KhilafatJubleeMaqalajat

KhilafatJubleeMaqalajat

مقالہ جات برائے تقاریر دوران صد سالہ خلافت جوبلی ۲۰۰۸ء

Author: Other Authors

Language: UR

UR
خلافت اسلامیہ احمدیہ

Book Content

Page 1

بسم اللہ الرحمن الرحیم مواد برائے تقاریر (جلسے 2008ء) ( جلد نمبر (2)

Page 2

فہرست عناوین اور مواد برائے تقاریر جلسے 2008ء نمبر شمار فہرست مضامین عالمی فیضان خلافت منصب خلافت صفحہ نمبر 03 18 01 02 03 04 05 06 07 08 09 10 11 12 13 14 15 67 16 17 18 19 20 21 23 22224 خلفائے راشدین (سیرت و کارنامے) خلافت دائمی ہے استحکام خلافت خلافت اور تجدید و احیائے دین خلافت عَلَى مِنْهاجِ النُّبُوَّةِ قدرت ثانیہ اور بشارات ربانیہ خلافت احمدیہ اور بشارات رحمانیہ تاریخ خلافت احمدیہ سیرت خلفائے احمدیت سفر خلفائے احمدیت رؤیا و کشوف خلفائے احمدیت خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا کے واقعات خلفائے احمدیت اور جماعت کا باہمی تعلق تحریکات خلفائے احمدیت اور اُن کے ثمرات خلافت احمدیہ کے مخالف تحریکات اور ان کا انجام خلافت احمدیہ اور دجالی تحریکات کا مقابلہ خلفائے سلسلہ احمدیہ کی طرف سے مخالفین کو دیئے جانے والے چیلنجز نظام خلافت اور مجلس شوریٰ نظام نو اور وصیت نظام خلافت اور ہماری ذمہ داریاں فیضان خلافت پیش گوئی مصلح موعود 32 62 79 119 139 164 188 203 235 268 296 335 358 380 420 439 466 489 515 530 548 583

Page 3

عالمی فیضانِ خلافت مرتبہ طاہر جمیل احمد استاد مدرسته الظفر ربوه 3

Page 4

عناوین بنی نوع انسان کے لئے ہمدردی تحریکات خلفائے سلسلہ مصیبت زدگان کے لئے تحریکات فنڈز کا قیام عمومی تحریکات خلافت احمدیت برائے عامتہ الناس و عامتہ ا لمسلمين بنی نوع انسان کے لئے ہمدردی: بینائی اور مساکین کی اعانت کے لئے حضرت خلیفہ انبیع الاول رضی اللہ عنہ کی تحریک: جنوری 1909ء میں خلیفہ المسح الاول رضی اللہ عنہ نے بتائی اور مساکین کی اعانت کیلئے تحریک فرمائی جس کے لئے 100 روپیہ آپ رضی اللہ عنہ نے خود بھی عطا فرمایا.تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ: بھوکوں کو کھانا کھلانا کی تحریک: رت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 291) ہر شخص کو اپنے اپنے محلہ میں اپنے ہمسایوں کے متعلق اس امر کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ کوئی شخص بھوکا تو نہیں اور اگر کسی ہمسایہ کے متعلق اسے معلوم ہو کہ وہ بھوکا ہے تو اس وقت تک اسے روٹی نہیں کھانی تک وہ اس بھوکے کو نہ کھلائے“ چاہئے (الفضل 11 جون 1945ء)

Page 5

شاردا بل (bill) اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ: اجمیر کے مسٹر ہر بلاس شاردا نے اسمبلی میں تجویز پیش کی کہ ہندوؤں میں کم سن بچوں کی شادی کی عادت پائی جاتی ہے جس سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما، اخلاق و عادات اور صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے.لہذا ایک قانون نافذ کیا جائے جس سے اس رسم کا انسداد ہو سکے.یہ تجویز شاردا بل کے نام سے موسوم ہوئی اور اسے وائسرائے ہند کی منظوری سے پورے ہندوستان پر نافذ کر دیا گیا..امیر المؤمنین سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس قانون سے متعلق حکومت ہند کو ایک مفصل بیان ارسال فرمایا جس میں بتایا کہ بچپن کی شادی پر قانوناً پابندی عائد کرنا درست نہیں تعلیم اور وعظ کے ذریعہ اس کی روک تھام کرنی چاہئے.قانون بنا دینے سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی.صحیح طریق یہ ہے کہ بچوں کا بالغ ہونے پر فسخ نکاح کا حق دیا جائے اس حق سے تمام نقائص دور ہو سکتے ہیں.بلا شبہ فسخ نکاح کے معاملہ میں دوسرے مذاہب کا اسلامی تعلیم سے اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود یہ عقل و فہم سے بالا امر ہے کہ مسلمانوں کو کیوں ایسے تمدنی حالات میں دوسرے مذاہب کے تابع کیا جائے جن میں ہماری شریعت نے ہمارے لئے معقول صورت پیدا کر دی ہے لیکن ان کے ہاں کوئی علاج نہیں.شرعاً ایسے قانون کی ہمارے نزدیک ممانعت نہیں بشرطیکہ اس کا فیصلہ مسلمانوں کی رائے پر ہو.تحریک حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ : انفلوانزا کی عالمگیر وہا میں جماعت کی بے لوث خدمات: تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 150) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں: ”1918ء میں جنگ عظیم کا ایک نتیجہ انفلوانزا کی وبا کی صورت میں ظاہر ہوا جس نے گویا ساری دنیا میں پھیل کر اس تباہی سے بھی زیادہ تباہی مچا دی جو جنگ کے میدان میں ہوئی تھی.ہندوستان میں بھی اس مرض کا سخت حملہ ہوا اور گو شروع میں اموات کی شرح کم تھی مگر کچھ عرصہ کے بعد اس کثرت کے ساتھ موتیں ہونے لگیں کہ قیامت کا نمونہ سامنے آگیا.چونکہ جماعت احمدیہ کے فرائض میں ایک بات یہ بھی داخل ہے کہ وہ مخلوق کی خدمت کرے اس لئے ان ایام میں حضرت خلیفہ اُسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ نے نہایت شاندار خدمت سرانجام دی اور مذہب وملت کی تمیز کے بغیر ہر قوم اور طبقہ کے لوگوں کی تیمار داری اور علاج معالجہ میں نمایاں حصہ لیا.احمدی ڈاکٹروں اور احمدی طبیبوں نے اپنی آنریری خدمات پیش کر کے نہ صرف قادیان میں مخلوق خدا کی خدمت کا حق ادا کیا بلکہ شہر بہ شہر گاؤں بہ گاؤں پھر کر طبی امداد بہم پہنچائی اور عام والنٹیر وں نے نرسنگ وغیرہ کی خدمت سر انجام دی اور غربا کی امداد کے لئے جماعت کی طرف سے روپیہ اور خورد و نوش کا سامان بھی فراخ دلی کے ساتھ تقسیم کیا گیا.مجھے خوب یاد ہے کیونکہ میں بھی اس آنریری کور میں شامل تھا کہ ان ایام میں احمدی والنٹیر دن رات اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر مریضوں کی خدمت میں مصروف تھے اور بعض صورتوں میں جبکہ کام کرنے والے خود بیمار ہو گئے اور ابھی نئے کام کرنے والے میسر نہیں آئے تھے.بیمار والٹیروں نے ہی خدمت کے سلسلہ کو جاری رکھا اور جب تک یہ والنٹیر بالکل 5

Page 6

دو نڈھال ہو کر صاحب فراش نہیں ہو گئے انہوں نے اپنے آرام اور اپنے علاج کے خیال پر دوسروں کے آرام اور دوسروں کے علاج کو ہر حال میں مقدم کیا.یہ ایک ایسا شاندار کام تھا کہ دوست و دشمن سب نے یک زبان ہو کر جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمات کا اعتراف کیا اور تقریر و تحریر ہر دو میں اس بات کو تسلیم کیا کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ نے بہت اچھا نمونہ قائم کیا ہے.“ 66 (سلسلہ احمدیه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب - صفحہ 358-359) تحریکات حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ: (1) عراقی عوام کی مالی امداد کی تحریک: عراق کی جنگ کے متعلق لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ احمدیوں کو کیا کرنا چاہئے.تو ایک تو احمدیوں کو مالی امداد اپنی ایمنسٹی (amnesty) کے ذریعہ ضرور بھیجوانی چاہئے کیونکہ بہت مصیبت میں لوگ مبتلا ہیں.“ (خطبہ جمعہ 4 اپریل 2003ء - الفضل انٹر نیشنل 16 مئی 2003ء) 2) افریقہ (Africa) بھارت (India)، بنگلہ دیش (Bangladesh) اور دیگر ممالک میں قربانیوں کی رقوم بھجوانے کی تحریک: احباب جماعت کو چاہئے کہ افریقہ کے ممالک اور قادیان بھجوانے کے لئے بڑی رقوم دیں اور قادیان کی جماعت کو بھی ہدایت دی جائے کہ وہ یہ رقم ہندوستان کے ان غریب علاقوں میں تقسیم کریں جہاں کے لوگوں کو سارے سال میں ایک دفعہ بھی گوشت کھانے کو نہیں ملتا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جرمنی کو بھی متوجہ فرمایا کہ وہ افریقہ، ہندوستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے غربا کیلئے قربانی کی رقوم بھجوائیں.(3 (خطبہ عید الاضحیہ 28 مارچ 1999ء.روزنامہ الفضل یکم اپریل1999ء) سیرا لیون (Sierra Leone) کے مسلمان یتامیٰ اور بیوگان کی خدمت کی تحریک: ”ہمارے پاس اس وقت بہت سے خدمت کے ایسے میدان خالی پڑے ہیں جہاں یتامی اور بیوگان کی خدمت کو پہلے سے زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے.افریقہ میں مثلاً سیرا لیون میں جو بکثرت مظالم ہوئے ہیں ان کے نتیجہ میں بعضوں کی ٹانگیں کاٹی گئیں مگر میں جماعتوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور افریقہ (Africa) کی دوسری جماعتوں کو بھی کہ یتیم اور بیوگان کا جہاں تک مسئلہ ہے تو یہ ایک عام شکایت ہو گئی ہے......تو جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مسلمان ہیں، سردست اگر مسلمانوں کی ذمہ داری کرنے کی جماعت کوشش کرے تو یہ بھی اگر چہ ہماری توفیق سے بہت زیادہ کام ہے لیکن اگر محض لِلہ یہ کام کریں تو میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری توفیق بڑھاتا چلا جائے گا.“ (خطبہ جمعہ 29 جنوری 1999ء.الفضل انٹر نیشنل 19 تا 25 مارچ 1999ء) 6

Page 7

(4 افریقہ (Africa) کے فاقہ زدہ ممالک کے لئے امداد کی تحریک: ”میں نے جب عالم اسلام کے موجودہ حالات پر غور کیا تو میری توجہ افریقہ کے ان بھوکوں کی طرف مبذول ہوئی جو وسیع علاقوں میں جو کئی ملکوں میں پھیلے پڑے ہیں.ابی سینیا میں بھی، صومالیہ میں بھی، سوڈان میں بھی، چاڈ میں بھی بہت سے ممالک میں کثرت کے ساتھ انسانیت بھوک سے مر رہی ہے.......پس میں نے فیصلہ کیا ہے کہ دس ہزار پونڈ جو ایک بہت معمولی قطرہ ہے جماعت کی طرف قطرہ ہے جماعت کی طرف سے افریقہ کے بھوک سے فاقہ کش ممالک کے لئے پیش کروں اور حسب توفیق ذاتی طور پر بھی پیش کروں گا اور ساری جماعت بحیثیت جماعت بھی کچھ نہ کچھ صدقہ نکالے.....پس میں کوئی معین تحریک نہیں کرتا مگر یہ تحریک کرتا ہوں کہ خالصتاً اس نیت کے ساتھ کہ ہمارے ان صدقوں کو اللہ تعالیٰ امن عالم کے حق میں قبول فرمائے اور مسلمانوں کے مصائب دور کرنے کے لئے قبول فرمائے....اور یہ جو سارے صدقات ہوں گے یہ خالصتاً افریقہ کے فاقہ زدہ ممالک خرچ کئے جائیں گے.“ -1 پر (خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 1991ء.روزنامہ الفضل 9فروری 1991ء) تحریکات خلفائے سلسلہ: دسمبر 1912ء کے آخر میں حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے دو اہم تحریکیں فرمائیں: علم الرؤیا کا علم اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کو عطا فرمایا اور ان سے ورثہ میں علمائے اُمت کو پہنچا.چنانچہ پہلے مسلمانوں نے اس فن پر کامل اتعبیر اور تعطیر الانام وغیرہ عمدہ کتابیں لکھیں حضرت خلیفہ اسیح الاول نے تحریک فرمائی کہ ہم سے پہلے بزرگوں نے تو اپنا فرض ادا کر دیا لیکن اب کئی نئی ایجادیں نکل آئی ہیں ہمیں نئی ضروریات کے لئے اس فن کی ضخیم کتاب تیار کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.دوسری تحریک حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے یہ فرمائی کہ مال غنیمت کی تقسیم کے لئے جو اللہ اور رسول کا حق ہے اس کا مصرف موجودہ زمانہ میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی، اس کی صفات، اس کے افعال اور اس کے کلام پاک کی اشاعت پر رسالے اور ٹریکٹ شائع کئے جائیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ کی ادائیگی کے لئے حدیث شریف کی اشاعت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفا پر اعتراضات کے جوابات پر روپیہ خرچ کیا جائے.-2 تحریک حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ : قرآن مجید اور بنیادی لٹریچر (Literature) کے تراجم کی تحریک: تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 428) انگریزی زبان میں ترجمہ کا کام جماعت میں ہو رہا تھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس مبارک دور میں اس کے علاوہ دنیا کی مشہور سات زبانوں میں قرآن مجید اور بعض دوسری بنیادی اہمیت کی کتب کے تراجم شائع کرنے کی تحریک فرمائی اور حضور رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اطالوی زبان میں ترجمہ کا خرچ میں ادا کروں گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ چونکہ 7

Page 8

پہلے مسیح کا خلیفہ کہلانے والا (پوپ.ناقل ) اٹلی (Italy) میں رہتا ہے اس مناسبت سے قرآن مجید کا جو ترجمہ اطالوی (Italian) زبان میں شائع ہو وہ مسیح محمدی کے خلیفہ کی طرف سے ہونا چاہئے.نے فرمایا: ނ (سوانح فضل عمر جلد سوم صفحہ 374 تا 383) ہم تحریک جدید: تحریک جدید کے آغاز کا پس منظر بیان کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”یہ تحریک ایسی تکلیف کے وقت میں شروع کی گئی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی ساری طاقتیں جماعت احمدیہ کو مٹانے کیلئے جمع ہو گئی ہیں.ایک طرف احرار نے اعلان کر دیا کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کو مٹا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ اس وقت تک سانس نہ لیں گے جب تک مٹا نہ لیں.دوسری طرف جو لوگ ملنے جلنے والے تھے اور بظاہر ہم سے محبت کا اظہار کرتے تھے انہوں نے پوشیدہ بغض نکالنے کے لئے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سینکڑوں اور ہزاروں روپوں سے ان کی امداد کرنی شروع کردی اور تیسری طرف سارے ہندوستان نے ان کی پیٹھ ٹھونکی یہاں تک کہ ایک ہمارا وفد گورنر پنجاب سے ملنے کے لئے گیا تو اسے کہا گیا کہ تم لوگوں نے احرار کی اس تحریک کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا.ہم نے محکمہ ڈاک سے پتہ لگایا ہے.پندرہ سو روپیہ روزانہ ان کی آمدنی ہے تو اس وقت گورنمنٹ انگریزی نے بھی احرار کی فتنہ انگیزی سے متاثر ہو کر ہمارے خلاف ہتھیار اٹھا لئے اور یہاں کئی بڑے بڑے افسر بھیج کر اور احمدیوں کو رستے چلنے سے روک کر احرار کا جلسہ کرایا گیا.“ تحریک جدید ایک الہامی تحریک: ( تقریر فرمودہ 27 دسمبر 1943 ء سوانح فضل عمر جلد 3 صفحہ 297) تحریک جدید کو تمام کامیابیوں کے حصول کا ذریعہ اور الہامی تحریک قرار دیتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ پس جماعت کو اپنی ترقی اور عظمت کے لئے اس تحریک کو سمجھنا اور اس پر غور کرنا نہایت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ جس طرح مختصر الفاظ میں ایک الہام کر دیتا ہے اور اس میں نہایت باریک تفصیلات موجود ہوتی ہیں.اسی طرح اس کا القا بھی ہوتا ہے اور جس طرح الہام مخفی ہوتا ہے.اسی طرح القا بھی مخفی ہوتا ہے بلکہ القا الہام سے زیادہ مخفی ہوتا ہے.یہ تحریک بھی جو القائے الہی کا نتیجہ تھی پہلے مخفی تھی مگر جب اس پر غور کیا گیا تو یہ اس قدر تفصیلات کی جامع نکلی کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے زمانہ کے لئے اس میں اتنا مواد جمع کر دیا ہے کہ اصولی طور پر اس میں وہ تمام باتیں آگئی ہیں جو کامیابی کے لئے ضروری ہیں.“ تحریک جدید کی سکیم (scheme): الفضل 26 فروری 1961 ء سوانح فضل عمر جلد سوم صفحہ 297 تا 300) تحریک جدید کی جو سکیم اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دل میں القا کی اس کی تفصیلات بیان کرنے جماعت کو اس کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنے کے لئے بطور تمہید حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 8

Page 9

19اکتوبر 1934ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: سات یا آٹھ دن تک اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی اور توفیق بخشی تو میں ایک نہایت ہی اہم اعلان جماعت کے لئے کرنا چاہتا ہوں چھ یا سات دن سے قبل میں وہ اعلان کرنا مناسب نہیں سمجھتا.اس اعلان کی ضرورت اور اس کی وجود بھی میں اسی وقت بیان کروں گا لیکن اس سے پہلے میں آپ لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ احمدی کہلاتے ہیں، آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی چنیدہ جماعت ہیں، آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے مامور پر کامل یقین رکھتے ہیں، آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے آپ نے اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر رکھے ہیں اور آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ ان تمام قربانیوں کے بدلے اللہ تعالیٰ سے لوگوں نے جنت کا سودا کر لیا ہے.یہ دعوئی آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر دہرایا بلکہ آپ میں سے ہزاروں انسانوں نے اس عہد کی ابتدا میرے ہاتھ پر کی کیونکہ وہ میرے ہی زمانہ میں احمدی ہوئے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے ، تمہاری بیویاں، تمہارے عزیز و اقارب، تمہارے اموال اور تمہاری جائیدادیں تمہیں خدا اور اس کے رسول سے زیادہ پیاری ہیں تو تمہارے ایمان کی کوئی حقیقت نہیں.یہ ایک معمولی اعلان نہیں بلکہ اعلان جنگ ہو گا ہر اس انسان کے لئے جو اپنے ایمان میں ذرہ بھر بھی کمزوری رکھتا ہے.یہ اعلان جنگ ہو گا ہر اس شخص کے لئے جس کے دل میں نفاق کی کوئی بھی رگ باقی ہے لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے تمام افراد الا ماشاء اللہ سوائے چند لوگوں کے سب سچے مومن ہیں اور اس دعوئی پر قائم ہیں جو انہوں نے بیعت کے وقت کیا اور اس دعوئی کے مطابق جس قربانی کا بھی ان سے مطالبہ کیا جائے گا اسے پورا کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے.“ وقف جديد ایک اور بابرکت تحریک: 66 (الفضل 23 اکتوبر 1934 ء سوانح فضل عمر جلد 3.صفحہ 301) جماعت کی مالی جہاد اور قربانیوں کی تاریخ نہایت شاندار اور قابل رشک ہے.اس عظیم مثالی کارنامہ کے پیچھے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ولولہ انگیز قیادت کا کسی قدر تذکرہ تحریک جدید کے ضمن میں ہو چکا ہے تحریک جدید کا اجرا 1934ء میں ہوا جبکہ حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی جوانی کا زمانہ اور شدید طوفانی مخالفت کی وجہ سے جماعت کے اندر غیر معمولی جذبہ و جوش کا زمانہ تھا مگر 1958 ء میں جبکہ حضور (حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ) ایک ایسے خوفناک قاتلانہ حملہ سے دوچار ہو چکے تھے جس میں ”نادان دشمن کا وارشہ رگ سے چھوتے ہوئے اور اپنے اثرات پیچھے چھوڑتے ہوئے نکل گیا تھا اس کے نتیجہ میں حضور (حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ) ایک انتہائی تکلیف دہ اعصابی بیماری میں مبتلا رہ چکے تھے مگر عمر کی زیادتی، بیماری کی شدت، ذمہ داریوں کے ہجوم میں ہمارا یہ خدا رسیدہ قائد ایک عجیب شان کے ساتھ جماعت کی روحانی ترقی اور تربیت کیلئے ایک نہایت وسیع پروگرام اس جماعت کے سامنے پیش کرتا ہے جو تقسیم وطن کے نتیجہ میں ایک بہت بڑے دھکے کو برداشت کر کے نئے سرے سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں مصروف ہے اور ایک دفعہ پھر دنیا پر یہ ثابت کر دیتا ہے کہ خدائی تائید یافتہ اولیاء اللہ کی شان دنیوی لیڈروں اور خود ساختہ پیروں سے کتنی مختلف اور ارفع واعلیٰ ہوتی ہے.اس سکیم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل ارشاد سے ہوتا ہے: دو میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی کے نقش قدم پر چلیں تو جس طرح 9

Page 10

فرمایا: جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے ماتحت وقت کرتے ہیں وہ اپنی زندگیاں براہ راست میرے سامنے وقف کریں تاکہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام کر سکیں.......ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں ہے لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لئے وقف کریں.....اور باہر جا کر نئے ربوے اور نئے قادیان بسائیں....وہ جا کر کسی ایسی جگہ بیٹھ جائیں اور حسب ہدایت وہاں لوگوں کو تعلیم دیں.لوگوں کو قرآن کریم اور حدیث پڑھائیں اور اپنے شاگرد تیار کریں جو آگے اور جگہوں پر پھیل جائیں.“ ہے.اسی طرح حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمایا: وو ( افضل 6 فروری 1958 ء) یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہو کر رہے گا.میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں، کپڑے بیچنے پڑیں میں اس فرض کو تب بھی پور ا کروں گا.خدا تعالى...میری مدد کے لئے فرشتے آسمان سے اُتارے گا.“ ( افضل 7 جنوری 1958 ء) 1958ء میں عید الاضحیہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس انجمن کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے پشاور سے کراچی تک رُشد و اصلاح کا جال پھیلا یا جائے بلکہ اصلی حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم نے رُشد و اصلاح کے لحاظ سے مشرقی اور مغربی پاکستان کا گھیرا کرنا ہے تو اس کیلئے ہمیں ایک کروڑ روپے سالانہ سے بھی زیادہ کی ضرورت ہے.“ (1 خلافت ثالثہ کی بابرکت تحریکات: صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ: (سوانح فضل عمر جلد 3 صفحہ 350،348،347) احمدیت کی پہلی صدی کی تکمیل پر اظہار تشکر اور احمدیت کی دوسری صدی جو غلبہ اسلام کی صدی ہے ) کے شایان شان +1973- استقبال کی تیاری کے لئے حضرت خلیفہ اُسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک جامع منصوبہ بنا کر اسے 1973ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کے سامنے پیش کیا اور اس کے دوسرے حصے یعنی تعلیمی منصوبے کا اعلان حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1979ء میں اس وقت فرمایا جب تاریخ اسلام میں آٹھ سو سال کے وقفے کے بعد پہلے احمدی مسلمان سائنس دان عبدالسلام نے فزکس میں دو امریکی سائنسدانوں کے ساتھ عالمی اعزاز ” نوبل انعام حاصل کیا.غلبہ اسلام کی آسمانی مہم صد سالہ جوبلی منصوبہ کے ساتھ تعلیمی منصوبے کو منسلک کرنے سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ تھا کہ ”جب تک تعلیمی بنیاد مضبوط نہ ہو کوئی شخص علوم قرآنی سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا اور یہ کہ ”جب انسان اپنے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جائے توا نسان کی مدد کے لئے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن ہی آئے گا نیز یہ کہ ہم اسلام کو اس وقت تک نہیں پھیلا سکتے جب تک یوروپنیوں کو تعلیم کے میدان میں شکست نہ دے دیں.“ 10

Page 11

(حیات ناصر جلد 1 صفحہ 556) (2) صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے کا اعلان: حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ 1973ء پر جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی یہ خواہش تھی کہ جماعت صد سالہ جشن منائے یعنی وہ لوگ جن کو سوواں سال دیکھنا نصیب ہو وہ صد سالہ جشن منائیں اور میں بھی اپنی اسی خواہش کا اظہار کرتا ہوں کہ صد سالہ جشن منایا جائے.اس کے لئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے اور میں نے بڑی دعاؤں کے بعد اور بڑے غور کے بعد تاریخ احمدیت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگلے چند سال جو صدی پورا ہونے سے قبل باقی رہ گئے ہیں وہ ہمارے لیے بڑے ہی اہمیت کے مالک ہیں.اس عرصہ میں ہماری طرف سے اس قدر کوشش اور اللہ کے حضور اس قدر دعائیں ہو جانی چاہئیں کہ اس کی رحمتیں ہماری تدابیر کو کامیاب کرنے والی بن جائیں اور پھر جب ہم یہ صدی ختم کریں اور صد سالہ جشن منائیں تو اس وقت دنیا کے حالات ایسے ہوں جیسا کہ ہماری خواہش ہے کہ ایک صدی گزرنے کے بعد ہونے چاہئیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا منشا ہے کہ یہ جماعت اس کے حضور قربانیاں پیش کر کے غلبہ اسلام کے ایسے سامان پیدا کردے.اسی کے فضل اور اسی کی دی ہوئی عقل اور فہم.سے اور اسی کے سمجھائے ہوئے منصوبوں کے نتیجہ میں دنیا کے وہ لوگ بھی جنہیں اس وقت اسلام سے دلچسپی نہیں ہے وہ بھی سمجھنے لگیں کہ اب اسلام کے آخری اور کامل غلبہ میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا.یہ سپریم ایفرٹ (Supreme Effort) یعنی انتہائی کوشش جو آج کا دن اور آج کا سال ہم سے مطالبہ کرتا ہے.اس آخری کوشش کے لئے ہمیں کچھ سوچنا ہے اور پھر سب نے مل کر بہت کچھ کرنا ہے.یہ خیال کر کے کہ سولہ سال کے بعد جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک سو سال پورے ہو جائیں گے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت پر، اس معنی میں کہ آپ نے جو پہلی بیعت لی اور صالحین اور مطہرین کی ایک چھوٹی سی جماعت بنائی تھی اس پر 23 مارچ1989 ء کو پورے سو سال گزر جائیں گے.“ (3) نصرت جہاں سکیم: (حیات ناصر جلد 1 صفحہ 557،556) حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی 11 اپریل سے 14 مئی 1970 ء تک مغربی افریقہ کے دورہ پر رہے.اس دوران جبکہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی گیمبیا میں مقیم تھے.حضرت خلیفتر اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو افریقی اقوام کی خدمت دو اور محبت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبردست تحریک ہوئی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ تم کم از کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا گا“ افریقہ کے دورہ سے واپسی پر 14 مئی کو لندن میں تشریف لے گئے.لندن قیام کے دوران حضور عضور (حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں ریزرو فنڈ کا اعلان فرمایا.یورپ و افریقہ کے دورہ سے واپسی کے بعد پاکستان پہنچ کر 12 جولائی 1970 ء کو خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں سکیم کے پس منظر اور لندن میں تحریک کے اعلان اور اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت کا ذکر کیا.جو منصوبہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ 11

Page 12

تعالٰی کو سمجھایا اس کا نام حضرت خلیفتہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شریک حیات حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے نام پر نصرت جہاں آگے بڑھو منصوبہ“ رکھا.نصرت جہاں سکیم اور معاندین کا ردعمل: حیات ناصر جلد 1 صفحہ 527 تا540) نصرت جہاں سیکم کے ذریعے افریقہ میں ہونے والے غیر معمولی انقلاب کو احمدیت کے معاندین نے حسد اور غیظ و غضب کی نگاہ سے دیکھا اور افریقہ میں بھی اور پاکستان میں بھی اپنا مخالفانہ رد عمل ظاہر کیا.پاکستان میں جو ردعمل ہوا اس کی طرف سے اشارہ کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اُسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”ہماری اس سکیم کا اس وقت تک جو مخالفانہ رد عمل ہوا ہے وہ بہت دلچسپ ہے اور آپ سن کر خوش ہوں گے.اس وقت تک میری ایک Source سے یہ رپورٹ ہے.........کہ جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ نے یہ ریزولیوشن پاس کیا ہے کہ ویسٹ افریقہ میں احمدیت اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ وہاں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس واسطے پاکستان میں ان کو کچل دو تا کہ وہاں کی سرگرمیوں پر اس کا اثر پڑے اور جماعت کمزور ہو جائے.بالفاظ دیگر جو ہمارا حملہ وہاں عیسائیت اور شرک کے خلاف ہے اسے کمزور کرنے کے لئے لوگ یہاں سکیم سوچ رہے ہیں.ویسے وہ تلوار اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کسی مخالف کو نہیں دی جو جماعت کی گردن کو کاٹ سکے البتہ افراد کو بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے.“ افریقہ میں اس سکیم کو ناکام کرنے کے لئے بھی مخالفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہمیشہ جماعت کے شامل حال رہی.66 مصیبت زدگان کے لئے تحریکات : تحریک حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ : مصیبت زدگان کی مرکزی امداد: حیات ناصر جلد 1 صفحہ 544) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 2 فروری 1934 ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ زلزلہ کے مصیبت زدگان کی بلا امتیاز مذہب و ملت امداد کریں.مرکز کی طرف سے مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی اظہار ہمدردی اور تفصیلات مہیا کرنے کے لئے بہار بھجوائے گئے اور مئی 1934ء میں تیرہ سو روپیہ کی رقم حضرت مولانا عبدالماجد صاحب رضی اللہ عنہ امیر جماعت احمدیہ بھاگلپور کو روانہ کی گئی.علاوہ ازیں ایک ہزار روپیہ ریلیف فنڈ میں دیا گیا.تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 185) 12

Page 13

تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی: 1) افغان مہاجرین کیلئے طبی سہولت : روس کے افغانستان پر حملے کے نتیجے میں افغان مہاجرین کثرت سے اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان میں پناہ گزین ہو گئے.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان مظلومین کی طبی سہولت کے لئے مہاجرین کے کیمپوں میں جماعت کی طرف سے ڈسپنسری کا انتظام کروایا اور انتہائی مخالفانہ حالات کے باوجود خدمت خلق کے جذبہ کے تحت افغان مہاجرین کی خدمت کی توفیق پائی.اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ انتہائی مزاحمت اور رکاوٹوں کے باوجود افغان مہاجرین علاج کیلئے باقی سہولتوں کو چھوڑ کر اکثر احمدی ڈسپنسری کا ہی رخ کرتے رہے.اس اہم کام کی ذمہ داری حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے صوبہ سرحد کے ایک مخلص دوست رشید جان صاحب کے سپرد فرمائی جو اپنی رپورٹ وقفہ وقفہ کے بعد صاحبزادہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو بھجواتے رہے اور حضرت صاحبزادہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو مکمل حالات سے آگاہ فرماتے رہتے اور ہدایات لے کر محترم رشید احمد جان صاحب کمر پہنچاتے رہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1981 ء کے جلسہ سالانہ پر افغان مہاجرین کے لئے خصوصی دعاؤں کی بھی تحریک فرمائی اور اعلان کرتے وقت اس جانب رخ فرمایا جہاں سٹیج پر غیر ملکی افراد کے احاطہ میں کرسیوں پر جناب رشید جان صاحب اور افغان مہاجرین کے ایک لیڈر تشریف فرما تھے.(2) جنگی قیدیوں کے لئے صدریاں اور رضائیاں: حیات ناصر - صفحہ 645 و 646) 1971ء میں پاکستان و ہندوستان کی جنگ کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ اپنا سالانہ جلسہ جو دسمبر میں ہوا کرتا ہے منعقد نہ کر سکی لیکن احمدی خواتین دوران جنگ اور جنگ کے بعد ہر جگہ دفاعی اور رفاہی کاموں میں مصروف رہیں.پاکستان جس بحران میں سے گزرا، انتہائی ضرورت تھی کہ پاکستان کا ہر شہری اور پاکستان کی ہر تنظیم ان مجاہدین کی خدمت دامے درمے، قلعے کرتی جو وطن کی حفاظت کر رہے تھے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء اللہ ربوہ کو افواج پاکستان کے لئے روئی کی صدریاں تیار کرنے کا ارشاد فرمایا: 31 جنوری (1972ء) کو صدریاں بنانے کا کام شروع کیا گیا.اس کام کی نگران اعلیٰ صدر لجنہ اماء اللہ ربوہ محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ تھیں جن کی سرکردگی میں ربوہ کے ہر محلہ کی ہراس عورت نے جو کچھ نہ کچھ کام کر سکتی تھی اس خدمت میں حصہ لیا.پچیس دن کے عرصہ میں چھ ہزار دو صد بیس(6220) صدر یاں تیار کر دی گئیں پھر بعد میں اور کپڑا ملنے پر مزید صدریاں تیار کی گئیں.جن کی کل تعداد 8751 بنتی ہے.3) سیلاب زدگان کی امداد: 66 (حیات ناصر.صفحہ 646) مشرقی پاکستان کثرت کے ساتھ سیلابوں کی زد میں آتا رہا ہے.متعدد مواقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی نے سیلاب زدگان کی امدا کیلئے معقول رقم جماعتی بیت المال سے بھجوائی اور اسی طرح مغربی پاکستان میں سیلاب کے دوران احمدی 13

Page 14

خدام کے ذریعے متاثر افراد کی امداد فرمائی اور اس سلسلہ میں احمدی نوجوانوں کو خطرات میں پڑ کر متاثر افراد کی جان اور مال جانے کے لئے عملی طور پر تیار کیا.حضرت خلیفہ اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ جب کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ بیرون ملک تشریف لے گئے تھے کوپن ہیگن سے جماعت کے نام پیغام بھیجتے ہوئے فرمایا: پاکستان کی سلامتی اور سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے رہیں.“ تحریک حضرت خلیفة لمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی: 1 جاپان (Japan ) میں آنے والے زلزلہ کیلئے دعا کی تحریک: (حیات ناصر - صفحہ 646-647) میں جماعت کو عمومی طور پر دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں.جاپان کا حالیہ زلزلہ بہت ہی بھیانک اثرات کا موجب بنا ہے.ہے.“ رت خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ڈش انٹینا کے ذریعہ جاپان کی جماعت کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ: " آپ کی مالی توفیق تھوڑی ہے مگر جتنی بھی ہے دیتے چلے جائیں.“ (2 (ارشادات بیان فرموده 4، 5 فروری 1995ء.روزنامہ الفضل 11 فروری 1995ء) روانڈا (Rwanda) کے مظلومین کی امداد کے لئے تحریک: رہے ہیں روانڈ (Rwanda) کے مظلوم ہیں جو خصوصاً زائر میں انتہائی دردناک حالات میں زندگی گزار cholera پھیلا ہوا ہے، مصیبتوں میں مبتلا ہیں، ان کے لئے میں اپنی طرف سے ایک ہزار پونڈ کا معمولی نذرانہ پیش کر کے جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ توفیق کے مطابق دیں.“ (خطبه جمعه فرمودہ 22 جولائی 1994 ء - الفضل انٹر نیشنل 26 اگست تا یکم ستمبر 1994ء) حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شمالی پاکستان اور کشمیر کے علاقہ میں آنے فرمایا: والے زلزلہ کے متاثرین کی امداد کیلئے جماعت کو تحریک: گو کہ اس زلزلہ کے بعد سے فوری طور پر ہی افراد جماعت بھی اور جماعت احمدیہ پاکستان بھی اپنے ہم وطنوں کی.جہاں تک ہمارے وسائل ہیں، مصیبت زدوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن میں پھر بھی ہر پاکستانی احمدی سے یہ کہتا ہوں، ان کو یہ توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ ان حالات میں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں.کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں حتی المقدوران کی مدد کریں.جو پاکستانی احمدی باہر کے ملکوں میں ہیں ان کو بھی بڑھ چڑھ کر لوگوں کی بحالی اور ریلیف کے کام میں حکومت پاکستان کی مدد کرنی چاہئے......ایک 14

Page 15

پاکستانی شہری کی حیثیت سے بھی یہ فرض بنتا ہے کہ آسمانی آفت کی وجہ سے ملک میں جو تباہی آئی ہے اس کی بحالی کے لئے ملک کی مدد کریں.“ (خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 2005ء الفضل انٹر نیشنل 4 تا 10 نومبر 2005ء) فنڈز (funds) کا قیام: تحریک حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ : کالج فنڈ (College Fund) کی تحریک: نو جوانوں کی علمی و تربیتی ضروریات کو بہتر رنگ میں پورا کرنے کے لئے ڈیڑھ لاکھ چندہ کی تحریک فرمائی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس مد میں گیارہ ہزار روپیہ چندہ ادا فرمایا.تحریک حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ: مریم شادی فنڈ : الفضل 23 مئی 1944ء) میں شکر نعمت کے طور پر اپنی والدہ مرحومہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں....اب ان کی یاد میں، ان کے احسان کا بدلہ تارنے کے لئے ، احسان کا بدلہ تو نہیں اتارا جا سکتا مگر ان کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر، میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جو بھی بیٹیاں بیاہنے والے ہیں اور غربت کی وجہ سے ان کو کچھ دے نہیں سکتے......جن کی بیٹیاں بیاہنے والی ہیں اور انھیں مدد کی ضرورت ہے حسب توفیق میں اپنی طرف سے بھی کچھ ان کو پیش کرتا ہوں اگر میرے اندر توفیق نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا تعالیٰ کی جماعت غریب نہیں ہے، بہت روپیہ ہے جماعت کے پاس.تو انشاء اللہ جماعت کے کسی فنڈ سے ان کی مدد کر دی جائے گی مگر ان کو توفیق مل جائے گی کہ ان کی بیٹیاں خیر و خوبی کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوں.“.....(خطبہ جمعہ 21 فروری 2003ء - الفضل انٹر نیشنل 28 مارچ 2003ء) عمومی تحریکات خلافت برائے عالمة الناس وعامة المسلمين: تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ : 15

Page 16

اتحاد بین المسلمین کیلئے تحریک: سیاسی تغیرات ملکی اپنے ساتھ مذہبی خطرات بھی لا رہے تھے.وہ مسلمان جو پہلے ہی اقتصادی طور پر ہندوؤں کے دست نگر اور دینی طور پر ان کے زیر اثر تھے اور تعلیمی اور دنیوی ترقیات سے محروم چلے آ رہے تھے اور ان کا تبلیغی مستقبل بھی تاریک نظر آرہا تھا.چنانچہ گاندھی جی کا اخبار سٹیٹس مین (States Man میں ایک انٹرویو شائع ہوا کہ سوارج (ملکی حکومت) مل جانے کے بعد اگر غیر ملکی مشنری ہندوستانیوں کے عام فائدہ کیلئے روپیہ خرچ کرتا چاہیں گے تو اس کی تو انہیں اجازت ہو گی لیکن اگر وہ تبلیغ کریں گے تو میں انہیں ہندوستان سے نکلنے پور مجبور کر دوں گا جس کے معنے اس کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ سوارج میں مذہبی تنبلیغ بند ہو جائے گی.اس کے علاوہ ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم وستم کے واقعات برابر ہو رہے تھے.پہلے بنارس میں فساد ہوا پھر آگرہ اور میرزا پور میں اور پھر کانپور میں مسلمانوں کو نہایت بے دردی سے موت کے گھاٹ اتاردیا گیا.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس نازک موقع پر مارچ1931 ء مسلمانوں کو پھر اتحاد کی پرزور اور تلقین فرمائی اور نصیحت کی کہ اگر مسلمان ہندوستان میں زندہ رہنا چاہتے ہیں.تو انہیں یہ سمجھوتہ کرنا چاہئے کہ اگر دیگر قوموں کی طرف سے کسی اسلامی فرقہ پر ظلم ہو تو خواہ اندرونی طور پر اس سے کتنا ہی شدید اختلاف کیوں نہ ہو اس موقع پر متفق ہو جائیں گے.تحریک اتحاد کے تعلق میں جماعت احمدیہ کی کوشش کہاں تک بار آور ہوئیں اس کا اندازہ ایک ہندو اخبار کے حسب ذیل الفاظ سے لگ سکتا ہے.اخبار آریہ ویرہ لا ہور نے لکھا.رشی دیانند اور منشی اندرمن کے زبر دست اعتراضات کی تاب نہ لا کر مرزا غلام احمد قادیانی نے احمدیہ تحریک کو جاری کیا.احمدیہ تحریک کا زیادہ تر حلقہ کار مسلمانوں کے درمیان رہا......اس جماعت کے کام نے مسلمانوں کے اندر حیرت انگیز تبدیلی پیدا کر دی ہے......اس تحریک نے مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا کر دیا........آج مسلمان ایک طاقت ہیں، مسلمان قرآن کے گرد جمع ہو گئے.“ تاریخ احمدیت.جلد 5 صفحہ 271،270) تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اتحاد بین المسلمین کی تحریک: حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے بالکل شروع میں اتحاد بین المسلمین کی تحریک فرمائی جو پاکستان کے اخبارات نے بھی مختلف شماروں میں شائع کی.اخبار تعمیر راولپنڈی نے لکھا: احمد یہ فرقہ کے سر براہ مرز اناصر احمد نے دنیا کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی بہبود کے لیے متحد ہو کر کام کریں.آج ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمان ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں اب وقت ہے کہ متحد ہو کر اس چیلنج کا مقابلہ کیا جائے.احمد یہ فرقہ کے سربراہ نے تجویز کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف فرقوں کا ایک مشترکہ اجلاس بلایا جانا چاہئے تا کہ مسلمانوں کی ترقی کیلئے کوئی مشترکہ پروگرام تیا ر کیا جا سکے.“ اخبار جنگ کراچی نے لکھا: احمدیہ فرقہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد نے تجویز پیش کی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو سات سال کی مدت کے لئے یہ طے کر لینا چاہئے کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے سر توڑ کوشش 16

Page 17

کریں گے اور عبوری دور میں ایک دوسرے پر کسی قسم کی نکتہ چینی نہیں کریں گے.“ وحدت اسلامی کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو تحریک فرمائی کہ وہ مکہ کے روز ہونے والی عید الاضحیٰ کے مطابق ساری دنیا میں عید منائیں.فرمایا: 66 آئندہ سے ساری دنیا میں تما م احمدی جماعتیں مکہ مکرمہ کے دن یہ عید منا یا کرے گی.ہمارے دل اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ہم مکہ معظمہ میں عید الاضحیٰ کے موقع پر کی جانے والی قربانیوں سے پہلے قربانیان دیں.خدا کرے کہ وحدت اسلامی کی مہم میں ہماری یہ کوشش بار آور ہو.“ اتحاد بین المسلمین کے سلسلہ میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کے مجوزہ اجلاس کی کامیابی کے لئے دعا کی تحریک فرمائی جو 1974 ء کے آغاز میں منعقد ہوئی تھی.17

Page 18

18 خلافت مرتبہ: لقمان احمد شاد

Page 19

عناوین خلافت کا مقام و مرتبہ ارشاد خداوندی حدیث نبوی از تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام و خلفائے احمدیت خلیفہ خدا بناتا ہے: حدیث نبوی از تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام و خلفائے احمدیت نظام خلافت کی اطاعت اور فرمانبرداری : حدیث نبوی از تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ و خلفائے احمدیت آیت : وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO ط (سورة النور : 56 ) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو 19

Page 20

اُس نے اُن کے لیے پسند کیا ، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.“ حدیث: ( ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) عَنْ حُذِيفَةَ رَضِيَ : اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 273 - مقلوة بَابُ الْإِندَارِ وَالتَّحْذِير) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت على مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ قائم ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا، پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ ظلم ستم کے اس دور کو ختم کر دے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی ! یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.خلافت کا مقام و مرتبہ خلافت کے مقام و مرتبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” اس کے بعد حضرت احدیت کے جذبات ہیں اور خوشبوئیں ہیں اور تجلیات ہیں تا وہ بعض ان رگوں کو کاٹ دے کہ جو بشریت میں سے باقی رہ گئی ہوں اور بعد اس کے زندہ کرنا ہے اور باقی رکھنا اور قریب کرنا اس نفس کا جو خدا کے ساتھ آرام پکڑ چکا ہے جو خدا سے راضی اور خدا اس سے راضی اور فنا شدہ ہے تا کہ یہ بندہ حیات ثانی کے قبول فیض کے لئے مستعد ہو جائے اور اس کے بعد انسان کامل کو حضرت احدیت کی طرف خلافت کا پیرا یہ پہنایا جاتا ہے اور رنگ دیا جاتا ہے اُلوہیت کی صفتوں کے ساتھ اور یہ رنگ ظلی طور پر ہوتا ہے تا مقام خلافت متحقق ہو جائے اور پھر اس کے بعد خلقت کی طرف اترتا ہے تا ان کو روحانیت کی طرف کھینچے اور زمین کی تاریکیوں سے باہر لا کر آسمانی نوروں کی طرف لے جائے اور یہ انسان ان سب کا وارث کیا جاتا ہے جو نبیوں اور صدیقوں اور اہل علم اور درایت میں سے اور قرب اور ولایت کے سورجوں میں سے اس پہلے گزر چکے ہیں اور دیا جاتا ہے اس کو علم اولین کا اور معارف گزشتہ اہل بصیرت اور حکمائے ملت کے لئے تا اس کے لئے مقام وراثت کا محقق ہو جائے پھر یہ بندہ زمین پر ایک مدت تک جو اس کے رب کے ارادے میں ہے توقف کرتا ہے تا کہ مخلوق کو نور ہدایت کے ساتھ منور کرے اور جب خلقت کو اپنے رب کے نور کے ساتھ روشن کر چکا یا امر تبلیغ کو بقدر کفایت پورا کر دیا.پس اس وقت اس کا نام پورا ہو جاتا ہے اور 20

Page 21

اس کا رب اس کو بلاتا ہے اور اس کی روح اس کے نقطہ نفسی کی طرف اٹھائی جاتی ہے.“ (خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 39 تا 41 اردو ترجمہ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین معنوں کے لحاظ سے وہی ہو سکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسول کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا کہ دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکاتِ رسالت سے محروم نہ رہے.“ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (شهادة القرآن روحانی خزائن جلد 6 - صفحہ 353) ” خلافت کیسری کی دُکان کا سوڈا واٹر نہیں.تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے ، نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.میں جب مر جاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خد اس کو آپ کھڑا کر دے گا.تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں تم خلافت کا نام نہ لو.مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے.اگر تم زیادہ زور دو گے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے.“ (اخبار "بدر 11 جولائی 1912ء - جلد 12 نمبر 2 صفحہ 4) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ جماعت کا جو خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ میں جماعت کے تمام لوگوں سے افضل ہوتا ہے اور چونکہ ہماری جماعت ہمارے عقیدہ کی رُو سے باقی تمام جماعتوں سے افضل ہے اس لئے ساری دنیا میں سے افضل جماعت میں سے ایک شخص جب سب سے افضل ہو گا تو موجودہ لوگوں کے لحاظ سے یقیناً اُسے بعد از خدا بزرگ توئی کہہ سکتے ہیں.“ الفضل 27 اگست 1937 ، صفحہ 6) ”جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی حیثیت دنیا کے تمام بادشاہوں اور شہنشاہوں سے زیادہ ہے، وہ دنیا میں خدا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمائندہ ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 66 الفضل 27 اگست 1937 ء صفحہ 8) جماعت کے اتحاد اور شریعت کے احکام کو پورا کرنے کے لئے ایک خلیفہ کا ہونا ضروری ہے اور جو اس بات کو رد کرتا ہے وہ گویا شریعت کے احکام کو رد کرتا ہے.صحابہ کا عمل اس پر ہے اور سلسلہ احمدیہ سے بھی خدا تعالیٰ نے اسی کی تصدیق کرائی ہے.جماعت کے معنی ہی یہی ہیں کہ وہ ایک امام کے ماتحت ہو.جو لوگ کسی امام کے ماتحت نہیں وہ جماعت نہیں اور ان پر خدا تعالیٰ کے وہ فضل نازل نہیں ہو سکتے اور کبھی نہیں ہو سکتے جو ایک جماعت پر ہوتے ہیں.21

Page 22

دو کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے انوار العلوم جلد 2 صفحہ 13) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: خلافت ایک الہی نعمت ہے.کوئی نہیں جو اس میں روک بن سکے.وہ خدا تعالیٰ کے نور کے قیام کا ذریعہ ہے جو اس کو مٹانا چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو مٹانا چاہتا ہے.ہاں وہ ایک وعدہ جو پورا تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن اس کے زمانے کی لمبائی مومنوں کے اخلاق سے وابستہ ہے.“ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 66 الفضل 23 ستمبر 1937 ء - صفحہ 15) پس یا تو ہمارا یہ عقیدہ ہی غلط ہے کہ خلیفہ وقت ساری دنیا کا اُستاد ہے اور اگر یہ سچ ہے اور یقیناً یہی سچ ہے تو دنیا کے عالم اور فلاسفر شاگرد کی حیثیت سے ہی اس کے سامنے آئیں گے.استاد کی حیثیت سے اس کے سامنے نہیں آئیں گے.“ حضرت خلیفة اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تو میں آپ کو وضاحت کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ آپ کا خلیفہ بنائے گا، اس کے دل میں آپ کے لئے بے انتہا محبت پیدا کر دے گا اور اس کو یہ توفیق دے گا کہ وہ آپ کے لئے اتنی دعائیں کرے کہ دعا کرنے والے ماں باپ نے بھی آپ کے لئے اتنی دعائیں نہ کی ہوں گی اور اس کو یہ بھی توفیق دے گا کہ آپ کی تکلیفوں کو دور کرنے کے لئے ہر قسم کی تکلیف وہ خود برداشت کرے اور بشاشت کرے اور آپ پر احسان جتائے بغیر کرے کیونکہ وہ خدا کا نوکر ہے آپ کا نوکر نہیں ہے اور خدا کا نوکر خدا کی رضا کے لئے ہی کام کرتا ہے کسی پر احسان رکھنے کے لئے کام نہیں کرتا لیکن اس کا یہ حال اور اس کا یہ فعل اس بات کی علامت نہیں ہے کہ اس کے اندر کوئی کمزوری ہے اور آپ اس کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں وہ کمزور نہیں، خدا کے لئے اس کی گردن اور کمر ضرور جھکی ہوئی ہے لیکن خدا کی طاقت کے بل بوتے پر وہ ہے.ایک یا دو آدمیوں کا سوال ہی نہیں میں نے بتایا ہے کہ ساری دنیا بھی مقابلہ میں آجائے تو اس کام کرتا کی نظر میں کوئی چیز نہیں.“ b ( خطبات ناصر جلد 1 صفحہ 494 خطبہ جمعہ 18 نومبر 1966ء) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: " پس کامل بھروسہ اور کامل تو کل تھا اللہ کی ذات پر کہ وہ خلافت احمدیہ کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا، زندہ اور تازہ اور جوان اور ہمیشہ مہکنے والے عطر کی خوشبو سے معطر رکھتے ہوئے اس شجرہ طیبہ کی صورت میں اس کو ہمیشہ زندہ و قائم رکھے گا جس کے متعلق وعدہ ہے اللہ تعالیٰ کا کہ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ لا تُؤْ تِي أُكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ بِإِذْنِ رَبِّهَا (ابراهيم: 25 و 26) کہ ایسا شجرہ کہ طیبہ ہے جس کی جڑیں زمین میں گہری پیوست ہیں اور کوئی دنیا کی طاقت اسے اکھاڑ کر پھینک نہیں سکتی.یہ شجرہ خبیثہ نہیں ہے کہ جس کے دل میں آئے وہ اسے اٹھا کر اسے اکھاڑ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پھینک دے کوئی آندھی، کوئی ہوا اس (شجرہ طیبہ) کو اپنے مقام سے ٹلا نہیں سکے گی اور شاخیں آسمان سے اپنے رب سے سے باتیں کر رہی ہیں اور ایسا درخت نو بہار اور سدا بہار ہے.ایسا عجیب ہے یہ درخت کہ ہمیشہ نو بہار رہتا ہے کبھی خزاں کا منہ نہیں دیکھتا.تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَ حِيْنِ م بِإِذْنِ رَبِّهَا، ہر آن اپنے رب سے پھل پاتا چلا جاتا ہے اس پر کوئی خزاں کا وقت نہیں آتا اور اللہ کے حکم سے پھل پاتا ہے.اس میں نفس کی کوئی ملونی شامل نہیں ہوتی.یہ وہ نظارہ تھا جس کو 22 22

Page 23

میں فرمایا: جماعت احمدیہ نے پچھلے ایک دو دن کے اندر اپنی آنکھوں سے دیکھا.اپنے دلوں سے محسوس کیا اور اس نظارہ کو دیکھ کے رُوحیں سجدہ ریز ہیں خدا کے حضور حمد کے ترانے گاتی ہیں.پس دُکھ بھی ساتھ تھا اور حمد و شکر بھی ساتھ تھا اور یہ اکٹھے چلتے رہیں چلتے رہیں گے بہت دیر تک لیکن حمد اور شکر کا پہلو ایک ابدی پہلو ہے وہ ایک لازوال پہلو ہے وہ کسی شخص کے ساتھ وابستہ نہیں.نہ پہلے کسی خلیفہ کی ذات سے وابستہ تھا نہ میرے ساتھ ہے نہ آئندہ کسی خلیفہ کی ذات سے وابستہ ہے، وہ منصب خلافت کے ساتھ وابستہ ہے.وہ وہ پہلو ہے جو زندہ و تابندہ ہے اس پر کبھی موت نہیں آئے گی انشاء اللہ تعالی.ہاں ایک شرط کے ساتھ اور وہ شرط یہ ہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ امَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ.کہ دیکھو اللہ تم سے وعدہ کرتا ہے کہ تمہیں اپنا خلیفہ بنائے گا زمین میں لیکن کچھ تم پر بھی ذمہ داریاں ڈالتا ہے.تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کرتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور عمل صالح بجا لاتے ہیں.پس اگر نیکی کے اوپر جماعت قائم رہی اور ہماری دعا ہے اور ہمیشہ ہماری کوشش رہے گی کہ ہمیشہ ہمیش کے لیے یہ جماعت نیکی پر ہی قائم رہے.صبر کے ساتھ اور وفا کے ساتھ تو خدا کا یہ وعدہ بھی ہمیشہ ہمارے ساتھ وفا کرتا چلا جائے گا اور خلافت احمد یہ اپنی پوری شان کے ساتھ شجرہ طیبہ بن کر ایسے درخت کی طرح لہلہاتی رہے گی جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں.“ (خطبہ جمعہ 11 جون 1982ء.خطبات طاہر جلد 1.صفحہ 3.4) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے احمدیوں پر کہ نہ صرف ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہونے کی توفیق ملی بلکہ اس زمانے میں مسیح موعود علیہ السلام اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی اس نے عطا فرمائی جس میں ایک نظام قائم ہے، ایک نظام خلافت قائم ہے، ایک مضبوط کڑا آپ کے ہاتھ میں ہے جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں لیکن یاد رکھیں کہ یہ کڑا تو ٹوٹنے والا نہیں لیکن اگر آپ نے اپنے ہاتھ اگر ذرا ڈھیلے کئے تو آپ کے ٹوٹنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے اس لئے اس حکم کو ہمیشہ یا رکھیں کہ اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نظام جماعت سے ہمیشہ چھٹے رہو کیونکہ اب اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں.“ سیدنا حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 11 مئی 2003ء کو احباب جماعت کے نام ایک خصوصی پیغام (خطبات مسرور جلد 1 صفحہ 256,257 خطبه جمعه بیان فرمودہ 22 اگست 2003 ء) ہے.قدرتِ ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے.اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو وہ محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں.ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں.اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو اسلام کبھی ترقی نہیں کرسکتا.“ الفضل انٹر نیشنل 23 تا 30 مئی 2003ء صفحہ (1) خلیفہ خدا بناتا ہے: 23 25

Page 24

حدیث نبوی: عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ ادْعِي لِيْ أَبَا بَكْرٍ أَبَاكِ وَأَخَاكِ حَتَّى اكْتُبَ كِتَاباً فَإِنِّي أَخَافُ اَنْ يَّتَمَنَّى مُتَمَنِّى وَيَقُولُ قَائِلٌ أَنَا أَوْلى وَيَأْبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ.(صحیح مسلم شریف کتاب الفضائل باب فضائل ابو بکر صدیق) ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا کہ تم اپنے باپ ابو بکر اور اپنے بھائی کو بلا ؤ تا کہ میں تحریر لکھ دوں کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کوئی (خلافت کی) آرزو کرنے والا آرزو نہ کرے اور کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ میں (خلافت کا) زیاد حقدار ہوں لیکن اللہ اور مومنین ابو بکر کے علاوہ کسی ( کی خلافت) پر آمادہ نہیں ہوں گے.نبی کے بعد خلیفہ بنانا خدا تعالیٰ کا کام ہے: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”صوفیا نے لکھا کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے.جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سر نو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرمائے گا کیونکہ یہ خدا کا کام ہے اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور اول حق انہی کے دل میں ڈالا.حضرت مولانا الکرم سید محمد احسن صاحب نے عرض کیا کہ حضور کے الہام میں تو یہی مضمون ہے: اَلحَمدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ اور آیت استخلاف میں بھی اللہ تعالیٰ نے اسناد لَيَسْتَخْلِفَنَّ اور لَيُمَكِّنَنَّ کی اپنی طرف ہی فرمائی ہے نہ کہ رسول کی طرف.ایک اور الہام میں اللہ تعالیٰ نے ہمارا نام بھی شیخ رکھتا ہے.انتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُه.اور ایک اور الہام میں یوں آتا ہے کہ كَمِثْلِكَ دُرِّلًا يُضَاعُ - ان الہامات سے ہماری کامیابی کا بین ثبوت ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 524.525) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے اس لئے تم میری بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پر یشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے 24

Page 25

جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خد اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.“ (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.(سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو ) اور چاہئے کہ ہر اک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک فطرف رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو.“ (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 307,306) حضرت خلیفۃ مسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تم اس حبل اللہ کو آپ مضبوط پکڑ لو.یہ بھی خدا ہی کی رسن ہے جس نے تمہارے متفرق اجزا کو اکٹھا کردیا ہے.پس اسے مضبوط پکڑے رکھو.تم خوب یاد رکھو کہ معزول کرنا اب تمہارے اختیار میں نہیں.تم مجھ میں عیب دیکھو آگاہ کر دو مگر ادب کو ہاتھ سے نہ دو خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے اللہ تعالیٰ نے چار خلیفے بنائے ہیں.آدم کو داؤد کو اور ایک وہ خلیفہ ہوتا ہے جو لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ میں موعود ہے اور تم سب کو بھی خلیفہ بنایا.پس مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے اور اپنے مصالح سے بنایا ہے تمہاری بھلائی کے لئے بنایا ہے.خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی.اس لئے تم میں سے کوئی مجھے معزول کرنے کی قدرت اور طاقت نہیں رکھتا.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے معزول کرنا ہو گا تو وہ مجھے موت دے دے گا.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (اخبار ”بدر‘ یکم فروری 1913ء جلد 11 نمبر 18 و 19 صفحہ 3) خوب یاد رکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کردہ ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اسیج مولوی نور الدین صاحب اپنی خلافت کے زمانہ میں چھ سال متواتر اس مسلہ پر زور دیتے ہے کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے نہ انسان اور درحقیقت قرآن شریف کے غور سے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی بلکہ ہر قسم کے خلفا کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ انہیں ہم بناتے ہیں.“ کون ہے جو خدا کے کام روک سکے انوارالعلوم جلد 2 صفحہ 11) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ ہی بناتا ہے اگر بندوں پر اس کو چھوڑا جاتا تو جو بھی بندوں کی نگاہ میں افضل ہوتا اسے ہی وہ اپنا خلیفہ بنا لیتے لیکن خلیفہ خود اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں 25

Page 26

وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چتا ہے جس کے متعلق دنیا سمجھتی ہے کہ اسے کوئی علم حاصل نہیں، کوئی رُوحانیت، اور بزرگی اور طہارت اور تقویٰ حاصل نہیں.اسے وہ بہت کمزور جانتے ہیں اور بہت حقیر سمجھتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ اس کو چن کر اس پر اپنی عظمت اور جلال کا ایک جلوہ کرتا ہے اور جو کچھ وہ تھا اور جو کچھ اس کا تھا اس میں سے وہ کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے سامنے کلی طور پر فنا اور نیستی کا لبادہ پہن لیتا ہے اور اس کا وجود دنیا سے غائب ہو جاتا ہے اور خدا کی قدرتوں میں وہ چھپ جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اور جو اس کے مخالف ہوتے ہیں انہیں کہتا ہے مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے، یہ بندہ بے شک نحیف، کم علم، کمزور، کم طاقت اور تمہاری نگاہ میں طہارت اور تقویٰ سے عاری ہے لیکن اب یہ میری پناہ میں آگیا ہے اب تمہیں بہرحال اس کے سامنے جھکنا پڑے گا.ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ انتخاب خلافت کے وقت اسی کی منشا پوری ہوتی ہے اور بندوں کی عقلیں کوئی کام نہیں دیتیں.“ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (الفضل 17 مارچ 1967ء) ”سارا عالم اسلام مل کر زور لگا لے اور خلیفہ بنا کر دکھا دے وہ نہیں بنا سکتا کیونکہ خلافت کا تعلق خدا کی پسند سے ہے اور خدا کی پسند اس شخص پر انگلی رکھتی ہے جسے وہ صاحب تقویٰ سمجھتا ہے.66 (خطبہ جمعہ 2 اپریل 1993 پہفت رہبرہ بدر 6 مئی 1993ء صفحہ 4) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یوم خلافت کے حوالے سے جماعت احمد یہ راولپنڈی کے نام پیغام میں فرمایا: ”ہمارا یہ ایمان ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ خود بناتا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں ہوتا.جسے اللہ یہ کرتہ پہنائے گا کوئی نہیں جو اس کرتے کو اس سے اُتار سکے یا چھین سکے.وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چنتا ہے جسے لوگ بعض اوقات حقیر بھی سمجھتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اس کو چن کر اس پر اپنی عظمت او ر جلال کا ایک ایسا جلوہ فرماتا ہے کہ اس کو وجود دنیا سے غائب ہو کر خدا تعالیٰ کی قدرتوں میں چھپ جاتا ہے.تب اللہ تعالیٰ اسے اٹھا اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اور اپنی تائید و نصرت ہر حال میں اس کے شامل حال رکھتا ہے اور اس کے دل میں اپنی جماعت کا درد اس طرح پیدا فرما دیتا ہے کہ وہ اس درد کو اپنے درد سے زیادہ محسوس کرنے لگتا ہے اور یوں جماعت کا ہر فرد یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کا درد رکھنے والا ، اس کے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا اس کا ہمدرد ایک وجود موجود ہے.“ حدیث نبوی: نظام خلافت کی اطاعت اور فرمانبرداری : روزنامه الفضل 30 مئی 2003 صفحہ 2) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: إِنْ رَأَيْتَ يَوْمَئِذٍ خَلِيفَةَ اللهِ فِي الْأَرْضِ فَالْزِمُهُ وَإِنْ نُهِكَ جِسْمُكَ وَأُخِذَ مَالُکَ.یعنی اگر تو اللہ کے خلیفہ کو زمین 26

Page 27

میں دیکھے تو اسے مضبوطی سے پکڑ لینا اگرچہ تیرا جسم نوچ دیا جائے اور تیرا مال چھین لیا جائے.“ (مسند احمد بن حنبل حدیث حذیفہ بن الیمان حدیث نمبر 22916) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو.اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے.اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے.بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی.یہ سچ بات ہے کہ کوئی قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرماں برداری کے اصول کو اختیار نہ کرے......اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہی تو ستر ہے.اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے، خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی، وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بار گراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا....ناسمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا گیا مگر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ صحیح نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر یہ نکلی تھیں.یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا.....تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پید اکرو.اطاعت ہو تو ویسی ہو، باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو.غرض ہر رنگ میں، ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی.“ ہے حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 2 صفحہ 246 تا 248 تفسیر سورۃ النساء زیر آیت60) آخر میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھ ہو.قرآن تمہارا دوست العمل ہو، باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضان الہی کو روکتا ہے.موسیٰ علیہ السلام کی قوم جنگل میں اسی طرح نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہو گئے.اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے اس لئے چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے.تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں، استغفار 27

Page 28

کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو، وحدت کو ہاتھ سے نہ دو، دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو.تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آ سکتا.پس اس نعمت کا شکر کرنے پر ازدیاد نعمت ہوتا ہے.لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ لیکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے إِنَّ عَذَابِی لَشَدِيدٌ (ابراہیم ).“ دو 66 حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: الحکم 24 جنوری 1903 جلد 7 نمبر 3 صفحہ 15) یہ اعتراض کرنا کہ خلافت حق دار کو نہیں پہنچی رافضیوں کا عقیدہ ہے.اس سے توبہ کر لو اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھتا خلیفہ بنا دیا جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ جھوٹا ور فاسق ہے فرشتے بن کر اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو ابلیس نہ بنو.“ اطاعت کے معافی: سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ( بدر 4 جولائی 1912 ء جلد 12 نمبر 1.صفحہ 7) پھر یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ لفظ اَلطَّاعَةُ کے معنی محض فرمانبرداری نہیں بلکہ ایسی فرمانبرداری کے ہیں جو بشاشت قلب کے ساتھ کی جائے اور اس میں نفس کی مرضی اور پسندیدگی بھی پائی جاتی ہو...طوع کے مقابل پر گرہ کا لفظ بولا جاتا ہے.جس کے معنے ہیں: مَا أَكْرَهُتَ نَفْسَكَ عَلَيْهِ (اقرب) کہ انسان کوئی کام دل سے نہیں کرنا چاہتا بلکہ بیرونی دباؤ کی وجہ سے اسے سرانجام دینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ صاف ظاہر ہے کہ ایسے کام میں بشاشت پیدا نہ ہو گی الغرض الطَّاعَة کے معنی وضع لغت کے لحاظ سے خالی فرمانبرداری کے نہیں بلکہ اس فرمانبرداری کے ہیں جو پسند دیدگی اور خوشی سے ہو نہ کہ جبر اور اکراہ سے........پس اطاعت کے اس مفہوم کے لحاظ سے لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِيَ دِینِ کے معنی یہ ہوں گے کہ اے منکر و تمہارا اطاعت کا مفہوم اور ہے اور میرا اور ہے یعنی تم صرف ظاہری آداب بجا لانے کو اطاعت سمجھ رہے ہو اور میں اطاعت صرف اسے کہتا ہوں کہ بشاشت قلب سے اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائے جائیں اور ان کو بجا لاتے ہوئے انسان کو لذت اور سرور محسوس ہو.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ( تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 441-442) اگر ایک امام اور خلیفہ کی موجودگی میں انسان یہ سمجھے کہ ہمارے لئے کسی آزاد تدبیر اور مظاہرہ کی ضرورت ہے تو پھر خلیفہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی.امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اٹھاتا ہے اس کے پیچھے اٹھا تا ہے، اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے، اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے، اپنے ارادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے، اپنے ارادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے، اپنی آرزوؤں کو اس کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے، اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتا ہے.اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہو جائیں تو ان کے لئے کامیابی اور فتح یقینی ہے.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (خطبه جمعه بیان فرموده 27 اگست 1937ء افضل 4 ستمبر 1937 - صفحہ 4-3) 28

Page 29

”یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اکثروں کی گردنیں میرے سامنے جھکا دیں.میں کیونکر تمہاری خاطر خدا تعالیٰ کے حکم کو رد کردوں مجھے اس نے اسی طرح خلیفہ بنایا جس طرح پہلوں کو بنایا تھا.گو میں حیران ہوں کہ میرے جیسا نالائق انسان اسے کیونکر پسند آ گیا؟ لیکن جو کچھ بھی ہو اس نے مجھے پسند کر لیا اور اب کوئی انسان اس کرتہ کو مجھ سے نہیں اُتار سکتا جو اس نے مجھے پہنایا ہے یہ خدا کی دین ہے اور کون سا انسان ہے جو خدا کے عطیہ کو مجھ سے چھین لے؟ خدا تعالیٰ میرا مددگار ہوگا.میں ضعیف ہوں مگر میرا مالک بڑا طاقت ور ہے، کمزور ہوں مگر میرا آقا بڑا توانا ہے، میں بلا اسباب ہوں لیکن میرا بادشاہ تمام اسبابوں کا خالق ہے میں بے مدد گار ہوں لیکن میرا رب فرشتوں کو میری مدد کے لئے نازل فرمائے گا.“ (”کون ہے جو خدا کے کاموں کو روک سکے انوار العلوم جلد 2 صفحہ 15) حضرت مصلح الموعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یاد رکھو ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے.ہزار دفعہ کو ئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لاتا ہوں، ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں، خدا کے حضور اس کے ان دعووں کی کوئی قیمت نہیں ہو گی جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح اس کی اطاعت نہیں کرتا اور جب تک اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر نہیں کرتا اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہو سکتا.“ د" میں " خطبه جمعه بیان فرمودہ 25 اکتوبر 1946 ء مطبوعه الفضل 15 نومبر 1946 - صفحہ 6) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خواہ تم کتنے عقلمند اور مدبر ہو، اپنی تدابیر اور عقلوں پر چل کر دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے جب تک تمہاری عقلیں اور تدابیر میں خلافت کے ماتحت نہ ہوں اور تم امام کے پیچھے پیچھے نہ چلو، ہرگز اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تم حاصل نہیں کر سکتے.پس اگر تم اللہ تعالیٰ کی نصرت چاہتے ہو تو یاد رکھو اس کا کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ تمہارا اُٹھنا بیٹھنا، کھڑا ہونا اور چلنا، تمہارا بولنا اور خاموش ہونا میرے افضل 4 ستمبر 1937ء - صفحہ 8) ماتحت ہو.“ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں، سبہ تجویزوں اور سب تدابیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائگاں ،تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (خطبه جمعه بیان فرموده 24 جنوری 1936ء مطبوعه الفضل 31 جنوری 1936ء - صفحہ 9) پس تم خوب یاد رکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت ساتھ وابستہ ہیں اور جس دن تم نے اس کو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا، وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہو گا لیکن اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھے رہو گے اور اسے قائم رکھو 29

Page 30

گے تو پھر اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں ہلاک کرنا چاہے گی تو نہیں کر سکے گی اور تمہارے مقابل میں بالکل ناکام و نامراد رہے گی جیسا کہ مشہور ہے اسفند یار ایسا تھا کہ اس پر تیر اثر نہ کرتا تھا.تمہارے لئے ایسی حالت خلافت کی وجہ سے پیدا ہوسکتی ہے.جب تک تم اس کو پکڑے رکھو گے تو کبھی دنیا کی مخالفت تم پر اثر نہ کر سکے بیشک افراد مریں گے، مشکلات آئیں گی، تکالیف پہنچیں گی مگر جماعت کبھی تباہ نہ ہو گی بلکہ دن بہ دن بڑھے گی اور اس وقت تم میں سے کسی کا دشمنوں کے ہاتھوں مرنا ایسا ہو گا جیسا کہ مشہور ہے کہ اگر ایک دیو کتا ہے تو ہزاروں پیدا ہو جاتے ہیں تم میں سے اگر ایک مارا جائے گا تو اس کی بجائے ہزاروں اس کے خون کے قطروں سے پیدا ہو جائیں گے.“ ( حقائق القرآن مجموعه القرآن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ سورۃ النور زیر آیت استخلاف صفحہ 73) حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَاَطِيْعُوا وَ أَنْفِقُوا خَيْرًا لِانْفُسِكُمْ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (التغابن : 17) یعنی جتنا ہو سکے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اور اپنے مال اس کی راہ میں خرچ کرتے رہو.تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہے اور جو لوگ اپنے دل کے بخل سے بچائے جاتے ہیں وہی کامیاب ہونے والے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے اپنی طاقت، قوت اور استعداد کے مطابق تقویٰ یہ ہے کہ وَاسْمَعُوا وَ اَطِيْعُوا (بخارى كتاب الجهاد و السير باب السمع والطاعة) کہ اللہ تعالیٰ کی آواز سنو اور لبیک کہتے ہو.ہوئے اس کی اطاعت کرو اگر تم تقویٰ کی راہوں پر چل کر سَمْعًا وَّ طَاعَة کا نمونہ پیش کرو گے تو تمہیں اللہ تعالیٰ اس بات کی بھی توفیق دے گا کہ تم اپنی جانوں، مالوں اور عزتوں سب کو اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اس طرح تمہیں دل کے بخل سے محفوظ کر لیا جائے گا یہی کامیابی کا راز 66 حضرت (خطبات ناصر جلد 1 صفحہ 244.245 خطبہ جمعہ 6 مئی 1966 ء) ت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اسی طرح آپ نے خلافت کی حفاظت کا جو وعدہ کیا ہوا ہے اس میں بھی یہ بات داخل ہے کہ خلافت کے مزاج کو نہ بگڑنے دیں.خلافت کے مزاج کو بگاڑنے کی ہرگز کوشش نہ کریں ہمیشہ اس کے تابع رہیں، ہر حالت میں امام کے پیچھے چلیں.امام آپ کی رہنمائی کے لئے بنایا گیا ہے اس لئے کسی وقت بھی اس سے آگے نہ بڑھیں." الفضل 11 فروری 1994ء) حضرت خلیفۃ الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یوم خلافت کے حوالے سے جماعت احمدیہ راولپنڈی کے نام پیغام میں فرمایا:.”آپ میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ دعاؤں پر بہت زور دے اور اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھے اور یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھے کہ اس کی ساری ترقیات اور کامیابیوں کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی ہے.وہی شخص سلسلہ کا مفید وجود بن سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں.جب تک آپ کی عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت رہیں گی اور آپ اپنے امام کے پیچھے پیچھے اس کے اشاروں پر چلتے رہیں گے اللہ تعالی کی مدد اور نصرت آپ کو حاصل رہے گی.“ 30

Page 31

(روز نامه الفضل 30 مئی 2003ء - صفحه (2) سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 11 مئی 2003ء کو احباب جماعت کے نام ایک خصوصی پیغام میں فرمایا: فرمایا: و پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائگی بنا ئیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں.امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں اور وہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں کے مقابلہ کے لئے ایک ڈھال ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اُسیح الثانی اصلح الموعود نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں : و جس طرح وہی شاخ پھل لا سکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو.وہ کئی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو اس طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکروٹا.“ پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں.ہماری ساری ترقیات کا دار و مدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے.“ الفضل انٹر نیشنل 23 تا 30 مئی 2003 صفحه (1) سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ماہنامہ خالد کے ”سید نا ظاہر نمبر کے لئے اپنے پیغام میں یہ خلافت کی ہی نعمت ہے جو جماعت کی جان ہے اس لئے اگر زندگی چاہتے ہیں تو خلافت احمدیہ کے ساتھ اخلاص اور وفا کے ساتھ چمٹ جائیں، پوری طرح اس سے وابستہ ہو جائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے.ایسے بن جائیں کہ خلیفہ وقت کی رضا آپ کی رضا ہو جائے.خلیفہ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم ہو اور خلیفہ وقت کی خوشنودی آپ کا مح نظر ہو جائے.“ (ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر مارچ اپریل 2004ء صفحہ 4) 31

