتی کو اپنے رب کی نگاہ میں حاصل کیا کہ اللہ تعالیٰ میں فنا ہو کر اپنے وجود کو کھو بیٹھے (نعرے.نعروں کے دوران فرمایا.ابھی لگاتے ہیں ذرا ٹھہر جائیں.نعرے لگانے کا بھی وقت آجاتا ہے) اور اصل فضیلت فضیلت ہی ہے نسبتی ہو یا حقیقی لیکن آپ کی حقیقی عظمت آپ کا مقام اور شان وہ یہ نہیں ہے کہ کسی نسبت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم بات کر رہے ہیں.( مثلاً ابھی ہم نے انعام دیا ہے ایک بچی کو کہ وہ لڑکیوں میں فرسٹ آئی.اس کو ہم نے سونے کا تمغہ دیا لیکن وہ یونیورسٹی کے نتیجے میں فرسٹ نہیں آئی ) نسبتی چیز کلی طور پر خالص کمال کی طرف اشارہ نہیں کر رہی ہوتی.لیکن جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقتا ملا وہ کامل افضیلت تھی اور وہ کامل افضیلت ملی خدائے واحد و یگانہ کی عبودیت اور محبت میں کامل طور پر فنا ہو جانے کے نتیجے میں اور اس فنا کے نتیجہ میں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد کے خدا میں کوئی فرق نہیں رہا اور خدا تعالیٰ نے جس طرح اپنے وجود اور صفات کے لئے غیرت دکھائی اور اس عالمین میں اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ کی غیرت نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کے جلوے ظاہر کئے.( نعرے) یہ جو ہے نا کامل فنافی اللہ اور ظلی طور پر ایک وحدت کا ہو جانا یہ افضلیت ہے بڑی عجیب اور قرآن کریم نے اس کو بیان کیا اور اس عظمتوں والے رسول کو اس عظمتوں والے نبی کو ہم مانے والے ہیں اوراس ایمان کے نتیجہ میں ہم نے اپنے زندہ خدا کا اپنی زندگیوں میں ایسا مشاہدہ کیا کہ دنیا کی کوئی طاقت ہم سے یہ نہیں کہلو اسکتی کہ خدا نہیں یا اس نے ہم سے یہ پیار نہیں کیا.طارق نے
خطابات ناصر جلد دوم ۵۱۰ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء کشتیوں کا سہارا لینا نہیں چاہا اور اس نے کشتیوں کو جلا دیا اور اپنے افسروں کے پروٹیسٹ (Protest) کے باوجود اس نے کہا مجھے ان کی ضرورت نہیں خدائے واحد و یگانہ پر میرا تو کل ہے.اس وقت دنیا نے اسے پاگل سمجھا لیکن ہوا وہی جو خدا نے چاہا اور آج میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مجھے بھی دنیا کے کسی سہارے کی ضرورت نہیں خدا تعالیٰ میرا سہارا ہے اور اسی پر میرا تو کل ہے اور میں تمہیں بتا تا ہوں کہ اس صدی میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار قائم ہوگا.اسلام غالب آئے گا.دل اس کے لئے جیتے جائیں گے دنیا جو چاہے جیسا چاہے کرلے، جتنا چاہے زور لگا لے.ہوگا وہی جو خدا چاہے گا.(نعرے) (اس موقع پر سٹیج سے حسب ذیل نعرے لگائے گئے اور حاضرین نے اس زور سے نعرے بلند کئے کہ فضا ان نعروں سے گونج اٹھی.نعرہ تکبیر اللہ اکبر خاتم النبین زنده باد خاتم المومنین زنده باد خاتم العارفین زنده باد خاتم انسانیت زنده باد انسان کامل زنده باد خانہ کعبہ پائندہ باد زنده باد اسلام حضرت مسیح موعود کی جے حضرت امیر المومنین زنده باد محبت کا سفیر مرزا ناصر احمد زندہ باد خلیفہ ذوالقرنین زنده باد نعرہ تکبیر آخر میں حضور انور نے فرمایا:.اللہ اکبر
خطابات ناصر جلد دوم ۵۱۱ اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء اب دعا کے ساتھ جلسے کو ختم کریں گے.اللہ تعالیٰ آپ کا ہر جگہ ہی حافظ و ناصر ہو.آپ کی دعاؤں کو قبول کرے.آپ کی غلطیوں کو معاف کرے.آپ کی خطاؤں اور آپ کے قصوروں کو نظر انداز کرے.آپ سے ہمیشہ پیار کرے.آپ کی مدد کرتا رہے.دنیا کے ہر شر سے آپ کو محفوظ رکھے.شیطان کا ہر وار جو آپ پر ہونا کام رہے.دنیا میں جو مبلغین اس وقت پھیلے ہوئے دین اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے.ان کے کاموں میں برکت ڈالے.ان زبانوں میں تا خیر دے.جو دُکھیا انسانیت ہے اللہ تعالیٰ ان کے دکھوں کو دور کرے.ہمارے بھائی جو کابل سے مہاجرین کے پاکستان میں آئے ہوئے ہیں وہ بھی گھر بار چھوڑ کے تکلیفوں میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں ان کے لئے بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی تکلیفوں کو دور کرے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ وہ واپس اپنے گھروں کو جائیں اور عزت اور آرام کے ساتھ اپنی زندگیاں پھر سے بسر کرنے لگیں اور کوئی دھبہ ان کے اوپر نہ لگے کسی کی طرف سے بھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کا سایہ ان کے سروں پر ہو اور ہر تکلیف اور ہر بیماری سے اور ہر زخم سے اور ہر دکھ سے اللہ تعالیٰ انہیں محفوظ رکھے اور اطمینانِ قلب پیدا کرنے کے سامان ان کے لئے پیدا کرے اور کشمیر میں جو ہمارے بھائی ہیں ان کی تکلیفوں کو بھی خدا دور کرے اور دکھیا انسانیت جو اندھی ہے اور انہیں نظر نہیں آرہا کہ کس گڑھے کی طرف ان کے قدم اٹھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو آنکھیں عطا کرے اور جہنم میں گرنے سے انہیں بچالے اور ان راہوں کی طرف ان کی راہنمائی کرے جو خدائے واحد و یگانہ کی رضا کی طرف لے جانے والی ہیں.آؤ دعا کر لیں.نہایت پُر سوز دعا کے بعد جو حضور کی اقتدا میں کی گئی.حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے حسب ذیل دعائیہ کلمات کے ساتھ احباب کو الوداع کہا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.آپ سب کا اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہو.السلام علیکم ورحمۃ اللہ.( از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
۵۱۲ خطابات ناصر جلد دوم
خطابات ناصر جلد دوم ۵۱۳ افتتاحی خطاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۱ء ہماری خواہش ہے کہ ساری دنیا کو اکٹھا کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا جمع کریں افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۱ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة : ١٣٠) هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأَمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلْلٍ مُّبِيْنٍ ( الجمعة :٣) پھر حضور انور نے فرمایا:.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک الہامی دعا سکھائی گئی اور آپ نے وہ دعاخود بھی کی اور اپنی نسل سے بھی کروائی.جو یہ تھی کہ اے ہمارے رب ! انہی میں سے ایک ایسا رسول مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب سکھائے اور حکمت اور دلائل سکھائے اور انہیں پاک کرے یقینا تو ہی غالب ہے اور تیری قدرتوں کا مظاہرہ حکمت کی بنیاد پر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے جو دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کروائی اسے قبول بھی کرنا تھا اور قبول کیا اور اس کا اعلان قرآن کریم میں کیا گیا ، سورۃ جمعہ میں کہ وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی قوم میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو اُن کو خدا کی آیات سناتا ہے اور اُن کو پاک کرتا ہے اور اُن کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے الفاظ کی ترتیب ان دو آیات میں بدلی ہوئی ہے اور جس میں حکمت ہے کیونکہ قرآن کریم قرآن حکیم ہے حکمت بتاتا اور دلیل دیتا ہے.جو قبولیت دعائے ابراہیم کا اعلان ہے اور جس آیت میں یہ اعلان کیا گیا ہے اس میں
خطابات ناصر جلد دوم ۵۱۴ افتتاحی خطاب ۲۶ دسمبر ۱۹۸۱ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الامین میں بھی انہیں میں سے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے عظیم آیات دے کر مبعوث کیا ویز جیمز تا کہ وہ ان آیات کے نتیجہ میں حصول تزکیۂ نفس کی راہ پر چلنا شروع کر دیں.وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب اور تزکیہ نفس کرتے ہوئے جو عظیم شریعت قرآن کریم ، محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعہ سے اس قوم کو دی گئی ہے اُس کا علم زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے لگیں اور اس کی حکمتیں سیکھنے لگیں اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ نشانات کے ذریعے قبول ہدایت کا سامان پیدا ہوا اور ایک حد تک تزکیہ ہو گیا لیکن قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : ۸۰) کہ اس کے علوم حقیقی حقیقی طور پر وہی سیکھ سکتے اور سمجھ سکتے ہیں جن کے اندر تزکیہ نفس پایا جائے تو آیات کے نتیجہ میں ایک حد تک تزکیہ نفس پیدا ہو گیا اور تزکیہ نفس کے نتیجہ میں قرآنی علوم پہلے سے زیادہ انہیں حاصل ہوئے اور قرآنی آیات اور تعلیم کی حکمتیں پہلے سے زیادہ ان کی سمجھ اور فراست اور عقل میں آئیں جس کے نتیجہ میں ان کا تزکیہ ترقی کر گیا اور اس راہ پر وہ آگے بڑھ گئے مزید تزکیہ کے حصول کے بعد انہیں قرآن کریم کے چھپے ہوئے مزید بطون حاصل ہوئے حکمتیں انہوں نے پائیں اور تزکیۂ نفس اور آگے بڑھ گیا زیادہ طہارت اور پاکیزگی انہیں حاصل ہوئی اور اس کے نتیجہ میں قرآنی علوم اور زیادہ انہیں ملے اور کیونکہ قرآن کریم کے علوم غیر محدود ہیں اس لئے اُمت محمدیہ کے لئے غیر محدود ترقیات اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول کی راہیں کھول دی گئیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طریق سے ان لوگوں کی تربیت شروع کی جو آپ پر ایمان لائے جیسا کہ دوست جانتے ہیں قرآن کریم کتابی شکل میں ایک وقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں نہیں دیا گیا بلکہ آیت آیت اتری بلکہ بعض دفعہ آیت کے ٹکڑے مختلف اوقات میں نازل ہوئے اور اپنی جگہ پر بحکم ربی جبرائیل علیہ السلام کی ہدایت کے مطابق وہ رکھ دیئے گئے اور صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح پر ایک عظیم تربیت ہو گئی اتنے پالش ہوئے ، اتنے مہذب بن گئے کہ وہ اپنی وحشت میں مشہور زمانہ تھے اپنے اخلاق میں آسمان کے ستارے کہلائے اور جو نمونہ انہوں نے غیروں کے سامنے پیش کیا اخلاقی لحاظ سے اور علمی فراست کے نتیجہ میں اور دل کے تقویٰ کے لحاظ سے اور احسان دوسروں پر کر کے اور ایک نور جو انہیں دیا گیا اور حسن جو ان میں پیدا کیا گیا اس کا مظاہرہ
خطابات ناصر جلد دوم ۵۱۵ افتتاحی خطاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۱ء کر کے اس نے آہستہ آہستہ دنیا کے دل جیتنے شروع کئے اور جن کے دل جیتے گئے نور کے اس سمندر میں پڑ کر وہ بھی آہستہ آہستہ نورانی بنتے چلے گئے اور وہ اُسوہ اپنی وسعتوں میں پھیلتا چلا گیا اور دُنیا کے جس حصہ تک پہنچا وہاں اس نے اپنا اثر چھوڑا.وہاں اس نے نور پیدا کیا قلوب انسانی میں ، وہاں اس نے حسن پیدا کیا ان کے برتاؤں میں وہاں اس نے اثر پیدا کیا اُن کے نمونہ میں ، اور اوروں کو کھینچا، پھر اوروں کو کھینچا اور جب سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا اس وقت سے لے کر آج تک یہ سلسلہ جاری رہا کبھی زوروں میں رہا جیسا کہ پہلے زمانہ میں کبھی وسعتوں میں بکھرا ہوا ، زور تو تھا لیکن نظر نہیں آرہا تھا کیونکہ پھیلاؤ بہت بہت ہو چکا تھا.کوئی زمانہ ایسا نہیں ان ۴۰۰ سالوں میں کہ جس میں خدا تعالیٰ کے عاشق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی پیدا نہ ہوئے ہوں جنہوں نے صحیح تربیت حاصل کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور ہوتے ہوتے پھر یہ زمانہ آ گیا جس میں مسیح اور مہدی معہود کا نزول مقدر تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی عشق کرنے والا ایک شخص پیدا ہوا اس قسم کی اتباع کہ پہلوں نے بھی لکھا اپنی تحریر میں کہ وہ آنے والا مہدی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس کامل ہوگا یعنی ہر پہلو میں کامل اتباع کرنے والا ایک قدم بھی ادھر اُدھر نہیں اٹھے گا اس کا ، اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ جس غرض کے لئے اسے بھیجے گا اُس مقصد کے حصول کے لئے ایک جماعت پیدا ہوگی جسے آج جماعت احمد یہ کہتے ہیں اور جسے بعض لوگ اپنی ناسمجھی کی وجہ سے قادیانی یا لاہوری گروپ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں.سوال یہ نہیں کہ کس نام سے اُس جماعت کو یاد کیا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا ذمہ داریاں ہیں اس جماعت پر جو انہوں نے پوری کرنی ہیں سوال یہ ہے کہ کون سی نعمتیں ہیں جو اپنی زندگی کی ہر گھڑی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل ہو رہی ہیں سوال یہ ہے کہ جو آیات، جو معجزات ، جو نشانات آسمانی ، صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمانوں کو مضبوط کرنے کے لئے پہلے زمانہ میں نازل ہوئیں کیا اس زمانہ میں جماعت احمد یہ کے افراد پر وہ آیات ، وہ نشانات ، وہ معجزات ظاہر ہورہے ہیں یا نہیں ، سوال یہ ہے کہ جس طرح خدا نے اپنی محبت کے اظہار کے لئے پہلوں سے کلام کیا اس جماعت سے بھی اسی طرح وہ ہم کلام ہورہا ہے جیسا کہ وعدہ دیا گیا تھا اور یہ سب کچھ فیضان محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے گھر
خطابات ناصر جلد دوم ۵۱۶ افتتاحی خطاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۱ء سے تو کچھ نہ لائے خدا کی دین ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے مل رہی ہے آنے والے نے کہا وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے جب تک جماعت احمدیہ کے افراد اس روحانی اور اخلاقی تربیت کو کمال تک پہنچانے کی جد و جہد کرتے رہیں گے اور ہر دکھ سہہ کر دنیا میں سکھ پھیلانے کی کوشش کریں گے گالیاں سنیں گے دعائیں دیں گے ، دکھ پائیں گے خوشحالی کے سامان پیدا کریں گے، جب تک کہ احمدی کی آنکھ خیر دیکھے گی دُنیا کے لئے شر نہیں تلاش کرے گی ، جب تک اُس کی زبان حقارت سے نہیں بولے گی بلکہ عزت کے الفاظ میں ہر انسان کے ساتھ مخاطب ہوگی ، جب تک جوارح خدمت نوع انسانی میں لگے رہیں گے جب تک خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول کے بعد اور زیادہ بجز اور انکساری اور تواضع کی کیفیت دلوں میں پیدا ہوگی اور زمین کی طرف جھکتے چلے جائیں گے اس وقت تک خدا تعالیٰ کی نعمتیں آسمانوں سے بارش کے قطروں سے بھی زیادہ نازل ہوتی چلی جائیں گی اور ہم اپنے کام میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں گے.پس جو ایسی باتیں جن کو آپ کی طبیعتیں پسند نہیں کرتیں وہ سنیں تو خدا کے لئے خدا کے بندوں کے حق میں دعائیں کرنے لگ جائیں اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ ایک دوسرے کو دکھ پہنچائیں.اذیت دیں حقارت کی نگاہ سے دیکھیں انسان نے ایک وقت میں افریقہ کے ممالک میں انسانیت کو اس قدر حقارت کی نگاہ سے دیکھا کہ جب میں ۱۹۷۰ء میں وہاں گیا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ قو میں سمجھتی ہیں.دنیا میں کوئی شخص ان سے پیار کرنے والا پیدا نہیں ہوا اور جب میں نے خدا کے فضل سے اور حضرت مہدی علیہ السلام کی تربیت کے نتیجہ میں ان کے ایک بچہ کو پہلی دفعہ جلسہ عام میں اٹھایا سینہ سے لگایا اور اُسے بوسہ دیا تو خوشی کی اس قدر لہر دوڑی ان کے اندر کہ ویسے خوشی میں آواز نہیں بظاہر لیکن میرے کانوں نے اس خوشی کی لہر کو سنا، مجھے خوشی بھی ملی کہ جو ان کا حق تھا اُن کو ملا اور مجھے دکھ بھی ہوا کہ کس قدر بدنصیبی میں دن گزارے ہیں ان قوموں نے کہ وہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم ان سے پیار کرنے والی ابھی پیدا نہیں ہوئی.پس جو مقصد ہے ہمارا، خدا تعالیٰ کے نور کو دنیا میں پھیلا نا اور
خطابات ناصر جلد دوم ۵۱۷ افتتاحی خطاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۱ء انسان کے سینوں کو اس سے منور کرنا اور جو مقصد ہے ہمارا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سے حسن پیدا کرنا، انسان کی زندگی جس کے نتیجہ میں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو کر ، امت واحدہ بن کر، نوع انسانی سارے ایک ہو کر، ایک خاندان بن جائیں اس مقصد سے نظر نہیں ہٹانی نہیں مٹانی ، نہ ادھر دیکھنا ہے نہ اُدھر دیکھنا ہے، اس غرض کے لئے یہ جلسہ قائم کیا گیا جلسہ قائم کرنے والے نے.اس مقصد کے حصول کے لئے ہم یہاں جمع ہوتے ہیں جس قدر ممکن ہو حاصل کرو کچھ ، جس قدر ممکن ہو حاصل کر کے جو نیک اور پاک باز جو خیر کی باتیں دیکھو وہ دنیا تک پہنچاؤ.عاجزی کے ساتھ ہماری کسی سے لڑائی نہیں.میں نے بار بار ا علان کیا کہ ہم کسی سے دشمنی نہیں رکھتے ان سے بھی جو غلط فہمی کے نتیجہ میں خود کو ہمارے دشمن سمجھتے ہیں ہم ان سے بھی پیا کر کے ان کے لئے دعائیں کرنے والے ہیں اور ہم اُمید رکھتے ہیں کہ اگر آج کی نسل نہیں تو آنے والی نسل ہمارے اس جذ بہ کو پہچان کر ہمارے اندر شامل ہو جائے گی اس لئے نہیں کہ ہمیں کچھ چاہئے بلکہ اس لئے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے یہ بھائی خدا تعالیٰ کے نور اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکتوں سے محروم نہ رہیں جس طرح ہم نے جو پایا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پایا ہماری خواہش ہے کہ ساری دنیا کو اکٹھا کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا جمع کریں.پس اپنے مقام کو پہچانیں اور کسی چیز کی پرواہ نہ کریں وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ( الطلاق : م ) تمہیں تسلی دلائی ہے تمہارے پیارے ربّ نے کہا ہے مجھ پر تو کل کرتے رہنا تمہیں کسی اور کی ضرورت نہیں پڑے گی فَهُوَ حَسْبُهُ اللہ کہتا ہے میں تمہارے لئے کافی رہوں گا بدظنی کریں گے آپ مجھ پہ نہیں کبھی نہیں کریں گے، اللہ ہمارے لئے کافی ہے اس پر ہمارا تو کل ہے خدا تعالیٰ کا جو منصو بہ اس زمانہ میں اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کا ہے اور یہ منصوبہ ہے کہ غالب کرے گا وہ جماعت احمدیہ کی حقیر جاں نثاری کی کوششوں سے، وہ تو پورا ہوگا ہمیں اپنے رب کریم سے بے وفائی نہیں کرنی چاہئے ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن دیکھ کر کسی غیر کی طرف آنکھ نہیں اٹھانی چاہئے ہمیں قرآن کریم کی تعلیم کی عظمتوں کو جاننے کے بعد، شناخت کرنے کے بعد، پہنچاننے کے بعد کسی اور ازم یا تعلیم یا عقیدے کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے.قرآن سمجھنے کے لئے خدا کے حضور عاجزانہ دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں اپنے فضل سے وہ طہارت عطا کرے جس کے نتیجہ میں اس کے
خطابات ناصر جلد دوم ۵۱۸ افتتاحی خطاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۱ء اپنے اعلان کے مطابق کہ لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : ۸۰) قرآن کریم کے خزانے ہمیں ملتے رہیں ہمارے گھر دنیا کے خزانوں سے نہیں قرآن کریم کے خزانوں سے ہمیشہ بھرے رہیں اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو.اب اس افتتاح کے ساتھ میں جاتا ہوں اور آپ اپنے کام میں مشغول رہیں ، سنیں، نیک باتوں کو یاد رکھیں ، ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں، اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھ، عقل عمل صالح کی توفیق عطا کرے اور خدا تعالیٰ ہمیشہ آپ کا حافظ اور ناصر رہے اور کسی اور کے سپر د آپ کو نہ کرے وہی ہمارے لئے کافی ہے.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ (از آڈیو کیسٹ) 谢谢
خطابات ناصر جلد دوم ۵۱۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء ساری دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے جائیں گے دوسرے کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۸۱ء بمقام ربوه ده خطاب شروع فرمانے سے قبل حضور نے یونیورسٹی اور بورڈ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے احمدی طلبہ کو اپنے دست مبارک سے تمغات پہنائے.اس سلسلہ میں حضور انور نے فرمایا:.الحمد للہ، اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ دو سال میں اللہ کے فضل سے بنتیں طلبہ یو نیورسٹیز اور بورڈ میں اوپر کی پوزیشنیں حاصل کر کے اور اول زیادہ ، دوئم اس کے بعد تعداد میں اور چند ایک.تیسری پوزیشن حاصل کی اور چاندی کا تمغہ بھی لیا.جس قدر آپ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں کم ہے.ایک دفعہ ایک ایسے طالبعلم کو جو بہت اچھے نمبر لے کے پاس ہوا تھا داخلہ نہ ملا اس نے ہائیکورٹ میں اپیل کر دی.وہاں جب بحث ہوئی تو جج نے یہ مخالف گروپ کو جو اس کو رڈ کرنے والے تھے، کہا کہ میرے پاس آنے کی بجائے تمہیں خدا تعالیٰ کے پاس جانا چاہئے تھا کہ احمدیوں کو عقل نہ عطا کرے.(نعرے) پھر تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا :.أَصْحَابِي كَا لَتُجُوْمِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ (مشكوة باب مناقب الصحابة ) کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے، اپنے مقصود کو پالو گے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ تمہارا زندہ تعلق ہو جائے گا.میرے نقشِ قدم پر چلنے والے بن جاؤ گے.ان چند الفاظ میں ایک تو یہ بتایا گیا کہ صحابۂ صحابہ میں فرق ہے جیسا کہ عملاً ہماری تاریخ نے بھی ہمیں یہ بتایا.بعض وہ بھی تھے حدیث العہد کہ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت کم صحبت پائی تھی اور آپ کے وصال کے بعد ارتداد کی راہوں کو اختیار کر لیا اور وہ بھی تھے کہ جنہوں نے
خطابات ناصر جلد دوم ۵۲۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحبت سے پورا فائدہ حاصل کیا اور اس کے نتیجہ میں ان کی زندگی میں انقلاب عظیم بپا ہوا اور ایک وقت میں جب ان کو یہ احساس پیدا ہوا کہ ہم کسی وقت زمانہ جاہلیت میں اسلام لانے سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دینے کے منصوبے بھی بناتے تھے اور آپ کے خلاف جنگیں بھی کرتے تھے، آپ کے اصحاب کو قتل بھی کیا ہم نے اور ان کے ایک عقلمند ہمشیر نے انہیں مشورہ دیا کہ تمہارے مُنہ کے دھبے سوائے تمہارے خون کے اور کوئی چیز دھو نہیں سکتی تو ایک سو چالیس نے تین لاکھ قصیر کی فوج پر حملہ کر دیا اور کسی نے دس کو مار کے کسی نے بیس کو مار کے سارے کے سارے وہاں شہید ہو گئے یہ بھی صحابہ تھے.تو یہاں یہ اعلان ہوا.اَصْحَابی“ وہ صحابہ جو میرے کہلانے کے مستحق ہیں ” اَصْحَابی جنہوں نے مجھ سے تربیت حاصل کی ، جنہوں نے زندگی میں کامیابی اور حیات نو حاصل کرنے کا گر اس میں دیکھا، پایا اور عمل کیا کہ:.إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى ( يونس : ١٦) کہ میں تو صرف اس چیز کی اتباع کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوئی.انہوں نے بھی صرف اس چیز کی اتباع کی جو اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعے نازل کیا ، قرآن عظیم قرآن کو سمجھنے کے لئے خدا کی نگاہ میں پاک بننے کے لئے انہوں نے کوشش کی.انہوں نے قربانیاں دیں، انہوں نے اپنے نفس پر بوجھ ڈالا.انہوں نے رفعتوں کے حصول کے لئے جو باتیں قرآن کریم نے بیان کی تھیں ان پر عمل کیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بن گئے اور ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ استعداد اور صلاحیت عطا کی کہ وہ ہادی بن جائیں وہ دوسروں کو ہدایت دینے والے بن جائیں اور ان میں ہمارے بزرگ صحابی مختلف جہات کی طرف گئے اور ایک ایک صحابی جہاں گیا وہاں کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم بپا کر کے اس علاقے کو دائرہ اسلام کے اندر لانے میں کامیاب ہوا.اس میں یہ بھی اعلان کیا گیا کہ مقصود ایک ہی ہے.ہدایت دینے والے مختلف ہوں گے.کوئی ہدایت پائے گا مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کوئی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے میں سارے خلفاء کے نام جان کے نہیں لے رہا.لمبا ہو جائے گا مضمون ) کوئی ان بزرگ صحابہ
خطابات ناصر جلد دوم ۵۲۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء میں سے جو ہمارے خلفائے راشدین میں نہیں تھے لیکن پوری طرح جاں نثار تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق تھے اللہ کے اس کی معرفت رکھنے والے تھے، اس کی عظمتوں کو جاننے والے تھے، اپنی عاجزی کو سمجھنے والے تھے انقلاب عظیم بپاہو چکا تھا ان کی زندگی میں.اور اهْتَدَيْتُم میں یہ اعلان ہوا میرے صحابہ کے نقش قدم پر چلو گے جو میرے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں جو اسوہ نبوی کی پیروی کرنے والے ہیں تو تمہیں بھی اهْتَدَيْتُم وہی مل جائے گا جو ان کو ملا یعنی جو صحابہ کو مقام ملا تمہیں بھی مل جائے گا.اس واسطے کہ جو ان کے عمل ہوں گے وہ تمہارے عمل ہوں گے.اس لئے کہ جو دل ان کے سینوں میں دھڑک رہا ہو گا وہ تمہارے سینوں میں بھی دھڑک رہا ہوگا.اس لئے کہ تمہارے سینے جس نور سے منور ہوں گے ان صحابہ کے سینے بھی اس نور سے منور تھے اس لئے کہ تمہارے دل کی دھڑکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی دھڑکن کے ساتھ ہو گی تو جس طرح وہ ہادی بن گئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ہو کر اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کو پہچان کر آپ کی اتباع کر کے تمہارے لئے بھی وہ رفعتیں ممکن الحصول ہیں.تم حاصل کر سکتے ہوا نہیں.اس کا مفہوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اپنی ہی شان کے ساتھ ایک جگہ ادا کیا ہے مضمون وہاں یہ ہے کہ کسی نبی نے حقیقی معنی میں روحانی قیامت کا نمونہ نہیں دکھایا نوع انسانی کی زندگی میں.صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے انسانی زندگی میں ایک روحانی قیامت کا نمونہ دکھایا.آپ فرماتے ہیں.قیامت کا نمونہ روحانی حیات کے بخشنے میں اس ذات کامل الصفات نے دکھایا جس کا نامِ نامی محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم.سارا قرآن اول سے آخر تک یہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ رسول اس وقت بھیجا گیا تھا کہ جب تمام قو میں دنیا کی روح میں مر چکی تھیں اور فساد روحانی نے بر و بحر کو ہلاک کر دیا تھا.تب اس رسول نے آ کر نئے سرے سے دنیا کو زندہ کیا اور زمین پر توحید کا دریا جاری کر دیا.اگر کوئی منصف فکر کرے کہ جزیرہ عرب کے لوگ اوّل کیا تھے اور پھر اس رسول کی پیروی کے بعد کیا ہو گئے اور کیسی ان کی وحشیانہ حالت اعلیٰ درجہ کی انسانیت تک پہنچ گئی اور کس صدق وصفا سے انہوں نے اپنے ایمان کو اپنے خونوں کے بہانے سے اور اپنی جانوں کے فدا کرنے اور اپنے عزیزوں کے چھوڑنے
خطابات ناصر جلد دوم ۵۲۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء اور اپنے مالوں اور عزتوں اور آراموں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں لگانے سے ثابت کر دکھلایا تو بلا شبہ ان کی ثابت قدمی اور ان کا صدق اپنے پیارے رسول کی راہ میں ان کی جان فشانی ایک اعلیٰ درجہ کی کرامت کے رنگ میں اس کو نظر آئے گی.وہ پاک نظر ( محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی.حضرت اقدس خلیفتہ امسیح الثالث ایدہ اللہ.ناقل ) ان کے وجودوں پر کچھ ایسا کام کر گئی کہ وہ اپنے آپ سے کھوئے گئے اور انہوں نے فنافی اللہ ہوکر صدق اور راستبازی کے وہ کام دکھلائے جس کی نظیر کسی اور قوم میں ملنا مشکل ہے اور جو کچھ انہوں نے عقائد کے طور پر حاصل کیا تھا وہ یہ تعلیم نہ تھی کہ کسی عاجز انسان کو خدا مانا جائے یا خدا تعالیٰ کو بچوں کا محتاج ٹھہرایا جائے بلکہ انہوں نے حقیقی خدائے ذوالجلال جو ہمیشہ سے غیر متبدل اور حی و قیوم اور ابن اور آب ہونے کی حاجات سے منزہ اور موت اور پیدائش سے پاک ہے بذریعہ اپنے رسول کریم کے شناخت کر لیا تھا اور وہ لوگ سچ مچ موت کے گڑھے سے نکل کر پاک حیات کے بلند مینار پر کھڑے ہوئے گئے تھے اور ہر ایک نے ایک تازہ زندگی پالی تھی اور اپنے ایمانوں میں ستاروں کی طرح چک اٹھے تھے.( جیسا کہ نبی کریم نے فرمایا نا کہ اَصْحَابِی گا النُّجُومِ یہ اسی کا مفہوم بیان ہوا کہ ان کے اوصاف کیا تھے.وہ صحابہ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کے ستارے کہا اور فرمایا کہ جو ان کے پیچھے چلے گا وہ اس مقصد کو پا لے گا جو ان کی زندگی کا مقصد حیات تھا.حضرت اقدس خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ.ناقل ) سودر حقیقت ایک ہی کامل انسان دنیا میں آیا جس نے ایسے اتم اور اکمل طور پر یہ روحانی قیامت دکھائی اور ایک زمانہ دراز کے مُردوں اور ہزاروں برسوں کے عظم رمیم کو زندہ کر دکھلایا اس کے آنے سے قبریں کھل گئیں اور بوسیدہ ہڈیوں میں جان پڑ گئی اور اس نے ثابت کر دکھایا کہ وہی حاشر اور وہی روحانی قیامت ہے جس کے قدموں پر ایک عالم قبروں میں سے نکل آیا.“ ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۰۴ تا ۲۰۷) تو یہ معنی ہیں کہ ان کے اندر یہ خصوصیات یہ صفات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجے میں پیدا ہوئیں.دوسری بات ہمیں یہ نظر آتی ہے اسی فرمان اور ارشاد کے مطابق کہ وہیں یہ سلسلہ ختم نہیں
خطابات ناصر جلد دوم ۵۲۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء بلکہ تم بھی ہادی بن جاؤ گے ہدایت پا جاؤ گے اس مقام تک پہنچ جاؤ گے جس مقام پہ وہ پہنچے اور ہدایت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا پھر جو تمہارے نقش قدم پر چلے گا وہ ستارہ بن جائے گا پھر جوان کے نقش قدم پر چلے گا وہ ستارہ بن جائے گا.چودہ صدیاں امتِ مسلمہ کی جس زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی زندگی کی ہمیں سمندر کی لہروں سے بھی زیادہ شان کے ساتھ اہرمیں اٹھتی نظر آ رہی ہیں، اس قسم کے ستارے پیدا ہوئے جو دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کا سبب بنے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ دیکھا اور یہ پرکھا اور یہ پایا تو آپ نے اپنی جماعت کو تلقین کی ان الفاظ میں مضمون لمبا ہے میں نے ایک چھوٹا سا اقتباس لیا ہے اس کا جوڑ ملا دوں ) کہ کسی نبی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ حضرت جبرائیل علیہ السلام انسان کی شکل میں نہیں آئے.کبوتر کی شکل میں آگئے اور شکلوں میں آگئے.انسان کی شکل میں پہلی بار حضرت جبرائیل علیہ السلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش ہوئے.اس سے جو استدلال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا وہ بڑاز بردست ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت اس قدر زبردست ہے کہ روح القدس کو بھی انسانیت کی طرف کھینچ لائی.پس تم (اے احمد یو!.ناقل ) ایسے برگزیدہ نبی کے تابع ہو کر کیوں ہمت ہارتے ہو.تم اپنے وہ نمونے دکھلاؤ جو فرشتے بھی آسمان پر تمہارے صدق وصفا سے حیران ہو جائیں اور تم پر درود بھیجیں.تم ایک موت اختیار کرو تا تمہیں زندگی ملے اور تم نفسانی جوشوں سے اپنے اندر کو خالی کروتا خدا اس میں اترے.ایک طرف سے پختہ طور پر قطع کرو اور ایک طرف سے کامل تعلق پیدا کرو.خدا تمہاری مدد کرے.اب میں ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ تعلیم میری تمہارے لئے مفید ہو اور تمہارے اندر ایسی تبدیلی پیدا ہو کہ زمین کے تم ستارے بن جاؤ اور زمین اس نور سے روشن 66 ہو جو تمہارے رب سے تمہیں ملے.امین ثم امین “ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴ ۸-۸۵)
خطابات ناصر جلد دوم ۵۲۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء یعنی دل میں آپ کے یہ تڑپ تھی کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے پہلے ہزاروں ، لاکھوں، خدا جانے کتنے ؟ آسمان کے ستارے بنے جماعت احمدیہ کے سارے افراد ہی ستارے بن جائیں.( نعرے ) آپ نے فرمایا.اور دعا کرتا ہوں کہ یہ تعلیم میری تمہارے مفید ہو اور تمہارے اندر ایسی تبدیلی پیدا ہو کہ زمین کے تم ستارے بن جاؤ اور زمین اس نور سے روشن ہو جو تمہارے رب سے تمہیں ملے.“ اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ۲ نومبر ۱۹۰۶ء میں ایک کشف دکھائی دیا.آپ فرماتے ہیں.میں نے دیکھا کہ رات کے وقت میں ایک جگہ بیٹھا ہوں اور ایک شخص میرے پاس ہے.تب میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ بہت سے ستارے آسمان پر ایک جگہ جمع ہیں.تب میں نے ان ستاروں کو دیکھ کر اور انہیں کی طرف اشارہ کر کے کہا.آسمانی بادشاہت.اس کی تعبیر میں نے یہ کی کہ آسمانی بادشاہت سے مراد ہمارے سلسلہ کے برگزیدہ لوگ ہیں جن کو خدا زمین پر پھیلا دے گا.“ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه ۵۷۵) اور وہ ستارے بن جائیں گے.دعا تھی ستارے بن جاؤ تم اور ستارے بن گئے تم.یہ دیکھ کر پڑھ کے ، غور کر کے دعا کر کے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ آج میں آپ کو ستارہ احمدیت دوں جو علامت ہو Symbol ہوان برگزیدہ احمدیوں کا جو آسمانی رفعتوں پرستاروں کی طرح پیدا ہوئے اور قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے، جو دنیا کی ہدایت کا سامان بنے اور وہ یہ ہے ( حضور نے اس موقع پر اس کپڑے کی طرف اشارہ کیا جس کے وسط میں یہ ستارہ بنا ہوا ہے.حضور کے ارشاد پر یہ کپڑا اونچا کر کے حاضرین جلسہ کو دکھایا گیا تا وہ اس ستارے کا نظارہ کرسکیں.جو نہی حاضرین کی نظر اس پر پڑی وہ فرط مسرت و محبت میں بلند آواز سے نعرے لگانے لگے.ناقل ) یہ ستارہ احمدیت ہے.بعد میں آئے گا وقت نعرے لگانے کا.ایک بات اور سُن لیں.یہ ستارہ احمدیت ہے جو اللہ کے فضل سے اور دعاؤں کے بعد میں آپ کو دے رہا ہوں.جس طرح اس کا ئنات کی
خطابات ناصر جلد دوم ۵۲۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء بنیاد لَا إِلهَ إِلَّا اللہ ہے.اسی طرح جماعت احمدیہ کا دل لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ہے اس لئے اس ستارے کے دل ( وسط ) میں لَا اِلهَ إِلَّا اللہ لکھا گیا ہے ( نعرے ) یہ ستارہ چودہ کونے کا ہے اور اس میں حکمت یہ ہے.ایک.وہ یہ کہ امت مسلمہ کی زندگی کے ایک دور میں ستارہ چھ کونے کا تھا.پھر ایک نیا دور آیا اور افق حیات امت پر آٹھ کونے کا ستارہ بلند ہوا.پھر ایک تیسرا دور آیا جب دس کونے کا ستارہ اُبھرا.پھر چوتھا دور آیا جس میں بارہ کونے کا ستارہ نمودار ہوا.قدیم عمارتوں پر ان کے نشان باقی ہیں.اور اب چونکہ چودہ صدیاں گزرگئیں، اس واسطے میں نے مناسب سمجھا کہ چودہ کونوں والا ستارہ جماعت کے پیش کروں.( حاضرین نے اس موقع پر نعرہ تکبیر بلند کیا تو حضور نے فرمایا ) ذرا ٹھہریں ایک بات اور سن لیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، آپ نے غزوہ خندق کے موقع پر تین دفعہ اللہ اکبر کا نعرہ لگایا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے اس وقت اللہ اکبر کا نعرہ لگایا.پانچ سات دفعہ کے قریب ( تھوڑے وقت میں جو تلاش کر چکا ہوں) آپ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا سنتِ نبوی یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا کوئی عظیم نشان دیکھا جائے تو اللہ اکبر کا نعرہ لگایا جائے تا کہ ہر چیز خدا کی عظمت کی طرف اور کبریائی کی طرف منسوب ہو اور انسان کے دل میں کوئی ریاء اور شیطنت نہ پیدا ہو تکبر نہ پیدا ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک زندہ نبی ہیں اور آپ کے طفیل ہماری زندگی کی چودہ صدیوں میں ہر صدی نے خدا تعالیٰ کے عظیم نشان دیکھے ہیں.اب نے نہیں، دونے نہیں ہر صدی نے.ہر صدی نے زبانِ حال سے اللہ اکبر" کا نعرہ لگایا.اس واسطے ان چودہ کونوں میں اللہ اکبر“ لکھوا دیا گیا ہے جو آپ کے سامنے ہے.اب لگاؤ نعرے (سب سے پہلے حضور نے از خود اللہ اکبر کا نعرہ نہایت پر شوکت آواز میں لگایا اور پھر حاضرین جلسہ کی طرف سے نعرے بلند ہوئے ).پھر حضور انور نے فرمایا.اب ورد کریں میرے ساتھ مل کے.میں لَا إِلهُ إِلَّا اللہ اور اللہ اکبر کا ورد کروں گا.ورد کرنا ہے ، نعرے نہیں لگانے.(چنانچہ تمام حاضرین نے حضور کی اقتداء میں پندرہ بار لَا إِلهَ إِلَّا اللہ کا ورد کیا اور چودہ بار اللہ اکبر کا ) وه پھر فرمایا.ہر صدی کی طرف سے ہم سب نے اللہ اکبر“ کا ورد کیا اور لَا إِلهُ إِلَّا اللہ کا ورد کیا
خطابات ناصر جلد دوم ۵۲۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء اور اب ہم پندرہویں صدی میں خدا تعالیٰ کے بڑے عظیم نشانوں کو دیکھنے کے لئے داخل ہو چکے ہیں.اب ایک صدی کا ایک نعرہ نہیں.وہ تو گزشتہ نعمتوں کے شکر کے طور پر ان لوگوں کی طرف سے تھا جو اس جہان سے گزر چکے ہیں.ہم نے ذکر کیا ہے.جو سال گزرا ہے اس صدی کا ، اس میں اللہ تعالیٰ نے بے انتہا نشان دکھائے ہیں اور بڑی عظمتوں کے نشان.مثلاً سپین میں سات سو پینتالیس سال کے بعد اللہ کا گھر مسجد مکمل ہوگئی.الحمد لله.اس کے میناروں کی شکل بھی بڑی خوبصورت ہے.پھر ہم پھیلے مشرق کی طرف.ابھی تک ادھر نہیں گئے تھے.جاپان میں اللہ تعالیٰ نے ایک گھر کی خرید کا سامان پیدا کر دیا جس کے لئے اس نے خود رقم اکٹھی کی ہوئی تھی اور جب مجھ سے پوچھا گیا کہ مکان مل رہا ہے.تو میں نے پہلا سوال یہ کیا کہ پیسے کہاں سے آئیں گے؟ تو مجھے دفتر نے جواب دیا کہ پیسے موجود ہیں.خدا تعالیٰ عالم الغیوب ہے اور اس نے غیر ممالک کی جماعتوں کو اس رقم کی ادائیگی کی توفیق دے دی ہے.تو اس سے تو کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے.جو ابدا لآباد تک ہونے والی چیزیں ہیں وہ اس کے علم میں ہیں وہ پیسے مل گئے.بڑی وسعت پیدا ہو رہی ہے کینیڈا اور امریکہ میں.بہت وسعت پیدا ہو رہی ہے افریقہ کے بہت سے حصوں میں.ابھی ہر جگہ تو ہم نہیں پہنچ سکے لیکن جہاں پہنچے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے نشان ظاہر ہورہے ہیں.اور یہ سب پیار اور محبت اور خدمت کا نتیجہ ہے محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کا یہ خیال، عقیدہ یا یہ پیشگوئی جو مرضی سمجھ لیں، یہ تھا کہ آئندہ دنیا میں افریقن ممالک کے ہاتھ میں دنیا کی لیڈرشپ ہوگی اور میں نے ان کو یہی کہا.میں نے کہا کہ ہمارا یہ اندازہ ہے کہ مستقبل میں نوع انسان کی قیادت تمہارے ہاتھ میں ہوگی.ایک شرط ہے کہ اگر تمہارے ہاتھ میں احمدیت کا جھنڈا ہوگا تو نوع انسانی کی قیادت بھی تمہارے ہاتھ میں ہوگی.احمدیت کو وہ قبول کر رہے ہیں بڑی تیزی کے ساتھ اور پہلی خوشکن تبدیلی ان کے اندر یہ پیدا ہوتی ہے کہ احمدیت کو قبول کرنے کے ساتھ ہی وہ عاشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن جاتے ہیں یعنی اس طرح عشق کے ساتھ درود بھیجتے ہیں کہ ان کو چین نہیں آتا درود پڑھے بغیر.اپنی لاریوں کے اوپر لاؤڈ سپیکر لگائے شہروں کے گلی کوچوں میں صَلِّ عَلی نَبِيِّنَا صِلِّ عَلى محمّدٍ - گاتے پھر ر.
