Language: UR
حضرت حافظ مرزاناصر احمد صاحب، خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے جلسہ ہائے سالانہ کے مواقع پر خطابات کا یہ مجموعہ دو جلدوں میں نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے مرتب کیا ہے۔ جلد اول آغاز تا 1973 تک اور جلد دوم 1974 سے 1981 ء کے خطابات پر مشتمل ہے۔ جلد اول میں کل 24 تقاریر ہیں جن میں سے 16 تقاریر قبل ازیں غیر مطبوعہ تھیں اور اس کتاب کی صورت میں پہلی دفعہ طبع ہوئیں۔ جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے جلسہ ہائے سالانہ کے مواقع پرمستورات سے خطابات المصابیح کے نام سے لجنہ اماء اللہ کی طرف سے الگ سے شائع شدہ ہیں، وہ اس مجموعہ کا حصہ نہیں ہیں۔ ان جلدوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خدائے قادر وقیوم جن وجودوں کو زمام خلافت سپرد کرتا ہے ان کو اپنی ایک خاص خارق عادت تائید و نصرت سے بھی نوازتا ہے اور ان کی زبان مبارک سے حقائق و معارف اور دقائق و لطائف کے سلسلے جاری فرما دیتا ہے۔ اس قیمتی مجموعہ کی دونوں جلدوں کے آخر پر انڈیکس شامل ہے۔
خطابات ناصر خطابات پر جلسہ ہائے سالانہ جماعت احمدیہ ۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء فرموده سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خليفة المسيح الثالث رحمه رحمه الله تعالى جلد اوّل
خطابات ناصر جلد اوّل.1965-1973ء خطابات جلسہ ہائے سالانہ فرمودہ حضرت حافظ مرزا ناصراحمد خلیفۃ السیح الثالث رحمه الله تعالی ناصراحمدخلیفتہ Khetabaat-e Nasir Volume: 1 1965-1973 Addresses at annuual gatherings from 1965 to 1973 delivered by Hadhrat Mirza Nasir Ahmad, Khalifatul Masih III (Rahemahu Allah) Islam International Publications Published by: First Published in 2010 ISBN: 1 85372 914 0
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود هو النـ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ پیش لفظ سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطابات المسیح کی جلد اول پیش خدمت ہے.یہ جلد ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۳ ء تک کے جلسہ سالانہ کے افتتاحی خطاب، دوسرے روز کے خطاب اور اختتامی خطابات پر مشتمل ہے.ان تقاریر کی کل تعداد ۲۴ ہے جن میں سے ۱۶ تقاریر غیر مطبوعہ ہیں اور پہلی دفعہ شائع کی جارہی ہیں.حضور رحمہ اللہ کے مستورات سے خطابات لجنہ اماءاللہ پاکستان نے المصابیح کے نام سے الگ شائع کئے ہیں اس لئے انہیں اس جلد میں شامل نہیں کیا گیا.جن مقدس وجودوں کو خدائے قادر مقام خلافت پر فائز کرنے کے لئے منتخب فرماتا ہے انہیں اپنی غیر معمولی تائید و نصرت سے نوازتا ہے.ان کی زبانِ مبارک سے حقائق و معارف اور دقائق و لطائف جاری فرماتا ہے.اس جلد میں مندرجہ ذیل اقتباسات جماعتی نقطہ نگاہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں.(۱) ۱۹؍دسمبر ۱۹۶۵ء کو اپنی خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ کے افتتاحی خطاب کے موقع پر فرمایا:.”اے جان سے زیادہ عزیز بھائیو! میرا ذرہ ذرہ آپ پر قربان کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے جماعتی اتحاد اور جماعتی استحکام کا وہ اعلیٰ نمونہ دکھانے کی توفیق عطا کی کہ آسمان کے فرشتے آپ پر ناز کرتے ہیں.آسمانی ارواح کے سلام کا تحفہ قبول کرو.تاریخ کے اوراق آپ کے نام کو عزت کے ساتھ یاد کریں گے اور آنے والی نسلیں آپ پر فخر کریں گی کہ آپ نے محض خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس بندہ ضعیف اور ناکارہ کے ہاتھ پر متحد ہو کر یہ عہد کیا ہے کہ قیام تو حید اور
۲ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے قیام اور غلبہ اسلام کے لئے جو تحریک اور جو جد و جہد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع کی تھی اور جسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے آرام کھو کر اپنی زندگی کے ہر سکھ کو قربان کر کے اکناف عالم تک پھیلایا ہے.آپ اس جد و جہد کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جائیں گے.میری دعا ئیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں اور میں ہمیشہ آپ کی دعاؤں کا بھوکا ہوں.میں نے آپ کی تسکین قلب کے لئے ، آپ کے بار ہلکا کرنے کے لئے ، آپ کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے اپنے رب رحیم سے قبولیت دعا کا نشان مانگا ہے اور مجھے پورا یقین اور پورا بھروسہ ہے اس پاک ذات پر کہ وہ میری اس التجا کور د نہیں کرے گا.(صفحہ ۲۱ جلد ھذا) ہے (۲) ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء کو اپنی خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کے خطاب میں فرمایا:.مامور اور نبی اپنی جماعت کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور ان کا تزکیہ نفوس کرتا ہے اور یہی کام ان کے بعد ان کی نیابت میں ان کے خلفاء کو کرنے پڑتے ہیں اور یہی ان کی اصل ذمہ داری ہوتی ہے.اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ایک جماعتی نظام قائم کیا جاتا ہے اور جہاں تک عزم اور فیصلہ کا تعلق ہے.اس نظام کی پوری ذمہ داری خلیفہ وقت پر ہوتی ہے اور یہ ذمہ داری نہایت نازک ہے اور ذمہ داری کے نبھانے میں خلیفہ وقت کو جماعت سے دو بنیادی باتوں کی توقع ہوتی.(اول) جماعت کے مخلصانہ مشورے ( دوم ) ان کی دعائیں اور جس طرح مجھ سے پہلے خلفاء جماعت سے ان دو بنیادی باتوں کی توقع رکھتے تھے.اس طرح میں بھی ان کی توقع رکھتا ہوں کیونکہ ان کے بغیر خلافت کے اہم کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا پس آپ کے مخلصانہ مشوروں اور پُر سوز دعاؤں کی مجھے بہت ضرورت ہے اور میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ یہ دونوں چیزیں مجھے آپ کی طرف سے ملتی رہیں گی.انشاء اللہ تعالیٰ.“ (صفحہ ۱۱ ۱۲ جلد هذا) (۳) ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء کو اپنی خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ پر اختتامی خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.میرے جیسا انسان اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے کن الفاظ میں پیش کرے لیکن اس تمام نیستی کے باوجود جو میں اپنے نفس میں اپنے لئے پاتا ہوں.میں یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس مقام پر کھڑا کیا ہے اس مقام کی حفاظت کا ذمہ خود اس نے لیا ہے اور جب تک وہ مجھے زندہ 66 ---
رکھنا چاہے گا.اس کا قادر و توانا اور قومی ہاتھ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا اور جس طرف بھی خدا تعالیٰ میری رہنمائی فرماتے ہوئے جماعت کو ترقی کے لئے لے جانا چاہے گا اس میں برکت ہوگی اور اگر کوئی شخص اس راستہ کو چھوڑے گا تو وہ ناکام رہے گا.اس لئے نہیں کہ مجھ میں کوئی خوبی یا طاقت ہے بلکہ اس لئے کہ جس وجود نے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا ہے تمام خوبیاں اور طاقتیں اس کو حاصل ہیں وہ ہمیں کامیاب کرے گا اور میں پورے یقین اور وثوق کے ساتھ ساری جماعت کو جو یہاں بیٹھی ہوئی ہے اور تمام دنیا کو جہاں کہ آج کی آواز پہنچے یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ پچیس تمیں سال کے اندر دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی اس روحانی انقلاب کو روک نہیں سکتیں.“ (صفحہ ۷۳ تا ۷۵ جلد ھذا) (۴) ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء کو جلسہ سالانہ کے دوسرے روز اپنے خطاب میں فرمایا:.آپ میں سے ہر شخص کی خواہش، تمنا اور دعا ہے کہ مثلاً سیرالیون سارا احمدی ہو جائے ، مثلاً غاناسارا احمدی ہو جائے ،مثلاً گیمبیا سارا احمدی ہو جائے ،مثلاً نائیجیر یاسا را احمدی ہو جائے.وہ کون سا ملک ہے جس کے احمدی ہو جانے کے متعلق آپ کے دل میں خواہش نہ ہو اور اس کے لئے آپ کی دعا نہ ہو جس وقت وہ ملک احمدی ہو گیا اور اس کی مالی قربانیاں آپ سے بڑھ گئیں اس دن وہ کہے گا نظام ہمارے ہاتھ میں دو یا ہمارے مقابلہ میں آکے قربانیاں دو.تو قبل اس کے کہ ایسا دن آئے کہ آپ کے ہاتھ سے یہ فضیلت چھین لی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کا نظام آپ کے ہاتھ میں دیا ہے اور آپ کے ہاتھ سے چلا رہا ہے ان باتوں کی طرف توجہ دو اور اپنی قربانیوں کے معیار کو اور قربانیوں کی رفتار کو بڑھاؤ مل کے سب نے ایک تنبیہ ہمیں کر دی ہے.وارننگ سگنل بلند ہو چکا ہے اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو.(صفحہ ۱۱۴ جلد ھذا ) (۵) ۲۸ جنوری ۱۹۶۷ء کو جلسہ سالانہ کے اختتامی خطاب کے دوران فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ اسلام کو تمام ادیانِ عالم کے مقابلہ میں غالب کرے گا اور اگر سارے مذاہب کے سر براہ اور ان کے علماء اور ان میں منتقی قرار دیئے جانے والے اور بزرگ اور نیک اکٹھے ہو جائیں تمام مذاہب کے اور وہ میرے مقابلہ پر آ کر کھڑے ہوں.وہ ایک چیز کے مستحق دعا کریں اور میں بھی اس کے متعلق دعا کروں تو ان تمام بزرگوں کی دعائیں رد کر دی جائیں گی اور میری دعا قبول
۴ ہو جائے گی.اسی طرح آج میں یہ کہتا ہوں.....جو ایک نہایت ہی ادنی خادم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہوں اور آپ کے آقا ومطاع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں.اکیلا دعا کروں گا اور اس وجہ سے نہیں کہ میں کوئی چیز ہوں بلکہ اس کے لئے کہ اسلام خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایک بہت بڑی صداقت ہے اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ آپ کے خلفاء کی مدد کے لئے آسمان سے اترا کرے گا.میں آج اس بات کو دہراتا ہوں کہ اگر آپ سب کے مقابلہ میں میں اکیلا دعا کروں گا تو اللہ تعالیٰ میری دعا کو قبولیت بخشے گا اور آپ کی دعاؤں کو ر ڈ کر دے گا.“ (صفحہ ۱۵۹،۱۵۸ جلد ھذا) (۲) ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء کو جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کے خطاب کے دوران فرمایا:.ا بھی میں نے اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور اس کے فلسفہ پر جو خطبات دیئے تھے جس وقت میں یہ خطبات دے چکا تو مجھے خیال پیدا ہوا کہ اکثر احمدی تو مذہب سے دلچسپی رکھتے ہیں اور ان خطبات میں جو مختلف مذہبی پہلو بیان ہوئے ہیں.جن کی بنیاد پر آگے اقتصادی اصول قائم کئے گئے ہیں وہ بڑے شوق سے پڑھیں گے اور بڑی لذت محسوس کریں گے لیکن دوسرے لوگ خصوصاً غیر مسلم جو ہیں ان کو تو مذہب یا اسلام یا قرآن سے دلچسپی نہیں وہ شاید bore یعنی اُکتا جائیں اس لئے ان سارے خطبات کا ایک خلاصہ بیان کر دینا چاہئے جس میں صرف اصول بتا دیئے جائیں.اس کی حکمتیں اور وہ روحانی بنیاد جن کے اوپر ان کو قائم کیا گیا ہے اس کو چھوڑ دیا جائے اور جو تعلیم ہے اور جو اس کا فلسفہ ہے وہ بیان کر دیا جائے اور یہ دراصل خلاصہ ہوگا ان خطبات کا.چنانچہ میں اس وقت بہت دعا کر رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ جو کچھ تم نے ان چودہ خطبات میں بیان کیا ہے یہ سارا مضمون سورۃ فاتحہ میں پایا جاتا ہے.تم سورۃ فاتحہ کی اقتصادی تفسیر بیان کر دینا تو ان خطبات کا خلاصہ آجائے گا.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو سورۃ فاتحہ کی اقتصادی تفسیر بھی آجائے گی.“ ( صفحه ۳۵۴،۳۵۳ جلد هذا ) ( ۷ ) ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۳ء کو جلسہ سالانہ کے دوسرے روز اپنے خطاب میں فرمایا:.گیمبیا میں اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ کہا کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ ان ممالک میں ان کی خدمت کے لئے خرچ کرو.جب میں وہاں سے واپس آیا تو پہلا ملک جہاں افریقہ سے باہر ٹھہرا
وہ انگلستان تھا.میں نے اپنے بھائیوں سے بڑی وضاحت سے یہ کہا کہ خدا نے یہ کہا ہے کہ یہ کام کرو میں اُن سے اللہ تعالیٰ کی اس منشاء کے مطابق یہ وعدہ کر کے آیا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے پانچ سات سال کے اندر اندر تمہارے مُلکوں میں سولہ نئے طبی مراکز کھولوں گا اور کافی نئے سیکنڈری سکول کھولوں گا.تعداد بھی میں نے بتائی تھی اس وقت مجھے یاد نہیں رہی بہر حال سولہ سے زیادہ ہی بتائی ہوگی.اس کے لئے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے.اس کے لئے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.اس کے لئے ٹیچرز اور پروفیسروں کی ضرورت ہے.اس کے لئے مال کی ضرورت ہے اور چونکہ خدا نے کہا کہ کم سے کم اتنا خرچ کرو اس لئے میں اپنے رب سے یہ امید رکھتا ہوں کہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے سامان وہ خود ہی پیدا کر دے گا اور مجھے ایک سیکنڈ کے لئے بھی گھبراہٹ نہیں کہ مجھے ڈاکٹر کہاں سے ملیں گے.سکولوں میں پڑھانے والے ایم ایس سی لیکچررز کہاں سے آئیں گے.سکولوں یا ہسپتالوں کی عمارتیں بنانے کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا.خدا کی یہ منشاء ہے خدا کی منشاء پوری ہوگی.ایک چیز کی مجھے فکر ہے اور وہ یہ میرا پہلا اعلان تھا وہاں سے آکر اور مجھے بھی اس کی فکر ہے تمہیں بھی اس کی فکر کرنی پڑے گی پیسہ بھی خدا دے گا اور آدمی بھی دے گا لیکن مجھے اور تمہیں یہ فکر کرنی چاہئے کہ ہم یہ حقیر قربانی جو اپنے رب کے حضور پیش کریں وہ قبول ہوتی ہے یا نہیں.اس کے لئے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا ہماری ان حقیر قربانیوں کو قبول فرمائے.(صفحہ ۶۴۰،۶۳۹ جلد ھذا) (۸) ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء کو جلسہ سالانہ کا اختتامی خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی یہ خواہش تھی کہ جماعت صد سالہ جشن منائے.یعنی وہ لوگ جن کوسوواں سال دیکھنا نصیب ہو وہ صد سالہ جشن منائیں اور میں اپنی بھی اسی خواہش کا اظہار کرتا ہوں کہ صد سالہ جشن منایا جائے.اس لئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے اور میں نے بڑی دعاؤں کے بعد اور بڑے غور کے بعد تاریخ احمدیت سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اگلے چند سال جو صد حضرت پورا ہونے سے قبل باقی رہ گئے ہیں وہ ہمارے لئے بڑی ہی اہمیت کے مالک ہیں.مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت پر اس معنی میں کہ آپ نے جو پہلی بیعت لی اور صالحین اور مطہرین کی چھوٹی سی جماعت بنائی تھی اس پر ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء کو سو سال گزر جائیں گے.میں اس نتیجہ پر پہنچا
۶ کہ ہمیں کوئی منصوبہ بنانا چاہئے تاکہ ہم تیاری کریں اس صدی کے جشن کو منانے کی لیکن چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ۱۹۸۹ ء کا سال بڑا ہی اہم سال ہو گا اس لئے میری طبیعت کا میلان سو سالہ جشن منانے کی طرف اتنا نہیں (وہ بھی ہم نے منانا ہے ) جتنا دوسری صدی کے استقبال کی تیاری کی طرف میرا میلان ہے.(صفحہ ۶۴۷، ۶۴۸ جلد ھذا) (۹) ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء کو جلسہ سالانہ پر اختتامی خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.اشاعت اسلام کا یہ جامع منصوبہ ہے جسے میں نے مختصر بیان کر دیا ہے.دنیا کا ہر منصوبہ روپیہ چاہتا ہے مثلاً جو براڈ کاسٹنگ اسٹیشن لگانے پر روپیہ خرچ ہوگا.قرآن کریم کے تراجم روپیہ خرچ ہو گا.سو زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت پر بہت رقم خرچ آئے گی.منصو بہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک معقول رقم کی ضرورت ہے.اس کو ہم ” صد سالہ احمد ہے جو بلی فنڈ“ کا نام دیتے ہیں.تو ہمیں اس فنڈ کے لئے رقم کی ضرورت ہے.اس کی آخری شکل تو سولہ سال کے بعد بنے گی.سردست اس کے لئے جتنی رقم کی اپیل کرنا چاہتا ہوں وہ صرف اڑھائی کروڑ روپیہ ہے.ہوسکتا ہے کہ جماعت اگلے سولہ سال میں اشاعت اسلام پر ۵۰ کروڑ روپے خرچ کرنے لگ جائے.“ (صفحہ ۶۷۸،۶۷۷ جلد ھذا) خطابات ناصر کی دوسری جلد انشاء اللہ تعالیٰ حضور انور کی تقاریر جلسہ سالانہ ۱۹۷۴ء تا ۱۹۸۱ء پر مشتمل ہوگی.
نمبر شمار ۶ فہرست خطابات جلد اوّل خطابات جلسه سالانه از ۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) عنوان خطاب فرموده صفحہ جلسہ سالانه ۱۹۶۵ء ( منعقدہ دسمبر ۱۹۶۵ء) میری دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں اور میں آپ کی افتتاحی خطاب دعاؤں کا بھوکا ہوں ۱۹؍ دسمبر ۱۹۶۵ء تحریک جدید کے اجرا کی غرض دنیا میں ایک عظیم روحانی دوسرے روز کا خطاب انقلاب پیدا کرنا تھا ۲۰؍دسمبر ۱۹۶۵ء خدا شاہد ہے کہ پسر موعود کے شامل حال ایک عظیم الشان اختتامی خطاب نور تھا ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء جلسه سالانه ۱۹۶۶ء ( منعقدہ جنوری ۱۹۶۷ء) جو عہد بیعت تم نے باندھا ہے خدا کرے کہ تم ہمیشہ پختگی افتتاحی خطاب ۲۶ جنوری ۱۹۶۷ء سے اس پر قائم رہو جس وقت کوئی ملک پورا احمدی ہو گیا تو وہ کہے گا کہ نظام دوسرے روز کا خطاب ہمارے ہاتھ میں دو یا ہمارے مقابلہ میں قربانیاں دو ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء انتہائی مظلومیت اور متضرعانہ دعا اللہ تعالیٰ کی معجزانہ نصرت کو جذب کرتی ہے اختتامی خطاب ۲۸ جنوری ۱۹۶۷ء 1 ۳۳ ۹۱
نمبر شمار عنوان خطاب فرموده صفحہ ے 1." جلسہ سالانہ ۱۹۶۷ء ( منعقدہ جنوری ۱۹۶۸ء) میری یہ دعا ہے کہ اللہ کرے کہ تم پاک دل اور مطہر نفس افتتاحی خطاب بن جاؤ ۱۱؍ جنوری ۱۹۶۸ء ۱۸۱ جس قوم نے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے اس کو دوسرے روز کا خطاب ۱۸۷ ہر قسم کی عادت سے آزا در ہنا چاہئے ۱۲؍ جنوری ۱۹۶۸ء ہر فرد جماعت کو چاہئے کہ اپنے اندر صحابه رسول والی بنیادی اختتامی خطاب خوبیاں پیدا کرے ۱۳؍ جنوری ۱۹۶۸ء جلسه سالانه ۱۹۶۸ء ( منعقدہ دسمبر ۱۹۶۸ء) جلسہ کے یہ با برکت ایام کوئی دنیاوی میلہ یا اٹھ نہیں افتتاحی خطاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۶۸ء اللہ تعالیٰ عزت کا سرچشمہ ہے جو خدا سے دور ہو گیا وہ دوسرے روز کا خطاب ۲۲۵ ۲۵۹ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ذلیل ہو گیا ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء خلافت حقہ کا حق ادا کرنے والے انسان کامل محمد رسول اللہ اختتامی خطاب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء جلسه سالانه ۱۹۶۹ء ( منعقدہ دسمبر ۱۹۶۹ء) اے ہمارے بچے اور حقیقی محسن ! ہمیں اپنی محبت کی نعمت افتتاحی خطاب سے مالا مال کر ۲۶ دسمبر ۱۹۶۹ء ٣٠٣ ۳۴۵ خلفائے احمدیت کی سورۃ فاتحہ کی کی گئی تفسیر بڑی حسین اور دوسرے روز کا خطاب | ۳۵۱ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۹ء ۱۵ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام مرکزی نقطہ ہے اور یہی اختتامی خطاب حقیقت محمدیہ ہے ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء ۳۹۱
نمبر شمار عنوان خطاب فرموده صفحہ ۱۶ جلسه سالانه ۱۹۷۰ء ( منعقدہ دسمبر ۱۹۷۰ء) قلوب کو خدا اور اس کے رسول کی محبت کی آگ سے افتتاحی خطاب ۴۳۱ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ☑ ۲۰ ۲۱ ۲۲ روشن رکھو ۲۶ دسمبر ۱۹۷۰ء کتب کی کثرتِ اشاعت سے مراد یہ ہے کہ نئے سے نئے دوسرے روز کا خطاب ۴۴۱ علوم نکلیں گے ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۰ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان اور ہر زمانہ کے اختتامی خطاب لئے رحمت بن کر مبعوث ہوئے ۱۹۷۱ء میں جلسہ سالانہ منعقد نہیں ہوا ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء جلسه سالانه ۱۹۷۲ء ( منعقدہ دسمبر ۱۹۷۲ء) جلسہ سالانہ کی بنیاد اعلائے کلمہ اسلام پر رکھی گئی ہے افتتاحی خطاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۲ء ۴۷۵ ۵۲۷ اللہ سے تجارت ایک ایسی تجارت ہے جس میں پیسے کے دوسرے روز کا خطاب ۵۳۳ ضیاع کا کوئی خطرہ نہیں ۲۷/دسمبر ۱۹۷۲ء اسوۂ نبوی کے بارہ میں قرآن کریم کے بیان فرموده بنیادی اختتامی خطاب اصولوں کا ذکر ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء جلسه سالانه ۱۹۷۳ء ( منعقدہ دسمبر ۱۹۷۳ء) آسمانوں پر جو فیصلہ ہو چکا ہے زمین کی کوئی طاقت اسے افتتاحی خطاب ٹال نہیں سکتی ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۳ء ۵۷۳ ۶۱۱ ہم دولت مند ہیں اس لئے کہ ہمارے پیسے میں اللہ دوسرے روز کا خطاب ۶۱۷ تعالیٰ نے بڑی برکت ڈالی ہے ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء ۲۴ مهدی علیہ السلام روحانی قوتوں اور ان کی نشوونما میں اختتامی خطاب آنحضرت کا عکس اور ظل کامل ہیں ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء ۶۴۷
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹؍ دسمبر ۱۹۶۵ء.افتتاحی خطاب میری دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں اور میں آپ کی دعاؤں کا بھوکا ہوں افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۱۹ دسمبر ۱۹۶۵ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اے خدائے بزرگ و برتر کی برگزیدہ اور محبوب جماعت ! خدا کرے کہ اُس کے قُرب کی را ہیں آپ پر ہمیشہ کھلی رہیں.اے نورمحمدی کے پروانو ! خدا کرے کہ دُنیا کی کوئی شمع کبھی تمہیں اپنی طرف مائل نہ کر سکے.اے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت گزار جماعت اور آپ کے جاں نثارو! خدا آپ کے نفوس اور اموال میں برکت ڈالے اور آپ ہمیشہ ان بشارتوں کے وارث بنے رہیں جو آسمان سے آپ کے لئے نازل کی گئی ہیں.اے مصلح موعودؓ کے فیوض اور قوت قدسی سے تربیت یافتہ جماعت ! خدا کرے کہ آپ اس مقام تربیت سے کبھی نیچے نہ گر ہیں.اے جان سے زیادہ عزیز بھائیو! میرا ذرہ ذرہ آپ پر قربان کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے جماعتی اتحاد اور جماعتی استحکام کا وہ اعلیٰ نمونہ دکھانے کی توفیق عطا کی کہ آسمان کے فرشتے آپ پر ناز کرتے ہیں.آسمانی ارواح کے سلام کا تحفہ قبول کرو.تاریخ کے اوراق آپ کے نام کو عزت ! کے ساتھ یاد کریں گے اور آنے والی نسلیں آپ پر فخر کریں گی کہ آپ نے محض خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس بندہ ضعیف اور ناکارہ کے ہاتھ پر متحد ہو کر یہ عہد کیا ہے کہ قیام تو حید اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے قیام اور غلبہ اسلام کے لئے جو تحریک اور جو جد و جہد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع کی تھی اور جسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے آرام کھو کر اپنی زندگی کے ہر سکھ کو قربان کر کے اکناف عالم تک پھیلایا ہے.آپ اس جدو جہد کو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) تیز ، تیز تر کرتے چلے جائیں گے.۱۹؍ دسمبر ۱۹۶۵ء.افتتاحی خطاب میری دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں اور میں ہمیشہ آپ کی دعاؤں کا بھوکا ہوں.میں نے آپ کی تسکین قلب کے لئے ، آپ کے بار ہلکا کرنے کے لئے ، آپ کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے اپنے رب رحیم سے قبولیت دعا کا نشان مانگا ہے اور مجھے پورا یقین اور پورا بھروسہ ہے اس پاک ذات پر کہ وہ میری اس التجا کو رد نہیں کرے گا.ہم جس عہد کی تجدید کے بعد اور جن اغراض کی خاطر آج یہاں اکٹھے ہوئے ہیں اس کے پیش نظر ہمیں بعض باتیں یادرکھنی چاہئیں.اول تو یہ کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ کے اجتماع پر اللہ تعالیٰ ایک گھڑی ایسی بھی اپنے بندوں کو دیتا ہے کہ جس گھڑی میں وہ ان کی دعا کو خاص طور پر قبول کرتا ہے.یہ پاک اجتماع بھی کچھ اسی قسم کا اجتماع ہے.ہم کسی دنیوی میلہ میں شمولیت کے لئے یہاں نہیں آئے.ہم خدا تعالیٰ کی محبت کی تلاش میں اس کی رضا کی راہوں کو ڈھونڈنے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں.پس اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ دعاؤں میں خرچ کرو.انہیں ضائع نہ کرو کہ آپ اس مسیح کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.جس کے متعلق خود خدا تعالیٰ نے فرمایا الذي لا يضاع وقته ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ نمبر ۵۵۰ ) کہ اس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا بلکہ وہ اور اس کی جماعت کا ہر فرد معمور الاوقات ہوگا اور معمور الاوقات ہونے کے یہی معنے ہیں کہ ہماری زندگی کی ہر گھڑی خدا تعالیٰ کی عبادت میں ، اس کی رضا کی تلاش میں ، اس کے دین کی خدمت میں اور اس کی مخلوق کی بھلائی میں خرچ ہو.پس ان ایام میں اس پاک گھڑی کی تلاش میں لگے رہو کہ جس وقت خدا تعالیٰ خصوصیت سے آپ کی دعا کو قبول کرنے کے لئے آسمان سے نیچے اترے اور آپ کی دعاؤں کو خاص طور پر قبول فرمائے.دوسرا.جب جم غفیر ہوتا ہے تو بعض تکلیفیں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں بعض بے آرامیاں بھی سہنی پڑتی ہیں.آپ بشاشت کے ساتھ ان کو کہیں.یہاں کے رہنے والے بڑے اخلاص کے ساتھ ، بڑی محبت کے ساتھ آپ کی خدمت کرتے ہیں لیکن آخر وہ انسان ہیں کبھی غلطی بھی کر سکتے ہیں آپ ان کی غلطیوں کو معاف فرما ئیں اور پردہ پوشی سے کام لیں اور ان کے لئے بڑی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹؍ دسمبر ۱۹۶۵ء.افتتاحی خطاب دعائیں کریں کہ وہ دن رات آپ کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں.وہ آپ پر کوئی احسان نہیں کر رہے بلکہ وہ اپنے مولا ، اپنے آقا کی رضا کے طلب گار ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی اس خواہش کو پورا کرے اور آپ کو بھی یہ توفیق دے کہ جن روحانی خزائن سے جھولیاں بھرنے کے لئے آپ یہاں تشریف لائے ہیں اس میں آپ کامیاب ہوں اور آپ کے یہاں پہنچنے کا دن اس دن سے کم تر ہو جس میں آپ یہاں سے واپس جائیں اور آپ کی روانگی کا دن آپ کو بلند تر مقام پر پہنچا کر یہاں سے رخصت کرنے والا ہو.تیسرا جو دعا ئیں آپ یہاں کریں ان میں اپنے واقفین زندگی بھائیوں کو بھی یادرکھیں جو اشاعت اسلام کے لئے اکناف عالم میں پھیلے ہوئے ہیں.پھر آپ کے لاکھوں ہم وطن بھائی ایسے ہیں جن کو ابھی تک ربوہ آنے کی بھی توفیق نہیں ملی کیونکہ ان کے حالات ہی کچھ ایسے ہیں.ان کے دل تڑپتے ہیں لیکن بعض حالات کی وجہ سے وہ مجبور ہیں.ان کے اندر اس قدر اخلاص ہے اس قد را خلاص ہے کہ آپ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.میں نے ان دنوں باہر سے آنے والے ہزاروں خطوط پڑھے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر ایک خط لکھنے والا اسلام کی محبت، احمدیت کی محبت اور حضرت مصلح موعودؓ کی محبت میں تڑپ رہا ہے.یہ چند دن ان کے لئے بڑے سخت تھے جن میں سے وہ گزرے.وہ بھی آپ کی دعاؤں کے محتاج ہیں اور مستحق ہیں کہ آپ انہیں اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.اللہ تعالیٰ نے دُور افتادہ ممالک میں بسنے والوں پر احمدیت اور اسلام کے قبول کرنے کی وجہ سے بڑا فضل کیا ہے اور ان کے دلوں کی حالت کو کلیتہ بدل دیا ہے.ان کو وہی سمجھ سکتا ہے جو وہاں جا کر ان سے ملا ہو یا کثرت سے اس نے ان کے خطوط پڑھے ہوں.آدمی حیران ہوتا ہے کہ نہ کبھی وہ یہاں آئے اور نہ کبھی مرکز کو دیکھا اور نہ مرکز کے رہنے والوں سے بات چیت کی نہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت انہیں نصیب ہوئی لیکن ان کے دل ہیں کہ اخلاص سے بھرے ہوئے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے بھرے ہوئے ہیں.گویا ایک آگ ہے جو ان کے دلوں میں بھڑک رہی ہے کہ کاش وہ لوگ بھی جو اس نعمت سے ابھی تک محروم ہیں اس نعمت کو پالیں اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے اسی طرح وارث ہوں جس طرح
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹؍ دسمبر ۱۹۶۵ء.افتتاحی خطاب وہ خود اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا وارث دیکھ رہے ہیں تو انہیں بھی ضرور اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.پھر کشمیر میں ہمارے مسلمان بھائی اس وقت بڑے دُکھ کی زندگی گزار رہے ہیں.ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہ قیدیوں کی طرح ہیں اور راہ نجات ان پر بند نظر آ رہی ہے.لیکن ہمارا خدا بڑی طاقت والا اور بڑی قدرتوں والا خدا ہے وہ اگر چاہے تو ایک آن میں ان کے حالات بدل سکتا ہے اور وہ ان کے حالات کو انشاء اللہ جلد ہی بدل دے گا آپ انہیں اپنی دعاؤں میں کبھی نہ بھولیں وہ آپ کی دعاؤں کے بہت مستحق ہیں.پھر آپ اپنے لئے ، اپنوں کے لئے اور ہر احمدی کے لئے ہر وقت دعا کرتے رہیں اس پر آپ کا کچھ خرچ نہیں آتا لیکن اس کے نتیجہ میں آپ کو بہت کچھیل جاتا ہے.پچھلے دنوں ہر نماز میں اپنے رب سے خاص طور پر میں یہ دعا کرتا رہا ہوں کہ اے خدا! تو ہمارے کمزوروں کو طاقت بخش اور ہمارے بیماروں کو شفا دے اور ہم سب کی پریشانیوں کو دور فرما اور ہمارے اندھیروں کو ٹور سے بدل دے اور ہم پر اپنی بڑی رحمتیں نازل کر اور ہمارے دلوں کو اپنی محبت سے بھر دے اور احمدیت کو جس مقصد کے لئے قائم کیا گیا ہے ہمیں اس مقصد میں جلد تر کامیابی عطا فرما تا کہ ہم اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھ لیں کہ ساری دُنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوگئی ہے.اب میں دُعا کر ا دیتا ہوں سب دوست میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہوں.روزنامه الفضل ربوه ۳۰ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۲۱)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار تحریک جدید کے اجرا کی غرض دنیا میں ایک عظیم روحانی انقلاب پیدا کرنا تھا دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۰ / دسمبر ۱۹۶۵ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق میں آج عمومی رنگ میں بعض باتیں دوستوں سے کہوں گا سب سے پہلی بات یہ ہے کہ بعض کتابوں اور رسائل کے متعلق مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں دوستوں کو ان کی خریداری کے متعلق تحریک کروں.ان کے متعلق میں ایک اصولی بات دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہماری کتب اور لٹریچر میں بنیادی اور مرکزی حیثیت رکھنے والی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہیں.آپ کے بعد آپ کے خلفاء کی کتب ہیں اور ان کے بعد علماء سلسلہ اور دوسرے احباب کا پیدا کردہ لٹریچر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے علم کا اتنا بڑا ذخیرہ عطا کیا تھا کہ آپ کی کتب میں قیامت تک کے مسائل کے لئے ضروری مواد موجود ہے آپ کی بیان کردہ قرآن کریم کی تفسیر آج کی تمام ضروریات کو پورا کرتی ہے آپ کی خواہش کے مطابق ہر احمدی کو اپنی زندگی میں کم سے کم تین بار آپ کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہئے اور اگر کوئی خوش قسمت احمدی ایسا ہے جسے اللہ تعالیٰ زندگی بھی دے اور اس بات کی توفیق بھی عطا کرے کہ وہ تین بار نہیں ، تین سو بار بھی ان کتب کو پڑھے تب بھی اس کی طبیعت سیر نہیں ہوگی.کیونکہ اس سمندر میں سے ( جب بھی آپ غوطہ لگائیں گے ) نئے سے نئے موتی آپ کو ملتے چلے جائیں گے.میں نے خود بھی حضور کی بعض کتب کو دس.پندرہ دفعہ پڑھا ہے اور ہر دفعہ مطالعہ کے وقت میں نے محسوس کیا ہے کہ نہ جانے پہلی بار میری نظر سے وہ باتیں اوجھل کیوں ہو گئی تھیں.جواب میں پڑھ رہا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار کی بعض کتب چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن ان میں سینکڑوں نہیں ہزاروں نئی باتیں پائی جاتی ہیں مثلاً سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ایک چھوٹا رسالہ ہے جس کا حجم صرف اکسٹھ ۶۱ صفحے چھوٹی تقطیع کے ہیں لیکن اگر آپ اسے غور سے پڑھیں تو اس میں بھی آپ کو سینکڑوں دلائل عیسائیت کے غلط عقائد کی تردید میں ملیں گے.پہلی بار پڑھیں گے تو پندرہ ہیں دلائل نظر آئیں گے.دوسری بار پڑھیں گے تو اس قدر اور دلائل آپ کی نظر میں آجائیں گے.تیسری بار پڑھیں گے تو کچھ اور دلائل کا علم ہوگا.جو پہلے آپ کی نظر سے اوجھل رہے تھے.علی ھذا القیاس بار بار کے مطالعہ سے نئے سے نئے دلائل نگاہ میں آنے کا یہ سلسلہ چلتا جائے گا.یہی حال آپ کی دوسری کتب کا ہے.در حقیقت ہماری روح کی غذا ان کتب میں پائی جاتی ہے.پھر ان کے بعد آپ کے خلفاء کی تحریریں ہیں.چاہے وہ کتب کی شکل میں ہوں ، رسائل کی شکل میں ہوں ، یا چھپے ہوئے خطبات کی شکل میں ہوں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے بعد علم کا دروازہ جماعت کے او پر بند ہو گیا ہے.نہیں.اللہ بڑا دیالو ہے.اس نے جماعت پر علم کے دروازے کھلے رکھے ہیں اور ہماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ قیامت تک یہ دروازے کھلے رکھے.آمین.جیسا کہ ہماری جماعت کے لٹریچر میں ہر سال مفید اضافہ ہوتا ہے.اس سال بھی ہوا ہے اور بعض شائع کنندگان نے جرأت کر کے مجھے لکھ دیا ہے کہ میں ان کی شائع کردہ کتب کی خریداری کی تحریک جماعت میں کر دوں ” بعض میں اس لئے کہتا ہوں کہ بعض کتب ایسی بھی ہوں گی.جو اس سال شائع تو ہوئی ہیں لیکن شائع کرنے والوں نے مجھے ان کی خریداری کی تحریک کرنے کے لئے نہیں لکھا.بہر حال جماعت کو ان سب کی خریداری کی طرف توجہ کرنی چاہئے.جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے ان کو پوری کوشش اور جدو جہد کرنی چاہئے کہ ہماری زندگی کا کوئی سال ایسا نہ گزرے جس میں درجنوں نئی کتب جو علمی معیار کی ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان کردہ نئے نئے حقائق پر مشتمل ہوں ہم شائع نہ کریں.تاہم دنیا پر اپنے اس دعوی کو ثابت کر سکیں کہ جس طرح قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی لکھی ہوئی قرآن کریم کی تفسیر بھی زندہ تفسیر ہے اور اس سے ہمیشہ نئے سے نئے علوم نکلتے رہتے ہیں.غرض بنیادی کتب ہمارے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب ہیں.ان کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۷ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطاب بعد آپ کے خلفاء کی کتب ہیں اور پھر آپ کے بعد ان کوششوں کے نتائج ہیں جو دورانِ سال ہمارے علماء کرتے ہیں.اس وقت جن کتب، رسائل اور اخبارات کے متعلق مجھے سفارش کے لئے کہا گیا ہے.ان میں سے ایک روز نامہ الفضل ہے.الفضل ہمارا مرکزی اخبار ہے اور اس کے بمشکل ۳۶۰۰ مستقل خریدار ہیں.جب کہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی ہے.یہ بڑے ہی افسوس کی بات ہے.اس کی ذمہ داری ایک حد تک خود الفضل کے ادارہ پر ہے.جنہوں نے اس کے معیار کو اتنا بلند نہیں کیا جتنا کہ جماعت ان سے توقع رکھتی ہے لیکن اس کی ایک حد تک ذمہ داری ہم پر بھی ہے کہ ہم اپنے اس مرکزی اخبار کو اتنی وقعت نہیں دیتے.جتنی کہ دینی چاہئے اور نہ اس کی اشاعت کے لئے کوشش کرتے ہیں.۳۶۰۰ بھلا کوئی تعداد ہے.بہت سی ایسی جماعتیں ضرور ہوں گی جہاں تک الفضل نہیں جاتا یا پچھلے سال تک نہیں جاتا تھا کیونکہ گزشتہ سال صدر انجمن احمدیہ نے یہ کوشش کی تھی کہ ہر جماعت میں کم از کم ایک کاپی الفضل کی ضرور پہنچ جایا کرے.پس ایک طرف میں ادارہ افضل سے یہ کہوں گا کہ وہ ان مل سے یہ کہوں گا کہ وہ الفضل کے معیار کے بہت جلد باند کرنے کی کوشش کریں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے جب یہ اخبار جاری کیا تھا تو پ نے ایک نوٹ شائع کیا تھا.جس میں آپ نے یہ بتایا تھا کہ میں الفضل کو اس طرح چلاؤں گا آپ نے سات آٹھ عنوان تحریر کئے تھے اور لکھا کہ میں ان عنوانوں پر مضامین شائع کرتا رہوں گا اور قرآن کریم کی عام تفسیر کے علاوہ ہر ہفتہ اسلام کی ایک دل آویز خوبی لکھا کروں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کی کوئی نہ کوئی نئی دلیل پیش کیا کروں گا.یہ صحیح ہے کہ اس وقت یہ اخبار ہفتہ وار تھا.اب روز نامہ ہے اور ہفتہ وار اور روز نامہ اخبار میں کچھ فرق ہوتا ہے لیکن اگر ہم آگے نہ بھی بڑھتے بلکہ اس منصوبہ اور خواہش کے مطابق جس کا حضرت المصلح الموعودؓ نے اعلان فرمایا تھا.اخبار کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرتے.تو آج احمدی اسے دیوانہ وار خرید تے پس میرے نزدیک اس کی بڑی حد تک ذمہ داری ادارہ الفضل پر ہے لیکن جب آپ لوگ ، آپ دوست ، آپ میرے بھائی اس اخبار کو خریدیں گے نہیں ، اُسے پڑھیں گے نہیں تو آپ اپنی اس ذمہ داری کو کیسے ادا کریں گے.آپ نے اس اخبار کے معیار کو بڑھانا ہے.آپ جب اسے پڑھیں گے اور دیکھیں گے کہ اس کے اندر کچھ نقائص ہیں اور کہ یہ ہماری ضرورتوں کو پورا نہیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار کرتا.تو آپ ادارہ الفضل کو یا مجھے لکھیں گے کہ یہ یہ ضرورتیں ہیں اور اخبار انہیں پورا نہیں کر رہا.ہر علاقہ کی ضرورتیں الگ الگ ہیں.سندھ کی ضروریات اور ہیں اور پشاور کی ضروریات اور ہیں.ایک مقام پر ایک قسم کے اعتراضات کئے جاتے ہیں.تو دوسرے مقام پر دوسری قسم کے اعتراضات کئے جاتے ہیں.ایک جگہ لوگوں کے دلوں میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے.تو دوسری جگہ دوسرا سوال سامنے آ جاتا ہے.ان سارے سوالات کے جوابات ہمارے مرکزی اخبار میں آنے چاہیں.تاوہ ساری جماعت کی ضرورتوں کو پورا کر سکے اور دراصل یہی غرض ہے وہ، جس کے لئے یہ جاری کیا گیا تھا اگر آپ دوست اسے پڑھیں گے ہی نہیں تو اُس کا معیار کیسے بلند ہو گا پس میں جماعت کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ الفضل کو خریدیں اور اُسے پڑھا کریں (چاہے اس کا معیارا بھی اتنا بلند نہیں ہے) تا ان مقاصد کے پورا کرنے میں آپ کا بھی حصہ ہو جن کے لئے اسے جاری کیا گیا تھا.پھر آپ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اخبار کے ادارہ کو تو فیق عطا کرے کہ وہ اس کے معیار کو ان بلندیوں پر لے جائے.جن بلندیوں پر پہنچانے کی اس کے بانی کی خواہش تھی.پھر ایک رسالہ الفرقان ہے جسے مخدومی محترمی ابولعطاء صاحب نکالتے ہیں.اس کا ایک خاص مقصد ان کے سامنے ہے اور وہ حتی الوسع خوش اسلوبی سے اُسے نبھا رہے ہیں.یہ رسالہ بڑا دلچسپ اور مفید ہے امید ہے کہ دوست اس کی خریداری کی طرف بھی توجہ کریں گے.ماہنامہ انصار اللہ مجلس انصار اللہ کا رسالہ ہے اس کی پالیسی بھی مخصوص نوعیت کی ہے اور اسے خاص غرض کے لئے جاری کیا گیا ہے جن لوگوں نے یہ رسالہ دیکھا ہے انہوں نے نوٹ کیا ہو؟ گا کہ اس میں اشتہارات نہیں ہوتے اس میں زیادہ تر تربیتی مضامین ہوتے ہیں اور تبلیغ کو بالواسطہ طریق سے مد نظر رکھا جاتا ہے.کیونکہ تربیت خود اشاعت مقصد اور اشاعت عقائد کا ایک بڑا ذریعہ ہے.دوستوں کو اس کی خریداری کی طرف بھی توجہ کرنا چاہئے.اسی طرح خدام الاحمدیہ کا ماہنامہ خالد اور اطفال کا ماہنامہ تشحذ الاذہان ہے ہمارے نوجوان انصار ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کو ان کی طرف توجہ دینی چاہئے اور ان کی اشاعت کو کم از کم اس حد تک پہنچا دینا چاہئے کہ یہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں اور دوسری مد وں سے رقوم نکال
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ---- کر ان پر خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے.۹ ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار کتب میں سے تفہیمات ربانیہ ہے یہ مکرم مولوی ابو العطاء صاحب کی لکھی ہوئی ہے اور ۱۹۳۰ء میں پہلی بار شائع ہوئی تھی.حضرت مصلح موعودؓ نے اس کا نام تجویز فرمایا تھا اور اسے جماعت کا اعلیٰ لٹریچر قرار دیا تھا.اب یہ کتاب دوسری بار مزید اضافہ کے ساتھ شائع ہوئی ہے.دوست اس کی خریداری کی طرف توجہ فرمائیں.اسے ہر وقت اپنے پاس رکھنا چاہئے.اس میں آپ کو بڑے مفید حوالے ملیں گے.یہ کتاب ان لوگوں کے لئے بڑی ہی مفید ہے جنہیں دوسر.لوگوں سے تبادلہ خیالات کا شوق ہے اور پھر اس کے مواقع انہیں میسر آتے ہیں.سب سے بڑھ کر میں تفسیر صغیر کے متعلق کہنا چاہتا ہوں تفسیر صغیر کو حضرت مصلح موعودؓ نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا اور بیماری کے دوران بڑا وقت صرف کر کے اور اطباء کی ہدایت کے خلاف محنت کر کے اسے جلد سے جلد شائع کرنے کی سعی فرمائی تھی اور اس سعی میں آپ کامیاب ہوئے جلدی کی وجہ سے یا کاتبوں نے حسب عادت بہت سی غلطیاں بھی کر دیں پروف ریڈنگ بھی صحیح طور پر نہیں ہوئی اس طرح جلدی میں یہ کتاب شائع ہو گئی.حضور کے دل میں یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح آپ مختصر تفسیری نوٹوں کے ساتھ قرآن کریم کا ایسا با محاورہ اور تفصیلی ترجمہ شائع کر دیں.جو رہتی دنیا تک انسان کی ہدایت کا موجب ہو اس لئے آپ اس کی صحت کی طرف زیادہ توجہ مبذول نہ کر سکے اس کی صحت کی ذمہ داری در اصل ان لوگوں پر تھی.جو حضور کے ساتھ کام کر رہے تھے.کیونکہ اس بات کی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ امام وقت ترجمہ اور تفسیر بھی لکھے گا اور پروف ریڈنگ بھی خود کرے گا.بہر حال حضور کے ساتھ کام کرنے والوں کی پوری توجہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کتاب میں بہت سی غلطیاں رہ گئی تھیں.حتی کہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض آیتوں کے بعض حصوں کا ترجمہ بھی کا تب نے چھوڑ دیا ہے اور پروف ریڈنگ کرنے والوں نے بھی اس کا خیال نہیں کیا.پچھلے سال سے احباب جماعت کا بڑا مطالبہ تھا کہ تفسیر صغیر کا نیا ایڈیشن شائع کیا جائے اور اُسے اچھے کاغذ پر شائع کیا جائے پھر اس کی طباعت بھی اچھی ہو.چنانچہ پچھلے سال سے ہی اس کی اچھی کتابت کروانے کے بعد بلاک بنوائے جارہے ہیں.اس وقت تک پندرہ پاروں کے بلاک بن چکے ہیں اور چوہیں پاروں تک کتابت ہو چکی ہے.امید ہے کہ یہ قیمتی کتاب مجلس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطا.---- شوری تک دوستوں کے ہاتھ میں پہنچ جائے گے.وباللہ التوفیق.جو نسخے آرٹ پیپر پر شائع کیے جائیں گے ان کی قیمت فی نسخہ مبلغ ہیں روپے ہوگی اور عام کا غذ پر شائع کئے جانے والوں کی قیمت فی نسخه مبلغ تیرہ روپے ہوگی اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مبلغ تیرہ روپے میں تفسیر صغیر اتنی سستی ہے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک دوست نے ثواب کی خاطر اس کے بلاکوں کی قیمت اپنی گرہ سے ادا کر دی ہے اور اس طرح خرچ میں بڑی کمی آگئی ہے اگر چہ تفسیر صغیر مجلس مشاورت تک شائع ہو گی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر دوست قیمت پیشگی ادا کر کے اس کی ایک کاپی ابھی سے ریز رو کروالیں.تو وہ ایک بڑی ذہنی تکلیف سے بچ جائیں گے جو ممکن ہے انہیں بعد میں برداشت کرنی پڑے.مجھے ان دنوں میں بھی بہت سے دوستوں کے خطوط آچکے ہیں کہ تفسیر صغیر نہیں مل رہی جس کی وجہ سے انہیں بہت تکلیف ہے.جس طرح بھی ہو اس کا ایک نسخہ تلاش کر کے ہمیں بھجوایا جائے پس اگر آپ قیمت ادا کر کے یہ کتاب ابھی سے اپنے لئے ریز رو کروالیں گے تو اس قسم کی جلن اور رنج سے یقینا محفوظ رہیں گے.یہ کتاب ادارۃ المصنفین کی طرف سے شائع کی جارہی ہے.اس طرح ادارۃ المصنفین کی طرف سے ” تاریخ احمدیت‘ جلد ششم بھی شائع کی جارہی ہے جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح الموعودؓ کے دور کی دوسری جلد ہے اس میں حضور کے اُن سنہری کارناموں کا ذکر ہے جو آپ نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بہبودی کے لئے کئے اسی طرح حضور نے اہالیان کشمیر کے لئے جد و جہد فرمائی تھی اس کا مفصل ذکر بھی اس کتاب میں کیا گیا ہے یہ کتاب اس قابل ہے کہ دوست اسے خرید کر خود بھی پڑھیں اور غیر از جماعت دوستوں کو بھی تحفہ کے طور پر دیں دنیا کی لائبریریوں میں رکھوائیں تا لوگوں کو بھی ان قربانیوں کا علم جو دوسرے مسلمانوں کی بہبودی کے لئے جماعت احمدیہ کر رہی ہے.اس سال مجلس خدام الاحمدیہ لاہور نے فاروق سوینئیر شائع کیا ہے مجھے یہیں اسٹیج پر ہی اس کی ایک کا پی دی گئی ہے اس لئے اس کے اندر جو مواد ہے اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ خدام الاحمدیہ لاہور کی غالبا یہ پہلی کوشش ہے اور جماعت کی طرف سے اسے سراہنے کی ضرورت ہے.د مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے، شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر کی لکھی ہوئی کتاب
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) 11 ۲۰ / دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار ہے اس کا ایک نیا ایڈیشن شائع کیا گیا ہے یہ کتاب قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ہدایت کے مطابق اور آپ کی خفیف سی نگرانی کے ماتحت شائع کی گئی تھی اور اس کا تعارف بھی آپ نے ہی لکھا ہے.یہ اچھی کتاب ہے اور نو جوانوں کے لئے مفید ہے دوست اس کی خریداری کی طرف بھی توجہ فرمائیں.تجلی قدرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کی روایات کی ایک کتاب ہے.بعض دوستوں کا خیال ہے کہ مولوی صاحب کا حافظہ مقام اور تاریخ وغیرہ کے لحاظ سے اچھا نہیں.بلکہ بہت کمزور ہے لیکن اگر مضمون درست ہو اور روایات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہو رہی ہوں اور پھر وہ سچی اور دل پر اثر کرنے والی ہوں.تو صرف اس وجہ سے کہ لکھنے والے کے حافظہ نے کہیں غلطی کی ہمیں ان کی اشاعت میں روک نہ بننا چاہئے اور ان کی قدر کرنا چاہئے پس میں کتاب ” بجلی قدرت کی طرف بھی دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اسے خریدیں اور اس کا مطالعہ کریں.ثاقب صاحب زیروی جنہوں نے ابھی ابھی اپنی ایک نظم پڑھ کر ہمارے زخموں کو تازہ کیا ہے ان کا ایک رسالہ " لا ہور نامی لاہور شہر سے شائع ہوتا ہے وہ اسے بڑی پریشان حالی میں چلائے جا رہے ہیں.ان کا کہنا ہے کہ دوست ان کی آواز کو پسند کرتے ہیں ان کی نظموں کو بھی پسند کرتے ہیں لیکن ان کا شکوہ ہے کہ ان کے لاہور کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.دوستوں کو چاہئے کہ وہ ان کے اس شکوہ کو دُور کرنے کی پوری پوری کوشش کریں.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اشاعت اسلام اور غلبہ اسلام کی جو تحریک جاری فرمائی ہے اور جو جماعت احمدیہ کے نام سے موسوم ہے.اس کی بنیادالوصیت کے نظام پر ہے.جو حضور نے اپنے رسالہ الوصیت میں ایک لحاظ سے تفصیلی طور پر ایک لحاظ سے مختصر طور پر بیان کیا ہے میں مختصراً اس جماعتی نظام کے مختلف شعبوں کے متعلق آن کچھ کہنا چاہتا ہوں.جماعت احمدیہ کا نظام جو الوصیت کی بنیادوں پر قائم ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اس کی تشکیل فرمائی تھی اور بعد میں خلفاء نے اس کو مضبوط کیا اور اس کے متعدد
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۲ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطا.شعبہ جات قائم کئے اس نظام میں خلیفہ وقت سارتی جماعت بحیثیت مجموعی وہ تنظیمیں اور ان کے شعبے جنہیں خلیفہ وقت قائم کرتا ہے شامل ہیں.خلیفہ وقت کا کام نیابت ماموریت اور نبوت کا ہے اور انبیاء اور مامورین کے کام جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں وہ تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفوس ہیں جیسے فرمایا يُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَ كَيْهِمْ (البقرة : ١٣٠) یعنی ۱۳۰) مامور اور نبی اپنی جماعت کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور ان کا تزکیہ نفوس کرتا ہے اور یہی کام ان کے بعد ان کی نیابت میں ان کے خلفاء کو کرنے پڑتے ہیں اور یہی ان کی اصل ذمہ داری ہوتی ہے.اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ایک جماعتی نظام قائم کیا جاتا ہے اور جہاں تک عزم اور فیصلہ کا تعلق ہے.اس نظام کی پوری ذمہ داری خلیفہ وقت پر ہوتی ہے اور یہ ذمہ داری نہایت نازک ہے اور ذمہ داری کے نبھانے میں خلیفہ وقت کو جماعت سے دو بنیادی باتوں کی توقع ہوتی ہے (اول) جماعت کے مخلصانہ مشورے ( دوم ) ان کی دعائیں اور جس طرح مجھ سے پہلے خلفاء جماعت سے ان دو بنیادی باتوں کی توقع رکھتے تھے.اس طرح میں بھی ان کی توقع رکھتا ہوں کیونکہ ان کے بغیر خلافت کے اہم کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا پس آپ کے مخلصانہ مشوروں اور پُر سوز دعاؤں کی مجھے بہت ضرورت ہے اور میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ یہ دونوں چیزیں مجھے آپ کی طرف سے ملتی رہیں گی.انشاء اللہ تعالیٰ.جو نظام الوصیت کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جاری فرمایا ہے وہ مندرجہ ذیل شاخوں پر مشتمل ہے.(۱) اشاعت علوم قرآنیہ (۲) اشاعت کتب دینیہ (۳) ترقی اسلام کے متعلق تجاویز کا سوچنا اور انہیں عملی شکل دینا (۴) واعظین اور مرتیوں کا تیار کرنا (۵) جماعت کو روحانی اور اقتصادی طور پر ایک خاص معیار تک پہنچانا اور پھر اس میعار کو قائم رکھنا.اس کے ماتحت یتامیٰ اور مساکین کی اعانت بھی آجاتی ہے اور نومسلموں کی تالیف قلب بھی.ان کا موں کو چلانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الوصیت کا ایک مالی نظام بھی قائم فرمایا ہے جس کے ماتحت ہمیں اپنے مالوں کا کم سے کم سولہواں حصہ جماعت کے خزانہ میں داخل کرانا پڑتا ہے.جو لوگ بالفعل موصی ہوتے ہیں وہ اپنی آمد کا کم سے کم دسواں حصہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۳ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطاب اس غرض کے لئے جماعت کے خزانہ میں داخل کراتے ہیں اور جو لوگ بالقوه موصی ہوتے ہیں بالفعل نہیں اُن کے لئے ہماری دُعائیں اور کوششیں ہمیشہ یہی ہوتی ہیں کہ وہ موصی بن جائیں اور دین کی خاطر زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کریں لیکن جب تک وہ بالفعل موصی نہیں بنتے انہیں اپنی آمد کا ۱۶/ ا حصہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے دینا پڑتا ہے.اس نظام کو چلانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صدر انجمن احمدیہ کا ادارہ قائم کیا تھا جس کے متعلق جماعت کا ایک حصہ یہ سمجھا کہ شاید ہمارے لئے سب کچھ صدر انجمن احمد یہ ہی ہے.انہوں نے جو غلطی کی اس کو واضح کرنے کے لئے ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں.بلکہ صرف اُس حصہ جماعت کو دیکھ لینے اور اس کے متعلق کسی قدر علم حاصل کر لینے کی ضرورت ہے خلافت ثانیہ کے قیام کے بعد جماعت کا ایک حصہ یہ سمجھتا تھا کہ جماعت کے سارے اکابریا ان کا اکثر حصہ ہمارے ساتھ ہے اور ایک حصہ یہ مشاہدہ کر رہا تھا کہ گود نیوی طاقت اور قوت کے سامان ہمارے پاس نہیں لیکن خدا کا خلیفہ ہمارے پاس ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ جس حصہ جماعت کے پاس خدا تعالیٰ کا خلیفہ تھا وہ ترقی کرتا کرتا کہیں سے کہیں نکل گیا ہے اور جس کے پاس جماعت کے اکابریا ان کا اکثر حصہ تھا وہ تنزل کرتے کرتے کہیں سے کہیں تک گر گیا ہے.اس کے بعد کسی مزید دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی.بہر حال صدرانجمن احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ( جب تک آپ زندہ تھے ) اپنی نگرانی میں اور بعد میں اپنے خلفاء کی نگرانی میں کام کرنے کے لئے قائم کیا اور اس صد را مجمن احمدیہ کے سپر د جماعت کے کاموں میں سے ایک بڑا حصہ ہے لیکن میں جب بھی سوچتا ہوں تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ جو کام اس کے سپر د کیا گیا ہے.اس کا بجالا نا تو کیا ؟ یہ لوگ اس کے متعلق سوچتے بھی نہیں اور اپنے دماغوں میں اس کا خیال بھی نہیں لاتے.آپ جانتے ہیں کہ ایک ملک کو سنبھالنا کتنا مشکل کام ہے.پھر ایک ایسی جماعت کا سنبھالنا جو دنیا کے متعددممالک میں پھیلی ہوئی ہے کس قدر مشکل ہے.ابھی کچھ دن ہوئے پاکستان میں ہنگامی حالات پیدا ہو گئے اور اس کا اثر ہماری زندگی کے ہر شعبہ پر پڑا.ملک کو اپنے زرمبادلہ کو اپنے مخصوص راستوں سے ہٹا کر اپنے دفاع کی طرف پھیرنا پڑا.جس کی وجہ سے ہماری زراعت پر بھی اس کا اثر پڑا.مثلاً سرگودھا کے علاقہ کو ہی ---
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۴ ۲۰ / دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطا.لے لو اس میں پانی کی کمی کا ایک سبب یہ بھی تھا.جب کہ محاذ جنگ کے قریب جو نہریں تھی اُن کو حفاظتی نقطۂ نگاہ سے ہر وقت بھرے رکھنے کی ضرورت تھی اور اس طرح ہماری فصلوں کو نقصان پہنچا بہر حال ہمارے ہر شعبہ زندگی پر ان ہنگامی حالات کا اثر پڑا حالانکہ یہ جنگ جس کی وجہ سے وہ حالات پیدا ہوئے ایک چھوٹا سا ہنگامہ تھا صرف سترہ دن کی جنگ تھی.اب کجا یہ بات اور کجا یہ بات کہ دنیا کے سارے ممالک میں ایک رُوحانی انقلاب پیدا کرنے کی ذمہ داری ایک چھوٹی سی جماعت پر ڈالی جاتی ہے ایک ملک نہیں دو ملک نہیں ، پھر ایک زبان بولنے والے ملک نہیں دو زبان بولنے والے ملک نہیں بلکہ ہزاروں زبانیں بولنے والے ملک ہیں، پھر اُن کی تہذیب اور اُن کی عادتیں مختلف ہیں ، اُن کے سوچنے اور فکر کے طریق مختلف ہیں، اُن کے کھانے کے طریق مختلف ہیں ، اُن کے لباس مختلف ہیں، مذہب کو لیا جائے تو اُن کے مذہب مختلف ہیں، اُن کی عبادت کے طریق مختلف ہیں ، ان سب ممالک میں اُن کے رہنے والوں کی طبیعت کے مطابق ان کی زبانوں پر ہم نے اسلام کو اُن کے سامنے پیش کرنا ہے پھر جیسے کسی کی عقل ہے ویسے ہی ہم نے اُسے سمجھانا ہے تا یہ سب لوگ اسلام کی خوبی کو سمجھ لیں اور اس کی سچائی کو جان لیں یہ عظیم کام ایک ایسی چھوٹی سی جماعت کے سپرد کیا گیا جس کے پاس نہ تو پیسہ ہے اور نہ تعداد، نہ ظاہری سامان ہے اور نہ ذرائع جن کو اختیار کر کے وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہو سکے.ایک عظیم انقلاب پیدا کرنا اس جماعت کے سپرد ہے اگر ہم سوچیں تو کیا ہم رات کو ایک لمحہ بھی سو سکتے ہیں اس عظیم کام کو پورا کرنے کے لئے جو ہمارے ذمہ ڈال دیا گیا ہے ، ہمیں تدابیر اختیار کرنا ہیں منصوبے بنانے ہیں ، وسائل ڈھونڈنے ہیں اور پھر کام کرنے والے تیار کرنے ہیں ان کا موں کے کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں فرشتے تو نہیں دیئے کہ وہ تمام ملکوں میں پھیل جائیں اور اسلام کی اشاعت کریں ، ہمارے ہی بچوں کو اپنا ملک اپنے والدین اپنے اقارب اور دوست چھوڑ کر باہر نکلنا ہے اور اشاعت اسلام کا کام کرنا ہے یہ کام ضرور ہو گا اور اس میں ناکامی اس لئے نہیں ہوگی کہ خدا کی تقدیر کہ رہی ہے کہ یہ کام ہو کر رہے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ ہم سے یہ توقع بھی رکھتا ہے کہ جس حد تک ہمیں توفیق ہے ہم اپنے اموال خرچ کریں جس حد تک ہمیں طاقت ہے ہم اپنی جانیں اور عزتیں اس کے لئے قربان کریں ہم اپنے بچوں کو اس غرض کے لئے وقف کریں یہاں تک کہ ہم
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۵ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطا.اپنے رب سے کہہ سکیں کہ اے ہمارے رب جو کچھ تو نے ہمیں دیا تھا وہ ہم نے تیرے قدموں میں لا ڈالا ہے اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے اب تیرا ہی کام ہے کہ تو ہمیں کامیاب و کامران کرے.جب انسان اپنی ساری طاقت خرچ کر دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے بندوں کو کامیابی عطا فرما دیا کرتا ہے غرض صدرا انجمن احمد یہ کے سپر د ایک عظیم کام ہے اور اس کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے انہیں اس عظیم کام اور ذمہ داری کو ادا کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اپنے ماتحت کام کرنے والے اداروں اور افراد کو محبت اور پیار کے ساتھ ان کی ذمہ داری سمجھانی چاہئے اور ان کے کام کی نگرانی کرنی چاہئے یہ صحیح ہے کہ جو کام خلیفہ وقت کا ہے وہ ایک صدرا انجمن تو کیا ہزار صدرا انجمن بھی نہیں کر سکتی اس کی میں ایک موٹی مثال دیتا ہوں.صدر انجمن احمدیہ نے کام کرنے والے مہیا کرنے کے لئے صدہا اپیلیں کیں لیکن جماعت کی طرف سے انہیں کوئی کارکن نہیں ملا الا ماشاء اللہ لیکن خلیفہ وقت کی اپیل پر درجنوں نہیں سینکڑوں آدمی کھڑے ہو گئے بلکہ میرا خیال ہے کہ بعض دفعہ خلیفہ وقت کے اپیل پر ہزاروں افراد جماعت میں سے آگے آگئے شدھی کی تحریک اٹھی.تحریک آزادی کشمیر اٹھی اور اس قسم کے ہزاروں کرائی سز (Crisis) ہماری زندگی میں مسلمانوں اور اسلام پر آئے اور ہنگامی حالات پیدا ہو گئے اور ان سے نپٹنے کے لئے آدمیوں کی ضرورت محسوس ہوئی.تو خلیفہ وقت کی اپیل پر سینکڑوں نہیں ہزاروں آدمی کام کے لئے نکل آئے.غرض جو کام خلیفہ وقت کا ہے وہ صدرانجمن احمد یہ اور دوسری تنظیمیں نہیں کر سکتیں لیکن اس کے باوجود اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو کام ان تنظیموں کے سپرد کیا گیا ہے وہ تو انہیں ہی کرنا چاہئے اور پھر ان تنظیموں کی وجہ سے جو ذمہ داریاں احباب جماعت پر ڈالی جاتی ہیں.انہیں ادا کرنا احباب جماعت کا کام ہے ورنہ کام نہیں ہوگا.اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ جماعتوں اور افراد کے ذمہ جو مالی قربانی لگائی گئی ہے اور انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی آمد کا کم سے کم سولہواں حصہ جماعت کے کاموں کے لئے ادا کریں پہلے پہل یہ چندہ حضرت مسیح موعود نے مقررفرمایا تھا پھر جماعت کے نمائندوں نے اس کے متعلق خود فیصلے کئے تھے لیکن انہی چندوں کے بقایہ جات صرف پاکستان کی جماعتوں کے ذمہ غالباً تمیں لاکھ روپیہ کے ہیں.اگر یہ بقائے ادا کر دیئے جاتے تو جماعت کا کام کہیں کا کہیں تک پہنچ جاتا اگر کوئی بقایا دار یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنا بقایا ادا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۶ ۲۰ / دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطا.نہیں کرسکتا تو اُسے کم سے کم اپنے دل میں یہ عہد کر لینا چاہئے کہ آئندہ وہ اپنے ذمہ کوئی بقایا نہیں رہنے دے گا.غرض صدر انجمن احمدیہ پر ایک عظیم ذمہ داری ڈالی گئی ہے اُسے اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اُسے جماعتوں سے ان احکام کی تعمیل کرانی چاہئے اور احباب جماعت کو بھی اپنے دلوں میں یہ عہد کر لینا چاہئے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو نبھا ئیں گے اور پھر انہیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا تعالیٰ محض اپنے فضل سے ان کی کوششوں کے بہتر نتائج پیدا کرے.صدر انجمن احمدیہ کے علاوہ تحریک جدید بھی جماعت کا ایک اہم شعبہ ہے اسے حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۳۴ء میں شروع کیا تھا اور اس کی بڑی غرض یہ تھی کہ اکناف عالم میں اشاعت اسلام کے سامان پیدا کئے جائیں.۱۹۳۴ء میں ہندوستان سے باہر بہت کم جماعتیں تھیں لیکن آج بعض ایسے ملک بھی ہیں جہاں کے احمدی چندہ دہندگان کی تعداد پاکستان کے چندہ دہندگان کے بالکل قریب پہنچ چکی ہے افریقہ کے بیشتر ممالک میں جماعت کو بہت ترقی نصیب ہوئی ہے وہاں عیسائیوں ، دہریوں ، بت پرستوں ، اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے لوگوں میں سے ایک بڑی تعداد کو احمدیت اور اسلام نے اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے نور سے منور کیا ہے.چنانچہ جو جماعتیں وہاں قائم ہوئی ہیں ان میں بڑے مخلص ، دعا گو اور خدا تعالیٰ کی خشیت اور خوف رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ ان لوگوں سے ہم کلام ہوتا ہے اور وہ اس کے فضلوں کے وارث ہیں.وہ لوگ آپ کے لئے بھی بڑا اخلاص رکھتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ بھی ان کے لئے اس تڑپ اور جوش کے ساتھ دعائیں کریں گے.اور یہ سارا نتیجہ ہے تحریک جدید کے کام کا جو حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۳۴ء میں جاری کی تھی اس کی غرض دنیا میں ایک عظیم روحانی انقلاب پیدا کرنا تھا.ہمیں دنیا سے کوئی غرض نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی خوب فرمایا ہے.مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار یعنی ہمیں ظاہری حکومتوں طاقتوں اور ملکوں کی ضرورت نہیں ہمیں بنی نوع انسان کے دل کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۷ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار ضرورت ہے اور دلوں کو فتح کرنے کے لئے ہی تحریک جدید کو قائم کیا گیا تھا بے شک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں اس کام میں بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے لیکن ابھی بہت دنیا صداقت کی پیاسی ہے اور وہ ہماری طرف پیاسی نگاہوں سے دیکھ رہی ہے ان کے ہاتھ ہماری طرف اُٹھ رہے ہیں اور وہ ہم سے یہ التجا کر رہے ہیں اور بآواز بلند پکار رہے ہیں کہ تمہارا دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں ہماری روحانی پیاس بجھانے کے لئے کھڑا کیا ہے، پھر تم کیوں ہماری طرف نہیں آتے تم ہمیں پیاس کی وجہ سے تڑپتا دیکھتے ہو پھر اپنے گھروں میں خاموش کیوں بیٹھے ہو.پس کچی بات یہی ہے کہ ابھی ہم نے اس کام کو جو ہمارے سپرد کیا گیا تھا پورے طور پر نہیں کیا.تحریک جدید کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے اور اسے اپنے کام کے لئے مبلغوں کی ضرورت ہے اور روپیہ کی ضرورت ہے گو ان دنوں با ہر روپیہ بھیجنے کی بھی دقت ہے کیونکہ موجودہ ہنگامی حالات کی وجہ سے زرمبادلہ کے حصول میں مشکلات پیش آرہی ہیں لیکن خدا کا فضل ہے کہ کچھ زرمبادلہ ہمیں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے دے دیا ہے اور کچھ بوجھ جماعتیں خود اٹھا رہی ہیں.مالی مشکلات پھر بھی کم نہیں ہوئیں.ہمیں ابھی باہر کی جماعتوں کو مزید مالی قربانیوں کے لئے کہنا پڑے گا اور اس ملک میں رہتے ہوئے زرمبادلہ کے حصول کے بعض جائز وسائل ڈھونڈ نے پڑیں گے.بہر حال ہمیں ایک اہم ضرورت لاحق ہے اور ایسی ہے کہ اسے خاموش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے دنیا کی نگاہیں ہماری طرف لگی ہوئی ہیں اور اس کی روحانی پیاس کو بجھانا تحریک جدید کے ذمہ ہے اور تحریک جدید کو یہ ذمہ داری بہر حال نبھانا ہوگی.پھر وقف جدید کی تنظیم ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے جماعت کو ترقی دینے کے لئے تجاویز سوچنا امام وقت کا کام ہے.اب اس زاویہ نگاہ سے آپ حضرت مصلح موعود کی زندگی کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ آپ کا دماغ ہر وقت یہی سوچتا رہتا تھا کہ کس طرح کوئی ایسی تدبیر نکالیں جس کے ذریعہ جماعت کو ترقی نصیب ہو اور اشاعت احمدیت ( حقیقی اسلام ) کا کام زیادہ سے زیادہ ترقی کرتا جائے.آپ گو یہ جانتے تھے کہ بعض قسم کے کام ابھی ہم نہیں کر سکتے لیکن یہ سمجھتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ جب جماعت کو طاقت اور توفیق دے.اُسے فلاں فلاں کام ضرور کرنا چاہئے.آپ نے ہمارے سامنے کچھ آئیڈیلز (Ideals) رکھ دیئے ہیں.مثلاً مربی ہیں.ہمارے ہاں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۸ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطاب مربی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو پوری طرح تعلیم حاصل کر کے تبلیغ و تربیت کے میدان میں اتر تا ہے.اس کی تیاری کے لئے بڑا وقت درکار ہوتا ہے.بڑی محنت درکار ہوتی ہے پھر اس کام کی اہمیت اور ضرورت کے مطابق مربیوں کو تیار کیا جا سکے لیکن جب ہماری جماعت نے اپنے بچے دین کی خدمت کے لئے وقف کرنے میں سستی دکھائی.تو ہمارے امام نے ستاری سے کام لیتے ہوئے یہ تحریک شروع کر دی کہ مجھے مقامی تبلیغ کے لئے معلموں کی ضرورت ہے.چنانچہ ایسے نو جوانوں کی ایک تعداد جن کی تعلیم صرف آٹھویں جماعت تک تھی.آگے آگئی اور حضور نے انہیں چند ماہ دینی تعلیم اور تربیت دے کر ان سے تعلیم و تربیت کا کام لینا شروع کر دیا.آپ.سوچا کہ اگر جماعت دینی خدمت کے لئے مناسب آدمی پیش نہیں کرے گی اور اپنے بچوں کو بھی وقف نہیں کرے گی کہ انہیں ایک لمبا عرصہ تک تعلیم دلا کر اور تربیت دے کر اس سے مربی کا کام لیا جائے اور میں بھی کچھ نہیں کروں گا تو جماعت اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے آ جائے گی لیکن اگر میں جماعت کی سستی کو کسی اور طریق سے چھپادوں اور اس کی پردہ پوشی کروں تو اللہ تعالیٰ ستار ہے وہ بھی ستاری سے کام لیتے ہوئے پردہ پوشی کرے گا اور جماعت کو روحانی طور پر کوئی نقصان نہیں ہو گا.چنانچہ آپ نے تربیت کی غرض سے ساٹھ ستر آدمی لے لئے.پھر جب آپ نے محسوس کیا کہ اور آدمیوں کی ضرورت ہے اور جامعہ احمد یہ جماعت کی ضرورت کو پورا نہیں کر رہا.تو آپ نے وقف جدید کا نظام جاری کر دیا.اس نظام میں بھی کم تعلیم یافتہ افراد کو لے لیا جاتا ہے انہیں کچھ عرصہ تک تربیت دی جاتی ہے اور پھر انہیں کام پر لگا دیا جاتا ہے.اس کے بعد وقتاً فوقتاً ریفریشر کورس جاری کر کے ان کو مزید تربیت دی جاتی ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ لوگ بڑا ہی اچھا کام کر رہے ہیں.ان میں سے اکثر چھوٹی عمر کے ہیں کچھ بڑی عمر کے بھی ہیں لیکن سب کے سب بظاہر کم تعلیم یافتہ ہیں باوجود اس کے انہوں نے جو کام کیا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اشاعت ہدایت کے لئے علم کی نسبت جذبہ کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کے ذریعہ بہ نسبت ان مربیوں کے جنہوں نے باقاعدہ دین کی تعلیم حاصل کی ہے تعداد میں زیادہ لوگوں نے ہدایت پائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ اُسے ظاہری چیزوں کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ہر چیز کا مالک ہے ہاں وہ دلوں کے تقوی کو دیکھتا ہے اس کی نظر دل کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار جذبہ پر ہوتی ہے جہاں اُسے اخلاص تقوی، شوق ، فدائیت ، تذلل نظر آئیں گے.وہاں اس کا رحم بھی جوش میں آئے گا اور ایسے لوگوں کے کاموں میں اس کی طرف سے برکت دی جائے گی.غرض بہت سے کم علم معلم اپنے کام کے لحاظ سے ان مربیوں سے آگے نکل گئے ہیں جن کا علم اور تجربہ نو دس سال سے زیادہ کا تھا.غرض نتیجہ زیادہ تر انکسار اور دعا سے نکلتا ہے کیونکہ دعا کے نتیجہ میں قوت جذب پیدا ہو جاتی ہے اور جب کسی میں قوت جذب پیدا ہوتی ہے تو پھر غیر اس کی طرف خود بخود کھیچ آتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ کوئی عجیب آدمی ہے پھر بچکچاہٹ کے ساتھ شرماتے شرماتے اُسے دعا کے لئے کہہ دیتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر کی تار ہلاتا ہے اور وہ دعا قبول ہو جاتی ہے تو صرف وہی نہیں بلکہ اس کے ماحول میں رہنے والے دوسرے لوگ بھی یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ لڑکا ہے تو کم عمر کا اور تعلیم بھی اس کی زیادہ نہیں لیکن اس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ضرور ہے.کیونکہ یہ دعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی دعاؤں کو سن لیتا ہے اور انہیں قبول کر لیتا ہے اس طرح علاقہ کے بہت سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور وہ انہیں اپنی باتیں سنانے کے قابل ہو جاتا ہے اور چونکہ اس کی باتیں کچی ہوتی ہیں اور کچی باتوں کا دلوں پر اثر ہوتا ہے اس لئے لوگ اس کی باتوں کو مان لیتے ہیں اور احمدیت پھیلنا شروع ہو جاتی ہے.غرض وقف جدید انجمن احمد یہ بڑا اچھا کام کر رہی ہے لیکن اس میں ابھی پھیلاؤ اور وسعت کی بڑی گنجائش ہے.اس وقت اس کے پاس ساٹھ ستر یا اتنی معلم ہیں لیکن ہمیں ساٹھ ستر ، استی ہزار معلموں کی ضرورت ہے اتنے معلم کہاں سے آئیں گے فرشتے تو آسمان سے اس کام کی غرض سے آئیں گے نہیں اور نہ ہم مٹی کے بُت بنا کر ان میں جانیں ڈال سکتے ہیں.پس یہ معلم آپ نے ہی مہیا کرنے ہیں آپ ہی اپنے بچوں کو پیش کریں گے تو معلم تیار ہوں گے اس لئے جس طرح آپ صدر انجمن احمدیہ کو اپنے بچے پیش کریں.جس طرح آپ تحریک جدید کو اپنے بچے پیش کریں.اسی طرح چاہئے کہ وقف جدید کو بھی اپنے بچے پیش کریں اگر آپ ہر سہ قسم کے وقف کی صحیح معنی میں ذمہ داری اُٹھالیں چاہے وہ وقف صدر انجمن احمدیہ کے لئے ہو، تحریک جدید کے لئے ہو یا وقف جدید کے لئے ہو تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ چند سال کے اندراندراس ملک میں انقلاب عظیم پیدا کر دے گا اور ہم اپنی آنکھوں سے اس انقلاب عظیم کا مشاہدہ کریں گے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطاب ان تین تنظیموں یعنی صدرانجمن احمد یہ تحریک جدید اور وقف جدید کے علاوہ حضرت مصلح موعود نے جماعت میں کچھ ذیلی تنظیمیں بھی قائم کی ہیں اور وہ ذیلی تنظیمیں مجلس انصار اللہ مجلس خدام الاحمدیہ، مجلس اطفال الاحمدیہ ، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ ہیں.ان ذیلی تنظیموں کے سپر د جو کام حضرت مصلح موعودؓ نے کئے وہ اصولاً تین قسم کے ہیں بعض کام جماعتی تنظیموں کے رضا کار کے طور پران کے سپرد کئے گئے تھے کیونکہ وہ کام ان کے اپنے نہیں تھے بلکہ وہ کام جماعتی تنظیموں کے تھے اور ان ذیلی تنظیموں سے کہا گیا تھا کہ وہ رضا کار کے طور پر وہ کام کریں.پھر بعض کام ایسے تھے جو ان کے سپر د جماعتی نظام کے رضا کار کے طور پر کئے گئے تھے.وہ کام نہ ان کے اپنے تھے اور نہ صدرانجمن احمد یہ تحریک جدید اور وقف جدید کے تھے بلکہ وہ جماعتی نظام سے تعلق رکھتے تھے جو صدرانجمن احد یہ تحریک جدید اور وقف جدید کے مجموعہ کا نام ہے اور جس کی نگرانی خلیفہ وقت کے سپرد ہے اور کچھ کام بطور نوافل کے خود ان کے سپرد کئے گئے تھے وہ ان کے اپنے کام تھے میں ان تنظیموں سے کہوں گا کہ جو کام ان کے سپر د جماعتی تنظیموں یا جماعتی نظام کے رضا کار کے طور پر سپرد کئے گئے ہیں ان کو بجالانے میں وہ بہترین رضا کا رثابت ہوں مثلاً تربیت کا کام ہے وہ جماعتی نظام کے رضا کار کے طور پر خدام الاحمدیہ کے سپرد ہے اور خلیفہ وقت کی براہ راست نگرانی میں ہے ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ احمدی نوجوانوں میں تذلل اور تواضع کا جذبہ اُبھار کر اُسے ان کا شعار بنادیں گے.حضرت مصلح موعودؓ نے بہت سے چھوٹے چھوٹے فقرے خدام الاحمدیہ کو دیئے ہیں جو ؟ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں اور قیامت تک ہماری راہ نمائی کا موجب ہیں.آج میں مجلس خدام الاحمدیہ کو ان پہلے فقرات کے علاوہ جو ماٹو اور سمح نظر کے طور پر ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ایک زائد ماٹو اور صح نظر کے طور پر دیتا ہوں اور وہ نہایت ہی پیارا الہام یہ ہے.66 تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں.“ ( تذکرہ نیا ایڈیشن صفحه ۵۹۵) اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے انکسار اور تذلل پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے.خدام الاحمدیہ کو بھی عجز وانکسار تذلیل اور تواضع کا ایک نمونہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۱ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار بننا چاہئے.خدام الاحمدیہ کوئی دنیوی جماعت نہیں کہ اُسے ونڈوڈرینگ (Window Dressing) اور نمائش کی ضرورت ہو.ہمیں تو خدا تعالیٰ کی رضا چاہئے پس یہ کام ہر خادم کو زبانی یاد ہونا چاہئے اور اسے ہر وقت یہ سوچتے رہنا چاہئے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی عاجزانہ را ہیں اختیار کرنے کی ضرورت تھی اور یہی وہ عاجزانہ راہیں تھیں جو آپ کے رب کو پسند آئیں.تو ہماری کیا حیثیت ہے اور ہمیں کتنے عجز اور انکسار سے اپنی زندگی کے دن گزارنے چاہئیں.خدام الاحمدیہ کے سپر د جو کام ہے میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن میں انہیں اور باقی ذیلی تنظیموں انصار الله، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کو ان کی بنیادی کمزوری کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.جو آج ان میں نظر آ رہی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ان ذیلی تنظیموں کی بعض مجالس بہت ہی اچھا کام کر رہی ہیں.وہ قابل رشک ہیں اور ہماری دعاؤں کی مستحق ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مغربی پاکستان میں ہماری جماعتوں کی تعداد آٹھ سو اور ہزار کے درمیان ہے ان جماعتوں کی بھاری اکثریت ایسی ہے جہاں یہ ذیلی تنظیمیں فعال تنظیم کی حیثیت سے موجود نہیں؟ ہمیں تمام نو جوانوں کو چاہئے وہ لاہور کے رہنے والے ہوں یا کسی چھوٹے سے قصبے کے رہنے والے ہوں تمام بہنوں کو چاہئے وہ کراچی کی رہنے والی ہوں یا سندھ کے کسی دُور افتادہ گوٹھ کی رہنے والی ہوں اور تمام انصار کو چاہئے وہ ڈھاکہ کے رہنے والے ہوں یا چٹا گانگ کے ہل ٹریکس (Hill Tracks) یعنی پہاڑی علاقوں میں کسی جگہ ان کی رہائش ہو مدعا کہ ان سب کو کم از کم اس معیار تک ضرور لانا ہے اور جلد تر لانا ہے اس کے بغیر ہماری ترقی میں تیزی پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ اس میں وسعت پیدا ہوسکتی ہے اس کے بعد پھر ان تمام ذیلی تنظیموں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ وہ ہر اس مقام پر جہاں جماعت احمد یہ قائم ہے اپنی مجلس کو منظم کریں آٹھ دس ہیں یا تمھیں یا چالیس پچاس مجالس کا فعّال اورایکٹیو(Active) ہونا ہماری تسلی کا موجب نہیں اور نہ ہی اس طرح ہم خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں.پس جہاں جہاں جماعتیں پائیں جاتی ہیں وہاں یہ تنظیمیں ہونی چاہئیں اور پھر فعال قسم کی ہونی چاہئیں اگر آئندہ سال تک ہر جماعت میں یہ ذیلی تنظیمیں فعال قسم کی قائم ہو جائیں تو میں بھی خوش ہوں گا.آپ بھی خوش ہوں گے اور سب سے زیادہ خدا تعالیٰ ان سے خوش
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۲ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار ہوگا اور انہیں اپنے فضلوں اور برکتوں سے نوازے گا.اب میں اس واقعہ کو لیتا ہوں جو گزشتہ ستمبر میں ہماری قوم اور ہمارے ملک پر گزرا.۶ ستمبر کو ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے نہایت ظالمانہ طور پر اور فریب سے کام لیتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا.سترہ دن تک یہ جنگ لڑی گئی.یہ جنگ عام معمولی جنگوں کی طرح نہیں تھی بلکہ اس میں ہمیں بعض ایسی باتیں نظر آتی ہیں جو اسے ایک خاص قسم کی جنگ بنا دیتی ہیں کیونکہ دوران جنگ پاکستانی قوم پر اللہ تعالیٰ کے مختلف اقسام کے افضال اور برکتیں نازل ہوتی نظر آئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کارخیر کنند دعوی حُبّ پیمبرم آپ نے ایک موقعہ پر فرمایا.( در تمین فارسی صفحه ۱۰۷) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورۃ بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدر اور مرتبہ ظاہر کیا ہے اور وہ سورۃ ہے اَلَم تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحُبِ الْفِيْلِ یہ سورۃ اس حالت کی ہے کہ جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم مصائب اور دُکھ اٹھا رہے تھے اللہ تعالیٰ اس حالت میں آپ کو تسلی دیتا ہے کہ میں تیرا مؤید وناصر ہوں.اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کیا.یعنی اُن کا مکر الٹا کر اُن پر ہی مارا اور چھوٹے چھوٹے جانوران کے مارنے کے لئے بھیج دیئے.ان جانوروں کے ہاتھوں میں کوئی بندوقیں نہ تھیں بلکہ مٹی تھی سجیل بھیگی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں.اس سورۃ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے اور اصحاب الفیل کے واقعہ کو پیش کر کے آپ کی کامیابی اور تائید اور نصرت کی پیشگوئی کی ہے.یعنی آپ کی ساری کارروائی کو بر باد کرنے کے لئے جو سامان کرتے ہیں اور جو تدابیر عمل میں لاتے ہیں.ان کے تباہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہی تدبیروں کو اور کوششوں کو الٹا کر دیتا ہے کسی بڑے الفيل : ٢
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۳ ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار سامان کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے ہاتھی والوں کو چڑیوں نے تباہ کر دیا ایسا ہی یہ پیشگوئی قیامت تک جائے گی.جب کبھی کوئی اصحاب الفیل پیدا ہو گا تب ہی اللہ تعالیٰ ان کے تباہ کرنے کے لئے ان کی کوششوں کو خاک میں ملا دینے کے سامان کر دیتا ہے..اس وقت اصحاب الفیل کی شکل میں اسلام پر حملہ کیا گیا ہے مسلمانوں کی حالت میں بہت کمزوریاں ہیں اسلام غریب ہے اور اصحاب فیل زور میں ہیں مگر اللہ تعالیٰ وہی نمونہ پھر دکھانا چاہتا ہے چڑیوں سے وہی کام لے گا.“ ( الحکم ۷ ار جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں ہمیں بتایا ہے کہ جب بھی آنا آنحضر نہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کا سوال پیدا ہو گا.اللہ تعالیٰ مسلمان کہلانے والوں کی کمزوریوں کو نظر انداز کر دے گا اور اپنے اس مقدس بندے کی عزت اور ناموس کی خاطر اس کے دشمنوں کو تباہ اور برباد کر دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا تھا کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں 66 ( تذکرہ نیا ایڈیشن صفحه ۴۰۴ ) سو پاکستان وہ قلعہ ہند ہے جس پر بھارت نے حملہ کیا تو خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اُترے اور مسلمانوں کی تائید میں اترے اس کے نتیجہ میں بھارت کو ذلت آمیز شکست دیکھنی پڑی.جس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی.بھارت اور پاکستان کا فوجی لحاظ سے کوئی باہم مقابلہ تھا ہی نہیں.آج کل جنگی نقطۂ نگاہ سے ہوائی جہازوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور بھارت کے ہوائی جہاز ہم سے چھ گنا زیادہ تھے اور پھر وہ ہمارے جہازوں سے اچھے تھے.تیز رفتار تھے اور ان کے پیچھے بڑی ٹریننگ تھی لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے.كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةٌ بِاذْنِ اللهِ (البقرة: ۲۵۰) کہ میں یہ اذن آسمان سے نازل کرتا ہوں کہ یہ تھوڑی تعداد والے جہاز بڑی تعداد والے جہازوں پر غالب آئیں گے اور یہ ایک حقیقت ہے ایک واقعہ ہے جسے ہم نے دیکھا اور خود مشاہدہ کیا حالانکہ یہ ایک ایسی بات ہے جسے بظاہر انسانی عقل تسلیم نہیں کرتی لیکن جو واقعہ ہمارے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۴ ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار آنکھوں کے سامنے ہوا.اس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا.پاکستان کی فضائیہ کے پاس جنگی جہاز بڑی کم تعداد میں تھے پھر بھی انہوں نے ایک ایسی حکومت سے مقابلہ کیا جس کے پاس ان سے چھ گنا زیادہ جنگی جہاز تھے انہوں نے اپنی تعداد کے برابر یا اس کے کچھ زیادہ دشمن کے جہازوں کو تباہ کر دیا اور ہمارے صرف بارہ ہوائی جہاز دشمن کے حملہ سے تباہ ہوئے.ہمارے ایک ہوا باز نے ایک وقت میں دشمن کے پانچ جہاز مار گرائے.جب اخباری نمائندہ اس کے پاس انٹرویو کے لئے آیا تو اس نے کہا میرا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے مجھے تو صرف اتنا علم ہے کہ ایک وقت میں بھارت کے پانچ جہاز میرے سامنے زاویہ بنا کر لڑے میں بھی ان کے پیچھے اسی زاویہ میں مڑ گیا پھر یکدم میرے سامنے اندھیرا آ گیا میں نے اپنے جہاز کا ایک خاص بٹن دبادیا اور کچھ دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ان میں سے چار جہاز نیچے آرہے تھے اس نے یہ بھی کہا مجھے اپنے کارنامہ پر نہ کوئی فخر ہے اور نہ میں اسے اپنی ذات سے منسوب کرتا ہوں یہ سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اس نے اس وقت فرمایا.یہی حال میدانی محاذ کا تھا.ایک محاذ پر ہمارا صرف ایک بریگیڈ دشمن کی تین ڈویژن فوج کا مقابلہ چار دن تک کرتا ر ہا دشمن کی فوج نے ان چار دنوں میں اس پر چھ یا آٹھ حملے کئے اور ہر دفعہ خدا تعالیٰ نے اس کے حملے کو ایسا ثابت کیا جیسے کوئی دیوانہ پتھر کی دیوار پر سر مارتا ہے اور واپس ہٹ جاتا ہے قرآن کریم نے اس قسم کے مسائل پر بہت کچھ فرمایا ہے.میں اس تفصیل میں جانا نہیں چاہتا میں اس وقت ایک مضمون کو بطور مثال آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی دو آیتوں میں بیان فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اذْ يُرِيْكَهُمُ اللهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيْلًا وَلَوْ أريكَهُمْ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمُ وَلَتَنَازَعْتُمُ فِي الْأَمْرِ وَلَكِنَّ اللهَ سَلَّمَ إِنَّهُ عَلِيْمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ وَإِذْ يُرِيكُمُوْهُمُ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِى أَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِى عيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُواً وَإِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُه (الانفال : ۴۴، ۴۵) اگر چہ ان آیات میں ایک مخصوص جنگ کی طرف اشارہ ہے لیکن قرآن کریم میں جو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۵ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطاب واقعات بیان فرمائے گئے ہیں.ان میں بعض اصول بیان کئے گئے ہیں جو آئندہ آنے والوں کے لئے مشعل راہ ہیں لہذا ان آیات میں گو ایک مخصوص جنگ کی طرف اشارہ ہے لیکن جو اصول ان میں بیان کیا گیا ہے وہ دائمی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تیری خواب میں تجھے ان کافروں کو کم کر کے دکھایا تھا.تا کہ مومن جب یہ خواب سنہیں تو اس کی تعبیر سُن کر خوش ہوں.اگر خواب میں دشمن تھوڑا نظر آئے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ شکست کھا جائے گا.چنانچہ بتایا اگر تجھے وہ کفار بڑی تعداد میں دکھائے جاتے تو تم ضرور کمزوری دکھاتے اور کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس خواب میں انذار کیا ہے کہ ہمیں شکست ہوگی اور اس معاملہ میں یعنی لڑائی کے بارہ میں آپس میں جھگڑتے کہ لڑائی کی جائے یا نہ لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو محفوظ رکھا وہ دلوں کی باتوں کو خوب جانتا ہے اور یاد کرو جب کہ وہ ان کفار کو تمہاری نظر میں لڑائی کے وقت کمزور دکھاتا تھا اور قبل از جنگ تم کو ان کی نظر میں کمزور اور قلیل التعداد دکھاتا تھا تا کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پورا کرے جس کا وہ فیصلہ کر چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی سب باتیں لوٹائی جائیں گی.اس طرح فرمایا:.قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةً فِي فِئَتَيْنِ الْقَنَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَ أُخْرَى كَافِرَةٌ ط يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأَى الْعَيْنِ وَاللهُ يُؤيّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشَاءُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ (آل عمران : ۱۴) یعنی ان دو گروہوں میں جو ایک دوسرے سے برسر پیکار تھے تمہارے لئے یقیناً ایک نشان تھا ان میں سے ایک گروہ تو اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جنگ کرتا تھا اور دوسرا منکر تھا وہ یعنی مسلمان ان کافروں کو آنکھوں سے اصل تعداد سے دو چند نظر آ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی مدد سے قوت بخشتا ہے اس بات میں آنکھوں والوں کے لئے یقیناً ایک نصیحت ہے کہ کبھی آنکھیں باذن اللہ دھو کہ کھاتی ہیں اور اس شخص کی تباہی کا باعث بن جاتی ہیں.اس آیت کو پہلی آیات سے ملا کر دیکھا جائے تو ہمیں یہ مضمون نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو لڑائی سے پہلے مسلمانوں کی تعداد کم دکھاتا ہے اور جب وہ کسی قوم کو ذلت آمیز شکست
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۶ ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار دینے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر اس کی سنت یہ ہے کہ وہ قوم جس کو وہ شکست دینا چاہتا ہے گو وہ اپنی مد مقابل قوم سے مال و اسباب کے لحاظ سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے تعداد میں زیادہ ہوتی ہے اور اپنی اس طاقت پر بڑا گھمنڈ رکھتی ہے اپنے مقابل کی قوم کو بہت کم تعداد میں دیکھتی ہے.کیونکہ اگر خدا تعالیٰ ان کے دلوں میں یہ ڈالے کہ جو قوم ان کے مقابلہ میں آرہی ہے وہ بھی بڑی طاقت ور ہے تو وہ جنگ میں ابتداء ہی نہیں کریں گے اور مسلمان بھی ابتداء نہیں کریں گے کیونکہ انہیں حکم ہے کہ تم جنگ میں ابتداء نہ کروپس اگر مد مقابل قوم مسلمانوں کو طاقتور سمجھے گی یا یہ سمجھے گی کہ ہم انہیں کسی صورت میں شکست نہیں دے سکتے تو وہ حملہ کیوں کرے گی؟ لیکن خدا تعالیٰ تو جنگ کے میدان میں انہیں شکست دینے کا ارادہ کر چکا ہے.لیقْضِيَ اللهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولاً.اس لئے خدا تعالیٰ یہ تدبیر کرتا ہے کہ جنگ سے پہلے پہلے مسلمان ان کی نظر میں حقیر، ذلیل ، کمزور اور قلیل التعداد دکھائی دیتے ہیں اور اس طرح ان کے دل میں جرات پیدا ہوتی ہے کہ وہ ان پر حملہ کر دیں.بالکل اسی طرح ۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کو ہوا.جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو ان کے بڑے بڑے لیڈروں نے لڑائی سے پہلے ہی اپنی فتح کا اعلان کر دیا تھا یہاں تک کہ انہوں نے لندن کی اخباروں میں 4 ستمبر کو ہی چھپوا دیا کہ لاہور شہر پر بھارت کی فوجوں کا قبضہ ہو گیا ہے اتنا غرور تھا انہیں اپنی طاقت پر.اتنی امید تھی انہیں اپنی کامیابی کی اور اتنا وثوق اور اعتماد تھا انہیں اپنی فوجوں پر کہ ہم اُس کا اندازہ بھی وہ سمجھتے تھے کہ پاکستانی فوجیں اس قدر کمزور ہیں کہ ان کی شکست یقینی ہے اس لئے انہوں نے لڑائی سے پہلے ہی اپنی فتح کا اعلان کر دیا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم کسی ایسی قوم کو جو بڑی طاقت ور ہوتی ہے شکست دینا چاہتے ہیں.تو تدبیر کرتے ہیں کہ اس کے دشمنوں یعنی مسلمانوں کو ان کی نظر میں بہت کم کر کے دکھا دیتے ہیں حتی کہ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ مسلمان تعداد میں ہم سے بہت کم ہیں اُن کے ہوائی جہاز ہم سے کم ہیں ان کی پیدل فوج کی تعداد اور طاقت کے لحاظ سے ہم سے کم ہے اس لئے ہم ان کے پر خچے اڑا کر رکھ دیں گے لیکن جب جنگ شروع ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ ان کی آنکھوں کے زاویوں کو اس طرح بدل دو کہ وہ مسلمان جو جنگ سے پہلے انہیں کم اور کمزور دکھائی دے رہے تھے زیادہ تعداد میں اور طاقت ور نظر آنے لگیں چنانچہ پچھلی جنگ میں اس قسم کے بیسیوں واقعات مشہور ہوئے ہیں لیکن
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطا.میں صرف ایک واقعہ بیان کرتا ہوں یہ واقعہ مجھ سے ایک ایسے افسر نے بیان کیا جو خود اس کا گواہ ہے اور میں اسے وثوق کے ساتھ بیان کر سکتا ہوں.انہوں نے بیان کیا کہ ایک محاذ پر شروع شروع میں چار بٹالین بھارتی فوج ہمارے علاقہ میں گھس آئی اور ہمارے ایک وسیع رقبہ پر انہوں نے قبضہ کر لیا ان کے سامنے اس وقت ہماری صرف ایک فوج بٹالین تھی.گویا دشمن کی فوجوں اور ہماری فوجوں کے درمیان ایک چار کی نسبت تھی ایک دن ہماری اس بٹالین کو حکم ملا کہ بھارت کی چار بٹالین فوج پر حملہ کر کے اپنا علاقہ خالی کروا لو ہماری اس بٹالین کے پیچھے بھی کوئی فوج نہیں تھی جو وقت پڑنے پر مدد کر سکے لیکن حکم تھا کہ حملہ کر دو چنانچہ اس بٹالین نے بھارتی فوج پر حملہ کر دیا.س حملہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کی چار بٹالین فوج میں سے دو بٹالین فوج یا تو ماری گئی یا زخمی ہوئی اور بعض فوجی قیدی بنالئے گئے باقی دو بٹالین فوج بھاگ گئی اور ہمارا علاقہ خالی ہو گیا عجیب بات یہ تھی کہ ہماری بٹالین کا ایک آدمی بھی نہ مارا گیا یہ تو عملاً ایک معجزہ تھا جو ان لوگوں نے دیکھا لیکن اس سے بڑھ کر ایک اور بات ہوئی وہ دوست بتاتے ہیں کہ جو لوگ قیدی بنائے گئے ان کو پیچھے لانے کے لئے میری ڈیوٹی تھی ان قیدیوں میں ایک ہندو افسر تھا.جس کا عہدہ میجر کا تھا اس کو میں نے از راہ مذاق کہا کہ تمہیں کیا ہو گیا تھا تمہارے پاس چار بٹالین تھی لیکن تم اس ایک بٹالین کے حملہ کی بھی تاب نہ لا سکے.تمہاری آدھی فوج ماری گئی یا قیدی بنائی گئی اور آدھی فوج بھاگ گئی اس پر وہ ہندو افسر کہنے لگا کہ جیتنے کے بعد ایسی ہی باتیں کی جاتی ہیں ہم پر تمہاری پانچ بٹالین نے حملہ کیا تھا.وہ دوست کہتے ہیں میں نے سارا راستہ انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ہماری فوج اور تمہاری فوج میں ایک اور چار کی نسبت تھی مگر وہ نہ مانا تب مجھے خدا تعالیٰ کا یہ کلام یاد آیا کہ جنگ کے میدان میں تمہاری تعداد دشمن کو خوب بڑھ چڑھ کر دکھائی جاتی ہے اور آسمان سے مدد کے لئے فرشتے نازل کئے جاتے ہیں اور میدانی ، فضائی اور سمندری جنگوں میں مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کی قدرت، اپنی اخوت اور اتحاد اور باطنی طاقت کے ایسے ہزاروں جلوے دیکھے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ان دنوں ہم پر اور ہماری ساری قوم پر ہوا.دوسر افضل جو خدا تعالیٰ نے ان دنوں ہم پر اور ہماری قوم پر کیا ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الانفال: ۶۴) یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو آپس میں باندھ دیا.اگر تو جو کچھ زمین میں ہے ان پر خرچ کر دیتا تو بھی ان کے دلوں کو اس طرح باندھ نہیں سکتا تھا اور ان میں اخوت پیار اتحاد اور استحکام کی کیفیت پیدا نہیں کر سکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں باہمی محبت پیدا کر دی ہے یقینا اللہ تعالی ہی غالب اور حکمت والا ہے.اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پانچ ستمبر کی شام کو پاکستان کی قوم ایک منتشر حالت میں سوئی تھی حکومت وقت سے اختلاف رکھنے والے لاکھوں کی تعداد میں موجود تھے اور حکومت سے بڑے اختلاف رکھتے تھے لیکن جب چھ ستمبر کی صبح کو سورج طلوع ہوا تو اس نے ایک متحد اور مستحکم قوم پر اپنی کرنیں پھینکیں.ایک رات کے اندر اندر ساری قوم ایک جان ہوگئی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم دنیا کے تمام مال اور دنیا کے تمام اسباب بھی خرچ کر دیتے تو اس قسم کا اتحاد اور اتفاق پیدا نہ ہوسکتا.یہ اتحاد اور استحکام اس وقت پیدا ہوتا ہے لكِنَّ اللهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ پیدا ہو چھ ستمبر کو ہم نے دیکھا کہ یہ اتحاد قائم ہو گیا قوم مستحکم ہوگئی اس سے لازماً ہمیں یہ نتیجہ نکالنا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آسمان سے یہ حکم نازل کیا تھا کہ اے پاکستانیو! تم پر نازک وقت آیا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تم فرد واحد کی طرح ایک ہو جاؤ اور آپس کے سب اختلافات بھول جاؤ.اس ضمن میں ہم نے اپنی قوم کے باہمی اتحاد اور اتفاق کا ایک اور عجیب نظارہ بھی دیکھا کہ نومبر میں ہماری جماعت پر جو عظیم قیامت خیز زلزلہ آیا.یعنی حضرت مصلح موعود جیسا محسن وجود ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو گیا.تو اس موقع پر باوجود اعتقادی اختلافات کے ہزاروں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ غیر از جماعت دوستوں نے بسوں میں سیٹیں چھوڑ دیں اور خود باہر نکل آئے اور احمد یوں سے کہا کہ ہماری جگہ پر بیٹھ کر تم ربوہ چلے جاؤ.تمہارا وہاں وقت پر پہنچنا ضروری ہے.ہم پچھلی بس لے لیں گے.یہ نتیجہ تھا اتحاد اور اتفاق کا جو خدا تعالیٰ نے ہماری قوم کے اندر پیدا کر دیا تھا.تیر افضل جو اللہ تعالیٰ نے ہماری قوم پر کیا اور جو بالواسطہ نوعیت کا ہے یہ ہے کہ جب کسی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۹ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطار شخص یا قوم سے کوئی دوسرا شخص یا قوم حسد کرنے لگ جائے تو اسلام یہ کہتا ہے کہ سمجھ لو اللہ تعالیٰ محسود کی مدد کے لئے آ گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما بتایا تھا إِذَا نَصَرَ اللَّهُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَهُ الْحَاسِدِينَ فِي الْأَرْضِ ( تذکرہ نیا ایڈیشن صفحه ۶۵) یعنی جب اللہ تعالی مومنوں کی مدد کرتا ہے تو زمین میں ان کے حاسد پیدا کر دیتا ہے چنانچہ جنگ کے بعد ہمارے لئے جو بعض اُلجھنیں پیدا ہو گئی ہیں ان میں حسد ہی کام کر رہا ہے.مثلاً امریکہ ہے اس کے رہنے والے سمجھتے ہیں کہ ہم اتنی بڑی اور طاقت ور قوم ہیں کہ دنیا کی کوئی اور قوم ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی ہاں اگر کوئی قوم ہمارے مقابلہ پر کھڑا ہوسکتی ہے تو شاید وہ روس ہوا اور اس بات پر انہیں بڑا گھمنڈ ہے لیکن وہ سالہا سال سے اپنی پوری طاقت ایک چھوٹے سے ملک ویٹنام میں خرچ کر رہے ہیں اور باوجود عظیم نقصان اُٹھانے کے ان کی طاقت ویتنام میں وہ نتیجہ پیدا نہیں کرسکی جو حالیہ جنگ میں پاکستان کی چھوٹی سی فوج نے خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے سے چھ گنا طاقت ور دشمن کے مقابلہ میں کامیابی کی شکل میں خوش کن نتیجہ نکال دکھایا ہے.پس ہماری ان کا میابیوں کو دیکھ کر امریکہ اور اس کے علاوہ دوسری اقوام جو روحانی طور پر جاہل ہیں پاکستانیوں سے حسد کرنے لگ گئی ہیں.اس لئے وہ کسی حد تک ہمیں تنگ کرنے کی بھی کوشش کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے لیکن اس صورتِ حال پر ہمیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ جب ہم نے ایک دفعہ عملاً اپنے رب کی مدد اس کی نصرت اور تائید کو آسمان سے نازل ہوتے دیکھ لیا ہے ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ آئندہ بھی ہمارا خدا ہمیں کبھی اپنی نصرت اور تائید سے محروم نہیں رکھے گا کیونکہ وہ کمزور نہیں اس میں وہ ازلی و ابدی طاقتیں پائی جاتی ہیں جن کا مشاہدہ ہم کر چکے ہیں اس کی طاقتوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی آسکتی ہے پھر چھ تمبر سے پہلے ہمیں بحیثیت قوم اس قسم کے حالات کا کوئی تجربہ نہیں تھا.اب تو حق الیقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ ہے وہ ایک دفعہ ہماری مدد کے لئے آیا اور اس نے غیر معمولی حالات میں ہمیں فتح اور نصرت عطا کی.امید واثق ہے کہ وہ آئندہ بھی ہماری مدد کرے گا اور پاکستان کو دشمنوں اور حاسدوں کے شر سے محفوظ رکھتے ہوئے اُسے مزید کامیابیاں عطا کرے گا اس لئے ہم اسے چھوڑ کر کسی اور کی طرف نہیں جاسکتے.چوتھا فضل جو ان دنوں اللہ تعالیٰ نے کیا یہ ہے کہ پاکستان پر بھارت کے حملہ کے وقت
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۰ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطاب احمدیوں کو پاکستان کی فتح کے لئے سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں بشارتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ملیں.بڑی کثرت کے ساتھ ہمارے دوستوں کو خوا ہیں آئیں کشف ہوئے اور الہام بھی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اس لڑائی میں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہو رہی ہے پاکستان کو فتح عطا کرے گا اور آسمان پر یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ فرشتے پاکستانیوں کی مدد کو پہنچیں.غرض پاکستان کی فتح کے متعلق بہت سے احمدیوں نے واضح کشوف اور رویا دیکھے دوسرے ( غیر از جماعت) مسلمانوں کو بھی رویا ہوئے ہوں گے لیکن ہمیں ان کا علم نہیں ہمیں تو انہی کشوف اور رویا کا علم ہے جو ہمارے احمدی دوستوں کو ہوئے اور یہ بشارتیں اتنی کثرت سے دی گئیں کہ میں سمجھتا ہوں.اگر ہم فی الواقع خدا تعالیٰ پر ایمان لانے والے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والے ہیں تو چاہئے کہ قیامت تک ہم اور ہماری آئندہ نسلیں خدا تعالیٰ کے اس فضل اور احسان پر شکر یہ ادا کرتی رہیں اگر ہم ایسا کریں تب بھی ہم اس کا کماحقہ شکر ادا نہیں کر سکتے.جماعت احمد اور پوری پاکستانی قوم کو ان غیر معمولی افضال پر جو ان پر نازل ہوئے ہیں صحیح معنوں میں خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنے کی کوشش کرنی چاہیے.اب میں مختصر یہ بتاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں شکر گزار بندے بنے کا جو طریق سکھایا ہے وہ کیا ہے؟ یا د رکھنا چاہئے کہ تین چیزیں ہیں جو افضال الہیہ کی وجہ سے ایک شکر گزار بندہ بجالاتا ہے ان میں سے سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ اور تو کل رکھتا ہے اور اس کے سوا کسی اور کی طرف نہیں جھکتا اور نہ ہی کسی دوسرے کو اپنی توجہ اور امید کا مرکز بنا تا ہے اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل کی دوصورتیں اسلام نے ہمیں سکھائی ہیں اول یہ کہ ماڈی طاقتیں اور ان کے ماڈی اسباب اور وسائل خواہ کتنے ہی زیادہ عظیم کیوں نہ ہوں ہم ان سے مرغوب نہ ہوں اور اس یقین پر قائم رہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں دنیا کے ملکوں اور قوموں کی طاقتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں وہ اتنی حیثیت بھی رکھتیں جتنی کہ میرے پاؤں کے نیچے آنے والی مٹی کا ایک ذرہ رکھتا ہے.شکر کی ادائیگی کا دوسرا طریق اسلام نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہمارے پاس مادی اسباب اور وسائل خواہ کتنے کم ہی کیوں نہ ہوں اور ہمیں اپنی کمزوریاں خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ نظر آ رہی ہوں.ہم کبھی مایوس نہ ہوں.کیونکہ ہمارا بھروسہ اپنی طاقت ، اپنی تعداد یا اپنے اسباب پر نہیں بلکہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۱ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.دوسرے روز کا خطاب اس مسبب الاسباب ہستی پر ہے جس نے تمام سامانوں کو پیدا کیا ہے جس کے ہاتھ میں زمین اور آسمان ہیں اور جس کے گن کہنے سے دنیا تباہ بھی ہو سکتی ہے اور دنیا قائم بھی ہو جاتی ہے.شکر کی ادائیگی کا تیسرا طریق جو اسلام نے ہمیں بتایا ہے یہ ہے کہ ہم اپنے محسنوں کا شکر بھی ادا کریں ہمارے محبوب آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.مَنْ لَّمْ يَشْكُر النَّاسَ لَمْ يَشْكر الله (ترمذى كتاب البر والصلة) کہ جو شخص بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا شکر کیسے ادا کر سکتا ہے اگر انسان ایک چھوٹے سے احسان کا شکر ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تو جس ہستی کے احسانوں کے نیچے وہ دبا ہوا ہے اس کا شکریہ کیسے ادا کرے گا اس لئے ہر وہ فرد ہر وہ قوم اور ہر وہ ملک جس نے اس آڑے وقت میں پاکستان کی مدد کی ہمارے شکریہ کا مستحق ہے اور ہم اس کے شکر گزار ہیں ہم ان سے کبھی بے وفائی نہیں کریں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.اگر ہم خدا تعالیٰ کے بندوں اور اس کی پیدا کردہ اقوام کا شکر ادا کریں تو اللہ تعالیٰ لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابرهيم :(۸) کے وعدہ کے مطابق اپنے فضلوں کو ہم پر اور بھی زیادہ موسلا دھار بارش کی طرح برسائے گا اور خدا تعالی کی قدرتوں اور طاقتوں کے جلوے ہم پہلے کی نسبت زیادہ دیکھیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم اس کے شکر گزار بندے بنیں اور وہ ہمیں اپنے فضل کے ساتھ اس مقام پر کھڑا رکھے کہ ہم سوائے اس کے کسی اور پر بھروسہ رکھنے والے نہ ہوں اور دنیا کی کسی طاقت سے مرعوب نہ ہوں.خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا جلوہ کچھ اس طرح ہم پر ظاہر ہو کہ دنیا کی ہر طاقت کو بیچ کر کے رکھ دے اے خدا تو ہمیں اپنے شکر گزار بندے بنا آمین ثم آمین.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) لمراه
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۳ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب خدا شاہد ہے کہ پسر موعود کے شامل حال ایک عظیم الشان نور تھا اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۱ / دسمبر ۱۹۶۵ء بمقام ربوہ کی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دوستو.پیارو: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ قبل اس کے کہ میں اس مضمون کے متعلق کچھ کہوں جو میں آج بیان کرنا چاہتا ہوں میں دوستوں کو دو کتابوں کی خرید کے متعلق تحریک کرنا چاہتا ہوں.ان کتابوں کے متعلق کل نہ تو مجھے یاد دہانی کرائی گئی اور نہ مجھے خود یاد آیا.بعض اور دوستوں نے بھی آج مجھے اپنی کتب کے متعلق تحریک کرنے کے لئے کہا ہے لیکن چونکہ ہر اجلاس میں اس قسم کی تحریک کرنا مناسب نہیں ہوتی اس لئے میں نے ان سے معذرت کر دی ہے لیکن یہ دو کتابیں ایسی ہیں جن کے متعلق کچھ کہنے سے میں رک نہیں سکتا.ان میں سے ایک تو قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ تفسیر ہے جو تحریک جدید کی طرف سے شائع کی گئی ہے.قرآن کریم کی اشاعت کا سوال ہو اور میں خاموش رہوں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا تھا.سو انگریزی دان اور احمدی احباب اپنے لئے ، اپنوں کے لئے یا تبلیغ کی خاطر اس تفسیر کو خریدیں اور اس کی تقسیم اور اشاعت کا انتظام کریں.دوسری کتاب ” مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریروں کی رو سے ہے اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے اقتباسات جمع کئے گئے ہیں اور محترم سید داؤد احمد صاحب نے اسے مرتب کیا ہے.میں تمہیں عنوان ہیں جن کے تحت اقتباسات اکٹھے کیے گئے ہیں اور یہ ایک بڑا مفید مجموعہ بن گیا ہے گو کچھ لمبا ہے لیکن اسے مختصر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا.بہر حال یہ کتاب ایسی ہے جس سے پڑھے لکھے دوست ہر وقت فائدہ اٹھا سکتے ہیں ہر جماعت میں کم از کم اس کتاب کے ایک نسخہ کا ہونا ضروری ہے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۴ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب اور کئی جماعتیں اس کی ایک سے زائد کا پیاں بھی خرید سکتیں ہیں تا پڑھے لکھے دوست دوسروں کے لئے ہدایت کے سامان اس سے حاصل کریں اور اپنے بھائیوں کو سنائیں.ایک بڑی خوشخبری ملی ہے جو میں جماعت کے دوستوں کو بھی سنانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ افریقہ کا ایک ملک گیمبیا ہے جو اسی سال ماہ فروری میں آزاد ہوا تھا.چند دن ہوئے وہاں کے قائم مقام گورنر کے عہدہ کے لئے چار نام بھجوائے گئے تھے ان چار ناموں میں سے جس شخص کا انتخاب کیا گیا ہے وہ الحاج ایف ایم سنگھائے ہیں.ایف ایم سنگھائے خدا تعالیٰ کے فضل سے مخلص احمدی ہیں ۱۹۴۲ء میں وہ احمدی ہوئے تھے.اس وقت ان کی عمر چھپن سال کے قریب یعنی میری عمر کے برابر ہے.آپ پہلے گورنمنٹ کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے.۱۹۴۲ء کے شروع میں آپ نے ریٹائرمنٹ لے لی.وہ گیمبیا کے سیاسی لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں.۱۹۴۲ء میں آپ کو جسٹس آف پیس (Justice of peace) مقرر کیا گیا.اسی سال آپ کو حج بیت اللہ کا شرف حاصل ہوا.آپ میڈ نگا (Mandinga) قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں جماعت کے پریذیڈنٹ ہیں اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے انہیں گیمبیا کا قائم مقام گورنر جنرل مقرر کیا گیا ہے.اس کے علاوہ یہ بات بھی جماعت کے لئے ایک خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ میرے فضل تم پر اب بھی جاری ہیں.پچھلے ماہ کی جو رپورٹیں میرے پاس آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف غیر ممالک میں تقریباً پچاس احباب احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.کل مخدومی و محترمی چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ایک تحریک جماعت کے سامنے پیش کی تھی.اس کا پہلے جو نام تجویز کیا گیا تھاوہ میں نے جان بوجھ کر نہیں لیا تھا اب مشورہ کے بعد اس کا نام دفضل عمر فاؤنڈیشن“ رکھا گیا ہے.چوہدری صاحب موصوف نے دوستوں کے سامنے یہ تحریک کی تھی کہ ایک فاؤنڈیشن قائم کی جائے اور اس کی آمد سے بعض ایسے کام کئے جائیں جن سے حضرت مصلح موعودؓ کو خاص دلچسپی تھی.اس میں شک نہیں کہ صدر انجمن احمد یہ جس کو موجودہ شکل حضرت مصلح موعودؓ نے دی ہے تحریک جدید جسے آپ نے قائم کیا ہے اور وقف جدید جسے آپ نے جاری کیا ہے اسی طرح مجلس انصاراللہ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ، ناصرات الاحمدیہ، اطفال
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۵ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب ود احمد یہ جو ذیلی تنظیمیں آپ نے قائم فرمائی ہیں یہ سب ( بنیادی اور ذیلی تنظیمیں ) جب تک قائم رہیں گی اور جب تک ان کے اچھے اور خوش کن نتائج نکلتے رہیں گے ( اور ہم اپنے رب سے امید رکھتے ہیں کہ قیامت تک ان تنظیموں کے اچھے اور خوش کن نتائج نکلتے رہیں گے ) اس وقت تک حضرت مصلح موعود کا نام زندہ رہے گا اور دنیا عزت کے ساتھ آپ کو یاد کرتی رہے گی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ صدقہ جاریہ اور فیض جاری کے طور پر ہم کوئی اور سکیم نہ بنائیں چنانچہ اس خیال کے تحت دوستوں سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ عام مالی قربانیوں کے علاوہ جو وہ کر رہے ہیں فضل عمر فاؤنڈیشن میں رقوم پیش کریں اور یہ رقوم وہ بشاشت اور اخلاص نیت کے ساتھ دیں اور اس دعا کے ساتھ دیں کہ اس فاؤنڈیشن سے اچھے نتائج نکلیں اور ان کا ثواب خدا تعالیٰ حضرت مصلح موعودؓ کو بھی پہنچائے اور ہمیں بھی پہنچائے جو یہ رقوم دینے والے ہیں.کل اس تحریک کا یہاں اعلان ہوا تھا اور باہر کی جماعتوں پر ابھی اس تحریک کی اطلاع نہیں ہوئی.صرف امراء وغیرہ نے ان دوستوں سے جو یہاں موجود تھے مشورہ کیا ہے باوجود اس کے اس وقت تک جو وعدے آچکے ہیں وہ قریباً پندرہ لاکھ کے ہیں اور ہمارا اندازہ ہے کہ انشاء اللہ وعدوں کی مقدار پچیس لاکھ سے کہیں زیادہ تک پہنچ جائے گی پاکستان کے علاوہ بیرونی ممالک کی جماعتوں سے بھی ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ کم و بیش پندرہ لاکھ روپیہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے جمع کریں گی.ہم جو حضرت مصلح موعودؓ کی جسمانی اولادیں ہیں گو ہم سب جمع نہیں ہو سکے لیکن ہم میں سے کثر یہاں موجود تھے.ہم نے (اس خیال کے ماتحت کہ حضور نے جو جائیداد بنائی تھی اس کے متعلق حضور کی نیت یہی تھی کہ اس سے دینی کام جاری کئے جائیں اور اپنے بچوں کو بھی حضور نے فرمایا کہ میں تمہیں دنیوی فکروں سے اس لئے آزاد کرنا چاہتا ہوں کہ تا تم اپنے اوقات کو دین کی خدمت میں لگائے رکھو) مشورہ کر کے یہ طے کیا ہے کہ حضور کی جائیداد میں سے انشاء اللہ ایک لاکھ روپیہ اس فنڈ میں دیں گے.دوست اس بات کا خیال رکھیں کہ گو اس تحریک کے لئے وعدے تو ابھی ہونے چاہیں لیکن ان کی ادائیگی تین سالا نہ قسطوں میں ہوسکتی ہے یعنی جو دوست چاہتے ہیں کہ اس میں زیادہ چندہ دیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس ایک سال کے دوران وہ اس قدر رقم
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۶ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب نہیں دے سکیں گے ان کی سہولت کے پیش نظر یہ تجویز کی گئی ہے کہ وہ اپنے وعدہ کو تین سال میں، تین قسطوں میں ادا کر سکتے ہیں.اس طرح امید ہے کہ دوست اور خصوصاً وہ دوست جنہوں نے اب بھی اس فنڈ میں کافی بڑی رقمیں دی ہیں اور اس خیال کے ماتحت دی ہیں کہ انہیں جلد ادا کرنا ہے اپنے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے وعدوں میں زیادتی کریں گے.خدا کرے کہ فضل عمر فاؤنڈیشن کی رقم پچاس لاکھ اور کروڑ کے درمیان تک پہنچ جائے.،،.اس فاؤنڈیشن کے متعلق اب تک جو سوچا گیا ہے ( گو میں ایک کمیٹی مقرر کر دوں گا جو غور کرے گی کہ اس کی آمد کو کس طرح استعمال کرنا ہے اور اس کے کیا قواعد وضع ہونے چاہئیں لیکن میں تفصیل میں اس وقت نہیں جانا چاہتا ) وہ یہ ہے کہ اس کی آمد سے ایک تو مبشرین تیار کئے جائیں گے یعنی بیرونی ممالک میں کام کرنے والے مبلغین اور پاکستان میں کام کرنے والے مربیان اور معلمین کو زیادہ تعداد میں تیار کیا جائے گا اور اس فنڈ کی آمد سے ان پر خرچ کیا جائے گا.کیونکہ ہماری ضرورتیں جیسا کہ میں نے کل اشارۃ کہا تھا بہت زیادہ ہیں اور وہ جلد تر پوری ہونی چاہئیں اس لئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ مقاصد جن کے لئے ہم جدو جہد کر رہے ہیں.ہماری زندگیوں میں ہی ہمیں حاصل ہو جائیں.تو ہمیں مبشرین اور مربیان کی تعداد کو بہر حال بڑھانا پڑے گا.سوفضل عمر فاؤنڈیشن کی آمد سے ایک تو مبشر اور مربی تیار کئے جائیں گے.پھر ہمارے بعض بچوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے دماغ عطا کئے ہیں کہ ان کی پوری تربیت اور تعلیم کا انتظام ہو جائے تو بہت جلد دنیوی لحاظ سے چوٹی کے دماغوں میں شمار ہونے والے بن سکتے ہیں.ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو حالات کی مجبوری کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں انہیں اعلیٰ تعلیم نہیں دلائی جاسکتی.کالج میں بھی میں نے دیکھا تھا کہ ہر سال داخل ہونے والوں میں سے ایک دو طالب علم ضرور ایسے ہوتے تھے کہ اگر ان کی ٹھیک تربیت اور صحیح تعلیم کا انتظام ہو جائے تو وہ چوٹی کے دماغوں میں شامل ہونے کی استعداد اور قابلیت رکھتے ہیں.فضل عمر فاؤنڈیشن کی آمد سے اس قسم کے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کا بھی انتظام کیا جائے گا.اس طرح اور بھی بہت سی ضروریات ہیں جن کی تفصیل میں وہ کمیٹی جائے گی جو میں مقرر کروں گا اور پھر ہم باہم مشورہ اور غور کے بعد اس چیز کو مکمل کر لیں گے.فی الحال میرا کوئی آخری فیصلہ نہیں لیکن خیال ہے کہ اس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۷ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب فاؤنڈیشن کو علیحدہ طور پر رجسٹر کروالیا جائے اور اس کی مجلس عاملہ کے طور پر اس وقت بعض نام میرے ذہن میں آئے ہیں.مثلاً مخدومی و محترمی چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب، ایک نمائندہ صدر انجمن احمدیہ کا، ایک نمائندہ تحریک جدید انجمن احمدیہ کا چوہدری محمد انور صاحب کا اہلوں ( جو اس وقت ایسٹ پاکستان میں ہیں گو وہ ادھر کے ہی رہنے والے ہیں لیکن انہوں نے اپنی ساری عمر قریباً وہیں گزار دی ہے وہ ) ایسٹ پاکستان کی نمائندگی کریں گے اور ہمارے نز دیک وہ اس کے اہل بھی ہیں وکلاء میں سے میر محمد بخش صاحب گوجرانوالہ امراء اور تاجر پیشہ اصحاب میں سے شیخ محمد حنیف صاحب کو ئٹہ اور مستعدی سے کام کرنے کے لحاظ سے کرنل عطاء اللہ صاحب جنہیں اللہ تعالیٰ نے بڑا اچھا دماغ دیا ہے اور انہیں ایسے امور کے متعلق بڑی معلومات حاصل ہیں لیکن میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ فی الحال یہ نام زیر غور ہیں ان میں سے بعض تو یقینا اس میں آجائیں گے اور ممکن ہے بعض نام تبدیل بھی کرنے پڑیں.بہر حال یہ مختصر سا ڈھانچہ ہے جو اس وقت تک فضل عمر فاؤنڈیشن کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں ہے اور میں چاہتا تھا کہ اسے دوستوں کے سامنے بیان کر دیا جائے تا اس امر کے متعلق ان کی دلچسپی بڑھے وہاں ان کی دعائیں بھی اس کے شامل حال ہو جا ئیں.اب میں نفس مضمون کی طرف آتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا تھا.خذوا التوحيد التوحيد يا ابناء الفارس ( تذکرہ نیا ایڈیشن صفحہ ۱۹۷) یہ حکم ہمیں بھی ہے اور حضور کی روحانی اولا دکو بھی.یعنی اے فارس کے بیٹو تم تو حید کو مضبوطی سے تھامے رکھو تو حید کو مضبوطی سے پکڑو اور اسے سنبھالے رکھو.گو اس حکم کے پہلے مخاطب میں اور میرے بہن بھائی ہیں لیکن جیسا کہ آپ میں سے ہر ایک شخص اپنے دل میں یہ یقین رکھتا ہے.آپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی اولاد ہیں اس لئے اس الہام میں خدا تعالیٰ ہم سب کو یہ کہہ رہا ہے.خذوا التوحيد التوحيد يا ابناء الفارس کہ اے فارس کے بچو تم تو حید پر قائم رہو اور اس مقام سے اِدھر اُدھر نہ جانا.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ توحید کسے کہتے ہیں؟ خالی زبان سے اللہ تعالیٰ کو ایک کہہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ٣٨ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب ی فقرہ کہ دینا کہ ہم تو حید پر قائم ہیں یہ نہ تو کوئی فائدہ دے سکتا ہے اور نہ اس کے کوئی معنے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تو حید اس چیز کا نام ہے کہ سورج چاند آسمان کے کسی ستارے، آگ، پانی یا زمین کی کسی اور چیز کو اپنا معبود نہ ٹھہراؤ اور جن چیزوں سے تم منفعت حاصل کرتے ہو ان کے متعلق یہ نہ سمجھو کہ ان میں نفع پہنچانے کی ذاتی طور پر کوئی طاقت ہے کیونکہ مخلوقات میں سے کوئی چیز اس وقت تک ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی جب تک کہ اسے آسمان سے اذن عام کے ساتھ ساتھ اذن خاص بھی نہ دیا جائے.پھر تم دنیا کے اسباب کو ایسی عزت نہ دو اور ان پر ایسا بھروسہ نہ کرو کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کے شریک ہیں.تم اپنی کوشش اور ہمت کو کچھ نہ سمجھو کہ یہ بھی تو حید باری کے خلاف ہے اور شرک کی قسموں میں سے ایک قسم ہے تم اپنے اعمال، قربانیوں اور اپنی جد و جہد پر تکیہ نہ کرو اور یہ نہ سمجھو کہ خدا کی راہ میں تمہارے اعمال ، تمہاری قربانیاں یا کوئی اور جد و جہد اپنی ذات میں کوئی خوبی رکھتی ہے اور یہ کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر صرف الہی چیزوں کے ذریعہ تم پر نجات کی راہ کھل سکتی ہے نہیں ہرگز نہیں.تم سب کچھ کر کے بھی یہ سمجھو کہ تم نے کچھ نہیں کیا تم نہ اپنے علم پر غرور کرو اور نہ اپنے اعمال پر ناز تم اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھو اور اپنے آپ کو فی الحقیقت کمزور اور ناتواں جانو.خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر دم اور ہر وقت اپنی روح گداز رکھو.اپنی عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اس کے فیوض کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرو اور یقین کرو کہ تمہارا خدا وہ زندہ خدا ہے جو اپنی ذات اور صفات میں واحد و یگانہ ہے.کوئی ذات اس کی ذات جیسی از لی اور ابدی نہیں اور نہ کسی وجود کی صفات اس کی صفات کی مانند اور مثل ہیں.یا د رکھو کہ انسان کا علم بھی ایک معلم کا محتاج ہے اس لئے وہ محدود ہے مگر اس علام الغیوب کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اس لئے وہ غیر محدود ہے.انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے اور معین طور پر میں سے ہیں ہزار صوتی لہروں تک محدود ہے ہیں سے نیچے صوتی لہر ہو تو انسان کوئی بات نہیں سن سکتا اور میں ہزار سے اوپر صوتی لہر ہو تو انسان کے کان اس طرف بالکل توجہ ہی نہیں دیتے مگر خدائے سمیع کی شنوائی اس کی ذاتی طاقت کی وجہ سے ہے اس لئے وہ غیر محدود ہے.پھر انسان کی بینائی بیرونی روشنی کی محتاج ہے اور معین ضیائی لہروں کے اندر محدود ہے مگر خدائے بصیر کی بینائی اس کی ذاتی روشنی سے ہے اس کی کوئی درجہ بندی نہیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۹ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب کی جاسکتی کیونکہ الله نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ( النور : (٣٦) اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے.پھر انسان کی تعمیری قوتیں وقت کی محتاج ہیں.ہم جو کام بھی کرتے ہیں اس کا نتیجہ نکلنے کے لئے کچھ وقت چاہیے.یہ نہیں کہ ہمارے دل نے کوئی ارادہ کیا اس میں کوئی خواہش پیدا ہوئی یا ہم نے اپنا ہاتھ ہلا یا اور اسی وقت اس کا نتیجہ نکل آیا.غرضیکہ انسان کی کوششوں کا نتیجہ ایک وقت کے بعد جا کر نکلتا ہے.پھر بسا اوقات انسانی یہ کوششیں بے نتیجہ رہ جاتی ہیں مگر خدائے خالق و باری کی قوت نہ کسی مادہ اور اسباب کی محتاج ہے اور نہ کسی وقت کی.اس کی قدرتوں کے لاکھوں کروڑوں جلوے ہر آن كُن فَيَكُونُ (البقرة : ۱۱۸) سے جلوہ گر ہوتے ہیں.یہی حال اس کی تمام صفات کا ہے کہ بے مثال و مانند ہے.غرض توحید کا یہ سبق ہے جو ہمیں پڑھایا گیا ہے.حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء اور اس کے دیگر بزرگ بندوں نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے دیکھے اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق ہی مقام تو حید اور مقام عبودیت کو حاصل کیا مگر اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا عظیم جلوہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقدر تھا وہ کسی اور کونصیب نہ ہوا اس جلوہ کی ایک جھلک تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر دیکھی اور وہ بھی جبل طور کی وساطت سے براہ راست نہیں مگر جبل طور کا پتھر پاش پاش ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اس جلوہ کی تاب نہ لا کر بیہوش ہو گئے.پھر اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا یہی جلوہ جب اپنی شان کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر ہوا تو اس نے آپ کو عاجزی اور تذلیل کے اس پر پایا کہ اس نے آپ کے وجود اور آپ کی روح کو پوری طرح اپنے احاطہ میں لے لیا اور آپ کی روح کے کسی حصہ اور آپ کے جسم کے کسی ذرہ نے بھی اس کے مقابلہ میں کوئی سختی نہ دکھائی اور آپ کلی طور پر اطاعت میں محو ہو کر عبودیت کے جلوہ کو اپنے اندر لیتے ہوئے اس کے سامنے جھک گئے تب ہم نے دیکھا کہ ہمارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبودیت تامہ کاملہ کے ارفع اور اعلی مقام پر فائز تھے.پھر ہم نے بھی دیکھا کہ انسانی تاریخ میں جہاں خدا تعالیٰ کے ہر نبی نے اس کی توحید کا نعرہ لگایا اور اپنی عبودیت کا اظہار بھی کیا وہاں جس اہتمام اور جس تاکید کے ساتھ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۰ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عبودیت کا اظہار کیا اس کی نظیر ہمیں کہیں نہیں ملتی آپ نے شروع دن سے ہی اپنے ماننے والوں کو خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کی طرف توجہ دلائی اور ان کے ذہنوں میں پختگی کے ساتھ یہ ڈال دیا کہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی طرف ہی جاتا ہے اور ہر چیز کا درجہ اور تمام فیوض کا منبع اس کی ذات ہے اور جب کوئی انسان اس کی طرف رُخ کر لیتا ہے تو پھر وہ کسی اور کی طرف اپنا رخ نہیں کرتا یا یوں کہو کہ اُسے کسی اور کی طرف رُخ نہیں کرنا چاہئے.آپ نے دنیا میں یہ اعلان کیا کہ اگرچہ میں عبودیت کے ایک اعلیٰ مقام پر فائز ہوں لیکن ہوں خدا تعالیٰ کا بندہ اس کا قرب اتم مجھے حاصل ہے اور قیامت تک اس نے صرف میرے ذریعہ سے ہی بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن جو فیوض بنی نوع انسان مجھ سے حاصل کریں گے وہ اس کے ارادہ اس کے اذن اور اس کے حکم کی وجہ سے حاصل کریں گے میری کسی ذاتی خوبی کی وجہ سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.آپ نے بار بار اٹھتے بیٹھتے اپنی مجالس میں اپنی نقاریر میں پھر بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرتے ہوئے اپنی اداؤں سے، اپنے عمل سے اور اپنی عبادات سے آپ نے اپنے اردگرد کے رہنے والوں کے اندر تو حید کے سبق کو اس طرح رچا دیا اور اس کو دماغ کے اندر اس طرح مستحکم کر دیا کہ ان کے لئے اس راہ سے بھٹکنا ممکن ہی نہ رہا اور صرف یہی نہیں بلکہ آپ کے دل نے چاہا اور آپ نے سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے ارفع مقام کی وجہ سے میرے ماننے والوں میں بعض گمراہ ہو جائیں.تب آپ اور صرف آپ نے ہی یہ حکم دیا کہ دنیا کی پستی اور بلندی سے جب تم خدائے برتر وارفع کی تکبیر اور اس کی عظمت اور جلال کا نعرہ لگاؤ اللہ اکبر کی آواز فضا میں گونجے اور اشهد ان لا اله الا اللہ کا نعرہ لگایا جائے تو اس کے ساتھ ہی واشهد ان محمدا عبدہ ورسولہ کا نعرہ ضرور لگے.یعنی جب بھی خدا تعالیٰ کی بزرگی اس کی برتری اس کی عظمت اور اس کے جلال کا نعرہ بلند ہو تو اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ حکم دیا کہ یہ نعرہ بھی بلند کرنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کا ایک بندہ ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں.کتنا خیال تھا آپ کو خدا تعالیٰ کی توحید کا، کتنا پاس تھا آپ کو اپنی بندگی کا، کتنی محبت تھی آپ کو اپنے مقامِ عبودیت کے ساتھ کہ آپ اس بات کی تاکید پر تاکید کرتے چلے گئے اور سبق پر سبق سکھاتے چلے گئے کہ جہاں خدا تعالیٰ کی عظمت ظاہر ہو وہاں آپ کے مقام عبودیت کا بھی اظہار ہو.:
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ام ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب آپ کے ماننے والوں میں سے اس سبق کو سب سے زیادہ سیکھنے والا اور یادر کھنے والا وجود جس نے مصائب اور ہموم و عموم کے اوقات میں اس سبق کو یاد رکھا اس مقام عبودیت کا عرفان رکھنے والا نازک ترین وقت میں اس کا اظہار کرنے والا وہی تھا جس نے اپنی زندگی کا ہرلمحہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کیا.میری مراد اس وجود سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وجود ہے.جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور صحابہ کے دلوں کو اس صدمہ نے توڑ دیا وہ بالکل حواس باختہ ہو گئے یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کی عقلیں ماری گئیں ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے جو ان کے دلوں میں تھی ان کے ذہنوں کی جلاء پر پردہ ڈال دیا اور وہ اس صدمہ کو برداشت نہ کر سکے.انہوں نے خیال کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وجو د فوت ہو جائے.تب خدا تعالیٰ کا بندہ یعنی حضرت ابو بکر کھڑا ہوا اور اس نے صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا (صلى الله عليه وسلّم) فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ.وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ.(صحیح بخاری کتاب الجنائز) یعنی تم میں سے جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا اس کو سمجھ لینا چاہئے کہ آپ فوت ہو گئے ہیں لیکن تم میں سے وہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے سبق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اس کی توحید پر قائم رہنے والا اور اس سے تمام برکتیں حاصل کرنے والا تھا.اُسے تمام فیوض کا سر چشمہ سمجھتا تھا اسے جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی ذات واقعی تی و قیوم ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آتی اسلام کی ساری زندگی اسی کی ذات سے قائم ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نہیں اور اب بھی اس کی زندگی خدا تعالیٰ کی ذات سے ہی قائم رہے گی.خدا تعالیٰ اب بھی زندہ ہے جیسا کہ وہ پہلے بھی زندہ تھا اور ہمیشہ زندہ رہے گا اس لئے آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات پا جانے کی وجہ سے اسلام پر موت نہیں آ سکتی تمہیں کوئی مایوسی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ وہ خدائے حی و قیوم جس نے تمہیں پہلے قائم رکھا ہوا تھا اب بھی تمہیں قائم رکھے گا اور تمہیں تباہ ہونے سے بچالے گا.غرض چونکہ خدا تعالیٰ کی ذات حی و قیوم ہے اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی وجہ سے اسلام کو کوئی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۲ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ اسلام کی زندگی کا انحصار خدائے حی و قیوم پہ ہے.اس کے استحکام اور قیام کا انحصار خدائے حتی وقیوم کی طاقتوں پر ہے.غرض یہ نعرہ تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے موقع پر بڑے پیار کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بلند کیا اور اس پیار کے ساتھ بلند کیا جو آپ کے دل کے گوشہ گوشہ سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بہہ نکلا اور اس کے چشمے پھوٹ پڑے.آج ہمارے دل بھی مجروح ہیں اور ہم ایک ایسے صدمہ سے دو چار ہوئے ہیں جس کا شاید عام انسانوں کے لیے برداشت کرنا ممکن نہ ہو.ہمارا وہ محبوب ہمارا وہ آقا جس نے باون سال تک ہم پر غیر محدود احسان کئے جس نے باون سال تک ہمارے غموں میں شرکت کی جو باون سال تک ہمارا سہارا بنا رہا جس نے باون سال تک ہمیں علم قرآن سکھایا جس نے باون سال تک ہمیں خدا تعالیٰ کے چمکتے ہوئے نشان دکھائے جس نے باون سال تک ہمیں خدا تعالیٰ کی رضا کی جستجو کے لئے جن اعمال کی ضرورت تھی وہ بتائے جس نے اتنے لمبے عرصہ تک ہماری راہ نمائی کی ہماری پرورش کی ہماری تعلیم کا خیال رکھا ہمارے یتیموں کا سہارا بنا رہا ہماری بیواؤں کی اس طرح مدد کرتا رہا کہ ہم جو حاضر رہنے والے تھے ہمیں بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون کون آپ کے احسانوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے ( کبھی اس کا ہمیں علم ہوتا تھا) پس اتنا لمبا عرصہ ساتھ رہنے والا پھر اتنی شفقت سے پیش آنے والا.اتنا احسان کرنے والا اور اتنا بابرکت وجود کہ جب بھی جماعت پر کسی مخالف نے حملہ کیا اور ایسا حملہ کیا کہ ہم میں سے ہر ایک خیال کرنے لگا کہ شاید اب جماعت کا بچنا مشکل ہو وہ آگے آیا اور اس وقت جو تیر چلائے گئے وہ سارے اس نے اپنے سینے پر لیے.جب ہم میں.بہت سے سو رہے ہوتے تھے اسی خیال سے کہ ایک دل ہے جو ہمارے لیے تڑپ رہا ہے وہ واقعی ہمارے لئے تڑپ رہا ہوتا تھا اور اپنے رب سے عاجزی، خشوع، تذلل اور تواضع کے ساتھ یہ عرض کرتا تھا کہ اے میرے خدا یہ جماعت تیرے مسیح کا لگایا ہوا پودہ ہے اور کمزور ہے پھر غریب بھی ہے.اور کم علم بھی.لیکن اے خدا یہی وہ جماعت ہے جس نے تیرے محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا ہے.اگر آج دشمن انہیں تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر تیرا ہ مقصد کیسے کامیاب ہو گا جو تو نے اس جماعت کے قیام کے وقت اپنے سامنے رکھا تھا.ہووہ.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۳ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب غرض را تیں اس نے جاگ کر گزار ہیں اور دنوں کے متعلق تو میں ذاتی طور پر گواہی دے سکتا ہوں کہ مہینوں کے بعد مہینے اور سالوں کے بعد سال گذرے جن میں آپ نے کم از کم اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام کیا.آپ نے ہر قسم کا دکھ اُٹھایا تا کہ ہم سکھ میں رہیں ہر قسم کی تکلیف برداشت کی تا کہ ہمیں کوئی غم نہ پہنچے ہر قسم کا بار اٹھایا تا ہمارے بار کو ہلکا کر جائیں.آپ کے احسان اتنے ہیں کہ نہ میں انہیں گن سکتا ہوں اور نہ آپ گن سکتے ہیں پھر آپ خدا کی منشاء، اور اس کی مرضی کے مطابق سات اور آٹھ نومبر کی درمیانی شب ہم سے جدا ہو گئے اس صدمہ کی وجہ سے ہمارے دلوں پر جو گذر رہی ہے وہ تو ہم ہی جانتے ہیں اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی میں انہیں بیان کرنے کی اس وقت جرات کروں گا.آج ہمارے دلوں کو اگر کوئی چیز سہارا دے سکتی ہے آج اگر کوئی چیز ہمارے دلوں کے لئے ڈھارس بن سکتی ہے تو وہ حضرت ابو بکر صدیق کا وہی قول ہے جو آپ نے چودہ سو سال قبل کہا اور ایسے موقع پر کہا جو اس واقعہ سے بہت بڑا تھا اور دور رس تھا وہ دنیا کے لئے اور پھر قیامت تک کے لئے ایک زلزلہ تھا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا پاک وجود اس دنیا سے اٹھ گیا اس کو یاد کر کے سارے غم بیچ ہو جاتے ہیں اسی عظیم غم کے وقت ہی خدا تعالیٰ کے اس بندے نے کہا تھا.مَنْ كَانَ مِنْكُمُ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَّا يَمُوتُ ( بخارى کا لنبی صل اللہ علیہ وسل الی کسی قیصر با مرض لنبی صلی اللہ علیہ علم و داتا کہ تم میں سے جو شخص اپنے خدا کی پرستش کرتا ہے اسے یقین کرنا چاہئے کہ ہمارے خدا کی ذات حی و قیوم ہے.پھر ہمارا خدا بڑی وفا کرنے والا ہے.وہ ہم سے اس صدمہ کے وقت بے وفائی نہیں کرے گا اور ہمیں اکیلا نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ ہماری دعاؤں اور کوششوں کے نتیجہ میں ہر آن اور ہر لحظہ ہماری مدد اور نصرت کرے گا.اصل میں ہماری ساری بڑائیاں اور ساری خوبیاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں اور ہماری ہر چیز ظلی اور ذیلی ہے.امت محمدیہ میں بڑے بڑے وجود پیدا ہوئے ہمارے نزدیک ان میں سے سب سے بڑھ کر وجود خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں لیکن آپ نے بھی یہ فرمایا ہے کہ میں نے جو کچھ پایا خدا کے بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پایا ہے اور ہم احمدی آپ کے ذریعہ جو کچھ پاتے ہیں وہ حقیقتا آ نحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۴ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب سے ہی پاتے ہیں ہمیں جو فیض پہنچ رہا ہے.وہ دراصل آنحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صرف واسطہ ہیں جو درمیان میں پیدا ہو گیا ہے ہم بھول گئے تھے آپ ہمیں یاد کرانے کے لئے آئے غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا صدمہ ایسا تھا جو آج تک بھی انسانیت بھلا نہیں سکی اور نہ قیامت تک انسان اسے بھول سکتا ہے اس کے مقابلہ میں جو صدمہ آج ہمیں پہنچا ہے وہ کم نظر آتا ہے اور ہماری نگاہیں جب چودہ سو سال قبل کی طرف جاتی ہیں تو ہمارے دلوں میں یہ اطمینان اور سکون پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بھاری صدمہ کے وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے ابو بکر کو کھڑا کیا تھا اور اس نے سب صحابہ کو یہ کہتے ہوئے تسلی دی تھی مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَقٌّ لَّا يَمُوتُ اس لئے ہم بھی آج یہی کہتے ہیں مَنْ كَانَ مِنْكُمُ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَقٌّ لَّا يَمُوتُ یہ آپ تسلی رکھیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اکیلا نہیں چھوڑے گا اس کا جو فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا ہے وہ زمین پر ضرور پورا ہو گا جب تک ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں گے اور پھر اس ایمان پر قائم رہیں گے وہ بھی ہماری مدد اور نصرت کو اسی طرح آتا رہے گا جس طرح کہ وہ پہلے آتا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی برکتیں ہم پر اسی طرح نازل ہوتی رہیں گی جیسا کہ وہ پہلے نازل ہوتی رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمارے علموں کو اسی طرح فراست اور نور بخشتا ر ہے گا جیسا کہ وہ پہلے بخشتا رہا ہے خدا تعالیٰ کی مدد کے متعلق یہ نہ سمجھو کہ وہ پیچھے رہ گئی ہے اور آگے نہیں چلے گی وہ آئندہ بھی ہمیں ملتی رہے گی.ہم اس کی ذات سے مایوس نہیں بلکہ ہمارا اللہ تعالیٰ کی ذات پر تو کل ہی ہے جو ہمیں زندہ رکھ رہا ہے ورنہ جس طرح اس باپ نے ہم سے شفقت کی اور جس طرح ہم بچوں نے اس سے پیار کیا صرف اسے دیکھا جائے تو آج ہمارے دل ٹوٹ جاتے ہمارے دل بند ہو جاتے اور ہم ایک سیکنڈ کے لئے بھی زندہ نہ رہ سکتے.غرض ہمیں آج صدمہ بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں خدا تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسہ بھی ہے اور یقین بھی ہے کہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا اور ان دو چیزوں کی ملاوٹ کی وجہ سے ہمیں زیادہ شدت کے ساتھ اپنی جدو جہد کو جاری رکھنا چاہئے اور اپنی کوششوں کو پہلے سے بہت زیادہ تیز کردینا چاہئے تا وہ دن جس کی آمد کے انتظار میں ہی ہمارا آقا اس جہاں سے رخصت.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۵ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب ہو گیا وہ جلد تر آجائے اور اسلام تمام دنیا پر غالب آجائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے تمام اقوام عالم کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں.اس کے بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے متعلق جو آپ نے مصلح موعود کے متعلق فرمائی بعض باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں کیونکہ بہت سے احمدی بھائی اور بہنیں قریب ہی عرصہ میں احمدیت میں داخل ہوئی ہیں اور بہت سے بچے نئے نئے نوجوان ہوئے ہیں.اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ مختصر شروع سے ہی اس پیشگوئی کولوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۲۰ فروری ۱۸۸۰ء کو ایک اشتہار دیا جو عام طور پر ہماری جماعت میں ”سبز اشتہار کے نام سے موسوم ہوتا ہے اس اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قدرت، رحمت اور قربت کے نشان کی ایک پیشگوئی فرمائی ہے جو ایک صالح فرزند کے تولد کے بارہ میں تھی جس نے ان صفات کے مطابق پیدا ہونا تھا جن کا ذکر اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں کیا گیا تھا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا لڑکا بموجب وعدہ الہی نو برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا.خواہ جلد ہو خواہ دیر سے.بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا“ (اشتہار ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ نمبر ۹۸) گویا سبز اشتہار میں جس فرزند جلیل کی پیشگوئی کی گئی تھی.اس کے متعلق حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے وہ نو برس کے اندر اندر ضرور پیدا ہو جائے گا اور یہ دعوئی آپ ؟ نے اپنی طرف سے نہیں کیا.بلکہ فرمایا میرا یہ کہنا بموجب وعدہ الہی ہے.بعض غیر مبائعین اس پیشگوئی کی غلط تاویلیں کرتے ہیں.انہیں خاموش کرانے کے لئے یہ ایک فقرہ ہی کافی ہے کہ بموجب وعدہ الہی نو برس کے عرصہ میں ضرور پیدا ہو گا پھر اس نشان آسمانی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں." مفہوم پیشگوئی کا اگر بنظر یکجائی دیکھا جاوے تو ایسا بشری طاقتوں سے بالا تر ہے.جس کے نشان الہی ہونے میں کسی کو شک نہیں رہ سکتا اور اگر شک ہو تو ایسی قسم کی پیشگوئی جو ایسے ہی نشان پر مشتمل ہو پیش کرے.اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ یہ صرف
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۶ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلشانہ، نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور در حقیقت یہ نشان ( فرزند موعود کا ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ و اولی و اکمل وافضل واتم ہے.مُردہ کی بھی روح دعا سے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے مگر ان روحوں اور اس روح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے.جولوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۰۰،۹۹) نو برس کی میعاد پر بعض لوگوں نے مثلاً منشی اندر من مراد آبادی نے اعتراض کیا کہ اس لمبی معیاد میں تو کوئی نہ کوئی لڑکا پیدا ہوسکتا ہے.یعنی مخالفوں نے کہا.یہ بھی کوئی پیشگوئی ہے آپ کی بیوی ہے بچے اس سے پیدا ہو رہے ہیں پہلے بھی ہوئے اور آئندہ بھی ہو سکتے ہیں پھر یہ کہہ دینا کہ نو سال کے اندر ایک لڑکا اللہ تعالیٰ عطا کرے گا.یہ کیا پیشگوئی ہوئی ہم ایسی پیشگوئی کو نہیں مانتے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.واضح ہو کہ جن صفات خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے کسی لمبی میعاد سے گونو برس سے بھی دو چند ہوتی اوس کی عظمت اور شان میں کچھ فرق نہیں آ سکتا.بلکہ صریح دلی انصاف ہر یک انسان کا شہادت دیتا ہے کہ ایسے عالی درجہ کی خبر جو ایسے نامی اور اخص آدمی کے تولد پر مشتمل ہے انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے اور دعا کی قبولیت ہوکر ایسی خبر کا ملنا بے شک یہ بڑا بھاری آسمانی نشان ہے نہ یہ کہ صرف پیشگوئی ہے“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۰۱) ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو جب حضرت مصلح موعودؓ پیدا ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آر کی پیدائش کی اطلاع اس اشتہار کے ذریعہ دی جس کا نام تکمیل تبلیغ تھا چنانچہ آپ فرماتے ہیں.خدائے عزوجل نے جیسا کہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۶ء واشتہار دسمبر ۱۸۸۶ء میں مندرج ہے.اپنے لطف وکرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اوّل کی وفات کے بعد ایک دوسرا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۷ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہوگا اور اس عاجز کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا.وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے سو آج ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں مطابق 9 جمادی الاول ۱۳۰۶ھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہو گیا ہے جس کا نام بالفعل محض تفاؤل کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی“ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۶۰ ح ، ۶۱ ( ح ) مطلب یہ ہے کہ گو تفاؤل کے طور پر میں اس بچے کا نام محمود اور بشیر رکھ رہا ہوں اور ابھی مجھے خدا تعالیٰ نے یہ نہیں بتایا کہ پسر موعود یہی لڑکا ہے یا کوئی اور لیکن جب خدا تعالیٰ کی طرف.انکشاف ہو جائے گا تو میں آپ لوگوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس انکشاف کی اطلاع آپ کو کر دوں گا اور بتا دوں گا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کیا علم دیا ہے ابھی تو میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ بچہ زندہ بھی رہے گا یا نہیں کیونکہ بشیر اول پیدا ہوا اور چند کے ماہ بعد فوت ہو گیا اس لئے جب تک خدا تعالیٰ نہ بتائے میں نہیں کہ سکتا کہ یہی وہ بچہ ہے جو مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے.لیکن میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق مجھے سے معاملہ کرے گا اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہوگا اور اگر مدت مقررہ سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا (یعنی نوسال سے ) تو خدائے عزوجل اس دن کو ختم نہیں کرے گا جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کرلے.....پس اگر حضرت باری جلشانہ کے ارادہ میں دیر سے مراد اسی قدر دیر ہے جواس پسر کے پیدا ہونے میں جس کا نام بطور تفاول بشیر الدین محمود رکھا گیا ہے ظہور میں آئی تو تعجب نہیں کہ یہی لڑکا موعود لڑکا ہو.ورنہ وہ بفضلہ تعالیٰ دوسرے وقت پر آئے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۶۱ ح ) پھر جب حضور پر کامل انکشاف ہو گیا تو اس کے متعلق حضور نے دنیا کو جو اطلاع دی وہ یہ تھی.پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑ کے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہوگا اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۸ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب شائع کئے گئے تھے.جو اب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے.چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا اور اب نویں سال میں ہے سراج منیر روحانی خزائن جلد نمبر ۱۲ صفحه ۳۶) سراج منیر ۱۸۹۷ء میں تصنیف ہوئی تھی.گویا ۱۸۹۷ء میں کامل انکشاف کے بعد حضور نے دنیا کو اپنے الفاظ میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر کیا ہے کہ جس بچے کا نام میں نے تفاؤل کے طور پر بشیر اور محمو در کھا تھا.وہی لڑکا حقیقت مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے.یہ مختصر سی تمہید میں نے صرف یہ بتانے کے لئے بیان کی ہے کہ اگر کوئی نو احمدی یا کوئی احمدی نوجوان یہ اعتراض سے کہ مصلح موعود کی پیشگوئی کسی اور وقت میں پوری ہوئی تھی ( اور خلافت سے برگشتہ لوگ جنہوں نے اپنا علیحدہ مرکز بنالیا ہے یہی پروپیگنڈا کرتے ہیں ) تو اسے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک وقت میں اشتہار دیا کہ میرے ہاں ایک بچہ پیدا ہو چکا ہے اور میں نے تفاؤل کے طور پر اس کا نام بشیر اور محمود رکھا ہے پھر (اس جگہ فرمایا گو یہ الفاظ نہیں لیکن مفہوم یہی ہے کہ میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ خود مجھے یہ علم دے گا کہ آیا پسر موعود یہی لڑکا ہے جو عمر پانے والا ہے یا اس کے بعد کوئی اور آئے گا آپ نے دنیا کو بتایا کہ مجھ پر انکشاف ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ مجھے یہ خبر دے چکا ہے کہ وہی بچہ مصلح موعود ہے جس کا نام میں نے تفاؤل کے طور پر بشیر اور محمود رکھا تھا اور جس کے متعلق میں نے سبز اشتہار میں پیشگوئی شائع کی تھی.خدا تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق وہ لڑکا پیدا ہو گیا ہے اور اب نویں سال میں ہے اس دلیل کے بعد کسی اور دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی وہ لڑکا معین ہو گیا.جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اس پیشگوئی کے مطابق مصلح موعود بن کر دنیا کی طرف آیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مصلح موعود کے متعلق جو پیشگوئی فرمائی تھی.اس کے الفاظ یہ ہیں.خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے ( جل شانہ وعز اسمہ) مجھے کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اُسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۹ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب بپا یہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے ) تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر تجھ پر اسلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں.جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں اور تاوہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے اور وہ نوراللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اُسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا ( اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے ) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ فرزند دلبند گرامی ارجمند مظهر الاول والآخر مظهر الحق والعلاء كأن الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.و کــــان امـــراً مقضياً ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۹۶،۹۵).اسی طرح یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اشتہار شائع فرمایا اور وہ بھی سبز اوراق کا اشتہار ہے اس میں حضور تحریر فرماتے ہیں.”خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا.جس کا نام محمود بھی ہے.وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا.یخلق الله مايشاء“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۵۲ح) اب ہم اس پیشگوئی کا بغور مطالعہ کرتے ہیں.تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ پیشگوئی میں پسر موعود کی جو بنیادی صفت اور خاصیت بتائی گئی ہے وہ یہ ہے.” نور آتا ہے نور باقی تمام خواص اس مرکزی نقطہ کے گردگھومتے ہیں.گزشتہ باون برس تک ہم نے انوار الہیہ کو اس پاک نفس پر بارش کی طرح برستے ہوئے دیکھا اور خود ہم نے مشاہدہ کیا کہ وہ انوار بھی اخبار غیبیہ کے رنگ میں کبھی علوم و معارف کی صورت میں اور کبھی اخلاق فاضلہ کے پیرایہ میں اس پر اپنا پر تو ڈالتے رہے تھے.وہ نظر احدیت کا منظور تھا.جس پر فضل ربانی کا عظیم الشان سایہ تھا اور دیکھنے والوں کو صریح دکھائی دیتا تھا کہ قادر مطلق کا نور اس کی صحبت میں ، اس کی توجہ میں ، اس کی ہمت میں ، اس کی دعا میں ، اس کی نظر میں ، اس کے اخلاق میں ، اس کی خوشنودی میں ، اس کے غضب میں ، اس کی رغبت میں ، اس کی نفرت میں ، اس کی حرکت میں ، اس کے سکون میں ، اس کے نطق میں، اس کی خاموشی میں ، اس کے ظاہر میں اور اس کے باطن میں ایسے بھرا ہوا تھا.جیسے ایک مصفی شیشہ ایک نہایت عمدہ اور اعلیٰ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے.ہم میں سے بہتوں نے اس کے فیض صحبت سے اور اس سے دلی تعلق پیدا کر کے وہ نورانی برکات حاصل کیں.جو مجاہدات شاقہ سے بھی حاصل نہیں ہوسکتیں اور اس سے ارادت اور عقیدت کا تعلق پیدا کرنے سے ہم میں سے بہتوں کی ایمانی حالت نے ایک دوسرا ہی رنگ پکڑا جس سے ان میں نیک اخلاق ظاہر کرنے کی طاقت پیدا ہوگئی اور نفس امارہ پر زوال آ گیا اور جن خوش بختوں کو اس کی طویل صحبت میسر آئی وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ حضرت مصلح موعود کا پاک وجود اپنی ایمانی قوتوں میں اخلاقی حالتوں میں انقطاع عن الدنیا اور توجہ الی اللہ میں،
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۱ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب محبت الہی میں ، شفقت علی العباد میں، وفا، رضا اور استقامت میں اس عالی مرتبہ پر تھا جس کی نظیر آج کی دنیا میں ملنی ممکن نہیں.غرضیکہ اس کی نورانیت اس سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں کو ہر وقت اور ہر آن منور کرتی رہی.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا.”نور آتا ہے نور اور خدا شاہد ہے کہ پسر موعود کے شامل حال ایک عظیم الشان نور تھا.براہین احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمرہ ابرار کا ذکر کیا ہے.جن پر اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے طفیل بہت سی برکتیں نازل فرماتا ہے.ان برکتوں میں سے ایک چیز ” نور“ بھی ہے.جس کی حقیقت آپ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمائی.اور حقیقت میں وہی ایک نور ہے جو اُن کے ہر یک قول اور فعل اور حال اور قال اور عقل اور فہم اور ظاہر اور باطن پر محیط ہو جاتا ہے اور صد ہاشاخیں اس کی نمودار ہو جاتی ہیں اور رنگارنگ کی صورتوں میں جلوہ فرماتا ہے.وہی نور شدائد اور مصائب کے وقتوں میں صبر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور استقامت اور رضا کے پیرا یہ میں اپنا چہرہ دکھاتا ہے.تب یہ لوگ جو اُس نور کے مورد ہیں آفات عظیمہ کے مقابلہ پر جبال راسیات کی طرح دکھائی دیتے ہیں اور جن صدمات کی ادنی مس سے نا آشنا لوگ روتے اور چلاتے ہیں بلکہ قریب بمرگ ہو جاتے ہیں ان صدمات کے سخت زور آور حملوں کو یہ لوگ کچھ چیز نہیں سمجھتے اور فی الفور حمائیت الہی کنار عاطفت میں ان کو کھینچ لیتی ہے اور کوئی خامی اور بے صبری ان سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ محبوب حقیقی کے ایلام کو برنگِ انعام دیکھتے ہیں اور بکشادگی سینہ وانشراح خاطر اس کو قبول کرتے ہیں بلکہ اس سے متلذ ذ ہوتے ہیں.کیونکہ طاقتوں اور قوتوں اور صبروں کے پہاڑ ان کی طرف رواں کئے جاتے ہیں اور محبت الہیہ کی پُر جوش موجیں غیر کی یادداشت سے ان کو روک لیتی ہیں.پس اُن سے ایک ایسی برداشت ظہور میں آتی ہے کہ جو خارق عادت ہے اور جو کسی بشر سے بلا تائید الہی ممکن نہیں اور ایسا ہی وہ نور حاجات کے وقتوں میں قناعت کی صورت میں ان پر جلوہ گر ہوتا ہے.سودنیا کی خواہشوں سے ایک عجیب طور کی بُرودت اُن کے دلوں میں پیدا ہو جاتی ہے کہ بد بودار چیز کی طرح دنیا کو سمجھتے ہیں اور یہی دنیوی لذات جن کے حظوظ پر دنیا دار لوگ فریفتہ ہیں و بشوق تمام ان کے جو یاں اور اُن کے زوال سے سخت ہر انسان ہیں یہ اُن کی نظر میں بغایت درجہ نا چیز ہو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۲ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب جاتے ہیں اور تمام سرور اپنا اسی میں پاتے ہیں کہ مولیٰ حقیقی کی وفا اور محبت اور رضا سے دل بھرا ر ہے اور اُسی کے ذوق اور شوق اور اُنس سے اوقات معمورر ہیں.اس دولت سے بیزار ہیں کہ جو اس کی خلاف مرضی ہے اور اس عزت پر خاک ڈالتے ہیں جس میں مولیٰ کریم کی ارادت نہیں اور ایسا ہی وہ نور کبھی فراست کے لباس میں ظاہر ہوتا ہے اور کبھی قوت نظریہ کی بلند پروازی میں اور کبھی قوت عملیہ کی حیرت انگیز کارگزاری میں کبھی حلم اور رفق کے لباس میں اور کبھی درشتی اور غیرت کے لباس میں.کبھی سخاوت اور ایثار کے لباس میں، کبھی شجاعت اور استقامت کے لباس میں کبھی کسی خلق کے لباس میں اور کبھی کسی خلق کے لباس میں اور کبھی مخاطبات حضرت احدیت کے پیرایہ میں اور کبھی کشوف صادقہ اور اعلامات واضحہ کے رنگ میں یعنی جیسا موقعہ پیش آتا ہے اس موقعہ کے مناسب حال وہ نور حضرتِ واہب الخیر کی طرف سے جوش مارتا ہے.نور ایک ہی ہے اور یہ تمام اس کی شاخیں ہیں جو شخص فقط ایک شاخ کو دیکھتا ہے اور صرف ایک ٹہنی پر نظر رکھتا ہے.اس کی نظر محدود رہتی ہے اس لئے بسا اوقات وہ دھوکا کھا لیتا ہے لیکن جو شخص یکجائی نگاہ سے اس شجرہ طیبہ کی تمام شاخوں پر نظر ڈالتا ہے اور ان کے انواع اقسام کے پھلوں اور شگوفوں کی کیفیت معلوم کرتا ہے.وہ روز روشن کی طرح ان نوروں کو دیکھ لیتا ہے اور نورانی جلال کی کھینچی ہوئی تلوار میں اس کے تمام گھمنڈوں کو توڑ ڈالتی ہیں.“ ہر ۵۴۷ براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد نمبر صفحه ۵۴۷ ح در ح ۵۴۸۴ ح درح) انہی انوار میں سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں.وہ ایک نور تھا وہ الہی وعدہ نو ر آتا ہے نور کے مطابق ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو ہمارے افق پر طلوع ہوا اور ے رنومبر ۱۹۶۵ء کی رات کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا گیا.انا لله وانا اليه راجعون (البقرة: ۱۵۷) 66 (۲) اس پیشگوئی میں جو دوسری بات ہمیں مصلح موعود کے متعلق بتائی گئی ہے یہ ہے کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور یہ اس لئے کہ ” تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو.“ اور ” تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں.موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۳ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں ہم میں سے ہزاروں لاکھوں نے خود مشاہدہ کیا کہ قرآن کریم کی سچی متابعت اور اس مطہر صحیفہ سے کامل محبت اور اخلاص کے فیض سے اس پاک وجود مصلح موعودؓ کی نظر اور فکر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو تمام فیوض کا سر چشمہ ہے.ایک نور عطا ہوا.جس سے علم الہی کے عجیب وغریب لطائف اور نکات جو کلام الہی اور کتاب مکنون میں پوشیدہ تھے.اس پر کھلنے لگے اور دقیق معارف ابر نیساں کے رنگ میں اس پر برسنے لگے اور خدائے وہاب نے اپنی رحمانیت سے اس کے فکر اور نظر کو ایک ایسی برکت عطا کی کہ اس کے آئینہ فکر ونظر پر کامل صداقتیں منکشف ہونے لگیں.سوجو جو علوم و معارف اور دقائق و حقائق اور لطائف و نکات اور ادلہ و براہین اُسے سو جھے اور جنہیں اس نے تفسیر کبیر اور اپنی دوسری کتب میں بیان کیا.وہ اپنی کمیت اور کیفیت میں ایسے کامل مرتبہ پر واقع ہیں کہ جو یقیناً خارق عادت ہے اور جس کا مقابلہ کسی دوسرے کے لئے ممکن نہیں.کیونکہ تفسیر کا یہ خارقِ عادت معجزہ اس کی کسی ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اسے غیبی تفہیم اور خدائے صمد اور قدوس کی تائید سے اس نے لکھا تھا اور یہی خوارق اس کی عالی منزلت اور حسن و احسان میں مسیح محمدی کا مثیل ہونا ثابت کرتے ہیں اور خدائی بشارات اور الہی تفہیم کے مطابق دین و دنیا کے علوم ونکات کے بیان میں وہ اپنے ہم عصروں سے اس قد ر سبقت لے گیا کہ اس کی تقریروں کو سُن کر اور اس کی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے اور پرائے اس اعتراف پر مجبور ہوئے کہ اس کے بیان کردہ علوم ومعارف ایک دوسرے ہی عالم سے ہیں.جن کا دنیوی تعلیم و تدریس سے دُور کا بھی واسطہ نہیں اور جو تائیدات الہیہ کے خاص رنگ سے رنگین ہیں اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت نے حضرت مصلح موعودؓ کو علوم ظاہری اور باطنی میں برتری عطا کی تھی اور اسلام کا شرف اور کلام اللہ مرتبہ لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے جو قو تیں آپ کو بخشی گئیں ان کو ثابت کرنے کے لئے آپ نے متعدد بار دنیا کوللکارا مگر کوئی نہ تھا جو آپ کے مقابلہ پر آنے کی جرات کرتا.۱۹۱۷ء میں آپ تمام دنیا کو مندرجہ ذیل الفاظ میں چیلنج دیا.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد تمام دنیا کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ایسا ہے جسے اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کے سچا ہونے کا یقین ہے.تو آئے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۴ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب اور آ کر ہم سے مقابلہ کرے.مجھے تجربہ کے ذریعہ ثابت ہو گیا ہے کہ اسلام ہی زندہ مذہب ہے اور کوئی مذہب اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا.کیونکہ خدا تعالیٰ ہماری دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے اور ایسے حالات میں قبول کرتا ہے جبکہ ظاہری سامان بالکل مخالف ہوتے ہیں اور یہی اسلام کے زندہ مذہب ہونے کی بہت بڑی علامت ہے.اگر کسی کو شک وشبہ ہے تو آئے اور آزمائے ہاتھ کنگن کو آرسی کیا.اگر کوئی ایسے لوگ ہیں.جنہیں یقین ہے کہ ہمارا مذہب زندہ ہے تو آئیں ان کے ساتھ جو خدا کا تعلق اور محبت ہے اس کا ثبوت دیں.اگر خدا کو ان سے محبت ہوگی تو وہ مقابلہ میں ضرور ان کی مدد اور تائید کرے گا.....میں ان کو چیلنج دیتا ہوں کہ مقابلہ پر آئیں.تاکہ ثابت ہو کہ خدا کس کی مدد کرتا ہے اور کس کی دعا سنتا ہے.آپ لوگوں کو چاہئے کہ اپنی طرف سے لوگوں کو اس مقابلہ کے لئے کھڑا کریں.لیکن اس کے لئے یہ نہیں ہے کہ ہر ایک کھڑا ہو کر کہہ دے کہ میں مقابلہ کرتا ہوں بلکہ ان کو مقابلہ پر آنا چاہیے.جو کسی مذہب یا فرقہ کے قائم مقام ہوں.اُس وقت دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا کس کی دعا قبول کرتا ہے.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہماری ہی دعا قبول ہو گی افسوس ہے کہ مختلف مذاہب کے بڑے لوگ اس مقابلہ پر آنے سے ڈرتے ہیں.اگر وہ مقابلہ کے لئے نکلیں تو ان کو ایسی شکست نصیب ہوگی کہ پھر مقابلہ کرنے کی انہیں جرات ہی نہ رہے گی ( زندہ مذہب انوار العلوم جلد نمبر ۳ صفحه۶۱۲ ۶۱۳) ۱۹۳۶ء میں آپ نے دنیا کو یہ چیلنج دیا: قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی اور کسی کتاب کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا یہ دعوی ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی توریت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی ایسا استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں بھی استعارہ سمجھوں.پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی پیش نہ کر دوں تو وہ بیشک مجھے اس دعوی میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کر دوں تو اُسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی اور کوئی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۵ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں فضائل القرآن (۶).انوار العلوم جلد نمبر ۱۴ صفحہ ۴۰۸) ۱۹۳۸ء میں آپ نے فرمایا.صرف یہی نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں ہی یہ بات تھی بلکہ آپ آگے بھی یہ چیز دے گئے ہیں اور آپ کے طفیل مجھے بھی ایسے قرآن کریم کے معارف عطا کئے گئے ہیں کہ کوئی شخص خواہ وہ کسی علم کا جاننے والا اور کسی مذہب کا پیرو ہو.قرآن کریم پر جو چاہے اعتراض کرے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قرآن کریم سے ہی اس کا جواب دوں گا.میں نے بار ہا دنیا کو چیلنج کیا ہے کہ معارف قرآن میرے مقابلہ میں لکھو حالانکہ میں کوئی مامور نہیں ہوں مگر کوئی اس کے لئے تیار نہیں ہوا.اور اگر کسی نے اُسے منظور کرنے کا اعلان بھی کیا تو بے معنی شرائط سے مشروط کر کے ٹال دیا.مثلاً یہ کہ بند کمرہ ہو کوئی کتاب پاس نہ ہو مگر اتنا نہیں سوچتے کہ اگر خیال ہے میں پہلی کتب اور تفاسیر سے معارف نقل کولوں گا.تو وہی کتب تمہارے پاس بھی ہوں گی تم بھی ایسا ہی کر سکتے ہو.پھر اگر میں دوسری کتب سے نقل کروں گا.تو خود اپنے ہاتھ سے اپنی ناکامی ثابت کر دوں گا.کیونکہ میرا دعویٰ تو یہ ہے کہ نئے معارف بیان کروں گا لیکن مقابلہ کے وقت جب پرانی تفاسیر سے نقل کروں گا.تو خود ہی میرے لیے شرمندگی اور ندامت کا موجب ہو گا مگر میں جانتا ہوں یہ سب بہانے ہیں حقیقت یہ ہے کہ کسی کو سامنے آنے کی جرات ہی نہیں تحقیق حق کا صحیح طریق.انوار العلوم جلد نمبر ۱۳ صفحہ ۴۱۱،۴۱۰) پھر مارچ ۱۹۴۴ء میں آپ نے دنیا کو للکارا اور چیلنج دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتہ کے ذریعہ مجھے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا ہے اور میرے اندر اس نے ایسا ملکہ پیدا کر دیا ہے کہ جس طرح کسی کو خزانہ کی کنجی مل جاتی ہے.اسی طرح مجھے قرآن کریم کے علوم کی کنجی مل چکی ہے دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آئے اور میں قرآن کریم کی افضلیت اس پر ظاہر نہ کر سکوں یہ لاہور شہر ہے.یہاں یونیورسٹی موجود ہے کئی کالج یہاں کھلے ہوئے ہیں بڑے بڑے علوم کے ماہر اس جگہ پائے جاتے ہیں.میں ان سب سے کہتا ہوں دنیا کے کسی علم کا ماہر میرے سامنے آ جائے.دنیا کا کوئی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۶ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب پروفیسر میرے سامنے آجائے.دنیا کا کوئی سائنسدان میرے سامنے آ جائے اور وہ اپنے علوم کے ذریعہ قرآن کریم پر حملہ کر کے دیکھ لے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے ایسا جواب دے سکتا ہوں کہ دنیا تسلیم کرے گی کہ اس کے اعتراض کا رڈ ہو گیا اور میں دعویٰ کرتا ہوں کہ میں خدا کے کلام سے ہی اس کو جواب دوں گا اور قرآن کریم کی آیات کے ذریعہ سے ہی اس کے اعتراضات کو رد کر کے دکھا دوں گا.“ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں.انوار العلوم جلد نمبر ۷ اصفحہ ۲۲۷) دسمبر ۱۹۴۴ء میں فرمایا :.ایسا انسان جس کی صحت کبھی ایک دن بھی اچھی نہیں ہوئی اس انسان کو خدا نے زندہ رکھا اور اس لئے زندہ رکھا کہ اس کے ذریعہ اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ثبوت لوگوں کے سامنے مہیا کرے.پھر میں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لئے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے.وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایاوہ چشمہ روحانی جو میرے سینے میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے.بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعوی کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اس سے مقابلہ کے لئے تیار ہوں لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو.خدا نے مجھے علیم قرآن بخشا ہے اور اس زمانہ میں اس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں.دنیا زور لگا لے وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں.یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے دنیا کی تمام بڑی بڑی مال دار اور طاقتور قو میں اکٹھی ہو جائیں اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۷ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب مجھے اس مقصد میں نا کام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں.پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور وہ خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا.جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے.....میں اس سچائی کو نہایت کھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں یہ آواز وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی آواز ہے یہ مشیت وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی مشیت سے ہے.یہ سچائی نہیں ملے گی.نہیں ملے گی.اور نہیں ٹلے گی.اسلام دنیا پر غالب آ کر رہے گا مسیحیت دنیا میں مغلوب ہو کر رہے گی.اب کوئی سہارا نہیں جو عیسائیت کو میرے حملوں سے بچا سکے خدا میرے ہاتھ سے اس کو شکست دے گا اور یا تو میری زندگی میں ہی اس کو اس طرح مچل کر رکھ دے گا کہ وہ سراٹھانے کی بھی تاب نہیں رکھے گی اور یا پھر میرے بوئے ہوئے بیج سے وہ درخت پیدا ہوگا جس کے سامنے عیسائیت ایک خشک جھاڑی کی طرح مرجھا کر رہ جائے گی اور دنیا میں چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا انتہائی بلندیوں پر الموعود، انوار العلوم جلد ۱۷ ۶۴۶ تا ۶۴۸) اڑتا ہوا دکھائی دے گا“ پھر آپ نے فرمایا: ” خدا تعالیٰ کی صفت علیم جس شان اور جس جاہ وجلال کے ساتھ میرے ذریعہ جلوہ گر ہوئی اس کی مثال مجھے خلفاء کے زمرہ میں اور کہیں نظر نہیں آتی.میں وہ تھا جسے کل کا بچہ کہا جاتا تھا.میں وہ تھا جسے احمق اور نادان قرار دیا جاتا تھا مگر عہدہ خلافت کو سنبھالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم اتنی کثرت کے ساتھ کھولے کہ اب قیامت تک امت مسلمہ اس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں کو پڑھے اور ان سے فائدہ اٹھائے وہ کون سا اسلامی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۸ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا.مسئلہ نبوت ، مسئلہ کفر، مسئله خلافت، مسئله تقدیر، قرآنی ضروری امور کا انکشاف اسلامی اقتصادیات، اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرت وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون موجود نہیں تھا.مجھے خدا نے اس خدمت دین کی توفیق دی اور اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی ان مضامین کے متعلق قرآن کے معارف کھولے.جن کو آج دوست دشمن سب نقل کر رہے ہیں.مجھے کوئی لاکھ گالیاں دے.مجھے لاکھ برا بھلا کہے.جو شخص اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے لگے گا.اسے میرا خوشہ چیں ہونا پڑے گا اور وہ میرے احسان سے کبھی باہر نہیں جاسکے گا چاہے پیغامی ہوں یا مصری.ان کی اولادیں جب بھی دین کی خدمت کا ارادہ کریں گی.وہ اس بات پر مجبور ہوں گی کہ میری کتابوں کو پڑھیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں بلکہ میں بغیر فخر کے کہہ سکتا ہوں کہ اس بارہ میں سب خلفاء سے زیادہ مواد میرے ذریعہ سے جمع ہوا ہے اور ہورہا ہے پس مجھے یہ لوگ خواہ کچھ کہیں.خواہ کتنی بھی گالیاں دیں ان کے دامن میں اگر قرآن کے علوم پڑیں گے تو میرے ذریعہ ہی اور دنیا ان کو یہ کہنے پر مجبور ہوگی کہ اے نادانو ! تمہاری جھولی میں تو جو کچھ بھرا ہوا ہے.وہ تم نے اسی سے لیا ہے پھر اس کی مخالفت تم کس منہ سے کر رہے ہو.“ خلافت راشدہ انوار العلوم جلد نمبر ۱۵ صفحه ۲۸۷، ۲۸۸) خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اس کے متعلق میں نے بہت سی تفصیلات جمع کی تھیں لیکن اس وقت میں صرف وہ نقشہ ہی پیش کر سکتا ہوں جو میں نے اس غرض کے لئے تیار کر وایا ہے اور وہ یہ ہے.ا تفسیر اس سلسلہ میں حضور کی ایک کتاب تو تفسیر کبیر ہے جو خود اتنی عجیب تفسیر ہے کہ جس شخص نے بھی غور سے اس کے کسی ایک حصہ کو پڑھا ہوگا وہ یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا کہ اگر دنیا میں کوئی خدا رسیده بزرگ پیدا ہوتا اور وہ صرف یہ حصہ قرآن کریم کا تفسیری نوٹوں کے ساتھ شائع کر دیتا تو یہ اس کو دنیا کی نگاہ میں بزرگ ترین انسانوں میں سے ایک انسان بنانے کے لئے کافی تھا یعنی اس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۹ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب پر ہی بس نہیں.قرآن کریم پر اور بہت سی کتب لکھیں اور میرا خیال ہے کہ حضور نے صرف قرآن کریم کی تفسیر پر ہی آٹھ دس ہزار صفحات لکھے ہیں تفسیر کبیر کی گیارہ جلدات بھی ان میں شامل ہیں.۲.کلام کے اوپر حضور نے دس کتب اور رسائل لکھے.۳.روحانیات، اسلامی اخلاق اور اسلامی عقائد پر اکتیس کتب اور رسائل تحریر فرمائے ۴.سیرت وسوانح پر تیرہ کتب ورسائل لکھے.۵.تاریخ پر چار کتب و رسائل.۶.فقہ پر تین کتب ورسائل.ے.سیاسیات قبل از تقسیم ہند چھپیں کتب و رسائل.۸.سیاسیات بعد از تقسیم ہند و قیام پاکستان نو کتب و رسائل.۹.سیاسیات کشمیر پندرہ کتب اور رسائل.۱۰ تحریک احمدیت کے مخصوص مسائل و تحریکات پر ایک کم سوکتب و رسائل.ان سب کتب و رسائل کا مجموعہ ۲۲۵ بنتا ہے.تو جیسا کہ فرمایا تھا.وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا حضور کی ان کتب پر ایک نظر ڈال لیں تو ان میں علوم ظاہری بھی نظر آتے ہیں اور علوم باطنی بھی نظر آتے ہیں اور پھر لطف یہ کہ جب بھی آپ نے کوئی کتاب یا رسالہ لکھا.ہر شخصی نے یہی کہا کہ اس سے بہتر نہیں لکھا جا سکتا سیاست میں جب آپ نے قیادت سنبھالی یا جب بھی آپ نے سیاست کے بارہ میں قائدانہ مشورے دیئے بڑے سے بڑا مخالف بھی آپ کی بے مثال قابلیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا.غرض حضور کے علوم ظاہری و باطنی سے پر ہونے کے متعلق ایک بڑی تفصیل ہے جس کے ہزارویں حصہ میں بھی میں نہیں جاسکتا صرف ایک سرسری سی چیز آپ کے سامنے رکھ کر اس حصہ کو ختم کرتا ہوں پھر دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ اقوام عالم پر ظاہر کرنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ علوم و معارف جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے آپ کو عطا ہوئے.ان کا ترجمہ مختلف زبانوں میں کیا جائے.اگر خالی اردو میں ہی وہ علوم لکھے جاتے تو آپ کا دعوی بے معنی بن کر رہ جاتا کیونکہ غیر ممالک اور غیر اقوام اس سے فائدہ حاصل نہ کر سکتیں.پس اگر اس مصلح موعود کے ذریعہ سے دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ تمام اقوام عالم پر ظاہر ہونا تھا.تو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۰ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب اس کے ذریعہ ظاہر ہونے والے علوم و معارف کا ترجمہ تمام دنیا کی زبانوں یا دنیا کی ان زبانوں میں ہونا ضروری تھا.جو دنیا کے اکثر حصوں میں بولی اور مجھی جاتی ہیں مجھے ابھی خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ جو تد بیر کی کہ دنیا کے بہت سے ممالک صرف دو تین قوموں کے سیاسی اقتدار کے نیچے آگئے.اس میں دنیا کے لئے ایک بڑا روحانی فائدہ مضمر تھا اور وہ فائدہ یہ تھا کہ اشاعت اسلام کا کام آسان ہو جائے.ورنہ مسیح محمدی کے زمانہ میں اس وقت تک آپ کا پیغام تمام دنیا میں نہیں پہنچ سکتا تھا جب تک دنیا کی ساری زبانوں میں اس کا ترجمہ نہ کیا جاتا چونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت دنیا کی اقوام میں سے کچھ تو میں انگریزوں کے اقتدار کے نیچے آگئیں کچھ فرانسیسیوں کے اقتدار کے نیچے آ گئیں اور کچھ جرمنوں کے اقتدار کے نیچے آگئیں.اس لئے ہم اسلام کا پیغام ان تین زبانوں کے ذریعہ اقوام عالم کی خاصی بڑی تعداد تک پہنچا سکتے ہیں.اگر روسی اور چینی بھی شامل کر لئے جائیں تو پھر میرا خیال ہے کہ اسی نوے فیصدی آبادی کو ہمارا پیغام پہنچ جاتا ہے.ورنہ ہمارے لئے بہت زیادہ جد و جہد اور کوشش اور قربانیوں اور مال خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی اللہ تعالیٰ کے سارے ہی کام حکمت سے پُر ہوتے ہیں.اللہ اکبر.غرض یہ ضروری تھا کہ ان علوم و معارف کا ترجمہ دوسری زبانوں میں کروایا جا تا چنانچہ اس کی طرف حضور نے خاص توجہ دی اور بڑی کوشش فرمائی سب سے ضروری کام تو قرآن کریم کے حیح تراجم کا دنیا میں پھیلانا تھا.چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے جو کام شروع کروائے ان میں سے کچھ تو پورے ہو گئے ہیں اور کچھ پورے ہونے والے ہیں.انگریزی زبان میں ترجمہ قرآن کریم (جیسا کہ آپ جانتے ہیں ) شائع ہو چکا ہے اس طرح تفسیر القرآن بھی شائع ہو چکی ہے.جرمنی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے نیز سورۂ کہف کی تفسیر بھی شائع ہو چکی ہے ڈچ زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے ڈینش زبان میں قرآن کریم کے پہلے سات پاروں کا ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹ شائع ہو چکا ہے.مشرقی افریقہ کے لئے سواحیلی زبان میں ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹ شائع ہو چکا ہے.لو گنڈی زبان میں قرآن کریم کے پہلے پانچ پاروں کا ترجمہ مع تفسیری نوٹ شائع ہو چکا ہے.مغربی افریقہ کے لئے مینڈی زبان میں پہلے پارہ کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے اس کے علاوہ کئی تراجم
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۱ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب کئے گئے ہیں.فرانسیسی زبان میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے نظر ثانی ہو رہی ہے ہسپانوی زبان میں رجمہ مکمل ہو چکا ہے نظر ثانی ہو رہی ہے.اٹالین زبان میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے.نظر ثانی ہو رہی ہے.روسی زبان میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے.پرتگیزی زبان میں ترجمہ تیار ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے.ڈینش زبان میں بقیہ تیس پاروں کا ترجمہ مع تفسیری نوٹ تیار ہے.طباعت کا انتظام کیا جا رہا ہے مشرقی افریقہ کے لئے کیکو یو زبان میں ترجمہ تیار ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے.کیکامبا زبان میں ترجمہ تیار ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے مغربی افریقہ کے لئے مینڈی زبان میں بقیہ ۲۹ پاروں میں سے ۲۰ پاروں کا ترجمہ ہو چکا ہے 9 پاروں کا ترجمہ کروایا جا رہا ہے.انڈونیشین زبان میں دس پاروں کا ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹ مکمل ہے بقیہ بھی زیر تکمیل ہے.تراجم قرآن کریم کے علاوہ بہت سی کتب کا حضور نے مختلف زبانوں میں ترجمہ کروایا اور ان کی اشاعت کروائی مثلاً احمدیت یعنی حقیقی اسلام، اسلامی اصول کی فلاسفی وغیرہ جن کتابوں کا ترجمہ دوسری زبانوں میں کروایا گیا ہے.ان کی فہرست بڑی لمبی ہے.یہاں بیان نہیں کی جاسکتی غرض قرآن کریم کے علوم اور معارف جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائے تھے.ضروری تھا کہ ان کو کثرت سے دنیا میں پھیلایا جاتا اور یہ کام ہو نہیں سکتا تھا جب تک کہ ان کے تراجم دوسری زبانوں میں نہ کرائے جاتے اور اس کام کو بڑی حد تک حضرت مصلح موعودؓ نے پورا کیا اور بہت سا کام باقی ہے وہ انشاء اللہ اپنے وقت پر ہو جائے گا.پھر دنیا اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ بنی نوع انسان پر ظاہر کرنے کے لئے تمام دنیا میں مساجد کا ایک جال پھیلایا جانا ضروری تھا.حضور نے اس کی طرف بھی خاص توجہ دی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک کئی ممالک میں مساجد تعمیر کروائی جاچکی ہیں.مساجد کے متعلق یا د رکھنا چاہے کہ مساجد دینی علوم سیکھنے کے لئے درس گاہوں کا کام دیتی ہیں اور تربیت کے لئے مساجد کا ہونا نہایت ضروری ہے.اگر مسجد کو اخلاص، نیک نیتی اور اس 66 عَلَى التَّقْوى مِنْ أَوَّلِ يَوْم " کے طور پر بنایا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر ایک نمازی بھی نہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اس قسم کی مساجد کے لئے نمازی پیدا کر دیتا ہے.غرض مساجد انسانی معاشرہ کے اندر بڑا ضروری کردار ادا کرتی ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرف
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۲ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب خاص توجہ دی اور آپ کے مبارک عہد میں جو مساجد تعمیر ہوئیں.ان کی فہرست درج ذیل ہے.امریکہ، ۳ انگلستان، ۱.سوئٹزرلینڈ ، ۱.ہالینڈ، ا.فلسطین، ا.برما، ۲.ماریشس،.اندونیشیا، ۷.غانا، ۱۶۲.سیرالیون، ۳۰.نائیجیریا، ۲۰.یوگنڈا، ۴.کینیا ، ۳.ٹانگانیکا ، ۲.جرمنی ۲.شمالی بور مینو ۳ کل تعداد ۳۳۱.ان کے علاوہ مندرجہ ذیل مقامات پر مساجد زیر تعمیر ہیں.ا.ہمالے (غانا) ۲.مسا کا ( یوگنڈا ) ۳.ٹانگا ( تنزانیہ ) ۴.گیمبیا ( جس کے گورنر جنرل ماکہ میں نے شروع میں بتایا تھا.ایک احمدی دوست مقرر ہوئے ہیں ) ۵.فری ٹاؤن ( سیرالیون ) ۶.نائیجیریا میں اس وقت پانچ مساجد زیر تعمیر ہیں..ڈنمارک میں احمدی بہنوں کی کوشش اور چندہ سے ایک مسجد بنانے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اس کا انتظام کیا جا رہا ہے.پھر دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ اقوام عالم پر ظاہر کرنے کے لئے یہ بھی نہایت ضروری تھا کہ ایسے مخلصین کا ایک گروہ تیار کیا جائے جو نا مساعد حالات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اکناف عالم میں پھیل جائے اور وہ ملک کے قریہ قریہ میں اسلام کی نورانی شمعیں فروزاں کرتے چلے جائیں.حضور کی توجہ سے ایک سو چونسٹھ ایسے واقفین پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے اپنے وقتوں میں مندرجہ ذیل ممالک میں اسلام کی اشاعت کا فریضہ ادا کرنے کی سعادت حاصل کی.انگلستان ، فرانس، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ، سپین، ڈنمارک، سویڈن ، ہنگری، سلی ، اٹلی، روس ، جرمنی، انڈونیشیا، سنگا پور، ملائشیا، جزائر فجی ، بور نیو، برما، ہانگ کانگ، ایران، جاپان، فلپائن، سیلون، شام، لبنان، عدن، دوبئی، فلسطین، اردن، مسقط، مصر، غانا، سیرالیون، ٹوگو لینڈ ، لائبیریا، آئیوری کوسٹ، نائیجیریا ، گیمبیا ، کینیا ، یوگنڈا ، تنزانیہ ، ماریشس ، برٹش گی آنا ، ٹرینی ڈاڈ ، ڈچ گی آنا ، ارجنٹائن یا حضور نے اپنے عہد مبارک میں چھیالیس ملکوں میں اپنے مشن قائم کیے اور ان مشنوں نے جو کام کیا وہ اتنازیادہ ہے کہ اسے مہینوں میں بھی بیان نہیں کیا جاسکتا.غیر ممالک میں ہماری جماعتیں بڑی ہی مخلص ہیں ان کے ممبران صرف نام کے احمدی یا مسلم ہی نہیں بلکہ وہ تو حید باری پر پختگی سے قائم، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق صادق اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۳ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت سے سرشار ہیں.ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن سے خدا تعالیٰ ہم کلام ہوتا ہے بہت سے ایسے ہیں جنہیں بچی خوا ہیں آتی ہیں اور ہر رنگ میں وہ روحانی نعمتوں سے مالا مال ہیں.حضور کے وصال پر ان احباب کی طرف سے جو خطوط ملے ہیں ان سے ان کے اخلاص کا علم ہوتا ہے ان خدا رسیدہ لوگوں میں سے ایک کا خواب میں بطور نمونہ سناتا ہوں تا وہ دوستوں کے از دیا دایمان کا موجب ہو.وہ خدا رسیدہ اور دین اسلام کا ایک حبشی تھا جس کا رنگ سیاہ اور ہونٹ لٹکے ہوئے تھے دنیا کی مہذب قو میں اسے حقارت سے دیکھتی تھیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل خدا تعالیٰ کی نظر کرم اس پر پڑی اور وہ اس سے ہم کلام ہوا یہ ہیں ہمارے دوست امری عبیدی اور ان کا انتخاب میں نے اس لئے بھی کیا ہے کہ وہ کچھ عرصہ ہوا جوانی کی عمر میں فوت ہو گئے ہیں یہ دوست احمدیت کے شیدائی اور فدائی تھے ربوہ میں بھی کچھ عرصہ رہ کر گئے ہیں وہ خواب بین انسان تھے انہیں بڑی واضح اور سچی خوا ہیں خدا تعالیٰ نے دکھا ئیں.ایک دفعہ انہوں نے سنایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مسٹر جولیس نرمیرے (Mr.Julius Nyerere) کرسی پر بیٹھے ہیں مجھے دیکھ کر وہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کرسی پر مجھے بٹھا دیا کچھ عرصہ تک وہ اس کی کوئی اور تعبیر سمجھتے رہے لیکن یہ خواب اس طرح پوری ہوئی کہ آزادی کے بعد لیجسٹو کونسل (Legistive Council) بنی اس کے افریقن ممبران کی ایک سوسائٹی تھی اور جو لیس نریرے جوٹا نگانیکا افریقن نیشنل یونین کے پریذیڈنٹ ہونے کے باعث لیجسٹو کونسل (Legistive Council) کی افریقن پارٹی کے لیڈر تھے اس سوسائٹی کے صدر تھے.دوسرے سال جب سوسائٹی کا انتخاب ہوا.تو مسٹر جولیس نریرے کو دوبارہ صدر چن لیا گیا سوسائٹی کے اس اجلاس میں مسٹر جو لیس نمیرے موجود نہیں تھے.انہیں اطلاع بھجوائی گئی چنانچہ وہ آئے انہوں نے آ کر شیخ امری عبیدی کو جو اس وقت لیجسٹو کونسل کے ممبر بن چکے تھے بازو سے پکڑا اور کرسی پر بٹھا دیا اور کہا کہ یہ آپ کے چیئر مین ہیں.گویا خواب میں جو کچھ انہوں نے دیکھا تھا.خدا تعالیٰ نے اسے لفظ بلفظ پورا کر دیا اور یہ اسلام اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا نتیجہ تھا جسے دیکھ کر دوسرے لوگ اسلام کے گرویدہ ہو رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف مائل ہورہے ہیں خالی دلائل کے ساتھ یہ اخلاص پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے قوت قدسیہ کی ضرورت تھی اس نور کی ضرورت
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۴ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب تھی جور بوہ میں بیٹھا تھا.اس کی نورانی کرنیں ایک طرف افریقہ کے ممالک میں پہنچ رہی تھیں اور دوسری طرف یورپ اور امریکہ کے ممالک کو روشن کر رہی تھیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو کچھ کہا تھا وہ لفظ بلفظ پورا ہوا کہ.وو وو وہ اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا“ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی“ آپ یہ سن کر خوش ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بیرونِ ممالک میں قائم ہونے والی جماعتوں میں سے بعض اپنی قربانیوں میں ہم سے کم نہیں مثلاً انڈونیشیا کے چندہ دہندگان کی تعداد قریباً پاکستان کے چندہ دہندگان کے برابر ہوتی جارہی ہے.اسی طرح افریقین ممالک میں بڑی قربانی کرنے والی جماعتیں ہیں وہ مالی قربانیاں بھی کرتی ہیں ، وقت کی قربانیاں بھی کرتی ہیں اور عبادت گزار بھی ہیں.ان لوگوں کا نمونہ اور اللہ تعالیٰ کا ان کے ساتھ جو سلوک ہے وہ غیروں کو اسلام کی طرف کھینچنے والا اور جذب کرنے والا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں ایک اور بات بھی بتائی ہے کہ ”ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے، اس کے کئی معنے ہو سکتے ہیں.مثلاً روح کے ایک معنے قرآنی محاورہ میں یہ ہیں کہ وہ کلام جو اُخروی حیات کا سبب اور ایک ذریعہ ہو.گویا قرآنی محاورہ میں روح قرآن کریم کو کہا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا (الشورى ۵۳) اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہ مرتبہ عالیہ حضرت مصلح موعودؓ کو بکمال حاصل تھا.خدا تعالیٰ.آپ کی معرفت کو اور آپ کی خدا شناسی کو بذریعہ کشوف صادقہ اور الہامات صریحہ اور مکالمات و مخاطبات کمال تک پہنچا دیا ہوا تھا.چنانچہ سرسری تحقیق کے بعد جو علم مجھے حاصل ہوا ہے یہ ہے کہ حضور کے رویائے صالحہ اور کشوف کی مجموعی تعداد کم و بیش پانچ سو اور حضور کے الہامات کی تعداد ۸۸ کے قریب ہے.غرض یہ ایک بڑا مجموعہ ہے اور ابھی تو یہ محض سرسری ہے بہت ممکن ہے ان کی تعداد
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب اس سے زیادہ ہو لیکن اتنی تو بہر حال ہے ان پیشگوئیوں میں سے جو حضور نے بیان فرمائیں لیکن بعض بطور نمونہ دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.ایک پیشگوئی جو حضور نے بیان فرمائی یہ ہے.ہماری جماعت کی ترقی کا زمانہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت قریب آ گیا ہے اور وہ دن دور نہیں جبکہ افواج در افواج لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے.مختلف ملکوں سے جماعتوں کی جماعتیں داخل ہوں گی اور وہ زمانہ آتا ہے کہ گاؤں کے گاؤں اور شہر کے شہر احمدی ہوں گے اور ابھی سے مختلف اطراف سے خوشخبری کی ہوائیں چل رہی ہیں اور جس طرح خدا کی یہ سنت ہے کہ بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے تا کہ غافل لوگ آگاہ ہو جائیں اور اپنے مال و اسباب کو سنبھال لیں.اس طرح خدا تعالیٰ نے ہماری ترقی کی ہوائیں چلا دی ہیں پس ہوشیار ہو جاؤ.آپ لوگوں میں سے خدا کے فضل سے بہت سے ایسے ہیں.جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پائی ہے.آپ کے منہ سے باتیں سنی ہیں.آپ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ آنے والوں کے لئے ہدایت اور راہنمائی کا باعث ہوں.کیونکہ کوئی ایک شخص بہتوں کو نہیں سکھا سکتا“ (انوار خلافت.انوار العلوم جلد ۳ صفحه ۱۶۵) اب دیکھیں کہ حضور کی یہ پیشگوئی کہ وہ دن دور نہیں کہ جب اس سلسلہ میں مختلف ملکوں.جماعتیں کی جماعتیں داخل ہوں گی.کس شان سے پوری ہورہی ہے.یہ الفاظ حضور نے ۱۹۱۵ء میں کہے تھے اور ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کا افتتاح ہوا ہے.جس کے ذریعہ غیر ممالک میں با قاعدہ تبلیغ جاری کی گئی ہے.۱۹۱۵ء میں تو کچھ بھی نہیں تھا.۱۹۱۴ء میں جماعت کے صاحب اثر لوگ مرکز سے لاہور چلے گئے اور خزانہ اور دوسرا سامان ساتھ لے گئے.جب خلافت ثانیہ قائم ہوئی ہے اس وقت خزانہ میں صرف چند آنے تھے اور ۱۹۱۵ء میں حضور نے مذکورہ بالا پیشگوئی کی ہے.اب ظاہر ہے کہ ایک سال اور چند ماہ میں جماعت کی قوت اور طاقت اتنی نہیں بڑھی تھی کہ اس کو دیکھتے ہوئے کوئی قیاس یہ الفاظ کہ سکتا یہ الفاظ وہی کہہ سکتا ہے.جسے خدا تعالیٰ نے پہلے سے اس کا علم دیا ہو.پھر فرماتے ہیں.دیکھو میں آدمی ہوں اور جو میرے بعد ہوگا وہ بھی آدمی ہی ہوگا.جس کے زمانہ میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۶ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب فتوحات ہوں گی.وہ اکیلا سب کو نہیں سکھا سکے گا تم ہی لوگ ان کے معلم بنو گے.پس اس وقت تم خود سیکھوتا ان کو سکھا سکو.خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ دنیا کے لئے پروفیسر بنا دیے جاؤ اس لئے تمہارے لئے ضروری ہے اور بہت ضروری ہے کہ تم خود پڑھو تا آنے والوں کے لئے استاد بن سکو.اگر تم نے خود نہ پڑھا تو ان کو کیا پڑھاؤ گے.ایک نادان اور جاہل استاد کسی شاگرد کو کیا پڑھا سکتا ہے (انوار خلافت.انوار العلوم جلد ۳ صفحہ ۱۷۰) ۱۹۱۴ء میں آپ نے یہ پیشگوئی فرمائی.پہلا فرض خلیفہ کا تبلیغ ہے جہاں تک میں نے غور کیا ہے.میں نہیں جانتا کیوں بچپن ہی سے میری طبیعت میں تبلیغ کا شوق رہا ہے اور تبلیغ سے ایسا انس رہا ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا.میں چھوٹی سی عمر میں بھی ایسی دعائیں کرتا تھا اور مجھے ایسی حرص تھی کہ اسلام کا جو کام بھی ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو میں اپنی اس خواہش کے زمانہ سے واقف نہیں کہ کب سے ہے.میں جب دیکھتا تھا اپنے اندر اس جوش کو پاتا تھا اور دعائیں کرتا تھا کہ اسلام کا جو کام ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو پھر اتنا ہو اتنا ہو کہ قیامت تک کوئی زمانہ ایسانہ ہو جس میں اسلام کی خدمت کرنے والے میرے شاگرد نہ ہوں میں نہیں سمجھتا تھا اور نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ جوش اسلام کی خدمت کا میری فطرت میں کیوں ڈالا گیا.ہاں اتنا جانتا ہوں کہ یہ جوش بہت پرانا ہے.غرض اسی جوش اور خواہش کی بناء پر میں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ میرے ہاتھ سے تبلیغ اسلام کا کام ہو.اور میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے میری ان دعاؤں کے جواب میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں غرض تبلیغ کے کام سے مجھے بڑی دلچسپی ہے یہ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ سب دنیا ایک مذہب پر جمع نہیں ہوسکتی اور یہ بھی سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس کام کو نہیں کر سکے اور کون ہے جو اسے کر سکے یا اس کا نام بھی لے لیکن اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی خادم اور غلام توفیق دیا جاوے کہ ایک حد تک تبلیغ اسلام کے کام کو کرے تو یہ اس کی اپنی کوئی خوبی اور کمال نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا کام ہے میرے دل میں تبلیغ کے لئے اتنی تڑپ تھی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۷ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب کہ میں حیران تھا اور سامان کے لحاظ سے بالکل قاصر پس میں اس کے حضور ہی جھکا اور دعائیں کیں اور میرے پاس تھا ہی کیا ؟ میں نے بار بار عرض کی کہ میرے پاس نہ علم ہے، نہ دولت، نہ کوئی جماعت ہے، نہ کچھ اور ہے جس سے میں خدمت کر سکوں مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ اس نے میری دعاؤں کو سنا اور آپ ہی سامان کر دیئے اور تمہیں کھڑا کر دیا کہ میرے ساتھ ہو جاؤ.پس آپ وہ قوم ہیں جس کو خدا نے چن لیا اور یہ میری دعاؤں کا ایک ثمرہ ہے جو اس نے مجھے دکھایا اس کو دیکھ کر میں یقین رکھتا ہوں کہ باقی ضروری سامان بھی وہ آپ ہی کرے گا اور ان بشارتوں کو عملی رنگ میں دکھاوے گا اور اب میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کو ہدایت میرے ہی ذریعہ ہوگی اور قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ گذرے گا جس میں میرے شاگرد نہ ہوں گے کیونکہ آپ لوگ جو کام کریں گے وہ میرا ہی کام ہوگا“ میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم میں ایسے لوگ ہوں جو ہر ایک زبان کے سیکھنے والے اور پھر جاننے والے ہوں تاکہ ہم ہر یک زبان میں آسانی کے ساتھ تبلیغ کر سکیں اس کے متعلق میرے بڑے بڑے ارادے اور تجاویز ہیں اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل پر یقین رکھتا ہوں کہ خدا نے زندگی دی اور توفیق دی اور پھر اپنے فضل سے اسباب عطا کئے اور ان اسباب سے کام لینے کی توفیق ملی.تو اپنے وقت پر ظاہر ہو جاویں گے غرض میں تمام زبانوں اور تمام قوموں میں تبلیغ کا ارادہ رکھتا ہوں اس لئے کہ یہ میرا کام ہے کہ تبلیغ کروں.میں جانتا ہوں کہ یہ بڑا ارادہ ہے اور بہت کچھ چاہتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا ہی کے حضور سے سب کچھ آوے گا.میرا خدا قادر ہے جس نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے.وہی مجھے اس سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق اور طاقت دے گا کیونکہ ساری طاقتوں کا مالک تو وہ آپ ہی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس مقصد کے لئے بہت روپیہ کی ضرورت ہے بہت آدمیوں کی ضرورت ہے مگر اس کے خزانوں میں کس چیز کی کمی ہے؟....پس میرے دوستو! روپیہ کے معاملے میں گھبرانے اور فکر کرنے کی کوئی بات نہیں وہ آپ سامان کرے گا.آپ ان سعادت مند روحوں کو میرے پاس لائے گا.جو ان کاموں میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۸ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب میری مددگار ہوں گی.میں خیالی طور پر نہیں کامل یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ ان کاموں کی تکمیل واجراء کے لئے کسی محاسب کی تحریکیں کام نہیں دیں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود سے خود وعدہ کیا ہے کہ يَنصُرُكَ رِجالٌ نُوحِی إِلَيْهِمُ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کو ہم وحی کریں گے پس ہمارے محاسب کا عہدہ خود خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور وعدہ فرمایا ہے کہ روپیہ دینے کی تحریک ہم خود لوگوں کے دلوں میں کریں گے.ہاں جمع کا لفظ استعمال کر کے بتایا کہ بعض انسان بھی ہماری اس تحریک کو پھیلا کر ثواب حاصل کر سکتے ہیں.پس خدا آپ ہی ہمارا محاسب اور محصل ہو گا.اسی کے پاس ہمارے سب خزانے ہیں ہاں ثواب کا ایک موقع ہے.مبارک وہ جو اس نے فائدہ اٹھاتا ہے“ منصب خلافت.انوار العلوم جلد نمبر ۲ صفحه ۳۵ تا ۳۸) پیشگوئی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا“ مرد مومن کا عزم کل کی بنیادوں پر بلند ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ (ال عمران : ١٦٠) عزم اور تو کل میں بڑا گہرا تعلق ہو ہے دراصل یہ ایک ہی چیز کے دوسرے ہیں اور جہاں تک ہم نے حضرت مصلح موعود کی زندگی کا مشاہدہ کیا ہے.ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا خود بھی شاہد ہے اور ہم بھی اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ ہمارا محبوب مصلح موعود تو کل کے ایک بلند مقام پر فائز تھا.قوت تو کل اور نور معرفت اُسے ایسے تھامے تھا کہ بسا اوقات بے سروسامان ہوتے ہوئے اور اسباب عادیہ سے خالی ہاتھ ہوتے ہوئے بھی بشاشت اور انشراح صدر سے اس نے زندگی بسر کی نامساعد حالات میں بھی اُس نے ایسی خوشی سے دن گزارے کہ گویا اس کے پاس ہزاروں خزائن ہیں.ایسے حالات میں بھی ” صاحب دولت ہونے کی مستقل مزاجی دنیا نے آپ کے چہرہ پر دیکھی اور تنگی کی حالت میں بھی بکمال کشادہ دلی اور یقین کامل اپنے مولیٰ کریم پر بھروسہ رکھا.سیرت ایثار آپ کا مشرب تھا اور خدمت خلق آپ کی عادت، ہزار ہا غرباء کو آپ نے سہارا دیا.ہزار ہا تیموں کی پرورش کی بے سہارا طلبہ کو تعلیم دلوائی بے سہارا بچوں کی شادیاں کروائیں اور یوں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۹ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب معلوم ہوتا تھا کہ اگر سارا جہان بھی آپ کا عیال ہو جاتا تب بھی آپ کے دل میں کوئی انقباض پیدا نہ ہوتا.خدا خود آپ کا کارساز اور متولی تھا.جب کہ ۱۹۵۳ء میں ہم نے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور ہم اس بات کے عینی گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو یتولى الصالحین نیک اور برگزیدہ لوگوں کا متولی ہوتا ہے اولوالعزمی کی خارقِ عادت سیرت جو خاص اس وجود میں ظاہر ہوئی.کسی دوسرے میں ہمیں نظر نہیں آتی جب آپ مسندِ خلافت پر رونق افروز ہوئے تو جماعت کے اکابر کا بڑا حصہ آپ کا ساتھ چھوڑ بیٹھا تھا اور خزانہ خالی تھا مگر اس اولوالعزم وجود نے اپنے قادر و توانا خدا پر کامل بھروسہ رکھا اور اس کا دل ایک لمحہ کے لئے بھی گھبرایا نہیں اور نہ وہ مایوس ہوا اور دنیا نے إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ کا ایک ظلی معجزہ دیکھا اور جب وہ اپنے مولی کو پیارا ہوا تو دنیا کے طول و عرض میں لاکھوں دل اس کی یاد میں تڑپے اور لاکھوں روحیں اس کی بلندی درجات کے لئے دعائیں کرتی ہو ئیں اپنے رب کے حضور جھکیں اور اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے بھرا ہوا خزانہ اور ایک ایثار پیشہ قوم چھوڑ گیا.ربوہ کی سرزمین کا ذرہ ذرہ جسے اس نے اپنے آنسوؤں اور خون سے سینچا اس کی اولوالعزمی پر گواہ ہے اور ہم سب شاہد ہیں کہ وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم تھا پیشگوئی میں خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ وہ دل کا حلیم تھا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے.الْحَلِيم سَيِّدٌ فِي الدُّنْيَا وَسَيِّدٌ فِي الْآخِرَةَ یعنی حلیم وہ شخص ہوتا ہے جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہونے کی وجہ سے دنیا میں بھی سردار ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اسے سردار بنایا جائے گا.گویا خدا تعالیٰ نے وہ دل کا حلیم ہوگا کہ کر بتایا وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہو گا اور تخَلَّقُوا بِاَخلاقِ الله (التعريفات جلد ۱ صفحه ۲۱۶) کا مظہر کامل ہوگا اور ہم میں سے ہزاروں اس بات پر گواہ ہیں کہ ہمارا آقا اور ہمارا محبوب مصلح موعود اس زمرہ ابرار میں شامل تھا جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.سخاوت ، شجاعت، ایثار، علو همت، وفور شفقت، حلم حیا، مودت یہ تمام اخلاق بھی بوجہ احسن اور انسب انہیں سے صادر ہوتے ہیں اور وہی لوگ به یمن متابعت قرآن شریف وفاداری سے اخیر عمر تک ہر یک حالت میں ان کو بخوبی وشائستگی انجام دیتے ہیں اور کوئی انقباض خاطر ان کو ایسا پیش نہیں آتا کہ جو اخلاق حسنہ کی کما ینبغی صادر ہونے سے ان
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب کو روک سکے.اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ خو بی علمی یا عملی یا اخلاقی انسان سے صادر ہوسکتی ہے وہ صرف انسانی طاقتوں سے صادر نہیں ہو سکتی بلکہ اصل موجب اس کے صدور کا فضل الہی ہے پس چونکہ یہ لوگ سب سے زیادہ مور د فضل الہی ہوتے ہیں اس لئے خود خداوند کریم اپنے تفضلات لامتناہی سے تمام خوبیوں سے ان کو متمتع کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھو کہ حقیقی طور پر بجز خدائے تعالیٰ کے اور کوئی نیک نہیں تمام اخلاق فاضلہ اور تمام نیکیاں اسی کے لئے مسلّم ہیں.پھر جس قدر کوئی اپنے نفس اور ارادت سے فانی ہو کر اس ذات خیر محض کا قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر اخلاق الہیہ اس کے نفس پر منعکس ہوتی ہیں.پس بندہ کو جو جو خوبیاں اور کچی تہذیب حاصل ہوتی ہے وہ خدا ہی کے قرب سے حاصل ہوتی ہے اور ایسا ہی چاہئے تھا کیونکہ مخلوق فی ذاتہ کچھ چیز نہیں ہے سوا خلاق فاضلہ الہیہ کا انعکاس انہیں کے دلوں پر ہوتا ہے کہ جو لوگ قرآن شریف کا کامل اتباع اختیار کرتے ہیں اور تجربہ صحیح بتلا سکتا ہے کہ جس مشرب صافی اور روحانی ذوق اور محبت کے بھرے ہوئے جوش سے اخلاق فاضلہ ان سے صادر ہوتے ہیں اس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی اگر چہ منہ سے ہر یک شخص دعویٰ کر سکتا ہے اور لاف و گزاف کے طور پر ہریک کی زبان چل سکتی ہے مگر جو تجر بہ صحیحہ کا تنگ دروازہ ہے.اس دروازہ سے سلامت نکلنے والے یہی لوگ ہیں اور دوسرے لوگ اگر کچھ اخلاق فاضلہ ظاہر کرتے بھی ہیں تو تکلف اور تصنع سے ظاہر کرتے ہیں اور اپنی آلود گیوں کو پوشیدہ رکھ کر اور اپنی بیماریوں کو چھپا کر اپنی جھوٹی تہذیب دکھلاتے ہیں اور ادنی ادنی امتحانوں میں ان کی قلعی کھل جاتی ہے اور تکلف اور تصنع اخلاق فاضلہ کے ادا کرنے میں اکثر وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اپنی دنیا اور معاشرت کا حسنِ انتظام وہ اسی میں دیکھتے ہیں اور اگر اپنی اندرونی آلائشوں کی ہر جگہ پیروی کریں.تو پھر مہمات معاشرت میں خلل پڑتا ہے اور اگر چہ بقدر استعداد فطرتی کے کچھ تم اخلاق کا ان میں بھی ہوتا ہے مگر وہ اکثر نفسانی خواہشوں کے کانٹوں کے نیچے دبارہتا ہے اور بغیر آمیزش اغراض نفسانی کے خالص اللہ ظاہر نہیں ہوتا.چہ جائیکہ اپنے کمال کو پہنچے اور خالص اللہ انہیں میں وہ تخم کمال کو پہنچتا ہے کہ جو خدا کے ہو رہتے ہیں اور جن کے نفوس کو خدائے تعالیٰ غیریت کی لوث سے بکلی خالی پا کر خود
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) اے ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب اپنے پاک اخلاق سے بھر دیتا ہے اور ان کے دلوں میں وہ اخلاق ایسے پیارے کر دیتا ہے جیسے وہ اس کو آپ پیارے ہیں.پس وہ لوگ فانی ہونے کی وجہ سے تخلق باخلاق اللہ کا ایسا مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں کہ گویا وہ خدا کا ایک آلہ ہو جاتے ہیں جس کی توسط سے وہ اپنے اخلاق ظاہر کرتا ہے اور ان کو بھوکے اور پیاسے پا کر وہ آب زلال ان کو اپنے اس خاص چشمہ سے پلاتا ہے جس میں کسی مخلوق کو علی وجہ الا صالت اس کے ساتھ شرکت نہیں“ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۴۰ تا ۴۲ ۵ حاشیه در حاشیه ) غرض ہم نے پایا کہ ہمارا دل کا حلیم محبوب اس زمرہ ابرار میں شامل تھا.پھر خدا تعالیٰ نے پیشگوئی میں فرمایا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں بہت سے واقعات کو چند لفظوں میں بیان کر دیتی ہیں اور وہ واقعات بھی ایسے ہوتے ہیں.جن میں زمانی فاصلہ سالوں کا ہوتا ہے اور زمینی فاصلہ ہزار ہا میل کا ہوتا ہے لیکن ایک اچھا شکاری ایک فائر کے ساتھ ایک سے زائد پرندے گرا لیتا ہے حالانکہ اس کے پاس محدود اسباب اور محدود طاقت ہوتی ہے.پھر خدا تعالیٰ جس کی طاقتیں غیر محدود ہیں اور جو ہر چیز کا مالک اور مختار ہے.اس کے لئے تو آسان ہے کہ وہ چھوٹی سی بات بیان کرے اور اس میں دو چار یا دس باتیں پرو کر رکھ دے اور پھر وہ ساری کی ساری بچی ہوں اور نہ صرف خود علیحدہ طور پر پوری ہوں بلکہ پیشگوئی کو پورا کرنے والی ہوں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کے کیا معنی ہیں اب تک یہ الہام الہی کئی شکلوں میں پورا ہو چکا ہے اور ان کا ذکر ہمارے لٹریچر میں موجود ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس فقرہ کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جن چار لڑکوں کی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خبر دی تھی ان میں سے چوتھا لڑکا حضرت مصلح موعودؓ کے صلب سے پیدا ہوگا اور وہ بمنزلہ مبارک احمد ہو گا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.خدا کی قدرتوں پر قربان جاؤں کہ جب مبارک احمد فوت ہوا.ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا.انا نبشرک بغلام حلیم ینزل منزل المبارک.یعنی ایک
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۷۲ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب حلیم لڑکے کی ہم تجھے خوشخبری دیتے ہیں جو بمنزلہ مبارک احمد کے ہو گا اور اس کا قائم مقام اور اس کا شبیہ ہو گا.پس خدا نے نہ چاہا کہ دشمن خوش ہو اس لئے اس نے بمجرد وفات مبارک احمد کے ایک دوسرے لڑکے کی بشارت دے دی تا یہ سمجھا جائے کہ مبارک احمد فوت نہیں ہوا بلکہ زندہ ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۷۱۷ ) غرض اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.مصلح موعود تین کو چار کرنے والا ہوگا.یعنی تین تو وہ بھائی ہوں گے اور چوتھے بیٹے کی جو بشارت دی گئی ہے.وہ اس کی صلب سے پیدا ہو گا گویا اس کے ذریعہ یہ پیشگوئی پوری ہو جائے گی کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا.اب میں کچھ اپنے متعلق کہنا چاہتا ہوں میں بغیر کسی جھجک اور تکلف - آپ سب کے سامنے اور اپنے خدا کے حضور یہ اقرار کرتا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں تذلل نیستی اور انکسار کا وہ مقام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے.میں اس مقام انکسار سے بھی کہیں نیچے ہوں کیونکہ حضور نے جن لوگوں کا ذکر فرمایا ہے ان کے کچھ کمالات کا بھی آپ نے ذکر فرمایا ہے لیکن یہاں کوئی کمال نہیں البتہ ذلت انکسار اور عاجزی پوری پوری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اور منجملہ عطیات کے ایک کمال عظیم جو قرآن شریف کے کامل تابعین کو دیا جاتا ہے عبودیت ہے یعنی وہ باوجود بہت سے کمالات کے ہر وقت نقصان ذاتی اپنا پیش نظر رکھتے ہیں اور بشہو د کبریائی حضرت باری تعالی ہمیشہ تذلیل اور نیستی اور انکسار میں رہتے ہیں اور اپنی اصل حقیقت ، ذلت اور مفلسی اور ناداری اور پرتقصیری اور خطاواری سمجھتے ہیں اور ان تمام کمالات کو جو ان کو دیئے گئے ہیں.اس عارضی روشنی کی مانند سجھتے ہیں جو کسی وقت آفتاب کی طرف سے دیوار پر پڑتی ہے جس کو حقیقی طور پر دیوار سے کچھ بھی علاقہ نہیں ہوتا اور لباس مستعار کی طرح معرض زوال میں ہوتی ہے.پس وہ تمام خیر و خوبی خدا ہی میں محصور رکھتے ہیں اور تمام نیکیوں کا چشمہ اسی کی ذات کامل کو قرار دیتے ہیں اور صفات الہیہ کے کامل شہود سے ان کے دل میں حق الیقین کے طور پر بھر جاتا ہے کہ ہم کچھ چیز نہیں ہیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۷۳ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب یہاں تک کہ وہ اپنے وجود اور ارادہ اور خواہش سے بکلی کھوئے جاتے ہیں اور عظمت الہی کا پُر جوش دریا ان کے دلوں پر ایسا محیط ہو جاتا ہے کہ ہزار ہا طور کی نیستی ان پر وارد ہو جاتی ہے اور شرک خفی کے ہر یک رگ وریشہ سے بکلی پاک اور منزہ ہو جاتے ہیں.“ ( براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد نمبر اصفه۴۳٬۵۴۲ ۵ح درح) پس یہ تو صاحب کمال ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا جلوہ دیکھنے کے لئے اپنا سب کچھ اس عظمت و جلال کے اندرکھو بیٹھتے ہیں لیکن جس میں کوئی بھی کمال نہ ہو وہ خود کو کن الفاظ یاد کرے میں تو اکثر سوچتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.متعلق جب یہ کہیں اور انسانوں کو نہیں خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں کرم خا کی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار تو میرے جیسا انسان اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے کن الفاظ میں پیش کرے لیکن اس تمام نیستی کے باوجود جو میں اپنے نفس میں اپنے لئے پاتا ہوں.میں یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس مقام پر کھڑا کیا ہے اس مقام کی حفاظت کا ذمہ خود اس نے لیا ہے اور جب تک وہ مجھے زندہ رکھنا چاہے گا.اس کا قادر و توانا اور قوی ہاتھ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا اور جس طرف بھی خدا تعالیٰ میری رہنمائی فرماتے ہوئے جماعت کو ترقی کے لئے لے جانا چاہے گا اس میں برکت ہوگی اور اگر کوئی شخص اس راستہ کو چھوڑے گا تو وہ ناکام رہے گا.اس لئے نہیں کہ مجھے میں کوئی خوبی یا طاقت ہے بلکہ اس لئے کہ جس وجود نے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا ہے تمام خوبیاں اور طاقتیں اس کو حاصل ہیں اور جب کہ آپ نے ابھی حضرت مصلح موعودؓ کی ایک پیشگوئی میں یہ سنا ہے کہ: ” جو میرے بعد آئے گا وہ بھی ایک انسان ہی ہوگا.جس کے زمانہ میں فتوحات ہوں گی میں یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے ایسا کوئی علم نہیں دیا کہ وہ بعد میں آنے والا میں ہی ہوں لیکن میں پورے یقین کے ساتھ آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ اگر وہ چاہے اور ارادہ کرے تو وہ میرے جیسے ناکارہ وجود سے سب کام لے سکتا ہے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۷۴ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب اور یہ خدائی وعدہ ہے جو ضرور پورا ہوکر رہے گا کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا اور دنیا کی کوئی طاقت بلکہ دنیا کی سب طاقتیں مل کر بھی اس الہی تقدیر کے ، راستہ میں روک نہیں بن سکتیں.ہر طاقت جو اسلام کی بڑھتی ہوئی عزت کے راستہ میں حائل ہوگی ذلیل کر دی جائے گی اور اگر دنیا کے تمام اموال بھی اکٹھے کر کے عیسائیت اور دوسرے ادیان باطلہ کے پھیلانے اور اسلام کی مخالفت پر خرچ کئے جائیں.تو بھی ان کا نتیجہ مٹی کی اس چٹکی سے زیادہ نہیں نکلے گا جو آپ اپنے پاؤں کے نیچے سے اٹھاتے ہیں اور جو حقیر اموال خدا تعالیٰ نے ہمیں دئے ہیں اور اپنے فضل.جن قربانیوں کی تو فیق اس نے ہمیں عطا کی ہے.کسی فرد بشر یا تمام بنی نوع انسان کی جرات نہیں کہ ان کے مقابلہ میں آئے یا ان کے مقابلہ میں ٹھہر سکے.خدا کی تو حید دنیا میں قائم ہوکر رہے گی.شرک دنیا سے مٹایا جائے گا.مسیح کے پجاری یا پتھروں کے سامنے اپنے جبینوں کو جھکانے والے یا درختوں کی عبادت کرنے والے اپنی اسباب اور سامانوں پر بھروسہ کرنے والے یا دوسری اقسام کے شرکوں میں مبتلا لوگوں کے شرکوں کو اس طرح کاٹ دیا جائے گا جس طرح ایک تیز دھار والی تلوار شیر کو دوٹکڑے کر کے رکھ دیتی ہے جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم کمزور ہیں لیکن جس خدا کی طرف ہم منسوب ہوتے ہیں.وہ کمزور نہیں پھر ہم مایوس کیوں ہوں.بے شک ہم گنہگار ہیں.خطا کار ہیں ہم غلطیاں بھی کرتے ہیں لیکن ہم اپنے رب سے مایوس نہیں.ہمارے کانوں میں اس کی میٹھی آواز ہمیشہ آتی رہتی ہے کہ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ( الزمر :۵۴) ہماری لغزشوں کو ہمیں یقین ہے وہ اس لئے معاف کر دے گا کہ ہماری حرکت جس جہت کی طرف ہے.وہ جہت وہ ہے جہاں ہم نے اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے ہمارے قدموں کو وہ اپنے فضل سے تیز تر کر دے گا اور ہمارے نفوس و اموال میں وہ برکات دے گا جن برکات کا وعدہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا ہے اور وہ ہمیں توفیق دے گا کہ اپنے نفوس و اموال کی ان برکات اور بڑھوتی کو جو محض اس کے فضل سے عطا ہوئی ہے ساری کی ساری اس کی راہ میں خرچ کرنے والے ہوں اور وہ ہماری ان حقیر کوششوں کو کبھی نا کام نہیں ہونے دے گا.بلکہ وہ ہمیں کامیاب کرے گا اور میں پورے یقین اور وثوق کے ساتھ ساری جماعت کو جو یہاں بیٹھی ہوئی ہے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۷۵ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب اور تمام دنیا کو جہاں کہ آج کی آواز پہنچے یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ چھپیں تمہیں سال کے اندر دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی اس روحانی انقلاب کو روک نہیں سکتیں شاید وہ دن قریب ہے جب کہ دنیا کے ممالک کی اکثریت اسلام کو قبول کر چکی ہوگی اور وہ لوگ جواب خدا تعالیٰ کے مامور اور ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں.ان کی زبانیں آپ پر درود بھیجتے ہوئے خشک ہو رہی ہوں گی اور ان کے دلوں کی یہ تمنا ہوگی کہ ان کی پہلی زندگی کے مقابلہ میں ان کی اس زندگی کے دن چوبیس گھنٹے کی بجائے اڑتالیس گھنٹے کے ہو جائیں تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک دن میں درود پڑھ کے اپنی پرانی خطاؤں کو خدا تعالیٰ سے معاف کر سکیں.غرض یہ دن آنے والا ہے مگر جو ذمہ داری خدا تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد کی گئی ہے اسے بھی ہم نے بہر حال پورا کرنا ہے.ہمیں بھی اس عظیم روحانی انقلاب کے قرب کی وجہ سے عظیم قربانیاں دینی پڑیں گی اور یہ کام ظاہری اصطلاح کی رو سے خالی ہاتھ سے نہیں ہوگا بلکہ جب ہم اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیں گے تو خدا تعالیٰ کہے گا میرے بندے نے جب اپنا سب کچھ میری راہ میں دے دیا تو میں بھی اپنا سب کچھ جو ان کے لئے ضروری ہے کیوں بچائے رکھوں اور جب خدا تعالی کی ساری طاقتیں اور اس کے سارے خزانے ہمارے ساتھ ہو جائیں گے تو پھر تم خود ہی سوچ لو.ہمیں کہ چیز کی کمی محسوس ہوگی.اپنے متعلق کچھ کہنے کے بعد میں کچھ اور کہنا چاہتا ہوں.دنیا کی مختلف اقوام میں جو مختلف انقلابات برپا ہوئے ہیں ان کے نتیجہ میں ہمیں نو جگہوں پر اپنے تبلیغی مراکز کو بند کرنا پڑا اور وہ ملک جن میں تبلیغی مراکز بند کئے گئے ہیں.فرانس، ہنگری، جزائر سلی، اٹلی ، روس ، ایران، جاپان ، مسقط اور مصر ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان جگہوں پر احمدی نہیں.ان سب جگہوں پر احمدی موجود ہیں لیکن ہمارے با قاعدہ تبلیغی مراکز وہاں موجود نہیں.ہمارے مشنری اور مبلغ وہاں نہیں.اس وقت سب سے پہلا کام جو میں نے اور آپ نے کرنا ہے اور جس کے بغیر ہمیں چین نہیں آنا چاہئے.وہ یہ ہے کہ وہ تمام مراکز جو کسی نہ کسی وقت حضرت مصلح موعودؓ نے کھولے تھے لیکن بعد میں کسی مجبوری کی وجہ سے انہیں بند کرنا پڑا جتنی جلدی ہو سکے اور جب بھی ممکن ہوا نہیں دوبارہ کھول دیا جائے اور پھر جن جن ممالک میں نئے مشن کھولنے کی ضرورت ہے وہاں مشن کھول
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) 24 ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب دیئے جائیں.اس وقت تک جو مطالبات مختلف جگہوں سے آئے ہیں ان کے مطابق سات ایسے ممالک ہیں ( گوغور کے بعد ان میں کچھ اور ممالک کا بھی اضافہ ہو جائے گا ) جہاں فوری طور پر تبلیغی مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے یعنی ہمیں یہاں سے مبلغ بھجوا کر تبلیغ کا کام جاری کرنا چاہئے.کیونکہ اس وقت وہاں کی آبادی کا اسلام کی طرف رحجان ہے ان سات ممالک کے نام یہ ہیں.ا جاپان ۲.فلپائن ،۳.آسٹریلیا ۴.جنوبی افریقہ، ۵.کانگو ، ۶.وسطی افریقہ ۷.ٹو گولینڈ یہ سات ملک ایسے ہیں.جہاں ہمیں وہاں کے حالات کے تقاضا کے مطابق جلد سے جلد مشن کھولنے چاہئیں اور مشن کھولنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں سے ایک تو مبلغین اور مربی ہیں یعنی ہمیں مبلغ مشنری مربی اور واعظ درکار ہیں.اگر میرے پاس مبلغ اور مربی نہ ہوں تو میں وہاں کس کو بھجواؤں گا.آپ مجھ سے کس بات کی توقع رکھتے ہیں.کیا میں آسمان سے فرشتے منگواؤں یا غیر احمدیوں کو نوکر رکھوں.صاف ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا.اس کام کے لئے احمدی بچوں کو آگے آنا پڑے گا اور آپ کو اپنے بچے پیش کرنے پڑیں گے ورنہ یہ کام نہیں ہوسکتا پھر بچوں کے وقت میں ہمیں انتظار کرنا پڑے گا انہیں ایک وقت تک ہمیں تعلیم دینی پڑے گی اور پھر کہیں جا کر وہ اس قابل ہوں گے کہ انہیں باہر بھجوایا جائے اور ہم زیادہ دیر تک انتظار نہیں کر سکتے اور نہ ہمیں انتظار کرنا چاہئے اس کی ایک ہی تدبیر ہے کہ بچوں کو تیار ہونے تک کا جو وقفہ ہے اس کے لئے ایسے دوست آگے آئیں جو اپنے کاموں سے ریٹائر ہو چکے ہیں یا ریٹائر ہونے والے ہیں یا ریٹائر ہو سکتے ہیں مثلاً ایک شخص ہے اس کی ملازمت تمہیں سال کی ہوگئی ہے.اسے پوری پینشن مل سکتی ہے لیکن گورنمنٹ کے قواعد کے مطابق ابھی وہ تین چار سال اور ملازمت کر سکتا ہے.ایسا آدمی سلسلہ کی خدمت کے لئے آجائے.کافی عرصہ تک اس نے گورنمنٹ کی سروس کر لی ہے اب اسے چھوڑ دے.وہاں سے فراغت حاصل کرے.پوری پینشن لے اور یہاں آکر کام کرے.ایسے لوگوں کے لئے ایک تعلیمی نصاب مقرر کیا جاسکتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ سمجھدار پڑھے لکھے معمر تجربہ کار دوست جنہوں نے ایک حد تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کیا ہوا ہو.ان کے لئے چھ ماہ کا نصاب کافی ہے اس کے بعد ہم انہیں باہر بھجوا سکتے ہیں اور یہ لوگ بیرونی ممالک میں ہمارے اسی طرح مربی مبلغ اور مشنری ہوں گے جس طرح
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب پاکستان میں وقف جدید کے معلم کام کر رہے ہیں یعنی جس طرح معلم سند یافتہ مبلغ نہیں لیکن انہیں تبلیغ کے کام پر لگایا گیا ہے اور وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کام کو کر رہے ہیں اس طرح یہ لوگ بھی بیرونی ممالک میں ہمارے مبلغ ہوں گے.گوسند یافتہ مبلغ نہیں ہوں گے اور یہ ضروری نہیں کہ کوئی شخص پہلے جامعہ احمدیہ میں داخل ہو اور وہاں کئی سال تک تعلیم حاصل کرتا رہے تب کہیں جا کر وہ مبلغ بنے.مبلغ کے لئے دراصل دعا کی ضرورت ہے اس کے لئے اصل چیز اپنے رب پر توکل ہے اور کبر وغرور کا فقدان.پس اصل چیز یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ جو کچھ میں نے پایا ہے خدا تعالیٰ سے پایا ہے اور خدا تعالیٰ جتنا چاہے مجھے دے سکتا ہے اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے غرض اصل چیز دعاؤں کی عادت ہے دوسروں کی خدمت بھی دعا کے ذریعہ ہو سکتی ہے.بعض لوگ پیسے دے کر دوسروں کی خدمت کر لیتے ہیں.بعض لوگ دوسروں کے لئے فراخ دلی سے وقت دے دیتے ہیں لیکن ان کو خیال نہیں آتا کہ ہم ان کی بہترین خدمت دعا کے ذریعہ کر سکتے ہیں.پہلی بات جو خدمت کے سلسلہ میں ایک احمدی کے سامنے آنی چاہئے وہ دعا ہے.جب بھی اس کے کسی دوست کی کوئی ضرورت اس کے سامنے آئے وہ اپنے رب سے کہے اے خدا ! یہ صحیح ہے کہ میں کچھ بھی نہیں لیکن تو میری دعا قبول کرلے اس طرح اس کی توجہ تیری طرف ہو جائے گی.اس وقت وہ تیری طرف متوجہ نہیں دیکھو اللہ تعالیٰ نے جب محاذ جنگ پر ہماری افواج کو اپنی قدرت کے نظارے دکھائے تو مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ سینکڑوں ہمارے آفیسر ایسے تھے جو نام کے مسلمان تھے اور قریباً د ہر یہ تھے.انہوں نے نہ تو کبھی قرآن کریم کو ہاتھ لگایا تھا اور نہ وہ حقیقتاً دل سے کبھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے تھے لیکن اب وہ قرآن کریم کے شیدائی بن گئے ہیں.انہیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ ان کا خدا ایسا ہے جو اس قسم کے معجزے دکھاتا ہے اور ان کی دعائیں سنتا ہے اور انہیں قبول کرتا ہے.پہلی اور حال کی کئی بشارتیں ہماری فوج کے اندر بہت مقبول ہوئی ہیں.پس یہ بہت بڑی بات ہے بظاہر کچھ بھی نہیں لیکن پھر بھی بہت کچھ ہے.صرف منہ سے چند کلمات دعا کہہ دینے ہیں.کوئی روپیہ خرچ نہیں آتا.کوئی پیسہ خرچ نہیں آتا لیکن ایک نمایاں تغیر دنیا کے سامنے آجاتا ہے اور دیکھنے والا حیران ہوتا ہے اور پھر وہ اس وجود کی طرف جس کی قوت اور قدرت سے وہ تغیر رونما ہوا جھکتا ہے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ZA ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب غرض ہمیں بہت جلد ایسے بڑی عمر کے آدمیوں کی ضرورت ہے جو دین کا کام کر سکیں انہیں مختصر تعلیمی نصاب میں سے گزارا جائے گا اور اس کے بعد غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے بھیج دیا جائے گا.میں نے بتایا ہے کہ سات ایسے ملک ہیں جہاں نئے مشن کھولنے کی ضرورت ہے اور جہاں پرانے مشن ہیں وہاں بھی ہمیں بیسیوں مبلغین اور مبشرین کی ضرورت ہے کئی ایسے ممالک ہیں جہاں ہمارے ایک ایک یا دو مبلغ ہیں اور ان کے باشندے ہمارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ہمارے پاس اور آدمی بھجواؤ کیونکہ علاقے کے علاقے اس وقت اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیں اور جتنے مبلغ اس وقت ہمارے پاس ہیں وہ ہماری ضرورت کو پورا نہیں کر رہے.پھر ہمیں مالی قربانیوں کی ضرورت ہے.مالی قربانیاں ہمیں بہر حال دینی پڑیں گی.پاکستانی احمدیوں کو بھی مالی قربانیاں دینی پڑیں گی اور غیر پاکستانی احمدیوں کو بھی مالی قربانیاں دینی پڑیں گی.میں اس وقت کوئی ٹھوس مطالبہ نہیں کرتا میں صرف آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جو مالی وعدے ایک احمدی کی حیثیت سے آپ کر چکے ہیں.ان کو پورا کر دیں.وعدہ آپ کر چکے ہیں اور سال کا بیشتر حصہ بھی گزر چکا ہے پس مالی سال کے ختم ہونے سے پہلے پہلے اپنے چندوں کو پورا کر دیں اور کوئی بقایا اپنے اوپر نہ رہنے دیں.اگر آپ سب اس بات میں کامیاب ہو جائیں.تو اس کے نتیجہ میں جماعت کی کوششیں بڑھیں گی اور آپ پر بھی خدا تعالیٰ کے افضال نازل ہوں گے اور اس کی مزید برکتوں کے آپ وارث بنیں گے.زیر طبع تراجم قرآن کریم کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ فرانسیسی زبان میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے نظر ثانی ہو رہی ہے.ڈینش زبان میں سات پاروں کا ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹس شائع ہو چکا ہے.بقیہ حصہ بھی تیار ہے اور اس کی طباعت کا انتظام کیا جارہا ہے.ہس ترجمہ مکمل ہو چکا ہے اس پر نظر ثانی ہورہی ہے.اسی طرح اطالوی، روسی، پرتگیزی، کیکو یوزبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے کو و زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے اور نظر ثانی ہورہی ہے.لو گنڈ ا زبان میں پچپیس پاروں کا ترجمہ مع تفسیری نوٹس ابھی باقی ہے مینڈی زبان میں ہیں پاروں کا ترجمہ ہو چکا ہے.بقیہ ترجمہ تیار ہو رہا ہے.بہر حال کئی تراجم مکمل ہو چکے ہیں ان پر نظر ثانی ہو رہی ہے.کئی زبانوں میں ترجمہ کا کام شروع ہو چکا ہے.یہ کام حضرت مصلح موعودؓ نے شروع فرمایا تھا اور اس کو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۷۹ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب کامیاب اختتام تک پہنچانا میرا فرض ہے اور میں نے اپنا فرض بہر حال ادا کرنا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.پس میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس کام میں میرے ساتھ پورا پورا تعاون کریں گے.ان تراجم کے علاوہ بھی میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بہت جلد چینی اور جاپانی زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنا چاہئے اگر چہ چین کے بڑے حصہ پر اس وقت کمیونسٹوں کا سیاسی اقتدار ہے اور وہاں ایک حد تک مذہبی آزادی ہے لیکن مذہبی آزادی کا جو مفہوم ہم لیتے ہیں اور جو مفہوم وہ لیتے ہیں.ان میں بڑا اختلاف ہے بہر حال فارموسا میں کچھ دوست بغیر کسی مبلغ کے احمدی ہو گئے ہیں.وہاں کی مسلم ایسوسی ایشن کے صدر جو غالباً پچھلے سال یہاں آئے تھے دل سے احمدی ہیں.گو انہوں نے احمدیت کو ابھی ظاہر نہیں کیا لیکن ان کے دل میں احمدیت کی اس قدر محبت ہے کہ جب وہ ربوہ آئے اور مجھ سے انہوں نے ملاقات کی تو عجیب نظارہ پیش آیا جب وہ میرے سامنے آئے تو پہلے کچھ جھجھکے اور انہوں نے اپنے آپ پر اس طرح ضبط کیا جس طرح کوئی آدمی کوئی کام کرنا چاہے بھی اور نہ بھی کرنا چاہے.کوئی دو سیکنڈ تک ان کی یہ حالت رہی.پھر وہ بے اختیار ہو کر آگے بڑھے اور مجھ سے لپٹ گئے وہ اس محبت کو جو انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھی روک نہ سکے انہوں نے مجھ سے بہت سی باتیں کیں.جن سے ان کے اخلاص کا علم ہوتا ہے.پھر انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم انہیں اپنی کتب بھجوائیں.بہر حال چینیوں کا ایک بڑا حصہ اس وقت احمدیت کی طرف متوجہ ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو چین کے دوسرے بڑے حصہ میں بھی جہاں کمیونسٹوں کا تسلط ہے ہمارے لئے تبلیغ کی راہیں کھول سکتا ہے.وہ ایسا کر سکتا ہے اس کے لئے کوئی بات نا ممکن نہیں غرض چینی اور جاپانی زبان میں بھی قرآن کریم کے تراجم بہت جلد کر وائے جائیں گے.مساجد جو زیرتعمیر ہیں اور ان کو مکمل کرنا نہایت ضروری ہے ان میں سے ایک مسجد ڈنمارک کی ہے.پھر غا نا میں ہمالے کے مقام پر ، یوگنڈا میں مسا کا کے مقام پر ، تنزانیہ میں ٹانگا کے مقام پر سیرالیون میں فری ٹاؤن کے شہر میں ، نائیجیریا میں پانچ مقامات پر اسی طرح گیمبیا میں مساجد بنائی جارہی ہیں ان کے علاوہ کئی اور مقامات پر مساجد کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے لیکن ابھی تک وہاں نہ مسجد بنانے کا کوئی فیصلہ ہوا ہے اور نہ کوئی انتظام.اور وہ جگہیں مندرجہ ذیل ہیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۸۰ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ ) اکرہ (غانا) لیگوس ( نائیجیر یا گوش ( نائیجیریا) یہ تو فوری کام ہیں جن کی طرف جماعت کو اگلے سال کے اندر اندر توجہ دینی پڑے گی لیکن آپ یہ نہ سمجھیں کہ کام یہیں ختم ہو گیا ہے انگریزی کا محاورہ ہے Momentum Gaines یعنی موٹر اور گاڑی کی رفتار آہستہ آہستہ تیز ہوئی ہے.ہماری حرکت بھی آہستگی کے ساتھ تیزی کی طرف بڑھ رہی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کے کاموں میں ایک قسم کی تیزی پیدا کر دی ہے اور جب حرکت میں تیزی پیدا ہو جائے تو دو میں سے ایک بات کا ہونا ضروری ہے.یا تو حرکت بند ہو جاتی ہے اور اس کا نام موت بھی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ابھی ہماری جماعتی موت کا وقت نہیں آیا.ابھی ہماری زندگی اور کامیابیوں کا وقت ہے یا پھر وہ حرکت پہلے سے زیادہ تیز ہو جاتی ہے اور کم خرچ پر زیادہ نتائج پیدا ہوتے ہیں.مثلاً موٹر اگر ہیں میل نی.فیی گھنٹہ کی رفتار سے جارہی ہو تو ایک گیلن پٹرول خرچ ہو گا اور اگر اس کی رفتار چالیس میل سے بڑھ جائے.تو وہ ایک ہی گیلن پٹرول میں یہ فاصلہ طے کرے گی اور یہ اس نے کم خرچ میں زیادہ نتیجہ نکالا ہے یہ دونوں چیزیں ( یعنی کم رفتار یا زیادہ رفتار ) اپنے نتائج کے لحاظ سے مفید ہوئی ہیں لیکن ہم نے کسی ایک نتیجہ پر ٹھہر نانہیں اور نہ اپنی کوشش کو ایک جگہ روکنا ہے بلکہ اُسے پہلے سے زیادہ کرنا ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہمارا خدا محض اپنے فضل سے ہماری کوششوں کے نتیجے پہلے کی نسبت زیادہ سے زیادہ نکالتا چلا جائے گا.اپنے متعلق اور فوری پروگرام کے متعلق میں اس قدر کہنا چاہتا ہوں.اب وقت بھی زیادہ ہو گیا ہے اور دو تین دن سے مجھے خونی پیچش بھی ہے جس کی وجہ سے زیادہ بولنا مشکل ہے گو میں بیمار تھا لیکن ان دنوں میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ میں اس بات کے متعلق سوچوں کہ کام کم بھی کیا جا سکتا ہے.چنانچہ میں نے اپنے عزیز بھائی ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو یہ کہا کہ میں کوئی ایسی دوائی نہیں لگاؤں گا جو میرے کام میں روک بنے اور اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کہ آج کچھ افاقہ ہو گیا.جس کی وجہ سے میں نے اس قدر تقریر کر لی ہے لیکن بیماری کا بہر حال مجھے پر اثر تھا اور اس اثر کی وجہ سے بعض اوقات میری زبان بھی رُک جاتی تھی اور لفظ کو پوری طرح ادا نہیں کر سکتا تھا.اس لئے میں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں جو کچھ مجھ سے ہو سکا احباب کے سامنے بیان کر دیا ہے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ΔΙ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب دعا کے متعلق میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ بڑی ضروری چیز ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جمعہ کے روز ایک ایسی گھڑی آتی ہے جب اللہ تعالیٰ انسان کی دعا قبول کر لیتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گھڑی نہیں بتائی ہاں یہ بتایا ہے کہ وہ پہلی اذان سے لے کر سلام پھیر نے تک کے وقفہ میں آتی ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی اذان سے لے کر سلام پھیر نے تک دعاؤں میں لگے رہو.تا یہ گھڑی جو دعا کی قبولیت کی ہے تم سے ضائع نہ ہو جائے.ہمارا جلسہ سالانہ کا اجتماع بھی بڑا مبارک ہے.دیکھو اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کتنی دعائیں کی ہیں.پھر اللہ تعالیٰ کی کتنی بشارتیں ہیں جو عملی رنگ میں پوری ہو رہی ہیں.یہ جلسہ جس کے میدان ان کے آخر تک جاتے ہوئے نظر تھک جاتی ہے.اس کی ابتدا یوں ہوئی تھی کہ پہلے جلسہ میں صرف ۷۵ آدمی تھے اور اس وقت صرف اسٹیج پر جو دوست بیٹھے ہیں.ان کی تعداد بھی ۷۵ سے زیادہ ہے تو دیکھو خدا تعالیٰ کے کتنے افضال اس جماعت پر نازل ہوئے ہیں اور کل ہی میں نے بتایا تھا کہ ابھی یہ جلسہ گاہ بھی ضرورت کو پورا نہیں کر رہی بعض دوستوں کو جلسہ گاہ کے باہر بھی ٹھہر نا پڑا باوجود اس کے ہر سال جلسہ گاہ کو وسیع کیا جاتا ہے.جگہ کی تنگی پھر بھی محسوس ہوتی ہے ابھی بعض خاندانوں کو ایسی مجبوریاں پیش آ گئی تھیں کہ وہ باوجود خواہش کے جلسے پر نہیں آسکے.غرض اللہ تعالیٰ نے جلسہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد کو ۷۵ سے بڑھا کر اتنا کر دیا کہ باوجود اس کے ہر سال جلسہ گاہ کو وسیع کیا جاتا ہے لیکن وہ بھی تنگ محسوس ہوتی ہے اور پھر ایک زمانہ تھا کہ اگر کسی دوست نے ایک آنہ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں دیا تو آپ نے اس کا نام اپنی کتب میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا اور اب یہ وقت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں ایسے دوست بھی موجود ہیں.اگر وہ ہیں ہزار روپیہ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیں تب بھی ہمارا دل کہتا ہے کہ انہوں نے ابھی اپنی طاقت کے مطابق مالی قربانی نہیں کی اور میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا ہم پر یہ فضل اتنا بڑا ہے کہ اگر ہماری آئندہ نسلیں بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتی رہیں تو ہم اس کا کماحقہ شکر ادا نہیں کر سکتے.باہر کی جماعتوں نے اس موقع پر دعا کے لئے تاریں کی ہیں آپ دیکھیں کہ ہم ان لوگوں کی شکل سے واقف نہیں نہ ان کی عادات کے واقف ہیں.پھر وہ کون سا رشتہ ہے جو ان کے اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۸۲ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب ہمارے درمیان قائم ہے.یہ اسلام اور احمدیت کا رشتہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ قائم ہوا ہے اور یہ رشتہ اتنا مضبوط ہے کہ وہ آپ کی محبت میں تڑپ رہے ہیں اور آپ کو دعا کے لئے تاریں دے رہے ہیں اور ان تاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ساری نعمتیں ان کے لئے اس دعا کے مقابل پر بیچ ہیں.جو اس موقع پر آپ ان کے لئے کریں گے.پس جس جذبہ اور جس محبت اور جس نیت سے ان دوستوں نے ہمیں دعا کے لئے لکھا ہے ہمیں بھی چاہئے کہ اسی جذبہ محبت اور نیت سے ان کے لئے دعائیں کریں.جن جماعتوں اور جن دوستوں نے تاریں دی ہیں.ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں.ا.جماعتہائے احمد یہ سیرالیون.مغربی افریقہ ۲.جماعتہائے احمدیہ ، غانا.مغربی افریقہ ۳.جماعت احمد یہ ڈنمارک ۴.جماعتہائے احمد یہ نائیجیریا.مغربی افریقہ ۵.جماعتہائے احمد یہ انگلستان ۶.جماعتہائے احمد یہ تنزانیہ.مشرقی افریقہ ے.جماعتہائے احمد یہ انڈونیشیا.جماعتہائے احمد یہ ملائشیا ۹.جماعتہائے احمد یہ ججہ.یوگنڈا مشرقی افریقہ ۱۰.ہالینڈ کے احمدی دوست ۱.سیلون کے احمدی دوست ۱۲.سنگا پور کے احمدی دوست ۱۳.سوئٹزرلینڈ کے احمدی دوست ۱۴.کینیڈا کے احمدی دوست ۱۵.واشنگٹن اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے احمدی دوست یہ سب جماعتیں آپ سب کو السلام علیکم کہتی ہیں اور درخواست کرتی ہیں کہ جلسہ سالانہ کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) -- ۸۳ ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب اختتام کے موقع پر جب آپ اپنے رب کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے لئے جھکیں تو انہیں بھی اپنی ان دعاؤں میں یا درکھیں.پھر ہماری چھوٹی پھوپھی حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحب کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی.الفضل میں بھی دعا کے لئے چھپتا رہا.کچھ افاقہ بھی ہوا ہے لیکن تین روز سے انہیں اس قسم کی پھر زیادہ شکایت ہوگئی ہے بازوؤں میں شدید درد ہے.خون کے ٹیسٹ سے انفیکشن معلوم ہوتا ہے.پس دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت سے رکھے اور ان کی اور ان کی بڑی ہمشیرہ حضرت نواب سیدہ مبارکہ صاحبہ کی عمر میں برکت ڈالے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کو پنج تن کہا تھا.ان میں سے اب صرف یہی دو بہنیں رہ گئی ہیں.آپ جانتے ہیں کہ حضرت نواب سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کس درد اور کس فراست کے ساتھ جماعت کے نام پیغام ارسال کرتی رہتی ہیں.ان دونوں بہنوں سے بھی بہت سی برکتیں وابستہ ہیں.اللہ تعالیٰ ان پر خاص فضل فرمائے اور انہیں اپنی امان میں رکھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ سالانہ کے مقاصد میں ایک یہ بات بھی رکھی تھی کہ اس موقع پر ان سب احمدی دوستوں کے لئے دعائے مغفرت کی جائے جو سال کے دوران فوت ہو گئے ہیں.حضور کے اس ارشاد کے یہ معنی نہیں کہ ایک اکٹھی نماز جنازہ یہاں پڑھی جائے.کم سے کم میں تو اس کے یہ معنے نہیں لیتا.کیونکہ حضور کے الفاظ میں نماز جنازہ کا ذکر نہیں.دعائے مغفرت کا ذکر ہے اور نماز جنازہ میں تو جیسا کہ دوست جانتے ہیں ایک دفعہ دعائے مسنون پڑھ لیتے ہیں.یہی دستور ہے جو ابتدائے اسلام سے چلا آ رہا ہے یہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ایک بڑی مختصر سی دعا ہے جو ہم نماز جنازہ میں کرتے ہیں لیکن وہ مخلص نے اپنی ساری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری ہے اور سالِ رواں میں (جس کا اب اختتام ہے ) وہ فوت ہو گئے ان کو اپنی خاص دعاؤں میں یا درکھنا ہمارا فرض ہے پس تمام احمدی بھائی اور احمدی بہنیں جو یہاں ہیں یا جن تک میری آواز پہنچے.وہ اپنی دعا میں ان مخلصین کو یاد رکھیں.جو گزشتہ جلسہ سالانہ اور اس جلسہ سالانہ کے درمیانی عرصہ میں قضائے الہی سے فوت ہو چکے ہیں.پھر اپنی دعاؤں میں پاکستان کو ضرور یاد رکھیں ( کوئی مانے یا نہ مانے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۸۴ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب پاکستان وہ قلعہ ہند ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا تھا کہ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزیں ہوئے ہیں ) کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل کے ساتھ اس کی حفاظت کرتا رہے وہ ہمیشہ ملائکہ کی افواج بھجواتا رہے.جب بھی اور جس وقت بھی پاکستان کو مشکل پیش آئے وہ ملائکہ اللہ کی امداد سے محروم نہ ہو اور ان نوجوانوں کے دلوں میں اپنا نور داخل کرے جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کی خاطر شجاعت اور بہادری کے ایسے شاندار کارنامے جنگ کے محاذ پر دکھائے ہیں کہ رہتی دنیا تک ان کے نام عزت سے لئے جائیں گے.یہ نوجوان ہماری دعاؤں کے بہت زیادہ مستحق ہیں.جہاں اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک فضل کیا ہے وہاں وہ انہیں دوسرے فضلوں سے بھی نوازے میں بھی واپس لے جائے اور ان کے گھروں کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا کرے کہ ہمارے محاذ جنگ کو اس جگہ سے جہاں وہ پہلے تھا کہیں زیادہ آگے لے جائے تا ان کے گھر آئندہ کے لئے پوری طرح محفوظ ہو جائیں.پھر یہ دعا بھی خاص طور پر کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں کے ذہنوں میں جلاء پیدا کر.اور انہیں تو فیق عطا کرے کہ وہ دین اور دنیا کے علوم زیادہ سے زیادہ حاصل کرتے رہیں اور سب احمدیوں کو توفیق بخشے کہ کسی بھی علمی میدان میں جب بھی ان کے مقابلہ پر کوئی آئے وہ اس پر بھاری رہیں.اپنے بیمار بھائیوں کو بھی ضرور اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.جنہیں آپ جانتے ہیں ان کے نام لے کر دعا کریں اور جنہیں آپ نہیں جانتے ان کے لئے اصولی دعا مانگ کر کہ اے خدا تو اپنے فضل سے ہمارے سب بیماروں کو شفا عطا کر.اسی طرح یہ دعا بھی کریں کہ اے خدا تو کمزورں کو طاقت عطا کر ہمارے سب اندھیروں کو نور میں بدل دے.ہمارے سب پریشان حالوں کی پریشانیوں کو دور فرما.اے خدا تو اس قوم پر خوش ہو جا اور اس کے ہر فرد کو اپنی راہ میں قربانیاں دینے کی توفیق عطا کر پھر ان قربانیوں کو اپنے فضل سے قبول کیونکہ ہمارا کوئی حق نہیں تجھے کہیں کہ تیرے حضور ہم نے یہ پیش کیا.اس لئے ہمارا حق ہے کہ تو اسے قبول کر لے بلکہ تو محض اپنے فضل سے ہماری ان قربانیوں کو قبول فرما اور پھر انہیں قبول کرنے کے بعد ہمیں اس دنیا میں ان کا اجر بطور انعام عطا کر اور ہمیں توفیق دے کہ ہم تیرے ان انعاموں کو جو تیری طرف سے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۸۵ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء.اختتامی خطاب نازل ہوں.تیری راہ میں پھر قربان کر دیں تا اس کے نتیجہ میں اور زیادہ انعام ہمیں ملیں اور یہ سلسلہ مرتے دم تک چلتا اور بڑھتا چلا جائے تا جب ہم اس دنیا سے رخصت ہوں تو تیری نگاہ میں کوئی خاص مقام رکھتے ہوں.عام مومنوں میں شامل نہ ہوں بلکہ ان مقربین کے گروہ میں شامل ہوں جنہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی معیت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں جگہ عطا کرے گا اب ہم سب مل کر دعا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری ان دعاؤں کو اپنے فضل سے قبول فرمائے.اس کے بعد حضور انور نے احباب سمیت لمبی اور پُر سوز دعا فرمائی.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) LV