Page 32

32 خلفائے راشدین (سیرت و کارنامے) مرتبہ: عمران اسلم اُستاد مدرسته الظفر وقف جدید ربوه

Page 33

عناوین آیت استخلاف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا مقام اشاعت اسلام محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حفاظت منصب خلافت کارنامے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیماری اور وفات حضرت عمر رضی اللہ عنہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ قبول اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقام اشاعت اسلام محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم حفاظت منصب خلافت کارنامے ہمدردی خلق عدل انصاف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مقام 33 33

Page 34

34 آیت: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مقام اشاعت اسلام محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم حفاظت منصب خلافت کارنامے ہمدردی خلق عدل و انصاف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت حضرت علی رضی اللہ عنہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام اشاعت اسلام محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم حفاظت منصب خلافت کارنامے ہمدردی خلق عدل و انصاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ.لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO (سورة النور : 56 )

Page 35

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.“ (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفه لمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ : آپ رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی عبداللہ بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن عمر و كعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن الغالب القرشی التیمی ہے.نسب کے لحاظ سے آپ رضی اللہ عنہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مرہ بن کعب کی اولاد ہیں.شب معراج کے ثبوت میں کفار کو جواب دینے کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ کا لقب صدیق سے ملقب ہونا مشہور ہے.زمانہ جاہلیت میں بھی آپ رضی اللہ عنہ قریش کے سردار تھے.قریش آپ رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا کرتے تھے.ابو فصیح نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی تحریر کیا ہے کہ والد صاحب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت ہی میں خود پر شراب حرام کر لی تھی.ابن عساکر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے.ابن عساکر نے عائشہ رضی اللہ عنہا اور عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی زبانی لکھا ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پاس بوقت اسلام چالیس ہزار دینار تھے جو آپ رضی اللہ عنہ نے سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف کر دیئے.جب آپ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی تو اس وقت پانچ ہزار درہم سے زیادہ باقی نہ تھے.آپ رضی اللہ عنہ نے تمام دولت مسلمان غلاموں کو آزاد کرانے اور اسلام کی مدد میں خرچ کی.کے عنہ تاریخ الخلفا ترجمہ اقبال الدین احمد صفحہ 44 تا 55) " حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوی نبوت فرمایا تو اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے واپس تشریف لائے تو آپ رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی نے آپ سے کہا کہ آپ کا دوست تو (نعوذ باللہ) پاگل ہو گیا ہے اور وہ عجیب عجیب باتیں کرتا ہے کہتا ہے کہ مجھ پر آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی وقت اُٹھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان 55 35

Page 36

پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر دستک دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں آپ سے صرف ایک بات پوچھنے آیا ہوں کہ آپ نے یہ کہا کہ خدا کے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال سے کہ ایسا نہ ہو کہ ان کو ٹھوکر لگ جائے تشریح کرنی چاہی لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا آپ تشریح نہ کریں اور مجھے صرف اتنا بتائیں کہ آپ نے یہ بات کہی ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس خیال سے کہ معلوم نہیں یہ سوال کریں کہ فرشتوں کی شکل کیسی ہوتی ہے اور وہ کس طرح نازل ہوتے ہیں؟ پہلے کچھ تمہیدی طور پر بات کرنی چاہی لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: نہیں نہیں! آپ صرف یہ بتائیں کہ کیا یہ بات درست ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں درست ہے! اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور پھر انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے دلائل بیان کرنے سے صرف اس لئے روکا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ میرا ایمان مشاہدہ پر مبنی ہو، دلائل پر اس کی بنیاد نہ ہو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور راستباز تسلیم کرنے کے بعد کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی.“ از تفسیر کبیر جلد 2 صفحه 251) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام: أَبِي إِدْرِيسَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قُبَلَ أَبُو بَكْرٍاخِذًا بِطَرَفِ ثَوْبِهِ حَتَّى أَبْدَى عَنْ رُكْبَتِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَمَّا صَاحِبُكُمْ فَقَدْ غَامَرَ فَسَلَّمَ وَقَالَ إِنِّي كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ ابْنِ الْخَطَّابِ شَيْ ءٍ فَأَسْرَعْتُ إِلَيْهِ ثُمَّ نَدِمْتُ فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَغْفِرَ لِي فَابِي عَلَيَّ فَأَقْبَلْتُ إِلَيْكَ فَقَالَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ثَلْنَا ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ نَدِمَ فَاتِى مَنْزِلَ أَبِي بَكْرٍ فَسَأَلَ أَثَمَّ أَبُو بَكْرٍ فَقَالُوا لَا فَا تي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ فَجَعَلَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَمَعَّرُ حَتَّى أَشْفَقَ أَبُو بَكْرٍ فَجَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ وَاللهِ اَنَا كُنتُ أَظْلَمَ مَرَّتَيْنِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي إِلَيْكُمُ فَقُلْتُمْ كَذَبْتَ وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ صَدَقَ وَوَاسَانِى بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَهَلْ اَنْتُمْ تَارِكُوا لِى صَاحِبِي مَرَّتَيْنِ فَمَا أُوْذِيَ بَعْدَهَا.ابو ادریس سے ابو الدرداء سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ابو بکر اپنے کپڑے تہہ بند) کا ایک کنارہ اٹھائے ہوئے سامنے آگئے، اتنا اُٹھائے ہوئے تھے کہ ان کے گھٹنے ننگے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھی تو کسی سے لڑ کے آئے ہیں.انہوں نے آکر السلام علیکم کہا اور بولے: میرے اور ابن خطاب کے درمیان کوئی بات ہوئی تھی تو میں نے انہیں جلد بازی میں کچھ کہہ دیا پھر میں نادم ہوا اور میں نے ان سے کہا کہ مجھے معاف کر دیں مگر انہوں نے میری بات نہیں مانی اس لیے میں آپ کے پاس آیا ہوں.آپ نے تین بار فرمایا.ابو بکر! اللہ آپ کی پردہ پوشی فرمائے اور درگزر فرمائے.پھر عمر رضی اللہ عنہ بھی نادم ہوئے اور ابو بکر کے گھر پر آئے، پوچھا: ابو بکر یہاں ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے آ کر السلام علیکم کہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہونے لگا اور ابو بکر ڈر گئے اور وہ دوزانو ہو کر بیٹھ گئے دو دفعہ کہا: یا رسول 36

Page 37

اللہ! اللہ کی قسم میں ہی زیادہ قصوروار ہوں.نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا اور تم نے کہا تو جھوٹا ہے اور ابو بکر نے کہا کہ سچا ہے اور انہوں نے اپنی جان و مال سے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا تو کیا تم میرا ساتھی میرے لئے چھوڑو گے بھی یا نہیں؟ پھر اس کے بعد ابو بکر کو کبھی تکلیف نہیں دی گئی.“ ( صحیح بخاری پارہ نمبر 14 صفحہ 168 تا170 کتاب المناقب باب مناقب مہاجرین اور ان کی فضیلت ، مترجم حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام : حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عربی تصنیف سِرُّ الْخِلَافَةُ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا جُعِلَ أَبِي خَلِيفَةٌ وَ فَوَّضَ اللَّهُ إِلَيْهِ الْامَارَةَ فَرَأَى بِمُجَرَّدِ الْإِسْتِخْلَافِ تَمَوُّجَ الْفِتَنِ مِنْ كُلِّ الْأطْرَافِ وَ مَوْرَ الْمُتَنَبِيِّنَ الْكَاذِبِينَ وَ بَغَاوَةَ الْمُرْتَدِّيْنَ الْمُنَافِقِينَ.فَصُبَّتْ عَلَيْهِ مَصَائِبُ لَوْ صُبَّتْ عَلَى الْجِبَالِ لَانُهَدَّتْ وَ سَقَطَتْ وَ انْكَسَرَتْ فِى الْحَالِ وَلَكِنَّهُ أعْطِيَ صَبْرًا كَالْمُرْسَلِينَ.حَتَّى جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَ قُتِلَ الْمُتَنَبِّئُونَ وَ أهْلِكَ الْمُرْتَدُّونَ وَ أَزِيلَ الْفِتَنُ وَ دُفِعَ الْمَحْنُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَ اسْتَقَامَ أَمْرُ الْخِلَافَةِ وَ نَجَا اللهُ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ الْافَةِ وَ بَدَّلَ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا....فَانظُرُ كَيْفَ تَمَّ وَعْدُ الْخِلَافَةِ مَعَ جَمِيعِ لَوَازِمِهِ وَ اَمَارَاتِهِ فِي الصَّدِّيقِ وَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَشْرَحْ صَدْرَكَ لِهَذَا التَّحْقِيقِ وَتَدَبِّرُ كَيْفَ كَانَتْ حَالَةُ الْمُسْلِمِينَ فِي وَقْتِ اِسْتِخْلَافِه وَقَدْ كَانَ الْإِسْلَامُ مِنَ الْمَصَائِبِ كَالْحَرِيقِ ثُمَّ رَدَّ اللهُ الْكَرَّةَ عَلَى الْإِسْلَامِ وَ اَخْرَجَهُ مِنَ الْبِشِّرِ الْعَمِيقِ وَ قُتِلَ الْمُتَنَبِّئُونَ بِاشَدَّ الْأَلَامِ وَ أُهْلِكَ الْمُرْتَدُّونَ كَالاَنْعَامِ وَ امَنَ اللهُ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ خَوْفٍ كَانُوا فِيهِ كَالْمَيِّتِيْنَ وَكَانَ الْمُؤْمِنُونَ يَسْتَبْشِرُونَ بَعْدَ رَفْعِ هَذَا الْعَذَابِ..وَكَانُوا يَحْسَبُوْنَهُ مُبَارَكًا وَّ مُؤَيَّدًا كَالنَّبِيِّينَ وَكَانَ هَذَا كُلُّهُ مِنْ صِدْقِ الصِّدِّيقِ وَالْيَقِينِ الْعَمِيقِ وَ وَ اللَّهِ أَنَّهُ كَانَ ادَمُ الثَّانِي لِلْإِسْلَامِ وَالْمَظْهَرُ الاَوَّلُ لِأَنْوَارِ خَيْرِ الْأَنَامِ وَمَا كَانَ نَبِيًّا وَلَكِنْ كَانَتْ فِيْهِ قُوَى الْمُرْسَلِينَ فَبِصِدْقِهِ عَادَتْ حَدِيْقَةُ الْإِسْلَامِ إِلَى زُخْرُفِهِ التَّام ( سِرُّ الْخِلَافَةِ - روحانی خزائن جلد 8 صفحه 335 و 336) ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب میرے والد خلیفہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے امارت ان کے سپرد کی اس وقت انتخاب خلافت ہوتے ہی ہر طرف فتنہ و فساد موجزن ہو گیا اور جھوٹے مدعیان نبوت سر نکالنے لگے اور مرتد منافق لوگوں نے بغاوت کردی.آپ یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر ایسے مصائب ٹوٹے کہ اگر وہ کسی پہاڑ پر ٹوٹتے وہ فی الفور گر کر پاش پاش ہو جاتا لیکن آپ کو نبیوں والا صبر عطا کیا گیا.پھر خدا تعالیٰ کی مدد آگئی جھوٹے نبی اور مرتد ہلاک ہو گئے، فتنے اور امتحان ٹال دیئے گئے اور خلافت استحکام پکڑ گئی اور اللہ نے مؤمنین کو نجات دے دی اور ان کے خوف کی حالت کو امن سے بدل دیا.وعدہ خلافت اپنے تمام لوازمات اور علامات کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے وجود میں پورا ہوا.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو قبول کر نے کے لیے آپ لوگوں کا سینہ کھولے.غور کرو کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ مقرر ہونے پر مسلمانوں کی کیا حالت تھی؟ مومن اس تکلیف کے دُور ہونے کے بعد 37

Page 38

خوشی و مسرت سے بھر گئے، وہ آپ کو ایک مبارک اور نبیوں کی طرح تائید یافتہ وجود خیال کرتے تھے.یہ سب کچھ صدیق کے صدق کا کرشمہ تھا اور اسی گہرے یقین کی وجہ سے جو آپ یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میں پایا جاتا تھا بخدا آپ رضی اللہ عنہ اسلام کے آدم ثانی اور خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کے مظہر اول تھے، آپ رضی اللہ عنہ نبی تو نہ تھے لیکن آپ رضی اللہ عنہ میں رسولوں کی سی قوتیں ودیعت کی گئی تھیں.آپ رضی اللہ عنہ کے صدق وصفا کا ہی نتیجہ تھا کہ چمنِ اسلام کی بہار و رونق واپس آگئی.“ اشاعت اسلام: وو.کتاب سیر الصحابہ رضی اللہ عنہم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین کے عہد میں جس قدر لڑائیاں پیش آئیں وہ سب للہیت پر اور اعلائے کلمۃ اللہ پر مبنی تھیں اس لئے ہمیشہ کوشش کی گئی کہ اس مقصد عظیم کے لئے جو فوج تیار ہو وہ اخلاق و رفعت میں تمام دنیا کی فوجوں سے ممتاز ہو.سے ممتاز ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی فوجی تربیت میں اس نکتہ کو ہمیشہ ملحوظ رکھا اور جب کبھی فوج کسی مہم پر روانہ ہوتی تو خود دُور تک پیادہ ساتھ گئے اور امیر عسکر کو زریں نصائح کے بعد رخصت فرمایا.چنانچہ ملک شام پر فوج کشی ہوئی تو سپہ سالار سے فرمایا: إِنَّكَ تَجِدُ قَوْمًا زَعَمُوا أَنَّهُمْ جَلَسُوا اَنْفُسَهُمْ لِلَّهِ فَذَرْهُمْ وَإِنِّى مُوصِيكَ لَا تَقَتُلُوا امْرَأَةً وَلَا صَبِيًّا وَلَا كَبِيرَ هر مَا وَلَا تَقَتَطعن شَجَرَامُثْمَرًا وَلَا تَخْرَبُنَ عَامِرًا وَلَا تَعْقَرْنَ شَأْةٌ وَلَا بَعِيرًا لَا لَا كُلِهِ وَلَا تَحْرَقْنَ نَخْلًا وَلَا تَغْلُلْنَ وَلَا تَجْنَنَ تم ایک ایسی قوم کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو خدا کی عبادت کے لئے وقف کر دیا ہے ان کو چھوڑ دینا میں تم کو دس وصیتیں کرتا ہوں، کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا ، پھلدار درخت کو نہ کاٹنا، کسی آباد جگہ کو ویران نہ کرنا، بکری اور اونٹ کو کھانے کے سوا بریکار ذبح نہ کرنا، نخلستان نہ جلانا، مال غنیمت میں غبن نہ کرنا اور نہ بزدل نہ ہو جانا.“ (سیر اصحابہ جلد 1 صفحہ 66) تاریخ الخلفا میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ: اسلام کی اشاعت میں بہت بڑا کام حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قرآن کریم کا تحریری ہے صورت میں جمع ہونا تھا.چنانچہ اس سلسلہ میں بخاری میں بروایت زید رضی اللہ عنہ بن ثابت بیان کیا گیا کہ جنگ مسیلمہ کذاب کے بعد ایک روز حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے (یعنی زید بن ثابت کو ) یاد فرمایا.میں جس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچا تو وہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی تشریف فرما تھے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ (حضرت) عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے کہتے ہیں کہ ” جنگ یمامہ میں بہت سے مسلمان شہید ہو گئے ہیں، مجھے خوف ہے کہ اگر اسی طرح مسلمان شہید ہوتے رہے تو حافظوں کے ساتھ ساتھ قرآن شریف بھی نہ اٹھ جائے ( کیونکہ وہ اب تک لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہے) لہذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کو بھی جمع کر لیا جائے“.میں نے ان سے یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ بھلا میں اس کام کو کس طرح کر سکتا ہوں جسے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں نہیں کیا؟ تو اس پر انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ 38

Page 39

واللہ! یہ نیک کام ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس وقت سے اب تک ان کا اصرار جاری ہے یہاں تک کہ اس معاملہ میں مجھے شرح صدر (القا) ہوا اور میں سمجھ گیا کہ اس کی بڑی اہمیت ہے.حضرت زید رضی اللہ عنہ بن ثابت کہتے ہیں کہ یہ تمام باتیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاموشی سے سن رہے تھے ، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا اے زید! تم جوان اور دانشمند آدمی ہو اور تم کسی بات میں اب تک متہم بھی نہیں ہوئے ہو (تم ثقہ ہو ) علاوہ ازیں تم کاتب وحی (رسول اللہ ) بھی رہ چکے ہو.لہذا تم تلاش و جستجو سے قرآن شریف کو ایک جگہ جمع کر دو.حضرت زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ بہت ہی عظیم کام تھا، مجھ پر بہت ہی شاق تھا، اگر خلیفہ رسول مجھے پہاڑ اُٹھانے کا حکم دیتے تو میں اس کو بھی اس کام سے ہلکا سمجھتا.لہذا میں نے عرض کیا کہ آپ دونوں حضرات (حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما) وہ کام کس طرح کریں گے جو حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے میرا جواب سن کر یہی فرمایا: اس میں کچھ ہرج نہیں ہے.زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مگر مجھے پھر بھی تأمل رہا میں خود کو ایک عظیم کام کے انجام دینے کا اہل نہیں سمجھتا ہوں) اور میں نے اس پر اصرار کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی کھول دیا (شرح صدر فرمایا اور اس امر عظیم کی اہمیت مجھ پر بھی واضح ہو گئی.پھر میں نے تشخص اور تلاش کا کام جاری کیا اور کاغذ کے پرزوں، اونٹ اور بکریوں کی شانوں کی ہڈیوں اور درختوں کے پتوں کو جن پر آیات قرآنی تحریر تھیں یکجا کیا اور پھر لوگوں کے حفظ کی مدد سے قرآن شریف کو جمع کیا سورۃ توبہ کی دو آیتیں لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمُ.......الخ مجھے حزیمہ بن ثابت کے سوا کہیں اور سے نہیں مل سکیں اس طرح میں نے قرآن پاک جمع کر کے حضرت ابو بکر صدیق کی خدمت میں پیش کر دیا جو حضرت ابو بکر صدیق کی وفات تک ان کے پاس رہا.“ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم : ( تاريخ الخلفاء- صفحه 213 و 214) اِنَّ اللَّهَ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَ بَيْنَمَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ ذَلِكَ الْعَبْدَ مَا عِنْدَ اللهِ قَالَ: فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ فَعَجِبْنَا لَبُكَائِهِ أَنْ يُخْبَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلِيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَبْدِ خُيْرَ فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْمُخَيَّرُ.وَكَانَ أَبُو بَكْرِ اَعْلَمُنَا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمِ إِنَّ اَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي مَحَبَّتِهِ وَمَا لِهِ أَبَا بَكْرٍ وَلَوْ كُنتُ مُتَّخِذَا خَلِيْلًا غَيْرَ رَبِّي لَاتَّخَذْتُ اَبَابَكْرٍ خَلِيْلًا وَلَكِنْ اَخُوَّةُ الْإِسْلَامِ وَمُوَدَّتُهُ لَا يَبْقِيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ إِلَّا بَابُ أَبِي بَكْرٍ.(بخاری باب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اپنی رفاقت اور دنیوی ترقیات میں سے ایک کے انتخاب کی اجازت دی اور اس نے خدا تعالیٰ کی رفاقت کو ترجیح دی.دوسرے صحابہ تو اس تمثیل کو نہ سمجھ سکے لیکن حضرت ابو بکر کی چیچنیں نکل گئیں.صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے بندے کا ذکر فرما رہے ہیں جس کو اختیار دیا گیا ہے کہ خواہ وہ اس دنیا میں رہے اور فتوحات سے لذت اٹھائے اور خواہ اللہ تعالیٰ کے پاس آجائے.بھلا یہ کون سا رونے کا مقام ہے؟ کیونکہ اسلام کی فتوحات کا وعدہ پیش کیا جا رہا ہے.راوی بیان کرتا ہے کہ در حقیقت صحابہ کا قیاس درست نہ تھا بلکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خدا داد فراست سے جو 39

Page 40

بات معلوم کر لی وہی درست تھی کہ یہ تمثیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق ہے اور یہ کہ آپ ہی وہ شخص ہیں جن کو اختیار دیا گیا تھا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کو پسند فرمایا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا رونا برمحل تھا.جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بے تابی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آپ رضی اللہ عنہ کی تسلی کے لئے فرمایا: ابو بکر ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے سبقت قدمی کرتے ہوئے اپنے مال اور اپنی جان سے میری خدمت کی ہے اور اپنی قربانی کی وجہ سے یہ مجھے اتنے محبوب ہیں کہ اگر اللہ کے سوا کسی کو محبت کا انتہائی مقام دینا جائز ہوتا تو میں ان کو دیتا مگر اب بھی یہ میرے دوست اور صحابی ہیں اور اسلامی رشتہ اور اسلام کی پیدا کردہ محبت ہمیں ملائے ہوئے ہے.پھر فرمایا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ آج سے سب لوگوں کی کھڑکیاں جو مسجد میں کھلتی ہیں بند کر دی جائیں سوائے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی کھڑکی کے اور اس طرح کے عشق کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے داد دی کیونکہ یہ عشق کامل ہی تھاجس نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بتا دیا کہ اس فتح نصرت کی خبر کے پیچھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ہے اور تبھی رضی اللہ عنہ نے بے اختیار ہو کر کہ دیا: فَدَيْناكَ بِأَنْفُسِنَا وَاَمْوَالِنَا وَابَآئِنَا وَاَوْلَا دِنَا کہ اے کاش ہماری اور ہمارے عزیزوں کی جانوں کو قبول کر لیا جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں رہیں.“ ( تفسیر کبیر جلد نمبر 10 - صفحہ 467 یا 468) آر حفاظت منصب خلافت کتاب سیر الصحابہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے واقعات کے بیان میں لکھا ہے کہ: " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر مشہور ہوتے ہی منافقین کی سازش سے مدینہ میں خلافت کا فتنہ کھڑا ہوا اور انصار نے سقیفہ بنی ساعدہ میں مجتمع ہو کر خلافت کی بحث چھیڑ دی.مہاجرین کو خبر ہوئی تو وہ بھی مجتمع ہوئے اور معاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ اگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو وقت پر اطلاع نہ ہو جاتی تو مہاجرین اور انصار جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھائی بھائی کی طرح رہتے تھے باہم دست و گریبان ہو جاتے اور اس طرح اسلام کا چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہو جاتا لیکن خدا کو تو حید کی روشنی سے تمام عالم کو منور کرنا تھا اس لیے آسمان اسلام پر ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما جیسے مہر و ماه پیدا کر دیئے تھے جنہوں نے اپنی عقل و سیاست کی روشنی سے اُفق اسلام کی ظلمت اور تاریکیوں کو کافور کر دیا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لئے ہوئے سقیفہ بنی ساعدہ پہنچے.انصار نے دعوی کیا کہ ایک امیر ہمارا ہو اور ایک تمھارا.ظاہر ہے کہ اس دو عملی کا نتیجہ کیا ہوتا؟ ممکن تھا کہ مسندِ خلافت مستقل طور پر انصار کے سپرد کر دی جاتی لیکن دقت یہ تھی کہ قبائل عرب خصوصاً قریش ان کے سامنے گردنِ اطاعت خم نہیں کر سکتے تھے.پھر انصار میں بھی دو گروہ تھے اوس اور خزرج اور ان میں باہم اتفاق نہ تھا.غرض ان وقتوں کو پیش نظر رکھ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اُمرا ہماری جماعت سے ہوں اور وزرا تمہاری جماعت میں سے اس پر حضرت خباب رضی اللہ عنہ بن المنذر انصاری رضی اللہ عنہ بول اٹھے، نہیں! خدا کی قسم نہیں! ایک امیر ہمارا ہو اور ایک تمہارا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ جوش و خروش دیکھا تو نرمی و آشتی کے ساتھ انصار کے فضائل و محاسن کا اعتراف کر کے فرمایا: 40

Page 41

”صاحبو ! مجھے آپ کے محاسن کا انکار نہیں لیکن درحقیقت تمام عرب قریش کے سوا کسی کی حکومت تسلیم ہی نہیں کر سکتا پھر مہاجرین اپنے تقدم اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی تعلقات کے باعث نسبتاً آپ سے زیادہ استحقاق رکھتے ہیں.یہ دیکھو ابو عبیدہ (رضی اللہ عنہ) بن الجراح اور عمر (رضی اللہ عنہ ) بن خطاب موجود ہیں ان میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو بیعت کر لو.“ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیش دستی کر کے خود حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا اور کہا: نہیں بلکہ ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں کیونکہ آپ ہمارے سردار اور ہم لوگوں میں سب سے بہتر ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے.“ چنانچہ اس مجمع میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی با اثر بزرگ اور معمر نہ تھا اس لئے اس انتخاب کو سب نے زیادہ استحسان کی نظر سے دیکھا اور تمام خلقت بیعت کے لیے ٹوٹ پڑی اس طرح یہ اٹھتا ہوا طوفان دفعتاً رُک گیا اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہوئے.“ کارنامے (سیر اصحابہ جلد اول صفحہ 40 تا 41) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کارنامے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خلیفۃ الرسول منتخب ہونے کے بعد سب سے اہم کام احکام شریعت کی پابندی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ احکامات پر عمل درآمد تھا.چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی مساعی قابل ستائش ہیں.”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل عرب نے زکوۃ دینے سے انکا ر کر دیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے خلاف جنگ کرنے کے لیے تیار ہو گئے اس وقت حالت ایسی نازک تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے انسان نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے نرمی کرنی چاہئے مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا طاقت ہے کہ وہ اس حکم کو منسوخ کر دے.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی ایک رسی بھی زکوۃ میں دیا کرتے تھے تو میں رسی بھی ان سے لے کر رہوں گا اور اس وقت تک دم نہیں لوں گا جب تک وہ زکوۃ ادا نہیں کرتے.(بخاری کتاب الزکوۃ) اگر تم اس معاملہ میں میرا ساتھ نہیں دے سکتے تو بے شک نہ دو میں اکیلا ہی ان سے مقابلہ کروں گا.“ ( تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 108 تا109) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے قریب ایک لشکر رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا.یہ لشکر ابھی روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب عرب مرتد ہو گیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہ رضی اللہ عنہ کا لشکر ابھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لیے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے مرد اور بچے اور عورتیں رہ جائیں گی اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں رہے گا.چنانچہ 41 1=1

Page 42

انہوں نے تجویز کی کہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایک وفد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جائے اور اُن سے درخواست کرے کہ وہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے درخواست پیش کی.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے نہایت غصہ سے اس وفد کو جواب دیا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو قحافہ کا بیٹا پہلا یہ کام کرے کہ جس لشکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اسے روک لے؟ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا! اگر دشمن کی فوجیں مدینہ میں گھس آئیں اور کتے مسلمانوں کی لاشیں گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا.“ اللہ ( سیر روحانی مجموعہ تقاریر حضرت خلیفتہ اہسیح الثانی رضی اللہ عنہ.صفحہ 491) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات: ”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت عمر 63 سال تھی اور آپ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 2 سال 2 ماہ بعد 13 ہجری کو اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہوئے.چنانچہ آپ رضی عنہ کو اپنے آقا کی مصاحبت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں دفن کیا گیا.آپ رضی اللہ عنہ کی بیماری اور وفات کے متعلق آتا ہے کہ: آپ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ اور بیٹے عبدالرحمن سے مروی ہے کہ مرض الموت کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ سخت سردیوں کے دنوں میں وہ ٹھنڈے سے نہا لیے جس سے انہیں بخار چڑھ آیا اور پندرہ روز بخار میں مبتلا ہونے کے بعد وفات پا گئے.اس دوران (یعنی بیماری کے ایام میں ان کے حکم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے.“ ( حضرت ابو بکر صدیق صفحہ 444 مصنفہ محمد حسین ہیکل نسب نامہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ”حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نسب نامہ یہ ہے: عمر بن الخطاب بن فضیل بن عبدالعزی بن ریاح بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی.“ ( تذكرة الخلفا صفحه 128) سیر الصحابہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے عدی کے دوسرے بھائی مرہ تھے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد میں سے ہیں.اس لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ آٹھویں پشت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر مل جاتا ہے.“ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام: (ملخص از تاریخ الخلفاء صفحه 265) قریش کے سر بر آوردہ اشخاص میں ابو جہل اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں سب سے زیادہ سرگرم تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ ان دونوں 42

Page 43

کے لئے اسلام کی دعا فرمائی اَللَّهُمَّ اَعَزَّ الْإِسْلَامَ بِاَحَدٍ الرَّجُلَيْنِ أَمَّا اِبْنَ هَشَامٍ وَأَمَّا عُمَرَ بْنَ خَطَّابِ یعنی خدایا! اسلام کو ابو جہل یا عمر بن خطاب سے معزز کر مگر یہ دولت تو قسام ازل نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قسمت میں لکھ دی تھی.ابوجہل کے حصہ میں کیونکر آتی اس دعائے مستجاب کا یہ اثر ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد اسلام کا یہ سب سے بڑا دشمن اس کا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا جاں نثا ر بن گیا.یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دامن دولت ایمان سے بھر گیا.ڈالِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ“ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام: (سیر الصحابہ جلد 1 صفحہ 98) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ تاریخ الخلفا میں یوں درج ہے: ”ابن سعد و ابو یعلی رحمہ اللہ تعالیٰ و حاکم اور بیہقی نے دلائل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ ) تلوار حمائل کئے ایک روز گھر سے نکلے ہی تھے کہ قبیلہ بنو زہرہ کا ایک شخص آپ رضی اللہ عنہ کو ملا اور پوچھا: اے عمر! کہاں کا قصد ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادہ سے چلا ہوں، اس شخص نے کہا کہ اس قتل کے بعد تم بنی ہاشم اور بنی زہرہ سے کس طرح بچ سکو گے؟ (یعنی وہ اس قتل کا بدلہ لیں گے ) اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کر دیا، اس کو جواب دیا کہ معلوم ہوتا ہے، تم نے بھی اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا ہے.اس اس شخص نے کہا میں تم کو اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات بتاتا ہوں وہ یہ کہ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں اپنا آبائی دین ترک کر چکے ہیں.یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہیں سے پلٹ پڑے اور اپنی بہن کے گھر پہنچے اس وقت جناب خباب رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے لیکن وہ آپ رضی اللہ عنہ کی آہٹ پا کر گھر میں کسی جگہ چھپ گئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھر میں آنے سے پہلے یہ تینوں آہستہ آواز میں سورہ طہ پڑھ رہے تھے اور ان کے آ جانے پر خاموش ہو گئے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے میں داخل ہوتے ہی دریافت کیا کہ تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہ کی بہن اور بہنوئی نے کہا: کچھ نہیں ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے.آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم دونوں بے دین ہو گئے ہو؟ آپ رضی اللہ عنہ کے بہنوئی نے کہا ہاں تمہارے دین میں حق نام کو نہیں ہے! یہ سنتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے غضب ناک ہو کر بہنوئی کے زور سے طمانچہ مارا.یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ کی بہن ان کو بچانے آئیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے بہن کو بھی ہاتھ سے پرے دھکیل دیا جن سے ان کے بھی چوٹ آئی اور منہ خون سے بھر گیا.آپ رضی اللہ عنہ کی بہن نے غصہ سے کہا جب تمہارا دین سچا نہیں تو میں گواہی دیتی ہوں کہ سوائے ایک معبود کے دوسرا کوئی خدا نہیں ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں.اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اچھا مجھے وہ کتاب دو جو تمہارے پاس ہے تا کہ میں بھی اس کو پڑھوں! آپ رضی اللہ عنہ کی بہن نے کہا کہ تم نجس ہو اور اس مقدس کتاب کو پاک لوگ ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں.پہلے غسل کرو یا کم از کم وضو کر لو، آپ رضی اللہ عنہ نے ان کے کہنے پر) وضو کیا اور وہ کتاب لے کر پڑھی.اس میں سورہ طہ لکھی ہوئی تھی.آپ رضی اللہ عنہ اس کو پڑھنے لگے اور جس وقت اس آیت پر پہنچے إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُنِي وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى (بیشک میں ہی اللہ تعالیٰ ہوں اور کوئی دوسرا میرے سوا معبود نہیں اس لیے تم میری عبادت کرو اور میری ہی یاد میں نماز پڑھو).تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ 43

Page 44

44 کہنے لگے کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جلدی ملا دو ! جس وقت حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے یہ کلمہ سنا تو آپ رضی اللہ عنہ باہر نکل آئے اور کہا کہ اے عمر (رضی اللہ عنہ )! میں تم کو بشارت دیتا ہوں کہ جمعرات کی شب میں ہمارے آقا و مولا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ دعا مانگی تھی کہ الہی اسلام کو عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب یا عمر بن ہشام کے مسلمان ہونے سے غلبہ اور قوت عطا فرما.رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کوہ ، صفا کے متصل ایک مکان میں تشریف فرما تھے، حضرت خباب رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے ارادے سے روانہ ہوئے جس مکان میں اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اس کے دروازے پر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ، طلحہ رضی اللہ عنہ اور چند دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بطور نگران بیٹھے ہوئے تھے.حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر کہا عمر رضی اللہ عنہ آرہے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کو ان کی خیریت منظور ہے تب تو یہ میرے ہاتھ سے بچ جائیں گے اور اگر ان کا ارادہ کچھ اور ہے تو پھر ان کا قتل کرنا بہت آسان ہے.اسی اثنا میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر ان تمام حالات پر مشتمل وحی نازل ہو چکی تھی.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکان سے باہر تشریف لا کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دامن اور ان کی تلوار پکڑ لی اور فرمایا: اے عمر ! کیا یہ فساد تم اس وقت تک برپا کرتے رہو گے جب تک تم پر بھی وہ خواری اور ذلت، اللہ کی طرف سے مسلط نہ ہو جائے جیسے ولید بن مغیرہ کے لیے ہوئی؟ یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَإِنَّكَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ “ 66 ( تاريخ الخلفاء - صفحه 268 تا 270 ترجمہ: علامہ شمس بریلوی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مقام: حَدَّثَنَا يَحْيَى ابْنُ قَزَعَةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ابْنُ سَعْدِ عَنْ أَبِيهِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ كَانَ فِيْمَا قَبْلَكُمْ مِّنَ الْأُمَمِ مُحَدٌ ثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرَ.زَادَ زَكَرِيَّا ابْنُ أَبِى زَائِدَةَ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُقَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ كَانَ فِيْمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ رِجَالٌ يُكَلَّمُونَ مَنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ فَإِنْ يَّكُنُ مِّنْ أُمَّتِى مِنْهُمُ اَحَدٌ فَعُمَرَ.قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ مِنْ نَّبِيِّ وَّلَا مُحَدَّثِ.( صحیح بخاری پاره نمبر 14 کتاب المناقب باب مناقب مہاجرین اور ان کی فضیلت ) یحیی بن قزعہ نے ہم سے بیان کیا کہ ابراہیم بن سعد نے ہمیں بتایا، انہوں نے اپنے باپ سے ان کے باپ نے ابوسلمہ سے، ابوسلمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے جو اُمتیں تھیں ان میں سے محدّث (بعض کو کثرت سے الہام وکشوف ہوں) ہوا کرتے تھے اور اگر میری امت میں سے اگر کوئی ایسا ہے تو وہ عمرؓ ہیں.زکریا بن ابی زائدہ نے سعد سے، سعد نے ابو سلمہ سے، ابو سلمہ نے ابوہریرہ سے روایت کرتے ہوئے اتنا بڑھایا کہ انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے جو بنی اسرائیل ہوئے ہیں ان میں ایسے آدمی ہو چکے ہیں جن سے اللہ کلام کیا کرتا تھا بغیر اس کے کہ وہ نبی ہوتے ، اگر میری اُمت میں بھی ان میں سے کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہیں، ابن عباس نے سورۃ الحج کی اس آیت کو یوں پڑھا ہے.وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَّلَا نَبِي وَّلَا مُحَدَّثِ -

Page 45

(ترجمہ: حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مقام: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عربی تصنیف سر الخلافہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بہت ہی شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش فرمایا ہے اس کا ترجمہ احباب کی خدمت میں پیش ہے: صدیق رضی اللہ عنہ اور فاروق رضی اللہ عنہ خدا کے عالی مرتبہ امیر قافلہ ہیں، وہ بلند پہاڑ ہیں، انہوں نے شہروں اور بیابان نشینوں کو حق کی طرف بلایا یہاں تک کہ ان کی دعوت اقصائے بلاد تک پہنچی، ان کی خلافت اثمار اسلام سے گرانبار اور خوشبوئے کامرانی و کامیابی معطر و ممسوح تھی.حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی عہد میں اسلام گوناگوں مصائب و آلام میں مبتلا تھا، قریب تھا کہ غارت گر افواج اس بے سامان قافلہ حملہ آور ہوں اور المدد المدد کا شور بلند ہو لیکن صدیق رضی اللہ عنہ کے صدق کو دیکھتے ہوئے رب جلیل مدد کو آیا اور اپنے متاع عزیز کو گہرے کنوئیں سے نکال لیا.“ ޏ پر ستر الخلافه روحانی خزائن جلد نمبر 8 ترجمه از رساله خالد خلافت نمبر مئی 1960ء.ص23) اشاعت اسلام: مولانا شبلی نعمانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں: اشاعت اسلام کے یہ معنی ہیں کہ تمام دنیا کو اسلام کی دعوت دی جائے اور لوگوں کو اسلام کے اصول اور مسائل سمجھا کر اسلام کی طرف راغب کیا جائے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ جس ملک میں فوجیں بھیجتے تھے تاکید کرتے تھے کہ پہلے ان لوگوں کو اسلام کی ترغیب دلائی جائے اور اسلام کے اصول سمجھائے جائیں.چنانچہ فاتح ایران سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو جو خط لکھا اس میں یہ الفاظ تھے: وَقَدْ كُنْتُ اَمَرُ ُتكَ اَنْ تَدْعُوا مَنْ لَقِيْتَهُ إِلَى الْإِسْلَامِ قَبْلَ الْقِتَالِ قاضی ابو يوسف احب ب نے لکھا ہے کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب ان کے پاس کوئی فوج مہیا ہوتی تھی تو ان پر ایسا افسر مقرر کرتے تھے جو صاحب علم اور صاحب فقہ ہوتا تھا یہ ظاہر ہے کہ فوجی افسروں کے لیے علم و فقہ کی ضرورت اسی تبلیغ اسلام کی ضرورت سے تھی.شام و عراق کی فتوحات میں تم نے پڑھا ہوگا کہ ایرانیوں اور عیسائیوں کے پاس جو اسلامی سفارتیں گئیں انہوں نے کس خوبی اور صفائی سے اسلام کے اصول و عقائد ان کے سامنے بیان کئے.صاح اشاعت اسلام کی بڑی تدبیر یہ ہے کہ غیر قوموں کو اسلام کا جو نمونہ دکھلایا جائے وہ ایسا ہو کہ خود بخود لوگوں کے دل اسلام کی طرف کھینچ آئیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں نہایت کثرت سے اسلام پھیلا اور اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اپنی تربیت اور ارشاد سے تمام مسلمانوں کو اسلام کا اصلی نمونہ بنا دیا تھا.اسلامی فوجیں جس ملک میں جاتی تھیں لوگوں کو خواہ مخواہ ان کے دیکھنے کا شوق پیدا ہوتا تھا کیونکہ چند بادیہ نشینوں کا دنیا کی تسخیر کو اُٹھنا حیرت اور استعجاب سے خالی نہ تھا اس طرح جب لوگوں کو ان کے دیکھنے اور ان ملنے جلنے کا اتفاق ہوتا تھا تو ایک ایک مسلمان سچائی سادگی اور پاکیزگی جوش اور اخلاص کی تصویر نظر آتا تھا.یہ چیزیں خود بخود لوگوں کے دل کھینچتی تھیں اور اسلام ان میں گھر کر جاتا تھا.“ سے 45

Page 46

(الفاروق - صفحہ 353 و 354.مصنفہ: علامہ شبلی نعمانی) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں ہونے والی اشاعت اسلام کے بارے میں سیر الصحابہ میں لکھا ہے کہ: قرآن مجید جو اساس اسلام ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اصرار سے کتابی صورت میں عہد صدیقی میں مرتب کیا گیا تھا.اس کے بعد انہوں نے اپنے عہد میں اس کے درس و تدریس کا رواج دیا معلمین اور حفاظ اور مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں، حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو الدردا رضی اللہ عنہ کو جو حفاظ قرآن اور صحابہ کبار میں سے تھے، قرآن مجید کی تعلیم دینے کے لئے ملک شام میں روانہ کیا، قرآن مجید کو صحت کے ساتھ پڑھنے اور پڑھانے کے لیے تاکیدی احکام روانہ کئے.ابن الانباری کی روایت کے مطابق ایک حکم نامہ کے الفاظ یہ ہیں: تُعَلِمُوا أَعْرَابَ الْقُرْآنَ كَمَا تُعَلِّمُونَ حـفـظـة.غرض حضرت عمرؓ کی مساعی جمیلہ سے قرآن کی تعلیم ایسی عام ہو گئی تھی کہ ناظرہ خوانوں کا تو شمار ہی نہیں، حافظوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تھی.حضرت ابو موسیٰ اشعری نے ایک خط کے جواب میں لکھا تھا که صرف میری فوج میں تین سو حافظ ہیں.“ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم: (سیر الصحابہ جلد 1 - صفحه 147) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق تھے.چنانچہ الصحابہ میں لکھا ہے.”ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ نبوت میں عرض کیا کہ اپنی جان کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہیں.ارشاد ہوا: عمر ! میری محبت اپنی جان سے بھی زیادہ ہونی چاہئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اب حضور اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں.آپ ( یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ ) جمالِ نبوت کے سچے شیدائی تھے، ان کو اس راہ میں جان و مال، اولاد اور عزیز و اقارب کی قربانی سے بھی دریغ نہ تھا.عاصی بن ہشام جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ماموں تھا، معرکۂ بدر میں خود ان کے ہاتھ سے مارا گیا.“ حفاظت منصب خلافت: (سیر الصحابہ جلد 1 صفحہ 158) منصب خلافت کی حفاظت کی خاطر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نہایت درجہ حساسیت سے کام لیا.چنانچہ اس ضمن میں محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں: ” بہت ہی قلیل مدت کے سوچ بچار کے بعد فوراً خلافت کو چھ آدمیوں: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان، حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب، حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی مجلس مشاورت پر منحصر کر دیا.ان حضرات کی خلافت کے سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول ماثور ہے کہ: ”میں نے ان لوگوں سے زیادہ کسی کو خلافت کا حقدار نہیں پایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تا حین حیات ان سے خوش رہے.ان میں سے جس کسی کو بھی خلیفہ بنایا جائے وہی میرے بعد خلیفہ ہو گا.“ 46

Page 47

اور ان چھ بزرگوں کا نام لینے کے بعد فرمایا: ”اگر خلافت سعد رضی اللہ عنہ کو ملے تو انہیں دے دی جائے کہ میں نے سعد رضی اللہ عنہ کو کسی کمزوری اور خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا تھا بصورت دیگر جس کو بھی اس خدمت کے لئے انتخاب کیا جائے ،مسلمانوں کو اس کی مدد کرنی چاہئے.“ جب لوگوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کا علم ہوا تو وہ مطمئن ہو گئے.فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کو بلایا جنہیں خلافت کی مجلس شوریٰ کا کارکن نامزد کیا تھا اور فرمایا: علی! میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر خلافت تمہیں مل جائے تو بنو ہاشم کو لوگوں کی گردنوں پر سوار نہ کر دیتا ! گردن عثمان! میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر تم خلیفہ ہو جاؤ تو بنو ابی معیط کو لوگوں کی گردنوں پر سوار نہ کر دینا! سعد! میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر خلافت کا فیصلہ تمہارے حق میں ہو تو اپنے رشتہ داروں کو لوگوں کی پر سوار نہ کر دینا اسی طرح دوسرے ارکان شوری کو بھی قسمیں دلائیں پھر کہا: ”جاؤ، مشورہ کر کے فیصلہ کرو، مسلمانوں کو نماز صہیب رضی اللہ عنہ پڑھائیں گے.“ پھر ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلایا جو عرب کے گنے چنے بہادروں میں سے تھے اور ان سے کہا: ”جس گھر میں یہ مشورہ کریں اس کے در دوازے پر کھڑے ہو جانا اور کسی کو گھر میں نہ جانے دینا.“ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”ابو طلحہ ! اپنے قبیلے کے پچاس انصاریوں کو لے کر ارکان شوری کے ساتھ رہنا، میرا خیال ہے کہ یہ کسی ایک رکن کے گھر میں جمع ہوں گے تم اپنے ساتھیوں کو لے کر اس گھر کے دروازے پر کھڑے ہو جانا اور کسی کو گھر میں نہ جانے دینا! ان لوگوں کو تین دن سے زیادہ مہلت دینے کی ضرورت نہیں.اس دوران میں انہیں اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کر لینا چاہیئے! یا اللہ! میری طرف سے تو ان کا نگران ہے.“ (حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ - صفحہ 744 تا 745.مصنفہ محمد حسین ہیکل) کارنامے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کارناموں کے بارے سیر الصحابہ میں لکھا ہے کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تقریباً 15 ہجری میں ایک مستقل خزانہ کی ضرورت محسوس کی اور مجلس شوری کی منظوری کے بعد مدینہ منورہ میں بہت بڑا خزانہ قائم کیا.دارالخلافہ کے علاوہ تمام اضلاع اور صوبہ جات میں بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں اور ہر جگہ اس محکمہ کے جدا گانہ افسر مقرر ہوئے.مثلاً اصفہان میں خالد بن رضی اللہ عنہ حارث اور کوفہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خزانہ کے افسر تھے.صوبہ جات اور اضلاع کے بیت المال میں مختلف آمدنیوں کی جو رقم آتی تھی وہ وہاں کے سالانہ مصارف کے بعد اختتام سال پرصدر خزانہ یعنی مدینہ منورہ کے بیت المال میں منتقل کر دی جاتی تھی.صدر بیت المال کی وسعت کا اندازہ اس سے ہو کہ دارالخلافہ کے باشندوں کی جو تنخواہیں اور وظائف مقرر تھے، صرف اس کی تعداد تین کروڑ درہم تھی.بیت المال کے حساب کتاب کے لیے مختلف رجسٹر بنوائے، اس وقت تک کسی مستقل سن کا عرب میں رواج نہ تھا حضرت عمرؓ نے 12 ہجری میں سن ہجری ایجاد کر کے یہ کمی بھی پوری کر دی.“ سکتا ہے (سیر اصحابہ جلد 1 صفحہ 140) 47

Page 48

48 ہمدردی خلق: با طبقات ابن سعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ: ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (گشت کے دوران بچے کے رونے کی آواز سنی تو اس طرف روانہ ہوئے اس کی ماں کہا کہ اللہ سے ڈرو اور بچے کے ساتھ بھلائی کرو یہ کہہ کر اپنے مقام پر لوٹ آئے دوبارہ اس کے رونے کی آواز سنی تو اس کی ماں کے پاس گئے اور اسی طرح کہا اور اپنے مقام پر آ گئے جب آخر شب ہوئی تو پھر اس کے رونے کی آواز سنی اس کی ماں کے پاس آئے اور کہا تیرا بھلا ہو میں تجھے بہت بری ماں سمجھتا ہوں کیا ہے کہ میں تیرے لڑکے کو دیکھتا ہوں کہ اسے قرار نہیں.اس نے کہ اے بندہ خدا! ( وہ عورت آپ کو پہچانتی نہ تھی) تم مجھے رات سے پریشان کر رہے ہو، میں اس کا دودھ چھڑوانا چاہتی ہوں تو یہ انکار کرتا ہے.فرمایا: کیوں دودھ چھڑوانا چاہتی ہو اس نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ صرف دودھ چھوڑنے والے کا بچوں کا حصہ مقرر کرتے ہیں.پوچھا اس کی عمر کیا ہے؟ اس نے کہا: اتنے مہینے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا تیرا بھلا کرے اس کے ساتھ جلدی نہ کر! پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فجر کی نماز اس حالت میں پڑھی کہ شدت گریہ سے لوگ آپ رضی اللہ عنہ کی قرآت کو نہ سمجھ سکتے تھے.جب سلام پھیرا تو کہا کہ: عمر کی خرابی ہو اس نے مسلمانوں کے کتنے بچے قتل کر دیئے.پھر آپ رضی اللہ عنہ نے منادی کو حکم دیا، اس نے ندا دی کہ دیکھو خبردار! اپنے بچوں کے ساتھ دودھ چھڑوانے میں جلدی نہ کرو ہم اسلام میں پیدا ہونے والے ہر بچے کی عطا مقرر کرتے ہیں.“ (طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 104 و 105) عدل و انصاف ے کہ: سیر الصحابہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف کے بارے میں لکھا ہے عیاض بن غنم عامل مصر کی نسبت شکایت پہنچی کہ وہ باریک کپڑے پہنتے ہیں اور ان کے دروازہ پر دربان مقرر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو تحقیقات پر مامور کیا، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے پہنچ کر دیکھا تو واقعی دروازہ پر دربان تھا اور عیاض باریک کپڑے پہنے ہوئے کھڑے تھے.اسی ہیئت اور لباس کے ساتھ لے کر مدینہ آئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا باریک کپڑا اُتروا دیا اور بالوں کا کرتہ پہنا کر جنگل میں بکریاں چرانے کا حکم دیا.عیاض کو انکار کی مجال نہ تھی مگر بار بار کہتے تھے: اس سے مر جانا بہتر ہے! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ یہ تو تمہارا آبائی پیشہ ہے اس میں عار کیوں ہے؟ عیاض نے دل سے توبہ کی اور جب تک زندہ رہے اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے.66 (سير الصحابہ جلد 1 صفحہ 136) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت: حضرت عمرو بن میمون روایت کرتے ہیں: ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابھی اللہ اکبر کہا ہی تھا کہ میں نے ان کو کہتے سنا.کتے نے مجھے مار ڈالا ہے یا

Page 49

اور آ کہا کاٹ کھایا ہے.جب اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا تو وہ پارسی دو دھاری چھری لئے ہوئے تھا جس کسی کے پاس دائیں بائیں گزرتا تو اس کو زخمی کرتا یہاں تک کہ اس نے تیرہ (13) آدمیوں کو زخمی کیا، ان میں سے سات مر گئے تو جب مسلمانوں میں سے ایک شخص نے جب یہ دیکھا تو اس نے بارانی کوٹ اس پر پھینکا جب اس پارسی نے سمجھ لیا کہ وہ پکڑا گیا ہے تو اُس نے اپنا گلا کاٹ لیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر ان کو آگے کیا اور جو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قریب تھے انہوں نے وہ ماجرا دیکھا جو میں نے دیکھا اور مسجد کے اطراف میں جو تھے تو وہ نہیں جانتے تھے سوا اس کے کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی اور وہ سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگے تو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف) نے ان کو ہلکی سی نماز پڑھائی جب وہ نماز سے فارغ ہو گئے تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہ دیکھو! مجھ کو کس نے مارا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ کچھ دیر تک ادھر گھومتے رہے، پھر آئے اور انہوں نے بتایا کہ مغیرہ کے غلام نے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہی جو کاری گر ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اسے ہلاک کرے میں نے اس کے متعلق نیک سلوک کرنے کا دیا تھا.اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے میری موت ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں کی جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہو! اور ایک نوجوان شخص آیا اس نے کہا: امیر المؤمنین! آپ کو اللہ کی بشارت ہو، آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی اور اسلام میں وہ اعلیٰ درجہ ملا ہے جو آپ خوب جانتے ہیں.پھر آپ جانشین ہوئے نے انصاف کیا، پھر یہ شہادت ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میری تو یہ آرزو ہے کہ یہ باتیں برابر ہی برابر رہیں! نہ مجھے مواخذہ ہو اور نہ ثواب ملے جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا، دیکھا کہ اس کا نہ بند زمین سے لگ رہا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس لڑکے کو میرے پاس واپس بھیج دو.وہ آیا تو فرمانے لگے: میرے بھائی کے بیٹے ! اپنا کپڑا تو اُٹھاؤ کیونکہ یہ تمہارے کپڑے کو بچائے رکھے گا اور تمہارے رب کے نزدیک تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (اپنے صاحبزادے کو) کہنے لگے.دیکھو مجھ پر کتنا قرض ہے؟ انہوں نے حساب کیا تو اس کو چھیاسی ہزار درہم یا کچھ اتنا ہی پایا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان کی جائیداد اس کو پورا کر دے تو پھر ان کی جائیداد سے اس کو ادا کردو ورنہ بنی عدی بن کعب سے مانگنا اگر ان کی جائیدادیں بھی پورا نہ کریں تو قریش سے مانگنا اور ان کے سوا کسی کے پاس نہ جانا.یہ قرض میری طرف سے ادا کر دینا.عائشہ اُم المؤمنین کے پاس جاؤ اور کہو: عمر رضی اللہ عنہ آپ کو سلام کہتے ہیں اور امیرالمؤمنین نہ کہنا کیونکہ آج میں مومنوں کا امیر نہیں ہوں اور کہو: عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب اس بات کی اجازت مانگتا ہے کہ اسے اس کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جائے.چنانچہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے سلام کہا اور اندر آنے کی اجازت مانگی اور ان کے پاس اندر گئے تو انہیں دیکھا کہ وہ بیٹھی ہوئی رو رہی ہیں.عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب آپ کو سلام کہتے ہیں اور اجازت مانگتے ہیں کہ ان کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ان کو دفن کیا جائے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: میں اس جگہ کو اپنے لیے چاہتی ہوں اور آج میں اپنی ذات پر ان کو مقدم کروں گی.جب عبداللہ رضی اللہ عنہ لوٹ کر آئے تو ان (عمر رضی اللہ عنہ) سے کہا گیا کہ یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما آگئے نے کہا: مجھے اُٹھاؤ! تو ایک شخص نے آپ رضی اللہ عنہ کو سہارا دے کر اٹھایا.انہوں نے پوچھا: تمہارے پاس کیا خبر ہے؟ (عبداللہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: امیرالمؤمنین! وہی جو آپ پسند کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی ہے.کہنے لگے: الحمد للہ اس سے بڑھ کر مجھے اور کسی چیز کا فکر نہیں تھا.جب میں مر ہیں.انہوں 49

Page 50

جاؤں تو مجھے اٹھا کر لے جانا، پھر سلام کہنا اور یہ کہنا کہ عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب اجازت مانگتا ہے! اگر انہوں نے میرے لیے اجازت دی تو مجھے وہاں حجرے میں دفنا دینا اور اگر انہوں نے میری بات نہ مانی تو پھر مجھے مسلمانوں کے مقبرے میں واپس لے جانا.“ (صحیح بخاری پارہ نمبر 14 صفحہ 198 تا204 کتاب المناقب باب مناقب مہاجرین اور ان کی فضیلت.ترجمہ: حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب) حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ : تاریخ الخلفا میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نسب نامہ یوں درج ہے: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نسب نامہ درج ذیل ہے عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن لوی بن غالب قرشی اموی.حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابو عمر تھی.“ (تاریخ الخلفا صفحه 175) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں عبد مناف پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نانی بیضا اُمّم احکیم، حضرت عبد اللہ بن عبدالمطلب کی سگی بہن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ کی پھوپھی تھیں.“ (سير الصحابہ صفحہ جلد اوّل 175) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام الفیل کے چھٹے برس مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے.اسلامی تبلیغ کے آغاز میں ہی دولت ایمان سے مالا مال ہوئے.حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو مرتبہ ہجرت کی پہلی ہجرت حبشہ کی جانب اور پھر مدینہ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی منجھلی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے آپ رضی اللہ عنہ کا نکاح کیا.یہ واقعہ نبوت سے پہلے کا ہے.حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ نے بزمانہ جنگ بدر انتقال فرمایا.حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمار داری کے باعث حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے.حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد نے ان کی دوسری بہن حضرت اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی جن کا انتقال مدینہ میں 9 ہجری کو ہوا چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شادی ہوئی اسی لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ” ذوالنورین بھی کہتے ہیں.“ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے تھے جو اسلام سے پہلے نوشت و خواند (لکھنا پڑھنا.ناقل) جانتے ، تھے.اسلام کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تحریر و کتابت کی مہارت کی بنا پر حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو کتابت وحی پر مامور کیا تھا.“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مقام: تاريخ الخلفاء - صفحه 175 تا 179) (سير الصحابہ جلد 1 صفحہ 233) 50

Page 51

تاریخ الخلفا میں لکھا ہے کہ: ”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب بیعت رضوان ہوئی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب سے مکہ معظمہ میں ایلچی بن کر گئے.یہاں لوگوں نے رسول اللہ سے بیعت رضوان کی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چونکہ عثمان (رضی اللہ عنہ ( اللہ اور اس کے رسول کے کام کے لیے گئے ہوئے ہیں.لہذا میں خود ان کی طرف سے بیعت کرتا ہوں.یہ ارشاد فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دست مبارک تمام لوگوں کے ہاتھوں اور جانوں سے کس قدر افضل و برتر ہے.“ ( تاریخ الخلفاء - صفحه 339.ترجمہ علامہ شمس بریلوی) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مقام: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف لطیف سر الخلافہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اوصاف بیان فرمائے ان کا ترجمہ پیش خدمت ہے: میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے شیخین (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ.ناقل) اور ذوالنورین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اسلام کے دروازے بنایا ہے، وہ لشکرِ خیر الانام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہراول دستے ہیں جو ان کی شان کا انکار کرتا اور ان کے واضح نشانات کی تحقیر کرتا ہے اور ادب سے آنے کی بجائے ان کی اہانت کے در پے ہوتا ہے اور زبان طعن دراز کرتے ہوئے سب وشتم سے پیش آتا ہے، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس کا انجام برا نہ ہو اور ایسے شخص کا ایمان سلب نہ ہو جائے.“ اشاعت اسلام: تحریف شام، پیش (سر الخلافہ روحانی خزائن جلد نمبر 8 صفحہ 327 - ترجمه از رساله خالد خلافت نمبر مئی 1960 - صفحہ 6) اشاعت اسلام کے حوالے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی کوششوں کے بارے میں سیر الصحابہ میں لکھا ہے کہ: ”مذہبی خدمات کے سلسلہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سب سے زیادہ روشن کارنامه قرآن مجید کو اختلاف و سے محفوظ کرنا اور اس کی عام اشاعت ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آرمینیہ اور آذر بائیجان کی مہم میں مصر، عراق وغیرہ مختلف ملکوں کی فوجیں مجمع تھیں جن میں زیادہ تر نو مسلم اور عجمی النسل تھے جن کی مادری زبان عربی نہ تھی، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بن یمان بھی شریک جہاد تھے انہوں نے دیکھا کہ اختلاف قرأت کا یہ حال ہے کہ اہل شام کی قرآت، اہل عراق سے بالکل جدا گانہ ہے اسی طرح اہل بصرہ کی قرآت اہل کوفہ سے مختلف ہے اور ہر ایک اپنے ملک کی قرآت صحیح اور دوسرے کی غلط سمجھتا ہے.حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو اس اختلاف سے اس قدر خلجان ہوا کہ جہاد سے واپس ہوئے تو سیدھے بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اور مفصل واقعات عرض کر کے کہا: ”امیر المومنین! اگر جلد اس کی اصلاح کی فکر نہ ہوئی تو مسلمان عیسائیوں اور رومیوں کی طرح خدا کی کتاب میں شدید اختلاف پیدا کر لیں گے.“ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی خیال ہوا اور انہوں نے اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے عہد صدیقی کا مرتب و مدون کیا ہوا نسخہ لے کر حضرت زید رضی اللہ عنہ بن ثابت، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما 51

Page 52

اور سعید رضی اللہ عنہ بن العاص سے اس کی نقلیں کرا کے تمام ملک میں اس کی اشاعت کی اور ان تمام مختلف مصاحف کو جنہیں لوگوں نے بطور خود مختلف املاؤں سے لکھا تھا، صفحہ ہستی سے معدوم کر دیا.“ محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: (سیر الصحابہ جلد 1 - صفحہ 231 تا232) الصحابہ میں لکھا ہے: "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک کے ساتھ اتنی محبت و شیفتگی تھی کہ اپنے محبوب آقا کی فقیرانہ اور زاہدانہ زندگی دیکھ کر بے قرار رہتے تھے اور جب موقع ملا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تحائف پیش کرتے.ایک دفعہ چار دن تک آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر و فاقہ سے بسر کیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور اسی وقت بہت سا سامان خورد و نوش اور تین سو درہم لا کر بطور نذرانہ پیش کئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام اس قدر ملحوظ تھا کہ جس ہاتھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی، پھر اس کو نجاست یا محل نجاست سے مس نہ ہونے دیا.اہل بیعت نبوی اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا خاص طور سے پاس و خیال تھا.چنانچہ اپنے عہد خلافت میں جب اصحاب وظائف کے رمضان کے روزینے مقرر کئے تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا روزینہ سب سے دونا مقرر کیا.“ محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (سیر الصحابہ جلد 1 - صفحہ 239 تا240) فتنہ کے دوران میں ایک دفعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حج کرنے آئے.جب وہ شام کو واپس جانے لگے تو مدینہ میں وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملے اور عرض کیا کہ آپ میرے ساتھ شام میں چلیں.وہاں آپ (رضی اللہ عنہ ) تمام فتنوں سے محفوظ رہیں گے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: معاویہ! میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دے سکتا.“ حفاظت منصب خلافت تاریخ الخلفا میں لکھا ہے کہ: (تفسیر کبیر جلد نمبر 6 - صفحہ 379) ”حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اے عثمان (رضی اللہ عنہ )! خداوند تعالیٰ تمہیں ایک قمیص (خلافت) عنایت فرمائے گا جب منافق اس کو اُتارنے کی کوشش کریں تو تم اس کو مت اُتارنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آملو! اسی بنا پر آپ رضی اللہ عنہ نے، جس روز آپ رضی اللہ عنہ محصور ہوئے تھے یہ فرمایا تھا کہ اس کے بارے میں مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا تھا چنانچہ اس پر میں قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں.“ 52

Page 53

( تاریخ الخلفاء.صفحہ 339.ترجمہ:.علامہ شمس بریلوی) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب فسادیوں نے مدینہ پر قبضہ کی لیا.چنانچہ یہ لوگ مسلسل ہیں دن تک صرف زبانی طور پر کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلافت سے دست بردار ہو جائیں مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس امر سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ جو قمیص مجھے اللہ تعالیٰ نے پہنائی ہے میں اسے اتار نہیں سکتا اور نہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بے پناہ چھوڑ سکتا ہوں کہ جس کا جی چاہے دوسرے پر ظلم کرے.(طبری جلد 8 صفحہ 2990 مطبوعہ بیروت) اور ان لوگوں کو بھی سمجھاتے رہے کہ اس فساد سے باز آجاویں اور فرماتے رہے کہ آج یہ لوگ فساد کرتے ہیں اور میری زندگی سے بیزار ہیں مگر جب میں نہ رہوں گا تو خواہش کریں گے کہ کاش! عثمان رضی اللہ عنہ کی عمر کا ایک ایک دن سے بدل جاتا اور وہ ہم سے جلدی رخصت نہ ہوتا کیونکہ میرے بعد سخت خون ریزی ہوگی اور حقوق کا اتلاف ہو گا اور انتظام کچھ کا کچھ بدل جائے گا.(انوار العلوم جلد نمبر 4 صفحہ 253) کارنامے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کارناموں میں مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع ہمدردی خلق، عدل و انصاف نمایاں ہیں.1) مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع : سیر الصحابہ میں لکھا ہے: مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع میں حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا ہاتھ سب سے زیادہ نمایاں ہے.عہد نبوی میں جب مسلمانوں کی کثرت کے باعث مسجد کی وسعت ناکافی ثابت ہوئی تھی تو اس کی توسیع کے لئے حضرت عثمان نے قریب کا قطعہ زمین خرید کر بارگاہِ نبوت میں پیش کیا تھا، پھر اپنے عہد میں بڑے اہتمام سے اس کی توسیع اور شاندار عمارت تعمیر کروائی.سب سے اول 24ھ میں اس کا ارادہ کیا لیکن مسجد کے گرد و پیش ، جن لوگوں کے مکانات تھے وہ کافی معاوضہ دینے پر بھی مسجد نبوی کی قربت کے شرف سے دست کش ہونے کے لیے راضی نہ ہوتے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو راضی کر نے کے لئے مختلف تدبیریں کیں لیکن وہ کسی طرح راضی نہ ہوئے یہاں تک کہ پانچ سال اس میں گزر گئے.بالآخر 29ھ میں حضرت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے روز ایک نہایت ہی مؤثر تقریر کی اور نمازیوں کی کثرت اور مسجد کی تنگی کی طرف توجہ دلائی.اس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے سے اپنے مکانات دے دیئے اور آپ رضی اللہ عنہ نے نہایت اہتمام کے ساتھ تعمیر کا کام شروع کیا.نگرانی کے لیے تمام عمال طلب کئے اور خود شب و روز مصروف کار رہتے تھے.غرض دس مہینوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد اینٹ، چونے اور پتھر کی ایک نہایت خوش نما اور مستحکم عمارت تیار ہو گئی، وسعت میں بھی کافی اضافہ ہو گیا یعنی طول میں پچاس گز کا اضافہ ہوا، البتہ عرض میں کوئی تغیر نہیں کیا گیا.“ خوشی سیر صحابہ جلد 1 - صفحہ 228 تا 229) 53

Page 54

2 ہمدردی خلق: ہیں: لکھا ترمذی کتاب الناقب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مناقب کی ذیل میں کا ہے کہ: عُثْمَانُ فَقَالَ اَنْشُدُ كُمُ بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ بِهَامَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِرِ رُوْمَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَشْتَرِى بِتُرَرُوْمَةً فَيَجْعَلُ دَلْوَهُ مَعَ دِلَاءِ الْمُسْلِمِيْنَ بِغَيْرِ لَّهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ فَشَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِى سو متوجہ ہوئے ان کی طرف حضرت عثمان اور فرمایا آپ نے : میں تم کو واسطہ دیتا ہوں اللہ کا اور اسلام کا تم جانتے ہو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو یہاں میٹھا پانی پینے کو نہیں تھا سوا بـــر رومہ کے اور فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے: جو اس بشر رومہ کو خریدے اور سب مسلمانوں کے برابر اپنا بھی ڈول سمجھے یعنی کچھ زیادہ تصرف اپنا نہ چاہے، چن لیا جائے گا بدلہ اس کا جنت سے.سوخریدا میں نے اس کو اپنے اصل مال سے 66 3 عدل و انصاف ( ترمذی ابواب المناقب.باب مناقب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف کے بارے میں بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ”چنانچہ طبری جلد 5 صفحہ 44 میں تماذبان ابن ہرمزان اپنے والد کے قتل کا واقعہ بیان کرتا ہے.ہرمزان ایک ایرانی رئیس اور مجوسی المذہب تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی کے قتل کی سازش میں شریک ہونے کا شبہ اس پر کیا گیا تھا، اس پر بلا تحقیق جوش میں آکر عبید اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر دیا وہ کہتا ہے: كَانَتِ الْعَجَمُ بِالْمَدِينَةِ يَسْتَرُوحُ بَعْضُهَا إِلى بَعْضٍ فَمَرَّ فِيُرُوزُ بِأَبِي وَمَعَهُ، خَنْجَرْلَهُ رَأْسَانِ فَتَنَاوَلَهُ مِنْهُ، وَقَالَ مَا تَصْنَعُ بِهَذَا فِى هَذِهِ الْبِلَادِ؟ فَقَالَ أَبُسُ بِهِ فَرَاهُ رَجُلٌ فَلَمَّا أَصِيْبَ عُمَرُ قَالَ رَأَيْتُ هَذَا مَعَ الْهُرُ مَزَانِ دَفَعَهُ إلى فِيُرُوزَ فَأَقْبَلَ عُبَيْدُ اللهِ فَقَتَلَهُ فَلَمَّا وُلّى عُثْمَانُ دَعَانِى فَا مُكَتَنِي مِنْهُ ثُمَّ قَالَ يَا بُنَيَّ هَذَا قَاتِلُ أَبِيكَ وَانْتَ اولى بِهِ مِنَّا فَاذْهَبْ فَاقْتُلُهُ فَخَرَجْتُ بِهِ وَمَا فِي الْاَرْضِ اَحَدٌ إِلَّا مَعِى إِلَّا إِنَّهُمْ يَطْلُبُونَ إِلَيَّ فِيْهِ فَقُلْتُ لَهُمْ إِلَى قَتْلُهُ قَالُوا نَعَمْ وَسَبُّوْا عُبَيْدَ اللَّهِ فَقُلْتُ اَفَلَكُمْ أَنْ تَمْنَعُوَاهُ قَالُوْا لَا وَ سَبُّوْهُ فَتَرَكْتُهُ لِلَّهِ وَلَهُمْ فَلْتَمَلُوْنِي فَوَاللَّهِ مَا بَلَغُتُ الْمَنْزِلَ إِلَّا عَلَى رُءُ وُسِ الرِّجَالِ وَأَكُفِّهِمْ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایرانی لوگ مدینہ میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے جلے رہتے تھے (جیسا کہ قاعدہ ہے کہ دوسرے ملک میں جا کر وطنیت نمایاں ہو جاتی ہے ) ایک دن فیروز ( قاتل عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی) سے ملا اور اس کے پاس ایک خنجر تھا جو دونوں طرف سے تیز کیا ہو ا تھا.میرے باپ نے اس خنجر کو پکڑ لیا اور اس سے دریافت کیا کہ اس ملک میں تو اس خنجر سے کیا کام لیتا ہے (یعنی یہ ملک تو امن کا ملک ہے اس میں ایسے ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے) اُس نے کہا کہ: میں اس سے اُونٹ ہنکانے کا کام لیتا ہوں.جب وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے اس وقت ان کو کسی نے دیکھ لیا اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ مارے گئے تو اس نے بیان کیا کہ میں نے خود ہر مزان کو یہ خنجر فیروز کو پکڑاتے ہوئے دیکھا تھا.اس پر باپ میرے 54

Page 55

عبید اللہ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بیٹے) نے جا کر میرے باپ کو قتل کر دیا.جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا اور عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر میرے حوالے کر دیا اور کہا کہ: اے میرے بیٹے ! یہ تیرے باپ کا قاتل ہے اور تو ہماری نسبت زیادہ حق رکھتا ہے.پس جا اور اس کو قتل کر دے.میں نے اس کو پکڑ لیا اور شہر سے باہر نکلا.راستہ میں جو شخص مجھے ملتا میرے ساتھ ہو جاتا لیکن کو ئی شخص مقابلہ نہ کرتا.وہ مجھ سے صرف اتنی درخواست کرتے تھے کہ میں اسے چھوڑ دوں.پس میں نے سب مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کیا میرا حق ہے کہ میں اس کو قتل کر دوں؟ سب نے کہا کہ ہاں تمہارا حق ہے کہ اسے قتل کر دو اور عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگے کہ اس نے ایسا برا کام کیا ہے.پھر میں نے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں کو حق ہے کہ اسے مجھ سے چھڑا لو؟ انہوں نے کہا کہ: ہرگز نہیں اور پھر عبید اللہ کو برا بھلا کہا کہ اس نے بلا ثبوت اس کے باپ کو قتل کر دیا.اس پر میں نے خدا اور ان لوگوں کی خاطر اس کو چھوڑ دیا اور مسلمانوں نے فرط مسرت سے مجھے اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا اور خدا تعالیٰ کی قسم میں اپنے گھر تک لوگوں کے سروں اور کندھوں پر پہنچا اور انہوں نے مجھے زمین پر قدم تک نہیں رکھنے دیا.“ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت: ( تفسیر کبیر جلد نمبر 2.صفحہ 359 تا360) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”جب یہ لوگ اندر پہنچے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم پڑھتے پایا ان حملہ آوروں میں محمد بن ابی بکر بھی تھے اور بوجہ اپنے اقتدار کے جو ان لوگوں پر ان کو حاصل تھا اپنا فرض سمجھتے تھے کہ ہر ایک کام میں آگے ہوں.چنانچہ انہوں نے بڑھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑ لی اور زور سے جھٹکا دیا.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے اس فعل پر صرف اس قدر فرمایا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے! اگر تیرا باپ (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ) اس وقت ہوتا تو بھی ایسا نہ کرتا.تجھے کیا ہوا تو خدا کے لیے مجھ پر ناراض ہے؟ کیا اس کے سوا تجھے مجھ پر کوئی غصہ ہے کہ تجھ سے میں نے خدا کے حقوق ادا کروائے ہیں؟ اس پر محمد بن ابی بکر شرمندہ ہو کر واپس لوٹ گئے لیکن دوسرے شخص وہیں رہے اور کیونکہ اس رات بصرہ کے لشکر کی میں داخل ہو جانے کی یقینی خبر آچکی تھی اور یہ موقع ان لوگوں کے لیے آخری موقع تھا ان لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ بغیر اپنا کام کئے واپس نہ لوٹیں گے اور ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور ایک لوہے کی سیخ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سر پر ماری اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے جو قرآن دھرا ہوا تھا اس کو لات مار کر پھینک دیا.قرآن کریم لڑھک کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آگیا اور آپ رضی اللہ عنہ کے سر پر سے خون کے قطرات گر کر اس پر آپڑے قرآن کریم کی بے ادبی تو کسی نے کیا کرنی ہے مگر ان لوگوں کے تقویٰ اور دیانت کا پردہ اس واقعہ سے اچھی طرح فاش ہو گیا ہے.جس آیت پر آپ کا خون گرا وہ ایک زبر دست پیشگوئی تھی جو اپنے وقت پر جا کر اس شان سے پوری ہوئی کہ سخت دل سے سخت دل آدمی نے اس کے خونی حروف کی جھلک کو دیکھ کر خوف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں.وہ آیت یہ تھی : فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (البقرة: 138) اللہ تعالٰی ضرور ان سے تیرا بدلہ لے گا اور بہت سننے والا اور جاننے والا ہے.55

Page 56

اس کے بعد ایک اور شخص سودان نامی آگے بڑھا اور اس نے تلوار سے آپ رضی اللہ عنہ پر حملہ کرنا چاہا.پہلا وار کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اس کو روکا اور آپ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ کٹ گیا اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: خدا تعالیٰ کی قسم ! یہ وہ ہاتھ ہے جس نے سب سے پہلے قرآن کریم لکھا تھا.اس کے بعد اس نے دوسرا وار کر کے آپ کو قتل کرنا چاہا تو آپ رضی اللہ عنہ کی بیوی نائلہ وہاں آ گئیں اور اپنے آپ کو بیچ میں کھڑا کر دیا لیکن اس شقی نے ایک عورت پر وار کرنے سے بھی دریغ نہ کیا اور وار کر دیا جس سے آپ رضی اللہ عنہ کی بیوی کی اُنگلیاں کٹ گئیں اور وہ علیحدہ ہو گئیں.پھر اس نے ایک وار حضرت عثمان رضی اللہ کیا اور آپ رضی اللہ عنہ کو سخت زخمی کر دیا اس کے بعد اس شقی نے یہ خیال کر کے کہ ابھی جان نہیں نکلی شاید بچ جاویں اسی وقت جب کہ زخموں کے صدموں سے آپ رضی اللہ عنہ بے ہوش ہو چکے تھے اور شدت درد سے تڑپ رہے تھے آپ رضی اللہ عنہ کا گلا پکڑ کر گھونٹنا شروع کیا اور اس وقت تک آپ رضی اللہ عنہ کا گلا نہیں چھوڑا جب تک آپ کی روح جسم خاکی سے پرواز کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو لبیک کہتی ہوئی عالم بالا کو پرواز نہیں کر گئی: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ سلسلۂ نسب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ: عنہ پر اسلام میں اختلاف کا آغاز - انوار العلوم جلد نمبر 4 صفحه 267 و 268) آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح سے ہے: علی ابن ابی طالب جن کا نام عبد مناف تھا جن کا نام مغیرہ تھا بن قصی جن کا نام زید تھا بن کلاب بن مرہ بن لوی غالب بن فہر بن مالک بنضر بن کنانہ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوالحسن اور ابو تراب مقرر فرمائی.آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ہے یہ وہ پہلی ہاشمی خاتون ہیں جن کے بطن سے ایک عظیم الشان ہاشمی رونق افروز ہوا.یہ سب سے پہلے اسلام لائیں اور ہجرت کی.رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ہمارے جانے کے بعد تم مکہ میں تھوڑا عرصہ قیام کر کے لوگوں کی امانتیں اور وصایا وغیرہ جو ہمارے پاس محفوظ ہیں وہ ان پہنچا دینا اس کے بعد ہمارے پاس چلے آنا.چنانچہ احکام رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ رضی اللہ عنہ نے حرف بہ حرف تعمیل کی.“ تاريخ الخلفا صفحه 195 و 196) سیر الصحابہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب مکہ کے ذی اثر بزرگ تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کی آغوش شفقت میں پرورش پائی تھی.مشرکین قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پناہی اور حمایت کے باعث ابو طالب اور ان کے خاندان کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائیں.ایک گھائی میں اُن کو محصور کر دیا، کاروبار اور لین دین بند کر دیا، 56

Page 57

57 40 نیک طینت شادی بیاہ کے تعلقات منقطع کر لئے ، کھانا پینا تک بند کر دیا.غرض ہر طرح پریشان کیا لیکن اس بزرگ نے آخری لمحۂ حیات تک اپنے عزیز بھیجے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کے سر سے دست شفقت نہ اٹھایا.حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس برس قبل پیدا ہوئے.ابو طالب کثیر العیال اور معاش کی تنگی سے نہایت پریشان تھے اس لئے رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محبوب چچا کی عسرت سے متاثر ہو کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ: ہم کو اس مصیبت و پریشان حالی میں چا کا ہاتھ بٹانا ہے.چنانچہ حضرت عباس نے حسب ارشاد جعفر رضی اللہ عنہ کی کفالت اپنے ذمہ لی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ انتخاب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پسند کیا.“ (سیر الصحابہ جلد 1 صفحہ 248 تا 250) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر میدان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تربیت فرمائی.چنانچہ اس بارے میں بخاری اور مسلم مین لکھا ہے کہ: ”حضرت سعد ابن وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک میں جب آپ (علی رضی اللہ عنہ) کو مدینہ منورہ میں رہنے کا حکم دیا اور دیگر مجاہدین کے ساتھ نہیں لیا) تو آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے یہاں بچوں اور عورتوں پر اپنا خلیفہ بنا کر چھوڑے جاتے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میں تمہیں اس طرح چھوڑے جاتا ہوں جس طرح موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کو چھوڑ گئے تھے؟ بس فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد آپ کی حیثیت نبی کی نہیں ہو گی.“ (تاریخ الخلفا صفحہ 364.ترجمہ: علامہ شمس بریلوی) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عربی تصنیف سر الخلافہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو فرمایا اس کا اردو ترجمہ پیش ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ نہایت متقی تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جو خدائے رحمان کے نزدیک زیادہ محبوب ہوتے ہیں.آپ رضی اللہ عنہ برگزیدہ انسان، زمانہ کے سردار اور سخی اور پاک دل تھے.آپ رضی اللہ عنہ نے نہایت غریبانہ زندگی گزاری اور نوع انسان کے زہد میں کمال کو پہنچ گئے تھے.آپ رضی اللہ عنہ اموال کے عطا کرنے، غموں کو دور کرنے اور یتامی اور مساکین اور پڑوسیوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کرنے میں سب پر سبقت لے جانے والے تھے.پ رضی اللہ عنہ تلوار زنی اور تیر اندازی کے زبردست ماہر تھے اس کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ بہت فصیح اور شیریں بیان تھے.آپ رضی اللہ عنہ کی بات دل کے اندر تک اثر کرتی تھی.