خطابات ناصر جلد دوم ۵۲۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء ہوتے ہیں (بے دھڑک ، بے فکر ) اور بڑی برکتیں جماعت وہاں حاصل کر رہی ہے اور ہر وہ جو احمدیت میں داخل ہو گا خلوص دل کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والا ہو گا.آج زنانہ جلسہ گاہ میں میں نے حضرت منصورہ بیگم (نور اللہ مرقدها) کی وفات کا ذکر کر کے ان کو ایک بنیادی حقیقت سے آگاہ کیا تھا.مختصر دو ایک منٹ میں میں آپ کو بھی بتانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے حقیقت، کہ منصورہ بیگم (نور الله مرقدها) نے میرے ساتھ دینی ذمہ داریوں کو نباہتے ہوئے اس طرح زندگی گزاری جس طرح دو چیزیں ایک زندگی گزار رہی ہوں.یعنی یہ بھی درست نہیں ہوگا کہنا کہ ہمیں ایک دوسرے سے پیار تھا کیونکہ اس میں بھی دُوئی پائی جاتی ہے.ہم دونوں نے ایک زندگی گزاری.خاموشی کے ساتھ جتائے بغیر ، اظہار کئے بغیر وہ اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ میری زندگی کے کسی دن میں دو منٹ بھی ضائع نہ ہوں تا کہ وہ دو منٹ میں سلسلہ کے کاموں میں خرچ کر سکوں.ہر کام اپنے ہاتھ سے صفائی کے ساتھ ، وقت کے اوپر میرے کھانے کا خیال رکھنا، میرے پینے کا خیال رکھنا، میری حفاظت کا خیال رکھنا، میرے جذبات کا خیال رکھنا اور میں نے سوچا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نقش قدم پر چلنے والی صرف ایک تو نہیں ہوئیں پیدا، نہ صرف ایک کی ضرورت ہے.میں نے احمدی بہنوں کو یہ کہا کہ اگلے نو سال جو ہیں ہماری زندگی کے وہ بڑے اہم ہیں.مشکل بھی ہیں ایک معنی میں لیکن اتنی رحمتوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں کہ اندازہ نہیں کیا جاسکتا.اس واسطے ہر چیز بھول کے تم بیوی ہو تو خاوند کے ساتھ ایک زندگی گزار و اور وہ ہو دینِ اسلام کو غالب کرنے کی مہم جو ہے اسے کامیاب کرنا.ہر چیز بھول جاؤ.اگر بیٹی ہو تو باپ کے ساتھ ایک زندگی گزارو.اگر بہن ہو تو بھائی کے ساتھ ایک زندگی گزارو.یعنی سارا خاندان (صرف ایک فرد نہیں ) سارا خاندان اور خاندانوں کا مجموعہ ہی جماعتیں اور قو میں بنا کرتی ہیں ) ایک ہو کر انتہائی کوشش کرے کہ وہ عظیم ذمہ داری جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالی اور یہ کہا یہ وعدہ دیا ہمیں کہ اخلاص کے ساتھ کام کرو گے تو جتنا تم سے ہو سکتا ہے وہ کر دینا، باقی سارا میں اپنی طرف سے کر دوں گا اور سارے کی جزا تمہیں دے دوں گا ( نعرے) اور ہم نے دیکھا اپنی زندگیوں میں فرشتے آکے کام کر جاتے ہیں اور جزا اور بدلہ جو ہے وہ ہمارے اعمال میں لکھا جاتا ہے اور برکتیں ہم حاصل کر سکتے ہیں.دھیلہ ہم خرچ کرتے ہیں اور کروڑ کا نتیجہ نکل آتا ہے.یہ باقی اتنی بڑی رقم کہاں سے آگئی ؟ برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے.
خطابات ناصر جلد دوم ۵۲۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء میں نے پہلے بھی بتایا ہے مجھے کسی نے کہا 'نصرت جہاں ریزرو فنڈ میں ترین لاکھ کے قریب رقم جمع ہوئی تو بعض سمجھدار خلوص نیت رکھنے والے انہوں نے کہا مجھے اسے تجارت پر لگا دیں اور جو آمد ہو اس سے کام کریں.میں نے پوچھا کتنا نفع مجھے مل جائے گا.ایک صاحب نے کہا بارہ، چودہ فیصد مل جائے گا.میں نے کہا دیکھیں ! جس سے میں تجارت کرنا چاہتا ہوں اس نے تو مجھ سے وعدہ کیا ہے میں بغیر حساب کے دوں گا اور بغیر حساب کے دیا.ترپن لاکھ آپ نے کل سرمایہ دیا تھا اور اس سال کا بجٹ ساڑھے تین کروڑ.ترتین لاکھ سرمایہ اور ایک سال کا بجٹ ساڑھے تین کروڑ.تو ہم نے کیا قربانی دی ترین لاکھ ؟ اور ساڑھے تین کروڑ کا سامان خدا تعالیٰ نے کر دیا اپنے فرشتوں کو بھیج کر.مثلاً ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا دی.کوئی منڈی آپ کے علم میں ایسی ہے جہاں شفا بکتی ہو؟ میرے علم میں ایک منڈی ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی منڈی ہے.وہاں سے مل گئی ہمیں.( نعرے) تو یہ میں نے ان کو اچھی طرح سمجھانے کی کوشش کی ہے آپ کو ان کے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا اور انہیں آپ کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا.ساری جماعت کو ایک خاندان کی طرح، ہر خاندان کو ایک فرد کی طرح یعنی یوں بالکل جڑے ہوئے.ایک جہت ہماری مقرر ہے.مست خدا تعالیٰ کے عشق میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں دیوانہ اور ایک مقصد سامنے ہے کہ ہم نے ساری دنیا کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے (نعرے).اگر ہمیں کوئی گالی دیتا ہے تو میں سچ کہتا ہوں کہ میرے پاس وقت نہیں ہے کہ اس کی طرف توجہ بھی کروں.اگر کوئی خنجر گھونپنے کی کوشش کرتا ہے تو اتنا وقت نہیں کہ میں ہاتھ سے اس کو پرے ہٹاؤں.وہ اور قصہ ہے.وہ ایک اور وعدہ ہے ایک حسین بیان ہے.قرآن کریم میں.قرآن کریم میں آتا ہے.فَاصْفَحُ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَمُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (الزخرف : ٩٠) یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اس کے نئے معنی سکھائے ہیں ایک نیا بطن ظاہر ہوا ہے نظر انداز کر دو ان کو اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ در گزر کر و.مگر میں اس وقت وہ معنی نہیں کر رہا.نظر انداز کر دو ان کو قُل سلم“ اور کہہ دو انہیں کہ ہم خدا کی پناہ اور حفاظت میں ہیں.فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ جلد ہی انہیں پتہ لگ جائے گا.( نعرے) اور ہماری دعا ہے کہ جلد ہی انہیں
خطابات ناصر جلد دوم ۵۲۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء اس رنگ میں پتہ لگے کہ جس صداقت کو ہم نے پایا وہ بھی پالیں اور جو انعام ہمیں مل رہے ہیں انہیں بھی ملنے شروع ہو جائیں.یہ آج کا عنوان جو ہے وہ عام باتیں جو گزریں، جو ہوئیں.تعلیمی منصوبه دوسری چیز جو ہے وہ تعلیمی منصوبہ ہے میں نے اپنے پچھلے سال کے تین براعظم کے دوروں میں بھی جماعت کو یہ کہا کہ اس وقت یہ مہذب دنیا بہت آگے نکل چکی ہے علمی میدان میں.اس میں کوئی شک نہیں لیکن ہیں مفلوج.یعنی جو علم کے میدان چار تھے ان میں سے صرف دو میں آگے نکلے.جسمانی طاقت سے جو لم تعلق رکھتا تھا اس میں آگے نکلے.جو ذہنی علم ہے اس میں آگے نکلے لیکن اخلاقی علوم میں روحانی اسرار جو ہیں ان کا تو انہیں کچھ پتہ ہی نہیں.اس واسطے انہیں ہم مفلوج کہہ سکتے ہیں آگے نکلے ہم لیکن میں نے اپنی جماعت کو کہا ہر جگہ جہاں میں گیا کہ جب تک ہم علم کے میدان میں انہیں شکست نہیں دیں گے اسلام کی بالا دستی ان سے نہیں منوا سکتے.یہ منصوبہ علمی ویسے ہی نہیں بن گیا.اس کے پیچھے یہ تصور یہ حقیقت جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھائی تھی اس کے اوپر میں نے بنیا درکھی تھی اس کی جس میں تم نے بھی ملے ، جس میں اور بہت ساری چیزیں شامل ہیں.ہم نے ساری دنیا کے سب سے بڑے عالموں کو علم کے میدان میں شکست دینی ہے.جس طرح ہم سے پہلے بزرگوں نے دی انہیں اور اس طرح اسلام کی برتری ثابت کرنی ہے.(نعرے) اس سلسلہ میں وظائف بھی ہیں، تم نے بھی ہیں.یہ اعلان بھی ہے کہ جہاں جینیئس (Genius) ملیں گے ہم سنبھالیں گے جتنا بھی جماعت کو خرچ کرنا پڑے وہ خرچ کریں، ہمیں اپنی جائیداد میں بیچ کے بھی ذہن کو جلا دینی پڑے ہمیں روشنی پیدا کرنی چاہئے اور جیسا کہ ابھی آپ کو پتہ لگا، اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا.دو سال میں بنتیں تمغے ہمارے ہونہار بچوں نے صاحب فراست نے لئے اور بڑا جذ بہ پیدا ہو گیا ہے لیکن میں کہتا ہوں ابھی کم ہے.تیز کر واپنے جذ بے کو.آگے نکلو سب سے.احمد یہ بک ڈپو ایک اور چیز جس کی کمی تھی وہ تھی قادیان میں تھا احمد یہ بک ڈپولیکن حالات بدلے وہاں سے
خطابات ناصر جلد دوم ۵۳۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء ہجرت ہوئی.سارا کچھ وہاں چھوڑ آئے.اپنی لائبریری بھی وہاں چھوڑ آئے.چند کتابیں بڑی مشکل سے وہاں سے نکالی گئی تھیں اور کوئی ایک جگہ نہیں رہی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض ایسی کتابیں پ گئیں (آزادی سمجھی گئی نا ) کہ جو چھینی نہیں چاہئیں تھیں اور بعض ایسی کتابیں بھی دستیاب نہ رہیں جو ہر وقت موجود رہنی چاہئیں تھیں.قرآن کریم کی تفسیر ہے.اگر ایک دن بھی ہماری جماعت کی زندگی میں ایسا آتا ہے کہ ہمارا بچہ جوان ہو کے کہتا ہے میں نے قرآن کریم کی تفسیر پڑھنی ہے اور ہمارا دوکاندار کہتا ہے کہ یہ تو ختم ہوئی ہوئی ہے.Out Of Print ہے تو بڑا ظلم ہو جائے گا اور پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا ( یہاں کے دوکانداروں سے معافی مانگ کے یہ بات بتا رہا ہوں ) کہ تفسیر صغیر چھپی دو دوسو لے لی.جب ختم ہوگئی تو دوسرا ایڈیشن چھپنے میں بہر حال کچھ دیر گتی ہے اس عرصے میں جو نسخے ایک تیس روپے میں لیا وہ کسی نے دوسوروپے کی بچا کسی نے پانچ سوروپے میں بیچا.میں نے سوچا کہ جو ہماری بنیادی کتابیں ہیں.ان میں جو اخلاص ہے اور جو روحانی ضرورت ہے اس کو بلیک نہیں ہونے دوں گا.اس واسطے آپ نے دیکھا ہوگا ( کم از کم باہر سے بہت ساروں نے ) وہ ایک عمارت بن گئی.ظاہر سے بھی خوبصورت ہے اور جگہ بڑی ہے اندر کتابیں رکھنے کی.ابھی تو کام شروع کرنا تھا.تعمیر میں کچھ دیر ہوئی تھی.تو ۱/۴ حصے میں بارہ تیرہ ہزار کتب آگئی تھیں اور میرے خیال میں خالی ہو جائے گا.خدا کرے کہ وہ سارا خالی ہو جائے پھر پھرنی پڑیں ہمیں.اگلے جلسے تک پچاس ساٹھ ہزار کتا بیں بکاؤ اس کے اندر ہوں گی.ہر وہ کتاب جو آپ کے لئے ضروری ہے وہاں اس کے نسخے موجود ہوں گے.ایک تو یہ ہے کہ وقت ضائع کئے بغیر آپ وہاں سے خرید سکتے ہیں دوسرے یہ کہ کنٹرول ریٹ پہ خرید سکتے ہیں.یعنی قیمت اس کی واجب ہوگی اور نفع کے لئے تو ہمارا ایک جھگڑا رہتا ہے ایک محکمے سے وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ساری دنیا قرآن کریم سے مالی فائدہ اٹھا رہی ہے یہ ضرور اٹھاتے ہوں گے چھپاتے ہیں.حالانکہ اگر ایک دھیلہ نفع ملے ہمیں جو اوپر کے خرچ پورے کر جائیں تو دوسرا دھیلہ بھی لینا سمجھتے ہیں کہ بُری بات ہے.ہمارے تو دل میں تڑپ ہے قرآن کی اشاعت کی.ہمارے دل میں یہ تڑپ ہے کہ ہماری نسلیں جو ہیں وہ قرآنی علوم سے محروم نہ رہ جائیں.ہمارے دل میں یہ تڑپ ہے کہ
خطابات ناصر جلد دوم ۵۳۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اتنے عظیم ارشادات ہیں جو آج کی سائنس بھی سن کے حیران ہو جاتی ہے.اتنا پیار کرنے والا وہ وجود ( درود بھیجا کرو جس حد تک ممکن ہو ) آج سے چودہ سو سال پہلے آپ کے دانت اور مسوڑھے کا خیال رکھا انہوں نے.ایک بڑا اچھا ہمارا احمدی ڈینٹسٹ (Dentist) تھا.وہ کہنے لگا نئی معلومات میں سے ہماری ایک نئی ایجاد کہ برش جو ہے وہ نیچے سے اوپر کیا جائے.اوپر سے نیچے نہ کیا جائے مسوڑھوں کو تکلیف ہوتی ہے.میں نے کہا یہ آج آپ لوگوں نے معلوم کیا ؟ یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اس وقت برش نہیں تھا مسواک تو تھی کہ مسواک اس طرح کرو کہ مسوڑھے زخمی نہ ہوں.اس طرح کرو بتائی ترکیب.جس شخص نے آپ کے مسوڑھے کی بہبود کے لئے سوچا اور دعا کی اور خدا سے علم پایا اور آپ تک پہنچا دیا.اتنے احسان ہوں گے، گن نہیں سکتے آپ.میں سچ کہتا ہوں آپ نہیں گن سکتے لیکن آپ جو درود بھیجتے ہیں وہ تو گن سکتے ہیں.کتنا ظلم ہے بغیر حساب کے لے کے حساب میں دعا دینا واپس.اس واسطے جتنا درود ہو وہ کریں.خدا تعالیٰ کو جتنا یاد ہو وہ کریں.اور یہ اب میں بات کر رہا ہوں ضرورت کی.وہ ضرورت پوری ہوگئی.ادھر ادھر جانے کی بجائے وہاں جائیں.ابھی ابتداء ہے میری نگرانی میں ہے.ابھی تک ابتداء.جب اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے گی.پھر کسی اور کام کو لے کے اس طرف توجہ پھیر دوں گا لیکن فی الحال میں ذاتی طور پر اس میں دلچسپی لے رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ دنیا کی کوئی بہترین کوئی بک شاپ ہو تو اس سے اچھی ہو یہ اور سب سے اچھی کی نہیں ) جو اچھی بک شاپ ہے ان میں سے ایک کی خصوصیت یہ ہے کہ بلیک ویلز (آکسفورڈ میں بہت بڑی دکان ہے دنیا کی مشہور دوکان کتابوں کی ) اتنا خیال رکھتے ہیں گاہک کے وقت کا کہ میرا اپنا حساب تھا ان کے ساتھ تو مجھے کوئی کتاب کی ضرورت ہوتی تھی میں کتاب لینے کے لئے دوکان میں داخل ہوتا تھا.( کھلی کتابیں پڑی ہوئی ہیں Shelves میں ) اپنے مطلب کی کتاب لے کے اٹھائے جو کاؤنٹر پر آدمی بیٹھا ہوتا تھا اس کو میں کہتا تھا یہ میں لے جارہا ہوں.وہ کہتا Yes Sir نہ میرا نام پوچھتا تھا.نہ کتاب کا نام پوچھتا تھا.نہ اس کی قیمت دیکھتا تھا.سب کچھ اس کے دماغ میں حفظ ہوتا تھا اور ٹرم کے ختم ہونے کے اوپر وہ قیمت لے لیتا.اصل یہ تھی کہ جو خریدار ہے اس کا وقت ضائع نہیں کرنا.یہاں تو قیمت کے اوپر جھگڑا ہو جائے گا تو
خطابات ناصر جلد دوم ۵۳۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء ایک گھنٹہ بحث ہوتی رہے گی اور سمجھا جائے گا گھنٹے کی کوئی قیمت ہی نہیں انسان کی زندگی میں.تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ سکھائیں گے ان کو بلکہ ایسے طریقے نکالیں گے کہ گاہک کو ایک سیکنڈ بھی ضائع نہ کرنا پڑے.اب بھی میں نے کہا تھا کہ اپنے آرڈر بیس باہر سے آنیوالے دوستوں کو دے دو.ان کو اپنا آرڈر لکھ کے اوپر.اپنی فہرست دے دو.ساتھ قیمتیں لکھ دیں.ان کی جمع کریں اور ہمیں بھیج دیں.وہی بالکل قیمت جو انہوں نے اپنے آرڈر بک کے اوپر ہے وہ اپنی جیب میں ڈالیں.وہاں آئیں.پیکٹ پڑا ہو گا.پیسے ہاتھ میں پکڑا ئیں.رسید لیں (اور رسید پہلے کئی ہوئی ہو گی.اور اپنا وہ ( پیکٹ ) اٹھائیں اور واپس چلے جائیں تا کہ وقت ضائع نہ ہو.اس کا نام رکھا ہے ہم نے ، ایک نام بنیادی نام عربی میں.مَخْزَنُ الْكُتُبِ الْعِلْمِيَّةِ اور ابھی فی الحال دس پندرہ نام کی تختیاں اس کے اوپر لگ جائیں گی.مثلاً بلوچی میں، سندھی میں ، پختون زبان میں سرحد کی زبان میں ، کثر پنجابی میں ( پتہ نہیں کیا ہو گا ) تو یہ سارے نام لکھے ہوئے ہوں گے.جرمن زبان فرانسیسی میں بک شاپ کا ترجمہ سپینش میں ترجمہ جہاں ہمارے مشنز ہیں ان میں اور بک ڈپو ہے.فرانس کا پتہ لگا ہے کہ لائبریری تلفظ ان کا اور ہے.ان کا ترجمہ یہ لکھ دیں گے تاکہ پوچھنا بھی نہ پڑے.جب گزریں تو اپنی زبان میں سمجھ جائیں کہ یہاں کتا بیں فروخت ہوتی ہیں.بہر حال اس سے فائدہ اٹھائیں اور مناسب اور جائز قیمت پر آپ کو مل جائیں گی.ایک جگہ سے مل جائیں گی قریباً ساری کتابیں اور یہ بھی کنٹرول ہو جائے گا کہ رطب و یا بس آپ کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش نہ کرے.اس سلسلے میں ایک تحریک ہوتی ہے اخباروں کی.وہ میں پڑھ دیتا ہوں.تحریک آپ خود اپنے دل میں کر لیں کہ خریدیں گے ہم.الفضل ہے.ریویو آف ریلیجنز ، مصباح ، خالدہ، تفخیذ الاذہان، ماہنامہ تحریک جدید ہفت روزہ لاہور اور بہت ساری کتب.قرآن پبلیکیشنز نے متن قرآن کریم کا جس کو کہا جاتا ہے.’حمائل، جیبی اور ذرا درمیانے سائز کی، بچوں کے لئے قاعدہ یسرنا القرآن کی تختی یعنی
خطابات ناصر جلد دوم ۵۳۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء کتابت میں ہے.بڑی جلدی بیچے پڑھ جاتے ہیں.اسی طرح نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف نے چھ نئی کتا بیں شائع کی ہیں ، وہ وہاں سے ان کا بھی پتہ کر لیں.الشرکۃ الاسلامیہ نے شائع کی ہیں.مجلس انصار اللہ کی کتب ہیں.خدام الاحمدیہ کی کتب ہیں.بچوں کے لئے یہ سلسلہ بڑا مفید ہے اور بچے بھی مختلف عمروں کے ہوتے ہیں نا.مثلاً ایک اچھے پڑھے لکھے آدمی کو (احمدی نہیں تھے وہ ) کسی ان کے دوست نے دی بلال.اب یہ چالیس صفحے کے قریب چھوٹا سا رسالہ ہے اور اس کو کہا یہ بچے کے لئے ہے تو پڑھ کے کہنے لگا یہ بچوں کے لئے ہے؟ اتنی تو میں نے اثر پیدا کرنے والی کوئی کتاب نہیں آج تک پڑھی.یہ تو رلا دیتی ہے.بات ٹھیک ہے آپ کے بچوں کو پتہ لگنا ہئے کہ ایمان اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق کن قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے.ایک انگریز نے بھی کتاب لکھی ہے.بلال پر.وہ بڑی ہے کتاب بچوں والی نہیں تاریخی لحاظ سے واقعات لکھے ہیں.میں نے یورپ میں بھی تحریک کی کہ اور جب تک نہیں ملتی وہ پڑھو.اچھی لکھی ہوئی ہے.اس میں چار پانچ غلطیاں ہیں.تاریخی لحاظ سے میرے علم کے مطابق لیکن On The Whole اچھی ہے.وہاں ہمارے ایک ڈین احمدی ہیں.میں پچھلے سال گیا تو کہنے لگے میں نے وہ کتاب پڑھی میں رو پڑا.میں نے کہا میں نے بھی پڑھی تو میں رو پڑا.ہے ہی ایسی چیز.اتنی قربانیاں دے کے آج تمہیں اس قابل کیا کہ اسلام کا نام اپنی گردنیں اٹھا کے اور سر اونچا کر کے دنیا کے سامنے لو.اگر وہ لوگ وہ قربانی نہ دیتے تو وہی حال ہوتا جو ان قربانیوں کے عدم علم کے نتیجہ میں پچھلے سال جو نائب وزیر اعظم سیرالیون کے یہاں آئے ہوئے تھے انہوں نے ۱۹۷۰ء میں وہاں تقریر میں کہا کہ احمدیت کے آنے سے پہلے اگر کسی مجلس میں اسلام کی باتیں شروع ہو جاتیں تو ہم سر جھکانے پر مجبور ہو جاتے.پھر احمدی آئے ، جن سے ہم نے اسلام سیکھا اور اب کسی مجلس میں اسلام کی بات ہو تو ہم فخر سے سر بلند کرتے اور ان سے اسلام کے متعلق بات کرتے ہیں.تو جب تک آپ کو پہ نہ ہو کہ آپ کے آباؤ اجداد کس قسم کے انسان تھے جنہوں نے خدا کی راہ میں ساری دنیا کی طاقت کومرا ہوا کیڑا بھی نہیں سمجھا.کسری اور قیصر جو طاقتیں تھیں، یہ ساری دنیا کی طاقتیں انہیں دو میں سمائی ہوئی تھیں اور انہوں نے سمجھا تھا کہ یہ بدو وحشی عرب کے، نہ ان کو لکھنا آئے.نہ پڑھنا آئے ، (اسلام کے پہلے کی حالت ) یہ اب ہمارے مقابلے میں آرہے ہیں.ان کو پتہ ہی نہیں تھا
خطابات ناصر جلد دوم ۵۳۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا قیامت کیا انقلاب بپا کر دیا ان کی زندگی میں جیسا کہ ابھی ایک حوالے میں آپ نے دیکھا ہے اور اٹھارہ ہزار کی فوج سے آٹھ ، دس لڑائیاں کسری کی فوج نے ستر ہزاراسی ہزار ایک دفعہ یقیناً مجھے یاد ہے ایک لاکھ کی فوج ان کے مقابلے پر آئی.نہیں ٹھہر سکی.اس لئے کہ کسریٰ کی فوج کے ہاتھ میں دنیا کی بہترین تلوار تو تھی لیکن کسری کا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں نہیں تھا.مسلمان کا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں تھا.(نعرے) اس لئے میں کہتا ہوں کہ ماضی کو بھولیں نہ ، اس کو بھی پڑھیں اور مستقبل تو آپ کا ہے.آپ نے چھلانگیں مارتے ہوئے ، ہنستے ہوئے اس میں داخل ہونا ہے.اگر کوہ ہمالیہ جتنی آگ بھڑکتی رہی ہو تو آپ کے دل سے یہ آواز نکلے گی کہ :.آگ سے ہمیں مت ڈراؤ.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے“ ( نعرے) میں نے بتایا نا کہ اگلا سال خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے، فضلوں سے رحمتوں سے بھر پور ہے اس کو سمیٹا نہیں جا سکتا.میں نے یہ نوٹ تیار کرنے شروع کئے.اتنی تھری بن گئی.پھر اور کم کئے.پھر کم کئے.اب میں کم سے بھی کم میں جا رہا ہوں اور میرا خیال نہیں کہ میں ان کو ختم کرسکوں.صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کا بڑا حصہ اس وقت اپنے عمل کے لحاظ سے قربانی میں پاکستان بھی شامل ہے، باہر کے سارے ممالک شامل ہیں لیکن جو کام ہو رہے ہیں وہ ساری دنیا میں اسلام کو پھیلانے کے لئے باہر ہورہے ہیں اور آپ اس میں حصہ نہیں لے سکتے.کیونکہ ہمارا ملک جو ہے وہ اقتصادی بحران میں سے گزر رہا ہے اور فارن ایکسچینج کی بڑی دقتیں ہیں.باہر کی بھی بہت سارے ملکوں میں ہیں.صرف ہمارے ملک میں نہیں.صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کے وعدے تو خدا کے فضل سے بہت تھے.اس میں آمد بھی بہت ہو چکی ہے اور جو نتیجہ نکلا ہے ( یعنی بڑی رقمیں ابھی پڑیں ہوئی ہیں) کہ:.سویڈن میں ( گوٹن برگ) میں قریباً دو ایکٹر سے زیادہ زمین.اس میں ایک نہایت خوبصورت مسجد بن گئی.باقی علاقہ بھی جو ہے وہ آہستہ آہستہ ہمارے کام آئے گا اور مرکز قائم ہو
خطابات ناصر جلد دوم ۵۳۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء گیا اور کئی سو جو غیر پاکستانی احمدی سویڈن میں بسنے والوں میں سے ہوئے ہیں اور اچھی مضبوط جماعت بن گئی ہے اور تربیت یافتہ ہے قربانیاں دینے والی ہے.پھر ۱۹۷۸ء میں ”کسر صلیب کا نفرس“ منعقد ہوئی جس کی آواز یعنی اسلام کی آواز قرآن کریم کی تعلیم اگر اخبار جن میں کانفرنس کی رپورٹ چھپی ان کی اشاعت کا مجموعہ لیا جائے تو وہ چودہ کروڑ سے زیادہ بنتا ہے اور ساری دنیا کے ممالک میں یہ آواز پہنچی.سری نگر میں ضرورت تھی اور قادیان میں پیسے نہیں تھے کہ ایک اچھی مسجد اور مہمان خانہ مشن ہاؤس وہاں تعمیر کیا جائے.کیونکہ وہاں بھی غیر ممالک کے آدمی بھی جاتے ہیں.اس وجہ سے نہیں کہ وہ جو قبر مسیح ہے اسے قبر مسیح سمجھتے ہیں.بلکہ اس وجہ سے کہ وہ یہ تو سمجھنے لگ گئے ہیں اب کہ شاید یہ قبر مسیح ہو.دلچسپی اتنی پیدا ہو گئی ہے لیکن بہت سارے سمجھنے بھی لگ گئے ہیں خود مجھے ایک ایسا آدمی ملا جو کہتا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہی ہے قبر مسیح.ابھی تک میں نے دیکھی نہیں ، ہمیں جاؤں گا.تو وہاں ایک وسیع مسجد اور مشن ہاؤس بن گیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو علم کلام ہے اسے دنیا تک پہنچانا بڑا ضروری ہے.دنیا کو اس کی ضرورت ہے.جتنے اعتراض آج کی دنیا، اپنے آپ کو مہذب سمجھتے ہوئے اسلام پر کرتی ہے سب کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لٹریچر میں موجود ہے.بعض جواب کھلے طور پر موجود ہیں اور بعض جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کوئی ایک فقرہ کہا ہے اس سے میرے جیسے عاجز بندوں کو خدا تعالیٰ سمجھا دیتا ہے.اثر کرنے والے، مُسکت ان کی آنکھوں میں آنسو لانے والے ان کے دل کی دھڑکنوں کو تیز کرنے والے ، ان میں یہ احساس پیدا کرنے والے کہ جو باتیں یہ کر رہے ہیں وہ صحیح ہیں اسلام کے متعلق.یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم اس قسم کے گند میں اتنا گہرا اپھنس چکے ہیں کہ ہمارے لئے اس سے نکلنا مشکل ہو گیا ہے.اس لئے میں ان کو تسلی دلانے کے لئے یہ کہہ دیا کرتا ہوں ہمیشہ کہ مجھے یہ یقین ہے کہ بہر حال تمہارے علاقوں نے اسلام کے اندر داخل ہونا ہے.اگر تم نہیں ہو گے، تمہاری نسلوں کو نہیں چھوڑے گا اسلام.اس لئے کہ جس وقت تمہارے مسائل کا انبار لگ جائے گا اور تمہیں اور کوئی راہ نظر نہیں آئے گی.وہ وقت ہوگا اسلام کا اور اسلام کے کسی نمائندے کا جو تمہیں آکے کہے گا کہ میں
خطابات ناصر جلد دوم ۵۳۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء یہاں موجود ہوں تمہارے سارے مسائل کو حل کرنے کے لئے اور مثالیں دے کہ ان کو قائل کرتا ہوں کہ ہاں اسلام کے پاس ہمارے مسائل کے حل کرنے کے سامان پیدا ہوں.انگریزی میں اور دوسری زبانوں میں یہ شائع ہورہا ہے اور منصوبہ بہت تیز ہورہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کی ایک کتاب ہے سید میر داؤ د احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے وہ اکٹھے کئے تھے.اس کا نصف سے کچھ زیادہ غالباً Essence of Islam کے نام سے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس وہاں شائع کر رہے ہیں تو وہ والیومز (Volumes) چھپ چکی ہیں.The Philosophy of the Teachings of Islam اب پھر دوبارہ چھپ گئی.فرانسیسی زبان میں ہمارا لٹریچر بہت کم تھا اور فرانسیسی علاقوں میں ہمارا نفوذ بڑھتا چلا جا رہا ہے.اس واسطے یہ تضاد پیدا ہو گیا تھا.مانگ میں اور منڈی میں یعنی مطالبہ زیادہ کا تھا اور بہت کم لٹریچر تھا.اس لئے جو پہلی کتاب ہم شائع کر سکے اور وہ اپنے اندر بھی بڑا اثر رکھنے والی ہے وہ شائع ہو چکی اور وہ ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا دیباچہ تفسیر القرآن.اس میں دو بڑے مضمون ہیں ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت حسین سیرت جو پڑھنے والے پر اثر کرتی ہے اور دوسرے موازنہ مذاہب، خصوصاً عیسائیت کا اسلام سے موازنہ اور اتنا مدلل ہے کہ وہ ضد تو کر سکتے ہیں مگر جواب نہیں دے سکتے.اس واسطے اس دیباچہ کا انگریزی میں انٹروڈکشن ٹو دی سٹڈی آف دا ہولی قرآن Introduction to the study of the Holy Quran کے نام سے آیا فرانسیسی زبان میں Saint Quran کے نام سے چھپ چکا اور اس کا فائدہ بہت ہوا ہے کیونکہ نائیجیریا کی سرحدوں کے اوپر جو چھوٹے چھوٹے ملک ہیں بعض وہ فرانسیسی بولنے والے ہیں.ٹو گولینڈ ہے، بین ہے.نیچر (Niger) ہے چاڈ (Chad) ہے (جس کی خبریں آجکل بہت آرہی ہیں ہمارے ریڈیو میں ).تو یہ سارے فرانسیسی بولنے والے ہیں اور وہاں خدا تعالیٰ نے بغیر مشنری کے ہمارا مشن قائم کر دیا اور جماعت بن گئی.پچھلے سال میں گیا ہوں.مجھے وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں کتابیں دیں فرانس میں.ان کو کہا تھا انتظار کرو، کتابیں مل جائیں گی اب اللہ تعالیٰ نے فضل کیا یہ انٹروڈکشن (Introduction) دیباچہ قرآن چھپ کے ان کے ہاتھوں میں پہنچ چکا ہے اور جو بڑے بڑے سکالرز وہاں کے ہیں ان کو جب دیا جاتا ہے تو وہ اگر مسلمان ہوں تو
خطابات ناصر جلد دوم ۵۳۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء بہت خوش ہوتے ہیں اور بڑے ایکسائٹڈ (Excited) ہوتے ہیں کہ اس قسم کی کتابیں ہمارے ہاتھوں میں آنی شروع ہو گئیں.Jesus in India یہ چھاپی گئی ہے Essence of Islam دو والیومز (Volumes) میں کوئی چھ سو صفحے کے اوپر بہت سارے عنوانوں کے ماتحت اور ملک غلام فرید صاحب نے جو ترجمے کے ساتھ انگریزی میں نیچے نوٹ دیئے تھے (وہ انہوں نے کافی تفصیلی نوٹ دیئے تھے اور غالباً وہ جو ترجمہ ہے انگریزی کا اس سے تین چار گنے زیادہ ہیں حجم میں وہ نوٹ ) وہ اب سات ہزار اس کی کاپی لنڈن میں چھپ چکی ہیں.ہم یہاں سے باہر کتابیں بھی مشکلات ہیں یہ جو باہر سے آئے ہوئے ہیں نادیر کے بعد اپنا ملک دیکھنے، ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ جتنی کتابیں اپنے ساتھ لے جاسکیں لے جائیں.جو یہاں ملتی ہیں ان کو باہر بھیجنا بھی وقت ہے چھ چھ مہینے میں پارسل پہنچتا ہے باہر.اپنے ساتھ جتنا آپ کو کرایہ اور جہاز اجازت دے وہ لے جائیں.اور ہم نے پھر سنٹر اب بنادیا ہے ایک لنڈن ( یہ صد سالہ میں کئی سال ہوئے میں نے آپ کے سامنے رکھا تھا کہ ہمارے پر لیس ہونے چاہئیں) پریس تو وہاں نہیں بنا لیکن بعض پر یس کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہو گئے ہیں جو بہت اچھا شائع کرنے والے ہیں اور کم خرچ نسبتا.ایک دوسرے پریس امریکہ میں اور دو پریس انگلستان میں جن کے ساتھ دوستی اور واقفیت ہوگئی ہے اور ایک بڑا اچھا پر لیس کمپیوٹر کے ساتھ کام کرنے والا جماعت نے خرید لیا ہے نائیجیریا میں وہ اچھے رسالے شائع کرنے شروع کر دیئے ہیں اس پر لیس نے اور کچھ اور ہمیں چاہئیں.اور منصوبہ اب یہ ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے.بہت دعائیں کریں.میرے دل میں بڑی تڑپ ہے.اللہ تعالیٰ مجھے زندگی اور صحت دے اور میں دیکھوں خود اپنی آنکھوں سے.تین اور زبانوں میں جن کا دائرہ اثر دنیا کے بہت بڑے حصے میں ہے تینوں کا مل کر.میرے خیال میں نصف حصے کے قریب ہو گا.کم و بیش قرآن کریم کا ترجمہ مع تفسیری نوٹ.خدا سے عہد کیا ہے کہ انشاء اللہ جلد ہی کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی آواز کو اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور اور حسن کو ان علاقوں میں پہنچایا جائے.وہ سامان ہو رہا ہے میں امید کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے مجھے عزم بھی دیا ہے.ہمت بھی دی ہے.صحت ضرورت کے وقت وہ خود دے دیتا ہے.عزم اور ہمت بھی اسی
خطابات ناصر جلد دوم ۵۳۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء نے دی ہے.ساری چیز میں ملتی تو اسی سے ہیں.بہر حال میرا یہ عزم ہے کہ یہ جلد سے جلد دنیا کے ہاتھ میں پہنچا دیا جائے.ان تین زبانوں کے بعد پھر روسی زبان اور چینی زبان رہ جاتی ہے اگر ان دوزبانوں میں تفسیری نوٹوں کے ساتھ قرآن کریم پہنچا دیں تو دنیا کی آبادی کا میرا خیال ہے کہ کوئی نوے فیصد ہوگا جن کے ہاتھ میں یہ قرآن کریم پہنچ جائے گا.اور قرآن کریم واقعہ میں عظیم کتاب ہے.آپ میں سے بھی بعض سستی کرتے ہیں.بعض تو ابھی پرانے جو ہیں ان کو بس ناظرہ آتا ہے یا تھوڑا سا ترجمے سے پڑھ جاتے ہیں لیکن ہر عمر میں آپ پنے علم قرآنی میں زیادتی کر سکتے ہیں.اس واسطے کریں زیادتی.پڑھتے رہا کریں، غور کیا مثلاً میں نے فارسی کہیں نہیں پڑھی.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فارسی در مشین سے فارسی پڑھ لی اور اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے اور بہت کچھ دے دیتا ہے اپنے پاس سے جس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا.ناروے میں مشن ہاؤس بن گیا تو سیکنڈے نیوین کنٹریز (Countries) میں صرف چھوٹا سا ملک فن لینڈ رہ گیا.وہ بھی ہو جائے گا.یہ بہت بڑی عمارت ہماری ضروریات کو پورا کرنے والی اور دنیا کے دانت ہیں اس پر ہماری نگاہیں آسمان پر.( یہ میں 'صد سالہ اور تحریک جدید کو قریب ملا کے ہی ذکر کروں گا.) انگلستان میں پانچ جگہ (اب میرے خیال میں چھ جگہ ہو گئی ہیں ) نئی عمارتیں نماز پڑھنے کے لئے اور درس دینے کے لئے اور قرآن سیکھنے کے لئے اور بچوں کی تربیت کے لئے خریدی جا چکی ہیں اور ان سب کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے اتنے فضلوں کو دیکھ کر ڈھیر پڑا ہوا ہے تمہارے سامنے فضلوں کا پھر بعض دفعہ بعض آدمی (سارے نہیں ، اِکا دُکا ایسا ہوتا ہے جو ) ان کے اوپرلڑ نا شروع کر دیتے ہیں تو جس نے اتنا کچھ دیا ہے وہ تمہیں بھی دے گا اگر تم عاجزانہ اس کے حضور جھکو گے اس کے دین میں حرج نہ پیدا کرو.یتعلیمی منصوبہ کے متعلق میں کچھ کہہ چکا ہوں.اس وقت اتنا کافی ہے.ہاں یہ ہمارا ملاپ باہمی جو ہے وہ اب زیادہ ہو جانا چاہئے.ایک وقت میں مشکل تھا.ایک
خطابات ناصر جلد دوم ۵۳۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء تو یہ سوچا منصوبہ کہ یہاں باہر سے وفود آئیں.وہ آتے ہیں.آپ سے ملتے ہیں.آپ ان کی پانچ پانچ منٹ کی تقریریں بھی سنتے ہیں.بڑے اچھے ہیں، بڑے پیارے ہیں.پنجابی میں بڑے یسے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہیں.خوا ہیں دیکھنے والے ہیں.وہ سوکھی ٹہنیاں نہیں ہیں اسلام کی.وہ ہرے پتوں والی ٹہنیاں ہیں.نائیجیریا میں میں پچھلے سال تھا.تھکا ہوا بالکل میں شام کو مجھے انہوں نے کہا ( جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے اس کے باہر ایک بہت بڑا ایریا کمروں کے سامنے ہی تھا ) کہ وہاں تو دو تین سو افریقن آ گیا ہے اگلے دن شاید ہم نے جانا تھا یا اس سے اگلے دن.میں نے کہا وہ اب آگئے ہیں تو اچھا نہیں لگتا کہ میں ہی نہ مجھ سے میں چلا گیا ان کے پاس اور بڑا مجھے مزہ آیا.میں چلا گیا، میں نے ان کو کہا بات یہ ہے کہ میں اتنا تھکا ہوا ہوں کہ میں تمہارے سامنے آدھے گھنٹے ، گھنٹے کی نئی تقریر نہیں آج کر سکتا.تم مجھ سے باتیں کرو.خیر وہ پتہ نہ لگے ان کو.میں نے کہا اچھا میں بتاتا ہوں تم مجھے اپنی کچی خوا ہیں بتانی شروع کرو.ایک کھڑا ہوا.پھر دوسرا کھڑا ہوا، پھر تیسر کھڑا ہوا پھر چوتھا کھڑا ہوا، پھر پانچواں کھڑا ہوا.پھر چھٹا کھڑا ہوا.کوئی پون گھنٹہ یا گھنٹہ جب گزر گیا تو پھر میں نے کہا اب میں سنتے سنتے بھی تھک گیا ہوں اب مجھے اجازت دیں میں آرام کرلوں.اتنا فضل کرنے والا.کیا سمجھا ہے آپ نے اپنے رب کو.دینے کے لئے تیار ہے آپ لینے کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے.ایسے ایسے نشان دکھاتا ہے ان ملکوں میں جن قوموں کو یہ یقین تھا کہ ان کو پیار کرنے والا کوئی انسان دنیا میں نہیں ان کو خدائے واحد و یگانہ نے یہ باور کروا دیا کہ ان کو پیار کرنے والا ان کا خدا ہے.(نعرے) اور خدا کے بندے.میں جاتا ہوں ان کے بچوں کو اٹھاتا ہوں، سینے سے لگاتا ہوں، پیار کرتا ہوں.۱۹۷۰ء میں تو میں نے ان کی خوشی کی آواز سنی.اب ان کو پتہ لگ گیا ہے کہ احمدی احمدی سے پیار کرتا ہے.اور ہیئت کذائی بدل گئی.یہ افراد امریکن (Afro-American) ، امریکہ میں ان کے چھوٹے چھوٹے بچے دس بارہ سال کے جو عیسائی ہیں ان میں اتنے گندے کپڑے منہ گندا ما تھا گندا بال گندے، کپڑے گندے.بد بواتنی آتی ہے پاس نہیں کھڑا ہوا جاتا.احمدی ہوتے ہی کا یا پلٹ جاتی ہے.اب جو بچہ میرے سامنے آتا ہے میں اس کو چمٹ جاتا ہوں گلے لگا لیتا ہوں.مجھے پتہ ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۵۴۰ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء کوئی بد بو نہیں ہے ان میں.صاف ستھرے نہائے ہوئے ، سر سے لے کر پاؤں تک صاف.وہ ساری گندگی جو تھی.طَهَرُ ثِيَا بَكَ (المدثر : ۵) کپڑے دُھل گئے، جسم دھل گئے، سینہ ڈھل گیا، دل دھل گیا.جو پانچ سات سال کا احمدی ہے اس نے انگریزی میں جو بڑی تفسیر ہے.پانچ جلدوں میں ، وہ پڑھی ہوئی ہے.آپ نے تفسیر کبیر اکثر نے نہیں پڑھی ہوئی اور وہ تنگ کرتے ہیں مبلغ کو اور کرنا چاہئے.کوئی بات نہیں سمجھ آتی ، رات کے گیارہ بجے فون کرے گا کہ میں اس وقت پڑھ رہا تھا یہ پانچ جلدوں والی تفسیر ، یہ پوائنٹ مجھے سمجھ نہیں آیا مجھے سمجھاؤ.پیار ہے ان کو.ان کے دل میں خدا کا پیار محمد کی محبت، اسلام سے تعلق اور لگاؤ اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا میں ہم جنت میں آگئے.اور واقعہ میں جو سچا مومن ہے جس کو قرآن کریم نے مُؤمِنُونَ حَقًّا کے گروہ میں شامل کیا ہے.یہ دنیا جنت ہے دشمن سمجھتا ہے ہم کانٹے چھورہے ہیں.ایسی لذت ہے ان کانٹوں میں کہ بیان نہیں کی جا سکتی.آئندہ جو تاریخ دان ہے وہ ان لذتوں کو بیان کریں گے.جو پچھلوں کو لڈ تیں آئیں ان کو ہم بیان کرتے ہیں جیسا کہ ابھی میں نے بعض باتیں آپ کو بتا ئیں.تو ہمیں تو لذتیں محسوس ہوتی ہیں.کیا تم تیر مارتے ہو.ہمیں لذت پہنچا رہے ہو.شکریہ جزاکم اللہ بڑی مہربانی آپ کی.ہم دعائیں دیں گے آپ کو اللہ تعالیٰ آپ کو بھی یہ لذت نصیب کرے آمین.یہ بات ہو رہی تھی ملاپ کی.میں نے بہت سارے طریقے بتائے تھے ملاپ کے قلمی دوستی بس (Talax) کے ذریعے جن ملکوں میں قانون اجازت دیتا ہو وہاں (Amateur) ریڈیو ہے اس کے ذریعے اب امریکہ میں ہمارے بارہ تیرہ سال کے بچوں نے لائسنس لے لئے ہیں Amateur جو ابتدائی تعلیم ہوتی ہے وہ کہتے ہیں Mass Code ضرور جاننا ہے کیونکہ کئی ہزار آدمیوں کی جانیں یہ Amateur ریڈیو والے بچاتے ہیں جو اصل جن کے ہیں سٹیشن وہ مس (Miss) کر جاتے ہیں خبر کو اور یہ پکڑتا ہے اور فوراً اطلاع دیتا ہے.اتنی جلدی Response یہ اس واسطے میں کہہ رہا ہوں کہ ہمارے Response بھی جلدی ہونی چاہئے گو ہم سے جو مدد مانگے گا اس کی مدد اور قسم کی ہوگی.اب یہ سارے جو گند میں پھنسے ہوئے ہیں.ایک صحافیہ نے لڑکی آنسوؤں کی بہہ رہی تھی اور میرے ایک ساتھی کو کہا پر یس کا نفرنس کے بعد کہ یہ بتاؤ اتنی دیر بعد کیوں ہمارے پاس آئے ہوا یسی اچھی تعلیم لے کے؟ جب ہم اور بھی گند میں جنس
خطابات ناصر جلد دوم ۵۴۱ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء گئے.تب تم ہمارے پاس آگئے ہو یہاں.ان کا یہ ہے کہ ایک احمدی نے مجھے بتایا کہ میں اپنی موٹر چلا تا رہا تھا.اس کے پاس.یہ ریڈیو Amateur والا.تو کہنے لگا اگلی کار کسی وجہ سے اُلٹی.اس نے نہیں دیکھی کیوں اور یوں کئی اس نے چکر کھائے اور زخمی ہو گئے اس کے آدمی.کہتا ہے میں نے کار کھڑی کی.اسی وقت اپنا وہ ریڈیو چھوٹاAmateur والا اون (on) کیا اور پانچ منٹ کے بعد وہاں پہیلی کا پر لینڈ کر گیا ان کی مدد کے لئے.ہم فخر کرتے ہیں.ہے فخر کی بات کہ ایک عورت کی آواز پر قاسم کو سندھ بھیج دیا گیا تھا تا کہ اس عورت کے دکھ کو دور کیا جائے.تو ہمارے تعلقات ہونے چاہئیں.ہر ایک کو پتہ ہونا چاہئے کہ ہمارے بھائیوں کے حالات کیسے ہیں؟ ساری دنیا کو پتہ ہونا چاہئے کہ ہم کن حالات میں سے گزر رہے ہیں اور ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ وہ کن حالات میں سے گزر رہے ہیں اور یہ سکیمیں آتی ہیں پوری طرح بتائی بھی نہیں جاتیں.یہ تو بار بار آنی چاہئیں اور اس کا انتظام ہونا چاہئے.بعض قانون کی دقتیں ہوتی ہیں ہم چونکہ قانون کی پابندی کرنے والی جماعت ہیں وہ باتیں فی الحال ہم چھوڑ دیں گے.آج نہیں تو کل قانون اجازت دے گا اپنے شہریوں کو ان چیزوں، جس طرح دنیا کے اکثر ملکوں نے اپنے شہریوں کو اجازت دی ہے.کوئی اس سے بد نتیجہ نہیں پیدا ہوتا.لیکن بہر حال اب یہ آئے ہوئے ہیں آپ ہمت کر کے دس ، پندرہ ، ہیں ،سو ، دوسو ان کے ساتھ ، افریقہ، امریکہ دوسرے ملکوں کے لوگ ہیں، دوستیاں کریں قائم.خط لکھا کریں.مجھے تو ایک مسافر گاڑی میں مل گیا تھا جب میں پڑھا کرتا تھا جرمنی میں.تو کہتا کہ خط لکھو.میں نے کہا ہاں ہر پندرہ دن کے بعد ایک دوسرے کو خط لکھیں گے.یعنی ہر ہفتے ایک ہفتہ وہ لکھے گا.اگلے ہفتے میں جواب دوں گا یا اس سے اگلے ہفتے وہ لکھے گا پھر میں اس طرح اور اب تک وہ اتنا پیار کرنے والا دوست بن گیا صرف امتحان دینے کے لئے اور انگریزی سیکھنے کے لئے یہ خط و کتابت شروع ہوئی تھی کہ اثر قبول کرتا ہے تو اس کی بیوی فرید احمد کو پوچھنے لگی کہ میرے میاں سے حضرت صاحب نے ( میرا کہا کہ انہوں نے ) کوئی باتیں تو نہیں اس قسم کی کیں.کیونکہ جب سے مل کے آیا ہے مجھے کہتا ہے کہ باہر نہ پھرا کرو، ننگے سر نہ پھرا کرو، یہ نہ کیا کرو، وہ نہ کیا کرو وہ اثر قبول کر کے تو اپنے گھر میں اس کو بعض باتوں کو رائج کرنے کی طرف مائل ہو گیا.