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۶ جنوری ۱۹۶۷ء.افتتاحی خطاب جو عہد بیعت تم نے باندھا ہے خدا کرے کہ تم ہمیشہ پختگی سے قائم رہو افتتاحی خطاب جلسه سالا نه فرموده ۲۶ جنوری ۱۹۶۷ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:.وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِايْتِنَا فَقُلْ سَلْمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ (الانعام: ۵۵) پھر حضور انور نے فرمایا:.اور جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات اور ہمارے کلام پر ایمان لاتے اور اسی کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالتے ہیں تو تو انہیں ہماری طرف سے سلامتی کا پیغام پہنچا دے اور انہیں یہ بھی بتادے کہ تمہارے رب نے اپنے آپ پر تمہارے لئے رحمت کو فرض کر لیا ہے.پس اے میرے عزیز بھائیو! جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جمیل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس جلسہ کی برکات سے استفادہ کے لئے یہاں جمع ہوئے ہومیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُس عظیم فرزند کی نیابت میں تمہیں سَلْمٌ عَلَيْكُمُ کہتا ہوں.تمہارے رب کی رحمت کا سایہ ہمیشہ تم پر رہے.جو عہد بیعت تم نے اپنے رب سے باندھا ہے خدا کرے کہ تم ہمیشہ اس پر پختگی سے قائم رہو.اسے کبھی نہ توڑو.یہ دُنیا بھی تمہارے لئے جنت بنی رہے اور مرنے کے بعد بھی ابدی جنت میں تمہیں داخلہ ملے جہاں ہر دروازہ سے فرشتے تمہارے پاس آئیں کہ تم خدا کی راہ میں ثابت قدم رہے اس لئے اللہ کی سلامتی تمہارے لئے مقدر کی گئی ہے.دیکھو تمہیں ایک ایسی زندگی مل رہی ہے جس کے ساتھ فنا نہیں.ایک ایسی تو نگری عطا ہو رہی ہے جس کے ساتھ فقر اور تنگدستی کا کوئی خطرہ نہیں.خدائے عزیز تمہیں ایک ایسی عزت بخش رہا ہے جس کے ساتھ کوئی ذلت اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۸۸ ۲۶ جنوری ۱۹۶۷ء.افتتاحی خطاب خواری نہیں.اور ایسی صحت اور تندرستی تمہارے نصیب میں لکھی جا رہی ہے جس کے ساتھ کسی بیماری اور کمزوری کا کوئی خوف نہیں.میرا رب تمہارے ایمانوں میں پختگی اور صدق اور وفا پیدا کرے.خدا کی راہ میں تمہارے اعمال، اخلاص و ارادات سے پُر اور فساد سے خالی ہوں.اللہ کرے کہ وہ سب راہیں جن کو تم اختیار کر و فلاح اور کامیابی تک پہنچانے والی ہوں میرے رب کی جنتوں میں تمہارا ابدی قیام ہو اور اس کی تسبیح اور حمد کے درمیان تَحيَّتُهُمْ فِيهَا سَلو (ابرھیم :۲۴) تم ایک دوسرے کے لئے سلامتی چاہنے والے اور اپنے رب سے سلامتی پانے والے ہو.میرا رب تمہیں حسنِ عمل اور نیکو کاری کی راہ پر چلنے کی ہمیشہ تو فیق دیتا چلا جائے.یہ دُنیا بھی تمہارے لئے جنت بن جائے.جہاں شیطان کا عمل دخل نہ رہے اور جب کوچ کا وقت آئے تو فرشتے یہ کہتے ہوئے اس کی ابدی جنتوں کی طرف تمہیں لے جائیں.سَلْمٌ عَلَيْكُمُ اللہ کی سلامتی ہو تم پر.اس کی رحمت کے سایہ میں اس کے فضل کے تازہ بتازہ پھل تمہیں ملتے رہیں.خدا کی حمد میں مشغول رہنا اور اس کا شکر بجالا نا تمہاری عادت بن جائے.تم حقیقی معنی میں خدا کی جماعت بن جاؤ.میرے رب کی ایک برگزیدہ اور چنیدہ جماعت.تم پر ہمیشہ میرے رہے کی سلامتی نازل ہوتی رہے.خدا کرے کہ تمہارے سب اندھیرے تمہارے پیچھے رہ جائیں اللہ کے نور سے تم منور رہو تمہارا نو ر تمہارے آگے آگے چلے.عبودیت کا نور اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ( النور :۳۶) کے ساتھ جا ملے اور قرب کا کمال تمہیں حاصل ہو.اللہ کی رحمتیں ہمیشہ تم پر برستی رہیں.اس کے فرشتوں کی دُعائیں تمہارے ساتھ ہوں.سلامتی کے تحفہ کے تم حق دار ٹھہرو.خدا کرے کہ ذکرِ الہی میں تم ہمیشہ مشغول رہو اور ذکر الہی کے اس سر چشمہ سے ابدی مسرتوں کے چشمے تمہارے لئے پھوٹیں اور بہہ نکلیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت ہمیشہ تم پر سایہ فکن رہے.تمہاری پاسبانی کرتی رہے اور اُس کے لطف و کرم کی چاندنی تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے چھپر کھٹوں پر نور افشانی کرتی رہے.تمہارے اعمال اسی کے فضل سے بہتر پھل لائیں.تمہارے دل اور تمہارے سینے ہمیشہ نیک تمناؤں اور نیک خواہشات ہی کا گہوارہ رہیں جو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۸۹ ۲۶ جنوری ۱۹۶۷ء.افتتاحی خطاب تم چاہو تم پاؤ اور رب رحیم کی طرف سے سلامتی کا تحفہ تمہیں ہر آن ملتا ر ہے.اللہ کا وعدہ تمہارے حق میں پورا ہو، اس کی محبت کے تم وارث بنو اور تمہارا وجود دُنیا پر یہ ثابت کر دے کہ اس کی راہ میں عمل اور مجاہدہ کرنے والوں، ایثار اور قربانی دکھانے والوں کو بہترین انعام ملتا ہے.اللہ کی محبت کے وہ وارث ہوتے ہیں.خدا کرے کہ اس کے قرب کی راہیں تم پر کھولی جائیں اور اُن راہوں پر گامزن رہنا تمہارے لئے آسان ہو جائے اور اللہ کرے کہ یہ راہیں تمہیں اس کی نعمت اور اس کے فضل کی جنتوں تک پہنچادیں.آرام اور آسائش کی زندگی جہاں تم پر ہمیشہ سلامتی ہوتی رہے.( دُعا ہے کہ ) میرا رب تمہیں نیکی پر قائم رہنے کی توفیق دیتا چلا جائے تا دنیوی جنت میں تم اُن گھروں کے مکین بنے رہو جو ذکر الہی سے معمور اور شیطانی وساوس سے بلند و بالا ہیں اور تا اُس اُخروی جنت میں بھی بالا خانوں میں تمہارا قیام ہو جہاں فرشتوں کی دُعائیں اور تمہارے خالق اور تمہارے رب کی طرف سے سلامتی کا پیغام ہر لحظہ تمہیں ملتا رہے.قرآنی انوار سے تمہارے سینہ و دل ہمیشہ منور رہیں اور خدا کرے کہ یہ نوران راہوں کی نشان دہی کرتا رہے جو دارالسلام تک پہنچاتی ہیں.تمہارے راستہ کی سب تاریکیاں دُور ہو جائیں.رضوانِ الہی کی اتباع اس صراط مستقیم کو تمہارے لئے ہمیشہ روشن رکھے جو سیدھی اس کی جنت، اس کی رضا تک پہنچاتی ہے.خدا کرے کہ میرے خدا کے روشن نشان تمہارے سینہ و دل میں محبت الہی کا ایک سمندر موجزن رکھیں.میرا رب تمہیں نیک اعمال ، ہر شر اور فساد اور ریا سے پاک اعمال بجالانے کی توفیق عطا کرتا رہے.میرا اللہ خود تمہارا ولی اور دوست بن جائے.اُس کے قرب میں ، سلامتی کے گھر میں، تمہارا ٹھکانا ہو.خدا کرے کہ تمہارا وجود دنیا کے لئے ایک مفید وجود ہو جائے.ایک دُنیا کی دعائیں تمہیں ملتی رہیں.سب ہی تمہیں جانیں اور پہنچانیں اور سب ہی تمہاری سلامتی چاہیں.میرے اللہ کی موہبت خاصہ تمہیں جلد تر منزل مقصود تک پہنچا دے تو کل اور فرمانبرداری کے مقام پر ثبات قدم تمہیں حاصل ہو.لقاء الہی کی جنت کے تم وارث بنو.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) خدا کرے کہ توحید خالص کے قیام کا تم ذریعہ بنو.۲۶ جنوری ۱۹۶۷ء.افتتاحی خطاب خدا کرے کہ عشق محمد میں تم ہمیشہ مسرور اور مست رہو.خدا کرے کہ نور محمد ی کی شمع تمہارے ہاتھ سے ہر دل میں فروزاں ہو.خدا کرے کہ مسیح محمدی علیہ السلام کی سب دُعاؤں کے تم وارث بنو.خدا کرے کہ رُوحانی خزائن سے اپنی جھولیاں بھر کے تم اس جلسہ سے واپس کو ٹو.میرا خدا سفر و حضر میں تمہارا حافظ و ناصر ہو.خدا کرے کہ تم اپنے اہل و عیال اور اپنے دوستوں کو ہر طرح خیریت سے پاؤ.تم اور وہ ہمیشہ ہی خیریت سے رہیں.اور خدا کرے کہ اپنے رب کا یہ نا چیز، حقیر اور عاجز بندہ بھی محض اُس کے فضل اور احسان سے اُن سب دُعاؤں کا وارث ہو جو اس عاجز نے اس مجمع میں تمہیں دی ہیں.آؤ اب عاجزی کے ساتھ اُس کے در پر چھکیں اور اُسی سے اُس کی مغفرت اور اس کی رحمت کے طالب ہوں.(روز نامه الفضل ربوه یکم فروری ۱۹۶۷ء صفحه۲ ۳۰)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۹۱ ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطا.جس وقت کوئی ملک پورا احمدی ہو گیا تو وہ کہے گا کہ نظام ہمارے ہاتھ میں دو یا ہمارے مقابلہ میں قربانیاں دو دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالا نہ فرموده ۲۷ /جنوری ۱۹۶۷ء بمقام ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دوست جانتے ہیں کہ آج کی تقریر میں بعض عام قسم کے لیکن ضروری معاملات کے متعلق کچھ کہا جاتا ہے کسی خاص عنوان کے ماتحت آج کی تقریر نہیں ہوتی بلکہ اہم واقعات اور مسائل کے متعلق جو دوران سال ہوئے ہوں یا ان سے تعلق رکھنے والے ہوں ان مسائل کا اور حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے لیکن قبل اس کے کہ میں وہ باتیں بیان کرنا شروع کروں جو میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں لیکن ایک زائد بات کہنے پر مجبور ہوا ہوں اور وہ یہ کہ کچھ عرصہ سے ہمارے ان بھائیوں نے جو عہد بیعت توڑ کر غیر مبائعین کہلائے گند اُچھالنے میں بڑی شدت اختیار کر لی ہے.حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد انہوں نے ایک کتاب فتح حق“ کے نام سے شائع کی اس میں انہوں نے نہایت ہی اشتعال انگیزی اور گندہ دہنی سے کام لیا.ان کے بعض اکا برگزشتہ گرمیوں میں مجھے ایک مقام پر ملے تھے میں نے انہیں بتایا کہ آپ لوگوں نے ایک کتاب لکھی ہے اور آپ اسے دنیا میں شائع کر رہے ہیں.اب ہمیں بھی اس کا جواب دینا ہو گا اس لئے آپ کو اس کے متعلق کوئی گلہ نہیں پیدا ہونا چاہیئے لیکن آپ تسلی رکھیں کہ جو گند آپ میں تھا وہ اس کتاب میں ظاہر ہوا ہے.ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی گند نہیں ہے اس لئے ہماری طرف سے اس کا جو جواب شائع ہو گا اس میں کسی گند کا استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ نہایت شرافت کے ساتھ نہایت متانت کے ساتھ عقلی دلائل کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کے ساتھ آپ کی باتوں کا جواب دیا جائے گا.چنانچہ اس کتاب یعنی ”فتح حق کے جواب میں ہماری طرف سے ایک کتاب غلبہ حق کے نام سے شائع ہو چکی ہے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۹۲ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب غیر مبائعین نے بعض اشتہارات وغیرہ بھی شائع کئے ہیں اور ہمارے اس جلسہ کے موقع پر انہوں نے یہ اشتہارات ان مقامات پر تقسیم کئے ہیں مثلاً چنیوٹ، چنیوٹ سے کراچی والے بھی گزررہے ہیں سیالکوٹ والے بھی گزر رہے ہیں لا ہو ر والے بھی گزر رہے ہیں.اس قسم کے مقامات پر انہوں نے آدمی مقرر کر کے اشتہارات تقسیم کئے ہیں.اگر صرف انہی اشتہارات کا سوال ہوتا جنہیں چھپے ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں تو جیسا کہ میں نے پہلے خاموشی اختیار کی تھی اب بھی خاموشی اختیار کر لیتا کیونکہ میں ان لوگوں کی باتوں کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا لیکن مجھے یہ خیال آیا کہ ہزاروں آدمیوں کو ان اشتہارات کا علم ہوا ہے اور میرے بھائی مجھ سے یہ توقع رکھتے ہوں گے کہ میں اُن باتوں کا ضرور جواب دوں جو ان اشتہارات میں لکھی گئی ہیں.پس اگر غیر مبائعین میرے منہ سے ہی کچھ سنا چاہتے ہیں تو وہ آج سن لیں جہاں تک عقائد کا سوال ہے میں اس خدا کی قسم کھا کر جس کے ہاتھ میں میری اور آپ کی گردنیں ہیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کے دن سے لے کر آج کے دن تک ہمارے عقائد میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق حکم اور عدل ما نا اور تسلیم کیا ہے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.آپ علیہ السلام کا ہر حکم بطور حکم کے ہمارے لئے قابل قبول اور قابل عمل ہے اور ہم آپ کے ہر حکم کے قیام کیلئے اپنی جانیں تک فدا کرنے کے لئے تیار ہیں اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ حکم اور عدل ہونے کی حیثیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہر حکم روحانی عدل اور انصاف کے مطابق ہے لیکن آپ لوگ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو حکم نہیں مانتے آپ سے کہا گیا کہ آپ اور باتوں کو ترک کر دیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک مختصری تصنیف ” ایک غلطی کا ازالہ ہے.آپ اس کو شروع سے آخر تک پڑھ کر یہ فقرہ لکھ دیں کہ نہ اس سے زائد اور نہ اس سے کم پر ہمارا ایمان ہے.آپ بھی دستخط کر دیں اور ہم بھی دستخط کر دیتے ہیں لیکن آپ اس انصاف کے فیصلہ کی طرف نہیں آتے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب سے بعض چھوٹے چھوٹے فقرے نکال کر ہم سے مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ ان کے نیچےتم دستخط کر دو.آپ کی یہ بات اس شخص کی طرح ہے جو قرآن کریم کی ایک آیت کا ٹکڑا لا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ (النساء:۴۴)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۹۳ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطار --- کسی کے سامنے پیش کرتا ہے اور کہتا ہے دیکھو یہ قرآن کریم کا حکم ہے کہ نماز کے قریب نہ جاؤ تم اس کے نیچے دستخط کر دو کہ میں اس پر ایمان لاتا ہوں آپ مذہب کو کھیل مت بنائیں ورنہ خدا تعالیٰ کا قہر تم پر نازل ہوگا.باقی رہی یہ بات کہ اگر بعض عقائد آپ کی سمجھ سے باہر اور آپ کی دسترس سے پرے ہیں تو ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی فراست عطا کرے کہ آپ حقائق کو سمجھنے لگیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ گالی کے مقابلہ میں نہ ہم گالی دیتے ہیں اور نہ دے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے رب کا یہی حکم ہے کہ گالی کے مقابلہ میں گالی نہ دو لیکن جو شخص یا جولوگ گالی دینے کے عادی ہوں وہ گالی سننے کے بھی عادی ہوتے ہیں اگر انہیں گالی کے مقابلہ میں گالی نہ دی جائے تو ان کی طبیعت بڑی مکد راور بدمزہ ہو جاتی ہے اور کہتے ہیں ” کوئی لطف نہ آیا گالی دین دا اگلا چپ ہی کر گیا‘ پس اس لحاظ سے میں معذرت چاہتا ہوں.میں آپ کی دلچسپی کے سامان مہیا نہیں کر سکتا کیونکہ میرے اندر خدا تعالیٰ نے گالی دینے کا مادہ نہیں رکھا.میں آپ سے قرآن کریم کی زبان میں بات کر سکتا ہوں اور کرنا چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ آپ کو سمجھ عطا کرے کہ آپ اس نکتہ کو پالیس اور اس سے فائدہ اٹھا سکیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغُلِبُونَ (الانبياء: ۴۵) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک اصول دو شکلوں میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور اول یہ کہ جس قوم اور سلسلہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہو کہ وہ اُسے درجہ بدرجہ ترقی کی منازل طے کراتا چلا جائے وہ اس کی طرف سے ہوتا ہے.تدریجی ترقی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ گروہ یا وہ سلسلہ جو اپنے آپ کو الہی سلسلہ کہتا ہے واقع میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس کے مقابلہ میں تدریجی تنزل اس بات کی دلیل ہے کہ جس گروہ یا سلسلہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہو گیا کہ اس کو تدریجی تنزل کی طرف لیتے چلے جاؤ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوسکتا.وہ غلطی پر قائم ہے.اس اصول کے مدنظر جب ہم اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ایک دن آپ نے قادیان کی مبارک بستی کو جہاں وہ مقامات تھے جن کو خدا تعالیٰ نے شعائر اللہ کہا ہے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۹۴ ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب جہاں وہ مٹی تھی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدم پڑے تھے جس کی سرزمین وہ سرزمین تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے ارضِ حرم قرار دیا تھا آپ نے چھوڑا.اس زمین سے آپ نکلے تو آپ خوش تھے کہ آپ خدا تعالیٰ کے مسیح کے گاؤں اور اس کے شہر کو سونا چھوڑ کر جارہے ہیں.آپ نے اس وقت یہ دعویٰ کیا تھا کہ سو میں سے ننانوے احمدی آپ کے ساتھ ہیں اور سو میں سے ایک آدمی آپ پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں.آپ نے اس وقت ایسے سامان پیدا کر دئیے تھے کہ خزانہ س وقت خالی تھا.اس میں شاید چند آنے تھے گویا اس سونے گھر کو آباد کرنے کا بھی آپ نے اپنے زعم میں کوئی ذریعہ نہیں چھوڑا تھا اور آپ میں سے بعض نے یہاں تک کہ دیا تھا کہ قادیان کے تعلیمی اداروں پر عیسائیت کا قبضہ ہو گا اور اس کے مکانوں میں اُتو بولیں گے مگر خدا تعالیٰ نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ ان لوگوں کو جو اس کی نگاہ میں حقیقی انسان نہیں تھے قادیان میں نہیں رہنے دے گا اور وہ دن اور آج کا دن اللہ تعالیٰ نے جو سورج ہم پر چڑھا یا وہ ایک زیادہ طاقت ور، ایک زیادہ منظم اور تعداد میں زیادہ جماعت کے اوپر چڑھا اور ہر سورج جو آپ پر چڑھا اس نے آپ کے کان میں یہ سرگوشی کی کہ تمہارا قدم تنزل کی طرف آیا ہے اور تم تنزل کے گڑھوں کی طرف جارہے ہو.اس وقت آپ کی جماعت (آپ کے کہنے کے مطابق ) سو میں سے ننانوے تھی اور آج اگر میں ایک کو نہ پھاڑوں تو میں اس نسبت کو بیان ہی نہیں کر سکتا جو آپ کی جماعت کو ہماری جماعت کے مقابلہ میں ہے.آپ ہمارے مقابلہ میں سو میں سے ایک بھی نہیں رہے.یہ پاک نفوس جو آج میرے سامنے بیٹھے ہیں یا عورتوں کے جلسہ گاہ میں جو پاک ہستیاں بیٹھی ہیں ان میں سے ہر ایک اس بات پر گواہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ بتا رہی ہے کہ ہمارے عقائد میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اس لئے کہ ۱۹۱۴ء سے لے کر آج تک خدا تعالیٰ کے اس سلوک میں بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی جو ہمارے ساتھ رہا ہے.اس کا ہمارے ساتھ جو سلوک ۱۹۱۴ء میں تھا یا جو ۱۹۱۵ء میں تھا وہی سلوک آج بھی ہے.اگر ہمارے عقائد بدل جاتے تو خدا تعالیٰ کا ہمارے ساتھ سلوک بھی بدل جاتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد:۱۲) خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہر قوم کے ساتھ چلتا ہے اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ بتارہی ہے کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۹۵ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب ہمارے جو عقائد ہیں وہ اس کو محبوب اور پیارے ہیں اور وہ ایسے عقائد ہیں جو اس کی جماعت کے ہونے چاہئیں تبھی تو وہ ہمیں ترقی دیتا چلا جاتا ہے اور تبھی تو ہم نے یہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کے تمام جلوے آپ کے لئے اے جماعت غیر مبائعین جلوہ گر ہوئے جو اس جماعت کے لئے جلوہ گر ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ تنزل کی طرف لے جارہا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا ہر وہ جن کواللہ جار اور کی جلوہ ہم پر ظاہر ہوا جو اس جماعت پر ظاہر ہوتا ہے جس کو وہ ترقی کی منازل پر چڑھاتا چلا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے عقائد نہ بدلے اور نہ غلط ہوئے اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پیارے ہیں.انہی عقائد کے ساتھ ہم نے ترقی کی ہے اور آپ نے انہی عقائد کو چھوڑ کر تنزل کی راہوں کو اختیار کیا ہے.آج آپ کا یہ حال ہے کہ آپ کا حالیہ جلسہ سالانہ جو دسمبر ۱۹۶۶ء میں ہوا.اس میں آپ کی جو زیادہ سے زیادہ تعداد تھی اس سے سولہ گنا زیادہ غیر ممالک میں ایک سال کے اندر جماعت احمدیہ کی نئی بیعتیں ہوئی ہیں اور آپ کے جلسہ سالانہ کی جو کم سے کم تعداد تھی اس سے پچاس گنا زیادہ غیر ممالک میں ایک سال کے اندر جماعت احمدیہ کی نئی بیعتیں ہوئی ہیں، تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہم کمزور انسانوں کو ہمارا بڑائی کا کوئی دعوی نہیں نہ ہم کسی طاقت کا دعویٰ کرتے ہیں نہ ہم کسی علم کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ ہم کسی تقویٰ کا دعویٰ کرتے ہیں ہم تو کچھ بھی نہیں لیکن خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ بتا رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہماری باہوں کو پکڑتے اور ہمیں ان بلندیوں تک پہنچاتے چلے جارہے ہیں جہاں تک ہم اپنی طاقت کے بل بوتے پر نہیں پہنچ سکتے تھے.ایک اور بات جو یہ لوگ دہراتے چلے جارہے ہیں وہ یہ ہے جو پیغام صلح میں بھی یہ لکھا گیا اور انگریزی کا جو اخبار ہے اس میں بھی لکھا گیا کہ بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک بلند روحانی مقام پر قائم تھے لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو اس روحانیت کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں تھا بلکہ آپ الٹ تھے.آپ کے اندر کوئی روحانیت نہیں تھی اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو ویسے اللہ تعالیٰ نے عقل بڑی دی تھی لیکن جو خلیفہ ثالث انہوں نے بنایا ہوا ہے اس میں عقل بھی کوئی نہیں، نہ روحانیت ہے نہ عقل ہے.ایک تو مجھے یہ سوچ کے رحم آتا ہے کہ میرے بعد جو ہوگا اس کے متعلق آپ کیا کہیں گے.آپ نے اپنے لئے دروازہ بند کر لیا ہے.حضرت
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۹۶ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطا مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام میں جو روحانیت تھی اگر وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ میں نہیں تھی تو یہ کون لوگ بیٹھے ہیں جن سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہوتا ہے، جن سے خدا تعالیٰ باتیں کرتا ہے ، جن کو کشوف اور رویا ہوتی ہیں ، مگر میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانیت سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھایا ، آپ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی فراست سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا.آپ فکر نہ کریں میری حماقت سے بھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.آپ کا یہ وار جو آپ نے مجھ پر کیا ہے یہ بھی ہوا میں ضائع ہو گیا.کیونکہ میں نے کبھی فراست اور عقل مندی کا دعوی ہی نہیں کیا تھا جس کو غلط ثابت کرنے کے لئے آپ یہ فقرے مجھ پر کس رہے ہیں.میں تو ایک حقیر انسان ہوں ، ایک ناچیز ذرہ ہوں مگر آپ یہ یادرکھیں کہ یہ ناچیز ذرہ خدا کے ہاتھ میں ہے اگر آپ میرے مقابلہ پر آئیں گے ہمارے پاس تو کوئی دلیل بھی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہم پر کیوں ہے سوائے اس کے کہ ہم سے وہ خود ہماری سمجھ کے بغیر ایسے کام لے رہا ہے جن کے نتیجہ میں وہ سمجھتا ہے کہ توحید خالص دنیا میں قائم ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دنیا میں قائم ہوگی.اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب ہوگا.غرض اللہ تعالیٰ ہمیں برکتیں دیتا ہے اور ہم خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں.آپ بھی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے شکر گزار بندے بنے کی توفیق عطا کرے.ا.نئی کتب اور نئے اور پرانے اخبارات جیسا کہ دوست جانتے ہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر صغیر گزشتہ سال سے پہلے بالکل نایاب ہو چکی تھی اور بہت سے دوست ( پرانے بھی اور نئی نسل جو جوان ہوئی تھی) ان کا یہ مطالبہ رہتا تھا کہ جلد اس کی اشاعت کی جائے تاکہ ہم اس سے فائدہ حاصل کر سکیں.چنانچہ گزشتہ سال اس کی اشاعت کا دوبارہ انتظام کیا گیا اور بلا کس پر اس کو لکھوایا گیا.پہلی طباعت بھی اس کی اچھی بہت اچھی تھی اور کاغذ بھی بڑا ہی اچھا تھا ہم نے اسے دو قسم کے کاغذ پر چھپوایا تھا.پہلے وہ کاغذ استعمال کیا گیا تھا جس کو آرٹ پیپر کہتے ہیں اور جس میں چمک ہوتی ہے.میں تو اسے رات کو پڑھوں تو مجھے کچھ تکلیف ہوتی ہے.دوسری دفعہ جب اسے شائع کیا گیا تو سپر کیلنڈر (Super) (Calendar کاغذ لگایا گیا تھا.یہ کاغذ دیکھنے میں اتنا اچھا معلوم نہیں ہوتا لیکن اس میں چمک
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۹۷ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطار ہے اور میرے جیسے انسان کے لئے جو عینک لگاتا ہے بلب کی روشنی میں اس کا پڑھنا نسبتاً زیادہ آسان ہے.ویسے تو اس کے پہلے بھی کچھ ایڈیشن چھپ چکے ہیں لیکن اب جبکہ اس کی اشاعت کا دوبارہ انتظام ہوا تو پہلا ایڈیشن دو ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا اور وہ ہاتھوں ہاتھ بک گیا.بلکہ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے رقمیں جمع کروادی تھیں لیکن ان کو تفسیر صغیر کی کاپی اب تک نہیں مل سکی.اس کے بعد یہ سپر کیلنڈر کا غذ پر تین ہزار کی تعداد میں شائع کی گئی.اس ایڈیشن کی بھی تھوڑی سی کا پیاں باقی رہ گئی ہیں.باقی سب بک چکی ہیں اور مجھے خیال پیدا ہوا کہ ابھی مانگ کافی ہے اس لئے قبل اس کے کہ یہ کاپیاں بھی ختم ہو جائیں اسے دوبارہ شائع کر دینا چاہیئے.چنانچہ اب پھر تفسیر صغیر دو ہزار کی تعداد میں آرٹ پیپر پر شائع ہو چکی ہے اور یہاں وہ پہنچ چکی ہے.باوجود اس کے کہ کاغذ اعلیٰ ہے جو ایک دوکاندار کے ذریعہ باہر سے درآمد کیا گیا ہے لیکن اس کی قیمت وہی ہے جو پہلے تھی.جو دوست لینا چاہیں وہ اسے جلد سے جلد خرید لیں تا بعد میں انہیں مایوسی کا سامنا نہ اٹھانا پڑے.تاریخ احمدیت کی جلدے ادارة ) رۃ المصنفین کی طرف سے شائع کی گئی ہے جن دوستوں کے پاس پہلی چھ جلد میں موجود ہیں.انہیں یہ جلد ضرور لینی چاہیئے اور جن کے پاس پہلی چھ جلدیں نہیں ہیں انہیں اس جلد کے ساتھ پہلی چھ جلدیں بھی خرید لینی چاہئیں.اپنی تاریخ کو اپنے گھروں میں محفوظ رکھوتا ہماری اگلی نسل اپنے مستقبل کو فدائیت اور قربانی اور ایثار کے ساتھ بھرتی رہے.ماضی کی تاریخ اس وقت تک مزہ دیتی ہے اور اسی وقت تک فائدہ پہنچاتی ہے جب اس کے مقابلہ میں مستقبل کی جھولیاں بھی ایثار اور قربانی کے ساتھ بھر دی جائیں ورنہ وہ ایسا ماضی ہوگا جس پر اگلی نسلیں صحیح معنی میں فخر نہیں کر سکتیں.یہ بنیاد بنتی ہے اوپر کی منزل کی اور اوپر کی منزل آپ بنا نہیں سکتے جب تک نچلی منزل نہ ہو اور جس کو اپنی نچلی منزل یا منزلوں کا علم ہی نہ ہو وہ اس سے اوپر کی منزل بنانے کی طرف کس طرح متوجہ ہوگا.اداراۃ المصنفین کی طرف سے بخاری شریف مع ترجمه و شرح جو مکرم و محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی لکھی ہوئی ہے انہوں نے ترجمہ کیا ہے اور اس کی تشریح کی ہے اس کا آٹھواں حصہ بھی شائع ہوا ہے.پہلے سات حصے گزشتہ کسی وقت شائع ہوئے تھے.اب یہ آٹھواں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۹۸ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب حصہ شائع ہوا ہے.دوست اسے خریدیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں.یہ ادارۃ المصنفین کی طرف سے شائع شدہ تین کتب تھیں.شرکتۃ الاسلامیہ نے روحانی خزائن جلد ۲۰.ملفوظات جلد اسیرۃ خاتم النبین حصہ اول (جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تصنیف ہے اور تین جلدوں میں ہے.پہلے نایاب تھی اب اس کی پہلی جلد دوبارہ شائع کی گئی ہے ) اور فقہ احمد یہ یہ چار کتب شائع کی ہیں.دوستوں کو ان کی طرف توجہ دینی چاہیئے.” تبادلہ خیال کے لئے تین مسئلے مکرم و محترم عزیز الرحمان صاحب مربی نے لکھی ہے جو بڑی دلچسپ اور مفید کتاب ہے.اسی طرح جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ”فتح حق کے جواب میں غلبہ حق نظارت اصلاح وارشاد کی طرف سے شائع ہوئی ہے.اور غیر مبائعین نے جو اختلافی مسائل پیدا کر لئے تھے ان کو حل کیا گیا ہے.اسے قاضی محمد نذیر صاحب نے لکھا ہے.اسی طرح نظارت اصلاح وارشاد کی طرف سے ایک اور کتاب ” مقام خاتم النبین شائع کی گئی ہے.یہ کتاب بھی قاضی محمد نذیر صاحب نے لکھی ہے اور اس میں قرآن کریم اور احادیث اور بزرگان امت کے اقوال کی روشنی میں یہ بتایا گیا ہے کہ خاتم النبیین کے جو معنی جماعت احمدیہ کرتی ہے اکا بر آئمہ بھی قرآن کریم اور حدیث کی روشنی میں وہی معنی کرتے ہیں.خواہ مخواہ اس مسئلہ پر شور نہیں مچانا چاہیئے.مکرم مولوی محمد اجمل صاحب شاہد ایم.اے عربی نے جو آج کل کراچی میں مربی ہیں اسلامی نماز کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا ہے جو مفید ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فارسی کلام در مشین فارسی جو پہلے بھی ایک دفعہ شائع ہو چکا ہے.مکرم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی نے شائع کرایا ہے.حصہ محترم ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب کا کیا ہوا ترجمہ بھی ساتھ دیا گیا ہے.بڑا مفید اور اثر والا یہ کلام ہے بلکہ مجھے یوں کہنا چاہیئے کہ بڑا مفید اور اثر والا یہ کلام بھی ہے کیونکہ ہر کلام کا اپنا اپنا اثر ہوتا ہے.اپنے اپنے ذوق کے مطابق.دوست اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.یہ کتاب نہایت مفید ہے.دوست اس کی طرف توجہ کریں اور اسے خرید کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۹۹ ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب ایک کتاب مکرم مولوی عبد الرحمان صاحب مبشر فاضل نے برہان ہدایت کے نام سے شائع کی ہے.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے پہلے دو خلفاء کے حالات خصوصاً تبلیغ کے متعلق کچھ واقعات اور اسی طرح بزرگان جماعت احمدیہ کے تبلیغی واقعات دیئے گئے ہیں.پہلے تو میرا خیال یہ تھا کہ میں اس کتاب کے متعلق کچھ نہ کہوں کیونکہ میں اندھیرے میں تھا.کل ہی انہوں نے مجھے دی تھی میں نے یہ کتاب پڑھی نہیں تھی لیکن اتفاقاً چند منٹ مجھے ملے اور میں نے سرسری طور پر اسے دیکھا تو میں نے سمجھا کہ یہ کتاب مفید بھی ہے اور دلچسپ بھی ہے.اس لئے میں نے خیال کیا کہ میں اس کا اعلان بھی کر دوں تا کہ دوست اس کی طرف بھی توجہ دیں.دی ہولی قرآن (The Holy Quran) یعنی قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ - تحریک جدید کی طرف سے دی اور مینٹل اینڈریلیجس پبلشنگ کمپنی The Oriental and Religious) (Publishing Company نے شائع کیا ہے، میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ درس میں انگریزی ترجمہ والا قرآن کریم لے کر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں.ہر ایک کی اپنی طبیعت ، مذاق اور مزاج ہے اور خصوصاً ہمیں اس طبقہ کے ہاتھ میں اسے پہنچانا چاہئے جو اردو سے واقفیت نہیں رکھتا اور اس وجہ سے کہ انہیں اردو زبان سے کوئی دلچسپی نہیں وہ قرآن کریم کی برکات سے محروم رہتے ہیں.اگر ان کے ہاتھ میں قرآن کریم کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو اور ترجمہ بھی وہ جو واضح اور صحیح ہو اور ایک حد تک قرآن کریم کے مطالب پر روشنی ڈالنے والا ہو تو خدا کرے کہ قرآن کریم کے نور کا دروازہ ان پر بھی کھلے.پھر رسالوں میں انصار اللہ کا رسالہ خدام الاحمدیہ کا رسالہ "خالد" ہے.اطفال کا رسالہ تفخیذ الاذہان اور لجنہ اماء اللہ کا رسالہ ” مصباح “ ہے.جامعہ احمدیہ کا رسالہ ہے مکرم و محترم ابوالعطاء صاحب کا الفرقان ان سب رسالوں کو پڑھنا چاہیئے اور ان سے فائدہ اٹھانا چاہیئے.اگر آپ انہیں پڑھیں گے اور ان سے فائدہ اٹھائیں گے تو علاوہ فائدہ کے آپ کو یہ ثواب بھی پہنچ رہا ہو گا کہ آپ اس طرح ان رسالوں کو زندہ رکھنے میں مدد دے رہے ہوں گے کیونکہ ان میں سے کوئی رسالہ بھی ایسا نہیں جو انسانی تدبیر کے بغیر زندہ رکھا جاسکے.گوتد بیر میں بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہوا کرتا ہے لیکن تدبیر کو خدا تعالیٰ نے دنیا میں پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ اس سے اس دنیا میں فائدہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) حاصل کیا جائے.۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطار سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر گھر میں الفضل ، پہنچے اور ”الفضل“ سے ہر گھر فائدہ اٹھارہا ہو.ابھی جماعت کے حالات ایسے ہیں کہ شاید ہر گھر میں الفضل، نہیں پہنچ سکتا لیکن جماعت کے حالات ایسے نہیں کہ ہر گھر اس سے فائدہ بھی نہ اٹھا سکے.اگر ہر جماعت میں ”الفضل پہنچ جائے اور جو بڑی جماعت ہے اور اس کے آگے کئی حلقے ہیں.اس کے ہر حلقہ میں الفضل پہنچ جائے اور الفضل کے مضامین وغیرہ دوستوں کو سنائے جائیں تو ساری جماعت اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے خصوصاً خلیفہ وقت کے خطبات اور مضامین اور درس اور ڈائریاں وغیرہ ضرور سنائی جائیں.خصوصاً میں نے اس لئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کو امر بالمعروف کا مرکزی نقطہ بنایا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہر مسلمان دوسرے کو نیکی کی باتیں بتاتا رہے وہ امر بالمعروف کرتا رہے اور نہی عن المنکر کرتا رہے بدیوں سے وہ روکتا رہے.اب ہر آدمی جب دوسرے بھائی کو امر بالمعروف یانھی عن المنکر کرتا ہے تو جس شخص کو سمجھایا جا رہا ہوتا ہے اس کے سمجھانے والے کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوتا کہ، وہ ضرور اس کی بات مانے گا.سمجھانے والے کا کام ہے سمجھا دینا اور خاموش ہو جانا اور مخاطب کا کام ہے کہ وہ اپنے حالات کے مطابق ان باتوں پر عمل کرے اس کے سامنے دور ستے ہیں وہ ان دورستوں میں سے ایک رستہ اختیار کرے گا یا تو اُسے وہ بات سمجھ نہیں آئے گی اور وہ سمجھانے والے کو کہے گا میاں تم جاؤ اور اپنا کام کرو مجھے تم کیوں ستارہے ہو.اور اگر اُسے بات سمجھ آجائے کہ ایسا کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے تو وہ بڑے پیار سے جواب دے گا میاں میں آپ کا بہت ممنون ہوں کہ آپ نے میری توجہ اس طرف پھیری ہے لیکن اپنے دل میں وہ یہی سوچے گا کہ اپنے حالات کو میں بہتر جانتا ہوں.قرآن کریم کا یہ حکم نہیں کہ میں ہر وہ کام کروں جسے کوئی دوسرا شخص نیکی سمجھتا ہے.قرآن کریم کا تو یہ حکم ہے کہ جو ہدایت تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اس میں سے جسے تم احسن سمجھو اس کی پیروی کرو اتَّبِعُوا اَحْسَن مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمُ (الزمر : ۵۶) تو افراد کے متعلق تو یہ قانون ہے لیکن جہاں تک جماعت کا تعلق ہے صرف خلیفہ وقت کی ذات ہی ہے کہ آپ میں سے ہر ایک نے اس کے ساتھ یہ عہد بیعت کیا ہے کہ جو نیک کام بھی آپ مجھے بتائیں گے میں اس میں آپ کی فرمانبرداری کروں گا.یعنی امر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) 1+1 ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطار بالمعروف میں اطاعت کا عہد جماعت کے اندر صرف خلیفہ وقت سے ہے اور جماعتی نظام میں جب تک کسی جماعت میں خلافت قائم رہے یہ فیصلہ کرنا کہ جماعتی کاموں میں کونسی بات اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق احسن ہے اور کونسی نہیں یہ صرف خلیفہ وقت کا کام ہے کسی اور کا ہے ہی نہیں.اس نے بتانا ہے کہ موجودہ حالات میں مثلاً دوسروں کے ساتھ مذہبی تبادلہ خیال اس رنگ میں کرو.ہزار طریقے ہیں جن سے ہم مذہبی تبادلہ خیال کرتے ہیں.کس موقع پر ، کس وقت پر، کس مقام پر، کس ملک میں ایک طریقہ احسن ہوتا ہے تو دوسرے موقع پر دوسرے وقت میں، دوسرے مقام پر یا دوسرے ملک میں دوسرا طریقہ احسن ہوتا ہے.ایک یہ فیصلہ کرنا کہ کونسے مقام یا کون سے ملک میں کون سا طریق احسن ہے خلیفہ وقت کا کام ہے جب خلیفہ وقت حالات دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے اور جماعت سے کہتا ہے.اتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ اِلَيْكُمُ.یہ چیز اس وقت کے لحاظ سے اور ان حالات میں احسن ہے تم اس کی اتباع کرو.آپ کے کانوں تک اس کی آواز نہیں پہنچتی.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ساری جماعتیں (جماعت سے مراد مثلاً گجرات یا جہلم کی جماعت ہے ) بوجہ اس کے ان تک خلیفہ وقت کی آواز نہیں پہنچتی وہ کام نہیں کر سکتیں.تو الفضل اس شخص کی بات آپ کے کان تک پہنچاتا ہے جس کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات لگائی ہے کہ جماعت کے متعلق یہ فیصلہ کرے کہ اسے اس وقت فلاں کام کرنے چاہئیں لیکن اگر آپ اپنے کانوں میں الفضل نہ منگوا کر یا اُسے نہ سن کر انگلیاں ڈال لیں تو پھر کام کیسے چلے گا.ہر جماعت میں کم از کم ایک پر چہ الفضل کا جانا چاہیئے.لیں تو کم.اور اور اور دو ہو جانی اور اس کی ذمہ داری امراء اضلاع اور ضلع کے مربیان پر ہے.اور اس کی تعمیل دو مہینے کے اندر ہو جانی چاہیئے.ورنہ بعض دفعہ تو میں یہ سوچتا ہوں کہ ایسے مربیوں کو جو ان باتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کام سے فارغ کر دیا جائے.اگر ان لوگوں نے خلیفہ وقت کی آواز جماعت کے ہر فرد کے کان تک نہیں پہنچانی تو اور کون پہنچائے گا اس آواز کو اور اگر وہ آواز جماعت کے کانوں تک نہیں پہنچے گی تو جماعت بحیثیت جماعت متحد ہو کر غلبہ اسلام کے لئے وہ کوشش کیسے کرے گی جس کوشش کی طرف اُسے بلایا جارہا ہے.پس الفضل کی اشاعت کی طرف جماعت کو خاص توجہ دینی چاہیئے.زیادہ سے زیادہ لوگوں کو الفضل خریدنا چاہیئے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کانوں تک وہ آواز پہنچنی چاہیئے جو مرکز کی طرف سے اٹھتی ہے اور خلیفہ وقت جوامر بالمعروف کا مرکزی نقطہ ہے اس کی طرف آپ کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۰۲ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب کان ہونے چاہئیں اور اس کی طرف آپ کی آنکھیں ہونی چاہئیں اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں اسلام جلد تر غالب ہو جائے.تحریک جدید - تحریک جدید کے متعلق میں سوچ رہا تھا.تو بعض باتیں میرے ذہن میں آئیں ان کے متعلق میں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بعض حوالے نکلوائے.جب میں نے وہ حوالے دیکھے تو مجھے بڑا لطف آیا کیونکہ ان حوالوں میں ایک ایسی بات تھی جس کا تعلق مستقبل کے ساتھ تھا اور وہ بڑی ز بر دست بات تھی لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور مجھے علم ہے ہماری نگاہ ابھی اس تک نہیں پہنچی تھی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے وہاں یہ فرمایا تھا کہ اس عرصہ کے بعد دنیا میں ایک ایسا انقلاب پیدا ہوگا کہ جماعت احمدیہ کی ترقی کے رستہ میں جو روکیں ہیں ان میں سے بعض دور ہو جائیں گی اور اس لحاظ سے بھی جماعت زیادہ مضبوط ہو جائے گی اور ساتھ یہ فرمایا تھا کہ میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بعض پیشنگوئیوں سے میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے.حضور نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ الہام یا کشوف ورڈ یا جس سے حضور نے یہ نتیجہ نکالا ہے وہ خود حضور کو ہوئی ہیں یا حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے.بہر حال آپ نے اتنا کہا ہے کہ بعض پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں وقت تک ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ جماعت کی ترقی کے راستہ میں جو بعض رکاوٹیں ہیں وہ دور ہو جائیں گی.حضور کے وہ اقتباس اب میں سناتا ہوں ذرا غور سے سنیں.ہاں جب تحریک جدید کی ابتداء کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تو یہ تحریک یا یوں کہنا چاہیئے کہ اس تحریک کی مالی قربانیوں کا عرصہ آپ نے صرف تین سال مقرر کیا تھا کہ میں یہ مطالبہ کرتا ہوں جماعت سے کہ اگلے تین سال کے اندر تین سال کی مجموعی رقم تین لاکھ دس ہزار کچھ سو روپیہ تحریک جدید کے کاموں کے لئے مجھے دے دو.یہ صرف تین سال کے لئے جاری کی گئی تھی اور مطالبہ ہے تین لاکھ دس ہزار کچھ سوروپیہ کا.حضور نے تحریک جدید کا تین سال کے عرصہ کے لئے اجراء فرمایا تھا اور یہ جو مجھے حوالے ملے ہیں اور جو میں آپ کو اس وقت سنانا چاہتا ہوں وہ دوسرے سال کے ہیں.اس لئے تحریک جدید کے آئندہ جاری رہنے کے متعلق بھی بیان ان حوالوں میں آ گیا ہے.حضور فرماتے ہیں:.تین سال تو پہلا قدم ہے.قربانیوں کے مطالبات اب زیادہ ہوں گے کم نہیں.جو وو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۰۳ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطا.--- خیال کرتا ہے کہ اب سال ختم ہو گیا یہ بھی ختم ہو جانی چاہئیں اس کے اندر ایمان نہیں.میرے ساتھ اب و ہی چلیں گے جو یہ مستقل ارادہ رکھتے ہوں گے کہ ہم نے اب سانس نہیں لینا.اب ہم خدا کے قدموں میں ہی مریں گے اور جان دیں گے.“ (الفضل مورخہ ۷ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم نمبر۲) نومبر ۱۹۳۷ء میں آپ نے یہ فرمایا کہ:.وو 66 یہ تحریک ابتداء تین سال کے لئے تھی اور یہ تین سال تجربہ کے تھے اور اس کے شروع میں ہی میں نے کہہ دیا تھا کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ ختم ہو جائے گی.( جب کہ دوسرے سال اعلان کر دیا ) بلکہ تین سال کے بعد یہ اس سے بھی زیادہ تعہد کے ساتھ جاری ہوگی اور زیادہ گراں اور بوجھل سکیم پیش کی جائے گی.(الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۳۷ء صفحه ۶ کالم ۴) 66 جنوری ۱۹۳۸ء میں آپ نے فرمایا کہ:.یا درکھو کہ قربانی وہی ہے جو موت تک کی جاتی ہے پس جو آخر تک ثابت قدم رہتا ہے وہی ثواب بھی پاتا ہے.اگر کوئی کہے کہ پھر نئے دور کو سات سال تک کیوں محدود رکھا ہے ( جب تین سال گزر گئے تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ اب میں مزید سات سال کے لئے تحریک جدید کا اجراء کرتا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ یہ بند نہیں ہوگی بلکہ جاری رہے گی.تو ذہن میں فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس نے جاری رہنا ہے تو سات سال کا یہ ایک دور کیوں مقرر کیا اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور فرماتے ہیں ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ قربانیاں کئی رنگ میں کرنی پڑتی ہیں موجودہ سکیم کو میں نے سات سال کے لئے مقرر کیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض پیشگوئیوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۴ء تک کا زمانہ ایسا ہے جس تک سلسلہ احمدیہ کی بعض موجودہ مشکلات جاری رہیں گی اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے حالات بھی پیدا کر دے گا کہ بعض قسم کے ابتلاء دور ہو جائیں گے.“ (الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۳۸ صفحه ۶ کالم نمبر ۳ ۴۰) حضور نے یہ نتیجہ بعض پیشگوئیوں سے نکالا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کونسی پیشگوئیاں ہیں اور وہ کس کی ہیں.یہاں صرف اتنا بتایا ہے کہ بعض پیشگوئیوں سے یہ پتہ لگتا ہے کہ ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۴ ء تک کا زمانہ ایسا ہے کہ اس کی انتہا تک یعنی زیادہ سے زیادہ ۱۹۴۴ء تک بعض روکیں قائم رہیں گی.یہ تو ایک پیشگوئی ہے.دوسری پیشگوئی یہ ہے کہ ۱۹۴۵ء میں وہ روکیں دور ہو جائیں گی اور یہ دوسری
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۰۴ ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب پیشگوئی انفرنس (Inference) کے رنگ میں میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ حالات پیدا ہو جائیں گے.اب وہ کونسی روکیں ہیں جو ۱۹۴۴ء تک عملاً جو ہوا وہ چوالیس تک کا زمانہ ہے.یعنی ویسے تو حضور نے فرمایا ۱۹۴۲ء تا ۱۹۴۴ء لیکن عملاً جو ہم نے دیکھا وہ روکیں ۱۹۴۴ء تک قائم رہیں اور ۱۹۴۵ء میں یکدم دور ہو گئیں اور دور بھی ہوئی ہیں یکدم کچھ مجھ نہیں آتی.میں نے جب یہ حوالہ پڑھا میری توجہ اس طرف گئی کہ حضور نے بڑی اہم بات کہی تھی لیکن ہم نے اس کی طرف توجہ نہیں کی ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہیئے کہ وہ کون سی روکیں تھیں جو ۱۹۴۴ء تک قائم رہیں اور پھر ۱۹۴۵ء میں دور ہو گئیں.تو ایک اور عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ہی ہدایت دیتا ہے اور خود ہی راہنمائی کرتا ہے.میں نے تحریک جدید سے بعض معلومات حاصل کیں تو جب میرے سامنے آئیں تو اس سوال کا جواب ان معلومات میں موجود تھا مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہاں سے مجھے مل جائے گا.تو میں نے خدا تعالیٰ کا بڑا شکر کیا اور اس کی حمد کی کہ پہلے ایک مسئلہ کی طرف توجہ دلائی پھر اپنی طرف سے ہی سامان پیدا کر دیئے کہ اس کا حل بھی مجھے معلوم ہو جائے.اور وہ حل یہ ہے اور وہ روکیں جو ہیں وہ یہ ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا تحر یک جدید ابتداء تین سال کے لئے جاری کی گئی اور اس کے بعد اس کا دوسرا دور سات سالہ ہوا یعنی مالی قربانیوں کا.اور یہ محدود سات سال دوسر لئے ہوئے تھے جس کی وجہ خود حضور نے بتائی جیسا کہ میں بیان کر رہا ہوں.109 یہ دس سالہ دور ۱۹۴۴ء میں ختم ہوتا ہے جیسا کہ خود حضور کا منشا یہی تھا لیکن اس زمانہ میں یعنی ۱۹۳۷ء یا ۱۹۳۸ء میں کوئی نہیں کہہ سکتا تھا جب تک کہ اللہ تعالیٰ سے علم نہ حاصل کرے کہ یکدم اور اچانک دنیا میں ایک انقلاب عظیم بپا ہوگا اور وہ اس طرح بپا ہوا کہ جس وقت تحریک جدید کی ابتداء کی گئی اس وقت تمام دنیا میں جماعت جو کام کر رہی تھی اس کا بار مرکز کے اوپر تھا.اس وقت ابھی پارٹیشن نہیں ہوئی تھی اور سارا ملک ہندوستان کہلا تا تھا.بعد میں وہ تقسیم ہو گیا اور پاکستان علیحدہ قائم ہو گیا اور جماعت کا مرکز پاکستان میں آ گیا.اس لئے میں اس وقت لفظ مرکز ہی استعمال کروں گا تا سمجھنے میں آسانی ہو.تو جو کام بھی ہم کرتے تھے اس کا سارا مالی بوجھ مرکزی جماعت پر ہوا کرتا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ تمام دنیا میں غلبہ اسلام کے کام کی ذمہ داری صرف مرکزی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۰۵ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطا.جماعت کے اوپر تھی.اور اگر کبھی خدانخواستہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے کہ مرکز اپنا کام جاری نہ رکھ سکتا تو دنیا میں غلبہ اسلام کی تحریک یا ختم ہو جاتی یا کھڑی ہو جاتی.اور یہ بڑی خطرناک چیز تھی سوچنے والے کے لئے.۱۹۴۴ء تک ایک پیسہ بھی آمد تحریک جدید کے ریکارڈ میں نہیں ہے کہ غیر ممالک کی طرف سے کوئی آمد ہوئی ہو.اس دس سالہ دور میں تحریک جدید کا سارا بار مرکزی جماعتوں یا مرکز کے سورسز آف انکم (Sources Of Income) یعنی ذرائع آمد نے اٹھایا اور جماعت کے ریکارڈ میں ایک دھیلہ بھی ایسا نہیں جو غیر ممالک نے اس تحریک میں ادا کیا ہو.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ بڑی خطر ناک حالت تھی ایک ملک کے اوپر انحصار کرنا ایک عالمگیر تحریک کا، اگر یہ تحر یک انسان کی ہوتی تو ہم کہتے بیوقوف ہیں.خدا کی تھی اور خدا سامان بھی پیدا کر رہا تھا.ہمیں پتہ نہیں لگ رہا تھا لیکن یہ تحریک خدا کی طرف سے تھی اور خدا تعالیٰ خود ہی اس کی مضبوطی کے ایسے سامان پیدا کر رہا تھا جن کا ہمیں علم نہیں تھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے ( غیر مبائعین کے نزدیک حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو تقویٰ کا مقام ہی نہیں حاصل لیکن خدا تعالیٰ کا آپ سے یہ سلوک تھا کہ اس نے آپ کو وقت سے پہلے یہ بتایا کہ ۱۹۴۴ء تک کا زمانہ بڑا خطرناک ہے بعض ایسی روکیں ہیں جماعت کی ترقی میں.اس وقت تک جماعت احمدیہ کی ترقی کے رستہ میں بعض روکیں قائم رہیں گی.اب یہ کوئی کم روک نہیں ہے کہ بلکہ ایک زبر دست روک ہے کہ جماعت کی ترقی کی سکیم کا انحصار صرف ایک ہی ملک یعنی مرکزی جماعتوں پر ہو اور اگر کسی وجہ سے یہ کام معطل ہو جائے تو ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کا کام معطل ہو جائے.تو خود ہی بتایا کہ ۱۹۴۴ ء تک یہ روکیں ہیں.۱۹۴۴ء تک جاری رہیں گی.اور ۱۹۴۴ء کے بعد روکیں دور ہو جائیں گی.اور ۱۹۴۵ء میں ہمیں یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ یہ روکیں دور ہوگئیں.خدا بڑی شان والا ہے وہ بڑی قدرتوں والا ہے اس کی قدرتوں کے جب نظارے ہم پر جلوہ گر ہوتے ہیں تب ایک طرف ہماری ہستی بالکل لاشئی محسوس ہوتی ہے دوسری طرف مخالف اور منکر مقابلہ میں جو کوششیں کرنے والے ہیں وہ مردہ نظر آتے ہیں.خدا تعالیٰ کی ان تجلیات کے بعد ہم نے پھر کیا ڈرنا.اللہ تعالیٰ کی شان اب دیکھیں ۱۹۴۴ء کے بعد ۲۳ سال ہوئے ہیں اس ۲۳ سال میں غیر ممالک کی احمدی جماعتوں اور غیر ممالک کے جو ذرائع آمد ہیں ان سے تحریک جدید
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ----- 1+4 ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطار کو ایک کروڑ بانوے لاکھ روپیہ سے اوپر کی آمد ہوئی ہے.یعنی پہلے تین سال کا مطالبہ تحریک جد کی مالی قربانیوں کا تین لاکھ کا تھا اور بعد میں ۱۹۴۵ ء کے بعد ۲۳ سال میں غیر ممالک کی جماعتوں نے قریباً دو کروڑ روپیہ تحریک جدید کے کاموں کے لئے پیدا کیا ہے.اور یہ ذرائع آمد باہر کے کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہیں بلکہ درجنوں ممالک جو ہیں وہ آمد پیدا کر رہے ہیں اور اس طرح پر جماعت کا قدم دنیا میں بین الاقوامی جماعت کی حیثیت سے بڑی مضبوطی سے قائم ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے مطابق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک بندے محمود کو دیا تھا ابتداء میں تحریک جدید کی مالی قربانیوں کا مطالبہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے پہلے تین سال کا مطالبہ تین لاکھ دس ہزار روپیہ کا تھا.اب تک تحریک جدید کی مجموعی آمد تین کروڑ اسی لاکھ سے اوپر نکل گئی ہے یعنی تین کروڑ چھیاسی لاکھ.یعنی ہر لاکھ کے مقابلہ میں سو گنا زیادہ.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شان ہے ہمارے اندر ایک خواہش ایسی پیدا کی جو اس وقت انہونی تھی اور انسان کا دل سمجھتا ہے کہ یہ بھی مل جائے تو یہ بڑا ہی فضل ہے خدا کا.اور پھر جب دینے پر آیا تو اس نے سو گنا زیادہ دے دیا تا کہ طبیعت میں سرور اور بشاشت پیدا ہو.یہ تو تحریک جدید کے متعلق ضروری تمہید تھی اب میں تحریک جدید کے گزشتہ سال کے کام جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تا کہ جماعت خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتی رہے کہ وہ کس طرح ہماری بالکل حقیر کوششوں میں برکت پہ برکت ڈال رہا ہے اور اپنے فضلوں سے ہمیں نواز رہا ہے.پہلا اور بنیادی کام ہماری جماعت کا اشاعت قرآن ہے.چنانچہ میں نے گزشتہ سال جماعت کے دوستوں کے سامنے یہ بات تفصیل سے رکھی تھی کہ بہت سے تراجم غیر زبانوں میں ہو چکے ہیں.بہت سے تراجم زیر طبع ہیں اور بعض عنقریب تیار ہو جائیں گے اور بعض پر ابھی کچھ وقت لگے گا اور بعض زبانوں میں ایسے تراجم ہیں جن کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہیئے ابھی تک ہمیں ایسے ذرائع میسر نہیں آئے کہ ہم ان تراجم کی طرف متوجہ ہوں.جماعت یہ سن کر خوش ہوگی کہ ڈینیش زبان میں گزشتہ سال قرآن کریم کے سات پاروں کا ترجمہ شائع ہوا تھا لیکن امسال پورے قرآن کریم کا ترجمہ مکمل ہو کر شائع ہو چکا ہے اور اس کی ایک کاپی وہاں سے روانہ ہو چکی ہے.مجھے امید تھی کہ وہ آج کی ڈاک میں پہنچ جائے گی اور میں دوستوں کو اگر چہ دور سے ہی ہو دکھا دوں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۰۷ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب گا لیکن وہ آج کی ڈاک میں موصول نہیں ہوئی.اگر وہ کل تک پہنچ گئی تو میں اسے کل دوستوں کی خدمت میں پیش کر دوں گا انشاء اللہ.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے یورپ کی ایک اور زبان میں ترجمہ قرآن مکمل ہوکر شائع ہو چکا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.تفسیر القرآن انگریزی جو تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے ۱۹۶۶ء میں مکمل ہو کر شائع ہو چکی ہے.اب اس لمبی تفسیر کا خلاصہ تیار کرایا گیا ہے جو اس وقت لاہور میں زیر طبع ہے اور اس طرح اب قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ مع تفسیری نوٹ ایک جلد میں مل سکے گا.اور یہ ہینڈی (Handy) ہوگا اور آسانی سے اس کا استعمال کیا جا سکے گا.پھر جن غیر مسلموں کو یہ دیا جائے گا ان کی طبیعتوں پر بھی اس کے جسمانی وزن کا بار نہیں ہوگا.اس کے علاوہ تفسیر القرآن انگریزی جلد اوّل سورۃ یونس تا کہف جو نایاب ہو چکی تھی اب دوبارہ طبع ہو رہی ہے اور پریس میں جاچکی ہے.وہ بھی انشاء اللہ عنقریب دوستوں کے ہاتھ میں آجائے گی.اس کے علاوہ قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ مکمل ہو چکا ہے.نظر ثانی بھی ہو چکی ہے.اب مختصر تفسیری نوٹ تیار کرنے کا انتظام ہورہا ہے.ارادہ ہے کہ تفسیری نوٹوں کے ساتھ فرانسیسی ترجمہ شائع کیا جائے.مغربی افریقہ کی فینیٹی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے.اور پانچ پاروں ہے نظر ثانی بھی ہو چکی ہے.اس کے علاوہ انڈونیشیا کی زبان میں دس پاروں کا ترجمہ اور تفسیر مع دیباچہ تفسیر القرآن پریس میں دے دیا گیا ہے اور ایک حصہ چھپ بھی چکا ہے اور بطور نمونہ کے یہاں پہنچ بھی چکا ہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترجمہ اور تفسیر قرآن کے سلسلہ میں گزشتہ سال تحریک جدید نے یہ کام کئے ہیں.تفسیر قرآن کریم کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی انگریزی زبان میں دوبارہ طبع کروائی گئی ہے اور ایک لاکھ کی تعداد میں اسے شائع کروایا گیا ہے تا کہ دنیا میں اسے پھیلا دیا جائے.اسی طرح ختم نبوت کی حقیقت انگریزی زبان میں شائع کی گئی ہے.رسالہ جات میں تحریک جدید کا بھی اپنا ایک رسالہ ہے اور اس کا نام بھی تحریک جدید
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۰۸ ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب ہے.یہ رسالہ بھی اچھا اور دلچسپ ہے گو میرا یہ فرض ہے کہ میرے پاس جو رسالہ آئے اُسے میں پڑھوں لیکن اپنی مصروفیتوں کے باوجود جن رسالوں کو میں دلچسپی سے پڑھتا ہوں ان میں سے ایک رسالہ تحریک جدید بھی ہے.یہ رسالہ بھی دلچسپ ہے دوستوں کو اس کی طرف بھی توجہ دینی چاہیئے اس کی قیمت بھی بہت کم ہے یعنی دور و پیہ سالانہ ہے اور یہ کوئی قیمت نہیں ہے.: نئی مساجد ڈنمارک کے دارالخلافہ کو پن ہیگن میں مئی ۱۹۶۶ء میں مسجد کی بنیاد رکھی تھی جواب قریباً مکمل ہو چکی ہے چھتیں بھی پڑ چکی ہیں.آخری جو کام ہوتے ہیں وہ تھوڑے بہت ابھی رہتے ہیں.سمجھنا یہی چاہئے کہ یہ مسجد محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہوئی ہے اور اس کی بنیادیں بھی کافی دیر بعد مئی ۱۹۶۶ء میں رکھی گئیں تھیں.غانا میں دونئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں.مسا کا ( یوگنڈا) میں زیر تعمیر مسجد مکمل ہو چکی ہے.ٹانگانیکا ( تنزانیہ ) میں ایک نئی مسجد تعمیر ہوئی ہے.نائیجیریا میں پانچ زیر تعمیر مساجد میں سے ایک مکمل ہو چکی ہے.یہ مسجد کا نو شہر میں ہے.فری ٹاؤن کے اسٹرابیریا میں مسجد کی دیوار میں مکمل ہو چکی ہیں.چھت پڑنی باقی ہے لیکن وہاں کی احمد یہ جماعت نے اپنی روایات کے مطابق نمازیں ادا کرنی شروع کر دی.چھت بھی اپنے وقت پر پڑ جائے گی تو بطور مسجد کے وہ استعمال ہونے لگ گئی ہے.گیمبیا کے قصبہ سارا کونڈا میں ایک مسجد تعمیر ہو چکی ہے اسی طرح’فیرافینی ، میں ایک مسجد تعمیر ہو چکی ہے.اور سالے کینیا میں ایک ایک مسجد تیار ہو چکی ہے.گیمبیا وہ ملک ہے جہاں کا گورنر جنرل خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک احمدی کو مقرر کیا گیا تھا.اور وہ کنفرم (Confrim) بھی ہو چکے ہیں اور مستقل گورنر جنرل بنا دیئے گئے ہیں.جماعت کے کاموں میں بڑا حصہ لیتے ہیں دوستوں کو علاوہ باقی دوستوں کے جن کے لئے دعائیں کرنی ہیں ان کے لئے بھی دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بادشاہ جو ایک رنگ میں ایک آزاد ملک کا صحیح معنی میں بادشاہ ہے دیا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے تبرک حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی اور اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ باوجود کوشش اور خواہش کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے تبرک کے بھجوانے میں دیر ہوتی چلی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں بھی ایک حکمت رکھی ہوئی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) 1+9 ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب تھی.اور آخر جس دن وہ تبرک وہاں پہنچا اور انہوں نے وصول کیا اُسی دن بی بی سی کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ ان کو مستقل گورنر جنرل بنا دیا گیا ہے اور پہلی برکت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں کی انہوں نے اس طرح وصول کی.مشن ہاؤس کے لئے آئیوری کوسٹ میں مشن ہاؤس بنا بنایا خرید لیا گیا ہے.اسی طرح لائبیریا میں جو افریقہ کا ایک ملک ہے وہاں بھی مشن ہاؤس خریدا گیا ہے.نے مشن ، سکاٹ لینڈ میں نیا مشن کھولا گیا ہے.جہاں بشیر احمد صاحب آرچرڈ کام کر رہے ہیں یہ بڑے مخلص انگریز واقف زندگی ہیں کہ یہاں کے لوگ ان کو بھی ان کے اوپر رشک آتا ہے بڑی ہی فدائی، بڑے ہی قربانی دینے والے اور ایثار پیشہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال.احمدیت اور اسلام کی خدمت کرنے والے نوجوان ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کے ساتھ ہو انگلستان میں ایک مبلغ کا اضافہ کیا گیا ہے.بعض دوسرے مشنوں میں بھی مبلغین کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے جیسا کہ مثلاً جرمنی میں ایک مبلغ کا اضافہ ہوا ہے.گیمبیا میں ایک مبلغ کا اضافہ ہوا ہے.میں نے وہاں کے گورنر جنرل صاحب کو لکھا تھا کہ آپ کوشش کریں کہ ایک ڈاکٹر یہاں آ جائے وہ اگر ضرورت کبھی پیش آئے تو آپ کا علاج بھی کرے گا اور آپ کی قوم کی خدمت بھی کرے گا اور انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے وزیر صحت سے اس کے متعلق بات کر لی ہے آپ کو ائف بھیج دیں امید ہے اس کی اجازت مل جائے گی.دوست یہ بھی دعا کریں کہ وہاں ہمارے ایک ڈاکٹر بھی پہنچ جائیں اور اس طرح دنیا کی خدمت کے ذریعہ بھی ہم اللہ تعالیٰ کی برکات کو حاصل کریں.( ہاں وہ جو کتا بیں تھیں تحریک جدید، تفسیر القرآن کے بعد یہ مجھ سے زبانی بات کی تھی لیکن ذہن سے نکل گیا.اسلامی اصول کی فلاسفی انگریزی زبان میں دوبارہ طبع کروائی گئی اور شائع کی گئی ہے اور ایک لاکھ کی تعداد میں اس کو شائع کیا گیا ہے تاکہ دنیا میں اس کو پھیلا دیا جائے.اسی طرح ختم نبوت کی حقیقت انگریزی میں شائع کی گئی ہے رسالہ جات میں تحریک جدید کا بھی اپنا رسالہ ہے اس کا نام ہی تحریک جدید ہے وہ بھی بڑا اچھا اور دلچسپ ہے.اپنی مصروفیتوں کے باوجود میرے پاس جب آئے گا میرا فرض بھی ہے اور لیکن اس کے علاوہ میں دلچسپی کے لحاظ سے بھی جن رسالوں کو پڑھتا ہوں ان میں ایک تحریک جدید کا بھی رسالہ بڑا دلچسپ ہے دوستوں کو اس طرف بھی توجہ دینی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) 11 + ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطار چاہئے اور بڑی کم قیمت رکھی ہے غالباً ایک روپیہ، دورو پے کوئی قیمت نہیں.دو روپے میں آپ کو مل جائے گا.۴:.نئے سکول غانا میں پانچ نئے پرائمری سکول کھولے گئے ہیں اسی طرح وہاں ایک مشنری ٹریننگ کالج بھی کھولا گیا ہے جہاں ہم مبلغین تیار کر رہے ہیں.اس کالج میں نائیجیریا، غانا، سیرالیون، گیمبیا اور لائبیریا کے طلباء تربیت حاصل کر رہے ہیں اور علم سیکھ رہے ہیں.سیرالیون میں ”باجے بو کے مقام پر ایک سیکنڈری سکول کھولا گیا ہے.اس سکول کے کھلنے میں بڑی دقتیں تھیں کیونکہ وہاں کے عیسائی مشنری حکومت پر پورا دباؤ ڈال رہے تھے کہ اس جگہ پہ احمدیوں کی بجائے عیسائیوں کو سکول کھولنے کی اجازت دی جائے اور کافی دیر سے یہ کشمکش جاری تھی.آخر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ عیسائیوں کو اجازت ملنے کی بجائے ہمیں احمدیوں کو اجازت مل گئی اور وہاں اب یہ سکول جاری ہو گیا ہے.الحمد للہ علی ذالک اور اب اس ملک سیرالیون میں ہمارے تین سیکنڈری سکول کام کر رہے ہیں اور ان کی وجہ سے تبلیغ میں وسعت پیدا ہوگئی ہے اور نفوذ بہت بڑھ رہا ہے.حال ہی میں سابق فرینچ گنی کی سرحد کے قریب سیرالیون میں ایک پرائمری سکول بھی کھولا گیا ہے اور اس سے فائدہ ہمیں یہ ہے کہ جو فرانسیسی علاقے ہیں وہاں چونکہ کیتھولک مشن تھے اور وہ دوسروں کی نسبت زیادہ متعصب ہیں وہ ان ملکوں میں جانے نہیں دیتے تھے تو کچھ تو ان کی دیکھا؟ دیکھی کچھ انہوں نے اس کو Incourage بھی کیا تھا.وہاں کے مسلمان مولوی بھی بڑے متعصب ہیں اس لئے ان ملکوں میں ہمارے مشن کھلنے میں بڑی دقت ہے لیکن اللہ تعالی سامان پیدا کر رہا ہے کہ وہاں ہماری جماعتیں قائم ہو رہی ہیں اور وہ اس طرح کہ فرانسیسی علاقوں کے ممالک کی سرحد میں ان ممالک سے ملتی ہیں جو کسی وقت انگریزوں کی تحویل میں تھے اور اب آزاد ہیں اور جہاں ہمارے مشن ہیں.تو وہاں اس قسم کی سرحدیں نہیں جس طرح ہمارے ملک میں واہگہ یا قصور کے آگے حسینی والا کی سرحدیں ہیں بلکہ عام لوگ ادھر ادھر جاتے رہتے ہیں تو اگر ہمارا کوئی سکول یا مشن سرحد پر واقع ہو تو چونکہ ہر روز کوئی نہ کوئی آدمی ادھر سے آتا جاتا رہتا ہے اس لئے جب وہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ' ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب لوگ اس جگہ آئیں گے جہاں ہمارا سکول یا مشن واقع ہوگا تو وہاں وہ زیر تبلیغ آتے ہیں تو وہاں وہ احمدی ہو جاتے ہیں چنانچہ بہت سے لوگ گیمبیا کے ذریعہ ، سیرالیون کے ذریعہ اور بعض دوسرے ممالک کے ذریعہ بہت سے لوگ فرانسیسی ممالک سے وہاں پہنچنے کے بعد احمدیت کو اور اسلام کو قبول کر چکے ہیں.اور اس طرح اللہ تعالیٰ وہاں جماتیں قائم کرنے کے سامان پیدا کر رہا ہے.نئی بیعتیں کم و بیش پانچ ہزار نئی بیعتیں غیر ممالک میں ہوئی ہیں.فالحمد للہ علی ذالک ہماری ضروریات جہاں تک تحریک جدید کے کاموں کا سوال ہے ہماری ضرورتیں یہ ہیں اور جماعت پر اس کی ذمہ داری ہے.جماعت کو سوچ کر شوری کے موقع پر اپنی مجالس عاملہ میں اپنی اپنی جماعتوں کے اندر اور دوسرے مواقع پر ان باتوں پر غور کرنا چاہئے.یہی وجہ ہے کہ میں یہاں جلسہ عام میں دوستوں کے سامنے یہ باتیں رکھتا ہوں کیونکہ یہ کوئی میری جائیداد نہیں ہے یہ سارے فضل جو اللہ تعالیٰ مختلف رنگ میں مختلف وقتوں میں اور مختلف ممالک میں ہم پر کر رہا ہے وہ ساری جماعت کا اور اکٹھا سب کا ملا جلا ورثہ ہے.ہم اس میں شریک ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے اور اپنی برکتوں میں حصہ دار بناتا ہے.یہ مشترکہ ورثہ ہے اور مشترکہ ذمہ داری ہے اس کے نتیجہ میں ہم پر مشترکہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.پہلی ضرورت ہے مبلغین کی میں اس تھوڑے سے عرصہ میں جب سے مجھ پر یہ ذمہ داری پڑتی ہے بار بار جماعت کو اس طرف متوجہ کر رہا ہوں کہ ہمیں مبلغین زیادہ تعداد میں چاہئیں.دسویں جماعت کے طالب علم ان کے لئے ہزار راستے آگے دُنیا میں ترقی کرنے کے ہیں اور ان کے لئے ایک راستہ وہ کھلا ہے جو علاوہ دُنیا کی ترقی کے ان کو جنت تک پہنچاتا ہے.آپ بڑے ظالم ماں باپ ہیں اگر آپ جنت کی طرف جانے والے راستہ پر کھڑے ہو کر اسے کہتے ہیں کہ نہیں اس طرف جا اس راستہ پر نہیں ہم تمہیں چلنے دیں گے.یا اگر وہ جنت کی طرف جانے والے راستہ کی بجائے کوئی اور راستہ اختیار کرتا ہے تو آپ اس کو سمجھانے کی کوشش نہیں کرتے.جو لوگ خدا کی راہ میں اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں ظاہری اموال کے لحاظ سے بے شک وہ آپ کو غریب نظر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۱۲ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب آئیں لیکن جو لذت اور سرور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں عطا کیا جاتا ہے اس وقف کی زندگی میں اس کے مقابلہ میں دُنیا کی تمام لذتیں اور سرور بیچ ہیں.اس لئے وہ غریب نہیں ہیں بلکہ دنیا داروں کی نسبت اپنے نتیجہ کے لحاظ سے کہیں زیادہ بہتر ہیں.پس اپنے بچوں کو اس دولت سے محروم نہ کریں اور خدا کی اس ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے میں تمہاری مددصرف اس وقت اور اس وقت تک کرتا رہوں گا جب تک کہ تم میرے دین کی مدد کرتے رہو گے.پھر ہمیں ضرورت ہے ایسے ڈاکٹروں کی جو ریٹائر ہونے کے بعد فراغت حاصل کر سکتے ہوں تو فراغت حاصل کر کے غیر ممالک میں تحریک جدید کے انتظام کے ماتحت جائیں.وہاں اللہ تعالیٰ انہیں دنیوی اموال بھی دے گا اور وہاں اللہ تعالیٰ ان کو یہ توفیق بھی عطا کرے گا کہ وہ ساتھ ساتھ دین کی خدمت بھی کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ ان کو ذریعہ بنائے گا دین اسلام کو مضبوط کرنے کا اور اللہ تعالیٰ ان کو ذریعہ بنائے گا توحید خالص کے قیام کا.اللہ تعالیٰ ان پر بے شمار برکتیں اور رحمتیں نازل کرے گا اس سے منہ نہ موڑو.پس اے میرے بھائی ڈاکٹرو! خدا کے دین کے لئے سلسلہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تم اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کرو.ہمارا کام تا ہماری ذمہ داریاں تا ان ذمہ داریوں کے جو حسین نتائج نکلنے والے ہیں ان کا وقت قریب سے قریب تر آتا چلا جائے.ہمیں ضرورت اس کے علاوہ اساتذہ کی ہے ایم.اے ، ایم.ایس سی.یابی.اے اور بی.ایس.سی ٹرینڈ جو غیر ممالک میں جائیں گے ہمارے سکولوں میں یا ہمارے ذریعہ سے بعض دوسرے سکولوں میں کام کریں وہ بھی اسلام کی تقویت کا باعث بنتے ہیں جیسا کہ ہمارا پہلے تجربہ ہے لیکن میں یہ بھی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ پہلے ہم اس وقت تک مغربی افریقہ میں اساتذہ بھیجا کرتے تھے اور چونکہ وہ ممالک تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اور ان ممالک میں یہ بڑا خیال ہے کہ ہم اپنے ملک میں تعلیم کو عام کریں اور اس کے معیار کو بلند کریں اس لئے وہ کافی رقوم تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں اور ہمارے سکولوں میں جوایم.اے ایم.ایس سی یا بی.اے، بی.ایس.سی ٹرینڈ وہاں جاتے ہیں ان کو ہمارے ملک کی نسبت بھی زیادہ تنخواہیں اس لئے دی جارہی ہیں کہ وہاں کی حکومت بڑا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۱۳ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب حصہ اس بوجھ کا اپنے اوپر اٹھا رہی ہے.ہمارے اوپر اتنا بوجھ نہیں پڑتا لیکن مشرقی افریقہ کا یہ حال نہیں وہاں کم از کم چند سال تک صحیح معنی میں جو سیدھے سادھے سادہ زندگی گزارنے والے واقف ہیں اس قسم کے استاد چاہئیں.ورنہ مشرقی افریقہ میں ہماری رفتار ترقی رک جائے گی یا وہ بہت آہستہ ہو جائے گی.وہاں اس وقت ہائر سیکنڈری سکول کھولنے کی بڑی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے لیکن جب یہ ملک آزاد ہوئے وہاں عیسائیت کے ہاتھ میں حکومت کی باگ دوڑ آ گئی اور وہ بڑے تعصب سے کام لے رہے ہیں.ہماری مدد کرنے کے لئے تیار نہیں.کم از کم کچھ عرصہ تک ہمیں قربانی دینے والے اور ایثار پیشہ اساتذہ ایم.اے، ایم.ایس.سی یا بی.اے اور بی.ایس.سی ٹرینڈ اساتذہ چاہئیں جو ان ملکوں میں جا کر واقفین کے برابرگزارہ لیں یا شاید حالات اگر اجازت دیں تو ہم انہیں کچھ زیادہ بھی دے دیں وہاں جائیں اور سکولوں کی بنیا درکھ دیں.میری یہ خواہش ہے اور میں اس کے لئے کوشش بھی کر رہا ہوں اور دعا بھی کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا کرے کہ بڑی جلدی اور پہلے منصوبہ میں مشرقی افریقہ میں ہمارے ہائرسیکنڈری یا سیکنڈری سکول قائم ہو جائیں کیونکہ مجھے نظر آرہا ہے کہ اس کے بغیر ہماری ترقی وہاں رُک جائے گی.ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہ میں اور نہ آپ اس بات کو برداشت کر سکتے ہیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقی کے سامان پیدا کئے ہیں اپنی غفلتوں کی وجہ سے ان سامانوں کو ہم ضائع کر دیں اور ان مواقع کو کھو دیں تو ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جو قربانی کرنے والے ہوں اور کم تنخواہ پر وہ مشرقی افریقہ کے تینوں ممالک میں ں جہاں بھی ہمارے سکول کھلیں جا کر کام کریں.ایک ملک نے تو لکھا تھا کہ آپ فوراً ہمیں سکول کے لئے اساتذہ بھیجیں یکم جنوری کو جو گزر گیا ہے ہم وہاں سکول کھول دیتے کیونکہ حکومت یہاں جلد سکول کھولنا چاہتی ہے.اس کے علاوہ ہمیں روپیہ کی ضرورت ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہماری ۳۳ سالہ کوشش کے نتیجہ میں جو آمد تحریک جدید کو مرکزی جماعتوں کی طرف سے ہوئی اس سے زیادہ آمد غیر ممالک کی جماعت کی ۲۳ سالہ کوشش سے ہو چکی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ سے آگے نکل گئے ہیں.اگر وہ مالی قربانیوں میں مستقل طور پر آگے نکل گئے اور ہم نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو کل کو ان کو یہ حق ہوگا کہ وہ یہ کہیں (اگر وہ سب اکٹھے ہو جائیں ) کہ یہ ٹھیک ہے کہ خلیفہ وقت کے احکام
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۱۴ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب کو ماننا ہر ملک کے احمدیوں پر فرض ہے اور ہم احکام کے تابع ہیں لیکن غیر ممالک میں اسلام کے غلبہ کے لئے جو کوشش ، جو مجاہدہ ، جو جد و جہد اور تدبیر اس وقت اختیار کی جاری ہے اس میں ہمارا کنٹری بیوشن (Contribution) اس میں ہمارا حصہ زیادہ ہے اس لئے اس کا سارا انتظام ہم کریں گے.صدر انجمن احمدیہ یا تحریک جدید نہیں کرے گی.اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک حد تک حق بجانب ہوں گے اور کہیں گے قربانیاں ہم دیں اور نظام ہم کسی اور کے ہاتھ میں رکھتے ہیں جس طرح آپ کے مطیع اور فرماں بردار تحریک جدید کے وکلاء ہیں اسی طرح ہم ہیں ہمیں کیوں محروم رکھا جائے.تو مرکزی جماعتوں کا قربانیوں کا معیار بہر حال ان جماعتوں سے بڑھ کر رہنا چاہیئے اور اس وقت وہ مجموعی لحاظ سے ہم سے آگے ہیں.یہ صحیح ہے کہ کوئی ایک ملک ایسا نہیں ہے جس کی مالی قربانیاں مثلاً اس کا پانچواں یا دسواں حصہ بھی ہوں جو یہاں کی جماعت کر رہی ہے لیکن وہ بہر حال مجموعی حیثیت میں آج ہم سے بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں.کل ان میں سے کوئی ایک ملک ایسا ہو جائے گا آپ میں سے ہر شخص کی خواہش ، تمنا اور دعا ہے کہ مثلاً سیرالیون سارا احمدی ہو جائے، مثلاً غانا سارا احمدی ہو جائے، مثلاً گیمبیا سارا احمدی ہو جائے ، مثلاً نائیجیر یا سارا احمدی ہو جائے.وہ کون سا ملک ہے جس کے احمدی ہو جانے کے متعلق آپ کے دل میں خواہش نہ ہو اور اس کے لئے آپ کی دعا نہ ہو جس وقت وہ ملک احمدی ہو گیا اور اس کی مالی قربانیاں آپ سے بڑھ گئیں اس دن وہ کہے گا نظام ہمارے ہاتھ میں دو یا ہمارے مقابلہ میں آکے قربانیاں دو.تو قبل اس کے کہ ایسا دن آئے کہ آپ کے ہاتھ یہ سے فضیلت چھین لی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کا نظام آپ کے ہاتھ میں دیا ہے اور آپ کے ہاتھ سے چلا رہا ہے.ان باتوں کی طرف توجہ دو اور اپنی قربانیوں کے معیار کو اور قربانیوں کی رفتار کو بڑھاؤمل کے سب نے ایک تنبیہ ہمیں کر دی ہے.وارننگ سگنل بلند ہو چکا ہے اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو مالی قربانیوں میں زیادہ سے زیادہ آگے نکلو جتنا لٹریچر ہے ( کتابیں، رسالے، قرآن قریم کے تراجم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے تراجم.جن کی بڑی ضرورت ہے جتنی اچھی تربیت ہو گئی ہے ناں غیر ممالک میں مثلاً افریقہ کے حبشیوں کی.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۱۵ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض کتب اور کچھ کتب کے بعض حوالے آپ نے ان کے ہاتھ میں رکھے تھے.اس سے پہلے وہ واقف ہی نہیں تھے ان چیزوں سے کوئی پیاس ان کے اندر نہیں تھی کوئی ان کے دل میں خواہش نہیں پیدا ہوئی تھی کہ ہم یہ پڑھیں.اب آپ نے ان کو چسکا لگا دیا ہے.اب کسی اور تحریر سے ان کی یہ پیاس نہیں بجھتی اتنے خطوط آتے ہیں میرے پاس کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا ترجمہ آپ کیوں نہیں کرتے انگریزی میں ہمیں کیوں محروم رکھا ہوا ہے بڑے ظالم ہوں گے آپ کہ آپ پیاس کو بھڑکا دیتے ہیں اور پانی مہیا نہیں کرتے.تو یہ لٹریچر کیسے پیدا ہو کس طرح یہ طبع ہو کیسے یہ تقسیم کیا جائے جب تک ہمارے پاس پیسے نہ ہوں.اس وجہ سے بھی ہمیں اپنی قربانیوں کے معیار کو بلند کرنا پڑے گا.۳:.وقف جدید وقف جدید بھی اپنے میدان میں اور ان ذمہ واریوں کے نباہنے میں جو ان کے سپرد کی گئی ہیں محض خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑا ہی اچھا کام کر رہی ہے.لیکن وقف جدید کو بھی دو چیزوں کی ضرورت ہے.ایک معلمین کی اور ایک معلمین کے خرچ کو برداشت کرنے کی.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ تجویز ڈالی کہ جماعت کے پندرہ سال سے کم عمر بچوں سے یہ اپیل کروں کہ وہ وقف جدید کے چندے کا جو کم سے کم معیار ہے یعنی چھ روپے دے کر یا بعض گھرانے اگر بہت ہی کمزور ہوں تو سارے بچے مل کر ایک بچہ کی رقم چھ روپے آٹھ آنے ماہوار دے کر وقف جدید کا بوجھ اٹھا ئیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر احمدی بچے اپنے مقام کو پہچانیں یا یوں کہنا چاہیئے کہ اگر احمدی بچوں کے والدین اپنے بچوں کو اس بات کے سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بچوں کو کیا مقام عطا کیا ہے اور اس کے نتیجہ میں ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں تو ہمیں وقف جدید کے چندہ کے متعلق کوئی فکر باقی نہ رہے.سارا بوجھ موجودہ اور آئندہ تین سال کا بوجھ جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑھنے والا ہے وہ ہمارے آج کے بچوں کی تعداد اگر سب اس میں شامل ہوں پورا کر دیتی ہے.وہ جو تین سال کے بعد جو نئے بوجھ بڑھیں گے اس کے لئے آج سے اللہ تعالیٰ ہمیں نئے بچے دے رہا ہے اور ان تین سالوں میں میرے اندازہ کے مطابق ہیں یا پچیس ہزار بچے اگلے تین سال میں احمدی گھرانوں میں پیدا ہو جائیں گے اور پھر انشاء اللہ تعالیٰ یہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ١١٦ ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب برکتوں والے، خیر والے بچے اور اپنے ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بچے اپنے ماں باپ کو کہیں گے.وہ بولیں گے بعد میں لیکن اپنی پیاری آنکھوں سے اپنے ماں باپ کو کہ رہے ہوں گے کہ ہم دنیا میں آئے ہیں اور ہم نے تمہاری گود کو ہرا کیا ہے اور تمہارے دل کا سرور پیدا کیا ہے تم شکرانہ کے طور پر ہماری طرف سے چھ روپیہ وقف جدید میں دینا شروع کر دو.بعض ماؤں کو تو میری تحریک پر اتنا خیال پیدا ہوا جس جمعہ کے روز میں نے یہ خطبہ دیا ہے جب میں گھر گیا تو میں نے گھر میں بات کی کہ دل تو یہ چاہتا ہے کہ جو بچے ماں کے پیٹ میں ہیں ابھی دنیا میں نہیں آئے اگر مائیں ان کی طرف سے بھی پیسے دے دیں تو اللہ تعالیٰ بہت ساری برکتیں ان ماؤں کے لئے بھی اور ان بچوں کے لئے بھی پیدا کر دے گا اس دنیا میں آنے سے بھی پہلے.تو اسی وقت مجھے کسی کی طرف سے یہ اطلاع ملی کہ میں یہ رقم اس بچہ کی طرف سے پیش کر رہی ہوں جو ہونے والا ہے میری طبیعت میں بڑا سرور پیدا ہوا اور یہ سن کر خوشی ہوئی کہ خود ہماری بہنوں کو اس طرف توجہ ہوئی ہے اور یہ برکت والی بات ہے.اس وقت سوائے ضروری صدقات کے ہر صدقہ اشاعت اسلام کے نام پر خرچ ہونا چاہیئے.بچہ کی پیدائش سے پہلے ہزار قسم کے وہم ہوتے ہیں اور بعض قسم کی حقیقی تکالیف بھی ہوتی لئے بعض سمجھدار ما ئیں خصوصاً شہروں میں رہنے والی مائیں سمجھتی ہیں کہ ہمیں صدقہ دینا چاہیئے اور اس وقت آپ کے پیسہ پر سب سے زیادہ حق اس تحریک کا ہے جس تحریک کے ذریعہ دنیا میں قرآن کریم کے نور کو پھیلایا جا رہا ہے اور جس تحریک کے ذریعہ دنیا میں قرآن کریم کے نور کو قائم رکھا جا رہا ہے.اگر ہمارے بچے اس بوجھ کو اٹھا لیں تو ہمیں کوئی فکر باقی نہیں رہتی لیکن ہمارے بہت سے بچے اور بہت سی مائیں اور بہت سے باپ ایسے ہیں جن کے کانوں تک یہ آواز نہیں پہنچی تھی کیونکہ وہاں الفضل، نہیں جاتا جیسا کہ میں نے آپ کو الفضل“ کے ضمن میں اس طرف متوجہ کیا ہے اور ابھی آگے جا کر پھر میں بعض اور لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتلاؤں گا کہ بہت کم جماعتوں نے اس طرف توجہ کی ہے ان کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.اس کے علاوہ واقفین جماعت مہیا نہیں کر رہی اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ ساری جماعتوں کو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۱۷ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب اطلاع ہی نہیں کہ اس قسم کے لوگ کتنی تعداد میں چاہئیں.امرائے اضلاع اور مربیان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام معلومات جماعتوں تک پہنچائیں.اگر ہم نے ایک شخص کو سارے ضلع کا امیر مقرر کیا ہے تو اس کا یہ حق نہیں کہ کہے میں سارے ضلع کا امیر نہیں بنا چاہتا میں تو صرف پانچ جماعتوں کا امیر ہوں.ان کے متعلق مجھ سے رپورٹیں بھی لے لیں اور ان جماعتوں میں مجھ سے کام بھی کروالیں یہ تو نہیں ہوگا اگر آپ ضلع کے امیر ہیں تو ضلع کی ساری جماتوں کی ذمہ داری آپ کو اٹھانی پڑے گی اگر آپ ضلع میں مربی مقرر ہوئے ہیں تو صرف ان مقامات پر جہاں آپ کی دوستی ہو جائے یا جہاں آپ سمجھیں کہ آپ کو زیادہ سہولت ہے یا جہاں تک پہنچنے میں آپ کو زیادہ آرام ہے وہاں کے تو آپ اپنے کو مر بی سمجھیں اور جہاں پہنچنے میں آپ کو دقت ہو جہاں آپ کی دوستی نہ ہو جہاں آپ کو آرام نہ ملتا ہو ان جماعتوں کے متعلق آپ یہ سمجھنے لگ جائیں کہ ہم ان جماعتوں کے مربی نہیں ہیں تو یہ تو ٹھیک نہیں ہے اور نہ میں اس چیز کو برداشت کروں گا آپ آج سے اپنے ذہنوں کی اصلاح کر لیں کیونکہ انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ میں نے بھی اور آپ نے بھی پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ کام کرنا ہے جیسا کہ ہمارے ایک دوست نے خواب میں یہ دیکھا کہ میں آیا ہوں اور میں کہتا ہوں کہ اب چلنے کا زمانہ نہیں رہا اب ہمیں بھاگنا چاہیئے اور جو کی رہ جائے گی یا جو اونچ نیچ رہ جائے گی ( کچھ اس قسم کا فقرہ تھا ) اس کو بعد میں میں دیکھ لوں گا.اس کے بعد کہتے ہیں میں دوڑنے لگ گیا ہوں اس کے بعد نظارہ بدلا تو دیکھا کہ جس طرح زمین میں ہل چلایا جاتا ہے اور وہ پوری طرح ہموار نہیں ہوتی.اس میں ابھی کچھ ڈھتاں (یعنی ڈھیلے ) ابھی پڑے ہوئے ہیں خواب میں ہی انہیں یہ سمجھ آئی کہ یہ جو کہا ہے کہ نشیب و فراز جو رہ جائے گا اسے میں بعد میں دیکھ لوں گا وہ ہیں چیزیں جو یہ رہ گئی ہیں.ہم نے بہر حال تیزی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے انشاء اللہ تعالیٰ جب تک خدا تعالیٰ مجھے ندگی دیتا ہے میں آپ کو ان باتوں میں اور ان ذمہ داریوں کے نبھانے میں سست نہیں ہونے دوں گا چاہے آپ مجھ سے خوش ہوں یا مجھ سے ناراض ہوں.میں اپنے مولیٰ کو اپنے سے ناراض نہیں ہونے دینا چاہتا.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴:.صدر انجمن احمدیہ ۱۱۸ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطار صدر انجمن احمدیہ کے متعلق تو میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ اپریل کے شروع میں نظارت بیت المال کی طرف سے مجھے یہ رپورٹ ملی کہ اب ایک مہینہ بھی پورا نہیں رہا.ہمارا بجٹ بہت پیچھے رہ گیا ہے کئی لاکھ روپیہ کی کمی ہے اور اگر یہ پورا نہ ہوا تو ہم مقروض ہو جائیں گے اور کا موں کو بہت نقصان پہنچے گا.اس وقت میں نے غالباً ۱/۸ پریل کو خطبہ جمعہ میں جماعت کو اس طرف متوجہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ ان (ہوائی جہازوں کی بجائے ) جماعت پر فرشتے نازل ہوئے اور انہوں نے جماعت کے دلوں میں تحریک کی اور تین ہفتے کے اندر اندر پانچ لاکھ روپیہ بیت المال کو وصول ہو گیا اور اس طرح نہ صرف یہ کہ ہمارا بجٹ جو تھا وہ پورا ہو گیا بلکہ کافی رقم اس سے زائد ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے جو بعض نامعلوم بوجھ بعد میں پڑنے والے تھے ایسے بھی آ جاتے ہیں بوجھ ان کی ادائیگی کے بھی سامان پیدا کر دئیے.سیہ بات میں اس وقت دو وجہ سے بیان کر رہا ہوں ایک تو اس وجہ سے کہ ساری جماعت خدا تعالیٰ کی حمد بجالاتی رہے اور شکر کرتی رہے کہ اس نے محض اپنے فضل سے جماعت کو قربانی کے اس بلند معیار پر قائم کیا ہے اور قائم رکھا ہے اور دوسرے اس لئے کہ بنی نوع انسان یہ دیکھ کر خدا تعالیٰ کی حمد کریں کہ اس نے ایک ایسی جماعت پیدا کی ہے جو ان کی بہبود اور ان کے فائدہ کے تی لئے ہر قسم کی تکالیف برداشت کرنے کے لئے تیار ہے.۵:.وقف جدید اور دوسری تحریکات گزشتہ سال کے دوران میں نے تین تحریکیں کی تھیں ایک تحریک مجلس موصیان کے قائم کرنے کی ایک قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی اور ایک وقف عارضی کی.دراصل ان تینوں تحریکوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے جس طرح ہمارے جسموں میں خون دوڑ رہا ہے اور خون کی اس گردش کے ساتھ ہی ہماری زندگیوں کا ابدی تعلق قائم ہے اسی طرح ہماری جماعتی زندگی کا تعلق قرآن کریم اور اس کے سیکھنے اور اس کے انوار سے منور ہونے اور اس کی روشنی سے فائدہ اٹھانے اور اس کے نشانات سے سبق حاصل کرنے اور اس کے کلام سے برکت لینے اور اس کو رائج کرنے اور اپنی زندگیاں اسی کے مطابق ڈھالنے میں ہے.اس کے بغیر جماعتی لحاظ سے ہم زندہ نہیں رہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ١١٩ ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب سکتے پس جماعت کے ہر گھر میں قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے کا کام ابد الآباد تک قیامت تک جاری رہنا چاہیئے اس لئے کہ قرآن کریم میں علوم کے وہ خزانے موجود ہیں جو کسی زمانہ میں بھی ختم نہیں ہوتے اور کوئی زمانہ ایسا نہیں آسکتا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اب میرے خاندان پر قرآن کریم کا مزید مطالعہ کرنے اور اس کے علوم کو مزید حاصل کرنے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ جو کچھ اس میں تھا وہ میں نے حاصل کر لیا کیونکہ جو کچھ اس میں ہے اس کو کوئی خاندان ، بنی نوع انسان کی کوئی نسل اور سارے بنی نوع انسان آخری وقت تک حاصل نہیں کر سکتے.یہ شاید ایک فلسفیانہ خیال ہے مگر کچھ بھی ہو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کبھی بھی قرآن کریم کے سارے کے سارے علوم کو کوئی شخص یا کوئی نسل حاصل نہیں کر سکتی.پس اس کے ساتھ چمٹے رہنا ضروری ہے اگر ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں.اگر ہم قرآن کریم کو چھوڑ دیں گے، اگر ہم اپنی زندگی قرآن سے حاصل نہیں کریں گے ، اگر ہم اپنے روحانی درخت کی جڑوں کو قرآن کریم کی روحانی زمین میں مضبوطی کے ساتھ نہیں گاڑیں گے تو ہمارے ایمان کا درخت سوکھ جائے گا.مردہ ہو جائے گا اور اس کی ٹہنیاں خشک ہو جائیں گی اور وہ نار جہنم کا ایندھن بن جائے گا.پھر خدا تعالیٰ کو ہماری ضرورت نہیں رہے گی اور ہمیں جب اس کی ضرورت پڑے گی تو وہ ہماری طرف متوجہ نہیں ہوگا اور کہے گا میرانور جو تمہاری راہنمائی کے لئے آیا تھا اس کو تو تم اس دنیا میں چھوڑ آئے ہو.اب اس دنیا میں تم کونسی روشنی مجھ سے مانگ رہے ہو.تو قرآن کریم کا سیکھنا اور سکھانا بڑا ضروری ہے.اس کے لئے ہم دو طرح کوشش کر سکتے ہیں.ایک مستقل اُستاد اپنے گھروں میں رکھ کر اور ایک عارضی انتظام کر کے.اب یہ بات واضح ہے کہ ہر شہر، ہر قصبہ ہر جماعت اور ہر خاندان مستقل استا در رکھ کر قرآن کریم نہیں پڑھا سکتا مختلف وجوہات کی بناء پر مثلاً ایک وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ مستقل استاد کو تنخواہ دے.لیکن ہر گھر میں قرآن کریم کا پڑھا جانا ضروری ہے اس لئے ایسے گھروں میں انتظام کرنا ہمارا کام ہے.جماعتی لحاظ سے ہم سب کا یہ کام ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالا ہے کہ میں وقف عارضی کی سکیم کو اس منصو بہ کو میں جاری کروں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک اس کے بڑے ہی اچھے نتا ئج نکل چکے ہیں اور نکل رہے ہیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۲۰ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطار میں نے اندازہ لگایا کہ ہماری کم سے کم ضرورت تب پوری ہو سکتی ہے جب پانچ ہزار احمدی دوست وقف عارضی میں اپنے آپ کو پیش کرے.سال رواں میں چونکہ یہ تحر یک دیر بعد ہوئی تھی اور بعض لوگوں کی چھٹیاں ختم ہو چکی تھیں یا وہ چھٹیوں سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے تھے کیونکہ پہلے بہر حال اطلاع ہونی چاہئے بعض لوگوں کو کافی عرصہ پہلے اطلاع دینی پڑتی ہے اگر اُنہوں نے چھٹی لینی ہو تو وہ اس کا انتظام کر لیں اس کے علاوہ اور بہت ساری مجبوریاں ہیں یہ تو مجھے یقین تھا کہ پانچ ہزار تک ہم نہیں پہنچ سکیں گے لیکن میرا یقین اور چیز ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم اور چیز ہے اور مجھے خوشی ہوگی کہ خدا تعالیٰ کے علم میں میرا یقین درست ثابت نہ ہو اور جماعت کا عزم پانچ ہزار تک واقفین عارضی کو پہنچا دے.میری بات عملاً غلط ہو جائے تو وہ میرے لئے یہ خوشی کا باعث ہے عملاً اگر میری بات درست ثابت ہو جائے تو میرے لئے خوشی کا نہیں میرے لئے غم اور تکلیف کا باعث بنے گی یہ چیز وقف عارضی کا عرصہ دو ہفتہ تک تھا اور اس وقت تک چھ ہفتہ تک کا عرصہ وقف کرنے والوں کی تعداد ا کا ون تھی اور دو ہفتے سے چار ہفتے تک وقف کرنے والوں کی تعداد ۱۱۳۵ ہے.اس کے علاوہ نئے سال کے واقفین ۵۶ ہیں اور کل تعداد واقفین کی ۱۲۴۲ بنتی ہے.اس عرصہ میں دفتر سے ۳۵۵۵ خطوط بھی باہر بھیجے گئے ہیں.اس وقت تک ۴۴۴ و فود وقف عارضی میں باہر بھجوائے جاچکے ہیں اور وقف عارضی کا وفد دو احمدی بھائیوں پر مشتمل ہوتا ہے.ہم نے پالیسی یہ بنائی تھی کہ ایک احمدی کو کسی جگہ نہ بھیجا جائے بعض دفعہ بیمار ہو جاتے ہیں وہ.بعض دفعہ پہنچ ہی نہیں سکتے جہاں انہیں بھیجا جاتا ہے اور اس طرح اس جماعت کو جہاں ان کے جانے کی اطلاع کی جاتی ہے تکلیف ہوتی ہے بہت سی جگہ ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی جائز مجبوری کی وجہ سے دو میں سے صرف ایک دوست کسی جماعت میں پہنچے اور وہاں جماعت ان کی منتظر تھی اور ان سے فائدہ اُٹھایا اور بھی بہت سارے فائدے ہیں اس میں.دوکا وفد جاتا ہے ہر جگہ تو اس وقت تک ۴۴۴ وفود جا چکے ہیں اور ۲۸۹ جماعتوں میں یہ تربیتی وفود گئے ہیں بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جہاں ہم نے ایک سے زائد وفود بھیجے ہیں اور یہی تجربہ دراصل زیادہ کامیاب ہے اور جب تک ہمارے پاس پانچ ہزار واقفین نہ ہوں اس وقت تک کم سے کم اپنی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتے.وقف عارضی کے وفود نے ہمیں پہلا بڑا فائدہ یہ پہنچایا کہ نہ امیر ضلع نہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۲۱ ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب مربی بعض جماعتوں کے صحیح حالات ہمیں پہنچاتے تھے اس خیال سے کہ پھر ہم پر بھی الزام آئے گا کہ جو کمزوریاں پیدا ہو رہی ہیں تم ان کے ذمہ وار ہو.کیوں تم نے اس طرف توجہ نہیں کی تو بہت سی باتیں مرکز کے علم میں نہیں لائی جا رہی تھیں اور ایک جماعت کے متعلق تو اس حد تک غفلت برتی گئی تھی کہ اگر اللہ تعالی ( شاید انہی کے لئے یہ سکیم جاری کی گئی تھی ) وقف عارضی کے وفود وہاں بھجوانے کا انتظام نہ کرتا تو بالکل خاموشی کے ساتھ وہ جماعت مرجاتی.شاید ایسی جماعت کے لئے وقف عارضی کی سکیم جاری کی گئی ہو بہر حال عین وقت کے اوپر وقف عارضی کے وفود پہنچنے شروع ہوئے اور جماعت میں ایک نئی زندگی پیدا ہونی شروع ہوگئی.دراصل یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہماری غفلتوں کے باوجود محض اس کے فضل اور اس کے رحم سے کوئی جماعت بھی مردہ نہیں ہوئی ہاں غافل ہو چکی ہیں بعض سوئی ہوئی ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بتایا تھا ہمارے ایک بڑے ہی سمجھدار اور بڑی عمر کے دوست ہیں جب میں نے انہیں ایک جگہ بھجوایا تو پہلے ہفتہ کی رپورٹ میں بڑی وضاحت سے انہوں نے یہ لکھا کہ مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ اتنی بڑی جماعت ہے کئی سواحمد یوں کی جماعت ہے لیکن ہے مردہ کوئی امید نہیں ہے کہ ان میں زندگی پیدا ہو سکے لیکن چونکہ آپ کا حکم ہے یہاں بیٹھا ہوں ویسے کوئی فائدہ نہیں ہونا.دوسرے ہفتہ جور پورٹ اُنہوں نے بھیجی اس میں بھی اُنہوں نے لکھا کہ مجھے بڑی تشویش ہوئی ہے اور میں نے دعائیں بھی کی ہیں لیکن اس جماعت کی اصلاح نہیں ہو سکتی لیکن تیسرے ہفتہ کی رپورٹ جو ان کی طرف سے ملی وہ یہ تھی کہ میں نے پہلے دو ہفتوں میں جو رپورٹیں بھیجی ہیں وہ غلط تھیں.یہ جماعت مردہ نہیں ہوئی بلکہ سوئی ہوئی ہے اور اُمید ہے کہ جگانے سے یہ جاگ اُٹھیں گے اور بعد کی ایک رپورٹ میں اُنہوں نے یہ لکھا کہ ایک ۷۵ سال کی بڑھیا عورت ہے جس کی نظر بھی بڑی کمزور ہے وہ ایک بڑا قرآن ( بعض قرآن کریم بڑی تقطیع پر کمزور نظر والوں کے لئے شائع ہوئے ہیں) لے کر مسجد میں آتی ہے اور اس نے قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیا ہے غرض اس جماعت کی تو یہ حالت تھی کہ وہ دوست ایک وقت تک اس سے مایوس ہو چکے تھے وہ سمجھتے تھے کہ اب یہ مر چکے بالکل اُنہوں نے زندہ ہی نہیں ہونا اور پھر وہ تعریف کرنے لگے اور کہنے لگے کہ عورتیں بوڑھیاں اُدھیڑ عمر کی جوان اور بوڑھے مرد انہوں نے آہستہ آہستہ قرآن پڑھنے کی طرف
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۲۲ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب توجہ دینی شروع کی اور قرآن کریم کی برکت اور اس کے فیض سے اس جماعت کے اندر زندگی کے آثار پیدا ہونا شروع ہوئے.پس تعلیم قرآن اور وقف عارضی اور موصوں کا انتظام دراصل یہ ایک ہی نظام ہے جس کے تین پہلو ہیں جس کے تین منہ ہیں بعض ایسے نظام بھی ہوتے ہیں جن کے بہت سے وجوہ اور منہ ہوتے ہیں یہ بھی اسی قسم کا نظام ہے اور میں نے ایک خطبہ میں بھی بتایا تھا کہ ان تینوں تحریکوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.پھر وقف عارضی کے متعلق ایک بات میں دوستوں کے سامنے یہ بھی رکھنا چاہتا ہوں کہ اس وقت تک اس ساری تحریک میں جماعت کے بیت المال پر ایک دھیلہ کا بوجھ بھی نہیں ڈالا گیا.یہ سارا کام اور اس کام کا سارا خرچ عام بجٹ پر نہیں بلکہ جو واقفین ہیں وہ تو اپنا خرچ کرتے ہیں کرایہ بھی اور کھانا بھی اور جو خط و کتابت ہے یہاں یا اور بہت سے اخراجات جو ہوئے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض دوسرے سامان پیدا کر دیئے.اس سال میں نے اپنے رس کی تھی کہ میں یہ تحریکیں کر رہا ہوں اگر میں نے ان کے لئے کوئی مالی مطالبہ بھی کیا تو ممکن ہے یو کمزوروں کے دل میں کئی قسم کے شبہات پیدا ہوں یا ڈر جائیں کہ یہ نئے مالی مطالبات بھی ہوئے ہیں اس لئے اے میرے رب تو تمام قدرتوں والا اور تمام اموال کا حقیقی مالک تو ہی ہے اپنی طرف سے سامان پیدا کر دے کہ جماعت پر اس کا کوئی بوجھ نہ پڑے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ سامان پیدا کر دیئے ایک دھیلے کا خرچ ہماری نظارت بیت المال نے اس وقف عارضی کے کاموں کا نہیں اٹھایا اور جیسا کہ میں نے کہا ہے ۴۴۴ وفود جا چکے ہیں اور ۲۸۹ جماعتوں میں یہ وفد جا چکے ہیں بار بار جاچکے ہیں وہاں ہر واقف نے اللہ تعالیٰ کی زندہ قدرتوں کے نمونے اس وقف کے ایام میں دیکھے ہیں اور جنہوں نے مجھے لکھا ہے بعض لوگوں کی طبیعت میں حجاب ہوتا ہے اور وہ اپنے خیالات کا اچھی طرح اظہار نہیں کر سکتے لیکن پھر بھی بڑی کثرت سے واقفین نے مجھے لکھا ہے اور میری طبیعت میں بڑی خوشی پیدا ہوئی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی عجز وانکسار کے مقام سے نہیں ہٹا ان میں سے ہر ایک نے مجھے لکھا ہے کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے ذریعہ سے کسی اور کو فائدہ پہنچا ہے یا نہیں لیکن ہم یقین اور وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان ایام میں ہم نے اپنی ذات میں بڑا فائدہ اُٹھایا ہے.ہم نے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو دیکھا ہے ہم نے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے زندہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۲۳ ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب نمونے دیکھے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے تربیت کے علاوہ ان دوستوں سے تبلیغ کا کام بھی لیا ہے پس یہ سکیم بڑی برکتوں والی ہے.آج اس کے دو جگہ دفتر کھلے ہیں ایک تو جلسہ گاہ سے باہر خیمہ میں اور ایک مستقل دفتر جو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے احاطہ میں ہے.آپ ان دفتروں میں سے فارم حاصل کریں اور انہیں پر کر کے دیں اتنے ہزار دوست آپ یہاں میرے سامنے بیٹھے ہیں کیا آپ پانچ ہزار واقفین مجھے نہیں دے سکتے ؟ آپ یہاں سے فارغ ہو کر خلوص نیت سے فارم لیں اور دعائیں کرتے ہوئے انہیں پر کریں اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس طرح بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی برکتوں کے آپ وارث بنیں گے.مجلس موصیان کے قیام کے متعلق میں نے اعلان کیا تو بہت سی جماعتوں نے فوراً انتخاب کر کے بھجوانے شروع کر دیئے اور میں ڈر گیا کیونکہ اُنہوں نے صدر انجمن احمد یہ کے قواعد کے مطابق خود ہی کورم مقرر کر لیا مجھ سے یہ غلطی ہوئی یا اس میں بھی کوئی حکمت تھی کہ میں نے اس کے لئے کوئی کورم مقرر نہ کیا موصیوں کے لئے ۲۵ فیصد کورم کا کیا مطلب ہے موصیوں کا کورم تو سو فیصدی ہے سوائے اس کے کہ کسی کو کوئی جائز مجبوری ہو اور وہ نہ آ سکتا ہو اس کے علاوہ تو کوئی کورم نہیں فیصدی کو رم ہے کہ کوئی جماعت انتخاب نہ کروائے آپ ہی میں قواعد بناؤں گا تو پھر آپ انتخاب کر کے بھیجیں آج میں اعلان کرتا ہوں کہ اگلے دو ماہ کے اندر اندر مجلس موصیان ہر جماعت میں قائم ہو جانی چاہئے اور اس کی ذمہ داری امیر ضلع اور ضلع کے مربی یامر بیان پر ہے اور مجلس موصیان کا کورم سو فیصدی ہے سوائے اس کے کہ کوئی بیمار ہو یا اسے اس تاریخ کو بوجہ مجبوری اس کو باہر جانا پڑا ہو یعنی اگر کوئی مجبوری نہیں تو موصی کو اپنے سفر کا پروگرام منسوخ کرنا چاہئے اور اُس مجلس میں اسے شامل ہونا چاہئے اور اس مجلس کا قیام جیسا کہ میں نے کہا ہے وہ اپنا صدر منتخب کریں گے یہ صدر جو جماعت کا سیکرٹری وصایا بھی ہوگا اور مستورات موصیات جو ہیں وہ الگ مجلس قائم کریں گی اور اپنی صدر مقرر کریں گی جو مجلس مومیان کی نائب صدر ہوگی اور ان کے اوپر ذمہ داری جو ہے کام جو پہلے چل رہا ہے وہ بھی اس شخص نے کرنا ہے.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نظام وصیت کو قائم کرتے ہوئے یہ ارشادفرمایا تھا کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۲۴ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطار تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو اور محرمات سے پر ہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو سچا اور صاف مسلمان ہو“ (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحہ ۳۲۰) اس شرط کی نگرانی جماعت کو کرنی چاہئے تھی یہ ان کے فرائض میں سے ہے ہمارا عام جو نظام ہے لیکن مجھے یہ احساس ہے کہ جماعت اس شرط کی نگرانی نہیں کرتی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ موصوں پر اس بلند مقام کو قائم رکھنے کے لئے جو ظاہری دباؤ پڑنا چاہئے وہ دباؤ ان پر نہیں پڑا بہت سے موصی ایسے ہیں جو عادتاً غفلت کے نتیجہ میں اس مقام سے گر گئے اب خدا تعالیٰ نے تو صرف ظاہر کو نہیں دیکھنا.مجھے یا آپ کو دھو کہ لگ سکتا ہے رب کو تو دھو کہ نہیں لگ سکتا اس علام الغیوب ہستی کو تو جو چیز ہمیں بھی معلوم نہیں ہوتی اپنے متعلق ، اس کا بھی علم ہے.پس ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة: ۳) کے ارشاد کے ماتحت موصوں کی اس مجلس پر ذمہ داری یہ ڈالیں کہ وہ اس شرط کے مطابق بھی وصیت کرنے والے مردوں اور وصیت کرنے والی عورتوں کی نگرانی کریں کہ وہ تقویٰ کے بلند معیار پر قائم رہتے ہیں یا نہیں اور ہر قسم کے بیچ ترک کر کے سیدھے سادھے بچے صاف مسلمان بنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں اگر وہ غفلت کرتے یاستی دکھاتے ہیں تو ان کی اصلاح کی کوشش ہونی چاہیئے اگر ہماری یہ کوشش ناکام ہوتی ہے تو ان کی وصیتیں منسوخ ہونی چاہئیں اگر کوئی موصی چھ ماہ چندہ نہ دے تو ہم اس کی وصیت منسوخ کر دیتے ہیں اور اگر کوئی موصی خدانخواستہ چھ مہینے نماز نہ پڑھے تو ہمیں علم چھ نہ تو تک نہیں ہوتا کہ وہ تارک الصلوۃ ہے میں تو سوچتا ہوں کانپ اُٹھتا ہوں اتنا شدید خوف میرے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ میرا رب کیا کہے گا کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو اس طرح نبھاتے رہے ہو.پس ایک ضروری کام اس مجلس موصیاں کا یہ ہے کہ وہ ہر وقت چوکسی اور بیداری کے ساتھ جائزہ لیتی رہے کہ کوئی موصی مرد یا موصی عورت اپنے بلند مقام تقویٰ سے ( یہ صحیح ہے کہ ہم نے صرف ظاہری تقوی کو ہی دیکھنا ہے.دل کا حال صرف خدا جانتا ہے اور اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں) لیکن ظاہری جو مقام تقویٰ ہے اس سے تو نہیں گرتا ظاہر میں کوئی ایسی حرکت تو نہیں کرتا جو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۲۵ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطار ایک موصی کو نہیں کرنی چاہئے.دوسری ذمہ داری ان پر یہ ہے کہ وہ دیکھے کہ وقف عارضی کی جو سکیم جاری کی گئی ہے جماعت اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق اس میں حصہ لے رہی ہے یا نہیں اور اگر نہیں لے رہی تو اپنے بھائیوں ( موصیوں کو بھی اور غیر موصوں کو بھی) کو اس طرف متوجہ کریں اور پانچ ہزار کیا اگر ہم چاہیں تو دس پندرہ ہزار بھی واقفین عارضی ہمیں مل سکتے ہیں اور اس کا نتیجہ جو شاندار نکل سکتا ہے وہ اگر آپ یہ قربانی دیں تو جب نکلے گا اُسے دیکھ کر آپ خوش ہوں گے تو مجلس موصیان پر ایک یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وقف عارضی کی سکیم اور منصوبہ کو زیادہ سے زیادہ کامیاب کرنے کی کوشش ہر وقت کرتے رہیں.اور مجلس موصیان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ہر گھر میں ہر بچہ ہر بڑا ہر مرد اور ہر عورت قرآن کریم سیکھنے اور قرآن کو سمجھنے اور قرآن کریم کے علوم حاصل کرنے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے یا نہیں.اگر مجلس موصیاں اس کی طرف توجہ دے تو میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اجر اور ثواب میں بڑی زیادتی کرے گا اور جو مقام خدا کی نگاہ میں اس کوشش کے بغیر ان کا جنت میں تھا اس سے کہیں بلند یہ مقام جنت میں انہیں نصیب ہوگا.تعلیم القرآن کے متعلق دوست یہ سن کر خوش بھی ہوں گے اور شرمندہ بھی کہ ہماری بہنیں اور بچیاں زیادہ فیصد قرآن پڑھی ہوئی اور زیادہ شوق کے ساتھ قرآن کریم کے پڑھنے کی طرف متوجہ ہیں.ہمارے مرد اور ہمارے بچے اس شوق اور جذبہ کے ساتھ تعلیم قرآن کی سکیم میں شامل نہیں ہوئے جس جذبہ اور شوق کے ساتھ ہماری بہنیں اور بچیاں شامل ہوئی ہیں تو ایک لحاظ - ہمیں خوشی ہے اور دوسری طرف سے یہ سوچ کر شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے کہ عورتیں ہو کر ہم.آگے نکلی جا رہی ہیں ویسے تو میں نے کہا تھا کہ میں نے اپنے رب سے یہ عہد کیا ہے کہ جس حد تک مجھے اس نے توفیق اور طاقت دی میں آپ کو اس وقت تک چھوڑوں گا نہیں جب تک آپ میں سے ہر ایک کو قرآن کریم ناظرہ نہ پڑھا لوں اور اس کا ترجمہ سکھانے کا انتظام نہ کرلوں اور آپ بھی دعا کریں میں بھی دعا کرتا ہوں کہ جو آپ کے خلاف یا آپ کے حق میں جو بھی آپ سمجھیں میں نے یہ عہد کیا ہے اللہ تعالیٰ مجھے اس کے پورا کرنے کی توفیق عطا کرے اور اس کے لئے سامان ނ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) پیدا کر دے.۱۲۶ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطا.:.دوست ریٹائرمنٹ کے بعد زندگیاں وقف کریں پچھلے سال میں نے یہ درخواست کی تھی جماعت سے کہ بہت سے لوگ اپنی ریٹائرمنٹ کے وقت جب وہ اپنے کاموں سے فارغ ہوتے ہیں ایسی اچھی صحت میں ہوتے ہیں کہ وہ بڑے لمبے عرصہ تک دین کی خدمت کر سکتے ہیں ایسے دوست اگر ابھی سے اپنی زندگیوں کو وقف کریں تو ہمیں یہ پتا ہوگا کہ فلاں دوست فلاں سن میں ریٹائر ہو رہے ہیں اس کے مطابق ہم سے اللہ تعالیٰ نے احمدی کو عقل اور فراست بڑی دی ہے چاہے ان کے امام کو غیر مبائعین کے نزدیک نہ دی ہو صرف حمق دیا ہو تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا میرے حمق سے بھی یہ جماعت اپنے فائدہ کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں ضرور نکال لے گی.ویسے آپ بھی دعا کریں اور میں بھی دعا کرتا ہوں.عقل دینا اور فراست دینا تو خدا تعالیٰ کا کام ہے.کوئی شخص اس سے یہ چیز چھین نہیں سکتا وہ عطا کرے تو ہم شکریہ کے ساتھ لے لیں گے جتنی دے گا جس حد تک دے گا اور جس کو اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کا امام بناتا ہے اس کی کمزوریوں کے باوجود اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہونے دیتا جو جماعت کو نقصان پہنچانے والی ہو اور اتنی فراست مل جائے تو اس سے زیادہ کی امام کو ضرورت بھی نہیں ہوتی تو جماعت کو جیسا کہ میں کہ رہا تھا اللہ تعالی نے بڑی فراست اور عقل عطا کی ہے ایک طرف اور دوسری طرف بڑا جذ بہ دیا ہے پچھلے سال جب میں نے تقریر کی متعدد دوستوں کے مجھے خط آئے اور نئی سے نئی تجاویز.اُنہوں نے سوچا غور کیا کہ جیسے اس کی ذمہ داری ویسی ہماری بھی ذمہ داری ہے.ہمیں بھی کچھ سوچنا چاہئے اور کام میں مدد کرنی چاہئے.مثلاً ایک دوست نے ایسی اچھی تجویز مجھے بھجوائی بلکہ ایک سے زائد دوستوں نے کہ آپ نے کہا ہے ریٹائر ہو کر فارغ اپنی ملازمت کا زمانہ پورا کر کے وقف کرو.اس وقت اگر ہم آئے دینی علوم کے لحاظ سے بالکل خالی تو آپ کو سال دو سال تین سال ہمیں پڑھانے پر خرچ کرنا پڑے گا.ہم تو پہلے ہی موت کے قریب ہوں گے یہ سال ضائع ہو جائیں گے.ہم میں سے جو وقف کرے پڑھانا شروع کر دیں.ہم میں سے کسی نے پانچ سال ملازمت کے بعد فارغ ہونا ہے کسی نے دس سال
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۲۷ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطا.تک اس وقت تک با قاعدہ نصاب مقرر کر کے خط و کتابت کے ذریعہ آپ ہمیں اتنا پڑھا دیں کہ جب ہم ریٹائر ہوں تو ایک دو مہینے کے اندر آپ ہمیں پالش کر کے جہاں آپ نے بھیجنا ہو کام لینے کے لئے وہاں آپ بھجوا دیں اور میری طبیعت میں بڑی بشاشت پیدا ہوئی.ہر آدمی سوچتا ہے کئی دوستوں نے مجھے لکھا ہے کئی نے نہیں لکھا لیکن میں بڑا ہی ممنون ہوں ایسے دوستوں کا جو جرات کے ساتھ مجھے لکھ بھی دیتے ہیں چنانچہ میں نے ایک کمیٹی مقرر کر دی ہے جو نصاب کے متعلق غور کر رہی ہے اس سال یکم مئی سے ہم انشاء اللہ تعالیٰ خط و کتابت کے ذریعہ سے اس تعلیم کو شروع کر دیں گے.اس سے پہلے پہلے دوست ہمت کر کے زیادہ سے زیادہ نام لکھوائیں تا کہ ہم ان کی تعلیم ان سے شروع کریں بعض لوگوں نے جو پہلے لکھ چکے ہیں بہتر ہے کہ وہ بھی دوبارہ لکھ دیں کیونکہ بعض کے نام مجھے یاد ہیں ہو سکتا ہے کہ بعض کے مجھے یاد نہ ہوں کوئی ایسا دفتر نہیں تھا جہاں ان کے نام محفوظ کئے جاتے.بہر حال کوئی پانچ سال کے بعد ریٹائر ہوتا ہے کوئی دس سال کے بعد یہ نہ سوچیں کہ ہم نے فوراً ہی ریٹائر ہونا ہے بلکہ خلوص نیت ایسے بھی دوست ہوتے ہیں.ایک نے مجھے لکھا کہ میں اپنی زندگی وقف کرتا ہوں ریٹائر منٹ کے بعد ایک ہفتہ نہیں ہوا تھا کہ مجھے خط اسی دوست کا آیا کہ آپ نے میرے وقف کو قبول نہیں کیا اگر میں اس عرصہ میں مرجاتا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک تو میں واقف نہیں تھا تو آپ مجھے فوراً اطلاع دیں کہ آپ نے میرا وقف قبول کر لیا ہے تا کہ مجھے یہ تسلی ہو کہ اگر مر جاؤں تو میں واقفین زندگی میں خدا کی نگاہ میں شمار کیا جاؤں گا اس قسم کے جوش والے نوجوان بھی ہیں کوئی تین سال بعد کوئی پانچ سال بعد کوئی دس سال بعد کوئی پندرہ سال بعد اور کوئی بیس سال بعد بلکہ میرے خیال میں اگر نو جوان ابھی.وقف کریں تو ایک لمبا عرصہ ان کو تربیت حاصل کرنے کا اور ایک لمبا عرصہ خدا تعالیٰ کا اجر پاتے رہنے کا زمانہ مل جائے گا تو اس زمانہ میں اس عرصہ میں وہ نیکی بھی کماتے رہیں گے دُنیا بھی کماتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں ریٹائر منٹ کے بعد فارغ ہونے کے بعد ان کو یہ توفیق عطا کرے گا کہ وہ ایسے رنگ میں اس کے دین کی خدمت کر سکیں کہ اللہ تعالیٰ سے وہ اجر عظیم یعنی ایسا اجر پاسکیں کہ پہلی اُمتوں میں سے کسی کو نہ ملا ہو اس کو وہ حاصل کر سکیں.دوست اس طرف جو ملازم پیشہ دوست ہیں یا دوسرے دوست مثلاً کئی دکاندار بھی ایک عمر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۲۸ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطا.میں آکر کہتے ہیں اپنے بچوں کو کہ ”لو منڈیو سنبھالو ساڈا کم ہن اسیں فارغ ہنے آں پیشہ ور دوکاندار بھی اس سکیم میں حصہ لے سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی ایک وقت کے بعد اپنے کام سے فارغ ہو جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ یہ کہیں کہ لومنڈ یو اپنا کام سنبھال لو ہم فارغ ہوتے ہیں.تو بجائے اس سے کہ وہ یہ کہیں کہ اپنا کام سنبھا لو اب ہم فارغ ہوتے ہیں وہ یہ کہیں کہ سنبھا لو اپنا کام ہم دین کا جا کر کام کریں ایسے لوگ بھی ہیں خالی ملازمت پیشہ ہیں.پس ملازمت پیشہ احباب کے علاوہ پیشہ ور دو کا ندار دوست بھی اس سکیم میں حصہ لے سکتے ہیں اور ہم انشاء اللہ یکم مئی ۱۹۶۷ء تک با قاعدہ نصاب مقرر کر کے ان کو تعلیم دینا شروع کر دیں گے اور جو تربیت والا حصہ ہے اور تعلیم کے جو بعض مخصوص حصے بھی ہوتے ہیں وہ فارغ ہونے کے بعد دو ایک مہینے میں یہاں حاصل کرلیں گے اور فور امیدانِ عمل میں ان کو بھیجا جا سکے گا.ے: فضل عمر فاؤنڈیشن گزشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر مکرم و محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے میری اجازت سے اس اسٹیج سے اس تحریک کا اعلان کیا تھا.جنوری فروری ۱۹۶۶ء تک قواعد وضوابط مرتب کرنے کا کام ہوا اور یہ رجسٹر ڈ باڈی ہے اس کی رجسٹریشن وغیرہ کروائی گئی اور اس پر وقت لگا عملا گزشتہ مشاورت کے موقع پر اس کا کام شروع کیا گیا اور اخبار الفضل میں اور دوسرے ذرائع سے جماعتوں کو اور افراد جماعت کو اس کی اطلاع دی گئی اسی طرح اس کے جو کارکن ہیں انہوں نے پاکستان کی بڑی جماعتوں کا دورہ کیا.قواعد کے مطابق فضل عمر فاؤنڈیشن کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹر مقرر کیا گیا جس کے صدر مکرم محترم مخدومی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہیں اس کے نائب صدر مكرم محترم کرنل عطاء اللہ صاحب اور جس کے سیکرٹری مکرم محترم مخدومی شیخ مبارک احمد صاحب ہیں.اس بورڈ کے ممبران تحریک جدید کی طرف سے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے صاحبزادہ سید داؤ د احمد صاحب.وقف جدید کی طرف سے مکرم محترم مخدومی شیخ محمد احمد صاحب اور عام جماعتوں کی طرف سے مکرم محترم مخدومی شیخ محمد حنیف صاحب اور چوہدری احمد جان صاحب اور میر بخش صاحب اور چوہدری انور احمد صاحب کا ہلوں ممبر ہیں.کل نو ڈائریکٹر ہیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۲۹ ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب اس وقت تک فضل عمر فاؤنڈیشن کے وعدوں کی مجموعی میزان اللہ تعالیٰ کے فضل سے چونتیس لاکھ سے زائد ہو چکی ہے اس میں سے سات لاکھ چھ ہزار بیرون پاکستان کے ممالک کے وعدے ہیں جہاں تک بیرونی ممالک کا تعلق ہے بعض ممالک سے ابھی وعدے آ رہے ہیں.وہاں اس تحریک نے زورا بھی نہیں پکڑا لیکن اُمید ہے کہ وہاں بہت سے نئے وعدے آجائیں گے اس وقت تک کل وصولی سات لاکھ چھپن ہزار روپیہ کی ہو چکی ہے اپریل ۱۹۶۷ء کے آخر تک وعدہ کنندگان کو اپنے وعدوں کا ۳ ا ضرور ادا کر دینا چاہئے یہ بھی ان کی طرف سے وعدہ ہے کہ ہم اس کا ۱٫۲ حصہ پہلے سال میں ادا کر دیں گے اور ۱/۳ حصہ دوسرے سال میں ادا کر دیں گے اور ۱٫۳ تیسرے سال میں ادا کر دیں گے جہاں جماعت اتنی قربانیاں مالی میدان میں پہلے ہی دے رہی تھی وہاں چند مہینوں کے اندر چونتیس لاکھ روپیہ سے اوپر کے وعدے کر چکی ہے اور سات لاکھ روپیہ سے اوپر رقوم کی وصولی اس محبت کی نشان دہی کر رہی ہے جو محبت کہ جماعت کے دلوں میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے اور جو محبت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جماعت کے دلوں میں اپنے خدا اور اس کے دین کے لئے پیدا کی ہے اتنی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے فرشتے جب تک آسمان سے نازل نہ ہوں اور دلوں میں تحریک نہ کریں ایسی قربانی کوئی جماعت یا کوئی فرد نہیں دے سکتا پس خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ جس نے محض اپنے احسان سے جماعت کو یہ توفیق اور یہ موقع عطا کیا ہے کہ وہ اپنے تقویٰ کے معیار کو ظاہری تقوی ( دلوں کا تقویٰ تو خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے ) اور اپنی قربانی اور اپنے ایثار کے معیار کو بلند تر کرتی چلی جارہی ہے اور جو جماعت اور جو قوم اور جو سلسلہ قربانیوں کے میدان میں تیزی سے چل رہا ہو نہیں بلکہ دوڑ رہا ہو دُنیا کی وہ کون سی طاقت ہے جو اس کو ہلاک کر سکے اور تباہ کر سکے.کوئی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ اس جماعت پر ہوتا ہے اور فرشتے اس کی مدد کے لئے ہر وقت اس تعداد سے زیادہ تعداد میں اندراس سے زیادہ مؤثر طریق پر آسمان پر منڈلا رہے ہوتے ہیں جس تعداد اور جس طریق پر امریکہ.ہوائی جہاز اپنی فوجوں کی مدد کے لئے آج ویٹ نام میں ہوا میں منڈلا رہے ہیں.غذائی بحران اور جماعت احمدیہ کا فرض ۷ار دسمبر ۱۹۶۵ء کو میں نے اپنے ایک خطبہ جمعہ ( مطبوعہ الفضل.ار مارچ ۱۹۶۶ ء ) میں یہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۳۰ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطا.تحریک کی تھی کہ جماعت احمدیہ کا بھی فرض ہے کہ وہ دیکھتی رہے کہ کوئی احمدی رات کو بھوکا نہیں سوتا اور میں نے دوستوں کو یہ بتایا تھا کہ صرف توجہ کی بات ہے.ورنہ ایک احمدی کا پیٹ بھرنے کے لئے ہمیں ایک دھیلہ بھی اپنے خرچ میں زائد نہیں کرنا پڑتا.اگر ہم واقع میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتے اور آپ کے احکام کی قدر کرتے ہیں تو ہمیں ایک دھیلہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے پیارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے غریبوں کا خیال رکھتے ہوئے ہمیں یہ نسخہ بتایا تھا کہ اگر تم غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہو اور تمہارے گھر میں تین یا چار آدمی کا کھانا پکتا ہے تو تم ایک آدمی کا کھانا آسانی سے اس میں سے نکال سکتے ہو بغیر آٹے میں زیادتی کئے بغیر سالن میں زیادتی کئے تین آدمیوں کا کھانا چار کے لئے اور چار کا پانچ کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور اگر تم متوسط طبقہ یا امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہو تو تم عام رواج کے مطابق اس طور پر کھانا پکا رہے ہوتے ہو کہ جو کھانا تمہارے گھروں میں دو آدمیوں کے لئے پکتا ہے وہ چار کے لئے کافی ہو سکتا ہے اور جہاں چار کے لئے کھانا پک رہا ہے وہاں آٹھ کے لئے کافی ہوسکتا ہے اور جہاں آٹھ کے لئے کھانا پکتا ہے وہ سولہ کے لئے کافی ہوسکتا ہے.یہ قول درست ہے اور خدا کی قسم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول غلط نہیں ہوسکتا.تو ہمیں ایک دھیلہ خرچ کئے بغیر ہر احمدی کا پیٹ بھرنے کا طریق ہمارے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے.یہ مارچ کی بات ہے اس کے بعد حالات جو ہیں غذا کے نقطہ نگاہ سے کافی خراب ہو چکے ہیں.اس کی وجوہات کیا ہیں اگر کسی شخص پر اس کی ذمہ داری ہے تو وہ کون ہے نہ ہمارا اس کے ساتھ تعلق نہ ہماری اس کے ساتھ دلچسپی کیونکہ ہم ایک مذہبی جماعت ہیں لیکن ہمیں اس بات سے دلچسپی ہے کہ پاکستان میں رہنے والا کوئی فرد بشر بھوکا نہ رہے اور ہمیں اس بات میں دلچپسی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریق بتایا ہے اگر اس طریق کو اختیار کیا جائے تو خدا کے فضل سے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل پاکستان کا کوئی فرد بشر بھوکا نہیں رہے گا.قلت غذا کے وقت جماعتیں یا گروہ یا سیاسی تنظیمیں یا دوسری تنظیمیں یا افراد دو راستوں میں سے ایک کو اختیار کر سکتے ہیں ایک راستہ تو ہے جس کو حزب مخالف کا راستہ کہنا چاہئے یہ لیبل اس پر آسانی سے لگ سکتا ہے وہ فتنہ اور فساد کا راستہ ہے.حزب مخالف کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۳۱ ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب کس کا پیٹ بھرتا ہے یا نہیں ان کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ حکومت وقت بد نام ہوتی ہے یا نہیں وہ فتنہ اور فساد کا راستہ اختیار کرتے ہیں سر توڑنے سے کسی کا پیٹ نہیں بھرا کرتا جس طرح کسی کے صلیب پر چڑھائے جانے سے کسی اور کے گناہ معاف نہیں ہو سکتے.پیٹ بھرنے کے لئے روٹی چاہیئے اس کے لئے نعروں کی ضرورت نہیں ، اس کے لئے سر پھٹول کی ضرورت نہیں ، اس کے لئے فتنہ اور فساد کی ضرورت نہیں، اس کے لئے باہمی لڑائی اور جھگڑے کی ضرورت نہیں ، اس کے لئے ضرورت ہے اس بات کی کہ قوم کا ہر فرد بشر حکومت وقت کے ساتھ تعاون کرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے پیارا اور عشق کا مظاہرہ کرے اور کہے غریب آدمی ہم میں سے جس کو خدا تعالیٰ نے اتنا رزق دیا ہے کہ وہ بھوکا نہیں رہتا کہ میں تین کا کھانا پکا تا ہوں ایک کے کھانے کی میری ذمہ داری اور جو متوسط طبقہ اور امیر ہے وہ یہ کہے کہ میرے گھر میں ہیں آدمیوں کا کھانا پکتا ہے میں آدمیوں کی ذمہ داری میری اسی کھانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مزید بیس کا کھانا نکل آئے گا.اگر ہم اس طرح سوچیں اور حکومت سے تعاون کریں اور ان کے بتائے ہوئے طریق کو استعمال کریں اور کھانے کو ضائع ہونے سے بچائیں اور جو ہم زائد کھانا کھا لیتے ہیں بے خیالی میں اپنے جسموں کو نقصان پہنچاتے ہیں اگر ہم اس کھانے کو بچالیں اور اپنے جسموں کو بھی نقصان سے بچا کر اس کھانے کی بھی حفاظت کریں کوئی شخص بھی ایسا نہ رہے جو رات کو بھو کا سوئے.پس آپ لوگ جو پاکستان کے اطراف سے اکٹھے ہو کر اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں آپ یہ سن لیں کہ جماعت کی پالیسی یہ ہے کہ جس طرح ہر دوسرے معاملہ میں ہم نیک باتوں میں حکومت وقت کا ساتھ دیتے اور اس سے تعاون کرتے ہیں یہ بھی ایک بڑا ہی اہم مسئلہ ہے اور اگر ہم نے حکومت سے تعاون کر کے خوش اسلوبی کے ساتھ اس مسئلہ کے حل کرنے میں مدد نہ دی اوروں پر اگر کوئی ذمہ داری پڑتی ہے یا نہیں پڑتی مجھے کیا اس سے آپ پر ضرور ذمہ داری پڑ جاتی ہے پس آپ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اس کو نباہنے کی کوشش کریں جس علاقہ میں جس شہر میں جس گاؤں میں جس محلہ میں آپ رہتے ہیں اس محلہ کو سمجھائیں کہ تم دوسروں سے لڑنے کی بجائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عملاً اپنی محبت اور تعلق کا اظہار کرو آپ نے یہ فرمایا ہے بہت
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۳۲ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطا.-- سارے لوگوں کو پتہ نہیں آپ کہیں ہمارے پیارے رسول نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے.تم پہلے اس ہدایت پر عمل کرو پھر کسی سے جا کے جھگڑتے رہنا.اگر وہ اس ہدایت پر عمل کریں گے تو کسی اور سے جھگڑنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی.اس وقت ہر جماعت پر بحیثیت جماعت اور ہر فرد پر بحیثیت فرد جماعت فرض ہے کہ وہ ایک طرف حکومت سے تعاون کرتے ہوئے ملک میں امن صلح اور آشتی کی فضا کو قائم رکھے اور دوسری طرف حکومت سے اس رنگ میں تعاون کرے کہ ہر پاکستانی کو اس کی ضرورت کے مطابق اس کے ذائقہ کے مطابق میں نہیں کہہ رہا اس کی عادت کے مطابق بھی نہیں کیونکہ ہم عادتاً اپنی ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں اس کی ضرورت کے مطابق اس کو کھا نا ملتا رہے.اس کے علاوہ ہمیں اپنے ملک کے لئے یہ دعا کرتے رہنا چاہئے ( اور اس مسئلے میں سوائے دعا کے ہم کسی اور ذریعہ سے اپنے ملک اور اپنی حکومت کی خدمت بجا نہیں لا سکتے ) کہ اس وقت دُنیا کی بڑی بڑی اقوام اس کوشش میں ہیں کہ وہ کمزور اور چھوٹی اور غریب اقوام کی آزادی عملاً چھین کر ان پر کسی نہ کسی طرح اپنا سیاسی تسلط قائم کر لیں تو ہمیشہ دعا کرتے رہیں التزام کے ساتھ اور الحاح کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اس بین الاقوامی شہر سے ہمارے ملک کو محفوظ رکھے اور ہماری آزادی کو برقرار رکھے اور اس آزادی سے فائدہ اُٹھانے کی ہمارے ملک اور قوم کو توفیق عطا کرے.اور ان کو سمجھ اور عقل اور فراست دے کہ وہ اپنے ذرائع کو بہتر سے بہتر رنگ میں استعمال کر کے اس قوم کا اقتصادی معیار بڑھانے میں کامیاب ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ انہیں یہ توفیق عطا کرے کہ وہ مذہبی آزادی کو جو پہلے وقتوں میں اسلام کے تلوار کے زور سے قائم کی تھی کیونکہ تلوار ہی کے زور سے اس آزادی کو چھینا جا رہا تھا اس مذہبی آزادی کو قائم رکھنے کی توفیق ہمیشہ پاکستانی حکومتوں کوملتی رہے اور اس آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے پاکستانی آزاد سانس لئے ان راہوں کو پالیں جو راہیں ان کے رب تک لے جانے والی ہیں تا زندگی کا مقصد پورا ہو اور پاکستان کے قیام کی جو غرض ہے وہ بھی پوری ہو.۹:.مزار عین احباب سے ایک مختصر سی بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو اور بعض افراد جماعت کو ایسے سامان عطا کئے تھے کہ سندھ میں زرعی جائیداد بہت سی پیدا کر لی گئی تھی مثلاً
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ------- ۱۳۳ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطار تحریک جدید کی زمینیں ہیں صدر انجمن احمدیہ کی زمینیں ہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے زمینیں خریدی تھیں وہ ہیں.بعض اور دوستوں نے زمینیں شروع میں خرید میں یا اور بعد میں خرید رہے ہیں ان کی زمینیں.اوروں کا تو مجھے علم نہیں لیکن اپنی زمینوں اور تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ کی زمینوں پر شروع میں قریباً سارے ہی احمدی مزارع تھے لیکن اب بعض جگہ دس پندرہ فیصدی سے زیادہ نہیں اور بعض جگہ مجبوراً ہندوؤں کو بطور مزارع کے وہاں رکھا جا رہا ہے ویسے تو ٹھیک ہے ہم رکھتے ہیں ان کے رکھنے میں کوئی برائی نہیں لیکن ہم نے پہلی توجہ اس طرف دینی ہے کہ ہمارے اپنے دوست اس اقتصادی میدان میں اور زرعی میدان میں ترقی کریں یہ جو کمی اس نسبت میں ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع میں جو دوست وہاں گئے اُنہوں نے خوب کمایا اور اپنی زمینیں خرید لیں.ہم بڑے خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات کی توفیق عطا کی کہ وہ اپنی زمین خریدیں لیکن جب وہ ہماری زمینوں سے گئے اور اپنی زمینوں کو اُنہوں نے آباد کیا تو ان کی جگہ احمدی خاندان نہیں آتے اور اس سے اب ہمیں تکلیف محسوس ہو رہی ہے خصوصاً اس وجہ سے کہ گجرات اور سیالکوٹ اور بعض دوسرے اضلاع میں زمینداروں کی ملکیتیں اتنی تھوڑی ہیں کہ جب وہ بچوں میں تقسیم ہوتی ہیں تو کسی ایک بچہ کے گزارے کے لئے بھی وہ زمین کافی نہیں ہوتی اور ایسے دوستوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ ہم کیا کریں ایسے دوست اگر مثلاً چار بھائی ہوں تو ان میں سے ایک بھائی یہاں کی زمین سنبھالے باقی بھائیوں کے لئے مشتر کہ کام کرے اور باقی ہماری انجمن یا تحریک جدید کی زمینوں پر چلے جائیں تو پانچ سات آٹھ سال میں وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ جتنی زمین وہ یہاں چھوڑ گئے ہیں اس سے زیادہ زیادہ زمینیں وہ اپنے ایک ایک حصہ کی وہ وہاں خرید لیں اتنی آمد اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں ہوتی ہے تو ویسے دوست وکالت زراعت میں یا نظارت زراعت میں نام پیش کریں.اور امراء اپنی جماعتوں میں جا کر یہ تحریک بھی کریں دوست بڑی کثرت سے مجھے لکھتے رہتے ہیں گزارا نہیں ہورہا ہمارے باپ کی مثلاً دس ایکٹر زمین تھی اور ہم چار بھائی ہیں ہمیں اڑھائی ایکٹر زمین ملی ہے اُس اڑھائی ایکٹر میں تو تمہارا گزارا نہیں ہوتا لیکن وہ ہیں ایکٹر جو تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے وہاں رکھے ہوئے ہیں ان سے تم کیوں فائدہ نہیں اٹھا ر ہے جس کے نتیجہ میں خدا تمہیں پھر پانچ سال بعد یا دس سال بعد یا آٹھ سال بعد یا چھ سال
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۳۴ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطاب بعد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے آئندہ کی باتیں لیکن بڑی کثرت سے پہلے ہو چکا ہے اور آئندہ بھی ہم امید رکھتے ہیں ایسا ہی ہو گا.جو لوگ اپنا پیسہ ضائع نہیں کرتے محنت سے کام لیتے ہیں دیانتداری سے کام کرتے ہیں حفاظت کرتے ہیں اپنا وقت خرچ کرتے ہیں اور پھر ایک احمدی کی حیثیت سے اپنی زمین کے کناروں پر چکر لگاتے ہوئے اور ہل جو تتے ہوئے خدا سے دعائیں کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مال میں اتنی برکت ڈالتا ہے اور ان کو اتنا رزق عطا کرتا ہے کہ وہ فراخی کے ساتھ اپنی زندگی کے دن بھی گزارتے ہیں اور کوئی پانچ سال بعد کوئی سات سال بعد کئی کئی مربع بھی بعض خاندانوں نے خرید لئے ہیں وہاں جو شروع میں گئے تھے اسٹیٹ سے قرض لے کر ہل بنایا اور مکان بنائے اور بعد میں تین چار پانچ سات دس مربع بھی خرید لئے اتنے پیسے انہوں نے جمع کر لئے مثلاً تین بھائی تھے.تو آپ کے لئے اللہ تعالیٰ نے دنیوی برکتیں حاصل کرنے کے بھی ذرائع پیدا کر دیتے ہیں.آپ انہیں ضائع نہ کریں اور دفتر سے پتہ لے کر جواں ہمتی سے کام لیتے ہوئے یہ صحیح ہے کہ جذباتی قربانی کرنی پڑتی ہے اپنا گاؤں بھی چھوڑنا پڑتا ہے بعض رشتہ داروں سے بھی علیحدہ ہونا پڑتا ہے ساری عمر یہاں اکٹھے تو نہیں رہنا یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اس ابدی زندگی میں اللہ تعالیٰ ہمیں اکٹھا رکھے وہاں خاندان نہ بکھریں بھائی بھائی بہنیں بہنیں.بہنیں بھائی بچے ماں باپ سارے وہاں اللہ تعالیٰ اکٹھا خاندانی ماحول قائم رکھے اس کے حصول کے لئے اگر یہاں کوئی قربانی دینی پڑتی ہے تو کوئی قربانی نہیں ہے ہمیں خوشی بشاشت سے دینی چاہئے خصوصاً جب اس دُنیا کا بھی فائدہ ہمیں نظر آ رہا ہو.۱۰.دورانِ سال وفات پا جانے والے دوست بہت سے دوست دوران سال ہم سے جدا ہوئے ہیں ان میں سے بعض روحانی طور پر اور دینی لحاظ سے ہماری بڑی خدمت کرنے والے تھے مثلاً مکرم ومحترم جلال الدین شمس صاحب چودھری محمد شریف صاحب منگمری والے.شیخ عبدالقادر صاحب مربی قاضی محمد رشید صاحب وکیل المال مولوی عبد المغنی صاحب جہلم جو ۳۱۳ صحابہ میں سے آخری دو میں سے ایک تھے.۳۱۳ صحابہ جن کے نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب میں لکھے ہیں ان کی وفات سے مثلاً چند ہفتہ پہلے دو دوست ۳۱۳ صحابیوں میں سے زندہ تھے ایک وہ اور ایک قاضی محمد عبد اللہ صاحب
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۳۵ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء.دوسرے روز کا خطا.دوران سال ان کی وفات ہو گئی.اس صحابہ کے اس گروہ میں سے صرف قاضی محمد عبد اللہ صاحب رہ گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت ڈالے اسی طرح ایک لمبی فہرست ہے ان موصی بھائیوں اور موصی بہنوں کی جو دورانِ سال ہم سے جدا ہوئے ہیں.تو ہر دعا کے موقع پر نماز کے وقت بھی اور اس کے علاوہ بھی جب اجتماعی دعائیں ہوتی ہیں اس وقت بھی آپ دوست اپنے ان بھائیوں کو بھی اپنی دعا میں یا درکھیں جنہوں نے ہماری خدمت میں اور اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت میں زندگیاں گزار ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو اپنی طرف سے بھی اور ہم عاجز بندوں کی طرف سے بھی بہترین جزاء دے اور اپنی رحمتوں سے انہیں نو از تار ہے اور اپنی رضا کی جنتوں میں انہیں رکھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرب میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ان سب کو جگہ دے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے جس طرح وہ وارث بنے خدا ایسے سامان پیدا کر دے کہ ہم بھی ہمیشہ اس کی رحمتوں کے وارث دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بنیں.اب میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے زندگی دی تو انشاء اللہ کل پھر ملیں گے.اگر اللہ نے زندگی دی.(از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
۱۳۶ -- خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۳۷ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب انتہائی مظلومیت اور متضرعانہ دعا اللہ تعالیٰ کی معجزانہ نصرت کو جذب کرتی ہے اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کل رات سے مجھے انفلوئنزا کی شکایت ہے جس کے نتیجہ میں سر میں درد بھی ہے اور گلے پر اثر بھی.دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی دعاؤں سے میری مدد کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا کرے کہ میں آج کی تقریر میں آپ کے سامنے ایسی باتیں بیان کروں جو اُسے پسند ہوں اور آپ کو فائدہ پہنچانے والی ہوں.چند ہفتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا میں مبعوث ہو کر یہ اعلان کیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ میں تمام دنیا میں اسلام کو پھیلاؤں اور تمام ادیان باطلہ پر اسلام کو غالب کروں.مجھے اس نے اس لئے مبعوث کیا کہ میں ہر دل میں خدا تعالیٰ کی خالص توحید کا پودا لگاؤں اور ہر سینہ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے منورکروں آپ نے اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ اس کام میں کون میری مدد کرنے کو تیار ہے اُس آواز کو سن کر ہم نے جواب میں کہا نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ ہم خدا تعالیٰ کے لئے اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے آپ.جھنڈے تلے جمع ہو کر دین اسلام کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں اور عہد بیعت باندھنے کے بعد ہم نے یہ محسوس کیا کہ ہم بڑے ہی کمزور اور کم مایہ اور کم علم ہیں.ہم نے اپنے رب سے عہد تو باندھ لیا ہے مگر اس عہد کا پورا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں جب تک کہ وہی اپنے فضل سے ہمیں اس کی توفیق عطا نہ کرے.غرض اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت کے بغیر ہم اپنے اس وعدہ کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے کہ اے مسیح محمد کی مد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو پھیلانے کے لئے ہم تیرے ساتھی بنتے ہیں اور خدا کے دین کے مددگار ہوتے ہیں“
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۳۸ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب اس پر مجھے خیال آیا کہ میں اس جلسہ کے موقع پر دوستوں کے سامنے وہ باتیں بیان کروں جو اللہ تعالیٰ کی نصرت کے حصول کا ذریعہ بنتی ہیں اور جنہیں قرآن کریم نے مختلف جگہوں پر بیان کیا ہے چنانچہ اس کے متعلق میں نے غور کرنا شروع کیا اور قرآن کریم کی آیات جمع کرنی شروع کیں لیکن پھر یکدم مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اندھیرے نے مجھے گھیرا ہے اور مضمون کو آگے نکلنے کے لئے کوئی راستہ نہیں ملتا جس کی وجہ سے میری طبیعت میں بڑی پریشانی پیدا ہوئی اور طبیعت اپنے رب کی طرف مائل ہوئی اور اس کی مدد طلب کرنے کے لئے اس کی طرف جھکی اور دعا میں مشغول ہوگئی تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری توجہ اس طرف پھیری گئی کہ میں اس مضمون کو جلسہ کے موقع پر اس رنگ میں بیان نہ کروں بلکہ اس سلسلہ میں دو بنیادی باتیں بیان کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جس رنگ میں اللہ تعالیٰ کی نفرتیں اور اس کی تائید میں ملیں اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کا نزول آپ پر ہوا اس کو اپنے دوستوں کے سامنے رکھوں کہ یہ بھی اس مضمون کا ہی ایک حصہ ہے جسے میں نے آج بیان کرنے کا ارادہ کیا تھا.چنانچہ جب میں نے اس حصہ مضمون کے متعلق حوالہ جات اکٹھا کرنے اور کروانے شروع کئے تو مجھے معلوم ہوا؟ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کا سلوک تھا وہ تین بڑے حصوں میں منقسم ہو سکتا ہے ان میں سے بعض تائیدات اور نشانات جو مخصوص افراد کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور وہ ایک زبر دست تاریخی شہادت کے طور پر ایک مستقل حیثیت میں رہتی دنیا تک قائم رہیں گے لیکن بہت سی تائیدات اور نصر تیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس رنگ میں بھی ملیں کہ ان کا سلسلہ جاری ہے.بند نہیں ہوا.اس میدان میں ہر احمدی آج بھی کھڑا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق حق کو حق ثابت کرنے کے لئے تیار ہے اور تیری بعض عام اور ہمہ گیر نوعیت کی تائیدات تھیں جن کے وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیئے گئے تھے.یہ میرے آج کے مضمون کا خلاصہ ہے.قرآن کریم پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصولی طور پر دو ایسی چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی معجزانہ نصرت کو جذب کرتی ہیں.ان میں سے ایک انتہائی مظلومیت ہے کہ دشمن مارنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کا بندہ اپنے رب کی راہ میں مرنے کے لئے تیار ہو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۳۹ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب جاتا ہے اور دوسرے دعا میں اس قسم کا تضرع اور ابتہال ہے کہ گویا انسان جو دعا کر رہا ہوتا ہے وہ اس وقت اپنے پر ایک موت وارد کر لیتا ہے تو جب ایک انسان ان دو موتوں کو اپنے نفس پر قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے اس وقت اللہ تعالیٰ کی معجزانہ نصرت ملتی ہے.سی بھی واضح رہے کہ اس میدان میں کسی ماں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل بچہ نہیں جنا.آپ نے خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ تکالیف برداشت کیں کہ جن کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں نیز دنیا میں کوئی اور ایسا انسان نہیں جس کو خدا تعالیٰ کے نام پر اور مذہب کی وجہ سے اور عقائد کے نتیجہ میں اس قدر دُکھ پہنچایا گیا ہو اس قدر ایذا دی گئی ہو اور اس قدر تکالیف پہنچائی گئی ہوں اور دنیا میں آپ کے سوا کوئی انسان ایسا بھی پیدا نہیں ہوا جس نے آستانہ الوہیت پر اپنی روح کو اس طرح گداز کر دیا ہو اور بہا دیا ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اپنے ربّ کے حضور جھکی اور بالکل گداز ہوگئی اور پانی بن کر بہہ نکلی آپ کی تیرہ سالہ مکی زندگی کا ایک ایک لحظہ اس صداقت کا گواہ ہے.وہ کون سا ظلم تھا جس کا آپ نشانہ نہ بنے وہ کون سی بے عزتی تھی جو آپ کو دیکھنی نہ پڑی وہ کون سی تکلیف تھی جسمانی بھی اور جذباتی بھی جس میں سے آپ اس زمانہ میں نہ گزرے اس زمانہ کی ہر گھڑی میں نہ گزرے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے تو ایک دفعہ منکر نے آگ جلائی تھی اور اپنی زندگی میں انہیں ایک دفعہ اس آگ میں پھینکا گیا تھا اور صرف ایک دفعہ خدا تعالیٰ کی تجلی اس عظمت اور شان کے ساتھ ظاہر ہوئی تھی کہ اس آگ کو اس نے ٹھنڈک اور روح کا سکون بنا دیا تھا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں نے قریباً تیرہ سو سال تک آپ کے لئے آگ جلائے رکھی اور خدا تعالیٰ نے ایک طرف اس آگ کو کہا کہ میرے محبوب بندے کے لئے تو تیرہ سال تک بھڑکتی رہے نیز منکروں کو کہا کہ تمہیں اجازت ہے کہ تیرہ سال تک اس آگ کو تم مشتعل رکھ اور دوسری طرف اس آگ کو یہ بھی کہا کہ میرے اس پیارے بندے پہ تیرا کوئی اثر نہیں ہوگا.سوائے اس کے کہ تو اس کے احساس میں بر داور سلامتی پیدا کرنے والی ہو.غرض تیرہ سال تک دشمن کی جلائی ہوئی آگ میں بظاہر آپ جلائے گئے اور تیرہ سال تک خدا تعالیٰ نے آپ کی نصرت اور امداد اس رنگ میں کی کہ دنیا آپ کو آگ میں دیکھ رہی تھی اور آپ خود اپنے کو جنت میں محسوس کر رہے تھے.اس تیرہ سالہ مظلومانہ زندگی کے بعد آپ اس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۴۰ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب دروازہ پر کھڑے ہوئے جس کے اندر داخل ہو کر انسان خدا کی تائیدات اور نصرتوں کو حاصل کرتا ہے اور وہاں کھڑے ہو کر آپ نے پیچھے آنے والوں کو یوں مخاطب کیا أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّهُمُ الْبَاسَاءُ وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُوا عَلَى يَقُوْلَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (البقرة: ۲۱۵) کہ تم اگر اس دنیا میں داخل ہونا چاہتے ہو جو اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید کی دنیا ہے تو تم اس میں صرف اس صورت میں داخل ہو سکتے ہو کے تم میری پیروی کرو.مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اسوہ بنایا ہے تم سے پہلے جو لوگ مجھ پر ایمان لائے انہوں نے میری زندگی کو اپنے لئے اسوہ سمجھا اور قرار دیا.وہ میرے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے تھے اور انہوں نے میرے ساتھ مل کر وہ تمام دُکھ اٹھائے اور برداشت کئے تھے جو میرے منکر اور مخالف مجھے دے رہے تھے.ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو ان دُکھوں کی وجہ سے یا کفار کے آخری حربہ کے نتیجہ میں اس دنیا سے کوچ کر گئے.جب تک تم انہی کی طرح مجھے اسوہ نہیں بناؤ گے جب تک تم اسی طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکالیف برداشت نہیں کرو گے اس وقت تک تمہیں اللہ تعالیٰ کی مدد اور تائید حاصل نہیں ہو سکے گی.ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ان لوگوں کی میرے ساتھ مل کر یہ حالت تھی کہ جب دنیا کا ہر سلسلہ ٹوٹ جاتا تھا اور جب دنیا سے نا امیدی پیدا ہو جاتی تھی اس وقت میں ( خدا کا رسول اور تمہارے لئے اسوۂ حسنہ ) اور میرے ساتھی اپنے رب کی طرف جھکتے تھے اور تضرع اور خشوع کے ساتھ اس کے سامنے گریہ وزاری کرتے تھے اور اپنے رب کو یہ کہتے تھے کہ اے ہمارے رب نہ ہم میں کوئی طاقت ہے کہ ہم اس دشمن سے مقابلہ کر سکیں نہ ہمیں کسی بڑائی کا دعوی ہے کہ ہم کہہ سکیں کہ تیری مدد کے بغیر ہم اپنے اور تیرے دشمنوں پر غالب آجائیں گے.سب سہارے ٹوٹ چکے ہیں صرف تیرا سہارا باقی ہے پس اپنی مدد اور اپنی نصرت کو جلد بھیج مٹی نصر اللہ.اس فقرہ کے اندر انتہائی کرب اور اضطراب جو ایک مومن کے دل میں دعا کے وقت پیدا ہونا چاہیے.اس کا نقشہ بھی کھینچا گیا ہے اور کامل امید اور کامل تو کل جو ایک مومن بندے کو اپنے رب پر ہوتا ہے اس کا نقشہ بھی کھینچا گیا ہے کہ اسی پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے ایک مومن بندہ ایسے وقت میں اپنے رب سے کہتا ہے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۴۱ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب کہ اے خدا ہم جانتے ہیں کہ دنیا ہماری مدد نہیں کرے گی لیکن ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ تو ہمیں بغیر مدد اور بغیر سہارے کے نہیں چھوڑے گا پس آ اور ہماری مدد کر.تب اللہ تعالیٰ جواب میں کہتا ہے کہ گھبراؤ نہیں میری مدد تمہارے قریب ہی ہے.میں تو اس وقت تک اس لئے خاموش رہا کہ دنیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو ملاحظہ کرے اور دیکھے کہ میرا یہ بندہ ایسا ہے.جو اس قسم کے مظالم اور ایذا ئیں اور تکالیف میری خاطر برداشت کر سکتا ہے اگر دنیا یہ نظارہ نہ دیکھتی تو میرے اس بندہ کی قدر بھی دنیا کو معلوم نہیں ہوتی پس یہ سب کچھ جو کیا گیا یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کی عظمت کے قیام کے لئے اور آپ کی محبت کو دلوں میں پیدا کرنے کے لئے کیا گیا ہے.پس ان لوگوں میں سے جو خدا تعالیٰ کی خاطر دو موتوں کو جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے قبول کر لیتے ہیں.سب سے اعلیٰ اور ارفع اور کامل اور مکمل نمونہ اور اُسوہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور آپ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل ہیں اور آپ کی محبت اور آپ کے عشق میں گم ہیں.جنہوں نے اپنے وجود کو کلیاً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں مٹادیا اور آپ کے وجود میں خود کو غائب کر دیا اور اس محبت اور عشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کی ہر نظر سے مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام حقیقۂ پوشیدہ رہے کیونکہ وہ وجود ہی وہاں نہیں تھا بلکہ جس وجود پر دنیا کی نظر پڑتی تھی وہ تو محمد رسول اللہ علیہ وسلم کا عکس اور آپ کی شبیہ تھی وہی محبت بنی نوع انسان کے لئے آپ کے دل میں وہی تڑپ اس بات کے لئے کہ دنیا اپنے رب کو اور اپنے محسن حقیقی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانے وہی اطاعت کا نمونہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق کہ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسی حدیث بھی ہو جس کے متعلق تمہیں علم ہو کہ اس کے راوی ثقہ نہیں ہیں لیکن اگر وہ قرآنی تعلیم کے خلاف نہیں تو چونکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والی ہے اس لئے اسے قبول کرو اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالو.انتہائی محبت اور انتہائی عشق جب تک جس کے دل میں نہ ہو اس کی ذہنیت یہ ہو ہی نہیں سکتی اور اس کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا کہ آنحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دنیا نے اگر کسی کو انتہائی تکالیف پہنچائیں اور ایذا ئیں دیں اور بے عزتیاں کیں اور ہلاکت کے منصوبے باندھے اور اسے ہر طرح ذلیل اور نا کام کرنے کی کوشش کی تو وہ حضرت
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۴۲ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب سیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہی ذات ہے اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آقا اور مطاع کے رنگ میں رنگین ہو کر جس طور پر جس رنگ میں اپنے رب کے دعائیں کیں.اس کا نقشہ اپنے ایک شعر میں یوں کھینچتے ہیں.بنالم بردرش زاں ساں کہ نالد بوقت وضع حملے بار دارے (حجۃ اللہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۴۹) آپ فرماتے ہیں کہ جب میں اپنے خدا کے حضور جھکتا ہوں دنیا کی حالت اور اپنی بے بسی کو دیکھتے ہوئے اس سے اس کی مدد کا طالب ہوتا ہوں تو میری حالت ویسی ہی ہوئی ہے جیسی کہ بچہ کی پیدائش کے وقت ایک عورت کی ہوا کرتی ہے اور یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی نصرتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ آپ پر نازل ہوئیں اس سلسلہ میں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ دوستوں کو پڑھ کے سنانا چاہتا ہوں آپ فرماتے ہیں: ” در حقیقت لوگوں نے اس خیال سے کہ کسی طرح لَوْ تَقَوَّل کے نیچے مجھے لے آئیں.منصوبہ بازی میں کچھ کمی نہیں کی.بعض مولویوں نے قتل کے فتوے دیئے بعض مولویوں نے جھوٹے قتل کے مقدمات بنانے کے لئے میرے پر گواہیاں دیں.بعض مولوی میری موت کی جھوٹی پیشگوئیاں کرتے رہے.بعض مسجدوں میں میرے مرنے کے لئے ناک رگڑتے رہے.....یہ اس لئے ہوا کہ تا خدا تعالیٰ ہر طرح سے اپنے نشانوں کو مکمل کرے.میری نسبت جو کچھ ہمدردی قوم نے کی ہے.وہ ظاہر ہے اور غیر قوموں کا بغض ایک طبعی امر ہے ان لوگوں نے کون سا پہلو میرے تباہ کرنے کا اٹھا رکھا، کون سا ایذا کا منصوبہ ہے جو انتہا تک نہیں پہنچایا، کیا بد دعاؤں میں کچھ کسر رہی یا قتل کے فتوے نامکمل رہے یا ایذا اور توہین کے منصوبے کما حقہ ظہور میں نہ آئے پھر وہ کون سا ہاتھ ہے جو مجھے بچاتا ہے.“ اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد نمبر۷ اصفحه ۳۹۵،۳۹۴) اسی طرح حقیقۃ الوحی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اس قدرشور اور میرے تباہ کرنے کے لئے اس قدر کوشش اور یہ پُر زور طوفان جو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۴۳ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب میری مخالفت میں پیدا ہوا یہ اس لئے نہیں تھا کہ خدا نے میرے تباہ کرنے کا ارادہ کیا تھا بلکہ اس لئے تھا کہ تا خدا تعالیٰ کے نشان ظاہر ہوں اور تا خدائے قادر جو کسی سے مغلوب نہیں ہو سکتا.ان لوگوں کے مقابل پر اپنی طاقت اور قوت دکھلاوے اور اپنی قدرت کا نشان ظاہر کرے چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا.کون جانتا تھا اور کس کے علم میں یہ بات تھی کہ جب میں ایک چھوٹے سے بیج کی طرح بویا گیا اور بعد اس کے ہزاروں پیروں کے نیچے کچلا گیا اور آندھیاں چلیں اور طوفان آئے اور ایک سیلاب کی طرح شور بغاوت میرے اس چھوٹے سے تم پر پھر گیا.پھر بھی میں ان صدمات سے بچ جاؤں گا.سو وہ تخم خدا کے فضل سے ضائع نہ ہوا ابلکہ بڑھا اور پھولا ور آج وہ ایک بڑا درخت ہے جس کے سائے کے نیچے تین لاکھ انسان آرام کر رہا ہے یہ خدائی کام ہیں جن کے ادارک سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں وہ کسی سے مغلوب نہیں ہوسکتا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفہ ۲۶۲ ۲۶۳) اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نزول اسیح “ میں فرمایا: اب یہ لوگ خود سوچ لیں کہ اس سلسلہ کے برباد کرنے کے لئے کس قد رانہوں نے زور لگائے اور کیا کچھ ہزار جان کا ہی کے ساتھ ہر ایک قسم کے مکر گئے یہاں تک کہ حکام تک جھوٹی مخبریاں بھی کیں خون کے جھوٹے مقدموں کے گواہ بن کر عدالتوں میں گئے اور تمام مسلمانوں کو میرے پر ایک عام جوش دلایا اور ہزار ہا اشتہار اور رسالے لکھے اور کفر اور قتل کے فتوے میری نسبت دئے اور مخالفانہ منصوبوں کے لئے کمیٹیاں کیں.مگر ان تمام کوششوں کا نتیجہ بجز نامرادی کے اور کیا ہوا.پس اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو ضرور ان کی جان توڑ کوششوں سے یہ تمام سلسلہ تباہ ہو جاتا.کیا کوئی نظیر دے سکتا ہے کہ اس قدر کوششیں کسی جھوٹے کی نسبت کی گئیں اور پھر وہ تباہ نہ ہوا بلکہ پہلے سے ہزار چند ترقی کر گیا.پس کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہو جائے اور صفحہ ہستی پر اس کا نام ونشان نہ رہے مگر وہ تم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دُور دُور چلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پرند اس پر آرام کر رہے ہیں.“ ( نزول مسیح.روحانی خزائن جلد نمبر ۱۸ صفحه ۳۸۴٬۳۸۳)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۴۴ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب اور بھی بہت سے حوالے ہیں لیکن وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے میں اب اصلی مضمون کی طرف آتا ہوں.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اور جیسا کہ آپ کے صحابہ میں سے متعدد صحابہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعا کے وقت کا جو نقشہ کھنچا ہے وہ بالکل اس کے مطابق ہے جس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء :) اور جب دعا کے وقت ایک انسان اپنے اوپر ایک موت وارد کر لیتا ہے تب وہ جس کی نگاہ میں دعا کرنے والا بندہ محبوب ہوتا ہے اپنے فرشتوں کو بھیجتا ہے اور کہتا ہے اس کو بشارتیں دو.یہ مرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا یہ زندہ رہنے اور زندہ رکھنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے.اس کے ذریعہ سے تو ہم نے تمام دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے.جاؤ اور اس کی مدد کرو.جاؤ اس کے لئے ان را ہوں کو کھولو جو نصرت کی راہیں ہیں.جاؤ اور اس کے لئے مقابلہ کے میدان کو تیار کرو جس میدان میں کھڑے ہو کر وہ صلح کے ساتھ اور امن کے ساتھ اور پیار کے ساتھ اور تہذیب کے ساتھ اور شرافت کے ساتھ اپنے تمام مخالفوں کو فیصلہ کے لئے بلائے گا اور کوئی اس کے مقابلہ پر نہیں آئے گا اور اگر آئے گا تو نا کام ونامرادر ہے گا اور اس طرح دنیا کو پتہ لگے گا کہ وہ بندہ جسے دنیا نے دھتکار دیا تھا اور ذلیل سمجھا تھا وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں دھتکارا ہوا نہیں بلکہ وہ اس کا محبوب ہے وہ ذلیل نہیں بلکہ خدا کا ایک عزت والا بندہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جیسا کہ میں نے بتایا ہے تین قسم کی نصرتیں حاصل ہوئیں بوجہ اس اسوہ حسنہ کی پیروی کے جسے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں پیش کیا ایڈا کو برداشت کرنے کے سلسلہ میں بھی اور دعاؤں کو انتہا تک اور اپنے کمال کے نتیجہ میں بھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کی نصرتوں اور تائیدات کے ایک تو وہ عام وعدے ہیں جو آپ کے الہامات میں پائے جاتے ہیں اور قیامت تک کے لئے ہیں پورے ہورہے ہیں اور وہ قیامت تک پورے ہوتے رہیں گے اور جو آنکھیں بصیرت اور بصارت رکھتی ہوں گی وہ ان کو دیکھیں گی.وہ ان سے حظ اٹھا ئیں گی ، ان سے برکت حاصل کریں گی اور وہ ان کے نتیجہ میں اپنے رب کی رضا کو پائیں گی.ان کے علاوہ بعض ایسے میدان نصرت کے آپ کے لئے پیدا کئے گئے جو اپنے زمانہ تک کے لئے مخصوص تھے مثلاً بعض معاملات میں آپ نے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۴۵ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب صرف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو کہا کہ لڑنے اور جھگڑنے اور فتنہ و فساد کی ضرورت نہیں ہے؟ اگر تم سمجھتے ہو کہ میں جھوٹا ہوں اور کذاب ہوں اور مفتری ہوں اور میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں سچا ہوں اور صادق ہوں اور خدا تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے نیز میرا دعویٰ یہ ہے کہ میرا پخته تعلق خدا تعالیٰ سے ہے اب دنیا کا کوئی فلسفہ نہ اس دعوی کو غلط ثابت کر سکتا ہے اور نہ اسے صحیح ثابت کر سکتا ہے یعنی مدعی کا دعویٰ یہ ہے کہ میرا تعلق خدا سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے کہنے پر جو میں کہتا ہوں کہتا ہوں اور اس کے ارشاد کے مطابق جو میں کرتا ہوں کرتا ہوں تو اس کا فیصلہ زید اور بکر نہیں کر سکتے.اس کا فیصلہ صرف خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے جس کی طرف میں اپنے دعوی کو منسوب کر رہا ہوں.پس ایک مامور من اللہ اور اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ بندے کا موقف یہ ہوتا ہے کہ چونکہ میرا دعویٰ خدا تعالیٰ سے ایک پختہ تعلق کا ہے اور اس کے حکم کے مطابق جو کام میں نے کرنے ہیں، کرنے ہیں اس لئے اس بات اور اس دعویٰ کا فیصلہ سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں کر سکتا اور جب خدا تعالیٰ نے ہی اس بات کا فیصلہ کرنا ہے تو اس کے لئے کسی بندوق کی ضرورت نہیں.کسی نیزے کی ضرورت نہیں.کسی تیر کمان کی ضرورت نہیں.کسی کفر کے فتویٰ کی ضرورت نہیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوی مثلاً یہ ہوتا کہ تمام علماء ہند مجھے ایک بڑا عالم اور متقی سمجھتے ہیں تو پھر مخالف کہتا آؤ ہم ان سے پوچھتے ہیں لیکن آپ کا یہ دعوی نہیں ہے ، آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے ایک محبوب بندہ سمجھتا ہے تو اس کا جواب یہ ہونا چاہئے کہ آؤ خدا تعالیٰ سے پوچھیں اس طرح اگر آپ کو دعوی ہوتا کہ میرے پاس بڑی طاقت ہے تو مخالف آپ کے مقابلہ میں طاقت لے کے آتا اور کہتا تم کہتے ہو میرے پاس سو اٹھ باز ہیں.ہم ایک سو ایک لٹھ باز لے آئیں گے.آؤ مقابلہ کر لیں لیکن یہاں تو دعوی ہی لاٹھیوں کی لڑائی کا نہیں یہاں تو دعوی ہے اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا.اللہ تعالیٰ کی نصرتوں کے حامل ہونے کا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک محبوب بندہ جسے اللہ تعالیٰ دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کرتا ہے وہ ہمیشہ دنیا میں امن کو قائم کرتا ہے، وہ صلح کو قائم کرتا ہے، محبت اور پیار سے محبت اور پیار کے فیصلوں کی طرف دنیا کو بلاتا ہے مگر دنیا گریز کرتی ہے.مخالف اس کی اسی بات کا جواب دینے کی بجائے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے.ہم تمہیں آگ میں پھینک دیں گے.ہم تم پر کفر کے فتوے لگائیں گے لیکن اس سے مدعی کا دعویٰ غلط
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۴۶ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب ثابت نہیں ہوتا یعنی عقلاً بھی غلط ثابت نہیں ہوتا.چونکہ مدعی کا دعوی تعلق باللہ کا ہوتا ہے اس لئے وہ ہمیشہ اس بات کی طرف بلاتا ہے کہ آؤ خدا تعالیٰ کے پاس جائیں اور اس سے پوچھیں کہ آیا واقعہ میں میں سچا اور صادق ہوں یا اگر کا ذب ہوں تو وہ کوئی ایسا نشان ظاہر کرے جس سے دنیا کو معلوم ہو جائے کہ میں جھوٹا ہوں اور مفتری ہوں اور لوگوں کو گمراہ کرنے والا ہوں اور دین اسلام.برگزشتہ کرنے والا ہوں لیکن دشمن اس طرف آتا نہیں.پس ہمیشہ مدعی اور مرسل اور نبی کی جو کشمکش اپنے مخالف سے ہے وہ دنیا وی رنگ میں ظاہر ہوتی ہے کہ دنیا اسے فتنہ اور فساد کی طرف لانے کی کوشش کرتی ہے لیکن وہ دنیا کو امن اور صلح کے ساتھ ہی فیصلہ کی دعوت دیتا ہے اور یہ صلح اور امن کے فیصلے کی جو دعوتیں ہیں یہ عام بشارتوں کو علاوہ جیسا کہ میں نے بتایا دو حصوں میں منقسم ہیں ایک وہ جو بعض مخصوص افراد سے تعلق رکھتی ہیں یعنی بعض افراد.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے ماتحت کہا کہ آؤ ہم امن اور آشتی کی فضا میں بیٹھ کر باہم فیصلہ کریں مگر ان لوگوں نے حضور کی بات نہ مانی بلکہ انہوں نے انہی راہوں کو اختیار کیا جن راہوں کو وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو بچوں کے مقابلہ میں آتے ہیں.اس وقت میں اس قسم کے طریق کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا لیکن بعض ایسی باتیں تھیں ، بعض ایسے دعاوی تھے جن کا تعلق صرف مخصوص مکان کے ساتھ یا مخصوص افراد کے ساتھ نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ا فضل سے ان نفرتوں کے دروازے تمام جماعت احمدیہ پر کھولے تھے.وہ آج بھی کھلے ہیں اور آج بھی ہم ان میدانوں میں نہایت پیار اور محبت کے ساتھ تہذیب کے ساتھ اپنے مخالفوں کو بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس بطل جلیل پر ہم ایمان لائے اور اس کا دعوی تھا کہ خدا سے اس کا تعلق ہے اور اس کے طفیل الہی نفرتوں کے یہ میدان ہم پر بھی کھلے ہوئے ہیں.آؤا کٹھے ہوں اور دیکھیں کہ ہمارا خدا جو قادر و توانا ہے اور ہر چیز اس کے قبضہ قدرت اور اس کے قبضہ تصرف میں ہے جو علام الغیور ہے.انسان انسان کو دھوکہ دے سکتا ہے لیکن کوئی انسان اپنے خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتا.وہ حقیقت حال سے واقف ہے.ہم غلطی کر سکتے ہیں مگر کوئی غلطی ہمارے رب کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی اس لئے آؤ ہم اپنے رب سے کہیں کہ وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے مگر نہیں کہا جاسکتا کہ کوئی مخالف اس امن کے میدان فیصلہ میں ہمارے مقابلہ پر آئے گا یا نہیں آئے گا.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۴۷ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب غرض تیسری قسم کی نصرتیں جن کا تعلق خاص مجزا نہ نفرتوں اور تائیدات الہیہ کے ساتھ ہے اور جن کا وعدہ ہمیں بھی دیا گیا ہے.ان کی طرف ہم ان لوگوں کو بلاتے ہیں جو ہمارے ساتھ ان مسائل میں اتفاق نہیں رکھتے اور اس وقت میں ان کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا ہوں.یہ دعوت ہائے فیصلہ بھی تھیں اور چالیس کے درمیان ہیں اور ان میں سے ہر ایک فیصلہ کن ہے.اگر ہم سے اختلافات رکھنے والے خدائی فیصلہ کو ماننے کے لئے تیار ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اس سے فیصلہ طلب کرنے کے لئے تیار ہوں اور یہ دعا کرنے کے لئے تیار ہوں کہ اے خدا یہ بندہ خود کو تیری طرف منسوب کرتا ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ شخص جھوٹا ہے.ہم غلطی کھا سکتے ہیں.ہم دوسروں کو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن تو علامہ الغیوب ہے اور تیرے لئے غلطی کا کوئی امکان نہیں تجھے کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا اس لئے آ اور ہماری مدد کر، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تیری رحمتوں سے محروم ہو جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرے قہر اور غضب کا تازیانہ ہم پر پڑے اور ہمیں ہلاک کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب ”سرمہ چشم آریہ میں بیان فرمایا ہے کہ قرآن شریف سراسر حکمت اور معرفت اور سچائی سے بھرا ہے اور قرآن شریف میں حکمت اور معرفت اور صداقت کے بہت سے اصول بیان کئے گئے ہیں اور پھر ان کی بہت سی تفاصیل بیان کی گئی ہیں ان میں سے ہر اصل اور ہر جزو کے متعلق بحث بڑی طویل ہو جائے گی اور اس کے لئے کئی زندگیاں درکار ہیں اور ہم نے اپنی زندگی میں یہ فیصلہ کرنا ہے اس لئے اگر تم خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو اور اس کے غضب سے بچنا چاہتے ہو تو آؤ میں ایک آسان طریق تمہیں بتاتا ہوں (اور اسی دعوت فیصلہ میں تمام غیر مذاہب مخاطب ہیں یعنی آپ نے تمام مذاہب کے پیراؤں کو مخاطب کر کے فرمایا ہے ) کہ قران کریم کامل اور مکمل شریعت کی حیثیت میں اپنے اندر صداقتیں رکھتا ہے اصولی بھی، ضروری بھی.تو بجائے اس کے کہ ہم ہر چیز کو لیں اور پرکھیں.میں تمہیں ایک آسان طریق بتا تا ہوں کہ تم دو یا تین اصول ایسے لے لو کہ ان اصولوں پر تمہارے نزدیک سب سے زیادہ اعتراض ہو سکتا ہو.تم ان دو تین اصولوں کو منتخب کر لو اور پھر انہیں ہمارے سامنے پیش کر و.میں تمہارے ان اعتراضات کو غلط ثابت کر کے انہی اصولوں میں سے جو تمہارے نزدیک سب سے زیادہ قابل مواخذہ ہیں یہ ثابت کروں گا کہ حقیقی صداقتیں ان اصول میں ہی بیان ہوئی ہیں اور اس کے مقابلہ میں جو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۴۸ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب موقف تمہاری کتب اختیار کرتی ہیں وہ صحیح اور درست نہیں جب میں ان اصولوں پر تمہارے اعتراضات کو توڑ دوں گا جو تمہارے نزدیک اتنے وزنی ہیں کہ ان سے زیادہ وزنی اور کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور اس کا فیصلہ قرآن کریم کے حق میں ہو جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ دیگر اصول اور جزئیات میں بھی قرآن کریم ہی حق پر ہے کیونکہ جب ایسی باتیں جو تمہارے نزدیک سب سے زیادہ قابل اعتراض تھیں وہ بھی قابل اغراض نہ ٹھہریں تو پھر جو باتیں تمہارے نزدیک نسبتا کم قابل اعتراض تھیں وہ خود ہی قابل اعتراض نہ رہیں گی چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ اشتہار جاری کیا جاتا ہے اور ظاہر کیا جاتا ہے کہ جس قدر اصول اور تعلیمیں قرآن شریف کی ہیں وہ سراسر حکمت اور معرفت اور سچائی سے بھری ہوئی ہیں اور کوئی بات ان میں ایک ذرہ مواخذہ کے لائق نہیں اور چونکہ ہر ایک مذہب کے اصولوں اور تعلیموں میں صد با جزئیات ہوتی ہیں اور ان سب کی کیفیت کا معرض بحث میں لانا ایک بڑی مہلت کو چاہتا ہے اس لئے ہم اس بارہ میں قرآن شریف کے اصولوں کے منکرین کو ایک نیک صلاح دیتے ہیں کہ اگر ان کو اصول اور تعلیمات قرآنی پر اعتراض ہو تو مناسب ہے کہ وہ اول بطور خود خوب سوچ کر دو تین ایسے بڑے سے بڑے اعتراض بحوالہ آیات قرآنی پیش کریں جو ان کی دانست میں سب اعتراضات سے ایسی نسبت رکھتے ہوں جو ایک پہاڑ کو ذرہ سے نسبت ہوتی ہے یعنی ان کے سب اعتراضوں سے ان کی نظر میں اقوامی واشتد اور انتہائی درجہ کے ہوں جن پر ان کی نکتہ چینی کی پر زور نگاہیں ختم ہوگئی ہوں اور نہایت شدت سے دوڑ دوڑ کر انہیں پر جا ٹھہری ہوں سو ایسے دو یا تین اعتراض بطور نمونہ پیش کر کے حقیقت حال کو آزما لینا چاہئے کہ اس سے تمام اعتراضات کا بآسانی فیصلہ ہو جائے گا کیونکہ اگر بڑے اعتراض بعد تحقیق ناچیز نکلے تو پھر چھوٹے اعتراض ساتھ ہی نابود ہو جائیں گے اور اگر ہم ان کا کافی وشافی جواب دینے سے قاصر رہے اور کم سے کم یہ ثابت نہ کر دکھایا کہ جن اصولوں اور تعلیموں کو فریق مخالف نے بمقابلہ ان اصولوں اور تعلیموں کے اختیار کر رکھا ہے وہ ان کے مقابل پر نہایت درجہ رذیل اور ناقص اور دور از صداقت خیالات ہیں تو ایسی حالت میں فریق مخالف کو در
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۴۹ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب حالت مغلوب ہونے کے فی اعتراض پچاس روپیہ بطور تاوان دیا جائے گا“ (اشتہار مفید الا خیار ضمیمه سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۱۳) یہ دعوت فیصلہ اب بھی قائم ہے اور میں اور ہماری جماعت اس کی ذمہ دار ہیں اور طریق فیصلہ یہ ہوسکتا ہے کہ تین ثالث یا منصف فریقین (اگر ہندو مقابلہ پر آئیں تو وہ ایک فریق بن جائیں گے اور اگر عیسائی مقابلہ پر آئیں تو وہ ایک پارٹی بن جائیں گے یا ان دونوں کے علاوہ کوئی اور مذہب مقابلہ پر آئے تو وہ ایک فریق قرار پائے گا) کی رضا مندی سے مقرر کئے جائیں جن کا متفقہ فیصلہ ہر دو فریق کے لئے مانا ضروری ہو.اگر فیصلہ اسلام کے خلاف ہو تو فی اعتراض پچاس روپیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کے مطابق دوسرے فریق کو دے دیا جائے گا اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ بات ناممکنات میں سے ہے لیکن میں ہر اس مذہب کو اور اس کے راہنماؤں کو جو اسلام کے اصولوں کو درست نہیں سمجھتے کہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک بڑا آسان اور مہذب طریق فیصلہ ہے یا آپ جیتیں گے ( جیسا کہ آپ سمجھتے ہیں ) اور قرآن کریم مغلوب ہوگا ( جیسا کہ آپ خیال کرتے ہیں) یا قرآن کریم غالب ہوگا اور آپ مغلوب ہوں گے.قرآن کریم جیتے گا اور آپ شکست کھا ئیں گے.دو میں سے ایک صورت ضرور ہوگی اور قرآن کریم غالب ہو گیا اور اس پر اعتراضات کئے جائیں گے اگر وہ اعتراضات نہ رہے بلکہ وہ اس کی خوبصورتی کی نشانیاں ثابت ہوئے اور ان جگہوں سے صداقت کے خزانے نکلے جن پر اعتراضات کئے گئے ہیں تو تم خدا تعالیٰ کی خاطر خدا کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام میں داخل ہو جانا اور خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی برکات سے فائدہ اٹھانا اور اگر جیسا کہ تمہارا یہ خیال ہے ہم مغلوب ہوں اور تم غالب آئے تو تمہاری تبلیغ اور پروپیگنڈا کو اس سے بہت مدد ملے گی.پس یہ سراسر تمہارے فائدہ کی بات ہے آؤ اور شرافت کے ساتھ اس میدان میں اسلام کے مقابلہ پرنکلو اور پھر دیکھو کہ اللہ تعالیٰ ہماری تائید کس طرح کرتا ہے اور اپنے فضل سے آسمانی نور کو نازل کر کے انہی جگہوں میں جن کو تم قابل اعتراض سمجھتے ہو اور اعتراض کی جگہ قرار دیتے ہو کس طرح معرفت اور حکمت کے خزانے نکالنے کی ہمیں تو فیق عطا کرتا ہے.اس دعوت فیصلہ کے مخاطب تمام غیر مذاہب کے سر براہ ہیں خصوصاً عیسائیوں میں سے کیتھولک فرقہ کے سربراہ جو پوپ کہلاتے ہیں.پس اگر پوپ صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ عیسائیت حق
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۵۰ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب اور اسلام جھوٹ اور باطل ہے تو ان کو چاہئے کہ وہ فیصلہ کی اس آسان راہ کو قبول کریں اور اس میدان فیصلہ میں جو نہایت شرافت اور تہذیب اور امن کی فضا میں کیا جائے گا.آئیں اور اپنے مذہب کی صداقت کو ثابت کریں لیکن اگر وہ خاموشی اختیار کریں تو دنیا یہ سمجھنے پر مجبور ہو گی کہ ان کو اسلام کے مقابلہ میں آنے کی ہمت اور جرات نہیں.(۲) دوسری دعوت فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ”خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہو جانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں.ہرگز ممکن نہیں ( مجموعہ اشتہارات جلد نمبر ۲ صفحہ ۱۶) نیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ مجھ پر ایمان لاتے ہیں اگر وہ قرآن کریم کی اس تفسیر سے جو میں اپنے رب سے روشنی حاصل کر کے اپنے ماننے والوں تک پہنچا رہا ہوں اپنی روح کو منور رکھیں گے تو جس طرح اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنے فضل و کرم کر رہا ہے اور اپنی برکتیں نازل کر رہا ہے.میرے ایسے ماننے والوں پر بھی وہ اپنے فضل و کرم کرتا رہے گا اور ان پر اپنی برکتوں کو نازل کرتا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس دعوی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے ہم تمام مذاہب کو یہ دعوت فیصلہ دیتے ہیں کہ تین ماہر ترین ڈاکٹروں کا انتخاب کریں اور پھر یہ منتخب ڈاکٹر جن ہیں مریضوں کا چاہیں انتخاب کرلیں اور ان کے متعلق یہ لکھ کر دے دیں ( نام اور پستہ کے ساتھ ) کہ ہم نے ان مریضوں کو اس لئے منتخب کیا ہے کہ ہمارے نزدیک یہ لاعلاج ہیں اور ان کی موت کا وقت قریب آ گیا.ہمارے نزدیک اب ان کا علاج نہیں کیا جاسکتا.نہ ان کی زندگی بچائی جاسکتی ہے اور پھر ان میں مریضوں میں سے دس مریض قرعہ اندازی کے ساتھ ہم لے لیں گے اور جو ہمارے مقابلہ پر آئے گا اور جو اسلام کو سچا نہیں سمجھتا اور صلح کی فضا میں ہم سے فیصلہ کرنا چاہتا ہے.دس مریض قرعہ اندازی کے ساتھ وہ لے لے اور پھر ہم بھی دعا کریں گے اور وہ بھی دعا کریں اور ہم پورے وثوق اور یقین کے ساتھ انہیں یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ صرف ہمارا تعلق زندہ خدا سے ہے اور ان کا تعلق زندہ خدا سے نہیں اس لئے وہ مریض جو ہمارے حصہ میں آئیں گے ان
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۵۱ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب میں سے اکثریت خدا تعالیٰ کے فضل سے شفایاب ہو جائے گی اور باوجود اس فتویٰ کے شفایاب ہو جائے گی جو ان کے اپنے ڈاکٹروں نے دیا ہوگا کہ یہ مریض لاعلاج ہیں اور ان کی زندگی بچائی نہیں جاسکتی اور جو مریض ان کے حصہ میں آئیں گے ان کی اکثریت موت کا منہ دیکھے گی.اکثریت کی شرط میں اس لئے لگا رہا ہوں کہ ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بعض معاملات اور حالات ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کی تقدیر مبرم ہوتی ہے یعنی ان کو بدلا نہیں جا سکتا اور چونکہ ایسا بھی ہوتا ہے اس لئے ہم سو فیصدی نہیں کہہ سکتے بلکہ اکثریت کہتے ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم نے مقابلہ ہی کرنا ہے کہ کسی کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے اور جس کی دعا زیادہ قبول ہوگی اس کے حصہ کے مریض زیادہ تعداد میں شفایاب ہوں گے اور اس سے پتہ لگے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کے اوپر زیادہ رحمتیں اور برکتیں نازل کرتا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ: بعض زانیہ عورتیں اور قوم کے کنجر جن کا دن رات زنا کاری کام تھا ان کو دیکھا گیا کہ بعض خوا میں انہوں نے بیان کیں اور وہ پوری ہوگئیں (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ صفحه ۵ ) اللہ تعالیٰ کی تمام صفات سب مخلوق پر جلوہ گر ہوتی ہیں اور اس کی صفت رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ تو اچھوں اور بُروں سب پر جلوہ گر ہوتی رہتی ہے لیکن ان رحمتوں کی کثرت اور ان کی قلت یہ بتا رہی ہوتی ہے کہ کون اس کی نگاہ میں معزز اور محترم ہے اور کون اس نگاہ میں ایک عام انسان ہے کہ جس کے ساتھ وہ صرف ربّ ہونے کی حیثیت میں حسن سلوک کر رہا ہے.غرض یہ دعوت فیصلہ اب بھی قائم ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں اس کے اوپر قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ آپ کی برکتوں کو جماعت میں جاری رکھا ہے اور اس دعوتِ فیصلہ کے بعد خود بخو د معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کا خدا زندہ خدا ہے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت صداقت پر قائم ہے.تیسری دعوت فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک کتاب براہین احمدیہ لکھی.اس کتاب کے لکھنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ پر زور دلائل کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی تائید کے نشانات حاصل
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۵۲ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب کرے.اتماماً للحجة کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید سے انسماماً للحجة ( یعنی دشمن پر حجت تمام کرنے کے لئے ) اس کتاب میں وہ دلائل بھی لکھ دیئے جائیں.جن سے یہ ثابت ہو کہ قرآن کریم ہی حق ہے اور کامل اور مکمل شریعت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی افضل الانبیاء اور خاتم النبیین ہیں.آخری شریعت کے حامل اور تمام نبوتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے اور آپ وہ دروازہ ہیں جس کے واسطہ سے اور جس میں سے ہو کر ہر آسمانی نور حاصل کیا جاسکتا ہے اور جو شخص اس دروازہ کو چھوڑتا ہے اور کسی اور ذریعہ سے خدا تعالیٰ کے نور کو حاصل کرنا چاہتا ہے وہ بے نور ہی رہتا ہے.جہنم میں پھینک دیا جاتا ہے.آپ نے یہ کتاب لکھنے کے بعد ایک دعوت فیصلہ بھی دی.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.میں جو مصنف اس کتاب براہین احمدیہ کا ہوں.یہ اشتہار اپنی طرف سے بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ بمقابلہ جمیع ارباب مذہب اور ملت کے جو حقانیت فرقان مجید اور نبوت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر ہیں.اتمــامــا للحجة شائع کر کے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب منکرین میں سے مشارکت اپنی کتاب کی فرقان مجید سے اُن سب براہین اور دلائل میں جو ہم نے دربارہ حقیت فرقانِ مجید اور صدق رسالت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اُسی کتاب مقدس سے اخذ کر کے تحریر کیں ہیں.اپنی الہامی کتاب میں سے ثابت کر کے دکھلاوے یا اگر تعداد میں ان کے برابر پیش نہ کر سکے تو نصف ان سے یا مثلث اِن سے یا ربع ان سے یا مس ان سے نکال کر پیش کرے یا اگر بکلی پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے ہی دلائل کو نمبر وار تو ڑ دے تو اُن سب صورتوں میں بشرطیکہ تین منصف مقبولہ فریقین بالاتفاق یہ رائے ظاہر کر دیں کہ ایفاء شرط جیسا کہ چاہئے تھا ظہور میں آ گیا.میں مشتہر ایسے مجیب کو بلا عذرے وحیلیتے اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دوں گا مگر واضح رہے کہ اگر اپنی کتاب کی دلائل معقولہ پیش کرنے سے عاجز اور قاصرر ہیں یا بر طبق شرط اشتہار کی شمس تک پیش نہ کرسکیں تو اس حالت میں بصراحت تمام تحریر کرنا ہوگا جو بوجہ نا کامل یا غیر معقول ہونے کتاب کے اس شق کے پورا کرنے سے مجبور اور معذور رہے اور اگر دلائل مطلوبہ پیش کریں تو اس بات کو یا د رکھنا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۵۳ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب چاہئے کہ جو ہم نے خمس دلائل تک پیش کرنے کی اجازت اور رخصت دی ہے.اس سے ہماری یہ مراد نہیں ہے.جو اس تمام مجموعہ دلائل کا بغیر کسی تفریق اور امتیاز کے نصف یا ثلث یا ربع یا شمس پیش کر دیا جائے گا بلکہ یہ شرط ہر پیک صنف کی دلائل سے متعلق ہے اور ہر صنف کے براہین میں سے نصف یا مثلث یا ربع یا مس پیش کرنا ہوگا.“ ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اول صفحه ۲۴ تا ۳۱ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پانچ عنوان بھی باندھے ہیں اور دعوت فیصلہ دی ہے کہ منکر اپنی کتب میں سے ایسے دلائل پیش کرے جو ان کتب کو اپنی سلاست میں اپنے اثر میں اپنے دلائل کی پختگی میں اور اپنی قوت قدسیہ وغیرہ میں قرآن مجید جیسی ثابت کر سکیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی نرمی سے کام لیا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ملک کا چیمپئن کسی کالج کے باکسر کو یہ کہہ رہا ہو کہ تم میرے ساتھ مقابلہ کر لو اور پھر اُسے یہ خیال آئے کہ میرے ساتھ کہاں مقابلہ کر سکتا ہے تو پھر وہ رعایت دینے لگ جائے اور کہے کہ میں تمہارے پانچ مکوں کے مقابلہ میں صرف ایک مکہ لگاؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس وثوق اور صداقت کے مقام پر قائم کیا ہے کہ سارے مذاہب کے سر براہوں کے ساتھ آپ کا یہی سلوک ہو.چنانچہ یہاں بھی دیکھ لو.پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک عام چیلنج دیا ہے اور پھر اس کے بعد رعایتیں دینی شروع کر دی ہیں چنانچہ فرمایا ہے اگر تم میرے پیش کردہ دلائل کی تعداد کے برابر دلائل اپنی کتب سے پیش نہ کر سکو تو تم ان دلائل کا نصف پیش کر دو اور اگر ان کا نصف بھی پیش نہیں کر سکتے تو ان کا تیسرا حصہ ہی پیش کر دو اور اگر تم تیسرا حصہ بھی پیش نہیں کر سکتے تو ان کا چوتھا حصہ پیش کر دو اور تم ان دلائل کا پچیس فیصدی بھی پیش نہیں کر سکتے تو ہم تمہیں اور رعایت دے دیتے ہیں تم ان دلائل کا بیس فیصدی ہی پیش کر دو اور اگر تم اس بات سے بھی عاجز ہو تو چلو کچھ بھی نہ کرو.ہم تمہیں ایک اور رعایت دیتے ہی اور وہ یہ ہے کہ جو ہم نے دلائل دیئے ہیں.ان کو نمبر وار تو ڑ دو.اس کے لئے تم ان دلائل کو جو ہم نے دیئے ہیں.نمبر وار توڑ دو اور غلط ثابت کر دو.تو ان سب صورتوں میں ”بشر طیکہ تین منصف مقبولہ فریقین بالا تفاق یہ رائے ظاہر کر دیں کہ ایفاء شرط جیسا کہ چاہئے تھا ظہور میں آ گیا.میں مشتہر ایسے مجیب کو بلا عذرے وحیلیتے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۵۴ اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دوں گا.“ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب مگر واضح رہے کہ اگر اپنی کتاب کی دلائل معقولہ پیش کرنے سے عاجز اور قاصر رہیں یا برطبق شرط اشتہار کی شمس تک پیش نہ کر سکیں تو اس حالت میں بصراحت تمام تحریر کرنا ہوگا جو بوجہ نا کامل یا غیر معقول ہونے کتاب کے اس شق کے پورا کرنے سے مجبور اور معذورر ہے.“ صرف ہم اتنا چاہتے ہیں کہ تم یہ لکھ دینا کہ ہماری کتاب اس بات سے عاجز اور معذور.کہ قرآن کریم کے دلائل کے مقابلہ میں آپ کی بتائی ہوئی شرط کے مطابق ہم دلائل کو پیش ا کر سکیں.پھر آپ نے لکھا کہ میں نے پانچ شقیں بنائی ہیں.ان میں سے ہر شق کا نصف یا تیسرا حصہ یا چوتھا حصہ یا پانچواں حصہ مراد ہے.کسی ایک شق کو نہیں لینا.اب جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.اس دعوت مقابلہ میں جمیع ارباب مذہب اور ملت مخاطب ہیں اور تمام مذاہب کو جو اسلام کے مقابلہ میں آتے ہیں یا اپنے آپ کو اسلام کا مقابل سمجھتے ہیں.صرف اس خیال سے خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے رب کو پیارے ہوئے اور اب ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نیابت میں تمام ان مذاہب کو جو اسلام کے مقابلہ میں آسکتے ہیں یہ کہتا ہوں کہ انہی شرائط کے مطابق جو براہین احمدیہ کے متعلق اس اشتہار میں بیان کی گئی ہیں.تم آؤ اور ہمارے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھ لو.خدا تعالیٰ ثابت کر دے گا کہ عاجز بندوں سے بھی وہ میرے جیسے عاجز بندوں کو بھی اپنے منشاء کے مطابق اسلام کے حق میں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت میں استعمال کر سکتا ہے.چوتھی دعوت فیصلہ تمام مذاہب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اور طریق پر بھی دعوت مقابلہ دی ہے اور وہ دعوت مقابلہ مصلح موعود کی پیشگوئی اور اس کے ساتھ باقی اور جو پیشگوئیاں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) و ۱۵۵ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب ہیں.ان کو بریکٹ کر کے دی ہے.چنانچہ آپ مصلح موعود‘ کی پیشگوئی کے بعد فرماتے ہیں.پھر خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیسرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا.تیری نسل بہت ہوگی ( مثلاً مرزا مبارک احمد صاحب فوت ہو گئے تو ان کی بجائے ایک اور لڑکا دینے کا بھی وعدہ تھا.اس وعدہ کو پورا کرنے کے لئے ان خواتین مبارکہ میں سے ایک خاتون مبارک میری والدہ کی شکل میں آگئیں) اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے (اگر آپ غور کریں تو یہ بھی ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے.اس پر سے یونہی نہیں گزر جانا چاہئے.میرے علم میں ایسے بہت سے خاندان ہیں.جن کی کوئی اولا دفوت نہیں ہوئی.اگر ان کے ہاں چار بچے پیدا ہوئے ہیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ چاروں بچے زندہ موجود ہیں اور خدا تعالیٰ انہیں زندہ رکھے.میرے پانچ بچے پیدا ہوئے ہیں اور پانچوں زندہ موجود ہیں لیکن حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کو بطور پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ تیرے سارے بچے زندہ نہیں رہیں گے بلکہ بعض ان میں سے مر بھی جائیں گے.اور یہ ایک زبردست پیشگوئی ہے.آدمی اپنے طور پر یہ ثابت نہیں کہہ سکتا) اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی اور وہ جلد لا ولد رہ کرختم ہو جائے گی اگر وہ تو بہ نہ کریں گے.ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے ( جیسا کہ ہم نے دیکھا اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدارحم کے ساتھ رجوع کرے گا.خدا تیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اُجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈراؤنا گھر برکت سے بھر دے گا تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی ( یہ بڑی زبر دست پیشگوئیاں ہیں.پچھلی صدی میں ہی لکھوکھا خاندان ایسے پیدا ہوئے ہیں کہ ان کی نسل کے متعلق بھی پتہ ہی نہیں اور ہم نہیں جانتے کہ ان کا تعلق کس خاندان کے ساتھ ہے.غرض بہت کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں.جن کی نسل اس طرح زندہ رہتی ہے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ) خدا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۵۶ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے.عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا ( جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے آج یہ ذریعہ بھی استعمال کر رہا ہوں) میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلالوں گا.پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے نا کام رہنے کے در پے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں.وہ خود ناکام رہیں گے اور نا کامی و نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور میں ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے.خدا انہیں نہیں بھولے گا.( آپ بھی اپنے خدا کو نہ بھولیں ) اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علی حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے تو مجھ سے ایسا ہے.جیسے انبیاء بنی اسرائیل تو مجھے ایسا ہے جیسی میری تو حید.تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے.بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دل میں تیری محبت ڈالے گا.یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ( جیسا کہ ابھی پچھلے سال ہی گیمبیا کے گورنر جنرل نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈی اور برکت پائی).اے منکر و اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو.اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے.جو ہم نے اپنے بندے پر کیا تو اس نشانِ رحمت ( یعنی مصلح موعود کی پیشگوئی اور یہ ساری پیشگوئیاں ) کی مانند (جو ان تمام پیشگوئیوں پر مشتمل ہے ) تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہو اور اگر تم پیش نہ کرسکو (اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے ) تو اس آگ سے ڈرو کہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۹۷،۹۶)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۵۷ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب کون ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ پر کھڑا ہو اور اس نے یہ دعویٰ داور کیا ہو کہ میں آپ سے زیادہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہوں اور پیارا ہوں اور میں آپ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی برکتوں کا حامل ہوں اور آپ کے مقابلہ میں میری یہ پیشگوئی ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے اس کو پورا بھی کیا ہو اور یہ ایک زبر دست نشانِ رحمت ہے.یہ بھی بڑا عمدہ طریق فیصلہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میرا دعوی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کا مقرب ہوں اور تم کہتے ہو کہ میں (نعوذ باللہ ) شیطان ہوں اور شیطان لعین کا مقرب ہوں اس کا فیصلہ خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے زبر دست نشان مجھے عطا کئے ہیں اور بڑی برکتوں کے وعدے مجھے دیئے ہیں.اب دو ہی صورتیں ہیں کہ اول تم اپنے رب سے کہو اور یہ برکتیں مجھے نہ ملیں یا اپنے رب سے یہ کہو اور ان سے بڑھ کر برکتیں تمہیں مل جائیں لیکن تم نے ایک رستہ کو اختیار نہیں کیا اور دوسرے رستہ کو قبول نہیں کیا اور اس طرح ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے دعاوی میں بچے ہیں کیونکہ کوئی شخص آپ کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے قرب کو ثابت نہیں کر سکا.شاید تمام مذاہب عالم کو جو دعوتِ فیصلہ دی گئی ہے.اس میں بعض اور باتیں بھی رہ گئی ہوں.میں نے بتایا ہے کہ میں نے قریباً تینوں قسموں میں سے سوایسی باتیں لکھی تھیں اور اس خیال سے کہ وقت نہیں ہوگا.میں بہت سارے حوالے گھر چھوڑ آیا ہوں.میں نے تمام حوالے نکالے ہوئے تھے اور اس خیال سے کہ جو حوالے میں ساتھ لایا ہوں.وہ بھی وقت کے اندر ختم نہیں ہوسکیں گے.میں گھر سے اس بات کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو کر آیا تھا کہ جب وقت ختم ہو جائے گا.میں یہ مضمون چھوڑ دوں گا کیونکہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو بعد میں خطبات کے ذریعہ سے یا مضامین کے ذریعہ سے شامل کی جاسکتی ہیں لیکن بہر حال ان میں سے ایک ایک چیز ایسی ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حقانیت پر ایک مضبوط اور زبر دست اور زندہ اور قائم رہنے والی دلیل ہے اور ان میں سے ہر بات ایسی ہے.جو ہمیں اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ اپنے اس مہربان رب کو چھوڑ کر کسی اور طرف دنیا کے کسی لالچ کی وجہ سے مائل نہیں ہو جانا اور جھک نہ جانا.ہمارا رب تم پر کتنا ہی احسان کرنے والا، کتنا ہی فضل کرنے والا ہے اور کتنی برکتیں اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۵۸ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب رحمتیں نازل کرنے والا ہے.تم اسے نہ چھوڑو.اس کے دامن سے ہمیشہ چمٹے رہو اور اس کے فضلوں کے ہمیشہ وارث بننے کی کوشش کرتے رہا کرو.یہ دنیا تو عارضی چیز ہے اور ہر ایک نے یہاں سے گزر جانا ہے.اُخروی زندگی کے سامان پیدا کرو.اب یہ آخری بات ہے دعوتِ فیصلہ.جو میں اپنے انتخاب کے لحاظ سے یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں اور اس کا تعلق تمام مذاہب عالم سے ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ اسلام کو تمام ادیانِ عالم کے مقابلہ میں غالب کرے گا اور اگر سارے مذاہب کے سر براہ اور ان کے علماء اور ان میں متقی قرار دیئے جانے والے اور بزرگ اور نیک اکٹھے ہو جائیں تمام مذاہب کے.اور وہ میرے مقابلہ پر آ کر کھڑے ہوں.وہ ایک چیز کے مستحق دعا کریں اور میں بھی اس کے متعلق دعا کروں تو ان تمام بزرگوں کی دعائیں رد کر دی جائیں گی اور میری دعا قبول ہو جائے گی.آپ فرماتے ہیں:.”خدا نے اس زمانہ میں ارادہ کیا ہے کہ اسلام جس نے دشمنوں کے ہاتھ سے بہت صدمات اٹھائے ہیں.وہ اب سر نو تازہ کیا جائے اور خدا کے نزدیک جو اُس کی عزت ہے.وہ آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے ظاہر کی جائے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اسلام ایسے بدیہی طور پر سچا ہے کہ اگر تمام کفار روئے زمین دعا کرنے کے لئے ایک طرف کھڑے ہوں اور ایک طرف صرف میں اکیلا اپنے خدا کی جناب میں کسی امر کے لئے رجوع کروں تو خدا میری ہی تائید کرے گا.مگر نہ اس لئے کہ سب سے میں ہی بہتر ہوں بلکہ اس لئے کہ میں اُس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۴۰،۳۳۹) اسی طرح آج میں یہ کہتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک قیامت تک یہ دعوت مقابلہ جاری رہنی چاہئے اور جاری رہے گی انشاء اللہ تعالیٰ.اور میں آج کہتا ہوں کہ میرے نزدیک یہ دعوتِ فیصلہ قیامت تک جاری رہنے والی ہے اور انشاء اللہ جاری رہے گی کہ وہ تمام مذاہب جو اسلام کو جھوٹا سمجھتے ہیں اور اپنے اپنے طور پر اپنے مذہب کو سچا قرار دیتے ہیں.ان کے لئے آسان طریق یہ صلح کا طریق ہے.یہ محبت اور پیار کا طریق ہے کہ وہ آئیں اور سب اکٹھے ہوں اور وہ دنیا کا کوئی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۵۹ ۲۸ جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب مسئلہ لے لیں تم اپنے زعم کے مطابق میں ایک رنگ میں اس کے لئے دعا کریں اور اس کے مقابلہ پر میں جو ایک نہایت ہی ادنیٰ خادم ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہوں اور آپ کے آقا و مطاع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں.اکیلا دعا کروں گا اور اس وجہ سے نہیں کہ میں کوئی چیز ہوں بلکہ اس کے لئے کہ اسلام خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایک بہت بڑی صداقت ہے اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ آپ کے خلفاء کی مدد کے لئے آسمان سے اترا کرے گا.میں آج اس بات کو دہراتا ہوں کہ اگر آپ سب کے مقابلہ میں میں اکیلا دعا کروں گا.تو اللہ تعالیٰ میری دعا کو قبولیت بخشے گا اور آپ کی دعاؤں کورڈ کر دے گا.عیسائیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب مبعوث ہوئے تو عیسائیت بڑے زوروں پر تھی.اس مذہب نے تمام دنیا میں ایک جال بچھا دیا تھا.افریقہ میں بھی ہمارے ہندوستان میں بھی.جزائر میں اور دوسرے ممالک میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت کے ماتحت اور اپنی ان پیشگوئیوں کے مطابق جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تھیں.اس قوم کو جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصطلاح میں دجال کی پیٹھ ٹھونکنے والی اور ان کی مدد کرنے والی تھی.یہ طاقت دی کہ وہ دنیا میں سیاسی اقتدار اور غلبہ حاصل کرے جہاں جہاں بھی وہ گئے انہوں نے اپنے پادریوں کی سیاسی میدانوں میں بھی مدد کی اور پیسہ سے بھی ان کی مدد کی.انہوں نے جو روپیہ اس سلسلہ میں خرچ کیا.وہ آپ اپنے تصور میں بھی نہیں لا سکتے.انہوں نے اسلام کے مقابلے میں اور عیسائیت کے حق میں دل کھول کر خرچ کیا اور ان کی کوششوں کے جو بڑے بڑے طریق ہمیں نظر آتے ہیں.(ویسے تو ہزاروں طریق تھے جو انہوں نے استعمال کئے لیکن جو موٹی موٹی باتیں ہیں وہ یہ ) کہ ایک طرف اسلام کے خلاف نہایت جھوٹا اور اشتعال انگیز پروپیگینڈ اساری دنیا میں کرنا شروع کیا تمام ملکوں میں اور وہ اس حد تک کہ انسانیت کو شرم آجاتی ہوگی جب وہ اپنے اندر اس قسم کے انسان بھی دیکھتا ہوگا کہ اس میں اس قسم کے انسان موجود ہیں اور ہر بیان کی بنیاد جھوٹ اور باطل روایات کے اوپر تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی (اپنے زعم میں نعوذ باللہ ) اتنی بھیا نک شکل اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) 17.۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب اتنی بھیا نک تصویر بنائی اور کہ جو بھی اسے دیکھے الفاظ کے جامہ میں.وہ اس تصویر سے نفرت کرنے لگے آپ سے نفرت کرنا شروع کر دے حالانکہ وہ تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ تھی نہ ہو سکتی تھی.ان لوگوں کی نگاہ میں بھی وہ آپ کی تصویر نہیں ہو سکتی تھی جن کو آپ کی سوانح سے کچھ تھوڑا بہت علم ہو جائے.جیسا کہ بعد میں اب خود عیسائی مفکرین اور مستشرقین میں سے بعض نے یہ کہنا شروع کیا.یا یوں کہنا چاہئے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ جو تصویر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم سے پہلوں نے کھینچی تھی وہ درست نہیں تھی اس میں جھوٹ سے کام لیا گیا تھا.اس میں بددیانتی سے کام لیا گیا تھا.اس میں تعصب سے کام لیا گیا تھا.غرض ان لوگوں نے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جھوٹا پروپیگینڈا، اسلام کے خلاف جھوٹا پروپیگینڈا ، ہماری تاریخ کو بالکل بدل دیا.توڑ دیا اور اسے مسخ کر دیا.ہماری خوبصورتیوں کے اوپر اپنے گندے خیالات کے دھبے لگا کر ان کو بدصورت کرنے کی کوشش کی گئی.پھر انہوں نے روپیہ کا لالچ بھی دیا.جہاں غریب دیکھا.وہاں اس کی مدد کے لئے آگئے جہاں کوئی جاہل لیکن علم حاصل کرنے کا شوق رکھنے والا بچہ دیکھا.اس کو لے آئے اس کو علم دیا اور اس کے مذہب کو بگاڑ دیا.افریقہ میں اور ہمارے ملکوں میں بڑی کثرت سے.اور اغوا تک سے یہ باز نہیں آئے.میں اس بات کا خود عینی شاہد ہوں.بٹالہ میں ایک بیرنگ سکول تھا.اس میں میں خودان سرحدی لڑکوں سے ملا ہوں.جن کو ان کے ماں باپ کی اجازت اور ان کے علم کے بغیر عیسائی وہاں سے اس علاقہ میں لے آئے تھے اور بیرنگ سکول جیسی ایک الگ جگہ میں انہیں رکھا ہوا تھا.شروع میں جب ہمارے سکول کے ان کے اس سکول سے مختلف میچ ہوئے اور قادیان کی ٹیموں نے وہاں جانا شروع کیا تو انہوں نے کچھ خیال نہ کیا لیکن بعد میں انہوں نے خیال کیا کہ یہ تو بڑی خطرناک بات ہے.ہمارے راز انہیں معلوم ہورہے ہیں اور انہوں نے ہمارے اوپر ہر وقت ایک دو استا در کھنے شروع کر دیئے تا ان کے اس قسم کے نوجوانوں کے ساتھ ہماری کوئی گفتگو نہ ہو سکے.انہوں نے اغوا کے طریق کو بھی استعمال کیا.پھر بے حیائی اور بداخلاقی کا بھی ایک طریق ہے کیونکہ انسان کے اندر یہ بھی کمزوری پائی جاتی ہے اس سے انہوں نے فائدہ اٹھایا مثلاً ناچ اور گانے کی عادت ڈال دینا مثلا بے پردگی کے نتیجہ میں جو گندے معاشقے ہوتے ہیں.ان کی عادت ڈال دینا نوجوانوں میں اور ان کو مجبور کر دینا اور انہیں بد اخلاقی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) 171 ۲۸ جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب اور بے حیائی کے راستوں پر چلنے کیلئے مجبور کر دیا.چنانچہ یہ سراج الدین جس کے اوپر سراج الدین کے چار سوالوں کا جواب ہے سنا جاتا ہے کہ یہ اسی قسم کا قصہ تھا.واللہ اعلم لیکن بہر حال باہر کے ملکوں میں بہت سارے اس قسم کے قصے بھی نظر آتے ہیں تو ہر قسم کا دجل عیسائیت نے استعمال کیا.اس کے مقابلہ میں اسلام کی یہ حالت تھی کہ پڑھے لکھے مسلمان بھی عیسائیت کے رعب میں آگئے تھے اور یہ سمجھنے لگے تھے کہ قرآن کریم میں کوئی علوم نہیں ہیں.سب علم انجیل میں اور بائبل میں پائے جاتے ہیں.اس ماحول میں اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس لئے مبعوث کیا تھا کہ آپ کسر صلیب کریں اور صلیب کو اس قد ر ز بر دست دلائل اور نشانات آسمانی کے ساتھ توڑ دیں کہ پھر کسی کو صلیب کے حق میں کوئی دلیل دینے کی جرات ہی نہ کرنی پڑے اور ان دلائل کے مقابلہ میں وہ آنے کی.ہمت نہ رکھتا ہو.جرأت نہ رکھے.اس مقصد کا یہ دوسرا حصہ تو اب بھی پورا ہو چکا ہے.کوئی عیسائی پادری چاہے وہ کتنا بڑا عالم کیوں نہ سمجھا جاتا ہو.اگر ہمارا کالج میں پڑھنے والا ایک نوجوان اس کے پاس جائے اور اس سے گفتگو کرے اور پہلے ہی فقرہ میں یہ بتادے کہ میں احمدی ہوں اور بات کرنا چاہتا ہوں تو وہ کبھی بات نہیں کرے گا.اتنا رعب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دلائل نے ان کے دماغوں پر قائم کر دیا ہے.بہر حال اس وقت اور اس پس منظر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے اور آپ نے دعوئی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ یہ دلائل دیئے ہیں اور عملاً ثابت کیا کہ وہ دلائل دیئے ہیں.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دعوت فیصلہ بھی دی ہے اور اس میں ایک لطیفہ بھی ہو چکا ہے.سراج الدین عیسائی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس جو چار سوال بھیجے تھے.ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ خود مانتے ہیں کہ بائبل ایک الہامی کتاب ہے اور آپ یہ بھی مانتے ہیں کہ ہر الہامی کتاب توحید خالص کی تعلیم دیتی ہے تو بائبل کے بعد قرآن کریم کی کیا ضرورت ہے؟ جب بائبل مذہبی ضروریات کو پورا کرنے والی ہے اور وہ مذہبی مسائل کا حل الہام کے ذریعہ کرتی ہے تو بائبل کے بعد قرآن کریم کی کیا ضرورت ہے.اس کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تم بائبل کا ذکر نہ کرو.وہ بھلا قرآن کریم کا کیا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۶۲ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب مقابلہ کرے گی.تم اگر مقابلہ ہی کرنا چاہو تو قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی اور مختصر سی سورت ہے یعنی سورت فاتحہ ” اس سورۃ میں صد با حقائق اور معارف دینیہ اور روحانی حکمتیں درج ہیں.ان کو موسیٰ کی کتاب یا یسوع کے چند ورق انجیل سے نکالنا چاہیں تو گوساری عمر کوشش کریں تب بھی یہ کوشش لا حاصل ہوگی اور یہ بات لاف و گزاف نہیں بلکہ واقعی اور حقیقی یہی بات ہے کہ توریت اور انجیل کو علوم حکمیہ میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ بھی مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں.ہم کیا کریں اور کیونکر فیصلہ ہو پادری صاحبان ہماری کوئی بات بھی نہیں مانتے.بھلا اگر وہ اپنی توریت یا انجیل کو معارف اور حقائق کے بیان کرنے اور خواص کلام الوہیت ظاہر کرنے میں کامل سمجھتے ہیں تو ہم بطور انعام پانسور و پیہ نقدان کو دینے کے لئے طیار ہیں.اگر وہ اپنی کل معینیم کتابوں میں سے جو ستر کے قریب ہوں گی وہ حقائق اور معارف شریعت اور مرتب اور منتظم در حکمت و جواہر معرفت و خواص کلام الوہیت دکھلا سکیں جو سورۃ فاتحہ میں سے ہم پیش کریں اور اگر یہ روپیہ تھوڑا ہو تو جس قدر ہمارے لئے ممکن ہوگا.ہم ان کی درخواست پر بڑھا دیں گے.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحہ ۳۶۰) اور چونکہ اب تک عیسائی خاموش رہے تھے اور انہوں نے انعام کی رقم میں زیادتی کی کوئی درخواست نہیں کی تھی.اس لئے میں نے خود ہی اس رقم کو پانچ سو روپیہ سے بڑھا کر پچاس ہزار روپیہ کر دیا تھا.میرے اس چیلنج کو ایک پادری صاحب نے قبول کرتے ہوئے اپنے رسالہ میں غالباً تین قسطوں میں اس کا جواب دیا جیسا کہ میں نے بتایا ہے اور ہمارے ان پڑھ زمیندار بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی سمجھ اور فراست عطا کی ہے ) سمجھ جائیں گے کہ چیلنج یہ تھا کہ سورۃ فاتحہ میں صد ہا حقائق اور معارف دینیہ اور روحانی حکمتیں بیان کی گئی ہیں.اگر عیسائی انہی کتابوں میں سے (جن کی تعداد دستر کے قریب ہے) وہ حقائق اور معارف شریعت اور مرتب اور منتظم در حکمت و جواہر معرفت و خواص کلام الوہیت دکھلا سکیں.جو سورۃ فاتحہ میں سے ہم پیش کریں تو ہم انہیں مبلغ پانسور و پیہ بطور انعام دیں گے اور اگر تم اس دعوت فیصلہ کے لئے تیار ہو جاؤ.تو ہم پہلے سورۃ فاتحہ کی ایک تفسیر تیار کر کے اور چھاپ کر پیش کریں گے اور اس میں وہ تمام حقائق و
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب معارف و خواص کلام الوہیت بہ تفصیل بیان کریں گے.“ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے فرمایا تھا کہ اگر تم میرا یہ چیلنج قبول کر لو.تو ہم ایک کتاب شائع کریں گے.جس میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر ہو گی تم اس کتاب کو پڑھو اور ان دلائل کو سمجھو جو اس میں دیئے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی حکمتوں پر غور کرو اور خدا تعالیٰ کے جو نشان اس چھوٹی سی سورت میں جمع کر دیئے گئے ہیں وہ نشان اپنی بصیرت اور بصارت کے سامنے لاؤ.اور پھر اگر تمہیں ہمت ہو تو تم اپنی ساری کتب میں سے اس قسم کے دلائل اور حکمتیں اور معرفت کی باتیں اور نشانات آسمانی نکال کر ہمیں دکھاؤ تو ہم سمجھیں گے کہ تم مقابلہ کر سکتے ہو اور انعام لے لو.ہم جو باتیں اس تفسیر میں بیان کریں گے.ان میں سے بہت ساری ایسی ہوں گی جو انسان کے ہاتھ کی ہو ہی نہیں سکتیں.بالا ہوں گی لیکن اس پادری نے میرا اعلان پڑھتے ہی جواب دیا کہ ہم نے اس چیلنج کو قبول کیا.سورۃ فاتحہ میں ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِین اس آیت میں جوحمد کا لفظ اس آیت میں ہے.وہ ہمارے ایک ترجمہ کرنے والے نے اردو کی بائبل میں فلاں جگہ استعمال کیا ہے.معلوم ہوا کہ بائبل میں بھی وہ معارف پائے جاتے ہیں جو سورۃ فاتحہ میں پائے جاتے ہیں.اسی طرح اس نے سورۃ فاتحہ کے سارے لفظوں کو لے کر اسی طرح حوالے دیئے تھے.کس نے کہا تھا کہ قرآن کریم کے اثر اور اس کی قوت سے مرعوب ہو کر تم لوگ قرآن کریم کے الفاظ اور محاوروں کو استعمال نہیں کرو گے تم تو قرآن کریم سے مرعوب ہو جہاں بھی تمہیں موقعہ ملتا ہے تم قرآن کریم کا لفظ اور اس کی اصطلاح ترجمہ کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھ جاتے ہو.اصل میں وہ نہیں ہوتی.اس لفظ کے معنی میں جو اصل میں ہے.جہاں سے ترجمہ کیا گیا ہے اور اس لفظ کے معنی ہیں جو ترجمہ میں استعمال کیا گیا ہے.کوئی تعلق ہی نہیں ہے.وہاں کچھ اور ہے یہاں کچھ اور ہے لیکن قرآن کریم کے رعب میں آکر انہوں نے حد کا لفظ بھی استعمال کر لیا ، رب العالمین کا بھی کرلیا.تو بجائے اس کے کہ معارف اور حکمت کی باتیں اور نشانات کا ہم سے مطالبہ کرتے اور کہتے کہ ہم اس چیلنج کو یا دعوت فیصلہ کو قبول کرتے ہیں.آپ ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کی تفسیر اور اگر کچھ اور لکھنا چاہتے ہیں تو وہ لکھیں اور شائع کریں.اور ہم اس کا جواب دیں گے پھر آپس میں فیصلہ ہو.تو اس طرف آئے ہی نہیں کہہ دیا کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۶۴ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب حمد کا لفظ ہمارے ترجمہ کرنے والے نے چونکہ استعمال کیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ کے معارف ہماری بائبل میں پائے جاتے ہیں.اس لئے ہمارے لئے یہ ضروری ہوا کہ ہم اس قسم کی دعوتِ فیصلہ میں ایسے لوگوں کو مخاطب نہ کریں.جو ہماری دعوتِ فیصلہ کو سمجھنے کے بھی قابل نہیں.اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اس دعوت مقابلہ کے مخاطب تین ایسے پادری.جو بشپ یا بشپ سے اوپر کا عہدہ رکھتے ہوں.وہ مل کر اس دعوت فیصلہ کو منظور کریں اور ہمیں اس کی اطلاع دیں.ہم انہیں سورۃ فاتحہ کے معانی اور اس کی تفسیر اور اس کی خوبی اور اس کی خوبصورتی اور اس میں آسمانی نشان اور تائیدات پائی جاتی ہیں.ان کے متعلق ایک کتاب میں شائع کر کے بھجوا دیں گے.پھر وہ اپنی ساری عمر اور اپنی نسلوں کی ساری عمر بھی اس پر خرچ کر دیں اس کتاب کا جواب نہیں لکھ سکیں گے.اور اگر تین بشپ سر جوڑ کر اس نتیجہ پر پہنچیں کہ ہم اس سر دردی کو کیوں مول لیں تو پھر پوپ اکیلے یا بلی گراہم ( اس لئے کہ وہ آج کل عیسائیت کی تبلیغ میں بڑے تیز ہیں اور اپنی طرف سے بھی کنورشن (Conversion) کر رہے ہیں اور ان کا علمی رعب ایک دنیا پر ہے اور انہیں عیسائی دنیا میں اتنا مقام حاصل ہے کہ وہ اگر امریکہ کے پریزیڈینٹ کو بھی ملنے جائیں تو اسے ان سے ملنا پڑتا ہے اور کافی لمبی گفتگو ان سے کرنی پڑتی ہے اگر یہ چاہیں اور پسند کریں اور ان کے دل میں ہمت ہو تو وہ پھرا کیلے مقابلہ پر آئیں اور اپنے تمام آسمانی صحیفوں کا مقابلہ ہمارے صحیفہ آسمانی کی پہلی اور مختصر سی سورت سورت فاتحہ سے کر کے دیکھ لیں تب انہیں معلوم ہوگا کہ خدا کا ابدی اور نہ بدلنے والا کلام قرآن کریم ہی ہے.تمام صداقتیں اس میں پائی جاتی ہیں اور ہر قسم کے حملہ سے بیہ محفوظ کیا گیا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے.اس میں کوئی لفظی تبدیلی لفظاً واقع نہیں ہوئی اور عملاً بعض تبدیلیاں تفسیر میں واقع ہو جاتی ہیں.مثلاً نویں صدی ہجری میں بعض مخصوص مسائل تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے قرآن کریم کے بعض علوم اس وقت کے بزرگوں کو سکھائے.اب ان مسائل کا وجود باقی نہیں رہا.اس میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں لیکن جو ابدی صداقتیں ہیں.وہ اس میں موجود ہیں اور قائم ہیں اور جو وقت کا تقاضا ہے اسے یہ پورا کرتی ہے.پھر جس طرح اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے آتے اور اس کی لفظی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں.اسی طرح خدا کے نیک بندے اس کی تفسیر کی حفاظت کرنے والے ہیں.اس معنی میں کہ اگر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۶۵ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب کوئی شخص آج کھڑا ہو اور کہے کہ آج زمانہ کی یہ ضرورت ہے.بتاؤ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا کیا حل پیش کیا ہے تو میرے جیسے کئی بندے کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ آؤ ہمارے پاس.ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ قرآن کریم نے اس کا کیا حل پیش کیا ہے.تو سورۃ فاتحہ کے مقابلہ میں سارے صحف آسمانی جو عیسائیوں کے نزدیک ہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ کم و بیش ستر ہیں.ان میں سے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ان شرائط کے مطابق ہم فیصلہ کرنے کے لئے آج بھی تیار ہیں.لیکن جس بات سے میں ڈرتا ہوں وہ یہ ہے کہ شاید ہی کسی عیسائی کو اس میدان مقابلہ میں آنے کی جرات ہو.۲.ایک موقعہ پر عیسائیت کے لاہور کے بشپ صاحب نے آپ ہی ایک دن مقرر کر دیا اور کہا کہ اس دن مسلمانوں کا کوئی عالم اگر وہ واقعہ میں عالم ہے اور جرات اور دلیری اس کے دل میں ہے تو وہ آجائے اور مقابلہ اس بات میں ہو گا کہ معصوم نبی کون ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب علم ہوا تو آپ نے ان کو لکھا کہ اول تو یہ طریق ہی غلط ہے.جو آپ نے اختیار کیا ہے.آپ کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ تم ہم سے آکر مقابلہ کر لو.پھر جب شرائط ہوتیں جو وقت جو دن جو جگہ مقرر ہوتی.وہاں مقابلہ ہوتا آپ ہی جگہ مقرر کر دی ہے.آپ ہی دن مقرر کر دیا اور آپ ہی وقت مقرر کر دیا اعلان کر دیا اور یہ آواز سب تک پہنچ بھی نہیں سکتی.جو تم نے اٹھائی ہے اور بعد میں آپ کہہ دیں گے کہ کوئی میرے مقابلہ میں نہیں آیا.اس لئے عیسائیت جیت گئی ہے اور اسلام ہار گیا.یہ غلط طریق ہے.اور جو موضوع تم نے لیا ہے.بھی غلط ہے.اول تو یہ ثابت کر دینا کہ فلاں شخص سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا.اس کی بزرگی کو ثابت نہیں کرتا.دنیا میں لاکھوں ایسے لوگ ہیں.جنہوں نے کبھی چوری نہیں کی کبھی اور اس قسم کی بدیاں نہیں کیں.اس سے ان کی کوئی بزرگی ثابت نہیں ہوتی.اس لئے جو عنوان آپ نے انتخاب کیا ہے.وہ بھی غلط ہے لیکن اب میں تمہیں یہ کہتا ہوں اگر واقعہ میں تم اسلام سے عیسائیت کا مقابلہ کرنا چاہتے ہو.تو ہم اس کے لئے تیار ہیں.آپ نے بشپ آف لاہور کی دعوتِ فیصلہ کو منظور کرتے ہوئے ایک بہت زیادہ معقول اور موثر ذریعہ فیصلہ ان کے سامنے رکھا اور وہ یہ ہے.اگر بشپ صاحب تحقیق حق کے در حقیقت شائق ہیں.تو وہ اس مضمون کا اشتہار دے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۶۶ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب دیں کہ ہم مسلمانوں سے اسی طریق سے بحث کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں نبیوں (حضرت مسیح علیہ السلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) میں سے کمالاتِ ایمانی واخلاقی و برکاتی و تاثیراتی وقولی و فعلی و ایمانی و عرفانی و علمی و تقدسی اور طریق معاشرت کے رُو سے کون نبی افضل و اعلیٰ ہے.اگر وہ ایسا کریں اور کوئی تاریخ مقرر کر کے ہمیں اطلاع دیں تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی شخص تاریخ مقررہ پر ضرور جلسہ قرار دادہ پر حاضر ہو جائے گا.ور نہ یہ طریق محض ایک دھوکہ دینے کی راہ ہے.جس کا یہی جواب کافی ہے اور اگر وہ قبول کرلیں تو یہ شرط ضروری ہوگی کہ ہمیں پانچ گھنٹہ سے کم وقت نہ دیا جائے.“ ( مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۸۳) اس طریق پر عمل کرنے سے معلوم ہو جائے گا کہ کامل نبی وہ ہے جس نے کامل زندگی اس دنیا میں گزاری اور ایک مفلوج جس کا آدھا جسم مارا ہوا ہو.اس کے متعلق کوئی عقلمند انسان یہ نہیں کہ سکتا کہ وہ فالج کی حالت میں ایک کامل زندگی گزار رہا ہے.وہ شخص یقینا ایک کامل زندگی نہیں گزار رہا.اسی طرح اگر ایک شخص نابینا ہے تو وہ بھی کامل زندگی نہیں گزار رہا.ایک شخص پاگل ہے تو وہ بھی کامل زندگی نہیں گزار رہا.آپ نے بیان فرمایا کہ روحانی اور اخلاقی لحاظ سے مقابلہ یہ ہونا چاہئے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کامل نبی اور زندہ نبی ہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل نبی اور زندہ نبی ہیں.آپ نے کمالات تاثیراتی اور تقدسی کا اس لئے ذکر فرمایا ہے اور اگر عیسائی مقابلہ کے لئے تیار ہوں.تو آپ نے فرمایا وہ کوئی تاریخ مقرر کر کے ہمیں اطلاع دیں تا ان کی دعوت فیصلہ کچھ تبدیلی کے ساتھ یا بہتر رنگ اور بہتر شکل میں ہم منظور کرلیں اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تاریخ مقررہ پر اور جلسه قرار دادہ پر ضرور کوئی نہ کوئی شخص حاضر ہو جائے گا پھر آپ نے فرمایا کہ اگر ہمارا بیان کردہ طریق مقابلہ منظور ہو تو یہ شرط ضروری ہوگی کہ ہمیں پانچ گھنٹہ کے لئے تقریر کا وقفہ دیا جائے یہ نہیں کہ دونوں فریق نے پانچ پانچ منٹ تقریر کی اور چلے گئے یا آپ نے دو گھنٹہ تقریر کر لی اور ہم نے اپنی باری پر ابھی ہیں منٹ ہی تقریر کی اور آپ نے دیکھا کہ بات نہیں بنتی تو گڑ بڑ کی اور اٹھ کر چلے گئے.بلکہ نہایت شرافت کے ساتھ (چونکہ بحث مفصل ہوئی تھی ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا کہ ہم پانچ گھنٹے ضرور بولیں گے لیکن تمہارے لئے یہ شرط نہیں ہو گی.اس لئے کہ یہ بھی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۶۷ ۲۸ جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب بڑا ظلم ہے کہ ایک شخص کو کہا جائے تم ضرور پانچ گھنٹہ تو بولو.جب کہ وہ خود اس نتیجہ پر پہنچا ہو کہ ان تمام عنوانات کے متعلق وہ اپنی کتاب کی رو سے صرف ہیں منٹ گفتگو کر سکتا ہے.اس سے زیادہ اس کتاب میں دلائل ہیں ہی نہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.میری شرط یہ ہے کہ میں پانچ گھنٹہ تک بولوں گا.تمہیں اجازت ہے کہ جتنا چاہو.بولو تم چاہے پانچ منٹ بولو یا ہیں منٹ بولو.مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن مقابلہ مجموعی طور پر ہوگا تا یہ دیکھا جائے کہ کامل نبی کون ہے اور زندہ نبی کون ہے اور کس نبی کی قوت قدسیہ اب بھی جاری ہے..یہ دعوتِ فیصلہ بشپ آف لاہور کے ساتھ ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ بشپ آف لاہور کے تمام بشپ بھائیوں کو ہماری طرف سے یہ دعوتِ فیصلہ ہے کہ جو بشپ بھی.جس ملک میں بھی ، جس جگہ بھی ہو.وہ ان شرائط کے ساتھ اس دعوتِ فیصلہ کو قبول کرلے اور امن اور شرافت کی مجلس میں تبادلہ خیالات ہو تو اس کا نتیجہ خود ہی نکل آئے گا کہ کامل اور زندہ نبی حضرت عیسی علیہ السلام ہیں یا ہمارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامل اور زندہ نبی ہیں.ہندوؤں سے کچھ باتیں اب میں ہندوؤں سے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں کیونکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان سے اور اس کی دی ہوئی توفیق سے اسلام کو تمام دنیا میں پھیلانا ہے اور تمام ادیان کے مقابلہ میں اسلام کی حقانیت اور صداقت کو ثابت کرنا ہے.ہمارے مخاطب تمام مذاہب کے پیرو ہیں.اس وقت پاکستان میں گو ہندو کم تعداد میں ہیں اور شاید وہ اس چیز سے گھبرائیں بھی لیکن ہندوستان میں تو ان کو سیاسی اقتدار بھی حاصل ہے اور ہم وہاں آنے کے لئے تیار ہیں اسلام کی صداقت ثابت کرنے کے لئے اور اگر وہ چاہیں ان کو یہاں بلانے کے لئے تیار ہیں اور جیسا کہ ہم امن پسند ہیں.ہماری حکومت بھی خدا تعالی بخشی ہوئی توفیق اور اس کے فضل سے امن پسند ہے اور اگر وہ یہاں آئیں گے تو وہ خود ایسا انتظام کر دے گی مجھے یقین ہے کہ ہم نہایت امن اور سکون کے ساتھ اور نہایت اچھی اور شریفانہ اور مہذب فضا میں تبادلہ خیالات کر سکیں یعنی اگر وہ چاہیں تو سرمه چشمہ آریہ کتاب کا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.ردیکھیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) -- ۱۶۸ ۲۸ جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب اور یہاں آکے وہ مجمع میں سنائیں بھی.اگر کوئی آریہ صاحب تمام ویدوں کے اصولوں اور اعتقادوں کو جو اس کتاب میں رد کئے گئے ہیں.سچ سمجھتا ہے اور اب بھی وید اور اس کے اصولوں کو ایشور گرت سمجھتا ہے تو اس کو اس ایشور کی ہی قسم ہے کہ وہ اس کتاب کا رد لکھ کر دکھا دے اور پانچ سورو پیا انعام پاوے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ کتاب لکھی تھی تو تحریرفرمایا تھا کہ یہ کتاب.....اس دعوئی اور یقین سے لکھی گئی ہے کہ کوئی آریہ اس کتاب کا رڈ نہیں کر سکتا کیونکہ سچ کے مقابل پر جھوٹ کی کچھ پیش نہیں جاتی اور اگر کوئی آریہ صاحب ان تمام وید کے اصولوں اور اعتقادوں کو جو اس کتاب میں رد کئے گئے ہیں.سچ سمجھتا ہے اور اب بھی وید اور اس کے ایسے اصولوں کو ایشر کرت ہی خیال کرتا ہے تو اس کو اسی ایشر کی قسم ہے کہ اس کتاب کار دیکھ کر دکھلاوے اور پانسور و پیر انعام پاوے یہ پانسور و پیہ بعد تصدیق کسی ثالث کے جو کوئی پادری یا بر ہمو صاحب ہوں گے دیا جائے گا.“ (اشتہارانعامی پانسور و پیه مشموله کتاب سرمه چشمه آریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه ۳۲۱) یہ دعوت فیصلہ اب بھی قائم ہے اگر آریوں میں سے کوئی ان اصول اور ان شرائط کے مطابق جو اس میں بیان کی گئی ہیں.یہ فیصلہ کرنے پر راضی ہو کہ قرآن کریم صداقتوں کا مجموعہ ہے یا دید تو ہم ہر وقت اس مقابلہ کے لئے تیار ہیں اور یہ انعام دینے کے لئے بھی تیار ہیں.۲.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب ”چشمہ معرفت میں لکھتے ہیں.”خدا کی ہستی اور توحید کے دلائل جو قرآن شریف میں لکھے ہیں.جو مخالف فرقے اس کے قائل ہیں.یہ سب آریہ صاحبان وید میں سے نکال کر ہم کو دکھلا دیں تو ہم ہزار روپے نقد ان کو دینے کو تیار ہیں.افسوس ! کہ یہ کس قدر جھوٹ ہے کہ وید کی طرف وہ کمال منسوب کیا جاتا ہے.جواس میں پایا نہیں جاتا.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد نمبر ۲۳ صفحه نمبر ۱۴۴۱۴۳) ہم بھی ہزار روپے نقد ایسے صاحب کو دینے کو تیار ہیں جو وید میں سے خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی ہستی کے وہ دلائل نکال کر دکھا دے جو ہم قرآن کریم سے نکال کر اُسے دکھائیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۶۹ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب ہمارے مسلمان بھائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلمانوں کو بھی دعوتِ فیصلہ دی ہے مثلاً آپ فرماتے ہیں.اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے؟ تو نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں اور نہ کوئی حدیث دکھلا سکتے ہیں.صرف نزول کے لفظ کے ساتھ اپنی طرف سے آسمان کا لفظ ملا کر عوام کو دھو کہ دیتے ہیں مگر یادر ہے کہ کسی حدیث مرفوع متصل میں آسمان کا لفظ پایا نہیں جاتا اور نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لئے آتا ہے اور نزیل مسافر کو کہتے ہیں.چنانچہ ہمارے ملک کا بھی یہی محاورہ ہے کہ ادب کے طور پر کسی وارد شہر کو پوچھا کرتے ہیں کہ آپ کہاں اترے ہیں اور اس بول چال میں کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ شخص آسمان سے اترا ہے اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کیا وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤ گے.جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسی جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف وعاپس آئیں گے گر کوئی ایسی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے ہیں اور تو بہ کرنا اور تمام اپنی کتابوں کا جلا دینا اس کے علاوہ ہو گا.جس طرح چاہیں تسلی کر لیں.“ کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد نمبر ۱۳ صفحه ۲۲۵ ح ، ۲۲۶ ح) اب دیکھیں یہ ایک دعوت فیصلہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہایت صلح اور امن کی فضا میں اپنے زمانہ کے مسلمانوں کو دی ہے اور اس کی موجودگی میں ان تمام کفر کے فتووں کی ضرورت نہیں تھی.جو آپ پر لگائے گئے.اس تمام شور وشر کی ضرورت نہیں تھی.جو کیا گیا فتنہ وفساد کی ضرورت نہیں تھی.جو اٹھایا گیا.بلکہ ایک بڑا آسان کام تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان تمام علماء کو جو ظاہری اور کتابی علوم میں واقعہ میں دسترس رکھتے تھے.اپنے وقت میں کہا تھا کہ تم کوئی حدیث تلاش کر کے لے آؤ.جس میں یہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۷۰ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب لکھا ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے پھر میں یہ شرط بھی نہیں لگا تا کہ وہ حدیث صحیح اور سچی ہو تم کوئی وضعی حدیث ہی میرے سامنے لے آؤ.جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت مسیح علیہ السلام اپنے اس خا کی جسم کے ساتھ آسمان پر گئے تھے اور اگر تم ایسی کوئی حدیث میرے سامنے لے آؤ تو میں تمہیں نہیں ہزار روپیہ بطور تاوان دوں گا.پھر یہ تو ایک معمولی چیز ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں اپنے عقائد سے بھی تو بہ کرلوں گا اور اپنی تمام کتابوں کو جلا دوں گا.اب دیکھو یہ کتنا بڑا انعام ہے جو یہاں پیش کیا گیا ہے لیکن وہ بڑے بڑے عالم جو ظاہری علوم میں ایک حد تک دسترس بھی رکھتے تھے.ان میں سے کوئی ایک شخص بھی کوئی وضعی حدیث بھی ، جھوٹی حدیث بھی اس دعوت فیصلہ کو قبول کر کے پیش نہ کر سکا اور ان کی اس خاموشی نے اس بات پر ایک مضبوط گواہی دی کہ کوئی ایسی حدیث دنیا میں نہیں پائی جاتی.اب آج میں ان تمام دوستوں کو جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ایک قابل حل مسئلہ ہے.جو ابھی تک باقی ہے.یہ کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ان لوگوں کو جو تمہاری نگاہ میں بڑے ہی عالم اور برگزیدہ اور خدا رسیدہ سمجھے جاتے تھے.ایک آسان طریق فیصلہ پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر تم کوئی وضعی حدیث ہی میرے سامنے رکھ دو گے.جس میں یہ ذکر ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے اس خا کی جسم کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تو میں تمہیں بیس ہزار روپیہ انعام دینے کے علاوہ اپنے عقائد سے تو یہ کرلوں گا اور اپنی تمام کتابیں بھی جلا دوں گا.احمدبیت کو مٹانے کی کسی اور کوشش کی ضرورت نہیں تھی.انہیں وہ حدیث دھونڈ نی چاہئے تھی اور انہوں نے ضرور ڈھونڈی ہوگی.آپ کو یا ہمیں ان پر یہ بدظنی نہیں کرنی چاہئے.وہ دن اور رات اس بات میں لگے رہے ہوں گے کہ ایسی کوئی حدیث ڈھونڈیں اور پیش کریں لیکن ان کو یہ حدیث نہیں ملی اور نہ ملنی تھی اور پھر انہوں نے بجائے اس کے کہ کھڑے ہو کر حق کا اقرار کرتے خاموشی اختیار کرلی اور ہماری عقل آج یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ان کی خاموشی یہ بات ثابت کرتی ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی حدیث پیش نہیں کی جاسکتی اور اگر کوئی شخص آج کسی کے متعلق یہ ثابت کر دے کہ کسی نے اس دعوتِ فیصلہ کے بعد کوئی ایسی وضعی حدیث حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کر دی تھی تو میں اُسے تمہیں ہزار روپیہا انعام دوں گا.۲.ایک اور دعوتِ فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلمانوں کو یہ دی ہے کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۷ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب " کہتے ہیں کہ توفی کا لفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے.اس کے معنے وفات دینا نہیں بلکہ پورا لینا ہے.یعنی یہ کہ روح کے ساتھ جسم کو بھی لے لینا مگر ایسے معنے کرنا ان کا سراسر افتراء ہے.قرآن کریم کا عموماً التزام کے ساتھ اس لفظ کے بارہ میں یہ محاورہ ہے کہ وہ لفظ قبض روح اور وفات دے دینے کے معنوں پر ہر یک جگہ اس کو استعمال کرتا ہے.یہی محاورہ تمام حدیثوں اور جمیع اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا ہے.جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہوا ہے اور زبان عربی جاری ہوئی ہے.کسی قول قدیم یا جدید سے ثابت نہیں ہوتا کہ توفی کا لفظ بھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیا گیا ہو.بلکہ جہاں کہیں توفی کے لفظ کو خدا تعالیٰ کا فعل ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے.وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیا ہے.قبض جسم کے معنوں میں کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیں.کوئی مثل اور قول اہل زبان کا اس کے مغائر نہیں.غرض ایک ذرہ احتمال مخالف کے گنجائش نہیں.اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا اشعار وقصائد و نظم و نثر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو.وہ بحجر قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاع پایا گیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کے کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کرلوں گا.“ ( مجموعہ اشتہارات.جلد نمبر اصفحه ۲۰۵ ۲۰۶) آج بھی میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کرا قرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ میں ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے یا اللہ تعالیٰ مجھے ویسے ہی توفیق دے تو بغیر کوئی حصہ ملکیت فروخت کئے ایک ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کے کمالاتِ حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کرلوں گا.یہ آسان راہ ہے.امن کی راہ ہے.صلح کی راہ ہے.شرافت کی راہ ہے.تہذیب کی راہ ہے.آئیں اور اس راہ سے صداقت کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ---- ۱۷۲ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب ۳.پھر ایک حدیث نبوی ہے.جس میں سورج اور چاند کے گرہن کا ذکر ہے.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام فرماتے ہیں.حدیث میں یہ علامت بیان کی گئی ہے کہ جب وہ سچا مہدی دعویٰ کرے گا تو اس زمانہ میں قمر رمضان کے مہینہ میں ایسے خسوف کی پہلی رات میں منخسف ہوگا اور ایسا واقعہ پہلے کبھی پیش نہ آیا ہوگا اور کسی جھوٹے مہدی کے وقت رمضان کے مہینہ میں اور ان تاریخوں میں کبھی خسوف کسوف نہیں ہوا اور اگر ہوا ہے تو اس کو پیش کرو.ورنہ جب کہ یہ صورت اپنی ھیت مجموعی کے لحاظ سے خود خارقِ عادت ہے تو کیا حاجت کہ سنت اللہ کے برخلاف کوئی اور معنے کئے جائیں.غرض تو ایک علامت کا بتلانا تھا.سو وہ متحقق ہوگئی اگر متحقق نہیں تو اس واقعہ کی صفحہ تاریخ میں کوئی نظیر تو پیش کر داور یادر ہے کہ ہر گز پیش نہ کر سکو گے.“ ( اعجاز احمدی ضمیمہ نزول امسیح.روحانی خزائن جلد نمبر ۱۹ صفحه ۱۴۲،۱۴۱) ایک صاحب ذوق اور صاحب تقویٰ کے لئے یہ ایسی عجیب چیز تھی کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہی ایک بات کافی تھی کہ چودہ سو سال پہلے ایک راوی نے بیان کیا ہے اور اگر راوی کا بھی پتہ نہ ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.صرف اتنا ہی کافی ہے کہ کسی یہ جگہ بیان ہوا ہے کہ جب مہدی ظاہر ہوگا تو چاند کو خسوف کی راتوں، گرہن کی راتوں میں فلاں رات کو اور سورج کو گرہن لگنے کے دنوں میں فلاں دن کو گرہن لگے گا.اس کے علاوہ اس نشان کو ” آیتین" کہا گیا ہے.یعنی یہ نشان در حقیقت دو نشان ہوں گے.بچپن میں مجھے یہ دیکھ کر بہت گھبراہٹ ہوتی تھی کہ گو یہ ٹھیک ہے کہ چاند کا گرہن بھی ہے اور سورج کا گرہن بھی ہے اور اس طرح یہ آیتین یعنی دو نشان ہیں لیکن حدیث میں اس سارے واقعہ کو ملا کر اسے ایک نشان بتایا گیا ہے تو پھر اس کو دونشان کیوں کہا گیا ہے اور یہ گھبراہٹ مجھے اس لئے تھی کہ ابھی تک مجھے اس کا علم نہیں تھا میرا مطالعہ اتنا نہیں تھا لیکن جب اسی طریق پر اگلے سال پھر لگا گرہن اور وہ امریکہ میں لگا ہے دوسری دنیا میں.گرہن ساری دنیا کو نظر نہیں آتا اللہ تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ ساری دنیا اس بات پر گواہ ہو کہ اس حدیث کے مطابق چاند اور سورج کو گرہن لگ گیا اس واسطے دنیا کے دونوں حصوں دو سالوں میں یہ گرہن لگا انہی شرائط کے مطابق.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر تمام واقعہ کو صفحہ ہستی سے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۷۳ ۲۸ جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب ثابت کرو کہ کسی مدعی نے یہ دعوی کیا ہو کہ میرے دعوئی کی حقانیت پر یہ دلیل ہے کہ اس طرح چاند اور سورج کو گرہن لگے گا تو میں جھوٹا ہوں لیکن کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا.اور واقعہ ہو گیا.جب واقعہ ہو گیا تو کہنے لگے کہ حدیث جھوٹی ہے.لیکن اگر چہ حدیث جھوٹی ہوتی ہے تو اس کو سچا ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تار کیسے ہل گئے.اللہ تعالیٰ کو اس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی.جو ہوتا ، ہوتا رہتا.عجیب بات ہے کہ یہ حدیث جھوٹی اور جس کے حق میں ہے وہ جھوٹا یہ اتفاق جھوٹا کہ دونوں واقعات ایک زمانہ میں اکٹھے ہو گئے تو سارے واقعات جھوٹے اور سچ وہ ہے جو واقعہ ہی نہیں.انسانی عقل تو اس کو تسلیم نہیں کرتی.یہ ایک بہت بڑا ز بر دست نشان ہے اور دو نشان ہیں دو سالوں میں یکے بعد دیگرے دنیا کے دو حصوں میں ساری دنیا پر یہ نشان ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ نے ایسا انتظام کیا کہ ایک سال ہماری دنیا میں اور ایک سال دوسری دنیا میں وہ نشان بعینہ ان تاریخوں میں اور اس شکل میں ظاہر ہوا اور اس کے مطابق ظاہر ہوا جو حدیث تھی.بہر حال جب یہ نشان ظاہر ہوا تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ حدیث جھوٹی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.اگر معقولی رنگ میں تم بحث نہیں کرنا چاہتے اور تم منقولات کی طرف ہی آگئے ہو تو یہ بتاؤ کہ وہ کون سے بزرگ حدیث دان اور حدیث کے عالم تھے.جنہوں نے آج سے پہلے اس حدیث کو جھوٹا قرار دیا ہوا اگر تم کوئی ایسا عالم نکال دو.جس نے یہ کہا ہو کہ یہ حدیث جھوٹ ہے.تب میں سمجھوں گا کہ میری سچائی پر یہ دلیل نہیں بنتی لیکن وہ کوئی ایسا عالم پیش نہیں کر سکے.یہ حدیث دار قطنی میں آتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.کہ ”اس ( دار قطنی ) کی تالیف کو ہزار سال سے زیادہ گزر گیا مگر اب تک کسی عالم نے اس حدیث کو زیر بحث لاکر اس کو موضوع قرار نہیں دیا.نہ یہ کہا کہ اس کے ثبوت کی تائید میں کسی دوسرے طریق سے مدد نہیں ملی بلکہ اس وقت سے جو یہ کتاب ممالک اسلامیہ میں شائع ہوئی تمام علماء و فضلاء متقدمین و متاخرین میں سے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں لکھتے چلے آئے.بھلا اگر کسی نے اکابر محدثین میں سے اس کو موضوع ٹھہرایا ہے تو ان میں سے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۷۴ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب کسی محدث کا فعل یا قول پیش تو کرو.جس میں لکھا ہو کہ یہ حدیث موضوع ہے اور اگر کسی جلیل الشان محدث کی کتاب سے اس حدیث کا موضوع ہونا ثابت کر سکو.تو ہم فی الفور ایک سو روپیہ بطور انعام تمہاری نذر کریں گے.جس جگہ چاہو امانتا پہلے جمع کرالو.“ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد نمبر ۱۷ صفحه ۱۳۳ ۱۳۴) عقلاً تو ویسے ہی یہ موقف درست نہیں کہ ہزار سال پہلے کی ایک کتاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو ایک بات لکھی گئی ہو اور وہ حدیث ہو غلط اور پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت یہ انتظام کرے کہ وہ حدیث کچی ہو اس وقت.جس وقت ایک مدعی مہدویت بھی پیدا ہو چکا ہو.جس وقت ایک شخص مہدی ہونے کو دعویدار ہو.اس وقت خدا تعالیٰ کی تقدیر کی تاریں ہلیں اور عین اس حدیث کے مطابق چاند اور سورج کو گرہن لگ جائے اور عین اس حدیث کے اشارہ کے مطابق ایک سال میں اس دنیا میں اور دوسرے سال دوسری دنیا میں گرہن لگے اور اس کو آیتین (دونشان) بنادے اور اس کے علاوہ دنیا کی تاریخ میں ہمیں یہ نہ ملے کوئی ایسی خبر نہ ملے کہ کبھی کسی شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور اس کے زمانہ میں چاند اور سورج کو اس شکل میں گرہن لگا ہو.عقل تو اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ یہ بات جھوٹی ہو لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان لوگوں پر اتمام حجت قائم کرنے کے لئے یہ بھی فرمایا کہ اگر تم عقل سے کام نہیں لینا چاہتے کسی وجہ سے.اور تمہاری طبیعتیں نقل کی طرف مائل ہیں تو ہم تمہارے سامنے یہ طریق فیصلہ رکھتے ہیں کہ تم کسی پایہ کے عالم اور حدیث دان کا یہ قول نکال دو کہ اس نے اس حدیث کو موضوع اور نا قابل قبول قرار دیا ہو.آخر جس حدیث کی کتاب میں یہ روایت درج ہے.اس کی تالیف پر ہزار سال گذر چکے ہیں اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں عالم اُمت مسلمہ میں پیدا ہوئے ہیں.جن کی نظر سے یہ حدیث ضرور نکل چکی ہے اور ان میں سے بہتوں نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا یا اس کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ حدیث نا قابل قبول ہے اور اس کے راوی ثقہ نہیں ہیں.اس لئے اس کو رد کر دینا چاہئے اور اگر تم یہ ثابت کر دو کہ کسی عالم نے اسے نا قابل قبول قرار دیا ہے تو ہم سمجھیں گے کہ یہ حدیث ہمارے لئے دلیل نہیں لیکن ابھی تک اس حدیث کو کوئی عالم بھی رد نہیں کر سکا.اب اگر کو ئی شخص یہ ثابت کر دے کہ کسی شخص نے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۷۵ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں کسی عالم حدیث کا یہ قول پیش کیا ہو یا کسی کتاب کا یہ حوالہ پیش کیا ہو کہ اس کے نزدیک یہ حدیث وضعی ہے اور نا قابل قبول ہے تو اس شخص کے لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سور و پیدا انعام کے طور پر دینا منظور کیا تھا اور اس کا اعلان کیا تھا.میں ایسے شخص کو جواب یہ ثابت کر دے کہ اس زمانہ میں کسی شخص نے یہ حوالہ نکال کر پیش کیا تھا.ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا.۴.جیسا کہ میں نے کہا ہے.میں نے بہت سی فیصلہ کی دعوتیں جمع کی تھیں اور ان میں سے میں نے بعض دعوتوں کا انتخاب کیا تھا لیکن ان میں سے بھی مجھے یہاں آکر بہت سی دعوتوں کو چھوڑنا پڑا ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انشاء اللہ آئندہ کسی وقت انہیں مضمون کی شکل میں یا اپنے خطبات میں بیان کر دوں گا.آخری بات جو میں اس وقت پیش کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقعہ پر علماء کے سامنے جو آپ کے مقابلہ میں آئے تھے.بہت سے فیصلہ کے طریق رکھے.ان میں ایک طریق جو آپ نے ان لوگوں کے سامنے رکھا.اُسے میں آج پھر امت مسلمہ کے سب فرقوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.جو یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمد یہ نعوذ باللہ اسلام کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس کی وجہ سے اسلام کو وہ قوت اور شوکت حاصل نہیں ہو رہی.جو ان کے نزدیک اگر یہ جماعت دنیا میں موجود نہ ہوتی تو ان کی تدبیروں اور ان کے منصوبوں کے نتیجہ میں اسلام کو قوت و شوکت حاصل ہو سکتی تھی یا ہو جاتی.ان لوگوں کو مخاطب کر کے میں نہایت احترام کے ساتھ اور نہایت ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مقابلہ میں آنے والوں کے سامنے چھ طریق فیصلہ پیش کئے تھے.ان میں سے پانچ کو تو میں اس وقت چھوڑتا ہوں.چھٹا طریق جو آپ نے ان کے سامنے رکھا تھا.وہ میں اس وقت امت مسلمہ کے تمام فرقوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو یہ سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر ان باتوں میں سے کوئی بھی نہ کریں تو مجھ سے اور میری جماعت سے سات سال تک اس طور سے صلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بدزبانی سے منہ بند رکھیں اور ہر ایک کو محبت اور اخلاق سے ملیں اور قہر الہی سے ڈر کر ملاقاتوں میں مسلمانوں کی عادت کے طور پر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۷۶ ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب پیش آویں.ہر ایک قسم کی شرارت اور خباثت کو چھوڑ دیں.پس اگر ان سات سال میں میری طرف سے خدا تعالیٰ کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کے ہاتھ سے ادیان باطلہ کا مرجانا ضروری ہے.یہ موت جھوٹے دینوں پر میرے ذریعہ سے ظہور میں نہ آوے.یعنی خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے.جن سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے ہر ایک طرف سے اسلام میں داخل ہونا شروع ہو جائے اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہو جائے اور دنیا اور رنگ نہ پکڑ جائے تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کا ذب خیال کرلوں گا اور خدا جانتا ہے کہ میں ہرگز کا ذب نہیں.یہ سات برس کچھ زیادہ سال نہیں ہیں اور اس قدرا انقلاب اس تھوڑی مدت میں ہو جانا انسان کے اختیار میں ہر گز نہیں.پس جب کہ میں سچے دل سے اور خدا تعالیٰ کی قسم کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہوں اور تم سب کو اللہ کے نام پر صلح کی طرف بلاتا ہوں تو اب تم خدا سے ڈرو.اگر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں تو میں تباہ ہو جاؤں گا.ورنہ خدا کے مامور کو کوئی تباہ نہیں کرسکتا.انجام آتھم.روحانی خزائن صفحہ جلد نمبر۳۱۱،۱۱ تا ۳۱۹) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کے تمام فرقوں سے کہا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ نہ الجھیں اور جو طاقت اور قوت یا پیسہ وہ ہمارے خلاف اور ہمیں بُرا بھلا کہنے میں خرچ کر رہے ہیں.وہ دوسرے نیکی کے کاموں پر خرچ کریں اور اس کی بجائے ہمیں پیار سے ملیں اور شرافت کے ساتھ زندگی کے دن گزار ہیں.یہ دعوتِ فیصلہ اسلام کے کسی ایک فرقہ کو نہیں بلکہ تمام فرقہ ہائے اسلام کو جو تمام دنیا کے ممالک میں ہیں.یہ فیصلہ کرنا پڑے گا.اس لئے کہ اس وقت ہماری جماعت بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکی ہے.اس کے بغیر اس کا وہ نتیجہ نہیں نکل سکتا.جو دوسری صورت میں ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتے ہیں کہ نکلے گا.میں مامور تو نہیں.میں تو خدا تعالیٰ کے ایک مامور کا خلیفہ ہوں.اس لئے میں اس دعوت فیصلہ میں کچھ تبدیلی کر کے ہی دنیا کو مخاطب کر سکتا ہوں.میں تمام دنیائے اسلام کو یہ کہتا ہوں کہ اے ہمارے پیارے بھائیو! جو ہمارے پیارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہو! آؤ سات سال
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) 122 ۲۸ جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب کے لئے ہم سے صلح کر لو.ان سات سالوں میں تم ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ کرو.ہمیں گالیاں نہ دو.ہمیں بُرا بھلا نہ کہو.ہمیں تم اپنی کوششوں میں الجھاؤ نہیں تاہم یکسوئی کے ساتھ اپنی تمام طاقت کو ان قوتوں کے خلاف خرچ کر سکیں جو آج اسلام کے مقابلہ میں برسر پیکار ہیں.اگر آپ سات سال تک کے لئے ہم سے صلح کر لیں گے.تو آپ یہ نظارہ دیکھیں گے کہ جو شوکت اسلام کو آج حاصل ہے.اس سے کہیں زیادہ شوکت اسلام کو اس سات سالہ زمانہ میں حاصل ہو چکی ہوگی اور میں یہ تو نہیں کہتا ( کیونکہ ایسا کہنے کا مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم نہیں ہے ) کہ اس سات سالہ عرصہ میں تمام ادیان باطلہ کلیۂ دنیا سے مٹ جائیں گے لیکن میں آپ کو خدا تعالیٰ کے فضل پر امید رکھتے ہوئے یہ ضرور کہتا ہوں کہ اس سات سالہ عرصہ میں جو صلح کا عرصہ ہوگا.ایسے حالات ظاہر ہو جائیں گے کہ آپ خود آپ کی آنکھیں یہ دیکھنے لگیں گے کہ دنیا میں ایک ایسا انقلاب عظیم ، ہو چکا ہو گا جو ہمیں اس فیصلہ پر اس سچائی پر اور اس صداقت پر پہنچا تا ہے کہ اسلام کی ہی آخری فتح ہوگی اور دوسرے ادیان ہی اسلام کے مقابلہ میں مٹنے والے اور ہلاک ہونے والے اور تباہ ہونے والے ہیں.اب دعا سے قبل میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے کاموں کا حرج کر کے دین کی باتیں سننے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کی محبت جو ہر احمدی کے دل میں ہے.اس کو اور تیز کرنے کے لئے.اپنی ذمہ داریوں کو اور زیادہ سمجھنے کے لئے.اپنے ارادوں میں اور زیادہ پختگی اور عزم پیدا کرنے کے لئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں.اور یہاں اس لئے اکٹھے ہوئے تھے کہ تاہم سب مل کر تد بیر اور دعا کے ساتھ اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اپنے رب سے یہ امید رکھیں کہ وہ ہماری کوششوں اور دعاؤں کو خواہ وہ کتنی ہی حقیر اور کتنی ہی پستہ کیوں نہ ہوں.قبول کرتے ہوئے اور ہماری کمزوریوں پر مغفرت کی چادر ڈالتے ہوئے ہمیں وہ دے گا.جو وہ ہمیں اسلام کے غلبہ کے لئے وہ دینا چاہتا ہے اور جس تک ہماری نظر نہیں پہنچی یا جس تک ہمارا تخیل نہیں پہنچا یا جس تک ہماری زبان نہیں پہنچی یا جس تک ہمار اخیال نہیں پہنچا.اب آپ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے بعد اور اس کی رحمت کے سایہ میں اپنے گھروں کو جلسہ کے بعد ہمارے دلوں کو اداس کر کے واپس لوٹیں گے ہم ربوہ والے باوجود اس کے کہ ہم اپنے کاموں میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) IZA ۲۸ / جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب ان دنوں میں بھی مشغول رہتے ہیں.کئی دن تک اداسی محسوس کرتے ہیں.ہمارے دماغ کے پیچھے کوئی چیز ا داسی محسوس کرتی ہے ہمیں اس کا احساس دلاتی رہتی ہے کہ ہمارے کچھ بھائی خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہاں اکٹھے ہوئے اور ان کی وجہ سے محبت اور پیار کی فضا اور دعاؤں کی قبولیت کی فضا پیدا ہوئی اور اب ان میں سے ایک بھاری اکثریت یہاں سے واپس جاچکی ہے اور صرف ربوہ کے مکین ربوہ کی اداسیاں دیکھنے کے لئے یہاں باقی رہ گئے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کا ہر طرح حافظ و ناصر ہو اور اپنے مکانوں میں جب آپ واپس لوٹیں تو پہلے سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور اس کی رحمتوں کے نشان وہاں آپ کو نظر آئیں اور خدا تعالیٰ کی نصرت اور اس کی تائید آپ کو حاصل ہو.اگر آپ کبھی ابتلاء میں ڈالے جائیں یا اپ امتحان میں ڈالے جائیں تو آپ کا دل اس سکون اور اس راحت کو محسوس کرے جو ایسے ابتلاؤں کے وقت اللہ تعالیٰ کے نیک بندے محسوس کیا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ کو قربانی اور ایثار کی زیادہ سے زیادہ تو فیق عطا کرتا چلا جائے اور اللہ تعالیٰ کی محض اپنے فضل سے آپ کی ان قربانیوں اور آپ کے ایثار کے ان نمونوں کو قبول کرتا چلا جائے اور اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ آپ کو اسی دنیا میں بھی جنت کا وارث کرے اور یہ جنت اس معنی میں ابدی بن جائے کہ جب آپ اس جنت کو جو د نیوی جنت ہے.چھوڑیں تو آپ لوسید ھے اخروی جنت میں لے جایا جائے اور ان دو جنتوں کے درمیان کوئی حد فاصل نہ ہو.پھر ہمارے بہت سے بھائی (احمدی اور مسلمان ) کشمیر میں بستے ہیں.وہ جو جسمانی احساس اور جذباتی تکالیف وہاں اٹھا رہے ہیں.ان کو سمجھنا بھی ہم میں سے بہتوں کے لئے مشکل ہے لیکن ہم میں سے ہر ایک کے لئے اگر ہم چاہیں ان کے لئے دعا کرنا آسان ہے.پس انہیں ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.اللہ تعالیٰ ان کے لئے بہتری کے سامان پیدا کرے.اللہ تعالیٰ ان کی خوشیوں کے سامان پیدا کرے.اللہ تعالیٰ ان کے لئے آزادی کے سامان پیدا کرے کہ وہ بے فکری کے ساتھ دینِ اسلام کے احکام کی پیروی کر سکیں اور جرأت اور دلیری کے ساتھ اور امن اور صلح کی فضا میں وہ اعلائے کلمہ حق کر سکیں اور اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق عطا کرے کہ وہ آزادی کے ساتھ جہاں چاہیں جاسکیں اور جس طرح چاہیں کوشش کر سکیں اور جو کچھ وہ خدا تعالیٰ سے چاہ رہے ہوں گے اور جو کچھ ہم ان کے لئے چاہ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ وہ سب ان کو عطا کرے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) -- ۱۷۹ ۲۸ جنوری ۱۹۶۷ء.اختتامی خطاب اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کا بھی حافظ و ناصر ہو اور جیسا کہ میں نے کل بھی آپ کو اس طرف توجہ دلائی تھی وہ ہر قسم کی غلامی سے ہمیں محفوظ رکھے.ہم کسی قسم کا سیاسی یا اقتصادی یا کسی اور قسم کا دباؤ چاہے وہ کسی طرف سے بھی ہو قبول نہ کریں.صرف ایک ہی دباؤ ہمارے اوپر ہو اور وہی ہماری مسرت کا باعث ہو اور وہ دباؤ وہ ہے جو ہمارا رب ہمیں اپنی گود میں لیتے ہوئے اپنے سینہ سے لگا کر دباتا ہے اپنے جسم کے ساتھ اس کے علاوہ ہم ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہوں.ہمیں بارش کی بھی بڑی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کرے کہ ہماری فصلیں زیادہ ہوں.ہماری پیدا وار زیادہ ہو.وہ اپنے مصالح کو زیادہ جانتا ہے.اس لئے ہم یہ کیوں کہیں کہ اے خدا تو ہمیں بارش دے بلکہ ہم خدا تعالیٰ کو یہ کہتے ہیں کہ اے خدا تو ہمیں عزت کی روٹی دے.ہمیں کسی سے بھیک نہ منگوا نا.ہمیں اپنے ہی در کے بھکاری بنائے رکھنا.آمین اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اب دوست دعا کر لیں.اور اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت ایک لمبی اور پر سوز دعا فرمائی اور اس کے بعد جلسہ کے اختتام کا اعلان فرماتے ہوئے حضور انور نے دوستوں کو واپس جانے کی اجازت عطا فرمائی.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) +VI
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۸۱ ۱۱؍ جنوری ۱۹۶۸ء.افتتاحی خطاب میری یہ دعا ہے کہ اللہ کرے کہ تم پاک دل اور مطہر نفس بن جاؤ افتتاحی تقریب جلسه سالانه فرموده ا ار جنوری ۱۹۶۸ء بمقام ربوہ کی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اے میرے عزیزو! میرے پیارو اور حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور بے شمار رحمتیں تم پر ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری ہی دعائیں تمہارے حق میں قبول ہوں ، خصوصاً اس جلسہ میں شامل ہونے والوں یا شمولیت کی نیت رکھنے والوں کے حق میں حضور علیہ السلام کی یہ دعائیں کہ ”ہر یک صاحب جو اس لہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اوران کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہتم و غم دور فرما دے اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے اُن بندوں کے ساتھ اُن کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفران کے بعد ان کا خلیفہ ہو.اے خدا اے ذوالمجد والعطاء اور رحیم اور مشکل کشا یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر ایک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۲۸۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ دعا ئیں فرمائی ہیں جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے یا پھر آپ کے لئے دوسرے مقامات پر بہت سی دعائیں کی ہیں اُن کا وارث بننے کے لئے ہم پہ بھی بہت سی ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں خصوصاً جلسہ کے ان ایام میں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۸۲ ۱۱؍ جنوری ۱۹۶۸ء.افتتاحی خطاب اول یہ کہ ہم جو خود کو اس موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے الہاما یہ بتایا کہ انتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُهُ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم : صفحه ۵۵۰ ) ہمارے اوقات دُعاؤں سے معمور رہیں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ہر وہ لحظہ جو خدا کی بھول اور اس سے غفلت میں صرف ہوتا ہے وہ ضائع ہو جاتا ہے اور ہر وہ منٹ ہماری زندگی کا جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے معمور ہو وہی وہ وقت ہے جس کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ضائع نہیں ہوا بلکہ صحیح مصرف پر اس کا خرچ ہوا.پس ان ایام میں خصوصاً اور ساری ہی زندگی میں عموماً اپنے اوقات کو دُعاؤں سے معمور رکھیں.دعاؤں میں اپنے نفسوں کو ، اپنی عاقبت کو ، اپنے بچوں کو، اپنے خاندان کو ، اپنے ہمسایہ کو اپنے ہم وطنوں کو دُنیا کے سب مکینوں کو یا درکھیں اور دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس وطن کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرتا چلا جائے اور ہمارے اس ملک کے استحکام کو غلبہ اسلام میں محمد بنائے اور اللہ تعالیٰ ہمارے ہم وطنوں کے سینوں کو قرآن کریم کے حقیقی انوار قبول کرنے کے لئے تیار کر دے اور ان کی بصارت کو تیز کر دے اور ان پر حقیقت آشکار کرے کہ غلبہ اسلام کے لئے جو مہم آسمانوں سے جاری کی گئی ہے وہ اس میں ہمارے ساتھ برابر کی شریک بن جائیں.میری یہ دعا ہے کہ اللہ کرے کہ تم پاک دل اور مطہر نفس بن جاؤ اور نفس امارہ کے سب گند اور پلید یاں تم سے دُور ہو جائیں.تکبر اور خود بینی اور خود نمائی اور خودستائی کا شیطان تمہارے دل اور تمہارے سینہ کو چھوڑ کر بھاگ جائے اور تذلل اور فروتنی اور انکسار اور بے نفسی کے نقوش تمہارے اس سینہ کو اپنے رب کے استقبال کے لئے سجائیں اور پھر میرا اللہ اس میں نزول فرمائے اور اسے تمام برکتوں سے بھر دے اور تمہارے دل اور تمہاری روح کو ہر نُور سے منور کر دے اور خدا کرے کہ بنی نوع کی ہمدردی اور غم خواری کا چشمہ تمہارے اس سینہ صافی سے پھوٹے اور ایک دُنیا تمہارے بے نفس خدمت سے فائدہ اُٹھائے.خدا کرے کہ عاجزانہ دعاؤں کے تم عادی رہو اور تمہاری رُوح ہمیشہ اللہ رب العلمین کے آستانہ پرگری رہے اور اللہ ، اس کی رضا اور اس کے احکام کی اتباع ہر ایک پہلو سے تمہاری دُنیا پر تمہیں مقدم ہو جائے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۸۳ ۱۱؍ جنوری ۱۹۶۸ء.افتتاحی خطاب تم خدا کی وہ جماعت ہو جسے اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس مہم کو کامیاب انجام تک پہنچانے کی راہ میں تمہیں ہزار دُکھ اور اذیتیں سہنی ہوں گی اور ہر قسم کے ابتلا اور آزمائشوں میں تم کو ڈالا جائے گا.دُعا ہے کہ ہر امتحان میں تم کامیاب رہو اور ہر آزمائش کے وقت ربّ کریم سے ثبات قدم کی تم توفیق پاؤ.بس اسی کے ہو جاؤ.وہ مہربان آقا تمہیں پاک اور صاف کر دے اور پیارے بچے کی طرح تمہیں اپنی گود میں لے لے اور ہر نعمت کے دروازے تم پر کھولے اور تمام حسنات کا تم کو وارث بنائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں میں تمہیں کہتا ہوں کہ اگر تم اپنے نفس سے در حقیقت مر جاؤ گے تب تم خدا میں ظاہر ہو جاؤ گے اور خدا تمہارے ساتھ ہوگا اور وہ گھر بابرکت ہوگا جس میں تم رہتے ہو گے اور ان دیواروں پر خدا کی رحمت نازل ہوگی جو تمہارے گھر کی دیواریں ہیں اور وہ شہر بابرکت ہوگا جہاں ایسا آدمی رہتا ہو گا.اگر تمہاری زندگی اور تمہاری موت اور تمہاری ہر ایک حرکت اور تمہاری نرمی اور گرمی محض خدا کے لئے ہو جائے گی اور ہر ایک تلخی اور مصیبت کے وقت تم خدا کا امتحان نہیں کرو گے اور تعلق کو نہیں تو ڑو گے بلکہ آگے قدم بڑھاؤ گے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک خاص قوم ہو جاؤ گے.پس اپنی پاک تو توں کو ضائع مت کرو.اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو میں خدا کی منشاء کے مطابق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے..تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے.ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اُس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں.وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں ان کے لئے موقعہ ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحہ ۳۰۹،۳۰۸) خدا کرے کہ آسمان کے فرشتے تمہیں یہ مژدہ سنا ئیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری عاجزانہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۸۴ ۱۱؍ جنوری ۱۹۶۸ء.افتتاحی خطاب دعاؤں کو سنا اور تمہاری حقیر کوششوں کو قبول کیا اور اپنے قرب اور اپنی رضا کی جنتوں کے دروازے تمہارے لئے کھول دیئے ہیں.پس آؤ اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ.رب العلمین نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند کو اس زمانہ کا حصن حصین بنایا ہے.چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے آج اسی کی جان محفوظ ہے جو اس قلعہ میں پناہ لیتا ہے.اللہ کرے کہ تم بدی کو چھوڑ کر نیکی کی راہ اختیار کر کے اور کچھی کو چھوڑ کے راستی پر قدم مارکر اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو کر اپنے رب عظیم کے بندہ مطیع بن کر اس حصن حصین اس مضبوط روحانی قلعہ کی چاردیواری میں پناہ اور امان پاؤ.خدا کرے کہ تمہارے نفس کی دوزخ گلی طور پر ٹھنڈی ہو جائے اور اس لعنتی زندگی سے تم بچائے جاؤ جس کا تمام ہم و غم محض دُنیا کے لئے ہوتا ہے.تم اور تمہاری نسلیں شرک اور دہریت کے زہریلے اثر سے ہمیشہ محفوظ رہیں.خدائے واحد یگانہ کی رُوح تم میں سکونت کرے اور اس کی رضا کی خاص تجلی تم پر جلوہ گر ہو.پرانی انسانیت پر ایک موت وارد ہو کر ایک نئی اور پاک زیست تمہیں عطا ہو اور لیلتہ القدر کا حسین جلوہ اسی عالم میں بہشتی زندگی کا تمام پاک سامان تمہارے لئے پیدا کر دے.اے ہمارے رب ! تو ہمیں مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے انصار میں سے بنا اور اس قیامت خیز ہلاکت اور عذاب سے ہمیں محفوظ رکھ جس سے تو نے اُن لوگوں کو ڈرایا ہے جو اپنا تعلق تجھ سے تو ڑچکے ہیں.پس اپنی طرف تبتل اور انقطاع اور رجوع کی تو فیق ہمیں بخش اور ہم پر رجوع برحمت ہو.اے ہمارے رب ! اے ہمارے رحمان خدا! ہمارے ان بھائیوں کو جو قرآنِ عظیم کی اشاعت کے لئے دُنیا کے ملک ملک اور کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اپنی رحمت سے نواز ، ان کے ایثار اور ان کے تقویٰ میں برکت ڈال، ان کی قلموں کو تا شیر دے، ان کی زبانوں پر انوار نازل کر اور ان کی سعی اور کوشش کو دجال کے ہر دجل اور دہریت کے ہر شر سے محفوظ رکھ.اور اے ہمارے اللہ ! ہمارے پیارے رب تو ایسا کر کہ تیرے یہ کمزور اور بے مایہ بندے تیرے لئے بنی نوع کے دل جیت لیں اور تیرے قدموں میں انہیں لا ڈالیں.ایسا کر کہ تا ابد دُنیا کے ہر گھر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۸۵ ۱۱؍ جنوری ۱۹۶۸ء.افتتاحی خطاب اور ان گھروں میں بسنے والے ہر دل سے لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کی صدا اور دُنیا ! کی ہر زبان سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوتا رہے.آمین یا رب العلمین.اب میں دُعا کرواؤں گا آپ بھی دُعا میں شامل ہوں.آج سب سے اہم دُعا جو ہم اپنے رب سے کر سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ دُنیا کی ہدایت کے سامان پیدا کر دے دُنیا تباہی کے گڑھے کے کنارے کھڑی ہے اور نہیں جانتی کہ وہ کہاں کھڑی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں بصیرت اور بصارت عطا کرے وہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہنچاننے لگیں اور اس کی محبت ان کے دلوں میں پیدا ہو وہ اپنے کئے پر نادم ہوں اور اپنے رب کی طرف وہ رجوع کریں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جود نیا کے لئے ایک محسنِ اعظم ہیں آپ کے ٹھنڈے سایہ تلے جمع ہو جا ئیں اور نار جہنم سے محفوظ کر لئے جائیں.خاص طور پر یہ دُعائیں کریں.آپ سمجھ نہیں سکتے کہ دُنیا اس وقت کس قدر نازک دور سے گزر رہی ہے اللہ تعالیٰ رحم کرے.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ فروری ۱۹۶۸ء صفحه ۲ تا ۴ )
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) LVI