Page 58

ہیں: آپ رضی اللہ عنہ بے بس و بے کس انسان کی ہمدردی کی تحریک کرتے اور عاجزی سے سوال کرنے والے اور نہ کرنے والے محتاجوں کو کھلانے کا حکم فرماتے.آپ رضی اللہ عنہ، اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے تھے.“ اشاعت اسلام: سر الخلافہ روحانی خزائن جلد نمبر 8 صفحہ 358) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بہت سی خدمات انجام دیں.چنانچہ سیر الصحابہ میں لکھا ہے کہ: مذہبی خدمات امام وقت کا سب سے اہم فرض مذہب کی اشاعت، تبلیغ اور خود مسلمانوں کو مذہبی تعلیم وتلقین ہے.حضرت علی رضی اللہ عنہ عہد نبوت ہی سے ان خدمات میں ممتاز تھے.چنانچہ یمن میں اسلام کی روشنی ان ہی کی کوشش پھیلی تھی.سورۂ برأة ( التوبة ) نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ و اشاعت کی خدمت بھی ان کے سپرد ہوئی.مسند خلافت پر قدم رکھنے کے بعد سے آخر وقت تک گو خانہ جنگیوں نے فرصت نہ دی تا ہم اس فرض سے بالکل غافل نہ تھے.ایران اور آرمینیہ میں بعض مسلم عیسائی مرتد ہو گئے تھے حضرت علی نے ان کی سرکوبی کی اور ان میں سے اکثر تائب ہو کر پھر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے.حضرت علی نے مسلمانوں کی اخلاقی نگرانی کا بھی خیال رکھا.مجرموں کو عبرت انگیز سزائیں دیں.“ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم : (سیر الصحابہ - جلد 1 صفحہ 306 تا 307) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے مکہ کے لوگ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہجرت کے ارادہ سے گھر سے نکل پڑے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر لٹا دیا اور اس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہنے اس امر کا ثبوت دے دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ خود صلیب پر لٹکنے کو تیار رہتے تھے.تو عشق ذاتی میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم دوسرے نبیوں کی قوموں سے بڑھ گئی اور عشق قومی میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم دوسرے نبیوں کی قوموں سے بڑھ گئی.“ (حوالہ تفسیر کبیر جلد نمبر 8 - صفحہ 7) حفاظت منصب خلافت منصب خلافت کی حفاظت کیلئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمات نہایت اعلیٰ اور شاندار ہیں.چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب خلیفہ الرسول منتخب ہوئے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا جس پر حضرت علی رضی 58

Page 59

اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھا فرمایا:." مجھ سے انہی لوگوں نے بیعت کی ہے.جنہوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کی تھی.لہذا نہ تو حاضر کے لیے حق باقی رہ گیا ہے کہ بیعت میں اختیار سے کام لے اور نہ غیر حاضر کو حق ہے کہ بیعت سے روگردانی کرے.شوری تو صرف مہاجرین و انصار کے لیے ہے اگر انہوں نے کسی آدمی کے انتخاب پر اتفاق کر لیا تو اسے امام قرار دے دیا تو یہ اللہ کی اور پوری اُمت کی رضا مندی کے لیے کافی ہے اگر امت کے اس اتفاق سے کوئی شخص اعتراض یا بدعت کی بنا پر خروج کرتا ہے تو مسلمان اسے حق کی طرف لوٹا دیں گے جس سے وہ خارج ہوا ہے.انکار کرے گا تو اس سے جنگ کی جائے گی کیونکہ اس نے مومنوں کی راہ سے کٹ کر الگ راہ اختیار کی ہے اور خدا اس کو اس کی گمراہی کے حوالے کر دے گا اور اے معاویہ! میں یہ قسم کہتا ہوں کہ اگر تو نفس سے ہٹ کر عقل سے کام لے گا تو مجھے عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے بالکل بری الذمہ پائے گا کہ میرا اس خون سے دور کا بھی لگاؤ نہیں ، یہ الگ بات ہے کہ تو اپنے مطلب کے لیے تہمتیں تراشے.خیر جو کرنا ہے کرتا رہ!“ (نہج البلاغہ - صفحہ 724) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: " حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب فتنہ پڑا تو اہل مصر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بولنے لگے، آپ رضی اللہ عنہ نے سختی سے ان کو دھتکار دیا اس واقعہ کو یوں بیان کیا جاتا ہے : اہل مصر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے وہ اس وقت مدینہ سے باہر ایک حصہ لشکر کی کمان کر رہے تھے اور ان کا سر کچلنے پر آمادہ کھڑے تھے ان لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر عرض کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بدانتظامی کے باعث اب خلافت کے قابل نہیں.ہم ان کو علیحدہ کرنے کے لیے آئے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ ان کے بعد اس عہدہ کو قبول کریں گے.انہوں نے (حضرت علی رضی اللہ عنہ نے) ان کی بات سن کر اس غیرت دینی سے کام لے کر جو آپ رضی اللہ عنہ کے رتبہ کے آدمی کا حق تھا ان لوگوں کو دھتکار دیا اور بہت سختی سے پیش آئے اور فرمایا کہ: سب نیک لوگ جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کے طور پر ذوالمرۃ اور ذو خشب (جہاں ان لوگوں کا ڈیرہ تھا) پر ڈیرہ لگانے والے لشکروں کا ذکر فرما کر ان پر لعنت فرمائی تھی.(البداية والنهاية جز 7 صفحہ 174 مطبوعہ بیروت 1966ء) پس خدا تمہارا بُرا کرے تم واپس چلے جاؤ.اس پر ان لوگوں نے کہا کہ بہت اچھا ہم واپس چلے جاویں گے اور یہ کہ کر واپس چلے گئے.“ 66 انوارالعلوم جلد نمبر 4 صفحہ 237) کارنامے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کار ہائے نمایاں بے شمار ہیں جن میں سے چند ایک نمونہ پیش خدمت ہیں: 1) فوجی انتظامات: ”حضرت علی رضی اللہ عنہ خود ایک بڑے تجربہ کار جنگ آزما تھے اور جنگی امور میں آپ رضی اللہ عنہ کو پوری 59

Page 60

بصیرت حاصل تھی اس لیے اس سلسلہ میں آپ رضی اللہ عنہ نے بہت سے انتظامات کئے.چنانچہ شام کی سرحد پر نہایت کثرت کے ساتھ فوجی چوکیاں قائم کیں.40ھ میں جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عراق پر عام یورش کی تو پہلے انہی سرحدی فوجوں نے ان کو آگے بڑھنے سے روکا.اسی طرح ایران میں مسلسل شورش اور بغاوت کے باعث بیت المال، عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے نہایت مستحکم قلعے بنوائے.اس طرح کا قلعہ حصن زیاد اسی سلسلہ میں بنا تھا.جنگی تعمیرات کے سلسلہ میں دریائے فرات کا پل بھی جو معرکہ صفین میں فوجی ضروریات کے خیال سے تعمیر کیا تھا لائق ذکر ہے.2 ہمدردی خلق اور رعایا کے ساتھ شفقت: (سیر صحابہ - جلد 1 صفحہ 306) حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وجود رعایا کے لیے سایہ رحمت تھا، بیت المال کے دروازے غربا اور مساکین کے لیے کھلے ہوئے تھے اور اس میں جو رقم جمع ہوتی تھی نہایت فیاضی کے ساتھ مستحقین میں تقسیم کر دی جاتی تھی، ذمیوں کے ساتھ بھی نہایت شفقت آمیز برتاؤ تھا، ایران میں مخفی سازشوں کے باعث بارہا بغاوتیں ہوئیں لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ نہایت رحم سے کام لیا یہاں تک کہ ایرانی اس لطف و شفقت سے متاثر ہو کر کہتے تھے: خدا کی قسم! اس عربی نے نوشیرواں کی یاد تازہ کر دی.“ 3 عدل انصاف اس (سیر صحابہ - جلد 1 صفحہ 306) ”حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمدان سے باہر مقیم تھے کہ اسی اثنا میں آپ رضی اللہ عنہ نے دو گروہوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا اور آپ رضی اللہ عنہ نے ان میں صلح کرا دی لیکن ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو کسی شخص کی آواز آئی کہ کوئی خدا کے لیے مدد کو آئے.پس آپ رضی اللہ عنہ تیزی سے اس آواز کی طرف دوڑے حتی کہ آپ رضی اللہ عنہ کے جوتوں کی آواز بھی آرہی تھی اور آپ رضی اللہ عنہ کہتے چلے جاتے تھے کہ مدد آگئی مددآ گئی.جب آپ اس جگہ کے قریب پہنچے تو آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک آدمی دوسرے سے لپٹا ہوا ہے.جب اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو عرض کیا کہ: اے امیر المؤمنین: میں نے شخص کے پاس ایک کپڑا نو درہم کا بیچا تھا اور شرط یہ تھی کہ کوئی روپیہ مشکوک یا کٹا ہوا نہ ہو اور اس نے اس کو منظور کر لیا تھا لیکن آج جو میں اس کو بعض ناقص روپے دینے کے لیے آیا تو اس نے بدلانے سے انکار کر دیا، جب میں پیچھے پڑا تو اس نے مجھے تھپڑ مارا آپ رضی اللہ عنہ نے مشتری سے کہا کہ اس کو روپے بدل دے.پھر دوسرے شخص سے کہا کہ تھپڑ مارنے کا ثبوت پیش کر.جب اس نے ثبوت دے دیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مارنے والے کو بٹھا دیا اور اس سے کہا کہ اس سے بدلہ لے.اُس نے کہا اے امیر المؤمنین! میں نے اس کو معاف کر دیا.حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مگر میں چاہتا ہوں کہ تیرے حق میں احتیاط سے کام لوں.معلوم ہوتا ہے وہ شخص سادہ تھا اور اپنے نفع نقصان کو نہیں سمجھ سکتا تھا اور پھر اس شخص کو سات کوڑے مارے اور فرمایا: اس شخص نے تو تجھے معاف کر دیا تھا لیکن یہ سزا حکومت کی طرف سے ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 262 تا 263) 60 60

Page 61

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں تاریخ الخلفا میں لکھا ہے کہ: 17 رمضان المبارک 40 ھ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے علی اصبح بیدار ہو کر اپنے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ رات میں نے خواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نے میرے ساتھ کج روی اختیار کی ہے اور اس نے سخت نزاع بر پا کر دیا ہے.صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں مجھ سے فرمایا کہ تم اللہ سے دعا کرو.چنانچہ میں نے بارگاہِ ربّ العزت میں اس طرح دعا کی کہ الہی! مجھے تو ان لوگوں سے بہتر لوگوں میں پہنچا دے اور میرے بجائے ان لوگوں کا ایسے شخص سے واسطہ ڈال جو مجھ سے بدتر ہو.ابھی آپ رضی اللہ عنہ یہ فرما ہی رہے تھے کہ اتنے میں ابن نباح مؤذن نے آکر آواز دی الصَّلوة! الصَّلوة! چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھانے کے لیے گھر سے چلے.راستے میں آپ لوگوں کو نماز کے لیے آواز دے دے کر جگاتے جاتے تھے کہ اتنے میں سے سامنا ہوا اور اس نے اچانک آپ رضی اللہ عنہ پر تلوار کا ایک بھر پور وار کیا.وار اتنا شدید تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کی پیشانی کنپٹی تک کٹ گئی اور تلوار دماغ تک جا کر ٹھہری.اتنی دیر میں چاروں طرف سے لوگ دوڑ پڑے اور قاتل کو پکڑ لیا.یہ زخم بہت کاری تھا پھر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ جمعہ و ہفتہ تک بقید حیات رہے مگر اتوار کی شب آپ رضی اللہ عنہ کی روح بارگاہ قدس میں پرواز کر گئی.حضرت حسن رضی اللہ عنہ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو غسل دیا، امام حسن رضی اللہ عنہ نے جنازہ کی نماز پڑھائی دار الامارت کوفہ میں رات کے وقت آپ رضی اللہ عنہ کو دفن کر دیا.“ ابن (تاریخ الخلفاء - صفحه 373 تا374 ترجمہ: علامہ شمس بریلوی.شائع کردہ پروگریسو بکس) 61

Page 62

خلافت دائمی ہے 62 69 مرتبه طارق محمود بلوچ مربی سلسلہ

Page 63

عناوین: آیت استخلاف حدیث مجدد ساسان اوّل کی پیش گوئی حضرت بابا گورو نانک رحمۃ اللہ علیہ کی پیش گوئی ارشاد حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ خلافت راشدہ کے دو ادوار ارشادات سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دائمی خلافت کا وعدہ امت محمدیہ کے لئے دائمی خلافت کا وعدہ مسلمانوں میں خلفا آتے رہیں گے ولایت، امامت اور خلافت تا قیامت ہیں ارشاد سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ارشاد سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ ارشاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ارشاد سیدنا حضرت خلیفہ رایح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (i (ii سلسلہ خلافت ہمیشہ کیلئے ہے خلافت کا سلسلہ ہمیشہ چلتا چلا جائے گا خلافت اور مجددیت: حدیث امام مہدی کے ظہور کے بعد مجددیت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا ارشاد سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ارشاد سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالٰی عنہ ارشاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ارشاد سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ آیت استخلاف 63

Page 64

وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO ط (سورة النور : 56) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.“ حدیث: ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) عَنْ حُذِيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيْكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلَكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبُرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 273 مشکوۃ بَابُ الْإِنْدَارِ وَالتَّحْذِيرِ) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت على مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ قائم ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا، پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ ظلم ستم کے اس دور کو ختم کر دے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی ! یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.مجدد ساسان اوّل کی پیش گوئی: زرتشتی (Zorastrian) مذہب کے صحیفہ دساتیر میں دین زرتشت کے مجدد ساسانِ اوّل کی ایک پیش گوئی درج کی جاتی ہے.اس پیش گوئی کے اصل الفاظ تو پہلوی زبان میں ہیں جسے زرتشتی اصحاب نے فارسی زبان میں ڈھالا ہے.چنانچہ فارسی میں اس پیش گوئی کے الفاظ درج ذیل ہیں: چوں ہزار سال تازی آئین را گزر د چناں شود آن آئین از جدائی ہا کہ اگر بائیں گر نمائند نداندش....در افتد در هم و کنته و د کنند خاک پرستی و روز بروز جدائی و دشمنی در آنها افزون شود....پس شمایا بید خوبی را گر ماند یکدم از ہمیں خرج انگیزم از کسان تو و کے و آئین و آب تو به تو رسانم و پیغمبری و پیشوائی از فرزندان تو برنگیرم 66 (سفر نگ دساتیر صفحه 190) 64

Page 65

ترجمہ: پھر شریعت عربی پر ہزار سال گزر جائیں گے تو تفرقوں سے دین ایسا ہو جائے گا کہ اگر خود شارع (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ بھی اسے پہچان نہ سکے گا.....اور ان کے اندر انشقاق اور اختلاف پیدا ہو جائے گا اور روز بروز اختلاف اور باہمی دشمنی میں بڑھتے چلے جائیں گے.....جب ایسا ہو گا تو تمہیں خوشخبری ہو کہ اگر زمانہ میں ایک دن بھی باقی رہ جائے تو تیرے لوگوں سے (یعنی فارسی الاصل) شخص کو کھڑا کر وں گا جو تیری گمشدہ عزت و آبرو واپس لائے گا اور اسے دوبارہ قائم کرے گا.میں پیغمبری و پیشوائی (نبوت و خلافت) تیری نسل سے نہیں اٹھاؤں گا.“ (یعنی تیری نسل میں رسالت اور خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا اور کبھی ختم نہ ہو گا.ناقل) حضرت بابا گورو نانک رحمۃ اللہ علیہ کی پیش گوئی: (سوانح الفضل عمر جلد 1 صفحه 67) حضرت گورو بابا نانک پورے گرو یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی فرمانے کے بعد آپ علیہ السلام کے بعد آنے والے دائمی خلافت کی پیشگوئی ان الفاظ میں فرمائی: ایسا پاسا ڈھالسی دور دیبان ابھگ نوتن جامه بین بھتے الگ الگ اک اک پکیاں گور موکھ نہال تحسن سیتی نا نکا توڑے آپ دیال جنم ساکھی بھائی بالا - صفحہ 526) وو یعنی: اس پورے گورو کے بعد ایسا نظام قائم ہو گا ، یہی دائگی اور غیر منقطع ہو گا.باباجی نے اس پیشگوئی میں ”دور دیبان“ اور ” ابھگ“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں.لغات میں ان کے معنے بیان کئے گئے ہیں: دیبان: (1 (2 وہ حاکم جس کے پاس داد فریاد کی جا سکے، انصاف کرنے والا حاکم، (3 حاکم انتظام کرنے والا ، خزانے والا حاکم.ابھگ:.(شہدار تھ گورو گرنتھ صاحب.صفحہ 1071.دیبان کوش.صفحہ 1911.وگورو گرنتھ کوش.صفحہ 644.) 65

Page 66

جو کبھی بھی ٹوٹنے والا نہ ہو.غیر منقطع بابا نانک نے خود ہی ان الفاظ کی یوں تشریح کی ہے: دیبان جو ہے سو ابھگ لگے گا تٹنے کا کدے ناہی“ یعنی وہ ایک ایسا نظام ہو گا جو دائمی اور غیر منقطع ہو گا.ارشاد حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ : خلافت راشدہ کے دو ادوار: ( گورو گرنتھ کوش.صفحہ 64) (جنم ساکھی بھائی بالا.صفحہ 527) (روز نامه الفضل 26 مئی 1959 صفحہ 16 مضمون نگار مکرم عباد اللہ کیانی صاحب) پس جیسا کہ کبھی کبھی دریائے رحمت سے کوئی موج سر بلند ہوتی ہے اور آئمہ ہدگی میں سے کسی امام کو ظاہر کرتی ہے ایسا ہی اللہ کی نعمت کمال تک پہنچتی ہے تو کسی کو تخت خلافت پر جلوہ افروز کر دیتی ہے اور وہی امام اس زمانے کا خلیفہ راشد ہے اور وہ جو حدیث میں وارد ہے کہ خلافتِ راشدہ کا زمانہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمیں سال تک ہے اس کے بعد سلطنت ہو گی تو اس سے مراد یہ ہے کہ خلافت راشدہ متصل اور تواتر طریق پر تمیں سال تک رہے گی.اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیام قیامت تک خلافت راشدہ کا زمانہ وہی تمہیں سال ہے اور بس ! بلکہ حدیث مذکورہ کا مفہوم یہی ہے کہ خلافت راشدہ تمہیں سال گزرنے کے بعد منقطع ہو گی نہ یہ کہ اس کے بعد پھر خلافت راشدہ کبھی آ ہی نہیں سکتی بلکہ ایک دوسری حدیث خلافت راشدہ کے انقطاع کے بعد پھر عود کرنے پر دلالت کرتی ہے.چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَاشَاءَ اللَّهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَاشَاءَ اللَّهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلَكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبُرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سكت نبوت تم میں رہے گی اللہ چاہے گا پھر اللہ تعالیٰ اسے اٹھا لے گا اور بعدہ نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی جو اللہ کے منشا تک رہے گی پھر اسے بھی اللہ اٹھا لے گا، پھر بادشاہی ہو گی اور اسے بھی اللہ جب تک چاہے گا رکھے گا پھر اسے بھی اٹھا لے گا.پھر سلطنت جابرانہ ہو گی جو منشائے باری تعالیٰ تک رہے گی پھر اسے بھی اٹھا لے گا اور اس کے بعد نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو گئے اور یہ بھی امر ظاہر ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی خلافت، خلافت راشدہ سے افضل انواع میں سے ہو گی یعنی وہ خلافت ”منتظمہ محفوظہ “ ہو گی.منصب امامت از حضرت شاہ اسمعیل شہید - صفحہ- 117-118.ناشر مگی دارالکتب اردو بازار لاہور 1994ء) سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: 66

Page 67

سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے.66 امت میں دائمی خلافت کا وعدہ: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: (الوصیت روحانی خزائن.جلد نمبر 20 صفحہ 305-306) جس طرح قرآن مجید میں یہ آیت اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ ہے اسی طرح توریت میں بھی آیات ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ایک کامل اور جلالی کتاب دی گئی ہے جس کا نام توریت ہے.چنانچہ قرآن کریم میں بھی توریت کی یہی تعریف ہے لیکن باوجود اس کے بعد توریت کے صدہا ایسے نبی بنی اسرائیل میں سے آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی بلکہ ان انبیاء کے ظہور کے مطالب یہ ہوتے تھے کہ تا ان کے موجودہ زمانہ میں جو لوگ تعلیم توریت سے دور پڑ گئے ہوں پھر ان کو توریت کے اصلی منشا کی طرف کھینچیں اور جن کے دلوں میں کچھ شکوک اور دہریت اور بے ایمانی ہو گئی ہو ان کو پھر زندہ ایمان بخشیں.چنانچہ اللہ جَلَّ شَأْنُه خود قرآن کریم میں فرماتا ہے : وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِ هِ بِالرُّسُلِ - (سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِينَ : 45) یعنی موسیٰ کو ہم نے توریت دی اور پھر اس کتاب کے بعد ہم نے کئی پیغمبر بھیجے تا توریت کی تائید اور تصدیق کریں.اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے: ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتَرًا - (سُورَةُ الْبَقَرَة: 88) یعنی پھر پیچھے سے ہم نے اپنے رسول پے در پے بھیجے.پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ اپنی کتاب بھیج کر پھر اس کی تائید اور تصدیق کے لئے ضرور انبیاء کو بھیجا کرتا ہے.چنانچہ توریت کی تائید کے لئے ایک ایک وقت میں چار چار سونبی بھی آیا جن کے آنے پر اب تک بائبل شہادت دے رہی ہے.اس کثرتِ اِرسَالِ رُسُلُ میں اصل بھید یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عہد مئوکد ہو چکا ہے کہ جو اس کی سچی کتاب کا انکار کرے تو اس کی سزا دائی جہنم ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے: وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُو إِبِايَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ - (سُورَةُ البَقَرَة (40) یعنی جو لوگ کافر ہوئے اور ہماری آیتوں کی تکذیب کی وہ جہنمی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے.، جبکہ سزائے انکار کتاب الہی میں ایسی سخت تھی اور دوسری طرف یہ مسئلہ نبوت اور وحی الہی کا نہایت دقیق تھا بلکہ خود خدا تعالیٰ کا وجود بھی ایسا دقیق در دقیق تھا کہ جب تک انسان کی آنکھ خداداد نور سے منور نہ ہو ہرگز 67

Page 68

نہ تھا کہ سچی اور پاک معرفت اس کی حاصل ہو سکے چہ جائیکہ اس کے رسولوں کی معرفت اور اس کی کتاب کی معرفت حاصل ہو اس لئے رحمانیت الہی نے تقاضا کیا کہ اندھی اور نابینا مخلوق کی بہت ہی مدد کی جائے اور صرف اس پر اکتفا نہ کیا جائے کہ ایک مرتبہ رسول اور کتاب بھیج کر پھر باوجود امتداد ازمنہ طویلہ کے ان عقائد کے انکار کی وجہ سے جن کو بعد میں آنے والے زیادہ اس سے سمجھ نہیں سکتے کہ وہ ایک پاک اور عمدہ منقولات ہیں ہمیشہ کی جہنم میں منکروں کو ڈال دیا جائے اور حقیقت سوچنے والے کے لئے یہ بات نہایت صاف اور روشن ہے کہ وہ خدا جس کا نام رحمان اور رحیم ہے اتنی بڑی سزا دینے کے لئے کیونکر یہ قانون اختیار کر سکتا ہے کہ بغیر پورے طور پر اتمام حجت کے مختلف بلاد کے ایسے لوگوں کو جنہوں نے صدہا برسوں کے بعد قرآن کریم اور رسول کا نام سنا! پھر وہ عربی سمجھ نہیں سکتے ، قرآن کریم کی خوبیوں کو دیکھ نہیں سکتے دائمی جہنم میں ڈال دے؟ اور کس انسان کی کانشنس (conscious) اس بات کو قبول کرسکتی ہے کہ بغیر اس کے کہ قرآن کریم کا مِنْ جَانِبِ اللهِ ہونا اس پر ثابت کیا جائے یونہی اس پر چھری پھیر دی جائے پس یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے دائگی خلیفوں کا وعدہ دیا تا وہ ظلی طور پر انوار نبوت پا کر دنیا کو ملزم کریں اور قرآن کریم کی خوبیاں اور اس کی پاک برکات لوگوں کو دکھلاویں.“ اُمت محمدیہ کے لئے دائمی خلافت کا وعدہ: (شهادة القرآن روحانی خزائن جلد 6.صفحہ 340 تا 342) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دوم جس طرح پر عقل اس بات کو واجب اور مختم ٹھہراتی ہے کہ کتب الہی کی دائی تعلیم اور تفہیم کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ انبیاء کی طرح وقتاً فوقتاً ملہم اور مکلم اور صاحب علم لدنی پیدا ہوتے رہیں اسی طرح جب ہم قرآن کریم پر نظر ڈالتے ہیں اور غور کی نگہ سے اس کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی بآواز بلند یہی فرما رہا ہے کہ روحانی معلموں کا ہمیشہ کیلئے ہونا اس کے ارادہ قدیم میں مقرر ہو چکا ہے دیکھو اللہ جَلَّ شَأْنُهُ فرماتا ہے: وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ - سُوْرَةُ الرَّعْدُ : 18 ) یعنی جو چیز انسانوں کو نفع نقصان پہنچاتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے اب ظاہر ہے کہ دنیا میں زیادہ تر انسانوں کو نفع پہنچانے والے گروہ انبیاء ہیں کہ جو خوارق سے، معجزات سے، پیشگوئیوں سے، حقائق سے، معارف سے، اپنی راست بازی کے نمونہ سے انسانوں کے ایمان کو قوی کرتے ہیں اور حق کے طالبوں کو دینی نفع پہنچاتے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دنیا میں کچھ بہت مدت تک نہیں رہتے بلکہ تھوڑی سی زندگی بسر کر کے اس عالم سے اٹھائے جاتے ہیں لیکن آیت کے مضمون میں خلاف نہیں اور ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام خلاف واقع ہو.پس انبیاء کی طرف نسبت دے کر معنی آیت کے یوں ہوں گے کہ انبیاء مِنْ حَيْثِ الظُّلُ باقی رکھے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ظلی طور پر ہر یک ضرورت کے وقت میں کسی اپنے بندہ کو ان کی نظیر اور مثیل پیدا کر دیتا ہے جو انہیں کے رنگ میں ہو کر ان کی دائمی زندگی کا موجب ہوتا ہے اور اسی ظلمی وجود قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے اهدِنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (سورة الفاتحة : 7,6) یعنی اے خدا ہمارے! ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو تیرے ان بندوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا انعام جو انبیاء پر ہوا تھا جس کے مانگنے کے لئے اس دعا میں حکم ہے اور وہ درم اور دینار کی قسم میں سے نہیں بلکہ وہ انوار اور برکات 68

Page 69

69 اور محبت اور یقین اور خوارق اور تائید سماوی اور قبولیت اور معرفتِ تامہ کاملہ اور وحی اور کشف کا انعام ہے اور خدا تعالٰی نے اس امت کو اس انعام کے مانگنے کے لئے تبھی حکم فرمایا کہ اوّل اس انعام کے عطا کرنے کا ارادہ بھی کر لیا.پس اس آیت سے بھی کھلے کھلے طور پر یہی ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ اِس اُمت کو ظلی طور پر تمام انبیاء کا وارث ٹھہراتا ہے تا انبیاء کا وجود ظلی طور پر ہمیشہ باقی رہے اور دنیا ان کے وجود سے کبھی خالی نہ ہو اور نہ صرف دعا کے لئے حکم کیا بلکہ ایک آیت میں وعدہ بھی فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِ يَنَّهُمْ سُبُلَنَا سُوْرَةُ الْعَنكَبُوتُ (70) یعنی جو لوگ ہماری راہ میں جو صراط مستقیم ہے مجاہدہ کریں گے تو ہم ان کو اپنی راہیں بتلا دیں گے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہیں وہی ہیں جو انبیاء کو دکھلائی گئیں تھیں.پھر بعض اور آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور خدا وند کریم نے یہی ارادہ فرمایا ہے کہ روحانی معلم جو انبیاء کے وارث ہیں ہمیشہ ہوتے رہیں وہ یہ ہیں: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمُ (سورة النور : 56) وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُمْ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّنْ دَارِهِمْ حَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (سُورَةُ الرَّعْدُ: 32) وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (بنی اسرائیل: (16) یعنی خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے اے مومنان امت محمدیہ! یہ وعدہ کیا ہے کہ تمہیں بھی وہ زمین میں خلیفہ کرے گا جیسا کہ تم سے پہلوں کو کیا اور ہمیشہ کفار پر کسی قسم کی کوفتیں جسمانی ہوں یا روحانی پڑتی رہیں گی یا ان کے گھر سے نزدیک آجائیں گی یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ آپہنچے گا اور خدا تعالیٰ اپنے وعدوں میں تخلف نہیں کرتا اور ہم کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ایک رسول بھیج نہ لیں.ان آیات کو اگر کوئی شخص تامل اور غور کی نظر سے دیکھے تو میں کیونکر کہوں کہ وہ اس بات کو سمجھ نہ جائے کہ خدا تعالیٰ اس امت کے لئے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے.اگر خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہ دینا کیا معنی رکھتا تھا؟ اور اگر خلافت راشدہ صرف تمہیں برس تک رہ کر پھر ہمیشہ کے لئے اس کا دور ختم ہو گیا تھا تو اس سے لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس امت پر ہمیشہ کے لئے ابواب سعادت مفتوح رکھے کیونکہ روحانی سلسلہ کی موت سے دین کی موت لازم آتی ہے اور ایسا مذہب ہر گز زندہ نہیں کہلا سکتا جس کے قبول کرنے والے خود اپنی زبان سے ہی یہ اقرار کریں کہ تیرہ سو برس سے یہ مذہب مرا ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس مذہب کے لئے ہرگز یہ ارادہ نہیں کیا کہ حقیقی زندگی کا وہ نور جو نبی کریم کے سینہ میں تھا وہ توارث کے طور پر دوسروں میں چلا آوے.افسوس کہ ایسے خیال پر جمنے والے خلیفہ کے لفظ کو بھی جو استخلاف سے مفہوم ہوتا ہے تدبر سے نہیں سوچتے کیونکہ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہو سکتا ہے جو ظلی طور رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کیلئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکاتِ رسالت سے محروم نہ رہے.پس جو شخص خلافت کو صرف تمہیں برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ ہرگز نہیں تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف تمیں برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے.پھر پر

Page 70

رہے رہے بعد اس کے دنیا تباہ ہو جائے تو ہو جائے کچھ پرواہ نہیں بلکہ پہلے دنوں میں تو خلیفوں کا ہونا بجز شوکت اسلام پھیلانے کے کچھ اور زیادہ ضروریات نہیں رکھتا تھا کیونکہ انوار رسالت اور کمالاتِ نبوت تازہ بتازہ پھیل تھے اور ہزارہا معجزات بارش کی طرح ابھی نازل ہو چکے تھے اور اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اس کی سنت اور قانون سے یہ بھی بعید نہ تھا کہ بجائے ان چار خلیفوں کے اس تیس برس کے عرصہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کو ہی بڑھا دیتا.اس حساب سے تمہیں برس کے ختم ہونے تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل93 برس کی عمر تک پہنچتے اور یہ اندازہ اس زمانہ کی مقرر عمروں سے نہ کچھ زیادہ اور نہ اس قانونِ قدرت سے کچھ بڑھ کر جو انسانی عمروں کے بارے میں ہماری نظر کے سامنے ہے.پس یہ حقیر خیال خدا تعالیٰ کی نسبت تجویز کرنا کہ اس کو صرف اس امت کے تیس برس کا ہی فکر تھا اور پھر اس کو ہمیشہ کے لئے ضلالت میں چھوڑ دیا اور وہ نور جو قدیم سے انبیائے سابقین کی امت میں خلافت کے آئینہ میں وہ دکھلاتا رہا اس امت کے لئے دکھلانا اس کو منظور نہ ہوا.کیا عقل سلیم خدائے رحیم و کریم کی نسبت ان باتوں کو تجویز کرے گی؟ ہر گز نہیں.اور پھر یہ آیت خلافت ائمہ پر گواہ ناطق ہے.وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (الانبیاء (106) کیونکہ یہ آیت صاف صاف پکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت دائمی ہے اس لئے کہ يَرِثُهَا کا لفظ دوام کو چاہتا ہے.وجہ یہ کہ اگر آخری نوبت فاسقوں کی ہو تو زمین کے وارث وہی قرار پائیں گے نہ کہ صالح اور سب کا وارث وہی ہوتا ہے جو سب کے بعد ہو.پھر اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک مثال کے طور پر سمجھا دیا تھا کہ میں اسی طور پر اس امت میں خلیفے پیدا کرتا رہوں گا جیسے موسیٰ کے بعد خلیفے پیدا کئے تو دیکھنا چاہئے تھا کہ موسیٰ کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا؟ کیا اس نے صرف تیس برس تک خلیفے بھیجے یا چودہ سو برس تک اس سلسلہ کو لمبا کیا؟ پھر جس حالت میں خدا تعالیٰ کا فضل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سے کہیں زیادہ تھا.چنانچہ اس نے خود فرمایا وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (سورة النساء : 114) اور ایسا ہی اس امت کے : نسبت فرمايا كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : 111) تو پھر کیونکر ہو سکتا تھا کہ حضرت موسیٰ کے خلیفوں کا چودہ سو برس تک سلسلہ ممتد ہو اور اس جگہ صرف تمہیں برس تک خلافت کا خاتمہ ہو جاوے اور نیز جبکہ یہ امت خلافت کے انوار روحانی سے ہمیشہ کیلئے خالی ہے تو پھر آیت أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کے کیا معنے ہیں؟ کوئی بیان تو کرے.مثل مشہور ہے کہ او خویشتن گم ہے کہ او خویشتن گم است کرا راہبری کند.جبکہ اس امت کو ہمیشہ کے لئے اندھا رکھنا ہی منظور ہے اور اس مذہب کو مردہ رکھنا ہی مد نظر ہے تو پھر یہ کہنا کہ تم سب سے بہتر ہو اور لوگوں کی بھلائی اور رہنمائی کیلئے پیدا کئے گئے ہو کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا اندھا اندھے کو راہ دکھا سکتا ہے؟ سواے لوگو جو مسلمان کہلاتے ہو! برائے خدا سوچو کہ اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ ہمیشہ قیامت تک تم میں روحانی زندگی اور باطنی بینائی رہے گی اور غیر مذہب والے تم سے روشنی حاصل کریں گے اور یہ روحانی زندگی اور باطنی بینائی جو غیر مذہب والوں کو حق کی دعوت کرنے کے لئے اپنے اندر لیاقت رکھتی ہے یہی وہ چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں خلافت کہتے ہیں پھر کیونکر کہتے ہو کہ خلافت صرف تمہیں برس تک ہو کر پھر زاویہ عدم میں مخفی گئی.اِتَّقُوا اللَّهَ اتَّقُوا اللَّهَ اتَّقُوا اللَّهَ - اب یاد رہے کہ اگر چہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں جو اس اُمت میں خلافت دائمی کی بشارت دیتی ہیں اور احادیث بھی اس بارہ میں بہت سی بھری پڑی ہیں لیکن بالفعل اس قدر لکھنا اُن لوگوں کیلئے کافی ہی جو حقائق ثابت شدہ کو دولت عظمیٰ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور اسلام کی نسبت اس سے ہو 70

Page 71

خلیفے بڑھ کر اور کوئی بداندیشی نہیں کہ اس کو مردہ مذہب خیال کیا جائے اور اس کی برکات کو صرف قرن اول تک محدود رکھا جاوے.کیا وہ کتاب جو ہمیشہ کی سعادتوں کا دروازہ کھولتی ہے وہ ایسی پست ہمتی کا سبق دیتی ہے کہ کوئی برکت اور خلافت آگے نہیں بلکہ سب کچھ پیچھے رہ گیا ہے.نبی تو اس اُمت میں آنے کو رہے.اب اگر خلفائے نبی بھی نہ آویں اور وقتاً فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلاویں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے اور پھر ایسے مذہب کو موسوی مذہب کی روحانی شوکت اور جلال سے نسبت ہی کیا ہے جس میں ہزار رہا روحانی چودہ سو برس تک پیدا ہوتے رہے اور افسوس ہے کہ ہمارے معترض ذرہ نہیں سوچتے کہ اس صورت میں اسلام اپنی روحانیت کے لحاظ سے بہت ہی ادنی ٹھہرتا ہے اور نبی متبوع صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کچھ بہت بڑا نبی ثابت نہیں ہوتا اور قرآن بھی کوئی ایسی کتاب ثابت نہیں ہوتی جو اپنی نورانیت میں قوی الاثر ہو پھر یہ کہنا کہ یہ امت خَيْرُ الأمم ہے اور دوسری اُمتوں کے لئے ہمیشہ روحانی فائدہ پہنچانے والی ہے اور یہ قرآن سب الہی کتابوں کی نسبت اپنے کمالات اور تاثیر وغیرہ میں اکمل و اتم ہے اور یہ رسول تمام رسولوں سے اپنی قوتِ قدسیہ اور تحمیل خلق میں اکمل و اتم ہے کیسا بے ہودہ اور بے معنی اور بے ثبوت دعوئی ٹھہرے گا؟ اور پھر یہ ایک بڑا فساد لازم آئے گا کہ قرآن کی تعلیمات کا وہ حصہ جو انسان کو روحانی انوار اور کمالات میں مشابہ انبیاء بنانا چاہتا ہے جو ہمیشہ کے لئے منسوخ خیال کی جائے گا کیونکہ جب کہ اُمت میں یہ استعداد ہی نہیں پائی جاتی کہ خلافت کے کمالات باطنی اپنے اندر پیدا کر لیں تو ایسی تعلیم جو مرتبہ کے حاصل کرنے کے لئے تاکید کر رہی ہے محض لا حاصل ہو گی.در حقیقت فقط ایسے سوال سے ہی کہ کیا اسلام اب ہمیشہ کے لئے ایک مذہب مردہ ہے جس میں ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے جن کی کرامات معجزات کے قائم مقام اور جن کے الہامات وحی کے قائم مقام ہوں.بدن کانپ اٹھتا ہے چہ جائیکہ کسی مسلمان کو نعوذ باللہ ایسا عقیدہ بھی ہو! خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت کرے جو ان ملحدانہ خیالات میں اسیر ہیں.(شهادة القرآن - روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 351 تا 356) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: کفار کی شہادتیں قرآن شریف میں موجود ہیں کہ وہ بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ اب یہ دین جلد تباہ ہو جائے گا اور ناپدید ہو جائے گا، ایسے وقتوں میں ان کو سنایا گیا کہ يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْ بَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرَهَ الْكَافِرُونَ (سُورَةُ التَّوْبَةُ: 32 یعنی یہ لوگ اپنے منہ کی لاف و گزاف سے بکتے ہیں کہ اس دین کو کبھی کامیابی نہ ہو گی، یہ دین ہمارے ہاتھ سے تباہ ہو جاوے گا لیکن خدا کبھی اس دین کو ضائع نہیں کرے گا اور نہ چھوڑے گا جب تک اس کو پورا نہ کرے پھر ایک اور آیت میں فرمایا ہے.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا...(سورة النور (66) یعنی خدا وعدہ دے چکا ہے کہ اس دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفے پیدا کرے گا اور قیامت تک اس کو قائم کرے گا یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے دین میں مدت ہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتا رہا ایسا ہی اس جگہ بھی کرے گا اور اس کو معدوم ہونے نہیں دے گا.“ مسلمانوں میں خلفا آتے رہیں گے: جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 290) 71

Page 72

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ثَبَتَ مِنَ الْقُرْآن اَنَّ الْخُلَفَاءَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - فَاللَّهُ الَّذِي أَمَرَنَا أَجْمَعِينَ أَنْ نَّقُولُ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ مُصَلِّينَ وَمُمْسِيْنَ وَ مُصْبِحِيْنَ وَ اَنْ نَّطْلُبَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمَ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ أَشَارَ إِلَى أَنَّهُ قَدْ قَدَرَمِنَ الْإِبْتِدَاءِ أَنْ يَبْعَثَ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْضَ الصُّلَحَاءِ عَلَى قَدَمِ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْ يَسْتَخْلِفَهُمْ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ - وَإِنَّ هَذَا لَهُوَ الْحَقُّ فَاتْرُكِ الْجَلَالَ الْفُضُولَ وَالْاقَاوِيلَ وَكَانَ غَرَضُ اللَّهِ يَجْمَعُ فِى هَذِهِ الْأُمَّةِ كَمَالَاتٌ مُتَفَرَّقَةٌ وَاَخْلَاقًا مُّتَبَدَّدَة فَاقْتَضَتْ سُنَّتْهُ الْقَدِيمَةُ اَنْ يَّعْلَمَ هَذَا الدُّعَاءُ ثُمَّ يَفْعَلُ مَا شَاءَ وَقَدْ سُمِّي هَذِهِ الْأُمَّةُ خَيْرُ الْأُمَمِ فِى الْقُرْآنِ وَلَا يُحْصَلُ خَيْرٌ إِلَّا بِزِيَادَةِ الْعَمَلِ وَالْإِيْمَانِ وَالْعِلْمِ وَالْعِرْفَانِ وَابْتِغَاءِ مَرَضَاتِ اللهِ الرَّحْمَانِ وَ كَذلِكَ وَعَدَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الْأَرْضِ بِالْفَضْلِ وَالْعِنَايَاتِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاحِ وَالتَّقَاةِ.فَثَبَتَ مِنَ الْقُرْآنِ أَنَّ الْخُلَفَاءَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.اعجاز مسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 175 تا177) ترجمہ: پس اللہ تعالیٰ جس نے ہم سب کو نماز پڑھتے وقت اور صبح کے وقت اور شام کے وقت اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم کی دعا مانگنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ منعم علیہ گروہ یعنی نبیوں اور رسولوں کا راستہ طلب کرتے رہیں.اس میں یہ اشارہ ہے کہ اس نے شروع سے ہی مقدر کر رکھا ہے کہ بعض نیک لوگوں کو نبیوں کے نقش قدم پر اس امت میں مبعوث کرتا رہے گا اور انہیں اسی طرح خلیفہ نبا دے گا جیسا کہ اس نے اس سے پہلے بنی اسرائیل سے خلفا بنائے تھے اور یقینا یہی (بات) حق ہے.پس تو فضول جھگڑے اور قیل و قال چھوڑ دے اور اللہ تعالیٰ کا منشا یہ تھا کہ اس امت میں مختلف کمالات اور گو ناگوں اخلاق جمع کر دے.پس اللہ کی اس قدیم سنت نے تقاضا کیا کہ وہ یہ دعا سکھائے اور پھر اس کے بعد جو چاہے وہ کر دکھائے.قرآن کریم میں اس امت کا نام خیر الامم (یعنی بہترین امت ( (یعنی بہترین امت) رکھا گیا ہے اور خیر اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جبکہ عمل ، ایمان، علم اور عرفان میں اضافہ ہو اور خدا ئے رحمان کی خوشنودی طلب کی جائے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں اپنے فضل اور عنایت سے اسی دنیا میں ضرور خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے اس سے قبل نیکو کاروں اور متقیوں کو خلیفہ بنایا تھا.پس قرآن کریم سے ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں میں روز قیامت تک خلفا آتے رہیں گے.“ ولایت، امامت اور خلافت تا قیامت ہیں: سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 1 صفحہ 222 ،223) ولایت اور امامت اور خلافت کی ہمیشہ قیامت تک راہیں کھلی ہیں اور جس قدر مہدی دنیا میں آئے یا آئیں گے اُن کا شمار خاص اللہ جل شانہ کو معلوم ہے.وحی رسالت ختم ہو گئی مگر ولایت و امامت و خلافت کبھی ختم نہیں ہو گی.یہ سلسلہ آئمہ راشدین اور خلفائے ربانیین کا کبھی بند نہیں ہو گا.“ ارشاد سیدنا حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ : ( بدر جون 1906ء صفحہ 3) 72

Page 73

اور ”دنیا کے مذاہب کی حفاظت کیلئے مؤید من اللہ ، نصرت یافتہ پیدا نہیں ہوتے.اسلام کے اندر کیسا فضل احسان ہے کہ وہ مامور بھیجتا ہے جو پیدا ہونے والی بیماریوں میں دعاؤں کے مانگنے والا، خدا کی درگاہ میں ہوشیار انسان، شرارتوں اور عداوتوں کے بدنتائج سے آگاہ، بھلائی سے واقف انسان ہوتا ہے.جب غفلت ہوتی ہے اور قرآن کریم سے بے خبری ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں میں بے سمجھی پیدا ہو جاتی ہے تو خدا کا وعدہ ہے کہ ہمیشہ خلفا پیدا کرے گا.“ ارشاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ : حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مسیح محمدی کی خلافت کے بارہ میں فرمایا: (الحکم 17 جولائی 1902ء صفحہ 15) عزیزم مرزا منصور احمد نے میری توجہ ایک مضمون کی طرف پھیری ہے جو مرزا بشیر احمد صاحب نے خلافت کے متعلق شائع کیا ہے اور لکھا ہے کہ غالباً اس مضمون میں ایک پہلو کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی جس میں مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریر کیا ہے کہ خلافت کا دور ایک حدیث کے مطابق عارضی اور وقتی ہے میں نے اس خط سے پہلے یہ مضمون نہیں پڑھا تھا اس خط کی بنا پر میں نے مضمون کا وہ حصہ نکال کر سنا تو میں نے بھی سمجھا کہ اس میں صحیح حقیقت خلافت کے بارے میں پیش نہیں کی گئی.مرزا بشیر احمد صاحب نے جس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ خلافت کے بعد حکومت ہوتی ہے اس حدیث میں قانون نہیں بیان کیا گیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے حالات کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے اور پیشگوئی صرف ایک وقت کے متعلق ہوتی ہے سب اوقات کے متعلق نہیں ہوتی یہ امر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت نے ہونا تھا اور خلافت کے بعد حکومت مستبدہ نے ہونا تھا اور ایسا ہی ہو گیا، اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہر مامور کے بعد ایسا ہی ہوا کرے گا.قرآن کریم میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت ایک انعام ہے پس جب تک کوئی قوم اس انعام کی مستحق رہتی ہے وہ انعام اسے ملتا رہے گا.پس جہاں تک مسئلہ اور قانون کا سوال ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی ہے اور وہ خلافت اس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے جب تک کہ قوم خود ہی اپنے آپ کو خلافت کے انعام سے محروم نہ کر دے لیکن اس اصل سے ہر گز یہ بات نہیں نکلتی کہ خلافت کا مٹ جانا لازمی ہے حضرت عیسی علیہ السلام کی خلافت اب تک چلی آرہی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ پوپ صحیح معنوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کا خلیفہ نہیں لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ امت عیسوی بھی صحیح معنوں میں مسیح کی امت نہیں.پس جیسے کو تیسا تو ملا ہے مگر ملا ضرور ہے بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں سال تک قائم رہی اسی طرح گو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت محمدیہ تواتر کے رنگ میں عارضی رہی لیکن مسیح محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر معین عرصہ تک چلتی چلی جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام كريم ہے نے اس مسئلہ پر بار بار زور دیا ہے کہ مسیح محمدی کو مسیح موسوی کے ساتھ ان تمام امور میں مشابہت حاصل جو امور کہ تکمیل اور خوبی پر دلالت کرتے ہیں سوائے ان امور کے جن سے بعض ابتلا ملے ہوتے ہیں ان میں علاقہ محمدیت، علاقہ موسویت پر غالب آجاتا ہے اور نیک تبدیلی پیدا کر دیتا ہے جیسا کہ مسیح اول صلیب پر لٹکا یا 73

Page 74

گیا لیکن مسیح ثانی صلیب پر نہیں لٹکایا گیا کیونکہ مسیح اول کے پیچھے موسوی طاقت تھی اور مسیح ثانی کے پیچھے محمدی طاقت تھی.خلافت چونکہ ایک انعام ہے ابتلا نہیں اس لئے اس سے بہتر چیز تو احمدیت میں آسکتی ہے جو کہ مسیح اول کو ملی لیکن وہ ان نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتی جو کہ مسیح اول کی امت کو ملیں کیونکہ مسیح اول کی پشت پر موسوی برکات تھیں اور مسیح ثانی کہ پشت پر محمدی برکات ہیں.پس جہاں میرے نزدیک یہ بحث نہ صرف یہ کہ بے کار ہے بلکہ خطر ناک ہے کہ ہم خلافت کے عرصہ کے متعلق بحثیں شروع کر دیں وہاں یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصے تک چلے گی جس کا قیاس بھی اس وقت نہیں کیا جا سکتا اور اگر خدا نخواستہ بیچ میں کوئی وقفہ پڑے بھی تو وہ حقیقی وقفہ نہیں ہو گا بلکہ ایسا ہی وقفہ ہو گا جیسے دریا بعض دفعہ زمین کے نیچے کھس جاتے ہیں اور پھر باہر نکل آتے ہیں کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرونِ اولیٰ میں ہو ا وہ ان حالات سے مخصوص تھا وہ ہر زمانے کیلئے قاعدہ نہیں تھا.“ الفضل 3 ابريل 1952 ء) ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ : احمدیت میں سلسلۂ خلافت تا قیامت چلے گا کے موضوع پر حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے اعزاز میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے دی جانے والی الوداعی دعوت میں خطاب کرتے ہوئے 29اکتوبر 1969ء کو فرمایا کہ: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایک عظیم وعدہ یہ بھی دیا ہے کہ حضور علیہ السلام کے وصال کے بعد جماعت احمدیہ اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی قیامت تک اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتی رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے رسالہ الوصیت میں اسے قدرت ثانیہ یعنی خلافت حقہ قرار دیا ہے.چونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ میں اللہ تعالی کی ایک مجسم قدرت ہوں.اس پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آپ علیہ السلام بہر حال انسان ہیں ایک وقت میں آپ نے اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے کیا آپ کی وفات کے بعد جماعت اس مجسم قدرت سے محروم ہو جائے گی؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا کہ نہیں جماعت اس سے محروم نہیں ہو گی.آپ نے اس خوف کو دور کرنے کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت سنائی کہ میرے بعد بھی جماعت میں اللہ تعالیٰ کی قدرتیں اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی رہیں گی اور یہ سلسلہ جب تک کہ جماعت احمدیہ پر قیامت نہیں آجاتی اور روحانی طور جماعت مردہ نہیں بن جاتی (وَالْعَيَاذُ بِاللهِ ) اس وقت تک یہ جماعت خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتی رہے گی.یہ (خطاب فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث 29اکتوبر 1969ء مشعل راہ جلد 2 صفحہ 210) ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو خوشخبری سناتے ہوئے فرمایا: میں آپ کو ایک خوشخبری دیتا ہوں کہ اب آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا.جماعت بلوغت کے مقام پر پہنچ چکی ہے خدا کی نظر میں.اور کوئی دشمن آنکھ، کوئی دشمن دل، 74

Page 75

کوئی دشمن کوشش اس جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گی اور خلافت احمد یہ انشاء اللہ تعالیٰ اسی شان کے ساتھ نشو و نما پاتی رہے گی جس شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدے فرمائے ہیں کہ کم از کم ایک ہزار سال تک یہ جماعت زندہ رہے گی.تو دعائیں کریں، حمد کے گیت گائیں اور اپنے عہدوں کی پھر تجدید کریں.“ ارشاد سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز : الفضل 28 جون 1982 ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: " آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی تاریخ کا وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل لوگوں کی ، آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد خوف کی حالت کو امن میں بدلا اور اپنے وعدوں کے مطابق جماعت احمدیہ کو تمکنت عطا فرمائی یعنی اس شان اور مضبوطی کو قائم رکھا جو پہلے تھی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی فعلی شہادت سے یہ ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور نبی تھے اور آپ علیہ السلام وہی خلیفہ اللہ تھے جس نے چودہویں صدی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اُتری ہوئی شریعت کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھا اور آپ علیہ السلام کے بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ علیہ السلام کا سلسلۂ خلافت تا قیامت جاری رہنا تھا.پس آج 97 سال گزرنے کے بعد جماعت احمدیہ کا ہر بچہ، جوان، بوڑھا، مرد اور عورت اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی اس بارہ میں فعلی شہادت گزشتہ 97 سال سے پوری ہوتی دیکھی ہے اور دیکھ رہا ہوں اور نہ صرف احمدی بلکہ غیر از جماعت بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں.“ یہ سلسلہ خلافت ہمیشہ کے لئے ہے: (خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مئی 2005ء - الفضل انٹر نیشنل 10 تا 16 جون 2005 ء) سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزید فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد سلسلۂ خلافت کو ہمیشہ کے لئے قرار دیا ہے جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہے.اب میں اس طرف آتا ہوں، وہ تو ضمنی باتیں تھیں کہ خلافت احمدیہ میں ہمیشہ قائم رہنی ہے.حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علی منهاج النُّبُوَّةِ قائم ہو گی.پھر اللہ تعالیٰ ا جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی.ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ اسے بھی اٹھا لے گا اس کے بعد پھر خلافت علی منھاج النبوۃ قائم ہوگی اور یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.(مشکونة.باب الانذار والتحذير) اور یہ جو دوبارہ قائم ہوئی تھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہی قائم ہوئی تھی.دور جب یہ 75 75

Page 76

ہے یا ہونا تھا، پس یہ خاموش ہونا بتاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جو سلسلہ خلافت شروع ہونا یہ دائی ہے اور یہ الہی تقدیر ہے اور الہی تقدیر کو بدلنے پر کوئی فتنہ پرداز بلکہ کوئی شخص بھی قدرت نہیں رکھتا.یہ قدرتِ ثانیہ یا خلافت کا نظام اب انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہنا ہے اور اس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفا کے زمانہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.اگر یہ مطلب لیا جائے کہ وہ تمہیں سال تھی تو وہ تمہیں سالہ دور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق تھا اور یہ دائی دور بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی پیشگوئی کے مطابق ہے.66 خلافت کا یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا چلا جائے گا: (خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مئی 2005ء - الفضل انٹر نیشنل 10 تا 16 جون 2005ء) خلافت کے ہمیشہ قائم رہنے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں، آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: یاد رہے کہ اگر چہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں جو اس امت میں خلافت دائمی کی بشارت دیتی ہیں اور احادیث بھی اس بارہ میں بہت سی بھری پڑی ہیں لیکن بالفعل اس قدر لکھنا ان لوگوں کیلئے کافی ہے جو حقائق ثابت شدہ کو دولت عظمیٰ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور اسلام کی نسبت اس سے بڑھ کر اور کوئی بداندیشی نہیں کہ اس کو مردہ مذہب خیال کیا جائے اور اس کی برکات کو صرف قرنِ اوّل تک محدود رکھا جاوے.“ پس اس کے بعد کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ ہم ان بحثوں میں پڑیں کہ خلافت کب تک رہنی ہے اور کب ملوکیت میں بدل جاتی ہے؟ انشاء اللہ تعالیٰ نیک اعمال کرنے والے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور خلافت کا سلسلہ ہمیشہ چلتا چلا جائے گا جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی بداندیشی نہیں کہ اسلام کو مردہ مذہب خیال کیا جاوے اور برکات کو صرف قرنِ اوّل تک محدود رکھا جائے.شروع سالوں تک جو اسلام کے ابتدائی سال تھے ان تک محدود رکھا جائے اسی طرح یہ بھی بداندیشی ہے کہ یہ کہا جائے کہ پہلی چار خلافتوں کے مقابل پر چار خلافتیں آگئیں اور بس! اللہ تعالیٰ میں صرف اتنی قدرت تھی کہ پہلی خلافتِ راشدہ کے عرصہ کو قریباً تین گنا کر کے خلافت کے انعام سے نوازے اور اس کے بعد اس کی طاقتیں ختم ہو گئیں.اِنَّا لِلہ.اور جیسا کہ میں حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس سے دکھا آیا ہوں کہ اگر کسی کی ایسی سوچ ہے تو غلط ہے.اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے.ہاں تم میں سے ہر ایک اپنے عملوں کی فکر کرے.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مئی2005 ء.الفضل انٹر نیشنل 10 تا 16 جون 2005ء) 76 خلافت اور مجددیت:

Page 77

حدیث: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِيْمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةٍ سَنَةٍ مَّنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.(ابو داؤد كتاب الملاحم باب مايذكر في قرن المائة) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی اس امت ہر صدی کے سر پر ایسا مجدد بھیجے گا جو اس امت کے دین کی تجدید کرے گا.امام مہدی کے بعد مجددیت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا: کیلئے حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (جو اپنی صدی کے مجدد تھے) نے سابقہ مجددین کے اسمائے گرامی کا ذکر کرتے ہوئے عیسی نبی اللہ کو ہی اس وقت کا مجدد قرار دیا ہے.آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وَاخِرُ الْمِئَتَيْنِ فِيهَا يَأْتِى عِيسَى نَبِيُّ اللهِ ذُو الْآيَاتِ يَجَدِدُ الدِّينَ لِهذِهِ الْأُمَّةِ وَبَعْدَهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُجَدِّدٍ یعنی مجددین کی آخری صدی میں عیسی نبی اللہ صاحب آیات و بینات جب تشریف لائیں گے تو وہی اس وقت امت محمدیہ کی تجدید کے لئے مجدد بھی ہوں گے اور امام مہدی مسیح موعود کے بعد کوئی مجدد باقی نہ (حج الکرامہ صفحہ 138 مصنفہ نواب صدیق حسن خان صاحب 1291ھ) ارشاد سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام : ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں.چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سر پر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہو کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدد صدی بھی ہے اور مجدد الف آخر بھی.“ ارشاد سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ : لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 208) وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہمیشہ کچھ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصلی اور حقیقی مذہب اور تعلیم توحید کو قائم کرتے اور شرک و بدعات کا جو کبھی امتدادِ زمانہ کی اسلام میں راہ پا جاویں ان کا قلع قمع کرتے رہیں گے اور یہ ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی تعلیم و تربیت کا نمونہ ہمیشہ بعض ایسے لوگوں کے ذریعہ ظاہر ہوتا رہے جو امت مرحومہ میں ہر زمانہ میں موجود ہوا کریں.چنانچہ قرآن شریف میں بھی بڑی صراحت سے اس بات کو الفاظ ذیل میں بیان کیا گیا ہے: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْم بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (سورة النور: 56) 77

Page 78

78 (الحکم 2 اپریل 1908ء صفحہ 4) ارشاد سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ : خلیفہ تو خود مجدد سے بڑا ہوتا ہے اور اس کا کام ہی احکام شریعت کو نافذ کرنا اور دین کو قائم کرنا ہوتا ہے پھر اس کی موجودگی میں مجدد کس طرح آسکتا ہے؟ مجدد تو اس وقت آیا کرتا ہے جب دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے.“ ارشاد سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ: مجلس عرفان سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ.الفضل 8 اپریل 1947 ء) پہلے سلسلۂ خلافت کی ایک شاخ تو جو بعد نبی مقبول صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ خلفا و مجددین پر مشتمل تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ختم ہو گئی.اگلی صدی کے مجدد کی ہر ایک کو تلاش کرنی چاہئے لیکن ہر آنے والی صدی کے سر پر جو شخص مجدد کی تلاش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو آخری ہزار سال کے مجدد ہیں) کے علاوہ کوئی ایسا چہرہ دیکھتا ہے جو آپ علیہ السلام کے خلیفہ کا نہیں، آپ علیہ السلام کے ظل کا نہیں وہ سچے مجدد کا چہرہ نہیں دیکھتا لیکن پہلے سلسلۂ خلافت کی دوسری شاخ اور وہ بھی خلافت راشدہ کا حصہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ کے اظلال کی شکل میں جاری ہے.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں تم ایمان کی اور اعمال صالحہ کی شرط پوری کرتے رہنا تمہیں قدرت ثانیہ کے مظاہر یعنی خلافت راشدہ کا اللہ تعالیٰ قیامت تک وعدہ دیتا ہے.خدا کرے کہ محض اسی کے فضل سے جماعت عقائد صحیحہ اور پختہ ایمان اور طیب اعمال کے اوپر قائم رہے تا کہ اس کا یہ وعدہ قیامت تک جماعت کے حق میں پورا ہوتا رہے.السلام.66 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع انصار اللہ 27 اکتوبر 1968ء.ماہنامہ انصار اللہ ربوہ فروری 1969ء) ارشاد حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی: حضرت خلیفة أسبح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 27 اگست 1993ء میں فرمایا : دو میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایسے لوگ اگر سو سال کی عمریں بھی پائیں گے اور مر جائیں تو نامرادی کی حالت میں مریں گے اور کسی مجدد کا منہ نہیں دیکھیں گے.ان کی اولادیں بھی لمبی عمر میں پائیں اور مرتی چلی جائیں اور ان کی اولادیں بھی لمبی عمریں پائیں اور مرتی چلیں جائیں، خدا کی قسم ! خلافت احمدیہ کے سوا کہیں اور مجددیت کا منہ نہ دیکھیں گی.یہی وہ تجدید دین کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے جو ہر صدی کے سر پر ہمیشہ جماعت کی ضرورتوں کو پورا کرتا چلا جائے گا.“ (ماہنامہ خالد مئی 1994 ، صفحہ نمبر 4 و 17)

Page 79

استحکام خلافت مرتبہ عبد الحق استاد مدرسته الظفر وقف جدید ربوہ 12 79

Page 80

80 عناوین: آیت حدیث استحکام خلافت اور تمکنت دین فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلافت راشدہ حقہ اسلامیہ کا ہر دو طرح سے استحکا اشاعت اسلام اور استحکام خلافت حفاظت منصب خلافت خلفائے راشدین کے کار ہائے نمایاں خلافت راشده ثانیه حقہ اسلامیہ اور استحکام خلافت خلافت اولی میں اٹھنے والے فتنے اور ان کا انجام خلافت ثانیہ کے دور میں اٹھنے والا پہلا فتنہ اور اس کا نجام خلافت ثانیہ کے دور میں اٹھنے والے دوسرے فتنہ کا انجام مصری صاحب کی نظریاتی اور اخلاقی شکست خلافت ثانیہ کے دور میں اٹھنے والا تیسرا فتنہ اور اس کا انجام خلافت ثالثہ کے دور میں اٹھنے والا فتنہ اور اس کا انجام مجددیت اور خلافت ماریشس کے جلسہ سالانہ کے لئے پیغام ہر خلیفہ مجدد ہوتا ہے خلافت رابعہ کے دور میں اٹھنے والا فتنہ اور اس کا انجام خلافت خامسہ کے دور میں اُٹھایا جانے والا فتنہ اور اس کا رڈ آیت : وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِى وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO ( سورة النور : 56 )

Page 81

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.“ حدیث (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) عَنْ حُذِيْفَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمُ مَا شَاءَ اللَّهُ اَنْ : تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ.(مسند احمد بن ضبل جلد 4 صفحہ 273 - مقلوة بَابُ الْإِندَارِ وَالتَّحْذِير) حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علی مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ قائم ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا، پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ ظلم ستم کے اس دور کو ختم کر دے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی ! یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے.استحکام خلافت اور تمکنت دین: حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النور آیت نمبر 56 کی تفسیر کرتے ہوئے اپنی تصنیف سر الخلافۃ میں فرماتے ہیں: ”اس کی تفصیل کے متعلق اے عقلمندو اور اعلی فضیلت والو! جان لو تا کہ تم پر اس کی دلیل واضح ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مسلمان مردوں اور عورتوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ضرور ان میں سے بعض مومنوں کو اپنے فضل اور رحمت سے خلیفہ بنائے گا اور ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا.پس یہ ایک ایسی بات ہے جس کا پورا اور مکمل مصداق ہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو پاتے ہیں جیسا کہ اہل تحقیق کے نزدیک یہ امر واضح ہے کہ ان کی خلافت کا زمانہ ایک خوف و مصائب کا زمانہ تھا کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو اسلام اور مسلمانوں پر طرح طرح کی مصیبتیں نازل ہوئیں اور بہت سارے منافق مرتد ہو گئے اور مرتدین کی زبانیں دراز ہو گئیں اور جھوٹے دعوے داروں سے ایک گروہ نے نبوت کا دعوی کر دیا اور ان کے گرد بہت سارے بادیہ نشین جمع ہوگئے یہاں تک کہ مسیلمہ کے ساتھ قریباً ایک لاکھ جاہل اور فاجر لوگ آشامل ہوئے اور فتنوں نے جوش مارا اور مصائب بڑھ گئے اور قسم قسم کی بلاؤں نے دُور و نزدیک سے مسلمانوں کا احاطہ کر لیا اور مومن ایک سخت زلزلہ میں مبتلا کئے گئے اور مسلمانوں میں سے ہر فرد آزمائش میں ڈالا 81

Page 82

وجہ سے گیا اور خوفناک اور حواس کو دہشت ناک کرنے والے حالات پیدا ہو گئے اور مومن بے چارگی کی حالت کو پہنچ گئے.گویا ایک انگارا تھا جو ان کے دلوں میں بھڑکایا گیا یا یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ چھری کے ساتھ ذبح کر دیئے گئے ہیں کبھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کی وجہ سے اور کبھی آگ کی مانند جلا دینے والے فتنوں کی وجہ سے روتے تھے اور امن وامان کا کوئی نشان باقی نہ رہا اور فتنوں میں پڑے ہوئے مسلمان ایسے مغلوب ہو گئے جیسے روڑی کے اُوپر اُگی ہوئی گھاس اُس کو ڈھانپ لیتی ہے.پس مومنوں کا خوف اور گھبراہٹ بڑھ گیا اور اُن کے دل دہشت اور کرب سے بھر گئے تو ایسے وقت میں حضرت ابوبکر کو زمانے کا حاکم اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنایا گیا.اسلام پر حالاتِ واردہ کی وجہ سے اور ان باتوں کی پ رضی اللہ عنہ نے منافقوں، کافروں اور مرتدین کی طرف سے دیکھیں.آپ رضی اللہ عنہ پر سخت غم طاری ہو گیا اور آپ رضی اللہ عنہ موسم ربیع کی بارش کی طرح روتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کے آنسو چشموں کی طرح بہتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ سے اسلام اور مسلمانوں کی بہتری اور بھلائی چاہتے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب میرے باپ خلیفہ بنائے گئے اور اللہ تعالیٰ نے امر خلافت آپ رضی اللہ عنہ کو تفویض کیا تو آپ نے خلیفہ بنتے ہی فتنوں کو ہر طرف سے موجزن پایا اور یہ کہ جھوٹے نبوت کے مدعی جوش میں ہیں اور منافق مرتد لوگ بغاوت پر آمادہ ہیں.سو آپ رضی اللہ عنہ پر اس قدر مصائب آپڑے کہ اگر پہاڑوں پر اتنی مصیبتیں نازل ہوتیں تو وہ ٹوٹ کر گر جاتے اور ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن آپ رضی اللہ عنہ کو رسولوں کی طرح ایک صبر عطا کیا گیا یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آئی اور جھوٹے مدعیان موت قتل کئے گئے اور مرتد ہلاک کر دیئے گئے اور فتنوں اور مصائب کا قلع قمع کر دیا گیا اور معاملے کا فیصلہ کر دیا گیا اور امر خلافت مضبوط ہو گیا اور اللہ نے مومنوں کو مصیبت سے نجات بخشی اور ان پر خوف طاری ہونے کے بعد اسے امن میں بدل دیا اور ان کے دین کو مضبوط کر دیا اور مفسدین کے منہ کالے کر دیئے اور اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے ابو بکر صدیق کی مدد فرمائی اور سرکشوں اور بڑے بڑے بتوں کو تباہ کر دیا اور کفار کے دلوں میں رعب ڈال دیا پس وہ شکست کھا گئے اور انہوں نے حق کی طرف رجوع کیا اور سرکشی سے توبہ کی اور یہ غالب خدا کا وعدہ تھا جو تمام بچوں سے زیادہ سچا ہے.پس دیکھو کس طرح خلافت کا وعدہ اپنے تمام لوازم اور نشانات کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ذات میں پورا ہوا اور تمہیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ تمہارا سینہ اس تحقیق کے لیے کھول دے اور غور کرو کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے وقت مسلمانوں کی کیسی کمزور حالت تھی اور اسلام مصائب کی وجہ سے ایک جلے ہوئے شخص کی طرح تھا.پھر اللہ نے دوبارہ اسلام کو طاقت بخشی اور اس کو گہرے کنویں سے نکالا اور جھوٹے مدعیانِ نبوت سخت عذاب کے ساتھ قتل کیے گئے اور مرتدین چوپایوں کی طرح ہلاک کر دیئے گئے اور اللہ نے مومنوں کو اس خوف سے امن دیا جس میں وہ مردوں کی طرح پڑے ہوئے تھے اور مومن اس مصیبت کے دور ہوتے ہی خوشیاں منانے لگے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مبارک باد دینے لگے اور رضی اللہ عنہ کو مرحبا اور خوش آمدید کہتے اور آپ رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کے لئے خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کی تعظیم و تکریم میں جلدی کرتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کی محبت اپنے دلوں میں بٹھاتے تھے اور تمام امور میں آپ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرتے اور آپ رضی اللہ عنہ کے شکر گزار تھے اور انہوں نے اپنے دلوں کو چلا دی اور دل کے کھیتوں کو سیراب کیا اور آپ رضی اللہ عنہ سے محبت میں بڑھ گئے اور پوری کوشش سے آپ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کی اور وہ آپ رضی اللہ عنہ کو 82