خطابات ناصر جلد دوم ۵۴۲ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء تو تعلق پیدا ہونا چاہئے یہ کہنا کہ دنیا ایک خاندان بن جائے گی اور ذمہ واری ہماری ہے اور ہم اپنے آپ کو کٹے ہوئے سمجھیں اور اس بے تعلقی کو دور کرنے کی کوشش نہ کریں تو گنہگار بن جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس گناہ سے بچائے.آمین پھر اب یہ تصاویر ہیں.اب میں تو یہاں بیٹھا ہوا ہوں کئی ہزار میل دور.ان کو میں نے کہا تھا مجھے تصویریں بھیجتے رہو، جس طرح جس طرح مسجد تعمیر ہو.یہاں میں دوستوں کو دکھاتا ہوں.جوابھی ہم میں شامل نہیں ہوئے ان کو بھی دکھاتا ہوں.وہ خوش بھی ہوتے ہیں، حیران بھی ہوتے ہیں.سپین جیسے ملک میں آپ نے ( مسجد ) بنادی.اسی طرح پچھلے دورے کی ایک انجان، نا تجربہ کا ر ہا تھ نے وڈیولی تھی وہ بالکل نا تجربہ کا رہاتھ ہے لیکن اس کا بھی بڑا اثر ہے.وہاں جو خدا تعالیٰ فضل کر رہا ہے جماعت پر، وہ جماعت کے سامنے آتے ہیں.جماعت خوش ہوتی ہے، درود پڑھتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جن کے طفیل ہمیں سب کچھ ملا ، خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہے.میں چھوڑتا جاتا ہوں کیونکہ کافی وقت ہو گیا ہے.دوران تقریر حضور نے بعض بچوں کو جلسہ گاہ میں ادھر اُدھر پھرتے دیکھا تو انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ” جو میرے سامنے بچے " ہیں نا آپ ! بیٹھ جاؤ یا ادھر آ جاؤ میری طرف.یہاں تین تھے ایک بیٹھ گیا، دوسرا بیٹھنے والا ہے ( پھر فرمایا یہ جو پھرتے ہیں نا یہ گندی عادت کچھ پڑی ہے.میں نے ان کو کہا ہے کل سے بالکل نہیں پھرنے دینا.سروں کے اوپر سے پھلانگتے ہوئے ، دوسروں کو تنگ کرتے ہوئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ اتنا سا بھی رستے کے اوپر گند نہ پھینکو مطلب یہ ہے کہ تکلیف نہ ہو کسی کو اور ایمان کا جز وامَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ...مِنَ الْإِيْمَانِ مسلم کتاب الایمان باب شعب الایمان ) اور یہاں جو تنگ کر کے یوں ہٹا کے ، لوگوں کے اوپر سے پاؤں گزار کے، صاف ہیں یا گندے وہ تو اتنی دور سے مجھے نظر نہیں آرہے ، بہر حال میں یہ ضرور محسوس کرتا ہوں کہ اس سے کوفت ہوتی ہے مجھے یہاں دیکھ کے کوفت ہوتی ہے اور جو رضا کار ہیں ان کا کام ہے کہ دو قدم سے زیادہ کوئی شخص آگے نہ جائے.وہ اس کو وہیں بٹھا دیں سوائے مجبور کے.مثلاً ایک بوڑھا ہے وہ کہتا ہے مجھے پیشاب آیا میں نے باہر جانا ہے.اس کو تو نہیں روکنا.یعنی عقل سے کام کرنا ہے
خطابات ناصر جلد دوم ۵۴۳ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء اور بے عقلی والا کام کسی اور کو کر نے بھی نہیں دینا.یہ وڈیو بھی جو دیکھیں آرام سے.دل آزاری کے بغیر.بعض چیزوں کی الرجی بھی ہوتی ہے نا.مثلاً کسی کو ہو ممکن ہے کہ احمدیوں کے وڈیو دیکھ کے مجھے الرجی ہو جاتی ہے.ہمارے گھر کا ہی ایک بچہ ہے.اس کو کہو تجھے کیلا کھلا دیں گے تو وہ رو پڑتا ہے اور معافی مانگ لیتا ہے فوراً اور کہتا ہے کہ آئندہ میں ایسا نہیں کروں گا، مجھے کیلا نہ کھلائیں.کیلے کی الرجی ہے اس کو.تو بہت ساروں کو ممکن ہے ہماری وڈیو کے بھی الرجی ہو تو ان کے سامنے نہ لائیں اس کو.خواہ مخواہ دوسرے کو دکھ تو نہیں دینا ہم نے لیکن جن کو الرجی نہیں ان کو دکھائیں.ان کا تو یہ حق ہے وہ حق انہیں ملنا چاہئے.فرانس اور اٹلی اور جنوبی امریکہ میں مساجد کے منصوبے جو ہیں یہ تیار ہو رہے ہیں اور بڑی جلدی انشاء اللہ اللہ فضل کرے گا، ان کے نتائج نکل آئیں گے.اور دروازہ کھل جائے گا جنوبی امریکہ میں جانے کا اور سپین میں ترجمہ ہو جائے گا.تو وہ علاقے یا سپینش زبان جانتے ہیں یا Portuguese اور Portuguese اور سپینش زبانیں آپس میں بڑی ملتی ہیں.بلکہ اگر سپینش زبان میں کوئی شخص بات کر رہا ہو تو پر تگال کا رہنے والا اچھی طرح سمجھ لیتا ہے اسے.یورو با زبان میں بھی ترجمہ ہو گیا نائیجیریا میں.بھارت میں بھی ترقی ہو رہی ہے.گورمکھی ترجمہ چھپ رہا ہے انشاء اللہ جلد ہی.ایک بڑی ضروری چیز.فولڈر.پچھلے سال اللہ تعالیٰ نے دو تین چیزیں جو مجھے عنایت کیں ان میں یہ فولڈر کا تصور بھی تھا فولڈر کا مطلب یہ ہے کہ پہلا تعارف اسلام سے.اسلام کیا ہے؟ صرف دو ورقہ لیکن اس کو چار ورقے بنا کے فولڈر کرتے ہیں.وہ پھر چھوٹا کر دیتے ہیں.پٹی لمبی اور بالکل سادہ الفاظ میں بنایا جائے.مثلا اسلام تو حید کا مذہب ہے، ایک اللہ پر ایمان لانا (۲) اسلام امن کا مذہب ہے ، فساد کو پسند نہیں کرنا (۳) اسلام بے لوث خدمت کا مذہب ہے، کہتا ہے کہ ہر دوسرے کا دکھ دور کرنے کی کوشش کرو.موٹی موٹی باتیں، پہلا تعارف تو یہی ہوگا نا.جب وہ قریب آئیں گے پھر وہ گہرائیوں میں بھی جائیں گے.مسلمان ہونے کے بعد.اتنا اس کا اثر ہوا.(ابھی پچھلے سال میں نے یہ سکیم دی تھی ) بعض جگہ ایک چھوٹے سے علاقے میں رومانش زبان بولی جاتی ہے.سوئٹزر لینڈ کی پہاڑیوں پر گھر رہتے ہیں یعنی
خطابات ناصر جلد دوم ۵۴۴ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء جن کو ہم گجر کہتے ہیں یعنی جانور پالنے والے.وہیں ان کی اپنی زبان اپنی Dialect تین ان کے خاندان، قبیلے ہیں تینوں کی زبان بھی مختلف ہے.اٹھائیس ہزار کی تعداد میں ہیں ایک اور دواس سے بھی کم.اتفاقاً اٹھائیس ہزار والوں کا فولڈر شائع کر دیا.نسیم مہدی صاحب نے (اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے.) مجھ سے مشورہ کرنے کے بعد اور اب پیچھے انہوں نے بڑی سہولت دی ہوئی ہے وہ کہتے ہیں ( کہ ڈاک پہ تو بڑا خرچ آتا ہے نا تو پوسٹ ماسٹر کہتا ہے ) کہ گاؤں کے سارے پتے ان کے پاس ہیں یعنی زیورک کے پوسٹ آفس میں ان کے گاؤں کے سارے پتے موجود ہیں.تو وہ کہتے ہیں یہ کتاب لے لو پتے لکھ کے بنڈل دے دو.تو ہمارا ڈا کیہ جب ڈاک تقسیم کرے گا.سارے گاؤں میں، تو اگر مثلاً ٹکٹ لگتا ہے چار آنے کا تو ایک پیسے میں چار تقسیم کر جائے گا.بہت ستا رہتا ہے آٹھ ہزار فولڈر ہر گھر میں پہنچا دیا اس علاقے کے یعنی وہ پچن کے.وہاں تو شور مچ گیا.دو اخباروں نے بڑی سخت تنقید لکھی.دو اہم پوائنٹ تھے.ایک انہوں نے اپنے پادریوں کو کہا کہ تمہیں ہو کیا گیا ہے؟ احمدیوں نے ہلہ بول دیا ہے عیسائیت پر اور تم اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہو اور ایک نے یہ لکھا کہ ہم بڑے ہی بے غیرت ہو گئے ہیں.ہم مسلمان ملکوں سے پٹرول خرید کے ان کو اپنی دولت دے رہے ہیں اور سعودی خاندان احمد یوں کو پیسے دے کے اسلام کی تبلیغ کروا رہا ہے.یہ چھپا ہوا ہمارے پاس ہے یہ تراشہ (نعرے).تو میں نے کہا اچھی دعا ان کے حق میں ہو گئی.بڑے پریشان ہو گئے.فولڈر چھوٹا سا.ابھی تو اس نے بڑھتے چلے جانا ہے.کئی لاکھ فولڈر تقسیم ہوا.منصو بہ یہ ہے کہ جو جاپانی سوئٹزرلینڈ میں پھر رہا ہے.اس کو کوئی احمدی جاپانی زبان میں فولڈر دے دے کہ اسلام کسے کہتے ہیں؟ پھر وہ جائے گا جرمن ملک میں.جرمنی میں جائے گا تو وہاں ایک اور احمدی وہی فولڈر اس کو دوبارہ دے دے گا.پھر وہ یورپ کے سارے ملکوں میں جائے گا جاپانی زبان میں ایک ہی فولڈر اس کو ملتا چلا جائے گا.وہ سوچ میں پڑ جائے گا کہ پتہ نہیں کہاں سے آ گئی ہے یہ جماعت جو اتنی پھیلی ہوئی اور اتنی ایکٹو (Active) ہے، جوش ہے ان کو اپنے عقائد کو پھیلانے کا جہاں میں جاتا ہوں آگے ایک احمدی میرے ہاتھ میں فولڈر دینے کے لئے نظر آ رہا ہے مجھے.اگر کوئی چینی پھر رہا ہے اس کو چینی زبان میں دو.اگر کوئی سپینش ہے.ان
خطابات ناصر جلد دوم ۵۴۵ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء کی چھٹیوں میں یہ پچاس لاکھ ، کروڑ ٹورسٹ (Tourist) مختلف ملکوں میں پھر رہا ہوتا ہے اور ہمارا تجربہ یہ ہے کہ سوائے دو فیصد کے باقی سارے شوق سے لیتے اور پڑھتے ہیں اور سوائے دس پندرہ فیصد کے ( باقی ) بڑے آرام سے پیار سے اس کو منہ کر کے اپنے بٹوے میں عورت اگر ہویا بیگ میں اگر مرد ہو وہ ڈال لیتے ہیں گھر میں لے جانے کے لئے.میں نے ان کو یہ سمجھایا تھا کہ جب تک اگلا موسم سیاحت کا نہیں آتا یہ ایک فولڈران کے پاس رہے گا.پھر نیا مل جائے گا ، پھر نیا شائع کریں.پہلے تو اسلام کا تعارف ہو گیا کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ کا تصور کیا ہے اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سیرت کے متعلق.اسی طرح ایک کے بعد دوسرا دیتے چلے جاؤ.اس کا بڑا فائدہ ہوا.یہ پچھلے جلسے اور اس جلسے کے درمیان جور پورٹیں ہیں اس کے متعلق میں یہ بات کر رہا ہوں اور کم کہ ہمیں پورے نہیں ملے ورنہ اور بھیج دیتے.ایک ایک مارکیٹ میں چھ چھ سو لے لیا ایک زبان والے نے لیکن کہیں کوئی زبان بولنے والے کم تھے، کہیں زبان بولنے والے زیادہ تھے.یہ تو فرق پڑے گا نا اور دوسرے اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ پاکستانی جو جرمن کے ملک میں پہنچ کر یہ سمجھتا تھا کہ میں یہاں آیا ہوں جرمن شہری کی بد عادات سیکھنے ، اس کو یہ پتہ لگتا ہے کہ نہیں ، میں آیا ہوں اسلام کی تبلیغ کرنے اور بغیر کوشش کے چیز اس کو ملتی ہے وہ جاتا ہے پارٹی بنا کے جاتے ہیں، بعض جگہ وہ ٹینٹ لگا دیتے ہیں اور مارکیٹ پلیس (Place) میں وہ پھرتے رہتے ہیں.مارکیٹ وہاں ہفتے میں ایک جگہ ایک دفعہ ایک شہر میں ہوتی ہے.کئی ہزار آدمی ان کے اپنے بھی آجاتے ہیں.مثلاً ناروے میں ایک دن میں انہوں نے نارویجین کو شاید آٹھ سو یا کتنے ( صحیح تعداد یاد نہیں ) بڑی تعداد میں اپنے ملک میں ( فولدر تقسیم کئے ) ویسے وہ رپورٹ کرتے تھے کہ ہم نے ایک مہینے میں پانچ 006 نارو تسکین کو تبلیغ کی اور وہاں ایک دن میں آٹھ سو کو ہو گئی.تو یہ اللہ تعالیٰ نے بڑا رحم کیا یہ نئی چیز.دوسرا مجھے اللہ تعالیٰ نے تحفہ یہ دیا پچھلے سال کی عیدہ گاہ کا تصور.عید گاہ ہماری انسٹی ٹیوشن (Institution) ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں عید ادا نہیں کرتے تھے بلکہ باہر نکلتے تھے.عید کے لئے چونکہ یہ مذہبی تہوار جو ہے اس کے لئے ہے ، اس واسطے ساری مہذب شریف قومیں جو ہیں وہ ان کے اوپر قبضہ نہیں کرتیں.بعض ملک ہیں وہ کر جاتے ہیں مسجدوں پر بھی قبضہ مثلاً سپین میں ایک دفعہ کر دیا لیکن ان کی تو اس وقت آپس میں لڑائیوں کی بات
خطابات ناصر جلد دوم ۵۴۶ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء تھی لیکن جس کے ساتھ یہ ہو جائے نا کہ یہ مسجد کا ہے وہ قبضہ نہیں کریں گے.اگر آپ نے خود ہی اپنی ضرورت کے مطابق ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پسند کیا ہو تو اس میں آپ کی مدد کر جائیں گے لیکن یہ کہ چھین لیں مسجد کو یہ نہیں وہاں ہوتا یا یہ کہ وہ چھین لیں عید گاہ کو.اب یہاں عید ہمارا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے.ساری باتیں ان کو بتا ئیں.تو دوسری چیز یہ لی تھی.تیسری اس وقت میرے ذہن میں نہیں آ رہی اور اس کا بڑا فائدہ ہوا.کینیڈا، امریکہ نے اس طرف توجہ کی.وہاں لینی شروع کر دیں.ان کو میں نے کہا تھا جس سٹیٹ میں ایک احمدی بھی نہیں ، کل وہاں لاکھوں ہوں گے.جس وقت لاکھوں ہوں گے تو جو زمین آج آپ پانچ ہزار ڈالر ، دس ہزار ڈالر کو لے سکتے ہیں.اس وقت پانچ لاکھ ڈالر کو بھی نہیں لے سکیں گے.تو آنے والی نسلوں کے لئے زمین لو.اس کے اوپر کر دیا ہے شروع کام اور امریکہ میں، کینیڈا میں اس سے بھی زیادہ خالی زمینیں پڑی ہوئی ہیں.اگر آدمی تلاش کرے، محنت کرے، توجہ دے تو بڑی سستی زمین مل جاتی ہے.میرے پاس بعض ایسے رسالے آتے ہیں جن سے مجھے پتہ لگتا ہے کہ بعض زمینیں دس روپے ایکڑ امریکہ میں لیکن یہ توجہ نہیں کرتے میں نے کہا جہاں کچی سٹرکیں جاتی ہیں.زمین لے لو جہاں آج کچی سٹرک ہے پانچ سال کے بعد وہاں کی ہو جائے گی.پختہ سٹرک سے پانچ میل ، دس میل ، پندرہ میل ، ہیں میں ، میں چالیس میں بھی لے لو کوئی ہرج نہیں.تو سمجھا رہا ہوں سمجھ آ جائے خدا کرے.انشاء اللہ.تو یہ عید گاہ کا منصوبہ بھی بڑا کامیاب ہو رہا ہے.تحریک جدید تحریک جدید ( میں نے کہا ہے میں سمیٹ بھی نہیں سکا، اتنی خدا تعالیٰ نے نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں.) نے غیر ممالک میں بہت سے نئے مشن ہاؤسز اس وقت بنا دیے اور ۳۴ نئی مساجد سال رواں میں تحریک جدید کے علاقے میں بن گئیں.اشاعت لٹریچر بڑی کثرت سے ہو رہا ہے.فولڈر بھی اس میں شامل ہیں.یہ میں نے بتایا صد سالہ اور تحریک، بعض جگہ اکٹھا مل کے بھی کام کرتی ہے.مثلاً جو جاپان میں مشن ہاؤس خریدا گیا ہے اس میں قریباً ۳۵ ۳۶ فیصد صد سالہ کی رقم ہے اور باقی تحریک کی رقم ہے.
خطابات ناصر جلد دوم ہسپتال ۵۴۷ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء بڑے ہسپتال کھل گئے ہر ہسپتال خدا تعالیٰ کی عظمتوں کا نشان بن گیا.ہر ہسپتال جماعت احمدیہ کی صداقت کا نشان بن گیا.ہر ہسپتال خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو ثابت کرنے کی دلیل بن گیا.ہر ہسپتال دنیا میں بھلائی کے پھیلانے کا ذریعہ بن گیا.ہر ہسپتال غریب کو شفا پہنچانے کا ذریعہ بن گیا.بے تحاشہ فوائد پہنچے.سوسونو کر ساتھ لے کے غیر ملکوں کے امراء ہمارے ہسپتالوں میں دوسرے ملک سے آئے.صحت یاب ہو گئے.جن بیماروں کو یورپ کے ڈاکٹروں نے لا علاج قرار دیا ان کو خدائے شافی نے چنگا کر کے اور ہسپتال سے بھجوا دیا.وہ اپنا کام کر رہے ہیں.جو تحریک اور یہ ملا کے ویسٹ افریقہ میں تو کوئی بیس کے قریب ہسپتال ہیں.اتنا اثر ہے کہ (پچھلے سال کے جلسے میں بھی میں نے بتایا تھا ) حکومتیں پیچھے پڑ کے سکول بھی کھلوا رہی ہیں اور ہسپتال بھی کھلوا رہی ہیں، ان علاقوں کی حکومتیں جہاں ایک وقت میں احمدی کا ن داخلہ بھی بند سمجھا جاتا تھا.کوئی جانہیں سکتا تھا اتنی مخالفت تھی لیکن دنیا میں خدا تعالیٰ کے فرشتے جماعت احمدیہ کے حق میں اور جماعت کی اس مہم کو کامیاب کرنے کے لئے کہ ساری دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول کے لئے جیتے جائیں گے، ایک تبدیلی پیدا کر رہے ہیں.ایک انقلاب عظیم دلوں کے اندر بپا ہونا شروع ہو گیا.کچھ نتائج آج ہمیں نظر آ رہے ہیں.کچھ نتائج کل نظر آئیں گے ، کچھ پرسوں آئیں گے.دنیا بدل رہی ہے.دنیا کھڑی نہیں.دنیا کی مخالفت ہمالیہ کے پہاڑ کی طرح دھنسی ہوئی نہیں ہے زمین کے اندر بلکہ وہ بادلوں کی ٹکڑیوں کی طرح ہوا میں حرکت میں آ گئی.ایک وقت ایسا آئے گا کہ اسلام کا نور اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن آسمان پر کچھ اس طرح چمکے گا کہ یہ اندھیرے پیدا کرنے والی کالی بدلیوں کا نشان بھی کسی کو نظر نہیں آئے گا.انشاء اللہ تعالی.( نعرے) نصرت جہاں نے زیادہ ہسپتال بنائے ہیں سترہ اور چند ایک تحریک جدید کے بھی ہیں یہ دونوں سارے مل کے ایک کام کر رہے ہیں اور نصرت جہاں کے اکیس سکول مغربی افریقہ میں،
خطابات ناصر جلد دوم ۵۴۸ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء ہائرسکینڈری سکول یعنی جو ایف.اے ، ایف ایس سی تک ہے اچھے نتائج نکالنے والے، اچھے کھلاڑی پیدا کرنے والے اور با اخلاق انسان بنا کے ان کو باہر بھیجنے والے.لڑائی ہوتی.ہے اس بات پر کہ باپ بھی کہتا ہے کہ میں نے یہاں داخل کروانا ہے اور بیٹا بھی کہتا ہے میں نے احمد یہ میں داخل ہونا ہے.( ان کی زبان میں احمدیہ سے مراد ہے ( احمد یہ سکول) اور جو سیاسی لیڈر ہیں وہ بھی اور جو سوشل لیڈر ہیں وہ بھی اور بڑے بڑے ماہر اقتصادیات یعنی سکالرز علمی لحاظ سے ان کے لیڈر ہیں وہ بھی ، وہ سارے یہ بات مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے سکول اور ہسپتال اور غیر کے سکول اور ہسپتال میں ایک فرقان اور مابہ الامتیاز پیدا کر دیا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے مومن سے قرآن کریم میں وعدہ کیا ہوا ہے.نصرت جہاں ریزروفنڈ کے سلسلہ میں فرمایا ) اس وقت انہوں نے بھی اعداد غلط بتا دیئے تھے ایک سال کا بجٹ آمد و خرچ تین کروڑ گیارہ لاکھ چھتیس ہزار آٹھ سو چھبیس (۳،۱۱،۳۶۸۲۶) اور ریز رو بھی کافی وہاں پڑے ہوئے ہیں جہاں ہمیں کھڑا نہیں ہونے دیتا اللہ تعالی.مثلاً ہسپتال ہے ایک بلاک ختم ہوا ہے ، ضرورت ہے، اگلا بلاک بناؤ.اوزار ہیں منگوالو.یعنی کسی جگہ (میں نے بتایا تھا نا وہ تو کہتا ہے.يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ (البقرۃ:۲۱۳) مجھے یہ سوچنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی کہ پیسے کہاں سے آئیں گے.میں بڑا عاجز انسان ہوں اور خدا تعالیٰ پھر انتظام کر دیتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے اور میں تو حیران ہوں، حیرت میں گم ہوں اور اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی عظمت میرے اس زمانے میں اس بات سے ثابت ہوئی کہ میرے جیسے عاجز انسان کو اس نے ہاتھ میں پکڑا اور اعلان کیا دنیا میں کہ اس ذرہ ناچیز سے میں دنیا میں انقلاب بپا کر دوں گا اور کر دیا.(نعرے) سالِ رواں میں صدر انجمن احمد یہ اور دوسرے مرکزی ادارے جو ہیں تحریک جدید وقف جدید، انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ فضل عمر فاؤ نڈیشن وغیرہ ( زیادہ تر اس میں حصہ ہے صدرانجمن احمد یہ کا.گزارے ہم دیتے ہیں لیکن ضرورتوں کا خیال بھی رکھتے ہیں ) نے جو ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے رقم خرچ کی ہے.وہ اکیس لاکھ روپے سے زیادہ ہے.الحمد لله علی ذالک لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پھر بھی ہمارا کارکن قربانی دے کر کام کر رہا ہے.وہ
خطابات ناصر جلد دوم پیسے نہیں بنارہا یہاں.وقف جدید ، ۵۴۹ دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء وقف جدید ہے، وہ بھی بڑا اچھا کام کر رہی ہے معلمین جو ہیں ان کے ذمے ہے تربیت.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی تربیت کا کام ہے لیکن ہر کام تھوڑا ہے.آگے بڑھنا چاہئے.آگے بڑھیں.وقف عارضی اسی طرح وقف عارضی.وقف عارضی میں شروع میں بہت سے دوستوں نے اپنے نام لکھوائے.پندرہ دن اپنے خرچ پر باہر جاکے اپنے قصبہ سے کسی اور جگہ درویش کی زندگی گزاری اور اس گاؤں یا قصبہ کی تربیت کی طرف توجہ دی.اس کے لئے انہیں کچھ تیاری کرنی پڑی اور اس کا فائدہ ہوا.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر بعض ایسے فضل کئے.اتنی رپورٹیں آئیں مجھے کوئی حد نہیں لیکن اس طرف توجہ کم ہو گئی ہے.آپ کے فائدہ کے لئے آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ سال میں پندرہ دن بچا ئیں اور اپنے خرچ پر درویش کی زندگی گزار کے اپنے بھائی سے ملاپ پیدا کریں اور ان کے حالات جانیں ، ان کی خدمت کریں اور بار نہ بنیں.ان کی دعوت نہ کھائیں.ان کی بوتل نہ پیئیں ، ٹھنڈا پانی پیئیں کنوئیں کا ( کنوئیں کا پانی ٹھنڈا بہت مزیدار ہوتا ہے ) اور درویشوں کی طرح رہیں اور جب بھی آپ کو فرصت ہو پورے طور پر اپنے اللہ کو یاد کریں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانوں کے بدلے میں درود بھیجیں اور جب کام کر رہے ہوں تب بھی آپ کے دل کی دھڑکن اپنے ان دو محسنوں کو ، اللہ جو اصل اور حقیقی محسن ہے اور جس نے احسان کیا ہم پر کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ایک ہستی ہماری بہبود کے لئے پیدا کر دی اس ہستی کے لئے بھی دل میں یاد کریں یعنی کام کرتے ہوئے بھی انسان یہ باتیں کر سکتا ہے اور کرنی چاہئیں.میں نے بتایا تھا، کالج میں تھا دستخط کرتے ہوئے بعض وظیفے پڑھتا تھا.میرے سامنے کھڑا ہوا تھا.ایک دن کلرک، میں نے کہا کیوں اپنے وقت ضائع کر رہے ہو.سبحان اللہ سبحان اللہ، سبحان اللہ سبحان اللہ، الحمد للہ پڑھنی شروع کر دو.تو جب میں نے فارموں پر دستخط ختم کئے تو وہ
خطابات ناصر جلد دوم دوسرے روز کا خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء بڑا خوش اور مجھے کہنے لگا اس عرصے میں میں نے دو سو دفعہ یا اڑھائی سو دفعہ ( کتنی دفعہ ) میں نے سبحان اللہ پڑھ لیا.تونستیوں کے نتیجے میں اپنی نعمتوں میں کمی پیدا کرنے کی کوشش نہ کرو وہ نعمتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہیں.جماعت احمدیہ کے ہر پروگرام میں دل سے حصہ لو.کسی پر احسان نہ جتاؤ.خدا تعالیٰ کے حضور سب کچھ کر کے یہ سمجھو کہ ہم نے کچھ نہیں کیا.خدا تعالیٰ سے پیار کرو.اس لئے نہیں کہ اس سے کچھ لینا ہے، اس لئے کہ وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی مخلوق اس کے سامنے عاجزی سے جھکی رہے اور اس کے پیار میں اپنی زندگی کے اوقات گزارے.خدا تعالیٰ ہم سب کو ایسا ہی بنادے آمین بہت ہی مختصر کر دیا ہے میں نے ، ورنہ دو گھنٹے اور لگ جانے تھے ان نوٹوں پر.اب میں یہاں سے چلتا ہوں.دعائیں ہر وقت آپ کو دیتا ہوں ، دیتارہوں گا.انشاء اللہ تعالی.السّلام عليكم ورحمة الله و بركاته از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات ناصر جلد دوم ۵۵۱ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء قرآن کریم کی تعلیم پر بنیا درکھ کر میں بتاؤں گا که سبحان اللہ کے معنے حقیقتا کیا ہیں؟ اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میرے مضمون کا عنوان ہے سُبْحَانَ اللہ.اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کی کبریائی اور علوشان نہ سمجھتے ہوئے انسان ہمیشہ ہی بہکتا رہا.بعض انسان اپنی عقل سے اس غلط نتیجہ پر پہنچے کہ اللہ تعالیٰ کی طرح روحیں جو ہیں ارواح اور مادی ذرات جو ہیں وہ ابدی از لی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں ہیں.بعض انسان اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر خدا تعالیٰ کا بیٹا بنا لیا جائے یا بیٹا سمجھا جائے یا بیٹیاں سمجھی جائیں یا خدا کا باپ سمجھا جائے تو اللہ تعالیٰ کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا.بعض نے شرک کی یہ دلیل بنالی کہ خدا تعالیٰ کی تحرب کی راہیں پتھر کے یہ بت ہمارے لئے کھولیں گے.یا یہ کہ روز جزا جن بتوں کی ہم پرستش کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری شفاعت کریں گے.خدا تعالیٰ کی عظمت کو نہ سمجھتے ہوئے بعض لوگ اس بحث میں پڑ گئے کہ خدا تعالیٰ اپنی مثل ایک اور خدا بنا سکتا ہے یا نہیں.بعض نے یہ بخشیں شروع کر دیں کہ کیا خدا تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے یا چوری کرسکتا ہے یا نہیں.غرض کہ تو حید خالص سے پرے ہٹ کر اندھیروں کی دُنیا میں جو اپنی عقلیں دوڑائیں تو مختلف ، غلط.بھیانک.توحید سے دُور عقائد انسان کے بن گئے.قرآن کریم اس پہلو سے بھی ایک کامل اور مکمل کتاب ہے کہ اُس نے جس تفصیل کے ساتھ اور جن روشن دلائل کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارہ میں انسان کو بتایا وہ کہیں اور ہمیں نظر نہیں آتا.اس لئے اور
خطابات ناصر جلد دوم ۵۵۲ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء اس لئے بھی کہ سوائے قرآن کریم کے ہمارے پاس کچھ اور ہے ہی نہیں.قرآن کریم کی تعلیم پر بنیا درکھ کے میں یہ بتاؤں گا کہ سُبْحَانَ اللہ کے معنے حقیقتاً کیا ہیں.پہلے ہم لیتے ہیں لغت کو ، اقرب ایک لغت کی کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ سبح الله کے معنے ہیں.نزھہ.اللہ کی ذات کو تمام عیوب ونقائص سے پاک سمجھا اور مبر اقرار دیا.اور لسان العرب میں تسبیح کے معنے تنزیہ کے ہیں.پاک قرار دینا اور پاک سمجھنا.دوسرے یہ لکھتے ہیں کہ سُبْحَانَ اللہ کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تمام اُن باتوں سے متبرا قرار دینا جو اس کے شایانِ شان نہیں اور مناسب حال نہیں ہیں.تیسرے وہ کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی مثل یا شریک ہو.یا ذات یا صفات میں اُس کا کوئی حصہ دار ہو.یہ بھی ایک بد خیال پیدا ہو گیا تھا انسان کے دماغ میں.اور تاج العروس میں ہے ہر نقص سے پاک سمجھنا اور ہر عیب سے مبرا قرار دینا.اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے کامل پاکیزگی کا اقرار کرنا.یہ لفظ جب بولا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایسی کامل پاکیزگی کہ جو ان تمام عیوب سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو پاک قرار دیتی ہو جو اس کی طرف مشرک لوگ اس کی ذات کو کما حقہ، نہ سمجھ کر منسوب کر دیتے ہیں.یہی معنی راغب نے جو قرآن کریم کی لغت ہے اُس نے لکھے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هذا بَاطِلا ( آل عمران : ۱۹۲) یہاں باطل کا لفظ استعمال ہوا اور عربی زبان بہت سے بطون کی حامل ہوتی ہے.اس لئے اس سے بہت سے نتائج نکلے.ہاں ایک میں یہ بات بتادوں کہ میرے اس مضمون کی بنیاد تین چیزیں ہیں.زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر قرآنی.ایک دو باتیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر سے لی ہیں اور کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے اُسی سے براہِ راست سیکھی ہیں.باطِلاً کے ایک معنے یہ ہوں گے اللہ اس بات سے پاک ہے کہ کوئی شئی بے فائدہ اور بے مقصد
خطابات ناصر جلد دوم پیدا کرے ۵۵۳ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء دوسرے یہ کہ اللہ اس سے پاک ہے کہ اُس کی طرف یہ بات منسوب کی جائے کہ کوئی شئی جو موجود ہو، وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ نہ ہو بلکہ اس کا خالق کوئی اور ہستی ہو.اور باطلا میں یہ معنی بھی ہوں گے کہ تمام ارواح اور اُن کی تمام قوتیں ، تمام اجسام، ان کی ساری طاقتیں اللہ ہی کی پیدا کردہ ہیں.باطل نہیں ہیں.ایک اور معنے اس کے یہ ہیں کہ عالم کی اشیاء میں سے جو کچھ موجود ہے.( یہ اُسی کے تسلسل میں ہے) سب کا اللہ مالک ہے اور یہ سب اشیاء اس کا ئنات کی اُس جگہ کہیں اس کا ئنات سے بھی آگے کوئی اور کائنات ہے تو اس کی بھی مخلوق ہیں اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے اور ہستی حقیقی بجز ایک ذات حضرت باری تعالیٰ کے اور کسی چیز کے لئے حاصل نہیں.جو حقیقی ہستی ، وجود ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کا ہے اور خدا تعالیٰ اپنی ربوبیت تامہ کے ساتھ عالم کے ذرہ ذرہ پر ہر وقت متصرف اور حکمران ہے.یہ نہیں کہ پیدا کیا اور چھوڑ دیا.ہر آن اور ہر وقت اس کائنات کے ہر ذرہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے اور اپنی مرضی سے وہ اُس میں تبدیلی پیدا کرتا ہے اور حکم اُسی کا چلتا ہے اور کوئی وقت ایسا نہیں کہ اُس کے رقیہ فیض سے خالی ہو.اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کسی چیز پر نازل ہونا بند ہو جائے تو وہ اُس کے لئے موت یا ہلاکت ہے بلکہ عالم کے بنانے کے بعد پھر اس مبدء فیوض کی فی الحقیقت بلا ایک ذرہ تفاوت کے ایسی ہی حاجت رکھتا ہے کہ کوئی بھی ابھی تک اُس نے کچھ بھی نہیں بنایا.ایک اور معنی اس کے یہ ہیں کہ وہ اپنی مرضی اور ارادہ کے یعنی اس میں یہ نقص نہیں پایا جاتا کہ وہ اپنی مرضی نہ چلائے.وہ اپنی مرضی اور ارادہ کے موافق ہر چیز کی ربوبیت کر رہا ہے اور یہ نہیں کہ بلا ارادہ کسی شے کے ربوبیت کا موجب ہو.اس صداقت کا یہ منشا ہے کہ ہر ایک چیز کو جو عالم میں پائی جاتی ہے وہ مخلوق ہے اور اپنے تمام کمالات اور تمام حالات اور تمام اوقات میں خدا تعالیٰ کی ربوبیت کی محتاج ہے.اور ایک اور معنے یہ کہ کوئی روحانی یا جسمانی ایسا کمال نہیں جس کی کوئی مخلوق خود بخو د اور بغیر ارادہ خاص اس متصرف مطلق کے حاصل کر سکتا ہو.اس کائنات میں مخلوق چیز میں درجہ بدرجہ ترقی کرتی ہوئی کمالات حاصل کرتی ہیں.موٹی مثال خود انسان کی ہے جو درجہ بدرجہ زمین سے اُٹھ کر ساتویں آسمان
خطابات ناصر جلد دوم ۵۵۴ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء کی رفعتوں تک پہنچ سکتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے احکام پر پابند ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والا ہو.اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو عبث اور بے ہودہ طور پر پیدا نہیں کیا.کھلونا نہیں ہے اور عبث نہیں ہے.اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ اس کی مخلوقات میں سے ہر چیز عجائبات قدرت اور حکمت سے بھری ہوئی ہے، باطل نہیں.ہر چیز عجائبات قدرت اور حکمت سے بھری ہوئی ہے.یہ جو ظاہری سائنس ہے نا، اس وقت بڑی ترقی کی سائنس نے ، وہ اس نقطے کے او پر کھڑی ہوئی ہے وہ ساری عمارت کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا وہ عجائبات قدرت اور حکمت سے بھری ہوئی ہے اور ہر روز ہم کوشش کر کے نئی سے نئی چیزیں اس میں سے نکالتے رہتے ہیں.اللہ اس سے پاک ہے کہ اس کے وجود کو معرفت نہ ہونے کے نتیجے میں اور عظمت اور اس کی جو کبریائی اور علو شان ہے اس کے نہ سمجھنے کے باعث نالائق صفتیں اس کی طرف منسوب کر دیں اور اگر ایسا کوئی شخص کرے تو یہ دوزخ اپنے لئے پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے.بَاطِلًا کی تفسیر ایک اور یہ ہوتی ہے کہ اللہ کی ہر تخلیق اور ہر صفت اپنے اندر کمالیت رکھتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو باطل نہیں پیدا کیا اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ چونکہ پیدائش کائنات خدا تعالی کی ساری صفات کے ظہور کا نتیجہ ہے اور اُن میں کمال پایا جاتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی ہر صفت جو اس میں کمالیت پائی جاتی ہے اور ہر شے کے خواص صانع کی طرف ہمیں لے جاتے ہیں اور ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہیں.ایک اور معنی یہاں یہ ہیں باطل کے کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اس بات سے کہ اُس نے کائنات کو ابلغ اور محکم نظام کے علاوہ کسی کمزور نظام کی بنیاد پر قائم کیا ہو.نظام کائنات ابلغ اور محکم ہے.ہرگز باطل اور بے سود نہیں.نظام کائنات ابلغ اور محکم ہونے کے نتیجہ میں صانع حقیقی کا چہرہ ہمیں دکھلا رہا ہے.باطل کی ایک اور تفسیر یہ ہے کہ ایک ایک چیز اس کائنات کی خدا کی طرف رہنمائی کر رہی ہے.باطل نہیں زمین و آسمان کی شہادتیں.( یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی زبر دست عقلی دلیل یہاں دی ہے ) زمین و آسمان کی شہادتیں کسی مصنوعی اور بناوٹی خدا کی ہستی کا ثبوت نہیں دیتیں بلکہ اس خدائے واحد اور یگانہ سے ہمیں متعارف کرواتی ہیں جو اس جہان کا پیدا کرنے والا ہے.جو زندہ
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء اور قائم رہنے والا خدا ہے.جس خدا کو قرآن کریم پیش کرتا ہے اُس کے لئے زمین و آسمان دلائل سے بھرے ہوئے ہیں.ابھی پچھلے سالوں میں ایک تحقیق ہوئی ہے نئی.اور سائنسدان جود ہریت کی طرف ہمیشہ مائل رہتے تھے اُس تحقیق کے بعد انہوں نے یہ اعلان کیا.دوحصوں میں بٹ گئے.ایک نے تو کہا کہ ہماری تحقیق ہمیں بتاتی ہے.(اس کا ئنات کے اندر ان کی تحقیق یہ بتاتی ہے ) کہ اس کا پیدا کرنے والا ایک خُدا ہے اور بعض نے کہا کہ ابھی سوچنے والی بات ہے لیکن شرک پر یا دہریت پر اُن کی پختگی کو اُن کی اپنی تحقیق نے متزلزل نہیں کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.( ملفوظات جلد اصفحه ۴۲ ) ” جب تمہارے دل پاک ہو جائیں گے اور ادھر عقل سلیم سے کام لو گے اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے پھر ان دونوں کے جوڑ سے وہ حالت پیدا ہو جائے گی کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران : ۱۹۲) تمہارے دل سے نکلے گا.اُس وقت سمجھ میں آجائے گا کہ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ صانع حقیقی کی حقانیت اور اثبات پر دلالت کرتی ہے تاکہ ہر طرح کے علوم وفنون جو دین کو مدد دیتے ہیں ظاہر ہوں.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایسی تحریروں نے جماعت احمدیہ کے دماغ پر آگے بڑھنے کے دروازے کھولے اور اسی لئے میں توجہ دلا رہا ہوں اپنے نوجوان ذہین طالب علم کو کہ قرآن پڑھو تا کہ تم علوم دنیو یہ جو کہلاتے ہیں انہیں زیادہ اچھی طرح سمجھ سکو اور علوم دنیویہ کی سٹڈی (Study) کرو تا کہ قرآن کریم کے اسرار تمہیں آسانی سے سمجھ آنے لگیں.تو حید.وہ تو باطلا کے متعلق ابھی تک میں کہہ رہا تھا.لفظ باطل.وہ سب چیزیں سبحان اللہ میں ہیں کہ اللہ اس سے پاک.اللہ اس سے پاک.اللہ اس سے پاک.اللہ اس سے پاک.اللہ اس سے پاک.یادر ہے کہ حقیقی تو حید جس کا اقرار خدا، ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بُت ہو، خواہ انسان ہو.خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر وفریب ہو منزہ سمجھنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس لحاظ سے تو حید جو ہے وہ کئی قسموں میں، کئی شکلوں میں ہمارے سامنے آتی.