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۸۷ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.جس قوم نے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے اس کو ہر قسم کی عادت سے آزا در ہنا چاہئے دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء بمقام ربوده ای تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بڑا ہی فضل ہے کہ وہ ہماری آمد نیوں اور ہمارے روپیہ کو ناجائز مصارف سے بچاتا ہے اور پھر اس کے فرشتے اس فکر میں رہتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اپنے اموال کو کہاں خرچ کریں گے.ان کے لئے مواقع مہیا کرنے چاہئیں.ایک موقع ایک جائز اور ثواب کمانے والے خرچ کا یہ ہو جاتا ہے کہ ہر سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کی اشاعت ہو جاتی ہے یا نئی کتابیں شائع ہو کر دوستوں کے سامنے آتی ہیں اور اس وقت میں ان نئی طبع شدہ (نئی ہوں یا پرانی) کی طرف اپنے دوستوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو ا دوران سال شائع ہوئیں اور جن سے ہمارے احمدی بھائیوں اور بہنوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے.احمدی نوجوانوں اور احمدی بچوں کے لئے خالد تشخیز اور لاہور کا سود پنیر مفید ہیں.خالد اور تشخیز تو رسالے ہیں اور سارا سال شائع ہوتے رہتے ہیں اور سارا سال ہی ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے سود بینیر لاہور میں سفر یورپ کی بہت سی تصاویر ہیں یہ کا رکن بڑے ہی نا تجربہ کار تھے کچھ مجھے بھی ان کی طرف توجہ دینی پڑی اگر چہ معیار بہت اچھا نہیں اتنا اچھا بھی نہیں ، جتنا کراچی کے سود پنیر کا ہوتا ہے لیکن بہر حال ایک کوشش ہے اگر ہم اسی سے فائدہ اٹھا ئیں تو بہت سے پہلوؤں سے ہمارے لئے ( تربیت واصلاح ہر دو میدانوں میں ) یہ مفید ہوسکتا ہے.اس کے علاوہ ماہنامہ تحریک جدید تحریک جدید کے کاموں کو جماعت کے سامنے اور دوسرے بھائیوں کے سامنے پیش کرتا ہے.انصار اللہ تربیتی رسالہ ہے لیکن اس سے وہ لوگ جو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۸۸ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب ابھی احمدیت میں داخل نہیں ہوئے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی تربیت کس رنگ میں اور کس طور پر کی جارہی ہے آیا یہ جماعت اپنے بزرگوں کو اور اپنے بچوں کو خدا اور اس کے رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور لے جارہی ہے یا ان کے عشق میں اور بھی زیادہ شدت اور تیزی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے.پھر تفسیر صغیر ہے یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کی ہوئی قرآن کریم کی تفسیر ہے جو علوم کا سر چشمہ اور تمام انوار کا سورج ہے مجھ پر یہ اثر ہے کہ بہت سے نو جوان اس تفسیر کی یا اس ترجمہ کی جس کے ساتھ تفسیری نوٹ ہیں ( ترجمہ بھی تفسیری ہے) اہمیت نہیں سمجھتے.میں بہت سے پڑھے لکھے دوستوں کو جو جماعت میں شامل نہیں یہ بھجواتا رہتا ہوں.جس کے ہاتھ میں بھی یہ تفسیری نوٹ گئے ہیں جو تفسیر صغیر کے نام سے شائع ہوئے ہیں.اس نے اتنا اثر لیا ہے کہ آپ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے لیکن رمضان کے درس کے موقع پر مسجد میں جو قرآن ہاتھوں میں پکڑے ہوتے ہیں ان کی اکثریت تفسیر صغیر نہیں ہوتی بلکہ دوسرے مطبعوں کے شائع شدہ قرآن کریم ہوتے ہیں.جماعت کو خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئے اگر ہم قرآن کریم کے علوم صحیح طور پر سیکھنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ خصوصاً ہمارے بچے اور نو جوان اس سے محبت کرنے لگیں اور ان کے دل کا شدید تعلق قرآن کریم کے نور سے ہو جائے تو ہر نو جوان بچے کے باپ یا گارڈین کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ میں تفسیر صغیر کو دیکھے اور اگر نہ دیکھے تو اس کا انتظام کرے.تاریخ احمدیت جلد ہشتم طبع ہو چکی ہے اس میں ۱۹۳۴ء سے ۱۹۳۹ء تک کے واقعات یعنی تحریک جدید کا اجراء اور خدام الاحمدیہ کا قیام اور خلافت ثانیہ کی سلور جوبلی کے واقعات کی تاریخ مختصر طور پر محفوظ کی گئی ہے اپنی تاریخ سے واقفیت رکھنا اور ماضی حال اور مستقبل کا باہم شدید تعلق قائم رکھنا زندہ اور بیدار قوموں کے لئے ضروری ہوتا ہے اس لئے تاریخ احمدیت جلد ہشتم کی طرف بھی احباب کو توجہ دینی چاہئے.روحانی خزائن جلد ۲۱ جو براہین احمدیہ حصہ پنجم پر مشتمل ہے الشركة الاسلامیہ نے شائع کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب قرآن کریم کی تفاسیر ہیں بہترین تفسیر جو آج دنیا کے ہاتھ میں دی جاسکتی ہے یا اپنے ہاتھ میں لے کر پڑھی جاسکتی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب ہیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۸۹ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب لجنہ اماءاللہ نے بہت سی کتب شائع کی ہیں..الازهار لذوات الخمار ( مجموعه تقارير حضرت مصلح موعود درضی اللہ عنہ جو حضور مستورات کے جلسہ میں فرماتے رہے ) اسی طرح ۲ - المصابیح ( مجموعہ تقاریر) چند تقاریر جو اس وقت تک خلافت ثالثہ میں ہو چکی ہیں ان کا یہ مجموعہ ہے ۳.یا محمود.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی یاد میں احباب جماعت کی نظموں کا مجموعہ ۴.مختصر تاریخ احمدیت یعنی لجنہ اماءاللہ کی طرف سے شائع کی گئی ہے بچوں کے لئے تاریخ احمدیت کا علم ہونا ضروری ہے.۵.راہ ایمان لجنہ اماءاللہ نے شائع کی ہے یہ بچوں کے لئے دینی مسائل پر مشتمل آسان زبان میں کتاب ہے.نظارت اصلاح وارشاد نے اسلامی اصول کی فلاسفی اور کشتی نوح “ بڑی دیدہ زیب شائع کی ہیں اسلامی اصول کی فلاسفی“ ہر مسلمان اور غیر مسلم کو بہت فائدہ دیتی ہے میرے پاس غیر ملکوں سے لوگوں کے خطوط بڑی تعداد میں آتے رہتے ہیں جن کے پاس اسلامی اصول کی فلاسفی گئی ہے.انہوں نے بڑے حیران ہو کر اس کو پڑھا کہ اسلام یہ ہے اور اسلام کی نمائندگی میں کوئی شخص خدا تعالیٰ کی توفیق سے اس قسم کا مضمون لکھ سکتا ہے.وہ محو حیرت ہو جاتے ہیں اور بڑا فائدہ اٹھاتے ہیں.ہمارے بڑے مخلص احمدی جن کا مطالعہ کم ہے وہ بھی بڑا فائدہ اٹھاتے ہیں اور جو دوسرے ہیں وہ بھی بڑا فائدہ اٹھاتے ہیں.ابھی اسلامی اصول کی فلاسفی“ کا انگریزی میں ترجمہ تحریک جدید والوں نے غالباً ایک لاکھ کی تعداد میں شائع کیا ہے اور وہ مختلف ممالک میں گیا ہے.ہمارے گورنر جنرل گیمبیا الحاج ایف ایم سنگھائے تک جب یہ پہنچا.( ان کی نظر سے یہ کتاب پہلی دفعہ گزری تھی ) تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجھے اور کا پیاں دوتا میں پرائم منسٹر اور بعض دوسرے لوگوں کو دوں جو ابھی اسلام میں پختہ نہیں.وہاں کے پرائم منسٹر بھی ان کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے ہیں لیکن ابھی احمدی نہیں ہوئے انہیں ابھی اسلام کا مطالعہ نہیں.بہر حال گورنر جنرل صاحب نے کہا میں یہ کتاب بعض لوگوں کو پڑھانا چاہتا ہوں تا انہیں پتہ لگے کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے.کشتی نوح تربیت کے لئے اور دوسرے لوگوں کو یہ بتانے کے لئے کہ ہم کیا ہیں اور کس رنگ میں ہماری تربیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے اور کرنا چاہتے ہیں بڑی مفید کتاب ہے جتنی زیادہ دفعہ اسے پڑھیں اتنی ہی زیادہ برکت حاصل کر سکتے ہیں.یہ دونوں کتابیں دس دس ہزار کی تعداد میں چھپی ہیں.مجھے تو دس ہزار کی تعداد بہت تھوڑی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹۰ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب معلوم ہوئی ہے خدا کرے کہ آپ بھی یہ ثابت کریں کہ واقعی یہ تعداد تھوڑی ہے یہ تو چند ہفتوں میں اپنے ہاتھوں میں اور اپنوں کے ہاتھوں میں پہنچ جانی چاہئے.کچھ میرے خطبات بھی نظارت اصلاح وارشاد نے شائع کئے ہیں ۱.تین اہم امور ۲.قرآنی انوار ۳۰ تعمیر بیت اللہ کے تمھیں عظیم الشان مقاصد.دو تعمیر بیت اللہ کے تئیس عظیم الشان مقاصد یہ دس خطبات ہیں ایک دن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پتہ نہیں ایک سیکنڈ کے کتنے حصہ میں دماغ میں ایسی لہر پیدا کی کہ یہ سارا مضمون دماغ میں آ گیا.جوں جوں خطبات دیتا گیا آہستہ آہستہ مضمون میرے سامنے آتا چلا گیا.دراصل اس مضمون اس منصوبہ کے ساتھ ہے جس کے متعلق میں کچھ بیان کروں گا شاید کل کی تقریر بھی اسی سلسلہ میں ہو جو ایک درمیانی کڑی کے طور پر ہوگی.اس مجموعہ کا بار بار پڑھنا ضروری ہے کیونکہ جیسا کہ اس مضمون سے عیاں ہے اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی تعمیر بہت سے مقاصد کے لئے کروائی تھی جن میں سے تئیس کا ذکر ان آیات میں ہے جن پر میں نے یہ خطبات دیئے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ان مقاصد کا حصول ممکن ہوا اور تین سو سال تک یہ اغراض پوری ہوتی رہیں پھر تنزل کا ایک زمانہ آیا اور اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا زمانہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر پھر سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرے گا اور وہ تمام مقاصد اسلام کے ذریعہ نوع انسان کو حاصل ہوں گے جن مقاصد کے لئے بیت اللہ کی تعمیر از سر نو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ کرائی گئی تھی.میرا ایک چھوٹا سا مضمون ہے جو میں نے انگلستان میں سفر کے دوران پڑھا تھا وہ ”امن کا پیغام" کے نام سے شائع ہوا ہے اس وقت تک یہ مضمون ڈینش زبان میں جرمن زبان میں اور اردو زبان میں اور سواحیلی زبان میں شائع ہو چکا ہے اور سویڈش اور ٹرکش زبانوں میں ترجمے تقریباً مکمل ہو چکے ہیں اور عنقریب شائع ہو جائیں گے افریقہ سے بھی امریکہ سے بھی اور دوسرے ممالک سے بھی.جہاں یہ مضمون پہنچا ہے دوستوں کی طرف سے یہ رپورٹ آئی ہے کہ جس نے بھی اس کو پڑھا ہے اس نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ اس کو آپ کثرت سے شائع کریں اس ضمن میں ایک عظیم نشان اللہ تعالیٰ نے ڈنمارک میں دکھایا ہے جس کے متعلق دوستوں کے سامنے بعد میں تفاصیل رکھوں گا.اس طرح نظارت اصلاح وارشاد کی طرف سے قرآن مجید پارہ اول کا لفظی ترجمہ اور چالیس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹۱ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب 66 جواہر پارے“ شائع ہوئے ہیں.پھر لجنہ اماء اللہ کا رسالہ "مصباح ریویو آف ریلیجنز “ ہے جو انگریزی میں ہمارا پایہ کا اخبار ہے.دوست اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور نہ فائدہ اٹھاتے ہیں آخر یہ اخبار اور رسالے اس لئے شائع نہیں کئے جاتے کہ کچھ لوگ اپنا وقت ضائع کر رہے تھے.ہم نے سمجھا کہ ان کے وقت کو ضیاع سے بچانے کے لئے انہیں کسی کام پر لگا دیا جائے.ہر ایک رسالہ یا کتاب جو شائع ہوتی ہے اس پر وقت خرچ کیا جاتا ہے تو اس لئے کہ ہم اسلام کو غالب کرنے کی کوئی مہم سرکریں یا بعض لوگوں کو اس مہم کے سر کرنے کے لئے تربیت دیں.ہر احمدی کے کان وہ آواز روزانہ پڑنی چاہئے جو تربیت کے لئے یاد نیا کی اصلاح کے لئے مرکز احمدیت سے اٹھتی ہے اس طر ف جماعت جواب توجہ دے رہی ہے اس سے زیادہ توجہ دینی چاہئے اور توجہ دینی پڑے گی.آج کی تقریر مختلف عنوانوں پر یا مختلف جماعتی تنظیموں کے متعلق مختلف امور پر مشتمل ہوتی ہے.میں بعض باتیں مختلف تحریکوں کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.جن میں پہلی وقف عارضی کی تحریک ہے.قریباً ہیں ماہ ہوئے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے منشاء کے مطابق میں نے وقف عارضی کی تحریک کا اجراء کیا تھا اور دسمبر کے آخر تک ۵۵۲۲ دوستوں سے اس وقف میں خود کو پیش کیا لیکن ان میں سے بعض دوست جائز مجبوریوں کی وجہ سے اس میں عملاً حصہ نہیں لے سکے ان کی معین تعداد کے متعلق دفتر نے مجھے کچھ نہیں بتایا لیکن ان کا اندازہ ہے کہ وہ سو اور دوسو کے درمیان ہے میں نے زیادہ احتیاط کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ ہزار کی تعداد کو لے لیا کہ اتنے دوستوں نے اس عرصہ میں وقف عارضی کے منصوبہ کے ماتحت دو ہفتے کم از کم جماعتوں کی تربیت میں گزارے ہیں.جب ہم مجموعی وقت کا شمار کرتے ہیں تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ واقفین نے مجموعی طور پر قریباً دو صدیاں کام کیا ہے یعنی اتنے ہفتے انہوں نے وقف عارضی کے کام میں گزارے ہیں جتنے ہفتے دو سو سال میں ہوتے ہیں.ایک سال میں باون ہفتے ہوتے ہیں.اب باون کو دوسو کے ساتھ ضرب دیں تو جو ہفتوں کی تعداد بنتی ہے اتنے ہفتے واقفین عارضی نے اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے گزارے ہیں.بہر حال یہ مدت قریباً دوسو سال بنتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دوسو مبلغ جنہیں ہم معاوضہ دیں سال بھر کام کریں تو اتنا کام اس تحریک کے ذریعہ ہو چکا ہے اور اگر روپیہ کی شکل میں اس کام کا اندازہ لگایا جائے اور مزدور کی مزدوری شمار کی جائے یعنی جس شخص نے وقف عارضی میں کام کیا ہے اس کی یومیہ مزدوری ایک مزدور کی اجرت کے مطابق تین
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹۲ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار روپے رکھی جائے تو یہ دولاکھ دس ہزار روپیہ کا کام بنتا ہے.اگر ان کی مزدوری ( ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے عاجز مزدور ہی.دنیا کے مزدور نہیں جیسے دنیا کے ٹھیکیداروں کے مزدور ہوتے ہیں ) چھ روپیہ روزانہ بھی جائے تو یہ کام چار لاکھ بیس ہزار روپیہ کا بنتا ہے.پھر یہ لوگ اپنی جگہوں پر تو مقررنہیں کئے جاتے دوسری جگہوں پر بھجوائے جاتے ہیں اس لئے انہوں نے آنے جانے کا کرایہ بھی اپنے پاس سے خرچ کیا ہے اگر کرایہ کی اوسط میں روپیہ فی واقف رکھی جائے تو ایک لاکھ روپیہ کا یہ خرچ ہے گویا آپ یہ کہہ لیں کہ پانچ لاکھ میں ہزار روپیہ کا خرچ ہے یا یوں کہہ دیں کہ پانچ لاکھ بیس ہزار روپیہ کی آمد واقفین کے ذریعہ جماعت کو ہوئی یا اتنے روپے کا کام کم از کم انہوں نے کیا.یہ جو رضا کارانہ خدمت ہے اس کے متعلق بھی میں کل انشاء اللہ بعض اصولی باتیں بیان کروں گا.اس کے علاوہ اس وقت بارہ سو چھہتر (۱۲۷۶) واقفین عارضی ایسے ہیں جنہوں نے آئندہ سال میں کسی وقت اپنے دو ہفتے دیئے ہیں لیکن پچھلے سال میں نے کہا تھا کہ کم از کم پانچ ہزار واقفین کی ضرورت ہے لیکن سال کے دوران جو نئی ضرورتیں سامنے آئی ہیں یا جماعتوں کے جو نئے مطالبات ہم تک پہنچے ہیں ان کے نتیجہ میں میں سمجھتا ہوں کہ پانچ ہزار نہیں دس ہزار واقفین عارضی کی ضرورت ہے اگر دس ہزار واقفین کی تعداد فرض کی جائے تو اس تعداد تک پہنچنے میں دوست سال دو سال لیں گے.اس لئے آئندہ سال کم از کم سات ہزار واقف چاہئیں.بارہ سو کے نام بھجوائے گئے ہیں اور باقی پانچ ہزار آٹھ سو (۵۸۰۰) اور دوست آگے آنے چاہئیں جو وقف عارضی میں اپنے نام دیں.واقفین عارضی نے بڑی کثرت کے ساتھ اس بات کو محسوس کیا ہے کہ وقف عارضی میں کم از کم دو ہفتے وقف کرنے کی جو سکیم ہے وہ ان کی اپنی تربیت اور اپنی اخلاقی ترقی میں بہت مفید ثابت ہوئی ہے اور اس سے انہوں نے بڑا فائدہ اٹھایا ہے اور ان میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے پر نازل ہوتے دیکھا ہے اس بارے میں ہمیں بڑی کثرت سے خطوط پہنچے ہیں.اس سکیم کے ماتحت ایک تو قرآن کریم کے پڑھانے کی سکیم کو چلایا جاتا ہے اور زندہ رکھا جاتا ہے قرآن کریم نے کہا ہے ذکر یعنی بعض اوقات یاد دہانی کراتے رہا کرو اور یاد دہانی کرانے کے لئے ذرائع کی ضرورت ہے اور واقفین عارضی یاد دہانی کرانے کا ایک ذریعہ ہیں اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹۳ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب سینکڑوں کی تعداد میں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں بچوں کو قاعدہ میسر نا القرآن، قرآن کریم ناظرہ یا ترجمہ کے ساتھ یا مختصر سی تفسیر کے ساتھ ان واقفین نے پڑھایا ہے.اگر ہم اس کام کو تنخواہ یا معاوضہ حاصل کرنے والے لوگوں سے لیتے تو میں سمجھتا ہوں کہ عملاً دوسو نہیں بلکہ چار سو آدمی چاہئے تھے کیونکہ جو شخص مستقل ملازمت پر ہو یا کام پر ہو اس کا کام اور قسم کا ہوتا ہے اور جو پندرہ دن کے لئے وقف کر کے جائے وہ چوبیس گھنٹے اپنے آپ کو اعتکاف میں یعنی بندھا ہوا اس کام میں سمجھتا ہے اور دن رات ایک کر دیتا ہے اور بہت زیادہ کام کرتا ہے.اکثر واقفین نے اسی رنگ میں کام کیا ہے.ہاں بعض لوگ نا تجربہ کاری کی وجہ سے سستی بھی دکھاتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں.لیکن اکثریت ایسوں کی ہے جنہوں نے سمجھا کہ چوبیس گھنٹے ہمارے وقف ہیں ایک دو دن میں کیا فرق پڑتا ہے مزدوری ہم کوئی نہیں لیتے آرام نہیں کرتے کھانا اپنا آپ پکاتے ہیں اور پھر وہ بھی سادہ اور مختصر سا کئی دوستوں نے یہ بھی کیا ہے کہ بازار سے دودھ لے آئے اور اس میں رس ڈبو کر کھا لئے.پندرہ دن میں کوئی ایسی تکلیف بھی نہیں ہوتی.کھانے کی عادت نہیں ہونی چاہئے جس قوم نے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے اس کو ہر قسم کی عادت سے آزاد رہنا چاہئے اور روٹی کی بھی عادت ہوتی ہے دیکھو ہم لوگ روٹی کھاتے ہیں.اگر کسی کو تین دن برابر چاول کھلائیں تو وہ شور مچادے گا.بنگال میں چاول کھانے کی عادت ہے وہاں کوئی بیمار ہو جائے تو کہتے ہیں اسے پر ہیزی کھانا دو یعنی روٹی پکا کر دو اور ہم بیمار ہو جائیں تو کہتے ہیں ہم بیمار ہو گئے ہیں.ہمیں چاول پکا کر دو.غرض روٹی کھانے کی بھی عادت نہیں ہونی چاہئے اور پھر روٹی کے ساتھ کسی خاص قسم کے سالن کی عادت بھی نہیں ہونی چاہئے.صرف ضرورت پوری کرنے کی عادت ہونی چاہئے.اسے آپ عادت کہہ لیں یا جو مرضی ہے کہہ لیں.بہر حال جسم کی ضرورت پوری ہونی چاہئے وہ ضرورت روٹی سے پوری ہو یا چاول سے ہو یا دال سے ہو، فاختہ کے گوشت سے ہو یا بکرے کے گوشت سے ہو یا اونٹ کے گوشت سے ہو یا آلو سے ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اللہ تعالیٰ نے ایک ضرورت لگائی ہے اور وہ ہم نے پوری کرنی ہے اور جسم کو اتنا کھا لینے کو دے دینا چاہئے کہ وہ اپنے پر چربی نہ چڑھائے اور صحت قائم رہے اور یہ بڑا ضروری امر ہے میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.جسم جسم میں بھی فرق ہے میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹۴ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب نے ایسے آدمی دیکھے ہیں جو بارہ روٹیاں بھی کھا جائیں تو ان کا پیٹ نہیں بھرتا اور ان کے معدے پیٹ کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں.پتہ نہیں لگتا کہ وہ کھانا جا تا کہاں ہے میرا جسم اس قسم کا ہے کہ کل صبح ایک چھوٹی سی چپاتی کھائی تھی اور عام طور پر گھر میں پکے ہوئے دو پتلے پھلکے کھالیتا ہوں کل چونکہ میں نے اعلان کیا تھا کہ صرف ایک روٹی کھانی ہے اس لئے میں نے بھی ایک ہی چپاتی کھائی.تھا تو وہ پر اٹھا لیکن بالکل پھلکے کی طرح کا.میں کتنا کم کھاؤں میرا جسم اتنا ہی موٹا رہے گا لیکن بعض لوگ کم کھائیں تو وہ دبلے ہو جاتے ہیں اور زیادہ کھائیں تو موٹے ہو جاتے ہیں ور بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ زیادہ بھی کھائیں تو موٹے نہیں ہوتے بلکہ دبلے ہی رہتے ہیں : یہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن جسم کی صحت کے لئے جتنی ضرورت غذا کی ہے وہ ضرورت پوری کر لینی چاہئے کیونکہ ہمیں صحت مند جسم چاہئیں تا ان صحت مند جسموں میں صحت مند دماغ اور ہمت والی روح قائم رہ سکے.بڑا ہی اور بڑا ہی مشکل کام ہے جو ہمارے سپر د کیا گیا ہے.اگر آپ سوچیں تو یہ کام آسان نہیں جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے.یہ بات کہنے کو تو آسان ہے کہ ہم نے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے لیکن جب ساری دنیا اور ساری دنیا کی مخالفتیں سامنے ہوں تو انسانی دماغ اسے سوچ کر بھی گھبرا جاتا ہے.پھر جب انسان سوچتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ہم بے طاقت ہیں ہم میں کوئی علم نہیں اس دنیا کے مقابلہ پر ہم کچھ بھی نہیں لیکن خدا کہتا ہے کہ یہ کام ہوگا اس لئے یہ کام ضرور ہو گا وہ خود ہی اس کام کو کرے گا.ہم پر صرف اتنی ذمہ داری ہے کہ ہم میں جتنی طاقت ہے وہ صرف کریں گوہم جانتے ہیں کہ ہماری طاقتوں کا مجموعہ ہے وہ بھی یہ کام نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی ہمیں یہ علم ہے کہ یہ کام ضرور ہوگا.اگر ہم اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق قربانیاں دے دیں گے تو آسمان سے وہ طاقت نازل ہو گی جو دنیا کے دلوں کو بدل دے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں گاڑ دے گی.غرض تربیت کے لحاظ سے وقف عارضی کا منصو بہ بڑا ہی اہم ہے اور اس کی طرف جماعت کو توجہ دینی چاہئے اور خیال رکھنا چاہئے کہ آئندہ سال کے لئے کم از کم سات ہزار واقفین اس نے مجھے دینے ہیں.ہمارا مرکزی دفتر بھی رضا کارانہ طور پر چل رہا ہے سوائے ایک مددگار کارکن کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹۵ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.جو پچاس روپے ماہوار لیتا ہے.باقی سارا کام رضا کا ر کرتے ہیں.جو سائر کا خرچ ہے وہ بھی رضا کارانہ طور پر حاصل ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ توفیق دے دیتا ہے وہ یہ خرچ ادا کر دیتا ہے تین چار ہزار روپیہ سالانہ کا خرچ ہے اور یہ خرچ رضا کارانہ طور پر چل رہا ہے صدر انجمن احمدیہ کے عام اخراجات میں یہ خرچ شامل نہیں اور عام آمد پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا.گواگر اسے بوجھ کہا جاسکتا ہے تو جماعت پر یہ بوجھ ضرور پڑتا ہے بہر حال سارا کام رضا کارانہ طور پر چل رہا ہے.نظارت بیت المال پر اس کے ایک پیسہ کا بھی بوجھ نہیں.اس کے بعد میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.جماعت نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی محبت کی وجہ سے اور آپ کے احسانوں کی یاد میں ایک فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی تھی اور بڑی ہمت کے ساتھ اور بڑی فراخ دلی سے اس میں وعدے لکھوائے تھے.۲۶ دسمبر ۱۹۶۷ء تک پاکستان کے وعدے ستائیس لاکھ ستاسٹھ ہزار ایک سو ستر روپے کے تھے اور غیر ممالک یعنی بیرون پاکستان کے وعدے آٹھ لاکھ اٹھاسی ہزار ایک سو تراسی (۸۸۸۱۸۳) روپے کے تھے ان کی میزان چھتیس لاکھ پچپن ہزار تین سو ساٹھ (۳۶۵۵۳۶۰) بنتی ہے.۲۶ دسمبر ۱۹۶۷ء تک گیارہ لاکھ چوالیس ہزار نو سو پچاسی (۱۱۴۴۹۸۵) کی وصولی تھی اور غیر ممالک کی وصولی تین لاکھ پچاس ہزار آٹھ سو دس (۳۵۰۸۱۰) تھی.کل وصولی چودہ لاکھ پچانوے ہزار سات سو پچانوے (۱۴۹۵۷۹۵) کی تھی بیرون پاکستان کی جماعتوں کی جو مالی قربانیاں ہمارے سامنے آئی ہیں ان کی شکل یہ بنتی ہے.یورپ میں بسنے والے احمدیوں کے وعدے دو لاکھ چھیانوے ہزار چار سو اکتیس (۲۹۶۴۳۱) روپے کے تھے اور اس کے مقابلہ میں وصولی ایک لاکھ نوے ہزار آٹھ سو اٹھاون (۱۹۰۸۵۸) روپے کی تھی.یعنی قریباً دو تہائی وصولی ہو چکی ہے.امریکہ کے وعدے اٹھاسی ہزار تین سو اٹھائیس (۸۸۳۲۸) روپے کے تھے اور وصولی انتیس ہزار ایک سو تہتر (۲۹۱۷۳) روپے ہے.افریقہ کی جماعتوں کے متعلق میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ ان کے چندے دینے کا طریق اور ہے جب وہ چندے دیتے ہیں تو کہتے ہیں ساری خدمتوں میں تم خود ہی تقسیم کر لو تعلیم میں بھی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹۶ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب وہ لوگ بڑے پیچھے ہیں اور تربیت میں بھی پیچھے ہیں.بعض دفعہ ایک شخص پانچ ہزار روپیہ بھی دے دے گالیکن کہے گا کہ آگے تقسیم کا مجھے علم نہیں تم خود تقسیم کر لو.اب انہیں آہستہ آہستہ عادت ڈال رہے ہیں.بہر حال فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے ان کے وعدے ایک لاکھ سترہ ہزار چھ سو تہتر (۱۱۷۶۷۳) روپے کے ہیں لیکن وصولی ابھی بہت کم ہے یعنی ابھی تک صرف سات ہزار روپے وصول ہوئے ہیں.مشرق وسطی کی جماعتوں کے وعدے ترین ہزار دوسو پینسٹھ (۵۳۲۶۵) روپے کے تھے اور سولہ ہزار نو سو (۱۶۹۰۰) روپے وصول ہوئے ہیں.یعنی قریباً ایک تہائی وصول ہو چکا ہے.جنوب مشرقی ایشیاء کے وعدے تین لاکھ چونتیس ہزار چارسوستاسی (۳۳۴۴۸۷) روپے کے تھے جن میں سے ایک لاکھ ستر ہزار آٹھ سو باون (۱۷۷۸۵۲) روپے کی وصولی ہوئی ہے.غرض خدا تعالیٰ کے فضل سے وعدے بھی توقع کے برابر ہی چل رہے ہیں اور وصولی بھی اس حساب سے ہو رہی ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن (جو ایک رجسٹر ڈ باڈی ہے ) نے مکرمی مخدومی چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی ہوئی ہے کہ جو مختلف امور پر غور کرتی اور کام کو سنبھالتی ہے انہوں نے کچھ رقوم بعض ایسی لمیٹڈ کمپنیوں کے حصے خریدنے میں لگائی ہیں جو منافع دیتی ہیں کسی سال کم منافع دیتی ہیں اور کسی سال زیادہ اور ۱۹۶۷ء میں انہیں مختلف مدات میں سینتالیس ہزار ایک سوستر (۴۷۱۷۷) روپے کی آمد ہوئی ہے اور سارے خرچ نکالنے کے بعد قریباً ساڑھے آٹھ ہزار روپیہ بچ گیا ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن کا کام رو پیدا اکٹھا کرنا نہیں بلکہ بعض خاص کام ہیں ان کاموں کے سرانجام دینے کے لئے اس فاؤنڈیشن کا اجراء کیا گیا ہے لیکن چونکہ ان کاموں کے لئے روپیہ کی ضرورت تھی اس لئے روپیہ حاصل کیا گیا اور یہ مفید ہوا کہ اس روپیہ کی آمد سے وہ مقاصد حاصل کر لئے جائیں گے جن مقاصد کے لئے فضل عمر فاؤنڈیشن کو جاری کیا گیا ہے.جو منصوبے ابھی تک انہوں نے تیار کئے ہیں وہ دوستم کے ہیں ایک قلیل المیعاد اور ایک طویل المیعاد قلیل المیعاد منصوبے آگے کئی قسموں میں منقسم ہیں.ایک منصوبہ یہ ہے کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹۷ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تقاریر اور خطبات وغیرہ اکھٹے کر کے دیدہ زیب شائع کئے جائیں اور منصوبے میں عید کے خطبات کو ترجیح دی گئی ہے اور ایک حصہ کا مواد جو ۱۹۵۳ء تک کے خطبات پر مشتمل ہے جمع ہو چکا ہے اور عنقریب شائع ہو جائے گا انشاء اللہ.دوسرے نمبر پر نکاح کے خطبات کو رکھا گیا ہے تیسرے نمبر پر خطبات جمعہ اور چوتھے نمبر پر دیگر ملفوظات و تقاریر ہیں.عیدین کے خطبات کی ایک جلد بڑی جلد آپ کے ہاتھوں میں پہنچ جائے گی.قلیل المیعاد منصوبہ نمبر یہ ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے جامع سوانح حیات مرتب کر کے شائع کئے جائیں.یہ کام محترم ملک سیف الرحمان صاحب کے سپرد ہے.وہ اس وقت ایک ایڈیٹوریل بورڈ کی راہنمائی میں کام کر رہے ہیں اس ایڈیٹوریل بورڈ کے اراکین یہ ہیں.ا محترمی مخدومی چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ۲ - محتر می مخدومی قاضی محمد اسلم صاحب محترمی مخدومی شیخ محمد احمد صاحب مظہر محترمی مخدومی ابوالعطاء صاحب ۵- محترمی مخدومی میر محمود احمد صاحب محترمه مخدومه حضرت سیدہ ام متین صاحبه یہ کام شرع ہو چکا ہے اور ایک منصوبہ کے مطابق ہو رہا ہے اس پر وقت تو لگے گا لیکن جو کام شروع ہو جائے وہ بہر حال اپنے نیک انجام تک پہنچ جاتا ہے.قلیل المیعاد منصوبہ نمبر ۳ اہل علم اصحاب سے دینی مسائل پر تحقیقاتی تصنیفات تیار کرانا.اس کے لئے فضل عمر فاؤنڈیشن نے ایک ایک ہزار روپیہ کے پانچ انعامات مقرر کئے ہیں.اس سلسلہ میں پہلے سال کے لئے باون احباب کی طرف سے نام آچکے ہیں یہ تعداد بڑی خوش کن ہے کہ جنہیں اہل قلم بننا چاہئے وہ اہل قلم بنے کی طرف متوجہ ہور ہے ہیں.ایک قلیل المیعاد منصوبہ یہ ہے کہ ایک لائبریری کی بلڈنگ فضل عمر فاؤنڈیشن کی طرف سے بند کر صدرانجمن احمدیہ کے سپر د کر دی جائے.یعنی بلڈنگ کے جو اخراجات ہیں وہ فضل عمر فاؤنڈیشن
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹۸ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب برداشت کرے اور سٹاف کی تنخواہیں اور سائر وغیرہ کے اخراجات صدر انجمن احمد یہ ادا کرے.اس کے لئے زمین انہوں نے بڑی خاموشی کے ساتھ صدرانجمن احمدیہ سے ہی لے لی ہے خدا کرے بیہ عمارت بھی جلد بن جائے.بلڈنگ کے متعلق اندازہ ہے کہ اس پر اڑھائی لاکھ روپیہ خرچ آئے گا اور اس میں پچاس ہزار کتب رکھی جاسکیں اور تجویز ہے کہ اس کے ساتھ ایک مناسب ریڈنگ روم ہو اور تحقیق کرنے والے مصنفین کے لئے دس علیحدہ علیحدہ کمرے ہوں جہاں وہ بیٹھ کر سکون اور آرام اور خاموشی کے ساتھ اپنا کام کر سکیں.غرض یہ کام یا یہ منصوبے ہیں یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ یہ کام اور منصوبے ہیں فضل عمر فاؤنڈیشن کے جن کا ذکر اختصار کے ساتھ دوستوں کے سامنے میں نے اس لیے کر دیا ہے کہ ان سے ساری جماعت کو مطلع رکھنا بڑا ضروری ہے.صدر انجمن احمدیہ نے کام تو بہت پھیلائے ہوئے ہیں لیکن میں نے ان میں سے بعض چیزیں نوٹ کی ہیں یکم مئی سے ۳۱ / دسمبر تک صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے جو کتب اور پمفلٹ شائع ہوئے ہیں.ان کی مجموعی تعداد ۲۸۷۰۰۰ ہے جو پمفلٹ اور کتب ان کی طرف سے شائع ہوئے ہیں ان میں سے یہ بھی ہیں.ا.اسلامی اصول کی فلاسفی ۲ کشتی نوح ۳.ہمارے عقائد.۴.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.۵.ہماری تعلیم.۶.ایک غلطی کا ازالہ ہے.حضرت امام حسین علیہ السلام کا مقام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کی روشنی میں ( بہت سے اقتباسات جمع کئے گئے ہیں ).مقام خلافت (حضرت خلیفہ اول کے ارشادات کی روشنی میں ( ۹.احمدیت کا پیغام ۱۰.تین اہم امورا.قرآنی انوار ۱۲ تعمیر بیت اللہ کے تئیس عظیم الشان مقاصد ۱۳.امن کا پیغام ۱۴ تبلیغ ہدایت ۱۵.اچھی تربیت ۱۶.چالیس جواہر پارے۱۷_الحجة البالغة ۱۸.اسلام میں پردہ کی اہمیت ( از حضرت ام متین صاحبہ ) غرض اتنی کتب شائع ہوئی ہیں یعنی اتنے طریق لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے آپ کو بتائے گئے ہیں آپ ہر طریق کو استعمال کریں.صدر انجمن احمدیہ تعلیمی امداد بھی اور ضرورت مند دوستوں کی امداد بھی اپنی استعداد کے مطابق
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۹۹ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار کرتی ہے.متفرق امداد جو مختلف ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے گذشتہ سال دی گئی ہے اس کی رقم اسی ہزار (۸۰,۰۰۰) روپے بنتی ہے اور جو تعلیمی امداد ہے جو طلبہ کو پڑھائی جاری رکھنے کے لئے دی جاتی ہے وہ اس کے علاوہ ہے اور اس کی رقم اٹھائیس ہزار دوسو پنتا لیس ۲۸۲۴۵ روپے بنتی ہے.تحریک جدید ننے مشن.اپر والا فریج مغربی افریقہ میں ایک نیا مشن کھولا جا رہا ہے اس کے اخراجات مغربی افریقہ کے مشن برداشت کریں گے.فی الحال آئیوری کوسٹ سے ایک لوکل مبلغ وہاں بھیجا جا رہا ہے.۲.دمعومی فرانسیسی مغربی افریقہ میں ایک جماعت قائم ہو چکی ہے نائیجیریا سے ایک لوکل مبلغ وہاں بھجوایا جارہا ہے.آئیوری کوسٹ جہاں پہلے سے مشن قائم ہے تعمیر مرکز کے لئے زمین خرید لی گئی ہے.سکول.گھانا میں تین نئے مڈل سکول کھولے گئے ہیں اب پرائمری اور مڈل سکولوں کی تعداد گھانا میں انتیس ہوگئی ہے.سیرالیون میں ایک سیکنڈری سکول کھولا گیا ہے اس طرح سیرالیون کے سیکنڈری سکولوں کی تعداد چار ہو گئی ہے اس چوتھے سکول کے اساتذہ بھی پاکستان سے بھجوائے گئے ہیں مشرقی افریقہ میں بشیر ہائی سکول کمپالہ جس کی عمارت کی تعمیر پر ایک لاکھ پچہتر ہزار شلنگ ، پہلے ایک احمدی دوست کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ(understanding) پر کھولا گیا تھا.اب اس دوست نے وہ سکول جماعت کو دے دیا ہے.اسی طرح ایک اور جگہ ایک پرائمری سکول کھولا گیا ہے.تراجم قرآن تفسیر القرآن انگریزی جو تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے اس کا ایک خلاصہ تیار کیا گیا ہے جواب طبع ہو رہا ہے.اسی طرح فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ پر نظر ثانی کا کام مکمل ہو چکا ہے تفسیری نوٹ تیار ہورہے ہیں.امید ہے کہ یہ ترجمہ اسی سال چھپ جائے گا.انڈونیشین زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ تیار ہو چکا ہے.پہلے دس پاروں کے تفسیری نوٹ تیار ہو چکے ہیں.باقی زیر تیاری ہیں.ڈینش زبان میں ترجمہ مع تفسیری نوٹ شائع ہو چکا ہے اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ہزاروں کی تعداد میں فروخت بھی ہو چکا ہے.9966 ۲۰۰ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار کتابیں.اسی طرح تحریک جدید نے اسلامی اصول کی فلاسفی شائع کی ہے اسلامی اصول کی فلاسفی ” دعوت الا میر اور لائف آف محمد کا ترکی زبان میں ترجمہ تیار ہو چکا ہے انشاء اللہ جلد چھپ جائے گا.جرمن زبان میں ”لائف آف محمد “ کا ترجمہ تیار ہو چکا ہے.عربی زبان میں اسلام کا اقتصادی نظام کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے ” مسیح ہندوستان میں“ اور ”دعوۃ الا میں عربی زبان میں ترجمہ ہو رہا ہے اٹالین زبان میں "Why I believe in Islam" کا ترجمہ ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ جب ایک نعمت کو قبول کرتا ہے تو اپنی طرف سے بھی اس میں حصہ ڈال دیتا ہے اس میں ہماری کوشش کا کوئی دخل نہیں ہوتا.ایک اٹالین جو زبانوں کا ماہر ہے اور بڑا امیر آدمی ہے جرمنی میں ایک انشورنش کمپنی کا منیجنگ ڈائریکٹر ہے.وہ کمپنی اتنی بڑی ہے کہ چار پانچ دفا تر تحریک جدید وہاں سما جائیں.لیکن وہ بڑا بے نفس انسان ہے.مجھے بھی ایک دفعہ ایک سیریز آف لیکچر زیا سلسلہ تقاریر سننے کا اتفاق ہوا جو فرینکفرٹ یو نینورسٹی میں ہو رہا تھا ہمارے نواحمدی نومسلم بھائی محمود اسمعیل ٹھکس بڑے ہی مخلص اور علم دوست انسان ہیں وہ ہر سال ایک سلسلہ تقاریر کا اسلام پر یونیورسٹی میں منظم کرتے ہیں.اس اٹالین دوست نے کہا کہ مجھے وہ سلسلہ تقاریر سننے کا اتفاق ہوا اور اس کے بعد میرے دل میں شوق پیدا ہوا کہ میں اسلام سیکھوں چنانچہ میری توجہ اسلام کی طرف پھر گئی.اب یہ دوست دل سے مسلمان ہو چکے ہیں.لیکن ابھی تک ان کی بعض الجھنیں ہیں.اس لئے انہوں نے ظاہری بیعت نہیں کی.ویسے وہ کہتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں.وہ زبانوں کے بڑے ماہر ہیں.انہوں نے اسپرنتو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شروع کیا.اس ترجمہ کے وقت انہوں نے کئی اور تراجم بھی دیکھے ہوں گے لیکن ہماری طرف سے جو تراجم جرمن اور انگریزی زبانوں میں ہو چکے ہیں انہوں نے زیادہ تر انہیں سامنے رکھا جب وہ مجھ سے ملے اس وقت تک میں سپارے مکمل ہو چکے تھے دس پارے باقی تھے.اب انہوں نے اطلاع دی ہے کہ وہ بھی مکمل کر چکے ہیں.اسپرنتو زبان ساری زبانوں کا مجموعہ ہے اور یہ زبان ہر ایک انسان کی سمجھی جاتی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۰۱ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار ہے.یا یہ خیال ہے کہ ایسا ہو جائے گا.بہر حال یہ ایک نئی زبان ہے اور اس میں قرآن کریم کا ترجمہ ہو گیا ہے اور وہ دوست خود بھی اسلام کے اتنے قریب آگئے ہیں کہ کہتے ہیں میں دل سے مسلمان ہو چکا ہوں ویسے ابھی میں ظاہر نہیں ہو سکتا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے تراجم میں ایک اور کا اضافہ کر دیا ہے.اس طرح سراج الدین کے چار سوالوں کا جواب ،انگریزی زبان میں زیر طباعت انگریزی زبان میں ”دعوۃ الا میر“ کا خلاصہ تیار کیا گیا ہے جو شائع کیا جارہا ہے.جلسہ سالانہ کے موقع پر باہر سے دوست یہاں آتے رہتے ہیں لیکن اس دفعہ خصوصیت کے ساتھ تین ملکوں سے دوست تشریف لائے ہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا اور اس کی تبلیغ شروع کی تو قادیان کے رہنے والے اور عزیز ترین رشتہ داروں نے کہا کہ ہم تیری تبلیغ سنیں گے بھی نہیں اور کسی کو بھی سنے نہیں دیں گے.اسی زمانہ میں دنیا کے پیدا کرنے والے خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اپنی قوت اور اپنی بد نیتوں پر بھروسہ کرنے والے ناکام ہو گئے ہیں اور جیسا کہ وعدہ دیا گیا تھا وہ آواز ساری دنیا میں پھیلی اور دنیا کے کناروں تک وہ تبلیغ پہنچ گئی.اس وقت دنیا کے تین ایسے ملکوں کے نمائندے یہاں موجود ہیں جن ملکوں کے درمیان ہزار ہا میل کا فاصلہ ہے اور ان میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں اس لئے سرشار ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسین اور احسان کرنے والا وجود دیکھا اور پایا.وہ دنیا جہاں کا مالک ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا اور پورا کرتا چلا جا رہا ہے کام تو اس کے ہیں اور وہ کر رہا ہے اس کی مہربانی ہے ہم پر کہ وہ ہم سے کہتا ہے کہ انگلی کٹوا کر شہیدوں میں داخل ہو جاؤ.تم تھوڑی سی قربانیاں دو اور ساری کامیابی کا سہرا میں تمہارے سر پر باندھ دوں گا.اس کامیابی میں سینکڑواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی ہمارا نہیں ہوتا مگر وہ پیار کرنے والا ربّ جب کا میابی اپنے فضل سے دیتا ہے تو اس کا کریڈٹ اور اس کا سہر اوہ ہمارے سر باندھ دیتا ہے یہ اس کا فضل ہے کہ وہ قربانیوں کے لئے ہمیں آگے بلاتا ہے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۰۲ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب اللہ تعالیٰ نے ماریشس میں ایک انقلاب پیدا کیا.ہمارے مبلغ اسماعیل منیر صاحب (جو بڑے مخلص کارکن ہیں لیکن جسمانی لحاظ سے بڑے کمزور ہیں چوبیس گھنٹے کام کرنے والے ہیں اور صحیح وقف کی روح ان کے اندر ہے دوست ان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں ) ابھی وہاں پہنچے نہیں تھے یہاں سے روانہ ہو گئے تھے.اس وقت مجھے رؤیا میں ایک نظارہ دکھایا گیا اور اس کی صحیح تعبیر اس وقت میرے ذہن میں نہیں آئی تھی میرے ذہن میں اس وقت دو تعبیر میں آئیں کہ یا یوں ہوگا اور یا یہ دوسری شکل اختیار کرے گا.اگر پہلی تعبیر ہوتی تو اس میں انذار کا پہلو بڑا نمایاں تھا اور دوسری تعبیر میں تبشیر کا پہلو نمایاں تھا اور اس بات کا پتہ لگتا تھا.ان کے وہاں پہنچنے پر کہ اس کی اصل تعبیر کیا ہے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان دنوں میں بہت دعائیں کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ اس رویا کے انذاری پہلو سے ہمیں محفوظ رکھے جس وقت وہ وہاں پہنچ گئے.تو انذاری پہلو کا واقع ہونا ناممکن بن گیا تب مجھے سمجھ آئی کہ اس رؤیا کی وہی تعبیر صحیح تھی جو تبشیری رنگ اپنے اندر رکھتی ہے.میں نے انہیں اسی وقت لکھ دیا تھا کہ میں نے یہ رویا دیکھی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ واقعہ اس طرح ہوگا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مطابق وہاں کچھ تبدیلیاں کرنی شروع کی ہیں.وہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی فعال ہے بڑے پیسے خرچ کرتی ہے.خود کفیل ہے ان کے اخلاص اور مستعدی کا آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ( شاید یہاں بھی لوگ اس کی جرات نہ کرسکیں ) کنکریٹ یعنی سیمنٹ اور لوہے کی چھت جو ایک خاص قسم کی ہوتی ہے.اس کے نیچے ایک عارضی چھت بنائی جاتی ہے.پھر اس کے اوپر سلیپ ڈالا جاتا ہے.وہاں کے مشن ہاؤس پر اس قسم کا چھت وہاں کے احمدیوں نے وقار عمل کے ذریعہ سے ڈالا ہے اور مزدوری پر ایک پیسہ بھی ضائع نہیں کیا.پھر وہ اپنا ایک سکول کھول رہے ہیں.بڑی ہمت والی جماعت ہے.اللہ تعالیٰ ان کی ہمتوں کو قائم رکھے اور بہترین جزا ان کے اعمال کی انہیں دے.اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ ماریشس والوں کو ایک اور نشان بھی دکھایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ۲۲ نومبر کو امام اسماعیل منیر نے مجھے خط لکھا ان کے الفاظ یہ ہیں.”ہمارے ہاں فرانس سے ایک پادری آیا ہے.جو دو تین ہفتوں سے عیسائیت کا پرچار کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مسیح نے حکم دیا ہے کہ جا کر ساری دنیا کو انجیل کا پیغام دوں اور بیماروں کو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ٢٠٣ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار چنگا کروں پر چار کے دوران میں ہی بیماریوں کو دور کرنے کا دعوی بھی کرتا ہے اور شاید دو چار فیصدی کو مسمریزم کی وجہ سے فائدہ بھی ہو جاتا ہوگا.یہاں کے لوگ اس کا شکار بآسانی ہور.ہیں عیسائی ہندو اور مسلمان بھی.ہم نے اس پادری کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا چیلنج پیش کیا ہے کہ ہم چالیس مریض لے لیں دس یورپین ، دس انڈین، دس چینی اور دس کریول (Creole) جو وہاں کے مقامی ہیں اور نصف نصف بانٹ کر دعا کریں پھر دیکھیں گے کہ کیا اسلام کا خدا ہماری مدد کرتا ہے یا مسیح ناصری تمہاری سنتا ہے آج پمفلٹ کا پروف دیکھ چکا ہوں اور دو پہر تک پانچ ہزار چھاپ کر آج ہی تقسیم کر دیں گے اور اس کے بعد انہوں نے یہ فقرہ کہہ دیا کہ اس معاملہ میں مزید راہنمائی کے بھی محتاج ہیں.پہلے تو میں بڑا خوش تھا کہ وہ دلیری کے ساتھ کام کر رہے ہیں.لیکن جب یہ فقرہ پڑھا تو میری طبیعت میں یہ احساس پیدا ہوا کہ کہیں ڈر نہ جائیں اور کمزوری نہ دکھا جائیں.میں نے اسی وقت ان کو جواب دیا کہ آپ دلیری سے اور بے دھڑک ہو کر یہ چیلنج دیں.آپ جیتیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.چنانچہ اس کے بعد ان کا یہ خط ملا ہے.جو ۱۲ار دسمبر کا لکھا ہوا ہے.کہ حضور کا حوصلہ افزائی کا خط ملا ہم نے اس پادری کو بے دھڑک چیلنج دیا ہے.پمفلٹ ہزاروں کی تعداد میں شائع کیا.مگر وہ مقابلہ پر آنے سے بھاگ گیا بلکہ ہمارا شہر روز ہل چھوڑ کر دوسری ایک جگہ چلا گیا ہے.“ زندہ خدا کی زندہ محبت کے یہ نظارے آج دنیا میں اسلام کو غالب کر رہے ہیں.مغربی اور مشرقی افریقہ میں جب وہ لوگ جن کو ہزاروں سال سے دنیا حقارت سے دیکھتی چلی آرہی ہے.احمدیت اور اسلام کے ذریعہ یہ تجربہ حاصل کرتے ہیں کہ ان کا خدا ان سے پیار کرنے والا ہے اور وہ اپنے پیار کو اپنے زندہ نشانوں سے ظاہر کرنے والا ہے تو ان کے دلوں میں اتنی پختہ محبت اسلام سے اور اسلام کے خدا سے پیدا ہو جاتی ہے کہ آپ اس کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے.ہزار ہا نشانات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں افریقہ میں پیدا ہونے والے اور دنیا کی ذلتیں برداشت کرنے والے حبشیوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے دلوں میں پیدا ہوئی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) اور اسلام کی حقانیت ان پر واضح ہوئی.۲۰۴ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار غرض تین ممالک کے نمائندے اس وقت ہمارے سامنے آئے انہوں نے اپنے بعض جذبات اور خیالات کا اظہار کیا اور ہماری توجہ اور ہمارے خیالات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی طرف لوٹے اور اس طرف رجوع کیا اور جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ہم نے یہ دیکھا کہ و ہ آواز جس کو یہ کہا گیا تھا کہ قادیان کی گلیوں میں بھی بلند ہونے نہیں دی جائے گی وہ دنیا کی فضا ؤں میں گونجی اور گونج رہی ہے اور گونجتی چلی جائے گی.بس جن محبت کے جذبات کا انہوں نے اظہار کیا ہے میں اپنی طرف سے اور آپ سب کی طرف سے ان تمام جماعتوں کو جن کی محبت کا اظہار یہاں کیا گیا ہے اور جن کا سلام ہمیں پہنچایا گیا ہے.السلام علیکم پہنچا تا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ہمارا خدا جس طرح ہم پر صبح و شام اپنی رحمتوں کا نزول کرتا چلا آیا ہے اور کرتا چلا جارہا ہے اسی طرح وہ ان تمام جماعتوں پر بلکہ جہاں جہاں احمدی ہیں ان پر رحمتوں کو نازل کرتا چلا جائے اور ہر طرح ان کو اپنی حفاظت اور امان میں رکھے.دوران سال اکیس مبلغ پاکستان سے باہر گئے اور سترہ مبلغ اپنے کام کا زمانہ پورا کر کے واپس آئے انشاء اللہ پھر جلدی واپس چلے جائیں گے.مساجد.نائیجیریا میں پانچ نئی مساجد زیر تعمیر ہیں سیرالیون میں جماعت کے ایک سیکنڈری سکول میں ایک مسجد بھی تعمیر کی جارہی ہے.کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی دی ہوئی توفیق سے ہماری احمدی مستورات نے اللہ کا نام بلند کرنے کے لئے ایک مسجد تعمیر کی ہے جو اس سال مکمل ہوئی اور جس کے افتتاح کے لئے علاوہ اور مقاصد کے مجھے کوپن ہیگن اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں جانا پڑا.اب اس کے ساتھ ہی میں اپنے سفر کے متعلق اللہ تعالیٰ کے بعض نشانوں کا ذکر کروں گا اور اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان نشان ظاہر کیا ہے اس کا بھی ذکر کروں گا.سفر سے پہلے میرے دو جذبات تھے.ان کا اظہار میں نے اسی وقت کر دیا تھا اور وہ اخبار کے ذریعے دوستوں کے سامنے آچکے ہیں.ایک طرف تو میرے دل میں شدید تڑپ پیدا ہوتی تھی کہ میں یورپ کے ملکوں میں بسنے والوں کو اپنے پیدا کرنے والے رب کا یہ پیغام پہنچا دوں کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۰۵ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار وہ اس کی طرف رجوع کریں اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عافیت بخش سایہ کے نیچے آجائیں ورنہ وہ تباہ ہو جائیں گے اور دوسری طرف یہ احساس بھی اپنی شدت پر تھا کہ میں ایک بڑا ہی نالائق اور کم مایہ انسان ہوں اور یہ ذمہ داری بڑی اہم ہے اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو میرے بس کی یہ بات نہیں ہے.تب میں نے بے حد دعائیں کیں اور آپ بھائیوں سے بھی کہا کہ آپ بڑی کثرت سے یہ دعائیں کریں کہ جس مقصد کے لئے میں وہاں جانا چاہتا ہوں وہ مقصد پورا ہو.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میری زبان میں تاثیر پیدا کرے اور میری ہر حرکت اور سکون سے وہ متاثر ہوں اس رنگ میں کہ وہ اسلام کی طرف رجوع کرنے کے لئے تیار ہو جائیں وہ میری طرف متوجہ ہوں اور میری باتوں کو غور سے سنیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہم عاجز بندوں کی دعاؤں کو سنا اور سفر اختیار کرنے سے قبل ہی اس نے ہم میں سے بیسیوں کو مبشر رویا کے ذریعہ تسلی دی کہ بندہ عاجز اور کم مایہ ضرور ہے.مگر جب اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال ہو جائے تو اسے کسی وجہ سے کسی ملک سے کسی طاقت سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے.کیونکہ وہ جو سب طاقتوں کا مالک ہے اور سب قوتوں کا سرچشمہ ہے وہ اس کی پیٹھ کے پاس کھڑا ہوتا ہے وہ اس کے پہلو میں ہوتا ہے اور کہتا ہے گھبراؤ نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں.میں نے ایک نہایت ہی حسین رؤیا دیکھی تھی جو چھپ بھی چکی ہے اس کی تعبیر کا ایک پہلو جو میرے ذہن میں آیا تھا وہ میں نے ابھی تک نہیں بتایا کیونکہ اس میں ان قوموں کے لئے انذار کا پہلو ہے.( ہمارے لئے نہیں ان قوموں کے لئے انذار کا پہلو ہے ) اور میں دعا کر رہا ہوں آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہلاکت سے محفوظ رکھے اپنی نعمتوں سے نوازے اور اپنے اس پیار اور رضا کا انہیں وارث بنائے جو اس وقت تک انہیں نہیں مل سکتی جب تک کہ وہ اسلام پر ایمان لا کر اپنی گردنوں کو قرآن کریم کے جوئے نیچے نہیں رکھ دیتے اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ اور عقل عطا کرے اور وہ اپنی فلاح اور بہبود کو سمجھنے لگیں اور اللہ کو پہچانے لگیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن پر عاشق ہو جائیں اس مبشر رویا کے ذریعہ جس ہستی نے ہمیں تسلی دلائی ہے وہ تمام قدرتوں کی مالک ہے.میں نے اپنے سفر کو اپنی اور آپ کی دعاؤں کے ساتھ شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل کیا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۰۶ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب اور اتنے رحمت کے نشان دکھائے کہ میری عقل تو دیکھ کے حیران رہ جاتی ہے کہ کجا ہم عاجز بندے اور کجا اللہ تعالیٰ کے فضل جو ہم پر نازل ہو رہے ہیں اور جب میں نے کہا کہ اثر ڈالے اور میرے وجود میں اور میری ہر حرکت اور سکون میں کوئی ایسی چیز پیدا کر دے کہ وہ اس سے متاثر ہوں تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے قبول کیا.قریباً ہر ملک کے اخباروں نے نوٹ لکھنے سے پہلے بڑے ہی تعریفی کلمات میرے متعلق بھی لکھ دیئے.یہاں تک کہ بڑے بڑے پادریوں نے اور بڑے بڑے ماہرین علوم اور مستشرقین نے جو مجھ سے ملے ، بڑے تعریفی کلمات انہوں نے کہے اور مجھے اونٹوں پر موتیں یاد آ گئیں اور میں نے سمجھا کہ انہوں نے مجھے نہیں دیکھا.بلکہ وہ دیکھا ہے جو خدا تعالیٰ انہیں دکھانا چاہتا تھا جیسا کہ اونٹوں پر موتیں دکھائی گئی تھیں اور وہ واقعہ یوں ہے کہ بدر کے میدان میں مسلمانوں کی فوج یا مجاہد ایک طرف تھے اور کفار کا لشکر دوسری طرف.کفار نے ایک شخص کو بھیجا کہ وہ اندازہ لگائے کہ مسلمانوں کا کتنا بڑ الشکر ہے اور ان کے پیچھے کوئی کمک تو نہیں چھپی ہوئی چنا نچہ وہ آیا اور اندازہ لگایا.واپس جا کر کفار کو اس نے یہ بتایا کہ میرے اندازے کے مطابق مسلمان تین سو کے لگ بھگ ہیں اور کمک بھی کوئی نہیں لیکن میں تمہیں یہ بتا تا ہوں کہ میں نے اونٹوں پر انسان نہیں موتوں کو سوار دیکھا ہے.اس لئے میرا مشورہ ہے کہ تم اس قوم سے جو موتیں ہیں انسان نہیں جنگ نہ کرو بلکہ واپس لوٹ جاؤ ور نہ شکست کھاؤ گے پس جس خدا نے اس شخص کو اونٹوں پر موتوں کا نظارہ دکھایا تھا.اس خدا نے ان لوگوں کو جو شخص دکھا یا وہ میں نہیں تھا بلکہ وہ تھا جو خدا انہیں دکھانا چاہتا تھا.غرض وہ تعریفی کلمات کہتے تھے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے.مجھے اونٹوں پر موتیں یاد آ گئیں اور اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت اور تصرف تھا کہ میرے جیسے انسان کے متعلق جو نہایت ہی حقیر اور نالائق اور کم مایہ ہے اور عاجز ہے انہوں نے یہ کلمات کہے لیکن میں خوش تھا اس لئے نہیں کہ میری تعریف کی جارہی ہے بلکہ اس رنگ میں وہ مجھے نہ دیکھتے تو میری باتوں کی طرف توجہ نہ کرتے اور ان کے اخبارات اس تعلیم کو شائع نہ کرتے جو میں چاہتا تھا کہ وہ شائع کریں اور ہمارا مقصد حاصل نہ ہوتا.چنانچہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ سامان پیدا کر دیئے کہ وہ اپنے اخباروں میں وہ کچھ لکھنے پر مجبور ہوئے کہ دوسری صورت میں وہ ہرگز نہ لکھتے جو میں نے کہا اور انہوں نے لکھا اس کے چند نمونے میں دوستوں کے سامنے رکھوں گا لیکن اس سے پہلے میں کچھ اور کہنا چاہتا ہوں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۰۷ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.ہمارے اس سفر کے متعلق جو باتیں میں نے کہیں ان کے متعلق صرف اخباروں نے نہیں لکھا بلکہ ریڈیو نے بھی انٹرویو نشر کئے اور خبریں دیں اور ٹیلی ویژن والوں نے بھی ہم سے بڑا تعاون کیا بلکہ ان کے نمائندے وہ جواب اچکتے تھے جو ہمارے لئے سب سے اچھے اور عیسائیت کے لئے سب سے خراب تھے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ ایک نمائندہ نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس طرح اسلام کو پھیلائیں گے؟ میں نے کہا تمہارے دلوں کو جیت کر.انہوں نے کہا ہم نے یہ جواب ضرور لینا ہے حالانکہ یہ جواب ان کو نہیں لینا چاہئے تھا انہیں تو کوئی ایسی بات لینی چاہئے تھی جو غلطی سے میرے منہ سے نکل جاتی یا ایسے رنگ میں نکلتی کہ وہ اس کو غلط جامہ پہنا دیتے.بہر حال الہی تصرف تھا جو ہمیں ہر جگہ نظر آ رہا تھا.ریڈیو والوں کے متعلق میں صرف اتنی بات بتا دیتا ہوں کہ لنڈن میں بغیر اطلاع کے بی بی سی کانمائندہ آ گیا تھا.میں نے اس سے کہا تم مجھ سے تبادلہ خیالات کرو.پتہ نہیں تم کیا سوال لکھ لائے ہو.مجھے تو ان کا پہلے پتہ لگنا چاہئے تھا کہنے لگا نہیں نہیں.اس کی کیا ضرورت ہے.یہ کاغذ پڑا ہوا ہے.اس پر میں نے بعض سوالات لکھے ہوئے ہیں میں بولتا جاؤں گا اور آپ جواب دیتے جائیں.ایک سیکنڈ کے لئے میں ضرور گھبرایا لیکن پھر میں نے سوچا کہ جب پہلے مجھ سے سوال کئے گئے تھے تو میں نے کون سے جواب دیئے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ جواب سکھاتا تھا اور میں دے دیتا تھا اب بھی وہ خدا تی اپنے کامل علم اور کامل قدرت کے ساتھ میری مدد کرے گا.چنانچہ میں نے اسے کہا اچھی بات ہے تم سوال کرتے جاؤ اور میں جواب دیتا جاؤں گا.مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ اس نے کیا سوال کئے اور میں نے کیا جواب دیئے.لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ تین ہفتے متواتر بی بی سی نے اپنے ویکلی (ہفتہ وار ) پروگرام آؤٹ لک (out look) میں براڈ کاسٹ کیا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ بی بی سی ایک پروگرام کو ایک ہفتہ کے بعد دوسری دفعہ اور پھر تیسری دفعہ براڈ کاسٹ کرے اور ساری دنیا میں وہ آواز گونجی وہ آواز میری نہیں تھی بلکہ وہ آواز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تھی.پہلی دفعہ جب یہ انٹرویو براڈ کاسٹ ہوا تو ہم لنڈن ہی میں تھے.10 اور ا ار اگست کی درمیانی رات دو مختلف فری کو مکسیز اور مختلف وقتوں میں وہ براڈ کاسٹ کیا گیا لیکن وہ ایک دن کا پروگرام تھا.پھر اگلے ہفتہ ہوا.پھر تیسرے ہفتہ یا ۲۳ اگست کو ( غالباً ۲۳ تاریخ تھی ) مولوی نذیر احمد صاحب علی کے لڑکے نے جو مغربی افریقہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۰۸ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار میں ہمارے ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں.مجھے لکھا کہ ہمارے پاس فرقان آیا ہوا تھا اور میں اور میری بیوی سفر یورپ کے متعلق ہی باتیں کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ کر ہمارے دل اس کی حمد سے معمور تھے.بے خیالی میں میں نے سوچ اون on کر دیا.معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ پروگرام سننے کے عادی تھے.مجھے پتہ نہیں تھا کہ پروگرام کیا ہے لیکن عین اس وقت اناؤنسر کہہ رہا تھا کہ ہیڈ آف دی احمد یہ کمیونٹی کا انٹرویو براڈ کاسٹ کیا جا رہا ہے.ہم نے اس پروگرام کو شوق سے سنا اور دماغ میں خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور اللہ تعالیٰ نے خود بخود اپنی طرف سے یہ سامان پیدا کر دیئے کہ آج بی بی سی کا پروگرام ساری دنیا کی فضاؤں میں اسی آواز کو پھیلا رہا ہے اور اس کی اشاعت کر رہا ہے اور ہمارے دل خدا تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہو گئے.بڑے جوش میں انہوں نے یہ خط لکھا ہے.واقعہ تو یہ ہے کہ ہم کمزور ہیں.ہمارے پاس پیسے بھی نہیں کہ اگر ہم وہ خریدنا چاہتے تو پتہ نہیں اتنے وقت کے لئے وہ کتنے ہزار پاؤنڈ مانگتے.لیکن اللہ تعالیٰ نے تصرف ایسا کیا کہ بی بی سی کا نمائندہ آیا اپنی مرضی سے تھا بلکہ پہلے تو میں نے انکار ہی کر دیا تھا.میں نے کہہ دیا تھا کہ چونکہ تم نے میرے ساتھ وقت مقرر نہیں کیا تھا اس لئے میں تم سے نہیں ملتا لیکن بعد میں خیال آیا کہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کا ایک موقع پیدا کر دیا ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.چنانچہ نہ کرنے کے بعد ( امام رفیق میری نہ لے کر کمرہ سے باہر چلے گئے تھے ) میں نے ان کو پھر بلایا اور امام رفیق کو کہا کہ اس وقت میں ایک ملاقات کر رہا ہوں اس کے بعد وہ آجائیں غرض اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ سامان پیدا کر رہا تھا.پہلے سوئٹزرلینڈ میں ٹیلی ویژن والوں نے انٹر ویو لیا اور وہ اس ملک میں دکھایا گیا.پھر جرمنی میں فرینکفرٹ والوں نے انٹر ویولیا اور وہ اس ملک میں دکھایا گیا اور وہاں جو واقف لوگ تھے ان سے پوچھ کر یہ اندازہ لگایا کہ ٹیلی ویژن کی اس خبر کو فرینکفرٹ اور اس صوبہ کے ساٹھ لاکھ آدمیوں نے دیکھا ہے جہاں وہ ٹیلی ویژن دیکھا جاتا ہے.ساٹھ لاکھ آدمیوں کا ہمارا کم سے کم اندازہ ہے اس علاقہ میں جہاں وہ ٹیلی ویژن اسٹیشن خبریں دتیا ہے انداز ا ایک کروڑ اور سوا کروڑ کے درمیان ٹیلی ویژن سیٹ ہیں ہم نے خیال کیا کہ شاید چالیس فیصدی نے یہ پروگرام نہ دیکھا ہو گو آجکل تو ویسے ہی ٹیلی ویژن کا جنون ہے لیکن کوئی شخص باہر گیا ہوتا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۰۹ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار ہے یا کوئی اور عذر ہوتا ہے مگر ساٹھ فیصدی لوگوں نے ضرور دیکھا ہوگا.اس طرح ہمارا اندازہ ہے کہ ساٹھ لاکھ آدمیوں نے یہ پروگرام دیکھا ہوگا پھر ہم کو پن ہیگن گئے تو وہاں دوا یجنسیز یعنی دو کمپنیوں نے تصویریں لیں.ایک انٹر نیشنل ٹی وی تھی اور ایک ڈینیش ٹی وی تھی.یہ تصویریں پہلے ڈنمارک کے ملک میں دکھائی گئیں وہاں پتہ نہیں کتنے لوگوں نے انہیں دیکھا لیکن انٹر نیشنل ٹی وی نے اطلاع دی ہے کہ کوپن ہیگن کی مسجد کی ٹی وی ہم سے باہر کے ملکوں نے بھی لی ہے.جن میں سے صرف چند ایک کا ہمیں پتہ لگ سکا ہے مثلاً وہ ڈنمارک میں دکھائی گئی ہے.نائیجیریا میں دکھائی گئی ہے گھانا میں دکھائی گئی ہے.کویت میں دکھائی گئی ہے مراکش میں دکھائی گئی ہے.مصر میں دکھائی گئی ہے اور جرمن کے سارے ٹی وی اسٹیشنوں نے اسے دکھایا ہے.سیرالیون میں بھی یہ دکھائی گئی ہے اور سعودی عرب نے اس کو دو دفعہ دکھایا ہے اور مشرق وسطی کے اور بہت سارے ملکوں نے بھی دکھایا ہے گو یہ ہمارا قیاس ہے معین ناموں کا مجھے پتہ نہیں اس لئے میں وہ نام نہیں لیتا.مصر کا نام امام کمال یوسف کے خط میں ہے کہ وہاں بھی یہ دکھائی گئی ہے اور مراکش کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ تصویر نہیں دکھائی گئی لیکن جو الفاظ ریل کے تھے.مثلاً میری تلاوت تھی اور بہت سارے دوسرے رے تھے وہ اس کے اوپر آگئے ہیں.اس طرح وہ مراکش میں بھی دکھائی گئی ہے ہمارے بعض آدمیوں نے جو نائیجیریا سے آئے ہوئے تھے.انہوں نے بتایا کہ ئی کروڑ آدمیوں نے نائیجیریا میں یہ ٹی وی دیکھی ہے.جرمنی کے اسٹیشن پر دکھائی گئی تو وہاں بھی کئی کروڑ آدمیوں نے اسے دیکھا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے یہ سامان کر دیا کہ گو مختصر ہی سہی لیکن ان کے کانوں تک یہ آواز پہنچے اور انہوں نے ایک شکل دیکھ لی جو اپنے ملک سے سفر کر کے صرف اس مقصد سے ان ملکوں میں گیا تھا کہ اسلام کے ساتھ ان کا تعارف کرائے اور انہیں پوری وضاحت کے ساتھ اور بغیر کسی مداہنت کے یہ بات پہنچا دے کہ آج ہلاکت سے بچنے کی ایک ہی راہ ہے اور وہ راہ اسلام کا بتایا ہوا صراط مستقیم ہے.غرض کروڑ ہا آدمیوں نے اس شکل کو ٹیلی ویژن پر دیکھا.ضمناً اس ٹی وی کے نتیجہ میں پاکستان کی عزت بھی بہت بڑھی کیونکہ سعودی عرب اور کویت اور مصر اور دوسرے مشرق وسطی کے ملکوں نے افتتاح مسجد ڈنمارک کی یہ تصویر میں ٹی وی پر اس اعلان کے ساتھ دکھائیں کہ پاکستان یورپ میں بڑی تبلیغ کر رہا ہے اور مساجد بنا رہا ہے اور ایک
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۱۰ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.مسجد یہ بھی ہے جو ڈنمارک میں انہوں نے بنائی ہے.غرض اس طرح ہمیں اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی خدمت کی بھی توفیق دے دی.جرمنی ، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ، ڈنمارک اور انگلستان کے اخبارات نے بڑی کثرت سے نوٹ لکھے اور بڑی کثرت سے تصاویر شائع کیں اور اخباروں نے میری وہ بات جو میں انہیں پہنچانا چاہتا تھا میرے الفاظ میں شائع کر دی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ تلے آجاؤ ورنہ تباہ ہو جاؤ گے.یہ خدا کی شان ہے کہ جو تراشے اس وقت تک ہمارے پاس آچکے ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ ۱۳۶ اخبارات نے ہماری تصاویر اور خبروں کو بڑی نمایاں جگہ دی ہے بعض اخباروں نے پورا ایک صفحہ دیا ہے.اس طرح ڈنمارک سے ۱۸۲ تراشے آئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ سو کے قریب ایسے ہیں جنہوں نے نصف صفحہ پونا صفحہ یا پورا صفحہ کے نوٹ دیئے ہیں.ایڈیٹوریل لکھے ہیں.وہاں ایک چرچ بلیٹن شائع ہوئی.اس میں ایک پادری نے مسجد کے افتتاح کی تقریب کے متعلق اپنے مطلب کا ایک نوٹ دیا ہے اور اس نے اس کو شروع اس طرح کیا ہے کہ وہ ڈنمارک کے ایک باشندے کو مخاطب کر کے کہتا ہے.آر یواے مسلم ود آؤٹ نوئنگ راٹ (Are you a muslim without knowing it) یعنی تم مسلمان ہو اور تمہیں پتہ نہیں کہ تم مسلمان ہو اور آگے لکھا ہے کہ ڈنمارک کے رہنے والوں کے عقائد بالکل مسلمانوں والے ہیں وہ اس طرح ایک دوسرے کے مشابہ ہیں جیسے پانی کے دو قطروں میں کوئی فرق نہیں ہوتا ( وہ اتنے آئی ڈنٹی کل (Identical) ہیں کہ لائیک ٹو ڈراپ آف واٹر (like two drops of water ) اور پھر آگے رونا رویا ہے کہ یہ کوئی عیسائیت نہیں اور پھر اس نے یہ فرق بتایا ہے کہ یہ مسیح کو رسول کہتے ہیں اور جس میں اللہ تعالیٰ نے حلول کیا تھا اس کو خدا نہیں مانتے اور یہ کہ وہ مر گیا تھا اور اس کے بعد اور رسول بھی آئے ہیں.اور یہ تو عیسائیت نہیں ، عیسائیت تو یہ ہے کہ خدا خود نازل ہوا اور ایک انسانی جسم میں اس نے حلول کیا.غرض اس نے اپنے سب پرانے عقائد کا ذکر کیا ہے جن کو وہ خود چھوڑتے چلے جارہے ہیں.بہر حال وہاں کے اخبارات نے بڑی بڑی تصاویر بھی دی ہیں اور نوٹ بھی لکھے ہیں پھر میں نے سوچا جس طرح میں نے کہا میں نے ایک تقریر میں بیان بھی کیا تھا کہ اگر ۳۶ انہیں ایک کروڑ چھتیس لاکھ اخبار بھی لکھتا لیکن لوگ اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے تو ان کا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۱۱ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار لکھنا نہ لکھنا برابر ہو جا تا لیکن اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ دلوں اور آنکھوں پر ایسا تصرف کیا کہ جو یہ اخبارات لکھ رہے تھے.پڑھنے والے اس کو پڑھ رہے تھے اور اس کا ہمیں اس طرح پتہ لگتا تھا کہ جب کبھی تھوڑا بہت وقت ملتا تھا اور ہم بازار جاتے تو کوئی شخص بھی ہمیں ایسا نظر نہ آتا تھا جو ہمیں پہچانتا نہ ہو.سوئٹزرلینڈ میں باہر جانے کا زیادہ اتفاق نہیں ہوا.ہالینڈ میں بھی نہیں ہوا.لیکن جہاں ہم باہر گئے ہیں وہاں جو لوگ ہوتے تھے کھڑے ہو جاتے تھے اور ہماری طرف دیکھنے لگ جاتے تھے وہ ہمیں پہچانتے تھے.دکانوں پر جاتے تو وہ سودا بعد میں دکھاتے تھے پہلے ہماری وہ تصویر ہمارے سامنے رکھ دیتے جو اخبار میں چھپی ہوئی ہوتی تھی اور اس کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ ہم آپ کو پہچانتے ہیں.ڈنمارک میں جب کہ میں نے ایک دن عورتوں کی تقریر میں بتایا تھا.ایک دن میں نے سب کی دعوت کی اور میں ان سب کو پکنک پر لے گیا.تاہم کچھ دیر تک اکٹھے بیٹھ سکیں اور باتیں کرسکیں.کیونکہ وہ سب لوگ ( یعنی مقامی احمدی اور باہر سے آئے ہوئے احمدی بھی بہت مصروف رہے تھے.وہاں خلیفہ کو خلیفن کہتے ہیں.جو آدمی بھی بلا استثناء ہمارے پاس سے گذرتا تھا اور چند قدم آگے جا کر وہ اپنے ساتھی سے بات کر تا تھا تو یہ خلیفن کا لفظ ضر ور بولتا تھا.ہمارے دوستوں کو ان کی زبان تو آتی نہیں تھی.لیکن وہ یہ لفظ سن کر کہتے کہ ہم نے اس سے یہ لفظ سنا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ وہ آپ کو پہچانتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ جو خبریں اخبارات میں شائع ہوں وہ لوگ پڑھیں اور پھر ان خبروں کا ان پر اثر بھی ہو.دیر بہت ہو گئی ہے مختصر میں ایک واقعہ آپ کو بتا دیتا ہوں.امام کمال یوسف نے لکھا ہے کہ ’اب دورے کے بعد حکومت کے تمام ان اداروں میں جہاں وہ سکول کے ٹیچر ز کو ٹریننگ دیتے ہیں جماعت احمد یہ ایک ضروری مضمون قرار دے دیا گیا ہے.“ یعنی اب وہاں ہر ایک کو یہ مضمون پڑھنا پڑے گا.جانے سے پہلے میں نے ایک تقریر کی تھی.جس میں بعض فقرے یہ بھی تھے کہ میرے دل میں درد ہے کہ دنیا کے لئے ایک ہولناک تباہی مقدر ہے اور دنیا کی قومیں اس سے بے خبر ہیں.میر افرض ہے کہ میں انہیں بتاؤں کہ ان کے لئے ایک عظیم تباہی مقدر ہے.انہیں چاہئے کہ وہ اس راستہ کو اختیار کریں جس پر چل کر وہ اس تباہی سے بچ سکتے ہیں.اور وہ راستہ یہی ہے کہ وہ اسلام کی عافیت بخش آغوش میں آئیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۱۲ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب داخل ہوں اور پاک دل اور پاک ارادہ ہو کر آستانہ الوہیت پر گریں اور خدا کی امان کے نیچے جمع ہوں.وہاں جا کر جو باتیں میں نے ان کو کہیں اور جن پر اخباروں نے نوٹ لکھے.وہ اخباروں ہی کی زبان میں آپ کو بتا تا ہوں.سوئٹزر لینڈ کے ایک اخبار نے لکھا کہ میں نے ان کو بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی ہے کہ روس جس کا یہ اعلان ہے کہ وہ خدا کا نام صفحہ زمین سے مٹادے گا بالآ خر حق کی طرف رجوع کرے گا اور وہاں کے رہنے والوں کی اکثریت اسلام کی طرف مائل ہو جائے گی اور دنیا کے محسن اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے لگے گی.گو آج یہ بات ناممکن نظر آتی ہے لیکن میرا دل اسے سچا سمجھنے پر مجبور ہے کیونکہ ایسی ہی ناممکن نظر آنے والی باتیں پہلے بھی بتائی گئی تھیں اور وہ پوری ہوگئیں.ایک اخبار ہٹ فادور لانڈ (Het vadar land ) نے جو نوٹ دیا ہے اس میں ایک فقرہ یہ بھی لکھا کہ میں نے انہیں یہ کہا ہے کہ ” میرے نزدیک دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہی ہوگا“ اسی طرح سوئٹزر لینڈ کا ایک بہت بڑا اخبار ہے اور وہ بڑا ہی متعصب اخبار ہے اور وہ کبھی بھی اسلام کے حق میں نہیں لکھتا تھا بلکہ ہمیشہ اسلام کے خلاف لکھتا تھا.اور جب کبھی ہمارے امام مشتاق احمد ان کو جواباً خط لکھتے تو وہ اسے شائع نہیں کرتا تھا.جب میں وہاں گیا ہوں تو ان کا خیال تھا کہ غالباً وہ ہماری پر یس کا نفرس میں نہیں آئے گا اور کوئی نوٹ بھی نہیں لکھے گا.لیکن پریس کانفرس میں ان کا ایک نمائندہ آیا اس نے مجھ سے پریس کانفرنس میں بھی باتیں کیں اور بعد میں بھی مجھ سے قریباً پندرہ بیس منٹ باتیں کرتا رہا.وہ اپنے ساتھ ایک سٹینوگرافر (شارٹ ہیڈ کی ماہر جو سوئٹزرلینڈ کی رہنے والی ایک نو جوان عورت تھی لے کر آیا تھا.بعد میں جب اخبار آئی تو پتہ لگا کہ وہ ایک ایک لفظ نوٹ کرتی چلی جاتی تھی بات نہیں کرتی تھی.بات مرد نمائندہ ہی کرتا تھا.ہمیں منٹ کے بعد وہ کہنے لگا کہ اب ایک سوال باقی ہے.اس کا جواب مجھے چاہئے میں نے کہا پوچھو کہنے لگا کہ بانی سلسلہ احمدیہ کی بعثت کا مقصد کیا تھا.میں نے اسے کہا کہ میں اپنے الفاظ میں تمہیں نہیں بتاؤں گا.میں تمہیں بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے الفاظ میں ہی بتاتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس غرض سے مبعوث کیا ہے کہ میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۱۳ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب دلائل کے ساتھ اس صلیب کو توڑ دوں جس نے مسیح کی ہڈیوں کو تو ڑا اور آپ کے جسم کو زخمی کیا تھا.اس بات کا اس کی طبیعت پر اتنا اثر ہوا کہ وہ کہنے لگا مجھے حوالہ دکھاؤ.یہ بھی ان کی عادت ہے کہ کسی اور کی طرف بات منسوب کرنی ہو تو آپ کے پاس حوالہ ہونا چاہئے.یہ ثابت کرنے کے لئے کہ واقعی اس نے یہ بات لکھی ہے.اللہ تعالیٰ کا تصرف ایسا تھا کہ ہم اپنے ساتھ کچھ حوالے لے گئے تھے ان میں یہ حوالہ بھی تھا اور اس کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوا ہوا تھا.چنانچہ میں نے اس کو وہ حوالہ دکھایا.کہنے لگا میں اسے نقل کرتا چاہتا ہوں.میں نے کہا ضرور نقل کرو.بعد میں اس اخبار نے جو اسلام کے حق میں ایک لفظ بھی نہیں لکھتا تھا اس نے اپنا ایک پورا کالم اس انٹرویو پر لکھا اور اس کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ اقتباس نقل کیا جو وہ لکھ کر لے گیا تھا کہ انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس غرض کے لئے مبعوث کیا ہے.اور میں گو اس کے اتنا لمبا لکھنے پر بھی خوش تھا لیکن خوشی مجھے اس بات سے ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک فقرہ اس اخبار نے نقل کر دیا ہے.اس اخبار نے جو نوٹ دیا اس میں اس نے یہ بھی لکھا کہ احمدیت اسلام کی ایک اصلاحی تحریک ہے اور اس کا نصب العین دنیا کو قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کی طرف واپس لانا ہے اور دنیا کو گذشتہ صدیوں کی بدعات اور غیر یقینی روایات سے پاک کرنا ہے.اور اس جماعت کے بانی نے خدا کی وحی کے مطابق مسیحیت کا مقابلہ جاری رکھا اور اس برصغیر ( اس ملک ) میں جہاں مسیحی ممالک کی فوجوں اور پادریوں کی مدد سے نو آبادیاں قائم کی گئیں اور مسیحیت کا پرچار کیا گیا.آپ کی طرف سے مسیحیت کا یہ مقابلہ کیا تعجب انگیز نہیں.آپ نے اپنی تصانیف میں اپنے آپ کو مسیح قرار دیا ہے جسے خدا نے اس لئے مبعوث کیا تا کہ وہ دلائل اور روحانی اصلاح کے ذریعہ اس صلیب کو توڑے جس نے مسیح کی ہڈیوں کو توڑا تھا.ہیگ کے ایک دوسرے اخبار نے لکھا کہ ایک سوال کے جواب میں میں نے ان کو یہ بتایا کہ احمدیت کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ لوگ اپنے خالق سے زندہ تعلق پیدا کریں کیونکہ اس کے بغیر زندگی بالکل بے ثمر ہے.اس تعلق کے بغیر ایک انسان کی زندگی ایسی ہے جیسے ایک حیوان یا کیڑے کی.جس کی زندگی کوئی زندگی نہیں کہلا سکتی.“
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۱۴ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.پھر ہیگ کے ایک اور کثیر الاشاعت اخبار نے یہ لکھا کہ میں نے مغربی ممالک کو یہ بتایا ہے کہ ”میرا ایمان ہے کہ اسلام ہی مغربی ممالک کے لئے مستقبل کا مذہب ہے اگر اہل مغرب نے اپنے خالق حقیقی کونہ پہچانا تو وہ تباہ ہو جائیں گے.“ اس قسم کے بیسیوں حوالے ہیں اور میں نے بتایا ہے کہ ۱۳۶ اخباروں نے بڑے نمایاں طور پر ہماری باتوں کو شائع کیا ہے اور سرخیاں بھی نمایاں دیں.بعض نے تو پورے صفحہ کی سرخی دے کر نوٹ دیئے اور تصویر میں بھی بڑی نمایاں دیں.ایڈیٹوریل لکھے ( درجنوں کی تعداد میں ایڈیٹوریل لکھے گئے ) ڈنمارک جہاں مسجد کا افتتاح ہوا ہے وہاں سب سے زیادہ عیسائی گھبرائے ہیں جب کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ ایک پادری نے چرچ بلیٹن میں ہی لکھ دیا کہ تم بغیر جانتے ہوئے مسلمان ہو چکے ہو.اصل میں تمہارے خیالات بدل گئے ہیں.تمہارے خیالات عیسائیوں والے نہیں رہے.ہمارے خلاف بھی جو لکھا جاتا ہے وہ بھی ہمارے حق میں ہوتا ہے.ایک اخبار نے لکھا.اس موجودہ وقت میں اللہ اور اس کے رسول کو یہاں پیر و حاصل کرنے میں بہت وقت اور یا مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.“ ایک اخبار کہتا ہے کہ لوگوں کے خیالات مسلمانوں والے ہو گئے ہیں اور دوسرا اخبار کہتا ہے کہ ان کو پیر نہیں ملیں گے.اب آؤ سنو تیسرا کیا کہتا ہے.تیسرا اخبار کہتا ہے کہ.یہ امر محتاج بیان نہیں کہ ڈنمارک میں بڑی تیزی سے مسلمانوں کی ایک جماعت معرض وجود میں آچکی ہے اور جس رفتار سے مسجد کی تعمیر عمل میں آئی ہے وہ اس بات کی آئینہ دار ہے کہ ڈنمارک کی مسلم تحریک کے پیچھے پر عزم اور فعال دماغ کارفرما ہے.“ آگے جا کر وہ لکھتا ہے کہ جو کچھ واقع ہو گیا ہے.یعنی مسجد کی تعمیر اور وہاں سے اذان کا بلند ہونا اور تبلیغ ہونا اور لوگوں کا مسلمان ہوتے چلے جانا یہ واقعہ اس نوعیت کا ہے کہ د کلیسا اس موقف کا سہارا نہیں لے سکتا کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں“ پھر ایک اخبار نے لکھا ہے کہ میں نے مغربی ممالک کو بتایا کہ اگر کسی کو اسلام کے پھیلنے کے ضمن میں یہ فکر ہے کہ اس غرض کے لئے گولیاں چلیں گی اور تلوار استعمال ہوگی تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے.یہ سب ہتھیار اور اٹیم بم وغیرہ کسی شخص کے خیال کو بدلنے کیلئے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۱۵ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار بالکل بریکار ہیں.اگر ایک شخص میں کوئی حقیقی تبدیلی آسکتی ہے تو وہ صرف دل ہی سے پیدا ہوسکتی ہے.سوئٹزر لینڈ کے دوسرے اخبار نے لکھا کہ میں نے انہیں بتایا کہ اسلام دنیا میں جنگ جاری کرنے کے لئے نہیں بلکہ جنگوں کو روکنے کے لئے آیا ہے.اسلام کو طاقت کی ضرورت نہیں اس لئے کہ اسلام کو دو غیر مادی ہتھیا را ایسے اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں کہ ان کا مقابلہ مادی طاقت نہیں کر سکتی.ایک دلائل کا ہتھیار اور ایک آسمانی نشانوں کا ہتھیار.جماعت کے بانی کے ذریعہ دنیا نے ہزاروں نشان دیکھے ہیں اور ہزاروں نشانوں کی پیشگوئی کی گئی ہے جو ا بھی پورے نہیں ہوئے.ہیمبرگ کے ایک اخبار نے لکھا کہ جب مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ اسلام کو کیسے پھیلائیں گے تو میں نے جواب دیا.جرمن قوم کے قلوب کو فتح کرنے سے اور یہ حقیقت ہے کہ دلوں کو تبھی فتح کیا جا سکتا ہے جب انہیں اسلام کی خوبیوں سے پوری طرح آگاہ کر دیا جائے.“ زیورک کے ایک اخبار نے میری باتوں سے متاثر ہو کر لکھا کہ ہم دنیا کی بہتری کے خیال سے امید رکھتے ہیں کہ ایسی امن پسند قوتوں کی آواز جہاں بھی بلند ہو گی سنی جائے گی.فرینکفرٹ میں میں نے ان سے جو باتیں کیں وہ یہ تھیں کہ صرف اور صرف اسلام ہی کا خدا زندہ خدا ہے اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے زندہ رسول ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زندہ خدا کے مظہر اور زندہ نشان ہیں اور میں ان کا نمائندے اور جانشین کی حیثیت سے دعوت مقابلہ دیتا ہوں.اگر کسی عیسائی کو بھی دعوی ہے کہ اس کا خدا زندہ خدا ہے تو وہ میرے ساتھ قبولیت دعا میں مقابلہ کرے اگر وہ جیت جائے گا تو ایک گراں قدر انعام حاصل کرے.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو چیلنج میں نے ان بارہ پادریوں اور مستشرقین کی جماعت کو دیئے جو ڈنمارک میں مجھے ملنے کے لئے آئے تھے اور ڈیڑھ گھنٹے تک ان کی مجھ سے گفتگو ہوئی.اس گفتگو کے بعد میں نے ان سے کہا کہ مذہب کا معاملہ دل سے تعلق رکھتا ہے اور مذہب کے معاملہ میں جو دل سے تعلق رکھتا ہے.مادی طاقت کا استعمال اتنی بڑی حماقت ہے کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۱۶ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب اس سے زیادہ اور کوئی حماقت نہیں ہو سکتی پس ہمیں آپس میں سر جوڑ کر تبادلہ خیالات کرنا چاہئے اور امن کی فضا میں معلوم کرنا چاہئے اور ثابت کرنا چاہئے کہ عیسائیت سچا مذ ہب ہے یا اسلام.اور اس کے لئے میں بانی سلسلہ احمدیہ کے یہ دو دعوت ہائے مقابلہ تمہارے ہاتھ میں رکھتا ہوں اور میں ان کے نمائندہ اور خلیفہ ہونے کی حیثیت میں تمہارے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں.ایک یہ کہ سورۃ فاتحہ کے مضامین کے ساتھ اپنی تمام الہامی کتابوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ اپنے مضامین روحانی کے لحاظ سے کون بلند اور اعلیٰ اور ارفع ہے.ایک تفصیل ہے وہ تفصیلی چیلنج میں نے ان کو دیا.اور دوسرے یہ کہ ہر روز ہر صبح جب تم اٹھتے ہو کوئی نہ کوئی بیہودہ اعتراض اسلام پر کر دیتے ہو.اگر ہم نے فیصلہ کرنا ہو تو مشکل پیش آئے گی.کیونکہ تم اتنی کثرت سے اعتراض کرتے ہو کہ ایک زندگی میں ان کا جواب ہی نہیں دیا جا سکتا کئی زندگیاں ہوں تب جواب ممکن ہے.پھر فیصلہ کیسے ہو گا کس کی زندگی میں ہوگا.ایک آسان طریق میں تمہیں بتا تا ہوں تمہارے نزدیک جو سب سے اہم دو یا تین اعتراض اسلام پر ہوں کہ باقی اعتراضوں کے مقابلہ میں ایسے ہوں کہ ان کی وہ حیثیت ہو جو ایک پہاڑ کی ہوتی ہے ایک ذرہ کے مقابلہ میں تم وہ میرے سامنے پیش کرو اور اگر میں ان اعتراضات کو غلط ثابت کر دوں اور ان جگہوں سے جن پر تم نے اعتراض کیا ہے روحانی مضامین نکال کے پیش کر دوں اور اس کے مقابلہ میں وہ تعلیم جوتم پیش کر رہے ہو اس کا نقص ثابت کر دوں تو باقی اعتراضات ختم ہو جائیں گے.جن اعتراضوں کو خود تمہارے نزدیک اتنی اہمیت حاصل ہے وہ ٹوٹ جائیں گے اور اس طرح کوئی اعتراض باقی نہیں رہے گا.ان پادریوں اور مستشرقین میں سے ایک بولنے لگا تو میں نے کہا ابھی نہیں تم مجھ سے ملنے سے قبل کئی گھنٹے اور کئی دن آپس میں ملتے رہے ہو.تم نے بڑے مشورے کرنے کے بعد وہ سوالات تیار کئے ہیں جو مجھ پر کرنے تھے.تم پورے تیار ہو کر آئے ہو مجھے ان کے لیڈر نے بتایا کہ ہم نے کئی دن میٹنگیں کیں ، کئی گھنٹے سر جوڑا اور فیصلہ کیا کہ ہم آپ سے یہ سوالات کریں گے.اس نے ایک کاپی کھول کر دکھائی.وہ سوالوں سے بھری ہوئی تھی.گویا جہاں تک سوالات کی بات ہے وہ روشنی میں تھے لیکن میں اندھیرے میں تھا مجھے کچھ پتہ نہیں تھا.تب میرا وہ خدا جس پر ایک انسان کو کامل تو کل کرنا چاہئے میری مد کو آیا اور اس نے ایسے جواب مجھے سکھائے کہ وہ ساکت ہو جاتے تھے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) اور اپنے سوالوں کو آگے نہیں چلا سکتے تھے.۲۱۷ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا.اپنی طرف سے انہوں نے یہ ایک ترکیب سوچی کہ جماعت احمدیہ سے ڈنمارک کے عوام کو متنفر کرنے کا یہ طریق ہے کہ ڈنمارک کے عوام پوپ سے نفرت کرتے ہیں اور ایک آدمی کی قیادت کو پسند نہیں کرتے.ہم کسی طرح اس شخص کے منہ سے نکلوادیں کہ اس کی حیثیت پوپ کی حیثیت سے ملتی جلتی ہے.تو وہ خود بخود اپنی عادت اور فطرت کے مطابق احمدیت سے نفرت کرنے لگ جائیں گے اور اس کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے.چنانچہ یہ مقصد سامنے رکھ کر انہوں نے سوالات تیار کئے.مجھے پتہ نہیں تھا کہ ان کا کیا مقصد ہے.ان میں سے ایک آتے ہی مجھے پوچھنے لگا کہ جماعت احمدیہ میں آپ کا مقام کیا ہے.مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ مجھے کس طرف لے جانا چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی کا فضل تھا، کہ یہ سوال نہ بھی سامنے آیا اور نہ بھی اس کا جواب سوچا اسی وقت خدا نے کہا کہ انہیں جواب دو کہ تمہارا سوال غلط ہے اس لئے کہ میرے نزدیک جماعت احمدیہ اور میں ایک ہی وجود کا نام ہے اور جب وجود ہی ایک ہے تو اس وجود میں میرے مقام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور وہ بڑا پریشان ہوا کہ یہ کیا جواب مل گیا ہے.کہنے لگا ( انہوں نے پریسٹ persist کیا ) اصرار کیا کہ کسی طرح میرے منہ سے کوئی بات نکلوائیں.چنانچہ دوسرا سوال یہ کیا کہ کیا یہ صحیح نہیں کہ جماعت احمدیہ پر یہ فرض ہے کہ وہ آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے.میں نے کہا بالکل فرض نہیں جماعت احمدیہ پر یہ فرض ہے کہ وہ میرے معروف احکام کی اطاعت کرے ہر حکم کی اطاعت ان پر فرض نہیں ( آپ سے ان الفاظ میں بیعت لی جاتی ہے کہ جو نیک کام آپ بتائیں گے میں آپ کی اس میں کامل فرماں برداری کروں گا.غرض میں نے کہا تم نے جو فقرہ کہا ہے وہ درست نہیں.جو نیک کام میں بتا تا ہوں اس کی اطاعت ان پر فرض ہے پھر اس نے غلط نتیجہ نکالا اور تیسر اسوال یہ کر دیا کہ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ جو مقام پوپ کا ہے وہی آپ کا ہے.اس سے مجھے پتہ لگا کہ ان کا مقصد کیا تھا.میں نے کہا ہرگز نہیں میں پابند ہوں قرآن کریم کے احکام کا میں پابند ہوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا اور پوپ پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے.اس لئے ہم دونوں کے مقام مختلف ہیں تب اس کو سمجھ آئی کہ یہاں دال گلتی نہیں.میں نے کیا کرنا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے جواب بتادیا مجھے اس بات سے لطف آرہا تھا کہ میرے دماغ میں جواب آجاتا تھا اور میں جواب
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ---- ۲۱۸ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب دے دیتا تھا یعنی ایسا تو نہیں تھا کہ حوالے نکالے ہوئے ہیں یا پہلے سے تیاری کی ہوئی ہے.وہاں اس بات کا سوال ہی نہیں تھا.غرض وہ سوال کرتے چلے گئے اور خاموش ہوتے گئے.پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کہ ہمارے دورہ سے پہلے تین بیعت ہوئی تھیں دورہ کے بعد اس وقت تک تیرہ چودہ بیعتیں ہو چکی ہیں اور ان میں ایک کیتھولک بھی ہے جو اپنے مذہب میں بڑے متعصب ہوتے ہیں اور ان میں وہ ہماری نو جو ان مخلص طالبہ بھی ہے جو سویڈن کی رہنے والی ہے اور جس کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک حیرت انگیز تبدیلی پیدا کی.ایک دن ہم کوپن ہیگن سے باہر گئے.( میں وہاں کے احمدیوں کو اپنے ساتھ لے گیا تھا ) اس دن جب ہم واپس آئے تو مجھے پتہ لگا کہ مشن ہاؤس میں ہمارے امام کے گھر میں (ہم بھی وہاں ہی ٹھہرے ہوئے تھے ) یو نیورسٹی کی ایک نوجوان طالبہ دوسرے ملک ( سویڈن ) سے آئی ہوئی ہے اور دو چار گھنٹے سے ہمارا انتظار کر رہی ہے.(اس کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ہم وہاں نہیں باہر گئے ہوئے ہیں ) اور کہتی ہے کہ میں نے آج ہی واپس چلی جانا ہے اور جانا بھی مسلمان ہو کر ہے.خیر جب ہم وہاں پہنچے تو میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ کیا تم میں سے کوئی اسے جانتا ہے اور کیا اسے کسی نے تبلیغ کی ہے.انہوں نے کہا نہیں میں نے کہا پتہ تو کرو یہ کون ہے.میں اس سے نہیں ملا چنانچہ ناروے کے رہنے والے ہمارے آنریری مبلغ اس کے پاس گئے اور ایک گھنٹہ تک اس سے باتیں کرتے رہے اور آخر اس کو یہ مشورہ دیا کہ چونکہ تم نے ابھی اسلام کے متعلق کچھ پڑھا نہیں اس لئے ابھی بیعت نہ کرو، اسلام میں داخل نہ ہو، یہاں سے کتابیں ساتھ لے جاؤ ان کو پڑھو پھر اسلام میں داخل ہونا.وہ گھنٹہ بھر کی گفتگو سے تنگ آگئی اور کہنے لگی مجھے ان سے ملاؤ.خیر میں نے اسے اندر بلالیا دوسرے دوست اور مبلغ بھی اس کے ساتھ آگئے مجھ سے آتے ہی وہ کہنے لگی کہ کیا اسلام میں اور احمدیت میں کوئی فرق ہے.میں نے کہا ہر گز نہیں یہ دونوں ایک ہی چیز کے نام ہیں.کہنے لگی پھر میری بیعت لے لو.میں نے اسی وقت بیعت فارم منگوایا اور اس کی بیعت لی اور اس کا نام قانتہ رکھا.اس کے بعد وہ چند کتابیں لے کر چلی گئی.ابھی چند دن ہوئے امام کمال یوسف کا خط آیا کہ وہ قانتہ جس نے آپ کے سفر کے دوران بیعت کی تھی وہ کرسمس کی چھٹیوں میں گھر نہیں گئی بلکہ وہ دوسرے ملک میں ہمارے مشن ہاؤس میں آگئی ہے اور روزے پورے رکھ رہی ہے اور سارا وقت دعا میں منہمک رہتی ہے.اس کو اس حد تک انہاک ہے کہ ہمارے ایک پاکستانی ڈاکٹر نے ایک دن سارے احمدیوں کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۱۹ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار دعوت کی ( روزہ کھولنے کے بعد یا روزہ کی افطاری کے وقت ) امام کمال یوسف لکھتے ہیں کہ میں نے اس کو کہا کہ تم بھی وہاں جانا تو اس نے انکار کر دیا اور کہا میں نہیں جاؤں گی.ابھی کچھ دن دعوت میں باقی تھے میں خاموش ہو گیا.لیکن جس دن جانا تھا میں نے اس سے جانے کے لئے اصرار کیا اور کہا اس شخص نے دعوت کی ہے اور تمہیں دعوت قبول کرنی چاہئے وہ کہنے لگی یہ دن کب کسی شخص کو نصیب ہوئے ہیں.مسجد میں دعائیں کرنے کے مجھے اس کا موقع ملا ہے اس لئے میں تو اپنا ایک منٹ بھی مسجد سے باہر خرچ کرنا نہیں چاہتی.اب دیکھ لو وہ چند مہینوں کی ایک نومسلمہ تھی اور پھر نو جوان تھی اور گندے ماحول میں پیدا ہوئی تھی اور وہیں اس نے پرورش پائی تھی.پھر یو نیورسٹی کی طالبہ تھی یہاں کی بچیاں باہر جا کر مغربی تہذیب کا اثر لے لیتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان قوموں میں ایسے آدمی پیدا کر رہے ہیں کہ جن کے دلوں کو وہ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ان کا پرانا خون نچوڑ دیتے ہیں اور اسلام کا نیا خون ان میں بھر دیتے ہیں.باتیں اور بھی بہت سی تھیں لیکن وقت بہت ہو گیا.ایک عظیم معجزہ جو اللہ تعالیٰ نے وہاں دکھایا ہے وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں اور اس کے اوپر ہی میں آج کی تقریر ختم کروں گا.ہم وہاں گئے اور اس ملک اور دوسرے بعض ممالک کا دورہ کیا اور واپس آگئے.میں ۲۱ اگست کو کراچی پہنچا ہوں.اکتوبر میں عبدالسلام صاحب میڈیسن نے جو ڈنمارک میں ہمارے آنریری مبلغ ہیں مجھے خط لکھا کہ آپ ایک انذار ان کے سامنے پیش کر گئے تھے.اب ایک چین ری ایکشن (Chain reaction) ایک سلسلہ انذاروں کا شروع ہو گیا ہے.اور وہ اس طرح کہ ایک شخص جس کا نام رچرڈ گر یو ہے اس نے یہ دعوی کیا ہے کہ آسمان کے خدا نے مجھے وحی کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ کرسمس کے دن تک دنیا تھرمونیوکلیئر جنگ میں کلیۂ تباہ ہو جائے گی اور وہی لوگ بچیں گے جو میرے گرد جمع ہو جائیں گے اور آسمان کے خدا کی اس آواز پر لبیک کہیں گے جو اسے سنائی گئی ہے.اس نے یو نیورسل لنک کے نام سے یہ تحریک وع کی ہے اور یہاں ڈنمارک میں بھی اشتہاروں کے ذریعہ اس یو نیورسل لنک کا پروپیگنڈا اور تبلیغ کی گئی ہے.اور جس وقت انہوں نے یہ بات لکھی تھی اس وقت ان کے علم کے مطابق چالیس آدمی اس کے ساتھ شامل ہو گئے تھے اور وہاں غالباً ایک سکول ٹیچر اس کا نمائندہ تھا.اس نے لوگوں سے پیسے بھی لئے اور تھرمونیوکلیئر جنگ سے بچنے کے لئے ایک تہہ خانہ بھی پولیس کی اجازت کے بغیر بنایا بلکہ ان کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۲۰ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب منع کرنے کے باوجود بنایا.اس تہ خانہ کی جو چھت تھی وہ سکہ کی بنائی تاکہ اس پر کوئی اثر نہ ہو اور ان کو یقین تھا کہ اگر کر مکس سے پہلے نہیں تو کرسمس کے دن ضرور دنیا تباہ ہو جائے گی اور ڈنمارک میں وہی لوگ بچیں گے جو اس تہہ خانے میں آ کر جمع ہو جائیں گے.جب میرے پاس ان کا خط آیا تو ۱۹ را کتوبر کو میں نے انہیں جو خط لکھا اس کا ترجمہ میں آپ کو سنا دیتا ہوں جو یہ ہے.آپ کے خط محررہ ۳۰ ستمبر کا شکریہ.مسٹر رچرڈ گریو آف بلیک پول کا دعوی بے معنی ہے البتہ دلچسپ ضرور ہے اور ان یورپیوں کے لئے جو روحانی تاریکی میں بھٹک رہے ہیں آنکھیں کھولنے کا موجب ہوگا.ان کا دعوی ہے کہ دنیا تین مہینے کے اندر اندر جو ہری جنگ کے ذریعہ تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گی اس سے ہمیں اتنا موقع تو ضرور ملا ہے کہ ہم اہل یورپ تک بالخصوص اور ساری دنیا تک بالعموم اسلام کے پیغام اور ان اسلامی پیش گوئیوں کو جو موجودہ زمانہ سے متعلق ہیں پہنچانے کی کوشش کریں اور انہیں بتائیں کہ یہ پیشگوئیاں من وعن پوری ہو کر رہیں گی.یہ تین مہینے کی میعاد ( جو کرسمس کے دن ختم ہوئی تھی جو مسٹر رچرڈ گریو نے مقرر کی ہے ) ۲۵ / دسمبر کو ختم ہو جائے گی.آپ ہر ممکن ذریعہ سے تمام لوگوں تک یہ بات پہنچادیں کہ مسٹر گر یو اور اس کے ساتھی انتظار ہی کرتے رہیں گے اور ان کی پیش گوئی جیسا کہ ان کا دعوی ہے کبھی بھی پوری نہیں ہوگی.یہ میچ ہے کہ آج دنیا کے مختلف مقامات میں جنگ کا امکانی خطرہ ضرور موجود ہے عین ممکن ہے کہ مقامی اور محمد و قسم کے انقلابات یا حادثات رونما ہوں لیکن ایسا ہرگز ممکن نہیں ہو گا کہ دنیا ان تین مہینوں میں جوہری جنگ کے ذریعہ سے تباہ و برباد ہو جائے.جو بنیادی طور پر امن اور آشتی کا زمانہ ہے.دراصل مسٹر گر یو اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی بات منسوب کرتے ہیں جو اس نے نہیں کہی.یہ دعویٰ بیہودہ اور بے معنی ہے.“ اس کے بعد میں نے انہیں لکھا کہ اب میری تقریر لنڈن والی ) پیغام امن کا ترجمہ ہو چکا ہے ضروری ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے.دنیا کی نجات اور بقاء کا کلی دار ومدار اس پیغام میں مضمر ہے.مسٹر گر یو کا دعویٰ کبھی پورا نہیں ہوگا.یہ باطل ہے اور اپنی میعاد تک باطل ہی رہے گا.ان کے جھوٹے اور خود ساختہ معبود ان کی ہرگز مدد کو نہیں آئیں گے نہ ہی یو نیورسل لنک انہیں بچا سکے گا.ان کے لئے اب ایک ہی امید اور جائے پناہ رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے خدا کے آستانہ پر آکر سر بسجو د ہو جائیں.یہ خدا ایسا خدا ہے کہ جس کے حسن ، عظمت اور قدرت کا اعلان تمام
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۲۱ ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب نبیوں کے سرتاج محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم آج سے چودہ سو سال قبل فرما چکے ہیں.اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہو اور آپ کی کوششوں میں برکت ڈالے“ امام کمال یوسف ۲۱ رمضان کو لکھتے ہیں.چند دنوں سے اس شہر میں ( بروک شاید اس کا نام ہے جہاں ان لوگوں نے نہ خانہ بنوایا تھا ) ایک استاد جنہوں نے آسمان کے خدا سے وحی پا کر کرسمس کی شام کو ساری دنیا کی ایٹمی جنگ کی تباہی کی زد میں آنے کی پیشگوئی کی تھی کا بعض اخبارات میں خوب چرچا رہا ( اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ ان کی پیش گوئی کا چر چائین اس وقت ہو گیا جب وہ باطل ہونی تھی ) ایٹمی جنگ سے بچاؤ کے لئے انہوں نے پولیس سے اجازت کے بغیر حفاظتی تہ خانے بھی تیار کر والئے.تہ خانوں کی تصاویر بھی اخبارات میں آئیں اخبارات میں یہ تذکرہ ہو ہی رہا تھا کہ ان تمام اخبارات کو اس پیش گوئی کے خلاف حضور کے مکتوب گرامی کا ترجمہ جس میں حضور نے واضح الفاظ میں اس عرصہ کو امن کا زمانہ اور عالمی جنگ کے نہ ہونے کا اعلان فرمایا ہے پہنچا دیا گیا.اس پر ڈینش ٹیلی ویژن والوں نے انٹرویو کے دوران ان سے پوچھا کہ کیا واقعی ۲۵ دسمبر ۱۹۶۷ کو ایٹمی جنگ کی معین تاریخ سے آپ کو خلا کے خدا نے اطلاع دی ہے تو استاد صاحب صاف انکار کر گئے کہ مجھے معین تاریخ سے اطلاع نہیں دی گئی اگر معین تاریخ سے اطلاع نہیں دی گئی تھی تو ایٹم بم سے بچاؤ کے لئے اتنی عجلت میں پولیس کے منع کرنے کے باوجود تہ خانے بنوانے کی کیا وجہ تھی.اس پر پوچھا گیا کہ پھر تاریخ کا اعلان کیوں کیا گیا اس کا اعلان کیا گیا تھا وہ اس کا انکار نہیں کر سکتا تھا ) تو کہنے لگے کہ رچرڈ گر یو جو اس تنظیم کے رئیس ہیں ان کو غلطی لگی ہے امام کمال یوسف لکھتے ہیں.66 کمال یوسف کا اندازہ یہی ہے کہ حضور کے مکتوب گرامی جو خاکسار نے ان کو بھیجا تھا کو پڑھ کر متاثر ہوئے ہیں آج اس سلسلہ میں اخبار کا پہلا تراشہ ملا ہے کہ جو ۱۹ دسمبر کا شائع شدہ ہے اخبار کی دو کالمی سرخی کا ترجمہ یہ ہے آسمانوں کے خدا کی پیش گوئی جو اس کے نام سے کی گئی تھی کے خلاف مسلمانوں کا انتباہ اس سرخی کے بعد نامہ نگارا پنا نوٹ لکھتا ہے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۲۲ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب ڈنمارک کے مسلمانوں نے جماعت احمدیہ کے روحانی سربراہ کی خدمت میں آسمانوں کے خدا کی پیشگوئی کہ تمام مخلوق کرسمس کی شام کو ایٹم کی جنگ کے نتیجہ میں زمین زد ہو جائے گی کی اطلاع عرض کی تھی تو آپ نے بڑے زبردست الفاظ میں اس پیشگوئی کے غلط ہونے کا اشارہ کیا تھا.”اس کے بعد اس نے حضور کے تمام الفاظ من و عن نقل کئے ہیں اپنے اخبار میں اور کہیں کہیں مناسب رنگ میں اپنی طرف سے ایک سطر کے نوٹ بڑھا دیئے ہیں“ اس کے بعد لکھتے ہیں.تعجب کی بات یہ ہے کہ انفارمیشن ( یہ اخبار ہے جس کے خط لکھا ہے ) ڈنمارک کا واحد اخبار ہے جس نے حضور کی آمد اور مسجد کے افتتاح کا کوئی ذکر نہیں کیا بلکہ خاکسار کے علم کے مطابق عمداً ذکر سے اجتناب کیا ہے اب بھی یہ واحد اخبار ہے جس نے حضور کے مکتوب کے اعلان کو من وعن شائع کر دیا ہے“ ایک اور خط میں تئیس رمضان کو لکھتے ہیں.”ہمارے پڑوس کے پادری نے یہاں کے لوکل اخبار میں لکھا ہے اس کا آخری فقرہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے لئے جنہوں نے یہ پیشگوئی کی تھی یہاں ڈنمارک میں کوئی جگہ نہیں.اس شخص کے ساتھی نے دو مضامین مسجد کے متعلق لکھے تھے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تمسخر سے ذکر کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو تنبیہ کی کہ اخبارات نے لکھا کہ ان جیسوں کے لئے ڈنمارک میں کوئی جگہ نہیں.۴ جنوری کو عبدالسلام صاحب میڈیسن (اصل میں تو میرے وہی مخاطب تھے انہوں نے ہی مجھے اطلاع دی تھی) نے بڑی خوشی اور مسرت سے جو خط لکھا ہے اس کے چند فقرے یہ ہیں.یو نیورسل لنک کے نام سے دنیا میں جو ایک پیشگوئی کی گئی تھی اور ایک سلسلہ قائم کیا گیا تھا وہ کلی طور پر اللہ تعالیٰ نے مٹا دیا ہے جس شخص نے پیشگوئی کر کے رسول ہونے کا دعوی کیا تھا وہ بھاگ گیا ہے اور کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کہاں غائب ہو گیا اور عوام یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ یونیورسل لنگ کی تحریک کو کورٹ میں پرسیو (Persue) کیا جائے اور ان پر مقدمہ چلایا جائے کیونکہ یہ لوگوں کا روپیہ کھا گئے ہیں.“ :
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۲۳ ۱۲/جنوری ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار یہ ایک عظیم الشان نشان ہے میں سمجھتا ہوں کہ ایک شخص نے دھڑلے سے ایک پیشگوئی کی اس نے کچھ لوگوں کو اپنے گرد جمع بھی کر لیا اور ان سے پیسے بھی وصول کئے اور اعلان کیا کہ جو یو نیورسل لنک کے ساتھ لنک کرے گا اور تعلق قائم کرے گا وہی بچے گا اور کوئی نہیں بچے گا اور لوگوں نے اس کی طرف توجہ کی اور جب اس کی پیشگوئی کے غلط ہونے کا وقت آیا اس وقت چونکہ پھر لوگ بھول جاتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ پہلے اخباروں نے اس کی طرف توجہ نہیں دی تھی.بلکہ کرسمس کے قریب میں آ کر اس کی طرف توجہ دی اور ساتھ ہی انہوں نے میرے خط کی طرف بھی توجہ دی اور میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی جب کہ میں نے خط پڑھا تو میں حیران رہ گیا کہ اس دھڑلے اور زور کے ساتھ کیسے لکھ دیں میں نے یہ ساری باتیں اور میرے لئے بھی یہ حیرت کی بات ہے کیونکہ اللہ نے ہی لکھوائی ہیں کہ اعلان کرو اور ہر ممکن ذریعہ سے لوگوں تک یہ آواز پہنچا دو کہ یہ شخص جھوٹا ہے اس کی پیشگوئی کبھی پوری نہیں ہوگی.اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی ذلت اور ان لوگوں کی ذلت کے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر تمسخر کرتے تھے کس طرح سامان پیدا کر دیئے اور ڈنمارک اور باقی دنیا کے لئے ان ہزاروں نشانوں میں سے جو احمدیت کو وہ دکھاتا چلا آ رہا ہے ایک اور نشان دکھایا.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ ہی اپنے نشانوں سے اور اپنی تائیدات سے تقویت پہنچاتا رہے.اور ہم ناچیز بندے ہیں.ہمارے سارے کام وہ کرے اور جہاں تک ہمارے دل کا تعلق ہے ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان کا کریڈٹ (Cradit) نہ دے ہمارے سر اس کا سہرا نہ باندھے.صرف اپنی رضا ہمیں دے دے.اس کے بعد ہمیں کچھ نہیں چاہئے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ (از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
۲۲۴ خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۲۵ ۱۳/ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب ہر فر د جماعت کو چاہئے کہ اپنے اندر صحابہ رسول والی بنیادی خوبیاں پیدا کرے اختتامی خطاب جلسه سالا نه فرموده ۱۳ /جنوری ۱۹۶۸ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گذشتہ سال میں نے چند خطبات میں ان مقاصد پر روشنی ڈالی تھی جن کا تعلق خانہ کعبہ کی از سرنو تعمیر سے تھا اور میں نے بتایا تھا کہ یہ تمام مقاصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کو حاصل ہونے تھے.میرا خیال تھا کہ میں اس جلسہ پر آج کے دن اس تمہید کے بعد وہ عملی منصوبہ جماعت کے سامنے رکھوں جو میں الہی منشاء کے مطابق رکھنا چاہتا ہوں لیکن ایک دن قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے میری توجہ اس طرف پھری کہ ان مقاصد کے حصول کے لئے قوم میں بہت سی بنیادی صفات کا پایا جانا ضروری ہے اور قبل اس کے کہ میں وہ عملی منصوبہ جماعت کے سامنے رکھوں مجھے احباب جماعت کو ان بنیادی صفات، اخلاق یا خواص کی طرف متوجہ کرنا چاہئے ، جو خدا کی ایک برگزیدہ جماعت میں پائے جاتے ہیں، پائے جانے چاہئیں اور ان سے یہ توقع رکھوں کہ وہ تدبیر اور دعا کے ساتھ اپنے ان اخلاق کو اور اپنی ان صفات کو اور بھی پختہ کر لیں گے.تا کہ جس وقت عملی منصوبہ ان کے سامنے رکھا جائے تو عمل کرنے کے لئے وہ پوری طرح تیار ہوں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ جب دعوای کیا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں نسلاً بعد نسل مسلمان ان قربانیوں کو دیتے چلے گئے جن کے نتیجہ میں مقاصد تعمیر بیت اللہ بنی نوع انسان کو حاصل ہوئے اور ایک دنیا نے امت مسلمہ سے ہر قسم کا دینی اور دنیوی ، مادی اور روحانی فائدہ اٹھایا لیکن غفلت اور زوال کا ایک زمانہ بھی مقدر تھا جس کی خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے سے دے رکھی تھی اس لئے پھر وہ زمانہ آیا کہ اگر چہ بیت اللہ کی عمارت اس طرح قائم اور خدا تعالیٰ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کے وعدہ کے مطابق محفوظ ہے.جس طرح کہ آج سے چودہ سو سال پہلے تھی لیکن برکات بیت اللہ سے اسی وقت دنیا نے ایک لمبے عرصہ تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اور بعد کی صدیوں میں فائدہ اٹھایا.اللہ تعالیٰ نے آسمان پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ پھر سے اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرے اور تمام اقوام عالم کے دل اس کے بعض بندے خدا اور اس کے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے جیتیں اور اس طرح پر بیت اللہ کی ان تمام برکات سے بنی نوع انسان فائدہ اٹھائیں جن برکات سے آج سے چودہ سو سال قبل اس دنیا نے فائدہ اٹھایا تھا ان برکات کے انتشار کے لئے ، ان کو دنیا میں پھیلانے کے لئے بنی نوع انسان کو ان برکات سے روشناس کرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اندران بنیادی خوبیوں کو پیدا کرے جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں ہمیں نظر آتی ہیں جب تک ہمارا سوچنا اور ہمارا غور کرنا اور ہمارا کہنا اور عمل کرنا بالکل ویسا ہی نہ ہو جائے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کا تھا.اس وقت تک ہم اپنی اس بنیادی ذمہ داری کو کامیابی کے ساتھ نہیں نباہ سکتے کہ بیت اللہ کی برکات سے ساری دنیا کومستفیض کریں اور وہ تمام مقاصد جن میں سے تمھیں مقاصد کا ذکر میں نے اپنے خطبات میں کیا ہے وہ حاصل ہوں.ان اغراض کو پورا کرنے اور ان مقاصد کے حصول کے لئے بنیادی طور پر نو باتوں کا ہمارے ނ اندر پایا جانا ضروری ہے ہم میں نو صفات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت.کمزور رنگ میں یا پختہ طور پر یا بعض کے اندر چھپی ہوئی اور بعض میں نمایاں پائی جاتی ہیں ان صفات کو اور پختہ کرنا اور ان صفات اور اخلاق کے رنگ کو اور گہرا کرنا ہے اور سوچ کے اور عمل کر کے ہم نے یہ نیت کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے.پہاڑ اپنی جگہ پر ٹھہرے رہیں یا وہاں سے اڑا دئے جائیں ہم اپنی ذمہ داری کو انشاء اللہ اسی کی توفیق سے ضرور نبھا ئیں گے.میہ نو صفات جن کے متعلق میں اس وقت کچھ کہنا چاہتا ہوں ان میں سے بعض کے متعلق تو شاید آپ پہلے بھی اور اکثریت سے سنتے رہے ہوں گے لیکن یہ اس قسم کی بنیادی چیزیں ہیں کہ مجموعی طور پر ان کا آپ کے سامنے رکھا جانا ضروری ہے اور وہ یہ ہیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۲۷ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب اللہ تعالیٰ کی ذاتی محبت ( محبت ذاتی اپنے رب کے لئے ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کا تعلق.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ، اس عقل حج کا پیدا کرنا اور اس عقل کو منور ، روشن اور پختہ کرنا جس کو عربی زبان میں نہیہ کہتے ہیں.یعنی وہ عقل جو برائیوں سے روکتی ہے اور پانچوشیں یہ خلق اور یہ صفت ہمارے اندر ہونی چاہئے کہ ہم اپنی تدبیر کو اس کے کمال تک پہنچائیں گے.اس سے ڈرے ڈرے کسی احمدی کو تسلی نہیں ہونی چاہئے یعنی ادھورے کام ایک احمدی کو زیب نہیں دیتے.یہ ایک خلق ہے ایک اصولی صفت ہے بعض لوگ بے پرواہی سے آدھا کام کرتے ہیں پھر غیر ذمہ داری سے چھوڑ دیتے ہیں توجہ نہیں کرتے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پیچھے پڑے رہتے ہیں اور جب تک وہ کام مکمل نہ ہو جائے اس طرف سے توجہ نہیں ہٹاتے اسے اسلامی زبان میں جہاد یا مجاہدہ کہتے ہیں.چھٹے روح مسابقت یعنی یہ روح ہمارے اندر ہونی چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے والا ہو اور ساتویں سفرہ ہونے کی صفت.یعنی یہ جذبہ جنون تک پہنچا ہوا ہو کہ ہم نے نامساعد حالات میں بھی اور تھوڑے ہونے کے باوجود ساری دنیا میں پھیل جانا ہے اور قرآن کریم کے علوم کی اشاعت کرنا ہے اور آٹھوئیں جذبہ خدمت جو رضا کارانہ کی جاتی ہے یعنی ایسی خدمت جس کے مقابلہ میں نہ بدلہ لیا جاتا ہے اور نہ بدلہ کی خواہش کی جاتی ہے اور نوشیں تو گل.اللہ تعالی کی محبت ذاتی محبت کا تعلق کسی چیز سے دو طرح پیدا ہوتا ہے ایک اس کے حسن کی وجہ سے اور ایک اس کے احسان کی وجہ سے.احسان کی وجہ سے جو تعلق پیدا ہوتا ہے وہ آگے دو قسم کا ہوتا ہے.ایک وہ تعلق محبت جو اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس ہستی سے مجھے اتنا انعام مل چکا ہے کہ اگر اور انعام نہ بھی ملے تب بھی میں اس سے پیار کرتا چلا جاؤں گا اور ایک تعلق محبت احسان کے نتیجہ میں اس قسم کا ہوتا ہے کہ آدمی سمجھتا ہے کہ مجھے اس سے تعلق رکھنا چاہئے.کیونکہ اس سے فیض حاصل کروں گا اور اگر کسی وقت اس کو یہ خیال پیدا ہو جائے کہ فیض بند ہو گیا تو اس تعلق کو وہ قطع کرتا ہے.حسن اور احسان کے نتیجہ میں احسان کے جو پہلے معنے میں نے بتائے ہیں کہ اتنا --
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۲۸ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب احسان ہو چکا اتنے انعامات کا نزول ہو چکا اتنا فضل اور رحمتیں ہو چکیں کہ آگے اگر فضل اور رحمتیں نہ بھی ہوں تب بھی اگر ہم اس محبت کو قائم رکھیں اور اس تعلق کو پختہ رکھیں تو شکر یہ ادا نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے حسن کا بار بار ذکر کیا ہے اور اس طرح پر توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حسن اس قدر عظیم ہے کہ اگر تم اس کی معرفت اور عرفان حاصل کر لو تو اس سے محبت کے بغیر رہ نہیں سکتے کسی قسم کے بدلہ کی خواہش نہیں کسی قسم کے فیض کے حصول کی نیت نہیں صرف اس لئے کہ حسن ہے ہی ایسا کہ انسان کی فطرت اس کی طرف مائل ہوتی ہے اور اس سے محبت کرتی ہے مثلاً یہ گلاب کا پھول ہے جو بھی شخص اس کو دیکھے گا کہے گا بڑا خوبصورت ہے اس کے حسن سے ہر شخص متاثر ہوتا ہے حالانکہ یہ گلاب کا پھول زبانِ حال سے یہ کہ رہا ہے کہ میں تمہیں کوئی فیض نہیں پہنچاؤں گا لیکن حسن خود اپنی طرف مائل کرتا ہے گلاب کے پھول کا یہ حسن اللہ تعالیٰ کے حسین جلوں کی ایک ہلکی اور خفیف سی جھلک ہے.خدا کے حسین جلوے اس کثرت کے ساتھ اور اس شدت کے ساتھ دنیا پر جلوہ گر ہو رہے ہیں اور اس کی حسین صفات اس طرح انسانوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں کہ انسان کی آنکھ کھل جائے اور اسے بصارت حاصل ہو تو اس حسین ہستی سے محبت کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.تو جب میں نے یہ کہا کہ ہر احمدی کے دل میں اپنے رب کے لئے محبت پیدا ہونی چاہئے تو میری مراد یہ ہے کہ ہر احمدی کے دل میں اپنے رب کے لئے ذاتی محبت پیدا ہونی چاہئے اس حُسن کے نتیجے میں جس کی وہ معرفت حاصل کرے اسی حسین صفات کے نتیجہ میں جس کا وہ عرفان حاصل کرے خدا تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں ہو قطع نظر اس کے کہ اس نے ہم پر کتنے احسان کئے یا آئندہ ہم اس کے احسانوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے قطع نظر اس کے ذاتی محبت ہمارے دل میں اپنے رب کے لئے پیدا ہونی چاہئے.دوسرے احسان کی پہلی قسم سے بھی اس قسم کی محبت ذاتی پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ میں نے تم پر اتنے احسان کئے ہیں کہ تم ان کو شمار نہیں کر سکتے اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے جلوے جو میرے اور آپ میں سے ہر ایک کے لئے آج سے قبل دنیا پرظاہر ہو چکے ہیں وہ اس کثرت کے ساتھ ہیں کہ اگر ہم اپنا ہر سانس اللہ تعالیٰ کے شکر کی ادائیگی میں لیں تو ہماری زندگی کے سانس ختم ہو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار جو ہے وہ تو ہو ہی نہیں سکتا لیکن اگر آپ اندازہ کرنا چاہتے ہیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۲۹ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب تو اس کا کروڑواں حصہ ابھی پورا نہیں ہو گا یعنی جتنے احسان اللہ تعالیٰ آپ پر کر چکا ہے اگر آپ اپنی زندگی کے ہر سانس میں ان کا شکر یہ ادا کرنا چاہیں تو آپ کی زندگی کے سانس ختم ہو جائیں گے اور ان نعمتوں میں سے کروڑواں حصہ بھی نہیں ہو گا جس کا آپ شکر یہ ادا کر چکے ہوں گے باقی ایسی ہی رہ جائیں گی بغیر شکریہ کے.تو ایسی ہستی جو اپنے حسن میں کمال رکھتی ہے حسن نام رکھتی ہے اور وہ ہستی جس کے احسانوں کا کوئی شمار نہیں ہو سکتا اس کے ساتھ (اگر اس کا عرفان حاصل ہو جائے ) محبت ذاتی کا پیدا ہونا ضروری ہے اگر وہ محبت ذاتی پیدا نہیں ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے رب کی معرفت حاصل نہیں.پس یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے رب کی صفات اور اس کی ذات کی معرفت حاصل کریں اور محبت ذاتی کو اگر انتہا تک پہنچا دیں جس انتہا تک پہنچانا ہماری طاقت اور استعداد میں ہو اور اس محبت ذاتی کے بعد ( محبت کا یہ تقاضا ہے کہ ) انسان خود کو کوئی چیز نہیں سمجھتا.محبت میں اپنے محبوب کے مقابلہ میں کامل نیستی کا جامہ پہننا پڑتا ہے.یہ دنیا کی محبتیں عارضی اور بعض دفعہ بیہودہ سی ہوئی ہیں.ان میں لوگ بغیر کسی فیض کے حصول کے یا فیض کے حصول کے امکان پر ہر قسم کی قربانی کرتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی ذات کا حسن اور احسان کے جلوے دیکھنے کے بعد پھر انسان اپنا نہیں رہتا بلکہ سب کچھ رب کے لئے ہو جاتا ہے اور اس پر فدا ہو رہا ہوتا ہے تو پہلی صفت یا خاصیت یا خُلق جو آپ کے اندر پیدا ہونا چاہئے اور مضبوط ہونا چاہئے اور بیدار ہونا چاہئے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی ہے.دوسری صفت جو ہم احمدیوں میں نمایاں ہونی چاہئے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب خدا تمہیں یہ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پیار و محبت کرو تو اللہ تعالیٰ کا اس محبت سے کس قسم کی محبت کا منشاء ہوتا ہے تو سنو.قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ الَيْكُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِه وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ ( التوبة : ۲۴)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء).۲۳۰ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں بعض لوگ اپنے باپوں سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور بعض لوگ اپنے بچوں سے بڑی محبت کرتے ہیں.بعض لوگ اپنے بھائیوں سے محبت کرتے ہیں اور بعض لوگ اپنی بیویوں سے انتہائی محبت کا تعلق رکھتے ہیں.بعض لوگ اپنے قرابت داروں سے محبت رکھتے ہیں، بعض لوگ اپنے اموال کی محبت میں اپنے بچوں تک کو قربان کر دیتے ہیں اور اس کی پرواہ نہیں کرتے.بعض لوگ تجارت میں اتنے منہمک اور اس سے اتنا دلی تعلق رکھتے ہیں کہ دنیا کی ہر قربانی دے دیتے ہیں لیکن اپنی تجارت کو نقصان پہنچانے کے لئے تیار نہیں ہوتے فرض کرو کہ اگر کسی کا باپ سخت بیمار ہے اور تجارتی لحاظ سے کام کے دن ہیں تو وہ اپنے اس باپ کے پاس نہیں جائے گا کہ کہیں تجارت میں نقصان نہ ہو جائے.بعض لوگوں کو اپنی کوٹھیوں اور محلوں سے بڑی محبت ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ محبت جس چیز سے تمہیں ہو اس محبت سے زیادہ اگر خدا اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں قربانی دینے کے ساتھ تمہیں محبت نہیں تو تم فاسق ہو اور فاسقوں کے متعلق اللہ تعالیٰ اس دنیا میں فیصلہ کرے گا اور فوری فیصلہ نہیں کرے گا فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِي اللهُ بِأَمرِه وہ چونکہ بڑا رحم کرنے والا خدا ہے اس لئے اصلاح کا ایک موقع دے گا.وہ تمہیں موقع دے گا کہ تم اپنی اصلاح کرو اور اپنی ساری محبتوں کو خدا اور اس کے رسول کی محبت پر قربان کر دو لیکن اگر تم اس نہایت خطرناک غلطی کے مرتکب ہونے کے باوجود اصلاح کے موقع سے فائدہ نہ اٹھاؤ تو يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اس دنیا میں تم پر صادر ہو جائے گا اور وہ فیصلہ یہ ہے کہ تم فاسق قرار دیئے جاؤ گے اور ان انعامات سے محروم کر دیئے جاؤ گے جو ہدایت یافتہ قوم کو ملتے ہیں خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا سے تم محروم کر دئیے جاؤ گے تمہارا انجام بخیر نہیں ہوگا.یہ محبت ہے جس قسم کی محبت کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام مطالبہ کرتا ہے اور جو ہر احمدی کے دل میں ہونی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑا لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنی محبت ہونی چاہئے کہ روحانی طور پر کوئی فیض آپ کی اتباع کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.اس مقام پر آدمی کھڑا ہو جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مختلف قسم کی ریاضتیں جو بعد میں مسلمانوں نے بھی بنا لیں وہ ان میں نہیں پڑے گا اور اس محبت کے تقاضا سے مجبور ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی تعلق قائم رکھے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۳۱ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کسی اور کی طرف رجوع نہ کرے اس کی مثال صحابہ کی زندگی میں ہمیں بہت جگہ نظر آتی ہے.میں ایک دو مثالیں یہاں دے دیتا ہوں.ایک مثال تو کل میں نے مستورات کی تقریر میں دی تھی.وہ اس آیت سے تعلق رکھتی ہے.یعنی اس میں یہ ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ محبت رکھتے ہیں وہ اس محبت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر قربان کر دیں.جو بیویاں اپنے خاوند سے انتہائی محبت رکھتی ہیں وہ اس انتہائی دنیوی محبت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر قربان کریں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر ایک جنگ کے لئے مدینہ سے باہر جاچکے تھے.ایک صحابی جو کسی اور طرف باہر گئے ہوئے تھے واپس آئے.ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر پر جانے کا علم نہیں تھا لیکن ان کی بیوی کو علم تھا.وہ اپنے گھر میں بڑے خوش خوش پہنچے کہ ایک لمبے فراق کے بعد میں اپنی بیوی کے پاس آ رہا ہوں.وہ ابھی اسی محبت سے آگے بڑھے تو اس نے دونوں ہاتھوں سے دھکا دیا اور ان کو پیچھے ہٹا دیا اور کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لئے گئے ہوئے ہیں اور تم اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہور ہے ہو اور اسی وقت ان کو گھر سے نکال کر باہر بھیج دیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جنگ کرو.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۲۲۶) ایک اور مثال جنگ تبوک کے لئے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہو گئے اور جب حضور کو مدینہ سے گئے ہوئے کئی روز گزر گئے تو ابوخضیشمہ ایک دن اپنے گھر میں آئے.وہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے.وہ وقت سخت گرمی کا تھا اور ان کی دو بیویاں تھیں.انہوں نے دیکھا کہ ان کی دونوں بیویوں نے اس خیال سے کہ ان کا خاوند باہر سفر سے واپس آیا ہے ان کے لئے ٹھنڈے پانی کا انتظام کیا ان کی مہمان نوازی کے لئے بڑا اچھا کھانا پکا یا.جب وہ گھر میں آئے تو ان کو پتہ لگا کہ حضور جنگ تبوک کے لئے روانہ ہو چکے ہیں اور گھر میں انہوں نے دیکھا کہ ان کی بیویاں بن سنور کر بیٹھی ہوئی ہیں ان کا انتظار کر رہی ہیں.ٹھنڈا پانی ہے اور اچھا کھانا ہے.جب ان کو پتہ لگا تو انہوں نے کہا کہ افسوس ہے.رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تو اس گرمی میں دور کے سفر میں ہوں اور ابوخیثمہ یہ ٹھنڈا پانی اور یہ عمدہ کھانا خوبصورت عورتوں کے پاس بیٹھ کر کھائے.یہ ہرگز انصاف نہیں.ابو خیثمہ نے اسی وقت اپنی بیویوں سے کہا کہ کھانا پرے ہٹا دو.سامان سفر تیار کرو تا کہ میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۳۲ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب حضور کے پاس پہنچوں چنانچہ بیویوں نے سامان درست کیا اور ابوخیثمہ اونٹ پر سوار ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے ( راستہ میں ایک دو اور صحابہ بھی آپ کو ملے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ بھی یہی گزری ہوگی ) یہاں تک کہ وہ تین منزل پر حضور سے جاملے.(سیرۃ ابن ہشام جلد نمبر ۴ صفحه ۱۶۳ ۱۶۴) جنگ احد کے موقع پر ایک صحابی جن کا نام حنظلہ تھا اپنی بیوی کے ساتھ ہم صحبت تھے کہ ان کے کان میں آواز آئی کہ اے مسلمانو جہاد کے لئے باہر نکلو وہ اسی وقت کھڑے ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کی تلاش میں یہ بھول گئے کہ انہیں نہانا بھی چاہئے اور وہ اسی طرح چلے گئے اور جنگ احد میں وہ مارے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھایا کہ فرشتوں نے ان کو غسل دیا ہے ویسے جو شہید ہوتے ہیں ان کو تو غسل نہیں دیا جاتا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا کہ فرشتوں نے ان کو نسل دیا چونکہ یہ بات معمول کے مطابق نہ تھی اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی بیوی سے جا کر پوچھو شاید کسی ایسی بات کا پتہ لگے کہ کیوں ان کو فرشتے غسل دے رہے تھے چنانچہ صحابہ ان کی بیوی کے پاس گئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ جنبی حالت میں ہی جہاد کے لئے روانہ ہو گئے تھے محبت میں انہیں خیال ہی نہیں رہا تھا کہ انہیں نہانا بھی چاہئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا یہی وجہ تھی کہ اس وجہ سے فرشتوں نے انہیں غسل دیا.( غزوہ احد سیرۃ ابن ہشام جلد نمبر ۳ صفحه ۸۹) یہ محبت ہے اس قسم کی جو ایک احمدی کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیدا ہونی چاہئے کہ اس کے بغیر ہم اپنی ذمہ داریوں کو نباہ نہیں سکتے.بعض دفعہ محبت کا زبانی دعویٰ ہوتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جس قسم کی محبت ہمارے دل میں ہونی چاہئے وہ محض زبان کا دعوی نہیں ہونا چاہئے.بعض دفعہ محبت حقیقی ہوتی ہے لیکن انسان اپنی عادت سے مجبور ہو کر یا بعض اپنی اخلاقی کمزوریوں سے مجبور ہو کر (اخلاقی کمزوری سے مراد میری بداخلاقی نہیں ) ایسی جرات نہیں رکھتا کہ وہ میدان جنگ میں بھی لڑ سکے.اس قسم کی کمزوریوں کے نتیجہ میں محبت کا عملی اظہار نہیں کر سکتا.یعنی گو محبت حقیقی ہوتی ہے لیکن عملاً اس کا اظہار نہیں ہوتا لیکن خدا تعالیٰ ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۳۳ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کے نتیجہ میں آپ کی محبت کا عملی دنیا میں اظہار کریں قرآن کریم بار بار ہمیں اس کی طرف متوجہ کرتا ہے اور میں بھی اب جماعت کو اس طرف متوجہ کر رہا ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِى مُسْتَقِمَا فَاتَّبِعُوهُ (الانعام:۱۵۳) کہ یہ راستہ جس پر میں گامزن ہوں.صِرَاطى.یہ راستہ سیدھا خدا کی طرف لے جاتا ہے اور اس پر چل کر انسان کو خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل ہوتی ہے.فَاتَّبِعُوهُ.اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ میری محبت میں میری اتباع بھی کرو اور میرے پیچھے پیچھے آؤ.یہ قیادت کا بہترین عملی نمونہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں دکھایا چنانچہ آپ نے دنیا کو یہ نہیں کہا کہ میں دنیوی آرام حاصل کرتا ہوں.تم جا کے لڑو بلکہ ہر جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطور لیڈر اور بطور قائد کے آگے ہوئے اور امت کو بہ اور یہ کہا کہ میرے پیچھے آؤ.یہ بہترین قائد جو اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں امت کو یہ آواز دیتا ہے کہ میرے پیچھے آؤ بہت ہی عظیم ہے وہ قائد اور بہت ہی عظیم ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم.آپ نے یہ نہیں کہا کہ خدا کی راہ میں قربانیاں دو بلکہ یہ کہا کہ جس طرح میں قربانیاں دیتا ہوں اس طرح میری سنت پر عمل کرتے ہوئے تم بھی خدا کی راہ میں قربانیاں دو.غرض آپ نے یہ فرمایا کہ یہ راستہ جس پر میں گامزن ہوں تم اس پر چلو.یہ راستہ خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے.اس لئے تم میرے پیچھے پیچھے آؤ.میری اتباع کرو اور اگر تم ایسا کرو گے تو قرآن کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے.وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (الاعراف: ۱۵۹) تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو گے تو تمہارا انجام بخیر ہو جائے گا.تم ان خوشیوں کو حاصل کر لو گے جن کا حاصل کرنا انسان کے لئے ممکن ہے اور سب سے بڑی خوشی تو خدا تعالیٰ کی رضا ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا مل جائے گی پس اسلام نے یہاں بھی زور دے کر فرمایا کہ تمہارا ہدایت پانا تمہارا نیک انجام ہونا بہترین جزا کا تمہیں ملنا اس بات پر منحصر ہے کہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہو.اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے.اِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِمُوتني يُبُكُمُ اللهُ (ال عمران :٣٢) کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی کا نتیجہ بھی یہ ہونا چاہئے کہ جو خدا کہتا ہے وہ تم کرو اور خدا تعالیٰ تمہیں کہتا ہے.اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (الاعراف : ۱۵۹) اس لئے اگر تم میری پیروی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا اس وجہ سے بھی کہ تم نے میری پیروی کی اور اس راستہ کو اختیار کیا ----
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۳۴ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کہ جو اللہ تعالیٰ کی جنت میں لے جانے والا تھا اور اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی کا یہ تقاضا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کہتا ہے وہ کرو یہ اتباع جس رنگ میں ہونی چاہئے وہ دنیا کا عام رنگ نہیں اور یہ آپ اچھی طرح یاد رکھیں کہ دنیا میں مختلف رنگوں میں اتباع کی جاتی ہے کسی جگہ ڈر کے، کسی جگہ اپنے فائدہ کے لئے کسی جگہ چھپ کر اور کسی جگہ ظاہر ہو کر کسی جگہ تھوڑی کسی جگہ بہت لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا گیا تو صحابہ نے کس رنگ میں اس کو لیا اور کس رنگ میں اطاعت کی اس کا نظارہ ہمیں جنگ حنین کے موقع پر نظر آتا ہے اس وقت بعض نئے اسلام لانے والے اور بعض وہ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے مسلمانوں کی فوج میں شامل ہو گئے تھے اور جنگ کے دوران ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ وہ بھاگے اور ساتھ ہی ان کے مسلمانوں کی سواریاں بھی بھاگیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریباً تنہا رہ گئے صرف چند آدمی آپ کے ساتھ تھے اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس سے کہا کہ ان کو میری طرف سے آواز دو آپ نے فرمایا کہ عباس بلند آواز میں پکار کر کہو کہ اے وہ صحابہ جنہوں نے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کی تھی اور اے وہ لوگو جو سورۃ بقرہ کے زمانہ سے مسلمان ہو خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے حضرت عباس نے نہایت ہی بلند آواز سے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام سنایا تو اس وقت صحابہ کی جو حالت تھی اس کا اندازہ صرف انہی کی زبان سے حالات سن کر لگایا جاسکتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم اونٹوں اور گھوڑوں کو واپس لانے کی کش مکش میں تھے.سواریاں بدک گئی تھیں اور واپس نہیں جاتی تھیں لگام کھینچتے تھے ادھر منہ نہیں کرتی تھیں کہ حضرت عباس کی آواز ہمارے کانوں میں پڑی.اس وقت ہمیں یوں معلوم ہوا کہ ہم اس دنیا میں نہیں بلکہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہیں اور اس کے فرشتے ہم کو حساب دینے کے لئے بلا رہے ہیں.تب ہم میں سے بعض نے اپنی تلواریں اور ڈھالیں اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور دوڑتے ہوئے اونٹوں سے کود پڑے اور ڈرے ہوئے اونٹوں کو انہوں نے خالی چھوڑ دیا کہ جدھر چاہیں چلے جائیں اور بعض نے اپنی تلواروں سے اپنے اونٹوں کی گردنیں کاٹ دیں.وہ بڑی تیزی سے جارہے تھے اور ان پر سے وہ چھلانگ نہیں لگا سکتے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی ادھر آؤ تو انہوں نے تلوار نکالی اور اونٹ کی گردن کاٹ دی پھر اونٹ گرا تو وہ اتر کر دوڑتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچے اور خود پیدل
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۳۵ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے.اس دن انصار اس طرح دوڑتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جارہے تھے جس طرح اونٹنیاں اور گائیں اپنے بچوں کی آواز سن کر ان کی طرف دوڑ پڑتی ہیں اور تھوڑی دیر میں صحابہ ( خصوصاً انصار ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور دشمن کو شکست ہوگئی.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۲۲۲،۲۲۱) تو اتباع کا یہ مفہوم صحابہ نے سمجھا تھا.اتباع کا یہ مفہوم ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اگر نفس کو اونٹوں کی طرح قربان کرنا پڑے یا رشتہ داروں کو اونٹوں کی طرح قربان کرنا پڑا یا بیوی بچوں کو قربان کرنا پڑا.اس دنیا کے اموال اور اس کے آرام اور لذتوں اور مسرتوں کو قربان کرنا پڑا تو ہم نے خدا تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے ہر چیز پر چھری پھیر دینی ہے اور خدا کی آواز جدھر بھی اور جس طرف بھی ہمیں پکارے ہم نے اس کی اتباع کرتے ہوئے اس طرف چلے جانا ہے.اس رنگ میں ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنی ہے.یہ نہیں کرنا کہ دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سے ہیں اور عمل یہ ہو کہ معمولی معمولی رسموں اور بدعتوں کو بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں اور حالت یہ ہو کہ مغربی تہذیب کے گندے اور بداثرات سے نجات پانے میں بھی تکلیف محسوس کریں.یہ نہیں ہوگا.تیسری صفت جو ہم میں پیدا ہونی چاہئے وہ تہیہ کی ہے یعنی ایسی سختی ہمارے اندر ہونی چاہئے کہ جس چیز سے ہمیں روکا جائے ہم فورا رک جائیں نہ سوچیں نہ دلائل کا انتظار کریں.بس کان میں حکم آئے یعنی جب بھی خدا اور اس کے رسول کے نام پر بری باتوں سے روکا جائے.ہمارے اندر یہ قوت اور استعداد اور صفت اور یہ خلق چاہئے کہ ہم فوراً باز آجائیں اس کے بغیر ہم خانہ کعبہ کی تعمیر کے جو مقاصد ہیں وہ حاصل نہیں کر سکتے اور دنیا ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَمَا نَهُكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا الله (الحشر : ۸) جس چیز سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں روکیں رک جاؤ کہ تقویٰ اسی میں ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ أَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى ( النزعت : ۴۱)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ٢٣٦ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کہ جو شخص نفس کی شہوات اور ان لذتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا.شہوات کو قطع کرتا اور اپنے سے ان میلانوں کو دور کرتا ہے جو نفس امارہ کی آواز ہوتے ہیں اور ان سب برائیوں اور بدیوں سے نجات حاصل کر کے اپنی عقل ( اپنی نہیہ ) کے نتیجہ میں اپنے رب کے مقام اور اس کی صفات کے جو جلوے ہیں ان سے وہ لرزتا ہے اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی اپنے رب کو ناراض کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.اس شخص کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت ملتی ہے.سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا عِنْدَكُمُ يَنْفَدُ يَنْفَدُ وَ مَا عِندَ اللهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِيَنَ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمُ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النحل : ۹۷) اور دوسری آیت میں ساتھ ہی فرمایا مَنْ عَمِلَ صَالِحًا (النحل : ۹۸) پھر اس کے آخر میں فرمایا لَنَجْزِيَنَ الَّذِينَ : صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ تو دوسری آیت.ان میں سے دوسری آیت میں عمل صالح کے نتیجہ میں احسن عمل کے مطابق جنت کے مقام کا انحصار رکھا کہ جنت میں ہر شخص کو وہ مقام عطا ہو گا جو اُن بہترین اعمال کے نتیجہ میں جو اس نے کئے ہیں ملنا چاہئے یعنی اوسط نہیں لگائی جائے گی.اللہ تعالیٰ کا یہ بھی بڑا احسان ہے کہ ہم کوئی عمل ایسا کرتے ہیں جو تھوڑا اچھا ہے کوئی ایسا کرتے ہیں جو اچھا ہے کوئی ایسا کرتے ہیں جو بہت اچھا ہے اور کوئی عمل ایسا کرتے ہیں جو خدا کی نگاہ میں سب سے اچھا ہوتا ہے مثلاً فرض کرو ایک شخص ہے اس نے صرف چار عمل کئے ہیں اور اس کے بعد وہ فوت ہو جاتا ہے.اب اللہ تعالیٰ حساب لینے لگا.حساب تو وہ لے گا بغیر وقت کے ہی قرآن کریم کہتا ہے لیکن ہم تو اپنی زبان اور اپنی دنیا کے حالات کے مطابق ہی بات کر سکتے ہیں ورنہ ہم سمجھ نہیں سکتے اسے.اللہ تعالیٰ حساب لیتا ہے تو وہ شخص جو خدا پر ایمان لایا لیکن اعمال صالحہ میں سے صرف چار عمل کر سکا تو اس دنیا سے وہ واپس بلا لیا گیا ان کاموں میں سے ایک کے نمبر ملے کچھ اچھا، دوسرے کے نمبر ملے، اچھا، تیسرے کے نمبر ملے، بہت اچھا، چوتھے کے نمبر ملے ، سب سے اچھا، تو اللہ تعالیٰ جنت میں اُسے اس جگہ رکھے گا جو سب سے اچھے عمل کے نتیجہ میں وہاں اُسے رکھا جانا چاہئے اور جو نسبتاً خامیاں اور نقص ہیں باقی اعمال میں ان کو اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپے گا تو اللہ تعالیٰ نے ان دو آیتوں میں سے دوسری آیت میں اعمال صالحہ کا ذکر کیا ہے یعنی وہ کرنے والے کام جو اچھی طرح کئے جاتے ہیں اور پہلی آیت میں یہ فرمایا ہے کہ مَا عِنْدَكُمُ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۳۷ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِيَنَ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمُ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ : تو یہاں صبر کے معنے نہی کے آتے ہیں ویسے صبر کے معنے رک جانے کے بھی آتے ہیں لیکن اس کے معنے اور بھی ہیں اس کے معنے مصائب پر واویلا نہ کرنے کے بھی ہیں.اس کے معنے نیکیوں پر ثبات قدم دکھانے کے بھی ہیں.اس کے معنے بدی سے رُک جانے کے بھی ہیں چونکہ دوسری آیت میں اوامر کا ذکر ہے یعنی جو کرنے والی باتیں ہیں اس واسطے پہلی آیت میں ہم مجبور ہیں کہ اس کے یہ معنی کریں کہ یہاں نواہی کا ذکر ہے.تو صبروا کے معنے ہیں کہ وہ فور اٹک جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بدیوں سے تم رکو گے تب بھی تمہیں جزا ملے گی اور نیکیوں کو کرو گے تب بھی تم کو جزا ملے گی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اپنی اس صفت کو مضبوط کرو اور اس خلق پر مضبوطی سے قائم رہو کہ جب بھی تمہیں کسی بُری چیز سے روکا جائے تو فور ارک جاؤ صحابہ کی زندگی میں اس کی ایک مثال ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ ابھی شراب حرام نہیں ہوئی تھی.اس سے روکا نہیں گیا تھا اس لئے بڑے بڑے بزرگ صحابہ میں سے بھی بعض (سارے نہیں) شراب پیا کرتے تھے اور انہیں اس کی عادت تھی لیکن اس عادت کے باوجود ایک دن ہوا کہ یوں ابوعبیدہ بن الجراح اور ابو طلحہ اور ابی بن کعب شراب پی رہے تھے اور حضرت انس انہیں شراب پلا رہے تھے.آپ جانتے تھے کہ شراب پی کر عقل بہک جاتی ہے.شراب سے عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں لیکن اس حالت میں کہ وہ شراب کی مدہوشی میں تھے ان کے کانوں میں یہ آواز آئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شراب ممنوع قرار دے دی گئی اس وقت گو عقل نیم مردہ تھی لیکن اسلام کی روح اور زندگی بیدار تھی.اس لئے انہوں نے اس وقت یہ نہیں سوچا کہ پہلے جا کر پتہ کر لیں کہ یہ حکم نازل بھی ہوا ہے یا نہیں بلکہ انہوں نے اس شخص کو جو شراب کے پیمانے ہاتھ میں لئے ان کی طرف آرہا تھا کہا کہ انس جاؤ اور ان مشکوں کو توڑ دو.خدا نے شراب حرام کر دی ہے(بخاری کتاب الاشربة بابنزم تحريم الخمر ) غرض اس قسم کی اطاعت ہے جس کا اسلام ہم سے مطالبہ کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس واقعہ کے متعلق یوں یہ تحریر فرمایا ہے کہ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے وفادار اور مطیع فرمان تھے کہ کسی نبی کے شاگردوں میں ایسی نظیر نہیں ملتی ہے اور خدا کے احکام پر ایسے قائم تھے کہ قرآن شریف ان کی تعریفوں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۳۸ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب سے بھرا پڑا ہے لکھا ہے کہ جب شراب کی حرمت کا حکم نافذ ہوا تو جس قدر شراب برتنوں میں تھی وہ گرا دی گئی اور کہتے ہیں اس قدر شراب بہی کہ نالیاں بہہ نکلیں اور پھر کسی سے ایسا فعل شنیع سرزد نہ ہوا اور وہ شراب کے پکے دشمن ہو گئے (ملفوظات جلد نمبر ۲ صفحه ۴۱) اور پکے دشمن اس وقت ہوئے جب وہ شراب کے نشہ میں مدہوش تھے اور شراب کے نشہ کی مدہوشی میں بھی وہ دشمن اسلام کی روح کی بیداری کے نتیجہ میں بڑی شدت اختیار کر گئی.مکے تو ڑ دیئے گئے اور کبھی خیال نہیں آیا ان کو ان عادتوں کے باوجود کہ ہم اس بُری چیز کے قریب جائیں گے.اس لئے کہ ہمیں خدا کے رسول نے اس سے منع کر دیا ہے جب ابو عبیدہ اور ابوطلحہ اور ابی بن کعب نے کہا کہ مٹکے اسی وقت توڑ دو اس وقت قرآن کریم کتاب حکیم ہے.حکمت یہ بھی بتاتی ہے لیکن اس وقت ان کے پاس اس حکم کی کوئی حکمت نہ تھی ان کے پاس تو صرف آواز ہی پہنچی تھی نا کہ شراب حرام ہوگئی.کیوں حرام ہوئی اس کا ابھی پتہ نہیں لگا تھا لیکن اطاعت کا جذبہ اور اطاعت کی روح اس قدر پختہ اور بیدار تھی کہ نشہ کی حالت میں بھی اطاعت کر گئے اور دنیا میں اپنا اور امت مسلمہ کا ایک حسین نام چھوڑ گئے.اس قسم کی اطاعت خدا اور اس کے رسول کی اگر ہم کریں تو خانہ کعبہ کے مقاصد ہم حاصل کرتے ہیں.اگر ہم ایسا نہ کریں تو وہ مقاصد ہم حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ صحابہ سے پہلے کسی نے وہ مقاصد حاصل نہیں کئے اور بعد میں بھی جو ان کا ہم شکل نہیں بنا.اس نے یہ مقاصد حاصل نہیں کئے تو نفس امارہ کو کلی طور پر ذبح کر دینا اور اطاعت اور فرماں برداری اور اتباع کے اعلیٰ مقام پر کھڑا ہونا یہ صفت ہمارے اندر ہو چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.وہ عبادت جو آخرت کے خسارہ سے نجات دیتی ہے وہ اس نفس امارہ کا ذبح کرنا ہے کہ جو بُرے کاموں کے لئے زیادہ سے زیادہ جوش رکھتا ہے اور ایسا حاکم ہے کہ ہر وقت بدی کا حکم دیتا رہتا ہے پس نجات اس میں ہے کہ اس بُر احکم دینے والے کو انقطاع الی اللہ کی کار دوں سے ذبح کر دیا جائے اور خلقت سے قطع تعلق کر کے خدا تعالیٰ کو اپنا مونس اور آرام جان قرار دیا جائے اور اس کے ساتھ انواع واقسام کی تلخیوں کی برداشت بھی کی جائے.تانفس غفلت کی موت سے نجات پاوے اور یہی اسلام کے معنے ہیں اور یہی کامل
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۳۹ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب اطاعت کی حقیقت ہے.اور مسلمان وہ ہے جس نے اپنا منہ ذبح ہونے کے لئے خدا تعالیٰ کے آگے رکھ دیا ہو اور اپنے نفس کی اونٹنی کو اس کے لئے قربان کر دیا ہو اور ذبح کے لئے پیشانی کے بل اس کور گرا دیا ہو اور موت سے یک دم غافل نہ ہو.“ خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد نمبر ۱۶ صفحه ۳۶،۳۵) ایک صفت جو ہمارے اندر پیدا ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ ہمیں عادت ہو کام کو انجام تک پہنچانے کی یعنی جو کام بھی ہم کریں ہم انتہائی کوشش کر کے اس کو انتہا تک پہنچاویں کامیاب انتہا تک.راستے میں روکیں آئیں، ہمیں لوگ ہر قسم کا دُکھ دیں کہ یہ کام نہیں کرنے دیں گے یا ہماری آزمائش کے لئے آفات آسمانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی جائیں یا شیطان ہمارے دل میں وسوسے پیدا کرے یا ہمارا نفس امارہ ہمیں یہ کہے کہ کس کام میں تم لگے ہو.چند دن کی زندگی.عیش کر لو یہ بھی ایک شیطانی وسوسہ نفس امارہ کے ذریعہ سے ہوتا ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے لیکن کچھ ہو جائے ہم میں یہ عادت ہو ہماری یہ صفت ہو کہ ساری دنیا اسے جانیں کہ احمدی وہ ہیں کہ جب وہ کام شروع کرتے ہیں اس کو چھوڑتے نہیں جب تک وہ اسے کامیاب انجام تک نہ پہنچا ئیں.بات یہ کہ ہمیں اس زندگی میں چھوٹے چھوٹے اور غیر اہم کام بھی کرنے پڑتے ہیں اور ہماری زندگی کا یہ مقصد نہیں.ہماری زندگی کا یہ مقصد ہے کہ ساری دنیا پر اسلام کو غالب کرنا ہے ہم نے ہر دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو پیدا کرنا ہے ہم نے ہر شخص کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطیع بنانا ہے.یہ کام آسان نہیں اگر ہم چھوٹے چھوٹے کاموں میں اس بات کے عادی نہ ہوں کہ جو کام ہم شروع کریں اُس کو انجام تک پہنچا ئیں تو اتنے اہم کام میں ہم کس طرح کامیابی حاصل کر سکتے ہیں.جس کی راہ میں ہزار ہا بلکہ میں کہوں گا کہ بے شمار روکیں ہیں.یہ تو نہیں کہ آپ آرام سے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کر دیں گے شیطان خاموش نہیں بیٹھے گا طاغوتی قوتیں آپ کو مٹانے اور نا کام بنانے کے لئے ہر کوشش کریں گی لیکن آپ کے اندر روح مجاہدہ ہونی چاہئے صفت جہاد آپ کے اندر ہونی چاہئے تلوار کا جہاد نہیں گو ضرورت پڑے تو جان بھی دینی ہے شرائط اگر پوری ہوں تو تلوار یا ایٹم بم کا استعمال بھی ٹھیک ہے لیکن روح یہ ہونی چاہئے جو اصل معنی کے لحاظ سے اور اسلام جو مطالبہ کرتا ہے ہر احمدی کے اندر روح مجاہدہ ، صفت جہاد ہونی چاہئے.جہاد کے معنی ہوتے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۴۰ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب ہیں کسی کام کو کرنے میں پوری طاقت خرچ کر دینا ( یہ معنی ہیں اس کے ) اور اپنی طاقت کے مطابق اپنی استعداد کے مطابق پورا زور لگا دینا اور یہ مجاہدہ ہے تو جس کام کو بھی کریں جتنی طاقت اور قوت ہمیں اللہ تعالیٰ نے دی ہے وہ ہم خرچ کریں پھر اپنے خدا سے کہیں کہ اے خدا ہم نے ایک عہد تو تجھ سے کیا تھا اور یہ کہ تیرے اسلام کو پھیلانے کے لئے ہم اپنی طاقت خرچ کر دیں گے.ہم نے اپنا عہد پورا کر دیا ہے جو تو نے بھی ہم سے عہد کیا تھا کہ جب تم اپنی استعداد کے مطابق اپنی ساری قوتوں کو خرچ کرو گے تو میں اپنے فضل سے تمہیں کامیاب کروں گا.اب تو اپنے عہد کو پورا کر اور ہمیں کامیابی عطا کر لیکن اگر ہم اپنے عہد کو پورا نہ کریں اور ہمارے اندر روح مجاہدہ نہ ہواو رصفتِ جہاد نہ پائی جائے تو ہم کس طرح اپنے خدا کو کہ سکتے ہیں کہ اے خدا ہم نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا تو اپنا وعدہ پورا کر دے.یہ تو غیر معقول بات ہے تو ہمیں اپنا عہد بہر حال پورا کرنا ہے.ہمارے اندر اس مجاہدہ اور اس جہاد کی صفت ہونی چاہئے کہ جو کام کرنا ہے اس کو جہاں تک ہماری طاقت اور استعداد کا تعلق ہے انتہا تک پہنچا دینا ہے راستہ میں نہیں چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الخَيْرَ لَعَلَّمـ للِحُونَ وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبكُمُ (الحج: ۷۹،۷۸ ) اللہ تعالیٰ ان آیات میں یہ فرماتا ہے کہ الہی احکام کی تعمیل میں اپنی گردنیں جھکا دو وَاعْبُدُوا اور کمال ادب اور کمال نیستی اور تذلل اختیار کر کے عبادت میں لگ جاؤ وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ آن کریم کے بتائے ہوئے سارے ہی احکام پر عمل کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.عام معمولی کام نہیں کرنے بلکہ آگے فرمایا وَ جَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبكُمُ اس نے تمہیں مسلمہ بنا کر ایک برگزیدہ مقام عطا کیا ہے اس لئے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ چونکہ ہم نے تمہیں مجتبی بنایا ہے.برگزیدہ جماعت بنایا ہے.وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِمِ اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرو ورنہ یہ بزرگی تم سے واپس لے لی جائے گی اور ایک وہ قوم کھڑی کی جائے گی جو اسلام کو دنیا میں غالب کرے گی.غرض اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑا احسان اپنا یاد دلایا اور پھر ایک یہ مطالبہ کیا.اللہ تعالیٰ نے احسان یاد دلایا کہ دیکھو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۴۱ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب بعد میں آنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک برگزیدہ جماعت قرار دیا تھا اور حقیقی معنی میں امت مہ انہیں ٹھہرایا تھا.انہوں نے خدا تعالیٰ کے اس پیار کے نتیجہ میں اس کی راہ میں اپنی ساری کوششوں اور طاقتوں کو خرچ کر دیا اور جہاد کا حق ادا کر دیا پھر بعض لوگوں کی غفلت اور کوتاہیوں کے نتیجہ میں لیکن امت مسلمہ شروع سے لے کر قیامت تک جو ہے اس میں سے بعض کے الفاظ میں بول سکتا ہوں.ویسے تو نہیں بہر حال انہوں نے اس احسان کو یاد نہیں رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں برگزیدہ بنایا ہے اور اس اجتباء کے نتیجہ میں جو ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے وہ انہیں ادا کرنی چاہئے پس ان سے وہ بزرگی چھین لی گئی.تو دیکھو کتنا تذلل کا زمانہ آیا بعض دفعہ اپنی تاریخ کو پڑھ کر رونا آتا ہے کہ کوئی ایسی ذلت نہیں جو ہمارے تصور میں آسکے اور وہ مسلمانوں کو سہنی نہ پڑی ہو سب کچھ چھن گیا.دنیا کی عزت چھن گئی اور روحانی نعمتیں بھی چھینی گئیں اللہ تعالیٰ اب آپ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میں نے آسمان پر اسلام کے غلبہ کا فیصلہ کیا اور اس غلبہ کے لئے تمہیں اے جماعت احمد یہ ایک برگزیدہ مقام عطا کیا ہے کہ تمہیں اس جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا ہوئی.یہ بزرگی جو تمہیں دی گئی ہے یہ تم پر ایک فرض عائد کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تم خدا اور اس کے دین کی راہ میں اپنی تمام طاقتوں اور قوتوں اور استعدادوں اور اموال اور عزتوں کو خرچ کر دو.پس وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِم پر عمل کرو تا که تمہاری یہ بزرگی قائم رہے.اس وقت تین چیزوں کے خلاف ہمیں جہاد کا حق ادا کرنا چاہئے ایک تو دجالی فتنہ شرک ہے اور دوسرا دہریت کا فتنہ ہے اور ہر دو فتنے اسلام پر حملہ آور ہیں اور ہر دو طاقتوں کے پاس اس قدر مادی سامان ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت نہ ہو تو ان کا مقابلہ کرنے کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے.یعنی عیسائیوں کا ( کہ جو اس وقت پیسے اور زور سے شرک پھیلا رہے ہیں ) ہم مقابلہ نہیں کر سکتے.نہ ہمارے پاس ان جیسی طاقت ہے اور نہ ہمارے پاس اتنا پیسہ پھر دہریت ہے، کمیونزم ہے، اشتراکیت بھی ہے، اس نے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے انکار کا علم بلند کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم زمین سے خدا کے نام اور آسمانوں سے خدا کے وجود کو ختم کر دیں گے (نعوذ باللہ ) اس کے مقابلہ میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ یہ بشارت دی گئی ہے کہ بے شک یہ دعوی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۴۲ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کرتے ہیں کہ خدا کے نام کو دنیا سے مٹا دیں گے لیکن ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ روس میں احمدی اتنی کثرت سے پھیل جائیں گے جتنی کثرت سے دریا کے کنارے پر ریت کے ذرے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کشف کے ذریعہ یہ نظارہ دکھایا گیا اور اس ملک میں احمدیت کے پھیلنے کی بشارت آپ کو دی گئی هُوَ اجْتَبكُمُ الله تعالیٰ نے تمہیں برگزیدگی دی ہے.تمہیں برگزیدہ بنایا ہے تمہیں عزت دی ہے کہ تم روس کو خدا تعالیٰ کے لئے فتح کرو.اگر اس وعدہ اور اس بشارت کے ہوتے ہوئے ہم جہاد نہ کریں تو ہمارے حق میں یہ وعدہ کیسے پورا ہوگا اتنی بڑی عزت کو اتنی بڑی طاقت کو جو اس وقت ایک قسم کی خدا تعالیٰ سے بغاوت اختیار کر رہی ہے اور دنیوی طاقت کے بل بوتے پر ان کو خدا کے لئے جیتنا اور اُن کو خدا کے آستانہ پر واپس لے کر آنا کوئی معمولی کام نہیں اور جو یہ کام کرے گا اس کی بڑی عزت ہے.دنیوی معیار کے مطابق بھی اس کی بڑی عزت ہے اتنا بڑا انعام اور فخر کا سامان تمہارے لئے پیدا کیا ہے.کیا پھر بھی تم جہاد کا حق ادا نہیں کرو گے.جَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِہ.ہم نے شرک کے خلاف، ہم نے دہریت کے خلاف اپنا پورا زورلگانا ہے.ہمارے اندر ہر وقت روح مجاہدہ زندہ رہنی چاہئے.یہ وہ تو میں نہیں جن سے ہم شکست کھا جائیں یا شکست کا خیال بھی ہمارے دماغوں میں آئے.اس لئے نہیں کہ ہمارے اندر کوئی خوبی ہے بلکہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی توفیق دی ہے کہ اگر ہم چاہیں تو اپنا سب کچھ اس کی راہ میں قربان کر دیں کہ جو چیز میرے پاس نہیں وہ تو میں قربان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن اگر میری جیب میں سو روپیہ ہے اور میں یہ نیت کروں کہ میں یہ سو روپیہ خدا کو دے دوں گا تو مجھ میں اس کی طاقت ہے.پس اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وہی مانگا ہے جو میرے پاس ہے.زیادہ نہیں مانگا کہ میں یہ کہوں کہ میں یہ کام کیسے کروں گا.خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ جتنا تمہارے پاس ہے مال ہو یا طاقت ہو یا عقل ہو یا سمجھ ہو یا علم ہو یا ذہانت ہو یا وقت ہو.یہ سارا تم خدا کی راہ میں خرچ کر دو.جہاد کاحق ادا کر دو.کامیابی میں تمہیں دے دوں گا.چاہے تمہارا اقتدار، تمہارے احوال ، ان قوموں کے مقابلہ میں صفر کے برابر ہی کیوں نہ ہوں لیکن اگر تم جو کچھ بھی تمہارے پاس ہے مجھے دے دو گے تو میں تمہیں کامیابی دے دوں گا اور دنیا میں یہ ثابت کروں گا کہ تم ہی میرے مجتبی بندے ہو تمہیں ہی میں نے برگزیدہ بنایا ہے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۴۳ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب دوسرا محاذ شیطانی وسوسوں کا ہے جس کے خلاف ہم نے جہاد کرنا ہے یورپ کا فلسفہ اور یورپ کا تمدن ہر دو شیطانی وسوسے پیدا کرتے ہیں مسلمان کے دل میں چھوٹی چھوٹی باتوں میں.ہم ان کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں.یہ ایک میدان ہے جس میں ہم نے جہاد کرنا ہے.ہمارے آباء اور بڑوں نے بھی جہاد کے یہی معنی کئے ہیں کہ شیطان کے خلاف جو جنگ کی جاتی ہے وہ بھی مجاہدہ ہوتا ہے بہر حال یہ ایک محاذ ہے جو ہمارے لئے قائم ہے.پہلوں نے بھی اسے محسوس کیا اور وہاں حملہ آور ہوئے اور کامیاب ہوئے اور ہم نے بھی اس محاذ پر حملہ کرنا اور کامیاب ہونا ہے ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا حسین معاشرہ عطا کیا ہے کہ اس سے زیادہ حسین معاشرہ تصور میں بھی نہیں اُسکتا پھر ہم مغربی معاشرہ سے کس طرح متاثر ہوں.میں نے ایک دفعہ پہلے بھی بتایا ہے کہ ہیمبرگ (جرمنی) میں ایک احمدی جرمن کی بیوی اسلام کی طرف ذرا بھی متوجہ نہیں ہوتی تھی اور اپنے خاوند کی بات ہی نہیں سنتی تھی انہوں نے مجھ سے ذکر کیا تو کچھ باتیں میں نے غالباً اپنی تقریر میں بیان کیں.بعد میں جب میں ان سے ملا تو میں نے ان سے کہا کہ دیکھو بڑی لمبی لڑائی عورت نے اپنے حقوق کو لینے کے لئے لڑی صدیاں بلکہ کہنا چاہئے شاید ڈیڑھ دو ہزار سال کی لڑائی جو لڑی گئی ہے اس میں مرد بھی عورتوں کے ساتھ شامل ہوئے اور ساری دنیا کے محاذ پر ایک ہنگامہ بپا ہوا کہ عورتوں کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں اور صدیوں یہ جنگ لڑی جاتی رہی اتنے لمبے عرصہ کی جدو جہد کے بعد تم جو حقوق حاصل کرسکی ہو اس سے زیادہ حقوق اسلام تمہیں قرآن کریم میں دیتا ہے اس لئے اپنے فائدہ کے لئے قرآن کریم کی طرف متوجہ ہو تمہیں پتا لگے کہ قرآن کریم نے تمہارے کیا حقوق مقرر کئے ہیں تا کہ تم اپنے خاوند سے ان حقوق کا مطالبہ کر سکو تو انہوں نے بعد میں مجھے بتایا کہ اب اس حد تک وہ میری باتیں سننے لگ گئی ہے غرض میرے بتانے پر اسے خیال پیدا ہوا کہ مجھے پتہ لگنا چاہئے کہ میرے خاوند پر میرا کیا حق ہے جو میں اس سے مانگوں اس قدرحسین معاشرے کے بعد ہم ان کی نقل کیوں کریں جو اس وقت اندر سے کھوکھلے ہوئے ہوئے ہیں.اگر آپ آج لنڈن کے بازاروں میں اس گند کا مشاہدہ کریں جو ہر پھرنے والے کو وہاں نظر آتا ہے تو اس کے بعد آپ ایک لحظہ کے لئے بھی ان کے کاموں (ہم کسی آدمی کے دشمن نہیں ) کو اور ان کے اخلاق اور ان کے افعال کو اچھا سمجھتے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۴۴ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب ہوئے کبھی ان کی نقل نہ کریں.پس شیطان کے وسوسوں اور شیطانی دباؤ کے محاذ پر ہم نے مجاہدہ کرنا ہے اور اپنی کوشش کو انتہاء تک پہنچانا ہے.تیسرا محاذ نفس امارہ کا ہے یعنی انسان دوسرے کی تو نقل نہیں کرتا لیکن خود انسان کا نفس اس کو بُری باتوں یا غفلتوں یا کوتاہیوں کی طرف مائل کرتا ہے.یہ ایک محاذ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیدار رکھنے کے لئے ہمارے اندر ہی ایک اندرونی جنگ سول وار (Civil War) کا نقشہ کھینچ دیا ہے تا کہ ہم اس وقت تک نہ سوئیں جب تک کہ ہمارا شیطان مسلمان ہو جائے.جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے اس سے پہلے ایک عظیم جنگ لڑی جاتی ہے اور لڑی جانی چاہئے.تو یہ تین محاذ ہیں جن پر ہم نے کامیاب مجاہدہ کرنا ہے شرک اور دہریت کے خلاف غلط قسم کے اثرات کے خلاف اور نفس امارہ کی خواہشات کے خلاف اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے تمہیں اتنی بزرگی عطا کی ہے اس لئے تمہارے اوپر میں یہ فرض عائد کرتا ہوں کہ اگر تم اس کی بزرگی کو قائم رکھنا چاہتے ہو تو جہاد کا حق ادا کرو.اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا دو یہ صفت جماعت احمدیہ میں نمایاں طور پر پیدا ہونی چاہئے اور اسے قائم رکھنا چاہئے اگلی نسل میں بھی اس کو پیدا کرنا چاہئے اور ان کو غافل نہیں ہونے دینا چاہئے.ایک اور صفت جو ہمارے اندر پیدا ہونی چاہئے وہ روح مسابقت ہے اور اللہ تعالیٰ سورۃ الحدید میں فرماتا ہے.سَابِقُوا إلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الحديد : ٢٢) اس آیت کریمہ میں بڑے ہی لطیف پیرایہ میں روح مسابقت پیدا کرنے اور اسے قائم رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے.اللہ تعالیٰ یہاں اپنے انعامات یاد کراتا ہے اور ان کی عظمت ہماری آنکھوں کے سامنے لاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جو جنت تمہارے لئے تیار کی ہے اس کی قیمت زمین اور آسمانوں کی قیمت سے زیادہ ہے.یہ زمین اس کے سارے ہیرے اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۴۵ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب جواہرات اور سونا اور دوسری معدنیات اور یہ درخت اور یہ کھیتیاں جب سے یہ پیدا ہوئی ہے زمین اس وقت تک کہ جب یہ ختم ہو، اور پھر ستارے.ان سب کی تم اپنے تصور میں قیمت لگاؤ اس قیمت سے زیادہ قیمت ہے اس جنت کی جو میں نے تمہارے لئے تیار کی ہیں.ان انعامات کے حصول کے لئے سابقوا ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.کون زیادہ انعام حاصل کرتا ہے.ہر ایک کو کم از کم جو انعام ملے گا جس کی قیمت اس عالمین کی قیمت ہے یعنی یہ زمین اور آسمان اور اس کے ستارے جہاں تک ہمارے وہم بھی ابھی تک نہیں پہنچے وہ موجودات جو ہیں ان کی جو بھی قیمت ہے اس سے زیادہ کم سے کم اس جنت کی قیمت ہے اور اس سے زیادہ بھی انعام ملے گا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کم سے کم انعام جب اتنا بڑا ہے تو تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ دوسروں سے آگے بڑھے اور دوسرے بھائیوں سے زیادہ انعام حاصل کرے.دوسروں سے زیادہ قربانیاں دے خدا کی راہ میں دوسروں کی نسبت زیادہ تکالیف اور اذیتیں برداشت کرنے والا ہو راتوں کو زیادہ جاگنے والا ہو.دنوں کو زیادہ اپنے اوقات کو خدا کے لئے خرچ کرنے والا ہو.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا سا بقوا لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ تمہاری کوششیں کافی نہیں اس لئے ہم نے ان جنتوں کے حصول تمہارے لئے ممکن بنانے کے لئے اس جنت کے ایک طرف اپنی مغفرت کو رکھا ہے اور جنت کے دوسری طرف اپنے فضل کو رکھا ہے سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمُ اور آخر میں کہا ذلِكَ فَضْل الله اور درمیان میں کہا جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ تو ہمیں یہ بتایا کہ اتنا بڑا انعام ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ تم اپنی کوششوں کو اگر انتہا تک بھی پہنچا دو تو تم صرف اپنے عمل کی وجہ سے اس انعام کے مستحق نہیں ہو سکتے اور ہم چاہتے ہیں کہ تمہیں یہ انعام ملے.اس لئے ہم نے اس انعام کو تمہارے لئے ممکن بنانے کے لئے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ جنت کے ایک طرف اپنی مغفرت رکھ دی ہے اور دوسری طرف اپنے فضل کو رکھ دیا ہے.اس لئے تمہیں مل جائے گا لیکن ایک شرط ہے کہ تم سابقوا کا نمونہ دکھاؤ.ایک دوسرے سے مسابقت اختیار کرو اور یہ ذمہ داری ہم تم پر ڈالتے ہیں.پھر جو خامی رہ جائے گی اس کی تمہیں کوئی فکر نہیں کرنی چاہئے تمہیں غم نہیں کرنا چاہئے یہ جنت تمہیں مل جائے گی یہ عظیم انعام تمہیں مل جائے گا.تو ہماری جماعت میں روح مسابقت قائم رہنی چاہئے یعنی یہ نہیں کہ بعض جماعتیں کہیں کہ کراچی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۴۶ ---- ۱۳/ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب چندہ دے دے گا.ہمیں اس کی طرف توجہ کرنے کی کیا ضرورت ہے یا یہ کہ بعض جماعتیں یہ کہیں کہ مرکز سے لوگ آ کر اصلاح وارشاد کا کام کریں گے.ہمیں اس طرف توجہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.یہ نہیں بلکہ ہر ایک یہ کہے کہ مرکز کے پورا وقت کام کرنے والے مربی جتنا کام کرتے ہیں ہم ان سے زیادہ کام کریں گے.ان سے آگے بڑھ جائیں گے یہ زیادہ استحقاق رکھتے ہیں خدا تعالیٰ سے بہتر انعامات پانے کا.ہم پائیں گے.ان سے آگے بڑھیں گے یہ نہیں کہ وہ یہ انعامات نہ پائیں وہ بھی پائیں لیکن ہم ان سے زیادہ پائیں گے ہر ایک کے اندر یہ روح ہونی چاہئے اور صرف اس نسل میں نہیں کیونکہ ہمارا کام اس نسل کے کام پر ختم نہیں ہو جاتا.یہی روح مسابقت اگلی نسل کے اندر پیدا کرنی چاہئے اور اس کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کے لئے خدام الاحمدیہ.انصار اللہ - اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا.میں جو کہتا ہوں کہ جنت کی طرف روح مسابقت کے ساتھ تیز قدم اٹھاتے ہوئے بڑھتے چلے جاؤ اس سے کیا مراد ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلِكُلٍ وَجْهَهُ هُوَ مُوَلِيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ (البقرة : ۱۴۹) کہ ہر ایک شخص یا قوم کا ایک مطمح نظر ہوتا ہے تم خیرات کے تعلق میں روح مسابقت کو اپنا مطمح نظر بناؤ اور یہاں الخَيْرَاتِ کے ایک معنی احکام قرآن ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا.وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قَالُوا خَيْرًا (النحل : ۳۱) کہ قرآن کریم کے احکام خیر ہیں یہ ایک لفظ میں قرآن کریم کی تعریف بیان کی گئی ہے.یعنی ان میں بھلائی ہی بھلائی ہے تو اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرمایا ہے کہ جب میں کہتا ہوں کہ سابقوا إلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمُ وَجَنَّةٍ تواس جنت سے مراد قرانی احکام کی تعمیل ہے.قرآن کریم پر عمل کرنا بھی جنت ہے جو اس دنیا میں ہمیں عمل کرتے ہوئے ملتی ہے اور آخری دنیا میں وہ ایک اور شکل کو اختیار کر جائے گی.حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جہاں ہم قرآن شریف کے مطابق اعتقادات صحیحہ رکھتے ہیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں.وہاں ہمارے صحیح اعتقادات درختوں کا روپ دھار لیں گے اور ہمارے اعمالِ صالحہ جو ہیں وہ نہروں کی شکل میں ظاہر ہوں گے تو عمل صالح ان درختوں کو ملے گا اور اس سے ہمیں ملیں گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس جنت کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں وہ جنت تمہیں اس دنیا میں مل سکتی ہے اور جنت اُخروی اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں وہاں پہنچا.نے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۴۷ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب وہاں کھڑے ہو کر دیکھیں تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو اس دنیا کی جنت سے اُخروی جنت کے باغات کے درخت ہیں.وہ یہاں اعتقادات کی شکل میں نظر آتے ہیں اور جو نہریں وہاں چل رہی ہیں وہ اس دنیا والوں کو اعمال صالحہ کی شکل میں نظر آتی ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس دنیا میں تمہیں جنت مل جائے گی قرآن کریم کے احکام پر عمل کرتے ہوئے روح مسابقت کا مظاہرہ کرو تو تم جنت پالو گے اور سچی بات یہ ہے کہ اگر قرآن کریم کے احکام پر ساری دنیا عمل کرنا شروع کر دے تو یہ دنیا حقیقتا جنت بن جائے یہاں رہنے والوں کے لئے.ہاں سَابِقُوا میں ایک تو روح مسابقت دکھانا ہے اور دوسرے یہ کہ یہ کوشش کرنی ہے کہ کوئی بھی اس دوڑ میں شامل ہونے سے رہ نہ جائے کیونکہ صرف ایک گروہ ہو تو وہ کس سے مقابلہ میں آگے بڑھیں گے.اگر ایک شخص ہو دوسرے افراد نہ ہوں تو مسابقت کیا رہ جائے گی تو اس میں یہ تعلیم بھی دی گئی کہ جماعت احمدیہ کی اس رنگ میں اسی طرح تربیت کی جائے جس طرح صحابہ کی کی گئی تھی کہ ان میں سے کوئی شخص دوسرے سے پیچھے رہنا گوارا ہی نہیں کرتا تھا.عورتوں کو ایک دفعہ خیال نہیں آیا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں اور عرض کیا کہ مردوں کو آپ وعظ و نصیحت کرتے ہیں وہ اس کے مطابق وہ عمل بجالاتے ہیں.ہم وہ وعظ سننے سے محروم رہتی ہیں.یہ بھی ایک ثواب ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنا اور آپ کی برکت سے حصہ لینا.تو آپ نے ان کے لئے وقت مقرر کر دیا.اس وقت طاغوتی طاقتوں نے اسلام کو تلوار کے زور سے مٹانا چاہا تھا تو نہتے مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ اگر یہ تلوار کا معجزہ دیکھنا چاہتے ہیں تو چلو ان کو یہ معجزہ دکھا دیتے ہیں.تم ٹوٹی ہوئی تلواریں لے کر میدان میں آ جاؤ.جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ میدان جنگ میں پہنچ کر میرے حضور پیش کر دینا.میں آسمان سے فرشتوں کو نازل کر کے تمہیں کامیاب کر دوں گا.یہ جانہ دینے کی قربانی جو عارضی طور پر اس وقت لی گئی تو اس وقت بعض قبائل کو یہ خیال پیدا ہوا کہ سارے قبائل کے جو لوگ جا سکتے ہیں وہ جاتے ہیں اور ایک جیسا ثواب لیتے ہیں ہمیں باقیوں سے آگے نکلنا چاہئے تو اس روح مسابقت کے نتیجہ میں بعض قبائل نے سارے مردوں کو میدان جنگ میں شہید کروا دیا یعنی اتنی عظیم قربانی دی اور صرف اس روح مسابقت کی وجہ سے کہ ہمیں ان کے پہلو پہلو چلنا بھی پسند نہیں.ہمیں ان سے آگے نکلنا چاہئے.غرض صحابہ کی زندگیاں اس روح مسابقت
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۴۸ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کی حسین مناظر سے بھری پڑی ہیں.وہی چیز اب ہم نے اپنے رب کے حضور پیش کرنی ہے.ہمارے اوپر اس روح مسابقت کے نتیجہ میں یہ فرض بھی ہے کہ ہر شخص مقابلہ کے میدان میں آنے کے لئے تیار ہوں تبھی تو پتہ لگے گا کہ کون آگے نکلتا ہے کسی کو ہم نے پیچھے نہیں رہنے دینا.ایک کم سے کم معیار پر ہر احمدی فرد اور ہر احمدی جماعت اور ہر احمدی ملک کو لے کر آنا ہے اور پھر ان کا آپس میں مقابلہ کروانا ہے اور آگے بڑھنا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قدر عظیم صفات پیدا کرنے کی تعلیم ہم تمہیں دے رہے ہیں تو قرآن کریم کو تم صرف اپنا حصہ نہ سمجھنا بلکہ قرآن کریم تمام عالمین کے لئے ذکر.ان کی بزرگی کے قائم کرنے اور بزرگی کے بڑھانے کا ذریعہ بنایا گیا ہے اور اس خصوصیت کے ساتھ تمام بنی نوع انسان کی طرف یہ بھیجا گیا ہے.اس لئے تم قرآن کریم کو ہاتھ میں لے کر ساری دنیا میں پھیل جاؤ.جماعت احمدیہ کے اندر بھی یہ جذبہ پیدا ہونا چاہئے یہ صفت ہونی چاہئے قرآن پکڑا یا اور کہا کہ اس کی جو نوا ہی ہیں.تم اس سے بچتے رہو.قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے ایک نور بنایا ہے.اس کے ماننے والوں کے دلوں میں لمبے اور دور دراز کے سفروں کا شوق پیدا کیا.اس جذبہ کے ماتحت کہ ہم نے قرآن کریم کی حسین تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلا کے دم لینا ہے اور اس مہم میں کامیاب ہونے کے ہمیں طریق بتائے اور وہ یہ ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ادْعُ إِلى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ (النحل : ١٦) کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ کی طرف اس صراط کی طرف جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کہا گیا کہ یہ صراطی مستیقما ہے.اس صراط مستقیم کی طرف جس کے حاصل کرنے اور جس پر قائم رہنے کی ہمیں دعا سکھلائی گئی.اھدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.اس راستہ کی طرف تم ساری دنیا کو بلاؤ قرآن کریم کو اپنے دونوں ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑو اور دنیا کے ملک ملک میں پھیل جاؤ اور وہاں تبلیغ قرآن کرو اور تبلیغ اسلام کرو.دو دلائل تمہیں دئے گئے ہیں یا دو طاقتیں تمہیں عطا کی گئی ہیں.ایک حکمت اور موعظہ حسنہ کی یعنی اعلیٰ ترین دلائل اور ان دلائل کو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۴۹ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب بہترین طریق پر پیش کرنے کا ملکہ.یہ تمہیں عطا کیا گیا ہے.یہ ایک ہی چیز کے دو حصے ہیں اور وسرے ہم نے تمہیں عمل کی توفیق دی اور تمہیں یہ کہا کہ اپنا عملی نمونہ پیش کر کے دنیا کو قرآن کریم کی طرف بلانا.وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اس میں عملی نمونہ پیش کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم ( جدال میں غالب آنے کے معنی بھی ، کوئی ایسی کوشش جس میں انسان غالب آتا ہے اور اس میں بتایا گیا ہے ) صرف دلائل لے کے ان کے پاس گئے تو وہ دلائل سے خاموش تو ہو جائیں گے لیکن فوراً وہ مطالبہ کریں گے کہ اس پاک تعلیم کا عملی نمونہ ہمیں دکھایا جائے.کیونکہ کوئی تعلیم خود کتنی ہی حسین کیوں نہ ہوا اگر اس پر دنیا عمل نہ کرے تو دنیا اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی تعلیم ایسی چیز تو نہیں کہ وہ ہوا میں چکر لگاتی رہے اور دنیا اس سے فائدہ اٹھالے تعلیم تو کہتے ہی اُسے ہیں جس پر عمل کیا جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دوسری چیز ہم نے یہ دی ہے.بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ بِالَّتِی سے مراد عمل ہے وہ عمل جو احسن عمل ہو.صرف عمل صالح نہیں ، صرف نیک نمونہ نہیں بلکہ جب بہترین نمونہ ہو گے.تب دنیا تمہاری طرف جھکے گی اور مائل ہوگی.بعض اپنے ماحول میں بعض لوگوں کا احسن عمل نہ بھی ہو.صرف عمل صالح ہو تب بھی گزارہ ہو جائے گا لیکن جب آپ منکر اسلام کے سامنے جاتے ہیں.اس وقت محض عمل صالح آپ کو فائدہ نہیں دیتا بلکہ عمل صالح میں سے جو احسن عمل ہے بہترین عمل ہے اس سے وہ اثر قبول کرتا ہے ورنہ وہ اثر قبول نہیں کرتا.میں نے بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ سے جو استدلال کیا ہے.قرآن کریم کی دوسری آیات اس کی تائید کرتی ہیں لیکن اس خیال سے کہ وقت زیادہ ہو جائے گا.میں نے ان آیات کو لیا نہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے ویسے بڑی وضاحت سے قرآن کریم نے احسن کا لفظ اعمال کے متعلق استعمال کیا ہے جہاد کے سلسلہ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا ( النور : ۳۹) کہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں فلاح دارین حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں پر فتح پاؤ تو پاکیزگی اختیار کرو.عقل سے کام لو اور کلام الہی کی ہدایات پر چلو.خود اپنے تئیں سنوارو اور دوسروں کو اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ تب البتہ کامیاب ہو جاؤ گے ( ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۲) تو التِي هِيَ أَحْسَنُ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ امت مسلمہ کے وہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۵۰ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب افراد جو دونوں ہاتھوں میں قرآن کریم کے انوار تھا مے دنیا کے ملک ملک میں پہنچیں گے.وہ ان کو صرف قرآنی دلائل ہی نہیں پہنچائیں گے بلکہ اپنے بہترین نمونہ سے ان کو متاثر کریں گے اور اسلام کی طرف انہیں کھینچیں گے.آٹھویں صفت جو جماعت کے اندر پختہ طور پر پیدا ہو جانی چاہئے وہ رضا کارانہ خدمت کی روح ہے.قرآن کریم اپنے پہلے غلبہ کے دور میں تو شاید ایک نمونہ تک ( کچھ عرصہ تک ) سو فیصدی رضا کارانہ خدمت سے کام لے رہا تھا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قربانی لی.مثلاً مکہ سے ہجرت ہوئی.صحابہ اپنے سارے اموال اور ساری غیر منقولہ جائیداد میں مکہ میں ہی چھوڑ آئے تھے.مدینہ آ کر انہوں نے ایک دھیلہ کا مطالبہ نہیں کیا.جب مدینہ والوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کے بعد مہاجرین کو کہا کہ ہم اپنے اموال کو تقسیم کر لیتے ہیں.آدھے آپ لے لیں گے آدھے ہم لے لیں گے.تو انہوں نے ان اموال کو لینے سے انکار کر دیا انہوں نے کہا وہ ثواب جو ہماری قربانی کا ہمارے رب کی طرف سے ملے گا.وہ تمہارے نصف مال سے کہیں زیادہ ہے اور وہ ہمیں زیادہ محبوب ہے ہم تمہارے اموال نہیں لیتے پھر اللہ تعالیٰ نے برکت ڈالی اور ان کو اس دنیا میں بھی دیا لیکن یہ سب رضا کارانہ قربانی تھی نا اموال کو ربان کر دیا.جہاد میں جاتے تھے نہ کھانے کا خرچ.نہ وردی کا خرچ نہ ہتھیار کا خرچ اور نہ سواری کا خرچ.اونٹ تھا تو اونٹ پر سوار ہو گئے.گھوڑا تھا تو گھوڑے پر سوار ہو گئے ورنہ اپنی لاتوں کو استعمال کیا پیدل جاپہنچے.یہ سارا کام رضا کارا نہ تھا آپ کو اس قسم کی رضا کارانہ خدمت کی اس دنیا میں کوئی مثال نہیں ملے گی.صحابہ تو ایک لمبے عرصہ تک اپنے قریباً سارے اموال کو ، اپنے اوقات کو ، اپنی جانوں کو ، اپنی عزتوں کو قربان کرتے رہے اور اس کے بدلہ میں انہوں نے دنیا کی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا اور اپنے رب کی رضا پر راضی رہے اور خوش رہے اور اپنے آپ کو کامیاب اور امیر اور باعزت اور صاحب اقتدار سمجھتے رہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں انہوں نے اپنے لئے پیار دیکھا تھا اور اس پر اپنی ہر چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے.اس وقت اسلام دنیا میں رضا کارانہ خدمت سے پھیلا اور بعد میں بھی جو ساری دنیا میں اسلام پھیلا ہے تو کون سے پیڈ (Paid) مربی وہاں بھیجے گئے تھے.کوئی نہیں.اپنے خرچ پر جاتے تھے اللہ تعالیٰ -
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۵۱ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب فضل کر دیتا تھا اور انہیں دنیا بھی دے دیتا تھا لیکن وہ بیت المال سے کوئی مطالبہ نہیں کرتے تھے.کوئی چین جارہا ہے.کوئی فینی کے جزائر میں جارہے ہیں کوئی انڈونیشیا جارہا ہے.کوئی افریقہ کے جنگلوں میں جارہا ہے.اور خلیفہ المسلمین ( گو وہ اس وقت بادشاہ تھے.برسر اقتدار حکومت تھی اور اللہ تعالیٰ نے اسے بڑی شان اور بڑے اموال عطا کئے تھے ) لیکن خلیفہ المسلمین خلیفہ وقت اور بادشاہ وقت کو وہ یہ نہیں لکھا کرتے تھے کہ ہم افریقہ کے جنگلوں میں کام کر رہے ہیں.ہمارا وظیفہ مقرر کیا جائے اللہ تعالیٰ انہیں اس دنیا میں بھی بدلہ دے دیتا تھا.ایک بزرگ افریقہ کے جنگلوں میں گئے اور وہاں جا کر انہوں نے عام رنگ میں اسلام کی تبلیغ کی تو کوئی شخص یا کوئی قبیلہ ان کی طرف متوجہ نہ ہوا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کوئی سبق سکھانا چاہتا تھا.خدا کی شان نرالی ہے كُل يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن:۳۰) وه ان حبشی اقوام سے مایوس ہو گئے اور کہا کہ میں اپنی زندگی کا وقت ضائع کر رہا ہوں.میں سینی گال ( نقشہ تو غالبا نہ تھا لیکن اس نام سے مشہور تھا) میں جا کر عبادت میں لگ جاتا ہوں.وہاں ایک بہت بڑا دریا بھی تھا اور اس دریا میں بہت جزیرے بھی تھے.ان جزیروں میں سے ایک بہت بڑا جزیرہ تھا.انہوں نے کہا میں نے اپنا وقت ضائع کیا ان لوگوں میں تبلیغ کر کے، سنتے نہیں اور میں وہاں جا کر بیٹھتا ہوں اور خدا کی عبادت میں مشغول ہوتا ہوں.وہ بڑے بزرگ تھے.وہ اس جزیرہ میں ایک ایسی جگہ چلے گئے جہاں دوطرف پانی بہتا تھا تا لوگ انہیں تنگ نہ کریں اور وہاں انہوں نے اپنی کٹیا بنائی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو گئے تب خدا نے کہا کہ تو تو میرے ان بندوں سے مایوس ہو گیا ہے لیکن میں تو ان سے مایوس نہیں ہوں چنانچہ آسمان سے فرشتوں کا نزول ہوا اور ان کے ارد گرد جو قبائل آباد تھے ان کے کچھ آدمی اپنے قبائل کے نمائندہ کی حیثیت سے ان کے پاس جمع ہو گئے اور انہیں کہا کہ ہمیں قرآن سکھا ئیں یا خدا تعالیٰ نے انہیں کہا کہ ان کو قرآن سکھاؤ.چنانچہ انہوں نے ایک کلاس لینی شروع کی اور قرآن پڑھانا شروع کر دیا.جب سارا قرآن پڑھا دیا تو ان سے کہا کہ تم اپنے قبیلہ میں جاؤ اور اپنے قبیلہ والوں کو قرآن کی تعلیم دو.جب وہ لوگ اپنے قبیلہ میں گئے اور تبلیغ کی تو وہ سارے کے سارے مسلمان ہو گئے یا ان کی اکثریت مسلمان ہوگئی اور سب قبائل نے مل کر ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے بادشاہ بن جائیں چنانچہ تمام قبائل نے انہیں اپنا بادشاہ بنا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۵۲ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب لیا اور کئی نسلوں تک ان کی وہاں حکومت رہی اور وہ دور حکومت سالکین بادشاہوں کے دور حکومت کے نام سے تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے اب دیکھو انہوں نے ایک دھیلہ بھی بیت المال سے نہیں مانگا تبلیغ رضا کارا نہ تھی.گو اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور انہیں بادشاہت بھی دے دی لیکن وہ بادشاہت کے متمنی نہیں تھے وہ تو جس چیز کی خواہش رکھتے تھے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا تھی لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا بھی ملی اخروی جنتیں بھی ملیں اور خدا کے فضل سے.اور اس دنیا میں جنتیں بھی مل گئیں.ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک حد تک یہ روح پائی جاتی ہے اسی جلسہ سالانہ پر جو اس وقت ہورہا ہے اور بہت سی پریشانیاں بھی نان بائیوں کی وجہ سے اٹھانی پڑی ہے اور مجھے ذاتی طور پر آپ کی تکلیف کی وجہ سے ان دنوں بڑا دکھ بھی سہنا پڑا ہے کہ میرے بھائیوں کو یہ تکلیف پہنچ رہی ہے.نان بائی تو خیر ہیں ہی.اس تکلیف کو آپ اگر علیحدہ رکھیں تو اس جلسہ کا انتظام اتنی خوش اسلوبی سے انجام پاتا ہے کہ دنیا محو حیرت ہے اور یہاں رضا کارانہ کام کرنے والے سینکڑوں ہیں ان رضا کارانہ کام کرنے والوں میں ۲۴ وہ ہیں جو بی اے یا اس سے اوپر کی رکھتے ہیں ماشاء اللہ اور ۸۱۱ وہ ہیں جو میٹرک پاس ہیں.تو ہزار کے قریب تعلیم یافتہ آدمی ہیں ان میں سے کوئی روٹیاں ڈھو رہا ہے اور کوئی لکڑیاں سنبھال رہا ہے کوئی نان بائیوں کے گرد لگا ہوا ہے.غرض ہر ایک رضا کارانہ خدمت بجا لا رہا ہے ورنہ یہ جلسہ اور اس کا انتظام ہو نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر روح اور جذبہ پیدا کیا ہوا ہے.پھر وقف عارضی ہے کل اس سلسلہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ وقت کے لحاظ سے تقریباً دوسو سال کا کام ہمارے واقفین عارضی کر چکے ہیں یعنی ایک آدمی دوسو سال میں جتنا کام کرسکتا ہے اتنا کام ہو چکا ہے گویا ایک آدمی اگر چوبیس گھنٹے روزانہ دو سو سال تک کام کرتا رہے تو جتنا کام وہ کر چکا اتنا کام انہوں نے کر دیا ہے اور پھر سب کام مفت کیا ہے اپنے خرچ پر جاتے ہیں ہاتھ سے روٹی پکاتے ہیں بعض جگہ بعض نے کمزوری بھی دکھائی لیکن ان کا وہ اثر نہیں ہوا اور جنہوں نے ہمت سے کام لیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف یہ کہ ان کی صحت خراب نہیں ہوئی بلکہ جو خراب صحتیں لے کر گئے تھے ان کی صحتیں اچھی ہو گئیں.اپنوں پر اور غیروں پر اتنا اثر ہوا کہ جس غرض کے لیے وہ گئے تھے کہ جماعت کی وہ تربیت کریں اور وہ مطالبات جماعت سے پورے کرائیں جو پچھلے دنوں میں نے کئے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۵۳ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب تھے کہ قرآن کریم پڑھوائیں یا دوسری قربانیاں ( اطفال کے وقف جدید کے چندے وغیرہ) دو.بہر حال انہوں نے تربیت کا بہت اچھا کام کیا ہے جماعت کے دوستوں کو قرآن کریم پڑھایا جوست تھے ان کی سستی دور کی وغیرہ وغیرہ سب خرچ اپنا کیا آنے جانے کا کرایہ بھی خود دیا لیکن میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ جماعت کے ایک طبقہ میں (چاہے وہ ہزار میں سے ایک ہی کیوں نہ ہو) یہ روح کمزور ہوتی ہے اور ہمیں فوری طور پر سمجھ جانا چاہئے ہم اس وقت تک اپنے مقصد حیات کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک یہ جذ بہ ہمارے اندر نہ پایا جائے کہ ہم نے رضا کارانہ خدمت اللہ اور اس کے رسول کی کرنی ہے پتہ نہیں اللہ تعالیٰ آئندہ ان سے کس قسم کی قربانیاں لے ہر وقت تیار رہنا چاہئے.تو رضا کارانہ خدمت کا جذبہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہونا چاہئے کیونکہ اگر جیسا کہ میری طبیعت پر بڑا گہرا اثر ہے کہ آئندہ تمیں سال دنیا کے لئے نہایت نازک ہیں اور اگر یہ صحیح ہے تو ہمیں ( جو اس وقت زندہ ہیں یا جب تک دنیا میں ہیں یا جو ہم سے جوان ہوں یا جوانی کی حالت میں بعد میں آکر ہم سے ملیں ) اور ان کو انتہائی قربانی دینا پڑے گی اور ان قربانیوں کی بنیاد رضا کارانہ خدمت پر ہونی چاہئے اور ہوگی کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دنیا کے اموال بھی اس کثرت سے نہیں دیے کہ ہم دین اسلام کی ضرورتوں کو پورا کر سکیں لیکن ہمیں یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ہمیں کامیاب کرے گا یہ وعدہ اس شرط کے ساتھ دیا ہے کہ ہم اپنا سب کچھ اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.تو اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا وعدہ معجزانہ رنگ میں پورا ہو جائے اور دنیا ایک عظیم انقلاب کی کروٹ بدلے اور وہ جو آج اس چیز کو نامکمل سمجھتے ہیں کم سے کم یہ سمجھنے لگیں کہ واقعہ میں دنیا میں اسلام کے حق میں ایک انقلاب عظیم بپا ہو رہا ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایسا ہو تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم رضا کارانہ خدمت کے جذبہ کو پختہ اور مضبوط کریں اور بیدار رکھیں جس وقت بھی آواز ہمارے کانوں میں پہنچے ہمیں سوچنے کی ضرورت نہ پڑے ہمارے دل اور ہمار دماغ اور ہماری روح نے پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ اس آواز کو لبیک کہتے ہوئے ہم رضا کارانہ طور پر ہر قربانی خدا تعالیٰ کی اس برگزیدہ جماعت کے نظام کے سامنے ہم پیش کر دیں گے.نویں صفت تو کل ہے تو کل کے لغوی لحاظ سے معنی یہ ہیں کہ انسان خود کو عاجز پائے اور کسی اور پر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۵۴ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب بھروسہ رکھے لفظی معنی تو کسی اور کے ہیں بعض دفعہ انسان انسان پر بھروسہ رکھتا ہے بعض دفعہ کسی جماعت پر کرتا ہے بعض دفعہ اموال پر کرتا ہے اور بعض دفعہ اپنے طبقہ اور برادری پر بھی کرتا ہے.بہر حال اس کے لغوی معنی ہیں خود کو عاجز پا کر کسی غیر پر بھروسہ کرنا اور اسے یہ سمجھنا کہ وہ میرا کام کر دے گا میرا متولی بن جائے گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (ال عمران: ١٦١) کہ جو مومن ہیں وہ جب بھی خود کو عاجز پائیں اور اور پر توکل کا موقعہ سمجھیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر تو کل نہیں کیا کرتے.وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ کے دو حصے ہیں.ایک یہ کہ غیر اللہ پر توکل نہیں کرنا یعنی اپنے علم پر بھروسہ نہیں رکھنا.اپنے اموال پر بھروسہ نہیں کرنا.اپنے جتھے اور برادری پر بھروسہ نہیں کرنا.اپنی قوت بازو پر بھروسہ نہیں کرنا.رشوت پر بھروسہ نہیں کرنا.جھوٹ پر بھروسہ نہیں کرنا.دھوکہ دہی پر بھروسہ نہیں کرنا کہ اس سے ہمارے کام بن جائیں گے.تو نہیں کرنے والا ایک حصہ ہے اور دوسرا یہ کہ یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا کارساز ہے اور اتنی قوت اور طاقت رکھتا ہے کہ ہمارے سارے کام کر سکتا ہے.ہم عاجز ہیں لیکن خدا عاجز نہیں ہے.دنیا میں دنیا دار جب دنیا والوں پر بھروسہ کرتے ہیں وہ ایک عاجز پر بھروسہ کر رہا ہوتا ہے.جتنا عاجز ایک انسان ہے اتنا ہی عاجز دوسرا انسان ہے لیکن جب خدا کا بندہ اپنی عادت سے مجبور ہو کر یا اپنی سمجھ اور عقل اور ایمان کے تقاضا سے ہر چیز میں خود کو عاجز سمجھتا اور پاتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو وہ ایک ایسی ذات پر تو کل کرتا ہے جس میں کام کرنے کی ساری طاقتیں ہیں.تو تو کل کا ایک پہلو یہ ہے کہ غیر اللہ کو اس قابل نہیں سمجھنا کہ وہ ہماری ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہیں اور خود اپنے آپ کو بھی اس قابل نہیں سمجھنا اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو واقعی قادر سمجھنا اور واقعی اس بات کا اہل سمجھنا اسے صفات کا مالک سمجھنا کہ وہ ہماری ہر ضرورت کو پورا کر دے گا.اگر ہمیں مال کی ضرورت ہے تو یہ نہیں سمجھنا کہ دنیا والے ہمیں رزق دے دیں گے لیکن یہ ضرور سمجھنا ہے کہ ہمارا خدا رازق ہے اور ایسے رستوں سے بھی رزق دے دیتا ہے کہ انسان کی عقل میں بھی وہ نہیں ہوتا.يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (البقرة : ٢٦) اللہ تعالیٰ نے شروع خلافت ہی میں اس عاجز اور بالکل کم مایہ بندے سے یہ وعدہ کیا تھا کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۵۵ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب تینوں میں اپنا دیواں گا کہ تو رج جائیں گا.اس کے بعد کئی دفعہ ( پتہ نہیں کہ اس میں بھی کوئی غلطی ہو اللہ تعالیٰ معاف کرے) میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کو پورا کہا اور ایک دفعہ ایسا موقع بھی آیا کہ بعض دوستوں کے گھروں میں ایسی تقریبات اکٹھی ہو گئیں کہ میرا دل چاہتا تھا کہ میں ہر دوست کو بطور تحفہ کم از کم سو روپیہ دوں.میری جیب میں دو سو روپے تھے اور ضرورت مجھے چھ سات سو روپیہ کی.مجھے اس وقت خیال آیا بعد میں بھی اللہ تعالی سے بڑی مغفرت چاہی اور اب بھی چاہتا ہوں بہر حال یہ ایک واقعہ ہے کہ دیکھیں میرا رب جس نے مجھ سے یہ وعدہ کیا تھا وہ اسے کس طرح پورا کرتا ہے.چنانچہ آگے پیچھے موقعے تھے میں نے ایک کو دیا اور پھر دوسرے کو دیا اور دوسو روپیہ میری جیب میں موجود تھا جو ختم ہو جانا چاہئے تھا لیکن قبل اس کے کہ دوسرے دوست کے پاس میری طرف سے وہ روپیہ پہنچتا.سو یا دو سور و پیر اور میری جیب میں آ گیا اور جب میں اس طرح سات سور و پیدا اپنے بعض دوستوں کو دے کر خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق عطا کی ہے کہ میں ان کی خوشی میں شریک ہوں تو اس وقت بھی میری جیب میں پیسے پڑے ہوئے ہیں.تو ہزاروں قسم کے نظارے بھی انسان دیکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی قدرتوں والا اور اللہ تعالیٰ بڑا پیار کرنے والا ہے.ہم ہی اس سے غافل ہو جاتے ہیں اور اس طرح اس کے فضلوں سے محروم رہ جاتے ہیں.تو دوسرا پہلو جو بنیادی ہے جو علم اور عقل ہمارے اندر ہونی چاپچس طرح بدیوں سے رکنے کی عقل ہمارے اندر ہونی چاہئے ویسے ہی یہ عقل بھی ہمارے اندر ہونی چاہئے کہ ہمارا اللہ ( جس رنگ میں کہ قرآن کریم نے اسے ہمارے سامنے پیش کیا ہے ) تمام صفات حسنہ سے متصف ہے.تمام قدرتوں کا مالک ہے اور وہ ہماری ہر ایک ضرورت کو پورا کر سکتا ہے اور عاجزی کے وقت وہی ایک ذات ہے جو ہمارے کام آ سکتی ہے.اگر یہ صفت ہمارے اندر ہوتو ہم بڑی دلیری کے ساتھ دنیا میں اسلام کے مخالفوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں.تو کل کے بغیر ہم اسلام کے مخالفوں کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے.جب میں نے اسماعیل صاحب منیر کو یہ لکھا کہ کمزوری نہ دکھاؤ.دھڑلے سے اس پادری کو خود چیلنچ دو.جب میں نے عبدالسلام میڈیسن تو یہ کہا کہ جھوٹے خدا ان مدعیان پرانسی (Prophecy) کے کام نہیں آئیں گے.( بعض پیشگوئیوں اعلانانہوں نے کئے تھے ) اور جو زندہ خدا ہے.اس کا یہ منشاء نہیں کہ ان کی بات پوری ہو کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۵۶ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب نے دو باتیں بتا ئیں.ایک یہ کہ عالمگیر تباہی موسم بہار میں ہوگی اور اس مدعی کا تباہی کا زمانہ نہیں وہ جس کی پیشگوئی ان جھوٹے مدعیان کی تھی.۲۵ / دسمبر کو ختم ہوتا تھا.جو موسم بہار سے پہلے ختم ہو جا تا تھا.دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلو والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ تیرے مقابل پر آکر جو پیشگوئی کرے گا.وہ ناکام ہوگا..تو ان دو چیزوں سے میں نے استدلال کر کے اور اپنے رب کامل پر تو کل رکھتے ہوئے کہا کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایسا نہ ہو.آپ نے کل وہ خط میرا سنا عبدالسلام میڈیسن کو خط لکھتے ہوئے میں نے بڑے زور سے کہا کہ تم ان سے کہو کہ تم جھوٹ بولتے ہو اور جس ہستی کو تم خدا سمجھتے ہو.وہ خدا نہیں.وہ بھی جھوٹ کہتا ہے.تم بھی جھوٹے ہو اور اگر کوئی خدا تمہارے کان میں پھونکیں مارنے والا ہے تو وہ بھی جھوٹا ہے.چنانچہ ان کو شرمندہ ہونا پڑا.ہمارے کم عمر اور ناتجربہ کار مبلغ ( جنہوں نے باہر کے ملکوں میں کام کیا ہے) جب بھی تو کل کے اس مقام پر کھڑے ہوئے ہیں.تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے کے لئے آسمان سے نازل ہوا ہے.اور انہیں کبھی شرمندہ نہیں ہونا پڑا.پس ہم تو مانتے ہیں کہ ہم کمزور ہیں اور ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے پاس دنیا کے اموال نہیں.ہمیں یہ بھی علم ہے کہ ہمیں سیاسی اقتدار حاصل نہیں.ہمیں یہ کہنے میں بھی باک نہیں کہ دنیا والے اگر چاہیں تو دنیوی لحاظ سے ہر قسم کی ذلتیں ہمیں پہنچا سکتے ہیں اور دکھ دے سکتے ہیں لیکن ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب پر تو کل ہے اور دنیا کی کوئی طاقت احمدیت کو نا کام نہیں بنا سکتی.( نعروں کی گونج ) اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اسلام کو دنیا میں غالب کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ضرور پورا ہوگا.لیکن اس کی راہ میں ہمیں قربانیاں دینی پڑیں گی اور وہ قربانیاں دینے کے لئے وہ صفات ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی پڑیں گی.جن کا مطالبہ اللہ تعالیٰ ہم سے کرتا ہے اور جن میں سے نو کا ذکر میں نے اس وقت آپ کے سامنے کیا ہے.ہم نے انتہائی قربانی دینی ہے اور ہم اپنے اللہ پر یہ امید رکھتے ہیں اور اس پر یہ تو کل اور بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی طرح عظیم انعاموں سے نوازے گا اور جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے.وہ ہمیں توفیق دے گا کہ دنیا اس بات کو ماننے پر مجبور ہو جائے کہ ہم ہی خدا کی ایک جماعت ہیں محبتی جس کو اس نے بزرگی عطا کی ہے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۵۷ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب ه تو اللہ تعالیٰ پر ہمارا تو کل ہے.ہم کمزور ہیں.ہم عاجز ہیں.ہم محض نیستی ہیں.ہم لاشئے محض ہیں لیکن ہمارا رب تمام طاقتوں والا ہے.اسی پر ہم تو کل اور بھروسہ رکھتے ہیں اور اس سے ہر خیر کی امید رکھتے ہوئے اور یہ یقین رکھتے ہوئے کہ جس طرح آج سے قبل ہر سورج جو ہم پر چڑھا اس نے ہمیں خدا کے فضل سے تعداد اور تقویٰ میں زیادہ پایا.آئندہ بھی ہر سورج جو اس دنیا پر چڑھے گا وہ جماعت احمدیہ کی ترقی پر ایک گواہ بن کے چڑھے گا.انشاء اللہ اور ہم کامل وثوق اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے شخصوں کی (جن کا میں ابھی ذکر کرتا ہوں اور ابھی یہ تار آئی ہے ) ( کبھی امیدیں بر نہیں آئیں گی.وہی ہو گا جو خدا چاہتا ہے.امام کمال یوسف نے لکھا ہے کہ ایک مقامی پادری نے ایک اخبار میں یہ لکھا ہے.” میرے لئے اور میرے جیسے بہتوں کے لئے مسجد کے افتتاح کا دن بہت افسوس ناک تھا.اس دن ایک بیرونی اور دشمن عیسائیت مذہب نے ہماری عیسائی دنیا میں مداخلت کی.اور اپنے لئے گھر بنالیا.ہم توقع رکھتے ہیں کہ عالم عیسائیت میں اس مذہب کے لئے کوئی مقام نہ ہوگا (بارہ تیرہ دوست اس وقت سے مسلمان ہو چکے ہیں.جن میں سے ایک کیتھولک بھی ہے.جو بڑے کٹر ہوتے ہیں ) اور اس مذہب کو کبھی خوش آمدید نہیں کہنا چاہئے.اس پادری کو اور اس جیسے دوسرے پادریوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اس یقین کامل پر کھڑے ہیں کہ تمہاری خواہشات کبھی پوری نہیں ہوں گی.ہم تمہارے دشمن نہیں.ہم تمہارے دوست ہیں اور دوست ہونے کی حیثیت میں اپنے اللہ کے وعدوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے تمہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم تمہارا سر توڑنے کے لئے وہان نہیں آئے لیکن ہم تمہارے دلوں کو اور تمہاری قوم کے دلوں کو اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ضرور جیتیں گے.انشاء اللہ اب دعا پر اس سالانہ اجتماع کو میں ختم کروں گا.آپ دعائیں کریں.ہر قسم کی برکت اور خیر چھوٹی اور بڑی اپنے رب سے مانگیں.اس پر بھروسہ اور تو کل رکھیں اور اپنے رب سے یہ کہیں کہ اے خدا تو نے ہمیں کمزور نحیف اور غریب بنایا ہے.ہم پر بڑی ذمہ داری عائد کی ہے.تیرے فضل کے بغیر ہم اپنی ذمہ داری کو نبھا نہیں سکتے.پس تو اپنا فضل ہم پر نازل کر اور ہمیں توفیق دے کہ ہم وہ اعمال بجا لائیں جو تیری نگاہ میں پسندیدہ ہوں اور تیرہ رضا کو جذب کرنے والے ہوں.تیری برکتوں کا ہمیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۵۸ ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب وارث بنانے والے ہوں.ہر لحاظ سے ہمیں اسلام کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربانیاں دینے کی توفیق عطا کر اور وہ دن جلد لا کہ دنیا تجھے پہچاننے لگے اور تیری طاقتوں اور قدرتوں سے واقف ہو جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور آپ کے احسان کے نظارے دیکھنے لگے.اپنے وعدوں کو جو اسلام کے غلبہ سے تعلق رکھتے ہیں ہماری زندگیوں میں پورا کر اور اس دنیا میں جو سب سے بڑی جنت اور جنت ہمیں مل سکتی ہے کہ اسلام کے غلبہ کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں وہ نعمت ہمیں عطا کر اور اس دنیا میں بھی ہم پر اپنا فضل ہی فرما اور نار جہنم سے ہمیں اتنا ہی دور رکھ جتنا شرک سے تو حید کو تو نے دور رکھا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو ذہنی اور جسمانی آزادی عطا کرے اور انہیں طاقت بخشے.چاہے وہ دنیا کے کسی حصہ میں رہتے ہوں اور وہ تمام ملک جہاں اسلام پر ایمان لانے والوں کی اکثریت ہے.اللہ تعالیٰ ان ملکوں کو طاقت عطا کرے اور ان کو وقار نصیب کرے اور ان کو ہمت عطا کرے اور ان کو قرآن کریم کے انوار سے روشنی لینے کی توفیق عطا کرے اور اسلام کے غلبہ کی مہم میں ان کو حصہ دار بنائے.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے خواہ ہم وہ سوچ سکتے ہوں یا نہیں سوچ سکتے.ہمیں اپنی برکتوں سے نوازے اور خیر کے سارے سامان ہمارے لئے پیدا کرے اور شر کے ہر پہلو سے ہمیں بچائے رکھے.جیسا کہ میں نے ابھی کہا تھا.ان دنوں میں جہاں میں اور آپ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار تھے اور تھوڑا کھانے کو معمولی تکلیف سمجھتے تھے.کوئی ایسی تکلیف نہیں تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ قربانی ( تکلیف) لی.وہاں میں نظام کی طرف سے جو ایک خرابی پیدا ہوئی.اس کی وجہ سے اور اس خیال سے کہ میرے بھائیوں کو اس مقدس اور مبارک جلسہ میں اس قسم کی تکلیف پہنچ رہی ہے.بڑا ہی دکھ اٹھاتا رہا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے اور مجھے معاف کرے.اس کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.دعا کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آپ دوست واپس اپنے گھروں کو تشریف لے جاسکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہر آن آپ کے محافظ ہوں اور آسمانی برکتیں آپ پر نازل ہوتی رہیں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ (رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۵۹ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۶۸ء.افتتاحی خطاب جلسہ کے یہ با برکت ایام کوئی دنیاوی میلہ یا کٹھ نہیں افتتاحی تقریب جلسه سالانه فرموده ۲۶ / دسمبر ۱۹۶۸ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.عزیز بھائیو اور بہنو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اس وقت پہلے تو میں مختصراً اپنے بھائیوں کو ان ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو جلسہ کے یہ با برکت ایام ہم پر ڈالتے ہیں.یہ کوئی دنیاوی میلہ یا اکٹھ نہیں ہے نہ ہم دنیا کے کسی لالچ کی خاطر یہاں جمع ہوئے ہیں ، نہ دنیا کا کوئی خوف ہمیں یہاں آنے سے روک سکا ہے.ہم محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہر قسم کی جسمانی اور ذہنی تکلیفیں اور پریشانیاں اٹھاتے ہوئے بھی یہاں اس لئے آئے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ ہم سے کچھ ایسی دعائیں کر والے یادوسروں کی دعائیں ہمارے حق میں کچھ اس طرح قبول کر لے کہ ہماری کمزوریاں اس کی مغفرت کی چادر میں ڈھانپی جائیں اور ہماری حقیر کوششوں کے بہترین نتائج نکلیں اور احسن ثواب اس کی طرف سے ہمیں ملے.ان ایام کا خصوصاً(ویسے تو ساری زندگی کا ہی عموماً ) ہر لحظہ اور ہرلمحہ بڑا قیمتی ہوتا ہے میری مراد ایک مومن کی زندگی سے ہے جو اپنے رب پر ایمان لاتا اور اس یقین پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے جو بھی مخلصانہ سانس میں اس دنیا میں لوں گا وہ مجھے ابدی زندگی کا وارث اُس دنیا میں بنائے گا.پس ان قیمتی لمحات کو ضائع نہ ہونے دیں.کوشش کریں کہ ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کو حاصل کرنے والا ہو اور ہمارا کوئی لمحہ بھی شیطان چھین کے لے جانے میں کامیاب نہ ہو.دعاؤں میں ہمہ وقت مشغول رہیں پیار اور محبت کو، باہمی اخوت کو بڑھائیں آپس میں ملیں، ایک دوسرے کے حالات پوچھیں اور سب سے زیادہ اپنے رب سے ملنے کی کوشش کریں اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۶۰ ۲۶ دسمبر ۱۹۶۸ء.افتتاحی خطاب اپنے حالات اور اپنی تکلیفیں بتا ئیں اور عاجزانہ اس کے حضور جھک کے اس سے کہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم بہت ہی کمزور ہیں.ایک اہم ذمہ داری غلبہ اسلام کی اور توحید کے قیام کی تو نے ہم پر ڈالی ہے، ہم اپنی طاقتوں اور قوتوں اور استعدادوں اور وسائل اور ذرائع کو جب دیکھتے ہیں تو ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکیں گے لیکن ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود جب ہم تیری بشارتیں سنتے اور تیری قدرتوں اور طاقتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو پھر ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ باوجود محض نیستی ہونے کے وہ جس سے ہر ہست نمودار ہوا ، اور وجود پذیر ہوا وہی ہمیں کامیاب کرے گا.پس تو ہمیں کامیاب کر ، ہمیں ایسے اعمال کی توفیق دے کہ جن سے تو ہم سے راضی ہو جائے.ایسے افکار اور ایسے منصوبے اور ان منصوبوں پہ ایسے عمل کی توفیق دے جو کام تو نے ہمارے سپر د کیا ہے کہ دنیا کے دل میں تیری تو حید کو گاڑ دیں اور ہر سینہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے معمور کر دیں ہم اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں.ہم یہاں اللہ کے ارشادات اور احکام اور ہدایتیں سننے کے لئے اور جو حسین تھا ہر رنگ میں ، جس کی زبان بھی میٹھی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے شیریں بول سننے کے لئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں.پس جہاں بھی یہ شریں آواز اُٹھے، وہاں آپ پہنچ جائیں اور غلط قسم کی باتوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے خدا اور رسول کی باتیں سننے میں اپنا وقت خرچ کریں اور دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ سمجھ بھی دے اور عمل کی طاقت بھی عطا کرے اور پھر اپنے فضل سے وہ نتیجہ بھی نکالے جو ہمارے دلوں کو بھی مسرور کرے اور وہ بھی خوش ہو کہ اس، بندے کے اسی کے بندے بنے شیطان کے بندے نہ بنے.اب میں کچھ دعائیں جو قرآن کریم ہی کی ہیں اونچی آواز سے پڑھوں گا، آپ آمین کہتے رہیں.غور سے سنہیں ، اس کے مطابق خدا کے حضور جھکتے رہیں.پھر ہم اجتماعی دعا کے ساتھ اپنے اس جلسہ کو جس میں ہم محض اللہ کی رضا کے لئے شامل ہوئے اور جسے محض خدا کی رضا کے لئے منعقد کیا جاتا ہے.افتتاح کریں گے.اللہ کی برکتیں ، اس کے فضل اور اس کی رحمتیں ہر آن اور ہرلمحہ خصوصاً ان دنوں میں بارش کے قطروں سے بھی زیادہ ہم پر برستی رہیں کہ اس کی رحمت اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۶۱ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۶۸ء.افتتاحی خطاب اس کے فضل اور اس کی برکت کی وسعتوں کا تصور بھی ہمارے دماغ نہیں کر سکتے.اے ہمارے ربّ! تو ہر نقص سے پاک ہے.پیدائش عالم بے فائدہ اور بے مقصد نہیں.اے ہمارے رب! ہماری زندگی کو بے مقصد بننے سے بچالے اور اپنے غضب کی آگ سے تو اپنی پناہ میں لے لے.اے ہمارے رب ! تیرے نام پر ایک پکارنے والے نے ہمیں پکارا اور تیری رضا کے حصول کے لئے ہم نے اس کو قبول کیا ، اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر تیرے نام کی عظمت اور کبریائی کے لئے ہم نے اس کی آواز پر لبیک کہی کس حد تک ہم نے اس عہد بیعت کو نباہا.تو ہی بہتر جانتا ہے ہم کمزوریوں کے پتلے ہیں، ہماری عاجزانہ پکار کوسن اور ہمارے قصور معاف کر اور ہماری بدیاں ہم سے مٹادے اور ہمیں اس گروہ میں شامل کر جو تیری نگاہ میں نیک اور پاک ہے اور اے ہمارے رب ! اے سر چشمہ عنایات بے پایاں !! تیری طرف سے آنے والی ہر خیر کے ہم بھوکے اور فقیر ہیں.اے ہمارے رب ! ہمیں وہ سب کچھ دے جس کا تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی زبان پر وعدہ کیا ہے اور جب جزا کا دن آئے تو ہم تیری نظروں میں ذلیل نہ ٹھہر ہیں.دیکھنے والے دیکھیں اور سمجھنے والے کہ جو تیری راہ میں دکھ اُٹھاتے اور سختیاں جھیلتے ہیں اور جن کو ذلیل کرنے اور ہلاک کرنے میں دنیا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتی وہی تیرے پیار کو پاتے ہیں اور عباد الله المكرون میں شامل کئے جاتے ہیں.ہم نے کوشش کی کہ ہم تیرے لئے اپنے نفسوں کی خواہشات اور ماحول کی کشش اور دُنیا کی زینت سے کنارہ کش ہو جائیں اور ہم تیری راہ میں ستائے گئے اور ذلیل کئے گئے اور ہم نے تیری راہ میں رسوائیاں اٹھائیں اور ماریں کھائیں اور جائیداد میں لٹوا ئیں.لیکن ہلاکت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہم نے محبت کے اُس شعلہ کو اور بھی روشن کیا جو تیرے لئے ہمارے دلوں میں موجزن ہے لیکن یہ تو ہماری سمجھ ہے اور ہوسکتا ہے کہ ہماری سمجھ کا قصور ہو.ہم تیرے خوف سے لرزاں ہیں ہماری روح تیرے جلال سے کانپ رہی ہے، تیری عظمت اور کبریائی نے ہمارے درخت وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے.اے ہمارے رب ! ہماری کمزوریوں سستیوں ،غفلتوں کو تا ہیوں ، خطاؤں اور گناہوں نے ہماری نیکیوں کو دبا دیا ہے.مغفرت ! مغفرت !! اے رپ غفور ! مغفرت کی چادر تلے ہمیں چھپالے، ہمارے ہاتھ نیکیوں کے پھول اور اعمال صالحہ کے ہار تیرے قدموں پر نچھاور کرنے کے لئے نہیں لا سکے.تہی دست تیرے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۶۲ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۶۸ء.افتتاحی خطاب قدموں پر گرتے ہیں اور تیری رحمت کی بھیک مانگتے ہیں.اے ہمارے رحمان ! ان تہی ہاتھوں کو اپنی رحمت سے یدِ بیضا کر دے.تیرا جمال اور محمد کا حسن دُنیا پر چمکے اور اسے روشن کرے.ان تہی ہاتھوں کو اپنے دست قدرت میں پکڑ تیرا جلال اور محمد کی عظمت دنیا پر ظاہر ہو.اسلام اور محمد کے مغرور دشمن کا سرنگوں اور شرمندہ کر دے.! اے ہمارے ربّ! ہماری بھول چوک پر ہمیں گرفت نہ کرنا اور ہماری خطاؤں سے درگزر کرنا ، ہم عاجز اور کمزور بندے ہیں مگر ہیں تو تیرے ہی بندے.اے ہمارے رب ! کبھی ایسا نہ ہو اور کہ ہم عہد شکن ہو کر ثواب کے کاموں سے محروم ہو جائیں اور عہد شکنی کی سزا تیری طرف سے ہمیں ملے.اے ہمارے محبوب !ہم ہمیشہ اپنے عہد پر قائم رہنے کی تجھ سے توفیق حاصل کرتے رہیں اور ہمیشہ تیری ہی رضا ہمارے شامل حال رہے اور تیرے انعامات بے پایاں کا جو سلسلہ اسلام میں جاری ہوا ہے اس کا تسلسل کبھی نہ ٹوٹے.اے ہمارے رب ! اپنے قہر کی گرفت سے ہمیں محفوظ رکھیو.تیرے غصہ کی ہمیں برداشت نہیں.تیری گرفت شدید ہے کچل کر رکھ دیتی اور ہلاک کر دیتی ہے.ہم عاصی ہیں ہمیں معاف فرما.ہم سے گناہ پر گناہ ہوا.کوتا ہی پر کوتا ہی ، اپنی رحمت کی وسیع چادر ہماری سب کمزوریوں کو چھپا لے ہمیں اپنی رحمتوں سے ہمیشہ نو از تارہ تو ہمارا محبوب آقا تیرے دامن کو ہم نے پکڑا.دامن جھٹک کے ہمیں پرے نہ پھینک دینا ہماری پکار کوشن اور اسلام کے ناشکرے منکروں کے خلاف ہماری مدد کو آ اور ان کے شر سے ہمیں محفوظ رکھ.اے ہمارے رب ! تیری راہ میں جو بھی سختیاں اور آزمائشیں ہم پر آئیں ان کے برداشت کی قوت اور طاقت ہمیں بخش اور سختیوں اور آزمائشوں کے میدان میں ہمیں ثبات قدم عطا کر ، ہمارے پاؤں میں لغزش نہ آئے اور اپنے اور اسلام.دشمن کے خلاف ہماری مدد کر اور ہماری کامیابیوں کے سامان تو خود اپنے فضل سے پیدا کر دے.اب ہم دعا کر لیتے ہیں اور دعا کے ساتھ اس جلسہ کا افتتاح ہو جائے گا.روزنامه الفضل ربوه ۱۲ / جنوری ۱۹۶۹ ء صفحه ۳۲)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۶۳ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار اللہ تعالیٰ عزت کا سر چشمہ ہے جو خدا سے دور ہو گیا وہ تو ذلیل ہو گیا دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:.إِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَيةِ وَالْإِنْجِيْلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْ فِى بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ أَوْفَى وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ التَّابُونَ الْعَبدُونَ الْحَمِدُونَ السَّابِحُونَ الرَّكِعُونَ السُّجِدُونَ الْأَمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَفِظُونَ لِحِدُودِ اللهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ( التوبة : ۱۱۲،۱۱۱) پھر حضور انور نے فرمایا:.ایک عید تو وہ ہوتی ہے جو ہم رمضان کے مہینہ کے بعد مناتے ہیں یا حج کے موقع پر منائی جاتی ہے.یہ دو عید میں سال میں آتی ہیں جن کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ ہمارے کھانے پینے اور خوشی منانے کے دن ہیں لیکن ایک اور عید ہے اور وہ وہ ہے جو کسی نبی کی بعثت کے بعد شروع ہوتی ہے اور اس کا زمانہ اس نبی کی کامیابیوں تک پھیلا ہوا ہوتا ہے.جب اس قوم پر اس کی قیامت آجاتی ہے تو وہ عید بھی گزر جاتی ہے.چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے اس لئے وہ عید جس کا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہے وہ ایک دن یا دو دن کی عید نہیں بلکہ جب وہ عید شروع ہوئی اس وقت سے لے کر قیامت تک وہ عید جاری رہے گی.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۶۴ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور آپ نے دنیا میں یہ اعلان کیا کہ میں خاتم النبیین کی حیثیت سے دنیا کی طرف مبعوث ہوا ہوں اس وقت جس عید کا وعدہ دیا گیا و اس آیت میں بیان ہوا ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے عہد بیعت باندھتے ہیں انہیں یہ بات یادر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی جانوں کو اور ان کے اموال کو اس عہد بیعت کے ذریعہ خرید لیا ہے اور اس وعدہ پر خریدا ہے کہ انہیں جنت ملے گی.قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس جنت کا وعدہ ہمیں اسلام دیتا ہے اس کا تعلق اس دنیا سے بھی ہے اور اخروی زندگی سے بھی ہے.پس یہاں اس آیت میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ اس سودے کے نتیجہ میں جو تم نے اپنے رب سے کیا ہے تمہیں دنیوی جنت بھی ملے گی اور اخروی جنت بھی ملے گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک ایسا وعدہ ہے جو اس نے اپنے پر لازم کر لیا ہے اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا اور کون ہے؟ انسان جو شریف الطبع ہوتا ہے وہ جو زبان سے کہتا ہے اگر اس کے امکان میں ہو تو وہ اسے پورا کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات تو سر چشمہ ہے تمام شرافتوں اور تمام عزتوں کا اور منبع ہے تمام قدرتوں کا.اس لئے کوئی چیز انہونی نہیں اس کے لئے.فرمایا کہ جو وعدہ خدا نے دیا ہے وہ ضرور پورا ہوگا اور اس وجہ سے اے مومنو ہم تمہیں ایک ابدی عید کی بشارت دیتے ہیں.پس تم اپنے اس سودے پر خوش ہو جاؤ اور یہی وہ عید ہے جو انتہائی کامیابی اور سب سے بڑی عید ہے.اس سے بڑھ کر کوئی عید تصور میں نہیں آسکتی.عید کے معنی خوشی اور مسرت کے وقت کے ہیں جو بار بار آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں یہ فرمایا کہ یہ عید جو آج شروع ہوئی ہے.یہ تم پر بار بار آئے گی تمہارے لئے ہر روز ہی روز عید ہوگا اور ہرلحہ تمہاری زندگی کا عید کالمحہ ہو گا تم غلطی کرو گے لیکن تم پر مایوس نہیں چھائے گی.غلطی کرنے کے بعد اگر تم ندامت کے احساس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف لوٹو گے تو وہ تمہیں اس طرح گلے سے لگالے گا جس طرح عید کے موقع پر ایک مسلمان اپنے دوست کو گلے لگاتا ہے اور جب تم عبادت کی راہیں اختیار کرو گے عبودیت کا جامہ تم پہنو گے اور اللہ تعالیٰ کی صفات تمہارے وجود میں جلوہ گر ہوں گی تو چونکہ خدا اور اس کی صفات غیر محدود ہیں اس لئے جب اللہ تعالیٰ کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۶۵ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا صفات تمہارے وجود میں جلوہ گر ہوں گی تو یہ ایک ایسی عید ہو گی جو ختم نہیں ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے جلوے محدود اور ختم ہونے والے نہیں.تم خدائے واحد و یگانہ کی حمد اور تعریف میں مشغول ہو گے اور خدا تعالیٰ تمہاری اس حمد کو دیکھ کر آسمان سے تمہارے لئے رحمتوں کے نزول کا سامان پیدا کرے گا اور تمہارے لئے عید، خوشی اور مسرت کے دن آجائیں گے.تم اللہ کے قرب کی راہوں کو تلاش کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہارے قریب آجائے گا اور تمہارے کان میں کہے گا کہ دنیا کی ہر چیز تم سے دور ہے بلکہ تمہارا نفس بھی تم سے دور ہے لیکن میں تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں.تم میری تعریف میں میں لگے ہوئے ہو اور میں تمہاری خوشیوں کے سامان پیدا کر رہا ہوں، تمہاری حفاظت کے سامان پیدا کر رہا ہوں تمہاری مسرتوں کے سامان پیدا کر رہا ہوں.تم عاجزی اور تضرع کے ساتھ اس کے حضور سجدہ ریز ہو گے تو وہ محبت اور پیار کے ساتھ تمہیں اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لے گا اور تمہاری عید کے سامان پیدا کر دے گا تم اس عید کے دیکھنے کے بعد یہ جذبات اپنے اندر محسوس کرو گے کہ وہ جو اس کی خوشیوں سے محروم ہیں انہیں بھی خوشیوں سے حصہ ملے تم نیک باتوں کا حکم دینے لگو گے اور بُری باتوں سے روکنے لگو گے اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی حفاظت میں لگ جاؤ گے.لیکن وہ نادان اور جاہل جو تمہاری عید اور اس عید کی خوشیوں اور مسرتوں سے ناواقف ہیں وہ حقیقت کو نہ پائیں گے اور وہ تمہارے مقابلہ پر کھڑے ہو جائیں گے وہ تمہیں دُکھ دینے لگیں گے وہ تمہیں ایذاء پہنچانے لگیں گے وہ تمہاری کوششوں کو نا کارہ کرنے کی ہر تد بیر کریں گے.لیکن ان کی ہر تدبیر خدا اور رسول کے مقابلہ میں اور تمہاری ہر اس تدبیر کے مقابلہ میں جو تم نے اس انتہائی محبت اور پیار کے نتیجہ میں جو تم اپنے رب کے لئے اپنے دلوں میں محسوس کرتے تھے کی تھی نا کام کر دی جائے گی اور ان کی ہر تدبیر کی ناکامی تمہارے لئے خوشی کا ایک دن لائے گی اور عید کےسامان پیدا کرے گی.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس بشارت کا اعلان کیا تو ایک عظیم عید کا دن دنیا پر چڑھا.جب ہم آپ کی زندگی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو انتہائی خطرناک مواقع پر بھی وہ دن جو د نیوی لحاظ سے نہایت سخت تھے آپ پر بھی اور آپ کے ماننے والوں پر بھی وہ دن آپ کے لئے اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۶۶ پ کے ماننے والوں کے لئے عید ہی کا دن تھے.۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار میں آپ کی مدنی زندگی کے دو واقعات لیتا ہوں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ مدنی زندگی کے سب سے زیادہ کٹھن دن تھے اور جب ہم ان کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دن بھی مسلمانوں کے لئے عید ہی کے دن تھے.ایک تو اُحد کا واقعہ ہے جو مسلمانوں کے لئے ایک لحاظ سے بڑا ہی دُکھ دہ بھی تھا.اس دن ان پر مصائب کے بادل چھا گئے تھے کیونکہ بعض مسلمانوں کی غلطی کے نتیجے میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تاکیدی حکم کو چھوڑنے کی وجہ سے جیت بظاہر ہار کی شکل اختیار کرگئی تھی.پانسہ پلٹ گیا تھا اور تو جو ہوا سو ہوا.خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خطرہ پیدا ہو گیا اور دشمنوں نے پورے زور کے ساتھ آپ پر حملہ کیا آپ دشمن کی زد میں آگئے.آپ کے چار دانت شہید ہوئے.ہونٹ زخمی ہوا.رخسار پھٹا.خون نکلا گڑھے میں آپ گرے اور کفار نے خوش ہو کر یہ نعرہ لگایا کہ آج ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کر دیا ہے اور اس طرح ہم نے اسلام کو مٹادیا ہے.لیکن البی تدبیر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی اس نے اسلام کی حفاظت کی اور جب اس میدان میں کفار نے صحابہ سے دریافت کیا کہ کیا تم میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں اور ان کے جواب سے انہیں معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور کبار صحابہ سے اکثر زندہ ہیں.تو انہوں نے محسوس کیا کہ یہ دن بھی ان کافروں کے لئے نا کامی اور شکست کا دن ہے اور مسلمانوں نے محسوس کیا کہ یہ دن بھی ان کے لئے عید کا دن ہے کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خاص معجزہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی اور جب اپنے بھی آپ کو چھوڑ کر چلے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بھیجا جنہوں نے آپ کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور اس طرح دشمن کا کوئی وار آپ کو شہید کرنے میں کامیاب نہ ہوا حالانکہ کثرت سے تیر پڑے.تلوار میں چلائی گئیں.پتھراؤ کیا گیا ہر قسم کی کوشش کی گئی کہ آپ کو شہید کر دیا جائے لیکن اس میں وہ ناکام ہوئے اور چونکہ دشمن اپنے اصل مقصد میں ناکام ہوا اس کے باوجود اس لئے کہ مسلمانوں کو کافی ذہنی اور جسمانی تکالیف برداشت کرنی پڑیں انہوں نے یہی محسوس کیا کہ وہ دن بھی الہی وعدہ کے مطابق عید کا دن ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جنگ احد کے متعلق فرماتے ہیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۶۷ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.اب اگر غور سے دیکھا جاوے تو احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل میں فتح تھی اور یہ ایک حقیقت ہے محض ایک فلسفیانہ دعوی نہیں کیونکہ وہ لوگ جو اس جنگ میں شامل تھے یا وہ لوگ جو مدینہ مدنیہ قریب ہی تھا ) میں تھے ان کو جب اطلاع ملی تو ان کے دل میں یہی بات تھی کہ دشمن نا کام ہوا اور اسلام کا میاب ہوا ہے اور فتح اسی کو نصیب ہوئی ہے جیسا کہ ان دو واقعات سے پتہ لگتا ہے.پہلا واقعہ.جب مدینہ میں یہ اطلاع ملی کہ احد میں بعض مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اس دن کا فروں کے مقابلہ میں نسبتاً زیادہ مسلمان شہید ہوئے تھے اور اسلام کی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے لیکن احد کا دن اس لحاظ سے بھی بہت سخت تھا پھر یہ دن اس لحاظ سے بھی سخت تھا کہ ایک گروہ نے اپنی نادانی کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو ٹھکرا دیا انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی گو اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کر دیا اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمتوں سے نوازے لیکن یہ امر جماعت مؤمنین کے لئے بڑی تکلیف کا باعث تھا.پھر خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخم آئے.جب یہ خبر مدینہ میں پہنچی تو سخت گھبراہٹ کی حالت میں ایک انصاری عورت گھر سے نکل کر احد کے راستہ پر ہوئی.وہ احد کے میدان کی طرف جارہی تھی کہ اس کو بعض ایسے صحابی ملے جواحد کے میدان سے واپس آرے تھے اور یہ وہ گروہ تھا جس میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے.بعض صحابہ نے آگے بڑھ کر اس انصاری عورت کو یہ اطلاع دی کہ تمہارا باپ اور تمہارا بھائی اور تمہارا خاوند تینوں جنگ اُحد میں شہید ہو گئے ہیں.جب اس عورت کو یہ اطلاع ملی تو چونکہ اس کی گھبراہٹ اور بے چینی اپنے باپ بھائی یا خاوند کے لئے نہیں تھی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی اس لئے اس نے کہا.تم مجھے یہ بتاؤ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے.جب صحابہ - اس سے یہ کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بخیریت ہیں اور یہ دیکھو آپ ہمارے ساتھ ہی تشریف لا رہے ہیں تب اس نے نظر اٹھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا جب اس کی نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو اس نے کہا اگر آپ زندہ ہیں تو دنیا کی کوئی مصیبت مجھ سے عید کی خوشی چھین نہیں سکتی.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۶۸ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب غرض گواحد کا دن بڑا سخت تھا لیکن یہ دن بھی جماعت مسلمین کے لئے عید کا دن ہی تھا اور یہی جذبات ان کے دل میں تھے کہ ہم نا کام نہیں ہوئے بلکہ یہ دن ہمارے لئے عید کا دن ہے اور اس عید کے دن کی بڑی وجہ یہ تھی کہ دشمن اپنے اس مقصد میں ناکام ہوا تھا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو قتل کر دے اور دوسرے یہ دن عید کا دن اس لئے تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ اس قسم کے حالات آئندہ مسلمانوں پر نہیں آئیں گے غرض عظیم بشارت لے کر یہ دن آیا ، عظیم حفاظت لے کر یہ دن آیا اور ایک نہایت عظیم معجزہ اس دن اللہ تعالیٰ کی جماعت نے دیکھا.پس یہ دن بھی باوجود انتہائی سخت ہونے کے اسلام کے لئے اور مسلمانوں کے لئے عید کا دن تھا.اُحد کے موقع پر ہی ایک اور بڑھیا عورت گھبراہٹ میں مدینہ سے نکلی.رستہ میں صحابہ کا ایک گروہ اسے ملا جس میں اس کے بیٹے حضرت سعد بن معاذ رئیس مدینہ بھی تھے.اس بڑھیا یعنی حضرت سعد بن معاذ کی والدہ کی نظر بھی کمزور تھی.جنگ احد میں اس کا بیٹا عمرو بن معاذ شہید ہو گیا تھا.حضرت سعد بن معاذ نے جب اپنی والدہ کو آتے دیکھا تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا.یا رسول اللہ صلی علیہ وسلم میری والدہ آرہی ہیں.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کی برکتوں کے ساتھ آئے.بڑھیا آگے بڑھی اور اس نے پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ادھر اُدھر دیکھا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نظر آ جائیں.آخر جب اس کی نظر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی اور اس نے آپ کو پہچان لیا تو وہ خوش ہو گئی اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے یہ کہا کہ میں آپ کے بیٹے کی شہادت پر آپ سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں تو اس نے آگے سے ب دیا کہ جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو یہ سمجھ لیں کہ میں نے ساری مصیبتوں کو بھون کر کھالیا.مجھے اور کسی کی پرواہ نہیں.ان دو واقعات کے علاوہ اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دن جو بظاہر سخت تھا مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہی تھا کیونکہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ سلامت واپس آتے دیکھ لیا حالانکہ آپ کے لئے انتہائی خطرناک حالات پیدا ہو گئے تھے.دوسری جنگ احزاب ہے جس میں بڑے خطر ناک حالات پیدا ہو گئے تھے سارا عرب اکٹھا ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوا تھا اور مدینہ گھیرے میں آ گیا تھا.علاوہ اور مصیبتوں کے کھانے کی بھی کمی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۶۹ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار تھی.ان دنوں خوراک کی کمی تھی.مسلمان بڑی تکلیف میں تھے وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر پھرا کرتے تھے.اس حالت میں ان سختی کے ایام میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے عید کے سامان پیدا کئے تھے.ایک تو یہ کہ الہی بشارت کے مطابق کفار نا کامی سے واپس لوٹے اور دوسرے یہ کہ عین ان تنگی کے ایام میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی دوز بر دست طاقتوں کے مغلوب ہونے کی خبر مسلمانوں کو دی اور بتایا کہ قیصر و کسری کی سلطنتیں تمہارے ہاتھوں مغلوب ہوں گی اور اسلام پھیل جائے گا.گو یا اس تنگی کے زمانہ کو اللہ تعالیٰ نے خوشی اور مسرت کے زمانہ میں بدل دیا.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو عید ہمارے لئے لے کر آئے وہ عید قیامت تک چلنے والی ہے.دنیا کی تکالیف اور دنیا کی آزمائشیں اس عید کی ماہیت اور حقیقت کو بدل نہیں سکتیں.ایک مسلمان پر بظاہر دنیوی لحاظ سے مصائب کا پہاڑ ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے اس کے دل میں عید کی خوشی اور مسرت کو قائم رکھا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے لئے خوشیاں مہیا ہو جاتی ہیں.عید کے یہ معنی نہیں ہیں.ہماری جو عام عید ہے اس کی مثال میں دیتا ہوں کہ اس دن کوئی گھر میں تکلیف نہیں اٹھاتا بلکہ اس دن ماں کو تو ایک مصیبت پڑی ہوئی ہوتی ہے وہ گھر کی صفائی کر رہی ہوتی ہے.کھانوں کا انتظام کر رہی ہوتی ہے عام حالت کی نسبت اسے بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے.اگر کسی گھر میں نوکر ہیں تو اس دن نوکروں کو بھی بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے.پھر اس کوعید کیوں کہتے ہیں دنیوی آنکھ تو اس دن عید کی خوشی دیکھ رہی ہوتی ہے.میں ایک متقی اور پر ہیز گار مسلمان کی بات نہیں کر رہا.عام دنیا دار اس دن عید کی خوشی ہی دیکھتا ہے کہ کھانا پینا ہے، ہنسی مذاق ہے ( اس کی ساری خوشیاں ان چیزوں میں ہیں) لیکن اس دن گھر والوں کو ہزار کام کرنے پڑتے ہیں غیر معمولی طور پر وہ کام کا دن ہوتا ہے.زیادہ کھانے پکانے ہوتے ہیں.زیادہ صفائی کرنی پڑتی ہے وغیرہ وغیرہ.پس حقیقتا عید کے معنی یہ ہوئے کہ خوشی اور مسرت کے لمحات تکالیف سے زیادہ ہیں اور تکلیف خوشیوں کے اندر دبی ہوئی ہے اور ان خوشیوں پر معمولی معمولی تکلیفیں قربان ہورہی ہیں.ماں اپنے وقت کی قربانی دے رہی ہوتی ہے.اپنے جسم کی طاقت خرچ کر رہی ہوتی ہے.وہ تھوڑے سے وقت کے لئے جس میں گھر والے باہم بیٹھیں.مل
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷۰ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار کر کھائیں پئیں.ہنسی اور خوشی سے کچھ وقت گزاریں اپنی توجہ اور اپنی ہر چیز قربان کر رہی ہوتی ہے.پس عید میں خوشی زیادہ ہے اور تکلیف کم ہے عید کے ساتھ تکلیف بہر حال لازم لگی ہوئی ہے.پھر جب دنیا کی عیدوں کے ساتھ تکلیف لگی ہوئی ہے تو وہ عید جس کی مسرتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں.جس کی قیمت دنیا کے اموال ادا نہیں کر سکتے.اس عید کے ساتھ بھی تکالیف لگی ہوئی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ ہر تکلیف کے موقع پر معجزانہ طور پر مسرت کے سامان پیدا کر دیتا ہے.اس طرح پر وہ دن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان کے ساتھ شروع ہوا کہ جنہوں نے آج میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی ہے وہ خوش ہو جائیں کہ ایک ابدی عید کی بشارت اللہ تعالیٰ انہیں دے رہا ہے.عید کا دن ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے کام سکھائے گئے ہیں.ایسی عبادتیں بتائی گئی ہیں کہ جب مسلمان انہیں بجالائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں کے سامان پیدا ہو کر ان کے لئے عید کی خوشیاں آجائیں گی.کچھ عرصہ سے امت مسلمہ نے اس عید سے لا پرواہی برتنی شروع کی اور ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ اپنے گناہوں کی وجہ سے اور اپنی کمزوریوں اور غفلتوں کے نتیجہ میں امت مسلمہ تنزل کے ایک دور سے گزری اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید اب عید کا دن ان پر غروب ہو چکا ہے لیکن ان دنوں میں بھی گو کمزور حصہ بادلوں کے اندھیرے میں تھا مخلصین کی ایک بڑی جماعت خدا تعالیٰ کے حسن اور اس کے احسان کے جلوے دیکھ رہی تھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عید کی خوشیوں میں شریک تھی.لیکن سارے جہان کو اس عید کی خوشی میں شریک کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے اور آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا کہ آپ اس لئے آئے ہیں کہ تا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کر کے یہ فرمائیں.ساقیا آمدن عید مبارک بادت کہ اے ازلی ابدی ساقی تو خوش ہو کہ تیری اس عید کا دن جو دنیا کی آنکھ میں مشتبہ ہوگئی تھی طلوع ہو رہا ہے.اب دیکھو عید آ گئی نا.پھر جماعت احمدیہ کو اور مسلمانوں کی اس جماعت کو جو اس آخری جد و جہد اور اس آخری مہم میں شریک ہونا چاہتی تھی جس جد و جہد اور کوشش کے نتیجہ میں اسلام سب دنیا پر غالب آئے گا مخاطب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلو والسلام فرماتے ہیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷۱ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار اگر تم ایماندار ہو تو شکر کرو اور شکر کے سجدات بجالاؤ کہ وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آباء گزر گئے اور بیشمار روحیں اس کے شوق میں ہی سفر کر گئیں.وہ وقت تم نے پالیا.اب اس کی قدر کرنا یا نہ کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھا نا تمہارے ہاتھ میں ہے.( جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاماً بتایا گیا تھا کہ عید تو ہے چاہے کر دیا نہ کرو وہی مضمون آپ نے یہاں بھی بیان کیا ہے ) ” میں اس کو بار بار بیان کر وں گا اور اس کے اظہار سے میں رک نہیں سکتا کہ میں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لئے بھیجا گیا تادین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟.ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے.“ (فتح اسلام.روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحہ ۷، ۱۱،۱۰،۸) یعنی یہی موت ہے جس پر ہماری عید موقوف ہے جب انسان اپنے خدا کے لئے اپنی جان کو پیش کر دیتا ہے.جب انسان اپنے خدا کے حضور اپنے آرام کو پیش کر دیتا ہے.جب انسان اپنے خدا کے حضور ایسے جذبات کو پیش کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میری ہر چیز تیرے ہی لئے ہے اور تیری ہی راہ میں فدا ہے تب وہ خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار کے سلوک کو پاتا ہے اس کا نام عید ہے اور حقیقتاً یہی عید ہے.جو کھانا پینا ہے وہ تو کوئی عید نہیں اس کے نتیجہ میں پیٹ خراب ہوتے ہیں بیماریاں آ جاتی ہیں.ڈکار آنے لگ جاتے ہیں اور ہم کہتے ہیں بڑی خوشی ہوئی.عید بڑی منائی بہت کھایا نتائج کیا نکلے اس کھانے اور پینے کے) لیکن جب اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہم پر ظاہر ہوتا ہے اور ہمارے دلوں میں ایک روحانی سرور پیدا ہوتا ہے.تو وہ ایک ایسا سرور ہے کہ جس کا تصور بھی دنیا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷۲ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار دار نہیں کرسکتا.صاحب تجر بہ اسے جانتے ہیں.الفاظ اسے بیان نہیں کر سکتے.بعض دفعہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خوشی اور مسرت اور سرور نے سارے جسم کو.جسم کے ذرہ ذرہ کو اور روح کے ہر زاویہ کو اپنی گرفت میں لے لیا اور گھنٹوں وہ حالت رہتی ہے.اللہ تعالیٰ کے حسن کا کوئی جلوہ ایسا آ جاتا ہے تجربہ رکھنے والے اس کا تجربہ رکھتے ہیں.یہ ہے عید اور یہ ہے عید کی خوشی دنیا کی خوشیاں تو عارضی ہوتی ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ وعدہ دیا گیا تو آپ کے زمانہ میں بھی مسلمان پر بڑی سختی کے دن آئے لیکن ان سختی کے ایام میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے عید کے سامان پیدا کئے تھے.میں نے دو مختلف جنگوں کی مثالیں دی ہیں اور ایک جنگ کی آگے دو مثالیں دی ہیں.لیکن اسلام کی ساری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کیونکہ عید اُسی طرح ہم سے قربانی کا مطالبہ کرتی ہے جس طرح دنیا کی عید گھر کی مالکہ اور اس کے خادموں سے اس قربانی کا مطالبہ کرتی ہے کہ گھر کی صفائی کی جائے اور پہلے سے زیادہ وقت لگا کر پہلے سے زیادہ محنت کر کے پہلے سے زیادہ پیسے خرچ کر کے کھانے کے سامان پیدا کئے جائیں.جب ہم خدا کے لئے ان سختیوں کو برداشت کر لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سختیاں کوئی سختیاں نہیں وہ سختیاں غائب ہو جاتی ہیں اور دب جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ جو عید کا دن اسلام پر چڑھا اور جو قیامت تک جائے گا غروب نہیں ہو گا یہ دن ہم سے کئی قربانیاں چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کا سلوک ہمیں دیتا ہے جو عید کی خوشیاں ہمارے لئے مہیا کرتا ہے.ہماری جماعت پر مختلف مقامات پر مختلف ملکوں میں اور مختلف زمانوں میں قربانیوں کے ایام آتے ہیں اور یہ ایام خوشیوں کے ساتھ بالکل لگے ہوئے ہوتے ہیں اور جس طرح سینڈوچ بنتی ہے اور روٹی کے دو ٹکڑے اس چیز کو چھپا لیتے ہیں جو ان کے درمیان ہوتی ہے اسی طرح ہماری خوشیاں ان تکلیفوں اور ایذاؤں کو جو ہمیں دی جاتی ہیں سینڈوچ (sandwich) کرلیتی ہیں.وہ نظر ہی نہیں آتیں کیونکہ اس طرف بھی خوشی ہوتی ہے اور اس طرف بھی خوشی ہوتی ہے.اب دیکھ لو یہ دن بھی ہم نے پریشانی میں گزارے ہیں.فضا ہمارے خلاف رہی اور سال بھر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷۳ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.یہی حال رہا.گویا جو سال گزرا وہ ہمارے لئے پریشانیوں کا سال تھا.وہ ہمارے لئے دکھوں کا سال تھا وہ ہمارے لئے دکھ وہ الفاظ سننے کا سال تھا ہمارے لئے یہ سارا عرصہ دیواروں پر دکھ دہ الفاظ پڑھنے کا عرصہ تھا.یہ سب صحیح ہے لیکن یہ وہ سال ہے جس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یورپین ممالک میں پہلے سے زیادہ بیعتیں ہوئی ہیں.ان علاقوں میں جہاں مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں رکھی جاتی تھی اور جہاں ایسے لوگ تھے جو ہمارے محبوب اور پیارے اور مقصود اور مطلوب پیدا کرنے والے رب کا انکار کرنے اور اسے گالیاں دینے والے تھے.کہیں دو اور کہیں تین مسلمان ہوتے تھے.اب ان علاقوں میں ایک رو پیدا ہو رہی ہے اور یورپ کے ممالک یعنی ان مغربی ممالک میں جو تہذیب یافتہ ممالک کہلاتے ہیں ایک سو بائیس بیعتیں ہوئی ہیں.اگر ہم اس کا ماضی سے مقابلہ کریں تو یہ بہت بڑی تعداد ہے.مجھے یاد ہے کہ ۱۹۳۹ء میں جب میں کشمیر میں تھا ایک انگریز دوست یورپ میں مسلمان ہوئے تھے اور اس ایک انگریز کے مسلمان ہونے پر کشمیر میں ایک بڑی عید کا دن لوگوں نے منایا تھا اور اس نقطہ نگاہ سے پتہ نہیں کتنے سال بعد وہ عید آئی تھی اس لئے ایک سال میں ایک سو بائیس سے زیادہ بیعتوں کا ہونا ہمارے لئے عید ہے اور ان علاقوں میں اسلام کے قدم جم رہے ہیں اور مضبوط ہو رہے ہیں.اسلام پر جو مخالف طاقتیں حملہ آور ہیں خدا تعالیٰ نے ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا اور قائم کیا ہے اور ہم ان کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور برکتوں کی بارش اپنے پر نازل ہوتی دیکھ رہے ہیں.ہم اپنی راہ میں جب کا نٹوں کو بچھا ہوا دیکھتے ہیں اور ہمارے پاؤں سے ذرا سا خون نکالتا ہے تو ہماری اس کی طرف توجہ بھی نہیں ہوتی.ہمارے کانوں میں جب اس زبان سے جو اس وقت تک محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو گالیاں دے رہی تھی نکلا ہوا لا اله الا الله محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑتا ہے.تو ہمیں دوسرے کلموں کی کیا پرواہ ہے جب ایک لایعنی آواز کہ مرزائی کا فر ہیں ہمارے کانوں میں پڑتی ہے تو ہم اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کیونکہ لا اله الا الله محمد رسول الله کی حسین اور دل کش آواز ہماری توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور کوئی ایسی آواز نہیں ہے جو ہمیں پریشان کرے ہم تو س آواز کو سنتے ہی نہیں.ہم تو اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے غرض ہمیں اس آزمائش کے زمانہ میں شاید دنیا کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷۴ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار نگاہ میں بڑی تکلیفیں دی گئی ہوں گی لیکن ہماری نگاہ میں تو ہمیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی ہمیں تو خوشیاں ہی خوشیاں پہنچ رہی ہیں جن کی ایک مثال میں نے بیان کی ہے.اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے خوشی کا سامان یہ بھی پیدا کیا ہے کہ ہمارے عرب بھائیوں کے علاقوں میں جنہیں مشرق وسطی بھی کہتے ہیں اور عرب ممالک بھی کہتے ؟ ہیں.اس سال اتنی بیعتیں ہوئی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.وہاں جماعت کے لئے کافی پریشانیاں بھی ہیں.کافی تنگی بھی ہے وہاں کے حالات بھی پوری طرح ہمیں نہیں ملتے لیکن جن حالات کا ہمیں پتہ لگا ہے ان کے رُو سے اس سال وہاں چالیس عرب احمدی ہوئے ہیں.ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں.چند مہینے ہوئے وہ ہمارے ایک احمدی عرب دوست کو ملے اس نے انہیں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہو چکے ہیں کو اور ایک مہم غلبہ اسلام کے لئے جاری ہو چکی ہے اور اس طرح دنیا میں اسلام کی تبلیغ اور اسلام کی تعلیم کی اشاعت کے سامان ہو رہے ہیں اور مساجد اور سکول بن رہے ہیں.یہ باتیں بتانے کے بعد شاید اس نے انہیں کوئی کتاب بھی پڑھنے کے لئے دی اور شاید اس دن یا اس سے اگلے دن وہ کہنے لگے کہ میری بیعت لے لو.وہ احمدی دوست سمجھے کہ اس نے جماعت احمدیہ کے متعلق اتنا تھوڑ اعلم حاصل کیا ہے کہ اس کی بیعت لینا ٹھیک نہیں ہو گا.غرض وہ کچھ شش و پنج میں پڑے اس پر وہ کہنے لگے اصل بات یہ ہے کہ (میں پچھلے سال کی بات کر رہا ہوں اور جو بات انہوں نے بتائی وہ پرانے زمانہ کی ہے ) ۱۹۴۸ء میں میرے والد کی وفات ہوئی اور مرتے وقت میرے والد نے اپنے بچوں کو یہ وصیت کی کہ امام مہدی دنیا میں ظاہر ہو چکے ہیں اور میں ایک بدقسمت انسان ہوں کہ میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی اور میں ان کی جماعت میں داخل نہیں ہوا.میری تمہیں یہ نصیحت ہے کہ جب بھی تم ان کے متعلق سنوان کی جماعت میں داخل ہو جاؤ.سو میں تو اپنے والد کی وصیت کے مطابق جماعت میں داخل ہونا چاہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اسی وقت اس دل میں اس قد را خلاص اور جوش پیدا کیا کہ وہ وہاں مسافرت کی حالت میں تھا.جس جگہ اس کی ملاقات اس احمدی عرب دوست سے ہوئی اور اس کے دو اور ساتھی بھی تھے وہ وہاں سے اٹھا اور اپنے دونوں ساتھیوں کے پاس گیا اور ان کو تبلیغ کی چنانچہ وہ جو خود چند منٹ پہلے بیعت کر کے جماعت
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷۵ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب میں داخل ہوا تھا اس نے تبلیغ کر کے ان کے ان دونوں عربوں کی بھی بیعت کروائی اور اب وہ اپنے علاقہ میں ایک مبلغ بنا ہوا ہے.یہ نہیں کہ وہاں احمدی دوست امن میں ہیں.وہ بڑی تکلیفیں اٹھارہے ہیں اور الہبی جماعتوں کو تکلیفیں پہنچتی ہی رہتی ہیں کہ جو عید کا مزہ ہے وہ دوبالا ہو جائے.جس شخص کو عید کا کھانا ہی روز ملے اس کو عید کے دن والے کھانے میں کیا لذت آئے گی.غرض جب اللہ تعالیٰ دنیا کو تکلیف پہنچاتا ہے تب مزہ آتا ہے جب دنیا کا ہر انسان گندی زبان کے تیز دھار والے آلہ سے مجھ پر حملہ آور ہو اور اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ مجھ سے پیار اور محبت کا سلوک کرے تب مجھے اللہ تعالیٰ کے اس پیار اور محبت والے سلوک میں مزہ آئے گا.تیسری خوشی کی بات جو اللہ تعالیٰ نے اس تسلسل اور ضمن میں ہمارے لئے پیدا کی اور عید کی مسرت ہمیں پہنچائی یہ ہے کہ نہ صرف عرب ممالک میں بلکہ ان سب ممالک میں جہاں عرب بستے ہیں اور وہاں ہمارے مبلغین ہیں عربوں کی توجہ جماعت کی طرف پیدا ہوئی.ان ممالک میں بہت سارے عرب اپنے کاموں کے سلسلہ میں آئے ہوئے ہیں اور بعض اپنی ایمبیسیز (Ambassies) یعنی سفارت خانوں کے سلسلہ میں آئے ہوئے ہیں.انہوں نے ایک سال کے اندر اندر ہمارے کاموں میں دلچسپی لینی شروع کر دی ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا آسمان سے تار ہلایا گیا ہے.میں یہ تو نہیں کہتا کہ ساری ایمبیسیز یا سارے عرب لوگ ہی جماعت کے کاموں سے بے اعتنائی برتتے ہیں لیکن بہر حال بعض ایمبیسیز (Ambassies) ایسی تھیں کہ جو ہماری مسجد سے کوئی تعلق رکھنا برداشت ہی نہیں کر سکتی تھیں.وہ اپنے کارکنوں کو وہاں جانے سے روکتی تھیں لیکن اچانک انہوں نے ہمارے کاموں میں دلچسپی لینی شروع کر دی.ایک دن ایک ایمبیسی (Ambasey) نے افطاری کے موقع پر ایک احمدی دوست کو بھی بلا لیا اور اس سے پوچھنے لگے کہ مسجد کب بنی.تم کیسی تبلیغ کر رہے ہو( یہ ڈنمارک کی بات ہے.پھر انہوں نے اس مسلمان انجینئر کو بلایا جن کے متعلق میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ انہوں نے بڑے شوق سے مسجد بنائی ہے اور اس سے جماعت کے حالات پوچھے پھر ایک ایمبیسی کے سفیر ہمارے امام کو ملنے کے لئے آئے.انہوں نے ہمارے کام کی بڑی تعریف کی اور کافی رقم اشاعت اسلام کے لئے وہاں دے گئے اور یہ کہا کہ یہ میری حکومت کی طرف سے ہے اس وقت میں مصلحت ان ملکوں یا ان سفیروں کا نام نہیں بتاؤں گا.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار بہر حال اچانک ساری دشمنیاں دور ہو گئیں اور دشمنی کی جگہ محبت پیدا ہوگئی.یہ ایک بڑا لطیف بدلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے.ایک علاقہ میں ہمارے کان میں ایذاء کی باتیں پڑ رہی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے کہا ( جہاں ایڈا کی باتیں کانوں میں پڑ رہی تھیں وہاں ) میٹھے بول شروع کر دو تا که مپینسیشن (Compansation) ہو جائے اور اس کا بدلہ ان کومل جائے.میں نے بتایا ہے کہ ہمارا اصل کام ان طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہے جو اس وقت اسلام کے خلاف کام کر رہی ہیں.پہلا کام تو دفاع کرنا تھا لیکن اب خالی ہمارا یہ کام نہیں کہ ہم دفاع کریں یہ تو بہت معمولی کام ہے اب ہمارا اصل کام یہ ہے کہ اس طاقت کے خلاف جو اسلام کے خلاف منصوبے بنا رہی ہے حملہ آوار ہوں.ہم نے اب مخالف طاقتوں پر حملہ آور ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ تمہیں جو کچھ میسر ہے وہ میری راہ میں قربان کر دو اور مجھے جو کچھ میسر ہے ( اور اس کو سب کچھ میسر ہے ) وہ میں تمہیں عطا کر دوں گا اور تمہیں کامیابی دوں گا.پس جوں جوں مخالف اسلام طاقتوں کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں توں توں بنی نوع انسان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس طرف متوجہ کر رہے ہیں کہ اگر سچی خوشیاں اور حقیقی امن اور سکون حاصل کرنا ہو تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ تلے ہی مل سکتا ہے.پس تم وہاں اکٹھے ہو جاؤ اور یہ اللہ تعالیٰ کے ملائکہ کا کام ہے انسانوں کا یہ کام نہیں ہے.میں نے یورپ کے سفر کے دوران بھی بہت سے نظارے دیکھے تھے اور سفر کے بعد واپس آکر میں نے بعض واقعات احباب کے سامنے بیان کئے تھے میں یہ باتیں بتاتا بھی ہوں اور خود بھی اپنا محاسبہ کرتا ہوں.یہ باتیں آپ کو بھی ہر وقت اپنے سامنے رکھنی چاہئیں تا کہ کسی وقت فخر اور غرور کے جذبات دل میں پیدا نہ ہوں جو نیک اور شاندار نتائج اور انتہائی طور پر معجزانہ نتائج ہماری کوششوں کے نکل رہے ہیں وہ ہماری کوششوں کے نہیں نکل رہے وہ تو اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے جو ہمیں نظر آ رہی ہے ورنہ ہماری کوشش کیا اور اس کے نتائج کیا.خالی انگلستان ہی کے جو عیسائی ہیں ان کے بیسیوں نہیں سینکڑوں فرقے ہیں.وہ سب فرقے عیسائیت کی تائید میں روپیہ خرچ کر رہے ہیں.ان کے ایک چرچ ہی کو لیں ان کے ایک فرقہ کو ہی لیں وہ جو روپیہ خرچ کر رہے ہیں اس کا ایک فیصد بھی ہم ان کی مدافعت میں یا ان پر حملہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷۷ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار آور ہونے کے لئے خرچ نہیں کر سکتے لیکن جو نتیجہ نکل رہا ہے.وہ اس کے مقابلہ میں اتنا شاندار ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے حال یہ ہے کہ افریقہ کے ایک ملک میں ایک صاحب غالباً بیلیجم کے رہنے والے تھے.وہ پادری کی حیثیت میں وہاں آئے اور باون سال تک انہوں نے وہاں یسوع مسیح کی منادی کی اور باون سال کی منادی کے بعد جب وہ بوڑھے ہو کر کہ جب ساری امنگیں ختم ہو جاتی ہیں اور انسان کو اپنا مستقبل اندھیر انظر آتا ہے اپنے ملک کو واپس جانے لگے تو کسی اور کو بھی نہیں ہمارے مبلغ کو انہوں نے کہا کہ باون سال کی کوشش کے نتیجہ میں صحیح معنی میں میں صرف ایک عیسائی کر سکا ہون ہمارے مبلغ نے انہیں کہا کہ خدا کا فضل ہے کہ چند سال میں ہزاورں فدائی اسلام کے اس ملک میں پیدا ہو گئے ہیں.اب دیکھیں باون سال کی کوشش اور ہمارے مقابلہ میں کئی سو گنا زیادہ اموال کا خرچ اور نتیجہ ایک اور دس کا نہیں ایک اور سو کا مقابلہ بھی نہیں بلکہ اگر ہمیں خدا نے دس ہزار دیا تو شاید ان کو ایک دیا ہو.ورنہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں دس ہزار سے بھی زیادہ دیا.غرض خدا تعالیٰ کی راہ میں جو تکلیفیں آتی ہیں وہ تکالیف ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی عید کی خوشیوں میں کوئی کدورت اور کوئی اندھیرا نہیں پیدا کرتیں.کوئی بدمزگی نہیں پیدا کرتیں.ہماری عید کی خوشیاں اسی طرح قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے قائم رکھی جاتی ہیں.اس لئے معمولی معمولی تکلیفوں کو ہم کچھ نہیں سمجھتے اور ہمارا دل تو یہ چاہتا ہے کہ اگر خدا یہی چاہے اور وہ ہمیں اس امتحان میں بھی ڈالے کہ ہم اس سے نو ہزار گنے زیادہ اس کی راہ میں تکالیف اور اذیتیں اٹھا ئیں تو ہم اٹھائیں گے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ پھر ہماری تکلیف جس نسبت سے بڑھے گی اس سے کہیں زیادہ نسبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نازل ہوگی.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پچھلے جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے کہا تھا کہ جاپان میں تبلیغ کا کام شرع ہو جانا چاہئے.ان ملکوں کا بھی حق ہے کہ بیچ اور صداقت اور نور ان تک پہنچے.اس سلسلہ میں سال کے دوران عملاً جو کام ہو سکا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ میں نے وکیل التبشیر صاحب کو وہاں بھجوایا تھا کہ وہ وہاں جا کر خود جائزہ لیں وہاں کے حالات معلوم کریں اور رپورٹ کریں.ان کی جور پورٹ ہے اس کی تفصیل تو وہ غالباً اپنی تقریر میں بیان کریں گے لیکن ایک
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ہے.۲۷۸ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب حصہ کا تعلق ان سے نہیں یعنی جو کچھ ہم نے کرنا ہے وہ تو خلیفہ وقت ہی کا کام ہے.اس وقت وہاں اسلامی تعلیم کو قبول کرنے کی فضا بھی ہے اور بعض ایسی روکیں بھی ہیں جو دوسری جگہوں پر نہیں.دوسرے ممالک جنہوں نے ترقی کی ہے وہ مذہب سے کوئی تعلق نہیں رکھتے اس لئے جب وہ اپنا مذہب بدلتے ہیں تو عام طور پر سنجیدگی سے بدلتے ہیں یعنی پھر ان کا مذہب سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً عیسائیت ہے وہاں عیسائی محض نام کے ہیں بعض لوگ عیسائیت کے گرجا میں بھی نہیں جاتے.پھر بھی وہ عیسائی ہیں.اگر اسلام لانے کے بعد بھی ان کی یہی کیفیت رہے تو اسلام لانے یا کوئی اور لیبل لگانے کی ضرورت بھی کیا ہے لیکن جب وہ مسلمان ہوتے ہیں تو اسی لئے مسلمان ہوتے ہیں کہ پہلے ان کے دل میں اللہ اور مذہب کا خیال پیدا ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے پھر وہ اسلام کے حسن کو دیکھتے ہیں اور اس سے تعلق پیدا کر لیتے ہیں.لیکن جاپان کے حالات کچھ مختلف ہیں وہ مذہب کو کلب سمجھتے ہیں یورپین ممالک تو مذہب کو کلب بھی نہیں سمجھتے.قصہ ہی ختم ہو گیا.اس لئے جب وہ اسلام میں آئیں کے تو اسے کلب سمجھ کے نہیں آئیں گے بلکہ اسے مذہب سمجھ کر آئیں گے یعنی اگر وہ اسلام کی طرف آئیں گے اور اتنا بڑا قدم اٹھائیں گے تو سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ اٹھا ئیں گے لیکن جاپان میں مذہب کو کلب سمجھتے ہیں اور وہاں آپ کو ہزاروں آدمی ایسے ملتے ہیں جو عیسائیت میں کیتھولک کلب میں بھی شامل ہیں اور پروٹسٹنٹ کلب میں بھی شامل ہیں اور بدھ مذہب کے کلب میں بھی شامل ہیں اور ان کے اپنے جو دو چار بڑے مذاہب ہیں ان میں سے بھی ہر ایک کلب میں شامل ہیں.کسی مذہب کی رسومات وہ پیدائش کے وقت ادا کر لیتے ہیں اور کسی کی وفات کے وقت کر لیتے ہیں اور اب عیسایت وہاں گئی؟ ہے تو وہ اسے بھی جیسا کہ میں نے بتایا ہے کلب سمجھتے ہیں.بعض ان میں سے اسلام کو بھی کلب سمجھتے ہیں وہ مسلمان ہو جاتے ہیں لیکن اسلام کی روح ان میں داخل نہیں ہوتی ہے.یہ روح یدا کرنے کے لئے صرف علمی دلائل کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے لئے ہمیں ایک خدا رسیدہ بزرگ انسان کی ضرورت ہے جو وہاں جا کر ایسا نمونہ ان کے سامنے رکھے کہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ انسان کا واقعی اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ محبت کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے.تب ان کے دل میں حقیقی اسلام پیدا ہو گا.ورنہ دلائل کے ساتھ اس تعلق کو قائم کرنا بڑا مشکل ہے.خدا کرے کہ وہ دلائل
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷۹ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار کے ساتھ قائم ہو جائے لیکن ہماری عقل کہتی ہے کہ یہ کام بڑا مشکل ہے.اس لئے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک ایسا ایثار پیشہ دعائیں کرنے والا اپنے ربّ سے پہنی تعلق رکھنے والا اور اپنے خدا کے زندہ جلوؤں کو اپنی زندگی میں دیکھنے والا مخلص مبلغ مل جائے جسے ہم جب وہاں بھیجیں تو وہ اپنا ایسا نمونہ جاپانیوں کے سامنے رکھے کہ جو ان کے دلوں کو موہ لے اور ان کے لئے برکتوں کے سامان پیدا ہو جائیں.چونکہ وہ ایک بڑا ملک ہے اور اسلام کے لئے فضا وہاں پیدا ہو گئی ہے.اس لئے وہاں ایک آدمی کافی نہیں.اگر ہم نے وہاں پھیلنا ہے تو ایک سے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے.ایک آدمی اس لئے بھی کافی نہیں کہ وہاں کی زبان مشکل ہے یعنی ایک شخص جس کو زبان سیکھنے کا ملکہ ہو وہ جرمن زبان آسانی سے سیکھ لیتا ہے.سپینش زبان آسانی سے سیکھ لیتا ہے.انگریزی زبان آسانی سے سیکھ لیتا ہے.سکنڈے نیویا میں جو مختلف زبانیں تھوڑے سے فرق کے ساتھ بولی جاتی ہیں وہ آسانی سے سیکھ لیتا ہے اٹالین سیکھ لیتا ہے لیکن ایسے انسان کے لئے جاپانی زبان کا سیکھنا نسبتاً مشکل ہے اس کے لئے ہمیں زیادہ محنت کرنی پڑے گی.زیادہ کوشش کرنی پڑے گی.زیادہ خرچ کرنا پڑے گا.پس کم از کم ایک مخلص نو جوان بھی وہاں جانا چاہئے جو اپنا زیادہ وقت زبان سیکھنے پر خرچ کرے.ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں کو بھی بدلے گا اور میرا دل تو اس کے فضل سے اسی کے ہاتھ میں ہے.میرے دل میں تو کبھی گھبراہٹ پیدا نہیں ہوتی کہ پیسے کہاں سے آئیں گے جو کام کرنا ہے وہ بہر حال کرنا ہے.ویسے فکر کرنا ہمارا کام نہیں.ہاں ہمارا یہ کام ضرور ہے کہ جو پیسہ ہمیں مل جائے اس کے متعلق یہ فکر کریں کہ اس میں سے ایک دھیلا بھی ضائع نہ ہو.لیکن ہمارا یہ کام نہیں کہ سوچیں کہ یہ خدا کا کام تو.لیکن خدا اس کے لئے پیسے مہیا نہیں کرے گا اور نہ اس کا ہمارے ساتھ یہ سلوک ہے.دوسرے وہاں لٹریچر بعض کتب رسالے وغیرہ اور قرآن کریم کے ترجمہ کی کمی ہے.یہ ملک دوسرے ممالک سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ مثلاً جرمنی میں اسی فیصدی آبادی انگریزی زبان سمجھ لیتی ہے یا فرانسیسی زبان سمجھ لیتی ہے یہی حال فرانس کا ہے اور ہمارا زیادہ لٹریچر انگریزی زبان میں ہے.زیادہ تر کتب انگریزی میں ہیں اور وہ لوگ بڑی کثرت سے انگریزی سمجھ لیتے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸۰ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.ہیں اور ہماری کتابوں کو پڑھ لیتے ہیں لیکن جاپان کی یہ حالت نہیں.ان کو تو ہمیں ان کی اپنی زبان ہی میں سمجھانا پڑے گا اور اس کے اوپر وقت بھی خرچ ہو گا اور پیسے بھی خرچ ہوں گے لیکن خدا تعالیٰ کا جو قانون اس مادی دنیا میں ہے وہ یہ ہے کہ درجہ بدرجہ ترقی ہوتی رہے.تدریجی ارتقا کا اصول چلتا ہے.میں یہ چاہتا ہوں.ہم انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اگلے مالی سال میں (کیلنڈر ایئر میں نہیں کہ جو جنوری سے شروع ہوتا ہے بلکہ اپنے مالی سال میں جو یکم مئی سے شروع ہوتا ہے) وہاں اپنا مشن کھولیں جو دو آدمیوں پر مشتمل ہو اورس کے لئے جو روپیہ کی ضرورت ہوگی وہ میں دیکھوں گا.اللہ تعالیٰ نے جو تد بیر بھی ذہن میں ڈالی.اس کی منشا اور اس کی برکت اور اس سے دعاؤں کے ساتھ اس تحریک کو جاری کر دوں گا.یہ کام میں بعد میں کروں گا.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے جو ہو کر رہے گا لیکن اس وقت جماعت یہاں کثرت سے آئی ہوئی ہے.دیہاتی بھی اور شہری بھی.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاپان کی قوم اسلام کی تعلیم کو سننے کے لئے تیار معلوم ہوتی ہے اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ان کی اس روحانی پیاس کو بجھائیں اور اس کے لئے ہمارے امکان میں جو تد بیر بھی ہے وہ کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں ان پر بھی اسی طرح کھلیں جس طرح اس کے فضل نے ان راہوں کو ہم پر کھولا ہے اس کے لئے جو خرچ ہوگا جس طرح اس کی آمد ہوگی وہ سکیم بعد میں جماعت کے سامنے رکھوں گا اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے سامان پیدا کرے گا.پھر آپ یہ دعائیں کریں کہ جس طرح دنیا کے دوسرے ممالک میں وہ اقوام یا ان اقوام کے گروہ اور جماعتیں جو اسلام سے بیگانہ یا بے نیاز یا اسلام سے تعصب رکھنے والی تھیں اور بہت سے مقامات پر ایک سال میں ہم نے ان کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا ہوتے دیکھی اسی طرح جاپان میں بھی ہو.لیکن یہ پہلے دن سے ہو جائے جب ہمار.وہاں جائیں تو ان کے دل کھل جائیں اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیوی فراست ، عقل اور ہمت دی ہے اور کام کرنے کے طریق سکھائے ہیں اس نے یہ چیزیں ان کو دی ہیں.تو خدا کرے کہ مذہب اور دین اور اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور توحید باری بھی انہیں ملے تا کہ وہ صرف دنیا میں ترقی کرنے والے نہ ہوں بلکہ اسی دنیا کی جو جنتیں ہیں ان میں بھی وہ ترقی کریں اور خدا تعالیٰ کے برگزیدہ انسانوں میں اٹھائے جائیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸۱ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب سال گذشتہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جو کام ہوئے ہیں میں ان کو مختصر بیان کر دیتا ہوں.مشرقی افریقہ میں دو مساجد تعمیر ہوئی ہیں.اَلْحَمْدُ لِلہ اور مغربی افریقہ میں تین نئی مساجد تعمیر ہوئیں اور جنوبی امریکہ میں دو مساجد اور ٹرینی ڈاڈ میں.ایک مسجد تعمیر ہوئی ہے.الحمد للہ.سکول غانا.(مغربی افریقہ ) میں ایک مزید سیکنڈری سکول کھولا گیا ہے سیرا لیون کے ہمارے ایک سیکنڈری سکول میں سائنس بلاک کا اضافہ ہوا ہے.کمپالہ ( یوگنڈا) کے سیکنڈری سکول کی عمارت میں کافی توسیع کی گئی ہے.اب وہ عمارت قریبا دگنی ہو گئی ہے.تنزانیہ میں دو پرائمری سکول جاری ہوئے ہیں.سکولوں کے متعلق ایک نئی رویہ پیدا ہوئی ہے اور یہ ایک ذریعہ ہے ہماری تبلیغ کا کہ ان ممالک میں جو دوست احمدی نہیں ہیں اب وہ اس بات کو زیادہ پسند کرتے ہیں کہ وہ اپنے سکول احمدیوں کی نگرانی میں دیں.چنانچہ نائیجیریا کے شمالی حصوں میں جہاں بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے وہاں وہ ایک نئے سکول کے متعلق فیصلہ کر رہے تھے.انہوں نے ہم سے درخواست کی ہے کہ جماعت اس سکول کا انتظام سنبھالے کیونکہ جماعت احمدیہ ہی بہترین انتظام کر سکتی ہے.اسی طرح مغربی افریقہ کے ایک دوسرے ملک میں وہاں کے پیرا ماؤنٹ چیف ( بڑا چیف سارے علاقہ یا ضلع کا افسر اعلیٰ نے سکول اور ڈسپنسری کی عمارت بنادی تو کچھ لوگوں نے اس پر زور دیا کہ یہ عمارت احمد یوں کو نہ دو لیکن اس نے کہا.میں یہ احمد یوں ہی کو دوں گا چنانچہ چند دن ہوئے وہ عمارت ہمیں مل گئی ہے یعنی اس نے سکول بھی ہمیں دے دیا ہے اور ڈسپنسری بھی ہمیں دے دی ہے ؟ اور اب وہ لوگ زور دے رہے ہیں کہ اپنا ڈاکٹر یہاں بھیجو ہم احمدی ڈاکٹر ہی یہاں چاہتے ہیں تو یہ رو بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دی ہے.ہم نے اللہ تعالیٰ کی بڑی برکتیں نازل ہوتی دیکھی ہیں اگر وہ برکتیں صرف یہیں نازل ہوتیں تو کوئی یہ کہ سکتا تھا کہ تم نے اپنے دل کی تسلی کے لئے یہ کہہ دیا ہے لیکن جو چیز ہمیں یورپ میں نظر آ رہی ہے امریکہ میں نظر آ رہی ہے.شمالی امریکہ میں بھی اور جنوبی امریکہ میں بھی اور جزائر میں بھی نظر آ رہی ہے اس کے متعلق یہ بات نہیں کہی جاسکتی.اس سال جزائر میں بھی بحیثیت مجموعی زیادہ بیعتیں ہوئی ہیں.
۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸۲ میڈیکل سنٹر.( گیمبیا مغربی افریقہ میں ایک میڈیکل سنٹر کھول دیا گیا ہے اور وہاں ایک احمدی ڈاکٹر بھی پہنچ گئے ہیں.عمارت کی منظوری بھی انہیں مل گئی ہے وہ بعد میں بن جائے گالیکن ڈاکٹر صاحب نے کام شروع کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ میں شفا بھی رکھ رہا ہے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اور بھی زیادہ شفا ان کے ہاتھ میں رکھ دے تا دنیا ہر دوسرے میڈیکل سنٹر کو چھوڑ کر اسی کی طرف ہی رجوع کرے اور ڈاکٹر صاحب کو عوام کی خدمت کی توفیق عطا کرے.غانا میں بھی جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے جگہ ہمیں مل گئی ہے اور عنقریب ایک احمدی ڈاکٹر یہاں سے جارہے ہیں نائیجیریا میں ہمارے ڈاکٹر اور ڈسپنسری پہلے ہی موجود تھے اب ایک بڑا قطعہ زمین وہاں خرید لیا گیا ہے اور بڑے پیمانہ پر ہسپتال کی عمارت بننے والی ہے اور آجکل ہی میں اس کا سنگ نبیا د رکھا جانے والا ہے.اللہ تعالیٰ اسے اسلام اور ان علاقوں کے لئے مبارک کرے.تفاسیر.قرآن کریم کے تراجم اور تفسیر کا کام بھی ہو رہا ہے.انگریزی تفسیر القرآن بہت بڑی تھی.اس خیال سے کہ لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچ سکے اس کو مختصر کر کے خلاصہ کی شکل میں شائع کرنے کا پروگرام تھا.جیسا کہ میں نے پچھلے سال ذکر کیا تھا.بڑا حصہ اس کا چھپ چکا ہے اور یہ مشتمل ہے.۱۳۰۰ صفحات پر مشتمل بڑی تفسیر القرآن جو تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے اس کا پری فیس (Preface) جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا اور دو تین سوصفحات پر مشتمل ہے.وہ اتنی بڑی کتاب کے لئے کوئی بڑا دیباچہ نہیں تھا لیکن جب اس کا خلاصہ ۳۰۰ صفحات کا ہو گیا تو یہ سوال اٹھایا گیا کہ ۳۰۰ صفحات کے لئے تین سوا ور چار سو صفحات کے درمیان کا دیباچہ زیادہ بوجھل اور وزنی ہو جائے گا.۳۰۰ صفحات کی کتاب کے لئے دنیا میں اتنا لمبا دیباچہ نہیں ہوا کرتا.مختلف آراء تھیں.مختلف مشورے تھے.ایک وقت میں اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالا کہ اس دیباچہ کا خلاصہ کرنا درست نہیں اس طرح اس کی افادیت میں کمی واقع ہو جائے گی لیکن اتنے بڑے دیباچہ کو مختصر تفسیر سے پہلے اس کا مستقل حصہ بنا کر شائع کرنا بھی غیروں میں سے بعض کی طبائع پر بار ڈالے گا.اس لئے دیباچہ اسی شکل میں اسی سائز میں اور اسی پرنٹ میں جس میں خلاصہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸۳ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب تفسیر القرآن چھپ رہا ہے علیحدہ طور پر شائع کر دیا جائے جنہوں نے لینا ہوگا وہ علیحدہ طور پر خرید لیں گے.کاغذ بھی اس کا وہی ہوگا جو تفسیر کا ہو گا ہاں جلد علیحدہ ہوگی.جس طرح ہم تفسیر صغیر کو دو جلدوں میں کر لیتے ہیں اسی طرح اس خلاصہ تفسیر القرآن کی بھی دو جلد میں ہو جائیں گی جن میں سے ایک جلد دیباچہ پر مشتمل ہوگی.اس کا ایک فائدہ یہ نظر آیا کہ بہت سے ایسے دوست ہیں جنہوں نے دیباچہ تو خریدا ہوا ہے لیکن تغیر نہیں خریدی ہوئی.اگر دیباچہ کو تفسیر القرآن کے ساتھ شائع کیا جائے تو ان لوگوں پر بھی بار ہو گا کہ وہ اسے دوبارہ خریدیں.ان کو ابھی اتنی دلچسپی نہیں پیدا ہوئی.وہ کہیں گے کہ ہم یہ دس پندرہ یا بیس روپے دوبارہ کیوں خرچ کریں.علیحدہ شائع ہونے کی صورت میں بہت زیادہ لوگ تفسیر القرآن کا خلاصہ خریدنے کے لئے تیار ہو جائیں گے بہر حال دیباچہ کے علیحدہ شائع کرنے میں بہت سے فوائد تھے اور امید ہے کہ یہ بہت جلد شائع ہو جائے گا.انشاء اللہ فرانسیسی ترجمہ قرآن کریم پر نظر ثانی قریباً مکمل ہو گئی ہے.مجھے افسوس ہے کہ اس سال ہم وہ شائع نہیں کر سکے.یہ بڑی احتیاط کا کام ہے ویسے تو دنیا میں بہت سارے تراجم شائع ہو جاتے ہیں لیکن کوئی ذمہ دار اور حساس دل ان کے پیچھے نہیں ہوتا ترجمہ جیسا بھی ہو شائع کر دیا جاتا ہے.لیکن ہم تو ایک لفظ کی غلطی کو بھی مناسب نہیں سمجھتے.ہماری تو اس میں موت ہے کہ ہماری طرف سے قرآن کریم کا غلط ترجمہ شائع ہو جائے.ایک ایک لفظ کو احتیاط سے دیکھنا پڑتا ہے.ہیں آدمیوں کے ہاتھ میں جاتا ہے تب تسلی ہوتی ہے.یہاں ایک فرانسیسی دوست اور ان کی فرانسیسی بیوی ہیں جو ہیں تو مسلمان لیکن ابھی ان کا جماعت سے تعلق نہیں.انگریزی ان دونوں کی بہت اچھی ہے اور قرآن کریم سے وہ دونوں محبت کرتے ہیں ان سے نظر ثانی کروائی جا رہی ہے اور وہ بڑے شوق سے یہ کام کر رہے ہیں.پہلے وہ ترجمہ پر نظر ثانی کرتے ہیں پھر وہ ماریشس جاتا ہے.وہاں بعض احمدی دوست فرانسیسی زبان بڑی اچھی جانتے ہیں.وہاں سے پھر ان دونوں میاں بیوی کے پاس آتا ہے اس وجہ سے اس کام میں کافی دیر ہوگئی ہے لیکن انشاء اللہ یہ ترجمہ جلد چھپ جائے گا.تفسیر القرآن انگریزی جلد دوم حصہ اول دوبارہ چھپ رہی ہے.انڈونیشیا میں دیا چہ قرآن کریم انگریزی، انڈونیشین زبان میں شائع ہو گیا ہے.آئندہ سال دس پاروں کا ترجمہ مع تفسیری
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸۴ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب نوٹ تفسیر صغیر کی طرح شائع ہو جائے گا.قرآن کریم کے جو تراجم تیار ہو چکے ہیں لیکن بوجہ اس کے کہ ان پر ابھی نظر ثانی ہورہی ہے یا کچھ مالی تنگی ہے یا ذرائع کم ہیں چھپ نہیں سکے وہ یہ ہیں.اسپنیش.۲.اٹالین -۳- روسی - ۴ - پرتگیزی - ۵.چار افریقن زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے.ان میں سے بعض پر نظر ثانی ہو رہی ہے اور ان کی اشاعت کے ذرائع کا انتظام کیا جا رہا ہے.آپ دعا کریں کہ یہ تراجم جلد شائع ہو جائیں نیز یہ دعا کریں کہ اگلے پچیس سال کے اندر اندر قرآن کریم کے تراجم ان زبانوں سے زیادہ زبانوں میں شائع ہو جائیں جن میں اس وقت تک بائبل یا کوئی اور کتاب چھپ چکی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عربی کتب کی اشاعت کی طرف بھی توجہ کی جارہی ہے.میں نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کی اشاعت کی طرف خاص توجہ دے گی اور ان کے چھاپنے کا ہم انتظام کریں گے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے عربی بولنے والے ممالک اور عربی بولنے والی اقوام کی توجہ یکدم پچھلے سال احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف ہوئی ہے اور یہ وقت ہے کہ ہم ان کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ یا قلم سے لکھی ہوئی تحریر کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر یا کتاب رکھیں.یہ چیزان پر بہت اثر کرے گی لیکن جس طرح ترقی یافتہ ممالک میں کتب کی طباعت ہوتی ہے یا جس قسم کے کاغذ پر وہ شائع کی جاتی ہیں اسی قسم کی طباعت ان کی کرانی پڑے گی اور اسی قسم کے کاغذ پر انہیں شائع کرنا پڑے گا.جب تک وہ کتب بڑی خوش خط نہ ہوں گی اور جب تک ان میں اچھا کاغذ نہیں لگایا جائے گا وہ لوگ ان کی قدر نہیں کریں گے کیونکہ ابھی تک ان کی آنکھ دنیا کی آنکھ ہے اور وہ آنکھ نمائش کو دیکھتی ہے جب وہ احمدی ہو جائیں گے تو ان کی نظر بدل جائے گی اور وہ نمائش کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان قیمتی خزانوں کی قدر کرنے لگ جائیں گے.آپ دیکھیں جیسا میرا اور آپ کا دل ہے اگر کسی پتہ پر لکھا ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی ایسا مصرعہ یا فقرہ نظر آ جائے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں آپ نے لکھا ہے تو میں اور آپ اس کو سینہ سے لگالیں گے لیکن وہ لوگ بہر حال اس چیز سے ناواقف ہیں انسان ہیں وہ جس ظاہری رنگ میں کسی چیز کی قدر کر سکتے ہیں اسی رنگ میں وہ چیز ان کے سامنے رکھنی چاہئے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ یہ کام
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸۵ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار بھی جلد مکمل کر دے.ابھی میں نے جاپان میں تبلیغ کا ذکر کیا تھا لیکن ابھی میں نے اس تبلیغ پر جو اخراجات ہونے ہیں ان کے لئے اپیل نہیں کی.اس لئے اس ضمن میں جو وعدے یار تم پہلے آچکی ہے وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب دوست مزید وعدے نہ لکھوائیں اور نہ رقم دیں.ابھی ایک دوست (شریف احمد صاحب بانی) کو تحریک ہوئی ہے اور انہوں نے اپنے والد کی طرف سے جاپان میں تبلیغ اور کتب کی اشاعت کے لئے پانچ ہزار روپیہ کا وعدہ کیا ہے.کویت کے ایک دوست نے ایک سودینار ( دینار پاؤنڈ سے کچھ زیادہ ہوتا ہے ) کا وعدہ کیا ہے اور ایک اور دوست نے ایک مہینہ کے خرچ یعنی دو ہزار روپیہ کا وعدہ کیا ہے.جزاھم اللہ لیکن دوست اور وعدے ابھی نہ لکھوائیں اور نہ رقم دیں جو جوش ان کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے اس کو ابھی بند رکھیں تا کہ جب میں اخراجات کے لئے اپیل کروں تو وہ زیادہ زور سے ہو.فضل عمر فاؤنڈیشن مل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک پچیس لاکھ روپے کی تھی بعد میں بعض دوستوں کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوئی ( اور نیکی کی خواہش انسان خوشی سے قبول کرتا ہے ) کہ یہ رقم اس سے زیادہ ہونی چاہئے دوستوں کا خیال تھا کہ یہ تحریک باون لاکھ کی ہو جائے.ہم نے ان کے جذبات کو مدنظر رکھ کر اسے کم از کم پچپن لاکھ کر دیا تھا یعنی تحریک پچیس لاکھ روپیہ کی تھی بعد میں اسے کم از کم پچپن لاکھ کر دیا گیا.اس کی مدت تین سال تھی اور اس مدت میں سے ابھی چھ ماہ باقی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک چھبیس لاکھ اور تئیس ہزار روپیہ کی نقد رقم جمع ہو چکی ہے.فالحمد للہ علی ذلک.کل وعدہ جات اندرون ملک ستائیس لاکھ پچاس ہزار چند سو روپیہ کے ہیں اور بیرونی ممالک کے نو لاکھ ایک ہزار چند سو روپیہ کے ہیں.سو یہ سارے وعدے سینتیس لاکھ روپیہ کے قریب بنتے ہیں اور ابھی ان کی میعاد میں سے چھ ماہ باقی ہیں.اس سلسلہ میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں جیسا کہ میں نے شروع میں بھی اعلان کیا تھا اور گذشتہ سال میں نے اپنے ایک خطبہ میں بھی کہا تھا کہ اس تحریک کے وعدوں اور وصولیوں کا زمانہ تین سال کے بعد ختم کر دیا جائے گا یعنی دفتر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸۶ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.کلوز (close) کر دیا جائے گا.اس واسطے اس چھ ماہ کے اندر اندر اپنے وعدوں کو پورا کر دو اور سوائے اس کے کہ کوئی شاذ استثنا ہو اس مدت کو بڑھایا نہیں جائے گا مثلاً ایک شخص ہے اس نے سوچا ہے کہ میری فصلوں سے مئی کے مہینہ میں آمد ہو جائے گی یعنی ربیع کی فصل سے میں یہ وعدہ ادا کر دوں گا یعنی اس کا جو حصہ اس نے باقی رکھا ہے وہ ادا ہو جائے گا لیکن کسی وجہ سے اس کی فصل بک نہیں سکی یا کوئی اور وجہ ہوگئی اور وہ وعدہ ادا نہیں کر سکا تو اس صورت میں اسے ایک مہینہ ! مہینہ کی مہلت دی جاسکتی ہے لیکن حساب یا کھا نہ بند سمجھا جائے گا.استثناء کھانہ کو کھولا نہیں کرتے بلکہ وہ تو اس کے بند ہونے کی دلیل ہوتے ہیں.پس فضل عمر فاؤنڈیشن کے وعدوں اور وصولی کے کھاتے تین سال کے بعد بند ہو جائیں گے.اس لئے جنہوں نے ادائیگیاں کرنی ہیں اس وعدہ کے مطابق جو انہوں نے خدا سے کیا یا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی محبت میں کیا.وہ ان کی ادائیگی (یا اس حصہ کی ادائیگی جو باقی ہے) ان چھ ماہ کے اندر کر دیں.یا درکھیں کہ ہر احمدی کے دل میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بڑی محبت ہے.جماعت کے ہر فرد واحد پر آپ کے بڑے احسان ہیں.ہم نے اللہ تعالیٰ کی زندہ قدرتوں کے نمونے آپ کی ذات میں اور صفات میں دیکھے ہیں اگر ہم میں سے کوئی ذراسی بھی غفلت برتے یا قدر میں کمی کرے تو خدا کے نزدیک وہ ناشکرا ہو جائے گا.لیکن جو تحریک فضل عمر فاؤنڈیشن کے نام سے جاری کی گئی ہے وہ اپنے مقاصد کے لحاظ سے اضافی طور پر ایک محدود تحریک ہے یعنی جو مقاصد جماعت احمدیہ کے ہیں یا جو ضرورتیں ان مقاصد کے پیش نظر جماعت کی ہیں.نہ تو اتنے وسیع مقاصد فضل عمر فاؤنڈیشن کے ہیں اور نہ اتنی اہم اور بڑی ضرورتیں فضل عمر فاؤنڈیشن کی ہے اور جماعت کی نئی سے نئی ضرورتیں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں مثلاً ایک یہ ضرورت ہمارے سامنے پیش آئی ہے کہ جاپان میں تبلیغ پر خرچ کرنا ہے موجودہ حالت میں وہاں تبلیغ کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت بڑی اہم ہے اور اس پر جو خرچ ہو گا وہ بہت زیادہ ہے اس کے پورا کرنے کی تدبیر کرنی چاہیے.غرض فضل عمر فاؤنڈیشن محدود مقاصد کے پیش نظر جاری کی گئی تھی اور ایک محدود رقم کی اس کے لئے ضرورت محسوس کی گئی تھی اور اس کے کھاتے وعدوں کے بھی اور وصولیوں کے بھی تین سال کے بعد بند کر دیئے جائیں گے سوائے استثنائی حالات کے جو شاذ کا حکم رکھتے ہیں.اس لئے میں آپ کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸۷ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار خدمت میں عرض کروں گا کہ اپنے وعدوں کو جلد سے جلد پورا کریں.جب میں اس کے متعلق سوچتا ہوں بعض دفعہ میرے دل میں بڑی پریشانی اور گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم نے فضل عمر فاؤنڈیشن کا وعدہ اس اعلان کے ساتھ کیا تھا کہ ہمارا یہ وعدہ اس محبت کے ساتھ لٹکا ہوا ہے جو محبت کہ ہمارے دل میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ہے.جب ہم نے یہ اعلان کیا تھا تو اگر اب ہم اپنے وعدوں کو پورا نہ کریں تو دوسرے لفظوں میں ہم یہ اعلان کر رہے ہوں گے کہ ہم اپنے اس وعدہ میں جھوٹے تھے کہ ہمارے دل میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی محبت ہے اور جب میں یہ سوچتا ہوں کہ آپ نے ا.وعدوں کو پورا نہیں کیا تو میرا دل کانپ اٹھتا ہے.کیونکہ حقیقت تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں اس پاک ہستی کے لئے بڑی محبت پیدا کی ہے.اس لئے کہ اس پاک ہستی نے اپنا سارا وجود اور اپنی ساری زندگی اور اپنے سارے لمحات توحید باری کے قیام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے خرچ کئے اور اپنا کچھ بھی نہ سمجھا.ہمارے دلوں میں اس وجود کی محبت ہے آپ اس محبت کو داغدار نہ ہونے دیں اپنے پیار پر اعتراض نہ آنے دیں.اپنے وعدوں کو پورا کریں یا اگر کوئی مجبوری ہوا اور آپ اس صورت میں اپنا وعدہ پورا نہ کرسکیں اور اللہ تعالیٰ ایسے حالات میں انسان پر گرفت نہیں کرتا.وہ اسے معاف کر دیتا ہے تو یہ دعا کریں کہ اے خدا اگر میں اپنی شامت اعمال کی وجہ سے اس ثواب سے محروم ہورہا ہوں تو تو کسی اور دل کے اندر اتنی رقم یا اس سے زیادہ دینے کی تحریک کر اور پھر اسے اپنی نیت کو پورا کرنے کی توفیق عطا کر.تا جو مجموعی وعدہ ہے وہ پورا ہو جائے اس میں کوئی کمی نہ ہو.فضل عمر فاؤنڈیشن کے جو مقاصد تھے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.مثلاً خطبات حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اشاعت کا انتظام کرنا.عیدین کے خطبات پر مشتمل مسودہ تیار ہو چکا ہے لیکن بعض مجبوریوں کی وجہ سے اس سال شائع نہیں کیا جاسکا.آپ کی سوانح حیات پر بھی کام ہو رہا ہے اور تسلی بخش طور پر ہورہا ہے.تیسرا حصہ کام ہو چکا ہے باقی کام بھی اگلے سال میں ختم ہو جائے گا.ایک حصہ دینی تحقیق کا بھی جاری کیا گیا ہے اور اس کے لئے ایک ایک ہزار کے پانچ انعامات مقرر کئے گئے ہیں تا کہ شوق پیدا ہو اور تحقیق کرنے کی عادت اور جذبہ پیدا ہو اور مہارت پیدا ہو.سینتیس مسودات دوستوں کی طرف سے آئے ہیں اور پہلی نظر میں ان سینتیس مسودات سے اکیس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸۸ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ اس قابل نہیں کہ انعامی مقابلہ میں حصہ لیں.اس لئے وہ گر گئے ہیں باقی سولہ جو ہیں وہ اس وقت مختلف مراحل میں ہیں اور امید ہے کہ جلدی اس کا نتیجہ نکل آئے گا اور یہ مقصد ایک حد تک پورا ہو جائے گا.یہ ابھی پہلا مقابلہ ہے اور یہ ہر سال جاری رہنا چاہئے.مجھے بتایا گیا ہے کہ دوسرے مقابلہ کا کام بھی شروع ہو چکا ہے اور میں مقالے آچکے ہیں.پھر یہ انتقام کیا گیا ہے کہ یہ مقالے شائع بھی کئے جائیں کیونکہ غرض ہی یہ ہے کہ دنیا میں تحقیقی کام کی اشاعت ہو.فضل عمر لائبریری کا قیام فضل عمر فاؤنڈیشن نے یہ پیشکش کی تھی کہ ایک اچھی اور ضرورت کے مطابق وسیع لائبریری کی عمارت وہ بنادے.پھر اس کا انتظام اور روز مرہ کے اخراجات کا انتظام صدر انجمن احمد یہ کرے.اس لائبریری کے نقشے وغیرہ تیار ہو گئے ہیں ابتدائی کام ذرا مشکل ہوتا ہے اور پھر یہ خاموش کام ہے نظر نہیں آتا بہر حال کام ہو رہا ہے اور امید ہے کہ یہ عمارت اگلے سال شروع ہو جائے گی.لائبریریوں کے متعلق میں ایک اور بات بھی کہہ دیتا ہوں اور وہ یہ کہ لائبریریوں کی طرف جماعت کو توجہ نہیں جہاں توجہ پیدا ہوتی ہے وہاں غلط توجہ پیدا ہو جاتی ہے.لائبریری کا مقصد یہ ہے کہ ایسی کتابیں رکھی جائیں جو کتاب بینی کے روحانی شوق کو پورا کرنے والی ہوں روحانی کے لفظ کا اضافہ میں جان بوجھ کر کر رہا ہوں.کتاب بینی کا شوق پورا کرنے کے لئے لوگ عمر عیار کی عیاریاں بھی پڑھتے ہیں اور حمید و فریدی کے ناولوں کا مطالعہ بھی کرتے ہیں.حالانکہ وہ بالکل بے معنی ہیں.گو وہ بڑی کثرت سے بک رہے ہیں لیکن وہ انسان کی روحانی پیاس نہیں بجھاتے اور لائبریری کا مقصد روحانی پیاس کے بجھانے کے سامان پیدا کرنا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم لائبریریوں کے قیام کی طرف توجہ نہیں کریں گے تو ہماری روحانی پیاس نہیں بجھے گی اور ہمارے اندر روحانی کمزوری پیدا ہو جائے گی اور یہ ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا جو احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب نہیں پڑھتا یا اس تفسیر سے واقف نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یا خلفاء سلسلہ احمدیہ اور پہلے بزرگوں نے کی یا جو شخص -----
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸۹ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب خلفاء سلسلہ احمدیہ اور دوسرے بزرگوں کی کتب یا پہلی کتب کے ان حصوں کو دیکھنے کی عادت نہیں ڈالتا جو ہمارے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ روحانی طور پر کمزور ہو جاتا ہے.پہلی کتب کے بعض حصے تو ایسے ہیں جو پہلے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں ان میں صرف چندلوگوں کی دلچسپی کا سامان ہے مثلاً فلسفہ ہے.فلسفہ کا ایک پرانا مسئلہ تھا جو ہمارے اسلام میں بھی آ گیا ہے کہ زمین چپٹی ہے.اس پر فلسفیوں نے بہت سارے دلائل لکھے ہیں اور اب ہمارے اس زمانہ میں مولوی فاضل کے کورس میں بھی ایک ایسی کتاب آگئی ہے.اس مضمون میں بہت سارے طلباء صرف اس لئے فیل ہو جاتے ہیں کہ وہ اس کے مضمون کو یہ سمجھ کر یا در کھنے کی کوشش کرتے تھے کہ یہ سچ ہے اور اس سچ کو قبول کرنے کے لئے ان کا ذہن تیار نہیں تھا.چند سالوں کے لئے میں بھی قادیان میں جامعہ احمدیہ میں پروفیسر رہا.میں نے اپنے شاگردوں کو پہلے ہی سال یہ کہا تھا کہ یہ کتاب اتنی آسان ہے کہ اس سے زیادہ آسان اور کوئی کتاب نہیں کیونکہ یہ کہانیوں کی کتاب ہے اور یہ ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی ارتقاء میں ایک ایسا دور بھی آیا تھا کہ جب انسان یہ سمجھتا تھا کہ زمین چپٹی ہے گول نہیں.یہ ایک واقعہ تھا جو ہوا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے یاد پڑتا ہے جس مضمون میں مولوی فاضل کے امتحان میں سب سے زیادہ لڑکے فیل ہوتے تھے اس میں میری کلاس ساری کی ساری پاس ہوگئی.کیونکہ انہوں نے اسے اس لحاظ سے یاد نہیں رکھا تھا اور اس پر غور نہیں کیا تھا کہ یہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی بلکہ انہوں نے خیال کیا کہ ایک زمانہ میں انسان یہ سمجھا تھا اور غلط سمجھا تھا اور اب یہ زمانہ ختم ہو گیا ہے.غرض اس قسم کی جو باتیں ہیں وہ ہر ایک کے کام کی نہیں.ہاں وہ تاریخ دان کے کام کی ہیں وہ کہے گا کہ ایک زمانہ میں لوگوں نے یہ سمجھ رکھا تھا.اب میں اس کی ایک اور مثال دیتا ہوں اور وہ یہ کہ ایک زمانہ میں مسلمان علماء اس غلطی میں مبتلا تھے کہ قرآن کریم کی بعض آیات منسوخ ہو جاتی ہیں اور فلاں عالم نے اپنی فلاں کتاب میں فلاں فلاں آیات کو منسوخ سمجھا ہے.اب جو مذہبی تاریخ دان ہے اس کا تو یہ مسئلہ ہے لیکن ایک عام احمدی اور مسلمان کو اس بات میں کیا دلچسپی ہے کہ پہلے زمانہ میں کیا کیا غلطیاں تھیں.ہمیں تو صرف اس بات میں دلچسپی ہے کہ پہلے لوگوں نے اسلام کے روحانی سمندر میں سے موتی کون سے نکالے ہیں جو ہمیشہ رہنے والے ہیں اور جنہوں نے ان کو بھی فائدہ پہنچایا اور ہمیں بھی ان سے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۹۰ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.فائدہ پہنچے گا.لیکن جو تاریخ دان ہیں اور تاریخ کے لحاظ سے تحقیق کرنے والے ہیں وہ بیشک دوسری باتوں میں دلچسپی لیں ان کے لئے یہ بات مفید ہوگی.غرض پہلی غلطیوں کو یا درکھنا نہ ہمارے لئے مفید ہے اور نہ ہمیں ان کی ضرورت ہے لیکن پہلے لوگوں نے اسلام اور قرآن کے روحانی سمندر میں غوطے لگا کر جو موتی نکالے وہ آج بھی بڑے قیمتی ہیں.ہمیں ان کی کتابیں دیکھنی چاہیں.بڑی بڑی عجیب باتیں ہیں جو پہلوں نے لکھی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید میں لکھی ہیں.چند کتابوں کا ہمیں اب پتہ چلا ہے ان میں بڑی مفید باتیں درج ہیں.پچھلی صدی میں غانا ( مغربی افریقہ ) میں ایک مجدد پیدا ہوئے.انہوں نے بعض ان سوالات کو حل کر دیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ہونے تھے اور یہ ایک کام تھا جو وہ کر گئے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام مہدی اور مسیح کے آنے کا قصہ ہی ایک افسانہ ہے.حمید و فریدی کی کتابیں پڑھ کے ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہو گیا ہے انہوں نے ( غانا میں پیدا ہونے والے پچھلی صدی کے مجدد) نے رستہ صاف کر دیا.ان پر اعتراض ہوا کہ تم امام مہدی ہونے کا دعوی کرتے ہو.انہوں نے جواب دیا کہ نہ میں نے امام مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے اور نہ میں امام مہدی ہونے کا دعوی کر سکتا ہوں کیونکہ جو علامات امام مہدی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں وہ میرے وجود میں پوری نہیں ہوئیں.مثلاً ایک علامت یہ ہے کہ امام مہدی کے زمانہ میں ماہ رمضان میں معینہ تاریخوں میں سورج اور چاند دونوں کو گرہن لگے گا.اس کے علاوہ اور بھی بہت سی علامات ہیں جو امام مہدی کی بیان کی گئی ہیں.انہوں نے یہ بتایا کہ امام مہدی جس کا تم انتظار کر رہے ہو اس کی علامات میرے وجود میں پوری نہیں ہوئیں اس لئے میں امام مہدی ہونے کا دعوا ہی نہیں کر سکتا لیکن ایک بات بتا دیتا ہوں کہ ہم اس زمانہ میں داخل ہو چکے ہیں جس میں امام مہدی کا ظہور ہونا ہے.اب ان سے کوئی پوچھے کہ ان کے کہنے کے مطابق جب ایک مجدد یہ کہتا ہے کہ ہم اس آخری زمانہ میں داخل ہو چکے ہیں جس میں امام مہدی کا ظہور ہونا ہے تو اس کے معنے اس کے سوا کوئی نہیں کہ اس صدی کے اندر امام مہدی کا ظہور ہوگا.کیونکہ اس کا ظہور ا گلے مجدد کے زمانہ ہی میں ہوگا اور اس کا زمانہ آ گیا ہے اب ان لوگوں سے پوچھنا چاہئے جو اس مجدد کے متبعین ہیں کہ اگلی صدی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۹۱ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.میں جس امام مہدی کوظاہر ہونا تھا وہ تمہارے نزدیک کون ہے.غرض اس قسم کی بہت ساری باتیں ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے اور وہ ہمارے ایمان کو تازگی بخشنے والی ہیں اور خدا کے علم اور قدرت پر دلالت کرتی ہیں.یہ ہمیں جاننی چاہئیں.میں لائبریری کے متعلق بات کر رہا تھا.ہر جگہ لائبریری ہونی چاہئے.لیکن ہر جگہ لائبریری کی عمارت پر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں اور بڑا ظلم ہوگا کہ ہم محض اس لئے لائبریری کو قائم نہ کریں کہ ہمارے پاس پیسے اور جگہ نہیں.میری توجہ جب اس طرف ہوتی ہے تو میرے دل میں بہت گھبراہٹ ہوتی ہے اور میں بڑا استغفار کرتا ہوں میرے نزدیک ایک کمرہ (جوسونے کا کمرہ ہے) لے کر اس کی ایک دیوار سے لائبریری کا کام لیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر کسی لائبریری کو صحیح معنوں میں لائبریری کہا جاتا ہے تو اس کی عمارت کی وجہ سے نہیں کہا جاتا.لائبریری کے یہ معنی نہیں کہ اس کی عمارت بڑی شاندار ہو لیکن ہماری اگلی نسل کو وہ کتاب نہ ملے جس کے پڑھنے کی ہم اسے بار بار تلقین کریں.جن لوگوں میں ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا صحیح مزہ پیدا نہیں ہوا اور انہوں نے آپ کی کتب کو پڑھا نہیں انہیں ایسی کتاب آسانی سے مل جانی چاہئے.اگر انہیں ایسی کتاب آسانی سے نہیں ملتی تو وہ اس کے مطالعہ میں ستی کر جاتے ہیں.بہتر صورت یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں کسی کتاب کے پڑھنے کا خیال آئے تو تین منٹ کے اندراندرا نہیں وہ کتاب مل جائے.ہم اس کوشش میں ہیں کہ ہر احمدی کو ضروری کتب جن میں سب سے اہم قرآن کریم اور اس کی وہ تفسیر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے سہولت میں میسر آجائیں.اس لئے ہر جگہ لائبریری قائم کرنا بہت ضروری ہے اس کے لئے انفرادی کوشش مقامی کوشش ( مقامی کوشش سے میری مراد مقامی جماعتوں کی کوشش ہے ) اور جماعتی کوشش یعنی مرکز کی کوشش کی ضرورت ہے یہ تنیوں کوششیں ہونی چاہئیں اور ضروری کتب کی اشاعت زیادہ سے زیادہ ہونی چاہئے یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے آپ پر عائد کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنے روحانی خزائن دیئے ہیں کہ اگر قیامت تک ہماری نسلیں انہیں خرچ کرتی رہیں تو وہ خزائن ختم نہیں ہوں گے.اس لئے آپ خشت سے کام نہ لیں غفلت اور ستی سے کام نہ لیں.ان قیمتی ہیروں اور جواہرات کو خودا اپنے استعمال میں بھی لائیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں اور انگلی نسلوں کے استعمال میں لانے کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۹۲ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار بھی کوشش کریں تا وہ بھی ان سے فائدہ اٹھا ئیں.انہیں اپنوں کے ہاتھ میں بھی رکھیں تا وہ ان سے فائدہ اٹھا ئیں اور جو کل اپنے بننے والے ہیں ان کے ہاتھ میں بھی رکھیں تا وہ ان سے فائدہ اٹھا ئیں.وقف جدید وقف جدید کا سال نو یکم جنوری سے شروع ہو رہا ہے.اور اس سال نو کے افتتاح کی ایک رسم بنی ہوئی ہے بہر حال میں اس کا اعلان کرتا ہوں.یکم جنوری سے جو سال نو شروع ہوگا اس کے لئے احباب نئی ہمت اور نئے ولولہ کے ساتھ اپنی قربانیاں پیش کریں پہلے بھی میں کئی بار کہہ چکا ہوں اور میں اس چیز کو دہراتے ہوئے تھکوں گا نہیں کہ ہمارے اطفال اور ناصرات اور بچے ( یعنی وہ بچے جو ا بھی اس عمر کے نہیں جو اطفال اور ناصرات کی تنظیم میں شامل ہوتے ہیں ) اس بوجھ کو اٹھائیں اور دوسری بات یہ کہ بچے (اطفال اور ناصرات ) ایسی عمر کے بھی ہیں جو خود اتنی سمجھ نہیں رکھتے.آپ جوان کے ماں باپ یا مربی ہیں ان کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ اس بوجھ کو اٹھا ئیں.میں سمجھتا ہوں کہ آج جماعت احمدیہ کی حالت مالی لحاظ سے اتنی مضبوط یقیناً ہے کہ اگر ہم اس طرف پوری توجہ دیں تو ہمارے بچے وقف جدید کا سارا بوجھ اٹھا سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کے وارث بن سکتے ہیں جن فضلوں کے وارث اس حصہ جماعت میں ہیں جو وقف جدید کے میدان میں قربانیاں پیش کرتے ہیں.آپ وقف جدید سے تعلق رکھنے والے سارے فضل اپنے بچوں کے لئے روحانی زینت کا ہار بنا کر ان کے سروں پر ڈال دیں اور پھر اپنے رب کے حضور واپس آئیں اور کہیں کہ ایک نعمت جو تو نے ہمیں دی تھی وہ ہم نے تیرے بچوں ( یہ بچے جو ہمارے کہلاتے ہیں یہ ہمارے کہاں ہیں یہ سب اللہ کے بچے ہیں) کے سپرد کر دی ہے.اب تو ہمارے لئے اور فضلوں اور رحمتوں کے دروازے کھول تا جتنا ہم نے تیرے فضل سے ان بچوں کو دیا ہے اور خود اس میں حصہ دار نہیں بنے اس میں سے بھی حصہ دے ( کیونکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے ) اور دوسری قربانیوں کے راستے بھی ہمارے لئے کھول تاہم تیرے فضلوں کے پہلے سے زیادہ وارث بنیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے سال کی نسبت مالی میدان میں زیادہ رقم جمع ہوئی ہے اور یہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۹۳ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب ----- ایک بالکل ذیلی چیز ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے سال کی نسبت وقف جدید کا ہر جہت.زیادہ کام ہوا ہے ( اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاؤں گا ) اور جو واقفین وقف جدید ہیں ان کی تعداد بھی پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہے.لیکن جب کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ابھی اتنی تعداد نہیں ہوئی جتنی کی ہمیں ضرورت ہے یا جتنی تعداد کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خواہش کی تھی.یعنی یہ کہ ہر گاؤں میں ایک واقف وقف جدید بٹھا دیا جائے جو عام تربیت کرے.گو علمی لحاظ سے ان کا معیار بلند نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ ایک حد تک وہ روز مرہ کی ضرروتوں کو پورا کر رہے ہیں.یعنی ان کی روحانی دوکان سے نمک تیل اور آٹامل جاتا ہے پلاؤ زردہ پکانا ہو تو اور جگہ سے سودا لے لو دوسرے مربی بھی تو ہیں.بہر حال واقفین وقف جدید روحانی لحاظ سے جماعت کی روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کر دیتے ہیں اور وہ ہر جگہ ہونے چاہئیں ورنہ جہاں وہ نہیں وہاں روز مرہ کی ضرورتیں پوری نہیں ہور ہیں الا ماشاء اللہ.بعض جگہ گاؤں کے رہنے والوں میں سے ایک سے زائد واقف وقف جدید سے بھی زیادہ علم اور تجربہ رکھنے والے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے لیکن بہت سے ایسے دیہات ہیں جہاں اس وقت اس قسم کے احمدی موجود نہیں اور نہ ہمارا واقف وقف جدید موجود ہے اور اس وجہ سے جماعت ان فضلوں سے محروم رہ رہی ہے جو فضل ان کے بھائیوں پر دوسرے مقامات میں نازل ہو رہے ہیں.وقف عارضی پچھلے سال جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا اور آپ سے یہ امید رکھی تھی کہ آپ سات ہزار واقفین وقف عارضی میدان تربیت میں لاکھڑا کریں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سال گذشتہ میں ان کی تعداد چھ ہزار سے کچھ اوپر ہو گئی تھی.گو وہ سات ہزار نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ چھ ہزار بھی بڑی تعداد ہے جنہوں نے اپنے وقت میں سے کم از کم دو ہفتے نکالنے ہیں پھر سفر کی کوفت برداشت کرنی ہے.پھر اپنا خرچ کرنا ہے جہاں انہیں بھیجا جانا ہے وہاں انہوں نے اپنا کیمپ نبالینا ہے اور وہیں اپنا کھانا پکانا ہے اور اپنی دوسری ضروریات پورا کرنے کا انتظام کرنا ہے.یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے مستقل سپاہی ہیں وہ دوسروں کی عارضی امداد کے محتاج نہیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۹۴ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.وہ ہر لحاظ سے انڈی پنڈنٹ ہیں.مستقل حیثیت رکھتے ہیں کھانا بھی انہوں نے خود پکانا ہے ٹھہرنے کا انتظام بھی خود کرنا ہے.اس کام کے لئے بڑی ہمت کرنی پڑتی ہے دوست مسجد میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑی ہمت بڑی قربانی اور بڑے ہی اخلاص کا مظاہرہ ہے جو جماعت نے اس میدان میں کیا ہے.لیکن اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ سات ہزار مخلصین 1 میدان میں آ سکتے تھے کچھ کمی رہ گئی ہے اور میں توقع رکھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آئندہ آپ سات ہزار سے زائد واقفین عارضی دیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق بھی عطا کرے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اس سے زیادہ اجر عطا کرے جتنا آپ کے وہم و گمان میں آسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں اس قدر برکت ڈالے کہ اپنے بھی اور غیر بھی اسے دیکھ کر خوش ہوں.ایک چیز جو رہ گئی ہے ( شاید اس میں بھی کوئی حکمت ہو ) اور وہ نئی کتا بیں ہیں جو شائع ہوئی ہیں.اس سال بہت سی نئی کتب شائع ہوئی ہیں.میں ان سب کا اکٹھا اعلان کر دیتا ہوں.ویسے تو کتابوں کے متعلق کچھ کہنا یاد نہیں رہا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میں یہ بھی حکمت تھی کہ میں گلے پر زیادہ بوجھ نہیں ڈال سکتا بڑی تکلیف محسوس ہوتی ہے.اگر اس میں زیادہ وقت لگ جاتا تو بعض تیں مجھے چھوڑنی پڑتیں اور کوفت الگ اٹھانی پڑتی ابھی کل کا مضمون بھی ہے.دعا کی میں پھر تحریک کروں گا.آج دس گیارہ بجے تک تو یہ حالت تھی کہ میرا خیال تھا کہ رمیں یہاں آ تو جاؤں گا مگر تقریر نہیں کر سکوں گا.گلا بالکل بیٹھا ہوا تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ میرے لئے بھی حیرانگی کا موجب بنا کہ جس گلے سے آواز بھی نہیں نکلتی تھی یکدم وہ بیٹھنے والی کیفیت اس کی نہیں رہی.بھاری آواز جو نزلہ میں ہو جاتی ہے وہ تو باقی ہے جیسا کہ میں نے بتایا کہ فلو کے آثار ظاہر ہو گئے ہیں.پس دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ عموماً ان ساری ذمہ داریوں کو کما حقہ اور اچھے رنگ میں اور مقبول رنگ میں اٹھانے کی توفیق دے جو اس نے ان کمز ور کندھوں پر ڈالی ہیں خصوصاً ان مخصوص ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا کرے جو جلسہ سالانہ کے ان بابرکت دنوں سے تعلق رکھتی ہیں.اللہ تعالیٰ مجھے تو توفیق دیتا ہے کہ میں جلسہ سے بھی پہلے آپ دوستوں کے لئے کثرت سے دعائیں شروع کر دیتا ہوں اور اپنی ذمہ داری سے مجبور ہو کر بھی مجھے اس کی طرف خاص توجہ پیدا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۹۵ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب ہے.میں دعائیں یہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس جلسہ کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ حصہ عطا کرے اور ان برکتوں کے حصوں سے جو ذرائع اللہ تعالیٰ نے مہیا کئے ہیں وہ ہمیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے مثلاً یہاں کی پاک اور محبت بھری فضا ہے مثلاً یہاں کی تقریر میں ہیں مثلاً یہاں کی بشاشتیں ہیں مثلاً یہاں کے ہنس مکھ چہرے ہیں پھر صرف یہاں کے رہنے والے ہی ہنس لکھ نہیں ہوتے باہر سے آنے والے بھی اس فضا میں ہنس مکھ ہو جاتے ہیں.غرض محبت اور پیار کا ایک سمندر ہے جس میں ہم نہاتے ہیں اور اپنی ساری کدورتیں دور کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں.مثلاً مقرر کی ذمہ داری ہے کہ وہ تسکین قلب کے سامان کرے محنت کرے.غفلت سے کام نہ لے.مجھے بڑی کثرت سے دعائیں کرنی اور استغفار کرنا پڑتا ہے کہ کسی اپنی غفلت یا کوتاہی کے نتیجہ میں میرے اپنے بولوں میں ( جو میں تقریر کرتا ہوں ) کوئی ایسی کمی نہ رہ جائے کہ آپ اس کمی کو محسوس کریں اور سمجھیں کہ اس شخص نے اپنی غفلت سے ہمیں ایک برکت سے محروم کر دیا ہے.غرض بڑی دعاؤں کے بعد مجھے یہاں آنا پڑتا ہے آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی ذمہ داریوں کے نبھانے کی توفیق عطا کرے.کل کا مضمون بھی ہے ملاقاتیں بھی ہیں اور پھر مجھے آجکل یہ بیماری بھی ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے ویسے بیماری تو جیسے میں نے بتایا ہے کوئی اہمیت نہیں رکھتی.آپ میں سے کسی نے یا میں نے جب اللہ تعالیٰ کا کام کرنا ہو تو بیماری کا احساس نہیں ہوتا.جب تک زندگی ہے اور ہمت اور توفیق ہے انسان کو کام کرتے چلے جانا چاہئے اور اللہ تعالیٰ فضل بھی کرتا ہے.چنانچہ میں نے بتایا ہے کہ صبح میرا گلا بالکل بیٹھا ہوا تھا اس سے آواز نہیں نکلتی تھی اور میں محسوس کرتا تھا کہ گلے کے بعض ایسے حصے ہیں کہ جہاں سے آواز پیدا ہوتی ہے کام نہیں کر رہا لیکن یکدم وہ بیٹھا ہوا گلا ٹھیک ہو گیا اور اس میں آواز آ گئی.نزلہ کا ابھی ہے.آپ دعا کریں ہمارے لئے بھی اور اپنے لئے بھی.اپنے لئے یہ کہ آپ زیادہ سے زیادہ برکتوں کو حاصل کریں اور نمبر ۲ زیادہ سے زیادہ برکتیں پہنچانے کا وسیلہ بنیں اور ہمارے لئے کہ ہم اس پاک ماحول سے زیادہ سے زیادہ برکتیں حاصل کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ نبھا کر زیادہ سے زیادہ افاضہ خیر کا موجب بنیں.سب خیر تو خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.ہم جو بھی دیتے ہیں.وہ ایک خادم اور کل کی حیثیت سے دیتے ہیں خیر اور خادم میں بھی شاعروں کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۹۶ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار محاورہ کی طرح وفا اور دوستی میں باز نہ آنے کا محاورہ ہے.خدمت میں بال نہیں آنا چاہتے کہ ظاہر میں تو وہ سلامت ہو لیکن بال آچکا ہو اور وہ بے فائدہ، بے حقیقت اور بے قیمت چیز بن کر رہ گئی ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ خالص خلوص نیت اور خلوص کوشش اور حسن تدبیر کے ساتھ آپ کی تسکین کے جو سامان پیدا کرنا ہماری ذمہ داری ہے.وہ اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے آپ کے لئے پیدا کر سکیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور خاص فضل کے بغیر ممکن نہیں.اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتیں اور اس کے خاص فضل آپ کے بھی اور ہمارے بھی شامل حال رہیں.ނ جتنی کتابیں شائع ہوئی ہیں وہ آپ کے فائدہ کے لئے شائع ہوئی ہیں آپ میں.جنہیں اللہ تعالیٰ مالی لحاظ سے اور دل کے شوق اور دل کی پیاس کے لحاظ سے توفیق دے ان کو چاہئے کہ وہ یہ کتابیں خریدیں.پھر ہمارے رسالے ہیں یعنی الفرقان ہے ریویو آف ریلیجنز ہے.تحریک جدید کا رسالہ ہے انصار اللہ ہے خدام احمدیہ کا رسالہ ہے لجنہ اماءاللہ کا رسالہ ہے بچوں کا رسالہ ہے جس جس ماحول کے لئے یہ رسالے شائع کئے جارہے ہیں اس ماحول میں ان کا پہنچنا ضروری ہے.اگر یہ نہیں پہنچیں گے تو ہمارا دعوالی ایک خیال اور ایک غیر حقیقی اعلان ہوگا.اس کے پیچھے روح نہیں ہو گی.ایک مردہ اور بے روح جسم ہوگا.آپ اسے ایسا نہ بنائیں.پھر الفضل ہے الفضل ہر احمدی کو پڑھنا چاہئے یا سننا چاہئے اور الفضل سے بھی خصوصاً خلیفہ وقت کا پیغام جو مختلف موقعوں پر وہ دے آپ کے پاس آنا چاہئے.یہ چیز دوسرے نمبر پر ہے بنیادی چیز جو مستقل بھی ہے اور ہمیشہ کے لئے اور ساری دنیا کے لئے ہے وہ قرآن کریم کی تفسیر ہے.لیکن ضرورت وقت کے لحاظ سے خلیفہ وقت کا پیغام بھی قرآن کریم کی تفسیر ہی ہے یا اس تفسیر میں جو اللہ تعالیٰ عملاً برکت پیدا کرتا ہے اور اس کا عملاً ایک مادی نتیجہ نکلتا ہے مثلاً اسلام کی کامیابیاں غیر ممالک میں اور ان کی رپورٹیں ہیں ان کا ضرور علم ہونا چاہئے.یہاں سے سات ہزار میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹے سے گاؤں میں جو پانچ احمدی گھرانے ہیں اگر ان کے علم میں یہ بات نہیں آتی تو ان کے دلوں میں بشاشت پیدا نہیں ہو گی.ان کو یہ احساس نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کس رنگ میں اور کس طور پر اپنی رحمتیں جماعت احمدیہ پر نازل کر رہا ہے اور ہمیں اس کا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۹۷ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب شکر گزار بندہ بنا چاہئے.ان تک یہ بات جانی چاہئے اور یہ زیادہ تر الفضل میں ہوتا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے رسالوں میں بھی ہوتا ہے.اسی طرح دوسری کتابیں جو شائع ہوئی ہیں وہ ان دوستوں کو خریدنی چاہئیں مثلاً میر داؤ د احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے جو اقتباسات شائع کئے ہیں وہ بڑی اچھی کتاب ہے.میرے تو وہ ہر وقت سرہانے رکھی رہتی ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری کتب تو آپ اپنے سرہانے نہیں رکھ سکتے اور ہماری تو زندگی ان میں ہے کیونکہ ہماری زندگی قرآن کریم میں ہے اور قرآن کریم کی صحیح تفسیر ان کتابوں میں ہے اور وہ موجودہ حالات اور موجودہ زمانہ کے تقاضے پوری کر رہی ہیں.ایک دوسری صورت جو ممکن ہے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے اقتباسات ہمارے قریب رہیں ، ہمارے سینہ کے ساتھ وہ لگے رہیں.ہمارے دماغ کے ساتھ مقامی قرب بھی ان کو حاصل ہوتا کہ روحانی قرب حاصل ہو سکے اور جب تک آپ کے پاس یہ چیز نہیں ہوگی آپ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.اس طرح اور بہت سی مفید کتابیں ہیں وہ آپ خریدیں.جماعتیں اپنی اپنی جگہ کوشش کریں میں نے لائبریریاں بنانے کے لئے تحریک کی ہے.ہمارے مبلغ جو باہر کام کر رہے ہیں ( میں کل کی دعا میں بھی تحریک کروں گا ) وہ مادی اور دنیوی لحاظ سے نہایت نامساعد حالات میں کام کر رہے ہیں.ނ ان کے وجود اور ان کی ان علاقوں میں زندگی اور ان کی کوششوں اور ان کے نتائج.خدائے واحد و یگانہ کے وجود پر ایک بڑی بھاری دلیل قائم ہو رہی ہے اور وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ہم ان کے لئے دعائیں کریں.آپ انہیں ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یادرکھیں.اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں میں بہت ہی برکت ڈالے اور ہماری اس خواہش کو جلد پورا کرے کہ تمام دنیا میں اسلام پھیل جائے.اسی طرح جو بیمار ہیں ان کے لئے بھی دعا کریں.بیمار کی عیادت مسلمان پر ایک فریضہ ہے لیکن ہر آدمی ہر بیمار کی عیادت نہیں کر سکتا.ہاں ہر مسلمان مفت میں گھر بیٹھے ہر بیمار کی عیادت کا ثواب حاصل کر سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ وہ ہر بیمار کے لئے دعا کرے.جب وہ دعا کرے گا تو اس کو عیادت کا ثواب مل جائے گا.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۹۸ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.اسی طرح جو غریب ہیں ان کا خیال رکھنا بھی بڑا ضروری ہے میرے ذہن میں تھا کہ میں اس طرف جماعت کو توجہ دلاؤں گا کہ اسلام میں احمدیت میں مالی لحاظ سے کوئی غریب نہیں.اس لئے میں مختصراً کہہ دیتا ہوں آپ ذرا توجہ سے سنیں کہ احمدیت اور اسلام میں مالی لحاظ سے کوئی غریب نہیں.اس لئے کہ جس شخص کی جائز ضرورتیں بطور حق کے دینوی اموال میں قائم کی گئی ہیں وہ غریب نہیں کہلائے گا اسے غریب نہیں کہا جاسکتا اور جس کے مادی وسائل اور ذرائع اتنے تھوڑے ہیں کہ اس کی اہم بنیادی ضرورتیں پوری نہیں ہوسکتیں اس کا حق امیر کے روپے میں رکھا گیا ہے.وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ ( الداربیت : ۲۰) امیر کی دولت میں یہ حصہ اس کا نہیں اس کو چاہئے کہ جس کا وہ حق ہے اسے وہ پہنچائے اور جود نیوی لحاظ سے کم پا یہ ہے اور غریب سمجھا جاتا ہے اسے میں اختصار کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ قناعت سے بڑی کوئی دولت نہیں اور حرص سے زیادہ کوئی غربت نہیں.پس اپنے دلوں میں قناعت پیدا کرو اور جو کچھ تمہیں خدا کی طرف سے ملے اس کو تم شکر اور حمد کے ساتھ قبول کرو اور استعمال کرو.اس طرح یا تو اللہ تعالیٰ آپ کو زیادہ دے گا وہ اس تھوڑے میں تمہارے لئے زیادہ برکت ڈال دے گا.اگر ایک امیر آدمی دس روپیہ کے کھانے سے اپنے جسم کی ایک ضرورت پوری کر رہا ہو گا.تو اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کچھ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ آپ اپنے جسم کی اتنی ضرورت ایک لقمہ سے پوری کرلیں گے اور جب آپ کو یہ ایک لقمہ ملتا ر ہے اور جب یہ ایک لقمہ دس روپیہ کے کھانے کا آپ کر ہو میں کام کر رہا ہو تو کھانے کے لحاظ سے آپ اتنے ہی امیر ہو گئے جتنا کہ وہ امیر ہے جو د نیوی طور پر امیر سمجھا جاتا ہے.اگر ایک امیر کا بچہ بیمار ہو اور اللہ تعالیٰ اس سے دس ہزار روپیہ خرچ کروا کے اس کے بچہ کو صحت دے اور آپ جو دنیا کی نگاہ میں غریب ہیں آپ کے بچہ کو ویسی ہی بیماری میں اور ان حالات میں ہی ایک دو روپیہ خرچ کروا کے اللہ تعالیٰ صحت دے تو آپ اتنے ہی امیر ہیں جتنا وہ شخص جس نے اپنے بچہ کی بیماری پر دس ہزار روپیہ خرچ کیا.پس اسلام میں کوئی شخص نہ امیر ہے اور نہ غریب ہے.امیر اس لئے کوئی نہیں کہ امیر وہ ہے جو خدا کی نگاہ میں امیر ہے اور وہ شخص خدا کی نگاہ میں امیر نہیں جس نے اپنے مال سے وہ حقوق ادا نہیں کئے جو اس مال کے دینے والے نے اس پر فرض کئے تھے.پھر وہ خدا کی نگاہ میں امیر کیسے ہوا وہ خدا کی نگاہ میں چور.خائن اور غبن
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۹۹ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطاب کرنے والا تو ہوسکتا ہے لیکن خدا کی نگاہ میں وہ امیر نہیں ہوسکتا اور کوئی غریب نہیں اسلام میں اس لئے کہ جو دنیا کی نگاہ میں غریب تھے ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایک سے زائد سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیئے.امیر کہلانے والوں کے اموال میں ان کا حق رکھ دیا امیر کہلانے والوں کے دلوں میں ان کے لئے اخوت اور محبت پیدا کر دی امیر کہلانے والوں کی روحوں میں یہ تڑپ پیدا کر دی کہ ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے بعد بغیر احسان جتلانے کے یہ فقرہ ان کی زبان پر آنا چاہئے کہ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الدھر: ١٠) ہم نہ تم سے کسی بدلہ کے طالب ہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمارا احسان مانو.پا شکر یہ ادا کرو دنیا دار اپنا مال دوسروں پر دو میں ایک چیز کے لئے خرچ کرتا ہے یا تو اس نے جزا لینی ہوتی ہے، بدلہ لینا ہوتا ہے مثلاً مزدور دوسرے کے لئے اپنا دن خرچ کرتا ہے اس لئے کہ شام کو اسے مزدوری ملے لیکن وہ کہتا ہے کہ مجھے کسی جزا کی ضرورت نہیں.پھر دنیا دار دوسرے پر اس لئے اپنے اموال خرچ کرتا ہے کہ اس نے اس پر احسان کرنا ہوتا ہے لیکن مومن یہ کہتا ہے کہ تمہیں میرا احسان ماننے اور شکر یہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں نے یہ کام جو چیز حاصل کرنے کے لئے کیا تھا وہ تم مجھے نہیں دے سکتے.وہ صرف میرا رب مجھے دے سکتا ہے میں نے اپنا مال اور اپنا پیسہ اس لئے خرچ کیا ہے کہ مجھے اپنے رب کی رضا حاصل ہو جائے اور تم مجھے میرے رب کی رضا دے ہی نہیں سکتے پھر میں تم سے شکر یہ بدلہ یا احسان کا طالب کیسے بن سکتا ہوں میں احمق تو نہیں ہوں.غرض اسلام میں نہ تو کوئی امیر ہے خدا کی نگاہ میں اور نہ کوئی غریب ہے خدا کی نگاہ میں.خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے طریق اور خدا کی راہ میں اعمال صالحہ بجا لا کر اس کی نعمتوں کے حصول کے طریق بتائے گئے ہیں کہ سب کو ایک مقام پر کھڑا کر دیا گیا ہے.اس لئے جماعت احمد یہ اور اسلام میں نہ اضافی طور پر کوئی زیادہ معزز ہے اور نہ اضافی طور پر کوئی زیادہ غریب ہے.جہاں تک خدا تعالیٰ کی نگاہ کا تعلق ہے وہی جانتا ہے کہ کون اس کی نگاہ میں معزز ہے اور کون اس کی نگاہ میں ذلیل ہے ہمیں تو اس کا پتہ نہیں اور چونکہ ہمیں اس بات کا پتہ نہیں اس لئے ہم کہہ ہی نہیں سکتے کہ کون ذلیل ہے اور کون معزز ہے اس نقط نگاہ سے جہاں تک دنیا کا سوال ہے خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ عزتوں کا سرچشمہ میرا وجود ہے اور ذلتوں کا منبع مجھ سے دور ہے.اگر سو آدمی میرے دامن کو آ کر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطار پکڑلیں گے اور مجھ سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو وہ سب ہی معزز ہو جائیں گے.ایک روحانی آنکھ رکھنے والا کسی شخص کے مال یا عظمت و جاہ یا اس کے محل اور اس کے باغات کو دیکھ کر یا اس کے سیاسی اثر ورسوخ کو دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کرے گا کہ یہ زیادہ معزز ہے.اس کی نگاہ تو یہ دیکھ رہی ہوگی کہ یہ بھی اور وہ بھی ایک ربّ واحد و یگانہ سے چمٹے ہوئے ہیں جو عزت کا سرچشمہ اور سب کو معزز کرنے والا ہے اور جو خدا سے دور ہو گیا وہ تو ذلیل ہو گیا.اب یہ کہنا کہ ان میں سے کون زیادہ معزز اور کون زیادہ ذلیل ہے.یہ بیوقوفی کی بات ہے.اسلام میں اور احمدیت میں خدا سے دوری ذلت کا باعث بنتی ہے اور جو خدا کے غضب کے نیچے ہے اس کو یہ بات فائد ہ نہیں پہنچا سکتی کہ وہ یہ کہے کہ خدا کا غضب محمد پر دوسرے کی نسبت کم ہے اگر تم جہنم میں ہو تو چاہے تم جہنم کے کسی حصہ میں بھی ہو.تم آگ کی سوزش سے محفوظ نہیں رہ سکتے اور اس بات پر کوئی شخص کیا فخر کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قہر نے اس کو پکڑا اور اسے کچل کے رکھ دیا.کوئی شخص اس پر فخر نہیں کر سکتا کیونکہ فخر تو وہ کر سکتا ہے جس کے اندر کوئی خوبی ہو.جس نے اللہ تعالیٰ کے دامن کو پکڑ لیا وہ خدا کی نگاہ میں اور روحانی بینائی رکھنے والے کی آنکھ میں معزز بن گیا.اس اسلام اور احمدیت میں سب ایک جیسے معزز ہیں وہ جنہوں نے خدا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو پکڑا اور اس کے ہو لئے.انہوں نے غیر سے منہ موڑا اور شیطان سے قطع تعلق کیا اور خدا سے دوری پر موت کو ترجیح دی وہ سارے معزز بن گئے.ایک جیسے معزز.پس اگر تمہیں خدا کے غضب سے محفوظ رہنا ہے تو اخوت کے اس ذریعہ کو قائم رکھو اور کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو اور کسی کو اپنے سے چھوٹا نہ سمجھو.جہاں تک روحانی آنکھ کا تعلق ہے سب ایک جیسے ہیں سب بھائی بھائی ہیں اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کی نگاہ کا تعلق ہے ہمیں یہ علم ہی نہیں ہم یہ دعوای ہی نہیں کر سکتے کہ کون اس کی نگاہ میں زیادہ معزز اور کون کم معزز ہے ایک اصولی بات ہمیں بتائی گئی ہے اور ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ معزز وہ ہوتا ہے جو تقویٰ کی زیادہ راہوں کو زیادہ قربانی دے کر اختیار کرتا ہے لیکن کون ہے وہ اس کا علم ہمارے ربّ کو ہے.ایک ظاہری عزت اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنے ان نائبین کی مقرر کر دی ہے جن سے وہ کام لینا چاہتا ہے اور یہ نائبین انبیاء اور مامورین اور پھر وہ لوگ ہیں جو ان کے بعد ان کے خلفاء
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۰۱ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء.دوسرے روز کا خطا.بنتے ہیں.لیکن انبیاء اور مامورین ( خلفاء کو چھوڑو وہ تو بہر حال ان کے نائب ہیں ) نے یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے لئے اپنی زبان سے عزت کا کوئی دعوی نہیں کیا.اگر چہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ میں نے ساری عزتیں تیرے قدموں پر لا کر رکھ دی ہیں اور آج میری نگاہ میں عزت وہی حاصل کرے گا جو تیرے قدموں پر جھکے گا اور یہاں سے اپنے لئے عزت کو تلاش کرے گا اتنے بڑے مقام کے باوجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے کسی عزت کے مقام کا دعوی نہیں کیا آپ یہی فرماتے رہے کہ فلاں نبی پر مجھے ترجیح نہ دوفلاں پر مجھے ترجیح نہ دو.آپ نے عاجزی کے مقام کو اختیار کیا تا کہ امت یہ سبق سیکھے کہ عاجز کی راہیں انسان کو عزت کی منازل کی طرف لے جانے والی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں ان راہوں پر چلنے کی توفیق عطا کرے اور جماعت میں یہ جذ بہ اور روح قائم رکھے کہ جماعت میں شامل ہونے والا ہر فرد بشر ایک جیسا معزز اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں قابل صد عزت و احترام ہے اور جو شخص مرد ہو یا عورت اس وجہ سے کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں کو اختیار کیا خدا کی نگاہ میں معزز ہو.اس شخص کو جو معزز نہیں سمجھتا وہ اپنی ذلت پر مہر لگا تا اور اسلام میں کوئی شخص غریب نہیں کیونکہ ہر اس شخص کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کہ جو بظاہر غریب ہے ظاہری امیر کی دولت میں اس کا حق رکھا گیا ہے اور جو حقیقی طور پر احمدی اور مسلمان ہے اس کے دل میں قناعت کے خزانے لا کر رکھ دیئے گئے ہیں وہ تو دنیا کی چیز کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا.اس کے ہاتھ میں تو جب ایک پیار کرنے والا ہاتھ اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کوئی چیز دیتا ہے تو اس کی نگاہیں جھک جاتی ہیں حالانکہ خدائی آواز اس کے کان میں آرہی ہوتی ہے کہ یہ تیرا حق ہے تو اسے لے لے.اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی بندے بنے کی ہمیشہ تو فیق عطا کرے.دعا کریں اللہ تعالیٰ صحت سے رکھے اور کل کی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق دے.( از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
۳۰۲ خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ٣٠٣ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب خلافت حقہ کا حق ادا کرنے والے انسان کامل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء بمقام ربوہ کی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں:.وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى اِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى عَلَمَه شَدِيدُ الْقُوَى ذُومِرَّةٍ فَاسْتَوَى وَهُوَ بِالأفق الأعلى ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ ما أوحى (النجم : ۴ تا ۱۱) پھر حضور انور نے فرمایا:.قبل اس کے کہ میں آج کا مضمون شروع کروں.میں سمجھتا ہوں کہ سب جماعت کی طرف سے ان بہنوں کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے بے وقت اور فوری اطلاع پر آج صبح خدمت سلسلہ کا ایک بڑا ہی اچھا کام کیا.بات یوں ہوئی کہ صبح پانچ بجے کے قریب جلسہ سالانہ کے منتظمین نے یہ محسوس کیا ہے کہ روٹی کی تعداد میں کمی واقع ہو جائے گی اور انہوں نے اذان سے بھی آدھ گھنٹہ قبل صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ کو یہ اطلاع دی کہ جو ہنگامی حالات کے لئے انتظام ہے لوہ پر اور چھوٹی تندور یوں پر رضا کارانہ طور پر مستورات روٹیاں پکائیں.اس انتظام کے ماتحت آپ جس حد تک روٹیاں پکوا کر دے سکتی ہوں دیں.گزشتہ سال کے تجربہ کی وجہ سے ہمارا انتظام یہ تھا کہ ہم نے مختلف جگہوں پر مختلف طریقوں پر ہنگامی حالات کے مطابق ہنگامی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے روٹی پکانے کا انتظام کیا ہوا ہے جس میں سے ایک یہ حصہ ہے چنانچہ جو منتظمین تھے انہوں نے ان تنوریوں یا تندوریوں میں لکڑیاں ڈال کر آگ جلا دی اور لوہ کے جو چولہے ہوتے ہیں ان کے نیچے بھی آگ جلا دی اور یہ اطلاع انہوں نے دے دی نصف گھنٹہ کے اندر اندر ہماری مستعد اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۰۴ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب فدائی بہنیں ضرورت سے کہیں زیادہ اس موقع پر آگئیں اور روٹی پکاتی رہیں.جب تک کہ ان کو یہ نہیں کہا گیا کہ اب اور مزید روٹی نہ پکائیں کیونکہ ہماری ضرورت پوری ہوگئی ہے اور تھوڑے سے وقت میں انہوں نے ساڑھے نو ہزار روٹی تیار کر کے لنگر میں بھجوا دی.میں سمجھتا ہوں کہ ہماری یہ بہنیں جماعت کے شکریہ کی مستحق ہیں.میں اپنی طرف سے اور ساری جماعت کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزا دے اور اللہ تعالیٰ ہمیں بھی انہیں بھی ہمیشہ ہی ہنگامی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے بھی اور جو ہماری مستقل ضروریات ہیں ان کے مطالبات پورا کرنے کے لئے بھی توفیق دیتا چلا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک نہایت ہی حسین پیرایہ میں اور جیسا کہ آر تحریر فرمایا ہے اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کر کے اور اس کے الہام کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی شان پر روشنی ڈالی ہے اور اس سارے مضمون کی وضاحت اصولی طور پر سورۃ نجم کی ان آیات سے کی ہے جن کی تلاوت میں نے کی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ یہ بات جو میں تمہارے سامنے رکھ رہا ہوں یہ حقیقت محمد یہ ہے صلی اللہ علیہ وسلم.میں اپنے الفاظ میں اور اس بات کے پیش نظر کہ میرے سامنے پڑھے لکھے بھائی بھی موجود ہیں اور بڑے بڑے عالم بزرگ بھی ہیں.عام علم رکھنے والے بھائی بھی ہیں جن کی غالباً کثرت بھی ہوگی ان میں سے ممکن ہے بہت سے لکھنا پڑھنا نہ جانتے ہوں لیکن احمدیت میں آجانے کے بعد اور احمدی جو جلسے کرواتے ہیں وہ سننے کے بعد ایسے لوگوں کو بھی کوئی عقلمند اور سمجھدار انسان جاہل اور ان پڑھ نہیں کہہ سکتا.لکھنا پڑھنا بے شک وہ نہیں جانتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں علم اور فراست دیا ہے.لیکن بہر حال استعدادیں مختلف ہیں میں کوشش کروں گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے علمی رنگ میں حقیقت محمدیہ کو جس طور پر بیان کیا ہے اُسے واضح الفاظ میں اور سادہ زبان میں بیان کروں تا کہ ہر احمدی اس حقیقت کو جاننے اور پہچاننے لگے اور یہ ہماری زندگیوں کے لئے بڑا ضروری ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو اصل حقیقت اور جو اصل مقام اور آپ کی جو اصل شان ہے اس سے واقف ہوں اور اس کی معرفت ہمیں حاصل ہو.تاکہ ہمارے دل میں آپ کی شدید محبت پیدا ہو جائے کیونکہ جس قدر اس محبت میں شدت ہو گی اسی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۰۵ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب قدر اللہ تعالی کی اس محبت میں شدت ہوگی جو ایسے بندوں سے وہ کرتا ہے جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں.اس حقیقت اور اس مضمون کو سمجھنے کے لئے میں پیدائش عالم کے بیان سے مضمون شروع کروں گا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد آیات میں یہ بیان کیا ہے کہ اس عالمین کی پیدائش بلا وجہ اور بغیر مقصد کے نہیں بلکہ وہ خدا جو بغیر وقت کے ہماری مشکلیں ( ہم اپنے لئے کہتے ہیں کہ ایک لمحہ کے اندر ) لیکن اللہ کی ذات تو اس لمحہ سے بھی بالا ہے بہر حال ہم نے چونکہ اپنی زبان استعمال کرنی ہے اور ہم کر ہی نہیں سکتے.اس لئے ہم کہ سکتے ہیں کہ وہ علام الغیوب ایک لمحہ کے اندر ہر چیز کا اپنے علم میں احاطہ کرتا اور اپنے منشاء کی اور ارادہ کی تفاصیل کو طے کرتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے اس طرح اس چیز کو بنا دینا ہے پھر حکم دیتا ہے اور وہ چیز ہو جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہماری اس مادی دنیا میں تدریج کا اصول جاری کیا ہے اس نے مثلاً نظام شمسی کو کہا کہ ہو جاؤ اور وہ ہو گیا لیکن تدریجاً ان کو ان کی آخری شکل تک پہنچایا بعض لوگوں کے نزدیک ایک زمانہ بعض کے نز دیک کوئی دوسرا زمانہ گذرا لکھوکھا سال گزرے جس میں نظام شمسی نے وہ شکل اختیار کی جو شکل کہ خدا تعالیٰ چاہتا تھا نظام شمسی اختیار کرے.اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں قرآن کریم کے شروع میں ہی اس بنیادی اصول کی طرف یہ کہہ کر توجہ دلائی تھی کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحة :۲) کہ اس عالمین کی ربوبیت ہوئی ہے.رب کے معنے ہیں پیدا کر کے درجہ بدرجہ مدارج ارتقا طے کروا تا چلا جانے والا یعنی وہ پیدا کرتا ہے اور وہ خود درجہ بدرجہ مختلف مدارج میں سے گزار کے اس کی جو استعداد ہے اس کو اپنے مخصوص دائرہ استعداد کمال تک پہنچاتا ہے.مثلاً گندم کا بیج ہے ہمارے ہزاروں زمیندار بھائی یہاں بیٹھے ہیں وہ گندم کا پیج اپنے کھیتوں میں ڈال کے جلسہ سننے کے لئے آ جاتے ہیں.اب یہ بھی نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر گندم کا بیج گندم کی فصل کی شکل اختیار کر کے گندم پیدا کرتا ہے.اس کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں اپنے بعض بندوں کا تیرے ذریعہ سے پیٹ بھرنا چاہتا ہوں اس لئے تو ایک کی بجائے ستریا سویا دوسو یا استعداد کے مطابق سات سو تک یا اس سے بھی بڑھ کر جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے.بڑھنا ہے لیکن خدا تعالیٰ کا یہ حکم مختلف دوروں میں سے اس بیج کو گزارتا ہے پہلے اس کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۰۶ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب جڑیں نکلتی ہیں اور زمین کے اندر پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں اور جو نئے نئے زمیندار بنتے ہیں ان کو پہلے دن بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ پتہ نہیں اس سے روئیدگی باہر آئے گی یا نہیں اور ہر دوسرے رے دن جب تک وہ باہر نہیں آ جاتا جا کے اس مٹی کو کرید کے جسے پنجابی میں پھولنا کہتے ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ نیچے جڑیں بن رہی ہیں یا نہیں.پھر وہ کچھ دنوں کے بعد باہر نکل آتی ہیں.جس طرح زردرنگ کا نحیف کمزور بچہ ہوتا ہے وہ اس کی شکل ہوتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین سے اور پانی سے وہ اپنی غذا کو لیتا ہے اور بڑھتا ہے پہلے پتے نکالتا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ پتے جب زمین اور سورج کی شعاعوں سے اپنی طاقت حاصل کر لیتے ہیں تو اس سٹاک کو جس میں بعد میں گندم کے دانے لگتے ہیں.اس کو یہ طاقت دیتا ہے اور وہ بڑھنی شروع ہو جاتی ہے.پھر سٹہ نکل آتا ہے اس کو ، اور پھر پتے اور اس کا جو سٹاک ہے تنا چھوٹا سا وہ اپنی ساری طاقت بیج کی طرف منتقل کر کے بڑھاپے کی چادر اوڑھ لیتا ہے اور اس کی کمر بعض دفعہ دہری ہو جاتی ہے چہرہ زرد ہو جاتا ہے اور کوئی جان اُن میں نہیں رہتی خون سب خشک ہو جاتا ہے اور دانے موٹے ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پس ایک لمبا سلسلہ درجہ بدرجہ ترقی کرنے کا ہر چیز میں ہمیں نظر آتا ہے یہ ایک مثال میں نے دی ہے.قرآن کریم نے ہمیں فرمایا کہ اس عالمین میں بنیادی طور پر تدریجی ترقی کا اصول قائم کیا گیا ہے.اس تدریجی ترقی کا اصول کس لئے قائم کیا گیا ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تدریجی ترقی کا اصول اس مقصد کے حصول کے لئے ہے جس مقصد کے حصول کے لئے اس عالمین کو پیدا کیا گیا یعنی عالمین کو پیدا کیا گیا ایک خاص مقصد کے لئے اور اس تدریجی ترقی اور تدریجی ارتقاء کا اصول قائم کیا گیا ہے تا کہ وہ مقصد حاصل ہو جائے.اللہ تعالیٰ سورۃ عنکبوت میں فرماتا ہے خَلَقَ اللهُ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ (العنكبوت : ۴۵) کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ سورۃ روم میں فرماتا ہے.اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ مَا خَلَقَ اللهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ بِلِقَآئِ رَبِّهِمْ لَكْفِرُونَ (الروم : ١٩) کیا وہ سوچتے نہیں اور فکر اور غور نہیں کرتے اپنے نفسوں میں کہ اللہ تعالیٰ نے ان آسمانوں اور زمین کو ایک خاص مقصد کے لئے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۰۷ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب اور ایک مقررہ وقت کے لئے پیدا کیا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ احقاف میں فرماتا ہے.مَا خَلَقَ اللهُ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى (الاحقاف:۴) که الله تعالى - کہ نے ان آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے اندر اور ان کے درمیان پایا جاتا ہے بلا وجہ اور حکمت کے بغیر پیدا نہیں کیا اور نہ کوئی مدت مقرر کرنے کے بغیر پیدا کیا ہے.اسی طرح اور بہت سے مقامات پر قرآن کریم نے بڑے زور کے ساتھ اس دعوی کو انسان کے سامنے پیش کیا ہے کہ اس کائنات کی پیدائش ایک خاص مقصد کے حصول کے پیش نظر کی گئی ہے.یہ چاند ، یہ ستارے، یہ سورج، اب جب ہمارا علم بڑھ گیا ہے تو ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ بے شمار سورج ہمارے نظام شمسی کی طرح اس عالمین میں پائے جاتے ہیں.پھر آسمانوں کے متعلق تو بڑا تھوڑا اعلم ہے.کم از کم تھوڑا بہت علم ہم نے حاصل کر لیا ہے کہ بعض ستارے زیادہ روشن ہیں اور بعض کم اور بعض ستارے ہم سے قریب ہیں اور بعض بہت دور یعنی یہ محض فلسفیانہ رنگ میں نہیں بلکہ دور بینوں سے ہم نے یہ پتہ لیا اور ہم نے شعاعوں کے متعلق یہ بھی پتہ کر لیا کہ کتنے لائٹ ایرز میں ، یعنی کتنے ایسے سالوں میں کہ جس میں شعاعوں کی ایک سال کی رفتار جو ہے (اسے لائٹ ایرز (Light years) کہتے ہیں ) وہ روشنی یہاں تک پہنچی وغیرہ وغیرہ اور اس سے جو علم حاصل ہوا جس سے ہمیں فائدہ پہنچ رہا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح چاند اور سورج کی روشنی ہماری فصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے اندر بعض خاص خصوصیتیں پیدا کرتی ہے اسی طرح ستاروں کی روشنی بھی اثر انداز ہوتی ہے.اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج گندم کا دانہ جس میں مثلاً ؟ تعداد تو نہیں یاد کسی کو پتہ بھی نہیں، گنا بھی نہیں جا سکتا ہے، لیکن مثال دے دیتے ہیں ، جس کی پرورش میں ایک ہزارستاروں نے دودھ پلایا.وہ اس دانہ سے مختلف ہے.جو آج سے پانچ ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا اور جس کی پرورش میں صرف نو سوستاروں کی روشنی کا حصہ تھا.عقلاً اس میں اختلاف ہونا چاہئے تھا کیونکہ زیادہ ستاروں کی روشنی پرورش کا باعث بنی تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ یہ جو میں نے ستارے بنائے، پھر زمین بنائی اور پھر میں نے بے شمار چیزیں بنادیں مختلف انواع کے کچھ حیوان ہیں.کچھ نباتات سے تعلق رکھنے والی ہیں.کچھ معد نیات سے تعلق رکھنے والی ہیں وغیرہ وغیرہ اور پھر ہر چیز میں میری جس جس صفت کا جلوہ ہوا ہے چونکہ میری ہر صفت اور اس کے جلوے غیر محدود ہیں.اس چیز کے جو خواص ہیں وہ غیر محدود ہیں.تو اتنا بڑا کارخانہ اپنی وسعتوں کے لحاظ سے بھی اور اپنی گہرائیوں کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۰۸ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب لحاظ سے بھی بے فائدہ اور بلا مقصد نہیں ہے، کوئی بات میرے سامنے تھی ، کوئی مقصد میرے پیش نظر تھا جس کے لئے میں نے اس کارخانہ عالم کو بنایا.دوسری صداقت جو قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ پیدائش عالمین کا جو بھی مقصد ہے اس کا تعلق انسان سے ہے یعنی انسان نے اس مقصد کو پورا کرنا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنّى جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (البقرة: ٣١) کہ اللہ تعالیٰ نے پیدائش عالم کے وقت ملائکہ سے یہ کہا کہ میں ایک ایسی نوع پیدا کرنے لگا ہوں جو میرے خلیفہ اور میرے نائب ہو کر زندگی گزاریں گے.جس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ایک ایسی نسل ، ایسی نوع انسانی پیدا کرنے لگا ہوں جن میں یہ استعداد اور قوت رکھی جائے گی کہ وہ میری صفات کا مظہر بن سکیں کوئی خلیفہ اور نائب ایسا نہیں جو اس کی صفات کا مظہر نہ بنے.تو اس آیت میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ زمین اور آسمان اور جو اس کے درمیان ہے اس کی پیدائش کا مقصد انسان سے تعلق رکھتا ہے اور انسان کو یہ کہا کہ تم غور کرو کہ اگر پیدائش عالمین کا مقصد تم سے تعلق نہ رکھتا تو پیدائش کی ہر چیز کو تمہاری خدمت میں نہ لگایا جاتا.اگر وہ مقصد جو اس عالمین کی پیدائش کا ہے مثلاً ہمارے سورج سے تعلق رکھتا تو ہم غلاموں کی طرح اس سورج کی خدمت کر رہے ہوتے جس طرح خدا چاہتا کہ ہم خدمت کریں لیکن ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ نہ صرف یہ سورج بلکہ دنیا میں جو بے شمار سورج پائے جاتے ہیں سارے کے سارے انسان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور نہ صرف یہ عالمین بلکہ جو ان کا سہارا ہیں یعنی ملائکہ اور ان کی قوتیں وہ بھی انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے بار بار اس طرف متوجہ کیا کہ ہم نے جس چیز کو بھی پیدا کیا تمہاری خدمت میں لگا دیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.أَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَبٍ مُّنِيرٍ (لقمن: ٢١)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۰۹ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کیا تم لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اسے تمہاری خدمت پر لگایا ہوا ہے اور اس رنگ میں لگایا ہوا ہے کہ اپنی اس خلق کو تمہاری خدمت پر لگانے کے نتیجہ میں تمہارے لئے جن نعمتوں کے سامان پیدا کر دیے گئے ہیں.انہیں تم شمار نہیں کر سکتے انہیں تم گنتی میں نہیں لا سکتے.وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً اور تم پر اپنی نعمتیں ظاہری ہوں یا باطنی پانی کی طرح بہادی ہیں جس طرح سمندر کے پانی کے قطرے نہیں گنے جاسکتے (شائد وہ گنے جائیں لیکن اس سے زیادہ بڑھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں اور اس کے احسانوں کا شمار نہیں ہے.اس سے تمہیں یہ سبق لینا چاہئے اس سے یہ حقیقت تم پر واضح ہونی چاہئے کہ پیدائش عالم کا مقصد انسان سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کے باوجو دلوگوں میں سے وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارہ میں بات شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا تو خدا ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اس کو ہمارے ساتھ کیا غرض ؟ اور اس بحث میں ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہوتی ہے وَلَا هُدًى.نہ صحف سابقہ میں سے کسی آسمانی صحیفے کا اس کے پاس کوئی استدلال ہوتا ہے وَلَا كِتُبِ منیر اور نہ قرآن کریم سے کوئی استدلال وہ ایسا کر سکتے ہیں.تو عقل ، پہلی کتا بیں جو ان میں سے سچائیاں قائم رہ گئی ہیں اور دنیا کو روشن کرنے کے لئے جو کتاب منیر قرآن کریم میں نازل ہوئی ہے ان میں سے کوئی پختہ دلیل نکال کر وہ اپنے موقف کی تائید میں بیان نہیں کر سکتے اور اس بات سے وہ انکار کرتے ہیں کہ یہ دنیا کسی مقصد کے پیش نظر پیدا کی گئی ہے اور آخرت پر جو شخص ایمان نہیں لاتا ( اور دنیا میں ایسے انسانوں کی بڑی کثرت ہے ) اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پیدائش انسانی کی کوئی غرض نہیں ساری دنیا کو ، کائنات کو ، موجودات کو جو پیدا کیا گیا؟ ہے یہ بے مقصد ہے انسان اس دنیا میں آیا ہے اور مر جائے گا اور ختم ہو جائے گا یہ قصہ ہے.اسی طرح سورہ جاثیہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ قُلْ لِلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللهِ لِيَجْزِى قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ : مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ (المائية : ۱۴ تا ۱۶) ۚ کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اُس نے تمہاری خدمت پر لگا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۱۰ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کھا ہے اور جو فکر کرنے والی اور تدبر کرنے والی اور غور کرنے والی قوم ہے ان کے لئے اس میں ایک بڑا نشان ہے اور وہ معلوم کر سکتے ہیں کہ اس کائنات کی پیدائش اور انسان کی پیدائش کے پیچھے کوئی مقصد ہے.اس لئے قُلْ لِلَّذِينَ آمَنُوا تو مومنوں سے کہہ دے کہ تم اللہ تعالیٰ کی جزاء کی امید رکھو کیونکہ ایک مقصد کے پیش نظر تمہیں پیدا کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اپنی استعداد کے مطابق صفات باری کے مظہر بنو اور جو شخص اپنی استعداد کے مطابق صفات باری کا مظہر بن جاتا ہے وہ منبع مسرت اور خوشیوں کے سرچشمہ سے پرسکون اور خوشحال زندگی حاصل کرتا ہے جس پر کبھی فنا نہیں آتی ہے.اس لئے تم اللہ کی سزا سے ڈرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت کے یہ معنے ہوں گے کہ جو مقصد تم سے وابستہ کیا گیا تھا اس میں تم ناکام ہوئے اور جو خوشیاں تمہارے لئے مقدر کی گئی تھیں ان سے تم محروم ہوئے اور خدا تعالیٰ سے دوری کے نتیجہ میں جو عذاب مقدر کیا گیا تھا اس کے تم حق دار ٹھہرے.خود ہی نہیں بلکہ جو سزا سے نہیں ڈرتے اور اپنے رب کو نہیں پہچانتے ان کو بھی معاف کریں اور ایسے سامان پیدا کریں کہ ان کی توجہ محبت اور پیار کے ساتھ ان کے رب کی طرف پھیری جاسکے اور خود سزا دینے کی طرف متوجہ نہ ہوں اور نہ خدا سے یہ کہیں کہ جلد انہیں سزا دے بلکہ کوشش یہ کریں کہ ایسے لوگ بلکہ ساری دنیا ہی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے.، عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو تم اچھی طرح سمجھا دو کہ ہمارا جو یہ مطالبہ ہے کہ ہماری ہدایت کے مطابق ہمارے ارشادات کی روشنی میں مناسب حال نیک اعمال بجالا یا کرو فَلِنفیسہ اس میں تمہارا فائدہ ہے کیونکہ اسی کے نتیجہ میں تم اس مقصد کو حاصل کر سکتے ہو جو تمہاری زندگی کا مقصد ہے.تو دوسری بات قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس مقصد کے لئے کا ئنات اور موجودات کی پیدائش ہوئی ہے اس کا تعلق انسان سے ہے اور اس کا یہ تعلق انسان سے ہے کہ وہ اپنی قوتوں اور استعدادوں کے دائرہ کے اندر مظہر صفات باری بن سکے اور اللہ تعالیٰ نے ایسی ہدایتوں کے سامان پیدا کئے ہیں کہ جو شخص اپنی زندگی کے مقصد کے حصول کی کوشش کرے وہ اس میں کامیاب بھی ہو جائے.اسی لئے جو بنی نوع انسان کے مختلف ادوار ہیں اپنے اپنے دائرہ میں جو اس وقت کے انسان کو اس کے کمال تک پہنچانے کے لئے ضرورت تھی اس کے مطابق خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کے نبی اُس قوم کے نبی کو ہدایت دے دی اور اس آیت استخلاف میں جو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۱۱ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب ابھی میں نے پڑھی اس میں جو کہا گیا ہے کہ میں اپنا ایک خلیفہ بنانا چاہتا ہوں اس سے ہمیں یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اگر چہ عام طور پر اس کا ئنات کو پیدا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ ایک ایسی نوع پیدا ہو کہ جو مظہر صفات باری بن سکے.لیکن اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسا وجود پیدا ہو جائے کہ جو اللہ کا مظہر اتم ہو یعنی تمام صفات باری کا وہ کامل مظہر ہو.صرف اللہ کی اس صفت کا وہ مظہر نہ ہو کہ وہ ذوانتقام ہے.خدا تعالیٰ بدلہ لیتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نمایاں طور پر خدا کی اس صفت کا مظہر بنے اور انتقام لینے پر آپ نے زور دیا ، یا وہ اللہ کی صرف اس بنے کہ وہ غفور ہے معاف کر دیتا ہے.جیسے حضرت مسیح علیہ السلام صرف اس صفت کا نمایاں طور ہے مظہر بنے اور صفات کا بھی بنے لیکن نمایاں طور پر اس صفت کا مظہر بنے اور یہ کہا کہ اگلا آدمی خواہ بدیوں میں ترقی کرتا چلا جائے تم اس کو معاف کرتے چلے جاؤ اور یہ نہیں بتایا کہ سوچ لیا کرو کہ تمہارے معافی دینے کے ساتھ کہیں وہ اپنی بدیوں میں تو ترقی کر کے اللہ تعالیٰ سے اور بھی بعد تو نہیں حاصل کر لیتا.تو ان آیات سے خصوصاً اس آیت سے کہ میں اپنا ایک نائب اور خلیفہ بنانا چاہتا ہوں اس بات کا پتہ لگتا ہے کہ کائنات کی پیدائش کا اصل اور حقیقی مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا انسان وجود پذیر ہو جو اللہ ( اور اللہ کے معنے ہیں مجمع جمیع صفات کا ملہ حسنہ وہ ذات جو تمام کامل اور اچھی صفات کی جامع ہے) کا مظہر اتم بن جائے یعنی اس کے اندر بھی ظلی طور پر تمام صفات الہیہ جمع ہو جائیں.تو اس سے ہمیں تین چیزوں کا پتہ لگا ایک یہ کہ مقصد کا تعلق انسان سے ہے دوسرے یہ کہ یہ مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان اس لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ پیدائش عالم کا یہ مقصد حاصل ہو سکے کہ ایک ایسی نوع پیدا ہو جائے جو صفات باری کی مظہر بننے کی قوت اور استعدادا اپنے اندر رکھ سکتی ہو اور ہمیں یہ پتہ لگا کہ اصل اور حقیقی مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا انسان کامل پیدا ہو جو اللہ تعالیٰ کا مظہر اتم ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا مظہر ہو تمام صفات کا جو مظہر ہو گا اصولی طور پر وہ اللہ کا مظہر ہو گا.وہ ان بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ (البروج : ۱۳) کی صفت کا بھی مظہر ہو گا جب گرفت کرے گا تو اس کی گرفت بھی بڑی سخت ہو گی اس میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کی صفت کا مظہر ہو گا اور وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ (الاعراف: ۱۵۷) کی ایک صفت باری ہے.جب وہ رحمت
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۱۲ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کرنے پر آئے گا تو اس میں بھی وہ کامل طور پر اللہ کی اس صفت کا مظہر ہوگا.جب وہ معاف کرے گا تو لَا تَغْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (یوسف : ۹۳) کا ایسا نعرہ لگائے گا کہ انسانی تاریخ اس کی مثال نہیں پیش کر سکے گی.جب وہ عزیز ہونے کی صفت کا مظہر بنے گا تو سارا عرب جب اکٹھا ہو جائے گا تو وہ قدرت الہی جو اس میں جلوہ گر ہوگی ہوا کے ذروں کی طرح اسے اڑا کے رکھ دے گی.پس تمام صفات کا وہ مظہر ہو گا.اس مقصد کے حصول کے لئے ایک ایسے ہی انسان کامل کی ضرورت تھی.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انسان کامل کون ہے؟ دنیا میں جب سے انسان کی پیدائش ہوئی ہے بڑے بڑے مقرب پیدا ہوئے لیکن وہ انسان کامل جس نے اس خلافت حقہ کا حق ادا کیا اپنی استعداد کی رو سے بھی اور اس استعداد کی تربیت کاملہ کی رو سے بھی ( خالی استعداد کافی نہیں ہے استعداد کی کامل تربیت اور کامل نشو ونما کی ضرورت ہے ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعوی ہے کہ آپ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہ انسان کامل ہیں کہ جس کی پیدائش کے لئے جس کے وجود کے لئے جس کے معرض وجود میں آنے کے لئے ساری کائنات کو پیدا کیا اور آپ اپنی استعدادوں کے لحاظ سے بھی اور ان استعدادوں کی تربیت کے لحاظ سے بھی انسان کامل اور جو انسان کامل ہو گا وہ اشرف المخلوقات بھی ہوگا یعنی حقیقی معنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اشرف المخلوقات ہیں.تو ایک تو آپ کی صفت آپ کے دعوئی کے مطابق ہے (ابھی ہم آپ کے دعوئی میں ہیں) آپ کا دعویٰ ہے اور قرآن کریم نے بڑے زور سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی مخلوق نہیں.آپ اشرف المخلوقات ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کامل کوئی انسان نہیں کیونکہ آپ ہی انسان کامل ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بلند اور ارفع شان رکھنے والا کوئی نبی نہیں کیونکہ آپ خاتم النبین ہیں.تو یہ دعویٰ قرآن کریم نے بھی بڑے زور سے کیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قرآن کریم کی اس ہدایت کے مطابق ان قرآنی آیات کی تفسیر میں کیا کہ میں ہی صحیح معنے میں اشرف المخلوقات، میں ہی حقیقی طور پر انسان کامل اور میں ہی نبیوں کا سردار اور خاتم النبیین کامل اور مکمل طور پر ان کامل رفعتوں پر پہنچ جانے کی وجہ سے جہاں تک میرے خدا نے مجھے توفیق عطا کی.یہ دعویٰ قرآن کریم کی متعدد آیات میں ہمیں نظر آتا ہے مثلاً
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ٣١٣ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتٍ (البقرة : ۲۵۴) میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس دعوئی کا ذکر ہے کہ ایک وہ انسان بھی پیدا ہوا جو اپنے درجات میں ارفع مقام تک پہنچا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلند تر مقام تک جو انسان اپنی روحانی ارتقاء میں پہنچ سکتا تھا وہاں پہنچے اور یہ بعض سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اسی طرح إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم ) (۵) کے معنے ہیں کہ تیرے اخلاق اتنے عظیم ہیں کہ اس سے زیادہ عظمت والے اخلاق انسانی دماغ سوچ ہی نہیں سکتا.اسی طرح اور بہت سی آیات ہیں جن میں قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ آپ ہی اشرف المخلوقات ہیں یعنی خلق کی جو غرض اور غایت تھی وہ آپ کے وجود میں پوری ہوئی.آپ کی وجہ سے یہ کائنات بنی اور آپ کی قوت اور تاثیر اور مقام کے نتیجہ میں خلق میں سے ہر چیز کو خدا کی صفات کا وہ جلوہ ملا جو ملا.کیونکہ جو خلق ہے اس پر اسلام نے روشنی ڈالی ہے.مثلاً آپ کو گندم کا دانہ نظر آتا ہے، چنے کا دانہ نظر آتا ہے اور مکی کا دانہ نظر آتا ہے اور سرسوں کا دانہ نظر آتا ہے آگے پھلوں میں کیلا یا آم وغیرہ ہر چیز نظر آتی ہے یا ہیرا نظر آتا ہے یا قوت نظر آتا ہے زمر د نظر آتا ہے یا درخت نظر آتے ہیں یا جھاڑیاں نظر آتی ہیں پھولوں کے چھوٹے چھوٹے پودے نظر آتے ہیں یا مختلف رنگوں کے پھل نظر آتے ہیں اور سب سے زیادہ پھول گلاب کا نظر آتا ہے کتنی چیز میں نظر آرہی ہیں تو وہ وجود جو ہے اس کی حقیقت یہ ہے ماہیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا ظل اور اثر ہے تو ساری مخلوق اظلال و آثار صفات باری ہیں.اس سے زیادہ ان کی کوئی ماہیت نہیں.تو ہر جلوہ جو ہمیں ملا ہے کیونکہ اس وقت یہ مضمون ہے میرا اس کے تسلسل میں کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ہر جلوہ جو جس رنگ میں ہمیں وہ کائنات میں نظر آتا ہے اور پیدائش عالم سے لے کر آج تک نظر آتا رہا ہے اور آج سے لے کر قیامت تک نظر آتا رہے گا.یہ جلوہ اسی لئے ہے کہ اس جلوہ کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے ہر قسم کے جلوے ختم ہو گئے اس لئے جس چیز میں بھی ہمیں خدا تعالیٰ کی کسی صفت کا کوئی جلوہ نظر آتا ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی ہے.ان آیات کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۱۴ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب وہاں ہمیں تفسیر کرنی پڑتی تھی یہ تفسیری احادیث ہیں.ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ " لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الَّا فَلاكَ (موضوعات کبیر زیر حرف لام) اگر پیدائش عالم کی غرض تیرا وجود پیدا کرنا نہ ہوتا تو پیدائش عالم بھی نہ ہوتی اس کا ئنات کو پیدا ہی نہ کرتا.اس حدیث کے الفاظ پر لفظی طور پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند پختہ اور ثقہ نہیں ، مشکوک ہے لیکن اس کے معنے پر سب نے اتفاق کیا ہے.کہنے والے کہتے ہیں کہ ہماری تحقیق کے مطابق یہ الفاظ نہیں لیکن وہ یہ نہیں کہتے کہ یہ مفہوم کسی اور لفظ یا جملے میں ادا نہیں کیا گیا.ہمارے جو بڑے مشہور اور بڑے ثقہ علمائے ربانی گزرے ہیں ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس قسم کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلائے گئے.مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث پر اعتراض نہیں اس کے الفاظ یہ ہیں کہ اگر تو نہ ہوتا تو میں جنت کو نہ پیدا کرتا.تو معنے کے لحاظ سے تو وہی ہیں یعنی جنت کو پیدا نہ کرتا یعنی ساری پیدائش بے مقصد ہو جاتی اور خدا تعالیٰ بے مقصد کوئی کام نہیں کرتا.تو یہ پیدائش ہی نہ ہوتی.اسی طرح بعض دوسرے الفاظ کے متعلق انہوں نے یہ کہا ہے کہ ان پر روایت کے لحاظ سے کسی قسم کا اعتراض نہیں پڑتا تو جہاں تک لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک» (موضوعات کبیر زیر حرف لام) کے الفاظ کا تعلق ہے.روایت کے لحاظ سے یہ ضعیف ہے لیکن درایت کے لحاظ سے، معنے کے لحاظ سے جو دوسرے الفاظ ہمیں مختلف معتبر احادیث میں ملتے ہیں ان سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ یہ بڑی ثقہ حدیث ہے.اپنے مفہوم اور معنے کے لحاظ سے اس میں کوئی ضعف نہیں.دوسرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے.یہ مسند احمد بن حنبل کی حدیث ہے کہ.قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي عَبْدُ اللهِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِه ( مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۱۲۷) کہ میں اللہ کا بندہ یقیناً خاتم النبین ہوں اس وقت سے کہ آدم کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی.ایک اور حدیث میں ہے غالبا مسلم کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش خلق کا ئنات سے پچاس ہزار سال پہلے ( یا کتنے سال پہلے غالباً پچاس ہزار سال پہلے ) ہوئی تھی ( تو پچاس یا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۱۵ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب ساٹھ یا ستر یہ ہمارے محاورہ میں ہوتا ہے کہ کہیں پہلے تھی ).تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی متعدد آیات کی جو تفسیر کی ہے وہ ان الفاظ میں ہے کہ اگر میرا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود نہ ہوتا تو کائنات کی پیدائش اور خلق : ہوتی اور اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود نہ ہوتا تو بنی نوع انسان کی پیدائش نہ ہوتی اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود نہ ہوتا تو کسی نبی کی پیدائش بھی نہ ہوتی.اب یہ حدیث اور اس حدیث کے متعلق تو میں نے مختصراً بعض باتیں بتائی ہیں کہ معنے کے لحاظ سے کوئی اعتراض اس پر نہیں مانا گیا.اس حدیث کے متعلق میں ذرا تفصیل سے روشنی ڈالنا چاہتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک یہ حدیث قرآن کریم کی ان متعدد آیات کی تفسیر ہے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ پتہ نہیں کیا مطلب تھا اور اس کے راوی کیسے تھے.تو ہمارے پاس اس بات کی پختہ شہادت ہونی چاہئے کہ ان الفاظ میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بیان کیا ہے اور وہی حقیقت ہے.شواہد ایسے ہونے چاہئیں جن کا انکار نہ کیا جا سکے.چنانچہ پہلی شہادت روایت کی ہے تو میں نے اس کے متعلق جو مختلف حوالے نکلوائے.ہاں ایک تو یہ کہ یہ حدیث صرف مسند احمد بن جنبل میں نہیں بلکہ اس حدیث کو بعض خفیف لفظی تبدیلیوں کے ساتھ طبقات ابن سعد.کنز العمال - الخصائص الکبریٰ اور مشکوۃ میں بھی بیان کیا گیا ہے یعنی صرف مسند احمد بن حنبل کی نہیں بلکہ اور حدیث کی کتب میں بھی یہ حدیث پائی جاتی ہے اور اس کے جو راوی ہیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے یعنی روایت کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کے پہنچا ہے تو جو شخص صحابہ میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی روایت کرنے والے ہیں وہ عرباض بن ساریہ ہیں.ان کے متعلق زرقانی شرح مواہب اللہ نیہ میں لکھا ہے کہ پرانے صحابہ میں سے تھے.اصابہ فی معرفت الصحابہ میں لکھا ہے کہ مشہور صحابی اور اصحاب الصفہ میں سے تھے.انہی کے حق یہ آیت نازل ہوئی وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا آتَوُكَ لِتَحْمِلَهُمُ (التوبة : ۹۲) (آگے چلتی ہے یہ آیت) اور لکھا ہے یہ صحابہ میں.ایک عظیم بزرگ تھے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۱۶ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب اور ہمارے علماء میں سے بعض نے لکھا ہے کہ یہ بیان میں عمدہ اور مضبوط یعنی ان کے بیان اور حدیث کے روایت کرنے میں کسی قسم کا ضعف نہیں ہوتا تھا اور ان سے آگے جو سلسلہ روایت ہے ہر شخص کے متعلق جب میں نے تحقیق کی تو ہر شخص کو ثقہ پایا.یہاں تک کہ یہ روایت احمد بن جنبل یا دوسری کتب احادیث کے لکھنے والوں کے پاس پہنچی.تو ایک سلسلہ راویوں کا چلانا کہ انہوں نے کہا کہ مجھ سے فلاں نے بیان کیا اور اس نے کہا کہ مجھ سے فلاں نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ مجھ سے فلاں نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ مجھ سے فلاں نے یہ بیان کیا اور سب سے آخر میں کہا کہ مجھ سے عرباض بن ساریہ نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.تو عرباض بن ساریہ کے متعلق میں نے تفصیل سے بتا دیا ہے.باقیوں کے متعلق جو بڑی بحث کی ہے وہ تو ایک مستقل علم بن گیا ہے کہ احادیث کی روایت کرنے والوں کی حالت کیا تھی.اس قسم کے لوگ بعد میں پیدا ہوئے اچھے بھی تھے برے بھی تھے.منافق بھی تھے مومن بھی تھے بڑے غور اور فکر کرنے والے بھی تھے اور بڑے محتاط بھی تھے اور اس کے مقابلہ میں غیر محتاط لوگ بھی تھے لیکن تنقید کرنے والوں نے ایک ایک آدمی کو لے کے ذرا ذراسی بات سامنے رکھ کے تنقید کی ہے اور ان کتب میں اس سلسلہ میں روایت میں ہر راوی کو مستند اور ثقہ بیان کیا ہے.تو جہاں تک روایت کا سوال ہے یہ ایک معتبر حدیث ہے.اب ہم روایت کو لیتے ہیں کہ مضمون کے لحاظ سے آیا اس کو علمائے اسلام نے قبول کیا ہے یا نہیں کیا.ہوسکتا ہے کہ ایک حدیث کے راویوں پر کوئی شک نہ ہو سارے نیک ہوں مخلص ہوں.محتاط ہوں لیکن انسان انسان ہے غلطی کر سکتا ہے اسی واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جب کوئی حدیث قرآن کریم سے ٹکرائے تو را وی خواہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو تم.رد کر دو.کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات بھی کی ہے قرآن کریم کی تفسیر ہی کی ہے.اس کے خلاف تو بات نہیں کی تو اس کا مضمون بتا رہا ہوگا کہ یہ درست نہیں.پھر معنوی لحاظ سے اسے قرآن کریم کے مطابق بنانے کی کوئی تدبیر نہ سوجھے تو اسے رد کر دو.جس طرح آپ نے فرمایا ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب نہ ہو لیکن راوی بعض لوگوں کے نزدیک مشتبہ ہوں لیکن جب ہم قرآن کریم کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں تو قرآن کریم کی بعض
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۱۷ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب گہری ہدایتوں پر وہ مشتمل ہو تو اگر چہ اس کا راوی جو ہے وہ کمزور ہے اسے قبول کر لو کیونکہ کمزورمنہ سے جب وہ کمزوری دکھا رہا ہو ( اور انسان بہر حال کمزور ہے ) تو اس سے قرآن کی شان کی بلندی کے لئے بات نہیں نکلے گی.تو جب ہم درایت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں بڑے بڑے اکابر علماء اس حدیث کی تائید میں نظر آتے ہیں.چند حوالے میں نے لئے ہیں وہ میں آپ کو بتاتا ہوں.ایک حوالہ حضرت شیخ تقی الدین سبکی جو قریباً ڈیڑھ سو کتب کے مصنف تھے ان کی وفات غالباً ۱۳۴۹ ء میں ہوئی وہ لکھتے ہیں: آپ کی نبوت اور رسالت آدم کے زمانہ سے قیامت تک کے لئے تمام مخلوق کے لئے عام ہے اور تمام انبیاء اور ان کی امتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہوں گی اور حضور کا یہ قول کہ بُعثتُ إِلى النَّاسِ كَافَّةً میں صرف آپ کے زمانہ سے لے کر قیامت تک کے لوگ مراد نہیں بلکہ آپ سے پہلے زمانے کے لوگ بھی مراد ہیں اور اس مفہوم کی تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آیا ہے كُنتُ نَبِيَّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسدِ وہی حدیث انہوں نے روایت کے لحاظ سے لی ہے اور اُن کے معنے بیان کئے ہیں پھر آگے انہوں نے ایک اور لطیف مضمون بیان کیا ہے ) اور جس نے اس کی تفسیر یہ کی کہ اللہ کے علم میں تھا کہ آپ نبی ہوں گے ( یعنی یہ جو حدیث ہے کہ میں نبی تھا اور آدم کی پیدائش ابھی نہیں ہوئی تھی جو شخص اس کی یہ تفسیر کرتا ہے کہ اللہ کے علم میں تھا کہ آپ نبی ہوں گے ) اس نے اس کے مفہوم کو سمجھا نہیں.اللہ کا علم تو تمام اشیاء پر حاوی اور محیط ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اس وقت بیان تقاضا کرتا ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ امر نبوت اس وقت آپ کے لئے قائم و ثابت تھا اس لئے تو آدم علیہ السلام نے اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم عرش پر لکھا دیکھا تھا.پس ضروری ہے کہ یہ مفہوم اس وقت بھی قائم اور ثابت ہو پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت آدم کی تخلیق سے قبل تھی.اللہ تعالیٰ نے حضور کو اس وقت سے یہ وصف عطا فر مایا تھا مراد یہ کہ اس حقیقت محمدی کی تخلیق تیار تھی اور نبوت کی نعمت اس وقت سے آپ کو عطا کی گئی تھی.“ ( ترجمہ الخصائص الکبری جلد ا صفحه ۴ - ۱۵ از علامہ جلال الدین سیوطی )
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۱۸ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب اسی طرح حضرت عبدالکریم جیلانی جو بغداد کے نامور صوفی تھے جن کی وفات ۱۱۶۵ء میں ہوئی.وہ اپنی کتاب ”انسان کامل“ میں لکھتے ہیں.انسان کامل وہ ہے ( یہ اس حدیث کی تفسیر میں سارے حوالے ہیں ) جو مخلوقات کا مرکزی نقطہ اور محور ہے اور وہ شروع سے ایک ہی تھا ہاں وہ مختلف حلوں میں ظاہر ہوتا رہا ہے اس کا اصلی وجود ایک ہی ہے اس وجود باجود کا اسم مبارک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور کنیت ابوالقاسم اور وصف عبداللہ اور لقب شمس الدین تھا پھر آپ کے مختلف اعتبارات سے مختلف پیرہن ہیں.( ترجمه از انسان کامل جلد دوم صفحه ۶۱ ۶۲) اسی طرح حضرت شیخ بالی آفندی جو اپنے زمانہ میں عالم محق ، قابل مدقق ، شیخ عصر اور خلیفہ الصوفیاء 66 کے نام سے یاد کئے جاتے تھے.۱۵۵۲ء میں یہ فوت ہوئے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں.پس آدم علیہ السلام سے لے کر ہر نبی نبوت خاتم النبیین کے مشکوۃ سے حاصل کرتا ہے اگر چہ آپ کے وجود کی مٹی کا خمیر ان سے متاخر تھا لیکن حقیقت کے لحاظ سے ہر زمانہ میں پہلے سے موجود تھا.یہی مفہوم ہے اس حدیث کا کہ كُنت نبيا و آدم بـيـن الـمـاء والطین اور اسی طرح باقی انبیاء کی تخلیق سے قبل کہ وہ نبی صرف اپنی بعثت کے وقت ( سے نبی ) تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبی آدم کی تخلیق سے بھی قبل ( نبی ) تھے.“ ( ترجمه از شرح فصوص الحکم صفحه ۵۷،۵۶) اسی طرح حضرت شیخ محمد اکرم صابری جو سلسلہ صابر یہ قدوسیہ نظاریہ کے مشہور مشائخ کے پیشوا بھی ہیں تحریر فرماتے ہیں کہ : محققوں کے نزدیک یہ امر ثابت شدہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک اس وقت بھی موجود تھا جب کہ ابتداء میں دنیا انسان کی شکل میں ظاہر ہوئی اور حضور ہی تھے جو بالآ خر خاتم النبین بن کر ظاہر ہوئے.“ ( ترجمه اقتباس الانوار صفحه ۵۲٬۵۱) اور بتایا ہے کہ دراصل پیدائش خلق سے بھی پہلے آپ کی حقیقت موجود تھی لیکن اس کی تفصیل میں بعد میں بتاؤں گا.حضرت امام عبد الوہاب شعرانی ” جو سولہویں صدی کے مشہور بزرگ اور قطب الواصلین اور امام
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۱۹ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب العارفین کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں اپنی کتاب "الیواقیت والجواہر ( جلد ۳ صفحہ (۴۵) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھتے ہیں کہ : آپ حضرت آدم سے لے کر قیامت تک آنے والی مخلوق کی طرف مبعوث کئے گئے.“ (ترجمہ) ( ترجمه عوارف المعارف صفحه ۴۰ تا ۴۲) اور ہمارے مشہور صوفی حضرت شہاب الدین سہروردی جو سہروردیہ سلسلہ کے امام ہیں وہ لکھتے ہیں:.سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود کائنات کا سر چشمہ تھے (لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ إِلَّا فَلَاكَ یعنی تمام کائنات کا چشمہ آپ ہی کی ذات مبارک سے پھوٹا.چنانچہ اس طرف آپ نے اس حدیث شریف میں اشارہ فرمایا ہے "كنت نبياً و آدم بين السماء و الطین “ میں اس وقت سے نبی تھا جب حضرت آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا اور یہ دونوں چیزیں آپ کے قلب سے قلوب تک منتقل ہوئیں اور آپ کے نفس مبارک سے دوسروں کے نفوس تک سرایت کر گئیں.“ اب ایک شہادت شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی کی ہے وہ لکھتے ہیں: اگر تم کہو کہ خاتم کی کیا وجہ ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے؟ ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء کہا گیا ہے ) تو ہم جواب میں یہ کہیں گے کہ آپ کے مقام کا کمال اس کا سبب ہے.( یعنی جو خاتم آپ کو کہا گیا یعنی خاتم النبین اور آپ کے مقام کا کمال اس کا سبب ہے چونکہ ان کی زبان عالمانہ اور دقیق ہوتی ہے.میں کھول دوں گا ) اور منع اور روک اس کا مفہوم ہے ( یعنی چونکہ کمالات نبوت کمالات انسانیت ، کمالات خلق آپ پر ختم تھے اس کی انتہا تک آپ پہنچے ہوئے تھے اس لئے آپ کو خاتم النبین قرار دیا گیا اور چونکہ آپ اس منع اور روک کے مقام تک پہنچے ہوئے تھے.کوئی شخص بطور خود نہ اتنی استعداد رکھتا ہے اور اگر رکھتا ہے تو اس نے اتنی ہمت نہیں دکھائی کہ وہ اس ارفع مقام تک پہنچ سکے جس مقام تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے اور دوسرے منع اور روک کے یہ معنی کہ ہر شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیا جو کچھ لیا.وہ آدم ہوں یا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں.وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہوں یا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہوں پہلے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۲۰ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب ہوں یا پچھلے ہوں.جس نے روحانی میدان میں جو برکت بھی حاصل کی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی حاصل کی اور جو آپ سے دور ہوا.اس نے ہر قسم کے قُرب کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے.پس یہ منع اور روک کا مفہوم ہے ) اور یہ اس وجہ سے کہ جب دنیا کی ابتداء بھی ہے اور خاتمہ بھی تو اللہ سبحانہ نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ اس میں ہے اس کا آغاز بھی ہو اور انجام بھی (جب مقصد کے لئے ایک انجام اور ایک مقصد کا حصول شروع کر دیا.آغاز ہو گیا.بنی نوع انسان کی پیدائش ہو گئی اور پھر اس کا انجام یعنی انسان اپنے کمال کو پہنچ گیا اور اس پر آگے اس پر روشنی اگلا فقرہ ڈال رہا ہے) اور اس دنیا میں شریعتیں بھی نازل کی گئیں آغاز اور انجام کے لئے ) پس ان شرائع کا انتہائی نقطہ شرع محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور آ خاتم النبین تھے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانے والا ہے اور اس دنیا میں ( جو دراصل کہنا چاہئے خدا کے ظل ہونے کی حیثیت سے جیسا کہ میں آگے تفصیل سے بیان کروں گا کہ اس دنیا میں جو ایک نقطہ علی کی وجہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا ہے.اس دنیا میں آپ کا ایک فیضان عام ہے اور ایک فیضان خاص ہے.یہ محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ اس دنیا میں ) ولایت عامہ بھی ہے ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ایک ولایت عامہ ہے اور ایک ولایت خاصہ ہے اور انہوں نے یہاں بیان یہ کیا ہے کہ ولایت عامہ کا تعلق آپ کی بعثت اور جسم کا جو وجود ہے اس کے پہلے زمانہ کے ساتھ ہے یعنی حضرت آدم سے لے کر آپ کے زمانہ تک جن لوگوں نے آپ کے فیوض حاصل کئے وہ ولایت عامہ کے نتیجہ میں حاصل کئے.ان کا بڑا عجیب بیان ہے.یہ بہت گہرے گئے ہیں اور جو آپ کے بعد آپ کے فیوض حاصل کرنے والے تھے انہوں نے نے ولایت خاصہ کی وجہ سے وہ فیوض حاصل کئے اور میرے نزدیک اس کا فرق یہ ہے کہ ولایت عامہ میں چھوٹے بڑے ہر قسم کے فیوض شامل ہیں وہ عام فیوض ہیں اور چونکہ قرآن کریم ابھی پورا اور کامل نازل نہیں ہوا تھا اس لئے جن انبیاء علیہم السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے قبل آپ سے برکتیں حاصل کیں اور آپ کی لائی ہوئی کامل اور مکمل کتاب ہی سے ہدایت لی وہ اس ہدایت کا ایک حصہ تھا.کسی کو ایک حصہ ملا اور کسی کو دوسر املا کسی کو تھوڑ املا کسی کو بہت ملا مگر ملا قرآن کریم کا ہی حصہ جیسا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۲۱ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کہ قرآن کریم میں آتا ہے اُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الكِتب “ (ال عمران : ۲۴) آگے جا کر اگر مجھے وقت ملا تو تفصیل سے روشنی ڈالوں گا.بہر حال وہ ولایت عامہ ہے لیکن جس وقت آپ تشریف لے آئے اور الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي ( المايدة بم) کا ایک شیریں کلام اللہ تعالیٰ کی زبان سے بنی نوع انسان نے سنا تو یہ ممکن ہو گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض سے آپ کے بعد پیدا ہونے والے اور آپ میں فنا ہو کر وہ ان برکات کو حاصل کر سکتے ہیں.جو پہلوں کے لیے ممکن نہیں تھا کیونکہ پورا قرآن ان کے سامنے نہیں تھا اور جو پہلوں نے آپ کے کمالات سے حصہ لیا اور ظلی طور پر اللہ تعالیٰ کی برکتیں حاصل کیں وہ ولایت عامہ کے نیچے تھے کیونکہ میں نے بتایا ہے کہ ابھی قرآن پورا نازل نہیں ہوا تھا اور ان میں سب سے اوپر حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں جیسا کہ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور قرآن کریم کہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام میرے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں.معراج میں بھی آپ نے یہی دیکھا.وہ ولایت عامہ کی دنیا ہے.اب تو دنیا بھی دو ہوگئیں ایک حصہ کا تعلق ولایت عامہ کے ساتھ ہے جو قبل از بعثت نبوی کی دنیا ہے اور ایک حصہ کا تعلق ولایت خاصہ سے ہے جو بعد کی دنیا ہے.ولایت عامہ کی دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تر جو فرد ہوا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات ہے اور اسی کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ ساتویں آسمان پر دکھائی دیئے دوسرے وجود جو انبیاء کے تھے وہ ساتویں آسمان پر نہیں پہنچ سکے اور ولایت خاصہ میں یعنی اس دنیا میں ہی جس کا تعلق آپ کی بعثت کے بعد کے ساتھ ہے اس کے متعلق حضرت ابن عربی ” ہی فرماتے ہیں کہ آپ کے بعد ( ولایت خاصہ کا زمانہ شروع ہو گیا نا! ان کے محاورے کے مطابق...آپ کے مخصوص مقام کا نزول ہوا ( سارا قرآن آ گیا.پوری شان سے آپ ظاہر ہو گئے ) اور مستحق قرار دیا گیا کہ آپ کی ولایت خاصہ کی بھی انتہا ہو کہ یعنی کوئی ایسا شخص پیدا ہو جو ولایت خاصہ میں روحانی طور پر آپ کے قریب تر پہنچے اور آپ کے قرب میں بعد میں پیدا ہونے والوں میں سے اسے ارفع تر مقام حاصل ہو.یہ ابن عربی ” کہہ رہے ہیں یعنی یہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۲۲ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب میرا بیان نہیں.گو میں اس کی تائید میں ہی ہوں لیکن بیان محی الدین ابن عربی کا ہے اور پھر خیال ہوتا تھا یعنی انسان جب بات کرتا ہے تو خود ہی اس کے دماغ میں آتا ہے کہ پھر وہ کون ہے؟ کہ وہ ولایت خاصہ کی انتہاء تک پہنچنے والا کون انسان ہے؟ آپ فرماتے ہیں ولایت خاصہ کی بھی انتہا اس سے ہو کہ ہاں ) اُس سے ہو کہ جس کا نام آپ کے نام کی طرح ہو اور وہ مہدی ہے کہ جو آپ کی عترت سے ہے یعنی ( وہ مہدی جس کو مسیح) مهدی المنتظر (جس کا انتظار کیا جارہا ہے) اور یہ مہر یعنی انجام ( یعنی خاتم النبین میں بھی مہر ہے نا! تو یہ کہتے ہیں کہ یہ انجام ) آپ کی جنسی نسل سے ( تعلق نہیں رکھتا کہ فاطمہ میں سے وہ ہوگا ) بلکہ آپ کے صفات اور اخلاق کی نسل سے ہے.( ترجمہ فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحہ۵۵،۵۶) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جیسا کہ میں نے انصار اللہ کے اجتماع پر ایک مضمون کے ضمن میں بتایا تھا.فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقدر کیا تھا کہ موسوی خلفاء کی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کے درمیان بارہ خلفاء ہوں جن کا تعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے ہو اور تیرھواں وہ ہو جو بن باپ ہونے کی وجہ سے آپ کی قوم کی طرف منسوب نہ ہو سکتا ہو.اسی طرح امت محمدیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مقدر تھا کہ اس سلسلہ کے بارہ خلفاء، بارہ مجددین قریش میں سے ہوں اور تیرھواں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہ ہو جو خون کے رشتہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق نہ رکھتا ہو.یہ بھی تعلق ہے کیونکہ آپ نے فرمایا ہے میں اور وہ دونوں ایک ہیں.محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ وہ ایک خونی رشتہ کی وجہ سے نہیں بلکہ صفاتی اور اخلاقی رشتہ کی وجہ سے وہ دونوں ایک ہو گئے ہیں جو صفات تمہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نظر آتی ہیں اور جو خلق عظیم تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں مشاہدہ کرتے ہوا بن عربی کہتے ہیں کہ وہی صفات اور وہی خلق تم مهدی المنتظر میں مشاہدہ کہ گے جو ہمارے لیے ظاہر ہو گیا اور ان صفات کا ہم نے مشاہدہ کیا.اسی طرح امیر خسرو کہتے ہیں کہ: حضرت نبی کہ بنائے ہر دو عالم.از نور نبوت اوست - و نبوت آدم از نبوت او ( مثنوی مطلع الانوار صفحه ۱۷)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۲۳ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کہ ہر دو جہانوں کی بناء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نبوت سے ہے (لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الَّا فَلاک) اور حضرت آدم کی نبوت بھی اور بعد میں آنے والے انبیاء کی نبوت بھی آپ ہی کی نبوت کے طفیل ہے.پھر حضرت مجددالف ثانی تحریر فرماتے ہیں کہ : کائنات عالم کی تخلیق کا مقصد خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.دوسرے انبیاء" اپنے وجود اور کمالات کے حصول میں آپ کے طفیلی ہیں اور آپ ہی کی پیروی سے بلند مرتبوں تک ان کی رسائی ہوئی ہے اس لئے قیامت کے دن حضرت آدم اور دیگر تمام انبیاء، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ہوں گے.“ ( ترجمہ مکتوبات امام ربانی جلد اصفحہ ۴۲۵) اسی طرح حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی جو دارالعلوم دیو بند کے بانی اور مشہور مناظر ہیں.جن کی وفات ۱۸۸۰ء میں ہوئی وہ لکھتے ہیں :.جملہ کمالات میں خاتم الانبیاء کو اصل اور مصدر ماننا لا زم ہے جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ عالم امکان کمالات علمی ہوں یا کمالات عملی دونوں میں خاتم الانبیاء اصل اور مصدر ہیں اور سوا اس کے جو کوئی کچھ کمالات رکھتا ہے وہ دریوزہ گر خاتم الانبیاء ہے“ (رساله قبله نما صفحه ۲۴ بحوالہ افادات قاسمیه ) ارشادات فریدی میں ہے یعنی حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والے فرماتے ہیں کہ:.( وہی ولایت عامہ اور خاصہ کا ایک ٹکڑا میں نے ان کا لیا ہے.اسی کی طرف مفہوم کا 66 بیان ہے کہ ) حضرت آدم صفی اللہ سے خاتم الولا یہ امام مہدی تک ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ظہور فرما ہیں.“ ( ترجمہ ارشادات فریدی حصہ دوم صفحه ۱۱۲۱۱۱) میں اس وقت یہ بیان کر رہا ہوں کہ یہ جو حدیث ہے نا! کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں اپنی پوری حقیقت کے ساتھ اس وقت بھی موجود تھا کہ ابھی پیدائش عالم بھی نہیں ہوئی تھی.مختلف الفاظ میں یہ مفہوم ادا ہوا ہے.ایک تو روایت کے لحاظ سے یہ اتنی پختہ ہے کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا دوسری درایت کے لحاظ سے بڑی پختہ ہے بزرگ علماء نے اسے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۲۴ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب بیان کیا ہے انہوں نے اس حدیث کو اپنا لیا ہے.میں صرف یہاں تک ہی آیا ہوں کہ علمائے اسلام کے نزدیک اس حدیث میں کوئی کلام نہیں کہ واقعہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آدم کی پیدائش سے پہلے بلکہ کائنات کی پیدائش سے بھی پہلے میں خاتم النبین تھا انسان کامل تھا، حقیقی معنوں میں اشرف المخلوقات میں ہی تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ہمیں یہی بتایا ہے.آپ فرماتے ہیں :.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے اس مضمون کے اب میں پڑھوں گا ایک اور شہادت کہ یہ حدیث پڑے پایہ کی ہے ) بلا شبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے (غلط نہی پیدا ہوسکتی تھی آدم ثانی میں تو آپ نے وضاحت فرما دی ) بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسان فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قو تیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بارو بر نہ رہی اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانہ کے تأخر کی وجہ سے ہوا؟ بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہو گئے اور چونکہ آپ صفات الہیہ کے مظہر اتم تھے اس لئے آپ کی شریعت صفات جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی اور آپ کے دو نام محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی غرض سے ہیں اور آپ کی نبوت عامہ میں کوئی بخل کا نہیں بلکہ وہ ابتداء سے (یعنی آدم سے لے کر ) تمام دنیا کے لئے ہے.لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۰۷) اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ :." قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لتُؤْمِنُ بِهِ وَ لَتَنْصُرُنَّهُ پس اس طرح انبیاء علیہم السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہوئے.“ ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۰۰) که قرآن کریم کے متعلق یعنی آپ کی قوت قدسیہ یہ تھوڑی سی میں وضاحت کر دوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ کامل قو تیں اور طاقتیں اور استعداد میں موجود تھیں جو انسان کو اس ارفع مقام تک جس ارفع مقام تک کسی اور انسان کا پہنچنا ممکن نہیں پہنچا سکتی تھیں.ان قوتوں اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۲۵ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب طاقتوں اور استعدادوں کی تربیت کے لئے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا قانون ہمیں حضرت آدم کے آغاز سے ہی نظر آتا ہے ایک ایسی شریعت کی ضرورت تھی جو اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہو اور انسانی فطرت کی ہر شاخ کو سر سبز رکھنے کے قابل اور اہل ہو.پس قرآن کریم وہ کامل شریعت ہے کہ معنوی لحاظ سے قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہم فرق نہیں کر سکتے جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے جب پوچھا گیا کہ آپ کے اخلاق کیسے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ قرآن پڑھ لو یعنی ایک تو علم ہدایت اور شریعت ہے اور ایک عمل ہے اور سنت ہے اور اسوہ ہے ایک ہی چیز کے دراصل دو نام ہیں.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل قوت و استعداد کو اپنے کمال تک پہنچانے کے.قرآن کریم کی کامل شریعت نازل ہوئی اور قرآن کریم نازل نہ ہو سکتا اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کامل وجود دنیا میں نہ ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کوئی کام بے فائدہ اور بے مقصد تو نہیں کیا کرتا.اگر کسی شخص نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے دومنزلہ مکان کی چھت پر ہی چڑھنا ہے اور اس نے خود وہ مکان بنایا ہے تو وہ اپنے مکان کی تیسری منزل نہیں بنائے گا کیونکہ اس کی اسے ضرورت نہیں تو جب انسان اس قسم کی لغو اور بے مقصد بات نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کس طرح کر سکتا ہے جو حکیم ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہ مقصد جو حاصل کرنا تھا تو اس کے لئے اس نے قرآن کریم کو بنایا اور چونکہ ایک نوع ایسی پیدا کی تھی جو ان صفات کی مظہر ہوا اور انہوں نے (اس نوع انسانی نے ) درجہ بدرجہ ترقی کر کے ایک ایسے زمانہ میں داخل ہونا تھا جس میں ایک انسان ایسی استعداد اور قابلیت پیدا کر سکتا ہے جو کمال کو حاصل کرلے اور اس زمانہ میں اسے وہ کتاب بھی دے دی جائے جو اسے کمال تک پہنچا دے تو کتاب دے دی گئی.ضمنا یہ میں ایک بات کی تشریح کر دیتا ہوں اور وہ یہ.کہ جہاں تک فلسفہ اور علم کا تعلق ہے ایک ایسے زمانہ میں انسان داخل ہوا جس میں اس کے لئے کمال استعداد کا حصول ممکن ہو گیا اور ان استعدادوں کی کمال تربیت کا موقع میسر آ گیا لیکن ایک ہی شخص نکلا جس میں اتنی ہمت اور طاقت تھی کہ وہ اپنی استعدادوں کو اُجاگر کرتا اور منور اور روشن کرتا اور قرآن کریم کی ہدایتوں پر عمل کر کے خود قرآن مجسم بن جاتا.اگر باقیوں سے وہ آگے نکلا تو یہ اس کی اپنی ہمت اور شان ہے اللہ تعالیٰ نے زبردستی نہیں بٹھایا بلکہ ایک زمانہ انسان کے لئے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۲۶ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب ایسا آگیا کہ جس میں اس کی استعداد میں کمال تک پہنچ گئیں.اس زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسا وجود پیدا ہوا کہ جنہوں نے اپنی کمال استعدادوں اور انسان کو سچی اور پورے طور پر جو طاقتیں مل سکتی تھیں جو آپ کو ملیں ان کی صحیح تربیت کی اور آپ ارفع تر مقام کو پہنچ گئے.چونکہ پہلے زمانوں میں اپنی استعداد کے دائرہ کے اندر جس حد تک وہ زمانہ اور قوم ترقی کر سکتی تھی اتنا قرآن خدا تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں پکڑا دیا.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض ماضی میں جیسا کہ ایسا ہی ہمیں مستقبل میں نظر آتا ہے قرآن کریم کی Chanals میں سے قرآن کریم کی نہروں میں سے پیچھے جا کے ان لوگوں تک پہنچے ہیں.اس کی وضاحت جو ہماری عقل میں پوری بات سمجھ میں آجاتی ہے.وہ میں انشاء اللہ آگے بیان کروں گا.اس وقت صرف اتنا بیان کر دیتا ہوں کہ قرآن کریم جو انسان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا اور قرآن کریم کے طفیل پہلوں نے اپنی اپنی ہدا یتیں حاصل کیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.در حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.“ اسی طرح آپ فرماتے ہیں:.کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۶) اور قرآن جو تمام آسمانی کتابوں کا آدم اور جمیع معارف صحف سابقہ کا جامع تھا اور مظہر جمیع صفات الہیہ تھا.“ ( تحفہ گولڑ و سید روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۲۵۸) لیکن جو قرآن ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک وہ یہ ہے کہ قرآن جو تمام آسمانی کتابوں کا آدم تمام آسمانی کتابوں کی پیدائش قرآن کریم سے ہوئی کیونکہ وہ اس کا ہ ہے اور صحف سابقہ جتنے بھی ہیں ان میں جس قدر معارف پائے جاتے ہیں ان کا جامع ہے وہ اس کے اندر موجود ہیں وہ سارے معارف اس کے اندر جمع ہو گئے اور یہ اس لئے کہ قرآن کریم تمام صفات الہیہ کو بیان کرنے والا ہے.جمیع صفات الہیہ کا اپنے بیان میں مظہر ہے.قرآن کریم نے جس قدر روشنی صفات باری تعالیٰ پر ڈالی ہے کسی اور آسمانی کتاب نے تو نہیں ڈالی.قرآن کریم نے جس رنگ میں اللہ کو پیش کیا ہے اس رنگ میں اللہ کو بھی پہلوں نے پیش نہیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۲۷ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کیا.پھر اسم ذات اللہ وہ وجود جو تجمع جمیع صفات کا ملہ حسنہ، یہ ایک لفظ میں پہلی کتابوں نے ہمیں نہیں بتایا کہ ہمارا پیدا کرنے والا کس شان کا ہے ہمیں قرآن کریم نے ہی بتایا.قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی ہر اس صفت کا بیان کیا ہے جس کا تعلق ہماری ذات ہماری ترقی سے، ہمارے روحانی ارتقاء سے، ہمارے قرب کے حصول سے تعلق ہے ، صراط مستقیم پورے کا پورا ہمارے سامنے اپنی پوری چمک اور پوری روشنی کے ساتھ لا کر رکھ دیا اور کہا یہ راستہ ہے.تمہیں طاقت دی گئی ہے لیکن تمہیں اختیار بھی دیا گیا ہے چاہو تو اس راہ کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتوں کو حاصل کر لو اور اگر چاہو تو خدا سے منہ موڑو اور اندھیروں کی طرف چلے جاؤ.رحمت سے بھی محروم ہو جاؤ اور اپنا وجود بھی کھو بیٹھو.اندھیرے میں تو انسان کو اپنا ہاتھ بھی نظر نہیں آتا.بہر حال قرآن کریم آدم ہے تمام آسمانی کتابوں کا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل جس قدر شرائع ( شریعتیں) نازل ہوئیں ان سب کا آدم قرآن ہے کیونکہ وہ قرآن کریم کا ہی ایک حصہ ہیں اور قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس میں اللہ اور اس کی تمام صفات کا ملہ حسنہ کا ذکر ہے مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر خدائے رحمن کا جلوہ نازل ہوا اور اسی وجہ سے وہ اسلام پر بہت سے اعتراض کر دیتے ہیں لیکن صفت رحمانیت کا جو اصل مفہوم اور معنے ہیں اور قرآن کریم نے بیان کیا ہے بنی اسرائیل اس سے نا آشنا ہیں اور اسے سمجھتے ہی نہیں لیکن قرآن تمام کی تمام صفات الہیہ کا مظہر ہے اور اسی وجہ سے یہ پہلے صحف آسمانی کا آدم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.” ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے.پس وہ موسی" بھی ہے عیسی بھی اور آدم بھی اور ابراہیم بھی اور یوسٹ بھی اور یعقوب بھی.اسی کی طرف اللہ جل شانه اشارہ فرماتا ہے.فَبِهُدُهُمُ اقْتَدِهُ یعنی اے رسول اللہ تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کر لے جو ہر ایک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا.پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شانیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں شامل تھیں اور در حقیقت محمد کا نام صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ محمد کے یہ معنے ہیں کہ بغایت تعریف کیا گیا اور غایت درجہ کی تعریف تبھی متصور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۲۸ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اور صفات خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں ( یعنی ہر نبی میں جو اپنی اپنی خاص صفات اور شان تھی ان سب کو اپنے وجود میں اکٹھا کر لیا کیونکہ وہ شانیں دراصل ایک عکس ایک ریفلیکشن (Reflection) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا ہی تھا.چنانچہ قرآن کریم کی بہت سی آیتیں جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے اسی پر دلالت کرتی بلکہ بصراحت بتلاتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک باعتبار اپنی صفات اور کمالات کے مجموعہ انبیاء تھی ( یہ ایک ایسا منبع ہے جس میں سے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی نکل آیا.) اور ہر یک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسبت پا کر یہی خیال کیا کہ میرے نام پر وہ آنے والا ہے اور قرآن کریم ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ ابراہیم سے مناسبت رکھنے والا یہ نبی ہے اور بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری مسیح سے بہ شدت مناسبت ہے ( جیسا کہ اب میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں ابن عربی نے کہا ہے کہ ولایت خاصہ کا کمال مہدی جس کا انتظار کیا جارہا ہے اس کے وجود میں ظاہر ہوگا.تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ہی کہا ہے کہ میری اور مسیح کی بہ شدت مناسبت ہے.) اور اس کے وجود سے میرا اوجود ملا ہوا ہے.(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفه ۳۴۳) پھر آپ فرماتے ہیں: ” ہمارے سید و مولیٰ جناب مقدس خاتم الانبیاء کی نسبت صرف حضرت مسیح نے ہی بیان نہیں کیا کہ آنجناب کا دنیا میں تشریف لانا در حقیقت خدائے تعالیٰ کا ظہور فرمانا ہے ( یعنی بوجہ مظہر اتم الوہیت یعنی اللہ کا مظہر اتم ، تمام صفات باری کے مظہر اتم ہونے کی وجہ سے تمثیلی زبان میں پہلے صحیفوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کو اللہ تعالیٰ کا ظہور ہی قرار دیا ہے.ناقل ) بلکہ اس طرز کا کلام دوسرے نبیوں نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اپنی اپنی پیشگوئیوں میں بیان کیا ہے اور استعارہ کے طور پر آنجناب کے ظہور کو خدا تعالیٰ کا ظہور قرار دیا ہے بلکہ بوجہ خدائی کے مظہر اتم ہونے کے آنجناب کو خدا کر کے پکارا ہے ( اب چونکہ وقت کم ہے میں نے پورا حوالہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لکھا وو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ----- ۳۲۹ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب ہے وہ نہیں پڑھوں گا.یہ مضمون انشاء اللہ جب بھی کتابی صورت میں چھپا تو پورا حوالہ آ جائے گا میں پھر یہ فقرے دے دوں گا.) چنانچہ حضرت داؤد کے زبور میں لکھا ہے...اے خدا تیر اتخنت ابد الآباد ہے تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے تو نے صدق سے دوستی اور شر سے دشمنی کی ہے اسی لئے خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطر کیا ہے.(دیکھوز بور نمبر ۴۵) توضیح مرام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۵ ، ۶۶ حاشیه ) اب حضرت داؤد علیہ السلام کی اس عبارت میں کہ اے خدا تیرا تخت ابد الآباد ہے میں جو یہ معنے ہیں کہ اس کے مخاطب اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے خدا تعالیٰ نے کافی ثبوت مہیا کر دیا.کیونکہ شروع کیا اس فقرہ سے کہ اے خدا تیرا تخت ابد الآباد ہے اور بعد میں یہ کہہ دیا ایک فقرہ چھوڑ کے اسی لئے خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطر کیا.معلوم ہوا کہ پہلا خدا کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں بولا گیا کیونکہ خدا نے خدا کو معطر تو نہیں نا کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں) اب جاننا چاہئے کہ زبور کا یہ فقرہ کہ اے خدا تیر اتخنت ابد الآباد ہے تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے یہ محض بطور استعارہ ہے جس سے غرض یہ ہے کہ جو روحانی طور پر شان محمد ی ہے اس کو ظاہر کر دیا جائے پھر یسعیاہ نبی کی کتاب میں بھی ایسا ہی لکھا ہے چنانچہ اس کی عبارت یہ ہے.”دیکھو میرا بندہ جسے میں سنبھالوں گا میرا برگزیدہ جس سے میراجی راضی ہے میں نے اپنی روح اس پر رکھی (روح القدس سے مدد کی.وہ قوموں پر راستی ظاہر کرے گا.(رحمۃ العالمین بن کر آئے گا.وہ نہ چلائے اور اپنی صدا بلند نہ کرے گا اور اپنی آواز بازاروں میں نہ سنائے گا ( آگے چلتا ہے ) پھر آپ لکھتے ہیں.وہ نہ گھٹے گا نہ تھکے گا جب تک کہ راستی کو زمین پر قائم نہ کرے اور جزیرے اس کی شریعت کے منتظر ہو وہیں...(مظہر اتم ہونے کی وجہ سے آپ کا ظہور خدا کا ظہور قرار دیا گیا اور لکھتے ہیں.) خداوند خدا ایک بہادر کی مانند نکلے گا.وہ جنگی مرد کی مانند اپنی غیرت کو اسکائے گا.الخ.اب جاننا چاہئے کہ یہ فقرہ کہ خدا وندخدا ایک
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۳۰ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب بہادر کی مانند نکلے گا یہ بھی بطور استعارہ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پر ہیبت ظہور کا اظہار کر رہا ہے.دیکھ یسعیاہ نبی کی کتاب باب بیالیس اور ایسا ہی اور کئی نبیوں نے بھی اس 66 استعارہ کو اپنی پیشگوئیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں استعمال کیا ہے.“ توضیح مرام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۶، ۶۷) حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی تک جتنے انبیاء بھی گذرے ہیں جن کی کتب وغیرہ کا ہمیں اس وقت کچھ نہ کچھ علم ہے کلی طور پر وہ منسوخ نہیں ہو گئیں اور انسانی تاریخ اور انسانی ذہن سے محو نہیں کر دی گئیں ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ہے اور اکثر میں اسی رنگ میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ آپ کا آنا خدا کا آنا قرار دیا گیا ہے.حضرت آدم علیہ السلام سے سلسلہ نبوت شروع ہوا لیکن اس زمانہ کا کوئی لٹریچر نہیں ایک لفظ ہی محفوظ نہیں.اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ بعض باتیں حضرت آدم علیہ السلام سے تعلق رکھنے والی انبیاء کی زبان سے محفوظ رکھیں اور جب کتابیں شائع ہونی شروع ہو گئیں تو وہ کتابوں میں محفوظ کر دی گئیں.پھر میرے دل جب یہ شوق پیدا ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی گواہی بھی.چاہئے.اب دراصل میں ایک اور شہادت پر آچکا ہوں.پہلے روایت کی شہادت تھی پھر درایت کی شہادت نمبر ایک علمائے اسلام کی شہادت کہ وہ حدیث صحیح ہے.اس کے بعد آگئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شہادت.پھر اب آگئی ہے انبیاء سابقہ کی شہادت کہ انہوں نے بھی اس مفہوم کو درست سمجھا ہے اور اسے بیان کیا ہے اور محفوظ رکھا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ وہ محفوظ ہو گئی تو جب میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اگر حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کی شہادت ہمیں مل جائے حضرت عیسی کی تو مل جائے گی.تو پہلے نبی کی بھی مل جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء گذر ہیں تو صفائی ہو جائے گی.سارے انبیاء کا طریق یہ رہا ہے جیسا کہ ہمیں اوروں کی بھی ملی.اس سلسلہ میں حضرت آدم علیہ السلام کی شہادت انبیاء کے سینوں میں محفوظ رکھی اور حضرت میٹی کے ذریعہ کتابی شکل میں اسے محفوظ کر دیا چنانچہ انجیل میں جو برنباس کی انجیل ہے.اب ہمارے عیسائی دوست گھبراتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق بحث
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۳۱ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کی ہے کہ تم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ یہ ان انا جیل میں سے ہے جو سچی ہیں اور جن کے اندر حقائق پائے جاتے ہیں.دراصل یہ دوسروں سے بھی زیادہ بچی ہے لیکن ایک وقت میں جب بگاڑ پیدا ہو گیا تو سچی شہادت چھپا لیتے ہیں.جس طرح انہوں نے اپنی آیتیں غائب کر لیں جس طرح بعض دفعہ مخالف جو ہے ایک دوسرے مذہب کے مخالف جن میں روحانیت نہیں ہوتی بعض حوالے بدل دیتے ہیں ٹائیٹل پیج کے لفظ بدل دیئے اس قسم کی حرکت یہ عام طور پر کرتے رہتے ہیں.یہ انسان کی غفلت اور جہالت کا ایک مظاہرہ ہے.یہ ہوتا رہتا ہے تو کوئی ایسا وقت آیا کہ انہوں نے اس برنباس کی انجیل کے خلاف باتیں بنانی شروع کر دیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی تحدی سے کہا اور آپ نے کتابوں سے ثبوت دیا ہے.نمبرا کہ یہ کتاب ہے جو تمہارے پوپ کی لائبریری میں ہمیشہ رہی ہے.اب اگر یہ اس قسم کی لغو اور لا یعنی کتاب ہوتی تو پوپ کی لائبریری میں کیوں ہوتی.نمبر ۲.یہ وہ کتاب ہے جس کے متعلق بڑے بڑے پادریوں نے لکھا کہ ہم نے سنا تھا کہ ایسی کوئی کتاب ہے اتفاقا پوپ کی لائبریری میں اسے دیکھنے کا ہمیں موقع ملا اور جب ہم نے اسے پڑھا تو قرآن کی حقانیت ہم پر واضح ہوگئی اور ہم مسلمان ہو گئے.خیر آپ نے بڑی لمبی بحث کی ہے میں مختصر کر کے صرف اشارہ کر کے لمبی بحث نہیں کروں گا.اس انجیل میں اس مضمون کی جو حدیث ہے اس کے متعلق حضرت آدم علیہ السلام کی گواہی ہمیں ملتی ہے کہ: پس جب کہ آدم اپنے پیروں پر کھڑا ہوا ( میں سمجھتا ہوں کہ اس کا محاورہ یہ ہے کہ بلوغت کو پہنچا.یعنی نبوت انہیں ملی.یہ نہیں کہ ڈیڑھ سال کا بچہ چلنا شروع ہوا یعنی آدم اپنی نبوت کے قدموں پر کھڑا ہوا یعنی روحانی بلوغت کو پہنچا ) اس نے آسمان میں ایک تحریر سورج کی طرح چمکتی دیکھی جس کی عبارت تھی لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ.تب آدم نے اپنا منہ کھولا اور کہا میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اے میرے پروردگار اللہ کیونکہ تو نے مہربانی کی پس مجھ کو پیدا کیا لیکن میں تیری منت کرتا ہوں کہ تو مجھے خبر دے کہ ان کلمات کے کیا معنے ہیں مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ.تب اللہ تعالیٰ نے جواب دیا مرحبا ہے تجھ کو اے میرے بندے آدم اور میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تو پہلا انسان ہے جس کو میں نے پیدا کیا ( یعنی جس غرض
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۳۲ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کے لئے انسان پیدا کیا گیا تا کہ صفات باری کا مظہر بنے.جس کے اوپر یہ مہرلگی کہ واقعی یہ انسان یعنی ایسے مظہر ہیں جو دنیا کے سامنے پیش کئے جانے کے قابل ہیں) اور یہ شخص جس کو تو نے دیکھا ہے تیرا ہی بیٹا ہے جو کہ اس وقت کے بہت سے سال بعد دنیا میں آئے گا اور وہ میرا ایسا رسول ہو گا کہ اس کے لئے میں نے سب چیزوں کو پیدا کیا ہے (لولاک لما خلقت الافلاک ) وہ رسول کہ جب آئے گا دنیا کو ایک روشنی بخشے گا ( ایک قوم ایک زمانہ کے لئے نہیں ہوگا) وہ نبی ہے کہ اس کی روح ایک آسمانی روشنی میں ساٹھ ہزار سال قبل اس کے رکھی گئی تھی کہ میں کسی چیز کو پیدا کروں“ (انجیل برنباس کا ترجمہ مطبوعہ ۱۹۱۶ طبع دوم صفحه ۶ فصل انتالیسویں آیت ۱۴ تا۲۲) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اور یہ وہ برکت ہے جو موسیٰ مرد خدا نے اپنے مرنے سے آگے بنی اسرائیل کو بخشی اور اس نے کہا (یعنی یہ خوشخبری دی کہ میں جسمانی طور پر تم سے جدا ہورہا ہوں اور میرا زمانہ نبوت ابھی وقتی اور عارضی ہے وہ جو جدا ہو جائے گالیکن میں تمہیں ایک برکت بخش جاتا ہوں ) کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے دھنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی، (استثناء باب ۳۳ آیت ۲۱ بائیل مطبوعه۱۸۷۰ء شائع کردہ نارتھ انڈیا بیل سوسائٹی مرزا پور ) اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس پیشگوئی کو بھی لے کر اس پر تفصیلی تنقید کی ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ تو رات ہمیں بتاتی ہے کہ فاران مکہ کا پہاڑ ہے اور وہ جو فاران ہی کے پہاڑ سے جلوہ گر ہوا سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور پر یہ فقرہ لگتا نہیں.اور خداوند سینا سے آیا اس کا مطلب یہ ہے کہ فاران کے پہاڑ پر جو اللہ تعالیٰ کا جلوہ ظاہر ہوا ہے وہ اپنے کمال کو پہنچا ہوا تھا اس قدر کمال کو کہ اس جلوے کی وجہ سے جس ہستی نے اس کے اس جلوے کو قبول کیا اور اس روشنی کو اس دنیا میں پھیلایا بوجہ مظہر اتم الوہیت کے ہونے کے اس کا آنا خدا کا آنا ہی قرار دیا جا سکتا ہے اسی واسطے فرمایا خداوند سینا سے آیا.حضرت داؤد علیہ السلام نے بشارت دی:
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۳۳ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب میں تیرا شکر کروں گا کیونکہ تو نے مجھے جواب دیا اور خود میری نجات بنا ہے جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے یہ وہی دن ہے ( کل میں نے بتایا تھا نا کہ عید کا دن شروع ہو گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ.جسے خداوند مقرر کیا ہم اس میں شادمان ہوں گے اور (زبور باب ۱۱۸ آیت ۱۲ تا ۲۴) خوشی منائیں گے.“ اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ کہہ کر تاکید کی : اس کا منہ شرینی ہے ہاں وہ سرا پا محمد یم ہے اے پر شلم کی بیٹیو: “ حضرت حبقوق نبی نے یہ پیشگوئی کی: (غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۶) خدا تیمان سے آیا اور قدوس کوہ فاران سے.سلاہ: ( یعنی وہ قدوس کوہ فاران سے آئے گا.انہوں نے دیکھا کہ یہ ہو گیا ہے غالباً کشف میں آپ کو بتایا گیا ) اس کا جلال آسمان پر چھا گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوگئی ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُوْرِهِ كَمِشْكُورٍ - مَثَلُ نُورِهِ میں کی ضمیر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرتی ہے.جس طرح خدا نور ہے وہ بھی نور تھا) اس کے ہاتھ سے کر نہیں نکلتی تھیں ( قرآن کریم مجسم نور ہے تین مختلف جگہوں کے شعر میں نے اسی لئے ہی پڑھوائے تھے کہ وہ مضمون کو Cover کرتے تھے.) اور اس میں اس کی قدرت نہاں تھی جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اور بعد میں بھی آپ کی ظلیت میں اللہ کی قدرت کے جلوے انسان نے ظلی انسانوں میں دیکھے ) وہ اس کے آگے آگے چلتی تھی ( یعنی حوادث زمانہ اس کی خدمت میں لگی ہوئی تھیں جب ) وہ کھڑا ہوا اور زمین تھرا گئی اس نے نگاہ کی اور قو میں پراگندہ ہوگئیں (یہ قرآن کریم کی ساری پیشگوئیاں ہیں جن کے متعلق یہاں اشارے ہیں ) از لی پہاڑ پارہ پارہ ہو گئے قدیم ٹیلے جھک گئے (اب یہ ہے اس کی شان ) اس کی راہیں ازلی ہیں ( یعنی جس دن سے وہ مبعوث ہو گا اس دن سے اس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۳۴ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کی برکتیں شروع نہیں ہو گئیں بلکہ اس کی راہیں ازلی ہیں ) ( حبقوق باب ۳ آیت ۴۰۳) اسی برنباس کی انجیل میں حضرت یسوع کے منہ سے یعنی ان کی یہ شہادت بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے سوال کے جواب میں کہا: تحقیق خدا کی نشانیاں جو اللہ میرے ہاتھ سے نمایاں کرتا وہ ظاہر کرتی ہیں کہ میں وہی کہتا ہوں جو خدا کا ارادہ ہوتا ہے ( میں اپنی طرف سے نہیں کرتا جو اللہ نے کہا ہے وہ میں تمہیں پہنچا رہا ہوں اور جو اللہ نے کہا ہے وہ کیا ہے یہ ہے کہ ) اور میں اپنے آپ کو اس کا مانند شمار نہیں کرتا جس کی نسبت تم کہہ رہے ہو ( کہ تو وہی ہے یعنی خیال کیا جس کا ہم انتظار کر رہے تھے سارے انبیاء نے اس کی پیشگوئی کی ہوئی تھی تو یسوع نے جواب دیا کہ میں اپنے آپ کو اس کا مانند نہیں شمار کرتا جس کی نسبت تم کہ رہے ہو ) کیونکہ میں اس کے لائق بھی نہیں ہوں کہ اس رسول اللہ کے جوتے کے بند یا نعلین کے تسمے کھولوں جس کو تم مستیا کہتے ہو وہ جو کہ (اب یہ فقرہ بھی وہی ہے لو لاک لما خلقت الافلاک اور وہ حدیث جو ہے ) میرے پہلے پیدا کیا گیا اور اب میرے بعد آئے گا اور وہ بہت کلام حق کے ساتھ آئے گا اور اس کے دین کی کوئی انتہاء نہ ہوگی.“ (انجیل برنباس کا اردو تر جمه بیالیسویں فصل صفحه ۶۶ آیت ۱۳ تا ۱۷) اور بھی حوالے ہیں.وقت تنگ ہے میں یہ سمجھتا ہوں تھا کہ اس بات کو ذہن نشین کرنا بڑا ضروری ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عظیم دعویٰ ہے کہ میں خاتم النبین ، انسان کامل اور اشرف المخلوقات پیدائش کا ئنات سے بھی پہلے تھا.یہ محض ایسا دعوی نہیں جو کسی نے آپ کی طرف منسوب کر دیا ہو.چنانچہ خود راوی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا وہ معتبر اور ثقہ اور پھر جتنا سلسلہ روایت ہے وہ ضعیف نہیں.پھر علمائے اسلام نے اس حدیث کو سچا سمجھا اور بعض حقائق کے بیان کے لئے اسے بنیاد بنایا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو دنیا میں اشاعت ہدایت قرآن کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے.انہوں نے بھی قرآن کریم کی روشنی میں اس حدیث کا وہی مفہوم سمجھا جو ایک سمجھنے والا سمجھ سکتا ہے اور اس کی کوئی تعبیر نہیں کی.یہ ایک اور شہادت ہے اور سب کے آخر میں میں نے پہلے انبیاء علیہم السلام کی شہادت پیش کی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کا علم دیا جاتا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۳۵ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب رہا کہ میں نے اس ساری کائنات کو مد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیدا کیا ہے یعنی ایک ایسا وجود جو میرا ( یعنی اللہ تعالیٰ کا مظہر اتم بنے.جس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا ملہ کا کامل اور مکمل طور پر وہ مظہر ہو اور چونکہ وہ نبی پیدا ہونا ہے اس واسطے ان جسمانی ذہنی اخلاقی اور روحانی استعدادوں کو کمال تک پہنچانے کے لئے جس کا ئنات کی ضرورت تھی وہ کائنات میں نے پیدا کی.وہ چیزیں پیدا کیں.تو سورج کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ اس زمین میں ایسے اثرات پیدا کرے کہ جس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی قوتوں کو ایک طاقت ملے.اب میں تھوڑ اسا بیان کر دیتا ہوں.عام طور پر آپ کے دماغ میں یہ خیال آئے گا کہ ٹھیک ہے انسان جو پہلے ہوئے انہوں نے حصہ لیا.افضل الرسل اور انسان کامل اور خاتم النبیین سورج کی کیا ضرورت تھی؟ تو میں نے بتایا کہ اس سلسلہ پیدائش میں ایک سلسلہ تدریجی ارتقاء کا چل رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں یہ نقطہ سکھایا ہے کہ کھانے پینے کا اخلاق پر بڑا اثر ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی اور دوسری جگہ آپ نے بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ ہماری غذا ہمارے اخلاق پر اثر انداز ہو رہی ہے.تو بہترین اخلاق جس میں انسانی جو روح ہے اور اس روح میں اخلاق اور اس جسم میں ان اخلاق کے نبھانے کی طاقت پیدا ہونے کے لئے ضرور تھا کہ اس کے مطابق بہترین غذا ملے اور غذا مادی دنیا سے تعلق رکھتی ہے.اسی طرح میں نے بات سمجھنے کے لئے چھوٹی سی مثال دی ہے.تو ہر چیز اس لئے پیدا کی گئی ہے کہ جہاں تک مادی دنیا کا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بہترین شکل میں دنیا پر ظاہر ہوں.تو انبیاء علیہم السلام میں بھی جو پہلے گذرے انہوں نے بھی یہ شہادت دی.جو آپ کے بہ اس امت کے بزرگ گذرے اور ہمارے نزدیک جن کے سر دفتر اور سردار حضرت مسیح موعود بعد و مہدی معہود ہیں.انہوں نے یہ گواہی دی کہ یہ دعویٰ صحیح ہے کہ پیدائش عالم کی علت محمد رسول ا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ یہ مقام جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا کہ روحانی طور پر تمام برکات کا افاضہ کرنے والے، اور ہر غیر وہ موسیٰ ہو یا عیسی یا آدم یا ابراہیم یا نوح علیہم السلام، روحانی طور پر سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھیک مانگ کر روحانی رفعتوں کو حاصل کرنے والے ہیں اور جو مادی مخلوق ہے اس میں بھی ہر خلق میں چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ٣٣٦ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب سے بڑی میں اللہ تعالیٰ کی جس صفت کا جس قدر جلوہ ہمیں نظر آتا ہے وہ صرف اس لئے ہے کہ اس جلوہ کے نتیجہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بلند ہو.تو یہ دعویٰ تو بڑی وضاحت کے ساتھ اور بڑی پختگی کے ساتھ ثابت ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدائش عالم کی وجہ بنے ہیں اور آپ اشرف المخلوقات اور انسان کامل اور خاتم النبیین ہیں.بعض لوگ غلطی کر جاتے ہیں ایک جگہ میں نے لکھا ہوا دیکھا ہے کہ کسی شخص نے اپنی نادانی میں یہ لکھ دیا کہ اصل تو سورج ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظلمی اور اعزازی طور پر سراج منیر کا نام دے دیا گیا ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے جیسا کہ میں نے اب بڑی وضاحت سے بیان کر دیا ہے کہ اصل سراج منیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.ہماری دنیا کا یہی ایک سورج نہیں دنیا کے لاکھوں کروڑوں سورج اظلال محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ نور نہ لیتے تو ساری دنیا اور فضاء میں اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا.اب یا تو میں یہاں ختم کر دوں اور پھر اگلے سال یہ مضمون چلے اور یا میں اس کو مختصراً بیان کر دوں ویسے سارا مضمون تو اس سال بیان نہیں ہوسکتا اور پھر اگلے سال بھی چلے.میں مختصر بیان کر دیتا ہوں.اگلا سوال ہے ، وہ بھی بڑا اہم ہے ایک سوال تو مجھے یقین ہے آپ میں سے سب نے ہی اس مسئلہ کو سمجھ لیا ہو گا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو نبوت کا دروازہ بند، انسان کی تخلیق ناممکن ، کائنات کا وجود ہی نہ ہوتا کچھ بھی نہ ہوتا.یہ ہمارے علم کے مطابق ہے.خدا تعالیٰ کی صفات تو نہ جانے کہاں کہاں جلوہ گر ہو رہی ہیں.اب سوال یہ ہے اور بڑا اہم ہے اور بڑا ضروری ہے کہ یہ بھی مانا کہ روایت صحیح، یہ بھی مانا کہ علمائے امت کا یہ مذہب تھا یہ بھی مانا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی آیات کی یہی تفسیر کی ہے.یہ بھی مانا کہ پہلے انبیاء کی شہادت بھی اس کے حق میں ہیں لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟ کہ جو پاک وجود پانچویں ہزار سال میں پیدا ہوا اس نے ظہور کیا اور وہ خاتم النبین بنا.پانچ ہزار سال پہلے اس کے فیوض کس معنے میں اور کس رنگ میں آدم علیہ السلام کو اور دوسرے انسانوں کو پہنچ رہے تھے.کیونکہ جب ہم ان چیزوں پر غور کرتے ہیں تو ہمارے لئے یہ بڑا مشکل
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۳۷ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب نظر آتا ہے کوئی شخص یہ کہے گا کہ عجیب بات کرتے ہو کل کو یہ کہو گے کہ نہر کا وہ پانی جو کہ کوہ ہمالیہ سے نشیب میں بہتا بہتا سمندر کے قریب پہنچ چکا ہے اس سے کوہ ہمالیہ کی چوٹیاں سیراب ہو رہی ہیں یعنی واپس فراز کی طرف جا رہا ہے.تو یہ ایک بڑی الجھن دماغ میں پیدا ہوتی ہے.یہ حل ہونی چاہئے اگر وہ حل ہو جائے تو پھر ہمارے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک شدید محبت پیدا ہو جائے اور تبھی ہم آپ کے مقام کو صحیح معنے میں پہچان سکتے ہیں.اس کا بیان سورہ نجم کی آیات میں ہے اور اس کے سمجھنے کی چابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے ہاتھ میں دی ہے یہ کہہ کر کہ جس طرح یہ کائنات ہے ایک عالمین ہے نا ! جس کو ہم عالم موجودات کہتے ہیں.عالم موجودات کے مقابلہ میں ایک عالم قضاء وقد ر ہے اور عالم موجودات عالم قضاء و قدر کی Reflection اور عکس ہے.تو اصل چیز عالم قضاء وقد ر ہے اور اس کا عکس عالم موجودات ہے جو اصل نہیں ہے.اگر ہم یہ سمجھ سکیں اور کسی آدمی کو سمجھا سکیں کہ عالم قضاء و قدر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی تخلیق کی وجہ بنی تو عالم موجودات میں اس کو آسانی سے سمجھ آ سکتی ہے.عالم قضاء وقدر کے متعلق کچھ بیان کرنے سے پہلے میں ایک مثال دیتا ہوں اس سے بات سمجھنا نسبتاً آسان ہو جائے گا وہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ قضاء وقد رکا مالک ہے اس نے اتنا بڑا کارخانہ عالم موجودات کا عالم قضاء وقدر کے عکس کے طور پر پیدا کر دیا ہے.اس کے ظل کے طور پر ہم بھی قضاء وقدر کی ایک چھوٹی سی دنیا بنایا کرتے ہیں.ایک یہ دنیا ہمارے پیچھے مسجد بن رہی ہے ہم نے ایک Plan کیا ہے ایک منصوبہ بنایا ہے.ہم نے کہا کہ ہم اتنے ہزار آدمیوں کو بٹھانے کے لئے ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں.یہ ہمارا مقصد تھا کہ ہماری ضرورتیں اب پوری نہیں ہور ہیں ہم اتنے ہزار آدمیوں کو بٹھانے کے لئے ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں.یہ مقصد تھا.پھر ہم نے قضاء وقدر کی ایک چھوٹی سی دنیا بنائی.ہم نے کہا اتنی بڑی مسجد بنانے کی کئی شکلیں اختیار کی جاسکتی ہیں.بہت سے Safe Stone رکھے جائیں جس طرح بعض مساجد میں ہیں قریب قریب ستون.اس سے چھت آسانی سے پڑ جاتی ہے کون سا Material استعمال کیا جائے سیمنٹ کیا جائے یا چھت Reinforcement Concrete کی بنائی جائے بنیادیں کیسی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۳۸ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب بنائی جائیں وغیرہ وغیرہ.یہ سارا سوچ کے ہم نے وہ دنیا اس مسجد کی دنیا جو ہے اس کا فیصلہ کیا نا ! عالم قضاء و قدر کے معنے ایک عام آدمی کے سمجھنے کے لئے یہ ہیں کہ فیصلے اور تخمینے کا عالم اتنا رو اس پر خرچ آئے گا پھر ہم نے جیسا بنانا چاہا تھا اس کے مطابق ہم نے لوہا خریدا، سیمنٹ کی گاڑیاں منگوائیں، اینٹیں لیں ، پانی کا انتظام کیا.اتنے راج لئے ، جتنی shuttring کے لئے لکڑی چاہئے تھی وہ مہیا کی وغیرہ وغیرہ.یہ ساری چیزیں ایک دنیا بنادی کہ نہ ایک چھوٹی سی دنیا میں جس میں سیمنٹ بھی ہے لکڑی بھی ہے لوہا بھی ہے، بیٹھنے کے لئے سایہ دار درخت بھی ہیں کوئی مہمان آجائے تو اس کو بعض دفعہ بوتلیں بھی پلا دیتے ہیں.کھانے پینے کا سامان بھی ہے تو ایک چھوٹی سی دنیا ایک معمولی سے انسانوں نے بسائی.یہ لوہا یہاں کیوں ہے؟ اس لئے کہ ایک مسجد بنی ہے جس میں اتنے ہزار آدمی بیٹھنے ہیں اتنا سیمنٹ یہاں کیوں آیا؟ اس لئے کہ ایک مسجد بنی ہے جس میں اتنے ہزار آدمی بیٹھنے ہیں اتنے مزدور یہاں کیوں لگائے گئے؟ اس لئے کہ ایک مسجد بنی ہے جس میں اتنے ہزار آدمی بیٹھنے ہیں یہاں یہ درخت کیوں لگائے گئے ہیں اس لئے کہ ایک مسجد بنی ہے جس میں مزدوروں نے کام کرنا ہے.اُن کے سایہ کے لئے ضروری ہیں.یہاں یہ کنواں کیوں Bore کیا گیا؟ اس لئے کہ ایک مسجد بنی ہے اس کے لئے پانی کی ضرورت ہے ایک دنیا بس گئی نا.صرف مقصد کے لئے پانی کا اس جگہ وجود، لوہے کا اس جگہ، وجود اس مقصد کے ساتھ ہی وابستہ ہے اگر وہ مقصد نہ ہوتا اگر اسے مثلاً مقصد بدل دیتے ہیں.اگر اس سے نصف آدمیوں کو نماز پڑھانے کے لئے مسجد بنانی ہوتی تو اتنا لوہا یہاں کبھی نہ آتا اتنا سیمنٹ یہاں کبھی نہ آتا اس سے آدھا ہو جاتا نا ! تو دنیا بدل جاتی تو یہ ہے فیصلے اور تخمینے کا عالم اور موجودات کا انحصار ہی اس عالم قضاء وقد ر پر ہے.ایک اور مثال میں دیتا ہوں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے سمجھنے کے زیادہ قریب ہے.ایک سائنسدان نے یہ ایجاد کی کہ ایک ایسا روشن لیمپ تیار کیا جاسکتا ہے جس کی روشنی کا کوئی اور روشنی مقابلہ نہ کر سکے کہ جو خود بخو د روشن ہو جائے جس کے لئے نہ تیل کی ، نہ گیس کی ، نہ بجلی کی ضرورت ہو مثلاً اب اس کا سمجھنا بھی آسان ہے کیونکہ ہم اب بہت ساری چیزیں سورج کی شعاعوں اور روشنی سے حاصل کر لیتے ہیں.کہتے ہیں کہ جو Saucer پہلے پوری
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۳۹ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب کہانی تھی اب نیم کہانی کچھ حقیقت بن گئی ہے اس دنیا میں وہ اپنی ساری Energy اور طاقت سورج کی روشنی سے حاصل کرتی ہے ایسے انجن اس میں لگے ہوئے ہیں.تو ایک شخص نے ایک ایجاد کی کہ ایک ایسا چراغ میں بناؤں گا کہ جس کی روشنی کا مقابلہ کوئی اور روشنی نہیں کرے گی اور وہ خود بخو دروشن ہو جائے گا صرف اس تدبیر کی ضرورت ہے جس سے میں عام ذرائع روشنی پیدا کرنے یا اس کا استعمال کر سکوں اور اب اس کا مقصد ایک لیمپ ہے جس سے میں ایک دنیا کو روشن کر کے اپنی شان بڑھانا چاہتا ہوں اور اس نے کہا میں سات منزلہ ایک مینار بناؤں گا اور ساتویں منزل کے اوپر ایک عرشہ بناؤں گا اور اس عرشہ میں اپنا یہ چراغ رکھوں گا اور ایسا انتظام کروں گا کہ جب میری ایجاد کے نتیجہ میں یہ روشن ہوگا تو اس کی روشنی بنیادوں میں جو مسالہ میں لگاؤں گا اس کو بھی روشن کرے گی.چنانچہ اس نے ایسا شیشہ بھی ایجاد کیا کیونکہ یہ ایک مقصد تھا اور وہ کر بھی سکتا تھا؟ کی دنیا ہے کہ جو چیز مضبوط بھی ہوا اتنا کہ سات منزلہ مینارہ کا بوجھ اٹھا سکے اور صاف اور شفاف بھی ہو اتنا کہ سات منزلہ اوپر جو چراغ روشن ہے اس کی خواہ ظلی روشنی کیوں نہ سہی بنیادی پتھروں میں وہ دکھا سکے.چنانچہ اس نے اپنے اس منصو بہ میں اس مقصد کے حصول کے لئے جو اس نے ایک چھوٹی سی دنیا بنائی اور مینار جو اس کی ایجاد کو دنیا میں ظاہر کرے گا اور اس کی ایجاد کی شان ظاہر کرے گا.اس نے ایسے مضبوط شیشے کی سلوں سے ساتھ منزلہ مینار کی بنیادیں اُٹھا ئیں پھر منزل بمنزل اس کو اوپر اٹھاتا گیا پھر ساتویں منزل ختم ہوئی تو اس کی چھت پر اس نے ایک عرشہ بنایا اور اس پر اپنا ایجاد کردہ چراغ رکھا اور اپنی ایک خاص ترکیب سے جو لاسلکی سے تعلق رکھتی تھی اور موٹی مادی چیز سے اس کا تعلق نہیں تھا.اس چراغ کو اس نے روشن کر دیا جب وہ چراغ روشن ہوا تو وہ بنیاد کا پتھر جو زمانے کے لحاظ سے کئی سال پہلے بنیاد میں رکھا گیا تھا.( جس طرح حضرت آدم علیہ السلام کا بنیادی پتھر نبوت کی بنیاد میں رکھا کیا تھا) اور جو اس سے مکان کے لحاظ سے دور بھی تھا زمانہ کا بعد بھی تھا چراغ روشن ہوتے ہیں کیونکہ یہ دنیا ہی ایسے تھی کہ اس مینار میں ایسے پتھر لگائے جائیں گے کہ جب چراغ روشن ہوگا اس کی روشنی نیچے تک آ جائے گی جو اوپر کے پتھر تھے جو اس چراغ سے زیادہ قریب تھے دیکھنے والوں نے انہیں زیادہ روشن پایا جو زیادہ دور تھے دیکھنے والوں نے کئی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۴۰ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب وجوہات کی بناء پر انہیں کم روشن پایا لیکن ہر آنکھ نے ہر پتھر میں اسی چراغ کی روشنی کو دیکھا.تو میں بتا رہا ہوں کہ عالم قضاء وقدر کے مطابق عالم موجودات کے جوموجودات ہیں وہ معرض وجود میں آتے ہیں.یہ ایک مثال ہے.تو قران کریم نے سورہ نجم کی آیات میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ عالم قضاء وقدر میں یہ تو ایک انسان، محدود دنیا، ناقص دنیا، سارے منصوبے کامیاب بھی نہیں ہوتے اس دنیا کی مثالیں ہم دے سکتے ہیں میں نے دی ہیں اپنی طرف سے کوشش کی ہے کہ کچھ بات واضح ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات تو قدرتوں والی ذات ہے.اس نے عالم قضاء وقدر میں ہماری اس عالم موجودات کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد کاملہ کا ایک وجود پیدا ہوگا جو الوہیت کا مظہر اتم بنے گا یعنی اللہ نے عالم قضاء وقد ر میں فیصلہ کیا کہ میں اپنی صفات کا مظہر اتم ایک وجود پیدا کرنا چاہتا ہوں اور اس کے لئے یہ انتظام کیا کہ ایک دنیا کو جس کا تصور بھی ہمارے دماغ میں نہیں آسکتا پیدا کیا اور جس جس چیز کو بھی پیدا کیا ایک نوع ایسی پیدا کی کہ ان کی خدمت میں اس کو لگا دیا.بنی نوع انسان کے لئے عالم کو مسخر کر دیا اور اس نے بنی نوع انسان کا انتظام کیا.مادی دنیا میں بھی ایسا انتظام کیا کہ جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ پکنے کے لئے بعض ستاروں کی روشنی حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی اس زمین پر پہنچ کر ان کی تربیت میں حصہ نہ لے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پہنچ کر اور آپ کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے وہ روشنی مادی دنیا میں بھی اس سے زیادہ اور بہتر تغیر پیدا کرے.ستاروں کی جو روشنیاں اس سے پہلے اس دنیا میں تغیر پیدا کرتی تھیں سارے تغیر ہی انسان کی خدمت میں لگے ہوئے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے تغیرات بہتر شکل میں تھے.تو اللہ تعالیٰ نے ساری مادی دنیا کو اس لئے پیدا کیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی غذا مقدار کے لحاظ سے نہیں کیونکہ خدا کے بندے زیادہ نہیں کھایا کرتے لیکن اپنی چھپی ہوئی صفات کے لحاظ سے چھپی ہوئی میں اس لئے کہتا ہوں کہ ابھی انسان با وجود بہت کچھ حاصل کرنے کے ان باریکیوں پر جو خدا کی کتاب ہمیں بتاتی ہے یا جن کی طرف وہ اشارہ کر رہی ہے اُن کا علم حاصل نہیں کیا تو غذا کی چھپی ہوئی صفات اس قدر بہتر ہو جائیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اب بریکٹ
۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۴۱ میں سمجھ لیں ہے یہ فقرہ ! کہ (کھانے کا اثر ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسان بہترین اخلاق کا نمونہ بن جائیں اور بن سکیں اور پھر اخلاق سکھانے کا بہترین انتظام کیا.اور بنی نوع انسان کو درجہ بدرجہ ارتقاء کے مدارج طے کروانے کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے دنیا کہتی ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کا ایک سلسلہ جاری کیا اور اس زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہے شریعت کو قرآن کریم کا ایک حصہ دیا اور پورا قرآن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا.یہ اس لئے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہو جائے.جو شریعت دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل اخلاق کا نمونہ اس شریعت کے مطابق بن سکیں.استعداد دی کہ دل میں خواہش ہے لیکن حضرت مسیح کی طرح یہ نہ کہا جائے کہ میرا جسم روح کا ساتھ نہیں دیتا تو جسم بھی روح کا ساتھ دینے والا دیا.روح بھی جسم کا ساتھ دینے والا بنایا اور ان کامل استعدادوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال کے آخری نقطہ تک پہنچایا اور موجودات کا مرکزی نقطہ بن گئے.اور یہ حقیقت محمد یہ ہے جس کو سمجھ کر ہم علی وجہ البصیرت ایسے مقام پر کھڑے ہوں کہ دنیا میں یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ پہلوں نے بھی اور بعد میں آنے والوں نے بھی جو مرتبہ حاصل کیا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل کیا.یہ جو دوسرا حصہ تھا اس کی ابتداء میں نے آپ دوستوں کے سامنے بیان کر دی ہے تا کہ قلق باقی نہ رہے لیکن یہ ابتداء ہے اس کی جو تفصیل ہے اگر میں اس میں گیا تو ممکن ہے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ اور لگ جائے کیونکہ جتنے نوٹ میں نے پہلے استعمال کئے ہیں اس سے زیادہ نوٹ ابھی موجود ہیں بڑا لمبا عرصہ لگ جائے گا لیکن کیوں ہم یہ کہتے ہیں کہ محد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حضرت آدم علیہ السلام نے برکت حاصل کی اور آپ کے طفیل حضرت نوح علیہ السلام نے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تمام انبیاء نے برکت حاصل کی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے عالم قضاء وقدر میں جو مقد رتھا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی اور جو اس عالم موجودات میں ہوا وہ اس عالم قضاء وقدر کے عکس کے طور پر ہے.وہ اس لئے ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت اور آپ کی شان دنیا پر ظاہر ہو.پس حقیقت محمد یہ ہی کے طفیل حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ کا قرب اور رب العالمین کی -
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۴۲ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب برکات حاصل کیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ کا قرب اور اللہ کی برکات حاصل کیں اور جس طرح معراجی سیر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم.اپنے پہلوں میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے سب سے زیادہ قریب پایا یعنی ساتویں آسمان پر اور خود عرش پر آپ کا مقام تھا.اسی طرح آپ کے قول کے مطابق حضرت مسیح موعود و مہدی معہود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تر ہیں بعد کے زمانہ میں اور ان کا مقام بھی ساتویں آسمان پر ہے اس کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے توفیق اور زندگی دی تو میں انشاء اللہ تعالیٰ اگلے سال بیان کروں گا.جو ایک نقطہ حقیقت محمدیہ کا تھا اس حد تک ہی سمجھتا ہوں کہ میں نے بیان کر دیا ہے کہ آر کی پیاس ایک حد تک سیراب ہو جائے اور تشنگی پوری کی پوری باقی نہ رہے.یعنی وجہ ہمیں معلوم ہونی چاہئے نا اور نہ تو عیسائی ہمیں یہ کہے گا کہ خواہ مخواہ کے تم دعوے کر رہے ہو لیکن اگر ہم عالم قضاء وقدر کی حقیقت کو سمجھنے لگیں تو اس کے لئے دماغ پر بڑا زور ڈالیں.سارا سال ہی سوچیں.عالم قضاء وقدر کی حقیقت سمجھنے لگیں اور عالم موجودات کا عالم قضاء وقدر کے ساتھ جو رشتہ ہے وہ ہماری سمجھ میں آ جائے تو تب حقیقت محمدیہ ہم پوری طرح سمجھ سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور معرفت اور عرفان عطا کرے اور خدا کرے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو شان اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہے ہم جو اس کے عاجز بندے ہیں ہمارے دلوں میں بھی شان قائم ہو اور اس کے نتیجہ میں ہمارے دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مگن رہیں اور اپنی دنیا کی کوئی ہوش ہمیں باقی نہ رہے اور اس طرح ہم دنیا کی فکروں سے بھی آزاد ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بھی وارث بن جائیں.اب میں دعا کراؤں گا اور اس کے بعد اس سال کے جلسہ کی کارروائی ختم ہو جائے گی اپنی دعاؤں میں جو عظیم مہم غلبہ اسلام اور قیام تو حید کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے چلائی گئی ہے اس کے جلد تر کامیاب ہونے کی دعا بھی کریں اور ان لوگوں کو بھی اپنی دعا میں یاد رکھیں جو اپنی ہر عاجزی اور بے مائیگی کے باوجود ہر قسم کی مشکلات کے ہوتے ہوئے بھی اکناف عالم میں قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور ہماری طرف سے فرض کفایہ کے طور پر تبلیغ اور اشاعت اسلام میں لگے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا بھی حافظ و ناصر ہو ان کی زبان میں اور ان کے کام میں برکت ڈالے اور انہیں دنیا کے لئے ایک نیک نمونہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۴۳ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب بننے کی توفیق عطا کرے اور دنیا کو ان کے اس خوبصورت نمونہ میں حسن دیکھنے کی بھی توفیق عطا کرے.اللہ تعالیٰ سے آپ یہ بھی دعا کریں کہ ہمارا یہ ملک پاکستان پورے استحکام کے ساتھ ترقی کی راہ میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے ایک تو اس لئے کہ وطن سے محبت ہمارے ایمان کا جزو ہے اور دوسرے اس لئے بھی کہ پاکستان کا استحکام اسلامی دنیا میں بڑا اثر پیدا کر رہا ہے اور پیدا کر سکتا ہے.اگر پاکستان کو نقصان پہنچا تو اسلامی دنیا میں بھی ایک ضعف واقع ہو جائے گا.خدا کرے کہ اختلاف رائے کے باوجود اور اپنے اپنے اصول رکھنے کے باوجود پوری دیانت داری کے ساتھ اس ملک کے رہنے والے ہم سب ہی ملک کی بہبود کے لئے اور ملک کی ترقی کے لئے اور ملک کی حفاظت کے لئے اور ملک کی مضبوطی کے لئے سکیمیں سوچیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور خدا کرے کہ ہم میں سے ہر شخص اور ہر جماعت فتنہ وفساد سے بچے اور اگر کوئی نادان اس طرف متوجہ ہو تو ہر جماعت ہی اس فتنہ اور توڑ پھوڑ سے روکنے کی کوشش کرے تا کہ کوئی کمزوری ہمارے اس ملک ! ہمارے پیارے ملک پاکستان میں واقع نہ ہو.ہمارے بھائی کشمیر میں بسنے والے صدیوں سے مظلوم ہیں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مظلومیت کا یہ زمانہ جلد ان سے دور کرے اور وہ دلی خوشی اور بشاشت کے ساتھ آزادانہ طور پر ترقی کی راہوں پر اسی طرح بھائیوں کے کندھا بکندھا ہو کر چلنے لگیں جس کا ان کو حق ہے پیدائشی حق اور مذہبی حق اور اخلاقی حق اور انسانی حق.اور آپ ہمیشہ یہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمتیں نازل کرتا رہے اور ہم پر بھی.ہم میں سے ہر ایک کو اپنے لئے بھی دعا کرنی چاہئے اور اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہم سے نیکیوں کے کام کرواتا رہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہم پر قرب کی راہیں کھولتا رہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمارے لئے رضا کے محلات کو روشن اور منور کرتا رہے.اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں ہم سب محبت اور پیار کی جھلک دیکھیں قہر اور غصہ کی بجلی نہ وہاں پائیں.اپنے لئے اور نہ کسی کے لئے خدا کرے.میری آپ کے لئے یہ دعا ہے آج بھی اور ہمیشہ ہی دعا ہے کہ جہاں بھی ہوں جس حالت میں بھی ہوں سفر میں یا حضر میں.خدا کی اجازت کے ماتحت دنیوی کاموں میں تاکہ اس کے نتیجہ میں آپ خدا کی راہوں کی تلاش میں لگیں یا خدا کے حکم کے مطابق اس کی عبادت اور اس کی تلاش
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۴۴ ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۸ء.اختتامی خطاب میں لگیں یا خدا کے حکم کے مطابق اس کی عبادت اور اس کی حمد کے بیان میں ہوں جہاں بھی ہوں جس حالت میں بھی ہوں جس کام میں بھی ہوں جس رنگ میں بھی آپ کی زندگی کے لمحات گذر رہے ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے لئے اپنی رضا کے سامان پیدا کر رہا ہے اور اگر ہم میں سے کسی سے کوئی غفلت یا کوتا ہی سرزد ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت جوش میں آئے اور وہ کچھ اس رنگ میں اس کو چھپالے کہ خود ہمارے ذہن سے بھی وہ نکل جائے اور ہمیں بھی وہ یاد نہ رہے تا کہ ہم عاجز بندے اپنے دل کے سامنے بھی شرمندگی کا احساس نہ پائیں.ہر قسم کی نیک دعائیں اپنے لئے کریں اور میں جو عاجز بندہ ہوں اور اپنے اندر کوئی خوبی نہیں پا تا لیکن اس کرسی کی عظمت پہچانتا ہوں جس پر اس ذرہ حقیر کو خدا نے اپنی حکمت کا ملہ سے بٹھایا ہے اس عظیم ذمہ داری کو نبھانا آسان کام نہیں نہ کسی انسان کے بس میں ہے.ہرلحہ اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت ساتھ نہ دے تو خلافت کی ذمہ داری نہیں نبھائی جاسکتی.آپ دعائیں کرتے رہا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل سے اس ذمہ داری کو نبھانے کی توفیق عطا کرے تا کہ دنیا میں جو اسلام کے غلبہ کی ایک مہم جاری ہوئی ہے وہ بھی تکمیل کی منازل طے کرتی ہوئی جلد تر اپنی منزل مقصود کو پہنچ جائے اور آپ کا اپنا بھی یہ فائدہ ہے کیونکہ اس خلافت حقہ راشدہ کو آپ کے خوف اور خطر کو اور پریشانیوں کو دور کرنے کا ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے.اگر میں اپنے رب سے اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی توفیق پاؤں گا تو اس وقت میں آپ کی پریشانیوں کے دور کرنے کی بھی توفیق پا رہا ہوں گا.پس ہر لحاظ سے آپ کا اس میں فائدہ ہے اور میرا بھی یہ فائدہ ہے کہ میں خدا کی عظمت اور اس کے جلال سے ہر وقت کا نپتا رہتا ہوں.تو میری مدد کریں اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ خوش رہے اور جب اس دنیا سے گذرنے کا وقت آئے تو اس وقت بھی اس سے راضی ہوئے خدا کی گود میں بٹھایا جائے.پرے نہ دھتکار دیا جائے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۴۵ ۲۶ دسمبر ۱۹۶۹ء.افتتاحی خطاب اے ہمارے بچے اور حقیقی محسن ! ہمیں اپنی محبت کی نعمت سے مالا مال کر افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۶۹ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب اُمتِ مسلمہ کو اس طرف پکارا کہ غلبہ اسلام کے لئے مجھے مبعوث کیا گیا ہے میری طرف آؤ اور میرے انصار بنو.اللہ کی راہ میں ، اسی کی رضا کے حصول کے لئے قربانی دو اور ایثار دکھاؤ تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا :.اور اس قدوس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہو جاؤں اور ان کی آلودگیوں کے ازالہ کے لئے دن رات کوشش کرتا رہوں اور ان کے لئے وہ نو ر مانگوں جس سے انسان نفس اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے اور بالطبع خدا تعالیٰ کی راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور ان کے لئے وہ روح قدس طلب کروں جو ربوبیت تامہ اور عبودیت خالصہ کے کامل جوڑ سے پیدا ہوتی ہے اور اس روح خبیث کی تسخیر سے ان کی نجات چاہوں کہ جو نفس امارہ اور شیطان کے تعلق شدید سے جنم لیتی ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۶۵) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے آگے فرمایا:.اُن کی زندگی کے لئے موت تک دریغ نہیں کروں گا.“ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نائب اور خلیفہ کی حیثیت سے میرے دل میں بھی یہ جوش پیدا کیا ہے کہ میں اپنے ربّ کریم سے آپ دوستوں کے لئے انہی باتوں کو چاہوں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۴۶ ۲۶ دسمبر ۱۹۶۹ء.افتتاحی خطاب اور طلب کروں.میری جان آپ پر قربان میں ہمیشہ آپ کے لئے ہر رنگ میں دعائیں کرتا رہتا ہوں.آپ جب اس جلسہ کے لئے سفر شروع کرتے ہیں تو میرے دل میں بڑی فکر پیدا ہوتی ہے.سفر کی تکالیف ہیں.سفر کے حادثات ہیں.سفر کی پریشانیاں ہیں.میں ان کو سوچتا ہوں اور اپنے رب کریم کے حضور جھک کر آپ کے لئے اس کی حفاظت اور امان چاہتا ہوں.جب آپ یہاں آ جاتے ہیں مجھے یہ فکر دامنگیر رہتی ہے کہ کہیں کوئی مخلص رضا کاروں کی کسی غفلت کے نتیجہ میں آپ میں سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے.پھر مجھے یہ فکر رہتی ہے کہ خود آپ کے نفوس آپ کی پریشانی کا باعث نہ بنیں.جس مقصد کے لئے آپ یہاں آئے ہیں اس کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور متضرعانہ دعاؤں کی توفیق پائیں.اور جلسہ میں شامل ہو کر خدا اور اس کے رسول کی باتیں سنیں.انہیں سمجھیں اور یہ عہد کریں کہ یہ ارشادات اللہ کا یہ پیغام قرآن عظیم ہم پر جوذ مہ داریاں عائد کرتا ہے.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق بخشے.کہیں یہ مقصد آپ کی نظر سے اوجھل نہ ہو جائے.اور میں آپ کے لئے ہر وقت ہر آن دعا میں لگا رہتا ہوں کہ اے خدا! جہاں تو نے میرے ان بھائیوں کو اور میری ان بہنوں کو یہ تو فیق عطا کی کہ وہ تیری رضا کے حصول کے لئے تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سُننے کے لئے تیرے مسیح محمدی علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئے ہیں.جہاں تو نے ان کو یہ توفیق بخشی اور تو نے ان کو سفر کی تکالیف اور حادثات سے بچایا اور محفوظ رکھا.جہاں تو نے اپنے فضل سے مخلص رضا کاروں کو یہ توفیق بخشی کہ وہ انتہائی کوشش اور جدو جہد سے اپنے آنے والے بھائیوں کی خدمت کریں اور یہ خیال رکھیں کہ انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے.وہاں تو میرے ان بھائیوں کو ان کے نفوس کی آفات سے بھی محفوظ رکھ.وہ اپنے وقتوں کو ضائع نہ کریں.وہ اپنی توجہ کو اپنے مقصود سے ہٹا ئیں نہ.وہ جس غرض کے لئے آئے ہیں اس غرض کو حاصل کرنے کے لئے انتہائی کوشش کریں اور تیرا فضل پائیں اور ان کی یہ کوشش مقبول ہو اور تیرے فضل سے وہ اپنے مقصود کو حاصل کریں اور دین اور دنیا کی نعمتوں سے اپنی جھولیوں کو بھر کر اپنے گاؤں اور گھروں کو واپس لوٹیں.سارا سال جو دعائیں میں آپ دوستوں کے لئے کرتا رہتا ہوں وہ سورۂ فاتحہ کی دعائیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۴۷ ۲۶ دسمبر ۱۹۶۹ء.افتتاحی خطاب ہیں جن کی تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں بیان کی ہے.ان دعاؤں کا خلاصہ اس وقت میں بلند آواز سے پڑھوں گا.آپ آمین کہتے رہیں اور اس کے بعد پھر ہاتھ اُٹھا کر دعا ہو گی.اللہ تعالیٰ سفر و حضر میں آپ کا بھی اور ہمارا بھی حافظ و ناصر ہو.اللہ تعالیٰ نے جس غرض کے لئے اسلام کو دُنیا میں قائم کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے اور جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم روحانی فرزند بنایا ہے وہ مقصد پورا ہوا اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی توفیق ملے کہ ہم بھی اس کے لئے کچھ خدمت کرنے کے قابل ہوں اور ہماری وہ حقیر خدمات اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ٹھہریں.الحمد للہ.الحمد للہ.اے اللہ ! ہم ان بے حد و حساب نعمتوں پر تیرا شکر ادا کرتے ہیں جو تو نے محض اپنی ربویت اور رحمانیت کے جلووں سے ہمیں عطا کیں.ہماری دعا ہماری التجاء ہمارے عمل، ہماری سعی ہمارے مجاہدات انہیں کہاں پاسکتے تھے.لیکن اے ہمارے ربّ! تو اپنے عاجز بندوں کی دعائیں بھی تو قبول فرماتا ہے.اے ہمارے مالک! تو عمل اور مجاہدہ پر اپنی رحمت بے پایاں سے ثمرات حسنہ بھی تو مرتب کرتا ہے.دُعا اور سعی پیہم کی ہمیں تو فیق عطا کر انہیں قبول فرما اور نعماء ہمیں بخش جو دعا اور مجاہدہ پر عطا کی جاتی ہیں، ہمیں اپنا حقیقی خادم بنادے صدق وسداد دئے حق و صداقت پر ثبات قدم عطا کر خوشحال زندگی ہمارے لئے مقد رکر دے اور فلاح اور کامیابی ہمارے نصیب میں کر دے.(آمین) اے ہمارے خدا! ہم بے علم اور کمزور ہیں.تیری مدد اور نصرت کے بغیر ہم تیری رضا کی راہوں کو تلاش نہیں کر سکتے.اے ہمارے رب! تو خود مہربانی فرما اور ہمارے صحن سینہ اور وسعت دل کو اپنی ذاتی محبت سے معمور کر دے تا ایک اصیل اور تیز روگھوڑے کی طرح ہم تیری طرف دوڑیں اور تیرے حضور جا حاضر ہوں.ماں باپ سے بڑھ کر پیار کرنے والے! پیار سے ہمیں اُٹھا اور اپنی گود میں ہمیں بٹھا لے.رکبر وغرور تیرے در کے لعین اور دھتکارے ہوئے لیکن تذلل اور انکسار تیرے عرش کی لونڈی ہیں اے خدا! ہمارے دل کی بھی یہی مکین ہوں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۴۸ ۲۶ دسمبر ۱۹۶۹ء.افتتاحی خطاب نیستی ہمارے وجود کی اصلیت اور حقیقت ہے.اے خدا ہمیں اس حقیقت پر ہمیشہ قائم رکھ.نہ ہمارا جوان اپنی قوت پر اترائے.نہ ہمارا بوڑھا اپنی لاٹھی پر بھروسہ رکھے.نہ ہمارا عاقل اور فہیم اپنے عقل و فہم پر ناز کرے.نہ کوئی عالم اور فقیہ اپنے علم کی صحت اور اپنی دانائی کی عمدگی پر اعتبار کرے.اور نہ ہمارا ملہم اپنے الہام اور کشف یا دعاؤں کے خلوص پر تکیہ کرے کیونکہ تو اے ہمارے رب ! ہمارے محبوب !! جو چاہتا ہے کرتا ہے.جن کو چاہے اپنے حضور سے دھتکار دے اور جن کو چاہے اپنے خاص بندوں میں شامل کر لے.اے ہمارے معبود ! ہم تیرے عاجز اور بے مایہ بندے، عبودیت تامہ کے حصول کے لئے سرگرداں عبادت تو تیری ہی کرتے ہیں.لیکن پریشان خیالی اور شیطانی وسوسہ اندازی اور خشک افکار اور مہلک اوہام اور تاریک خیالات کے ساتھ ہم سیلاب کے گندے پانی کی مانند ہیں.اور گمان اور ظن سے ہم چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے.اے رحمت اتم ! تو اپنے بے پایاں فیض سے خود اپنا چہرہ دکھا.تاحق و یقین ہمیں نصیب ہو.اے ارحم الراحمین! ہم تیری ہی نصرت کے طالب ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.، وق شوق حضور قلب بھر پور ایمان کے ملنے کے لئے ، تیرے احکام پر لبیک کہنے کی توفیق کے لئے سرور اور ٹور کے لئے معارف کے زیورات اور حقائق و دقائق کے لباس کے ساتھ دل کو آراستہ کرنے کے لئے.تاہم تیرے فضل، تیرے رحم کے ساتھ یقین کے میدانوں میں سبقت لے جانے والے بن جائیں اور اسرار وحقائق کے دریا پر وارد ہو جائیں.اے ہمارے رحمان ! ہوائے نفس کی موجیں ٹھاٹھیں مارتی رہتی ہیں اور ہمیں غرق کرتی رہتی ہیں.نفس کے عوارض ایک چکر میں ہیں اور ہوائے نفس کے قیدی ہلاک ہوتے رہتے ہیں اور کم ہیں جو نفس امارہ کی اس یلغار سے محفوظ رہتے ہوں ! اے ہمارے رحمان! تو خود ہی ہماری حفاظت کر.اے شافی حقیقی ! ایک حاذق طبیب کے رُوپ میں ہم پر جلوہ گر ہو.ہمیں اپنی طرف کھینچ لے.ہمیں اپنے سینہ سے لگالے تا ہم تیری محبت میں دیوانے مستانے بن جائیں.اور سب امراض نفس سے شفا پائیں.ہمیں سعادت دے اور اس سعادتمندی پر قائم رہنے کی ہمیشہ توفیق بخش اور اپنے پاک بندوں میں ہمیں شامل کرلے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۴۹ ۲۶ دسمبر ۱۹۶۹ء.افتتاحی خطاب اے ہمارے ہادی! صراط مستقیم نعمت عظمی ہے.ہر نعمت کی جڑ اور ہر عطا کا دروازہ ہے.اے ہمارے محبوب ! اے ہمارے مقصود !! سیدھی راہ ہمیں دکھا.یہ نہ مٹنے والی روحانی بادشاہت ہمیں عطا کر.تیرے تفضلات اور تیری نعماء کا مسلسل ہم پر نزول ہو.ان نعمتوں، ان فضلوں کو قبول کرنے کے لئے ہمیں تیار کر اور ان کا ہمیں اہل بنا.تا اندھیری راتوں کے بعد خوشگوار زندگی اور ظلمات اور تاریکیوں کو دور کر دینے والا اور ہم پائیں تا اے ہمارے رب ! ہلاکت سے قبل ہر قسم کی لغزش اور ضلالت سے ہم نجات حاصل کر لیں.اے ہمارے رب ! ہمارے مالک ! ! اپنے ہی فضل سے ہمارے دلوں میں اپنی ذاتی محبت کا شعلہ بھڑ کا.اپنے نشانوں سے اپنی ہستی پر ہمیں حق الیقین بخش.اے ہمارے محبوب ! اپنے چہرے سے نقاب اُٹھا اور رخ انور کا ہمیں جلوہ دکھا.اے محسن ! تیرے احسان کی نورانی لہریں ہمارے فانی وجود میں کروٹ لیں ہمارا ذرہ ذرہ تجھ پر قربان.تیری سوزشِ محبت ہر وقت ہمارے سینے کو گرماتی رہے.تیری عظمت اور تیرے جلال کا جلوہ کچھ اس طرح ہمیں اپنی گرفت میں لے کہ دنیا اور اس کی ہر شے تیری ہستی کے آگے مردہ متصور ہو.ہر خوف تیری ہی ذات سے وابستہ رہے.تیرے درد میں لذت پائیں اور تیری خلوت میں راحت.تیرے بغیر دل کو کسی پہلو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو.اے ہمارے بچے اور حقیقی محسن ! ہمیں اپنی محبت کی نعمت سے مالا مال کر.اپنی روح ہم نے تیرے سپرد کی.اپنی ہستی تجھے سونپی.ہم تجھ سے ہی اپنی محبت کو خاص کرتے ہیں.عاجزانہ اور متضرعانہ ہم تیری طرف آتے ہیں.تیری رحمت تیری شفقت کے ہم بھکاری ہیں.ہم غافلوں کی غفلت کے پردے پھاڑ کر پرے پھینک دے.ہماری چال کوسیدھا کر.ہماری روح تیری عظمت اور جلال کے خوف سے لرزاں اور ترساں ہے.تیری محبت رگِ جان بن جائے.محبوب! ہماری مدد کو آ.یقین اور ایمان کو پختہ کر.تا ہم اپنے پورے دل اپنی ساری خواہشات اپنی عقل، اپنے اعضا، اپنی زمین اور کھیتی باڑی اپنی تجارت اور صنعت وحرفت اور اپنے پیشہ.سب کے ساتھ کلی طور پر تیری طرف ہی مائل ہو جائیں تیرے سوا سب سے منہ موڑ لیں.ہماری نگاہ میں اے ہمارے محبوب! تیرے سوا کچھ بھی باقی نہ رہے.ہم صرف تیری ہی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) اطاعت اور پیروی کرنے والے ہوں.۳۵۰ ۲۶ دسمبر ۱۹۶۹ء.افتتاحی خطاب اے خالقِ کل ! اے مالک کل !! مال اور صاحب مال پر ہمیں ناز کیوں ہو اور ہم ان کے دھو کے میں کیوں آئیں.ہم تو بس تیری بارگاہ عزت میں عاجزوں اور مسکینوں کی طرح حاضر ہوتے ہیں.دُنیا کو ہم دھتکار تے اور اس سے الگ ہوتے ہیں اور آخرت سے ہم محبت کرتے اور فقط اُسے ہی چاہتے ہیں.اے کامل قدرتوں والے ! ہمارا تو کل صرف تیری محسن ذات پر ہے.اے رحمان ! ہمارا ذرہ ذرہ تجھ پر قربان.ہمیں اپنے ٹور سے منور کر آمین اب دُعا کر لیں اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضلوں سے نوازے.روزنامه الفضل ربوه ۲۸ جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۳ تا ۵)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۵۱ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطا.خلفائے احمدیت کی سورۃ فاتحہ کی کی گئی تفسیر بڑی حسین اور اللہ تعالیٰ کی عطا ہے دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں.اِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۚ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمُ (الزمر : ٨) كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ بَلْدَةٌ طَيِّبَةً وَرَبِّ غَفُورٌ ( سبا : ١٦) پھر حضور انور نے فرمایا.مختلف عنوانات پر جو آج کے دن کچھ کہا جاتا ہے ان پر بیان کرنے سے قبل میں بعض کتہ کا تعارف اپنے دوستوں سے کرواؤں گا.سب سے اول اور پہلے نمبر پر تو قرآن کریم انگریزی ترجمہ مع تفسیری نوٹ تفسیر صغیر کی شکل میں وکالت تبشیر کی طرف سے شائع ہو چکے ہیں اور اس وقت تیار ہیں ان سے لئے جاسکتے ہیں.قرآن کریم انگریزی ترجمہ بھی پہلے سے موجود تھا اور قرآن کریم کی انگریزی تفسیر بھی چار جلدوں میں پہلے سے موجود تھی خالی ترجمہ تفسیری تبیان کے لئے کافی نہیں اور تفسیر اتنی ضخیم تھی کہ ہر آدمی کو خصوصاً ان لوگوں کو جن کے دلوں میں ابھی تک قرآن کریم کی محبت نہیں پائی جاتی یہ بہت لمبی اور bore ( یعنی اکتا دینے ) کرنے والی تھی.اس لئے تفسیر صغیر کے طریق پر قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ مع تفسیری نوٹوں کے تحریک جدید کی طرف سے شائع کیا گیا ہے.خوشخط ہے اچھے کاغذ پر ہے حسین مضامین پر مشتمل ہے.وہ تیار ہے.جو میرے دوست اسے لینا چاہیں وہ وکالت سے لے سکتے ہیں.اب تو بعض احمدی دوست بھی ترجمہ انگریزی میں پڑھتے ہیں مجھے تو یہ اچھا نہیں لگتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس زبان میں قرآن کریم کی تفسیر کی ہے اسی زبان
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۵۲ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطاب میں ترجمہ پڑھنے کی بھی ہمیں عادت ہونی چاہئے اور خصوصاً عربی کا جو حصہ ہے جسے ناظرہ پڑھنا کہتے ہیں اسے غور سے خود پڑھنا چاہئے اور تلفظ صحیح رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ قرآن کریم سے ہمارے دل میں جو محبت پائی جاتی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم عربی الفاظ ادا کرنے کے قابل ہوں ، جہاں تک ممکن ہو ان کو سمجھنے کے قابل ہوں محض ترجمہ یا تفسیر پر انحصار نہ کرنے والے ہوں.پس اس سال کے دوران ایک تو قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ مع تفسیری نوٹ شائع ہوا؟ ہے دوسرے سورۃ فاتحہ کی وہ تفسیر جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف کتب اور تقاریر میں بیان فرمایا ہے اسے اکٹھا کر کے یکجا طور پر کتابی شکل میں ادارہ مصنفین کی طرف سے تفسیر سورۃ فاتحہ کے نام سے شائع کیا گیا ہے.یہ مضمون جو کتابی شکل میں اکٹھا ہوا ہے اسے میں جو ہے نے اس وقت تک تین چار دفعہ پڑھا لیا ہے.جن دوسرے صاحب علم اور صاحب فراست اور صاحب محبت الاسلام نے اسے پڑھا ہے ان پر بھی اسی طرح اکٹھی شکل میں خاص اثر ہوا ہے اور یہ سورہ فاتحہ کی بڑی ہی عجیب تفسیر ہے.اس تفسیر کو پڑھ کر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس چیلنج کا صحیح پتہ لگتا ہے جو آپ نے پادریوں کو دیا.جب آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ کے نزدیک بھی تو رات ایک الہامی کتاب ہے پھر اس الہامی کتاب کی موجودگی میں قرآن کریم کی کیا ضرورت تھی.اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم کی تو بات چھوڑ وسورۃ فاتحہ میں جو روحانی اور اخلاقی علوم بیان ہوئے ہیں اور اسرار بتائے گئے ہیں.اگر تم اس سورۃ کے اسرار روحانی کے مقابلے میں اپنی ساری الہامی کتب سے جو ۷۲ کے قریب ہیں.یہ مضامین اس کے ملتے جلتے مضامین یعنی آپ نے فرمایا کہ ہم بہتر کا مطالبہ نہیں کرتے ایسے ہی ان سے ملتے جلتے مضامین نکال کر ہمیں دکھا دو تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارے پاس بھی کچھ ہے لیکن عیسائیت کے عمل نے دنیا پر یہ ظاہر کیا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے مقابلہ میں ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے.میں جب یورپ کے دورے پر گیا تو میں نے وہاں کے پادریوں کے سامنے اس چیلنج کو دھرایا.جب میں اس چیلنج کو دھرا ہی رہا تھا تو دراصل اس وقت مجھے ایک خیال آیا اور میں نے سوچا کہ اگر یہ پادری کہیں کہ اچھا ہم مقابلہ کرتے ہیں کہاں ہے سورۃ فاتحہ کی وہ تغیر تو میں کہوں گا کہ مختلف کتابوں میں وہ بکھری ہوئی ہے.ذراسی بات پر مجھے شرمندہ ہونا پڑے گا.پس اس وقت میں نے ارادہ کیا کہ اسے اکٹھا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۵۳ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطار کر کےضرور شائع کر دینا ہے.اور یہ تو اس چیلنج کے لحاظ سے پہلی جلد ہے اس کے بعد اب سورۃ فاتحہ کی تفسیر کی اور جلد میں آئیں گی.خلفائے احمدیت نے سورۃ فاتحہ کی جو تفسیر کی ہے وہ اپنی جگہ بڑی حسین ہے اللہ تعالیٰ کی عطا ہے.انسان کا اپنا تو کچھ نہیں اور یہ بھی سورۃ فاتحہ کے مضامین کی شاید دو یا تین جلدیں بن جائیں.لیکن اب بھی ہم اس مقام پر آگئے ہیں کہ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ کہاں ہے وہ تفسیر جس کا چیلنج دیا گیا ہے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیان فرمودہ یہ تفسیری مجموعہ اس کے ہاتھ میں دے دیں گے اور اسے کہیں گے کہ یہ ہیں ان سات آیات کے حسین بیانات جو اسرار روحانی اور دقائق اخلاقی پر مشتمل ہیں.اس جیسی تعلیم اپنی ۷۲ کتابوں میں سے نکال کر دکھاؤ تو جانیں.لیکن سورۃ فاتحہ میں ابھی تو بہت کچھ ہے جو کچھ اب تک مل چکا ہے اس سے بھی بہت زیادہ قیامت تک نکلتا آئے گا.لیکن اب بھی میں سمجھتا ہوں کہ دو تین اور مجلدات سورہ فاتحہ کی تفسیر کی شائع کرنی پڑیں گی.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اور اس کے احسان سے اور ہماری اور آپ کی دعاؤں سے ممکن ہے اگلے جلسہ سالانہ پر مزید جلد میں آپ کے ہاتھ میں آجائیں.ابھی میں نے اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور اس کے فلسفہ پر جو خطبات دیئے تھے؟ جس وقت میں یہ خطبات دے چکا تو مجھے خیال پیدا ہوا کہ اکثر احمدی تو مذہب سے دلچسپی رکھتے ہیں اور ان خطبات میں جو مختلف مذہبی پہلو بیان ہوئے ہیں.جن کی بنیاد پر آگے اقتصادی اصول قائم کئے گئے ہیں وہ بڑے شوق سے پڑھیں گے اور بڑی لذت محسوس کریں گے لیکن دوسرے لوگ خصوصاً غیر مسلم جو ہیں ان کو تو مذہب یا اسلام یا قرآن سے دلچسپی نہیں وہ شاید bore یعنی اُکتا جائیں اس لئے ان سارے خطبات کا ایک خلاصہ بیان کر دینا چاہئے جس میں صرف اصول بتا دیے جائیں.اس کی حکمتیں اور وہ روحانی بنیاد جن کے اوپر ان کو قائم کیا گیا ہے اس کو چھوڑ دیا جائے اور جو تعلیم ہے اور جو اس کا فلسفہ ہے وہ بیان کر دیا جائے اور یہ دراصل خلاصہ ہوگا ان خطبات کا.چنانچہ میں اس وقت بہت دعا کر رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ جو کچھ تم نے ان چودہ خطبات میں بیان کیا ہے یہ سارا مضمون سورۃ فاتحہ میں پایا جاتا ہے.تم سورۃ فاتحہ کی اقتصادی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۵۴ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطار تفسیر بیان کر دینا تو ان خطبات کا خلاصہ آ جائے گا.چنانچہ مجھے بڑا لطف آیا لیکن ابھی تک مجھے موقع نہیں ملا کچھ دوسرے کام، کچھ دوسرے نئے مضامین ضرورت جماعت کے لئے سامنے آ جاتے ہیں اس واسطے انسان سلسلہ وار مضمون بیان نہیں کر سکتا بلکہ ضرورت وقت مثلاً مالی تحریک ہے.تبلیغی اور اصلاحی تحریک ہے یہ درمیان میں آجاتی ہے ان کا مطالبہ ہوتا ہے یہ بہر حال پورا کرنا پڑتا ہے اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو سورۃ فاتحہ کی اقتصادی تفسیر بھی آجائے گی.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر سورۃ فاتحہ چھپ چکی ہے.بڑی لطیف ہے اسے پڑھ کر بڑا مزہ آتا ہے اور جتنی دفعہ پڑھیں نئے سے نئے مضامین سوجھتے رہتے ہیں.میرے تو بہت سارے خطبات کی بنیاد وہ Ideas ( یعنی نظریات ) ہوتے ہیں جو وہاں بکھرے ہوتے ہیں.ان میں سے کسی نہ کسی پر ہی اپنے مضمون کی بنیاد رکھا کرتا ہوں یعنی وہاں سے ایک خیال لے لیا اور اس کو پھیلایا اور وہ خطبہ تیار ہو جاتا ہے.یہ صحیح ہے کہ ہر آدمی اتنی وسعتیں حاصل نہیں کر سکتا.علم کا ملنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہی معلم حقیقی ہے.غرض یہ ہے بڑی لطیف تفسیر دوستوں کو چاہئے کہ وہ اسے ضرور خریدیں.میں سمجھتا ہوں کم از کم ہر نوجوان کوسورۃ فاتحہ کی یہ تفسیر اپنی بغل میں رکھنی چاہئے کیونکہ قرآنی مضامین کا اجمال سورۃ فاتحہ ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ قرآن عظیم سورۃ فاتحہ کے اجمال کی تفصیل بیان کرتا ہے پس یہ مضامین جب آجائیں گے تو سارے قرآن کریم کی آوٹ لائنز (out lines) سامنے آجائیں گی.اس لئے یہ تفسیر ہر عاقل بالغ پڑھے لکھے نو جو ان کے ہاتھ میں ہر وقت رہنی چاہئے بلکہ میں تو کہوں گا کہ سرہانے رکھنی چاہئے میرے تو سر ہانے پڑی رہتی ہے جب دو چار دس پندرہ بیس منٹ کا مجھے وقت ملتا ہے تو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنی شروع کر دیتا ہوں اور وہ وقت ضیاع سے بچ جاتا ہے اور اس وقت میں ایک لذت اور سرور حاصل کرتا ہوں.غرض میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس سے محروم نہ رہیں یہ عادت ڈالیں اور یہ کتاب ضرور خریدیں.پھر تاریخ احمدیت جلد دہم ہے جو ۱۹۴۴ء ۱۹۴۷ء کے حالات پر مشتمل ہے اور جوڑ ملانے کے لئے کہیں وہ آگے نکل گئے ہیں اور کہیں پیچھے سے جوڑ ملایا ہے.اس لئے زمانہ کے لحاظ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۵۵ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطار ۱۹۴۴ء سے پہلے سے شروع ہوتی ہے اور ۱۹۴۷ء کے بعد تک جاری رہتی ہے.مثلاً تعلیم الاسلام کالج کو جو لیا ہے تو انہوں نے ۴۷ء میں قادیان کی ہجرت پر نہیں حالات کو چھوڑا بلکہ لا ہور کے بعد ربوہ میں پہنچا کر پھر اپنا مضمون بند کیا ہے.تذکرہ نیا ایڈیشن جو ایڈیشن سوئم ہے وہ بھی چھپ گیا ہے.تذکرہ ہم نے اس مجموعہ کا نام رکھا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قریباً سارے الہامات جمع ہو گئے ہیں.قریباً میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہر ایڈیشن میں کچھ نئے الہامات کا پتہ لگتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی دوست کو خط لکھا اور اس میں تحریر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ الہام کیا ہے لیکن کسی وجہ سے اس وقت الحکم یا البدر میں یا کسی اور کتاب میں نہیں چھپا اور شروع میں سامنے نہیں آیا.پس اس طرح کے الہامات سامنے آتے رہتے ہیں.گویا ہر دفعہ کچھ اضافہ بھی ہوتارہتا ہے.الشرکۃ الاسلامیہ نے شائع کیا ہے.اسی طرح الشركة الاسلامیہ نے روحانی خزائن جلد اول جو براہین احمدیہ ہر چہار حصص پر مشتمل ہے شائع کی ہے.پہلے یہ out of print یعنی نایاب تھی اب انہوں نے دوبارہ شائع کر دی ہے.میاں مبارک احمد صاحب نے سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایک مضمون غالباً کسی موقع پر کسی تقریر میں بیان کیا تھا.اس کا انگریزی ترجمہ انگلستان سے چالیس ہزار کی تعداد میں شائع ہوا ہے.میں نے اسے سرسری طور پر دیکھا ہے میں نے محسوس کیا ہے کہ اس میں سیرت کو بڑی اچھی طرح لکھا گیا ہے.یہاں بہت سے ایسے دوست جو احمدی ہیں اور بہت سے ایسے دوست جو بھی احمدی نہیں ہیں ان کا دل کرتا ہے کہ جس کی طرف ہمیں بلایا گیا ہے یا جس کی طرف ہمیں بلایا جارہا ہے.اس کے کچھ حالات کا تو ہمیں پتہ لگے کہ وہ کس اخلاق کا انسان تھا اس کا مقام کیا تھا.بعض دفعہ ہمیں بہت وقت پڑتی ہے بعض دفعہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ اسلام نے مضمون بیان کیا تم اس پر غور کرو.وہ آگے سے کہتے ہیں کہ ہمیں اردو نہیں پڑھنی آتی انگریزی میں اگر کوئی مواد ہے تو اس میں دیں پھر ہم غور کریں گے.یہ بھی بڑی مشکل پڑ گئی پہلے تو صرف عربی کی وجہ سے مشکل تھی اب اردو نہیں آتی.پس کہتے ہیں کہ عربی نہیں آتی اردو نہیں آتی انگریزی مواد
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۵۶ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطار ہے تو دو.اگر تو انگریزی ماں کا بچہ یہ کہے کہ انگریزی میں مواد دو، اگر ایک فرانسیسی ماں کا بچہ ہمیں یہ کہے کہ فرانسیسی میں مواد دو، اگر ایک سپینش ماں کا بچہ یہ کہے کہ سپینش میں مواد دو، تو اس کا حق اور ہمارے لئے شرمندگی کا باعث ہے کہ ہم اس کی زبان میں وہ مواد شائع نہیں کر سکے اور اس طرح اسے روحانی خزائن سے محروم کر رہے ہیں.لیکن جب ایک اردو بولنے والے ماں باپ کا بچہ ہمیں یہ کہے کہ مجھے اردو نہیں آتی انگریزی میں مواد دو تو شاید میری غلطی ہو پر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بات اسے شرمندہ کرنے والی ہے.محمد اجمل صاحب شاہد نے ایک دلچسپ کتاب ( میرے لئے دلچسپ ) یعنی امام محمد ابن سیرین کی کتاب کا وہ کہتے ہیں ترجمہ ہے.میرا خیال ہے خلاصہ ہے کیونکہ میرے پاس عربی میں ہے اور میں نے جب مقابلہ کیا تو تعبیر الرویاء اردو والی کو اس سے بہت کم پایا غالباً انہوں نے خلاصہ کیا ہے ٹھیک ہے انہوں نے بہت سارا سوچا ہوگا کہ اتنی لمبی لمبی خوا میں بھی لوگ نہیں دیکھتے.پس انہوں نے سوچا کہ اس کو مختصر کر دو بہر حال بہت سے لوگوں کو اس سے دلچسپی ہوتی ہے.یہ بڑا دلچسپ علم ہے.جن کو دلچسپی نہیں ہوتی وہ پھر مجھے بہت تنگ کرتے ہیں.ہر ڈاک میں پانچ سات خواہیں ہوتی ہیں کہ یہ میں نے خواب دیکھی ہے اس کی تعبیر بھیج دیں.اگر میں اس طرح دوستوں کی خوابوں کی تعبیر کرنے لگوں تو غالباً جماعت کا اور کوئی کام نہ کر سکوں صرف تعبیر میں لکھتا رہا کروں.اس واسطے میں تعبیر کا خلاصہ بھجوا دیتا ہوں.کیونکہ بالکل مایوس بھی نہیں کرنا ہوتا.مثلاً ان کو میں اتنا لکھ دیا کرتا ہوں کہ اگر میرے نزدیک خواب مبارک ہو کہ یہ خواب مبارک ہے یا اگر میرے نزدیک انذار کا کوئی پہلو ہے تو صرف یہ نہیں لکھتا کہ اس میں انذار کا کوئی پہلو ہے صرف اتنا لکھ دیتا ہوں کہ کچھ صدقہ دو دعائیں کرتے رہو.پس اس سے زیادہ تو نہیں لکھ سکتا.ایسے دوستوں کے پاس یا ان کے شہر اور محلے میں یہ تعبیر الرویا اردو میں ہوگی تو شاید ان کی کچھ سیری ہو جائے.اصحاب احمد جلد سوم ملک صلاح الدین صاحب کی طرف سے شائع ہوتی ہے.یہ بھی بڑی ہی مفید کتاب ہے انہوں نے بہت سا علم اکٹھا کر دیا ہے.اسی طرح چوہدری ظہور احمد صاحب نے ایک کتاب لکھی تھی کشمیر کی کہانی اور وہ ختم ہو گئی تھی اب دوبارہ اس کو شائع کیا گیا ہے اس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کشمیر اور کشمیریوں کے لئے جو کام کیا اور جماعت سے جو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۵۷ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ ء.دوسرے روز کا خطار قربانیاں دلوائیں ان کا ذکر ہے.میرے نزدیک بہت سے پہلوتشنہ ہیں لیکن جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بڑا مفید ہے اس سے فائدہ اٹھانا ہے.ایک ابھی مجھے دی گئی ہے ”احمدیہ پاکٹ بک مکرم محترم قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے اسے مرتب کیا ہے اور چار مضامین پر یہ مشتمل ہے جن کا ذکر شروع میں نہیں کیا گیا.نہ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کس کس صفحے سے شروع ہوتے ہیں کسی دوست نے بتایا ہے کہ آخری صفحے پر ہیں.نہیں آخری صفحہ پر فہرست ہے میری مراد یہ ہے کہ ان چار عنوانوں کے متعلق یہ بتایا گیا ہو کہ ان مضامین پر فلاں فلاں صفحے سے بحث شروع ہوتی ہے یہ میری نظر سے نہیں گذرا اگر ہے تو بہر حال جو میرے سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ پہلا مسئلہ جس پر اس میں بحث کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے دوسرے بزرگ انبیاء کی طرح ہی وفات کے بعد اپنے رفقاء کے پاس چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں وہاں بڑے خوش ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کی جو پیشگوئیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیں اور بعض دوسری پیشگوئیاں ہیں ان کی حقیقت کیا ہے؟ اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جوعظیم مقام اللہ تعالیٰ نے عطا کیا جس کو ہم خاتم النبین ہونے کا مقام کہتے ہیں اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں خود حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے مطابق اور جو پہلے بزرگ گذر چکے ہیں ان کے بیان کے مطابق کیا ہے.الفضل ہے الفرقان ہے ماہنامہ انصار اللہ ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تین تقریریں بھی شائع ہوئی ہیں.میں علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ اصل علم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب اور بیان میں ہے باقی تو کسی حصے کی تفسیر ہے کسی جگہ بعض پہلوؤں کو نمایاں کیا گیا ہے.بہر حال بنیا دو ہیں ہے.جس طرح قرآن کریم کے باہر کوئی صداقت نہیں یہ پکی بات ہے.بعض دفعہ یہ جو بعد میں جھگڑے پڑے ہیں.ہماری جماعت میں ہی غلط خیال پیدا ہو جاتے ہیں.قرآن کریم ایک کامل اور مکمل کتاب ہے اور قرآن کریم کو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی اپنے کمال کے لئے ضرورت نہیں یعنی یہ خیال غلط ہے کہ اگر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۵۸ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطا.نہ ہوتے یا اگر ان کو علیحدہ کر دیا جائے.تو قرآن کریم ناقص ہو جائے گا.یہ غلط ہے قرآن کریم اپنی ذات میں کامل اور مکمل ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد احکام قرآنی اور بیان قرآنی پر زائد نہیں ہے بلکہ آپ کا ہر ارشاد اور آپ کا ہر بیان قرآن کریم کی تفسیر ہے.زیادتی کوئی نہیں یہ تفسیر ہے.قرآن کریم کی جو تفسیر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی پہلا نمبر تو اسی تفسیر کا ہے.دنیا کا کوئی آدمی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میری تفسیر کو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر پر فوقیت حاصل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی یہ دعوئی نہیں تھا نہ آپ ایسا دعویٰ کر سکتے تھے.اس محبت میں ڈوبے ہوئے جو آپ کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نظر آتی ہے.یہ دعوئی ممکن ہی نہیں تھا کیونکہ ویسا عاشق فرزند اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اور نہیں دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تفسیر قرآنی کو یا اللہ تعالیٰ نے جو مفہوم سمجھائے ان کی بناء پر یا اللہ تعالیٰ نے جو یہ بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد ہے اس میں اس لحاظ سے تفسیر کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے وہ دروازے کھولے اور آپ نے وہ تفسیر بیان کی.ہمارے نزدیک دوسرے نمبر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر ہے.پہلے نمبر پر قرآن کریم کی تفسیر حضرت محمد مصطے صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ہے اور دوسرے نمبر پر قرآن کریم کی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر ہے جو آپ نے کی ہے اور آپ کی تفسیر میں کوئی ابدی غلطی نہیں رہ گئی.آپ اس بات کو غور سے سنیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفسیر کی ہے اس میں کوئی ابدی غلطی نہیں رہ گئی بلکہ اگر پہلے اعتقادات کی وجہ سے آپ نے کوئی بات بیان کی تو بعد کی کتب میں اللہ تعالیٰ کے منشا اور الہام کے ساتھ اس کی تصحیح کر دی گئی اور جس شکل میں مجموعی طور پر ہمارے ہاتھ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر دی گئی ہے اس شکل میں اس میں سوائے صداقت کے کچھ نہیں.ایک مسئلہ ہے اس پر ایک وقت میں کچھ کہا دوسرے وقت میں کچھ کہا مگر جب ہم مجموعی طور پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ ایک وقت میں آپ نے یہ کہا حضرت مسیح علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں.اس واسطے کہ وہ دل اپنی طرف سے کوئی بات اپنی زبان پر نہیں لاسکتا تھا اور نہ لانا چاہتا تھا.جب
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۵۹ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ ء.دوسرے روز کا خطار تک اس دل میں خدا تعالیٰ کی قدرت کا ملہ سے تاریں نہیں کھینچی گئیں.اس وقت تک جو دوسروں کا عقیدہ تھا وہ کہتا اور جس وقت خدا نے اسے کہا کہ دوسروں کا عقیدہ بھی غلط اور اب تک تیرا عقیدہ بھی غلط.پس وہ خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ میں آج تک غلطی کر رہا تھا کیونکہ اپنی طرف سے کہتا تھا آج مجھے خدا نے بتایا ہے اور میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ جو میں کہتا رہا اور جو پہلے لوگ کہتے رہے.وہ بات غلط تھی لیکن جو خدا تعالیٰ کہتا ہے وہ بات صحیح ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب اور تفسیر میں مجموعی طور پر کوئی ابدی غلطی نہیں رہی یعنی جو چلتی رہی اور جسے کسی اور نے ٹھیک کرنا ہے.اس کے اوپر بحث کرنی ہے کہ آیا ٹھیک ہے یا نہیں.میں اس لئے یہ کہتا ہوں کہ ہم سب کے آقا اور خدا کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ میرا وہ عظیم روحانی فرزند حکم ہو کر تمہاری طرف آئے گا.اس کا آخری فیصلہ تمہارے لئے آخری اور قطعی ہو گا.اگر ہم یہ نہ مانیں تو پھر آپ حکم نہیں اور اگر ہم حکم نہ مانیں تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے والے ہیں.آخری فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بطور حکم کے قطعی فیصلہ ہے.اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا.ہم کچھ حقیر ساتحفہ اپنے اللہ کے حضور ہر سال ہی پیش کرتے ہیں اور پھر اس جلسہ کے موقع پر اس کا ذکر خلاصہ ہو جاتا ہے اس لئے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم اللہ کے شکر گزار بندے بنیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ شکر گزاری سے پیار کرتا ہے شکر گزاری کو پسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ناشکری کو نا پسند کرتا اور ناشکروں کو اپنی درگاہ سے دھتکار دیتا ہے.بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شکر صرف نتیجہ پر ہی کیا جاتا ہے جو کسی کو حاصل ہوتا ہے مثلاً بچوں کو اور نوجوانوں کو سمجھانے کے لئے میں یہ مثال دے رہا ہوں کہ جو نو جوان یو نیورسٹی کی سو گز کی دوڑ میں حصہ لیتے ہیں.ان میں سے جو اول آیا اسے صرف اول آنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہئے لیکن جو حقیقت سے واقف ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ صرف نتیجہ پر ہی شکر ادا نہیں کرنا چاہیے.بلکہ نتیجہ کا سامان پیدا کرنے والے کے لئے اور نتیجہ کے سامان پیدا کئے جانے پر اس سے بھی زیادہ شکر ادا کرنا چاہئے یعنی اللہ تعالیٰ کا جس نے یہ طاقت دی ایک انسان کو کہ وہ اپنے جسم کو اور اعصاب کو اتنا مضبوط کرے اور پریکٹس سے اتنا اچھا ہو جائے کہ وہ دوسروں کے آگے نکلے اس توفیق کے بغیر تو وہ آگے نکل ہی نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۶۰ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطا.ما حول کو گھر کا ماحول ہو یا کالج کا ماحول ہو یا وہ ماحول جس میں اس کی یہ قوت اور استعداد ترقی کر سکتی تھی.اس کے ماحول کو یہ توفیق دی کہ اس فرد واحد کو جو قوت دی گئی تھی.اس قوت کی کمال نشو ونما کر سکے یا قریباً کمال نشو و نما کر سکے.اس کے بغیر وہ فسٹ آہی نہیں سکتا تھا.ایک شخص کو اللہ تعالیٰ یہ طاقت دے کہ اگر وہ چاہے اور اس کو غذا صحیح ملے اس کا دماغ آوارہ نہ ہو.اس کے خیالات پراگندہ نہ ہوں.اس کی عادتیں بری نہ ہوں وہ وقت پر سونے والا اور پورا آرام لینے والا ہو.اس کا گھر دنیوی لحاظ سے فراخی والا ہو کہ اس کے کھانے کی جو ضرورت ہو وہ پوری ہو رہی ہو جس سے اس کی نشو ونما بھی کماحقہ ہو رہی ہو.اس ماحول میں اس نے پرورش پائی اور پھر وہ دوڑ میں گیا اور اول آ گیا.پس صرف دوڑ میں اول آنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرنا بلکہ اس بات پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کہ اس نے طاقت دی اس طاقت کو سمجھنے کی توفیق دی اس طاقت کو نشو و نمادینے کی توفیق دی اس طاقت کے نشو و نما کے کمال تک پہنچانے کی توفیق دی.یہ ساری توفیقیں اگر نہ ملتیں تو یہ شخص فسٹ نہ آتا پس محض نتیجہ پر شکر نہیں بلکہ نتیجہ کے سامانوں پر ہمیں شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اسی پرہ کا دیا گیا واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمُ وَاشْكُرُوالہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو بھی دیا ہے.تمہیں اوقات دیئے ہیں تمہیں طاقتیں دی ہیں تمہیں اموال دیئے ہیں تمہیں بہترین سے بہترین کھانے دیئے ہیں تمہاری كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ کا مختصراً مفہوم یہ ہے کہ تمہیں طاقتیں دی ہیں اور ان طاقتوں اور استعدادوں کو کمال نشو ونما تک پہنچانے کے لئے تمہارے لئے سامان پیدا کر دیئے گئے ہیں.لوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ اس لئے اپنی طاقتوں اور استعدادوں کی قدر کرو اور ان کی نشو و نما کے جو سامان پیدا کئے گئے ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤ تاکہ تم ایک حسین شکل میں دنیا کے سامنے آؤ.بَلْدَةً طَيْبَةً وَرَبِّ غَفُورٌ یہ بڑا پیارا فقرہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک کمال موافقت رکھنے والا ماحول میں نے تمہارے لئے پیدا کر دیا ہے.ربِّ غَفُورٌ اس ماحول میں پورے کا نشکس (conscious) ہوتے ہوئے اور علی وجہ البصیرت تم اپنی کوشش کرو.لیکن تمہاری کوشش میں نقص رہ جاتے ہیں انسان میں بشری کمزوریاں ہیں.جو نقص رہ جاتے ہیں ان سے تم گھبرانا نہیں.یعنی جو انسان اپنے نفس کو پہچانتا ہے جہاں وہ یہ پہچانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنے قرب ----
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۶۱ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطاب کی بڑی راہیں کھولی ہیں وہاں یہ بھی پہچانتا ہے کہ میرے نفس میں بڑی کمزوریاں ہیں.میرے ساتھ آفات نفس لگی ہوئی ہیں.میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ان سے بچ نہیں سکتا پس فرمایا : - بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وہ سارا ماحول پیدا کر دیا جو تمہاری قوتوں اور استعدادوں کی صحیح نشو و نما کرنے والا ہے اب تم کوشش کرو اور آگے بڑھو جب تم کوشش کرو گے اور آگے بڑھنے کے لئے تگ و دو کرو گے اس وقت یہ احساس اپنے دل میں پاؤ گے کہ تمہارے اندر بشری کمزوریاں ہیں.ان سے نہ گھبرانا رَبِّ غَفُورٌ مغفرت کرنے والا تمہارا رب ہے یہاں رَبِّ غَفُورُ کہہ کر مغفرت اور ربوبیت کو اکٹھا کر دیا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح تمہاری مغفرت کر دے گا کہ تمہاری ربوبیت اور تمہاری تربیت اپنے کمال کو پہنچ جائے گی.بَلدَةٌ طَيِّبَةٌ مثلاً یہ ہمارا ربوہ ہے یہ ہمارے لئے بَلْدَةٌ طَيِّبَةً ہے ان مکھیوں کے لئے بَلْدَةٌ طيبة نہیں ہے.جن کو مارنے کے لئے ہم مہم کرتے ہیں کہ ملیریا نہ پھیلائیں.ان چوہوں کے لئے یہ بَلدَةٌ طيبة نہیں ہے.جن کو مارا جاتا ہے کہ وہ خرابی پیدا نہ کریں میں ایک خاص بات واضح کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ کے یہ معنے صحیح نہیں کہ ایک شہر ہے جو بڑا اچھا ہے بلکہ بلدَةٌ طَيِّبَةٌ کے یہ معنے ہیں کہ ایک شہر ہے جو انسان کے لئے اس کی نشو ونما کے لئے اور اس کی نشو و نما کے کمال کو پہنچانے کے لیے اچھا ہے.وہ بھیڑوں کے لئے اچھا نہیں وہ مکھیوں کے لئے اچھا نہیں وہ چوہوں کے لئے اچھا نہیں وہ چوروں کے لئے اچھا نہیں وہ جو غیر تربیت یافتہ نو جوان جلسہ کے دنوں میں سکوٹروں پر بیٹھ کر شاید اس امید پر آ جاتے ہیں کہ شاید ننگے منہ عورتوں پر ہماری نظر پڑ جائے گی ان کے لئے اچھا نہیں.فوراً چیک کر لیا جاتا ہے اور ان کو آگے بھیج دیا جاتا ہے لیکن ہمارے لیے یہ بَلدَةٌ طيبة یعنی بڑا اچھا شہر ہے.پاک ماحول ہے جس میں انسان جسمانی اور روحانی طور پر ترقی کر سکتا ہے.یہ صحیح ہے کہ بعض چیزیں ہمیں نہیں ملیں ان میں نقص آ جاتے ہیں.یہ صحیح ہے کہ انسان کمزور ہے ہماری تربیت میں نقص رہ جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے فرما یارب غَفُورٌ ہمیں تو کوئی حجاب نہیں اس بات کے ماننے میں کہ ہمارے اندر لنقص رہ جاتے ہیں.اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے اندر نقص کوئی نہیں رہتا تو پھر ہمیں یہ بھی اعلان کرنا پڑے گا کہ ہمیں رب غفور کی ضرورت نہیں.ہمیں تو ہر آن ہر لحظہ رَبِّ غَفُورٌ کی ضرورت ہے.تو اس کا شکر ادا کرنے کے لئے ہم وہ باتیں یہاں بیان کرتے ہیں جو بیان کرتے ہیں.ورنہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۶۲ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطا.-------- اللہ کی قدرتوں کو دیکھنے کے بعد ساری دنیا اور دنیا میں رہنے والے سب ہمارے لئے ایک مردہ کی طرح ہیں ان کے سامنے ہم جا کر اپنی گردنوں کو فخر کے ساتھ کیسے اونچا کریں گے.مردوں کے سامنے بھی کوئی فخر کیا کرتا ہے.جب خدا تعالیٰ کی قدرت نے ہمیں اس طرح گرفت میں لے لیا ہے کہ دنیا کی ہر دوسری چیز ایک مردہ کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے تو ان کے سامنے تو فخر کی ضرورت نہیں اور وہ جو زندہ دل اور زندہ روح رکھنے والے احمدی اور مسلمان ہیں ان کے سامنے اس لئے نہیں کہ ان کو بھی پتہ ہے کہ ہم لاشئے محض ہیں اور ہمیں بھی پتہ ہے کہ ہم لاشئے محض ہیں.نہ اس نیستی کا احساس ان سے چھپا ہوا ہے اور نہ ہم سے چھپا ہوا ہے.پس ان کے سامنے ہم کس طرح فخر سے بات بیان کر سکتے ہیں کر ہی نہیں سکتے.پس فخر کے لئے نہیں نہ غیروں کے سامنے فخر یعنی ان غیروں کے سامنے جو خدا سے دور اور خدا سے جنہوں نے زندگی نہیں پائی ان کو تو ہم مردہ تصور کرتے ہیں نہ اپنوں کے سامنے فخر کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا بھائی بھی اس طرح اس حقیقت پر قائم ہے جس طرح کہ میں ایک لاشی محض ہوں اور نیستی کا لبادہ پہنے ہوئے خدا کے حضور جھکا ہوا ہوں.کوئی فخر کی بات نہیں لیکن تحدیث نعمت کے طور پر اس نیت کے ساتھ اس امید پر بیان کرتے ہیں کہ جب ہم دنیا کے سامنے یہ اعلان کریں گے کہ باوجود ہرقسم کی کم مائیگی کے محض اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم نے یہ کیا نہ ذرائع ہمارے اپنے ، نہ اسباب ہمارے پیدا کردہ نہ طاقتیں اپنے زور سے ہم لینے والے نہ ان کی نشو ونما کو اس کے کمال تک پہنچانے میں ہمارے اپنے نفسوں کا اپنا حصہ.ہر درجہ پر ہر طرح پر ہر پر قدم پر اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر کچھ ہو نہیں سکتا تھا اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی.ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَ رَبِّ غَفُورٌ تم ایک پاک ماحول کو جو میری توفیق سے پاؤ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو.وَرَبِّ غَفُورٌ وہ بشری خامیاں رہ جائے گی ان سے گھبراؤ نہیں.و سنجزی الشاکرین اس طرح جو ہمارا شکر ادا کرنے والے ہوں گے.ہم انہیں جزا دیں گے.جو تو فیق انہیں نیکیوں کی پہلے ملی ہے اس سے زیادہ تو فیق نیکیوں کی انہیں بعد میں دی جائے گی اس واسطے مومن کا ہر قدم پہلے قدم سے آگے پڑتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر قدم پر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والا ہوتا ہے.قوتیں اور طاقتیں اور ستعداد میں پہلے دی گئی ہیں ان سے بڑھ کر قو تیں اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۶۳ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطا.استعداد یں دی جائیں گی جو شدت احساس کی ہم خدا کے قرب کو حاصل کر کے اس کی محبت پا کر اس کی رضا کی جنت میں داخل ہوں احساس میں یہ شدت پہلے سے زیادہ تیز ہوگی.پھر نتیجہ پہلے سے زیادہ نکلے گا پھر تمہارے دل میں شکر کے جذبات پہلے سے زیادہ پیدا ہوں گے.پھر تم ہر قسم پر سوچ کر خدا کا شکر ادا کر رہے ہو گے.پھر وہ ایک چکر چلے گا پھر ایک نیا جلسہ آئے گا پھر اس جلسہ پر اسی قسم کی باتیں دھرائی جائیں گی لیکن پہلے سے زیادہ بڑی شکل میں پہلے سے زیادہ حسین رنگ میں پہلے سے زیادہ خوبصورت طریقے پر وہ سامنے آتی رہیں گی.جب تک قوم شکر کے اس مقام پر رہے گی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتی چلی جائے گی اس کے انعاموں کی زیادہ سے زیادہ وارث ہوتی چلی جائے گی اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ یہی سلوک روارکھے.فضل عمر فاؤنڈیشن یعنی جو اللہ تعالیٰ نے ماضی میں ہم پر احسان کئے ہیں اب میں ان کا ذکر کروں گا.یہ تو ابھی میں نے تمہید بیان کی ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک جلسہ سالانہ ۱۳۴۵اهش (مطابق ۱۹۶۵ء) کو کی گئی تھی لیکن امان ۳۴۶ اھش ( مطابق مارچ ۱۹۶۶ء) سے اس پر با قاعدہ کام شروع ہوا.جس وقت یہ تحریک ہوئی مکرم محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے یہ تحریک کی پھر غالبا میں نے کچھ وضاحت کی.اس وقت میرا خیال تھا کہ اندرون پاکستان اور بیرون پاکستان سے اگر ۲۵لاکھ روپیہ اس فنڈ میں جمع ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ہم پر بڑا فضل کرے گا.اس کی میعاد ۳۰ را حسان ۳۴۸اهش ( یعنی ۳۰ جون ۱۹۶۹ء) اور بیرون پاکستان کیلئے ۳۰ فتح ۱۳۴۸اهش ( یعنی ۳۰ دسمبر ۱۹۶۹ء) تک مہلت دی گئی تھی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس وقت پچیس لاکھ کی حد مقرر کی گئی تھی.مگر وہ قدر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیدا ہوئی تھی جو حوالہ میں نے کل پڑھا تھا اس کا ایک حصہ جو کل کے مضمون سے تعلق نہیں رکھتا تھا وہ میں نے چھوڑ دیا تھا.اس میں آپ فرماتے ہیں کہ اب یہ سارے اللہ تعالیٰ کے نشان ہیں بلکہ دو باتیں چھوڑ دی تھیں.بعد میں اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو بتایا اس میں ایک نافلہ بھی بطور نشان کے زائد کیا گیا تھا.لیکن اس مضمون کے ساتھ اس وقت میرا تعلق نہیں تھا.حضور فرماتے ہیں اس لئے میں فرض سمجھتا ہوں ان کی قدر کرنا.اس کے بعد لکھتے ہیں اس میں سے ایک وہ ہے جو موعود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۶۴ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ ء.دوسرے روز کا خطار مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہاں لکھا ہے کہ میں اپنے موعود فرزند نشان الہی کی قدر کرنا باقی دوسروں کی قدر سے بھی زیادہ فرض سمجھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو اللہ تعالیٰ نے بتایا آپ کی روحانی آنکھ نے وہ دیکھا چنانچہ آپ کا دل اس نظارہ کی وجہ سے اس فرزند موعود کی قدر کرنا فرض سمجھنے لگا.جماعت احمدیہ نے اپنی ان جسمانی آنکھوں سے وہ دیکھا کہ جماعت کے ہر فرد کا دل اس موعود فرزند کی قدر کرنا اپنا فرض سمجھنے لگا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا اور آپ کی محبت نے یہ عملی ثبوت دیا کہ ہم نے ڈرتے ڈرتے اعلان کیا کہ پچپیس لاکھ تک جمع ہو جائے تو خدا کے بڑے مشکور ہوں گے اللہ تعالیٰ آپ کو بہت ہی نعمتوں کا وارث کرے گا.لیکن جماعت نے کہا پچیس لاکھ نہیں ہم بتیس لاکھ سے بھی زیادہ دیں گے.ابھی وہ اور بھی زیادہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں.یعنی پچیس لاکھ ایک ایسی حد تھی کہ ہم ڈرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پوری نہ ہو اور ہمیں ایک قسم کی خفت اٹھانی پڑے کہ جماعت کو اتنی بھی محبت نہیں کہ ایک اعلان کیا اور اسے بھی پورا نہیں کیا.یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھے ہمیشہ ڈرلگتا تھا اور میں دعائیں بھی کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے لیکن جماعت نے کہا اس قسم کا ظن ہم پر درست نہیں.ہم نے حسن و احسان میں مسیح موعود کے اس نظیر کے جلوے دیکھے ہیں ہم اس کے شکرانہ کے طور کے جتنا تم چاہتے اور امید رکھتے ہو اس سے بڑھ کر دیں گے.چنانچہ جماعت نے ۴۲۸۰۳, ۳۲ روپے آخری خبر کے آنے تک اس فنڈ میں دیئے.ابھی کچھ اور وعدے آ رہے ہیں کیونکہ بعض جگہوں کو مزید مہلت دی گئی ہے.بیرونی علاقوں میں بعض جگہ اور مہلت دینے کی ضرورت پڑی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ رقم بہر حال بڑھ جائے گی.یہ تو تھا نا کہ جہاں شیطان رخنہ اندازی کردیتا ہے کہ جی یہ ہم نے دیا یہ میں نے دیا، یہ جماعت نے دیا.نہ میں نے دیا نہ تم نے دیا اللہ نے دیا.اللہ تعالیٰ اگر دل میں یہ خیال نہ ڈالتا.یہ محبت نہ ڈالتا تو آکر کون دیتا پیار ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی شان ہے.اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے نظارے دکھاتا ہے.ساڑھے بتیس لاکھ کے قریب جماعت نے دیا اور اس عرصہ میں جو انوسٹمنٹ (Investment) کی گئی اس پر قریباً اڑھائی لاکھ روپے آمد ہوئی اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بارہواں حصہ یعنی جتنا لوگوں نے دیا اس کا آٹھ فیصد اللہ تعالیٰ نے دے دیا.حالانکہ یہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۶۵ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطار Investment جو ہے وہ بڑی پابندیوں کے اندر بندھی ہوئی Investment ہے کہ سود ہم نے نہیں لینا ہم تو ایسی جگہ Invest کرتے ہیں (سوائے مجبوری کے جہاں اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے ) جہاں خالص نفع کی شکل ہوتی ہے.جہاں خالص نفع کی شکل ہوتی ہے وہاں خالص گھائے کا امکان بھی ہوتا ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ گھاٹے کی طرف فضل عمر فاونڈیشن کی Investment کو لے کر نہیں گیا بلکہ وہ خالص نفع کی طرف لے گیا اور اڑھائی لاکھ کے قریب لے گیا اور اڑھ نفع ہو گیا.فالحمد للہ علی ذلک انگلستان کی جماعتوں نے وعدے تو بہت سے کئے تھے لیکن وصولی کی رفتار بھی اچھی تھی لیکن تسلی بخش نہیں تھی.اس لئے مکرم و محترم شیخ مبارک احمد صاحب (سیکرٹری ) کو فضل عمر فاؤنڈیشن نے وہاں بھیجوایا.بعض لوگ اب بھی بھول جاتے ہیں مجھے لکھ دیتے ہیں یہ ٹھیک ہے کہ خلیفہ وقت کی نگرانی ہر تحریک پر ہوتی ہے.لیکن تفاصیل جو ہیں اس میں فضل عمر فاؤنڈیشن والے آزاد ہیں مجھ سے مشورہ کر لیتے ہیں.مجھے اطلاع دے دیتے ہیں کہ اگر میں سمجھوں کہ مناسب نہیں تو منع کر دوں اور اگر خاموش ہو جاؤں تو سمجھیں کہ ٹھیک ہے.تو فضل عمر فاؤنڈیشن کی مجلس عاملہ نے یہ سمجھا کہ شیخ مبارک احمد صاحب کو باہر بھجوانا چاہئے چنانچہ شیخ مبارک احمد صاحب کو لندن بھجوایا گیا.یہ تفصیل میں اس لئے بتا رہا ہوں.اس کی میرے نزدیک ضرورت نہیں تھی کہ چند مہینے ہوئے مجھے ایک خط آیا کہ ایک نوجوان نے ناسمجھی میں یہ بات کر دی کہ اس کو خواہ مخواہ وہاں بھجوایا اس کا کیا فائدہ تھا اتنا خرچ ہو گیا.اس کو اور اس قسم کے باقی نو جوانوں کو تو میں یہ کہوں گا کہ جہاں علم نہ ہو وہاں ظن کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا اور جہاں ظن کے علاوہ کچھ نہ ہو وہاں بسا اوقات وہ طن ظن نہیں رہتا بلکہ بدظن بن جاتا ہے اور گناہ کا موجب بن جاتا ہے.انگلستان میں مکرم محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے اور ان کے چند ہفتوں کے دورے میں سوالاکھ روپیہ نقد وصول ہوا اور وعدوں میں دو ہزار پاؤنڈ کا اضافہ ہوا.مقاصد فضل عمر فاؤنڈیشن اس وقت جماعت کے سامنے آچکے ہیں ان میں ایک مقصد تو یہ تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی سوانح تیار کر کے شائع کی جائیں.اس سوانح کے سو سے زائد صفحات تیار ہو چکے ہیں اور کام ہو رہا ہے.اس کام میں کچھ تاخیر ہو گئی ہے دوست دعا کریں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ٣٦٦ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطا.کہ کام کرنے والے بھی کوشش اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اور جماعت کو یہ توفیق دے کہ آئندہ سال سے پہلے یہ سوانح چھپ کر شائع ہو جائیں.مختلف مسائل پر عملی اور تحقیقاتی تصانیف کے انعامی مقابلے کے لئے (۱۹۶۸ء) کے موصولہ مقالہ جات سینتیس تھے جن میں سے چار مقالے انعام کے مستحق قرار پائے اور ہر چہار مقالوں نے ایک ایک ہزار روپے انعام لیا یعنی فی مقالہ ایک ہزار روپیہ چنانچہ ایک جماعتی تقریب کے موقع پر یہ انعامات تقسیم ہوئے.سال رواں میں بارہ موعودہ مقالوں میں سے چار موصول ہوئے ہیں باقی شاید اس رپورٹ کے بعد آگئے ہوں گے.لیکن سینتیس سے تعداد گر کر بارہ پر آ جانا یہ تشویشناک ہے جماعت کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.فضل عمر فاؤنڈیشن نے جماعت کو ایک ایسی لائبریری کی عمارت کی جو بڑی خوبصورت بڑی فراخ اور وسیع اور زیادہ کتب اپنے سینے میں لیٹنے والی ہوگی پیشکش کی ہے اس کا نقشہ تیار ہو گیا ہے اور امید ہے انشاء اللہ سات جنوری سے اس پر کام شروع ہو جائے گا.دوست دعا کریں کہ انجینئر صاحب ایسے مل جائیں جو کام کو لٹکانے والے نہ ہوں.جس طرح ہماری مسجد اقصٰی ) کا کام انجینئر صاحب نے لٹکا دیا ہے.پچھلے جلسہ سالانہ سے پہلے مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ جلسہ کے موقع سے یہاں نماز شروع ہو جائے گی یعنی اس وقت تک تیار ہو جائے گی.اس پر سال گذ چکا ہے ابھی تک یہ تیار نہیں ہوئی.آپ کی قربانی کے لحاظ سے اور فضل عمر فاؤنڈیشن کے کاموں کے لحاظ سے اور اس کے منصوبوں کے لحاظ سے ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مختلف پہلوؤں اور جہات سے اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان کا اہل بنائے اور ہمیں توفیق دے کہ ماضی میں جو اس کے فضل ہم پر ہوئے ہم ان کا شکریہ ادا کرنے والے ہوں اور ان فضلوں کے نتیجہ میں جو اور ان فضلوں کے نتیجہ میں جو حسنات ہمیں ملیں ان حسنات کا بھی شکر کرنے والے ہوں اور اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ آئندہ مستقبل میں ہمیں اللہ تعالیٰ پہلے سے زیادہ اس کے حضور کچھ پیش کرنے کی توفیق عطا کرے اور اس پیشکش کو قبول کرنے کی توفیق عطا کرے اور اس پیشکش کو قبول فرمائے اور پہلے سے زیادہ ہمیں ان کے حسنات ملیں اور پہلے سے زیادہ ہم بلندیوں تک پہنچنے والے ہوں اور ہم اور زیادہ روحانی رفعتیں پانے والے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۶۷ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطار ہوں اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کی لذت ہم پہلے سے زیادہ محسوس کرنے والے ہوں.تحریک جدید کے کاموں میں سے جو چیز نمایاں طور پر سامنے آتی ہے.وہ یہ ہے کہ سال رواں سال میں یعنی جو سال اب ختم ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے سویڈن میں (ڈنمارک جہاں ہماری مسجد عورتوں کے چندے سے بنی ہے اس کے ساتھ الگ ملک سویڈن ہے.یہ ممالک سکنڈے نیویا بھی کہلاتے ہیں یعنی ایک ڈنمارک دوسرا سویڈن تیسرا ناروے) ایک جگہ پر ہی نہیں گوٹن برگ میں یا اس کے قریب جگہ ہے وہاں ایک بڑی جماعت قائم ہوگئی ہے.ہوا یہ کہ وہاں یوگوسلاویہ کے مہاجر ترک مسلمان خاندان آباد تھے جو اشتراکیت کے نفوذ کے وقت اپنے خاندانوں کی حفاظت اور اپنے اسلام کی حفاظت کے لئے اپنے ملک سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہو گئے تھے.ایک ھیولی زندہ تھا اور حقیقت غائب تھی.ڈنمارک قریب ہے وہ یہاں آئے مسجد دیکھی باتیں سنیں کچھ توجہ پیدا ہوئی.ان میں سے ایک نے یوگوسلاویہ میں اپنے امام کو خط لکھا کہ اس طرح یہاں جماعت کام کر رہی ہے مجھے بتاؤ کہ تمہارا فتویٰ کیا ہے کیا میں بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو جاؤں.یوگوسلاویہ میں مسلمانوں کے غالباً دو فرقے ہیں چنانچہ ان کے امام نے اس کو جواب دیا کہ تم بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہو جاؤ.ہمیں اس وقت پتہ نہیں تھا.ہمارے آدمیوں سے انہوں نے تبادلہ خیال کیا ایک اکٹھ کیا گیا جس میں قریباً چھپیں خاندانوں کے سر براہ غالباً پچیس ہی خاندان تھے ممکن ہے کچھ خاندان ایسے بھی ہوں جن کا سر براہ ایک سے زائد ہو بہر حال پچیس نوجوان کمانے والے اور سمجھ دار اس میں شامل ہوئے.جب ان سے یہ کہا گیا کہ تم اب بیعت کرلو.کیونکہ وہ سلسلہ کے عقائد کی تائید کر رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ بیعت کی کیا ضرورت ہے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سچا مانتے ہیں.پس ہمارے لئے بیعت کرنے کی کیا ضرورت ہے چنانچہ ہمارے مبلغ کو بڑی مشکل پیش آگئی.کیونکہ ایک طرف تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سچا تسلیم کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ بیعت کرنے سے انکار کر رہے تھے.ایسے وقت میں واقعی بڑی مشکل پڑ جاتی ہے.کیونکہ اس کے پھر بہت سارے ایسے نتائج نکلتے ہیں جن میں بدمزگی پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے.تو اس وقت خدائے علام الغیوب نے جس کو پتہ تھا کہ ایسے واقعات پیدا ہو جانے ہیں.تو ان میں سے ایک سے اس سلسلہ میں خط