Page 83

83 83 بھگائے مبارک اور انبیاء کی طرح مؤید سمجھا کرتے تھے اور یہ سب کچھ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سچائی اور گہرے یقین پر قائم ہونے کے سبب سے تھا.بخدا ! وہ اسلام کے آدم ثانی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کے لیے مظہر اول تھے.گو وہ نبی نہیں تھے لیکن ان میں انبیاء کے قومی پائے جاتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کے صدق کی بدولت اسلام کا باغ اپنی کامل ترو تازگی کو پہنچا اور اس نے اپنی زینت اور سکینت تیروں کے صدمات سہنے کے بعد حاصل کی اور اس کے اندر رنگا رنگ کے پھول پیدا ہوئے اور اس کی شاخیں غبار سے صاف ہو گئیں اور اس سے پہلے اسلام ایک ایسے مردہ کی طرح تھا جس پر ماتم کیا جا چکا ہو اور قحط ہوئے اور مصائب سے زخمی اور سفروں سے درماندہ اور قسم قسم کی تھکان سے دُکھ دیئے ہوئے اور شعلوں والی دو پہر کے جلے بھنے ہوئے شخص کی مانند تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ان تمام مصائب سے نجات دی اور تمام آفات سے چھڑایا اور عجیب تائیدات سے اس کی مدد کی یہاں تک کہ اس نے بادشاہوں کی قیادت کی اور لوگوں کی گردنیں اس کے ہاتھ میں آگئیں.بعد اس کے کہ وہ درماندہ اور شکستہ ہو چکا تھا اور خاک میں مل چکا تھا.پس منافقوں کی زبانیں بند ہو گئیں اور مومنوں کے چہرے چمک اُٹھے اور ہر ایک شخص نے اپنے رب کی حمد کی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شکر بجا لایا اور سوائے زندیق اور فاسق کے سب ان کے پاس مطیع بن کر آگئے.یہ سارا اجر اُس بندے کا تھا جسے اللہ نے چن لیا تھا اور اسے اپنی دوستی کے لئے مخصوص کر لیا تھا اور اس سے راضی ہو گیا تھا اور اس کو عافیت بخشی تھی اور اللہ تعالی محسنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا.حاصل کلام یہ کہ یہ تمام آیات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی خبر دے رہی ہیں اور ان کا کوئی اور مصداق نہیں ہے.پس آپ تحقیق کی نظر سے اسے دیکھیں اور اللہ سے ڈریں اور متعصب مت بنیں.پھر دیکھیں کہ یہ تمام آیات آئندہ کے لیے پیشگوئیاں تھی تا کہ ان کے ظہور کے وقت مومنوں کا ایمان بڑھ جائے اور وہ اللہ کے وعدوں کو پہچان لیں کیونکہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام میں فتنے پیدا ہونے اور اس پر مصائب نازل ہونے کی خبر دی تھی اور ان میں یہ وعدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بعض مومنوں کو خلیفہ بنائے گا اور خوف کے بعد ان کو امن دے گا اوران کے متزلزل دین کو تقویت بخشے گا اور مفسدین کو ہلاک کرے گا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پیشگوئی کا مصداق سوائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اور اُن کے زمانے کے کوئی نہیں.پس انکار نہ کریں کیونکہ اس کی دلیل تو ظاہر ہو گئی ہے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام کو ایسی دیوار کی طرح پایا جو مفسدین کی شرارت کی وجہ سے گرنے کو تھی، خدا تعالیٰ نے اس کو اُن کے ہاتھوں ایک چونے ، سچ، مضبوط اونچے قلعہ کی طرح بنا دیا جس کی دیواریں فولادی تھیں اور اس میں ایسی فوج تھی جو غلاموں کی طرح فرمانبردار تھی.پس غور کریں کیا اس میں آپ کے لیے کوئی شک کی گنجائش ہے یا اس کی نظیر آپ کے نزدیک اور جماعتوں سے لانا ممکن ہے؟“ (اردو ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 6 - ادارة أن المصنفين ) سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس مشاورت 1984 ء سے جو اختتامی خطاب فرمایا تھا اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وہ تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت کریمہ پڑھی.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمُ

Page 84

اور پھر فرمایا: مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنَا وْفِهِمْ أَمَنَا يَعْبُدُون يُشْرِكُونَ بِي شِـ شِيْئًا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ.(سورة النور : 56) سورہ نور کی یہ آیت جو آیت استخلاف کے نام سے معروف ہے.یہ جماعت احمدیہ کے سامنے بار بار پڑھی جاتی ہے.اس کا جماعت احمدیہ کی زندگی اور مستقبل کے ساتھ چونکہ ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے اس لئے اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے بار بار جماعت کے سامنے پیش کرتے رہنا چاہئے.آج میں اس کے جس پہلو کے متعلق خصوصیت کے ساتھ کچھ کہنا چاہتا ہوں اُس کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی ایک موقع پر توجہ دلائی تھی اور وہ یہ ہے کہ اس آیت میں ساری جماعت ہی خلیفۃ اللہ بن جاتی ہے اور ہر وہ شخص جو خلافت پر ایمان رکھتا ہے اور عمل صالح کرتا ہے یہ آیت اس کو بتاتی ہے کہ تم راس دنیا میں اللہ کے خلیفہ ہو اور من حیث الجماعت یہ خلافت مرتکز ہو جاتی ہے ایک ذات میں جس کو ہم خلیفہ اسیح کہتے ہیں.پس اس آیت میں انتشار بھی ہے اور ارتکاز بھی ہے یعنی پہلے یہ مضمون ساری جماعت پر پھیل جاتا ہے اور ہر فرد جماعت جو ان شرائط کو پورا کرتا ہے وہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے اس نقطہ نگاہ سے کہ وہ خدا کے پروگرام کو جو اس دنیا میں جاری کرنا چاہتا ہے اس کو جاری کرنے کیلئے ذمہ داری میں پوری طرح شریک ہے اس لحاظ سے وہ خلیفہ ہے کیونکہ وہ دنیا کے سامنے خدا تعالیٰ کے نمائندہ کے طور پر پیش ہو رہا ہے بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.وہ دنیا کو ایسا نمونہ دکھائے کہ جس کے نتیجہ میں دنیا یہ سمجھے کہ جس ذات نے اس کو خلیفہ بنایا ہے وہ ذات بہت بڑی خوبیوں کا مجموعہ ہو گی.یہ نمونہ جو ایک بہت ہی معمولی حیثیت رکھتا ہے اگر اُس کی خوبیوں کا یہ حال ہے تو جس کا یہ نمائندہ ہے اس کے حسن کا تو کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا.پس خدا تعالیٰ کے نمائندہ کی حیثیت سے جماعت کے ہر فرد پر خلافت کی ایک ذمہ داری عاید ہوتی ہے اور اگر جماعت اس ذمہ داری کو ادا کرے تو تمام افراد کی یہ خلافت اجتماعی شکل میں ایک ذات میں مرتکز ہو کر ایک عظیم الشان طاقت بن جاتی ہے.جس کا دنیا تصور بھی نہیں کر سکتی.ہر شخص اس آیت کے پیش نظر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور خدا تعالیٰ کا نمائندہ بننے کی اس دنیا میں کوشش کرے تو اس کے نتیجہ میں تقویٰ کا جو قطرہ قطرہ اکٹھا ہو کر اجتماعی شکل میں خلافت کی صورت میں دنیا کے سامنے آئے گا وہ ایک عظیم الشان طاقت ہے اور اس کی طرف ہمیں خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہیے.اور اس یہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ میں سارے صیغے جمع کے استعمال ہوئے ہیں اور جمع کے صیغہ میں یہی حکمت ہے کہ ایک خلیفہ ہو تب بھی وہ اکیلا خدا کا نمائندہ نہیں ہے.ساری قوم خدا کی نمائندہ خواہ مرکزی حیثیت سے اس نمائندگی کو ادا کرنے کے لئے ایک ذات میں وہ نمائندگی مجتمع ہو جائے.امر واقعہ یہی ہے کہ اس امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف اوقات میں مختلف خلفاء نے مختلف رنگ میں اس بات کو ظاہر کیا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسی الاول رضی اللہ عنہ کا فقرہ تھا کہ تم سب کو خدا تعالیٰ نے نمائندہ بنایا اور پھر 84

Page 85

85 سب کو باندھ کر میرے ہاتھ میں اکٹھا کر دیا یہ وہی بات ہے اور آیت استخلاف کی ایک تفسیر ہے کہ تم سب کو خدا نے خلیفہ بنایا اور پھر اپنی قدرت کے زور سے باندھ کر میرے ہاتھ پر تمہیں اکٹھا کر دیا ہے اس لئے اب میں خدا کا نمائندہ ہوں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یہی بات تفصیل سے بیان فرمائی اور حضرت خلیفہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث اس بات کو یوں بیان کیا کرتے تھے.جب بیرونی سفروں میں بعض لوگ سوال کیا کرتے تھے کہ جماعت میں خلیفہ کی کیا حیثیت ہے تو آپ فرمایا کرتے تھے کہ خلیفہ اور جماعت میں کوئی فرق نہیں.ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.یہی وہ بات ہے جو آیت استخلاف کی روح سے تعلق رکھتی ہے اس لئے حقیقت یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا مجموعی تقوی، جماعت احمدیہ کی مجموعی ذمہ داری وہ قوت ہے جو خلیفہ وقت کو حاصل ہوتی ہے اور اس قوت کا پھر ساری دنیا میں دوبارہ انتشار ہوتا ہے اس لئے اس طرف بڑی توجہ کی ضرورت ہے اور انفرادی معیار تقویٰ کو اس احساس ذمہ داری کے ساتھ بڑھانے کی ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کو قرآن کریم کی یہ آیت خدا کا نمائندہ قرار دے رہی ہے اور جماعت کو من حیث الجماعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ بنایا گیا اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس آیت میں اس کا جو نتیجہ ظاہر فرمایا گیا اگر یہ خلافت قائم ہو جائے اور جس طرح اللہ تعالیٰ اس خلافت کو قائم فرمانا چاہتا ہے اس روح کے ساتھ قائم ہو جائے تو اس کے کچھ طبعی نتیجے نکلیں گے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنَّا ہے.پہلے یہ رکھا کہ دین کو تمکنت نصیب ہو گی یعنی اگر تم اس دنیا میں واقعہ اللہ کے خلیفہ بن جاؤ گے تو تمہارے دین کو خدا تعالیٰ تمکنت عطا فرمائے گا.دین کو تمکنت عطا کرنے کے کیا معنے ہیں.عربی لغت کے لحاظ سے اقتدار کو تمکنت کہتے ہیں.غلبہ کو تمکنت کہتے ہیں.خوف کو دور کرنے اور امن میں آجانے کو تمکنت کہتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے یہ جو محاورہ استعمال کیا ہے: عِندَ ذِی الْعَرْشِ مَكِينٌ خدا تعالیٰ کے عرش کے پاس یعنی خدا تعالیٰ کی شان کے قریب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے اور یہ بے خوف مقام ہے.ایسا مقام ہے جس میں غلبہ بھی شامل ہو جاتا ہے جس میں مقتدرت شامل ہو جاتی ہے جس میں بے خوفی شامل ہو جاتی ہے پس اصل میں تمکنت کا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے پھر آگے مؤمنین کی جماعت کو نصیب ہوتا ہے.تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ اس مقام کے بعد پھر یہ کیوں فرمایا گیا: وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا جب تمکنت نصیب ہو جائے جو بظاہر خوف دور ہونے کے بعد نصیب ہونی چاہیے.خوف دور ہونے کا مقام انسانی عقل جب سوچتی ہے تو تمکنت سے پہلے رکھتی ہے اس سے بھی معلوم یہ ہوتا ہے اور قرآن کریم کا یہ خاص اسلوب ہے اور بھی بہت سی جگہ اس قسم کے اسلوب کو اختیار کیا گیا ہے جس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے کسی بندے کا کلام نہیں.چنانچہ انسانی سوچ جو ترتیب مقرر کرتی ہے کلام الہی اس ترتیب کو بدل دیتا ہے.انسانی سوچ کا جو بہترین حصہ ہے وہ بھی جب کوئی ترتیب سوچتا ہے تو خدا تعالیٰ اس ترتیب کو بدل کر ایک نئی ترتیب میں ڈھال دیتا ہے اور اس وقت غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہی ترتیب درست ہے جو کلام الہی میں پیش کی گئی ہے اور کسی بندہ کا یہ کلام نہیں ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی صورت میں بیان فرمایا جو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے لئے کی تھی.اس دعا میں یہ مانگا گیا تھا کہ اے خدا

Page 86

وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيهِمْ اس میں تزکیہ کو سب سے آخر پر رکھا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا صاحب علم و رشد نبی بہت کم دیکھنے میں آتا ہے.آپ کو نبوت میں بہت عظیم مقام حاصل ہے.دعا کرتے وقت جو ترتیب انسانی ذہن نے بلکہ اس انسانی ذہن نے قائم کی جو وحی سے صیقل کیا گیا تھا اور بہت اعلیٰ درجے پر پہنچ چکا تھا اس انسانی ذہن نے جو ترتیب سوچی وہ خدا کے نزدیک صحیح نہیں تھی.چنانچہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور اس کے مقام کو ظاہر کرنے کیلئے خدا نے یہ ترتیب بدل دی.فرمایا: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ الله وَيُزَكِّيهِمْ وَيُـ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ (سورة الجمعه ) یہ علم و حکمت کے بعد تزکیہ نہیں کرتا اس کا مقام اس سے بلند تر ہے جو مانگا گیا تھا.اس میں ایسی عظیم قوت قدسیہ ہے کہ یہ اس بات کا محتاج نہیں ہے کہ علم و حکمت سکھائے تب جا کر تزکیہ کرے.یہ اپنی ذات سے اور اپنے نمونے سے پہلے تزکیہ کر دیتا ہے اور تزکیہ کرنے کے بعد علم و حکمت سکھاتا ہے.اس میں اور بھی بڑے لطیف معنی ہیں جو پہلے بھی بیان ہو چکے ہیں اور آئندہ بھی بیان ہوتے رہیں گے.اور یہی لگتا ہے.ره ہے اس وقت میں صرف یہ مثال دے رہا ہوں کہ انسانی سوچ جو ترتیب ذہن میں لاتی ہے اور انسان جس طرح سوچتا ہے اور انسانوں میں سے جو بہترین سوچنے والے ہیں ان کی ترتیب میں بھی کوئی نہ کوئی کمزوری ہے اور کلام الہی اس کو درست کرتا ہے.چنانچہ آیت استخلاف میں بھی یہی دیکھنے میں آتا ہے اگر انسان کا کلام ہوتا تو یہ کہتا کہ پہلے وہ تمہارے خوف کو امن میں بدل دے گا.ایک خلافت کے بعد خوف کا مقام ہوتا ہے ہے کہ یہاں پہلے یہ ذکر ہونا چاہیے کہ خوف کو امن میں بدل دے گا اور تمکنت میں تو خوف ہی نہیں کیونکہ تمکنت نام ہے اس مقام کا جو بے خوفی پیدا کرتی ہے تو بعد میں کس خوف کا ذکر اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ دوبارہ اس آیت کو ذہن نشین کر کے جو میں مضمون بیان کرتا ہوں اس کے ساتھ چلیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ اس میں کیا حکمت ہے.خلافت کے نتیجہ میں لا متناہی ترقیات نصیب ہوتی ہیں.ترقی کی کوئی ایک منزل نصیب نہیں ہوتی.اور ترقی کی ہر منزل کے حصول کے نتیجہ میں خوف پیدا ہوتے ہیں جو دشمن کی تکلیف کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.ان کے حسد کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور یہ وہ خوف ہے جو تمکنت سے پہلے پیدا نہیں ہوا کرتا.یہ ہر تمکنت کے بعد پیدا ہوتا ہے.وہ جماعت جو ترقی نہیں کر رہی اور جو نشو و نما نہیں پا رہی اس کے اندر بھی ایک بے خوفی پید اہو جاتی ہے اور بے خوفی کے نتیجہ میں پھر اس کو کوئی خوف نہیں آتا وہ اپنی ذات میں سکڑی رہتی ہے.مسلمانوں کے اندر بھی ایسی بہت سی جماعتیں ہیں جن کے ساتھ مسلمانوں کو اس سے بہت زیادہ اختلافات ہیں جو ہمارے بعض عقائد سے وہ رکھتے ہیں لیکن ان سے خوف کوئی نہیں رکھتے.کیونکہ ان کو جو امن نصیب ہے وہ نشو و نما نہ پانے کا امن ہے.وہ زندگی کے فقدان کا امن ہے.وہ چار دیواری میں قلعہ بند ہونے کا امن ہے.لیکن خدا تعالیٰ اس جماعت سے یہ توقع نہیں رکھتا جو خلافت سے وابستہ ہو یا جس کو خلیفہ بنایا گیا ہو.اس کو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم ایسے کام کرو 86

Page 87

87 جس کے نتیجہ میں تمہیں تمکنت نصیب ہو یعنی یہاں حوالہ ہو جائے گا شروع کی طرف جہاں یہ شرط لگائی گئی تھی.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ...لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمُ دِيْنِهُمُ الَّذِى یہ ارتَضَى لَهُمْ یہ اس آیت کی مکمل شکل بن جائے گی کہ اللہ تعالیٰ ان مومنوں سے جو عمل صالح کے ذریعہ مسلسل ترقی کیلئے کوشاں ہیں اور ہر آن ان کا قدم نیک اعمال کے نتیجہ میں آگے کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کے دین کو ضرور تمکنت نصیب فرمائے گا اور ہر تمکنت کے بعد ایک ایسا مقام ان کو عطا ہو گا کہ دنیا ان سے خوف محسوس کرے گی اور ان سے خوف محسوس کرنے کے نتیجہ میں جو رد عمل پیدا ہوتا ہے اس سے ان کے لئے ایک خوف پیدا ہو جائے گا ان کیلئے بظاہر خطر ناک حالات پیدا ہوں گے.خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم تمکنت کے حصول کے لئے نیک اعمال کے ذریعہ کوشش کرتے چلے جاؤ ہم تمہیں تمکنت دیتے چلے جائیں گے اور یہ یقین دلاتے ہیں کہ اس وجہ سے جو خوف تمہارے لئے پیدا ہوں گے ان کے ہم ذمہ دار ہیں.ہر خوف جو تمہاری ترقی کے نتیجہ میں تمہارے لئے پیدا ہو گا خدا اس کا ضامن ہے جس طرح کہتے ہیں تو مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن ہے.اسی قسم کا مفہوم یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ تم آگے بڑھتے چلے جاؤ.تمہارے لئے کوئی آخری منزل نہیں تمہارا ہر قدم جو آگے بڑھے گا اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرماتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں تمہیں ایک تمکنت نصیب فرمائے گا.تم ہر تمکنت کی جو منزل حاصل کرو گے اس کے نتیجہ میں مخالفت کی ایک آگ لگ جائے گی اور تم گر جتے ہوئے بے انتہاء خطرناک بادل دیکھو گے.جو تمہیں ڈرائیں گے اور دھمکا ئیں گے کہ اچھا تم ترقی کرنے کی جرات کر رہے ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ان کی بالکل پروا نہ کرو.ان کا جواب دینا ہمارا کام ہے.وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا یہ وعدہ بڑی شدت کے ساتھ کیا گیا ہے.وعدے کی شدت کے جو ذرائع عرب اختیار کرتے ہیں یا عربی زبان میں اختیار کئے جاتے ہیں وہ سارے یہاں اکٹھے کر دیئے گئے ہیں.لام جو شروع میں آیا ہے یہ شدت پیدا کرنے کے لئے ہے.نون خفیفہ بھی شدت کے لئے آتا ہے اور نون خفیفہ سے زاید کر کے اسے نون ثقیلہ میں تبدیل کر دیا جائے تو شدت میں انتہا پیدا ہو جاتی ہے.پس خدا تعالیٰ اس شدت کے ساتھ آپ کو مطمئن فرما رہا ہے کہ ہر تمکنت کے نتیجہ میں جس کا تمہارے اعمال صالح سے تعلق ہو گا خدا تعالیٰ ان کو قبول فرما کر تمہیں تمكنت نصیب فرمائے گا جو بھی خوف پیدا ہوں گے ان سے تم نے ہر گز نہیں ڈرنا اور نہ خوف کھانا ہے.اگر ایسا کرو گے تو تم مشرک بن جاؤ گے.يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا.تمہیں ایسی جماعت دیکھنا چاہتے ہیں کہ جس میں شرک کا ادنی پہلو بھی نہ ہو.تم اعمال صالحہ کے ذریعہ ترقی ترقی کرتے چلے جاؤ.اللہ تعالیٰ ان اعمال صالح کو قبول فرمائے اور اتنے زیادہ نتیجے پیدا فرمائے کہ اعمال

Page 88

صالحہ کے ساتھ بظاہر ان نتائج کو کوئی نسبت نہ رہے اور یوں محسوس ہونے لگے کہ تمکنت خالصہ اللہ ہی کی طرف سے آئی تھی ہمارے اعمال صالح کا اس میں کوئی بھی دخل نہیں ہے.یہ مکمل نقشہ بن جاتا ہے.تم اعمال کرو گے لیکن اعمال صالحہ کو براہ راست تمکنت کا پھل نہیں لگے گا بلکہ اعمال صالحہ کو قبول فرما کر اللہ تعالیٰ تم پر اتنے فضل نازل فرمائے گا کہ پھر تمہیں جو تمکنت عطا ہو گی وہ خدا کی طرف سے آئے گی اور تمکنت جب خدا بھیجے گا تو دنیا میں حسد کی ایک آگ لگ جائے گی.تمہاری ترقیات لوگوں کو ہضم نہیں ہوں گی.وہ بے قرار اور بے چین ہو جائیں گے.وہ تم سے خطرہ محسوس کرنے لگیں گے اور اس کے نتیجہ میں وہ تمہاری مخالفت کریں گے اور تمہارے لئے خطرات پیدا کریں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان خطرات سے نکالنا یہ ہمارا ذمہ ہے ہم اتنا وعدہ کرتے ہیں جتنا شدت اور روز مرہ کے لحاظ سے ممکن ہے.تم ہمارے وعدہ پر یقین رکھو.یہ مختلف قسم کے خوف تمہاری تمکنت کی حالت کو کسی قیمت پر بدل نہیں سکیں گے.خدا کیطرف سے لازماً ہر خوف کی حالت کو ناکام بنا دیا جائے گا اور اسی خوف سے ایک نیا امن تمہیں نصیب ہو گا یعنی تمکنت کا مضمون لفظ امن کے ساتھ دوبارہ داخل کر دیا ہے.یعنی خوف کے نتیجہ میں بھی ترقی ہی نصیب ہو گی مخالفانہ کوششوں کے نتیجہ میں بھی تمکنت ہی نصیب ہو گی کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تمکنت کا عربی لغت میں ایک معنی امن کی حالت کا بھی ہے.پس اللہ کی طرف سے ایک امن کی حالت تمہیں نصیب ہو گی جسے لوگ بدلنے کی کوشش کریں اور اگر تم نہیں ڈرو گے اور خدا پر توکل رکھو گے اور تمہاری آگے بڑھنے کی رفتار میں خوف کی وجہ سے کمی نہیں آئے گی ( یہ ساری باتیں اس کے مفہوم میں شامل ہیں ) تو پھر اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ کرتا ہے کہ اسی خوف میں سے بھی خدا تعالیٰ امن کے حالات پیدا کر دے گا اور تمہارے لئے نئی تمکنت کے حالات پیدا کر گے گا.مگر یادرکھو اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شِيْئًا تم نے میرے سوا ہر گز کسی کی عبادت نہیں کرنی.کسی بندہ پر انحصار نہیں کرنا.کسی اور کو اپنا رب نہیں بنانا اور خالصہ میرے لئے ہو رہنا ہے.لَا يُشْرِكُونَ بِى شِيْئًا اور غیر کے خوف کو دل سے کلیہ نکال ڈالنا ہے ورنہ تم خدا کے نزدیک مشرک شمار کئے جاؤ گے.جب یہ سب کچھ ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس تقدیر الہی کو دیکھنے کے باوجود یعنی باوجود اس کے کہ ہزارہا ایسے واقعات رونما ہو چکے ہوں گے اور جو انہی سلسلہ کی تاریخ سے وابستہ ہوں گے وہ سلسلہ جو من حیث الجماعۃ خلیفہ ہے اور جس کا ارتکاز ہو گیا ہے ایک خلیفہ کی شکل میں اور اس کی بیعت کر کے وہ مرتکز ہو گئے ہیں طاقت کے لحاظ سے ایک مقام پر ان لوگوں کے اوپر بارہا دنیا دیکھ چکی ہے کہ ایسے حالات آئے لیکن ہر دفعہ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو پورا فرمایا.ہر دفعہ تمکنت کو بڑھایا.ہر دفعہ خوف کو بدلا اور خوف میں سے تمکنت کے سامان پیدا فرمائے.یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد اگر پھر بھی تم نے انکار کیا تو یہ تو پھر بڑی ناشکری کا مترادف ہو گا.مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ کے دو معنے ہیں ایک یہ کہ الہی فضلوں کے بعد بھی تم میں کسی نے اگر انکار کیا اور محروم رہ گیا.دوسرے معنے ہیں اگر تم نے ان فضلوں کی ناشکری کی اور خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کے نتیجہ میں پہلے سے تسبیح و تحمید میں مصروف نہ ہوئے اور اس کی حمد کے گیت نہ گائے تو پھر یہ خدا کے نزدیک فسق ہے اس لئے جماعت پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ کسی شکل میں بھی ناشکری نہ کریں خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھیں تو اس کے شکر اور حمد کے گیت گاتے ہوئے اس کثرت کے ساتھ اس کے حضور سربسجود ہوں کہ اس کے زیادہ 88

Page 89

89 دونوں نتیجہ میں آپ کے لئے پھر تمکنت کا ایک نیا دور شروع ہو جائے.یہ وہ لا متناہی ترقی کا سلسلہ ہے جس کو قرآنی اصطلاح میں خلافت کہا جاتا ہے.اس سے زیادہ حسین اور کامل نظام سوچا ہی نہیں جا سکتا یہ ایک جاری سلسلہ ہے جس میں ایک کے بعد دوسرا.دوسرے کے بعد تیسرا نمائندہ آپ کو عطا ہوتا ہے اور اس کی ذات کے ارد گرد اکٹھے رہنے کے نتیجہ میں آپ خلیفہ ہیں.اگر اس کی ذات سے الگ ہوتے ہیں تو آپ خلیفہ نہیں رہتے.یہ ایک اور پہلو ہے جس کی طرف آپ کو متوجہ رہنا چاہیے کہ من حيث الجماعت خلافت اس وقت تک ہے جب تک یہ خلافت مرتکز ہے ایک خلیفہ کے وجود میں اور یہ وجود وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ اپنے تصرف کے تابع آپ کا نمائندہ بنا دیتا ہے یا اپنا نمائندہ بنا دیتا ہے صورتیں ہیں.لیکن جو شخص اس سے الگ ہو جاتا ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ جو اس سلسلہ خلافت سے پھر الگ ہوتا ہے وہ گویا اس کا انکار کرتا ہے جس نے اس کو خلیفہ بنایا ہوتا ہے فَأُولئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ.مختلف علما کی طرف سے فسق کے مختلف معنے کئے گئے ہیں.فسق کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ کافر ہو گیا یعنی خدا کے نزدیک اس نے انکار کر دیا اس کا دین سے کوئی تعلق نہ رہا اس کا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں رہا.تو مراد یہ ہے کہ اگر تم فستق کرو گے.اگر تم خلافت کا کفر کرو گے تو وہ فسق پر منتج ہو جائے گا اور تمہارا اسلام سے کوئی تعلق باقی نہیں رہے گا.فسق کا ایک اور معنی یہ بھی ہے کہ تمہارا امن اٹھ جائے گا کیونکہ جب عرب کسی کھجور کے متعلق محاورہ کہتے ہیں کہ فلاں کھجور فاسق ہو گئی تو مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کا گودا اپنے خول کو توڑ کر اس کا کچھ حصہ کیڑوں اور دوسری چیزوں کا شکار ہونے کے لئے باہر آ گیا.وہ حفاظت جو خول کے اندر اس کو ملی ہوئی تھی اس حفاظت سے اس کا کچھ حصہ باہر آ گیا.پس یہاں فسق کے معنے یہ ہوں گے کہ اگر تم نے خلافت کی ناشکری کی تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ نظام خلافت کے اندر جو امن تمہیں نصیب ہے وہ اٹھ جائے گا اور تم جنہ کے پیچھے نہیں لڑ رہے ہو گے.بلکہ تمہارے بعض اعضا اور بعض حصے اس حفاظت کی ڈھال سے آگے نکل کر دشمن کی زد میں آجائیں گے.پس یہ مضمون بھی چونکہ consistent چل رہا ہے اس لئے اس کا مطلب یہی ہے کہ تم اپنا امن کھو دو گے.تم خلافت کی جس.حد تک بھی ناشکری کرو گے.جس حد تک اس کے دائرہ سے باہر نکلو گے اس حد تک تم دنیا کے عذابوں کے شکار ہونے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر رہے ہو گے.اس لئے خلافت کے ساتھ چمٹے رہنا ہے کسی طرح اور کسی حالت میں بھی اس سے باہر نہیں نکلنا.یہ ہے ایک پہلو اور ایک مضمون آیت استخلاف کا جس کی طرف آج میں نے احباب کو توجہ دلانا ضروری سمجھا.- اس کے کچھ نتائج نکلتے ہیں.کچھ ذمہ داریاں ہم پر عاید ہوتی ہیں.دین کے لئے تمکنت کی جو کوشش ہے جس کے نتیجہ میں دشمن کو تکلیف پہنچی ہے وہ کوشش آپ نے کرنی ہے اور وہ تکلیف اب لوگوں کو ہو رہی ہے مثلاً دعوت الی اللہ کا پروگرام ہے اس کے نتیجہ میں اس وقت دنیا میں بہت شدید رد عمل ہوا ہے.بعض کمزور لوگ شاید خوف محسوس کر رہے ہوں اور وہ سمجھیں کہ ہم دعوت الی اللہ کے پروگرام میں بہت ہی زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اس کے نتیجہ میں کہیں یہ نہ ہو جائے اور کہیں وہ نہ ہو جائے.دشمن بیزار ہو رہا ہے کی توجہ ہماری طرف ہو رہی ہے.وہ نئے نئے منصوبے بنا رہا ہے.لیکن میں آپ کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس آیت کے مضمون میں یہ بات اچھی طرح کھول دی گئی ہے کہ اگر اس کوشش کے نتیجہ میں جو اعمال صالحہ کے ذریعہ کی جاتی ہے تم آگے بڑھنے لگو.نئے نئے لوگ تمہارے اندر داخل ہونے شروع ہو جائیں.نئی نئی قومیں تمہارے اندر داخل ہو نے لگیں یعنی تمہیں غلبہ نصیب ہونا شروع ہو جائے.کیونکہ اس آیت میں ایک معنی

Page 90

.ہے غلبہ کا ہے.چنانچہ اب دشمن بڑی شدت کے مشتعل ہو چکا ہے اور وہ ہمارے مٹانے کے منصوبے بنا رہا ہے اس لئے اگر کوئی یہ کہے کہ ہمیں ذرا دھیما ہو جانا چاہیے.ہمیں اپنی کوششوں کو کچھ ست کر دینا چاہیے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نے یہ بات سوچی تو تم مشرک ہو جاؤ گے.تمہارا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہے گا.تم وہ امت واحدہ نہیں رہو گے جو توحید کے نتیجہ میں وجود میں آتی ہے.پس میں جماعت کو اچھی طرح متنبہ کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات گزری ہو کہ تبلیغ کے نتیجہ میں خطرات پیدا ہو رہے ہیں اس لئے ہمیں تبلیغ میں کمی پیداکر دینی چاہئے تو یہ مشرکانہ خیال اس کو دل سے نکال دیں ورنہ اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہے گا وہ شجر توحید سے کاٹا جائے گا جو یہ خوف اپنے دل میں پیدا کرتا ہے.یاد رکھیں صرف اللہ پر ہمارا تو کل ہے اور وہ ہمارے لئے کافی ہے.وہ ہمیشہ ہمارے لئے کافی رہا ہے اور کبھی بھی اس نے ہمیں خوف کی حالت میں اکیلے نہیں چھوڑا.وہ سب وفاؤں سے بڑھ کر وفا دار خدا ہے.ہم نے اس سے بے وفائی نہیں کرنی.ایک ایک بچے کے لئے بھی اگر کاٹے جانی کا خوف ہمارے سامنے ظاہر ہو جائے اور ہر طرف سے بھیانک شکلیں ہمیں ڈرانے کے لئے ابھر آئیں اور بظاہر ہر طرف اندھیرے پھیل جائیں تب بھی ہم نے ثبات قدم دکھانا ہے.ایک قدم پیچھے نہیں ہٹنا.ایک قدم رکنا نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ بڑھ کر اللہ پر توکل کرتے ہوئے ہر میدان میں آگے بڑھنا ہے.یہ عہد کر کے آج آپ نے واپس جانا ہے اور اس روح کو جماعتوں میں پھیلانا ہے اور اس روح کے مبلغ بن جانا ہے کیونکہ خلافت کا یہ خلاصہ ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.دوسرا پہلو ہے چندوں میں اضافہ یہ بھی تکلیف کا موجب بن رہا ہے یعنی اَنفُس میں خدا کی طرف سے جو تمکین نصیب ہو رہی ہے اور برکت مل رہی ہے اس کے نتیجہ میں بھی حسد کی ایک آگ لگ گئی ہے اور وہ کہتے ہیں یہ کیوں بڑھ رہے ہیں اور آپ کیوں زیادہ مالی قربانی کر رہے ہیں.مالی قربانی میں اضافہ کے نتیجہ میں بھی حسد کی آگ بھڑک اٹھی ہے.بھٹی چندہ ہم دیتے ہیں.ہم اپنی جائز کمائی میں سے خدا کے حضور ادا کرتے ہیں اس میں آپ کو تکلیف کیا ہے.اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ جماعت چندے اکٹھے کر رہی ہے تو یہ تو ایک کھلی دوڑ ہے.قرآن کریم نے جو دوڑ بتائی ہے وہ تو نیکیوں کی دوڑ ہے تم بھی اس میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو.تمہیں ہمارے چندے سے کیا تکلیف ہے.عقلی نتیجہ تو یہی نکلتا ہے کہ نہیں ہونی چاہئے بلکہ ان کو تو خوش ہونا چاہیے بڑے بیوقوف لوگ ہیں.اپنے اموال محنت سے کماتے ہیں لیکن ان کے نزدیک جو غلط مقصد ہے اس میں ضائع کر رہے ہیں.اگر وہ واقعہ یہ سمجھتے ہیں کہ اموال ضائع ہو رہے ہیں تو ان کو تو اس پر بڑی خوشی ہونی چاہیے کہ لو جی اور زیادہ بیوقوف ہو گئے اب پہلے سے بھی زیادہ بڑھ کر بیوقوف ہو گئے.پہلے تھوڑا چندہ دیا کرتے تھے اب زیادہ چندہ جھونک رہے اس مقصد کیلئے جسے وہ احمقانہ مقصد سمجھتے ہیں.لیکن ان کا دل کچھ اور گواہی دے رہا ہے ان کا دل بتا رہا ہے کہ یہ ایک با مقصد جماعت ہے ان کا ہر روپیہ ایک اعلیٰ مقصد کیلئے استعمال ہو رہا ہے جو ان کے لئے مزید تمکنت کے سامان پیدا کر رہا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے جو نتیجہ نکالا وہ کتنا درست ہے.اور اسی طرح اس آیت کی ترتیب ہونی چاہیے کہ تمہارے اعمال صالح کو خدا قبول فرمائے گا اور تمہاری جانوں میں بھی برکت دے گا اور تمہارے اموال میں بھی برکت دے گا اور ہر برکت کے نتیجہ میں تمہیں خوف کے حالات پیدا ہوتے دکھائی دیں گے لیکن خدا فرماتا ہے کہ اس وقت ہم تمہیں یہ نصیحت کرتے ہیں کہ تم نے شرک بالکل نہیں کرنا.ہم پر توکل رکھنا ہے صرف ہماری عبادت کرنی ہے پھر دیکھنا کہ خدا کس طرح تمہارے ہر خوف کو امن میں تبدیل کرتا چلا جائے گا.پس چندوں کے نظام میں بھی خدا تعالیٰ نے جو برکت عطا فرمائی 90

Page 91

91 ہے.اس میں بھی آپ نے آگے ہی آگے بڑھنا ہے اور آگے بڑھنے کے لئے جو ذرائع آپ کے سامنے آج یا کل یا پرسوں رکھے گئے ان کو واپس جانے کے بعد عمل کی دنیا میں ڈھالیں اور کوشش کریں کہ مجوزہ طریقوں پر عمل کر کے بجٹ کو پہلے سے بہت زیادہ بڑھا دیں.اب ہم دعا کے بعد رخصت ہوں گے.دعا کے سلسلہ میں ایک بات یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے اور درود پڑھنے کی طرف جماعت کو توجہ دلائیں اور اس کی باقاعدہ ایک مہم چلائی جائے خصوصیت کے ساتھ جن تاریخوں میں جمات کو الٹی میٹم دیا گیا ہے ان تاریخوں سے پہلے غیر مولی پروگرام بنایا جائے تہجد کی نمازوں کا بھی اور سارے سارے دن دعائیں کرنے کا بھی.دعا کا طریقہ یہ ہو گا کہ سب سے پہلے حمد باری تعالی یعنی تسبیح و تحمید کی جائے اور دل کو خوب خدا کی یاد میں غرق کر کے اس کے پیار اس کے حسن اور اس کی اعلی ذات و صفات کا تصور باندھ کر دعا کی جائے تب حمد باری دل سے جاری ہو گی اس کے بعد بڑے درد اور گہرے جذبہ عشق اور محبت کے ساتھ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجے جائیں اور پھر بڑے درد مند دل کے ساتھ یہ دعا کی جائے کہ اے اللہ ہماری تو ساری کائنات اور سارا وجود تو ہے یا تیرا محبوب رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں.ہمیں اس سے کاٹنے کی کوشش کی جار ہی ہے ہم نہیں کٹ سکتے.ہم اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے اس لئے اے خدا اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرما کہ یہ جو کاٹنے لے ہیں یہ ہمارے اندر شامل ہو کر اس لذت کو پا جائیں جو حقیقی وصال کی لذت ہے وہ ہمیں کاٹنے میں کلیہ ناکام رہیں اور خود جماعت میں داخل ہو ہو کر اس زندہ خدا سے تعلق جوڑ لیں.جس کو ہم نے دیکھا ہے ایک محسن خدا کے طور پر اور اس زندہ رسول سے تعلق جوڑ لیں جس کو ہم نے ایک زندہ رسول کے طور پر دیکھا ہے.اور جو بنی نوع انسان میں ہمارے لئے محبوب ترین وجود ہے اور جس کے لئے ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں.یہ دعا کریں.اور پھر وہ مسنون دعا بھی کریں اللهم ان نجعلک فی نحورهم و نعوذبک من شرورهم دیہاتی جماعتوں کو بھی یہ دعا اور اس کا ترجمہ سکھائیں اور باقاعدہ کثرت سے یہ دعائیں کرتے رہیں.یہ وہ دعائیں ہیں جنہوں نے اس سے پہلے بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کے چھکے چھڑا دیے تھے.ان کے پاؤں ど زمینیں نکال دی تھیں.بڑی بڑی طاقتوں کو اس طرح مٹا دیا کہ ان کا کوئی وجود باقی نہ چھوڑا اور جماعت کو ایک نئی سے نئی تمکنت عطا ہوتی رہی.اس لئے ان آزمودہ دعاؤں پر بہت زور دیں اور پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کس طرح فضل فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آپ کو خیر و عافیت کے ساتھ خوشی کے ساتھ اور اپنی حفاظت میں واپس لے کر جائے اور آپ واپس جا کر جماعت میں ایک نئی زندگی کی لہر دوڑانے کا موجب بنیں اور اس کے نتیجہ میں ہم اللہ تعالیٰ کے نئے سے نئے فضلوں کو ہمیشہ اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آئیے اب دعا کر لیتے ہیں.یہ بابرکت مجلس مشاورت نہایت ہی تضرع اور ابتہال میں ڈوبی ہوئی پرسوز اجتمائی دعا پر ختم ہوئی.مرتبہ یوسف سلیم ملک صاحب ایم اے انچارج صیغه زود نویسی

Page 92

خلافت راشدہ حقہ اسلامیہ کا ہر دو طرح سے استحکام: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد خلافت راشدہ حقہ اسلامیہ نے کس طرح استحکام پکڑا اور اللہ تعالیٰ نے قدم قدم پر ثابت کر دیا کہ خلافت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے اور خلافت کی مضبوطی کو کوئی توڑ نہیں سکتا اور وقتی طوفان اور مصائب اسلام اور خلافت راشدہ کی راہ میں روک نہیں بن سکتے.چنانچہ خلافت راشدہ اولیٰ اور ثانیہ ہر دو ادوار میں اللہ تعالیٰ نے یہ ثابت فرما دیا کہ یہی خلافت حقہ اسلامیہ ہے.آئیے تاریخ کے آئینہ میں دیکھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت اور دشمنان دین کا انجام خلافت کی سچائی پر کس طرح مہر تصدیق ثبت کرتا ہے اور روز روشن کی طرح یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں خلافت کے ذریعے دین کو استحکام عطا فرمایا اور اسی طرح نظام خلافت استحکام پذیر ہوا.سب سے پہلے ہم ترتیب وار اشاعت اسلام کا جائزہ لیتے ہیں: (1 اشاعت اسلام اور استحکام خلافت: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں اشاعت اسلام: سیر الصحابہ رضی اللہ عنہم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین کے عہد میں جس قدر لڑائیاں پیش آئیں وہ سب للہیت پر اور اعلائے کلمۃ اللہ پر مبنی تھیں اس لیے ہمیشہ کوشش کی گئی کہ اس مقصد عظیم کے لئے جو فوج تیار ہو وہ اخلاق و رفعت میں تمام دنیا کی فوجوں سے ممتاز ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی فوجی تربیت میں اس نکتہ کو ہمیشہ ملحوظ رکھا اور جب کبھی فوج کسی مہم پر روانہ ہوتی تو خود دُور تک پیادہ ساتھ گئے اور امیر عسکر کو زریں نصائح کے بعد رخصت فرمایا.چنانچہ ملک شام پر فوج کشی ہوئی تو سپہ سالار سے فرمایا:.إِنَّكَ تَجِدُ قَوْمًا زَعَمُوا أَنَّهُمْ جَلَسُوا أَنْفُسَهُمْ لِلَّهِ فَذَرْهُمْ وَإِنِّي مُوْصِيكَ لَا تَقَتُلُوا امْرَأَةً وَلَا صَبِيًّا وَلَا كَبِيرَ هر مَا وَلَا تَقَتَطعن شَجَرًامُثْمَرًا وَلَا تَخْرَبْنَ عَامِرًا وَلَا تَعْقَرْنَ شَأْةٌ وَلَا بَعِيرًا لَا لَا كُلِهِ وَلَا تَحْرَقْنَ نَخْلًا وَلَا تَعْلُلْنَ وَلَا تَجْبُنَنَ تم ایک ایسی قوم کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو خدا کی عبادت کے لئے وقف کر دیا ہے ان کو چھوڑ دینا میں تم کو دس وصیتیں کر تا ہوں، کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھلدار درخت کو نہ کاٹنا، کسی آباد جگہ کو ویران نہ کرنا، بکری اور اونٹ کو کھانے کے سوا بیکار ذبح نہ کرنا، نخلستان نہ جلانا، مال غنیمت میں غبن نہ کرنا اور نہ بزدل نہ ہو جانا.“ (سیر الصحابہ جلد 1 صفحہ 66) تاریخ الخلفا میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ: اسلام کی اشاعت میں بہت بڑا کام حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں قرآن کریم کا تحریری 22 92

Page 93

صورت میں جمع ہونا تھا چنانچہ اس سلسلہ میں بخاری میں بروایت زید رضی اللہ عنہ بن ثابت بیان کیا گیا ہے کہ جنگ مسیلمہ کذاب کے بعد ایک روز حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے (یعنی زید بن ثابت کو) یاد فرمایا.میں جس وقت میں آپ کی خدمت میں پہنچا تو وہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی تشریف فرما تھے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ (حضرت) عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے کہتے ہیں کہ ” جنگ یمامہ میں بہت ، مسلمان شہید ہو گئے ہیں، مجھے خوف ہے کہ اگر اسی طرح مسلمان شہید ہوتے رہے تو حافظوں کے ساتھ ساتھ قرآن شریف بھی نہ اٹھ جائے (کیونکہ وہ اب تک لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہے) لہذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کو بھی جمع کر لیا جائے.“ میں نے ان سے یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ بھلا میں اس کام کو کس طرح کر سکتا ہوں جسے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں نہیں کیا؟ تو اس پر انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ واللہ ! یہ نیک کام ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس وقت سے اب تک ان کا اصرار جاری ہے یہاں تک کہ اس معاملہ میں مجھے شرح صدر (القا) ہوا اور میں سمجھ گیا کہ اس کی بڑی اہمیت ہے.حضرت زید رضی اللہ عنہ بن ثابت کہتے ہیں کہ یہ تمام باتیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاموشی سے سن رہے تھے ، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا اے زید! تم جوان اور دانشمند آدمی ہو اور تم کسی بات میں اب تک بھی نہیں ہوئے ہو ( تم ثقہ ہو ) علاوہ ازیں تم کاتب وحی (رسول اللہ) بھی رہ چکے ہو.لہذا تم تلاش جستجو سے قرآن شریف کو ایک جگہ جمع کر دو.حضرت زید رضی اللہ عنہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ بہت ہی عظیم کام تھا، مجھ پر بہت ہی شاق تھا، اگر خلیفہ رسول مجھے پہاڑ اُٹھانے کا حکم دیتے تو میں اس کو بھی اس کام سے ہلکا سمجھتا.لہذا میں نے عرض کیا کہ آپ دونوں حضرات (حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما) وہ کام کس طرح کریں گے جو حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے میرا یہ جواب سن کر یہی فرمایا: اس میں کچھ حرج نہیں ہے.زید کہتے ہیں مگر مجھے پھر بھی تأمل رہا ( میں خود کو عظیم کام کے انجام دینے کا اہل نہیں سمجھتا ہوں) اور میں نے اس پر اصرار کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی کھول دیا (شرح صدر فرمایا) اور اس امر عظیم کی اہمیت مجھ پر بھی واضح ہو گئی.پھر میں نے تفحص اور تلاش کا کام جاری کیا اور کاغذ کے پرزوں، اونٹ اور بکریوں کی شانوں کی ہڈیوں اور درختوں کے پتوں کو جن پر آیات قرآنی تحریر تھیں یکجا کیا اور پھر لوگوں کے حفظ کی مدد سے قرآن شریف کو جمع کیا سورۃ توبہ کی دو آیین: لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنفُسِكُم......الخ مجھے حزیمہ رضی اللہ عنہ بن ثابت کے سوا کہیں اور سے نہیں مل سکیں اس طرح میں نے قرآن پاک جمع کر کے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کر دیا جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات تک ان کے پاس رہا.“ و تاريخ الخلفاء - صفحہ 213 و 214) (2) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اشاعت اسلام: مولانا شبلی نعمانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں: اشاعت اسلام کے یہ معنی ہیں کہ تمام دنیا کو اسلام کی دعوت دی جائے اور لوگوں کو اسلام کے اصول اور مسائل سمجھا کر اسلام کی طرف راغب کیا جائے.93

Page 94

حضرت عمر رضی اللہ عنہ جس ملک میں فوجیں بھیجتے تھے تاکید کرتے تھے کہ پہلے ان لوگوں کو اسلام کی ترغیب دلائی جائے اور اسلام کے اصول سمجھائے جائیں.چنانچہ فاتح ایران سعد بن ابی وقاص کو جو خط لکھا اس میں یہ الفاظ تھے: وَقَدْ كُنْتُ أَمَرُ تِكَ اَنْ تَدْعُوا مَنْ لَقِيْتَهُ إِلَى الْإِسْلَامِ قَبْلَ الْقِتَالِ قاضی ابو یوسف صاحب نے لکھا ہے کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب ان کے پاس کوئی فوج مہیا ہوتی تھی تو ان پر ایسا افسر مقرر کرتے تھے جو صاحب علم اور صاحب فقہ ہوتا تھا یہ ظاہر ہے کہ فوجی افسروں کے لیے علم وفقہ کی ضرورت اسی تبلیغ اسلام کی ضرورت سے تھی.شام و عراق کی فتوحات میں تم نے پڑھا ہو گا کہ ایرانیوں اور عیسائیوں کے پاس جو اسلامی سفارتیں گئیں انہوں نے کس خوبی اور صفائی سے اسلام کے اصول و عقائد ان کے سامنے بیان کئے.اشاعت اسلام کی بڑی تدبیر یہ ہے کہ غیر قوموں کو اسلام کا جو نمونہ دکھلایا جائے وہ ایسا ہو کہ خود بخود لوگوں کے دل اسلام کی طرف کھینچ آئیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں نہایت کثرت سے اسلام پھیلا اور اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اپنی تربیت اور ارشاد سے تمام مسلمانوں کو اسلام کا اصلی نمونہ بنا دیا تھا.اسلامی فوجیں جس ملک میں جاتی تھیں لوگوں کو خواہ مخواہ ان کے دیکھنے کا شوق پیدا ہوتا تھا کیونکہ چند بادیہ نشینوں کا دنیا کی تسخیر کو اُٹھنا حیرت اور استعجاب سے خالی نہ تھا اس طرح جب لوگوں کو ان کے دیکھنے اور ان سے ملنے جلنے کا اتفاق ہوتا تھا تو ایک ایک مسلمان سچائی سادگی اور پاکیزگی جوش اور اخلاص کی تصویر نظر آتا تھا.یہ چیزیں خود بخود لوگوں کے دل کھینچتی تھیں اور اسلام ان میں گھر کر جاتا تھا.“ (الفاروق - صفحہ 353 و 354.مصنفہ: علامہ شبلی نعمانی) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں ہونے والی اشاعت اسلام کے بارے میں سیر الصحابہ میں لکھا ہے کہ: قرآن مجید جو اساس اسلام ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اصرار سے کتابی صورت میں عہد صدیقی میں مرتب کیا گیا تھا.اس کے بعد انہوں نے اپنے عہد میں اس کے درس و تدریس کا رواج معلمین اور حفاظ اور موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں، حضرت عبادہ بن الصامت، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو الدردا رضی اللہ عنہم کو جو حفاظ قرآن اور صحابہ کبار میں سے تھے، قرآن مجید کی تعلیم دینے کے لئے ملک شام میں روانہ کیا، قرآن مجید کو صحت کے ساتھ پڑھنے اور پڑھانے کے لیے تاکیدی احکام روانہ کئے.ابن الانباری کی روایت کے مطابق ایک حکم نامہ کے الفاظ یہ ہیں: تُعَلِمُوا أَعْرَابَ الْقُرْآنَ كَمَا تُعَلِّمُونَ حِفْظَهُ - غرض حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مساعی جمیلہ سے قرآن کی تعلیم ایسی عام ہو گئی تھی کہ ناظرہ خوانوں کا تو شمار ہی نہیں، حافظوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تھی.حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ایک خط کے جواب میں لکھا تھا کہ صرف میری فوج میں تین سو حافظ ہیں.“ (سیر الصحابہ جلد 1 - صفحه 147) 3 حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں اشاعت اسلام: اشاعت اسلام کے حوالے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی کوششوں کے بارے میں سیر الصحابہ میں لکھا ہے کہ: ”مذہبی خدمات کے سلسلہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سب سے زیادہ روشن کارنامه قرآن مجید کو اختلاف و تحریف سے محفوظ کرنا اور اس کی عام اشاعت ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آرمینیہ اور آذر بائیجان کی مہم میں 94 +4

Page 95

شام، عراق وغیرہ مختلف ملکوں کی فوجیں مجمع تھیں جن میں زیادہ تر نومسلم اور عجمی النسل تھے جن کی مادری زبان عربی نہ تھی، حضرت حذیفہ بن یمان بھی شریک جہاد تھے انہوں نے دیکھا کہ اختلاف قرأت کا یہ حال ہے کہ اہل شام کی قرآت، اہل عراق سے بالکل جدا گانہ ہے اسی طرح اہل بصرہ کی قرآت اہل کوفہ سے مختلف اور ہر ایک اپنے ملک کی قرآت صحیح اور دوسرے کی غلط سمجھتا ہے.حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو اس اختلاف سے اس قدر خلجان ہوا کہ جہاد سے واپس ہوئے تو سیدھے بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اور ر مفصل واقعات عرض کر کے کہا: ”امیر المومنین! اگر جلد اس کی اصلاح کی فکر نہ ہوئی تو مسلمان عیسائیوں اور رومیوں کی طرح خدا کی کتاب میں شدید اختلاف پیدا کر لیں گے.حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی خیال ہوا اور انہوں نے اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے عہد صدیقی کا مرتب و مدون کیا ہوا نسخہ لے کر حضرت زید رضی اللہ عنہ بن ثابت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور سعید رضی اللہ عنہ بن العاص سے اس کی نقلیں کرا کے تمام ملک میں اس کی اشاعت کی اور ان تمام مختلف مصاحف کو جنہیں لوگوں نے بطورِ خود مختلف املاؤں سے لکھا تھا، صفحہ ہستی سے معدوم کر دیا.“ (4) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں اشاعت اسلام: (سیر اصحابہ جلد 1 - صفحه 231 تا 232) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بہت سی خدمات انجام دیں.چنانچہ سیر الصحابہ میں لکھا ہے کہ: امام وقت کا سب سے اہم فرض مذہب کی اشاعت تبلیغ اور خود مسلمانوں کو مذہبی تعلیم وتلقین ہے.حضرت علی رضی اللہ عنہ عہد نبوت ہی سے ان خدمات میں ممتاز تھے.چنانچہ یمن میں اسلام کی روشنی ان ہی کی کوشش سے پھیلی تھی.سورۂ برأة ( التوبة ) نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ و اشاعت کی خدمت بھی ان کے سپرد ہوئی.مسند خلافت پر قدم رکھنے کے بعد سے آخر وقت تک گو خانہ جنگیوں نے فرصت نہ دی تا ہم اس فرض سے بالکل غافل نہ تھے.ایران اور آرمینیہ میں بعض مسلم عیسائی مرتد ہو گئے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہایت سختی کے ساتھ ان کی سرکوبی کی اور ان میں سے اکثر تائب ہو کر پھر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے.حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی اخلاقی نگرانی کا بھی نہایت سختی کے ساتھ خیال رکھا.مجرموں کو عبرت انگیز سزائیں دیں.“ (سیر الصحابہ.جلد 1 صفحہ 306 تا 307) حفاظت منصب خلافت مقام خلافت کی حفاظت کرنا بھی استحکام خلافت کیلئے ضروری امر ہے.چنانچہ اللہ تعالی کی طرف سے ایسے برگزیدوں کو مسند خلافت پر متمکن کیا گیا جنہوں نے اپنی جان، مال، عزت و آبرو کی پروا کئے بغیر مقام و منصب خلافت کی حفاظت فرمائی جس سے خلافت کو استحکام نصیب ہوا.(1 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حفاظت منصب خلافت: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں سیر الصحابہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے واقعات کے 95

Page 96

بیان میں لکھا ہے کہ: " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر مشہور ہوتے ہی منافقین کی سازش سے مدینہ میں خلافت کا فتنہ کھڑا ہوا اور انصار نے سقیفہ بنی ساعدہ میں مجتمع ہو کر خلافت کی بحث چھیڑ دی.مہاجرین کو خبر ہوئی تو وہ بھی ہوئے اور معاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ اگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو وقت پر اطلاع نہ ہو جاتی تو مہاجرین اور انصار جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھائی بھائی کی طرح رہتے تھے باہم دست و گریبان ہو جاتے اور اس طرح اسلام کا چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہو جاتا لیکن خدا کو تو حید کی روشنی سے تمام عالم کو منور کر نا تھا اس لیے آسمان اسلام پر ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما جیسے مہر و ماه پیدا کر دیئے تھے جنہوں نے اپنی عقل و سیاست کی روشنی سے اُفق اسلام کی ظلمت اور تاریکیوں کو کا فور کر دیا.وو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لئے ہوئے سقیفہ بنی ساعدہ پہنچے.انصار نے دعوئی کیا کہ ایک امیر ہمارا ہو اور ایک تمہارا.ظاہر ہے کہ اس دو عملی کا نتیجہ کیا ہوتا؟ ممکن تھا کہ مسندِ خلافت مستقل طور پر انصار کے سپرد کر دی جاتی لیکن وقت یہ تھی کہ قبائل عرب خصوصاً قریش ان کے سامنے گردنِ اطاعت خم نہیں کر سکتے تھے.پھر انصار میں بھی دو گروہ تھے : اوس اور خزرج اور ان میں باہم اتفاق نہ تھا.غرض ان وقتوں کو پیش نظر رکھ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: " اُمرا ہماری جماعت سے ہوں اور وزرا تمہاری جماعت میں سے اس پر حضرت خباب رضی اللہ عنہ بن المنذر انصاری بول اٹھے، نہیں! خدا کی قسم نہیں! ایک امیر ہمارا ہو اور ایک تمہارا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ جوش و خروش دیکھا تو نرمی و آشتی کے ساتھ انصار کے فضائل و محاسن کا اعتراف کر کے فرمایا: ”صاحبو ! مجھے آپ کے محاسن کا انکار نہیں لیکن درحقیقت تمام عرب قریش کے سوا کسی کی حکومت تسلیم ہی نہیں کر سکتا پھر مہاجرین اپنے تقدم اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی تعلقات کے باعث نسبتاً آپ سے زیادہ استحقاق رکھتے ہیں.یہ دیکھو ابو عبیدہ (رضی اللہ عنہ) بن الجراح اور عمر (رضی اللہ عنہ) بن خطاب موجود ہیں ان میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو بیعت کر لو.“ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیش دستی کر کے خود حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا اور کہا: نہیں بلکہ ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں کیونکہ آپ ہمارے سردار اور ہم لوگوں میں سب سے بہتر ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے.“ چنانچہ اس مجمع میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی بااثر بزرگ اور معمر نہ تھا اس لئے اس انتخاب کو سب نے زیادہ استحسان کی نظر سے دیکھا اور تمام خلقت بیعت کے لیے ٹوٹ پڑی اس طرح یہ اٹھتا ہوا طوفان دفعتاً رُک گیا اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہوئے.“ خلافت (سیر الصحابہ جلد 1 صفحہ 40 تا41) (2) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حفاظت منصب منصب خلافت کی حفاظت کی خاطر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نہایت درجہ حساسیت سے کام لیا.چنانچہ اس ضمن 96

Page 97

” میں محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں: بہت ہی قلیل مدت کے سوچ بچار کے بعد فوراً خلافت کو چھ آدمیوں: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان، حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب، حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہما ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہما، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کی مجلس مشاورت پر منحصر کر دیا.ان حضرات کی خلافت کے سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول ماثور ہے کہ: میں نے ان لوگوں سے زیادہ کسی کو خلافت کا حقدار نہیں پایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تا حینِ حیات ان سے خوش رہے.ان میں سے جس کسی کو بھی خلیفہ بنایا جائے وہی میرے بعد خلیفہ ہو گا.“ اور ان چھ بزرگوں کا نام لینے کے بعد فرمایا: اگر خلافت سعد رضی اللہ عنہ کو ملے تو انہیں دے دی جائے کہ میں نے سعد رضی اللہ عنہ کو کسی کمزوری اور خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا تھا بصورت دیگر جس کو بھی اس خدمت کے لئے انتخاب کیا جائے ،مسلمانوں کو اس کی مدد کرنی چاہئے.“ تب لوگوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کا علم ہوا تو وہ مطمئن ہو گئے.فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کو بلایا جنہیں خلافت کی مجلس شوری کا کارکن نامزد کیا تھا اور فرمایا: علی ! میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر خلافت تمہیں مل جائے تو بنو ہاشم کو لوگوں کی گردنوں پر سوار نہ کر دینا! عثمان! میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر تم خلیفہ ہو جاؤ تو بنو ابی معیط کو لوگوں کی گردنوں پر سوار نہ کر دینا! سعد! میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر خلافت کا فیصلہ تمہارے حق میں ہو تو اپنے رشتہ داروں کو لوگوں کی گردن پر سوار نہ کر دینا اسی طرح دوسرے ارکان شوری کو بھی قسمیں دلائیں پھر کہا: ”جاؤ، مشورہ کر کے فیصلہ کرو، مسلمانوں کو نماز صہیب رضی اللہ عنہ پڑھائیں گے.پھر ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلایا جو عرب کے گنے چنے بہادروں میں سے تھے اور ان سے کہا: ”جس گھر میں یہ مشورہ کریں اس کے دردوازے پر کھڑے ہو جانا اور کسی کو گھر میں نہ جانے دینا.“ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابو طلحہ ! اپنے قبیلے کے پچاس انصاریوں کو لے کر ارکان شوری کے ساتھ رہنا، میرا خیال ہے کہ یہ کسی رکن کے گھر میں جمع ہوں گے تم اپنے ساتھیوں کو لے کر اس گھر کے دروازے پر کھڑے ہو جانا اور کسی کو گھر میں نہ جانے دینا! ان لوگوں کو تین دن سے زیادہ مہلت دینے کی ضرورت نہیں.اس دوران میں انہیں میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کر لینا چاہیئے! یا اللہ ! میری طرف سے تو ان کا نگران ہے.“ اپنے (حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ - صفحہ 744 تا745.مصنفہ: محمد حسین ہیکل) 3 حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حفاظت منصب خلافت: تاریخ الخلفا میں لکھا ہے کہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اے عثمان (رضی اللہ عنہ )! خداوند تعالیٰ تمہیں ایک قمیص (خلافت) عنایت فرمائے گا جب منافق اس کو اُتارنے کی کوشش کریں تو 97

Page 98

تم اس کو مت اُتارنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آملو! اسی بنا پر آپ رضی اللہ عنہ نے، جس روز آپ رضی اللہ عنہ محصور ہوئے تھے یہ فرمایا تھا کہ اس کے بارے میں مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا تھا چنانچہ اس پر میں قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ( تاریخ الخلفاء.صفحہ 339.ترجمہ:.علامہ شمس بریلوی) ”حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب فسادیوں نے مدینہ پر قبضہ کر لیا.چنانچہ یہ لوگ مسلسل ہیں دن تک صرف زبانی طور پر کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلافت سے دست بردار ہو جائیں مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس امر سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ جو قمیص مجھے اللہ تعالیٰ نے پہنائی ہے میں اسے اتار نہیں سکتا اور نہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بے پناہ چھوڑ سکتا ہوں کہ جس کا جی چاہے دوسرے پر ظلم کرے.(طبری جلد 8 صفحہ 2990 مطبوعہ بیروت) اور ان لوگوں کو بھی سمجھاتے رہے کہ اس فساد سے باز آجاویں اور فرماتے رہے کہ آج یہ لوگ فساد کرتے ہیں اور میری زندگی سے بیزار ہیں مگر جب میں نہ رہوں گا تو خواہش کریں گے کہ کاش! عثمان (رضی اللہ عنہ) کی عمر کا ایک ایک دن سے بدل جاتا اور وہ ہم سے جلدی رخصت نہ ہوتا کیونکہ میرے بعد سخت خون ریزی ہوگی اور حقوق کا اتلاف ہو گا اور انتظام کچھ کا کچھ بدل جائے گا.“ (4) حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حفاظت منصب خلافت: (انوار العلوم جلد نمبر 4.صفحہ 253) منصب خلافت کی حفاظت کیلئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمات نہایت اعلیٰ اور شاندار ہیں.چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب خلیفۃ الرسول منتخب ہوئے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا جس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھا فرمایا: " مجھ سے انہی لوگوں نے بیعت کی ہے.جنہوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کی تھی.لہذا نہ تو حاضر کے لیے حق باقی رہ گیا ہے کہ بیعت میں اختیار سے کام لے اور نہ غیر حاضر کو حق ہے کہ بیعت سے روگردانی کرے.شوری تو صرف مہاجرین و انصار کے لیے ہے اگر انہوں نے کسی آدمی کے انتخاب پر اتفاق کر لیا تو اسے امام قرار دے دیا تو یہ اللہ کی اور پوری اُمت کی رضا مندی کے لیے کافی ہے اگر امت کے اس اتفاق سے کوئی شخص اعتراض یا بدعت کی بنا پر خروج کرتا ہے تو مسلمان اسے حق کی طرف لوٹا دیں گے جس سے وہ خارج ہوا ہے.انکار کرے گا تو اس سے جنگ کی جائے گی کیونکہ اس نے مومنوں کی راہ سے کٹ کر الگ راہ اختیار کی ہے اور خدا اس کو اس کی گمراہی کے حوالے کر دے گا اور اے معاویہ! میں یہ قسم کہتا ہوں کہ اگر تو نفس سے ہٹ کر عقل سے کام لے گا تو مجھے عثمان کے خون سے بالکل بری الذمہ پائے گا کہ میرا اس خون سے دور کا بھی لگاؤ نہیں ، یہ الگ بات ہے کہ تو اپنے مطلب کے تہمتیں تراشے.خیر جو کرنا ہے کرتا رہ!“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (نہج البلاغہ صفحہ 724) ”حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب فتنہ پڑا تو اہل مصر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور 98

Page 99

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بولنے لگے، آپ رضی اللہ عنہ نے سختی سے ان کو دھتکار دیا اس واقعہ کو یوں بیان کیا جاتا ہے: اہل مصر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے وہ اس وقت مدینہ سے باہر ایک حصہ لشکر کی کمان کر رہے تھے اور ان کا سر کچلنے پر آمادہ کھڑے تھے ان لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر عرض کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بدانتظامی کے باعث اب خلافت کے قابل نہیں.ہم ان کو علیحدہ کرنے کے لیے آئے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ ان کے بعد اس عہدہ کو قبول کریں گے.انہوں ( حضرت علی رضی اللہ عنہ) نے ان کی بات سن کر اس غیرت دینی سے کام لے کر جو آپ رضی اللہ عنہ کے رتبہ کے آدمی کا حق تھا ان لوگوں کو دھتکار دیا اور بہت سختی سے پیش آئے اور فرمایا کہ: سب نیک لوگ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کے طور پر ذوالمرہ اور ذو خشب (جہاں ان لوگوں کا ڈیرہ تھا) ڈیرہ لگانے والے لشکروں کا ذکر فرما کر ان پر لعنت فرمائی تھی.(البَدَايَةُ وَالنَّهَايَةُ ج 7 صفحہ 174 مطبوعہ بیروت 1966ء) پس جانتے خد اتمہارا برا کرے تم واپس چلے جاؤ.اس پر ان لوگوں نے کہا کہ بہت اچھا ہم واپس چلے جاویں گے اور یہ گہ کر واپس چلے گئے.66 خلفائے راشدین کے کار ہائے نمایاں: پر انوارا لعلوم جلد نمبر 4 صفحہ 237) ذیل میں ہم مختصر طور پر نمونہ خلفائے راشدین کے کار ہائے نمایاں درج کئے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر خلافت کے انتخاب کے وقت اُس وقت کے موزوں ترین انسان کے بارے میں مؤمنین کے دلوں میں ڈالا اور مؤمنین نے بلا تأمل اس کو منتخب کر لیا اور بعد کے حالات نے یہ ثابت کر دیا کہ اس خلیفہ کے انتخاب میں ہی اللہ تعالیٰ کی رضا اور تائید شامل ہے.1 بطور خلیفہ راشد اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کار ہائے نمایاں: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کارنامے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خلیفۃ الرسول منتخب ہونے کے بعد سب سے اہم کام احکام شریعت کی پابندی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ احکامات پر عمل درآمد تھا.چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی مساعی قابل ستائش ہیں.”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل عرب نے زکوۃ دینے سے انکا ر کر دیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے خلاف جنگ کرنے کے لیے تیا ر ہو گئے اس وقت حالت ایسی نازک تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے انسان نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے نرمی کرنی چاہئے مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ابو قحانہ کے بیٹے کی کیا طاقت ہے کہ وہ اس حکم کو منسوخ کر دے.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی ایک رسی بھی زکوۃ میں دیا کرتے تھے تو میں رسی بھی ان سے لے کر رہوں گا اور اس وقت تک دم نہیں لوں گا جب تک وہ زکوۃ ادا نہیں کرتے.(بخاری کتاب الزکوۃ) اگر تم اس معاملہ میں میرا ساتھ نہیں دے سکتے تو بے شک نہ دو میں اکیلا ہی ان سے مقابلہ کروں گا.“ ( تفسیر کبیر جلد 8 - صفحہ 108 تا109) 99

Page 100

100 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے قریب ایک لشکر رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا.یہ لشکر ابھی روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب عرب مرتد ہو گیا تو صحابہ نے سوچا کہ اگرایسی بغاوت کے وقت اسامہ رضی اللہ عنہ کا لشکر ابھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لیے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے مرد اور بچے اور عورتیں رہ جائیں گی اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں رہے گا چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایک وفد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جائے اور ان سے درخواست کرے کہ وہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ درخواست پیش کی.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے نہایت غصہ سے اس وفد کو جواب دیا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو قحافہ کا بیٹا پہلا یہ کام کرے کہ جس لشکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اسے روک لے؟ پھر آپ نے فرمایا! اگر دشمن کی فوجیں مدینہ میں گھس آئیں اور کتے مسلمانوں کی لاشیں گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا.“ ༧ ( سیر روحانی مجموعه تقاریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ - صفحہ 491) 2 بطور خلیفہ راشد ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کار ہائے نمایاں: (۱) خزانہ کا مستقل قیام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس کارنامے کے بارے سیر الصحابہ میں لکھا ہے کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تقریباً 15 ہجری میں ایک مستقل خزانہ کی ضرورت محسوس کی اور مجلس شوری کی منظوری کے بعد مدینہ منورہ میں بہت بڑا خزانہ قائم کیا.دارالخلافہ کے علاوہ تمام اضلاع اور صوبہ جات میں بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں اور ہر جگہ اس محکمہ کے جدا گانہ افسر مقرر ہوئے.مثلاً اصفہان میں خالد بن رضی اللہ عنہ حارث اور کوفہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خزانہ کے افسر تھے.صوبہ جات اور اضلاع کے بیت المال میں مختلف آمدنیوں کی جو رقم آتی تھی وہ وہاں کے سالانہ مصارف کے بعد اختتام سال پرصدر خزانہ یعنی مدینہ منورہ کے بیت المال میں منتقل کر دی جاتی تھی.صدر بیت المال کی وسعت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ دارالخلافہ کے باشندوں کی جو تنخواہیں اور وظائف مقرر تھے، صرف اس کی تعداد تین کروڑ درہم تھی.بیت المال کے حساب کتاب کے لیے مختلف رجسٹر بنوائے، اس وقت تک کسی مستقل سن کا عرب میں رواج نہ تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے 12 ہجری میں سن ہجری ایجاد کر کے یہ کمی بھی پوری کر دی.“ (سیر اصحابہ جلد 1 - صفحه 140) (ب) ہمدردی خلق:

Page 101

بات طبقات ابن سعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (گشت کے دوران) بچے کے رونے کی آواز سنی تو اس طرف روانہ ہوئے اس کی ماں کہا کہ اللہ سے ڈرو اور بچے کے ساتھ بھلائی کرو یہ کہہ کر اپنے مقام پر لوٹ آئے دوبارہ اس کے رونے کی آواز سنی تو اس کی ماں کے پاس گئے اور اسی طرح کہا اور اپنے مقام پر آ گئے جب آخر شب ہوئی تو پھر اس کے رونے کی آواز سنی اس کی ماں کے پاس آئے اور کہا تیرا بھلا ہو میں تجھے بہت بری ماں سمجھتا ہوں کیا ہے کہ میں تیرے لڑکے کو دیکھتا ہوں کہ اسے قرار نہیں.اس نے کہ اے بندہ خدا! ( وہ عورت آپ کو پہچانتی نہ تھی) تم مجھے رات سے پریشان کر رہے ہو، میں اس کا دودھ چھڑوانا چاہتی ہوں تو یہ انکار کرتا ہے.فرمایا: کیوں دودھ چھڑوانا چاہتی ہو اس نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ صرف دودھ چھوڑنے والے کا بچوں کا حصہ مقرر کرتے ہیں.پوچھا اس کی عمر کیا ہے؟ اس نے کہا: اتنے مہینے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا تیرا بھلا کرے اس کے ساتھ جلدی نہ کر! پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فجر کی نماز اس حالت میں پڑھی کہ شدت گریہ سے لوگ آپ رضی اللہ عنہ کی قرآت کو نہ سمجھ سکتے تھے.جب سلام پھیرا تو کہا کہ: عمر کی خرابی ہو اس نے مسلمانوں کے کتنے بچے قتل کر دیئے.پھر آپ رضی اللہ عنہ نے منادی کو حکم دیا، اس نے ندا دی کہ دیکھو خبردار! اپنے بچوں کے ساتھ دودھ چھڑوانے میں جلدی نہ کرو ہم اسلام میں پیدا ہونے والے ہر بچے کی عطا مقرر کرتے ہیں.66 (طبقات ابن سعد جلد 3 صفحه 104 و 105) (ج) عدل و انصاف کا قیام: سیر الصحابہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف کے بارے میں لکھا ہے کہ: عیاض بن غنم عامل مصر کی نسبت شکایت پہنچی کہ وہ باریک کپڑے پہنتے ہیں اور ان کے دروازہ پر دربان مقرر ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو تحقیقات پر مامور کیا، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے مصر پہنچ کر دیکھا تو واقعی دروازہ پر دربان تھا اور عیاض باریک کپڑے پہنے ہوئے کھڑے تھے.اسی ہیئت اور لباس کے ساتھ لے کر مدینہ آئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا باریک کپڑا اُتروا دیا اور بالوں کا کرتہ پہنا کر جنگل میں بکریاں چرانے کا حکم دیا.عیاض کو انکار کی مجال نہ تھی مگر بار بار کہتے تھے: اس سے مر جانا بہتر ہے! حضرت عمرؓ نے فرمایا: کہ یہ تو تمہارا آبائی پیشہ ہے اس میں عار کیوں ہے؟ عیاض نے دل سے توبہ کی اور جب تک زندہ رہے اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے.“ (3 (سمیر اصحابہ جلد 1 صفحہ 136) بطور خلیفہ راشد ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے کار ہائے نمایاں: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کارناموں میں مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع ہمدردی خلق، عدل و انصاف نمایاں ہیں.(۱) مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع : سیر الصحابہ میں لکھا ہے: 101