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اُس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا یعنی جو شخص خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لاتا اور توحید پر قائم ہے، وہ تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھتا ہے اور تمام کو هالكة الذات کہ اپنے نفس میں ہلاک ہونے والی اور باطلة الحقیقۃ اور اپنے نفس میں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں.اس وقت تک قائم ہیں جب تک خدا قائم رکھنا چاہے اور اُس وقت تک اُن کی کوئی حقیقت ہے اُن کا کوئی فائدہ ہے.وہ انسان کے کام آ رہی ہیں جب تک کہ خدا تعالیٰ جو قیوم ہے اپنے اس صفت کا پر تو اُن کے اوپر نہ ڈال رہا ہو ورنہ و باطلة الحقیقۃ ہو جاتی ہیں.دوسری شکل یا جہت توحید کی یہ ہے کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا اور جو بظاہر ربّ الانواع یا انسان نظر آتے ہیں یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا یعنی سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساری کائنات اور اُس کے تمام اجزاء اور قسمیں اور مالٹے کا درخت ، اس کا ہر پھل جو ہے میں تفصیل میں جا کر آپ کو سمجھا رہا ہوں، خدا تعالیٰ کی ربوبیت کے بغیر تدریجی ارتقاء کرتے ہوئے اپنے جو اُس کی زندگی ہے اس کو عروج تک نہیں پہنچا سکتا.نہیں ہوتا.امرود ہے، کیڑا کھا جاتا ہے دوسرے پھل ہیں جانور کھا جاتے ہیں.انسان کے لئے وہ کام کا نہیں رہتا.ایسی بیماری آتی ہے کہ وہ جانوروں کے لئے بھی کام کا نہیں رہتا.ایسی بیماری آتی ہے کہ اُس درخت کے لئے بھی اُس کا پھل کام کا نہیں رہتا اور اُس کی جڑوں میں گرتا اور درخت کو مار دیتا ہے.تو ربوبیت کی صفت باری جو ہے.بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ اُستاد بھی آپ کی ربوبیت.آپ کی تربیت کر رہا ہے.دوسرے محکمے ہیں ملک میں حکومتوں میں وہ کر رہے ہیں.بین الاقوامی محکمے ہیں.ٹھیک ہے ملتی جلتی چیزیں ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ سارے نظام ہمیں اس لئے نظر آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ نظام اس کے بندوں کے لئے قائم کئے جائیں.جب ، جس وقت جن حالات میں خدا چاہے کہ اُن کو مٹا دے، وہ مٹا دیتا ہے.کسری نے بڑی شان دار حکومت کی سیاست کے میدان میں.وہ ایک وقت تک خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کا کام لیا اُن سے، پھر مٹ گئے.فراعنہ اُبھرے.بڑی شان دار حکومت تھی اُن کی.بڑے شان دار کھنڈرات انہوں نے چھوڑے ہیں اپنے پیچھے، لیکن وقت
خطابات ناصر جلد دوم ۵۵۷ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء آنے پر وہ ختم ہو گئے.قیصر کی حکومت تھی آدھی دنیا پر چھائی ہوئی.کہاں نظر آتی ہے وہ.چالیس ہزار نے تین لاکھ کی فوج کو پانچ دنوں میں ختم کر کے قیصر کی حکومت کی جڑوں کو ہلا دیا تھا کیونکہ اُس وقت خدا تعالیٰ کا یہی منشا تھا.تو حقیقی رب ہمارا رب پیدا کرنے والا ہم سے پیار کرنے والا.ہماری غلطیوں کو معاف کر دینے والا.درگزر کر کے پھر بھی اپنی رحمتوں سے ہمیں نوازتے رہنے والا ہے.ابدی اور ازلی طور پر.اور تیسرے یہ تو حید.اس معنی میں توحید کہ محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے تو حید یعنی محبت اور صدق اور صفا شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گرداننا اور اُسی میں، خدا تعالیٰ میں کھوئے جانا.یہ بھی ایک قسم ہے، ایک پہلو ہے تو حید کا کہ جو محبت خدا سے کرنی ہے وہ کسی فرد واحد اُس کی مخلوق سے نہیں کرنی.جو صدق وصفا کا معاملہ اُس سے رکھنا ہے جب اُس کا مقابلہ اُس کی لڑائی دوسرے کسی وجود کے ساتھ ہو جائے تو ہمیشہ ترجیح اللہ تعالیٰ کو دے گا خدا کا موحد بندہ.اور چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کے تغیر اور فنا سے پاک جاننا.یہ توحید کے اندر اس طرح آتا ہے کہ صرف یعنی یہ جو کائنات ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آرہا یہ جو مادی ذرات سے بنے ہوئے کائنات میں بھی اتنی وسعت ہے کہ ہمارے دماغ جو ہیں وہاں تک پہنچتے پہنچتے کیا پہنچ ہی نہیں سکتے.رستے میں ہی میں تھک جاتے ہیں لیکن ان سب پر فتن وارد ہوتی ہے اور تغیر ہوتا ہے دو چیزیں ایک مٹ جانا.ایک بدل جانا.اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو ازل سے ابد تک قائم یعنی ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گی اور اس وسیع زمانہ میں ایک لحظہ کے لئے ، ایک سیکنڈ کے لئے بھی کوئی تغیر اس کے اندر نہیں آتا.جس طاقت کے ساتھ ، جس عظمت کے ساتھ اُس کا وجود اس کی مخلوق نے ہزار کروڑ اربوں سال پہلے دیکھا آج بھی وہی طاقت ہے اُس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی.وہ خدا آج بھی اپنے بندوں کی اُسی طرح آواز سنتا ہے جس طرح پہلے سنتا تھا بہرہ نہیں ہوا اور وہ خدا اپنے پر جو جانوں کو نثار کرنے والے ہیں اُن سے اسی طرح پیار کرتا ہے جس طرح وہ پہلے کیا کرتا تھا.کوئی فرق نہیں.یعنی اس کو ازلی ابدی طور پر تغیر اور فنا سے پاک سمجھنا اور ہر دوسری شے میں تغیر ہمیں نظر آتا ہے اور فنا ہمیں نظر آتی ہے.کوئی ایسے کیڑے بھی ہیں جن کی ساری زندگی
خطابات ناصر جلد دوم ۵۵۸ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء چند سیکنڈ میں پیدائش اور زندگی ختم ہو جاتی ہے یعنی پیدائش اور موت چند سیکنڈ کے فاصلے کے ساتھ آ جاتی ہے.یہ شہد کی مکھی جو اتنا احسان آپ پر کر رہی ہے شہد بنا کر اس کے جو مزدور ہیں کام کرنے والے یعنی ان کی جو ملکہ ہے اس کے علاوہ سارے.ان کی ساری زندگی پنتالیس دن سے ساٹھ دن ہے اور ان دنوں میں ایسا تغیر ان کے اندر آتا ہے جنہوں نے اُن پر تحقیق کی ہے وہ بھی حیران اور ہم جو اس تحقیق کو پڑھتے ہیں ہم بھی حیران.خدائی شان دیکھ کے.کوئی چند سیکنڈ زندہ رہتا ہے کوئی چالیس سال سے سو سال تک زندہ رہتا ہے انسان.اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے.ہمیشہ زندہ رہنے والا ، جس پر فنا نہیں اور ہمیشہ ایک حالت میں ساری طاقتوں او عروج کے ساتھ قائم رہنے والا جس میں کوئی تغیر اور تبدل نہیں.وہ صرف ایک ذات ہے چوتھی قسم ہے تو حید کی.اللہ واحد لاشریک ہے جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں.اب ایک اور پہلو سے اسے ہم دیکھتے ہیں.اگر وہ لاشریک نہ ہو یعنی اگر اللہ ایک نہ ہو بلکہ بہت سے ہوں خدا.تو پھر اگر وہ لاشریک نہ ہو تو شاید اُس کی طاقت پر اس کے دشمن خدا کی طاقت غالب آ جائے.اس صورت میں اُس کی خدائی معرض خطر میں رہے گی.تو اگر ایک سے زائد ہیں تو ہر ایک خدا کی خدائی معرض خطر میں رہے گی.خدا ایک ہے اور اس کی خدائی کو کوئی خطرہ نہیں.ازل سے ابد تک اپنی پوری شان کے ساتھ قائم ہے قائم رہے گا.نمبر ۲.کوئی پرستش کے لائق نہیں.اس معنی میں شریک ہیں نا.اس معنی میں کہ کوئی ہستی ایسی نہیں جس کی صفات اور خُو بیاں اور کمالات سب سے اعلیٰ ہوں.اللہ تعالیٰ کے سوا اس کائنات میں کوئی ایک شی بھی ایسی نہیں کہ جس کی صفات اور خو بیاں اور کمالات جو ہیں وہ سب سے اعلیٰ ہیں.صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کی صفات اور خوبیاں اور کمالات سب سے اعلیٰ ہیں.وہ اس قدر کامل.کمال کا مالک خدا ہے.اس سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ نہیں ہو سکتا.وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنیٰ کو شریک کرنا ظلم ہے اور حماقت بھی.تیسرے یہ کہ سوائے اللہ کے اللہ کی ذات کو اور کوئی نہیں جانتا.یعنی انسان جس نے علم کے میدانوں میں بڑی ترقی کی خدا کی مخلوق کے ایک حصہ کو جو پنجابی میں کہتے ہیں نا بھورنا.
خطابات ناصر جلد دوم ۵۵۹ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء اس سے آگے نہیں بڑھے.جو سمجھ دار ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو اللہ تعالیٰ کی اس کا ئنات میں جو خدا تعالیٰ کے جلوے ظاہر ہوئے اس کو اگر سمندر سمجھا جائے تو ہم کنارے پر کھڑے ہو کر ہم نے چند قطرے اٹھائے ہیں.ابھی تو ہمیں پتہ نہیں کہ یہ سمندر کی حقیقت کیا ہے.اس کی عظمت کیا ہے.اس کی شان کیا ہے اس قدر بے شمار اللہ تعالیٰ کے جلوے اس پر ظاہر ہوئے اور کچھ کا کچھ اس کو بنا دیا ہمارے فائدہ کے لئے اور ہماری خدمت کے لئے.صرف اللہ ہے ایک جو اپنی ذات کا کامل علم رکھتا ہے اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں.یعنی خدا تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی ایسا وجود نہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات کا کامل علم رکھتا ہو.نیچے اترتے ہیں.خدا تعالیٰ کی مخلوق کا بھی کوئی اور وجود کامل علم نہیں رکھتا.خدا تعالیٰ کی اس کائنات کے کروڑویں حصہ کا بھی کامل علم نہیں رکھتا کوئی اور وجود.اس لحاظ سے وہ لا شریک لہ کوئی اس کا شریک نہیں.اس کے برابر کا نہیں ہے.اس کی ذات پر کوئی احاطہ نہیں کر سکتا.ہر وجو د خدا کا سرا پا دیکھنے سے قاصر ہے اور ایک یہ بات کہ وہ علمُ الشَّهَادَةِ ہے.کوئی چیز اس کی نظر سے پردہ میں نہیں.وہ پاک ہے اس بات سے کہ علم اشیاء سے غافل ہو.وہ اس عالم کے ذرہ ذرہ پر اپنی نظر رکھتا ہے لیکن انسان یا کوئی اور مخلوق یہ نظر نہیں رکھ سکتی.اس میں بھی وہ لاشریک ہے یعنی کوئی ایسی ہستی نہیں جو خدا تعالیٰ کی طرح عَالِمُ الشَّهَادَةِ ہو کہ ہر چیز پر جس کی نظر ہو.جس کی نظر سے کوئی چیز پردہ میں نہ ہو.کوئی اور وجود نہیں ہے اس معنی میں بھی وہ لاشریک ہے.پانچویں یہ کہ اس کا کوئی ایسا کار پرداز نہیں جس کو اُس نے زمین و آسمان کی حکومت سونپ دی ہو.ایک یہ غلط تصور پیدا ہوا بعض لوگوں میں کہ خدا تعالیٰ personal God نہیں یعنی ذاتی تعلق اپنی مخلوق سے نہیں رکھتا اور نہایت نا معقول دلیل یہ بنالی.اتنی عظیم ہستی اس کو کیا پڑی کہ ہم حقیر انسانوں سے وہ ذاتی تعلق رکھے.غلط ہے یہ دلیل اور باطل ہے یہ استدلال.حقیقت یہ ہے کہ جس طرح وہ اکیلا.اکیلا بغیر کسی شریک کے اپنی ذات کا کامل علم رکھتا ہے اسی طرح وہ بغیر کسی شریک کے اس کائنات کا کامل علم رکھتا ہے.اُس نے اس کو پیدا کیا.اُس نے ہر آن اس کی ربوبیت کی.ہر وہ سیکنڈ.ہر وہ لمحہ جو واقع یوں نہیں اگر خدا تعالیٰ کی نظر سے اوجھل ہو جائے تو اس کائنات سے اوجھل ہو جائے گا.ہلاکت ہو جائے گی اُس کی.فنا ہو جائے گا.تو
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء ( عالم الشہادہ) ہے اور کوئی ایسا کارپرداز نہیں.یہ اسی کے ساتھ آتا ہے کہ سونپ دی ہو کہ اب تم سنبھالو جس طرح سوات میں بادشاہ صاحب نے اپنے والی صاحب کو ریاست سپر د کر دی تھی.یہ جو تخیل ہے کسی کے سپر د کر دینا اس میں بہت سی روحانی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی وقف کی خدائے واحد و یگانہ کے لئے اور آپ کو جزا دینے کے لئے آ گیا کوئی اور مخلوق میں سے.جو جانتا ہی نہیں آپ کو.تو آپ کے ساتھ وہ آنے والا جاہل انصاف نہیں کر سکتا.آپ کے ساتھ وہی انصاف کر سکتا ہے جس کے علم میں آپ کی زندگی کا ہرلمحہ ہے.جس کے علم میں آپ کے دل کے خیالات ہیں.جس کے علم میں آپ کے ذہن کے اچھے یا برے تصورات ہیں.جس کے علم میں یہ ہے کہ آپ کا کوئی اچھا عمل خدا کی رضا کے لئے ہے یا لوگوں کی خوشنودی کے لئے ہے.وہ آپ کو صحیح بدلہ دے سکتا ہے.تو کوئی ایسا وجود نہیں.خدا personal ہے ذاتی تعلق رکھنے والا ہے اور کوئی ایسا وجود نہیں اس کا ئنات میں جس کے سپر د اُس نے جزا سزا کے تعلق میں اپنی خدائی سپر د کر دی ہو.اور ایک اور بات یہ کہ اس کی بادشاہت ہر عیب سے خالی اور پاک ہے.خدا بادشاہ ہے نا ہمارا اور کوئی اور ایسی بادشاہت نہیں جو عیب نقص اور کمزوری سے پاک ہو.ایک موٹی بات ایک ہی میں بتاؤں گا آپ کو سمجھانے کے لئے اور وہ یہ کہ دُنیوی بادشاہتیں اپنی کامیابیوں کے لئے اپنی رعایا کی محتاج ہیں.اب ہمارے سامنے آ گئی سٹرائیک کر دیتے ہیں.انہوں نے عدم تعاون کی تحریک چلائی کانگرس نے انگریزوں کو تنگ کر کے رکھ دیا کہ نہیں دیتے ٹیکس.جو ہمارے ذمہ حکومت چلانے کے لئے رقمیں ہم تمہیں ادا نہیں کرتے.کمزوری پیدا ہوگئی اس احتجاج کے نتیجہ میں.تو خدا تعالیٰ کی بادشاہت ہر عیب سے خالی اور پاک ہے اور خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ بچے انصاف پر چل رہا ہے.اللهُ الصَّمَدُ (الاخلاص : ۳) اللہ تعالیٰ کو کسی غیر کی احتیاج نہیں.اس میں یہ مضمون سوچتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھایا کہ خدا تعالیٰ کی ذات اس قدر عظمتوں والی ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی ارادہ یا ئیت ایسی نہیں کر سکتا یعنی اپنی عظمت اور شان کے لحاظ سے جس کو پورا کرنے کے لئے غیر کی احتیاج ہو اُسے.اس واسطے کہ كُنْ فَيَكُونُ.وہ ایسی قدرتوں والا ہے کہ اس کے لئے تو کُن کہنا یعنی یہ حکم ایک مختصر ، چھوٹا ،
خطابات ناصر جلد دوم ۵۶۱ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء ایک لفظی کہ ہو جا اور ہو جاتا ہے.یہ جو گلیکسیز (galaxies) جس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہماری زمین ہے بے شار گلیکسیز کہتے ہیں ستاروں کے اس قبیلے کو جس میں بے شمار سورج ہیں اور ہر سورج کے گر دستارے گھوم رہے ہیں.تو یہ ایک گلیکسی.اب سائنس دان اس طرف آرہے ہیں.اپنی تحقیق کے نتیجہ میں کہ ہمیں اس طرح نظر آتا ہے کہ جب اتنی جگہ پیدا ہو جائے دو گلیکسیز کے درمیان کہ ایک گلیکسی بے شمار سور جوں پر مشتمل وہاں سما سکتی ہو تو کُن کہتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ نہ کوئی ارادہ ایسا اس کی عظمت اور شان.اس کی جو کبریائی ہے اور اس کا علو ہے اور اس کی جو خدائی ہے کوئی خیال اس کے آہی نہیں سکتا کہ جس کے پورا کرنے میں کسی اور کا وہ محتاج بن جائے.احتیاج اور ہو.یعنی ہماری عقل یعنی عقلِ سلیم جو ہے جب غور کرتی ہے تو انکار کرتی ہے کہ خدا کے متعلق ایسا سمجھا جائے کہ اس کو کسی کی احتیاج ہے.کوئی خواہش ایسی نہیں.اس کی مثال یہ بنی کہ انسان نے اپنی بیوقوفی سے اپنے اللہ کی طرف سیکس (sex) کی خواہش منسوب کر دی کہ اس کو کہتے ہیں نا کہ بیٹا.خدا بیٹا.تو خدا بیٹے کے لئے ایک تو میں ابھی آؤں گا بعد میں لیکن پہلے تو جنسی خواہش چاہئے.بندہ خدا.خدائی اللہ کی کہاں رہ گئی اگر تم یہ سوچو گے.تو کوئی ایسی خواہش جس کے پورا کرنے کے لئے ایک عورت کی ضرورت ہو ہی نہیں سکتی.کیونکہ وہ تو الصَّمَدُ.وہ کسی چیز کا محتاج نہیں.یہ ہے سُبحان اللہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اس چیز سے کہ اسے کسی چیز کی احتیاج پیدا ہو اور اس کائنات کی ہرشی ایسی ہے جسے ہر آن خدا تعالیٰ کی احتیاج رہتی ہے اپنی زندگی کے لئے بھی.اپنی بقاء کے لئے بھی.یہ ہے جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے شرک کے مقابلے میں.تو پہلی چیز تو یہ ہے کہ صرف جنسی خواہش نہیں.بلکہ کسی قسم کی کوئی ایسی خواہش خدا تعالیٰ میں پیدا ہی نہیں ہو سکتی کوئی ارادہ.کوئی نیت ایسی ہو ہی نہیں سکتی جس کا کرنا اس کے لئے مشکل ہو اور کرنے کے لئے کسی غیر کی احتیاج اُسے ہو.نعوذ با اللہ پھر وہ خدا نہیں رہتا.جو ہمارا خدا ہے.جو اسلام نے ہمیں سکھایا وہ تو الصَّمَدُ.اس کو کسی چیز کی احتیاج نہیں ہے.اور اس کو بیٹے کی بھی احتیاج نہیں.اگر وہ القمدُ ہے تو اس کو بیٹے کی احتیاج نہیں.مجھے
خطابات ناصر جلد دوم ۵۶۲ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء ملاقاتوں میں کئی آدمی بڑے پریشان کہ دعا کریں بچہ نہیں ہوتا یادعا کریں لڑکا نہیں ہورہا.کیوں دعا کرواتے ہیں.آپ نے موٹی بات ہے لیکن کبھی سوچا ہوگا کبھی نہ سوچا ہو گا.وہ اس لئے کرواتے ہیں کہ مر جائیں گے ہماری آگے نسل کیسے چلے گی.تو بیٹے کا تصور ہم سے یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ نعوذ با اللہ الہ تعالیٰ پر فنا آ سکتی ہے.جب وہ مرجائے نعوذ بااللہ تو کوئی بیٹا ہونا چاہئے جو اس کے تخت کے اوپر بیٹھ جائے.یہ خرابی پیدا ہوتی ہے اس میں.اس واسطے اللہ پاک ہے اس بات سے کہ اس کے کوئی بیٹا ہو.دوسرے بیٹا ہونے کے لئے بیوی کی حاجت ہے.اللہ پاک ہے اس بات سے کہ اسے کسی اس قسم کے ساتھی کی احتیاج ہو.پھر کہتے ہیں ایک بیٹا بنا تو دوسرا باپ بھی بن گیا نا.تو پھر جو بیٹا خدا ہے اُسے ماں کی احتیاج.باپ کی احتیاج ہو گی.دوا حتیا جیں اکٹھی ہو گئیں.پھر یہ ہے کہ جو حقیقت اس دنیا میں چل رہی ہے مرد اور عورت.لڑکا اور لڑکی بیا ہے جاتے ہیں.پھر ان کے تعلقات قائم ہوتے ہیں.پھر ایک بچہ ہوتا ہے.ہر دو کے جسم کے اجزاء میں سے حصہ لیتا ہے.بڑی موٹی بات ہے.ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے مثلاً نئی شادی ہوئی پہلا بچہ پیدا ہو گیا مثال کے طور پر میں وہ لیتا ہوں.اس بچے نے یہ اعلان کیا کہ میرے جسم میں میری ماں کا بھی حصہ ہے اور میرے باپ کا بھی حصہ ہے.تو خدا تعالیٰ کی خدائی ، وجود جو تھا وہ حصوں میں بٹ گیا نا.پھر وہ ایک تو نہ رہا.پھر اس کے اجزاء علیحدہ علیحدہ ہو کے بٹنے شروع ہو گئے اور کچھ تھوڑا بٹ کے علیحدہ ہونا یعنی تقسیم ہو جانا تھوڑی.وہ امکان پیدا کرتا ہے کہ ساری خدائی بے شمار حصوں میں بٹ کے ختم ہو جائے.تو عقلاً نا معقول ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمتوں کے خلاف ہے اور اس کی صفت الصَّمَدُ کے خلاف ہے.خدا تعالیٰ پاک ہے اس بات سے کہ اس پر مصائب نازل ہوں اور وہ سختیاں جھیلے.آپ حیران ہوں گے کہ خدا تعالیٰ پر مصائب نازل کیسے ہو گئے اور سختیاں کیسے جھیلیں.حضرت مسیح علیہ السلام پر.مصائب نازل ہو گئے.سختیاں جھیلیں.صلیب پر لٹکا دیا.کیل گاڑ دیئے.ذلیل کرنے کی کوشش کی.تو خدا تعالیٰ اپنی ذات میں یہ عظمت رکھتا ہے کہ وہ السلام اس کی ایک صفت ہے السلام.کہ مصائب اور سختیوں سے محفوظ ہے.یعنی اس خدا تعالیٰ کے ساتھ ہمارے رب کریم کے ساتھ
خطابات ناصر جلد دوم ۵۶۳ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء ہمارے اللہ کے ساتھ مصائب اور سختیوں کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے.اس کی خدائی اس کی عظمت کہتی ہے کہ میں مصائب کو دور کرنے والا ہوں.اور سختیاں جھیلنے والوں کے لئے سکون کا سامان پیدا کرنے والا ہوں میرے اوپر مصائب اور سختیاں نہیں آتیں.میں السلام ہوں.پھر یہ نتیجہ نکلے گا اگر یہ آپ سمجھ لیں کہ خدا تعالیٰ پر بھی مصائب اور سختیاں آسکتی ہیں کہ اگر وہ آپ ہی مصیبتوں میں پڑے گا.لوگوں کے ہاتھ سے مارا جائے گا اور اپنے ارادوں میں ناکام رہے گا اس کے بدنمونے کو دیکھ کر کس طرح دل تسلی پکڑے گا کہ ایسا خدا ہمیں جو عاجز انسان ہیں ضرور مصیبتوں سے چھڑانے میں کامیاب ہو گا.خدا تو وہ ہے کہ سب قوتوں والوں سے زیادہ قوت والا اور سب پر غالب آنے والا ہے ایسی غلطیوں میں پڑنے والے خدا کی قدر نہیں پہچانتے.یہ قرآن کریم کی آیت کی تفسیر ہی ہے پھر قرآن کریم میں ہے سُبْحَنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا (بنی اسرائیل (۴۴) که اللہ تعالیٰ بلند و بالا ہے اس بات سے جو مشرک لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں.قرآن کریم نے ممکن ہے اور بھی باتیں منسوب کی ہوں میں جلدی میں صرف دو باتیں اُٹھا سکا قرآن کریم میں سے.ایک یہ کہ مشرک کہتا ہے کہ ہم شرک اس لئے کرتے ہیں لِيُقَرِبُونَا إلى الله (الزمر:۴) کہ ہمیں اللہ کے قرب میں لے جائیں گے.خدا تعالیٰ کا قرب ہمیں حاصل ہو جائے گا بتوں کی بدولت اور دوسرے وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ کے حضور ہماری شفاعت کریں گے مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةَ إِلَّا بِإِذْنِهِ (البقرة : ۲۵۶) شفاعت تو وہی کرے گا جسے اللہ اذن دے گا اور جس کے حق میں اللہ اذن دے گا وہ وہی ہوگا جو شرک نہیں کرنے والا ہوگا.تو جو مشرک ہے اس کے بتوں کو تو خدا تعالیٰ نے شفاعت دینے کا اذن نہیں دینا اور نہ وہ یہ طاقت رکھتے ہیں کہ خدا کے قریب کر دیں.اللہ اس سے پاک ہے.بعض لوگوں کا یہ غلط خیال بھی ہے کہ خدا تعالیٰ خود اپنے وجود کی اپنے بندوں کو خبر نہیں دیتا بلکہ انسان اپنی کوشش سے ایسے دلائل نکالتے ہیں جس سے خدا کی خدائی ثابت ہو.جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے بندوں کا احسان اللہ جل جلالہ کے اوپر ہو گیا.یہ غلط ہے.خدا تعالیٰ اپنے موجود ہونے کو اپنے کلام سے ظاہر کرتا ہے.یہ ایک ہی بات میں نے اٹھائی ہے.اگر وہ یہ نہ کہے کہ انَا الْمَوْجُود تو جو دنیا میں اس وقت خدا تعالیٰ پر اس سے زیادہ ایمان رکھتے ہیں جس طرح میں
خطابات ناصر جلد دوم ۵۶۴ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء اس وقت یہ ایمان رکھتا ہوں کہ آپ کے سروں پر ڈھلتے سورج کی شعاعیں پڑ رہی ہیں تو ختم ہو جاتا ہے قصہ اگر وہ بولے نہ تو اس کا عاشق تو ویسے ہی پاگل ہو جائے.جو اس سے دور ہے وہ اور دور ہو جائے اور یہ انسان جو کہتا ہے کہ میرا احسان ہے اللہ پر کہ اسے دنیا بھول چکی تھی میں نے نئے سے نئے دلائل نکال کے اور اس کی خدائی ثابت کی تو پھر تم خدا بن گئے وہ تو خدا نہ رہا.خدا تعالیٰ اپنے موجود ہونے کو اپنے کلام سے ظاہر کرتا ہے اور جماعت احمدیہ کے لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی رنگ میں وقت سے پہلے غیب کی بات بتائی اور وہ پوری کر دکھائی.ہمارے چھوٹے بچوں کو بھی اس نے اپنے اس عظیم احسان سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا.۱۹۷۴ء میں میں سارا سارا دن ملاقات کرتا تھا دوستوں سے ان میں بچے بھی ہوتے تھے.میں بچوں سے پوچھتا تھا مجھے یہ بتاؤ کبھی تمہیں کچی خواب آئی تو جو اس مجلس میں بچے بیٹھے ہوتے تھے قریباً سارے ہی کھڑے ہو جاتے تھے کہ ہاں ہمیں آئی.بچے سے خدا بچے کی زبان میں بولتا تھا اس سے محی الدین ابن عربی کے تصوف کی اصطلاحات کی زبان میں تو نہیں بولنا تھا اس نے.مثلاً یہ کہا خدا نے بچے کو کہ تیرے گھر میں بھینس ہے.تیرے گھر کی بھینس بچہ دینے والی ہے.یا کٹا ہوگا یا کٹی ہوگی.میں تجھے بتا تا ہوں کئی ہوگی اور دس یا پندرہ دن کے بعد بچی پیدا ہوئی.کٹی ہوئی.کتنا اس کو مزہ آیا کہ خدا نے مجھے وقت سے پہلے کئی ہونے کی اطلاع دے دی.پچھلے ہی سفر پر ہمارے ایک احمدی نوجوان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اس نے مجھے کہا نام رکھ دیں.میں نے لڑکے کا نام رکھ دیا.وہ چپ.اس نے نوٹ کر لیا.اس نے یہ سمجھا کہ میرے لئے اچھی فال ہے لڑکا پیدا ہو جائے گا.جب دو اڑھائی ماہ رہ گئے بچے کی پیدائش میں تو لندن کی چوٹی کی جو لیڈی ڈاکٹر ز تھیں.ان سے اس نے معائنہ کروایا تو ساری ڈاکٹروں نے مل کر متفقہ طور پر اس کو یہ بات بتائی کہ اب ایسے آلات نکل آئے ہیں کہ ہمیں پتہ لگ جاتا ہے کہ لڑکا ہوگا یا لڑکی اور تیری بیوی کے پیٹ میں لڑکی ہے.اس کے دوستوں نے کہا اب تو پیشگوئی کر دی لیڈی ڈاکٹروں نے اب حضرت صاحب سے کہو.میں ان دنوں وہیں تھا کہ لڑکی کا نام رکھیں.وہ کہنے لگا کہ میں نے تو ایک دفعہ نام رکھوانا ہے رکھوالیا.اب میں نے جا کے نام نہیں بدلوانا.دواڑھائی مہینے وہ لیڈی ڈاکٹر ز ہماری زبان کے محاورے میں یوں کہا جاسکتا ہے قسمیں کھاتی رہیں کہ سوائے لڑکی
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء کے اور دوسری جنس ہو ہی نہیں سکتی پیدا.ہمارے آلات بتا رہے ہیں اور دو اڑھائی مہینے کے بعد جب بچہ پیدا ہوا تو وہ لڑکا تھا.تو غیب کی بات بتنا نایا کسی عاجز انسان کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو پورا کر دکھانا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کام ہے اس میں انسان کا دخل نہیں ہے.تو خدا اپنے وجود کا خود اعلان کرتا ہے کسی.غیر کا اس کے اوپر احسان نہیں.وہ کہتا ہے انا الموجود وہ بے شمار زبانیں بولتا ہے.وہ ہر انسان کے ساتھ اس کے حالات کے مطابق اس کی ضرورت کے مطابق بات کرتا ہے.وہ جب میرے سے بات کرتا ہے تو جماعت کے متعلق بات کر رہا ہوتا ہے کیونکہ میں اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.دس سال پہلے مجھے اس نے کہا: وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق :) - سپین میں تھا میں کہ جو اللہ پر توکل کرے اللہ ہی کافی ہے کسی اور کے پاس جانے کی ضرورت نہیں.إِنَّ اللهَ بَالِغ أَمْرِهِ (الطلاق: ۴) جو چاہتا ہے کر دیتا ہے والله على كل شئ قدیر اور لیکن ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے.میرے ذہن میں یہ تعبیر ڈالی گئی کہ سپین میں ہم مستحکم ہو جائیں گے.مسجد ہمیں مل جائے گی لیکن ابھی نہیں وقت آنے پر اور نو دس سال کے بعد خدا تعالیٰ نے ایسے حالات بدلے کہ وہاں مسجد کے لئے زمین مل گئی.وہاں میں نے بنیاد رکھی.اب تازہ اطلاع کے مطابق وہ مسجد بن چکی ہے.جب مسجد بن رہی تھی تو ہمارے ملک کے ایک سفیر سے کسی احمدی نے میرا کہا کہ انہوں نے وہاں بنیا د رکھی ہے مسجد کی.تو وہ کہنے لگے میں تو وہاں سفیر رہا ہوں.وہ تو کیتھولک ہیں.پروٹسٹنٹ کو گر جا بنانے کی اجازت نہیں دیتے اور احمدیوں کو مسجد بنانے کی کس طرح اجازت دے دی.اس نے کہا کہ اجازت کیا مطلب بن رہی ہے کہ میں مانتا ہی نہیں.احمدی بڑے چالاک ہیں ہوشیار ہیں.جھوٹ بولتے ہیں ایسا کہ دوسروں کو قائل کر لیتے ہیں.میں نے اس کو کہا تصویریں آرہی ہیں.دکھا دینا.وہ جب تصویریں آئیں اس کو جا کر دکھایا یہ دیکھو زیر تعمیر مسجد تو سر اس کا جھک گیا اور منہ سے بات نہیں نکال سکا.خدا نے کہا تھا کہ وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِم (یوسف) : ۲۲) میں جو فیصلہ کر دیتا ہوں وہ ہو جاتا ہے.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق:۴).مجھ پر تو کل کرو تمہیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں اور جس وقت انہوں نے مذہبی آزادی دی اور اعلان کیا کہ یہاں سارے مذاہب جو
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء ہیں اُن کو آزادی دی جارہی ہے تو دس دن کے بعد خدا تعالیٰ نے ہمیں توفیق دے دی کہ وہاں مسجد کی بنیا د رکھ دیں اور وہ بڑے خوش تھے وہاں کے مئیرز وغیرہ.ایک نے تو کہا بھی کہ یہ بھی ہے ہمیں خوشی کہ ہم جو آزادی کا اعلان تھا اس کے دس دن یا بارہ دن چند دنوں کے بعد آپ پہلے ہیں جنہوں نے مسجد کا سنگ بنیادرکھ دیا یہاں اور اُن کے لئے خوشی کے سامان پیدا کر دیے.تو انسان کا خدا تعالیٰ پر احسان نہیں ہے.بڑا احمق ہے وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کا احسان ہے خدا یا اس کے رسول پر اور بڑا قابل رحم ہے وہ جو ایسا سمجھتا ہے.ہم تو ہر آن فکر میں رہتے ہیں.میں اور آپ کہ اللہ تعالیٰ ہر آن ہم پر پہلے سے زیادہ احسان کرتا چلا جائے رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير.(القصص: ۲۵) ہم تو اس کے در کے فقیر ہیں.احسان جتانے والے نہیں ہیں.ہم عاجز بندوں پر اپنی رحمت سے اور فضل سے وہ نشان پر نشان، نعمتوں پر نعمتیں نازل کرتا چلا جاتا ہے.تو خدا کی خدائی یعنی وہ پاک ہے میں سبحانہ کی کر رہا ہوں نا تفسیر.سبحان اللہ اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک ہے کہ غیر اللہ کے کسی حصہ سے وہ احسان لے کسی کا زیرا احسان آ جائے.وہ تو احسان کرنے کا ایک سمندر ہے اور دنیا اور اس کائنات کی ہر شے پر ہر آن اس کا احسان ہے.پہلے تو یہی کہ جب پیدا کر دیا زندگی عطا کر دی.الحسی خدا نے تو ہر آن جو زندگی کو قائم رکھنے کے لئے اس کے احسانوں کی ضرورت تھی ہر آن وہ احسان ان کو ملتے چلے گئے.ایک غلط فہمی دنیا میں پیدا ہوئی عیسائی دنیا بھی اعتراض سمجھنے لگ گئی.وہ ہے عرش رب کریم.عرش رب کریم کسے کہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف جگہ اس پر بحث کی ہے اور اس مسئلے کو روزِ روشن کی طرح بالکل واضح کر دیا اور اس میں کوئی ہمیں چھپی ہوئی چیز نہیں اب نظر آتی.بالکل ہر چیز پاک ہے بڑا لمباویسے یہ مضمون بن جاتا ہے لیکن میں بالکل مختصر کر کے پھر اس وقت انشا اللہ دعا کراؤں گا.پہلی بات یہ ہر احمدی کو یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اس بات سے کہ اُسے محدود سمجھا جائے.وہ محدود نہیں غیر محدود ہستی ہے.وہ پاک ہے اس بات سے کہ اُس کی ذات کو محدود سمجھ کر اور عرش کو مخلوق جانتے ہوئے اللہ کوعرش پر بٹھایا جائے.عرش کو ئی مخلوق مادی چیز نہیں جس پر
خطابات ناصر جلد دوم ۵۶۷ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء خدا بیٹھتا ہے بلکہ عرش اللہ تعالیٰ کی دو بنیادی صفتیں ہیں جن کے اندر پھر بہت ساری صفات ہیں.اُن میں سے ایک کا نام عرش ہے.عرش جو ہے وہ وراء الوراء مرتبہ اور جو تنزیہی صفت ہے اللہ تعالیٰ کی اُس کو ہم عرش کہتے ہیں.یہ مرتبہ کا نام ہے، کسی مخلوق تخت پوش کا نام نہیں جہاں کوئی شخص بیٹھ جاتا ہو.تھوڑی سی تفصیل، لمبی تفصیل میں نہیں جاؤں گا.خدا تعالیٰ کا انسان کے ساتھ ہونا اور ہر ایک چیز پر محیط ہونا ایک خدا کی تشبیہی صفت ہے.خصوصا انسان.اس لئے کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الدريت : ۵۷) کہ میں نے جن و انس کو اس لئے پیدا کیا کہ میری صفات سے متصف ہوں.میری صفات کا رنگ اپنی صفات کے اوپر چڑھائیں قریب آ گیا ناخدا.تو خدا کا انسان کے ساتھ ہونا اور ہر ایک چیز پر محیط ہونا خدا کی ایک تشبیبی صفت ہے.اشتباہ پڑ گیا نا.خدا رحیم ہے انسان بھی رحیم ہے.خدا رب ہے اپنی پوری عظمتوں کے ساتھ.انسان بھی رب ہے اپنے گھر میں اپنے بچوں کی تربیت کرتا ہے.ربوبیت کرتا ہے.ان کی ضرورتوں کو بڑے مخصوص.محدود بڑے چھوٹے دائرہ کے اندر کر رہا ہے لیکن رب کے ساتھ مشابہت اختیار کر لی.دوسری کائنات کی اشیاء نے بھی خصوصا انسان نے اپنی صفات میں خدا تعالیٰ کی صفات سے ایک مشابہت پیدا کر لی.اس لئے ایک اور بد مذہبی پیدا ہوئی.بعض لوگ یہ کہنے لگے ان تشبیہی صفات کو دیکھ کر کہ خدا بھی کریم.انسان بھی کریم.خدا بھی خالق.انسان نے بھی موٹریں بنالیں.ہوائی جہاز بنالیے وغیرہ وغیرہ.یہ جو صفات اس کی ہماری زندگی پر ظاہر ہوئیں خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں بڑا بزرگی اور طہارت کا سر چشمہ ہوں.تو خدا کے بزرگ بندوں میں پاکیزگی پیدا ہو گئی.ہم شکل ہو گئے ایک لحاظ سے تو اس سے یہ بد مذہب نکلا کہ انسان عین خدا ہے.یعنی کوئی فرق ہی نہیں رہا باقی.وہ خدا ہی ہے.تو اس چیز سے انسان کو محفوظ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنی ایک دوسری بنیادی صفت کو بیان کیا.خدا تعالیٰ نے کہا کہ میری صفات سے مشابه صفات میری خواہش اور مرضی اور حکم سے تمہارے نفسوں میں پیدا ہوتی ہیں لیکن تم خدا نہیں بن جاتے اور یا درکھو اس کا ثبوت یہ ہے کہ میری تنزیہی صفات بھی ہیں.جن کا تعلق کسی مخلوق کے ساتھ نہیں اور وہ اپنے جلوے دکھا رہی ہیں اور یہ جو تنزیہی اور تشبیہی صفات تھیں ، ان میں جن کا تنزیہی صفات کے ساتھ تعلق تھا اس کو عرش کا نام رکھا کہ میں اپنے وحدانیت کے قیام کے لئے ایسی
خطابات ناصر جلد دوم اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء صفات کا اظہار کرتا ہوں کہ جو کسی اور مخلوق کے ساتھ ان کی کسی ایک صفت کے ساتھ مشابہ نہیں ہیں.جن میں میں یکتا ہوں.کسی پہلو سے بھی نہیں.دوسرے پتہ نہیں اس میں آیا ہے اس اختصار میں کہ نہیں.میں زبانی بتا دوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جن میں اشتباہ ہے اُن میں بھی بڑا ناقص اشتباہ ہے.بنیادی طور پر مثلاً انسان دیکھنے کے لئے اپنی آنکھ کا محتاج ہے.آنکھ سے ہی دیکھتے ہیں نا آپ.موتیا پڑ جائے.دُکھنے لگ جائیں پیچھے و با آگئی تھی آنکھوں کی مصیبت ایک پڑ جاتی ہے آنکھ خدا نے ہمیں دی وہ لیکن بہر حال بینائی ہمیں دی.خدا د یکھتا ہے بغیر آنکھ کے اور خدا کی بینائی جو ہے وہ غیر محد دو ہے.اب یہاں وہ سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے چہرے مجھے نظر نہیں آرہے.بس یہ پتہ لگ رہا ہے کہ میرے جیسے انسان ہیں وہ بھی وہاں بیٹھے ہوئے.ایک میل آگے چلے جائیں تو بعض دفعہ جھاڑی اور انسان میں پتہ نہیں لگتا.شکاری جنگلوں میں جاتے ہیں کئی حادثات ہو جاتے ہیں.ان کو ہرن اور انسان کے اندر پتہ ہی نہیں لگتا.یہ آنکھ جو انسان اور ہرن میں فرق نہ کر سکے اور کہے مجھے.میرے پاس بھی بینائی ہے اور خدا بھی دیکھنے والا ہے اس لئے ہم برا بر ہو گئے.نعوذ بالله من ذلک مضحکہ خیز بات ہو جائے گی.تو جہاں مشابہت ہے وہاں بھی محدود دائرہ میں ناقص مشابہت ہے اور جہاں مشابہت نہیں ہے.تنزیہی صفات میں مثلاً خدا تعالیٰ عظیم ہے.اُس عظمت کو کوئی انسان پہنچ ہی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ جو ہے وہ یہ جو کائنات ہے یہ خدا تعالیٰ کا وجود جہاں اپنے جلوے ظاہر کر رہا ہے اُس کو میں کیا کہوں اب.کائنات کے علاوہ میرے ذہن میں کوئی لفظ نہیں آ رہا.بہر حال کا ئنات اس میں ایک ذرہ کے برابر ہے اور اس میں مخلوق کوئی نہیں لیکن خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہر آر ظاہر ہورہے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اور خدا کا تمام مخلوقات سے وراء الوراء ہونا اور سب سے برتر اور اعلیٰ اور دور تر ہونا اور اس تنزہ اور تقدس کے مقام پر ہونا جو مخلوقیت سے دور ہے عرش کے نام سے پکارا جاتا ہے.( یہ صفت ہے عرش.ناقل ) اس صفت کا نام تنزیہی صفت ہے اور خدا نے قرآن شریف میں اس لئے اس صفت کا ذکر کیا تاوہ اس سے اپنی توحید اور اپنا وحدہ لاشریک ہونا اور مخلوق کی صفات
خطابات ناصر جلد دوم ۵۶۹ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء سے اپنی ذات کا منزہ ہونا ثابت کرے.‘ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۸) آپ فرماتے ہیں.غور سے سنیں بڑا عجیب استدلال ہے:.تمام قرآن شریف کو اوّل سے آخر تک پڑھو.اس میں ہر گز نہیں پاؤ گے کہ عرش بھی کوئی چیز محدود اور مخلوق ہے.قرآن شریف میں لفظ عرش کا جہاں جہاں استعمال ہوا ہے اس سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت اور بلندی ہے.اسی وجہ سے اس کو مخلوق چیز وں.“ میں داخل نہیں کیا.(نسیم دعوت روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳ ۴۵ تا ۴۵۵) بہر حال مختصراً میں نے عرش کے متعلق بتا دیا.کہیں الجھ جائے کوئی تو اس کو سمجھا دیں کہ عرش خدا تعالی کی تنزیہی صفات کا نام ہے اور کوئی مخلوق چیز نہیں.نہ خدا مخلوق ہے کہ اس کو کسی تحت پوش کی ضرورت تھی جہاں وہ بیٹھ جائے اور کچھ باتیں اللہ کی خدائی تو غیر محدود ہے.بولتے رہیں گے جب تک زندگی رہی.اب چار بج گئے ہیں اور میں بھی تھوڑا سا تھک گیا ہوں.اس لئے اب دعا کریں گے.دعا ہماری جو خدا ہم سے چاہتا ہے وہ بڑی وسعتوں والی دعا ہے.یعنی جب یہ کہا اللہ نے کہ ہر ایک سے پیار کرنا کسی سے دشمنی نہ کرنا تو ہماری دعا کے دائرہ میں ساری دنیا آ جاتی ہے.سارے انسان نہیں میں کہہ رہا ساری دنیا آجاتی ہے.ساری کائنات آجاتی ہے اس لئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رَحْمَةُ الْإِنْسَانِ کی شکل میں نہیں پیش کیا بلکہ رحمۃ للعالمین کی شکل میں پیش کیا ہے.تو ہمارا یہ حق ہے اور ہمارا یہ فرض ہے اور کائنات کی ہرشی کا یہ حق ہے کہ ہم ان کے لئے دعا کریں.مثلاًشی میں سے میں ایک مثال دے دوں.ایٹم کے ذرے کا یہ حق ہے کہ جماعت احمد یہ خدا کے حضور عاجزانہ دعا کرے اور ایٹم کے ذرے کا ہم سے مطالبہ ہے کہ دعا کرو کہ اے خدا انسان کو ایٹم کی طاقت کے غلط استعمال سے بچاتا کہ ایٹم کے ذرے کو دُ کھ نہ پہنچے کہ خدا نے پیدا تو مجھے خدمت کے لئے کیا تھا اور بنادیا مجھے انسان کے ہاتھ انسان کا دشمن.تو اسلام نے یہ اعلان کر کے سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ ( الجاثيه : ۱۴) بہت سے احسان ہیں.ایک بڑا احسان کائنات کی ہر شئے پر یہ کیا کہ ان کے حقوق محدود کر دیئے مبین کر دیئے.بیان کر دیئے اور محفوظ کر دیئے اپنی اس عظیم شریعت کے اندر.