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۶۸ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطار لکھوا دیا تھا.چنانچہ وہ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ میں بیعت کرتا ہوں اور بیعت فارم پر دستخط کرتا ہوں.کیونکہ میں نے وہاں امام کو لکھا تھا اور انہوں نے کہا ہے کہ بیعت فارم پر دستخط کر کے بے شک تم جماعت میں داخل ہو جاؤ.اس واسطے ضرورت ہے تو انہوں نے لکھا اگر بیعت کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی تو وہ مجھے اجازت کیوں دیتے چنانچہ اس نے بیعت کر لی اور اسے دیکھ کر اس وقت تو دو اور دوستوں نے بیعت کی.ہیں تو تمیں پینتیس خاندان لیکن ان میں سے بچھپیں خاندان احمدی ہو گئے.میں نے بتایا ہے کہ ہیولی باقی تھا اور روح گم تھی.جس وقت وہ احمدی ہوئے تو روح میں ایک زندگی پیدا ہوئی اور جسم نے ایک کروٹ لی.انہوں نے کہا کہ ہمارے بچوں کو قرآن نہیں آتا اسلام کا پتہ نہیں انہیں قرآن اور اسلام سکھانے کا انتظام کرو.عجیب بات یہ ہے کہ اپنے ملک سے ہجرت کی تھی اسلام کو بچانے کے لئے اور جب احمدیت میں داخل ہوئے تو پھر ان کو یہ احساس ہوا کہ اسلام تو ہمارے پاس کوئی نہیں ہے.پھر اللہ تعالیٰ کی شان ہے سوچا کریں کہ اللہ تعالیٰ رحم کرتا ہے اور کس طرح اپنی شان کے نظارے دکھاتا ہے.وہ لوگ جو نسلاً بعد نسل مسلمان تھے ان کے دلوں میں جب یہ احساس پیدا ہوا کہ ہمارے بچوں کو قرآن اور اسلام سیکھنا چاہئے تو ان کی غیرت پر تازیانہ لگانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی نو مسلمہ بچی کو انہیں قرآن سکھانے کے لیے مقرر کروایا جس نے دو سال ہوئے اسلام قبول کیا تھا.یہ بچی جس کا میں نے ذکر کیا ہے ۲۴ جولائی ۱۹۶۷ء کو مسجد میں ہماری غیر حاضری میں ہمارے انتظار میں مسجد میں بیٹھی ہوئی تھی.میں اور ساری جماعت اور مبلغین کہیں باہر گئے ہوئے تھے.جب ہم واپس آئے تو ہمیں پتہ لگا کہ اس طرح یو نیورسٹی کی ایک نوجوان طالبہ آئی بیٹھی ہے تو میں نے ایک آنریری مبلغ کو جو ناروے کے تھے اور سویڈن کے ان دونوں سے کہا کہ تم اس سے باتیں کرو.پتہ نہیں کس نیت سے آئی ہے بعض دفعہ کسی سے کوئی رشتہ کرنا ہوتا ہے اور آ جاتے ہیں کہ ہمیں مسلمان کر لو.اس نے اس سے باتیں کیں اور بتایا کہ تمہیں اسلام کا کچھ بھی پتہ نہیں یعنی ۲۴ جولائی ۱۹۶۷ء کو اس بچی کو کہنا پڑا کہ تمہیں اسلام کا کچھ بھی پتہ نہیں کتابیں لے جاؤ اور اسلام کو پڑھو تسلی ہوئی تو آنا اور بیعت کر لینا.مگر وہ بضد رہی اور کہنے لگی کہ مجھے اپنے امام سے ملواؤ.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۶۹ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطاب انہوں نے آکر مجھے بتایا کہ کسی صورت میں مانتی نہیں اور کہتی ہے کہ مجھے اپنے امام سے ملواؤ.میں نے کہا پھر اسے لے آؤ جب وہ آئی تو اس نے مجھ سے ایک سوال کیا میں نے اسے جواب دیا وہ کہنے لگی کہ پھر میری بیعت لے لیں اصرار کر رہی تھی.میں نے کہا اچھا بیعت کر لو فارم منگوایا عورتوں سے بھی فارم پر کروانا پڑتا ہے.چنانچہ اس کی بیعت لی اور دعا کی.ہم آگئے.یہ جولائی کی بات ہے دسمبر میں روزے آگئے.کالج میں چھٹیاں ہوئیں.گھر نہیں گئی مسجد ڈنمارک میں آگئی سارے روزے رکھے.عبادت میں دعاؤں میں اتنا شغف پیدا کیا کہ ایک احمدی کے گھر کھانے پر صرف اس وجہ نہ گئی کہ اگر میں جاؤں گی تو ڈیڑھ دو گھنٹے آنے جانے پر خرچ ہوں گے اور آدھا گھنٹہ وہاں کھانے پر خرچ ہو گا.پس میں یہ وقت کیوں ضائع کروں لہذا میں تو اس وقت بھی مسجد میں بیٹھ کر دعا کرنا چاہتی ہوں.۶۷ ء سے ۶۹ ء تک اس نے اتنا قرآن عظیم سیکھ لیا کہ ان چھپیں خاندانوں کے پیدائشی مسلمان بچوں کو قرآن کریم سکھانے کی جب ضرورت پڑی تو یہ ان کی استانی بنی.چھپیں میرا اندازہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یورپ کا جو tour( یعنی دورہ ) ہوا تھا.اس کی بڑی برکتیں ظاہر ہوئیں.دس دس سال میں جتنی تعداد میں وہاں کے لوگ احمدی ہوتے تھے.اس کے بعد ایک سال میں اس سے زیادہ احمدی مسلمان ہو گئے.بڑی بڑی اور قربانی کرنے والی جماعتیں قائم ہو گئیں یعنی پہلے تو سال میں ایک دو احمدی مسلمان ہوتے تھے اور ہم بڑے خوش ہوتے تھے کہ چلو erosion (اروژن ) ہوا.ایک ذرا ہی کاٹا اس کفر کی دیوار سے کچھ تو یہاں سے نکلا.کچھ تو ہمارے ساتھ شامل ہوا لیکن اب ایک سال میں مثلاً یہاں چھپیں خاندان جس کا مطلب یہ ہے کہ قریباً سو افراد ( بچے اور عورتیں ملا کر ) احمدی ہو گئے.اسی طرح اخلاص رکھنے والے پاک نفس اور پاک روح بچیاں اور بچے اللہ تعالیٰ ہمیں دے رہا ہے اور اس سے اب یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ شاید یورپ کی اکثریت ہلاکت سے بچ جائے پس ایک تو یہ اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے.دوسرا بڑا فضل یہ کیا ہے کہ پچھلے سال بھی میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ جاپان میں مشن کھولنا چاہئے.پچھلے سال تو میں نے تفصیل نہیں بتائی تھی.حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے قرآن کریم میں ذوالقرنین کے متعلق جو آیات پائی جاتی ہیں ان کے ایک تفسیری معنے یہ کئے ہیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ٣٧٠ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطا.کہ ذوالقرنین سے مراد مسیح موعود اور مہدی معہود ہے اور اس کے سفروں کی یہ تفصیل ہے.قرآن کریم کے بہت سے بطون ہوتے ہیں اور بہت سی تفاسیر ہوتی ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی علاوہ اور معانی کے اس کے یہ معنے بھی کئے ہیں لیکن ایک اور تفسیر کے ساتھ یعنی معنے یہی کئے ہیں کہ اس سے مسیح موعود ہی مراد ہیں اور ان کے یہ تین سفر ہوں گے اور یہ حالات پیدا ہوں گے.لیکن وہ مختلف معنے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے معنوں سے.ہر دو درست اور صحیح ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جو معنے کئے ہیں ان میں ایک سفر مشرق کا ہے تو جب خدا کا مامور اسلام کو غالب کرنے کے لئے کشفی طور پر یا الہامی بیان میں مشرق کا سفر کرے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تیر کی طرح ایک سیدھی لائن ہے اور جو ملک سامنے آ گیا وہ اس کے اثر کے نیچے آئے گا باقی نہیں آئیں گے.بلکہ پھیلاؤ میں وہ سفر ہے یعنی سارے مشرق کو گھیرتا ہے ورنہ تو مقصد حاصل ہی نہیں ہوتا.ہم نے مشرق کے سفر کئے تھے احمدیت نے پہلے مثلاً انڈونیشیا ہے اور نبی میں جماعت تھی.انڈونیشیا میں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی بڑی جماعتیں ہیں کہ وہ آپ کے مقابلے میں کھڑی ہو سکتی ہیں کثرت تعداد اور کثرت ایثار اور قربانی کے لحاظ سے.وہ بڑی قربانی دینے والی جماعتیں ہیں دعاؤں میں مشغول رہنے کی کثرت کے ساتھ ، بے نفسی کے مظاہروں کی کثرت کے ساتھ ہر لحاظ سے آپ مقابلے میں یعنی جو پاکستان کی ہماری احمدی جماعتیں ہیں ان کے مقابلے میں کھڑی ہوسکتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑا رحم کیا ہے لیکن وہ بھی کافی نہیں ابھی تو ویسے یہاں بھی ہم نے بڑھنا ہے.انشاء اللہ.اور وہاں بھی بڑھنا ہے لیکن کسی ملک کو بھی ہم کلینتہ نظر انداز نہیں کر سکتے پھر ایک ایسے ملک کو جو ہماری توجہ اپنی طرف اس وجہ سے کھینچ رہا ہے اور زبان حال سے ہمیں یہ کہہ رہا ہے کہ اے احمدیوں اللہ نے دنیوی طور پر مجھ پر اتنا فضل کیا ہے کہ میں روس اور امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن روحانی طور پر انسان جن فضلوں کو حاصل کر سکتا ہے ان فضلوں سے مجھے محروم کیوں کرتے ہو.ان کی یہ آواز تھی جو میرے کانوں میں پڑ رہی تھی اور میرے دل میں اس بات کی بڑی تڑپ تھی کہ اللہ تعالیٰ وہاں مشن کھولنے کے جلد انتظام کر دے.سال رواں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں مشن کھل چکا ہے الحمد للہ اور ہمارے ایک ادھیڑ عمر کے بزرگ مبلغ وہاں پہنچ چکے ہیں.عمر کا میں نے خاص وجہ سے فقرہ بولا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ادھیڑ عمر میں ایک نئی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۷۱ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطا.زبان سیکھنا بڑا مشکل ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ تو سب قدرتوں والا ہے ان کے خط آرہے ہیں کہ زبان سیکھنے کی جس کلاس میں وہ داخل ہوئے ہیں امریکن اور دوسری جگہوں کے لوگ بھی اس میں شامل ہیں جتنے بھی امتحان ہوئے ہیں قریباً سب میں وہ اپنی کلاس میں اول آتے ہیں.اس ادھیڑ عمر میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان پر اس طرح فضل کیا ہے وہ جلدی جلدی زبان سیکھ رہے ہیں لیکن وہاں کام کرنے کی بڑی ضرورت ہے اور بات یہ ہے کہ ان کا مطالبہ زبان حال سے یہ ہے کہ مذاہب کی مختلف کلبوں میں سے نکال کر ہمیں اللہ تعالیٰ کے سلسلہ میں داخل کرنے کی کوشش کرو.اس میدان میں ہمیں بڑی جدو جہد کرنا پڑے گی کیونکہ ان کے اندر یہ عادت پڑ گئی ہے کہ ایک ہی شخص کیتھولک کلب کا بھی ممبر ہے اور پروٹسٹنٹ کلب کا بھی ممبر ہے اور بدھ کلب کا بھی ممبر ہے.کلمہیں ہیں یعنی مختلف مذاہب کے چرچ اور عبارت گاہوں کو وہ کلب سمجھتے ہیں اور وہاں جتنی کلمبیں ہیں وہ ان کے ممبر بن جاتے ہیں.بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ان کے وہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو ایک مذہب کی رسومات پر عمل کرتے ہیں.جب وہی بڑا ہو کر مرتا ہے تو اسے دفنانے کے لئے دوسرے مذہب کی رسومات پر عمل کرتے ہیں.ان میں فراخ دلی بہت ہے ہونی بھی چاہے.کیونکہ جب اللہ سے دوری ہوئی تو دوری کی ایک راہ اور دوری کی دوسری راہ میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکے البتہ قرب کی جو راہ ہے وہ ایک ہی ہے یعنی صراط مستقیم.وہاں سے جو انسان ہٹاوہ گیا اور ہلاک ہوا یعنی جو صراط مستقیم سے ہٹ جائے وہ پھر ایک راہ کا تو پابند نہیں ہوتا ایسی صورت میں تو لاکھوں را ہیں نکل سکتی ہیں.لیکن صراط مستقیم ایک ہے.تو ان کو اس صراط مستقیم پر لانا یعنی کلبوں سے نکال کر مذہب میں داخل کرنا اس کے لئے ہمیں جہاد کرنا پڑے گا.چونکہ وہ لوگ مذاہب کو کلب سمجھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف مذاہب کی ذہنیت اور ان کا فلسفہ اور اس فلسفہ کے متعلق تقاریر ان کے نزدیک ایسی ہیں جیسی کسی کلب میں مختلف تقاریر ہوتی ہیں.اس فلسفے کو مغلوب کرنے کے لئے اور اسلام کو غالب کرنے کے لئے کسی اور فلسفہ کی ضرورت نہیں اور نہ وہ ہمیں مفید ہوسکتی ہے.شاید میں نے پچھلے سال بھی دوستوں کو اس طرف متوجہ کیا تھا کہ وہاں جماعت کو ترقی حاصل کرنے کے نشان آسمانی اور تائیدات سماوی کی ضرورت ہے.جن پر ایک نظر پڑنے سے اگلا دیکھنے والا انسان اثر قبول کئے بغیر نہ رہ سکے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۷۲ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطا.ابھی مجھے چند ہفتے ہوئے سپین کے مبلغ کا خط آیا.وہاں ہمارے مبلغ کی یہ حالت ہے کہ جماعت کی طرف سے اسے کوئی گزارہ نہیں ملتا اس کے ساتھ معاہدہ ہی یہی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے انتہائی قربانی کرنے والے کچھ نوجوان نکالے تھے اور ان سے کہا تھا کہ ہم تمہیں ایک دھیلا نہیں دیں گے.جاؤ کماؤ اور تبلیغ کرو.وہ اس قسم کے مبلغین میں سے ہیں یہ شخص دن کے وقت ایک کام بازار کی نکڑ پر کھڑا ہو کر چھا بڑی میں عطر بیچتا ہے.ایک دنیا دار کی نگاہ میں ایک چھابڑی فروش سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہئے.جس طرح اور لاکھوں کروڑوں چھابڑی فروش دنیا کی گلیوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں اس طرح ظاہری طور پر یہ بھی ہیں لیکن اس کے چہرے پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ اس قسم کا عزت واحترام کا غلاف چڑھایا ہے کہ جنرل فرانکو کے ساتھیوں میں سے ایک شخص ان کو ملنے کے لئے آیا اور اس نے اپنی پارٹی ( وہاں جنرل فرانکو کی ایک ہی پارٹی ہے وہ ڈکٹیٹر ہے ) کے بلیٹن میں ایک مضمون لکھا اور اس نے بڑی اچھی باتیں لکھیں علاوہ اور باتوں کے اس نے ایک بات یہ لکھی کہ اس مادی دنیا میں کہ انسان اپنے منہ تک مادیت کے گند میں پھنسا ہوا ہے لیکن ایک ایسے راہب انسان سے ملنا میرے لئے بڑی عزت افزائی کا موجب ہے.اب دیکھو جنرل فرانکو کا ایک ساتھی وہ جنرل فرانکو جو حاکم اور کلی طور پر صاحب اقتدار ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ یہ چھابڑی فروش ، لاکھوں کروڑوں چھا بڑی فروشوں، میں سے ایک نہیں ہے جو تمہیں دنیا کی گلیوں ہی میں پھرتے نظر آتے ہیں بلکہ یہ چھابڑی فروش اللہ کا ایک چھابڑی فروش محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک چھابڑی فروش مسیح موعود کا ایک چھابڑی فروش ہے.کوئی اور چھابڑی فروش اگر اس کے گھر میں جاتا تو اس کا چپڑاسی اسے ٹھڈے مار کر باہر نکال دیتا.لیکن خدا کا یہ چھا بڑی فروش جب اس سے ملا تو اس نے اسے اپنے سر آنکھوں پر بٹھایا.اس قسم کے متقی پرہیز گار بے نفس دعاؤں میں مشغول رہنے والے.دنیا کو واقعی ایک مردہ تصور کرنے والے اور مادی قوتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانے والے.خدا کا نام بلند کرنے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے ہمیں جاپان میں اس قسم کے مبلغ چاہئیں.دراصل تو ایسے ہی ہر جگہ چاہئیں لیکن بعض جگہ ہم یہ خصوصیات نمایاں طور پر محسوس کرتے ہیں کہ یہ خصوصیات مبلغین میں ضرور ہونی چاہیئے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۷۳ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطا.پس جاپان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشن قائم ہو گیا ہے اور وہ پیشگوئی جس کا ذکر قرآن کریم میں تھا.ذوالقرنین کے بیان کے مطابق اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ایک جلوہ اللہ تعالیٰ.اپنے فضل سے ہمیں دکھایا ہے.میں نے بتایا تھا کہ اس کے لئے فنڈ کی میں علیحدہ تحریک کروں گا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک بغیر کسی تحریک کے گیارہ ہزار سے زائد کی رقم جمع ہو چکی ہے اور اس میں سے انداز پانچ ہزار روپیہ خرچ ہوا ہے.اس واسطے میں یہ تحریک نہیں کروں گا کہ آپ ابھی اس میں کچھ دیں.میں تحریک کروں گا کہ آپ یکم مئی کے بعد جب سال رواں کی مختلف مالی ذمہ داریاں ادا کر چکیں تو اس وقت جتنا خوشی اور بشاشت سے دوسرے چندوں پر اثر ڈالے بغیر آپ جاپان مشن میں دے سکتے ہوں دے دیں.میری خواہش یہ ہے کہ آئندہ سال بھی اس کی با قاعدہ تحریک نہ کروں اور اسی طرح ہماری ضرورت پوری ہو جائے اور یہی اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس ناچیز اور لاشی محض اور حقیر انسان کی اس خواہش کو پورا کرے گا کیونکہ اسی کی عزت اور عظمت اور جلال کو قائم کرنے کے لئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے.تحریک جدید کے متعلق ایک یہ ضروری خبر بھی ہے کہ وکیل التبشیر صاحب نے ایک سروے کرنے کے لئے ترکی ، ایران ، اور یوگوسلاویہ کا دورہ کیا.اس دورہ میں تو ایک تعلیم یافتہ اور بڑے عہدہ پر فائز نو جوان احمدیت قبول کر کے جماعت میں داخل ہوئے.الحمد اللہ.دوسرے یوگوسلاویہ وہ پہلا کمیونسٹ ملک ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک منظم جماعت قائم ہو چکی ہے اور وہاں کی ایک مسلمان جماعت ( میں نے بتایا ہے کہ وہاں مختلف مسلمان جماعتیں ہیں.) احمدیت اور اس کے عقائد سے بڑی ہمدردی رکھتی ہے اور بڑی شرافت رکھتی ہے.ان میں سے جن کو عقائد سمجھ نہیں آرہے وہ لڑنے کے موڈ میں نہیں نظر آتے بلکہ غور سے سنتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر صداقت کی راہوں کو کھولے گا اور خوشی اس بات کی ہے انگریزی کا محاورہ ہے آہنی پردہ یعنی (lorn Curtain) دوسرے لفظوں میں لوہے کی ایک دیوار ہے جوان ممالک نے اپنی سرحدوں پر قائم کر رکھی ہے.اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس لوہے کی دیوار کو پھلانگ کر یوگوسلاویہ میں داخل ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دشمن کے گھر سے ان کے علاقوں میں اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے سامان پیدا ہو جائیں گے.انشاء اللہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۷۴ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطاب اس وقت تک کل بیاسی مرکزی مبلغین غیر ممالک میں کام کر رہے ہیں.کچھ تو یہاں بھی ہوتے ہیں لیکن جو اس وقت عملاً کام کر رہے ہیں.ان کی تعداد بیاسی ہے.لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم دہائیوں کی بجائے سینکڑوں کی باتیں کیا کریں اس لئے اس کا جلد سے جلد انتظام ہونا چاہئے.یہ ایک دو سال کا کام نہیں.جماعت یہ انتظام کر سکتی ہے صدر انجمن احمدیہ کا یہ کام نہیں ہے.جماعت یہ انتظام کرے کہ اس کثرت سے بچے جامعہ احمدیہ میں داخل ہوں کہ ٹوٹنے کے بعد بھی سینکڑوں کی تعداد میں مبلغین تیار ہوں.یہ قانون قدرت ہے کہ کچھ بچے ٹوٹ جائیں گے کسی کا اخلاص ترقی نہیں کرے گا کسی کا ذہن ترقی نہیں کرے گا.کسی کا علم ترقی نہیں کرے گا.کسی کے ماحول کے حالات ایسے ہوں گے کہ اسے ہم خوشی سے کہیں گے کہ تمہارا ماحول ایسا ہو گیا ہے تمہارے گھر کے حالات ایسے ہیں کہ تم اب وقف میں نہ رہو ہم تمہیں خوشی سے اجازت دیتے ہیں کہ تم چلے جاؤ.غرض مختلف شکلوں میں یہ چیز سامنے آتی ہے لیکن ٹوٹنے والے جب ٹوٹ جائیں تو اس وقت بھی ہمارے پاس سینکڑوں کی تعداد میں شاہد پڑھے لکھے تجربہ کار ٹرینڈ تعلیم یافتہ مبلغ ہونے چاہیں اس کے بغیر آج ہمارا گزارہ ہی نہیں.یہ مطالبہ زبان قال اور زبانِ حال ہر دو سے اتنا شدید ہے کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے.مثلاً انڈونیشیا میں ہماری جماعت ہے ایک وقت میں انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے یہاں جماعت کو سنبھالنا ہے اس کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو ہمیں دس مبلغ بھجوائیں.ایک ملک سے ایک وقت میں دس مبلغین کا مطالبہ تھا مگر پہلے وہاں بڑی روکیں تھیں ان کا مطالبہ آتا تھا ہم خوش ہو جاتے تھے کہ ہماری کمزوری پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈال دیا ہے وہاں مبلغ جاہی نہیں سکتا.یہ اصرار نہیں کر سکتے البتہ خواہش کا اظہار ہے جو کر دیتے ہیں.اب اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان ! پیدا کئے کہ وہاں کے بعض افسر بدلے اور ایک ایسا افسر آ گیا جس نے کہا کہ میں تمہیں اجازت دیتا؟ ہوں.جتنے چاہو مبلغ یہاں بھیجو.تو انہوں نے ڈرتے ڈرتے چھ کی اجازت مانگی چنانچہ وہاں سے ان کی اجازت آ گئی.اس وقت تک پانچ وہاں پہنچ چکے ہیں.الحمد اللہ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے.ابھی چند مہینے نہیں ہوئے ہیں ابھی دو مہینے ہی ہوئے ہیں مولوی محمد صادق صاحب کو گئے اور بیسیوں خطوط عورتوں اور بچوں کی طرف سے ، نوجوانوں اور بوڑھوں کی طرف سے میرے پاس آئے ہیں کہ آپ نے ہم پر بڑا ہی احسان کیا ہے ہماری تربیت خراب ہو رہی تھی.ہمارے پاس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۷۵ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ ء.دوسرے روز کا خطار نے مبلغ بھیجے.اور مبلغ بھیجیں.پس یہ تو چلے گئے اور کہاں سے بھیجیں آپ دیں بچے میں نے بتایا ہے کہ یہ ایک سال کا یا دو سال کا کام نہیں اگر آج شروع کیا جائے تو جو کام آج سے پندرہ سال بعد نتیجہ خیز ہونا ہے تو وہ آج شروع ہونا چاہئے ورنہ پندرہ سال کے بعد نتیجہ خیز ثابت نہیں ہونا.جس آم کے درخت سے آج سے آٹھ سال بعد تک آپ نے پھل کھانا ہے وہ آج زمین میں لگنا چاہئے.آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو چونکہ آٹھ سال بعد آپ نے پھل کھانا ہے اس لئے سات سال کے بعد اس کو لگائیں گے مگر پھر آٹھ سال کے بعد اس سے پھل نہیں کھا سکتے.آپ اگلے تین چار سال میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے دیں غالباً جامعہ کا چھ سال کا کورس ہے.پس چھ سال کے بعد وہ بیچ (batch) نکلنے شروع ہوں گے اور اگلے بارہ سال کے بعد یا پندرہ بیس سال کے بعد جو بھی منصو بہ ہو سینکڑوں کی تعداد میں ہمارے پاس مخلص اور فدائی مبلغین ہوں.بعض بڑے اچھے نکلتے ہیں اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ دل کرتا ہے کہ آدمی ان پر قربان ہی ہو جائے.ایسے اچھے اللہ تعالیٰ واقف دیتا ہے بعض ٹوٹے ہوئے بھی ہیں.بعض میں بال آئے ہوئے ہیں اور ان کا یہ بال اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کی مغفرت کے پیچھے چھپا رہتا ہے.یہ بال اردو کا محاورہ ہے یعنی تریر آئی ہوئی اور بعض ایسے بدقسمت ہوتے ہیں کہ ابھی چھوٹا سا بال ہی ان کے اوپر آتا ہے تو ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ وہ ٹوٹ کر دوٹکڑے ہو جاتے ہیں کسی کام کے نہیں رہتے.یہ تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے مجھے بھی اور آپ کو بھی کہ جس انسان کی فطرت اور کردار پر بال آ جائے اس کو میرے لئے استعمال نہ کرنا.اس لئے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ جس پلیٹ میں بال آ جائے اسے اپنے کھانے کے لئے استعمال نہ کرنا اس میں زہر جمع ہو جاتا ہے.پس ایک پلیٹ میں بال آ جائے تو آپ اپنے کھانے میں استعمال نہ کریں اور ایک انسان کے کردار میں جو اللہ تعالیٰ کے نبی کے لئے ایک پلیٹ کی طرح ہے اور ایک گلاس کی طرح ہے اس پر بال آجائے تو کوئی سفارش پہنچ جائے.کیا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی ہمارے دلوں میں وہ غیرت نہیں جو اپنے نفسوں کے لئے ہے.پس جس کے کردار اور اخلاق میں بال آجائے گا وہ تو ٹوٹ گیا اسے باہر پھینک دیا جائے گا لیکن یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اس بات کی حفاظت کریں کہ ہمارا ہر نو جوان اس بات سے محفوظ رہے.لیکن کبھی ہماری غفلت کی وجہ سے اور کبھی اس کی بدقسمتی کی وجہ سے یا اس کے کسی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطار پوشیدہ گناہ کی وجہ سے بال آجاتے ہیں وہ پرے پھینک دیئے جائیں گے لیکن صاف شفاف خوبصورت دھلی ہوئی نیک پاک روحیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں (اب مثالیں تو یہی ، سکتے ہیں خواہ روحانی چیزیں ہوں یا جسمانی) خواہشات کو دبانے والے، ذہن کو صاف کرنے والے آپ کی راہ میں اپنی آنکھوں کو بچھانے والے اس تڑپ میں ہر وقت بے کل اور بے چین رہنے والے کہ اس خاک پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کیوں پڑیں ہمارے سروں پر اور ہماری آنکھوں پر یہ پاؤں پڑتے ہوئے سالار قافلہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے ایسے دل چاہئیں.ایسی عقل و فراست چاہئے.ایسی پاکیزہ روحیں چاہئیں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاکیزہ بنا دے اور کوشش کریں کہ وہ بچے ہمیں ملیں تا کہ ہم ان کو ٹرینگ دیں ہم ان کو علم دیں.تحریک جدید نے امریکہ مشن کے لئے اپنے رسالوں اور لٹریچر کی اشاعت کے لئے ایک نیا پر لیس خریدا ہے.میں ضمناً یہ بات بتا دیتا ہوں کہ ہمیں بھی یہاں ایک نئے اور اچھے پریس کی بڑی ضرورت ہے.ایسے پریس کی ضرورت ہے جو اردو کا جو عربی کا جو انگریزی کا اور جو فرانسیسی کی کتب شائع کرنے کا ذریعہ بنے.ابھی جب سوال پیدا ہوا فرانسیسی ترجمے کی اشاعت کا وہ میں آگے بتاؤں گا اور یہ بھی بتاؤں گا کہ اس قسم کا پر لیس نہ ہونے کی وجہ سے کیا دقت پیدا ہوئی.اس عرصہ میں برٹش گی آنا میں ایک نئی مسجد تعمیر ہوئی.الحمد اللہ.ایک اور مسجد کی تعمیر کے لئے پلاٹ حاصل کر لیا گیا ہے.ثم الحمد اللہ.ڈچ گی آنا میں ایک سکول کا اجراء کیا گیا.ثم الحمداللہ.ایک مخلص احمدی دوست کے جنہوں نے اس سال بیعت کی یعنی ڈاکٹر کیوسی (Chiussi) ان کی کوشش سے اسپر نٹو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوا ہے.مرکز کی طرف سے جماعت کو یہ خبر نہیں دی گئی تھی کہ اس ترجمہ کو شائع کرنے کے لئے ایک ہزار پاؤنڈ باہر کے مشنوں کی طرف سے (یہاں تو ایچینج ہمیں ملتا لیکن باہر کی جماعتوں کو اللہ تعالیٰ نے بڑا رزق دیا ہے انہوں نے یہ رقم دی لیکن نام مرکز ہی کا ہوتا ) دیا گیا اور یہ ڈاکٹر کیوسی ایک بڑا ہی مذاقی انسان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے جب میں دورے پر گیا تو یہ مجھے ملنے آئے بڑی محبت سے ملتے تھے.امیر و ڈرم پر لینے آئے پھر وہاں چھوڑنے آئے مجھے تو یاد نہیں رہا انہوں نے ہی بعد میں لکھا.میں نے چلتے وقت کہا مجھے خط لکھتے رہنا انہوں نے وہ یادرکھا اور دو تین مہینے مجھے خط نہیں لکھا اور پھر ۴ صفحے کا ٹائپ خط لکھا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۷۷ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دو اء.دوسرے روز کا خطاب اور اس میں یہ لکھا کہ میں نے آپ کو اس لئے خط نہیں لکھا تھا کہ آپ کا وقت قیمتی ہے اور میرے پاس آپ کو بتانے کے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن اب میں مجبور ہو گیا ہوں چنا نچہ اس خط میں اس نے سارے حالات لکھے اور لکھا کہ میں دل سے احمدی ہو گیا ہوں لیکن ظاہری نہیں ہوا.ہم میاں بیوی سارے کیتھولک ہیں میں گر جا میں اسی طرح جاتا ہوں جس طرح پہلے جایا کرتا تھا البتہ گر جا میں جا کر بجائے ان کی دعائیں پڑھنے کے سارا وقت لا اله الا الله محمد رسول الله پڑھتارہتا ہوں.اب وہ پاک نفس آگے سے یہ زیادتی کرتا ہے کہ آپ مجھے منافق تو نہیں قرار دیں گے.یعنی یہ احساس بیدار تھا پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ وہ کٹر بیوی جس کے ساتھ یہ وفا کر رہا تھا.چرچ نے اسے ابتلاء میں ڈالا اور یہ اس سے متنفر ہو گئی.میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا پھر اس نے اعلان کیا.اب ہمارا مبلغ وہاں جاتا ہے تو اپنے خرچ پر وہ ساتھ جاتے ہیں ایک تقریر وہ کرتا ہے اور ایک تقریر یہ کرتے ہیں.انہوں نے قرآن کریم کا اسپر نٹو میں ترجمہ کیا ہے اور ہمارے تراجم کو پورا پڑھا ہے اور ان پر عبور حاصل کیا ہے.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مبلغ ہمیں بیٹھے بٹھائے مل گیا.تحریک جدید کی طرف سے تجویز آئی تھی کہ جس طرح باہر دوسرے ملکوں میں آنریری مبلغ ہیں اسی طرح ان کو بھی آنریری مبلغ قرار دے دیا جائے.بڑا بے نفس انسان ہے.اور بڑا امیر انسان ہے کراچی میں امریکی سفارت خانے کی جو وسیع عمارت ہے اس سے بھی بڑی بلکہ دوگنی تگنی بلڈنگ اس انشورنس کمپنی کی ہے جہاں یہ مینیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر ڈیوٹی دے رہا ہے مگر جب آپ سے بات کرے گا تو بالکل بے نفس اس کے اندر کوئی تکبر اور ریا نہیں ہے اور جہاں جاتا ہے تبلیغ ضرور کرتا ہے.اٹلی میں گیا تو وہاں بھی لیکچر دیا ہر جگہ جا کر تبلیغ کر رہا ہے.غرض یہ کھل کر سامنے آ گیا.اس طرح کے اور لوگ اللہ تعالیٰ ہمیں دیتا رہتا ہے بہر حال انہوں نے قرآن کریم کا ترجمہ شائع کیا.غیر ممالک اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتیں کثرت سے ہو رہی ہیں.لیکن بعض نمایاں پہلو جو ہیں وہ میں اس وقت بتا دیتا ہوں مشرقی افریقہ میں پاکستانی، ہندوستانی لوگ ( یعنی پارٹیشن.پہلے ہندوستان کہلا تا تھا ) بہت کثرت سے آباد تھے اور انہی میں سے بیعیں ہوئیں اور انہی میں سے جماعتیں بنیں اور مشرقی افریقہ مثلاً کینیا کے علاقے میں تو شاید ہی کوئی مقامی باشندہ احمدی ہوا ہو لیکن بڑی مضبوط جماعتیں تھیں بڑے چندے دیتی تھیں.بڑی قربانی کرنے والی تھیں.لوگوں کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۷۸ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطا سامنے مشرقی افریقہ کے نام سے تو مشرقی افریقہ کی جماعت متعارف تھی لیکن ان میں مقامی آدمی تھا ہی نہیں یا نہ ہونے کے برابر تھا.اب جب وہاں سے لوگ بھاگنے شروع ہوئے حکومت بدل گئی پس جماعت ختم ہونی شروع ہو گئی ہے چنانچہ دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ ایک ملک جس میں اتنی کثرت سے احمدی پائے جاتے تھے اور ان کا اتنا چندہ ہوتا تھا.یکدم جماعت کے سامنے یہ چیز آجائے گی کہ وہاں نہ ہمارے آدمی رہے نہ ان کا چندہ رہا جماعت ہی ختم ہوگئی.چنانچہ میرا آپ کے سامنے اس بات کو بیان کرنے کا یہ پہلا موقع ہے بہت دعائیں کریں مجھے اللہ تعالیٰ نے دعائیں کرنے کی توفیق دی.اصل میں تو وہی ہے جو دعاؤں کو بھی سنتا ہے اور بغیر دعاؤں کے بھی ہمارے کام کرتا ہے.ہمارے کیا کام کرتا ہے اسی کے یہ سارے کام ہیں.مشرقی افریقہ میں ان دنوں مقامی حبشیوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی توجہ پیدا ہوگئی ہے اور اکسٹھ سے بھی زیادہ بیعتیں ہوئی ہیں.کچھ ان دنوں میں آئیں وہ شاید اس میں شامل نہیں.بعض جگہ تو گاؤں کے گاؤں احمدی ہو گئے ہیں.تنزانیہ میں زیادہ ہیں یوگنڈا میں پھر اس سے کم اور کینیا میں اس سے کم.لیکن کینیا میں اب حالات ایسے پیدا ہو رہے ہیں کہ ساحل سمندر پر غالباً مقامی لوگوں کی جماعتیں پیدا ہو جائیں گی.آپ دعائیں کرتے رہیں.اسی طرح یورپ جہاں میں نے بتایا ہے کہ ایک دفعہ غالباً ۱۹۲۹ء کی بات ہے آٹھ دس سال میں جا کر ایک یورپین احمدی ہوا تھا اور وہ جماعت جس میں وہ شامل ہوا تھا ( آپ سمجھ گئے ہیں میں دوسروں کے نام نہیں لیا کرتا ) انہوں نے ایک جلسہ کیا اور بڑا ہنگامہ اور شور برپا کیا.میں بھی وہاں گیا تھا.اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے یورپ میں چھپن بیعتیں ہوئی ہیں.اس کے علاوہ امریکہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیاسی بیعتیں ہوئی ہیں.مشارق وسطی میں جہاں Iron curtain ( یعنی آھنی پردہ) تو نہیں لیکن اور بہت سخت دیوار بنائی گئی ہے ان عربی بولنے والے ممالک میں کثرت سے جماعتیں پیدا ہو رہی ہیں.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے حالانکہ وہاں نام بھی نہیں ظاہر کر سکتے تبلیغ بھی نہیں کر سکتے.یہاں سے اگر کسی کو کتابیں بھجوائیں تو سنسر والے ان کو رکھ لیتے ہیں لیکن آسمان کے دروازے بند نہیں کئے جاسکتے نہ آسمان کے فرشتوں کے نزول پر کوئی پابندی لگائی جاسکتی ہے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ٣٧٩ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ ء.دوسرے روز کا خطار -------- اس بات پر کہاں پابندی لگائی جاسکتی ہے کہ ایک عرب ہمارے ایک احمدی دوست سے.اور چند گھنٹے تبادلہ خیال کرنے کے بعد کہنے لگے میری بیعت لے لو.اس احمدی دوست نے انہیں جواب دیا کہ ابھی تم نے کچھ سیکھا نہیں تمہاری بیعت میں نہیں لوں گا کتا بیں لے جاؤ پڑھو اور جب تسلی ہو جائے اور اگر تسلی ہو جائے تو پھر بیعت کر لینا ٹھیک ہے.وہ کہنے لگے مجھے کتابیں پڑھنے کی ضرورت نہیں.یہ غالبا ۱۹۶۷،۶۸ء کی بات ہے یعنی آج سے دو اڑھائی سال پہلے کی بات ہے صحیح وقت مجھے یاد نہیں رہا.غرض وہ کہنے لگے کہ مجھے کتابیں پڑھنے کی ضرورت نہیں اور یہ اس لئے کہ میرے والد ۱۹۵۸ء میں یعنی دس سال پہلے فوت ہوئے تھے اور اپنی وفات کے وقت انہوں نے اپنے لڑکوں کو اپنے پاس بلایا اور انہیں کہا کہ میں تمہیں ایک وصیت کرنی چاہتا ہوں اسے بھولنا نہیں اور وہ وصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے الہاماً بتایا ہے کہ وہ مہدی منتظر اور مسیح موعود جس کا وعدہ دیا گیا تھا وہ ظاہر ہو چکا ہے لیکن میں ایک بد بخت انسان ہوں کہ مجھ سے اس کا ملاپ نہیں ہوسکا اور اس کی جماعت میں شامل ہوئے بغیر ہی اس دنیا کو چھوڑ رہا ہوں میری تمہیں یہ وصیت ہے کہ جب بھی تم اس کا نام سنو اس کی جماعت میں داخل ہو جاؤ.یہ کہہ کر اس عرب دوست نے کہا میں نے کتا بیں نہیں پڑھنی میرے باپ کو الہاما بتایا گیا تھا.میر املاپ ہو گیا ہے میں نے دیر نہیں کرنی میری ابھی بیعت لے لو.چنانچہ اس نے پھر بیعت کر لی.وہاں اس کے ساتھ دو اور ساتھی تھے ان کو جا کر رات خوب تبلیغ کی اور اگلے دن ان کی بھی بیعت کروا دی.پھر وہ وہاں سے کئی سو میل دور ایسے علاقے میں چلے گئے اور چند مہینوں کے اندر کئی جگہوں پر اس کے علاقے میں جماعتیں قائم ہو گئیں میرے خیال میں کوئی چالیس کے قریب خاندان یعنی اس میں بچے عورتیں شامل نہیں بلکہ چالیس کے قریب خاندان اس پہلے نئے احمدی دوست کی تبلیغ کے نتیجہ میں احمدی ہو گئے.علاوہ ازیں اور خبریں بھی آرہی ہیں کہ کئی جگہ پر بعض خاندان یعنی جماعتوں کے رنگ میں (انفرادی طور پر نہیں ) احمدی ہو گئے ہیں.اب آسمان سے فرشتوں کے نزول پر تو پابندی نہیں لگائی جا سکتی اب اگر وہ آکر کسی کو کہیں الہام یا کشف یا رویاء میں کہ اللہ کے نزدیک مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے روحانی فرزند ہیں ان سے دور نہ رہنا کہ تم اللہ تعالیٰ کی محبت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کو پھر پا نہیں سکو گئے.پس دنیا جو مرضی سمجھے سمجھتی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۸۰ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطا.رہے دنیا جو مرضی ان سے سلوک چاہے کرتی رہے وہ تو ایک قدم نہیں رکیں گے.وہ آگے بڑھیں گے اور صداقت احمدیت کو قبول کریں گے.اللہ تعالیٰ نے ان کی مجبوریوں کو دیکھ کر بہت سی اجازتیں بھی دی ہوتی ہیں.ایک عراقی عرب جس بے چارے نے عراق میں رہ کر کبھی خط نہیں لکھا تھا اور نہ کسی کو پتہ تھا کہ وہ شخص احمدی ہے.موتمر عالم اسلامی کے عراقی وفد کے ایک ممبر کی حیثیت میں وہ مدینہ گیا.آخر پڑھا لکھا اور بڑا اثر و رسوخ والا آدمی تھا اسی لئے تو موتمر اسلامی کے وفد میں شامل تھا.جب مدینہ گیا اپنے ملک سے باہر نکل گیا وہاں اسے جرات پیدا ہوئی مجھے خط لکھا کہ عراقی وفد کے ممبر کی حیثیت سے یہاں آیا ہوں میں احمدی ہوں دعا کے لئے اس کا بڑے پیار کا خط تھا اس کے خط سے مجھے بہت لطف آیا تو آپ کو علم ہو یا نہ ہو خدا تعالیٰ کے فرشتوں کو تو ان لوگوں کا علم ہے اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تو وہ ہمارے ہیں اور ایک انتہائی طور پر پیار کرنے والے بچے کی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹانگوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں اور آپ کی محبت اور آپ کے فیض اور آپ کی برکتوں سے وہ حصہ لے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان علاقوں پر بھی اپنی برکتیں نازل کر رہا ہے.عکرہ میں تین نئے سکول کھولے گئے ہیں.نائیجیریا میں ایک سیکنڈری سکول کے لئے عمارت حاصل کی گئی ہے جنوری سے انشاء اللہ سکول کھل جائے گا.کینیا میں سکول کھولنے کے لئے حکومت کی طرف سے اجازت مل چکی ہے وہاں بھی انشاء اللہ جلد سکول کھل جائے گا.افریقہ میں متعدد نئی مساجد کی تعمیر ہوئی ہے جن میں سے ایک بڑی مسجد نیچی مان قابل ذکر ہے.جنوبی افریقہ میں ایک وسیع مشن ہاؤس کی تعمیر کا کام شروع ہونے والا ہے.ابتدائی تیاری مکمل ہو چکی ہے گیمبیا میں مشن ہاؤس تعمیر ہو چکا ہے.ایک اور مشن ہاؤس اور ڈسپنسری کے لئے زمین حاصل کر لی گئی ہے گئی ہے.پچھلے سال وہاں ہمارا میڈیکل مشن بھی کھل چکا ہے جو بڑا اچھا کام کر رہا ہے بہت بڑی خدم انجام دے رہا ہے.ماریشس میں بھی لوگوں کو جماعت کی طرف توجہ اور رغبت ہے وہاں ہماری جماعت بڑی مخلص ہے وہاں کے مبلغ بڑے فدائی ہیں اور انہوں نے جماعت کی صحیح قیادت کی ہے اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزا دے اور ماریشس کی جماعت کو بھی جزا دے.بڑی قربانی کرنے والی جماعت ہے یوں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۸۱ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطاب ویسے ہے تو یہ ایک جزیرہ مگر وہ بڑے وسیع پیمانوں پر جلسے کرتے ہیں اور ہر بڑے جلسے میں ملک کے پریذیڈنٹ یا پرائم منسٹر یا دوسرے وزراء یا چیف حج یا جوں میں سے کوئی حج غرض بڑے بڑے چوٹی کے لوگوں کو وہ شامل کرتے ہیں.ان کو اپنا لٹریچر دیتے ہیں اور وہ تقریریں کرتے ہیں اور پڑھا ہوا ہوتا ہے ہمارا لٹریچر کیونکہ بڑے لوگوں کا عام قاعدہ یہ ہے کہ اپنے ذہن سے کچھ نہیں سوچتے بلکہ اپنے سیکرٹری سے کہہ دیتے ہیں کہ ہماری تقریر تیار کر دو.ہمیں اس سے بڑا فائدہ ہوتا ہے اور سیکرٹری بچارہ کیا کرے گا جب کہ افسر اعلیٰ کچھ نہیں کر سکتا تو وہ کہاں سے تقریر تیار کرے گا چنانچہ وہ پھر جس کے متعلق تقریر کرنی ہوتی ہے اس کو کہتا ہے کہ ہمیں کچھ مواد دو چنانچہ بعض دفعہ اسلامی اصول کی فلاسفی یا دوسری کتابیں دے دی جاتی ہیں.پھر وہ بڑی محنت سے پڑھتا ہے اور اپنے اعلیٰ افسر کو تقریر تیار کر کے دیتا ہے.ہمیں اس سے فائدہ ہوتا ہے کیونکہ دوسروں کو جو فائدہ دیتے ہیں کیونکہ کسی کی طرف غلط کریڈٹ مسنوب ہونا تو ظلم ہے اور بے عزتی ہے ہم ایک سیکنڈ کے لئے اسے برداشت نہیں کر سکتے لیکن صحیح بات کسی کی طرف منسوب ہو جانا جو دنیا کے فائدہ کے لئے ہے یہ بہر حال اچھی بات ہے.چنانچہ جب کبھی کسی جلسے پر کسی بڑے آدمی کو بلایا جا تا ہے اور وہ اس میں تقریر کرتا ہے تو کہتا ہے کہ اخلاق کے متعلق اسلام نے یہ تعلیم دی ہے احمدیت یہ سکھاتی ہے اور حیات بعد الممات کے متعلق اسلام نے یہ تعلیم دی ہے امن کے متعلق اسلام یہ تعلیم دیتا ہے وغیرہ وغیرہ.پس وہ صحیح تعلیم کا نقشہ پورا بیان کر دیتا ہے کیونکہ اسلامی مواد سے تقریر ہوتی ہے اور لوگوں کو توجہ پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم دیکھیں تو سہی یہ پرائم منسٹر یا کسی منسٹر یا چیف جج نے تقاریر کی ہیں.ان میں حقیقت کہاں تک ہے.غرض ہمارے دوست وہاں بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی محنتوں کو نوازتا بھی ہے.تربیت کے لحاظ سے جماعت بڑی اچھی ہوگئی ہے اور اس سال تھیں بیعتیں بھی ہوئی ہیں.الحمد اللہ.ترجمه تفسیری نوٹوں کے ساتھ شائع ہوا ہے اس کی چودہ ہزار کا پیاں چھپی ہیں زیادہ تر تو غیر ممالک میں لگے گا.اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جو دیباچہ قرآن کریم کا لکھا ہے.وہ ایک مستقل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے لیکن دیباچہ بھی ہے یہ بھی ہم نے چودہ ہزار کی تعداد
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۸۲ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطار میں طبع کروالیا ہے تا کہ جس کے پاس یہ نہ ہو وہ اس کو خرید لے.اسے ہم ایک مستقل کتاب کی کہ جسکے پاس یہ نہ خرید حیثیت میں بھی استعمال کر سکتے ہیں.ڈچ زبان کا ترجمہ قرآن کریم ختم ہو چکا تھا پانچ ہزار کی تعداد میں ڈچ ترجمہ قرآن کریم شائع کیا گیا ہے.یہ دوسرا ایڈیشن ہے انڈونیشین میں ترجمہ قرآن کریم اور تفسیری نوٹ دس پارے کے تیار ہو گئے تھے.ترجمہ کے متعلق تو غالباً میں نے پچھلے جلسہ سالانہ پر یہ اعلان کیا تھا اس کے بعد اور تفسیری نوٹ بھی تیار ہو گئے اور ان کی اطلاع کے مطابق آج قریب وہ طبع ہو کر اشاعت کے لئے باہر آ گئے ہوں گے.الحمد للہ علی ذلک.جس طرح اللہ تعالیٰ ہمارے اس جلسہ کو بابرکت کرتا ہے ان کی کوششوں کو بھی بابرکت فرمائے.ہر جگہ یہاں خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اللہ تعالیٰ اپنی برکتیں ان کوششوں کے شامل حال فرمائے.تحریک جدید کی طرف سے تقریباً انہیں کتب شائع ہو چکی ہیں یا زیر طباعت ہیں اور عنقریب شائع ہو جائیں گی.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سواحیلی میں بھی ترجمہ ہو گیا ہے اور انڈونیشین اور جرمن اور عربی میں بھی اس کا ترجمہ کروایا جارہا ہے.اسی طرح دعوۃ الامیر کا ترجمہ بھی ہو رہا ہے یہ کل اکیس کتا ہیں جو یا تو شائع ہو چکی ہیں یا شائع ہونے والی ہیں.اس کے بعد وقف جدید کو لیتا ہوں صدر انجمن احمدیہ کو آخر میں بیان کروں گا.وقف جدید کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اصلاح وارشاد ہر لحاظ سے بڑا ہی اچھا کام ہو رہا ہے.تربیت بھی ہے پیغام کا صحیح طور پر پہنچانا بھی ہے.پس یہ تو ہے کہ کام ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ برکت دیتا ہے.لیکن میرے لئے اور آپ کے لئے بہت ہی خوشی کا باعث یہ ہے کہ سال رواں میں نگر پارکر کے علاقہ میں ۲۳۶ ہندو اسلام قبول کر کے احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.الحمد اللہ.یہ گذشتہ سال کی نسبت تعداد کے لحاظ سے ۳۵ فیصد اضافہ ہے یعنی اس سے پہلے سال میں جو ہند و احمدی ہوئے تھے وہاں اس سال ۳۵ فیصد زائد احمدی ہوئے ہیں اور اس علاقے میں کل ۵۷۰ ہند و مسلمان ہو چکے ہیں.وہاں مختلف نوعیت کے کام ہیں وہ ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق دے ہم ان کو سنبھال سکیں اور ان کی تربیت کر سکیں اور یہ جو میں نے تعداد بتائی ہے یہ بالغوں کی ہے.بچے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطا.جو ساتھ ہی مسلمان ہوتے ہیں.وہ اس میں شامل نہیں کیونکہ اس علاقے میں نو معلم وقف جدید ایک ہزار کو قرآن کریم اور اسلامی تعلیم سکھا رہے ہیں.وقف جدید کے چندے کی وصولی سال رواں میں پہلے سال کی نسبت تو زیادہ ہے لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ اس پر ہم خوش ہوں دوسرے یہ کہ چندہ بالغاں میں اضافہ نہیں بلکہ کمی ہے اگر آپ کے بچے آپ کی عزت کی حفاظت کے لئے آگے نہ بڑھتے تو جو ۶۷ روپے کی کمی آپ بالغوں کے چندے میں رہ گئی تھی وہ ان کی زائد قربانی (پچھلے سال کے مقابلہ میں زائد قربانی ) جو ۷۷ ۴۵ روپے ہے اس قربانی کے پردہ میں یہ ۶۷ روپے کی غفلت چھپ نہ سکتی لیکن آپ کے بچوں نے آپ کی عزت رکھ لی آپ اپنے بچوں کی غیرت کے جو تقاضے ہیں ان کو اب پورا کریں.وقف عارضی کی تنظیم کے ماتحت ۳۳۴۲ افراد باہر بھیجے گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۵۴۸ مستورات نے اس تحریک میں حصہ لیا ترجمۃ القرآن کلاس سے جماعت ایک حد تک فائدہ اٹھاتی ہے یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ بہت سی جماعتیں فائدہ اٹھاتی ہیں اور بہت سی غفلت برت رہی ہیں انہیں بھی فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ فائدہ کی چیز ہے.ایک تحریک میں نے شروع کی تھی وقف بعد ریٹا ئرمنٹ.اس وقف کی تحریک میں ۵۴ احباب نے حصہ لیا تھا جن میں سے دور بیٹائرمنٹ کے بعد خدمت پر لگ گئے ہیں ان میں سے ایک ڈاکٹر عمر الدین صاحب غیر ملک میں چلے گئے ہیں اور باقاعدہ طبی ڈاکٹر کی حیثیت میں وہاں بڑا اچھا کام کر رہے ہیں.اس کے علاوہ سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات یاد کرنے والیوں کی رپورٹ اگر آپ شرمندہ نہ ہوئے تو میں آپ کو سنا دیتا ہوں بہنیں اور بچیاں بھائیوں اور بچوں سے آگے نکل گئی ہیں.اس وقت تک لجنہ اماءاللہ میں جور پورٹ آچکی ہے وہ مجھے افسوس ہے کہ کاغذ کہیں رہ گیا ہے لیکن رف (rough ) اندازہ مجھے یاد ہے.لجنہ اماءاللہ کی ممبر ان اور ناصرات میں سے ۴۲ یا ۴۳ سو یعنی چار ہزار اور کچھ سونے یہ آیات پوری یاد کر لی ہیں جو ان کی رپورٹ آچکی ہے اور ہزاروں کی تعداد ایسی ہے جنہوں نے نصف یا کچھ زائد آیا ہے یاد کر لی ہیں ابھی اس حفظ کو مکمل نہیں کیا اور ابھی ان کی رپورٹ نہیں آئی لیکن اس کے مقابلہ میں مردوں کی جور پورٹ ہے وہ شاید دو اڑھائی ہزار سے اوپر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۸۴ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطار نہیں.بس اس کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے میں سمجھتا ہوں یہ بڑا ضروری ہے.اب وقت بہت زیادہ ہو گیا ہے لیکن صد را مجمن احمد یہ اور جماعت کے متعلق میں ضرور کچھ کہنا چاہتا ہوں.پہلے جماعت پاکستان کے متعلق یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بڑی ہی عجیب اور پیاری جماعت پیدا کی ہے.دنیا میں آپ کو کہیں یہ نظارہ نظر نہیں آتا کہ اللہ کی راہ میں اس طرح مال کی قربانی دینے والے ہوں کہ دنیا دار نگاہ ان قربانیوں کو حماقت سمجھے بیوقوفیاں سمجھے یہ مالی سال جس کا ابھی کچھ حصہ گذرا ہے اور کچھ حصہ باقی رہتا ہے.صدرانجمن احمدیہ کے چندہ جات کے علاوہ اور بھی بہت سے مالی بوجھ جماعت پر ڈال رہا تھا.مثلا فضل عمر فاؤنڈیشن کے بقائے جو تھے.وہ آخری دو مہینوں ( یعنی مئی اور جون ) میں وصول ہونے تھے.اس کے علاوہ تحریک جدید کے چندے تھے.چار لاکھ کے قریب تو صرف فضل عمر فاؤنڈیشن کے وعدوں کی اس عرصہ میں وصولی ہوتی ہے اور یہ بڑی قربانی ہے اور تحریک جدید اور وقف جدید کے سال ختم ہوتے ہیں.ان کے وعدوں کے پورا کرنے کی طرف توجہ دی گئی اس کے باوجود چوبیس دسمبر تک صدر انجمن احمد یہ کے چندوں کی وصولی میں سوا دولاکھ روپے کا اضافہ ہوا ہے.اس سے پچھلے سال ۸۵ پچاسی ہزار وپے کا اضافہ تھا لیکن اس سال باوجود اس کے کہ ہم نے زورد یا فضل عمر فاؤنڈیشن کے وعدے پورا کرو دوسرے عطایا دو اس کے باوجود پچاسی ہزار کے مقابلے میں سوا دو لاکھ روپیہ زائد وصول ہوا ؟ ہے.الحمداللہ.اللہ تعالیٰ ہی اس جماعت کو پہچان سکتا ہے.اسی نے یہ قوت اور استعداد بخشی اور نیکی کی توفیق دی ہے اور وہی جزا دینے والا ہے.میرے جیسوں کی دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتی ہیں ہم کمزور انسان ہیں آپ کو کچھ دے نہیں سکتے دروازہ ہم کھٹکھٹاتے ہیں آپ کے لئے.وہی دروازہ آپ کھٹکھٹائیں اپنے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی.ہم بھی اپنے لئے اور آپ کے لئے وہی دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کی نیکی کو دیکھے آپ کے دل میں اپنی محبت کو پائے اور اس کے مطابق آپ کو جزا دے.اگر کوئی بشری کمزوری رہ گئی ہو تو رب غفور نظر دوسری طرف کر لے.جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں یا جیسا کہ ہم میں کوئی کمزوری ہی نہیں اور وہ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النحل : ٩٧) کے مطابق آپ کو جزا دینے والا ہو اور ہم پر بھی اپنا رحم کرنے والا ہو.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۸۵ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطاب ایک اور بات.یہ نیا سال جو یکم جنوری سے شروع ہونے والا ہے اس کی میں بات کر رہا ہوں.سال رواں فسادات اور ہنگاموں سے شروع ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کی بشارتوں اور اس کی دی ہوئی ترقیات پر ختم ہو رہا ہے.فالحمد للہ علی ذلک جو نظم اس وقت پڑھی گئی ہے میں نے انہیں دی تھی کچھ شعروں کی ترتیب بھی بدلی تھی اپنے آج کے موڈ کے مطابق اور میں بھی لطف اٹھا رہا تھا اور میں محسوس کر رہا تھا کہ آپ بھی لطف اٹھا رہے ہیں.میرے دل میں بشاشت کے چشمے پھوٹ رہے تھے اور خوشی کا ایک دریا بہہ رہا تھا اور یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں میسر آئیں.ایک کمزور جماعت دنیا کی دھتکاری ہوئی اور اس فساد کی آگ میں پڑتی ہے پھر نکلتی ہے پھر خالی بچتی نہیں بلکہ یہ سارا جسے ہم ثمرات حسنہ کہتے ہیں.دنیا دار یہی کہتے ہیں کمخواب کے اور ریشم کے اور اس کے اور ان کے جو قیمتی ترین لباس ہوتے ہیں ان میں ملبوس زیور پہنے ہوئے آنکھوں میں سرمے لگے ہوئے روحانی طور پر ( جسمانی طور پر چوکا نے رومال کی ہمیں ضرورت نہیں ) اور نہایت حسین.ایسا حسن کہ شاید انسان کی آنکھ اسے دیکھ نہ سکے یعنی وہ حسن جس پر اللہ کی نگاہ ضرور پڑے.اس کے ساتھ ہم نے اس سال کو ختم کیا اور اپنی کسی خوبی کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا.ہماری اپنی کسی خوبی کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا ہمارے اپنے کسی ہنر کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا ہماری اپنی کسی قربانی کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا.ہمارے اپنے کسی ایثار کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا.ایسا ہوا اور یقیناً ہوا اور ہم اپنے رب پر خوش ہیں کہ اس کے فضل سے یہ سب کچھ ہوا.میں نے عملاً سال رواں میں اس اقتصادی نظام کا چھوٹے پیمانے پر اجرا کر دیا ہے جس کی طرف قرآن کریم ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ کوئی شخص بھوکا نہ رہے.پہلے میری تحریک جماعت کو تھی ایک اور رنگ میں مگر سال رواں میں ہم نے صرف ربوہ میں ان خاندانوں کو جو انجمن کے کارکن نہیں اور طریق سے اپنی روزی کمانے والے ہیں جن میں بیشتر بیوائیں ہیں ربوہ میں ایسے ۵۰ مستحق خاندانوں کو ۳۳ ۸ من گندم کی امداد دی گئی.یعنی سو فیصد جماعت کے نظام نے یہ بار اٹھایا اس کے علاوہ صدرا انجمن احمدیہ کے کارکنوں میں سے ۴۳۳ خاندانوں کو جوا۲۵۱۱ افراد پر مشتمل پچیس فیصدی گندم کی رعایت دی گئی یعنی ۲۵۱۱ افراد کے لئے گندم کی جتنی ضرورت تھی اس گندم میں سے پچپیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۸۶ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطار فیصد ان کو مفت دی گئی.باقی کے کارکنان کو گندم کی خرید کے لئے انجمن کی طرف سے قرضہ دیا گیا جو آسان قسطوں میں وہ سال کے اندر ادا کریں گے.تحریک جدید میں ۹۶ خاندانوں کے ۵۲۰ افراد کو یہی گندم کی رعایت دی گئی اور وقف جدید کے ۱۶ خاندانوں کے۳۷۲ افراد کو بھی ۲۵ فیصد مفت گندم کے لحاظ سے یا ٹوٹل قیمت کی ۲۵ فیصد امداد دی گئی.عید کے موقعہ پر میرا یہ خیال تھا کہ کچھ سردیوں کے لئے کپڑے بن جائیں گے اور اس طرح سہولت پیدا ہو جائے گی.چنانچہ صدر انجمن احمدیہ کے ۴۷۰ خاندانوں کو جو ۲۴۶۴ افراد پر مشتمل تھے ( یعنی خاندان ۰ ۴۷ اور افراد۲۴۶۴) ان کو فی کس کے لحاظ سے ۱۲ روپے امداد دی گئی یہ افراد پر دی گئی مثلاً ایک خاندان اگر گھر ۱۰ افراد پر مشتمل ہے تو اس کو ۱۲۰ روپے عیدی دی گئی.تحریک جدید میں ۹۸ خاندانوں کے ۵۱۲ افراد کو ۱۲ فی کس کے لحاظ سے یہ تحفہ دیا گیا اور وقف جدید کے ۸۸ خاندانوں کے ۲۹۳ افراد کو ۱۲ روپے فی کس کے لحاظ سے یہ تحفہ دیا گیا.اور اسی طرح تقریباً ۲۰ الحاف اس وقت تک سردیوں کے لئے تقسیم کئے جاچکے ہیں.یہ تو تفصیل ہے اسلام نے یہ کہا اور وہ میرے خطبات چھپ چکے ہیں جماعت کو ان سے فائدہ اٹھانا ہئے کیونکہ میں نے بڑے بڑے سیاستدانوں سے بات کی ہے ان میں جو ذرا زیادہ مخالف ہوں جواب دے ہی نہیں سکتے اور جو موافق ہوں ان کا یہ حال ہے کہ ایک بہت بڑا سیاستدان کہنے لگا کہ آپ نے مجھے یہ بات بتائی تھی.ایک جگہ ہم سب اکٹھے تھے میں نے جو پر ولفٹ (Pro-Left) تھے ان کو پکڑ لیا اور کہا اس معاملہ میں بات کرو اور پھر کہا قرآن نے یہ تعلیم دی ہے اس سے زیادہ حسین تعلیم تم لے کر آؤ.چنانچہ وہ کہتا ہے کہ پھر میں نے (ویسے مجھے پتہ لگا کہ اس نے صحیح بات کی تھی) کہا کہ امام جماعت احمدیہ نے ہمیں یہ نکتہ بتایا تھا ہمارے ذہنوں میں تو پہلے نہیں آیا.پس یہ خطبات بڑی مفید چیز ہے اور یہ کہنا کہ صرف اشتراکیت یا سوشلزم غریب کا ہمدرد ہے اس سے بڑا اور کوئی ظلم نہیں ہے.دراصل یہ کہنا بھی غلط ہے کہ سوشلزم اور اشتراکیت غریب کی ہمدرد ہیں.میں نے اپنے خطبات میں اصولاً یہ ثابت کیا ہے کہ یہ غلط ہے جس کو دنیا غریب کہتی ہے اور جسے اسلام حق دار کہتا ہے اس کا ہمدرد اور خیر خواہ سوائے اسلام کے اور کوئی نہیں.میں مختصر بتا دیتا ہوں.وقت بھی زیادہ ہو گیا ہے.میں صبح سے بیمار بھی ہوں صبح سے اللہ تعالیٰ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۸۷ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطاب نے بڑا فضل کیا ہے آپ کی دعائیں بھی لگیں یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کا ذریعہ بنیں.میں اتنا لمبا بول سکا ہوں.میرا سر انفلوانزا کی وجہ سے پکڑا ہوا ہے سب سے اچھا نعرہ جوسمجھا جاتا ہے کہ غریب کے حق میں کبھی لگایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ "From each according to his ability and to each according to his need" یعنی کسی پر اس سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے جس کی وہ طاقت رکھتا ہے اور ہر شخص کو اس کی ضرورت ہے.یعنی نیڈ (need) کے مطابق دے دیا جائے لیکن اس کے اندر فساد اور فتنہ یہ ہے کہ ضرورت یا نیڈ (need) کہا مگر ضرورت یا need‘ کی تعریف نہیں کی.چنانچہ چین میں need ( یعنی ضرورت ) کی تعریف اور کی جارہی ہے اور یوگوسلاویہ میں اور تعریف کی جارہی ہے اور جہاں جو مرضی چاہے تعریف کرتا ہے.اسلام نے اس کے مقابلے میں ضرورت غربت کا لفظ استعمال نہیں کیا بعض جگہ استعمال کیا ہے مگر وہ اپنی اصطلاح میں کیا ہے.بعض جگہ بعض لوگ جن کو سمجھ نہ ہو ممکن ہے انہیں غلط فہمی ہو جاتی ہو لیکن میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ وہ اپنی اصطلاح ہے.اسلام نے یہ کہا ہے کہ کسی انسان کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے یا کسی غیر کے حق کی تعیین کر سکے.کسی انسان کا یہ حق ہی نہیں کیونکہ عقلاً بھی اور شرعاً بھی اور واقعتا بھی کسی شخص کے حق کی تعیین وہی کرسکتا ہے جو اس شخص اور اس کے حالات اور اس کی طاقتوں اور اس کی قوتوں اور اس کی ضرورتوں کا پور اعلم رکھتا ہو.جو پورا علم نہیں رکھتا وہ تعین نہیں کر سکتا اور سوائے اللہ کے کوئی علم نہیں رکھتا اس واسطے اسلام نے کہا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے انسان کے حق کی تعیین کوئی دوسری ہستی کر ہی نہیں سکتی.اب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں حق کی یہ تعریف کرتا ہوں کہ چونکہ میں نے انسان کو پیدا کیا اور میں نے ہر فرد واحد کو وہ قوتیں اور استعداد میں دیں جو اس کے اندر پائی جاتی ہیں اور اسلام نے کہا کہ یہ قوتیں اور استعداد میں چار قسم کی ہیں یعنی جسمانی، ذہنی، اخلاقی ، اور روحانی ، غرض اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا کہ میں نے ہر فرد واحد کو چار قسم کی قوتیں اور استعداد یں دیں یعنی جسمانی قوتیں روحانی استعداد میں اخلاقی اور ذہنی استعداد میں اور مجھے پتہ ہے کہ وہ کس فرد کے پاس کتنی کتنی ہیں.اس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۸۸ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطار لئے میں یہ اصول وضع کرتا ہوں حق کے متعلق اور حق کی یہ تعریف کرتا ہوں کہ ہر فرد واحد کو میں نے یعنی اللہ رب العالمین نے جو ہر قسم کی قوتیں اور استعداد میں دی ہیں میں چاہتا ہوں کہ ان کی صحیح اور کمال تک نشو ونما ہو.اس لئے ان قوتوں اور استعدادوں کی نشو و نما کو کمال تک پہنچانے کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ اس کا حق ہے اور اگر اس کا یہ حق نہیں ملتا تو وہ مظلوم ہے اور کوئی اور غاصب ہے اب یہ اتنی حسین اور comprehensive ( یعنی جامع تعریف ہے کہ اس کے مقابلے میں کوئی انسانی تعریف پیش ہی نہیں کی جاسکتی.یہ میں دھڑلے کے ساتھ آج کمیونسٹ اور سوشلسٹ ملکوں کو بھی چیلنج کرنے کے لئے تیار ہوں اور یہاں جو ان کے ساتھ ہمدردیاں رکھنے والے ہیں ان سے بھی میں کہتا ہوں میرے ساتھ آ کر آرام سے باتیں کریں میں ان کو قائل کر دوں گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتوں کو میں کر چکا ہوں.پس اسلام نے اتنی حسین تعلیم دی ہے کہ دنیا دا راپنے اصول اور اپنے فلسفوں کو لے کر اسلام کے مقابلے میں کھڑے ہی نہیں ہو سکتے.اب وقت آ گیا ہے کہ ہم عملی شکل میں ان کو قائم کریں.ایک چھوٹی سی تصویر صدر انجمن احمدیہ کی امدادوں میں نظر آتی ہے.صدرانجمن احمدیہ کے کارکنوں کا جہاں تک تعلق ہے کیونکہ وہ واقفین ہیں اور فدائی ہیں وہ تو آتے ہی اس معاہدے پر ہیں کہ ہم رے حقوق نہیں مانگیں گے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے کام کر رہے ہیں.یہ شکل ہم ایسی جگہ قائم کر سکتے ہیں جہاں وقف کا تخیل نہ ہو.ایسا موقع اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے جہاں ہم یہ کر سکتے ہیں اور وہ احمدیوں کی انڈسٹری (industry) ہے.اس لئے آج میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ احمدی جن کا رخانوں کے مالک ہیں وہ اپنے کارخانوں کے مزدوروں کی اجرتوں میں اسلامی اصول کو اپنائیں اور وہ اس کے مطابق کام کریں اسی طرح وہ زمیندار جن کو ایک خاص رقبہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے زمینیں دی ہیں اب میں سوچ رہا ہوں میرے ذہن میں ابھی یہ نہیں آیا کہ وہ رقبہ کتنا ہو میں بعد میں اعلان کروں گا ممکن ہے مشورہ کرنا پڑے وہ زمیندار بھی اسلام نے جو اقتصادی اصول بنانے ہیں اُن کے مطابق ذمہ داری لیں ان لوگوں کی جو غیر زمیندار اور ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں.ہم ایسا کر سکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو زمینیں بھی دی ہیں اور بڑے کارخانے بھی دیئے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۸۹ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطاب ہیں اور کارخانوں کے لئے تو میں ابھی ایک کمیٹی کا اعلان کر دیتا ہوں.کارخانوں کی جو کمیٹی ہے اس کا نیوکلیس (nucleus) یعنی اس کا مرکزی نکتہ اس کا سیکرٹری میں سید محمد احمد صاحب کو بناتا ہوں جو شاہنواز جو سز میں مینجنگ ڈائریکٹر ہیں.یہ مجھ سے مشورہ کر کے نیوکلیس (nucleus) اس طرح میں بنا دیتا ہوں وہ سات آدمیوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائیں اور اپنے مشورہ کے لئے اور میرے خطبات کو سمجھنے کے لئے (ممکن ہے بعض جگہیں ایسی ہوں جو عملی شکل دینے کے لئے ان کو سمجھ بھی نہ آئے پس مجھ سے بھی اور دوسروں سے بھی مشورہ کریں اور تین مہینے کے اندراندر وہ یہ سکیم میرے سامنے پیش کریں کہ ہمارے نزدیک قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم کی روشنی میں احمدی کارخانہ دار کو اپنے کارکنوں یعنی مزدوروں وغیرہ سے اس قسم کا ان اصولوں پر سلوک کرنا چاہئے.نمبر دو یہ کہ اپنے سرمایہ اور سالانہ نفع کے لحاظ سے آیا وہ یہ سلوک کرنے کے اہل بھی ہیں یا نہیں.ایک کارخانہ دار کہہ سکتا ہے کہ ٹھیک ہے ہم تیار ہیں لیکن آپ ہمارے حساب دیکھیں ہمیں اتنا نفع ہی نہیں آتا کہ ہم اتنا دے دیں.ہم انہیں یہ کہیں گے کہ جو اسلام کے اصول حقوق کی تعیین کر رہے ہیں تم واقع میں چونکہ ان کو پورا ادا نہیں کر سکتے اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ تم سو فیصدی حقوق ادا نہ کرو تم اسی فیصدی حقوق ادا کر دو باقی نہیں فیصدی ہم جماعت کی طرف سے ادا کر دیں گے.پس اس طرح حق کی تعیین ہو جائے گی حق کی تعیین ہو جانے کے بعد یہ کہنا کہ ہم حق نہیں دیتے یہ میچ نہیں سوائے اس کے کہ ان کو جماعت یہ کہے کہ ہم بھی دینے کے لئے تیار ہیں لیکن ابھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیسے نہیں دیئے یہ تو اور بات ہے لیکن یہ کہنا کہ حق کی تعیین ہو گئی ہے اور جماعت کو توفیق ہے یا نہیں.اس کا پتہ ہی کسی کو نہیں پھر خواہ مخواہ اعتراض پیدا ہوگا پس اگر اللہ تعالیٰ جماعت کو یہ توفیق دے گا مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ توفیق دے گا.تو ایسے کارخانوں کے بقیہ فی صد حقوق جماعت کی طرف سے ادا ہو جائیں گے پس کارخانہ دار ہوشیار ہو جائیں.میرے نزدیک تو اسلام کا یہ مسئلہ ہے جن کارخانوں کو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ نفع دے اور حقوق تو بہر حال معین ہیں ان سے زیادہ اگر وہ نہ دیں تو ان پر کوئی الزام نہیں کوئی گناہ نہیں وہ اپنے کارخانے کے کارندوں کے حقوق ادا کر دیں اور ان کی اپنی ضرورتوں سے زیادہ کچھ رہ جائے تو ہم ان سے جبرا نہیں لیں گے.ان کو ہم یہ تحریک کریں گے کہ تمہارے حقوق بھی ادا ہو جاتے ہیں تمہارے پاس کام کرنے والوں کے حقوق بھی ادا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۹۰ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء.دوسرے روز کا خطاب ہو جاتے ہیں اس لئے جو زائد رقم ہے اس میں سے رضا کارانہ طور پر اپنی خوشی سے کچھ اس کا من فنڈ میں دے دو جہاں سے وہ حقوق ادا ہوں گے.جہاں خود وہ کارخانہ وہ حق پورا نہیں کر سکتا.یہ قابل عمل سکیم ہو سکتی ہے.پھر زراعت کے متعلق جو ہمارے ناظر زراعت ہیں ان کو سیکرٹری اور وکیل زراعت کو ایڈیشنل سیکرٹری مقرر کرتا ہوں.پھر وہ زمینداروں میں سے لے کر کیونکہ اس میں ابھی ابتدائی کام بھی کرنے والا ہے آج دوسری طرف میں نے کافی سوچ لیا اس طرف مجھے آج ہی خیال گیا کہ ان کو بھی ساتھ شروع کر دوں.میں سمجھتا ہوں کہ جو غریب دیہاتی ہے آج اگر حقیقت اللہ تعالیٰ نے کسی کو حقیقی ماں باپ کے علاوہ اس کا ماں باپ بنایا ہے تو وہ آپ احمدی ہیں.اللہ تعالیٰ جس کو حقیقی ماں باپ کے بعد دوسرے کا ماں باپ بنا دیتا ہے اور وہ غفلت کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا احسان فراموش ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے.جہاں تک ممکن ہو سکے اپنی طاقت سے اپنی ریسورسز (resources) یعنی ذرائع سے حقوق کی ادائیگی کے سامان پیدا کرو اور جہاں نہ ہو سکے وہاں اگر آپ کی آواز میں اثر ہو تو دوسروں کو یہ سمجھاؤ کہ وہ انسان کے حقوق ادا کریں ورنہ اللہ تعالیٰ مظلوم انسان کو یہ طاقت دے گا کہ وہ پھر ظلم کا بدلہ لیں اور بعض دفعہ اللہ تعالی ظلم کا بدلہ لینے والے کو تھوڑے سے ظلم کی بھی عملاً اجازت دے دیتا ہے میں شرعاً نہیں کہوں گا لیکن عملاً دنیا میں یہ ہوتا ہے.اس واسطے ان کو اپنی فکر بھی کرنی چاہیئے.ان کا اپنا فائدہ یہ ہے کہ جب تک ہر انسان کا حق ادا نہیں ہو جاتا ایک اصولی بات ہے اسے کبھی نہ بھولیں ) اس وقت تک ہر انسان کے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار پیدا نہیں ہو سکتا ہر انسان کے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار پیدا کرنے کے لئے آپ کو پیدا کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۹۱ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام مرکزی نقطہ ہے اور یہی حقیقت محمدیہ ہے اختتامی خطاب جلسه سالا نه فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:.وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ذُومِرَّةٍ فَاسْتَوَى وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلى عَبْدِهِ ما أوحى (النجم : ۴ تا ۱۱) پھر حضور انور نے فرمایا:.اصل مضمون شروع کرنے سے قبل میں دو باتیں دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں ایک تو یہ کہ اگلے ماہ کی یکم تاریخ سے وقف جدید کا سالِ نو شروع ہو رہا ہے.دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس نئے سال میں آپ کو اور ہمیں پہلے سب سالوں کی نسبت قربانیوں اور ایثار کی زیادہ تو فیق عطا کرے اور انہیں قبول کرتے ہوئے ہمیں بہتر اور احسن ثمرات عطا کرے اور وہ ہمارے نصیب میں کرے.دوسرے یہ کہ وقف جدید کے لئے بہت سے نئے معلمین کی ضرورت ہے جو کلاس اگلے ماہ شروع ہو رہی ہے ابھی تک اس کے لئے بہت کم نام دفتر میں پہنچے ہیں.دوست اس طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کلاس میں پچاس اور سو کے درمیان واقفین ہونے چاہئیں ورنہ ہم اپنی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکیں گے.ہم اپنی ذمہ داریوں کو نباہ نہیں سکیں گے.دوست اس طرف متوجہ ہوں اور اہل اور قابل معلم وقف جدید کے نظام کے لئے جلد سے جلد مہیا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو جزاء دے.گذشتہ سال میں نے یہ مضمون بیان کیا تھا کہ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ اس ساری کائنات کو ایک کھیل کے طور پر بلا مقصد اور بلا غرض پیدا نہیں کیا گیا.جو کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے.اس کے پیچھے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۹۲ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب ایک مقصد ہے ایک غرض ہے جس کی وجہ سے دنیا کی ہر شے چیونٹی سے لے کر ستاروں کے خاندانوں تک غرض کوئی چیز بھی ایسی نہیں کہ جو اس مقصد کے حصول میں مفید اور معاون نہ ہو.یہ بات ہمیں اس طرح بھی اور زیادہ سمجھ آسکتی ہے کہ حقیقت یہ ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دنیا کی ہر ھئے اپنی حقیقت رکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بعض جلوے اس کے حکم سے وہ شکل اختیار کر لیتے ہیں اگر اس مادی دنیا کی اشیاء کی حقیقت اور اصلیت یہ ہو تو پھر ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی بعض صفات کو اپنے ارادہ اور حکم سے خاص شکلیں بھی دے اور اس فعل کا کوئی مقصد بھی نہ ہو.ہر چیز جو پیدا کی گئی ہے اور مجموعی طور پر تمام اشیاء اور یہ کائنات ان کے پیچھے ایک مقصد ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ ایک ایسی نوع پیدا کی جائے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کی مظہر بننے کی قابلیت اور اہلیت رکھتی ہو کیونکہ انسان کی فطرت میں یہ رکھا ہے کہ دلیل کے ساتھ اگر نمونہ نہ ہو تو وہ دلیل مؤثر نہیں ہوتی.بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کا مظہر بنانے کے لئے کسی نمونہ کی ضرورت ہے اور وہ نمونہ کامل اور مکمل ہونا چاہئے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں احد “ ہوں.فرمایا قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ (الاخلاص :۲) میرا کوئی مثل و مانند نہیں ہے حقیقی معنی میں میرے جیسا کوئی اور نہیں ہے.میں اکیلا منفرد اور یکتا ہوں بہر حال اللہ تعالیٰ جیسا کوئی نہیں لیکن اس کی مشیت نے یہ چاہا کہ ظلیت میں ایک وجود کو اپنی تمام صفات کا مظہر اتم بنادے یعنی اللہ اللہ کا مظہر بنادے.اللہ کے معنی ہیں وہ ذات جو تمام صفات حسنہ سے متصف اور ہر قسم کے عیوب اور نقائص سے منزہ ہے.گو یا اللہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور پھر اس کی بے شمار صفات ہیں اور ان صفات کے بے شمار جلوے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اس کی اس عالمین سے تعلق رکھنے والی جو صفات کے جلوے ہیں ان صفات اور ان جلوؤں کا ایک مظہر بنائے اور وہ مظہر ظلی طور پر خدا کہلائے.وہ خدا تو نہیں ہو گا لیکن اسے خدا سے اتنی شدید موافقت اور مماثلت ہوگی کہ پہلے انبیاء اس کے آنے کو خدا کا آنا اور اس کے ظہور کو خدا کا ظہور قرار دیں گے.چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم قضاء و قدر میں پیدا کیا گیا اور اس مرکزی نقطہ کے گرد عالم کا ئنات کی پیدائش کا منصور بنایا گیا عالم قضاء و قدر میں منصوبہ بنایا جاتا ہے.پس عالم قضاء وقدر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۹۳ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب کی ذات کو مرکزی نقطہ بنایا گیا.پھر اس مرکزی نقطہ کے فیوض کے حصول کے لئے بنی نوع انسان کو پیدا کیا اور ان کو جسمانی اور ذہنی اور اخلاقی اور روحانی تربیت کے لئے یہ تمام مخلوق پیدا کر دی جو زمین کے اندر سے لے کر اس دنیا کے مادی آسمانوں کے آخر تک ہمیں نظر آ رہی ہے.میں نے بتایا تھا کہ یہ حقیقت ایک رنگ میں پہلے انبیاء پر بھی ظاہر کی گئی یہ حقیقت کہ مقصود کا ئنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وجود پیدا کرنا منشاء الہی نہ ہوتا اور اگر عالم قضاء و قدر میں اللہ رب العالمین اس وجود کو پیدا کرنے کا منصوبہ نہ بنادیتا تو یہ عالم اور یہ کا ئنات پیدا ہی کوئی نہ ہوتی مخلوق ہی نہ ہوتی، نہ شجر ہوتے نہ حجر نہ زمین ہوتی نہ آسمان نہ انسان ہوتا، نہ حیوان ہوتا، غرض یہ وجود پیدا نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ بغیر مقصد کے لغو طور پر کوئی فعل نہیں کر سکتا کیونکہ یہ نقص ہے اور اللہ کہتے ہی اسے ہیں جو ہر قسم کے نقائص سے پاک ہو اور پہلے انبیاء کو بتایا گیا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا میں سے جتنا حصہ بھی لیا وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے لیا اور آپ سے علیحدہ ہو کر کوئی شخص بھی اللہ تعالیٰ کا قرب اس کی برکات اس کے فیوض اور اس کی رحمتیں حاصل نہیں کر سکتا چنا نچہ تمام انبیاء نے اس کا اظہار بھی کیا.جب ہم تاریخ انبیاء پر غور کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے اور ہمیں نظر آتا ہے کہ آدم اور نوح علیہما السلام اللہ تعالیٰ کے بزرگ نبی تھے لیکن انہوں نے جو یہ خصوصیات اپنے اندر پیدا کیں کہ وہ بعض صفات باری کے مظہر بنے تو صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل کیا.ہر نبی اللہ تعالیٰ کا مظہر اتم نہیں تھا بلکہ ہر نبی صفات باری میں سے بعض کا مظہر تھا تمام صفات باری کا مظہر نہیں تھا.اس لئے ان کی تعلیموں میں ہمیں فرق نظر آتا ہے یعنی ایک نبی ہمیں ایسا نظر آتا ہے جو ذ والانتقام ربّ العالمین کا مظہر ہے وہ انتقام پر زور دیتا ہے اور دوسرا نبی ہمیں ایسا نظر آتا ہے جو خدا تعالیٰ کی صفت غفور کا مظہر ہے وہ صرف یہ کہتا ہے کہ لوگوں کو معاف کرتے چلے جاؤ لیکن پہلے انبیاء میں سے اور بعد میں آنے والے اولیاء اور مقربین میں سے سوائے دو وجودوں کے ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب نظر نہیں آتا اور ممکن ہے کہ اس کے متعلق بعد میں میں کسی جگہ اشارہ کروں.اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی بعض صفات باری کے مظہر تھے وہ سب صفات باری کے مظہر نہیں تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۹۴ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب استعداد اور ان کی قوم کی ضرورت کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اضافی طور پر ایک ناقص مظہریت عطا کی وہ بعض صفات باری کے مظہر بنے اور اس لئے مظہر بنے کہ انہوں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے روحانی فیوض سے نوازا اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے فیوض کو حاصل کرنے کا اور کوئی نظریہ نہیں ہے.اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی بعض صفات باری کے مظہر بنے اور ایک بزرگ شریعت بنی اسرائیل کی طرف لے کر آئے.وہ اس شریعت کے اضافی نقص کا علم رکھتے تھے اور آپ کے دل میں یہ شدید تڑپ تھی کہ آپ اپنے آقا اور ہادی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل جلوہ دیکھیں.ضعف استعداد کی وجہ سے آپ کی یہ خواہش تو پوری نہ ہو سکی لیکن اس تڑپ کا آپ نے اظہار کر دیا کہ آنے والے عظیم مظہر خدا کی دنیا کو آپ نے بشارت دی اور اس اقرار کا اعلان کیا کہ اپنی عظمت جلالی اور مظہریت کے کمال میں آنے والے کو ظلی طور پر خدا کے نام سے پکارا جانا بھی عین مناسب ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پہچانتے ہوئے اور اس حقیقت کا عرفان رکھتے ہوئے کہ جو پایا سومحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی پایا.بنی اسرائیل کے دیگر انبیاء نے بھی استعارہ کے طور پر صاحب مقام ہذا کے ظہور کو خدا تعالیٰ کا ظہور قرار دیا اور اس کا آنا خدا تعالیٰ کا آنا ٹھہرایا مثلاً داؤد علیہ السلام نے دنیا میں یہ اعلان کیا کہ ”اے خدا تیرا تخت ابد الآباد ہے تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے.تو نے صدق سے دوستی اور شر سے دشمنی کی ہے اس لئے خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطر کیا ہے.“ (زبور باب ۴۵ آیت ۷،۶ ) یعنی تمام انبیاء علیہ السلام سے زیادہ تو نے خدا تعالیٰ کے قرب اور خدا تعالیٰ کی رضا اور خدا تعالیٰ کی محبت کو پایا ہے.یسعیاہ نبی نے دنیا میں یہ ندا بلند کی.وہ نہ گھٹے گا نہ تھکے گا جب تک کہ راستی کو زمین پر قائم نہ کرلے اور جزیرے اس کی شریعت کے منتظر ہوں گے.خداوند خدا ایک بہادر کی مانند نکلے گا.“ (یسعیاہ باب ۴۲ آیت ۱۳۵،۴) اس آیت میں آنے والے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کے نام سے ظلمی طور پر پکارا گیا ہے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۹۵ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب مسیح علیہ السلام بھی خدا کے ایک بزرگ نبی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قابل شاگرد تھے وہ اپنے مقام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعتوں کا علم رکھتے تھے.آپ نے بھی انسان کے کان میں یہ سرگوشی کی کہ میں اپنے آپ کو اس کا مانند شمار نہیں کرتا جس کی نسبت تم کہہ رہے ہو کیونکہ میں اس کے لائق بھی نہیں ہوں کہ اس رسول اللہ کے جوتے کے بند ی نعلین کے تسمے کھولوں.تم مجھے مسیحا کہتے ہو وہ جو کہ میرے پہلے پیدا کیا گیا اور اب میرے بعد آئے گا اور وہ کلامِ حق کے ساتھ آئے گا اور اس کے دین کی کوئی انتہا نہیں ہوگی.جتنے انبیاء علیہم السلام گذرے ہیں جب ہم ان کی تاریخ کا اور ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ علم دیئے گئے تھے کہ ان کو جو بھی ملا وہ کامل اور مکمل نہیں اور دوسرے یہ کہ انہیں جو بھی ملا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے ملا.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ در حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظلل تھے“ پھر فرمایا.کشتی نوح روحانی خزائن جلد نمبر ۹ ۱ صفحه ۲۶) قرآن جو تمام آسمانی کتابوں کا آدم...(تحفہ گولڑ و بی روحانی خزائن جلد نمبر ۷ صفحه ۲۵۸) قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہے ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد نمبر ۲۱ صفحه ۳۰۰) گذشتہ سال میں نے بتایا تھا کہ اگر ہم اولیائے امت کی کتب کا مطالعہ کریں تو وہاں بھی ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ قریباً سارے بزرگ اولیاء نے اس بات کو وضاحت سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت آدم علیہ السلام سے پہلے تھی اور آپ ہی کے فیوض سے سارے انبیاء نے فیض حاصل کیا.قرآن کریم نے اس حقیقت محمدیہ کو سورۃ النجم کی ان آیات میں بیان کیا ہے جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.اگر چہ یہ مضمون بڑا عمیق ہے اور ہمارے سننے والے ہر قسم کی استطاعت کے مالک ہیں اس لیے میں کوشش کروں گا کہ جس حد تک آسان طریق پر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۹۶ میں اسے بیان کرسکوں اس کو اسی طرح بیان کر دوں.۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب قرآن کریم نے یہاں ان آیات میں ایک مثال کے ذریعہ حقیقت محمدیہ کو بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس طرح سمجھ لو کہ دو قوسیں ہیں ان میں سے جو قوس اعلیٰ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر مشتمل ہے یا ان کی علامت ہے جو شیہی صفات ہیں اور جن کا تعلق ہمارے اس عالم سے ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات غیر محدود ہیں اور پھر ان صفات کے جلوے غیر محدود ہیں.کسی مادی مثال میں تو ہم اسے بیان نہیں کر سکتے لیکن اس عالمین میں اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی بعض صفات جلوہ گر ہیں.اس کی ساری صفات جلوہ گر نہیں اور پھر ان بعض صفات کے بھی سارے منصوبے نہیں بلکہ ان کے بھی یہاں کچھ جلوے ہیں کیونکہ ان صفات کے جلوے بھی بالکل یقینی طور پر غیر محدود ہیں لیکن بہر حال ہم نے اس مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کرنی ہے اور اس کو سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یوں سمجھ لو کہ میری وہ صفات جو شبیہی ہیں اور جن کا تعلق تمہاری اس دنیا اور تمہارے اس جہان سے ہے ان میں سے میری بعض صفات کے جو جلوے ہیں وہ اس طرح ہیں جس طرح ایک قوس.اور یہ جو تمہاری کا ئنات ہے وہ ساری ایک دوسری قوس یعنی کمان کی مثال ہے جو نیچے کی طرف ہے.اس دنیا کی قوس نے جس چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے اس کا وجود ممکن ہی نہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی صفات سے وہ فیوض حاصل نہ کرے.پس ہر چیز اپنے وجود پذیر ہونے میں یعنی خلق ہونے میں، پیدا ہونے اور اپنے قائم رہنے میں مسلسل اور بغیر کسی انقطاع کے اللہ تعالیٰ کے جلوؤں کی محتاج ہے اس کے بغیر وہ قائم نہیں رہ سکتا اور رب العالمین کے یہی معنے ہیں.غرض مخلوق کے وجود اس کے خلق اور اس کی بقاء کے لئے ربوبیت کے غیر متناہی اور مسلسل جلوؤں کی ضرورت ہے اور اگر ایک لحظہ کے لئے بھی اس کا ئنات سے رب العالمین کے یہ جلوے چھپا دیے جائیں تو قیامت آ جائے.انہیلیشن (Annihilation)، ہر چیز مٹ جائے.فرمایا یہ مخلوق جو ہے یہ کائنات جو ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسی ایک قوس.یعنی ایک نصف دائرہ ہے ایک کمان ہے جس نے نچلی طرف ساری کائنات کو اپنے احاطہ میں لیا ہوا ہے اور اس کے اوپر ایک اور قوس ہے جس نے اپنے احاطہ میں اللہ تعالیٰ کی ان تمام تشبیہی صفات کے جلوؤں کو لیا ہوا ہے جو اس کا ئنات سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بغیر اس کا وجود اور قیام اور دوسری
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۹۷ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب صفات جواس کے اندر پائی جاتی ہیں ان کا امکان ہی باقی نہیں رہتا لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات کے یہ جلوے براہ راست اس کا ئنات کو نہیں پہنچ رہے اس پر ظاہر نہیں ہور ہے بلکہ بیچ میں ایک وجود ایسا ہے جو برزخ کے طور پر ہے اور اس کی وساطت سے یہ جلوے کائنات کو پہنچ رہے ہیں اور وہ وجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے اگر یہ وجود درمیان میں نہ ہوتا تو آم کے درخت کو آم بھی نہ لگتے بلکہ آم کا درخت بھی نہ ہوتا اگر وہ جلوہ اسے نہ ملتا.اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شریعت کے حصول کی استعداد نہ ملتی.غرض ایک عام مخلوق سے لے کر انبیاء علیہم السلام تک جو بڑی ہستیاں ہیں ممکن ہی نہیں ہے کہ یہ چیزیں ہوں جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے فیض حاصل کر کے آگے نہ پہنچا ئیں.آپ کا یہ فیض صرف انسانوں کو نہیں پہنچ رہا بلکہ آپ کا یہ فیض دنیا کی ہر مخلوق کو پہنچ رہا ہے اور اس لئے پہنچ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے ہر چیز جو پیدا کی ہے وہ انسان کے لئے پیدا کی ہے.وہ انسان کی خدمت کر رہی ہے ہر چیز کو ہم نے انسان کی بہبود کے لئے اور اس کو فائدہ پہنچانے کے لئے مسخر کر دیا ہے.یہاں بتایا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام وتر کا مقام ہے جو دو قوسوں یعنی قوس الوھیت اور قوس کا ئنات کے درمیان ہے اور ان کے درمیان ایک برزخ کے طور پر ہے اور وتر ہے لیکن حقیقت محمدیہ وہ وتر نہیں ہے بلکہ حقیقت محمدیہ وتر کا وہ درمیانی نقطہ ہے جس کو صوفیاء نے نقطہ محمد یہ بھی کہا ہے اور اس نقطہ سے حقیقت محمد یہ دائیں اور بائیں حرکت کرتی اور دو قوسوں کے کناروں تک پہنچ جاتی ہے حقیقت محمدیہ اللہ کا مظہر اتم ہے جو تمام صفات حسنہ کا جامع ہے اور اللہ کا یہ مظہر اپنی روحانی حرکت میں سارے وتر پر چلتا ہے اور ساری ہی صفات باری کا وہ مظہر بن جاتا ہے کیونکہ جو اللہ کا مظہر ہے وہ اس کی ساری صفات کا مظہر ہے اور جو اس وجوہ کا مظہر ہے.جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے ظاہر ہے کہ وہ تمام صفات حسنہ کا مظہر ہے اور اس بات کو بیان کرنے کے لئے اور اس حقیقت کو آشکار کرنے کے لئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے مظہر اتم ہیں اور اس وجہ سے آپ اللہ تعالیٰ کی ان تمام تشبیہی صفات کے مظہر اتم ہیں جن کے جلوے ہماری اس دنیا سے تعلق رکھتے ہیں اور اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے کہ دوسرے بزرگ انبیاء جو پیدا ہوئے اور جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا اور اس کی محبت کو پایا وہ اللہ تعالیٰ کے کامل مظہر نہیں بلکہ ----
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۹۸ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے وہ ایک دو تین چار پانچ یا دس صفات کے مظہر ہیں جو اللہ کا مظہر ہے اس کی تفصیل یوں ہے کہ وہ تمام صفات باری اس وتر پر نقطوں کی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں اور ایک لائن میں بے شمار نقطے ہوتے ہیں اور حساب کا غالباً یہ قاعدہ ہے کہ وہ نقطہ کو کوئی جگہ نہیں دیتا اور اس لائن میں جو قوسین کے درمیان وتر کے طور پر ہے اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات کو نقطوں کی شکل میں دکھایا گیا ہے.اب جو وجود اللہ تعالیٰ کا مظہر ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات اور پھر ان صفات کے جلوؤں کا مظہر ہو گا اور اس کی شکل اس طرح بن جائے گی کہ اس کی روحانیت نے وتر کے مرکزی نقطہ سے حرکت کی اور ان تمام تشبیہی صفات کے جلوؤں کو جو اس کا ئنات سے تعلق رکھتی ہیں اپنی مظہر بیت میں سمیٹ لیا.اس لائن کے دائیں اور بائیں جو بے شمار نقطے ہیں ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کے دوسرے انبیاء ہیں ان انبیاء میں کوئی ایک صفت کا مظہر ہے کوئی دوصفات کا مظہر ہے کوئی پانچ صفات کا مظہر ہے اور کوئی دس صفات کا مظہر ہے.اس کے علاوہ یوں ہوا کہ یہ مرکزی نقطہ بحر الوہیت میں غرق ہوا اور اس نے اوپر کی قوس کی طرف بڑھنا شروع کیا اور چونکہ یہ مرکزی نقطہ ہے اس لئے وہ سب سے بلند رفعت کو حاصل کر سکتا ہے.اس وتر کا کوئی اور نقطہ اگر عمودی خط کے ذریعہ کمان کے اوپر کے حصہ سے ملایا جائے تو وہ انتہائی ارتفاع کا نقطہ نہیں ہو گا بلکہ جتنا جتنا وہ کمان کے کناروں کی طرف چلتا چلا جائے گا اس کی رفعت کم ہوتی جائے گی اور سب سے زیادہ رفعت اور بلندی اس خط کی ہے جو وتر کے وسطی نقطہ سے اوپر کی طرف کھینچا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو اس مثال میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ گویا آپ کی حقیقت وتر کے وسطی نقطہ کی ہے جہاں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے روحانی بلندیوں کو حاصل کرنا شروع کیا اور رفعتوں پر بلند ہوتے ہوتے بلند تر مقام پر پہنچے اور وہاں سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہاتھ سے پکڑا اور عرش پر اپنے دائیں طرف بٹھالہ یہ ایک حرکت ہے.میں نے سوچا کہ اس مرکزی نقطہ سے چار حرکتیں حقیقت محمدیہ میں پیدا ہوئیں.ایک حرکت ارتفاع کی طرف ہوئی اور اس نے آپ کو سب سے بلند کر دیا اور یہ مقام ختم نبوت ہے کہ پہلوں نے بھی اور بعد میں آنے والوں نے بھی جب بھی اور جس زاویہ سے بھی رفعتوں کی طرف دیکھا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۳۹۹ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب سب سے آخر میں اور سب سے بلند محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو پایا.آپ آخری نبی بھی ہیں اور افضل الرسل ہیں آپ سب کچھ ہیں.اب دیکھیں وہ سامنے ایک پہاڑی ہے اس کی بلندی پر ایک آدمی کھڑا ہے اگر اس پہاڑی کے گرد ایک ہزار آدمی دائرہ بنائے تو ان میں سے جو بھی اور جس زاویہ سے بھی دیکھے گا اسے سب کی بلندی کے اوپر یہ آدمی نظر آ جائے گا ہو سکتا ہے کہ اب بھی اس پہاڑی پر کوئی آدمی ہو لیکن یہاں سے وہ نظر نہیں آتا غرض روحانی دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قوس الوہیت کے وتر کے وسط سے روحانی بلندی کو حاصل کرنا شروع کیا اور کرتے کرتے کرتے انتہا کو یعنی الوہیت کے سمندر کے کنارے پر پہنچے اور یہ تمثیلی زبان ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے ہاتھ سے پکڑا اور اپنے عرش پر بٹھا لیا اور اس طرح سب سے آخری مقام بھی آپ کا بن گیا اور سب سے بلند مقام بھی آپ کا بن گیا سب سے اعلیٰ مقام بھی آپ کا بن گیا اور سب سے بڑھ کر اور سب سے افضل مقام بھی آپ کا بن گیا.غرض جس زاویہ سے بھی دیکھیں اور جس نقطہ نگاہ سے بھی دیکھیں سب سے آخر میں اور سب سے اعلیٰ آپ ہی ہیں.اس طرح پہ آپ اللہ کے اور اس کی تمام صفات حسنہ کے مظہر اتم بن گئے اور آپ کی اس حیثیت میں مخلوق نے جو بھی حاصل کیا وہ آپ کے طفیل حاصل کیا لیکن نظر ہمیں یہ آتا ہے کہ اس وتر کے اوپر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں آدھ انچ کے فاصلے پر یا یہ کہنا چاہئے کہ اگر مثلاً وہ دائرہ سات انچ کا ہے تو دو انچ کے فاصلہ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نظر آتے ہیں کیونکہ وہ چھٹے آسمان پر پہنچے ہیں اور ایک انچ کے فاصلہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نظر آتے ہیں کیونکہ وہ ساتویں آسمان پر پہنچے ہیں.پھر اس وتر کے تین انچ کے فاصلہ پر حضرت ہارون علیہ السلام نظر آتے ہیں کیونکہ آپ پانچویں آسمان پر پہنچے ہیں اور پانچ انچ کے فاصلہ پر ہمیں حضرت مسیح علیہ السلام نظر آتے ہیں کیونکہ آپ دوسرے آسمان پر پہنچے ہیں اس طرح دوسرے اولیاء اور انبیاء ( بنی اسرائیل میں تو بے شمارے انبیاء آئے ہیں ) کا مقام اس وتر پر بے شمار نقطوں میں ہے.معراج کی سیر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر پچھلوں میں سے جو نبی نظر آیا وہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام ہیں آپ نے ان کو ساتویں آسمان پر دیکھا اس سے زیادہ قرب تو ہو نہیں سکتا.آپ عرش پر ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ساتویں آسمان پر ہیں جس کو انگریزی زبان میں نیکسٹ ٹو ہم (next to him ) کہا جا سکتا ہے اور بعد میں آنے والوں میں سے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۰۰ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب جو نبی آپ کے قریب تر نظر آئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اور یہ ہر دو نبی غیر تشریعی نبی ہیں اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایک غیر تشریعی نبی تشریعی نبی موسیٰ سے اوپر کیسے نکل گیا کیونکہ وہ اسی طرح اوپر نکل گیا جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسیٰ سے اوپر نکل گئے بہر حال یہ عجیب مماثلت ہے جو معراج کی رات میں ہمیں نظر آتی ہے.معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سا تو میں آسمان پر دیکھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ساتو میں آسمان پر نہیں دیکھا بلکہ انہیں آپ نے چھٹے آسمان پر دیکھا اور بعد میں آنے والوں میں سے آپ نے صرف ایک کو اس قدر قابل احترام اور قابل عزت پایا اور اپنی محبت کے قابل پایا کہ ساری امت کے اولیاء کو چھوڑ کر آپ نے اس ایک کے متعلق فرمایا کہ اگر تمہیں ملے تو اسے میری طرف سے سلام پہنچا دینا.اور دوسری حرکت روحانی جو دو پہلوؤں میں ہے وہ وتر سے یعنی مرکزی نقطہ سے عین اوپر دائیں اور بائیں حرکت ہے.میرے ذہن میں آیا ہے کہ دائیں طرف جو حرکت ہے وہ اپنے زمانے سے پہلے کی طرف حرکت ہے اور وہاں حضرت آدم علیہ السلام آخر میں آگئے ہیں اور جو بائیں طرف حرکت ہے وہ بعد کے زمانہ کی حرکت ہے اور اس کے آخر میں وہ آدم ہیں جو بعد میں پیدا ہوئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ایک آدم ہیں ایک اور معنی کے لحاظ سے.اس میں کنفیوژن (Confusion) نہیں پیدا کرنا چاہئے لیکن بعض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی طور پر قریب تر ہونے کی وجہ سے اور آپ کے روحانی فرزندوں میں سے عظیم تر فرزند ہونے کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مماثلت رکھتے ہیں جیسے فرمایا:.نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار ( در شین صفحه ۱۳۱) اور اس کا تو یہ مطلب ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جلوہ بھی ہے کیونکہ جو ساتویں آسمان پر ہے اسے چھٹے آسمان کی رفعتیں بہر حال حاصل ہیں کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کسی کو چھٹے آسمان کی رفعت ہی نہ ملے اور وہ ساتویں آسمان پر جا پہنچے یہ تو بالکل
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۰۱ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب غیر معقول چیز ہے.انسانی عقل میں یہ بات آہی نہیں سکتی.جو سا تو میں آسمان پر ہے اسے پانچویں آسمان کی، چوتھے آسمان کی ، تیسرے آسمان کی، دوسرے آسمان کی اور پہلے آسمان کی رفعتیں حاصل ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ رفعتیں حاصل تھیں اور ادھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو یہ رفعتیں حاصل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بھی امت محمدیہ کو یہ بتایا کہ مجھ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ بھی دنیا میں یہ منادی کی کہ مجھے عاجز فرزند میں اور میرے آقا اور باپ میں کوئی فرق نہیں ہے اور جس نے ہم میں کوئی فرق کیا اس نے مجھے نہیں پہچانا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور روحانی حرکت ہے جسے ہم تیسری حرکت بھی کہہ سکتے میں چوتھی حرکت بھی کہہ سکتے ہیں.اگر ان حرکتوں کو جو وتر کے دائیں اور بائیں ہیں دوشمار کیا جائے تو یہ چوتھی حرکت آپ کی نیچے کی طرف ہے یعنی مخلوق کی طرف ہے.یہاں آپ کی یہ عظیم شان ہمیں نظر آتی ہے کہ پہلے کے تمام انبیاء اور بعد کے تمام اولیاء نوع انسانی سے ہمدردی اور خیر خواہی رکھنے والے نہیں تھے بلکہ ایک قوم سے اور ایک زمانہ سے ان کا تعلق تھا.ہوسکتا ہے کہ ان کی تعلیم میں تحریف و تبدل کے بعد شاید وہ بھیا نک شکل پیدا ہوئی ہو جو اس وقت ہے لیکن بہر حال اس میں یہاں تک کہہ دیا گیا تھا کہ جو جو تمہارے مذہب سے تعلق نہیں رکھتے.تم ان کے اموال کو لوٹ لو ان کی عورتوں کو اور ان کی بیٹیوں کو بلا وجہ لونڈیاں بنالو اور پھر یہ حکم دیا گیا کہ اپنوں سے سود نہ لینا ہاں دوسری قوموں سے بے شک جتنا چاہو جس ریٹ پر چاہو اور جس شرح سے چاہوسود لیتے چلے جاؤ.غرض جہاں تک دنیا اور اس کی بیماریوں اور جہاں تک نفوس انسانی اور ان کی آفات کا تعلق تھا کسی نے اس طرح ہمہ گیر ہمدردی اور غم خواری کا اظہار نہیں کیا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا.جو شخص اسفل السافلین کی گہرائیوں تک جا پہنچا دنیا کا کوئی نبی اسے اس گند سے چھڑانے کے لئے وہاں تک نہیں پہنچ سکا.لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور شفقت بنی نوع انسان کے لئے جوش میں آئی اور آپ اس اسفل السافلین تک پہنچے اور آپ نے اس شخص کا ہاتھ پکڑا اور کہا تم مایوس کیوں ہوتے ہو.إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر : ۵۴) اللہ تعالی سارے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے.یہ بات کہ اللہ تعالی سارے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے حقیقتا صرف اس کو کہی جاسکتی ہے جو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۰۲ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب سارے گناہوں میں ملوث ہو جو شخص صرف ایک گناہ کا احساس رکھتا ہے اس کو آپ جا کر کہیں کہ مایوس نہ ہو اللہ تعالی سارے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے تو وہ کہے گا مجھ سے یہ بات کرنے کی کیا ضرورت ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بات صحیح ہے یا غلط لیکن اگر کسی کو احساس ہی یہ ہو کہ میں نے صرف ایک غلطی کی ہے تو سارے گناہوں کو معاف کر دینے کا اس کی طبیعت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ یونہی بات گذر جائے گی لیکن وہ شخص جو خود کو ہر قسم کے گند، ناپاکی اور پلیدی میں پاتا ہے اور اس کا احساس بیدار ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف حرکت کرنے کا ایک جذبہ اس کی طبیعت میں پیدا ہوتا ہے.وہ اپنے دائیں طرف دیکھتا ہے بائیں طرف دیکھتا ہے سامنے دیکھتا ہے اور پیچھے دیکھتا ہے اور جہاں تک اس کی نگاہ جاتی ہے جہاں تک اس کا شعور پہنچ سکتا ہے وہ اپنے ہادی اور نجات دہندہ کو تلاش کرتا ہے.وہ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی دیکھتا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھتا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی دیکھتا ہے.وہ تمام ابنیاء کو دیکھتا ہے اور مایوس ہو کر وہاں بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ کچھ گناہوں سے نجات کے ذرائع تو ان انبیاء کے پاس ہیں مگر کچھ گنہ گار تو نہیں ہوں میں تو گناہ کی تہ تک پہنچ کر اسفل السافلین کے مقام تک پہنچا ہوں.اس لئے یہ انبیاء مجھے نجات نہیں دے سکتے تب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شیریں آواز اس کے کان تک پہنچتی ہے اور آپ فرماتے ہیں:.لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر : ۵۴) اس کو یہ آواز سننے کا لطف آتا ہے.آپ کی محبت اور شفقت اور ہمدردی اور غم خواری نے ہر دکھ کو ہر درد کو اور ہر گناہ کو دور کرنے کے سامان لئے ہوئے اور نجات کا یہ ہر طریقہ ہاتھ میں.ہوئے ساری مخلوق اور ساری کائنات کو اپنے احاطہ میں لیا ہوا ہے.آپ کی حرکت روحانیہ نچلی طرف ہے آپ نیچے گئے تو اسفل السافلین تک پہنچ گئے جہاں تک پہنچ عقلاً اس کی نہیں ہو سکتی تھی جو مثلاً مرکزی نقطہ سے تین انچ دائیں یا تین انچ بائیں طرف ہے کیونکہ وہ چکر کے قریب پہنچ جاتا ہے اور اس کا رستہ ختم ہو جاتا ہے اور گہرائیاں اور بدیاں اور بد اعمالیاں اور گناہ کی تاریکیاں ابھی اور آگے بڑھی ہوئی ہوتی ہیں.وہاں تک کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا کسی میں یہ طاقت ہی نہیں ہے یہ اہلیت ہی نہیں ہے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اس مرکزی نقطہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۰۳ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب کا مقام ہے اور یہی حقیقت محمدیہ ہے.آپ اوپر گئے تو اللہ تعالیٰ نے پیار سے اٹھا کر آپ کو ا.عرش پر بٹھا لیا اور بنی نوع سے ہمدردی کرنے کے لئے نیچے اترے تو جہاں تک کوئی دوسرا نبی نہیں پہنچ سکتا تھا اور وہاں روحانی طور پر گند ہی گندا اور عفونت ہی عفونت تھی وہاں پہنچ کر خدا کے بندے کو کہا گبھراؤ نہیں میں تمہیں نجات دینے کے لئے پہنچ گیا ہوں اور یہ ہے حقیقت محمد یہ.اور ختم نبوت کی یہ حقیقت ہے کہ جو دور سے دیکھو آخر میں اور بلند تر آپ ہی نظر آتے ہیں.محسن اعظم آپ ہی ہیں جہاں احسان کرنے کی غرض سے کوئی اور نبی نہیں پہنچ سکتا وہاں آپ نظر آتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس صفت کا جلوہ اپنے اندر لیا تھا جب آپ نے اس بات کا اعلان کیا کہ ہماری تو یہ حالت ہے کہ اگر ہمارا کوئی دوست شراب کے نشہ میں مہ کسی گندی نالی میں گرا پڑا ہو تو ہم اسے اپنے کندھے پر اٹھا کر اپنے گھر لے جائیں گے اور یہ نہیں سوچیں گے کہ دنیا کیا کہے گی.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ نہیں سوچا کہ آپ کی بعثت سے بعد جو اعتراض کرنے والے تھے اور قیامت تک کی دنیا کیا کہے گی.معترضین اب تک کہتے ہیں کہ آپ ایک وحشی قوم میں پیدا ہوئے وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ نے افریقہ میں جا کر وحشیوں میں اسلام پھیلایا.بعض قو میں اپنے آپ کو مہذب سمجھتی ہیں وہ اس قسم کے اعتراض کر دیتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ وحشیوں کو انسان بنانا تو آپ کی شان ہے اور یہ آپ کا احسان عظیم ہے انسانیت پر انسانیت کے کسی ایک حصہ پر نہیں بلکہ ساری انسانیت پر ) آپ کا یہ احسان عظیم انسانیت کے اس حصہ پر بھی ہے جس سے زیادہ گندہ جس سے زیادہ پلید اور جس سے زیادہ گنہ گار کوئی نہیں.آپ وہاں تک بھی پہنچے اور ان کی تسلی کا باعث بنے یہ مقام محمدیت ہے یہ اس وتر کا وسطی نقطہ.جس رنگ میں میں نے اس مثال کو بیان کیا ہے اس کے لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے چار اطراف میں حرکت کی اور اس اپنے وتر کی حرکت میں آپ برزخ بین اللہ و بین المخلوق بن گئے یعنی تمام اوپر کے فیوض جو تھے وہ آپ نے مخلوق تک پہنچا دیئے اور مخلوق.مراد صرف انسان نہیں بلکہ مخلوق سے مراد پتھر بھی ہیں، درخت بھی ہیں، ہیرے بھی ہیں، ریت کے ذرے بھی ہیں، پانی بھی ہے اور جو چیزیں مائع نہیں ہیں وہ بھی ہیں آکسیجن بھی ہے ہائیڈ روجن بھی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۰۴ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب ہے یعنی مخلوق سے مراد ہر قسم کی مخلوق ہے جس کا علم ہمیں ہے یا جس کا علم آئندہ ہمیں ہو اس تمام مخلوق پر خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی ربوبیت کو جلوہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہوا کیونکہ آپ الوہیت کی کمان اور کائنات کی کمان کے درمیان برزخ کے طور پر ہیں.اس وتر میں اور اس برزخ میں آپ کی حقیقت یعنی حقیقت محمدیہ تو وسطی نقطہ ہے لیکن اس حقیقت کا پھیلا ؤ اس وسطی نقطہ سے لے کر وتر کے آخری حصہ تک ہے جہاں دونوں کمانوں کو اس نے ملا دیا ہے.یہ پھیلا ؤ دائیں بھی ہے اور بائیں بھی ہے اور وہاں آپ کے وہ روحانی شاگرد کھڑے ہیں جو اپنے زمانہ کی ضرورت کے مطابق اور اپنی استعداد کے مطابق آپ سے فیض پاتے اور اس کو خدا کے بندوں تک جن کا ان کی قوم سے تعلق ہے پہنچاتے ہیں.آپ کی روحانی تاثیر سارے وتر میں بھی پھیلی ہوئی ہے آپ بطور برزخ کے بھی ہیں اور وسطی نقطہ کے بھی.آپ کی روحانی تاثیر آگے اور پیچھے پھیلی ہوئی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک نیکی کا کروڑواں حصہ بھی حاصل نہیں کر سکتے تھے جب تک کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول نہ کرتے.حقیقت محمدیہ کو میں نے مختصر طور پر اور واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے ویسے جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا یہ بڑا عمیق مضمون ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو بڑی گہری کتابیں لکھی ہیں ان میں اس مضمون کو بیان کیا ہے یعنی براہین احمدیہ میں.کیونکہ اس وقت عالم آپ کے مخاطب تھے.بہر حال میں نے کوشش کی ہے کہ اختصار کے ساتھ اور جہاں تک میرے لئے ممکن ہو سکے وضاحت کے ساتھ آسان الفاظ میں اس حقیقت محمدیہ کو اپنے بھائیوں اور بہنوں کے سامنے پیش کر دوں تا کہ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو سمجھنے کے بعد ان کے دلوں میں آپ کی شدید محبت پیدا ہو.سچی بات یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ کہا تھا کہ جوتی کا تسمہ لینا ہو یا آسمانوں کی رفعتیں حاصل کرنی ہوں تو سوائے اللہ کے کسی سے نہ مانگنا مگر یہ بھی ایک صداقت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے انسانیت کو مخاطب کر کے.کہا تھا کہ جوتی کا تسمہ تمہیں ملے گا تو، اور اگر آسمانوں کی رفعتیں ملیں گیں تو وہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے روحانی فرزند کے طفیل ہی ملیں گی اس کے بغیر نہیں مل سکتیں.یہ ایک حقیقت ہے نا ،مگر اس عملی دنیا میں اس حقیقت اور صداقت کا جس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۰۵ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب رہا ہے.یعنی جس رنگ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل بنی نوع انسان کو مختلف قسم کے فیوض حاصل ہو رہے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کے دئے گئے علم سے میں نے نوٹ لینے شروع کئے تو میرا خیال تھا کہ کوئی تمیں باتیں بنیں گی اور میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ یہ عجیب تجربہ مجھے ہوا کہ جلسہ سالانہ سے چند روز پہلے مجھے انفلوئنزا کی تکلیف ہوگئی اور میرا سر جیسا کہ انفلوئنزا میں ہوتا ہے بالکل بند ہو گیا اور جسم میں درد اور بخار بھی تھا.بہر حال میں سوچنے کے قابل نہیں رہا تھا اور مجھے بڑی فکر پیدا ہوئی کہ جلسہ قریب آ رہا ہے اور جلسہ کے دنوں میں خطبہ جمعہ سمیت پانچ مضمون ہیں جو بیان کرتے ہیں.کیا ہوگا لیکن اب میری طبیعت ایسی ہے کہ میں دعا کرتا ہوں لیکن اللہ تعالیٰ سے کہہ دیا کرتا ہوں کہ میں تو ایک تیرا حقیر بندہ ہوں تو مجھے علم نہیں دے گا تو میں بات نہیں کروں گا.میں کھڑے ہو کر کہہ دوں گا کہ میرے پاس تمہارے لئے کچھ نہیں لیکن وہ سکھاتا ہے اور بڑی عجیب طرح سکھاتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے جلسہ سالانہ سے چند دن قبل میں بیمار تھا بیماری کے اثر میں ہی میں نے محسوس کیا کہ کوئی بھیولی سا میرے دماغ میں چکر لگا رہا ہے اور کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ ہے کیا.کبھی مجھے خیال ہوتا تھا کہ یہ شاید بیماری ہی کا کوئی حصہ ہے، کوئی تکلیف ہے.اور کبھی خیال ہوتا کہ نہیں یہ تو کوئی غیر معلوم علم ہے جو چکر لگا رہا ہے اور اس کا مجھے پتہ نہیں لگتا.اس سے ایک امید بھی بندھی اور بے چینی بھی ہوئی یعنی ایک چیز ہے جس کا پتہ نہیں لگتا جیسے پس پردہ حرکت ہو رہی ہو یا کوئی آواز آرہی ہو اور جس طرح قرآن کریم نے آسمانوں کے متعلق کہا ہے كَانَتَا رَتْقًا ( الانبياء : ۳۱) میں نے سمجھا کہ اس سے ملتی جلتی کوئی کیفیت ہے اور فَفَتَقْهُما جس طرح وہاں ہوا کہ ایک دن اچانک ایک سیکنڈ کے اندر وہ فتق ہو گیا اس طرح اس ہیولے نے بھی ایک معین شکل اختیار کر لی اور وہ یہ مضمون تھا جو میں نے ابھی آگے بیان کرنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ختم نبوت ہے اور آپ کی جو حقیقت محمدیہ ہے اس کو اس عملی دنیا میں جس میں ہم دن رات گزار رہے ہیں کس طرح مثالوں سے اور حقائق سے واضح کیا جاسکتا ہے.غرض میں نے نوٹ لکھوانے شروع کئے مضمون تو اللہ تعالیٰ نے دماغ میں ڈال دیا تھا لیکن بہر حال حوالے دیکھنے پڑتے ہیں اور اس میں کچھ وقت لگتا ہے ضرورت ہوتی ہے کہ قرآن کریم کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۰۶ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب فلاں آیت نکالو.فلاں حوالہ دیکھو.میرا خیال تھا کہ میں ان باتوں کو تمہیں تک لے جاؤں گا.پھر مجھے خیال آیا کہ میں باتیں تو بہر حال ختم نہیں ہو سکتیں اس لئے میں نے ان باتوں کو سترہ اٹھارہ پر چھوڑ دیا.لیکن اب مجھے خیال آتا ہے کہ اٹھارہ باتیں بھی ختم نہیں ہو سکتیں لیکن ختم کرنے کی ضرورت بھی نہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی وسعت اور بلندی اور گہرائی تو اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلووں کے پیرال (Parallel) ہے.اس کے لحاظ سے اس مضمون نے کہاں ختم ہونا ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی دی اور توفیق دی تو آئندہ سال اس مضمون کو بیان کیا جا سکتا ہے یا دوران سال اس کو پھیلا کر ختم کیا جاسکتا ہے.اس وقت میں مضمون کو شروع کر دوں گا.بڑی عجیب طرح اللہ تعالیٰ نے یہ ثابت کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا بلند مقام اور آپ کی کتنی عظیم شان ہے.پہلی بات جو اس مثال میں بھی واضح تھی اور بڑی اہم اصولی ہے وہ یہی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا افاضۂ روحانی اور آپ کا افاضہ خیر پہلے آدمی سے لے کر آخری آدمی تک جس پر قیامت آئے گی تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے.قیامت کب آئے گی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے لیکن آپ کا فیض جاری ہے.قیامت سے آخری مرنے والا آپ کے روحانی فیض سے تو حصہ نہیں لے رہا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہو گا لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ دنیوی زندگی اور اس کی جائز آسائشیں اور آرام جو حقیقی آرام ہیں یعنی جو شیطان کے کہنے پر انسان حاصل نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے قائم کر دہ حقوق کے ماتحت حاصل کرتا ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی ملتی ہیں اور اس آخری انسان کو بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی وہ ملیں گی.قرآن کریم نے اپنی ابتداء ہی میں یعنی سورۃ فاتحہ میں الحد اللہ کہہ کر اور سورۃ البقرہ میں ذلك الكتب لَا رَيْبَ فِيهِ (البقرۃ:۳) کہہ کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسان کی روحانی اور جسمانی اور معاشرتی اور اخلاقی اور اقتصادی اور سیاسی وغیرہ ضرورتوں کو پورا کرنے والی صرف یہی ایک کتاب ہے جو فطرت انسانی کے سب حقیقی تقاضوں کو پورا کرتی ہے.اس لئے کہ یہ اپنے ذاتی کمالات اور فضائل اور بے نظیر تعلیمات سے تمام شرائع سابقہ پر اثر انداز اور مستقبل کی تمام الجھنوں کو دور کرنے والی ہے.ذلك الكتب ) پھر فرمایا کہ یہ پہلوں اور پچھلوں پر احسان کرنے والی کتاب ہے کیونکہ یہ انسان کو ہر قسم کے شیطانی وساوس ظن اور گمان کے بے آب و گیاہ ویرانوں سے اٹھا کر دلائل اور آیات
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۰۷ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب بینات کے ساتھ یقین کی رفعتوں تک پہنچاتی ہے اور اس کی یہ خوبی خدائے قیوم کی حفاظت میں ہے اور اس شکل میں کہ جس میں کہ قرآن کریم آیا وہ محفوظ ہے.لوگ پوری حقیقت نہیں سمجھتے اور بعض دفعہ کہہ دیتے ہیں یا بعض دفعہ دوسروں کو ملزم قرار دینے کے لئے ہم بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ جو تمہاری شریعتیں ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت حاصل نہیں تھی.ایک لحاظ سے تو یہ صحیح ہے لیکن اس لحاظ سے یہ بھی صحیح ہے کہ ان کو بھی اس معنی میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت حاصل تھی کہ ان کی ابدی صداقتوں کو قرآن کریم نے اپنے اندر لے لیا اور اس نے انہیں اپنے اندر محفوظ کر لیا.چنانچہ جو ابدی صداقت حضرت آدم علیہ السلام کو دی گئی تھی یا جو ابدی صداقت حضرت نوح علیہ السلام کو دی گئی تھی یا جو ابدی صداقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کود گئی تھی یا جو ابدی صداقتیں دوسرے انبیاء کو دی گئی تھیں ان کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور قرآن کریم کو نازل کیا اور اس میں ان تمام ابدی صداقتوں کو اکٹھا کر کے محفوظ کر دیا.تیسرے قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا کہ میں تمام انسانوں پر احسان کرنے والی کتاب ہوں اس لئے کہ پہلی صداقتوں کو جامعیت اور کمال کے لئے جن نئی صداقتوں کی ضرورت تھی میں ان کی بھی حامل ہوں یعنی صرف پہلی صداقتوں کو میں نے نہیں لیا جو بدی صداقتیں تھیں لیکن چونکہ پہلی کتب میں تمام ابدی صداقتیں بیان نہیں ہوئی تھیں اس لئے جو ابدی صداقتیں بیان ہونے سے اس وجہ سے رہ گئی تھیں کہ پہلے زمانہ کا انسان ان کا حامل نہیں ہوسکتا تھا یا اس کو ان کی ضرورت نہیں تھی اور اب انسان اپنے آخری کمال کو حاصل کرنے کے قابل ہو گیا ہے.اس لئے میں نے وہ تمام صداقتیں جو پہلوں کو دی گئی تھیں وہ بھی اور وہ تمام ابدی صداقتیں جن کی انسان کو قیامت تک کے لئے ضرورت پیش آتی رہے گی ان سب کو اپنے اندر محفوظ کر لیا ہے اور جمع کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں فرمایا قدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَامِنُوا خَيْرًا لَّكُمُ (النساء : ۱۷۱) یہ کامل رسول اور خاتم النبیین کامل صداقت لے کر تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس آچکا ہے اس پر سچے دل سے ایمان لانا وہ تمہاری تمام قوتوں اور استعدادوں کو کامل نشو و نما تک پہنچاد.گا اس سے تم ہر قسم کی بھلائی کے وارث ہو گے اور ایسی امت بن جاؤ گے جن پر یہ صادق آئے گا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران : 1)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۰۸ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب اور پہلی شریعتوں کے متبع بھی خیر محض اور خیر کامل کے تبھی وارث ہوسکیں گے جب وہ اس کامل حقیقت اور مکمل ہدایت پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل کریں گے فرمایا وَلَوْا مَنَ أَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ (ال عمران : ) کہ ان کی اپنی شریعت کی اتباع میں ان کے لئے کامل خیر کے سامان نہیں ہیں اس لئے اب ان کو چاہئے کہ وہ قرآن کریم پر ایمان لائیں تا کہ مسلمانوں عربوں اور دوسرے مومنوں کی طرح وہ بھی اللہ تعالیٰ کی کامل خیر کے وارث بنیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہی الفاظ میں یہ کچھ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ میں یہ کہوں گا کہ یہ قو تیں اور استعداد میں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہیں اور وہ اپنے کمال نشو ونما کو اب حاصل کر سکتا ہے.امتیں جو اس قوت اور استعداد کو رکھنے والی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی برکت اور قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ کی روحانی تربیت کے فیض سے وہ مقام حاصل کریں گی جو اپنی کمیت اور کیفیت اور صورت اور حالت میں تمام پہلے انبیاء کے روحانی فرزندوں کے مقام رفعت کے مقابلہ میں اکمل اور اتم اور ارفع اور اعلیٰ ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں یہ مژدہ تمام بنی نوع انسان کو بلا امتیاز قومیت اور رنگ اور نسل کے سنایا اور یہ عجیب مژدہ ہے مثلاً ایک ہندو کو کہا کہ تمہارے لئے یہ موقع ہے کہ تم بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متبعین سے آگے نکل جاؤ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کو کہا کہ تم حضرت عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں سے آگے نکل سکتے ہو.تم قرآن کریم پر ایمان لے آؤ اور اس پر عمل کرو یعنی دنیا میں بعض نقطہ ہائے نگاہ سے بعض قوموں کی نگاہ میں بعض دوسری قومیں ارفع اور اعلی ہوتی ہیں مثلاً اس وقت عیسائیت کا بڑا زور ہے اور بعض اور ایسی سوسائیٹیاں ہیں جن کا مثلاً اخلاقی لحاظ سے یا خیرات کے کام کرنے کے لحاظ سے ایک اثر ہوتا ہے تو ہر دوسرے کو کہا کہ جو بھی تمہاری نگاہ میں بڑا ہے تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس سے زیادہ بڑے بن سکتے ہو.تم قرآن کریم پر ایمان لاؤ اور اس پر عمل کرو اور کسی فرق اور کسی امتیاز کو یہاں مدنظر نہیں رکھا بلکہ ہر قوم کو وہ کالی ہو یا سفید.سرخ ہو یا زرد، دنیوی لحاظ سے رفعتوں تک پہنچی ہوئی ہو یا دنیوی لحاظ سے تنزل کے گڑھوں میں پڑی سڑ رہی ہو.سب کو آواز دے کر کہا کہ اگر تم ترقی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۰۹ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب کرنا چاہتے ہو، ہر دوسری قوم سے آگے نکلنا چاہتے ہو تو آ ؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے اکھٹے ہو جاؤ.خدا تعالیٰ کا یہ عظیم رہبر اور رہنما اور ہادی تمہیں بلند سے بلند تر رفعتوں تک لے جاتا چلا جائے گا.دوسری رحمت جو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنی نوع انسان پر نظر آتی ہے اور جو بڑی وسیع ہے اور ان آیات میں بیان ہوئی ہے.وَهُذَا كِتَب أَنْزَلْتُهُ مُبْرَك مُّصَدِّقُ الَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا (الانعام:۹۳) وَهَذَا كِتَب أَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الانعام:۱۵۶) ان آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلی قوموں پر عظیم احسان ہے دیکھو پہلے تمام انبیاء جن کو ایک قوم کے علاوہ دنیا کی باقی ساری اقوام جھٹلا رہی ہیں یا وہ انہیں اس قابل نہیں سمجھتیں کہ انہیں سچا سمجھا جائے مثلاً یہودیوں کے انبیاء کے متعلق ہندو کہتے تھے کہ یہ جھوٹے ہیں یعنی صرف یہ نہیں کہ ان کا یہ ایمان نہیں تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں تو بچے مگر وہ ہماری طرف مبعوث نہیں ہوئے بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ بچے ہی نہیں ، یہ جھوٹے ہیں.غرض ہر نبی کو اس کی قوم کے علاوہ دنیا کی باقی اقوام نے عملاً جھٹلا دیا لیکن قرآن کریم دنیا میں آیا تو اس نے دنیا کی ساری اقوام کو مخاطب کر کے کہا کہ آدم علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لاؤور نہ نجات نہیں مل سکتی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لاؤ ورنہ نجات نہیں مل سکتی.حضرت نوح علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لاؤ ورنہ تمہیں نجات نہیں مل سکتی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لاؤ ور نہ تمہیں نجات نہیں مل سکتی حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لاؤ ورنہ تمہیں نجات نہیں مل سکتی ، حضرت عیسی پر ایمان لاؤ ورنہ تمہیں نجات نہیں مل سکتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر ایمان لا ؤ اور مجھ پر ایمان لانے کے ساتھ تمہیں باقی سب انبیاء پر بھی جو میرے عزیز شاگرد ہیں ایمان لانا پڑے گا.اگر تم مجھ پر اور باقی انبیاء کی نبوتوں پر ایمان لے آؤ گے تو تمہیں نجات مل جائے گی.غرض قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گذشتہ انبیاء اور ان کی اقوام پر یہ عظیم احسان ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہر نبی جو پہلے آیا ہے وہ خدا کا ایک برگزیدہ نبی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۱۰ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب ایک روحانی فرزند تھا اور دنیا کی ساری قوموں کو یہ کہا کہ ان تمام انبیاء پر ایمان لانا اب فرض ہو گیا ہے.پہلے ان پر ایمان لانے کی اس لئے ضرورت نہیں تھی کہ یہ مختلف خطوں میں بسنے والی اقوام کے لئے ہدایت لے کر نہیں آئے.ہر ایک قوم کی اپنی ضرورت تھی ہر ایک قوم کے اپنے حالات تھے.حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اس زمانہ کے ہندو ایمان لاتے تو وہ تباہ ہو جاتے جن کو حضرت عیسی علیہ السلام کے عفو کی ضرورت تھی.وہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم پر ایمان لاتے تو اس زمانہ کے لحاظ سے وہ بھی تباہ ہو جاتے.غرض ہر نبی جو آیا وہ ایک صداقت لے کر آیا لیکن اس کی قوم کے حالات دنیا کی ہر دوسری قوم سے اتنے مختلف تھے کہ دوسری اقوام عالم کو خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ ہیں تو یہ نبی مگر اس کی شریعت اور ہدایت پر ایمان لانا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ تمہارے حالات کے مطابق نہیں ہیں تمہارے لئے ایک اور نبی بھیجیں گے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں آکر اعلان کیا کہ خدا تعالیٰ نے تو یہ کہا تھا کہ ان پر ایمان نہیں لانا یعنی ان کی لائی ہوئی ہدایت پر عمل کرنے کی تمہیں ضرورت نہیں لیکن بہر حال انہیں خدا تعالیٰ کے بچے انبیاء توسمجھنا چاہئے دنیا کی اقوام نے انہیں جھوٹا قرار دیا تھا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں آکر ان کیا کہ خدا تعالیٰ کی بات کی جو روح تھی وہ تم نے نہیں پائی.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا تھا کہ ان انبیاء کو جھوٹا کہو بلکہ خدا تعالیٰ نے یہ کہا تھا کہ ان کی شریعت تمہارے مناسب حال نہیں ہے لہذا تمہیں ان پر ایمان لانا ضروری نہیں.تمہارے مناسب حال دوسری شریعت بھیجی جائے گی لیکن شیطان نے تمہیں ورغلایا اور تم نے خدا تعالیٰ کے بزرگ بندوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم فرزند کو جھٹلا دیا اور ان کو کافر اور دجال اور پتہ نہیں تم کیا کچھ کہنے لگ گئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی تمام اقوام عالم کو مخاطب کر کے یہ اعلان کیا کہ یہ تمام انبیاء بیچے تھے.یہ تمام خدا تعالیٰ کے برگزیدہ تھے.میں کامل اور مکمل ہدایت لے کر آیا ہوں اب میری پیروی تمہیں نجات دلا سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا حصول تمہارے لئے ممکن بنا سکتی ہے لیکن اگر تم نے میری پیروی کرنی ہے تو تمہیں ان تمام انبیاء کوسچا سمجھنا پڑے گا.دوسرے ان عظیم بندوں پر جو اللہ تعالیٰ کے بڑے بزرگ بندے تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احسان کیا اور یہ بڑا عجیب احسان ہے کہ پہلے انبیاء کی اقوام میں سے جو منکر ہوئے تھے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۱۱ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب انہوں نے شرافت کی تمام قیودتو ڑ کر اپنے نبیوں پر نہایت گندے اور مخش الزام لگا دیئے تاریخ بدل گئی.زمانہ بدل گیا.تاریخ کا وہ دور ختم ہو گیا اور نیا دور شروع ہو گیا.وہ تو میں بدل گئیں اور ان کے لئے خدا تعالیٰ نے نئے نبی مبعوث کئے اور ان انبیاء پر نئے الزام لگائے گئے لیکن پہلے الزامات تاریخ نے محفوظ کر لئے.آدم علیہ السلام پر جو تہمت لگی تاریخ نے اسے تو محفوظ کر لیا لیکن آدم علیہ السلام جو صداقت لے کر آئے تاریخ اسے بھول بھی گئی.حضرت نوح علیہ السلام پر تہمت لگی اور تاریخ نے اسے محفوظ کر لیا لیکن حضرت نوح علیہ السلام جو صداقت لے کر آئے تھے تاریخ نے اسے خالص رنگ میں محفوظ نہیں رکھا بلکہ اسے کچھ محفوظ رکھا تو کچھ گند اس میں ملا دیا جس طرح آدھ سیر دودھ ہو اور اس میں آدھ سیر نہایت گندا اور غلیظ قسم کا پانی ملا دیا جائے تو وہ دودھ تو نہیں رہتا.اسی طرح وہ صداقت بھی صداقت نہیں رہی تھی یہی حال دوسرے انبیاء کا ہے.قرآن کریم میں جن انبیاء کے نام لئے گئے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ہر ایک کا نام لے کر اس سے اس تہمت کو دور کیا جو اس پر لگائی گئی تھی اور کسی مصلحت کی بناء پر ظاہر نہیں کئے گئے (ویسے بھی ایک لاکھ چوبیس ہزار یا ایک لاکھ بیس ہزار انبیاء کے نام قرآن کریم میں لئے نہیں جاسکتے تھے ) ان سب کے متعلق یہ اعلان کیا کہ وہ ہر قسم کی تہمتوں سے پاک ہیں.اب ہم تھوڑ اسا تفصیل میں جا کر دیکھتے ہیں.حضرت آدم علیہ السلام پر یہ اتہام باندھا گیا کہ انہوں نے جانتے بوجھتے شیطان کی فرماں برداری کو قبول کیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی اور دنیا میں جو بزرگ کتابیں سمجھی جاتی ہیں ان میں یہ اتہام موجود ہے.حوالہ تو میں نے لکھا ہوا ہے لیکن میری نیت یہ ہے کہ میں حوالہ اس وقت پڑھوں گا نہیں جب یہ تقریر چھپے گی تو حوالہ بھی اس میں آ جائے گا اس لئے آپ یہ نہ سمجھیں کہ بغیر حوالہ کے بات کر رہا ہوں میں جب دوسرے کے منہ میں بات ڈالتا ہوں تو اس کی کتاب کا حوالہ دیتا ہوں.غرض حضرت آدم علیہ السلام پر یہ الزام لگایا گیا کہ آپ نے جانتے بوجھتے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری سے بچنے کے لئے باغ کے درختوں میں جا چھپے اور یہ اللہ تعالیٰ پر بھی الزام ہے کہ وہ علام الغیوب نہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری دنیا میں یہ اعلان کیا کہ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا ( طه : ١١٦) پیدائش باب ۳ آیت ۷،۶
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۱۲ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب کہ یہ بھول تھی.گناہ کا ارادہ نہیں تھا غرض قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام کو اس تہمت سے بری قرار دیا جو آپ پر لگائی گئی تھی.حضرت نوح علیہ السلام پر تہمت لگانے والوں نے یہ تہمت لگائی کہ آپ نے شراب پی اور بدمست ہوئے اور اپنے ڈیرے میں برہنہ ہو گئے اور پھر وہ ساری بدنامی ساری قوم میں پھیلی لیکن اور میں ہوگئے اور پھر وہ قرآن کریم نے دنیا کو اور تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے کہا یہ تہمت غلط ہے.یہ ایک اتہام ہے جو حضرت نوح علیہ السلام پر لگایا گیا ہے.فرمایا سلمٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَلَمِيْنَ إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (القسمت : ۸۱،۸۰) یعنی وہ تو نیک اعمال کو پوری توجہ اور پورے زور اور شوق اور شغف کے ساتھ اور ہر قسم کی قربانیاں دے کر بجالانے والا تھا.اس نے اپنی محبت کے نتیجہ میں اور محسن ہونے کی وجہ سے ہماری طرف سے سلامتی کو اور امن کو اور رضا کو اور میری جنتوں کو پایا تھا.وہ بدمست کہاں ہو سکتا تھا وہ اپنے ڈیرہ میں برہنہ کیسے ہوسکتا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جھوٹ بولنے کی تہمت لگائی گئی ہے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کو پکار کر یہ کہا: إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ( مريم :۴۲) یعنی وہ تو راست بازی پر قائم تھا اور دوسروں کو راست بازی پر قائم کرنے کے لئے آیا تھا؟ پھر وہ خود راست بازی کے طریق کو کیسے چھوڑ سکتا تھا فرمایا وہ صرف صدیق ہی نہیں تھا بلکہ نبی تھا یعنی وہ دوسروں کو بھی راہ راست پر اور کچی بات کرنے پر قائم کرنے آیا تھا وہ عام معاشرے کی ہدایتیں دوسروں کو سکھانے آیا تھا پھر وہ خود اس راستہ سے کیسے ہٹ سکتا تھا.حضرت لوط علیہ السلام پر یہ بہتان باندھا گیا کہ ان کی دو بیٹیاں ان سے حاملہ ہوئیں (نعوذ باللہ ) قرآن کریم میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ اعلان کروایا گیا: وَلُوطًا أَتَيْنَهُ حُكْمًا وَ عِلْمًا وَ نَجَّيْنَهُ مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ تَعْمَلُ الْخَبيثَ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَسِقِيْنَ (الانبياء : ۷۵) یعنی ہم نے لوط کو قوت فیصلہ اور علم روحانی عطا کیا تھا.قرآن کریم نے یہ اعلان کروایا کہ وہ ل پیدائش باب ۹ آیت ۲۰ ۲۱ ۲، پیدائش باب ۱۲ آیت ۱۱ تا ۱۳ ۳ پیدائش باب ۲۰ آیت ۳۲ تا ۳۸
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۱۳ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب تو اتنا نیک بندہ تھا کہ وہ بدصحبت سے بھی بیزار تھا اور جس بد ماحول میں اس نے خود کو پایا اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے وہ ہمارے حضور جھکا اور اس نے ہم سے دعائیں کیں اور ہم نے اس و الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ تَعْمَلُ الْخَبيثَ، اس شہر اور قبیلہ سے جو فسق و فجور میں مبتلا تھا اور ان کی بدصحبت سے بھی اس کی دعاؤں اور اس کی زاری کی وجہ سے نجات دی پھر وہ خود اس فسق و فجور میں کیسے مبتلا ہو سکتا تھا.اسی طرح حضرت الحلق علیہ السلام پر دروغ گوئی کا الزام لگایا گیا، لیکن قرآن کریم نے الے فرمایا کہ وہ ایک بزرگ امام تھے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے قوم کو ہدایت دیتے تھے.اللہ تعالیٰ نے دنیا کو مخاطب کر کے یہ اعلان کیا کہ حضرت اسحاق علیہ السلام ہماری اطاعت اور عبودیت میں زندگی گزار نے والوں میں سے تھے.حضرت ہارون علیہ السلام پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ بچھڑا پرستی جیسے گھناؤنے گناہ کے مرتکب ہوئے انہوں نے زیورات اکٹھے کر کے شرک کے لئے بچھڑا بنوایا تھا.لیکن قرآن کریم نے ہمارے کانوں میں آ کر پھونکا کہ ہارون علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کر کے کہا تھا:.وَ إِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِى (طه: ۹۱) یعنی تم کدھر بچھڑے کی طرف جا رہے ہو تم رحمان خدا کی طرف آؤ جو بغیر تمہارے استحقاق کے تم پر فضل کر رہا ہے.یہ اس بچھڑے کے خلاف بڑی عجیب دلیل دی ہے.کہا کہ تم اللہ تعالی کی خدمت کے اہل ہی نہیں لیکن اس کی بے شمار نعمتیں صبح سے شام تک تمہارے پر نازل ہوتی رہتی ہیں کیونکہ وہ رحمان خدا ہے لیکن یہ بچھڑا وہ ہے جو تمہارے ہاتھوں نے بنایا ہے اور یہ بچھڑے کی سب سے بڑی خدمت اور اس پر سب سے بڑا احسان ہے کہ تم اس کے خالق بنے.اس لئے اگر تمہیں اس سے کچھ بھی مل گیا تو وہ تمہیں رحمانیت کے نتیجہ میں نہیں مل سکتا اور تم رحمانیت کے فیض سے باہر رہ کر کامیاب نہیں ہو سکتے.یہ مختصر سا بیان ہے.حضرت ہارون علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے فضل گنائے ہوں گے کہ دیکھو اللہ نے تم پر فضل کیا.اس کے مقابلہ میں تم نے اللہ تعالیٰ کی کون سی خدمت کی ہے.یہاں تم تو اس بچھڑے کے خالق ہو اور اسے خلق کرنا تمہاری اس کی خدمت سمجھی جاسکتی ہے اور اول تو تمہیں اس سے ملے گا کچھ نہیں اور اگر وہ تمہیں کچھ دے گا تو وہ رحمانیت کے نتیجہ میں تو نہیں دے گا.لے پیدائش باب ۲۶ آیت ۲۷،۶، پیدائش باب ۳۲ آیت ۱ تا ۶
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۱۴ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب غرض حضرت ہارون علیہ السلام پر ان کی اپنی قوم نے یہ الزام لگایا کہ وہ کچھڑا پرستی کے شرک میں ملوث ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان سے یہ کہلوایا کہ تمہارا خدا رحمان ہے تم اس کی پرستش کرو اور میری اتباع کرو تا کہ میں تمہیں شرک سے نجات دلا کر خدائے رحمان کے قدموں پر لا ڈالوں.حضرت داؤد علیہ السلام پر یہ اتہام لگا کہ وہ اور یاہ کی بیوی بنت سبع پر عاشق ہوئے.اس سے زنا کیا جس سے وہ حاملہ ہوئی.آپ نے اس حمل کو چھپانے کی بہت کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے.اس ناکامی کے بعد ذلت کے خوف سے آپ نے اس کے خاوند کو مروانے کی سکیم بنائی اور اسے مروا دیا اور پھر اس حاملہ عورت سے خود شادی کر لی.غرض ایک بڑا تفصیلی اتہام حضرت داؤدعلیہ السلام پر لگایا گیا ہے لے لیکن قرآن کریم نے دنیا کو کہا کہ جھوٹا ہے وہ انسان جو میرے بندہ پر یہ الزام لگاتا ہے.إِنَّةَ أَوَّابٌ (مت: ۱۸) وہ تو ہر وقت میری طرف رہتا تھا شیطان کی طرف تو وہ کبھی ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں جھکا پھر اس قسم کی بدکاری کا وہ مرتکب کیسے ہو سکتا تھا.اللہ تعالیٰ نے دنیا کو کہا کہ تم داؤد علیہ السلام کو ایک عام انسان کا شرف دینے کے لئے بھی تیار نہیں حالانکہ وہ تو انسانوں میں سے بھی بڑی شرف اور فضیلت والا انسان تھا.وَلَقَدْ أَتَيْنَا دَاوُدَ مِنَّا فَضْلًا ( سبا : ١) ہم نے اسے انتہائی فضلوں سے جو اس زمانہ میں زیادہ سے زیادہ اس قوم کے کسی فرد پر ہو سکتے تھے نوازا تھا.پھر اسے ان فیوض کا حامل اور ان فیوض کا آگے افاضہ کرنے والا بنایا تھا یعنی وہ نبی تھا وہ ہم سے برکتیں لیتا اور پھر وہ برکتیں اپنی قوم کو جا کر پہنچاتا تھا اور تم اس پر اس قسم کا گندا الزام لگا ر ہے ہو.حضرت عیسی علیہ السلام پر تو تہمت پر تہمت لگی اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم بار بار آیا اور اس نے آپ کی برات کا اعلان کیا.حضرت عیسی علیہ السلام پر جو تہمت لگی اس کے آگے بھیانک نتائج بھی تہمت لگانے والوں نے گنائے ہوئے ہیں اور وہ تہمت یہ تھی کہ آپ بد کار اور زنا کار عورتوں کی اولاد تھے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ جو بد کار اور زنا کار عورتوں کی اولا د ہو وہ لعنتی ہوتا ہے اور خدا سے دھتکارا ہوا ہوتا ہے وغیرہ.قرآن کریم میں آپ کی بریت ان الفاظ میں کی گئی ہے.پیدائش باب ۱۱ آیت ۱ تا ۲۲۷ متی باب ۲ آیت ۶
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۱۵ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ( مريم : ٢٩) اے مریم نہ تیرے آباء میں سے کوئی بد کار تھا اور نہ تیری نانیوں میں سے کوئی بد کا رتھی.تو پاک بنت پاک ہے اور تیری اولا د بھی پاک ہوگی.پھر حضرت عیسی علیہ السلام پر الزام لگایا گیا کہ وہ اپنی ماں سے بدسلوکی کرنے والے تھے.قرآن کریم نے کہا تم ہمارے اس پاک بندے پر کیوں ظلم کرتے ہو برا بِوَالِدَى (مريم :۳۳) ہم نے تو اس کی فطرت میں رکھا تھا کہ وہ اپنی والدہ سے حسن سلوک کرے.پھر حضرت عیسی علیہ السلام پر یہ تہمت لگائی گئی کہ آپ کی زندگی ایک ملعون زندگی تھی.کہا گیا کہ مسیح علیہ السلام ہمارے لئے لعنتی بناتے.قرآن کریم نے یہ کہا کہ تم یہ کیا کرتے ہو اور پھر ان کے منہ سے کہلوایا.جَعَلَنِي مُبْرَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ (مريم :۳۲) میرے تو ایسے حالات ہیں کہ جہاں بھی میں زندگی گزارتا رہا ہوں اللہ تعالیٰ کی برکتوں کو پاتا رہا ہوں.میں ملعون کیسے ہو گیا اگر مجھے خدا تعالیٰ سے دوری حاصل ہوتی اور میں ملعون ہوتا میری زندگی لعنتی ہوتی تو ہر لحظہ اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی جو برکتیں مجھ پر نازل ہو رہی ہیں وہ کیسے نازل ہوتیں.قرآن کریم میں جن انبیاء کا نام لیا گیا ہے ان کی چند مثالیں میں نے بیان کی ہیں.بہت سی مثالیں میں نے چھوڑ دی ہیں میرا خیال ہے کہ ان انبیاء میں سے جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے ہر نبی پر اتہام لگایا گیا ہے اور ان تہمتوں کو دور کرنے کے لئے سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی نہیں آیا.یہ چند مثالیں ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جو نبی بھی آیا اس پر اتہام لگانے والوں نے اتہام لگایا اور جھوٹ باندھنے والوں نے جھوٹ باندھا اور نہ اس بات کی ضرورت نہیں تھی کہ خدا تعالیٰ بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے یہ کہتا کہ جو نبی بھی ہم نے تمہاری طرف بھیجا وہ نذیر تھا یعنی وہ تمہیں فسق و فجور سے نکالنے کے لئے آیا تھا اور تمہیں یہ انذار کرتا تھا کہ اگر تم گناہوں کو چھوڑو گے نہیں تو اللہ تعالیٰ کی لعنت کے نیچے ہو گے اس کے غضب کے نیچے ہو گے اور جہنمی ہو گے تو گلتیوں بابب ۳ آیت ۱۳
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۱۶ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب جو شخص دوسروں کو فسق و فجور سے چھڑانے والا اور اللہ تعالیٰ کا انذار کرنے والا ہے وہ خودان گناہوں میں کیسے پھنس سکتا ہے.غرض قرآن کریم نے دنیا کے ہر نبی کی برکت کی ہے اور یہ بڑا ہی عظیم احسان ہے اس محسن اعظم کا جس کی ہم امت ہیں اور جس کے احسان اور فضل ہر وقت ہم پر ہورہے ہیں کہ بنی اسرائیل کے نبی ہوں یا ہندوؤں کے نبی ہوں قرآن کریم نے کہا وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ (فاطر: ۲۵) اور سب کی برات کردی.ایک اور احسان عظیم جو نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بنی نوع انسان پر کیا وہ یہ ہے کہ آپ ایک ایسی ہدایت اور ایک ایسی شریعت اور ایک ایسی کتاب اور ایک ایسا ذکر لے کر آئے جو ہر لحاظ سے کامل اور مکمل ہے اور ہر قسم کے نقص سے پاک ہے.اصل میں تو غور کر کے دیکھا جائے تو اللہ جس کو اسلام پیش کرتا ہے وہ تمام صفات حسنہ کا جامع اور تمام نقائص اور تمام برائیوں سے پاک اور منزہ ہے.اس نے اپنے اور مخلوق کے درمیان برزخ بنایا اور اسے اپنے نام اللہ کا مظہر اتم اور مظہر اکمل بنایا اور وہ بھی ایسا ہی ہونا چاہئے کہ وہ تمام صفات باری سے ظلی طور متصف اور تمام نقائص اور کمزوریوں اور برائیوں سے اللہ کے فضل سے محفوظ ہو ورنہ وہ مظہر اتم ہو نہیں سکتا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کتاب لے کر آئے اس کے اندر بھی یہ خوبیاں ہیں کہ اس کے اندر کوئی عیب نہیں.کوئی ایسا اعتراض قرآن کریم پر نہیں کیا جا سکتا جسے ہم معقولی طور پر رد نہ کر سکیں.اگر کسی کو ہمت ہے وہ آج کر کے دیکھ لے اور پھر تمام ہدایتیں قرآن کریم کے اندر پائی جاتی ہیں آج صبح ہی کا ذکر ہے کہ ایک صحافی دوست یہاں آئے ہوئے تھے انہوں نے مجھ سے سوشلزم اور سرمایہ داری کے متعلق بات کی.میں نے کہا بات یہ ہے کہ نہ میں سوشلزم کے حق میں ہوں اور سرمایہ داری کے حق میں ہوں میں تو اسلام کے حق میں ہوں.جب مجھے یہ یقین ہے کہ اسلام سے باہر اور قرآن سے باہر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی مجھے ضرورت ہو اور ہر وہ شئی جس کی مجھے ضرورت ہے وہ قرآن کریم میں پائی جاتی ہے تو میں غیر کی طرف جاؤں گا کیوں.اگر ہم آج یہ کہیں کہ کوئی ایسی چیز سوشلزم میں مل سکتی ہے جو قرآن کریم میں نہیں پائی جاتی تو ہمارا یہ دعویٰ غلط ہے کہ قرآن کریم ایک کامل اور مکمل کتاب ہے.اس سے تو ہماری بنیادیں ہی اپنی جگہ سے ہل جاتی ہیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۱۷ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب میں تو اس یقین پر قائم ہوں کہ کوئی چیز قرآن کریم سے باہر ایسی نہیں جس کی قرآن کریم کی تکمیل اور اتمام کے لئے ضرورت ہو قرآن کریم تو مکمل اور تم ہو گیا.اب کسی اور چیز کی قرآن کریم کو ضرورت نہیں.چونکہ میں اس قرآن کریم کو ماننے والا ہوں اس لئے نہ میں سوشلزم کے حق میں ہوں نہ میں اشتراکیت کے حق میں ہوں.نہ میں سرمایہ داری کے حق میں ہوں، نہ میں فاشزم کے حق میں ہوں.میں تو خدا اس کے رسول اس کی کتاب اس کے دین اسلام اور اس کے بندے (انسانیت) کے حق میں ہوں.اسلام نے ہمیں بیر نہیں سکھایا بلکہ اس نے ہمیں ہر ایک سے اس قدر شفقت ہمدردی اور غم خواری سکھائی کہ اس سے زیادہ شفقت ہمدردی اور غم خواری کوئی اور ازم انسان کو نہیں سکھا سکتا.پس قرآن کریم کا بعد میں آنے والوں پر عظیم احسان ہے کہ ہر چیز جو قابل بیان تھی یعنی جس کی انسان کو ضرورت تھی وہ اس میں بیان کر دی گئی ہے.وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (النحل : ٩٠) ہر ضروری ہدایت اور صداقت قرآن کریم میں بیان ہو گئی ہے اس لئے تمہیں کسی صداقت اور کسی ہدایت اور شریعت کے کسی حکم کو حاصل کرنے کے لئے کسی اور جگہ جانے کی ضرورت نہیں.سارا کچھ قرآن کریم میں ہے.جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا ( در متین صفحہ ۹) دوسرے یہ کہ کوئی ایسی چیز جس کی ہمیں ضرورت تھی وہ بیان ہونے سے رہ نہیں گئی یعنی دونوں طرف سے اس کو محفوظ کر لیا ہے جیسے فرمایا مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ (الانعام: ٣٩) اس آیت میں اصل مضمون یہ بیان ہوا ہے کہ بنی نوع انسان کی قوتوں اور استعدادوں کی کامل اور حقیقی اور صحیح نشو و نما کے لئے جن ہدایتوں اور احکام کی ضرورت تھی ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کے لئے قرآن کریم سے باہر تلاش کرنے کی ضرورت پیش آئے.ہر قسم کی نعمتوں کے حصول کا ذریعہ قرآن کریم میں موجود ہے دنیا کی جو الجھنیں ہیں ان پر بھی اصولی طور پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ بھی قرآن کریم کا بڑا احسان ہے کہ قوم قوم اور حالات حالات میں فرق ہے.کوئی ریجید ٹی (Rigidity) اور سختی نہیں بلکہ اصول بتا دیئے اور کہا ان اصولوں کی روشنی میں اپنے حالات کے مطابق جو احسن ہے اس کی پیروی کرو.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۱۸ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب اس میں پہلوں پر یہ احسان کیا گیا ہے کہ انہیں کہا گیا کہ اگر چہ ان حالات کے مطابق کامل ور مکمل ہدایت تمہیں نہیں مل سکتی تھی لیکن اس کامل اور مکمل ہدایت میں سے جو کچھ تمہیں مل سکتا تھا وہ تمہیں مل گیا ہے یعنی اپنے وقت کے لحاظ سے جس چیز کی بھی ضرورت تھی اپنے حالات کے مطابق جو ضروری چیز تھی وہ تمہیں دے دی گئی ہے.یہ نہیں کہ انبیاء جیسا کہ میں نے تفصیل سے بیان کیا ہے خود اپنی طرف سے باتیں بنانے والے ہوں.دوسرے ان کو یہ بتایا گیا کہ ایک عظیم مقصد کے حصول کے لئے تمہیں مبعوث کیا گیا ہے اور تمہارے ذریعہ تمہاری قوم کو اس مقصد کے حصول کے لئے تیار کیا جارہا ہے اور وہ یہ ہے کہ کامل اور مکمل نبی آنے والا ہے کامل شریعت آنے والی ہے.تم اپنی قوم کو اس کامل اور مکمل نبی پر ایمان لانے اور اس کامل شریعت کے حامل بننے کے لئے اور اس کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار کرو.اس لئے جہاں انہوں نے صداقت کا اعلان کیا وہاں یہ بھی اعلان کیا کہ جو کامل ہے وہ آنے والا ہے اگر یہ پس منظر نہ ہو تو دوسرا اعلان ہو ہی نہیں سکتا تھا اگر اس شریعت کے حاصل ہونے کے لئے قوم کو تیار نہیں کیا جارہا تھا تو ان کو یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ کامل اور مکمل نبی آنے والا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو یہ بتایا کہ تمہارے بھائیوں میں سے ایک نبی مبعوث کیا جائے گا جو خدا کا کامل کلام تمہیں سنائے گا اور جو اس کی اتباع نہیں کرے گا وہ خدائے قہار کے مواخذہ کے نیچے ہو گا.دراصل حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا تھا کہ دیکھو میں جتنا بھی لے کر آیا ہوں وہ اس لئے لے کر آیا ہوں کہ تم آنے والے کی کامل اتباع کے لئے تیاری کر سکو اور اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ بحیثیت قوم و زمانہ تم اس پر اکتفا نہ کرنا کہ جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے اس کی تم اتباع کرو بلکہ تمہارے دماغوں میں یہ بات حاضر رہے کہ صداقت کا ایک حصہ ہمیں ملا ہے اور یہ اس لئے ملا ہے کہ جب پوری صداقت ہمارے سامنے آئے اسے قبول کرنے کے لئے ہم تیار ہوں اور ہماری طبیعتوں میں کوئی انقباض پیدا نہ ہو.حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو مخاطب کیا اور ان کو بھی یہ کہا کہ میں صداقت لے کر آیا ہوں لیکن تیار ہو جاؤ ( وہ بڑا قریب زمانہ تھا) وہ عنقریب آنے والا ہے جس کی تمہیں اتباع کرنی پڑے گی اور جسے کہتے ہیں بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہے تھوڑی سی اور تربیت تمہاری ہوگئی تو تم اس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۱۹ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب قابل ہو جاؤ گے کہ اس کامل اور مکمل شریعت لانے والے کی امت بن سکو اور اس کی اتباع کر سکو اور اللہ تعالیٰ کے کامل فضلوں کو تم حاصل کر سکو.حضرت مسیح علیہ السلام نے انہیں یہ کہا کہ شریعت کی بہت سی باتیں ابھی قابل بیان ہیں مگر چونکہ اس وقت بنی اسرائیل ان کی برداشت نہیں کر سکتے بلکہ برداشت کے لئے تیاری کروائی جا رہی ہے.اس لئے انہیں اس وقت کا انتظار کرنا چاہئے کہ جب بنی نوع انسان کامل تعلیم کے حامل بننے کی اہلیت پیدا کر لے اور اللہ کا ایک عظیم نبی ان صداقتوں کو بنی نوع انسان کے سامنے بیان کرے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ضمن میں ( یہ تیسری شق ہے ) پہلے انبیاء پر سے ہی تہمتیں دور نہیں کیں بلکہ پہلی کتابوں پر سے بھی تہمتیں دور کیں.مثلاً وید پر یہ انتہام لگایا گیا اور یہ اتہام ماننے والوں نے لگایا کہ وید نے نیوگ کی اجازت دی یہ بڑا سخت اتہام ہے.بڑا گندا اتہام ہے لیکن قرآن کریم نے یہ کہا کہ وہ رشی جن پر یہ ویدا اپنی اصل شکل ( جو بھی ان کی شکل تھی ) میں اترے وہ خدا تعالیٰ کے پیارے نبی تھے اور جو صحیح اور سچی باتیں ان کو ملی تھیں اور جو کامل اور ابدی صداقتیں انہوں نے پائی تھیں وہ ہم نے قرآن کریم میں محفوظ کر لیں ہیں.وید کا وہ حصہ جو قرآن کریم کی تعلیم سے مشابہت رکھتا ہے وہ خدا کی طرف سے نازل ہوا تھا اور وید کا وہ حصہ جو قرآن کریم سے مشابہت نہیں رکھتا وہ خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوا اس لئے اگر دنیا نیوگ کی تعلیم کو دید کی طرف منسوب کرے گی تو دید کے لانے والے انبیاء پر اور وید کے اوپر کوئی الزام نہیں آئے گا کیونکہ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ وید ہے ہی نہیں.یہ انسان نے بیچ میں ملا دیا ہے.غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پرانی کتب کو بھی مختلف تہمتوں سے بری قرار دیا اور ایک بنیادی اصول یہ قائم کر دیا کہ تمام انبیا ء خدا کی طرف سے تھے.تمام انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرورت زمانہ کے مطابق ہدایتیں لے کر آئے تھے اور ان تمام ہدایتوں کو قرآن کریم نے اپنے اندر جمع کر لیا.اس لئے ہر وہ گند اور ناپاکی اور لعنت کی بات جو ان کتابوں کی طرف منسوب کی جاتی ہے یا اسے ان کا حصہ بنادیا گیا ہے اور وہ قرآنی تعلیم کی مخالف ہے اس کے متعلق ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ اس کتاب کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسے انسانی دجل نے بیچ میں شامل کیا ہے.کتاب تو ایک حسین خدائی کتاب تھی تم نے اس کے اندر گند ملا دیا اس میں اس کتاب یعنی وید کا کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۲۰ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب قصور.پھر زبور کا کیا قصور، تورات کی کتابوں میں اگر تم نے گند ملا دیا ہے تو اس میں تو رات کی کتابوں کا کیا قصور.اس طرح دوسرے انبیاء جن کی شریعتیں بدلی ہوئی شکل میں موجود ہیں یا جن کو کسی وقت اللہ تعالیٰ نے بھلا دیا.پرانے زمانہ کے جو شہر تھے اگر ان کی کھدائی سے کوئی اور شریعت بھی ہمارے سامنے آئے اور اس میں اس قسم کا گند ملا ہوا ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی بھی حفاظت کی ہے.غرض عظیم احسان ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلوں پر بھی اور اگلے آنے والوں پر بھی.اگلوں کو کہہ دیا کہ اگر آپس میں اختلاف ہو تو خدا اور رسول کی طرف رجوع کرلیا کرو.پس فیصلہ ہو گیا اور یہی بات پہلوں کو بھی کہی ہے کہ اگر کوئی گند کتاب کی طرف منسوب ہو تو خدا اور رسول کی طرف رجوع کر لیا کرو.قرآن کریم کو دیکھ لیا کرو کیونکہ تمہاری کتاب میں جو سچائی تھی وہ قرآن کریم میں موجود ہے جو چیز تمہاری کتاب کی طرف منسوب ہوتی اور اس کتاب کو قابل اعتراض ٹھہراتی ہے اگر وہ قرآن کریم میں موجود نہیں تو تمہیں تسلی ہو تم خوش ہو جاؤ کہ وہ تمہاری کتاب کا حصہ نہیں تمہاری کتاب حقیقتا گندی نہیں تھی.انسان نے اس کے اندر گند ملا دیا ہے.غرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا عظیم احسان ہے پچھلوں پر بھی اور پہلوں پر بھی.اس لئے اس معنی میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا.قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ( بنی اسراءیل (۸۲) اللہ تعالیٰ اپنی عظمت اور جلال کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود اور قرآن عظیم کے نور میں کامل طور پر جلوہ فرما ہوا.نور جو اس نور سے نہیں ملتا یا جو ظاہری چمک ہے اس کے پیچھے اس قسم کا اندھیرا ہے کہ وہ اس نور کا حصہ نہیں بن سکتا اور ہر وہ باطل جو پہلی شریعتوں میں دجل کے نتیجہ میں داخل کیا گیا تھا اس کے لئے اب کوئی جگہ نہیں.قرآن کریم نے ان کتابوں کو بری قرار دے دیا ہے اب وہ ان کتابوں کے حصے نہیں سمجھے جائیں گے اسی لئے وید کی جوشکل ہے اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں سخت تنقید کی ہے وہاں آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم سب اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ وید اپنی اصلی حالت میں خدا تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی پر نازل ہونے والی کتاب تھی.ہمارا اعتراض اس دجل پر ہے جو بعد میں انسان کے ہاتھ نے وید میں ملا دیا.یہ اسی آیت کی تفسیر ہے.کیونکہ یہاں فرمایا گیا تھا کہ اس دجل کے لئے اب کوئی جگہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۲۱ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب نہیں.شیطان اپنے تمام لشکروں کے ساتھ بھاگ گیا ہے اور حقیقتا بھاگ گیا ہے کیونکہ اس تعلیم کے آگے کون ٹھہر سکتا ہے؟ اور اس کی تحریف و تبدیل حقیر اور ذلیل ثابت ہوئی اور اس کی قائم کرد بد رسوم کا گند ظاہر ہو گیا اور وہ جو اس کے گروہ میں شامل ہو کر حق و صداقت میں رخنہ اندازی کر رہے تھے قرآنی انوار کی یلغار سے بھاری شکست کھا کر بھاگ گئے اور ان کے لئے اب کوئی جائے پناہ باقی نہیں رہی اس لئے فرمایا:.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (الصف: ١٠) یعنی اس خاتم النبیین کے جلالی ظہور کے نتیجہ میں وہ تمام ادیان سابقہ جن میں شیطانی وسوسہ نے شرک خفی یا شرک جلی کی کھڑکیاں کھول رکھی تھیں اور جن کے چہروں کو اس یقین نے مسخ کر دیا تھا شکست کھا ئیں گے اور اسلام اپنی پوری شان کے ساتھ ان پر غالب آئے گا اور دنیا اس صداقت کو پہچاننے لگے گی کہ اِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمُ جَمِيعًا (الاعراف: ۱۵۹) آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک سب بنی نوع انسان کی طرف میں اللہ کا رسول بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں.یہ جو میں نے کہا ہے کہ پہلی کتاب پر جو اتہام لگائے گئے تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دور کیا ہے.ایک اتہام تو دہر یہ عام لگاتے ہیں دہر یہ ہر طرف یہ تلوار چلا رہا ہے یعنی ایک طرف تو شیطان نے گند کو ان کتابوں میں داخل کر دیا اور دوسری طرف شیطان نے شیطانی دل کو کہا کہ یہ دیکھو نشانہ کی بڑی اچھی جگہ ہے یہاں جا کے تلوار چلاؤ.گویا آپ ہی ٹارگٹ بنایا اور اس کے اوپر چلانے کے لئے آپ ہی گولیاں دیں.شیطان نے یہ کارنامہ کیا.دہر یہ کہتے ہیں کہ اللہ کوئی نہیں اور اس پر وہ جو دلیل دیتے ہیں وہ بہتوں کو گمراہ کرنے والی دلیل ہے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں وہ کہتے ہیں کہ آدم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ خدا ہے اور وہ خدا کا بندہ تھا اور اس کے اوپر شریعت نازل ہوئی تھی لیکن آدم تو ایسا تھا اور تورات سے وہ حوالہ دے دیں گے جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے.داؤد کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خدا کا بندہ تھا لیکن وہ تو اس قسم کے اخلاق کا تھا وہ زانی تھا.اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ فلاں شریعت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۲۲ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب نازل ہوئی تھی لیکن اس میں تو مثلاً نیوگ جیسی لعنت پائی جاتی ہے.غرض وہ پہلی کتاب سے لے کر آخری کتاب تک اور پہلے نبی سے لے کر آخری نبی تک نام لے لے کر عملاً اعتراض کر رہے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق تم کہتے ہو کہ یہ خدا کے برگزیدہ نبی ہیں اور یہ وہ کتا بیں ہیں جن کے متعلق تم کہتے ہو کہ یہ خدا تعالیٰ نے نازل کی ہیں لیکن ان میں یہ گند پایا جاتا ہے اس لئے اللہ ہی کوئی نہیں تم نے سب فراڈ بنایا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی بھی حفاظت کی اور کتابوں کی بھی حفاظت کی.اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعہ شیطان کو کہلوایا کہ تجھے وید میں گند نظر آ رہا ہے اور تجھے یہ گند تیری طبیعت کے مطابق نظر آ رہا ہے لیکن ہمیں وید میں بہت سی صداقتیں نظر آ رہی ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنکھ ہی ایسی دی ہے کہ ہم صداقت کو دیکھ سکتے ہیں.غرض حضرت آدم علیہ السلام کو جو صداقت دی گئی تھی وہ صداقت قرآن کریم میں بھی پائی جاتی ہے اسی طرح جو صداقتیں بعد کے انبیاء کو دی گئیں وہ بھی قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں اور قرآن کریم اپنی صداقت کے ثبوت کے لئے صرف عقلی دلائل کا محتاج نہیں بلکہ وہ اپنے ساتھ آسمانی نشانات رکھتا ہے جن کا تو اے شیطان ! مقابلہ نہیں کر سکتا اور جس شہادت کا تو مقابلہ نہیں کرسکتا اور جس شہادت کو تو تو ڑ نہیں سکتا وہ شہادت ہے اس بات پر کہ آدم سچا تھا وہ شہادت ہے اس بات پر کہ نوح سچا تھا وہ شہادت ہے اس بات پر کہ موسیٰ سچا تھا اور عیسی سچا تھا اور دوسرے تمام انبیاء بچے تھے اور یہ شہادت ہے اس بات پر کہ ان کی کتابوں میں جو صداقتیں تھیں وہ قرآن کریم نے لے لی ہیں اور اس حد تک وہ کتابیں صداقتوں کی حامل تھیں.سچی کتابیں تھیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں اس لئے تیرا واراے شیطان تیرے اپنے ہی پیدا کردہ ایک ٹارگٹ پر ہو رہا ہے لیکن خدا اور اس کے بندوں پر تیر اوار کامیاب نہیں.تو دیکھو یہ کتنا بڑا احسان ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی کتب سماویہ پر بھی کیا کہ ان سب کو تہمتوں سے بری قرار دیا اور اس کا بڑی شان کے ساتھ اعلان کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس حصہ کے متعلق کہ قرآن کریم ایک کامل اور مکمل کتاب ہے اور ہمیں کسی چیز کے حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم سے باہر جانے کی ضرورت نہیں یہ فرمایا کہ.جس قدر معارف عالیہ دین اور اس کی پاک صداقتیں ہیں اور جس قدر نکات
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۲۳ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب ولطائف علم الہی ہیں جن کی اس دنیا میں تکمیل نفس کے لئے ضرورت ہے ایسا ہی جس قدر نفسِ امارہ کی بیماریاں اور اس کے جذبات اور اس کی دوری یا دائمی آفات ہیں یا جو کچھ اُن کا علاج اور اصلاح کی تدبیریں ہیں اور جس قدر تزکیہ وتصفیہ نفس کے طریق ہیں اور جس قدر اخلاق فاضلہ کے انتہائی ظہور کی علامات وخواص ولوازم ہیں یہ سب کچھ باستيفائے تام فرقان مجید میں بھرا ہوا ہے اور کوئی شخص ایسی صداقت یا ایسا نکتہ الہیہ یا ایسا طریق وصول الی اللہ یا کوئی ایسا نادر یا پاک طور مجاہدہ و پرستش الہی کا نکال نہیں سکتا جو اس کلام میں درج نہ ہو.“ (سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه ۴ ۷ ح) غرض ساری ہدا یتیں اس میں درج ہو گئیں اس بات کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے کہ اب پچھلی کتب سماویہ کی ضرورت نہیں رہی اور اس بات کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے کہ وہ خدا کے پاک انبیاء پر نازل ہوئی تھیں.ان کتابوں کے اندر جو گندی باتیں انسان نے ملا دی تھیں ان سے بھی ان کو بری قرار دیا اور ان کے ماننے والوں کو کہنا کہ اصل میں جو کتاب تمہیں دی گئی تھی اس کی طرف بھی ہم تمہیں بلاتے ہیں اور وہ قرآن کریم میں ہے تمہاری اپنی کتاب میں نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو شریعت دی گئی تھی اور آپ کو جو ابدی صداقت عطاء ہوئی تھی وہ ابدی صداقت قرآن کریم میں ہے.اس لئے اہل کتاب کو کہا تو رات کو مانو اور اس میں تم نے اپنے ہاتھوں سے جو دجل ملا دیا ہے اور گند داخل کر دیا ہے اس کو چھوڑ دو تم نجات پاؤ گے اور پھر تمہیں اور انعام ملے گا.مزید صداقتیں تمہارے ہاتھ میں دی جائیں گی اور تم اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں زیادہ سہولت کے ساتھ زیادہ تیزی کے ساتھ زیادہ روحانی رفعتوں تک پہنچنے کے لئے تم اختیار کر سکو گے.اس نکتہ کی چوتھی شق یہ ہے کہ قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ نے یہ عظمت بتائی ہے کہ پہلی تمام شرائع قرآن کریم کا ایک حصہ تھیں اور یہ بات ایک اور زاویہ نگاہ سے ہے اور پہلی امتوں کو جس چیز کی وقتی ضرورت تھی وہ قرآن کریم نے افاضہ روحانی سے انہیں عطا کر دی اور صرف وہی ہدایت عطا کی اور اس طرح ماقبل کی سب شریعتیں قرآن عظیم کا ایک حصہ اور سارے انبیاء خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل تھے.حقیقت یہ ہے کہ تمام بزرگ شارع انبیاء قرآن عظیم ہی کے ایک حصہ پر عمل کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے اور کوئی مستقل شریعت اس معنی میں وہ لانے والے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۲۴ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب نہیں تھے کہ قرآن کریم سے زائدان کے پاس کچھ ہو تو میں نے بعض دوسری جگہوں میں بھی اس طرف اشارہ کیا ہے اس کی وضاحت قرآن کریم نے ان آیات میں کی ہے.الَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَبِ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَبِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُمْ مُّعْرِضُونَ (آل عمران : ۲۴) الَمُ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتُبِ يَشْتَرُونَ الضَّلُلَةَ وَيُرِيدُونَ أَنْ تَضِلُّوا السَّبِيْلَ (النِّسَاء : ۴۵) أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَبِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِيْنَ امَنُوْا سَبِيلًا (النساء:۵۲) ان آیات میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ وہ اقوام جنہیں قرآن عظیم کا ایک حصہ ہی وقتی ضرورت کو پورا کرنے اور ناقص قوتوں اور استعدادوں کی مناسب نشو و نما کے لئے دیا گیا تھا ان کی حالت یہ ہے کہ وہ ا.اپنی جہالت اور اللہ سے بعد کی وجہ سے کتاب کامل کے ایک ٹکڑے پر ناز کرتے اور کتاب کامل سے اعراض کرتے ہیں یعنی یہ ایک بڑی غیر معقول بات ہے کہ دیا تو گیا تھا انہیں قرآن کامل کا ایک حصہ اور ان کی حالت یہ ہے کہ کتاب کامل کے ایک ٹکڑے یعنی اپنی کتاب پر ناز کرتے ہیں اور اس کامل کتاب سے وہ اعراض کرتے ہیں.دوسرے ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ کتاب کامل کا جو حصہ ان کو دیا گیا تھا اس میں ضلالت کی جو باتیں خود انہوں نے اپنی طرف سے دجل کر کے ملالی ہیں ان سے ہدایت کے اس حصہ کی نسبت زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں اسے ترجیح دیتے ہیں اور اسے اختیار کرتے ہیں جو اس کے مقابلہ میں اصل کتاب ہے اور تم سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ تم بھی صداقت کا ملہ حقہ کو چھوڑ کر شیطانی وساوس اور انسانی بناوٹ کو اختیار کرو جو بناوٹ انہوں نے اپنی کتاب کے متعلق کی ہے.تیسرے ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی حالت یہ ہے کہ شیطانی وسوسہ اندازی اور نفس امارہ کی آواز جو کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے اور بے فائدہ ہیں اور حد سے بڑھنے والوں کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۲۵ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب باتوں کو ہدایت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نَصِيبًا مِنَ الْكِتبِ انہیں ملا تھا اس کی طرف وہ توجہ نہیں دیتے اور اللہ کی ہدایت سے اس قدر بے رغبتی اور نفرت ان کے دلوں میں پائی جاتی ہے کہ وہ نفس امارہ اور شیطان لعین کو مومنوں سے بھی زیادہ ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں آپ کو اپنی زندگی میں بھی اس قسم کے بہت سارے نظارے نظر آ جائیں گے.اسی طرح فرمایا:.وَهُذَا ذِكْرٌ مُّبَرَكَ اَنْزَلْنَهُ أَفَانْتُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ (الانبياء : ۵۱) امِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِةٍ أَلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ ۚ هَذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ وَذِكْرُ ނ مَنْ قَبْلِي بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُمْ مُّعْرِضُونَ (الانبياء : ۲۵) فرمایا کہ یہ قرآن مجید عزت اور شرف کا جامع ہے ذِکر تُبرَ اللہ کی نگاہ میں جو شرف اور رضا پہلی اقوام علیحدہ علیحدہ پاتی تھیں اس کی اتباع سے وہ سب عزتیں مل جائیں گی بلکہ ان - بھی بڑھ کر.کیا تم اے ہمارے مخاطب ایسی عظیم کتاب کا انکار کرتے ہو اور پہلوں کو جو بھی عزت اور عظمت ملا کرتی تھی وہ بھی اس قرآن عظیم کے بعض حصوں کی اتباع کے نتیجہ میں ملتی تھی اور جو میری تربیت میں آکر ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ اعلان ہے ) اس کی پیروی کریں گے انہیں سب عزتوں کے سرچشمہ سے ( اِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ جَمِيعًا (یونس :۶۶) وہ ساری ہی عزتیں نصیب ہوں گی جو ایک انسان اپنے اپنے دائرہ استعداد میں حاصل کر سکتا ہے مگر ان میں سے اکثر اس تعلیم کو پہچانتے نہیں جو انسان کی ہر فطری پیاس کو سیراب کرنے والی اور فطرت انسانی کے سب قوی کو اپنے اپنے دائرہ استعداد میں کمال نشو و نما دینے والی ہے (الحق) اور اس لئے اس منبع عزت و شرف سے منہ موڑ کر باطل اور بے حقیقت چیزوں کی طرف وہ بڑھ رہے ہیں اس لئے کہ وہ پہچانتے نہیں.غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات میں بنی نوع انسان سے کہا کہ حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی طرح دوسرے انبیاء پیدا ہوئے اور تمہیں نظر آ رہا ہے کہ انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت پائی اور ان کے ماننے والوں نے بھی.اب تمہیں یہ بشارت ہو کہ تمہیں بھی وہ ساری عزتیں ملتی رہیں گی اور ان کے حصول کے دروازے بند نہیں ہوئے بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر عزتیں تم اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حاصل کر سکتے ہو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۲۶ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب عظ ان سے بڑھ کرتم اللہ تعالیٰ کی رضا کو پا سکتے ہو.”الحق کو تم پاسکتے ہو یہ عجیب بات ہے کہ اتنی ظیم عزت اور عظمت کے سامان تمہارے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور تم ان کی طرف توجہ نہیں دیتے اور صرف ایک مختصر سے اور چھوٹے سے حصہ عزت کا تم بہانہ بناتے ہو اور کہتے ہو کہ ہماری کتاب میں بھی عزت کا سامان ہے لیکن تمہاری کتاب میں جو عزت کا سامان ہے اس کی طرف بھی تو تم توجہ نہیں دیتے بلکہ اس میں جو گند تم نے اپنی طرف سے ملا دیا ہے تم ہر وقت اس کی پیروی کرتے ہو.اس لئے تم بڑے جاہل ہو اور اپنے نفسوں پر بڑا ظلم کرنے والا ہو.پانچویں شق اس نکتہ کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو غیر محدود ترقیات کے وعدے دیئے ہیں جیسا کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة : ۳) میں اس فیض عظیم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور جس کے حصول کے لئے خود اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (التخريم : ٩) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی تفسیر یوں فرماتے ہیں اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ ہمارے نور کو کمال تک پہنچا.یہ ترقیات غیر متناہیہ کی طرف اشارہ ہے یعنی ایک کمال نورانیت کا انہیں حاصل ہوگا.پھر دوسرا کمال سامنے نظر آئے گا.اس کو دیکھ کر پہلے کمال کو ناقص پائیں گے.پس کمال ثانی کے حصول کے لئے التجاء کریں گے اور جب وہ حاصل ہوگا تو ایک تیسرا مرتبہ کمال کا ان پر ظاہر ہوگا.پھر اس کو دیکھ کر پہلے کمالات کو بیج سمجھیں جائیں گے اور اس کی خواہش کریں گے یہی ترقیات کی خواہش ہے جو آتھر کے لفظ سے سمجھی جاسکتی ہے.غرض اسی طرح غیر متناہی سلسلہ ترقیات کا چلا جائے گا اور تنزل کبھی نہیں ہو گا.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد نمبر ۱ صفحه ۴۱۲ ۴۱۳) یہ وعدہ ہے امت محمدیہ سے.اٹھارہ میں سے تین باتیں میں نے بیان کر دی ہیں اور باقی پندرہ کو بیان کرنے کا تو اب وقت بھی نہیں.دوستوں نے جانا بھی ہے اور جانے کی تیاری بھی کرنی ہے اور ہم نے بھی ان کو الوداع کرنے کی تیاری کرنی ہے یعنی ان کے لئے خوب دعائیں کرنی ہیں.انشاء اللہ.سواب میں تقریر کو اس حصہ پر ختم کرتا ہوں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۲۷ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب جو کیفیت ہم ربوہ میں رہنے والوں کے دلوں کی جلسہ کے آخری دن ہوتی ہے اس کا اندازہ باہر سے آنے والے ہمارے عزیز بھائی نہیں کر سکتے.دوسروں کی بھی یہی کیفیت ہوگی لیکن میری اپنی جو حالت رہتی ہے اس کا ایک حصہ میں نے بتایا تھا کہ جب آپ جلسہ پر آنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت بھی میں پریشان ہوتا ہوں کہ کوئی شیطانی رخنہ آپ کو جلسہ میں شمولیت سے روک نہ دے.جب آپ آرہے ہوتے ہیں تو چونکہ انسانی زندگی اور سفر میں سینکڑوں قسم کی تکالیف اور حادثات لگے ہوئے ہیں اس کے لئے میں بڑا بے چین رہتا ہوں اور تکلیف میں رہتا ہوں.میں اپنے رب سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہی آپ کا حافظ و ناصر ہو اور وہ ہر قسم کی تکلیف اور دکھ اور آفت اور حادثہ سے آپ کو محفوظ رکھے.پھر آپ یہاں آ جاتے ہیں تو پھر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ہمارے رضا کار بھائیوں میں سے کوئی شخص غفلت اور نادانی کے نتیجہ میں کسی آنے والے دوست کی تکلیف کا باعث نہ بن جائے.پھر یہ فکر ہوتی ہے کہ آپ کے اپنے نفوس آپ کے لئے تکالیف اور آفات کا سامان نہ پیدا کر رہے ہوں.اس جلسہ کے ایام کو اللہ تعالیٰ نے بڑا ہی بابرکت بنایا ہے اور اگر ہم چاہیں اور اگر ہم ارادہ کریں اور اگر ہم اس کے لئے کوشش کریں اور اگر ہم اس کے حصول کے لئے دعائیں کریں اور اگر اللہ تعالیٰ ہماری کوشش اور دعا کو قبول فرمالے تو بے انتہا برکات کو لے کر ہم اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکتے ہیں.کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے اپنے نفسوں کی کوئی کمزوری ان برکات سے ہمیں محروم کرنے والی ہو.اس کے لئے میں دعاؤں میں لگا رہتا ہوں.پھر آپ کے جانے کا وقت قریب آتا ہے تو آپ کو بھی یہ دن گذرتے معلوم نہ ہوتے ہوں گے لیکن کام کی کثرت کے نتیجہ میں تو میرے لئے ایک گھنٹہ پہلے اور تین دن پہلے کی صبح کا تصور کرنا مشکل ہے.میرے لئے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے وہ دونوں حالتیں ایک ہی وقت میں ہوگئی تھیں یعنی پرسوں صبح پہلے دن کی ابتداء اور آج ایک گھنٹہ پہلے کی جو حالت ہے اس میں مجھے وقت کا احساس نہیں.پس اس طرح معلوم ہوتا ہے.آپ آئے.آپ ہم سے ملے.آپ کی وجہ سے ہم نے بہت سی خوشیاں اور برکات حاصل کیں اور اب آپ ہمیں اداس چھوڑ کر واپس جارہے ہیں جہاں بھی آپ ہوں.جس حالت میں بھی آپ ہوں.سفر و حضر میں بھی اور دوسرے حالات میں بھی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۲۸ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب اللہ تعالیٰ خود ہی آپ کا حافظ ہو.آپ کا ناصر ہو.اللہ تعالیٰ کے فرشتے آئیں اور ہر شر سے آپ کو بچائیں.خدا تعالیٰ آسمان سے اپنے فرشتوں کو بھیجے اور آپ کے دل اور آپ کے سینہ اور آپ کے دماغ اور آپ کی روح کو اپنے نور سے معمور کر دے.خدا تعالیٰ کے فرشتے آئیں اور آپ کے دلوں میں اس کی ذاتی محبت کو پیدا کریں.اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے نازل ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیار آپ کے سینہ میں بھر دیں.ایک آگ آپ کے جسموں میں لگا دیں اور دنیا سے کلی طور پر منقطع ہو کر اپنے رب کی طرف آپ ایک روحانی حرکت میں آجائیں تا ہمارا وہ مقصود حاصل ہو جس کے حصول کے لئے ہم پیدا کئے گئے تا جماعت احمدیہ کا وہ مقصد حاصل ہو جس مقصد کے حصول کے لئے جماعت کو قائم کیا گیا ہے.آپ بھی دعائیں کرتے رہیں ہم بھی دعائیں کرتے رہیں گے اپنی ان دعاؤں میں وسعہ پیدا کریں.سورۃ فاتحہ میں ہمیں جمع کے صیغہ سے دعا سکھائی گئی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس میں یہ حکمت ہے کہ ہمیں کہا گیا ہے کہ تم اکیلے کوئی چیز نہیں ساری دنیا کو اپنی دعاؤں میں شامل کرو تا کہ وہ خدا جو ساری دنیا پر اپنی ربوبیت سے اپنی رحمتوں کا سایہ کئے ہوئے ہے وہ اپنی رحمتوں سے تمہیں بھی حصہ دے بہت سی ترقیات روحانی دنیا کے ماحول پر منحصر ہوتی ہیں اگر آج دنیا کی اکثریت مثلاً احمدی ہو جائے اور اسلام لے آئے اور آج دنیا کے اموال اسی طرح خدائے واحد یگانہ کے نام کو بلند کرنے کے لئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے خدا کے حضور پیش کئے جائیں جس طرح شیطان کے حضور دجل کو پھیلانے کے لئے آج اموال اور دولت کے ڈھیر پیش کئے جاتے ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے اور زیادہ فضلوں کا وارث بنے کی توفیق مل جائے.ساری دنیا کے لئے دعائیں کریں.آپ کے بھائی ہیں اللہ تعالیٰ نے سب کا آپ کے ساتھ اخوت کا رشتہ قائم کیا ہے کسی سے دشمنی کو خدا نے جائز قرار نہیں دیا.ہم بدی کے دشمن ہیں لیکن ہم بد کے دشمن نہیں ہیں.ہم ناپاکی کے دشمن ہیں لیکن ہم نا پاک کے دشمن نہیں ہیں.ہم ایک غافل انسان کے دشمن نہیں لیکن ہم اس کی غفلت کے دشمن ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کی ناپاکی پاکیزگی سے بدل جائے اس کا گند نیکی میں متغیر ہو جائے نیکی کا چولہ پہن لے.اس کے اندھیرے نور کی شکل میں اس کے اپنے لئے اور دنیا کے لئے ظاہر ہوں اور اللہ تعالیٰ کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ---- ۴۲۹ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب رحمتوں کا ہر انسان وارث بنے.اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے والے کے بھی ہم دشمن نہیں ہاں ان کی گالیوں کے ہم دشمن ہیں اس بدی کے ہم دشمن ہیں.ان شیطانی وساوس کے ہم دشمن ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہزاروں گند سے بھری ہوئی اور تہمتوں سے بھری ہوئی اور اتہاموں سے بھری ہوئی جو کتابیں شائع ہو رہی ہیں ان کتابوں کے لکھنے والوں اور ان کتابوں کے شائع کرنے والوں کے خلاف ہمارے دل میں کوئی دشمنی کا جذبہ نہیں ہے.جو عالمین کے لئے رحمت بن کر آیا تھا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے قدموں میں جگہ دے کر ساری دنیا کے لئے رحمت کا ایک نشان بنا دیا ہے اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی رحمتوں کو ان ہستیوں تک بھی لے کر جائیں جو رحمتوں سے انتہائی طور پر دور اور نور سے بالکل محروم اور کامل اور نہایت خطرناک اندھیروں میں اپنی زندگی کے اوقات گزارنے والے ہیں.جس طرح ایک ڈاکٹر ایک گندی بیماری کا علاج کرتے ہوئے اس گندے آدمی کو بھی ہاتھ لگاتا ہے اور اپنی جان کو اور اپنی صحت کو خطرہ میں بھی ڈالتا ہے.حالت ہماری ہے ہم نے اندھیروں میں اس لئے گھسنا ہے تا ان اندھیروں میں بسنے والوں کے لئے روشنی کا سامان پیدا کریں.ہم نے ناپا کیوں کو اس لئے ہاتھ لگانا ہے کہ ہم ان ناپاکیوں کو دور کر کے اس کی جگہ پاکیزگی کے سامان پیدا کریں.ہم نے دوری اور بعد کے قریب اس لئے جانا ہے کہ دوری اور بعد کو خدا کے قرب میں تبدیل کر دیں اور ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بنائیں جو اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات اور اس کی صفات کی عظمت اور اس کے جلال کو اور اس کی قدرتوں کو پہچانتے ہی نہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر روز اپنی کامل قدرتوں کے نظارے دکھاتا ہے.وہ ہمیں اپنی زندگی کا ثبوت دیتا ہے.اس پیارے کو چھوڑ کر کسی اور طرف ہم منہ نہیں کر سکتے اور اس پیارے کے سامنے ہی ہم عاجزی کے ساتھ اور تضرع کے ساتھ اور اس احساس کے ساتھ جھکتے ہیں کہ ہم بے ہنر اور بے مایہ ہیں لیکن وہ ہر ہنر کا مالک اور ہر قدرت کا مالک ہے اور ہر بزرگی کا مالک اور ہر عزت کا مالک اور ہر عظمت کا مالک اور ہر جلال کا مالک اگر وہ چاہے اور خدا کرے کہ وہ چاہے تو ہم ناچیز بندوں کو اپنا ہتھیار بنالے اور ہمارے ذریعہ سے دنیا کی انسانیت میں وہ انقلاب عظیم بپا کرے کہ ساری دنیا کی زبان سے لا اله الا الله محمد رسول اللہ نکلے.اپنی دعاؤں میں تمام انسانوں کو یا درکھیں.تمام احمدی بھائیوں کو یاد رکھیں.تمام احمدی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۳۰ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب بہنوں کو یا درکھیں.دنیا میں جہاں بھی پریشانی ہے اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے دعائیں کریں جہاں کہیں دکھ ہوں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس دکھ کو دور کر دے.جہاں کہیں غربت ہو اللہ تعالیٰ اس شخص کے حقوق دلوا دے.جہاں کہیں کوئی ظالمانہ طور پر کوئی بے عزتی کی جارہی ہو.خدا جو عزت کا سرچشمہ ہے اس شخص یا ان اشخاص یا اس جماعت یا ان جماعتوں کی عزت کو قائم کرے.خدا کرے کہ جس طرح اس نے ہمیں یہ توفیق دی کہ اپنی دعاؤں کا دائرہ وسیع کر کے ساری انسانیت کے گرد ایک احاطہ کر لیں اسی طرح وہ ایسے سامان پیدا کر دے کہ ہمارے اعمال صالحہ بھی ساری دنیا کا احاطہ کر لیں اور ہر شخص کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم کی حیثیت میں ہمیں ایک محسن کی شکل اور رُوپ عطا کرے کہ اس کی قدرت سے کوئی چیز انہونی نہیں.آپ اللہ تعالیٰ کی امان میں رہیں.اب ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور دعا کرتے ہیں.سب کے لئے ہی دعا کریں.وہ بڑا قدرتوں والا اور بڑا پیار کرنے والا ہے.( از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۳۱ ۲۶ دسمبر ۱۹۷۰ء.افتتاحی خطاب قلوب کو خدا اور اس کے رسول کی محبت کی آگ سے روشن رکھو افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۷۰ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.عزیز از جان بھائیوں، بہنو اور بچو! ہمارے محبوب و مقصود وربّ کریم کے آپ پر ہزاروں سلام ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آنے کی غرض بھی اور اس جلسہ کی غرض بھی یہ بتائی ہے کہ ایسا سامان پیدا ہو کہ دلوں سے دُنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جائے اور خدائے واحد و یگانہ سے ذاتی محبت اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک والہانہ عشق دلوں میں پیدا ہو جائے.آج دنیا اپنے پیدا کرنے والے رب کو پہچانتی نہیں.دُنیا ، دُنیا میں اس قدر محو ہو چکی ہے کہ ہزار قسم کے بُت دِلوں میں بٹھا دیئے گئے ہیں.علم پر غرور ہے.طاقت پر بھروسہ ہے.مادی سامانوں پر تکیہ کیا جاتا ہے لیکن وہ جو ان تمام اشیاء کا پیدا کرنے والا ہے اُس کو بھلا دیا گیا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی یہ غرض تھی کہ دُنیا کی تمام اقوام اپنے پید کرنے والے رب کے قدموں میں جمع ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرزند جلیل کی حیثیت سے، آپ کے ایک محبوب ترین بیٹے کی حیثیت سے دُنیا میں اسی غرض سے آئے.المی بشارات کے مطابق یہ ہے ہمارا عقیدہ.پس جن لوگوں کے دلوں میں دُنیا کی محبت سرد ہو جاتی ہے.جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتیہ کی آگ جوش مارنے لگتی ہے اور جس کے نتیجہ میں بظا ہر سب کچھ جل جاتا ہے یہ وہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ سب کچھ واپس دے دیتا ہے.لیکن وہ لوگ جن کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے خالی اور جن کی فراستیں اللہ تعالیٰ کی قدرتوں سے بے بہرہ اور غافل ہوتی ہیں وہ سمجھتے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۳۲ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب یں ان بہت کچھ ملا جانا پڑتا ہے اور دنیابھی ہیں کہ ان کو بہت کچھ ملا لیکن انہیں بھی ایک دن جانا پڑتا ہے اور دُنیا بھی دیکھتی ہے کہ انہیں کچھ نہیں ملا.اس جلسہ کی غرض ہی یہ ہے کہ یہاں جو نیکی کی باتیں کی جاتی ہیں دوست انہیں غور سے سنیں.اخوت کی جو فضا پیدا کی گئی ہے دوست اس سے فائدہ اُٹھا ئیں.جو پاک ہوا ہمیں یہاں مل رہی ہے اس میں وہ سانس لیں اور کسی طرح ایسا ہو جائے کہ ہر احمدی کے دل سے دُنیا کی محبت نکل جائے سرد پڑ جائے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک ایسا شعلہ، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی کچھ ایسی آگ لگے کہ دُنیا سے انسان بالکل ہی منہ موڑ لے اور اللہ تعالیٰ کی طرف منہ کر کے اور اس میں ہو کر اور اسی کے لئے اور اس کی اطاعت میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں اپنی زندگی کے دن گزارے.قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلووں کو اس طرح نمایاں کر کے ہمارے سامنے رکھا ہے کہ سوچنے والی عقل اور سمجھنے والا دل اس سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.وہی باتیں ہیں جو اس جلسہ میں بیان کی جاتی ہیں یعنی قرآن کریم کی تفسیر بیان کی جاتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان کے جلووں پر روشنی ڈالی جاتی ہے.دُنیا کی لالچ کے لئے نہ ہم نے آپ کو یہاں اکٹھا کیا نہ آپ یہاں آئے ، آپ خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور اس عظیم غلبہ اسلام کی مہم کی باتیں سننے اور اس کے لئے مزید جد و جہد کا عزم لے کر واپس جانے کی تمنا لے کر یہاں آئے ہیں.دُنیا میں ایک انقلاب عظیم بیا ہو رہا ہے.جو لوگ کنوئیں کے مینڈک ہوتے ہیں انہیں تو کنوئیں سے باہر نظر نہیں آتا لیکن وہ لوگ جو دنیا پر نگاہ ڈالتے ہیں انہیں سب کچھ نظر آ جاتا ہے.وہ لوگ جو دُنیا کے پر دے پر ہماری سب سے زیادہ مخالفت کر رہے ہیں یعنی عیسائی انہیں بھی یہ احساس ہو گیا ہے کہ ” قرآن کریم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت میں اور تعلیم میں کچھ اس قسم کا حسن اور کشش اور جذب ہے کہ ان کے لئے اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے.افریقہ کے دورے پر لوگوں کو میں کہتا رہا ہوں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مساوات انسانی کا ایک عظیم نعرہ لگایا تھا وہی پیغام لے کر میں آپ کے پاس آیا ہوں.میں انہیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۳۳ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب بتا تا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وجود کہ کسی ماں نے نہ ویسا جنا اور نہ جنے گی، وہ جو صفات باری کے جلوے اپنے اندرا کٹھے کئے ہوئے تھا ، وہ جو خدا تعالیٰ کے نور اور اُس کا مظہرِ اتم تھا وہ جو اپنے وجود میں پوری کی پوری صفات باری انعکاس کر رہا تھا اُس وجود کے منہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ کہلوایا.أنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (الكهف : 111) یعنی بطور بشر کے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے.تمام انبیاء علیہم السلام نے.س نے ہی جو کچھ پایا وہ آپ کے فیض سے پایا.اصل میں ہر خیر اور نیکی کا منبع حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.اس لئے وہ جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل رُوحانی مدارج کو حاصل کیا ، وہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت تھے جیسے موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام، یہ اور ان کے ماننے والے آپ پر کسی برتری کا دعویٰ نہیں کر سکتے.جب میں یہ کہتا تھا تو اُس وقت پادری جو وہاں بیٹھے ہوتے تھے وہ اُچھل پڑتے تھے اور بڑے پریشان ہو جاتے تھے یہ اعلان انہیں قتل کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر دلوں کو جیتنے کے لئے تھا.پس یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جس میں تمام صفاتِ حسنہ جمع ہیں اور کوئی عیب اس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.وہ تمام نقائص اور بُرائیوں سے منزہ ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کچی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر خیر اور خوبی اور بھلائی کا سرچشمہ ہے.آپ نے بڑی وضاحت سے فرمایا ہے کہ پانی آپ لوگوں کی پیاس نہیں بجھا تا یہ تو اللہ تعالیٰ کے حُسن کا ایک جلوہ ہے جو آپ کی پیاس بجھاتا ہے.جس وقت پانی میں وہ جلوہ نہ ہو تو پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے اور وہی پانی انسان کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے.گندم یا دوسری غذا میں آپ کا پیٹ نہیں بھرتیں ، خدا کے حُسن کے جلوے آپ کا پیٹ بھرتے ہیں.یہ ہوا جس پر ہماری زندگی کا مدار ہے، جس میں ہم سانس لیتے جس سے آکسیجن لیتے ہیں اس ہوا میں اپنی ذاتی کوئی خوبی نہیں ہے کہ انسان کی بقا اور حیات کا سامان پیدا کرے یہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہیں جو اس ہوا میں چھپے ہوئے ہیں.اس ہوا کے ذریعہ جب وہی جلوے ہمارے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۳۴ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب پھیپھڑوں میں جاتے ہیں تو ہماری حیات اور بقا کا سامان پیدا کر دیتے ہیں کبھی اللہ تعالیٰ ایسا بھی کرتا ہے کہ پھیپھڑے کو کہتا ہے کہ ہوا سے بھلائی نہ لے.کبھی اللہ تعالیٰ ہوا سے یہ کہتا ہے کہ پھیپھڑے میں تو طاقت ہے لیکن تو اسے طاقت نہ دے.آخر ہر وفات پانے والا شخص اپنی چار پائی پر ہوا اسے سانس لے رہا ہے لیکن اس کی بقا کا سامان اُسے اس ہوا سے نہیں مل رہا.پس ہر نعمت جو ہمیں ملتی ہے ہر برکت جو ہمیں حاصل ہوتی ہے ہر رحمت جس کے ہم وارث ہوتے ہیں ہر دنیوی آرام جسے ہماری خاطر پیدا کیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حُسن واحسان کے جلوے ہیں.کسی چیز میں اپنی ذاتی کوئی خوبی نہیں.یہ سُورج جو اس وقت طلوع ہے یہ روشنی بھی دے رہا ہے اور یہ گرمی بھی پہنچا رہا ہے لیکن اس سورج میں ذاتی طور پر نہ گرمی ہے اور نہ روشنی ہے یہ تو خدا تعالیٰ کی روشنی کا ایک انعکاس اور خدا تعالیٰ جو اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے اس کے پیار کی گرمی کا ایک جلوہ ہے جو سورج کے ذریعہ ہمیں مل رہا ہے.یہ اللہ ہے جو اسلام ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور یہ اللہ ہے جس پر ہر احمدی کو ایمان لانا چاہیئے اور اکثر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق ایمان لاتے ہیں.دیکھو! اسی سال سے ساری دُنیا اکٹھی ہو کر ہماری مخالفت پر تکی ہوئی ہے.میں نے افریقہ میں بھی یہ کہا تھا کہ اسی سال ہوئے خدا تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی تو حید کو قائم کرنے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے مطابق آپ کے حُسن کے جلوے دکھانے کے لئے اکیلی آواز اُٹھائی گئی تھی.جب وہ اکیلی آواز ایک چھوٹے سے غیر معروف گاؤں سے بلند ہوئی تو اس کے بعد اس آواز کو خاموش کرنے کے لئے ساری دُنیا اکٹھی ہوگئی مگر ساری دُنیا کی طاقتیں اکٹھی ہو کر بھی اس آواز کو خاموش نہیں کر سکیں.اور پھر میں نے افریقہ والوں سے یہ بھی کہا کہ آج میں افریقہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے جو ترانے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی جو آوازیں سُن رہا ہوں وہ اس اکیلی آواز ہی کی ایک گونج اور بازگشت ہے جو میرے کانوں میں پڑ رہی ہے.غرض یہ زمین و آسمان تو کیا اگر اللہ تعالیٰ ایسے ہی اربوں زمین و آسمان پیدا کر دے اور وہ ایسا کرنے پر قادر بھی ہے اور ایسا کرتا بھی رہتا ہے ) جن میں اسی قسم کی آبادیاں پیدا کر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۳۵ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب دے اور وہ سارے جمع ہو کر خدا تعالی کی آواز کو خاموش کرنا چاہیں جو اس نے اپنے کسی بندے کے ذریعہ بلند کی ہو تو وہ خاموش نہیں کر سکتے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس جلسہ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسا والہانہ عشق پیدا کیا جائے جو وفا کی چٹان پر کھڑا ہو اور جس میں کوئی لغزش نہ ہو.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اپنے حسن و احسان میں ایسا بے نظیر وجود ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.اسے دیکھ کر عقلمندوں کی عقلیں حیران اور جو اپنے آپ کو صاحب فراست سمجھتے تھے ان کی فراستوں کو اپنی بے مائیگی کا اعلان کرنا پڑا.ایک شخص جو آج سے چودہ سو سال پہلے پیدا ہوا.صلی اللہ علیہ وسلم ، اُس نے پیچھے کی طرف نگاہ کی اور آدم کو اپنی رُوحانی قوت اور فیض سے حصہ دیا اور اُس نے آگے کی طرف نگاہ کی اور احمد جو آپ ہی کا ایک عظیم روحانی فرزند تھا اس کے وجود کو اور اس کے ماحول کو اس طرح منور کر دیا کہ میرے جیسا عا جز انسان جب افریقہ کے دورے پر گیا اور واپس آیا تو وہاں کے ایک پیرا ماؤنٹ چیف نے مجھے لکھا کہ آپ نے مجھ سے معانقہ کیا تھا جب لوگوں کو پتہ لگا کہ آپ نے مجھ سے معانقہ کیا ہے تو وہ میرے پاس آئے اور اُنہوں نے میرے جسم کے ساتھ اپنے جسم ملے اور میرے جسم کو چوما اور اس طرح انہوں نے برکت لینے کی کوشش کی.لیکن میں تو جانتا ہوں کہ مجھ میں کوئی خوبی نہیں البتہ میں اس یقین پر بھی قائم ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو برکتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل لائے ہیں اُن کی کوئی مثال نہیں.آپ کو جو بشارتیں اور وعدے دیئے گئے کہ جہاں تیرے کامل متبع رہیں گے اُن کے درو دیوار میں بھی برکت ڈال دی جائے گی یہاں تک کہ جس چیز کو وہ ہاتھ لگائیں گے اُس کو بھی با برکت بنادیا جائے گا.وہ سچ ہیں.یہ وعدے اور یہ بشارتیں ہمیں ملی ہیں ان وعدوں اور بشارتوں پر اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر کامل یقین پیدا کرنے کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک طرف حُسن کے اور دوسری طرف احسان کے جلوے دیکھنے کے لئے آپ لوگ یہاں جمع ہوئے ہیں.پس میری یہ دُعا ہے کہ جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے کونے کونے میں یہ آواز دی تھی کہ میری طرف آؤ اور میرے سلسلہ میں داخل ہو جاؤ تا کہ تم
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۳۶ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب برکتیں پاؤ.خدا کرے کہ آپ اپنی کسی کمزوری کے نتیجہ میں اُن برکتوں سے محروم نہ ہو جائیں اور خدا کرے کہ آپ کے عمل اور آپ کا اخلاص اور آپ کی نیتیں ، خواہ وہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہوں ، خواہ وہ کمزور ہی کیوں نہ ہوں، خواہ وہ داغدار ہی کیوں نہ ہوں.اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر آپ کی کمزوریوں اور داغوں کو ڈھانک دے اور اس کی قبولیت کی رحمت آپ کو قبول کرلے اور آپ کو وہ سب کچھ مل جائے جس کی آپ کو بشارت دی گئی ہے.پچھلے جلسہ سالانہ کی بات ہے یعنی ۴۸ ہجری شمسی کے لحاظ سے اور ۶۹ ء دوسرے کیلنڈر کے لحاظ سے جو جلسہ سالانہ تھا اُس میں ایک تقریر کے دوران میں میں نے یہ کہا تھا کہ سال رواں فسادات اور ہنگاموں سے شروع ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اُن کی بشارتوں کے مطابق اُس کی دی ہوئی ترقیات پر ختم ہو رہا ہے.الحمد للہ علی ذالک.اس کے بعد کا ہمارا یہ سال جو ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے جو بشارتیں دی تھیں اُن کو کچھ اس رنگ میں پورا کیا ہے کہ ہمارے تو ذرے ذرے سے اُس کی حمد کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ہم اس کی حمد بیان نہیں کر سکتے.میں نے شروع میں الحمد دو دفعہ خاص غرض سے پڑھا تھا لیکن بندہ کیا حمد کرے گا ہم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار نہیں کر سکتے.انسانی زبان بے شمار حمد بیان کر ہی نہیں سکتی.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی حمد تو ہو ہی نہیں سکتی.یہ تو خدا تعالیٰ کا فضل ہی ہے کہ وہ اپنے پیار کی گو میں بٹھا لیتا ہے.مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ نے ایک تو ہمیں غیر ممالک کے متعلق جو بشارتیں دی ہوئی تھیں وہ پوری ہوئیں اور افریقہ کے ٹور (tour) میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے عظیم پیار کے جلوے دیکھے.دوسرے ہمارے اس ملک میں بھی آپ نے دیکھا کہ فسادات کے بعد کیا چیز نمودار ہوئی؟ خدا تعالیٰ کے وہ حسین جلوے نمودار ہوئے جنہوں نے ہمارے مخالفوں کوسٹن (stun) کر کے رکھ دیا ہے.انہیں کوئی سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ کیا ہو گیا؟ اور اصولی طور پر یہ ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا ہونے والے وہ بچے جو ان ۲۳ سال میں جوان ہو کر ووٹ دینے کی عمر کو پہنچے تھے یعنی ووٹ دینے کے لحاظ سے جوان ہوئے تھے، وہ بچے یا جو کچھ عرصہ پہلے پیدا ہوئے تھے اور اِس ۲۳ سال میں جوان ہو کر ووٹ دینے کی عمر کو پہنچے تھے اللہ تعالیٰ نے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۳۷ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب آسمان سے فرشتوں کو نازل کر کے ان کے دلوں میں یہ ڈالا کہ ہر وہ شخص جو امت محمدیہ میں مذہب یا سیاست کے نام پر فتنہ پیدا کرنا چاہتا ہے ہم اس کی بات کو ر ڈ کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا اِس اُمت سے یہ پیار جس کی خوشبو میں سونگھ رہا تھا اور جس کے متعلق باہر سے بھی چھوٹی چھوٹی رپورٹیں آ رہی تھیں مگر اس پیار پر نہ کسی سیاستدان کی نظر پڑی اور نہ کسی مفکر کی.اپنے اندازے لگا رہے تھے.اپنے منصوبے بنا رہے تھے.لیکن وہ جس کی پشت پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے اور جو خدا کی حفاظت اور امان میں ہوتا ہے اُس کو تم رکس طرح ہلاک کر سکتے ہو.تم اپنے گھروں میں بیٹھے منصوبے بنا رہے تھے اور ہمارا پیدا کرنے والا رب تمہارے گھروں میں بچوں کے دلوں کو بدل رہا تھا.اس نوجوان پاکستان جس پر قوم کو فخر ہے اس قسم کے سارے فتنوں کور ڈ کر دیا.انہوں نے کہا کہ یہ بات ہم سُننے کے لئے تیار نہیں.میں نے خطبہ جمعہ میں بھی بتایا تھا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری اُمت میں تو وہی اختلاف ہوگا جس کے نتیجہ میں رحمت پیدا ہو گی.اس قوم کے بچوں نے کہا کہ تم تو ایسے اختلاف ہمارے سامنے رکھتے ہو جس کے نتیجہ میں رحمت نہیں بلکہ امت مسلمہ کیلئے ہلاکت اور مصیبت پیدا ہوتی ہے.ان بچوں کے دلوں نے کہا ( ان کو شاید خود بھی شعور نہ ہوفرشتوں نے ان کے دل بدل دیئے تھے ) کہ یہ وہ باتیں ہیں جن کے نتیجہ میں امت محمدیہ میں رحمت کی بجائے مصیبت اور ہلاکت پیدا ہوتی ہے اسے ہمارے دل قبول نہیں کرتے.چنانچہ اُن کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے.لیکن جو ہوا وہ اللہ نے کیا.نہ مجھے کوئی فخر اور نہ آپ کے دل میں کوئی غرور ہونا چاہیئے.ہم تو خدا تعالیٰ کے نہایت ہی عاجز بندے ہیں ہم اپنے اندر کوئی خوبی نہیں دیکھتے اور نہ اپنے اعمال کو ایسا پاتے ہیں کہ اُن کی وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کر سکیں ہمیں جو کچھ ملا اور جو کچھ ملے گا وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملے گا.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے دلوں کو ہر غیر کی محبت سے خالی کر دو.ہم میں سے بہتوں نے کر دیا ہے اور بہت سارے کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے دل سے دنیا کی اور غیر اللہ کی محبت نکل جائے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اپنے دلوں کو میری محبت اور میرے محبوب اور پیارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے منور کرو ہم میں سے بہتوں نے اپنے دلوں اور اپنے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۳۸ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب سینوں کو اس حسن سے منور کیا اور بہت سارے اس کی کوشش کر رہے ہیں جنہوں نے منور کیا وہ اور زیادہ روشنی کے محتاج ہیں اور اس کی احتیاج محسوس کرتے ہیں اور اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں.ہم نے اپنی قوت اور استعداد کے مطابق ایک حقیر سا نذرانہ اپنے رب کے حضور پیش کیا ہے اس کی قیمت تو خدا تعالیٰ کے حسن کے ایک جلوے کے برابر بھی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے ایک جلوے کی قیمت بھی اس سے زیادہ ہوتی ہے.اپنے عمل سے یا اپنے اخلاص سے آپ اس منڈی میں جا کر کس طرح کوئی چیز خرید سکتے ہیں؟ یہ تو ایسا ہی ہے کہ ایک بڑھیا روئی کے چند گالے یا گندم کے چند سیر لے کر ہیروں کی منڈی میں پہنچ جائے اور ہیروں کی بھی وہ منڈی جس میں ایک ایک ہیرے کی کم سے کم قیمت ایک لاکھ روپے ہو.وہ بُڑھیا جو متاع لے کر اس منڈی میں جاتی ہے کیا تمہاری عقل یہ باور کرتی ہے کہ وہ بُڑھیا اس منڈی میں سے کوئی ہیرا خرید کر لے آئے گی؟ ہر گز نہیں ! یہی حال ہمارا ہے جو خدا تعالیٰ کا پیار ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا ہے.جو خدا تعالیٰ کی محبت کے جلوے ہیں پیار کے اس ایک ایک جلوے کی قیمت میں اگر ساری دُنیا بھی دے دی جائے تو وہ کافی نہیں ہے.لیکن اللہ تعالیٰ بہت پیار کرنے والا ہے وہ کہتا ہے کہ ان جواہرات کی منڈی میں اخلاص کے ساتھ ایک دھیلا لے کر میرا ایک بندہ آیا.اُس کے پاس ایک دھیلے کے سوا اور کوئی چیز نہیں میں اس کو مایوس نہیں کروں گا میں اپنا کوئی ہیرا اس کے ہاتھ میں ضرور رکھ دوں گا اگر چہ اُس مال کے مقابلے میں جو مجھے یہ دے رہا ہے اس کی قیمت کروڑ گنا زیادہ ہے.اس سے بھی زیادہ.پس کوئی کبر اور غرور نہیں پیدا ہونا چاہیئے کیونکہ جو کچھ حاصل کیا ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل کیا ہے اپنی کسی خوبی یا کسی عمل کی وجہ سے حاصل نہیں کیا ، اس لئے عاجزانہ را ہوں کو مضبوطی سے پکڑو.صراط مستقیم پر مضبوطی سے قائم ہو جاؤ.عاجزانہ طور پر اُس کے حضور جھکو اور اُس سے دُعائیں کرتے رہو.ہر ایک کی بھلائی چاہو.کسی سے دشمنی نہ کرو خواہ وہ ساری عمر تم سے دشمنی کرتا رہا ہو.معاف کرنے کی عادت ڈالو خدا کے بندوں سے پیار کرو.جو مظلوم ہیں اُن کے ظلم دُور کرنے کی جہاں تک تمہیں طاقت ہے کوشش کرو.جو حقوق سے محروم ہیں ان کے حقوق دلانے کی سعی کرو.خدا کے ہو جاؤ.اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر رکھ کر اپنی زندگی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۳۹ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب کے دن گزارو.اللہ تعالیٰ تمہیں وہ کچھ دے گا کہ قیامت تک تمہاری نسلیں تم پر فخر کریں گی اور حقیقتاً یہ دیکھیں گی کہ تمہیں وہی ملا جو صحابہ کو ملا تھا.اور وعدہ پورا ہوا جو مہدی معہود سے کیا گیا تھا کہ صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اب ہم دعا کر لیتے ہیں اللہ تعالیٰ یہاں بھی آپ کے لئے سامانِ خیر اور بھلائی پیدا کرے اور وہ جو پاکستان میں یا پاکستان سے باہر ہیں اور اپنی مجبوریوں کی وجہ سے یہاں نہیں آ سکے حالانکہ اُن کے دل تڑپتے ہیں مگر حالات یہاں آنے کی اجازت نہیں دیتے اُن کو بھی اللہ تعالیٰ اُن فضلوں میں ، اُن رحمتوں میں اور اُن برکتوں میں جو ہمیں محض اپنے فضل سے عطا کرے برابر کا شریک بنائے اور اُن کو توفیق دے کہ وہ بھی یہاں آکر اس فضا کو سونگھنے اور اس روشنی سے منور ہونے کی توفیق پائیں.خدا کرے کہ ہم سب ساری دُنیا کو ، سب کا ئنات کو ، سارے عالمین کو تمام اقوام کو اور تمام ملکوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن و احسان کے جلوے دکھا کر آپ کے قدموں میں لا ڈالنے میں کامیاب ہوں.خدا کرے کہ وہ جیسا پیار ہم سے کرنا چاہتا ہے اُس کا ویسا پیار ہم حاصل کر لیں خود کو اس کا اہل بنائیں.پس عجز کے ساتھ زاری کے ساتھ تضرع کے ساتھ خدمت کے جذبہ کے ساتھ مساوات کا علم اُٹھاتے ہوئے کامیابیوں کی راہ پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ.دُنیا کی نوجوان نسل احمدیت کی اور اسلام کی ہے.نہ عیسائی اپنے بچوں کو بچا سکتا ہے اور نہ ہندو اپنے بچے کو بچا سکتا ہے یہ نسل تو اسلام کی ہے یہ تو اسلام کو ملے گی.یہ نسل تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اب یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت سے باہر نہیں رہ سکتی یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آئے گی اور آکر رہے گی.دُنیا جو چاہے کرتی رہے کامیاب نہیں ہو سکتی.یہ دعاؤں کے ساتھ ہوگا.میں تو کثرت سے دعائیں کرتا رہتا ہوں آپ بھی دعائیں کرتے رہیں.اب ہم مل کر اجتماعی دعا کریں گے.آپ اپنے وقتوں کو ضائع نہ کریں اپنی طاقتوں کو ضائع نہ کریں اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے کھاتے پیتے ، سوتے جاگتے آرام کرتے اور کام کرتے غرض
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۴۰ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.اختتامی خطاب جس حالت میں بھی ہوں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں اَلحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحة : ٢) كا کثرت سے ورد کریں.ساٹھ ستر ہزار بلکہ لاکھ کے قریب مردوزن یہاں جمع ہو جاتا ہے ایک دفعہ اگر پانچ سیکنڈ میں الحمد للہ پڑھ رہے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک لاکھ الحمد للہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی جارہی ہوگی مگر اس کا ایک تانتا بندھا رہنا چاہیئے ہر وقت الحمد للہ کا یہ ورد آسمانوں کی طرف بلند ہوتا رہنا چاہیئے بیچ میں کہیں روک پیدا نہ ہو یا کوئی وقفہ نہ آئے کہ جس میں الحمد لله نہ پڑھ رہے ہوں.اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے بعد بھی دلوں کی تسکین کے سامان پیدا کرے گامیں کہاں تک اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو گنواؤں.انسان تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو گن نہیں سکتا.ہم اس کے عاجز بندے ہیں.وہ تو بڑا ہی پیار کرنے والا ربّ ہے.کاش! آپ اس کی طاقتوں کو ، کاش! آپ اس کے حسن کو ، کاش! آپ اس کے احسان اور دوسری صفات کو پہچاننے لگیں اور ہماری کوشش سعی مقبول بن جائے.پس آب اجتماعی دُعا کرتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا ہے آپ ہر وقت دُعا کرتے رہیں ہر وقت استغفار کرتے رہیں اپنی عاجزی کا اظہار کرتے رہیں جو شخص اپنے نفس کے عجز کو پہچان لیتا ہے اس کے دل پر تکبر اور غرور حملہ نہیں کیا کرتا.اللہ تعالیٰ سب کو سمجھ دے.اللہ تعالیٰ تمام بنی نوع انسان کو ان کے مقصد پیدائش کی معرفت عطا کرے اور ایسے سامان پیدا ہو جائیں کہ وہ اپنے رب کی طرف جھکنے لگیں اور جو عالمگیر تباہی دُنیا کے سر پر اس وقت منڈلا رہی ہے اس کی ہلاکت سے محفوظ رہیں.اللہ تعالیٰ کو سب طاقتیں ہیں اور وہی ہر کام کرنے پر قادر ہے.آؤ.مل کر دعا کرلیں.(جلسہ سالانہ کی دعائیں صفحہ ۴۵ تا ۵۸)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۴۱ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار کتب کی کثرت اشاعت سے مراد یہ ہے کہ نئے سے نئے علوم لعیں گے دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۰ء بمقام ربوہ کی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں.نَ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ ، وَإِنَّ لَكَ لأخرً ا غَيْرَ مَمْنُونِ (القلم : ۲ تا ۴) پھر حضور انور نے فرمایا:.ہماری یہ مجلس ہر سال ہی بے تکلف مجلس ہوا کرتی ہے.جہاں ان فضلوں اور رحمتوں کا خصوصاً ذکر ہوتا ہے جو سالِ رواں میں اللہ کی رحمت سے جماعت حاصل کرتی ہے وہاں کچھ نئی کتب چھپتی ہیں کچھ کتب کے نئے ایڈیشنز شائع ہوتے ہیں ان کا علم میں جماعت کو دیا کرتا ہوں اور ان کے خریدنے کی طرف توجہ دلا یا کرتا ہوں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی یہ ایک عظیم اعلان بھی کیا گیا کہ قلم اور دوات اور اشاعت کتب اور رسائل کا زمانہ آ گیا ہے.اگر ہم انسانی تاریخ پر اس نقطہ نگاہ سے نظر ڈالیں تو میں سمجھتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پہ جو قریباً چودہ سو سال گذر چکے ہیں آپ کی بعثت سے قبل کے چودہ سو سال میں جس قدر کتب اور جتنی تعداد میں کتب شائع ہوئیں.ان چودہ سوسال کی کتب کے مقابلے ، اس زمانہ میں شاید ایک ماہ میں ان سے زیادہ کتب شائع ہو جاتی ہوں.ویسے میری طبیعت کا رحجان تو یہ ہے کہ یقیناً اس سے زیادہ شائع ہو جاتی ہیں لیکن چونکہ ہم نے اعداد و شمار اکٹھے نہیں کئے اس لئے انسان احتیاط سے بولتا ہے.یہ اتنا عظیم اعلان اور پیشگوئی ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت کی گئی تھی جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی.صرف یہی اعلان نہیں کیا گیا تھا کہ کتب کثرت سے شائع ہوں گی اور قلم اور دوات سے بہت کثرت سے !
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۴۲ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطا.کام لیا جائے گا بلکہ یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ علم کے ہر میدان میں جب تحقیق ہوگی ، کتب لکھی جائیں گی اور ان کی اشاعت ہوگی اور جب علم پختہ ہو جائے گا تو اس سے یہ ثابت ہوگا کہ یہ قرآن کریم کی آیت ہی کی تفسیر ہے اور قرآن کریم جس عظیم ہستی پر نازل ہوا تھا یہ کتب کی اشاعت اور کتب کے مضامین کے متعلق یہ تحقیق اور یہ علم کہ وہ قرآن کریم کی آیات ہی کی تفسیر ہیں ، ہر علم کے میدان میں اس بات کو ثابت کرے گا کہ مخالفین کا یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ مجنوں ہیں ، غلط ہے.دوسرے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ جہاں آپ کی صداقت اور حقانیت اور اللہ سے آپ کا تعلق اور معلم حقیقی کے سرچشمہ سے آپ کا علم ثابت ہو گا وہاں اس ذریعہ علم سے بنی نوع انسان پر اس قدر احسان ہوگا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ وہ ان احسانوں کو دیکھ کر آپ پر درود بھیجیں گے اور ایک نہ ختم ہونے والا اجر اس طرح بھی آپ کو ملتا رہے گا.فرمایا تیرا جو اجر ہے وہ کاٹا نہیں جائے گا.اس میدان میں بھی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے ہزاروں لاکھوں پہلو ہیں.ایک پہلو آپ کی عظمت کا یہ ہے کہ آپ کی بعثت کے ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا گیا کہ قلم اور دوات سے بڑی کثرت سے کتب شائع ہوں گی.میں نے ابھی مثال میں جو بتایا چودہ سو سال میں آپ کے زمانہ سے پہلے جو کتب شائع ہوئیں اب ایک مہینے میں ان سے زیادہ تعداد میں شائع ہو جاتی ہیں.بات اگر یہیں پر ختم کر دی جاتی تو یہ بھی ایک عظیم پیشگوئی تھی لیکن یہاں پر اللہ تعالیٰ نے بات کو ختم نہیں کیا بلکہ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ کتب کی کثرت اشاعت سے مراد یہ ہے کہ نئے سے نئے علوم نکلیں گے تبھی تو کتب کثرت سے شائع ہوں گی.پھر تحقیق جو نئے سے نئے میدانوں میں کی جائے گی اس کے نتیجہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور صداقت ثابت ہوگی اور یہ ثابت ہوگا کہ اس میدان میں بھی انسانی زندگی کے اس شعبے کا جہاں تک تعلق ہے اس میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انسان پر بڑا احسان ہے اور انسان اس کے بدلہ میں درود بھیجے گا، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے گا اور خدا سے کہے گا کہ اے ہمارے رب ! تیرے اس محبوب بندے نے ہم پر کتنے احسان کئے ہیں ہم تو ان احسانوں کا بدلہ نہیں اتار سکتے تو خود ہی بدلہ اتار اور زیادہ سے زیادہ جزا دے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۴۳ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار إِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ (القلم:۴) دوسری بات یہ ثابت ہوگی.ہماری جماعت بھی تحقیق کے میدان میں کام کرتی رہتی ہے اور نئی کتب شائع ہوتی رہتی ہیں.دنیا میں بھی نئے سے نئے علوم نکلتے رہتے ہیں مثلاً ایک نیا علم نکلا ہے جس کو سائنس آف چانس (Science of chance) کہتے ہیں یعنی اتفاق کو مدون کر کے اس کا ایک علم بنا دیا.یہ جو لوگ اتفاق اتفاق کہتے ہیں.اس کی تدوین کر دی.سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ اس سائنس آف چانس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ہر چیز اتفاقیہ ہوگئی.سورج اتفاقیہ بن گیا ، زمین اتفاقیہ پیدا ہوگئی ، زمین سے سورج کا یہ فاصلہ اتفاقیہ ہو گیا ، جس محور اور زاویہ پر زمین چکر لگا رہی ہے یہ ایک اتفاقیہ بات ہوگئی ، چاند سے جو فاصلہ ہے وہ اتفاقیہ ہو گیا، دن رات کی جو عین ہے یعنی زمین کی رفتار یہ اتفاقیہ ہوگئی ، ہر چیز ہی اتفاقیہ ہو گئی اور ہزاروں لاکھوں شاید کروڑوں اربوں اتفاق اکٹھے ہوئے تب انسان کے لئے ممکن ہوا کہ وہ اس زمین پر زندگی گزار سکے.پس سائنس آف چانس سے انہوں نے ثابت کیا کہ اللہ ہے یعنی متصرف بالا رادہ خالق اپنی منشاء سے پیدا کرنے والی کوئی ذات ہے.اتنے اتفاق اکٹھے نہیں ہو سکتے.میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ اور بہت سی باتیں ہیں ، جو میں نے اس بے تکلف مجلس میں کہنی ہیں.بہر حال ایک نئی سائنس نکلی لیکن بہتوں کو اس کا علم نہیں.مجھے ایک پادری سیرالیون میں ملے تو سمجھے کہ مشرق سے کوئی مذہبی آدمی آگیا ہے.دنیا کے علوم کا اس کو کیا پتہ ہے اُس نے کچھ ایسے ہی رنگ میں مجھ سے بات شروع کی.میں تو ایک عاجز انسان ہوں اُس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ میں توحید کا نمائندہ اور یہ تثلیث کا نمائندہ ہے.باوجود میری عاجزی اور انکساری کے جو میری طبیعت میں ہے یہ مجھ سے سبقت نہیں لے جا سکتا اور میں سمجھتا ہوں کہ میں بالکل ہی ایک نا اہل انسان ہوں اللہ تعالیٰ کے سکھائے بغیر میں کچھ جانتا نہیں اور اُس کی طاقت اور مدد کے بغیر میں کچھ نہیں کر سکتا لیکن میرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ اگر چہ یہ یورپ کا پڑھا ہوا اور وہاں کا بڑا پادری آرچ بشپ ہے لیکن اس کی یہ بات کہ اسلام کا ایک نمائندہ مشرق سے آیا ہے اور اسے کچھ پتہ نہیں ، قائم نہیں رہنی چاہیے.چنانچہ میں نے اس سے سائنس آف چانس اور گلیکسی کے نئے علم کے متعلق باتیں شروع کیں.یعنی بے شمار سورج اور ان کے گرد
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۴۴ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطاب جوستارے ہیں ، وہ ستاروں کا ایک خاندان بنتا ہے اور اس عالمین میں ایسے بے شمار خاندان ہیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحة : ۲) ہم جس کے متعلق کہتے ہیں.ان خاندانوں میں بے شمار ستارے ہیں جن کو انسان گن نہیں سکا.یہ متوازی نہیں چل رہے بلکہ ان کی حرکت اس طرح ہے کہ فاصلہ دور ہوتا جاتا ہے.سارا خاندان مل کر اکٹھا ایک حرکت میں ہے جو متوازی نہیں ہے اور وہ خاندان اسی طرح چل رہا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کا فاصلہ بڑھ رہا ہے.جب اُن دو گلیکسیز کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ ایک نئی گلیکسی بیچ میں سما سکے تو اللہ تعالیٰ کسن کہتا ہے اور ایک نئی گلیکسی پیدا ہو جاتی ہے.اس طرح میں تو حید کو ثابت کرتا چلا گیا تب اس کو اپنا سر جھکانا پڑا.میں بڑا خوش تھا کہ جو متکبر دماغ تثلیث کا نمائندہ بن کر میرے سامنے اکٹڑا تھا تو ہمیشہ کی طرح آج بھی تثلیث کو تو حید کے سامنے جھکنا پڑا.ہرسال ہماری کتب کے نئے ایڈیشنز چھپتے ہیں اور نئی نئی کتب بھی شائع ہوتی رہتی ہیں ، ان کے متعلق میں اعلان کیا کرتا ہوں کہ اس میں ہماری جماعت کو دلچسپی لینی چاہیے.ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بے بس ہونے کے باوجود، اس کے باوجود کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، ذرائع نہیں ہیں ، مال و دولت نہیں ہے، یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن ہمارے پاس اس کے فضل سے وہ ہے جس نے کہا کہ علم کا سر چشمہ میں ہوں اور جو اپنے فضل سے وہ ہمیں دیتا ہے، ہر شخص کو شکر نعمت کے طور پر فائدہ اُٹھانا چاہئے اور جو کتب شائع ہوں اپنی بھی اور دوسروں کی بھی ، جتنی جس کو خدا توفیق اور سمجھ دے وہ پڑھنی چاہئیں تاکہ کہیں اسلام کی سبکی کا امکان باقی نہ رہے.پھر دعا کرنی چاہیے.اصل تو اسی وقت اللہ تعالیٰ سکھاتا ہے.دوروں میں بڑے بڑے صحافی اور دوسرے ملنے والے تیار ہو کر آئے کہ ہم یہ سوال کریں گے اور یہ کریں گے اور وہ کریں گے لیکن ان کو وہاں لا جواب ہونا پڑا.افریقہ سیکس (Africa speaks) جس کا ابھی میں اعلان کروں گا ، اس میں غالباً ایک پریس کا نفرنس کی رپورٹ ہے جو وہیں کے اخباروں نے شائع کی کہ کئی دنوں سے ہم سوال لکھے تو رہے تھے لیکن وہاں جا کر خاموش ہونا پڑا.لکھا ہے کہ آخر انہوں نے خود ہی بات چھیڑی اور ہم سے باتیں شروع کر دیں پھر ہمیں کچھ حوصلہ ہوا اور ہم نے سوال کئے.بہر حال تدبیر کرنی چاہئے اور کتب سے بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۴۵ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار بنیادی حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہر سچائی اور صداقت جو انسان ڈسکوز (Discover) یا معلوم کرتا ہے وہ قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہے.قرآن سے زائد ہو ہی نہیں سکتا.قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے اسے ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندہ کیا اور پیدا کیا ہے اور زندہ رکھا ہے.پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ جو علوم انسان کے ہاتھ میں آج دیئے جا رہے ہیں ان میں صداقت ہے یا ضلالت.اگر ان میں صداقت ہے تو ہم ثابت کریں گے کہ وہ قرآن کریم کی فلاں آیت کی تفسیر ہے اور اگر ان میں ضلالت ہے تو ہم ثابت کریں گے کہ وہ جھوٹ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو سارے نئے علوم ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کا خادم بنایا ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری جماعت کو یہ توفیق عطا کرے گا کہ ان کے اندر جو غلط باتیں ہیں ان کو نمایاں کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیں.بڑے بڑے فلسفی بڑے دعووں کے ساتھ اپنے نظریات کو دنیا کے سامنے رکھیں گے.اگر وہ غلط ہوں گے تو ایک غیر معروف سا احمدی کھڑا ہوگا.وہ کہے گا کہ تم فلسفی ہو گے اپنی جگہ، میں تو خدا کا ایک عاجز بندہ ہوں ،ایک عاجز خادم ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزدور ہوں.میں تمہیں بتا تا ہوں کہ جو تم نے باتیں کی ہیں ، وہ غلط ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے.خدمت لینے کے یہ وعدے اور ضلالت کو دور کرنے کی قابلیت کے یہ وعدے تبھی پورے ہو سکتے ہیں کہ ہم کتابوں کو پڑھیں جتنی دلچسپی ہم لے رہے ہیں جماعت کو اس سے زیادہ دلچسپی کتابوں میں لینی چاہئے.جو کتب شائع ہوئی ہیں یا جن کے نئے ایڈیشن اس سال نکلے ہیں ان کا میں تعارف کرادیتا ہوں.اصلاح و ارشاد کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات کا مختصر خلاصہ رسالے کی شکل میں شائع کیا گیا ہے جس کا عنوان ہے ”ہم مسلمان ہیں“.یہ جو لوگ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ تم خدا کو نہیں مانتے تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے ، ان کو یہ رسالہ پڑھ کر پتہ لگ جائے گا کہ غلط باتیں کانوں میں پڑیں اور بغیر تحقیق کے مان لی گئی ہیں.اس رسالے کی بھی اشاعت کثرت سے ہونی چاہئے.چھوٹا سا ہے اورستا بھی ہوگا.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں سے ”جنگ مقدس“ اور ” آئینہ کمالات اسلام دوبارہ شائع کی گئی ہیں.اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور فلسفہ یہ میرے خطبات ہیں ، ان کو شائع کیا گیا ہے.احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک حصہ دوم اور ضرورت نبوت بھی شائع کی گئی ہیں.اس وقت بھی بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کے عقائد کیا ہیں اور ان کے دلائل کیا ہیں.احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک اس کے لئے بڑی اچھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سورۃ بقرہ کی آیات کی مختلف کتب یا تقاریر میں جو تفسیر کی ہے، ادارۃ المصنفین نے یکجائی طور پر اکٹھا کر کے سورۃ بقرہ کی وہ ساری تفسیر شائع کی.سورۃ فاتحہ کی جو تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی اور وہ گزشتہ سال شائع ہوئی تھی جنہوں نے وہ پڑھی ہو ان کو تو سمجھ آجانا چاہئے کہ علوم کا عظیم خزانہ ہے اور اس کی شان الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی.دراصل وہ قرآن کریم کی تفسیر ہے کیونکہ سورۃ فاتحہ قرآن کریم کے مضامین کا خلاصہ ہے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر سورۃ بقرہ شائع ہوگئی ہے.چار سو صفحے کے قریب ہے اور دس روپے اس کی قیمت رکھی گئی ہے.پیسوں میں تو قیمت ادا نہیں ہو سکتی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر بڑی ہی عجیب چیز ہے.اسی طرح ادارۃ المصنفین نے شرح بخاری کی گیارہویں جلد اور تاریخ احمدیت کی گیارہویں جلد شائع کی ہے.تفسیر سورۃ فاتحہ بیان فرمودہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تیار ہوئی ہے ابھی شائع نہیں ہوئی اگلے سال انشاء اللہ شائع ہو جائے گی.میرا دورہ جو مغربی افریقہ کا تھا اس کے متعلق مختصراً انگریزی میں دو چیز میں آچکی ہیں ایک تو خدام الاحمدیہ کراچی کا سوونیر (Souvenir) جو وہ ہر سال شائع کرتے ہیں.اس سال کا سوونیر (Souvenir) قریباً سارا ہی مغربی افریقہ کے دورے کے متعلق تیار کیا گیا ہے جس میں تصویر میں بھی ہیں.ایک دوسرا رسالہ افریقہ سیکس (Africa speaks) شائع ہوا ہے.یہ نصرت جہاں کی سکیم آگے بڑھو“ کی وساطت سے شائع ہوا ہے.یہ دراصل غیروں کے لئے زیادہ ہے ویسے اپنے بھی پڑھیں تو بڑا ہی دلچسپ ہے.اپنی طرف سے سوائے ایک چھوٹے سے میرے مضمون
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۴۷ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار کے اور کچھ نہیں.جو وہاں کے اخباروں نے لکھا یا ریڈیو اور ٹیلی ویژن پہ آیا ، ان میں سے انتخاب کر کے اور تصویریں بیچ میں لگا کر شائع کیا گیا ہے.اس میں دو چار غلطیاں رہ گئیں ہیں اور انسانی کام میں غلطی ہوتی ہی ہے.ویسے بڑا خوبصورت شائع ہوا ہے اور کثرت سے آپ دوسروں میں تقسیم کریں.ان کی آنکھیں کھل جائیں گی.یہ جو کئی دفعہ میں آپ کو کہہ چکا ہوں کہ مغربی افریقہ میں ایک انقلاب عظیم اسلام اور احمدیت کے حق میں بپا ہورہا ہے.آپ یہ رسالہ دیکھیں گے تو آپ کو پتہ لگے گا اور وہ چیز واضح ہو جائے گی حالانکہ ہزار تصویر میں ہیں ان میں سے ساٹھ ستر ہم نے اس میں شائع کی ہیں.یعنی ہمارے پاس وہاں سے ہزار تصویر میں آئی ہوئی ہیں.اس رسالہ میں اپنا کچھ نہیں بس جو عیسائی اخباروں نے دیا ہے وہ نقل کر دیا ہے.اس سے بہت کچھ پتہ لگ جاتا ہے.جو انگریزی پڑھنے والا طبقہ ہے اسے خریدنا بھی چاہئے اور دوسروں تک کثرت سے پہنچانا بھی چاہئے.اسلام کا وراثتی نظام یہ فضل عمر فاؤنڈیشن کی مقالے لکھوانے کی سکیم کے سلسلے میں لکھا گیا تھا اور اس نے اول انعام حاصل کیا تھا.مکرم عبدالرشید غنی صاحب لیکچر تعلیم الاسلام کالج نے اسے لکھا ہے اور وراثت کے قریباً ہر پہلو پر بحث کی گئی ہے.خدام الاحمدیہ کو میں نے یہ کہا تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مختلف خطبات اور تقاریر جو خدام الاحمدیہ کے متعلق کی ہیں ان کو یکجا طور پر جمع کر کے شائع کرو.چنانچہ یہ ایک مجلد قریباً ایک ہزار صفحے کی شائع ہوگئی ہے اور یہاں مل جائے گی.اس کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے خصوصاً خدام کو کثرت سے یہ خریدنی چاہئے اور پڑھنی چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور جو نہیں پڑھ سکتے ان کو وہ باتیں بتانی چاہئیں.ان کی رہنمائی کے لئے وہ خطبات اور تقاریر کی گئی تھیں.ایک اور بڑی مفید کتاب جو دوران سال لکھی گئی ہے.ہماری والدہ جن کو میں آپا صدیقہ کہا کرتا ہوں انہوں نے لجنہ اماءاللہ کی تاریخ لکھی ہے.یہ بڑی مفید کتاب ہے.شروع ہی سے جو احمدی بہنیں اخلاص اور جان نثاری کے ساتھ لجنہ اماء اللہ کا کام کرتی رہی ہیں اور جو کام انہوں نے کیا ہے اس کا ذکر آ گیا اور ان کے نام تاریخ میں محفوظ کر لئے گئے.قیامت تک اللہ تعالیٰ ان کے اوپر فضل کرے گا اور احمدی جہاں بھی اور جب بھی پیدا ہوں گے درود بھیجتے رہیں گے.بڑی محنت سے یہ کتاب تیار کی گئی ہے اگر چہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۴۸ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار میں سرسری طور پر دیکھ سکا ہوں کیونکہ جلسہ کے کاموں کے دوران ہی یہ میرے پاس پہنچی تھی لیکن میں نے جو سرسری جائزہ لیا ہے اس سے مجھ پر یہ اثر ہے کہ بہت مفید کتاب ہے.عورتوں کو خریدنی چاہئے.کسی ایسے مرد کا تو اس کے ساتھ تعلق نہیں ہے جس کا کسی عورت کے ساتھ تعلق نہ ہو.پس پہلے تو عورت ذمہ دار ہے اس کو خریدنے کی.ہاں جس کی بیوی ہے وہ بیوی کی خاطر خریدے گا، جس کی ماں ہے وہ ماں کی خاطر خریدے گا اور جس کی بیٹی ہے وہ بیٹی کی خاطر خریدے گا.پس براہ راست آپ کا تعلق نہیں لیکن جس گھر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوام بنایا ہے اس حیثیت.آپ کا بھی تعلق ہے اور آپ کو دلچسپی لینی چاہئے نہیں کر سکتے یہ اپنی جگہ غلط ہے.خطبات آتے ہیں تحریکیں آتی ہیں اور بہت کچھ آتا ہے جس سے بڑا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے.جماعت کے ہر فرد کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ جماعت ایک وجود ہے اور ہم اس کا ایک حصہ ہیں.جب تک یہ احساس نہیں ہو گا اس وقت تک وہ شوق کے ساتھ وہ قربانیاں نہیں دیں سکیں گے جو اللہ تعالیٰ آج مانگ رہا ہے.یہ احساس دو طرح پیدا ہوتا ہے.یا کام کر کے پیدا ہوتا ہے یا جنہوں نے کام کیا ہو ان کے کارنامے سن کر.اصل تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.میں تو ظاہری چیز لے رہا ہوں اس لئے اس کا ذکر نہیں کر رہا.پس اللہ کا فضل ہی کرتا ہے لیکن جو ظاہری چیز ہمیں نظر آتی ہے یا کنٹری بیوشن (Contribution) ہو کہ میں نے بھی کچھ کیا ہے.ہم نے دیکھا ہے ہم بچے تھے خدا کا فضل ہے اس وقت سے جماعتی کام ، جو عمر کے لحاظ سے ہوتے ہیں، کیا کرتے تھے.قادیان میں سکھ بعض دفعہ بڑی شرارتیں کیا کرتے تھے.اگر کبھی ان سے لڑائی وڑائی ہو جائے یعنی اگر کبھی وہ حملہ کر دیں تو اُن سے جا کر لڑا بھی کرتے تھے.گویا جماعت کے ہر کام میں حصہ لیتے تھے.اس طرح ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ نے تربیت کی.میں نے دیکھا ہے کہ جتنے ہمارے اس قسم کے بڑے شوق سے حصہ لینے والے تھے.میرے ساتھی ، دوست اور بھائی.سارے احمدی بھائی ہی ہیں لیکن جو شوق سے حصہ لینے والے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو بعد میں بڑے بڑے کام کرنے کی توفیق دی.پس یا تو آدمی خود کام کرے.خدام الاحمدیہ کی اصل اور بنیادی غرض یہ ہے کہ نوجوان احمدی کو یہ تربیت حاصل ہو کہ وہ کچھ کرے اور یہ احساس پیدا ہو جائے کہ جماعت کی جن حقیر کوششوں کو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا ان کوششوں میں میری کوشش کا بھی حصہ ہے.یہ احساس پیدا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۴۹ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار ہو جائے گا تو کہے گا کہ یہ نعمت خیراتی اور طفیلی نہیں ہے جو مجھ پر نازل ہوئی ہے.یہ تو درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا جو اس نے قبول کیا.لیکن جو جد و جہد اجتماعی کی گئی تھی اُس میں کچھ میں نے بھی کیا.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا جماعت کی جدو جہد کو قبول کر لیا اور انعام نازل کئے اور مجھ پر بھی جماعت کے ساتھ انعام نازل ہو گیا.یا پھر ہم بچوں کو سناتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ جن بچوں کو ان کے گھروں میں دین کی باتیں کثرت سے سنائی جاتی ہیں وہ آٹھ آٹھ سال کے بچے بھی اچھے بھلے مولوی بن جاتے ہیں.اب تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن ہماری احمدیت کی تاریخ پر وہ وقت گذرا ہے جب بڑے بڑے مولوی کہا کرتے تھے کہ احمدی بچوں سے بات نہ کرو ان کے بچوں کو بھی ہم سے زیادہ آیتیں یاد ہیں.میں نے سنایا تھا کہ عیسائی تو اب بھی بڑا ڈرتا ہے.اس پر پورا اسی طرح کا اثر ہے.غیر ملکوں میں جو ہمارے چھوٹے بچے ہیں، ان سے بات نہیں کرتا.ان کو یہ ہدایت ہے خصوصاً کیتھولکس کو کہ احمدی بچے سے بھی بات نہیں کرنی کیونکہ وہ ایسی بات کر جائے گا جس کا تمہارے پاس جواب نہیں ہو گا اور وہ اثر قبول کرنے والا دماغ رکھتا ہے جو تم جواب دو گے ہمیشہ کے لئے اس کے دماغ پر یہ اثر چھوڑ دو گے کہ عیسائیت کے پاس صداقت اور حقانیت نہیں ہے.پس کثرت سے پڑھنا چاہئے رسالوں اور اخباروں کو اور کثرت سے بچوں کے کانوں میں باتیں ڈالنی چاہئیں.الفضل ہے، انصار اللہ ہے، الفرقان ہے، خالد ہے تفخیذ الا ذہان ہے ، ہفتہ وار لا ہور ہے اور بھی رسالے کچھ اس طرح نکلتے ہیں کہ نہ وہ کتاب ہوتی ہے نہ رسالہ یعنی ہوتا وہ منتقلی (Monthly) کے طریق پر ہے لیکن اس کی وہ شکل نہیں ہوتی جس طرح با قاعدگی کے ساتھ ماہانہ رسالے یا ہفتہ وار رسالے یا روزانہ کو نکالا جاتا ہے.پانچویں مہینے شائع کر دیا سال بعد شائع کر دیا لیکن تسلسل اس کا قائم رہتا ہے.جب ہم گورنمنٹ کالج میں پڑھا کرتے تھے ، وہ زمانہ بڑا ستا تھا.ہم نے دس دوستوں کی ایک مجلس بنائی.میں اور نو میرے ساتھیوں نے اپنے بچپنے میں اس کا نام رکھا عشرہ کاملہ“.کامل تو آدمی کبھی بھی نہیں ہوتا لیکن بہر حال نام یہی رکھا اور ایک روپیہ ماہوار ہم اس میں چندہ دیتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی اقتباس لے کر دس روپے میں ایک ورقہ شائع : کرتے تھے اور سارے کالجوں کے طالبعلموں میں تقسیم کر دیتے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۵۰ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطاب سے جو آپ کو والہانہ عشق اور محبت تھی وہ ایک اقتباس لے لیا.اس سے بڑے چڑتے تھے ہمارے مخالف کہ ہم تو شور مچا رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ان کے دلوں میں نہیں ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہمارے سامنے رکھ دی گئی ہے کہ اس سے زیادہ حسین اظہار ، اپنے احساسات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامات کا کہیں نظر نہیں آرہا.اس قسم کے بھی بعض نکلتے رہتے ہیں ان کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے لیکن جو کتب شائع ہوتی ہیں وہ تو بہت ضروری حصہ ہیں.پھر غیروں کی کتب بھی پڑھنی چاہئیں ورنہ آپ کو کیسے پتہ لگے گا کہ جو دوسرے علوم ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کا خادم بنایا ہے.آپ کو بھی پتہ لگے گا کہ وہ خادم ہیں جب آپ ان سے خدمت لینے لگ جائیں گے.اگر آپ ان سے خدمت نہیں لیں گے تو وہ آپ کے خادم کیسے بنیں گے.جب آپ ان سے خدمت لینے لگ جائیں گے تو دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ مثلاً ہم نے تو یہ پہلو اس لئے ظاہر کئے تھے کہ شاید ہم اسلام پر وار کر سکیں.لیکن انہوں نے الٹا اسی ہتھیار سے ہم پر وار کر دیا.کاؤنٹر اٹیک (Counter Attack) کر دیا.پھر وہ اسلام کے خلاف اس قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں نہیں لکھیں گے.اب لکھ رہے ہیں لیکن ہمیں کوئی خوف نہیں ہے.خدا کا فضل ہے دنیا کا جو عالم جو مرضی کہے ہم دو باتوں میں سے ایک ثابت کر سکتے ہیں یا اس کی بات منظمندی اور فراست کی بات نہیں بلکہ حماقت اور ضلالت کی بات ہے یا یہ کہ جو سچی بات اس نے کی ہے وہ پہلے قرآن کریم میں موجود ہے.قرآن سے باہر کوئی صداقت نہیں ہے اصولی طور پر اسی کی تفسیر ہے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتنی تفسیر کر دی ہے کہ اس کا تو کہنا کیا ہے.پتہ نہیں کتنی صدیوں تک وہ ایک ہیں (Base) بن گئی ہے.قرآن کریم کی آیت سے تفسیر کرنا اور قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی ایک تفسیر کو سامنے رکھ کر ضرورت زمانہ کے مطابق پھر آگے تفسیر کرنا ، اب تو بڑی سہولت ہو گئی ہے.وہ تو اگلوں کا کام ہے وہ کریں لیکن آج کا ہمارا کام یہ ہے کہ اس سے زیادہ سننے والے فائدہ اس لئے اٹھا ئیں کہ اسلام کی عظمت دنیا میں قائم ہو جائے ، اس لئے وہ فائدہ اٹھائیں کہ اللہ تعالیٰ کا جلال دنیا پر ظاہر ہو، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کے جلوے دنیا دیکھے.اپنے لئے کچھ نہیں ہے.ہم ہیں کیا اور ہماری قیمت کیا ہے اور ہماری ہستی کیا ہے؟ اور ہماری زندگی کیا ہے؟ وہ ابدی حیات لے کر اس دنیا کی طرف مبعوث ہوا تھا، دنیا کو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۵۱ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطاب پتہ لگنا چاہئے کہ وہ ابدی حیات والا زندہ نبی جس طرح چودہ سو سال پہلے زندہ تھا آج بھی زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا.اس موقع پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ اور مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے علم انعامی تقسیم کرنے کے لئے عرض کیا گیا تو حضور نے فرمایا:.کچھ علم میں انعام کے طور پر دیا کرتا ہوں.اس تعارف کتب کے بعد میں علم اور کچھ اسناد دے دیتا ہوں.اس کے بعد امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت اپنے دست مبارک سے مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ اور مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے علم انعامی اور دوران سال کارکردگی میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والی مجالس کو اسناد عطا فرمائیں.مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کا علم انعامی مجلس خدام الاحمدیہ ڈرگ روڈ کراچی اور مجلس انصار اللہ لا ہور کو حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.بعد ازاں حضور پر نور نے درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں :.وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمن: ٢١) وَ اِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ اللهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمُ (النَّحل : ١٩) اِعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شُكْرًا ( سبا : ١٤) اعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شُكْرًا کی تلاوت حضرت امیر المومنین نے دومرتبہ فرمائی) وَاذْتَاذَنَ رَبُّكُمْ لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَبِنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (ابرهيم : ٨) پھر حضور انور نے فرمایا:.ان آیات کا میں مفہوم ہی بتاؤں گا.اللہ تعالیٰ کی نعمتیں جس کثرت سے انسان پر نازل ہوتی ہیں ان کا شمار تو ممکن ہی نہیں.وہ اپنے ان بندوں کے لئے بھی جو پیدا کرنے والے رب کی شناخت سے محروم ہوتے ہیں اپنی نعمتوں کو موسلا دھار بارش کی طرح نازل کرتا ہے اور اپنی رحمتوں سے انہیں نوازتا ہے لیکن اس نوازش میں کتے ، بلیاں ، جانور، پتھر وغیرہ وغیرہ اور انسان سب شامل ہیں.اس طرح اسے اس طرف بھی متوجہ کیا جاتا ہے کہ دیکھ جس طرح ان نعمتوں میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۵۲ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار تیرے ساتھ اچھے اور پاک جانور اور بد اور ناپاک جانور شامل ہیں کچھ ایسے انعامات بھی ہیں جو تیرے لئے مخصوص رکھے گئے ہیں اور انسان کے علاوہ دوسری کوئی مخلوق اس کی حصہ دار نہیں بن سکتی.خدا کی نعمتوں کو دیکھ کر اور ان نعمتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کر کہ جوتد بیر، مجاہدہ اور دعا کے نتیجہ میں تو حاصل کر سکتا ہے تا کہ وہ امتیاز جو فطرت انسانی اور فطرت غیر انسانی میں رکھا گیا ہے تیری عملی زندگی میں وہ امتیاز نمایاں ہو جائے اور انسان، حیوان اور دوسری مخلوقات سے علیحدہ اور ممتاز ہو جائے.خدا تعالیٰ کی نعمتیں بے شمار ہیں موسلا دھار بارش کی طرح ہم پر وہ نازل ہوتی ہیں اور انسانی طاقت میں نہیں کہ ان کا شمار کر سکے اور خدا انسان کو یہ کہتا ہے کہ اے داؤد کی اولاد! شکر کرو.ایسا شکر جو محض زبان سے نہ ہو بلکہ عمل سے کیا جائے.ہر سال جہاں ہم اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کو دیکھتے اور ہمارا سینہ اور ہمارا دل اور ہماری روح اور ہماری عقل اور ہمارے وجود کا ذرہ ذرہ اور ہماری روح کا ہر پہلو خدا تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے وہاں اس کے ساتھ یہ فطری جذبہ بھی ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے کہ جو آنے والا سال ہے خدا کرے کہ ہم اس سے یہ توفیق پائیں کہ گزشتہ سال کی نسبت زیادہ نعمتوں کے ہم وارث بنیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا زیادہ نعمتوں کے وارث تو تم تبھی بنو گے، جب اس پر جو تمہیں ملا، شکر کرو.اگر جو عطا ہو چکا تم اس کو صحیح مصرف میں نہ لا ؤ اور اس کے شکر گزار بندے نہ بنو تو کس منہ سے تم مزید کی اور زائد کی اور بہتر کی اور احسن کی التجا کر سکو گے.پس جومل چکا ہے اس کو صحیح مصرف میں لاؤ.اس کے نتیجہ میںاللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو.اس کی حمد سے اپنی زندگیوں ، اپنے اوقات ، اپنے دنوں اور اپنی راتوں کو معمور کر دو.تب اللہ تعالیٰ تمہیں اور دے گا.تب اللہ تعالیٰ تمہیں شکر کی بھی مزید توفیق دے گا کیونکہ اور کے ساتھ ہی یہ آ جاتا ہے کہ شکر کی زیادہ تو فیق ملی.اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو سال گزشتہ میں دیا.ہم پر جو نعمتیں اللہ تعالیٰ کی اس سال میں ہوئیں جواب ختم ہونے کو ہے، ان کا ہم شمار کیا کرتے ہیں اس بے تکلف مجلس میں لیکن ذہن میں یہ رکھیں کہ ایک تو جن چیزوں کا ذکر ہے صرف وہ نعمتیں ہمیں نہیں ملیں.نعمتیں تو بے شمار ہیں.ہماری
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۵۳ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار زندگی کے جو لمحے ہم ایک سال میں گزارتے ہیں وہ محدود ہیں لیکن نعمتیں غیر محدود ہیں.جو چیز غیر محدود ہے اس کا شکر محدود سے کیسے کیا جا سکے.ناممکن ہے لیکن خدا نے ہمیں تسلی دے دی ہے لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: (۲۸) که جتنی وسعت ہے اس کے مطابق کر دو زیادہ پر میں گرفت نہیں کروں گا.میں بڑا پیار کرنے والا ہوں.اس وقت جو چند نعمتیں میں لیتا ہوں وہ بھی بالکل ہی چند ہیں.نعمتیں تو بے شمار اور غیر محدود ہیں.جو محدود حصے ان میں سے ہم لے سکتے ہیں وہ بھی سارے یہاں بیان نہیں ہو سکتے تھوڑا سا وقت ہے اور تھوڑے سے وقت میں کس کس چیز کا ہم نام لیں اور کیا بیان کریں.مختصر ا میں بیان کر دیا کرتا ہوں اور اس سلسلہ میں اب میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کولوں گا اس وضاحت کے ساتھ کہ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شکر گزار بندے بنائے اور یہ دعا کرتے رہیں کہ پہلے سے زیادہ نعمتیں وہ ہم پر نازل کرے.ہمارا ہر قدم پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے والا ہو، تاکہ ہم منزل مقصود سے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ نے ہم پہ جونعمتیں نازل کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ رزق کی تقسیم بھی میں ہی کیا کرتا ہوں کہ ایک رزق کی تقسیم تو رزق کمانے کی اہلیت کے نتیجہ میں ہوتی ہے اور وہ انسان کے اختیار میں بات نہیں.ایک شخص کو اللہ بڑا تجارتی دماغ دے دیتا ہے.وہ ایک سودے میں ایک لاکھ روپے کما لیتا ہے.جیسے غالباً سعد بن ابی وقاص ہی تھے ؟ انہوں نے کمایا.جب اسلام ساری دنیا میں غالب آ گیا تھا.اس وقت کی نون (Known) دنیا کہنا چاہئے کہ بڑے حصے میں پھیل گیا تھا اور بڑے مال آگئے تھے.انہوں نے ایک منڈی میں ایک سودے میں ایک لاکھ اونٹ خریدا.پس سمجھ لو کہ کتنی دولت مدینے اکٹھی ہو گئی ہوگی.ایک دوست آیا، اس نے کہا میرے پاس بیچ دو.میرا خیال ہے باہر سے لاکھ اونٹ آئے ہوں گے تو ان کو خیال ہوا ہوگا میں اس کی تجارت کروں گا.انہوں نے کہا لے لو.اس میں کیا فرق پڑتا ہے میں تم سے اور نفع نہیں لیتا ہر اونٹ کی نکیل مجھے دے دو.اگر اٹھنی نکیل کی قیمت سمجھی جائے تو پچاس ہزار، اگر روپیہ بھی جائے تو ایک لاکھ روپیہ ایک سودے کے اندر صرف نکیل لے کر انہوں نے کما لیا.کوئی ایسا بھی آتا ہے کہ ذہن تجارتی نہیں ہوتا.ہمیں بھی خط لکھتے ہیں ، شوق میں تجارت میں پڑ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۵۴ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار جاتے ہیں پھر وہ سنبھال نہیں سکتے اور گھاٹا اٹھاتے ہیں.پس قوت اور استعداد کی تقسیم کے نتیجے میں مال اور دولت کی جو تقسیم ہوئی وہ تو انسان کے ہاتھ میں نہیں کیونکہ قوت اور استعداد انسان نہیں دے سکتا.اگر کوئی باپ یہ حکم دے اس بچے کو جو اپنی ماں کے پیٹ میں ہے کہ او بیٹا! ایسا دماغ لے کر آنا کہ بڑے اچھے ڈاکٹر بنو.میں تمہیں ڈاکٹر بنانا چاہتا ہوں ، تو وہ ڈاکٹر نہیں بنے گا.وہ تو انسان کا کام ہی نہیں ہے.پھر اسی خواہش میں وہ آجاتے ہیں.میں بھی پرنسپل رہا ہوں آکر بڑا تنگ کرتے ہیں ”جی نمبر تے ایس نے دو سو نوے لے مر کے ہو یا اے پاس پر ہے بڑا ہوشیار، ایس نوں اسیں ڈاکٹر بنانا ایں ( یعنی نمبر تو اس نے دو سونوے لئے ہیں اور بڑی مشکل سے پاس ہوا ہے لیکن ہے بڑا لائق.ہم نے اسے ڈاکٹر بنانا ہے ).وہ اس طرح تو ڈاکٹر نہیں بن سکتا.یہ قوت اور استعداد ڈاکٹر بننے کی یہ میں نے اور آپ نے نہیں دینی یہ اللہ تعالیٰ نے دینی ہے.اسی واسطے قرآن کریم میں کہا کہ تم ہو جو مال کو تقسیم کرتے ہو یا ہم ہیں مال تقسیم کرنے والے.کئی ایک کو سمجھ نہیں آتی لیکن یہ جو میں نے مثال دی ہے اس سے ہر شخص سمجھ جائے گا کہ قوتوں اور استعدادوں کی جو عطا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس کے نتیجے میں اموال و دولت کی جو ملکیت ہے اس میں فرق پڑ جاتا ہے.ایک شخص ہے وہ ماہر ڈاکٹر ہے.پھر یہ برکت ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ میں برکت ڈال دیتا ہے وہ ایک معمولی نسخہ لکھتا ہے مریض کو شفا ہو جاتی ہے.ہمارے ماموں جان حضرت میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ جماعت کے بڑے بزرگ تھے.فوت ہو چکے ہیں.ڈاکٹر تھے ، سول سرجن تھے نسخہ لکھتے تھے جس سے مریض اچھا ہو جاتا تھا.آخری عمر میں کچھ کمزور ہو گئے تھے اور بیمار رہنے لگے.مریض آتا تھا پیسے والا اور بڑی فیس دینے والا.یہ کہتے تھے میں بیمار ہوں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا.میرے کمپاؤنڈ ر کو لے جاؤ نسخہ میرے والا لکھ کر دے گا.وہ آگے سے جواب میں کہتے تھے.آپ کا کمپاؤنڈر ، نسخہ بھی آپ کا.آپ لکھیں گے تو آرام آئے گا ورنہ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ آرام نہیں آتا.یہ اللہ تعالیٰ کی برکت ہے جو انسان تقسیم نہیں کر سکتا.پس یہ فرق تو موجود ہے.ہم ایک غریب جماعت ہیں.ہم اپنی طاقت کے مطابق یہ کوشش کرتے ہیں کہ کوئی شخص
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۵۵ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطا.ہماری جماعت کے اندر بھی اور جہاں تک ہو سکے باہر بھی محروم نہ رہے لیکن ہم اپنی خواہش کو یا جو حق ہے اس کا ، وہ پورا نہیں کر سکتے.حق کہا ہے اسلام نے ، یہ نہیں کہا کہ یہ کوئی حقیری ہستی ہے اور تم اس کے اوپر احسان جتاؤ.اسلام نے کہا کہ اس کا حق دو اور تم نے احسان نہیں لینا ، شکر بھی وصول نہیں کرنا.لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا ( الدهر : ۱۰) کتنا پیارا فقرہ ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے.کہاں ہے وہ شریعت جو اس قسم کا حسین اور مؤثر فقرہ اپنی کتاب میں نکالے نہیں، کہیں نہیں.یہ اعلان کرنا کہ تمہارا حق دے رہے ہیں نہ شکر چاہتے ہیں نہ اس کا بدلہ چاہتے ہیں.یہ ایک عظیم اعلان تھا جو کیا گیا لیکن اُتنے ہی غافل ہم ثابت ہوئے اور بھول گئے.اللہ نے فرمایا کہ تمہاری عزت اور شرف کے لئے ہم نے قرآن کریم کو نازل کیا ہے اور ہم اسے ہی بھول گئے.ایک پھٹے پرانے کپڑوں میں آ گیا اور اس پر حقارت کی نگاہ ڈال دی.یہ ویسے ایک لمبا مضمون ہے جہاں تک ہو سکا کل میں اس کے اندر جاؤں گا.انشاء اللہ.بہر حال اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں یہ توفیق دی اور ہم پر یہ انعام کیا کہ ہم ایک حد تک حقوق کی ادائیگی کر سکیں.اس کی شکل یہ بنی صدرا انجمن احمد یہ تحریک جدید اور وقف جدید نے گیارہ سو ترانوے (۱۱۹۳) خاندانوں کے پانچ ہزار دو سو پچپیس (۵۲۲۵) افراد کی بصورت گندم وغیر ۱۵۴۶۷۹۰ روپے کی امداد کی.ایک لاکھ چون ہزار چھ سو اور کچھ روپے اور سو (۱۰۰) لحاف تقسیم کئے گئے.ویسے اس کا بڑا حصہ ایک تو وہ ہے جو ہماری بہنیں بیوہ ہیں اور ان کے یتیم بچے ہیں.کم از کم ان کو گندم ملنی چاہیے.بھوکا تو کسی کو نہیں رہنا چاہیے.ہمارے ملک کی تو اکثریت ہی چٹنی اور گڑ اور اچار کے ساتھ روٹی کھانے والی ہے.کم از کم وہ تو دے دو جو ہمارا کم سے کم معیار پیٹ بھرنے کا ہے.اس سے زیادہ بھوکا تو نہ رکھو.ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ جہاں بھی ہماری نظر پڑ جائے ہم اتنی گندم اس گھر میں دے دیتے ہیں کہ وہ گھر آٹے کے لحاظ سے سارے سال کا کفیل ہو جاتا ہے.مثلاً انجمن کے کارکن ہیں.ان میں سے ایک شخص ہے وہ تین آدمی ہیں.دومیاں بیوی اور ایک بچہ ہے.تین کھانے والے ہوئے.تین پیٹ ہیں جن کو ہم نے بھرنا ہے.ان کو سارے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۵۶ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار سال کے لئے ساڑھے چارمن کے لحاظ سے ساڑھے تیرہ من گندم چاہئے گویا روزانہ آدھ سیر نی کس ہوگی.ہمارا ایک اور کلرک ہے وہ وہی تنخواہ لے رہا ہے.اس پر اللہ نے بڑا فضل کیا ہے اور اس کو آٹھ بچے دیئے ہیں.کھانے والے دس جی ہو گئے.ان کو اس کے مقابلے میں ۴۵ من گندم چاہئے لیکن تنخواہ ہم ایک دیتے ہیں.دراصل تنخواہ کا اصول قائم کر کے ایک دجل چلایا ہوا ہے.دنیا نے ایسا گندہ اصول بنا دیا ہے.لوگ کہتے ہیں یہودیوں نے بنایا ہے.واللہ اعلم لیکن ہے بڑا نا معقول.ہر شخص کی گھر میں جو اشد ضرورت ہے وہ اس کو بہر حال ملنی چاہیے.ہم یہ کرتے ہیں کہ اگر ہمارا ایک کارکن سوروپیہ تنخواہ لے رہا ہے.اس کے اگر تین کھانے والے ہیں تو ساڑھے تیرہ من کا چوتھا حصہ یعنی پچیس فیصد ہم مفت گندم دے دیتے ہیں اور جس کے دس ہیں لیکن تنخواہ وہ اتنی ہی لے رہا ہے تو 45 من کا چوتھا حصہ اس کو مفت دے دیتے ہیں.جس کا مطلب ہے کہ قریباً اس کی جو ضرورت تھی اس کے برابر دوسرے کو مفت مل گیا.جس کی ضرورت 45 من کا چوتھا حصہ ساڑھے گیارہ من بنا وہ پہلے کی ساری ضرورت ساڑھے تیرہ مین تھی.اگر ہم مثلا دس یا نہیں پاتیں روپے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کردیں تو جس کے زیادہ بچے ہیں اس کی ضرورت پوری نہیں ہوگی.میں تو جو باہر سے آنے والے دوست آتے ہیں ان کو کہہ رہا ہوں کہ کس مصیبت میں تم پھنسے ہوئے ہو.نا معقول حرکتیں کرتے ہو.یہ اعلان کرو کہ ہم بونس دیں گے.یہ صحیح ہے کہ اب ایسا چکر تنخواہ کا چل گیا ہے کہ جب تک ہمارے ورکر (worker) کو ، کارکن کو اور کام کرنے والے کو فیکٹری میں ہو یا دفتر میں پوری طرح علم حاصل نہ ہو جائے تو بد دلی بھی پیدا ہوسکتی ہے.پس بونس کا نام دے دیں یا کوئی اور نام دے دیں.ہمارے ہاں ایسے کارکن جن کی تنخواہ دوسوروپے سے کم ہے ان کو افراد خاندان کے لحاظ سے سال کی ضرورت کا چوتھا حصہ ہم مفت دے دیتے ہیں باقی ہم قرض دے دیتے ہیں.یہ بھی یہاں سہولت ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ غذائی طور پر ان کی ساری ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں ایسی مثال اور کہیں نہیں کہ ہمارے ملک کا جو کم سے کم معیار ہے یعنی روٹی گڑ سے یا شکر سے یا چٹنی سے یا اچار سے ہمارے کھانے کا یہ کم سے کم معیار ہے.اتنا ہم ان کو دے دیتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کا چالیس فیصد حصہ یقیناً ہمیشہ یہ کھاتا ہے اور ملک کی آبادی کا ساٹھ ستر فیصد حصہ ایسا ہے جو اکثر یہ کھاتا ہے.میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۵۷ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطاب باہر جا کر ہر ایک سے بے تکلف ہوتا ہوں.ایک لاکھ چون ہزار کی امدادی رقم کا بڑا حصہ وہ ہے جو ان کے اخراجات کا چوتھا حصہ ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ سوالا کھ ایسا ہے جو لینے والوں کے اخراجات کا چوتھا حصہ ہے.باقی ان کی اپنی تنخواہ ہے جو وہ آسانی سے پورا کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی یہ ایک نعمت ہے جو اس سال بھی ہم پر نازل ہوئی اور غیروں کے لئے نمونہ بن گئی.پھر حضور پُر نور نے بچوں اور نو جوانوں کو مخاطب کر کے فرمایا.بچو! اب میں تمہاری ضرورتیں بھی بتا دیتا ہوں.تمہاری ضرورت ہے تعلیم کی اگر تو ہو تم ذہین تو خدا نے اپنے فضل سے مجھے جماعت میں اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ تمہارا خاندان اگر تمہیں نہیں پڑھا سکتا تو میں تمہارے پڑھانے کا ذمہ لیتا ہوں لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں پڑھنے والا ذہن عطا نہیں کیا تو احمدی پیسوں کو اپنے پر ضائع کرنے کی کوشش نہ کرو.اس کے علاوہ گذشتہ سال جماعت میں یہ اعلان بھی کیا تھا کہ کوئی احمدی بھوکا نہ رہے.شروع میں تو میرے پاس رپورٹیں بھی آتی رہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اسی نوے فیصد مقامات پر لوگوں نے اس بات کا خیال رکھا.میں نے بتایا تھا ایک حد تک ایک دھیلہ خرچ کیے بغیر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کو پورا کر سکتے ہیں کیونکہ آپ نے فرما یادو کا کھانا تین کے لئے کافی ہے، تین کا چار کے لئے کافی اور چار کا پانچ کے لئے.ہر خاندان آپ کے اس ارشاد کی روشنی میں شخص کا کھانا نکال سکتا ہے.اگر کسی محلے میں ہیں پیٹ ایسے ہیں جو بھو کے ہیں اور ان کی ضرورت پوری نہیں ہو رہی تو ایک پیسہ ایک دھیلہ خرچ کئے بغیر ان کی روٹی کا انتظام ہو جائے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کتنی وسیع اور کتنی گہرائی میں جانے والی تھی.ایک جگہ آپ نے یہ فرمایا اور دوسری جگہ فرمایا کہ ایک کا کھانا دو کے لئے اور دو کا چار کے لئے پورا ہوتا ہے.ہمارے امیر گھرانوں میں تو ایک کا دو میں اور دو کا چار میں پورا ہوتا ہے.ان کے اوپر زیادہ ذمہ داری ڈالی ہے.متوسط کو کہا کہ اپنے گھر سے ایک کھانا نکال دے.چار افراد کا ہے، پانچ کا ہے ایک کھانے کی ذمہ واری اس کے اوپر ڈال دی.جو امیر ہے اس کو کہا کہ جتنے افراد تمہارے خاندان کے ہیں اگر سات ہیں تو سات کا نکالو تمہیں عادت پڑی ہوئی ہے، تم زیادہ کھانے پکواتے ہو، زیادہ کھانا پکواتے ہو.اس لئے اس کے اوپر یہ ذمہ واری ڈال دی.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۵۸ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار میں نے محدود پیمانے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش اور اس احسان عظیم کا جو اس شعبہ زندگی میں بھی آپ نے انسان پر کیا اس کا اعلان کیا تھا کہ اس خواہش کو پورا کیا جائے.اب اس الیکشن میں نوجوان پاکستان نے میری اسی سکیم کو بڑے پیمانے پر پورا کرنے کا عہد باندھا اور نئے الیکشن میں اعلان کیا کہ کوئی بھوکا نہیں رہے گا.میں نے یہ اعلان ڈیڑھ سال پہلے ہی کر دیا تھا کہ کوئی بھوکا نہیں رہے گا چنانچہ اب نوجوان قوم نے کہا کہ کوئی بھوکا نہیں رہے گا.اب جو خسیس سرمایہ دار ہے جو اسلام کی ہدایت اور تعلیم پر عمل نہیں کرنا چاہتا وہ اعتراض کر رہا ہے چنانچہ ہم پر بھی اعتراض کر دیا کہ کتابیں لکھتے ہو کمیونزم کے خلاف اور خطبے دیتے ہو کمیونزم کے خلاف لیکن ووٹ دے دیئے ہیں کمیونزم کے حق میں.کس احمق نے تمہیں کہا ہے کہ ہم نے اشتراکیت کے حق میں ووٹ دیئے ہیں.لطیفہ یاد آ گیا.انسان پر ایک زمانہ ایسا بھی گذرا ہے ہم نے پڑھا ہے دیکھا نہیں.خدا کسی کو ایسا زمانہ نہ دکھائے کہ جب کسی کو قتل کرنا ہوتا تھا تو کہہ دیتے تھے یہودی، یہودی اور اس کو قتل کر دیتے تھے انگریزی میں محاورہ ہے Call him a jew and hang him کہ جیو (Jew) کا نعرہ لگا دو اور اس کو تختہ دار پر لٹکا دو.اب جو نہیں اشترا کی ، جو کمیونسٹ نہیں ہیں، انہیں کمیونسٹ ، کمیونسٹ کہہ کر یہ کہ دیا جاتا ہے کہ اسلام تباہ ہو گیا.نہیں ہیں وہ کمیونسٹ.تم کہتے ہو ہم نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا لیکن ہمارا ان کے ساتھ کوئی الحاق نہیں ہوا.ہم نے بعض دوسروں کو بھی ووٹ دیئے اور اسی طرح پیپلز پارٹی کو بھی ووٹ دیئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں جتنی بھی حقیر سی طاقت دی ہے، اس کے بڑے حصے نے پیپلز پارٹی کے حق میں ووٹ دیا.یہ بھی درست ہے.جب تم کہتے ہو کہ احمدیوں نے (میں یہ نہیں کہتا کہ ان کی بات صحیح ہے) میں یہ کہتا ہوں کہ وہ کہتے یہ ہیں کہ احمدیوں نے پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر اور ان کی مدد کر کے پیپلز پارٹی کو جتادیا اور ایک انقلاب عظیم اس دنیا میں بپا ہو گیا.پس یہ بھی سن لو کہ ہمارے ملک میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم رائج کی جائے گی.اگر ہم میں اتنی طاقت ہے کہ ہم پیپلز پارٹی کو جتا سکتے تھے تو ہم میں اتنی بھی طاقت ہے کہ ہم جو چاہیں گے ، آگے منوائیں گے اور ہم جو چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی عظمت یہاں قائم
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۵۹ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطاب -------- ہو لیکن یہ یا درکھو کہ جس طرح ایک وقت میں کسی کو جیو (Jew) کہہ کر ہینگ (Hang) یعنی تخته دار پر لٹکا دیا جاتا تھا ہم اور ہمارا نو جوان پاکستان تمہیں کبھی اس کی اجازت نہیں دے گا کہ تم غلط الزام لگا کر عوام یعنی خدا کے بندوں کو ان کے حقوق سے محروم کر سکو جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دیئے ہیں اور تم اسلام کا نعرہ لگا کر وہ حقوق ان سے چھیننا چاہتے ہو.جو نا جائز اموال تمہارے پاس ہیں وہ تو تم سے چھین لئے جائیں گے لیکن وہ محسن حقیقی اللہ، جو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اور جس نے اس دنیا کو اور اس کی نعمتوں کو پیدا کیا ہے اور وہ محسن اعظم انسانیت کا جس نے چودہ سوسال پہلے غریب کے حق میں نعرہ لگایا تھا.ان کے ناموں کو نہیں بھلایا جائے گا ، ان کی عبادت کی جائے گی ، ان پر درود بھیجا جائے گا ، اسلام کی عظمت کو دلوں میں قائم کیا جائے گا اور اپنے عملوں سے اسے ظاہر کیا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.نہ اسلام خطرے میں ہے نہ اسلام کی تمہیں کچھ فکر کرنی چاہئے اپنی فکر کرو.وہ جن کے ذمہ اشاعت اسلام اور غلبہ اسلام کا کام لگایا گیا ہے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کی جماعت ، وہ اپنا کام کرنے کے قابل ہے اور کرے گی تم کہتے ہو کہ پاکستان میں اسلام خطرے میں ہے.میں بتاتا ہوں کہ ساری دنیا میں اور دنیا کے ہر ملک میں اسلام کے علاوہ ہر مذہب خطرے میں ہے.عیسایت خطرے میں ہے.یہودیت خطرے میں ہے.ہندو مذہب اور بدھ مذہب خطرے میں ہیں.ان کو کسی تلوار یا ایٹم بم کا خطرہ نہیں.ان کو اس ہتھیار کا خطرہ ہے جو جسموں کو زندہ رکھتا اور دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.اسلام کا محبت کا پیغام غالب آکر رہے گا.انسانی تاریخ میں یہ وقوعہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ نفرت محبت کے مقابلہ میں جیتی ہو.ہمارے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے اسلام کی محبت کا پیغام دیا ہے اور ہمیں کہا ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں جاؤ اور اسلام کے اس محبت کے پیغام سے دنیا کو گھائل کرو اور اسلام کو غالب کرو.یہ خدا کی تقدیر ہے یہ پوری ہوگی.انشاء اللہ تعالیٰ.ایک اور فضل جو اللہ تعالیٰ نے دورانِ سال ہم پر کیا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس غریب جماعت کو یہ توفیق دی کہ ایک اور عیسائی ملک سویڈن میں ایک مشن کھولا گیا.الحمد للہ علی ذلک.ایک دوسرا فضل یہ کیا کہ جاپان میں ایک عالمگیر مذہبی کا نفرس منعقد ہوئی ، اس میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۶۰ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار جماعت احمدیہ کو بھی مدعو کیا گیا اور وہاں جماعت کے نمائندے نے شرکت کی.دوسرے مسلم ممالک یا مسلم مجالس کے جو نمائندے وہاں آئے تھے ، وہ اتنے متاثر ہوئے کہ بلا استثناء سب نے آکر ہمارے نمائندے کی تعریف کی اور اس موقف سے بہت متاثر ہوئے جو اُس نے لیا.جو اسلام کا سچا موقف اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حقیقی پیغام ہے.الحمد للہ علی ذلک.اس میں مکرم و محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی شامل ہوئے تھے.بظاہر جماعت کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں ویسے جماعت کے نمائندے کی حیثیت سے ہی میں کہوں گا.بظاہر میں نے اس لئے کہا کہ جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو جو بھی ملا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُس برکت کے طفیل سے ملا ہے جو محمد سے آپ نے لی اور آپ کی امت کو آپ نے دی.ایک اور فضل یہ ہوا کہ امریکہ کے ایک شہر کلیولینڈ (Cleveland) کی چابی جماعت کے ایک نمائندے کو دی گئی.وہاں دستور یہ ہے کہ جب کسی شخص کی عزت افزائی کرنی ہو تو با قاعدہ سیر یمنی (Ceremony) کر کے اُس کو شہر کے دروازے کی چابی دیتے ہیں.یہ پرانا دستور ہے جبکہ فصیلیں ہوتی تھیں اور دروازے بند ہوتے تھے اس وقت سے یہ رسم چل رہی ہے.تو امریکہ کے ایک شہر، اُس امریکہ کے ایک شہر نے جو عیسائیت کا اس وقت گڑھ ہے ، اپنی روایات کے مطابق با قاعدہ سیر یمنی (Ceremony) کر کے اس جماعت کے نمائندے کو چابی دی جو اس واسطے کھڑی کی گئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں کہ میں اس لئے مبعوث ہوا ہوں کہ اس صلیب کو دلائل سے توڑ دوں جس نے مسیح کی ہڈیوں کو توڑا اور آپ کو زخمی کیا.الحمد للہ علی ذلک.تحریک جدید کے مجاہدہ کے میدان میں اس وقت مختلف ممالک میں چونسٹھ مبلغین مبشرین کام کر رہے ہیں لیکن باہر سے اتنی مانگ آرہی ہے جتنا میں پریشان رہتا ہوں جماعت کو بھی پریشان کروں گا تا کہ آپ بھی سوچیں.میں کہتا ہوں کہ میں اور آپ ایک وجود ہیں تو میرے ساتھ آپ کو بھی پریشان رہنا پڑے گا.!