Page 102

ہیں: د مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع میں حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا ہاتھ سب سے زیادہ نمایاں ہے.عہد نبوی میں جب مسلمانوں کی کثرت کے باعث مسجد کی وسعت ناکافی ثابت ہوئی تھی تو اس کی توسیع کے لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قریب کا قطعہ زمین خرید کر بارگاہِ نبوت میں پیش کیا تھا، پھر اپنے عہد میں بڑے اہتمام سے اس کی توسیع اور شاندار عمارت تعمیر کروائی.سب سے اول 24ھ میں اس کا ارادہ کیا لیکن مسجد کے گرد و پیش جن لوگوں کے مکانات تھے وہ کافی معاوضہ دینے پر بھی مسجد نبوی کی قربت کے شرف دست کش ہونے کے لیے راضی نہ ہوتے.حضرت عثمانؓ نے ان لوگوں کو راضی کر نے کے لئے مختلف تدبیریں کیں لیکن وہ کسی طرح راضی نہ ہوئے یہاں تک کہ پانچ سال اس میں گزر گئے بالآخر 29ھ میں حضرت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے روز ایک نہایت ہی مؤثر تقریر کی اور نمازیوں کی کثرت اور مسجد کی تنگی کی طرف توجہ دلائی.اس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے سے اپنے مکانات دے دیئے اور آپ رضی اللہ عنہ نے نہایت اہتمام کے ساتھ تعمیر کا کام شروع کیا.نگرانی کے لیے تمام عمال طلب کئے اور خود شب و روز مصروف کار رہتے تھے.غرض دس مہینوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد اینٹ، چونے اور پتھر کی ایک نہایت خوش نما اور مستحکم عمارت تیار ہو گئی، وسعت میں بھی کافی اضافہ ہو گیا یعنی طول میں پچاس گز کا اضافہ ہوا ، البتہ عرض میں کوئی تغیر نہیں کیا گیا.خوشی (ب) ہمدردی خلق: سیر صحابہ جلد 1 - صفحه 228 تا 229) ترمذی کتاب الناقب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مناقب کی ذیل میں لکھا عُثْمَانُ فَقَالَ اَنْشُدُ كُم بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِرِ رُوْمَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَّشْتَرِى بِشُرَرُوْمَةً فَيَجْعَلُ دَلْوَهُ مَعَ دِلَاءِ الْمُسْلِمِينَ بِغَيْرٍ لَّهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ فَشَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي متوجہ ہوئے ان کی طرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور فرمایا آپ رضی اللہ عنہ نے: میں تم کو واسطہ دیتا ہوں اللہ کا اور اسلام کا تم جانتے ہو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو یہاں میٹھا پانی پینے کو نہیں تھا سوا بئر رومہ کے اور فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس بئر رومہ کو خریدے اور سب مسلمانوں کے برابر اپنا بھی ڈول سمجھے یعنی کچھ زیادہ تصرف اپنا نہ چاہے، چن لیا جائے گا بدلہ اس کا جنت سے.سو خریدا میں نے اس کو اپنے اصل مال سے.“ 66 (ج) عدل و انصاف کا قیام: ( ترمذی ابواب المناقب.باب مناقب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف کے بارے میں بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے چنانچہ طبری جلد 5 صفحہ 44 میں تما ذبان ابن ہرمزان اپنے والد کے قتل کا واقعہ بیان کرتا ہے.ہرمزان ایک ایرانی رئیس اور مجوسی المذہب تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی کے قتل کی سازش میں شریک ہونے کا شبہ 102

Page 103

کیا گیا تھا، اس پر بلا تحقیق جوش میں آکر عبید اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کو قتل کر دیا وہ کہتا ہے: كَانَتِ الْعَجْمُ بِالْمَدِينَةِ يَسْتَرُوْحُ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ فَمَرَّ فِيُرُوزُ بِأَبِي وَمَعَهُ، خَنْجَرْلَهُ رَأْسَانِ فَتَنَاوَلَهُ مِنْهُ ۖ وَقَالَ مَا تَصْنَعُ بِهَذَا فِى هَذِهِ الْبَلَادِ؟ فَقَالَ أَبُسُّ بِهِ فَرَاهُ رَجُلٌ فَلَمَّا أَصِيبَ عُمَرُ قَالَ رَأَيْتُ هَذَا مَعَ الْهُرْمَزَانِ دَفَعَهُ إِلى فِيُرُوزَ فَأَقْبَلَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَقَتَلَهُ فَلَمَّا وُلِيَ عُثْمَانُ دَعَانِي فَا مُكَتَنِي مِنْهُ ثُمَّ قَالَ يَا بُنَيَّ هَذَا قَاتِلُ أَبِيكَ وَأَنْتَ اَوْلَی بِهِ مِنَّا فَاذْهَبُ فَاقْتُلُهُ فَخَرَجْتُ بِهِ وَمَا فِي الْاَرْضِ اَحَدٌ إِلَّا مَعِى إِلَّا إِنَّهُمْ يَطْلُبُونَ إِلَيَّ فِيْهِ فَقُلْتُ لَهُمْ إِلِى قَتْلُهُ قَالُوا نَعَمْ وَسَبُوا عُبَيْدَ اللهِ فَقُلْتُ اَفَلَكُمْ أَنْ تَمْنَعُوَاهُ قَالُوا لَا وَ سَبُّوْهُ فَتَرَكْتُهُ لِلَّهِ وَلَهُمْ ۖ فَلْتَمَلُوْنِي فَوَاللَّهِ مَا بَلَغْتُ الْمَنْزِلَ إِلَّا عَلَى رُءُ وُسِ الرِّجَالِ وَأَكُفِّهِـ ہے لیتا ہوں.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایرانی لوگ مدینہ میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے جلے رہتے تھے (جیسا کہ قاعدہ ہے کہ دوسرے ملک میں جا کر وطنیت نمایاں ہو جاتی ہے ) ایک دن فیروز (قاتل عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی) میرے باپ سے ملا اور اس کے پاس ایک خنجر تھا جو دونوں طرف سے تیز کیا ہو اتھا.میرے باپ نے اس خنجر کو پکڑ لیا اور اس سے دریافت کیا کہ اس ملک میں تو اس خنجر سے کیا کام لیتا ہے (یعنی یہ ملک تو امن کا ملک اس میں ایسے ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے) اُس نے کہا کہ: میں اس سے اُونٹ ہنکانے کا کام جب وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے اس وقت ان کو کسی نے دیکھ لیا اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ مارے گئے تو اس نے بیان کیا کہ میں نے خود ہر مزان کو یہ خنجر فیروز کو پکڑاتے ہوئے دیکھا تھا.اس پر عبیداللہ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بیٹے) نے جا کر میرے باپ کو قتل کر دیا.جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا اور عبید اللہ کو پکڑ کر میرے حوالے کر دیا اور کہا کہ: اے میرے بیٹے! یہ تیرے باپ کا قاتل ہے اور تو ہماری نسبت زیادہ حق رکھتا ہے.پس جا اور اس کو قتل کردے.میں نے اس کو پکڑ لیا اور شہر سے باہر نکلا.راستہ میں جو شخص مجھے ملتا میرے ساتھ ہو جاتا لیکن کو ئی شخص مقابلہ نہ کرتا.وہ مجھ سے صرف اتنی درخواست کرتے تھے کہ میں اسے چھوڑ دوں.پس میں نے سب مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کیا میرا حق ہے کہ میں اس کو قتل کر دوں؟ سب نے کہا کہ ہاں تمہارا حق ہے کہ اسے قتل کر دو اور عبیدا اللہ کو برا بھلا کہنے لگے کہ اس نے ایسا برا کام کیا ہے.پھر میں نے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں کو حق ہے کہ اسے مجھ سے چھڑا لو؟ انہوں نے کہا کہ : ہرگز نہیں اور پھر عبید اللہ کو برا بھلا کہا کہ اس نے بلا ثبوت اس کے باپ کو قتل کر دیا.اس پر میں نے خدا اور ان لوگوں کی خاطر اس کو چھوڑ دیا اور مسلمانوں نے فرطِ مسرت سے مجھے اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا اور خدا تعالیٰ کی قسم میں اپنے گھر تک لوگوں کے سروں اور کندھوں پر پہنچا اور انہوں نے مجھے زمین پر قدم تک نہیں رکھنے دیا.“ ( تفسیر کبیر جلد نمبر 2 صفحہ 359 تا360) (3) بطور خلیفہ راشد رابع حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کار ہائے نمایاں: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کار ہائے نمایاں بے شمار ہیں جن میں سے چند ایک نمونہ پیش خدمت ہیں: (۱) فوجی انتظامات: حضرت علی رضی اللہ عنہ خود ایک بڑے تجربہ کار جنگ آزما تھے اور جنگی امور میں آپ رضی اللہ عنہ کو پوری 103

Page 104

بصیرت حاصل تھی اس لیے اس سلسلہ میں آپ رضی اللہ عنہ نے بہت سے انتظامات کئے.چنانچہ شام کی سرحد پر نہایت کثرت کے ساتھ فوجی چوکیاں قائم کیں.40ھ میں جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عراق پر عام یورش کی تو پہلے انہی سرحدی فوجوں نے ان کو آگے بڑھنے سے روکا.اسی طرح ایران میں مسلسل شورش اور بغاوت کے باعث بیت المال، عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے نہایت مستحکم قلعے بنوائے.اس طرح کا قلعہ حصن زیاد اسی سلسلہ میں بنا تھا.جنگی تعمیرات کے سلسلہ میں دریائے فرات کا پل بھی جو معرکہ صفین میں فوجی ضروریات کے خیال سے تعمیر کیا تھا لائق ذکر ہے.“ (ب) ہمدردی خلق اور رعایا کے ساتھ شفقت: سیر صحابہ - جلد 1 صفحہ 306) " حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وجود رعایا کے لیے سایہ رحمت تھا، بیت المال کے دروازے غربا اور مساکین کے لیے کھلے ہوئے تھے اور اس میں جو رقم جمع ہوتی تھی نہایت فیاضی کے ساتھ مستحقین میں تقسیم کر دی جاتی ذمیوں کے ساتھ بھی نہایت شفقت آمیز برتاؤ تھا، ایران میں مخفی سازشوں کے باعث بار ہا بغاوتیں ہوئیں لیکن حضرت علیؓ نے ہمیشہ نہایت رحم سے کام لیا یہاں تک کہ ایرانی اس لطف و شفقت سے متاثر ہو کر کہتے تھے: خدا کی قسم! اس عربی نے نوشیرواں کی یاد تازہ کر دی.“ (ج) عدل انصاف کا قیام: لپٹا ہوا ہے.66 (سیر صحابہ - جلد 1 صفحہ 306) حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمدان سے باہر مقیم تھے کہ اسی اثنا میں آپ نے دو گروہوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا اور آپ رضی اللہ عنہ نے ان میں صلح کرا دی لیکن ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو کسی کی آواز آئی کہ کوئی خدا کے لیے مدد کو آئے.پس آپ رضی اللہ عنہ تیزی سے اس آواز کی طرف دوڑے حتی کہ آپ رضی اللہ عنہ کے جوتوں کی آواز بھی آرہی تھی اور آپ رضی اللہ عنہ کہتے چلے جاتے تھے کہ ”مدد مدد آ گئی.جب آپ اس جگہ کے قریب پہنچے تو آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک آدمی دوسرے سے جب اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو عرض کیا کہ: اے امیر المؤمنین: میں نے اس شخص کے پاس ایک کپڑا نو درہم کا بیچا تھا اور شرط یہ تھی کہ کوئی روپیہ مشکوک یا کٹا ہوا نہ ہو اور اس نے اس کو منظور کر لیا تھا لیکن آج جو میں اس کو بعض ناقص روپے دینے کے لیے آیا تو اس نے بدلانے سے انکار کر دیا، جب میں پڑا تو اس نے مجھے تھپڑ مارا آپ رضی اللہ عنہ نے مشتری سے کہا کہ اس کو روپے بدل دے.پھر دوسرے شخص سے کہا کہ تھپڑ مارنے کا ثبوت پیش کر.جب اس نے ثبوت دے دیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مارنے والے کو بٹھا دیا اور اس سے کہا کہ اس سے بدلہ لے.اُس نے کہا اے امیر المؤمنین! میں نے اس کو معاف کر دیا.حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مگر میں چاہتا ہوں کہ تیرے حق میں احتیاط سے کا م لوں.معلوم ہوتا ہے وہ شخص سادہ تھا اور اپنے نفع نقصان کو نہیں سمجھ سکتا تھا اور پھر اس شخص کو سات کوڑے مارے اور فرمایا: اس شخص نے تو تجھے معاف کر دیا تھا لیکن یہ سزا حکومت کی طرف سے ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 262 تا 263) 104

Page 105

خلافت راشدہ ثانیہ حقہ اسلامیہ اور استحکام خلافت: اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے اس دور میں بھی قیام و استحکام خلافت کے وعدے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں موجود ہیں.چنانچہ اس زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدرت ثانیہ یعنی خلافت راشدہ کے قیام و استحکام کی خوشخبری سنائی.تحریک جدید کے ثمرات: دعاؤں، انابت الی اللہ، تزکیۂ نفس، اسلامی تمدن و طریق کے مطابق زندگی بسر کرنے یعنی تحریک جدید کی الہامی و انقلابی سکیم پر عمل کرنے سے جو ثمرات حاصل ہوئے اور مخالفت کے طوفانوں کا رُخ کس طرح تبدیل ہوا؟ اس کا بیان حضرت فضل عمر سے بہتر کون کر سکتا ہے؟ چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: احرار میرے مقابل پر اٹھے، احرار کو بعض ریاستوں کی بھی تائید حاصل تھی کیونکہ کشمیر کمیٹی کی صدارت جو میرے سپرد کی گئی تھی اس کی وجہ سے کئی ریاستوں کو یہ خیال پید اہو گیا تھا کہ اس زور کو توڑنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی اور ریاست کے خلاف کھڑے ہو جائیں.....احرار نے 1934 ء میں شورش شروع کی اور اس قدر مخالفت کی کہ تمام ہندوستان کو ہماری جماعت کے خلاف بھڑکا دیا.اس وقت مسجد میں منبر پر کھڑے ہو کر میں نے ایک خطبہ میں اعلان کیا کہ تم احرار کے فتنہ سے مت گھبراؤ! خدا مجھے اور میری جماعت کو فتح دے گا کیونکہ خدا نے مجھے جس راستہ پر کھڑا کیا ہے وہ فتح کا راستہ ہے، جو تعلیم مجھے دی ہے وہ کامیابی تک پہنچانے والی ہے اور جن ذرائع کو اختیار کرنے کی اس نے مجھے توفیق دی ہے وہ کامیاب و بامراد کرنے والے ہیں.اس کے مقابلہ میں زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں نکل رہی ہے اور میں ان کی شکست کو ان کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں.وہ جتنے زیادہ منصوبے کرتے اور اپنی کامیابی کے نعرے لگاتے ہیں اتنی ہی نمایاں مجھے ان کی موت دکھائی دیتی ہے.“ تحریک جدید کے مزید ثمرات: (الفضل 30 مئی 1935ء و سوانح فضل عمر“ جلد سوم.صفحہ 295) اللہ کے فضل و کرم سے تحریک جدید کے ثمرات جاری وساری ہیں اور جماعت احمدیہ نے خلافت کے سایہ میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ہے.چنانچہ 30 جولائی 2005 ء کے جلسہ برطانیہ میں حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان ترقیات کے اعداد و شمار بیان فرمائے جو مختصراً تحریر ہیں: جماعت کا امسال تک نئے ممالک میں نفوذ = 181 ممالک کل بیوت الذکر کی تعداد = 13 ہزار 776 مساجد (صرف ایک سال میں 319 نئی مساجد ملی ہیں.1984ء سے تا حال).تراجم قرآن کریم کل 60 زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں.امسال 2005 ء میں 2 لاکھ سے زائد افراد جماعت میں داخل ہوئے ہیں.(الفضل 5 اگست 2005ء) 105

Page 106

تحریک وقف جدید کے ثمرات: اس امر کا اندازہ کہ وقف جدید کس حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہے اور دیہاتی جماعتوں پر اس کے کیا خوش کن اثرات ظاہر ہو رہے ہیں مندرجہ ذیل امور سے لگایا جا سکتا ہے: چندوں میں غیر معمولی اضافہ: معلمین کے ذریعہ دو طرح پر جماعتی چندوں میں اضافہ ہوتا ہے.اوّل ان کی تربیت کے نتیجہ میں جماعت میں قر بانی کی روح ترقی کرتی ہے اور جماعتی چندوں پر بھی اس کا نہایت خوشگوار اثر پڑتا ہے.مثلاً ایک جماعت کے پریذیڈنٹ صاحب تحریر کرتے ہیں.جماعت کے چندہ میں معلم کے آنے سے قبل بقایا در بقایا تھا.ان کے آنے سے اب %75 چندہ ادا ہو چکا تھا.ان ہے جبکہ ابھی سال کے چار پانچ ماہ باقی ہیں.“ ایک اور جماعت کے صدر اپنی جماعت میں معلم کی تقرری سے قبل اور بعد کا موازنہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.چندہ عام دوصد روپے صرف تھا.اب 66-1965ء کا بجٹ جس میں حصہ آمد بھی شامل ہے دو ہزار روپے ہے.:.دوم :.چونکہ معلمین کو تاکید کی جاتی ہے کہ نو مبائعین کو فوری طور پر جماعتی چندوں میں شامل کریں ورنہ ان کے ذریعے ہونے والی بیعتیں حقیقی بیعتیں شمار نہیں ہوں گی اس لیے جوں جوں مبائعین کی تعداد بڑھتی جاتی ہے چندوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے.اس ضمن میں ایک سیکرٹری مال نے جو عداد و شمار بھجوئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت کا چندہ عام کا کل سالانہ بجٹ 4907 روپے 40 پیسے ہے.جس میں 1215 روپے بجٹ ان نو مبائعین کا ہے جو وقف جدید کے ذریعہ سلسلہ میں داخل ہوئے.یہی نہیں بلکہ وہ لکھتے ہیں کہ اس بجٹ میں 725 روپے 50 پیسے کی وہ رقم بھی شامل ہونی چاہئے جو بعض نو مبائعین کی نقل مکانی کی وجہ سے دوسری جماعتوں میں منتقل کی گئی.گویا چار ہزار نو سو سات روپے میں سے ایک ہزار نو سو چالیس روپے صرف نو مبائعین کا بجٹ ہے.الحمد للہ علی ذلک.“ ب) نماز باجماعت کا قیام: اس اہم دینی فریضہ کی سر انجام دہی میں معلمین کو خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ حیرت انگیز کامیابی ہو رہی ہے.مختلف صدر صاحبان اور امرا کی طرف سے اس بارہ میں بیسیوں خوشنودی کا اظہار موصول ہو تے ہے.مثال کے طور پر ایک بڑی جماعت کے صدر صاحب لکھتے ہیں: ”نماز باجماعت کے قیام میں معلم نے مختلف کوششوں کے طریق جاری رکھے.مثلاً صبح نماز کے وقت گاؤں میں بلند آواز سے درود شریف پڑھنا.معلم صاحب کے آنے سے پہلے تقریباً ساری جماعت ہی بے جماعت سمجھ لیں کیونکہ خاکسار اگر گھر پر ہوتا تو نماز ہو جاتی اگر خاکسار گھر پر نہ ہوتا تو نماز باجماعت نہ ہوتی لیکن محترم معلم صاحب کے آنے سے یہ بیماری دور ہو گئی اور باقاعدہ نماز باجماعت ہونے لگی اور پھر نماز باجماعت ہی نہیں بلکہ نماز تہجد با جماعت کا سلسلہ بھی جاری رہنے لگا اور اس دوران میں ایک ماہ سے اوپر مستقل نماز تہجد جاری 106

Page 107

،، ہے." (سوانح فضل عمر رضی اللہ عنہ جلد 3 صفحہ 354-355) ایک اور جماعت کے پریذیڈنٹ صاحب مندرجہ ذیل الفاظ میں جماعت کی پہلی حالت اور بعد میں پیدا ہونے والی خوشگوار تبدیلی کا ذکر فرماتے ہیں:.” جب معلم پہلے دن یہاں ہمارے گاؤں میں تشریف لائے تو ان کو اکیلے ہی نماز ادا کرنی پڑتی.احمدی احباب کے گھروں میں جا نا اور نماز کی طرف توجہ دلانا اور نماز بے جماعت اور نماز با جماعت کے متعلق تقریر کرنا اور ان کے مردہ شعور کو زندہ کرنے کے لئے کئی کئی گھنٹے وقت صرف کرنا پڑا جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج تمام مرد پانچ وقت نمازوں میں برابر شریک ہوتے اور نماز باجماعت ادا کرتے ہیں اور ہماری عورتیں بھی روں پر باقاعدہ نماز ادا کرتی ہیں.نماز تہجد کا شعور پیدا ہو چکا ہے.“ ج) دینی تعلیم : محض نماز باجماعت کے قیام تک ہی معلمین کی سرگرمیاں محدود نہیں بلکہ نماز ناظرہ یاد کروانا، نماز کا ترجمہ سکھانا، قرآن کریم کی سورتیں حفظ کروانا اور دیگر دینی مسائل کی تعلیم دیکر ان کے ایمان اور عمل کو زیور علم سے آراسیہ کرنا بھی معلم کے فرائض معلمین کی انہی نیک کوششوں سے متاثر ہو کر مختلف صدر صاحبان ہمیں اپنی خوشنودی سے مطلع فرماتے رہتے ہیں.مثلاً ایک جماعت کے صدر لکھتے ہیں: میں داخل ہے.معلم نے ساری جماعت کی نماز درست کر وائی ہے اور خاص کر بچوں کی نماز کی درستگی کی ہے.جماعت کے تمام افراد کو نماز با ترجمہ یاد کروائی ہے اور نماز سے متعلق تمام مسائل بھی یاد کروائے ہیں اور قرآنی دعائیں بھی یاد کروائی ہیں.ترجمہ قرآن کریم سکھایا جا رہا ہے اور دوسرے پارہ تک قرآن مجید کا ترجمہ مردوں عورتوں اور بچوں نے پڑھ لیا ہے.“ ایک اور جماعت کے صدر صاحب اعداد و شمار میں معلم کے کام کی رپورٹ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: د معلم کی کوشش سے بارہ چودہ عورتیں اور بائیس بچے نماز سیکھ چکے ہیں اور دس مرد، آٹھ عورتیں اور نو بچے نماز با ترجمہ سیکھ چکے ہیں.“ اس وقت دوسو سے زائد واقفین معلمین میدان عمل میں خدمات بجا لا رہے ہیں.“ (سوانح فضل عمر رضی اللہ عنہ جلد 3 - صفحہ 354-355) اللہ کے فضل و کرم سے خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں 2005ء میں وقف جدید کی کل مالی وصولی 21 لاکھ بیالیس ہزار پاؤنڈ تک پہنچ گئی ہے جو گزشتہ سال کی نسبت 2 لاکھ پاؤنڈ زیادہ ہے اور وقف جدید کے شاملین کی تعداد چار لاکھ چھیاسٹھ ہزار ہے ان میں بھی امسال 51 ہزار افراد کا اضافہ ہوا ہے.الحمد للہ علی ذلک.(خطبه جمعه فرموده 6 جنوری 2006 ء از حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ الفضل انٹرنیشنل مورخہ 27 جنوری تا 2 فروری 2006 ء) مجلس نصرت جہاں کے تحت سکول: 1985-86 میں غانا، نائیجیریا، سیرالیون گیمبیا.لائبیریا اور یوگنڈا میں 31 ہائر سیکنڈری سکول تھے.سیکنڈری کے علاوہ پرائمری اور نرسری سکولوں کی مجموعی تعداد 174 تھی.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور مبارک میں کانگو اور آئیوری کوسٹ میں بھی سکولز کا قیام عمل میں آیا.107

Page 108

2003ء میں مجموعی طور پر افریقہ کے 8 ممالک میں 40 ہائر سیکنڈری سکولز ، 37 جونئر سیکنڈری سکولز ،238 پرائمری سکولز، 58 نرسری سکولز کام کر رہے ہیں اور کل تعداد 373 ہے.گویا کہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے دور ہجرت میں 199 سکولز کا اضافہ ہوا.مجلس نصرت جہاں کے تحت ہسپتال: 1985-86ء میں سات ممالک غانا، نائیجیریا، سیرالیون، گیمبیا، لائبیریا، آئیوری کوسٹ اور یوگنڈا میں چوٹیں ہسپتال کام کر رہے تھے.ان ممالک میں مزید وسعت کے علاوہ درج ذیل ممالک میں بھی ہسپتالوں کا اضافہ ہوا: بورکینافاسو، ببینن، کانگو اور تنزانیہ.یوں اس وقت افریقہ کے بارہ ممالک میں احمدیہ کلینکس اور ہسپتال کی تعداد بہتیں ہو چکی ہے.اس کے علاوہ جماعت احمدیہ کے انتظامات کے تحت دنیا بھر میں سینکڑوں کلینکس اور ہومیو پیتھک ڈسپنسریاں بھی کام کر رہی ہیں.اللہ کے فضل سے خلافت خامسہ میں مجلس نصرت جہاں کے تحت افریقہ کے بارہ ممالک میں سینتیں ہسپتال اور کلینکس کام کر رہے ہیں.اور چار سو پینسٹھ ہائر سیکنڈری سکولز اور جونئر سکولز قائم ہو چکے ہیں.( الفضل 5 اگست 2005ء وسیدنا طاہر سوونیئر مطبوعہ جماعت برطانیہ - صفحہ 22) خلافت کے خلاف اٹھنے والے فتنے اور ان کا انجام: استحکام خلافت کا ایک پہلو تو جماعتی ترقیات ہیں جن کا مختصر جائزہ ہم نے دیکھا.جس طرح اللہ تعالیٰ خلافت کی برکت سے جماعت کو ترقیات سے نوازتا ہے اسی طرح وہ جماعت کے مخالفین کو ان کے مذموم مقاصد میں ناکام و نامراد اد کرتا ہے.چنانچہ آئیے اب حالات و واقعات کی روشنی میں خلافت حقہ ثانیہ اسلامیہ کے مخالفین اور ان کے انجام کا جائزہ لیتے ہیں: خلافت اولی میں اُٹھنے والے فتنے اور ان کا انجام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب حضرت خلیفة امسیح الاول رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا گیا تو کچھ لوگوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی بیعت تو کر لی لیکن جب بھی موقع ملا یہ گروہ فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا.یہ گروہ لاہوریوں یعنی غیر مبائعین کا گروہ کہلایا.یہ لوگ بیعت کے بعد بھی لوگوں میں یہ پراپیگنڈا کرتے رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشین اور خلیفہ صدر انجمن ہی ہے.انجمن میں چونکہ ان لوگوں کے خیالات رکھنے والوں کی تعداد کافی تھی اس لیے یہ چاہتے تھے کہ تمام اختیارات انجمن کو ہی حاصل ہو جائیں.جب یہ خیالات حضرت خلیفۃ اصیح الاول رضی اللہ عنہ تک پہنچے تو حضور نے مختلف جماعتوں کے نمائندگان کو قادیان میں بلا بھیجا اور انہیں خلافت کے مقام اور منصب کے بارے میں اچھی طرح سمجھایا اور جو غلط فہمی مؤمنین کے دلوں میں پید ا کرنے کی کوشش کی گئی تھی اُسے دور کر دیا، نیچے اکثر احباب کے سینے صاف ہو گئے اور حضرت خلیفة امسیح الاول رضی اللہ عنہ نے مذموم بعض لوگوں سے دوبارہ بیعت لی.دوبارہ بیعت کے بعد کچھ عرصہ تک تو یہ فتنہ دبا رہا لیکن جب حضور رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو ایک دفعہ پھر اختلافی مسائل پر گفتگو چل نکلی.اسی دوران کچھ فتنہ پردازوں نے لاہور سے اشتہار نکالے جن کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ خلیفہ المسیح الاول کی وفات کے بعد کسی خلیفہ کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انجمن ہی کافی ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کے وصال پر ملال پر مولوی محمد علی صاحب نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جلدی نہیں کرنی چاہئیے فی الحال 108

Page 109

چند ماہ کے لئے خلافت کا انتخاب ملتوی کر دیا جائے اور جو اختلاف راہ پا چکا ہے اس پر اچھی طرح بحث ہو جس کے بعد اس کا حل نکال کر متفق ہو کر کام کرنا چاہئے.اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس معاملے پر تو جماعت خلافت اولی کے انتخاب کے وقت سے ہی فیصلہ کر چکی ہے کہ جماعت میں خلفا کا سلسلہ چلے گا.اب صرف یہ معاملہ مشورہ طلب ہے کہ خلیفہ کون ہو؟ اور جو بھی خلیفہ ہو ہم بیعت کرنے کو تیار ہیں.چنانچہ انتخاب کے وقت اکثریت نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا اور بیعت کر لی لیکن مولوی محمد علی صاحب اور ان کے کچھ رُفقا نے بیعت نہ کی اور اس انتخاب کو ایک سازش قرار دے دیا.خلافت اولی میں فتنہ بازوں کے انجام کے بارہ میں حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 21 مئی 2004ء میں فرمایا :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں خوشخبریاں بھی دے دی تھیں کہ آپ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے انشاء اللہ خلافت دائی رہے گی اور دشمن دو خوشیاں کبھی نہیں دیکھ سکے گا کہ ایک تو وفات کی خبر اس کو اور اس پر خوش ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر ایسے بھی تھے جنہوں نے خوشیاں منائیں اور پھر یہ کہ وہ جماعت کے ٹوٹنے کی خوشی وہ دیکھ سکیں گے، یہ کبھی نہیں ہوگا.دشمن نے بڑا شور مچایا، بڑا خوش تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ تھا کہ : مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِم اَمَنَّا کا ہمیں نظارہ بھی دکھایا اور بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت خلیفۃ امسیح الاول اب کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہیں، طبیعت کمزور ہو چکی ہے اور شاید اس طرح خلافت کا کنٹرول نہ رہ سکے اور شاید وہ خلافت کا بوجھ نہ اٹھا سکیں اور انجمن کے بعض عمائدین کا خیال تھا کہ اب ہم اپنی من مانی کرسکیں گے کیونکہ عمر کی وجہ سے بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو اگر ہم خلیفہ اسیح الاول کی خدمت میں نہ بھی پیش کریں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ان کو پتہ نہیں چلے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے دشمن کی یہ تمام اندرونی اور بیرونی جو بھی تدبیریں تھیں ان کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور اندرونی فتنے کو بھی دبا دیا اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ہر موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الاول نے اس فتنہ کو دبایا اور کتنے زور اور شدت سے اس کو دبایا اور کس طرح دشمن کا منہ بند کیا.“ (خطبه جمعه فرموده 21 مئی 2004ء از خطبات مسرور جلد 2 صفحه 341) حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خلیفۃ اسبح الاول رضی اللہ عنہ کے ایک ارشاد کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چونکہ خلافت کا انتخاب عقل انسانی کا کام نہیں، عقل نہیں تجویز کر سکتی کہ کس کے قومی قوی ہیں کس میں قوت انسانیہ کا مل طور پر رکھی گئی ہے اس لیے جناب الہی نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ خلیفہ بنانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے.(حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ 255) حضرت خلیفۃ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: " مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے.پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا کو مجھ سے چھین لئے‘ (بدر قادیان 4 جولائی 1912ء) پھر حضرت خلیفۃ اصیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ” کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھا دینا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے! یہ کام تو ایک ملاں بھی کر سکتا 109

Page 110

66 ہے اس کے لیے کسی خلیفے کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں! بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے.“ (الفضل 11 اپریل 1914ء) پھر دنیا نے دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے ان پر زور خطابات سے اور جو آپ رضی اللہ عنہ نے اس وقت براہ راست انجمن پر بھی ایکشن لیے، جتنے وہ لوگ باتیں کرنے والے تھے وہ سب بھیگی بلی بن گئے، جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور وقتی طور پر ان میں کبھی کبھی ابال آتا رہتا تھا اور مختلف صورتوں میں کہیں نہ کہیں جار کر فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے لیکن انجام کا رسوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ملا.پھر حضرت خلیفۃ اسیح الاول کی وفات ہوئی.“ میں فرمایا:.66 (خطبه جمعه فرموده 21 مئی 2004 ء از خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 341) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خلافت ثانیہ کے انتخاب خلافت اور منکرین کے رد عمل کے بارہ اس کے بعد پھر انہیں لوگوں نے سر اٹھا یا اور ایک فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی، جماعت میں پھوٹ ڈالنے کی وشش کی اور بہت سارے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی طرف مائل بھی کر لیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر خلافت کا انتخاب ہوا تو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو ہی جماعت خلیفہ منتخب کرے گی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ کو ختم کرنے کے لیے ان شور مچانے والوں کو ، انجمن کے عمائدین کو یہ بھی کہ دیا کہ مجھے کوئی شوق نہیں خلیفہ بننے کا تم جس کے ہاتھ پر کہتے ہو میں بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں، جماعت جس کو چنے گی میں اسی کو خلیفہ مان لوں گا لیکن جیسا کہ میں نے کہا ان لوگوں کو پتہ تھا کہ اگر انتخاب خلافت ہواتو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی خلیفہ منتخب ہوں گے اس لیے وہ اس طرف نہیں آتے تھے اور یہی کہتے رہے کہ فی الحال خلیفہ کا انتخاب نہ کروایا جائے، ایک، دو چار دن کی بات نہیں، چند مہینوں کے لیے اس کو آگے ٹال دیا جائے، آگے کر دیا جائے اور یہ بات کسی طرح بھی جماعت کو قابل قبول نہ تھی، جماعت تو ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونا چاہتی تھی.آخر جماعت نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو خلیفہ منتخب کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس وقت بھی مخالفین کا یہ خیال تھا کہ جماعت کے کیونکہ پڑھے لکھے لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور خزانہ ہمارے پاس ہے اس لئے چند دنوں بعد ہی یہ ہو جائے گالیکن اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی رحمت کا ہاتھ رکھا اور خوف کی حالت کو پھر امن میں بدل دیا اور دشمنوں کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا اور ان کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں.“ مله ختم سلسلہ (خطبه جمعه فرموده 21 مئی 2004 ء از خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 341) خلافت ثانیہ کے دور میں خلافت کے خلاف اٹھنے والے تین فتنے : (1 پہلا فتنہ 1928 ء میں مستریوں نے کھڑا کیا.مستریوں کی مالی بد معاملگی کی وجہ سے دفتر امور عامہ نے ان کے خلاف ایکشن لیا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ذات پر براہ راست حملے کرنے لگے اور قادیان سے ہی ایک اخبار ” مباہلہ کے نام سے شائع کرنا شروع کر دیا بعد ازاں قادیان چھوڑ کر بٹالہ منتقل ہوگئے اور مسلسل یہ اصرار کرتے رہے کہ خلافت کے بارے میں ان کے ساتھ مباہلہ کیا جائے.110

Page 111

بالآخر ان کا ایمان بھی جاتا رہا اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر احمدیوں سے مباحثہ کیا اور یوں جماعت سے کاٹ کر الگ پھینک دیئے گئے.- از فتنه مستریان مباہلہ از ڈاکٹر بدر الدین صاحب) اس فتنہ کے بانی فضل کریم لوہار جالندھر شہر سے 1915ء میں قادیان آئے.ان کے ساتھ ان کے تین بچے تھے اور بیوی فوت ہو چکی تھی.انہوں نے ایک مکان کرائے پر لیا جس کا کرایہ کبھی ادا نہ کیا.جماعتی انتظام کے تحت ان کی شادی کروائی گئی اور حضرت مصلح موعودؓ کے خاندان کی طرف سے رہائشی مکان کے لیے مفت زمین بھی دی گئی.ان کا لین دین درست نہ تھا.چنانچہ انہوں نے بعض احمدیوں سے قرضے لیے اور انہیں رقوم واپس نہ کیں.اس فتنے میں فضل کریم اور ان کے بیٹے مولوی فاضل عبدالکریم نے نمایاں کردارادا کیا.تحفہ مستریان از میر قاسم علی ص2 تا3) مستری صاحبان شروع میں تو کہتے تھے کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سچا ایمان ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ہر طرح اطاعت کریں گے لیکن جب بعض مالی بد معاملگیوں کی بنا پر ان کے خلاف جماعتی فیصلہ ہوا تو یہ لوگ حضور رضی اللہ عنہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور حضور رضی اللہ عنہ کی خلافت پر مباہلہ کا مطالبہ کرنے لگے.ان کے اس طرح کے بار بار مطالبات پر حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا: "آخر میں میں یہ بھی کہ دینا چاہتا ہوں کہ بعض امور میں مباہلہ جائز بھی ہوتا ہے اگر بعض لوگ بغیر خدا کے غضب کو بھڑکانے کے تسلی نہ پائیں اور میری اس نصیحت بالا کو قبول نہ کریں.تو پھر میں کہتا ہوں کہ یہ مسئلہ اس طرح بھی حل ہو جاتا ہے کہ میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کے ہاتھ میں جزا اور سزا ہے اور ذلت و عزت ہے کہ میں اس کا مقرر کردہ خلیفہ ہوں اور جو لوگ میرے مقابل کھڑے ہیں اور مجھ سے مباہلہ کا مطالبہ کرتے ہیں وہ اس کی مرضی اور اس کے قانون کے خلاف کر رہے ہیں اگر میں اس امر میں دھوکہ سے کام لیتا ہوں تو اے خدا! تو اپنے نشان کے ساتھ صداقت کا اظہار فرما! اب جس شخص کو دعوئی ہو کہ وہ اس رنگ میں میرے مقابل پر آنے میں حق بجانب ہے وہ بھی قسم کھا لے.اللہ تعالیٰ خود فیصلہ کر دے گا.پس یہ میرا خط آپ کی تسلی نہ کرے تو آپ کا اصل فرض یہ ہونا چاہئے کہ دوسرا خلیفہ کھڑا کر دیں جو اپنے تقویٰ اور نیکی سے دنیا کو اپنی طرف کھینچ لے پھر جو میرے مبائع ہیں اُن کو بھی خود بخود ہوش آ جائے گی اور آپ کا کام آسان ہو جائے گالیکن یاد رکھیں کہ خدا کے کام کو کوئی نہیں روک سکتا خدا تعالیٰ میری مدد کرے گا اور میرے ہاتھ پر اسلام کو فتح دے گا درمیانی ابتلا اس کی سنت ہیں اور میں ان سے نہیں گھبراتا ،وہ خود سلسلہ کا رکھوالا ہے اور وہ خود اس کی حفاظت کرے گا.میرا مقابلہ انسان کو دہریت سے ورے نہیں رکھے گا.خدا تعالیٰ کے اس قدر نشانوں کا انکار ایمان کو ضائع کر دینے کے لیے کافی ہے.“ ( تحفه مستریان از میر قاسم علی - صفحه 72) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دعائے مباہلہ کا یہ اثر ہوا کہ مستری صاحبان اپنی موت آپ مر گئے اور غیر احمد یوں سے مل کر احمدیوں کے مقابل پر صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر مباحثے کرنے لگے جس کے وجہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے صاف لفظوں میں فرمایا: ” ایک لعنت تو ظاہر ہو چکی ہے کہ اس فتنہ کی ابتدا میں یہ لوگ دعوئی کرتے تھے کہ ہم مسیح موعود علیہ السلام کو مانتے ہیں لیکن آج یہ حالت ہے کہ سیالکوٹ کے ضلع میں انہوں نے صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر احمدیوں 111

Page 112

سے مباحثہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ناپاک اعتراض کئے.کیا خدا تعالیٰ کے مامور کا انکا رلعنت نہیں؟ مباہلہ کا نشان اُن کے لیے ظاہر ہو گیا کہ ان کے ایمان سلب ہو گئے.صداقت کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس سے ایمان بڑھتا ہے لیکن جھوٹ ایمان کو ضائع کر دیتا ہے میری صداقت پر خود ان کی کارروائیوں سے مہر لگ گئی اور مباہلہ کا نشان پورا ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمانی موت دے دی جسمانی باقی ہے وہ بھی انشاء اللہ آسمانی عذابوں کے ساتھ ہو گی.“ (2 فتنه مستریان مباہلہ - صفحہ 54) دوسرا فتنہ مصریوں کے فتنے کے نام سے مشہور ہے.شیخ عبدالرحمان مصرکی نے ابتدا میں تو حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی لیکن بعد میں اُن کا نکتہ نظر تبدیل ہو گیا اور کہنے لگے کہ نبی کے بعد ایک خلیفہ ہی ہوتا ہے اور پھر مطالبہ کرنے لگے کہ انتخاب خلافت دوبارہ ہونا چاہیئے.یوں وہ آہستہ آہستہ لاہوریوں سے جا ملے لیکن تھوڑے ہی عرصہ کے بعد مصری صاحب کی اُن سے بھی لڑائی ہو گئی.مصری صاحب ابتدا میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے عین مطابق مبعوث ہونے والا نبی مانتے تھے اور اب ان کے بعد جاری خلافت کی بھی بیعت کر چکے تھے حضرت خلیفۃ اصیح الاول کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیعت بھی کی لیکن اپنی طبعی بدبختی کی وجہ سے نہ صرف خلافت کے منکر ہوئے بلکہ حضرت سیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے بھی منکر ہو گئے اور جماعت کے مخالف ہو گئے.دوسرے فتنہ کا بانی شیخ عبدالرحمن صاحب سابق لالہ شنکر داس) تھا شیخ صاحب 1905 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئے.خلافت اولی کے دور میں عربی کی تعلیم کے لیے مصر بھجوائے گئے ابھی یہ مصر میں ہی تھے کہ خلافت ثانیہ کا انتخاب ہوا تو انہوں نے خط لکھ کر حضور کی بیعت کی.1915ء میں شیخ عبدالرحمن صاحب ”مصری“ بن کر واپس آئے اور اس فتنے کا آغاز ہوا.حضرت خلیفة أمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو 1915ء میں بذریعہ رویا خبر دی گئی کہ شیخ صاحب کا خیال رکھنا یہ مرتد ہو جائیں گے.چنانچہ 1915 ء میں ہی جب شیخ عبدالرحمن صاحب مصری بن کر واپس آئے تو حضور رضی اللہ عنہ نے اپنی اس رؤیا کی بنا پر صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلائی کہ ان کا خاص خیال رکھا جائے.اس کا ذکر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک تقریر فرموده 27 دسمبر 1937ء میں فرمایا.سے بھرے آخر وہی ہوا جس کی خبر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو 1915 ء میں دے دی گئی تھی.1936ء میں گویا مصری صاحب پر یہ راز کھلا کہ انبیاء اور مشائخ کی وفات کے بعد صرف پہلا خلیفہ ہی خدا کی انتخاب ہوتا ہے باقی منتخب شدہ خلفا آیت استخلاف کے ماتحت نہیں آتے.چنانچہ اس نظریہ کو بنیاد بنا کر 1937ء میں انہوں نے نہایت ناشائستہ اور سب و ہوئے خطوط حضور رضی اللہ عنہ کو لکھنے شروع کئے جن میں لکھا کہ : یا تو میں جماعت کو آپ کی کیحالت سے آگاہ کر کے آپ کو خلافت سے معزول کرا کر نئے خلیفہ کا انتخاب کراؤں اور یہ راہ پر از خطرات ہے اور یا جماعت میں آپ کے ساتھ مل کر اس طرح رہوں جس طرح میں نے اوپر بیان کیا ہے.“ مصری صاحب کی نظریاتی اور اخلاقی شکست: ( پمفلٹ ”جماعت کو خطاب“ صفحہ نمبر 2 از شیخ عبدالرحمان مصری) 112

Page 113

خلافت اور جماعت احمدیہ سے علیحدہ ہونے کے بعد مصری صاحب غیر مبائعین میں شامل ہو گئے اور یہ اعلان بھی کر دیا کہ جماعت احمدیہ اور وہ اس غلطی میں مبتلا چلے آ رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی ہیں جبکہ حضور علیہ السلام کا اصل مقام نبوت کا نہیں بلکہ محدثیت کا ہے بالفاظ دیگر انہوں نے بالواسطہ طور پر تسلیم کر لیا کہ ان کا پہلے خلیفہ کو معزول کر کے نئے خلیفہ کے انتخاب کا ہنگامہ کھڑا کرنا سراسر باطل تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے عقیدہ کے مطابق نبی نہ تھے اور نہ آپ علیہ کے بعد کسی خلافت کی ضرورت تھی.علاوہ ازیں مصری صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد اور آپ علیہ کے خاندان کو بد نام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی.ان کی ان مذموم کوششوں کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی السلام السلام اللہ عنہ فرماتے ہیں:.جس قسم کے گندے اعتراض وہ کر رہے ہیں اور جس قسم کے ناپاک حملوں کے کرنے کی ان کی طرف.اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے اطلاعیں آرہی ہیں اگر وہ ان پر مُصر رہے اور اگر انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے توبہ نہ کی تو میں کہتا ہوں احمدیت کیا اگر ان کے خاندانوں میں حیا باقی رہی تو مجھے کہیں بلکہ میں اس سے بھی واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ جس قسم کے خلاف اخلاق اور خلاف حیا وہ حملے کر کے نتیجے میں اگر ان کے خاندان فحش کا مرکز بھی بن جائیں تو ا سے بعید از عقل نہ سمجھو.“ رہے ہیں اس از خطبه جمعه فرمودہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 23 جولائی 1937 ء - الفضل 1 اگست 1937ء صفحہ 11 کالم (1) اس کا نتیجہ جلد ہی ظاہر ہو گیا اور گند اچھالنے کے نتیجے میں مصری صاحب کی اپنی اولاد ان کے لئے موجب فضیحت بن گئی.مصری صاحب کے ایک رشتہ دار محترم چودھری عنایت اللہ فاضل مشرقی افریقہ نے ان کے خاندان کے بارے میں بعض حقائق -3 پردہ اٹھایا اور مصری صاحب کی اولاد کی مکروہ کاروائیوں کا ذکر کیا جن کی تردید کی بھی مصری صاحب جرات نہ کر سکے.تیسرا فتنہ میاں عبدالمنان صاحب اور عبدالوہاب صاحب نے کھڑا کیا.یہ لوگ شروع سے ہی خلیفہ بننے کی کوششوں میں رہے تھے.پہلی دفعہ 1929ء میں عزل خلافت کا ایک شرمناک منصوبہ تیا ر کیا گیا لیکن حضور رضی اللہ عنہ کو بروقت اطلاع ہونے پر یہ سازش پیوند خاک ہو گئی.پھر 1955 ء میں ان لوگوں کو حضور رضی اللہ عنہ کی بیماری اور سفر یورپ کی وجہ سے یہ موقع میسر آگیا اور انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ چونکہ خلیفہ وقت بوڑھا ہو چکا ہے اس لئے کسی اور کو خلیفہ منتخب کر لینا چاہئے معاذ اللہ ! اوراس کے بعد آہستہ آہستہ انہوں نے اپنا نام بطور خلیفہ کے پیش کرنا شروع کردیا اور کہنے لگے کہ مسند خلافت پر ہمارا ان کی مسلسل زیادتیوں اور غلطیوں کے باوجود حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ان سے صرف نظر فرماتے رہے بلکہ ان کو خرچ کے طور پر وظیفہ بھی بھجواتے رہے لیکن معاملہ جب حد سے بڑھ گیا اور جماعت کی بقا کا مسئلہ درپیش ہوا تو پھر واضح ثبوتوں کی بنا پر انہیں اخراج از نظام جماعت کی سزا دی گئی.جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کے ہاتھ پر اکٹھا رکھا اور ترقیات پر ترقیات عطا کرتا چلا گیا.حق یہ فتنہ حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کے بیٹوں میاں عبدالمنان صاحب اور عبدالوہاب صاحب نے اُٹھایا تھا.اس کا فتنہ کا ظہور اور فتنہ پردازوں کا انجام بھی خلافت ثانیہ کی حقانیت کا ایک روشن نشان ہے کیونکہ اس کے ظہور سے ساڑھے چھ سال قبل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو بذریعہ رویا اس کی خبر دے دی گئی تھی اور 27 جون 1950ء کو حضور رضی اللہ عنہ نے احباب جماعت کے سامنے حسب ذیل الفاظ میں اسے پوری طرح کھول کر بیان بھی فرما دیا تھا کہ: میں نے دیکھا کہ ایک اشتہار ہے جو کسی شخص نے لکھا ہے جو شخص مجھے خواب کے بعد یاد رہا ہے مگر میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ اشتہار ہمارے کسی رشتہ دار نے دیا ہے مگر اس کی رشتہ داری میری بیویوں کے ذریعے سے ہے.اس اشتہار میں میرے بعض بچوں کے متعلق تعریفی الفاظ ہیں اور ان کی بڑائی کا اس میں ذکر کیا گیا ہے.میں رویا میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض ایک چالا کی ہے.درحقیقت اس کی 113

Page 114

غرض جماعت میں فتنہ پیدا کرنا ہے.“ اسی رؤیا کے حوالے سے مزید فرمایا کہ: رویا میں میں کہتا ہوں کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا چاہے تم کتنے ہی چکر دے کر بات کرو.ظاہر ہے کہ تم جماعت میں اس سے فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہو اور تمہاری غرض یہ ہے کہ میں بھی دنیا داروں کی طرح اپنے بیٹوں کی تعریف سن کر خوش ہو جاؤں گا اور اصل بات کی طرف میری توجہ نہیں پھرے گی.پس رویا میں میں نے اس اشتہار پر اظہار نفرت کیا اور میں نے کہا کہ میں اس قسم کی باتوں کو پسند نہیں کرتا.“ الفضل 22 جولائی 1950 ، صفحہ 4 پر حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ اس فتنے اور اس کی ابتدا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی عجیب حکمت ہے کہ جتنی گواہیاں ملی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ یہ فتنہ اس وقت اٹھایا گیا تھا جب مجھ بیماری کا حملہ ہوا تھا 26 فروری 1955 ء کو مجھ پر بیماری کا حملہ ہوا تھا اور یہ باتیں مارچ1955 ء کی ہیں لیکن ظاہر ہوئیں 1956ء میں آکر اور اب میں ان کا ہر طرح مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں.گویا وہی رویا والی بات ہوئی جو میں نے اس عورت سے کہی تھی کہ تم نے بے خبری میں مجھ پر حملہ کر لیا تھا اب میں با خبر ہو چکا ہوں اگر اب تم مجھ پر حملہ کرو تو جانوں! یہ کتنا بڑا نشان ہے جو ظاہر ہوا.“ الفضل 8 اگست 1956ء صفحہ 3،2) چنانچہ جب ان لوگوں نے اپنی روش نہ بدلی تو ان کو اخراج از نظام جماعت کی سزا دی گئی اور اعلان کر دیا گیا کہ جب تک معافی نہ مانگیں انہیں نظام جماعت سے باہر تصور کیا جائے گا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے سفر یورپ سے واپس تشریف لا کر احباب جماعت کو ایک رؤیا سنائی جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا کہ ایک عورت آپ رضی اللہ عنہ پر مسمریزم کرتی ہے جس کا تھوڑا بہت اثر آپ محسوس کرتے ہیں لیکن آپ اس کی اس حرکت سے جب باخبر ہوتے ہیں تو اسے کہتے ہیں کہ : ”تو نے میری بے خبری کے عالم میں مجھ پر مسمریزم کا عمل کیا تھا اب مجھے خبر ہو چکی ہے اور اب میں تیرا مقابلہ کروں گا اب تو مجھ پر عمل کر کے دیکھ لے تو وہ نہیں کر سکتی.“ خلافت ثالثہ کے دور میں اٹھنے والا فتنہ اور اس کا انجام: الفضل 8اگست 1956ء صفحہ 3،2) خلافت ثالثہ کے دور میں چونکہ نئی ہجری صدی شروع ہو رہی تھی اس لیے منافقین نے ایک حدیث کا غلط مفہوم لیتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا کہ نئی صدی کے ساتھ مجدد بھی آنا چاہئے.مقصد یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود کو صرف ایک مجدد ثا بت کر سکیں تا کہ مجدد کے بعد خلافت کی بیعت نہ کرنی پڑے اور اس طرح خلافت کی جگہ مجددیت کا بہانہ بناکر خلافت کی ضرورت ختم کر دی جائے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے خدائی تائید اور رہنمائی سے نہایت احسن طریق پر اس فتنے کا قلع قمع کیا.مجددیت اور خلافت: 1977ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے جلسہ ہائے سالانہ کے لئے پیغام بھجوائے چنانچہ جلسہ سالانہ قادیان پر آپ نے مندرجہ ذیل پیغام بھجوایا: ہم عنقریب پندرھویں صدی میں قدم رکھنے والے ہیں.نئی صدی کے شروع ہونے کے ساتھ گزشتہ صدیوں کی 114

Page 115

طرح ایک نئے مجدد کے پیدا ہونے کا خیال بعض طبائع میں پیدا ہوتا ہے.اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے بموجب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جب ظہور ہوا تو جیسا کہ آپ نے خود دعوئی فرمایا ہے کہ آپ کو صرف ایک صدی کا مجدد بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ دنیا کی عمر کے آخری ہزار سال کے لیے مجدد بنایا گیا اور آپ کی بعثت امام آخرالزماں کی حیثیت سے ہوئی ہے اس لیے اب کسی امام یا مجدد کے آنے کی گنجائش نہیں.مجددین کی ضرورت اس دور کے لیے تھی جب خلافت کا سلسلہ بر قرار نہ تھا.جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور کے لیے مجددین کے آنے کی خبر دی وہاں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مسیح موعود اور مہدی موعود کے ذریعہ خلافت على مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ قائم کرے گا اور اس کا سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا.پس یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ خلافت عـلـى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ کے قیام کے بعد الگ کسی مجدد کی ضرورت باقی نہیں رہی.اب تجدید اور احیائے دین کا کام تا قیامت انشاء اللہ خلفائے مسیح موعود کے ذریعہ ہوتا رہے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظل ہوں گے.“ ماریشس کے جلسہ سالانہ کے لئے پیغام : (خلافت و مجددیت - صفحہ 52-53) ”ہر احمدی کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بعد مجددین کی آمد کا سلسلہ بند ہو گیا ہے اور خدا تعالیٰ نے محض اپنے کرم سے انبیاء کے طریق پر نظام خلافت کو قائم فرمایا ہے اور خلفاء بلاشبہ مجددین ہیں.اس نظام کو غیر معمولی محبت، فدائیت اور ناقابل شکست وفاداری کے ساتھ محفوظ رکھنا ہے.اسلام کی برتری کے لیے یہ بات موجودہ نسل کو ہی ذہن میں نہیں رکھنی چاہئے بلکہ آئندہ نسلوں کے دلوں میں بھی اس بات کو راسخ کر دینا چاہیے.“ ہر خلیفہ مجدد ہوتا ہے: حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: خلافت و مجددیت - صفحہ 58) اس وقت جماعت احمدیہ میں تیسرے خلیفہ کا زمانہ گزر رہا ہے.چنانچہ مجھ سے پہلے ہر دو خلفا کا اور میرا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر خلیفہ مجدد بھی ہوتا ہے لیکن ہر مجدد خلیفہ نہیں ہوتا کیونکہ خلافت ایک بہت اونچا مقام ہے ایسے مجدد سے جو خلیفہ نہیں یعنی اس معنی میں جس کو ہم خلافت راشدہ کہتے ہیں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے خلفاء ہوں گے پھر بادشاہت شروع ہو جائے گی اور پھر آخری زمانے میں منہاج نبوت پر خلفا کا زمانہ آ جائے گا اور یہ کہ کر آپ خاموش ہو گئے جس کا مطلب یہ ہے کہ پھر اس کا سلسلہ قیامت تک چلے گا.یہی مطلب ہم لیتے ہیں کیونکہ یہی مطلب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ” یہ ایک حقیقت ہے کہ منافق جب یہ کہتا ہے تو وہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کو گرا کر کہتا ہے کہ آپ علیہ السلام مجدد تھے اور صدی کے آخر میں ایک اور مجدد آئے گا لیکن سنو آپ علیہ السلام محض مجدد نہیں تھے (الفضل 21 مئی 1978ء) 115

Page 116

پ علیہ السلام مسیح بھی تھے، آپ علیہ السلام مہدی بھی تھے، آپ علیہ السلام امام آخر الزماں بھی تھے آپ علیہ السلام مجدد الف آخر بھی تھے، آپ علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب بھی تھے اور خدا تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو فرمایا ہے کہ قیامت تک کا زمانہ تمہارا زمانہ ہے اس لئے کوئی شخص آپ علیہ السلام سے یہ زمانہ چھینے کے لیے تو نہیں آ سکتا البتہ آپ علیہ السلام کا خادم ہوکر آسکتا ہے مگر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے جو خادم آئے ہیں وہ خلفائے سلسلہ حقہ احمدیہ ہیں، وہ حضرت مسیح موعود علیہ کے خادموں کے لشکر میں شامل ہو کر اور پھر مسیح موعود علیہ السلام اپنے ان تمام خدام کے لشکر کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں بطور ایک خادم کے کھڑے ہوئے ہیں.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ الفضل 21 مئی 1978ء) السلام مُحَمَّدِ 66 خلافت رابعہ کے دور میں اٹھنے والا فتنہ اور اس کا انجام: خلافت رابعہ کے انتخاب کے وقت چند لوگوں نے فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالی نے فتنہ پردازوں کو نا کام کردیا.اس کے بعد بعض اوقات مختلف جگہوں سے اس رنگ میں کوششیں کی گئیں کہ خلیفہ وقت کے متعلق لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں بد اعتمادی پیدا کی جائے اور اسی طرح یہ باتیں پھیلانے کی کوشش کی کہ خلیفہ وقت قریبی لوگوں کی باتوں میں آکر بعض دفعہ لوگوں کو سزائیں دے دیتے ہیں جو کہ نا انصافی پر مبنی ہوتی ہیں.یہ طریق ایسا ہے کہ بعض دفعہ نیک اور معصوم لوگ اپنی سادگی کی وجہ سے دھوکہ کھا جاتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے نہایت احسن طریق سے لوگوں کی اصلاح کی اوران کمزوریوں پر روشنی ڈالی تا کہ فتنہ پرداز کسی طرح کامیاب نہ ہو سکیں.چنانچہ حضرت خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان امور پر میں کئی دفعہ خطبات دے چکا ہوں لیکن پھر بار بار یہ باتیں سامنے آتی ہیں کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں یہ معمولی باتیں ہیں کیا فرق پڑا اگر ہم نے چپکے سے فلاں کی بات سن لی؟ ساتھ ساتھ اپنی دانست میں خلیفہ وقت کی حفاظت بھی کر لی.کہہ دیا کہ ہاں ہاں کسی کی باتوں میں آگیا ہو گا.خود تو اپنی ذات میں شریف آدمی لگتا ہے خود تو جھوٹا اور غیر منصف نظر نہیں آتا اس لئے ضرور باتوں میں آگیا ہو گا یعنی غیر منصف بھی قرار دے دیا اور ساتھ ہی بے وقوف بھی قرار دے دیا.اچھا دفاع کیا ہے خلیفہ وقت کا! یعنی پہلے تو صرف ظالم کہا تھا آپ نے کہا کہ ظالم صرف نہیں ہے، احمق بھی بڑا سخت ہے اس کو چغلیوں کی بھی عادت ہے یک طرفہ باتیں سنتا ہے اور فیصلے دیتا چلا جاتا ہے.حسن ظنی میں میں کہتا ہوں کہ آپ نے اپنی طرف سے دفاع کیا لیکن یہ کیا دفاع ہے اس پر تو غالب کا یہ مصرع آپ پر صادق آتا ہے کہ: ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو اگر آپ نے خلافت کا ایسا ہی دفاع کرنا ہے، آپ کے یہی عزم تھے جب آپ نے عہد کئے تھے کہ ہم قیامت تک اپنی نسلوں کو بھی یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ تم نے خلافت احمدیہ کی حفاظت کرنی ہے اور اس کے لئے ہر چیز کی قربانی کے لئے تیار رہو گے اگر عہد سے آپ کی یہی مراد ہے تو یہ عہد مجھے نہیں چاہئے.خلافت احمدیہ کو یہ عہد نہیں چاہئے کیونکہ اس قسم کی حفاظت نقصان پہنچانے والی ہے فائدہ پہنچانے والی نہیں ہے لیکن یہ صرف ایک خلافت کا معاملہ نہیں ہے سارے نظام اسلام کا معاملہ ہے تمام اسلامی قدروں کا معاملہ ہے.ہم تو 116

Page 117

ہیں :.دُور کے مسافر ہیں ایک صدی کا ہمارا سفر نہیں ہے سینکڑوں سال تک اور خدا کرے ہزاروں سال تک ہم اسلام کی امانت کو حفاظت کے ساتھ نسلاً بعد نسل دوسروں تک منتقل کرتے چلے جائیں ان اہم مقاصد کے لئے آپ کو پوری طرح ہتھیار بند ہونا چاہئے آپ ان معاملوں میں کیوں بار بار شیطان کے حملوں کے لیے اپنے سینوں کو پیش کرتے ہیں؟ جن میں قرآن کریم نے آپکو کھول کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ ان اصولوں سے ہٹو گے تو موت کے سوا تمہارا کوئی مقدر نہیں ہے.“ (ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ دسمبر 1987ء) حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلافت رابعہ کے آغاز کے فتنہ کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرماتے پھر خلافت رابعہ کا دور آیا پھر دشمن نے کوشش کی کسی طرح فتنہ و فساد پیدا کیا جائے لیکن جماعت ایک ہاتھ پر اکٹھی ہوگئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا.انتخاب خلافت کے ان حالات کے بعد جو بڑی سختی کے چند دن یا ایک آدھ دن تھے دشمن نے جب وہ سکیم ناکام ہوتی دیکھی تو پھر دو سال بعد ہی خلاف رابعہ میں، 1984ء میں پھر ایک اور خوفناک سکیم بنائی کہ خلیفہ امسیح کو بالکل عضو معطل کی طرح کر کے رکھ دو، وہ کوئی کام نہ کر سکے اور جب وہ کوئی کام نہیں کر سکے گا تو جماعت میں بے چینی پیدا ہوگی اور جب جماعت میں بے چینی پیدا ہو گی تو ظاہر ہے وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوتی چلی جائے گی،اس کا شیرازہ بکھرتا چلا جائے گا.“ از خطبہ جمعہ فرموده 21 مئی 2004ء الفضل انٹر نیشنل 4 تا 10 جون 2004ء) خلافت خامسہ کے دور میں اُٹھایا جانے والا فتنہ اور اس کا رڈ : خلافت ِ خامسہ کے دور میں فتنہ پرداز کھل کر تو کوئی فتنہ نہ پیدا کر سکے لیکن نہایت ہی چھپے ہوئے اور مخفی انداز میں وار کیا.فتنہ پردازوں نے احباب جماعت کو ایک مضمون بھجوا کر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ خلافت احمد یہ مستقل نہیں چلے گی بلکہ ایک دور میں ملوکیت میں بدل جائے گی اور گویا وہ دور اب آچکا ہے جب خلافت نے ملوکیت میں بدلنا تھا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نہایت احسن طریق سے جماعت کو اس فتنے سے بچایا اور آئندہ کے لیے بھی ایسے فتنوں کا سد باب کر دیا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.دو اب میں مختصراً ان صاحب کی طرف آتا ہوں جنہوں نے بڑی ہوشیاری سے مضمون پھیلا کر بعض لوگوں کے دلوں میں شہادت پیدا کر نے کی کوشش کی ہے.اپنی طرف سے ایسے لوگوں کا آلہ کار بنانے کی کوشش کی ہے جو شاید اس سوچ میں پڑ جائیں لیکن انہیں پتہ نہیں کہ جماعت کی اکثریت خلافت سے سچی وفا اور محبت رکھنے والی ہے اور جن کو یہ مضمون بھجوائے گئے ہیں انہوں نے نظام کو یا مجھے اس سے آگاہ کر دیا، ہمیں بھجوادیے.شیطان نے ایک چال چلی تھی لیکن وہ ناکام ہو گیا لیکن جماعت کو بتانا میرا فرض ہے کہ وہ آئندہ محتاط رہیں.ان صاحب نے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی اس بات کو انڈر لائن (underline) کیا ہے کہ کسی نبی کے بعد خلافت متصلہ کا سلسلہ دائمی طور پر نہیں چلتا بلکہ صرف اس وقت تک چلتا ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ نبوت کے کام کی تکمیل کے لیے ضروری خیال فرمائے اور اس کے بعد ملوکیت کا دور آجاتا ہے یعنی تسلسل قائم نہیں رہتا ، ایک کے بعد دوسرا خلیفہ نہیں آتا.روحانی طور پر سلسلہ ختم ہو جائے گالیکن یہاں بھی واضح ہو کہ کیا 117

Page 118

جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا مشن تھا مکمل ہو گیا ہے؟ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ حضرت میاں صاحب کا اپنا نظریہ تھا اور اس بارہ میں ایک دو اور جگہ اس مضمون میں جو میں نے الفاظ پڑھے ہیں اس سے ملتے جلتے الفاظ ہیں لیکن یہ صاحب حضرت میاں صاحب کے اسی مضمون میں یہ الفاظ بھی پڑھ لیں کہ نیچے خلفا کی علامات کیا ہیں.آپ اس بارہ میں لکھتے ہیں کہ پہلی اور ظاہری علامت یہ ہے کہ مومنوں کی جماعت کسی شخص کو اتفاق رائے یا کثرت رائے سے خلیفہ منتخب کرے.اب یہ صاحب بتائیں کہ کیا خلافت خامسہ کے انتخاب میں یہ نہیں ہوا؟ مجلس انتخاب میں تو بہت سے ایسے ممبران تھے جو مجھے جانتے بھی نہیں تھے لیکن الہی تقدیر کے ماتحت انہوں نے میرے حق میں رائے دی اور اکثر نے یہ کہا کہ ہمارے دل میں یہ خدائی تحریک پیدا ہوئی ہے اور اس بات کی وضاحت بھی حضرت میاں صاحب (حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ) نے مضمون میں کی ہوئی ہے.بہر حال میں میاں صاحب کے حوالوں سے اس لیے بات کر رہا ہوں کہ ان کے مضمون میں ہی جواب موجود ہے اور یہ بھی کہ تم جلد بازی نہ کرو.پھر آپ رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں: دوسری علامت یہ ہے جو باطنی علامتوں میں سے ہونے کی وجہ سے کسی قدر غور اور مطالعہ چاہتی ہے وہ ہے قرآن کریم کی آیت استخلاف یعنی وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمُ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا کہ اور ان کے لیے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لیے پسند کیا ضرور تمكنت عطا کرے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.آپ رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ : ہر خلیفہ کی وفات کے بعد عموماً جماعت میں ایک زلزلہ وارد ہوتا ہے، جماعت کے لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں.ایسے وقت میں خدا کی سنت ہے کہ وہ اپنے مقرر کردہ خلیفہ کے ذریعہ انہیں اطمینان اور تمکنت عطا فرماتا ہے.اب آپ میں سے ہر سے ہر کوئی گواہ ہے بلکہ دنیا کا ہراحمدی گواہ ہے، ہر ہے، ہر بچہ گواہ ہے کہ کیا حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد جو ایک خوف کی حالت تھی اسے اللہ تعالیٰ نے سکینت میں نہیں بدل دیا؟ اگر ان صاحب کے لیے یہ دلیل کافی نہیں تو اللہ ہی رحم کرے! اور تیسری علامت حضرت میاں صاحب نے اپنی ذوقی علامت بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں نبی پر ظاہر کر دیتا ہے کہ کون آئندہ ہونا ہے.بہرحال اس کا تعلق تو نبی.سے ہے.ضروری نہیں کہ ہر جگہ نبی کی طرف سے اظہار بھی ہو.تو ان صاحب سے میں حضرت میاں صاحب کے الفاظ میں یہی کہتا ہوں کہ اس زمانے کی قدر کو پہچانو اور اپنے ، آنے والوں کے لیے نیک نمونہ چھوڑو تا کہ بعد کی نسلیں تمہیں محبت اور فخر کے ساتھ یاد کریں اور تمہیں احمدیت کے معماروں میں یاد کریں نہ کہ خانہ خرابوں میں اب احمدیت کا علمبردار وہی ہے جو نیک اعمال کر نے والا اور خلافت سے چمٹا رہنے والا ہے جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں خلافت سے محبت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے اس وقت تک خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں.“ (خطبہ جمعہ 27 مئی 2005ء الفضل انٹر نیشنل 10 تا 16 جون 2005ء) 118

Page 119

خلافت اور تجدید و احیائے دین مرتبہ طارق محمود بلوچ استاد مدرسته الظفر 119

Page 120

آیت : خلافت ہی تجدید دین کا ذریعہ ہے: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO.( سورة النور : 56 ) دو تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.“ (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) الله نُورُ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحُ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَانَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَّشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأمْثَالَ لِلنَّاسَ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ط (سورة النور : 36) ترجمہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے.اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو.وہ چراغ شیشے کے شمع دان میں ہو.وہ ہمیشہ ایسا ہو گویا ایک چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے.وہ (چراغ) زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا گیا ہو جو نہ مشرقی ہو اور نہ مغربی.اس (درخت) کا تیل ایسا ہے کہ قریب ہے کہ وہ ازخود بھڑک کر روشن ہو جائے خواہ اسے آگ کا شعلہ نہ بھی چھوا ہو.یہ نُورٌ عَلَى نُورٍ ہے.اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کیلئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کا دائمی علم رکھنے والا ہے.آیت (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنْهُم.عَلَيْهِمُ ايْتِهِ الله وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ ، وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ لا وَاخَرِيْنَ مَنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.(سورة الجمعه : 4-3) ترجمہ: وہی ہے جس نے اُمی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا.وہ اُن پر اُس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے.اور 120

Page 121

انہیں میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی ان سے نہیں ملے.وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحب حکمت ہے.حدیث (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفه لمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) عَنْ حُذِيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيْكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلَكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 273 مشکوۃ بَابُ الْإِنْدَارِ وَالتَّحْدِيرِ) حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ قائم ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا، پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.جب ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ ظلم ستم کے اس دور کو ختم کر دے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی ! یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے.یہ دور حدیث: عن أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِيْمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلَّ مِائَةِ سَنَةٍ مَّنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.(ابو دائود کتاب الملاحم باب مايذكر في قرن المائة) حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ملالہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایسا مجدد بھیجے گا جو دین کی تجدید کرے گا.سورۃ الجمعہ کی آیت وَ اخَرِينَ مِنْهُمُ...کی تفسیر : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِندَ النَّبِيِّ الله الله فَاَنْزَلَتْ عَلَيْهِ سُوْرَةُ الْجُمُعَةُ: ﴿وَاخَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ قَالَ: قُلْتُ : مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ فَلَمْ يُراجِعُهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلَاثًا وَّفِيْنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، وَضَعَ رَسُولُ اللهِ الا الله يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ ، ثُمَّ قَالَ : لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِندَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِّنْ هَؤُلَاءِ.( بخاری کتاب التفسير سورة الجمعه باب واخرين منهم لما يلحقوا بهم) حضرت خلیفہ لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حدیث مبارکہ میں آنے والے لفظ "رجال" کی تشریح میں فرمایا: رسول الله صل اللہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ دین جب خطرہ میں ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کیلئے اہل فارس میں سے کچھ افراد کھڑے کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان میں سے ایک فرد تھے اور ایک فرد میں 121

Page 122

ہوں لیکن رجال کے ماتحت ممکن ہے کہ اہل فارس میں سے کچھ اور لوگ بھی ایسے ہوں جو دین اسلام کی عظمت قائم رکھنے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے کھڑے ہوں.“ (خطبه جمعه فرموده 8 ستمبر 1950ء روز نامه الفضل 22 ستمبر 1950ء - صفحہ 6) سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخرالزمان اس کے سر پر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کیلئے بطور ظل کے ہو کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالی کی طرف سے مسیح موعود علیہ السلام کہلاتا ہے وہ مجدد صدی بھی ہے اور مجدد الف آخر بھی.“ (لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 208) تکمیل سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: رسول الله صل اللہ کی زندگی کے دو ہی مقصد بیان فرمائے ہیں یعنی تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت.اوّل الذکر کی تکمیل چھٹے دن یعنی جمعہ کے دن ہوئی جبکہ آیت اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ نازل ہوئی اور دوسری کیلئے بالا تفاق مانا گیا ہے کہ وہ مسیح ابن مریم یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہو گی.سب مفسرین نے بالا تفاق لکھ دیا ہے کہ آیت هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدی کی تکمیل کی نسبت لکھتے ہیں کہ یہ مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہو گی اور جبکہ پہلی تکمیل چھٹے دن ہوئی تو دوسری تکمیل بھی چھٹے دن ہی ہونی چاہئے تھی اور قرآنی دن ایک ہزار برس کا ہوتا ہے گویا مسیح موعود چھٹے ہزار میں ہو گا.“ (الحکم جلد 12 نمبر 44 مورخہ 26 جولائی 1908ء صفحہ 3) سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: و آنحضرت صلی الله حلقہ کی امت میں ہمیشہ کچھ ایسے پاک لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو آنحضرت ملالہ کے اصلی اور حقیقی مذہب اور تعلیم توحید کو قائم کرتے اور شرک و بدعات کا جو کبھی امتدادِ زمانہ کی وجہ سے اسلام میں راہ پا جاویں ان کا قلع قمع کرتے رہیں گے اور یہ ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی تعلیم و تربیت کا نمونہ ہمیشہ بعض ایسے لوگوں کے ذریعہ ظاہر ہوتا رہے جو امت مرحومہ میں ہر زمانہ میں موجود ہوا کریں.چنانچہ قرآن شریف میں بھی بڑی صراحت سے اس بات کو الفاظ ذیل میں بیان کیا گیا ہے: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ امَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ص وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِّنْم بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنَّا ط يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ط وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (سورة النور: 56 ) (الحکم 2 اپریل 1908ء صفحہ 4) سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: خلیفہ تو خود مجدد سے بڑا ہوتا ہے اور اس کا کام ہی احکام شریعت کو نافذ کرنا اور دین کو قائم کرنا ہوتا ہے.پھر اس کی موجودگی میں مجدد کس طرح آسکتا ہے؟ مجدد تو اس وقت آیا کرتا ہے جب دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے.“ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجلس عرفان سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ الفضل 8 اپریل 1947ء) 122

Page 123

سورۃ طہ میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں فرماتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نور کو آگ کی شکل میں دیکھا اور فرمایا انسى انستُ نَارًا، میں نے آگ دیکھی ہے.اس فقرہ سے صاف ظاہر ہے کہ دوسرے لوگ اس آگ کو نہیں دیکھ رہے تھے.پس انستُ نَارُ.میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی کے وجود میں ظاہر ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ظہور اس دنیا میں بطور نار کے ہوتا ہے یعنی کوئی تیز نظر والا ہی اسے دیکھ سکتا ہے جب وہ نبی کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے تو پھر وہ نور ہو جاتا ہے یعنی لیمپ کی طرح اس کی روشنی بہت تیز ہو جاتی ہے پھر نبوت میں یہ نور آ کر مکمل ہو جاتا ہے لیکن اس کا زمانہ پھر بھی محدود ہوتا ہے کیونکہ نبی بھی موت سے محفوظ نہیں ہوتے.پس اس روشنی کو دُور تک پہنچانے کیلئے اور زیادہ دیر تک قائم رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ کوئی اور تدبیر کی جاتی سو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک ری فلیکٹر (reflector) بنایا جس کا نام خلافت ہے جس طرح سے طاقچہ تین طرف سے روشنی کو روک کر صرف اس جہت میں ڈالتا ہے جدھر اس کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح خلفا کی قوت قدسیہ کو جو اس کی جماعت میں ظاہر ہو رہی ہوتی ہے ضائع ہونے سے بچا کر ایک خاص پرگرام کے تحت استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں جماعت کی طاقتیں پراگندہ نہیں ہوتیں اور تھوڑی سی طاقت سے بہت سے کام نکل آتے ہیں کیونکہ طاقت کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوتا.اگر خلافت نہ ہوئی تو بعض کاموں پر تو زیادہ طاقت خرچ ہو جاتی اور بعض کام توجہ کے بغیر رہ جاتے اور تفرقہ اور شقاق کی وجہ سے کسی نظام کے ماتحت جماعت کا روپیہ اور اس کا علم اور اس کا وقت خرچ نہ ہوتا.غرض خلافت کے ذریعہ سے الہی نور کو جو نبوت کے ذریعہ سے مکمل ہوتا ہے ممتد اور لمبا کر دیا جاتا ہے.“ (تفسیر کبیر تفسیر سورۃ نور آیت:36 صفحہ 320) سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ میں خلافت کا اصولی ذکر تھا اور بتایا گیا تھا کہ خلافت کا وجود بھی نبوت کی طرح ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے جلال الہی کے ظہور کے زمانہ کو ممتد کیا جاتا ہے اور الہی نور کو ایک لمبے عرصہ تک دنیا کے فائدے کیلئے محفوظ کر دیا جاتا ہے.اس مضمون کے معلوم ہونے پر طبعا قرآن کریم پڑھنے والوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ خدا کرے کہ ایسی نعمت ہمیں بھی ملے سو وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُم کی آیات میں اس خواہش کو پورا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرما دیا کہ یہ نعمت تم کو بھی اسی طرح ملے گی جس طرح پہلے انبیاء کی جماعتوں کو ملی تھی.“ ( تفسير كبير تفسیر سورۃ نور آیت:36 صفحہ 323) سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے مگر اس کے نور کو مکمل کرنے کا ذریعہ نبوت ہے اور اس کے بعد اس کو دنیا میں پھیلا نے اور اسے زیادہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ خلافت ہی ہے.گویا نبوت ایک چمنی ہے جو اس کو آندھیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور خلافت ایک ری فلیکٹر (reflector) ہے جو اس کے نور کو دور تک پھیلاتا ہے." 66 سیدنا حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: چوتھی ( تفسير كبير تفسير سورة نور.آیت 36 صفحہ 328) علامت خلفا کی اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ ان کے دینی احکامات اور خیالات کو اللہ تعالیٰ دنیا میں پھیلا ئے گا.چنانچہ فرماتا ہے وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمُ که الله تعالی ان کے دین کو تمکین دے گا اور 123