خطابات ناصر جلد دوم ۵۷۰ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء تو دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کا ئنات کے ہر حصے کو اس کا حق ادا ہو جانے کے سامان پیدا کرے کہ انسان غلط استعمال سے ان کے حقوق کو غصب کرنے والا نہ ہو.پھر چونکہ وہ انسان کے لئے بنائی گئی ہے یہ ساری مخلوقات انسان کا یہ حق ہے کہ ہم ان کے لئے دعا کریں کہ وہ اپنے ہاتھ سے یا کسی غیر کے ہاتھ سے ہلاکت کا منہ نہ دیکھیں بلکہ حیات اور زندگی اور خدا تعالیٰ کا پیار اور خدا تعالیٰ کا نور اور خدا تعالیٰ کا حسن دیکھنے والے ہوں اور اپنی بدقسمتی سے نجات حاصل کر کے اور آزاد ہوکرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آجائیں اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وہ وارث بنیں.پھر وہ ہیں ہم سب جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.ہم سب کا یہ حق ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لئے دعائیں کریں اور کبھی بھی امت مسلمہ کو اپنی دعاؤں میں نظر انداز نہ کریں.اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ کے لئے خوشحالی کے سامان پیدا کرے اور مختلف وقتوں میں جو انسانی زندگی میں سختیاں اور مصیبتیں آ جاتی ہیں.کبھی اپنے ہی ہاتھ سے بنائی ہوئی کبھی غیروں کے منصوبوں کے نتیجہ میں وہ سب سختیاں اور وہ سب مصیبتیں خدا دور کر دے اور وہ حقیقی بشاشت وہ انشراح صدر جو ایک مسلم کے سینے میں پیدا ہونے کا وعدہ دیا گیا ہے، وہ انشراح صدر پیدا ہو.آپ نے فرمایا.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس دل میں بشاشت ایمانی پیدا ہو جائے وہ ہلاکت سے محفوظ کر دیا جاتا ہے تو سب کے دلوں میں ہی یہ بشاشت پیدا ہو.ہم اپنے رب کریم کے احکام کو سمجھنے والے اور یا در کھنے والے اور ان پر عمل کرنے والے بن جائیں اور پھر یہ جماعت احمد یہ ہے.تعداد میں مختصر سی جماعت.اگر سارے انسانوں کی مردم شماری کی جائے تو بہت کم ہیں ہم.مانتے ہیں.طبہ نہیں.کوئی ہچکچاہٹ نہیں اسے تسلیم کرنے میں تھوڑے ہیں تعداد میں.پیسے کے لحاظ سے دنیا میں سینکڑوں شاید ایسے امیر لوگ ہوں کہ جن کی دولت ر جماعت احمدیہ کی ساری دولت سے بھی زیادہ ہے لیکن جس کی خوشیاں جماعت احمدیہ کی خوشیوں سے کروڑواں حصہ بھی نہیں ہیں.مالی لحاظ سے کمزور ہیں.تسلیم کرتے ہیں.دنیا ہمیں نہیں سمجھتی.یہ دنیا کی بدقسمتی.دنیا ہمیں نہیں سمجھتی.حقارت سے ہمیں دیکھتی ہے.ہم انہیں سمجھتے ہیں اور درد سے ان کے لئے دعائیں کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ عطا کرے اور ہمیں توفیق دے کہ جو ان کے حق ہیں.
خطابات ناصر جلد دوم ۵۷۱ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء وہ ہم ادا کریں اور جو ہمارا حق ہے وہ اللہ تعالیٰ ہمیں عطا کرے کہ جو اس سے ملے گا پھر ہمیں کسی اور کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں اور مل رہا ہے.جو دور بین نگاہ رکھتے ہیں ان کو نظر آنا شروع ہو گیا ہو گا.جو نو جوان ہیں انہیں میں کہتا ہوں جماعت احمدیہ کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم بپا ہو چکا.دنیا جماعت احمدیہ کی عظمت اور ان کے اخلاق کو دیکھ کے ان کے رعب کو جو ان پر پڑتا ہے.اس سے متاثر ہونی شروع ہو گئی.ہماری باتوں کو یہ عیسائی دنیا سمجھتی نہیں.مانتی بھی نہیں سمجھیں گے تو مانیں گے نا لیکن ہمیں وہ سمجھتے ہیں اور ماننے لگ گئے ہیں.کہتے ہیں عجیب قوم ہے یہ.ڈیٹن کے میئر نے مجھے کہا کہ کس قسم کے آدمی آپ پیدا کرتے ہیں.یہ جوافر وامریکن (Afro American) احمدی ہوئے.جب کوئی احمدی ہو جاتا ہے اس کی کوئی اخلاقی شکایت ہمارے پاس نہیں پہنچتی.میئر کے دفتر میں لیکن جود وسرے ہیں وہ ایک ایک آدمی کی ایک سے زائد شکایتیں روز ملنی شروع ہو جاتی ہیں.کسی کا بٹوہ چھین لیا.کوئی اور حرکت کر لی.صاف ستھرے جسم صاف ستھرے دماغ.صاف ستھرے کپڑے.اخلاق اچھے.روحانیت میں ترقی کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بڑھاتا ہی چلا جائے.بڑی عجیب قو میں پیدا ہورہی ہیں.تھوڑے ہیں امریکہ میں لیکن لاکھوں کی تعداد میں افریقہ میں پہلے وہ بلیک (Black) کہلاتے تھے.آج وہ نورانی بن گئے ہیں.ایسی انقلابی تبدیلی پیدا کر دی اللہ تعالیٰ نے وہاں کے احمدیوں کی زندگی میں اور وہ ایک نہیں دو نہیں بلکہ مجموعی لحاظ سے کئی ملین ہوں گے اور قربانی کرنے والے اللہ تعالیٰ کا ورد کرنے والے.تسبیح اور تحمید کرنے والے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے.اللہ اور محمد کے عاشق ہر چیز خدا کی راہ میں قربان کرنے والے اور جو دوسرا حق تھا، حقوق العباد اپنے ملک میں دوسروں کی خدمت کرنے والے.ایک نئی قوم آ گئی ان علاقوں.میں آدمی سمجھتا نہیں کہ یہ وہاں کے.ں رہنے والے ہیں.سمجھتا ہے شاید آسمانوں سے خدا نے ان کو اتارا.ان ملکوں کے باشندوں کی بہبود کے لئے اور ان کو اٹھا کے خدا کے پیار کی رفعتوں تک پہنچانے کے لئے.تو انقلاب عظیم بپا ہو چکا حرکت میں ہے اور اس میں Momentum پیدا ہورہا ہے حرکت جو ہے روز بروز تیز ہوتی چلی جارہی ہے.آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں.ساری دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوگی.یہ خدا کا فیصلہ ہے اور خدا تعالیٰ نے اپنے اس فیصلہ کا بھی اعلان کیا کہ
خطابات ناصر جلد دوم ۵۷۲ اختتامی خطاب ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۱ء میرے منصوبوں میں کوئی ماں جایا مجھے نا کام کرنے والا نہیں پیدا ہوا.جو خدا نے کہا وہ ہوگا.اب نعرے لگا لو تھوڑے سے دعا سے پہلے.(نعرہ ہائے تکبیر، اسلام زندہ باد.احمدیت زندہ باد.خلافت احمد یہ زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے ) ہمارے اپنے ملک میں کچھ دکھیا مہاجر افغانستان کے ہیں.حکومت وقت ان کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ ان مہاجروں کی تکلیف دور ہو اور پھر اپنے وطنوں میں اپنے گھروں میں جا کر عزت کی زندگی گزارنے لگیں.اور ایک اور گروہ بٹ گیا مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے علاقوں میں وہ بھی بڑے مظلوم ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے دکھوں کو بھی دور کرے اور ان کی خوشحالی کے بھی سامان پیدا کرے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم کبھی ایک لحظہ کے لئے بھی اسے بھولیں مت.ہمیشہ ہم یا درکھیں اسے اور وہ بھی ہمیں کبھی نہ بھولے اور ہماری حفاظت کرتا رہے.ہمارے دلوں کو اور زیادہ منور کرتا رہے.ہمارے اخلاق پر اسلام کا اور زیادہ حسن پیدا کرتا رہے اور ہمیں اپنا بنا لے اور کسی اور کا محتاج نہ بنائے اور کمزور ہاتھوں نے جو اس کا مضبوط دامن پکڑا ہے وہ اپنا دامن جھٹک کے ہمیں پرے نہ پھینک دے بلکہ اور قریب لے آئے.آواب دعا کر لیں.پُرسوز اجتماعی دعا کے بعد حضور انور فلک شگاف نعروں کی گونج میں احباب جماعت کو السلام عليكم ورحمته الله وبركاته، اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو کہتے ہوئے جلسہ گاہ سے واپس تشریف لے گئے.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
اشاریہ مرتبه : مکرم حبیب الرحمن زیروی صاحب (۱) آیات قرآنیه..(۲) احادیث (۳) الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام....(۴) مضامین.(۵) اسماء (۶) مقامات..(۷) کتابیات ۹ ۵۵ ۶۰
الفاتحة الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِينَ (۲) رَبِّ العَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ( ۴۲ ) آیات قرآنیہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (۵) حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (۲۰۲) ۴۵۸،۲۸۵،۱۹۶ يَرْزُقُ مَن يَشَاء بِغَيْرِ حِسَابِ (۲۱۳) ۵۴۸ ۲۸۶،۷۵ (۲۵۴) ۲۷۷،۲۷۵،۳۷ تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَرَفَع بَعْضَهُمْ دَرَجَتٍ (۲۵۴) ۴۸۹ ۵۰۶ البقرة هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (۳) قُولُوا لِلنَّاسِ حُسُنًا (۸۴) ۴۳۹،۵۸ ۱۴۸،۱۴۷ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُم...(۱۳۰) وَلِكُلِّ وِجُهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (۱۴۹) ۵۱۳،۴۳۱ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ.إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمُ (۱۵۱) (101) مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ (۲۵۶) ۵۶۳ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۲۸۵) ۵۶۵ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ (۲۸۶) ۴۸۸ ال عمران أوتُوا نَصِيباً مِّنَ الْكِتَبِ (۲۴) إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله.....(۳۲) ٤٦٠ إِنَّ اللهَ يَرْزُقُ مَن يَّشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ.۴۶۰ (۳۸) ۴۳۶ ۵۰۰ ۴۸۲،۴۶۰،۱۹۸ ۴۳۳ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ (۹۷) ۴۳۴ ۴۲۸،۴۱۷ ،۴۹۱ ،۴۰۱ كَمَا اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا (۱۵۲) ۴۳۴ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلناسِ (1) يُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (۱۵۲) ۴۴۰ ۴۶۲،۳۰۹،۲۹۶،۲۹۵ ۴۳۴ ۴۳۵،۴۳۴ ١٣٩ أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللهِ....(۱۶۳) إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (۱۵۷) رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ دَرَجَتْ عِندَ اللهِ (۱۶۴)
لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ (۱۶۵) ۴۳۶،۴۳۵ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ.....(۱۶۵) المآئدة ۴۴۳ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى (۳) خَلْقِ السَّمَواتِ وَالْاَرْضِ.....(۱۹۱) ۴۴۵ ۳۹۰،۳۸۵،۲۸۸،۲۶۱ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ.....(۲) (۱۹۲) النساء ۵۵۵،۵۵۲ ۱۳۹،۱۳۸ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ أُمَّهَتُكُمْ....(۲۴) تُؤَدُّوا الْأَمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا (۵۹) ۴۹۹،۴۸۶،۲۶۳ ،۱۳۴،۱۲۲ كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ.(9) قَدْ جَاءَ كُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ ( ٦ )) وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ حَللًا طَيِّبًا.۸۱ ۲۹۹ ۲۲۵ ۵۰۱ ۲۹۴ ۴۹۳ ۲۷۸ ۴۲۸ ۲۸۹ (19) ۲۹۸،۲۹۷،۲۹۶ لَا يَسْتَوِى الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ.(۹۶) وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجْهِدِينَ عَلَى الْقَعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (۹۶) وَأَنزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ.(۱۱۴) وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (۱۱۴) فَإِنَّ العِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (۱۴۰) بَلْ رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ (۱۵۹) لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ (۱۶۰) يَا يُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ.....(۱۷۱) (121) ۴۸۸ رِجُسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَنِ (۹۱) الانعام فَبِهدَ هُمُ اقْتَدِهُ.....(٩١) (۹۱) لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۴۸۸ (۱۰۹) وَبِذلِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ۴۸۹ (۱۶۴) ۵۰۲ ۴۰۱ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ (۱۶۵) الاعراف ۳۷۱ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (۱۵۷) ٣٧١ قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا (۱۵۹) ٤٣٠ وَأُمَلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ (۱۸۴)
الانفال يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ (۷۰) وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ.....(۱۸) ۵۰۸،۵۰۷ 1.9 التوبة الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِعِيْنَ (۷۹) ۲۶۴ لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى (۱۰۸) ۱۸۵ (۹۰) بأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۹۷) جَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (۱۲۶) بنی اسرآئیل وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً (۱۲۲) سُبْحَنَهُ وَتَعلَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبيرًا يونس إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ (١٦) ۲۶۸ (۴۴) ۵۲۰ ۵۸ ۲۲۶ ۲۹۶ ۵۶۳ وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ....(۸۲) ۵۰۷ الكهف رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً....(۱۱) ۴۵۷ هود إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (۱۱۵) ۸۵ يوسف وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ (۲۲) ابراهيم فَاجْعَلُ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمُ (۳۸) الحجر إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (۱۰) النحل ۴۰۱ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ ( ١١١) طه لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيى (۷۵) قَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا (۱۱۲) 197.A.۳۰۲ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (۱۱۵) ۲۴۳،۲۴۲،۲۴۱ الحج لَنْ يَّنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا (۳۸) ۳۸۷ النور قُل لِّلْمُؤْمِنتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ ۶۱ (۳۲) أَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ (۲۹) ۱۵۰،۱۰۹ اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (۳۶) ۲۲۲ ۸۳،۸۱
الفرقان يرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا......(۳۱) 28 الشعراء ۲۱۸،۵۸ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (۴) ۳۸۱،۳۱۷،۳۰۴ ،۱۴۶ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (۸۱) النمل رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي (۲۰) القصص ۲۸۹ سِرَاجاً مُّبِيرًا (۴۷) قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (۷۱) فاطر إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (۲۹) الصمت إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا....(۷) ص ۴۵۷ | مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (۸۷) الزمر رَبِّ إِنِّى لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ.لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ (۴) (۲۵) ۵۶۶،۴۵۷،۸۶ قُلْ يَعَبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا لَا تَقْنَطُوا العنكبوت بَلْ هُوَ ايتُ بَيِّنَتْ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أوتُوا الْعِلْمَ (۵۰) الروم ۴۴۳ فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (۳۱) ۱۵۵ لقمن أَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (۲۱) ۳۱۳ الاحزاب لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (۲۲) مِن رَّحْمَةِ اللهِ.....(۵۴) حم السجدة إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ....(۳۱) الشورى اَنزَلَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ (۱۸) جَزَاؤُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا (۴۱) الزخرف ۵۰۰ فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَمٌ (۹۰) ۸۱ ۲۲۲ ۴۷۰ ۴۰۸ ۳۴ ۵۶۳ ۵۰۷ ،۲۹۰،۱۰ ۴۵۲،۲۹۵ ۲۰۸ ۵۹ ۵۲۸
الجاثية سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ...(۱۴) ۲۱۰،۹۹،۶۷ ۵۶۹،۴۹۱،۴۶۸،۴۴۹ ،۲۸۱،۲۱۹ الفتح إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ (۱۱) الحجرات لَا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُمُ (۱۸) الذريت وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوم القمر اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ....(۳۲) الرحمن ۴۴۶،۳۶۰ الرَّحْمَنُ O عَلَّمَ الْقُرْآنَ....۲ تا ۹) ۵۰۶ عَلَّمَ الْقُرْآنَ (۳) خَلَقَ الْإِنسَانَ (۴) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (۵) ۴۳۵ ۳۲۱،۳۰۱ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانِ (٦) وَضَعَ الْمِيزَانَ (۸) الواقعة ۷۵،۷۴ أَفَرَءَ يْتُم مَّا تَحْرُثُونَ (۶۴) وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمُ (۲۳) وَذَكَّرُ فَإِنَّ الذِكْرَى تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (۵۶) ۳۲ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَبٍ مَّكْنُونِ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (۵۷) (۷۹،۷۸) ۱۷۱، ۲۷۶،۲۷۵، ۵۶۷،۳۹۰ فِي كِتَبٍ مَّكْنُونٍ (۷۹) لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (۸۰) ۲۰۸،۲۰۷ ۲۰۸ ۲۰۸ ۲۰۸ ۲۱۰ ۲۱۰،۲۰۸ ۷۵ ۷۴ ۷۳ ۴۴۱ ۱۰۵،۵۷ النجم وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى ۵۰۸ (۵۰۴) (1.9).....قَابَ قَوْسَيْنِ (۱۰) فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ (۳۳) لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (۴۰) ۵۱۸،۵۱۴،۴۵۳،۱۰۵،۳۱ الصف ۱۲۲ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (۲) ۴۴۱ ۴۵۲ هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى.....(۱۰) ۳،۲ ۲۳۳،۱۷۳،۲۱
الجمعة يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأرض......(۲) ۴۴۲ ،۴۴۱،۶۶ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا منهم ۵۱۳،۴۴۱ الدهر وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّه....(۹) التكوير إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ (۲) وَإِنْ كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ (۳) ۴۴۰ وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ (۳) وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ (۴) ۴۴۳،۴۴۲،۴۴۰ وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (۵) وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (۴) الطلاق وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ (۲) وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (۱۱) وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (۴) ۵۶۵،۵۱۷ الانفطار إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ (۴) التحريم إِذَا السَّمَاءُ انفَطَرَتَ (۲) وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انتَثَرَتْ (۳) رَبَّنَا أَثْمِمُ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرُ لَنَا.....(۹) ۴۵۷ وَإِذَا الْبِحَارُ فُجَرَتْ (۴) القلم إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (۵) وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ (١٠) الجن ۵۰۱،۱۴۴ ۳۴۶ الانشقاق اذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتُ (۲) الاعلى اَنَّ الْمَسْجِدَلِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (۲) (۱۹) ۲۵۲،۱۸۵،۱۸۴،۱۲۷،۳۸،۳۷ | وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَی (۴) التين المدثر ثِيَابَكَ فَطَهِّرُ (۵) القيامة ۵۴۰ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (۵) الاخلاص وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ( ١٠ ) ۳۵۹ اللهُ الصَّمَدُ (۳) ۲۹۸ ۳۵۹ ۳۶۰ ۳۶۰ ۳۵۹ ۳۶۰ ۳۶۰ ۳۵۹ ۳۵۹ ۳۵۹ ۲۸۷ ۲۹۱ ۲۱۹
σ احادیث نبویہ أَصْحَابِي كَالْنُجُومِ بِآتِهِمُ اقْتَدِيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا ۳۰۸،۳۶، ۳۳۱ ۵۱۹ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيمَانِ اللَّهُمَّ مَنْ آمَنَ بِكَ وَ شَهِدَ انِّی رَسُولِک ۸۸ كُلِّ بِيَمِينِكَ وَ كُلِّ مِمَّا يَلَيْكَ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَ بِكَ آمَنْتُ.۸۸ اللَّهُمَّ طَهِّرُ قَلْبِي مِنَ النِّفَاقِ وَ عَمَلِي مِنَ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفَلَاكَ الرباء اَللّهُمَّ اجْعَلُ فِى قَلْبِى نُورًا..۸۹ ۸۹ مَسْجِدِى هذا ۳۸۹،۱ ۴۴۸،۴۴۷،۱۳۸،۱۳۷ ۸۲,۸۱ ۴۹۱،۴۹۰،۴۵۰ ۲۵۳ احادیث بالمعنى ماؤں کے پاؤں تلے جنت ہے بوٹ کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی خدا سے مانگو ۱۲۱،۶۷ ۱۳۷ ۲۹۸ ۳۱۸ ۴۴۸ ۱۲۱ ۹۰ اللهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي وَ جَهْلِي وَ اسرَافَی اللَّهُمَّ ارْحَمُ خُلَفَائِيَ الَّذِينَ يَاتُونَ مِن بعدى.اَللَّهُمَّ اقْسِمُ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ.اَللَّهُمَّ اجْعَلْنِي اَخْشَاكَ.۹۱ اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور رکابی کے سامنے والے حصہ سے کھاؤ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِن الْهَمِّ وَالْحُزْنِ اپنی رکابی میں اتنا سالن ڈالو کہ آخری لقمہ جو تم والْعَجْزِ الْوَقَارُ الْوَقَارُ أَمَاطَهُ الْأَذَى عَن طَرِيق.إِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتِينِ بُعِثْتُ لَا تَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللهِ ۹۰ ۱۴۱ ۵۴۲ ۳۷۷ نے کھایا ہے وہ سارا سالن ختم کر جائے ابھی بھوک ہو تو کھانا چھوڑ دو بھوک لگے تو کھانا شروع کرو اور ابھی ہو تو ختم کر دو ۱۳۵ میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں ۲۹۲،۸۷ گے جو خروج مہدی کا انکار کریں گے.....
عربی الہامات انت مدينة العلم الہامات ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام) اردو الہامات ۱۱۱ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک اَنْتَ الشَّيْخُ الْمَسَيْحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُهُ پہنچاؤں گا ۱۶۴ میرے فرقہ کے لوگ ۱۷۵،۹۵ ۴۰۱ ،۴۰۰ رَبِّ أَرِنِي حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ ۲۴۲، ۲۴۴ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام...۵۳۴
آخرین مضامین دنیا کی کوئی بہترین بک شاپ ہو تو اس.اچھی ہو یہ ۵۳۱ جب آخرین پیدا ہو جائیں گے تو دنیا میں مخزن الكُتُبُ العِلْمةُ (احمدیہ بک ڈپو) ۵۳۲ ایک طمانیت اٹھے گی ۴۴۲ اخبار آخرین میں بھی ایک جماعت ہے جو جتنے ہمارے جماعتی یا نیم جماعتی اخبار وغیرہ پہلوں کے ساتھ صحابہ کے ساتھ جا ملے گی ۴۴۲ آزادی ضمیر ہیں ان کو خریدنا چاہیئے اور پڑھنا چاہیئے ۳۹۷ ۳۹۸ اخبارات خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں اسلام نے انسان کو اتنی آزادی ضمیر دی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے آگ اخلاق اخلاق دوحصوں میں تقسیم ہوتے ہیں ایک آگ عام طور پر ہمیشہ جلاتی ہے لیکن اسی آگ ترک شرا اور ایک ایصال خیر ۱۴۲ نے حضرت ابراہیم کو جلانے سے انکار کر دیا ۲۶ خلق صرف حلیمی ،نرمی اور انکساری کا نام نہیں ہے ۱۴۳ اگر کوہ ہمالیہ جتنی آگ بھڑکتی رہی ہو تو آپ ہر خلق کا اظہار بالا رادہ ہونا چاہیئے کے دل سے یہ آواز نکلے کی کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ......آوارگی ذھنی آوارگی بھی ذہنی صلاحیتوں کو مجروح کر دیتی ہے احمد یہ بک ڈپو ۵۳۴ ۴۶۴ ۵۲۹ اسلامی اخلاق بچپن سے ہی ذہن نشین کروانے چاہئیں جب طبعی قوتوں کو موقع محل اور ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے تو وہ اخلاق فاضلہ بن جاتے ہیں ۱۴۷ ۱۵۳ ۴۵۲ ۴۵۴ ایک دوسرے کا خیر خواہ بنو بدخواہ نہ بنو ہر ضروری کتاب وقت ضائع کئے بغیر کنٹرول ریٹ پر خرید سکتے ہیں ۵۳۰ ادارة المصنفين ۲۴۷ ، ۱۹۱
۳۱ ۳۱ Σ ارتقاء اسلام کوئی ازم نہیں ہے بے شمار ارتقائی مدارج سے گزر کے انسان کا دنیا کے مسائل کوئی دوسرا ازم نہیں بلکہ صرف جسم بنا استعداد ۴۴۹ اسلام حل کر سکتا ہے اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے جس نے اپنی طاقتوں اور قوتوں کا غلط استعمال والا ایک عظیم مذہب اور دستور حیات ہے کیا وہ نا کام ہو گیا ۳۰۲ اسلام کے خلاف تمام مذاہب کا بودا اور انسان کی قوتوں اور استعدادوں کی کمال نشو ونما چھوٹا اور کمزور ہونا دنیا پر ثابت کریں کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ کوئی شخص مجھے آج تک نہیں ملا جو یہ ثابت کر سکے ۳۱ ۴۳ ۳۱۷ ۱۳۸،۱۳۷ ،۱۳۶،۱۳۵،۱۰۴،۵۷ ،۲۰ نے پیدا کردی ۱۵۸،۱۵۳،۱۵۲،۱۵۱،۱۴۶ ،۱۴۵،۱۴۲،۱۴۱ ، ۱۴۰ اسلام ۲۲۹،۲۲۸،۲۲۵،۲۰۶ ،۲۰۱ ،۱۹۹ ،۱۹۷ ،۱۹۶ ،۱۷۸ ۲۵۸،۲۵۷ ،۲۵۶،۲۵۳،۲۴۵ ،۲۴۴ ، ۲۴۳،۲۳۸ ۳۲۹،۳۲۸،۳۱۸،۳۱۰،۳۰۳،۳۰۲،۲۷۷ ،۲۷۶ ۴۵۹،۴۳۳،۴۱۹ ،۳۹۵،۳۹۱،۳۷۲،۳۷۰،۳۴۷ ۵۰۰،۴۹۹،۴۸۳،۴۸۲،۴۸۰ ، ۴۷۷ ، ۴۷۶ ،۴۶۱ ،۵۴۵،۵۴۳،۵۳۵،۵۳۳،۵۲۰،۵۰۲ کہ اسلام کے اندر یہ کمزوری پائی جاتی ہے فلسفے اور طبیعات وغیرہ سائنسز نے اسلام پر حملہ کیا ہے اسلام حال کے علوم مخالفہ کی جہالتیں ثابت کرے گا اسلام کی سلطنت کو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے چڑھائیوں کا کوئی خطرہ نہیں اسلام کو علوم جدیدہ کے کسی حملے کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۶۱ ۹۹ 1+4 اسلامی آداب سکھانے کے عظیم علمی جہاد کا اعلان ۱۳۳ اسلام کا جھنڈا دنیا کے گھر گھر میں گاڑنے انسان کا اپنی ذات کو اپنے تمام قومی کے ساتھ والی جماعت آگے آئے گی خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دینا اسلام ہے اسلام تمام دنیا پر غالب آئے گا اور تمام اسلام بنیادی طور پر دو چیزوں میں منقسم ہے ۲۱ ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد ملکوں پر تو حید کا جھنڈا لہرائے گا ہر ملک کے بسنے والے کو اسلام نے یہی کھانے کے متعلق اسلام نے عجیب کہا ہے کہ وہ اپنے ملک سے پیار کرے ۲۸ پر حکمت تعلیم دی ہے ۱۳۴ ۱۳۴ ۱۳۸
۲۰۶ ۲۱۴ ۲۲۹ ۲۲۹ ۲۳۴ ۲۳۴ ۲۳۷ ۲۳۹ ۲۵۸ ٣٠٣ ۱۳ اسلام گندگی کو دور کرتا ہے لیکن اسلام اپنے اسلام نے ہمیں بنی نوع انسان سے پیار کرنا ماننے والوں کو مشقت میں نہیں ڈالتا ۱۴۰ سکھایا ہے اسلام ایک وحشی کو آداب سکھا کر انسان بناتا ہے ۱۴۱ اسلام کہتا ہے ہر ایک فرد واحد کو اس کا حق ملنا اسلام میں انسان کا ہر فعل اور حرکت اور ہر قوت کو آداب کے اندر باندھ دیا گیا ہے ۱۴۲ چاہیئے اسلام کہتا ہے عقل کو ہم نے الہام کا رفیق اسلام ایذاء رسانی کی اجازت نہیں دیتا خواہ وہ مسلمان عطا کیا ہے ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو ۱۴۵ اسلام کو چھوڑ کر ہم نے زندہ رہ کر کیا کرنا ہے اسلام دلوں کو موہ لینے والا مذ ہب ہے ۱۴ ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی ہمیں اسلام خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسلام ساری سے پرے نہیں لے جاسکتیں دنیا میں غالب آئے گا اسلام نے زندگی کو مہذب بنایا اس کی ہر بلکہ پیار ،محبت اور خدمت کے جذبہ کے ۱۵۱ غلبہ اسلام ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ نہیں ۱۵۳ | ساتھ ہوگا ضرورت کو پورا کیا ہے اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کے متعلق تعلیم جن قوموں نے داخل ہو کر اسلام کو غالب کرنا ۱۵۳ ہے ان کے ہراول دستے پیدا ہو چکے ہیں دی ہے اسلام انسان کی فطرت کی آواز ہے ۱۵۴ اسلام میں وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کی اسلام کسی کو مشقت میں نہیں ڈالتا ۱۵۴ بہت تاکید کی گئی ہے اسلام تو پیار،اخوت اور محبت کا مذہب ہے ۱۷۲ اسلام ایک بڑا عظیم مذہب ہے اس نے اسلام کا مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے دعا کے لئے کسی جگہ یا وقت کی تعیین نہیں کی حصول کے لئے اسلامی تعلیم کی چھری اپنی مغربی افریقہ میں اسلام کی روکافی تیز ہوگئی ہے گردن پر رکھ دے اگر اسلام کو غالب کرنا ہے تو قرآن کریم اور تفریق عقیدہ حق قائم کیا ہے ۱۷۹ اسلام نے امراء کے اموال میں سائل کا بلا تمیز ان کے ہاتھ میں پکڑاؤ اسلام سیاست بھی ہے اسلام اقتصادیات اسلام تو نری خوشی، نرا پیار اور نری محبت ہے ۱۸۱ بھی ہے اسلام معاشرہ بھی ہے
۱۴۷ ۴۳۵ ۴۶۳ ۵۳۲ ۴۲ ۱۵۶،۱۱ ۳۳ ۳۳ ۳۵ ۱۴ اسلام کی یہ بنیادی چیز ہے کہ کسی شخص سے اعمال کبھی کوئی حق غصب نہیں کرنا ٣٠٣ عمل صالح کا مطلب یہی ہے کہ موقع اور ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا خدا تعالیٰ محل کے مطابق فعل سرزد ہو کا ایک منصوبہ ہے جو اپنے وقت پر پورا ہوکر ہر شخص نے اپنے اعمال کے مطابق ثواب رہے گا حاصل کرنا اور ایک رفعت کو حاصل کرنا ہے اسلامی تعلیم کے تحت ہر فرد واحد کی ضرورتوں اصل زندگی کام اور ایسے اعمال کا نام ہے کو پورا کرنے کا انتظام ہونا چاہیئے ۳۲۲ جن سے خدا راضی ہو جائے اور وہ مقبول دنیا اسلام کی باتیں سننے کے لئے تیار ہے اثر اعمال ہو جائیں قبول کرنے کے لئے تیار ہے ۳۹۵ الشركة الاسلاميه جن لوگوں کی زبانیں اسلام کو برا بھلا کہتے اللہ تعالیٰ جل جلاله تھکتی نہ تھیں ان آنکھوں سے اسلام کی خدا تعالیٰ اپنی مخلوق کے ہر فعل کے متعلق تعریف سننے کے بعد آنسو ٹپکتے دیکھے ہیں اسلام نے پاکیزگی کے بارہ میں انتہائی تفصیل سے تعلیم دی ہے اسلام نے قوتوں اور صلاحیتوں میں توازن کا عجیب اصول دنیا کے سامنے رکھا ہے اشتراکیت ۴۴۳ ۴۴۷ ۴۵۱ ۴۴۰،۲۰۶،۲۰۵،۲۰۰ ، ۱۷۷ ، ۱۵۴ ، ۲۰ ، ۱۹ ،۱۸ اسے حکم دیتا ہے کوئی پتا درخت سے نہیں گرتا جب تک اسے گرنے کا الہی حکم نہ ہو زمین سے خدا کے نام اور آسمان سے اُس کے وجود کو مٹانے کا دعویٰ دنیا کی کونسی طاقت ہے جو خدائے قادر وتو انا کو اس کے ارادوں سے روک دے اشتراکیت کے نعرے بہت اچھے تھے لیکن عمل ۱۹ اس کے برعکس اس لئے وہ نا کام ہو گئے To each according to his need | دیوار میں نہیں روکا کرتیں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کو تو لوہے کی اطفال الاحمدیہ ۱۹ خدا تعالیٰ کے پیار کے مقابلہ میں دنیا کی دولتیں ۳۵۶،۳۵۵، ۳۵۷ اور سیاسی اقتدار کوئی حیثیت نہیں رکھتے