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۶۱ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطاب تحریک جدید کے ہمارے کل چونسٹھ مبلغ کام کر رہے ہیں اور نائیجیریا کی جماعت نے وہاں کی حکومت کو یہ درخواست بھیج دی ہے کہ آپ کی تھولکس کو ایک سو پچاس کا کوٹہ دیتے ہیں ہم بھی ایک سو پچاس کا کوٹہ لیں گے.یہ سوچا ہی نہیں کہ ہمیں کس پریشانی میں ڈال دیں گے لیکن اگر ہم دعا کریں اور بے حد عاجزانہ دعائیں کریں اور تدبیر کریں اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کو پڑھتے رہتے ہیں وہ اپنے آپ کو وقف کر یں.آج اگر پچاس کی ضرورت ہے تو پچاس احمدیوں کو قربانی کے میدان میں نکلنا چاہئے اگر ڈیڑھ سو کی ضرورت ہے تو ڈیڑھ سو کو نکلنا چاہیے.یہ وقت پھر ہاتھ نہیں آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وقت تو ہمیں ملا نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ ہم بعد میں پیدا ہوئے.اس وقت کوئی اکا دکا صحابی رہ گیا ہے.اب دوسری نسل کے اوپر بھی کم ذمہ داری نہیں کیونکہ ابھی خلافت کا سلسلہ جاری ہے.خدا کرے کہ جماعت اسلام کی اہل رہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کتنی مدد کرتا ہے.لوگ تو اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں تم سنا کرو اور جنس دیا کرو.میں بھی ہنس دیا کرتا ہوں.مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ تمہیں کچھ پتہ ہی نہیں.ایک شخص کو اللہ تعالیٰ بشارت دیتا ہے میں اس تقریر کے آخر میں یا کل جیسا بھی اللہ تعالیٰ نے چاہا ، بتاؤں گا کہ ایک سیکنڈ میں کیا بتایا اور کیا کر دکھایا.پس جس کے کان میں خدا یہ کہہ رہا ہو کہ میں نے تمہیں اپنے لئے چن لیا.جاؤ اور قربانی دو.اب خدا نے جو اسے چن لیا تو اس نے سب کچھ پالیا.اس لئے بشاشت کے ساتھ ہر قسم کی قربانی دے گا.میں سچ کہتا ہوں اگر میرے جسم کے ایک سو پچاس ٹکڑے کر دیے جائیں اور وہاں وہ کام آجا ئیں تو میں اس کے لئے تیار رہوں.لیکن اگر ایسا نہیں ہو سکتا اور یہ ناممکن ہے تو پھر وہ جو اجتماعی وجود ہے کہ خلیفہ وقت اور ساری جماعت ایک وجود کا حکم رکھتی ہے تو اس وجود کے ٹکڑے نکلنے چاہئیں اور مختلف جگہ چلے جائیں.ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ابراہیم نہیں کہہ دیا تھا.آپ کو ابراہیمی پرندے بننا پڑے گا تب ہمارے کام پورے ہوں گے اور تب اپنے وقت پر اسلام جلد سے جلد غالب آئے گا.اس لئے تیار ہو جاؤ اور دعائیں کرو.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۶۲ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطاب پر یشانیوں کو اٹھاؤ اللہ کے سامنے کیونکہ دوسروں کے سامنے تو ہم مسکراتے رہتے ہیں اور ہماری مسکراہٹیں کوئی نہیں چھین سکتا.ایک اور فضل یہ ہوا کہ اس سال کے دوران کا نو نائیجیریا) میں ایک نیا سکول کھولا گیا.یہ سکول آگے بڑھو کی سکیم سے پہلے کا ہے.اس وقت تک تین سو سے زائد مساجد تعمیر ہو چکی ہیں.سال رواں میں جونئی مساجد تعمیر ہوئیں وہ میں بتا دیتا ہوں.جزائر غرب الہند میں، ٹرینیڈاڈ میں ، تنزانیہ میں ، موروگورو میں نئی مسجد میں تعمیر ہوئی ہیں.ایسنس (امریکہ ) میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے.اجے بو اوڈے نائیجیریا) کی جس مسجد کا میں نے افتتاح کیا تھا ، وہ بہت بڑی جامع مسجد ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے دل ، ایسے سینے اور ایسی روحیں عطا کر رہا ہے کہ چھ ہزار میل دور بیٹھی ہوئی ایک افریکن احمدی عورت نے اکیلے پچھپیں تمہیں ہزار پاؤنڈ خرچ کر کئے اجے بو اوڈے میں احمد یہ جامع مسجد تیار کر دی جس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ سات لاکھ روپیہ خرچ کیا.افریقہ پیکس (Africa speaks) میں اس تعمیر کی تصویر بھی آئی ہے.یہ بھی اللہ کے فضل ہیں.تحریک جدید کی طرف سے جو کتب شائع ہوئیں یا زیر تیاری یا زیر طباعت ہیں.ان میں سے ایک قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ ہے.اس کی ہمیں بڑی ضرورت ہے کیونکہ افریقہ کے بہت سارے ممالک فرانسیسی اقتدار کے ماتحت رہے تھے اور وہاں فرانسیسی بولی جاتی ہے وہ مکمل ہو چکا ہے اور دیباچے کا ترجمہ کروایا جا رہا ہے.اب شاید ہمیں چند مہینے انتظار کرنا پڑے تا کہ دو سال بچ جائیں کیونکہ ہمارا نیا پر یس لگ رہا ہے اور یہ پریس اللہ کے فضل سے بڑا اچھا ہو گا.باہر جو تین سال میں کام ہوتا ہے وہ انشاء اللہ یہاں تین مہینے میں ہو جایا کرے گا.انگریزی کا ترجمہ لاہور میں تین سال میں تیار ہوا ہے.حالانکہ انہوں نے بڑی محبت اور پیار سے قرآن کریم کا کام کیا ہے.ہم ان کے بڑے ممنون ہیں.ان کو ہزار کام ہیں.ایک تجارتی ادارہ ہے اور انہوں نے اپنے پیسے بھی بنانے ہوتے ہیں یعنی با وجود تعلق اور پیار اور قرآن کریم کے کام کو پاک اور مقدس کام سمجھنے کے پھر بھی تین سال لگ گئے.یہاں ہمارا پریس جیسا لگا نا چاہئے اگر اللہ کی توفیق سے ویسا لگ جائے تو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۶۳ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطاب میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ہم تین مہینے میں تیار کر دیں گے.اس کے لئے ہمیں اگر ایک سال بھی انتظار کرنا پڑے تو کر لینا چاہئے کیونکہ ستا اور اچھار ہے گا اور تیار بھی جلدی ہو جائے گا.جب میں لندن میں رہا تو اس کا رخانہ دار کے مینیجنگ ڈائر یکٹر کو ملا تھا.وہ حیران ہو کر پوچھنے لگا کہ اتنا بڑا پر لیں آپ نے لے کر کیا کرنا ہے.میں نے کہا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ ساری دنیا میں قرآن کریم کو پھیلا دیں.یہ تو چھوٹا پر لیس ہے جو کہ ابھی اور بڑھے گا.مشرقی افریقہ کی یوگنڈا کی زبان میں قرآن شریف مع تفصیلی نوٹس مکمل ہو چکا ہے.پہلے صرف پانچ پارے شائع ہوئے تھے.اب تو مکمل ہو چکا ہے.میں نے ابھی مشورہ نہیں کیا.ان سے پتہ کروں گا کہ یہ بھی اپنے پریس میں آسانی کے ساتھ چھپ سکتا ہے یا نہیں.سواحیلی ترجمہ قرآن کے دوسرے ایڈیشن کی طباعت کا انتظام کیا جا رہا ہے.پہلے ایک ایڈیشن شائع ہوا تھا وہ ختم ہو چکا ہے.جو کتب شائع کی گئی ہیں ان میں سے ایک افریقہ کے نام محبت واخوت کا پیغام ہے.میرا نوٹ ہے.میاں مبارک احمد صاحب نے ”سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ب کتاب لکھی ہے.یہ بھی انگریزی میں پانچ ہزار میں شائع کی گئی ہے اور بڑی اچھی کتاب.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب ” میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں، دس ہزار کی تعداد میں شائع کی گئی ہے.اسلام اور عیسایت کا موازنہ اٹیلین زبان میں پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عربی پمفلٹ الْكُفْرُ مِلَّةً وَاحِدَة ” پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا ہے.اس میں عربی بولنے والے اسلامی ممالک کو یہ بتایا گیا ہے کہ غیر مسلم ممالک اس معاملے میں تمہارے خلاف سب اکٹھے ہیں اور اکٹھے رہیں گے.تمہیں ان سے کوئی فائدہ نہیں.تم اپنی زندگی اور بقا کی جدو جہد اور کوشش کے لئے آپس میں مل کر سکیمیں بناؤ.ان کے او پر انحصار نہ کرو.وہ الکفر ملۃ واحدۃ ہے.”امن کا پیغام اور حرف انتباہ یوگوسلاوین زبان میں پانچ ہزار شائع کیا گیا ہے یہ ایک مختصری تقریر ہے جو میں نے اپنے ۱۹۶۷ء کے دورے کے دوران لندن میں کی تھی.اس میں ان کو پہلے مثالیں دی تھیں پھر میں نے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تمہارے لئے دو راستے کھلے ہیں یا اپنے پیدا کرنے والے رب کی طرف
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۶۴ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار واپس لوٹو یا تمہارا اللہ ناراض ہو کر تمہیں دنیا میں تباہ کر دے گا.Total annihilation ( یعنی مکمل تباہی ) تم پر آئے گی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشین گوئیوں میں ہے.اس کے مختلف زبانوں میں تراجم پہلے ہو چکے ہیں یوگوسلاویہ ایک کمیونسٹ ملک ہے جہاں جماعت احمد یہ قائم ہو چکی ہے.زیر طباعت لٹریچر دعوۃ الا میر ٹرکشن زبان میں.اس کے متعلق میں بتا دوں کہ لڑکی کے ایر پورٹ پر ہمیں بہت شرمندہ ہونا پڑا.ایک ترک دوکاندار کی طبیعت پر کچھ اثر ہوا.وہ چوہدری محمد علی صاحب سے پوچھنے لگی کہ یہ کون شخص ہے.انہوں نے بتایا کہ امام مہدی آگئے ہیں اور یہ ان کے تیسرے خلیفہ ہیں.اس کا اُس نے جواب دیا میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے.بڑا شرمندہ کرنے والا جواب تھا.کہنے لگی.اگر امام مہدی آگئے ہیں تو ہمیں کیوں پتہ نہیں لگا.مطلب یہ تھا کہ تمہارا فرض تھا پھر تم نے ہمیں کیوں نہیں بتایا.اسی طرح اور بھی بہت ساری رپورٹیں ہیں.پس وہ لوگ بڑی جلدی مائل ہو جائیں گے.وہاں کے ایک عالم سے ایک احمدی نے ان الفاظ میں کوئی بات کی تو وہ کہنے لگا.تم ان مرزا غلام احمد کی بات کر رہے ہو جو نبی تھے.پھر وہ ترک عالم کہنے لگا وہ نبی تو تھے مگر تمہاری جماعت نے ان کی وہ قدر نہیں کی جو کرنی چاہئے تھی.اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ خدا کا ایک پیارا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک محبوب ترین فرزند آیا لیکن تم نے دنیا کی طرف توجہ نہیں کی ، ہمارے پاس نہیں آئے.پس دنیا تو ہمیں پکار رہی ہے.ہمیں تو پنجابی محاورہ کے مطابق لنگوٹے کس لینے چاہئیں.“ جب تک ہم کامیاب نہیں ہو جاتے ہمیں آرام نہیں آنا چاہئے.پوری تندہی سے کام کرنا پڑے گا.تو دعوۃ الا میر کا ترجمہ ٹرکش زبان میں ہورہا ہے.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ترجمہ عربی اور فرانسیسی زبان میں پانچ ہزار کی تعداد سے شائع کیا جارہا ہے.ادعية الرسول
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء).۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار سواحیلی زبان میں تین ہزار کی تعداد میں شائع کی جارہی ہے.حیات احمد عربی میں تین ہزار.الحمد لله ما مسلمانیم “ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فارسی زبان میں اقتباسات ہیں ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا جا رہا ہے.( غالباً ایک ہزار غلطی سے لکھا گیا ہے.دس ہزار شائع ہونا چاہیے.تحریک نوٹ کر لے ).قبر مسیح انگریزی میں تین ہزار.کفارہ انگریزی میں تین ہزار.عیسائیت پر ریویو انگریزی میں تین ہزار.جو مختلف کتب کے تراجم تیار ہورہے ہیں.ان میں اسلامی اصول کی فلاسفی“ کا ڈینش زبان میں ترجمہ ، دعوۃ الامیر کا عربی اور فارسی زبان میں.”ہم مسلمان ہیں" کا ترجمہ انگریز زبان میں امن کا پیغام اور حرف انتباہ کا سپینش زبان میں اور اسلامی نماز کا سپینش میں.وقف جدید وقف جدید کا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے.اللہ کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے اور اسی پر کامل تو کل اور بھروسہ رکھتے ہوئے میں اگلے سال کے افتتاح کا اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور جماعت کو بھی ان ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نباہنے کی توفیق عطا کرے جو مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ پیاری تحریک ہم پر ڈالتی ہے.معلمین وقف جدید کی تعداد ایک سو تین ہے.جن میں سے سولہ معلمین مشرقی پاکستان میں کام کر رہے ہیں.شعبہ ارشاد وقف جدید کے تحت چونتیس ہزار تین سو چھتر کتب اور رسائل وغیرہ مختلف علاقوں میں تقسیم کئے گئے ہیں.یعنی پاکستان کی مختلف زبانوں میں.علاقہ نگر پارکر میں ہندو جن لوگوں کو اچھوت کہا کرتے تھے اور جب وہ مسلمان ہو جا ئیں تو مسلمان ان کو بھائی کہتے ہیں.خدا کا بڑا فضل ہے.اس علاقے میں بڑی اچھی تبلیغ ہورہی ہے اور بڑی کثرت سے لوگ احمدی ہو رہے ہیں.میرا خیال ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں اچھوت ہندو، مسلمان بھائی بن چکا ہے.آٹھ معلم وہاں کام کر رہے ہیں.وہاں جو ہمارا نیا مسلمان بھائی بنتا ہے، وہ بڑے شوق سے اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں اس میں بڑی برکت ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہم ان پڑھ ہیں اور بڑے ہو گئے ہیں لیکن ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۶۶ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار بچے پھر ہندو بنیں یا ہندؤں کا اثر قبول کریں.اس واسطے تم ان کو پڑھاؤ.وہ ہم سے بڑے آدمی مانگ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان بچوں کو قرآن کریم پڑھاؤ اور اسلام کی تعلیم دو.فضل عمر فاؤنڈیشن فضل عمر فاؤنڈیشن کا افتتاح ۱۹۶۵ء کے جلسے میں کیا گیا تھا.اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا.ایک بات اس وقت تو میں نے ظاہر نہیں کی اب بتا دیتا ہوں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلافت کے مقام پر کھڑے کئے گئے تو سارے مخالف اندرونوں نے کہا.ایک بچے کو بٹھا دیا ہے.اس نے کیا کام سنبھالنا ہے.پھر وہی بچہ جب الہی تقدیر کے مطابق ۱۹۶۵ء میں ہم سے جدا ہوا تو کہنے لگے بڑا ذہین، بڑا صاحب فراست، بڑا عالم ، بڑامد براور بڑ انتظم جماعت سے علیحد ہو گیا ، اب دیکھنا ان کا کیا حشر ہوتا ہے.۱۹۱۴ء میں وہ نا قابل اعتناء بچہ تھا اور ۱۹۶۵ء میں وہ ایک ایسا بت بن گیا تھا ( غیروں کی نگاہ میں ، ہماری نگاہ میں نہیں ) کہ وہ خیال کرتے تھے کہ اب وہ بت نہیں ہے تو جماعت ختم ہو جائے گی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے عمل سے اور اپنی رحمتوں کے جلوے دکھا کر جماعت کو کہا کہ ۱۹۱۴ء کا بچہ بھی میری انگلیوں میں ہتھیار بن کر اٹھایا گیا تھا اور ۱۹۶۵ء میں بھی وہ میرا پیارا تھا جس کو میں نے اپنے پاس بلا لیا.پھر میں نے ایک اور ذرہ ناچیز کو پکڑا، وہ بھی میری انگلیوں میں ہے.۱۹۱۴ء میں بھی تم ایک کو نا اہل کہتے رہے تھے ۱۹۶۵ء میں بھی کہہ لو ، کوئی فرق نہیں پڑتا.ان لوگوں کو دکھانے کے لئے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ذہن میں یہ تجویز بیج کے طور پر آئی اور اعلان ہوا.اب خدا تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھانا تھا کہ تم کہتے تھے جماعت بت پرستی کے اصول پر قائم ہے اور بڑا شور مچارہے تھے کہ گڑی بن گئی ، گڈی بن گئی.آؤ میں تمہیں یہ بتا تا ہوں کہ یہ جماعت ہماری محبت کی بنیاد پر قائم ہے.اس وقت انگلستان کی جماعتوں نے جو وعدے کئے اور بعد میں جو وصولیاں ہوئیں وہ اکیس ہزار کی تھیں.پھر میں نا اہل، میں نے تو اہلیت کا دعوی ہی کبھی نہیں کیا کبھی مجھے کچھ کہتے ہیں تو ہنسا کرتا ہوں کہ اگر میں نے کوئی دعوی کیا ہوتا پھر تم الزام لگاتے تو مجھے فکر اور تشویش ہوتی.میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۶۷ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار نے دعوی کبھی کوئی کیا نہیں، مجھے تو فکر نہیں.تو وہی نا اہل اور واقعی میں تو نا اہل تھا.اللہ تعالیٰ اگر اہلیت نہ دے اور اتنی نہ دے جتنی اسے چاہئے تھی تو آدمی کیا کر سکتا ہے.وہ جماعت جن کے اوپر اتنے اور بار ہیں.فضل عمر فاؤنڈیشن کے چندے ابھی ختم ہوئے تھے.دو گھنٹے میں ان کے پاس ٹھہرا اور ان کو کہا پچاس ہزار کے مقابلے میں تمیں ہزار سے زائد وعدے ان دو گھنٹوں میں آچکے تھے.اس وقت وہ اڑتالیس ہزار سے اوپر نکل گئے ہیں اور اٹھارہ ہزار سے اوپر نقد جمع ہو چکا ہے.تین سال میں فضل عمر فاؤنڈیشن کا اکیس ہزار ہوا تھا.اس وقت جماعت میں اتنی طاقت.پھر اللہ تعالیٰ نے مال میں برکت ڈالی.چار پانچ سال بڑا عرصہ ہوتا ہے.مالوں میں اس نے بے شمار برکت ڈالی.اس لحاظ سے بھی ان کو کہیں کا کہیں لے گیا.قربانی دینے والے دلوں کے احساس میں بھی برکت ڈالی اور انہوں نے کہا اکیس ہزار پر ہم نے نہیں ٹھہرنا.چنانچہ اب اڑتالیس ہزار تک پہنچ چکے ہیں اور ابھی کام جاری ہے.میں نے انہیں کہا تھا چلنے سے پہلے چند دنوں میں دس ہزار نقد دو کیونکہ میں افریقہ والوں کو اس عرب شاعر کی طرح یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے تمہارے ہاں میڈیکل سنٹر اور سکول کھولنے ہیں.میں ہوں بڑا امیر مگر میری ساری دولت وعدوں پر مشتمل ہے، نقد کوئی نہیں.ان وعدوں کے ساتھ میں میڈیکل سنٹر تو نہیں کھول سکتا نہ سکول کھول سکتا ہوں.مجھے نقد چاہئے.پس چند دنوں میں مجھے دس ہزار نقد دو تا کہ جب خدا میرا یہ کام شروع کرنا چاہے تو میں ادھر اُدھر نہ دیکھوں.میرے پاس رقم ہونی چاہئے.چنانچہ چند دنوں کے بعد جب میں نے لندن کو چھوڑا تو وہاں دس کی بجائے ساڑھے گیارہ ہزار نقد جمع ہو گئے اور اب نقد اٹھارہ ہزار تک پہنچ گئے ہیں.اتنے پیارے ہیں آپ، آپ کی کوئی قیمت نہیں.دنیا کے سارے جواہر ایک مخلص احمدی کے دل کو نہیں خرید سکتے.یہ میں پاؤنڈوں میں بات کر رہا ہوں.اکیس ہزار پاؤنڈ ، پچاس ہزار پاؤنڈ.اٹھارہ ہزار پاؤنڈ جمع ہو چکا ہے.مجھے ایک دوست نے لکھا کہ میں نے اپنی شادی کے لئے کچھ رقم جمع کی ہوئی تھی ادھر آپ کا خط آ گیا.(اب میں نے کچھ خط لکھے تھے کہ جو وعدے کئے ہیں، وہ پورے کرو.مجھے پیسوں کی خدا کے لئے ضرورت ہے.) لکھتا ہے.آپ کا خط آیا تو میں نے وہ رقم جو شادی کے لئے جمع کی تھی ، نصرت جہاں ریز روفنڈ میں دے دی اور اپنی شادی ملتوی کر دی.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۶۸ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطاب گورنمنٹ کو ان کے اداروں پولیس وغیرہ نے رپورٹ کی کہ نصرت جہاں ریز روفنڈ میں سے بھٹو صاحب کی پارٹی کو دے رہے ہیں.ایک مولوی صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ نصرت بھٹو کے نام پر یہ فنڈ جاری کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کی عقلیں تیز کرے.میں گورنر صاحب سے ملنے گیا ان کو میں نے کہا آپ کے پاس ایسی رپورٹیں آئیں ہیں، میں آپ کو بتا تا ہوں پرسوں میرے پاس یہ خط آیا کہ میں نے اپنی شادی ملتوی کر دی ہے اور پیسے فنڈ میں دے دیئے.جو اتنے مخلص اور اسلام کا در در کھنے والے دل ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ ہم احمق اور بے ایمان اور ظالم لوگ ہیں جو ان کا پیسہ سیاست کے اوپر خرچ کر دیں گے.کہنے لگے میرے پاس رپورٹ تو آئی تھی.میں نے کہا پھر غلط آئی تھی.میں بڑی عاجزی کے ساتھ حکومت کے کانوں اور آنکھوں کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ آنکھیں کھلی رکھو اور کان بھی کھلے رکھو.اپنی آنکھوں اور کانوں کو صحت مند رکھو.آنکھ اور کان کی دو قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں کبھی تو آنکھ جو چیز سامنے ہوتی ہے اس کو دیکھ نہیں سکتی ، کبھی دن رات کو نہیں دیکھتی.اس کو ہم کہتے ہیں کہ نظر کمزور ہوگئی.کبھی صرف رات کو نہیں دیکھتی.اس کو لوگ اندھرا تا کہتے ہیں.ایک آنکھ کی بیماری یہ ہے کہ جو چیز نظر نہیں آ رہی ہوتی وہ ان کو نظر آتی ہے مثلاً ایک ایسی بیماری ہے جس میں ایک چیز کو وہ دو دیکھیں گے.کان کبھی بہرا ہوتا ہے اور وہ سنتا ہی نہیں.کبھی اس میں بیماری ہوتی ہے.آواز میں نہیں ہوتیں مگر کان شاؤں شاؤں بول رہے ہوتے ہیں.لگتا یہ ہے کہ یہ لوگ جن کو صحت مند آنکھ اور کان ہونا چاہئے تھا.ہر دو لحاظ سے یہ دونوں چیزیں بیمار پڑ گئی ہیں اور چار بیماریوں سے ملوث ہیں.ہم تو حقیر جماعت ہیں ، دعا کر سکتے ہیں.آپ بھی دعا کریں میں بھی دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان چاروں بیماریوں سے بھی شفا عطا فر مادے.فضل عمر فاؤنڈیشن اس خیال کے اوپر اللہ تعالیٰ کا ایک تازیانہ تھا جو کہتے تھے کہ اب جماعت مر جائے گی.خدا نے کہا کہ جماعت اتنی قربانیاں پہلے دے رہی ہے.آؤ تمہیں ایک نظارہ دکھاؤں.یہاں پاکستان میں فضل عمر فاؤنڈیشن کی پچیس لاکھ کی تحریک تھی لیکن ستائیس لاکھ ہو گئے.وہاں انگلستان میں اکیس ہزار پاؤنڈ وعدے اور وصولی ہوئی.اب میں نے تحریک کی تو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۶۹ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار پچاس ہزار پاؤنڈ کے قریب پہنچ گئے.یہ تو خیر بعد کی بات ہے لیکن وہاں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ جماعت مری نہیں.جس کے جسم میں خون نہیں ہوتا وہ بلڈ بنک میں جا کر خون کا عطیہ نہیں دیا کرتا.اس جسم میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتوں کا خون ہے.جب بھی اللہ تعالیٰ کا نظام اپنے بلڈ بنک کے لئے ان سے خون طلب کرے گا.یہ خون دیں گے.یہ تو وہ تھے جو کہتے تھے کہ جماعت مرگئی کیونکہ ان کا وہ امام نہیں رہا جس کی وجہ سے وہ زندہ تھے.پھر وہ لوگ جو کہتے تھے کہ جماعت مرجائے گی کیونکہ ایک نا اہل امام بنا دیا گیا.ان کے لئے خدا نے اب میرے دماغ میں نصرت جہاں ریز روفنڈ کی تحریک ڈالی.میں ایک مثال دے رہا ہوں.اس وقت جبکہ کہا گیا تھا کہ جماعت مرگئی تو انگلستان کی چھوٹی سی جماعت نے اکیس ہزار پاؤنڈ یعنی چار لاکھ روپے سے اوپر چندہ دیا.جیسا کہ میں نے کہا انہوں نے خون کا عطیہ دیا اور جس جماعت کو کہا تھا کہ یہ مر جائے گی کیونکہ امام نا اہل اور بالکل ناکارہ ہے، اس جماعت کو پانچ سال کے بعد اس شکل میں دکھایا کہ بس ہزار پاؤنڈ سے چھلانگ لگا کر وہ پچاس ہزار پاؤنڈ تک اپنی قربانی میں علاوہ لازمی چندوں کے پہنچی ہوئی تھی.خدا نے کہا کہ میں حیسی و قیوم ہوں.میں زندہ کرتا، زندہ رکھتا اور قائم رکھتا ہوں.میں نے تمہیں یہ طاقت نہیں دی کہ تم کسی کو زندہ کر سکو یا زندہ رکھ سکو.میں نے اپنے مسیح کو ان بشارتوں کے مطابق کہا جو میں نے اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھیں کہ ایسی جماعت دوں گا جن کی زندگی میں خود بنوں گا اور جن کا سہارا میں ہوں گا.انسان تو عاجز ہے.اس کو اپنے عجز کا ہی اقرار کرنا چاہئے لیکن اس عاجز انسان کو اللہ تعالیٰ کو عاجز قرار نہیں دینا چاہئے نہ اس کو عاجز ہونے کا اعلان کرنا چاہیے.جب دنیا یہ کہتی ہے کہ خدا عاجز ہے تو خدا اپنی قدرت کا نظارہ دکھاتا ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن:۳۰) ہر روز ایک نئی شکل میں وہ ہمارے سامنے آتا ہے.غیر محدود قدرتوں کا مالک ہمیں غیر محمد ودجلوے دکھاتا ہے.ہم نے تو اپنی ان آنکھوں سے اپنے پیدا کرنے والے رب کو دیکھا ہے اور اس کی عظمت اور جلال کو اپنے خون کی رگوں میں بہتے ہوئے دیکھا ہے.دنیا کے نعروں کا جماعت پر کیا فرق پڑا یا کیا پڑسکتا ہے.جب کہ میں نے بتایا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ ہی اس مقام پر کھڑا کرے.میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء).۴۷۰ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار یہ مبالغہ نہیں کر رہا.خلیفہ تو میں اب بنا ہوں.یہ تو اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہو گیا.پچھلے تمہیں سال سے میرے سوچ و بچار میں یہ ہے اور میں اُس وقت بھی کہا کرتا تھا کہ ساری دنیا کی دولت ایک احمدی کی قیمت بھی نہیں بنتی.دنیا تمہیں نہیں پہچانتی اور تمہیں اس کا کوئی فکر نہیں ہونا چاہئے.اللہ جس نے تمہیں وہ بنایا جو تم ہو ، جب اس کی محبت تمہیں مل جاتی ہے تو اور کا خیال کوئی نہیں.لیکن دنیا تمہیں پہچانے گی ، اس لئے نہیں کہ دنیا کی عزتوں کی خواہش تم رکھتے ہو ، نہ اس لئے کہ دنیا کا اقتدار تم حاصل کرنا چاہتے ہو.دنیا اس لئے تمہیں پہچانے گی کہ خدا نے کہا کہ میں نے تمہیں دنیا کا خادم بنایا اور کوئی آتا ہے جو اپنے خادم کو نہیں پہچانتا پھر اچھے خادم کو.تم تو دنیا کے اچھے خادم ہو.آج نہیں تو کل دنیا تمہیں پہچانے گی.اس واسطے میں بار بار کہ رہا ہوں کہ دنیا تم سے جو مرضی ہے دشمنی کرتی رہے تم کسی کے دشمن نہیں ہو.تم تو خادم ہو اور خادم کو آقا بہر حال پہچانتا ہے اور اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہوتا ہے.ہمیں اس کی ضرورت نہیں لیکن اپنے وقت پر یہ چیز ہمیں مل جائے گی.انشاء اللہ تعالی.فضل عمر فاؤنڈیشن کی ساری دنیا کی وصولی بتیس لاکھ چونسٹھ ہزار تھی.کل نفع نقدی کی صورت میں چار لاکھ چھ ہزار ہے کیونکہ بہت ساری رقم یہ نفع آور کاموں پر لگاتے ہیں.کیپیٹل ایپریشی ایشن (Capital Appreciation) یعنی بعض چیزیں جو خریدی گئیں اور ان کی اس وقت قیمت بڑھ چکی ہے یا کچھ شیئر (Share) خرید کے اور ان کی قیمتیں بڑھ گئیں.اس لحاظ سے نفع چار لاکھ ستاسی ہزار ہے.لندن میں وہاں کے چندے کی ان ویسٹ منٹ (Investment) کی گئی تھی.دو مکانات خریدے جاچکے ہیں اور ایک کے خریدنے کا انتظام ہو رہا ہے.لائبریری کی سکیم تھی.آپ نے دیکھا ہو گا بڑی خوبصورت بن رہی ہے اور اس کے لئے ہم کتابوں کا بھی سوچ رہے ہیں.جو آیات قرآنی میں نے پڑھی تھیں.ہمیں اس طرف بڑی توجہ کرنی پڑے گی.اتنا تو ہمارے پاس ابھی مال نہیں اس واسطے جن دوستوں کو میں نے کتابوں کی رستیں بنانے پر لگایا ہے ان کو میں نے کہا ہے کہ ایک یا دو مضمون لے لو.اُن مضامین سے متعلق دنیا کی بہترین اور اس کثرت سے کتابیں ہوں کہ پاکستان میں اس مضمون میں جو بھی دلچسپی لے اُس کو مجبور ہو کر ہمارے پاس آنا پڑے اور پاکستان میں اور کہیں وہ کتاب نہ ملے.انشاء اللہ ایسا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ہو جائے گا اور ہر سال ترقی ہوتی چلی جائے گی.۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطار عیدین کے خطبات کی پہلی جلد شائع ہو چکی ہے ، یہ بھی دوست خریدیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح حیات کا مسودہ قریباً تیار ہے.علمی اور تحقیقاتی تصانیف کا مقابلہ ہر سال ہوتا ہے.اس سال کے انعامی مقابلہ میں گیارہ مقالہ جات کے وعدے ہیں جن میں سے تین مقالے موصول ہو چکے ہیں باقی کو بھجوانا چاہیے.زیادہ دوستوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت دوست صرف اس خیال سے اس میں حصہ لیتے ہیں کہ شاید ہمیں انعام مل جائے.ایک ہزار روپیہ انعام کی لالچ نہ کریں.جو اس طرف متوجہ ہوں گے ان کا علم بہت بڑھے گا.کئی ہزار احمدی بی.اے ہے.یعنی بی.اے یا بی.اے سے او پر جس کی تعلیم ہے مثلاً ایم.اے یا ڈاکٹر وغیرہ یا جو اس سے زیادہ تعلیم سبھی جاتی ہے، ان کو توجہ کرنی چاہیے.انعام ملے یا نہ ملے.تحقیق کے بعد، بڑی محنت سے راتوں کو جاگ کر اور کتب پڑھ کر مقالہ لکھنا یہ خود ایک انعام ہے.وقف عارضی وقف عارضی کے نئے فارم دو ہزار تین کے پہنچ چکے ہیں.یہ بڑی مفید اور اچھی سکیم ثابت ہوئی ہے.بڑی مؤثر ہے اور اس کے بڑے اچھے اثر نکل رہے ہیں.گذشتہ سال مردوں کے بائیس سو چون وفود بھجوائے گئے ( یعنی پنتالیس سو افراد پر مشتمل ایک وفد دو واقفین پر مشتمل ہوتا ہے.بعض دفعہ ایک رہ جاتا ہے لیکن دو ہی جاتے ہیں اور بنائے بھی دو ہی جاتے ہیں.مستورات کے پانچ سوسات وفود بھجوائے گئے.مستورات کے لئے ہم نے یہ قانون بنایا ہے کہ ان کو ا کیلئے نہیں بھیجنا، نہ ایک نہ دو، وقف عارضی پر یا تو عورت اپنے بھائی کے ساتھ جائے لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ اپنے خاوند کے ساتھ جائے یا ہم ان کو ان کے اپنے شہر اور حلقے میں لگا دیتے ہیں اور اپنے ؟ گھر میں رہ کر وہ کام کرتی ہیں.مردوزن ہر دو کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.وقف بعد ریٹائر منٹ ایک سو چودہ دوستوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد وقف کیا ہے.اللہ کا شکر ہے کہ ان میں سے اکثر نو جوان ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ ریٹائر ہونے کے بعد آج سے پندرہ یا بیس سال بعد وہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۷۲ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطاب ہمیں ملیں گے.جو جلدی ریٹائر ہونے والے ہیں ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں اور جو فوری ضرورت ہے اس کی تعداد زیادہ ہے.بہت سے تو ایسے مخلص ہیں جو کہتے ہیں کہ جب آپ کہیں ہم استعفی دیں گے اور کام کریں گے.اللہ تعالیٰ نے بڑے اچھے دل دیئے ہیں لیکن سوائے اشد ضرورت کے میں نہیں چاہتا کہ ان کو اکھیڑوں کیونکہ وہ بھی جماعت کے لئے خدمت کر رہے ہیں.ایسے لوگ دس فیصد حصہ وصیت کا دے رہے ہوتے ہیں اور دوسرے چندے بھی دیتے ہیں.اپنے شہر، گاؤں قصبے اور ضلع کو انہوں نے سنبھالا ہوا ہوتا ہے.اس کو مدنظر رکھنا چاہیے.بہر حال آدمیوں کی بہت ضرورت ہے.تعليم القرآن کچھ جماعتیں رپورٹیں بھجوا رہی ہیں، کچھ ست ہیں.ہفتہ قرآن مجید بھی منایا گیا جس سے کافی فائدہ ہوا.تعلیم القرآن کلاس منعقد کی گئی جس میں صرف پانسو تیر ہ طلبہ اور طالبات شریک ہوئیں.میں نے امرائے اضلاع کو کہا تھا کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے.شاید میں نے امرائے اضلاع کی میٹنگ میں کہا ہو.اب میں جماعت کے سامنے ان کو ذمہ دار قرار دیتا ہوں.اس کلاس میں با قاعدہ سکیم کے ماتحت نمائندے آنے چاہئیں مثلاً چاہے آپ شروع میں دس قریب قریب کی جماعتوں کا ایک نمائندہ بھیجیں اور وہ وہاں جا کر کام کرے.اول تو یہ ہے کہ ہر گاؤں کا آئے یہ ٹھیک ہے کہ اس کے نتیجہ میں ایک ہزار مرد آئے گا.اس دفعہ کل تعداد پانچ سو سے اوپر تھی.مرد سوا دو سو کے قریب تھے اور لڑکیاں زیادہ تھیں وہ آپ سے آگے بڑھ رہی ہیں اور یہ شرم کی بات ہے کہ مردوں سے لڑکیاں آگے بڑھ جائیں.بہر حال آگے بڑھ رہی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے.اگر ہر جماعت سے ایک نمائندہ بھی آئے تو ایک ہزار آنا چاہیے لیکن لاہور سے ایک کا کیا مطلب؟ راولپنڈی، پشاور سے ایک کا کیا مطلب؟ وہاں کے تو ہر محلے سے ایک دو آ بھی سکتے ہیں اور آنے بھی چاہئیں.اس طرح یہ پندرہ سو کی تعداد بن جائے ہیں سو کی بن جائے.سوا دوسو تو کچھ بھی نہیں.اے امرائے اضلاع ! اگر آپ نے ہی کیا ہے تو میں آپ کے ذریعہ آپ کو سزا دوں گا اور آپ کی ساری جماعت کو بھی.سزا یہ دوں گا کہ جب وہ کلاس ہو گی تو میں کہیں ادھر اُدھر ہو جایا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۷۳ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء.دوسرے روز کا خطاب کروں گا اور ان سے نہ ملوں گا.میں اس رنگ میں بھی غصے کا اظہار کر سکتا ہوں اور بعض دفعہ کیا کرتا ہوں لیکن میری خواہش یہ ہے اور اُسی کے لئے جماعت کو پیدا کیا گیا ہے اور یہی حقیقی ذمہ داری ہے جو ان کمزور کندھوں پر ڈالی گئی ہے کہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلایا جائے اور زیادہ سے زیادہ ہمارے بھائی اور بہنیں قرآن کریم سے واقف ہوں.محض ترجمہ بھی کافی نہیں، محض پرانی تفسیروں کو تھوڑا سا پڑھ لینا کافی نہیں.بعض دفعہ جب پوری توجہ ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک صفحہ بھی پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے.اس لئے کہ اُس صفحے میں دوسو نیا مضمون دماغ میں آجاتا ہے.ہر سطر میں دو دو مضمون ہوتے ہیں.عجیب انسان تھے.اصل ، اصل شاگرد تھے.کتابیں پڑھ کر ہمارا ذہن ایک اور فیصلہ کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی اور بچے اور اصل شاگر د حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تھے.دوسری کتابوں سے مقابلہ کر کے دیکھ لیں.میں صبح اٹھا ہوں تو میری طبعیت میں کچھ کمزوری تھی.دراصل نومبر میں میں بہت بیمار رہا ت پہلے فلو اور پھر نقرس کا حملہ ہوا.اللہ نے فضل کیا.پرسوں تو میری صحت اتنی اچھی تھی کہ میں سمجھتا تھا بہت ہی اچھی ہے لیکن یہ کمزوری کوفت کا اثر ہے.اب ایک حصہ رہ گیا ہے.میرے دماغ نے فیصلہ کیا تھا کہ یا آج کہہ جاؤں گا یا کل کی تقریر میں اس کا حصہ بنالوں گا.اللہ تعالیٰ کی منشاء یہی معلوم ہوتی ہے کہ کل کی تقریر کا حصہ بنالیا جائے.(رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
لدلد خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۷۵ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان اور ہر زمانہ کے لئے رحمت بن کر مبعوث ہوئے اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں: وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : ١٠٨) وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا پھر حضور انور نے فرمایا:.(بنی اسراءیل : ۸۳) ہمارے محبوب ! ہمارے آقا! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام بنی نوع انسان کے لئے اور ہر زمانہ کے لئے رحمت بن کر مبعوث ہوئے تھے.اس لئے آپ کی نظر محدود نہیں تھی.آپ کی توجہ محدود نہیں تھی.آپ کی دعائیں کسی خاص قوم یا زمانہ تک محدود نہیں تھیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام مکان کے لحاظ سے ان حدود سے باہر نہ دیکھ سکے، جن حدود کے اندر بنی اسرائیل قیام کرتے تھے اور نہ اس زمانہ سے پرے ان کی نگاہ جاسکی جس زمانہ سے یا جس وقت سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوئے.آپ کے زمانہ سے ورے دورے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نظر رہی.مگر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے لئے رحمت بن کر آئے تھے.انسان کے زمین پر پیدا ہونے سے قبل، بلکہ جب سے کہ یہ عالم بنا اس وقت سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض جاریہ دوسری مخلوق پر بھی اپنا اثر کر رہے تھے، اُن پر بھی برکتیں نازل کر رہے تھے.کیونکہ دوسری ساری مخلوق انسان کے لئے بنائی گئی تھی.یہ چاند یہ سورج یہ ستارے اور ستاروں کا یہ خاندان اور جو کچھ اس عالمین میں ہے وہ اس لئے بنا کہ اس زمین پر اچھے نیک اور مفید اثر ڈالے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب تا کہ انسان اُن سے فائدہ اُٹھائے انسانیت انسانوں کے سرتاج اور انبیاء کے فخر ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حسن واحسان کے جلوے دیکھنے کے قابل ہو جائے.چونکہ حضرت نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے فیوض روحانیہ کسی ایک قوم کے لئے یا کسی ایک زمانے کے لئے نہیں تھے بلکہ تمام بنی نوع انسان نے آپ کے فیوض سے حصہ لینا تھا.اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بشر کی حیثیت سے تو آپ نے اس زمین پر ایک محدود وقت میں یہ زندگی گزاری.پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار سے آپ کو ہم سے واپس لے لیا اور عرش پر اپنی دائیں جانب پوری عظمت اور جلال کے ساتھ بٹھا دیا کیونکہ آپ کے وجود میں اللہ تعالیٰ کی صفات، اس کی عظمت اور جلال کا کامل انعکاس تھا.وہ جس کا تھا اُس کے پاس چلا گیا لیکن وہ جہاں بھی تھا اور جس کے لئے پیدا کیا گیا تھا یعنی انسانیت اس کو وہ کھولا نہیں، بلکہ ہر قوم تک ہر زمانے تک اس کی محبت اور اس کی رحمت کی موجیں جوش مارتی ہوئی پہنچیں اور انسان نے اُن سے فائدہ اُٹھایا.اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت بھی دی تھی کہ آپ کے ذریعہ تمام اقوام عالم تمام بنی نوع انسان وحدت اجتماعی کی شکل اختیار کریں گے اور ایک خاندان بن جائیں گے.یہ دُنیامت واحدہ بن جائے گی.پاکستان اور ہندوستان اور چین اور روس اور یورپ اور امریکہ اور جزائر کے رہنے والوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا.مثلاً ایک خاندان کے افراد مختلف جگہوں پر رہتے ہیں مگر بوجہ اس کے کہ وہ مختلف جگہوں پر رہتے ہیں، وہ مختلف خاندان نہیں بن جاتے.افراد تو وہ اسی ایک خاندان کے ہوتے ہیں.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتِ واحدہ کا وعدہ دیا گیا تھا لیکن آپ کی نشاۃ اولی میں، پہلے زمانہ میں، جو اسلام کی ترقی کا زمانہ تھا، اس میں ایسے اسباب ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے کہ تمام بنی نوع انسان ایک قوم بن جائے.اس وقت نہ تار تھی ، نہ ڈاک تھی نہ کتب کے شائع ہونے کا انتظام تھا، نہ انسان چند گھنٹوں میں ساری دُنیا کا چکر لگا سکتا تھا.اس واسطے اس زمانے کو ہمارے اسلامی لٹریچر نے ( یعنی ہمارے علماء اور اولیاء نے جو کتب لکھی ہیں اور آراء ظاہر کی ہیں،اس میں انہوں نے ) اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ آپ کا وہ زمانہ تکمیل ہدایت کا تھا.قرآن کریم ایک رحمت اور شفاء کی حیثیت میں ، ایک کامل اور مکمل شریعت کا حامل بن کر دُنیا کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) CLL ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب طرف نازل ہوا اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کر کے ایک حسین اسوہ بنی نوع کے ہاتھ میں دیا لیکن امریکہ کے رہنے والوں تک اُس وقت وہ آواز نہیں پہنچ سکتی تھی کیونکہ اس وقت ایسے وسائل اور ذرائع نہیں تھے لیکن وعدہ تھا کہ انسانیت کو ایک خاندان بنا دیا جائے گا.ایک قوم بنا دیا جائے گا.یہ دنیا ملت واحدہ بن جائے گی.دوسرے تمام ادیان جو ہیں اُن کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مٹ جائیں گے.اُن کی ضرورت نہیں رہے گی.جس طرح کھنڈرات ہوتے ہیں اس طرح شاید ان کے نشان باقی رہ جائیں گے.شاید ہزاروں کی تعداد میں عیسائیت پر ایمان لانے والے باقی رہ جائیں یا ہزاروں کی تعداد میں یہودی باقی رہ جائیں یا ہندو یا دھریت پر دھر یہ قائم رہیں.دھریت اگر چہ لامذہبیت کا نام ہے لیکن بہر حال ان کے کچھ اصول ہیں جن کے مطابق وہ اپنی زندگی گزار رہے ہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ وعدہ نہیں تھا کہ بطور مذہب کے صرف اسلام باقی رہ جائے گا.اگر محض یہ وعدہ ہوتا تو اس صورت میں بھی پورا ہو جاتا کہ اسلام کے علاوہ تمام مذاہب ختم ہو جاتے.ان کا اثر و رسوخ قائم نہ رہتا لیکن دھریت قائم رہتی.دھریت اس معنی میں تو مذہب نہیں ہے.یہ وعدہ نہیں تھا.یہ بشارت نہیں تھی بلکہ بشارت یہ تھی کہ اتنی بھاری اکثریت انسانوں کی جن میں امریکہ میں بسنے والے، افریقہ میں بسنے والے، یورپ میں بسنے والے، ایشیا میں بسنے والے، روس میں بسنے والے، چین میں بسنے والے، جاپان میں بسنے والے ، آسٹریلیا میں بسنے والے ، نیوزی لینڈ میں بسنے والے اور دیگر جزائر میں بسنے والے سارے شامل ہیں.وہ عیسائی ہوں، یہودی ہوں، بد مذہب ہوں یا لامذہب دھریے ہوں ان سب کے متعلق یہ بشارت تھی کہ کسی عقیدے یا خیال یا مذ ہب یا اصول کا انسان یا گروہ یا جماعت جو اسلام کے مخالف ہے وہ باقی نہیں رہے گا.کھنڈر باقی رہتے ہیں قلعہ تو باقی نہیں رہتا.جو کھنڈر باقی ہوتا ہے اس کو شہر تو کہ سکتے ہیں آباد نہیں کہہ سکتے.غرض نشان کے طور پر جہاں لوگوں کے لئے عبرت کا مقام بننے کے لئے کچھ نشان رہ جائیں گے سینکڑوں کے تعداد میں شاید ہزاروں کی تعداد میں ممکن ہے لاکھ ڈیڑھ دو لاکھ بھی ہوں مگر لاکھ ڈیڑھ دو لاکھ دنیا کی آبادی میں کوئی بڑی تعداد نہیں ہوتی.پس یہ بشارت تھی نشاۃ اولیٰ میں جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت کومکمل کر کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب اس کی اشاعت کے کام میں مصروف ہوئے (اشاعت کے کام میں تو شروع سے مصروف تھے لیکن تکمیل دین آپ کی زندگی کے آخری حصے میں ہوئی اور پھر آپ کے خلفاء نے اس کام کو جاری کیا جس کے نتیجہ میں اسلام اس وقت کی معروف دنیا میں پہنچ گیا لیکن چونکہ وسائل اور ذرائع نہیں تھے.دنیا میں بہت سی جگہوں پر انسان بستے تھے اور دوسری جگہوں پر بسنے والے انسانوں کو اسلام کا علم ہی نہ تھا.انسان یہ جانتا ہی نہیں تھا کہ امریکہ اور آسٹریلیا میں اور نیوزی لینڈ میں اور افریقہ کے ان جنگلات میں ( جہاں لوگ بالکل غیر مہذب زندگی گزارر ہے تھے ) انسان بس رہے ہیں.غرض تکمیل ہدایت تو ہو گئی لیکن اشاعت تکمیل ہدایت کا جو وعدہ تھا وہ عملاً اُس وقت پورا نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا تھا.کیونکہ اُس وقت ذرائع نہیں تھے لیکن یہ وعدہ تھا کہ قیامت سے پہلے اسلام کے ذریعہ تمام بنی نوع انسان کو ملت واحدہ میں جمع کر دیا جائے گا.ہو ہمارے بزرگوں نے آیت کریمہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: ١٠) یعنی محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے مبعوث کیا گیا ہے کہ آپ اسلام کو تمام خیالات اور ادیان پر غالب کریں اور دہریت بھی اور مختلف مذاہب بھی قریباً ختم ہو جائیں یا جن کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ گے.میں کہوں گا ختم ہو جائیں اور صرف اسلام باقی رہ جائے وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمُ لَمَّا لحَقُوا بِهِمْ (الجمعة : ۴) میں بھی اللہ تعالیٰ نے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے اس کے متعلق ہمارے بزرگوں نے لکھا ہے کہ مسیح کے نزول کے ساتھ اور مہدی موعود کے آنے کے ساتھ پیشگوئی پوری ہوگی.ہماری اسلامی کتب اس چیز سے بھری پڑی ہیں.اس کی تفصیل میں میں اس وقت ہیں جانا چاہتا.غرض پہلوں نے بھی مانا اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو وحی نازل کی اس کے ذریعہ بتایا ہے کہ قرآن کریم میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ جو وعدہ کیا تھا کہ اسلام تمام انسانوں کے دلوں کو جیت لے گا اور بنی نوع انسان بحیثیت نوع کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جمع ہو جائیں گے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا زمانه مهدی موعود اور مسیح موعود کا زمانہ ہے پھر اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاما بتایا چنانچہ آپ نے اس مسئلہ پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۷۹ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب یہ جو پہلے حوالے ہیں یا اب حوالے ہیں ان کی تفصیل میں میں اس لئے جانا نہیں چاہتا کہ میں اس بات کو بطور تمہید کے بیان کر رہا ہوں.ایک دو حوالے میں بتا بھی دیتا ہوں تا کہ بعض جستجو کر.والے دل جو ہیں ان کی تسلی بھی ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا اس کی نظر محدود نہ تھی اور اس کی عام غم خواری اور ہمدردی میں کچھ قصور نہ تھا بلکہ کیا باعتبار زمان اور کیا باعتبار مکان اس کے نفس کے اندر کامل ہمدردی موجود تھی اس لئے قدرت کی تجلیات کا پورا اور کامل حصہ اس کو ملا اور وہ خاتم الانبیاء بنے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ صفحه ۲۹) ہماری جامع البیان عربی کی مشہور تفسیر ہے.اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى 66 الدِّينِ كُلِّم کے معنے یہ ہیں کہ لیظهر دينه الحق الذي ارسل به رسوله علی کل دین سواه و ذلك عند نزول عیسی ابن مریم و حين تصير الملة واحدة فلا يكون دين غير الاسلام 66 ( جامع البیان فی تفسیر القرآن جلد ۲۸ صفحه ۸۸ زیرتفسیر سورة الصف آيت هو الذي ارسل رسوله......یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے ساتھ یہ وعدہ پورا ہو گا کہ تمام بنی نوع انسان ایک وجود بن جائیں ایک ملت واحدہ بن جائیں.بحارالانوار جو شیعہ حضرات کی کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ ابن مریم جو حکم اور عدل بن کر آئے گا اس کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ وہ صلیب کو توڑے گا.( بحارالانوار جلد ۵۲ صفحه ۳۸۴/۳۸۳) انہوں نے یہ کیف انتم اذا نزل ابن مريم فيكم و امامکم منکم ( حدیث دی ہے اور یہ حدیث بخاری میں بھی موجود ہے.بخاری کی دو مشہور شرحیں ہیں.ایک عینی کی اور دوسری فتح الباری.عینی کی شرح بخاری میں یہ لکھا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ کسر صلیب سے مراد نصاری کے جھوٹ اور بطلان کا اظہار ہے یعنی ہر شخص کو بتا دیا جائے گا اور ان کے ذہن نشین کرا دیا جائے گا کہ جو عقائد نزول مسیح محمدی کے وقت نصاری کے ہیں وہ درست نہیں ہیں بلکہ باطل ہیں.فتح الباری میں لکھا ہے :.اى يبطل دين النصرانية ( فتح الباری جلد ۶ کتاب الانبیاء باب نزول عیسی علیہ السلام صفحہ ۴۹۱) کہ وہ عیسائی مذہب کو باطل قرار دے گا اور اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۸۰ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب ایک جگہ بڑے ہی لطیف پیرایہ میں یوں بیان فرمایا ہے.کسی عیسائی نے پوچھا کہ آپ کس غرض کے لیے مبعوث ہوئے ہیں.جواب میں آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لیے مبعوث فرما ہے کہ میں اس صلیب کو دلائل کے ساتھ تو ڑ دوں جس صلیب نے حضرت مسیح کی ہڈیوں کو توڑا اور زخمی کیا تھا.بحارالانوار کی جو میں نے حدیث پڑھی تھی اس کے آگے وہ لکھتے ہیں کہ ابن عباس نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان کی ہے کہ کسر صلیب کا تعلق مہدی سے ہے اور مہدی صلیب کو توڑے گا اور اللہ تعالیٰ کے دین کو تمام دینوں پر غالب کرے گا.اگر چہ مشرک اسے پسند نہ کریں.غرض بحار الانوار نے کسر صلیب اور قتل خنزیر کی حدیث کو آیہ کریمہ که لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ وَلَوْكَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (الصف:۱۰) کی تفسیر قرار دیا ہے.جیسا کہ میں نے متعدد بار بتایا ہے چونکہ قرآن کریم ایک کامل اور مکمل کتاب ہے اس لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد ایسا نہیں جو قرآن کریم سے باہر ہو آپ کا ہر ارشاد اور ہر قول قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہے.اگر آپ ایک بات کے متعلق بھی غلط طور پر یہ مجھنے لگیں کہ آپ نے قرآن کریم سے کوئی زائد بات کی ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ اس حد تک آپ نے قرآن کریم کو غیر کامل قرار دے دیا لیکن چونکہ قرآن کریم کس ایک کامل اور مکمل کتاب ہے اس لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے ارشادات اور اقوال قرآن کی تفسیر ہیں خواہ ہمیں ان کی سمجھ آئے یا نہ آئے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ مدتوں یعنی سال دو سال تک ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی عبارت پڑھتے رہتے ہیں یا کوئی حدیث یا تفسیر پڑھی ہوتی ہے لیکن سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ اس کا قرآن کریم کی کس آیت کے ساتھ تعلق ہے لیکن پھر اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے اور اس کا مضمون ذہن میں آجاتا ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے وہ فلاں آیت کی تفسیر ہے.پس یہ تو اصولی طور پر انسان کا دماغ یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بھی قرآن کریم سے زائد کہا ہو.یہ ہوہی نہیں سکتا.یہ بالکل ناممکن بات ہے.اسی واسطے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۸۱ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب بحارالانوار کے مصنف کے دماغ میں آیا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تھی کہ مہدی خنزیر کو قتل کرے گا اور صلیب کو توڑے گا.تو انہوں نے اپنے دماغ میں ہماری طرح سوچا ہوگا کہ کون سی آیت کی یہ تفسیر ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سمجھا دیا ہوگا کہ یہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِينِ كُلِّم کی تفسیر ہے اور یہ بشارت مہدی اور مسیح کے زمانہ میں پوری ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اس کے متعلق فرماتے ہیں:.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب آیت وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ دوباره تشریف لا نا بحجر صورت بروز غیر ممکن تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا جو خلق اور خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ گویا اس کا ظہور بعینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور تھا.(تحفہ گولڑ و یہ روحانی خزائن جلد نمبر ۷ صفحه ۲۶۳) حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ مجھ میں اور میرے محبوب روحانی فرزند مہدی میں کوئی فرق نہیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی وحی کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ آپ میں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی فرق نہیں.ایک بالکل صاف اور مصفا آئینہ ہو اور آپ اس میں شکل دیکھیں تو آپ کا چہرہ ہو بہو اس کے اندر منعکس گا.کوئی فرق نہیں ہوگا اس حقیقت کو ہم مختلف محاوروں میں ادا کرتے ہیں.کبھی ہم کہتے ہیں بروزی رنگ میں کبھی ہم کہتے ہیں خالی طور پر کبھی ہم کہتے ہیں کہ بالکل آپ کا عکس.بہر حال جب رنگ پورے کا پورا اور کھل کر اور روشن ہو کر چڑھ جائے تو کہتے ہیں کہ یہ اس رنگ میں رنگین ہو گیا ہے.جو لوہا آگ میں سُرخ کیا جاتا ہے وہ آگ نہیں بن جاتا لیکن اس پر آگ کا اتنا رنگ چڑھ جاتا ہے اور آگ کی اتنی خصلتیں اس کے اندر پیدا ہو جاتی ہیں کہ اپنی تاخیرات کے لحاظ سے آگ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا.یہی کیفیت ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اس روحانی فرزند کی جو آپ کو اتنا عزیز تھا کہ اس امت محمدیہ میں اس قدر پیار کا اظہار آپ نے اور کسی سے نہیں کیا.آپ نے فرمایا اگر تم مہدی کو ملو، اس کے زمانے میں پیدا ہو تو میرا سلام اُسے پہنچا دینا.بڑے پیار کی یہ بات ہے.بڑے بڑے بزرگان امت محمدیہ میں پیدا ہوئے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۸۲ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب ہیں.اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر کوئی بزرگ بھی ایسا نہیں پیدا ہوا جسے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سلام کے لئے منتخب کیا ہو یہ ایک بڑا فرق ہے.پس اُس زمانے سے لے کر آج تک اور پھر قیامت تک حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا ہے.وہ نہ مکان کو دیکھتا ہے اور نہ زمانے کو دیکھتا ہے وہ جو عالمین کے لئے رحمت بن کر آیا وہ ہر ایک کے پاس پہنچا اور انہیں محبت اور پیار کے ساتھ گلے لگایا اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں اُن کے اوپر کھول دیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اس قدر عظیم کام کیسے کیا گیا ؟ اس کے لئے کیا وسائل اور ذرائع اختیار کئے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں عالمین کے لئے ظاہر ہوتی ہے وہ عالمین تک پہنچ جائے.اس کا بھی تو اللہ تعالیٰ نے انتظام کرنا تھا.وہ کون سی قو تیں تھیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس غرض کے حصول کے لئے دی گئیں اور فطرت کے وہ کون سے تقاضے تھے جو اس لئے پیدا کئے گئے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ جب اُس رنگ یا اس رنگ میں جلوہ دکھائے تو انسانی فطرت اُسے قبول کر لے.اس جلسہ کے لئے میں نے بہت سا کچھ سوچا تھا اور بہت سے حوالے جمع کئے تھے لیکن جس کو انگریزی میں melting point کہتے ہیں وہ سارا مضمون غیر معین طور پر میرے دماغ میں چکر لگا رہا تھا.اپنی شکل نہیں اختیار کر رہا تھا.پھر اللہ تعالیٰ بڑا پیار کرتا ہے.وہ بڑا پیار کرنے والا ہے.گزشتہ رات کو ایک وقت میں اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا (ویسے الہاما نہیں بلکہ میرے دل میں ڈالا ) اور اس سے ایک واضح شکل میرے سامنے آ گئی اور اس کے مطابق میں آپ سے ا.بات کر رہا ہوں.ہمارے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ کون سے ذرائع بتائے گئے ہیں جن کے نتیجہ میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت ملک ملک ، شہر شہر، قریہ قریہ، گاؤں گاؤں اور گلی گلی پہنچ گئی.اس مادی دنیا میں کوئی وسیلہ ہونا چاہئے اور اس مادی دنیا میں جو لوگ رہتے ہیں ان کی طبیعت اور فطرت کے مطابق ہونا چاہئے ورنہ تو خالی رحمة للعالمین کہہ دینا کافی نہیں ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو پہلے انبیاء گزرے ہیں کہنے والے تو ان کے حق میں مبالغہ کرتے ہوئے کچھ کا کچھ کہہ جاتے ہیں مگر نتیجہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۸۳ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب صفر ہوتا ہے مگر اسلام نے ایک حسین نعرہ لگایا ہے.اللہ تعالی نے دنیا کی ہر نسل کو مخاطب ہو کر کہا کہ رحمة للعالمين تمہاری طرف مبعوث کیا جا رہا ہے اور پھر اس رحمت کو ہر فرد تک پہنچانے کا انتظام کیا.یہ انتظام کیا تھا؟ اس کے متعلق ہمیں سوچنا چاہیے.ہر ذہن کو اس پر غور کرنا چاہیے.اس وقت میں جو باتیں بیان کروں گا آپ ان کو سمجھنے کی کوشش کریں.غرض ایسے ذرائع ہونے چاہئیں کہ ہر قوم کے دل اور ہر قوم کی فطرت اور ہر زمانے کے لوگ اس کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں.ہر نسل اور ہر قوم کی فطرت صحیحہ انسانیہ ایک ہی ہے.یہ فطرت صحیحہ انسانیہ کہے کہ یہ جو بات کہی جارہی ہے یہ واقع میں ایسی ہے کہ یہ ہمارے دلوں کو موہ لیتی ہے.ایسے مضبوط روحانی اور اخلاقی بندھن ہیں کہ جن سے باہر نکلنا کوئی پسند ہی نہیں کرتا اور ان بندھنوں میں جکڑ کر سارے انسانوں کو اکٹھا کیا جائے گا.اس زمانے میں ہم داخل ہو چکے ہیں اور ذمہ واری ہم پر ہے ( اس کے متعلق تو میں بعد میں بیان کروں گا ) لیکن کیا ذمہ داری ہے اور کیا وسائل اختیار کئے گئے ہیں پہلے میں ان کو لیتا ہوں.پہلی چیز کہ کوئی شخص (سوائے کسی پاگل کے ) یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے نتیجہ میں انسانوں کے دل نہیں جیتے جا سکتے اور تمام اقوام عالم کو ملت واحدہ نہیں بنایا جا سکتا اور یہ وسیلہ اور یہ ذریعہ جو اختیار کیا جا رہا ہے یہ درست نہیں ہے کوئی عقلمند یہ نہیں کہے گا.سارے لوگ یہ کہیں گے کہ اگر ذریعہ اختیار کیا جائے تو یقیناً ہر انسان کا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتا جا سکتا ہے پس پہلا وسیلہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کے ذریعہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے وہ شرف انسانیت کا ہے ہر انسان کی عزت اور اس کے احترام کو قائم کرنے کا نعرہ لگا دیا.جہاں بتوں کے خلاف نعرہ لگایا تھا وہاں بت پوجنے والوں کے خلاف نعرہ لگا دیا کہ ایک عربی اور عجمی میں کوئی فرق نہیں ہے ایک کالے اور گورے میں کوئی فرق نہیں ہے ہر انسان کو بحیثیت انسان محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ وہ شرف اور عزت بخشی گئی جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا تھا اور جس کے متعلق خدا چاہتا تھا کہ ان کو ملے.اب دُنیا کا کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ جی! اگر تمام بنی نوع انسان کو عزت و شرف کے ایک مقام پر لا کر کھڑا کر دیا جائے تو اس سے اقوام عالم کے دل نہیں جیتے جائیں گے.یہ کوئی نہیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۸۴ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب کہ سکتا.ہر آدمی یہ کہے گا کہ تم ہمیں یہ عزت دو ہم تمہاری طرف آجائیں گے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود کیا کہیں ہماری زبان تو آپ کی شان بیان نہیں کر سکتی اس کے ساتھ بھی پیار آ جاتا ہے عزت اور شرف اور احترام اور پیار بھی بیچ میں آ جاتا ہے.میں اس وقت ایک ہی مثال دیتا ہوں کیونکہ آج کا مضمون کچھ لمبا ہو گیا ہے کل کا بھی بیچ میں چھوٹا ہوا ہے.اس لئے تفصیل میں میں جانہیں سکتا.قرآن کریم نے متعدد جگہ پر اس بات کا اظہار کیا ہے چنا نچہ اللہ تعالیٰ سورہ زخرف میں فرماتا ہے:.وَإِنَّهُ لَذِكْرُ لَكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْتَلُونَ (الزخرف: ۴۵) 66 اس آیت میں امت محمدیہ کی ذمہ واری کی طرف بڑے زور سے توجہ دلائی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد ! یہ کلام جو تیرے اوپر اتارا جا رہا ہے وہ تیرے لئے بھی شرف اور عزت کا موجب ہے اور تیری قوم کے لئے بھی ” وَسَوْفَ تُسْتَلُونَ “ اور اے امت محمدیہ ! تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اس ہدایت اور تعلیم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالا ہے یا نہیں.وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَلَمِينَ “ (القلم :۵۳) یه در اصل و لقومک کے متعلق ہے کیونکہ کوئی معاند اور مخالف کہہ سکتا تھا کہ اس کے مخاطب صرف عرب ہیں کیونکہ وہ آپ کی قوم ہیں اس لئے دوسری جگہ فرمایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم عرب نہیں بلکہ عالمین میں بسنے والے با اختیار اور بالا رادہ کام کرنے والی مخلوق ہے اس لئے فرمایا وَ مَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَلَمِيْنَ قرآن کریم ساری دُنیا کے لئے شرف لے کر آیا ہے.پھر اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو جھنجھوڑنے کے لئے انہیں مخاطب کر کے کہتا ہے بَلْ أَتَيْنَهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُونَ (المؤمنون :۷۲) ہم ان کے پاس ان کی عزت کا سامان لے کر آئے تھے اور دُنیا میں کوئی عقل مند انسان اپنی عزت اور شرف کے سامان کی وصولی میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا یا لینے سے انکار نہیں کرتا.لیکن یہ عجیب قوم ہے کہ جو سامان ہم ان کی عزت یا شرف کا لے کر آئے تھے وہ اپنی عزت کے ان سامانوں سے اعراض کر رہے ہیں اور قرآن کریم کی طرف توجہ نہیں کرتے.پس پہلا ذریعہ ملتِ واحدہ کے قیام کا اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کے ہاتھ میں یہ دیا ہے کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۸۵ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب تمام انسانوں کو ایک جیسی عزت اور شرف حاصل ہے ابھی میں مساوات کی بات نہیں کر رہا یہ اس سے بڑھ کر ہے یہاں سے ابتداء ہوتی ہے.ہر انسان Potentially یعنی اگر وہ اپنے قولی کی صحیح نشو و نما کرے تب اس قابل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت کا مقام حاصل کرے.جو انسان یا جو فرد واحد اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت کا مقام حاصل کر لیتا ہے وہ بنی نوع انسان کے لئے معزز اور قابل احترام بن جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بڑے ہی حسین نمونے ہمارے لئے چھوڑے ہیں میں ایک چھوٹی سی مثال دے دیتا ہوں.ایک صحابی تھے وہ مزدوری کیا کرتے تھے پتھروں کی کٹائی کیا کرتے تھے.پتھر کوٹ کوٹ کر ان کے ہاتھ جسم کے رنگ سے زیادہ کالے ہو گئے تھے.عام طور پر ہاتھ سے کام کرنے والوں کے ہاتھ کالے ہو جاتے ہیں خصوصاً جو مٹی میں کام کرنے والے پتھر کی کٹائی کرنے والے لوگ ہوتے ہیں اُن کے جسم پر سیاہی کا زیادہ رنگ آجاتا ہے.غرض وہ رنگ میں بالکل سیاہ ہو گئے تھے.ایک دن حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے پوچھا کہ تمہارے یہ ہاتھ کیوں کالے ہو گئے ہیں.تو اس صحابی نے آگے سے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں دن بھر پتھر پر پھاؤڑا چلاتا ہوں اور اس سے اپنے اہل وعیال کی روزی کماتا ہوں جب اس نے یہ کہا تو غالباً اس رنگ میں کہا ہوگا یا اظہار کیا ہو گا کہ میں ہوں تو انسان مگر دُنیا میں میری عزت اور احترام کوئی نہیں.لیکن آپ تو لوگوں کی عزت و احترام کو قائم کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے جب آپ نے یہ سنا تو اس صحابی کا ہاتھ پکڑ کر فرط محبت سے چوم لیا.یہ عزت اور احترام ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے غریب سے غریب مزدور کو دیا اور یہ عزت اور شرف کا مقام یا عزت و شرف دینے کی تعلیم ہے جس کے ذریعہ سے ہم آج دُنیا میں یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم نے دل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت کے چھوڑنا ہے.عزت و شرف کے بیان کرنے کے بعد اب میں مساوات کو لیتا ہوں.مساوات، انسانی عزت یا شرف انسانی کے بعد دوسرے نمبر پر آتی ہے.شرف انسانی تو ہے کہ ہم نے دوسرے آدمی کی عزت کرنی ہے.اس میں یہ نہیں ہوتا کہ کس چیز میں ہم نے دوسرے انسانوں سے اُسے برابر سمجھنا ہے.عزت کرنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو بھی تمہیں ملنے کے لئے آتا ہے اس کی عزت اور احترام کرو خواہ وہ بہترین سوٹ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) میں ملبوس ہو خواہ چیتھڑوں میں لپٹا ہوا ہو.۴۸۶ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب مساوات کا عظیم نعرہ بھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا ہے سو چو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وجود کہ جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا.لَوْلَاكَ لِمَا خَلَقْت الافلاک ( موضوعات کبیر زیر حرف لام ) اے رسول !! تیری یہ شان ہے کہ اگر میں تجھے پیدا نہ کرنا چاہتا تو اس دُنیا کو نہ پیدا کرتا.پھر میں نے اس دُنیا کو کیوں پیدا کرنا تھا؟ میں نے تیری خاطر اس عالمین کو پیدا کیا ہے.اس افلاک کو ا کیا ہے.زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے آپ کا پاک اور مطہر وجود مبتداء ہے مزدور کا بھی اور انبیاء کا بھی سب اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں.( یہ محاورہ ہے ویسے تو ہاتھ جوڑنے کی ہمیں تعلیم نہیں دی گئی.لیکن سمجھانے کے لئے میں نے یہ محارہ استعمال کیا ہے.) ہم سب اس کے سامنے پیار سے جھکتے ہیں اس پر درود بھیجتے ہیں.درود بھیجنے میں بھی غریب.اور سب سے بڑے نبی کا ( آپ کے بعد جو ہیں ) ان میں کوئی فرق نہیں ہے.ایسے پاک و مطہر اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس قدر معزز اور محبوب وجود کے منہ سے دنیا کو مخاطب کر کے یہ اعلان کروایا.قلی ساری دُنیا میں یہ اعلان کر إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (الكهف: ) کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے میں تمہاری طرح ایک بشر اور تم میری طرح ایک بشر ہو آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی کا مطالعہ کریں آپ کو کہیں فرق نظر نہیں آئے گا.حج کے موقع پر روسائے قریش اپنے لئے بعض امتیازی نشان قائم کیا کرتے تھے مثلاً اچھی جگہوں پر خیمے لگا لیتے.آپ کے صحابہ کے دماغ میں یہ پرانی بات تھی.انہوں نے آہستہ آہستہ تربیت حاصل کی تھی.کسی کے منہ سے نکل گیا کہ آپ کے لئے خاص جگہ خیمہ لگتا ہے فرمایا بالکل نہیں.جو لوگ پہلے آگئے ہیں انہوں نے اپنا حق لے لیا ہے جو بعد میں آئے ہیں انہیں جہاں جگہ ملی وہاں خیمے لگائیں گے.غرض زندگی کے کسی شعبہ کو لے لیں.آپ نے کوئی امتیاز روا نہیں رکھا.یہ امتیاز نہیں ہے ( اگر کوئی عیسائی یہ اعتراض کر دے گا ) کہ نماز میں سب سے آگے کھڑے ہوتے ہیں نماز میں امام نے تو بہر حال آگے کھڑے ہونا ہے.وہ جو امام آگے کھڑا ہوتا ہے وہ بشر کی حیثیت سے نہیں کھڑا ہوتا بلکہ وہ امام کی حیثیت سے کھڑا ہوتا ہے وہاں یہ سوال نہیں ہوتا کہ بشر بشر میں کوئی فرق کرنا ہے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۸۷ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب وہ تو امام ہے.اُس نے تو بہر حال آگے کھڑا ہونا ہے اور جو اس کے پیچھے پہلی صف ہے اس میں مٹی سے اٹا ہوا ایک مزدور آدمی بھی کھڑا ہوتا اور امیر بھی اور پیچھے جو آئے گا وہ بعض دفعہ مزدور کے پاؤں میں اپنا سر رکھ رہا ہو گا.غرض عمل سے بتا دیا کہ بشر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں.اب مثلاً یہ عیسائی ہیں یہ جب افریقہ میں گئے تو انہوں نے مساوات قائم نہیں کی.یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں اور اس وجہ سے اب وہ Retreat یعنی وہاں سے ان کی واپسی ہے اور اس طرح ہمارے لئے آگے بڑھو کا پروگرام ممکن ہو گیا ہے.ہم آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ پیچھے جا رہے ہیں.ایک لطیفہ بتا دوں بعض مبلغین نے مجھ سے ذکر کیا کہ پہلے ان کا شہروں میں زور تھا پھر ان کا قصبوں میں زور ہوا.جہاں ہمارے مبلغ جاتے تھے وہ پیچھے ہٹتے جاتے تھے اور اب وہ Bush ( بش ) میں چلے گئے.وہاں Bush کا مطلب ہے وہ علاقہ جہاں سڑکیں کوئی نہیں جنگل ہیں وہ جہاں ان ملکوں کی آبادی کے وحشی حصے آباد ہیں.ابھی تک وہ علاقہ اوپن نہیں ہوا یعنی کھلا نہیں ہے.نہ سڑکیں بنی ہیں نہ سکول اور اس لیے ان کی زندگی بڑی غیر مہذب ہے چنانچہ پیچھے ہٹتے ہٹتے اب بش Bush میں چلے گئے ہیں.بے اختیار میرے منہ سے سے نکلا follow them to the bush ان کے پیچھے جاؤ bush میں.تم یہاں کیوں کھڑے ہو؟ دراصل بات یہ ہے کہ عیسائیوں نے مساوات کو قائم نہیں کیا.میرے لیے تو یہ حیرت کا مقام تھا اور مجھے بڑا دکھ ہوا کہ جب میں نے ہزاروں لوگوں کے مجمع میں پہلی دفعہ ایک بچے کو اٹھا کر پیار کیا تو اس سے ایک عجیب سماں پیدا ہوا.ان کے چہروں سے اس قدر خوشی پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی تھی کہ اس خوشی سے ہوا میں ایک ایسا ارتعاش پیدا ہوا جسے میرے کانوں نے بھی سنا.اس سے مجھے خوشی بھی ہوئی لیکن مجھے بڑا رنج اور صدمہ بھی ہوا کہ یہ بیچارے آج تک پیار سے محروم ہیں دو سو سال سے عیسائیت انہیں یہ کہہ رہی تھی کہ وہ مساوات کا پیغام لے کر آئی ہے مگر وہ اس پر عمل نہیں کر رہی تھی.چنانچہ جب میں نے ایک افریقن بچے سے پیار کیا تو یہ انہوں نے ان کی زندگی میں پہلی بار دیکھا.میں نے بعض دوستوں سے پوچھا کہ میں نے آج یہ کیا نظارہ دیکھا ہے؟ بہر حال اس سے مجھے خوشی بھی ہوتی کہ ہم اسلام کا پیغام لے کر گئے ہیں لیکن رنج بھی ہوا کہ وہ آج تک پیار -
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۸۸ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب محروم رہے ہیں.اس حد تک کہ وہ تو اپنے تصور میں بھی یہ بات نہیں لا سکتے تھے کہ کوئی ایسا شخص بھی افریقہ سے باہر پیدا ہو سکتا ہے جو ان سے پیار کرے ان کے بچوں سے پیار کرے.قرآن کریم کے مطابق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الکھف: 1)‘ اور صرف فرمایا ہی نہیں بلکہ خدا تعالی نے فرمایا کہ ساری دنیا میں اعلان کر دو کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.بشر ہونے کے لحاظ سے دنیا میں اس وقت کتنے فرق پیدا ہو گئے ہیں اور اس کے نتیجہ میں کتنی خرابیاں پیدا ہوئیں.کتنے اطمینان اور سکون تھے دلوں کے جو چھین لیے گئے.حقارت کی ایک نگاہ ڈال دی اور بے چین کر دیا جس پر یہ نگاہ پڑی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ہمیں بڑے زور اور شدت کے ساتھ یہ سبق دیا ہے کہ کسی کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا.اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو محبت اور پیار اور رضا کی نگاہ سے دیکھے تو پھر آپ کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی پیدا کردہ مخلوق میں سے ہر ایک کو پیار اور محبت اور رضا کی نگاہ سے دیکھیں ورنہ آپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کیسے رضا اور پیار کو دیکھ سکتے ہیں.پس دوسرا ذریعہ بنی نوع انسان کے دلوں کے جیتنے اور تمام اقوام عالم کو ملت واحدہ بنادینے کا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اور آپ کے طفیل ہمارے ہاتھ میں اللہ تعالی نے مساوات انسانی کا وسیلہ دیا ہے.اب جیسا کہ میں نے بتایا ہے مختلف ممالک اور مختلف نسلیں اور مختلف دور اور مختلف زمانے گزرے ہیں لیکن کسی جگہ کسی زمانے میں کوئی شخص پیدا ہو، اگر وہ مجنون نہیں تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ إنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ کا جو نعرہ ہے یہ انسانوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرے گا انہیں جیتے گا؟ نہیں.یہ کوئی نہیں کہے گا.اگر کوئی کہے گا تو دوسرا یہ سمجھے گا یہ پاگل ہو گیا ہے یہ تو کوئی شخص کہ ہی نہیں سکتا.یہ تو انسانی فطرت کے خلاف ہے.یہ کیساز بردست ہتھیار ہے.میں اس وقت اصولی ہتھیاروں کو لے رہا ہوں جو ہر ملک ہر قوم اور ہر زمانے میں ایک جیسے کارگر وار کرنے والے ہیں.اب یہ نعرہ ایسا ہے کہ آپ کسی ملک میں چلے جائیں اور وہاں کے لوگوں سے کہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ لوگوں کے دل جیتنے کے لئے ہمیں یہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۸۹ لعرہ دیا ہے:.إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف : ااا) ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب اس کے ذریعہ ہم تمہاری قوم کے دل جیت لیں گے تو وہ ضرور کہیں گے کہ اگر اخلاص سے اور عملی نمونے کے ساتھ یہ نعرہ لگاؤ گے تو تم ہمارے دل جیت لو گے اور عملاً ان مکہ والوں کے دل جیتے ، جو تیرہ سال تک ہر قسم کا دکھ دیتے رہے تھے.ان عرب قبائل کے دل جیتے جن کی قدر کسری اور قیصر جو اس وقت کی دو بہت بڑی مضبوط سلطنتیں تھیں یعنی جس طرح آج امریکہ روس یا چین ہے اس طرح وہ سلطنتیں تھیں ان کی نگاہ میں عرب کی قیمت یہ تھی کہ جب پہلی دفعہ مسلمان وہاں گئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم ان کو تھوڑے سے پیسے دے دیتے ہیں.پتہ نہیں شاید تمیں چالیس روپے فی کس کے حساب سے تھے یہ انہیں دے دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ تم جاؤ اپنی عیش کرو یہاں کیا کرنے آئے ہو.یہ ان کی نگاہ میں عربوں کی قیمت تھی لیکن اسلام نے اس ذلیل سمجھے جانے والی اور حقیر سمجھے جانے والی قوم کے دل پیار سے جیت لیے.انہوں نے جواب میں یہی کہا اور اپنے عمل سے بھی یہی ثابت کیا.میں نے اسی جلسہ میں بتایا تھا کہ مسلمان ان کو کہتے تھے کہ جو لوگ تمہارے ملک میں داخل ہوتے ہیں وہ موت سے، اس سے زیادہ پیار کرتے ہیں جتنا تم اپنی زندگی سے پیار کرتے ہو.اس واسطے بچ کے رہنا.موت سے زندگی کی نسبت کون زیادہ پیار کرتا ہے؟ سوائے اس شخص کے کہ جس نے اپنے رب کی نگاہ میں پیار اورمحبت دیکھی ہو.کوئی شخص موت سے زندگی کے مقابلے میں زیادہ پیار نہیں کر سکتا.انہوں نے اپنے رب کی نگاہوں میں پیار دیکھا ، رضا دیکھی ، محبت دیکھی، اس کی عظیم قدرتوں کے جلوے اپنی حفاظت کے لیے اپنی تکالیف کے دور کرنے کے لیے دیکھے.اس کی پیار بھری آواز کو سنا.اس کے بعد کیا وہ موت سے ڈر سکتے تھے.موت تو ان کے لیے ایک کھلونا بن کر رہ گئی تھی.پس دوسرا عظیم وسیلہ جو ایک احمدی کے ہاتھ میں آج تمام دنیا کے دل جیتنے کے لیے دیا گیا ہے وہ مساوات انسانی کا وسیلہ اور ذریعہ ہے اور یہ شرف انسانی کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے اور تیسرے نمبر پر آ جاتا ہے دکھوں کو دور کرنا یعنی ہمدردی اور غم خواری کرنا.در اصل دو قسم کے دکھ ہوتے ہیں جن کو دور کیا جاتا ہے اور آگے ان کا طریق بھی مختلف ہو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۹۰ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب نا ہے.ایک دکھ اور درد اور مصیبت حق کے غصب ہو جانے سے پیدا ہوتی ہے.مثلاً میں نائیجیریا میں گیا تو ابھی دو تین دن ہی ہوئے تھے کہ میں نے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نائیجیریا میں بسنے والوں کو ضرورت کی ہر چیز دے دی تھی لیکن وہ جو عیسائیت کا پیغام لے کر اور اپنی فوجوں کو پوری طرح مسلح کر کے داخل ہوئے تھے انہوں نے ان بیچاروں سے ہر چیز چھین لی.میں نے اپنے ایک افریقن دوست سے کہا کہ میں نے تو یہ محسوس اور مشاہدہ کیا ہے کہ خدا نے تمہیں ہر چیز دی تھی مگر تم ہر چیز سے محروم کر دیئے گئے.تو اس نے کہا ٹھیک ہے.اگلے دن ان کا جو ہیڈ آف دی سٹیٹ ہے یعقو بو گوون اس سے ملاقات ہوئی.وہ بڑا اچھا آدمی ہے عیسائی ہے لیکن دل کا بڑا نیک انسان ہے.مسلمانوں کے حقوق کا بڑا خیال رکھتا ہے.باتوں باتوں میں میں نے اس سے کہا کہ آپ کے ملک میں آ کر اور آپ کے حالات دیکھ کر میرے دل پر جو پہلا اور بڑا گہرا تاثر پیدا ہوا ہے اور جس کا کل میں نے اپنے ایک افریقین دوست سے اظہار بھی کیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز دی تھی مگر آپ کو ہر چیز سے محروم کر دیا گیا.تو وہ میری بات سن کر کہنے لگا:.How true you are! how true you are! اس نے دو دفعہ یہ کہا.کتنی سچی بات آپ کہہ رہے ہیں کتنی سچی بات آپ کہہ رہے ہیں.غرض ایک محرومی اور دکھ اور درد اور پریشانی اور مصیبت اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ کسی شخص کے حقوق غصب کر لئے جاتے ہیں اور ایک دکھ اور درد اور تکلیف اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو آزمانا چاہتا ہے مثلاً حوادث زمانہ ہیں.حادثہ ہوا کوئی عزیز فوت ہو گیا یا کوئی بچہ مرگیا یا خاوند حادثہ کا شکار ہو گیا یا قحط آ گیا یا زلازل آگئے یا جس طرح مشرقی پاکستان میں ہوا ہے وہاں طوفان آ گیا ہے.پس دو قسم کے دکھ اور درد ہوتے ہیں جن میں بنی نوع انسان مبتلا نظر آتے ہیں جو محروم کیے جانے کے نتیجہ میں دکھ اور درد پیدا ہوتا ہے اس کا یہ علاج ہے کہ جو غاصب ہے اس سے مال لے کر جو حق دار ہے اسے پہنچا دیا جائے.تو اس طرح یہ دُکھ دور ہو جائے گا.اسلام نے اس سلسلہ میں جو حسین تعلیم پیش کی ہے اور پہلے زمانہ میں لوگوں نے اس پر عمل بھی کیا ہے.ہم نے انشاء اللہ ساری دنیا میں اس کے مطابق عمل کرنا اور کروانا ہے اسلام کی اس حسین تعلیم پر میں نے بڑا غور کیا ہے میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۹۱ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب یہ علی وجہ البصیرت پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی انسانی دماغ اس جگہ نہیں پہنچ سکتا.میں نے یہاں بھی اور باہر کے ملکوں میں بھی کہا کہ دیکھو یہ تعلیم اپنے حسن کی انتہاء اور اپنے احسان کی انتہاء کے نتیجہ میں ایسی ہے کہ کوئی انسانی دماغ وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا.اب تم سوچو کہ جس کتاب میں یہ نازل ہوئی ہے وہ انسان کی بنائی ہوئی تو نہیں ہو سکتی.یہ قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کی بھی ایک دلیل ہے.قرآن کریم کے اندر ایک ایسی تعلیم ہے ہر انسان کو یہ ماننا پڑے گا کہ وہاں تک انسان نہیں پہنچ سکتا مثلاً یہ کمیونزم ہے.آج کل اس کے بھی نعرے لگ رہے ہیں.یہ کمیونزم بھی وہاں تک نہیں پہنچا.کمیونزم یعنی اشتراکیت نے جو نعرہ لگایا ہے وہ بظاہر بڑا حسین ہے اور وہ یہ ہے کہ جس کی جتنی ضرورت ہے ہم وہ پوری کر دیں گے.یہ نعرہ بظاہر کان میں بڑا اچھا لگتا ہے لیکن جب میں نے مثلاً ( شاید کسی اور نے بھی غور کیا ہوگا.غور کیا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس میں جو خرابی اور نقص ہے وہ یہ ہے کہ ضرورت کی تعریف نہیں کی گئی.صرف یہ کہہ دیا: "To each according to his needs." لیکن نیڈز (needs) کو ڈیفائن (Define) نہیں کیا یعنی اس کی تعریف نہیں کی.میں نے کارل مارکس کی کتابیں پڑھی ہیں.داس کا پٹیل (Das Capital) اس کی مشہور کتاب ہے.اسے میں نے ایک سے زائد بار پڑھا ہے اینجل ، لینن اور سٹالن ان سب کے original works ( یعنی اصل کتابیں ) پڑھی ہیں.میری طبیعت ایسی ہے کہ میں خالی اقتباس سے تسلی نہیں پاتا.اصل کتاب پڑھتا ہوں.جس شخص نے کچھ لکھا ہے یہ اس کا حق ہے کہ اس کے خلاف تنقید کرنے سے پہلے اس کی کتاب پڑھ لی جائے صرف لوگوں کی تنقید پر انحصار نہ کیا جائے.لیکن مجھے ان کی کتابوں میں کہیں بھی نیڈز (needs) یعنی ضرورت کی تعریف نظر نہیں آئی.اب اسی افریقہ کے سفر سے واپسی پر ہم ہالینڈ میں ٹھہرے ہوئے تھے تو ایک موقع ایسا میسر آیا کہ چائے کی ایک پیالی پر انٹر نیشنل کورٹ کے چند جز کے ساتھ اکٹھے مل بیٹھنے کا موقع ملا.ان میں روسی حج بھی تھا یعنی انٹرنیشنل کورٹ میں جو بج روس کی نمائندگی کر رہا ہے وہ بھی وہاں موجود تھا.مجھے بڑی خوشی ہوئی میں نے سوچا کہ آج اس سے پتہ کریں یہ نیڈز (needs یعنی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۹۲ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب ضرورت کی کیا تعریف بتاتا ہے.چنانچہ میں نے اس سے یہ کہا کہ تم نے نعرہ تو بڑا اچھا لگایا ہے کانوں کو بڑا بھلا معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک شخص کی ضرورت پوری کر دی جائے لیکن مجھے اس میں خرابی یہ نظر آرہی ہے کہ تم نے needs یعنی ضرورت کی تعریف نہیں کی.اگر آپ مجھے needs کی تعریف بتا دیں تو میں آپ کا بڑا ممنون ہوں گا.خیر وہ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا اور چار پانچ منٹ باتیں کرتا رہا لیکن اس نے "ضرورت" کی تعریف نہیں بتائی اور جو دوسرے ججز سن رہے تھے وہ اس کی باتیں سُن کر مسکرا رہے تھے.میں نے سمجھا کہ میرا مقصد حل ہو گیا ہے.پس ایک غریب آدمی کو یہ غلط فہمی ہے ایک محروم اور دُکھیا کو یہ غلط اطلاع دی گئی ہے کہ اشتراکیت اس کے دُکھوں کا مداوا اور اس کی مصیبتوں کا علاج ہے.ایسا ہر گز نہیں ہے ہم نے ۱۹۶۷ء میں جب یورپ کا ٹور (tour) کیا تھا اُس سفر پر جانے کا جو راستہ لیا تھا وہ کراچی ، تہران، ماسکو اور فرانکفرٹ تھا.فرانکفرٹ میں ہماری مسجد اور مشن ہے میں نے وہاں سے دورہ شروع کرنا تھا چنانچہ جب ہمارا جہاز ماسکو پہنچا تو وہاں ہمیں قریباً پون گھنٹہ ٹھہر نا پڑا.ہم جہاز سے نیچے اترے.میری آنکھ نے بہت سی چیزیں مشاہدہ کیں.ان میں سے دو چیز میں بڑی دلچسپ ہیں.ایک یہ کہ ماسکوائیر پورٹ پر ساری دنیا کے ہوائی جہاز آ کر اترتے ہیں اس لحاظ سے بہ ہوائی اڈہ ساری دُنیا کے لئے Show window یعنی نمائش گاہ کی حیثیت رکھتا ہے.یہاں روی تہذیب اور ان کی سوشلزم کا بہترین نمونہ نظر آنا چاہئے لیکن مجھے وہاں کے کسی ایک شخص کی جسمانی حالت ایسی نظر نہیں آئی جس کے متعلق میں یہ کہہ سکوں کہ اُسے پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہوگا.کلے چپکے ہوئے اور سفید سے داغ کلوں پر پڑ جاتے ہیں کمزوری کے نتیجہ میں وہ پڑے ہوئے لیکن اس سے بھی زیادہ جس چیز سے مجھے دُکھ ہوا وہ یہ تھا کہ کسی ایک شخص کے چہرے پر میں نے مسکراہٹ نہیں دیکھی.میں سوچ میں پڑ گیا.میں نے سوچا اگر ساری عمر رو کر ہی گزارنی ہے تو پھر اشتراکیت کا ہمیں کیا فائدہ؟ اب مثلاً ہماری جماعت ہے پہلے بھی میں نے بتایا ہے اس جلسہ پر بھی بتایا ہے کہ ۸۰ سال سے ہمیں گالیاں دی جارہی ہیں جو جس کی زبان میں آئے وہ بول جاتا ہے.ہمیں گالی دینا اسی طرح فیشن بن گیا ہے جس طرح ہماری عورتوں میں لپ اسٹک لگا نا فیشن ہے ہمارے مردوں میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۹۳ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب گالی دینا ایک فیشن بن گیا ہے کفر کے فتوے لگائے جا رہے ہیں لیکن ۸۰ سالہ گالیوں اور کفر کے فتووں نے ہمارے چہروں سے مسکراہٹیں نہیں چھینیں.اس واسطے کہ مسکراہٹ کا اصل منبع اور سر چشمہ اللہ تعالیٰ کا پیار ہے جس کو وہ پیار حاصل ہو اس کے چہرے سے مسکراہٹ کون چھین سکتا ہے؟ کوئی چھین ہی نہیں سکتا.یہ ناممکن بات ہے.یہ مسکراہٹ اور بشاشت جس کا ذکر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے، کمیونزم نے جہاں اپنا اثر و نفوذ پیدا کیا ہے وہاں ہمیں نظر نہیں آئی.البتہ یہ درست ہے کہ میں صرف پون گھنٹہ وہاں ٹھہرا.یہ بھی درست ہے کہ میں نے چند سو روی آدمیوں سے زیادہ نہیں دیکھے لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ وہ انٹرنیشنل ائیر پورٹ ہونے کے لحاظ سے جسے انگریزی میں Show Window کہتے ہیں یعنی اس کی نمائش کہ کیا کیریکٹر ہے وہاں نظر آنا چاہیے.لیکن اس کے مقابلہ میں اسلام نے اس دکھ کو جو محرومی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے یا دُکھ اور درد اور تکلیف اور بے چینی اور پریشانی لاحق ہوتی ہے مثلا کسی کو اس کا حق نہیں ملا اس لئے وہ پریشان ہے یا مثلاً لڑکا ذہین ہے مگر وہ اُسے پڑھا نہیں سکتا.ماں باپ کے لئے تو وہ ساری عمر کا دُکھ ہے.ایک بچہ یونیورسٹی میں فرسٹ آ جاتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اتنے غریب ہیں کہ وہ اُسے کالج میں نہیں داخل کروا سکتے.اگر وہ بچہ نہ پڑھ سکے تو ساری عمر اس کے ماں باپ اور دوسرے بھائی بہن کہیں گے کتنی ظالم ہے یہ دنیا کہ ہمارا بچہ یا بھائی میٹرک میں فرسٹ آیا تھا لیکن اسے پڑھایا نہیں ہے اور یہ میں محض فلسفیانہ مثال نہیں دے رہا بلکہ امر واقعہ ہے ہمارا کالج جب لاہور میں تھا.ایک اخبار میں یہ آ گیا کہ جو بچہ اس دفعہ میٹرک کے امتحان میں یونیورسٹی میں فرسٹ آیا ہے وہ اتنے غریب خاندان کا ہے کہ آگے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا اس لئے کوئی آدمی اس کی مدد کرے میں نے اس اخبار کو خط لکھا کہ ہمارا کالج اُس کے سارے اخراجات برداشت کرے گا وہ بچہ ہمارے کالج میں آ جائے.ادھر اپنے ساتھیوں سے میں نے کہا کہ یہ بچہ پڑھ گیا.یا اسے میں نے پڑھا دینا ہے یا کسی متعصب امیر دل میں جو اس کے لئے پہلے پیسے خرچ نہیں کرنا چاہتا تھا اب وہ ہمارے تعصب کی وجہ سے خرچ کرے گا اور بچہ پڑھ جائے گا اور ہماری جو غرض ہے وہ پوری ہو جائے گی.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۹۴ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب مجھے اس سے غرض نہیں کہ اس بچے کے اخراجات کون برداشت کرتا ہے بلکہ مجھے تو اس سے غرض ہے کہ وہ بچہ پڑھ جائے تو میری غرض پوری ہو جائے گی پندرہ دن کے بعد مجھے اس لڑکے کا خط آیا جس میں اس نے بڑے پیار سے لکھا کہ میرا باپ ان پڑھ ہے وہ ان چیزوں کی سمجھ نہیں رکھتا؟ آپ نے مجھ سے جو پیار کا سلوک کیا ہے میں اس کی قدر جانتا ہوں.جب آپ نے اخبار میں یہ اعلان کیا تو کئی امیر آدمیوں نے کہا کہ نہیں ! نہیں.احمدیوں کے کالج میں نہیں جانا ہم تمہارا خرچ برداشت کرتے ہیں.اس نے لکھا کہ اس وظیفہ کے باوجود میرے دل میں یہی خواہش تھی اور اب بھی ہے کہ میں آپ کے پاس آجاؤں لیکن چونکہ والد کا کہنا ماننا ضروری ہے.میرا والد کہہ دے گا کہ وہاں نہیں جانا اس لئے میں آپ کے پاس نہیں آ سکتا.لیکن اگر ہمارے علم میں نہ آتا اور اس قسم کا واقعہ نہ ہوتا تو آپ سوچ لیں کہ اس خاندان کو ساری عمر یہ دُکھ پہنچتا رہتا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے بچے کو اتنی سمجھ اور عقل دی تھی مگر وہ آگے نہیں پڑھ سکا.پس یہ دُکھ تو لمبے بھی ہیں اور چھوٹے بھی ہیں.بہر حال محرومی ایک لعنت ہے اور مظلوم ہونا لعنتی بنانے کا ایک آلہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو آدمی کسی مظلوم کو دیکھتا؟ ہے اور اس کی مدد نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے دور اور ملعون ہے.اسلام نے جس حق کو قائم کیا ہے اور میرے نزدیک جہاں تک انسانی دماغ نہ پہنچا اور نہ پہنچ سکتا تھا وہ یہ حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو مخاطب ہو کر فرمایا اے میرے بندے! میں نے تجھے پیدا کیا ہے اور تو اپنے جسم اور ذہن اور روح میں جو قوت اور استعداد دیکھ رہا ہے یہ بھی میں نے پیدا کی ہے.لیکن اس دُنیا میں میں نے تدریج کا اصول رائج کیا ہے.ایک قوت دی ہے اس کی نشو و نما ہونی چاہیے.ایک قابلیت عطا کی ہے اس کو پروان چڑھنا چاہئے تمام قوتوں اور استعدادوں کی نشو ونما کے لئے اور اس کی نشو و نما کو کمال تک پہنچانے کے لئے جس مادی اور غیر مادی چیز کی ضرورت تھی وہ میں نے یعنی رب العالمین نے پیدا کر دی ہے دنیا میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں شخص نے اپنی قوتوں اور استعدادوں کی نشو و نما اس لئے نہیں کی کہ اُس کے رب نے اُسے بھلا دیا تھا.یہ کوئی نہیں کہہ سکتا ہمارے رب نے وہ اشیاء پیدا کر دی تھیں.اگر اس کو نہیں ملتیں جو اس کی قوتوں اور استعدادوں کی نشو ونما کے لئے ملنی چاہئیں تھیں تو کوئی غاصب ہے، کوئی ظالم ہے جس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۹۵ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب نے اس کی مادی اشیاء یا غیر مادی چیزیں غصب کر لیں ہیں اور اس کو نہیں مل رہی ہیں اور اس کے لئے دکھوں کا سامنا پیدا کر دیا ہے.پس یہ دکھ جو محرومی اور مظلومی کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں ان کو دُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس قدر حسین تعلیم ہمارے ہاتھ میں پکڑا دی ہے اللہ تعالیٰ ہر شخص کی قوت اور استعداد کو اس کی نشو و نما کے کمال تک پہنچانا چاہتا ہے فرماتا ہے اے مسلمانو ! تم نے فرد واحد کی چاہے مسلمان ہو، چاہے غیر مسلم ، ان قوتوں اور استعدادوں کو جو اللہ تعالیٰ کے عطیے ہیں مثلاً بیج عطیہ ہے اللہ تعالیٰ کا ، وہ درخت بن جاتا ہے اس کو پھل لانا چاہئے ، اسی طرح قدرت کے عطیے جو ہیں ان کی نشو و نما ہونی چاہئے اور یوں اللہ تعالیٰ کے حسن کے خوبصورت جلووں کا پھول کھلنا چاہئے تا کہ دُنیا دیکھے.اب میرا اندازہ یہ ہے کہ مثلاً علم کے میدان میں ہمارے پاکستان نے ایک لاکھ ذہن اپنی غفلت اور بے تو جنگی کے نتیجہ میں ضائع کر دیئے ہیں.خدا تعالی پاکستان کو نہیں بھولا تھا ہم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو بھول گئے اور اس کے ناشکر گزار بندے بن گئے.آج ہم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سائنسدان کافی نہیں ہیں.تم نے سائنسی دماغ کا گلا گھونٹ دیا اس لئے کہ وہ دماغ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوتا تھا اور اب تم رو ر ہے ہو کہ ہم ترقی کیسے کریں؟ یہ تو ایسی بات ہے کہ ایک بے وقوف بچے کو اس کے ماں باپ دس پندرہ روپے دے دیں اور وہ پھاڑ پھوڑ کر ٹوکری میں پھینک دے اور باپ کے ساتھ چیزیں خرید نے چلا جائے اور وہاں جا کر کہے کہ میں چیزیں کیسے خریدوں گا میرے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں مگر تمہارے پاس اس لئے پیسے نہیں ہیں کہ جہالت کی وجہ سے یا اپنے بچپن اور نالائقی کی وجہ سے جو تمہیں پیسے دیئے گئے تھے وہ تم نے ضائع کر دیئے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے فضل انعامات کی شکل میں جو ذہن عطا کئے تھے وہ تم نے ضائع کر دیئے شکوہ کس سے؟ اپنے ظلم - کر شکوہ کرو.اپنی درندگی سے جا کر شکوہ کرو.اپنے رب سے تم شکوہ نہیں کر سکتے.تمہارا رب تو تمہیں نہیں بھولا تھا تم اُسے بھول گئے.تم اس کے ناشکرے بندے بن گئے.پس جہاں تک اقتصادیات کا تعلق ہے اور اس سے ملتی جلتی چیزیں ہیں ان کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جا سکتا، دیر ہورہی ہے.اسلام نے جو تعلیم پیش کی ہے اور حضرت نبی کریم صلی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۹۶ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے جو اسوہ رکھا ہے اس کی مثال دنیا پیش نہیں کر سکتی.انسانی عقل وہ چیزیں آ ہی نہیں سکتی تھیں اور اس سے بہتر نمونہ کوئی دکھا ہی نہیں سکتا تھا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کا اور قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کا خیال رکھتے تھے اور صرف آپ ہی خیال رکھ سکتے تھے مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا.وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَتَّى لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الدريت: ۲۰) کہ کچھ امیر اور دولتمند لوگ ایسے بھی ہیں جن کے سارے مال ان کے نہیں بلکہ کسی اور کا حق مارا گیا ہے جس نے ان کے اموال میں اضافہ کیا ہے اس لئے ”وَفي أَمْوَالِهِمْحَقُ لِلسَّابِلِ وَالْمَعْرُوْمِ ، محروم اور سائل کا حق ان کے مالوں کے اندر ہے وہ نکالنا چاہئے اور حق دار کو حق پہنچنا چاہیے.قرآن کریم کی ایک آیت میں اتنا انذار ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حشر کے دن ایک گروہ ایسا ہوگا کہ میں فرشتوں سے کہوں گا.جاؤ اور اس گروہ کو جہنم میں جھونک دو اور وہاں جہنم میں جھونکنے کی دو وجوہات بیان کی گئی ہیں.ایک تو اس لئے کہ وسیع حکمتوں والے رب پر یہ لوگ ایمان نہیں لائے تھے اور دوسری وجہ یہ کہ لوگوں کو مسکینوں کو کھانا کھلانے کی رغبت نہیں دلاتے تھے اور نہ خودان کو کھلاتے تھے.لوگ بھو کے مر رہے تھے اور یہ اُن کا خیال نہیں رکھتے تھے اور حکمتوں سے پر یہ ایک Universe ایک عالمین پیدا کیا گیا تھا اور یہ اس پر غور نہیں کرتے تھے.پس یہاں صرف دو وجہیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ وسیع حکمتوں والے رب پر ایمان نہیں لاتے تھے اور دوسرے بھوکوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اس لئے انہیں جہنم میں جا کر جھونک دو.پس جس مسلمان نے جہنم سے بچنا ہو یا جہنم سے بچا ہوا ہو تو وہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمتوں پر غور کرتا اور اس کی ذات وصفات کی معرفت رکھتا ہے اور جس حد تک اس کے پاس مال ہے وہ اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے بندوں کا خیال رکھتا ہے اور کسی کو بھوکا نہیں رہنے دیتا.بھوک دور کرنے کی ذمہ واری تو اللہ تعالیٰ نے لی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم کھیتیاں پیدا کرتے ہو؟ تم نہیں پیدا کرتے ، میں پیدا کرتا ہوں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک فاحشہ عورت نے ایک جانور کے اوپر رحم کر کے پیاس کے وقت میں پانی دیا تھا.اس نیکی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اُس فاحشہ عورت کے گناہ معاف کر دئیے اور اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۹۷ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب قرآن کریم اس بات سے بھرا پڑا ہے ایسی متعدد آیات ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ مسکین کا خیال رکھو، جائع ( بھوکے ) کا خیال رکھو.معتر کا خیال رکھو.سائل کا خیال رکھو.محروم کا خیال رکھو.دکھوں کی مختلف وجوہات کا ذکر کر کے یہ کہا گیا ہے کہ یہ تمہاری ذمہ واری ہے کہ تم ان دکھوں کو دور کرو.اسلام نے استعدادوں کی نشو و نما کے کمال تک پہنچانے کے لئے ایک اعلیٰ نظام قائم کیا ہے اسلام کی نشاۃ اولی میں اس پر اس رنگ میں عمل ہوا کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ اس سے بہتر اشتراکیت ہے اس لئے ہم اپنے دکھوں کے علاج کے لئے اسلام کی بجائے اشتراکیت کو رائج کریں گے.کوئی عقل مند شخص یہ نہیں کہہ سکتا.جیسا کہ میں نے ابھی مختصر آبتایا ہے اس اختصار سے بھی آپ کو یہ سمجھ آ گئی ہو گی کہ یہ ایک ایسی تعلیم ہے کہ انسانی دماغ وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا.اب جو غلط فہمیاں ہیں یا بعض لوگ شرا سے بھی اس سے الٹ نعرے لگا رہے ہیں.وہ غلطی خوردہ ہیں.ہم تو کسی کے دشمن نہیں.دنیا ہماری دشمن ہوتی رہے.ان کے لئے دعا کرنی چاہئے اور کسی کے خلاف جھوٹا الزام لگا کر اس پر گرفت نہیں کی جاسکتی.یہ بڑی معقول بات ہے کیونکہ جھوٹا الزام لگا کر یہ کہنا کہ سزا دے دو.یہ تو نہ قانوناً جائز ہے اور نہ عقلاً اور شرعا ور نہ تو دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا.قانون نے یہ تو کہا ہے کہ اگر سچا الزام بھی ہو مگر ثابت نہ ہو تو سزا نہیں دینی.بہت احتیاط برتی ہے.لیکن کیا کسی قانون، کسی شریعت اور کسی عقل میں یہ بات آ سکتی ہے کہ جھوٹا الزام لگاؤ.جھوٹے گواہ پیش کرو اور سزا دے دو اور کہہ دو اس میں خیر اور بھلائی ہے.اس طرح تو امن اُٹھ جائے گا اور اطمینان قلب باقی نہیں رہے گا اس لئے غلط الزام نہیں لگانے چاہئیں.لیکن ہو سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں بعض لوگ ایسے ہوں جنہوں نے اسلام کے متعلق کچھ علم حاصل ہی نہ کیا ہو اور وہ دیانتداری سے یہ سمجھتے ہوں کہ اس ملک میں دکھوں کا علاج اشتراکیت ہے.ان کو ہم ہیں سمجھانے والے.میں بہتوں سے ملا ہوں.اس لحاظ سے میں نے بہت.کمیونسٹ مسلمان بنائے ہیں.اکثر لوگ غلطی خوردہ ہیں یعنی اسلام سے پیار بھی ہے اور اسلام بعد بھی.ایک ہی وقت میں اُن میں متضاد چیزیں تھیں.چنانچہ جب میں نے ان کو بتایا تم کدھر جا رہے ہو.اس سے حسین تعلیم کی طرف تو خدا تمہیں بلاتا ہے تو پھر ان کو سمجھ آ گئی.لیبل ہی تھا نا لگا ہوا ، ----
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۹۸ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب پکڑ کرا تارکر پھینک دیا.جس طرح جرابوں پر لیبل لگے ہوئے ہوتے ہیں آپ لیبل ساتھ لگا رہنے دیتے ہیں؟ نہیں، پہنے سے پہلے آپ لیبل اتار کر پھینک دیتے ہیں.اسی طرح لیبل اتار دیا تو مسلمان بن گئے.لیکن ہو سکتا ہے بعض پکے بھی ہوں.تا ہم اول تو وہ تعداد میں زیادہ نہیں دوسرے ان کے متعلق بھی مجھے تو حسن ظن ہے.میں انہیں احمق تو نہیں سمجھتا کہ اگر ان کو پوری طرح سمجھایا جائے اور وہ نہ سمجھیں.غرض یہ ہتھیار ایک اور وسیلہ اور ذریعہ ہے.اب دُنیا کی کوئی عقل اور کوئی قوم اور کوئی ملک اور کوئی زمانہ اور کوئی نسل یہ نہیں کہ سکتی کہ یہ تعلیم کہ ہر شخص کی قوتوں اور استعدادوں کی نشو ونما کمال تک ہونی چاہئے یہ ایک ایسی تعلیم ہے جو ہمارے دلوں کو جیتے گی نہیں بلکہ اسلام کے خلاف اور زیادہ نفرت پیدا کر دے گی.کوئی عقلمند یہ نہیں کہے گا.یہ ایک بڑا از بردست ہتھیار ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے.اسی طرح خدمت ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران: (۱۱) تم بہترین امت ہو.نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اُمت اپنے حسن میں اور نہ اپنی خوبی میں اور نہ اپنے احسان میں تمہارے برابر ہے نہ کوئی اور امت - حضرت آدم علیہ السلام سے لے کہنے والے کہتے ہیں کہ ) ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے ہیں تو ان میں سے ہیں تمہیں ہزار شرعی پیغمبر ہوں گے ہی.غرض اتنی امتیں بن گئیں اتنی ان کی شریعتیں بن گئیں کوئی شریعت کسی پیغمبر کے ماننے والوں کی اور کوئی کسی پیغمبر کے ماننے والوں کی لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے مقابلے میں ، امت محمدیہ کے مقابلے میں خیر نہیں ہیں.بہتر نہیں ہیں زیادہ حسین نہیں ہیں.زیادہ احسان کرنے کی قوت رکھنے والے نہیں ہیں.( یہ دوسرا فقرہ تو میں جلدی میں کہہ گیا ہوں) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اس لئے بہترین امت ہو کہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو یہ حسن تم میں اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ دُنیا اس حسن کے نتیجہ میں احسان کے عظیم جلوے دیکھے.فرمایا: اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تمہارا اپنا وجود ہی کوئی نہیں رہا.اب اگر دُنیا ملت واحدہ بن جائے گی تو امریکہ والے روس کی خدمت کر رہے ہوں گے روس چین کی خدمت کر رہا ہو گا.یہ سارے فساداورلڑائیوں کے خطرے اور ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم کے نتیجہ میں انسانیت کی تباہی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۴۹۹ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب اور ہلاکت کا جو خطرہ پیدا ہو رہا ہے یہ دُور ہو جاتا ہے کیونکہ کسی کو حاکم نہیں بنایا گیا، کسی کو ظالم نہیں بنایا گیا کسی کوسپیرئیر (Superior) یا برتر نہیں بنایا گیا.کسی کو برائی کا حق نہیں دیا گیا بلکہ ہر فر دکو خادم بنایا گیا ہے.اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ بنایا گیا ہے.ہر فرد دوسرے کی بھلائی کرنے کے لئے پیدا گیا ہے.یہ ایک عظیم ہتھیار ہے دُنیا کی کون سی قوم ہے جو یہ کہے کہ تم ہماری خدمت کرنا چاہتے ہو لیکن اپنی خدمت کے نتیجہ میں تم ہمارے دل نہیں جیت سکتے.میں افریقہ والوں کو یہ کہتا رہا ہوں کہ پچاس سال سے ہم تمہارے پاس ہیں.تم جانتے ہو کہ ہمیں نہ تمہاری سیاست میں کوئی دلچسپی ہے نہ تمہارے مال میں کوئی دلچسپی ہے.باہر سے پیسے لاتے ہیں تم پر خرچ کر دیتے ہیں.تمہارے ملک میں کماتے ہیں ( ہمارے کلینک ہزاروں پاؤنڈ کما چکے ہیں ) وہ بھی تم پر خرچ کر دیتے ہیں.پچاس سال میں ایک دھیلہ تمہارے ملک سے باہر لے کر نہیں گئے ہم لاکھوں روپے باہر سے لائے اور تم پر خرچ کر دیئے.پس اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ ہمیں (یعنی زبان تو میں ایسی بولتا تھا کہ ان کو سمجھ آ تم جائے اور تفصیل اسی فقرہ کی ہوتی تھی جو کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے.اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِس اللہ تعالیٰ نے دوسروں کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے اور دیکھ لو ہم خدمت کر رہے ہیں.چنانچہ وہ کہتے تھے ٹھیک ہے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے نہ ہمارے مال میں کبھی دخل دیا نہ ہماری سیاست میں دلچسپی لی.ان کی حکومت کو بھی پتہ ہے اور اسی وجہ سے ہم ان کے دل جیتنے کے لیے چلے جا رہے ہیں.ہم ان کی خدمت کرنے کی وہاں جو تو فیق پاتے ہیں اس کے نتیجہ میں وہ اتنی خوشی اور مسرت اور پیار کے خط لکھتے ہیں کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.وہ سارا پیار تو دراصل حضرت نبی اکرم کی طرف رجوع کرتا ہے جن سے ہم نے یہ تعلیم حاصل کی اور جن کا رنگ چڑھا کر ہم عملاً اس قابل بنے کہ دنیا کو یہ نمونہ دکھا سکیں.اتنا اثر ہے میں ابھی آگے اس حصہ کو لوں گا.کچھ نمبر ۲ جو حصہ تھا میری تقریر کا اس سلسلہ میں کچھ باتیں رہ گئی ہیں لیکن جو میں نے کہا ہے وہ کافی ہے.خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم کو تمام جہانوں کا دل خدا کے لیے جیتنے کی خاطر مبعوث کیا تھا اور نہ صرف اس مکان کے لوگ جہاں آپ پیدا ہوئے یعنی نہ صرف عرب کے دلوں کو جیتنا تھا بلکہ قیامت تک پیدا ہونے والی ہر نسل کے دلوں کو جیتنا تھا یہ ایک بشارت تھی اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) آپ کی بعثت کی ایک بڑی فرض تھی.۵۰۰ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب پہلے زمانے میں یعنی آپ کی نشاۃ اولیٰ میں ابھی انسان نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ وہ اس مقصد کو حاصل کر سکے ( گوانسانی ذہن اتنی ترقی کر چکا تھا کہ وہ ایک کامل اور مکمل شریعت کا حامل بن سکے ) اور بشارت یہ دی گئی تھی کہ مہدی معہود کے زمانے میں اور آپ کی جماعت کے ذریعہ اللہ تعالی اپنی اس بشارت کو پورا کرے گا.تو سوچا آپ پر کتنی ذمہ داری ہے.ساری دنیا کے دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے ہیں اور جیتنے بھی ان وسائل سے اور ان ذرائع سے اور اگر مثال کے طور پر ایک اور لفظ استعمال کروں تو کوئی حرج نہیں ان ہتھیاروں کے ساتھ ( میں یہ الفاظ بولنے سے ہچکچاتا ہوں اس لیے کہ عیسائی پادریوں نے عیسائیوں کے دل میں یہ بات میخ کی طرح گاڑھی ہوئی تھی کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے ) اس لیے جب میں ہتھیار کہتا ہوں تو اس سے میری مراد تلوار نہیں ہے بلکہ اس سے میری مراد روحانی ہتھیار ہیں، اخلاقی ہتھیار ہیں، حسن تعلیم کے ہتھیار ہیں.احسان ہدایت کے ہتھیار ہیں.ہم نے ان کے ذریعہ دنیا کے دلوں کو جیتنا ہے اور ہمیں یہ جو ہتھیار دیئے گئے ہیں.یہ ایسے ہتھیار ہیں کہ ہر شخص جو اپنی Senses میں ہو ہر شخص جو مجنوں نہ ہو ہوش وحواس میں ہو وہ یہ ماننے پر مجبور ہوتا ہے کہ اگر یہ ہتھیار اگر یہ ذرائع استعمال.جائیں تو واقع میں نوع انسان کے دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جیت لیے جائیں گے.ان ہتھیاروں میں سے جن کا میں نے یہاں ذکر کیا ہے ایک تو شرف انسانی ہے دوسرے انسان انسان کے درمیان مساوات ہے تیسرے اقتصادی لحاظ سے ضروریات زندگی نہیں بلکہ انسانی حقوق کی ادائیگی ہے اور دکھوں کو دُور کرنا ہے.یہاں مجھے یاد آ گیا.ایک حصہ میں اس کا چھوڑ گیا ہوں جو حوادث زمانہ کے لحاظ سے دُکھوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.حوادث زمانہ کے لحاظ سے جودُ کھ انسان کو پہنچتے ہیں یا پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں روحانی سامان دیئے ہیں اور وہ پریشانیوں کو دور کر دیتے ہیں مثلا ذکر الہی ہے استغفار ہے لاحول پڑھنا ہے قرآن کریم کی تلاوت ہے.بہت سارے ہتھیار ہیں لیکن یہ اشارہ ہی اس کی طرف اس وقت کافی ہے.بہر حال جو محرومی کے نتیجہ میں اور مظلوم ہونے کے نتیجہ میں فرد کے لئے یا خاندان کے لئے یا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۰۱ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب علاقے کے لئے یا ملک کے لئے یا دُنیا کے بہت سے حصوں کے لئے دُکھ اور درد مصیبت اور پریشانی اور انتشار کے حالات پیدا ہوتے ہیں ان کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو نظام ہمیں دیا ہے جو ہتھیار ہمارے ہاتھ میں پکڑایا ہے اس کی تو نظیر کہیں نہیں ملتی اور ہم فتنہ وفساد کئے بغیر اس کے سوا دنیا کے دکھوں کو دور بھی نہیں کر سکتے.اب یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ اس حصے سے دُکھ دور کر کے اس حصے میں دُکھ بڑھا دیئے جائیں مثلا انگریز نے اپنے ملک کا دُکھ دور کر دیا مگر ہمیں لوٹ کر لے گئے، افریقہ کو لوٹ کر لے گئے کہنے کو وہ بڑا امیر ملک ہے لیکن ان کی دولت تو چور کی دولت تھی اب وہ دولت کم ہورہی ہے اور وہاں مصیبت آ رہی ہے جو لوگ جا کر دیکھتے ہیں ان کو اس کا رد عمل معلوم ہوتا ہے عادتیں گندی پڑی ہوئی تھیں اس لئے اب اخلاقی تباہی کی طرف جارہے ہیں.آپ کی دولت تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے پیدا کی تھی اور صرف اس حد تک ہے اور اسی تعریف کے ماتحت ہے کہ آپ کو اپنی تمام قوتوں کی کمال نشو ونما کے لئے جتنی ضرورت ہے وہ آپ کی دولت ہے اس سے بڑھ کر آپ کی دولت نہیں ہے.اب یہ نعرہ لگانا کہ جس کی وہ دولت نہیں ہے وہ اس سے چھین لی جائے گی.اس نعرے کے مترادف نہیں کہ اشتراکی نظام کو یہاں قائم کیا جائے گا.اس میں تو زمین و آسمان کا فرق ہے.اشتراکیت کہتی ہے ( صرف کتابوں کا کہنا نہیں بلکہ انہوں نے ۱۹۱۷ ء میں جو عمل کر کے دکھایا ہے ) کہ ہم نے امیر کی دولت بھی لینی ہے اور ہم نے اس کی جان بھی لینی ہے پہلے ایک محروم تھا اب دوسرا محروم بنا دیا گیا.ہم یہ مان لیتے ہیں کہ پہلے زیادہ محروم تھے اب تھوڑے ہو گئے.لیکن ایک محرومی کو ایک اور محرومی پیدا کر کے دُور کرنے کی کوشش کی گئی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے اشارہ کیا ہے اس میں بھی انہیں کامیابی نہیں ہوئی.اسلام یہ نہیں کہتا اسلام کہتا ہے کہ امیر ہو یا غریب خدا کا بندہ ہے اور اس کو یہ حق حاصل.کہ اس کی ذہنی قوتوں کی نشو و نما کمال تک پہنچے اگر ایک ذہین بچہ امیر کے گھر میں پیدا ہوتا ہے تو اس کو بھی اتنا ہی حق حاصل ہے کہ اس کی ذہنی قوتوں کی نشو و نما کمال تک پہنچائی جائے جتنی اس بچے کی ذہنی قوتوں کی نشو و نما کو کمال تک پہنچانا ضروری ہے جو ایک غریب کے گھر میں پیدا ہوتا ہے.غرض جتنا حق ایک غریب ذہین بچے کا ہے کہ اس کی قوتوں کو نشو و نما کے کمال تک پہنچا دیا جائے اتنا ہی حق ایک امیر گھرانے میں پیدا ہونے والے ذہین بچے کا ہے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۰۲ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب اسلام یہ کہتا ہے کہ ایک ظلم کو مٹا کر دوسراظلم نہیں کرنا ایک محرومی کو دور کر کے کسی دوسری جگہ محرومی پیدا نہیں کرنی.دکھوں کا علاج کسی اور دُکھ کو پیدا کرنے سے نہیں کرنا بلکہ مقصد یہ ہے کہ انسان کے سارے دکھوں کا جو محرومی کے نتیجہ میں یعنی جو انسان نے خود اپنے لئے پیدا کئے ہیں ان دکھوں سے اُسے نجات دلائی جائے.کتنا پیار کرنے والا ہے ہمارا رب ، اور کتنا محسن ہے ہمارا آقاصلی اللہ علیہ وسلم کہ آپ کی بعثت سے چودہ سو سال بعد ہم اپنے لئے خود اپنے ہاتھوں سے دکھ پیدا کر رہے تھے مگر آپ جو خدا کے محبوب اور ہمارے محبوب اور اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے اور ہم سے بے اختیار پیار کرنے والے تھے وہ ہمارے ہاتھوں سے پیدا کردہ دکھوں کو دور کرنے کی تعلیم دے رہے ہیں.پس اسلام تو دُنیا کے دُکھ کو مٹانا چاہتا ہے اور یہ دکھ اور درد اور مصیبت وہ ہے جو انسان کے خود اپنے ہاتھ سے پیدا کی جاتی ہے لیکن جو حوادث زمانہ ابتلاء اور امتحان کے طور پر آتے ہیں دراصل ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے.میں ایک بات مختصر ابتا دوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کسی نے یہ اعتراض کیا کہ انبیاء اور دوسرے مقربین الہی کو دُکھ کیوں پہنچتا ہے آپ نے اس کا بڑا ہی حسین جواب دیا ہے آپ نے فرمایا تم کہتے ہو ان کو دکھ پہنچتے ہیں اُن سے تو جا کر پوچھو وہ ان کو دکھ سمجھتے ہیں یا وہ راحت سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو زخم لگتا ہے ، وہ اس کے پیارے بندے کے لئے راحت کا باعث بنتا ہے دُکھ کا باعث تو نہیں بن سکتا.بہر حال اس وقت میں اس تفصیل میں تو نہیں جا ر ہا لیکن جو انسان نے اپنے ہاتھ سے دُکھ اور تکلیف پیدا کی ہے دوسرے کو لوٹا ، چوری کی ، غصب کیا ، حاکم بن کر آیا اور قرآن کی رو سے اِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَةً وَكَذَلِكَ : يَفْعَلُونَ (النمل: ۳۸) اس پروگرام اور پالیسی پر عمل کیا عزتیں دی نہیں بلکہ عزتیں چھین لیں.لیکن جب اسلام یہ کہتا ہے کہ میں شرف انسانی کو قائم کروں گا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جو اس وقت معزز ہیں ان کو ذلیل کر دوں گا.اس کا مطلب یہ ہے کہ میں سب کو جو اس وقت جھوٹی عزتوں میں محو ہیں ان کو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۰۳ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب بھی حقیقی عزتیں عطا کروں گا اور جن کو دُنیا نے دھتکار دیا ہے اور حقیر سمجھا اور ذلیل جانا ان کی عزتوں کو بھی قائم کرتا ہوں.پس اسلام دُکھ پیدا کر کے دُکھ دور نہیں کرتا بلکہ دُکھوں کو دور کر کے ساروں کے دکھ دور کر دیتا ہے کہاں ہے ایسی تعلیم ؟ کس کے پاس ہے تو وہ آئے ہمارے پاس ہم اُسے خدا کے فضل سے قائل کریں گے.میں علی وجہ البصیرت یہ اعلان کرنے کے لئے تیار ہوں کہ اسلامی تعلیم کے مقابلے میں اگر کسی اور چیز کو اقتصادی میدان میں یا کسی اور میدان میں ( لیکن میں اس وقت اقتصادی میدان کی بات کر رہا ہوں ) کسی اور تعلیم یا ازم یا اصول کو اسلام سے بہتر سمجھتا ہوتو وہ میرے پاس آئے میں اُسے قائل کر دوں گا کہ وہ غلطی پر ہے اور اسلام نے جو حسین تعلیم دی ہے وہی صداقت اور وہی حق ہے اور وہی دکھوں اور دردوں کا صحیح علاج ہے.میں اسی کے تسلسل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں انہی ہتھیاروں میں سے اور انہی ذرائع میں سے بعض کو لے کر افریقہ کے ٹور (tour) پر گیا تھا یعنی میں نے مغربی افریقہ کا سفر اختیار کیا تھا میں وہاں عام طور پر یہی اصولی باتیں بیان کرتا رہا اور اسی طرح ان کی روحوں کو گر ما تا رہا.میں نے وہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجیب نظارے دیکھے اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ یہ ہجری شمسی ۴۹ ہے ھش ۴۷ سے اُن کا مطالبہ تھا کہ آپ ہمارے پاس بھی آئیں.۱۳۴۶اهش (۱۹۶۷ء) میں جب میں نے یورپ کا دورہ کیا تھا اس کے بعد ان کے مطالبے آنے شروع ہو گئے تھے چنانچہ ہم نے ۲۸ ھش یعنی ۱۹۶۹ء میں وہاں جانے کا پروگرام بنایا لیکن ہمارے ملک کے حالات خراب ہو گئے اور جیسا کہ میں نے پچھلے جلسے پر بیان کیا تھا کہ فسادات سے سال شروع ہوا تھا اور الہی بشارتوں اور فضلوں پر سال ختم ہو رہا ہے.غرض اُس وقت فسادات ہو گئے اور مجھے سفر ملتوی کرنا پڑا.جس کے نتیجہ میں میرے ان بھائیوں کو جو آپ کی طرح وہ بھی مجھے جان سے زیادہ عزیز ہیں، بڑی تکلیف اٹھانی پڑی ایک واقعہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں.ہمارے ایک بہت پرانے افریقن احمدی ہیں سفر کے ملتوی ہونے پر انہوں نے مجھے خط لکھا کہ ساری عمر دل میں یہ خواہش رہی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیارت ہو جائے.کوشش کرتے رہے ( لکھنے والے کہ ) رقم جمع کر لیں کر ا ہل جائے تو زیارت کریں.لیکن آپ کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۰۴ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب زندگی میں خدا نے مجھے توفیق نہیں دی کرایہ بھی نہیں ملا اور یہی حسرت میرے دل میں رہی اور پھر آپ کا وصال ہو گیا.اب میں نے سُنا تھا کہ آپ آ رہے ہیں.میں نے سوچا میرے پاس کرایہ نہیں تھا.میں مہدی معہود کے خلیفہ کی زیارت نہیں کر سکا.اب خلیفہ خود آ رہا ہے تو یہاں زیارت ہو جائے گی آپ نے یہ سفر ملتوی کر دیا ہے میں بوڑھا آدمی ہوں.میں ہر وقت یہ سوچ کر غم زدہ رہتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلے اور قسم کی حسرت رہی.اب اگر میں آپ کے آنے سے پہلے مر جاؤں تو یہ حسرت دل میں لے جاؤں گا کہ میں نے مہدی معہود کے خلیفہ سے ملاقات نہیں کی.خیر میں نے اُسے تسلی کا خط لکھا.دعا ئیں دیں کہ اللہ تعالیٰ اُسے زندگی بخشے.پھر اللہ تعالیٰ نے اسے زندگی دی اور جب ہم وہاں گئے تو اُس نے بڑے پیار سے اور بڑے شوق سے اور بڑے اخلاص سے مجھ سے ملاقات کی.اس سال کے شروع میں کہنا چاہئے ۱/۴ پریل کو یہاں سے روانہ ہوئے اور دس یا گیارہ اپریل کو وہاں پہنچے.پہلے نائیجیریا میں گئے.پھر اس کے بعد غانا میں گئے.پھر آئیوری کوسٹ اور پھر یہاں سے لائبیریا گئے.اس کے بعد سیرالیون جہاں ہماری بہت بڑی جماعتیں ہیں اس کے اُوپر سے پرواز کر کے پہلے گیمبیا میں پہنچے اور پھر سیرالیون میں آئے کیونکہ وہیں سے ہمیں واپسی کا جہاز ملتا تھا ورنہ دو دفعہ وہاں آنا پڑتا.بہر حال ان ملکوں کے سربراہوں سے بھی ملے.ان کے جو پڑھے لکھے لوگ تھے ان سے بھی ملے اور جو عیسائیت پھیلانے کے لئے باہر سے پادری گئے ہوئے تھے اُن سے بھی باتیں ہوئیں.جو عوام ہیں اور جن کے متعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے ان میں تلاش کرو اُن عوام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کو بھی تلاش کیا.اُن کو گلے لگایا ان کے بچوں کو بھی تلاش کیا.ایک ایک وقت میں پانچ پانچ چھ چھ ہزار دوستوں سے مصافے کئے ان کے جذبات کو دیکھا.اپنے جذبات کا اظہار کیا.وہ پانچ سات ہزار میل دور ہیں.اتنی دور کے فاصلے پر سے وہ نہ کبھی یہاں آئے لیکن اس کے باوجود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مہدی علیہ السلام کے ساتھ ان کو اتنا عشق ہے کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے اور وہ اتنے دلیر ہیں کہ ( یہ ٹھیک ہے کہ ان کے ماحول میں ان کی یہ دلیری انہیں زیادہ پریشان نہیں کرتی ) اپنی کاروں پر لاؤڈ سپیکر لگا کر سارے شہر کی گلیوں میں پھر کر یہ ندا بلند کیا کرتے تھے کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب جس مہدی کی بشارت دی گئی وہ آچکا ہے اور اس مہدی کا ایک خلیفہ آج تمہارے درمیان آ رہا ہے.اس لیے تم آکر اس سے برکتیں حاصل کرو اور بعض شہر تو دس دس لاکھ کی آبادی کے ہیں ان میں انہوں نے یہ منادی کروائی.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کو بڑا پیار ہے اور اس لیے پیار ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو پہچانا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان کو اور آپ کی قوت احسان کو پہچانا.اس وجہ سے وہ مہدی معہود سے پیار کرتے ہیں.سیرالیون کے ایک سابق نائب وزیر اعظم نے پیچھے پڑ کر ایک ریسپشن (Reception) دی اور اس میں انہوں نے تقریر کرتے ہوئے پہلے یہ کہا کہ آپ کو بھی پتہ ہے کہ میں احمدی نہیں ہوں لیکن جو بات سچ ہے وہ کہنے سے میں نہیں رہ سکتا اور یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ اس صدی کے شروع میں ہم غیروں کے سامنے اسلام کا نام لیتے ہوئے بھی شرماتے تھے پھر احمدی آگئے اور اب ہم فخر سے گردن اونچی کرتے ہیں اور اسلام کے متعلق بات کر رہے ہوتے ہیں اس نے اور بھی بہت سی باتیں کیں لیکن جو بات میں بیان کر رہا ہوں اس کنٹیکسٹ (context) میں یہی اتنا حصہ ہی ہے.غرض جنہوں نے احمدیت کو پہچانا یا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہچانا ان کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت اس لیے پیدا ہوئی کہ آپ کے طفیل وہ حسن جو چھپا ہوا تھا وہ ان کی نظروں کے سامنے آ گیا وہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے جلال اور اس کی زندہ قدرتوں کا زندہ نشان دیکھنے لگے اللہ تعالیٰ انہیں بڑی کثرت سے نشان دکھا رہا ہے.آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ہماری ایک احمدی بہن کی شادی کو چالیس سال ہو چکے تھے مگر اس کے ہاں لڑکا کوئی نہیں تھا غالبا بچہ ہی کوئی نہیں تھا.مجھے مجھے یاد نہیں رہا لیکن لڑکا بہر حال کوئی نہیں تھا اور شادی کو چالیس سال کا عرصہ ہو چکا تھا.اب اس نے میرے جانے سے دو تین سال پہلے بلکہ ۱۹۶۶ ء سے ہی کسی نے اسے توجہ دلائی.اس نے مجھے خط لکھنے شروع کیسے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرتے ہوئے ۴۰ ۴۲ سال کے بعد اسے لڑکا دے دیا.اب بوڑھی عورت ساری عمر اس کے دل میں یہ حسرت رہی کہ اس کے گھر لڑکا پیدا ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے اسے نہیں دیا.پھر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب احمدیت کے طفیل اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا اسے یہ نشان دکھایا.وہ تو منصورہ بیگم کے ساتھ ہر وقت چھٹی رہتی تھی.جتنے دن ہم وہاں رہے بچہ اس کی گود میں ہوتا تھا کہ اس سے پیار کرو.دعا کرو اللہ تعالیٰ اسے زندگی بخشے کیونکہ یہ اس کی قدرت کا ایک نشان ہے.غرض انہوں نے مہدی معہود کے طفیل خدا تعالیٰ کی ان قدرتوں کے نظارے دیکھے اور وہ اس طرح مہدی معہود سے بھی پیار کرنے لگے اور جس منبع سے مہدی معہود نے برکت حاصل کی تھی اس منبع سے بھی ان کے دل میں عشق پیدا ہو گیا وہ اتنے جذباتی تھے کہ میری تو شرم سے گردن جھک جاتی تھی.پیار سے دیکھتے تھے مگر کھڑے دیکھ رہے ہیں.کوئی بات نہیں کہنے والی.صرف چہرہ دیکھے جارہے ہیں.پیچھے سے جو لائن میں کھڑا ہے وہ پیچھے سے ٹھونگے دے رہا ہے کہ آگے بڑھو مگر اگلے آدمی کو کوئی پرواہ نہیں.پھر جو پچھلا آگے آجاتا تھا وہ بھی وہاں کھڑا ہے.پھر اور پیچھے سے اسے دوسرے ٹھوکریں لگا رہے ہوتے تھے کہ چلو آگے.وہ اس قسم کے جذبات کا اظہار کرتے تھے.میں شرم سے آنکھیں نیچی کر لیا کرتا تھا.میں تو اللہ تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ ہوں.وہاں جا کر جو کچھ دیکھا اور جو کچھ سنا اور جو مشاہدہ کیا اس کے نتیجہ میں بہت کچھ سوچنا پڑا.ابھی میں نائیجیریا میں تھا تو میری طبیعت پر یہ اثر ہوا کہ ہم نے ان کی خدمت تو بڑی کی ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن جتنی خدمت کرنی چاہئے تھی اتنی نہیں کی اور جتنی ہم کر سکتے ہیں اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں زیادہ تو فیق دی ہے اتنی ہم نہیں کر رہے اس لئے کچھ کرنا چاہیے.چنانچہ میں نے اپنے دماغ سے ایک سکیم بنا کر دی کہ سات سال کے عرصہ میں سولہ نئے سکول کھولو.علاوہ ازیں میں نے کہا ہم ایک دو میڈیکل سنٹر بھی کھول دیں گے لیکن میں دعاؤں میں لگا رہا اور غور کرتا رہا.پانچواں ملک جس میں میں گیا وہ گیمبیا تھا اور وہاں اللہ تعالیٰ نے خود میرے لئے سکیم کو تیار کیا.یہ اس کی شان ہے وہ تو وقت سے بھی بالا ہے اس کے لئے سیکنڈ کہنا بھی غلط ہے بس آن واحد میں ساری تفصیل دماغ میں آگئی.مجھے یہ کہا گیا کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ فوری طور پر یہاں Invest کرو ایک تو وہ سات یا پانچ سالہ منصو بہ ختم ہو گیا.دوسرے میں اُن سے کہتا تھا سکول کھولیں گے ( یعنی میں اپنی سکیم بنا رہا تھا.) میڈیکل سنٹر کھولیں گے تو یہ کہنے کے بعد میں فکر مند ہو جاتا تھا کہ وعدہ کر لیا ہے.مجھے پتہ ہی نہیں کہ اس کے لئے سامان بھی میسر آئے گا یا نہیں ؟
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۰۷ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب لیکن جب گیمبیا میں اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ فوری طور پر یہاں خرچ کرو تو ہیں مطمئن ہو گیا.پہلے میں دس ہزار پاؤنڈ کے لئے متفکر ہو جایا کرتا تھا.اب میں مطمئن ہو گیا کہ جب خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ خرچ کرو تو مال ہمارا تو نہیں اسی کا ہے وہ دے گا اور ہم خرچ کریں گے مجھے ثواب پہنچانا چاہتا ہے پھر اس سکیم کی شکل بدل گئی اور "Leap forward" کی شکل میں ایک جامع منصوبہ سامنے آ گیا ( ویسے تو اس کو پہلوں نے بھی استعمال کیا ہے ) لیکن میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نقل نہیں کی تھی اس وقت ایک ضرورت کے مطابق یہ فقرہ ذہن میں آ گیا تھا کہ ) آگے بڑھو کی سکیم اس کا نام رکھ دیا جائے لیکن اب اس کا پورا نام "نصرت جہاں آگے بڑھو کی سکیم ہے یہ سکیم بڑی پھیل گئی ہے اس کے اندر وسعت پیدا ہوگئی ہے.چنانچہ جب میں افریقہ کا سفر ختم کر کے انگلستان میں آیا تو وہاں میں نے نصرت جہاں ریز روفنڈ کا اعلان کیا اور جیسا کہ کل میں نے مختصر بتایا تھا میں نے انگلستان کی جماعت سے کہا کہ میرے جانے سے پہلے دس ہزار پاؤنڈ نقد جمع ہو جائے اور دوست وعدے کرتے رہیں.پہلے میرے دماغ میں شاید ۲۵ ہزار پاؤنڈ تھا پھر شاید ۳۰ ہزار پاؤنڈ اور اس طرح بڑھتے بڑھتے آخر میں میں نے ان سے کہا تھا کہ تمہارے ذمہ میں نے اب پچاس ہزار پاؤنڈ کی رقم لگا دی ہے اور یہاں سے میں نے ان کو لکھا تھا کہ میں یہ چاہتا ہوں ( امام رفیق واپس آ رہے ہیں ان کی جگہ ایک دوسرے دوست جا رہے ہیں ) کہ میری یہ خواہش ہے کہ آپ کے آنے سے پہلے چند مہینوں میں ۲۱ ہزار پاؤنڈ ( جو تین سالہ فضل عمر فاؤنڈیشن کی رقم ہے ) اتنی جمع ہو جائے یہ بھی ایک غیر کے لئے بہر حال نشان ہے.ابھی وہ آئے نہیں.اٹھارہ ہزار پاؤنڈ جمع ہو چکا ہے اور اڑتالیس ہزار پاؤنڈ کے ان کے وعدے ہو چکے ہیں.میں نے ان کو جو ٹا رگٹ دیا تھا وہ انہوں نے پورا کر دیا ہے.خیر وہ تو پورا کیا لیکن میں نے پہلے دن ان کو کہہ دیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ یہاں ان ملکوں میں خرچ کرو.اس لئے مجھے یہ فکر نہیں ہے کہ یہ پیسے کہاں سے آئیں گے جو ساری دولتوں کا مالک ہے اس نے فرمایا ہے کہ خرچ کرو تو وہ خود ہی دے گا.آپ اپنے بچے کو کہتے ہیں کہ دس روپے خرچ کرو تو کبھی آپ کے دماغ میں خیال آتا ہے کہ جا کر چوری کر کے لاؤ اور خرچ کرو.بچہ آپ کی جیب میں ہاتھ ڈال رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے اس میں تم سے خرچ کرواؤں گا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۰۸ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب اور جیب سے نکالیں اور دس روپے خرچ کریں.تو خدا تعالیٰ کے مقابلے میں تو ایک بندے کی حیثیت بلکہ جو ہمارے ذہن میں خدا ہے اس سے بھی کہیں کم حیثیت ہے انسان کی.پس ایک باپ بچے کو جب کہتا ہے تو وہ خرچ کے لئے پیسے دے دیتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پیسے خرچ کرو تو کیا وہ پیسے نہیں دے گا ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے میں نے دوستوں سے کہا کہ مجھے کوئی فکر نہیں ، پیسہ تو آئے گا ، نہ مجھے یہ فکر ہے کہ اُستاد کہاں سے آئیں گے اور ڈاکٹر کہاں سے آئیں گے.مجھے انشاء اللہ استاد اور ڈاکٹر بھی ملیں گے لیکن جس چیز کی مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی فکر کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ محض مالی قربانی ظاہر میں یا جانی قربانی وقف کے طور پر پیش کر دینا خدا تعالیٰ کے حضور کافی نہیں ہے انسان اپنے زور کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کو حاصل نہیں کر سکتا.نہ اپنی کسی قربانی کے نتیجہ میں پا سکتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کی پیشکش کو مقبول کرے تو تب اللہ تعالیٰ کی رضا مل سکتی ہے اس کی مجھے بھی فکر ہے.اور تمہیں بھی فکر ہے.اس لئے دعائیں کیا کرو کہ اے اللہ ! ہم حقیر سی قربانی تیرے حضور پیش کر رہے ہیں تو اسے قبول فرما تا کہ تیری رضا کی جنت ہمیں مل جائے.چنانچہ یہاں آکر میں نے اعلان کیا تو یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا رد عمل بڑا اچھا رہا ہے.نصرت جہاں ریزروفنڈ کے جو وعدے ہیں وہ کم سے کم ایک لاکھ پاؤنڈ کا کہا گیا تھا نا ) تین لاکھ پاؤنڈ تک پہنچ گئے ہیں ( روپے نہیں میں کہہ رہا ) یعنی تین گنا زیادہ.ویسے میرے اندر ہے عادت ہے اور بہتوں میں یہ عادت ہوگی کہ جس کو میں نے زیادہ دینا ہوتا ہے میں کہا کرتا ہوں تھوڑا تا کہ ہاتھ میں اصل نقد رقم زیادہ آ جائے تو وہ بہت زیادہ خوش ہو جاتا ہے پھر وہ تو اللہ تعالیٰ نے شاید پیار کا اظہار کرنا تھا.کہا تھالا کھ پاؤنڈ اور دے دیئے تین چار لاکھ پونڈ.انشاء اللہ اتنے جمع ہو جائیں گے.اس وقت تک ۲۶ لاکھ ۳۶ ہزار روپے پاکستان کی جماعتوں کے وعدے ہیں اور 9 لاکھ ۶۳ ہزار روپے (اگر پاؤنڈ کو روپوں میں منتقل کیا جائے) باہر کے وعدے ہیں.یہ کل ۴۶ لاکھ روپے کے وعدے بن جاتے ہیں.ابھی وعدے انشاء اللہ اور بھی آجائیں گے.اندرون پاکستان 9لاکھ ۳۰ ہزار چند مہینوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اللہ تعالیٰ نے جماعت پر جو رحمتیں کی ہیں ان کے نتیجہ میں نقد وصول ہو چکا ہے اور کل وصولی اندرون پاکستان اور بیرونِ پاکستان ملا کر ۶ الاکھ دو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب ہزار تک پہنچ چکی ہے.کیونکہ باہر کی جو پاؤنڈ کی رقمیں ہیں وہ تو روپے میں نہیں وہ تو پاؤنڈ ہی میں ہیں.غرض جو ایک لاکھ پاؤنڈ خرچ کرنے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا منشاء معلوم ہوا تھا اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے دو لاکھ دے دیا ہے.یہ تو نصرت جہاں ریزروفنڈ کی شکل ہے.اس میں انگلستان میں ۴۸ ہزار پاؤنڈ کے وعدے ہوئے ہیں لیکن میں نے ان کو تار دلوائی تھی انہوں نے بذریعہ تار جواب دیا کہ ۴۸ ہزار پاؤنڈ کے وعدے ہو چکے ہیں یہ دفتر کی رپورٹ up to date نہیں ہے.امریکہ نے ۲۶ ہزار ڈالر اور غانا میں ۱۰ ہزار پاؤنڈ کے وعدے ہوئے ہیں.میں.ان کو بھی کہا تھا کہ تمہیں بھی کچھ کام کرنا پڑے گا.صرف باہر سے منگوا کر تمہیں منگتا نہیں بنانا چاہتا.پس غانا کی جماعتوں نے وعدے کر دیئے ہیں وصولی بھی خاصی ہو چکی ہے اور اب تک ہو رہی ہے.سیرالیون میں سات ہزار ( ان کی کرنسی ہے یہ بھی کوئی دس شلنگ کے قریب ہوتی ہے) قریباً چار ہزار پاؤنڈ بنتے ہیں.نائیجیریا میں 4 ہزار پاؤنڈ کے وعدے ہیں.ان کے پاؤنڈ کی قیمت انگلستان کے پاؤنڈ کی قیمت سے کچھ بڑی ہے اس لئے عملاً اسے سات ہزار پاؤنڈ سمجھنا چاہیے.اسی طرح ماریشس میں ۵۰ ہزار، تنزانیہ میں ۳۰ ہزار، مغربی جرمنی میں ۱۲ ہزار مارکس یعنی چوبیس ہزار روپیہ.کینیڈا میں قریباً ۳ ہزار ڈالر.ہندوستان میں قریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ یہ رتیں ہیں.جتنا خرچ کرنے کو کہا گیا تھا اس سے دُگنی رقم تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دے دی ہے بعض ممالک جن میں ہمارا پاکستان بھی شامل ہے روپیہ باہر بھیجنے پر بہت بھاری پابندیاں ہیں اجازت نامے لینے پڑتے ہیں کئی خوشامد میں کرنی پڑتی ہیں.کسی انسان کو کسی انسان کی خوشامد نہیں کرنی چاہیے.ہمارا یہ اصول ہے اور ہر احمدی کا یہی اصول ہونا چاہئے لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے تو ہم ہر چیز قربان کر دیتے ہیں.ہمارا یہ ویسے ہی خالی کھو کھلا نعرہ نہیں ہے کہ ہم اپنی عزت کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان کریں گے.عزیز تیں اسی طرح قربان ہوتی ہیں کہ گالیاں سنیں اور ہنس پڑے.لوگ سمجھتے ہیں کہ عزت قربان کر دی.عزت کہاں قربان ہوئی.اس سے کیا فرق پڑتا ہے یا یہ ہے کہ اگر خدا کے لئے پیسے لینے کے لئے خوشامد کرنی پڑے تو خوشامد کر دینی چاہئے اگلے کو خوش کر دینا چاہئے اس لئے یہاں یہ کرنا پڑتا ہے اور آئندہ بھی خدا تعالیٰ کے لئے کرتے رہیں گے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۱۰ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب بہر حال پابندیاں ہیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ انگلستان میں ایسی کوئی پابندی نہیں.وہاں اٹھارہ ہزار پاؤنڈ رقم جمع ہو چکی ہے.اسی طرح سوٹزر لینڈ میں بالکل پابندی نہیں.امریکہ میں بھی پابندی نہیں ہے.اسی طرح اور بھی کئی ملکوں میں پابندی نہیں ہے.وہاں ہم غیر ملکوں میں دو تین سنٹرز بنائیں گے.یہاں سے اگر اجازت مل جائے تو اجازت لینے والوں کو اللہ تعالیٰ بہت ثواب دے گا اور ہمیں بھی بڑی خوشی ہوگی اور اگر جلدی اجازت نہ ملے.البتہ ملے گی تو سہی آج نہیں تو کل.حالات اور ذہنیت پر اس کا انحصار ہے لیکن ہمیں فکر نہیں ہے یہاں بھی بڑے خرچ کرنے ہیں.مبلغ بنانے ہیں، یہاں سے جو ڈاکٹر جاتے ہیں اُن کا کرایہ دینا ہے اور بعض کتب ساتھ لے جانے کے لئے یہاں سے خرید لیتے ہیں.کتابیں یہاں سے شائع کرنی ہیں.قرآن کریم کے تراجم شائع کرنے ہیں.یہ چھ ممالک جن میں میں گیا ہوں ان میں سے ایک ملک میں فرانسیسی بولی جاتی ہے وہاں فرانسیسی ترجمہ قرآن کی ضرورت ہے.ہمارے مراکش اور مالی کے سفراء ایک جگہ ملے تھے.وہ بڑے خوش ہوئے.وہ احمدی نہیں لیکن وہ بہت متاثر ہیں وہ کہنے لگے آپ قرآن کریم کا ترجمہ کر رہے ہیں.یہ ہمارے لئے ایک نعمت عظمی ثابت ہو گا پھر مراکش کا جو سفیر تھا اس نے ایک لطیفہ سنایا وہ کہنے لگا کہ ہمارے مراکش کے مفتی اعظم نے ایک دفعہ فتویٰ دے دیا کہ قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرنا کفر ہے جو شخص قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرے گا وہ کافر ہو جائے گا ایک تقریب کے موقعہ پر وہاں مفتی اعظم صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے میں ان کے پاس گیا.میں نے بڑے ادب اور ان کو خوش کرنے والے الفاظ استعمال کر کے ان سے کہا کہ مولانا ! آپ بچوں کو قرآن کریم پڑھاتے ہیں کہ ہاں جناب میں قرآن کریم پڑھاتا ہوں.کہنے لگے کہ آپ بچوں کو مقامی زبان میں ترجمہ بھی سکھاتے ہوں گے وہ کہنے لگے ہاں ! ہاں! میں بچوں کو فرانسیسی زبان میں ترجمہ بھی سکھاتا ہوں.کہنے لگے کہ جب انہوں نے یہ کہا تو میں نے اُن سے کہا کہ اگر تم زبانی ترجمہ سکھاؤ تو کفر نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی عالم ترجمہ شائع کر دے تو وہ کافر بن جاتا ہے.یہ تم نے کہاں سے نکال لیا ہے.غرض دنیا تو خالی پڑی ہے ہم تو جب سوچتے ہیں تو گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے کہ اتنی ذمہ داریاں کس طرح ادا ہوں گی.یہاں جو پر لیس لگے گا اس کے مینجنگ ڈائریکڑ سے میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۱۱ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب اس سفر میں لندن میں ملا تھا.وہ پوچھنے لگے کہ اتنا پڑا پر لیس تم نے کیا کرنا ہے.میں انہیں کہا یہ تو بڑا نہیں ہے ہم نے قرآن کریم کے تراجم ساری دُنیا میں پھیلانے ہیں.ابھی چھوٹا ہے اس کو آگے اور بڑھائیں گے وہ عیسائی لیکن تاجر تھا اس لئے عیسائی ہونے کے لحاظ سے تو اس کے جذبات یہ تھے کہ اس کا منہ چقندر کی طرح سرخ ہو گیا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں کہ ہم ساری دُنیا میں قرآن کے تراجم پھیلائیں گے لیکن تاجر ہونے کی حیثیت سے وہ کچھ کہہ نہیں سکتا تھا کہ کیونکہ اس نے بہر حال اخلاق سے بات کرنی تھی.پس وہ جو خرچ ہے وہ بہر حال یہاں سے ہو گا اس واسطے وہ انشاء اللہ ہمارا خرچ ہو گا یعنی صحیح مصرف ہوگا.اس طرح نہیں کہ جس طرح کسی سادہ لوح قابل رحم حضرت نے تقریر میں کہہ دیا تھا کہ نصرت جہاں ریزروفنڈ نصرت بھٹو کے نام پر سیاسی پیسے جمع کئے جارہے ہیں دُعا کیا کریں اللہ تعالیٰ ان کو عقل بھی دے اور بھی بہت کچھ دے ہم تو دعا کرنے کے لئے ان کے خادم ہیں.یہ سب بولتے رہتے ہیں لیکن ہم تو ان کے خادم ہیں.دُعا بھی ایک بڑی اور ضروری خدمت ہے.غرض اللہ تعالیٰ یہ رقم دے رہا ہے میں نے جو ایک سکیم بنائی تھی اس کے مطابق میں نے سوچا تھا ۶ ا ڈاکٹر چھ ملکوں میں بھیجوں گا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے سکیم بنا کر دی تو وہ ۴۰ سے اوپر ڈاکٹروں کی سکیم بن گئی.پھر ڈاکٹروں کی طرف سے وقف کا یہ حال ہے کہ لندن سے ہمارے ایک ڈینٹسٹ ڈاکٹر ہیں.میرا اندازہ یہ ہے کہ وہ ۳ ۴ ہزار پاؤنڈ ماہانہ کما رہے ہیں لیکن جب میں نے ڈاکٹروں میں وقف کی تحریک کی تو انہوں نے ساٹھ پاؤنڈ ماہوار پر اپنی زندگی وقف کر دی.یعنی ۳ ۴۰ ہزار پاؤنڈ کمانے والا وقف کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ کام کرو.میں نے کہا تھا مجھے تسلی ہے.اللہ تعالیٰ خود ہی کام کرنے والے آدمی بھی دے گا میں نے مٹی کے بُت گھڑ کر تو افریقہ میں نہیں بھیجنے.جس نے پیدا کیا ہے وہ مالک ہے وہ مجھے پیسے دے گا اور آدمی بھی دے گا.وہاں میرا تو یہ خیال تھا کہ پہلے سال شاید ہمیں تھوڑے سے ٹیچرز کی ضرورت پڑے مگر جب ٹیچرز کے لئے میں نے تحریک کی تو کوئی ڈیڑھ سو کے قریب ایم اے.ایم ایس سی.بی اے.بی ایس سی ٹرینڈ نے زندگی وقف کر دی ہے بہت سارے دوست غلط فہمی میں مجھے خط لکھ دیتے ہیں کہ ہم میٹرک پاس ہیں یا ہمیں میٹرک پاس ہی سمجھیں کیونکہ ہم میٹرک میں اچھے نمبر لے کر فیل ہوئے تھے اس لئے ----
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۱۲ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب ہمیں بھی افریقہ بھیج دیں.اللہ تعالیٰ ان کے علم میں زیادتی بخشے.وہ حکومتیں اپنے ملک کے سکولوں میں کام کرنے کے لئے ایسے لوگوں کو اجازت نہیں دیتیں.یہاں پاکستان میں تو اجازت مل جاتی ہے.ان کو سمجھ نہیں مگر وہاں کی حکومتیں اجازت نہیں دیتیں.اس واسطے یہ خیال دل میں نہ لائیں.اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں برکت ڈالے اور علم میں بھی برکت ڈالے.اب نصرت جہاں آگے بڑھوں کے منصوبے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے.میں کچھ حقائق اور واقعات بتا دیتا ہوں تا کہ یہ بھی پتہ لگے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے فضلوں اور رحمتوں سے اپنی جماعت کو نواز رہا ہے.ابھی سال نہیں ہوا.چند مہینے ہوئے ہیں.ہم نے شاید ۱۴ رمئی کو افریقہ چھوڑا تھا چھ مہینے کے اندر وہاں کام شروع ہو گیا ہے بریگیڈیر ڈاکٹر غلام احمد صاحب جو یہاں سے یکم نومبر کو گئے تھے ؟ انہوں نے کو کو فاغانا میں ہیلتھ سنٹر کھول کر کام شروع کر دیا ہے.تو گویا نومبر کے شروع میں ہمارا ایک ہیلتھ سنٹر کام کرنے لگ گیا ہے اس ہیلتھ سنٹر کے لئے وہاں کے ایک پیرا ماؤنٹ چیف نے جو احمدی نہیں ایک نہایت اچھی اور وسیع سیمنٹ والی عمارت ہمیں مفت دی ہے اور ڈاکٹر صاحب کی رہائش کے لئے مکان بھی دیا ہے.اور اس ہیلتھ سنٹر کے ارد گر د نصف میل کا علاقہ ہمارے مشن کو دے دیا ہے کہ آگے تم.ترقی کرنی ہے کیونکہ تم یہاں آئے تو تم ترقی بھی تو کرو گے تم یہاں سکول بھی کھولو گے اس لئے میں تمہیں یہ زمین دے دیتا ہوں.تم اس پر قبضہ کر لو.غرض اللہ تعالیٰ اس طرح اپنا فضل کرتا ہے.ان سارے ملکوں کے شمال میں مسلمان آبادیوں کی بڑی بھاری اکثریت ہے.نارتھ نائیجیریا، نارتھ غانا وغیرہ نارتھ کے جو حصے ہیں وہ مسلم ایریاز کہلاتے ہیں لیکن جس طرح شروع میں یہاں بعض لوگوں نے یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ انگریزی پڑھنے سے انسان کا فر ہو جاتا ہے.وہاں بھی مولویوں نے عورتوں میں تعلیم رائج نہیں ہونے دی.مرد تو کچھ باغی بن گئے اور ان فتوؤں کی کچھ پرواہ نہیں کی لیکن عورتیں تعلیم میں بہت پیچھے رہ گئیں اور مجھے یہ دیکھ کر بڑا صدمہ ہوتا تھا.ایک تو اس وجہ سے کہ عورت تعلیم میں پیچھے رہ گئی اور دوسرے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب انہوں نے دُنیا کو دیکھا اور بدلے ہوئے حالات کو دیکھا تو انہیں بھی تعلیم کا شوق پیدا ہوا لیکن چونکہ وہاں مسلمانوں کا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۱۳ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب کوئی سکول نہیں تھا اس لئے مسلمانوں کے علاقوں میں عیسائی گھس گئے اور انہوں نے مسلمان بچیوں کو عیسائی بنانا شروع کر دیا.یہ دیکھ کر مجھے بڑا دکھ ہوتا تھا.میں نے اپنے مبلغوں کو کہا تھا کہ مسلم نارتھ یعنی جو مسلمانوں کا شمالی علاقہ ہے وہاں بعض جگہیں تو ایسی ہیں جہاں ننانوے فیصد مسلمان ہیں اور تعلیم میں پیچھے ہیں وہاں لڑکیوں کے سکول کھولنے کی طرف توجہ کریں.اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور غانا کے شمال میں وا کا علاقہ ہے وہاں ہماری جماعتیں بھی بڑی ہیں.وہاں نصرت جہاں گرلز اکیڈمی وا کے نام سے ہمارا ایک سکول کھل گیا ہے.غانا کی حکومت نے ہماری کافی مخالفت کی لیکن مخالفت متعصبانہ نہیں.وہاں کی حکومتیں عقلی دلیل ضرور نکال لیا کرتی ہیں.انہوں نے انگریز سے ٹرینینگ لی ہوئی ہے.بہر حال وہ کہنے لگے کہ کئی سال ہوئے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ لڑکیاں سکول میں داخل ہوں مگر چار پانچ سے زیادہ داخل نہیں ہوئیں.ہم تمہیں خواہ مخواہ اجازت دے دیں.تمہیں تکلیف ہوگی.وہ ہم پر الٹا احسان جتارہے تھے کہ پیسے خرچ کرو گے لڑکی کوئی نہیں آئے گی.چنانچہ ہم نے بڑی مشکل سے ان کو یہ باور کرایا کہ ہم اپنے پیسے ضائع کرنے کے لئے تیار ہیں.تمہیں کیا ہے؟ پیسے ہمارے ضائع ہوں گے.تم ہمیں اجازت دے دو.چنانچہ اجازت مل گئی تو پہلے سال کے پہلے داخلے میں ( جو اُن کے کئی سالوں میں چار پانچ تک پہنچا تھا ) دس لڑکیاں منتخب ہو کر داخل ہوئیں.نصرت جہاں آگے بڑھو کے منصوبہ کے ماتحت غانا میں ایک دوسر الڑکوں کا سکول بھی کھولا جا چکا ہے.اس میں لڑکیوں کے لئے بھی پہلی کلاس ہے چھوٹی بچیاں ہیں اور پہلی کلاس ہے ان کو پڑھانے کے لے میاں بیوی کوالیفائیڈ ٹیچر ز جو اہل ہیں وہ یہاں سے چلے گئے ہیں اور وہ وہاں کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے پیسے بھی دیئے آدمی بھی دیئے.اللہ تعالیٰ نے ایسے میاں بیوی استاد تیار کر کے رکھے ہوئے تھے کہ جو دونوں استاد بننے کے اہل ہوں.ہمیں کیا پتہ تھا کہ ضرورت پڑے گی.جب ضرورت پڑی تو اللہ میاں بنی بنائی چیز سامنے لے آیا کہ یہ لو مجھے تو پتہ تھا اور یہاں بھی جو دوسرا لڑکوں کا سکول ہے وہاں بیوی پڑھی ہوئی کی ضرورت نہیں تھی وہاں مرد چلا گیا ہے.غرض یہ دو سکول فوری طور پر تھوڑے سے عرصہ میں کھل گئے ہیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۱۴ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب اس وقت تک ان ملکوں میں چودہ ڈاکٹروں کی تقریری ہو چکی ہے اور مزید اٹھارہ ڈاکٹروں کے لئے ہم انتظام کر رہے ہیں.اس طرح بیل کر بہتیں ہو جائیں گے.جو میں نے سوچا تھا وہ پانچ اور سات سال کے درمیانی عرصہ کا منصوبہ تھا جس طرح پانچ سالہ پلاننگ یہاں ہوتی ہے کچھ ویسا ہی غلط دماغ میں آیا تھا لیکن اللہ میاں تو فوری کام کرتا ہے ایک سال میں ۳۲ ڈاکٹروں کا انتظام کر دیا.فالحمد لله علی ذالک اب تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ پہلے سال میں ہم اس سے زیادہ کام کر چکے ہوں گے جو میرا اپنا منصوبہ تھا سات سال میں کام کرنے کا.یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے.اس وقت تک ۳۷ ڈاکٹروں نے وقف کیا ہے.باقی اور بھی نکل رہے ہیں اور وقف کر رہے ہیں.ایک تو لاہور میں ڈاکٹر بنانے کا انتظام ہے اور ایک نشتر کالج ملتان ہے جو لاہور کے کالج میں فرسٹ آیا ہے وہ ہمارا ایک واقف احمدی بچہ ہے جس نے اپنی زندگی نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی وقف کر دی تھی.غانا میں پہلے انہوں نے کہا تھا کہ چار ڈاکٹروں کی ضرورت ہے اب وہ چھ ڈاکٹروں کا مطالبہ کر رہے ہیں انشاء اللہ اس کا انتظام بھی ہو جائے گا.وہاں نیچی مان ایک جماعت ہے جہاں کے مبلغ انچارج ایک افریقن ہی ہیں.وہ بڑا مخلص اور پیارا نو جوان ہے وہاں ایک دوست نے بارہ کمروں پر مشتمل ایک مکان میڈیکل سنٹر کے لئے دے دیا ہے.وہ ایک بڑا اچھا مکان ہے.میں اس مکان کو دیکھ کر آیا ہوں.انشاء اللہ وہاں بھی ایک ڈاکٹر جنوری فروری تک پہنچ جائے گا.ہاں جو کوکو فا میں ہیلتھ سنٹر کھل چکا ہے وہاں انہوں نے اس موقع پر ایک تقریب منعقد کی.باہر سے اور بھی پیرا ماؤنٹ چیف آئے ہوئے تھے وہاں روایتی مجالس بھی ہیں یعنی جس طرح مثلاً بی بی سی یا شہروں میں کمیٹیاں ہوتی ہیں.اس قسم کا طریق انہوں نے پیرا ماؤنٹ چیف کے ساتھ قائم رکھا ہوا ہے اس کو روایتی مجالس کہتے ہیں.اس روایتی مجلس کا جو سیکر ٹری تھا اس نے اس موقع پر ہزاروں کے مجمع میں کہا کہ میں احمدیت میں داخل ہوتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے یہ فضل بھی کیا ہے ویسے انشاء اللہ یہ سارے چیف بھی آجائیں گے.غا نا میں تیسر اسکول بھی بڑی جلدی کھل رہا ہے اور پانچ چھ ہیلتھ سنٹر بھی انشاء اللہ کل جائیں گے.میرے دورے کے اختتام سے ایک سال کے اندر اندر مجھے امید ہے یہ سارے کام ہو جائیں گے.تو کجا یہ کہ ہم سات سال کے اندر یہ انتظام کرنا چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ جماعت کو یہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۱۵ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب ނ توفیق دے رہا ہے کہ وہ ایک سال میں اس سے دگنا کام کرے.سیرالیون میں چار ہیلتھ سنٹر ز منظور ہو چکے ہیں.یعنی جورو، بواچے بوہ، روکر یو راور فری ٹاؤن میں.ایک پانچویں کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں.ویسے وہاں بعض نام ہیں میلوں کے نام پر.فری ٹاؤن سے جو راستہ بو کی طرف جاتا ہے اس پر ایک جگہ ہے ۴۷ میل اس کا نام ہے یعنی وہ جگہ فری ٹاؤن سے ۴۷ میل کے فاصلے پر ہے اور اس کا نام بی ۴۷ میل ہے.وہاں بھی ہماری جماعت اور ایک چھوٹا سا سکول ہے ایک جگہ کا نام شاید چورانوے میل ہے وہاں بھی ہمارا ایک سکول ہے.وہاں سے لڑکے آئے ہوئے تھے.ان میں سے ایک جگہ پر تو چھوٹی بچیاں بھی آئی ہوئی تھیں.پانچ چھ سال کی بچیوں سے مصافحہ کرنے کی تو کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن میں عام طور پر بچتا ہوں اور یہ کہا کرتا ہوں کہ بڑے ہو کر اگر تم نے یہ کہا کہ میں نے مہدی معہود کے تیسرے خلیفہ.مصافحہ کیا تھا.تو کسی نے تم سے یہ نہیں پوچھنا کہ اس وقت تمہاری عمر کیا تھی ؟ تو غلط نہی پیدا ہو جائے گی اس لئے میں احتیاط بچتا ہوں.غرض وہاں پرائمری سکول کے چھوٹے چھوٹے لڑکے اور لڑکیاں آئی ہوئی تھیں.سٹرک پر مجھے ملنے کے لئے جمع تھیں.مجھے مبلغ صاحب کہنے لگے کہ موٹر چلتی رہے گی آپ انہیں سلام کر دیں ان کے لئے کافی ہوگا.میں نے کہا ان کے لئے کافی ہوگا میرے لئے کافی نہیں ہے میں تو موٹر سے اتروں گا.خیر میں موٹر سے اترا.وہاں چھوٹی بچیاں بھی تھیں اور بچے بھی تھے میں ایک چکر لگا کر لڑکوں کی طرف آیا اور لڑکوں نے مجھ سے مصافحے کرنے شروع کئے شاید ایک لمحہ کے لئے میری نظر اپنی کار کی طرف گئی یا کسی اور چیز کی طرف گئی (جواب مجھے یاد نہیں رہا ) تو میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا ہاتھ ہے جس نے میرا ہاتھ پکڑ رکھا ہے اور وہ چھوڑ ہی نہیں رہا ہر دوسرا مصافحہ اس کے او پر ہورہا ہے وہ تین مصافحے اس عرصہ میں ہو گئے مگر اس ہاتھ نے میرا ہاتھ تو نہیں چھوڑا.اگلا جو آیا اس نے دونوں ہاتھوں پر مصافحہ کیا میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک چھوٹی بچی.مجھے یہ ماننا پڑتا ہے کہ اس میں زور بڑا تھا.اس نے سارے مصافحے ہم دونوں کے ہاتھوں پر کروائے بڑی مشکل سے ہاتھ چھڑوایا.غرض وہ بڑا پیار کرنے والے تھے.میں نے بتایا تھا ایک جگہ یہ بھی نظارہ ہوا.وہاں مصافحے نہیں کرتے تھے پروگرام کچھ ایسا تنگ بنایا ہوا تھا مجھے تکلیف بھی بڑی تھی لیکن کوئی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۱۶ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب چارہ نہیں تھا.وقت ہی نہیں تھا لیکن وہ ہلہ کر کے آئے اور ہمارے چوہدری محمد علی صاحب، ظہور باجوہ صاحب اور جو نیر صاحب جو میرے ساتھ قاصد بن کر گئے ہوئے تھے ان کو دھکا دیا تو یہ کوئی پندرہ فٹ اُدھر اور کوئی ادھر.اور آگے بڑھ کر مجھے گھیر لیا جو دوست مصافحے کرنے کے لئے میرا ہاتھ پکڑے وہ چھوڑے ہی نہ.اب یوں ہاتھ پکڑا ہوا ہے جو دوسرا آئے وہ اس کے ہاتھ کو پکڑے اور زور لگا کر چھڑوانے کی کوشش کرے اور پھر وہ بھی میرے ہاتھوں کو اسی طرح پکڑے اور پھر اسی طرح کرتا رہے.بڑی مشکل سے ہم کا رتک پہنچے.غرض یہ ۴۷ جگہ کا نام ہے.جہاں ہماری جماعت ہے اور چوتھی جماعت تک کا ایک پرائمری سکول بھی ہے یہاں بھی ہم کوشش کر رہے ہیں کیونکہ یہ bush ہی ہے وہاں پر بخش محاورہ ہے ایسی جگہ کے لئے جہاں تہذیب و تعلیم نہیں گئی.نہ وہاں سکول ہیں اور نہ کوئی میڈیکل سنٹر ہے.کوئی چیز نہیں ہے اس واسطے بش ایریا میں جتنے زیادہ سکول اور ہیلتھ سنٹر بن جائیں اتنے زیادہ اچھے ہیں.جورو میں بھی ( یہ سیرالیون میں ہے.وہاں کے پیرا ماؤنٹ چیف نے ہیلتھ سنٹر اور ڈاکٹر کے لئے مکان اور زمین دینے کا وعدہ کیا ہے اس نے کہا ہے کہ یہ جو captial investment ہوتی ہے یعنی سرمایہ جو ہے یہ میں خرچ کرتا ہوں ڈاکٹر آپ بھیجیں اور کمائیں آپ.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جو کمائیں گے اس میں سے ان کا حصہ نہیں ہو گا مفت دے دیتے ہیں وہ کہتے ہیں مکان بنا کر دیں گے.زمین دیں گے.وہاں سے خط آتے ہیں بڑی تکلیف ہوتی ہے.ایک پیرا ماؤنٹ چیف نے لکھا ( شائد وہ کماسی کا تھا) کہ میرے چیف ڈم یعنی میرے علاقے میں اگر کوئی شخص بیمار ہو جائے تو اُسے طبعی امداد کے لئے ۲۰ ، ۲۰ میل ، ۲۵ ،۲۵ میل دور جانا پڑتا ہے.اس لئے مکان اور زمین کے سلسلہ میں خرچ ہم برداشت کریں گے.آپ ڈاکٹر کا انتظام کریں.غرض اس قسم کے بھی وہاں علاقے ہیں.خدمت کے جذبہ کے ساتھ ہم انشاء اللہ وہاں جائیں گے اور اپنی ہتھیلیاں پیارے دلوں کے ساتھ بھر کر واپس لے آئیں گے آپ پوچھیں گے کہ انہیں آپ رکھیں گے کہاں ؟ تو اس قسم کا سوال پہلے بھی مجھ سے ہو چکا ہے ۱۹۶۷ء میں ڈنمارک میں پریس کانفرس میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صحافیوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ ہمارے ملکوں میں اسلام کیسے پھیلائیں گے؟ مطلب
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۱۷ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب یہ تھا کہ اسلام تو صرف تلوار سے پھیل سکتا ہے.تلوار ہم نے آپ کے ہاتھ سے چھین لی ہے.اس لئے تم ہمارے ملکوں میں اسلام کیسے پھیلاؤ گے؟ میں نے کہا ہم آپ کے دل جیتیں گے اور اسلام کو پھیلائیں گے.وہ حیران ہو کر میرے منہ کو دیکھتے تھے کہ یہ کیا جواب دے رہا ہے.وہ تو یہ سمجھتے تھے کہ سوائے تلوار کے کوئی اور ذریعہ نہیں ہے اسلام کے پھیلانے کا.چنانچہ اس وقت وہاں ایک ادھیڑ عمر کی صحافیہ بھی بیٹھی ہوئی تھیں.وہ بڑی خاموش اور سلجھی ہوئی طبیعت کی تھیں وہ کوئی سوال وغیرہ نہیں کر رہی تھیں.اپنے نوٹ لکھ رہی تھیں.اس موقع پر جب میں نے کہا کہ ہم تمہارے دل جیتیں گے اور اسلام پھیلائیں گے تو اس نے آرام سے مجھ سے یہ سوال کر دیا آپ ان دلوں کا کیا کریں گے.میں نے اس سے کہا ( اللہ فضل کرتا ہے اس وقت جواب سمجھ میں آجاتا تھا ) تمہارے دل جیتیں گے اور تمہارے پیدا کرنے والے رب کے قدموں میں جا کر رکھ دیں گے.نائیجیر یا پہلا ملک تھا جہاں ہم گئے وہاں اب چار نہیں بلکہ دس میڈیکل سنٹر کھولنے کا پروگرام بن گیا ہے.سولہ سکولوں کا میں کہہ کر آیا تھا تو انشاء اللہ سولہ سے زیادہ کھلیں گے وہاں حکومت بھی اور چیف بھی بہت زیادہ تعاون کرتے ہیں.یہاں تو ہمیں بعض دفعہ گورنمنٹ کے ادارے مسجد کے لئے زمین نہیں دیتے.اگر چہ اس کی گورنمنٹ تو ذمہ دار نہیں تو میونسپل کمیٹیاں یا قصبوں کی جو ٹاؤن کمیٹیاں ہیں وہ تعصب سے کام لیتی ہیں مگر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے.بہر حال حکومت کو پوچھنا تو چاہئے لیکن اس سلسلہ میں حکومت پر الزام نہیں لگا سکتے.غلط جگہ پر الزام بھی نہیں لگتا چاہیے.مسجد بنانی ہوتی ہے مگر خدا کا گھر بنانے کے لئے زمین نہیں مل رہی ہوتی اور وہاں بندوں کا بنانا ہو تو یوں بڑی فراخدلی کے ساتھ زمین دے دیتے ہیں.نائیجیریا کے شمال سے ایک گورنر اور وزیرلیگوس میں کیبنٹ میٹنگ attend کرنے کے لئے آئے.نائیجیریا کا شمال مسلمانوں کا علاقے ہونے کی وجہ سے مسلم نارتھ کہلاتا ہے.چنانچہ یہ گورنر صاحب خود بھی مسلمان تھے.انہوں نے لیگوس ایر پورٹ پر صحافیوں کے سامنے یہ اعلان کیا کہ میرا علاقہ تعلیم میں بہت پسماندہ ہے اور میں نے اس سلسلہ میں emergency declare کر دی ہے یعنی تعلیمی محاذ پر ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا ہے اور جہاں تک مسئلہ تعلیم کا تعلق ہے اسے ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جائے گا اور میں یہ امید رکھتا ہوں کہ عوام میرے ساتھ تعاون کریں گے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۱۸ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب اگلے دن یہ اخبار میں بھی آ گیا.اسی وقت میں نے ایک افریقن دوست کو بلایا.وہ وہاں کے کسی محکمہ کے ڈپٹی سیکرٹری ہیں اور بڑے دلیر آدمی ہیں.میں نے انہیں بلایا اور کہا کہ تم گورنر کے پاس جاؤ اور اُسے میری طرف سے یہ پیغام دو کہ آج کے اخبار میں یہ خبر آئی ہے کہ میں آپ کے علاقہ میں ( وہ سٹیٹس نئی بنی ہیں ان میں ایک سٹیٹ سکو تو کے نام سے ہے.) یعنی سکو تو سٹیٹ میں فوری طور پر چار سکول کھولتا ہوں اور آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں.دو چیزوں میں ایک یہ کہ ہمیں زمین دیں کیونکہ میں پاکستان سے زمین نہیں لاسکتا اور دوسرے یہ کہ آپ ہمیں ٹیچرز پرمٹ دیں کیونکہ اس کے بغیر ہم یہاں آ اور ٹھہر نہیں سکتے.چنانچہ جب ہمارے یہ دوست اس گورنر سے ملے تو وہ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ ریڈ ٹیپ ازم (Red Tapism) تو ساتھ لگی ہوئی ہے.میرا شکریہ ادا کر دیں اور تسلی رکھیں کہ آپ کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا جائے گا ہمارے واپس آنے کے بعد غالباً سکولوں کے لئے زمین مل چکی ہے.ایک ایک سکول کے لئے حکومت نے ۴۰ ، ۴۰ ایکٹر زمین دی ہے.یہاں چالیس مرلے لیتے ہوئے لوگوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے اور وہ بھی قیمتا لیکن یہ ۴۰ ایکڑ زمین مفت دی گئی ہے اور وہاں میں نے کہا تھا کہ دولڑکیوں کے اور دولڑکوں کے سکول کھولنے ہیں.کچھ تو ہمارے مبلغ سمجھے نہیں.میں نے کہا تھا کہ جہاں لڑکوں کا سکول ہو گا وہیں لڑکیوں کا سکول ہو گا اس لئے کہ ہم نے یہاں سے میاں بیوی استاد بھجوانے ہیں اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ افریقہ کے ممالک میں خاوند ایک جگہ ہو اور اس کی بیوی پانچ سو میل دور کسی اور جگہ کام کر رہی ہو.اس لئے لڑکیوں کا سکول بھی وہیں کھولیں گے.انشاء اللہ یہ بھی کھل جائے گا اور زمین بھی مل جائے گی.چنانچہ اب یہ اطلاع بھی آچکی ہے کہ حکومت نائیجیریا نے کہا ہے کہ لڑکیوں کے سکولوں کے لئے بھی آپ کو زمین دیں گے لیکن پہلی کلاس میں ابھی بہر حال چھوٹی کلاس کی لڑکیاں ہیں.اگلے سال تک لڑکیوں کا الگ انتظام ہو جائے گا.غرض اس طرح وہ تعاون کر رہے ہیں.نہ صرف حکومت بلکہ وہاں کے پیرا ماؤنٹ چیف بھی تعاون کر رہے ہیں.گیمبیا میں بھی ابھی چند دن ہوئے ہیں اطلاع آ گئی ہے.میرا یہ نوٹ تیار کرنے کے بعد ہی یا شاید انہی دنوں میں.وہاں میں نے ان کو کہا تھا کہ میں چار میڈیکل سنٹر اور ایک میڈیکل ہاسپیٹل یہاں کھولنے کے لئے تیار ہوں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۱۹ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب وہاں ایک راز کی بات ہے.میں آپ کو بتا دیتا ہوں.آپ کسی کو نہ بتائیں ہمارے میڈیکل سنٹر مستحقین کا مفت علاج کرتے ہیں.نہ صرف یہ کہ ڈاکٹر فیس نہیں لیتا بلکہ دوائی بھی مفت دی جاتی ہے.خدمت کے لئے ہم وہاں گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دیتا ہے اور پیسے بھی دیتا ہے.اپنی جیب میں سے تو کچھ نہیں دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری راہبری کے لئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی چیز ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے.پیدائش کے وقت کون ایسا شخص ہے جو سونے سے جب بھر کر لایا کرتا ہے.اُسے تو اپنی ہوش نہیں ہوتی.غرض ہم مستحقین کا علاج مفت کرتے ہیں مگر کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جن سے فیس نہیں لیتے البتہ دوائی کی قیمت دو آنے چار آنے لے لیتے ہیں کیونکہ وہ دے سکتے ہیں لیکن کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے پاس پیسے ہوتے ہیں اُن سے ہمارا ڈاکٹر خوب کھل کر فیس بھی لیتا ہے اور دوائی کی قیمت بھی لیتا ہے اور مریض اتنی کثرت سے آتے ہیں کہ ہمارا ایک میڈیکل سنٹر سال میں اوسطاً اڑھائی ہزار پاؤنڈ جاتا ہے.یہ گویا اس کی بچت ہے.اگر چار سنٹر ہوں تو دس ہزار پاؤنڈ سالانہ بچت ہے.ہائی سکول کھولنے کے لئے ہمیں پہلے سال تقریباً ۳ ہزار پاؤنڈ کی رقم کی ضرورت ہوتی ہے.دوسرے سال بھی اتنی ہی رقم اور تیسرے سال بھی یہی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے اس کے بعد پھر وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے.میں نے گیمبیا میں اُن سے کہا کہ آپ چار میڈیکل سنٹر کھولنے میں میری مدد کریں.میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کے ملک میں ہر سال ایک ہائی سکول کھولتا چلا جاؤں گا.انشاء اللہ.ہم نے وہاں جو پیسے کمانے ہیں.وہ یہاں گھر تو نہیں لانے.انہیں پر خرچ کرنے ہیں.غرض اُن کے امیر سے لے کر ان کے غریب پر خرچ کر دیں گے.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے اقتصادی تعلیم اس لئے دی ہے کہ دولت صرف امراء میں چکر نہ لگاتی رہے.یہ ایک بنیادی اصول ہمیں سکھایا گیا ہے.جو امیر کہتے ہیں کہ ظلم ہو گا اگر ہم سے دولت لے لی جائے مگر قرآن کہتا ہے کہ یوں عمل ہونا چاہئے اس پر عمل کر کے تم پر ظلم کیسے ہو گیا تم پر بڑا احسان ہوگا.تمہارے ملک میں کمیونزم نہیں آئے گا.کیونکہ کمیونزم نے جائز حقوق دے کر زائد نہیں لیا تھا بلکہ سب کچھ لے لیا تھا جان بھی لے لی تھی.اس لئے تم اپنی جان بچاؤ.کمیونزم آ گیا تو تمہاری جانیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۲۰ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب بھی خطرے میں ہیں.مال بچانے کا نعرہ لگا کر اپنی جانیں تو نہ گنواؤ.یہ تو عقلمندی کی بات نہیں.جتناحق کسی اور کا تمہارے پاس ہے وہ تم سے مانگتے ہیں.اگر ہر پاکستانی کی پڑھائی کا انتظام ہو جائے ، اس کے کھانے کا ، اس کی مناسب رہائش کا ، اس کے کپڑوں کا ، اس کے علاج کا اور اس کی تعلیم کا انتظام ہو جائے.تو پھر اگر کسی کے پاس ایک کروڑ روپیہ بھی اپنا ہے تو غریب للچاتی ہوئی نظروں سے ایک امیر کی طرف نہیں دیکھے گا.میری عقل اس بات کی ذمہ واری لیتی ہے کہ انشاء اللہ یہ نہیں ہوگا..غرض وہاں ہم اُن کے امیر سے لیتے ہیں اور غریب پر خرچ کر دیتے ہیں ہمارے کا نو کے میڈیکل سنٹر میں کئی سالوں میں ۲۰ ہزار پاؤنڈ کی بچت ہوئی تھی.اب ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا ہم نے انہیں کہا کہ یہ ساری رقم اسی سنٹر پر لگا دو اور ایک ہسپتال بنا دو.چنانچہ اب وہ ہسپتال کی ایک نہایت خوبصورت بلڈنگ بن گئی ہے جس پر کم و بیش تمیں ہزار پاؤنڈ خرچ ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ پانچ لاکھ روپیہ خرچ ہوا ہے.بچت ہوئی ہوئی تھی.ایک دھیلہ نہیں لے کر آئے سب وہاں خرچ کر دیا اور اس کا نتیجہ بھی اللہ کے فضل سے بڑا خوشکن نکلا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یو نہی تو نہیں فرمایا تھا کہ ان وسائل اور ہتھیاروں کے ذریعہ جو میں نے تمہیں دیئے ہیں تم لوگوں کے دل جیتو گے.ان میں ایک ذریعہ کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.کا نو خاصہ بڑا شہر ہے.وہاں حکومت کا اپنا ایک اچھا ہسپتال ہے.وہاں حکومت کے ایک وزیر صاحب گورنمنٹ کے ہسپتال کی بجائے ہمارے ڈاکٹر کے پاس آیا کرتے ہیں.ان کے دوستوں نے ایک دن پوچھا تم نے کیا بنایا ہوا ہے.تم ملک کے وزیر ہو.حکومت کا ہسپتال ہے جس میں تمہیں ہزار قسم کی جائز یا نا جائز ( یہ میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں ) سہولتیں مل جائیں گی تم وہاں جاؤ.اس نے جواب دیا کہ نہیں.جو سہولت مجھے جماعت احمدیہ کے کلینک میں ملتی ہے وہ مجھے گورنمنٹ کے ہسپتال میں نہیں ملتی.پس یہ جذبہ ہے اور یہ بنیادی اصول ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو ڈاکٹر اپنے مریض کے لئے دعائیں نہیں کرتا وہ بڑا ظالم ہے.وہ سمجھتا ہے کہ دوائی نے آرام دینا ہے.دوائی نے تو آرام نہیں دینا.اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ایک جلوے نے آرام دینا ہے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) -- ۵۲۱ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب اس کو تم طلب کرو.دوائی کا تو یہ ہے کہ یہ ایک پردہ ہے.یہ دنیا پردہ کی دنیا ہے.اللہ تعالیٰ کی قدرتیں بالکل ظاہر ہو کر تو سامنے نہیں آسکتیں ورنہ یہ دنیا ابتلاء اور امتحان کی دنیا نہ رہے پھر تو یہ جزاء کی دنیا ہو جائے.وہ اگلے جہان کی باتیں ہیں.اس دنیا میں پردوں کا یہ حال ہے کہ ایک بیچارہ غریب مزدور تھا ہمارے کالج میں کام کرتا تھا.ایک دفعہ کام کرتے ہوئے اس کا گھٹنا فٹ بال جتنا سوج گیا.پتہ نہیں اسے کیسی تکلیف تھی.وہ میرے پاس آیا میں نے اسے ہومیو پیتھک (جس کے متعلق لوگ کہتے ہیں یہ کوئی دوائی ہی نہیں) کی تین چار پڑیاں بنا کر دیں اور کہا یہ کھا لو اور اس کے لئے دعا کر دی.اڑتالیس گھنٹے کے بعد دیکھا تو وہ کام کر رہا تھا.میں بڑا پریشان ہوا.مجھے اس پر بڑا رحم آیا.میں نے دل میں کہا کہ معلوم ہوتا ہے یہ اتنا غریب آدمی ہے کہ روز کماتا ہے اور کھاتا ہے اسے تھوڑ اسا افاقہ ہو گیا ہو گا اس لئے کام کرنے کے لئے آگیا ہے ورنہ بھوکا رہتا.اس رحم کے جذبہ کے ماتحت میں نے اسے بلایا اور پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ کہنے لگا.جی آرام آ گیا ہے مجھے یقین نہیں آیا.دھوتی اس نے پہنی ہوئی تھی.میں نے کہا ذرا دھوتی اٹھاؤ اور اپنا گھٹنا تو ذرا دکھاؤ.جب اس نے دھوتی اٹھائی تو مجھے یہ پتہ نہ لگے کہ اس کا بیمار گھٹنا کون سا تھا.دونوں بالکل ٹھیک تھے.پس اللہ نے شفا دینی ہے.ہمارے بعض بزرگوں نے کاغذ کی گولی بنا کر دی تو پیٹ درد سے تڑپنے والے مریض کو آرام آگیا ہم نے اس قسم کے ہزاروں قصے دیکھے ہیں.غرض دعا بڑی ضروری ہے.اب وہاں نائیجیریا گورنمنٹ کے ہسپتال میں وزیر صاحب کو آرام بھی ملتا ہوگا اور بھی کئی سہولتیں ان کو ملتی ہوں گی مثلاً دوائیاں اچھی ملتی ہوں گی اٹن شن (attention ) ہوتی ہوگی.نرسنگ اچھی ہوتی ہوگی.لیکن وہ دعا نہیں مل سکتی تھی جو ایک احمدیہ کلینک میں مل سکتی ہے.اس لئے وہ وزیر صاحب اپنے ہسپتال کی بجائے ہمارے ہسپتال ہی جاتے ہیں.اگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی رحمت سے اور اس کی دی ہوئی توفیق سے اپنے میڈیکل سنٹرز سے کمائیں تو وہاں ہم پندرہ سولہ نہیں بلکہ آٹھ دس سال میں سینکڑوں ہائر سیکنڈری سکول یعنی انٹرمیڈیٹ کالج کھول سکتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اتنی رقم دے دے تو اور ہزار منصوبے کر سکتے ہیں ہم ہر جگہ قرآن کریم پہنچا سکتے ہیں.غرض کام تو تھوڑا نہیں ہے یہ تو بڑا ہے.اللہ تعالیٰ نے جتنی طاقت آپ کو دی اس طاقت کو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۲۲ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب آپ استعمال کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ برکت پر برکت ڈالتا چلا جاتا ہے.ہاں ضمناً میں گیمبیا کا ذکر کر رہا تھا.گیمبیا وہ ملک ہے جس میں وہاں کے سربراہ مملکت گورنر جنرل نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑے سے برکت حاصل کی.ریاستوں کے رؤساء نے تو پہلے بھی بڑی برکت لی ہے.ہماری تاریخ نے اسے محفوظ کیا ہے.لیکن ایک آزاد ملک کے گورنر جنرل نے پہلی بار گیمبیا میں یہ شرف حاصل کیا.اس کی تفصیل ہی چھوڑ دیتا ہوں.ایک اور بڑی خوشخبری ہے.وہ میں آپ کو سنا دیتا ہوں تا کہ آپ بھی میری طرح بہت حمد کریں.یہ تو میں ایک سابق گورنر جنرل کی بات کر رہا تھا.ایک موجودہ سربراہ مملکت جو اپنے ملک میں اتنے مقبول ہیں کہ ان کو لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا باپ ہے اور سارا ملک ان کے بچوں کی طرح ہے.ان کے بیٹے نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت حاصل کی ہے.پس آسمانوں پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے اور خدائی تقدیر حرکت میں ہے کہ باہر سے بادشاہ بھی اور وزراء بھی.متوسط طبقہ کے لوگ بھی اور امراء بھی اور مظلوم اور محروم اور سائل اور غریب اور مسکین اور یتیم بھی جماعت احمدیہ میں داخل ہو کر اخوت کی برادری اور محبت کی برادری میں ایک ہوتے چلے جائیں گے.یہاں تک کہ وہ وعدہ پورا ہو جائے گا جو بنی نوع انسان کو ملت واحدہ بنا دینے کا وعدہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا اور جس کے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ میرے روحانی فرزند مہدی معہود کے زمانے میں اور اس کے ذریعہ سے پورا ہوگا.باہر کے بادشاہ کی حیثیت سے داخل ہوں گے مگر اسلام اور احمدیت میں وہ اپنے ایک غریب بھائی کو بھائی کی حیثیت سے گلے لگالیں گے.نہ کوئی بادشاہ رہے گا اور نہ کوئی فقیر.سارے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آپ کے غلام بن کر اللہ کے نیک بندوں کی حیثیت سے اس دنیا میں ایک نہایت ہی حسین معاشرہ قائم کر کے ایک ایسی زندگی گزارنے والے ہوں گے جو ان کے پیدا کرنے والے کی نگاہ میں معزز زندگی ہوگی اس کی رضا کی جنتیں انہیں حاصل ہوں گی.فتنہ وفساد مٹ جائے گا.بھائی بھائی ہو کر بھائی پر ظلم نہیں کرے گا بلکہ بھائی بھائی کی خدمت کرے گا اور اس کے لئے قربانی کر رہا ہوگا.اب میں اس بشاشتوں سے بھر پور جلسے اور بشارتوں کے پورا ہونے سے جو ہمارے دلوں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۲۳ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب میں اللہ تعالیٰ کے لئے حمد کے جذبات پیدا ہوئے اور جن سے ہمارے سینے معمور ہیں ان بشاشتوں کے ساتھ اور خدا کی حمد سے معمور سینہ اور دل اور روح کی اس آواز کے ساتھ کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کو زیب دیتی ہیں اور وہی اس کا مستحق ہے.ساری تعریف کا مالک حقیقی اور سر چشمہ حقیقی اسی کی ذات ہے.ان جذبات کے ساتھ اور ان الفاظ کے ساتھ ہی اس پاک اور بشاش اور خوشیوں سے بھر پور اور اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور جلسہ کے اختتام کا اعلان کرتا ہوں.اب ہم دعا کریں گے.دوست دعا کریں کہ یہ پیاری برادری جو ساٹھ ستر ہزار کی اس وقت ایک خاندان کی طرح یہاں بیٹھی ہے.گویا مجھے زمین نظر نہیں آتی.آپ سب میرے بھائی ہیں.ایک بھائی کے سر پر سے میری نظر پھسل کر دوسرے پیارے بھائی کے سر پر جاپڑتی ہے.خدا کرے یہ برادری ساری دنیا کے لئے ایک چھوٹی سی مثال بن جائے اور وہ وقت جلد آئے کہ جب ہم نگاہ تصور سے دنیا کو دیکھیں تو ساری دنیا ایک خاندان ، ایک جسم اور ایک وجود کی طرح ہمیں نظر آئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آدم اور آدم میں کوئی فرق نہیں انسان اور انسان میں کوئی امتیاز نہیں.آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ملائیں اور فرمایا دیکھو دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے پر آجاتی ہیں تو ایک بن جاتی ہیں اسی طرح انسان انسان ایک ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مردہ بھی سنایا تھا.حجتہ الوداع کے موقع پر جب آپ اپنی عمر میں آخری بار ایک بہت بڑے مجمعے سے خطاب فرما رہے تھے.آپ نے صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے ساری دنیا کے لئے یہ اعلان فرمایا کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے تم نے میرا قرب حاصل کیا.میری زندگی کو، اس کے ہر شعبہ کو، اس کی ہر تفصیل کو اپنی آنکھوں.دیکھا اور اسے اپنے لئے ایک نمونہ بنایا تم نے اپنی زندگیوں کو میرے اسوہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی اور تم میں سے بہت سے اس میں کامیاب ہوئے ، اس کے باوجود یہ نہ سمجھنا کہ بعد میں آنے والے تمہارے روحانی مقام تک نہیں پہنچ سکتے اور اس مقام کے دروازے بعد میں آنے والوں کے لئے بند کیے گئے ہیں اور جو دنیا کے دوسرے حصوں میں انسان بستے ہیں اور جو نسلیں بعد میں پیدا ہوں گی اور آنے والے زمانے میں وہ اپنے شعور کو پہنچیں گی.وہ میری اور اللہ کی معرفت حاصل کریں گی.قرآن کریم کا علم پائیں گی.وہ مایوس نہ ہوں وہ یہ نہ سمجھیں کہ اسیں صحابہ جیسے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۲۴ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب کس طرح بن سکتیں ہاں.انہاں نے تے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے نمونے نوں اپنی انکھاں نال ویکھیا سی وہ مایوس نہ ہوں وہ یہ نہ سمجھیں بلکہ روحانی رفعتوں کے دروازے ان کے لئے اس طرح کشادہ ہوں گے جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے روحانی رفعتوں کے دروازے کشادہ کیے گئے تھے.حجۃ الوداع کے موقعہ پر آپ نے اس مجمع کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تمہیں جو نصائح کر رہا ہوں اور جو وصیت تمہیں دے رہا ہوں تم جو اس وصیت کو سن رہے ہو تم یہ نہ سمجھنا کہ سوائے تمہارے اس پر کوئی عمل نہیں کر سکتا.اس لئے تمہیں بہت سی نصائح کے بعد میں تمہیں یہ وصیت کرتا ہوں کہ میری ان نصائح کو آنے والی نسلوں تک پہنچا دینا اور ان کو یہ بھی کہہ دینا کہ میں نے آج اس موقعہ پر انہیں یہ بشارت بھی دی تھی کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ آنے والے اس وقت سننے والوں کی نسبت میری نصائح پر زیادہ عمل کرنے والے ہوں.صحابہ میں روحانی لحاظ سے مختلف درجات رکھنے والے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں جنہوں نے سب سے بلند روحانی درجہ حاصل کیا وہ آپ کے لئے بھی میسر آسکتا ہے.بشرطیکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ اپنی زندگیوں پر چڑھائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی اس کی توفیق عطا فرمائے.دوست دعا کریں کہ غلبہ اسلام کا جو سورج اس عالمین پر طلوع ہو چکا ہے.وہ (جیسا کہ خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے ) درجہ بدرجہ آسمان کی بلندیوں کی طرف بلند ہوتا چلا جائے اور جلد ہماری زندگیوں میں نصف النہار تک پہنچ جائے اور وہ چونکہ روحانی سورج ہے.ہر لحاظ میں تو مماثلت نہیں ہوا کرتی تمثیل کہتے ہی اس وقت ہیں جب کہیں اختلاف بھی ہو ورنہ تو وہی چیز بن جاتی ہے.یہ سورج تو حرکت میں ہے اور مسلسل حرکت کر رہا ہے جب یہ نصف النہار پر پہنچتا ہے تو ساتھ ہی زوال شروع ہو جاتا ہے لیکن روحانی سورج جب اپنے سفر میں آسمان کے بلند تر مقام پر پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی برکت سے وہاں ٹھہرتا ہے اور اس وقت تک ٹھہرا رہتا ہے جب تک کہ اللہ تعالیٰ اسے حکم نہ دے.خدا کرے کہ جب غلبہ ء اسلام کا یہ سورج بنی نوع انسان کو جو بشارتیں دی گئی ہیں ان بشارتوں کا یہ چاند نصف النہار تک پہنچے تو اللہ تعالیٰ صدیوں اسے وہیں رہنے دے تا کہ اس کے سورج اور اس کے چاند سے انسان کی روحانی زندگی ہر لحاظ سے ترقی یافتہ اور یہی نہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۲۵ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب ہو کہ صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا بلکہ یہ بھی ہوتا رہے کہ ہر نسل جو بعد میں آتی وہ صحابہ سے ملتی چلی گئی.نسلاً بعد نسلاً خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گانے والے اور شرک کو مٹا کر اور پھر شرک کے ہر دروازے کو بند کرنے والی اقوام اس دنیا میں زندگی بسر کر رہی ہوں اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی بارش بن رہی ہوں.میرا پیارا رب آپ کے ساتھ ہو یہاں بھی اور جب آپ اپنے گھروں میں جائیں وہاں بھی اور راستے میں بھی.اللہ تعالیٰ آپ کو ہر چھوٹی اور بڑی تکلیف سے محفوظ رکھے اور ہر معمولی اور غیر معمولی شر سے آپ کو امان میں رکھے.آپ فرشتوں کی حفاظت اور ان کے پہروں میں رہیں.جہاں بھی آپ رہیں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بننے والے اور اس کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے والے، اپنی زندگیوں پر ایک فنا کو طاری کرنے والے، اللہ تعالیٰ کے پیار کے لیے میں اپنی زندگیاں گزارنے والے رہیں.جو باہر اس وقت ہمارے مبلغ کام کر رہے ہیں.جو باہر ہماری جماعتیں ہیں خدا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور احمد مہدی کی عاشق اور محب.اللہ تعالیٰ ان کو بھی اسی طرح ہماری برکتوں کا وارث بنائے جس طرح کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں بنائے.وہ دور میں مکان کے فاصلے کے لحاظ سے.لیکن دلوں کے فاصلے میں دوری نہیں ہوتی.ہم مکان کے لحاظ سے دور ہوتے ہوئے بھی اسی طرح دو انگلیوں کی طرح ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر آئی ہوتی ہیں اور ان میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہماری برکتوں میں شامل کرے اور ہمیں بھی ان کی برکتوں میں شامل کرے.ہم سب ایک جیسی برکتیں حاصل کرنے والے ہوں اور ہم اے ہمارے رب ! اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ تیری برکتوں کا یہ دائرہ اسی طرح محدود ر ہے بلکہ آج جو عیسائی اور آج جو یہودی اور آج جو آریہ اور ہندو اور جو بدھ مذہب رکھنے والے یا بد مذہب اور دھریہ ہے.اے خدا! تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ تیری محبت کے اس دائرہ میں وہ بھی داخل ہو جائیں اور جیسا کہ تو نے فرمایا ہے چند بد بخت ہی تیرے اس دائرہ محبت والفت ورضا سے باہر رہیں.تیرے فضل کو دنیا حاصل کرے.تیرے حسن کا جلوہ تمام بنی نوع انسان دیکھیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کو دنیا پہچانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنا کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگین ہو کر اس سے قریباً ویسا ہی پالیں جیسا کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۲۶ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء.اختتامی خطاب تیرے محبوب اور ہمارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ سے پایا.آواب دعا کرلیں.پرسوز لمبی اجتماعی دعا کے بعد فرمایا.وقت گزرتے پتہ ہی نہیں چلتا.اب آپ نے جانا ہے.دل اداس ہیں.اللہ کے حوالے اور اللہ کے سپرد کیا آپ کو.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاننہ.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۲۷ ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۲ء.افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ کی بنیا د اعلائے کلمہ اسلام پر رکھی گئی ہے افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۲ء بمقام ربوہ کی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جلسہ سالانہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے جلسہ سالانہ سے قبل یعنی آج سے ۸۲ سال پہلے جو اشتہار دیے تھے ان میں بعض بنیادی باتیں بیان فرمائی تھیں.ان اشتہاروں میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ یہ بھی ایک جلسہ ہے دنیا میں اس سے ملتے جلتے اور بھی اجتماع میلوں کی شکل میں ہوتے رہتے ہیں جن کو لوگوں نے مختلف اغراض کے لئے جاری کیا ہے.مگر یہ نہ ہو کہ آئندہ کسی وقت جماعتِ احمدیہ کے افراد اس جلسہ کو بھی کوئی میلہ سمجھ لیں اور جلسہ میں شامل ہو کر روحانی فائدہ اٹھانے کی بجائے تضیع اوقات کے مرتکب ہوں اور اپنے وقتوں کو ضائع کرنے لگیں اس لئے آپ نے شروع ہی میں ہمیں یہ توجہ دلائی کہ یہ جلسہ عام انسانی میلوں کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ وہ اجتماع ہے جس کی بنیادی اینٹ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے قومیں تیار کی گئی ہیں جو اس میں آکر مل جائیں گی.پس اس وقت ایک کا نفرنس کی شکل میں تو ایک اجتماع ہوا تھا لیکن اس جلسہ کی ابھی بنیاد نہیں رکھی گئی تھی.( یہ ۱۸۹۱ ء اور ۱۸۹۲ء کے درمیانی عرصہ کی بات ہے ) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ اطلاع دی کہ میں اپنے دستِ قدرت سے اس اجتماع کی اینٹ رکھ رہا ہوں اور اپنی جماعت کو ہوشیار کر دو کہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے جو بنیادی اینٹ رکھی جائے اور اس پر جو عمارت بنے اس میں سوائے اللہ کے اور کوئی چیز بنی نہیں چاہیئے چنانچہ آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے خود جلسہ سالانہ کی بنیادی اینٹ رکھی ہے اور قومیں اس کے لئے تیار کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) جارہی ہیں جو اس میں آکر شامل ہو جائیں گی.۵۲۸ ۲۶ دسمبر ۱۹۷۲ء.افتتاحی خطاب پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے بعد پہلے سال کا نفرنس ہوئی تھی (اسے بھی ہم جلسہ ہی کہتے ہیں ).اس جلسہ کی الہی اینٹ رکھے جانے کے بعد حقیقتا جو پہلا اجتماع ہوا وہ ۱۸۹۲ء کا جلسہ ہے.آج سے اسی سال پہلے کی بات ہے کہ اس اشتہار کے بعد جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے جو جلسہ ہوا اس میں پچھتر آدمی شریک ہوئے تھے.گویا اس وقت احمدی دوست جو جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے ان کی تعداد سو تک بھی نہیں تھی.ان کی تعداد صرف پچھتر تھی.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے دعا کروائی کہ اک سے ہزار ہو دیں اور اس دعا کو اس رنگ میں بھی قبول کیا کہ آج پچھتر کے مقابلہ میں پچھتر ہزار سے زیادہ احمدی اس جلسہ میں شامل ہورہے ہیں.( گنتی پر یہ تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار ثابت ہوئی ) اللہ تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے وہ کامل قدرتوں والا ہے اس نے ساری دنیا کو یہ کہا کہ اُٹھو اور میرے اس سلسلہ کو مٹانے کی کوشش کرو.اور سارے ساز و سامان اس کے خلاف اکٹھے کرلو لیکن تم کامیاب نہیں ہو گے.ہو گا وہی جس کا میں نے ارادہ کیا ہے اور جس کا میں نے اعلان کیا ہے.جلسہ سالانہ میں تو جماعت احمدیہ کے نمائندے شامل ہوتے ہیں.پہلے جلسہ سالانہ میں مہدی معہود کے فدائی اور عاشق پچھتر احمدی جمع ہوئے تھے.انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو گھروں میں چھوڑا اور جلسہ میں شامل ہونے کے لئے قادیان پہنچ گئے.اُس وقت جماعت احمدیہ کی تعداد ۷۵ تو نہیں تھی کیونکہ سارے لوگ تو آ نہیں سکتے تھے.بہت ساروں کو اپنے کام تھے.کوئی بیمار تھا، کسی کے پاس زادِ سفر نہیں تھا.کسی کے لئے کوئی اور جائز مانع اور رکاوٹ تھی.اگر ہم اندازہ لگائیں کہ اس وقت جماعت کتنی ہوگی تو چند ہزار بنتی ہے اگر دس ہزار بھی ہو تو دس ہزار بھی اک سے ہزار ہوویں“ کی رو سے ایک کروڑ بنتا ہے اور آج اللہ کے فضل سے ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کی تعداد ایک کروڑ سے آگے نکل چکی ہے.اللہ تعالیٰ کے اس انتہائی انعام اور فضل اور رحمت اور ان فضلوں کے اظہار کے بعد اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلانے کی غرض سے اب میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اسے دنیوی میلوں کی طرح نہ سمجھنا کیونکہ اس کی بنیاد
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۲۹ ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۲ء.افتتاحی خطاب اعلائے کلمہ اسلام پر رکھی گئی ہے.اسلام کی ندا کو بلند کرنے کے لئے اور اسلام کو دُنیا میں غالب کرنے کے لئے اور توحید کا جھنڈا ملک ملک، گاؤں گاؤں، گلی گلی اور گھر گھر گاڑنے کے لئے اسے قائم کیا گیا ہے اور اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ بنی نوع انسان کے دل میں بحیثیت نوع انسانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو قائم کیا جائے اور تمام انسانوں کو خواہ وہ دنیا کے کسی خطہ میں ہی کیوں نہ بسنے والے ہوں، اُمتِ واحدہ بنا دیا جائے.ایک خاندان بنا دیا جائے.ایک ایسا جسم بنا دیا جائے کہ جس کی اگر ایک انگلی بھی دُکھے تو سارے جسم میں درد پیدا ہوتا ہے.افریقہ کے بسنے والے جن کو دنیا نے دھتکار دیا تھا اور انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا تھا ، خدا تعالیٰ نے ہمارے ذریعہ سے یعنی جماعت احمدیہ کو آلہ کار بنا کر دنیا کے سفید فام کے ساتھ دنیا کے سرخ رنگ اور گندمی رنگ والوں کے ساتھ ان کو بھائی بھائی بنا دیا.جو چیز دنیا میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ یعنی اسلام کی نشاۃ اولیٰ کے بعد آج تک انسان نے نہیں دیکھی تھی اور جسے ناممکن سمجھا جاتا تھا وہ آپ کے ذریعہ ممکن ہوگئی.ایک حبشی ہمارے سامنے آتا ہے تو ہم اُسے بے اختیار بڑے پیار سے گلے لگا لیتے ہیں ہمارے ایک مخلص دوست جو ایسے سینیا (Abyssinia) کے رہنے والے ہیں ان دنوں یہاں آئے ہوئے ہیں وہ جس دوست کے ساتھ ملتے ہوں گے وہ انہیں اپنے گلے لگاتا ہوگا.علاوہ ازیں کئی اور افریقن دوست یہاں آتے رہتے ہیں.ہمارے پاس افریقن بچے بھی پڑھتے ہیں، انہیں کسی فرق کا احساس ہی نہیں ہوتا.ہم ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح رہتے ہیں جس طرح ایک خاندان کے مختلف افراد ہوتے ہیں.پس جس طرح ایک خاندان کے افراد بھی مختلف رنگوں میں پیدا ہو جاتے ہیں لیکن ان کی آپس میں کوئی تفریق نہیں ہوتی.اسی طرح جماعت احمدیہ کے ذریعہ ساری دنیا کے احمدی مسلمان آپس میں بھائی بھائی بن گئے ہیں.پس اعلائے کلمہ اسلام پر جس اجتماع کی بنیاد رکھی گئی ہے اس اجتماع میں شامل ہونے والوں کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ ہر وقت اور ہر آن خصوصاً ان ایام جلسہ میں اپنے ربّ کریم کے حضور عاجزانہ جھکے رہیں.اور ان کی روح پکھل کر خدا کے آستانہ پر بہہ نکلے اور اس سے وہ یہ دعائیں کرتے رہیں کہ اے ہمارے رب اور اے ہمارے محسن قادر و توانا ! جس غرض کے لئے اس جلسہ کی بنیاد رکھی گئی ہے اس غرض کو ہماری زندگیوں میں نمایاں طور پر پورا کر دے تا کہ تمام
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۳۰ ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۲ء.افتتاحی خطاب دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانے لگے.اسی طرح وہ لوگ بھی جو ہمیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ہمارے دل میں تو نے ان کے لئے جو عزت قائم کی ہے اس کا بدلہ ہمیں یہ عطا فرما کہ ان کے دلوں میں بھی ہمارے لئے عزت و احترام کا مقام پیدا ہو جائے.ہمارے دل میں جب غیر کی عزت پیدا ہوئی ہے تو ہمارے دل خدا تعالیٰ کی حمد سے معمور ہو گئے ہیں.ہم نے اپنے رب کا شکر ادا کیا.ہم نے کہا اے خدا! اس فساد کی دُنیا میں اس اندھیرے اور ظلمات کی دُنیا میں تو نے ہمارے سینوں میں نو ر کا ایک چراغ جلا دیا ہے ہم تیرے ممنون ہیں.ہم تجھ پر اپنے جسم کا ذرہ ذرہ قربان کرتے ہیں.ہماری رُوح پکھل کر تیرے آستانہ پر بہتی ہے ان اغیار کے دل میں بھی یہ جذ بہ پیدا ہو گا.اس سے بھی بڑھ کر یہ جلوہ رُونما ہو گا کہ وہ سمجھیں گے ہم جن کی مخالفت کرتے تھے وہ ہمارے بڑے بھائی ہیں جن کو ہم نے حقارت کی نگاہ سے دیکھا انہوں نے پیار سے ہمارے دلوں کو جیت لیا.جن کے خلاف ہم نے قتل کے منصوبے اور دکھ اور ایذا پہنچانے کے منصوبے بنائے تھے انہوں نے ہماری زندگی کی راحتوں کا سامان دیا.پس دوستوں کو یا درکھنا چاہیے کہ ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہاتھ میں پکڑ کر دنیا میں آگے سے آگے بڑھ رہے ہیں.اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے پر خدا تعالیٰ نے یہ بھی لکھا ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم کہتا ہے محمد کی آواز پر لبیک کہو.اس لئے کہ وہ تمہیں اس لئے بلاتا ہے کہ وہ تمہیں زندہ کرے اور نئی زندگی عطا کرے.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زندگی بخش جھنڈا اور زندگی بخش عکم ہمارے ہاتھ میں ہے.مخالف ہمیں مارنے کی فکر میں ہیں.اور ہم ان کو زندہ کرنے کے غم میں گھلے جاتے ہیں اور ہم اپنے رب سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم انشاء اللہ کامیاب ہوں گے.پس جس اجتماع کی بنیاد اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے.اس اجتماع کے مقاصد اپنی نظر کے سامنے رکھیں اور یہ نہ بھولیں کہ انسان ایک بے کس ہستی ہے جس میں کوئی طاقت اور قوت نہیں ہے جب اصل قوت کے سرچشمہ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات سے اس کا تعلق قائم نہ ہو اس وقت تک انسان لا شئی محض ہے.اس لئے اپنی عاجزانہ کیفیت اور عاجزانہ مقام کو نہ بھولیں اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں سے کبھی غافل نہ ہوں.وہ بڑی قدرتوں والا وہ بڑی حکمتوں والا اور بڑی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۳۱ ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۲ء.افتتاحی خطاب طاقتوں والا رب ہے.اس نے یہ کہا ہے کہ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرے گا.لیکن اس نے یہ نہیں کہا کہ اگر ہم دنیا کے بندے بن جائیں تب بھی وہ ہم سے پیار کرتا رہے گا.اگر ان بشارتوں سے ہم نے حصہ لینا ہے تو ہمارے لئے یہ ضروری ہوگا کہ ہم اس کی راہ میں فدا ہو جائیں.اور جیسا وہ چاہتا ہے کہ ہم بنیں، ویسا ہم بن کر اُسے دیکھا دیں.آخر میں اس دعا کے ساتھ میں اس جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو.یہاں بھی اور جب باہر سے آنے والے احباب واپس جائیں تو وہاں بھی.اور آپ کی غیر حاضری میں وہ آپ کا بہترین قائمقام بن کر آپ کی عزتوں اور آپ کے اموال کی حفاظت کرنے والا بنے.اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمانوں سے نازل ہو کر ہم بے کسوں کی مدد کے لئے آئیں اور ہمیں دنیا میں کامیاب کریں.اللہ تعالیٰ ہماری فراست میں برکت ڈالے ہمارے ذہنوں میں چلا پیدا کرے، ہمارے علم میں زیادتی بخشے.اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق ہمیں ایسا بنادے کہ جس چیز کو ہم ہاتھ لگائیں خدا کے فضل اور اس کی رحمت اور اس کی بشارت کے مطابق اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے.اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کی فضا میں سانس لیتے ہوئے ان چند دنوں کو ہم گزاریں، اس کو بنیاد بنا ئیں.اللہ تعالیٰ رحمتوں اور اس کی برکتوں کی فضا کے قیام کی کہ اس کے بعد جہاں بھی ہم ہوں.برکتوں اور رحمتوں کی فضا ہمارے لئے میسر آتی رہے اور اس کا نور ہمارے گھروں اور سینوں کو منور کرتا رہے اس کے فرشتے ہمیشہ ہمیں یہ بشارتیں دیتے رہیں کہ دشمن خواہ کتنا بڑا اور طاقتور کیوں نہ ہو تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے.کیونکہ تمہارا رب قدیر تمہارے ساتھ ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے فرشتوں کی فوجیں تمہاری مدد اور نصرت کے لئے آسمانوں سے اتری ہیں، ان فرشتوں کے پروں کے سایہ میں شاہراہ اسلام پر آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو کہ ترقیات کے دروازے کھل چکے ہیں انشاء اللہ میں کل کی تقریر میں آپ کو بتلاؤں گا کہ اللہ تعالیٰ نے کتنے فضل اس چھوٹی سی جماعت پر اس تھوڑے سے زمانہ میں کئے ہیں.پس ترقیات کے دروازے کھل چکے ہیں اب ہمارا کام ہے کہ ہم انتہائی عاجزی اور انتہائی مجاہدہ کے ساتھ ان دروازوں میں داخل ہو کر اس شاہراہ پر تیز سے تیز ہوتے چلے جائیں جو ایک نہ ایک دن غلبہ اسلام کی منزل مقصود تک پہنچانے والی ہے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۳۲ ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۲ء.افتتاحی خطاب اے خدا! تو ایسا ہی کر.آؤ اب دعا کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتیں آپ کے ساتھ ہوں.آپ کو ان دنوں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو زیادہ سے زیادہ جذب کرنے کی توفیق عطا ہو.روزنامه الفضل ربوه ا ار جنوری ۱۹۷۳ ء صفحه ۳ ،۴۰)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۳۳ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار اللہ سے تجارت ایک ایسی تجارت ہے جس میں پیسے کے ضیاع کا کوئی خطرہ نہیں دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء بمقام ربوہ کی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انفلوئنزا کا اثر گلے پر کچھ زیادہ ہو گیا ہے.بہر حال کوشش کروں گا کہ جو کچھ میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں وہ میری آواز میں آپ تک پہنچ جائے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور آپ کے وجود کی خاطر اس سارے عالم کو پیدا کیا گیا ہے.اس لئے آپ کی برکات ماضی کی طرف بھی اسی طرح بہتی رہی ہیں.جس طرح کہ وہ مستقبل کی طرف بہتی رہی ہیں اور بہتی رہیں گی.ماضی کی طرف ان کا جو رخ ہے وہ ایک دقیق مضمون پر مشتمل ہے.عام فہم نہیں رہتا اس لئے ماضی کے متعلق خاموشی اختیار کرتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے.قرآن کریم کی شریعت اپنے پورے جلال کے ساتھ اور اپنی پوری ہمہ گیری کے ساتھ قیامت تک کے انسانوں کے لیے بھیجی گئی ہے اور انسان نے اس سے جسمانی ، مادی ، اخلاقی اور روحانی فوائد حاصل کرنے ہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد قریباً تیرہ سو سال گذرنے پر حضرت مہدی معہود علیہ السلام کا ظہور ہوا.اس عرصہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رب کریم کی طرف سے فدائی خدام عطا کئے گئے.چنانچہ اسلامی تاریخ پر جب ہم اس نقطہ نگاہ سے نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے فدائی خدام زمان و مکان ہر دولحاظ سے مختلف درجات میں بٹے ہوئے ہیں.بھی آپ کو کوئی ایسا خادم ملا جس نے ایک صدی کے زمانہ تک اپنے علاقے میں آپ کے دین کی خدمت کی ہے.کوئی آپ سے محبت اور پیار کرنے والا ایسا آدمی پیدا ہوا جس نے اپنی زندگی میں ایک چھوٹے سے علاقے میں بعض دفعہ چند گاؤں میں یا ایک شہر میں اسلام کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۳۴ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطاب --------- خدمت کی مثلاً بدعات وغیرہ کا قلع قمع کیا.زمانہ کے لحاظ سے ان مجددین کا ایک سلسلہ ہے جو صدی کے سر پر مبعوث ہوتے رہے اور صدی کے سر پر ایک سے زائد مجدد بھی پیدا ہوتے رہے.جیسا کہ مجددین کی تاریخ سے ہمیں پتہ لگتا ہے.سب سے وسیع مکان خدمت ان کو ملا جنہیں اپنے ملک میں اسلام کی خدمت کی ذمہ داری سونپی گئی.پس یہ مختلف قسم کے درجات ہیں جن میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام بٹے ہوئے ہیں.پھر جیسا کہ قرآن کریم میں بشارت دی گئی تھی اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں وضاحت سے امت محمدیہ کو یہ بتایا گیا تھا.اپنے وقت پر مہدی علیہ الصلوۃ والسلام ظاہر ہوئے.اسلام کی جو خدمت آپ کے ذمہ لگائی گئی وہ زمانہ کے لحاظ سے آپ کی ماموریت سے لے کر قیامت تک ممتد ہے اور مکان کے لحاظ سے اس نے آپ کے ملک یعنی برصغیر پاک و ہند سے لے کر ساری دنیا کے ملکوں پر احاطہ کیا ہوا ہے.گویا یہ ایک بہت بڑا فرق ہے جو مہدی معہود کی خادمانہ حیثیت اور آپ سے پہلے بزرگوں کی خادمانہ حیثیت میں ہمیں نظر آتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا اور یہی ہوا کہ جو مجدد ایک صدی کے لئے آیا اس کی تحریرات اور کلام میں صرف اس قدر مسائل اور ان کا حل ہمیں نظر آتا ہے جن کا جس قدر اس صدی کے ساتھ تھا اس سے اگلی صدی کے ساتھ ان کا تعلق نظر نہیں آتا.جو مجد دا یک خاص علاقے کے لئے آیا تھا.اس کا کلام اس کی کتب اور اس کی تقاریر و تحریر اس خاص علاقے کی مذہبی برائیوں کو دور کرنے سے تعلق رکھتی تھیں.مسلمانوں میں مذہبی برائیاں اور غیر مسلموں کے ذہنوں میں اسلام کے خلاف جو چیزیں پیدا ہو گئیں تھیں.ان برائیوں کو دور کرنا اور اسلام کے خلاف اعتراضات کا جواب دینا عموماً اس کی غرض بعثت میں شامل نہیں ہوتا تھا.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک صدی قبل نائیجیریا کے شمالی علاقے میں جس کا ایک حصہ اس وقت نائیجیریا میں شامل ہے اور کچھ حصہ شمال کی طرف بعض دوسرے ملکوں میں شامل ہو گیا ہے.لیکن پہلے وہ ایک علاقہ تھا جہاں ایک مجدد پیدا ہوئے جن کی وفات غالباً ۱۸۱۸ء میں ہوئی ہے.انہوں نے یہ اعلان کیا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس علاقے میں مسلمانوں میں جو بدعات شنیعہ پائی جاتی ہیں ان کو دور کرنے کے لئے مبعوث کیا ہے ان کے مجددیت کے دعوئی سے قبل وہاں اس زمانہ کے علماء کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کا ایک مصلح پیدا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۳۵ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار ہونے والا ہے.چنانچہ ان کی کچھ کتب جو پہلے نایاب تھیں مجھے پتہ لگا کہ دوبارہ شائع ہوئی ہیں.میں نے ان کی کتابیں منگوائیں ان کو پڑھا.بعض اور دوستوں کو بھی پڑھوائیں تو معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنی بعثت کی غرض یہ بتائی کہ ان کے علاقہ میں مسلمانوں کے اندر جو بری رسوم پیدا ہوگئی ہیں ان کو دور کرنے اور سنت نبوی کو قائم کرنے کے لئے وہ بھیجے گئے ہیں.ان کا تعلق قریباً ایک صدی کے زمانہ کے ساتھ تھا.کیونکہ ایک صدی کے بعد خود ان کے ماننے والوں میں بری رسوم پیدا ہو گئیں.پس زمانہ کے لحاظ سے ان کی خدمات دینیہ کا اثر باقی نہیں رہا.مکان کے لحاظ سے انہوں نے اپنی کتب میں صرف انہی بدعات کا ذکر کیا ہے جو ان کے اپنے علاقہ کے مسلمانوں کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں.پس جس قسم کا مجدد یا مصلح یا ولی اللہ تھا اس کی تقریر و تحریر میں ہمیں اسی قسم کا مواد ملتا ہے.چنانچہ حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند اور ایک عظیم خادم ہیں.آپ کا زمانہ آپ کی ماموریت سے قیامت تک ممتد اور مکان کے لحاظ سے ساری دنیا پر محیط ہے.اس لئے آپ کی کتب میں ہمیں وہ سارا مواد ملتا ہے یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ حضرت مہدی معہود و مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ ارشادات کی روشنی میں قرآن کریم کی تفسیر جابجا بیان فرمائی ہے اس میں وہ مواد ہے جس میں کہیں تفصیل کے ساتھ اور کہیں اختصار کے ساتھ انسان کی معاشرتی اقتصادی ، سیاسی ، اخلاقی اور روحانی زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ہے جو قیامت تک کسی نہ کسی وقت اور کسی نہ کسی شکل میں نوع انسان کے سامنے آنے والے تھے.اس لئے جماعتی طور پر جو اچھا اور مفید لٹریچر کتب کی شکل میں اخبارات کی شکل میں یا رسائل کی شکل میں شائع ہوتا ہے وہ حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کی کتب کی روشنی میں ہے یا خود آپ کی کتب دوبارہ شائع ہوتی ہیں.کیونکہ ہم نے سلسلہ کے لٹریچر کو ( یعنی کتب و رسائل وغیرہ ) کونئی نسل کے ہاتھ میں پہنچانا ہے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب تو چھپتی رہیں گی.کیونکہ آپ کی کتب میں قرآن کریم کی آیات اور اس تفسیر کی روشنی میں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے قیامت تک کے مسائل کا حل پایا جاتا ہے.علاوہ ازیں ہم کچھ تاریخی مواد چھاپتے ہیں.مثلاً
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۳۶ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطا لجنہ اماءاللہ مرکز یہ اپنی تاریخ دو جلدوں میں پہلے شائع کر چکی ہے.تیسری جلد اب شائع کی گئی ہے.اسی طرح تاریخ احمدیت شائع ہو رہی ہے.یا بعض مضامین اخباروں میں شائع ہوتے ہیں.تاریخی مواد ہمیں دو وجوہات کی بنا پر شائع کرنا چاہئے اور اس کے دو فائدے ہیں جن کو سامنے رکھ کر اس کا مطالعہ کرنا چاہیے.ایک تو یہ کہ ہر تاریخی کتاب ایک خاص زمانہ سے تعلق رکھتی ہے.پس ہمارے سامنے ہماری نوجوان نسلوں کے سامنے اور ہم میں نئے شامل ہونے والوں کے سامنے یہ بات آتی رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مخصوص زمانہ میں ہم پر کتنے بے انتہاء فضل نازل فرمائے ہیں.تا کہ ہم علی وجہ البصیرت خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا عرفان حاصل کریں اور ہم اپنی روح کی گہرائی سے اپنے رب کریم کی حمد کرنے والے ہوں.دوسرے یہ کہ ہر تاریخی زمانہ اگلے زمانہ کے لئے ایک سیڑھی بنتا ہے.اگر آپ پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھیں گے تو دوسری سیڑھی پر بھی قدم نہیں رکھ سکیں گے.اس لئے پہلی سیڑھی پر قدم رکھنا ضروری ہے.یعنی ایک خاص گذرے ہوئے زمانہ کے حالات کا علم حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ مستقبل کی ذمہ داریوں کو آپ سمجھ سکیں اور اُن سے کما حقہ، عہدہ بر آہو سکیں.اس لئے جلسہ سالانہ کے موقع پر اس دوسری تقریر میں جب سلسلہ احمدیہ اور دنیا کے متعلق عام باتیں بیان کی جاتی ہیں.تو ساتھ ہم یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ ہماری یہ کتب شائع ہوئی ہیں یا یہ ہمارے اخبارات ورسائل ہیں.جماعت کے دوست خصوصاً نو جوان اور جماعت میں نئے نئے شامل ہونے والے حصہ کو چاہئے کہ وہ ان کو خریدے اور ان سے فائدہ اُٹھائے.کسی وقت عیسائی دنیا اور دوسری دنیا نے کہا تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے انہوں نے یہ غلط کہا تھا لیکن اپنے دجل کے ذریعہ اسلام کے ابتدائی زمانہ کو ہم بنا دیا تھا پھر حضرت مہدی معہود آئے انہوں نے اعلان فرمایا سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے ( در مشین صفحہ ۱۷) چنانچہ قلم سے ہم نے اس اعتراض کو دور کیا اور ثابت کیا کہ اسلام کو پھیلانے کے لئے طاقت اور تلوار کی ضرورت نہیں ہے.ہمیں اس بارہ میں پوری معلومات حاصل کرنی چاہئیں ہم قلمی جہاد میں بھر پور حصہ لے سکتے ہیں.غرض جو اخبارات اور رسائل جاری ہیں یا دورانِ سال ، جو کتب نئی شائع ہوئی ہیں یا نئے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۳۷ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطا.سرے سے شائع ہوئی ہیں ان کے متعلق دوستوں کو توجہ دلانے کے لئے میں اس وقت اعلان کروں گا.تا کہ دوست ان کو خریدیں اور ان سے فائدہ اُٹھا ئیں.پہلے میں روز نامہ الفضل کو لیتا ہوں اخبار الفضل کی اشاعت اتنی نہیں جتنی ہونی چاہیے.پھر رسالہ تحریک جدید ہے.یہ ایک خاص طبقہ کے لئے بہت ہی مفید ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں خدمت اسلام بجالانے کی توفیق عطا فرمائی ہے.چنانچہ غیر ممالک میں اسلام کی تبلیغی جد و جہد اور اس کی کامیابی یعنی غیر ملکوں میں اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا فضل اور احسان کر رہا ہے یہ رسالہ اس کی بعض جھلکیاں پیش کرنے کے لئے مخصوص ہے.پھر ماہنامہ انصار اللہ ہے جس کا تعلق جماعت کے اس حصہ سے ہے جن کو میں بوڑھے کہنے کی بجائے ”جوانوں کے جوان“ کہا کرتا ہوں.اس لئے جوانوں کے جوان اس میں دلچسپی لیں.پھر ماہنامہ ” خالد ہے جو خدام الاحمدیہ کا رسالہ ہے.تفخیذ الا ذہان ہے.الفرقان ہے.ان سب کی اشاعت کی طرف تو نہیں کہنا چاہئے ان سے فائدہ اٹھانے کی طرف جماعت کو توجہ دینی چاہئے.نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب چشمہ معرفت دوبارہ شائع ہوئی ہے.ایک نئی کتاب بھی شائع کی گئی ہے.اس کو میں نے ہی اپنی نگرانی میں ایڈٹ (Edit) کروایا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر کبیر میں قرآن کریم کی بہت سی ایسی آیات کی تفسیر بھی شائع ہو چکی ہے.( تفسیر کبیر سارے قرآن کریم کی تفسیر پر مشتمل نہیں تاہم قرآن کریم کے جتنے حصہ کی تفسیر کی گئی ہے اس میں سے ) جن آیات میں حقوق العباد کا ذکر ہے یا یتامی ، بیوگان اور غرباء کی پرورش کا ذکر ہے اس کو الگ کر کے کتابی صورت میں شائع کر دیا گیا ہے.اب قوم یوں تو اس وقت عوامی حکومت اور اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا رہی ہے.مگر اسلام نے اس سلسلہ میں جو احکام بیان فرمائے ہیں ان کی طرف کسی کو کما حقہ، توجہ نہیں ہے.اس لئے یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان کی راہنمائی کریں اور ان کو بتائیں کہ اسلامی سوشلزم میں اسلام کا حصہ کیا ہے کیونکہ اسلامی سوشلزم میں سوشلزم تو بعد کی بات ہے پہلے تو لفظ ”اسلامی“ کو دیکھنا ضروری ہے خود یہ فقرہ بھی ہمیں یہی بتا رہا ہے.غرض سوشلزم کے متعلق اسلام کیا کہتا ہے یہ ہم نے بتانا ہے.چنانچہ یہ کتاب خدا تعالیٰ کے فضل سے شائع ہو گئی ہے.اس کا نام رکھا گیا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۳۸ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطا.ہے.اسلام غریبوں اور یتیموں کا محافظ یہ کتاب تفسیر کبیر کے اقتباسات پر مشتمل ہے.دوستو کو اس کی کثرت سے اشاعت کرنی چاہیے.خصوصاًسیاست دانوں میں کیونکہ وہ علی وجہ البصیرت نعرے نہیں لگاتے بلکہ اندھیرے میں نعرے لگا دیتے ہیں.کوئی سوشلزم کے متعلق نعرہ لگا دیتا ہے لیکن سوشلزم کے متعلق کچھ پڑھا نہیں ہوتا.کوئی اسلام کا نعرہ لگا دیتا ہے اور قرآن کریم کا اسے علم نہیں ہوتا.اس لحاظ سے بھی یہ قوم بڑی مظلوم ہے اور قرآنی رہنمائی کی محتاج ہے.ایک کتاب ” قادیانیت کے نام سے ہمارے خلاف کسی نے لکھی تھی جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے یا تو لوگ حوالوں کے الفاظ بدل دیتے ہیں یا معانی بدل دیتے ہیں اور پھر اعتراض کر دیتے ہیں.اس کا جواب احمدیت“ کے نام سے لکھا گیا ہے اور اسی طرح علمی تبصرہ “ شائع کیا گیا ہے ختم نبوت مودودی صاحب کا ایک رسالہ ہے جسے کتا بچہ کہنا چاہئے اس کے جواب میں یہ رسالہ جس کا نام علمی تبصرہ “ ہے لکھا گیا ہے.اسی طرح مکرم قاضی محمد نذیر صاحب نے شان مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے ایک کتاب شائع کی ہے.الشركة الاسلامية نے گذشتہ دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو کتب شائع کی ہیں وہ یہ ہیں.(۱) روحانی خزائن جلد ۳.(۲).روحانی خزائن جلد ۵.(۳).مجموعہ اشتہارات جلد دوم.(۴) لیکچر لاہور (۵) تجلیات الہیہ.اسی طرح الشركة الاسلامية نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کتاب ”ہمارا رسول“ دوبارہ شائع کی ہے.قاضی محمد نذیر صاحب کی کتاب ”الحق المبین فی تفسیر خاتم النبین اب پہلی دفعہ شائع ہوئی ہے.ادارۃ المصنفین کی طرف سے تاریخ احمدیت جلد ۱۲.جامع صحیح بخاری جز ۱۳ ، تاریخ احمدیت جلد ۱۳ ، تفسیر آل عمران والنساء شائع کی گئی ہے تفسیر کے متعلق احباب کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۳۹ ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مصلح موعود کی حیثیت سے مبعوث ہوئے تھے.آر زمانہ کی ضرورت اور زمانہ کے اُلجھے ہوئے مسائل کے متعلق لکھتے تھے.جو کمزوریاں اور بدعات مسلمانوں میں پیدا ہو گئی تھیں آپ ان کی اصلاح کرتے تھے اور جو اعتراضات اندھیروں میں بسنے والے لوگوں نے اسلام پر کئے تھے آپ ان کے جواب دیتے تھے.مگر آپ جو کچھ لکھتے اور کہتے تھے ان کی بنیاد قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت یا اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی نہ کسی ارشاد پر رکھتے تھے.اس لئے مضمون کے لحاظ سے آپ نے بعض دفعہ ایک آیت سورۃ بقرہ سے لی ، ایک سورۃ کہف سے لے لی یا ایک آخری پارہ کی لے لی اور اس طرح اپنے استدلال کو مؤثر بنانے کے لئے مختلف آیات کو اکٹھا کر دیا اور ان کی تفسیر بیان کی اور اس سے ثابت یہ کیا کہ اعتراض غلط ہے اور اس سے نتیجہ یہ نکالا کہ غیر مسلم اسلام کی طرف جو بات منسوب کر رہے ہیں وہ غلط ہے اس سے نتیجہ یہ اخذ کیا کہ آج کل مسلمانوں میں جو بعض رسوم پائی جاتی ہیں.وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں.وغیرہ.گویا آپ نے ثابت کیا کہ آپ واقعی ایک عظیم مصلح ہیں اور وہی مہدی معہود ہیں جس کی خدمت پر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور آپ نے فرمایا تھا کہ جب وہ آئے گا تو میری طرف سے اسے سلام کہنا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیان فرمودہ تفسیر کی تالیف کا یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے.اس سے پہلے سورۃ فاتحہ کی تفسیر بڑے اچھے کاغذ پر اور بڑی اچھی کتابت کے ساتھ شائع ہو چکی ہے.میری کوشش ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ ایسی کتابیں سستی ترین قیمت پر دوستوں کے ہاتھ میں پہنچ جائیں.تاہم کچھ نہ کچھ نفع تو ضرور رکھنا پڑتا ہے.کیونکہ متعلقہ عملہ کو تنخواہیں دینی پڑتی ہیں.اس کے بعد سورۃ بقرہ کی تفسیر شائع ہوئی اور اب اس سال آل عمران اور نساء کی شائع ہوئی ہے.میرا اندازہ ہے کہ یہ تفسیر دس جلدوں میں مکمل ہوگی.تیسری جلد تک چھپ چکی ہے..لجنہ اماء اللہ نے اپنی ” تاریخ لجنہ“ کی جلد سوم جو ۱۹۵۹ء سے ۱۹۷۲ ء تک کے حالات وکوائف پر مشتمل ہے شائع کی ہے.اسی طرح ایک ہمارے عزیز ہیں لطیف احمد قریشی صاحب انہوں نے مکرم محترم روشن دین تنویر مرحوم کا منظوم کلام اکٹھا کر کے شائع کیا ہے.ہمارے بزرگ محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی دو کتب بھی اس وقت دکانوں پر موجود ہیں.ایک تحدیث نعمت اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۴۰ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار دوسری میری والدہ.انہوں نے قیمت بہت رکھی ہے پتہ نہیں کیوں.یہ کتب اور رسائل ہیں.دوستوں کو ان کتب سے استفادہ کرنا چاہیے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب اور آپ کے ارشادات قیامت تک کی نسل کے لئے ہیں.اگر انہوں نے کامیابیاں حاصل کرنی ہیں اور کامیابیوں پر قائم رہنا ہے تو وہ ان سے بہر حال استغناءنہیں برت سکتے.آپ کی کتب کے علاوہ جو باقی لڑ پچر ہے.وہ تو گویا اسی چراغ سے اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے دیئے روشن کرنے کے مترادف ہے.مثلاً آپ نے جو مضامین بیان فرمائے ہیں ان کو نئی کتابوں میں پھیلا دیا اور کچھ اپنی زندگی میں جو حالات دیکھے اُسی کے مطابق جو اسلام نے بیان کئے ہیں اُن کا اظہار ہوتا ہے پس چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور ہم سارے اسی طرح کے لکھنے والے ہیں.اصل تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں.کیونکہ اور کسی کو ہمارے محبوب ہمارے آقا ہمارے خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہلوایا.امت محمدیہ میں مہدی معہود کے سوا اور کسی کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا.پس جس شخص کی قدر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے کی ، امت مسلمہ کی کوئی نسل اس کی خدمات کی قدر کرنے اور ان سے استفادہ کرنے سے بے نیاز نہیں رہ سکتی.غرض یہ تو تھے اخبارات و رسائل اور کتب سلسلہ جو دوران سال شائع ہوئیں.احباب جماعت کو ان کی اشاعت کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اب میں جماعتی اداروں اور ان کی کارکردگی کو لیتا ہوں.وقف جدید وقف جدید کے زیر انتظام مغربی پاکستان میں مختلف مراکز میں اس وقت ۶۴ معلمین جماعت کی تعلیم و تربیت کا کام کر رہے ہیں.ان کا دائرہ کار کر دگی ۱۱۱۵ دیہات ہیں.وہ یوں تو بہت سے کام کرتے ہیں لیکن ان میں سے نمایاں کام ایک تو بچوں کو قائدہ میسر نا القرآن پڑھانا ہے دوسرے قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ سکھانا ہے اور تیسرے نماز کا ترجمہ سکھانا ہے.اس سلسلہ میں جماعت میں ہزاروں افراد ان سے فائدہ اٹھا چکے ہیں.اس وقت جو فائدہ اٹھارہے ہیں ان میں ۱۲۷۲ بچے جو قاعدہ یسرنا القرآن پڑھ رہے ہیں.۶۵۸ قرآن کریم با ترجمہ اور ۱۰۰۸ نماز باترجمہ سیکھ رہے ہیں جب کہ قرآن کریم ناظرہ پڑھنے والوں کی تعدا د ۷۵۴ ہے.کیونکہ گذشتہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۴۱ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطا.سال جلسہ سالا نہ نہیں ہوا تھا اس واسطے میں مختصراً دو سالوں کی طرف اشارہ کرتا چلا جاؤں گا.چنانچہ ان معلمین کے حلقہ احباب میں ۴۱۲۲ دوستوں کو امسال اور ۲۰۳۷ دوستوں کو سال گذشته مختلف کتب ان کی ضرورت کے مطابق پڑھنے کے لئے مہیا کی گئیں.اس کے علاوہ دفتر وقف جدید سے مختلف اوقات کتب لے جانے والوں کی تعداد سال رواں میں ۱۱۰۴۷ اور سال گذشتہ میں ۲۳۲۰ تھی.وقف جدید اپنی طرف سے بھی کچھ کتب اپنی ضرورت کے مطابق شائع کرتی رہتی ہے.چنانچہ وقف جدید نے سال رواں میں ”ہماری تعلیم دس ہزار کی تعداد میں شائع کی.۲- احمدیت کا پیغام پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کیا.۳.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو میاں مبارک احمد صاحب نے لکھی ہے وہ دو ہزار کی تعداد میں شائع کی ہے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے.وصال حضرت ابن مریم علیہ السلام اور.دو مسئلے زیر طبع ہیں.آئندہ سال بھی معلمین وقف جدید کی نئی کلاس کو خاص توجہ دینی چاہئے.نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ وقف کرنا چاہئے یا بڑی عمر کے ایسے دوست جن کو وقف جدید.9966 معلم بننے کے اہل اور مناسب سمجھے ان کو اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے.اس ایک سال کے عرصہ میں مشرقی پاکستان ہماری بدقسمتی سے اور ہمارے گناہوں کے نتیجہ میں ہم سے علیحدہ ہو گیا.مشرقی پاکستان سے ۳۵ ہزار کی رقم بطور چندہ وقف جدید کو سالا نہ وصول ہوتی تھی.موجودہ حالات میں وہ موصول نہیں ہو سکتی.لیکن اس کے باوجود مغربی پاکستان کے احباب جماعت نے اپنی غیرت کا یہ ثبوت دیا کہ اگر چہ مشرقی پاکستان سے رقم نہیں ملی.تاہم اس کمی کے باوجود کل بجٹ سے سات آٹھ ہزار رو پیز ائد وصول ہوا.الحمد للہ علی ذالک اللہ تعالیٰ ان دوستوں کو احسن جزاء عطا فرمائے جنہوں نے وقف جدید کے اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.صدرانجمن احمد یہ صدر انجمن احمدیہ کی کارکرگی کی تفصیلی رپورٹ تو ہر سال مجلس شوریٰ میں پیش ہو جاتی ہے.وہاں جماعت کے نمائندے آتے ہیں.باتیں سنتے ہیں اور یہ نصیحت بھی وہاں پلے باندھتے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۴۲ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار ہیں کہ ہم واپس جا کر یہ باتیں جماعتوں کو سنائیں گے.اگر راستہ میں وہ پلکہ کھل جاتا ہے تو اس کا تو مجھے پتہ نہیں.بہر حال وہ مجلس شوریٰ میں تو یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے تمام باتیں پلے باندھ لی ہیں.جو چیز مجلس شوری میں اس طرح نمایاں نہیں ہوتی اور نہ کوئی خاص ضرورت سمجھی جاتی ہے.کیونکہ بہت زیادہ بنیادی اہمیت کے معاملات مجلس شوریٰ میں زیر بحث ہوتے ہیں.وہ یہ ہے کہ کارکنان کو علاوہ گزاروں کے ( جو بہت کم ملتے ہیں ) بعض امداد میں دی جاتی ہیں.تحریک جدید، وقف جدید ، انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور صدرانجمن احمدیہ کے کارکنوں کو یا ایسے خاندانوں کو جن کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنے گزارے کم سے کم معیار پر بھی نہیں کر سکتے.چنانچہ صدر انجمن احمدیہ کے کارکنان کو سالانہ گندم کا ایک چوتھائی مفت دیا جاتا ہے.اگر روز انہ نصف سیر گندم فی کس سمجھی جائے تو سال کے لئے ساڑھے چار من گندم بنتی ہے.اگر وہ دو میاں بیوی ہیں یعنی ایک شخص کی نئی نئی شادی ہوئی ہے اور وہ انجمن کا کا رکن بنا ہے تو ان کو نومن کی ضرورت ہے.تو صدرانجمن احمد یہ اس کا چوتھائی حصہ یعنی دو من دس سیر مفت دیتی ہے اور اگر کوئی پرانا کا رکن ہے اور اس کے ماشاء اللہ سات آٹھ بچے کھانے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس پر بڑا ضل فرمایا ہے اور دو وہ خود میاں بیوی ہیں یہ کل دس افراد بن جاتے ہیں.اس خاندان کو پینتالیس من گندم کی ضرورت ہوگی تو ان کو مثلاً صدرانجمن احمدیہ ( اور اس طرح دوسرے ادارے بھی ) چوتھا حصہ یعنی گیارہ من دس سیر گندم مفت دیتے ہیں اور یہ اپنی ذات میں بڑی مدد ہے.اب اگر ایک شخص کو نومن کی ضرورت تھی تو اس کو دو من دس سیر گندم مفت دی گئی دوسرے خاندان کو پینتالیس من کی ضرورت تھی ہم نے گیارہ من دس سیر دی.یعنی پہلے آدمی کی اصل ضرورت سے بھی زیادہ دے دی.غرض ہم اپنے کارکنوں کو ان کی گندم کی اصل ضرورت کا ایک چوتھائی مفت دے دیتے ہیں.چنانچہ اس سال صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے ۲۲۳۰ من گندم کے طور پر مدد دی گئی جس پر جماعت نے ۴۲۷۵۲ روپے خرچ کئے.اس طرح موسم سرما میں کچھ کپڑوں کی زائد ضرورت ہوئی ہے.کچھ ایسے خرچ بھی کرنے پڑتے ہیں.جن کی گرمیوں میں ضرورت پیش نہیں آتی تو ان کے لئے پچھلے سال کم رقم تھی.اس سال ہم نے یہ قانون بنایا ہے کہ کارکن اور اس کے زیر کفالت افراد مثلاً اگر دس ہوں تو دس کے لئے ۶ ۱ روپے فی کس کے حساب
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۴۳ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطاب سے دیئے جائیں.یعنی موسم سرما کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جو دو افراد ہیں ان کو ۳۲ روپے اور جس شخص کا خاندان دس افراد پر مشتمل ہے ان کو ۱۶۰ روپے دیئے گئے.اس لحاظ سے اس کارخیر میں صرف صدر انجمن احمدیہ کا جو حصہ ہے وہ ۳۰۴۷۲ روپے کا ہے اس کے علاوہ جو کارکن نہیں اور جن کی خبر میں عام طور پر رکھتا ہوں.اس موسم میں بھی اور ویسے بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے.تا ہم یہ صحیح ہے کہ بعض لوگوں کو مانگنے کی عادت پڑ گئی ہے.چنانچہ ایک دفعہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب باہر سے آئے تو مجھے کہنے لگے کہ یہاں غریب کو پوچھنے کا کوئی انتظام نہیں.میں نے کہا کیا بات ہے کہنے لگے کہ ایک شخص میرے پاس آیا تھا اور وہ رو رہا تھا کہ مجھے کوئی پوچھتا نہیں.میرے ذہن میں آیا کہ فلاں شخص کو مانگنے کی عادت ہے ہوسکتا ہے وہی ہو.میں نے کہا ابھی پانچ چھ دن ہوئے اتنی رقم تو وہ مجھ سے لے کر گیا ہے.پس ایسے لوگ بھی ہیں جن میں اس قسم کی کمزوری پائی جاتی ہے.دوست ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس کمزوری کو دور کر دے.بہر حال ہم اپنے دوستوں کی ضرورت کا حسب توفیق خیال رکھتے ہیں.چنانچہ ۱۹۶۷ من گندم ایسے خاندانوں میں مفت تقسیم کی گئی جو کار کن نہیں تھے اور اس کے اوپر ۳۴۷۱۳ روپے خرچ کئے گئے.اس کے علاوہ فطرانہ ہے اور زکوۃ فنڈ ہے اور بعض دوسری رقمیں ہیں جو دوست بھجوا دیتے ہیں.یہ اس وقت تک ( جب کہ ابھی سال ختم نہیں ہوا ابھی بہت ساری رقم آئندہ دو چار مہینوں میں خرچ کی جائے گی ) ان رقموں میں سے بھی جن کا زیادہ تر حصہ ربوہ میں مقیم غیر کا رکن کو دیا جاتا ہے.یہ پچپن ہزار روپے کی رقم ہے.پس یہ ملا کر قریبا نوے ہزار روپے کی رقم بن جاتی ہے.(جس میں بمشکل پانچ فیصد کا رکن ہوں گے کیونکہ ان کو الگ طور پر امدادمل جاتی ہے ) جو ربوہ کے غریب گھرانوں کو بطور امداد دی جاتی ہے مثلاً ان لوگوں کو جن کے زیادہ بچے ہیں اور آمدنی تھوڑی ہے یا مختلف حالات ہوتے ہیں.ایسے لوگوں کی مختلف شکلوں میں امداد کی جاتی ہے یہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل کا اظہار ہے کسی پر احسان جتانا مقصود نہیں ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس کی توفیق سے ہم اپنے بھائیوں کی ایک حد تک خبر گیری کر سکے.صدر انجمن احمدیہ کے لازمی چندہ جات کا جو بجٹ ہے یعنی چندہ عام اور حصہ وصیت اس پر بھی مشرقی پاکستان کے کٹ جانے کا اثر پڑا اور یہ اثر پڑنالازمی تھا مگر باوجود اس کے کہ گذشتہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۴۴ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطا.سال سخت ہنگاموں کا سال تھا اور سخت فساد کا سال تھا اور سخت فتنوں کا سال تھا جس میں پاکستان کو ایک بڑا شدید بنیادی نقصان اٹھانا پڑا، اس میں بھی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی کہ مشرقی پاکستان کی جماعت کا چندہ وصول نہ ہونے کے باوجود مجموعی بجٹ سے (یعنی جس مشرقی پاکستان کا چندہ شامل تھا) سینتیس ہزار روپے زائد رقم وصول ہوئی.پس اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ اللہ کا شکر کیا کریں اور اس کی حمد کیا کریں اور بشاشت سے اپنی زندگی گزارا کریں.مجلس شوری میں آپ کے نمائندوں نے میرے پاس یہ سفارش کی تھی کہ مغربی پاکستان کا سال رواں کا بجٹ پچھلے سال کے مجموعی بجٹ سے بھی تین لاکھ روپے زائد رکھا جائے چنانچہ یہ رقم بجٹ میں رکھی گئی ہے.کچھ بیچ میں دوسرے چندے آتے ہیں.جماعتوں نے مختلف شکلوں میں ادائیگی کے بارہ میں اپنے لئے سہولتیں پیدا کی ہوتی ہیں.مثلاً راولپنڈی کی جماعت ہے وہ حالات کی مناسبت سے ایک وقت میں یہ کہہ دیتی ہے کہ ہم لا زمی چندوں کو وقتی طور پر چھوڑ بھی دیں تو کوئی بات نہیں.تحریک جدید کا چندہ پورا کر دیتے ہیں ، یا وقف جدید کا چندہ پورا کر دیتے ہیں وغیرہ.کچھ ویسے بھی توجہ کم تھی اس لئے میں نے ایک پچھلے خطبہ جمعہ میں جماعت کو اس طرف توجہ دلائی.دوسرے بعض لوگوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ چونکہ مرکز نے کہا ہے نصرت جہاں ریزروفنڈ میں اپنا اسی فیصد وعدہ پورا کرو.اس لئے لازمی چندوں کی ادائیگی میں کمی واقع ہو گئی ہے.میں نے کہا کہ تمہارا یہ اعتراض بھی باقی نہیں رہنے دیں گے.چنانچہ میں نے اپنے خطبہ میں یہ اعلان کیا کہ تمہارے نصرت جہاں ریزروفنڈ کے جو وعدے ہیں وہ بعد میں ادا کر دینا مگر ۳۱ دسمبر تک لازمی چندہ جات کا ۸/۱۲ یعنی ۲/۳ حصہ ادا کر دو.اب دیکھتے ہیں کہ جماعت اس پر کس حد تک عمل کرتی ہے.ویسے یہاں حساب میں پڑنے کی ضرورت بھی نہیں اس طرح خواہ مخواہ وقت ضائع ہو گا جن کے سپرد یہ کام ہے.ان کو میں نے سمجھایا ہے کہ وہ شکل نہیں بنتی جو تمہارے دماغ میں آئی ہے.بہر حال اس خیال سے کہ کسی کمزور ایمان احمدی کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو میں نے مختصر بتا دیا ہے.کیونکہ لازمی چندہ جات کے علاوہ جو دوسرے چندے ہیں ان کی ادائیگی بھی معمول بن گئی ہے اس معمول میں یارٹ میں کوئی چیز آ جاتی ہے تو ساتھ ہی بعض
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۴۵ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطاب دفعہ ایمان میں کچھ کمزوری بھی آجاتی ہے تقویٰ میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ معاف فرمائے.تاہم بعض دوسری تحریکیں جب شروع ہوتی ہیں تو اس میں کمزوری نہیں آتی مثلاً نصرت جہاں ریزروفنڈ کا جب میں نے اعلان کیا تو میں نے یہ بھی کہا کہ مجھے یہ فکر ہی نہیں ہے کہ پیسے آئیں گے بھی یا نہیں اور آئیں گے تو کہاں سے آئیں گے.کیونکہ مجھے تو خدا نے فرمایا ہے کہ خرچ کرو.اس لئے جس خدائے قادر و توانا نے مجھے کہا ہے کہ خرچ کرو وہ چونکہ تمام خزانوں کا مالک ہے اس لئے وہ مجھے پیسے بھی عطا فرمائے گا.مجھے تو کہے کہ خرچ کرو.اگر وہ مجھے دے گا نہیں تو میں خرچ کہاں سے کروں گا.میں تو خزانوں کا مالک نہیں ہوں میں ایک دھیلے کا مالک بھی نہیں ہوں.یہ تو سب کچھ اس کی عطا ہے.بہر حال میری اپنی طبیعت ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے فضل کیا اسے میں آگے چل کر خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے فضل ہیں.انسان ان فضلوں کو دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے.بہر حال تین لاکھ کا زائد بجٹ آپ کے نمائندوں کے مشورہ سے بجٹ میں رکھا گیا تھا.اس کی ادائیگی میں گو بظا ہر تھوڑی سی سستی نظر آتی ہے.لیکن مجھے تو فکر نہیں ہے انشاء اللہ سارا بجٹ پورا ہوگا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسے مادہ سے بنایا ہے کہ جس کے اجزاء کا آج کا سائنسدان پتہ ہی نہیں لے سکتا کہ یہ ہے کیا چیز.انہوں نے سونے کا بھی تجزیہ کر لیا اور ایٹم کو بھی پھاڑ کر تباہی کے سامان پیدا کر لئے اور اس طرح چاندی اور دوسری دھاتوں کی بھی مختلف طاقتیں اور ان کے استعمال ایجاد کر لئے لیکن جس مادہ سے احمدی بنا ہے اس کو سائنسدان نہیں پہچان سکے اور نہ پہچان سکیں گے.فضل عمر فاؤنڈیشن فضل عمر فاؤنڈیشن کی ابتداء ۱۹۶۵ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ہوئی اور عملاً ۱۹۶۶ء سے کام شروع ہوا.گویا سات سال پہلے یہ تحریک کی گئی تھی اور جماعت نے چندہ عام اور حصہ وصیت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ بڑے شوق کے ساتھ اور بڑے جذبہ کے ساتھ اور اس محبت کی وجہ سے جو ان کے دل میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تھی فضل عمر فاؤنڈیشن
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۴۶ ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار کے وعدہ جات بھی پورے کر کے بڑی ہمت اور بڑی قربانی کا مظاہرہ کیا.اس وقت کے حالات کے لحاظ سے ہم نے یہ سمجھا کہ یہ بڑی قربانی ہے اور یقیناً بہت بڑی قربانی تھی.چنانچہ فاؤنڈیشن کے لئے پاکستان اور بیرون پاکستان جو نقد عطیہ جمع ہوا ( عطیہ جات جمع کرنے کا کام الا ماشاء اللہ ختم ہو چکا ہے ) اور وہ بقدره ۳۰,۷۷٫۵۷ روپے تھا بعض دوستوں نے عطیہ کے طور پر کچھ جائیدادیں بھی فاؤنڈیشن کو دے دیں.جن کی قیمت اندازاً ۳,۴۰,۰۰۰ ہے یہ کل ۳۴,۱۷,۵۷۰ روپے کی رقم بنتی ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن نے سوچا کہ رقم ۱۰ ہزار ہو یا ۳۴ لاکھ یا ۳۴ ارب ہو اگر سرمایہ خرچ کرنا شروع کر دیا جائے تو سال میں نہیں تو پانچ سال میں یا دس سال میں نہیں تو پچاس سال میں ختم ہو جائے گا اس واسطے انہوں نے یہ تجویز کیا کہ اس روپے کو تجارت پر لگا دیا جائے اور تجارت کریں اس دنیا کے ساتھ.چنانچہ انہوں نے بعض کمپنیوں کے حصص خرید لئے اور یہ فیصلہ کیا کہ جو نفع ہو گا (یعنی Dividends جو تقسیم ہوتے ہیں ) اس نفع سے ہم خیر کے کام کریں گے چنانچہ ان سات سالوں میں دفتری رپورٹ کے مطابق ان کو ۸,۲۶,۸۲۰ روپے نفع کے طور پر آمد ہوئی.یعنی ایک لاکھ پندرہ میں ہزار روپے سالانہ کے حساب سے آمد ہوئی اور چونکہ اصول یہ بتایا گیا تھا کہ سرمایہ خرچ نہیں ہو گا.بلکہ آمد میں سے اس وقت تک انہوں نے جو خرچ کیا ہے.وہ چار لاکھ اور کچھ ہزار کی رقم تو اس لائبریری کی عمارت اور فرنیچر پر خرچ کی گئی ہے جسے آپ جلسہ گاہ سے مسجد مبارک کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں دیکھتے ہیں.بڑی خوبصورت عمارت ہے گو مکمل بعد میں ہوئی تھی اور چھوٹی پہلے ہو گئی تھی.اس واسطے اس کے افتتاح پر مجھے یہ اعلان کرنا پڑا کہ اس کے ساتھ ایک بہت بڑی دوسری لائبریری بنانے کا ابھی سے سوچ لو.انشاء اللہ وہ بھی بن جائے گی اس کے علاوہ ان کی تجویز ہے جو ہائی ٹیکنیکس انسٹی ٹیوٹ کی طرز پر زرعی اور ٹیکنیکل ٹرینگ کلاسز کھولنے سے متعلق ہے.یعنی یہ تعلیمی ادارہ نہیں لیکن اس کے لئے ابھی تک ان کو کوئی اور موزوں لفظ ملا نہیں جس سے ان کے ذہن میں جو منصوبہ ہے اس کو ظاہر کیا جا سکے.اس لئے وہ ہائی ٹیکنیکس انسٹی ٹیوٹ کی طرز کا کوئی منصو بہ سوچ رہے ہیں.ابھی وہ سوچ رہے ہیں اس لئے منصوبہ مکمل نہیں ہوا.جب وہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۴۷ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار مکمل ہوگا تو اس کے اوپر وہ خرچ کریں گے.علاوہ ازیں انعامی مضامین لکھوانے کا پروگرام تھا جو فی نفسہ بڑا ہی اہم نہایت ضروری اور بڑا ہی مفید پروگرام ہے لیکن نہ جماعت کے دوستوں نے اس کی طرف پوری توجہ کی اور نہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے منتظمین نے جماعت کو کما حقہ توجہ دلائی.چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال ایسا بھی آیا کہ اس میں ایک مقالہ بھی معیاری نہیں تھا اور عملاً کسی سال میں بھی پانچ دس سے زیادہ مقالے نہیں آئے.پانچ چھ مقالے سال کے حساب سے آ رہے ہیں.چنانچہ ۱۹۷۰ء میں چھ مقالے آئے.اس سے اگلے سال سات مقالے موصول ہوئے.اس سے پہلے 1949ء میں جو چند مقالے آئے تھے ان کے انعام کا فضل عمر فاؤنڈیشن نے اب تین سال کے بعد اعلان کیا ہے.ظاہر ہے یہ بھی ایک انتظامی خرابی ہے.جس کام کا نتیجہ جتنا جلد تر ممکن تھا اتنا جلد نہ نکلے تو اس میں حصہ لینے والوں کو کوئی خاص دلچسپی نہیں رہتی.مثلاً حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق کہ گھوڑوں کی پیشانی میں امت مسلمہ کے لئے قیامت تک خیر و برکت کے سامان رکھے ہیں.میں نے جماعت کو ایک تحریک کی تھی کہ دوست گھوڑوں اور ان کی افزائش نسل کی طرف توجہ کریں.چنانچہ اچھی نسل کے گھوڑے پالنے میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے ہم نے اس سال بھی گھوڑ دوڑ کرائی.اب فرض کریں کہ گھوڑ دوڑ تو اس سال ہوتی اور ان کو انعام تین سال کے بعد دیا جاتا تو اگلے سال کسی نے گھوڑ دوڑ میں شامل نہیں ہونا تھا لیکن گھوڑ دوڑ ختم ہوئی اور وہیں اول دوم آنے والے گھوڑوں کے مالکوں میں سے کسی کو پانچ کسی کو دس اور کسی کو پندرہ کسی کو بیس روپے بطور انعام مل گئے اور وہ خوشی خوشی اپنے گھروں کو چلے گئے.غرض کسی کام میں دلچسپی پیدا کرنے کا یہ بھی ایک ذریعہ ہے کہ جلد از جلد انعام دے دیا جائے.پس میں فضل عمر فاؤنڈیشن کی انتظامیہ سے یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ تین سال کے بعد کسی کو انعام دیں گے تو اس مقالہ نویسی میں کوئی دلچسپی نہیں رہے گی.اب مثلاً ۱۹۷۰ء میں جو مقالے آئے تھے ان میں سے کسی کے انعام کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا.استثنائی طور پر ایک احمدی نومسلم ڈاکٹر عبدالہادی صاحب کیوسی (وہ بڑے سکالر ہیں اس میں کوئی شک نہیں) انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر اسپر نٹو زبان میں کتاب لکھنے پر انعام دینے کا فیصلہ کیا گیا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۴۸ ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار ہے.فیصلہ استثنائی ہے.انعام استثنائی نہیں.کیونکہ وہ میرے نزدیک بھی اس کے مستحق ہیں.پھر حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کی سوانح کی تیاری گو۶۷.۱۹۶۶ ء سے شروع ہے لیکن اب ۱۹۷۲ء ختم ہو رہا ہے مگر ابھی تک وہ آخری شکل میں ہمارے سامنے نہیں آئی پہلے ملک سیف الرحمن صاحب نے ایک مسودہ ایک کمیٹی کے مشورہ کے ساتھ تیار کیا.پھر فاؤنڈیشن نے کہا نہیں یہ بھی درست نہیں ہے اب یہ کام یہاں میاں طاہر احمد صاحب کے سپر د ہے کہ وہ اس کو از سر نو لکھیں یا ملک سیف الرحمن صاحب کے تیار کردہ مسودہ کی اصلاح کریں یا جیسے بھی مناسب ہو.بہر حال یہ کتاب اس وقت تک چھپ جانی چاہئے تھی لیکن ابھی تک نہیں چھپ سکی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عید الاضحیہ کے خطبات کو آخری شکل دی جارہی ہے.یہ بھی انشاء اللہ کتابی صورت میں جلد شائع ہو جائیں گے.میں نے فضل عمر فاؤنڈیشن اور اس کی کارکردگی کے ضمن میں ایک بات نمایاں کی ہے دوست اس کو ذہن میں رکھیں میں نے آپ کے سامنے یہ بات نمایاں کی ہے کہ فضل عمر فاؤنڈیشن کی نقد آمد ۳۰,۷۷٫۵۸۰ تھی اور اس کی انتظامیہ نے سوچا اور صحیح سوچا کہ سرمایہ کی بجائے سرمایہ کی آمد خرچ کرنی چاہئے.اس لئے انہوں نے یہ سرمایہ مختلف کمپنیوں کے حصص میں لگا دیا اور ان کو اوسطاً ایک لاکھ پندرہ ہمیں ہزار روپے سالانہ کے حساب سے نفع ملا.اس نفع کی مقدار نے خیرات اور نیکی کے کاموں کو محدود کر دیا.کیونکہ جب نفع ہی سال میں اوسطاً لا کھ سوالا کھ آنا ہے تو وہ سال میں دس لاکھ روپے خرچ نہیں کر سکتے.کیونکہ ان کے پاس پیسے ہی نہیں اس واسطے وہ خرچ کہاں سے کریں گے لیکن بعد میں ایک اور تجارت کی گئی جس کی شکل ہی کچھ اور ہے.میں آگے چل کر اس پر روشنی ڈالوں گا.دوست ان ہر دو تجارتوں کا جب اپنے ذہن میں موازنہ کریں گے تو بے اختیار ان کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی حمد جاری ہو جائے گی.نظارت اصلاح و ارشاد متعلقه وقف عارضی و تعلیم القرآن اس نظارت کے تحت جو کام ہو رہا ہے.اس کے بعض حصوں کی طرف ہماری جماعت پوری تی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۴۹ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطاب توجہ نہیں کر رہی.اس سال یعنی یکم جنوری تا دس دسمبر وقف عارضی کے کل ۳۳۲, ۴ فارم موصول ہوئے.یہ کوئی ایسی زیادہ کمی تو نہیں جو باعث فکر ہو.تاہم میں یہ چاہتا تھا کہ پانچ اور سات ہزار کے درمیان فارم آجائیں.اگر پانچ ہزار بھی لے لیں تو پھر بھی سات سو کی کمی ہے جہاں تک وقف عارضی کے وفود کا تعلق ہے دوران سال کل ۲,۷۹۴ وفود باہر بھجوائے گئے.یہ بھی کم ہیں.جیسا کہ میں نے پچھلے جلسہ سالانہ پر بھی کہا تھا یہ بڑی ہمت کا رضا کارانہ کام ہے.اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اپنی جگہ کو چھوڑنا ، اپنے خرچ پر جانا کسی کی مہمان نوازی قبول نہیں کرنی خود کھانا تیار کرنا وغیرہ.گویا اس طرح پندرہ دن تک کام کرنا بڑے مجاہدہ کا کام ہے.اس عرصہ میں وہ عام تکلیفوں سے بھی زیادہ تکلیف برداشت کرتے ہیں مثلاً زیادہ وقت دیتے ہیں، کم سوتے ہیں، زیادہ دعائیں کرتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے نشان بھی زیادہ دیکھتے ہیں.بہر حال اس کا بڑا فائدہ ہے.بہت ساری ہماری کمزور جگہیں تھیں جو ہماری نظر سے اوجھل تھیں وہ سامنے آگئیں.بعض جگہ جہاں تربیت کی کمی تھی وہاں تربیت ہو گئی.بعض جگہ جہاں تبلیغ کی ضرورت تھی وہاں تبلیغ ہوگئی.دوست ہنستے کھیلتے باتیں کرتے ، کھانا پکاتے ،مسجد میں گفتگو کرتے ، اپنوں.سے ! ملتے غیروں سے باتیں کرتے دن گزار دیتے ہیں.یہ ایک اور ہی روحانی فضا ہے جو وقف عارضی کے ذریعہ انسان کو میسر آتی ہے.اس کو پروفیشن (Profession) تو نہیں کہنا چاہئے.کیونکہ پھر پروفیشن کا یہ مطلب ہوگا کہ سارے احمدی پروفیشنل مبلغ نہیں ہیں.سارے احمدی پروفیشنل مبلغ ہیں اس لئے اس معنی میں تو یہ لفظ استعمال نہیں کر سکتے.لیکن عام معمول کے خلاف یہ ایک قسم کی تربیت کرنے ، ماحول کو سنوار نے ، فضا کو حسین بنانے کا ایک کام ہے.یہ بھی ایک مہم ہے جو جاری کی گئی ہے.اس کے بڑے فائدے ہیں.اللہ تعالیٰ اس وقف عارضی میں حصہ لینے والوں کو بہت ہی ، بہت ہی ، بہت ہی جزاء عطا فرمائے.فضل عمر درس القرآن کلاس ہر سال ایک ماہ کے لئے منعقد ہوتی تھی پچھلے سال میں نے کہا کہ ایک ہفتہ کے لئے امراء اضلاع اپنے ہاں کلاس کا انتظام کیا کریں اور میں نے یہ ہدایت اس لئے دی کہ ایک دو امراء نے میرے پاس یہ اعتراض پہنچا دیا کہ مرکز میں اس کلاس کا انتظام بڑا خراب ہے بچے مسجد میں شور مچاتے : ہیں.حالانکہ وہ بچے انہی کے اضلاع سے آئے ہوئے تھے.اس لئے میں نے کہا ان کو آداب
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطاب مسجد اپنے ضلع میں سکھایا کرو.پھر ہمارے پاس بھیج دیا کرو.پھر اگلے سبق ہم سکھایا کریں گے.چنانچہ اس سال یہ تجربہ کیا گیا ہے.میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ یہ طریق خاطر خواہ کامیاب نہیں رہا.اس کام کے انچارج ابو العطاء صاحب بھی کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں بھی یہ طریق اتنا کامیاب نہیں ہوا.اس لئے ساری جماعت کے سامنے ایسے امراء جواب دہ ہیں کہ وہ کیوں ایک ہفتہ تک بھی جماعت کے بچوں کو سنبھال نہیں سکے.یہاں مرکز میں جب وہ آئیں گے اور انشاء اللہ بہت زیادہ تعداد میں آئیں گے تو ہم ان کو سنبھالیں گے.لیکن چونکہ یہ کلاس گرمیوں میں ہوتی ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں خود یہاں نگرانی نہیں کروا سکتا کیونکہ گرمی میرے لئے بیماری بن چکی ہے.خون میں شکر آنے لگ جاتی ہے.بعض دفعہ تو تکلیف بڑھ جاتی ہے.جس سے بعض اور عوارض لاحق ہو جاتے ہیں.اس واسطے گرمیوں میں مجھے کسی نہ کسی ٹھنڈے مقام کی طرف جانا پڑتا ہے.ورنہ میں کام نہیں کر سکتا.کام تو میں جہاں بھی جاؤں کرتا ہوں.یہ تو نہیں کہ میں چھٹی پر ہوتا ہوں لیکن بہر حال ربوہ سے باہر ہوتا ہوں.ویسے ان دنوں میں بھی ایک دو دفعہ ربوہ آجا تا ہوں.جہاں تک اس کلاس کی تعداد کا تعلق ہے اس میں ہمارے بچے اور نو جوان خاصی بڑی تعداد میں شامل ہوتے ہیں.تاہم بچیاں سبقت لے جاتی ہیں.بہت ساری جگہیں ہیں جہاں ہماری بچیاں آگے نکل رہی ہیں اس جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوئے نو جوانوں کو اپنی فکر کرنی چاہئے کیونکہ اس تقریر کی آواز زنانہ جلسہ گاہ میں بھی پہنچ رہی ہے ان کو میں نہیں کہہ رہا.چنانچہ اس سال فضل عمرؓ درس القرآن کلاس میں ۳۹۱ طلبہ اور ۴۰۹ طالبات شامل ہوئیں اور میں سمجھتا ہوں اور میرا تاثریہ ہے کہ طالبات اپنے نتیجہ کے لحاظ سے بحیثیت مجموعی طلبہ سے آگے نکل گئی ہیں.یعنی اول دوم آنے کے لحاظ سے نہیں لیکن جتنی فیصد طالبات ساٹھ فیصد سے زیادہ نمبر لیتی ہیں اتنے فیصد طلبہ ساٹھ فیصد سے زیادہ نمبر نہیں لیتے.یعنی عام طور پر طالبات کا نتیجہ زیادہ اچھا ہوتا ہے کیونکہ وہ زیادہ انہماک کے ساتھ درسوں کو سنتی اور یا د رکھتی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی یعنی ہماری بچیوں کو مغربی تہذیب کی بدعنوانیوں سے محفوظ رکھے اور وہ بھی مردوں کے شانہ بشانہ اسلام کی اس آخری جنگ، اس غالب جنگ اور اس فتح مند جنگ میں حصہ لینے والی ہوں.یہی نظارت مجلس ارشاد
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۵۱ ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار کا بھی اہتمام کرتی ہے اس سال مجلس ارشاد کے چار اجلاس ربوہ میں منعقد ہوئے اور بیرونی جماعتوں میں سے ۶ ا جماعتوں نے اس کا اہتمام کیا.تعلیم القرآن بذریعہ موصیان کا جہاں تک تعلق ہے ہمارے کام کا یہ حصہ بہت کمزور ہے صرف ۲۴ مجالس کی طرف سے رپورٹیں موصول ہوئی ہیں.پس موصی صاحبان پر تو ہم بڑا حسن ظن رکھتے ہیں ان کو زیادہ توجہ کے ساتھ زیادہ تندہی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نباہنا چاہیے.تحریک جدید اس وقت ۳۱ غیر ممالک میں ہمارے مشن کام کر رہے ہیں اور دنیا کو ( بیچ میں نافعے تو ہیں ) ہمارے مشنز نے گھیرے میں لے لیا ہے.یہ ایک حقیقت ہے اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہر صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تو جماعت احمدیہ کو اپنی تعداد میں بھی اور اپنے اثر و رسوخ اور خدمت میں بھی زیادہ پاتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے.اس عرصہ میں جونئی مساجد بنائی گئیں تحریک جدید کی رپورٹ کے مطابق ان کی تعدا د ۲۴ ہے لیکن میرے علم میں اور بھی بہت ساری مساجد ہیں جو غیر ممالک میں بنائی گئی ہیں.مثلاً ڈاکٹر غلام مجتبی صاحب جو خدا کے فضل سے بڑے کامیاب ڈاکٹر ہیں انہوں نے ایک بڑی اچھی مسجد بنوائی ہے لیکن دفتر نے اس کو اپنی رپورٹ میں شامل نہیں کیا.پس یہ میرے علم میں ہے کہ کئی اور بھی اچھی مساجد بنائی گئی ہیں.جس کا تحریک جدید کو علم نہیں ہوا اور وہ اس رپورٹ میں شامل نہیں.علاوہ ازیں بیرونی ممالک میں ے انٹی جماعتیں قائم ہوئی ہیں.گذشتہ دو سالوں میں چونتیس مبلغین باہر تشریف لے گئے اور اٹھائیس مبلغین باہر سے واپس مرکز میں تشریف لائے.تحریک جدید کی طرف سے جہاں تک قرآن کریم کے تراجم اور ان کی اشاعت کا تعلق ہے کچھ زبانوں میں تو پہلے تراجم ہو چکے ہیں.مثلاً انگریزی، ڈچ ، جرمن ، سواحیلی زبان میں پورے قرآن کریم کا ترجمہ ہو چکا ہے.یہ تراجم مع تفسیر قرآن بھی چھپتے ہیں اب تو میں نے اشاعت قرآن کریم کے لئے ایک علیحدہ محکمہ کھول دیا ہے.آپ بھی بڑی دعائیں کریں ہم نے بھی بڑی دعائیں کی ہیں.اللہ تعالیٰ اس ضمن میں بھی بڑے فضل نازل کر رہا ہے.غیر مبائعین کے پاس جو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۵۲ ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار ترجمے والا قرآن کریم تھا.میں اس کی تفصیل میں اس وقت نہیں جانا چاہتا کیوں کہ اس پر ایک زمانہ گذر چکا ہے.دنیا جانتی ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے.تاہم انہوں نے ساٹھ سالہ محنت کے نتیجہ میں قرآن کریم انگریزی ترجمہ وغیرہ کے ایک لا کھ اور چند ہزار نسخے شائع کئے ہیں اور خدا کے فضل سے ہم نے صرف پچھلے سال کے عرصہ میں ۷۵ ہزار قرآن کریم شائع کر دیئے اور انشاء اللہ اس اگلے سال میں ہم ان سے کہیں آگے نکل جائیں گے اور جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا میری یہ خواہش ہے اور میری اور آپ کی بھی یہ دعا ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں کامیابی عطا فرمائے کہ اگلے پانچ سات سال میں دس لاکھ قرآن کریم با ترجمہ دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیں.یہ انسان کی تعداد کے لحاظ سے کوئی بڑا کام نہیں ہے لیکن اسے ہم ایک بڑے کام کی ابتداء ضرور کہہ سکتے ہیں.اس کے لئے بعض اور تدابیر اختیار کی جارہی ہیں اس ضمن میں میں آگے چل کر بیان کروں گا.بہر حال تحریک جدید نے سواحیلی زبان میں قرآن کریم پانچ ہزار کی تعداد میں دوبارہ شائع کیا ہے.یوگنڈا کی یوگنڈوی زبان کے ترجمے کی پہلے پانچ پاروں کی طباعت ہو چکی ہے.سویڈش زبان میں ۲۱ پاروں کا ترجمہ طباعت کے لئے تیار ہو چکا ہے.تحریک جدید کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں سے ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات انگریزی میں پانچ ہزار کی تعداد میں، توضیح مرام پانچ ہزار کی تعداد میں ، فتح اسلام پانچ ہزار کی تعداد میں اور برکات الدعا پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے اقتباسات ”ہم مسلمان ہیں“ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کئے گئے تھے یہ کتاب انگریزی میں زیر طبع ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی اسپینش زبان میں پہلی دفعہ زیر طبع ہے.انشاء اللہ دو ہزار کی تعداد میں شائع ہو جائے گی اسی طرح «کشتی نوح مسیح ہندوستان میں بھی اسپینش زبان میں زیر طبع ہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کتب میں سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو تحریک جدید نے ساتویں بار شائع کیا ہے.اسلام کا اقتصادی نظام اسپینش زبان میں دو ہزار کی تعداد میں اور لائف آف محمدم جرمن زبان میں دو ہزار کی تعداد میں شائع کیا ہے.دعوۃ الا میر کا عربی ترجمہ کروالیا گیا ہے.اسی طرح دعوۃ الامیر کا ترکی زبان میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۵۳ ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار ترجمہ مکمل ہو چکا ہے ”دعوۃ الا میر کا سواحیلی ترجمہ بھی مکمل ہو چکا ہے.ترکی ترجمہ کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ترکی میں ہم ابھی تک اپنا مشن قائم نہیں کر سکے لیکن ترکوں کے دل میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے احمدیت کا پیار پیدا کیا ہوا ہے.گو وہاں مشن ! نہیں لیکن پھر بھی چند ایک دوست احمدی ہو چکے ہیں.جو دوست وہاں جاتے ہیں وہ یہ رپورٹیں لے کر آتے ہیں کہ وہ بڑے پیار سے باتیں سنتے ہیں.جو ترک مزدور سوئٹزر لینڈ اور جرمنی میں کام کر رہے ہیں وہ عیدین اور بعض دوسرے مواقع پر مسجد میں آ کر خادموں کی طرح کام کرتے ہیں.ابھی انہوں نے گو بیعت نہیں کی لیکن بعض چھوٹی چھوٹی باتیں اُن کا احمدیت کی طرف میلان ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں.مثلاً ایک ترک نے کہا کہ ہم احمدیت کو کیسے قبول کر لیں جب کہ ہم حنفی کے لفظ کو نہیں چھوڑ سکتے.یہ ایک تاریخی پس منظر ہے جس کی وجہ سے حنفی کا لفظ ان کے دلوں میں گھر کر چکا ہے.میں نے اپنے دوست سے کہا تم عجیب ہو تمہیں ان کو یہ جواب دینا چاہیے تھا کہ پہلے آپ حنفی مسلمان تھے اب تم حنفی احمدی مسلمان بن جاؤ گے.اگر تم حنفی کا لفظ پنے ساتھ رکھو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے.علاوہ ازیں اسپینش زبان میں کمیونزم اینڈ ڈیموکریسی ( Communism and Democracy) کا ترجمہ مکمل کروالیا گیا ہے پھر اسی سپینش زبان میں ” میں اسلام کو کیوں نہیں مانتا کو پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے.میرا افریقہ کے نام ایک چھوٹا سا پیغام تھا محبت اور اخوت کا پیغام اسے تحریک جدید نے پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کیا ہے.اسی طرح امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ بھی شائع کیا گیا ہے.حرف انتباہ کے متعلق جیسا کہ دوست جانتے ہیں ایک بڑا ز بر دست انتباہ ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ چھوٹا سا مضمون ۱۹۶۷ء میں انگریزی میں تیار ہوا تھا.جرمن زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہو چکا ہے.ڈینیش زبان میں بھی ہو چکا ہے اور میرا خیال ہے ترکی زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہو چکا ہے.یہ کتاب یہاں بھی شائع کی گئی ہے.اس کی بھی اشاعت ہونی چاہئے.کیونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلبہ اسلام کے لئے جو عظیم بشارتیں دی ہیں اور حضرت مہدی معہود علیہ السلام نے ہم تک پہنچائی ہیں.ان عظیم بشارتوں کا اس میں ذکر ہے اور بڑے دھڑلے کے ساتھ اور بڑی تحدی کے ساتھ دنیا کو کہا گیا ہے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۵۴ ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار کہ تمہیں دوراستوں میں سے ایک کو قبول کرنا پڑے گا.تیسری راہ کوئی نہیں ہے چاہے ایک راستہ کو قبول کر و جوامن کا ضامن ہے چاہے دوسرے راستے کو قبول کرو جو تباہی کی طرف لے جانے والا ہے.یعنی یا اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا جو راستہ ہے جو تقویٰ کی راہیں ہیں ان کو قبول کر دیا تباہی کے راستے کو قبول کرو.تحریک جدید نے کچھ متفرق کتب بھی شائع کی ہیں.مثلاً میاں مبارک احمد صاحب کی لکھی ہوئی سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ترکی اور اسپینش زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے.غالباً جرمن زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہو رہا ہے.نماز کی کتاب سواحیلی اور اسپینش میں طبع کروائی گئی ہے "ادعية الفرقان “ سواحیلی میں دوسرا ایڈیشن طبع کروایا گیا ہے.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پانچ ہزار کی تعداد میں طبع کروائی گئی ہے.”اسلام اور عیسایت کی تعلیم کا موازنہ اٹالین زبان میں پانچ ہزار کی تعداد میں طبع کروائی گئی ہے.پھر ایک کتاب الكفر مِلَّةٌ وَاحِدَةٌ “ ہے اس کو عربی زبان میں طبع کروایا گیا ہے.یہ دراصل ان مسلمانوں کے حق میں ہے جو اُردن وغیرہ میں تھے.جن پر اسرائیل نے حملہ کیا ہے.یہ ایک پرانا مضمون ہے.جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا.یہ بھی بڑا عجیب مضمون ہے.عیسایت پر ریویو انگریزی یں پانچ ہزار کی تعداد میں کفارہ انگریزی میں تین ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے.یہ کتب تحریک نے شائع کی ہیں اور ان کی اشاعت بالخصوص غیر ممالک میں کی جانی ہے.گوی بیرونی ممالک میں اشاعت کتب ہورہی ہے اور یہ کام بڑا ضروری ہے.لیکن سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم غیر ممالک میں قرآن کریم مترجم کی اشاعت کریں.جس کے لئے ، جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے کہ ایک اور سکیم کے ماتحت کام شروع ہو چکا ہے.حديقة المبشرين اس کا ذکر غالبا میں نے ۱۹۷۰ء کے جلسہ سالانہ پر بھی کیا تھا.کچھ اصلاح طلب امور اپنے مبلغین کے متعلق جب میرے علم میں آئے تو میں نے سوچا کہ اس وقت شاہدین کے دو گروہ بن گئے ہیں یعنی ایک صدر انجمن کے مربی اور دوسرے تحریک جدید کے مبلغ ، یہ صورت درست نہیں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار ہے.جب سارے شاہد ہیں اور سارے الا ما شاء اللہ قربانی دینے والے اور فدائی ہیں تو پھر مربی اور مبلغ کا امتیاز نہیں ہونا چاہئے.اس فرق کو دور کرنے کی بہتر صورت یہی تھی کہ یہ سب ایک ہی انتظام کے ماتحت رہیں.چنانچہ اس کے لئے جو ابتداء انتظام کیا اس کا نام پول (Pool) رکھا گیا.یہ ایک انگریزی کا لفظ ہے اور یہ کچھ اچھا نہیں لگتا تھا.لیکن اور کوئی موزوں لفظ ملتا نہیں تھا.اس لئے اسے اختیار کر لیا گیا پھر اس کا نام ”حدیقۃ المبشرین رکھا گیا.یہ نام بڑا اچھا لگتا ہے.گویا ایک ایسا باغ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں شاہدین ( مربیان و مبلغین ) کی صورت میں خوبصورت درخت عطا فرمائے ہیں.ان کے اس مشتر کہ انتظام کا اصول یہ بنایا ہے کہ پہلے قاعدہ کے مطابق جامعہ احمدیہ سے فارغ ہونے والے شاہدین کی تقسیم تعداد کے لحاظ سے تو ہو جائے گی.کیونکہ انجمن اور تحریک دونوں نے ان کا خرچ برداشت کرنا ہوتا ہے.مثلاً اگر جامعہ احمدیہ سے گیارہ لڑکے شاہد بن کر نکلے ہیں تو پانچ انجمن کے حصہ میں اور چھ تحریک کے حصہ میں آئیں گے.یا کسی سال پانچ تحریک کے حصہ میں آئے ہیں اور چھ انجمن کے حصہ میں آئے ہیں.تو ایسی نسبت سے ان کو گذارہ دینے کے لحاظ سے دونوں کی ذمہ داری ہوگی.لیکن یہ کہ زید تحریک کا ہے اور بکر انجمن کا ہے یہ نہیں ہو گا تحریک کو اس کی ضرورت کے مطابق جو بھی اچھے اور تجربہ کار مبلغ ہوں گے جن کا ہمیں بھی تجربہ ہوگا کہ وہ باہر کام کر سکتے ہیں دے دیئے جائیں گے.ورنہ یہ ایک لحاظ سے ظلم ہے گو ہم ان پر ایک لحاظ سے غصہ بھی ہوتے ہیں لیکن دراصل ظالم تو ہم ہی بنتے ہیں.کیونکہ ہمارا ایک بچہ آج جامعہ احمدیہ سے پاس ہوتا ہے تو کل اسے ٹکٹ دے کر کہتے ہیں نائیجیریا میں جا؟ کر تبلیغ کرو.حالانکہ تبلیغ کرنے کا اسے ابھی کوئی تجربہ ہی نہیں ہوتا صحیح مبلغ کی روح ابھی اس کے اندر پیدا ہی نہیں ہوئی.قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت اور اس کی صفات کے عرفان کے متعلق جو تعلیم دی ہے اس کو اُس نے کما حقہ حاصل ہی نہیں کیا.اس کے متعلق اس کا علم کتابوں تک محدود ہے.اس کو دعاؤں کے ذریعہ عملی میدان میں کام کرنے کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی صفات کا عملی مشاہدہ کرنے کا موقع نہیں ملا.اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت اور عرفان پختہ نہیں ہوا مگر اسے ہم اٹھا کر بیرونی ملکوں میں بھجوا دیتے ہیں.جہاں وہ ٹھوکر کھاتا ہے.بعض دفعہ ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیاں کر جاتا ہے جن سے جماعت کو نقصان پہنچتا ہے.مثلاً غانا میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار ہمارے ایک مبلغ نے یہ غلطی کی کہ گورنمنٹ کا ایک انسپکٹر معائنہ کرنے کے لئے آیا تو اس نے کہہ دیا کہ یہ کالا آدمی ہے.میں اس کے ساتھ بیٹھ کر چائے کس طرح پیوں میری اس سے ہتک ہو جائے گی.تم تو ان کی خدمت کے لئے گئے ہو.تم تو اس کے غلام بن کر آئے ہو جس نے بعض رواتیوں کی رو سے ایک یہودی یا بعض لوگوں کی روایت کی رو سے ایک عیسائی کا گند صاف کیا تھا.یہ روایت غالباً پہلی روایت کی نسبت زیادہ صحیح ہے.پہلے تو مجھے علم نہیں تھا.کل پرسوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ پڑھ رہا تھا.آپ نے لکھا ہے کہ وہ عیسائی تھا اور بستر پر اس کا اسہال نکل گیا تھا.جب وہ کسی کام کے لئے آیا تو اس نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس بستر کے کپڑے دھو رہے تھے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک وجود پر اس وقت بھی ہزاروں لوگ جان قربان کرنے والے تھے.چنانچہ آپ کے جاں نثاروں نے عرض بھی کیا کہ یا رسول اللہ آپ ہمیں خدمت کا موقع دیں آپ نے فرمایا نہیں ، وہ میرا مہمان تھا.خدا نے مہمان کے جو حقوق مقرر کئے ہیں ان کو میں ادا کروں گا.چنانچہ جب اس عیسائی نے یہ دیکھا تو وہ مسلمان ہو گیا.پس اس پاک وجود کے خادم ، اس کے غلام بلکہ اس کی جوتیوں کی خاک کے برابر بھی اپنے آپ کو نہ پانے والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ جب ان کو خدمت کا موقع ملے اور وہ افریقہ میں جائیں تو یہ کہہ دیں کہ کالے آدمی کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے میں ہماری بڑی بے عزتی ہے.لیکن اس بے چارے کا کوئی قصور نہیں ہے.کیونکہ ہم نے اس کی تربیت کئے بغیر ، اس کو مانجھے بغیر، اس کو پالش کئے بغیر وہاں بھیج دیا.میں مانتا ہوں کہ ہیرے ہیں لیکن لوگ جب کان سے ہیرا نکالتے ہیں تو اسے کب فروخت کے لئے بھیجتے ہیں.جب تک اس کو پالش نہ کر لیں کٹ نہ کر لیں.چنانچہ پہلے آپ ان کو کاٹتے ہیں ، ان کے مختلف زاویے بناتے ہیں پھر پالش کرتے ہیں اور پھر وہ بازاروں میں بکنے کے لئے جاتا ہے.جو آدمی وقف کرتا ہے وہ ہیرا ہے.اس میں کوئی کلام نہیں ہے لیکن وہ جس وقت کان سے نکلتا ہے یعنی جامعہ احمد یہ پاس کرتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو ہیرے کی طرح کٹ بھی کریں اور پالش بھی کریں پھر ہم ان کو کہیں کہ جاؤ اور دنیا کو بتاؤ کہ خدائے قادر و توانا نے اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مہدی معہود کو بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کے لئے یہ ہیرے اور جواہرات عطا فرمائے ہیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطاب اس انتظام کے ماتحت میں نے ایک ریفریشر کورس بھی جاری کیا ہے.کیونکہ علم تو ہر آن بڑھ رہا ہے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب روحانی خزائن ہیں جب ہم ان کو پڑھتے ہیں تو کوئی نہ کوئی نئی بات سامنے آجاتی ہے اس لحاظ سے مبلغین کے لئے ریفریشر کورس ضروری ہے.نئی چیزیں سامنے آتی ہیں.مختلف جگہوں سے ہمارے مبلغ بعض نئی سے نئی معلومات بھجواتے رہتے ہیں.جو ہمارے مبلغین کو مجموعی طور پر معلوم ہونی چاہئیں.اس واسطے ریفریشر کورس کا بھی انتظام کیا گیا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ شاہدین جامعہ احمدیہ سے پڑھ کر آ جاتے تھے اور انہوں نے سلسلہ کی صرف وہ کتابیں پڑھی ہوتی تھیں جو ان کے کورس میں ہوتی تھیں.حالانکہ ایک مبلغ کو تو ساری کتا ہیں کم از کم تین دفعہ پڑھی ہونی چاہئیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو احمدی میری کتب کو تین دفعہ نہیں پڑھتا مجھے اس کے ایمان کے متعلق خطرہ رہتا ہے.پس جس نے دوسروں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ہے اس نے اگر خود تین دفعہ ساری کتابیں نہ پڑھی ہوئی ہوں تو وہ دوسروں کے اندرکس طرح ایمان پیدا کر سکتا ہے؟ غرض ریفریشر کورس میں ہم اس طرف بھی بہت زور دیتے ہیں.اداره طباعت و اشاعت قرآن مجید اس ادارہ کے دو حصے ہیں ایک حصہ قرآن پبلیکیشنز کے نام سے جاری ہو چکا ہے.دوسرا پریس سے متعلق ہے.یعنی ربوہ میں پریس لگانے کا کام ہے اس کے متعلق میں پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں.اس کے لگانے میں کچھ روکیں پیدا ہوگئی ہیں.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور وہ روکیں دور ہو جائیں.تاہم جہاں تک اس کے پہلے حصہ کا تعلق ہے.اس وقت تک پچھتر ہزار قرآن کریم طبع کروائے جاچکے ہیں.انگریزی ترجمہ پاکٹ سائز چھپیں ہزار، انگریزی ترجمه حمائل سائز نہیں ہزار قرآن کریم اردو ترجمہ جو زیادہ تر یہاں کے لئے ہے.اس کا ترجمہ تفسیر صغیر کا ہے اور اسے حمائل سائز میں طبع کروایا گیا ہے.اس کی قیمت سات روپے رکھی گئی ہے یہ بڑی تھوڑی قیمت ہے اس میں کوئی نفع نہیں ہے.سوائے اس کے کہ ضرب اور تقسیم میں کوئی دھیلہ آنہ بچ جائے.تو پھر اس کی دو شکلیں بنتی ہیں.یا وہ ہم اپنی طرف سے ڈالیں یعنی نقصان اٹھا لیں یا نفع میں ڈال دیں.تو اس طرح جب پچھتر ہزار کی تعداد میں چھپے گا تو اس کا بھی ہزار دو ہزار توی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۵۸ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار ضرور بن جائے گا.یہ نفع تو ضرور ہے.لیکن ہم اس کو نفع نہیں کہہ سکتے گویا ہم قرآن کریم اردو ترجمہ اصل لاگت پر دے رہے ہیں.گویا ستر ہزار میں سے پچیس ہزار کی تعداد میں قرآن کریم مترجم نصرت جہاں کی سکیم کے ماتحت یہاں سے خرید کر باہر بھجوائے گئے ہیں اور اس کے علاوہ قریباً چھ ہزار نسخے ( بعض جگہ تھوڑے سے سادہ قرآن کریم بھی گئے ہیں) باہر والوں نے LC کھول کر منگوائے ہیں.اس سے ہماری حکومت کو بڑا فائدہ ہو رہا ہے.اس سلسلہ میں بھی میں نے ایک سکیم بنائی ہے.حکومت کی بھی تو خدمت کرنی چاہئے.اس واسطے میں نے سکیم بنائی ہے کہ پہلی سیڑھی یا پہلے درجہ پر ایک لاکھ قرآن کریم گیارہ ڈالر فی نسخہ قیمت پر امریکہ بھجوائے جائیں.اس سلسلہ میں ہماری خط و کتابت کافی آگے بڑھ چکی ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری حکومت کو گیارہ لاکھ ڈالر یعنی ایک کروڑا کیس لاکھ روپیہ زرمبادلہ حاصل ہوگا.پھر ہم ان سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کچھ کاغذ منگوانے دو.کچھ پریس کی مشینری منگوانے دو.پس یہ سکیم بھی ٹھوس نیادوں پر آگے بڑھ رہی ہے.امریکن کمپنیوں سے با قاعدہ خط وکتابت ہورہی ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہمیں قرآن کریم اچھے کاغذ پر چاہئے اور ۶۰ فیصد کمیشن دو.ہم اس کا انتظام کر رہے ہیں.کیونکہ امریکہ میں لوگ بڑی قیمت پر کتابیں لے لیتے ہیں.ایک امریکن یہاں آیا تھا تو چونکہ پہلے ہمارا اندازہ تھا کہ چار پانچ شلنگ قیمت رکھیں گے چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ ہم اتنی تھوڑی قیمت پر قرآن کریم دیں گے.تو وہ چیخ پڑا اور کہنے لگا خدا کے لئے اتنی ستی کتاب ہمارے ملک میں نہ بھیجیں ہمارا ملک بہت امیر ہے لوگ سمجھیں گے کہ چونکہ اس کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے اس لئے یہ اچھی کتاب نہیں ہے جب تک آپ اس کی زیادہ قیمت نہیں رکھیں گے لوگ اس میں کوئی دلچسپی نہیں لیں گے.چنانچہ اس نے یہ مشورہ دیا تھا کہ اس کی کم از کم گیارہ ڈالر قیمت رکھیں بہر حال اس کے لئے میں نے اپنی برادری کا وہ حصہ ( جماعت احمد یہ ایک بین الاقوامی برادری بن جاتی ہے ) جولندن میں آباد ہے یعنی لندن کی جماعت سے کہا ہے کہ بارہ تیرہ ہزار قرآن کریم شائع کرنے کے لئے بہترین کاغذ ( جس کے نمونے ہم نے منگوا کر دیکھ لئے اور پسند کر لئے ہیں) وہ ہمیں تحفہ بھیجو.پس اچھا کا غذ یہاں تحفہ آ جائے گا پھر ہم اس پر قرآن کریم طبع کروا کر امریکہ بھجوائیں گے.کیونکہ یہاں کا بنا ہوا جو کا غذ اس وقت مل رہا ہے وہ اتنا اچھا نہیں.کیونکہ ہمارے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۵۹ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطاب کاغذ بنانے کے کارخانے ابھی اتنا اچھا نہیں بنا سکتے.انشاء اللہ وہ بھی جلد اچھا کاغذ بنانے لگ جائیں گے لیکن ابھی وہ اتنے اچھے کاغذ نہیں بنا سکتے.کاغذ کی موٹائی ہر جگہ برابر نہیں ہوتی.اس واسطے جب فرمے میں آتا ہے تو جس جگہ کا غذ موٹا زیادہ ہوتا ہے وہاں ضرورت سے زیادہ سیاہی لگ جاتی ہے اور جہاں سے پتلا ہوتا ہے وہاں لفظ مٹ جاتا ہے یا لفظ صاف نہیں اٹھتا.اس لئے لندن سے جو کاغذ آئے گا اس پر قرآن کریم چھپوا کر امریکہ میں بھجوایا جائے گا کیوں کہ ان لوگوں کو اچھے کا غذ پر کتابیں چھاپنے اور پڑھنے کی عادت پڑی ہوئی ہے.اچھے کاغذ کے اوپر کتابیں شائع کرتے ہیں.اگر وہ یونہی فضولیات قسم کی کتابیں ہیں میں ڈالر پر بیچ دیتے ہیں تو قرآن کریم میں تو ہر بھلائی ، عزت اور خیر کا سامان ہے اس کی قیمت کم کیوں ہو.میں نے جماعت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو جو طریق عیسائیت نے اختیار کیا ہے وہی قرآن کریم کی اشاعت کے سلسلہ میں ہمیں بھی اختیار کرنا چاہئے.عیسائیت کے پاس تو بڑے پیسے ہیں اس لئے دنیا کے ہر بڑے ہوٹل کے ہر کمرہ میں بائیبل کا ایک نسخہ پڑا ہوا ہے.یہ صیح ہے کہ اگر کسی ہوٹل کے ایک کمرے میں دس ہزار آدمی ٹھہرتا ہے تو شاید ان میں سے ایک آدمی کو بائیبل سے دلچسپی پیدا ہوتی ہو اور وہ اسے پڑھتا ہو.لیکن یہ میچ ہے کہ اگر ایک آدمی کو دلچسپی پیدا ہو تو اس کے لئے بائیبل موجود ہے.لیکن اگر دس ہزار میں ایک آدمی کو قرآن کریم با ترجمہ دیکھنے کی ضرورت پڑے تو اس کے لئے اس کمرے میں قرآن شریف نہیں ہے.اس واسطے بڑے بڑے ہوٹلوں کے ہر کمرے میں بائیبل کے ساتھ قرآن کریم پڑھا ہوا ہونا چاہئے.اگر ہم نے دنیا کی توجہ قرآن عظیم کی طرف پھیرنی ہے تو پھر اس طرح بھی قرآن کریم کی اشاعت ضروری ہے.الحمد لله ہمارے افریقن بھائیوں نے جونا کیجیریا میں بستے ہیں اس کی ابتداء کر دی ہے.نائیجیریا کے ایک بڑے ہوٹل کے سو کمرے تھے انہوں نے قرآن کریم مترجم خرید کر ہوٹل والوں کو دے دیئے ہیں.ہمارے دوستوں نے یہ تحفہ بڑے پیار سے دیا اور انہوں نے بڑے پیار سے لیا.ایک دوسرے ہوٹل میں جس کے دوسو کمرے تھے وہاں احمدیوں نے دو سو قرآن کریم خرید کر ہر کمرے میں رکھنے کے لئے دیئے ہیں.ابتداء ہو گئی ہے اور جب ابتداء ہو جائے تو انشاء اللہ انتہاء بھی ہو جایا کرتی ہوگئی ہے.جماعت احمدیہ کراچی کی طرف سے مجھے ابھی ابھی بتایا گیا ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار سو نسخے بیچ لگژری ہوٹل میں رکھوانے کا انتظام کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزائے خیر عطا فرمائے.پریس کی سکیم مکمل ہو چکی تھی.مگر یہاں کے ملکی حالات بدل گئے.گذشتہ سال سوا سال کا زمانہ بڑے فسادات کا زمانہ ہے اب بھی کئی لوگوں کو جوش آ جاتا ہے کہ ہم امن اور شرافت سے بھی آجاتا کیوں رہ رہے ہیں.کوئی شرارت کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.دنیا کے حالات بھی دگر گوں تھے.دنیا تو خفا تھی اپنے بھی پاکستان سے خفا تھے.پھر حکومت کو دنیا کے حالات کو دیکھ کر اپنے روپے کی قیمت گھٹانی پڑی چنانچہ ہمارا منصوبہ نہایت اعلی مکمل پریس کی شکل میں ایک ہی کمپنی نے سارا تیار کر کے یعنی اس کی ہر چیز ایک لاکھ پاؤنڈ کے عوض تیار کی جس کا مطلب تھا کہ یہ پریس گیارہ لاکھ روپیہ میں لگے گا.خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے دماغ میں سکیم آگئی تھی.اس لئے میں نے جماعت سے کسی مزید چندے کی اپیل نہیں کرنی تھی اور یہ رقم دے دینی تھی مگر روپے کی قیمت گر جانے سے وہی پر لیس جو گیارہ لاکھ روپے میں مکمل ہونا تھا اس پر اب ستائیس لاکھ روپے کی لاگت آتی ہے اور کچھ اس میں قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں شاید اس لئے بھی اور زیادہ قیمت ہوگئی ہو.پھر جب ستائیس لاکھ قیمت ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک نئی سکیم سمجھائی بدلے ہوئے حالات میں اللہ تعالیٰ خود معلم بنتا ہے اور انگلی پکڑ کر منزل کی طرف لے جاتا ہے.ورنہ ہم عاجز بندے ہیں.اگر اس کی رہنمائی حاصل نہ ہو تو ہم کہاں کام کر سکتے ہیں لیکن اس سکیم کے مکمل ہونے میں کچھ دیر لگے گی.تاہم میں یہ چاہتا تھا کہ کام شروع ہو جائے.پھر آہستہ آہستہ پھیل کر عمدہ شکل میں مکمل ہو جائے گا.اس لئے زمین کی تعیین کر دی گئی ہے.جس پر چار دیواری کا ایک حصہ بھی بن چکا ہے.میرا خیال ہے کہ انشاء اللہ اگلے جلسہ سالانہ سے پہلے (اللہ تعالیٰ ہر طرح سے خیر رکھے تو ) وہاں ایک چھوٹا پر لیس لگا دیا جائے گا.جس میں اکثر یہیں کی مشینیں ہوں گی کچھ باہر سے منگوائیں گے.خود نہ منگوا سکے تو بیرونی جماعتوں سے کہیں گے کہ قرآن کریم کی اشاعت کے کام میں ہمارا ہاتھ بٹاؤ اور بعض مشینری ہمیں بطور تحفہ بھیجو.پس یہ پریس انشاء اللہ اگلے سال کسی نہ کسی شکل میں کام شروع کر دے گا.وباللہ التوفیق.ہماری خواہش یہ ہے کہ اگلے پانچ سات سال میں مختلف زبانوں میں دس لاکھ قرآن کریم مترجم دنیا کے ملک ملک میں پھیلا دیں.قرآن کریم کی اس ہمہ گیر اشاعت کی سکیم کو میں اس لئے دُہرا رہا ہوں کہ جہاں میں اس کے لئے دعا کرتا ہوں ساری
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۶۱ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطاب جماعت بھی اس کے لئے دعا کرے کہ جو وقت ہم نے اس کی اشاعت کے لئے سوچا ہے خدا کرے اس سے پہلے یہ کام مکمل ہو جائے.مجلس نصرت جہاں ۱۹۷۰ء میں میں نے مغربی افریقہ کا دورہ کیا.میں گیمبیا میں تھا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ کہا گیا کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ ان ملکوں میں اشاعت کی مہم کو تیز کرنے پر خرچ کرو.میں بڑا خوش ہوا اور اللہ تعالیٰ کی بڑی حمد کی.اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گیا کہ اس نے بڑی مہربانی کی ہے.وہاں سے میں لندن آیا اور وہاں میں نے پہلی دفعہ اس کا اعلان کیا اور میں نے احباب سے کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ تم ایک لاکھ پاؤنڈ طبی مراکز اور تعلیمی اداروں پر خرچ کرو.اس لئے مجھے یہ فکر نہیں ہے کہ یہ ایک لاکھ پاؤنڈ کی رقم کہاں سے آئے گی.میں تو ایک غریب بے کس انسان ہوں میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے.جب خدا نے مجھے کہا ہے کہ خرچ کرو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ساتھ مجھے یہ وعدہ بھی دے رہا ہے کہ میں خود اس رقم کو مہیا کروں گا اور اسی طرح مجھے یہ بھی فکر نہیں ہے کہ ڈاکٹر اور ٹیچر کہاں سے آئیں گے خدا خود اپنے فضل سے دے گا.جس بات کا مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی فکر ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حقیر کوشش کو قبول فرمائے اور وہ ہمارے اس منصوبہ میں برکت ڈالے پہلے تو میں نے ان کا کچھ اور ٹارگٹ مقرر کیا پھر میں نے ان کو کہا اور پھر یہاں بھی آ کر کہا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت پر جتنے سال گزرے ہیں اتنے لاکھ اور لندن کی جماعت سے کہا کہ غالبا اتنے پاؤنڈ دے دو.اب تو پچاس ہزار پاؤنڈ کی قیمت کوئی چودہ پندرہ لاکھ روپے بن جاتی ہے.یہ بڑی چیز ہے.پھر میں نے ان سے کہا میرے لندن سے روانہ ہونے سے پہلے پہلے دس ہزار پاؤنڈ نقد جمع کرو تا کہ ہم فوراً کام شروع کر دیں.ابھی چند دن ہوئے کہ تار آیا ہے کہ وعدہ جات اکاون ہزار پاؤنڈ سے اوپر چلے گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ۳۷ اور ۴۰ ہزار کے درمیان وعدے ادا بھی ہو چکے ہیں گویا بہت تھوڑا حصہ ہے جو باقی رہتا ہے.چنانچہ میں نے واپس یہاں آ کر بھی تحریک کی اور میں نے اس وقت یہ بھی کہا کہ مجھے معلوم وقت یہ بھی کہا کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۶۲ ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار ہے کہ جماعت نے مالی لحاظ سے فضل عمر فاؤنڈیشن میں جو زائد قربانیاں دی ہیں اس کا زمانہ ابھی ختم ہوا ہے اور اب خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اس کے حکم سے جماعت کے کندھوں پر یہ نیا بوجھ ڈال رہا ہوں مگر مجھے امید ہے کہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بشاشت کے ساتھ اور ہنستے کھیلتے اس بوجھ کو اُٹھالے گی.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے ہماری قربانیوں کو قبول فرما کر ہم پر کیا کیا فضل نازل فرمائے.مخلصین پاکستان اس وقت تک نصرت جہاں ریزروفنڈ میں ۲۰,۳۹۰, ۲۷ روپے کے وعدے کر چکے ہیں.جب کہ بیرون پاکستان میں وعدے پاکستانی سکہ میں ۲۰,۸۰۰, ۳۱ روپے ہیں یعنی بیرون ممالک مجموعی طور پر پاکستان سے آگے نکل گئے ہیں.اس رقم میں ابھی وہ زائد وعدے جو انگلستان میں دوستوں نے کئے ہیں وہ شامل نہیں.اس طرح کل وعدے ۵۸ لاکھ سے اوپر جاچکے ہیں.میں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے پیش نظر ا۵ لاکھ کی خواہش کی تھی.مگر اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بڑی ہمت عطا فرمائی.دوستوں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا چنا نچہ ا کا وان لاکھ کی بجائے اٹھاون لاکھ کے وعدے ہو چکے ہیں.اس تحریک میں حصہ لینے والے۳۰،۲۸۲ پاکستان سے اور بیرونی ممالک میں حصہ لینے والے ۲۰۰۱۱ دوست ہیں.پندرہ دسمبر ۱۹۷۲ ء تک وصولی کا نقشہ حسب ذیل ہے.پاکستان میں ۸۳۴، ۷۸، ۱۷ روپے یعنی قریباً ۱۸ لاکھ روپیہ وصول ہو چکا ہے.بیرون پاکستان میں ۱۵ لاکھ روپے جمع ہو چکے ہیں.اندرون اور بیرون پاکستان کی مجموعی رقم جو وصول ہو چکی ہے ۴۴۸ ، ۳۲،۶۷ روپے بنتی ہے.ابھی وصولی کا زمانہ ختم نہیں ہوا.جا فضل عمر فاؤنڈیشن میں جماعت نے دی تھی اس سے زائد رقم جمع ہو چکی ہے.یعنی فضل عمر فاؤنڈیشن کی جو نقد رقم وصول ہوئی تھی وہ ۳۰۷۷۵۸۰ روپے جب کہ نصرت جہاں ریز روفنڈ کی وصولی ۳۲ لاکھ سے زیادہ ہے.الحمد للہ علی ذالک سورۃ فاطر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتب اللهِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ لِيُوَفِّيَهُمْ أَجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ (فاطر: ۳۱،۳۰)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۶۳ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطاب اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ مومن خدا کی راہ میں اپنے اموال خرچ کر کے گویا اللہ تعالیٰ سے ایسی تجارت کرتے ہیں جن میں نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ! سے بہت زیادہ نفع بھی دیتا ہے ا ہے.چنانچہ جماعت نے جو رقم دی وہ بھی گواللہ تعالیٰ سے تجارت کے مترادف ہے لیکن جب وہ رقم ہمارے پاس آئی تو میں نے سوچا کہ اس رقم سے بندوں سے تجارت کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے تجارت کی جائے.یعنی انفرادی حیثیت میں بھی وہ ایک تجارت ہے.قرآن کریم نے بھی اس کا نام تجارت رکھا ہے اور یہ ایک ایسی تجارت ہے جس میں پیسے کے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے.نفع کی بعض شکلیں ہیں جن کے ضائع ہونے کا تو کوئی خطرہ نہیں لیکن جن کے جائز ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے لیکن جو تجارت ہے اس میں دونوں چیزیں ساتھ لگی ہوئی ہیں.اس میں نفع بھی ملتا ہے اور بعض دفعہ نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے.پیسے بھی ضائع ہو جاتے ہیں یعنی سرمایہ بھی جاتا رہتا ہے لیکن روحانی دنیا میں انسان اللہ تعالیٰ سے ایک ایسی تجارت کرتا ہے جس میں لَنْ تَبُور کی رو سے گھاٹا نہیں پڑتا ، جس میں پیسے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا.اس کے علاوہ جو عام نفع ہے وہ بھی ملتا ہے.پس فرمایا لِيُوَفِّيَهُمْ أَجُورَهُمُ یعنی معمول کے مطابق جو نفع ہوتا ہے وہ بھی تمہیں اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا لیکن وہ اسی پر بس نہیں کرے گا.دنیا میں ڈیویڈنڈ (Dividend) دینے والی جو کمپنیاں ہیں وہ کوئی پانچ فیصدی کوئی آٹھ فیصدی کوئی دس فیصدی کوئی بارہ فیصدی یا زیادہ سے زیادہ پندرہ فیصدی نفع دینے کا اعلان کرتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ بھی میں دوں گا اس کے علاوہ جو بندوں کا معمول نہیں اور جو نفع دینے کا میرا معمول ہے وہ بھی میں دوں گا.اگر تمہارا اخلاص غیر معمولی اخلاص ہو گا تو میری طرف سے تمہارے اموال میں غیر معمولی زیادتی بھی ہوگی.میں تمہیں بہت زیادہ مال دوں گا.پس اس آیت کا میرے دماغ پر اثر تھا.چنانچہ جب یہ رقمیں جمع ہونی شروع ہوئیں تو ایک موقع پر مکرم محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے میرے پاس آ کر بڑے اخلاص سے اور بڑے پیار سے اور بڑے اصرار کے ساتھ یہ کہا کہ آپ کے پاس نصرت جہاں ریز روفنڈ کی جو رقم
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۶۴ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطاب آ رہی ہے یہ آپ خرچ کر دیں گے تو سرمایہ کم ہو جائے گا.اس واسطے جس طرح ہم نے فضل عمر فاؤنڈیشن میں کیا ہے اس طرح آپ بھی کریں.فضل عمر فاؤنڈیشن کو نفع مند کا موں پر پیسے لگانے کا کافی تجربہ ہو چکا ہے.اگر آپ چاہیں تو ہماری خدمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.جمع شدہ رقم تجارت پر لگا دیں اس سے جو فائدہ حاصل ہو اس کو اپنی سکیم پر خرچ کریں.اسی طرح مکرم کرنل عطاء اللہ خاں صاحب جو فاؤنڈیشن کے وائس چیرمین ہیں انہوں نے بھی مجھے یہی مشورہ دیا.میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ چوہدری صاحب مکرم ! جن کمپنیوں میں آپ یہ رقم لگائیں گے ، وہ مجھے آٹھ فیصد یا دس فیصد یا بارہ فیصد یا زیادہ سے زیادہ پندرہ فیصد نفع دیں گی اس سے زیادہ تو نہیں دیں گی.میں نے بھی ایک تجارت سوچی ہے جس کے ساتھ میں تجارت کرنا چاہتا ہوں وہ مجھے سو فیصدی سے بھی زیادہ نفع دے گا.(نعرے) چنانچہ میں نے اپنے رب کریم پر بھروسہ رکھتے ہوئے وہ تمام سرمایہ جو آپ کی طرف سے میرے ہاتھ میں دیا گیا تھا نصرت جہاں سکیم پر خرچ کر دیا اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے میں خرچ کرتا چلا گیا یہاں سے ڈاکٹر بھیجے.جن میں سے اکثر بیوی بچوں سمیت بھجوائے گئے تاکہ ان کا وہاں دل لگا رہے اور وہ ٹھیک طرح سے کام کر سکیں.ایک ایک ڈاکٹر اور ان کے خاندان پر صرف کرائے کے طور پر دس دس پندرہ پندرہ ہزار روپے خرچ آئے.اس کے علاوہ سکول ٹیچر بھجوائے گئے جن میں سے بعض کے بیوی بچے بھی ساتھ بھجوائے گئے جو سامان ہم ان کو باہر سے بھجوا سکتے تھے وہ بھی بھجوایا یعنی کچھ یہاں سے کچھ غیر ملکوں نے دیا ہوا ہے.وہ سب ان کو بھجوایا گیا.اس عرصہ میں ایک لمحہ کے لئے بھی میرے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ میں پیسے خرچ کر رہا ہوں ختم ہو جائیں گے تو اور پیسے کہاں سے آئیں گے.چنانچہ ہر ہفتے خرچ کی رپورٹیں میرے پاس آتی ہیں میں ان کو ایک دن دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری توجہ اس طرف پھیری گئی کہ پاکستان میں اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو تسلی دلانے کے لئے دس لاکھ روپے کا ریز رو بنا دیا ہے.الحمد للہ.اور میرا کوئی خرچ ایسا نہیں جو میرے اصل سرمائے کو دس لاکھ سے نیچے لے آئے.ثم الحمد لله اور اسی طرح غیر ممالک میں میرا کوئی ایسا خرچ نہیں جو میرے اس ریز رو کو وہاں کے لحاظ سے پندرہ ہزار پاؤنڈ سے نیچے لے آئے.یعنی اگر کسی ایک مہینے میں یا دو مہینے میں ایک لاکھ روپے خرچ کیا اور فی الواقع
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار خرچ کیا ہے مثلاً قرآن کریم خریدے گئے یا دوسرے اخراجات کرنے پڑے تب بھی اگر دس لاکھ سے رقم ایک ہزار کم ہوگئی تو بڑی جلدی ہی دس لاکھ سے اوپر چلی گئی.ایک تو یہ چیز ہے جو میرے مشاہدہ میں آئی.اللہ تعالیٰ اس طرح فضل کرنے والا ہے چنانچہ میں اور بھی دلیر ہو گیا.چنانچہ میں نے خرچ کیا اور خدا کے نام پر اور اس کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کے لئے دل کھول کر خرچ کیا.ہم نے وہاں جو طبی مراکز اور تعلیمی ادارے کھولے ( زیادہ تر طبی مراکز تھے ) ان سے اللہ تعالیٰ نے پتہ ہے کیا نفع دیا؟ ہم نے ان کے اجراء پر اپنے سرمایہ سے بارہ اور پندرہ لاکھ کے درمیان خرچ کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس رقم پر ان اداروں کی بدولت ہمیں ۶۳۵ ،۱۶، ۳۵ روپے نفع دیا.الحمد لله علی ذالک فضل عمر فاؤنڈیشن نے اپنا سرمایہ دنیا کی تجارت پر لگایا اور دنیا کے معمول کے مطابق ان کو سات سال میں آٹھ لاکھ روپے نفع ملا اور ہم نے اللہ کے ساتھ ایک تجارت کی اور اس پر کامل بھروسہ کیا اور اس کی مخلوق کی خدمت میں پیسے کے لحاظ سے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور نہ ہمارے دل میں کوئی خوف پیدا ہوا.چنانچہ وہ جو سارے خزانوں کا مالک ہے اس نے صرف پندرہ مہینے کی کوشش میں ( سات سال نہیں ) پینتیس لاکھ سے زائد ہمیں نفع عطا فرمایا.ہمارا سرمایہ بھی محفوظ ہو گیا اور خدمت کے کام بھی جاری ہو گئے.ہم نے پھر یہ نفع اپنے پاس تو نہیں رکھنا تھا.چنانچہ ہم نے پینتیس لاکھ میں سے تھیں لاکھ کی رقم وہاں کے اداروں ( طبی مراکز اور تعلیمی اداروں پر خرچ کر دی.اس وقت سولہ ہیلتھ سنٹرز مغربی افریقہ کے چار ملکوں میں کام کر رہے ہیں اور گیارہ ہائر سیکنڈری سکولز یعنی انٹر میڈئیٹ کا لجز کام کر رہے ہیں.ان کے اوپر ہم نے تمہیں لاکھ روپیہ خرچ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں پینتیس لاکھ کا فائدہ پہنچایا.جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا پورا سرمایہ محفوظ ہے.تمہیں لاکھ روپے ان ممالک میں آپ نے رفاہ عامہ کے کاموں پر خرچ کیے اور نفع میں سے پانچ لاکھ سے زیادہ آپ کے پاس محفوظ ہے اور اس پر کوئی زیادہ عرصہ بھی نہیں گذرا.صرف پندرہ مہینوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا ہے.پس یہ فرق ہے جو تجارت میں رونما ہوا.اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا اور بڑا پیار کرنے والا ہے ہمیں اس کا شکر کرنا چاہئے.جیسا کہ میں بتایا ہے ہم ان کی خدمت کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطاب لئے وہاں گئے ہیں اور آپ کی بے لوث خدمت نے ان کے دلوں پر بڑا اثر کیا ہے ان کو جو فائدہ ہوا وہ میں بتا دیتا ہوں.اب مثلاً ہمارے سکول ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ شمالی نائیجیریا کا علاقہ مسلم نارتھ (Muslim North) یعنی مسلمانوں کا علاقہ کہلاتا ہے.وہاں کی ایک ریاست ہے جس کا نام سوکوٹو ہے.حضرت عثمان فو ڈیو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلی صدی میں نائیجیریا میں مجدد ہوئے تھے ، یہیں کے رہنے والے تھے.سوکوٹو کے گورنر نے لیگوس میں اخباری بیان میں بتایا ہم تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اس لئے ہم نے اپنی ریاست میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا ہے.میں نے ان کی تقریر ریڈیو پرسنی تو میں نے ایک افریقن بھائی سے کہا کہ تم کل چلے جاؤ اور ان سے کہو کہ میں تمہاری ریاست میں اپنے خرچ پر چار سکول کھولتا ہوں لیکن دو چیزوں میں تم ہماری مدد کرو اور ہم سے تعاون کرو ایک یہ کہ ہم پاکستان سے زمین نہیں لا سکتے.ہمیں زمین دو جہاں ہم سکولز بنا ئیں دوسرے یہ کہ ہمارے ٹیچر ز تمہاری اجازت کے بغیر نہیں آسکتے ان کو آنے کی اجازت دو چنانچہ وہ بڑا خوش ہوا.اس نے اجازت دے دی.بڑی مدد دی.ہم نے زمین خریدی.ہم نے اس پر مکان بنائے.ہم نے ابھی دوسکولوں کا کام مکمل کیا ہے اور ساڑھے نو لاکھ روپے ان کے اوپر خرچ کر دیئے ہیں.جب یہ سکول کھل گئے تو ریاست نے اعلان کر دیا کہ ہم یکم جنوری سے سارے سکول قومی تحویل میں لے رہے ہیں لیکن انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ایک تو ہم (جس نے سکولوں پر جتنا خرچ کیا ہے ہم اس کا معاوضہ دیں گے اور دوسرے یہ کہ اگر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ قومی سکولوں میں پڑھانے کی پیشکش قبول کریں تو ہم ان کو موقع دیں گے.نائیجیریا کی جماعت نے جب اس کے متعلق مجھے لکھا تو میں نے اپنے اساتذہ سے کہلا بھیجا کہ تم ان کی سروس میں شامل ہو جاؤ کیونکہ ہم ان کی خدمت کے لئے گئے ہیں ہمارے آدمی ان کی خدمت کریں گے.تاہم گورنر سے وفد کی صورت میں ملو اور ان سے کہوں کہ ہم یہاں آئے ہم نے ان سکولوں کی عمارتوں وغیرہ پر پیسے خرچ کئے ہم نے اس لئے پیسے نہیں خرچ کئے تھے کہ ہم اس سے کوئی مالی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں.ہم تمہارے پیار کی وجہ سے یہاں آئے تھے.ہم
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۶۷ ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار تمہیں یہ بتانے کے لئے آئے تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت سے کتنا پیار کیا ہے.آپ سکولوں کا معاوضہ دینا چاہتے ہیں ہمارا دل نہیں کرتا کہ ہم معاوضہ لیں.اس لئے دوشکلوں میں سے ایک مان لو یا تو ہمیں چیک دو.ہم ایک وفد کی صورت میں آ کر تمہاری خدمت میں تمہارے ہی علاقہ کے پسماندہ حصوں میں تعلیمی اغراض کے لئے پیش کر دیں گے اور اگر چاہو تو ہم وہ رقم لے کر ایک نئے سکول کی عمارت بنادیں گے اور ٹیچر منگوالیں گے اور بنی بنائی عمارت تمہارے حوالے کر دیں گے.چنانچہ جب یہ وفد سوکوٹو کے گورنر کے پاس گیا تو دونوں باتوں سے بڑے خوش ہوئے اور گو پیسے تو حکومت نے بھی خرچ کرنے تھے لیکن وہ خصوصاً اس بات سے بڑے خوش ہوئے کہ جماعت نے ٹیچر ز کو یہاں خدمت کی اجازت دے دی ہے.تاہم ابھی حکومت نے اس کا آخری فیصلہ نہیں کیا.پس ہم ان کی خدمت کے لئے وہاں گئے ہوئے ہیں عیسائیوں کی طرح پیسے کمانے کے لئے نہیں گئے ہم تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں.آپ نے تو یہ اعلان فرمایا تھا.مَا اسْلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرِ (الشعراء : ١١٠) کیا آپ یا میں کسی سے جا کر نیکی کرنے کی اجرت مانگیں گے؟ ہمارے آقا نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ہم اجرت نہیں مانگا کرتے.ہم تو اللہ تعالیٰ کے عشق میں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار میں خدمت کے لئے دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہے ہیں اور انشاء اللہ پہنچیں گے اور پہنچیں گے جب تک کہ ساری دنیا کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع نہیں کر لیتے.ہمارے ایک ڈاکٹر نے نانا سے مجھے لکھا (اس میں تھوڑی سی تربیت کی کمی تھی ) کہ غانا کا ملک ہیلتھ سینٹرز اور سکولوں کو قومیالے گا.اس لئے ہسپتالوں اور سکولوں کی عمارتیں نہیں بنانی چاہئیں.میں نے ان کو لکھا کہ میں عمارتیں اپنے لئے تو نہیں بنا رہا انہیں کے لئے بنا رہا ہوں.اگر وہ قومی تحویل میں نہ بھی لیں تب بھی جس وقت میں نے دیکھا کہ جو ملک ہمارے ہسپتالوں اور سکولوں میں اپنے آدمی متعین کر کے ان سے صحیح فائدہ اٹھا سکتا ہے تو میں خود کہوں گا کہ وہ ان کو سنبھال لیں.غرض ہم
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۶۸ ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار ہسپتال اور سکول کی عمارتیں ان کی خدمت کے کام کرنے کے لئے بنا رہے ہیں.اس واسطے کوئی گھبرانے کی بات نہیں ہے.غا نا میں ایک نئے کلینک کی عمارت پر بیالیس ہزارسیڈیز ( کوئی اڑھائی لاکھ روپیہ خرچ کرنے کے لئے منظور کر دیا ہے.اتنی رقم ہمارے پاس پڑی ہوئی تھی اس سے یہ عمارت بھی بن جائے گی.وہاں کے لوگ بڑے غیر تربیت یافتہ ہیں اور تہذیب و تمدن میں بڑے پیچھے ہیں کئی اچھے لوگ بھی ہیں مگر ان کو اچھے ہونے کے باوجود لالچ بھی آ جاتا ہے چنانچہ ایک پیرا ماؤنٹ چیف نے کہا میں تمہیں مفت زمین دیتا ہوں اور یہ کروں گا وہ کروں گا لیکن جب ڈاکٹر وہاں چلا گیا اور کام شروع ہو گیا تو ہم نے کہا تم نے زمین کا وعدہ کیا تھا اس لئے اب زمین دو کہ ہم اس کے اوپر ہسپتال کی عمارت بنائیں تو کہنے لگا کہ میں اس شرط پر زمین دیتا ہوں کہ جب میری مرضی ہوگی میں یہ زمین مع اس عمارت کے جو آپ بنائیں گے واپس لے لوں گا.میں نے اپنے مشن سے کہا کہ یہ تو ان پر بھی ظلم ہے.ان کی تربیت خراب ہوتی ہے.جب تک زمین اپنے نام پر قانونی طور پر رجسٹری نہ ہو جائے اس وقت تک عمارت نہیں بنانی.جب رجسٹری ہو جائے گی تو پھر تو جب دینی ہوگی حکومت کو دیں گے کسی فرد واحد کو نہیں دیں گے.پس غانا میں میں نے ہسپتال بنانے کے لئے تین لاکھ روپے کی رقم کی منظوری دے دی ہے.لیکن زمین کا جھگڑا تھا.اب میرے خیال میں جلدی مل جائے گی.اگلے سال انشاء اللہ ایک اور ہسپتال بن جائے گا.غرض خدا نے پیسے بھی دیئے اور یہ جماعت پر اس کا بہت بڑا احسان ہے.پھر خدا نے کام کرنے کے لئے آدمی بھی دیئے یہ بھی اس کا ایک بہت بڑا احسان ہے اور جس بات سے ہماری طبیعت جنتوں کی فضا میں سانس لینے لگ گئی وہ یہ تھی کہ خدا تعالیٰ نے جو خزانوں کا مالک ہے ہماری حقیر کوششوں کو قبول فرماتے ہوئے ہمارے اس پیسے میں اتنی برکت ڈالی کہ اس دنیا میں غیر معمولی طور پر ہمیں پینتالیس لاکھ روپے نفع بھی دیا اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے ہماری قربانیوں کو شرف قبولیت بخشا.ورنہ برکت ڈالنا تو نہ میرا کام اور نہ آپ کی کوشش کا نتیجہ ہو سکتا ہے.یہ تو وہی جانتا ہے کہ جو بڑی برکتوں والا اور سارے خزانوں کا مالک ہے.اس وقت تک ہمارے ہیلتھ سنٹر ز پانچ گیمبیا میں چار سیرالیون میں ، تین نائیجیریا میں اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۶۹ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطاب چار غانا میں قائم ہو چکے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم خدمت کے لئے وہاں گئے ہیں.ہم نے ان طبی مراکز کے ذریعہ ۴۰۰ ۳۰ سے زائد ایسے مریض ہیں جنہوں نے فیس ادا نہ کی نہ دوائی کی قیمت دی ان کا مفت علاج کیا.یعنی جو غریب لوگ ہیں ہم ان کا مفت علاج کرتے ہیں.کیونکہ ہم ان کی خدمت کے لئے گئے ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے طبی مراکز کو اتنی مقبولیت بخشی ہے کہ وہاں کے لحاظ سے جو بڑے بڑے امیر اور لکھ پتی لوگ ہیں وہ بھی علاج کے لئے ہمارے ہسپتالوں میں آتے ہیں.حتی کہ ایک وزیر صاحب ہمارے کلینک میں آنے لگ گئے.کسی نے ان سے کہا.تم وزیر ہو گورنمنٹ کا نہایت اعلیٰ ہسپتال موجود ہے.تم وہاں جاؤ گے لوگ تمہاری خوشامد بھی کریں گے تمہارے آگے پیچھے پھریں گے.سارے ڈاکٹر تمہارا اور تمہارے رشتہ داروں کا علاج کریں گے.تم سرکاری ہسپتال کو چھوڑ کر احمدیوں کے کلینک میں علاج کروانے کیوں چلے جاتے ہو.انہوں نے کہا کہ میں صرف اس لئے جاتا ہوں کہ وہاں جا کر میرے دل کو زیادہ تسلی ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے احمدی ڈاکٹروں کے ہاتھ میں غیر معمولی شفاء رکھی ہے.اس واسطے ۳۰۴۰۰ کا تو مفت علاج کیا لیکن خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ امیر لوگ مجبور ہو گئے کہ وہ ہمارے ہسپتالوں میں آ کر اپنا علاج کروائیں کیوں کہ انہوں نے دیکھا کہ احمدی ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفاء ہے تو وہ اپنے علاج کے لئے ہمارے ہسپتالوں میں آنے لگ گئے.پس جہاں میں ساڑھے تیں ہزار لوگوں کا مفت علاج کیا گیا وہاں تین لاکھ چار ہزار امیر لوگ اپنا علاج کروانے کے لئے آئے اور انہوں نے فیسیں ادا کیں.جس سے بہت زیادہ آمد ہوئی یہی اللہ تعالیٰ کی برکت ہے جسے نفع سمجھنا چاہیے.پس اللہ تعالیٰ کی بڑی شان ہے کہ وہ تھوڑی سی قربانی کا بہت بڑا اجر عطا فرماتا ہے ہمارے نئے سکول ابھی ابتدائی شکل میں ہیں یعنی پہلی دوسری جماعتیں جاری ہوئی ہیں.آہستہ آہستہ ترقی کریں گے.تحریک جدید کے جو پہلے سکول ہیں ان میں سے سیرالیون کے ایک ہیڈ ماسٹر نے مجھے بتایا کہ جب سکول میں داخلے شروع ہوتے ہیں تو ایک ایک دن میں حکومت کے چار چار وزیر بیچوں کی سفارش لے کر میرے پاس آ جاتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو اپنے سکول میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۷۰ ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار داخل کر لو.اب تو یہاں بھی عوامی حکومت ہے.دیکھیں گے ان کے وزیر کیا کرتے ہیں.ان سے پہلے کی حکومتوں کے جو وزیر تھے عوامی نہیں تھے مگر وہاں کے وزیر عملا عوامی ہیں.ان کے درمیان امیر اور غریب یا وزیر اور عوام کا خاص فرق نہیں ہے.آپ دیکھیں کہ اپنے دفتر سے اٹھ کر ایک ایک دن میں چار چاروزیر ایک ہیڈ ماسٹر سے سفارش کرنے پہنچ جاتے ہیں کہ یہ ہمارا بچہ ہے اس کو سکول میں داخل کر لیں.سیرالیون میں حکومت نے یہ قانون بنایا کہ کسی ہائر سیکنڈری سکول میں چار سو سے زیادہ لڑکے داخل نہیں ہوں گے.چنانچہ اس پر لوگوں نے ایک ہنگامہ بپا کر دیا اور کہا کہ احمدیہ میں تو یہ قانون نہیں چلے گا.(وہاں ہمارے سکول عام زبان میں احمدیہ “ کہلاتے ہیں چنانچہ عوام نے حکومت پر اتنا دباؤ ڈالا کہ حکومت کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہمارا قانون احمدیہ پر لاگو نہیں ہو گا.چنانچہ ہم نے اپنے حالات کے لحاظ سے مثلاً چھ سولر کے داخل کرنے تھے لیکن دوسال کی بات ہے وہاں کی حکومت پیچھے پڑ گئی کہ چھ سولر کا تو کم ہے.یعنی خود قانون بنایا کہ کسی سکول میں چارسو سے زیادہ لڑکا نہیں ہو گا لیکن پھر کہا کہ احمد یہ سکولز اس قانون سے مستثنیٰ ہیں.پھر کہا کہ تم نے جو چھ سو کی شرط لگائی ہے.ٹھیک نہیں.ہم پیسے دیتے ہیں تم سکول کے نئے ونگ (wing) بناؤ.نئی لیبارٹریز بناؤ.نئے سامان لاؤ.نیا سٹاف رکھو.ان کا سارا خرچ ہم برداشت کریں گے.مگر تم تعداد چھ سو کی بجائے آٹھ سو تک لے جاؤ.کیونکہ عوام ہمیں تنگ کرتے ہیں.اب یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ہمیں مختلف شکلوں میں نظر آ رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ کا جو فضل ہے دنیا جہان کے خزانے تو اس کی قیمت نہیں بن سکتے.وہ تو اس سے بھی زیادہ قیمتی ہے اور اس کا فضل اس کے فضل کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا.اس کے فضل کے حصول کے لئے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے.اس کے فضل کے حصول کے لئے اپنی روح کو پانی کی طرح اس کے آستانے پر بہانا پڑتا ہے.اس کے فضل کو جذب کرنے کے لئے دنیا کی ہر مخلوق کو اپنے وجو دسمیت لاشے محض سمجھنا پڑتا ہے.اس کے فضل کو جذب کرنے کے لئے سر کبھی اونچے نہیں ہوا کرتے بلکہ جھکتے جھکتے زمین کے ساتھ لگ جاتے ہیں تب آسمان سے اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں برکت ڈال دیتا ہے.پھر اس کسمپرسی کی حالت میں نئے کلینک جن میں ابھی پوری طرح طبی سامان بھی مہیا نہیں تھا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۷۱ ۱۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے ہمارے ڈاکٹروں نے ایسی جگہ ہاتھ ڈالا کہ وہاں کے بڑے بڑے ماہر غیر ملکی جرمن ، امریکن اور نجیئن ڈاکٹر ہاتھ نہیں ڈالتے تھے.وہ یہ مشورہ دے رہے تھے کہ اس کا اپریشن یہاں نہیں ہو سکتا اس کو باہر بھیجو.اب گورنمنٹ کے ہسپتال جن میں ہر قسم کا سامان موجود ہے مگر ہمارے ڈاکٹر نے کہا کہ میں اس مریض کا اپریشن کرتا ہوں اور اس نے اس لکڑی کی میز پر ( جس پر بعد میں اعتراض ہو گیا کہ تمہارے پاس لوہے کی میز ہونی چاہئے ) لٹا کر اس کا اپریشن کر دیا اور وہ چنگا بھلا ہو کر گھر چلا گیا.ایک ڈاکٹر نے مجھے لکھا کہ اس کے پاس ایک ایسی مریضہ آئی کہ مجھے خود اس بات کا یقین تھا کہ وہ دو چار دن میں مر جائے گی.پھر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں جس کا نمائندہ ہوں یعنی خدائے قادر و توانا کا تو وہ تو اس کو اس حالت میں بھی شفاء دے سکتا ہے.چنانچہ میں نے آپ کو دعاؤں کے لئے لکھا.خود بھی دعائیں کیں اور یہ دعائیں کہ خدایا اسلام کو غالب کرنے کے لئے ہم تیری راہ میں خدمات بجالانے کی خاطر یہاں آئے ہیں تو اپنی قدرت کا اظہار فرما اور اس کو معجزانہ طور پر شفاء عطا فرما.وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کا علاج کیا اور چند دن کے بعد مجھے وہی عورت جو مر رہی تھی راستے میں ملی.میں حیران ہو گیا کہ یہ وہی عورت ہے.میں نے پوچھا تو کہنے لگی ہاں.میں اچھی ہوگئی ہوں.اب چلتی پھرتی ہوں.پس اپریشن تو سینکڑوں ہوتے ہیں لیکن سینکڑوں نہیں بیسیوں اپریشن ایسے ہوتے ہیں کہ دنیا کے ماہرین نے جس کو لا علاج قرار دیا تھا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب روحانی فرزند مہدی معہود کے خادموں نے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اس دنیا کو یہ معجزہ دکھایا کہ وہ لاعلاج تندرست ہو کر بازاروں میں چلنے پھرنے لگے.وقت زیادہ ہو گیا ہے بعض تفاصیل چھوڑی جاسکتی ہیں.اب اس تقریر کو ختم کرنے سے پہلے اور آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی حمد کی موجیں اور بھی زیادہ بلند کرنے کی خاطر میں آپ کو یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ نائیجیریا کی حکومت نے ہمیں اپنے ملک میں براڈ کاسٹنگ اسٹیشن کھولنے کی اجازت دے دی ہے.الحمد للہ علی ذالک.( از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۷۲ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء.دوسرے روز کا خطار