Page 124

باوجود مخالف حالات کے اسے دنیا میں قائم کرے گا.یہ ایک زبردست ثبوت خلافت حقہ کی تائید میں ہے اور جب اس پر غور کیا جاتا ہے تو خلفا کی صداقت پر خدا تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا نشان نظر آتا ہے.“ ( تفسير كبير تفسير سورة نور آیت: 56 صفحہ 375) سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: پہلے سلسلۂ خلافت کی ایک شاخ تو جو بعد نبی مقبول ملاقه تیره خلفا و مجددین پر مشتمل تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ختم ہو گئی.اگلی صدی کے مجدد کی ہر ایک کو تلاش کرنی چاہئے لیکن ہر آنے والی صدی کے سر پر جو خص مجدد کی تلاش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( جو آخری ہزار سال کے مجدد ہیں) کے علاوہ کوئی ایسا چہرہ دیکھتا ہے جو آپ کے خلیفہ کا نہیں، اور وہ بھی خلافت راشدہ کا حصہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اظلال کی شکل میں جاری ہے.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں تم ایمان کی اور اعمال صالحہ کی شرط پوری کرتے رہنا تمہیں قدرت ثانی کے مظاہر یعنی خلافت راشدہ کا اللہ تعالیٰ قیامت تک وعدہ دیتا ہے.خدا کرے کہ محض اسی کے فضل سے جماعت عقائد صحیحہ اور پختہ ایمان اور طیب اعمال کے اوپر قائم رہے تا کہ اس کا یہ وعدہ قیامت تک جماعت کے حق میں پورا ہوتا رہے." اختتامی خطاب سالانہ اجتماع انصار اللہ 27 اکتوبر 1968ء - ماہنامہ انصار اللہ ربوہ فروری 1969ء) سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حدیث مجددین کی عرفان انگیز تشریح کرتے ہوئے فرمایا: قرآن کریم نے کہا ہے کہ گاہے گاہے سال میں ایک آدھ بار منافقین کو جو شیطان کا آلہ کار بن جاتے ہیں جھنجھوڑتے رہنا چاہئے تا کہ وہ اپنے مقام کو پہچانیں اور حدیث شریف میں یہ جو آیا ہے کہ ہر صدی کے سر پر ایسے لوگ ہوں گے جو تجدید دین کا کام کریں گے اس کو لے کر اور باقی ہر چیز کو پس پشت ڈال کر انہوں نے بعض لوگوں کے دماغوں میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ ہیں تو گنتی کے چند ہی مگر اس وقت زیادہ تر کراچی کی جماعت میں تیزی دکھا رہے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں ایسے لوگوں سے جو وسوسہ موسہ ڈالتے اور جماعت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تم بھول میں نہ رہو.خدا تعالیٰ کی یہ پیاری جماعت اور اس کے یہ پیارے نوجوان اور میرے بچے تمہاری دھوکا دہی میں کبھی نہیں آئیں گے انشاء اللہ.اب میں مختصراً کچھ اس حدیث کے متعلق کہنا چاہتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ اس حدیث کے بارہ میں پہلوں نے کیا کہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا فرمایا اور اس حدیث کا مقام کیا ہے؟ یہ حدیث جو صحاح ستہ میں نہ صرف ایک کتاب میں صرف ایک بار بیان ہوئی ہے ، یہ ہے.اِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا - کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت کے لئے ”من“ کھڑے کرے گا (مَنْ میں خاص زور دے رہا ہوں) یعنی اللہ تعالیٰ کئی لوگ ایسے پیدا کرے گا جو دین کی تجدید کریں گے اور اس پر کی رونق بڑھانے والے ہوں گے اور اگر بدعتیں بیچ میں داخل ہو گئیں ہوں گی تو وہ ان کو نکالیں گے اور اسلام کا نہایت صاف اور خوبصورت چہرہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے پیش کریں گے.یہ حدیث ابوداؤد میں ہے.مستدرک میں ہے اور شاید ایک اور کتاب میں بھی ہے.صرف تین کتابوں میں ہمیں یہ حدیث ڈھونڈ نے سے ملی ہے.اس کے مقابلے میں یہیں بتا دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں مہدی اور مسیح ہوں.مسیح کے متعلق میں نے جو حوالہ پڑھ کر سنایا ہے اس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جس مسیح کے متعلق خبر دی گئی تھی کہ وہ شیطان کے ساتھ آخری جنگ لڑے گا وہ میں ہی مسیح موعود ہوں.آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مسیح کے متعلق بشارتیں دی گئی ہیں جو کئی ہزار کتب میں پائی جاتی ہیں.کئی ہزار کتابوں میں 124

Page 125

الله بشارت ہے کہ مسیح آئیں گے، ان کتابوں میں لکھا ہے کہ مسیح کی یہ علامتیں ہوں گی، مہدی کی یہ علامتیں ہوں گی.نبی اکرم صلقہ نے بڑے پیار سے فرمایا کہ اِنَّ لِمَهْدِيَّنَا ہمارے مہدی کے لئے خدا تعالیٰ نے اس کے صداقت کے دو نشان ایسے مقرر کئے ہیں جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کی صداقت کے لئے مقرر نہیں کئے.وو اس فقرے میں بڑا پیار ہے اور اس میں مہدی کی نمایاں اور ارفع حیثیت بتائی گئی ہے.غرض حدیث کی رُو سے نبی اکرم مطلقہ کو مہدی مسیح سے جو پیار ہے اسے دیکھ کر آدمی حیران ہو جاتا ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ مہدی کا یہ کام ہو گا کہ اسلام کو تمام بدعات سے پاک کر کے اس کا جو چمکدار چہرہ ہے اور روحانی حسن سے بھری ہوئی جو اصلی شکل ہے اسے دنیا کے سامنے پیش کرے گا لیکن دنیا کو اسلام کے غبار آلود چہرہ کو دیکھنے کی اتنی عادت پڑ چکی ہو گی کہ وہ کہیں گے کہ تم کوئی نیا دین لے آئے ہو ہم تو اسلام اسے نہیں سمجھتے.غرض آنحضرت ملالہ نے فرمایا کہ مہدی دین اسلام کو بدعات سے پاک کر کے پیش کرے گا اور لوگ یہ کہیں گے کہ تم نے اپنا نیا دین بنا لیا ہے.مہدی اور مسیح کے متعلق سینکڑوں ایسی احادیث ہیں جو پچھلے دو چار سال میں ہمارے سامنے آئیں ہیں.جب نئی کتابیں چھپ کر ہمارے سامنے آئیں تو وہ احادیث بھی سامنے آگئیں خصوصاً وہ کتابیں جو ایران سے بڑی خوبصورت چھپی ہوئی آئیں ہیں.انہوں نے بڑی محنت سے اس روایات کو اکٹھا کیا ہے اور سنبھال کر رکھا ہوا ہے جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں ہر صدی پر مجدد آنے کی جو حدیث ہے وہ حدیث کی صرف دو تین کتابوں میں ہے مگر کسی حدیث کی کتاب میں مجھے کوئی ایسی حدیث نہیں ملی جس میں یہ کہا گیا ہو کہ مجدد کی علامت یہ ہے یا اس کے لئے یہ نشان ظاہر کیا جائے گا.کسی ایک جگہ بھی نبی اکرم مطلقہ نے ایسا نہیں فرمایا اور نہ قرآن کریم میں اس کا ذکر آیا ہے.میں نے جب اس حدیث پر غور کیا تو ہو ا کہ اس حدیث میں یہ ہے ہی نہیں کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے گا.اس حدیث میں تو کہ ہر صدی کے سر پر ایک ” من “ آئے گا یعنی ایسے نائب رسول ملالہ آئیں گے جو تجدید دین کا کام کریں گے.” من “ کے معنی عربی لغت کے لحاظ سے ایک کے بھی ہیں اور دو کے بھی ہیں اور کثرت کے بھی ہیں پس اگر کثرت کے معنی لئے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ ہر صدی کے سر پر کثرت سے ایسے لوگ موجود ہوں گے (یعنی آنحضرت ملالہ کے خلفا اور اخیار و ابرار ) جو دین اسلام کی خدمت میں لگے ہوں گے.اس میں کسی ایک شخص واحد کا کوئی ذکر نہیں ہے.مجھے معلوم ہے صلى الله کی زبان وو 66 یہ ہے الفضل 21 مئی 1978ء) سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں ایک بنیادی اصول بتایا ہے اور وہ یہ کہ حدیث یعنی وہ ارشاد جو نبی سے نکلا اور پھر اسے روایہ میں محفوظ کیا گیا.وہ ذرہ بھر بھی نہ قرآن پر کوئی چیز زائد کرتا اور نہ کم کرتا ہے اس اصول کو تم اچھی طرح سے سمجھ لو اور ذہن میں رکھو.اب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اس کے شروع سے آخر تک گویا سارے قرآن میں تجدید دین یا مجدد کا کوئی لفظ نہیں ملتا.تب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو دوسری بات بتائی اس کے مطابق غور کرنا پڑے گا.آپ علیہ السلام نے فرمایا نبی کریم ملالہ نے جو بھی فرمایا ہے وہ قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ محمد صل للہ کا بڑا ارفع اور بلند مقام تھا.خدا تعالیٰ سے آپ علم سیکھتے تھے.یہ تو ہم مانتے ہیں کہ آپ قرآن کریم کی کسی آیت کی اتنی دقیق تفسیر کر جائیں کہ عام آدمی کے دماغ کو اس کے ماخذ کا پتہ نہ لگے اور سمجھ میں نہ آئے کہ یہ کس آیت کی تفسیر ہے.آپ نے فرمایا کسی کو سمجھ آئے یا نہ آئے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ قرآن کریم کی کسی 125

Page 126

آیت کی تفسیر نہ ہو.اگر تجدید دین والی یہ حدیث درست ہے اور ہے یہ درست) تو یہ قرآن کریم کی کسم کسی آیت کی تفسیر ہونی چاہئے اور اگر یہ قرآن کریم کی کسی آیت کی بھی تفسیر نہیں (میں سمجھتا ہوں کہ یہ کہنا غلط ہو گا یہ ضرور کسی آیت کی تفسیر ہے) تو پھر اس کو ہم یہ کہیں گے کہ یہ حدیث صحیح نہیں.کسی راوی نے کہیں سے غلط بات اٹھا لی اور آگے بیان کر دی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ جس آیت کی تفسیر ہے وہ آیت استخلاف ہے جس کی ابھی قاری صاحب نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْم بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (سورة النور: 56 ) ط اس آیت کریمہ کو آیت استخلاف کہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے خلیفہ اور مجدد کا لفظ اکٹھا استعمال کیا ہے ہمیں بتانے کیلئے کہ جہاں ہم مجدد بولتے ہیں وہاں سے مراد خلیفہ ہوتا ہے کیونکہ اگر یہ حدیث قرآن کریم کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتی تو ہمیں یہ حدیث چھوڑنی پڑے گی.“ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: الفضل 21 مئی 1978ء) آیت استخلاف میں دوسرا وعدہ یہ ہے کہ جو بزرگ وہ بھی جیسا کہ میں نے بتایا ہے گنتی کے لوگ نہیں.مثلاً کہا گیا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے ساتھ اتنے بزرگ اولیاء اللہ تھے کہ جن کا کوئی شمار نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اُمت میں ان کے دین کی تجدید کے لئے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی ہوتے تھے.امت محمدیہ تو بڑی وسعتوں والی اُمت ہے اور یہ تو ساری دنیا میں پھیلنے والی ہے اس میں تو سینکڑوں کے مقابلے میں ہزاروں ہوں گے یہ خلفا ہیں.خلفا کے سلسلہ میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جس طرح كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ میں كَمَا “ مشابہت کیلئے آیا ہے یعنی جس طرح اُمت موسویہ میں ایک وقت میں چار چار سو نبی ہوتے ہوتے تھے اسی طرح اُمت محمدیہ میں چار چار سو سے کہیں زیادہ خلفائے محمد ہوں گے جو دین کی خدمت کرنے والے ہوں گے اور چونکہ انہوں نے تجدید کرنی ہے اس لئے وہ مجدد بھی ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ ہر نبی مجدد ہے لیکن ہر مجدد نبی نہیں.تھوڑی سی تجدید دین کرنے کے لحاظ سے اُمت کی اکثریت بطور خلیفہ محمد ملاقه مجدد بھی ہے وہ تجدید دین کرتے ہیں لیکن نبی تو نہیں بن گئے.“ (الفضل 21 مئی 1978ء) 66 صال الله نے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”اس وقت جماعت احمدیہ میں تیسرے خلیفہ کا زمانہ گزر رہا ہے.چنانچہ مجھ سے پہلے ہر دو خلفا کا اور میرا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر خلیفہ مجدد ہوتا ہے لیکن ہر مجدد خلیفہ نہیں ہوتا کیونکہ خلافت ایک بہت اونچا مقام ہے ایسے مجدد سے جو خلیفہ نہیں یعنی اس معنی میں جس کو ہم خلافت راشدہ کہتے ہیں.حضرت نبی کریم فرمایا کہ پہلے خلفا ہوں گے پھر بادشاہت شروع ہو جائے گی اور پھر آخری زمانے میں منہاج نبوت پر خلفا کا زمانہ آجائے گا اور یہ کہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے جس کا مطلب یہ ہے کہ پھر اس کا سلسلہ قیامت تک چلے گا.یہی مطلب ہم لیتے ہیں کیونکہ یہی مطلب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیا ہے.ایک 126

Page 127

لحاظ سے محمد صل اللہ سے فیض حاصل کرنے والا ہر شخص آیت استخلاف کے ماتحت آپ کا نائب ہے اور اسی کو ہم خلیفہ کہتے ہیں اور ایک دوسرے لحاظ سے انبیائے بنی اسرائیل کے مقابلے میں انعامات نبوت حاصل کرنے والے اس سے زیادہ تعداد میں جتنے اُمت موسویہ میں تھے امت محمدیہ میں وہ خلفا ہیں.یہ ایک دوسرا سلسلہ خلافت کا ہے اور ایک تیسرا سلسلہ خلافت کا ہے اور یہ تیسرا سلسلہ خلافت کا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ نے فرمایا اس سلسلہ خلافت میں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں گن کر اور شمار کر کے ہمیں بتایا ہے کہ وہ السلام صال الله کے ہے تیرہ خلیفے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد تیرہ امت موسویہ یعنی بنی اسرائیل میں اور تیرہ ہی محمد بعد امت محمدیہ میں ہوئے اور ان تیرہ سے تیرھواں اور آخری میں ہوں اور یہ خلافت کا ایک علیحدہ سلسلہ آپ علیہ السلام نے فرمایا میں مجدد الف آخر ہوں، میں امام آخر الزماں ہوں، میں آخری ہزار سال کا آدم ہوں مختلف الفاظ استعمال کر کے آپ علیہ السلام نے اپنے مقام کو ظاہر کیا.پس یہ جو سلسلہ خلافت ہے اس میں تیرہ خلیفے ہیں چودھواں کوئی نہیں.اس کی گنجائش ہی کوئی نہیں.ہاں بنی اسرائیل کے انبیاء کے مقابلے میں ہزاروں کی تعداد میں محمد ملحقہ کے خلفا آتے رہیں گے، ان کو انعامات نبوت ملیں گے مقام نبوت ان کو نہیں ملے گا جیسا کہ میں نے بتایا ہے آج اسلام کی جو جنگ لڑی جا رہی ہے اس میں اتحاد اور پجہتی کی ضرورت ہے اس لئے جماعت کے اندر ایک ایسا اتحاد ہونا چاہئے جس میں انتشار کا شائبہ تک نہ ہو اور جو شیطانی تدبیریں اور منصوبے ہیں ان کے خلاف ایسا منصوبہ اور تدبیر کی جائے جس میں پوری یک جہتی ہو.یہ نہ ہو کہ کچھ ادھر سے دباؤ پڑ رہا ہو اور کچھ ادھر سے دباؤ پڑ رہا ہو.اس یک جہتی اور اس اتحاد کو قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا کہ تیرے بعد میں ایک ایسا سلسلہ خلافت قائم کر رہا ہوں جو قیامت تک قائم رہے گا (میں آپ کا کوئی اقتباس نہیں پڑھ رہا.کم و بیش اپنے الفاظ میں بتا رہا ہوں اس لئے ہو سکتا ہے کہ الفاظ میں کچھ فرق پڑ جائے ) آپ علیہ السلام نے فرمایا میں خدا تعالیٰ کی مجسم قدرت ہوں.خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اپنی زبردست قدرت کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ کہ میرے بعد خدا تعالیٰ بعض اور وجودوں کے ہاتھ پر اپنی زبر دست قدرت کو ظاہر کرے گا اور یہ خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے کہ اسلام کو غالب کرنے کے لئے اس نے ایک نظام قائم کر دیا ہے.فرمایا ایک زبردست قدرت جو میرے بعد تمہیں ملنے والی ہے یہ بالا تصال یعنی کسی وقفے کے بغیر قیامت تک تمہارے ساتھ رہے گی.پھر آپ علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ فرمایا جب قیامت کا زمانہ آئے گا تو نسل آدم پر قیامت ہے.ہمارے آدم کی نسل تباہ ہو جائے گی.“ وو دو میں وہ الفضل 21 مئی 1978ء) حضرت خلیفۃ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 27 اگست 1993ء میں فرمایا: تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایسے لوگ اگر سو سال کی عمریں بھی پائیں گے اور مر جائیں تو نامرادی میں مریں گے اور کسی مجدد کا منہ نہیں دیکھیں گے.ان کی اولادیں بھی لمبی عمریں پائیں اور مرتی چلیں جائیں اور ان کی اولادیں بھی لمبی عمریں پائیں اور مرتی چلی جائیں، خدا کی قسم! خلافت احمدیہ کے سوا کہیں اور مجددیت کا منہ نہ دیکھیں گی.یہی وہ تجدید دین کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے جو ہر صدی کے سر پر ہمیشہ جماعت کی ضرورتوں کو پورا کرتا چلا جائے گا.“ سید نا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: (ماہنامہ خالد مئی 1994ء) 127

Page 128

حضرت مسیح موعود علیہ السلام يَأْمُرُهُمُ بِالْمَعْرُوفِ کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ” یہ نبی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں اور ان باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل منع کرتی ہے اور پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ناپاک کو حرام ٹھہراتا ہے اور قوموں کے سر پر سے بوجھ اُتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گردنیں سیدھی نہیں ہو سکتی تھیں.پس جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اپنی شمولیت کے ساتھ اس کو قوت دیں گے اور اس کی مدد کریں گے اور اس نور کی پیروی کریں گے جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 420) تو جب نبی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتا ہے، وہی احکامات دیتا ہے جن کو عقل تسلیم کرتی ہے، بری باتوں سے روکتا ہے، نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور ان سے پرے ہٹ ہی نہیں سکتا تو خلیفہ بھی جو نبی کے کاموں کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کی ایک جماعت کے ذریعہ مقرر کردہ ہوتا ہے وہ بھی اس تعلیم کے انہی احکامات کو آگے چلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کے ذریعہ ہم تک پہنچائے اور اس زمانہ میں آنحضرت متعلقہ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وضاحت کر کے ہمیں بتائے تو اب اسی نظام خلافت کے مطابق جو آنحضرت کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت میں قائم ہو چکا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک قائم رہے گا ان میں شریعت اور عقل کے مطابق ہی فیصلے ہوتے ہیں اور انشاء اللہ ہوتے رہیں گے اور یہی معروف فیصلے ہیں.اگر کسی وقت خلیفہ وقت کی غلطی سے یا غلط فہمی کی وجہ سے کوئی ایسا فیصلہ ہو جاتا ہے جس سے نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو اللہ تعالیٰ خود ایسے سامان پیدا فرما دیتا ہے کہ اس کے بد نتائج کبھی بھی نہیں نکلتے اور نہ انشاء اللہ نکلیں گے “ مال الله (خطبات مسرور جلد 1 صفحہ 341-342) سید نا حضرت خلیفة لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: خلفا کی طرف سے مختلف وقتوں میں مختلف تحریکات بھی ہوتی رہتی ہیں.روحانی ترقی کے لئے بھی جیسا کہ مساجد کو آباد کرنے کے بارہ میں ہے، نمازوں کے قیام کے بارہ میں ہے، اولاد کی تربیت کے بارہ میں ہے، اپنے اندر اخلاقی قدریں بلند کرنے کے بارہ میں ہے، وسعت حوصلہ پیدا کرنے کے بارہ میں، دعوت الی اللہ کے بارہ میں یا متفرق مالی تحریکات ہیں، تو یہی باتیں ہیں جن کی اطاعت کرنا ضروری ہے.دوسرے لفظوں میں اطاعت در معروف کے زُمرے میں یہی باتیں آتی ہیں.تو نبی نے یا کسی خلیفہ نے تمہارے سے خلاف احکام الہی اور خلافت عقل تو کام نہیں کروانے، یہ تو نہیں کہنا کہ تم آگ میں کود جاؤ اور سمندر میں چھلانگ لگا دو.گزشتہ خطبہ میں ایک حدیث میں میں نے بیان کیا تھا کہ امیر نے کہا کہ آگ میں کود جاؤ تو اس کی ایک اور روایت ملی ہے جس میں مزید وضاحت ہوتی ہے: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ حلالہ نے عَلْقَمَة مِنْ مُجَزِّزُ کو ایک غزوہ کے لئے روانہ کیا جب وہ اپنے غزوہ کی مقرر جگہ کے قریب پہنچے یا ابھی وہ رستہ ہی میں تھے کہ ان سے فوج کے ایک دستہ نے اجازت طلب کی.چنانچہ انہوں نے ان کو اجازت دے دی اور ان پر عبدا للہ بن حذافہ بن قیس اہمی کو امیر مقرر کر دیا.کہتے ہیں میں بھی اس کے ساتھ غزوہ پر جانے والوں میں سے تھا.پس جب کہ وہ رستہ میں ہی تھے تو ان لوگوں نے آگ سینکنے یا کھانا پکانے کے لئے آگ جلائی تو عبداللہ نے (جو امیر مقرر ہوئے تھے اور جن کی حسن مزاح بہت تیز تھی) کہا کیا تم پر میری بات سن کر اس کی اطاعت فرض نہیں؟ ابھی 128

Page 129

انہوں نے کہا کیوں نہیں؟ اس پر عبدا للہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیا میں تم کو جو بھی حکم دوں گا تم اس کو بجا لاؤ گے؟ انہوں نے کہا: ہاں ہم بجا لائیں گے.اس پر عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہیں تاکیڈا کہتا ہوں کہ تم اس آگ میں کود پڑو.اس پر کچھ لوگ کھڑے ہو کر آگ میں کودنے کی تیاری کرنے لگے.پھر جب عبدا للہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ یہ تو سچ سچ آگ میں کودنے لگے ہیں تو عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے کہا اپنے آپ کو (آگ میں ڈالنے سے ) روکو.(خود ہی یہ کہہ بھی دیا جب دیکھا کہ لوگ سنجیدہ ہو رہے ہیں) کہتے ہیں پھر جب ہم اس غزوہ سے واپس آ گئے تو صحابہ نے اس واقعہ کا ذکر نبی کریم مطلقہ سے کر دیا.اس پر رسول کریم متعلقہ نے فرمایا: ”اُمرا میں سے جو شخص تم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا حکم دے اس کی اطاعت نہ کرو.(سنن ابن ماجه كتاب الجهاد باب لاطاعة في معصية الله) تو واضح ہو کہ نبی یا خلیفہ وقت کبھی بھی مذاق میں بھی یہ بات نہیں کر سکتا.تو اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم کسی واضح حکم کی خلافت ورزی تم امیر کی طرف سے دیکھو تو پھر اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو.اور اب اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت راشدہ کا قیام ہو چکا ہے اور خلیفہ وقت تک پہنچو جس کا فیصلہ ہمیشہ معروف فیصلہ ہی ہو گا انشاء اللہ.اور اللہ تعالیٰ اور رسول ملاقہ کے احکام کے مطابق ہی ہو گا.جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ تمہیں خوشخبری ہو کہ اب تم ہمیشہ معروف فیصلوں کے نیچے ہی ہو.کوئی ایسا فیصلہ انشاء اللہ تمہارے لئے نہیں ہے جو غیر معروف ہو.“ خلافت کے ذریعہ بد رسومات اور بدعات کا رد: (خطبات مسرور جلد 1 صفحہ 343 تا345) الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِندَ هُم فِى التَّوْرَةِ وَالْانْجِيلِ يَأْمُرُهُمُ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْههُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبِيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ، فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَ عَزَّرُوهُ وَ نَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا التَّوْرَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَهُ لا أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( سورة الاعراف : 158) ترجمہ:.جو اس رسول نبی امی پر ایمان لاتے ہیں جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں.وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور انہیں بری باتوں سے روکتا ہے اور ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے اور ان سے ان کے بوجھ اور طوق اتار دیتا ہے.جو ان پر پڑے ہوئے تھے.پس وہ لوگ جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اسے عزت دیتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اتارا گیا ہے یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.(ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام يَأْمُرُهُمُ بِالْمَعْرُوفِ کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ” یہ نبی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں اور ان باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل منع کرتی ہے اور پاک چ چیزوں کو حلال کرتا حلال کرتا ہے اور ناپاک کو حرام ٹھہراتا ہے اور قوموں کے سر پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گردنیں سیدھی نہیں ہو سکتی تھیں.پس جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اپنی شمولیت کے ساتھ اس کو قوت دیں گے 129

Page 130

اور اس کی مدد کریں گے اور اس نور کی پیروی کریں گے جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے.“ إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْللًا فَهِيَ إِلَى الْاذْقَانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 420) (سورة يس: 9) ترجمہ : یقیناً ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک پہنچے ہوئے ہیں اس لئے وہ سر اونچا اٹھائے ہوئے ہیں.(ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب شریعت نازل ہوتی ہے تو انسان اپنی من گھڑت رسوم کے طوق اپنی گردن میں ڈال لیتا ہے اور ان رسوم کی سختی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ انسان اپنے سامنے کی چیز کو بھی نہیں دیکھ سکتا اور ان سے بچنے کیلئے آنکھیں بند کر کے اپنی گردن اونچی کرنے لگتا ہے یعنی آنکھیں کھول کر یہ بھی نہیں دیکھتا کہ میں بیہودہ رسوم میں جکڑا ہوا ہوں مگر تکلیف دور کرنے کیلئے کبھی کبھی اپنی گردن اونچی کرتا ہے یعنی قوم ، چوری چھپے ان رسوم کی تکلیف سے بچنا بھی چاہتا ہے.“ (تفسیر صغیر سورة يس: آیت 9، حاشیہ) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِى لَهُوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ.مهين.(سورة لقمان: 7) ترجمہ: اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو بے ہودہ بات کا سودا کرتے ہیں تا کہ بغیر کسی علم کے اللہ کی راہ سے گمراہ کر دیں اور اسے تمسخر بنا لیں.یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کر دینے والا عذاب (مقدر) ہے.(ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیلیه مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) حضرت جابر بن عبدا للہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم متعلقہ نے فرمایا:.إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ وَاَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدَى مُحَمَّدٍ ، وَشَرُّ الْأمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَ ثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ.(سنن النسائی، کتاب صلوة العيدين باب كيف الخطبة) ترجمہ: یقینا سب سچی بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے اچھا طریق محمد (صل اللہ ) کا طریق ہے اور بدترین باتیں رسمیں اور بدعتیں ہیں اور ہر رسم اور بدعت ضلالت ہے اور ہر ضلالت آگ میں ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيْهِ فَهُوَ رَةٌ.(بخاری کتاب الصلح باب : اذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود) ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم صل اللہ نے فرمایا کہ جس نے ہمارے اس شریعت 130

Page 131

میں کوئی نئی بات داخل کی جو اس میں نہیں تو وہ رڈ کر دینے کے قابل ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت مطلقہ کی سچی فرمانبرداری کی جاوے.دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں.کوئی مر جاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہے.حالانکہ چاہئے کہ مردہ کے حق میں دعا کریں.رسومات کی بجا آوری میں آنحضرت ملالہ کی صرف مخالفت ہی نہیں بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے اور وہ اس طرح سے کہ گویا آنحضرت مطلقہ کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جاتا.اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 316) سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: چونکہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ نبویہ سے ظاہر و ثابت ہے کہ ہر ایک شخص اپنے کنبہ کی عورتوں وغیرہ کی نسبت جن پر وہ کسی قدر اختیار رکھتا ہے سوال کیا جائے گا کہ آیا بے راہ چلنے کی حالت میں اس نے ان کو سمجھایا اور راہ راست کی ہدایت کی یا نہیں اس لئے میں نے قیامت کی باز پرس سے ڈر کر مناسب سمجھا کہ ان مستورات و دیگر متعلقین کو (جو ہمارے رشتہ دار و اقارب و واسطہ دار ہیں) ان کی بے راہیوں اور بدعتوں پر بذریعہ اشتہار کے انہیں خبر دار کروں کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں قسم قسم کی خراب رسمیں اور نالائق عادتیں جن سے ایمان جاتا رہتا ہے گلے کا ہار ہو رہی ہیں اور ان بری رسموں اور خلاف شرع کاموں سے یہ لوگ ایسا پیار کرتے ہیں جو نیک اور دینداری کے کاموں سے کرنا چاہیے.ہر چند سمجھایا گیا کچھ سنتے نہیں، ہر چند ڈرایا گیا، کچھ ڈرتے نہیں، اب چونکہ موت کا کچھ اعتبار نہیں اور خدا تعالیٰ کے عذاب سے بڑھ کر اور کوئی عذاب نہیں اس لئے ہم نے ان لوگوں کے برا ماننے اور برا کہنے اور ستانے اور دُکھ دینے سے بالکل لا پروا ہو کر محض ہمدردی کی راہ سے حق نصیحت پورا کرنے کے لئے بذریعہ اس اشتہار کے ان سب کو اور دوسری مسلمان بہنوں اور بھائیوں کو خبردار کرنا چاہا تا ہماری گردن پر کوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے اور قیامت کو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم کو کسی نے نہیں سمجھایا اور سیدھا راہ نہیں بتایا.سو آج ہم کھول کر بآواز بلند کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کو چھوڑ کر دین اسلام کی راہ اختیار کی جائے اور جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور اس کے رسول کریم صلیقہ نے ہدایت کی ہے اس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیریں اور نہ دائیں طرف اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں اور اس کے بر خلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں.“ اشتہار بغرض تبلیغ و انذار مجموعہ اشتہارات جلد 1 (جدید ایڈیشن) صفحہ 84) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فضول رسموں کے ضمن میں فرماتے ہیں: میں یقیناً جانتا ہوں کہ اس قسم کی باتیں شعائر اسلام میں سے نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں نے یہ امور بطور رسوم ہندوؤں سے لئے ہیں.“ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 417) ”ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیاپا کرنا اور چیخیں مار کر رونا اور بے صبری کے کلمات منہ پر لانا، باتیں ایسی ہیں جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوؤں سے لی گئی 131

Page 132

ہیں.اگر رونا ہو تو صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس زیادہ ہے وہ شیطان سے ہے.“ سیدنا حضرت خلیفہ المسح الاول رسومات کے بد نتیجہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 66 ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 46) انسان میں ایک مرض ہے جس میں یہ ہمیشہ اللہ کا باغی بن جاتا ہے اور اللہ کے رسول اور نبیوں اور اس کے اولوالعزموں اور ولیوں اور صدیقوں کو جھٹلاتا ہے، وہ مرض عادت، رسم و رواج اور دم نقد ضرورت یا کوئی خیالی ضرورت ہے.یہ چار چیزیں ہیں.میں نے دیکھا ہے چاہے کتنی نصیحتیں کرو جب وہ اپنی عادت کے خلاف کوئی بات دیکھے گا یا رسم کے خلاف یا ضرورت کے خلاف تو اس سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرے گا (خطبات نور.خطبہ جمعہ فرمودہ 19 ستمبر 1913ء.صفحہ 650) سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: فطرت انسانی کو اللہ تعالیٰ نے پاک بنایا ہے لیکن اس میں رسم و رواج کا گند مل کر اسے خراب کر دیتا ہے.“ سید نا حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: (تفسیر کبیر جلد 3 صفحه 405) میں چاہتا ہوں کہ احباب جماعت احمدیہ اور ہمت کریں اور اپنے نکاحوں کو رسوم و بدعات سے الگ کر کے بالکل سنت نبوی کے مطابق کریں تاکہ نکاح کی حقیقی غرض قائم ہو.“ (خطبہ نکاح فرموده 13 مئی 1916ء از خطبات محمود جلد 3 صفحه 20) سید نا حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: فضول رسمیں قوم کی کی گردن میں زنجیر میں اور طوق ہوتے ہیں جو اسے ذلت اور ادبار کے گڑھے میں گرا دیتے ہیں.سید نا حضرت مصلح موعودنور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: (خطبہ نکاح فرموده 27 مارچ 1931ء از خطبات محمود جلد 3 صفحہ 301) کئی قسم کی رسمیں اور بدعتیں ہیں جن کے کرنے کیلئے عورتیں مردوں کو مجبور کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اگر اس طرح نہ کیا گیا تو باپ دادا کی ناک کٹ جائے گی.گویا وہ باپ دادا کی رسموں کو چھوڑنا پسند نہیں کرتیں، کہتی ہیں کہ اگر ہم نے رسمیں نہ کیں تو محلہ والے نام رکھیں گے لیکن خدا تعالیٰ ان کا نام رکھے تو اس کی ان کو پروا نہیں ہوتی.محلہ والوں کی انہیں بڑی فکر ہوتی ہے لیکن خدا تعالیٰ انہیں فاسق اور کافر قرار دے دے تو اس کا کچھ خیال نہیں ہوتا، کہتی ہیں یہ وز تارا ہے اسے چھوڑ نہیں سکتیں حالانکہ قائم خدا تعالیٰ کا وہی ”ور تا را‘ رہے گا باقی سب کچھ یہیں رہ جائے گا.“ اوڑھنی والیوں کے لئے پھول صفحہ:34 و 35) سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: توحید کے قیام میں ایک بڑی روک بدعت اور رسم ہے.یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر بدعت اور ہر بد رسم شرک کی ایک راہ ہے اور کوئی شخص جو توحید خالص پر قائم ہونا چاہے، توحید خالص پر قائم نہیں ہو سکتا جب تک وہ تمام بدعتوں اور تمام بد رسوم کو مٹا نہ دے.ہمارے معاشرے میں خاص طور اور دنیا کے مسلمانوں میں عام طور پر بیسیوں، سینکڑوں بلکہ شائد ہزاروں بد رسمیں داخل ہو چکی ہیں.احمدی پر 132

Page 133

وہ گھرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام بد رسوم کو جڑوں سے اُکھیڑ کے اپنے گھروں سے پھینک دیں.رسوم تو دنیا میں بہت سی پھیلی ہوئی ہیں لیکن اس وقت اُصولی طور پر ہر گھرانے کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں گھر کے دروازے پر کھڑا ہو کر اور ہر گھرانے کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوششوں کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہو گا وہ یہ یاد رکھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پروا نہیں.اسی طرح جماعت سے نکال کر باہر پھینک دیا جائے گا جیسے دودھ سے سے مکھی.پس قبل اس کے کہ خدا کا عذاب کسی قہری رنگ میں آپ پر وارد ہو یا اس کا قہر جماعتی نظام کی تعزیر کے رنگ میں آپ پر وارد ہو، اپنی اصلاح کی فکر کرو اور خدا سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کے ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمر میں قربان کر دی جائیں اور انسان اس سے بچ سکے تو تب بھی وہ مہنگا سودا نہیں ،سستا سودا ہے.“ (الفضل 2 جولائی 1967ء) سیدنا حضرت خلیفۃ لمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے مزید فرمایا: میں امید کرتا ہوں کہ آپ سب میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہوں گے اور اپنے گھروں کو پاک کرنے کے لئے شیطانی وسوسوں کی سب راہوں کو اپنے گھروں پر بند کر دیں گے.دعاؤں کے ذریعہ اور کوشش کے ذریعہ اور جدوجہد اور حقیقتاً جو جہاد کے معنے ہیں، اس جہاد کے ذریعہ اور صرف اسی غرض سے کہ خدا تعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم ہو، ہمارے گھروں میں قائم ہو، ہماری عورتوں اور بچوں کے دلوں میں قائم ہو اور اس غرض سے کہ شیطان کیلئے ہمارے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دیئے جائیں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی ہر قسم کی نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے.“ (خطبہ جمعہ 23 جون 1967ء) حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ اپنے شادی بیاہ وغیرہ کے مواقع پر ایسی رسومات میں مبتلا نہ ہوں جو احمدیوں کو زیب نہیں دیتیں اور ایک دفعہ یہ بد رسومات آپ کی تقریبات میں راہ پا گئیں تو پھر یہ بیماریاں ہمیشہ کے لئے چمٹ جائیں گی اور بڑھتی رہیں گی اور پھر آپ ان کا کوئی علاج نہیں کرسکیں گے.“ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (خطبه جمعه فرموده 3 ستمبر 1993ء از روزنامه الفضل 28 جنوری 2003ء) جو معاشرتی خامیاں ہمارے اندر موجود ہیں، ہماری جماعت کے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے وہ قابل برداشت نہیں.ان کو ساتھ لے کر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے.ان معاشرتی خامیوں سے مستقبل کی نسل کو تباہ کرنے کے بیج بو دیئے گئے ہیں.آئندہ نسلوں کو اپنے ہاتھوں سے ضائع کرنے اور قتل کرنے کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.میں کس طرح اس خوف سے کہ دشمن ہنسے گا چھپا کر بیٹھ جاؤں.میں بھی تو جواب دہ ہوں اور آپ سب سے بڑھ کر جواب دہ ہوں.ایک خاندان کی نہیں ساری جماعت کی ذمہ داری خدا تعالیٰ نے میرے اوپر ڈالی اور تمام جماعت کے حالات کے بارہ میں پوچھا جاؤں گا اس لئے کیسے میں یہ بات چھپا سکتا ہوں.“ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ہے (خطبه جمعه فرموده 14 فروری 1986ء) 133

Page 134

یہ یہ ساری چیزیں جن کا ذکر ہے، سوئم ، چالیسواں ، گٹھلیوں پر قرآن پھونکنا، ختم قرآن، باداموں پر پڑھنا، ان میں ے ایک چیز بھی حضرت اقدس محمد ملحقہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں نہیں تھی اور اس بارہ میں شیعہ سنی روایات میں اختلافات ہی کوئی نہیں، متفق علیہ ہیں کہ حضرت اقدس محمد صل الله ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے وقت میں یہ رسمیں نہیں یہ گٹھلیاں اور بادام، یہ تنزل کی علامتیں ہیں.جب قومیں بگڑتی ہیں تو رسم و رواج بن جایا کرتی ہیں.اتنی بات تو غالب بھی سمجھ گیا تھا ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں حضرت اقدس محمد مطلقہ کا نہ تو سوئم ہوا، نہ گیارھویں ہوئی، نہ چالیسواں ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی خلیفہ کا نہیں ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کا نہیں ہوا تو آج کون حق رکھتا ہے ان رسوم سے علاوہ رسمیں بنانے کا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھیں؟ تو ہم یہ کہتے ہیں کہ قوم نے اگر زندہ ہونا ہے تو واپس جانا پڑے گا، اس زمانہ میں لوٹنا پڑے گا جو زندگی کا زمانہ تھا، اس روشنی میں جانا پڑے گا جو حضرت اقدس محمد ملالہ کے نور کی روشنی تھی باقی سب اندھیرا تھا.“ مجالس عرفان از لجنہ اماء اللہ کراچی صفحہ 115-116) سید نا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.پر ”دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک کے رہنے والوں کے بعض رسم و رواج ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک قسم جو رسم و رواج کی ہے وہ ان کی شادی بیاہوں کی ہے چاہے عیسائی ہوں یا مسلمان یا کسی مذہب کے ماننے والے، ہر مذہب کے ماننے والے کا اپنے علاقے، اپنے قبیلے کے لحاظ سے خوشی کی تقریبات اور شادی بیاہ کے موقع خوشی کے اظہار کا اپنا اپنا طریقہ ہے.اسلام کے علاوہ دوسرے مذہب والوں نے تو ایک طرح ان رسم و رواج کو بھی مذہب کا حصہ بنا لیا ہے.جس جگہ جاتے ہیں، عیسائیت میں خاص طور پر ہر جگہ ہر علاقے کے لوگوں کے مطابق ان کے جو رسم و رواج ہیں وہ وہ تقریباً حصہ بن چکے ہیں یا بعض ایسے بھی ہیں جو رسم و رواج کی طرف سے آنکھ بند کر لیتے ہیں لیکن اسلام جو کامل اور مکمل مذہب ہے، جو باوجود اس کے کہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ خوشی کے مواقع پر بعض باتیں کر لو.مثلاً روایت میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ ایک عورت کو دلہن بنا کر ایک انصاری کے گھر بھجوایا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس پر آنحضرت ملالہ نے مجھے فرمایا کہ اے عائشہ (رضی اللہ عنہا)! رخصتانہ کے موقع پر تم نے گانے بجانے کا انتظام کیوں نہیں کیا؟ حالانکہ انصاری شادی کے موقع پر اس کو پسند کرتے ہیں.ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح کا اچھی طرح اعلان کیا کرو اور اس موقع پر چھاننی بجاؤ! یہ دف کی ایک قسم ہے لیکن اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی فرما دی ہے اور بالکل مادر پدر آزاد نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس گانے کی بھی کچھ حدود مقرر فرمائی ہیں کہ شریفانہ حد تک ان پر عمل ہونا چاہئے اور شریفانہ اہتمام ہو، ہلکے پھلکے اور اچھے گانوں کا.ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی خوشی کے اظہار کے طور پر شادی کے موقع پر بعض الفاظ ترتیب فرمائے کہ اس طرح گایا کرو کہ: أَتَيْنَاكُمْ أَتَيْنَاكُمْ فَحَيَّانَا فَحَيَّاكُمْ یعنی ہم تمہارے ہاں آئے ہمیں خوش آمدید کہو.تو ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہر قسم کی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرو، شادی کا موقع ہے کوئی حرج نہیں، ان کی غلط سوچ ہے.بعض دفعہ ہمارے ملکوں میں شادی کے موقعوں پر ایسے ننگے اور گندے گانے 134

Page 135

پر نسلیں لگا دیتے ہیں کہ ان کو سن کر شرم آتی ہے.ایسے بے ہودہ اور لغو اور گندے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ پتہ نہیں لوگ سنتے کس طرح ہیں؟ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ احمدی معاشرہ بہت حد تک ان لغویات اور فضول حرکتوں سے محفوظ ہے لیکن جس تیزی سے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہمارے پاکستانی ہندوستانی معاشرہ میں یہ چیزیں راہ پا رہی ہیں.دوسرے مذہب والوں کی دیکھا دیکھی جنہوں نے تمام اقدار کو بھلا دیا ہے اور ان کے ہاں تو مذہب کی کوئی اہمیت نہیں رہی، شرابیں پی کر خوشی کے موقع پر ناچ گانے ہوتے ہیں، شور شرابے ہوتے ہیں، طوفان بد تمیزی ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ! تو جیسا کہ میں نے کہا کہ اس معاشرے کے زیر اثر احمدیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے بلکہ بعض اکا دُکا شکایات مجھے آتی بھی ہیں، تو یاد رکھیں کہ احمدی نے ان لغویات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے اور بچنا ہے.بعض ایسے بیہودہ گانے گائے جاتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا یہ ہندو اپنے شادی بیاہوں پر تو اس لئے گاتے ہیں کہ وہ دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں.مختلف مقاصد کے لئے مختلف قسم کی مورتیاں انہوں نے بنا ہوتی ہیں جن کے انہوں نے نام رکھے ہوئے ہیں.ان سے مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں اور ہمارے لوگ بغیر سوچے سمجھے یہ گانے گا رہے ہوتے ہیں یا سن رہے ہوتے ہیں.اس خوشی کے موقع بجائے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو طلب کرنے کے کہ اللہ تعالیٰ یہ شادی ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے ، آئندہ اسلام کی خادم پیدا ہوں، اللہ تعالیٰ کی سچی عباد بننے والی نسلیں ہوں، غیر محسوس طور پر گانے گا کر شرک کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.پس جو شکایات آتی ہیں ایسے گھروں کی ان کو میں تنبیہ کرتا ہوں کہ ان لغویات اور فضولیات سے بچیں.پھر ڈانس ہے، ناچ ہے، لڑکی کی جو رونقیں لگتی ہیں اس میں یا شادی کے بعد جب لڑکی بیاہ کر لڑکے کے گھر جاتی ہے وہاں بعض دفعہ اس قسم کے، بیہودہ قسم کے میوزک یا گانوں کے اوپر ناچ ہو رہے ہوتے ہیں اور شامل ہونے والے عزیز رشتہ دار اس میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دی جاسکتی.بعض گھر جو دنیا داری میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں ان کی ایسی رپورٹس آتی ہیں اور کہنے والے پھر کہتے ہیں کہ کیونکہ فلاں امیر آدمی تھا اس لئے اس پر کاروائی نہیں ہوئی یا فلاں عہد یدار کا رشتہ دار عزیز تھا اس لئے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی، اس سے صرف نظر کیا گیا ہے، غریب آدمی اگر یہ حرکتیں کرے تو اسے سزا ملتی ہے.بہر حال یہ تو بعض دفعہ لوگوں کی بد ظنیاں بھی ہیں لیکن جب اس طرح صرف نظر ہو جائے چاہے غلطی سے ہو جائے اور لگے تو یہ بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں.اس بارے میں واضح بہ کر دوں کہ ایسی حرکتیں جو جماعتی وقار کی اور اسلامی تعلیم اور اقدار کی دھجیاں اُڑاتی ہوں اگر مجھے پتہ لگ جائے تو ان پر میں بلا استثنا، بغیر کسی لحاظ سے کاروائی کروں گا اور کی بھی جاتی ہے اس لئے یہ بد ظنیاں دُور ہونی چاہئیں.بعض لوگ اکثر مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد اپنے خاص مہمانوں کے ساتھ علیحدہ پروگرام بناتے ہیں اور پھر اسی طرح کی لغویات اور ہلڑ بازی چلتی رہتی ہے، گھر میں علیحدہ ناچ ڈانس ہوتے ہیں چاہے لڑکیاں لڑکیاں ہی ڈانس کر رہی ہوں یا لڑکے لڑکے بھی کر رہے ہوں لیکن جن گانوں اور میوزک پر ہو رہے ہوتے ہیں وہ ایسی لغو ہوتی ہیں کہ وہ برداشت نہیں کی جاسکتیں اس لئے آج میں خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان اور س معاشرے کے لوگوں کو جہاں ہندووانہ رسم و رواج تیزی سے راہ پا رہے ہیں، داخل ہو رہے ہیں، ان کے احمدیوں کو کہتا ہوں کہ اس سلسلہ میں اپنی اصلاح کر لیں اور جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کا نظام جو ہے یہ بھی ان بیاہ شادیوں پر نظر رکھے اور جہاں کہیں بھی اس قسم کی بیہودہ فلموں کے ناچ گانے یا ایسے گانے جو سراسر شرک پھیلانے والے ہوں دیکھیں تو ان کی رپورٹ ہونی چاہئے.اس بارے میں قطعا کوئی ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی کس خاندان کا ہے اور کیا ہے؟ آج کل پاکستان میں کیونکہ شادیوں کا 135

Page 136

پر سیزن (season) ہے تو جیسا کہ میں نے کہا اِکا دُکا یہ شکایات پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے چند مہینے خاص طور نظر رکھنے کی ضرورت ہے.ویسے تو جب بھی اور جہاں بھی اس قسم کی حرکتیں ہو رہی ہوں فوری نوٹس لینا چاہئے لیکن ان دنوں میں جیسا کہ میں نے کہا شادیوں کی کثرت کی وجہ سے ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی بھی ایسی حرکتیں سرزرد ہوتی ہیں.حالانکہ غیروں کو جب ہم اپنی شادیوں پر بلاتے ہیں تو ان کی اکثریت جو ہے وہ ہماری شادی کے طریق کو پسند کرتی ہے کہ تلاوت کرتے ہیں، دعائیہ اشعار پڑھتے ہیں، دعا کرتے ہیں اور بچی کو رخصت کرتے ہیں اور یہی طریق ہے جس سے اس جوڑے کے ہمیشہ پیار محبت سے رہنے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے دعائیں کر رہے ہوتے ہیں اور اس کی آئندہ نسل کے لئے اولاد کیلئے بھی نیک صالح ہونے کی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں.ہاں جیسا کہ میں نے کہا کہ لڑکی کی شادی کے وقت دعائیہ اشعار کے ساتھ خوشی کے اظہار کے لئے شریفانہ قسم کے دوسرے شعر بھی پڑھے جا سکتے ہیں اور یہ ہر علاقے کے رسم و رواج کے مطابق جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ نے فرمایا تھا کہ انصار پسند کرتے ہیں تو یہ نہیں فرمایا کہ ضرور ہونا چاہئے بلکہ فرمایا کہ انصار پسند کرتے ہیں.یہ خاص خاص لوگ ہیں جو پسند ہیں اور اس میں کیونکہ کوئی شرک کا اور دین سے ہٹنے کا اور کسی بدعت کا پہلو نہیں تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح کرنا چاہئے کوئی حرج نہیں ہے.یہ نہیں فرمایا کہ ہر ایک، ہر قبیلہ، ضرور دف بجایا کرے اور یہ ضروری ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے رواج کے مطابق، ایسے رواج جو دین میں خرابیاں پیدا کرنے والے نہ ہوں ان کے مطابق خوشی کا اظہار کر لیا کرو یہ ہلکی پھلکی تفریح بھی ہے اور اس کے کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن ایسی حرکتیں جن سے شرک پھیلنے کا خطرہ ہو، دین میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہو اس کی بہر حال اجازت نہیں دی جاسکتی.شادی بیاہ کی جو رسم ہے یہ بھی ایک دین ہی ہے جبھی تو آنحضرت ملاقہ نے فرمایا تھا کہ جب تم شادی کرنے کی سوچو تو ہر چیز پر فوقیت اس لڑکی کو دو، اس رشتے کو دو جس میں دین زیادہ ہو اس لئے یہ کہنا کہ شادی بیاہ صرف خوشی کا اظہار ہے، خوشی ہے اور اپنا ذاتی ہمارا فعل ہے، یہ غلط ہے.یہ ٹھیک ہے جیسا کہ پہلے بھی میں کہ آیا ہوں کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ تارک الدنیا ہو جاؤ اور بالکل ایک طرف لگ جاؤ لیکن اسلام بھی نہیں کہتا کہ کہ دنیا میں اتنے کھوئے جاؤ کہ دین کا ہوش ہی نہ رہے.اگر شادی بیاہ صرف شور وغل اور رونق اور گانا بجانا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ نے نکاح کے خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ شروع ہو کر اور پھر تقویٰ اختیار کرنے کی طرف اتنی توجہ دلائی ہے بلکہ شادی کہ ہر نصیحت اور ہر ہدایت کی بنیاد ہی تقویٰ پر ہے.پس اسلام نے اعتدال کے اندر رہتے ہوئے جن جائز باتوں کی اجازت دی ہے ان کے اندر ہی رہنا چاہئے اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہیں اُٹھانا چاہئے، حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے کہ دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے.اس لئے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک مومن کے لئے ایک ایسے انسان کے لئے جو مسلمان ہونے کا دعوی کرتا ہے شادی نیکی پھیلانے، نیکیوں پر عمل کرنے اور نیک نسل چلانے کے لئے کرنی چاہئے اور یہی بات شادی کرنے والے جوڑے کے والدین، عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھی یاد رکھنی چاہئے.ان کے ذہنوں میں بھی یہ بات ہونی چاہئے کہ یہ شادی ان مقاصد کے لئے ہے نہ صرف نفسانی اغراض اور لہو و لعب کے لئے.آنحضرت ملاقہ نے بھی شادیاں کی تھیں اور اسی غرض کے لئے کی تھیں اور یہ اُسوہ ہمارے سامنے قائم فرمایا کہ شادیاں کرو اور دین کی خاطر کرو.یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی.نہ ان لوگوں کو پسند فرمایا جو صرف عبادتوں میں لگے رہتے ہیں اور دین کی خدمت میں ڈوبے رہتے ہیں، نہ اپنے نفس کے حقوق ادا کرتے ہیں نہ بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دیتے ہیں، نہ اُن لوگوں کو پسند کیا جو دولت کے لئے، 136

Page 137

137 الله خوبصورتی کے لئے ، اعلیٰ خاندان کے لئے رشتہ جوڑتے ہیں یا جو ہر وقت اپنی دنیا داری اور بیوی بچوں کے غم میں ہی مصروف رہتے ہیں، نہ اُن کے پاس عبادت کے لئے وقت ہوتا ہے اور نہ دین کی خدمت کے لئے کوئی وقت ہوتا ہے.خلاصہ یہ کہ نہ اسلام یہ کہتا ہے کہ دنیا میں اتنے پڑ جاؤ کہ دین کو بھول جاؤ، نہ یہ کہ بالکل ہی تجرد کی زندگی اختیار کرنا شروع کر دو اور دنیا داری سے ایک طرف ہو جاؤ.ایک دفعہ آنحضرت صلیہ کو پتہ چلا کہ کسی صحابی نے کہا ہے کہ میں شادی نہیں کروں گا اور مسلسل عبادتوں میں اور روزوں میں وقت گزاروں گا.تو آپ مکی اللہ نے فرمایا کہ یہ کیسے لوگ ہیں؟ میں تو عبادتیں بھی کرتا ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں، بندوں کے دوسرے حقوق بھی ادا کرتا ہوں، شادیاں بھی کی ہیں.پس جو شخص میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے.پھر اسلام کسی بھی طرف جھکاؤ سے منع کرتا ہے.اپنا اُسوہ حسنہ آنحضرت ملالہ نے ہمارے سامنے رکھ دیا.نہ افراط کرو نہ تفریط کرو.آخر میں جو فرمایا کہ جو میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے.اس میں ان لوگوں کے لئے بھی وارنگ (warning) ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شادی صرف خوشی کا نام ہے اور اس میں ہر طرح جو مرضی کر لو کوئی حرج نہیں.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ جو میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے یعنی افراط کرنے والوں کو بھی بتا دیا کہ لغویات سے بچنا، نیکیوں کو قائم کرنا بلکہ تقویٰ کے اعلیٰ ترین معیار حاصل کرنا میری سنت ہے اس لئے تم بھی نیکیوں پر چلنے کی اور لغویات سے بچنے کی، لہو ولعب سے بچنے کی میری سنت پر عمل کرو.بعض لوگ بعض شادی والے گھر جہاں شادیاں ہو رہی ہوں دوسروں کی باتوں میں آکر یا ضد کی وجہ سے یا دکھاوے کی وجہ سے کہ فلاں نے بھی اس طرح گانے گائے تھے، فلاں نے بھی یہی کیا تھا تو ہم بھی کریں گے اپنی نیکیوں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں.اس سے بھی ہر احمدی کو بچنا چاہئے.فلاں نے اگر ایسا کیا تھا تو اس نے اپنا حساب دینا ہے اور تم نے اپنا حساب دینا ہے.اگر دوسرے نے یہ حرکت کی تھی اور پتہ نہیں لگا اور نظام کی پکڑ سے بھی بچ گیا تو ضروری نہیں کہ تم بھی بچ جاؤ.تو سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سب کام کرنے ہیں یا نیکیاں کرنی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنی ہیں، وہ تو دیکھ رہا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ہر اس چیز سے بچنا ہو گا جو دین میں برائی اور بدعت پیدا کرنے والی ہے.اس برائی کے علاوہ بھی بہت سی برائیاں ہیں جو شادی بیاہ کے موقع کی جاتی ہیں اور جن کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں.اس طرح معاشرے میں یہ برائیاں جو ہیں اپنی جڑیں گہری کرتی چلی جاتی ہیں اور اس طرح دین میں اور نظام میں ایک بگاڑ پیدا ہو رہا ہوتا ہے اس لئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، اب پھر کہہ رہا ہوں کہ دوسروں کی مثالیں دے کر بیچنے کی کوشش نہ کریں، خود بچیں اور اب اگر دوسرے احمدی کو یہ کرتا دیکھیں تو اس کی بھی اطلاع دیں کہ اس نے یہ کیا تھا.اطلاع تو دی جاسکتی ہے لیکن یہ بہانہ نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں نے کیا تھا اس لئے ہم نے بھی کرنا ہے تا کہ اصلاح کی کوشش ہو سکے، معاشرے کی اصلاح کی جا سکے.ناچ، ڈانس (Dance) اور بیہودہ قسم کے گانے جو ہیں ان کے متعلق میں نے پہلے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اگر اس طرح کی حرکتیں ہوں گی تو بہر حال پکڑ ہو گی.لیکن بعض برائیاں ایسی ہیں جو گو کہ برائیاں ہیں لیکن ان میں یہ شرک یا یہ چیزیں تو نہیں پائی جاتیں لیکن لغویات ضرور ہیں اور پھر یہ رسم و رواج جو ہیں یہ بوجھ بنتے چلے جاتے ہیں.جو کرنے والے ہیں وہ خود بھی مشکلات میں گرفتار ہو رہے ہوتے ہیں اور بعض جو ان کے قریبی ہیں، دیکھنے والے ہیں، ان کو مشکل میں ڈال رہے ہوتے ہیں ان میں جہیز ہیں، شادی کے اخراجات ہیں، ویسے کے اخراجات ہیں، طریقے ہیں اور بعض پر

Page 138

دوسری رسوم ہیں جو بالکل ہی لغویات اور بوجھ ہیں.ہمیں تو خوش ہونا چاہئے کہ ہم ایسے دین کو ماننے والے ہیں جو معاشرے کے، قبیلوں کے، خاندان کے رسم و رواج سے جان چھڑانے والا ہے.ایسے رسم و رواج جنہوں نے زندگی اجیرن کی ہوئی تھی، نہ کہ ہم دوسرے مذاہب والوں کو دیکھتے ہوئے ان لغویات کو اختیار کرنا شروع کردیں.اس آیت کے ترجمے میں جو میں نے تلاوت کی ہے آپ سن چکے ہیں کہ تم ایسے دین اور ایسے نبی کو ماننے والے ہو جو تمہارے بوجھ ہلکے کرنے والا ہے، جن بیہودہ رسم و رواج اور لغو حرکات نے تمہاری گردنوں میں طوق ڈالے ہوئے ہیں، پکڑا ہوا ہے ان سے تمہیں آزاد کرنے والا ہے.تو بجائے اس کے کہ تم اس دین کی پیروی کرو جس کو اب تم نے مان لیا ہے اور ان طور طریقوں اور رسم و رواج اور غلط قسم کے بوجھوں سے اپنے آپ کو آزاد کرو، ان میں دوبارہ گرفتار ہو رہے ہو؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ تم تو خوش قسمت ہو کہ اس تعلیم کی وجہ سے ان بوجھوں سے آزاد ہو گئے ہو اور اب فلاح پا سکو گے، کامیابیاں تمہارے قدم چومیں گی، نیکیوں کی توفیق ملے گی.پس ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو ان رسموں اور لغویات کو چھوڑنے کی وجہ سے ہمیں کامیابیوں کی خوشخبری دے رہا ہے اور ہم اب دوبارہ دنیا کی دیکھا دیکھی ان میں پڑنے والے ہو رہے ہیں.بعض اور باتوں کا بھی میں نے ذکر کیا تھا کہ وہ بعض دفعہ احمدی معاشرہ میں نظر آتی ہیں.بعض طبقوں میں تو یہ برائیاں بدعت کی شکل اختیار کر گئی ہیں.ان کے خیال میں ان کے بغیر شادی کی تقریب مکمل ہو ہی نہیں سکتی یہ باتیں ہماری قوم کے علاوہ شاید دوسری قوموں میں بھی ہوں لیکن ہندوستان اور پاکستان کے احمدیوں نے سب سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا تھا (بہت سے ایسے بیٹھے ہیں جن کے بزرگوں نے قبول کیا تھا) ان کی یہ ب سے زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے اندر کسی ایسے رسم و رواج کو راہ پانے کا موقع نہ دیں جہاں رسم رواج بوجھ بن رہے ہیں.یعنی جن کا اسلام سے، دین سے، آنحضرت ملالہ کی تعلیم سے کوئی تعلق واسطہ نہ ہو.اگر آپ لوگ اپنے رسم و رواج پر زور دیں گے تو دوسری قوموں کا بھی حق ہے.بعض رسم و رواج تو دین میں خرابی پیدا کرنے والے نہیں وہ تو جیسا کہ ذکر آیا وہ بیشک کریں، ہر قوم کے مختلف ہیں جیسا کہ پہلے میں نے کہا کہ انصار کی شادی کے موقع پر بھی خوشی کے اظہار کی خاطر آنحضرت ملالہ نے مثال بیان فرمائی ہے لیکن جو دین میں خرابی پیدا کرنے والے ہیں وہ چاہے کسی قوم کے ہوں رڈ کئے جانے والے ہیں کیونکہ احمدی معاشرہ ایک معاشرہ ہے اور جس طرح اس نے گھل مل کر دنیا میں وحدانیت قائم کرنی ہے، اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے، اگر ہر جگہ مختلف قسم کی باتیں ہونے لگ گئیں اس سے پھر دین بھی بدلتا جائے گا اور بہت ساری باتیں بھی ہوتی چلی جائیں گی.ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے پھر بڑی بدعتیں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں اس لئے بہر حال احتیاط کرنی چاہئے.“ پیدا , (خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 2005ء از الفضل انٹر نیشنل 16 تا 22 دسمبر 2005ء) 138

Page 139

خلافت عَلَى مِنهَاجِ النَّبُوَّةِ کا مفہوم مرتبه مسعود احمد شاہد استاد مدرسته الظفر 139

Page 140

140 آیت: عناوین: قیام خلافت سے متعلق ارشاد خداوندی خلافت عَلَى مِنْهَاج النُّبُوَّةِ سے متعلق حدیث مبارکہ خلافت عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ سے متعلق سفرنگ دساتیر کی پیشگوئی خلافت عَلَى مِنْهَاج النُّبُوَّةِ سے متعلق حضرت شاہ اسمعیل کی روایت ظهور امام مهدی از حضرت مسیح موعود علیه السلام خلافت على مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ از حضرت مسیح موعود علیه السلام خلافت عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ از حضرت خلیفتہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ خلافت عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ از حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ منکرین خلافت کا انجام قدرت ثانیہ کا دائمی ہونا غلبہ اسلام وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ.لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًاط وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO ( سورة النور : 56 )

Page 141

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.“ حدیث مبارکہ: (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) عَنْ حُذِيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيْكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةٌ فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 273 مشکوۃ بَابُ الْإِنْذَارِ وَالتَّحْذِيرِ) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت عَلى مِنْهَاج النُّبُوَّةِ قائم ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا، پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ ظلم ستم کے اس دور کو ختم کر دے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی ! یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے.خلافت عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ سے متعلق سفرنگ دساتیر کی پیشگوئی: ہے.زرتشتی مذہب کے صحیفہ دساتیر میں دین زرتشت کے مجدد ساسانِ اوّل کی درج کردہ ایک پیش گوئی درج کی جاتی اس پیش گوئی کے اصل الفاظ تو پہلوی زبان میں ہیں جسے زرتشتی اصحاب نے فارسی زبان میں ڈھالا ہے.چنانچہ فارسی میں اس پیش گوئی کے الفاظ درج ذیل ہیں: چوں ہزار سال تازی آئین را گزر د چناں شود آن آئین از جدائی ہا کہ اگر بائیں گر نمائند نداندش....در افتد در هم و کنند خاک پرستی و روز بروز جدائی و دشمنی در آنها افزون شود.....پس شمایا بید خوبی ازین و اگر ماند یکدم از مہیس چرخ انگیزم از کسان تو کسے و آئین و آب تو به تو رسانم و پیغمبری و پیشوائی از فرزندان تو برنگیرم (سفر نگ دساتیر صفحه 190) ترجمہ: ” پھر ایک عرصہ بعد ان کی آپس میں خانہ جنگی شروع ہو گی اور خاک پرستی شروع کر دیں گے (جیسے شیعہ اصحاب کربلا کی مٹی کی ٹکیہ سامنے رکھ کر نماز پڑھتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں اور دوسرے لوگ قبر پرستی کرتے ہیں) اور روز بروز ان میں دشمنی اور جدائی بڑھتی چلی جائے گی.پس تمہیں اس سے فائدہ پہنچے گا.اور اگر زمانہ میں ایک روز بھی باقی ہو گا تو کسی کو تیرے فرزندوں (فارسی الاصل) میں سے کھڑا کروں گا جو 141 +1

Page 142

تیری عزت و آبرو کو قائم کرے گا اور پیغمبری اور سرداری تیرے فرزندوں سے نہیں اٹھاؤں گا.“ موعود اقوام عالم از مولانا عبدالرحمن مبشر صفحه 21-20) خلافت عَلَى مِنْهَاج النُّبُوَّةِ سے متعلق حضرت شاہ اسمعیل کی روایت: خلافت راشدہ کے اوقات: حضرت شاہ اسماعیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کرتی و پس جیسا کہ کبھی کبھی دریائے رحمت سے کوئی موج سر بلند ہوتی ہے اور ائمہ ہدی میں سے کسی امام کو ظاہر ہے ایسا ہی اللہ کی نعمت کمال تک پہنچتی ہے تو کسی کو تخت خلافت پر جلوہ افروز کر دیتی ہے اور وہی امام اس زمانے کا خلیفہ راشد ہے اور وہ جو حدیث میں وارد ہے کہ خلافت راشدہ کا زمانہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمیں سال تک ہے اس کے بعد سلطنت ہو گی تو اس سے مراد یہ ہے کہ خلافت راشدہ متصل اور تواتر طریق پرتمیں سال تک رہے گی.اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیام قیامت تک خلافت راشدہ کا زمانہ وہی تمیں سال ہے اور بس ! بلکہ حدیث مذکورہ کا مفہوم یہی ہے کہ خلافت راشدہ تمیں سال گزرنے کے بعد منقطع ہو گی نہ یہ کہ اس کے بعد پھر خلافت راشدہ کبھی آ ہی نہیں سکتی بلکہ ایک دوسری حدیث خلافت راشدہ کے انقطاع کے بعد پھر عود کرنے پر دلالت کرتی ہے.چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَاشَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلَكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سكت نبوت تم میں رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ تعالیٰ اسے اٹھا لے گا اور بعدۂ نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی جو اللہ کے منشا تک رہے گی پھر اسے بھی اللہ اٹھا لے گا، پھر بادشاہی ہو گی اور اسے بھی اللہ جب تک چاہے گا رکھے گا پھر اسے بھی اٹھا لے گا.پھر سلطنت جابرانہ ہو گی جو منشائے باری تعالیٰ تک رہے گی پھر اسے بھی اٹھا لے گا اور اس کے بعد نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو منصب امامت از حضرت شاہ اسمعیل شہید - صفحہ 117-118.ناشر مگی دارالکتب اردو بازار لاہور 1994ء) خلافت حضرت امام مہدی علیہ السلام : گئے.اور یہ بھی امر ظاہر ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی خلافت، خلافت راشدہ سے افضل انواع میں سے ہو گی یعنی وہ خلافت " منتظمہ محفوظ ہو گی.منصب امامت از حضرت شاہ اسماعیل شہید صفحہ 118-117 ناشر یکی دارالکتب اردو بازار لاہور 1994ء) حضرت شاہ اسماعیل شهيد خلافت عَلى مِنْهَاج النُّبُوَّةِ کے بارے میں فرماتے ہیں: نبوت، خلافت اور امامت کے متعلق علمائے متقدمین و متاخرین نے بہت کچھ لکھا ہے ذیل میں صرف ایک مسلمہ بزرگ عالم باعمل، شہید ملت حضرت سید شاہ محمد اسماعیل رحمہ اللہ تعالی علیہ کی ایک کتاب منصب امامت میں سے اس بارہ میں چند ضروری اقتباسات درج کئے گئے جاتے ہیں.142

Page 143

حضرت شاہ اسماعیل شہید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کتاب فارسی زبان میں ہے جس کا اردو ترجمہ حکیم محمد حسین علوی صاحب نے 1949ء میں لاہور سے شائع کیا تھا اور اسی ترجمہ سے یہ اقتباسات اردو میں یہاں نقل کئے جاتے ہیں) حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وو خلیفہ راشد وہ شخص ہے جو صاحب منصب امامت ہو اور سیاست ایمانی کے معاملات اس سے ظاہر ہوں جو اس منصب تک پہنچا وہی خلیفہ راشد ہے خواہ زمانہ سابق میں ظاہر ہوا.خواہ موجودہ زمانہ میں ہو، خواہ اوائل امت میں ہو، خواہ اس کے آخر میں، خواہ فاطمی نسل سے ہو یا ہاشمی سے، خواہ نسل قصی سے ہو، خواہ نسل قریش سے.اس لفظ خلیفہ کو بمنزلہ لفظ خلیل اللہ، کلیم اللہ، رُوح الله، حبیب اللہ یا صدیق اکبر، فاروقِ اعظم، ذوالنورین، مرتضی، مجتبی اور سید الشہدا یا ان کی مانند شمار نہ کرنا چاہیے کیونکہ ان میں سے ہر ایک لقب بزرگان دین میں سے ایک خاص بزرگ کی ذات سے خصوصیت رکھتا ہے اس لقب کے اطلاق سے اسی بزرگ کی ذات تصور کی ا جاتی ہے اور اسی طرح یہ بھی نہ سمجھ لینا چاہیے کہ لفظ ” خلفائے راشدین، خلفائے اربعہ کی ذات سے خصوصیت رکھتا ہے کہ اس لفظ کے استعمال سے انہی بزرگوں کی ذات تصور ہوتی ہے.حَاشَا وَ كَلَّا ! بلکہ اس لقب کو بمنزلہ ولی اللہ ، مجتہد، عالم، عابد، زاہد، فقیہ، محدث، متکلم، حافظ، بادشاہ امیر یا وزیر کے تصور کرنا چاہیے کیونکہ ان میں سے ہر ایک خاص منصب پر دلالت نہیں رکھتا جو کوئی بھی اس صفت سے متصف اور اس پر قائم ہو وہی اس لقب سے ملقب ہو سکتا ہے ! پس جیسا کہ کبھی کبھی دریائے رحمت سے کوئی موج سربلند ہوتی ہے اور ائمہ ہدی میں سے کسی امام کو ظاہر کرتی ہے ایسا ہی اللہ کی نعمت کمال تک پہنچتی ہے تو کسی کو تخت خلافت پر جلوہ افروز کر دیتی ہے اور وہی امام اس زمانہ کا خلیفہ راشد ہے اور وہ جو حدیث میں وارد ہے کہ خلافت راشدہ کا زمانہ رسول مقبول علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد تمیں سال تک ہے اس کے بعد سلطنت ہو گی اس سے مراد یہ ہے کہ خلافت راشدہ متصل اور تواتر طریق پر تمیں سال تک رہے گی.اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیام قیامت تک خلافت راشدہ کا زمانہ وہی تھیں سال ہے اور بس ! بلکہ حدیث مذکورہ کا مفہوم یہی ہے کہ خلافت راشدہ تمہیں سال گزرنے کے بعد منقطع نہ یہ کہ اس کے بعد پھر خلافت راشدہ کبھی عود ہی نہیں کر سکتی! بلکہ ایک دوسری حدیث خلافت راشدہ کے انقطاع کے بعد پھر عود کرنے پر دلالت کرتی پر دلالت کرتی ہے.چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:.ہو تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَاشَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سكت نبوت تم میں رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ تعالیٰ اسے اٹھا لے گا اور بعدۂ نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی جو اللہ کے منشا تک رہے گی پھر اسے بھی اللہ اٹھا لے گا، پھر بادشاہی ہو گی اور اسے بھی اللہ جب تک چاہے گا رکھے گا پھر اسے بھی اٹھا لے گا.پھر سلطنت جابرانہ ہو گی جو منشائے باری تعالیٰ تک رہے گی پھر اسے بھی اٹھا لے گا اور اس کے بعد پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو گئے.اور یہ امر بھی ظاہر ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی خلافت ، خلافت راشدہ سے افضل انواع میں سے ہو گی 143