۱۵ کوئی نقص اور برائی اللہ کی طرف منسوب ہی خدا تعالیٰ کی آواز سننے کے لئے پہلے خدا کا نہیں ہو سکتی اور وہ پاک ذات کامل ہے ۶۶ بندہ بننا ضروری ہے ہراحسان کا سر چشمہ اور منب اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۶۷ تمہیں آسمانوں پر جانے کی کیا ضرورت تھی ۱۵۰ ۱۵۶ تمہیں تو اپنے ہر سانس کے لئے خدا کی تم اپنی شہہ رگ کے پاس خدا کو تلاش کرتے ۶۷ ابدی حیات خدا تعالیٰ کے پیار کی حیات ہے ۱۵۷ ضرورت ہے ہر حمد کا مرجع اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے آپ کی روح، ذہن اور آپ کے تخیل میں خدا تعالیٰ نے انسانی گوشت کی ہر بوٹی کے خدا ہی خدا ہو لئے علیحدہ دوائی بنادی ہے کوئی آپ کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا آپ کو اپنے وجود کا بھی احساس باقی نہ رہے جب تک کہ آسمانوں سے یہ حکم نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کبھی جھنجھوڑتا ہے اور کبھی ڈھیل دیتا میرے بندے کی ضرورت کو پورا کر دو ۷۸ ہے تا کہ سمجھنے والے سمجھیں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے فعل پر انفرادی حکم خدا کو حاصل کرنا تو بڑا ہی آسان ہے، وہ ۷۲ خدا تعالیٰ کی رحمتیں اس کثرت سے نازل ہوں کہ نازل کر کے اس نے ہمارے لئے دعاؤں جان مانگتا ہے جان دے دو کے رستے کھولے دنیا میں خدائی منصوبہ کو کامیاب کرنے کے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے دعاؤں کے ذریعہ لئے تبدیلیاں ہو رہی ہیں سے اپنے قرب کے سامان پیدا کئے ہیں ۷۹ خدا کے منصوبے کو دنیا کی کوئی طاقت نا کام اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ ۸۷ نہیں کر سکتی اپنے پیارے رب سے کبھی بے وفائی نہ کرنا اصل رازق خدا تعالیٰ کی ذات ہے خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کے دینے میں بخیل دولت صرف خدا دیتا ہے انسان تو صرف ۹۴ ذریعہ بنتا ہے نہیں ہے دنیا جو چاہے کر لے ہوگا وہی جو خدا چاہے گا ۹۴ لوگ یہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ خدا تعالیٰ بھی ہمارا خدا گونگا خدا نہیں ہے وہ سنتا بھی ہے دولت دے سکتا ہے اور بولتا بھی ہے ۱۴۹ اللہ تعالیٰ کو عاجزانہ راہیں پسند ہیں 172 ۱۶۷ ۱۷۲ ۱۸۲ ۱۹۸ ۱۹۸ ۱۹۸ ۲۰۱
۲۸۵ ۲۹۰ ۲۹۱ ۳۱۵ ۳۸۷ ۴۰۶ ۴۲۵ ۴۳۵ ۱۶ اگر خدا تعالیٰ کسی قوم کے بچوں کو ذہانت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے دینے لگ جائے تو اس سے اچھی اور کیا اپنی دعا اور تد بیر کوانتہا تک پہنچاؤ نعمت ہوسکتی ہے ۲۰۷ اللہ تعالیٰ نے جسمانی، اخلاقی اور روحانی خدا نے اس عالمین میں توازن کا اصول بیماریوں کی اصلاح کے سامان مہیا کئے ہیں ۲۰۸ خدا تعالٰی نے لاکھوں راستے ہدایت پانے قائم کیا ہے چاند اور سورج اور ستارے اور جڑی بوٹیاں کے کھولے ہیں اور درخت وغیرہ سب خدا تعالیٰ کے حکم کے خدا تعالیٰ کے علاوہ ہر دوسری چیز کو مرے نیچے ہیں خدا تعالیٰ نے عقل کو مشہودات کی دنیا میں مشاہدہ اور تجربہ کو اس کار فیق بنایا ہے ۲۰۸ ۲۱۲ ہوئے کپڑے سے بھی کم حیثیت دو خدا تعالیٰ علام الغیوب تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا تمہارے دلوں کو دیکھ رہا ہے اگر ہر نفس خدا کی نگاہ میں پاک اور مطہر بن خدا تعالیٰ ہمیں اگر ایک ہزار بھی ذہین بچہ جائے تو پھر ہمیں اور کیا چاہیئے خدا تعالی کی ساری صفات اس کائنات پر ہر آن اثر انداز ہو رہی ہیں اللہ تعالیٰ کا اس کائنات پر اور اس کا جلوہ ہر مخلوق پہ ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک ہوا میں جو ذرے ہیں وہ بھی بندھے ہوئے ہیں ۲۳۹ ۲۴۱ ۲۷۸ ۲۸۰ دے تو جماعت آدھی روٹی کھائے گی اور ان کو پڑھائے گی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا نور ہمارے سینوں میں ہمیشہ چمکتا رہے تم پر خدا کا احسان ہے کہ تمہیں ہدایت اور رضا کی جنتوں میں داخل ہونے کی توفیق دی تمام کی تمام سعادت خدائے رب العالمین اللہ تعالیٰ صرف پہلے زمانوں کا رب نہیں بلکہ کی صفات کی پیروی کرنے میں ہے ۲۷۷ قیامت تک کے لئے ہر زمانے کا وہ رب ہے ۴۴۱ ۴۴۲ ۴۵۲ خدا تعالیٰ تو غیر محدود طاقتوں والا ہے ۲۸۰ اللہ تعالیٰ بادشاہ بھی ہے پاک بھی ہے خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں میں ہمیں پاکیزگی کا سرچشمہ بھی ہے کبھی تضاد نظر نہیں آیا ۲۸۰ ہم ہر قسم کی ربوبیت اور نشو و نما کے لئے اللہ تعالیٰ رحمانیت نے زندگی اور حیات کا امکان پیدا کیا ۲۸۲ کے محتاج ہیں
اے خدا تو نے ہماری زندگیوں سے بھی خدا تعالی کی مخلوق کا بھی کوئی اور وجود کامل علم پہلے ان گنت نعماء ہمارے لئے پیدا کر دیں ۴۵۸ نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ نے ہر فرد واحد کے حقوق قائم کئے ہیں ۴۵۹ آپ کے ساتھ وہی انصاف کر سکتا ہے جس جو بھی خدا تعالیٰ کی صفات کا جلوہ ہے وہ کفر کے علم میں آپ کی زندگی کا ہر لمحہ ہے ۴۶۷ خدا تعالیٰ کی بادشاہت ہر عیب سے خالی اور نہیں ہوسکتا ایک فاحشہ کو خدا تعالیٰ نے اس لئے معاف پاک ہے کر دیا کہ ایک کتے کو جو پیاسا مر رہا تھا اسے خدا تعالیٰ کوئی ارادہ یا نیت ایسی نہیں کر سکتا جس پانی پلا دیا دنیا کی کوئی طاقت ہم سے یہ نہیں کہلوا سکتی کہ خدا نہیں یا اس نے ہم سے پیار نہیں کیا ہر چیز خدا کی عظمت کی طرف اور کبریائی کی طرف منسوب ہے اللہ تعالیٰ اپنی مرضی اور ارادہ کے موافق ہر چیز کی ربوبیت کر رہا ہے ۴۹۱ ۵۰۹ ۵۲۵ ۵۵۳ ۵۵۹ کو پورا کرنے کے لئے غیر کی احتیاج ہوا سے ۵۶۰ خدا تعالیٰ پاک ہے اس بات سے کہ اس پر مصائب نازل ہوں اور وہ سختیاں جھیلے خدا تعالیٰ اپنے موجود ہونے کو اپنے کلام سے ظاہر کرتا ہے خدا تعالیٰ اگر بولے نہ اس کا عاشق تو ویسے ہی پاگل ہو جائے خدا اپنے وجود کا آپ اعلان کرتا ہے ۵۶۲ ۵۶۳ ۵۶۴ ۵۶۵ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو عبث اور بے ہودہ طور پر پیدا نہیں کیا ۵۵۴ جو محبت خدا سے کرنی ہے وہ کسی فرد واحد ان کمزور ہاتھوں نے جو اس کا مضبوط دامن اُس کی مخلوق سے نہیں کرنی ۵۵۷ پکڑا ہے وہ اپنا دامن جھٹک نہ دے بلکہ اور قریب لے آئے خدا تعالی ازلی ابدی تغیر اور فنا سے پاک ہے اور ہر دوسری شے میں تغیر ہمیں نظر آتا ہے ۵۵۷ صفات باری تعالیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کی صفات، اللہ تعالیٰ الرحمن ہے وہ کسی عمل کرنے والے ۵۵۸ کے عمل کے بغیر اپنی نعمتیں نازل کرتا ہے خوبیاں اور کمالات سب سے اعلیٰ ہیں سوائے اللہ کے اللہ تعالیٰ کی ذات کو اور کوئی اللہ تعالیٰ نے رحمانیت کے جوش میں انسان نہیں جانتا ۵۵۸ کو قرآن کریم دیا ۵۷۲ ۲۰۸
۱۸ سورۃ الفاتحہ کی چار صفات باری تعالیٰ کا تذکرہ ۲۷۸ ہر ظہور ہر ایک چمکار خدا تعالیٰ کی صفت کی خدا تعالیٰ اگر ربوبیت ایک لحظہ کے لئے بھی اس سے کی طرف نشاندہی کرنے والی ہے علیحدہ ہو جائے تو ختم ہو جائے وہ چیز ۲۷۸ دنیا کے ذرے ذرے میں اور قرآن کریم ہر چیز کو خدا تعالیٰ کی ربوبیت ترقی دے کر کے لفظ لفظ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے اس کے کمال تک پہنچاتی ہے ۲۷۹ جلوے تلاش کرو زندہ رہنے کے لئے جس چیز کی ضرورت خدا تعالیٰ کی صفات کا علم رکھنا صحیح عالم بننے ہے وہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت نے ہر زندہ چیز کے لئے پیدا کردی جس جگہ زندگی پائی جاتی ہے اس جگہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا جلوہ نظر آتا ہے رحمانیت نے زندگی اور حیات کا امکان پیدا کیا رحیمیت کا جو فیضان ہے وہ انسان کی کوشش ۲۸۲ ۲۸۲ کے لئے ضروری ہے اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کسی چیز پر نازل ہونا بند ہو ۴۴۶ ۴۶۷ ۴۷۰ جائے تو وہ اُس کے لئے موت یا ہلاکت ہے ۵۵۳ ہر چیز اپنے تمام کمالات اور تمام اوقات میں خدا تعالیٰ کی ربوبیت کی محتاج ہے اللہ تعالیٰ کی ہر تخلیق اور ہر صفت اپنے اندر ۵۵۳ ۵۵۴ ۵۶۷ ۲۳۸ ۲۱۴ ۱۶ کو ثمر آور کرتا ہے اور ضیاع سے بچاتا ہے رحیمیت کے جلوہ میں سعی اور کوشش کے اوپر نتیجہ نکالتا ہے ۲۸۴ ۲۸۴ کمالیت رکھتی ہے وراء الوراء مرتبہ اور جو تنزیہی صفت ہے اللہ تعالیٰ کی اس کو ہم عرش کہتے ہیں السلام علیکم خدا تعالیٰ کی ربوبیت تدریجی ترقی دیتے ہماری فضا کو تو ہمیشہ السلام علیکم اور وعلیکم السلام ہوئے کمال تک پہنچاتی ہے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کسی قسم کا نقص اور کمی اپنے اندر نہیں رکھتی ۲۸۷ ۲۸۷ کی آوازوں سے گونجتے رہنا چاہیئے الہام بغیر الہام کے رفیق کے عقل کسی نتیجہ پر پہنچ خدا جو بادشاہ بھی ہے، پاک بھی،سب خوبیوں ہی نہیں سکتی کا جامع بھی ہے غالب اور حکمت والا بھی ہے ۴۴۱ ۴۴۱ امت محمدیہ وہ عزیز اور حکیم خدا آخرین میں سے ایک کو امت محمدیہ کو امت واحدہ بنانے کا کام عملاً چنے گا اور اسے مہدی بنادے گا ۴۴۳ | آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا
۹۳ ۱۳۵ ۱۴۶ ۱۴۸ ۱۵۰ 19 امت محمد یہ بنی نوع انسان کی بھلائی کے انسان اپنی کوششوں سے نیکی کے نتائج اور ۲۹۶ روحانی نتائج نہیں نکال سکتا لئے پیدا کی گئی ہے امت مسلمہ میں کوئی شخص بھی اپنی وقتی استعداد کامل تبدیلی ہرگز ممکن نہیں جب تک انسان کی انتہا کو پہنچنے کے بعد وہاں ٹھہرتا نہیں ۴۳۸ کی تمام قوتیں اطاعت الہی کے نیچے نہ امت مسلمہ دوسروں کی خیر خواہی اور بھلائی آجائیں کے لئے قائم کی گئی ہے امت محمدیہ کے لئے غیر محدود ترقیات اور ۴۶۲ انسان کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ وہ خندہ پیشانی سے پیش آئے نعمتوں کے حصول کی راہیں کھول دی گئیں ۵۱۴ انسان کا ہر کام بالا رادہ اور موقع اور محل کے کبھی بھی امت مسلمہ کو اپنی دعاؤں میں مطابق ہونا چاہئے نظر انداز نہ کریں انانیت ۵۷۰ انسان خدا کی صفات کے جلوؤں کا احاطہ نہیں کر سکتا دنیا انانیت کو چھوڑنے اور خدمت کے مقام انسان کو پینشن کے زمانہ کی تو پرواہ ہے لیکن پر کھڑی ہو انسان زمین کو انسان کا خادم بنایا گیا ہے ۴۶۱ ابدی زندگی کی کوئی پروانہیں انسانی فطرت ہے کہ بعض باتیں اسے دکھ پہنچاتی ہیں انسان کا انسان سے خدا نے تعلق قائم کیا ہے انسان کو خدا نے پیدا ہی جنتوں میں داخل ہر انسان کی خوشی کے سامان پیدا کئے جائیں کرنے لئے کیا ہے گے اور تلخیاں دور کر دی جائیں گی نوع انسانی کا دل خدا اور محمد عے کے لئے صرف عقل انسان کی ضروریات پورا کرنے تمام تحریکیں نوع انسان کو ایک خاندان جیت لیا جائے گا بنانے میں ناکام ہوں گی انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خدا کے لئے کافی نہیں ہے کے ساتھ تعلق پیدا کرے انسان کو اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کی ہر وقت اور کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اسے ۲۸ ہر انسان کی استعدادوں کے کمال نشو و نما ہر آن ضرورت ہے.۶۵ ملنی چاہیئے ۱۵۷ لا ۱۷۲ ۱۷۴ ۲۰۵ ۲۰۶
اگر کسی کی استعداد ضائع ہوتی ہے تو گویا اس قانون قدرت انسان کے نیک و بد ، مومن اور ۲۰۶ کا فرکو فائدہ پہنچانے میں کوئی فرق نہیں کرتا ۲۸۱ کا حق مارا جا رہا ہے ہر دوسری زندہ چیز کو انسان کا خادم بنایا انسان کی پیدائش سے بھی پہلے یہ زمین اور یه آسمان انسان کے استقبال کے لئے انسان کو ساری صلاحیتیں اس لئے دی گئی تیاریاں شروع کر چکے تھے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا گیا ہے ۲۰۸ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے وہ ۲۱۰ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعتدال بخشا اور ترقی کرنے ۲۸۳ ۲۸۶ ۲۸۸ کے لئے اسے کامل طاقتیں عطا کیں اس عالمین کی ہر شے کو بلا استثناء انسان کی خدمت کا حکم ہے انسان کو اس عالمین سے خدمت لینے کی قو تیں اور استعدادیں دی گئی ہیں انسان کی بنائی ہوئی چیز بھی بمثل و ماند نہیں انسان ہر وقت اور ہر جگہ دعا کرسکتا ہے انسانیت کو خطرات سے بچانے کے لئے ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۶ ۲۳۹ عیب اور کبھی انسان کی اپنی غفلت اور گناہ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے انسان کو کہا گیا جب تک زندہ ہو آخری سانس ہے اس وقت تک تم اپنی حالت بدل سکتے ہو انسان کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ۲۸۸ ۲۹۱ ۲۹۲ ۲۹۳ ۲۹۳ ۲۹۶ ۲۹۷ صفات کا رنگ اس کی صفات پر چڑھے گا علمی میدانوں میں بھی کوشش کریں اور ان انسان پر زندگی میں کبھی بھی تو بہ کے اور خدا کے لئے دعائیں بھی کریں ۲۴۵ کی طرف واپس لوٹنے کے دروازے بند انسان کی فطرت میں یہ رکھا ہے کہ وہ اللہ نہیں کئے گئے تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق قائم کرے ۲۷۵ انسان کو صاحب اختیار بنایا وہ بھٹک بھی جاتا انسان خود اپنے طور پر اپنی پیدائش کا مقصد ہے اپنی غفلت یا اباء اور استکبار کے نتیجہ میں نہ پاسکتا ہے نہ بیان کرسکتا ہے انسان کی پیدائش کا اصل مدعا خدا تعالیٰ کی پرستش، کو عطا کی ہیں ان کو امانات بھی کہا گیا ہے معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے ۲۷۶ خدا تعالیٰ نے انسان کی جو قوتیں اور انسان مخدوم ہے اور تمام کائنات اس کی صلاحتیں پیدا کی ان کی کامل نشو ونما کے ۲۸۰ سامان پیدا کئے ہیں ۲۷۵ خدا تعالیٰ نے جو قو تیں اور استعداد میں انسان مخدوم ہے
جو انسان جس چیز کا اہل ہے اس کے مطابق بڑا احمق ہے وہ انسان جو سمجھتا ہے کہ اس کا اس سے سلوک ہونا چاہیئے معاشرہ میں ۲۹۸ احسان ہے خدا یا اس کے رسول پر ہر فرد واحد کی اس دُنیا میں جائز ضرورت انصار اللہ مرکزیہ پوری کرنا اس کا حق ہے ایک عجیب انقلاب عظیم نوع انسانی کی زندگی میں بپا ہو چکا ہے بد بخت ہے وہ انسان جو خدا سے پیار کو پاتا ۳۲۱ ۴۲۴ ۵۶۶ ۳۲۷،۳۲۶،۲۴۹،۱۸۷ ۵۴۸،۵۳۲،۴۷۵،۳۹۵،۳۵۷،۳۵۶ انصار اللہ مرکزیہ صدر انصاف کے لئے گواہی اس لئے دو تا کہ اللہ اور خدا سے بے وفائی کرتا ہے ہر آنے والی نسل پہلوں سے کچھ زیادہ فضل اوپن میرٹ سکالرشپ بھی لے رہی ہوتی ہے ۴۴۰ تعالیٰ کا قرب تمہیں حاصل ہو جسمیں شیعہ بھی اور دیو بندی بھی اور بریلوی بھی ۳۲۷ ۱۰۲ اور احمدی بھی مقابلہ میں شامل ہو سکتے ہیں دنیا میں کوئی پیٹ رات کو بھوکا نہ سوئے اور کوئی پیٹ زیادہ کھانے کی وجہ سے رات کو ہزاروں، لاکھوں اولیاء اللہ امت محمدیہ میں ۴۵۵ گزرے ہیں اُن کو دُنیا نے بڑا دکھ دیا اور پیٹ درد میں مبتلا نہ رہے انسان کو اپنے حیلوں اور دغا بازیوں پر بہت تنگ کیا ۲۹ بھروسہ اور اپنے حسن یا مال و دولت پر فخر ۴۵۸ اہل کتاب کی کتابیں اپنازمانہ گزار چکیں انسان نے بہت سے ارباب بنالئے اپنے ایٹم بم حیلوں اور دغا بازیوں پر اسے بھروسہ ہو گیا کسی انگریز نے لکھا ہے کہ جو بہت کتابیں پڑھنے ۴۵۸ خرچ ہونی چاہیئے ۴۶۹ ایٹمی طاقت بھی انسان کی بھلائی کے لئے ۱۵۹ ۳۷۵،۶۳ ۲۳۰ والا انسان ہو وہ اچھا بادشاہ نہیں بن سکتا اے خدا انسان کو ایٹم کی طاقت کے غلط استعمال انسان درجہ بدرجہ زمین سے اُٹھ کر ساتویں ۵۵۴ سے بچانا کے ایٹم کے ذرے کود کھ نہ پہنچے آسمان کی رفعتوں تک پہنچ سکتا ہے اللہ تعالیٰ ہر انسان کے ساتھ اس کے ایٹم کے ذرے کا یہ حق ہے کہ جماعت حالات کے مطابق اس کی ضرورت کے احمد یہ خدا کے حضور عاجزانہ دعا کرے تا ایٹم مطابق بات کرتا ہے ۵۶۵ کے ذرے کو دکھ نہ پہنچے ۵۶۹ ۵۶۹
۲۲ ب، پ، ت بت پرست ۴۸۲ ۱۹۰ پریس پرنٹنگ ملک کی باہر کی جماعتوں میں کم از کم دو بڑے پر لیس کھولنے کی ضرورت ہے ہمارے بچوں کو ہمارے عقائد کا علم ہونا چاہیئے جس چیز کی وجہ جس وقت جتنی مقدار میں بچے کو خواہش پیدا ہو اس کو ملنی چاہئیے کوئی ذہین بچہ خواہ وہ افریقہ کے جنگلات میں پیدا ہو یا نیو یارک کے محلات میں ضائع نہیں ہوتا ہے ۴۰۲ پنجاب یونیورسٹی لاہور تحریک جدید ۵۲ ۴۶۴،۴۶۳ ۵۰،۳۸،۳۲ ۱۹۵،۱۹۳،۱۸۷ ، ۱۱۹ ، ۱۱۷ ، ۱۱۶ ۱۱۵ ۱۱۴ ۳۲۸،۳۱۹،۲۵۹،۲۵۴ ،۲۵۳، ۲۴۹ ،۲۴۵ ۵۴۸،۵۴۷ ،۵۴۶،۴۷۵ ،۴۱۶،۴۱۰،۳۲۹ ۳۲۷،۲۴۶،۱۹۱ تحریک جدید وکالت تبشیر دس سال تک تحریک جدید ہندوستان کے دنیا میں کسی بچے کو ذہن عطا کرنا یہ انسان کا احمدیوں کے چندے کے ذریعہ بیرون کام نہیں یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۴۶۴ پاکستان تبلیغ کرتی رہی ہمارے بچوں کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ اپنے ۱۹۴۴ء میں ہمارے رجسٹروں میں پہلا غیر اوقات اور صلاحیتوں کو ضائع نہ کریں ۴۶۴ ملکی چندہ درج ہوا اگر غریب خاندان میں کوئی ذہین بچہ پیدا ہو تدبیر جاتا ہے اس کو اُس کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا جو خدا ہمیں ایک سو ذہین بچے دے گا وہ ۴۶۶ دعا کو اپنی انتہاء تک پہنچا ؤ اور تدبیر کو اپنی انتہاء تک پہنچا و تب تم دُنیا کے آگے نکل جاؤ گے ہر فرد کے کیمیاوی اجزاء کے مطابق جو دوائی اڑھائی لاکھ روپیہ بھی دے دے گا ان پر ملنی چاہیے تھی وہ خدا نے پیدا کر دی خرچ کرنے کے لئے بد مذهب ۴۶۶ ۴۸۳،۴۸۲ ساری تدبیر اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے انسان کے ہاتھ میں کوئی منصوبہ نہیں ہے بد مذھب وہ لوگ ہیں جن کی طرف کسی تقوی وقت رسول آیا مگر پھر وہ اس رسول اور کتاب کو بھول گئے بہشتی مقبره ربوه پادری ۱۵۹ ۲۳۸ تقویٰ کی بنیاد پر اپنی زندگی کی عمارت استوار کرو اور خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس ۹۶،۸۰، ۱۱۶،۱۰۹، ۲۱۶، ۳۷۵،۲۱۸ کی رحمتوں کے وارث بنو ۹۷ ۲۹۲ ۴۳۱ ۳۸۸
۱۶۳ ۱۶۳ ۱۶۳ ۲۳۳ ۲۴۰ ۲۴۰،۲۳۸ ۲۴۱ ۳۰۷ ۳۸۴ ۳۸۵ ۳۸۶ ۲۳ اس بات کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے کہ کون متقی بڑھتا ہے دوری مٹ جاتی ہے ہے اور کون نہیں تعلیم الاسلام کالج ۴۵۲ جلسہ سالانہ میں قرب کی راہیں کھلتی ہیں اور کالج تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے اس جلسہ کے انعقاد کی ایک غرض یہ بھی ہے ۴۰۴۴۰۲ نفاق کی بلا سے ہمیں نجات حاصل ہوتی ہے جاری کیا ہے تبلیغ کے لئے نہیں ۴۰۳ کہ باہمی نفاق کو دور کیا جائے تعلیم القرآن کلاس ہمارا یہ جلسہ سالانہ عام جلسوں، اجتماعوں یا تعلیمی انعامات کا تذکرہ ۴۸۱ میلوں کی طرح کوئی معمولی جلسہ نہیں توحید ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیئے خالص توحید کو اپنے سینوں ، روح اور اپنی باہر سے آنے والے بہن بھائیوں اور ربوہ ۳۱۴ کے مکینوں کو بھی جلسہ سالانہ کے ان مبارک زندگی میں قائم کرو جامعہ احمد یہ ربوہ جانور ج، چ، ح، خ، ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے ۴۰۳،۲۶۹ خاص طور پر ایک دوسرے سے محبت اور پیار سے پیش آئیں انشاء اللہ وہ دن بھی آئے گا جب دنیا کے ہر جانور کو ذبح کرنے کی اجازت ہے لیکن اس کو دکھ دینے کی اجازت نہیں جلسہ سالانہ ۴۹۰ ۳۸۰،۳۷۹،۱۵ ملک سے جلسہ میں شمولیت کے لئے احمدی جمع ہونگے ہمارا یہ جلسہ کوئی دنیوی میلہ نہیں اس کی بنیاد اس جلسہ کا مقام اس قدر بلند ہے کہ دنیا دارانہ اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے رکھی گئی ہے نگاہ اس مقام تک پہنچتی ہی نہیں ۹۲ دنیا کی زرہ بھر ملونی ہمارے اس جلسہ سالانہ یہ جلسہ کوئی دنیوی میلہ نہیں ہے اور نہ کسی دنیوی پر نہیں ہونی چاہیئے غرض کے لئے اسے منعقد کیا جاتا ہے ۹۲ کوئی براعظم ایسا نہیں جہاں سے احمدی اس جلسہ کی بنیادی اینٹ اللہ تعالیٰ نے یہاں جمع نہ ہوئے ہوں اپنے ہاتھ سے رکھی ہے 171 ایک بین الاقوامی برادری اور امت واحدہ جلسہ سالانہ کی اس فضاء میں اخوت کا جذبہ کی ابتداء ہو چکی
۲۴ جماعت احمدیہ ۲۲،۲۱،۱۵،۳،۲ ۲۴ ۱۹۴۷ء میں ہم خالی ہاتھ آئے تھے لیکن ہمارا ۲۱۶،۱۸۹،۱۵۱،۱۲۵،۱۲۰،۱۰۴،۱۰۱،۱۰۰، ۲۲۸ گھر پھر خدا تعالیٰ نے بھر دیا ۲۵۰،۲۴۰،۲۳۵،۲۳۴۲۳۳، ۳۱۲۰۳۰۸ ۴۰ ۳۱ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں اپنا با وفا ، راضی برضا ۳۳۳،۳۲۵،۳۲۴ ،۳۲۲،۳۱۹،۳۱۸،۳۱۵ ۳۷۶،۳۵۶،۳۵۵ ،۳۴۷ ،۳۳۷ ،۳۳۶ ۴۱۹ ،۴۱۸ ،۴۱۷ ، ۴۰۵،۳۹۴،۳۸۹،۳۸۳ ۵۱۷،۵۱۶،۴۸۲۴۷۹ ،۴۲۴ اور راضی بقضا پائے گا خدا تعالیٰ نے ہمارے دلوں کو دنیا کی حرص سے محفوظ رکھا ہے پاکستان جو ہمارا پیارا ملک ہے وہ دنیا کے اے خدا! دنیا نے ہمیں چھوڑ دیا پر تو ہمیں نہ معزز ترین ممالک میں شمار ہونے لگے دھتکارنا اے خدا! ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ہمیں جماعت احمدیہ کی یہ ذمہ واری ہے کہ وہ دعاؤں کے ساتھ اپنے ملک کے استحکام اور خوشحالی کے سامان پیدا کرے ۱۹۷۴ء کے حالات کا تذکرہ پاکستان میں (۱۹۷۴) کا جو نقصان ہوا ۵،۴ اپنے سے علیحدہ نہ کرنا جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو پانے کے اعتبار سے ایک منفرد جماعت ہے جو دعا کی توفیق ایک احمدی کو ملتی ہے وہ دوسروں کو نہیں ملتی کیونکہ ایک احمدی کا زندہ ۱۹۴۷ء میں صرف قادیان میں اس سے سو تعلق اپنے زندہ خدا سے ہے گنا زیادہ نقصان ہوا خدا تعالیٰ کے پیار کے زندہ جلوے ہم نے ہندوؤں اور سکھوں کی یلغار نے ہمارے اپنی زندگیوں میں دیکھے ہم اس خدا کو نہیں ہاتھ میں مٹی کے کشکول تو نہیں پکڑوائے چھوڑ سکتے جب اس نے لینا ہوتا ہے تب بھی الحمد للہ حضرت محمد مصطفی امیہ سے دوری ہم اپنے پڑھتے ہیں جب وہ دیتا ہے تب بھی الحمد للہ لئے موت سمجھتے ہیں پڑھتے ہیں نوع انسانی کے لئے دعائیں کرنا جماعت احمدیہ ہمارے دلوں کے اطمینان کا منبع اور سر چشمہ کا کام بلکہ غرض ہے کوئی دنیوی طاقت اور ایجنسی نہیں ہے بلکہ احمدی نسلوں کو اسلامی رنگ میں رنگین کرتے اللہ تعالیٰ کی ذات ہے چلے جانے کی ضرورت ہے ۱۲
۲۶ ۲۶ Σ ۲۶ ۲۸ ۳۱ خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کے افراد کو ہر قسم کی ہم نوع انسانی کے مردہ جسموں کو روحانی اور تلخیوں سے محفوظ رکھے اخلاقی طور پر از سر نوحیات بخشیں گے جماعت احمدیہ کے دل میں سیاسی اقتدار کی ہم نوع انسانی کے دلوں کو پیار اور محبت سے ۲۱ جیتیں گے کوئی خواہش نہیں ہے حضرت محمد مصطفی مالیہ سے جدا ہو کر ہماری دنیا کے دکھوں کو حقیقی طور پر سوائے احمدیت زندگی زندگی نہیں رہتی خدا تعالیٰ کی طرف پیٹھ پھیر کر ہمیں زندہ رہ کر کیا کرنا ہے ۲۱ کے اور کوئی دور نہیں کر سکتا ۲۱ ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ نوع انسانی کو امت واحدہ بنانے کے لئے قربانیاں دیں جماعت احمد یہ دنیا میں اسلام کی سربلندی دنیا میں ایک جماعت احمدیہ ہی ہے جس کے لئے جدو جہد کر رہی ہے بعض لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں مگر اس کے برعکس ہماری آنکھوں میں وہ اپنے لئے پیار اور محبت کا ایک سمندر موجزن پاتے ہیں ہمیں لوگوں کے غضب اور غصے اور نفرت کی آگ کے شعلوں کو اپنی شفقت اور پیار کے پانی کے ساتھ بجھانا ہوگا احمدی دنیا کی ہلاکت کے لئے پیدا نہیں ۲۲ ۲۴ ۲۶ میں استقلال پایا جاتا ہے ہمارے سر زمین سے کبھی نہ اٹھیں اور کبھی بھی ہمارے دلوں میں فخر اور غرور اور کبر پیدا نہ ہو اگر تم تکلف کرو گے تو پھر آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ اختیار نہیں کرسکو گے ہمیں جو کچھ چاہیئے وہ خدا کی تو حید کے قیام اور نوع انسانی کی خاطر چاہیئے ہوئے بلکہ دنیا کو زندگی دینے کے لئے پیدا ہمارے دل میں یہی شوق ہے کہ دنیا کے ہر دل کئے گئے ہیں ۲۶ ۲۶ میں خدائے واحد و یگانہ کی محبت پیدا ہو جائے ہم حضرت محمد مصطفی امیہ کے چراغ سے نور خدا تعالیٰ کی خاطر مسجدیں بنانا ہمارا فرض ہے لے کر نوع انسانی کے دلوں کو منور کریں گے تم حصول علم میں ان سے بھی آگے نکل سکتے خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری حقیر کوششوں کو ہو کیونکہ علموں کا خزانہ تو کبھی بند نہیں ہوا نواز تا اور ہماری کمز ور دعاؤں کو قبول کر لیتا ہے ہمیں مختلف زبانوں کے جاننے والے اور ہماری توقع سے بڑھ کر نتائج نکالتا ہے ۲۶ سینکڑوں آدمی درکار ہیں ۳۳ ۳۴ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۵۲
1+1 1+1 ۱۰۳ ۱۰۳ 1+2 ۱۰۷ ۲۶ اپنے عقائد کا اعلان ہونا چاہیئے اور بار بار خدا کا بے انتہا شکر ہے کہ احمدیت میں ذہین ہونا چاہیئے ۶۱ بچے پیدا ہور ہے ہیں جماعت احمدیہ میں بھی خدا تعالیٰ کے مقربین ذہین اور ہونہال بچوں کو سنبھالنا ہمارا کام ہے پیدا ہوتے رہیں گے ۶۵ ہر بچہ جو ذہین ہے جماعت اس کی ذہانت کو ہمیں کوئی فکر نہیں کہ ہم اپنی عقل پر بھروسہ ضائع نہیں ہونے دے گی ہمیں اس وقت ہر قسم کے عالموں مثلاً زبان کرنے والے نہیں ہیں ہم خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم پر بھروسہ دانوں ،سائنس دانوں فلسفہ دانوں وغیرہ کی ۶۵ بے حد ضرورت ہے کرنے والی جماعت ہیں تمہیں خدا تعالیٰ نے دنیا میں آگے نکلنے کے اسلام کے دفاع کے لئے جماعت احمدیہ کا لئے پیدا کیا ہے پیچھے رہنے کے لئے پیدا ذہن اور نور فراست کھڑا ہے نہیں کیا وے ہمیں یہ تسلی ہونی چاہیئے کہ ہماری طرف ہمارے لئے خدا نے اپنی مہربانی سے تحقیق سے جو ترجمہ شائع ہواوہ درست ہے اور سائنس میں آگے بڑھنے کے سامان پیدا ہمیں ایسے دماغ چاہئیں جو بڑے اعلیٰ کئے ہیں ۷۹ درجے کے عالم ہوں خدا کرے کہ ہمیشہ ہی اس کا پیار ہمیں فراست اور نور رکھنے والے ذہن ہمارے نصیب رہے تمہارے سر عاجزی سے ہمیشہ خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جھکے رہیں ۹۳ ۹۵ پاس آنے چاہئیں ہر زبان زبانِ حال سے پکار کر جماعت احمدیہ کو کہہ رہی ہے کہ مجھے میری زبان میں ۱۰۸ ۱۰۸ 11.± اسلام سکھانے والا دو تم خوب محنت کرو اور دعائیں کرو اور کسی کو آگے نہ نکلنے دو ۹۶ ۹۶ ہمیشہ یادرکھو کہ احمدی کسی سے دشمنی نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے خدا نے آپ کو پیار کرنے کے لئے اور خدمت کرنے کے لئے پیدا کیا ہے میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت ہمارے پاس ہر میدان کا عالم ہونا چاہیئے میں کمال حاصل کریں گے..ہمیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمی چاہئیں
۲۷ ایک مخلص احمدی جہاں بھی کام کرے گا اگر اسلام کو زندہ کرنے کے لئے ہمیں گردنیں کٹوانی پڑیں تو خدا کی قسم ہم میں جماعت کی تقویت کا باعث ہوگا ہر قسم کی بدعات سے پاک اسلام احمدیت سے ہر ایک خدا کی راہ میں گردن کٹوادے گا ا جماعت احمدیہ کے ذریعہ لاکھوں کی ہے اصل چیز ہے ہی اسلام احمدیوں کے آنے سے قبل ہم مسلمان تعداد میں غیر مسلم اسلام قبول کر رہے ہیں اسلام کا نام لیتے ہوئے شرماتے تھے ۱۱۶ جو دوری ہے اس کے نتیجہ میں بڑی کمزوری ہمیں خدا تعالیٰ نے ہر انسان سے ہمدردی نفاق کی کمزوری ہے کرنے کے لئے پیدا کیا ہے ان کانٹوں کا شکوہ کریں گے جنہوں نے اس کے اندر داخل نہیں ہوسکتا ۱۲۹ جہاں قرب ہو.جہاں تک قرب ہو نفاق 17.۱۶۲ ۱۶۳ ۱۶۳ ۱۴۶ جب آپ کو منزل مل گئی تو راہ کے کانٹوں کا ܬܪܙ آپ کی رفتار کو تیز کیا ہم اپنی تمام خدا داد قوتوں سے نوع انسانی کیا شکوہ کی خدمت کر سکتے ہیں ۱۴۸ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام ساری دنیا تم اپنی نفسانی خواہشات کو کلی طور پر مٹا کر میں غالب آئے گا ۱۴۹ آپ نے ہمارے ملک کے عوام تک اس.خدا کے ہو جاؤ ہماری جماعت کو فوری طور پر اسلامی آداب تعلیم کے پہنچانے کا کیا انتظام کیا ہے ۱۵۰ جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی اور اخلاق کے بارہ میں متوجہ ہونا چاہیئے اسلامی آداب، اسلامی اخلاق اور اصول غلبہ اسلام کی صدی ہے روحانیت کو مدون کر کے دنیا کے سامنے دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہم پر ۱۵۴ بدلی ہوئی ذمہ داریاں بھی ڈال رہی ہیں پیش کریں اسلامی آداب، اخلاق اور روحانی اصولوں اگر ہم بات نہ کریں تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو کو جماعت احمدیہ کے سامنے پیش کرنے کی جائے گا کہ تحدیث نعمت نہیں کرتے ضرورت ہے ۱۵۵ جماعت کا دوسرا نام الخلافۃ بالمشورہ ہوسکتا ہم مرنے کے لئے نہیں بلکہ زندہ رہنے اور ہماری تو خواہش ہے کہ دوسرے فرقے بھی دوسروں کو زندہ کرنے کے لئے پیدا کئے تبلیغ کریں تا کہ پتا لگے کہ حق اور صداقت گئے ہیں ۱۶۰ کدھر ہے ۱۷۳ 127 ۱۷۸ ۱۷۸ ۱۸۲ ۱۸۹
۲۲۶ ۲۳۳ ۲۳۴ ۲۳۴ ۲۳۴ ۲۴۴ ۲۴۴ ۲۴۴ ۲۴۵ ۲۵۹ ۲۸ ہمارے دستور نے ساری دنیا میں اعلان کیا کہ ہر دنیا کو نیکی کی طرف موڑ کر لانا جماعت ۱۹۰ احمدیہ کا کام ہے شخص کو اپنے عقیدے کی تبلیغ کی اجازت ہے ہم مخالفین کے عقائد اور ان کی تحقیق کا بودا پن جماعت احمدیہ کی بنیاد اس لئے رکھی گئی ہے تا اور غلطیاں ان پر ظاہر کریں گے جماعت احمدیہ نے اسلام پر ہونے والے حملوں کا دفاع کرنا ہے ۱۹۰ کلمہ اسلام دنیا میں پھیلایا جائے 190 جماعت احمدیہ کو قادر و توانا خدا اپنا ہتھیار بنائے گا تا دنیا میں اسلام کو غالب کرے دنیا کا کوئی محقق اور کوئی عالم ہمارے سامنے آکر اسلام کے خلاف بات نہیں کر سکتا 190 صلى الله حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے جماعت قربانیاں دے گی پاکستان کے دستور اساسی کے جھنڈے کو خدا تعالیٰ نے قو میں تیار کی ہیں جو اس سلسلہ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ہم اپنے عقائد کی تبلیغ کے ساتھ آ ملیں گی کرتے ہیں بے شک پڑھا ئیں مگر وقت پر بچیوں کی شادیاں کر دیا کریں ہمارے کسی ایک ملک کے کسی ایک مشن میں بھی تالا نہیں پڑا جماعت کا جو کم از کم دینی معیار ہے اس پر قائم رکھنا وقف جدید کا کام ہے ۱۹۰ ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۵ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ یہ روشنی عطا کرے گا کہ وہ اسلام پر ہونے والے اعتراضات کو غلط ثابت کرے احمدی مصنفین دُنیا کی ہدایت راہنمائی اور خیر خواہی کے لئے کتب لکھا کریں جماعت احمد یہ واللہ تعالیٰ یہ توفیق دے گا کہ غریبوں کو اٹھانا جماعت احمدیہ کا فرض قرار وہ اسلام کی خوبیاں دوسروں کے سامنے دیا گیا ہے ۱۹۶ رکھیں مساوات محمدی پیدا کرنے کے لئے جماعت جماعت کے علماء کو چاہیے کہ وہ دُنیا کو بتائیں کہ کس طرح تم غلطی کر رہے ہو احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے جماعت احمدیہ ان حملوں کا جو علمی ، سائنسی خدا کرے ہم اسلامی تعلیم کے مطابق اپنے ۲۰۰ اور فنی ایجادات کی صورت میں اسلام پر منصوبے بنا کر عوام کی خوشحالی کے سامان کرتے ہیں ان کا دفاع کرے گی پیدا کرسکیں ۲۲۴ پیدا
۲۹ جماعت احمد یہ اسلام کی خدمت کے لئے ہم کسی پر غصہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ ۱۳ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کی قائم کی گئی ہے جماعت احمدیہ کی ترقی کی رفتار میں تیزی جھلکیاں دکھانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں ۳۱۴ جتنی شدت لسانی ایڈا کی ہو اس سے زیادہ اور شدت پیدا ہو چکی ہے اگر تمہارے سینہ میں شرک کا شائبہ بھی ہوگا شدت تمہاری دعاؤں میں پیدا ہو تو خدا تعالیٰ کی غیرت اس سینہ میں داخل ہم نے اپنے خدا سے یہ عہد کیا ہے کہ پیار ہونا گوارا نہیں کرے گی ہم نے کہا کہ کوئی شخص بھوکا نہیں رہے گا جس ۳۱۴ سے اس کے بندوں کے دل جیتیں گے نظام جماعت نے قاعدہ بنایا ہے کہ کوئی شخص اپنے ۳۸۹ ۳۹۰ ۳۹۰ وقت خدا پیسے دے گا پھر وہ اقتصادیات طور پر بغیر اجازت کوئی کتاب شائع نہ کرے ۳۹۳ اسلامی ضرورتیں پوری کرنے والا ہوگا ۳۲۱ اگر تمہارے دماغ میں کوئی اچھی بات آئی جماعت احمدیہ کے گرد فرشتوں کا حصار ہو لکھوضرور خدمت کر و جماعت کی ہے.فرشتوں کے حصار کو کوئی توڑ کے اس کے اندر داخل نہیں ہوسکتا تمہاری آنکھیں سجدوں میں نم ہونی چاہئیں ۳۳۶ فتنے کا دروازہ ہم نے بہر حال بند کرنا ہے ہمارا بڑا مضبوط اتحاد چاہئیے اس میں سوئی ۳۹۴ ۳۹۴ کے ایک نکے کا رختہ بھی برداشت کرنے تا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ملتی رہے اللہ تعالیٰ ہمیں شکر کے جذبات سے معمور سینے ۳۸۱ کیلئے تیار نہیں ہمیں ترجمہ کرنے والے بھی چاہئیں اور کتا ہیں اور رسالے میں لکھنے والے بھی چاہئیے اور حمد اور شکر کرنے والی زبانیں عطا فرمائے ۳۸۲ دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں محمد صلی اللہ اگلے دس سال میں ہمیں ایک سوسائنسدان اور محقق چاہئیں علیہ وآلہ وسلم کے عاشق احمدی نہ بستے ہوں ۳۸۳ جماعت احمد یہ اپنی برکتوں اور اپنی وسعتوں کے آئندہ غلبہ اسلام کی صدی میں ہمیں ایک ہزار سائنسدان اور محقق چاہئیں لحاظ سے ساری دُنیا کو احاطہ کئے ہوئے ہے ۳۸۳ اشاعت اسلام کے لئے ساری جماعت کو متحد ہماری جماعت کا مزاج ہے بے لوث خدمت ہو کر جہاد کبیر میں ہمہ تن مصروف ہونا ہوگا ۳۸۵ کرنا اور ہر احمدی کا بھی یہی مزاج ہے ۳۹۴ ۳۹۹ ۴۰۰ ۴۰۰ ۴۰۳