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۷۳ ۱۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں قرآن کریم کے بیان فرمودہ بنیادی اصولوں کا ذکر اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا (الاحزاب : ۲۲) قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ وَ أُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ (الزمر : ۱۳۱۲) قُلْ إِنَّنِي هَدينى رَبِّي إِلى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ، قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ O لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام: ۱۶۴،۱۶۲) اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہمیں قرآن عظیم جیسی ہدایت اور نبی کریم جیسے افضل الرسل کا اسوہ حسنہ عطا فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم کے ذریعہ یہ اعلان فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک تمام بنی نوع انسان کے لئے اسوہ حسنہ ہیں یعنی آپ ایک ایسا نمونہ ہیں جو اپنی ذات میں انتہائی طور پر پاک اور مطہر ہے اور یہ ایک ایسا نمونہ ہے کہ جس کی اتباع اور اقتداء کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں انسان اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق پاک اور مطہر بن سکتا ہے.اس اعلان سے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بنی نوع انسان کے لئے ایک اُسوہ حسنہ ہے.طبعا یہ سوال پیدا ہوتے ہیں.ایک تو یہ کہ کس چیز میں اور کس حد تک آپ انسان
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۷۴ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب کے لئے اسوہ ہیں.آیا اس کا فیصلہ کرنا انسان کے اختیار میں ہوتا ہے.اگر یوں ہوتا تو پھر ایک گروہ کھڑا ہوتا اور وہ کہتا کہ ٹخنے سے اوپر اپنی شلوار یا پاجامے یا دھوتی کو رکھنا اسوۂ نبوی ہے.ایک دوسرا پاک اور مطہر گروہ کھڑا ہوتا اور وہ کہتا کہ آنحضرت کی حیات مبارکہ کا میں نے مطالعہ کیا ہے.آپ مختلف اوقات میں مختلف قسم کے لباس پہنتے رہے ہیں.اس لئے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ لباس کے معاملے میں یہ ہے کہ جو لباس میتر آئے وہ پہن لیا جائے.گویا ایک رائے ظاہری عالم کی اور ایک رائے نائیجیریا میں اپنے وقت کے مجد دکی ہے.چنانچہ ان دو آراء میں ہمیں زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے.ظاہر ہے اگر یہ بات انسان پر چھوڑ دی جاتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سے بعض چیزوں کو لے کر کہہ دیا جاتا کہ یہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے تو پھر ہمارے لئے بڑی مشکل پڑ جاتی.ہر شخص اپنی رائے منوانا چاہتا اور اس طرح دنیا میں ایک فساد عظیم پیدا ہو جاتا.اس لئے اس مفروضہ کو تو ہمیں بہر حال رڈ کرنا پڑے گا کہ اسوۂ حسنہ کی تعیین انسان کے اختیار میں دی گئی ہے.یہ بات انسان کے اختیار میں نہیں دی گئی کیونکہ اللہ تعالی اسلام کو انسان کے لئے رحمت بنا کر بھیجنے والا ہے.اس کو فتنہ وفساد کا موجب بنانے والا نہیں.دوسری رائے یہ قائم ہوسکتی ہے کہ اس بات کا یقین کرنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی کون سی باتیں بنی نوع انسان کے لئے اُسوہ ہیں.یہ ایک تو قرآن عظیم کا کام ہے.قرآن عظیم خود بتائے گا کہ وہ عظیم ہستی جس کے متعلق قریب سے قریب تر پہنچنے اور اچھی طرح سے پہچاننے والوں نے یہ گواہی دی تھی کہ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ ( مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۹۱) کہ قرآن کریم کی ہدایت کو پڑھنا ہو تو آپ کی زندگی میں پڑھ لو.قرآنِ عظیم نے بنیادی طور پر ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی کی ہے اور بتایا ہے کہ آنحضرت کی زندگی اور آپ کی ہستی کس معنی میں بنی نوع انسان کے لئے قیامت تک اسوہ حسنہ ہے.پس جہاں تک تفصیل کا سوال ہے چونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن کریم کی ہدایت کا نمونہ ہے اور چونکہ قرآن کریم کی ہدایت اپنے اپنے وقت کی ضروریات کے مطابق کھلتی چلی جائے گی.اس لئے جو تفسیر کرنے والے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے علم حاصل کر کے لوگوں کو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۷۵ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب یہ بھی بتائیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے یہ پہلو تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہیں.کیونکہ قرآن کریم کے متعلق خدا تعالیٰ نے جہاں اس کے کتاب مبین ہونے کا دعوی کیا ہے.وہاں کتاب مکنون ( ایک چھپی ہوئی کتاب ) کا بھی دعوی کیا ہے اور اس حصہ قرآن کریم کے متعلق یہ اعلان فرمایا کہ لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :۸۰) کہ خدا تعالیٰ کے پاک اور مطہر بندوں کے سوا ( جن کا معلم خود خدا بنے گا ) کتاب مکنون یعنی قرآن کریم کے پوشیدہ حصوں کو دنیا پر کوئی ظاہر نہیں کر سکے گا.پس یہی لوگ جن کا خود خدا معلم بنے گا یہ اختیار بھی رکھیں گے کہ دنیا کو بتائیں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کون سا ورق ایسا ہے جو اس زمانے میں ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے.مثلاً نائیجیریا کے اُس بزرگ ولی اور مجدد کے متعلق جس کے بارہ میں میں نے ابھی بتایا ہے کہ اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کا مطالعہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس کے متعلق اسوہ یہ ہے کہ ستر پوشی کے لئے جو لباس میسر آئے وہی پہن لیا جائے.چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوپی بھی پہنی.آپ نے رومال بھی باندھا.آپ نے ایک بڑا سا کڑا (عقال ) بھی سر پر لپیٹا.آپ نے چادر بھی استعمال کی قمیض بھی پہنی.آپ نے پاجامہ بھی پہنا.جو کسی وقت ڈھیلا اور کسی وقت تنگ بھی ہوتا تھا.آپ نے دھوتی کے طور پر چادر بھی باندھی وغیرہ وغیرہ پھر انہوں نے لکھا کہ اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ کوئی ایک لباس اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل نہیں بلکہ جو کپڑا کسی کو میسر آئے وہ اُسے پہن لے.تاہم اس میں اصل چیز ایک تو یہ ہے کہ ستر ڈھکے آدمی ننگا نہ رہے دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جو جائز زینت کا جائز سامان پیدا کیا ہے.( مرد کے لئے اور قسم کا ہے اور عورت کے لئے اور قسم کا ) اس زینت کو وہ اختیار کرے.مثلاً اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کے ذکر میں مشغول رہے.قرآن کریم نے اگر اسوۂ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی باتیں اور اصول بتائے ہیں تو ہمیں قرآن کریم پر غور کرنا چاہئے کہ وہ اصول اور بنیادی باتیں کیا ہیں جس وقت یہ مضمون میر.ذہن میں آیا اور میں نے بڑا غور کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم -
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۷۶ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب بارہ میں قرآن کریم میں جو بنیادی اصول بیان ہوئے ہیں.وہ مجھے سمجھائے چنانچہ اس وقت میں اُن ہی اصولوں کا اپنے بھائیوں کے سامنے ذکر کروں گا.قرآن کریم نے ایک بنیادی اصول جس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے اسوۂ حسنہ ہیں وہ آپ کا اول المسلمین ہونا بیان کیا ہے.قرآن کریم میں آپ کے متعلق اول المسلمین کے الفاظ دو مختلف جگہوں پر مختلف مضامین کے ضمن میں استعمال ہوئے ہیں.ایک تو سورہ زمر کی ان آیات میں بیان ہوا ہے.قُلْ إِنّى أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ وَأُمِرْتُ لأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کروں کہ اطاعت صرف اُسی کے لئے مخصوص کر دوں اور مجھے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ میں اول المسلمین یعنی سب میں سے بڑا فرمانبردار ہوں.اس آیت کریمہ کے معنے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے بعض دوسری آیات سامنے لانی پڑیں گی.اس وقت میں ایک ہی آیت کولوں گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ( النِّسَاء :۱۳،۱۲) تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ کوئی نبی تیرے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا ذاتی جو ہر میں بھی اور ظاہری خدمات کی رو سے بھی.غرض یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ساری مخلوقات میں سے اول المسلمین یعنی اللہ تعالیٰ کے سب سے بڑے فرمانبردار ہیں اور اس مضمون کی وضاحت کرنے کے لئے وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا میں اشارہ کیا گیا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے اس کا مطلب کہ کوئی نبی نہ ایسا آیا اور نہ آ سکتا تھا جو فرمانبرداری کے مقام میں آپ سے بڑا ہوتا.آپ سب.بڑے فرمانبردار ہیں.اس معنی میں اول المسلمین کہا گیا ہے کیونکہ یہاں آنحضرت کی زبانِ مبارک سے کہلوایا گیا ہے کہ مجھے خدائے واحد و یگانہ اور رب کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ میں اول المسلمین بن جاؤں اور کسی سے پیچھے نہ رہوں.بلکہ سب کو پیچھے چھوڑ دوں اور خود آگے نکل جاؤں.پس اول المسلمین کے اس معنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اسوہ نہیں بن
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۷۷ ۱۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب سکتے.کیونکہ وہ تو ایک ہی تھا جو آگے نکل سکتا ہے.سب سے آگے دو نہیں نکل سکتے.یا تین نہیں نکل سکتے بلکہ ایک ہی ہوتا ہے.جو سب سے آگے نکلتا ہے.پس سورۃ زمر میں جو مضمون بیان ہوا ہے.اس میں آپ کی ایک بلندشان بیان کی گئی.اور وہ یہ کہ قرب الہی کے حصول میں آپ ساری مخلوقات میں سے آگے نکل گئے.حتی کہ انبیاء کو بھی ذاتی جوہر کے لحاظ سے بھی اور ظاہری خدمات کے لحاظ سے بھی اپنے پیچھے چھوڑ دیا.دوسری جگہ اول المسلمین ایک دوسرے معنی میں استعمال فرمایا ہے.اس معنی میں آپ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں.اللہ تعالیٰ سورہ انعام میں فرماتا ہے کہ اے رسول! تو لوگوں سے کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی طرف میری رہنمائی کی یعنی اُس نے مجھے وہ راہ بتائی ہے جس پر چل کر خدا داد قوتوں اور استعدادوں کو کامل نشو و نما ملتی ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمونہ بیان کر کے بتایا کہ اگر قوتوں کی صحیح نشو ونما کرنا مقصود ہو تو شرک کا کوئی شائبہ انسانی زندگی، انسانی کوشش اور انسانی محنت میں نہیں ہونا چاہئے.ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص کچھ تو خدا کی طرف ٹھک جائے اور کچھ غیر اللہ کی طرف جھک جائے تو نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے رسول! تو کہہ دے! إنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.میری نماز اور میری دعا ئیں جن سے میں اللہ تعالیٰ سے قوت حاصل کرتا اور طاقت پاتا ہوں اور میری عبادتیں اور میری زندگی اور میری موت اللہ تعالیٰ کے جلال کو ظاہر کرنے والی اور اس کے بندوں کو آرام پہنچانے کے لئے ہے.لِلهِ رَبِّ العَلَمِينَ اس میں اللہ کے لفظ میں خدا کے جلال کو ظاہر کرنے کی طرف اشارہ ہے اور رب العالمین میں بندوں کی خدمت کی طرف اشارہ ہے.یہاں یہی نہیں فرمایا لَا شَرِيكَ له بلکہ یہ بھی فرمایا وَبِذلِكَ أُمِرْتُ مجھے اس چیز کا حکم دیا گیا ہے کہ جو صراط مستقیم بنائی گئی ہے.اُس پر چلوں.ملت ابراھیم کو اختیار کروں اور میری نماز اور میری عبادت، میری زندگی اور میری موت خدا تعالیٰ کے جلال اور بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے وقف ہوا اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم کرنا میری زندگی کا مقصد ہو اور پھر فرمایا وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ یعنی ان قوتوں کی نشو ونما کا مجھے حکم دیا گیا ہے.گویا اِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۷۸ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب جو آنحضرت کو جسمانی اور علمی اور اخلاقی اور روحانی قوتیں عطا ہوئی تھیں وہ آپ کی ذات میں اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ توفیق دی تھی کہ آپ اپنی خداداد قوتوں کی نشو و نما کو ان کے کمال تک پہنچا دیں.چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی معنی میں اول المسلمین ہونا بنی نوع انسان کے لئے اسوۂ حسنہ کے مترادف ہے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عبادات کیسے کریں.ہمیں اس کی طاقت نہیں ہے میں کہتا ہوں تمہیں کسی نے یہ کب کہا ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی اپنی زندگی گزارو.وہ طاقتیں تم میں ہیں ہی نہیں.اُن طاقتوں کی تم نشو و نما تمام کر ہی نہیں سکتے لیکن اس میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر چہ یہ تو صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل درجہ کی طاقتیں عطا فرمائی تھیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو قو تیں اور طاقتیں اور استعداد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی تھیں آپ نے اپنی پوری توجہ اور انہماک اور ہر قسم کی قربانی کر کے اور ایثار دکھا کر اُن طاقتوں اور استعدادوں کو ان کے کمال تک پہنچا دیا تھا.اس لئے ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ وہ اس اسوۂ نبوی کے مطابق اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی اپنی طاقتوں اور استعدادوں کو ان کے کمال تک پہنچائے.گواؤل المسلمین کے اس معنی میں آپ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں.أنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِینَ کے لحاظ سے اسوہ نہیں کیونکہ اس میں تو سب سے آگے نکلنا مراد ہے اور سب سے آگے ایک ہی نکلا کرتا ہے اور جس نے آگے نکلنا تھا وہ نکل گیا لیکن اس معنی میں آپ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو بھی اور قو تیں دیں ان قوتوں کو آپ نے اپنے دائرہ استعداد میں ( دائرہ استعداد سے مراد شریعت کا کمال ہے.) اپنے کمال کو پہنچا دیا.اس لئے ہر شخص کو کہا گیا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں سو کی بجائے ۹۰ فیصد طاقت ملی ہو تو وہ اپنے اس دائرہ استعداد میں اسے کمال تک پہنچائے.اگر کسی کو استی یا ستر یا پچاس یا پچیس یا ہیں یا دس فیصد طاقت ملی ہو تو وہ اپنے اسی دائر ہ استعداد میں اپنی طاقتوں اور قوتوں کی نشو و نما کو کمال تک پہنچائے.پس قرآن کریم نے اصولی طور پر جو پہلی چیز بتائی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی قوتوں اور طاقتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے مطابق کمال تک پہنچایا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۷۹ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقتیں سب سے زیادہ تھیں.آپ کا دائرہ استعداد ایک کامل دائرۂ استعداد تھا.آپ نے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی طاقتوں کو کمال تک پہنچایا.اسی طرح آپ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی قوتوں کو ان کے کمال تک پہنچائے اور یہی وہ تعلیم ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اُسوہ حسنہ ہیں.اب کسی کا دوسرے شخص سے یہ کہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ تو میرے جتنی نمازیں نہیں پڑھتا یا نوافل نہیں پڑھتا اس لئے تو جہنم میں جائے گا.کوئی شخص دوسرے سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو میرے جتنے روزے نہیں رکھتا اس لئے تو جہنم میں جائے گا.کوئی شخص کسی سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو میرے جتنی زکوۃ نہیں دیتا اس لئے تو جہنم میں جائے گا.جس شخص کو خدا نے پیسے ہی نہیں دیئے وہ زکوۃ کیسے دے گا.جس شخص کی فطرت میں کثرت نوافل کی استعداد ہی نہیں رکھی گئی اس کے حصہ میں نوافل کی کثرت نہیں.خدا تعالیٰ نے اس نکتہ کے سمجھانے کے لئے ہمیں فرمایا ہے کہ اگر تم اپنے اپنے دائرہ استعداد کے مطابق اپنی قوتوں اور طاقتوں کو کمال نشو و نما تک پہنچاؤ گے تو تمہارے حالات کے مطابق جنت کا ایک نہ ایک دروازہ کھول دیا جائے گا.ظاہر ہے کہ ہر ایک آدمی کے حالات مختلف ہوتے ہیں.ہر ایک کی دلی کیفیت مختلف ہوتی ہے.ہر ایک آدمی کا مجاہدہ مختلف ہوتا ہے.اسی طرح ہر ایک کی استعدادیں بھی مختلف ہوتی ہیں.اس لئے لازماً ہر ایک کا دائرہ استعداد اور اس کا کمال بھی مختلف ہوتا ہے.چنانچہ خدا نے فرمایا میں نے تمہارے لئے جنت کے آٹھ دروازے بنادیئے ہیں.تم اپنی استعداد اور اس کی نشو و نما کے مطابق جس دروازے کو پسند کرو اس میں سے داخل ہو جاؤ.پس پہلی چیز یا پہلا اصول یا پہلی بنیادی بات جو قرآن کریم میں اسوہ رسول کے بارہ میں بیان ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ساری قوتوں اور طاقتوں کو اُن کی نشو و نما کے کمال تک پہنچا دیا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم بھی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر تمہاری جتنی بھی طاقتیں ہوں اُن کو اپنے اپنے دائرہ میں کمال تک پہنچاؤ یہی اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے کا نام ہے.اگر تم ایسا نہیں کرو گے اور تمہارے اندر کسی نہ کسی لحاظ سے کمزوری واقع ہو جائے گی تو تم خُدا کے اُس پیار کو حاصل نہیں کر سکو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۸۰ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب گے.جسے تم اپنی فطری استعداد کی کمال نشو و نما سے حاصل کر سکتے تھے.انسانی قوتوں اور طاقتوں میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کمال حاصل تھا اُس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: مراتب قرب و محبت کا اعلیٰ و اکمل درجہ وہ ہے.ناقل )‘، جس میں ایک نہایت افروخته شعله محبت الہی کا انسانی محبت کے مستعد فتیلہ پر پڑ کر اس کو افروختہ کر دیتا ہے.( بھڑک اُٹھتا ہے.ناقل ) اور اس کے تمام اجزا اور تمام رگ وریشہ پر استیلاء پکڑ کر اپنے وجود کا اتم اور اکمل مظہر اس کو بنا دیتا ہے.اور یہ کیفیت جو ایک آتش افروختہ کی.صورت پر دونوں محبتوں کے جوڑ سے پیدا ہو جاتی ہے اس کو رُوحِ امین کے نام سے بولتے ہیں.کیونکہ یہ ہر یک تاریکی سے امن بخشتی ہے اور ہر یک غبار سے خالی ہے اور اُس کا نام شدید القویٰ بھی ہے.کیونکہ یہ اعلیٰ درجہ کی طاقت وحی ہے جس سے قوی تر (طاقت) وحی متصور نہیں اور اس کا نام ذو الافق الا علی بھی ہے.کیونکہ یہ وحی الہی کے انتہائی درجہ کی تجلی ہے اور اس کو داسی مارالہی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے.کیونکہ اس کیفیت کا اندازہ تمام مخلوقات کے قیاس اور گمان وو ہم سے باہر ہے اور یہ کیفیت صرف دنیا میں ایک ہی انسان کو ملی ہے.جو انسانِ کامل ہے.جس پر تمام سلسلہ انسانیہ کا ختم ہو گیا ہے اور دائرہ استعدادات بشریہ کا کمال کو پہنچا ہے.ارتفاع کے تمام مراتب کا انتہا.....محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم ( توضیح مرام روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفه ۶۳ ۶۴).پس یہ تو وہ دائرہ کمال ہے جس میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشری استعدادیں اپنے کمال کو پہنچیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی استعدادوں کے لحاظ سے بھی اور اُن کی نشو و نما کے لحاظ سے بھی امت محمدیہ کے لئے ایک کامل نمونہ بنے.اس میں ہمارے لئے یہ سبق ہے اور ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوتوں اور استعدادوں کی نشو و نما کو کمال تک پہنچایا.اسی طرح تمہیں بھی جو قو تیں اور استعدادیں دی گئی ہیں تمہارا بھی فرض ہے کہ تم ان کی نشو و نما کو کمال تک پہنچاؤ اور تم ایسا کر سکتے ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۸۱ ۱۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِن الْمُسْلِمِينَ ( حم السجدة : ٣٤) امت محمدیہ کا کوئی فرد اول المسلمین تو ہو نہیں سکتا لیکن اپنے دائرہ استعداد میں مسلمین.گروہ میں تو وہ یقینا شامل ہوسکتا ہے.کے یہ تو اُس اسوۂ نبوی کا ایک پہلو تھا جو بنیادی طور پر قرآنِ کریم میں بیان ہوا ہے.دوسرا پہلو ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو قو تیں دی ہیں وہ اپنی صفات کا مظہر بننے کے لئے دی ہیں.چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتیں اور استعداد میں سب سے بڑھ کر اور کامل تھیں اور آپ ان قوتوں اور استعدادوں کی نشو ونما کامل طور پر کی تھی.اس لئے آپ صفات باری کے مظہر اتم بن گئے تھے.اس طرح کہ انسان کو جو بھی طاقتیں دی گئی ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے دی گئی ہیں.کیونکہ انسان کو تعبد ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.انسان کی زندگی کا مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اس کی زندگی پر چڑھ جائے.یہی اس کی جنت ہے اور اس سے دوری اس کے لئے جہنم ہے.پس اسوۂ نبوی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آپ خود تو صفات باری کے مظہر اتم ہیں.کیونکہ آپ کو کامل استعداد میں عطا ہوئی تھیں اور آپ نے ان کی نشو و نما کو کمال تک پہنچا دیا تھا مگر ہمیں یہ فرمایا کہ اپنی قوتوں اور طاقتوں کی نشو ونما کے بارے میں ہمیشہ یہ دیکھتے رہنا کہ اگر ان کی نشو و نما کے نتیجہ میں ہماری زندگی پر خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ چڑھ جائے تو یہ گویا اُن کی صحیح نشو ونما کے مترادف ہے.اگر تمہاری کوششوں کے نتیجہ میں تمہاری زندگی پر خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ نہیں چڑھتا تو تمہاری کوشش غلط ہے.پس اس میں ہمیں ایک راستہ بتایا اور ایک مقصد ہمارے سامنے رکھا اور ہمیں یہ کہا گیا کہ دیکھو! حضرت نبی کریم اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہیں.نہ صرف اپنے مقام کے لحاظ سے مظہر اتم بلکہ اپنی اصلیت کے لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہیں.اس لئے تمہارے وہ اسوہ ہیں.تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اپنے اپنے دائرہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر بنو.یہ تو تھا دوسرا پہلو.تیسرا اصول جو قرآنِ کریم نے ہمیں بتایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات میں ہمیں حسنِ کامل اور احسان کامل نظر آتا ہے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۸۲ --- ۱۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب کے مظہر اتم ہیں.قریباً قریباً ساری خدائی صفات آپ کی زندگی میں جلوہ گر ہیں.اس لئے ہم خدا تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ خدا کی مخلوق خدا نہیں بن سکتی لیکن خدا کی مخلوق جب خدا کے قریب تر پہنچ سکتی ہے اور حضرت محمدؐ کی ذات میں پہنچی ہے تو ہمیں آپ کی ذات میں خدا کی وہی شکل اور کیفیت نظر آتی ہے.جو قرآنِ کریم میں بیان ہوئی.پس ایک تو جہاں تک انسان اپنے حسن کو دوبالا کر سکتا تھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں وہ دوبالا ہو چکا ہے اور جہاں تک کوئی انسان خدا تعالیٰ کے احسان کی صفات کو اپنی زندگی میں جلوہ گر کر سکتا تھا.وہاں تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے احسان کی صفات جلوہ گر ہیں.گویا آپ حسن و احسانِ صفات باری کے مظہر اتم ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفتِ حُسن سے کیا مراد ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کی صفتِ احسان سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں وضاحت فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ کی صفات اپنے نفس میں حسنِ باری ہیں.مثلاً یہ تصور کہ ایک ایسی ذات ہے جس نے تمام عالمین کو پیدا کیا اور وہ اُن کی ربوبیت کرنے کی طاقت رکھتا ہے.یہ ربوبیت کی صفت ایک حُسن ہے.رحمانیت کی صفت ایک حُسن ہے.رحیمیت کی صفت ایک حُسن ہے اور مالکیت یوم الدین کی صفت ایک حسن ہے لیکن جب یہی صفات جو اپنے نفس میں حسنِ باری تعالیٰ کو ظاہر کر رہی ہیں کسی فرد یا جماعت پر جلوہ گر ہوتی ہیں اور ان کو فائدہ پہنچاتی ہیں تو فرد یا جماعت کے لئے احسان کی شکل اختیار کر لیتی ہیں.خدا تعالیٰ کا رب ہونا اس کے حُسن کی علامت ہے اور خدا تعالیٰ کا اپنے رب ہونے کے لحاظ سے ہر کس و ناکس کی ربوبیت کرنا اُس کے احسان کی علامت ہے گو یا اللہ تعالیٰ کا ہر فرد بشر کی یا جماعت پیدا کر کے اُس کی ربوبیت کے طور پر اس میں ایک انقلاب عظیم بپا کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کو ظاہر کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی صفات میں حسن بھی کامل اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں احسان کے کامل جلوے بھی نظر آتے ہیں اور یہی حال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا بھی ہے.آپ کی زندگی میں بھی حسن واحسان کے جلوے نظر آتے ہیں.انسان ہونے کی جو حد ہے اُس میں ہم سب برابر ہیں لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حسن و احسانِ باری میں یکتا اور انسان کامل ہیں اس لئے وہ منفرد ہیں.ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ اس بات میں ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے لئے اسوہ حسنہ بنایا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۸۳ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب ہے.تم حسن و احسانِ باری تعالیٰ کے مظہر اتم تو نہیں بن سکتے لیکن تم اپنی استعداد اور طاقت کے مطابق مظہر حسن اور احسان باری ضرور بن سکتے ہو.اس لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے تمہیں بھی اپنے اندر اپنی زندگیوں میں اپنے معاملات میں اپنے تعلقات میں اپنے پیار میں اپنے غضب میں حسن و احسانِ باری کا اس رنگ میں مظہر بننے کی ضرورت ہے جس رنگ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں حسن و احسانِ باری کو ظاہر کیا.چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ صفات باری کے مظہر اتم ہیں تو ہمیں کچھ مزید بھی بتانا پڑے گا.ورنہ تو یہ ایک فلسفہ بن جاتا ہے اور ہر آدمی اس حقیقت کو مجھ نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر بڑے حسین رنگ میں روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ کی جن بنیادی صفات کا ذکر ہوا ہے وہ چار ہیں.ان کو اصل الاصول صفات باری یا اتم الصفات سمجھنا چاہئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ان ہی چار صفات کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں تعلق رکھتی ہیں.اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ یہ خدا تعالیٰ کی ام الصفات ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ( میں قرآن کریم کی زبان میں بات کر رہا ہوں ) قرآنِ کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ صفات آپ کے اندر پائی جاتی تھیں.تو پھر ہمیں تاریخ دیکھنی پڑے گی.جس کو وقتی طور پر ہم ایک حد تک نظر انداز بھی کر سکتے ہیں اور کچھ مثالیں بھی دے سکتے ہیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ رب العالمین کی صفت کامل طور پر محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی اور رحمانیت کی کامل صفت آپ کے اندر پائی جاتی تھی اور اسی طرح رحیمیت کی اور مالکیت کی صفت بھی آپ کی ذات میں جلوہ گر تھی اور چونکہ یہ چاروں صفات اللہ تعالیٰ کی ساری صفات کی اصل یا اُتم الصفات ہیں اس لئے ماننا پڑے گا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تمام صفات باری تعالیٰ کا مظہر اتم ہے.یہ چار صفات جو سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بیان کی ہیں اور جن کے متعلق ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ اصل الاصول اور اُم الصفات ہیں.قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ۳۶) اللہ تعالیٰ جو تمام صفات حسنہ کا مالک ہے.اُس میں کوئی عیب یا نقص، کوئی اندھیرا ایا ظلمت نہیں پائی جاتی.تمام
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۸۴ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب جہانوں کا حقیقی نور وہی ہے.اس حقیقت کو شاید بچوں کے لئے سمجھنا مشکل ہو گا اس لئے میں ا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں سمجھا دیتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: ” یہ سورج کی روشنی نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا نور ہے جو سورج کی چادر میں چُھپ کر یا لپٹ کر دنیا پر ظاہر ہورہا ہے.یہ چاند کا نور نہیں ہے جو اندھیری راتوں کو منو رکرتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ ہی کا نور ہے.جو چاند کی چادر میں اپنے کو لپیٹتا اور اس مادی اور ابتلاء اور امتحان کی دنیا کو جگمگا دیتا ہے.یہ گلاب کی خوشبو نہیں ہے جو مشامِ جان کو معطر بنا دیتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کے لطف و کرم کا پر تو ہے جو انسان کو لذت اور سرور بخشتا ہے اور گلاب کے پردے میں چھپ کر سامنے آتا ہے اور یہ بادل نہیں جو مینہ برساتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رحمتیں ہیں جو بادل کی شکل اختیار کرتی ہیں اور مینہ برسانے لگ جاتی ہیں.خیر یہ ایک بڑا گہر ا مسئلہ ہے جو لوگ اس کو سمجھتے ہیں وہ اس سے حظ اٹھا سکتے ہیں.بہر حال خدا تعالیٰ کے متعلق قرآن کریم نے یہ اعلان کیا کہ وہ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ہے.یہ گویا خدا کے حسن کا اعلان ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حسن کی خوبیاں جو کسی فرد یا گروہ کو عملاً فائدہ پہنچاتی ہیں.یہ وہی نور اور وہی حسن کی صفات ہیں جو مختلف شکلوں میں انسان پر ظاہر ہوتی ہیں.پس جیسا کہ میں بتا رہا ہوں چا رام الصفات جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں ان میں سے پہلی صفت ربوبیت ہے ، ربوبیت کا مطلب ہے پیدا کرنا اور کمال مطلوب تک پہنچانا.یہاں تاریخ کا قانون رائج ہے.بچہ پہلے ماں کے پیٹ میں پیدا ہوتا ہے.جہاں نو ماہ تک اس کی پرورش کی جاتی ہے.پھر وہ اس دنیا میں آتا ہے اور سانس لیتا ہے.بعض دفعہ سانس نہیں لیتا.بہر حال جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس وقت اس کے اندر کوئی طاقت نہیں ہوتی.اس کو دودھ کی ضرورت ہے جو خود بخو داس کی ماں کی چھاتیوں میں اتر آتا ہے مگر دنیا کی کون سی عورت ہے جو خدا تعالیٰ کے منشاء اور حکم کے بغیر اپنی چھاتیوں میں اپنے یا کسی اور کے بچہ کے لئے دودھ پیدا کر دے.اگر ماں اپنی مرضی سے اپنے بچے کے لئے دودھ پیدا کرنے پر قادر ہوتی تو وہ اپنی عزیز اور پیاری سہیلی کے بچہ کے لئے جسے دودھ نہیں مل رہا اس کے لئے دودھ پیدا کر دیتی مگر وہ نہیں پیدا کرتی اور نہ پیدا کرسکتی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۸۵ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب ہے.ظاہر ہے کہ وہ اپنی مرضی سے دودھ پیدا نہیں کر سکتی.خدا کا منشاء ہو تو دودھ پیدا ہوتا ہے ورنہ دودھ پیدا نہیں ہوتا.بچہ کی پیدائش سے ربوبیت شروع ہو جاتی ہے.چند دنوں کا بچہ پھر طفل بنتا ہے.پھر وہ طفل کی عمر سے نکل کر خادم کی عمر میں داخل ہوتا ہے.علم میں کمال حاصل کرتا ہے پھر وہ علمی کمال حاصل کر لیتا ہے تو عمل کے میدان میں آ جاتا ہے.ہر جگہ اور ہر قدم پر اسے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی ضرورت ہوتی ہے دراصل خدا تعالیٰ نے اپنی معرفت اور عرفان کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے.تعبد ابدی کے لئے پیدا کیا ہے.انسان کو اپنے دائرہ استعداد کے اندر خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے پیدا کیا ہے مظہر صفات باری بننے کے لئے پہلے سانس سے لے کر آخری سانس تک اُسے جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ ساری اس کے لئے مہیا کر دی گئیں.انسان کو زندگی کی ضرورت تھی اُسے طاقتوں کو بحال رکھنے کے لئے اور اپنی ذہنی قوتوں سے صحیح اور بھر پور کام لینے کے لئے غذا کی ضرورت تھی.اس کو اخلاق کے اظہار کے لئے مادی ذرائع کی ضرورت تھی.اخلاق کا اظہار بھی مادی ذرائع کا محتاج ہے.یہ نہیں کہ آپ اپنے اخلاق کا اظہار سفر کسی مادی ذریعہ سے کر سکیں.مثلاً ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے کپڑے کی ضرورت ہے.آپ اس سے پیار کرتے ہیں اور اس کے لئے کپڑے کا انتظام کر دیتے ہیں.اگر آپ کے پاس کپڑا ہی نہ ہو تو آپ کیا کریں گے.ایک شخص کو گندم کی ضرورت ہے ایک شخص کو اس بات کی ضرورت ہے جذباتی لحاظ سے کہ جو اس کو ملے وہ مسکراتے چہرے سے ملے.میں نے جماعت کو کہا تھا.اس جلسہ سے پہلے بھی اور یہاں بھی آکر کہا کہ دُنیا تیوریاں چڑھا کر اور سُرخ آنکھیں نکال کر تمہاری طرف دیکھتی ہے.تم اس کی طرف مسکراتے چہروں سے دیکھو.چنانچہ مجھے بڑی خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ چھوٹے چھوٹے بچے ملاقاتوں کے دوران مسکراتے اور کھلے ہوئے چہروں کے ساتھ ملتے تھے.دنیا قطع نظر اس کے کہ غلط ہے یا صحیح وہ اپنا طریق اختیار کرتی ہے.ہمیں اس سے سروکار نہیں.ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ جس چیز کی انسان کو اس وقت ضرورت ہے وہ اس کو ملنی چاہئے اور عام طور پر انسان کو مسکراتے چہروں کی ضرورت ہے.اس لئے دوستوں کو ہر ایک سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنا چاہئے.یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.اگر ضرورت نہ ہوتی تو اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ مسکرانے والا چہرہ عطا نہ کرتا.جیسا کہ حدیث میں آتے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۸۶ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب ہے کہ آپ زور زور سے تو نہیں ہنستے تھے البتہ ہر وقت مسکراتے رہتے تھے.غرض اللہ تعالیٰ رب ہونے کے لحاظ سے تمام عالمین کی اور اس عالمین کے ہر فرد کی ربوبیت کر رہا ہے اور ہر ایک کو کمال مطلوب تک پہنچا رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ مثلاً جو درخت اُگیں عام قانون کے مطابق جب اُن کی پرورش کی جائے اور وہ بڑے ہوں تو ثمر آور ہوں.ہمارے اکثر زمیندار بھائی جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں وہ آخر کس کے بھروسے پر گندم کا بیج زمین میں ڈال آئے ہیں.اپنے اس رپ کریم کے بھروسے پر جس نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.ءَ أَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهُ أَمْ نَحْنُ الزُّرِعُونَ کیا کھیتیاں تم اُگاتے ہو؟ نہیں! کھیتیوں کو تو میں اُگا تا ہوں اور یہی وہ حقیقت ہے جس کی بناء پر تم نے خدا پر بھروسہ کیا کیونکہ وہ ربّ ہے.اب دیکھو گندم جس کو مالک نے زمین میں ڈال دیا اس کے متعلق ہمارے رب کریم نے کہا میں اس کی پرورش کر دوں گا اور ایک سے سات سو بنادوں گا اور یہ اس لئے کہ اس کی ربوبیت سارے عالمین میں کارفرما ہے.سورج، چاند اور ستاروں کے علاوہ بعض ایسے ستارے بھی ہیں جن کی روشنی ابھی تک زمین پر نہیں پہنچی.غرض یہ کائنات اور اس میں موجود کروڑوں کیڑے جو انسان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اُن کو پیدا کیا اور ان کی ربوبیت کرتا چلا جارہا ہے.احسان کی دوسری خوبی اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت میں مضمر ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جاندار کو (صفت ربوبیت میں جاندار یا غیر جاندار کا سوال نہیں ہے ) درخت ہیں.پتھر ہیں، کائنات کے یہ ایسے ذرے ہیں جن میں سے ایک کو اللہ تعالیٰ زمرد بنا دیتا ہے.ایک کو لعل بنا دیتا ہے اور ایک کو سنگ مرمر بنا دیتا ہے اور کسی ذرے کو حکم دیتا ہے کہ تو مٹی کا ذرہ اسی طرح بنارہ لیکن تیری قیمت زیادہ ہے.اب اگر ساری دنیا میں زمیندار کو آپ پوچھیں کہ اگر اللہ کہے کہ اس کے کھیت کے ذروں کو ہیرے اور جواہرات بنا دیتے ہیں تو وہ کہے گا کہ اے میر.کھاؤں گا کیا؟ پس مٹی کے جو ذرے، ہیرے اور جواہرات نہیں بنے اُن کی قیمت ہیرے اور جواہرات سے بھی زیادہ ہے.کیونکہ انسان بحیثیت مجموعی اُن کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گیا.پس ربوبیت کے جلوے ہر مخلوق دیکھتی ہے.پتھر ہو یا مٹی یا درخت ہوں یا پانی ہو یا ہماری کھیتیاں ہوں ، جانور ہوں، انسان ہو.سب ربوبیت کے سائے تلے ہیں.رحمانیت فرمانِ خداوندی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۸۷ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب ہر جاندار پر ہے اور ہر جاندار کو اس نے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی ہے یعنی اس کو شکل بھی ایسی دی کہ جو کام اس سے وہ لینا چاہتا تھا وہ لے اور اس کو سیرت بھی ایسی بخشی وہ صفات الہی کا مظہر بنے.گویا اس کو جسمانی لحاظ سے ایسی ظاہری اور باطنی شکل عطا کی کہ وہ خدا کی صفات کے رنگوں میں رنگین ہو سکے.بکری سے کہا کہ ہم تجھے ایسا جسم دیتے ہیں کہ تو درخت کے پتے بھی کھا جایا کر اور بھیٹر جس کی بہت ساری قسمیں ہیں ) اُن سے کہا کہ تو درخت کے پتے نہ کھا بلکہ گھا س پھوس میں منہ ماراس میں سے تیرے لئے خوراک مل جائے گی.اونٹ سے کہا کہ جہاں بکری کا منہ نہیں پہنچتا وہاں تک اپنی گردن لے جا اور وہاں سے پتے کھا لے.پس اللہ تعالیٰ نے اُن جانوروں کی جو مختلف اغذیہ بنائی ہیں جن کے گوشت کو ہمارے لئے حلال کیا.سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں کیا.اس نے ایسا اس لئے کیا کہ دوسری جگہ فرمایا تھا کہ میں نے تمہارے لئے متوازن غذا بنائی ہے اگر صرف درختوں کے پتے اور گھاس پھوس کھانے سے گوشت بنتا ہوتا تو پھر بکری ہی ہوتی اونٹ اور گائے بیل نہ ہوتے تو گوشت کے لحاظ سے انسان کی غذاؤں میں فرق آ جاتا.اس لئے انسانی جسم کو متوازن غذا بہم پہنچانے کی خاطر مختلف جانور پیدا کئے جو مختلف قسم کا چارہ کھاتے ہیں اور مختلف تاثیر رکھتے ہیں لیکن اس کا سب سے زیادہ فائدہ انسان نے اُٹھایا کیونکہ اس کے لئے خدا نے بکری کو بھی قربان کر دیا اور بھیٹر کو بھی قربان کر دیا اس کے لئے اونٹ کو بھی قربان کر دیا اور بیل کو بھی قربان کر دیا حتی کہ جتنے حلال جانور ہیں ان کو قربان کر دیا.تا کہ انسان کے جسم کو متوازن قسم کی پروٹین مل جائے.جہاں تک انسان کا تعلق ہے ہر چیز اُس کے جذبات پر اثر انداز ہوتی ہے یعنی انسان کا جو مطلوب ومقصود ہے وہ ہے اپنے اپنے دائرہ میں مظہر صفات باری بننا.اب مظہر صفات باری بننے کے لئے (تفصیل میں جاؤں تو بات لمبی ہو جائے گی.آپ یہاں بھی سوچیں اور گھروں میں بھی جا کر سوچیں مثلاً ٹانگیں عطا ہوئیں.مجھے اور آپ کو دوسری جگہ چل کر بھی جانا ہوتا ہے.کیونکہ بہت ساری صفات کے مظہر ہونے کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ چل کر جانا پڑتا ہے.استاد کو اپنے گھر سے اسکول جانا آنا پڑتا ہے اور اس کے لئے اس کے سکول پہنچنے کا انتظام ہونا چاہئے.غرض انسان نے صفاتِ باری کا مظہر بنا تھا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی کروڑوں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۸۸ ۱۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب مثالیں دی جاسکتی ہیں.مثلاً انسان کو آنکھیں دیں.اس کو کان دیئے اس کو آنکھیں اور کان اس لئے دیئے کیونکہ اس نے دنیا کا معلم بھی بننا تھا اور اس طرح دوسرے حواس دیئے علم کی ابتداء حواس کے ذریعہ کی حواس سے حاصل ہونے والی معلومات کو علم کہتے ہیں آنکھوں نے جو دیکھا اور کانوں نے جو سنا.ایک ایسا علم ہے جس کا ذریعہ گویا ہمارے حواس ہوتے ہیں.جہاں تک آنکھ کا تعلق ہے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے سامنے ایک خاص شکل کا میدان ہے.اس کے پرلے سرے پر کچھ سیٹرھیاں بنی ہوئی ہیں اور خلقت کا ایک ہجوم بیٹھا ہوا ہے مگر میری آنکھ اس پیار کو نہیں دیکھ سکتی جو میرے دل میں سے چشمہ کی طرح نکل کر آپ تک پہنچتا ہے اور نہ آپ کا وہ تعلق دیکھ سکتی ہے جو آپ کی طرف سے مجھے ملتا ہے.( نعرے) لیکن میرے کان اظہارِ مسرت کے ان کلمات کو سنتے ہیں جو اس مجمع میں کہے جاتے ہیں مگر میرے کانوں نے اس کے پیچھے محبت و پیار کا جو جلوہ تھا وہ نہیں سنا.صرف ایک آواز سنی ہے.علم حاصل کرنے کی ابتداء جو اس کے ذریعہ ہوئی.پھر اللہ تعالیٰ نے زبان دی ہے.ہم سوال کر سکتے ہیں اور اس کے ذریعہ علم کو بڑھا سکتے ہیں.سوال کرنا حصول علم کے لئے بڑا ضروری ہے اس لئے چھوٹے بچوں کو سوال کرنے دینا ہئے.بعض دفعہ بچے اتنی کثرت سے سوال کرتے ہیں کہ استاد یا ماں باپ انہیں چیڑ لگا دیتے ہیں اور کہتے ہیں چُپ کرو کیوں ہمارے کان کھاتے ہو.یہ طریق غلط ہے.اس طرح تو گویا تم حصول علم کا ایک دروازہ بند کر رہے ہو.بچوں کو سوال کرنے دو اور صبر سے اُن کو جواب دو.تمہیں اللہ تعالیٰ نے کان دیئے ہیں اس کے سوال کو سُننے کے لئے اور انہیں زبان دی ہے سوال پوچھنے کے لئے.پس اللہ تعالیٰ نے جس قسم کا کام لینا تھا اس کے مطابق انسان بنا دیا.انسان اپنے جسم اور اپنی طاقت کے لحاظ سے ہر دوسری مخلوق سے زیادہ طاقتور ہے.اللہ تعالیٰ نے گھوڑے کو شریعت نہیں دینی تھی.اس لئے گھوڑے کو وہ جسم نہیں دیا.نہ عقل اور سمجھ دی اور نہ علم کے حصول کے ذرائع دیئے ہیں.یہ انسان کا خاصہ ہے.اُسے عقل شعور عطا کیا کیونکہ اس نے حاملِ شریعت بننا تھا.دراصل وہ فکر جو حواس سے حاصل شدہ علوم اکٹھا کرتی ہے اور نتیجہ نکالتی ہے وہ جانوروں کو نہیں دی گئی.البتہ وہ عقل بتائی جو تحریر کی لیبارٹری میں جا کر دیکھتی ہے کہ میرے فکر نے صحیح
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۸۹ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب نتائج بھی نکالے ہیں یا نہیں.گدھے اور شیر کو یہ عقل نہیں دی.خدا نے اُن سے جو کام لینے تھے اس کے مطابق انہیں جسم دے دیا اور جو انسان سے کام لینے تھے ان کے مطابق انسان کو جسم دے دیا.یہ تمام جلوے جو مخلوق خدا بالخصوص انسان کی ذات میں ظاہر ہوئے.صفت رحمانیت کے مظہر ہیں.پھر ان حواس کے بقاء کے لئے انسان کو صورت اور سیرت بخشی.وہ خود باقی نہیں رہ سکتا.اس کو اس طرح نہیں بنایا کہ جس طرح ہم توپ کا گولہ پھینکتے ہیں اور وہ تباہی مچادیتا ہے اس میں بھی ایک جان ہوتی ہے.اس میں بھی ایک حرکت پیدا ہوتی ہے.وہ بھی زندگی کے مترادف ہے مگر توپ سے جو گولہ نکلا وہ جہاں گیا وہاں پھٹ گیا.بس قصہ ختم ہوا لیکن انسان نے تو ایک معینہ مدت تک باقی رہنا تھا.جب تک خدا تعالیٰ اسے زندہ رکھنا چاہے وہ زندہ رہتا ہے.اس کی قوتوں کو اُٹھانے اور پیدا کرنے اور بڑھانے والے سامان پیدا ہونے چاہئے تھے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس کی بقاء کے لئے جن جن چیزوں کی اُسے ضرورت تھی وہ ان کے لئے مہیا فرما ئیں گویا یہ اس کا احسان ہے اور صفت رحمائیت کا مظہر ہے.پس صفت رحمانیت ام الصفات اور اصل الاصول میں دوسرے نمبر پر ہے اور اس سے سب سے زیادہ فائدہ انسان اُٹھاتا ہے کیونکہ جانوروں کو بھی انسان کی خاطر قربان کر دیا جاتا ہے.احسان کی تیسری صفت رحیمیت بھی ہے.اس کا بھی محض انسان سے تعلق ہے صفت رحیمیت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انسان کی دُعا اور اس کی تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرماتا ہے یہ اس کی رحیمیت ہے.اس طرح وہ انسان کو آفات اور بلاؤں سے بچاتا ہے اور اس کی کوشش میں جو خامی اور نقص اور کمزوری رہ جائے اس کو دور کر دیتا ہے.اس کی کوشش کو ضائع ہونے سے بچالیتا ہے.سو ہمارا خدا بڑا رحیم خدا ہے.آپ میں سے ہر ایک دوست سوچے.بہت سے زمیندار دوست بیٹھے ہیں.وہ سوچیں کہ انسان سے سستی اور غفلتیں ہو جاتی ہیں.کبھی نیند آ جاتی ہے اور اس عرصہ میں کھیتوں کا پانی ٹوٹ جاتا ہے.یا نہر کے پانی کی باری ہوتی ہے آدمی اُٹھ نہیں سکتا اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زمین کے کچھ حصہ کو سو کا آ جاتا ہے.اسی طرح ہزاروں مواقع ایسے آتے ہیں جہاں انسان سے غفلتیں ہو جاتی ہیں.تاہم ایک طرف انسان کی کوشش ہے.دوسری طرف اس کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ---- ۵۹۰ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب کمزوری ہے یہ دونوں ساتھ ساتھ بلکہ متوازی چل رہی ہوتی ہیں.خدائے رحیم اپنی رحیمیت کی صفت کے ماتحت انسانی کوششوں میں کمزوریوں کو دُور کرتا ، انسان کی کوششوں کو ضائع ہونے سے بچاتا اور کچی کوشش اور محنت کا پھل دیتا ہے.احسان کی چوتھی صفت صفت مالکیت یوم الدین ہے.صفت رحیمیت دُعا اور عبادت کے ذریعہ کامیابی کا استحقاق پیدا کرتی ہے.جس طرح بی اے کا ایک نوجوان طالبعلم بڑی محنت کرتا ہے اور بڑے اچھے پرچے کرتا ہے.نتیجتاً وہ فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہو جاتا ہے.بظاہر وہ کامیاب تو ہو گیا لیکن اس معنی میں وہ کامیاب نہیں ہوا کہ اس کو نوکری بھی مل گئی.اس کو یہ کہہ دیا گیا کہ تم اس قابل ہو گئے ہو کہ جہاں ایک اچھے گریجوایٹ کو لگایا جاتا ہے.وہاں تمہیں بھی لگایا جا سکتا ہے اور بس لیکن دُنیا کی بادشاہتیں جس چیز کو نظر انداز کر دیتی ہیں ہمارا مالک خدا اپنی صفت مالکیت کے نتیجہ میں اس کا ثمرہ بھی عطا کرتا ہے.ہمارا رب انسان کو صرف یہی نہیں کہتا کہ اے میرے بندے تو میری رضا کی جنت کا مستحق وگیا.بلکہ وہ یہ بھی کہتا ہے ادْخُلِی جَنَّتِي ( الفجر : ۳۱) آ اور میری جنت میں داخل ہو جا کیونکہ میں مالک ہوں.یہ اللہ تعالیٰ کی وہ چار بنیادی صفات ہیں جن کو اُتم الصفات اور اصل الاصول صفات کہا گیا.ہے اور قرآن کریم کی سورۃ الحمد میں بیان ہوئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ان اصل الاصول چار صفات باری کی پہلی جلوہ گاہ انسان کامل کے دل کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکی.ان صفات کی پہلی جلوہ گاہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ہے.آپ کے دل پر ان صفات کا جلوہ نازل ہوا.پس حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن کریم نے یہ اعلان کیا کہ آپ ان چار ام الصفات کے مظہر اتم ہیں.مثلاً قرآن کریم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ربّ العالمین ہے.قرآن کریم نے یہ بھی کہا کہ محبوب خدا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں.چنانچہ سورۃ انبیاء میں فرمایا وَ ما ارسلنكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : ١٠٨) - گویا صفت ربوبیت کے مظہر اتم ہونے کا جلوہ رحمتہ للعالمین کی شکل میں ظاہر ہوا.آپ سے پہلے جتنے انبیاء گذرے ہیں وہ رحمت تو تھے لیکن رحمتہ للعالمین نہیں تھے.ربوبیت کے مظہر تو تھے لیکن
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۹۱ ۱۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب ربوبیت کاملہ کے مظہر نہیں تھے.حضرت موسیٰ آئے تو انہوں نے فرمایا کہ صرف بنی اسرائیل کی اصلاح اور ترقی میرے مد نظر ہے.مجھے کسی اور قوم سے کیا غرض ؟ اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کے لئے رحمت تھے.اس میں کوئی شک نہیں لیکن عالمین کے لئے رحمت نہیں تھے.خدا تعالیٰ کی ربوبیت کے مظہر تو تھے لیکن ربّ العالمین کی صفت کے مظہر نہیں تھے.رب العالمین کی ربوبیت کا ملہ کا کامل مظہر وہ دل تھا جس پر ربّ العالمین کا جلوہ نازل ہوا اور اس نے اس پاک وجود کو رحمتہ للعالمین بنادیا.آپ کا دل بنی نوع انسان کے لئے گداز ہوا.آپ کا سا را ماحول عرب تھا لیکن آپ کا دل ہے کہ رحمتہ للعالمین کی موجوں سے لبریز تھا.آپ نے جزیرہ نمائے عرب سے یہ اعلان کیا کہ کالے اور سفید میں کوئی فرق نہیں.سرخ اور سفید میں کوئی فرق نہیں.عرب اور عجم میں کوئی فرق نہیں ہے.یہ جذبہ اور یہ انسانی قدرو منزلت رحمۃ للعالمین کا نتیجہ ہے.یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام ( جو اپنی اپنی قوموں اور زمانوں کے لئے رحمت تھے ) ان کا نہ یہ جذبہ ہے اور نہ اُن کے بس کی یہ بات ہے.پس خدا نے فرمایا.میں رب العالمین ہوں اور خدا نے فرمایا کہ میرا محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات کو لیں تو وہ ساری دنیا پر محیط ہیں.آپ کی ہدایت اور تبلیغ کو سامنے رکھیں تو وہ ساری دنیا پر مند ہیں.گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کو قیامت تک کے لئے فیض رسانی کا ذریعہ بنا دیا.یہ چیز تھی جو آپ لائے.آپ ساری دنیا کے لئے نبی اور آپ سارے زمانوں کے لئے ہیں.نہ پہلے انبیاء کی مکانی وسعت ساری دنیا تھی اور زمانی وسعت قیامت تک کا زمانہ تھا.رحمانیت کو لیں.یعنی بغیر اجر دینے والا تو اس میں بھی آپ کی ذات اسوہ کا رنگ رکھتی ہے.رحمانیت کے جلوے مجاہدہ کے محتاج نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ نے ہمارے فائدہ کے لئے سورج بنایا.ہم نے کب سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھانے کی خاطر کوئی مجاہدہ کیا تھا.یا کوئی نمازیں پڑھی تھیں.یا کوئی قربانیاں دیں تھیں.یا کوئی خدمت خلق کی تھی.ہماری پیدائش سے ہی نہیں بلکہ آدم کی پیدائش سے بھی پہلے اس کا رخانہ عالم کی ہر چیز کو انسان کی خدمت پر لگا دیا.اسی طرح بے شمار چیزیں صفت رحمانیت کی مظہر ہیں.اس کے لئے انسان کو کچھ کرنا نہیں پڑتا.اللہ تعالی کی یہ صفت خود بخود جوش میں آتی ہے اور جانداروں کے لئے وہ کسی عمل کے بغیر نعماء اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۹۲ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب فیوض کے چشمے جاری کر دیتا ہے.پس خدا کی دوسری بنیادی صفت رحمانیت ہے.یعنی بغیر کسی عمل کے فیض پہنچانا اور نفع پہنچانا اور نعمتوں سے مالا مال کر دینا.چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے مظہر اتم ہیں اس لئے آپ نے اپنی صفت رحمۃ للعالمین کی رُو سے سب اقوام اور قیامت تک کی نسلوں سے کہا مَا اسْتَلُكُمُ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ (الفرقان : ۵۸) میں تمہارے پاس جو ہدایت لایا ہوں اس پر میں تم سے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتا.میں تمہارے کسی عمل کے نتیجہ میں تمہیں یہ کامل شریعت نہیں دینا چاہتا بلکہ اس خداداد محبت کے نتیجہ میں دینا چاہتا ہوں جو میرے دل میں تمہارے لئے موجزن ہے.پس اس سے ظاہر ہوا کہ آپ کے فیوض و برکات کا کوئی بدل اور اجر نہیں ہے اور آپ رحمانیت کے بھی مظہر اتم ہیں.خدا کی تیسری صفت صفت رحیمیت ہے.آپ صفت رحیمیت کے بھی مظہر اتم ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (الاحزاب: ۴۴) یعنی مومنین کے لئے آپ کی ذات بحیثیت رحیم کے ہے.مال کو ضائع ہونے سے بچانا.نیکیوں کا اجر دینا، یہ صفت رحیمیت باری تعالیٰ میں اصل ہے.اس کے مقابلہ میں فرمایا کہ محمد بھی تمام بنی نوع انسان کے لئے رحیم ہیں.جو شخص خدا کی آواز پر لبیک کہتا ہوا ( خواہ وہ کسی زمانے یا کسی ملک یا کسی قوم کا فرد ہو ) حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آجائے گا اور آپ کی اتباع کرے گا اور آپ کی ہدایت اور شریعت کا جوا اپنی گردن پر رکھے گا.اس کا عمل ضائع نہیں ہو گا.اس کا اُسے ثمرہ مل جائے گا.یا کم از کم اس کے ثمرہ کا استحقاق ضرور پیدا ہو جائے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.آپ کے صحابہ نے جو محنتیں اسلام کے لئے کیں اور ان خدمات میں جو تکالیف اٹھا ئیں وہ ضائع نہیں ہوئیں.بلکہ اُن کا اجر دیا گیا.“ (الحکم، اراگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۰) گویا آپ کی دعاؤں کے نتیجہ میں اور آپ کی قوت قدسیہ کے ذریعہ ثمرہ کا استحقاق پیدا ہو جائے گا.خدا تعالیٰ کی چوتھی صفت مالک یوم الدین ہے اور یہ بھی اتم الصفات میں سے ہے.اس کے متعلق بھی قرآن کریم نے دعویٰ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مالکیت یوم الدین کے کامل اور اتم مظہر ہیں.چنانچہ قرآن کریم کی کئی آیات میں اس کا ذکر ہے.اس وقت میں ایک آیت
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۹۳ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب پڑھوں گا.قرآن کریم نے کہا.إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا (الفتح :۲) اور اس فتح مبین اور ت عظیم کی ایک بڑی زبر دست تجلی فتح مکہ کے موقع پر ظاہر ہوئی.اس دن ایک مالک اور قادر کی حیثیت سے ( اللہ تعالیٰ کے مظہر ہونے کی حیثیت سے اس میں کوئی شک نہیں ) آپ مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے.عدل کرنے کے لئے بلکہ مالکیت کا جلوہ دکھانے کے لئے مکہ کی سرزمین میں قدم رکھا.وہ لوگ جنہوں نے مکی زندگی کے تیرہ سال آپ کو اور آپ کے متبعین کو انتہائی تکالیف اور دکھ پہنچائے تھے اُن سے کہا بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟ انہوں نے کہا ہم آپ سے اسی سلوک کی توقع رکھتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.اس وقت تک اہل مکہ یہ سمجھ چکے تھے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کے بھی مظہر اتم ہیں.چنانچہ اس فتح عظیم کے دن جب کہ اہلِ مکہ کی قسمتوں کا فیصلہ ہو چکا تھا.آپ نے ان سے فرمایا کہ جاؤ تمہیں معاف کیا اور معاف بھی کیا تو اس رنگ میں کیا کہ کہا میں تمہارے پاس نہیں ٹھہرتا کیونکہ اس سے میری اس صفت میں فرق آتا ہے.آپ اور آپ کے صحابہ کی جائیدادیں آپ کے وہ مکانات اور حویلیاں جو مکہ اور اس کے گردو نواح میں چھوڑی تھیں وہ آپ نے واپس نہیں لیں.آپ نے فرمایا میں خدا کا پیغام لے کر تمہاری طرف آیا تھا.تم نے مجھے قبول نہیں کیا اور تم نے ہماری جائیدادوں پر قبضہ کر لیا اور ہمیں مکہ سے باہر نکال دیا.اب میں خدا کی صفت مالکیت کا مظہر اتم ہونے کی حیثیت میں تمہارے پاس آیا ہوں.یہ جائیدادیں یہ مال و متاع یہ کوٹھیاں یہ حویلیاں سب تمہیں دیتا ہوں.یعنی مالک ہونے کے لحاظ سے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ کسی چیز کا بھی تم سے بدلہ نہیں لیا جائے گا.جاؤ خدا کی فوج میں داخل ہو جاؤ اور خدا کی نعمتوں پر شکر بجالاؤ.پس قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاروں ام الصفات کے کامل اور اتم طور پر مظہر ہیں.یہ چاروں صفات وہ ہیں جس کا بیان ہمیں سورۃ فاتحہ میں نظر آتا ہے.ایک حدیث بھی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے لوائے حمد عطا کیا گیا ہے اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ آپ ان صفات باری کے مظہر اتم تھے جو بنیادی طور پر سورہ حمد میں پائی جاتی ہیں.اُن کا آپ کو جھنڈ ا عطا کیا گیا ہے.میں نے وقت کی مناسبت سے چھوٹی چھوٹی مثالیں دی ہیں.قرآن کریم نے سورہ حمد میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۹۴ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب اللہ تعالیٰ کی چار بنیادی صفات بیان کی ہیں.جنہیں ائم الصفات یا اصل الاصول کہہ سکتے ہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری صفات کے مظہر اتم ہیں.تمہیں ہر صفت کے متعلق تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں.میری بنیادی صفات ہیں اُن کے آپ مظہر اتم ہیں.تم دیکھ لو.آپ رحمتہ للعالمین ہیں.آپ کی زندگی میں رحمانیت کے جلوے نظر آتے ہیں.آپ کی زندگی میں رحیمیت اور مالکیت کے جلوے کامل طور پر نظر آتے ہیں ایسے جلوے نہ کسی نے پہلے دکھائے اور نہ کوئی آئندہ دکھا سکتا ہے.کیونکہ نہ پہلوں کو وہ استعدا د ملی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی اور نہ بعد میں آنے والوں کو مل سکتی ہے.یہ نکتہ اور یہ مسئلہ بڑا اہم ہے کہ گو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان صفات کا مظہر اتم بنایا گیا مگر خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بُت بنالو اور ان کی پوجا کرنے لگو.بلکہ خدا نے یہ فرمایا کہ میر احمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے اتنے قریب آ گیا ہے کہ کوئی طاقت اتنی قریب نہیں آسکتی یہ صرف صرف میرے محمد کو حاصل ہوا ہے اس نے انسانی طاقتوں کے لحاظ سے جتنا قرب حاصل کیا جا سکتا تھا اُس نے اتنا قرب حاصل کر لیا ہے.اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہیں.ہم بھی اپنی اپنی طاقت کے مطابق قرب الہی حاصل کر سکتے ہیں.غرض پہلی بات یہ تھی کہ اپنی قوتوں کی نشو و نما کو کمال تک پہنچاؤ.اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو مد نظر رکھو.دوسرے یہ کہ انسان کو تمام قو تیں اور طاقتیں صفات باری تعالیٰ کا مظہر بننے کے لئے دی گئی ہیں.تیسرے یہ کہ انسان کے صفات باری کا مظہر بننے کی علامت یہ ہے کہ اس کے وجود میں بھی حسن واحسان کے جلوے نظر آنے لگیں.کیونکہ خود صفات باری میں بھی ایک جلوہ حسن کا اور دوسرا احسان کا نظر آتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی ایک جلوہ حسن کا اور دوسرا احسان کا نظر آتا ہے.جس طرح خدا نور ہے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نو رکہا گیا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے مظہر اتم ہونے کے لحاظ سے اور لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک (موضوعات کبیر حرف اللام) کے بلند ترین شرف سے مشرف ہونے کی وجہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۹۵ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب سے اس سارے جہان کا نور ہیں.آپ خالق اور مخلوق کے درمیان ایک ذریعہ بن گئے ہیں.اسوۂ نبوی کا تیسرا بنیادی نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات اور اُن کے مظہر اتم کی صفات کے جلوؤں میں ایک پہلو حسن کا ہے اور دوسرا احسان کا ہے.اس لئے تمہارے اندر بھی اپنے اپنے دائرہ استعداد کے لحاظ سے حسن و احسان کے جلوے ظاہر ہونے چاہئیں اور اس غرض سے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.قرآن کریم نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور فرمانبرداری کا حکم دیا ہے اور ہم سے اِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (ال عمران :۳۲) کی رُو سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے جو اسوہ حسنہ رکھا ہے اپنے دائرہ استعداد میں اس کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اندر صفات باری کے مظہر بنیں گے اور دُنیا کو حسن و احسان کے جلوے دکھائیں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کر لیں گے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.آپ کے نقش قدم پر چلنا (انسان کو خدا کا محبوب بنادیتا ہے ).جب ایک انسان بچے دل سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اور آپ کی تمام عظمت اور بزرگی کو مان کو پورے صدق وصفا اور محبت اور اطاعت سے آپ کی پیروی کرتا ہے یہاں تک کہ کامل اطاعت کی وجہ فنا کے مقام تک پہنچ جاتا ہے.تب اس تعلق شدید کی وجہ سے جو آپ کے ساتھ ہو جاتا ہے.وہ الہی نور جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اترتا ہے.اس سے یہ شخص بھی حصہ لیتا ہے اور اس کے ہر ایک عضو میں سے محبت الہی کا نور چمک اُٹھتا ہے..تب اندرونی ظلمت بکلی دور ہو جاتی ہے.علمی رنگ سے بھی اس میں نور پیدا ہو جاتا ہے اور عملی رنگ سے بھی نور پیدا ہو جاتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۸۱) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والوں کا پہلا فرض یہی ہے کہ یہ چاروں صفتیں اپنے اندر بھی قائم کرے کیونکہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا یہی تقاضا ہے کیونکہ خدا کی ربوبیت یعنی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۹۶ ۱۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب نوع انسان اور نیز غیر انسان کا مربی بنا اور ادنیٰ سے ادنی جانور کو بھی اپنی مربیانہ سیرت سے بہرہ نہ رکھنا ایک ایسا امر ہے کہ اللہ کی کچی عبادت کرنے والا کمال محبت سے اس الہی سیرت کا پرستار بن جاتا ہے اور خود بھی اس صفت اور سیرت کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے تا اپنے محب کے رنگ میں آجائے.“ گو یا اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا مظہر بننے کا جو حکم دیا اس کو یاد دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے اندر صفت ربوبیت پیدا کریں اور اس کے نتیجہ میں انسان اور غیر انسان کے مربی بننے کی کوشش کریں.یعنی انسان تو کیا جانوروں کو بھی اپنی مربیانہ صفت سے بے بہرہ نہ رکھیں.ہمارے جماعتی پروگرام اسی نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں.دنیا دیکھتی ہے اور بڑی حیران بھی ہوتی ہے کہ ہمیں اس ملک میں اپنے آرام اور سکھ بھی عام لوگوں جتنے نصیب نہیں ہیں ہم ایک غریب قوم ہیں مگر خدا تعالیٰ کی رضا کو ہر حال میں دنیوی مرضیات پر ترجیح دیتے ہیں.ہمارا زمیندار اگر ہفتہ میں ایک دفعہ مزیدار سالن کے ساتھ روٹی کھا سکتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں وہ بھی نہیں کھاتا میں اس لذت کو کھوتا ہوں آخر وہ کیا چیز ہے جو اس جذبہ کے پیچھے کام کر رہی ہے.دنیا حیران ہے بعض دفعہ وہ ہمیں بیوقوف بھی سمجھتی ہے.کیونکہ وہ خدا اور اُس کے حُسن سے بے بہرہ ہے اور یہ امر ہمارے لئے غم اور افسوس کا باعث کہ لوگ خدا کی صفات سے کیوں غافل ہیں.پس ہمارے پروگرام بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے ہیں اور ہمیں اس کی طرف توجہ دینی چاہئے.بعض جاہل اور کم علم لوگ مجھے بھی لکھ دیتے ہیں کہ اپنے ملک میں تو کچھ نہیں کرتے اور غیر ملکوں میں توجہ دیتے ہیں.ہم تو پیدا ہی اس لئے ہوئے ہیں کہ غیروں کی خدمت کریں.اگر غیروں سے تمہاری مراد باہر کے ممالک ہیں تو وہ بھی مستثنیٰ نہیں ہو سکتے.ہمیں پیدا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ ہر وہ جگہ جس میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے جلوے نظر آتے ہیں وہاں ہم پہنچیں ! اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے جلوؤں کے ساتھ اپنی استعداد کے مطابق اپنی ربوبیت کے تھوڑے بہت جلوے بھی شامل کر دیں.پھر خدا تعالیٰ چونکہ بڑا مہربان ہے وہ کہتا ہے میرے بندوں نے سب کچھ کیا ہے حالانکہ کیا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۹۷ ۱۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب اُس نے خود ہوتا ہے لیکن وہ اپنی رحمت سے ہمارے لئے برکتوں کے سامان پیدا کر دیتا ہے.میں نے کل آپ کو بتایا تھا پندرہ مہینے میں طبی مراکز اور سکولوں کی آمد پنتالیس لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے.فالحمد للہ علی ذلک.پھر اسی آمد میں سے ہم نے خرچ کیا گو ابتدائی خرچ تو اُس پیسے میں سے ہوا تھا جو جماعت نے نصرت جہاں ریزروفنڈ میں دیا تھا لیکن بعد میں اصل سرمایہ واپس آ گیا اور آمد میں سے خرچ کیا گیا.دنیا کہتی ہے جماعت احمدیہ نے خرچ کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے.ایک ملک کے ہائی کمشنر ( مصلحتا میں ملک کا نام نہیں لوں گا ) نے کہا جس رنگ میں جماعت احمد یہ کام کر رہی ہے ہم نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ اگلے آٹھ سال میں ہمارے ملک کی ۸۰ فیصد آبادی احمدی ہو چکی ہوگی اور اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے تو اپنے بیٹے کو کہہ دیا کہ ابھی سے احمدیت میں داخل ہو جاؤ آٹھ سال کے بعد احمدی ہوئے تو کوئی مزہ نہیں ہوگا.ایک پاکستانی دوست نائیجیریا میں تھے.وہاں سے اُن کا کسی اور ملک میں تبادلہ ہوا تو وہ ایک احمدی دوست سے کہنے لگے کہ خاموشی کے ساتھ مگر نہایت تندہی کے ساتھ جماعت احمدیہ نائیجیریا میں تبلیغ اسلام کا کام کر رہی ہے.اب دیکھو وہ خود احمدی نہیں ہے لیکن اس کا تاثر یہ تھا کہ جماعت احمدیہ ترقی کر رہی ہے.تاہم جماعت احمدیہ نہ تو خاموشی سے کام کر رہی ہے اور نہ دنیا کی واہ واہ اس کے مد نظر ہے.ہم نے لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الدهر : ١٠) کی رو سے دُنیا سے یہ نہیں کہنا کہ وہ ہمارا شکر ادا کرے.پس یہ ہے ہمارا علم اور یہ ہے ہمارا لائحہ عمل.ہم دنیا سے نہ شکر گزاری کے متمنی ہیں اور نہ کسی سے کوئی بدلہ مانگتے ہیں.ہم تو خدا تعالیٰ کے بندے بن کر بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے میدانِ جہاد میں برسر پیکار ہیں.خدا نے فرمایا کہ میں جن و انس اور انسان اور غیر انسان کا رب ہوں.ہم اپنے ملک سے باہر نکلے اور ہم نے کہا کہ اپنے رب کی اس صفت کا صحیح مظاہرہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب ہم دنیا کے کونے کونے میں پہنچ کر اپنے رب سے کہیں کہ ہمیں جتنی طاقت ہے اتنے ہم پھیلے اور تیری ربوبیت کے جلوؤں میں اپنی حقیر سی کوشش ہم نے بھی شامل کر دی.اے خدا تو اپنے فضل سے ہماری حقیر کوششوں کو قبول فرما اور ان کے بہترین نتائج پیدا کر.پس یہ ہے ہمارا پروگرام اور یہ ہے ہماری کوششوں کا منتہائے مقصود.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۹۸ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب میں رحمان ہوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم سے کسی چیز کا اجر نہیں مانگتا یہ رحمانیت کے معنی اور مفہوم کا بنیادی تصور ہے.یعنی بغیر کسی عوض کے خدمت کرنا اور مخلوق خدا پر رحم کرنا.جو خدا تعالیٰ کا سچا عاشق ہے اور اس کے جلوؤں کو دیکھتا ہے اور اس کی صفات کی معرفت رکھتا ہے اور اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اس صفت سے متصف ہو اور بنی نوع انسان کی خدمت بغیر کسی اجر کے کرتا رہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.گالیاں سن کر دُعا دو اب گالی دینا کوئی خدمت تو نہیں جس کے بدلے میں کسی کو دُعا دی جائے کہ گویا کسی کی خدمت کا بدلہ اُتارا جا رہا ہے.بلکہ وہ تو خدمت کی ایک بھیانک شکل میں نفی ہے مگر گندہ دہانی کرنے والا شخص جس کی گندہ دہانی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہو وہ بھی یہ یادر کھے کہ وہ ہمارے احسان سے بچ نہیں سکتا.وہ اپنی محفلوں کو ہمیں گالیاں دے کر سجاتا ہے.ہم اپنی راتوں کو ان کے لئے دعائیں کر کے منور رکھتے ہیں.ہمارا خدا رحمان ہے.ہم چاہتے ہیں کہ اس کی صفت رحمانیت کے مظہر کے طور پر اس کے جلوؤں میں اپنی طرف سے تھوڑی سی چاشنی ملا دیں.تاکہ اس کی رحمتوں کے ہم بھی وارث بن جائیں.یہ ضروری ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو باتیں بیان فرمائی ہیں.خصوصاً اس ضمن میں وہ بڑی ضروری ہیں.کئی لوگ ایسے موقع پر غصے میں آ جاتے ہیں.ویسے تو یہ انسانی فطرت ہے.غصہ میں آنا نہ بُرا ہے اور نہ قابلِ اعتراض ہے.تاہم غصے کو نہ دبانا یہ بُری بات ہے.میں نے بتایا تھا کہ ایبٹ آباد میں ہمارے مکان بن رہے تھے.بعض لوگوں نے ان کو آگ لگا دی جس سے ہیں پچیس ہزار روپے کا نقصان ہو گیا.ہمارے بعض احمد یوں نے بڑے غصے کا اظہار کیا.میں نے اُن سے کہا تم بڑے عجیب لوگ ہو.تم یہ بنیادی بات بُھول جاتے ہو کہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے اتنا بلند مقام عطا فرمایا ہے اور اس کے اندر اتنی طاقت اور وسعت پیدا کر دی ہے کہ یہ ہیں پچیس ہزار روپے کی رقم اس کے لئے ایسی ہے جیسے ایک مضبوط جسم پر ایک مکھی آکر بیٹھ جائے.کیا وہ مضبوط جسم اس مکھی کے بوجھ تلے دب جایا کرتا ہے.نہیں ! ہر گز نہیں !! ہم ان کی ان حرکتوں کے نتیجہ میں ان کے دشمن نہیں بنتے.بلکہ ہمارے دل میں اُن کے لئے رحم کی موجیں اور زیادہ شدت اختیار کر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۵۹۹ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب جاتی ہیں کہ قرآن کریم ایک حسین تعلیم تھی یہ اس سے غفلت برتنے والے ہیں اور اس کے کمالات سے بے خبر ہیں.قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ کوئی شخص اگر تم پر احسان نہ بھی کرے تب بھی تم اس پر احسان کرو.یہ وہ لوگ ہیں جن پر ہم احسان کرتے ہیں وہ ہمیں مٹانے کے درپے ہیں.ہم ان سے جزا اور شکر کا مطالبہ نہیں کرتے مگر وہ ہمیں مٹانے کے درپے ہیں.وہ قرآن کریم کی تعلیم کو بھول جاتے ہیں.ہم ان کے لئے دعائیں کر رہے ہیں اور وہ ہمیں گالیاں دے رہے ہیں اور نقصان پہنچانے کے درپے ہیں.قرآن کریم نے ایک جگہ کہا ہے کہ یہ لوگ استہزاء کر رہے ہیں اور اے رسول ! تو ان کی ان حرکتوں پر تعجب کر رہا ہے.خدا نے ان کے لئے ایک عزت کا سامان آسمان سے بھیجا.اور وہ اپنی عزت اور شرف کے سامان کو پہچانتے ہی نہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رحیمیت ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو بھی بطور مظہر اتم کے دنیا پر ظاہر فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی نصیحت فرمائی ہے کہ اپنے اپنے دائرہ استعداد میں کمال کو پہنچانی چاہئے.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو ٹھیک کام کرنے والے ہیں ان کے کام کی تکمیل میں اُن کی مدد کر نا ضروری ہے.صفت رحمانیت کے زیادہ ظاہری جلوے وہاں عیاں ہوں گے جہاں یہ جلوہ ظاہر ہو رہا ہے.اس کا جماعت سے تعلق نہیں اور رحیمیت کا جلوہ تعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى ( المَآبِدَة :٣) کے ماتحت ظہور پذیر ہوگا.کوشش کرو کہ جو نیک کوشش میں مصروف ہے وہ اپنے مطلوب کو حاصل کرلے.یعنی اپنی زبان میں احمدیت کی زبان میں یا اسلام کی زبان میں بات کریں تو کوشش کرو کہ تمہاری نوجوان نسل جو اس لئے پیدا کی گئی ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرے ان کی تربیت درست ہو اور وہ جو کوشش کر رہے ہیں اس میں تم ان کے مددگار بنو اور ان کا ہاتھ بٹاؤ.ان کے ساتھ چلو.ان کی رہنمائی کرو اور ان سے پیار کرو اور ایسا پیار کہ اس دُنیا میں اس سے زیادہ پیارا نہیں کہیں نظر نہ آئے.وہ سمجھ جائیں اور یہ حقیقت پہچان جائیں کہ وہ کس غرض کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.یاد رکھو اپنے مطلوب کو حاصل کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے.اپنی کوشش اور اپنے بھائی کی مدد اور اس کا ساتھ دینا.اس طرح کرنے سے ہم صفت رحیمیت کے مظہر بن جائیں گے اور جماعت کو ایک بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح بنا دیں گے.اس لئے نہیں کہ اس سے میں نے یا آپ نے کوئی ذاتی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۰۰ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب فائدہ اُٹھانا ہے بلکہ اس لئے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرے اور وہ اس عظیم ہستی کی عظیم فوج کا ایک سپاہی بن جائے.جس کے ذریعہ سے دنیا کے گھر گھر میں اللہ تعالیٰ کے نور کے چراغ روشن ہوئے ہیں اور جن مکانوں کے او پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لوائے حمد لہرایا جانا ہے.پھر جماعت کو مالکیت یوم الدین کا بھی مظہر بنا ہے.ہم اس کی بھی کوشش کرتے ہیں.ساری جماعت مل کر کوشش کرتی ہے.اسے ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے.کوئی فیصلہ نفس کے جوش سے نہیں کرنا چاہئے ہر فیصلہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور اسلامی تعلیم کے مطابق ہونا چاہئے اور اس فیصلہ سے فضائی فیصلہ مراد نہیں ہے.اس فیصلہ سے ثالثی فیصلہ مراد نہیں ہے.بلکہ ہر کام کے کرنے سے پہلے جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہ فیصلہ مراد ہے.صبح سے لے کر شام تک آپ کا جو وقت گذرتا ہے.اس میں آپ اس قسم کے سینکڑوں فیصلے کرتے ہیں.مثلاً آپ نے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے.ان میں سے ہر ایک سے بوجہ طبیعتوں کے اختلاف کے علیحدہ علیحدہ سلوک کرنا ہے.آپ نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اگر مثلاً کسی کی بیوی غفلت کر جائے تو غصہ میں نہیں آنا.پچھلے دنوں مجھے بڑا دکھ پہنچا جماعت کے ایک کارکن کی بیوی آپا مریم صدیقہ اور منصورہ بیگم کے پاس آئی اور بتایا کہ اُس کے خاوند نے اسے اتنی بے رحمی سے مارا ہے کہ اس کا سارا جسم نیلا ہوا ہوا ہے.تم خدا کی طرف اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور اس کے محبوب مہدی کی طرف منسوب ہوتے ہو.تمہارے کان میں تو یہ آواز پڑ رہی ہے کہ مالکیت یوم الدین کی صفت کے مظہر ہولیکن اپنے نفس کے جوش سے ظلم اور وحشت کا مظاہرہ کرتے ہو.احباب جماعت ایسے لوگوں کے لئے دُعا بھی کریں.پس مالکیت یوم الدین کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ نفس کے سارے جوش ٹھنڈے ہو جائیں.سوچو اور غور کرو.بعض دفعہ جوش آ بھی جاتا ہے.اس قسم کی کیفیت فطرتی لازمہ ہے.مثلاً کہیں جلسہ ہو رہا ہے.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جارہی ہیں.ایک وقت میں غیر ملکوں میں اسلام کے خلاف سخت گندے اعتراض کر دیئے جاتے تھے.دنیا کے ایک حصے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی گئی اور گندہ اعتراض کیا گیا اور دنیا کے دوسرے حصہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی معہود علیہ السلام کو گالیاں دی گئیں اور گندے اعتراضات کر دیئے گئے.جہاں بھی یہ اعتراض ہو وہاں ہمارے نفس جوش میں نہیں آنے چاہئیں.خدا تعالیٰ کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۰۱ ۱۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب ایک بندے کی روح میں وہ رد عمل پیدا ہونا چاہئے کہ خود خدا کہے کہ میرا بندہ میرا محبوب ہے یہ غلط قدم نہیں اٹھاتا.گالیوں میں گالیاں ملا کر گند اور عفونت کی آواز کو ہم نے بلند نہیں کرنا بلکہ گالیوں کے گندے شعلوں کو اپنے آنسوؤں اور دعاؤں سے بجھانے کی کوشش کرنی ہے.اس کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.یہی ہماری زندگی ہے.یہی ہماری روح ہے اور یہی ہمارا شعار ہے.اس کے بغیر تو کوئی زندگی نہیں ہے.اگر ہم نے قرآن کریم کو چھوڑ دینا ہے.اگر ہم نے اس سے کوئی پیار نہیں کرنا.اگر ہمارے دل میں مہدی معہود کے لئے کوئی پیار نہیں تو کیا کرنا ہے زندہ رہ کر.اگر خدا سے دور ہی رہنا ہے تو پھر زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہے.مزہ تو اس میں ہے کہ خدا کہے کہ تکلیفیں برداشت کرو.ہم ان تکلیفوں کو برداشت کریں اور ہمیں پتہ یہ لگے کہ ان میں خدا نے ہمارے لئے سرور پیدا کر دیا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا کہ جن لوگوں کو آپ خدا کے پیارے اور محبوب کہتے ہیں اُن پر دُکھ کیوں آتے ہیں ان پر ابتلاء کیوں نازل ہوتے ہیں.آپ چونکہ خود صاحب تجربہ تھے آپ نے مسکرا کر دیکھا اور فرمایا تم ان سے جا کر پوچھوان ابتلاؤں اور امتحانوں کو (جو دشمن کی نگاہ میں دُکھ اور تکلیف کا موجب ہیں ) دکھ اور تکلیف سمجھتے ہیں یا ان میں نہایت لذت اور سرور پاتے ہیں.جب وہ اسے تکلیف ہی محسوس نہیں کرتے تو تم اسے تکلیف کیوں کہتے ہو.پس یہ خدا کی چار صفات ہیں جو اصول کے طور پر سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ ان چار صفات کا مظہر بنے اور اپنی زندگیوں پر ان کا رنگ چڑھائے.اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک عملی نمونہ پیش کرنے کے لئے اپنے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خلق کیا اُن کی اُنگلی پکڑی.ان کا ساتھی اور دوست بنا.ان سے پیار کرنے والا بنا.اُن کو اپنا محبوب بنایا.خود ان کا محبوب بھی بنا اور اس طرح گویا ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ اس عالمین کی یا ان افلاک کی جو غرض تخلیقی تھی وہ پوری ہو جائے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے اپنا عمدہ نمونہ پیش کیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا مظہر بنانے کے لئے تمہارے سامنے جو نمونہ رکھا ہے.اس میں کوئی خامی کوئی کمزوری اور کوئی نقص نہیں ہے.جو صفات باری کا مظہر اتم اور مظہر اکمل ہے اور وہ ایک کامل اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۰۲ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب مکمل اسوۂ حسنہ بن کر تمہارے سامنے آیا.اس اسوۂ حسنہ کے مطابق جو تمہیں قومی دیئے گئے.تعبد ابدی کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے ان کی نشو و نما کو کمال تک پہنچاؤ.خدا تعالیٰ کی صفات کے حسن و احسان کے جو جلوے خدا کی صفات اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات میں نظر آتے ہیں وہ حسن و احسان کے جلوے تمہاری زندگیوں میں بھی نظر آئیں.تم رب بھی بنو خدا کے فضل اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے اپنے اپنے دائرہ استعداد کے اندر اندر اور اس طرح رحمان بھی بنور حیم بھی بنو اور مالک یوم الدین بھی بنو اور خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے جو دائرہ مقر ر کیا ہے اس کے اندر رہو گے تو میری رضا کی جنتوں میں میری رضا کے ماحول میں رہو گے.باہر نکلو گے تو جہنم میں جا پڑو گے.اس لئے باہر نہ نکلنا.اپنے اپنے دائرہ میں اپنی زندگی گزارو.آپ کے سارے پروگرام، آپ کے سارے کام اور سارے فیصلے اور ساری تمنائیں اور دعائیں اور آپ کی زندگی کے سارے پہلو اسی حقیقت کے غماز ہونے چاہئیں حتی کہ آپ کے آخری لمحات میں بھی یہ حقیقت نظر انداز نہیں ہونی چاہئے جب کہ انسان موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہوتا ہے اور خدائے رحمان سے کہتا ہے یا خدائے رحیم سے کہتا ہے کہ اے خدا اس قسم کی ہزاروں موتیں بھی آئیں تیری رحمت اور تیرے فضل اور تیرے پیار کے مقابلہ میں یہ موتیں ہمیں کیسے ڈرا سکتی ہیں موت ہمارا منتہا نہیں.تیری رضا ہمارا منتہائے مقصود ہے اور تیرے فضل اور رحم پر منحصر ہے.اب اس کے بعد میں دعا کروں گا.کچھ زبانی دعائیہ کلمات کہوں گا اور پھر ہم اجتماعی طور پر دعا کریں گے.سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک بڑا ہی مظلوم ہے.پاکستانی قوم یا اس کے شہری بڑے ہی مظلوم ہیں اور اس بات کی سب سے بڑی دلیل پچھلے ڈیڑھ دو سال کا زمانہ ہے.اس عرصہ میں فساد پیدا کرنے والوں نے فساد پیدا کیا.مجھ سے جو بھی سیاستدان ملنے آتے تھے ان سے میں یہی کہا کرتا تھا کہ مجھے تو یہ نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کو اس کی حقیقی ماں نہیں ملی.کہتے ہیں ایک قاضی کے پاس ایک مقدمہ گیا.ایک چھوٹا بچہ سال دو سال کا تھا.اس کی ماں ہونے کی دعویدار دو عورتیں تھیں.ایک کہتی تھی میں اس کی ماں ہوں دوسری کہتی تھی میں اس کی ماں ہوں.یہ بچہ مجھے دو اور دونوں کے پاس بڑی مضبوط گواہیاں تھیں.بیچارہ قاضی بڑا پریشان تھا.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۰۳ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب آخر خدا نے اس کے دماغ میں روشنی ڈالی.اس نے ان عورتوں سے کہا دیکھو ! تم دونوں اس بچے کی ماں ہونے کی دعویدار ہوا اور گواہیاں ایک جیسی پختہ اور مضبوط ہیں اس لئے میرے لئے تو اب ایک ہی راہ ہے میں آدمی منگواتا ہوں بچے کو دوحصوں میں کاٹ دیتا ہوں.ایک حصہ ایک عورت لے جائے اور دوسرا حصہ دوسری عورت.اس پر اس بچے کی حقیقی ماں بولی کہ میں اس بچے کی مال نہیں ہوں.اس کو سالم رہنے دو اور دوسری عورت کو دے دو.پس پاکستان کو اب تک حقیقی ماں نہیں ملی ، آری چل گئی.ملک دوحصوں میں تقسیم ہو گیا.پھر بھی کسی کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہ ہوا.یہاں الیکشن ہوئے اور وہ بھی بڑی دیر کے بعد.ان الیکشنوں کے دوران غلط باتیں بھی ہوئی ہوں گی.اس سے انکار نہیں لیکن بحیثیت مجموعی جہاں تک ہمیں علم ہے ایسی دھاندلیاں نہیں ہوئیں جو سارے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا جواز پیدا کرتی ہوں.جب الیکشن ہوئے تو کچھ سیاسی پارٹیوں کو زیادہ نمائندگی ملی اور کچھ کو کم ملی.جب ملک بٹ گیا تو پھر مزید حالات خراب ہو گئے.قتل و غارت ہوا.ہماری قوم نے دُکھ اُٹھایا یہاں بھی کہنے کو جنگ ہوئی بھی اور عملاً جنگ نہیں بھی ہوئی.اس تفصیل میں کیا جاؤں بڑی دُکھ دہ کہانی ہے اور پھر ایسے حالات پیدا ہوئے کہ اس حصہ ملک میں جس پارٹی کی اکثریت تھی اس کوحکومت مل گئی اور اس حصہ ملک یعنی مشرقی پاکستان میں جو پارٹی اکثریت میں تھی اس کو حکومت مل گئی.اب جبکہ جمہوری طریقے پر نمائندگی ملی تھی تو جمہوریت کا تقاضا ہے کہ پانچ سات سال کے بعد جب دوبارہ انتخاب ہوگا تو جمہوری طریقے پر ووٹ لینے کی کوشش کی جائے اور اس طرح جس پارٹی کو اکثریت مل جائے وہ حکومت کرے مگر نہیں.جمہوریت کا نام لے کر غیر جمہوری اور کند چھری سے جمہوریت کی گردن کاٹنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے.یہاں تک کہ کسی نے یہ نعرہ لگا دیا کہ گزشتہ عام انتخابات ہی ٹھیک نہیں تھے.اگر اس طرح نعرہ لگانے سے صحیح انتخابات بھی غلط ہو جاتے ہیں اور ٹھیک انتخابات بھی ٹھیک نہیں رہتے تو پھر جو اگلا انتخاب ہوگا.اس کے خلاف بھی یہی نعرے لگیں گے پھر تو یہ نعرے قیامت تک لگتے چلے جائیں گے اور ہماری مظلوم قوم دُکھ اٹھاتی رہے گی.اس لئے بہتر صورت یہ ہے کہ لوگ چار پانچ سال تک انتظار کریں موجودہ حکومت کو کام کرنے کا موقع دیں.پھر جب اگلا انتخاب آئے تو پھر جمہوری طریقے پر انتخاب لڑیں مگر اب حالت یہ ہے کہ لوگ موجودہ حکومت کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۰۴ ۱۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب خلاف گلیوں میں نکل آئے ہیں.یہ آگ لگانے کی کوشش ہورہی ہے قتل وغارت کا بازار گرم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے.جمہوریت کے ایک غلط معنی بھی اپنا لئے گئے کہ جمہوریت میں دس آدمیوں کو تو یہ اجازت ملنی چاہئے کہ وہ دوسرے دس آدمیوں کی دکانوں کو آگ لگا دیں مگر دوسرے دس آدمیوں کو یہ اجازت نہیں ملنی چاہئے کہ آگ لگانے والوں کے ہاتھ پکڑ لیں یا اُن کو سرزنش کر سکیں.اب ساری کوشش یہ ہے کہ مسائل کو آپس میں خلط ملط کر دیا جائے اور ملک کو کسی قسم کا فائدہ نہ پہنچ سکے.چند مہینے یا چند سال کی حکومت ہے.تم حکومت سے ہزار اختلاف کر سکتے ہو اُن کا برملا اظہار بھی کر سکتے ہو.جمہوریت میں تمہیں اظہار خیال سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن تم ان کو کام کرنے کا موقع تو دو.اگر تمہارے نزدیک ایک سال کے اندرہی ان کی ناکامیاں ظاہر ہوگئی ہیں تو چار سال تک انتظار کرو.اگر تمہاری بات درست ہے تو ان کو ایک ووٹ بھی نہیں ملے گا.پھر تو تمہیں ووٹ زیادہ مل جائیں گے.تم حکومت بنالینا لیکن صبر کے ساتھ اور تحمل کے ساتھ کسی کو کچھ عرصہ کام کرنے کا تو موقع دو.جیسا کہ پچھلے جلسہ سالانہ پر بھی میں نے بتایا تھا ہم پر یہ اعتراض کر دیا کہ احمدی بڑے بیوقوف ہیں.کسی نے کہا بڑے دھوکہ باز ہیں.کسی نے کہا ملک کے بڑے غدار ہیں.اسلام کا نام لیتے ہیں اور دہریوں اور سوشلسٹوں کو ووٹ دیتے ہیں.میں نے اس اعتراض کا جواب دے دیا تھا.جواب تو میں نے دے دیا تھا.ان کا منہ بند کرنے کے لئے.میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر تمہاری یہ بات سچ ہے کہ ہماری وجہ سے پیپلز پارٹی کو زیادہ ووٹ ملے اور ان کی حکومت قائم ہونے کا امکان پیدا ہوا ہے تو تم صبر سے کام لو.ہم میں اتنی طاقت ہے کہ ہم ان کو کمیونسٹ بھی نہیں بنے دیں گے.خیر یہ تو ایک ایسا جواب تھا جو ان کے منہ بند کرنے کے لئے میں نے دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی اپنی تقدیر چلتی ہے.مدتوں کی غلط باتیں تو فوراً صحیح نہیں ہو جاتیں.ابھی پچھلے دنوں پیپلز پارٹی کا جو کنونشن ہوا ہے.اس میں بھٹو صاحب نے بڑی وضاحت سے کہا ہے کہ میں نے کبھی بھی کسی سے کمیونزم کا وعدہ نہیں کیا تھا.کوئی شخص کھڑا ہو جائے اور بتائے کہ میں نے ایسا وعدہ کیا تھا مگر کسی کو بولنے کی جرات نہ ہوئی.پھر جیسا کہ میں نے کل بھی بتایا تھا.اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تھا.اسلامی سوشلزم ہے کیا ؟ کچھ لوگوں کو اس کا کچھ پتہ ہے اور کچھ کو اس کا کچھ بھی پتہ نہیں ہے لیکن نیت درست ہے.کمیونزم کا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب نعرہ تو نہیں لگایا گیا.اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا گیا ہے.ہمارا یہ دعویٰ ہے اور ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا یہ دعویٰ درست ہے کہ قرآن کریم کا نیا علم اس زمانہ سے تعلق رکھنے والا علم او اس زمانہ کے مسائل کو سلجھانے والا علم حضرت مسیح موعود مہدی معہود کے ذریعہ ہم نے حاصل کیا ہے.اس لئے ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اسلامی سوشلزم کے متعلق رہنمائی کرنا یہ ہمارا کام ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کتابیں بھی لکھیں.لیکچر بھی دیئے.اپنی تفسیر کبیر میں بہت سی آیات قرآنیہ کی تفسیر بڑی وضاحت اور تفصیل سے بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ اسلامی سوشلزم کا کیا مطلب ہے.اسلام ہر انسان کے جو حقوق قائم کرتا ہے اور ان کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہے وہ کون سے حقوق ہیں.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کی کمال نشو و نما کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی کی رضا کو حاصل کرے.دنیا کے آرام ، دنیا کی سہولتیں، طاقت کو قائم رکھنے کے لئے غذا کا ہونا.حوادث زمانہ سے بچنے کے لئے حفاظتی سامان، رہنے کے لئے مکان کا ہونا تعلیمی سہولتیں میتر آنا.یہ ساری ضمنی چیزیں ہیں البتہ روحانی ترقیات میں ممد و معاون ہیں.اس سے ہمیں انکار نہیں.اس لئے یہ چیز میں بھی ہمیں ملنی چاہئیں.خود اسلام یہ کہتا ہے کہ یہ چیزیں ملنی چاہئیں اسلام کہتا ہے کہ ہم نے انسان کے حق کو قائم کیا ہے.ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ دنیا میں جب تک ایک شخص بھی ایسا ہے کہ ہمارے قائم کردہ حقوق اس کو نہیں ملے.وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کر کے سٹرائیکس کی خاطر باہر گلیوں میں آئے یا شرافت کے ساتھ اپنے گھروں میں بیٹھا رہے.اس کو اس کا حق ملنا چاہئے اور اگر نہیں ملتا تو دنیا میں کوئی غاصب اور ظالم امیر آدمی ہے جس نے اس کے حصہ کی دولت بھی اپنے گھر میں سمیٹ رکھی ہے.قرآن کریم نے یہ فرمایا ہے بعض دفعہ امیر آدمی ناراض ہو جاتے ہیں.ہم تمہاری ناراضگی کی پرواہ کریں یا اپنے رب کی ناراضگی کی پرواہ کریں.جو حقوق خدا تعالیٰ نے قائم کئے ہیں.شرف انسانی کے متعلق اور انسان کی قوتوں کی صحیح اور کامل نشو ونما کے لئے وہ حقوق تو خدا نے قائم کئے ہیں.میرا یا آپ کا یا کسی اور کا یہ کام نہیں ہے کہ ان حقوق کو کالعدم قرار دے دیں.یہ انسان کا بنایا ہوا کوئی قانون نہیں ہے کہ جیسے ایک حکومت بناتی ہے اور دوسری آ کر بدل دیتی ہے.ایک حکومت آج ایک قانون بناتی ہے اور ایک مہینے کے بعد کہتی ہے غلطی ہو گئی اس لئے وہ قانون بدل دیتی ہے.اسے تو خدائے علام الغیوب نے اپنی کامل
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۰۶ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب حکمتوں کے ساتھ ابدی صداقت اور ہدایت کے رنگ میں قرآن کریم میں شامل کر کے رحمۃ للعالمین کو الہام کر کے دنیا میں قائم کیا ہے.یہ تو قائم ہو گا.اب زمانہ آ گیا ہے کہ یہ قائم ہو.جہاں تک کمیونزم پہنچا یا جہاں تک چین کا سوشلزم پہنچا اسلام اس سے کہیں آگے نکل چکا ہے.میں نے کئی سیاست دانوں سے جو بائیں طرف ( یعنی کمیونزم کی طرف جھکے ہوئے تھے کہا ہے کہ ایک مظلوم آدمی نے ایک مزدور نے ، ایک غریب آدمی نے تمہارا کیا قصور کیا ہے کہ تم باہر نکلے اور سٹیج پر جا کر تم نے یہ تقریر میں شروع کر دی ہیں کہ تمہاراحق تو سو پیسوں کا ہے لیکن تم پچاس پیسوں پر راضی ہو جاؤ.قرآن اُسے سو پیسے دیتا ہے لیکن تم کہتے ہو ہم لیفٹسٹ (Leftist) تمہارے لئے پچاس پیسوں کا انتظام کریں گے.یہ بات تو ٹھیک نہیں ہے.کئی ایک کو یہ بات سمجھ آگئی اور کئی ایک کو مجھ نہیں بھی آتی ہوگی.تا ہم ہمارا کام اُن کو بتادینا ہے.میں کہہ یہ رہا ہوں کہ ہمارا ملک جب سے بنا ہے مظلوم ہی چلا آ رہا ہے.پچھلے دو سال میں تو ظلم کی انتہا ہوگئی ہے.بڑا دکھ ہوتا ہے.میں بلا مبالغہ یہ کہتا ہوں کہ کئی راتیں تو میں سونہیں سکا کتنی سجیں ایسی آئی ہیں کہ جنہوں نے مجھے سارا دن پریشان رکھا.اسی جلسہ سالانہ سے پہلے مجھے خیال آیا کہ کیا ظلم ہو رہا ہے اس قوم پر کسی کو آرام سے کام ہی نہیں کرنے دیتے.دنیا میں اختلاف ہوا کرتے ہیں.بھائی بھائی میں اختلاف ہو جایا کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوا کرتا کہ بھائی بھائی کی گردن اُڑا دے.پس میں احباب جماعت سے کہتا ہوں کہ تم پیار سے ، عقل سے ، دلائل سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرو.اگر تم ایسا کرو گے تو کوئی آدمی نہیں جو تمہاری بات نہ مانے.تمہاری بات اس لئے کوئی نہیں سنتا کہ انسانی فطرت سچی بات قبول کر لیتی ہے اس لئے کہتے ہیں کہ ان کی بات ہی نہ سنو.اسی لئے کفار نے کہا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم شور مچایا کرو تم کہتے ہو مرزائیوں کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگاؤ.تم ہاتھ لگاؤ، تم پڑھو، تم ہماری غلطیاں نکالو.مجھ سے جب کبھی کوئی دینی عالم یا مولوی صاحب ملتے ہیں تو میں تو ان سے یہ نہیں کہا کرتا کہ آؤ میں تمہیں تبلیغ کروں.بلکہ اس سے کہا کرتا ہوں کہ اگر میں غلط راستے پر ہوں تو تم مجھے سیدھے راستہ پر ڈال دو.جب وہ بات شروع کریں گے تو خود ہی پتہ لگ جائے گا کہ کون حق پر ہے اور کون حق پر نہیں ہے.اس لئے آپ بھی یہی کہا کریں.جو ملے اس سے اس طرح تبلیغ کریں.آخر ان کے نزدیک ایک احمدی کا یہ حق نہیں ہے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۰۷ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب کہ اسے صراط مستقیم دکھائی جائے.اُس کو راہ راست پر لایا جائے اُس کو سچی باتیں بتاتی جائیں.اگر احمدی کا یہ حق ہے تو اُن کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ باتیں اسے بتائیں.ہمارے گھروں پر آئیں.ہمارے ساتھ بیٹھ کر چائے پئیں.ہمارے ساتھ ملیں.ہمیں پیار سے اپنی باتیں سنائیں جو بات ہمیں سمجھ میں نہیں آئے گی ہم ان سے پوچھیں گے کہ یہ مسئلہ ہمیں سمجھ نہیں آیا مثلاً وہ کوئی دلیل دیں گے.حیات مسیح کی ہم کہیں گے دیکھو ہمیں یہ مسئلہ سمجھ نہیں آتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم زندگی گزار نے کے بعد طبعی وفات پا کر زمین میں مدفون ہوں اور جو اُن سے کہیں چھوٹا تھا اور جو معراج میں کشف آ.کوئی آسمان نیچے دکھایا گیا تھا.اُسے آپ آسمان پر زندہ بٹھاتے ہیں اور وہ نبی اور وہ خاتم النبین اور وہ خاتم المرسلین جس نے اپنے ماننے والوں سے یہ کہا تھا ” اذا تواضع العبد رفعه الله الى السماء السابعة “ ( کنز العمال جلد ۲ ص ۲۵ مطبع دائرہ معارف حیدر آباد) کہ تم میں سے جو بھی تواضع اور منکسر المزاجی سے کام لے گا، تکبر نہیں کرے گا اور زمین کی طرف اس کا سر ہمیشہ جھکا رہے گا اس کا رب اُسے ساتویں آسمان تک لے جائے گا.یعنی حضرت مسیح علیہ السلام سے بھی چند آسمان اوپر لے جائے گا.پس جو بات ہمیں سمجھ نہ آئے وہ ہم اُن سے پوچھیں گے.آخر ہمارے بھی اسی طرح تم پر حقوق ہیں جس طرح تمہارے حقوق ہم پر ہیں.پس شور کرنا اور بلا وجہ اصرار کرنا درست نہیں ہے.بہر حال اس وقت میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم پر یہ اعتراض کر دیا گیا کہ مذہبی جماعت کہلانے کے باوجود یہاں کمیونزم کو غالب کرا دیا اور اُن کے حاکم بننے کے سامان پیدا کر دیئے مگر دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ اعتراض غلط تھا.ہم حکومت کو صحیح مشورہ دیتے ہیں.دنیا کی دوستیوں کی طرح تو حکومت سے تعلق نہیں ہوتا لیکن ہم اُن کو بتاتے رہتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے.میں نے بتایا تھا کہ ایک کتاب ”اسلام غرباء اور یتامیٰ کا محافظ جو قرآن کریم کی آیات کی تفسیر ہے وہ حکومت کے نمائندوں تک پہنچائی گئی ہے.آپ بھی اپنے دوستوں کو دیں.یہ ملک اور اس ملک کے حالات ہم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنی دعاؤں میں ایک بڑا حصہ اُن کا بھی رکھیں.بہت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کی قسمت کو سنوارے اور ملک کے اندر جو نا سمجھ دوست ہیں اُن کو سمجھ عطا کرے اور جو سمجھدار ہیں اُن کی فراست کو اور بھی زیادہ تیزہ کر دے اور ہر فرد کو یہ توفیق دے کہ ہر دوسرے کی خدمت کے لئے انتہائی کوشش کرے.اگر ہر شخص ہر دوسرے شخص کی خدمت کرے اہر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۰۸ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب کروڑ کی آبادی میں پانچ کروڑ ننانوے لاکھ نانوے ہزار نو سو ننانوے (۵٬۹۹,۹۹,۹۹۹) آدمی تو اس کے خادم بن سکتے ہیں اور اگر ہر شخص اپنی ہی خدمت کرے اور دوسرے کا خیال نہ رکھے تو وہ بیچارا اکیلا ہی خادم ہے.پس ہر دوسرے شخص کی خدمت کرنا خدمت کے مواقع اور دروازے پیدا کر دیتا ہے.اس حقیقت کو بھولنا نہیں چاہئے.اس حقیقت کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے بے نفس اور بے لوث خدمت کرنا چاہئے.کسی سے کچھ نہ مانگیں.دینے والا تو خدا ہے.وہ بہت کچھ دے دیتا ہے.کل میں نے بتایا تھا تھوڑی سی چیز ہم نے دی تھی.اللہ تعالیٰ نے اس کا بہت بڑا نتیجہ نکالا.میرے سامنے ہمارے مبلغ آتے ہیں.میرے پیارے بچے میرے ہاتھ پر بیعت کرنے والے میں ان کو یہی کہا کرتا ہوں دیکھو ہم ایک دھیلہ خرچ کرتے ہیں اور ایک ہزار گنا بڑھ کر اس کا نتیجہ نکل آتا ہے اور یہ بات ثابت کرتی ہے کہ یہ ہماری محنت اور قربانی کا نتیجہ نہیں ہے.بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے.ورنہ یہ دھیلہ تو دنیا بھی خرچ کرتی ہے لیکن اُن کا اتنازیادہ اور غیر معمولی نتیجہ کیوں نہیں نکلتا.صرف اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اُن کے ساتھ نہیں ہوتا.پس دُعائیں کرو کہ جہاں تک دنیوی برکات کا سوال ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ اس قوم کو عطاء فرمائے اور یہاں ہمارے ملک میں بھی کوئی آدمی ایسا نہ رہے جس کو کوئی دُکھ اور پریشانی ستارہی ہو.اسی طرح ساری دنیا میں بھی ایک امن کی فضا پیدا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ دُنیا کو عقل عطا فرمائے.بڑی دُعا آج کل یہی کرنی چاہئے.اس کے علاوہ یہ دراصل پہلی دُعا کو نمایاں کرنے کے لئے اس کا پہلے ذکر کر دیا ہے.ورنہ یہ دوسری دعا کا حصہ ہے.غلبہ اسلام کے لئے دعائیں کرنا مقصود ہے.غلبہ اسلام مقدر ہے.غلبہ اسلام کے لئے جس قدر اموال کی ضرورت ہے غلبہ اسلام کے لئے واقفین زندگی کی ضرورت ہے.غلبہ اسلام کے لئے جس قدر مادی ذرائع کی ضرورت ہے.غلبہ اسلام - لئے جس قدر اثر و رسوخ کی ضرورت ہے.وہ ہمارے پاس نہیں بلکہ اس کا کروڑواں اربواں بھی نہیں ہے اور ہمیں خدا نے یہ فرمایا کہ باہر نکلو اور غلبہ اسلام کے لئے اپنے گھروں اورا رشتہ داروں کو چھوڑ دو اگر ہم بحیثیت جماعت پوری کی پوری کوشش کریں تب بھی نا کافی ہے.محض نا کافی نہیں بلکہ کافی کوشش کا اربواں حصہ بھی نہیں ہے اس لئے ہمارے خدا نے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ تمہاری جتنی طاقت ہے اتنا تم لے آؤ.غلبہ اسلام کے لئے جتنی طاقت کی ضرورت ہے.وہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۰۹ ۱۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب اس میں اپنا فضل شامل کر کے اتنی طاقت پیدا کر دے گا.اب دنیا اسلام کی طرف متوجہ ہو رہی ہے.وہ لوگ جن کی زبانیں اسلام کو بُرا بھلا کہنے میں اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے میں بخشک ہو رہی تھیں.انہوں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ہم اسلام کی تعلیم کو غور کی نظر سے دیکھیں اور سوچیں.اب ایک دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرنے لگ گئی ہے.وہ پہلے ایسا نہیں کرتی تھی.چنانچہ دنیا میں ایک انقلاب عظیم بپا ہو رہا ہے لیکن خدا کہتا ہے کہ اُس نے بنی نوع انسان کے سامنے اور قیامت کے دن بھی یہ اعلان ہوگا کہ خدا کہے گا کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک پیارے کو ایک جماعت یہ کہتے ہوئے دی تھی کہ ان کے ذریعہ میں اسلام کو نمایاں کروں گا.اس لئے جو تمہارا ہے وہ مجھے دے دو.جو میرا ہے وہ بھی تمہیں مل جائے گا اور تم غالب آ جاؤ گے.ورنہ اور کوئی چارہ نہیں ہے.اس لئے سب سے بڑی چیز دُعا ہے.غلبہ اسلام کے لئے قربانیاں بھی دیں.غلبہ اسلام کے لئے اپنا آرام و آسائش بھی قربان کر دیں.ایثار اور قربانی کا نمونہ پیش کریں.اور یہ پیشکش اپنے رب کے حضور رکھیں اور سب سے زیادہ دعائیں کریں.اس لئے بھی کہ خدا تعالیٰ آپ کو مقبول خدمت کی (ایسی خدمت کی جسے خدا تعالیٰ قبول کرتا ہے اور احسن جزاء دیتا ہے ) تو فیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق اور اپنی بشارتوں کی رُو سے وہ نتائج نکالے جس کا اس نے اعلان فرمایا ہے کہ میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے اسلام کو غالب کروں گا.میری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ آپ نے یہاں جو سنا اور سمجھا آپ اس سے ہمیشہ بہتر سے بہتر فائدہ اُٹھاتے رہیں اور ہماری یہ جو دعا ئیں تھیں انفرادی بھی اور اجتماعی بھی کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہم وارث بنیں.خدا کرے کہ وہ دعائیں قبول ہوں اور ہم حقیقتا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جائیں اور ہمیں اس کا وہ پیار حاصل ہو جائے جس کے بعد اُس کی ناراضگی کا کوئی خوف باقی نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُس کی رحمت کا سایہ آپ کے سروں پر کئے رکھیں اور آپ خیر و عافیت کے ساتھ اپنے اپنے گھروں میں پہنچیں.خیریت رہے سفر میں بھی اور اس حضر میں بھی (مرکز حضر ہی ہوتا ہے ) جو اس سفر کے بعد ہو گا.کسی نے یہاں سے اسی میل دور جانا ہے کسی نے تین ہزار میل
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۱۰ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۲ء.اختتامی خطاب دور جانا ہے.کسی نے پانچ ہزار میل دور جانا ہے.کسی نے یہاں سے نو دس ہزار میل دور جانا ہے.بہر حال یہ سفر عارضی ہے.خدا تعالیٰ کرے کہ اس عارضی سفر میں آپ کو کوئی عارضی تکلیف بھی نہ پہنچے اور کوئی پریشانی لاحق نہ ہو.کوئی دکھ نہ پہنچے.خوش وخرم اور ہنستے اور مسکراتے چہروں کے ساتھ آپ یہاں سے روانہ ہوں اور اپنے مسکراتے چہروں کے ساتھ آپ اپنے گھروں کو پہنچیں اور ہمیشہ مسکراتے چہرے آپ کی قسمت میں رہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے مبلغوں کو بھی احسن جزاء دے کہ وہ ہمارے نمائندے ہیں.ان کے ذہنوں کو جلا بخشے اور ان کی فراست کو تیز کرے اور ان کی عقل کو منور کرے اور ان کو غالب کرے اور تمام وہ ہتھیار ظاہری اور باطنی دے جس کے نتیجہ میں اسلام کا سپاہی غالب آیا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کے خاندانوں میں بھی برکت ع کرے اور ان کی اولادوں میں بھی برکت ڈالے اور ان کے ذہنوں کو اسلام کے نور سے منور کرے اور خدا کرے کہ ان کا انجام بخیر ہو اور قیامت تک احمدیت اور اسلام کی نسلیں محبت اور پیار اور عزت و احترام کے ساتھ ان ہستیوں کو یا درکھیں.اب دُعا کر لیتے ہیں.دعا ئیں ہمیشہ ہی آپ کے ساتھ ہوتی ہیں.اب بھی اجتماعی دُعا کرتے ہیں.اس وقت بہت بڑا اجتماع ہے.میرے خیال میں ساٹھ ہزار کے قریب احمدی اور دوسرے دوست بھی یہاں بیٹھے ہیں.جلسہ گاہ بھر گئی ہے.سارے مل کر عاجزی کے ساتھ اور تضرع کے ساتھ اور ابتہال کے ساتھ خدا کے حضور جھک کر یہ دعا کریں کہ وہ ہمیں اپنا بنالے.پھر ہمیں سب کچھ مل جائے گا.کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہے گی.آؤ اب دُعا کر لیں.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۱۱ ۲۶ دسمبر ۱۹۷۳ء.افتتاحی خطاب آسمانوں پر جو فیصلہ ہو چکا ہے زمین کی کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکتی افتتاحی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۶ / دیسمبر ۱۹۷۳ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:.رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيَّا يُنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ أَمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ ( آل عمران : ۱۹۴ ، ۱۹۵) رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَيْحِينَ (الاعراف : ٩٠) پھر حضور انور نے فرمایا:.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانو ا تم مغرب کے اندھیروں میں مستانہ وار گھس کر خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرتے اور اس کی تو حید کو قائم کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہو اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا تم پر سلام ہو.اے اسلام کے فدائیو! تم خوابیدہ مشرق کی فضاؤں میں گھستے ہو اور اسلام کی اشاعت کے لئے ہزاروں میل دور جا کر اور جزائر جزائر پھر کر لوگوں تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے روحانی فرزند مرزا غلام احمد علیہ السلام کا پیغام پہنچاتے ہو تم پر اللہ اور اس کے رسول کا سلام ہو.اے وہ گروہ جو شمال کی برفانی ہواؤں کی پروا نہ کرتے ہوئے شمال کی بلندیوں کی طرف پرواز کرتے ہوئے ان لوگوں تک خدائے اعلیٰ کا پیغام پہنچاتے ہو جو مادی بلندیوں کو تو پہچانتے ہیں مگر روحانی رفعتوں سے بے بہرہ اور غافل ہیں تم پر اللہ اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام ہو.اور اے وہ لوگو جو زمین کے جنوبی کناروں تک پھیل کر قرآن کریم کی عظمت کو لوگوں کے دلوں میں بٹھانے کی کوشش کرتے ہو تم قرآن کریم کی عظیم بشارتوں کے وارث بنو.اور اسلام
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۱۲ ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۳ء.افتتاحی خطاب بانی اسلام اور بانی اسلام کو بھیجنے والے خدا کا تم پر سلام ہو.اے ہمارے رب ! ہم نے ایک ایسی آواز سنی جو نہایت شیریں اور پیاری ہے.اور اسلام کی ہمدردی اور غمخواری سے لبریز ہے.یہ وہ آواز ہے جو ہمیں کہتی ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور تمہیں خدا کی طرف لے جانے کے لئے آئی ہوں.یہ وہ آواز ہے جس نے ہمیں نور فر است عطا کیا جوصرف اسلام کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے.یہ وہ آواز ہے جس نے ہمارے دلوں میں تو حید حقیقی اور عظمت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قائم کیا.یہ وہ پیاری آواز ہے جس نے ہمیں علی وجہ البصیرت یہ یقین دلایا اور ہمیں اس ایمان پر قائم کیا کہ قرآن کریم نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آخری شریعت ہے بلکہ ایک کامل اور مکمل ہدایت نامہ ہے.انسان کی نجات کی سب را ہیں اسی سر چشمہ سے نکلتی ہیں خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا ہر راستہ قرآن کریم کے نو رہی سے منور ہوکر خدا تعالیٰ کی طرف راہنمائی کرتا ہے ہم نے اس آواز کوسُنا ہم اس منادی پر ایمان لائے.ہم نے اس حقیقت کو جانا اور اس صداقت کو پہچانا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ اسلام کی آخری جنگ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ جیتی جائے گی.آخری فتح اسلام کو ہوگی.تمام شیطانی قو تیں پسپا ہو جائیں گی.اسلام کاسو رج تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ہر ملک میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈ ابلند ہوگا.دوسرے سب جھنڈے سرنگوں ہو جا ئیں گے.یہ جنگ شروع ہو چکی ہے.اس جنگ کو جیتنے کے لئے ہمیں کہا گیا ہے کہ تم اپنی جانوں کو اور اپنے مالوں کو اور اپنی اولادوں کو غرض ہر اُس چیز کو جو تمہاری طرف منسوب ہوتی ہے اور تم اپنے آپ کو اُس کا مالک سمجھتے ہو اسے خدا کی راہ میں قربان کر دو تا کہ خدا کی توحید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت بنی نوع انسان کے دل میں بیٹھ جائے.اس آواز کوسُن کر اس پر لبیک کہتے ہوئے ہم ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئے.لیکن اے ہمارے رب! ہم کمزور ہیں.ہماری فطرت میں بھی کمزوری ہے.ہماری غفلتوں کے نتیجہ میں بھی ہم سے کمزوریاں اور گناہ سرزد ہو جاتے ہیں.فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا.اے ہمارے محبوب آقا ! ہمارے مالک و خالق خدا !! تو اپنے فضل سے اپنے فرشتوں کے ذریعہ ہمارے لئے ایسے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۱۳ ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۳ء.افتتاحی خطاب سامان پیدا کر کہ ہم گناہوں اور غفلتوں اور سستیوں اور کوتاہیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں.اگر کبھی ہم سے بشری کمزوری کے نتیجہ میں غفلت اور گناہ سرزد ہو جائیں تو اے ہمارے پیارے ربّ ! تُو ہمیں ہماری غفلتوں اور گناہوں کے بُرے نتائج سے بچا اور تو ہمیں اپنی راہ میں اس قسم کی اور اس قدر نیکیوں کی توفیق عطا فرما کہ گویا ہم نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں کیونکہ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیا کرتی ہیں.اے ہمارے رب ! جب ہم نے اس منادی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تمام ادیان کو تیری طرف بلانے کی کوشش شروع کی تو مخالفین اسلام کو تو غصہ آنا ہی تھا کیونکہ اُن کو تو یہ نظر آنے لگا کہ اب پیار کے ساتھ ، دلائل کے ساتھ ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ کے رُوحانی فرزند پر نازل ہونے والے آسمانی نشانوں کے ذریعہ سارے ادیان مٹا دیئے جائیں گے اس رنگ میں کہ اُن کے ماننے والے حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں گے وہ لوگ بھی جن کی چودھراہٹ جاتی تھی یا جن کی قیادت پر ہاتھ پڑتا تھا یا اس آواز کے نتیجہ میں جن کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ شاید اس طرح اُن کی روزی اُن سے چھن جائے گی ( کیونکہ وہ رب العالمین خدا پر حقیقی ایمان نہیں لاتے تھے ) انہوں نے بھی اس آواز کو دبانے کے لئے بھر پور کوشش کی مشتی کہ ساری دنیا اکٹھی ہو گئی کہ یہ آواز بلند نہ ہو.مشرق اور مغرب کی طاقتیں اور دُنیا کے امیر ترین ممالک اس آواز کو دبانے کے لئے صف آرا ہو گئے.وہ لوگ جو صاحب اقتدار تھے اور ساری دنیا کو اپنے قبضہ میں سمجھتے تھے اور اپنے ملکوں سے باہر لوگوں کو اپنا غلام سمجھتے تھے اس اکیلی آواز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے.غرض دُنیا کی ساری دولتیں، سارے اقتدار، ساری طاقتیں سارے ہتھیاراور لوگوں کے ہر قسم کے منصوبے، اُن کے علم ، اُن کے فلسفے ، اُن کی سائنس اور ان کی ایجادات اس اکیلی آواز کو جو آج سے اتنی پچاسی سال پہلے دُنیا میں بلند ہوئی تھی اس کو دبانے کے لئے اکٹھی ہو گئیں مگر وہ اکیلی آواز آج لاکھوں انسانوں کی آواز بن کر ساری دُنیا کے گرد چکر لگارہی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَی ذَلِکَ.اے ہمارے رب! ہم نے ان واقعات میں تیرے قادرا نہ تصرفات کو دیکھا اور ہم اس یقین پر قائم ہوئے کہ جو تجھ سے چمٹ جاتا ہے وہی سب کچھ پالیتا ہے اور جو تجھ سے دُور رہتا ہے اس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۱۴ ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۳ء.افتتاحی خطاب کے لئے ہلاکت ہے.اے ہمارے رب! ہم تیرے حقیر اور عاجز بندے ہیں.ہم تیرے کمزور اور بے کسی بندے ہیں.ہم تیرے بے یار و مددگار بندے ہیں.ہم تیرے بے زر اور بے مال بندے ہیں.ہم تیرے قدموں کو پکڑتے ہوئے اور تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے دُنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں.اے خدا ! تو ہماری اِن حقیر کوششوں کی کم مائیگی اور کمزوری کی طرف نہ دیکھ ، اُس جذ بہ کو دیکھ جو ہمارے دلوں میں سمندروں کی طرح موجزن ہے.ہمیں ہر لمحہ یہ خیال تڑپا تا ہے کہ کسی طرح تیرے بندے جلد تیری گود میں واپس آ جائیں.وہ ایک لمحہ بھی شیطان کی گود میں نہ رہیں.اے خدا! تو ہماری ان کوششوں میں برکت ڈال اور آسمان سے فرشتوں کے نزول سے ہماری مدد فرما جسمانی لحاظ سے بھی صحت مند رکھ.ہمارے اندر اپنی محبت کی وہ تپش پیدا کر جو اس گہری دُھند کو ، سردی کی اس شدید لہر کو اور ان آبی بخارات اور ان کے بُرے اثرات کو مٹا دیتی ہے.تا کہ دُنیا بھی یہ سمجھ لے.دُنیا بھی یہ جان لے اور دُنیا بھی یہ پہچان لے کہ ہمارا رب اور اُن کا رب جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے اور اُس کی مدد اس کو حاصل ہے اور اُس کے فرشتے اس کی نصرت کے لئے آسمانوں سے نازل ہوتے ہیں اور دُنیا کو یہ بات بھی سمجھ میں آ جائے کہ آسمانوں پر جو فیصلہ ہو چکا ہے زمین کی کوئی طاقت اُسے ٹال نہیں سکتی.پس ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری حقیر کوششوں کو قبول فرمائے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری کوششوں کو ، ہماری قر بانیوں کو اور اُس ایثار کو جو اس کے حضور جماعت احمد یہ اور اس کے افراد کی طرف سے خلوص نیت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے قبول فرمائے اور دینی اور دنیوی برکات سے ہمارے گھروں کو بھر دے.اور اے خدا!! جس طرح تو نے ہمارے دلوں میں اپنی محبت کی شمع روشن کی ہے اسی طرح ہماری آنے والی نسلوں کے دلوں میں بھی اپنی محبت کی ایسی تپش پیدا کر کہ وہ اُن کے دل سے ہر دوسری چیز کو جلا کر راکھ کر دے.اللہ کے سوا ہماری اور ہماری نسلوں کی توجہ کو کوئی چیز اپنی طرف کھینچنے والی نہ ہو.جب ہم تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے گھروں سے نکلیں تو اے ہمارے رب ! تو ہمارا بھی حافظ و ناصر ہو اور جن کو پیچھے ہم اپنے گھروں میں چھوڑ آئے ہیں اُن کی بھی حفاظت فرما.ہم تیرے عاجز بندے ہیں تو اپنے فضل سے ہم سب کی حفاظت، خوشحالی اور بہتری کے سامان پیدا کر.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۱۵ ۲۶ دسمبر ۱۹۷۳ء.افتتاحی خطاب دعا تو آج کی دنیا اور آج کے زمانہ کی ایک ہی ہے ( باقی تو ذیلی دعائیں ہیں ) اور وہ یہ کہ اے ہمارے رب تو نے اسلام کے آخری غلبہ کی اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دُنیا کے ہر دل میں پیدا ہو جانے کی اور توحید حقیقی کا جھنڈا ہر گھر میں لہرانے کی جو بشارتیں دی ہیں اے ہمارے پیارے ربّ کریم! تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر کہ یہ بشارتیں ہماری : زندگیوں ہی میں پوری ہو جائیں تا کہ جب ہم اس دُنیا سے رخصت ہوں تو ہمارے دل اس خوشی سے معمور ہوں کہ جو فرض ہمارے کمزور کندھوں پر عائد کیا گیا تھا اُس کو ہم نے تیری ہی توفیق ا سے، اے ہمارے مولیٰ ! اور تیری رضا کے مطابق ادا کر دیا ہے.اے خدا تو ایسا ہی کر.اَللَّهُمَّ (مِيْنَ اللَّهُمَّ مِيْنَ !! اللَّهُمَّ امِيْنَ !!! اللَّهُمَّ امِینَ.آواب دُعا کرلیں.روزنامه الفضل ربوه مورخه ۱۱ار جنوری ۱۹۷۴ء صفحه ۳ تا ۵ )
۶۱۶ خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۱۷ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطار ہم دولت مند ہیں اس لئے کہ ہمارے پیسے میں اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت ڈالی ہے دوسرے روز کا خطاب جلسہ سالانہ فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۳ء بمقام ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.یہ دھند یہ برفانی ہوائیں اور طوفان بادوباراں دُنیا والوں کو دُنیا کے کاموں سے نہیں روکتے تو وہ جو اللہ تعالیٰ کے سپاہ ہیں اور جنہوں نے غلبہ اسلام کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کیا ہے وہ اس موسم کی خرابی سے کیسے پیچھے ہٹ سکتے یا اپنے گھروں میں بیٹھ سکتے یا نیکی کی باتیں سننے سے محروم رہ جاتے ؟ سردی بہت ہے اور سردی کی عادت کم ہے.کیونکہ اس علاقہ میں سردی اتنی نہیں پڑتی لیکن اس آتش محبت کی وجہ سے جو ہماری روحوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بھڑ کائی ہم نے اس طوفانی اور برف کی طرح سرد موسم کی پرواہ نہیں کی اور بعض لوگوں کے خیالات کے خلاف اور اُن کی توقع کے خلاف اللہ تعالیٰ نے اس جلسہ کو ہر رنگ میں کامیاب کیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اس کی احسن جزاء دے.وہ بشارتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو ملی ہیں وہ ایک یا دو یا تین بشارتیں نہیں.ایسی بشارتیں ہیں جنہوں نے ساری دُنیا کو اپنے احاطہ میں لیا ہوا ہے اور جن سے آنے والی نسلیں (اگر وہ اپنے مقام کو نہ بھولیں ) قیامت تک حصہ دار ہیں.ان بہت سی بشارتوں میں سے ایک بشارت یہ دی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.” میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گئے تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۹) چنانچہ دنیا کے کونے کونے میں اس علم اور اس معرفت کی مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۱۸ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطا.ہمارے نوجوان مجاہد جو اس وقت مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اُن کا واسطہ بسا اوقات ایسے معاندین اسلام سے بھی پڑ جاتا ہے کہ ظاہری علوم کے لحاظ سے ان کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں لیکن اللہ تعالی علاوہ بنیادی اجتماعی برکت کے اس وقت انفرادی برکت کے طور پر بھی ان کی مدد کے لئے آسمانوں سے فرشتوں کو بھیجتا اور ایسے جواب سکھاتا ہے جو مخالف کا منہ بند کر دیتے ہیں اور اُسے لاجواب کر دیتے ہیں.خدا نے آسمانوں پر یہی فیصلہ کیا کہ اسلام کے دلائل دنیا کے ہر قسم کے دلائل پر فوقیت حاصل کریں اور اس نے جماعت احمدیہ کو اس کی توفیق عطا کی کہ وہ ان برکتوں سے مالا مال ہوں.اس وقت میرے سامنے اکثریت زمینداروں کی ہے.مجھے ایک واقعہ یاد آیا.ایک مرتبہ جب میں بچہ تھا.جلسہ کے دن تھے.میں اتنا چھوٹا بچہ تھا کہ میری ڈیوٹی لگائی بھی گئی تھی اور نہیں بھی لگائی گئی تھی.یعنی حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے میری ڈیوٹی اپنے ساتھ اپنے دفتر میں لگالی تھی کیونکہ میری عمر ایسی نہ تھی کہ صحیح طور پر جلسہ کے رضا کار جو کام کرتے ہیں وہ میں کرسکوں وہ مجھ سے چھوٹے موٹے کام لیتے رہتے تھے.تاکہ میرے دل میں ایک تو بشاشت پیدا ہو کہ میں نے جلسہ سالانہ کے کاموں میں ایک حقیر سی کوشش کی ہے اور دوسرے عادت پڑے اور تجربہ حاصل ہو.ایک شام رات کو کام سے فراغت کے بعد مجھ سے کہنے لگے اس وقت لوگ اپنے کھانے سے فارغ ہو گئے تھے.قادیان میں اس قسم کی سردی قریباً ہر جلسہ پر ہوتی تھی.پاکستان بننے کے بعد اب ہمیں اُس سردی کی عادت نہیں رہی.بہر حال وہ مجھ سے کہنے لگے (مدرسہ احمدیہ کے ان کمروں میں جہاں افسر جلسہ سالانہ کا دفتر بھی تھا ) دیکھ آؤ کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو اور پھر مجھے آکر رپورٹ کرو.اس وقت مجھے پتہ لگا کہ احمدی دوست اپنے ساتھ ایک دوست کو بھی لائے ہوئے تھے.جو ابھی احمدی نہ تھا اور آپس میں وہ تبادلہ خیال کر رہے تھے تو ایک موقع پر ہمارا احمدی نوجوان جو خود طالبعلم تھا اُسے جواب سمجھ نہیں آیا.اُس نے کہا ٹھہرو میں ابھی رکسی عالم کو لے کر آتا ہوں اور وہ تمہیں اس کا جواب دے کر تمھاری تسلی کروا دے گا.وہ نکلا اور ساتھ والے کمرہ میں گیا.اُس نے دیکھا کہ ایک سفید پگڑی پہنے لمبی داڑھی والا صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے اور چہرہ پر اسلام اور احمدیت کا نُور لئے ایک شخص بیٹھا ہے.وہ سمجھا کہ یہ بزرگ کوئی بہت بڑا عالم یا مولوی ہے.وہ کہنے لگا کہ ایک مسئلہ حل نہیں ہو رہا آکر اسے حل
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۱۹ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطاب کر دیں.اُس نے کہا چلو وہ اُس کے پاس آیا اور اُس بی اے کے طالب علم کی اُس نے اُس جواب سے جو اللہ تعالیٰ سے سیکھ کر اُس شخص کو دیا تسلی کروا دی اور وہ وہ شخص تھا جو ایک زمیندار تھا اور اپنے دستخط بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن جب فرشتے آسمانوں سے نازل ہو کر علوم روحانی اور علوم دنیاوی سکھاتے ہیں تو وہ یہ نہیں تلاش کیا کرتے جن کو دستخط آتے ہیں صرف انہیں کے پاس پہنچیں.وہ یہ دیکھا کرتے ہیں کہ جن کے دل میں تقویٰ کی شمع روشن ہو اور جن کے اندر یہ جوش اور جذ بہ ہو کہ وہ اسلام کے ایک مجاہد کی حیثیت سے اسلام کی فوقیت کو ثابت کر کے دکھا دیں گے.اُن کے پاس اللہ تعالیٰ کے فرشتے آتے اور آسمانی علوم ان کو سکھاتے اور دشمن کو لاجواب کر دیتے ہیں یہ ایک بہت بڑی بشارت ہے جس کی ابتدا ہر لحاظ سے ہو چکی.اسی سال ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں میں چار یا پانچ مضامین میں احمدی بچے یا بچیاں ساری یونیورسٹی میں فرسٹ آئے.اسی سال ہمارے ربوہ کے کالج میں ایم ایس سی فزکس ( جو مضمون کے لحاظ سے بھی ایک مشکل مضمون ہے اور ایم ایس سی کے امتحان کے لحاظ سے بھی ایک اونچا امتحان ہے ) کے امتحان میں ہمارے ایک بچے نے یونیورسٹی میں آج تک جو سب سے زیادہ نمبر لئے گئے تھے اُس سے بھی زیادہ نمبر لئے اور ربوہ کے سارے کے سارے طلبہ جو اس امتحان میں شامل ہوئے انہوں نے فرسٹ ڈویژن لی اور خالی فرسٹ ڈویژن نہیں لی بلکہ وہ سارے کے سارے (سات یا آٹھ جتنے بھی تھے ) وہ یونیورسٹی میں پہلے سترہ طلبہ جنہوں نے سب سے زیادہ نمبر لئے تھے اس فہرست میں تھے.اللہ تعالیٰ اس رنگ میں بھی فضل کر رہا ہے.میں نے بتایا کہ جو علم روحانی سے فائدہ اُٹھا کر اور علم کلام کے مقابلہ میں ساری دنیا میں آج اسلام کا علم کلام پیش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے اسلام کی برکت ثابت کرتا ہے اور اس پیشگوئی کو پورا کرتا ہے کہ میں تیرے فرقہ کو اس قدر علم اور معرفت میں کمال عطا کروں گا کہ وہ سب کا منہ بند کر دیں گے لیکن جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں کچھ افسوس بھی ہوتا ہے.یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن علوم یہ اللہ اور معرفت کے خزانوں کے دروازے ہمارے لئے کھولے ہیں ہم میں سے کم ہیں جو ان سے فائدہ اُٹھا کر دنیا کی طرف ان خزانوں کو لے کر جائیں اور کوشش کریں کہ دنیا بھی ان خزانوں میں حصہ دار بنے.بہت کم یہ کوشش ہو رہی ہے اور اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے کہ دنیا دارد نیوی
۲۷ / دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطا خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) وحصوں پر ۶۲۰ سائنس پر انحصار کر کے اور نئی نئی ایجادات کر کے اسلامی تعلیم اور قرآن کریم کی تعلیم پر کس کس قسم کے اعتراضات کر رہے ہیں.ان کا جواب دینا چاہئے.آج عیسائیت کا دجل ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے.تو جہاں تک عیسائیت کا سوال ہے یہ صحیح ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنیادی طور پر ان کے منہ بند کر دیئے ہیں لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ جب وہ بنیادی حدود کو تو ڑ کر تفاصیل میں جاتے ہیں تو یہ نہیں کہ کوئی ان کا منہ بند کرنے والا نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم احمدیوں کو ان کے منہ بند کرنے کی طرف اتنی توجہ نہیں ہے جتنی کہ ہونی چاہئے.بہر حال اس سلسلہ میں کچھ کام ہوتا رہتا ہے.یہ کام پر مشتمل ہے.ایک تو وہ مضامین ہیں جو ہمارے اخبارات اور رسائل وغیرہ میں چھپتے رہتے ہیں اور ایک وہ کوششیں جن کے نتیجہ میں کچھ کتابیں مارکیٹ میں فروخت ہونے کے لئے آجاتی ہیں.ہمیں ان کی طرف توجہ دینی چاہئے اور جس حد تک ممکن ہو ان کتب سے استفادہ کرنا چاہئے.کچھ تو پرانے اخبار ہیں اور بڑے مفید اخبار ہیں.الفضل ہے جو ہمارا مرکزی اخبار ہے اور ہماری جماعت کا ترجمان ہے لیکن اس کی اشاعت بھی اتنی نہیں جتنی آج ہونی چاہئے.جتنی آج میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جتنی آج سے پچاس سال قبل جماعت احمدیہ کی جس قدر مالی قربانیاں تھیں اس کے مقابلہ میں آج جس قدر قربانیاں ہیں اُسی نسبت سے اُس وقت جتنا الفضل چھپتا تھا آج اُسی نسبت سے زیادہ چھپنا چاہئے.لیکن ایسا نہیں ہو رہا.اس کی طرف ہم توجہ دلاتے ہیں اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن اتنا نہیں جتنا ہونا چاہئے.احمدی دوست اس طرف توجہ نہیں کر رہے.اب تو بڑا ہی نازک وقت آچکا ہے.جیسا کہ آپ انشاء اللہ تعالیٰ اسی کی توفیق سے کل نئے منصوبہ کے متعلق اور اس کی ضرورت اور اہمیت کے متعلق کچھ سنیں گے اس کے لیے کل کا انتظار کریں اللہ نے توفیق دی، اس پر ہی بھروسہ ہے، تو وہ اعلان ہوگا.لیکن یہ تو میں ہر وقت کہوں گا کہ ہم ایک نہایت ہی نازک دور میں اور ہم اپنی زندگی کے ایک نہایت ہی اہم دور میں داخل ہو چکے ہیں اور اس وقت جو ذمہ داریاں جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں جب سے حضرت آدم کی پیدائش ہوئی اس قسم کی اور اتنی اہم ذمہ داریاں کسی قوم پر نہیں ڈالی گئیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت محمدیہ پر جو ذمہ داریاں ڈالیں یہ انہیں کی انتہا ہے.کیونکہ وہی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے سر چشمہ اُن سارے منصوبوں کا جو ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے جاری کئے گئے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۲۱ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطار لیکن جس طرح جنگ شروع ہوتی ہے تو اُس کا ابتدائی دور ایک اور مشکل کا ہوتا ہے.جب وہی جنگ اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو اس کی شکل ہی بدل جاتی ہے.گذشتہ عالمگیر جنگ میں جب اتحادیوں نے جوابی حملہ کیا تو انہوں نے یورپ پر کچھ فوجیں اُتاری تھیں.وہ چیز ہی کچھ اور تھی جس وقت اُنہوں نے جنگ جیتنے کے لئے حملہ کیا اپنے آپ کو یورپ میں مضبوط کر کے یہ فیصلہ کیا کہ اب آخری ہلہ بول کر یہ جنگ جیت لینی چاہئے.اُس وقت ان کی حالت ہی کچھ اور تھی آپ اُس دور میں داخل ہو چکے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ شیطان کو جو ڈھیل دی گئی تھی ) کہ جب خدا نے شیطان سے کہا انسانی زندگی میں تجھے قیامت تک ڈھیل دی جاتی ہے ) وہ آخری وقت کہ جب اُس کی ڈھیل کا زمانہ ختم ہو رہا، اُس آخری زمانہ میں ہم داخل ہو چکے ہیں.شیطان نے بھی سوچا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کے دین پر ایک بھر پور وار کرے اور اللہ تعالیٰ نے یہ منصوبہ بنایا کہ شیطان کو اور شیطانی لشکروں اور شیطانی طاقتوں کو اور ان ظلمات اور اندھیروں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے اور اُس کام کے لئے آپ کو چنا اور آپ کو پیدا کیا گیا ہے.پس اس دور میں بڑی ذمہ داریاں ہیں.اس چیز کو سمجھیں اللہ تعالیٰ آپ سے جو چاہتا ہے اور جس چیز کا آپ سے مطالبہ کرتا ہے جن قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جس قدر پیار کا ہمیں وعدہ دیا ہے اور جس قدر کا میابیاں ہمارے لئے مقدر کیں اور ہمیں بتایا کہ یہ تمھارا انتظار کر رہی ہیں.اگر ہم ان باتوں کو سمجھیں تو دنیا کی ہر چیز کو بھول جائیں اور صرف اس ذمہ داری کو ہم اپنے سامنے رکھیں.بہر حال علمی میدان میں جو کوششیں ہیں ان کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے.رسائل ہیں.انصار اللہ ، الفرقان ، خالد تنفيذ الاذھان ، مصباح اور اس کے علاوہ کچھ پرانی کتب ہیں.جو اہم اور ضروری ہیں ان کی خریداری کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے اور کچھ کتابیں ہمارے سامنے آئیں ہیں ایک پرانی کتاب تبلیغ ہدایت مصنفہ محترم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اسی طرح 66 ان کی تصنیف الحجّةُ البالغه ‘اور پھر جناب مودودی صاحب کے رسالہ ختم نبوت پر علمی تبصرہ قاضی محمد نذیر صاحب کا اور ٹروتھ پریویلز (Truth Prevails قاضی محمد نذیر صاحب کی اور کتاب ” بنتِ رسول کا حق وراثت پر تبصرہ اور مسئلہ فدک کا حل“.پھر تحریک پاکستان میں جماعتِ احمدیہ کا کردار مولوی دوست محمد صاحب کی بائیل کی الہامی حیثیت
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۲۲ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطاب قاضی محمد نذیر صاحب کی." مسیح الدجال اور یاجوج و ماجوج کا ظہور ، مصنفہ مولوی محمد اسد اللہ صاحب قریشی کا شمیری " تفسیر صغیر کے بیمثال معنوی لغوی اور ادبی کمالات مصنفہ مولوی دوست محمد صاحب اور Jesus son of Mary‘ ڈاکٹر قاضی برکت اللہ صاحب حال امریکہ کا ایک مقالہ ہے اور قریشی لطیف صاحب کی بار امانت اور سادہ نظمیں“.”یا درکھنے کی باتیں اور شمائل احمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی." حضرت بابا نانک صاحب کا مقدس چولہ گیانی عباداللہ صاحب کی اور بھی کچھ کام کی کتابیں ہیں ان کی طرف توجہ دیں.ان سے فائدہ اُٹھا ئیں.جو بچوں والے ہیں وہ اپنے بچوں کے لئے خریدیں اور دیکھیں کہ وہ ان سے فائدہ اُٹھا ئیں.دوسری بات فضل عمر فاؤنڈیشن کے متعلق ہے.۱۹۶۶ء میں یعنی آج سے تقریباً سات سال قبل فضل عمر فاؤنڈیشن کے نام سے اس مجلس کا اجراء ہوا تھا اور ۱۹۶۶ء میں اس لئے اس کا اجراء ہوا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد جماعت کے ایک حصہ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ آپ کے نام پر فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ایسوسی ایشن قائم کی جائے اور جماعت اس میں مالی قربانی دے اور آپ کے نام سے تعلق رکھنے والے بعض کام کئے جائیں.اس میں جماعت نے بڑے پیار سے حصہ لیا اور پاکستان کی جماعتوں نے ساڑھے چوبیس لاکھ روپہ اس کے لئے بطور چندہ کے ادا کیا اور بیرونِ پاکستان نے قریباً ساڑھے بارہ لاکھ روپیہ اس کے لئے ادا کیا.اس عرصہ میں فضل عمر فاؤنڈیشن نے اپنے طریق کار کے مطابق بہت سا روپیہ منافع کی کمپنیوں میں لگا دیا جن کے ڈیویڈنڈ (Dividend) ملتے ہیں اور گزشتہ سات سال میں پاکستان میں قریبا ساڑھے آٹھ لاکھ روپیہ نفع ملا اور بیرونِ پاکستان میں قریبا اڑھائی لاکھ روپیہ فع حاصل ہوا.اس کے مقابلہ میں اِس عرصہ میں اخراجات چار لاکھ چوہتر ہزار روپے ایک اور دولاکھ تہتر ہزار روپے ایک اور بیرونِ پاکستان میں خرچ نو ہزار روپے ہوا.ایک تو جو آپ نے صدرانجمن احمدیہ کے دفاتر کے پہلو میں لائبریری کی جو خوبصورت عمارت دیکھی ہے وہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے اپنے خرچ کی بنا پر شاید ساری کی ساری یا بہت حد تک اسے فرنشڈ (Furnished) کر کے جماعت کے سپرد کر دی کہ اس میں لائبریری رکھی جائے.جب اس کا افتتاح ہوا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اس کے افتتاح کی توفیق دی تو وہاں میں نے دیکھا کہ جتنے عرصہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۲۳ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطار میں لائبریری کی یہ عمارت اس خیال کے مطابق تیار ہوئی کہ ہمارے پاس مناسب اور مناسب وسعت والی لائبریری موجود نہیں اس لئے وہ بنائی جائے اس کو شاید ڈیڑھ دو سال لگے ہوں گے تو وہ بھی دونوں لحاظ سے چھوٹی ہو گئی.جو کتا بیں موجود ہیں اس کے لحاظ سے بھی وہ ایسی نہیں کہ بڑی وسعت اس میں ہو سکے اور جو ہماری ضرورت ہے اس کے لحاظ سے تو وہ بہت چھوٹی ہے.پھر وہیں میں نے اعلان کیا تھا کہ یہ عمارت تو ایک حصہ بن جائے قرآن کریم کی مختلف زبانوں میں تراجم کی جلدیں ہیں یا مختلف تفسیریں ہیں یا قرآن کریم کے مضامین یعنی خاص قرآن پر جو ہیں ویسے تو ساری دنیا کے علوم پر قرآن کریم نے احاطہ کیا ہوا ہے.لیکن وہ علیحدہ مضمونوں میں آجاتے ہیں لیکن مجموعی طور پر قرآن عظیم کے متعلق ایک انسان جو کوشش قلیل کرتا ہے وہ یہاں آ جائے اور باقی علوم کے متعلق کتا ہیں ( جب آپ نے ساری دنیا کا منہ بند کرنا ہے تو ساری دنیا کے علوم کے متعلق پایہ کے مانے ہوئے مصنفین کی کتابیں موجود ہونی چاہئیں ) اس لائبریری کے عقب میں بعض اور مقاصد کے مد نظر کچھ زمین چھوڑی گئی تھی واللہ اعلم اب بھی وہ لائبریری کو ملتی ہے یا کسی اور کام آتی ہے بہر حال مجھے خیال پیدا ہوا کہ ممکن ہے وہاں لائبریری بن جائے.پس وہ ایک اچھی عمارت جس پر چارلاکھ چوہتر ہزار روپیہ خرچ ہوا ہے وہ فضل عمر فاؤ نڈیشن نے جماعت کو دے دی.اس طرح بعض دوسرے کاموں پر ان کا خرچ ہوا اور اب کچھ عرصہ سے روپیہ پڑا ہوا ہے اور انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کہاں خرچ کریں.جماعت نے تو وہ روپیہ قربانی کر کے دیا ہے اور رکھ چھوڑنے کے لئے نہیں دیا.بلکہ اس لئے دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے دین اور اس کی مخلوق کو اس سے فائدہ پہنچے.دو چار تجاویز زیر غور تھیں لیکن غور کے بعد انہیں رڈ کرنا پڑا اور دو ایک تجاویز اب زیر غور ہیں.امید ہے انشاء اللہ یہ روپیہ پڑا نہیں رہے گا بلکہ اسے برکت کے دھاروں میں چالو کر دیا جائے گا.فضل عمر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام علمی تصانیف کے سالانہ انعامی مقابلہ کے لئے ۱۹۷۲ء میں پانچ مقالے موصول ہوئے.کچھ موصول ہوئے اور کچھ کے او پر فیصلے ہو گئے اور ان کو انعام مل گیا.پہلا انعام ایک ہزار روپے کا ہے جو ہر مقالے کو علیحدہ علیحدہ عنوانوں کے ماتحت ملتا ہے لیکن بہت کم ہمارے نوجوانوں نے اس طرف توجہ کی اور بہت کم انعام اُنہوں نے حاصل کیا.انعام تو کوئی غرض نہیں.یہ تو ہم نے ایک راہ نکالی تھی کہ ہمارا تعلیم یافتہ نو جوان وہ دین کا سپاہی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۲۴ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطاب ------- اس سرحد پر بھی لڑنے کے لئے تیاری کرے گا کہ جو دوسروں کے اعتراضات اسلام پر ہیں اور خدا اور رسول کے متعلق وہ نا سمجھی کی باتیں کرتے رہتے ہیں ان کے جوابات مختلف مضامین کے ماتحت وہ نو جوان دے گا لیکن اس طرف ہماری جماعت بہت کم توجہ کر رہی ہے.میرے خیال میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں ہمارے پاس ایم ایس سی اور ایم اے اور اس سے بالا تعلیم والے احمدی موجود ہیں اور بی اے یا بی ایس سی کو لیا جائے یا سکول ٹیچر ز (بی ایڈ وغیرہ) ان کے اندر علمی مذاق پیدا ہونا چاہئے.ان کو خدا تعالیٰ نے اس کی استطاعت عطا کی ہے کیونکہ وعدہ تھا اور خدا اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کیا کرتا.لیکن ایک شخص یہ استطاعت رکھتا ہو کہ وہ اپنے مُلک میں سب سے اچھا تیراک بن سکے لیکن وہ تیرنا نہ سیکھے تو اس ملک کو ایسے تیراک سے تو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور نہ اللہ تعالیٰ پر اس کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہوسکتا ہے کہ تو نے مجھے استعداد ہی نہیں دی ورنہ میں اس میدان میں بھی دنیا کو آگے نکل کر دکھاتا.کیونکہ خدا تعالیٰ نے تو استعداد دی مگر اُس نے اس استعداد سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کی.اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا اور نہ وہ اپنی طاقتوں میں کمزور ہے کہ کمزوری کی وجہ سے وہ وعدہ پورا نہیں کر سکا.نہ وہ وعدہ خلافی کی صفت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کوئی کہہ سکے کہ طاقت بھی رکھتا ہے لیکن اپنا وعدہ پورا نہیں کیا.وہ تو سبحان اللہ ہر قسم کے عیب اور کمزوری سے پاک ذات ہے.تمام قدرتوں کا مالک ہے اس نے کہا ہے کہ میں نے جماعت احمدیہ کے ذہن کو ساری دنیا پر غالب آنے کے لئے بنایا.اگر جماعت احمدیہ کا ذہن علمی میدان میں ساری دنیا پر غالب آنے کے لئے کوشش ہی نہ کرے تو وہ ناشکرے کہلائیں گے.وہ جاہل نہیں کہلائیں گے.وہ نا اہل نہیں کہلائیں گے وہ ناشکرے کہلائیں گے کہ خُدا نے ایک طاقت انہیں دی لیکن اس سے اُنہوں نے فائدہ ہی نہیں اُٹھایا.پس اس طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے.ہزاروں نوجوان ہیں اور پانچ سات مقالے دے کر آپ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے.میں تو حیران ہوں.ہمارے پاس ہر مضمون کے متعلق پانچ سوسات سو کے مقالے آنے چاہئے تھے.جو متحن بنتے اُن کو بھی پتا لگے کہ احمدیوں کے دماغ کس طرح علم کی رفعتوں پر پرواز کرتے ہیں.بہر حال اس طرف توجہ نہیں دی گئی.اس طرف توجہ کرنی چاہئے.یہ بڑی ضروری بات ہے حضرت فضل عمر مصلح موعودؓ کی سوانح پر چار پانچ سال سے ایک کتاب کی تیاری ----
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۲۵ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطار ہو رہی ہے چار پانچ سال سے کچھ انتظام بدلے کچھ ذمہ داریاں بدلیں.اس وقت یہ کام مکرم مرزا طاہر احمد صاحب کے سپرد ہے اور فضل عمر فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق پہلا حصہ مرتب ہو چکا ہے اور اُمید ہے کہ شوریٰ تک شائع کر دیا جائے گا.دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ فضل عمر فاؤنڈیشن کو اپنے اس روپیہ کو جو خدا تعالیٰ کی ایک نعمت ہے ایسے کاموں پر خرچ کرنے کی جلد تو فیق عطا کرے کہ جو کام اللہ تعالیٰ کی مزید نعمتوں اور فضلوں کو جذب کیا کرتے ہیں.ہر سال ہی جماعت اپنے ان بھائیوں کا خیال رکھتی ہے جنہیں دنیوی لحاظ سے بعض تکالیف ہوں اور بعض ضرورتیں لاحق ہوں.یہ درست ہے کہ جتنی ضرورت ہے اس کے مطابق اس وقت جماعت احمدیہ کو بھائیوں کے کام آنے کی بساط اور طاقت خدا نے ابھی نہیں دی کل کو دے گا اور ساری ضرورتیں پوری ہو جائیں گی اور یہ بھی صحیح ہے کہ بعض لوگ اپنی ضرورتوں کا اندازہ بھی غلط لگا لیتے ہیں.مثلاً ایک شخص ہے نوجوان ہے اُس نے شادی کروانی ہے اور وہ واقف زندگی ہے اور غریب گھرانے کا بچہ ہے.نہ گھر میں دولت ہے نہ اُس نے دولت کی کوئی پرواہ کی.اُس نے اپنی زندگی وقف کر دی اب شادی کا مرحلہ ہے اور اس پر بہر حال کچھ نہ کچھ خرچ ہوتا ہے.تو اگر وہ اپنا اندازہ درست کرے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے تو اُس کے بھی کام پورے ہو جائیں اور ہماری خواہش بھی پوری ہو جائے لیکن اگر ایک واقف زندگی یہ کہے کہ میں نے شادی کروانی ہے میرے لئے دس ہزار روپے کا انتظام کر دو تو اس نے غلط اندازہ لگایا اور اگر ہم یہ کہیں کہ ہم ہزار دو ہزار کا انتظام نہیں کر سکتے تو ہم نے غلط اندازہ لگایا.خدا تعالیٰ کا فضل ہے ہم غلط اندازے نہیں لگاتے.جس حد تک ممکن ہو امداد کر دیتے ہیں لیکن بعض دفعہ غلط اندازے لگانے والے بھی ہمارے پاس آجاتے ہیں.جو میں نے مثال دی ہے یہ کوئی لمبا چوڑا فرق نہیں.تو ہمارے احمدی بچوں اور نو جوانوں سے اس قسم کی غلطی بعض دفعہ ہو جاتی ہے.جو ابھی ہم میں داخل بھی نہیں ہوئے بعض دفعہ میرے پاس اُن کا یہ خط آجاتا ہے کہ میں بڑا دکھیا مجھے بڑی مصیبت بڑی مالی تنگی ہے اور سُنا ہے کہ آپ غریبوں کی بڑی مدد کرتے ہیں.میں ایک تجارت کرنا چاہتا ہوں مہربانی کر کے بواپسی خط ایک لاکھ روپیہ مجھے بھجوا دیں اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں ( اور ہم حسن ظنی کی داد دیتے ہیں) کہ ان کے پاس بے تحاشا روپیہ ہے اور یہ اسراف سے بھی نہیں رکیں گے اور دنیا کو خوش کرنے کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۲۶ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطاب لئے اسراف کر جائیں گے.حالانکہ ہم دولت مند ضرور ہیں لیکن ہم پیسے والے نہیں ہیں.ہم پیسے والے اس لئے نہیں کہ پیسے کے لحاظ سے دُنیا میں ہم غریب جماعت ہیں لیکن ہم دولت مند ہیں! ہمارے دل اس دولت کے نتیجہ میں خدا کی حمد سے لبریز ہیں.ہم اس لئے دولت مند ہیں کہ ہمارے پیسے میں اللہ تعالیٰ نے برکت بڑی ڈالی ہے.جس کام پر دنیا والوں کے دس روپے خرچ ہوتے ہیں.اُس کام پر بعض دفعہ ہماری اٹھنی بھی خرچ نہیں ہوتی.چونی میں وہ کام ہو جاتا ہے.مثلاً اس دفعہ برکت دیکھو آپ کو جو خدا تعالیٰ نے ایک زندگی اور ایک رُوح دی ہے وہ ہمارے لئے برکت کا باعث بن جاتی ہے.اس مرتبہ سیلاب کی وجہ سے اور کچھ موسم کے حالات کی وجہ سے میرا یہ خیال تھا کہ ہم قریباً ہر سال ایک سویا سوا سولحاف بنا کر تقسیم کرتے تھے اور ربوہ میں رہنے والوں میں سے بعض ایسے بھی قربانی دیتے ہیں کہ ایک گھرانے میں میاں بھی اور بیوی بھی کمانے والے تھے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی لحاف کی ضرورت ہے اور میری طبیعت میں انقباض پیدا ہوا.لیکن جب میں نے پتہ کیا تو وہ گھر ماشاء اللہ بچوں کی برکت سے بھرا ہوا ہے اور دس بارہ افراد سونے والے ہیں تو مجھے پتہ لگا کہ وہ گھر والے تین تین بچوں کو لٹا کر ایک ہی رضائی اُن کے اُوپر ڈالتے تھے.تو مجھے شرمندگی ہوئی اور میں نے اُن کے لئے جس حد تک ممکن تھا انتظام بھی کیا لیکن میں برکت کی مثال آپ کو دے رہا ہوں تو اس مرتبہ میں نے اپنے دفتر سے پوچھا کہ سرد لحافوں پر کتنا خرچ آئے گا.انہوں نے کہا چار ہزار چار سو روپے.مجھے محسوس ہوا کہ یہ زیادہ ہے.میں نے کہا پچھلے سال کیا خرچ آیا تھا.کہنے لگے بائیں تمھیں سو روپے میں نے کہا یہ فرق کیوں ہے؟ کہنے لگے کہ روئی کی قیمت (اب زمیندار بڑا امیر ہو گیا ہے نا !!) دوروپے سیر سے چھ روپے سیر تک پہنچ گئی ہے.کپڑا پچھلے سال تین روپے گز تھا اب چھ روپے گز ہو گیا ہے.قیمتیں دوگنی ہوگئی ہیں.میں نے سوچا کہ اگر میں نے دو گنا خرچ کرنا ہے تو اتنے ہی پیسے خرچ کر کے میں دوگنی رضائیاں بناؤں گا اور ضرورت پوری ہو جائے گی اور اصل ان کے اس مہنگے اندازے نے میری توجہ اس طرف پھیری کہ اگر چار ہزار چار سو روپے کی رقم خرچ کرنی ہے تو پھر ایک سولحاف پر کیوں خرچ کی جائے.اس سے زائد پر خرچ کرنی چاہئے.میں نے انہیں کہا کہ اسی قیمت میں دو سو لحاف بنیں گے.وہ کہنے لگے کہ وہ کیسے؟ میں نے کہا کہ اس لئے کہ ہمارا احمدی زمیندار روئی کی کاشت کرتا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۲۷ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطا.ہے اور میں نے اپنے بچوں کو کہا کہ تم نے سائیکل کی سواری کی طرف توجہ دینی ہے خدا کی مخلوق کی خدمت کے لئے.تو گاؤں سے روئی اکٹھی کرو اور روئی اُگانے والے علاقہ کا زمیندار ایک لحاف کی تین سیر روٹی دے دے.جس نے دو چارا یکٹر میں بھی کپاس لگائی ہے.اُس کے لئے تین سیر روئی دینا کوئی بات نہیں ہے.اتنی روئی تو چوہیاں اُٹھا کر لے جاتیں ہیں اور واپس کچھ نہیں دیتیں.یہاں تو آپ دیں گے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے خدا تعالیٰ کے فضلوں سے آپ کی جھولیاں بھر دیں گے.بہر حال میں نے اندازہ لگایا کہ تین سیر روئی فی لحاف ڈالیں گے.اس حساب سے میں نے جماعت کو کہا کہ مجھے چھ سوسیر روئی چاہئے.تو سات آٹھ سوسیر روئی آگئی اور ساتھ روپے بھی آگئے اور معمول کے سولحافوں کے بجائے اس سال دو سولحافوں کا ارادہ تھا مگر اس کے مقابلہ میں قریباً ساڑھے تین سولحاف بن گئے.تو یہ برکت ہے.اس لئے دنیا ہمیں دولت مند سمجھتی ہے اور کئی مرتبہ مجھ سے بھی کوئی بات کرتا ہے تو میں کہتا ہوں الحمد للہ مجھے دولت مل گئی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہمارے پیسے میں برکت بڑی دی ہے ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں جتنا دوسروں کے پاس ہے لیکن پیسے میں برکت بڑی ہے.یہاں جب کا لج بنا تو میں پرنسپل تھا.لاہور میں ہمیں تنگ کیا جاتا تھا کہ ڈی اے وی کی بلڈنگ جماعت کی ضرورت سے زیادہ دے دی گئی ہے اور حکومت نے بڑا احسان ان پر کیا ہے اور ٹوٹی پھوٹی وہ عمارت اور اسی ہزار روپے کے قریب تو اس کے ایک حصہ پر ہمارا خرچ ہو گیا.تب ہم وہ کالج چلا سکے.خیر مجھے غیرت آئی کہ یہ لوگ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں؟ اُس وقت میں نے اس شاندار کالج کا جواب بن چکا ہے ایک نقشہ بنایا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا.حضرت صاحب سے میں نے کہا کہ آپ کہتے ہیں جلدی آؤ اور حکومت بھی لوگوں کے اعتراضات سے تنگ آئی ہوئی ہے.تو میں یہ نقشہ بنا کر لایا ہوں آپ منظوری دے دیں تو میں کام کروں اور ہم یہاں آجائیں.وہ بڑا سا نقشہ دیکھ کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ یہ نقشہ تو تم میرے پاس لے آئے ہو لیکن میں تمہیں بتادوں کہ اس قسم کی عمارت بنانے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں ہیں.تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے جرات دی میں نے کہا کہ میں اس وقت پیسے مانگنے نہیں آیا.میں صرف نقشہ منظور کروانے آیا ہوں.فرمانے لگے نہیں میں تمہیں ایک لاکھ روپیہ کالج کے لئے اور پچاس ہزار روپیہ ہوٹل کی تعمیر کے لئے دے سکتا ہوں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۲۸ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطاب اور کل کو میں یہ نہیں سنوں گا کہ جی بنیادیں بھر گئی ہیں اور پیسہ ختم ہو گیا اور پیسے دو.اس لئے واپس جاؤ اور اسی نقشہ پر نئے سرے سے لکیریں ڈالو اور کہو اتنا میں مکمل کر دوں گا.میں نے کہا ٹھیک ہے میں لکیریں ڈالتا ہوں لیکن میں نے کہا مجھے یہ اجازت دے دیں میں انفرادی طور پر جماعت کے اہلِ ثروت افراد سے یہ تحریک کروں کہ وہ اس میں مالی عطیہ دیں اور جتنی عمارت بن سکے ہم بنا دیں.خیر میں آگیا.میں نے لکیریں ڈالیں اور دوبارہ نقشہ حضرت صاحب کے پاس لے گیا.حضرت صاحب نے فرمایا ٹھیک ہے.عمارت شروع کر دی گئی.میں نے بنانے والوں سے کہا کہ پہلے تین Wings ( حصوں ) میں سے دو حصے بنانے شروع کر دو اور برآمدے نہ بنانا.پھر مجھے خیال آیا کہ برآمدوں کی کم از کم بنیا دیں پہلے بھر دینی چاہئیں ورنہ بنیاد ٹھیک نہیں رہے گی.میں نے کہا کہ چلو برآمدے کی بنیاد بھی بھر دو لیکن اوپر کی عمارت نہیں بنانی.کام شروع ہو گیا.پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دعاؤں سے ہمیں برکت دی اور جماعت کو یہ توفیق ملی کہ وہ حصہ لے اور وہ عمارت جو حکومت اپنی پوری نگرانی اور طاقت کے باوجود اُس سستے زمانے میں (ستے زمانہ میں ہم نے بنائی میں ستے زمانہ کی بات کر رہا ہوں ) تمیں چالیس لاکھ روپے میں بھی نہیں بناسکتی تھی وہ خُدا کے فضل سے چھ لاکھ روپے میں تیار ہوگئی اور زیادہ حصہ افراد جماعت نے خاموشی سے بھیج دیا اور وہ خرچ ہوتارہا اور خدا کی یہ شان دیکھی کہ وہ تعمیر کی نہیں.جب بھی پیسہ ختم ہونے لگتا تھا اللہ تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے مدد کے سامان کر دیتا تھا اور میں نے آپ سے جلسہ سے پہلے کہا کہ ایک دھیلہ بھی آپ کو خدا نے ضائع کرنے کے لئے نہیں دیا.میں نے آپ کو اُس وقت تو یہ بتایا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رکابی میں ایک لقمہ بھی اپنی ضرورت سے زائد نہ ڈالو.جس سے میں نتیجہ نکالتا ہوں کہ اُمتِ محمدیہ کے کسی فرد کو ایک نعمہ بھی ضائع کرنے کی نہ اجازت ہے اور نہ اسے پسند کیا گیا ہے.پس خدا تعالیٰ بھی جو ہم سے سلوک کرتا ہے وہ ضیاع سے بچاتا ہے.ایک مرتبہ مجھے یاد ہے گرمیوں میں میں چھت کے اوپر کالج کے ہال کی چھت ڈلوا رہا تھا اور کوئی ڈیڑھ سو بوری سیمنٹ ہم چھت کے لئے ہم ریت اور بجری میں ملوا چکے تھے.تو شمال سے دس بجے کے قریب بادلوں کی کالی گھٹائیں اُٹھیں میں نے سوچا کہ اگر یہ بارش اب ہوگئی تو یہ ڈیڑھ سو بوری سیمنٹ کی ( روڑی نے خراب نہیں ہونا ریت کچھ خراب ہو جائے گی لیکن اس کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۲۹ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطار قیمت زیادہ نہیں لیکن سیمنٹ کی ڈیڑھ سو بوری ضائع ہو جائے گی.تب وہ اللہ تعالیٰ جب اپنے عاجز بندوں کی دُعا قبول کرتا ہے تو ایک فقرہ بھی قبول کر لیتا ہے.اُس وقت میرے دل میں خیال آیا اور میں نے دُعا کی کہ خدایا تیرا نقصان ہو جائے گا.اگر یہ بارش برس گئی تو تیری جماعت کا نقصان ہو جائے گا اور اُس کے بعد میں نے اُن بادلوں کی طرف منہ کیا اور سر سے اشارہ کیا کہ اُدھر چلے جاؤ! اور بادلوں نے اپنا راستہ چھوڑا اور جنوب کی جانب نکل گئے اور ایک فرلانگ کے فاصلہ پر برستے ہوئے لائکپور کی طرف چلے گئے.تو خدا تعالیٰ کا فعل بھی ہمیں یہ بتاتا ہے اور اُس کا حکم اور تعلیم بھی ہمیں یہ کہتی ہے کہ ہمیں کوئی پیسہ ضائع کرنے کے لئے نہیں دیا گیا اور خدا تعالیٰ نے برکت ڈالی اور خدا تعالیٰ نے ہم عاجز بندوں کو (یعنی ساری جماعت کو ) یہ توفیق دی کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ کوئی پیسہ ضائع نہ ہو اور برکتوں سے ہمارے گھر بھر جاتے ہیں.میں نے بتایا کہ ہم اپنے بھائیوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک حد تک کوششیں کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس سال اتنی برکت دی کہ ضرورت بڑھ گئی تھی خصوصاً دو وجوہ سے ایک سیلاب کی وجہ سے نقصان ہو گیا تھا.یہاں ربوہ میں بہت سے لوگوں کے سامان ضائع ہو گئے تھے اور دوسرے سردی کی وجہ سے ضرورت بڑھ رہی تھی اور تیسرے یہ کہ کچھ گھروں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہوگی.اللہ تعالیٰ ہمارے گھروں میں وہ بھی برکت دیتا ہے بہر حال یہ جو مختلف شعبوں کی طرف سے امداد دی جاتی ہے.ایک امداد دی جاتی ہے پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے میری منظوری کے ساتھ.میرے پاس بعض ایسی درخواستیں آجاتی ہیں اور بعض لوگ بظاہر محتاج نہیں ہوتے وہ سفید پوش ہوتے ہیں اور ان سے بات کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے لیکن میں تو ہر ایک کے لئے اللہ کے حکم سے باپ کے طور پر ہوں اور اسی طرح میرے ساتھ جماعت کا ہر فر دسلوک کرتا ہے خواہ وہ اپنی عمر میں کتنا ہی بزرگ کیوں نہ ہو بہر حال وہ مجھے لکھ دیتے ہیں کہ ہمیں ضرورت ہے.میں پرائیویٹ سیکرٹری کے ذریعہ سے کچھ مدات ہیں بجٹ کی اور کچھ دوسری مدات ہیں جو باقاعدہ بجٹ کا حصہ نہیں ان میں سے ان کو مدد چلی جاتی ہے.کچھ وظائف مقرر ہیں طلبہ کے، بیواؤں کے، تو ستاون ہزار روپیہ اس مد سے دیا گیا ہے.صدر انجمن احمد یہ نے اپنے کارکنان کی امداد پر اکہتر ہزار سات سو چھہتر روپے کی امداد دی.تحریک جدید نے اپنے --
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۳۰ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطاب -------- کارکنان کی امداد پر چھتیس ہزار ایک سو تہتر روپے خرچ کئے اور اس کے علاوہ ہم یہاں امداد دینے ہیں جو ہمارے ادارے گندم کی سالا نہ ضرورت کا ۱/۴ حصہ مفت اپنے کارکنان کو دیتے ہیں.ہم نے حساب کیا ہے فی کس ۱/۲ سیر روزانہ کے حساب سے ساڑھے چارمن فی کس گندم سالانہ چاہئے تو جس کنبہ کے دس افراد کھانے والے ہیں اُس کو سال کی پنتالیس من گندم چاہئے.اس کا چوتھا حصہ یعنی سوا گیارہ من یہ مفت دی جاتی ہے اور باقی کے لئے قرض دیا جاتا ہے تاکہ سارا سال انہیں تکلیف نہ ہو.بہر حال جو یہ مفت والا حصہ ہے.اس پر صدرا مجمن احمد یہ خرچ کرتی ہے اور جو ایسے خاندان ہیں جو ایک حد تک اپنی غذائی ضرورتیں پوری کر سکتے ہیں ساری نہیں کر سکتے اُن کی فہرستیں بنوا کر اور محلوں سے مشورہ کرنے کے بعد اُن کو بھی زیادہ تر یہاں کے لوگوں کو اور کچھ ربوہ سے باہر کے لوگوں کو بھی گندم اور آٹے کے لحاظ سے جتنی ضرورت وہ پوری نہ کر سکیں اتنی کی انہیں امداد دے دی جاتی ہے.اس سکیم کے ماتحت چار سونو مختلف خاندانوں میں دو ہزار دوسو پنتیس من گندم تقسیم کی گئی.اس دفعہ ایک ہنگامی ضرورت پڑی.سیلاب آیا.ربوہ میں اتنی ضرورت نہیں پڑی کم پڑی ہے لیکن باہر بعض جگہ تو گاؤں کے گاؤں پانی میں گھر گئے تھے.وہاں جو ضرورت پوری کی گئی ہے اصل میں وہ اس عظیم جذبہ کے ذریعہ ہوئی ہے جو جماعت احمدیہ کے افراد کے دلوں میں موجزن ہے کہ رکسی کو ہم نے دُکھ میں نہیں دیکھنا.جہاں ہمیں دُکھ اور پریشانی نظر آئے گی اپنی بساط کے مطابق ہم اُس دُکھ اور پریشانی کو دور کرنے کی انتہائی کوشش کریں گے.چنانچہ بیسیوں گاؤں جو سیلاب میں گھرے ہوئے تھے اُن تک ہمارے بعض نوجوان چون چون میل سائیکل پر سوار ہو کر اور کبھی سائیکل کو اپنے اُوپر اُٹھا کر وہاں پہنچے ہیں اور دو دو تین تین دن تک کھانا وہاں پہنچاتے رہے.پھر اس کے بعد اُن کا دوسرا انتظام ہو گیا.پانی خشک ہو گیا یا کم ہو گیا.کوئی وہاں جانے کے لئے تیار نہیں تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعد میں فوج آئی ہے تو اس نے بڑا اچھا کام کیا ہے لیکن شروع میں تو انتظام ہی کوئی نہیں تھا.یہ جو سارا خرچ ہوا دوائیاں کپڑے، گھی ، دودھ چاول آٹا تھا وغیرہ وغیرہ ساری تفصیل تو میرے پاس رپورٹ میں تھی لیکن وہ میں نے چھوڑ دی اور ان سب چیزوں پر جماعت کے دولاکھ چوہتر ہزار نو سو بیس روپے خرچ ہوئے اور کسی پر احسان نہیں بلکہ ہم سمجھتے ہیں ، آپ بھی اور میں بھی کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۳۱ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطار اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے اپنے بندوں کی اس قسم کی خدمت کرنے کی ہمیں توفیق دی جس کی مثال اس ملک میں تو ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتی.فالحمد للہ علی ذلک.تحریک وقف عارضی ایک تحریک وقف عارضی کے نام سے میں نے شروع کی تھی گذشتہ سال دو ہزار چونتیس مردوں اور پانچ سو چوبیں مستورات کل دو ہزار پانچ سو اٹھاون افراد نے وقفِ عارضی کے لئے اپنے اوقات پیش کئے.سالِ رواں میں واقفین کے ۸۴۱ وفود اور واقفات کے ۳۸۱ وفود کل بارہ سو بائیس وفود بھجوائے گئے.اس طرف بھی جماعت کو زیادہ توجہ دینی پڑے گی.اس لئے کہ اگر یہ حقیقت ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ اسلام اور احمدیت کو مخلوق خدا کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اُن سے ہمدردی اور خیر خواہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اگر سارے انسانوں کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو سارے انسانوں کے حالات کا آپ کو علم ہونا چاہئے.اسی کے پیش نظر میں نے سائیکلوں والی مہم شروع کی اور سرگودھا سب سے آگے نکلا.بعض اور ضلعوں نے بھی کام کیا.سرگودھا نے اپنے ضلع کے قریباً سارے گاؤں سے ملاپ کیا اور ان کی تعداد ان کے نقشہ کے مطابق ایک ہزار اڑ تھیں اور ہمارے پاس ایک نقشہ ہے اس کے مطابق ایک ہزار نواسی ہے.کچھ فرق ہے لیکن اُن کے پاس جو نقشہ تھا اُس کے مطابق ہر گاؤں میں اُنہوں نے ملاپ کیا اور ہر گاؤں میں خالی ایک مرتبہ کا ملاپ تو کافی نہیں ہمارے پاس اتنی تعداد میں واقفین عارضی آنے چاہئیں اور آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ ایک شکل میں اس کی اس رنگ میں بدلتا ہوں کہ ان واقفین میں سے ایک حصہ تو پرانے طریق پر کام کرے گا اور اُن کا ایک حصہ سائیکل سوار واقفین کا ہوگا اور ان کو ایک گاؤں نہیں بلکہ پانچ یا دس گاؤں دیئے جائیں گے اور اس دو ہفتہ کے وقت میں وہ ان پانچ سات یا دس گاؤں جو اُن کے سپرد ہوں گے ان میں وہ چکر لگاتے رہیں گے اور ان کے حالات معلوم کریں گے اور اُن کی خدمت کریں گے اور ان کی اصلاح اور تربیت کے لئے کوشاں رہیں گے.اس غرض کے لئے صرف ایک ضلع میں آپ کو ایک ہزار سے زائد واقفین کے وفود کی ضرورت ہے اور آپ نے سارے پاکستان کے لئے ہمیں بارہ سو بائیس وفود دیئے ہیں نہ صرف یہ کہ کام کا وقت ہے بلکہ کام کو بڑا تیز تر کرنے کا وقت ہے.اس کے لئے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۳۲ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطار ہمیں کوشش کرنی چاہئے.اس لئے کہ تاریخ محفوظ رہے اور اس لئے کہ جو واقفین ( عارضی ) ہیں اُن کو ہمیشہ دعائیں ملتی رہیں.میں نے شروع سے ہی اپنے دفتر کو کہا کہ جب کچھ عرصہ کام ہو جائے تو کام کے بعض حصوں کی تکمیل ناممکن ہو جاتی ہے کیونکہ ان حصوں کا کام بہت بڑھ جاتا ہے.اس لئے شروع سے یہ کرو کہ واقفین کے کارڈ بناؤ.چنانچہ جس طرح لائبریری کی کتابوں کے کارڈ ہوتے ہیں جہاں سے اس کتاب کا نام پتہ معلوم ہوتا ہے اسی طرح ان واقفین کے متعلق معلوم ہو سکے کہ کب وقف کیا.پھر کب دوبارہ وقف کیا پھر سہ بارہ کب وقف کیا.کیار پورٹ ہے.کس علاقہ میں اُس نے کام کیا.یہ کارڈ اس وقت تک دس ہزار ایک سواستی بن چکے ہیں.میں سمجھتا ہوں یہ بڑا کام ہے اور بڑا مفید کام ہے.مجھے یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی کہ اتنے ! احمدیوں کے کارڈ واقفین کے طور پر ہماری کیبنٹ (چھوٹی سی الماری میں محفوظ کر لئے گئے ہیں.پاکستان کے باہر بڑی حد تک انگلستان اور تنزانیہ اور سیرالیون اور گیمبیا اور ایران اور جزائر نجی وہاں وقف عارضی کے ماتحت کام ہوا.ان کا ایک کام فضل عمر درس القرآن کا ہے.اس سال فضل عمر درس القرآن کلاس میں ۸۱۶ افراد شریک ہوئے جن میں طلبہ ۳۰۱ اور طالبات ۵۱۵ تھیں، اس کلاس کے ذریعہ طالبات نے قرآن کریم سیکھنے میں بہت دلچسپی لی ہے.اللہ تعالیٰ اُن کی عمروں میں برکت ڈالے اور وہ تمام برکات انہیں نصیب ہوں جن کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت کو دیا گیا ہے اور اللہ تعالی طلبہ کو بھی توفیق دے کہ وہ اس طرف زیادہ توجہ دیں اور اپنی بہنوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں.ہفتہ قرآن مجید جو جماعتیں اپنے طور پر قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلانے کے لئے اور دوستوں کو قرآن کریم کا علم دینے کے لئے مناتی ہیں یہ ہفتہ بھی منایا گیا.نظارت اشاعت لٹریچر اس نظارت کی طرف سے کچھ کتب شائع ہوئیں جن کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں.اب ان کی طرف سے ایک لاکھ پچانوے ہزار ( کتب سمیت) پمفلٹ اور رسائل شائع کئے گئے ہیں.یہ جو مختلف وقتوں میں ( دیکھنے میں تو یہ بھی کام تھے لیکن ہمارا تو سارا کام ہی دینی ہے ) کام ہوا اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۳۳ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطاب ہر اس سے جماعت کا یہ حصہ یعنی کام بڑا منظم ہو گیا ہے کہ اپنا لٹریچر اور پمفلٹ وغیرہ کس طرح پہنچانے ہیں.ایک وقت میں پانچ ہزار کی تقسیم نہیں ہوا کرتی تھی اور گذشتہ سال بعض دفعہ ایک لاکھ ہم نے دیا اور ہمیں اور مطالبہ آگیا کہ اور دیں ہمیں تقسیم کرنے کے لئے.یہ تو ہے لٹریچر جو نظارت اشاعت لٹریچر نے شائع کیا.میرا خیال ہے اس کے علاوہ بھی لاکھوں کی تعداد میں پمفلٹ شائع کئے گئے ہیں اور تین لاکھ پمفلٹ تیار ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین حوالوں پر مشتمل تین لاکھ پمفلٹ تیار ہے اور یہ جو ہمارے مخالفوں نے ہم پر افترائے عظیم کیا کہ جماعت احمدیہ نے نعوذ باللہ کلمہ طیبہ بدل دیا ہے اُس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین حوالے لے کر الے پر مشتمل ایک دو ورقہ اور ہر ایک، ایک لاکھ کی تعداد میں شائع کیا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کی صحیح اور کامیاب اشاعت کرے گی اور اس طرف توجہ ہو رہی ہے لیکن اپنے ملک کے لحاظ سے اور گاؤں کی تعداد کے لحاظ سے ابھی بہت کام ہیں جو ہمیں یہاں کرنے ہیں اور کرنے پڑیں گے.اگر جماعت نے یہ نظارے دیکھنے ہوں کہ ساری دنیا میں اسلام غالب آ گیا.تو وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاعَدُّوا لَهُ عُدَّةً (التوبة : ٢٦ يه الزام صرف منافق پر پڑتا ہے کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ تم یہ کام کرنا چاہتے تھے درست نہیں ہے.اس لئے کہ جو کام تم اپنے دعوئی کے مطابق کرنا چاہتے ہو اس کے لئے تم نے تیاری ہی نہیں کی اور خدا کے فضل سے ہم تو منافق نہیں.ہمارے اندر نور ایمان ہے ہمارے اندر اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے سمندر کے پانیوں سے بھی زیادہ موجزن ہے.ہم نے جو کام کرنا ہے اس کے لئے ہم نے تیاری بھی کرنی ہے اور خدا کے فضل اور اس کی توفیق سے اس میں اُسی کی بشارتوں اور فضلوں کی وجہ سے کامیاب بھی ہونا ہے.وقف جدید امسال وقف جدید کا بجٹ دولاکھ بیالیس ہزار روپے تھا.وعدہ جات دولاکھ پچیس ہزار روپے کے قریب ہوئے.پچھلے سال سے قریباً ساٹھ ہزار روپے کا اضافہ ہے لیکن جو بجٹ ہے اگر اُس کے مطابق جماعت پورا کر دے تو بڑی اچھی بات ہے.ان کا کام اور زیادہ اچھی طرح ہو جائے گا.وقف جدید کے معلمین سے قاعدہ يسرنا القرآن پڑھنے والوں کی تعداد ایک ہزار سات سو چار.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۳۴ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطاب ناظرہ قرآن کریم پڑھنے والوں کی تعداد ایک ہزار چار سو چالیس اور باترجمہ پڑھنے والوں کی تعداد پانچ سو بتیس ہے.خدمت خلق کے بھی اس ادارے نے بڑے کام کئے ہیں.اس کا کچھ ذکر تو پہلے آ گیا ہے.ایک بڑی خوش کن خبر ہے ایک بڑا عجیب واقعہ رونما ہو رہا ہے کہ ہمارے پاکستان کے بعض علاقوں میں اچھوت ہندو ر ہتے ہیں اور کسی کی توجہ اُن کی طرف نہیں.چند سال سے جماعت احمدیہ نے ان کی طرف توجہ کی اور ان میں سے سینکڑوں حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں اور اگر ہم ان کی طرف صحیح توجہ دیتے رہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے گا تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اگلے آٹھ دس سال میں یہ سارے ہندو نہیں تو ان کی اکثریت اسلام اور احمدیت کو قبول کر چکی ہوگی.یہاں مسجدیں بن رہی ہیں اور دوسرے بھی اچھے کام ہورہے ہیں.اشاعت قرآن عظیم کا جو ایک نیا ادارہ میں نے قائم کیا تھا وہ کثرت سے قرآن کریم انگریزی ترجمہ والا باہر بھجوا چکا ہے اور یہاں بھی اُردو تر جمعہ والا قرآن مجید شائع کیا اور بچوں کے لئے جمائل جو بے حد مقبول ہوئی ہے اور اس میں دور و کیں پیدا ہو گئیں.ایک تو عارضی روک ہے.آپ گھبرایا نہ کریں کئی لوگ گھبرا جاتے ہیں.اگر ہمیں ہمارے یہ بھائی چنگیاں نہ کاٹیں اگر ہمیں یہ سوئیاں نہ چھوئیں تو ہم چین کی نیند کیسے سوئیں.ہمیں تو اس کی عادت پڑ چکی ہے اور خدا تعالیٰ نے اُن کو پوری طرح ہوشیار اور بیدار رکھا ہوا ہے.کوئی نہ کوئی کام کرتے رہتے ہیں لیکن کبھی اُنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ تم اسی سال سے یہ کام کرتے آرہے ہو اور اسی سال سے ہم زمین کے ایک ذرّہ کی طرح ظاہر ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت اور برکت کی ہوا ایسی چلی کہ ساری دنیا میں ہم پھیل گئے.نہ تمہاری چنگیوں نے ہماری راہ کو روکا نہ تمہارے سوئیاں چھونے نے ہمیں کمزور کیا.شروع میں تو انہیں پتہ ہی نہیں لگا کہ وہ کیا کر رہے ہیں انہوں نے ہمیں اجازت دے دی.باہر بھجوانے کے لئے اجازت لینی پڑتی ہے.ہم تو قانون کے پابند لوگ ہیں.وہ ہمیں اجازت دے دیتے تھے ہم بڑے خوش تھے اور قرآن کریم باہر جا رہا تھا لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ ہزار ، دو ہزار ، دس ہزار ہیں ہزار یہ تو کہیں کے کہیں پہنچتے چلے جارہے ہیں تو اب کچھ رستہ میں روک ڈالتے ہیں لیکن میں نے بتایا کہ اس سے زیادہ اس روک کی اہمیت نہیں جتنا بچے آپس
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۳۵ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطار میں مذاق کرتے ہوئے ایک دوسرے کو سوئی چبھو دیتے ہیں.روٹی کا ایک ہلکا سا ذرہ لے کر فاختہ اُڑانا اسے کہا کرتے تھے.کبھی ہم بھی بچپن میں سکول کے زمانہ میں کیا کرتے تھے.فاختہ اُڑا دیتے ہیں.اس سے نقصان تو کچھ نہیں ہوتا یہ تو ایک کھیل ہے.تو وہ ہم سے کھیلیں کھیل رہے ہیں اور ہم سنجیدگی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں.وہ اپنا کام کرتے چلے جائیں خدا ہمیں توفیق دے گا ہم اپنا کام کرتے چلے جائیں گے.کامیابی تو بہر حال اسلام کے لئے مقدر ہے اور خدا تعالیٰ کی توحید سے متعلق ہی یہ فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا ہے کہ اس نے اب دنیا میں قائم ہونا ہے.بہر حال اُس تیز رفتاری کے ساتھ قرآن کریم باہر نہیں جاسکا اور دوسری روک اس میں یہ پیش آئی کہ کاغذ کا ملنا بند ہو گیا اور جو مل رہا ہے وہ خراب مل رہا ہے.اس لئے میں نے جب دیکھا کہ اس قرآن کریم کا فائدہ افریقہ کے ممالک میں بڑا ہے اور مجھے خیال آیا کہ بعض اور مصلحتیں بھی تھیں افریقہ اور یورپ میں بھی انگریزی جرمن اور ڈچ زبانوں وغیرہ کے اس طرح کے جمائل طرز کے قرآن کریم کثرت کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں بھجوائے جائیں پھر مشورے کئے ، جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ یہ موجودہ پاکستانی کاغذ جو ہمیں دستیاب ہے یہ ان کے معیار کا نہیں ہے.پھر انگلستان کی لجنہ نے مجھے چار ہزار پاؤنڈ پیش کئے تھے.میں نے انہیں کہا کہ تمہیں قیامت تک ثواب ملتا رہے گا.میں ان چار ہزار پاؤنڈ کو قرآن کریم کی اشاعت میں لگا دیتا ہوں تم چار ہزار پاؤنڈ نقدی کی صورت میں دینے کی بجائے مجھے چار ہزار پاؤنڈ کا کاغذ بھجوا دو.وہ کاغذ یہاں پہنچ چکا ہے اور بہت ہی اچھا کاغذ ہے اور وہ کاغذ جسے میں تو قرآن کا کاغذ کہتا ہوں اور عیسائی دنیا اُسے بائیل پیپر کہتی ہے لیکن ہوگا کبھی وہ بائیل کا کا غذاب تو قرآن کا زمانہ آ گیا.اب تو وہ قرآن کریم کا ہی کا غذ کہلائے گا.قرآن کریم کی تمیں ہزار جلد میں اس کا غذ سے جو لجنہ کی طرف سے تحفہ آیا ہے وہ تیار ہوں گی اور اُسے ہم یورپ اور امریکہ میں بجھوائیں گے.یورپ میں بھی انگریزی جاننے والے ہیں.اس کے بعد دوسرے تراجم کی باری بھی آجائے گی.بہر حال یہ کام ہو رہا ہے اس طرح تو نہیں اس رفتار سے تو نہیں.اس مقدار میں بھی ہو وسعت میں بھی یعنی جو ہماری خواہش ہے لیکن کام شروع ہو گیا اور اسی سلسلہ میں میں نے کہا تھا دُنیا میں ہوٹلوں کے ہر کمرہ میں قرآن کریم مترجم رکھ دو.اب ہر وہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۳۶ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطار کمرہ جس کے اندر اس وقت بائیبل موجود ہے اُس کے اُوپر قرآن کریم مترجم رکھا ہونا چاہیئے اور یہ کام شروع ہو گیا.اس کو وقت لگے گا لیکن نائیجیریا میں بارہ ہوٹلوں میں گیارہ سو میں کمرے تھے.گیارہ سو میں قرآن کریم کی کا پہیاں ان کو دی گئیں.سیرالیون میں پانچ ہوٹلوں میں چارسو کمرے تھے ان کو چار سو قر آن کریم دیئے گئے.جزائر مجی میں پانچ سو قر آن کریم ہوٹلوں میں رکھنے کے لئے دیئے گئے.اسی طرح زیمبیا میں ایک ہوٹل میں ہیں قرآن کریم دیئے گے.یہ اعداد اُس رپورٹ کے مطابق ہیں جو ہمیں پہنچ چکی ہے لیکن جس تعداد میں باہر گئے ہیں جو اجمالی رپورٹیں ہم تک پہنچی ہیں اس سے ہم یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ اس سے بہت زیادہ قرآن کریم ہوٹلوں میں رکھے گئے ہیں.غانا میں ایک سٹیٹ ہوٹل کارپوریشن ہے.یعنی حکومت کے جو ہوٹل ہیں ان سب کا نظام ایک ہے اور ان پر کوئی فوجی افسر سر براہ ہے اور اُنہوں نے ایک موقع پر قرآن کریم وصول کئے.تو ایک تقریب کے موقع پر تقریر کی وہ تقریر بڑی دلچسپ ہے.اُنہوں کہا اس تحفہ کی پیشکش سے بوجوہ میں بے حد متاثر ہوا ہوں میں دنیا میں گھوما پھرا ہوں دنیا کے ہر خطہ اور علاقہ میں مجھے جانے کا موقع ملا ہے ہر ہوٹل میں جہاں بطور مہمان میں ٹھہرتا رہا میرے کمرہ میں ہمیشہ ہی بائیل کا ایک نسخہ موجود ہوتا تھا.خود ہمارے ہوٹلوں کے تمام کمروں میں بائیبل کے نسخے موجود ہیں.اکثر و بیشتر میں اس امر پر حیران ہوتا رہا ہوں کہ دوسرے مذاہب والے اس قسم کی جگہوں پر اپنالٹریچر کیوں نہیں رکھواتے تاکہ اُن کے اپنے پیرووں کو سفر کے دوران بھی دستیاب ہوسکیں اور وہ اس سے استفادہ کر سکیں.آج کی تقریب جس میں اس غرض کے لئے قرآن شریف کے نسخے بطور تحفہ عطا کئے گئے ہیں اسی لئے میری نگاہ میں بہت اہمیت کے حامل ہیں.آج کے دن کے بعد جو مسلمان بھی باہر سے غانا آئے گا یا خود اس ملک کا کوئی مسلمان ان ہوٹلوں یا ریسٹ ہاؤسز میں - ނ کسی ایک میں قیام کرے گا جو سٹیٹ ہوٹلز کارپوریشن چلا رہی ہے تو وہ اپنی مقدس کتاب استفادہ کرنے سے محروم نہیں رہے گا اور اگر وہ مذہبی قسم کا نہ بھی ہوا تو بھی اُسے یہ ضرور احساس ہوگا کہ اُس کے مذہب کو نظر انداز نہیں کیا گیا.ہاں بائیل کے ساتھ قرآن کریم کو موجود نہ پا کر اُسے نظر انداز کئے جانے کا احساس ضرور ہوتا ہوگا ( اور جس کے ذمہ دار تو وہ خود تھے ) ہوٹل کے کمروں میں قرآن کریم کے نسخے موجود پا کر غیر مسلموں کو بھی یہ موقع ملے گا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۳۷ ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطار کی لائی ہوئی تعلیم کا مطالعہ کر کے اپنی معلومات میں اضافہ کر سکیں.پس یہ کام شروع ہو چکا ہے.دنیا میں ہوٹلوں کے کمرے چند ملین ضرور ہوں گے.چالیس پچاس لاکھ یا ممکن ہے ایک کروڑ سے بھی زیادہ کمرے ہوں اور جو کام شروع ہی نہ ہو وہ اپنی انتہا تک کیسے پہنچ سکتا ہے.یہ واضح بات ہے جو کام شروع ہو جائے اور چلتا رہے وہ ضرور پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا.جو کام شروع ہو اور رُک جائے وہ عارضی طور پر یا ہمیشہ کے لئے نا کام ہو جائے گا.یہ کام شروع ہو گیا اور رُکے گا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ ایک جماعت نے اسے شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کی قادرانہ مدد اور نصرت ان کے شامل حال ہے.اس لئے رُکے گا نہیں.اس لئے ہم علی وجہ البصیرت نہ کہ صرف حسن ظن کی بنا پر بلکہ ہماری عقل بھی یہ کہتی ہے کہ ایک دن آنے والا ہے اور میں سمجھتا ہوں بڑی جلدی آنے والا ہے جب دنیا کے ہر ہوٹل کے ہر کمرہ میں بائیل ہو یا نہ ہو قرآن کریم کا ترجمہ ضرور ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ.ہمارے پاس اس وقت بھی (جبکہ پہلے کی تعداد سے نسبتاً زیادہ مبلغین تیار ہو رہے ہیں) دوسونو مبلغین ہمارے پاس ہیں.اندرونِ ملک یعنی اصلاح وارشاد کے لئے بھی اور اصلاح کے کام اور اشاعت اسلام کے لئے باہر بھجوائے جانے کے لئے بھی.یہ تعداد بھی بڑی کم ہے اور اسی کے متعلق آپ کو اپنے گھروں میں سوچنا چاہئے.کیونکہ ان میں شامل ہونے والے وہ ہیں جو آپ کے گھروں جو آپ کی گودیوں میں پلے ہیں.وہ آپ نے کوشش کر کے اور صحیح تربیت کر کے اپنی گود جس کے ساتھ ہزار بلا بھی شامل ہے وہاں سے اُٹھا کر اُسے اللہ کی گود میں بٹھانا ہے.جس کے ساتھ کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا.گھروں میں سوچیں اور وہ بچے پیدا کریں جو دین کی خاطر اپنے زندگیوں کو وقف کرنے والے ہوں.تحریک جدید کے ماتحت اس وقت صرف ستائیس مشن کام کر رہے ہیں اور چونکہ حديقة المبشرین کے نظام میں سارے مبلغین کو اکٹھا کر دیا گیا ہے اور حسب ضرورت ان کو مبلغ مل جاتے ہیں پس ستر مرکزی مبلغ باہر کام کر رہے ہیں اور میرا خیال ہے کہ کم و بیش اتنے ہی مقامی مبلغین بھی تحریک جدید کے زیر انتظام کام کر رہے ہیں.لا اله الا الله محمد رسول اللہ کی تعلیم صحیح معنی میں مساجد کے مدرسہ ہی میں سیکھی جاسکتی ہے.جہاں اللہ تعالیٰ کے حضور انسان
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۳۸ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطا.پانچ وقت جمع ہو کر اُسی کے متعلق اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق علم حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.تو ہم نے ان جماعتوں میں جہاں مساجد نہیں تھیں ان علاقوں میں جہاں دہریت پھیلی ہوئی تھی ان علاقوں میں جہاں شرک موجزن تھا غالب اور صاحب اقتدار تھا ان علاقوں میں خدا کے نام کو بلند کرنے کے لئے اس کلمہ طیبہ سے نوع انسانی کو روشناس کرانے کے لئے مساجد تعمیر کی ہیں اور کرتے چلے جا رہے ہیں.بہت سی پہلے بن چکیں.اس ایک سال میں تحریک جدید کے نظام کے ماتحت انیس نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں.قرآن کریم کے تراجم اس وقت انگریزی زبان میں.ڈچ ، جرمن ، ڈینش ، اندونیشین، سواحیلی ان چھ زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور تحریک جدید کے ماتحت گیارہ سیکنڈری سکول کام کر رہے ہیں اور تین میڈیکل سینٹر ہیں جو بڑے کامیاب ہیں.پرانے سکول ہیں اور بہت ہی زیادہ مقبول ہیں اور اب میں آگے آتا ہوں.ایک دوسری سکیم جاری ہوئی اور پہلو بہ پہلو بہت زیادہ تیزی کے ساتھ ہسپتال اور طبی مراکز قائم کئے گئے اور ہائر سیکنڈری سکول بھی کھولے گئے.اس کے علاوہ مڈل اور پرائمری سکول وہ تو سینکڑوں کی تعداد میں کام کر رہے ہیں.مغربی افریقہ میں سو ڈیڑھ سو کے قریب سکول ہیں.بہر حال علمی میدان میں جماعت ان پسماندہ علاقوں کی بہت خدمت کر رہی ہے.۱۹۷۰ء میں میں نے مغربی افریقہ کا دورہ کیا مغربی افریقہ میں بہت سے ممالک ہیں ان میں اس وقت تک چھ ممالک میں ہمارے با قاعدہ مرکزی مبلغ اور تبلیغی مراکز پائے جاتے ہیں.دو نئے ہیں.اور چار پرانے نائیجیریا، غانا، سیرالیون اور گیمبیا.نئے ہیں آئیوری کوسٹ اور لائبیریا.لائبیریا میں اُس وقت نیا نیا مشن تھا.وہاں کے پریذیڈنٹ جو بعد میں فوت ہو گئے بڑے اچھے دل کے مالک تھے دنیوی لحاظ سے سب کا خیال رکھنے والے تھے.میں نے اُن سے نہیں کہا تھا اُنہوں نے خود جماعت سے وعدہ کیا کہ وہ ایک سوا سیکٹر زمین جماعت کو اپنے تبلیغی مرکز اور سکول اور ہسپتال کے لئے دیں گے لیکن ہمارے ان ممالک میں سرخ فیتہ (Red Ribbon) چلتا ہے وہ وہاں بھی چلتا ہے.دیر ہوگئی.اس عرصہ میں وہ فوت ہو گئے.مجھے خدشہ بھی پیدا ہوا لیکن انہوں نے دھڑلے کے ساتھ بھری مجلس میں یہ اعلان کیا تھا کہ میں نے ان سے وعدہ کیا ہے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۳۹ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطار کہ سوا پکڑ ان کو دوں گا اور بعد میں آنے والوں نے اُن کی عزت کرتے ہوئے ان کی زبان کا پاس رکھا اور پچھلے سال با قاعدہ قانونی طور پر سوا یکٹر زمین رجسٹر ہو چکی ہے اور شاید کچھ اور بھی مل جاۓ.فالحمد للہ.بہر حال جب میں دورہ پر گیا تو خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالا کہ ہم نے خدمت کی اور بے لوث خدمت کی.ہم نے ان کی سیاست میں دلچسپی نہیں لی.ان کے مال میں سے ایک پیسہ پر بھی ہماری نگاہ نہیں پڑی ہم باہر سے آئے انہیں اس قابل تو بنایا کہ وہ سیاست میں زیادہ مدبرانہ طور پر حصہ لے سکیں لیکن ان کی سیاست میں ہم نے حصہ نہیں لیا.ہم نے اُن کی دولت میں کوئی لالچ یا طمع نہیں کیا.ان کو تعلیم دے کر اس قابل بنادیا کہ اپنے لئے اور اپنے ملک کے لئے یہ زیادہ کمائیں لیکن پھر بھی جو کرنا چاہئے تھا جس کے یہ مستحق اور ضرورت مند ہیں وہ ہم نے نہیں کیا.اس سلسلہ میں انسان سوچتا بھی ہے اور دعائیں بھی کرتا ہے.پانچواں ملک جہاں میں گیا وہ گیمبیا تھا اور گیمبیا میں اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ کہا کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ ان ممالک میں ان کی خدمت کے لئے خرچ کرو.جب میں وہاں سے واپس آیا تو پہلا ملک جہاں افریقہ سے باہر ٹھہر اوہ انگلستان تھا.میں نے اپنے بھائیوں سے بڑی وضاحت سے یہ کہا کہ خدا نے یہ کہا ہے کہ یہ کام کرو میں اُن سے اللہ تعالیٰ کی اس منشاء کے مطابق یہ وعدہ کر کے آیا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے پانچ سات سال کے اندر اندر تمہارے مملکوں میں سولہ نے طبی مراکز کھولوں گا اور کافی نئے سیکنڈری سکول کھولوں گا.تعداد بھی میں نے بتائی تھی اس وقت مجھے یاد نہیں رہی بہر حال سولہ سے زیادہ ہی بتائی ہوگی.اس کے لئے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے.اس کے لئے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے اس کے لئے ٹیچرز اور پروفیسروں کی ضرورت ہے اس کے لئے مال کی ضرورت ہے اور چونکہ خدا نے کہا کہ کم سے کم اتنا خرچ کرو اس لئے میں اپنے رب سے یہ امید رکھتا ہوں کہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے سامان وہ خود ہی پیدا کر دے گا اور مجھے ایک سیکنڈ کے لئے بھی گھبراہٹ نہیں کہ مجھے ڈاکٹر کہاں سے ملیں گے سکولوں میں پڑھانے والے ایم ایس سی لیکچررز کہاں سے آئیں گے سکولوں یا ہسپتالوں کی عمارتیں بنانے کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا.خدا کی یہ منشاء ہے خدا کی منشاء پوری ہوگی.ایک چیز کی مجھے فکر ہے اور وہ یہ میرا پہلا اعلان تھا وہاں سے آکر اور مجھے بھی اس کی فکر ہے تمہیں بھی اس کی فکر کرنی پڑے گی پیسہ بھی خدا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۴۰ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطاب دے گا اور آدمی بھی دے گا لیکن مجھے اور تمہیں یہ فکر کرنی چاہئے کہ ہم یہ حقیر قربانی جو اپنے رب کے حضور پیش کریں وہ قبول ہوتی ہے یا نہیں.اس کے لئے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا ہماری ان حقیر قر بانیوں کو قبول فرمائے.مجھے بھی یہ فکر ہونی چاہئے اور آپ کو بھی یہ فکر ہونی چاہئے.میں نے ان سے پانچ سات سال کا وعدہ کیا تھا کہ اس عرصہ میں اتنے ہیلتھ سنٹر بن جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے یہ سامان پیدا کئے کہ ابھی ڈیڑھ سال نہیں گذرا تھا کہ وہاں سترہ طبی مراکز بن گئے جن میں سے کئی بڑی عمارتوں والے ہسپتال عملاً بن چکے ہیں اور کئی اس راہ پر ہیں جو آج نہیں تو کل.اور ہمارے نئے سکول اور کھلے ہیں اس کے لئے بائیں اساتذہ یہاں خدا نے دیئے اور وہ وہاں کام کر رہے ہیں سکول بھی ہیں اور ہسپتال بھی.سکول ہسپتال کی نسبت زیادہ وقت میں بالغ ہوئے ہیں.کیونکہ ہسپتال آج اگر جا کر کام شروع کرے اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفاء دے تو کل کو دوسرے ہسپتالوں کے مریض وہاں آنے شروع ہو جائیں گے لیکن سکولوں کی ہر سال ایک نئی کلاس زائد ہوتی ہے.اگر زیادہ ہمت کریں تو ایک سال میں دو کلاسیں اور پانچویں سال میں یا تین چار سال میں مکمل ہوتا ہے اور چھیل کر اس پر خرچ آتا ہے بہر حال سکولوں میں کام ہو رہا ہے اور اساتذہ کی زیادہ ضرورت بھی پڑ رہی ہے اور ی اساتذہ میسر بھی آرہے ہیں اور ڈاکٹروں پر تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا اس طرح ہاتھ رکھا کہ ایک ڈاکٹر نے ڈیڑھ سال میں تمہیں ہزار پاؤنڈ خالص بچت کی.حالانکہ ہزاروں کی تعداد میں غریبوں کا علاج مفت کیا لیکن خدا تعالیٰ نے ہاتھ میں اتنی برکت رکھی کہ بڑے بڑے دولت مند جو افریقہ میں رہتے ہیں جن میں حکومت کے بڑے بڑے افسر یہاں تک کہ وزراء شامل تھے اپنے ہسپتالوں کی بجائے وہ ہمارے چھوٹے چھوٹے کلینکوں میں آنے شروع ہو گئے.خدا نے انہیں پیسہ دیا تھا اور ڈاکٹروں کو پتہ تھا انہوں نے اُن سے پیسے لئے.اُن کے پیسے میں ہمیں دلچسپی نہیں تھی.اُن کا پیسہ ہم ان ہی کے مُلک پر خرچ کرنا چاہتے ہیں.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہم نے وہاں خرچ کیا ہے.پھر ایک دھیلہ ہم وہاں سے باہر نہیں لے کر آئے.بلکہ لاکھوں باہر سے ہم وہاں لے کر جاتے ہیں اور ان پر خرچ کرتے ہیں.یہ نہ فخر کی بات ہے اور نہ یہ کسی پر احسان ہے یہ تو خدا کی شان ہے کہ وہ اپنی رحمت سے ہم پر یہ احسان کرتا ہے کہ وہ ہمیں اپنی مخلوق کی خدمت کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۴۱ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطار دیتا ہے اور ہمارے دل اس کی حمد سے بھرے ہوئے ہیں اور ہم اُس کے احسان مند ہیں اور ممنون ہیں ہمارا کسی پر احسان نہیں ہے.پھر وہاں ایک اور واقعہ ہوا.وہاں پہلا ملک ہے جہاں نائیجیریا نے فیصلہ کیا کہ سکولوں کو قومیالیا جائے.(Nationalize کر لیا جائے ) لیکن اُنہوں نے اپنے صوبوں کو کہا کہ اپنے حالات کے مطابق کام کرو.ایک وہ صوبہ تھا جہاں ہم دو سکول کھول چکے تھے جہاں ہم ان سکولوں کی عمارتوں پر ابتدائی خرچ ( پورا تو نہیں کیونکہ ابھی میں نے بتایا ہے کہ کئی سال میں دو سکول مکمل ہوتے ہیں ) ابتدائی طور پر چند لاکھ روپیہ ہم خرچ کر چکے تھے.انہوں نے کہا ہم سکولوں کو قومیا لیتے ہیں اور ہم جتنا خرچ ہوا ہے وہ خرچ کرنے والوں کو ( معاوضہ کے طور پر ) دیں گے.مجھے اُنہوں نے لکھا میں نے کہا وہاں جو گورنر تھے عثمان فاروق صاحب بڑے اچھے آدمی ہیں.میں نے اُن سے ۱۹۷۰ء میں وعدہ کیا تھا اُن سے جا کر کہو تمہاری خدمت کے لئے آئے تھے تمہاری خدمت میں ہم نے سکول تیار کر دیئے.تم چاہتے ہو کہ انہیں قومیا لو بڑی خوشی سے ایسا کر لو.یہ سکول تمہارے لئے بنے ہیں تم لے لو اور معاوضہ ہم نے کوئی نہیں لینا.ہمارے اس رویہ سے وہ بڑے حیران ہوئے.ان کا سارا ملک حیران ، اُن کے عوام حیران ، ان کی حکومت حیران ، ان کے اخبار حیران ، ان کا ریڈیو حیران ، ان کا ٹیلیویژن حیران.سارے پر لیس میں یہ بات آگئی کہ وہ کہنے لگے عجیب لوگ ہیں یہ باہر سے آئے ہیں حکومت پیسہ دیتی ہے یہ لیتے نہیں ہیں.ہم کیوں لیتے ہم تو خُدا کے مزدور ہیں اس کی مخلوق کی خدمت اُس دنیا میں جا کر کر رہے ہیں.خیر عیسائی بڑا گھبرائے وہ ہم سے ناراض ہو گئے.اُنہوں نے کہا عجیب ہو تم ! ہم نے تو بڑی بڑی فہرستیں بنائی تھیں پیسہ لینے کے لئے مگر تم نے ہمارا دروازہ بند کر دیا.تم نے کہا کہ مفت لے لو اب ہمیں بھی سوچنا ہے.مفت تو شاید نہ دیں لیکن چھوڑنا پڑے گا بہت کچھ.خیر تمہاری اپنی نیتیں ہیں.تمہارے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک اور ہے ہمارے ساتھ اور ہے ہم نے تو ہر دینی اور دنیوی حسنہ اُسی سے حاصل کرنی ہے کسی اور کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا نے نہ آج تک پھیلائے ہیں نہ کبھی.پھیلائیں گے اللہ کی توفیق سے.ہمارے جو سترہ طبی مراکز وہاں کام کر رہے ہیں.ان کے کوائف مختصراً یہ ہیں کہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۴۲ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطاب اکتو بر۱۹۷۳ ء تک ( یہ تین ماہ قبل کی رپورٹ ہے ) کل مریض جو ان سترہ طبی مراکز میں علاج کے لئے آئے ان کی تعداد ۶۶۹۰۰۰ ہے.۶۶۹۰۰۰ مریضوں کا اِن پسماندہ ممالک میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہمارے احمدی ڈاکٹروں نے علاج کرنے کی توفیق پائی اور قریباً ۶۰۰۰۰ مریض ایسا تھا جس کا تمام علاج مفت ہوا.نہ فیسیں لی گئیں نہ دوائی کے پیسے لئے گئے اور جو دے سکتے تھے ان میں سے بعض ایسے تھے جو کہتے کہ مثلاً فیس نہ لو ہم سے ہم دے نہیں سکتے دو پیسے دوائی کی قیمت لے لو.وہ ان سے لی گئی اور جو امیر ہے وہ اپنا پیسہ دیتا ہے اور ہم بھی لیتے ہیں.اس کے علاوہ اللہ کی بڑی رحمت اور برکت ہمیں نظر آتی ہے.ایسے مریض جن پر آپریشن کی ضرورت تھی ان کی تعداد ۴۶۰۰ ہے.۴۶۰۰ آپریشن جن میں سے بعض مریض ایسے تھے جن کے کیس نہایت اُلجھے ہوئے تھے.ایسے مریض جن کے متعلق ملک کے ماہر ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ لاعلاج ہیں اگر آپریشن کروانا ہی ہے تو ” خداوند یسوع مسیح کے نام سے یہاں نہ کروانا.ان کو وہاں لے جاؤ جہاں عیسائیت زوروں پر ہے.خدا تعالیٰ نے کہا شفا دینا خداوند یسوع مسیح کا کام نہیں یہ تو خدائے واحد و یگانہ قادر مطلق اور شافی و کافی کا کام ہے اور ہمارے ڈاکٹروں نے خدا تعالیٰ پر تو کل کرتے ہوئے اپریشن کئے اور اللہ تعالیٰ نے کامیاب کئے اور بالکل لاعلاج مریض دواؤں سے شفایاب ہو گئے.خدا کی اتنی رحمت نازل ہوئی اور اتنا فائدہ پہنچانے کی اس چھوٹی سی جماعت دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت کو خدا نے توفیق دی کہ اتنی خدمت خدا تعالیٰ کی مخلوق کی وہاں کرے.پہلے تو یہ سب کا پیسہ مانگتے تھے میں نے بتایا کہ ہمیں آدمی مل گئے ڈاکٹر بھی اور ٹیچر بھی.پروفیسر بنانے کے لئے کیونکہ وہاں ہائر سیکنڈری سکول ہیں.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں میں نے کہا تھا کہ مجھے فکر ہی کوئی نہیں کہ پیسہ کہاں سے آئے گا.جس کا کام ہے وہ خود ہی پیسے کا انتظام کر.گا.ہمیں تو اپنی فکر کرنی چاہئے کہ ہماری حقیر قربانی قبول ہو جائے.اس مد میں اس وقت تک باوجود اس کے کہ خود پاکستان سے بعض رقموں کی اطلاع ہمیں نہیں ملی اور بیرونِ ملک سے چندہ بہت سارا ایسا ہے جس کی اطلاع ہمیں نہیں ملی اس کے باوجود نصرت جہاں ریزرو فنڈ میں ۵۰۶۴۶۲۸ روپے وصول ہو چکے ہیں.مجھے کم سے کم جو کہا گیا تھا وہ ۲۵لاکھ روپیہ تھا اب خدا کی شان دیکھو.۲۵ لاکھ روپے مجھے خرچ کرنے کو کہا گیا تھا خدا تعالیٰ نے یہ مطالبہ کروایا تھا جماعت
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۴۳ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطا.سے کہ کم از کم پچیس لاکھ روپیدان پسماندہ علاقوں کی خدمت کے لئے دو اور آپ کو یہ توفیق دی اپنی شان دکھانے کے لئے کہ ایک لاکھ کی بجائے دولاکھ پاؤنڈ سے زیادہ آپ نے دے دیئے پھر خدا نے اپنے عمل سے یہ کہا کہ میرے یہ عاجز بندے جو میرے خزانوں سے ایک چھوٹا سا حصہ وصول کرتے ہیں اُنہوں نے میری راہ میں میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے میری رضا کے حصول کے لئے دولاکھ پاؤنڈ اس آواز پر قربان کر دیئے.میں نے (یعنی خدا تعالیٰ نے) قبولیت کے نشان کے طور پر ( یہ میرا اپنا ذوقی استدلال ہے) اپنے خزانوں سے آپ کے دیئے ہوئے ۵۰ لاکھ سے کچھ زائد روپے کے مقابل پر اس مد میں ساٹھ لاکھ سے زائد روپیہ اس مد میں دے دیا.جو ہمارے طبی مراکز سے آمد ہوئی اور جو سکولوں کی فیسوں وغیرہ سے آمد ہوئی اس کی رقم قریباً ستر لاکھ روپیہ بنتی ہے.آپ نے ۵۰ لاکھ خدا کے حضور پیش کیا.اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے خزانوں سے قریباً ستر لاکھ کے خزانے دے دیئے یہ بتانے کے لئے کہ آپ کی قربانیاں قبول ہوئیں اور اس عرصہ میں جو بڑا تھوڑا عرصہ ہے ) ہم نے ان ممالک میں طبی مراکز اور سکول کھولنے پر اور وہاں قرآن کریم کی اشاعت پر اس وقت تک ۸۷۰۰۰۰۰ روپیہ خرچ کیا ہے ابھی عملاً تین سال بھی نہیں ہوئے قریباً اڑھائی پونے تین سال ہوئے ہیں.۸۷ لاکھ روپے جماعت کے جو تمام کام میں ان کے علاوہ یہ ایک چھوٹا سا منصوبہ تھا اس پر ۷ ۸ لاکھ روپے ( بلکہ ۸۸ لاکھ سمجھنا چاہئے صرف کچھ ہزار کی کمی ہے ) خدا تعالیٰ نے انتظام کر دیا کہ ہم خرچ کریں اور اس کی رحمت سے اپنی جھولیوں کو بھر لیں اور آخر میں ایک بات جو رہ گئی ہے وہ میں کہنی چاہتا ہوں اور ۸۸ لاکھ روپیہ اس معمولی سی مد میں اُس جماعت کو خرچ کرنے کی توفیق عطا کی جو اس عرصہ میں (اگر تین سال کا عرصہ لیا جائے تو ) دیگر کاموں پر قریباً چار کروڑ روپیہ خرچ کر چکی ہے اور وہ جماعت جو ایک سال میں سال رواں مراد ہے ) ایک کروڑ ارسٹھ لاکھ روپیہ خدا کی راہ میں قربان کر رہی ہے اور ان کے علاوہ جو چندے ہیں ( اور کچھ اور قربانیاں ہیں جن کا کل مطالبہ کیا جائے گا ) یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے یہ اُسی کی رحمت ہے کیونکہ جس وقت جماعت کی ابتداء ہوئی اور تربیت کی ابتدا تھی اور لوگوں کا اس طرف رجحان نہیں تھا اور جماعت چھوٹی تھی.اُس وقت یہ حال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۴۴ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطار جماعت کے آرام کی خاطر لنگر خانہ میں ایک کنواں لگانے کی ضرورت پیش آئی.اس لئے پیش نہیں آئی کہ وہاں کوئی کنواں پہلے سے موجود نہیں تھا.بلکہ اس لئے پیش آئی کہ وہ کنواں مشترک ملکیت میں تھا.آپ بھی خاندان کے فرد کے لحاظ سے اور آپ کے مخالف رشتہ دار اس کے دوسرے حصہ کے مالک تھے اور وہ ہر وقت فتنہ اور فساد پیدا کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے تب آپ نے سوچا کہ اس ہر وقت کی بدمزگی سے بچنے کے لئے ایک کنواں لگا دیا جائے.ستا زمانہ تھا اڑھائی سوروپے میں کنواں لگ جاتا تھا.اڑھائی سو روپے میں کنواں لگانا تھا.آپ نے چندہ کی تحریک کی جن کو تحریک کی ان میں سے ایک ہمارے نانا خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم بھی تھے اور آپ نے ان کو خط لکھا اور خط میں لکھا یہ حالات ہیں ہمارے اپنے رشتہ دار تنگ کرتے ہیں.لنگر خانے میں ہمارے احمدی ہمارے مخلص مرید جو ہیں وہ پہلے سے زیادہ آنے لگے ہیں اور بدمزگیاں پیدا ہوئی ہیں ہم نے سوچا ہے کہ اس بدمزگی سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہم یہاں ایک کنواں لگا دیتے ہیں اڑھائی سوروپے اس پر خرچ آئیں گے آپ کا نام بھی میں نے اس غرض کے لئے چندہ دینے والوں میں شامل کر دیا اور جو میں نے چندہ آپ کے ذمہ لگایا ہے اس کے مطابق آپ مجھے رقم کی دیں اور میں نے آپ کے نام کے آگے دو آنے لکھ دیئے ہیں مجھے دو آنے بھجوا دیں.ابتداء آپ کی قربانیوں کی دو آنے سے ہوئی تھی اور ابھی آپ کے ابتدائی دور کا ہی ایک زمانہ ہے ( دوسرا دور آنے والا ہے آپ کے سامنے اس کے متعلق میں کل کچھ کہوں گا ) اور ابتدائی دور کے ہی ایک اگلے حصہ میں آپ یہاں پہنچ گئے کہ میں آپ سے ۲۵ لاکھ روپے کا مطالبہ کرتا؟ ہوں اور آپ ۵۱ لاکھ روپے جماعت کے کاموں کے لئے دے دیتے ہیں.یہ ایک چھوٹی سی بات ہے اور آپ یہاں پہنچ گئے کہ کنواں لگانے کے لئے ساری جماعت کی طرف سے دیئے گئے دوسو پچاس روپے کے مقابلے میں جس طرح کنواں ایک چھوٹی سی جماعتی ضرورت تھی نصرت جہاں آگے بڑھوا بھی ایک چھوٹی سی جماعتی ضرورت تھی اس کے لئے دوسو پچاس کے مقابلہ میں آپ نے اکیاون لاکھ روپیہ دیا اور ایک سال میں اب ایک کروڑ ارسٹھ لاکھ روپیہ وہی جماعت دو آنے دینے والی وہ خدا کے حضور میں پیش کرتی ہے.کتنی رحمت اور کتنا فضل آپ پر اللہ تعالیٰ کا ہے.آپ کے اور ہمارے دل خدا تعالیٰ کی حمد سے ہمیشہ معمور رہنے چاہئیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۴۵ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء.دوسرے روز کا خطاب لبریز رہنے چاہئیں.ہمارا تو اگر ذرہ ذرہ خدا کی راہ میں فنا ہو جائے تب بھی ہم اُس کا شکر ادا نہیں کر سکتے اتنا پیار کیا ہے اُس نے ہم سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور مہدی موعود کے ذریعہ کہ کس کی طاقت ہے کہے کہ میں اُس پیار کے بدلے میں اس کا ہزارواں حصہ اس کا کروڑواں اس کا اربواں حصہ بھی شکر ادا کر سکتا ہوں.پس الْحَمْدُ کے ترانوں کے ساتھ اس مجلس کو ہم ختم کرتے ہیں اور بہت الْحَمْدُ لِلهِ کہا کریں.بہت الْحَمْدُ للہ پڑھا کریں.اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہمیشہ ہی آپ پر اسی نہج پر نازل ہوتی رہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور جو آپ قربانیاں پیش کریں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے خزانوں سے اُس سے کہیں زیادہ آپ کے خزانوں کو بھر دے.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
۶۴۶ خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء)
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۴۷ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب مہدی علیہ السلام روحانی قوتوں اور ان کی نشو و نما میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس اور ظل کامل ہیں اور اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ء بمقام ربوہ کی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی یہ خواہش تھی کہ جماعت صد سالہ جشن منائے.یعنی وہ لوگ جن کو سوواں سال دیکھنا نصیب ہو وہ صد سالہ جشن منائیں اور میں اپنی بھی اسی خواہش کا اظہار کرتا ہوں کہ صد سالہ جشن منایا جائے.اس لئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے اور میں نے بڑی دعاؤں کے بعد اور بڑے غور کے بعد تاریخ احمدیت سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اگلے چند سال جو صدی پورا ہونے سے قبل باقی رہ گئے ہیں وہ ہمارے لئے بڑی ہی اہمیت کے مالک ہیں.اس عرصہ میں ہماری طرف سے اس قدر کوشش اور اللہ کے حضور اس قدر دعا ئیں ہو جانی چاہئیں کہ اس کی رحمتیں ہماری تدابیر کو کا میاب کرنے والی بن جائیں اور پھر جب ہم یہ صدی ختم کریں اور صد سالہ جشن منا ئیں تو اس وقت دنیا کے حالات ایسے ہوں جیسا کہ ہماری خواہش ہے کہ ایک صدی گزرنے کے بعد ہونے چاہئیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا منشا ہے کہ یہ جماعت اس کے حضور قربانیاں پیش کر کے غلبہ اسلام کے ایسے سامان پیدا کر دے اسی کے فضل اور اسی کی دی ہوئی عقل اور فہم سے اور اسی کے سمجھائے ہوئے منصوبوں کے نتیجہ میں دنیا کے وہ لوگ بھی جنہیں اس وقت اسلام سے دلچسپی نہیں ہے وہ بھی یہ سمجھنے لگیں کہ اب اسلام کے آخری اور کامل غلبہ میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا.یہ سپریم ایفرٹ (Supreme Effort) یعنی انتہائی کوشش جو آج کا دن اور آج کا سال ہم سے مطالبہ کرتا ہے اس آخری کوشش کے لئے ہمیں کچھ سوچنا ہے اور پھر سب نے مل کر بہت کچھ کرنا ہے.یہ خیال کر کے کہ سوسال ( کے بعد جماعت احمد یہ کے قیام پر ایک سوسال ) پورے ہو جائیں گئے.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت پر اس معنی میں کہ آپ نے جو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۴۸ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب پہلی بیعت لی اور صالحین اور مظہرین کی چھوٹی سی جماعت بنائی تھی اس پر ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء کوسو سال گزر جائیں گے.میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہمیں کوئی منصوبہ بنانا چاہئے تا کہ ہم تیاری کریں اس صدی کے جشن کو منانے کی لیکن چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ۱۹۸۹ ء کا سال بڑا ہی اہم سال ہوگا اس لئے میری طبیعت کا میلان سو سالہ جشن منانے کی طرف اتنا نہیں ( وہ بھی ہم نے منانا ہے) جتنا دوسری صدی کے استقبال کی تیاری کی طرف میرا میلان ہے.جب مجھے یہ خیال آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس تصور سے ہی میرے لئے بہت سی برکتوں کے سامان پیدا کر دئیے.میں نے سوچا کہ جس زمانہ میں مہدی کے آنے کی پیشگوئیاں کی گئی ہیں رآن عظیم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور صلحائے امت کے کشوف ور دیا اور وحی والہام اور دوسرے بزرگوں نے عقل و فراست کے نتیجہ میں جو باتیں لکھی ہیں یہ کس زمانے کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.یعنی کس زمانہ میں وہ مہدی آئے گا جو خدا کا پیارا ہوگا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ہوگا پھر وہ کون سی علامتیں بتائی گئی ہیں جن کا تعلق اس زمانے سے ہے؟ پھر کیا مقام ہے مہدی کا امت کے صلحاء کے نزدیک اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک اور مطہر دل میں قرآن کریم جیسی عظیم کتاب کے اندر؟ پس جب میں نے اس مضمون پر سوچنا شروع کیا تو میرے سامنے ایک بہت وسیع مضمون آگیا جس کا بیان کرنا جلسہ کی ایک تقریر میں ممکن ہی نہ تھا.پھر میں نے کوشش کی کہ اس کو مختصر کروں مگر میں اس کوشش میں بھی نا کام ہو گیا.کیونکہ مختصر کرنے کو باوجود میرے پاس جو مواد تھا وہ بھی اتنا تھا کہ اس کے بیان کرنے کے لئے آٹھ دس گھنٹے کی ضرورت تھی.پھر میں نے یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ یہ سب باتیں میرے علم میں آجائیں اور صرف کچھ ابتدائی باتیں تمہیدی طور پر یا اہم اشارات کے رنگ میں (بہت حد تک زبانی یا شاید کہیں کہیں حوالہ کے ساتھ ) بیان کر دوں.قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے علاوہ صلحائے امت نے اپنے مشاہدات اور اپنے غور وفکر اور متفرق رؤیا اور الہامات کے نتیجہ میں جو باتیں لکھیں یا کہیں یا ان سے روایت کی گئی ہیں ان سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اس امت پر یا نوع انسانی کی زندگی میں ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے انسان نے ایک ایسا زمانہ دیکھنا ہے جس میں شیطانی طاقتوں کا زبردست حملہ ہو گا.حدیثوں نے اس کو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۴۹ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب اس طرح بھی بیان کیا ہے کہ وہ شیطانی طاقتیں اپنے قید خانہ سے نکلیں گی اور دجال کا دجل ساری دنیا میں پھیل جائے گا اس میں یہ بھی بتایا ہے کہ انسانی اقدار جو روحانی اقدار کی بنیاد پر بنتی ہیں وہ بھی دنیا سے مٹادی جائیں گی.روحانی رفعتوں کے حصول کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوگا.کیونکہ انسان نے پہلے با اخلاق انسان بننا ہے اور پھر بعد میں یہ سوال پیدا ہونا ہے کہ وہ روحانی انسان بنے.کفر والحاد اور فسق و فجور کا زمانہ یعنی خدا تعالیٰ سے دوری کا زمانہ آئے گا اور یہ اتنی شدت اختیار کر جائے گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے امت محمدیہ کے افراد! تمہاری اس زمانہ میں یہ حالت ہوگی کہ تم یہ سوچنا بھی نہ کہ مادی ذرائع سے ان دجالی طاقتوں کا مقابلہ کر سکتے ہومگر مقابلہ ضرور ہوگا.جب مادی ذرائع سے ان دجالی طاقتوں کا مقابلہ ممکن نہیں ہوگا اور انہوں نے مغلوب ضرور ہونا ہے تو پھر اس کا صاف نتیجہ نکلتا ہے عقلا بھی اور اسلامی تعلیم کی رو سے بھی کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے کوئی روحانی منصوبہ تیار کر کے زمین پر بھیجے گا جو ان کا مقابلہ کرے گا اور ان کو پسپا کرے گا اور ان کو شکست دے گا اور وہ ناکام ہوں گے.اس زمانہ کے متعلق یہ بھی کہا گیا ہے کہ شروع سے قیامت تک شیطان سے عباد الرحمن کی جو جنگ ہونی ہے، باطل کے ساتھ حق کی جولڑائی ہونی ہے وہ آخری جنگ ہوگی جس کے بعد شیطانی طاقتوں کو ہمیشہ کے لئے اسلام کی روحانی طاقت مغلوب کرلے گی.یہ زمانہ وہ زمانہ ہے جس میں مہدی معہود علیہ السلام نے معبوث ہونا ہے اور آخری زمانہ کی جو علامات بتائی گئی ہیں قرآن عظیم میں اور جو علامات بتائی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں ، اور جو علامات بتائی ہیں صلحائے امت نے ان کی ہمیں اس زمانہ میں بڑی کثرت نظر آتی ہے.کیونکہ جب ہم ان علامات پر غور کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور صلحائے امت کے اقوال میں کیا گیا ہے تو ہمیں تاریخی طور پر بھی یہ نظر آتا ہے کہ ان کے ظاہر ہونے کا زمانہ تیرہویں صدی ہجری سے شروع ہوا ہے اور پھر یہ دجل اور یہ ظلمت اور یہ شیطانی ظلمات کا قوت کے ساتھ بڑھتے چلے جانا، یہ زمانہ کے ساتھ ساتھ ظہور پذیر ہوتا چلا گیا اور اس قدرز بر دست یلغار تھی (جیسا کہ میں پچھلے چند مہینوں سے اس موضوع پر خطبے دے کر آپ کے ذہنوں کو اس کے لئے تیار کر رہا تھا اور بتا رہا تھا کہ اسلام پر اس قدر ز بر دست یلغار تھی کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ) خدا تعالیٰ کے خلاف محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے وجود کے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب خلاف قرآن جیسی کتاب کے خلاف اتنا ز بر دست حملہ تھا کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.یہ حملہ ا زبر دست حملہ تھا کہ حملہ آوروں نے جو دیکھا اور سمجھا وہ یہ تھا کہ ان افواج نے ظلمات کے ان لشکروں نے یہ سمجھ لیا کہ حملہ بڑا سخت ہے اور اسلام کا اور صداقت کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے اور عقلاً بھی انہیں اسی نتیجہ پر پہنچنا چاہئے تھا ) کہ اسلام اب مغلوب ہو جائے گا اور باطل غالب آئے گا.اس وقت امت محمدیہ میں بعض صلحاء بھی تھے.شاید ہزاروں کی تعداد میں تھے.اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کا مقام اور ان کا کام محدود تھا.اپنے چھوٹے سے، محدود اور بڑے مختصر دائرہ میں وہ خدمت اسلام کر رہے تھے لیکن جو یلغار تھی وہ محدود نہیں تھی وہ تو سارے محاذ پر پھیلی ہوئی تھی اور ان صلحاء کی کوشش ( اللہ انہیں جزائے خیر دے ) اسلام کی شمع کو روشن اور زندہ رکھنے کے لئے تھی.اسلام کے سورج کی روشنی کو ساری دنیا پر پھیلانے کے لئے نہیں تھی اور نہ ظلمات کے بادلوں کو چھانٹنے کے لئے تھی.اسلام پر حملہ آوروں کو یہ نظر آرہا تھا کہ ہمیں بڑی طاقت مل گئی ہے ہم نے اپنی عقل کے غلط استعمال سے اسلام کے خلاف غلط قسم کی دلیلیں مہیا کر دی ہیں.اعتراض کر دیئے ہیں.سائنس کی ایجادات کو اسلام کے مقابلہ میں قرآن عظیم کے مقابلہ میں لا کر کھڑا کر دیا اور جیسا کہ میں نے خطبہ جمعہ میں بتایا تھا ہر قسم کی تحریف معنوی کی کوشش کی گئی ہے مگر خدا تعالیٰ نے جو سلسلہ ان کے مقابلے میں کھڑا کیا تھا وہ ان کو نظر نہیں آرہا تھا.اس لئے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ ہم کامیاب ہوئے اور اسلام ہمیشہ کے لئے مغلوب ہو گیا.یہ حالت تھی تیرہویں صدی اور چودہویں صدی ہجری کے ابتدائی سالوں کی.گویا مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت سے معاقبل کا زمانہ انتہائی فتنوں کا زمانہ تھا.انتہائی دجل کا زمانہ تھا.انتہائی افترا کا زمانہ تھا.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انتہائی گندہ دہنی کا زمانہ تھا.یہ وہ زمانہ تھا جب اسلام کا در در کھنے والے لوگوں کے سر جھکے ہوئے تھے اور فخر سے سراٹھا کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیا کرتے تھے اور یہ مبالغہ نہیں.۱۹۷۰ ء کے میرے مغربی افریقہ کے دورہ کے موقع پر ایک بھرے مجمع میں سیرالیون کے ایک بڑے مسلمان سیاسی لیڈر نے مجھ سے کہا ( وہ احمدی نہیں.وہ کسی زمانہ میں سیرالیون میں نائب وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں ) کہ ہم احمدیت کے ممنون ہیں اس لئے کہ ان کے آنے سے پہلے اسلام کا نام لیتے ہوئے ہماری گرد نہیں شرم سے جھک جاتی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۵۱ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب تھیں.کیونکہ اسلام پر حملہ بڑا سخت تھا اور مسلمان دینی لحاظ سے بہت کمزور ہو گئے تھے.پھر انہوں نے کہا.پھر جماعت احمدیہ کے مبلغ آئے اور انہوں نے ہمیں قرآن عظیم کی صحیح تفسیر سمجھائی.اب ہم گردنیں اونچی کر کے اسلام کا نام لیتے ہیں.بہر حال یہ تو اس زمانہ کے بعد کے زمانہ کی باتیں ہیں.اس زمانہ میں تو دشمن یہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ بس ہم نے اسلام کو مغلوب کر لیا ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں ہندوستان میں پادریوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہندوستان میں دیکھنے کو کوئی مسلمان باقی نہیں رہ جائے گا.انہوں نے یہ بھی کہا کہ افریقہ ہماری جھولی میں پڑا ہے.پھر انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلمان ممالک کو ہم فتح کرتے ہوئے خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا خانہ کعبہ پر لہرائیں گے.یہ وہ اعلانات تھے جو اس زمانہ میں عیسائی پادریوں کی طرف سے کئے گئے تھے اور اس زمانہ میں کوئی عالم کوئی پڑھا لکھا ان کے مقابلہ میں آواز اٹھانے والا تاریخ انسانی نے کوئی نہ دیکھ پایا.پھر اس وقت خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والا اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مست ایک انسان پیدا ہوا اور اس کا نام مسیح (علیہ اسلام) بھی رکھا گیا.اور اس کا نام منصور بھی رکھا گیا اور اس کا نام محمد بھی رکھا گیا اور اس کا نام احمد بھی رکھا گیا اور اس کا نام محمود بھی رکھا گیا اور اس کا نام مہدی بھی رکھا گیا.اور وہ مسیح اور مہدی خدا تعالیٰ کی طرف سے نوع انسانی کی بھلائی کے لئے اور قرآن کریم کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے کھڑا ہوا اور اس نے ساری دنیا کی دولتوں کو اور ان ساری دنیوی طاقتوں کو اور ان سارے دنیوی اثر ورسوخ اور اقتدار کو للکارا.انہوں نے لوگوں سے کہا تم دنیا کے مال و دولت کی وجہ سے اور دنیا کی جاہ و حشمت کے برتے اور سیاسی اقتدار کی وجہ سے اور ان ہتھیاروں کی وجہ سے جو تم نے ایجاد کر لئے ہیں یہ سمجھتے ہو کہ تم اسلام کو مغلوب کر لو گے لیکن انہوں نے کہا مہدی کو خدا نے زبردست روحانی ہتھیار دیا ہے اس لئے اسلام کو ایٹم بموں کی ضرورت نہیں ہے.نہ تو پوں کی ضرورت ہے اور نہ رائفلوں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں وہ حسن کے جلوے رکھے ہیں اور احسان کی طاقتیں رکھی ہیں کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ہم تمہارے دلوں کو خدا تعالیٰ اور اس کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت نہ لیں.اس مہدی نے اندرونی فتنوں کو دور کرنے کے لئے یہ بھی کہا کہ تم اپنی حالت دیکھو.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۵۲ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب بہتر فرقے ایسے ہیں جو ایک دوسرے کو کا فرقرار دینے والے ہیں جبکہ دشمن اسلام، اسلام پر حملہ آور ہو رہا ہے.آپ نے فرمایا مجھے خدا تعالیٰ نے حکم بنا کر تمہاری طرف اس لئے معبوث کیا ہے کہ تم نے تکفیر کا جو بازار گرم کر رکھا ہے میں تمہیں سمجھا کر اس اندورونی فتنے کو دور کر دوں اور امت محمدیہ مہدی کے جھنڈے تلے ایک جماعت ایک خاندان بن جائے مجھے خدا نے اس لئے بھیجا ہے کہ میں امت محمدیہ کو اتحاد کی لڑی میں پرو دوں.مگر وہ لوگ جن کی کتابیں آج بھی اس قسم کے کفر کے فتوے ایک دوسرے پر لگانے والی ہیں کہ کوئی شریف آدمی ان کو پڑھ نہیں سکتا.اگر پڑھ لے تو بے چین ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.یہ سارے مہدی کے خلاف اکٹھے ہو گئے مہدی نے کہا تھا میں تکفیر کا بازار بند کرنے کے لئے آیا ہوں اور ان سب نے اکٹھے ہو کر کہا کہ تم کا فر ہو.تم اس لئے کا فر ہو کہ تم ہمارے بازار کفر کو مٹانا چاہتے ہو.ایک دفعہ میرے غیر از جماعت دوست مجھے ملنے کے لئے آئے.مجھے خیال آیا کہ ان کو پتہ تو لگے کہ ان کے گھر میں کیا ہو رہا ہے.میں نے لائبریری سے ایک کتاب منگوا کر اسے دکھائی کہ کفر کے صرف یہ دوفتوے پڑھ لو.زمیندار آدمی تھا.ان کو پڑھتا رہا.اچھے لمبے فتوے تھے.جب پڑھ چکا تو اس کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ ” کی بڑی گالی اے جو رہ گئی ہووے.“ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم بنا کر بھیجا ہے تا کہ لو گ آپس میں جو کفر بازی کر رہے ہوں میں اسلام کے اندر اس کفر بازی کو بند کراؤں.اور آپ نے لوگوں کو عقلی دلائل دے کر سمجھایا.قرآن کریم کی آیات ان کے سامنے پیش کیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پیش کئے.آپ نے فرمایا کہ تم مانتے ہو یا نہیں کہ مہدی حکم ہوگا.شیعوں کی کتاب میں بھی ہیں اور سینیوں کی کتابوں میں بھی ہے کہ جب بھی مہدی آئے گا وہ حکم بن کر آئے گا.اس لئے قبل اس کے کہ میں تمہیں یہ کہوں کہ مجھے ما نو تم اس بات کو تسلیم کرو کہ جو بھی مہدی آئے گا اور جب بھی آئے گا اور وہ جو بھی ہو گا تمہاری ساری حدیثوں کو قبول نہیں کرے گا کیونکہ وہ حکم ہے.اس نے تمہارے درمیان فیصلہ کرنا ہے تمہاری احادیث میں ، تمہاری کتب میں اچھی باتیں بھی ہیں اور صحیح باتیں بھی ہیں کچی باتیں بھی ہیں اور کچھ رطب و یابس بھی مل گیا ہے لیکن اگر دیو بندیوں کی ساری احادیث کو درست قرار دے دیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۵۳ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب نے پہلے سے جو کفر بازی شروع کر رکھی ہے باقی فرقوں کو کا فرقرار دینے کی وہ تو اسی طرح قائم ہے گی اور پھر تو مہدی حکم نہ رہا.اس لئے اس نے شیعوں پر بھی فتوے دینے ہیں.اس نے بریلویوں کے اوپر بھی اور ان کی روایات پر بھی فتویٰ صادر کرنا ہے.اس نے اہل حدیث پر بھی فتویٰ صادر کرنا ہے.اس لئے کہ ایسی احادیث اور روایات جو باہم متضاد ہیں ان کا باہمی تضاداس بات کی عقلی دلیل ہے کہ ایک بات درست ہوگی اور ایک بات درست نہیں ہوگی اور ہوسکتا ہے دونوں ہی غلط ہوں.چنانچہ حضرت مسیح عود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو بھی حکم آئے گا تمہیں عقلاً یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ اس کا حکم ہی چلے گا.آپ نے فرمایا خدا نے مجھے حکم بنایا ہے اس لئے احادیث کی روایات سے مجھے نہ ناپو بلکہ میرے فیصلوں سے اپنی احادیث کو نا پو اور جانچ پڑتال کرو اور حکم کے یہی معنی ہیں.اس وقت میں یہ بات نہیں کر رہا کہ حاکم کون ہے بلکہ میں امت محمدیہ کے سارے فرقوں کو اس طرح مخاطب کر رہا ہوں جس طرح پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مخاطب کیا ہے اور جس طرح پہلوں نے مخاطب کیا ہے اور جس طرح قرآن کریم نے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخاطب کیا ہے کہ مہدی حکم ہو کر آئے گا.پس اگر وہ مہدی سارے فرقوں کو درست قرار دے دے در آنحالیکہ ان میں تضاد پایا جاتا ہے تو یہ تو ایک مجنون شخص ہی ہوسکتا ہے جو سارے فرقوں کو درست قرار دے دے لیکن اگر مہدی یہ کہے کہ یہ حدیث قرآن کریم کے منشاء کے خلاف ہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے اقوال وارشادات کے خلاف پڑتی ہے اس لئے قابل قبول نہیں ہے تو تمہیں ماننا پڑے گا آپ نے فرمایا قرآن کریم کی جو تفسیر میں کروں وہ تمہیں ماننی پڑے گی اور جن احادیث کے متعلق میں یہ کہوں کہ وضعی ہیں اور قبول کے قابل نہیں تو وہ بھی تمہیں ماننا پڑے گا اور جس کے متعلق میں یہ کہوں کہ قابل قبول ہیں وہ تمہیں قبول کرنی پڑیں گی.اس لئے کہ خود تمہارے نزدیک مہدی حکم ہے اور حکم کی یہی تعریف ہے.میری صداقت کے کیا دلائل ہیں وہ مجھ سے آکر پوچھو میں تمہیں سمجھا دوں گا لیکن یہ کہنا کہ ایک شخص مہدی بھی ہو اور وہ کفر بازی کو بند بھی نہ کرے، وہ مہدی بھی ہو اور اندرونی فتنوں کو دور بھی نہ کرے، وہ مہدی بھی ہو اور نعوذ باللہ اتنا مجنون بھی ہو کہ دو فرقوں کی متضادا حادیث کو صحیح قرار دے یہ تو نہیں ہوسکتا.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب علاوہ ازیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہدی کے متعلق یہ بھی فرمایا ہے کہ مجھے اتنا پیارا ہے کہ امت محمدیہ میں کوئی ایسا پیارا نہیں ہے.اس لئے تم میں سے جس شخص کو اللہ تعالیٰ مہدی معہود کو پانے کا موقع نصیب کرے تو وہ میری طرف سے اسے سلام کہے.نہ صرف یہ بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی کو اپنی آل میں شامل فرمایا ہے.مہدی کو اپنی آل میں شامل کرنے کے لئے دنیا کو یہ بتایا کہ دیکھو یہ جو سلمان فارسی ہے یہ ہم میں سے یعنی اہل بیت میں سے ہیں.اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر سلمان فارسی اہل بیت میں سے بن جاتے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب یہ کہتے ہیں وہ جو میرا عکس ہو گا وہ مہدی اہل بیت میں سے کیسے نہیں ہو گا ؟ لیکن ظاہر بین نگاہ اس کو دیکھ نہیں سکتی.چنانچہ اس تحقیق کے دوران مجھے ایک دلچسپ حوالہ یہ بھی ملا کہ جب مہدی ظاہر ہوں گے تو علماء وقت ان کا یہ کہہ کر انکار کریں گے کہ ہم تجھے نہیں مانتے اور نہ تجھے پہچانتے ہیں.اس لئے نہیں پہچانتے کہ تو آلِ فاطمہ میں سے نہیں ہے.یعنی وہ ہوگا تو سچا امام مہدی لیکن اس کا یہ کہہ کر انکار کیا جائے گا کہ چونکہ تو آل فاطمہ میں سے نہیں ہے اس لئے ہم تجھے نہیں پہچانتے.تو پہلوں نے خبر دی تھی کہ وہ آلِ فاطمہ میں سے نہیں ہوگا لیکن محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ وہ ہم میں سے یعنی اہل بیت میں سے ہو گا ان کا کہنا اپنی جگہ درست اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا جو ہے وہ تو ہے ہی درست اور سب سے بڑی صداقت ہے.حضرت ابن عربی بڑے پایہ کے بزرگ ہیں.انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جب مہدی ظاہر ہوں گے تو ان کا کام بڑا اہم ہوگا اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ انہیں خدا رسیدہ اور مقربین کی ایک جماعت دے گا جو ان کے کام میں ان کی مد ہوگی اور یہ لوگ مہدی کے وزراء کہلائیں گئے اور یہ سارے کے سارے وزراء غیر عرب ہوں گئے.ان میں سے ایک بھی عرب کا باشندہ نہیں ہوگا.یہ محی الدین ابن عربی کا قول ہے.جب ہم بات کریں عربی بولنے وا.ممالک سے تو وہ آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں کی زبان عربی نہیں ہے وہ قرآن کو کیسے سمجھ سکتے ہیں.حالانکہ عربی جاننا قرآن کریم کے سمجھنے کے لئے تو شرط نہیں ہے.کیونکہ جن لوگوں کو بڑی اچھی عربی آتی تھی انہوں نے قرآن کریم کو قبول کرنے سے انکار کر دیا.بدر کے میدان میں جن کو خدا کے قہری طمانچہ نے قتل کیا تھا وہ عربی دان نہیں تھے کیا ؟ تو یہ شرط نہیں ہے ( نہ عربی دانی کی شرط ہے اور نہ عربی جاننے کی شرط ہے) لیکن بتانے والے نے یہ بتایا اور کہنے والے نے یہ کہا کہ مہدی کے وزراء
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب سارے کے سارے وہ ہوں گے جن کا عرب ممالک سے تعلق نہیں ہوگا.ایک بھی ان میں سے عرب نہیں ہوگا.سارے عجمی ہوں گے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پہنچایا.ان کو اپنی آل میں شامل کرنے کے لئے سلمان کے متعلق وہ کہا جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.وأَخَرِيْنَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوْابِهِمْ (الجمعة :۴) کی تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کی کہ وہ تمہارے بعد آئیں گے.انہوں نے مجھے دیکھا تو نہیں ہو گا لیکن ان کا مقام بڑا بلند ہے.اس کے علاوہ اس بات کے نتیجہ میں کہ صلحائے امت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ علم دیا گیا تھا مہدی کا اتنا بلند مقام ، اتنا بلند مقام ہے جو ان حوالوں میں مجھے نظر آیا تو میں حیران ہو گیا.تیرہ سو سال پر پھیلی ہوئی ہماری ساری اسلامی تاریخ میں لاکھوں صلحاء پیدا ہو ئے ہزاروں کتب لکھیں.کچھ ضائع ہو گئیں فسادات کے زمانے میں.مختلف اداروں میں مختلف فسادات رونما ہوئے ہیں.مخالفین نے اسلام کی لائبریریاں اور کتب خانے جلا کر راکھ کر دئے اور ہمیں بڑا دکھ ہوتا ہے یہ سوچ کر کہ پتہ نہیں کیا کیا علم کے خزانے ان کے اندر بھرے ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ نے اس نقصان سے امت مسلمہ کو بچالیا کیونکہ آج کی ہر ضرورت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پورا کر دیا ہے.جہاں تک علوم روحانیہ اور اسرار دینیہ کا سوال ہے ہمیں نقصان نہیں پہنچا ( لیکن ہمارے دل ان کتب کو پڑھ کر یہ محسوس کرتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس طرح بھی پیار کرتا ہے جتنا ان سے کیا تو ان کے لئے ہمارے دل سے ہماری زبانوں سے دعائیں نکلتیں ) اور چونکہ بعض ایسے اعتراضات بھی ہماری تاریخ میں ہیں جو ایک وقت میں ہوئے اور بعد میں دوبارہ نہیں ہوئے تو بہت سے ایسے اعتراضات بھی اسلام پر ہوئے ہوں گے کہ جن کا جواب صلحائے امت نے ان کتب میں دیا ہوگا جو جلا دی گئیں اور ضائع ہو گئیں.ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں.اگر وہ کتب ضائع نہ ہوتیں تو ان کی علمی تحقیق کا علم بھی ہمیں حاصل ہوتا.ہم اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں اور جلووں سے لطف اندوز ہوتے بہر حال میں نے اس تحقیق میں یہ دیکھا کہ صلحائے امت کے دلوں میں مہدی معہود کا اس قدر بلند مقام ہے اور اتنا بڑا رتبہ ہے کہ میں حیران ہو گیا.چنانچہ ہمارے ایک بزرگ نے یہ لکھا ہے کہ مہدی پہلے تمام انبیاء سے بلند تر مقام رکھتے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) - ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب ہیں.اس لئے اپنے باطن میں یعنی روحانی قوتوں اور ان کی نشو و نما میں بالکل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس ہیں اور چونکہ حل کامل ہیں.اس لئے پہلے تمام انبیاء کے مقابلہ میں جوظل کامل نہ تھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل کامل کا مقام بلند ہے.پھر یہ بھی عجیب بات کہ بعض نے مہدی کے زمانہ کو پایا تو ہے مگر اسے پہچانا نہیں مثلاً ہمارے غیر مبائعین دوست ہیں.انہوں نے مہدی کو پایا مگر اس کی عظمت کو نہیں پہچانا اور وہ جنہوں نے پایا تو نہیں تھا لیکن انہوں نے مہدی کو پہچان لیا ، چارسوسال پانچ سو سال آٹھ سو سال پہلے ان کے دل میں اتنی عظمت اور احترام ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے ایک حوالہ ہے کہ مہدی کھڑا ہوگا اور کہے گا کہ جس نے عیسی علیہ السلام کو دیکھنا ہو وہ مجھے دیکھ لے اور اسی طرح دوسرے انبیاء کا نام لے گا اور کہے گا کہ سب کی صفات میں سے ایک حصہ ظل کامل ہونے کے لحاظ سے مجھے ملا ہے.تو مہدی کا یہ مقام امت محمدیہ کے صلحاء کے دلوں میں ہے.اس قسم کے بہت سے حوالے اکٹھے ہو گئے ہیں.ہمارے علماء کو تو پہلے علم ہے لیکن اکٹھے ہو کر جواثر دل پر پڑتا ہے اس کی خاطر ا کٹھے، ترجمہ کے ساتھ میں یہ حوالے شائع کرا دوں گا.مہدی کے تو معنی اور مفہوم اور اس کی حقیقت ہی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے براہ راست ہدایت پانے والا حاصل کرنے والا.تو وہ لوگ جو تقلید کے عادی ہو چکے ہوں گے وہ اس کو نہیں مانیں گے کیونکہ اجتہاد سے خدا تعالیٰ کی عطا کردہ فراست مختلف ہوگی پھر بعض لوگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ علماء انکار کریں گے مہدی کا کیونکہ اس پر ایمان لانے کے نتیجہ میں ان کی چودھراہٹ جاتی رہے گی.اس لئے وہ کہیں گے کہ ایک مولانا حضرت بنے ہوئے ہیں یہ نہیں رہیں گے اس لئے وہ اس کا انکار کر دیں گے.یہ بھی لکھ دیا ہے وہ کہیں گئے کہ اس طرح دین کو ہم نے جو دنیا کمانے کا ذریعہ نہیں کہہ رہا اور نہ کسی کے متعلق کہہ رہا ہوں میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ پہلوں نے مہدی کو ہر پہلو سے شناخت کیا.اتنی عظمت ہے ان کے دلوں میں مہدی علیہ السلام کی کہ انسان حیران ہو جاتا ہے.انہوں نے اسے مسیح بھی کہا اور محمد اور احمد کا لقب بھی دیا.مہدی بھی کہا.محمود بھی کہا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل بھی کہا اور آپ کا بروز بھی کہا اور مہدی علیہ السلام کے کام بتائے.آپ کا زمانہ بتایا.یہ بھی بتایا کہ عیسائیت کا دجل اس زمانہ میں پھیلا ہوگا اور وہ اس کو مٹا دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ میں اپنی اس مہم میں کامیاب ہو چکا ہوں.اب کہاں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب ہیں وہ پادری جو میرے مقابلہ پر آکر اس اعتراض کو دہرائیں جو پہلے دہرایا کرتے تھے.آر.نے لکھا کہ پادری کہا کرتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نشان نہیں دکھایا.آپ نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بے شمار نشانات دکھائے اور تم آؤ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام سے آکر نشان دیکھو اور آپ نے دکھائے بھی.عبد اللہ آتھم کا نشان ، ڈوئی کا نشان ، قرآن کریم کی عظمت کے اظہار کا نشان.آپ نے پادریوں کو للکارا.آپ نے کہا تم بائیل کی قریباً ستر کتب پر فخر کر ر ہو اور میں تمہیں کہتا ہوں کہ قرآن عظیم اتنی عظمت رکھنے والا ہے سورۃ فاتحہ میں جو روحانی اسرار پائے جاتے ہیں وہ تم اپنی ساری کتب میں سے نکال کر نہیں دکھا سکتے.میں جب ۱۹۶۷ء میں یورپ کے دورے پر گیا تو اس وقت میں نے یہ حوالہ نقل کر کے اس کا انگریزی میں ترجمہ کرایا تھا اور وہ میں نے پاس رکھا ہوا تھا.جب میں نے عیسائی وفود کو اکٹھی ملاقات کا وقت دیا اور جب ملاقات ختم ہو گئی تو میں نے ان سے کہا میں نے پہلے اس لئے بات نہیں کی کہ تمہیں جواب دینے کا موقع نہیں ملے گا.اب میں تمہیں یہ چیلنج دیتا ہوں.یہ چیلنج ہے مہدی معہود کا عیسائیت کو کہ تم اپنی ساری کتب میں سے سورۃ فاتحہ کے برابر اسرار روحانی نکال کر دکھا دو تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارے پاس کچھ ہے لیکن اگر نہ دکھا سکو تو پھر ہم کہیں گے کہ تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے میں نے انہیں کہا تھا تم یہ عذر پیش کر کے بچ نہیں سکتے کہ جس عظیم ہستی نے یہ چیلنج دیا تھا وہ تو اس وقت دنیا میں ہے نہیں تو کس کو جا کر کہیں کہ ہم مقابلے کے لئے تیار ہیں.یہ تمہارا عذر اس لئے مقبول نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ میں خلافت حقہ راشدہ کا سلسلہ جاری کیا ہے اور میں ایک خلیفہ کی حیثیت سے تمہارے سامنے موجود ہوں.تم چیلنج قبول کرو.میں تمہارے مقابلے پر آؤں گا.اسی طرح دوسرے چیلنج بھی عیسائیوں کو ہیں.پھر دیگر مذاہب کو اور پھر انسانی عقل کو چیلنج دیا اور انسان کی کوتاہ عقل اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئی.میں نے خطبہ میں بتایا تھا کہ یہ چیلنج ہیں.سارے دانشوروں کو یہ چیلنج ہیں اور میں اس چیلنج کو جو دیا گیا ہے اس کو صحیح ثابت کرنے کے لئے یہاں کھڑا ہوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ قرآن کریم کی کسی تعلیم کو تم اگر خلاف عقل سمجھتے ہو تو میرے سامنے پیش کرو.ہمارے سامنے پیش کرو.ہم ہر صاحب عقل انسان کو تسلی دلائیں گے کہ تمہارا یہ اعتراض کہ اسلام کی تعلیم خلاف عقل ہے ، غلط ہے بلکہ یہ تو عین عقل
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۵۸ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب کے مطابق ہے.تم اگر یہ کہتے ہو کہ کہاں ہیں وہ نشان جن کا دعویٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیا گیا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کا نچوڑ تھے.ان کی باتیں نہ کرو.آپ کے علاوہ بھی آج ہزاروں آپ کے غلام موجود ہیں اس قسم کے نشان تمہیں دکھا سکتے ہیں جو تم مسیح کی طرف منسوب کرتے ہو.کیا یہ واقعہ اور حقیقت نہیں ہے کہ تم عیسائی پادریوں نے جو ڈاکٹر تھے اور اپنے فن میں ماہر تھے.مغربی افریقہ میں بعض مریضوں کو جب لا علاج قرار دے دیا.جو تمہارے منہ میں بجتی نہیں کیونکہ حضرت مسیح نے کہا تھا کہ اگر تم میں رائی کے برابر ایمان ہوگا تو تم معجزانہ طور پر بیماروں کو چنگا کرو گے لیکن اس رائی کے برابر ایمان کا بھی انکار کرتے ہوئے تم نے اعلان کیا کہ بعض مریض لاعلاج ہیں.تب مسیح محمدی کے غلاموں کے پاس وہ مریض آئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے ان کو اچھا کر دیا.فالحمد للہ علی ذلک.دنیا انشاء اللہ احمدیت کے ذریعہ ان نشانوں کو دیکھتی چلی جائے گی کیونکہ یہ خدا کی شان کو نمایاں کرنے کے لئے ہیں.ان نشانوں کے ذریعہ دنیا کے دل میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور انسانوں سے ہمدردی کے جذبات کو پیدا کرنا مقصود ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر دنیا کے دل جیتنے کے لئے اور آپ کے جھنڈے تلے نوع انسانی کو جمع کرنے کے لئے اپنی زندہ تجلیات دکھاتا ہے.یہ کہنا کہ وحی کے دروازے بند ہیں، یہ کہنا کہ کوئی مسلمان اب سچی خواب بھی نہیں دیکھ سکتا ، یہ اعلان کرنا کہ خدا تو زندہ ہے لیکن وہ آج اپنی زندگی کا ثبوت نہیں دیتا، خدا کبھی سنتا تھا پر آج وہ انسان کی بات نہیں سنتا اور کبھی وہ بولتا تھا لیکن آج اس نے بولنا بند کر دیا ہے، بالکل غلط ہے.تم یہ اعلان کر کے اسلام کی عظمت کو نوع انسانی کے دل میں قائم نہیں کر سکتے.۱۹۶۷ء میں ایک جگہ مجھ سے ایک عیسائی عورت نے جو سوشل ورکر تھی پوچھا تھا مسلمان اور عیسائی میں کیا فرق ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ تمہارا مطلب یہ ہے کہ ایک عیسائی اور ایک سچے مسلمان میں کیا فرق ہے؟ وہ کہنے لگی ہاں میرا یہی مطلب ہے.میں نے کہا کہ ایک سچے مسلمان کا زندہ تعلق اپنے خدا سے ہوتا ہے لیکن عیسائی دنیا میں ہمیں ایک آدمی بھی نہیں دکھایا جا سکتا جس کا تعلق خدا سے ہو.پھر میں نے کہا تم ایک عورت ہو.میں تمہیں ایک عورت کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب مثال دیتا ہوں.ہماری ایک احمدی بہن ایک رات عاجزانہ طور پر گڑ گڑا کر دعا ئیں کر رہی تھی.یکے بعد دیگرے تین دفعہ اس سے خدا ہم کلام ہوا اور تیسری دفعہ جو چاہتی تھی اس کے مطابق اس کو تسلی دی گئی.یہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کا واقعہ ہے اس احمدی عورت کا ایک لڑکا میجر تھا اور محاذ جنگ پر لڑ رہا تھا اور اس محاذ پر شدید جنگ لڑی جارہی تھی خدا تعالیٰ نے اس سے پہلے یہ کہا کہ پاکستان کی حفاظت کا سامان کیا گیا.اس عورت کی مامتانے کہا اے ہمارے رب ! بڑا فضل کیا تو نے لیکن میرا ! دل تو اپنے بیٹے کے لئے تڑپ رہا ہے.اس کے لئے مجھے تسلی چائیے.تب خدا تعالیٰ نے اسی ا رات اسے دوسری مرتبہ بتایا کہ اس محاذ پر جہاں اس کا بیٹا لڑ رہا ہے وہاں خدا تعالیٰ نے حفاظت کے لئے فرشتے بھیج دیئے ہیں مامتا کو پھر بھی تسلی نہ ہوئی.اس نے کہا اے خدا! ہمیں بحیثیت قوم تیرا ممنون ہونا چاہیے اور تیری حمد کے ترانے گانے چاہئیں لیکن میرا دل اب بھی تسلی نہیں پکڑتا میرا دل تو اپنے بچے کے لئے بے چین ہے.تب اسی ایک رات میں خدا نے تیسری بارا سے بتایا کہ ہم تیرے بچے کی حفاظت کریں گے.میں نے اس عیسائی عورت سے کہا تین دفعہ بات کرنا بڑی عجیب بات ہے لیکن میرے نزدیک اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ جب اس نے خدا تعالیٰ کی یہ آواز سنی تو اس کا دل تسلی پا گیا.اس نے یہ بھی نہ سمجھا کہ شاید یہ خدا کی آواز نہ ہو.میرے دل کا واہمہ ہو یا شیطانی وسوسہ.کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایک عظمت اور شوکت ہوتی ہے.میں نے اس انگریز عورت سے کہا تم عیسائی دنیا سے مجھے ایک مثال بتا دو.میں تمہیں جماعت احمدیہ میں سے ہزاروں ایسی مثالیں دے سکتا ہوں.پس جس وقت عیسائیت اپنی ساری طاقتوں کو جمع کر کے اور الحاد کی ساری افواج کو اکٹھا کر کے اور اپنا حلیف بنا کر اسلام کو مٹانے کے لئے حملہ آور ہوئی تھی اس وقت اسلام کی حفاظت کے لئے اور اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے کون آگے بڑھا ؟ اس وقت خدا نے مہدی معہود اور مسیح موعود کو کھڑا کیا.وہ اکیلا تھا.اس کی آواز اپنے گھر میں بھی سنائی نہ دیتی تھی.اس کی آواز پنے رشتہ داروں کے کانوں تک بھی نہیں پہنچتی تھی مگر خدا نے آپ کو فر مایا کہ میں نے جس غرض کے لئے تجھے بھیجا ہے اس کا میں خود ذمہ دار ہوں اور اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ تو کامیاب ہو گا.جس وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا اس وقت تو قادیان کے پانچ میل کے فاصلے پر بہت سے گاؤں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۶۰ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب ایسے تھے جن کے باشندے آپ کا نام تک نہ جانتے تھے اور پھر خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت کا ہم نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ اتنے بھرے ہوئے ہندوستان میں سے جو ہزاروں.لاکھوں میل پر پھیلا ہوا تھا.شہر شہر میں یہ مخالفانہ آواز گونجی کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے.تمہارا یہ نعرہ مہدی معہود کی صداقت کی دلیل تھا.اس کا اور اس کے گاؤں کا تو نام بھی لوگ نہیں جانتے تھے.خدا نے کہا تھا کہ میں تیرے نام کو دنیا میں عزت کے ساتھ پھیلاؤں گا.کچھ اپنوں نے پھیلا اور کچھ تم ( مخالفوں ) نے جا کر پھیلا دیا.مخالفتوں کا ایک اثر تو یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے کے مواقع میسر آئے اور اس طرح پر جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اتنا جذب کیا کہ جیسا کہ میں نے کل بتایا تھا کہ ایک وقت میں اڑھائی سوروپے کی لاگت پر ایک کنواں لگانے کے لئے دو دو آنے چندہ کی اپیل کی گئی اور اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ روپے کے عام چندوں کے علاوہ صرف نصرت جہاں ریزروفنڈ میں اکیاون لاکھ روپے جمع ہو گئے ہیں اور اس طرح ہماری یہ خواہش بھی پوری ہو گئی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ۵۱ سال کے مقابلے میں ۵۱ لاکھ روپے جمع ہو جائیں.گویا ہر سال کا ایک لاکھ روپیہ.پس مہدی معہود علیہ السلام کا جو کام ہے اور مہدی معہود کو جو بشارتیں ملی ہیں وہ ہم پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہیں اور جس زمانہ میں ہم داخل ہورہے ہیں اور جس کے بعد غلبہ اسلام کی صدی میں سولہ سال رہ گئے ہیں.۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو پہلی بیعت ہوئی تھی اور آج سے سولہ سال بعد ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء میں سو سال گزر جائیں گئے.یہ جو سولہ سال کا عرصہ ہے اس میں جیسا کہ میں نے بتایا دو اغراض کے پیش نظر.ایک خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گانے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں سے ہمیں پوری ایک صدی تک نوازتا چلا گیا، ہم نے صد سالہ جشن منانا ہے.دوسرے ہم نے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کے ساتھ سر جھکاتے ہوئے اپنے اس عزم کا اعلان کرنا ہے کہ اے ہمارے رب! ہم اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود تجھ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ جس طرح ہم نے تھوڑے ہوتے ہوئے پورے ایک سو سال تک تیری راہ میں قربانیاں دیں تا کہ تیرا دین غالب آئے.اس کا ایک مرحلہ طے ہو گیا ہے.اب دوسرے مرحلہ کے لئے ہمیں قربانیاں دینے کی توفیق بخش.اسلام کی یہ جو آخری جنگ ہے اور ساری دنیا پر اسلام نے قیامت تک کے لئے غالب آنا
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۶۱ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب --- ہے، اسے تاریخ کی ایک کتاب سمجھیں تو اس کا ایک باب اس صدی کے اختتام پرختم ہوگا اور پھر ایک دوسرا باب کھلے گا اور ہم نے اپنے رب کے حضور اس موقع پر اس عزم کا اظہار کرنا ہے کہ پہلی صدی میں ہم نے بنیادیں بنائیں.کچھ عمارتیں بھی کھڑی کیس ابھی اسلام کی عمارت اتنی بلند نہیں ہوئی اور نہ اس میں اتنی وسعت پیدا ہوئی ہے کہ اس میں ساری دنیا سما سکے.پس حمد اور عزم یہ دو لفظ ہیں جن کا انتہائی مظاہرہ انشاء اللہ تعالی ۱۹۸۹ء میں ہماری طرف سے کیا جائے گاو باللہ التوفیق اور اس حمد اور اس عزم کے عظیم مظاہرے کے لئے قرآن کریم کی عین ہدایت کے مطابق ہم نے تیاری کرنی ہے.اشاعت اسلام کے پروگرام بنانے ہیں.خدا کی راہ میں قربانیاں دینی ہیں.نئی نئی سکیمیں سوچنی ہیں.چنانچہ اس ضمن میں میں اپنا وہ منصوبہ جس کا میں نے وعدہ کیا تھا اس وقت آپ کے سامنے رکھوں گا.یہ جو جشن منایا جائے گا یہ محض جلسہ سالانہ کے موقع پر نہیں منایا جائے گا بلکہ وہ سال جشن کا سال ہوگا.اس سال ہم ۲۳ / مارچ سے جشن منانا شروع کریں گے اور ہمارے جذبات کا اظہار اور خدا کے حضور ہمارے عزم کا اظہار اور فضاؤں کو خدا کی حمد سے بھر دینے کا جو عمل ہے اس کی ابتدا ء ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء کو ہو گی.گویا وہاں سے جشن شروع ہوگا اور پھر ۱۹۸۹ء کے جلسہ سالانہ پر یہ اپنے عروج پر پہنچے گا اور اس کی ابتداء مکانات سے ہوگی.اس کی تفصیل میں مجلس مشاورت کے موقع جماعت کو بتا دوں گا.ہم اس کی ابتداء کریں گے گھروں سے، پھر محلوں سے، پھر قصبوں اور شہروں سے اور پھر ملکوں سے اور پھر مختلف براعظموں کے لحاظ سے اور پھر ہم ساری دنیا کے احمدی اپنے نمائندوں کے ذریعہ یہاں جمع ہو کر خدائے قادر و توانا کی حمد کے گیت گائیں گے.جب میں ساری دنیا کے نمائندوں کی بات کرتا ہوں تو اس سے اپنے پر بھی ذمہ داری ڈالتا ہوں.اس سال غیر ممالک سے چودہ وفود آئے ہیں اور ہمارے دل بڑے خوش ہیں.جس سے باتیں کرتا ہوں اس کا دل خوشی سے بھرا ہوا پاتا ہوں.لوگ سمجھتے ہیں ہمیں اسی دنیا میں جنت مل گئی لیکن سولہ سال کے اندر میری خواہش ہے اور اس کے لئے ہم نے کوشش کرنی ہے.باقی جہاں تک نتیجہ کا تعلق ہے ہو گا.وہی جو خدا چاہے گا لیکن ہم نے اپنی عاجزانہ دعاؤں اور تدبیر سے یہ کوشش کرنی ہے کہ دنیا کا ایک ملک بھی ایسا نہ رہے جہاں کے وفود ۱۹۸۹ء کے جلسہ سالانہ پر نہ آئے ہوں.اس کے لئے ہم نے بڑی تیاری کرنی ہے.اس سلسلہ
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۶۲ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب میں میرے ذہن میں اس کا جو ڈھانچہ بنا ہے اس کی بہت سی تفاصیل زیر غور ہیں اور وہ تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے،انشاء اللہ مجلس مشاورت پر پیش ہو جائیں گی.اوّل:.اشاعت اسلام اور اصلاح وارشاد اور تعلیم وتربیت کے کام کو تیز سے تیز تر کرنے کے لئے ہماری کوشش اس منصوبہ کی شق نمبرا ہوگی.چناچہ مغربی افریقہ میں اشاعت اسلام اور اصلاح وارشاد اور تعلیم و تربیت کے کام کو تیز سے تیز تر کرنے کے لئے تین مراکز کا انتخاب کیا جائے گا اور وہ تین مراکز افریقہ کے سارے ممالک پر مشتمل ہوں گے.یعنی مغربی افریقہ کے سارے ممالک کا نقشہ سامنے رکھ کر ان کو تین حصوں میں تقسیم کر دیں گے اور ہر حصہ کا ایک مرکز ہوگا اور اس مرکز سے اس علاقے میں اسلام کی تبلیغ کی جائے گی.اس وقت تک مغربی افریقہ میں ہمارے با قاعدہ مشن تو صرف چھ ممالک میں ہیں.حالانکہ مغربی افریقہ کے ممالک کی تعداد بہت زیادہ ہے.اس طرح مشرقی افریقہ میں بھی تین مراکز بنا کر اسلام کی تبلیغ واشاعت کو تیز سے تیز تر کرنے کی کوشش کی جائے گی.میں جب بھی مرکز کا لفظ بولتا ہوں تو اس سے میری مراد یہ ہوتی ہے جہاں ایک جامع مسجد اور مکمل مشن ہاؤس ہو.کیونکہ اس کے بغیر تو اشاعت اسلام کا کام نہیں ہوسکتا.گو اس وقت مغربی افریقہ میں ہمارے مراکز قائم ہیں لیکن میں ایسے مراکز کی بات کر رہا ہوں جو کسی ایک ملک کے لئے مرکز نہیں بنیں گے بلکہ بہت سے ممالک کے لئے ایک ایک مرکز ہوگا.ہوسکتا ہے موجودہ مرکز کو اس غرض کے لئے منتخب کریں یا کسی نئی جگہ کو منتخب کر کے وہاں مرکز بنا ئیں.یورپ میں اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ اٹلی میں ہمارا کوئی مشن نہیں ہے.فرانس میں ہمارا کوئی مشن نہیں ہے.حالانکہ ان دونوں ملکوں کی بہت بڑی اہمیت ہے.اٹلی میں اس لئے کہ یہ کیتھولسزم (Catholicism) کا مرکز ہے.یعنی عیسائیت ایک وقت میں اپنے عروج پر تھی تو اس وقت یہی ان کا ایک فرقہ تھا.پھر آہستہ آہستہ دوسرے فرقے بھی بن گئے لیکن اس وقت بھی عیسائیت کے بہت بڑے حصے کا مرکز اٹلی ہے.ان کا پوپ یعنی قائد اعلیٰ اٹلی میں رہتا ہے لیکن اٹلی میں ہمارا کوئی تبلیغی مرکز نہیں.پھر فرانس میں بھی ہمارا کوئی مرکز نہیں.حالانکہ فرانسیسی زبان بھی بہت مشہور زبان ہے.یہ اس وقت بھی جبکہ برٹش ایمپائر اپنے عروج پر تھی انگریزی کے بعد دوسرے نمبر پر آتی تھی.یہ بھی دنیا کے اکثر حصوں میں بولی جاتی تھی.مثلاً مراکش میں بولی جاتی.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۶۳ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب تھی.اب اس دفعہ سفر کے دوران میں نے ایک ملک میں مراکش کے سفیر کو بتایا کہ ہم فرانسیسی میں قرآن کریم کا ترجمہ عنقریب شائع کرنے والے ہیں.تو وہ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے ہم سے یہ وعدہ لیا کہ جب بھی یہ قرآن کریم شائع ہو، اسے ایک نسخہ بھجوا دیا جائے.چناچہ اس کا نام نوٹ کیا ہوا ہے اور دفتر میں رکھا ہوا ہے.پس زبان کے لحاظ سے کن کن ممالک میں فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے، ایک وقت میں انگریزی کے بعد فرانسیسی دوسرے درجہ پر آتی تھی.ممکن ہے اب اس کی اہمیت کچھ کم ہو گئی ہو لیکن اب بھی مغربی افریقہ کے کئی ممالک میں فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے.سپین میں ہمارا مبلغ تو ہے لیکن کرایہ کے مکان میں رہتا ہے.وہاں بھی مرکزی مشن ہاؤس اور مسجد کی ضرورت ہے اور سپین کی اہمیت یہ ہے کہ شمالی امریکہ اور کینیڈا میں تو انگریزی بولنے والے لوگ غالب آئے لیکن جنوبی امریکہ کے اکثر ملکوں میں سپینش زبان بولنے والے غالب آئے.تو ان ملکوں میں اگر ہم نے اشاعت اسلام کے کام کو مضبوطی سے چلانا ہے تو ہمیں ان کا جو مرکز ہے یا کبھی رہا ہے وہاں ہمیں اپنے مرکز کو مضبوط کرنا پڑے گا.علاوہ ازیں تین ایسے ممالک ہیں جن کی یہ اہمیت تو نہیں ہے یعنی اٹلی اور فرانس اور سپین کی طرح تو نہیں ہے لیکن ان کی ایک اور وجہ سے بڑی اہمیت ہے.وہ ہیں ناروے، سویڈن اور ڈنمارک.اس علاقے میں عیسائیت بہت دیر بعد پہنچی ہے.تاہم جب اس علاقے میں عیسائیت پہنچی تو لوگوں نے عیسائیت کو قبول کر لیا اور بڑی جلدی قبول کر لیا.ہم امید رکھتے ہیں اور ہم دعائیں کرتے ہیں کہ اگر ہماری طرف سے صحیح طور پر اور صحیح طریقے پر اور وسیع پیمانے پر اسلام کو پیش کیا گیا تو یہاں کے عوام اسلام کو بھی اسی طرح جلدی قبول کر لیں گے جس طرح انہوں نے ایک وقت میں عیسائیت کو قبول کر لیا تھا.ڈنمارک میں ہماری ایک خوبصورت مسجد بھی ہے جسے دیکھنے کے لئے سیاح آتے رہتے ہیں اور مشن ہاؤس بھی ہے جس میں مبلغ کی رہائش اور دفتر ہے ایک بہت بڑا ہال ہے جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں لیکن ناروے اور سویڈن میں نہ ہماری کوئی مسجد ہے اور نہ مشن ہاؤس ہے.کرایہ کے مکانوں میں یا بعض دوست اپنے مکانوں میں رہ رہے ہیں.میں نے ان کو ہدایت کی تھی کہ اپنی زمین خرید و اور مکان بنواؤ.انشاء اللہ جلد ہی اس کا انتظام ہو جائے گا.غرض ان دو ملکوں میں بھی مشن ہاؤس کھلنے چاہئیں.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۶۴ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب یہ ہے یورپ.اور یورپ کا ایک حصہ ہے انگلستان جو ساتھ ہی لگتا ہے.وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی مضبوط جماعت قائم ہے لیکن وہاں کام کا پھیلاؤ بھی زیادہ ہو گیا ہے اور تبلیغ کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے.اس لئے انگلستان میں جماعت احمدیہ کے کام کو مضبوط کرنے کے لئے ہمیں وہاں تین سے پانچ تک نئے مبلغ بھجوانے ہوں گئے اور کئی جگہ نئے مرکز بھی کھولنے پڑیں گے.جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے اس کے دو حصے ہیں.ایک وہ حصہ ہے جس میں انگریزی غالب ہے اور دوسرے حصہ میں سپینش اور پرتگالی زبان غالب ہے.جہاں انگریزی غالب ہے وہ کینیڈا اور شمالی امریکہ ہے.اسے امریکن لوگ دی سٹیٹس (The States) کہتے ہیں.جن کا خیال ہے کہ دی سٹیٹس صرف امریکہ کا علاقہ ہے.بہر حال امریکہ میں اشاعت اسلام کے کام کو تیز کرنے کے لئے ایک تو کینیڈا میں مرکز کھولنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں نہ تو کوئی مرکزی مسجد ہے اور نہ مشن ہاؤس ہے اور امریکہ میں بھی تین سے پانچ نئے مبلغ اور ان کے لئے نئے مشن ہاؤسز کھولنے پڑیں گئے.جنوبی امریکہ میں بھی تین مراکز اور مرکزی مساجد کا انتظام کرنا ہے.ویسے وہاں مساجد تو ہیں لیکن اشاعت اسلام کا کام نہیں ہو رہا.پس اشاعت اسلام کے لئے یہ منصوبہ بنایا گیا ہے.کچھ علاقوں کی طرف ممکن ہے زیادہ توجہ دینی پڑے.اس وقت جو میرے ذہن میں تھا وہ بتا دیا ہے.یہ وہ کوشش ہے جو اشاعت اسلام کی مہم کو تیز کرنے کے لئے کی جانے والی ہے اور جو میں نے نام لئے ہیں مساجد اور مشن ہاؤس کے، اس کے لئے بھی شاید ستر اسی لاکھ یا ایک کروڑ روپے کی ضرورت پڑے گی.بہر حال ضرورت حقہ کے لئے فرشتے آسمانوں سے دولتیں لے کر زمین پر اترتے ہیں.اس لئے مجھے اس ضمن میں بھی خدا تعالی کی مدد پر پورا بھروسہ ہے.دوم : قرآن کریم کا ترجمہ نوع انسانی کے ہاتھ میں دینا اشد ضروری ہے.میں نے کل بتایا تھا کہ اس وقت تک چھ زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہوچکے ہیں.بعض زبانوں میں تراجم تو ہو چکے ہیں لیکن ان کی اشاعت میں کچھ دقت تھی.ان میں ایک فرانسیسی زبان میں ترجمہ قرآن کریم ہے.اس کی نظر ثانی بھی ہو چکی ہے.میرا خیال تھا کہ یہاں پر یس جلدی لگ جائے گا تو اس کی طباعت سنتی بھی ہوگی اور جلدی بھی ہو جائے گی.لاہور میں جو انگریزی ترجمہ قرآن مجید
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب چھپوایا گیا تھا اس پر کم و بیش تین سال لگ گئے تھے.میں نے کہا کہ یہاں چھ ماہ میں چھپ جائے گا.اڑھائی سال تک انتظار کر لو.تب بھی وہی نتیجہ نکلے گا جو لا ہور کی کوشش کا نکلا.ہمارے ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ کی دقت کی وجہ سے کچھ تھوڑی سی روک پیدا ہوگئی ہے.اللہ تعالیٰ اس کے بھی سامان پیدا کر دے گا.تاہم اگر ضرورت پڑی تو باہر سے چھپوا لیں گے.میرا خیال ہے کہ روسی زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے لیکن وہ اب تک اس لئے شائع نہیں کیا جا سکا کہ کوئی ترجمہ جس پر جماعت احمدیہ کا لیبل ہوا ہو ایسا نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہو سکتا ہے کہ اس میں ہماری کسی غفلت کی وجہ سے وہ غلطیاں رہ جائیں جو نہیں رہنی چاہئیں.اس لئے کوئی اچھا قابل اعتبار آدمی ملے جو ترجمہ پر نظر ثانی کرے تب وہ چھپ سکتا ہے، ورنہ نہیں.یا اللہ تعالیٰ ہمیں کوئی احمدی ایسا دے دے جو روسی زبان جانتا ہو لیکن پہلے ہمارا یہ خیال تھا کہ کوشش کے بغیر ہمیں کوئی آدمی مل جائے گا جو روسی ترجمه قرآن کریم پر نظر ثانی کر سکے گا.ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ کوئی آدمی ملے جو روسی ترجمہ کو دیکھ کر اس کی صحت کی ضمانت دے.اب وقت آگیا ہے کہ روسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کریں.پھر چینی زبان ہے.اس میں قرآن کریم کا ترجمہ ضروری ہے اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے چین پر رحم کیا کہ اخلاق کی طرف ان کو متوجہ کیا اور روسی اشترا کی اخلاق سے جتنا پیچھے ہے اتنا ہی چینی سوشلزم نے اخلاقیات پر زور دیا.ایک اور صحیح قدم آگے بڑھا ئیں تو وہ روحانیت کے میدان میں پہنچ سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے.بہر حال ہم تو نوع انسانی کی خدمت کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور کسی کے خلاف ہمیں کوئی عناد اور دشمنی نہیں ہے.ہم تو ہر ایک کی خیر خواہی اور بھلائی چاہتے ہیں.اس لئے ہم چینی زبان میں جلد ترجمہ کرانا چاہتے ہیں.اسی طرح اٹالین سپینش ، افریقہ میں ہاؤ سا زبان میں ہمارا ترجمہ قرآن کریم مختصر نوٹوں کے ساتھ شائع ہونا چاہئے.اس کے علاوہ ایک اور مشورہ کرنے کی ضرورت ہے.دوایسی زبانیں جو مغربی افریقہ کے بڑے علاقوں میں بولی جانے والی ہوں ان میں بھی ترجمہ ہونا چاہئے.مشرقی افریقہ میں ہمیں یہ سہولت میسر آگئی کہ سواحیلی زبان مختلف علاقوں کی سانبھی زبان تھی.قبائلی ڈائیلاگ مختلف تھے لیکن سواحیلی مشتر کہ زبان تھی لیکن مغربی افریقہ کا یہ حال نہیں ہے.ہاؤ سا زبان نائیجیریا کے شمال میں گو ایک بہت بڑے علاقے میں بولی جاتی ہے لیکن ایسی زبان نہیں ہے جو مغربی افریقہ کے دوسرے
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۶۶ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب علاقوں میں بھی بولی جاتی ہو.بہر حال ہاؤ سا سمیت افریقہ کی تین زبانوں میں تراجم ہونے چاہئیں.اسی طرح یوگو سلاوی زبان میں تفسیری نوٹوں کے ساتھ ترجمہ کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ ایک اور چیز بھی بہت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے لئے آج کل کے حالات کے لحاظ سے یہ بہت ضروری ہو گیا کہ ہم قرآن کریم کی عربی تفسیر شائع کریں.ہم پر اس سلسلہ میں اعتراضات بھی ہوتے رہتے ہیں.اس پر گھبرانے کی یا غصہ میں آنے کی ضرورت نہیں لیکن میں عینی شاہد ہوں کہ وہاں ہمارے عربی لٹریچر کی بڑی مانگ ہے.میں جب پڑھنے کے لئے انگلستان گیا تھا تو اس وقت میں کچھ دیر کے لئے مصر میں بھی رکا تھا.مصریوں نے یک زبان ہو کر کہا تھا کہ ریویو میں کبھی کبھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی جو تفسیر چھپتی رہتی ہے جب ہماری نظر سے گزرتی ہے تو ہم اس کو پڑھے بغیر رہ نہیں رہ سکتے بلکہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے پڑھ کر احمدیت میں داخل نہ ہوں.تو ان کو تر جمہ کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود عربی دان ہیں.تاہم ترجمہ کی اس لحاظ سے ضرورت تو ہے کہ عربی دانوں نے بھی ترجمہ کیا ہے مختصر تفسیر کے رنگ میں ) ان کو ضرورت ہے قرآن کریم کے ان رموز اور اسرار روحانیہ کے جاننے کی جن کی اس دنیا کے انسان کو ضرورت تھی اور وہ مسیح موعود اور مہدی معہود کو سکھائے گئے تھے اور وہ ان سے محروم ہیں.ہم ان کے خادم ہیں.اب ظاہر ہے خادم ہونے کا نعرہ لگانا اور خدمت سے انکار کرنا درست نہیں پس ان کی خدمت کا جذ بہ رکھنا ہم سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہم قرآن کریم کی وہ تفسیر جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل.مہدی موعود کو سکھایا تھا وہ ان تک پہنچائیں اور یہ ان پر انشاء اللہ اثر کریں گی اور ان کے تعصبات اور غلط فہمیاں جو عدم علم اور غفلت کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہیں وہ انشاء اللہ دور ہو جائیں گی.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بشارت دی ہے کہ اہل مکہ فوج در فوج اللہ کی اس ނ جماعت میں شامل ہوں گے.آج نہیں تو کل لوگوں نے احمدیت کی طرف ضرور آنا ہے.اسی طرح ہمیں فارسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر شائع کرنی چاہئے اور وہ اس لئے کہ جس طرح ایک بہت بڑے علاقے میں مادری زبان کے طور پر عربی بولی جاتی ہے اسی طرح ایک بہت بڑے علاقے میں فارسی بھی مادری زبان کے طور پر بولی جاتی ہے.دوسرے اس لئے بھی کہ ایران میں اکثریت شیعوں کی ہے اور چونکہ دوسروں کی نسبت شیعوں کا امام مہدی.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۶۷ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب زیادہ تعلق ہے اور اسی لئے ان کی کتب میں امام مہدی کا نقشہ دوسرے فرقوں کی نسبت زیادہ صحیح کھینچا گیا ہے.ایک دو جگہ ان کو مسئلہ سمجھ نہیں آیا.اگر ہم دو تین الجھی ہوئی باتیں ان کو سمجھا دیں تو میں سمجھتا ہوں کہ شیعہ اصحاب ہم سے بہت قریب ہیں.باقی جہاں تک آنے والے کا حکم ہونے کا تعلق ہے یہ تو شیعہ بھی مانتے ہیں کہ وہ حکم ہوگا.بہر حال وہ نسبتا قریب بھی ہیں اور ان کے دلوں میں مہدی کی عظمت بھی ہے.اگر ہم ان پر یہ ثابت کر دیں کہ تمہاری اپنی کتب میں مہدی کی صداقت کے جو نشانات بتائے گئے تھے وہ پورے ہو چکے ہیں اس لئے مہدی جو آنا تھا وہ تو آ گیا.اب اس کو تلاش کرنا اور اس کو قبول کرنا اور اس کی برکتوں سے حصہ پانا یہ تمہارا کام ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ جلد صداقت کو قبول کر لیں گے.پس عربی میں قرآن کریم کی تفسیر اور فارسی میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر ، چینی زبان میں روسی زبان میں ، فرانسیسی زبان میں ، اٹالین زبان میں، یوگوسلاوین زبان میں سپینش زبان میں، مغربی افریقہ کی تین زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کروانا، ان پر نظر ثانی کرنا اور ان کو اشاعت کے لئے تیار کرنا، ان کی طباعت کرانا، اور طباعت پر خرچ کرنا اس پر ہی پچاس ساٹھ لاکھ روپے کے خرچ کا اندازہ ہے.تاہم اس پر جتنا بھی خرچ آئے کرنا پڑے گا کیونکہ یہ کام بہت ضروری ہے.سوم :.اس منصوبہ کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ اسلام پانچ دس ممالک کے لئے تو نہیں آیا.نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پندرہ ہیں قوموں کی طرف مبعوث ہوئے ہیں.اسلام تو رب العالمین کی طرف سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمتہ للعالمین بنا کر نوع انسانی کو مخاطب کرتا ہے کہ میں تمہاری بھلائی کے لئے آیا ہوں اور دنیا میں اعلان کیا جاتا ہے کہ امت محمدیہ کا قیام الخرجَتْ لِلنَّاسِ ہے.الناس ، یعنی انسانوں کی مردوزن کی بھلائی کے لئے ہے.پس ہما را خدا جس پر ہم ایمان لاتے ہیں ، وہ صرف اسرائیل کا خدا نہیں یا وہ صرف ہندوؤں کا خدا نہیں ہے.وہ رب العالمین ہے.اس نے سب جہانوں کو پیدا کیا اور وہی خدا ان کی ربوبیت کرتا ہے.بڑی عظمت والا ہے ہمارا خدا.پھر وہ عالمین جن کے کناروں تک ہمارا ابھی تخیل بھی نہیں پہنچا اس کو بھی اس نے یہ کہا کہ میں نے تمہیں اس لئے پیدا کیا ہے کہ میں انسان کی ایک نسل پیدا کرنا چاہتا ہوں اور تمہیں اس کی خدمت پر لگانا چاہتا ہوں.پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بڑی طاقتیں عطا فرمائیں -----
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۶۸ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب فَسَونكَ فَعَدَلَك (الانفطار : (۸) اور ان قوتوں کو درجہ بدرجہ مختلف ارتقائی مدارج میں سے گزار نے کے لئے ہر قسم کے سامان عطا فرمائے.پھر خدا نے انسان کو مخاطب کیا اور فرمایا اے انسان! تیری نوع کو میں نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ تیری نوع میں سے میں اپنا ایک پیارا وجود پیدا کرنا چاہتا ہوں.حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے معا پہلے تک نوع انسانی کو قبولیت اسلام کے لئے تربیت دی جاتی رہی.چناچہ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس لئے آئے کہ وہ نسل انسانی کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر انسان کو بنایا گیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسان کی بھلائی کے لئے رحمۃ للعالمین“ بنا کر مبعوث کیا گیا مگر اے احمدی جماعت کے لوگو! تم بہ سوچو کہ ہم کتنوں تک پہنچے ہیں؟ میں نے اپنے منصوبے کو ابھی محدود رکھا ہے کیونکہ بعض بنیادی قسم کے کام اگلی صدی کی ابتداء کے لئے بھی چھوڑ دینے چاہئیں اور شاید ان کو ہم کر بھی نہ سکتے ہوں.میں نے صرف یہ سوچا کہ اس وقت ہمیں اس صدی کا جشن منانے اور اگلی صدی کے استقبال کے لئے اور اس عزم کے اظہار کے لئے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ایک سو زبانوں میں اسلام کا بنیادی لٹریچر شائع کرنا ہوگا.میں نے حساب لگایا ہے کہ اگر فی زبان ایک لاکھ کی تعداد میں لٹریچر شائع کیا جائے تب بھی ایک مختصر سی کتاب پر پچاس ساٹھ لاکھ روپے خرچ آئیں گے لیکن ابھی میں خرچ کی طرف نہیں آرہا.میں صرف ایک ضرورت بتا رہا ہوں کہ دنیا کی ہر زبان میں اسلامی لٹریچر شائع ہونا چاہئے.یعنی یہ کہ اللہ تعالی کی ہستی کا تصور کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام کیا ہے؟ قرآن کریم کی عظمت کیا ہے؟ مسلمان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس کے دل کا کیا نقشہ کھینچا گیا ہے؟ اس کا مقام کیا ہے؟ اس نے نوع انسانی کے کن پہلوؤں کی کس رنگ میں خدمت کرنی ہے؟ اس نے کس طرح انسان کا دل جیتنا ہے اور جیتے رکھنا ہے اپنے محبوب آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بھی آقا اللہ تعالیٰ کے لئے.اس قسم کی ساری باتیں اس لٹریچر میں آئیں گی.یہ لٹریچر سر دست سو زبانوں میں شائع کرنے کا منصوبہ ہے.ویسے اپنی اہمیت کے لحاظ سے دنیا کی ساری زبانوں میں ہونا چاہئے.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۶۹ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب پس اگلے سولہ سال میں دنیا کی مختلف سوز بانوں میں لٹریچر تیار کرنا، اس پر نظر ثانی کرنا اور پھر مختلف ممالک سے مشورے کرنا کہ ان کی کس قسم کی ضرورت ہے اور ہزاروں چیزیں سوچنی پڑیں گی.میرے خیال میں اس کے لئے شاید ہمیں آٹھ دس سال تیاری کرنی پڑے گی.اس طرح ایک ہی وقت میں طباعت کا کام تو بڑھ جائے گا لیکن اس عرصہ میں چھپ کر دنیا میں تقسیم ہو جائے گا.بہر حال سو زبانوں میں لٹریچر پیدا کرنا اور اس کی تقسیم کا انتظام کرنا، یہ اس منصوبہ کا ایک اہم حصہ ہے اور اس لٹریچر کو تقسیم کرنے کا ایک دوسرا پہلو جو ہے وہ دو ورقہ اشتہارات ہیں.اس طریق سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑا فائدہ اٹھایا ہے.اس کے لئے ضروری ہے کہ آف سیٹ (Off Set) کے دو چھوٹے پریس ( یہ ستر اسی ہزار روپے کا آجاتا ہے ) افریقہ کے لئے اور ان سے ذرا بڑا انگلستان ہمیں مفت دے رہا ہے.ابھی ہمارے بعض محکموں کے افسر سوچ رہے ہیں کہ جو چیز ملک کو مفت مل رہی ہے وہ لے لینی چاہئے یا نہیں.خیر ان کو کسی وقت سمجھ آجائے گی.اگر پہلے آگئی ہوتی تو وہ اس وقت تک یہاں پہنچ چکا ہوتا ؟ آہستہ آہستہ ہر ملک میں اس قسم کے چھوٹے اور بڑے عمدہ پریس لگائے جائیں گے.اس قسم کے پریس بڑے اعلیٰ معیار کے دو ورقہ اشتہارات شائع کیا کریں گے.ان کا انتظام ہونا چاہئے.اس نکتے کا اگلے حصہ کے ساتھ تعلق ہے.وہاں بھی اس کو بیان کر دوں گا.اس وقت دنیا کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ کبھی کچھ ہوتا ہے اور کبھی کچھ ہوتا ہے.کچھ پتا نہیں لگ رہا کہ تو میں کس نہج پر چلتی ہیں اور کہاں پہنچتی ہیں یا ان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے.اس وقت ہمیں ایک جگہ اچھے پر لیس پر انحصار نہیں کرنا چاہئے.اس لئے ہمیں پاکستان میں مرکزی اعلیٰ پیمانے کے پریس کے علاوہ دنیا کے کسی اور دو مقامات پر جو اس کام کے لئے مناسب ہوں وہاں دو اچھے پر لیس بھی لگا دینے چاہئیں.یہ کام آپ نے کرنے ہیں.چهارم :.حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کا ایک بڑا کام یہ بتایا گیا تھا کہ آر نوع انسانی کو امت واحدہ بنا دیں گے.ایک تو کسر صلیب ہے.دوسرے مسلماں را مسلمان باز کردند کا کام تھا یعنی جو اندرونی فتنے اور کمزوریاں اور خرابیاں تھیں ان کو دور کر کے سچا اور پکا اور دلیر اور قربانی دینے والا عمل سے اپنے ایمان کو ثابت کرنے والا مسلمان بنانا تھا اور تیسرے ساری دنیا کو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۷۰ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب اور ساری نوع انسانی کو امت واحدہ بنادینا آپ کا اصل مقصد تھا.ساری مالتیں مٹ جائیں گی سوائے ملت اسلامیہ کے.یہ پیشگوئیاں موجود ہیں.یہ پرانی خبریں ہیں.قرآن کریم نے بتایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ کام ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف یہ کہا اور اس کے ایک حصہ کے متعلق ہماری عقل اور سمجھ نے بھی ہمیں یہ بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں جو کام کرنے ہیں ان کاموں کا عرصہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے.کچھ پہلی صدی میں ہوئے ، کچھ دوسری صدی میں ہوئے اور کچھ پندرہویں میں ہوں گے.اگر قیامت تک کے کام پہلی صدی میں ہو جاتے تو باقی دنیا کیا کرتی.اللہ تعالیٰ نے ہر صدی کے لئے کچھ نہ کچھ کام رکھے ہوئے ہیں.اب یہ کام کہ نوع انسانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور برکات سے ایک خاندان بن جائے ، ایک امت واحدہ بن جائے ، یہ ذمہ داری پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود علیہ السلام کے سپرد کی گئی ہے.کیونکہ یہ ایک آخری کام ہے.پھر جب اسلام کا کامل طور پر غلبہ ہو جائے گا تو ر پھر ( جیسا کہ میں نے بچوں کو بتایا تھا اور بڑوں کو بھی بتایا تھا ) بیرونی محاذ کی جنگ ختم ہو جائے گی.کیونکہ نہ کوئی غیر رہے گا نہ غیر سے جنگ کا کوئی سوال پیدا ہو گا لیکن تربیت کا جو اندرونی محاذ ہے اس پر تو نوع انسانی جب تک زندہ ہے جنگ جاری رہے گی.بہر حال آخری کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا میں جوکرنا تھا وہ نسل انسانی کو امت واحدہ بنانے کا تھا اور یہ کام پیشگوئیوں کے مطابق آپ کے جس جرنیل کے سپرد کیا گیا ہے اسے احادیث کی رو سے مہدی اور مسیح کا لقب دیا گیا ہے.بین الاقوامی برادری کا قائم کرنا یہ ایک بہت اہم کام ہے اور مشکل کام بھی ہے.اس میں تربیت کی بڑی ضرورت ہے.اس وقت دنیا بنیادی طور پر اور ذہنی لحاظ سے دو حصوں میں منقسم ہے.ایک دنیا وہ ہے جو نیشنلزم کی حدود کو پار کر کے انٹر نیشنلزم برادری کی طرف حرکت کر چکی ہے اور نیشنلزم یعنی قومیت کا جو جذبہ تھا دوسروں کے ساتھ ملاپ نہیں کرنا، کہتے تھے ہم فرانسیسی ہیں، ہم انگریز ہیں، ہم جرمن ہیں یہ سرحدیں ختم ہو چکی ہیں.اب تو یورپین کا من ( Common) مارکیٹ بن چکی ہے.پہلے لیگ آف نیشنز بنی تھی.اب یونائیٹڈ نیشنز آرگنا ئز یشن بن گئی ہے لیکن دوسرا حصہ ایسا ہے جو مظلوم اور غلام بنا رہا اور استحصال کا شکار رہا.ان کو نئی نئی آزادیاں ملی ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ترقی کی راہ پر چلتے ہوئے نیشنلزم میں سے ضرور گذرنا چاہئے.خواہ آج کی دنیا میں ---
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۷۱ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب انسان ان نقصانات کو برداشت کئے بغیر انٹر نیشنلزم ( بین الاقوامی برادری ) ہی کا حصہ کیوں نہ بن سکتا ہو.اب جہاں جہاں نئی نئی آزاد مملکتیں قائم ہوئی ہیں وہاں نیشنلزم یعنی قومیت کا پرچار زیادہ کیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ مذہب کی پیروی کی بجائے نیشنلزم سے چمٹے رہنا چاہئے.مثلاً میں ۱۹۷۰ء میں جب افریقہ کے دورے پر گیا تو ایک موقع پر مجھے بتایا گیا کہ چند لوگ کہتے ہیں لیکن میں نے ان کو سمجھایا کہ Ghanian for Ghana Ghanians are for the whole world, not for Ghana alone میں نے ان کو یہ بھی سمجھایا کہ جہاں تک تمہاری سیاست کا تعلق ہے تم نیشنلسٹ بنے رہو.خود سیاسی حالات تمہیں یہ سبق سکھا دیں گے کہ تمہیں کس حد تک نیشنلسٹ بننا چاہئے اور کس حد تک تمہیں انٹر نیشنلزم ( بین الاقوامی برادری ) میں شامل ہو کر اس کے فوائد حاصل کرنے چاہئیں لیکن جہاں تک دین اسلام کا تعلق ہے خدا کا مہدی اور مسیح آگیا.اب مسیح کی خلافت کا سلسلہ جاری ہو گیا.خلافت کا مرکز تم سے کچھ مانگتا نہیں بلکہ وہ تمہیں کچھ دیتا ہے.اس لئے دین کے معاملہ میں نیشنلزم کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بین الاقوامی برادری ( بیہ اس زمانہ کا بہت بڑا کارنامہ ہے) اس کی ابتدا ہو چکی ہے.نسل انسانی امت واحدہ بننے کے لئے تیار ہو چکی ہے لیکن اس کے لئے محنت کرنا پڑے گی.ذہنی تربیت کرنی پڑے گی لیکن بہر حال یہ کام شروع ہو چکا ہے.ایک تحریک چل پڑی ہے، جو انشاء اللہ کامیاب ہوگی.پس دنیا کو امت واحدہ بنانے کے لئے تدابیر کرنی چاہئیں.دعا کرنی چاہئے.چنانچہ وہ تدابیر جو اس وقت تک میرے ذہن میں آچکی ہیں وہ یہ ہیں.اول :.دنیا میں ٹیلیفون کے علاوہ ایک طریقہ ٹیلیکس کا ہے.یہ ایک جدید نظام ہے جو تارا اور ٹیلیفون کی نسبت جلد پیغام پہنچانے میں کام آتا ہے اور سستا بھی ہے.ساری دنیا کے ممالک جہاں اس وقت تک جماعت احمد یہ مضبوط ہو چکی ہے، ان کا آپس میں ٹیلیکس کے ذریعہ باہمی تعلق قائم ہو جانا چاہئے.چنانچہ میں نے اس کی ابتداء جماعت احمد یہ انگلستان کو تحریک کر کے کروادی تھی.وہاں پتہ کروایا گیا تھا.ایک کمپنی ایسی ہے جو
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۷۲ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب بر دے دیتی ہے اور پیسے بھی کم خرچ ہوتے ہیں اور پیغام بھی فوراً پہنچا دیتی ہے.چنانچہ انہوں نے اس نمبر کی اطلاع دی.ہفتہ کو مجھے اطلاع ملی.آگے اتوار کا دن تھا.پیر کے روز میرا پہلا پیغام انگلستان کو ٹیلیکس کے ذریعہ لائکپور سے بھجوایا گیا.اس مواصلاتی نظام پر آٹھ دس ہزار روپے خرچ آتے ہیں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے.دو آنے کا زمانہ گذر گیا.اب جماعت پر اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہے کہ دس ہزار کو بھی کچھ نہیں سمجھتے.جب میں نے انگلستان کو ٹیلیکس پر پیغام بھیجا علاوہ دعاؤں کے میں نے ان کو یہ نصیحت بھی کی کہ وہاں سے ٹیلیفون پر پورے یورپ کے تمام مشنوں کو کہو کہ خلیفہ وقت نے آپ کو یہ دعا ئیں بھیجیں ہیں.اب دیکھو جلسہ سالانہ کی خبریں مہینے گزر جاتے تھے تب جا کر بیرونی ملکوں کو پتہ لگتا تھا اور خبر وہی جو خط کے ذریعہ جاتی تھی اور جماعتیں بڑا تلملاتی تھیں.ان کا غصہ بجا تھا.وہ کہتے تھے کہ کیا ہمارا حق نہیں ہے کہ جلسہ سالانہ کی خبریں ہمیں بروقت ملیں.اب آپ ہی دیکھ لیں.یہاں بیٹھے ہوئے کتنی سکینت اور آرام محسوس کر رہے ہیں.وہ محروم تھے.ان کو جلسہ سالانہ کی کوئی نہ کوئی خبر تو جلد پہنچنی چاہئے تھی خواہ وہ دھند لی ہی کیوں نہ ہوتی.پہلے کئی کئی ہفتوں کے بعد ان کو خبر ملتی تھی کہ جلسہ سالانہ پر کیا کیا ہوا ہے لیکن اب یہ انتظام ہو گیا.چہ یہ انتظام ابھی کچھ حصہ کے متعلق ہوا ہے لیکن ابتداء ہوگئی ہے.۲۶ تاریخ کو جلسہ سالانہ کی ضر رپورٹ نصف گھنٹے میں بھجوا دی گئی.پھر ۲۷ تاریخ کی رپورٹ آج چلی گئی اب اس تقریر کے خلاصہ کی خبر کل چلی جائے گی.تو یہ نظام انشاءاللہ ترقی کرے گا اور بہت سے ممالک میں پھیل جائے گا.پھر سب کے تعلق ایک جیسے ہو جائیں گے اور اس طرح امت واحدہ کی ایک شکل بن جائے گی.بھائی بھائی ہونے کا احساس آپ سبھی محسوس کریں گے جب آپ عملاً بھائی بھائی بن جائیں گے اور آپ کے درمیان ایک قریبی تعلق پیدا ہو جائے گا.اس سلسلہ میں جو دوسری بات جو میرے دماغ میں آئی وہ بھی جماعت احمد یہ انگلستان نے شروع کی ہے اور میں نے اس کا نام رکھ دیا ہے : (World Bilal Radio Amarteur Club) آزاد ملکوں نے اجازت دے رکھی ہے کہ جو شخص چاہے اور دلچسپی رکھتا ہو وہ ایک خاص قسم کی اور ریڈیائی لہروں پر پیغام نشر کر سکتا ہے اور اسی پر وہ ایک دوسروں سے ملاپ کرتے ہیں.دوستیاں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۷۳ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب کرتے ہیں لیکن جو ملک ابھی نئے نئے آزاد ہوئے ہیں مثلاً ہمارا ملک ہے یہ بھی نیا نیا آزاد ہوا ہے.اس میں بھی گودیر سے اجازت ملے گی لیکن کسی نہ کسی وقت اس کی اجازت ضرور مل جائے گی لیکن جہاں اس قسم کی نشریات کی آزادی ہے وہاں تو کام شروع کر دینا چاہئے.مختلف کلبز (Clubs ) بن جائیں اور آپس میں پیغامات کا تبادلہ کریں.ایک دوسرے کو بتائیں کہ ایسا موسم ہے مثلاً اگر یہاں بھی اس کی اجازت ہوتی تو آپ دوسرے ممالک کے لوگوں کو بتاتے کہ صبح سے یہاں شدید دھند پڑی ہوئی ہے اور سردی بھی بہت ہے.ایسی سردی تو ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی مگر ایمان کی حرارت بھی عجیب چیز ہے کہ دوست اس سردی میں بیٹھے ہوئے ہیں.سانس ٹھیک طرح سے آنہیں رہا.منہ سے بخارات دھواں بن کر نکل رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جلسہ میں شامل ہونے والا ہر آدمی سگریٹ پی رہا ہے لیکن بایں ہمہ دوست بیٹھے ہوئے ہیں اور جلسہ کی تقاریر سن رہے ہیں.تیسری بات جو بین الاقوامی سطح پر کی جائے گی وہ آپس میں قلم دوستی ہے.بعض ملکوں سے ہمیں اس غرض کے لئے ہزاروں آدمی مل جائیں گے ( بعض ملکوں سے کم ملیں گے ) جو آپس میں خط و کتابت کریں گے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا یہ کام ایک انتظام کے ماتحت ہونا چاہئے.مثلاً سوئٹزرلینڈ میں کچھ درجن احمدی ہیں.اگر ان میں سے ایک پاکستان کے ایک احمدی سے خط و کتابت کر رہا ہو اور دوسرا امریکہ کے ایک احمدی سے، تیسرا نائیجیریا کے ایک احمدی سے، چوتھا انڈونیشیا کے احمدی سے، پانچواں نجی کے ایک احمدی سے تو جس وقت اتوار کے دن اکٹھے ہوکر باتیں کریں گے تو کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہوا ہے نجی کی جماعت پر کہ انہوں نے اتنے قرآن کریم ہوٹلوں میں رکھوا دیئے ہیں.اسی طرح دوسرا کہے گا نائیجیریا کے احمدی دوستوں پر کتنا فضل ہوا کہ میرے دوست نے خط لکھا ہے کہ سو بُت پرستوں نے اپنے بتوں کو جلا دیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرا دیا.پس ہم پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں تو بڑی نازل ہو رہی ہیں ہم ابھی ان کو سمیٹنے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے.اس ( قلم دوستی ) سے بھی ساری دنیا کو امت واحدہ بنانے میں بڑی مدد ملے گی.ہم ایک دوسرے کے حالات قریب سے جاننے لگ جائیں گے.امت واحدہ بنانے کے سلسلہ میں چوتھی بات یہ ہے کہ پہلے دنیا کے کسی مناسب مقام پر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۷۴ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب ایک بہت بڑا براڈ کاسٹنگ اسٹیشن قائم کرنا پڑے گا.میں نے پچھلے جلسہ سالانہ کے موقع پر یہ اعلان کیا تھا کہ نائیجیریا نے ہمیں براڈ کاسٹنگ سٹیشن قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے.گو اجازت تو دے دی ہے لیکن ہمیں بعد میں یہ معلوم ہوا کہ وہ ریڈ یوٹیشن جو بہت چھوٹے پیمانہ پر کام کر سکتا ہے اس کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اس ملک کے دستور کی رو سے بڑے پیمانے پر ریڈیو سٹیشن لگانے کی اجازت نہیں مل سکتی.اگر حکومت چاہے بھی تب بھی اجازت نہیں مل سکتی.اس لئے نائیجیریا کی جماعت احمد یہ اس ملکی دستور میں ترمیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے.خدا کرے وہ اس میں کامیاب ہو جائیں.جس وقت وہ اس میں کامیاب ہو جائیں گے تو پھر حکومت کو اجازت دینے میں سہولت پیدا ہو جائے گی.تو پھر ممکن ہے وہ نائیجیریا ہی ہو یا کوئی دوسرا ملک آگے آ جائے.میری خواہش یہ ہے کہ جس طرح روسی ریڈیو سٹیشن دنیا کا سب سے بڑا اور صاف سنائی اورصافہ دینے والا نشریاتی ادارہ ہے اس سے بھی زیادہ عمدہ ریڈیو اسٹیشن ہو.اگر کبھی ہمیں فرصت ہو یا خاص وجہ ہو یا اتفاقاً روی اسٹیشن سننے کا موقع مل جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے بیٹھا ہوا کوئی شخص باتیں کر رہا ہے.روس نمبر ایک نہیں.نمبر ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے غلام ہیں.اس لئے دنیا میں انشاء اللہ عنقریب سب سے بڑا ریڈیو اسٹیشن اسلام کا ہوگا اور اس منصوبہ کے مطابق اس کے لگانے کی کوشش کی جائے گی.پانچویں یہ کہ مرکز سلسلہ میں جلسہ سالانہ پر اقوام عالم کے وفود کی شرکت کا جو نظام جاری ہوا ہے اس کو مضبوط کیا جائے گا.اس میں بعض وقتیں بھی ہیں.مثلاً ان کی رہائش کی ، ان کے آرام و آسائش کی وقت ہے.اس دفعہ ان کو مختلف جگہوں پر ٹھہرایا گیا ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن سوچ رہی ہے کہ وہ ایک گیسٹ ہاؤس بنا دے جو ۲۰ رہائشی کمروں پر مشتمل ہو.میں نے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کی ذیلی تنظیموں کو بھی کہا ہے کہ وہ اپنے اپنے زیر انتظام تین تین کمروں پر مشتمل ایک ایک گیسٹ ہاؤس بنوائیں.اس طرح موجودہ گیسٹ ہاؤس کو ملا کر ۳۳ کمرے تو میسر آجائیں گے.پھر انشاء اللہ اور بنتے رہیں گے.بہر حال ان وفود کے آنے کا بڑا فائدہ ہوا.یہاں کے رہنے والوں کو بھی فائدہ ہوا اور باہر سے آنے والوں کو بھی فائدہ ہوا اور میں اپنی طرف سے اور سب احمدیوں کی طرف سے اور ان کی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۷۵ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب طرف سے بھی جو اس جلسہ میں شامل نہیں ہو سکے ان سب ( وفود) کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہتا ہوں.امت واحدہ بنانے کے اس منصوبہ کا چھٹا حصہ یہ ہے کہ تصاویر کا تبادلہ کیا جائے.مثلاً اب یہاں بھی تصاویر لگی ہوئی ہیں.گوان کی ابتدائی شکل ہے لیکن کام شروع ہو گیا ہے.میں سمجھتا ہوں اس سلسلہ میں البم تیار ہونے چاہئیں جو ملک ملک بھجوائے جائیں.اس موقع پر بھی اور شوری کے علاوہ دوسرے اجتماعات کی تصاویر بھی البم کی صورت میں باہر بھجوائی جائیں اور اسی طرح مثلاً جماعتی تقریبات ہوتی ہیں.نائیجیریا میں، غانا میں، آئیوری کوسٹ میں، لائبیریا میں سیرالیون میں.ان کی تصاویر بھی یہاں آپ کے پاس پہنچنی چاہئیں.وہ Still بھی ہوں یعنی بورڈوں پر لگا دی جائیں اور movies بھی ہوں جو پروجیکٹر پر دکھائی جائیں اور آپ کو پتہ لگے کہ احمدیت کتنی ترقی کر رہی ہے.آپ یہ بات تصور میں نہیں لا سکتے کہ سالٹ پانڈ میں میں نے جو خطبہ جمعہ دیا تھا اس میں ہمارا اندازہ یہ ہے کہ ہمیں ہزار سے زیادہ احباب شامل تھے اور یہ بھی نمائندے تھے.سارے دوست جمع نہیں ہو سکتے تھے.اسی طرح سیرالیون میں ہزار ہا کی تعداد میں لوگ مجھے ملتے رہے ہیں اور وہ بھی مختلف جماعتوں کے نمائندے تھے.نائیجیریا میں جہاں مجھے ایک ہی خطبہ دینا تھا اس جگہ جہاں نماز کا انتظام کیا گیا تھا دو رویہ کمرے تھے اور بیچ میں صحن اور ہال تھا.غرض کمرے صحن اور ہال بھرا ہوا تھا.ہر جگہ مجھے احمدی ہی احمدی نظر آرہے تھے اور وہ سب نمائندے تھے.کیونکہ وہ ایک بڑا پھیلا ہوا اور وسیع ملک ہے اس لئے بہت کم نمائندے آ سکتے ہیں اور اقوام عالم کے جو وفود یہاں آئیں گے اگر ملکی قانون اجازت دیتا ہو تو مناسب مقامات پر شامل ہونے والے وفود کے قومی جھنڈے بھی لہرائے جائیں تا کہ اس طرح یہاں والوں کے ایک تو ع میں اضافہ ہو اور دوسرے ان قوموں کی اس طور پر عزت افزائی کی جائے.اتحاد کے قیام کے لئے دو ورقہ اشتہارات کی بھی اشد ضرورت ہے.کیونکہ اندرون ملک بھی اتحاد ضروری ہے ملک.اندر دو ورقہ اشتہارات کی کثرت سے اشاعت اور اس کے لئے چھوٹے پر لیس قائم کرنا.پنجم.اور اس منصوبہ کی جو آخری بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ امت محمدیہ فرقے فرقے میں بٹ گئی ہے.ہر ایک کی اپنی احادیث ہیں.ہر ایک کی اپنی روایات ہیں.ہر ایک کی اپنی
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) 66 ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب تفاسیر ہیں.ہر ایک کی اپنی عادتیں ہیں.ہر ایک کے اپنے طریق عبادات ہیں.کوئی آمین بالجھر کہتا ہے کوئی آمین بالخفی کہتا ہے.مسلمانوں پر ایسا زمانہ بھی گذرا ہے کہ آمین بالجہر کہنے والے کی مسجد میں اگر اس فرقے کا آدمی آگیا جو آمین بالجھر نہیں کہتا تو وہیں اس کی گردن اڑا دی گئی.اسی طرح آمین بالجھر نہ کہنے والوں کی مسجد میں آمین بالجہر کہنے والوں کی گردن اڑا دی گئی.یہ اختلافات ہیں مگر لوگوں سے ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کے لئے یہ تو سوچو کہ ان اختلافات کے باوجود کتنے اہم وہ امور ہیں جن میں ہمارا اتحاد موجود ہے.ہم تو حید باری پر افراد کی یا آدمیوں کی عادتیں بگڑ کر مشرکانہ شاید بن گئیں ہوں لیکن جہاں تک عقیدہ کا سوال ہے اور زبان سے اقرار کا تعلق ہے ہم سب خدائے واحد ویگانہ پر ایمان لانے والے ہیں.ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہیں ہم لا اله الا الله محمد رسول اللہ “ کہنے والے ہیں.محمد رسول اللہ کو خاتم النبین مانتے ہیں.ہر فرقہ خاتم النبیین کے معنے مختلف کر جائے گا لیکن کوئی شخص کھڑے ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتا.خاتم النبیین کے عقیدہ میں ہم سب متحد ہیں.سارے فرقے قرآن کریم کی عظمت کا اقرار کم از کم زبان سے تو کرتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی نہیں کر رہا.میں یہ کہتا ہوں کہ ایک دوسرے پر الزام نہ لگاؤ اور جب زبان سے اقرار کیا جار ہا ہے تو دل سے تسلیم کرو.قرآن عظیم کی عظمت کو پہچانو اور اس کا اعلان کرو.یہ ہمارا مشتر کہ عقیدہ ہے.ہم قرآن کریم کو ایک کامل اور مکمل کتاب مانتے ہیں.یہی ہمارے سب فرقوں کا عقیدہ ہے.تمام فرقے قرآن کریم کو قیامت تک کے لئے کامل ہدایت نامہ سمجھتے ہیں.پس اس سولہ سال کے عرصے میں ہم اسلام کے تمام فرقوں کو بڑی شدت کے ساتھ نہایت عاجزی کے ساتھ ، بڑے پیار کے ساتھ ، بڑی ہمدردی کے ساتھ اور غمخواری کے ساتھ یہ پیغام دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے کہ جن باتوں میں ہم متحد ہیں ان میں اتحاد عمل بھی کرو اور اسلام سے باہر کی دنیا میں توحید خالص کے پھیلانے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو منوانے اور قرآن کریم کی شان کے اظہار کے لئے اکٹھے ہو کر کوشش کرو اور باہر جا کر آپس میں نہ لڑو تا کہ اسلام کو فائدہ پہنچے.پھر اللہ تعالیٰ جن کے ذریعہ زیادہ کام لے گا یا جو دوسروں کو زیادہ قائل کرلیں گے یا جن سے ان کو زیادہ فیض پہنچے گا وہ نمایاں ہو کر سامنے آجائیں گے.اس لئے نتیجہ خدا پر چھوڑ دو.پس اتحاد عمل کرو، ان بنیادی اصولوں پر جن میں
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۷۷ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب ہمارا عقیدہ ایک ہے.پس یہ پیغام ہے اس منصوبہ کا جو آج میں ساری اسلامی دنیا کو دے رہا ہوں.اشاعت اسلام کا یہ وہ جامع منصوبہ ہے جسے میں نے مختصر بیان کر دیا ہے.دنیا کا ہر منصوبہ روپیہ چاہتا ہے مثلاً جو براڈ کاسٹنگ اسٹیشن لگانے پر روپیہ خرچ ہوگا.قرآن کریم کے تراجم پر روپیہ خرچ ہوگا.سو زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت پر بہت رقم خرچ آئے گی.ہر زبان میں مختصر سی کتاب پر بھی ۶۰،۵۰ لاکھ روپے کی لاگت کا اندازہ ہے.سولہ سال میں یہ رقم جمع ہونی ہے لیکن سولہ سال پر پھیلا کر کام کرنے ہیں.کچھ کام تو ابھی سے شروع کر دیئے جائیں گے.مثلاً تراجم ہیں.ان کی نظر ثانی کرانی ہے.اگر غیر ہوئے تو وہ کہیں گے پیسے لاؤ.ابھی حال ہی میں جس شخص نے فرانسیسی ترجمہ قرآن کریم پر نظر ثانی کی ہے وہ ہمارا مسلمان بھائی تھا لیکن ہم اسے پیسے دیتے تھے.اب پھر احمد کی دوست اس کی دوبارہ نظر ثانی کر رہے ہیں.بہر حال اس منصو بہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک معقول رقم کی ضرورت ہے.اس کو ہم صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کا نام دیتے ہیں.تو ہمیں اس فنڈ کے لئے رقم کی ضرورت ہے.اس کی آخری شکل تو سولہ سال کے بعد بنے گی.سر دست اس کے لئے جتنی رقم کی اپیل کرنا چاہتا ہوں وہ صرف اڑھائی کروڑ روپیہ ہے.یہ رقم بظاہر بہت بڑی رقم ہے اس لئے بھی کہ جماعت دیگر مالی قربانیوں میں ان سولہ سال میں اگر اس معیار پر بھی چلتی رہے ( ویسے ہر سال آمد نیاں بڑھ رہی ہیں.برکتیں بڑھ رہی ہیں قربانیوں کا جذبہ بڑھ رہا ہے ) تو ۲۵ ، ۲۶ کروڑ روپیہ اشاعت اسلام پر خرچ کر رہی ہوگی.اس کے علاوہ میں نے اڑھائی کروڑ روپے کی اپیل کی ہے.خدا تعالیٰ برکت ڈالے گا.جماعت بڑھے گی یعنی چندہ دینے والے آئیں گے.چندہ دینے والوں کی آمدنیاں بڑھیں گی.یہ ۲۶، ۲۷ کروڑ کا اندازہ تو جماعت کی قربانیوں کا آج کا معیار ہے.ہو سکتا ہے کہ جماعت اگلے سولہ سال میں اشاعت اسلام پر ۵۰ کروڑ روپے خرچ کرنے لگ جائے.ہم مذہب کو کھیل نہیں سمجھتے اور نہ ہم دشمن کے اعتراض کی کوئی پرواہ کرتے ہیں.ہمارے خدا نے ہمارے اندر ایک آگ لگا رکھی ہے کہ ہم نے اسلام کو مادی دنیا پر غالب کرنا ہے.خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کی انسان کی طرف سے حقیر سی کوشش اس لئے کرنی پڑتی ہے کہ یہ خدا کا منشاء اور حکم ہے ور نہ کامیابی تو اس کے فضل سے حاصل ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ ہماری تھوڑی سی کوشش سے بے شمار
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۷۸ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب نعمتوں کا وارث بنا دیتا ہے.پس آج میں اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے اڑھائی کروڑ روپے کی اپیل کرتا ہوں لیکن میں اپنے رب کریم پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے آج ہی یہ اعلان بھی کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سولہ سالوں میں ہمارے اس منصوبہ کے لئے پانچ کروڑ روپے کا انتظام کر دے گا انشاء اللہ تعالی.میں نے ابھی اس منصوبہ کا اعلان نہیں کیا تھا کہ انگلستان کی جماعت نے ایک کروڑ روپے کا وعدہ کر دیا اور میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ میں گو جماعت تھوڑی ہے لیکن ان کی آمدنیاں کافی ہیں.دوسرے ممالک میں بھی ہمارے احمدی بستے ہیں.کوئی بعید نہیں کہ ۵۰ ،۴۰ لاکھ کے ریب غیر ممالک سے اس مد میں چندہ اکٹھا ہو جائے اور جتنی رقم آپ نے پچھلے تین سال میں نصرت جہاں ریز روفنڈ میں دی ہے اگر اسی نسبت سے اتنی رقم آپ اگلے سولہ سالوں میں دیں تو یہ کوئی پونے تین کروڑ روپیہ بن جاتا ہے.اس سے بھی آگے لے جایا جا سکتا ہے تاہم ہمارے دل میں کوئی تکبر نہیں پیدا ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے دین کی اشاعت کا کام کرو اور یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے کہا کہ میں تمہاری حقیر کوششوں کو قبول کر کے کام میں فرشتوں سے کرواؤں گا اور کریڈٹ تمہیں دے دوں گا.اس لئے مجھے یہ فکر نہیں ہے کہ اڑھائی یا پانچ کروڑ روپیہ کہاں سے آئے گا یا آئے گا بھی یا نہیں.انشاء اللہ ضرور آئے گا اور اس کے لئے جس قدر انسانوں کی ضرورت ہے اور جس قسم کے دماغوں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ ہمیں دے گا جو فکر ہمیں کرنی چاہئے مجھے بھی اور آپ کو بھی وہ یہ ہے کہ خدا کرے ہماری ان حقیر قربانیوں کو قبول کر کے وہ عظیم نتائج جو اپنے فرشتوں کے ذریعہ اپنے فضل سے پیدا کرے گا ان کے سارے کے سارے انعامات (فرشتوں نے انعام لے کر کیا کرنا ہے ) آپ کی جھولیوں میں ڈال دے اور ہماری حقیر قربانیوں کو وہ قبول کرے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں بہت سی بشارتیں دے رکھی ہیں.ایک بشارت کا اقتباس میں پڑھ دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:.میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے.اس سے بڑھ کر
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۷۹ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب اور کون سا دلی درد کا مقام ہوگا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور ایک مشتِ خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر تو انا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.خدا قادر فرماتا ہے کہ اگر میں چاہوں تو مریم اور اس کے بیٹے عیسی اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کروں.سو اب اس نے چاہا ہے کہ ان دونو کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو موت کا مزہ چکھا دے.سواب دو نو مریں گے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے تو بہ کا دروازہ بند ہوگا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہوگا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی کچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا لیکن نہ کسی تلوار سے نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے.تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی“.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۸،۷) جس چیز کو خدا کا ایک ہی ہاتھ مٹا سکتا ہے.جو فتح خدا تعالیٰ کی ایک قادرا نہ تجلی حاصل کر سکتی ہے اس کو ایک لمبے عرصے میں پھیلا کر اور اس مجاہدہ میں آپ کو شریک کر کے اللہ تعالیٰ نے کتنا احسان کیا ہے جماعت احمد یہ پر.