Page 144

یعنی وہ خلافت ” منتظمہ محفوظ ہو گی کیونکہ اس کی تعریف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ لَطَوَّلَ اللهُ ذَالِكَ الْيَوْمَ حَتَّى يَبْعَثَ اللَّهُ فِيهِ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ بَيْتِى يُوَاطِيَّ اسْمُهُ اِسْمِي وَاسْمُ أَبِيهِ اِسْمُ اَبى يَمُلا الْأَرْضَ قِسْطَا وَّعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا.اگر دنیا میں سے ، کچھ باقی نہ رہے مگر ایک دن کہ لمبا کر دے اسے اللہ تعالیٰ یہاں تک کہ اُٹھاوے اللہ تعالیٰ ایک آدمی میرے اہل بیت سے میرے ہمنام اور اس کے باپ کا نام بھی میرے باپ کے ہمنام ہو گا.بھر جائے زمین خوبی اور انصاف سے، جیسا کہ بھری ہو ظلم اور جور سے.نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.آتَاهُ اَبْدَالُ الشَّامِ وَ عَصَائِبُ اَهْلِ الْعِرَاقِ فَبَايِعُونَهُ.“ شام کے ابدال اور عراق کے بزرگ اس کے پاس آ کر بیعت کریں گے.نیز وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الْمَهْدِيُّ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَشْبَهُ فِي الْخُلُقِ مہدی علیہ السلام خلق میں میرے مشابہ ہوں گے.نزول نعمت الہی یعنی ظہور خلافت راشدہ سے کسی زمانہ میں مایوس نہ ہونا چاہیے اور اسے مجیب الدعوات سے طلب کرتے رہنا چاہیے اور اپنی دعا کی قبولیت کی امید رکھنا اور خلیفہ راشد کی جستجو میں ہر وقت ہمت صرف کرنا چاہیے.شاید کہ یہ نعمت کا ملہ اسی زمانہ میں ظہور فرما دے اور خلافت راشدہ اسی وقت ہی جلوہ گر ہو جائے.خلیفہ راشد سایۂ رب العالمین، ہمسایہ انبیا و مرسلین، سرمایہ ترقی دین اور ہم پائیہ ملائکہ مقربین ہے.دائرہ امکان کا مرکز ، تمام وجوہ سے باعث فخر اور ارباب عرفان کا افسر ہے.دفتر افراد انسی (یعنی تمام انسانوں.ناقل) کا سر ہے، اُس کا دل بجلی رحمان کا عرش اور اس کا سینہ رحمت و افراہ اور اقبال و جلال یزدان کا پرتو ہے.اس کی مقبولیت جمال ربانی کا عکس ہے.اس کا قہر تیغ قضا اور مہر عطیات کا منبع ہے.اس سے اعراض، معارضہ، تعزیر اور اس سے مخالفت ، مخالفت رب قدیر ہے جو کمال اس کی خدمت گزاری میں صرف نہ ہو، خیال ہے پُر از خلل اور جو علم اس کی تعظیم و تکریم کے بیان میں نہ لایا گیا سراسر وہم باطل و محال ہے جو صاحب کمال اس کے ساتھ اپنے کمال کا موازنہ کرے وہ مشارکت حق تعالیٰ پر مبنی ہے.اہل کمال کی علامت یہی ہے کہ اس کی خدمت میں مشغول اور اس کی اطاعت میں مبذول رہیں اس کی ہمسری کے دعویٰ سے دستبردار رہیں اور اسے رسول کی جگہ شمار کریں.خلیفہ راشد رسول کے فرزند و ولی عہد کی بجائے اور دوسرے ائمہ دین بمنزلہ دوسرے بیٹوں کے ( ہیں.ناقل) پس جیسا کہ تمام فرزندوں کی سعادت مندی کا تقاضا یہی ہے کہ جس طرح وہ مراتب پاس داری و خدمت گزاری اپنے باپ کے حق میں ادا لاتے ہیں وہ بتمامہ اپنے باپ کے جانشین بھائی سے بجا لائیں اور اسے اپنے باپ کی جگہ شمار کریں اور اس کے ساتھ مشارکت کا دم نہ بھریں بلکہ وزارت کے منصب پر مصلحت کا خیال رکھیں ایسے ہی ائمہ ہدی کی امامت کا تقاضا یہی ہے کہ جس طرح پیغمبر کی اطاعت اور اطاعت....بجا لانا ہے اسی طریق سے اپنے اختیار کی باگ خلیفہ راشد کے ہاتھ میں دے دیں اور ہر طریقہ سے اس کی تابع داری میں گردن تسلیم خم رکھیں گو ان میں سے ہر ایک منازل وجاہت میں مانند علم و مقامات ولایت میں راسخ القدم اور نزول کلام الہام میں اس کے ساتھ مشابہت اور توجیہ خطاب شریک منصب بعثت اور رسالت میں ایک دوسرے 144

Page 145

پر فخر رکھتا اور ابواب ہدایت کے فتح ( کھولنے.ناقل ) میں اس سے مساوات رکھتا ہو.مِنْ جُمله مذکورہ امور کے ایک اتمام امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مامور ہوئے تھے اور اس کی ادائیگی امام سے بھی ظاہر ہوئی چنانچہ قرآن میں ہے: قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں، اور ظاہر ہے کہ تبلیغ رسالت تمام انسانوں کی نسبت آنجناب سے ثابت نہیں بلکہ امر دعوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہو کر يَوْمًا فَيَوما خلفات راشدین اور ائمہ مہدیبین کے واسطہ سے ترقی کو پہنچا یہاں تک کہ امام مہدی علیہ السلام کے واسطہ سے تکمیل پائے گا اسی نیابت کو مذکورہ امور میں وصایا کہا گیا ہے.یعنی جس طرح وقتی ادائے حقوق اور طلب میں منیب (یعنی نائب بنانے والے.ناقل ) کا قائم مقام ہوتا ہے اسی طرح امام بھی ان معاملات میں جو خدا اور اس کے رسول کے درمیان منعقد ہوئے پیغمبر کا قائم مقام ہے.“ وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ظهور امام مهدی از حضرت مسیح موعود علیه السلام: حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظہور امام مہدی کے بارے میں فرماتے ہیں: روزنامه الفضل ربوہ خلافت نمبر 25 مئی 1976 صفحہ 6 تا 7) مولوی صدیق حسن خان صاحب مرحوم نے جن کو مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب مجدد قرار دے چکے ہیں اپنی کتاب آثار القیامۃ کے صفحہ 395 میں بتفریح لکھا ہے کہ ظہور مہدی اور نزول عیسی اور خروج دجال ایک ہی صدی میں ہو گا.پھر لکھا ہے کہ امام جعفر صادق کی یہ پیشگوئی تھی کہ دو سو 200 ہجری میں مہدی ظہور فرمائے گا لیکن وہ برس تو گزر گئے اور مہدی ظاہر نہ ہوا.اگر اس پیشگوئی کی کسی کشف یا الہام پر بنا تھی تو تاویل کی جاوے گی یا اس کشف کو غلط ماننا پڑے گا.پھر بیان کیا کہ اہل سنت کا یہی مذہب ہے کہ الايـــات بــعــد الْمِاتَينِ یعنی بارہ سو برس کے گزرنے کے بعد یہ علامات شروع ہو جائیں گی اور مہدی مسیح اور دجال کے نکلنے کا وقت آ جائے گا پھر نعیم بن حماد کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ابوقبیل کا قول ہے کہ بارہ سو چار 1204 ہجری میں مہدی کا ظہور ہو گا لیکن یہ قول بھی صحیح نہ نکلا پھر بعد اس کے شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کا ایک کشف لکھتے ہیں کہ ان کو تاریخ ظہور مہدی کشفی طور پر چراغ دین کے لفظ میں بحساب جمل منجانب اللہ معلوم ہوئے تھے یعنی 1268 ہجری.پھر لکھتے ہیں کہ یہ سال بھی گزر گئے اور مہدی کا دنیا میں کوئی نشان نہ پایا گیا.اس سے معلوم ہوا کہ شاہ ولی اللہ کا یہ کشف یا الہام صحیح نہیں تھا میں کہتا ہوں کہ صرف مقررہ سالوں کا گزر جانا اس کشف کی غلطی پر دلالت نہیں کرتا ہاں غلط فہمی پر دلالت کرتا ہے کیونکہ پیشگوئیوں کے اوقات معینہ قطعی الدلالت نہیں ہوتے بسا اوقات ان میں ایسے استعارت بھی ہوتے ہیں کہ دن بیان کئے جاتے ہیں اور ان سے برس مراد لئے جاتے ہیں.پھر قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے رسالہ سیف صفحہ 566 مسلول کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں کہ رسالہ مذکور میں لکھا ہے کہ علمائے ظاہری اور باطنی کا اپنے ظن اور تخمین سے اس بات پر اتفاق ہے کہ تیرھویں صدی کے اوائل میں ظہور مہدی ہو گا.پھر لکھتے ہیں کہ بعض مشائخ اپنے کشف سے یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ مہدی کا ظہور بارہ سو برس سے پیچھے ہوگا اور تیرہویں صدی سے تجاوز نہیں کرے گا.پھر لکھتے ہیں کہ یہ سال تو گزر گئے اور تیرھویں صدی سے صرف دس برس رہ گئے اور اب تک نہ مہدی نہ عیسی دنیا میں آئے.یہ کیا 145

Page 146

ہوا؟ پھر اپنی رائے لکھتے ہیں کہ میں بلحاظ قرائن قویہ گمان کرتا ہوں کہ چودھویں صدی کے سر پر ان کا ظہور ہو گا پھر لکھتے ہیں کہ قرآئن ہیں کہ تیرھویں صدی میں دجالی فتنے بہت ظہور میں آ گئے ہیں اور اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح نمودار ہو رہے ہیں اور اس تیرھویں صدی کا فتن و آفات کا مجموعہ ہونا ایک ایسا امر ہے کہ چھوٹے بڑے کی زبان پر جاری ہے یہاں تک کہ جب ہم بچے تھے تو بڑھی عورت سے سنتے تھے کہ حیوانات نے بھی اس تیرھویں صدی سے پناہ چاہی ہے.پھر لکھتے ہیں کہ ہر چند یہ مضمون کسی صحیح حدیث سے ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں ہوتا لیکن جب انقلاب عالم کا ملاحظہ کریں اور بنی آدم کے احوال میں جو فرق صریح آ گیا ہے اس کو دیکھیں تو یہ ایک سچا گواہ اس بات پر ملتا ہے کہ پہلے اس سے دنیا کا رنگ اس عنوان پر نہیں تھا.سو اگر چہ مکاشفات مشائخ کے پورے بھروسہ کے لائق نہیں کیونکہ کشف میں خطا کا احتمال بہت ہے لیکن کہہ سکتے ہیں کہ اب وہ وقت قریب ہے جو مہدی اور عیسی کا ظہور ہو کیونکہ امارت صغریٰ بِجَمِيعِها وقوع میں آگئی ہیں اور عالم میں ایک تغیر عظیم پایا جاتا ہے اور اہل عالم کی حالت نہایت درجہ پر بدل گئی ہے اور کامل درجہ کا ضعف اسلام پر وارد ہو گیا ہے اور وہ حقیقت نورانیہ جس کا نام علم ہے وہ دنیا سے اٹھ گئی ہے اور جہل بڑھ گیا ہے اور شائع ہو گیا ہے اور فسق و فجور کا بازار گرم ہے اور بغض اور حسد اور عداوت پھیل گئی ہے اور مال کی محبت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور تحصیل اسباب معاش سے ہمتیں ہار گئیں اور دار آخرت سے بکلی فراموشی ہو گئی اور کامل طور پر دنیا کو اختیار کیا گیا.سو یہ علامات بینہ اور امارات جلیہ اس بات پر ہیں کہ اب وہ وقت بہت نزدیک ہے میں کہتا ہوں کہ اور مولوی صدیق حسن صاحب کا یہ کہنا کہ کسی صحیح حدیث سے مسیح کے ظہور کا کوئی زمانہ خاص ثابت نہیں ہوتا صرف اولیا کے مکاشفات سے معلوم ہوتا ہے کہ غایت کار تیرھویں صدی کے اخیر تک اس کی حد ہے یہ مولوی صاحب کی سراسر غلطی ہے اور آپ ہی وہ مان چکے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ آدم کی پیدائش کے بعد عمر دنیا کی سات ہزار برس ہے اور اب عمر دنیا میں سے بہت ہی تھوڑی باقی ہے.پھر صفحہ 385 میں لکھتے ہیں کہ ابن ماجہ نے انس سے یہ حدیث بھی لکھی ہے سے یہ حدیث بھی لکھی ہے جس کو حاکم نے بھی مستدرک میں بیان کیا ہے کہ لَا مَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ یعنی عیسی بن مریم کے سوا اور کوئی مہدی موعود نہیں.پھر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ مہدی کا آنا بہت سی حدیثوں سے ثابت ہو تا ہے میں کہتا ہوں کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں ہیں اسی وجہ سے امامین حدیث نے ان کو نہیں لیا اور ابن ماجہ اور مستدرک کی حدیث ابھی معلوم ہو چکی ہے کہ عیسی ہی مہدی ہے لیکن ممکن ہے کہ ہم اس طرح پر تطبیق کر دیں کہ جو شخص عیسی کے نام سے آنے والا احادیث میں لکھا گیا ہے اپنے وقت کا وہی مہدی اور وہی امام ہے اور ، مکن ہے کہ اس کے بعد کوئی مہدی بھی آوے اور یہی مذہب حضرت اسماعیل بخاری کا بھی ہے کیونکہ اگر ان کا بجز اس کے کوئی اور اعتقاد ہوتا تو ضرور وہ اپنی حدیث میں ظاہر فرماتے لیکن وہ صرف اسی قدر کہہ کر چپ ہو گئے کہ ابن مریم تم میں اترے گا جو تمہارا امام ہوگا اور تم میں سے ہی ہوگا.اب ظاہر ہے کہ امام وقت ایک ہی ہوا کرتا ہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: (ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد 3 صفحه 404 تا 406) ایسا ہی مہدی کے بارہ میں جو بیان کیا جاتا ہے کہ ضرور ہے کہ پہلے امام محمد مہدی آویں اور بعد اس کے ظہور مسیح ابن مریم کا ہو.یہ خیال قلت تدبر کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اگر مہدی کا آنا مسیح ابن مریم کے زمانہ کیلئے ایک لازم غیر منفک ہوتا اور مسیح کے سلسلہ ظہور میں داخل ہوتا تو دو بزرگ شیخ اور امام حدیث کے یعنی 146

Page 147

ہوتا ہے کہ چاہیے حضرت محمد اسماعیل صاحب صحیح بخاری اور حضرت امام صاحب صحیح مسلم اپنے صحیحوں سے اس واقعہ کو خارج نہ رکھتے لیکن جس حالت میں انہوں نے اس زمانہ کا تمام نقشہ کھینچ کر آگے رکھ دیا اور حصر کے طور پر دعوی کر کے بتلا دیا کہ فلاں فلاں امر اس وقت ظہور ہو گا لیکن امام محمد مہدی کا نام تک بھی تو نہیں لیا.پس اس سے سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی صحیح اور کامل تحقیقات کی رو سے ان حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھا جو مسیح کے آنے کے ساتھ مہدی کا آنا لازم غیر منفک ٹھہرا رہی ہیں اور دراصل یہ خیال بالکل فضول اور مہمل معلوم باوجود یکہ ایک ایسی شان کا آدمی ہو کہ جس کو باعتبار باطنی رنگ اور خاصیت اس کی کے مسیح ابن مریم کہنا دنیا میں ظہور کرے اور پھر اس کے ساتھ کسی دوسرے مہدی کا آنا بھی ضروری ہو.کیا وہ خود مہدی نہیں ہے؟ کیا وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت پا کر نہیں آیا؟ کیا اس کے پاس اس قدر جواہرات و خزائن و اموال معارف و دقائق نہیں ہیں کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں اور اس قدر ان کا دامن بھر جائے جو قبول کرنے کی جگہ نہ رہے.پس اگر یہ سچ ہے تو اس وقت دوسرے مہدی کی ضرورت ہی کیا ہے اور یہ صرف امامین موصوفین کا ہی مذہب نہیں بلکہ ابن ماجہ اور حاکم نے بھی اپنی صحیح میں لکھا ہے لَا مَهْدِيٌّ إِلَّا عِيسَى یعنی بجز عیسی کے اس وقت کوئی مہدی نہ ہو گا اور یوں تو ہمیں اس بات کا اقرار ہے کہ پہلے بھی کئی مہدی آئے ہوں اور ممکن کہ آئندہ بھی آدیں اور ممکن ہے کہ امام محمد کے نام پر بھی کوئی مہدی ظاہر ہو لیکن جس طرز سے عوام کے خیال میں ہے اس کا ثبوت پایا نہیں جاتا چنانچہ یہ صرف ہماری ہی رائے نہیں اکثر محقق یہی رائے ظاہر کرتے آئے ہیں.66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ہے (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 378 تا379) " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوَّلِهَا وَآخِرِهَا أَوَّلُهَا فِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاخِرُهَا فِيْهِمْ عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ وَ بَيْنَ ذَلِكَ فَيْجٌ أَعْوَجٌ لَيْسُوا مِنِّى وَلَسْتُ مِنْهُمْ یعنی امتیں دو ہی بہتر ہیں ایک اول اور ایک آخر اور درمیانی گروہ ایک لشکر سج ہے دیکھنے میں ایک فوج اور روحانیت کے رُو سے مردہ ہے نہ وہ مجھ سے اور نہ میں ان میں سے ہوں.حدیث صحیح میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی که اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ اَوْ رِجَالٌ مِّنْ فَارِسَ پس اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آخری زمانہ میں فارسی الاصل لوگوں میں سے ایک آدمی پیدا ہو گا کہ وہ ایمان میں ایسا مضبوط ہو گا کہ اگر ایمان ثریا میں ہوتا تو وہیں سے اس کو لے آتا اور ایک دوسری حدیث میں اسی شخص کو مہدی کے لفظ سے موسوم ہے اور اس کا ظہور آخری زمانہ میں بلاد مشرقیہ سے قرار دیا گیا ہے اور دجال کا ظہور بھی آخری زمانہ میں بلاد مشرقیہ سے قرار دیا گیا ہے ان دونوں حدیثوں کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص دجال کے مقابل پر آنے والا ہے وہ یہی شخص ہے اور سنت اللہ بھی اسی بات کو چاہتی ہے کہ جس ملک میں دجال جیسا خبیث پیدا ہوا اسی ملک میں طیب بھی پیدا ہو کیونکہ طبیب جب آتا ہے تو بیمار کی طرف ہی رُخ کرتا ہے اور یہ نہایت تعجب کا مقام ہے کہ بموجب احادیث صحیحہ کے دجال تو ہندوستان میں پیدا ہو اور مسیح دمشق کے میناروں پر جا اُترے.اس میں شک نہیں کہ مدینہ منورہ سے ہندوستان سمت مشرق میں واقع ن سمت مشرق میں واقع ہے بلا شبہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ مشرق کی طرف سے ہی دجال کا ظہور ہو گا اور مشرق کی طرف سے ہی رایات سود مہدی ہے.اللہ کے ظاہر ہوں گے گویا روز ازل سے یہی مقرر ہے کہ محل فتن بھی مشرق ہی ہے اور محل اصلاح فتن بھی کیا گیا 147

Page 148

مشرق ہی ہے.اور اس جگہ ایک نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا اللہ جل شانہ نے ظاہر الفاظ آیت میں وَاخَرِينَ مِنْهُمْ کا لفظ استعمال کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ لوگ جو کمالات میں صحابہ کے رنگ میں ظاہر ہوں گے وہ آخری زمانہ میں آئیں گے.ایسا ہی اس آیت میں وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ کے تمام حروف کے اعداد سے جو 1275 ہیں اس بات کی طرف اشارہ کر دیا جو وَ اخَرِينَ مِنْهُمُ کا مصداق جو فارسی الاصل ہے اپنے نشاء ظاہر کا بلوغ اس سن میں پورا کر کے صحابہ سے مناسبت پیدا کر لے گا.سو یہی سن 1275 ہجری جو آیت وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے حروف کے اعداد سے ظاہر ہوتا ہے اس عاجز کی بلوغ اور پیدائش ثانی اور تولد روحانی کی تاریخ ہے جو آج کے دن تک چونتیس برس ہوتے ہیں.“ وہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 216 تا 220) خلافت عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ از حضرت مسیح موعود علیه السلام: خلافت عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: پس انبیاء کی طرف نسبت دے کر معنی آیت کے یوں ہوں گے کہ انبیاء مِنْ حَيْثِ الظُّلُ باقی رکھے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ظلمی طور پر ہر یک ضرورت کے وقت میں کسی بندہ کو ان کی نظیر اور مثیل پیدا کر دیتا ہے جو انہیں کے رنگ میں ہو کر ان کی دائمی زندگی کا موجب ہوتا ہے اور اسی ظلی وجود قائم رکھنے کیلئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی اے خدا ہمارے ہمیں سیدھی راہ دکھا جو تیرے ان بندوں کی راہ ہے جن پر تیرانعام ہے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا انعام جو انبیاء پر ہوا تھا جس کے مانگنے کیلئے اس دعا میں حکم ہے اور وہ درم اور دینار کی قسم میں سے نہیں بلکہ وہ انوار اور برکات اور محبت اور یقین اور خوارق اور تائید سماوی اور قبولیت اور معرفت تامہ کاملہ اور وحی اور کشف کا انعام ہے اور خدا تعالیٰ نے اس اُمت کو اس انعام کے مانگنے کے لئے تبھی حکم فرمایا کہ اوّل اس انعام کے عطا کرنے کا ارادہ بھی کر لیا.پس اس آیت سے بھی کھلے کھلے طور پر یہی ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ اس امت کو ظلّی طور پر تمام انبیا کا وارث ٹھہراتا ہے تا انبیا کا وجود ظلمی طور پر ہمیشہ باقی رہے اور دنیا ان کے وجود سے کبھی خالی نہ ہو اور نہ صرف دعا کیلئے حکم کیا بلکہ ایک آیت میں وعدہ بھی فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا یعنی جو لوگ ہماری راہ میں جو صراط مستقیم ہے مجاہدہ کریں گے تو ہم ان کو اپنی راہیں بتلا دیں گے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہیں وہی ہیں جو انبیاء کو دکھلائی گئیں تھیں.پھر بعض اور آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور خداوند کریم نے یہی ارادہ فرمایا ہے کہ روحانی معلم جو انبیاء کے وارث ہیں ہمیشہ ہوتے ص رہیں اور وہ یہ ہیں: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النور: 56) وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُمْ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةً أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِنْ دَارِهِمْ حَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (الرعد: 32) وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا - (بنی اسرائیل: 16) یعنی خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے اے مومنانِ امت محمدیہ وعدہ کیا ہے کہ تمہیں بھی وہ زمین میں خلیفہ کرے گا جیسا کہ تم سے پہلوں کو کیا اور ہمیشہ کفار پر کسی قسم کی کوفتیں جسمانی ہوں یا رُوحانی پڑتی رہیں گی یا ان کے گھر 148

Page 149

149 سے نزدیک آ جائیں گی یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ آ پہنچے گا اور خدا تعالیٰ اپنے وعدوں میں تخلف نہیں کرتا.اور ہم کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ایک رسول بھیج نہ لیں.ان آیات کو اگر کوئی شخص تأمل اور غور کی نظر سے دیکھے تو میں کیونکر کہوں کہ وہ اس بات کو سمجھ نہ جائے کہ خدا تعالیٰ اس اُمت کے لیے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے.اگر خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہ دینا کیا معنی رکھتا تھا اور اگر خلافت راشدہ صرف تمیں برس تک رہ کر پھر ہمیشہ کیلئے اس کا دور ختم ہو گیا تھا تو اس سے لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس اُمت پر ہمیشہ کیلئے ابواب سعادت مفتوح رکھے کیونکہ روحانی سلسلہ کی موت سے دین کی موت لازم آتی ہے اور ایسا مذہب ہرگز زندہ نہیں کہلا سکتا جس کے قبول کرنے والے خود اپنی زبان سے ہی یہ اقرار کریں کہ تیرہ سو برس سے یہ مذہب مرا ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس مذہب کے لئے ہر گز یہ ارادہ نہیں کیا کہ حقیقی زندگی کا وہ نور جو نبی کریم کے سینہ میں تھا وہ تو راث کے طور پر دوسروں میں چلا آوے.افسوس کہ ایسے خیال پر جمنے والے خلیفہ کے لفظ کو بھی جو استخلاف سے مفہوم ہوتا ہے تدبر سے نہیں سوچتے کیونکہ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کیلئے دائمی طور پر بقا نہیں.پر لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی ہیں ظلی طور ہمیشہ کیلئے تا قیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں پھیل رہے برکاتِ رسالت سے محروم نہ رہے.پس جو شخص خلافت کو صرف تیں برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہر گز نہیں تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف تمیں برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے.پھر بعد اس کے دنیا تباہ ہو جائے تو ہو جائے کچھ پروا نہیں بلکہ پہلے دنوں میں تو خلیفوں کا ہونا بجز شوکت اسلام پھیلانے کے کچھ اور زیادہ ضرورت نہیں رکھتا تھا کیونکہ انوار رسالت اور کمالات نبوت تازہ بتازہ تھے اور ہزارہا معجزات بارش کی طرح ابھی نازل ہو چکے تھے اور اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اس کی سنت اور قانون سے یہ بھی بعید نہ تھا کہ بجائے ان چار خلیفوں کے اس تیس برس کے عرصہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کو ہی بڑھا دیتا اس حساب سے تیس برس کے ختم ہونے تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل 93 برس کی عمر تک پہنچتے اور یہ اندازہ اس زمانہ کی مقرر عمروں سے نہ کچھ زیادہ اور نہ اس قانون قدرت سے کچھ بڑھ کر ہے جو انسانی عمروں کے بارے میں ہماری نظر کے سامنے ہے.پس یہ حقیر خیال خدا تعالیٰ کی نسبت تجویز کرنا کہ اس کو صرف اس امت کے تمیں برس کا ہی فکر تھا اور پھر اس کو ہمیشہ کے لئے ضلالت میں چھوڑ دیا اور وہ نور جو قدیم سے انبیائے سابقین کی امت میں خلافت کے آئینہ میں وہ دکھلاتا رہا اس امت کیلئے دکھلانا اس کو منظور نہ ہوا.کیا عقل سلیم خدائے رحیم و کریم کی نسبت ان باتوں کو تجویز کرے گی ہر گز نہیں.اور پھر یہ آیت خلافت ائمہ پر گواہ ناطق ہے.وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (الانبياء: 106) کیونکہ یہ آیت صاف صاف پکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت دائمی ہے اس لئے کہ: يَرِثُهَا کا لفظ دوام کو چاہتا ہے.وجہ یہ کہ اگر آخری نوبت فاسقوں کی ہو تو زمین کے وارث وہی قرار پائیں گے نہ کہ صالح اور سب کا وارث وہی ہوتا ہے جو سب کے بعد ،

Page 150

66 ہو.(شہادت القرآن - روحانی خزائن جلد نمبر 6 صفحہ 351 تا 354) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی مضمون کی مزید وضاحت فرماتے ہیں: ”مسلمانوں کے آخری زمانہ کے لئے قرآن شریف نے وہ لفظ استعمال کیا ہے جو یہود کے لئے استعمال کیا تھا یعنی فرمایا: فَيَنْظُرُ كَيْفَ تَعْلَمُونَ.جس کے یہ معنے ہیں کہ تم کو خلافت اور سلطنت دی جائے گی مگر آخری زمانہ میں تمہاری بد اعمالی کی وجہ سے وہ سلطنت تم سے چھین لی جائے گی جیسا کہ یہودیوں سے چھین لی گئی تھی اور پھر سورۃ نور میں صریح اشارہ فرماتا ہے کہ ہر ایک رنگ میں جیسے بنی اسرائیل میں خلیفے گزرے ہیں وہ تمام رنگ اِس اُمت کے خلیفوں میں بھی ہوں گے چنانچہ اسرائیلی خلیفوں میں سے حضرت عیسی علیہ السلام ایسے خلیفے تھے جنہوں نے نہ تلوار اٹھائی اور نہ جہاد کیا.سو اس اُمت کو بھی اسی رنگ کا مسیح موعود دیا گیا دیکھو آیت : وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ ) (سورۃ النور: 56) اس آیت میں فقره كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ نبلِهِم قابل غور ہے کیونکہ اس سے سمجھا جاتا ہے کہ محمدی خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے اور چونکہ موسوی خلافت کا انجام ایسے نبی پر ہوا یعنی حضرت عیسی علیہ السلام پر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چودھویں صدی کے سر پر آیا اور نیز کوئی جنگ اور جہاد نہیں کیا اس لئے ضروری تھا کہ آخری خلیفہ سلسلہ محمدی کا بھی اس شان کا ہو.“ ط (لیکچر سیالکوٹ.رحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 213 تا 214) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے براہین احمدیہ میں فرمایا: ”خدا نے تم سے بعض نیکو کار ایمانداروں کے لئے یہ وعدہ ٹھہرا رکھا ہے کہ وہ انہیں زمین پر اپنے رسول مقبول کے خلیفے کرے گا.اُنہیں کی مانند جو پہلے کرتا رہا ہے اور ان کے دین کو کہ جو ان کے لئے اس نے پسند کر لیا ہے یعنی دین اسلام کو زمین پر جما دے گا اور مستحکم اور قائم کر دے گا اور بعد اس کے کہ ایماندار خوف کی حالت میں ہوں گے یعنی بعد اس وقت کے کہ جب بباعث وفات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ خوف دامن گیر ہو گا کہ شاید اب دین تباہ نہ ہو جائے تو اس خوف اور اندیشہ کی حالت میں خدائے تعالیٰ خلافت حقہ کو قائم کر کے مسلمانوں کو اندیشہ ابترئی دین سے بے غم اور امن کی حالت میں کر دے گا وہ خالصتاً میری پرستش کریں گے اور مجھ سے کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے یہ تو ظاہری طور پر بشارت ہے مگر جیسا کہ آیات قرآنیہ میں عادت الہیہ جاری ہے اس کے نیچے ایک باطنی معنے بھی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ باطنی طور پر ان آیات میں خلافت روحانی کی طرف بھی اشارہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک خوف کی حالت میں کہ جب محبت الہیہ دلوں سے اٹھ جائے اور مذاہب فاسدہ ہر طرف پھیل جائیں اور لوگ رُو بہ دنیا ہو جائیں اور دین کے گم ہونے کا اندیشہ ہو تو ہمیشہ ایسے وقتوں میں خدا روحانی خلیفوں کو پید کرتا رہے گا کہ جن کے ہاتھ روحانی طور پر نصرت اور فتح دین کی ظاہر ہو اور حق کی عزت اور باطل کی ذلت ہوتا ہمیشہ دین اور اپنی اصلی تازگی پر عود کرتا رہے اور ایماندار ضلالت کے پھیل جانے اور دین کے مفقود ہو جانے کے اندیشہ سے امن کی حالت میں آ جائیں.“ (براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 259 تا 260) 150

Page 151

ایک اور جگہ اسی مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا : ”خدا وعدہ دے چکا ہے کہ اس دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفے پیدا کرے گا اور قیامت تک اس کو قائم کرے گا یعنی جس طرح موسیٰ کے دین میں مدت ہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتا رہا ایسا ہی اس جگہ بھی کرے گا اور اس کو معدوم ہونے نہیں دے گا.“ تبلیغ رسالت - مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 60) خلافت عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ از حضرت خلیفة أمسح الاول رضی اللہ عنہ حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے خلافت على مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ کے بارے میں فرمایا: يَسْتَخْلِفَنَّهُمْ: خلیفہ کا بنانا خدا کے اختیار میں ہے اور میں اس امر میں خود گواہ ہوں کہ خلافت خدا کے فضل سے ملتی ہے.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمُ : یہ سچے خلیفہ کی صداقت کے نشان بتائے کہ ان میں تمکین دے گا ان پر خوف بھی آئے گا مگر وہ خوف امن سے بدلا جاوے گا برخلاف اس کے جو ان کے منکر ہوئے وہ فاسق ہوں گے.چنانچہ دیکھ لو کنجروں سے، رنڈیوں سے پوچھو تو اپنے تئیں اسی گروہ کی خادم بتاتی ہیں جو کافر ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جولائی 1910ء) اللہ نے تم میں سے مومنوں اور نیکو کاروں سے وعدہ کیا کہ انہیں سر زمین مکہ میں ضرور خلیفہ بنائے گا جیسا ان سے پہلوں نے بنایا اور وہ دین جو ان کیلئے پسند کیا ہے اسے ان کی خاطر مضبوط کر دے گا اور ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا کہ وہ میرے عبادت کریں گے اور کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرائیں گے.یہ پیشین گوئی صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں ایسی پوری ہوئی کہ تاریخ عالم میں اس کی نظیر نہیں.“ (فضل الخطاب حصہ دوم صفحہ 97) " جس طرح جناب موسیٰ علیہ السلام کی قوم دشمنوں سے نجات پا کر آخر معزز اور ممتاز اور خلافت اور سلطنت سے سرفراز ہوئی اسی طرح ٹھیک اسی طرح لَا رَيْبَ اسی طرح اس رسول کے اتباع بھی موسیٰ علیہ السلام کے اتباع کی طرح بلکہ بڑھ کر ابراہیم کے موعود ملک بالخصوص اور اپنے وقت کے زبردست بادشاہوں پر علی العموم خلافت کریں گے.فرمایا: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَ مِّنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (سورة النور: 56) وعدہ دے چکا اللہ تعالیٰ ان O لوگوں کو تم میں سے جو ایمان لائے اور کام کئے انہوں نے اچھے ضرور خلیفہ کر دے گا ان کو اس خاص زمین میں (جس کا وعدہ ابراہیم علیہ السلام سے ہوا) جیسے خلیفہ بنایا ان کو جو ان اسلامیوں سے پہلے تھے اور طاقت بخشے گا انہیں اس دین کو پھیلانے کیلئے جو اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے پسند فرمایا.اور ضرور ہی بدلہ دے گا انہیں خوف کے بعد امن سے.“ b.66 تصدیق براہین احمدیہ صفحہ 16-15) اللہ کی نعمت کی قدر کرو، اُس نے خاتم الانبیاء بھیجا، کتاب بھی کامل بھیجی، کتاب کے سمجھانے کا خود وعدہ کیا اور 151

Page 152

ایسے لوگوں کے بھیجنے کا وعدہ فرمایا جو آ آ کر خواب غفلت سے بیدار کرتے ہیں.اس زمانہ ہی کو دیکھو کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ کا وعدہ کیسا سچا اور صحیح ثابت ہوا اس کا رحم اس کا فضل اور انعام کس کس طرح دستگیری کرتا ہے مگر انسان کو بھی لازم ہے کہ خود بھی قدم اٹھاوے یہ بھی ایک سنت اللہ چلی آتی ہے کہ خلفا پر مطاعن ہوتے ہیں.آدم پر مطاعن کرنے والی خبیث روح کی ذریت بھی اب تک موجود ہے، صحابہ کرام پر مطاعن کرنے والے روافض اب بھی ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان کو تمکنت دیتا ہے اور خوف کو امن سے بدل دیتا ہے.اسی حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ نمبر 25-224) مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فرمان کے وقت نافرمانی کی جاوے تو پھر اسلام کا مفہوم نہیں رہتا.قرآن بھی یہی کہتا ہے: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ط وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (سورة النور: 56) ) یہاں بھی ان خلفا کے منکروں پر لفظ کفر کا ہی آیا ہے کیونکہ وہ تو حکم الہی ہے جس رنگ میں ہو جو اس سے نافرمانی کرے گا وہ نافرمان ہوگا میں اس چھت کے نیچے بیٹھا ہوں اگر مجھے اللہ تعالیٰ ابھی حکم دے کہ اُٹھ جاؤ اور میں نہ اُٹھوں تو میں نافرمان ہوں گا.اگر یہ چھت گرے اور میں مر جاؤں تو اس نافرمانی کی سزا ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو کیا میں تو کہتا ہوں کہ خدا کے کسی ایک حکم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں کی کسی ایک نافرمانی سے انسان کافر ہو جاتا ہے.“ ( حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ نمبر 228) ”ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وعدہ اور پیشگوئی کے موافق جو استثناء کے 18 باب میں کی گئی تھی.مثیل موسیٰ ہیں اور قرآن نے خود اس دعوی کو لیا.اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (المزمل : 16).اب جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ٹھہرے اور خلفائے موسویہ کے طریق پر ایک سلسلہ خلفائے محمد یہ کا خدا تعالیٰ نے قائم کرنے کا وعدہ کیا جیسا کہ سورۃ نور میں فرمایا: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ پھر کیا چودھویں صدی موسوی کے خلیفہ کے مقابل پر چودھویں صدی ہجری پر ایک خلیفہ کا آنا ضروری تھا یا نہیں؟ اگر انصاف کو ہاتھ سے نہ دیا جاوے اور اس آیت وعدہ کے لفظ كَمَا پر پورا غور کر لیا جاوے تو صاف اقرار کرنا پڑے گا کہ موسوی خلفا کے مقابل پر چودہویں صدی کا خلیفہ خاتم الخلفا ہو گا اور مسیح موعود ہو گا.اب غور کرو کہ عقل اور نقل میں تناقض کہاں ہوا؟ عقل نے ضرورت بتائی.نقل صحیح بھی بتاتی ہے کہ اس وقت ایک مامور کی ضرورت ہے اور وہ خاتم الخلفاء ہو گا اس کا نام مسیح موعود ہونا چاہیے پھر ایک مدعی موجود ہے وہ بھی یہی کہتا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں.اس کے دعوی کو راست بازوں کے معیار پر پرکھ لو.“ ( حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ نمبر 230 تا 231) حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اسی موضوع پر مزید فرمایا: دنیا کے مذاہب کی حفاظت کیلئے مُؤيَّد مِنَ اللهِ ، نصرت یافتہ پیدا نہیں ہوتے.اسلام کے اندر کیسا فضل اور 152

Page 153

احسان ہے کہ وہ مامور بھیجتا ہے جو پیدا ہونے والی بیماریوں دعاؤں کے مانگنے والا، خدا کی درگاہ میں ہوشیار انسان، شرارتوں اور عداوتوں کے بد نتائج سے آگاہ، بھلائی سے واقف انسان ہوتا ہے.جب غفلت ہوتی ہے اور قرآن کریم سے بے خبری ہوتی ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں میں بے سمجھی پیدا ہو جاتی ہے تو خدا کا وعدہ ہے کہ ہمیشہ خلفا پیدا کرے گا جس کے سبب سے کل دنیا میں اسلام فضلیت رکھتا ہے یہ امر مشکل ہے کہ ہم اس انسان کو کیونکر پہچانیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے؟ اس کی شناخت کیلئے ایک نشان مِنْ جُملہ اور نشانوں کے خدا تعالیٰ نے یہ مقرر فرمایا ہے : لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُم خدا فرماتا ہے کہ ہمارے مامور کی شناخت کیا ہے اس کیلئے ایک تو یہ نشان کہ وہ بھولی بسری متاع جس کو خدا تعالیٰ پسند کرتا ہے اس سے کہ سے لوگ آگاہ ہوں اور غلطی سے چونک اٹھیں اور اسے چھوڑ دیں، اس کو پورا کرنے کیلئے اس کو ایک طاقت دی جاتی ہے ایک قسم کی بہادری اور نصرت عطا ہوتی ہے اس بات کے قائم کرنے کیلئے جس کیلئے اس کو بھیجا ہے قسم قسم کی نصرتیں ہوتی ہیں کوئی ارادہ اور سچا جوش پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ خدا تعالیٰ کی مدد کا ہاتھ ساتھ نہ ہو.بڑی بڑی مشکلات آتی ہیں اور ڈرانے والی چیزیں آتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان سب خوفوں اور خطرات کو امن میں بدل دیتا ہے اور دور کر دیتا ہے.ایک معیار تو اس کی راست بازی اور شناخت کا یہ ہے.حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ 229-228) خلافت عَلَى مِنْهَاج النُّبُوَّةِ از حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آیت استخلاف کی روشنی میں خلافت عَلَى مِنْهَاج النُّبُوَّةِ کے بارے میں فرمایا: ان آیات سے یہ مضمون شروع ہوتا ہے کہ اگر مسلمان قومی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے تو ان کو کیا انعام ملے گا.چنانچہ فرماتا ہے کہ تم میں سے جو لوگ خلافت پر ایمان لائیں گے اور خلافت کے استحقاق کے مطابق عمل کریں گے اور ایسے اعمال بجالائیں گے جو انہیں خلافت کا مستحق بنا دیں ان سے اللہ تعالیٰ یہ وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو اس نے خلیفہ بنایا اور ان کی خاطر ان کے دین کو جو اُس نے اُن کیلئے پسند کیا ہے دنیا میں قائم کرے گا اور جب بھی ان پر خوف آئے گا اس کو امن سے بدل دے گا.اور ایسا ہوگا کہ وہ میری عبادت کرتے رہیں گے اور کسی کو میرا شریک قرار نہیں دیں گے.لیکن جو لوگ مسئلہ خلافت پر ایمان لانا چھوڑ دیں گے وہ اس انعام سے متمتع نہیں ہوں گے بلکہ اطاعت سے خارج سمجھے جائیں گے.اس آیت میں مسلمانوں کی قسمت کا آخری فیصلہ کیا گیا ہے اور ان سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ خلافت کے قائل رہے اور اس غرض کے لئے مناسب کوشش اور جدوجہد بھی کرتے رہے تو جس طرح پہلی قوموں میں خدا تعالیٰ خلافت قائم کی ہے اسی طرح ان کے اندر بھی خدا تعالیٰ خلافت کو قائم کر دے گا اور خلافت کے ذریعہ سے ان کو ان کے دین پر قائم فرمائے گا جو خدا نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور اس دین کی جڑیں مضبوط کر دیگا اور خوف کے بعد امن کی حالت ان پر لے آئے گا جس کے نتیجہ میں وہ خدائے واحد پرستار بنے رہیں گے اور شرک نہیں کریں گے.“ کے 66 ( تفسیر کبیر جلد 6 صفحه 367-366) 153

Page 154

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آیت استخلاف کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: یہ آیت جو آیت استخلاف کہلاتی ہے اس میں مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں: اوّل جس انعام کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ ایک وعدہ ہے.دوم یہ وعدہ امت سے ہے جب تک وہ ایمان اور عمل صالح پر کاربند رہے.سوم: اس وعدہ کی غرض یہ ہے کہ: (الف) مسلمان بھی وہی انعام پائیں جو پہلی امتوں نے پائے تھے کیونکہ فرماتا ہے: لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (ب) اس وعدہ کی دوسری غرض تمکین دین ہے.(ج) اس کی تیسری غرض مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دینا ہے.(د) اس کی چوتھی غرض شرک کو دور کرنا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا قیام ہے.اس آیت کے آخر میں وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس کے وعدہ ہونے پر زور دیا اور وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (براہیم : 8) کے وعید کی طرف توجہ دلائی کہ ہم جو انعامات تم پر نازل کرنے لگے ہیں اگر تم ان کی ناقدری کرو گے تو ہم تمہیں سخت سزا دیں گے.خلافت بھی چونکہ بھاری انعام ہے اس لئے یاد رکھو جو لوگ اس نعمت کی ناشکری کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے.یہ آیت ایک زبردست شہادت خلافت راشدہ پر ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور احسان مسلمانوں میں خلافت کا نظام قائم کیا جائے گا جو موید من اللہ ہو گا جیسا کہ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ امَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الْاَرْضِ اور وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ سے ظاہر ہے اور مسلمانوں کو پہلی قوموں کے انعامات میں سے وافر حصہ دلانے والا ہو گا پھر اس آیت میں خلفا کی علامات بھی بتائی گئی ہیں جن سے بچے اور جھوٹے میں فرق کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہیں: اوّل: خلیفہ خدا بناتا ہے یعنی اس کے بنانے میں انسانی ہاتھ نہیں ہوتا نہ وہ خود خواہش کرتا ہے اور نہ کے ذریعہ وہ خلیفہ ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو ایسے حالات میں وہ خلیفہ بنتا ہے جبکہ اس کا خلیفہ ہونا بظاہر ناممکن سمجھا جاتا ہے.چنانچہ یہ الفاظ کہ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ خود ظاہر کرتے ہیں کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے کیونکہ جو وعدہ کرتا ہے وہی دیتا بھی ہے.نہ یہ کہ وعدہ تو وہ کرے اور اسے پورا کوئی اور کرے.پس اس آیت میں پہلی بات یہ بتائی گئی ہے کہ بچے خلفا کی آمد خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو گی.کوئی شخص خلافت کی خواہش کر کے خلیفہ نہیں بن سکتا اور نہ کسی منصوبہ کے ماتحت خلیفہ بن سکتا ہے خلیفہ وہی ہو گا جسے خدا بنانا چاہے گا بلکہ بسا اوقات وہ ایسے حالات میں خلیفہ ہو گا جبکہ دنیا اس کے خلیفہ ہونے کو ناممکن خیال کرتی ہوگی.منصوبه خلفا دوسری علامت اللہ تعالیٰ نے بچے خلیفہ کی یہ بتائی ہے کہ وہ اس کی مدد انبیاء کے مشابہ کرتا ہے کیونکہ فرماتا.ہے كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ کہ یہ خلفا ہماری نصرت کے ایسے ہی مستحق ہوں گے جیسے پہلے پہلی خلافتوں کو دیکھا جاتا ہے تو وہ تین قسم کی نظر آتی ہیں.اول خلافت نبوت جیسے آدم علیہ السلام کی خلافت تھی جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (بقره:31) میں زمین میں اپنا ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.اب آدم علیہ السلام کا انتخاب نہیں کیا گیا تھا اور نہ وہ دنیوی بادشاہ تھے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے ایک وعدہ کیا اور انہیں اپنی طرف سے زمین میں آپ کھڑا کیا اور جنہوں نے ان کا انکار کیا اور جب 154

Page 155

155 پرا سرر انہیں سزا دی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آدم علیہ السلام ان معنوں میں بھی خلیفہ تھے کہ ایک پہلی نسل کے تباہ ہونے پر انہوں نے اور ان کی نسل نے پہلی قوم کی جگہ لے لی اور ان معنوں میں خلیفہ بھی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ ایک بڑی نسل جاری کی لیکن سے بڑی اہمیت جو انہیں حاصل تھی وہ نبوت اور ماموریت ہی کی تھی.جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے.انہی معنوں میں حضرت داؤد علیہ السلام کو بھی خلیفہ کہا گیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ - إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ (ص:27) یعنی اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے (حضرت داؤد علیہ السلام چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئے معلوم ہوا کہ یہاں خلافت سے مراد خلافت نبوت ہی ہے).پس تو لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ کر اور لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کر ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے سیدھے راستے سے منحرف کر دیں.یقیناً وہ لوگ جو گمراہ ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت عذاب ہو گا.اس لئے ایسے لوگوں کو مشورہ قبول نہ کیا کر بلکہ وہی کر جس کی طرف خدا تعالیٰ تیری راہنمائی کرے.ان آیات میں وہی مضمون بیان ہوا ہے جو دوسری جگہ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ (ال عمران (ع (17) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے بعض لوگوں نے غلطی سے لَا تَتَّبع الهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ کے یہ معنے گئے ہیں کہ اے داؤد ! لوگوں کی ہوا و ہوس کے پیچھے نہ چلنا.حالانکہ اس آیت کے یہ معنے ہی نہیں بلکہ اس میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض دفعہ لوگوں کی اکثریت تجھے ایک بات کا مشورہ دے گی اور کہے گی کہ یوں کرنا چاہئے مگر فرمایا تمہارا کام یہ ہے کہ تم محض اکثریت کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ جو بات تمہارے سامنے پیش کی جارہی ہے وہ مفید ہے یا نہیں اگر مفید ہو تو مان لو اور اگر مفید نہ ہو تو اسے رد کر دو چاہے اسے پیش کرنے والی اکثریت ہی کیوں نہ ہو بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ وہ گنا ہ والی بات ہو..: پس پہلی خلافتیں اول خلافت نبوت تھیں جیسے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کی خلافت تھی جن کو قرآن کریم نے خلیفہ قرار دیا ہے مگر ان کو خلیفہ صرف نبی اور مامور ہونے کے معنوں میں کہا گیا ہے چونکہ وہ اپنے اپنے زمانہ کی ضرورت کے مطابق صفات الہیہ کو دنیا میں ظاہر کرتے تھے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ظل بن کر ظاہر ہوئے اسی لئے اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کہلائے..دوسری خلافت جو قرآن کریم سے ثابت ہے وہ خلافت ملوکیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت ہود علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ: وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمٍ نُوحٍ وَّ زَادَكُمْ فِى الْخَلْقِ بَصْطَةً فَاذْكُرُوا الاءَ اللهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (اعراف.9) یعنی اس وقت کو یاد کرو جبکہ قوم نوح کے بعد خدا نے تمہیں خلیفہ بنایا اور اس نے تم کو بناوٹ میں بھی فراخی بخشی یعنی تمہیں کثرت سے اولاد دی پس تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو.اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام کی زبانی فرماتا ہے وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ (اعراف) ع (10) یعنی اس وقت کو یاد کرو جبکہ تم کو خدا تعالیٰ نے عاد اُولیٰ کی تباہی کے بعد ان کا جانشین بنایا اور حکومت تمہارے ہاتھ میں آ گئی.اس آیت میں خلفا کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد صرف دنیوی بادشاہ ہیں اور نعمت سے مراد بھی نعمت حکومت ہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نصیحت کی ہے کہ تم زمین میں عدل و انصاف کو مدنظر رکھ کر تمام کام کرو ورنہ ہم تمہیں سزا دیں گے.چنانچہ یہود کی نسبت اللہ تعالیٰ اسی انعام کا ذکر ان الفاظ میں فرماتا ہے کہ وَاِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمُ اِذْجَعَلَ فِيكُمُ انْبِيَاءَ وَ جَعَلَكُمْ مُلُوكًا وَانكُمْ مَّالَمْ يُؤْتَ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ (مائده ع4)

Page 156

اپنے یعنی تم اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر غور کرو جو اس نے تم پر اس وقت کیا تھا جب اس نے تم میں نبی بھیجے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو دنیا کی معلوم قوموں میں سے کسی کو نہیں دیا تھا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہود کو ہم نے دو طرح خلیفہ بنایا اِذْ جَعَلَ فِيكُمْ اَنْبِيَاءَ کے ماتحت انہیں خلافت نبوت دی اور جَعَلَكُمْ مُلُوكًا کے ماتحت انہیں خلافت ملوکیت دی چونکہ موسیٰ علیہ السلام کے وقت تک تو اور کوئی بادشاہ ان میں نہیں ہوا اس لئے اس سے مراد یہ ہے کہ نبوت موسوی اور بادشاہت موسوی عطا کی جو دریائے نیل کو یار کرنے کے بعد سے اُن کو حاصل ہو گئی تھی جیسا کہ فتح مکہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبی بھی تھے اور ایک لحاظ سے بادشاہ بھی تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت خدا تعالیٰ کے احکام کے تابع تھی خود سر بادشاہوں والی بادشاہت نہ تھی.مگر ان دو قسم کی خلافتوں کے علاوہ نبی کے وہ جانشین بھی خلیفہ کہلاتے ہیں جو اس کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں.یعنی اس کی شریعت پر قوم کو چلانے والے اور ان میں اتحاد قائم رکھنے والے ہوں خواہ وہ نبی ہوں یا غیر نبی.جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام موعود راتوں کیلئے طور پر گئے تو بعد انتظام کی غرض سے انہوں نے حضرت ہارون علیہ السلام کو کہا کہ اُخْلُفْنِی فِي قَوْمِي وَأَصْلِحُ وَلَا تَتَّبِعُ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ (اعراف ع (17) یعنی میرے بعد میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ان کی اصلاح کو مد نظر رکھنا اور مفسد لوگوں کی بات نہ ماننا.حضرت ہارون علیہ السلام چونکہ خود نبی تھے اور اس وقت سے پہلے نبی ہو چکے تھے اس لئے یہ خلافت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں دی تھی وہ خلافت نبوت نہیں ہو سکتی تھی.اس کے معنے صرف یہ تھے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی غیر حاضری میں ان کی قوم کا انتظام کریں اور قوم کو اتحاد پر قائم رکھیں اور فساد سے بچائیں.پس وہ ایک تابع نبی بھی تھے اور ایک حکمران نبی کے خلیفہ بھی تھے اور یہ خلافت خلافت نبوت نہ تھی بلکہ خلافت انتظامی تھی مگر اس قسم کی خلافت بعض دفعہ خلافت انتظامی کے علاوہ خلافت نبوت بھی ہوتی ہے یعنی ایک سابق نبی کی اُمت کی درستی اور اصلاح کیلئے اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ایک اور نبی مبعوث فرماتا ہے جو پہلے نبی کی شریعت کو ہی جاری کرتا ہے کوئی نئی شریعت نہیں لاتا گویا جہاں تک شریعت کا تعلق ہوتا ہے وہ پہلے نبی کے کام کو قائم رکھنے والا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے پہلے نبی کا خلیفہ ہوتا ہے لیکن عہدہ کے سے وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے اس قسم کے خلفا بنی اسرائیل میں بہت گزرے ہیں بلکہ جس قدر انبیاء حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں آئے ہیں سب اسی قسم کے خلفا تھے یعنی وہ نبی تو تھے مگر کسی جدید شریعت کے ساتھ نہیں آئے تھے بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو ہی دنیا میں جاری کرتے تھے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيْهَا هُدًى وَّ نُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ اسْلَمُرُ اللَّذِينَ هَادُوا وَ الرَّبَّانِيُّونَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتَحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُو عَلَيْهِ شُهَدَاءَ (مائدہ (ع (7) یعنی ہم نے تو رات کو یقیناً ہدایت اور نور سے بھر پور اُتارا تھا اس کے ذریعہ سے انبیاء جو (ہمارے) فرمانبردار تھے اور عارف اور ربانی علما بہ سبب اس کے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی حفاظت چاہی گئی تھی اور وہ اس پر نگران تھے یہودیوں کے لئے فیصلے کیا کرتے تھے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کئی انبیاء ایسے آئے تھے جن کا کام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کا قیام تھا.یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے.لیکن ان انبیاء کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی جن کو ربانی اور احبار کہنا چاہیے اس کام پر مقرر تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اور مجددین کا ایک لمبا سلسلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے خلفا کے طور پر لحاظ 156

Page 157

157 ظاہر ہوتا رہا جن کا کام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کام کی تعمیل تھا.اس سلسلہ کی آخری کڑی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام تھے جن کو کئی مسلمان غلطی سے صاحب شریعت نبی جھتے ہیں.اسی طرح اس زمانہ کے سیمی بھی ان کی نسبت یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ وہ ایک نیا قانون لے کر آئے تھے اور اسی وجہ سے وہ ان کی کتاب کو نیا عہد نامہ کہتے ہیں حالانکہ قرآن کریم مسیح ناصری علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دین کا قائم کرنے والا ایک خلیفہ قرار دیتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت سے چند آیات بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَفَّيْنَا عَلَى اثَارِهِمْ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَابَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ (مائده رکوع (7) یعنی ہم نے مذکورہ بالا نبیوں کے بعد جو تورات کی تعلیم کو جاری کرنے کے لئے آئے تھے عیسی بن مریم کو بھیجا جو ان کے نقش قدم پر چلنے والے تھے اور تورات کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے تھے خود مسیح ناصری بھی فرماتے ہیں: ”یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوح کرنے آیا ہوں میں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پوری کرنے آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہیں ملے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے.“ (متی باب 5 آیت 17 و 18) غرض یوشع سے لے کر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے معاً بعد ان کے خلیفہ ہوئے حضرت مسیح ناصری السلام تک سب انبیاء اور مجددین حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور ان کی شریعت کو جاری کرنے والے تھے.پس جب خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا که لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ تو اس سے یہ استنباط ہوا کہ پہلی خلافتوں والی برکات مسلمانوں کو بھی ملیں گی اور انبیائے سابقین سے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ سلوک کیا وہی سلوک وہ امت محمدیہ کے خلفا کے ساتھ بھی کرے گا اگر کوئی کہے کہ پہلے تو خلافت ملوکیت کا بھی ذکر آتا ہے پھر خلافت ملوکیت کا ذکر چھوڑ کر صرف خلافت نبوت کے ساتھ اس کی مشابہت کو کیوں مخصوص کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک مسلمانوں کے ساتھ بادشاہتوں کا بھی وعدہ ہے مگر اس جگہ بادشاہت کا ذکر نہیں بلکہ صرف مذہبی نعمتوں کا ذکر ہے چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمُ دِيْنَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمُ که خدا تعالیٰ اپنے قائم کردہ خلفا کے دین کو دنیا میں قائم کر کے رہے گا.اب یہ اصول دنیا کے بادشاہوں کے متعلق نہیں اور نہ ان کے دین کو خدا تعالیٰ نے کبھی دنیا میں قائم کیا ہے بلکہ اصول روحانی خلفا کے متعلق ہی ہے.پس یہ آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس جگہ جس خلافت سے مشابہت دی گئی ہے وہ خلافت نبوت ہے نہ کہ خلافت ملوکیت.اسی طرح فرماتا ہے: وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا كم خدا ان کے خوف کو امن سے بدل دیا کرتا ہے.یہ علامت بھی دنیوی بادشاہوں پر کسی صورت میں بھی چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ دنیوی بادشاہ اگر آج تاج و تخت کے مالک ہوتے ہیں تو کل تخت سے علیحدہ ہو کر بھیک مانگتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے خوف کو امن سے بدل دینے کا کوئی وعدہ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات جب کوئی سخت خطرہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے مقابلہ کی ہمت تک کھو بیٹھتے ہیں.پھر فرماتا ہے يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کہ وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے گویا وہ خالص موحد اور شرک کے شدید ترین دشمن ہوں گے مگر دنیا کے بادشاہ تو شرک بھی کر لیتے ہیں حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے کبھی کفر بواح بھی صادر ہو جائے پس وہ اس آیت کے مصداق کس طرح ہو سکتے ہیں.چوتھی دلیل جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خلفا سے مراد دنیوی بادشاہ ہر گز نہیں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ

Page 158

فرماتا ہے مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ یعنی جو لوگ ان خلفا کا انکار کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے اب بتاؤ کہ کیا جو شخص کفر بواح کا بھی مرتکب ہو سکتا ہو آیا اس کی اطاعت سے خروج فسق ہو سکتا ہے ؟ یقیناً ایسے بادشاہوں کی اطاعت سے انکار کرنا انسان کو فاسق نہیں بنا سکتا فسق کا فتویٰ انسان پر اسی صورت میں لگ سکتا ہے جب وہ روحانی خلفا کی اطاعت سے انکار کرے.غرض یہ چاروں دلائل جن کا اس آیت میں ذکر ہے اس امر کا ثبوت ہیں کہ اس آیت میں جس خلافت کا ذکر کیا گیا ہے وہ خلافت ملوکیت نہیں.پس جب خدا نے یہ فرمایا کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ کہ ہم ان خلفا پر ویسے ہی انعامات نازل کریں گے جیسے ہم نے پہلے خلفا پر انعامات نازل کئے تو اس سے مراد یہی ہے کہ جیسے پہلے انبیاء کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی رہی ہے اسی طرح ان کی مدد ہو گی.پس اس آیت میں خلافت نبوت سے مشابہت مراد ہے نہ کہ خلافت ملوکیت سے.“ منکرین خلافت کا انجام غیر مبایعین کی عبرت ناک ناکامی: ( تفسیر کبیر جلد 6 صفحه 370 تا 374) جہاں تک غیر مبائین کا تعلق ہے فتنہ منافقین کی پشت پناہی کے بعد نہ صرف یہ کہ ان کی سب سازشیں دھری کی دھری رہ گئیں بلکہ ہر محاذ پر بری طرح ناکام رہے حتی کہ انہیں یقین ہو گیا کہ ان کی حیثیت لاشئہ بے جان سے زیادہ نہیں چنانچہ اخبار ”پیغام صلح " ومئی 1973 ء نے اپنے اداریہ میں نہایت افسوس کے ساتھ یہ اعتراف کیا : دو ” ہماری اس جماعت احمد یہ لاہور کا وجود پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے.“ اس اخبار نے دوبارہ 25 مئی 1977ء کے ادارتی نوٹ میں انجمن اشاعت اسلام لاہور کی حالت زار کا نقشہ درج ذیل الفاظ میں کھینچا: ہے.رکھا ہمیں اپنے ہر شعبہ زندگی میں یہی نظر آتا ہے کہ ہم نے دین کو دنیا پر نہیں دنیا کو دین پر مقدم مامور وقت نے اپنے نور بصیرت سے انجمن اراکین کی نسبت اسی لئے فرمایا تھا کہ جب انجمن کے دیکھیں کہ اس کے کسی رکن کے دل میں دنیا کی ملونی ہے تو انجمن کا فرض ہو گا کہ اسے نکال دے کیونکہ ایسا شخص دنیا کا ذلیل ترین کیڑا ہوتا ہے جو اندر ہی اندر جماعت کو کھوکھلا کر دیتا ہے.ہمارے سارے مسائل اور الجھنوں کی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے اس راستہ سے بھٹک گئے ہیں جس پر حضرت مسیح موعود السلام ہمیں ڈال گئے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پس پشت ڈال کر اپنے لئے نئے راستے تلاش کرنے شروع کر دیئے ہیں.بیرونی سیاست گری نے ہمارے معاملات میں مداخلت شروع کر دی ہے ہم سب کچھ اپنی آنکھ کے سامنے ہوتا دیکھ کر بھی اسے روکنے کی جرات سے محروم ہیں جو مصلحتیں پہلے بگاڑ پیدا کر چکی ہیں وہ اب بھی ہمارے مد نظر ہیں ہم شرافت کے پردے میں بزدلی کا شکار ہیں.قول سدید سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں اگر ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کئے گئے اس عہد کی طرف میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا “ واپس لوٹنا ہوگا اور آپ علیہ السلام کی وصیت کو سینے سے لگا کر دنیا کی ملونی کو باہر نکال پھینکنا ہوگا.“ ،، سے 158 (پیغام صلح لاہور 18/25 مئی 1977ء صفحہ 4 و تاریخ احمدیت جلد نمبر 19 صفحہ 204)

Page 159

1983ء میں ایک غیر مبائع خواجہ محمد نصیر اللہ صاحب ممبر مجلس معتمدین سیکرٹری جماعت راولپنڈی نے ایک ٹریکٹ میں اپنے موجودہ امیر کی خفیہ پالیسی پر زبردست تنقید کرتے ہوئے : ”ہم حیران و ششدر ہیں کہ خداوند یہ جماعت کب سے فرقہ باطنیہ بن گئی ہے جس کی عقیدہ سے لے کر سیادت و سیاست تک ہر چیز پراسرار ہوتی تھی.“ نیز لکھا: دو ہم ས་ 66 سطح پر دوسری جماعتوں سے مار کھا چکے ہیں ہمارے ہاں علمائے دین کا فقدان ہے اہل قلم ناپید ہیں.فصاحت و بلاغت اور حسن خطاب کی رمق تک باقی نہیں رہی.زمانہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور نئے سے نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ان پر کوئی بولنے والا اور لکھنے والا ہمارے ہاں کوئی دکھائی نہیں دیتا.وہی آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے کی باتیں بے ڈھنگے پن سے بار بار بیان کی جاتی ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے قلعے سر کر لئے ہیں.پھر انفرادی اور اجتماعی صورت میں جماعت کی عملی حالت ہمارے تنزل اور انحطاط کی دُہائی دے رہی ہے.دو 66 مجلس معتمدین سے جناب ڈاکٹر سعید احمد صاحب کا خطاب پر ایک نظر صفحہ 11 و 13 و تاریخ احمدیت جلد نمبر 19 صفحہ 205) اخبار عصر جدید غیر مبائعین کے بارے میں لکھتا ہے: وہ لوگ جو خواجہ کمال الدین صاحب کے ہم خیال ہو کر دوسرے مسلمانوں سے بظاہر مل کر کام کرنا چاہتے ہیں اور جس میں بہت سے احمدی لاہور وغیرہ کے شامل ہیں ان کو صاحبزادہ بشیر محمود (بشیر الدین محمود احمد.ناقل) کے فریق نے تقریباً ہر جگہ شکست دے دی ہے.(بحوالہ الحق دہلی 22 رمئی 1914 ء صفحہ 2 کالم نمبر 1) غیر مبائعین خود اقرار کرتے ہیں کہ ان کی جماعت ترقی نہیں کر رہی چنانچہ الحاج شیخ میاں محمد صاحب کہتے ہیں: یہاں لاہور میں کام شروع کئے ہوئے ہمیں 37 سال گزر چکے ہیں اور ہم اس چار دیواری سے باہر نہیں نکلے بحثیں ہوتی ہیں کہ ہماری ترقی میں کیا روکیں ہیں بعض کہتے کہ جماعت قادیان نے دعوی نبوت کو حضرت امام زمان کی طرف منسوب کر کے اور دوسرے تمام مسلمانوں کو کافر کہہ کر ایک بہت بڑی روک پیدا کر دی ہے لیکن اس اعتقاد کے باوجود ان کی ترقی تو بدستور ہو رہی ہے میرے خیال میں ہماری ترقی کے رکنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مرکز دلکش نہیں.بہت سے نوجوان ہمارے سامنے ہیں جن کے باپ دادا سلسلہ عاشق تھے ان نوجوانوں میں وہ روح آج مفقود ہے.66 پر ( تقرير الحاج شیخ میاں محمد صاحب مطبوعہ پیغام صلح 6 فروری 1952ء صفحہ 7 کالم 1) لاہوری فریق نے انجمن کے نظام کو نظام خلافت پر فوقیت دی تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے امیر کی تحریک میں وہ برکت پیدا نہ ہو سکی جو کہ خلیفہ کی تحریک میں ہوتی ہے انہیں خود اس بات کا اعتراف کرنا پڑا کہ وہ اپنی تنظیم میں فیل ہو چکے ہیں ایک رپورٹ میں احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کے جنرل سیکرٹری تحریر کرتے ہیں: ” واقعات اور تجربہ نے ہمارے سامنے یہ تلخ حقیقت واضح کر دی ہے کہ اشاعت اسلام کے میدان میں ہماری ساری کامیابی کا راز ہماری جماعتی ترقی اور توسیع سے وابستہ ہے ہم نے عام طور پر اپنی مسلمان قوم سے جو توقعات وابستہ رکھی تھیں کہ ہمارے مشنوں اور ترویج علوم فرقانیہ کے کارناموں کو دیکھ کر ہمارے دینی مقاصد میں لوگ از خود شمولیت اور شرکت اختیار کر لیں گے وہ تمام حرف غلط کی طرح ثابت ہوئیں.(احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کی 52 ویں رپورٹ صفحہ 5) 159

Page 160

چنانچہ اسی رپورٹ کے صفحہ 6 پر لکھتے ہیں: عام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے استحکام اور احباب سلسلہ کے باہمی تعلقات کو استور کرنے یہ تجویز فرمایا تھا ہماری اولادوں کے رشتے ناطے اپنی جماعت کے اندر ہونے چاہئیں اور انجمن نے حتی الوسع باہمی رشتے ناطوں کیلئے کوشش بھی کی ہے لیکن افسوس ہے کہ اس سلسلہ میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی.طور پر لڑکوں کے رشتے باہر کر لئے جاتے ہیں اور جماعت میں لڑکیوں کے رشتے تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے یہ ایک ناخوشگوار حقیقت ہے جس سے اجتناب ضروری ہے امام وقت کے ارشاد کی تعمیل میں ضروری ہے کہ ہم جماعت میں رشتے ناطے کریں خواہ ہمیں اس میں نقصان یا تکلیف ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے.“ غیر مبایعین نے خلافت کا انکار کر کے ناکامی کا منہ دیکھا چند حوالے پیش ہیں کہ غیر مبائعین کے ساتھ کیا سلوک ہوا: لکھتے حصہ یعنی یورپ کے مشہور مستشرق H.R.GIBB پروفیسر آکسفورڈ یونیورسٹی (Professor Oxford University 1914ء میں پہلے خلیفہ کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ دو حصوں میں بٹ گئی جماعت کا اصل.قادیانی شاخ تو بانی سلسلہ کے دعوی نبوت اور ان کے بعد اجرائے نبوت پر قائم رہی لیکن الگ ہونے والے لاہوری فریق نے ان دونوں کا انکار کر دیا اور ایک نئے امیر کی قیادت میں انجمن اشاعت اسلام کی بنیاد ڈالی.لاہوری فریق نے بعد میں اہل سنت واہل جماعت کے ساتھ مل جانے کی کوشش کی، مگر علماء اب بھی انہیں شبہ کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں.“ اخبار سیاست لکھتا ہے: دو ہیں: (ترجمه از (Muhammadanism) طبع دوم صفحہ 187) لاہوری احمدیوں کا مسلمانوں کو یہ بتانا کہ وہ انہیں مسلمان سمجھتے ہیں سرتا پا منافقت ہے جس سے کہ مسلمانوں کو آگاہ ہو جانا چاہیے." اخبار احسان لکھتا ہے : (سیاست 19 فروری 1935ء) ”مرزائیوں کے لاہوری جماعت کے فریب کاروں کا گروہ مرزا کو نبی سمجھنے اور کہنے میں قادیانیوں سے کم نہیں ہے اور جب وہ مسلمانوں سے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم قادیان کے مدعی نبوت کو محض محدث اور مجدد بلکہ محض ایک نیک مولوی سمجھتے ہیں تو ان کا مقصد دھوکہ دینے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا.“ اخبار زمیندار لکھتا ہے : لاہوری مرزائی قادیانیوں سے کہیں زیادہ مسلمانوں کے لئے خطر ناک ہیں.“ مولوی محمد علی صاحب خود اقرار کرتے ہیں کہ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا.چنانچہ لکھتے ہیں: (احسان 25 فروری 1935 ء) زمیندار 17 فروری 1935ء) 160

Page 161

یہ صحیح ہے کہ ہمارا لٹریچر مقبول ہوا ، مگر وہ پھل کیوں نہ لگا جو لگنا چاہیے.صرف اس لئے کہ وہاں کام کرنے والا کوئی نہیں تھا.“ (پیغام صلح 19 مئی 1937 ء) مولوی محمد یعقوب صاحب ایڈیٹر لائٹ (LIGHT) منکرین خلافت کی تحریک کی حالت یوں بیان کرتے ہیں: " تحریک ایک لاش بن کر رہ گئی تھی اور چند آدمی اسے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے.“ قدرت ثانیہ کا دائگی ہوتا: (پیغام صلح 24 جنوری 1954 ء ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلادے گا اور حجت اور برہان کے رُو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا.یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی.“ دو (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66) سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: د سواے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک دیوے.اس لئے میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی عملین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دونگا.سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائی وعدہ کا دن ہے.“ (رساله الوصیت روحانی خزائن.جلد نمبر 20 صفحہ 306-305) سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: کفار کی شہادتیں قرآن شریف میں موجود ہیں کہ وہ بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ اب یہ دین جلد تباہ ہو جائے گا اور ناپدید ہو جائے گا ایسے وقتوں میں ان کو سنایا گیا کہ يُرِيدُونَ اَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (سورة التوبة آيت : 32) یعنی یہ لوگ اپنے منہ کی لاف و گزاف سے بکتے ہیں کہ اس دین کو کبھی کامیابی نہ ہو گی یہ دین ہمارے ہاتھ سے تباہ ہو جاوے سے تباہ ہو جاوے گا لیکن خدا کبھی اس دین کو ضائع نہیں کرے گا اور نہیں چھوڑے گا جب تک اس کو پورا نہ کرے پھر ایک اور آیت میں فرمایا ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوا.....(سوره النور آیت (56) یعنی خدا وعده دے چکا ہے کہ اس دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفے 161

Page 162

پیدا کرے گا اور قیامت تک اس کو قائم کرے گا.یعنی جس طرح موسیٰ کے دین میں مدت ہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتا رہا ایسا ہی اس جگہ بھی کرے گا اور اس کو معدوم ہونے نہیں دے گا.“ (جنگ مقدس - روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 290) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: " میں آپ کو ایک خوشخبری دیتا ہوں کہ اب آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا.جماعت بلوغت کے مقام پر پہنچ چکی ہے خدا کی نظر میں.اور کوئی دشمن آنکھ ، کوئی دشمن دل، کوئی ئن کوشش اس جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گی اور خلافت احمدیہ انشاء اللہ تعالیٰ اسی شان کے ساتھ نشوونما پاتی رہے گی جس شان سے اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدے فرمائے ہیں کہ کم از کم ایک ہزار سال تک یہ جماعت زندہ رہے گی.تو دعائیں کریں حمد کے گیت گائیں اور اپنے عہدوں کی پھر تجدید کریں.“ (الفضل 28 جون 1982ء) اپنے حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: " آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ سے جماعت احمدیہ کی تاریخ کا وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محض اور محض فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل لوگوں کی ، آپ کی وفات کے بعد، خوف کی حالت کو امن میں بدلا اور اپنے وعدوں کے مطابق جماعت احمدیہ کو تمکنت عطا فرمائی یعنی اس شان اور مضبوطی کو قائم رکھا جو پہلے تھی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی فعلی شہادت سے یہ ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فرستادہ اور نبی تھے اور آپ وہی خلیفہ اللہ تھے جس نے چودھویں صدی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی شریعت کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھا اور آپ علیہ السلام کے بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کا سلسلہ خلافت تا قیامت جاری رہنا تھا.پس آج 97 سال گزرنے کے بعد جماعت احمدیہ کا ہر بچہ ، جوان، بوڑھا، مرد، اور عورت اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی اس بارہ میں فعلی شہادت گزشتہ 97 سال سے پوری ہوتی دیکھی ہے اور دیکھ رہا ہوں.اور نہ صرف احمدی بلکہ غیر از جماعت بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں.“ (خطبه جمعه فرمودہ 27 مئی 2005 ء - الفضل انٹرنیشنل 10 تا 16 جون 2005ء) سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 11 مئی 2003ء کو احباب جماعت کے نام ایک خصوصی پیغام میں فرمایا: ،، و پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائمی بنا ئیں او اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں.امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں اور وہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں کے مقابلہ کے لئے ایک ڈھال ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح الموعود نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: ”جس طرح وہی شاخ پھل لا سکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو وہ کئی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو.اس طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکر وٹا.پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی 162

Page 163

نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں.ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے.“ الفضل انٹر نیشنل 23 تا 30 مئی 2003 صفحہ 1) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایده ال الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد سلسلۂ خلافت کو ہمیشہ کیلئے قرار دیا ہے جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہے.اب میں اس طرف آتا ہوں، وہ تو ضمنی باتیں تھیں کہ خلافت جماعت احمدیہ میں ہمیشہ قائم پہنی ہے.حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت على منهاج النُّبُوَّةِ قائم ہوگی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جب یہ دور ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ اسے بھی اٹھا لے گا.اس ختم کے بعد پھر خلافت على مِنْهَاج النُّبُوَّة قائم ہوگی اور یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.اور یہ جو دوبارہ قائم ہوئی تھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی قائم ہوئی تھی.پس یہ خاموش ہونا بتاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جو سلسلہ خلافت شروع ہونا ہے یا ہونا تھا، دائی ہے اور یہ الہی تقدیر ہے اور الہی تقدیر کو بدلنے پر کوئی فتنہ پرداز بلکہ کوئی شخص بھی قدرت نہیں رکھتا.یہ قدرت ثانیه یا خلافت کا نظام اب انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہنا ہے اور اس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے زمانہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.اگر یہ مطلب لیا جائے کہ وہ 30 سال تھی تو وہ 30 سالہ دور آپ کی پیشگوئی کے مطابق تھا اور یہ دائی دور بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی پیشگوئی کے مطابق ہے.“ ” (خطبه جمعه فرموده 27 رمئی 2005ء - الفضل انٹر نیشنل 10 تا 16 جون 2005ء) حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں آپ سب کو پوری قوت سے یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام کے غلبے کا عظیم دن طلوع ہو چکا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس حقیقت کو ٹال نہیں سکتی احمدیت فتح مند ہو کر رہے گی انشاء اللہ آئندہ پچیس سال کے اندر اندر اسلام کا غلبہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے.میں بوڑھوں اور جوانوں، مردوں اور عورتوں سے پکار کر کہتا ہوں کہ اللہ کے دین کی خاطر قربانی کے لئے آگے آؤ اسلام کی فتح کا دن اٹل ہے اگر چہ بادی النظر میں یہ چیز ناممکن نظر آتی ہے لیکن اللہ نے مجھے بتایا ہے کہ اسلام کے غلبے کا دن طلوع ہو چکا ہے اس کا فضل شامل حال رہا تو یہ بظاہر ناممکن ممکن ہو کر رہے گا.“ (روز نامه الفضل ربوہ 2 جون 1970ء صفحہ 4) 163