سنبھالے گی جماعت احمدیہ ذہین بچے کو پرائمری سے اللہ تعالیٰ کرے ہماری نسلوں میں نسلاً بعد ۴۰۵ نسل نیک و پاک ، امن کو قائم کرنے والے جماعت احمدیہ کی زندگی کا اصل مقصد یہ ہے اور لوگوں کی بھلائی چاہنے والے اور نیکی ۴۱۰ کرنے والے پیدا ہوتے رہیں کہ اسلام کو ساری دُنیا میں پھیلانا ہے یاد رکھو! اتنے پیار کرنے والے رب کریم اے ہمارے رب ! ہم تیرے نالائق مزدور ۴۲۴ ہیں مگر ہیں تو تیرے ۴۵۴ ۴۵۷ سے کبھی بے وفائی نہ کرنا خدا تمہیں اتنا دے گا اتنا دے گا اتنا دے گا اے ہمارے رب ! ہم تمام دوسرے ارباب کہ تمہاری نسلوں سے بھی وہ چیزیں نہیں سے تو بہ کرتے ہوئے تیری طرف لوٹتے ہیں ۴۵۸ سنبھالی جائیں گی کسی کا غصہ تمہارے دلوں پر جگہ نہ پائے ۴۲۵ اور ان سے بیزار ہوئے ۴۲۵ اے خدا! ہم نے ان سب ارباب کو ترک کیا خدا کے در پر دھونی مار کے بیٹھے رہو کسی سے اے خدا! تو دیالو ہے تو نے ہمارے وجود ۴۲۵ سے بھی پہلے ان گنت نعماء ہمارے لئے پیدا دشمنی نہ کروکسی کی بدخواہی نہ چاہو ہماری زندگی کا ہر پروگرام اور منصو بہ قرآن عظیم کردیں ۴۲۹ جہاں ہم نے اس کی راہ میں پیسہ خرچ کیا کے گرد گھومنے والا ہے جماعت احمدیہ کے سارے پروگرام غلبہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نتیجہ ایک کروڑ روپے اسلام کی جو صدی آرہی ہے اس کے گرد کا نکل آیا گھومتے ہیں اپنے آپ کو پاک نہ کہو ہمیشہ عاجزانہ مدد اور نصرت کو آسمانوں سے بارش کے ۴۵۲ قطروں سے بھی زیادہ برستے پایا ۴۲۹ ہم نے ابتلاء اور امتحانوں میں اللہ تعالیٰ کی را ہوں کو اختیار کرو خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اپنا جلال جہاں ہم نے پیسہ دیا وہاں ایک کروڑ روپیہ ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت نتیجہ نکل آیا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۴۵۳ ہم نے اپنوں کے بھی اور غیروں کے بھی دکھانے کے لئے پیدا کیا ہے جماعت احمدیہ کو بنی نوع انسان کی ہمدردی، دل جیتنے ہیں محبت الہی ، پاکیزگی حقیقی نیکی ، امن اور ہم نے اس کا دامن پکڑا ہے سارے خزانوں صلاحیت پھیلانے کے لئے قائم کیا گیا ہے ۴۵۳ کی بادشاہت اس کے ہاتھ میں ہے ۴۵۸ ۴۵۸ ۴۵۹ ۴۵۹ ۴۵۹ ۴۵۹ ۴۶۰
۳۱ یا درکھو کہ کوئی طاقت ہم میں نہیں لیکن سب جو اچھے ذہین طالب علم ہیں انہیں ہر قیمت طاقتوں کا جو سر چشمہ ہے اس کے قدموں پر جماعت کو سنبھالنا ہے میں ہم بیٹھے ہیں ۴۶۵ ۴۶۰ دنیا کا ہر علم آپ کے لئے سیکھنا ضروری ہے ۴۶۷ ہمارا خدا ہر دو جہان کا مالک ہے اور سارے کوئی بچہ میٹرک سے پہلے سکول نہ چھوڑے اور ہرلڑ کی مڈل ضرور پاس کرے خزانوں کی بادشاہت اس کے ہاتھ میں ہے ۴۶۰ اچھی طرح سمجھ لو اور یا درکھو کہ کوئی طاقت ہم افریقہ کی سیاست سے ہمیں دلچسپی ہے اور میں نہیں ۴۶۰ نہ ان کی دولت سے ہم دُنیا کے دھتکارے ہوئے ہیں لیکن خدا اگر آج کی نسل نہیں تو آنے والی نسل کے دھتکارے ہوئے ہم نہیں ہمارے دو ماٹو ”حمد اور عزم“ قیامت تک قائم رہیں گے ہم پر نعماء، فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں کی ۴۶۰ ہمارے اندر شامل ہو جائے گی جو غلط فہمی کے نتیجہ میں خود کو ہمارے دشمن سمجھتے ہیں ہم ان سے بھی پیار کرتے ہیں ہمارے گھر دُنیا کے خزانوں سے نہیں قرآن کریم کے خزانوں سے ہمیشہ بھرے رہیں اللہ تعالیٰ بارش بند نہیں ہوئی بلکہ اس میں ہر روز کرے کہ ایسا ہی ہو شدت پیدا ہو رہی ہے ۴۶۰ تم ایک موت اختیار کرو تا تمہیں زندگی ملے ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تم نفسانی جوشوں سے اپنے اندر کو خالی کرو بنتے ہوئے اس کی حمد میں مشغول رہیں دُنیا کے دل ہم نے اس صدی میں محبت اور پیار سے جیتنے ہیں ۴۶۰ تا خدا اس میں اترے جماعت احمدیہ کا دل لَا إِلهَ إِلَّا الله ہے ۴۶۱ افریقن احمدیت کو قبول کرنے کے ساتھ ہی صرف اپنا مقصد سامنے رکھو کہ ہم نے محبت عاشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن جاتے اور پیار سے دُنیا کے دل جیتنے ہیں ۴۶۱ اگلے نو سال جو ہیں ہماری زندگی کے وہ بڑے اہم ہیں دُنیا کے سارے دُکھ بے چینیاں اور بے اطمینانیاں ہم نے دور کرتی ہیں اے خدا! اگلے دس سال میں جماعت احمدیہ شکست نہیں دیں گے اسلام کی بالا دستی ان ۴۶۲ جب تک ہم علم کے میدان میں انہیں ۴۸۰ ۴۸۲ ۵۱۷ ۵۱۷ ۵۱۸ ۵۲۳ ۵۲۳ ۵۲۵ ۵۲۶ ۵۲۷ کو ایک سوجینئس ذہن عطا کر ۴۶۳ سے نہیں منوا سکتے ۵۲۹
۵۷۲ ۵۷۲ ۴۳۸ ۴۳۹ ۲۱۹ ۲۱۹ ۱۵۰ ۴۴۸ ٣٢ ہم نے ساری دُنیا کے سب سے بڑے عالموں اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم کبھی ایک کو علم کے میدان میں شکست دینی ہے ۵۲۹ لحظہ کیلئے بھی اسے مت بھولیں اور وہ ہماری جینئس کو ہم سنبھالیں گے جتنا بھی جماعت حفاظت کرتا رہے کو خرچ کرنا پڑے وہ خرچ کریں گے ۵۲۹ اللہ تعالیٰ ہمارے اخلاق پر اسلام کا اور زیادہ ہمارے دل میں یہ تڑپ ہے کہ ہماری نسلیں حسن پیدا کرتا رہے جو ہیں وہ قرآنی علوم سے محروم نہ رہیں ۵۳۰ جنت مستقبل تو آپ کا ہے آپ نے چھلانگیں اس دُنیا میں اُخروی جنت سے ملتی جلتی ایک مارتے ہوئے ہنستے ہوئے اس میں داخل ہونا ہے جنت پیدا ہوگی ۵۳۴ جنت میں مومنوں کی صبح کی حالت پچھلی خدا تعالیٰ کے حضور سب کچھ کر کے یہ سمجھو کہ شام سے بہتر اور شام کی حالت پچھلی صبح ہم نے کچھ نہیں کیا ۵۵۰ سے بہتر ہوگی جماعت احمدیہ کے ہر پروگرام میں حصہ لو جنت کی زندگی ہے تو امتحان لیکن اس میں ۵۵۰ فیل ہونے کا اندیشہ نہیں کسی پر احسان نہ جتاؤ ۵۶۴ جوڑ پیدا کیا ہے جماعت احمدیہ کے لاکھوں افراد ایسے ہیں جوڑ جن کو اللہ تعالیٰ نے وقت سے پہلے غیب کی خدا تعالیٰ نے اس عالمین کی ہر چیز میں ایک بات بتائی اور وہ پوری ہوگئی دنیا میں سینکڑوں شاید ایسے امیر لوگ ہوں جب تک ایک چیز اپنے جوڑ سے الگ ہے گے جن کی دولت جماعت احمدیہ کی ساری تب تک اس کے جو ہر چھپے رہتے ہیں دولت سے زیادہ ہے ۵۷۰ جہاد مالی لحاظ سے ہم کمزور ہیں تسلیم کرتے ہیں ہمارا جہاد لاٹھیوں اور بندوقوں کا جہاد نہیں دُنیا ہمیں نہیں سمجھتی یہ دنیا کی بد قسمتی ہے ۵۷۰ بلکہ عظیم علمی جہاد ہے جو نو جوان ہیں انہیں میں کہتا ہوں جماعت چغلی احمدیہ کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم بپا ہو زبان سے کسی کی چغلی نہیں کرنی، کسی کی چکا ہے ۵۷۱ غیبت نہیں کرنی
چرچ حکومت پاکستان ۲۳۵ خدام الاحمدیہ نے بچوں کی سات کتابیں شائع کی ہیں مجھے سات نہیں سات ہزار اس قسم کی اگر تم قانونا تبلیغ بند کر دو گے تو اللہ تعالیٰ کوئی کتاب چاہئیے اور صرف اردو میں نہیں چاہیئے اور سامان پیدا کر دے گا مگر آج نہیں تم خلافت لائبریری روک سکتے ۳۴۹،۲۶۵،۱۹۷ ،۴۱ ساری دُنیا کی کتابیں ہمارے پاس ہونی چاہئیں حلال کھاؤ جائز جگہ سے لے کر اور جائز طریقہ سے لے کر اور اندازہ کے مطابق کھاؤ ۳۰۱ سارار بوہ لائبریری بنے تب جا کر کتب اس خانہ کعبہ میں سمائیں گی یا پھر اوپر کو نکلنا پڑے گا ۵۶، ۴۰۲۰۳۱۷ ، ۴۱۷ ، ۴۲۷، ۴۴۳،۴۲۸، ۴۴۹ ہمارے مرکز میں یہ سب سے اونچی خانہ کعبہ پر خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا لائبریری ہماری زندگی کی اگلی صدی میں بن لہرائے جانے کا دعویٰ ۱۷۶ جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۱۹۷ ۱۹۷ ۱۹۷ ۲۹۷ نوع انسانی کے لئے خدا تعالیٰ کی نعمتوں خلافت راشده کےحصول کے لحاظ سے سب سے پہلا گھر خلیفہ وقت اور جماعت مل کر جماعت احمد یہ ہے ۱۸۷ بیت اللہ ہے ۴۲۸ ” خلیفہ وقت، جماعت“ یہ ایک ہستی ایک سارے انسانوں کے لئے ان کی خیر کے وجود، ایک چیز کا نام ہے اور ساری انجمنیں ۱۸۷ ۲۸۳ ۲۴ ۲۴ لئے پہلا گھر جو بنایا گیا وہ خانہ کعبہ ہے بڑی عظمت ہے خانہ کعبہ میں، لوگ اس کو بھی نہیں جانتے ۴۲۹ ۴۲۹ ماتحت ہیں د، د، ذ، ز درخت کعبہ سے ظاہر ہونے والا نور نشانات اور درخت تو کوشش نہیں کرتا نہ دعا کے ذریعہ ۴۴۳ سے نہ تدبیر کے ذریعہ سے تائیدات سماوی کا منبع بنے گا خانه کعبه زنده باد خدام الاحمدیہ ۲۰۱ اس آدمی کے ایمان میں شک ہے جو اپنے دشمن کے لئے دعا نہیں کرتا اور اس کی ۳۵۶،۲۴۹، ۴۷۲،۴۷۱،۴۲۹،۴۱۰،۳۹۵،۳۵۷ خیر خواہی نہیں چاہتا ۵۴۸،۵۳۳،۴۷۵ دشمن کے لئے دعا کرنا سنت نبوی ہے
۳۴ دعائیں کرو اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرو جماعت احمدیہ کے ڈاکٹروں کے ہاتھوں پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ تمہیں کتنی ترقیات میں اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہے دیتا ہے ذکر الہی تمہیں دعا کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی ذکر الہی سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے وے اور تعلق باللہ پیدا ہوتا ہے کہ تدبیر کی ہر وہ دعا جو غلبہ اسلام کے لئے کی گئی ہے وہ زبان در حقیقت استحکام جماعت کے لئے بھی ہے ۹۲ | مشہور ہے کہ نصف دُنیا میں انگریزی بولی احمدی مصنفین حقائق الاشیاء حاصل کرنے جاتی ہے اور نصف میں فرانسیسی زبان کے لئے دعا کیا کریں وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب اردو زبان ماجرا گز را دل ۲۴۴ اٹالین زبان ۴۹۷ اسپرانٹو زبان انڈونیشین زبان ۱۷۴ ۱۴۲ ۴۱۱ ۴۷۳،۳۹۹،۳۹۷ ،۱۹۳،۱۹۲ ۴۷۴،۴۲۴ ،۳۹۹،۳۹۸ ۲۵۲،۱۹۳،۱۹۲ ۲۴۵،۱۹۳ ۴۷۹،۴۷۲،۳۳۹،۳۳۱ ۳۲۵،۲۴۷ ۲۴۶ ،۱۹۲ ۵۳۶،۴۷۹،۴۷۳،۴۲۴ ،۳۹۹ ،۳۹۷ ،۳۴۰ ۳۳۲ ۵۳۲ ۵۳۲،۴۷۴،۴۲۱ ۵۳۲ ۳۹۷ ،۳۴۱ ۴۷۳،۱۹۲ ۵۴۴،۴۷۳،۴۲۰ ۱۲۷،۱۰۴ ۵۳۲،۴۷۳،۴۷۲،۳۹۶،۱۹۲ جس دل میں بشاشت ایمانی پیدا ہو جائے وہ ہلاکت سے محفوظ کر دیا جانا ہے ۵۷۰ انگریزی زبان دماغ احمدی دماغ بہت ذہین اور ہماری فکروں کو برمی زبان دور کرنے والا ہے دنیا ۱۳۲ بلوچی زبان پشتو زبان ہمیں دُنیا سے پیار کرنا ہے اور لوگوں کو کچھ پنجابی زبان ۳۵ پوشش زبان دینا ہے ان سے لینا کچھ نہیں ڈاکٹرز ۱۶۲،۱۵۹،۶۷،۶۲، ۲۱۷ | ترکش زبان جاپانی زبان اگلے آٹھ دس سال میں ہمیں کم از کم ہیں جرمن زبان 11+ ذہین ڈاکٹر چاہیں
۱۴۱ ۴۸۴ ۴۰۸ ۳۵ چینی زبان ڈچ زبان ڈینشن زبان روی زبان رومی زبان سپینش زبان سندھی زبان سواحیلی زبان سویڈش زبان ۴۱۱، ۵۳۸ | زندگی ۱۹۳، ۲۵۲،۲۴۶ ہمیں اپنی زندگی کے لئے غیر اللہ کے پاس ۱۹۲ ۱۹۴ ۵۷۲،۴۷۳ جاکے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ۴۱۱،۱۰۷، ۵۳۸ اسلامی آداب ہماری زندگی کے قریباً ہر ۲۹۷ شعبہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۳۴۰،۱۹۲ ہر صبح جو سورج چڑھتا ہے ایک دن تمہاری ۵۴۳٬۵۳۲،۴۷۳،۳۹۷ زندگی کا کم کر دیتا ہے ۴۲۱ ۴۰ ۴۷ ۵۳۲ اصل زندگی ہے ہی ان اعمال کا نام جن سے ۱۹۳، ۲۴۶ خدا راضی ہو جائے ۴۲۰،۳۹۹،۳۴۷ ،۳۳۹،۳۳۱ ۴۷۳۱۲۷ سائنسدان س ش ص عربی زبان ۱۹۲، ۲۱۹، ۲۴۷، ۳۲۹، ۴۴۶،۳۹۷ | سائنسدان کہتا ہے کہ گلیکسی کے اعداد و شمار ۲۹۷،۲۴۷، ۳۹۸ غیر محدود ہیں ان کے علم کے لحاظ سے ۲۰۵،۲۰۰،۱۷۶،۱۵۴،۱۶ ۹۹،۷ ،۲۱ ۱۹ ۴۶۵،۴۶۴ ۱۵۷ ۴۳۷ ۲۴۶،۱۹۴،۱۱۸، ۳۲۵ | سرمایہ دارانہ نظام ۳۹۷، ۵۷۲،۵۳۶،۵۳۲،۴۷۳،۴۱۱،۳۹۹ | سکھ ۲۹۷ سوشلزم ۴۷۳ سویا " لستين ۵۴۳ | شریعت فارسی زبان فرانسیسی زبان قطبی زبان کویتی زبان گورمکھی زبان ہاؤ سا زبان هنگیرین زبان ۳۳۲،۲۴۶ شریعت اسلامی قیامت تک کے مسائل کو ۳۹۷ حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے یور با زبان ۲۴۶،۱۹۳، ۵۴۳،۴۷۲،۳۳۱ موسوی شریعت میں ہر نبی کے جو موسیٰ علیہ السلام یوگنڈ ینین زبان ۳۹۹،۱۹۳ کے بعد آیا ترامیم کر دیں یوگوسلاوین زبان ۵۲، ۱۰۷، ۱۲۷، ۳۹۷ ابراهیم علیہ السلام کے دماغ میں جس شریعت ۲۹۷،۱۸۴ کا تصور تھا وہ نصیب متن الکتاب کا تھا زكوة
۵۲۲ شریعت اسلامیہ کوئی فلسفہ تو نہیں کہ آپ کو راستبازی کے وہ کام دکھلائے جس کی نظیر کسی اور قوم میں ملنا مشکل ہے ۴۴۸ سمجھنے کے لئے مہینوں کی ضرورت ہو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ۵۱۶،۶۴ صدر انجمن احمد یہ سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی با حال زار ۶۷ ۱۴۹ قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے ۴۲۹،۱۵۸ اے دل تو نیز ، خاطر ایناں نگاہ وار کثرت شاں گواہ وحدت او ۱۵۹ ۲۸۰ ۳۵۵،۳۱۳ ۲۵۹،۱۱۴،۱۱۲،۱۱۳ ۴۵۸ ، ۴۷۴ ،۴۱۰،۱۸۹،۱۸۸،۱۸۷ ،۳۱۹ ۵۳۳،۲۴۵ صدر انجمن احمد یہ نظارت اشاعت صدرانجمن احمد یہ نظارت تعلیم القرآن ۳۴۸،۲۶۱،۲۶۰،۲۴۸ صدر انجمن احمد یہ نظارت تصنیف صد سالہ جوبلی فنڈ ۳۹۳ ۱۸۶،۱۸۳،۱۸۷،۱۸۲،۱۲۹ ، ۱۲۷ ، ۱۲۰ ، ۱۱۵۰۵۱ ۳۲۰ ۳۵۲،۳۵۰،۳۴۷ ،۲۷۴،۲۶۳،۲۵۵،۱۹۳ ۴۱۲،۱۱۵ ۵۲ ۴۲۹ ۱۸۳ ۳۱۳ صد سالہ جوبلی منصوبہ کا خر کنند دعوی حبّ پیمبرم ۴۶۱،۱۵۹،۱۲۹ ہے جہاں میں نان شعیر پر مدار قوت حیدری دل میں مرے یہی ہے تیرا صحیفہ چوموں ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی ۳۴۹ ۳۹۱ شفاعت شفاعت تو وہی کرے گا جسے اللہ اذن دے گا ۵۶۳ شهد جماعت نے دس کروڑ کے وعدے پیش کر دیئے یہ خدا کی شان ہے کہ اس نے ایک بین الاقوامی منصوبہ ہمارے دماغ میں ڈالا شہد کی مکھی جو اینٹی بائیوٹکس بنا رہی ہے صدسالہ جو بلی کے سارے پروگرام تعمیر کعبہ 1+9 ۱۰۹ کے مقاصد سے تعلق رکھتے ہیں انسان ابھی تک ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا صحابہ حضرت رسول کریم ۲۴، ۲۵، ۱۸۵،۱۴۱،۱۳۶ صدی دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے اس کی تیاری کرو جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی غلیہ اسلام کی صدی ہے ۵۱۴،۵۰۰،۴۸ ۷ ،۴۵۰،۳۶۲،۳۵۸،۳۱۱ ۵۲۴،۵۲۱،۵۲۰،۵۱۹،۵۱۵ صحابہ حضرت نبی کریم انہوں نے فنا فی اللہ ہو کر صدق اور
۳۷ چودھویں صدی کے ساتھ ہمارا، ہمارے ہر صدی نئے مسائل لیکر آتی ہے اور ان محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کا مسائل کے حل کے بطون قرآن ہیں ۴۵۹،۴۵۷ قرآن کریم کی تعلیم رب العالمین کی طرف بڑا گہرا تعلق ہے آنے والی صدی میں ہم نے اسلام کے سے آتی ہے تا کہ ہر زمانے کے مسائل کا ۴۵۹ حل کر دے حسن اور نور کو دنیا کے کونوں تک پہنچانا ہے آنے والی صدی میں ہم نے اپنوں کے بھی ہم پندرھویں صدی میں خدا تعالیٰ کے ۴۴۰ ۴۵۹ بڑے عظیم نشانوں کے دیکھنے کے لئے اور غیروں کے بھی دل جیتنے ہیں داخل ہو چکے ہیں آنے والی صدی میں وہ عمارتیں تعمیر کی ۵۲۶ جانے والی ہیں جن میں نوع انسانی بسیرا ظ، ع، غ ظلم کرے گی ۴۵۹ ظلم کی راہ سے کسی کو بدنی ایذاء پہنچانے کی پندرھویں صدی تو کیا اگر قیامت تک کی اسلام نے اجازت نہیں دی ساری صدیاں اللہ تعالیٰ کے احسانات پر ہم ظلم کا بدلہ ظلم سے نہ لو بلکہ تمہاے دل میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں پندرھویں صدی کا ماٹو.محبت اور پیار حمد.عزم ۴۶۰ ۴۶۱ بھی ان کے خلاف غصہ نہ رہے عالمی کسر صلیب کا نفرنس لنڈن عقل اس صدی میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد انسانی عقل خدا تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار قائم ہوگا اور اسلام ایک بھٹکتی ہوئی روح ہے جس کی کوئی منزل غالب آئے گا ۴۸۵ نہیں اس صدی میں اسلام غالب آئے گا دُنیا جو انسان کبھی بھی علم کے میدانوں میں اس کی چاہے جیسا چاہے کر لے جتنا چاہے زور لگا انتہاء تک نہیں پہنچ سکتا لے ہو گا وہی جو خدا چاہے گا ۵۱۰ چودہ صدیوں میں ہر صدی نے خدا تعالیٰ خشخش کے دانے کے متعلق بھی انسان کا علم کے عظیم نشان دیکھے ۵۲۵ اپنی انتہاء کونہیں پہنچ سکتا ۱۴۶ ۳۸۹ ۴۱۳ 1.7 ۲۴۱ ۲۴۲
۳۸ بشاشت کی بنیاد علم ہے علم کی وجہ سے غذا بشاشت پیدا ہوتی ہے ۳۷۷ اصل صحت کو جو چیز قائم رکھتی ہے وہ متوازن ایک دُنیا کہتی ہے کہ ہماری ساری ترقی کا غذا ہے دار و مدار دنیوی علوم پر ہے اور دوسری کہتی ہے کہ دنیوی علوم سیکھنا کفر ہے ۴۶۷ طیب وہ غذا ہے جو جائز طریقے سے حاصل کی جائے تم دنیوی علوم اور قرآن کریم کے اسرار اور غیب رموز سیکھو ۴۶۸ علم سیکھا جاتا ہے تحقیق سے جو آدمی خود کرتا ہے ۴۶۹ کتابیں پڑھنا بہت ضروری ہے.بہت ضروری ہے عیسائی رعیسائیت ۹۹٬۹۸،۹۵،۵۹ ۱۹۴۱۸۱،۱۷۷ ،۱۷۵,۱۶۲،۱۴۷ ، ۱۲۷ ، ۱۱۶ ۲۴۹ ،۲۴۷ ،۲۴۵،۲۳۶،۲۳۵،۲۲۹ نوجوان نسل نے عیسائیت میں دلچسپی لینی بند کر دی ہے KY گر جاؤں کے سامنے برائے فروخت کا بورڈ ۱۷۷ عیسائیوں کو بائبل سے سورۃ فاتحہ کے مقابل اسرار روحانی اور علوم الہیات نکال کر دیکھانے کا چیلنج عیسائیوں نے کہا کہ بائیبل مقدس موجود ۲۱۸ غیب کی بات بتانا اور اس بات کو پورا کر دیکھانا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کام ہے ف ق ک گ فرشتے خدا تعالیٰ کے فرشتے اتنا علم دیں گے کہ اسلام کے خلاف دُنیا کی جہالتوں کو جہالت ثابت کر دیا جائے گا فرشتے بشر کے لئے اسوہ نہیں بن سکتے فساد تم ایسی بات منہ سے نکالوجس میں فساد کا کوئی شائبہ اور رمق نہ ہو فساد نے مٹنا ہے اس صدی میں انشاء اللہ اور میرے اور تمہارے ہاتھوں سے ملنا ہے ہمیں اس کے لئے قربانیاں دینی پڑیں ہے تو قرآن کریم کے نزول کی کیا ضرورت گی اور ہم اس کے لئے قربانیاں پڑگئی خود عیسائی کہنے لگ گئے ہیں کہ عیسائیت رو بہ زوال ہے ۲۱۸ ۲۳۵ فضل جب تک آسمان سے خدا کا فضل نازل نہ ہو بہترین نتائج نہیں نکلا کرتے کئی پادریوں اور عیسائی سکالرز کی طرف سے عیسائیت کے خلاف بیسیوں کتابیں لکھی فضل عمر درس القرآن جاچکی ہیں ۲۳۵ ۵۶۵ ۴۵ ۸۳ ۲۲۲ ۴۶۱ ۴۶۱ ۹۳ ۴۷۵ ،۴۲۳ ،۳۴۷ ،۱۹۲،۱۱۹
۵۱۳،۵۰۹،۵۰۸،۵۰۷،۵۰۶،۵۰۴،۵۰۳ ۵۳۸،۵۳۷،۵۳۰،۵۲۰،۵۱۴ ۳۱ ۵۸ ÷ ۳۹ ۱۸۲،۱۲۲،۱۱۱،۴۵ ، ۴۲ ۴۱ فضل عمر فاؤنڈیشن ۵۴۸،۴۷۹،۴۲۳،۳۴۹،۲۶۵،۲۶۳،۱۹۷،۱۸۷ فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت جو انعامی مقالے قرآن عظیم میں قیامت تک انسان کے تمام لکھے جاتے ہیں ان میں اضافہ ہونا چاہیئے ۴۵ مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور طاقت رکھی گئی ہے فقہ احمدیہ فقہ احمدیہ کی پابندی جماعت احمد یہ کرے گی ۱۳۰ ہم نے انشاء اللہ دنیا کی ہر زبان میں قرآن ۳۶۳ کا ترجمہ کرنا ہے فقه حنبلی فقه شافعی فقہ مالکی فلسفه ۳۶۳ قرآن کریم نے ابدی صداقتوں کو اپنے ۳۶۳ اندر محفوظ رکھا لیکن انسانی دماغ نے ابدی نے صداقتوں کو نہیں محفوظ رکھا اسلام فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں قرآن کریم ایک دعویٰ کرتا ہے اور اسے ۱۰۰ ثابت کرنے کے لئے ساتھ دلیل دیتا ہے بچائے گا اگر قانون قدرت نہ ہوتا تو علمی ترقی کے قرآن کریم میں ابدی صداقتیں محفوظ کر دی گئی ہیں دروازے بند ہو جاتے قرآن کریم قرآن کریم قیامت تک کے لئے انسانی ۲۹،۱۶،۳، ۷۳۷۱،۶۵،۶۴،۶۰،۵۸،۵۷ ۸۰ مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے ۱۶۱،۱۵۸،۱۳۴،۱۲۲،۱۱۹،۱۱۸،۱۰۹،۱۰۵،۹۹،۸۴ | ہماری زندگیاں قرآنی احکام کے مطابق ۱۸۵،۱۸۰،۱۷۵، ۱۹۰،۱۸۷ ۲۰۱،۱۹۳، ۲۰۷، ۲۰۸ ڈھلی ہوئی ہونی چاہیئے ۲۱۵، ۳۶۶،۲۲۱،۲۱۹،۲۱۷، ۳۷۵، ۳۹۹، ۴۰۸ قیامت والے دن قرآن کریم تمہارے اوپر ۲۲۶،۲۲۴،۲۲۲۲۲۱ ،۲۱۹ ،۴۳۰ ،۴۲۹ ،۴۲۷ ، ۴۱۷ جتہو گا ۲۳۰ ۲۳۳، ۲۵۲،۲۳۸ ۲۶۳۲۶۲،۲۵۸،۲۵۳ قرآن کریم کی ساری تعلیم انسان کی ساری قوتوں ۳۰۴۰۳۰۲۲۹۲،۲۹۵،۲۹۴۷۲۹۳۲۸۹،۲۸۱ اور استعدادوں کی راہنمائی کرتی ہے ۳۰۹،۳۰۶، ۳۱۷، ۳۳۳،۳۳۲،۳۳۱،۳۲۷ قیامت کے دن قرآن عظیم خدا کے سامنے ۳۶۲۳۶۱،۳۶۰،۳۵۹،۳۵۸،۳۵۷،۳۴۶ تمہارا حکم ہوگا ۴۷۲،۴۶۰،۴۵۳، ۴۸۶،۴۸۵،۴۶۸،۴۶۷ قرآن نے ہمارے سارے مسئلوں کو حل کر ۴۹۶،۴۹۰،۴۸۹،۴۸۷، ۵۰۲،۵۰۱،۵۰۰،۴۹۸ دیا ہے کر رہا ہے اور کرتا رہے گا บ ۸۴ ۸۴ ۱۳۵ ۱۵۴ ۱۵۸
۲۲۱ ۲۲۱ ۲۲۲ ۲۶۲ ۲۶۴ ۲۷۳ ۲۹۸ ۳۰۴ ۴۳۰ ۴۳۰ ۴۳۰ ۴۳۰ میرے دل کی تڑپ ہے کہ قرآن کریم کی قرآن کریم کے ذریعہ عقل کو الہامی نور عطا کثرت سے اشاعت کی جائے ۱۸۱ ہوا ہے تفسیر قرآن کریم حضرت مسیح موعود علیہ اگر انسان نے روحانی رفعتوں کو پانا ہے تو السلام تیار کروانے کا مطالبہ ۱۷۹ اسے قرآن کریم کی تعلیم پر چلنا پڑے گا میں چاہتا ہوں کہ ان سالوں میں کئی لاکھ خدا تعالیٰ نے قرآن عظیم میں ہر قوت اور نسخے قرآن کریم کے دُنیا میں پھیل جائیں ۱۸۷ طاقت کو صحیح راستہ دکھایا ہے قرآن کریم میں علم کا خزانہ بھرا ہوا ہے ۱۹۷ قرآن کریم سیکھنا اور پھر اس کے مطابق عمل قرآن میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی کرنے کی کوشش کرنا یہ تو ہماری جان ہے ۲۰۴ قرآن کریم تمام علوم کا حامل ہے آج کی دنیا کوضرورت ہے قرآن کریم بتاتا ہے کہ اسلامی تعلیم کیوں ہوٹلوں کے ہر کمرہ میں قرآن کریم ۲۰۷ رکھوانے کی سکیم برتر ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو حق کے ساتھ اہلیت کے مطابق سلوک ہونا چاہیئے قرآن کریم ۲۰۹ نے کافر اور مسلم میں کوئی تفریق نہیں کی نازل کیا ہے قرآن کریم وحی کے ذریعہ نازل ہونے قرآن کریم نے بلا امتیاز مذہب وملت بلا امتیاز نیک و بدسب کے حقوق قائم کئے ہیں والی کتاب ہے ۲۱۵ قرآن کریم بے مثل مانند ہے اس پایہ کا کلام قرآن کریم اپنی روحانی تاثیرات میں ابدی کوئی انسان بناسکتا ہے اور نہ کبھی بنا سکے گا ۲۱۶ ہے دُنیا کا کوئی عظمند انسان ایسا نہیں جو قرآن کریم قرآنی تعلیم درخت انسانی کی ہر شاخ کو سیراب کرنے والی ہوگی کے کسی ایک اصول کی نقل ہی بنا سکتا ہو ۲۱۶ قرآنی تعلیم فطرت انسانی کے سب حقیقی قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں بے تقاضوں کو پورا کرنے والی ہے مثل و مانند ہوں ۲۱۷ قرآن کریم اپنے ذاتی کمالات اور فضائل قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے کوئی اس کا اور بے نظیر تعلیمات سے اپنی ضرورت اور مقابلہ نہیں کر سکتا ۲۱۹ صداقت کو ثابت کرتی ہے
۴۴۹ ۴۵۱ ۴۵۳ ۴۵۳ ۴۶۹ ۴۷۲ ۴۸۷ ۴۹۸ قرآنی تعلیم انسان کو ظن اور گمان کے بے قرآن کریم کے ہر حکم میں اعتدال کا پہلو آب و گیاہ ویرانوں سے یقین کی رفعتوں مد نظر رکھا گیا ہے تا کہ انسان دلبرداشتہ نہ ہو تک پہنچاتی ہے ۴۳۰ قرآن نے کہا ہر وقت معاف نہیں کرنا قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے انتقام اور عفو کے درمیان ایک اعتدال قائم شیطانی دجل اس میں راہ نہیں پاتا ۴۳۰ کیا ہے قرآنی تعلیم پر عمل کرنے والوں کو ہر قسم کی قرآن کریم پاک کلام ہے اور پاک کے آفات اور مصائب سے محفوظ رکھا جائے گا ۴۳۰ سینے میں بھی یہ نور پیدا کر سکتا ہے جس طرح قرآنی تعلیم اللہ تعالیٰ کی حفاظت قرآن کریم کا فہم وہی شخص حاصل کر سکتا میں ہے اس طرح اس پر عمل کرنے والے بھی اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں گے ۴۳۰ ہے جو پاک اور مطہر ہو اگر قرآن کریم سیکھنا چاہتے ہو تو خدا تعالیٰ ہر صدی نئے مسائل لے کر آتی ہے اور ان کی صفات کے جلوؤں کا زیادہ سے زیادہ علم ۴۴۰ حاصل کرو مسائل کے حل کے لئے بطون قرآن ہیں قرآن کریم کی تعلیم رب العالمین کی طرف قرآن پبلیکیشنز سے آتی ہے تا کہ ہر زمانے کے مسائل کا قرآن کریم کے فیوض قیامت تک جاری حل کر دے ہر زمانے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم کو نازل کیا اللہ تعالیٰ قرآن کریم کو ہر زمانہ کے لئے نئی ۴۴۱ ۴۴۱ رہنے والے ہیں قیامت تک انسانی نسل کو کوئی ایسا مسئلہ پیش نہیں آ سکتا جس کا حل قرآن عظیم میں نہ ہو سے نئی حکمتوں سے معمور کر دینے والا ہے ۴۴۱ قیامت تک کوئی ایسا زمانہ نہیں آئے گا کہ قرآن سمجھنے کے لئے خدا کے حضور عاجزانہ کوئی کہے جی یہ اب مردہ ہوگئی ہے قرآن کریم میں جوز بر دست عقلی دلائل ہیں اُن کو بھی آیت کہا گیا ہے ۴۹۹ ۵۱۷ دعا کرنی چاہیئے قرآن کریم کی تعلیم ہر شعبہ زندگی کو اپنے قرآن کریم پڑھو تا کہ تم علوم دنیویہ جو قرآن کریم نے ہر چھوٹی بڑی چیز کے بارہ کہلاتے ہیں انہیں زیادہ اچھی طرح سمجھ سکو ۵۵۵ احاطہ میں لئے ہوئے ہے ۴۴۷ ۴۴۷ قربانی میں حکم دیا ہے قرآن کریم میں چارسو دس آیات ایسی ہیں جن ایمان اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق قربانیوں میں عورت کا عورت کر کے ذکر کیا گیا ہے ۴۴۸ کا مطالبہ کرتا ہے ۵۳۳
۴۲ قول سدید خدا تعالیٰ کی صفات جو اس کائنات سے موقع اور محل کے مطابق کرتی قول سدید کرتا تعلق رکھتی ہیں ان کے جلوؤں کا مجموعہ ہے ہے قومی اسمبلی قیامت ۴۴۷ یہ کائنات ۱۳۰ کائنات کی ہر شئے کے حقوق متعین کئے گئے ہیں اور ان کی حفاظت کی گئی ہے یہ عمل نسلاً بعد نسل رونما ہو گا اور قیامت ہر آن اور ہر وقت اس کائنات کے ہر ذرہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے آجائے گی کائنات خدا تعالیٰ نے اس کا ئنات کو بے حد و حساب صفات سے متصف کر کے انسان کا خادم بنایا ہے دست قدرت سے یہ کائنات بنی اور اس ۱۲ ۹۷ اس کائنات میں مخلوق چیزیں درجہ بدرجہ ترقی کرتی ہوئی کمالات حاصل کرتی ہیں ایسا کوئی وجود نہیں اس کائنات میں جس کے سپر داس نے جزا سزا کے تعلق میں اپنی خدائی سپرد کر دی ہو ۲۰۹ اس کائنات کی ہر شئے کو ہر آن خدا تعالیٰ کی میں تعاون پایا جاتا ہے کائنات کی ہر چیز ایک دوسرے کے ساتھ احتیاج رہتی ہے اپنی زندگی کے لئے بھی بندھی ہوئی ہے ۲۱۹ | کتاب دُنیا کی ہر کتاب کسی نہ کسی رنگ میں ضرور پورا عالمین اصول میزان کے اندر بندھا ہوا ہے ۲۱۹ ساری کائنات انسان کو فائدہ پہنچا رہی ہے اس کائنات میں گناہ گار بنانا اللہ تعالیٰ کی منشا نہیں ہے ۲۸۱ ۲۹۰ کام آنے والی چیز ہے کمیونسٹ کمیونسٹ یوگوسلاویہ کے سینکڑوں خاندان کائنات کی ہر چیز کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے احمدی ہو گئے ہیں ۳۱۷ کمیونزم گالی ۴۶۷ ۴۹۰ ۵۵۳ ۵۵۳ ۵۶۰ ۵۶۱ 122 ۲۰۵،۱۷۷ ، ۱۹ ،۱۸ کہ انسان کامیاب ہو نوع انسانی کو کائنات پر حکمران کرنے کی تمام قو تیں اور صلاحیتیں دی گئی ہیں یہ جو کائنات ہے سات آسمانوں اور ایک زبان سے کسی پر تہمت نہیں لگانی چاہیے ،کسی ۴۰۸ کو گالی نہیں دینی ۴۴۹ زمین پر مشتمل ہے کائنات کی ہر چیز انسان کے لئے خادم بنائی اگر کوئی گالی دیتا ہے تو ہمارے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ اس کی طرف توجہ بھی کریں گئی ہے ۴۴۸ ۵۲۸
۴۳ بے شمار سورج ایک ایک گلیکسی میں ہیں ۳۴۹،۳۳۵،۳۳۴ ،۳۲۲،۲۷۲،۲۷۰،۲۶۹ ۵۴۸ ،۵۴۷ ، ۵۲۷ ، ۴۸۳،۴۸۱،۴۲۳،۴۲۲ ،۴۲۱ ہرگلیکسی کی کسی نامعلوم سمت کی طرف اس کی میری خواہش تھی کہ حضرت مصلح الموعود کی ست ہے گلیکسیز بے شمار ہیں ان کی ابھی تک گنتی جتنے سال خلافت تھی اتنے لاکھ روپے اس ۴۴۴ فنڈ میں جمع ہو جائیں نہیں کر سکتا انسان جب دوگلیکسیز کے درمیان فاصلہ بڑھ جاتا مدرسہ دیوبند ہے تو ایک اور گلیکسی پیدا ہو جاتی ہے هر آن دو گلیکسیز کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا خدائے واحد ویگانہ کی عبادت کرنے والا ہر جاتا ہے.جب دو الیکسیز کے درمیان ایک اور گلیکسی کی ہ ۴۴۴ مسجد شخص اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق اس میں عبادت کر سکتا ہے جگہ بن جاتی ہے تو خدا تعالیٰ گن کہتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے گورنمنٹ کالج لاہور گوشت ۵۶۱ مسجد اقصیٰ ۴۰۳ مسجد گوشن برگ بادشاہی مسجد لاہور اگر صرف گوشت کھاؤ گے ترکاریاں نہیں مسجد مبارک قادیان کھاؤ گے تو خونخوار وحشی بن جاؤ گے اگر تم گوشت بالکل نہیں کھاؤ گے تو جرات ۴۵۱ ۴۵۱ مسجد حرام مسجد نبوی ۴۷ ۳۶۵ ۳۷ N ۲۳۰ ۲۵۵ ۳۵۷ ۴۳۳ ۵۴۵،۲۵۳ ۹۷ ۱۱۸ ۱۲۷ ۱۸۵ نہیں ہوگی بزدل بن جاؤ گے یہ تجربہ ہے م دله دارم لباس مسجد اللہ کا گھر ہے اس پر کسی اور کی ملکیت اسلام تسلیم ہی نہیں کرتا عرب لوگ دوسروں پر رعب ڈالنے کے ہر ملک میں ایک مسجد تو ابتدائی کام ہے ورنہ ۱۳۹ ہر محلہ میں انشاء اللہ مساجد بنیں گی لئے قیمتی لباس پہنتے تھے ۵۴۸،۴۷۵،۳۹۵ مسجد پر کسی اور کی ملکیت اسلام تسلیم ہی نہیں ۴۸۰،۴۷۲،۴۷۱ کرتا لجنہ اماء الله مجلس مشاورت مجلس نصرت جہاں ۵۱،۵۰،۴۹،۴۷ | مسجد بنانے والا اس کا متولی ہے
۴۴ مسجد دُنیا کی مقدس ترین مسجد ہے ۱۵۸ | مہدی معہود کے ذریعہ دُنیا کا ہر انسان ایک نجران کے وفد کا مسجد نبوی میں عبادت کرنا ۱۸۵ خاندان کی لڑی میں پرویا جائے گا مسجد خدا کا گھر ہے ایک خدا کی کوئی پرستش نوع انسانی نے مہدی موعود کی قائم کردہ جماعت کے ذریعہ امت واحدہ بننا ہے کرنا چاہئیے خواہ کسی عقیدہ اور خیال کا ہواس ۱۸۵ مهدی علیہ السلام کی طرف منسوب ہو اور وہ کے..بھوکا ر ہے یہ تو نہیں ہوگا مسجدیں خدا کا گھر ہیں ہم تو ان کے یلغار ظلمت کی بڑی تھی کہ مہدی علیہ السلام کسٹوڈین ہیں ۲۲۹ مسجد کے دروازے ہر موحد کے لئے کھلے ہیں ۲۵۳ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ۲۱ ۴۶ خروج مہدی کا انکار کرنے والے کافر ہوں گے ۱۲۱ ایک مسلمان کو کہا گیا کہ اتنی احتیاط کرو کہ اسلام کی اپنی مخالفانہ طاقتوں سے مہدی علیہ السلام اپنے عمل سے دوسرے کوفتنہ اور ابتلاء میں نہ ڈالے ۲۸۷ کے زمانہ میں ایک آخری جنگ ہوگی مسیح اور مہدی ایک ہی شخص کے دو نام ہیں جتنی کسی کی معرفت کافی ہوتی ہے اتنا ہی شیطان بوجہ دو مختلف ذمہ داریوں کے ۱۶۳ کے منافقانہ حملوں سے محفوظ ہو جاتا ہے در اصل معرفت نفاق کو کھا جانے والی چیز ہے ۱۶۳ مومن دلائل کا تو ایک سمندر ہے جو ہمارے ہاتھ میں مہدی موعود علیہ السلام نے عطا کر دیا نبی مومن خدا تعالیٰ کی محبت کا رنگ اپنے اوپر بعض لحاظ سے بنی اسرائیل میں ایک ایک چڑھاتا ہے مهدی ۲۹۸ وقت میں سینکڑوں نبی موجود تھے انبیاء علیھم السلام کے ذریعہ اللہ جو نشانات اور ۱۵۴ ۳۷۴ ۳۷۸ ۱۵۷ مہدی علیہ السلام نے ہمیں زندہ خدا سے معجزات دکھاتا ہے اُن کو بھی آیت کہا جاتا ہے ۴۴۵ متعارف کروایا نشانات مہدی علیہ السلام کی جماعت سے باہر نکلنے کا اللہ تعالیٰ نشانات اور معجزات کے نتیجہ میں 1.تصور ہی نہیں کر سکتے انسان کی ہدایت کے سامان پیدا کرتا ہے آپ کے طفیل نوع انسانی امت واحدہ بن آسمانوں اور زمین کی پیدائش، حرکت اور زمانہ کو بھی آیت کہا گیا قرآن کریم میں جائے گی
۴۵ آیات سے آسمانی نشانات اور معجزات بھی وقف جدید انجمن احمدیہ مراد لئے جاتے ہیں ۴۴۴ ۱۱۹،۱۸۷ ،۹۶،۱۵ ،۴۱ ۴۱۰،۳۲۸،۳۴۸۲۶۷ ،۲۶۶،۲۵۹ ،۱۹۲ اللہ تعالیٰ کا ہر جلوہ ہی عظیم ہے ان کو آیت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۴۴۵ ۵۴۹،۵۴۸ ، ۴۷۸ ، ۴۷۵ ، ۴۷ ۴۰ ، ۴۲۱ وقف جدید اس لئے شروع کی کہ بحیثیت بادل کا کسی خاص جہت کی طرف چل پڑنا مجموعی جماعت کا دینی معیار گرنے نہ پائے ہوا کا آنا اور اس کو اڑا کر لے جانا یہ بھی آیت ہے نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم تی نظام ۴۴۵ ۱۱۰،۴۹ ،۴۷ ۱۸۷ ،۱۲۹،۱۲۳،۱۱۷ ،۱۱۶،۲۶۳،۱۸۲ ۲۵۹،۱۹۸،۱۹۵،۱۹۴ نظام ہائے شمسی کا مجموعہ galaxy کہلاتا ہے ۲۰۹ نفاق وقف جدید غیر مسلموں میں بڑی کامیاب تبلیغ کر رہی ہے ہر گاؤں معلم وقف جدید بننے کے لئے اپنا ایک بچہ دے وقف جدید حمین ۱۹۵ ۱۹۶ ۴۲۱ ۴۲۱،۱۱۹،۲۶۹،۲۶۸،۲۶۷ ۲۶۶ معلمین وقف جدید کے ذریعہ سندھ میں نفاق ظلمت کا نام ہے اور یہ جلسہ نورفر است ہندؤوں میں تبلیغ اسلام کو جلد دینے والا ہے نفس لوامہ نکاح ۱۶۳ 1A2 وقف عارضی ام ۵۴۸ ،۴۲۳،۳۴۸،۲۶۰،۱۹۲،۱۱۴،۳۲،۳۱ ہر واقف عارضی نے اپنا کھانا کھانا ہے جماعت ۳۵ کی طرف سے مہمان نوازی قبول نہیں کرنی جن بچوں کے نکاح ہو رہے ہیں ان کے ذریعہ ایک اور نسل کی بنیا د رکھی جارہی ہے ۱۲ ہائیڈ روجن بم ۳۷۵ ۱۱۴ ۳۴۷ ،۲۱۴،۲۱۳،۱۹۷ ،۱۹۶۹۶،۲۱،۷ ۴۸۸،۳۳۲،۳۲۵،۲۳۶،۲۴،۳ وہی ہسپتال فضل عمر ربوہ وقف بعد ریٹائر منٹ ہندو ۲۶۲،۱۱۴ ۴۷۵،۳۴۹،۲۶۳ | یہودی