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۸۰ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب پس اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکو اور اس سے دعائیں کرو.اسی سے مانگو.کوئی بت نہ ظاہری اور نہ اپنے دلوں میں پوشیدہ رکھو.سب بتوں کو تو ڑ کر اور سب حیلوں سے منہ موڑ کر اس خدا پر کامل اور پختہ اور زندہ ایمان لاؤ جو نہایت ہی پیار کرنے والا اور بہت ہی رحمتیں نازل کرنے والا اور اس دنیا میں نیک بندوں اور پیاروں کے لئے جنت کو پیدا کرنے والا اور دشمن کے ہر وار کو ناکام بنانے والا ہے اور دشمن کے دیئے ہوئے ہر دکھ کو سکھ میں تبدیل کر دینے والا ہے، جو ہر آگ کو جو اس کے سلسلہ کو مٹانے کے لئے جلائی جائے ٹھنڈی کر دینے والا اور سلامتی سے لبریز کر دینے والا خدا ہے.جس نے اپنے مہدی کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی خدمت کرنے کے لئے مبعوث کیا اور اسلام کے غلبہ کے لئے پیشگوئیاں عطا ہوئیں جس نے نوع انسانی کے دلوں کو جیتنے کے روحانی اور اخلاقی اسلحہ عطا کئے اس کی جماعت ہو کر کسی اور کی طرف نہ دیکھو.اس کو مانو.اس کا عرفان حاصل کرو.اسی کے ہو جاؤ اور اس کے علاوہ کسی اور کی طرف نہ جھکو اور نہ کسی کا خیال اپنے دل میں لاؤ.اللہ تعالیٰ کی رحمتیں تمہیں اپنے گھیرے میں لے لیں گی.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا تم پر اس قدر نزول ہوگا کہ تمہاری زندگیوں کے لمحات ختم ہو جائیں گے مگر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا شمار نہ ہو سکے گا.خدا بڑی پیاری ہستی ہے.تم اس کو بھی نہ بھولو.اس سے کبھی جدائی اختیار نہ کرو.کیونکہ اسی میں ہماری زندگی ہے، اسی سے ہمارا نور اور اسی سے ہمارا سکون اور وہی ہماری جنت اور وہی ہماری روح ہے.اب ہم دعا کریں گے اور اس دعا پر اس سال کے جلسہ سالانہ کا اختتام ہوگا.جہاں اور بہت سی دعائیں دل سے یا زبان سے کیں وہاں میں یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سردی کے موسم میں اس دھند میں ، ان برفانی ہواؤں میں اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جلسہ میں شمولیت کی توفیق عطا کی ہے اور یہاں آپ کا حافظ و ناصر ہوا ہے.جن کو آپ پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں ان کا بھی حافظ و ناصر ہو اور آپ پیار کے جذبہ کے اظہار کے لئے یہاں آئے.(آخر) یہ پیار کا جذبہ ہی تھا جو دوستوں کو اس شدید سردی کے موسم میں یہاں لے آیا ).اللہ تعالیٰ آپ کو اس پیار کے جذبے کی احسن جزا عطا فرمائے اور جو اپنی مجبوریوں کی وجہ سے آپ کے ساتھی نہیں بن سکے، یہاں سے غیر حاضر رہ گئے ان کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے آپ ہی کے ساتھ رحمت اور
خطابات جلسہ سالانہ (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء) ۶۸۱ ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء.اختتامی خطاب فضل میں شامل کرے.اور جیسا کہ خدا نے وعدہ دیا ہے، وہ اپنی رحمت اور برکت اور فضل سے آپ کے نفوس میں برکت ڈالے.آپ کے اموال میں برکت ڈالے.آپ کے درو دیوار سے برکتوں کے سوتے پھوٹیں اور دنیا آپ سے فیض حاصل کرے اور دنیا میں کسی فرد واحد کو بھی آپ میں سے کوئی دکھ نہ دے.آپ ہر ایک کے لئے سکھ کے سامان پیدا کرنے والے ہوں اور دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی جنتوں کی طرف ان کو کھینچنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہر جہت سے اور ہر طرح سے آپ کے ساتھ ہو آپ کا مددگار ہو.آپ کا حافظ و ناصر ہو.ہر تکلیف سے آپ کو بچائے رکھے.آپ خوش و خرم یہاں آئے.ہنستے کھیلتے مسکراتے ہوئے آپ نے اس جلسہ میں شمولیت کی اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی.خدا کرے آپ ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہیں.ہنستے مسکراتے اپنے گھروں کو واپس جائیں.جس طرح یہاں آپ کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاص برکتوں کے دروازے اس لئے کھلے کہ آپ نے اس للہی جلسہ میں شرکت کی ، اسی طرح آپ کے گھروں میں بھی اللہ تعالیٰ کی برکت کے دروازے اس لئے کھلیں کہ آپ نے ایک امتیاز پیدا کیا خدا کے فضل سے اور آپ کو سیح موعود علیہ السلام و مہدی معہود علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہونے کی توفیق عطا ہوئی اور اس وقت ہمارے جو مبلغ دنیا میں ہماری نمائندگی کر رہے ہیں اور اشاعت اسلام کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کا رہبر ہو، ان کا معلم ہو.ان برکتوں کا اظہار ان کی زبانیں اور ان کی قلمیں کریں جن کی بشارت دی گئی ہے اور وہ دشمن اسلام کا منہ بند کرنے والے ہوں اور وہ اپنے نور فراست سے دنیا پر غالب آنے والے ہوں اور جہاں جہاں بھی ہمارے احمدی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنا مقام پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور انسان کا دل خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کے سامان ان کو میسر آئیں.آؤاب دعا کر لیں.از رجسٹر خطابات ناصر غیر مطبوعہ )
اشاریہ مرتبہ : مکرم حبیب الرحمن زیروی صاحب (۱) آیات قرآنیہ (۲) احادیث 1.---------…….(۳) الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام....11 ۵۱ ۶۷ ۷۳ (۴) مضامین..(۵) اسماء...(۶) مقامات..(۷) کتابیات.
الفاتحة آیات قرآنیہ آل عمران اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِينَ (۲) ۴۴۴۰،۴۴۰،۳۰۵ قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا (۱۴) ۲۵ البقرة ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ (۳) هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (۳) وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أوتُوا نَصِيباً مِّنَ الْكِتَاب.(۲۴) ۴۲۶،۴۰۶ ۴۲۶ ۳۹ جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (۳۱) كُنْ فَيَكُون (۱۱۸) يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمُ (۱۳۰) وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (۱۴۹) أوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ (۲۴) إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (۳۲) لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ (۸۲) كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (111) ۱۳۰،۱۲ ۴۲۴ ۲۳۳ ۳۲۴ ۴۰۷،۳۹۸ وَلَوْ آمَنَ اَهْلُ الْكِتَبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم (III) ۲۴۶ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ (۲۱۳) ۲۵۴ أَمْ حَسِبْتُم أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم..(۲۱۵) كُمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةً (۲۵۰) ۱۴ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ (۱۶۰) ۴۰۸ ۸۶ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (۱۶۱) ۲۵۴ النساء لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ (۴۴) اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا ورفع بَعْضُهُمْ دَرَجَتٍ (۲۵۴) ۳۱۳ مِنَ الْكِتب...(۴۵) لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا..وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (۱۱۴) ۹۳ ۴۲۴ ۵۷۶ ۴۵۳ (۲۸۷)
قَدْ جَاءَ كُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُم....(۱۷۱) (121)..المائده تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (۳) الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ....(۲) الانعام إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (۱۵۹) ۴۲۱ ۴۰۷ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (۱۵۹) يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ (۱۹۷) ۵۹۹،۱۲۴ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ...(۳۹) ۴۱۷ وَإِذَا جَاءَ كَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِايَتِنَا فَقُلْ سَلَمٌ عَلَيْكُمُ.....(۵۵) فَبِهدَ هُمُ اقْتَدِهُ.....(٩١) (۹۱) وَهذَا كِتَبٌ أَنْزَلْنَهُ مُبرَكٌ مُّصَدِّقُ الذي......(۹۳) ۸۷ الانفال اذْ يُرِيْكَهُمُ اللهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا..(۴۵،۴۴) لِيَقْضِيَ اللهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا (۴۵) وَالَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ....(۲۴) التوبة ۳۲۷ | قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ....(۲۴) ۲۰۹ وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاعَدُّوا لَهُ عُدَّةً.۲۳۳ ۶۹ ۲۵ ۲۶ ۲۸ ۲۲۹ ۶۳۳ ۳۱۵ ۲۶۳ ۴۲۵ ۵۷۸ ٣١٢ وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِئُ مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ (۴۶) (۱۵۴) ۲۳۳ وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا اَتَوُكَ لِتَحْمِلَهُم.وَهذَا كِتبٌ أَنزَلْنَهُ مُبْرَكٌ فَاتَّبَعُوهُ.(۹۲) (۱۵۶) ۴۰۹ إِنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اَنفُسَهُمُ قُلْ إِنَّنِي هَدَنِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ.وَاَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (۱۱۲،۱۱۱) (۱۶۴،۱۶۲) قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.....(١٦٣) ۵۷۳ يونس إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً (٦٦) أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (۷۳) يوسف ۵۷۷،۵۷۳ الاعراف وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (۱۵۷) ۳۱۱ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (۹۳)
الرعد لِلْمُؤْمِنِينَ (۸۳) الكهف إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (١١١) مَا بِأَنْفُسِهِمْ (۱۲) ابراهيم وَ إِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ...(^) تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَمٌ (۲۴) النحل وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا.۹۴ ۴۵۱،۳۱ وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قَالُوا خَيْرًا (۳۱) ۸۸ (19) ۴۵۱ ۴۷۵ ۴۸۹،۴۸۸،۴۸۶،۴۳۳ مریم مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَّمَا كَانَتْ أُمُّكِ جَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ (۳۲) ۴۱۵ ۴۱۵ بَغِيًّا (۲۹) بَرًّا بِوَالِدَتِي (۳۳) إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا (۴۲) طه ٢٤٦ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ أَمْرِى (۹۱) (۹۰) مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِندَ اللَّهِ بَاقِ.۴۱۷ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدُ لَهُ عَزُمًا ( ١١٦) الانبياء ۴۱۵ ۴۱۲ ۴۱۳ ۴۱۲ ۴۲۵ ۴۰۵ ۹۳ ۴۵۲ (۹۷) بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۹۷) مَنْ عَمِلَ صَالِحًا (۹۸) ۲۳۷،۲۳۶ ۳۸۴ ۲۳۶ أدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ (۱۲۶) بنی اسرآئیل اَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِةٍ الِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ (۲۵) كَانَتَا رَتْقًا.....(٣١) ۲۴۸ أَفَلَا يَرَوْنَ انَّا نَاتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا.(۴۵) وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ....(۸۲) ۴۲۰ وَهَذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَهُ أَفَانتُمْ لَهُ مُنكِرُونَ (۵۱) وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ
العنكبوت ۴۱۲ خَلَقَ اللهُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ (۴۵) وَلُوطًا آتَيْنَهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَّنَجَّيْنَهُ....(۷۵) الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ تَعْمَلُ الْخَبَائِتْ (۷۵) ۴۱۳ وَمَا أَرْسَلُنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (1*^) ۵۹۰،۴۷۵ الحج يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمُ.....(۷۹،۷۸) المؤمنون بَلْ آتَيْنَهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمُ مُّعْرِضُونَ (۷۲) النور ۲۴۰ ۴۸۲ اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (۳۶) ۵۸۴،۵۸۳،۳۳۳،۸۸،۳۹ الفرقان مَا أَسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ (۵۸) الشعراء لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ۵۹۲ (۴) الرّوم اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمُ.....(۹) لقمن اَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (۲۱) ۳۰۹،۳۰۸ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (۲۱) الاحزاب لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ.....(٢٢) كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (۴۴) سبا وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُدَ مِنَّا فَضْلًا ( ا ا ) اعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شُكْرًا (۱۴) كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ.(14) ۱۴۴ ۵۶۷ فاطر ۴۵۱ ۵۷۳ ۵۹۲ ۴۱۴ ۴۵۱ ۳۶۰،۳۵۱ مَا اسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ (١١٠) النمل وَاِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (۲۵) إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا إِنَّ الَّذِيْنَ يَتْلُونَ كِتَبَ اللَّهِ وَاَقَامُوا وَجَعَلُوا...(۳۵) ۵۰۲ الصَّلوةَ......(٣١،٣٠) ۵۶۲
ง الصفتِ الجاثية سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَلَمِينَ.....(۸۰) وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي ۴۱۲ الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ....(۱۴ تا ۱۶) ۳۰۹ إِنَّهُ أَوَّابٌ (۱۸) الزمر اِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمُ (۸) مَنْ عَمِلَ صَالِحاً فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا (14) ۴۱۴ ۳۵۱ الاحقاف مَا خَلَقْنَا السَّمَواتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّ.....(۲) قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدين......(۱۳،۱۲) ۵۷۶،۵۷۳ الفتح لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ.....(۵۴) ۴۰۲،۷۴ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا (۲) إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (۵۴) اتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمُ (۵۶) حم السجدة وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحاً.....(۳۴) الشورى وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا (۵۳) الزخرف وَإِنَّهُ لَذِكُرْ لَكَ وَ لِقَوْمِكَ وَسَوْفَ ۴۰۱ ۵۸۱ ۶۴ الذريت وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (۲۰ النجم ۳۰۷ ۵۹۳ ۴۹۶،۲۹۸ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى......(۴ تا ۱۱) ۳۰۳،۳۰۱ الرحمن كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (۳۰) الواقعة ۴۶۹،۲۵۱ وَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ (۶۵) ۵۸۶ تُسْتَلُونَ (۴۵) ۴۸۴ لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (۸۰) ۵۷۵
الدهر لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء وَّلَا شُكُورًا (١٠) ۵۹۷۴۵۵،۲۹۹ ۲۳۶ ۶۶۸ ۲۲ ۶۹ ۳۹۲ النزعت ۲۴۶،۲۴۴ الحديد سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا....(۲۲) الحشر وَمَا نَهَكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ (۸) ۲۳۵ أَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ الصف هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الحق.....(١٠) ۴۲۱ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه (۱۰) ۴۸۰،۴۷۸ الجمعة اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (۴) ۶۵۵،۴۷۸ التحريم رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرُ لَنَا....(۹) القلم نَ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ.....۲ تا ۴) إِنَّ لَكَ لَاجُرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ (۴) إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (۵) ۴۲۶ ۴۴۱ ۴۴۳ ۳۱۳ عَنِ الْهَوَى (۴۱) الانفطار فَسَوَّكَ فَعَدَلَكَ (۸) البروج إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ (۱۳) الفيل اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ (۲) الكوثر إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (۲) الاخلاص وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَلَمِينَ (۵۳) ۴۸۴ | قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (۲)
۹ مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّهَ احادیث نبویہ مَنْ كَانَ مِنْكُمُ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا..تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللَّهِ ٣١ احادیث بالمعنى ۴۱ ۴۳ ۴۴ تین آدمیوں کا کھانا چار کے لئے اور چار کا ۶۹ پانچ کے لئے کافی ہو جاتا ہے ۱۳۰ جنگ احد کے موقع پر آنحضور ﷺ کا بڑھیا سے الْحَلِيمُ سَيِّدٌ فِي الدُّنْيَا وَسَيِّدٌ فِي الْآخِرَةِ ٦٩ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَ إِنَّ آدَمَ اُس کے بیٹے کی شہادت پر اظہار ہمدردی کرنا اور عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ ۳۱۴ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک ۳۱۹،۳۱۴ ۵۹۴،۴۸۶،۳۳۴ ،۳۳۲ ،۳۲۳ اس کا یہ کہنا ” جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو سمجھ لیں کہ میں نے ساری مصیبتوں کو بھون کر کھا لیا مجھے کسی کی پرواہ نہیں“ كُنتُ نَبِيًّا وَ آدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَ الْجَسَدِ ۳۱۷ جس پلیٹ میں بال آجائے اسے اپنے کھانے کیلئے بُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً كُنتُ نَبِيًّا وَ آدَمُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالدِّينِ كَيْفَ أَنْتُمُ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيُكُمُ وَ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ إِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَى ۳۱۷ ۳۱۹،۳۱۸ ۴۷۹ ۵۷۴ استعمال نہ کرنا ۲۶۸ ۳۷۵ جوتی کا تسمہ لینا ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگو ۴۰۴ مهدی خنزیر کو قتل کرے گا اور صلیب کو توڑے گا ۴۸۱ گھوڑوں کی پیشانی میں امت مسلمہ کے لئے قیامت تک خیر و برکت کے سامان رکھے ہیں ۵۴۷ مجھے لوائے حمد عطا کیا گیا ہے رکابی میں ایک لقمہ بھی اپنی ضرورت سے ۵۹۳ ۶۲۸ زائد نہ ڈالو ۶۰۷ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ
عربی الہامات الہامات ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) اردو الہامات اَنْتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُهُ تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں إِذَا نَصَرَ اللهُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَهُ الْحَاسِدِينَ فِي الْأَرْضِ ۱۸۲ ۲۹ ۲۱ رسول اللہ ﷺ پناہ گزیں ہوئے قلعہ ہند میں ۲۳ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک خُذُوا التَّوْحِيدَ التَّوْحِيدَ يَا أَبْنَاءَ الْفَارِسِ ۳۷ پہنچاؤں گا يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِّنَ السَّمَاءِ ۶۸ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ اے عید تو ہے چاہے کر دیا نہ کرو ۲۰۸،۲۰۱ ۲۷۱
آریہ آزمائش آ جو حوادث زمانہ ابتلاء اور امتحان کے طور پر آتے ہیں دراصل ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مضامین ۵۲۵ احمدی ہر احمدی کے دل سے دنیا کی محبت نکل جائے سرد ہو جائے دنیا کے سارے جواہر ایک مخلص احمدی کے دل کو نہیں خرید سکتے اختلاف اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے ۵۰۲ بھائی بھائی میں اختلاف ہو جایا کرتے ہیں ۴۳۲ ۴۶۷ ابتلاء ابتلاء کے وقت خدا تعالیٰ کے نیک بندے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوا کرتا کہ بھائی بھائی کی گردن اڑادے اخلاص سکون اور راحت محسوس کیا کرتے ہیں ۱۷۸ اگر تمہارا اخلاص غیر معمولی ہوگا تو تمہارے اللہ تعالیٰ کی قدرتیں بالکل ظاہر ہو کر تو اموال میں غیر معمولی زیادتی ہوگی سامنے نہیں آسکتیں ورنہ یہ دنیا ابتلاء اور اخوت امتحان کی دنیا نہ رہے اتباع ۵۲۱ رشتہ اخوت قائم کروکسی سے دشمنی کو خدا نے جائز قرار نہیں دیا تمہارا نیک انجام ہونا نبی کریم علیہ کی ہر ایک کی بھلائی چاہو کسی سے دشمنی نہ کرو اتباع پر منحصر ہے تم محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرو گے تو تمہارا انجام بخیر ہو جائے گا اجرام فلکی ۲۳۳ ۲۳۳ خواہ وہ ساری عمر تم سے دشمنی کرتارہا ہو ادارۃ المصنفین اساتذہ ۶۰۶ ۵۶۳ ۴۲۸ ۴۳۸ ۵۳۸،۴۴۶۹۸،۹۷ ،۱۰ ہمیں ٹرینڈ اساتذہ کی ضرورت ہے جو غیر ممالک اجرام فلکی کی بناوٹ اور اس میں حکمت ۳۰۷ میں خدمت کے لئے جائیں ۱۱۲
۱۲ ہمیں ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جو کم تنخواہ پر مشرقی افریقہ کے ممالک کے سکولوں میں جا کر کام کریں استعداد اپنی اپنی استعداد کے مطابق صفات باری کے مظہر بنو ۳۱۰ اسلام ۱۴۹ تا ۲۰۳،۱۵۸،۱۵۱، ۲۰۷ ۲۷۸،۲۷۶،۲۶۴،۲۵۰،۲۱۲،۲۰۹ تا ۱۸۰ ۲۹۶، ۲۹۸ تا ۳۵۵،۳۰۱، ۴۵۹،۴۵۳،۳۸۷ ۶۵۵،۶۵۱،۶۵۰، ۵۴۷ ،۶۱۲،۶۰۴۵۹۹ ۶۶۲،۶۵۹،۶۵۷ ۲۱۵ صرف اور صرف اسلام کا خدا ہی زندہ خدا ہے اسلام کے استحکام اور قیام کا انحصار خدائے حیمی و قیوم کی طاقتوں پر ہے اپنی قوتوں اور استعدادوں کو آنحضرت میے کے اسوہ کے مطابق کمال تک پہنچاؤ ۵۷۸ ہر طاقت جو اسلام کی بڑھتی ہوئی عزت کے ۴۲ جہاں تک طاقت اور استعداد ہے اسے انتہاء تک پہنچا ؤ راستہ میں نہیں چھوڑنا ۲۴۰ راستہ میں حائل ہوگی ذلیل کر دی جائے گی خدائے تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہو جانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں اپنی طاقت اور قوت، اپنی استعداد کے ۲۴۰ خدا تعالیٰ ہم جیسے عاجز بندوں کو بھی اسلام کی ۷۴ ۱۵۴ مطابق پورا زور لگا دینا یہ مجاہدہ ہے صداقت کے ثبوت میں استعمال کر سکتا ہے قوتوں اور استعدادوں کی کمال نشو و نما کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ رب العالمین نے جماعت احمدیہ نے تمام ادیان کے مقابلہ میں اسلام کی حقانیت اور صداقت کو ثابت کرنا ہے ۱۶۷ ۴۹۴ پیدا کر دی ہے ہمارے اندر اطاعت کی قوت اور استعداد دُنیا کے لئے تباہی سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ وہ اسلام کی عافیت بخش آغوش میں آجائیں ۲۳۵ اور صفت اور خلق ہونا چاہیئے دنیا میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں شخص نے محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں آ جاؤ اور اپنی قوتوں اور استعدادوں کی نشو نما اس لئے نہیں کی پاک دل اور پاک ارادہ ہو جاؤ کہ اُس کے رب نے اسے بھلا دیا نوع انسانی میں استعداد اور قوت ہے کہ وہ صفات الہی کی مظہر بن سکیں ۴۹۴ ۳۰۸ روس کے رہنے والوں کی اکثریت اسلام کی طرف مائل ہو جائے گی اسلام ہی مغربی ممالک کے لئے مستقبل کا ۲۱۱ ۲۱۲ ۲۱۲ اسٹیٹ بنک آف پاکستان ۱۷ مذہب ہے صرف اور صرف اسلام کا خدا ہی زندہ خدا ہے ۲۱۴ ۲۱۵
۴۴۵ ۴۵۹ ۴۵۹ ۵۰۱ ۵۰۲ ۵۰۲ ۵۰۳ ۵۰۳ ۵۷۴ اسلام کو دلائل کا ہتھیار اور آسمانی نشانوں کا اللہ تعالیٰ نے سارے نئے علوم کو اسلام کا ہتھیار دیا گیا ہے ۲۱۵ خادم بنایا ہے اسلام دنیا میں جنگ کرنے کے لئے نہیں اسلام کا محبت کا پیغام غالب آ کر رہے گا ۲۱۵ نہ اسلام خطرے میں ہے نہ اسلام کی تمہیں بلکہ جنگوں کو روکنے کے لئے آیا ہے اسلام اور احمدیت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۲۱۸ ۲۲۶ کچھ فکر کرنی چاہیئے اپنی فکر کرو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ پھر ہم اسلام کی بجائے اشتراکیت کو رائج سے اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرے کریں گے کوئی عقل مند شخص یہ نہیں کہہ سکتا اسلام دنیا میں رضا کارانہ خدمت سے پھیلا اسلام کہتا ہے کہ امیر ہو یا غریب خدا کا بندہ کوئی وہاں Paid مربی نہیں بھیجے گئے تھے ہے سب کو حق ہے کہ ان کی استعدادیں اسلام میں کوئی شخص نہ امیر ہے اور نہ غریب ۲۹۸ کمال تک پہنچیں اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا اسلام تو دنیا کے ان دکھوں کو دور کرنے کے ۲۷۱ لئے آیا ہے جو انسان نے خود اپنے ہاتھوں ہے وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا اسلام مخالف قوتوں کے مقابلہ کے لئے ۲۷۳ سے پیدا کئے اسلام یہ کہتا ہے کہ ایک ظلم کو مٹا کر دوسر اظلم ہمیں کھڑا کیا گیا ہے اسلام جس اللہ کو پیش کرتا ہے وہ تمام صفات نہیں کرنا ایک محرومی کو دور کر کے دوسری جگہ حسنہ کا جامع اور تمام نقائص اور تمام برائیوں محرومی پیدا نہیں کرنی ۴۱۶ اسلام نے جو حسین تعلیم دی ہے وہی سے پاک اور منزہ ہے اسلام سے زیادہ شفقت ہمدردی اور غم خواری صداقت اور وہی حق ہے اور وہی دکھوں اور دردوں کا صحیح علاج ہے ۴۱۷ ۴۳۹ ساروں کے دکھ دور کر دیتا ہے کوئی اور ازم انسان کو نہیں سکھا تا دنیا کی نوجوان نسل احمدیت کی اور اسلام کی اسلام دکھ پیدا کر کے دُکھ دور نہیں کرتا بلکہ ہے یہ تو اسلام کو ملے گی نہ عیسائی اپنے بچوں کو بچا سکتا ہے اور نہ اللہ تعالی اسلام کو انسان کے لئے رحمت بنا ہندو اپنے بچے کو بچا سکتا ہے یہ نسل تو اسلام کر بھیجنے والا ہے اس کو فتنہ وفساد کا موجب کی ہے یہ تو اسلام کو ملے گی ۴۳۹ بنانے والا نہیں
۱۴ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی طاقتوں اسوه حسنه اور استعدادوں کو ان کے کمال تک پہنچائے ۵۷۸ جب تم بہترین نمونہ ہو گے تب دنیا تمہاری انسان اپنے جسم اور اپنی طاقت کے لحاظ سے طرف جھکے گی اور مائل ہوگی ہر دوسری مخلوق سے زیادہ طاقت ور ہے ۵۸۸ | اشاعت اسلام ہر انسان کے حقوق قائم کرتا ہے ضروری کتب کی اشاعت زیادہ سے زیادہ اور ان کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہے ۶۰۵ ہونی چاہیئے ہما را دعوی ہے کہ اسلامی سوشلزم کے متعلق کتب کی کثرت سے اشاعت سے مراد یہ ۶۰۵ ہے کہ نئے سے نئے علوم نکلیں گے راہنمائی کرنا یہ ہمارا کام ہے جہاں تک کمیونزم پہنچایا جہاں تک چین کا سوشلزم چودہ سوسال کی کتب کے مقابلے میں اس ۶۰۶ زمانہ میں شاید ایک ماہ میں ان سے زیادہ پہنچا اسلام اس سے کہیں آگے نکل چکا ہے خدا نے آسمانوں پر یہی فیصلہ کیا کہ اسلام کتب شائع ہو جاتی ہیں اشتراکیت کے دلائل کو دنیا کے ہر قسم کے دلائل پر فوقیت حاصل رہے ۶۱۸ اشتراکیت نے جو نعرہ لگایا وہ بظاہر بڑا حسین پہلے صلحاء کی کوشش اسلام کے سورج کی ہے لیکن ضرورت کی تعریف نہیں کی گئی روشنی کو ساری دنیا میں پھیلانے کے لئے ایک غریب آدمی کی غلط نہی ہے کہ اشتراکیت نہیں تھی ۲۴۹ ۲۹۱ ۴۴۲ ۴۴۱ اس کے دکھوں کا مداوا ہے ایسا ہر گز نہیں احمدیت کے آنے سے پہلے اسلام کا نام اشتراکیت کہتی ہے کہ ہم نے امیر کی دولت بھی لیتے ہوئے لوگوں کی گردنیں شرم سے جھک لینی ہے اور ہم نے اس کی جان بھی لینی ہے جاتی تھیں اسلام کی یہ آخری جنگ ہے اور ساری دنیا پر اسلام نے قیامت تک کے لئے غالب آنا ہے ساری ملتیں مٹ جائیں گی سوائے ملت اسلامیہ کے ۶۵۱ ۶۶۰ اشتهار اشتہار بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ اطاعت ہمارے اندر اطاعت کی قوت اور استعداد اور صفت اور خلق ہونا چاہیئے تانفس کی موت سے نجات پاوے اور یہی دنیا میں انشاء اللہ عنقریب سب سے بڑا اسلام کے معنی ہیں اور یہی کامل اطاعت کی ۴۴۱ ۲۴۱ ۴۹۱ ۴۹۲ ۵۰۱ ۱۵۲ ۲۳۵ ۲۳۹ حقیقت ہے ۶۷۴ ریڈیو اسٹیشن اسلام کا ہوگا
۱۵ اللہ تعالی ( خدا تعالی) جب انسان اپنی ساری طاقت خرچ کر دیتا اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنے محبوب کے مقابلہ میں کامل نیستی کا جامہ پہننا پڑتا ہے ہے تو خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے ۱۵ اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی کا نتیجہ بھی یہ ہونا ہم کمزور ہیں لیکن جس خدا کی طرف چاہیئے کہ جو خدا کہتا ہے وہ تم کرو منسوب ہوتے ہیں وہ کمزور نہیں خدا کی راہ میں تمہارے اعمال، اخلاص و ارادات سے پُر اور فساد سے خالی ہوں ۷۴ خلقت سے قطع تعلق کر کے خدا تعالیٰ کو اپنا مونس اور آرام جان قرار دیا جائے اللہ تعالیٰ ہمارا کارساز ہے اور اتنی قوت اور خدا کی حمد میں مشغول رہنا اور شکر بجا لانا طاقت رکھتا ہے کہ ہمارے سارے کام کر تمہاری عادت بن جائے ۸۸ سکتا ہے کوئی غلطی ہمارے رب کی طرف منسوب ہمارا اللہ تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے نہیں ہو سکتی صرف اور صرف اسلام کا خدا ہی زندہ خدا ہے ۱۴۶ ۲۱۵ تمام قدرتوں کا مالک ہے عاجزی کے وقت ایک وہی ذات ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار جو ہے وہ تو ہو ہی ہمارے کام آ سکتی ہے نہیں سکتا ۲۲۸ ہم عاجز ہیں لیکن ہمارا خدا عاجز نہیں خدا تعالیٰ کی محبت آپ کے دل میں ہو قطع نظر کوشش کریں کہ ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا ۲۲۹ ۲۳۳ ۲۳۸ ۲۵۴ ۲۵۵ ۲۵۵ ۲۵۹ اس کے کہ اس نے ہم پر کتنے احسان کئے ۲۲۸ اور اس کی خوشنودی کو حاصل کرنے والا ہو ۲۵۹ ہر احمدی کے دل میں اپنے ربّ کے لئے ہمیں ایسے اعمال کی توفیق دے کہ جن سے ذاتی محبت پیدا ہونی چاہیئے گلاب کے پھول کا حسن اللہ تعالیٰ کے حسین ۲۲۸ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے ۲۶۰ عاجزانہ اپنے رب کے حضور جھک کےاسے جلووں کی ایک ہلکی اور خفیف سی جھلک ہے اللہ تعالیٰ کے حسن کی معرفت اگر حاصل کر لو تو تم اس سے محبت کے بغیر نہیں رہ سکتے ۲۲۸ ۲۲۸ اپنے حالات اور اپنی تکلیفیں بتائیں اے ہمارے رب! ہماری زندگی کو بے مقصد ۲۶۰ ۲۶۱ بننے سے بچالے اور اپنی پناہ میں لے لے اگر محبت ذاتی پیدا نہیں ہوتی تو اس کا اللہ تعالیٰ کی گرفت شدید ہے کچل کر رکھ دیتی مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے رب کی معرفت ۲۲۹ اور ہلاک کر دیتی ہے حاصل نہیں ۲۶۲
اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنے وعدوں کو پورا سورج میں ذاتی طور پر نہ گرمی ہے اور نہ روشنی ۲۶۴ ہے یہ تو خدا تعالیٰ کی روشنی کا ایک انعکاس ہے کرنے والا اور کون ہے تم عاجزی اور تضرع کے ساتھ اس کے حضور جو سورج کے ذریعہ ہمیں مل رہا ہے ۲۶۵ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے دلوں کو ہر سجدہ زیر ہو جاؤ اللہ تعالیٰ ہر تکلیف کے موقع پر معجزانہ طور پر غیر کی محبت سے خالی کر دو مسرت کے سامان پیدا کر دیتا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے دامن کو پکڑ لیا وہ ۲۷۰ متصرف بالا رادہ خالق اپنی منشاء سے پیدا کرنے والی ذات ہے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اور روحانی بینائی رکھنے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی نعمتوں کو موسلا دھار والے کی آنکھ میں معزز بن گیا جوخدا سے دور ہو گیا وہ ذلیل ہو گیا بارش کی طرح نازل کرتا ہے اور اپنی رحمتوں ۳۰۰ سے انہیں نوازتا ہے رب کے معنی ہیں پیدا کر کے درجہ بدرجہ خدا تعالیٰ نے ہمیں تسلی دی ہے کہ جتنی ۳۰۵ وسعت ہے اس کے مطابق زیادہ پر میں مدارج ارتقا طے کرواتا چلا جانے والا اللہ تعالیٰ کی ہر صفت اور اس کے جلوے غیر محدود ہیں ۳۰۷ گرفت نہیں کروں گا قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی ہر اس صفت کا بیان مسکراہٹ کا اصل منبع اور سر چشمہ اللہ تعالیٰ کا کیا ہے جس کا تعلق ہماری ذات سے ہے ۳۲۷ پیار ہے اللہ تعالیٰ ناشکری کو نا پسند کرتا اور ناشکروں کو اللہ تعالیٰ ہر شخص کی قوت اور استعدادوں کو اپنی درگاہ سے دھتکار دیتا ہے اے ہمارے رب! تیری عظمت اور کبریائی نے ہمارے درخت وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اللہ تعالیٰ بغیر مقصود کے لغو طور پر کوئی فعل نہیں کرتا کیونکہ وہ فنقص سے پاک ہے اللہ تعالیٰ میں تمام صفات حسنہ جمع ہیں اور ۳۵۹ ۳۶۱ ۳۹۳ ۴۳۳ اس کے کمال تک پہنچانا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم کھیتیاں پیدا کرتے ہو؟ تم نہیں پیدا کرتے میں پیدا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کی پیش کش مقبول کرے تو تب اللہ تعالیٰ کی رضامل سکتی ہے ۴۳۴ ۴۳۷ ۴۴۳ ۴۵۱ ۴۵۳ ۴۹۳ ۴۹۵ ۴۹۶ ۵۰۸ کوئی عیب اس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا اللہ تعالیٰ خود ہی کام کرنے والے آدمی بھی دے گا میں نے مٹی کے بت گھڑ کر تو افریقہ نہیں بھیجنے ۵۱۱ اللہ تعالی ہی ہر خیر اور خوبی اور بھلائی کا سرچشمہ ہے ۴۳۳ اللہ تعالیٰ کی ہر چیز ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے ۵۱۹
اصل قوت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو تمہارا ہے وہ مجھے دے اس سے تعلق قائم کریں ہمارا خدا بڑی قدرتوں والا وہ بڑی حکمتوں والا اور بڑی طاقتوں والا رب ہے ۵۳۰ ۵۳۱ دو جو میرا ہے وہ بھی تمہیں مل جائے گا اور تم غالب آجاؤ گا اے ہمارے پیارے ربّ! تو ہمیں ہماری غفلتوں خدا تعالیٰ ہماری تھوڑی سے کوشش سے بے شمار اللہ تعالیٰ سے تجارت ایک ایسی تجارت ہے اور گناہوں کے بُرے نتائج سے بچا جس میں پیسے کے ضیاع کا کوئی خطرہ نہیں ۵۳۳ اللہ تعالیٰ بدلے ہوئے حالات میں خود معلم بنتا ہے اور انگلی پکڑ کر منزل کی طرف لے جاتا ہے ۵۶۰ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انسان کی انفرادی ۵۷۰ نعمتوں کا وارث بنادیتا ہے جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے اور اجتماعی زندگی میں برکت ڈال دیتا ہے اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے فضل کے بغیر سب حیلوں سے منہ موڑ کر اس خدا پر کامل ۵۷۰ توکل اور پختہ اور زندہ ایمان لاؤ حاصل نہیں کیا جاسکتا اللہ تعالیٰ کا جو فضل ہے دنیا جہاں کے خزانے ہمارا خدا دشمن کے دیئے ہوئے ہر دکھ کو سکھ اس کی قیمت نہیں بن سکتے ۵۷۰ میں تبدیل کر دینے والا ہے خدا تعالیٰ نے اپنی معرفت اور عرفان کے ہمارا خدا ہر آگ کو ٹھنڈی کر دینے والا اور ۵۸۵ سلامتی سے لبریز کر دینے والا ہے والا لئے انسان کو پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ نے گھوڑے کو شریعت نہیں دینی تھی اس خدا کو کبھی نہ بھولو اس سے کبھی جدائی اختیار لئے گھوڑے کو وہ جسم نہیں دیا نہ عقل اور سمجھ ۵۸۸ خدائے رحیم انسان کی کوششوں کو ضائع ہونے سے بچاتا اور کچی کوشش اور محنت کا پھل دیتا ہے ۵۹۰ نہ کرواسی میں ہماری زندگی ہے خدا میں ہمارا سکون اور وہی ہماری جنت اور وہی ہماری روح ہے صفات باری تعالیٰ اگر خدا سے دور ہی رہنا ہے تو پھر زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہے موت ہمارا منتہا نہیں اللہ تعالیٰ کی رضا ہماری منتہائے مقصود ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم پر منحصر ہے ۶۰۱ ۶۰۲ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات سب مخلوق پر جلوہ گر ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے جلوے دیکھنے کے بعد انسان کا سب کچھ خدا کا ہو جاتا ہے ۶۰۹ ۶۱۳ ۶۷۸ ۶۷۹ ۶۸۰ ۶۸۰ ۶۸۰ ۶۸۰ ۶۸۰ ۱۵۱ ۲۲۹
۱۸ جو شخص اپنی استعداد کے مطابق صفات خدائے رحیم اپنی رحیمیت کی صفت کے تحت باری کا مظہر بن جاتا ہے وہ پرسکون اور انسانی کوششوں میں کمزوریوں کو دور کرتا ہے ۵۹۰ خوشحال زندگی حاصل کرتا ہے اپنی اپنی استعداد کے مطابق صفات باری عمل کے فیض پہنچا تا او نفع پہنچا تا اورنعمتوں ۳۱۰ سے مالا مال کر دیتا ہے ۳۱۰ خدا تعالیٰ صفت رحمانیت کے تحت بغیر کسی کے مظہر بنو اللہ تعالیٰ کے معنی ہیں وہ ذات جو تمام کامل انسان کو تمام قو تیں اور طاقتیں صفات باری اور اچھی صفات کی جامع ہے ۳۱۱ تعالیٰ کا مظہر بننے کے لئے دی گئی ہیں دوسروں کی نسبت شیعوں کا امام مہدی سے مظہر اتم بن جائے یعنی اس کے اندر بھی ظلی امام مهدی طور پر تمام صفات الہیہ جمع ہو جائیں بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کا ۳۱۱ زیادہ تعلق ہے مظہر بنانے کے لئے کامل اور مکمل نمونہ کی شیعہ کتب میں امام مہدی کا نقشہ دوسرے فرقوں کی نسبت زیادہ صحیح کھینچا گیا ہے ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے ۳۹۲ ۳۹۲ امت مسلمہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو غیر محدود ترقیات ہر نبی اللہ تعالیٰ کا مظہر اتم نہیں تھا بلکہ ہر نبی کے وعدے دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا مظہر تھا ۳۹۳ ہر وہ شخص جو امت محمدیہ میں مذہب یا اللہ تعالیٰ کی صفات غیر محدود ہیں اور پھر ان سیاست کے نام پر فتنہ پیدا کرنا چاہتا ہے ہم صفات کے جلوے غیر محدود ہیں ۳۹۶ اس کی بات کو ر ڈ کرتے ہیں حقیقت محمدیہ اللہ کی مظہر اتم ہے تمام صفات حسنہ دنیا ملت واحدہ بن جائے گی پاکستان، کی جامع ہے ۳۹۷ ہندوستان اور چین اور روس اور یورپ اور اگر تمہاری کوششوں کے نتیجہ میں تمہاری امریکہ اور جزائر کے رہنے والوں میں کوئی زندگی پر خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ نہیں فرق نہیں رہے گا ΟΛΙ چڑھا تو تمہاری کوشش غلط ہے انسان کو اپنے دائرہ استعداد کے اندر خدا تعالیٰ ایسا پیدا نہیں ہوا جسے حضرت نبی کریم علی کی صفات کا مظہر بننے کے لئے پیدا کیا ہے ۵۸۵ ۵۸۱ امام مہدی کے علاوہ کوئی بزرگ امت مسلمہ میں ۵۸۵ نے اپنے سلام کے لئے منتخب کیا ہو ۵۹۲ ۵۹۴ ۶۶۶ ۶۶۷ ۴۲۶ ۴۳۷ ۴۶۷ ۴۸۲
۱۹ اب اگر دنیا ملت واحدہ بن جائے گی تو انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اور صفات خاصہ امریکہ والے روس کی خدمت کر رہے آنحضرت معہ میں جمع تھے ہونگے روس چین کی خدمت کر رہا ہو گا ۴۹۸ ہر نبی کو اس کی قوم کے علاوہ دنیا کی باقی جماعت احمدیہ کے ذریعہ ساری دنیا کے احمدی اقوام نے عملاً جھٹلا دیا مسلمان آپس میں بھائی بھائی بن گئے ہیں ۵۲۹ ہر نبی پر اتہام لگایا گیا اور ان تہمتوں کو دور کرنے ۳۲۸ ۴۰۹ بہتر فرقے ایک دوسرے کو کا فرقرار دینے والے کے لئے سوائے محمد علیہ کے اور کوئی نہیں آیا ۴۱۵ ہیں جبکہ دشمن اسلام پر حملہ آور ہورہا ہے دنیا میں تو حید خالص کے پھیلانے کے لئے اکٹھے ہو کر کوشش کرو آپس میں نہ لڑوتا کہ اسلام کو فائدہ پہنچے بنیادی اصولوں پر جن میں ہمارا عقیدہ ایک ہے آپس میں اتحاد عمل کرو امراء اضلاع ۶۵۲ هر نبی فسق و فجور کو دور کرنے اور انذار کرنے کے لئے آیا بنی اسرائیل کے نبی ہوں یا ہندوؤں کے نبی ہوں قرآن کریم نے سب کی برات کردی ۶۷۶ حضرت موسیٰ علیہ نے اپنی قوم کو یہ بتایا کہ تمہارے ۵۵۰،۵۴۹ بھائیوں میں ایک نبی مبعوث کیا جائے گا ۱۱۳ ۴۱۵ ۴۱۶ ۴۱۸ ۴۱۹ امراء اضلاع اور مربیان کی یہ ذمہ واری ہے وہ رشی جن پر یہ وید اپنی اصل شکل میں اترے وہ خدا تعالیٰ کے پیارے نبی تھے کہ وہ تمام معلومات جماعتوں تک پہنچائیں اگر آپ ضلع کے امیر ہیں تو ضلع کی ساری جماعتوں تمام انبیاء جو ہدایتیں لے کر آئے تھے ان ۱۷ تمام کو قرآن کریم نے اپنے اندر جمع کر لیا کی ذمہ داری آپ کو اٹھانی پڑے گی امرائے اضلاع کی ذمہ داری ہے کہ تمام اضلاع تمام انبیاء ضرورت زمانہ کے مطابق کی نمائندگی تعلیم القرآن کلاس میں ہونی چاہیئے ۴۷۲ ہدایتیں لے کر آئے تھے انبیاء انسان انبیاء کے کام تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ انسان انسان کو دھوکا دے سکتا ہے لیکن کوئی نفوس ہیں ۱۲ کامل نبی وہ جس نے کامل زندگی دنیا میں گزاری ۱۶۶ انسان اپنے خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتا نوع انسانی میں استعداد اور قوت ہے کہ وہ ۴۱۹ ۴۱۹ ۱۴۶ ۳۰۸ صفات الہی کی مظہر بن سکیں ۳۱۷ حقیقت میں محمدی تخلیق تیار تھی اور نبوت کی نعمت اس وقت سے آپ کو عطا کی گئی تھی
دنیا میں کوئی معقل مند انسان اپنی عزت اور اور مینٹل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کمپنی شرف کے سامان کی وصولی میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا یا لینے سے انکار نہیں کرتا (The Oriantal and Religious Publishing Company) | ۳۸۴ انسان کی قوتوں اور استعدادوں کی کمال نشو ونما کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس کا حق ہے ایٹم بم ۳۸۷ شرائط اگر پوری ہوں تو تلوار یا ایٹم بم کا اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور استعمال بھی ٹھیک ہے ۳۸۷ روحانی قوتیں اور استعداد میں عطا کی ہیں کسی انسان کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے یا بت پرست ۳۸۷ براڈ کاسٹنگ سٹیشن کسی غیر کے حق کی تعیین کر سکے اللہ تعالیٰ مظلوم انسان کو یہ طاقت دے گا کہ جہاں اس قسم کی نشریات کی آزادی ہے ۳۹۰ و ظلم کا بدلہ لے وہاں تو کام شروع کر دینا چاہیئے جب تک ہر انسان کا حق ادا نہیں ہو جاتا اس نائیجیریا نے ہمیں براڈ کاسٹنگ سٹیشن قائم وقت تک ہر انسان کے دل میں محمد علی کا کرنے کی اجازت دے دی ہے پیار پیدا نہیں ہوسکتا ۳۹۰ شرف انسانی کو قائم کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو اس وقت معزز ہے اس کو ذلیل کر دونگا ۵۰۲ انسان اپنے زور کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے رضا کی جنتوں کو حاصل نہیں کر سکتا انسان کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ وہ اپنی ۵۰۸ دنیا کے کسی مناسب مقام پر ایک بہت بڑا براڈ کاسٹنگ اسٹیشن قائم کرنا پڑے گا بدظنی بسا اوقات ظن ظن نہیں رہتا بلکہ بدظنی بن جاتا اور گناہ کا موجب بن جاتا ہے تمام قوتوں کی کمال نشو و نما کرنے کے بعد بدھ مذہب برأت ۲۵ ۲۳۹ ۶۷۳ ۶۷۴ ۶۷۴ ۳۶۵ ۵۲۵،۴۵۹،۳۷۰ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرے انسان کی طرف سے حقیر سی کوشش کرنی پڑتی بنی اسرائیل کے نبی ہوں یا ہندوؤں کے نبی ہے ورنہ کامیابی تو اللہ تعالی کے فضل سے ہوں قرآن کریم نے سب کی برات کردی حاصل ہوتی ہے ۶۷۷ | بی بی سی (B.B.C) ۲۰۸،۲۰۷
پادری پادریوں کو دعوت مقابلہ پادریوں اور مستشرقین کو مقابلہ کی دعوت ۱۶۴ ۲۱۶ ۲۱ آہستہ آہستہ ہر ملک میں اس قسم کے چھوٹے اور عمدہ پر لیس لگائے جائیں گے ۶۶۹ پیپلز پارٹی ۶۰۴،۴۵۸ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہمارا کوئی الحاق نہیں ہوا تھا پادری تو رات کا مقابلہ پورے قرآن کریم ہم نے بعض دوسروں کو بھی ووٹ دیئے سے کیا سورۃ فاتحہ سے بھی نہیں کر سکتے ۳۵۲ پیشگوئی یورپ میں پادریوں کو تفسیر سورۃ فاتحہ کے عالمگیر تباہی موسم بہار میں ہوگی اور اس کا مقابلہ کا چیلنج ۳۵۲ مقابلہ ہی نہیں کر سکتے پادریوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ افریقہ پیغام صلح ہماری جھولیوں میں پڑا ہے پادریوں نے مسلمان ممالک کو فتح کرتے ہوئے خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا خانہ کعبہ پر لہرانے کا دعویٰ کیا ہندوستان کے پادریوں نے اعلان کر دیا تھا کہ دیکھنے کو کوئی مسلمان باقی نہیں رہ جائے گا پاک تبدیلی ۶۵۱ ۶۵۱ ۶۵۱ ۴۵۸ ۲۵۵ آئندہ سولہ سالہ عرصہ میں اسلام کے تمام فرقوں سے عاجزی کے ساتھ پیغام دینا ہے کہ جن باتوں میں ہم متحد ہیں ان میں اتحاد عمل بھی کرو 727 تبلیغ اللہ تعالیٰ کے فرشتے اہل یورپ کے دلوں کی زیادہ ضرورت ہے میں پاک تبدیلی پیدا کر رہے ہیں ۲۱۹ اشاعت ہدایت کے لئے علم کی نسبت جذبہ دنیا کے ملک ملک میں پھیل جاؤ اور وہاں تبلیغ قرآن کرو اور تبلیغ اسلام کرو ۲۴۸ پاکیزگی اگر تم چاہتے ہو کہ فلاح دارین حاصل ہوا اور لوگوں تکمیل ہدایت تو ہوگئی لیکن اشاعت تکمیل ہدایت کے دلوں پر فتح پاؤ تو پاکیزگی اختیار کرو پریس ۲۴۹ کا وعدہ عملاً اُس وقت پورا نہیں ہوا تھا ہم آپ کے دل جیتیں گے اور تمہارے پیدا پاکستان میں اعلیٰ پیمانے کی پریس کے علاوہ دو کرنے والے رب کے قدموں میں جا کر اور ممالک میں عمدہ پریس لگائے جائیں گے ۶۶۹ رکھ دیں گے ۴۷۸ ۵۱۷
۶۷۰ ۶۷۵ ۴۹۴ ۱۶۲ ۱۶۳ ۲۲ تحریک جدید ۱۶، ۳۷,۳۴،۳۳،۲۰،۱۹ تربیت ۶۵ ۱۰۲ تا ۱۱۱۰۹،۱۰۷ ۱۱۳ ۱۱۴، ۱۳۳۱۲۸ | تربیت کا اندرونی محاذ ہے اس پر تو نوع انسانی ۳۷۳،۳۶۶،۳۵۱،۲۸۵ ،۲۰۰،۱۹۸،۱۸۹،۱۸۸ ۴۶۲،۴۶۱،۴۶۰،۳۸۵،۳۸۳،۳۸۰،۳۷۶ ۴۶۵ ، ۵۴۲،۵۳۷، ۵۵۱،۵۴۴تا۵۵۵ ۶۳۸،۶۳۷،۵۶۹ جب تک زندہ ہے جنگ جاری رہے گی تصاویر امت واحدہ بنانے کے منصوبہ کا ایک حصہ تحریک جدید کے اجرا کی غرض دنیا میں ایک یہ ہے کہ تصاویر کا تبادلہ کیا جائے عظیم روحانی انقلاب پیدا کرنا تھا تحریک جدید کی غرض اکناف عالم میں مجھے اس سے غرض نہیں کہ بچے کے اشاعت اسلام کے سامان پیدا کرنا ہے تحریک جدید بھی جماعت کا ایک اہم شعبہ ۱۶ اخراجات کون برداشت کرتا ہے مجھے تو اس سے غرض ہے کہ بچہ پڑھ جائے ہے اسے ۱۹۳۴ء میں شروع کیا گیا تھا ۱۶ تحریک جدید کو اپنے کاموں کے لئے اور روحانی حکمتیں ہیں سورۃ فاتحہ میں صد ہا حقائق اور معارف دینیہ مبلغوں اور روپیہ کی ضرورت ہے دلوں کو فتح کرنے کے لئے ہی تحریک جدید ۱۷ سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھنے کے مقابلہ کی دعوت کو قائم کیا گیا تھا بیرونی دنیا کی روحانی پیاس کو بجھا ناتحریک جدید کے ذمہ ہے ۱۷ خلفائے احمدیت کی سورۃ فاتحہ کی کی گئی تفسیر بڑی حسین اور اللہ تعالیٰ کی عطا ہے ۳۵۳،۳۵۱ ہر نو جوان کو سورۃ فاتحہ کی تفسیر اپنی بغل میں ۱۷ سات ممالک میں مزید فوری مشن کھولنے کی ضرورت ہے رکھنی چاہیئے ۳۵۴ سورۃ فاتحہ کی اقتصادی تفسیر بیان کرنے کی ۷۶ ضرورت ہے تحریک جدید کا اعلان حضرت مصلح موعوددؓ ۳۵۴ ۱۰۲ بَلْدَة طَيِّبَةٌ کے یہ معنی ہیں کہ ایک ایسا شہر جو انسان نے پہلے تین سال کے لئے فرمایا تھا ۱۹۴۴ء تک تحریک جدید کا سارا بار مرکزی کی نشو و نما کے کمال کو پہنچانے کے لئے اچھا ہے ۳۶۱ ۱۰۵ تنخواه ۳۷۳،۳۵۱ در اصل تنخواہ کا اصول قائم کر کے ایک دجل چلایا جماعتوں پر تھا وکالت تبشیر وکالت زراعت ۳۸۹،۱۳۳ ہوا ہے لوگ کہتے ہیں یہودیوں نے بنایا ہے ۴۵۶
توحید ۲۳ ج خدا کرے نسلاً بعد نسل خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے جامعہ احمدیہ ۷۷، ۵۵۵،۲۸۹۹۹ تا ۵۵۷ گانے والی اور شرک کے ہر دروازے کو بند کرنے جامعہ احمدیہ جماعت کی ضرورت کو پورا نہیں کر رہا والی اقوام اس دنیا میں زندگی بسر کر رہی ہوں ۵۲۵ دگی بسر کرتی ہو توکل ۱۸ جلسہ سالانہ ۲۴۶ ، ۲۴۷، ۳۴۸ تا ۶۱۸،۳۵۰ ہم کسی دنیوی میلہ میں نہیں خدا تعالیٰ کی کامل تو کل اور کامل امید ایک مومن بندہ کو محبت میں یہاں جمع ہوئے ہیں اپنے رب پر ہوتی ہے ۱۴۰ جب جم غفیر ہوتا ہے تو بعض تکلیفیں بھی مومن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر تو کل نہیں کیا کرتے ۲۵۴ برداشت کرنی پڑتی ہیں خدا کا بندہ جب اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو آپ روحانی خزائن سے جھولیاں بھرنے وہ ایک ایسی ذات پر تو کل کرتا ہے جس میں کے لئے یہاں تشریف لائے ہیں کام کی ساری طاقتیں ہیں ۲۵۴ توکل کے بغیر ہم اسلام کے مخالفوں کا دن تک اداسی محسوس کرتے ہیں مقابلہ کر ہی نہیں سکتے ہمارے کم عمر اور نا تجربہ کار مبلغ جب بھی تو کل ۲۵۵ آپ کے جانے کے بعد ہم ربوہ والے کئی ان ایام میں خصوصاً اور ساری زندگی میں عموماً اپنے اوقات کو دعاؤں سے معمور رکھیں کے مقام پر کھڑے ہوئے ہیں تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ کے انتظامات میں کام کرنے والوں ۲۵۶ کی اکثریت رضا کارانہ خدمت کرتی ہے ان کی مدد کے لئے آسمان سے نازل ہوا ہمیں اپنے رب پر تو کل ہے اور دنیا کی کوئی جلسہ کے یہ بابرکت ایام کوئی دنیاوی میلہ یا طاقت احمدیت کو نا کا م نہیں بنا سکتی ۲۵۶ ۱۷۸ ۱۸۲ ۲۵۲ ۲۵۹ ٹیلیکس ٹ اکٹھ نہیں تقریر کی تیاری کے لئے مجھے بڑی کثرت سے دعائیں کرنی اور استغفار کرنا پڑتا ہے ساری دنیا کے ممالک کے احمدیوں کا آپس میں ٹیلیکس کے ذریعہ باہمی تعلق قائم ہونا چاہیئے ٹیلیفون مقرر کی ذمہ داری ہے کہ وہ تسکین قلب کے سامان کرے غفلت سے کام نہ لے ٹیلیفون پر پورے یورپ کے تمام مشنوں کو کہو محبت اور پیار کا ایک سمندر ہے جس میں ہم نہاتے کہ خلیفہ وقت نے آپ کو یہ دعا ئیں بھیجی ہیں ۶۷۲ اور اپنی ساری کدورتیں دور کرتے ہیں ۲۹۵ ۲۹۵ ۲۹۶
۲۴ چھوڑ کر واپس جارہے ہیں آپ کی وجہ سے ہم نے بہت سی خوشیاں اور سردی کی وجہ سے منہ سے بخارات دھواں بن کر برکات حاصل کیں اور اب آپ ہمیں اداس نکل رہے ہیں جیسے ہر آدمی سگریٹ پی رہا ہو ۴۲۷ مرکز سلسلہ میں جلسہ سالانہ پر اقوام عالم کے اللہ تعالیٰ ہی آپ کا حافظ و ناصر ہو اور وہ ہر وفود کی شرکت کے نظام کو مضبوط کیا جائے گا ۶۷۴ قسم کی تکلیف، دکھ، آفت اور حادثہ سے اگر ملکی قانون اجازت دیتا ہو تو شامل ہونے والے ۴۲۷ وفود کے قومی جھنڈے بھی لہرائے جایا کریں ۶۷۵ آپ کو محفوظ رکھے اللہ تعالیٰ کے فرشتے آئیں اور ہر شر سے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے آپ کو محفوظ رکھیں ۴۲۸ لئے پر در داور اثر انگیز دعائیں سفر و حضر میں اور دوسرے حالات میں اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ ۶۸۰ ۵۳۸،۲۷۰،۲۹۷ ۴۲۸ جماعت احمدیہ کا ہر فرد معمور الاوقات ہوگا خود ہی آپ کا حافظ ہو جلسه سالانہ پر قرآن کریم کی تفسیر بیان کی ایک ایسی جماعت کا سنبھالنا جو دنیا کے متعدد ممالک جاتی ہے ۴۳۲ میں پھیلی ہوئی ہے کس قدر مشکل کام ہے دنیا کی لالچ کے لئے نہ ہم نے آپ کو ایک عظیم انقلاب پیدا کرنا اس جماعت کے ۴۳۲ سپرد ہے یہاں اکٹھا کیا نہ آپ یہاں آئے جلسہ سالانہ پر آنحضرت کے حسن واحسان دنیا کے سارے ممالک میں ایک روحانی ۴۳۲ انقلاب پیدا کرنے کی ذمہ واری اس چھوٹی کے جلووں پر روشنی ڈالی جاتی ہے آپ اپنے وقتوں کو ضائع نہ کریں اٹھتے سے جماعت پر ڈالی گئی ہے بیٹھتے چلتے پھرتے سوتے جاگتے اللہ تعالیٰ کا افریقہ کے بیشتر ممالک میں جماعت کو بہت ۴۳۹ ترقی نصیب ہوئی ہے ۱۳ ۱۴ ۱۶ ۱۷ شکر ادا کریں جلسہ سالانہ عام انسانی میلوں کی طرح نہیں ہمیں ظاہری حکومتوں اور ملکوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ اجتماع ہے جس کی بنیادی اینٹ ہمیں بنی نوع انسان کے دل کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے ۵۲۷ تم اپنے آپ کو فی الحقیقت کمزور اور نا تواں جانو ۳۸ آپ کا یہ اولین فرض ہے کہ ایام جلسہ میں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر دم اور ہر وقت اپنے رب کریم کے حضور عاجزانہ جھکے رہیں ۵۲۹ اپنی روح گداز رکھو ۳۸
۲۵ اللہ تعالیٰ احمد یوں کو توفیق بخشے کہ کسی بھی علمی جماعت احمد یہ بنی نوع انسان کی بہبود اور میدان میں جب بھی ان کے مقابلہ پر کوئی فلاح کے لئے ہر قسم کی تکالیف برداشت آئے وہ اس پر بھاری رہیں ۸۴ کرنے کے لئے تیار ہے جو عہد بیعت تم نے باندھا ہے خدا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو قربانی کے بلند معیار پر قائم کیا ہے ۸۷ تم ہمیشہ پختگی سے قائم رہو ہمارے رب کا یہی حکم ہے کہ گالی کے مقابلہ جماعت پر فرشتے نازل ہوئے اور انہوں میں گالی نہ دو تدریجی ترقی الہی سلسلہ ہونے کی دلیل ہے ہر نیا سورج ہمارے لئے ترقیات کے ساتھ چڑھا ہے ۹۳ ۹۳ ۹۴ نے جماعت کے دلوں میں تحریک کی اللہ تعالیٰ نے احمدی کو عقل اور فراست بڑی دی ہے جو قوم قربانی کر رہی ہو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ اس جماعت پر ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت بتا رہی ہے کہ ہمارے جوسلسلہ قربانیوں میں تیزی سے ترقی کر رہا ہو دنیا کی کونسی طاقت ہے جو اسے ہلاک کر سکے عقائد میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۹۴ ۹۴ ۱۱۸ ۱۱۸ ۱۱۸ ۱۲۶ ۱۲۹ ۱۲۹ اگر ہمارے عقائد بدل جاتے تو خدا تعالیٰ کا اللہ تعالیٰ کے فرشتے امریکہ کے ہوائی جہازوں سے ہمارے ساتھ سلوک بھی بدل جاتا خلیفہ وقت سے آپ نے عہد بیعت کیا ہے کہ جو میں اس کی مدد کے لئے منڈلا رہے ہوتے ہیں ۱۲۹ جو کہ ویت نام پر منڈلا رہے ہیں زیادہ تعداد ۱۳۱ ۱۳۲ ۱۳۳ نیک کام بتائیں گے اس کی فرمابرداری کروں گا کی ذمہ داری صرف مرکزی جماعت پر تھی 1..۱۰۵ جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ کوئی احمدی ۱۹۴۵ء تک تمام دنیا میں غلبہ اسلام کے کام رات کو بھوکا نہ سوئے ہم نیک باتوں میں حکومت وقت کا ساتھ دیتے ہیں آپ کا فرض ہے کہ حکومت سے تعاون پہلا اور بنیادی کام ہماری جماعت کا 1.7 اشاعت قرآن ہے اپنی قربانیوں کے معیار کو اور قربانیوں کی کرتے ہوئے ملک میں امن صلح اور آتشی رفتار کو بڑھاؤ ۱۱۴ کی فضا قائم رکھیں ہماری جماعتی زندگی کا تعلق اپنی زندگیاں کوشش کریں کہ ہمارے اپنے دوست قرآن کریم کے مطابق ڈھالنے میں ہے ۱۱۸ اقتصادی اور زرعی میدان میں ترقی کریں
۲۶ ۱۹۱ ۱۹۴ دوران سال وفات پانے والے احباب ہر آواز جو مرکز احمدیت سے جماعت کی کے لئے دعائے مغفرت ۱۳۴، ۱۳۵ تربیت کے لئے اٹھتی ہے جماعت کو اس جماعت احمدیہ نے تمام ادیان کے مقابلہ میں طرف توجہ دینا پڑے گی اسلام کی حقانیت اور صداقت کو ثابت کرنا ہے ۱۶۷ ہم بے طاقت ہیں ہم میں کوئی علم نہیں اس اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور رحمتیں تم پر ہوں دنیا کے مقابلہ پر ہم کچھ بھی نہیں اور ساری دعائیں تمہارے حق میں قبول ہوں ۱۸۱ ہم تمہارے دل جیت کر اسلام کو پھیلائیں گے ۲۰۷ تم پاک دل اور مطہر نفس بن جاؤ اور نفس احمدیت یعنی حقیقی اسلام اصلاحی تحریک ہے امارہ کی پلید یاں تم سے دور ہو جائیں ۱۸۲ اور اس کا نصب العین دنیا کو قرآن کریم کی تکبر اور خود بینی اور خود نمائی اور خودستائی کا حقیقی تعلیم کی طرف واپس لانا ہے شیطان تمہارے سینہ کو چھوڑ کر بھاگ جائے تم خدا کی وہ جماعت ہو جسے اسلام کے اخلاق کا ہونا ضروری ہے ۱۸۲ خدا تعالی کی برگزیدہ جماعت میں بنیادی صفات، ۱۸۳ عالمگیر غلبہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے ہر آزمائش کے وقت رب کریم سے ثبات قدم والی بنیادی خوبیاں پیدا کرے ہر فر د جماعت کو چاہیئے کہ اپنے اندر صحابہ رسول ۱۸۳ جماعت احمدیہ میں پائی جانے والی نو بنیادی کی تو فیق پاؤ بس اسی کے ہو جاؤ تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان صفات کا تذکرہ خالی ہے ۱۸۳ ہم نے یہ نیت کی ہے کہ دنیا ادھر سے اُدھر ہو خدا کرے کہ تمہارے نفس کی دوزخ کلی طور جائے ہم انشاء اللہ اپنی ذمہ داری ک ضرور ۱۸۴ نبھائیں گے پر ٹھنڈی ہو جائے چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے آج اسی جماعت احمدیہ کا کام بیت اللہ کی برکات کی جان محفوظ ہے جو اس قلعہ میں پناہ لیتا ہے ۱۸۴ سے ساری دنیا کومستفیض کرنا ہے اللہ تعالیٰ ہماری آمدنیوں کو اور ہمارے ہم نے ہر شخص کو محمد رسول اللہ ﷺ کا مطیع روپیہ کو نا جائز مصارف سے بچاتا ہے جس قوم نے ساری دنیا میں اسلام کو غالب شیطان خاموش نہیں بیٹھے گا طاغوتی قوتیں کرنا ہے اس کو ہر قسم کی عادت سے آزاد آپ کو مٹانے اور نا کام بنانے کے لئے ہر ۱۹۳۱۸۷ کوشش کریں گی رہنا چاہیے ۱۸۷ اور فرمانبردار بنانا ہے ۲۱۳ ۲۲۵ ۲۲۶،۲۲۵ ۲۲۷ ،۲۲۶ ۲۲۶ ۲۳۹ ۲۳۹
۲۷ احمدی وہ ہیں کہ جب وہ کام شروع کرتے جماعت احمدیہ پر آنے والے قربانیوں کے ہیں چھوڑتے نہیں انجام تک پہنچاتے ہیں ۲۳۹ ایام خوشیوں کے ایام کے ساتھ بالکل لگے ہم نے ہر دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو پیدا ہوئے ہوتے ہیں کرنا ہے ۲۳۹ ۲۳۹ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل اور برکتوں کی بارش ۲۷۲ ۲۷۳ ۲۳۹ اپنے پر نازل ہوتی دیکھ رہے ہیں ہم نے ساری دنیا پر اسلام کو غالب کرنا ہے ۲۳۹ ہمیں عادت ہو کام کو انجام تک پہنچانے کی ہمارا اصل کام ان طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہے جو اس وقت اسلام کے خلاف کام کر رہی ہیں ہر احمدی کے اندر روح مجاہدہ، صفت جہاد ہم نے اب اسلام مخالف طاقتوں پر حملہ آور ہونی چاہیئے تمہیں اے جماعت احمد یہ! ایک برگزیدہ مقام عطا کیا گیا ہے کہ اس جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا کی تم خدا اور اس کے دین کی راہ میں اپنی تمام طاقتوں اور قوتوں اور استعدادوں اور اموال اور عزتوں کو خرچ کرو جماعت احمدیہ کی اس رنگ میں تربیت کی جائے جس طرح صحابہ کی کی گئی تھی ۲۴۰ ۲۴۱ ۲۴۱ ۲۴۷ ہونا ہے کسی وقت فخر اور غرور کے جذبات تمہارے دل میں پیدا نہ ہوں خلوص ، کوشش اور حسن تدبیر کے ساتھ آپ کی ۲۷۶ تسکین کے سامان پیدا کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۲۹۶ ہم نے اللہ تعالیٰ کی بڑی برکتیں نازل ہوتی دیکھی ہیں احمدیت اور اسلام میں مالی لحاظ سے کوئی غریب نہیں تم قرآن کریم کو ہاتھ میں لے کر تمام دنیا جماعت احمدیہ میں نہ اضافی طور پر کوئی زیادہ معزز میں پھیل جاؤ جماعت احمدیہ میں رضا کارانہ خدمت کی روح پختہ طور پر پیدا ہونی چاہیئے ہر سورج جو اس دنیا پر چڑھے گا وہ جماعت ۲۴۸ ۲۵۰ اور نہ اضافی طور پر کوئی زیادہ غریب ہے ۲۸۱ ۲۹۸ ۲۹۹ اسلام اور احمدیت میں سب ایک جیسے معزز ہیں ۳۰۰ جماعت احمدیہ میں پیدا ہونے والا ہر شخص قابل صد عزت واحترم ہے احمدیہ کی ترقی پر ایک گواہ بن کے چڑھے گا.دنیا کی فکروں سے بھی آزاد ہو جا ئیں اور اللہ تعالیٰ انشاء الله ۲۵۷ کے فضلوں کے بھی وارث بن جائیں ۳۴۲
۴۴۸ ۴۵۲ ۴۵۲ ۴۵۳ ۴۶۱ ۴۶۱ ۴۶۹ ۴۶۹ ۴۷۰ ۴۸۹ ۲۸ نیستی ہمارے وجود کی اصلیت اور حقیقت ہے ۳۴۸ جماعت کے ہر فرد کو یہ احساس ہونا چاہیئے جب تک قوم شکر کے اس مقام پر رہے گی کہ جماعت ایک وجود ہے اور ہم اس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتی چلی جائے گی کا ایک حصہ ہیں ۳۶۳ اللہ تعالیٰ کی حمد سے اپنی زندگیوں، اپنے اوقات انڈونیشیا کی جماعت کثرت تعداد اور اپنے دنوں اور اپنی راتوں کو معمور کر دو کثرت ایثار اور قربانی کے لحاظ سے آپ جومل چکا ہے اس کو صحیح مصرف میں لاؤ اور کے مقابلہ میں کھڑی ہے اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو جماعت احمدیہ کی ترقی حاصل کرنے کے جو لمحے ہم ایک سال میں گزارتے ہیں وہ لئے نشان آسمانی اور تائیدات سماوی کی محدود ہیں لیکن نعمتیں غیر محدود ہیں ضرورت ہے ۳۷۱ آپ کو ابراہیمی پرندے بننا پڑے گا تب جماعت یہ انتظام کرے کہ کثرت سے بچے ہمارے کام پورے ہوں گے جامعہ احمدیہ میں داخل ہوں ہم ایک غافل انسان کے دشمن نہیں ہیں ہم نا پا کی کے دشمن ہیں ہم بدی کے دشمن ہیں لیکن ہم بد کے دشمن نہیں ۴۲۸ ۴۲۸ جماعت کی دوسری نسل کے اوپر بھی کم ذمہ داری نہیں کیونکہ ابھی خلافت کا سلسلہ جاری ہے دنیا کے نعروں کا جماعت پر کیا فرق پڑا یا کیا سکتا؟ ہم اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے والے کے بھی پڑ سکتا ہے دشمن نہیں ہاں ان کی گالیوں کے ہم دشمن جماعت احمدیہ کے جسم میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کا خون ہے ۴۲۹ ہیں اس بدی کے ہم دشمن ہیں اللہ تعالیٰ ہر روز ہمیں اپنی کامل قدرتوں کے تم تو اچھے خادم ہو آج نہیں تو کل دنیا تمہیں نظارے دکھاتا تھا ۴۲۹ پہچانے گی عزیز از جان بھائیو، بہنوں اور بچو! ہمارے دنیا تم سے جو مرضی ہے دشمنی کرتی رہے تم محبوب و مقصود رب کریم کے آپ پر کسی کے دشمن نہیں ہو تم تو خادم ہو ہزاروں سلام ہوں اللہ تعالیٰ تمہیں وہ کچھ دے گا کہ قیامت تک تمہاری نسلیں تم پر فخر کریں گی ۴۳۱ جماعت احمدیہ کے لئے آج تمام دنیا کے دل جیتنے کا پہلا وسیلہ شرف انسانی کا ۴۳۹ قیام ہے
۲۹ جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں آج تمام دنیا جماعت احمدیہ کے ذریعہ ساری دنیا کے احمدی کے دل جیتنے کا دوسرا وسیلہ مساوات انسانی مسلمان آپس میں بھائی بھائی بن گئے ۴۸۹ مخالف ہمیں مارنے کی فکر میں ہیں اور ہم ان کا قیام ہے ۵۲۹ ۵۳۰ جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں آج تمام دنیا کو زندہ کرنے کے غم میں گھلے جاتے ہیں کے دل جیتنے کیلئے تیسرا وسیلہ ہمدردی اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہمیشہ ہمیں بشارتیں دیں کہ غم خواری کرنے کا دیا گیا ہے ۴۸۹ دشمن خواہ کتنا بڑا ہوگھبرانے کی ضرورت نہیں ۵۳۱ ہم نے انشاء اللہ اسلام کی حسین تعلیم کے ترقیات کے دروازے کھل چکے ہیں اب مطابق عمل کرنا اور کروانا ہے ہمارا کام ہے کہ ان دروازوں میں داخل ہو ہم نے روحانی، اخلاقی، حسن تعلیم اور کر اس شاہراہ پر تیز سے تیز چلتے جائیں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسے مادہ سے بنایا احسان کے ہتھیاروں کے ساتھ لوگوں کے دلوں کو جیتنا ہے ۴۹۰ ۵۰۰ ہے کہ جس کے اجزاء کا آج کا سائنس دان ہم ساری دنیا میں قرآن کریم کے تراجم پتہ ہی نہیں لگا سکتا کہ یہ ہے کیا چیز پھیلائیں گے 110 ۵۱۱ جس مادہ سے احمدی بنا ہے اس کو سائنس دان گورنمنٹ ہسپتال میں مثلاً دوائیاں اچھی ملتی ہو نگیں نہیں پہچان سکے اور نہ پہچان سکیں گے ۵۲۱ توجہ نرسنگ اچھی ہوتی ہوگی لیکن وہ دعا نہیں مل ہر صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تو جماعت احمدیہ کو سکتی جو احمد یہ کلینک میں مل سکتی ہے آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں ترکوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں جماعت احمدیہ کی تعداد ایک کروڑ سے آگے نکل چکی ہے ۵۲۸ ۵۳۱ ۵۴۵ ۵۴۵ اپنے اثر ورسوخ اور خدمت میں زیادہ پاتا ہے ۵۵۱ نے احمدیت کا پیار پیدا کیا ہوا ہے دُنیا تیوریاں چڑھا کر اور سرخ آنکھیں امت واحدہ ایک ایسا جسم بنادیا جائے گا کہ نکال کر تمہاری طرف دیکھتی ہے تم اس کی جس کی اگر ایک انگلی بھی دکھے تو سارے طرف مسکراتے چہروں سے دیکھو جسم میں درد پیدا ہوتا ہے ۵۲۹ ۵۵۳ ۵۸۵ ۵۹۶ ہمارے پروگرام بنی نوع انسان کی خدمت کیلئے افریقہ کے بسنے والے جن کو دنیا نے دھتکار دیا تھا اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو آلہ کار بنا کر انہیں دنیا میں اور ہمیں اس کی طرف توجہ کرنی چاہیئے کے سفید وسرخ اور گندمی رنگ والوں کا بھائی بھائی بنا دیا ہم دنیا سے شکر گزاری کے متمنی ہیں نہ ۵۲۹ کسی سے کوئی بدلہ مانگتے ہیں ۵۹۷
ہم تو خدا تعالیٰ کے بندے بن کر بنی نوع انسان کی دنیا انشاء اللہ احمدیت کے ذریعہ ان نشانوں خدمت کے لئے میدان جہاد میں برسر پر کار ہیں ۵۹۷ کو دیکھتی چلی جائے گی ۶۰۶ میں احباب جماعت سے کہتا ہوں کہ تم پیار سے جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں دلائل سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرو قربانیاں دینے کے مواقع میسر آئے دنیا بھی یہ جان لے اور دنیا بھی یہ پہچان آج نہیں تو کل لوگوں نے احمدیت کی لے کہ ہمارا ربّ اور اُن کا رب جماعت طرف آنا ضرور ہے احمدیہ کے ساتھ ہے ۶۱۴ Movies پروجیکٹر پر دکھائیں آپ کو پتہ جو ذمہ داریاں جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی لگے کہ احمدیت کتنی ترقی کر رہی ہے گئی ہیں جب سے حضرت آدم کی پیدائش ہوئی جس قدر رو پید کی ضرورت ہے آدمیوں کی ضرورت اتنی ذمہ داریاں کسی قوم پر نہیں ڈالی گئیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم منافق نہیں ہمارے اندر نور ایمان اور اللہ اور رسول کی محبت سمندر کے پانیوں سے زیادہ موجزن ہے ۶۲۰ ۶۳۳ ہے جس قسم کے دماغوں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ دے گا انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میرے دین کی اشاعت ۶۶۰ ۶۶۶ ۶۷۵ ۶۷۸ کا کام کرو کام میں فرشتوں سے کرواؤں گا اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کی ہوا چلی ہے اور ہم دنیا میں پھیل رہے ہیں اللہ تعالی کی قادرانہ مدد اور نصرت اس ۶۳۴ اور کریڈٹ تمہیں دے دونگا خدا کی جماعت ہو کر کسی اور کی طرف نہ ۶۷۸ ۶۸۰ ۶۸۰ ΥΛΙ ΥΛΙ ۶۳۷ دیکھو اس کی مانو اس کا عرفان حاصل کرو جماعت کے شامل حال ہے ہم نے کسی اور کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا تم پر اس قدر نزول ہوگا نہ آج تک پھیلائے ہیں نہ کبھی پھیلائیں گے ۶۴۱ کہ تمہاری زندگیوں کے لمحات میں ان کا شمار نہ ہو سکے گا یہ عجیب لوگ ہیں یہ باہر سے آئے ہیں حکومت پیسہ دیتی ہے اور یہ لیتے نہیں ہیں اللہ تعالیٰ احمدیوں کو اپنا مقام پہچاننے کی توفیق اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ہم نے تو ہر دینی ۶۴۱ عطا فرمائے اور انسان کا دل خدا اور محمد علی کے لئے جیتنے کے سامان ان کو میسر آئیں اور دنیوی حسنہ اُسی سے حاصل کرنی ہے احمدیت کے آنے سے پہلے اسلام کا نام لیتے آپ کی در و دیوار سے برکتوں کے سوتے ہوئے لوگوں کی گردنیں شرم سے جھک جاتی تھیں ۶۵۱ پھوٹیں اور دنیا آپ سے فیض حاصل کرے
جیسا کہ خدا نے وعدہ دیا ہے وہ اپنی رحمت حديقة المبشرين اور برکت اور فضل سے آپ کے نفوس میں حقارت برکت ڈالے جمعه جمعہ کے اجتماع کے موقع پر قبولیت دعا کی گھڑی آتی ہے جنت جس جنت کا وعدہ ہمیں اسلام دیتا ہے اس کا ۶۸۱ ۶۳۷،۵۵۵،۵۵۴ کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو اور کسی کو اپنے سے چھوٹا نہ سمجھو خ خانه کعبه ۳۰۰ ۲۳۵،۲۲۵ بیت اللہ کی از سرنو تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ کروائی گئی تھی تعلق اس دنیا سے بھی ہے اور اخروی زندگی تعمیر بیت اللہ کے عظیم الشان مقاصد سے بھی ہے جہاد اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرو ورنہ ۲۶۴ ۲۴۰ برکات بیت اللہ سے دنیا نے بعد کی صدیوں میں بھی فائدہ اٹھایا تعمیر بیت اللہ کی برکات سے بنی نوع انسان ۱۹۰ ۲۲۵ ۲۲۶ یہ بزرگی تم سے واپس لے لی جائے گی کو روشناس کرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد کے معنی ہوتے ہیں کسی کام کو کرنے میں پوری طاقت خرچ کر دینا ۲۴۰ ہمارے اندر مجاہدہ اور جہاد کی صفت ہونی چاہیئے ۲۴۰ حب رسول جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے خدمت جلسہ سالانہ کے انتظامات میں کام کرنے والوں کی اکثریت رضا کارانہ خدمت کرتی ہے احمد یوں میں نبی کریم ﷺ کی محبت نمایاں ہمیں انتہا کی قربانی دینی پڑے گی اور ان قربانیوں کی بنیا درضا کارانہ خدمت پر ہونی چاہیئے ہونی چاہیئے اپنی ساری محبتوں کو خدا اور اس کے رسول کی رضا کارانہ خدمت کا جذبہ پہلے سے زیادہ محبت پر قربان کر دو حج حجۃ الوداع کی نصائح ۲۳۰ مضبوط ہونا چاہیئے ۲۶۳ جب تک زندگی ہے اور ہمت اور توفیق ہے ۵۲۳ انسان کو کام کرتے چلے جانا چاہیئے ۲۲۶ ۲۵۲ ۲۵۳ ۲۵۳ ۲۹۵
1+1 1+1 1+1 ۱۰۲ ۱۱۴ ۱۲۶ ۲۸۹ ۲۹۶ ۲۹۶ ۳۴۴ ٣٢ جماعت میں مختلف شکلوں میں امداد کی جاتی جماعتی کاموں میں فیصلہ کر نا صرف خلیفہ وقت ہے یہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل کا اظہار ہے کا کام ہے کسی اور کا نہیں کسی پر احسان جتانا مقصود نہیں ۵۴۳ فیصلہ کرنا کہ کونسے مقام یا کون سے ملک میں ہر دوسرے شخص کی خدمت کرنا خدمت کے کونسا طریق احسن ہے خلیفہ وقت کا کام ہے ۶۰۸ خلیفہ وقت امر بالمعروف کا مرکزی نقطہ ہے مواقع اور دروازے پیدا کر دیتا ہے بے نفس اور بے لوث خدمت کرنا چاہیئے کسی خلیفہ وقت کی طرف آپ کے کان اور سے کچھ نہ مانگیں دینے والا تو خدا ہے وہ آنکھیں ہونی چاہئیں بہت کچھ دے دیتا ہے ہم تو نوع انسانی کی خدمت کرنے کے لئے احمد یوں پر فرض ہے پیدا کئے گئے ہیں اور کسی سے ہمیں دشمنی نہیں ۶۶۵ جس کو اللہ تعالیٰ جماعت کا سر براہ بناتا ہے ۲۰۸ خلیفہ وقت کے احکام کو ماننا ہر ملک کے خلیفہ وقت اس سے جماعت کے لئے نقصان دہ حرکت نظام جماعت کی پوری ذمہ واری خلیفہ وقت سرزد نہیں ہونے دیتا ۱۲ جو شخص خلفاء سلسلہ احمدیہ اور دوسرے پر ہوتی ہے خلیفہ وقت کا کام نیابت، ماموریت اور نبوت بزرگوں کی کتب دیکھنے کی عادت نہیں ڈالتا کا ہے ۱۲ وہ روحانی طور پر کمزور ہو جاتا ہے خلیفہ وقت کو جماعت کے مخلصانہ مشوروں ضرورت وقت کے لحاظ سے خلیفہ وقت کا پیغام بھی قرآن کریم کی تفسیر ہی ہے ۱۲ اور دعاؤں کی ضرورت ہے جو کام خلیفہ وقت کا ہے وہ ایک صدرانجمن خلیفہ وقت کا پیغام جو مختلف موقعوں پر وہ ۱۵ دے آپ کے پاس فوری آنا چاہیئے ۱۵ صفات کا مظہر نہ بنے تو کیا ہزاروں انجمنیں بھی نہیں کرسکتیں جو کام خلیفہ وقت کا ہے وہ صدرانجمن احمد یہ کوئی خلیفہ اور نائب ایسا نہیں جو اس کی اور دوسری تنظیمیں نہیں کر سکتیں جماعتی نظام کی نگرانی کا کام خلیفہ وقت کے سپرد ہے ۲۰ ہر لمحہ اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی خلیفہ وقت سے آپ نے عہد بیعت کیا ہے کہ نصرت ساتھ نہ دے تو خلافت کی ذمہ داری جو نیک کام بتائیں گے اس کی فرمانبرداری کرونگا 1++ نہیں نبھائی جاسکتی
۳۳ خلافت حقہ راشدہ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے اپنی دعاؤں کا دائرہ وسیع کر کے ساری دنیا خوف ،خطر اور پریشانیوں کو دور کرنے کا کے گرد احاطہ کر لیں ذریعہ بھی قرار دیا ہے جماعت احمد یہ اجتماعی وجود ہے کہ خلفیہ وقت دعائیں کرواسی سے مانگو اور ساری جماعت ایک وجود کا حکم رکھتی ہے ۴۶۱ دعوت فیصلہ ۳۴۴ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکو اور اس سے ۴۳۰ ۶۸۰ آؤ ہم اپنے رب سے کہیں کہ وہ ہمارے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ میں خلافت حقہ راشدہ کا سلسلہ جاری فرمایا ہے اور میں ایک خلیفہ کی درمیان فیصلہ کرے حیثیت سے تمہارے سامنے موجود ہوں پوپ کو دعوت فیصلہ خلافت کا مرکز تم سے کچھ مانگتا نہیں بلکہ وہ لا علاج مریضوں کی بذریعہ دعا شفایابی کے تمہیں کچھ دیتا ہے دعا ۶۷۱ دعا کے نتیجہ میں قوت جذب پیدا ہو جاتی ہے ۱۹۷۷ نتیجہ زیادہ انکسار اور دعا سے نکلتا ہے دوسروں کی خدمت بھی دعا کے ذریعہ کی جاسکتی ہے ۱۹ LL مقابلہ کی دعوت وہ مریض جو ہمارے حصہ میں آئیں گے ان میں سے اکثریت خدا تعالیٰ کے فضل سے شفایاب ہو جائے گی جو مریض مخالفین کے حصہ میں آئیں گے ان کی اکثریت موت کا منہ دیکھے گی دعوت فیصلہ کے بعد معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت صداقت پر قائم ہے اپنی زمین کے کناروں پر چکر لگاتے ہوئے اور اپنے تمام آسمانی صحیفوں کا مقابلہ ہمارے صحیفہ آسمانی کی پہلی اور مختصر سی سورۃ الفاتحہ ہل جو تتے ہوئے خدا سے دعائیں کیا کریں ۱۳۴ انتہائی مظلومیت اور متضرعانہ دعا اللہ تعالیٰ سے کر کے دیکھ لیں ۱۴۶ ۱۴۹ ۱۵۰ ۱۵۱ ۱۵۱ ۱۵۱ ۱۶۴ کی معجزانہ نصرت کو جذب کرتی ہے انتہائی مظلومیت اور دعا میں انتہائی تفریع اور بشپ آف لاہور اور تمام دوسرے بشپ بھائیوں ابتہال اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کا ذریعہ ہیں ۱۳۸ کو ہماری طرف سے دعوت فیصلہ کہ کامل اور زندہ نبی اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنتا اور بغیر دعاؤں حضرت عیسی علیہ السلام ہیں یا ہمارے محمد رسول اللہ ۳۷۷ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳۷ بشپ آف لاہور کی دعوت فیصلہ قبول کرنے کا اعلان ۱۶۵ کے بھی ہمارے کام کرتا ہے 172
۳۴ کا مجموعہ ہے یا وید ہندوؤں کو دعوت مقابلہ قرآن کریم صداقتوں اے میرے بھائی ڈاکٹر و! خدا کے دین کی ۱۶ خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرو مسلمانوں کو دعوت فیصلہ حضرت عیسی علیہ السلام جو ڈاکٹر اپنے مریض کے لئے دعائیں نہیں کے جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر جانے کے بارہ میں کرتا وہ بڑا ظالم ہے کوئی حدیث نکال کر دکھائیں ۱۷۰ مخالفین سلسلہ کو دعوت کہ آؤ سات سال کے ذکر الہی لئے ہم سے صلح کر لو دنیا دنیا کو مقابلہ کا چیلنج 122 ۵۴ ز تمہارے گھر ذکر الہی سے معمور اور شیطانی وساوس سے بلند و بالا ہوں ۱۱۲ ۵۲۰ ۸۹ حوادث زمانہ کے لحاظ سے جو دکھ انسان کو دنیا کے لئے ایک ہولناک تباہی مقدر ہے اور دنیا اس سے بے خبر ہے یہ دنیا کی محبتیں عارضی اور بعض دفعہ بیہودہ سی ذکر الہی اور استغفار سے دور ہو سکتے ہیں ۲۱۱ پہنچتے ہیں اور پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں وہ ہوتی ہیں ۲۲۹ آئندہ میں سال دنیا کے لئے انتہائی نازک ہیں ۲۵۳ دنیا کی ہر شئے اپنی ایک حقیقت رکھتی ہے جو عالمگیر تباہی دنیا کے سر پر اس وقت منڈلا رہی ۳۹۲ ۴۴۰ ذیلی تنظیمیں ذیلی تنظیمیں جہاں جماعت قائم ہے اپنی مجلس کو منظم کریں ہے اللہ تعالیٰ اس کی ہلاکت سے محفوظ رکھے جہاں جہاں جماعتیں پائی جاتی ہیں وہاں فعال ذیلی تنظیمیں ہونی چاہئیں خدا کرے جب ہم نگاہ تصور سے دنیا کو ۵۰۰ ۲۲ ذیلی تنظیمیں اپنے اپنے زیر انتظام تین تین دیکھیں تو ساری دنیا ایک خاندان، ایک جسم کمروں پر مشتمل گیسٹ ہاؤس غیر ملکی مہمانوں کے لئے بنوائیں اور ایک وجود کی طرح ہمیں نظر آئے دہریہ ۵۲۳ ۵۲۵،۴۷۷ ،۱۶ } ۶۷۴ مجلس اطفال الاحمدیہ ۳۴،۲۱،۲۰، ۲۹۲،۲۵۲،۹۹ ۱۱۵ ۱۱۵ ڈاکٹرز احمدی بچے اپنے مقام کو پہچانیں ڈاکٹر ز تحریک جدید کے انتظام کے ماتحت وقف جدید کا تمام بوجھ پندرہ سال سے کم عمر اپنی زندگیاں وقف کریں ۱۱۲ بچے اور بچیاں اٹھائیں
۳۰۴ ۶۷۴،۶۳۵ ۳۵ جن بچوں کو ان کے گھروں میں دین کی جلسہ سالانہ پر ہنگامی طور پر تھوڑے وقت باتیں کثرت سے سنائی جاتی ہیں وہ اچھے میں ساڑھے نو ہزار روٹی تیار کر کے لنگر خانہ بھلے مولوی بن جاتے ہیں مجلس انصار الله ۴۴۹ میں بھجوادی ۲۴۶،۳۴،۲۱،۲۰،۸ | لجنہ اماءاللہ انگلستان ۲۹۲،۲۴۶،۳۴ ،۲۱،۲۰ ۴۵۳ ۴۵۴ ۲۵۲ ۲۵۳ ۲۵۳ ۲۵۳ ۲۶۳ ۶۷۴،۵۴۲،۴۵۱،۳۲۲ | ناصرات الاحمدیہ مجلس خدام الاحمدیہ ۹۹،۳۴،۲۱،۲۰،۸، ۲۴۶،۱۸۸ ۲۹۶، ۴۴۷ ، ۴۵۱،۴۴۸ ، ۶۷۴،۶۲۲،۵۴۲،۵۳۷ | رزق تربیت کا کام جماعتی رضا کار کے طور پر رزق کی تقسیم تو رزق کمانے کی اہلیت کے نتیجہ میں ہوتی ہے اور وہ انسان کے خدام الاحمدیہ کے سپرد ہے احمدی نوجوانوں میں تذلیل اور تواضع کا جذبہ اختیار کی بات نہیں قوت اور استعداد کی تقسیم کے نتیجے میں مال اُبھار کر اسے ان کا شعار بنا دیں خدام الاحمدیہ کو بھی عجز و انکسار تذلل اور اور دولت کی تقسیم انسان کے ہاتھ میں نہیں ۲۱ رضا کار تواضع کا ایک نمونہ ہونا چاہیئے خدام الاحمدیہ کوئی دنیوی تنظیم نہیں ہے کہ جلسہ سالانہ کے انتظامات میں کام کرنے والوں کی اکثریت رضا کارانہ خدمت کرتی ہے ۲۱ اسے ونڈو ڈریسنگ اور نمائش کی ضرورت ہو خدام الاحمدیہ کی اصل اور بنیادی غرض یہ ہے ہمیں انتہائی قربانی دینا پڑے گی اور ان قربانیوں کی بنیاد رضا کارانہ خدمت پر ہونی که نوجوان احمدی کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ جماعت کی کوشش میں میرا بھی حصہ ہے ۴۴۸ چاہیئے اور ہوگی رضا کارانہ خدمت کے جذبہ کو پختہ اور مجلس خدام الاحمدیہ لاہور لجنہ اماء الله 1.۳۴،۲۱،۲۰، ۹۹، ۱۸۹ مضبوط کریں اور بیدار رکھیں ۱۹۱، ۳۸۳۲۹۶،۲۴۶ ، ۴۴۷ رضا کارانہ خدمت کا جذبہ پہلے سے زیادہ جلسہ سالانہ پر ہنگامی طور پر چھوٹی تندور یوں مضبوط ہونا چاہیئے پر رضا کارانہ روٹیاں پکانے کا انتظام کیا ۳۰۳ رمضان المبارک
رویا ڈچ زبان بعض اوقات زانیہ عورتوں کو بھی کچی خوا ہیں ڈینش زبان آجاتی ہیں ز زبان دنیا کی ہر زبان میں اسلامی لٹریچر شائع ہونا چاہیئے لٹریچر سر دست سو زبانوں میں شائع کرنے کا منصوبہ ہے ویسے اپنی اہمیت کے لحاظ سے دنیا کی ساری زبانوں میں شائع ہونا چاہیئے اگلے سولہ سال میں دنیا کی مختلف سوز بانوں میں لٹریچر تیار کرنے کا پروگرام ہے اٹالین زبان ۱۵۱ ۶۶۸ ۶۶۸ ۶۶۹ روسی زبان ۶۳۷،۵۵۱،۳۸۰ ،۷۸،۶۰ ۶۳۷،۵۵۳،۱۹۹ ،١٩٠،٦٠ ۶۶۷،۶۶۵،۲۸۴۷۹،۶۰ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کوئی احمدی ایسا دے دے جو روسی زبان جانتا ہو روسی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ ہو چکا ہے ۶۶۵ سپینش زبان ۳۵۶،۲۸۴،۲۷۹ ۵۵۲ تا ۶۶۷،۶۶۵،۶۶۴،۵۵۴ سواحیلی زبان سویڈش زبان عربی زبان ۵۵۴،۵۵۲،۵۵۱،۱۹۰۰۶۱ ۵۵۲،۱۹۰ ۳۵۵،۲۰۰ ۶۶۷،۶۶۶،۳۸۰،۳۷۸،۳۷۵ ۲۰۰ ،۷۸ ،۶۱ ۶۶۷،۵۵۴،۲۸۴،۲۷۹ اردو زبان اسپرانٹو زبان ۳۵۵،۱۹۰ ۵۴۷ ،۳۷۶،۲۰۰ فارسی زبان انڈونیشین زبان ۳۸۰،۲۸۳،۱۹۹،۶ فرانسیسی زبان انگریزی زبان ۲۰۱،۲۰۰،۶۰ ۲۸۴ ۶۶۶ عربی بولنے والی اقوام کی توجہ یکدم احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف ہوئی ہے ہمارے عربی لٹریچر کی بڑی مانگ ہے ۶۶۶ ۲۸۳،۲۸۰،۱۹۹،۷۸ ،۶۰ ۶۷۰،۶۶۳۶۶۲،۵۱۰،۳۷۵،۳۵۶ ۶۶۲۰۵۵۱،۳۷۵،۳۵۵،۳۳۶،۲۷۹ تا ۶۶۴ ہاؤ سا زبان ۶۶۶،۶۶۵،۶۰۷ ،۶۰۵ پرتگیزی زبان ۶۶۴،۲۸۴،۷۸ ،۶۱ ہسپانوی زبان ٹرکش زبان ۵۵۲،۴۶۳۱۹۰ تا ۵۵۴ یوگوسلاوین زبان جاپانی زبان ۲۷۹ یوگنڈوی زبان ۷۸ ،۶۱ ۶۶۷ ،۴۶۳ ۵۵۲ جرمن زبان ۶۰، ۲۰۰،۱۹۰، ۶۳۷،۵۵۱،۲۷۹ | زکوة چائنیز زبان ۶۰، ۶۶۵،۷۸، ۶۶۷ دولت امیر سے لے کر غریب پر خرچ کرو ۵۱۹
س ۳۷ سزا اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کے تین طریق قانون نے یہ تو کہا ہے کہ اگر سچا الزام بھی جو شخص بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ ہومگر ثابت نہ ہو تو سز انہیں ملنی چاہیئے سکولز ۴۹۷ کا شکر کیسے ادا کر سکتا ہے شعر I ۳۱ مشرقی افریقہ میں ہائر سیکنڈری سکول کھولنے مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا ۱۷ کی بڑی اشد ضرورت ہے سلسلہ باطله تدریجی تنزل کرنے والا سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوسکتا سوشلزم ۱۱۳ ۹۳ کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ۷۳ نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا ۶۰۵،۵۰۱ اک سے ہزار ہوویں با برگ و بارہوویں ماسکو میں روسی تہذیب اور ان کی سوشلزم کا سیف کا کام قلم سے دکھایا ہم نے بہترین نمونہ نظر آنا چاہیئے تھا جو کہ نہیں تھا ۴۹۲ گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو روی اشترا کی اخلاق سے جتنا پیچھے ہے اتنا ہی فارسی شعر چینی سوشلزم نے اخلاقیات پر زور دیا ہے ۶۶۵ اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار چینی سوشلزم نے اخلاقیات پر زور دیا ہے بنالم بر درش زاں ساں کہ نالد ایک اور صحیح قدم آگے بڑھاتے تو وہ ساقیا آمدن عید مبارک بادت روحانیت کے میدان میں پہنچ سکتے تھے ۶۶۵ مسلمان را مسلمان باز کردند ش شدھی تحریک شرک شفا ۱۵ دوائی نے تو آرام نہیں دینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ایک جلوے نے آرام دینا ہے تم دنیا کے اسباب کو ایسی عزت نہ دو اور نہ ان پر اللہ نے شفا دینی ہے ہمارے بعض بزرگوں ایسا بھروسہ کرو کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کے شریک ہیں ۳۸ نے کاغذ کی گولی بنا کر دی تو پیٹ درد سے ۳۵۵،۱۸۸،۹۸، ۵۳۸ تڑپنے والے مریض کو آرام آگیا الشركة الاسلامیہ ۴۰۰ ۴۱۷ ۴۳۹ ۵۲۸ ۵۳۶ ۵۹۸ ۲۲ ۱۴۲ ۲۷۰ ۶۶۹ ۵۲۰ ۵۲۱
۳۸ شفقت على خلق الله صحابہ اپنے سارے اموال اور ساری غیر منقولہ وہ تو اپنے تصور میں نہیں لا سکتے تھے کہ افریقہ جائیداد مکہ میں ہی چھوڑ آئے تھے میں کوئی ان کے بچوں سے پیار کر سکتا ہے صبر ص ۴۸۸ آپ کو اس قسم کی رضا کارانہ خدمت کی اس دنیا میں کوئی مثال نہیں ملے گی صحابہ ایک لمبے عرصہ تک اپنے سارے اموال ۲۵۰ صبر کے معنی مصائب پر واویلا نہ کرنے کے اوقات، جانوں اور عزتوں کو قربان کرتے رہے ۲۵۰ بھی ہیں صبر کے معنی نیکیوں پر ثبات قدم دکھانے کے بھی ہیں صبر کے معنی رک جانے کے بھی ہیں صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر فر د جماعت کو چاہیئے کہ اپنے اندر صحابہ رسول والی بنیادی خوبیاں پیدا کرے ۲۳۷ ۲۳۷ ۲۳۷ ۲۲۶،۲۲۵ انہوں نے دنیا کی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا اور اپنے رب کی رضا پر خوش رہے صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘ بلکہ ہرنسل جو بعد میں آئی وہ صحابہ سے ملتی چلی گئی صحبت صالحین خدارسیدہ بزرگ انسانوں کی ضرورت ہے ۲۵۰ ۵۲۵ جو وہاں جا کر اپنا نمونہ ان کے سامنے رکھیں ۲۷۸ قرآن شریف صحابہ کی تعریفوں سے بھرا پڑا ہے ۲۳۹ دنیا میں اپنا اور امت مسلمہ کا ایک حسین نام چھوڑ گئے ۲۳۸ صداقت حضرت موسی نے اپنی قوم سے کہا جب صحابہ جیسی اطاعت خدا اور رسول کی ہم کریں پوری صداقت تمہارے سامنے آئے اسے قبول کرنے کے لئے تیار رہو تو خانہ کعبہ کے مقاصد ہم حاصل کر سکتے ہیں ۲۳۸ اطاعت کی روح اس قدر پختہ اور بیدار تھی صدر انجمن احمد یہ پاکستان ۴۱۸ ۳۷ ،۳۴،۷ کہ نشہ کی حالت میں بھی اطاعت کر گئے ۳۸۰،۳۷۳،۲۸۸ ،۱۹۸ ،۱۹۷ ، ۱۳۳، ۱۲۸ ،۱۱۴ ۲۳۸ ان میں سے کوئی شخص دوسرے سے پیچھے رہنا پسند نہیں کرتا تھا ۲۴۷ ۳۸۵،۳۸۳، ۴۵۵،۳۸۷، ۵۴۱ تا ۵۵۴،۵۴۳ ۶۳۹،۶۳۰،۶۲۲،۵۵۵ صحابہ کی زندگیاں روح مسابقت کے حسین صدرانجمن احمدیہ کے سپر دایک عظیم کام ہے مناظر سے بھری پڑی ہیں ۲۴۸ اور اس کی ذمہ واری بہت زیادہ ہے ۱۵
۳۹ صدر انجمن احمدیہ پر ایک عظیم ذمہ داری صد سالہ جو بلی فنڈ کے لئے اڑھائی کروڑ روپیہ ڈالی گئی ہے اُسے جماعتوں سے ان احکام کی تحریک اللہ تعالیٰ ان سولہ سالوں میں ہمارے اس کی تعمیل کرانی چاہیئے نظارت اشاعت ۶۳۳۶۳۲٬۵۳۷ | منصوبہ کے لئے پانچ کروڑ روپے کا انتظام ۹۸، ۱۹۰،۱۸۹ کر دے گا انشاء اللہ تعالیٰ نظارت اصلاح و ارشاد نظارت بیت المال نظارت زراعت ۴۴۶،۳۸۰،۲۴۶، ۶۳۷ ہو سکتا ہے جماعت اگلے سولہ سال میں اشاعت ۶۷۷ ۶۷۸ ۱۱۸ ،۱۹۵ اسلام پر ۵۰ کروڑ روپیہ خرچ کرنے لگ جائے ۶۷۷ ۱۳۳ جماعت احمد یہ انگلستان کی طرف سے جو بلی فنڈ صد سالہ جشن تشکر ۶۶۰۶۴۷ ۲۶۸۰۶۶۱ کے لئے ایک کروڑ روپے کا وعدہ صدی پوری ہونے سے قبل کے چند سال جو صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ باقی ہیں ہمارے لئے نہایت اہم ہیں ۱۹۸۹ ء کا سال بڑا ہی اہم سال ہوگا ۶۴۸ صدقات ۶۷۸ ۶۷۷ سوائے ضروری صدقات کے ہر صدقہ کوشش کرنی ہے کہ دنیا کا ایک ملک بھی ایسا نہ اشاعت اسلام کے نام پر خرچ ہونا چاہیئے رہے جہاں کے وفود ۱۹۸۹ء کے جلسہ سالانہ پر نہ آئے ہوں ۶۶۱ صليب کسی کے صلیب پر چڑھائے جانے سے جشن تشکر محض جلسہ سالانہ پر نہیں منایا جائے کسی اور کے گناہ معاف نہیں ہو سکتے گا بلکہ وہ سال جشن تشکر کا سال ہوگا حمد اور عزم کا انتہائی مظاہرہ انشاء اللہ تعالیٰ ۱۹۸۹ء میں ہماری طرف سے کیا جائے گا 11 ۶۶۱ ظلم ظ جشن تشکر کے منصوبہ کے تحت سو زبانوں بعض دفعہ اللہ تعالی ظلم کا بدلہ لینے والے کو تھوڑے ۶۶۸ سے ظلم کی بھی عملاً اجازت دے دیتا ہے میں اسلام کا بنیادی لٹریچر شائع کرنا ہوگا سو زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت پر جو مظلوم ہیں اُن کے ظلم دور کرنے کی جہاں ۶۷۷ تک تمہیں طاقت ہے کوشش کرو ۱۱۶ ۱۳۱ ۳۸۹ ۴۳۸ بہت رقم خرچ آئے گا دنیا کا ہر منصوبہ روپیہ چاہتا ہے مثلاً براڈ کاسٹنگ جو آدمی کسی مظلوم کو دیکھتا ہے اور اس کی مددنہیں اسٹیشن لگانے پر روپیہ خرچ ہوگا ۶۷۷ کرتا وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے دور اور ملعون ہے ۴۹۴
بہر حال محرومی ایک لعنت ہے اور مظلوم ہونا اس کے فضل کو جذب کر نے کے لئے سر کبھی لعنتی بنانے کا ایک آلہ ہے ع عاجزی تذلل اور فروتنی اور انکسار اور بے نفسی کے نقوش سجائیں ۴۹۴ اونچے نہیں ہوا کرتے بلکہ جھکتے جھکتے زمین ۱۸۲ کے ساتھ لگ جاتے ہیں عرب ۵۷۰ عرب ممالک میں تبلیغ اور بیعتوں کا تذکرہ ۲۷۵،۲۷۴ عزت کمال ادب اور کمال نیستی اور تذلل اختیار عزتوں کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ ہے اور ذلتوں کا کر کے عبادت میں لگ جاؤ ۲۴۰ منبع اس سے دوری ہے جو شخص اپنے نفس کے عجز کو پہچان لیتا ہے عزت نفس ۲۹۹ اس کے دل پر تکبر اور غرورحملہ نہیں کیا کرتا ۴۴۰ ہر وقت استغفار کرتے رہیں اپنی عاجزی کا کرنے کا نعرہ لگا دیا گیا اظہار کرتے رہیں انسان تو عاجز ہے اس کو اپنے بجز کا ہی اقرار کرنا چاہیئے اپنی عاجزانہ کیفیت اور عاجزانہ مقام کو نہ بھولیں اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں سے کبھی غافل نہ ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل کے حصول کے لئے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے ۴۴۰ ۴۶۹ ۵۳۰ ۵۷۰ ہر انسان کی عزت اور اس کے احترام کو قائم عزتیں اسی طرح قربان ہوتی ہیں کہ گالیاں سنیں اور ہنس پڑیں معاف کرنے کی عادت ڈالو خدا کے بندوں عفو سے پیار کرو علم تم اپنے علم پر غرور کرو اور نہ اپنے اعمال پر ناز ۴۸۳ ۵۰۹ ۴۳۸ ۳۸ ۸۴ ہمارے بچے دین اور دنیا کے علوم زیادہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے زیادہ حاصل کرتے رہیں اپنی روح کو پانی کی طرح اس کے آستانہ پر اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں کے ذہنوں میں جلاء بہانا پڑتا ہے ۵۷۰ پیدا کرے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے دنیا کی ہر مخلوق کو اپنے وجود سمیت لاشئی علم کا ملنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہی معلم حقیقی ہے محض سمجھنا پڑتا ہے ۵۷۰ ۳۵۴
۴۴۹ ۴۸۷ ۴۹۰ ۶۵۸ ۶۷۹ ۲۱۶ ۴۱ عیادت خصوصاً کیتھولکس کو یہ ہدایت ہے کہ احمدی بیمار کی عیادت مسلمان پر ایک فریضہ ہے بچے سے بھی بات نہیں کرنی جب وہ اس کے لئے دعا کرے گا تو اس کو عیادت کا ثواب مل جائے گا افریقہ میں عیسائیت سو سال سے انہیں کہہ ۲۹۷ رہی تھی کہ وہ مساوات کا پیغام لے کر آئی ہے مگر وہاں اس پر عمل نہیں کر رہی تھی حقیقی عید کے معنی یہ ہوئے کہ خوشی اور اللہ تعالیٰ نے نائیجیریا میں بسنے والوں کو ضرورت مسرت کے لمحات تکالیف سے زیادہ ہیں ۲۶۹ کی ہر چیز دی تھی لیکن عیسائیت نے ان سے عید کے ساتھ تکلیف بہر حال لازم لگی ہوئی ہے ۲۷۰ چھین لی عیسائی ۲۳۱،۲۱۰،۲۰۲،۱۶، ۲۷۶،۲۵۷ عیسائی دنیا میں ہمیں ایک آدمی بھی نہیں ۵۲۵،۴۷۷ ، ۴۵۹ ،۴۰۸ ،۳۷۰،۲۷۸ ۶۶۳،۶۶۲۶۲۰،۵۵۹،۵۵۶ دکھایا جا سکتا جس کا تعلق خدا سے ہو عیسائی حکومتوں نے اسلام کے مقابلے میں مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور اور عیسائیت کے حق میں دل کھول کر خرچ کیا ۱۵۹ اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا عیسائی حکومتوں نے اسلام کے خلاف عیسائیت.پادری نہایت جھوٹا اور اشتعال انگیز پروپیگینڈا اللہ تعالیٰ نے ان کے سوالات کے ایسے جوابات ۱۵۹ مجھے سکھائے کہ وہ ساکت ہو جاتے تھے اور اپنے ساری دنیا میں کیا عیسائی حکومتوں نے پادریوں کی سیاسی میدانوں سوالوں کو آگے نہیں چلا سکتے تھے میں بھی مدد کی اور پیسہ سے بھی ان کی مدد کی ہر قسم کا دجل عیسائیت نے استعمال کیا میں حضرت مسیح موعود کے نمائندہ اور خلیفہ ہونے کی حیثیت میں تمہارے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں ۱۵۹ 171 ۲۱۵ غ غرباء اسلام نے کہا کہ غریب کا حق دو اور تم نے احسان نہیں لینا شکر یہ بھی وصول نہیں کرنا ۴۵۵ کم از کم وہ تو دے دو جو ہما را کم سے کم معیار پیٹ عیسائیوں کے پاس سورۃ فاتحہ کے مقابلہ ۳۵۲ بھرنے کا ہے اس سے زیادہ بھوکا تو نہ رکھو ۴۵۵ کے لئے کچھ نہیں ہے جو متکبر دماغ تثلیث کا نمائندہ بن کر میرے ہر خاندان حضرت نبی کریم عہ کے اس ارشاد سامنے اکڑا تھا، اسے توحید کے سامنے جھکنا پڑا ۴۴۴ کی روشنی میں ایک شخص کا کھانا نکال سکتا ہے ۴۵۷
۴۲ ہمارے امیر گھرانوں میں تو ایک کا کھانا دو غلبہ اسلام کے لئے جس قدر مادی ذرائع اور کیلئے اور دو کا چار کے لئے پورا ہوسکتا ہے غذا غذا کی ضرورت اس لئے ہے کہ اس سے ۴۵۷ اثر ورسوخ کی ضرورت ہے ہمارے پاس اس کا کروڑواں ار بواں حصہ بھی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ اسلام صحت مند جسموں میں صحت مند دماغ اور کی آخری جنگ حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے ہمت والی روح قائم رہ سکتے ہیں غلبہ اسلام آئندہ بچھپیں تمھیں سال کے اندر دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی روحانی انقلاب کو روک نہیں سکتیں ۱۹۴ ۷۵ عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ جیتی جائے گی جب شیطان کی ڈھیل کا زمانہ ختم ہو رہا ہے ہم اس آخری زمانہ میں داخل ہورہے ہیں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ شیطانی طاقتوں اور ۶۰۸ ۶۱۲ ۶۲۱ ۶۲۱ اندھیروں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں اب اسلام کے آخری اور کامل غلبہ میں کوئی میں آچکا ۲۷۱ شک باقی نہیں رہا اللہ تعالیٰ ہم ناچیز بندوں کو اپنا ہتھیار بنالے ہمارے خدا نے ہمارے اندر ایک آگ لگا اور ہمارے ذریعہ سے دنیا کی انسانیت میں رکھی ہے کہ ہم نے اسلام کو مادی دنیا پر ۴۲۹ غالب کرنا ہے انقلاب عظیم بپا کرے خدا کرے کہ جب غلبہ اسلام کا یہ سورج سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام نصف النہار تک پہنچے تو اللہ تعالیٰ اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور صدیوں اسے وہیں رہنے دے مہدی معہود کے زمانہ میں آپ کی جماعت ۵۲۴ نہ کوئی مصنوعی خدا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کی پیشگوئی کو سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا پورا کرے گا ۵۰۰ آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہوگا روحانی سورج جب اپنے سفر میں آسمان اب وہ دن نزدیک ہیں کہ سچائی کا آفتاب کے بلند تر مقام پر پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو ۵۲۴ بچے خدا کا پتہ لگے گا برکت سے وہاں ٹھہرتا ہے ۶۴۷ ۶۷۷ ۶۷۹ ۶۷۹ ۶۷۹ ۶۷۹
۴۳ غیر مبائعين غیر مبائعین کو حضرت اقدس کی کتاب ایک غلطی کا ازالہ کے مطابق فیصلہ کی دعوت ۹۲ غیر مبایعین قادیان چھوڑتے وقت خزانہ خالی چھوڑ کر گئے ۹۴ قرآن پبلیکیشنز ق قربانی تم اپنے اعمال قربانیوں اور اپنی جدو جہد پر جس وقت کوئی ملک پورا احمدی ہو گیا تو وہ غیر مبایعین پر چڑھنے والا ہر دن انہیں تنزل تکیہ نہ کرو کے گڑھوں کی طرف لے کر گیا ۹۴ غیر مبایعین نے دعویٰ کیا تھا کہ قادیان کے تعلیمی اداروں پر عیسائیت کا قبضہ ہوگا ہمارے غیر مبائعین دوست ہیں انہوں نے مہدی کو پایا مگر اس کی عظمت کو نہیں پہچانا فراست ۹۴ کہے گا کہ نظام ہمارے ہاتھ میں دو یا ہمارے مقابلہ میں قربانیاں دو قربانی وہی ہے جو موت تک کی جاتی ہے مرکزی جماعتوں کا قربانیوں کا معیار بہر حال دوسری جماعتوں سے بڑھ کر رہنا چاہیئے عقل دینا اور فراست دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۱۲۶ دینا فضل عمر فاؤنڈیشن ۳۴ تا ۱۲۹،۱۲۸،۳۷ جماعت کے نظام کے سامنے پیش کر دیں رضا کارانہ طور پر ہر قربانی خدا تعالیٰ کی اس برگزیدہ ۹۱ ۱۰۳ ۱۱۴ ۲۵۳ ۱۹۵، ۲۸۵،۱۹۷ تا ۳۶۳،۲۸۷ تا ۳۸۳،۳۶۶ ہمیں انتہائی قربانی دینی پڑے گی اور ان قربانیوں ۴۶۶ ، ۴۶۷ ، ۴۷۰ ، ۵۴۵،۵۰۷ تا ۵۶۲،۴۵۸ ۵۶۵،۵۶۴ ۶۲۲ تا ۶۲۴ ۶۷۴ کی بنیا د رضا کارانہ خدمت پر ہونی چاہیئے حضرت لمصلح الموعودؓ کے احسانوں کی یاد قلمی دوستی میں اس کی بنیا درکھی گئی تھی ۱۹۵ قلمی دوستی سے بھی ساری دنیا کو امت واحدہ فضل عمر فاؤنڈیشن پاکستان سے ۲۵ لاکھ کی بنانے میں بڑی مدد ملے گی ہم ایک دوسرے تحریک تھی لیکن ستائیس لاکھ ہو گئے ۴۶۸ کو قریب سے جانے لگیں گے قناعت فضل عمر فاؤنڈیشن اس خیال کے اوپر تازیانہ صرف ضرورت پوری کرنے کی عادت ہونی چاہیئے تھا جو کہتے تھے کہ اب جماعت مر جائے گی فضل عمر فاؤنڈیشن صدر ۴۶۸ جسم کو اتنا کھانے کو دینا چاہیئے کہ وہ اپنے پر ۱۲۸ چربی نہ چڑھائے اور صحت قائم رکھے ۲۵۳ ۶۷۳ ۱۹۳ ۱۹۳
۳۰۷ ۳۰۷ ۳۰۷ ۳۹۱ ۴۴ قناعت سے بڑی دولت کوئی نہیں اور حرص سے زیادہ کوئی غربت نہیں اللہ تعالیٰ نے ان آسمانوں اور زمین کو ایک ۲۹۶ خاص مقصد کے لئے اور ایک مقررہ وقت اللہ تعالیٰ یا تو آپ کو زیادہ دے گا یا اس کے لئے پیدا کیا ہے تھوڑے میں تمہارے لئے زیادہ برکت بے شمار سورج ہمارے نظام شمسی کی طرح ۲۹۸ اس عالمین میں پائے جاتے ہیں ڈال دے گا جو حقیقی طور پر احمدی اور مسلمان ہے اس کے دل چاند اور سورج کی روشنی ہماری فصلوں پر میں قناعت کے خزانے لا کر رکھ دیئے گئے ہیں ۳۰۱ اثر انداز ہوتی ہے قوت فیصلہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ہر چیز کو انسان اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط کو قوت فیصلہ اور کی خدمت پر لگایا ہے علم روحانی عطا کیا تھا کوئی فیصلہ نفس کے جوش سے نہیں کرنا چاہیئے بلا مقصد اور بلا غرض پیدا نہیں کیا گیا ۴۱۳ اس ساری کائنات کو ایک کھیل کے طور پر ہر فیصلہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور اسلامی تعلیم کے دنیا کی ہر شے چیونٹی سے لے کر ستاروں ۳۹۲ ۳۹۲ ۳۹۷ مطابق ہونا چاہیئے ک کارکنان کے خاندانوں تک کی پیدائش با مقصد ہے مجموعی طور پر تمام اشیاء اور کائنات کی پیدائش کے پیچھے ایک مقصد ہے ہم اتنی گندم کارکنان کے گھر میں دے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو انسان کی بہبود اور دیتے ہیں کہ وہ گھر آٹے کے لحاظ سے سارے سال کا کفیل ہو جاتا ہے کالج کا لج تعلیم الاسلام کالج گورنمنٹ لاہور کائنات پیدائش عالمین ۴۵۵ ۳۵۵ ۴۴۹ فائدہ پہنچانے کے لئے مسخر کر دیا ہے گلیکسی میں بے شمار سورج اور ان کے گرد جو ستارے ہیں وہ ستاروں کا ایک خاندان بنتا ہے اور اس عالمین میں ایسے بے شمار خاندان ہیں جب دو گلیکسیز کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے تو اللہ تعالی گن کہتا ہے اور ایک نئی گلیکسی پیدا ان عالمین کی پیدائش بلا وجہ اور بغیر مقصد ہو جاتی ہے کے نہیں ۳۰۵ كتب ان عالمین میں بنیادی طور پر تدریجی ترقی کا ضروری کتب کی اشاعت زیادہ سے زیادہ اصول قائم کیا گیا ہے ہونی چاہیئے ۲۹۱ 호
۴۵ چودہ سو سال کی کتب کے مقابلے میں اس کمیونزم نے جہاں اپنا اثر رسوخ پیدا کیا زمانہ میں شاید ایک ماہ میں ان سے زیادہ وہاں ہمیں مسکراہٹ نظر نہیں آئی کتب شائع ہو جاتی ہیں ۴۴۱ کتب کی کثرت اشاعت سے مراد یہ ہے گھوڑا پال سکیم گ کہ نئے سے نئے علوم نکلیں گے ۴۴۱ ۴۴۲ گھوڑوں اور ان کی افزائش نسل کی طرف غیروں کی کتب بھی پڑھنی چاہئیں ورنہ آپ کو توجہ کرنے کی تحریک کیسے پتہ لگے گا کہ دوسرے علوم کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کا خادم بنایا ہے کر صلیب ل ہر جگہ لائبریری قائم کرنا بہت ضروری ہے ۴۵۰ لائبریری سر صلیب سے مراد نصاری کے جھوٹ اور میرے نزدیک ایک کمرے کی دیوار سے بطلان کا اظہار ہے کسوف و خسوف ۴۷۹ لائبریری کا کام لیا جا سکتا ہے جماعتیں کوشش کر کے اپنی اپنی جگہ لائبریریاں سورج اور چاند گرہن کے بارہ میں پیشگوئی ۱۷۲ تا ۱۷۵ قائم کریں کلمہ طیبہ - لا اله الا الله محمد رسول الله خلافت لائبریری.ربوہ کمیونزم ۶۷۶،۶۳۷ ،۴۲۹ ،۳۷۶،۲۷۳،۱۸۴ کمیونزم کی کتابوں میں کہیں بھی Needs کی تعریف نظر نہیں آئی ماسکو میں کسی ایک شخص کی جسمانی حالت ایسی نظر نہیں آئی جس سے معلوم ہو کہ انہیں پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہے ۴۹۳ ۵۴۷ ۲۹۱ ۲۹۱ ۲۹۷ ،۱۹۸ ،۱۹۷ ۲۸۸ تا ۳۶۶،۲۹۱، ۶۲۳،۶۲۲،۵۴۶،۴۷۰ ۲۰۴ لیگ آف نیشنز ۴۹۱ ۴۹۲ مبلغین ان کی تیاری میں بڑا وقت اور محنت درکار ہوتی ہے وہ پوری طرح تعلیم حاصل کر کے تبلیغ و تربیت کے میدان میں اترتے ہیں ماسکو میں کسی ایک کے چہرے پر مسکراہٹ مبلغ کے لئے دعا.اپنے رب پر تو کل اور کبر وغرور سے فقدان کی ضرورت ہے ساری عمر رو کر ہی گزارنی ہے تو پھر اگر ان لوگوں نے خلیفہ وقت کی آواز لوگوں نہیں دیکھی اشتراکیت کا ہمیں کیا فائدہ ۴۹۲ ۴۹۲ تک نہیں پہنچانی تو اور کون پہنچائے گا ۶۷۰ ۱۸ ۱۸ LL 1+1
۴۶ امراء اضلاع اور مربیان کی یہ ذمہ داری ہے مجالس موصیان کے قیام کی ذمہ داری امراء اضلاع کہ وہ تمام معلومات جماعتوں تک پہنچائیں ۱۱۳ اور مربیان اضلاع پر ہے اگر آپ ضلع کے مربی ہیں ضلع کی ساری جماعتوں مجالس موصیان موصوں میں تقویٰ کے بلند کی ذمہ داری آپ کو اٹھانی پڑے گی 112 معیار کو قائم کرنے کی کوشش کریں ہمارے پاس سینکڑوں تعلیم یافتہ مبلغ ہونے چاہئیں مجالس موصیان ہر وقت چوکس اور بیداری ۳۷۳ سے جائزہ لیتی رہیں کہ کوئی موصی تقوی کے اس کے بغیر آج ہمارا گزارہ ہی نہیں ہے انڈونیشیا جماعت کا مطالبہ ہے کہ کم از کم دس مبلغ فوری بھجوائیں بلند مقام سے نہ گرے مجلس موصیان کی ذمہ داری ہے کہ ہر گھر میں بعض مخلص اور فدائی مبلغین اتنے پیارے ہر بچہ ہر بڑا مرد اور عورت قرآن کریم سیکھے ہوتے ہیں کہ دل کرتا ہے کہ آدمی ان پر مجلس موصیان وقف عارضی کی سکیم اور منصوبہ کو زیادہ سے زیادہ کامیاب کرنے کی کوشش کریں قربان ہی ہو جائے جماعت کو عقل وفراست والی پاکیزہ روحیں مجلس موصیان نگرانی کریں کہ جماعت اپنی ۳۷۵ ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۵ چاہئیں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پاکیزہ بنادے طاقت اور استعداد کے مطابق وقف عارضی ایک مبلغ کو تو ساری کتابیں کم از کم تین دفعہ میں حصہ لے پڑھی ہونی چاہئیں دشمن اسلام کا منہ بند کرنے والے ہوں اور اپنے مجدد ۱۲۵ جس قسم کا مجدد یا مصلح یا ولی اللہ تھا اس کی نور فراست سے دنیا پر غالب آنے والے ہوں ۶۸۱ تقریر وتحریر میں ہمیں اسی قسم کا مواد ملتا ہے اللہ تعالیٰ ان کا رہبر، ان کا معلم ہو.ان برکتوں کا اظہار ان کی زبانیں اور قلمیں کریں مجالس موصیاں ۶۸۱ مجلس مشاورت رشوری محبت ۵۳۵ ۱۲۸،۱۰ ۶۷۸،۶۶۲۶۶۱،۵۴۴ ، ۵۴۲،۵۴۱ تعلیم القرآن، وقف عارضی اور موصیوں کا انتظام اللہ تعالیٰ کا بندہ صلح کو قائم کرتا اور محبت اور پیار ۱۲۲ سے محبت اور پیار کے فیصلوں کی طرف بلاتا ہے ۱۴۵ دراصل ایک ہی نظام کے تین پہلو ہیں مستورات موصیات الگ تنظیم قائم کریں گی اور محبت حسن یا احسان کی وجہ سے ہوتی ہے ۱۲۳ انسانی تاریخ میں یہ وقوعہ ہم نے کبھی نہیں ۱۲۳ دیکھا کہ نفرت محبت کے مقابلہ میں جیتی ہو ان کی صدر مجلس موصیان کی نائب صدر ہوگی مجلس موصیان ہر جماعت میں قائم ہونی چاہیئے ۲۲۷ ۴۵۹
۴۷ مخالفین سلسله اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو محمد علیہ کے سایہ تلے آجاؤ ورنہ تباہ ہو جاؤ گے جنت کی طرف روح مسابقت کے ساتھ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے بڑھتے چلے جاؤ ۲۱۰ مسابقت کی روح پیدا کرنے کے لئے ذیلی تم کہتے ہو مرزائیوں کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگاؤ.تنظیموں کو قائم کیا گیا ہے بڑاز بر دست حملہ ہو گا ۶۰۶ ۶۴۸ روح مسابقت انگلی نسل کے اندر پیدا کرنی چاہیئے ۲۴۶ ۲۴۶ ۲۴۶ ۲۴۶ تم ہاتھ لگاؤ تم پڑھو تم ہماری غلطیاں نکالو نوع انسانی کی زندگی میں ایک ایسا زمانہ اور اس کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے آنے والا ہے جس میں شیطانی طاقتوں کا ہماری جماعت میں مسابقت قائم رہنی چاہیئے ۲۴۶ یہ نہیں کہ وہ یہ انعام نہ پائیں وہ بھی پائیں شیطانی طاقتیں اپنے قید خانہ سے نکلیں گی اور لیکن ہم ان سے زیادہ پائیں ہر ایک کے ۶۴۹ اندر یہ روح ہونی چاہیئے دجال کا دجل ساری دنیا میں پھیل جائے گا یہ آخری جنگ ہوگی جس کے بعد شیطانی قرآن کریم کے احکام پر عمل کرتے ہوئے طاقتوں کو ہمیشہ کے لئے اسلام کی روحانی روح، مسابقت کا مظاہرہ کرو تو تم جنت پالو گے ۲۴۷ طاقت مغلوب کرے گی ایک کم سے کم معیار پر ہر احمدی فرد اور ہر احمدی جماعت اور ہر احمدی ملک کو لے کر آنا اللہ تعالیٰ آسمان سے کوئی روحانی منصوبہ تیار کر کے زمین پر بھیجے گا جو ان شیطانی ہے.پھر ان کا آپس میں مقابلہ کروانا ہے طاقتوں کا مقابلہ کرے گا ۶۴۹ ۶۴۹ مساجد ہم مذہب کو کھیل نہیں سمجھتے اور نہ دشمن کے مساجد انسانی معاشرہ کے اندر بڑا ضروری اعتراض کی کوئی پرواہ کرتے ہیں مدرسہ احمدیہ قادیان مسابقت ایک دوسرے سے مسابقت اختیار کرو پھر جو 722 ۶۱۸ کردارادا کرتی ہیں مسجد اقصیٰ مسجد مبارک ربوه مسجد ڈنمارک ڈنمارک میں کوپن ہیگن کی مسجد مکمل ہو چکی ہے جتنا حق ایک غریب بچے کو ترقی کا ہے اتنا ہی خامی رہ جائے اس کی تمہیں کوئی فکر اور غم مساوات نہیں کرنا چاہیئے ۲۴۵ تم خیرات کے تعلق میں روح مسابقت کو حق ایک امیر گھرانے میں پیدا ہونے اپنا صح نظر بناؤ ۲۴۶ " والے ذہین بچے کا ہے ۲۴۸ บ ۳۶۶ ۳۶۸ 1+1 ۵۴۶ ۵۰۱
۴۸ مسکراہٹ پریشانیوں کو اٹھاؤ اللہ کے سامنے کیونکہ کوئی شخص موت سے زندگی کے مقابلہ میں دوسروں کے سامنے تو ہم مسکراتے رہتے زیادہ پیار نہیں کرسکتا ہیں ہماری مسکراہٹیں کوئی نہیں چھین سکتا ۴۶۲ مومن جس کو اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہو اس کے جب اللہ تعالٰی مومنوں کی مدد کرتا ہے تو ۴۹۳ زمین میں ان کے حاسد پیدا کر دیتا ہے چہرے سے مسکراہٹ کون چھین سکتا ہے دوستوں کو ہر ایک سے مسکراتے چہرے کے مومن غیر اللہ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ وہ ساتھ ملنا چاہیئے مسلمان پڑھے لکھے مسلمان بھی عیسائیت کے رعب میں آگئے تھے آپ پہلے حنفی مسلمان تھے اب تم حنفی احمدی مسلمان بن جاؤ گے مقابلہ ہر شخص مقابلہ کے میدان میں آئے تبھی تو پتہ لگے گا کہ کون آگے نکلتا ہے ملائكة الله ۵۸۵ 171 ۵۵۳ ۲۴۸ ہماری ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہیں مومن کی زندگی کا ہر لحظہ اورلمحہ بڑا قیمتی ہوتا ہے مومن خدا کی راہ میں اپنے اموال خرچ کر کے ایسی تجارت کرتے ہیں جس میں نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں ن نجات خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر تم پر نجات کی راہ ہر گز نہیں کھل سکتی حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے ۴۸۹ ۲۹ ۲۵۴ ۲۵۹ ۵۶۳ کھولیں اور باقی سب اس کا ظل تھے ملائکہ اور ان کی قوتیں بھی انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں ۳۰۸ ناصرات الاحمدیہ (دیکھئے عنوان ذیلی تنظیمیں ) آسمان کے دروازے بند نہیں کئے جاسکتے نہ نصرت الہی آسمان کے فرشتوں کے نزول پر کوئی پابندی جب انسان اپنے اوپر موت وارد کر لیتا ہے تو ۱۳۹ ۳۷۸ اس وقت اللہ تعالیٰ کی معجزانہ نصرت ملتی ہے نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم ۶۴۴ ،۵۶۱،۵۵۸،۵۱۳،۵۱۲،۵۰۷ ، ۴۴ ۲۵۰ لگائی جاسکتی ہے مواخات مدینہ میں مواخات
۴۹ نصرت جہاں ریزروفنڈ ۴۶۷ تا ۴۶۹، ۵۰۸،۵۰۷ واقفین زندگی غریب نہیں بلکہ دنیا داروں کی نسبت ۵۶۲،۵۴۵،۵۴۴،۵۱۱ تا ۶۳۹،۵۹۷،۵۶۴ اپنے نتیجہ کے لحاظ سے کہیں زیادہ بہتر ہیں نظام جماعت ۶۶۰،۶۴۲ وسوسه چند دن کی زندگی ہے عیش کر لو یہ بھی ایک جماعتی نظام صدرانجمن احمد یہ تحریک جدید شیطانی وسوسہ نفس امارہ کے ذریعہ ہوتا ہے ۲۰ یورپ کا فلسفہ اور یورپ کا تمدن ہر دو شیطانی اور وقف جدید کے مجموعہ کا نام ہے نظام کسی وسو سے پیدا کرتے ہیں لکھوکھہا سال گزار کے نظام نشسی موجودہ شیطان کے وسوسوں اور شیطانی دباؤ کے محاذ ۳۰۵ پر ہم نے مجاہدہ کرنا ہے اور اپنی کوشش کو انتہا حالت کو پہنچا تک پہنچانا ہے انسان کا نفس اس کو بُری باتوں یا غفلتوں یا وقف جدید کوتاہیوں کی طرف مائل کرتا ہے نیشنلزم ۲۴۴ ۱۱۲ ۲۳۹ ۲۴۳ ۲۴۴ ۷۷ ،۳۴،۲۰،۱۹ ،۱۷ ،۱۳ ۳۸۵،۳۸۳،۳۸۲،۳۸۰،۲۹۳،۲۹۲،۲۵۲ ۶۳۳،۵۴۴،۵۴۲،۵۴۰ ، ۴۶۵ ، ۴۵۵ وقف جدید انجمن احمدیہ میں ابھی پھیلاؤ اور دین کے معاملہ میں نیشنلزم کا کوئی سوال ہی وسعت کی بڑی گنجائش ہے پیدا نہیں ہوتا وصیت کا مالی نظام جاری کرنے کی وجہ ۶۷۱ احمدی بچے اور بچیاں وقف جدید کا سارا ۱۲ بوجھ اٹھا لیں ماؤں کی طرف سے وقف جدید اطفال کی تحریک پر والہانہ شرکت وقف بعد ریٹائر منٹ کی تحریک ۱۲۶۰۷۶ تا ۱۲۸ وقف جدید کے نئے سال کا آغاز معلمین ۳۸۲ ، ۴۷۱ وقف جدید واقفین بعد ریٹائر منٹ کے لئے تربیتی نصاب ہمیں ساٹھ ستر، اتنی ہزار معلموں کی کا تعین وقف زندگی وقف زندگی کی لذت کے مقابلہ میں دنیا کی تمام لذتیں اور سرور بیچ ہیں ۱۲۷ ضرورت ہے وقف جدید معلمین اور ان کے خرچ برداشت کرنے کے لئے آپ کی ضرورت ہے اہل اور قابل معلم وقف جدید کے نظام کے ۱۲ لئے جلد سے جلد مہیا کریں ۱۹ ۱۱۵ 117 19 ۱۱۵ ۳۹۱
۱۹۲ ۱۹۴ ۲۹۳ ۶۷۵ نو جوانوں کو زیادہ سے زیادہ وقف کرنا چاہیئے ۵۴۱ وقف عارضی کی تحریک کے تحت قرآن کریم وقف عارضی ۱۱۸ ۱۲۰ تا۲۹۳۷۱۹۴،۱۹۲،۱۹۱،۱۲۴،۱۲۲، کے پڑھانے کی سکیم کو چلایا جاتا ہے ۴۷۲،۴۷۱،۳۸۲،۲۹۴ ، ۵۴۸ تا ۶۳۲۶۳۱،۵۵۰ تربیت کے لحاظ سے وقف عارضی کا منصوبہ تحریک وقف عارضی کا مجالس موصیان اور بڑا ہی اہم ہے قرآن کریم سیکھنے سکھانے کی تحریک کا بڑا سات ہزار واقفین عارضی میدان تربیت گہرا تعلق ہے ۱۱۸ میں لا کھڑا کریں گے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بڑے ہی ویڈیو اچھے نتائج نکل چکے ہیں اور نکل رہے ہیں 119 Movies پروجیکٹر پر دکھائیں آپ کو پتہ وقف عارضی کا وفد دو احمدی بھائیوں پر لگے کہ احمدیت کتنی ترقی کر رہی ہے مشتمل ہوتا ہے ۱۲۰ کم از کم پانچ ہزار دوست وقف عارضی میں وحی اپنے آپ کو پیش کریں ۱۲۰ یہ کہنا کہ وحی کا دروازہ بند ہے خدا نے اب وقف عارضی کے وفود نے ہمیں پہلا بڑا بولنا بند کر دیا ہے بالکل غلط ہے ۴۱۰،۴۰۹ ،۲۰۳ ۶۶۷،۵۲۵،۴۷۷ ، ۴۵۹ ہندو ۱۲۱ فائدہ یہ پہنچایا کہ نہ امیر ضلع نہ مربی بعض جماعتوں کے صحیح حالات ہمیں پہنچاتے تھے تعلیم القرآن ، وقف عارضی اور موصیوں کا انتظام دراصل ایک ہی نظام کے تین پہلو ہیں وقف عارضی کی ساری تحریک میں جماعت کے بیت المال پر ایک دھیلہ کا بوجھ نہیں ڈالا گیا تحریک وقف عارضی کے واقفین تمام خرچ خود برداشت کرتے ہیں وقف کی تحریک بڑی برکتوں والی ہے ۱۲۲ ۱۲۲ ۱۲۲ ۱۲۳ اگلے آٹھ دس سال میں پاکستان میں موجود ہندو اچھوتوں کی اکثریت اسلام قبول کر چکی ہوگی ۶۳۴ ہیرا جب کان سے ہیرا نکالتے ہیں تو اسے کب فروخت کے لئے بھیجتے ہیں.جب تک اس تعلیم القرآن میں ہماری بچیاں زیادہ شوق کو پالش نہ کر لیں کٹ نہ کر لیں سے حصہ لے رہی ہیں پانچ ہزار تو کیا اگر ہم چاہیں تو دس پندرہ ہزار ۱۲۵ ۵۵۶،۵۲۵،۴۵۹،۴۵۸ ،۴۰۹ یہودی ۱۲۵ واقفین عارضی ہمیں مل سکتے ہیں
۳۱۸ ۲۳۸،۲۳۷ ۱۲۸ ۴۱۳ ۴۱۳ ۵۱ اسماء ابوالقاسم ابی بن کعب احمد جان چوہدری امیر جماعت را ولپنڈی اسحق علیہ السلام حضرت آپ پر دروغ گوئی کا الزام لگایا گیا تھا ۳۲۴،۳۲۰،۳۱۹،۳۹ آیا آدم علیہ السلام.حضرت ۳۳۴،۳۳۱،۳۳۰،۳۲۸،۳۲۷ ،۳۲۶،۳۲۵ ۴۰۲،۴۰۰،۳۹۵،۳۹۳،۳۴۱،۳۴۰،۳۳۹ ،۳۳۵ ۶۶۸،۶۲۰،۴۹۸،۴۲۵ ، ۴۲۲،۴۲۱ ،۴۱۱ ،۴۰۷ آپ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبودیت میں ابراہیم علیہ السلام.حضرت ۱۳۹، ۳۲۱،۳۱۹، ۳۲۸ زندگی گزارنے والے تھے ۳۹۹،۳۴۲،۳۳۶،۳۳۵ تا ۴۰۹،۴۰۲ اسد اللہ کاشمیری مولانا ۵۷۷ ، ۴۲۵ ،۴۱۲ امة الحفیظ بیگم حضرت سیدہ نواب خدا تعالیٰ کی تجلی نے آگ کو ٹھنڈک اور روح کا سکون بنا دیا تھا آپ کو تو زندگی میں ایک بار آگ میں پھینکا گیا آپ بھی بعض صفات باری تعالیٰ کے مظہر بنے تھے تمام صفات کے نہیں ابوالعطاء جالندھری.حضرت مولانا ۱۳۹ ۱۳۹ ۳۹۳ ۵۵۰،۱۹۷ ،۹۹ ،۹۰۸ ۴۳ ۴۲ ۴۱ ۳۲۸ ،۳۲۱،۳۱۹ ابوبکر صدیق.حضرت آپ نے اپنی زندگی کا ہرلح محمد ﷺ پر قربان کیا ۴۱ امری عبیدی شیخ احمدیت کے شیدائی اور فدائی ام متین مریم صدیقہ حضرت سیدہ امیر خسرو اندر من مراد آبادی منشی انس حضرت انور احمد کاہلوں چوہدری پنجل ۴۱۳ ۶۲۲ ۸۳ ۶۳ 34 ۱۹۸ ،۱۹۷ ۳۲۲ ۴۶ ۲۳۷ ۱۲۸،۳۷ ۴۹۱ ۳۱۸ ۶۲۲ ۶۲۱،۹۸ بالی آفندی شیخ ۲۳۲۲۳۱ ابو خیمہ حضرت ابو طلحہ حضرت ۲۳۷، ۲۳۸ برکت اللہ قاضی ڈاکٹر ۲۳۸،۲۳۷ بشیر احمد حضرت مرزا قمر الانبیاء ابو عبیدہ بن الجراح حضرت
۵۲ 1+9 مجھے قرآن کریم کے علوم کی کنجی مل چکی ہے ۵۶،۵۵ بشیر احمد آرچرڈ مبلغ سکاٹ لینڈ بشیر احمد خان رفیق امام بیت الفضل لنڈن ۲۰۸ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا حقیقی مصداق ہوں ۵۶ ۵۷ بشیر الدین محمود احمد.حضرت مرزا اسلام اور احمدیت کا جھنڈا انتہائی بلندیوں پر اڑتا ہوا دکھائی دینے کی پیشگوئی المصلح الموعود خلیفه امسیح الثانی آپ کے ذریعہ کلام اللہ کا مرتبہ اقوام عالم پر ۹،۷،۵،۳،۱ ۴۷ ،۴۶،۴۵ ،۴۳،۳۵،۳۴،۲۹،۲۰،۱۷ ،۱۶ ،۱۰ ۷۵،۷۳ ۷۲ ۷۱،۶۹ ،۶۴،۶۱،۵۳،۵۰،۴۸ ۱۳۳،۱۲۹،۱۰۶،۱۰۵،۱۰۳،۱۰۲،۹۶،۹۵،۹۱،۸۰ ۳۵۶،۲۹۳،۲۸۶،۲۸۲،۱۹ ۷ ، ۱۹۵ ،۱۵۵،۱۵۴ ظاہر ہونا آپ نے اپنے عہد مبارک میں چھیالیس بیرونی ممالک میں مشن قائم کئے ۴۴۶،۳۸۰،۳۷۱،۳۶۹،۳۶۵،۳۶۳، ۴۴۷ آپ کے عہد مبارک میں بیرونی ممالک ۴۶۶،۴۶۵، ۵۳۷،۵۰۳،۴۷۰،۴۶۷، ۵۳۸ میں ۳۲۱ مساجد تعمیر ہوئیں ۶۱،۶۰،۵۹ مبلغین ۵۴۸،۵۴۵ ۶۲۲،۶۰۶،۶۰۵،۵۵۴،۵۵۲ آپ کے عہد مبارک میں ایک سو چونسٹھ مبا ۶۲۳، ۶۲۷، ۶۲۸، ۶۴۷ ۶۶۰۰ نے بیرون ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کیا آپ کا دماغ ہر وقت جماعتی ترقی اور آپ کے رویا وکشوف کی تعداد کم و بیش پانچ سو اشاعت اسلام کی تدابیر سوچتا تھا اور الہامات کی تعداد ۸۸ ہے خدا شاہد ہے کہ پسر موعود کے شامل حال آپ کی بعض پیشگوئیاں ایک عظیم الشان نور تھا پیشگوئی مصلح موعود ۳۳ جو میرے بعد ہوگا وہ بھی آدمی ہوگا جس کے زمانہ میں فتوحات ہوں گی یہ صرف پیشگوئی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان بچپن سے خواہش تھی کہ اسلام کا جو کام بھی نشان آسمانی ہے ۱۵۵،۴۶ ۱۵۶ ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق ۴۵ تا ۴۹ قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ گزرے گا جس مصلح موعود کی بنیادی صفت اور خاصیت ۵۰ میں میرے شاگرد نہ ہوں گے نور آتا ہے نور کی تشریح علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا ۵۳۵۲ اپنے آنسوؤں اور خون سے سینچا آپ کی ۵۲۵۱ ربوہ کی سرزمین کا ذرہ ذرہ جسے آپ نے ۵۹،۵۷ اولوالعزمی پر گواہ ہے ۶۲ ۶۲ ۶۲ ۶۴ ۶۷ ۶۹
۵۳ ہمارا دل کا حلیم محبوب زمرہ ابرار میں شامل تھا اے روز بیل آپ کے کھولے ہوئے بیرون ممالک ۹مشن روشن دین تنویر شیخ.ایڈیٹر الفضل جو بند ہوئے انہیں دوبارہ کھولا جائے گا ہم نے حسن و احسان میں مسیح موعود کے اس نظیر کے جلوے دیکھے ہیں بلی گراہم ڈاکٹر کو دعوت مقابلہ ۷۵ زین العابدین ولی اللہ شاہ حضرت سید ۳۶۴ ۱۶۴ داؤد علیہ السلام حضرت بلی گرام ڈاکٹر عیسائیت کی تبلیغ میں بڑے تیز ہیں ۱۶۴ فضیلت والے انسان تھے ۵۹۱،۴۱۹ ،۴۰۸،۳۹۴ وف ۵۳۹ ۹۷ ۴۱۴،۳۹۴،۳۳۲،۳۲۹ آپ انسانوں میں سے بھی بڑے شرف اور آپ پر یہا تہام لگا کہ وہ اور یاہ کی بیوی سبع پر عاشق ہوئے اس سے زنا کیا ۴۱۴ ۴۱۴ بنی اسرائیل ت،ث تقی الدین سبکی حضرت شیخ اے داؤد کی اولاد! شکر کرو.ایسا شکر جو محض ڈیڑھ سوکتب کے مصنف ( وفات ۱۳۴۹ھ ) ۳۱۷ زبان سے نہ ہو بلکہ عمل سے کیا جائے ثاقب زیروی (مدیر لاہور ) ج 11 داؤ د احمد سید حضرت میر دوست محمد شاہد حضرت مولانا جلال الدین سیوطی حضرت علیہ رحمہ ۳۱۷ ذوالفقار علی بھٹو جلال الدین شمس حضرت مولانا ۱۳۴ ذوالقرنین جولیس نامیز میرے صدر ۶۳ ۲۲۴ ۲۲۳ て حسین علیہ السلام حضرت امام حنظله حضرت ۲۳۲ سٹالن سراج الدین.عیسائی سعد بن ابی وقاص سیش ۴۵۲ ۲۹۷ ،۱۲۸ ،۳۳ ۶۲۱ ۶۰۴۴۶۸ ۳۶۹ ۴۹۱ 17.۴۵۳ روز رچرڈ گریو رحمت اللہ صاحب شاکر شیخ حضرت رشید الدین خلیفہ حضرت سعد بن معاذ حضرت ۲۱۹ ۲۲۰ ۲۲۱ سلمان علیہ السلام حضرت ۱۰ سلمان فارسی حضرت ۲۶۸ ۳۳۳ ۶۴۴ سنگھائے ایف ایم گورنر جنرل گیمبیا ۱۸۹،۳۴
۶۳۹ ۳۱۶،۳۱۵ ۲۶۸ ۹۸ ۵۴ سیف الرحمن ملک مفتی سلسلہ حضرت ۱۹۷، ۵۴۸ عثمان غنی حضرت شریف احمد بانی ۲۸۵ | عرباض بن ساریہ حضرت شہاب الدین سہروردی حضرت صوفی ۳۷۹،۳۱۸ اصحاب الصفہ میں سے تھے صلاح الدین ملک ایم.اے قادیان طح ظ ۳۵۶ عمرو بن معاذ حضرت عزیز الرحمن منگلا مربی سلسلہ مولانا طاہر احمد مرزا حضرت صاحبزادہ (رحمه الله ) ۶۲۵،۵۴۸ عطاء اللہ کرنل نائب صدر فضل عمر فاؤنڈیشن ۵۶۵،۱۲۸،۳۷ ۳۲۷ ،۳۲۲،۳۱۱ حضرت عیسی علیہ السلام ۴۰۸،۳۹۹،۳۹۴،۳۴۱،۳۳۵،۳۳۴،۳۳۰ ۳۵۶ ۵۱۷ ظہور احمد چوہدری ظہور احمد باجوہ چوہدری ع غ عائشہ صدیقہ حضرت عباداللہ گیانی ( مینجر الفضل) عباس حضرت عبدالرحمن مبشر فاضل مربی سلسلہ عبدالرشید غنی پروفیسر عبد السلام میڈیسن عبد الغنی خان صاحب مولوی عبدالقادر جیلانی بغداد کے نامور صوفی عبدالقادر صاحب شیخ مربی سلسله عبدالله عبدالوہاب شعرانی حضرت امام ۳۲۵ ۶۲۲ ۲۳۴ 99 ۴۴۷ ۴۳۳،۴۲۷ ، ۴۱۹ ،۴۱۸ ، ۴۱۵ ، ۴۱۴ ، ۴۱۰ ، ۴۰۹ ۶۵۶،۶۰۷ ، ۴۹۷ آپ پر تہمت لگی کی آپ بد کار اور زنا کار عورت کی اولاد ہوا اور وہ لعنتی ہوتا ہے آپ کو عنتی اور خدا سے دھتکارا ہوا کہا گیا آپ پر الزام لگا کہ وہ اپنی ماں سے بدسلوکی ۲۲۲،۲۱۹، ۲۵۵ کرنے والے تھے ۱۳۴ اللہ تعالیٰ نے آپ کی فطرت میں رکھا تھا کہ ۳۱۸ ۱۳۴ ۳۱۸ وہ اپنی والدہ سے حسن سلوک کریں آپ پر یہ تہمت لگائی گئی کہ آپ کی زندگی ملعون زندگی تھی غلام احمد برگیڈ میئر ڈاکٹر ( سولہویں صدی کے مشہور بزرگ اور قطب) ۳۱۸ غلام فرید چاچڑاں شریف حضرت خواجہ ۴۱۴ ۴۱۵ ۴۱۵ ۴۱۵ ۴۱۵ ۵۱۲ ۳۲۳ ۵۵۱ ۵۴۷ غلام مجتبی ڈاکٹر عبدالہادی کیوسی ڈاکٹر
۹۲ ۱۳۷ ۱۳۷ ۱۳۷ ۱۳۸ ۱۳۸ ۱۴۱ ۱۴۱ ۱۴۲ ۱۴۴ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی آپ کی کتب کا کم از کم تین بارضر در مطالعہ مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کرنا چاہیئے ۴۶،۴۵ ،۴۴،۳۸،۲۳،۲۲،۲۱،۲۰،۱۶،۱۳،۱۱،۱ ۷۳،۷۲،۶۹،۶۵،۶۴،۶۲،۶۱،۵۳،۵۲،۴۸ در حقیقت ہماری روح کی غذا حضور کی کتب میں پائی جاتی ہے ۷۶،۷۴، ۹۴۰۹۲۸۵،۸۴،۸۳٬۸۲،۸۱،۷۹ آپ کی تفسیر قرآن سے ہمیشہ نئے سے نئے ۱۱۵ ،۱۱۴،۱۰۹، ۱۰۸ ، ۱۰ ۷ ، ۱۰۲،۹۸ ،۹۶۰۹۵ ۱۴۷ ، ۱۴۴ ،۱۴۲،۱۴۱،۱۳۸ ،۱۳۷ ،۱۳۴،۱۲۳ ۱۶۵،۱۶۱،۱۵۹،۱۵۷ ،۱۵۴ ۱۵۳ ۱۵۲ ۱۵۱،۱۴۸ ۱۷۶،۱۷۵ ،۱۷۲ ۱۷۰ ، ۱۶۹،۱۶۸،۱۶۷ ،۱۶ ۲۱۲،۲۰۸،۲۰۴،۲۰۳،۲۰۱،۱۸۸ ،۱۸۴،۱۸۱،۱۷۷ علوم نکلتے رہتے ہیں ہم نے آپ کو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق حکم اور عدل مانا ہے آپ نے اسلام کے تمام ادیان باطلہ ۲۳۰،۲۲۶،۲۱۵، ۲۳۷، ۲۴۹،۲۴۶،۲۴۱،۲۳۸ غالب آنے کی پیشگوئی فرمائی کی پر ۲۵۶، ۲۸۴،۲۸۲،۲۶۷، ۲۸۸، ۲۹۱،۲۹۰، ۳۰۴ آپ نے ہر دل میں خدا تعالیٰ کی خالص توحید ۳۲۶،۳۲۴،۳۲۲،۳۱۹،۳۱۳،۳۱۲، ۳۲۷، ۳۲۸ کا پودا لگانے کا دعوی کیا ۳۳۷،۳۳۶،۳۳۵،۳۳۴،۳۳۳،۳۳۰،۳۲۹ ۳۵۵،۳۵۳،۳۵۱،۳۴۷ ، ۳۴۶،۳۴۵،۳۴۲ ۳۶۹،۳۶۷،۳۶۴ ،۳۶۳،۳۵۹،۳۵۸،۳۵۷ ۴۲۰،۴۰۸ ،۴۰۴ ،۴۰۳،۴۰۱،۳۹۲،۳۷۹،۳۷۸ ۴۴۴ ۴۳۶،۴۳۴ ،۴۳۳ ،۴۳۲ ،۴۳۱ ،۴۲۶ آپ نے ہر سینہ کو محمد رسول اللہ ہی اللہ کے نور سے منور کرنے کا دعویٰ کیا آپ کو ملنے والی تائیدات اور نصرتوں کا سلسلہ جاری ہے ۵۳۹،۴۸۱،۴۷۳،۴۶۴،۴۶۱،۴۶۰،۴۴۹ آپ کو اللہ تعالیٰ کی نصرتیں اور تائیدیں ملیں ۶۰۰،۵۹۶،۵۹۰،۵۷۹،۵۵۳،۵۴۰، ۶۴۷ آنحضرت عے کے بعد دنیا نے سب سے ۶۸۱۰۶۷۰،۶۶۶۶۵۶،۶۵۵ زیادہ دکھ اور تکالیف آپ کو پہنچائیں اور آپ کی کتب ہمارے لٹریچر میں بنیادی اور آپ نے اپنے وجود کو کلیۂ محمد رسول اللہ علی اللہ کی راہ میں مٹا دیا مرکزی حیثیت رکھنے والی ہیں آپ کی کتب میں قیامت تک کے مسائل للہ تعالیٰ کی نصرتیں محمد ﷺ کے بعد سب کے لئے ضروری مواد موجود ہے ۵ سے زیادہ آپ پر نازل ہوئیں آپ کی بیان فرمودہ قرآن کریم کی تفسیر وہ بندہ جسے دنیا نے دھتکار دیا تھا اور ذلیل سمجھا تھا وہ خدا تعالیٰ کا محبوب بندہ ہے آج کی تمام ضروریات کو پورا کرتی ہے
۵۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے والی تین آپ نے صلیب کو زبردست دلائل اور قسم کی نصرتیں ۱۴۴ نشانات آسمانی کے ساتھ توڑ دیا اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کے وعدے آپ کے دلائل نے عیسائی پادریوں کے قیامت تک پورے ہوتے رہیں گے ۱۴۴ دماغوں پر ایک رعب قائم کر دیا آپ کو مرنے کے لئے نہیں بلکہ زندہ رہنے خدا جانتا ہے کہ میں ہرگز کاذب نہیں مخالفین کو سات سال کے لئے صلح کی پیشکش ۱۴۴ اور زندہ رکھنے کے لئے مبعوث کیا گیا آپ کی مولوی محمد حسین بٹالوی کو مقابلہ کی دعوت ۱۴۵ آپ حضرت رسول کریم عدلیہ کے فرزند جلیل اور آپ کی محبت اور آپ کے عشق میں گم تھے ۱۴۱ اور ان کے سر براہ ہیں ۱۴۹ ۱۴۹ ،۱۴۷ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے حق میں آپ کی دعائیں 171 171 124 ۱۷۶،۱۷۵ آپ کی دعوت فیصلہ اب بھی قائم ہے اور آپ کی کتب قرآن کریم کی بہترین تفسیر ہیں جماعت احمد یہ اس کی ذمہ دار ہے جس آواز کو کہا گیا تھا کہ قادیان کی گلیوں آپ کی دعوت فیصلہ کے مخاطب تمام غیر مذاہب میں بھی بلند ہونے نہیں دی جائے گی وہ دُنیا کی فضاؤں میں گونج رہی ہے اللہ تعالیٰ نے زبردست نشان آپ کو عطا اللہ تعالیٰ نے مجھے اس غرض سے مبعوث کیا ہے کہ کئے ہیں اور بڑی برکتوں کے وعدے دیئے ہیں ۱۵۷ میں دلائل کے ساتھ اس صلیب کو توڑ دوں جس کوئی شخص آپ کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے مسیح کی ہڈیوں کو تو ڑا اور آپ کو زخمی کیا تھا ۱۵۷ ۱۸۱ ۱۸۸ ۲۰۴ ۴۸۰،۴۶۰،۲۱۳ کے قرب کو ثابت نہیں کرسکا اللہ تعالیٰ نے آسمان پر فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا کہ تیرے مقابل اسلام کو تمام ادیان عالم کے مقابلہ میں پر آ کر جو پیشگوئی کرے گا وہ نا کام ہوگا آپ کی بعثت کے ساتھ عید کا دن اسلام پر غالب کرے گا ܬܙ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام چڑھا جو قیامت تک جائے گا سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ آپ کے خلفاء کی آپ کی عربی کتب کی اشاعت کے لئے ۱۵۹ کمیٹی کے قیام کا اعلان مدد کے لئے آسمان سے اترے گا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس لئے مبعوث بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام مہدی اور مسیح کیا گیا تھا کہ آپ کسر صلیب کریں ۱۱ کے آنے کا قصہ ہی ایک فسانہ ہے ۲۵۶ ۲۷۲ ۲۸۴ ۲۹۰
۵۷ جب کوئی حدیث قرآن کریم سے ٹکرائے تو راوی آپ کی کتب میں قرآنی تفسیر کی روشنی خواہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو تم اسے رڈ کر دو میں قیامت تک کے مسائل کا آپ دنیا میں اشاعت ہدایت قرآن کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے ۳۳۴ حل پایا جاتا ہے کوئی نسل آپ کی خدمت کی قدر کرنے اور ان ۵۳۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نائب اور سے استفادہ کرنے سے بے نیاز نہیں رہ سکتی ۵۴۰ خلیفہ کی حیثیت سے میرے دل میں بھی آپ کی بعثت سے معاقبل کا زمانہ انتہائی آپ کیلئے دعا کا جوش پیدا کیا گیا ہے ۳۵۴ فتنوں کا زمانہ تھا.انتہائی دجل کا زمانہ تھا آپ نے جس زبان میں قرآن کریم کی تفسیر مہدی کو خدا نے زبر دست روحانی ہتھیار دیا کی اسی زبان میں پڑھنے کی عادت ہونے چاہیئے ۳۵۱ ہے اس لئے اسلام کو ایٹم بموں کی ضرورت شراب کے نشہ میں مست دوست کو اپنے کندھے نہیں ہے نہ تو پوں کی ضرورت ہے ۴۰۳ آپ نے ساری دنیا کی دولتوں ، طاقتوں اوران ۶۵۱ پر اٹھا کر اپنے گھر لے جانے کا عزم آپ نے بھی اپنی قوم کو کہا کہ وہ عنقریب آنے کے سارے دنیوی اثر ورسوخ اور اقتدار کوللکارا ۶۵۱ والا ہے جس کی تمہیں اتباع کرنی پڑے گی ساری دنیا اکٹھی ہوگئی مگر ساری دنیا کی طاقتیں اکٹھی آپ کو خدا نے اس لئے بھیجا کہ امت محمدیہ ۴۱۹ ہو کر بھی اس اکیلی آواز کو خاموش نہیں کر سکیں ۴۳۴ جو حضرت مسیح موعود کی کتب کو پڑھتے رہتے کو اتحاد کی لڑی میں پرو دیا جائے مجھے خدا نے حکم بنا کر بھیجا ہے تا میں اسلام ۴۶ کے اندر کفر بازی کو بند کراؤں ہیں وہ اپنے آپ کو وقف کریں اعتراض اگر امام مہدی آگئے ہیں تو ہمیں آپ نے فرمایا قرآن کریم کی جو تفسیر میں کروں وہ تمہیں ماننی پڑے گی ۴۶۴ ۶۵۲ ۶۵۲ ۶۵۳ پتہ کیوں نہیں لگا آپ کے زمانہ میں یہ پیشگوئی کہ اسلام تمام آپ نے فرمایا جن احادیث کے متعلق میں یہ کہوں ۴۷۸ کہ قابل قبول نہیں تو وہ بھی تمہیں ماننا پڑے گا ۶۵۳ ۴۸۱ ایک جماعت دے گا جو آپ کی مددگار ہوگی ۶۵۴ انسانوں کے دل جیت لے گا آپ خلق ، خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اللہ تعالیٰ آپ کو خدا رسیدہ اور مقربین کی حضرت نبی کریم اللہ سے مشابہ تھے اسلام کی خدمت جو آپ کے ذمہ لگائی گئی امت محمدیہ میں مہدی معہود کے سوا اور کسی کو یہ وہ زمانہ کے لحاظ سے آپ کی ماموریت شرف حاصل نہیں ہوا جس کو آنحضرت علی سے لے کر قیامت تک ممتد ہے ۵۳۴ نے سلام کہلوایا ہو الله ۵۴۰
۵۸ ایک بزرگ نے یہ لکھا ہے کہ مہدی پہلے سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن انبیاء سے بلند تر مقام رکھتے ہیں ۳۶۵،۲۱۸ مبارک احمد مرزا صا حبزادہ حضرت ا۱۵۵،۱۲۸،۷۲،۷ وہ اکیلا تھا اس کی آواز اپنے گھر میں بھی مبارک احمد مرزا صا حبزادہ حضرت وکیل التبشیر سنائی نہ دیتی تھی ۶۵۹ ۵۵۴،۵۴۱،۴۶۳،۳۵۵ ۸۳ خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ بشارت دی ہے کہ مبارکہ بیگم.حضرت سیدہ نواب اہل مکہ فوج در فوج اللہ کی اس جماعت میں داخل ہوں گے ۶۶۶ مجددالف ثانی حضرت ۳۲۳ آپ کا بڑا کام نوع انسانی کو امت واحدہ حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی خاتم النبین من الله ۶۶،۴۶،۴۴ ۴۳ ۴۲،۴۱،۴۰،۳۹،۳۱،۳۰،۴ ۹۶،۸۷،۸۵،۸۴،۸۳٬۸۱، ۱۲۹ تا ۱۳۴،۱۳۲ ۱۸۴،۱۷۶۰۱۷۴،۱۶۶،۱۶۰ ۱۵۹ ، ۱۴۴ ،۱۴۱ ۲۱۵،۲۱۲،۲۰۵،۲۰۴،۲۰۳،۲۰۱،۱۹۰ ،۱۸۵ ۶۶۹ ۳۷۲،۳۷۱ ۳۲۳ ۲۲۲ ۲۳۰،۲۲۷،۲۲۶،۲۲۵،۲۲۳ تا ۲۳۵، ۲۳۷ ۲۱۸ ۲۴۴، ۲۴۸ ،۲۵۰، ۲۶۳۲۶۰،۲۵۸تا۲۶۸ ۳۰۱،۲۸۴،۲۸۰،۲۷ ۷ ، ۲۷۶،۲۷۳ ۲۷۲ ۲۷۱ ۳۱۹،۳۱۶،۳۱۵،۳۱۳،۳۱۲،۳۰۵ ،۳۰۴ ۳۲۱ تا ۳۳۳،۳۳۰،۳۲۹،۳۲۶ تا ۳۳۶ ۳۴۰،۳۳۸ تا ۳۴۶،۳۴۲، ۳۵۷،۳۴۷ ۳۹۳،۳۷۹،۳۷۵،۳۵۹،۳۵۸تا۳۹۵ ۳۹۷ تا ۴۰۶ ، ۴۰۸ تا ۴۱۲، ۴۱۹ ، تا ۴۲۳،۴۲۱ ۴۳۰،۴۲۶،۴۲۵، ۴۳۳،۴۳۱ تا ۴۴۱،۴۳۶ ۴۷۵،۴۷۳،۴۶۰ ، ۴۵۸ ، ۴۵۷ ، ۴۵۰ ، ۴۴۹ ،۴۴۴ ۵۲۴،۵۰۴،۴۹۶،۴۸۳،۴۸۲،۴۸۱،۴۷۶۰ ۵۶۷،۵۵۶،۵۵۳،۵۴۰،۵۳۹،۵۳۰، ۵۷۳ تا ۵۷۵، ۵۸۱،۵۷۹،۵۷۸ تا ۵۹۰،۵۸۳ ۶۴۸،۶۰۹،۶۰۷ ،۶۰۵،۶۰۲،۵۹۸ ،۵۹۴،۵۹۳ ۶۷۶،۶۷۰،۶۶۸،۶۵۸ ،۶۵۷ ،۶۵۶۰۶۵۴۶۵۱ ۴۸۹ ۴۹۱ ۴۸۹ ۲۱۱،۲۰۹ بنانا ہے ف.قک فرانکو جنرل قاسم نانوتوی حضرت مولانا قانه قدرت اللہ صاحب سنوری حضرت مولانا ۲۵۷ ،۲۲۱،۲۱۹ ،۲۱۸ ۶۲۲ ۴۱۳،۴۱۲ ۴۹۱ قیصر کارل مارکس کسری کمال یوسف سید امام مبلغ سلسله لحم لطیف احمد قریشی لوط علیہ السلام حضرت لینن مبارک احمد شیخ مولانا حضرت
۵۹ آپ عبودیت تامہ کاملہ کے ارفع اور اعلیٰ روحانی طور پر کوئی فیض آپ کی اتباع کے مقام پر فائز تھے ۳۹ بغیر نہیں مل سکتا آپ نے خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ تکالیف اگر تم میری پیروی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے برداشت کیں کہ جن کے تصور سے رونگٹے محبت کرنے لگ جائے گا کھڑے ہوتے ہیں ۱۳۹ ہر جگہ نبی کریم نے بطور لیڈر اور بطور قائد متی زندگی میں کون سا ظلم تھا جس کا آپ آگے ہوئے نشانہ نہ بنے وہ کون سی بے عزتی تھی جو آپ جس چیز سے بھی نبی کریم ﷺ تمہیں کو دیکھنی نہ پڑی تیرہ سال تک دشمن کی جلائی ہوئی آگ میں بظاہر آپ جلائے گئے ۱۳۹ ۱۳۹ روکیں رک جاؤ کہ تقوی اسی میں ہے ۲۳۰ ۲۳۳ ۲۳۳ ۲۳۵ آپ نے فرمایا میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے ۲۴۴ آپ جو عید ہمارے لئے لے کر آئے وہ عید دنیا آپ کو آگ میں دیکھ رہی تھی اور آپ خود کو جنت میں محسوس کر رہے تھے ۱۳۹ قیامت تک چلنے والی ہے ۲۶۹ آپ کی مدنی زندگی کے دوانتہائی کٹھن اور آپ کے خلاف مکی زندگی میں تیرہ سال مخالفت کی آگ بھڑکائی گئی ۱۳۹ تکلیف دہ واقعات کا تذکرہ ۲۶۶تا۲۶۸ خلافت حقہ کا حق ادا کرنے والے انسان آپ کی تیرہ سالہ مگی زندگی کا ایک ایک لحظہ ۱۳۹ کامل محمد علے ہیں آپ کی صداقت کا گواہ ہے آپ کی روح اپنے رب کے حضور جھکی اور جس کے معرض وجود میں آنے کے لئے ۱۳۹ ساری کائنات کو پیدا کیا گیا بالکل گداز ہوگئی آپ نے جو تکالیف برداشت کیں ان کے آپ سے زیادہ کوئی کامل انسان نہیں کیونکہ ۱۳۹ آپ ہی انسان کامل ہیں تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں کسی ماں نے آنحضرت ﷺ سے افضل آپ سے زیادہ بلند اور ارفع شان رکھنے والا کوئی نبی نہیں کیونکہ آپ خاتم النبین ہیں بچہ نہیں جنا ۱۳۹ جب تک تم مجھے اسوہ نہیں بناؤ گے اللہ تعالیٰ وہ انسان کامل جس نے خلافت حقہ کا کی تائید ونصرت حاصل نہیں ہو سکے گی ۱۴۰ حق ادا کیا سب سے اعلیٰ اور ارفع اور کامل اور مکمل نمونہ آپ بلند تر مقام تک جہاں انسان اپنی روحانی ارتقاء میں پہنچ سکتا تھا وہاں پہنچے اور اسوہ محمد رسول اللہ ہی کی ذات ہے ۱۴۱ ٣٠٣ ۳۱۲ ۳۱۲ ۳۱۲ ۳۱۲ ۳۱۳
آپ پر اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے ہر قسم آپ کی شریعت صفات جلالیہ و جمالیہ دونوں کے جلوے ختم ہو گئے ۳۱۳ کی حامل تھی آپ کے اخلاق اتنے عظیم ہیں کہ اس سے ہر ایک نبی آپ کی امت میں داخل ہے زیادہ عظمت والے اخلاق انسانی دماغ آپ کے طفیل ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سوچ ہی نہیں سکتا ہمیں خدا تعالیٰ کی کسی صفت کا جو کوئی جلوہ ۳۱۳ ۳۱۳ ۳۲۴ ۳۲۴ نے اللہ تعالیٰ کا قرب اور برکات حاصل کیں ۳۴۲ آپ نے حکم دیا ہے کہ جس انسان کی نظر آتا ہے وہ آپ کے طفیل ہے اگر آپ کا وجود نہ ہوتا تو کائنات کی پیدائش فطرت اور کردار میں بال آجائے اس کو نہ ہوتی ۳۱۵ میرے لئے استعمال نہ کرنا اگر آپ کا وجود نہ ہوتا تو بنی نوع انسان کی آپ عالم قضا وقد ر کی پیدائش کا مقصود ہیں ۳۱۵ عالم قضاء قدر میں نبی کریم ﷺ کی ذات کو پیدائش نہ ہوتی اگر آپ کا وجود نہ ہوتا تو کسی نبی کی پیدائش مرکزی نقطہ بنایا گیا بھی نہ ہوتی ۳۱۵ آپ نے جو بات بھی کی ہے قرآن کریم کی برکتیں اور رحمتیں حاصل نہیں کر سکتا ۳۱۶ آپ سے علیحدہ ہو کر کوئی اللہ تعالیٰ کی نبی کریم ﷺ کی حقیقت آدم علیہ السلام سے پہلے تھی الله تفسیر ہی کی ہے حضرت رسول کریم علے بنی آدم کی تخلیق سے بھی قبل خاتم النبین تھے دراصل پیدائش خلق سے بھی پہلے آپ کی آپ ہی کے فیوض سے سارے انبیاء نے ۳۱۸ فیض حاصل کیا حقیقت موجود تھی ۳۱۸ آپ حضرت آدم سے لے کر قیامت تک اپنے وتر کی حرکت میں آپ برزخ بین اللہ آنے والی مخلوق کی طرف مبعوث کئے گئے ۳۱۹ و بین المخلوق بن گئے د تمام کائنات کا چشمہ آپ ہی کی ذات مبارک تمام مخلوق پر خدا تعالیٰ کے فضل اور ربوبیت سے پھوٹا ۳۱۹ کمالات نبوت، کمالات انسانیت، کمالات خلق کا جلوہ آپ کے طفیل ہوا ۳۱۹ آپ کی شان ختم نبوت اور حقیقت محمدیت ۳۷۵ ۳۹۳ ۳۹۳ ۳۹۳ ۳۹۵ ۳۹۵ ۴۰۳ ۴۰۴ ۴۰۵ آپ پر ختم تھے آپ نے فرمایا حضرت ابراہیم علیہ السلام میرے آپ کی شان کی وسعت اور بلندی اور گہرائی تو ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلووں کے پیرامل ہے ۴۰۸
۶۱ آپ کا افاضۂ روحانی اور افاضہ جسمانی تمام اللہ تعالیٰ اپنی عظمت اور جلال کے ساتھ ۴۰۶ آپ کے وجود اور قرآن کریم کے نور میں بنی نوع انسان کے لئے ہے کامل طور پر جلوہ فرما ہوا خدا تعالیٰ کا یہ عظیم رہبر اور راہنما اور ہادی تمہیں بلند سے بلند تر رفعتوں تک لے جاتا چلا جائے گا ۴۰۹ آپ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ پہلی کتب سماویہ کوسب تہمتوں سے بری قرار دیا نبی کریم ﷺ کا پہلی قوموں پر عظیم احسان ہے ۴۰۹ پر ایمان لانے کے ساتھ تمہیں باقی مجھ سب انبیاء پر بھی جو میرے عزیز شاگرد ہیں ایمان لانا پڑے گا ۴۰۹ آپ کی بعثت کی یہ غرض تھی کہ دنیا کی تمام اقوام اپنے پیدا کرنے والے رب کے قدموں میں جمع ہو جائیں ہر خیر اور نیکی کا منبع آپ کی ذات ہے اگر تم مجھ پر اور باقی انبیاء کی نبوتوں پر ایمان آپ کا وجود خدا تعالیٰ کا نور اور اس کا مظہر اتم تھا ۴۰۹ جو اپنے وجود میں پوری کی پوری صفات باری لے آؤ گے تو تمہیں نجات مل جائے گی آپ نے دنیا کی تمام اقوام عالم کو مخاطب کا انعکاس کر رہا تھا کر کے اعلان کیا کہ تمام انبیاء سچے اور آپ کا وجودحسن واحسان میں ایسا بے نظیر وجود برگزیدہ ہیں ۴۱۰ ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اگر تم نے میری پیروی کرنی ہے تو تمہیں ان آپ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اپنی ۴۱۰ روحانی قوت اور فیض سے حصہ دیا ۴۲۰ ۴۲۲ ۴۳۱ ۴۳۳ ۴۳۳ ۴۳۵ ۴۳۵ تمام سابقہ انبیاء کو سچا ماننا پڑے گا میری امت میں تو وہی اختلاف ہوگا جس آپ نے تمام انبیاء کے متعلق یہ اعلان کیا کہ وہ ہر قسم کی تہمتوں سے پاک ہیں آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹ بولنے کی تہمت سے بری قرار دیا ۴۱۱ ۴۱۲ کے نتیجہ میں رحمت پیدا ہوگی نبی اکرم ﷺ کی عظمت کے ہزاروں لاکھوں پہلو ہیں آپ کی بعثت کے ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا آپ ایسی شریعت لے کر آئے جو ہر لحاظ گیا کہ قلم اور دوات سے بڑی کثرت سے ۴۱۶ کتب شائع ہوں گی سے کامل مکمل اور نقائص سے پاک تھی آپ نے پہلے انبیاء سے ہی تہمتیں دور نہیں کیں انسان پر آپ کا بڑا احسان ہے اور انسان بلکہ پہلی کتابوں پر سے بھی تہمتیں دور کیں ۴۱۹ اس کے بدلہ میں درود بھیجے گا ۴۳۷ ۴۴۲ ۴۴۲ ۴۴۲
۴۸۶ ۴۹۹ ۵۲۳ ۵۲۴ ۵۷۳ ۵۷۳ ۶۲ تحقیق جو نئے سے نئے میدانوں میں کی آپ نے فرمایا اگر تم مہدی کو ملو تو اس کو میرا جائے گی اس کے نتیجہ میں آپ کی حقانیت سلام پہنچا دینا اور صداقت ثابت ہوگی ۴۴۲ آپ کی ساری زندگی کا مطالعہ کر لیں بشر وہ ابدی حیات والا زندہ نبی جس طرح چودہ ہونے کے لحاظ سے آپ کو کہیں فرق نظر سوسال پہلے زندہ تھا آج بھی زندہ ہے اور نہیں آئے گا ۴۵۱ آپ نے نہ صرف عرب کے دلوں کو جیتنا تھا قیامت تک زندہ رہے گا آپ نے فرما یا دو کا کھانا تین کے لئے کافی ہے بلکہ قیامت تک پیدا ہونے والی ہر نسل کے ۴۵۷ دلوں کو جیتنا تھا یہ ایک بشارت تھی تین کا چار کے لئے اور چار کا پانچ کے لئے آپ تمام بنی نوع انسان کے لئے آپ نے فرمایا تھا کہ آدم آدم میں کوئی فرق ۴۷۶،۴۷۵ نہیں انسان اور انسان میں کوئی امتیاز نہیں رحمت بن کر مبعوث ہوئے آپ کی دعائیں کسی خاص قوم یا زمانہ تک حجتہ الوداع کے موقع پر آپ کا خطاب ۴۷۵ اسوہ نبی علیہ کے بارہ میں قرآن کریم کے محدود نہیں تھیں آپ کو یہ بشارت دی گئی کہ تمام اقوام عالم بیان فرموده بنیادی اصول وحدت اجتماعی کی شکل اختیار کر لیں گی اور ایک خاندان بن جائیں گی آپ نے اپنی زندگی میں قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کر کے ایک حسین اسوہ بنی نوع کے ہاتھ میں دیا آپ کی زندگی بنی نوع انسان کے لئے ایک اُسوہ حسنہ ہے کوئی نبی آپ کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا ذاتی جوہر میں بھی اور ظاہری خدمت کی رو سے بھی آپ کے سارے ارشادات اور اقوال قرآن کریم قرب الہی کے حصول میں آپ ساری مخلوقات ۴۸۰ سے آگے نکل گئے ۴۸۰ آپ کی طاقتیں سب سے زیادہ تھیں آپ کا ۵۷۶ ۵۷۷ کی تفسیر ہیں خواہ ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے آپ کا ہر ارشاد اور ہر قول قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہے دائره استعداد ایک کامل دائرہ استعداد تھا اصولی طور پر انسان کا دماغ یہ تسلیم نہیں کر سکتا که حضرت نبی کریم علیہ نے کچھ بھی قرآن کریم تم حضرت نبی کریم ﷺ کی طرح اپنے اپنے ۴۸۰ دائرہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر بنو سے زائد کہا ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا ۵۷۹ ۵۸۱
۶۳ قریباً قریباً ساری خدائی صفات آپ کی محمد اجمل شاہد مربی سلسلہ زندگی میں جلوہ گر ہیں ۵۸۲ محمد احمد سید ۳۵۶٬۹۸ ۳۸۸ ہمیں آپ کی ذات میں خدا کی وہی شکل محمد احمد مظہر شیخ حضرت صدر مجلس وقف جدید ۱۲۸ اور کیفیت نظر آتی ہے جو قرآن کریم میں محمد اسحاق حضرت سید میر بیان ہوئی ۵۸۲ محمد اسماعیل شیخ پانی پتی آپ حسن و احسان میں صفات باری کے محمد اسماعیل منیر مولا نا مربی سلسله ۵۸۲ محمد اسماعیل میر سید حضرت مظہر اتم ہیں آپ حسن و احسان باری میں یکتا اور انسان کامل محمد اسلم صاحب قاضی ۵۸۲ محمد اکرم صابری حضرت شیخ ۶۱۸ ۹۸ ۲۵۵،۲۰۲ ۴۵۴۹۸ ۱۹۷ ۳۱۸ ہیں اس لئے منفرد ہیں آپ زور زور سے تو نہیں ہنستے تھے البتہ ہر (سلسلہ صابریہ قدوسیہ نظاریہ کے پیشوا ) وقت مسکراتے رہتے تھے صفت ربوبیت کے مظہر اتم ہونے کا جلوہ محمد حنیف شیخ امیر جماعت کوئٹہ رحمۃ للعالمین کی شکل میں ظاہر ہوا ۵۹۰ محمد دین سندھوڈاکٹر آپ کے فیوض و برکات کا کوئی بدل اور اجر نہیں محمد رشید قاضی وکیل المال ہے اور آپ رحمانیت کے بھی مظہر اتم ہیں ۵۹۲ محمد شریف صاحب منٹگمری والے آپ ہی سر چشمہ ہیں ان سارے منصوبوں محمد صادق سماٹری مولا نا مربی سلسلہ کا جو ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے محمد ظفر اللہ خان حضرت چوہدری سر ۵۸۶ محمد بخش میر حضرت گوجرانوالہ امیر جماعت ۱۲۸،۳۷ کے لئے جاری کئے گئے ہیں آپ نے فرمایا حضرت سلمان فارسی ہم میں سے یعنی اہل بیت میں سے ہیں ۶۲۰ ۱۲۸،۳۷ ۳۸۲ ۱۳۴ ۱۳۴ ۳۷۳ ۴۶۰،۳۶۵،۳۶۳ ،۱۹۷ ، ۱۹۵ ،۱۲۸ ،۳۷،۳۴ ۵۶۳،۵۴۳،۵۴۰،۵۳۹،۴۶۶ ۶۵۴ محمد عبد اللہ حضرت قاضی آپ نے فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ مہدی معہود محمد علی چوہدری ۱۳۵،۱۳۴ ۵۱۶،۴۶۳ کو پانے کا موقع نصیب کرے تو وہ میری طرف محمد نذیر قاضی حضرت مولانا ۵۳۸،۳۵۷،۹۸،۶۴ سے اسے سلام کہے محمد ابن سیرین امام ۶۵۴ | محمود احمد ناصر میر محمود اسمعیل شلس ۳۵۶ محمود اسم ۱۹۷ ۲۰۰
۶۴ محی الدین ابن عربی حضرت شیخ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس مقام پر کھڑا کیا ہے اس ۶۵۴،۳۲۲،۳۲۱،۳۲۰،۳۱۹ مقام کی حفاظت کا ذمہ خود اس نے لیا ہے ۷۳ ۶۰۰،۴۴۷ میں ایک حقیر انسان اور نا چیز ذرہ ہوں مگر یہ مریم صدیقہ سیدہ حضرت مریم علیہ السلام حضرت ناچیز ذرہ خدا کے ہاتھ میں ہے میں نے کبھی فراست اور عقل مندی کا دعویٰ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا تو پاک بنت نہیں کیا پاک ہے تیری اولاد بھی پاک ہوگی ۴۱۵ میں نے یہ عہد کیا ہے کہ جماعت کے تمام اے مریم نہ تیرے آباء میں سے کوئی بدکار افراد کو قرآن کریم پڑھانے کا انتظام کروں تھا اور نہ تیری نانیوں میں سے کوئی بد کا تھی منصورہ بیگم حضرت سیدہ نواب مودودی ابوالاعلیٰ مولانا منور احمد مرزا ڈاکٹر صاحبزادہ موسٰی علیہ السلام حضرت ۴۱۵ میں حضرت مسیح موعود کی نیابت میں تمام مذاہب ۶۰۰،۵۰۶ کو دعوت فیصلہ دیتا ہوں ۵۳۸ ۸۰ ۳۱۷ ،۳۱۱،۳۹ ۵۹۱،۴۹۸،۴۳۳،۴۱۵ ،۴۱۰ ،۳۲۷ ،۳۲۲ ن جب تک خدا تعالیٰ مجھے زندگی دیتا ہے میں آپ کو ان ذمہ داریوں کے نبھانے میں ست نہیں ہونے دوں گا چاہے آپ مجھ سے ناراض ہوں یا خوش میں اپنے مولیٰ کو اپنے سے ناراض نہیں ہونے دوں گا اگر سب مخالفین کے مقابلہ میں میں اکیلا دعا کروں گا تو اللہ تعالیٰ میری دعا کو قبولیت بخشے گا ناصر احمد.مرزا حضرت خلیفہ اسیح الثالث میں سچ کہتا ہوں اگر میرے جسم کے ایک سو پچاس ٹکڑے کر دیئے جائیں اور وہ کام ۶۱۸،۹۶،۹۵ میں نے آپ کے بار ہلکا کرنے اور پریشانیوں آجائیں تو میں اس کے لئے تیار ہوں کو دور کرنے کے لئے اپنے رب رحیم سے میں مامور تو نہیں.میں تو خدا تعالیٰ کے ایک قبولیت دعا کا نشان مانگا ہے مامور کا خلیفہ ہوں مجھے آپ کے مخلصانہ مشوروں اور پُرسوز سفر سے قبل اپنی ایک رویا کا تذکرہ دعاؤں کی بہت ضرورت ہے اللہ تعالیٰ کا قادر و توانا اور قوی ہاتھ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا ۱۲ ۷۳ اگر کسی عیسائی کو بھی دعوی ہے کہ اس کا خدا زندہ خدا ہے تو وہ میرے ساتھ قبولیت دعا میں مقابلہ کرے ۹۶ ۱۲۵ ۱۵۴ ۱۱۷ 112 ۱۵۹ 171 127 ۲۰۵ ۲۱۵
میرے نزدیک جماعت احمدیہ اور میں ایک دس پندرہ منٹ کا بھی وقت ملتا ہے تو حضرت مسیح موعود ہی وجود کا نام ہے ۲۱۷ کی کوئی کتاب پڑھنی شروع کر دیتا ہوں اور وہ وقت ضیاع سے بچ جاتا ہے جماعت احمدیہ پر یہ فرض ہے کہ وہ میرے اگر میں اس طرح دوستوں کی خوابوں کی معروف احکام کی اطاعت کرے میں قرآن کریم کے احکام اور نبی کریم کے اسوہ کا پابند ہوں اور پوپ پر ایسی کوئی پابندی نہیں اللہ تعالیٰ نے شروع خلافت میں ہی اس ۲۱۷ ۲۱۷ تعبیر کرنے لگوں تو غالباً جماعت کا اور کوئی کام نہ کرسکوں میں اللہ تعالیٰ سے کہہ دیا کرتا ہوں کہ میں تو ایک حقیر بندہ ہوں اگر تو مجھے علم سکھائے گا تو میں بیان کروں گا عاجز اور بالکل کم مایہ بندے سے یہ وعدہ کیا میں نہ سوشلزم کے حق میں ہوں اور نہ سرمایہ داری تھا کہ تینوں میں اینا دیواں گا کہ تو رج کے حق میں میں تو اسلام کے حق میں ہوں جائیں گا“ ۲۵۴ اللہ تعالیٰ کے سکھائے بغیر میں کچھ جانتا نہیں میرے دل میں تو کبھی گھبراہٹ پیدا نہیں اور اُس کی طاقت اور مدد کے بغیر میں کچھ ۲۷۹ نہیں کر سکتا ہوتی کہ پیسے کہاں سے آئیں گے میں نے جب اللہ تعالیٰ کا کام کرنا ہو تو قادیان میں سکھ بعض دفعہ بڑی شرارتیں کیا کرتے تھے یعنی اگر کبھی وہ حملہ کر دیں تو اُن بیماری کا احساس نہیں ہوتا میں خدا کی عظمت اور اس کے جلال سے ہر وقت کا نیتا رہتا ہوں میری جان آپ پر قربان میں ہمیشہ آپ ۲۹۵ ۳۴۴ سے جا کر لڑا بھی کرتے تھے بچو! خدا نے مجھے اپنے فضل سے اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ تمہارا خاندان تمہیں نہیں پڑھا سکتا تو میں تمہارے پڑھانے کا ذمہ لیتا ہوں کے لئے ہر رنگ میں دعائیں کرتا رہتا ہوں تم کہتے ہو کہ پاکستان میں اسلام خطرے سارا سال جو دعائیں میں آپ دوستوں میں ہے میں بتاتا ہوں کہ ساری دنیا میں کے لئے کرتا رہتا ہوں وہ سورۃ فاتحہ کی اسلام کے علاوہ ہر مذہب خطرے میں ہے ۳۴۷ میں کہتا ہوں کہ میں اور آپ ایک وجود ہیں دعائیں ہیں تفسیر قرآن سرہانے رکھنی چاہیئے میرے تو تو میرے ساتھ آپ کو بھی پریشان رہنا سر ہانے پڑی رہتی ہے ۳۵۴ پڑے گا ۳۵۴ ۳۵۶ ۴۰۵ ۴۱۸ ۴۴۳ ۴۴۸ ۴۵۷ ۴۵۹ ۴۶۰
میری خواہش ہے کہ روسی ریڈ یوٹیشن سے بھی زیادہ عمدہ اور صاف سنائی دینے والا ۶۶ میں بڑی عاجزی کے ساتھ حکومت کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ آنکھیں کھلی رکھو اور کان بھی کھلے رکھو خلیفہ تو میں اب بنا پچھلے تمیں سال سے میں ۴۶۸ نشریاتی ادارہ ہونا چاہیئے نذیر احمد علی حضرت مولانا کہا کرتا تھا کہ ساری دنیا کی دولت احمدی نصرت بھٹو بیگم کی قیمت نہیں ہو سکتی ۶۷۴ ۲۰۷ ۵۱۱،۴۶۸ ۴۷۰ نوح علیہ السلام حضرت ۴۰۷، ۵۹۱،۴۱۲،۴۱۱،۴۰۹ جب میں نے ایک افریقن بچے سے پیار کیا تو یہ انہوں نے ان کی زندگی میں پہلی بار دیکھا ۴۸۷ ہارون علیہ السلام حضرت ۴۱۴ ،۴۱۳،۳۹۹ میں تو خزانوں کا مالک نہیں ہوں میں تو ایک آپ پر الزام لگایا گیا کہ وہ بچھڑا پرستی جیسے دھیلے کا مالک بھی نہیں ہوں یہ تو سب کچھ گھناؤنے گناہ کے مرتکب ہوئے اس کی عطا ہے ۵۴۵ اپنی قوم کو کہا میری اتباع کروتا کہ میں تمہیں گرمیوں میں مجھے کسی نہ کسی ٹھنڈے مقام کی شرک سے نجات دلا کر خدائے رحمان کے ۴۱۳ ۴۱۴ ۴۹۴ ۳۹۴،۳۲۷ ۴۹۰ ۵۹۳،۳۲۷ قدموں پر لا ڈالوں یسعیاہ نبی حضرت ۵۵۰ ۶۴۸ طرف جانا پڑتا ہے ورنہ میں کام نہیں کر سکتا میرا میلان صد سالہ جشن منانے کی طرف اتنا نہیں جتنا دوسری صدی کے استقبال کے طرف میرا میلان ہے یعقوب علیہ السلام حضرت میں نے اپنے منصوبے کو محدود رکھا ہے کیونکہ بعض بنیادی کام اگلی صدی کی ابتداء یعقو بوگوون صدر نائیجیریا کے لئے چھوڑ دینے چاہئیں ۶۶۸ یوسف علیہ السلام حضرت
۶۷ آسٹریلیا اٹلی احد ارجنٹائن اردن اسرائیل افریقہ آرا مقامات ہم نے میاں بیوی استاد افریقہ بھجوانے ہیں ۴۷۸،۴۷۷،۷۵ جہاں لڑکوں کا سکول کھلے گا وہاں لڑکیوں کا ۷۵، ۶۶۳۶۶۲،۳۷۷ بھی سکول کھلے گا ۲۳۲، ۲۶۷ | افریقہ جنوبی ۶۲ ۶۲ ۶۶۷،۵۵۴ ۱۹۵،۱۹۰،۱۶۰،۱۵۹،۱۱۴،۶۴،۳۴ ۴۳۴،۴۳۲،۴۳۱ ،۴۰۳،۳۷۹،۲۷۶،۲۵۱،۲۰۳ ۴۸۷، ۴۷۸ ، ۴۷۷ ، ۴۶۶،۴۶۲،۴۳۶،۴۳۵ ۵۵۳،۵۲۹،۵۱۸،۵۱۲،۵۰۷،۵۰۳،۴۹۹،۴۹۱ ۶۷۱،۶۶۹،۶۶۵،۶۶۲،۶۵۱،۶۳۹،۵۵۶ ۵۱۸ ۳۸۰،۸۰۰۷۶ افریقہ مشرقی ۲۸۱،۲۰۳،۱۹۹،۶۱،۶۰، ۶۶۵،۳۷۷ افریقہ مغربی انگریز نے اپنے ملک کا دکھ دور کر دیا مگر افریقہ کو لوٹ کر لے گئے مغربی افریقہ میں کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ فوری طور پر خرچ کرنے کی الہی تحریک ہمیں ان کی سیاست میں حصہ نہیں لینا اور ان کی دولت میں کوئی لالچ یا طمع نہیں ۵۰۱ ۶۳۹ ۶۴۰ ۶۴۱ 2Y ایک ڈاکٹر نے ڈیڑھ سال میں تمہیں ہزار پاؤنڈ کی خالص بچت کی یہ سکول تمہارے لئے ہیں تم نے قومیانے ہیں تو قومیا لو اور معاوضہ ہم نے کوئی نہیں لینا افریقہ وسطی امریکہ ۳۷۰،۲۸۱،۱۹۵،۱۷۲،۶۴،۵۶،۲۹ ۴۷۸ ، ۴۷۷ ، ۴۷۶،۴۶۲،۴۶۰ ،۳۷۸،۳۷۵ ۶۶۴،۶۳۵،۶۲۲،۵۷۱،۵۵۹،۵۵۸،۵۱۰،۵۰۹ ۴۴۷ ۴۹۹ ۴۹۹ ۴۹۹ مغربی افریقہ میں ایک عظیم انقلاب اسلام اور احمدیت کے حق میں بپا ہو رہا ہے باہر سے پیسے لاتے ہیں اور افریقہ میں خرچ کرتے ہیں ہمیں افریقہ کی سیاست میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ان کے مال میں ہمیں دلچسپی ہے پچاس سال سے ایک دھیلہ تمہارے ملک سے باہر نہیں لے کر گئے لاکھوں روپے باہر سے لائے اور تم پر خرچ کر دئیے
۶۸ امریکہ.جنوبی ۲۸۱، ۶۶۳ ۶۶۴ جس وقت بھی پاکستان کو مشکل پیش آئے وہ امریکہ.شمالی ۶۶۴،۶۶۳،۲۸۱ ملائکۃ اللہ کی امداد سے محروم نہ ہو انڈونیشیا انگلستان ۶۲ ۶۴ ۲۵۱،۸۲ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے پاکستان کی حفاظت ۶۷۳،۳۷۰،۳۷۴،۲۸۳ کرتا رہے وہ ہمیشہ ملائکہ کی افواج بھجواتا رہے ۸۴ ۸۲،۶۲، ۳۶۵،۲۷۶،۲۱۰،۱۹۰،۱۰۹ حضرت محمد رسول اللہ علیہ کے بتائے ہوئے طریق ۴۶۹،۴۶۸،۴۶۶، ۵۱۰،۵۰۹،۵۰۸،۵۰۷ کے مطابق پاکستان کا کوئی فرد بشر بھوکا نہیں رہ سکتا ۱۳۰ ۶۳۵،۶۳۲،۵۶۲ ۶۷۸،۶۷۲،۶۷۱،۶۶۶۰۶۶۴ | پاکستان میں رہنے والا کوئی فرد بشر بھوکا نہ ایران ایسے سینیا ایبٹ آباد ۶۲، ۷۵ ۳۷۳ ، ۶۶۶ رہے ہمیں اس سے دلچسپی ہے اگر ہم اپنا زائد کھانا بیچالیں تو پاکستان کا کوئی ۵۹۸ شخص بھی ایسا نہ رہے جو رات کو بھو کا سوئے ۱۳۰ ۱۳۱ آئیوری کوسٹ ۱۹۹،۱۰۹،۶۲، ۶۳۷، ۶۷۵ دعا کرتے رہیں کہ خدا بین الاقوامی شہر سے ہمارے ملک کو محفوظ رکھے اور ہماری آزادی بٹالہ برٹش گی آنا برما ۱۹۰ برقرار رکھے اللہ کرے مذہبی آزادی کو قائم رکھنے کی توفیق ہمیشہ پاکستانی حکومتوں کو ملتی رہے ۱۳۲ ۱۳۲ بور نیوشمالی بیلجیئم پاکستان ۶۲ ہمیں اپنے ملک کے لئے دعا کرتے رہنا چاہیئے ۱۳۲ حکومت کا فرض ہے کہ ہر پاکستانی کو اس کی ضرورت کے مطابق کھانا مہیا کرے ۱۳ ۲۳۰ ۶۴،۳۵،۳۰،۲۸،۲۴ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ہر قسم کی غلامی سے ۱۳۲،۱۳۱،۱۳۰،۱۰۴،۸۳،۷۷، ۱۹۵،۱۶۷ | محفوظ رکھے ۴۳۹،۳۷۷ ،۳۷۰ ،۳۶۳،۲۱۸،۲۱۰،۲۰۹ ۵۱۸،۵۱۲،۵۰۹،۵۰۸ ، ۴۹۵ ، ۴۷۶ ،۴۷۰ ۵۶۰،۵۴۶،۵۴۴،۵۴۳،۵۴۱، ۵۴۰ ، ۵۲۰ ۶۳۱،۶۲۲،۶۰۳،۶۰۲،۵۶۸،۵۶۴،۵۶۲ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہر قسم کے سیاسی ، اقتصادی اور دوسرے دباؤ سے محفوظ رکھے اے خدا! ہمیں عزت کی روٹی دے ہمیں ۶۵۹،۶۴۲،۶۳۴، ۶۷۳۶۶۹ کسی سے بھیک نہ منگوانا ۱۳۲ ۱۷۹ ۱۷۹ ۱۷۹
۶۹ اللہ تعالیٰ ہمارے ہم وطنوں کے سینوں کو ہمارا ملک جب سے بنا مظلوم ہی چلا آ رہا ہے.قرآن کریم کے حقیقی نور قبول کرنے کے ظلم کی انتہا ہوگئی ہے بڑا دکھ ہوتا ہے لئے تیار کرے ۱۸۲ پاکستان کے حالات کی وجہ سے میں کئی اللہ تعالیٰ ہمارے اس ملک کے استحکام کو را تیں سو نہیں سکا کتنی صبحیں ایسی آئیں ۱۸۲ کہ جنہوں نے مجھے سارا دن پر یشان رکھا غلبہ اسلام میں محمد بنائے اگر پاکستان کو نقصان پہنچا تو اسلامی دنیا میں یہ ملک اور اس ملک کے حالات ہم سے یہ ۳۴۳ مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنی دعاؤں میں ایک بھی ایک ضعف واقع ہو جائے گا بڑا حصہ ان کا بھی رکھیں پاکستان کا استحکام اسلامی دنیا میں بڑا اثر پیدا ۳۴۳ بہت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کی کر سکتا ہے یہ بھی سن لو کہ ہمارے ملک میں محمد رسول اللہ علیہ قسمت سنوارے ۴۵۸ خدا کرے ہمارے ملک میں بھی کوئی آدمی ایسا ۶۰۶ ۶۰۶ ۶۰۷ ۶۰۷ ۶۰۸ کی تعلیم رائج کی جائے گی نہ رہے جس کو کوئی دُکھ اور پریشانی ستارہی ہو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے فضل سے انعامات کے شکل میں جو ذہن عطا کئے تھے وہ تم نے پاکستان.مشرقی ضائع کر دیئے شکوہ کس سے ۴۹۵ مشرقی پاکستان ہماری بدقسمتی اور ہمارے ایک اندازہ کے مطابق پاکستان نے ایک گناہوں کے نتیجہ میں ہم سے علیحدہ ہو گیا لاکھ ذہن اپنی غفلت اور بے تو جنگی میں ضائع کر دیئے ہیں خدا تعالیٰ پاکستان کو نہیں بھولا تھا ہم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو بھول گئے اور اس کے ناشکر گزار بندے بن گئے ۴۹۵ پیشاور تبوک ترکی ۴۹۵ تنزانیہ پاکستان کو اس کی حقیقی ماں نہیں ملی.آری چل گئی ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ۶۰۳ تهران جمہوریت میں تمہیں اظہار خیال سے کوئی ۴۶۵،۴۹۰ ۵۴۱ ۴۷۲،۸ ۲۳۱ ۳۷۳ ۱۰۸ ،۸۲،۷۹،۶۲ ۶۳۲،۵۰۹،۴۶۲،۳۷۷ ،۲۸۱ ۴۹۲ ۴۶۲،۲۸۱،۶۲ نہیں روک سکتا لیکن تم ان کو کام کرنے کا موقع تو دو ٹرینیڈاڈ ۶۰۴ ٹو گولینڈ
۵۴۴ ،۴۷۲ ۷۹ ،۶۹،۲۹،۲۸ ،۳ ر، ز ۵۵۷،۵۵۱،۵۵۰ ، ۴۲۷ ،۳۸۵،۳۵۵،۱۷۸ ۶۳۰،۶۲۶،۶۱۸ ۲۱۲،۷۵،۶۲،۲۹ ۶۷۴ ،۴۹۸،۴۷۶،۳۷۰ で جاپان ۶۲ ، ۲۷۷,۷۶،۷۵ | راولپنڈی ۳۷۲،۳۶۹،۲۸۶،۲۸۵،۲۷۹،۲۷۸ جاپان میں اس وقت اسلامی تعلیم کو قبول کرنے کی فضا ہے جاپان میں احمد یہ مشن کا قیام جاپان کی عالمگیر مذہبی کا نفرنس میں جماعت احمدیہ کا مدعو کیا جانا ۲۷۸ ۴۶۰ ۲۱۵،۲۱۰،۲۰۸،۲۰۰،۱۰۹ ،۶۲ ربوه روس روس جس کا اعلان کہ وہ خدا کا نام صفحہ زمین سے جرمنی مٹادے گا بالآخر حق کی طرف رجوع کرے گا ۲۱۲ جزائر سلی جزائر غرب الہند ۶۷۰،۵۷۱،۵۵۳۵۰۹،۳۸۰،۲۷۹،۲۴۳ روس میں احمدیت کثرت سے پھیل جانے کی پیشگوئی ۲۴۲ ۷۵ زیورک (سوئٹزر لینڈ ) ۲۱۵ ۴۶۲ 1+1 چ، ج چین سرگودها ۶۶۳،۳۷۱،۶۲ ۶۳۱ ،۱۳ چٹا گانگ ۲۱ سعودی عرب ۲۰۹ چنیوٹ چین ۹۲ ۲۵۱،۷۹ ۶۶۵،۴۸۹،۴۷۷ ،۴۷۶،۳۸۶ ۱۳۲،۲۱،۸ سندھ سنگاپور سوئٹزرلینڈ ۸۲۶۲ ۸۲،۶۲ ۶۷۳،۵۵۳،۵۱۰،۲۱۳ ۲۱۲ ۲۱۰ ،۲۰۸ ۶۶۳،۴۶۰،۳۶۷،۳۶۶،۲۱۸،۶۲ سویڈن سویڈن میں جماعت احمدیہ کے مشن کا قیام ۴۵۹ ۹۸ ۱۱۱,۱۱۰,۸۲۷۹،۶۲ ۵۰۴،۴۴۳،۲۸۱،۲۰۹ ، ۲۰۴ ،۱۹۹ ، ۱۱۴ ۵۶۹،۵۶۸،۵۱۴،۵۱۳،۵۱۲،۵۰۹،۵۰۵ ۶۷۵،۶۵۰،۶۳۷ ،۶۳۲،۵۷۰ سیالکوٹ سیرالیون ۲۳۴ ۲۱۰،۲۰۹،۱۰۸ ،۸۲،۷۹،۶۲ ۲۲۲،۲۲۰،۲۱۹،۲۱۷ ،۲۱۵ ،۲۱۴،۲۰۴،۱۹۰ ۶۶۳،۵۱۶،۳۶۷ ،۳۶۶،۲۷۵،۲۲۳ ۵۱۷ ڈنمارک ڈنمارک میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہم آپ کے دل جیتیں گے اور اسلام کو پھیلائیں گے
سیلون سینیگال شام عراق عرب غانا ۸۲۶۲ 17 ۲۵۱ کانگو کراچی ۶۲ ۳۷۸ کمپالہ ۳۷۸ ،۲۷۴ ۱۱۴،۱۰۹،۱۰۸۸۲،۸۰۷۹،۶۲ ۵۱۳،۵۱۲،۵۰۹،۲۹۰،۲۸۲،۲۸۱،۲۰۹ ،١٩٩ ۶۷۵،۶۷۱،۶۳۷،۵۶۹،۵۶۸،۵۵۵،۵۱۴ ف فارموسیٰ 67 فنجی ۶۷۳،۳۷۰،۲۵۱،۶۲ فرانس ۶۷۷،۶۷۰،۶۶۳۶۶۲،۲۰۲ فرینکفرٹ فلپائن فلسطین فیصل آباد ( لائلپور) ۴۹۲،۲۱۵،۲۰۰ ۷۶،۷۵،۶۲ ۶۲ ۶۷۲ ق قادیان ۲۰۴،۲۰۱،۱۶۰،۹۴ ،۹۳ ۶۶۰،۶۵۹،۶۱۹،۵۲۸،۴۴۸ ،۳۵۵،۲۹۸ قادیان کو اللہ تعالیٰ نے ارض حرم قرار دیا ہے قصور مالد 11.کوپن ہیگن کویت کینیا گجرات گوجرانوالہ گیمبیا لاہور 47 ۱۸۷ ،۹۸،۹۲،۲۱ ۵۵۹،۴۹۲،۳۷۶ ،۲۴۶،۲۱۹ ۳۵۶،۲۷۳،۱۷۸،۱۰،۴ ۲۸۱،۱۹۹ ۲۱۸،۲۰۹ ،۲۰۴،۱۰۸ ۲۸۵،۲۰۹ ۳۷۹،۳۷۷ ، ۱۰۸ ،۶۲ ۶۶۴،۶۶۳،۵۰۹،۸۲ الله الله الله الله ١٠١ ۱۰۸،۷۹،۶۲،۴۳ ۵۰۷،۵۰۶،۵۰۴،۳۸۰،۲۸۲،۱۱۴،۱۱۱،۱۱۰ ۶۳۹،۶۳۷،۶۳۲،۵۶۸ ،۵۲۲،۵۱۹،۵۱۹ لندن لائبیریا ماریشس ل ۶۵،۵۵،۲۵،۱۱ ۴۹۲،۴۷۲،۴۶۲،۳۵۵،۱۶۷ ، ۱۶۵،۱۰۷ ۶۶۵،۶۶۴،۶۲۷،۵۱۴ ۴۶۶،۲۱۲،۲۰۷ ،۲۶ ۵۶۱،۵۵۹،۵۵۸،۵۱۱،۴۶۳،۴۷۰ ۶۷۵،۶۳۷ ،۱۱۰،۱۰۹ ،۶۲ ۵۰۹،۳۹۰،۲۰۲،۶۲
ماسکو مدینہ منورہ مراکش مسقط مشرق وسطی مصر مله ملائیشیا ۷۲ ۴۹۲ وا بگه ۲۵۹،۲۳۱ | ویت نام ۴۵۳،۳۷۸،۲۶۹،۲۶۸ ،۲۶۷ ۶۶۳۶۶۲،۵۱۰ ہالینڈ ۷۵ ۲۷۴،۲۰۹،۱۹۵ | ہمبرگ (جرمنی) ۲۹ ۲۱۰،۸۲۶۲ ۴۹۱،۲۱۴،۲۱۳ ۲۴۳،۲۱۵ ۳۰،۲۷ ،۲۶،۲۳،۲۲،۱۰ ۶۵۱،۵۰۹،۴۷۶،۳۷۷ ، ۱۶۷ ، ۱۵۹ ، ۱۰۳ ۶۶۶،۱۰۹،۷۵،۶۲ ہندوستان ۵۹۳،۴۸۹ ۸۲۶۲ ہنگری ی ۱۰۸٬۸۲،۸۰۷۹،۶۲ | یورپ ۷۵،۶۲ نائیجیریا ۳۷۹،۲۸۲،۲۸۱،۲۰۹ ، ۲۰۴ ، ۱۹۹ ، ۱۴۴ ، ۱۱۰ ۵۱۲،۵۰۹،۵۰۶،۵۰۴ ،۴۹۰ ، ۴۶۲،۴۶۱ ۵۷۱،۵۶۸،۵۶۶۰۵۵۹،۵۵۵،۵۲۱،۵۱۷ ۶۶۵،۶۴۱،۶۳۷،۶۳۵،۵۹۷،۵۷۵،۵۷۴ ۶۷۵،۵۷۴،۵۷۳ نائیجیریا کے شمالی علاقہ میں پیدا ہونے والے مجدد ۵۳۴ ۲۰۴،۱۹۵،۱۰۷ ،۶۴،۵۶ ۲۷۸،۲۷۶،۲۷۳،۲۴۳،۲۲۰،۲۰۹،۲۰۷ ۵۰۳،۴۹۲،۴۷۶،۴۴۳،۳۷۸ ،۳۶۹،۲۸۱ ۶۷۲۶۶۴۶۶۲۰۶۵۷ ،۶۳۵،۶۲۱ اب یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید یورپ کی اکثریت ہلاکت سے بچ جائے یوگوسلاویہ ۳۶۹ ۳۷۳،۳۶۷ اللہ تعالیٰ کے فرشتے Iron Curtian کو نائیجیریا کی حکومت کی طرف سے جماعت احمدیہ پھلانگ کر یوگوسلاویہ میں داخل ہو چکے ہیں کو براڈ کاسٹنگ سٹیشن قائم کرنے کی اجازت ۵۷۱ ناروے ۶۶۳،۳۶۸،۳۶۷ ،۲۱۸ ۳۸۰ ۴۷۸ ، ۴۷۷ نگر پارکر نیوزی لینڈ و یوگوسلاویہ وہ پہلا کیمونسٹ ملک ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ منظم طور پر قائم ہو چکی ہے یوگنڈا ۳۷۳ ۳۷۳ ۳۷۷ ،۶۲ واشنگٹن ۸۲
۷۳ آنا کتابیات اشارات فریدی آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد۵ الاصابة في معرفة الصحابة ) تصنیف حضرت مسیح موعود ) احمدیت احمدیت یعنی حقیقی اسلام (تصنیف حضرت خلیفتہ امسیح الثانی) اربعین.روحانی خزائن جلد۱۷ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) الاز ہار لذوات الخمار ( مجموعہ تقاریر حضرت مصلح موعود ) اسلام غریبوں اور یتیموں کا محافظ اسلام کا اقتصادی نظام اسلام کا وراثتی نظام ۴۴۶،۳۲۸ | اصحاب احمد ۵۴۱ اعجاز احمدی (روحانی خزائن جلد ۱۹) ۶۱ ۱۴۲ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) افادات قاسمیه افریقہ سیکس (Africa Speaks) اقتباس الانوار ۱۸۹ امن کا پیغام ایک حرف انتباه ۶۰۷،۵۳۸ ۵۵۲،۲۰۰ ۳۲۳ ۳۱۵ ۳۵۶ ۱۷۲ ۳۲۳ ۴۶۲۴۴۵ ۴۴ ۴ ۳۱۸ ۴۶۵،۴۶۳۲۲۰،۱۹۰،۱۹۸ انجام آنقم روحانی خزائن جلدا ۴۴۷ ) تصنیف حضرت مسیح موعود ) اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور فلسفہ انصار الله (ماہنامہ) ۴۴۵،۳۵۳ اسلامی اصول کی فلاسفی (روحانی خزائن جلد ۱۰) ) تصنیف حضرت مسیح موعود ) 119.1.9.1-2.41 ۴۲۶،۳۸۰،۳۳۵،۱۹۹،۱۹۸ انجیل انجیل برنباس 127 ۱۸۷ ،۹۹۰۸ ۶۲۱،۵۳۷ ،۴۴۹،۳۵۷ ،۲۹۶ ۲۰۲،۱۶۲،۱۶۱،۵۴ ۳۳۴،۳۳۳،۳۳۲،۳۳۱،۳۳۰ ہر مسلمان اور غیر مسلم کو بہت فائدہ دیتی ہے ۱۹۸ یہ وہ کتاب ہے جو یورپ کی لائبریری میں اسلامی نماز (کتاب) ۹۸ ہمیشہ رہی ۳۳۱
۷۴ انسان کامل ۳۱۸ براہین احمدیہ جلد پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ انفارمیشن (Information) ڈنمارک کا اخبار ۲۲۲ ) تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۴۰۴،۳۹۵،۳۲۴،۱۸۸ ۱۵۱ ۵۵۲ ۹۸ انوار خلافت (انوار العلوم جلد۳) ۶۵ لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ پر زور دلائل کے ساتھ انوار العلوم جلد ۱۳ ۵۵ اللہ تعالیٰ کی تائید کے نشانات حاصل کروں انوار العلوم جلد ۱۴ ۵۵ برکات الدعا (روحانی خزائن جلد ۶ ) انوار العلوم جلد۷ ۵۷،۵۶ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ایک عیسائی کے تین سوال اور اُن کے جوابات برہان ہدایت (روحانی خزائن جلد (۱۸) (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۵۵۲ پاکٹ بک ۴۴۶،۳۵۷ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ایک غلطی کا ازالہ (روحانی خزائن جلد ۱۸) پیغام صلح (روحانی خزائن جلد ۲۳ - تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۹۵ ۱۹۸ ،۹۲ تاریخ احمدیت جلد ششم بابا نانک کا مقدس چولہ ۶۲۲ تاریخ احمدیت جلد مفتم ۹۷ بار امانت بائیبل ۶۳۶،۵۵۹،۳۳۲،۱۶۳ ۶۶۲ تاریخ احمدیت جلد ہشتم ۱۲۱، ۱۶۱ تاریخ احمدیت جلد دہم تاریخ احمدیت جلد یازدهم ۱۸۸ بائیل کی الہامی حیثیت ۶۲۱ بحارالانوار ۴۸۱،۴۷۹ بخاری ۴۷۹،۴۴۶،۳۲۸ ،۲۳۷ تاریخ احمدیت جلد دوازدهم تاریخ احمدیت جلد سیزدهم تاریخ احمدیت کو اپنے گھروں میں ضرور رکھو ۳۵۴ ۴۴۶ ۵۳۸ ۵۳۸ ۹۷ ۱۸۸ ۵۳۶ بخاری شریف مع ترجمه و شرح بدر قادیان (اخبار) براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد اوّل (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۹۷ ۳۵۵ اپنی تاریخ سے واقفیت رکھنا زندہ اور بیدار قوموں کے لئے ضروری ہے ہر تاریخی زمانہ اگلے زمانے کے لئے ایک ۳۵۵،۱۵۴،۵۱۳،۱۵۱،۷۳،۷۱،۵۲،۵۱ | سیڑھی بنتا ہے
تاریخ لجنہ اماءاللہ تبلیغ ہدایت تجلی قدرت تحدیث نعمت تحریک آزادی کشمیر ۷۵ ۵۳۹،۵۳۶،۴۴۷ ۶۲۱ ۵۳۹ يركبير تفهیمات ربانيه تورات ۶۰۵،۵۸،۵۳ ۴۲۱،۴۲۰،۳۵۲،۳۳۲،۱۰۶،۱۰۵،۴۵ توضیح مرام (روحانی خزائن جلد سوم ) ۱۵ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۶۲۱ تین اہم امور ۵۸۰،۳۳۰،۳۲۹ ۱۹۸،۱۹۰ تحریک پاکستان میں جماعت احمدیہ کا کردار تحریک جدید (رساله) ۱۰۷ ۱۰۸، ۲۹۶،۱۸۷،۱۰۹ | تین مسئلے تحفہ گولڑویہ (روحانی خزائن جلد ۱۷) (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۴۸۱،۳۹۵،۳۲۶،۱۷۴ ٹروتھ پر پویلز (Truth Prevails) تذکرہ ( مجموعہ الہامات حضرت مسیح موعود ) ترندی ج ۲۳، ۳۵۵،۱۸۲،۲۹ جامع البیان فی تفسیر القرآن جنگ مقدس (روحانی خزائن نمبر ۶) تشحید الاذہان (ماہنامہ ) ۹۹۸، ۱۸۷ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۲۹۶، ۴۴۹ ، ۶۲۱،۵۳۷ | جیز زسن آف میری تعبير الرؤيا ۳۵۶ (Jesus, son of Mary) تعمیر بیت اللہ کے تئیس عظیم الشان مقاصد ۱۹۰، ۱۹۸ ۱۹۰، ۱۹۸ چالیس جواہر پارے چ ۴۴۶،۳۵۳٬۳۵۲ چشمه معرفت (روحانی خزائن جلد ۲۳) تفسیر حضرت مسیح موعود (سورۃ الفاتحہ) تفسیر حضرت مسیح موعود (سورة البقرة) ۵۳۹ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) تفسیر حضرت مسیح موعود (سورۃ النساء) ۵۳۹ تفسیر صغیر ۹۸ ۶۲۱ ۴۹۷ ۴۴۸ ۶۲۲ ۱۹۸ ،۱۹۱ ۵۳۷،۱۵۸،۱۵۶ ۹۶،۱۰۹، ۲۸۴،۲۸۳٬۹۷ | حجة الله (روحانی خزائن جلد ۱۲) علوم کا سر چشمہ اور تمام انوار کا سورج ہے ۱۸۸ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) تفسیر صغیر کے بے مثال کمالات ۶۲۲ الحجة البالغة ۱۴۲ ۶۲۱،۱۹۸
۱۹۸ ۳۲۳ ۷۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے الحق المبين في تفسير خاتم النبيين ۵۴ ۵۳۸ راه ایمان ( دینی مسائل پر مشتمل بچوں کے لئے ) حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ۳۰۴ رساله قبله نما روحانی خزائن جلد ۲۰ حقیقۃ الوحی (روحانی خزائن جلد ۲۲) (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۱۴۳،۱۴۲، ۴۹۷ ریویو آف ریلیجنز (رساله) الحکم قادیان (اخبار) حیات احمد خالد (ماہنامہ ) ختم نبوت پر علمی تبصره ۳۵۵،۲۳ زبور ۹۸ ۴۲۰،۳۹۴،۳۳۳۳۲۹ ۳۱۵ ۴۶۴ زرقانی شرح المواهب اللدنية زندہ مذہب (انوار العلوم جلد۳) ۹۹،۸، ۱۸۷ تصنیف حضرت المصلح الموعود ۶۲۱،۵۳۷ ،۴۴۹ ،۲۹۶ ۶۲۱ س ،ش سبز اشتہار.(روحانی خزائن جلد۲) ۵۴ ختم نبوت کی حقیقت (انگریزی) ۱۰۷ ۱۰۹ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) الخصائص الكبرى خطبہ الہامیه (روحانی خزائن جلد ۱۶) (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۳۱۶،۳۱۵ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب (روحانی خزائن جلد ۱۳) ۲۳۹ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۴۵ ۱۹۸،۱۶۲،۱۶۰ خلافت را شده (انوار العلوم جلد ۱۵) ۵۸ اس میں سینکڑوں دلائل عیسائیت کے غلط د، ر، ز دار قطنی سنن داس کیپیٹال در ثمین فارسی دعوة الامير عقائد کی تردید میں ملیں گے ۱۷۳ سراج منیر (روحانی خزائن جلد ۱۲) جلد۱۲) ۴۹۱ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۹۸،۲۲ سرمه چشم آریہ ( روحانی خزائن جلد۲) (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۴۸ ۱۶۸،۱۴۹،۱۴۷ ۵۵۳،۵۵۲٬۴۶۳٬۳۸۰،۲۰۱،۲۰۰ اس دعوئی اور یقین سے لکھی گئی ہے کہ کوئی دیبا چه تفسیر القرآن ۲۳۱، ۲۸۲٬۲۳۵ ۳۸۰،۲۸۳ | آریہ اس کارڈ نہیں کر سکتا ۱۶۸
LL سوانح فضل عمر سیرت ابن ہشام ۵۴۸ | فتوحات مکیہ ۲۳۲۲۳۱ الفرقان (رسالہ ماہنامہ ) ۳۲۲ ۶۲۱،۵۳۷ ،۴۴۹،۳۵۷ ،۲۹۶۰۹۹۰۸ ۳۱۸ ۵۵۴،۵۴۱،۴۶۳،۳۵۵ فصوص الحکم شرح سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سيرة خاتم النبيير شان مسیح موعود ضرورت نبوت طبقات ابن سعد ۹۸ الفضل روز نامه ربوه روزنامه ۵۳۸ ۱۲۸،۹۹ ،۸ ،۷ ۵۳۷ ،۴۴۹،۳۵۷ ،۲۹۷ ،۲۹۶ ،۱۲۹ الفضل کا ہر گھر میں پہنچنا ضروری ہے الفضل سے خطبات، مضامین، درس اور ۳۱۵ ڈائریاں وغیرہ ضرور سنائی جائیں 1++ 1+1 1+1 1+1 ۲۹۶ ۲۸ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو الفضل خریدنا چاہیئے الفضل کی اشاعت کی طرف جماعت کو خاص توجہ دینی چاہیئے ہر جماعت میں کم از کم ایک پرچہ الفضل جانا چاہیئے الفضل ہر احمدی کو پڑھنا یا سننا چاہیئے فقہ احمدیہ ق قرآن کریم ۶۴،۶۱،۶۰،۵۸،۵۴ ۱۳۸،۱۱۴،۱۱۲،۱۰۰ ، ۹۹ ،۹۸ ،۹۳،۷۸ ،۷۷ ۱۸۴،۱۶۵،۱۶۴،۱۶۱،۱۵۳،۱۵۲،۱۴۷ ، ۱۴۴ ۵۳۸ ۳۱۹ ۹۸ ۹۲،۹۱ ۴۴۶،۱۰ ۲۲۹،۲۲۸،۲۲۷،۲۲۵،۲۰۰،۱۹۹ ،۱۹۳،۱۹۰ ۵۵۲،۲۷۱ ۲۴۹ ،۲۴۸ ،۲۴۶ ،۲۴۰،۲۳۸ ،۲۳۷ ،۲۳۳ ۴۷۹ ۲۸۴،۲۸۳،۲۸۲،۲۷۹،۲۶۴ ،۲۵۸ ،۲۵۱،۲۵۰ ۹۸،۹۱ علمی تبصره عوارف المعارف عینی ( شرح بخاری) غلبه حق غ غیر مبایعین کی اشتعال انگیزیاں ف فاروق ( سونیئر ) خدام الاحمدیہ فتح اسلام (روحانی خزائن جلد۳) (تصنیف حضرت مسیح موعود ) فتح الباری فتح حق ( غیر مبایعین کی کتاب)
119 119 119 ١١٩ 119 119 ۱۴۷ 171 ۱۶۲ ۱۶۴ ۱۶۴ ۱۶۴ ZA ۲۸۸، ۲۹۷، ۳۰۶،۳۰۵، ۳۰۷، ۳۱۲،۳۰۸ ہر گھر میں قرآن کریم کا پڑھا جانا ضروری ہے ۳۲۴،۳۲۱،۳۲۰،۳۱۶، ۳۲۶،۳۲۵، ۳۲۷ اگر ہم قرآن کریم کو چھوڑیں گے تو ہمارے ۳۳۳،۳۲۸، ۳۴۱، ۳۵۲،۳۵۱،۳۴۶، ۳۵۷ | ایمان کا درخت سوکھ جائے گا ۳۷۶،۳۶۹،۳۵۸، ۳۷۷، ۳۸۰، ۳۹۵،۳۸۸ قرآن کریم کا سیکھنا اور سکھانا بڑا ضروری ہے ۴۰۶،۴۰۵،۳۹۶ ، ۴۰۷، ۴۰۸، ۴۱۳،۴۱۲،۴۰۹ قرآن کریم کے سارے کے سارے علوم کو ۴۱۶۴۱۵ ، ۴۱۷ ، ۴۲۲،۴۲۰، ۴۲۴، ۴۲۵، ۴۳۹ کوئی شخص یا کوئی نسل حاصل نہیں کر سکتی یا ۴۵۵،۴۴۲ ۴۷۶،۴۷۳،۴۶۵،۴۶۳،۴۶۲۰ قرآن کریم کے خزانے کسی زمانہ میں ختم ۴۹۶،۴۸۴، ۵۳۹،۵۳۰،۵۱۰،۵۰۵،۴۹۷ نہیں ہوتے ۵۶۱،۵۵۹،۵۵۸،۵۵۷،۵۵۲،۵۵۱،۵۴۰ | جماعت کے ہر گھر میں قرآن کریم پڑھنے ۵۹۲٬۵۸۱،۵۷۹،۵۷۶،۵۷۵،۵۷۴،۵۶۷ پڑھانے کا کام ابد الآباد تک جاری رہنا چاہیئے ۶۱۱،۶۰۵،۵۹۹،۵۹۵،۵۹۳، ۶۲۲ ، ۶۳۱ ۶۳۴۰ قرآن شریف سراسر حکمت اور معرفت اور ۶۳۸،۶۳۶،۶۳۵، ۶۵۱،۶۴۸ ۶۶۴ سچائی سے بھرا ہوا ہے قرآن کریم کے معارف کا مقابلہ کرنے کا چیلنج ۵۵ پڑھے لکھے مسلمان یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ ڈینش زبان میں امسال پورے قرآن کریم قرآن کریم میں کوئی علوم نہیں ہیں سب علوم کا ترجمہ مکمل ہوکر شائع ہو چکا ہے انجیل اور بائیل میں پائے جاتے ہیں مغربی افریقہ کی فنٹسی زبان میں قرآن کریم قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی اور مختصرسی 1+7 ۱۰۷ سورۃ یعنی فاتحہ سے مقابلہ کی دعوت کا ترجمہ مکمل ہو چکا قرآن کریم کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ مکمل خدا کا ابدی اور نہ بدلنے والا کلام قرآن کریم ۱۰۷ ہی ہے.تمام صداقتیں اس میں پائی جاتی ہیں ہو چکا ہماری جماعتی زندگی کا تعلق اپنی زندگیاں قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے ۱۱۸ اس میں کوئی لفظی تبدیلی واقع نہیں ہوئی قرآن کریم کے مطابق ڈھالنے میں ہے قرآنی تعلیم پر عمل کئے بغیر جماعتی لحاظ سے خدا کے نیک بندے اس کی تفسیر کی حفاظت ہم زندہ نہیں رہ سکتے ۱۱۸ | کرنے والے ہیں
۷۹ تمام صداقتیں اس میں پائی جاتی ہیں اور ہر قرآن کریم ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ کوئی شخص قسم کے حملہ سے یہ محفوظ کیا گیا ہے ۱۶۴ | بھوکا نہ رہے اگر ہم قرآن کریم کے علوم صحیح طور پر سیکھنا قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی ۱۸۸ آنحضرت کی امت میں داخل ہے چاہتے ہیں تو تفسیر صغیر خریدیں قرآن کریم کے بتائے ہوئے سارے ہی حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے احکام پر عمل کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ ۲۴۰ کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے قرآن کریم کے احکام خیر ہیں یعنی ان میں فطرت انسانی کے سب حقیقی تقاضوں کو پورا ۲۴۶ کرنے والی کتاب بھلائی ہی بھلائی ہے قرآن کریم کو بزرگی کے قائم کرنے اور انسان کی روحانی، جسمانی ، معاشرتی ، اخلاقی بزرگی کے بڑھانے کا ذریعہ بنایا گیا ہے ۲۴۸ اور سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے والی یہی ہم نے قرآن کریم کی حسین تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلا کے دم لینا ہے کتاب ہے ۳۸۵ ۳۹۵ ۳۹۶ ۴۰۶ ۴۰۶ ۲۳۸ یہ پہلوں اور پچھلوں پر احسان کرنے والی کتاب ۴۰۶ ہماری زندگی قرآن کریم ہے اور قرآن کریم انسان کو ہر قسم کے شیطانی وساوس نظن اور گمان ۲۹۷ سے نکال کر یقین کی رفعتوں تک پہنچاتا ہے ۴۰۶، ۴۰۷ کی صحیح تفسیر ان کتابوں میں ہے قرآن تمام آسمانی کتابوں کا آدم اور جمیع ۳۲۴ محفوظ کرلیا ابدی صداقتوں کو قرآن کریم نے اپنے اندر معارف صحف سابقہ کا جامع ہے قرآن کریم انگریزی مع تفسیری نوٹس تفسیر صغیر ۳۵۱ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا کہ میں تمام سورۃ فاتحہ میں ابھی تو بہت کچھ ہے بہت انسانوں پر احسان کرنے والی کتاب ہوں زیادہ قیامت تک نکلتا رہے گا ۳۵۳ قرآن کریم خدائے قیوم کی حفاظت میں قرآن سورۃ فاتحہ کے اجمال کی تفصیل ہے جس حالت میں نازل ہوا وہ محفوظ ہے ۳۵۴ قرآن کریم اور آنحضرت نے حضرت آدم بیان کرتا ہے قرآنی مضامین کا اجمال سورۃ فاتحہ ہی ہے ۳۵۴ کو تہمت سے بری قرار دیا قرآن کریم کے باہر کوئی صداقت نہیں.یہ قرآن کریم نے حضرت لوط کو تہمت سے کی بات ہے ۳۵۷ | بری قرار دیا ۴۰۷ ۴۰۷ ۴۰۷ ۴۱۲ ۴۱۲
۸۰ جاسکتا جسے معقولی طور پر رڈ نہ کرسکیں ۴۱۶ کوئی ایسا اعتراض قرآن کریم پر نہیں کیا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رزق کی تقسیم بھی میں ہی کیا کرتا ہوں تمام ہدایتیں قرآن کریم کے اندر پائی جاتی ہیں ۴۱۶ جماعت میں زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی ہر وہ چیز جس کی ہمیں ضرورت ہے وہ قرآن تعلیم کو پھیلایا جائے میں پائی جاتی ہے ۴۱۶ قرآن نے بنیادی طور پر ہماری زندگی قرآن کریم نے دنیا کے ہر نبی کی برات کی کے ہر شعبہ میں ہماری راہنمائی کی ہے ہے اور یہ بڑا ہی عظیم احسان ہے ۴۱۶ ۴۵۳ ۴۷۳ ۵۷۴ قرآن کریم ایک رحمت، ایک کامل اور مکمل شریعت ہر قسم کی نعمتوں کے حصول کا ذریعہ قرآن کریم کا حامل بن کر دنیا کی طرف نازل ہوا میں موجود ہے ۴۱۷ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہمیں قرآن قرآن کریم میں ہر چیز جو قابل بیان تھی یعنی جس عظیم جیسی ہدایت اور افضل الرسل جیسا اسوہ کی ضرورت تھی وہ بیان کر دی گئی ہے وید کا وہ حصہ جو قرآن کریم سے مشابہت نہیں رکھتا وہ خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوا قرآن شریف عزت اور شرف کا جامع ہے قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے حسن واحسان ۴۱۷ ۴۱۹ ۴۲۵ حسنہ عطا فرمایا ہے خدا تعالیٰ کے پاک اور مطہر بندوں کے سوا کتاب مکنون یعنی قرآن کریم کے پوشیدہ حصوں کو دنیا پر کوئی ظاہر نہیں کر سکتا ۵۷۳ ۵۷۵ ہماری خواہش ہے کہ اگلے پانچ سات سالوں کے جلووں کو نمایاں کر کے ہمارے سامنے رکھا ہے ۴۳۲ میں مختلف زبانوں میں دس لاکھ قرآن کریم مترجم دنیا کے ملک ملک میں پھیلا دیں ہر سچائی اور صداقت جو انسان معلوم کرتا ہے وہ قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہے انسان کی نجات کی سب راہیں اسی سر چشمہ ۴۴۵ سے نکلتی ہیں قرآن کریم سے زائد ہو ہی نہیں سکتا اسے ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم آخری شریعت ہے بلکہ ایک ۴۴۵ کامل اور مکمل ہدایت نامہ ہے زندہ کیا اور پیدا کیا اور زندہ رکھا ہے قرآن کریم سے باہر کوئی صداقت نہیں ہے خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا ہر راستہ قرآن کریم اصولی طور پر اسی کی تفسیر ہے ۴۵۰ کے نور سے منور ہو کر راہنمائی کرتا ہے ۵۶۰ ۶۱۲ ۶۱۲ ۶۱۲
ΔΙ دنیا میں ہوٹلوں کے ہر کمرہ میں قرآن کریم قرآنی انوار کا ترجمہ رکھنے کا منصوبہ ۶۳۵ اب دنیا کے ہوٹلوں کے ہر اس کمرہ میں کتاب البریہ (روحانی خزائن جلد ۱۳) جس کے اندر بائیل موجود ہے اس کے اوپر (تصنیف حضرت مسیح موعود ) قرآن کریم مترجم رکھا ہونا چاہیئے ۶۳۶ کشتی نوح (روحانی خزائن جلد ۱۹) بڑی جلدی وہ وقت آنے والا ہے جب دنیا کے (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ہر ہوٹل کے کمرہ میں بائیبل ہو یا نہ ہو قرآن کریم مترجم ضرور ہو گا.انشاء اللہ تعالیٰ ۶۳۷ کشمیر کی کہانی ۱۹۸،۱۹۰ ۱۶۹ ۱۸۹،۱۹ ۵۵۲،۳۹۵،۳۲۶،۱۹۸ ۳۵۶ حمد اور عزم کے عظیم مظاہرے کے لئے الكفر ملة واحدة ( تصنيف حضرت مصلح موعود ) قرآن کریم کی عین ہدایت کے مطابق ہم نے تیاری کرنی ہے سائنسی ایجادات کو اسلام اور قرآن عظیم کے مقابلہ میں لاکھڑا کر دیا گیا ۶۶۱ کنز العمال لاہور (ہفت روزہ ) ۵۵۴،۴۶۳ ۳۱۵ ۴۴۹،۱۸۷ ،۱۱ عربی جاننا قرآن کریم کے سمجھنے کے لئے تو لائف آف محمد (Life Of Muhammad) شرط نہیں ہے ۶۵۴ قرآن کریم کا ترجمہ نوع انسانی کے ہاتھ لیکچر سیالکوٹ (روحانی خزائن جلد ۲۰) میں دینا اشد ضروری ہے چینی زبان میں ترجمہ قرآن کریم ضروری ہے ہمیں فارسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر شائع کرنی چاہیئے ہمارے لئے بہت ضروری ہے کہ قرآن کریم کی عربی تفسیر شائع کریں ۶۶۴ ۶۶۶ ۶۶۶ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) م مثنوی مطلع الانوار مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریرات کی رو سے مسلم صحیح ۵۵۲،۲۰۰ ۳۲۴ ۳۲۲ ۳۳ ۳۱۴ تمام فرقے قرآن کریم کو قیامت تک کے مسلم نو جوانوں کے سنہری کارنامے لئے ہدایت نامہ سمجھتے ہیں ۶۷۶ | مسند احمد بن حنبل 1.۳۱۶،۳۱۵،۳۱۴
۱۴۳ ۵۴۱ ۸۲ مسیح الدجال یا جوج ماجوج ۶۲۲ ن مسیح ہندوستان میں (روحانی خزائن جلد ۱۵) نزول المسیح (روحانی خزائن جلد ۱۸) (تصنیف حضرت مسیح موعود ) مشعل راه مشكوة المصابيح ۵۵۲،۲۰۰ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۴۴۷ ۳۱۵ | وصال ابن مریم مصباح (ماہنامہ) موضوعات کبیر مقام خاتم النبین ۶۲۱،۲۹۶،۱۹۱ الوصیت (روحانی خزائن جلد ۲۰) ۳۱۴ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۹۸ وید ۱۸۳،۱۱ ۴۲۲،۴۲۱،۴۲۰ ، ۴۱۹،۵۴ مقام مہدویت اور ختم نبوت کی حقیقت ۳۱۹ تا ۳۲۲ دید پر بڑا سخت انتہام ہے کہ اس نے نیوگ مقام محمد یت اور ختم نبوت کی حقیقت مکتوبات امام ربانی ملفوظات جلد اوّل ملفوظات جلد دوم ملفوظات جلد ۱۰ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل ۴۰۳ ۳۲۳ ۲۴۹ ۲۳۸ ۹۸ کی اجازت دی وید اپنی اصلی حالت میں خدا تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی پر نازل ہونے والی کتاب تھی ہمارے عقائد ہماری تعلیم ہی ۴۱۹ ۴۲۰ ۱۹۸ ۱۹۸ ۴۴۶ ۶۲۲ ۱۹۸ ۳۱۹ ہم مسلمان ہیں یا در رکھنے کی باتیں یاد محمود ( حضرت مصلح موعود کی یاد میں احباب جماعت کی نظموں کا مجموعہ ) الیواقیت والجواہر ۳۴۵،۱۸۱،۱۵۶،۵۰،۴۷ ، ۴۶ ،۴۵ ۶۸ ۵۳۹ مجموعہ اشتہارات جلد دوم منصب خلافت (انوار العلوم جلد ۲) میری والدہ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں ۲۰۰ (Why I believe in Islam)