۳۶۱ ۳۶۴،۲۹ ۱۳۵ ۳۶۴ ۳۶۳ ۳۶۳ ۳۶۵ ۳۶۲ ۴۱۳ ۳۶۱ ۳۶۶ र ۴۶ آ.آدم علیہ السلام.حضرت آئین سٹائن اسماء ۵۰۸،۴۹۶،۸۲،۸۱ ابوھریرہ.حضرت احمد بن حنبل.حضرت امام ۴۰۰ اسماعیل علیہ السلام.حضرت ابراہیم علیہ السلام.حضرت ۸۲، ۲۸۹،۱۳۵ اسماعیل حقی بروسی ۴۳۶،۴۳۳،۴۳۲،۴۳۱،۴۳۰،۴۲۸ ،۴۰۱ اضحاک بن فواحم بلخی ۴۳۷، ۵۱۳،۴۳۹،۴۳۸ | الخازن القاری امام ام سلمی.حضرت انس احمد مرزا صا حبزادہ انس بن مالک.حضرت بت.ث بسطانی بشیر احمد حضرت مرزا ۴۰۰،۳۲۸،۳۱۳ ۱۲۵ ۳۶۵ ۳۶۳ ۳۶۳ ۲۴۵ ۴۱۸ ۵۲۰،۳۹۶،۲۸۱ ۳۶۳ بشیر احمد خان رفیق امام بیت الفضل لنڈن ۲۸۱ بشیر الدین محمود احم - حضرت مرزا ۲۹ ۳۴۱،۱۸۱ صلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی ۱۱۵،۴۷،۷ ۲۴۹،۲۳۸،۱۹۶،۱۹۵،۱۹۱،۱۸۹ ،۱۲۳،۱۲۲،۱۱۹ ۳۶۳ ۳۵۷ ،۳۴۹،۳۴۰،۳۲۹،۳۲۸۳۲۷ ،۳۲۶،۲۶۶ ۳۶۴ ۵۳۶،۵۵۲،۵۲۶،۴۷۹ ،۴۱۱،۴۰۳،۳۹۸ ،۳۹۲ ۳۶۲ ابراہیم ساؤ الحاج ( صدر سیرالیون ) ابن الربيع الشباني الشافعي ابن تیمیه ابن جوزی ابن مسعود العراء ابوالعطاء جالندھری.حضرت مولانا ابوبکر الحاج ابو بکر صدیق.حضرت ابو جعفر محمد بن جریر الطبری ابو جہل ابو حنیفہ حضرت امام ابوحیان ابوداؤ د سلیمان بن اشعت ابوسعید خذری.حضرت
۵۲۷ ۳۶۷ ۵۳۶،۳۲۸ ۴۷۳،۲۹ ۳۶۶ ۳۹۶ ۳۶۳ ۳۶۲ ۲۹ ۱۱۹ ۳۶۶ ۴۷ ย آپ کے جماعت پر اتنے احسانات ہیں خدیجہ حضر کہ ان کا حق ہے کہ ہم ہمیشہ آپ کے لئے خواجہ کلاں دعائیں کرتے رہیں ۲۸۸ درز بلال رضی اللہ عنہ.حضرت ۳۹۶، ۴۷۱ داؤ د احمد سید حضرت میر بیہقی امام ۳۶۵ دوست محمد شاہد حضرت مولانا تفتازانی ۳۶۵ را جو قتال ثاقب زیروی ثوبان.حضرت ج - ح - خ جابر بن عبد الله - حضرت جبرائیل علیہ السلام.حضرت جلال الدین سیوطی حضرت علامہ جلال الدین شمس حضرت مولانا جلال الدین مصری شافعی حافظ شیرازی حجز مشیمی امام ย حذیفہ حضرت ۳۹۴٬۳۲۵ راغب امام - حضرت ۳۶۱ بہت بڑے بزرگ اللہ تعالیٰ نے بڑی ۳۶۸ ۵۲۳ ٨٨ ۳۴۰ ۳۶۴ ۳۶۶ ۳۶۸ فراست ان کو دی زار روس بختری س ش ص سعید المسیب حضرت سعید بن خبیر حضرت شافعی حضرت امام شافی ۳۶۶،۳۶۵ ۳۶۲ ۳۶۵ شاه ایران رضا شاه پهلوی حسن بصری حسن عطاء شریف الدین عمر ابن الفارض ۳۶۵ شمس تبریزی حسین حضرت امام ۳۶۳ صدر الدین قونوی حکیم ترمذی b-b ۵۱۰ ۴۶ حشمت اللہ خان صاحب.ڈاکٹر ۲۴۸ طارق بن زیاد خالد بن ولید حضرت ۴۳۲ طاہر احمد مرزا حضرت صاحبزادہ
۴۸ ۳۶۲ عمر فاروق حضرت ۵۲۵،۳۶۳،۲۹۸ ،۲۹۷ ،۱۴۱ ،۲۹ 191 آپ نے ایک غیر مسلم رومی کو مدینہ بلا کر ۱۹۱ ۳۶۶ ملازمت دی ۳۶۶ عیسی علیہ السلام حضرت ۲۹۸ عائشہ صدیقہ حضرت عباداللہ گیانی عبدالرحمن جامی ع - غ عبدالرزاق قاسانی عبدالرؤف مناوی علامه عبد السلام ڈاکٹر ۲۳۵،۱۸۴،۱۵۷ ،۹۸،۹۶،۸۲،۸۰،۴۵ ،۲۵ ،۱۹ ۳۶۵ ۴۰۵،۴۰۰،۲۴۵ ۴۶۴ ،۴۱۵ ، ۴۰۷ ، ۴۰۶ ۳۷۴،۳۷۳،۳۷۲،۳۷۰ ،۳۴۸ ،۳۴۷ ،۳۲۵ ،۲۳۶ ۵۰۸،۵۰۱،۵۰۰،۴۸۸ ،۳۷۶،۳۷۵ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا اچھا ذہن دیا ہے اور آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت بڑی عقل دی ہے عبد السلام میڈسن عبداللہ الحسینی البغد ادی علامہ عبداللہ بن عباس.حضرت ۲۱۱ کے تابع اور اس کے استحکام کے لئے آئے ۱۹۱ غزالی امام حضرت ۳۶۴ ۳۶۲۲۹ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام ۱۵۸ ۳۴۷ ۱۰۰،۹۲،۸۴،۷۶،۶۳،۶۰،۵۶،۴۵ ،۲۴ ،۲۲،۲۱،۵ ۲۰۱،۱۹۰،۱۷۴،۱۶۹،۱۵۷ ، ۱۴۲،۱۳۶،۱۳۴ ،۱۰۱ ۳۱۱،۳۱۰،۳۰۷ ،۲۷۶،۲۴۸ ،۲۳۳،۲۱۵،۲۰۷ ۳۶۰،۳۴۹،۳۴۰،۳۲۵،۳۱۸،۳۱۷ ،۳۱۲ عبدالوہاب بن آدم امیر دمشنری انچارج غانا ۳۳۰ ۴۸۱،۴۱۷ ،۳۳۷،۳۳۲ عبدالہادی کیوسی ڈاکٹر ۴۱۶،۴۰۹،۳۷۷ ،۳۷۶،۳۷۴،۳۷۰،۳۶۱ ۴۹۸ ،۴۹۷ ، ۴۹۴ ،۴۹۳،۴۹۲،۴۸۹، ۳۴۲،۲۵۱ ۵۵۵،۵۲۱،۵۰۵،۵۰۴،۵۰۳،۵۰۲،۴۹۹ ۵۶۸،۵۶۲ 1..۱۹۲ ۵۲۰،۳۶۳،۲۹ ۳۰۹ ۳۶۵ بڑے مخلص ، فدائی ، عالم اور محقق تھے عثمان بن عفعان حضرت عزیز احمد مرزا.حضرت علاؤ الدین علی المنتقى على حضرت كرم الله وجه علی بن محمد الجرجانی علی بن محمد دار قطنی ۳۶۲،۳۶۱،۲۹ ۳۶۸ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے ۳۶۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں تو علی محمد بی اے بی ٹی حضرت چوہدری ۲۴۸ | ہر مسئلے کا بیج ہمیں نظر آتا ہے آتا
۴۹ تو وہ بزرگ مسیح ہے تیرا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا فرعون ۱۶۴ دنیا میں بڑے بڑے ” فراعنہ پیدا ہوئے قیامت تک جن علوم کی ضرورت تھی ان کا بیج مگر کہاں گئے وہ لوگ انہی تحریروں میں بتا دیا فرعون کو جب موت نظر آ رہی تھی اس وقت وہ اکیلا تھا کوئی دوسرا اس کے ساتھ نہیں تھا اس نے توبہ کی اور آج وہ کروڑوں سے اوپر نکل گیا ہے ۱۷۴ فراعنہ مصر نے بڑی شاندار حکومت کی بڑے آپ کے انعامی چیلنجز کا اعادہ ۲۹۱ ۲۱۸ شان دار کھنڈرات انہوں نے چھوڑے ہیں ۵۵۶ آپ نے سوائے قرآن کے اور کسی چیز کی فرید احمد مرزا بات نہیں کی ۲۶۳ فرید الدین عطار شهید آپ کی ساری تحریرات قرآن کریم کی تفسیر ہیں ۲۶۳ | قیصر ۵۴۱ ۳۶۶ ۵۳۴،۵۳۳،۵۲۰،۴۳۳ آپ نے اس قدرز بر دست دلائل ہمارے ہاتھ قیصر کی حکومت آدھی دُنیا پر چھائی ہوئی تھی میں دیئے ہیں کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے ۳۲۵ کارل مارکس آپ کا ایک یہ بھی کام ہوگا کہ وہ اسلام کے کرم الہی ظفر مبلغ سپین نور کو مشرق ومغرب اور شمال و جنوب میں پھیلائے گا کسری ۵۵۷ ۲۰۶ ۴۱۵ ۵۳۴،۵۳۳،۴۳۳،۴۳۲ ۳۶۰ کسری نے بڑی شان دار حکومت کی آپ کے کلام کے اندر اتنا حسن ہے کہ عقل سیاست کے میدان میں ۵۵۶ ۱۸۶،۴۴ ۳۶۹ ۲۲۵ ۲۰۵ ۳۶۴،۳۴۷ ،۲۹ ۳۲۸ ۳۳۹ دنگ رہ جاتی ہے ۳۹۸ کمال یوسف سید مبلغ سلسلہ عالیہ احمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ باد آپ کے کلام کی دنیا کو ضرورت ہے ۴۰۲ ۵۳۵ کنجی لحم غلام حسین بن علی واعظ کاشفی ۳۶۴ لوط علیہ السلام حضرت غلام فرید ملک حضرت ۵۳۷ لینن فق یک مالک حضرت امام فخر الدین رازی ۳۶۳ مبارک احمد مرزا حضرت فرح پهلوی ملکه ۱۹۹ مبارک احمد شیخ حضرت
خاتم الانبیاء کا مقام بشر کا نہیں بلکہ نور کا اور صلى الله حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی خاتم النبین علوم سراج منیر کا مقام ہے ۸۳ ۸۳ ۱، ۲۱،۲۰،۱۴۷ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶، ۲۹، ۳۵، ۸۰،۳۷ | ہر قسم کا قرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۹۴٬۹۲،۸۹،۸۸٬۸۳٬۸۲٬۸۱، ۱۰۷ ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۲ کے طفیل ہی حاصل ہو سکتا ہے ۱۳۵،۱۲۹،۱۲۸، ۱۳۷، ۱۳۹،۱۳۸، ۱۴۱،۱۴۰، ۱۴۶ ایک ہی وقت میں آپ مبشر بھی ہیں اور نور بھی ۸۳ ۲۵۱،۲۵۰،۲۳۳،۲۰۱،۱۹۶،۱۷۳۱۵۹،۱۵۱،۱۴۸ | بشر ہونے کے لحاظ سے آپ ہمارے لئے ۳۷۳،۳۷۲،۳۷۱ ، ۳۷۰ ،۳۶۹ ،۳۶۸،۳۶۱ ۳۰۵،۳۰۴،۲۹۹،۲۸۷،۲۵۵،۲۵۳، ۳۰۷، ۳۰۸ | قابل تقلید نمونہ اور اسوہ حسنہ ہیں ۳۵۸،۳۵۱،۳۵۰،۳۴۶،۳۲۴،۳۱۸،۳۱۷،۳۱۲ آپ نے اتنا عظیم اسوہ چھوڑا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۳۷۶، ۳۸۶،۳۸۴،۳۷۸،۳۷۷، ۳۸۷، ۳۸۸ آپ نے ساری اُمت میں سے ایک کو یعنی ۳۹۵،۳۸۹، ۴۰۱،۳۹۶، ۴۰۹، ۴۲۷، ۴۲۹،۴۲۸ مہدی کو منتخب کر کے اپنا سلام پہنچایا ۴۳۲،۴۳۱ ۴۳۶،۴۳۵،۴۳۴۰، ۴۳۷، ۴۳۸ آپ کی زندگی کا پہلو اور ہر ورق ہمارے ۴۳۹ ، ۴۴۰، ۴۴۲،۴۴۱، ۴۴۶ ، ۴۵۰،۴۴۷ ۴۵۳۰ لئے اسوہ ہے ۴۸۶،۴۸۵،۴۶۲،۴۶۱،۴۶۰، ۴۸۷، ۴۸۸ | اللہ تعالیٰ نے آپ کو آئندہ قیامت تک ،۴۹۸ ، ۴۹۶ ،۴۹۴ ،۴۹۳ ، ۴۹۲،۴۹۱،۴۹۰،۴۸۹ کے متعلق تسلیاں دیں ۵۲۱،۵۲۰،۵۱۷،۵۱۵،۵۱۴،۵۰۹،۵۰۰،۴۹۹ | عشق محمد ربه ۵۲۳، ۵۲۵، ۵۲۸ | آپ کا ہر ارشاد قرآن کریم کی کسی نہ کسی آپ کی بعثت کی غرض نوع انسانی کو امت آیت کی تفسیر ہے واحدہ بنانا ہے ۱۵ آپ نے پگڑی بھی پہنی سر پر رومال بھی آپ کی سنت یہ تھی کہ جولباس میسر آئے وہ آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ ہمارے لئے باندھا اور ٹوپی بھی پہنی از دیا دایمان کا باعث ہے خداوند یسوع مسیح کی محبت کا پیغام جہاں ناکام پہن لو یہی اسلام کی روح ہے ہوا وہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ و آلہ وسلم آپ نے ہر رنگ کی قمیض بھی پہنی.جبہ بھی ۸۴ ۸۴ ۹۴ ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۲ ۱۴۰ ۱۴۰ کی شفقت اور پیارا انشاء اللہ کامیاب ہوا ۲۵ پہنا ، دھوتی بھی پہنی، پاجامہ بھی پہنا.۱۴۰
۵۱ آپ کو ایک ایسی کامل شریعت دی گئی جس آپ اس عالمین کی ہر شے کے لئے رحمت نے قیامت تک انسانی مسائل کو حل کرنا تھا ۱۵۸ بنا کر بھیجے گئے آپ کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے ۱۷۴ ساری دُنیا کے کمالات کے مقابلہ میں محمد آپ سے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے تمام صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کو افضلیت ادیان باطلہ پر غالب آنے کا وعدہ کیا ہے ۲۲۶ حاصل ہے آج کے بعد تمہاری ہر قسم کی فلاح اور بہبود کمال تام کا نمونہ علماً وعملاً وصدقا وشبا تا دکھلایا مجھ سے وابستہ ہوگئی ہے ۴۲۸ اور انسان کامل کہلایا ۴۹۰ ۴۹۱ ۴۹۳ ۵۰۰ اے دُنیا کے ہر خطے میں بسنے والو اللہ تعالیٰ آپ نے قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کر کے نوع انسانی کو دکھایا نے تم سب کی طرف مجھے رسول بنا کر بھیجا تمام اخلاق کا ملہ تامہ نفس محمدی میں موجود ہیں ۵۰۱ جو ہدایت آپ پر آئی وہ نہ ختم ہونے والی ترقیات اور ہمیشہ مسلسل بڑھتے چلے جانے والے انعام کا وعدہ لئے ہوئے ہے آپ نے ڈائٹنگ کا اتنا اچھا فارمولا بتایا کہ بھوک لگے تو کھانا شروع کرو اور ابھی بھوک ہو تو ختم کر دو اپنے اندھیروں کو دور کرنے کے لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نور کی بھیک مانگیں ۴۲۸ ۴۳۷ ۴۴۸ ۴۵۴ خدا نے کہا کہ میں نے محمد کو افضل الرسل اور خاتم الانبیاء بنا دیا آپ تمام صفات الہیہ کے اتم و اکمل مظہر ہیں آپ اللہ تعالیٰ میں فنا ہو کر اپنے وجود کو کھو بیٹھے تھے آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں ساری دُنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوگی محمد اسحاق صوفی مولانا مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ ۵۰۱ ۵۰۲ ۵۰۹ ۵۷۱ آپ ابد تک قیامت تک زندہ رہنے والے محمد اسد اللہ کا شمیری مبلغ سلسلہ عالیه احمدیه ۳۲۶،۱۹۱ نبی ہیں ۴۸۶ محمد اسماعیل میر حضرت روحانی مدارج کے حصول کے لئے آپ کی محمد بن احمد سفارینی علامه اتباع ضروری ہے اسوہ حسنہ کے لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلسلہ نبوت میں منفرد ہیں ۴۸۷ محمد بن اسمائیل بخاری حضرت امام ۴۸۷ محمد بن عبد اللہ الحاکم ۳۵۷ ۳۶۵ ۳۶۴،۳۵۸،۱۶۴،۲۹ ۳۶۵
محمد بن علی حضرت محمد بن علی الشوکانی علامہ محمد بن قاسم محمد حسین چوہدری حضرت والد ڈاکٹر عبدالسلام صاحب محمد طاہر گجراتی حضرت مولانا الامام الشیخ محمد ظفر اللہ خان چوہدری حضرت ۴۱۳،۳۷۱،۳۴۴،۳۴۱ ،۳۴۰،۳۲۸ محمد بن قاسم مزروعی شیخ محمد قاسم نانوتوی امام محمد نذیر قاضی حضرت ۵۲ ۳۶۲ ۳۶۸ ۵۴۱ ۴۰۰ ۳۶۵ ن ناصر احمد.مرزا حضرت خلیفۃالمسیح الثال ۴۸۰،۱۵ مرزا ناصر احمد بطور تعلیم الاسلام کالج پرنسپل ۴٬۴۰۲ ۴۰ قادیان میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ کی جائیداد ہمارے خاندان والے چھوڑ کر آئے دوست میری بات یاد رکھیں یہ صدیوں کی ۳۴۷ بات نہیں درجنوں سالوں کی بات ہے ۳۶۵ اشترا کی نظام بھی پیچھے چلا جائے گا ۳۲۶،۱۹۱ ۱۹۷۴ء میں جو تلخیاں دوستوں نے انفرادی ۳۴۱ طور پر محسوس کیں وہ ساری تلخیاں میرے سینہ میں جمع ہوتی تھیں بعض دفعه ساری ساری رات ایک منٹ سوئے محی الدین امام محی الدین ابن عربی مظفر احمد مرزا ( ایم ایم احمد ) حضرت مقاتل بن سلیمانی خراسانی منصورہ بیگم حضرت سیدہ نواب ۳۶۳ ۴۰۲،۳۴ بغیر دوستوں کے لئے دعائیں کرتا رہا ہوں ۱۲ امام جماعت اور جماعت ایک ہی وجود منصورہ بیگم حضرت نواب آپ کی وفات اور ان کے فضائل کا تذکرہ منظور محمد صاحب حضرت پیر منیر الدین شمس مبلغ سلسلہ موسیٰ علیہ السلام حضرت ۵۲۷ ۳۳۲،۳۳۱ ۳۴۶،۳۴۵ کے دو نام ہیں اور ایک ہی چیز کے دو مختلف زاویے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری یہ خواہش پوری کر دے اور ہماری زندگیوں میں ہمیں غلبہ اسلام کے ۱۵۱،۸۲،۸۰،۵۹، ۱۵۷، ۴۸۷ ، ۵۰۱،۵۰۰،۴۸۸ دن دکھاوے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم کو حضرت نبی مجھے پیار اس بات سے ہے کہ قرآن کریم کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نے کی اشاعت ہو اس لئے جتنا چاہو چھاپ لو منسوخ کر دیا ۱۵۷ اور اپنے ملک میں اشاعت کرو ۱۵۵ ۱۸۰
۵۳ میں یہ چاہتا ہوں کہ غلبہ اسلام کی صدی کے میں واقف زندگی ہوں ہر قدم پر ہر حکم میں استقبال میں کئی ملین قرآن کریم دنیا میں نے بشاشت سے قبول کیا ۱۸۷ میں نے اپنی زندگی وقف کی تھی خدمت کے ۴۰۳ ۴۰۳ پھیلائیں لئے اپنے آرام کے لئے نہیں کی تھی میں احمدی ہوں میں سمجھتا ہوں کہ احمدیت ۱۸۹ میری خواہش یہ ہے کہ اگلے دس سال میں سچی ہے اس پر کسی کو غصہ نہیں آنا چاہیئے ۲۰۶ ۴۰۷ ہم سوسائنسدان اچھے خدا سے مانگیں مجھے علم سے دوستی ہے اور اسلام سے پیار ہے جماعت احمدیہ کے امام کی حیثیت سے اس اے خدا! مرزا ناصر احمد کی یہ خواہش ہے کہ بات کا ذمہ دار ہوں کہ جو شخص آئے اسے اگلے سوسال میں ایک ہزار انتہائی غیر معمولی ذہین سائنسدان جماعت احمدیہ کو ملے قائل کروں کہ قرآن کریم بمثل و مانند ہے خدا کرے ہمیں ڈاکٹر عبدالسلام جیسے پانچ پادریوں کو دعوت مقابلہ میں تمہارے مقابلہ پر آؤں گا کیونکہ میں ان کا نائب اور خلیفہ ہوں اے خدا ! میں جوتی کے تلے کے نیچے جو ذرے ہوتے ہیں ان کا مقام رکھتا ہوں دوسری صدی میرے نزدیک غلبہ اسلام کی صدی ہے خدا مجھ سے کہتا ہے کہ تیرے پاس ایک ذرہ ہے ایک ذرہ میرے حضور پیش کر دے باقی سارے کام میں کردوں گا تمہارے میں آکسفورڈ اس لئے بھجوایا گیا کہ میں اس ۲۱۶ ۲۱۸ ۲۳۶ ۳۱۵ دس سائنسدان مل جائیں میری خواہش ہے کہ دس سال کے اندراندرامریکہ میں دس لاکھ قرآن کریم تقسیم کیا جائے میں تو خدا کے سامنے سر نہیں اُٹھا سکتا اتنا پیار کرتا ہے پچھلی صدی میں میں نے تمہیں دو ماٹو دیئے تھے حمد اور عزم وہ قیامت تک قائم رہیں گے فسادمنا ہے اس صدی میں انشاء اللہ میرے اور تمہارے ہاتھوں سے مٹنا ہے میں اُمید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری قابل ہو جاؤں کہ آپ کو کچھ سکھا سکوں دعاؤں کو سنے گا اور اگلے دس سال میں سو اپنے وقت پر ۳۹۲ جینئس دماغ پیدا ہو جائیں گے آکسفورڈ میں میں نے کسی ایک آدمی کو دوسرے میں تو ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ آپ کے اقتصادی سے اخبار مانگ کر پڑھتے نہیں دیکھا ۳۹۷ معیار خدا تعالی بڑھاتا ہی چلا جائے ۴۰۷ ۴۰۹ ۴۱۱ ۴۲۴ ۴۶۰ ۴۶۱ ۴۶۴ ۴۶۷
۱۰۴ ۳۶۴ ۵۴۴ ۱۵۲ ۳۶۸ ۵۴ کتب شائع کرنے والے افراد اور ادارے نذیر احمد مبشر حضرت مولانا پندرہ روزہ رپورٹ دیا کریں کہ کتنی بکری ہوئی ہے نسائی امام ۴۷۴ نسیم مہدی صاحب مبلغ سوئیٹزرلینڈ مجھے بھی دنیا کے کسی سہارے کی ضرورت نہیں نصرت جہاں بیگم حضرت سیدہ (ام المومنین ) ۵۱۰ نظام الدین شاشی شیخ خدا تعالیٰ میرا سہارا ہے اور اسی پر میرا تو کل ہے یہ ستارہ احمدیت ہے جو اللہ کے فضل سے اور نظام الدین نیشاپوری دعاؤں کے بعد میں آپ کو دے رہا ہوں ۵۲۴ نعمان بن بشیر حضرت اللہ تعالیٰ نے مجھے عزم بھی دیا ہے حکمت بھی نعمت اللہ ولی حضرت دی ہے صحت ضرورت کے وقت وہ خود دے دیتا ہے نوح علیہ السلام حضرت ۵۳۷ نور الدین شیخ } } } ۸۲ ۳۶۴ میں نے حضرت مسیح موعود کی فارسی در ثمین نورالدین مولانا.خلیفہ مسیح الاول حضرت ۲۳۴۰ سے فارسی پڑھ لی میرے جیسے عاجز انسان کو اللہ تعالیٰ نے ۵۳۸ ہاتھ میں پکڑا اور اعلان کیا دنیا میں انقلاب یحیی بن عقب ۵۴۸ یعقوبوگودن صدر نائیجیریا بپا کروں گا اور کر دیا میں اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں ۵۶۵ یوسف علیہ السلام حضرت نذیر احمد ظفر راجہ ۳۲۸ یوز آسف نبی ۱۸ { } {
آرا مقامات ہر چیز سے محروم کر دیا گیا ۹۵، ۴۱۵ افریقہ کو خدا نے سب کچھ دیا تھا لیکن ان ۴۲۱،۳۹۹،۳۴۳ سے سب کچھ چھین لیا گیا ۵۳۰،۴۶۴،۴۰۳،۳۹۷ ،۳۹۲،۳۲۲،۲۴۴ آسٹریا آسٹریلیا آکسفورڈ اٹلی اسرائیل اسلام آباد افریقہ افریقہ میں ایک ایک ملک میں دس دس لاکھ مسلمان ہے ۴۱۴،۲۵۵ ، ۴۱۵ ۵۴۳ آئنده تاریخ میں انشاء اللہ جب اسلام ۴۵ ۴۸۲،۲۰۰،۱۹۳۰ غالب آئے گا تو نورانی براعظم ہی کا نام ان ۵۲ کو دیا جائے گا ۳۶ ۳۷ ۳۸ اگر تمہارے ہاتھ میں احمدیت کا جھنڈا ہوگا ۱۱۰،۱۰۳،۱۰۱۷۹۹٬۹۵،۸۰،۵۰،۴۹،۴۷ تو نوع انسانی کی قیادت بھی تمہارے ہاتھ ۱۱۵، ۱۹۵،۱۹۴،۱۷۵،۱۵۹،۱۱۷، ۱۹۸ ،۲۴۳ میں ہوگی ۳۳۴،۳۳۳،۳۲۹،۲۸۳،۲۵۰ ،۳۵۶،۳۴۳ آئندہ دُنیا میں افریقن ممالک کے ہاتھ ۴۱۱،۴۰۲،۳۹۹،۳۸۸،۳۷۶، ۴۴۶،۴۲۰،۴۱۸ میں دنیا کی لیڈرشپ ہوگی ۵۷۱،۵۴۱،۵۲۶،۵۱۶ افریقہ مشرقی وہ قومیں جو خداوند یسوع مسیح کی محبت کا افریقہ مغربی پیغام لے کر آئی تھیں وہ افریقہ کی ساری دولت لے کر چلی گئیں افریقہ کے براعظم کے دل میں خدا تعالیٰ نے نور پیدا کر دیا ۹۸ ۱۷۵ ۱۸۱ ۳۸۱ ۵۲۶ ۵۲۶ ۴۷۷ ،۴۱۹ ،۳۳۰،۱۹۵،۳۸ ۱۹۴،۱۷۵،۱۴۰،۱۱۷ ،۹۶،۵۱،۴۲،۳۹،۳۸،۱۷ ۴۱۹ ،۳۷۶،۳۴۶،۳۳۴،۳۲۵ ،۲۶۹ ،۲۵۰، ۲۵۱ 12+ ۵۴۷ ، ۴۸۱،۴۷۷ ، ۴۲۳ ۹۵ پادریوں کی قطاروں کے پیچھے ان ممالک کی خدا نے افریقہ کو سب کچھ دیا تھا لیکن انہیں فوجیں داخل ہوئیں ۹۸
۵۶ ۳۲۶،۳۲۲،۲۵۸،۲۵۷ ،۲۵۶،۲۴۶،۲۴۲ ۳۷۵،۳۷۲،۳۴۱، ۳۴۰ ،۳۳۹،۳۳۱،۳۲۷ ۴۷۳،۴۷۱،۴۶۵،۴۰۶،۴۰۵،۳۹۹،۳۹۸ ۵۳۸،۵۳۷، ۴۸۰ ، ۴ ، ۳۷۲ ۳۴،۲۰،۱۸ افغانستان امریکہ ۱۳۷ ،۱۳۶،۱۲۱،۱۱۰ ، ۱۰۵ ۱۰۴ ۱۰۳ ۱۰۱ ،۹۵ ۱۹۳،۱۸۶،۱۸۱،۱۸۰،۱۷۹، ۱۷۶،۱۷۵،۱۳۸ ۲۲۱،۲۱۳،۲۱۲،۲۰۵،۲۰۴،۳۶۱ ۲۵۱،۲۴۴،۲۲۸ انگلستان میں لاکھوں لوگ موجود ہیں جو ۳۲۱،۲۵۷، ۳۲۷، ۳۳۸، ۳۷۵،۳۴۴،۳۴۱ شراب نہیں پیتے ۳۸۸،۳۸۵، ۴۳۲،۴۲۰،۴۱۰،۳۹۹،۳۹۸ اوسلو ۴۷۳،۴۵۱،۴۶۴ ، ۷ ۵۲۶،۴۸۲،۴۷ | ایڈن برگ ۵۷۱،۵۴۱،۵۳۹،۵۳۷،۵۴۶ | ایران امریکہ میں ہمارا پر لیس ہو تو وہاں سے ساری دُنیا میں لٹریچر بھجوایا جا سکتا ہے ایشیاء ۱۸۶ ایوری کوسٹ امریکہ میں لاکھوں کی تعداد میں قرآن کریم فروخت کرنے کا پروگرام ۱۸۰ بر میگم امریکہ اور انگلستان میں اپنا پریس ہونا چاہئیے ۱۸۱ | بین امریکہ میں ۲۰ ہزار قرآن کریم کی اشاعت ۴۱۰ پاکستان امریکہ میں پریس نے چوبیس گھنٹے کے اندر ۲۲۵ ۴۱۴ ،۱۲۹ ۳۷۲،۲۹۷ ،۱۱۹ ۲۸۳،۱۷۴ ۴۷۳،۲۴۶ پ.ت.ٹ ۴۱۸ ۸۶،۵۱،۳۸ ،۴۷،۷،۲ ۲۹۹،۲۵۷ ،۲۵۶،۲۴۹ ، ۱۸۸ ، ۱۷۴ ، ۱۱۲،۱۰۱ ہیں ہزار قرآن کریم شائع کر کے ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیئے ۴۱۱ ۳۹۶،۳۵۵،۳۴۹،۳۴۱،۳۳۷،۳۳۰،۳۰۵ ۵۴۵،۵۳۴،۵۱۱،۴۷۲،۴۱۹ امریکہ جنوبی ۳۳۴،۱۷۴، ۵۴۳٬۳۸۸ | احمدیوں کا بھی یہی ملک ہے ہم نے بھی اسی نارتھ امریکہ انڈونیشیا انگلستان ۳۸۸،۱۷۲ ملک میں رہنا ہے ۱۱۱،۱۰۱۷۹۵، ۳۳۰،۲۴۶ ہمارا مرکز تو یہاں سے نہیں جا سکتا ۳۹۹،۳۸۰،۳۳۹،۳۳۱، ۴۷۸،۴۲۰ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک میں استحکام اور ۶۳،۴۰،۳۷،۱۸ | خوشحالی کے سامان پیدا فرمائے ۱۱۸،۱۰۴،۱۰۳،۱۰۱، ۱۲۷، ۶ ۱۹۳۱۷، ۲۲۵، ۲۲۸ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک میں انصاف کا ماحول ۲۲ ۲۲۶
۵۷ پیدا کرے ۲۲۷ پاکستان زنده باد ہمارے ملک میں مہنگائی کی ذمہ داری غلط اور ڈیٹن غیر اسلامی اقتصادی منصوبوں کی وجہ سے ہے ۲۵۹ روانڈا ۴۰۱ راولپنڈی ۴۷۲،۴۷۱،۴۱۳،۲۵۲،۲۲۹ ،۲۱۸ ۵۷۱ پاکستان صدر ۳۴۱ ربوه ۴۱۹ ۲۶۹ ۱۳۳،۱۲۱،۱۱۳،۳۲ پرتگال ۵۴۳ ۴۷۸،۳۷۹،۳۴۷ ، ۳۰۸ ،۲۴۰ پشاور ۱۶۵ پولینڈ پید رو آباد ربوہ میں اونچی عمارت انشاء اللہ تعالیٰ ۳۴۱،۱۷۸،۳۳ جماعت احمدیہ کی لائبریری ہوگی روس تنزانیہ ۴۲۰،۴۱۹ ،۳۳۹،۳۳۱،۲۴۶ ۱۹۷ ۱۰۵،۶۳،۱۰۱،۲۰،۱۸ ۴۴۶،۴۳۲،۳۲۲،۲۰۶،۲۰۵ ،۱۲۱،۱۰۶ تھر پارکر ۲۶۷ روس نے ساری دُنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹا کہ ٹورانٹو ۲۵۵ ہم غریب کے بڑے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں 1+4 ٹیچی مان ج - چ - د.ڈرز جاپان جرمنی چیکوسلواکیا ۳۴۱،۹ چین مشق ۳۳۴ روس کا نعرہ کہ ساری دُنیا کے عوام جن کا استحصال ہو رہا ہے اکٹھے ہو جائیں ہم آگئے ہیں ۳۴۲،۳۴۱، ۳۴۶،۳۴۵، ۳۷۵ روس میں بسنے والے دہر یہ انسانوں کے ۴۷۳،۴۲۰، ۵۴۶،۵۴۴،۵۲۶،۴۷۸ لئے بھی دعا کریں ۳۲۰ ،۳۹۹،۳۲۳ | رومانیه ۳،۴۲۱ ۵۷۲،۵۴۱،۵۴۵،۵۴۴،۴۷ | زیورک ۲۹۰،۲۱۴،۱۲۱،۱۰۱،۱۰۵ ۵۴۴ سان فرانسکو ۴۳۳ | سپین س ش.ع.غ 1.4 ۱۵۶ 19 ۵۴۴ ۴۲۰ دهلی ۴۰۲ ڈسکہ ۲۶۹ ۳۴۲،۳۴۱،۳۴۰،۲۵۵،۲۱۶ ۴۷۷ ، ۴۷۵ ، ۴۶۹ ،۴۱۵ ، ۴۱۴ ،۳۹۹،۳۴۵ ۵۶۵،۵۴۵،۵۴۴،۵۴۳،۵۴۲،۵۲۶،۴۸۰ ڈنمارک ۴۳،۳۷، ۱۱۸، ۱۸۴،۱۲۷ | سرگودھا
۵۸ ۳۳۴٬۳۳۰ فرانس ۵۴۳٬۵۳۶،۵۳۲،۴۱۵،۴۱۴،۳۹۹ ۴۱۷ ،۱۸۱،۳۹ ۴۲۱ ،۷۱ ۵۳۸ ۳۵۵،۳۲۸،۲۰۱،۱۷۴،۱۶۷ ۳۵۷،۵۳۵،۵۲۹،۳۷۹ ۱۵۲ ۴۸۰،۴۷۶،۴۱۵ ،۴۱۴ ۵۱۱ ۱۶۵ سری لنکا سرینگر ۵۳۶٬۵۳۵،۴۱۶ | فری ٹاؤن سعودی عرب ۱۷۴، ۴۸۲،۴۱۷ فرینکفرٹ سندھ ۵۴۱ فن لینڈ سوات قادیان سوڈان سوئٹزرلینڈ ۱۹۳،۳۲ ۳۹۵،۳۲۹،۱۰۳ قادیان مدرسہ احمدیہ ۵۴۴،۵۴۳،۴۷۳،۴۷۲،۴۲۱ ،۳۹۹ قرطبہ سویڈن ۱۱۷ ، ۱۲۷ ، ۵۳۴،۴۱۳،۴۱۲،۱۸۳،۱۲۹ کابل ۲۶۹،۱۶۵ ۱۱۵ ،۴۲،۳۹،۲۲ کراچی ۵۷۲،۵۱۱،۴۱۶،۳۷۲،۳۴۱،۲۳۶،۱۵۸،۱۵۲ ۴۱۷ ۴۶۴ کوریا کیمرج کینیڈا کینیا گوٹن برگ ۵۲۶،۴۲۰،۳۴۲،۳۳۴،۳۳۰،۲۵۴ ،۱۱۰ ۴۱۹،۳۴۷ ،۳۳۹،۲۵۴ ۱۹۳،۱۸۶،۱۸۳ ۵۳۵،۵۳۴،۴۷۹،۴۱۳ ،۴۱۲،۳۵۰،۳۴۷ ۴۱۷ ،۳۳۹،۳۳۳،۲۵۱،۲۵۰،۱۸۱،۱۲۵ ۱۹۳ ۴۳۳ ۳۴۲ ۱۳۹،۱۳۸،۶۳،۴۵ ۵۲۱،۴۹۷ ،۳۷۵،۳۱۷ ،۲۹۷ ،۲۱۹ ،۱۴۰ ۱۲۶،۱۲۵،۱۱۹،۱۱۲ سیالکوٹ سیرالیون سیلون شام عراق عرب ۳۳۲،۳۳۰،۲۵۹،۲۵۴ ،۲۵۱،۲۵۰ ، ۱۹۳،۱۸۰ ،۳۴۶،۳۳۸ ،۳۳۷ ،۳۳۵،۳۳۴،۳۳۳ ۴۱۶،۳۹۹،۳۵۶، ۴۱۷، ۴۸۱،۴۷۸ گی آنا ( جنوبی امریکہ ) فق_ک_ق گیمبیا ۴۷۳،۳۳۰ ۴۱۹ ،۴۱۸ ،۳۴۱،۳۳۸ ،۱۹۵ ،۱۱۹ ،۴۷ ل.م ۷۶،۵۲،۲۲ ۴۰۴ ،۳۲۲،۲۶۹،۲۶۸ ،۲۵۵،۱۶۶۰۱۶۵ لاہور غانا غرناطه فجی آئی لینڈ ۴۷۸،۴۷۳،۴۲۰،۳۴۶،۳۳۰،۲۵۶،۱۹۳،۱۸
لنڈن لیگوس مارشیش ماسکو مد بینه ۵۹ ۱۱۸،۵۰، ۱۲۷ | نیویارک ۳۴۲،۳۴۱ ،۳۴۰،۳۲۶،۳۲۵،۱۹۹،۱۹۸ وارسا ۵۷۲،۴۱۳،۳۹۶،۳۵۰،۳۴۴،۳۴۳، ۵۳۷ | ہالینڈ ۴۱۸، ۴۷۸ | ہمبرگ ۴۷۳،۳۲۵،۲۴۶،۱۱۸ | ہندوستان مڈل ایسٹ ۴۰۲ ۴۳۳،۲۶۹ مڈل ایسٹ کے ہر ملک کے اندر احمدی موجود ہیں مکه میڈرڈ ناروے نائیجیر نائیجیریا نجران ہنگری یروشلم یورپ ۴۰۲ ۲۴۶،۴۴ ۳۲۹ ۱۷۴،۱۱۵،۹۹،۵۱،۴۷ ،۳۸،۱۸ ۵۴۳،۳۷۲,۳۵۵،۲۴۹،۳۶۱،۳۶۰،۱۷۷ ۴۱۵،۱۷۸ ۳۷۲،۳۷۱ ۱۳۷ ،۱۴۵ ،۱۳۹،۱۲۸ ، ۱۲۷ ، ۱۲۱ ، ۱۰۴ ،۱۰۱ ،۴۳،۳۱ ۲۱۲،۱۹۹،۳۶۰،۱۸۶،۱۷۹ ،۱۷۵ ،۱۷۴،۱۵۸،۱۳۹ ۳۲۰،۲۷۴ ۲۷۱،۲۵۵،۲۵۴،۲۵۱،۲۳۵ ،۲۲۵،۲۱۸ ۳۹۸،۳۸۸،۳۷۵،۳۲۹،۳۲۶،۳۲۳،۳۲۲،۳۲۱ ۱۷۵ ۱۷۴ ۴۳۲،۴۳۱،۴۳۰،۴۱۷ ،۳۱۱،۲۶۹ ۴۱۵ ۴۷۹،۴۷۷ ، ۴۷۹،۴۷ ،۴ ،۴۷۳،۴۲۰ ، ۴۱۵ ،۴۱۳ ۵۴۷ ،۵۴۴،۵۰۰،۴۸۲ ن.و.ہی ۱۱۸، ۱۲۷ ۴۱۳۰، ۴۱۴ ، ۷ ۴۷، ۵۳۸ یورپ مشرقی ۱۹۴ روی اپنے ٹینک اور تو ہیں لے کر ان ممالک ۳۲۱۸ میں داخل ہو گئے ۹۸،۲۸، ۱۹۵،۱۹۵،۱۹۳،۱۲۶،۱۱۹، ۲۴۶ یورپ جو بے راہ روی کا مرکز بن چکا تھا اس ۳۳۲،۳۳۱،۳۳۰،۲۸۴،۲۵۹، ۳۳۷، ۳۳۸ میں سے یہ پیارے وجود پیدا ہورہے ہیں ۳۴۶،۳۴۳،۳۳۹، ۴۱۷، ۴۷۲،۴۱۸، ۴۷۸ یوگوسلاویہ ۵۴۳٬۵۳۹٬۵۳۷،۵۳۶ | یوگنڈا ۲۶۳،۲۵۳،۳۶ | یونان ۱۹ ۹۵ ۴۱۵،۱۸۶،۱۷۸،۱۰۴،۱۰۳،۳۳،۱۹ ۴۷۸،۳۳۹ ۲۹۷
۳۲۶ ۲۴۶ کتابیات اسلامی معاشرہ آنا آسمانی فیصلہ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۳۲۶ | اسلامی نماز آنحضرت کے متعلق بائبل کی الہامی بشارات ۲۴۶ اصول شاشی آئینہ کمالات اسلام.(تصنیف حضرت مسیح موعود ) التعريفات ۴۹۳، ۵۲۲٬۵۰۸،۴۹۸ | الفرقان آیت خاتم النبیین اور جماعت احمدیہ کا مسلک ۴۷۴ الفضل روز نامہ آیت خاتم النبیین کاصحیح مفہوم ابن حجر الھیثمی ابن ماجه ۳۲۸ ۳۶۵ ۳۶۴ اتمام الحجة (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۴۲۳ احادیث رسول احمدیت ۲۴۶ ۳۴۱،۳۴۰ ۳۶۸ ۳۶۸ ۱۹۱،۱۱۱،۲۹ ۲۴۸ ،۱۹۱ ،۱۱۱،۲۹ ۵۳۲،۴۷۰،۳۹۲،۳۳۰،۳۲۵،۳۲۴،۲۴۹ الفتاوى الحديثيه الكفرملة واحدة المنقذ من الضلال امام مہدی کا ظہور امروز (اخبار) ۳۶۸،۳۶۵ ۲۴۷ ۱۲۲ 191 ۲۴۸ احمدیت کا پیغام احمدیت کی امتیازی شان احمدیہ علیمی پاکٹ بک ازالة الشبهات اسلام اینڈ ہیومن رائٹس اسلام عصر حاضر میں ۴۷۴،۳۲۶،۱۹۲ ۴۷۳ ۲۴۵ ۱۹۱ ۲۴۶ " امن کا پیغام ایک حرف انتباہ انجیل انصار الله (ماہنامہ ) انقلاب حقیقی (از حضرت مصلح موعود ) اسلامی اصول کی فلاسفی ) تصنیف حضرت مسیح موعود ) ایاز محمود ۴۷۲،۴۲۰ ۳۳۲ ۱۹۱،۱۱۱،۲۹ ۴۷۰،۳۹۵،۳۲۵ ،۲۴۹ ۳۲۸ ۲۴۸ ایک غلطی کا ازالہ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۳۳۹،۲۴۶ ۱۴۴ ،۱۴۳،۱۴۲ ۵۳۶،۴۱۳،۳۳۹،۲۴۶
་་ اینجلز بائییل بحر المحيط بخاری صحیح ۲۰۵ ترندی جامع تریاق القلوب (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۴۱۷ تشحید الاذہان (ماہنامہ ) ۳۶۳ ۱۳۸،۱۳۷،۳۶،۲۹ ۳۶۴ ۲۴۹ ،۱۹۱ ،۱۱۱ ۵۳۲،۴۷۰،۳۹۵،۳۲۳ تعمیر بیت اللہ کے تمیں عظیم الشان مقاصد ۴۴۹،۴۲۷ ۳۵۸،۳۶۱،۱۹۱،۱۴۱ ۳۶۴ تفسیر القرآن انگریزی براہین احمدیہ جلد پنجم (تصنیف حضرت مسیح موعود ) تفسیر جامع البیان ۳۲۶ تفسیر حسینی براہین احمدیہ ہر چہار حصص ( تصنیف حضرت مسیح موعود ) تغییر حضرت مسیح موعود ۵۰۵،۵۰۴،۵۰۲،۴۹۶،۲۲۴ ۲۲۳، ۲۲۱ ۲۲۰ ۲۱۹ تفسیر صغیر بركات الدعا (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۴۹۸،۲۴۶ تفسیر کبیر (از حضرت مصلح موعودؓ ) بہایت کے پانچ مقالے بیہقی سنن پیارے اسلام کی پیاری باتیں پیارے مہدی کی پیاری باتیں پیغام صلح تاج العروس ۲۴۵ ۳۶۵ ۳۹۵ ۴۷۱،۳۹۵ ۳۲۶ ۵۵۲ تفسیر کبیر ( فخر الدین رازی) تفسیر معالم التنزيل تورات ۳۶۳ ۳۶۴ ۵۵۲،۴۷۲،۲۴۸ ،۳۰ ۲۴۷ ، ۱۹۱ ۲۴۵،۱۹۱،۱۱۹ ۵۴۰،۳۶۳،۳۲۹ توضیح مرام (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۴۸۵ ۳۶۳ ۳۷۵،۳۳۲ ۴۹۲ ۳۶۴ ۹۱،۹۰،۸۹ ،۸۸ ۳۶۴ ۴۷۳ ۲۴۸ ۳۲۸ ج، چ، ح، خ ۳۲۷ جامع البیان تاریخ احمدیت جلد ۱۵ تاریخ انصار الله تجلیات الہیہ ۳۳۹،۳۲۶،۱۰۰، ۴۰۱،۳۹۹ جامعه الصغير جلالین جماعت احمدیہ کی ملی خدمات 191 ۲۴۹ ،۱۹۱،۱۱۱،۲۹ تحریک احمدیت اور ختم نبوت تحریک جدید ماہنامہ تذکره ۵۳۲،۴۷۰،۳۹۵،۳۲۸،۳۲۵ | جنگ (اخبار) ۵۲۴۳۱۱،۲۴۶،۱۶۴ چشمه مسیحی (تصنیف حضرت مسیح موعود )
۴۷۱ ۳۶۴ ۳۶۴ ۵۳۲،۴۹۳،۱۱۱ ۶۲ چودھویں اور پندرھویں صدی کا سنگم ۴۷۴ رحمۃ للعالمین اور اطفال چشمه معرفت (تصنیف حضرت مسیح موعود ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ۵۶۹،۵۰۰،۴۹۷ | روح البیان حجج الكرامه ( محمد بن علی شوکانی ) ۳۶۸ روح المعانی حديقة الصالحين ۳۲۸ ریویو آف ریلیجنز حقیقۃ الوحی (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۵۰۲ زاد المسير في علم التفسير س، ش، ص ۳۹۵، ۴۷۱ سبز اشتہار.(تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۲۹، ۱۱۱ ۱۹۱ ست بچن.(تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۵۳۲،۴۷۱،۴۷۰،۳۹۵،۳۲۵،۲۴۹ سدی الصغیر ۴۶ سدى الكبير حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں خالد (ماہنامہ) خطبات محمود خلافت ابوبکر صدیق خلافت کا منصب د، ر، ز دار قطنی سنن واس کا پیٹل (DES CAPITAL) در متین در مشین فارسی دعوة الامیر ۳۶۳ ۳۲۶ ۱۳۵ ۳۶۳ ۳۶۳ ۱۹۲ 191 سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ۳۲۸ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) سراج منیر (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۳۷۷ ،۳۶۵ سرمه چشم آریہ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۵۰۸،۵۰۶،۵۰۳ ۳۴۹،۶۷ سنن ابن ماجه ۳۷۳،۳۶۴ ۱۵۹،۱۲۹ سنن ابی داؤد ۲۸۰، ۴۶۱،۴۲۹،۳۲۸ | سنن نسائی ۴۷۴ ،۳۴۰،۳۲۷ ،۲۴۷ ، ۱۹۱ سوانح حضرت خلیفہ اسی الاول ۳۶۴ ۳۶۴ ۴۷۱،۳۹۵ ม ۴۷۱ ،۱۱۱،۴۶ ۳۹۵ دیباچہ تفسیر القرآن ۱۹۲، ۵۷۲،۵۳۶،۴۱۱،۳۲۸ سوانح حضرت علی ذکر حبیب ۱۹۲، ۳۲۸ سوانح فضل عمر راز حقیقت (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۳۲۶ سوانح حضرت مصلح موعود
سیرت حضرت عمر سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیرت طلبة اصبح الاول سیر روحانی شان قرآن ۶۳ ۴۷۱ كنوز الحقائق گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے ۴۷۱،۳۹۵،۱۹۲ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ل،م ۳۲۶ ۲۴۸ لاہور (ہفت روزہ) ۳۶۵ ۳۲۸،۲۴۷ ۵۳۲،۴۷۰،۳۹۴،۳۲۵،۲۴۹ ،۱۱۱،۲۹ شرح فصوص الحکم صلیب سے نجات ع ، غ ۳۶۷ لائف آف محمد (Life Of Muhammad) ۳۴۲،۳۲۶ ۳۳۹،۲۴۶،۱۹۱ لیکچر لدھیانہ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) عقیدت کے پھول ۳۲۸ لیکچر سیالکوٹ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۳۲۶ غلبہ اسلام اور سکھ مت ف ق ک گ ۱۹۱ مساوات (اخبار) مستدرک للحاکم فتح اسلام ) تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۳۲۶،۲۴۶ مجمع الزوائد ۲۴۸ ۳۷۳،۳۶۵ فقه حنفی ۳۶۳ مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریرات کی رو سے ۱۶۴ ۳۲۸ فیضان نبوت ۳۲۸ مسلم صحیح قرطبی کتاب الحج ۳۶۳ مسند احمد بن حنبل ۱۹۲ مسیح کشمیر میں ۵۴۲،۳۶۴،۳۳۱،۳۰۸ ۳۶۴،۱۶۴ ۳۲۶ کتاب المهدی ۳۶۹ مسیح ہندوستان میں (تصنیف حضرت مسیح موعود ) کشاف ۳۶۳ کشتی نوح (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۵۲۳،۴۲۰،۳۳۹ مشرق (اخبار) مشکوۃ شریف كشف الغطاء (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۳۲۶ مصباح (ماہنامہ) ۵۳۷،۳۴۰،۳۲۶،۳۲۵ ۲۴۸ ۵۱۹،۳۶۵ کنزل العمال ۵۳۲،۴۷۰،۳۹۵ ،۳۲۵ ،۱۹۱،۱۱۱،۲۹
۶۴ 399,413,536,537 In the company of the promised Messiah 248 Life of Muhammad (By A.R.Dard) 179 معالم التنزيل مفردات امام راغب مقربان الہی کی سرخروئی ملفوظات جلد اوّل من الرحمن (تصنیف حضرت مسیح موعود ) موضوعات کبیر موطا امام مالک مہدی معہود کے علمی خزانے میرادین میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں ۳۶۳ ہمارا رسول ٣٠٢ ہماری تعلیم ۲۹ ہمارے نبی پیارے نبی ۵۵۲ ینابیع الموده ۳۲۶ ۳۲۸،۲۴۷ ۲۴۶،۱۹۲ انگریزی کتب Essence of Islam Vol No:1 ۱۹۲ ۴۹۱،۴۹۰،۱ ۳۶۴ ۳۲۸ ۲۴۶ ۱۹۲ My faith 341 (Why I believe in Islam) Shroud of Jesus 339 Jesus in India 339 ۲۴۶ The philosophy of the ۲۴۵ teaching of Islam 413 ۵۶۹ لنڈن میں پچاس ہزار کی تعداد میں شائع کی گئی ۱۹۱ The Quran on space and ۳۲۸ ن نبراس المومنين نجات نسیم دعوت.(تصنیف حضرت مسیح موعود ) نشان آسمانی (تصنیف حضرت مسیح موعود ) نماز مترجم سندھی interplantry flights 246 ۳۲۹ نعت مرکب The truth about the ۲۴۸ cruafication 413 ۳۶۵ Truth (News Paper) 338 Voice of Islam 478 Where did Jesus die 340 ۴۷۴،۳۲۸ نوائے وقت (اخبار) نہا یہ ابن اثیر و،ه،ی وصال ابن مریم What is Islam 341 ۳۲۸ ہمارا خدا