Page 164

164 قدرت ثانیہ اور بشارات ربانیہ مرتبہ لقمان احمد شاد ته الظفر ربوه

Page 165

ارشاد خداوندی پیش گوئی مخبر صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رؤیا و و کشوف سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام رؤیا و کشوف خلفائے احمدیت رؤیا و کشوف صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشوف و مبشرات احباب جماعت و گزشتہ اولیائے کرام درباره خلافت اولی، خلافت ثانیه، خلافت ثالثه، خلافت رابعہ اور خلافت خامسہ آیت: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ 165

Page 166

لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِم ا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِيٍّ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO (سورة النور: 56 ) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.“ مدیت (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفه امسیح الرابع رحمه الله تعالی) مَنْ لَّمْ يُؤْمِنُ بِالرُّؤْيَا الصَّالِحَةِ لَمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ جس شخص کا رویائے صالحہ پر یقین نہیں تو اس کا اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر بھی یقین نہیں.(مقدمه خواب و تعبیر ترجمه تعطیر الانام فی تعبیر المنام از شیخ عبد الغنی ابن اسمعیل نابلسی صفحہ 40 ایڈیشن اول 2002ء ناشر ادارہ اسلامیات انارکلی لاہور ) پیش گوئی مخبر صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم : عَنْ حُذِيفَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ النَّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النَّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونَ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النَّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 273 مَعْلُوةٍ بَابُ الْإِنْدَارِ وَالتَّحْذِيرِ) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت عَلى مِنْهَاج النَّبُوَّةِ قائم ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا، پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ ظلم ستم کے اس دور کو ختم کر دے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی ! یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.خلافت اولی کے متعلق پیشگوئیاں: حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے پیشگوئی فرمائی کہ آنے والے مسیح و مہدی کا ایک خاص وزیر حافظ قرآن ہو گا چنانچہ لکھتے ہیں: 166

Page 167

وَهُمْ مِنَ الْاعَاجِمِ مَا فِيْهِمْ عَرَبِيٌّ لَكِنْ لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا بِالْعَرَبِيَّةِ لَهُمْ حَافِظٌ لَيْسَ مِنْ جِنْسِهِمْ مَّاعَصَى اللَّهَ قَطُّ هُوَ أَحَصُّ الْوُزَرَاءِ وَأَفْضَلَ الْأَمْنَاءِ.(الفتوحات مکیہ جلد 3 صفحہ 328 - اَلْبَابُ السَّادِسُ وَالسِّتُّونَ وَ ثُلُثُ مِائَةٍ فِى مَعْرِفَةِ وُزَرَاءِ الْمَهْدِى الظَّاهِرِ فِي آخِرِ الزَّمَان - مطبوعہ دارصادر بیروت لبنان) وزرائے مہدی سب عجمی ہوں گے ان میں سے کوئی عربی نہ ہو گا لیکن وہ عربی میں کلام کرتے ہوں گے ان میں سے ایک حافظ قرآن ہو گا جو ان کی جنس میں سے نہیں ہوگا کیونکہ اس نے کبھی خدا کی نافرمانی نہیں کی ہو گی، وہی اس موعود کا وزیر خاص اور بہترین امین ہو گا.پانچویں صدی ہجری کے مسلمہ امام یحیی بن عقب نے امام مہدی کے بعد ایک عربی النسل شخص کے ظہور کی خبر دی چنانچہ لکھا ہے کہ: دو إِذَا جَاءَ هُمُ الْعَرَبِيُّ حَقًّــا عَلـى عَمَلٍ سَيُمْلِكُ لَا مَحَالٍ وَيَفْتَحُونَهَا مِنْ غَيْرِ شَكٍّ وَكَمْ دَاعٍ يُنَادِي بِابْتِهَالِ (شمس المعارف الکبری از شیخ ابوالعباس احمد بن علی بونی مصری کامل چار حصے دار الاشاعت اردو بازار کراچی) یعنی حضرت امام مہدی کے بعد ایک عظیم الشان عربی النسل آئے گا جو (خلیفہ) برحق ہو گا اور نیک عمل وسیرت اور بلند مرتبت کے باعث وہ (روحانی) بادشاہت کا ضرورت وارث ہو گا اور اس کے زمانہ میں بلاشک ممالک فتح ہوں گے بے شمار دعائیں کرنے والے عاجزی کے ساتھ اسلام کی فتح ( یا قدرت ثانیہ کے ظہور) کے لئے دعائیں کریں گے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ ایم اے اپنی کتاب ”سیرۃ المہدی“ میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ: خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ نے بیان کیا ہے کہ جب حضرت صاحب آخری سفر میں لاہور تشریف لے جانے لگے تو آپ نے ان سے کہا کہ مجھے ایک کام در پیش ہے دعا کرو اور اگر کوئی خواب آئے تو مجھے بتانا.مبارکہ بیگم نے خواب دیکھا کہ وہ چوبارہ پر گئی ہیں اور وہاں حضرت مولوی نور الدین صاحب ایک کتاب لئے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور میں ابوبکر ہوں دوسرے دن صبح مبارکہ بیگم سے حضرت صاحب نے پوچھا کہ کیا کوئی خواب دیکھا؟ مبارکہ بیگم نے یہ خواب سنائی تو حضرت صاحب نے فرمایا: یہ خواب اپنی اماں کو نہ سنانا.مبارکہ بیگم کہتی ہیں کہ اس وقت میں نہیں سمجھی تھی کہ اس سے کیا مراد ہے.“ (سيرة المهدی حصہ سوم صفحہ 37 از حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے روایت نمبر 537) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ: " خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس وقت لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے اس وقت حضرت مولوی نور الدین صاحب اس کمرہ میں موجود نہیں تھے جس میں آپ علیہ السلام نے وفات پائی.جب حضرت مولوی صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ آئے اور حضرت صاحب علیہ السلام کی پیشانی کو بوسہ دیا اور پھر جلد 167

Page 168

ہیں: ہی اس کمرے سے باہر تشریف لے گئے.جب حضرت مولوی صاحب کا قدم دروازے سے باہر ہوا اس وقت مولوی سید محمد احسن صاحب نے رفت بھری آواز میں حضرت مولوی صاحب سے کہا: اَنْتَ صِدیقی.حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مولوی صاحب! یہاں اس سوال کو رہنے دیں قادیان جا کر فیصلہ ہو گا.خاکسار کا خیال ہے کہ اس مکالمہ کو میرے سوا کسی نے نہیں سنا.“ (سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ 11 راز حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے روایت نمبر 14) جناب شیخ محمد خان صاحب احمدی سنگری ( کو ہاٹ) حال وارد قادیان حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ روایت کرتے "1916ء میں خاکسار بیمار ہو گیا اور شہر جہلم سے میری بیوی بچے مجھے لے کر جائے سکونت میرانوالی میں آگئے اور میں وہاں قریباً چار ماہ بیمار پڑا رہا.حکیموں اور ڈاکٹروں نے مجھے لا علاج قرار دے کر چھوڑ دیا ایک رات بے ہوشی کی حالت میں میں نے خواب دیکھا.اور میں اس بیان کو خدا کو حاضر ناظر جان کر، جس کی جھوٹی قسم پر کھانا لعنتی کا کام ہے، لکھواتا ہوں کہ یہ وہی خواب ہے جو میں نے 1916ء میں دیکھا تھا: میں نے دیکھا کہ روز قیامت ہے اور تمام لوگ قبرستان سے اٹھ کر حساب کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور جا رہے ہیں اور میں بھی رحیم بخش صاحب ولد علی محمد صاحب رنڑہ کے ہمراہ خدا تعالیٰ کے نزدیک جا رہا ہوں اور میں میں نے خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور دوزخ بھی دیکھی اور مجھے دل میں خیال آیا کہ خدا جانے میں کہاں جاؤں گا؟ اور دیکھا کہ خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قالین پر بیٹھے ہیں اور میں اور رحیم بخش ان کے پاس دوڑتے کانپتے جا بیٹھے ہیں، میری آنکھ کھل گئی اور چند دن کے بعد میرا بخار ٹوٹ گیا.دو سال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو پہچانا اور مذکورہ خواب میں جو شکل خدا تعالیٰ و رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر آئی تھی وہ تین سال کے بعد بذریعہ تصویر دکھائی گئی جو شکل......مسیح موعود علیہ السلام کی تھی وہ....اللہ تعالیٰ کی تھی اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی وہی خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی تھی اور تصویر دیکھنے کے ڈیڑھ سال بعد مولوی محمد علی صاحب لاہوری امیر کی بیعت کی تھی اور اس کے بعد 1931 ء میں حضرت میاں بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کر لی.“ کتبه حکیم احمد دین سیکرٹری تبلیغ محله دارالسعته قادیان - از چٹھی مرقومہ یکم جولائی 1939 ء) بشارت رحمانیہ جلد 1 صفحہ 315 از مولانا عبدالرحمان مبشر صاحب) حضرت خلیفة المسح الاول رضی اللہ عنہ پر انوار سماوی کا نزول: جناب خواجہ صاحب دین صاحب ڈھینگیرہ ہاؤس گوجرانولہ بیان کرتے ہیں: حضرت خلیفہ اسیح اوّل رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں میں نے خواب دیکھا کہ قادیان گاؤں کے باہر جہاں دارالرحمت ہے اس میدان میں ہم کثرت سے جمع ہیں، ایک انبوہ کثیر ہے، اس کے درمیان حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار ہیں اور چکر لگا رہے ہیں آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ بشاش اور سرخ ہے میں آسمان سے نور نازل ہوتا حضور رضی اللہ عنہ پر دیکھ رہا ہوں اور لوگوں سے کہتا ہوں دیکھو انوار سماوی نازل ہوتے کسی نے دیکھنے ہیں تو اب دیکھ لے کہ کس طرح انوار سماوی نازل ہوتے ہیں.اتنے میں حضور خلیفہ اول رضی اللہ نہ گھوڑے کی باگ موڑ کر اس مجمع کثیر سے باہر نکل کر گاؤں کی طرف رُخ کرتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ کی شکل گھوڑے پر ایک خوبصورت گورے رنگ کے جوان شخص میں متشکل ہو جاتی ہے.“ عنہ 168

Page 169

بشارات رحمانیہ جلدا صفحہ 212 و 213 از مولانا عبدالرحمان مبشر صاحب) مستری حسن الدین آف سیالکوٹ بیان کرتے ہیں: ایک دالان کے اندر میں مع بہت سے دوستوں کے لیٹا ہوا ہوں درمیان دالان حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہیں، نوکر کھانا لایا، میں نے پوچھا: کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا تناول فرمالیا ہے؟ نوکر نے کہا: ابھی نہیں.میں نے ادب کے لئے کھانا رکھ لیا اور پھر دیکھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل مولوی نور الدین صاحب کی ہو گئی ہے.میں بڑا خوش ہوا اور نیند کھل گئی.“ ” البدر “ 18 فروری 1909ء جلد 18 صفحہ 1) مکرم ناصر شاہ صاحب آف جموں بیان کرتے ہیں: میں نے ایک عجیب رؤیا دیکھا تھا جو گزارش کر رہا ہوں.خواب میں دیکھا کہ حضور والا (حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ) کو محکمہ انجینئرنگ کا بھی سپرد کیا گیا ہے اور ایک بڑا عالی شان پل تیار ہونا ہے جس کے نقشے وغیرہ حضور رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہیں اور اس پل کی بنیادیں کچھ پہلے سے بھی کھدائی کی گئی ہوئی ہیں.کسی وجہ سے وہ کام بند تھا اب اس پل کا کام دوبارہ حضور والا رضی اللہ عنہ شروع کرانے کے واسطے موقع پر تشریف لائے ہیں اور وہ کام خاکسار نابکار کی زیر نگرانی حضور والا رضی اللہ عنہ نے ختم کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ تمام نقشے حضور رضی اللہ عنہ نے مجھے دیئے اور حسن محمد ٹھیکیدار نے وہ کام شروع کیا اور بنیادوں میں روڑی وغیرہ ڈالنی شروع کر دی ہے پھر وہاں سے تھوڑے فاصلہ پر ہی حضور والا درس قرآن شریف کے لئے بیٹھ گئے ہیں اور بہت سے احباب درس میں شامل ہیں وہ عمارت بھی بڑی عالی شان ہے اور وہاں پر عجیب سی ہے خاکسار یہ نظارہ دیکھ کر دل میں ہی کہتا ہے کہ سبحان اللہ! سبحان اللہ! باوجود اس قدر کام کے أي ( حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ ) نے کبھی درس نہیں چھوڑا.بعد درس قرآن شریف کے حضور والا رضی اللہ عنہ دوسرے کاموں کو ملاحظہ فرما کر واپس تشریف لائے ہیں اور یہ عاجز نہایت ادب کے ساتھ کھڑا تھا، حضور رضی اللہ عنہ میری طرف دیکھ کر مسکرائے ہیں اور ایک پختہ زینہ ہے اس رستہ سے آپ رضی اللہ عنہ اندر تشریف لے گئے ہیں اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ مبارک حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرہ مبارک کی طرح تھا بلکہ دستار مبارک اور شملہ بھی اسی طرح ایک ہی انداز پر تھا تو میں کہتا ہوں کہ سبحان اللہ! اب تو حضرت صاحب اور مولوی صاحب میں کچھ فرق نہیں.الحمد للہ رب العالمین 31 جنوری 1909 ء بوقت پانچ بجے صبح میں نیند سے اٹھا ہوں تو زبان پر یہ شعر جاری تھا : خدا نے فضل ނ بھیجا ہے فرزند لگا سینے میں پالیں خوب دلبند البدر 18 فروری 1909ء جلد 8 صفحہ 1) ضرت صاحبزادہ عبداللطیف رضی اللہ عنہ کو خدا تعالیٰ نے قبل از وقت حضرت خلیفۃ امسیح الاول حکیم مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے متعلق خبر دے دی تھی چنانچہ روایت کے مطابق ایک دفعہ عجب خان تحصیل دار جو ہمارے یہاں آئے ہوئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گھر جانے کی اجازت لے کر شہید مرحوم کے پاس آئے اور کہا کہ: میں نے حضرت صاحب علیہ السلام سے اجازت لے لی ہے لیکن مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ سے نہیں لی.شہید مرحوم نے فرمایا کہ مولوی صاحب سے جا کر ضرور اجازت 169

Page 170

لینا کیونکہ مسیح موعود علیہ السلام کے بعد یہی اوّل خلیفہ ہوں گے.چنانچہ جب شہید مرحوم جانے لگے تو مولوی صاحب سے حدیث بخاری کے دو تین صفحے پڑھے اور ہم سے فرمایا کہ: یہ میں نے اس لئے پڑھے ہیں کہ تا میں بھی ان کی شاگردی میں داخل ہو جاؤں، حضرت صاحب علیہ السلام کے بعد یہ خلیفہ اول ہوں گے.“ شهید مرحوم حضرت صاحبزادہ عبداللطیف چشم دید واقعات از سید احمد نور کابلی صفحہ 9-10 شائع کردہ احمد اکیڈمی) خلافت ثانیہ کے متعلق پیشگوئیاں: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ فَيَتَزَوَّجُ وَ يُولَدُ لَهُ.(مشكوة كتاب الفتن باب نزول عیسی جلد نمبر 3 صفحہ 49 ناشر مکتبہ رحمانیہ لاہور ) ترجمہ : حضرت عیسی علیہ السلام دُنیا میں تشریف لائیں گے وہ شادی کریں گے اور ان کو اولاد دی جائے گی.ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام: اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ پیش گوئی کہ مسیح موعود کی اولاد ہو گی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا اس کی نسل سے ایک شخص " کو پیدا کرے گا جو اس کا جانشین ہو گا اور دین اسلام کی حمایت کرے گا جیسا کہ میری بعض پیشگوئیوں میں خبر آچکی ہے." حضرت شاہ نعمت اللہ صاحب ولی رحمہ اللہ تعالی کی پیش گوئی (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 325) حضرت شاہ نعمت اللہ صاحب ولی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے منظوم کلام میں آنے والے موعود اقوام عالم کے متعلق بڑی صراحت کے ساتھ پیش گوئی فرمائی اور اس امام مہدی ومسیح موعود کی وفات کے بعد اس کے عظیم فرزند کے متعلق بھی پیشگوئی فرمائی.چنانچہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ور اوچوں شود تمام بکام پسرش یادگار می بینم 66 الاربعين في احوال المهدین صفحه 47 از حضرت شاہ اسماعیل شہید ) جب اس کا زمانہ کامیابی کے ساتھ گزر جائے گا تو اس کے نمونہ پر اس کا فرزند یادگار رہ جائے گا.ایک شامی بزرگ کی پیش گوئی: پانچویں صدی ہجری کے ایک شامی بزرگ نے اپنے منظوم کلام میں مہدی اور ایک عربی النسل شخص کے ظہور کے بعد ایک موعود وجود کی خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں: 170 وَمَحْمُودٌ سَيَظْهَرُ بَعْدَ هَذَا

Page 171

وَيَمْلِكُ الشَّامَ بِلَا قِتَالِ شمس المعارف الكبرى از شیخ ابو العباس احمد بن علی بونی مصری کامل چار حصے.صفحہ 417 دارالاشاعت اردو بازار کراچی) ترجمہ: مسیح موعود اور ایک عربی النسل انسان کے بعد محمود ظاہر ہو گا جو ملک شام کو کسی (مادی) جنگ کے بغیر فتح کرے گا.حضرت مولوی محمد پریل صاحب (سندھ) حضرت مولوی محمد پریل صاحب (سندھ) بیان کرتے ہیں: ” 1914ء میں حضرت خلیفۃ ابیح الاول رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو اس وقت مولوی محمد علی صاحب اور حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے اشتہارات پہنچے.مولوی محمد علی صاحب کا ٹریکٹ پڑھ کر بڑا صدمہ ہوا اور انہیں تفکرات میں تھوڑی سی غنودگی ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ میرے سکول میں ہیڈ ماسٹر ہو کر آئے ہیں تو اب مجھ کو کسی کا کوئی ڈر نہیں.میں پھر بیدار ہوا تو مجھے حضرت اقدس کے خلیفہ برحق ہونے کا کامل یقین ہو گیا.“ بشارات رحمانیہ جلد 1 صفحہ 258 از مولانا عبدالرحمن مبشر صاحب) ابن مسعود خلیفہ ہو گیا ہے: جناب چودھری غلام رسول صاحب چک 99 شمالی سرگودھا بیان کرتے ہیں: میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے مندرجہ ذیل خواب اسی طرح دیکھا ہے.ہم ابھی گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں ہی تھے اور ابھی حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ زندہ تھے کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں احمد یہ چوک قادیان میں کھڑا ہوں اور اردگرد کی دُکانیں سناروں کی معلوم ہوتی ہیں اور دکانوں میں چاندی کے بہت سے تیار شدہ زیورات پڑے ہیں اور کچھ تیار کئے جا رہے ہیں اور کچھ سونے کے زیورات بھی ہیں ان میں سنار مسمی رمضان ہے جو کہ ہمارا واقف ہے کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ایک جانب سے آنکلے ہیں.(اس وقت ہم حضرت صاحب کو میاں صاحب کہا کرتے تھے) کہ کسی نے ہاتھ سے میاں صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ابن مسعود خلیفہ ہو گیا ہے.گویا خواب میں حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو ابن مسعود بتایا گیا ہے.(حضرت ابن مسعود جن کا نام عبداللہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی ہیں.“ کتبہ چودھری سلطان احمد صاحب ابن چودھری غلام رسول صاحب سیکرٹری جماعت احمد یہ چک 99 شمالی سرگودھا) (بشارات رحمانیہ جلد 1 صفحہ 251 از مولانا عبدالرحمن مبشر صاحب) حضرت علامہ مولانا مولوی غلام رسول صاحب فاضل راجیکی رضی اللہ عنہ: طلوع بدرِ کامل: 171

Page 172

حضرت علامہ مولانا مولوی غلام رسول صاحب فاضل راجیکی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نے مجھ سے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے آخری ایام میں جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان خانہ میں آنجناب سے علاج کرایا کرتا تھا ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام میری عیادت یعنی بیمار پرسی کے طور پر تشریف لائے ہیں اور میرے پاس آ بیٹھے ہیں اور فرماتے ہیں: اب کیا حال ہے؟ صبح کے وقت سیدنا محمود ایدہ اللہ تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا: اب کیا حال ہے؟ اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا اور حضور علیہ السلام کو فرماتے سنا بالکل اسی طرح سیدنا حضرت محمود رضی اللہ عنہ سے وہ بات پوری ہوئی.پھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ دریافت فرمایا کہ: بتائیے آج کل کوئی خواب تو نہیں دیکھا؟ ان دنوں میں جماعت انصار اللہ کا بھی ممبر تھا جو حضرت خلیفہ مسیح ثانی رضی اللہ عنہ کے انتظام سے تعلق رکھتی تھی، میں نے عرض کیا: انہی دنوں میں میں نے یہ خواب دیکھا کہ ایک نیا چاند چڑھا ہے اور وہ کامل بھی ہے اور اس کی روشنی میں بھی کوئی نقص اور کسی طرح کی کمی نہیں لیکن اس کے مقابل زمین سے اس قدر گرد و غبار اُٹھا ہے کہ اس کی روشنی کو زمین پر پڑنے سے روکتا ہے اور اس وقت ہم جو انصار میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اس گرد و غبار کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے معوذتین یعنی سوره قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور سورہ قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ کو بہت پڑھنا چاہیے.“ بشارات رحمانیہ جلد 1 صفحه 315 و 316 از مولانا عبدالرحمن مبشر صاحب) حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں: ”یہ بھی دیکھا کہ ہم ایک دریا سے نوح علیہ السلام کی کشتی کے ذریعہ پار اترے ہیں اور جب کنارے پر ہیں تو ہمیں حکم ملا ہے کہ اب اس کشتی سے اترنے کے بعد تم نے ایک بحری جہاز پر سوار ہونا ہے.چنانچہ ابھی وہ جہاز ایک جگہ کھڑا ہوا تھا کہ ہم اس پر جا سوار ہوئے اور اس کی کئی منزلیں ہیں ہم سب سے اوپر کی منزل میں سوار ہوئے جہاز بالکل نیا معلوم ہوا گویا کاریگر ابھی بنا کر گئے ہیں، ابھی اس کی تراش خراش کے آثار بھی اس پر نظر آ رہے تھے کہ ہم اس پر جا سوار ہوئے ہمیں بتایا گیا کہ اس جہاز کے چلنے میں ابھی کچھ دیر ہے لیکن باوجود دیری کے ہم پہلے ہی اس پر سوار ہوئے اس کے متعلق مجھے یہ تعبیر بتائی گئی کہ کشتی نوح علیہ السلام کی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ تھے اور یہ بالکل نیا تیار شدہ جہاز جواب کچھ دیر بعد چلنے والا ہے یہ سیدنا محمود ہیں جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ ثانی ہوں گے اور جماعت انصار اللہ کی حیثیت میں آپ سے تعلق گویا اس جہاز میں پہلے ہی جا سوار ہونے کی طرف اشارہ تھا جس کی بعد میں تصدیق ہو گئی.“ (بشارات رحمانیہ جلد 1 صفحہ 316 و 317از مولانا عبدالرحمن مبشر صاحب) بیان محترمہ اہلیہ صاحبہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان: و محتر مہ اہلیہ صاحبہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان بیان کرتی ہیں کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ محترمہ نہ گھوڑے سے گرے تو انہی غم و اندوہ کے دنوں میں ایک رات خواب میں یہ نظارہ دیکھا کہ ایک جگہ ہے سے کوئی باغ ہے اس میں ایک مجلس چوکور شکل میں بیٹھی ہوئی ہے جس میں بڑے بڑے بزرگ اور نورانی شکل بیٹھے ہیں کہ اچانک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نمودار ہوئے اور ایسا معلوم ہوا کہ حضور علیہ کی طرف سے تشریف لائے ہیں لیکن یقینی طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ سڑک کی طرف سے تشریف آوری ہوئی بلکہ السلام لام سڑک 172

Page 173

اچا نک نظر آگئے ہیں اور حضور علیہ السلام نے میاں صاحب یعنی حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے چہرے کو اس طرح دکھایا کہ حضور علیہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: ”فکر کی کیا بات ہے؟ تین دن کو یہ جو ہو گا.“ اس خواب کے بعد حضرت خلیفہ امسیح اول رضی اللہ عنہ کو صحت ہونی شروع ہو گئی لیکن میں اس خواب کی وجہ سے یہ خیال کرتی رہی کہ حضرت کی وفات اب بہت قریب ہونے والی ہے مگر جوں جوں دن گزرتے گئے حضور رضی اللہ عنہ کی صحت اچھی ہوتی گئی حتی کہ چند دنوں کے بعد ان کو صحت ہو گئی اور وہ خطرناک حالت بیماری کی جاتی رہی.آخر قریباً تین سال کے بعد حضرت رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ خلیفہ منتخب ہوئے، تب معلوم ہوا کہ میری خواب اس طرح پوری ہوئی ہے کہ تین دن سے مراد تین سال تھے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خلافت کی خبر خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے تین سال قبل ان کا چہرہ دکھا کر دی تھی.“ دو جناب بابو عبدالکریم صاحب مغل پورہ لاہور : بشارات رحمانیہ جلد 1 صفحه 423 از مولانا عبدالرحمن مبشر صاحب) جناب بابو عبدالکریم صاحب مغل پورہ لاہور بیان کرتے ہیں: ( تاریخ ٹھیک طور پر یاد نہیں، غالباً خلافتِ اُولیٰ کے آخری ایام تھے) دیکھا ایک بہت بڑا وسیع میدان ہے جس میں ہلکا سا پردہ لگا ہوا ہے جس جگہ پر وہ ہے وہ بہت بلند جگہ ہے اور دوسری بہت نیچی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ نچلی جگہ سے دریا زمین چھوڑ گیا ہے میں نچلی جگہ میں کھڑا ہوں یک لخت پردہ کے درمیان سے ایک ہاتھ نچلی جگہ کی طرف نمودار ہوا جو اس قدر روشن ہے کہ اس کی مثال دنیا میں میرے دیکھنے میں نہیں آئی سمجھنے کے لئے بجلی کے کئی واٹ (watt) کا انڈا (Bulb) تصور ہو سکتا ہے مگر وہ روشنی ٹھنڈی فرحت افر تھی، میں اس روشنی کے ہاتھ کو دیکھ رہا ہوں کہ آواز آئی: ”کیا دیکھتے ہو محمود کا ہاتھ ہے بیعت کرو.“ میرے دل میں محسوس ہوا کہ یہ حضرت اُم المؤمنین کی آواز ہے.خلافت ثالثہ کے متعلق پیشگوئیاں : الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام: (1 مارچ 1906ء 66 (بشارات رحمانیہ جلد 1 صفحه 291 و 292 از مولانا عبدالرحمن مبشر صاحب) چند روز ہوئے یہ الہام ہوا تھا: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَّافِلَةً لَكَ ممکن ہے کہ اس کی یہ تعبیر ہو کہ محمود کے ہاں لڑکا ہو کیونکہ نافلہ پوتے کو بھی کہتے ہیں یا بشارت کسی اور وقت تک موقوف ہو.“ (2 ستمبر 1907ء ( تذکرہ مجموعہ الہامات ، کشوف، رؤیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایڈیشن چہارم 2004 صفحہ 519) ”خواب میں دیکھا کہ ایک پانی کا گڑھا ہے میاں مبارک احمد اس میں داخل ہوا اور غرق ہو گیا.بہت تلاش کیا گیا مگر کچھ پتہ نہیں ملا پھر آگے چلے گئے تو اس کی بجائے ایک اور لڑکا بیٹھا ہوا تھا.“ 173

Page 174

(3 اس کے بعد اکتوبر 1907ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بشارت دی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِيْمٍ يَنْزُلُ مَنْزِلَ الْمُبَارَكِ ترجمہ: ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ مبارک احمد کی شبیہ ہو گا.(البدر 12 ستمبر 1907ء) (البدر 31اکتوبر 1907ء) 4 اشتہار 5 نومبر 1907ء بعنوان” تبصره“: دو لیکن خدا کی قدرتوں پر قربان جاؤں کہ جب مبارک احمد فوت ہوا ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ الہام کیا: انا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِيم يَنْزُلُ مَنْزِلَ الْمُبَارَک یعنی ایک حلیم لڑکے کی ہم تجھے خوشخبری دیتے ہیں.جو بمنزلہ مبارک احمد کے ہو گا اور اس کا قائمقام اور اس کا شبیہ ہوگا پس خدا نے نہ چاہا کہ دشمن خوش ہو.اس لئے اس نے بمُجَرَّدُ وفات مبارک احمد کے ایک دوسرے لڑکے کی بشارت دے دی تا یہ سمجھا جائے کہ مبارک احمد فوت نہیں ہوا بلکہ زندہ ہے اور ایک الہام میں مجھے مخاطب کر کے فرمایا: اِنّى أُرِيحُكَ وَلَا أَجِيْحُكَ وَ أَخْرِجُ مِنكَ قَوْمًا یعنی میں تجھے راحت دوں گا اور میں تیری قطع نسل نہیں کروں گا اور ایک بھاری قوم تیری ن سے پیدا کروں گا یہ خدا کا کلام ہے جو اپنے وقت پر پورا ہوگا.اگر اس زمانہ کے بعض لوگ لمبی عمر میں پائیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ آج جو خدا کی طرف سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے وہ کس شان اور قوت اور طاقت سے ظہور میں آئے گی خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 588-587 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کے البدل کے طور پر حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خليفة أصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ عطا ہوئے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں اپنے ایک خط میں تحریر فرماتی ہیں: ” برادرم مکرم سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط ملا.یہ درست ہے کہ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا ناصر احمد کو بچپن سے اکثر بیٹی کہا کرتیں تھیں اور فرماتی تھیں کہ یہ میرا مبارک ہے، بیٹی ہے جو مجھے بدلہ میں مبارک کے ملا ہے.مبارک احمد کی وفات کے بعد کے الہامات بھی شاہد ہیں ایک بار میرے سامنے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا سے اور بڑے زور سے اور بہت یقین دلانے والے الفاظ میں فرمایا تھا کہ: تم کو مبارک کا بدلہ بہت جلد ملے گا، بیٹے کی صورت میں یا نافلہ کی صورت میں.“ مجھے مبارک احمد کی وفات کے تین روز بعد ہی خواب آیا کہ مبارک احمد تیز تیز قدموں سے آ رہا ہے اور دونوں ہاتھوں پر ایک بچہ اٹھائے ہوئے 66 ہے، اس نے آ کر میری گود میں وہ بچہ ڈال دیا اور وہ لڑکا ہے اور کہا کہ: ” لو آپا یہ میرا بدلہ ہے (یہ فقرہ بالکل وہی ہے جیسا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا) میں نے جب یہ خواب صبح حضرت اقدس کو سنایا تو آپ علیہ السلام بہت خوش ہوئے مجھے یاد ہے آپ علیہ السلام کا چہرہ مبارک مسرت سے سے چمک رہا تھا اور فرمایا کہ: ”بہت مبارک خواب ہے.آپ علیہ السلام کی بشارتوں اور آپ علیہ السلام کے کہنے کی وجہ تھی کہ ناصر احمد سلمہ اللہ کو اماں جان رضی اللہ عنہا نے اپنا بیٹا بنا لیا تھا، اماں جان کے ہی ہاتھوں میں ان کی پرورش 66 174

Page 175

ہوئی، شادی بیاہ بھی انہوں نے کیا اور کوٹھی بھی بنا کر دی (النصرة).تمام پاس رہنے والے زندہ ہوں گے اب بھی شاہد ہوں گے کہ حضرت اماں جان ناصر کو ”مبارک سمجھ کر اپنا بیٹا ظاہر کرتی تھیں اور کہا کرتی تھیں: " تو میرا مبارک ہے عائشہ والدہ نذیر احمد جس کو حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے پرورش کیا اور آخر تک ان کی خدمت میں رہیں یہی ذکر اکثر کیا کرتی ہے کہ اماں جان تو ناصر کو اپنا مبارک ہی کہا کرتی تھیں کہ یہ تو میرا مبارک مجھے ملا ہے..کئی سال ہوئے میں بہت بیمار ہوئی تو میں نے ایک کاپی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض باتیں جو یاد تھیں لکھی تھیں ان میں یہ روایت اور اپنا خواب میں نے لکھا تھا وہ کاپی میرے پاس رکھی ہوئی ہے“ والسلام مبارکه حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیش گوئیاں: ایک مبشر رؤیا: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: " بشارات ربانیہ از مولانا جلال الدین شمس صفحه 18-17) ” میں نے دیکھا کہ میں بیت الدعا میں بیٹھا تشہد کی حالت میں دعا کر رہا ہوں کہ الہی میرا انجام ایسا ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہوا.پھر جوش میں آ کر کھڑا ہو گیا ہوں اور یہی دعا کر رہا ہوں کہ دروازہ کھلا ہے اور میر محمد اسماعیل صاحب اس میں کھڑے روشنی کر رہے ہیں.اسماعیل کے معنی ہیں خدا نے سن لی اور ابراهیمی انجام سے مراد ابراہیم کا انجام ہے کہ ان کے فوت ہونے پر خدا تعالیٰ نے حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام دو قائمقام کھڑے کر دیئے.یہ ایک طرح کی بشارت ہے جس سے آپ لوگوں کو خوش ہونا چاہئے.“ عرفان الہی انوار العلوم جلد 4 صفحہ 288) حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے متعلق ایک پیشگوئی 8 اپریل 1915ء الفضل قادیان میں شائع ہوئی درج ذیل ہے: ایک ناصر دین لڑکے کی پیشگوئی: حضرت خلیفة أصبح الثاني (رضی اللہ عنہ) نے 26 ستمبر 1909ء کو ایک صاحب کے نام خط لکھا جس میں ایک ناصر دین لڑکے کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی یہ خوشخبری حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے متعلق تھی جو کہ آپ رحمہ اللہ تعالٰی کی پیدائش 16 نومبر 1909 ء سے پہلے کی ہے چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس خط میں تحریر فرماتے ہیں: "السلام علیکم...مجھے بھی خدا نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا.66 والسلام 175

Page 176

وو خاکسار مرزا محمود احمد اخبار الفضل قادیان دارالامان مؤرخہ 8 اپریل 1915ء نمبر 124 جلد 2 صفحہ 5) حضرت خلیفۃ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ اپنی ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں واپسی کے وقت غالباً زیورک میں تھا کہ میں نے خواب دیکھی کہ میں رستہ پر گزر رہا ہوں کہ مجھے سامنے ایک ریوالونگ لائٹ (Revolving light یعنی چکر کھانے والی روشنی نظر آئی جیسے ہوائی جہازوں کو رستہ دکھانے کے لئے منارہ پر تیز لیمپ لگائے ہوئے ہوتے ہیں جو گھومتے رہتے ہیں.میں نے خواب میں خیال کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نور ہے.پھر میرے سامنے ایک دروازہ ظاہر ہوا جس میں پھاٹک نہیں لگا ہوا بغیر پھاٹک کے کھلا ہے میرے دل میں خیال گزرا کہ جو شخص اس دروازہ میں کھڑا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کا نور گھومتا ہوا اس کے اوپر پڑے تو خدا تعالیٰ کا نور اس کے جسم کے ذرہ ذرہ میں سرایت کر جاتا ہے تب میں نے دیکھا کہ میرا لڑکا ناصر احمد اس دروازہ کی دہلیز پر کھڑا ہو گیا اور وہ چکر کھانے والا نور گھومتا ہوا اس دروازے کی طرف مڑا اور اس میں سے تیز روشنی گذر کر ناصر احمد کے جسم میں گھس گئی." (روزنامه الفضل ربوه مؤرخہ 8 اکتوبر 1955ء صفحہ 2) یہ لکھی حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کا ایک کشف: مکرم عبدالستار صاحب سیکشن آفیسر رشید سٹریٹ 4 غلام نبی کا لونی سمن آباد لاہور حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کا مندرجہ ذیل کشف تحریر فرمایا: ایک دفعہ میں نے مسجد مبارک قادیان میں حضرت مولوی سید سرور شاہ ساحب سے دریافت کیا کہ کتاب حقیقة الوحی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے پوتے نصیر احمد کا ذکر فرمایا ہے.وہ کون ہیں؟ حضرت مولوی سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: وہ تو فوت ہو گئے تھے اور مرزا ناصر احمد صاحب ان کے بعد پیدا ہوئے پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک کشف یا رویا سنایا ( مجھے اس وقت یاد نہیں رہا کہ کشف تھا یا رؤیا) آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے دیکھ کہ ایک بہت بڑی ڈھول کی قسم کی ایک چیز ہے جو چکر کھا رہی ہے اس ڈھول کی بیرونی سطح پر خانے بنے ہوئے ہیں اور ہر خانہ میں کوئی صفت یا خوبی ہوئی ہے وہ ڈھول گھوم رہا ہے اور اس پر لکھا ہے کہ جس شخص میں یہ اوصاف ہوں گے اور اپنے ماں باپ کا دوسرا لڑکا ہو گا وہ اپنے زمانہ میں سب سے بڑا شخص ہو گا پھر دیکھا کہ اس ڈھول میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سر مبارک نکلا ہے اور آپ علیہ السلام فرماتے ہیں ”وہ میں ہوں“ پھر یہ ڈھول اسی طرح گھومتا جاتا ہے اور اس پر یہی الفاظ لکھے ہیں کہ ایک دوسرا سر اس ڈھول میں سے ظاہر ہوا، وہ حضرت خلیفہ ایج الثانی رضی اللہ عنہ ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ” وہ میں ہوں“.اسی طرح یہ ڈھول گھومتا جاتا ہے اور دو اور سر اسی طرح ظاہر ہوئے اور ان میں ہر ایک نے کہا کہ: ” وہ میں ہوں.“ میں نے حضرت مولوی صاحب سے پوچھا کہ تیسرے وجود کون ہیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا وقت سے پہلے بتانا مناسب نہیں ہوتا.میں نے عرض کی کہ حضور میں تو سمجھ گیا ہوں میری مراد یہ تھی کہ وہ تیسرے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ہیں جو اپنے ماں باپ کے دوسرے فرزند ہیں.“ دو ( بشارات ربانیہ از مولانا جلال الدین شمس صاحب صفحہ 32-31) 176

Page 177

سید مسعود مبارک شاہ صاحب ابن سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم ربوہ: میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ تحریر کرتا ہوں کہ نو دس سال ہوئے میں نے ایک خواب دیکھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ وفات پا گئے ہیں ایک میدان میں جماعت کے بڑے بڑے احباب زمین پر بیٹھے ہیں ان میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب بھی ہیں ان کے ساتھ ہی میں بھی بیٹھا ہوا ہوں.ہم سب حضور کی وفات کے غم سے سخت نڈھال ہیں اور ساتھ ہی یہ غم ہے کہ اب جماعت کا کیا بنے گا؟ اتنے میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث) تشریف لاتے ہیں اور مجمع کے سامنے کھڑے ہو کر تقریر فرمانا شروع کرتے ہیں، ان کے پیچھے غلام احمد پٹھان جو پہرہ دار ہے صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کو گود میں اٹھائے جن کی عمر دو تین سال کی لگی ہے کھڑا ہے.تقریر کے دوران میں ہم سب لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے نہایت عمدگی کے ساتھ موضوع نبھایا ہے.تمام لوگوں کے چہروں سے گھبراہٹ کی بجائے اطمینان کے آثار پائے جاتے ہیں اس کے بعد آنکھ کھل گئی.“ 66 ( ” بشارات ربانیہ از مولانا جلال الدین شمس صاحب صفحہ 49) کشف حضرت مرزا غلام رسول صاحب پشاوری رضی اللہ عنہ: میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر حلفیہ بیان کرتا ہو کہ میرے خسر حضرت مرزا غلام رسول صاحب پشاوری رضی اللہ عنہ جو صحابی تھے اور صاحب کشوف و رؤیا تھے.اغلباً 1945 ء یا 1946 ء میں انہوں نے قادیان میں خاکسار سے بیان کیا تھا کہ: ” میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ مرزا ناصر احمد صاحب کے سینہ میں ایک نور ہے یا ایک نور چمک رہا ہے.“ پھر یہ بھی فرمایا: ” میں نے مرزا ناصر احمد صاحب کو جماعت کا خلیفہ بنا ہوا دیکھا ہے.“ خاکسار بشارت الرحمن پروفیسر تعلیم السلام کالج ربوہ خلافت رابعہ کے متعلق پیشگوئیاں: " بشارات ربانیہ از مولانا جلال الدین شمس صاحب صفحہ 43) مولانا عبید اللہ بسمل صاحب نے اپنی تصنیف ارحج المطالب یعنی سیرت امیرالمؤمین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے باب اول جناب امیر کے اسمائے مبارک میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک نام طاہر لکھا ہے چنانچہ تحریر ہے: الطَّاهِرُ : عَنْ أَبِي الدَّرِى فِى قَوْلِهِ تَعَالَى إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرّجُسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا قَالَ نَزَلَتْ هذِهِ الْآيَةِ فِى خَمْسَةِ فِي النَّبِيِّ وَعَلَى الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ وَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِي وَ ابْنُ حَرِيرِ فِي تَارِيخِهِ) ابو ذری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت جس کا ترجمہ یہ ہے کہ نہیں چاہتا ہے اللہ مگر یہ کہ دور کرے تم سے نجاست کو اے گھر والوں اور پاک کرے تم کو خوب پاک کرنا صرف پانچ شخصوں کے شان میں نازل ہوئی ہے.یعنی بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور علی اور حسن اور حسین اور جناب سیدہ فاطمہ علیہا السلام کے حق 177

Page 178

178 ارج المطالب یعنی سیرت امیر المؤمنین از عبید اللہ امرتسری بسمل صفحه 50 باب اوّل جناب امیر کے اسماء مبارک میں ناشر حق برادرز انار کلی لاہور ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک رؤیا: اس عاجز پر جو ایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر و ضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ ملے گا اور میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا ہو گا سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں کو پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گے.“ جسم : (ازالہ اوبام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 377-376) 19/جنوری 1903ء: ”حضرت اقدس علیہ السلام نے عشا سے پیشتر یہ رویا سنائی کہ: ” میں مصر کے دریائے نیل پر کھڑا ہوں اور میرے ساتھ بہت سے بنی اسرائیل ہیں اور میں اپنے آپ کو موسیٰ سمجھتا ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھاگے چلے آتے ہیں.نظر اٹھا کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہوا کہ فرعون کا لشکر کثیر کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہے اور اس کے ساتھ بہت سامان مثل گھوڑے و گاڑیوں و رتھوں کے ہے اور وہ ہمارے بہت قریب آ گیا ہے.میرے ساتھی بنی اسرائیل بہت گھبرائے ہوئے ہیں اور اکثر ان میں سے بے دل ہو گئے ہیں اور بلند آواز سے چلاتے ہیں کہ اے موسیٰ ہم پکڑے گئے تو میں بلند آواز سے کہا: كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ (ترجمہ: ہرگز نہیں یقیناً میرا رب مجھے راہ دکھائے گا.اتنے میں میں بیدار ہو گیا اور زبان پر یہی الفاظ جاری تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: (الحکم 31 جنوری 1903ء) 18 / اکتوبر 1892ء کے بعد دسمبر 1892 کو ایک اور رؤیا دیکھا.کیا دیکھتا ہوں کہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن گیا ہوں یعنی خواب میں ایسا معلوم کرتا ہوں کہ وہی ہوں اور خواب عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے تئیں دوسرا شخص خیال کر لیتا ہے سو اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ میں علی مرتضیٰ ہوں اور ایسی صورت واقع ہے کہ ایک گروہ خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہو رہا ہے یعنی وہ گروہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے تب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہیں اور شفقت اور توڈد سے مجھے فرماتے ہیں: یا عَلِيُّ ادَعْهُمْ وَاَنْصَارَهُمْ وَزَرَاعَتَهُمُ یعنی اے علی ! ان سے اور ان کے مددگاروں اور ان کی کھیتی سے کنارہ کر اور ان کو چھوڑ دے اور ان سے منہ پھیر لے اور میں نے پایا کہ اس فتنہ کے وقت صبر کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو فرماتے ہیں اور اعراض کے لئے

Page 179

تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو ہی حق پر ہے مگر ان لوگوں سے ترک خطاب بہتر ہے اور کھیتی سے مراد مولویوں کے پیروؤں کی وہ جماعت ہے جو ان کی تعلیموں سے اثر پذیر ہے جس کی وہ ایک مدت سے آبپاشی کرتے چلے آئے ہیں.پھر بعد اس کے میری طبیعت الہام کی طرف منتقل ہوئی اور الہام کے رُو سے خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ ایک شخص مخالف میری نسبت کہتا ہے : ذَرُونِى اقْتُلَ مُوسَى یعنی مجھ کو چھوڑو تا میں موسیٰ کو یعنی اس عاجز کو قتل کر دوں اور یہ خواب رات کے تین بجے قریباً میں منٹ کم میں دیکھی تھی اور صبح بدھ کا دن تھا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 218) حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید کی آیت ذَرُونِی اقْتُلَ مُوسی کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: دو یہ جو ہے آیت فرعون کا یہ کہنا کہ موسیٰ کو قتل کر دوں.ایسا ہی زمانہ جماعت احمدیہ پر آنے والا تھا جس کا میں ذکر کر رہا ہوں کہ آچکا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلو والسلام کے ایک الہام میں بڑی وضاحت سے یہ بات مذکور ہے.ایک تحریر ہے لمبی جس میں پہلے فرماتے ہیں: يَا عَلِيُّ دَعْهُمْ وَأَنْصَارَهُمْ وَزَرَاعَتَهُمْ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے علی کہ کر مخاطب فرمایا اور کہا کہ ان کو چھوڑ دے ، ان سے اعراض کر.وَاَنْصَارَهُمْ ) ان کے مددگاروں سے بھی زَرَاعَتَهُمُ اور جو وہ کھیتی اُگا رہے ہیں یہ تحریر ہے اس کے بعد فرماتے ہیں: ” پھر بعد اس کے میری طبیعت الہام کی طرف منتقل ہوئی اور الہام کے رو سے خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ ایک شخص مخالف میری نسبت کہتا ہے : ذَرُوانِی أَقْتُلَ مُوسى یعنی مجھ کو چھوڑتا میں موسیٰ کو یعنی اس عاجز کو قتل کردوں اور یہ خواب رات کے تین بجے قریباً ہمیں منٹ کم میں دیکھی تھی اور صبح بدھ کا دن تھا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ 66 عَلى ذلِكَ.دیکھیں پہلے اس سے بیان فرمایا علی والا مضمون اور چھوڑ دے ان کو اللہ تعالیٰ آپ ہی سنبھال لے گا.اس کے بعد الہام کی طرف طبیعت منتقل ہوئی اور یہ الہام ہوا: ذَرُوانِی أَقْتُلَ مُوسی لیکن علی کے تعلق سے یہ بات واضح کرتی ہے کہ چوتھے خلیفہ کے وقت میں یہ واقعہ ضرور ہونے والا ہے اور بھی شواہد ہیں جو بتا رہے ہیں کہ اسی زمانہ میں ہوگا اور چونکہ ہو چکا ہے اس لئے اس استنباط کو فرضی نہیں قرار دیا جا سکتا.واقعات کی بعینہ یہی شہادت ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیش گوئیاں: ایک مبشر رویا: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ( ترجمۃ القرآن کلاس نمبر 243، 28 اپریل 1998 ء) " میں نے دیکھا کہ میں بیت الدعا میں بیٹھا تشہد کی حالت میں دعا کر رہا ہوں کہ الہی میرا انجام ایسا ہوا جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہوا.پھر جوش میں آ کر کھڑا ہو گیا ہوں اور یہی دعا کر رہا ہوں کہ دروازہ کھلا 179

Page 180

ہے اور میر محمد اسماعیل صاحب اس میں کھڑے روشنی کر رہے ہیں.اسماعیل کے معنی ہیں خدا نے سن لی اور ابراہیمی انجام سے مراد ابراہیم کا انجام ہے کہ ان کے فوت ہونے پر خدا تعالیٰ نے حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام دو قائمقام کھڑے کر دیئے.یہ ایک طرح کی بشارت ہے جس سے آپ لوگوں کو خوش ہونا چاہئے.“ (عرفان الہی انوار العلوم جلد 4 صفحہ 288) اس رویا میں دو بیٹوں کی خبر ہے لہذا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دو بیٹے یکے بعد دیگرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ منتخب ہوئے اور اس رویا میں حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مراد حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں اور حضرت اسحاق علیہ السلام سے مراد حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ہیں.احباب جماعت کی گواہیاں: حضرت مرزا طاہر احمد خلیفتہ امسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے مند خلافت پر متمکن ہونے کے متعلق کئی افراد کو قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ خلعت خلافت پہنائے گا.چنانچہ کتاب ایک مرد خدا میں لکھا ہے: ان میں سے ایک تو انور کاہلوں صاحب تھے.انہیں حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی پیدائش کا دن خوب یاد تھا، اسی دن تو قادیان میں پہلی بار ریل گاڑی آئی تھی.اگرچہ انور کاہلوں عمر میں دس سال بڑے تھے، جن دنوں (حضرت) خلیفہ رابع لندن میں زیر تعلیم تھے دونوں میں بہت گہرے دوستانہ روابط قائم ہو گئے تھے، انور کاہلوں ایک کامیاب تاجر تھے اور کاروبار سے ریٹائرڈ ہونے سے امیر جماعت ہائے احمدیہ برطانیہ کے منصب تک پہنچ چکے تھے، انہوں نے ادب و احترام کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے (حضرت) خلیفہ رابع کا بچپن کے دنوں میں بھی ہمیشہ آپ کہہ کر ہی مخاطب کیا (حضرت) مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے کی حیثیت سے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں.کچھ لوگ انہیں ” آپ " کہہ کر ہی پکارتے تھے اگرچہ کچھ لوگ ایسا نہیں بھی کرتے تھے، بچپن میں انور کاہلوں کی والدہ نے انہیں تاکید کی تھی کہ وہ (حضرت) مسیح موعود علیہ السلام کے جملہ افراد خاندان بالعموم اور صاحبزادہ مرزا طاہر احمد سے بالخصوص ہمیشہ ادب اور احترام سے پیش آیا کریں.جب انور نے اس کی وجہ پوچھی تو ان کی والدہ صاحبہ نے کہا کہ وجہ تو میں نہیں بتاؤں گی لیکن میری نصیحت عمل ضرور کرنا.انور نے وعدہ کیا کہ ایسا ہی کروں گا.اس وعدے کی خاطر جو انہوں نے پچاس سال پہلے اپنی والدہ سے کیا تھا اور باوجود اس کے صاحبزادہ صاحب ان سے دس سال چھوٹے تھے، انور کاہلوں انہیں ہمیشہ ادب و احترام کے ساتھ ” آپ“ کہہ کر مخاطب کرتے رہے، جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے لندن میں قیام کے دوران انور کاہلوں اور ان کی اہلیہ امینہ بیگم کے صاحبزادہ مرزا طاہر احمد سے گہرے دوستانہ مراسم قائم ہو گئے یہاں تک کہ امینہ بیگم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد کو مخاطب کرتے وقت بے تکلفی سے واحد حاضر کا صیغہ استعمال کرنے لگیں وہ انہیں ”طاہری“ کہہ کر پکارتیں لیکن انور کاہلوں بدستور ادب سے آپ کہہ کر ہی ان سے مخاطب ہوتے.جب صاحبزادہ صاحب سے پوچھا گیا کہ کیا آپ انور کاہلوں کا انداز تخاطب محسوس کیا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ” ہاں محسوس تو کیا ہے لیکن لیکن مجھے اس کا سبب معلوم نہیں.“ سبب تو اس کا انور کاہلوں کو بھی معلوم نہیں تھا انہیں تو بس اتنا پتہ تھا کہ یہ ان کی والدہ کی خواہش تھی لیکن جب خلافت رابعہ کا انتخاب ہو چکا تو انور کاہلوں کے والد صاحب نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے بتایا: وو پر 180

Page 181

" آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ تمہاری والدہ تم کو ہمیشہ صاحبزادہ طاہر احمد کا ادب و احترام ملحوظ خاطر رکھنے کے لئے کیوں تاکید کرتی تھیں.حضرت اُمّم طاہر اور تمہاری والدہ دونوں سہیلیاں تھیں ایک سہ پہر کا ذکر ہے جب تمہاری والدہ اپنی سہیلی کو ملنے گئیں، صاحبزادہ طاہر احمد اس وقت تقریباً تین سال کے تھے.اچانک (حضرت) اُمّم طاہر کمرے سے اٹھ کر چلی گئیں اور جلد ہی اپنے شوہر نامدار حضرت خلیفہ ثانی کی دستار لے کر واپس لوٹیں اور اسے ننھے طاہر کے سر پر باندھ دیا اور بولیں طاہر ایک دن خلیفہ بنے گا پھر اس عدم احتیاط پر خود ہی محجوب ہو کر رہ گئیں اور انور کاہلوں کی والدہ سے عہد لیا کہ وہ اس راز کو افشا نہیں کریں گی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے اس یقین کی بنا کیا تھی اس کے بعد اس موضوع پر کبھی کوئی بات نہیں ہوئی.دونوں سہیلیوں کی ملاقات سہ پہر کو ہوئی اسی صبح حضرت اُمّم طاہر کو ایک الہام کا علم ہوا تھا.(حضرت) خلیفہ ثانی کچھ دیر تو کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے خاموش بیٹھے رہے تھے پھر بالآخر حضرت اُمّ طاہر سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے الہاماً بتایا ہے کہ طاہر ایک دن خلیفہ بنے گا.دوسری ماؤں کی طرح (حضرت) ام طاہر بھی اپنے اکلوتے بیٹے کے لئے بڑی اونچی تو قعات رکھتی تھیں.نسباً نجیب الطرفین سیدہ ہونے کے علاوہ انہیں یہ امتیاز بھی حاصل تھا کہ وہ (حضرت) مسیح موعود علیہ السلام کے خاص فرزند مبارک احمد کی منگیتر بھی تھیں اس لئے خاندان (حضرت) مسیح موعود علیہ السلام میں وہ ایک خاص مقام کی مالک تھیں.بے شک (حضرت) مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے گیارہ فرزند اور بھی تھے لیکن اب یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے (حضرت) اُمّم طاہر کی دلی تمنا بالآخر پوری ہونے والی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ ہمہ وقت اسی کوشش میں لگی رہتی تھیں کہ طاہر احمد سکول میں اسلامی علوم کے حصول اور ان پر عمل میں سب پر سبقت لے جائے.(حضرت) خلیفہ ثانی کی موجودگی میں تو خوشخبری سن کر (حضرت) ام طاہر اپنے جذبات پر کسی نہ کسی طرح قابو پانے میں کامیاب ہو گئیں لیکن ان کے جاتے ہی ضبط کے سارے بند ٹوٹ گئے اور انہوں نے فرط مسرت سے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا.خدا کا کرنا کیا ہوا کہ عین اس وقت ایک نوجوان لڑکی جس کا نام کلثوم بیگم تھا ان سے ملاقات کیلئے آن پہنچی.کلثوم بیگم حضرت اُمّ طاہر کا اپنی والدہ کی طرح احترام کرتی تھیں اور ان سے ملنے کے لئے اکثر آتی جاتی رہتی تھیں.کلثوم بیگم کو یہ تو فوراً ہی اندازہ ہو گیا کہ (حضرت) اُمّم طاہر کسی رنج یا غم کی وجہ سے نہیں رو رہی تھیں بلکہ یہ آنسو خوشی اور شدت جذبات کے آنسو تھے، پہلے تو حضرت اُمّ طاہر اپنے آنسوؤں کا سبب چھپانے کی کوشش کرتی رہیں پھر فرط مسرت سے بے بس ہو گئیں.کلثوم بیگم سے پہلے راز داری کا حلف لیا پھر انہیں (حضرت) خلیفہ ثانی کے الہام کی تفصیل بتائی اور وعدہ لیا کہ جب تک یہ الہام پورا نہ ہو جائے کسی سے اس کا ذکر نہیں کریں گی.کلثوم بیگم نے اپنے وعدے کو پورا کیا.ان کی ایک احمدی مشنری سے شادی ہو گئی اور آنے والے پچاس سالوں میں انہیں بارہا صاحبزادہ مرزا طاہر احمد سے ملاقات کا موقع ملتا رہا لیکن کلثوم بیگم کے ہونٹوں پر مسلسل مہر سکوت لگی رہی.اگر چہ کلثوم بیگم دوسرے بھائیوں کے مقابلہ پر صاحبزادہ مرزا طاہر احمد سے انتہائی امتیازی ادب و احترام پیش آتی تھیں لیکن صاحبزادہ صاحب کو کبھی شک تک نہیں گزرا کہ اس امتیازی سلوک اصل سبب کیا تھا.خلافت رابعہ کے انتخاب کے بعد (حضرت) خلیفہ رابع سے ملاقات کے لئے جب کلثوم بیگم حاضر ہوئیں تو انہوں نے اس راز سے پردہ اٹھایا اور اس الہام کی تفصیل بتائی جو (حضرت) خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے (حضرت) اُمّم طاہر کو بتایا تھا.“ ایک مرد خدا از آئن ایڈمسن ترجمہ چودھری محمد علی صاحب صفحہ 206 تا 209) 181

Page 182

مکرم را نا رفیق احمد صاحب جہانگیر پارک لاہور : مکرم رانا رفیق احمد صاحب جہانگیر پارک لاہور بیان کرتے ہیں: ”ہماری نانی صاحبہ نے جو صحابیہ حضرت اقدس اور کریم بخش ( نانبائی) کی صاحبزادی اور زوجہ صوفی حبیب اللہ خان ام سعید اللہ خان پروفیسر ٹی آئی کالج ربوہ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ اپنی پگڑی حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو دے رہے ہیں اس کے بعد حضرت اقدس کو بھی انہوں نے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا.“ مکرم لئیق احمد طاہر صاحب سابق مبلغ انگلستان: مکرم لئیق احمد طاہر صاحب سابق مبلغ انگلستان بیان کرتے ہیں کہ: (روز نامه الفضل 8 اگست 1982ء صفحه 3) کرائیڈن (انگلستان) کے ایک دوست مکرم خواج احمد صاحب نے شوریٰ 1361 ہش ( 1982ء) سے چند روز قبل مسجد اقصیٰ کے سامنے مجھے خواب سنائی کہ انہوں نے دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے اپنی پگڑی صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو پہنائی ہے.“ (روز نامه الفضل 8 اگست 1982ء صفحہ 3) مکرم عبدالباری احمدی صاحب کیلگری (Calgary) کینیڈا (Canada): مکرم عبدالباری احمدی کیلگری کینیڈا سے بیان کرتے ہیں کہ: 9/10 جون 1982ء کو خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کھڑے ہیں پاس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد کھڑے ہیں اتنے میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے اپنی پگڑی اتاری اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے پر رکھ دی اور فرمایا یہ تم سنبھالو ہم تو چلتے ہیں ہم وہاں کھڑے ہیں کہ حضرت خلیفہ اُسیح الثالث رحمہ اللہ ننگے سر روانہ ہو جاتے ہیں اور جاتے ہوئے فرماتے ہیں ہم نے یہاں کیا لینا ہے وہاں ہی چلتے ہیں اس نظارے کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ہاتھ اٹھا کر دعا کرائی اور جو دعا کرنے کی حالت حضرت صاحب کی تھی وہ ایسی تھی کہ جیسے کہا جاتا ہے کہ دعا ایک موت چاہتی ہے ویسی حالت تھی یعنی آپ (رحمہ اللہ ) دعا فرماتے فرماتے خدا تعالیٰ میں غرق ہونے والی حالت پیدا کر لیتے ہیں اس کے بعد آنکھ کھل گئی.“ خلافت خامسہ کے متعلق پیشگوئیاں : (روز نامه الفضل 8 اگست 1982ء صفحہ 3) حضرت مرزا مسرور احمد خلیلة لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے متعلق پیش خبریاں: 182

Page 183

حضرت مسیح موعود علیہ السلام : حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تائید و نصرت کے وعدے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں وضاحت کے ساتھ پائے جاتے ہیں.چنانچہ دسمبر 1907ء میں حضرت مسیح موعود کوخدا تعالی کی طرف سے الہام ہوا: فرمایا د و دو إِنِّي مَعَكَ يَا مَسْرُورُ اے مسرور میں تیرے ساتھ ہوں.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دو چند سال ہوئے ایک دفعہ ہم نے عالم کشف میں اسی لڑکے شریف احمد کے متعلق کہا تھا کہ: اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں.البدر 19دسمبر 1907ء) الحکم ، البدر 10 جنوری 1907ء) حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کشف کی تشریح کرتے ہوئے خطبہ جمعہ فرمودہ 12 /دسمبر 1997ء میں وو اب ساری جماعت کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کیلئے خاص دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور 66 بعد میں مرزا مسرور احمد صاحب کے متعلق بھی کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحیح جانشین بنائے ” تو ہماری جگہ بیٹھ جا “ کا مضمون پوری طرح ان پر صادق آئے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ خود ان کی حفاظت فرمائے اور ان کی اعانت فرمائے.“ مکرم محمد شریف عوده صاحب امیر جماعت کبابیر: الفضل انٹرنیشنل 30 جنوری 1998ء لندن) مکرم محمد شریف عوده صاحب امیر جماعت کبابیر نے عربی زبان میں اپنے خط محررہ 28 مئی 2005ء میں جو تحریر کیا اس کا ترجمہ یہ ہے: دوست سے مئی 2002ء میں میں نے ایک فلسطینی سے رابطہ کر کے کہا امسال آپ جلسہ سالانہ برطانیہ میں شامل ہوں انہوں نے کہا کہ میں استخارہ کر کے بتاؤں گا.چند دن کے بعد انہوں نے بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ لندن گیا ہوں اور خلیفہ وقت سے ملاقات بھی ہوئی ہے لیکن حضرت مرزا طاہر احمد صاحب سے نہیں بلکہ کوئی اور خلیفہ ہیں اور اس دوست (امجد کمیل) نے اس خلیفہ کا حلیہ بیان کرنا شروع کر دیا کہ ان کی داڑھی چھوٹی ہے آنکھیں اس طرح کی ہیں وغیرہ.میں نے کہا میں یہ نہیں سننا چاہتا لیکن مجھے سمجھ آ گئی کہ شاید حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کی طرف اشارہ ہے بہر حال میں اس خواب کو بھول گیا.جب اپریل 2003ء میں حضرت خلیفہ رابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات ہوئی اور مکرم عطاء المجیب راشد صاحب نے خاکسار کو فون کے ذریعہ انتخاب خلافت کمیٹی کے ممبر ہونے کی اطلاع دی تو اس بھاری ذمہ داری کے احساس سے مجھے تو جان کے لالے پڑھ گئے بہت دعائیں کیں اور کروائیں.جب لندن پہنچے اور مغرب اور عشا کی نمازوں کے بعد جب انتخاب کیلئے مسجد میں داخل ہونے کی غرض سے قطار بنا کر کھڑے تھے تو میں نے اپنے 183

Page 184

دیکھ کہ جس شخصیت کو خلیفہ بننے کیلئے میں ووٹ دینا چاہتا تھا وہ شخصیت میرے پیچھے کھڑی ہے میں نے اپنے دل میں کہا کہ جس کو میں خلیفہ کے لئے ووٹ دینا چاہتا ہوں یہ نامناسب لگتا ہے کہ میں اس کے آگے کھڑا ہوں لہذا اس قطار سے نکل کر آخر پر آ گیا.اس وقت دو آدمی آئے ایک چودھری حمید اللہ صاحب تھے جبکہ دوسری شخصیت کو میں نہیں جانتا تھا لیکن ایک برقی چمک کی سی تیزی سے وہ شخصیت میرے دل میں اُتر گئی اور میں سوچنے لگا کہ آخر یہ ہیں کون؟ اور اس سوچ کا عالم یہ تھا کہ مجھے یوں محسوس ہوا کہ شاید میں مسجد میں داخل ہونے سے قبل ہی مر جاؤں گا.دوران اجلاس مرزا مسرور احمد صاحب کو دیکھ کر میں نے کہا یہ تو وہی ہیں جن کی صورت برق رفتاری سے میرے دل میں اتر چکی ہے.لہذا وقت انتخاب میں نے انہی کے لئے ووٹ دینے کو ہاتھ کھڑا کیا تو دیکھا اکثریت نے ووٹ انہی کو دیا.یوں غم کی کیفیت جاتی رہی اور ایسی خوشی نصیب ہوئی کہ مجھے زندگی ایسی خوشی کوئی نہیں ملی.واپسی پر فلسطین میں مکرم ہانی طاہر کے گھر مکرم امجد کمیل سے ملاقات ہوئی جن کے گھر ایم ٹی اے نہیں تھا اور انہوں ابھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تصویر نہیں دیکھی تھی اس ملاقات میں میں نے ان کو حضور کی تصویر دکھائی تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ یہ تو وہی ہیں جن سے میں نے رویا میں ملاقات کی تھی حتیٰ کہ کوٹ اور کرسی بھی وہی ہیں.اب میں تمام منافقین کو کہتا ہوں کہ اگر حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کو خدا نے خلیفہ نہیں بنایا تو بتائیں کہ کس نے قبل از وقت مکرم امجد کمیل کو ان کی صورت دکھا دی؟ اور کس نے مجھے قطار سے نکل کر پیچھے جانے پر مجبور کیا؟ اور مجھے وہ صورت دکھا دی جو میرے دل میں اتر گئی جس کو میں جانتا تک نہیں؟“ (ہفت روزہ ”البدر قادیان 20 دسمبر تا 27 دسمبر 2005ء سالانہ نمبر صفحہ 24) محترم محمد امین جواہر صاحب امیر جماعت ماریشس (Maritius): محترم محمد امین جواہر صاحب امیر جماعت ماریشس نے 24 اپریل 2003ء کو حضور انور کے نام ایک خط انگریزی میں لکھا.اس کا خلاصہ اردو میں حسب ذیل ہے: ”ہفتہ کی رات کو جب میں ائیر ماریشس کے جہاز میں لندن آ رہا تھا تو میں نے بہت دعا کی توفیق پائی.میں نے خدا سے عرض کیا کہ میں بہت کمزور اور عاجز انسان ہوں مگر تو نے مجھے مجلس انتخاب خلافت میں شامل کر دیا ہے.خدایا! میری بھی اور ساری مجلس انتخاب کی رہنمائی فرما کر وہ اسی شخص کا انتخاب کریں جس کے بارہ میں دراصل تو نے خود فیصلہ کیا ہے کہ وہ خلیفہ منتخب ہو.رات کے ایک سے چار بجے کے درمیان جبکہ ابھی میں جہاز ہی میں تھا.میں نے آٹھ رکعت نماز تہجد ادا کی بعد ازاں آرام کے دوران دوبارہ میری زبان پر لفظ مسرور آیا اور ذہن میں بھی یہی خیال آیا.اس وقت سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ خدا کی طرف سے ایک رہنمائی ہے.اگرچہ اس سے پہلے مجھے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں تھا.میں نے صرف ربوہ میں بطور ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی حضور کی مصروفیات کے بارہ میں کچھ پڑھا ہوا تھا.ماریشس سے روانگی سے پہلے میرے ذہن میں ایک اور شخص کا نام تھا لیکن میں نے اس کا ذکر کسی سے نہ کیا.“ (ہفت روزہ ” البدر قادیان 20 دسمبر تا 27 دسمبر 2005ء سالانہ نمبر صفحہ 26) محترمه رضوانه شفیق صاحبہ اہلیہ مکرم قاضی شفیق احمد صاحب صدر جماعت احمدیہ آسٹریا (Austria): 184

Page 185

تحریر کیا: محترمہ رضوانہ شفیق صاحبہ اہلیہ مکرم قاضی شفیق احمد صاحب صدر جامعت احمد یہ آسٹریا نے اپنے خط محررہ 30 اکتوبر 2005 ء 66 دو " و جس روز حضور رحمہ اللہ ( حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) کی وفات ہوئی خاکسارہ گھر پر ایم ٹی اے (M.T.A) سے براہ راست تمام نشریات دیکھ رہی تھی.چونکہ میرے شوہر قاضی شفیق احمد وفات کے روز ہی لندن روانہ ہو گئے تھے سو اکیلی بیٹھی ٹی وی پر ہر ہر لمحہ دیکھتی رہی.رات کو جب خلافت کمیٹی بیٹھی ہوئی تھی اور لوگ بے چینی سے دعائیں کرتے ہوئے خدا کی رحمت کے طلب گار تھے اور قدرت ثانیہ کا ایک نیا پہلو دیکھنے کے منتظر مسجد فضل لندن کے دروازے پر نظریں جمائے بیٹھے تھے تو خاکسارہ بھی یہ نظارہ M.T.A پر دیکھ رہی تھی کہ اچانک تھکن کی وجہ سے لمحہ بھر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی مگر سمجھ نہیں آتا کہ نیند کی حالت ہے یا خیال کی حالت ہے مگر ایک دم نور ہی نور آسمان سے اترتا دکھائی دیا جو بہت تیزی سے برق روئی سے زمین کی طرف بڑھتا ہے.دیکھتے ہی دیکھتے وہ نور اس جگہ میں جہاں خلافت کمیٹی بیٹھی ہے داخل ہو گیا ہے اسی لمحہ دل میں یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ اس بار خلیفہ اسیح کا نام حروف ابجد کے لفظ ” م “ سے شروع ہو گا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ نور ” م “ نامی شخص ” مسرور میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ الفاظ دل میں گونجتے ہیں کہ جو میرے منہ سے جاری ہو گئے کہ اللہ نے اپنا خلیفہ چن لیا اور جس شخص میں اپنا نور بھرنا تھا بھر دیا.ایسے ہی عالم میں ایک دم جیسے میری آنکھ کھل گئی ہو یا وہ نظارہ ٹوٹ گیا ہو اور وہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے.میرا جسم سخت کپکپانے لگا اور دل میں ایک خوف طاری ہو گیا کہ یہ میں نے کیا دیکھا ہے کون سی کیفیت سے گزری ہوں مگر دل کو یہ کامل یقین ہو گیا کہ خدا تعالیٰ نے اپنا فیصلہ فرما دیا ہے لوگوں پر ظاہر ہونا باقی ہے اس کا اور میں نے اسی وقت اپنے شوہر قاضی شفیق صاحب کو فون کیا جو کہ مسجد فضل لندن کے باہر ہی بیٹھے ہوئے تھے اور سارا واقعہ بیان کیا اور کہا خدا تعالیٰ نے اپنا خلیفہ منتخب کر لیا ہے اور یقیناً بس اعلان ہونا باقی ہے چونکہ خدا نے اس عام بندے میں اپنا نور منتقل کر کے اسے خاص بندے میں اپنا نور منتقل کر کے اسے خاص بندوں میں چن لیا ہے اتنے میں انہوں نے مجھے فون بند کرنے کو کہا کہ کوئی اعلان ہونے لگا ہے سو میں نے بھی یہ نظارہ اگلے ہی لمحہ M.T.A پر براہ راست دیکھا جس میں آپ مکرم عطاء المجیب صاحب راشد امام مسجد بیت الفضل لندن.ناقل) اعلان فرما رہے تھے کہ حضرت خلیفة أسبح الخامس حضرت مرزا مسرور احمد ہمارے خلیفہ ہوں گے.خدا تعالیٰ میرے پیارے آقا کو عمر دراز صحت تندرستی کے ساتھ عطا فرمائے اور ان کا بابرکت وجود تا دیر ہم میں قائم رکھے.(آمین ثم آمین) وو (ہفت روزہ "البدر قادیان 20 دسمبر تا 27 دسمبر 2005 ء سالانہ ' سالانہ نمبر صفحہ 26) مکرم مبشر احمد صاحب طاہر مربی سلسلہ لودھراں پاکستان: مکرم مبشر احمد صاحب طاہر مربی سلسلہ لودھراں پاکستان اپنے خط محررہ 28 را پریل 2003ء میں تحریر کرتے ہیں: فروری 2003ء کی آخری تاریخیں تھیں میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ وفات پا گئے ہیں.خواب میں ہی ہمیں اتنا غم تھا روئے چلا جا رہا تھا اور ظاہری آنسو بھی محسوس کر رہا تھا کچھ دیر بعد روتے روتے میں کہہ رہا تھا کہ حضور تو فوت ہو گئے ہیں اب نیا خلیفہ کون ہو گا؟ معاً میرے دل میں ڈالا گیا کہ مرزا مسرور احمد جو ہیں یہ خواب میں نے اپنے امیر صاحب ضلع چودھری منیر احمد صاحب کو بھی سنائی 185

Page 186

66 ہیں: ) ہفت روزہ ” البدر قادیان 20 دسمبر تا 27 دسمبر 2005ء سالانہ نمبر صفحہ 24) مکرم محمود احمد صاحب خالد معلم وقف جدید شاد یوال ضلع گجرات: مکرم محمود احمد صاحب خالد معلم وقف جدید شادیوال ضلع گجرات اپنے مکتوب محررہ 28 /اپریل 2003ء میں بیان کرتے ނ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کی خبر ساری جماعت احمد یہ عالمگیر کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے...اسی بے قراری کے عالم میں رات پونے بارہ بجے ٹی وی بند کیا اور لیٹ گیا یہ مورخہ 21 اپریل کی رات تھی خواب میں دیکھا کہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام والا کوٹ اور انگوٹھی پہنائی جا رہی ہے اس کے ساتھ ہی آنکھ کھل گئی، پھر سو گیا اور دوبارہ یہی منظر دیکھا.جب آنکھ کھلی تو اڑھائی بجے کا کا وقت تھا صبح میں نے یہ خواب والا واقعہ ڈائری میں لکھ دیا اور اس کے بعد اپنی اہلیہ کو بھی بتا دیا کہ آج رات اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت خلیفہ اسیح کے بارے میں بتایا ہے خواب میں.وہ بھی بے چینی پوچھنے لگیں کہ پھر جلدی بتاؤ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ میں بتاؤں گا نہیں.ان کے بار بار اصرار کے باوجود میں نے نہ بتایا لیکن اتنا بتایا کہ میں اپنی ڈائری میں لکھ دیا ہے لیکن یہ بھی انتخاب کے اعلان کے بعد دکھاؤں گا پھر وہ کہنے لگیں کہ اچھا اتنا تو بتادیں کہ کیا ” خاندان میں سے ہیں؟ میں نے کہا ہاں.22 اپریل رات کو کئی لوگ سوئے نہیں تھے ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ رات کے ایک بجے دو اور خواتین بھی ہمارے گھر M.T.A دیکھنے آ گئیں.رات تین بج کر چالیس منٹ پر جب امام صاحب نے اعلان کیا تو ان کے منہ سے حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کا نام سنتے ہی بے اختیار میری زبان سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوا اور میں نے اچھل کر ڈائری اٹھائی اور سب کے سامنے کھول کر دکھائی کہ یہ دیکھیں بالکل یہی نام اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ سے لکھوایا ہے.الحمد للہ.اور میں تھا کہ خوشی سے روئے چلا جا رہا تھا اور میری اہلیہ صاحبہ اور دو دوسری بہنیں بھی خوش بھی اور حیران بھی تھیں.اس موقع پر میری بیگم صاحبہ ناصرہ محمود اور دونوں مہمان خواتین بشری نصر اللہ اور مبشرہ نصر اللہ موجود تھیں.میں نے اسی ڈائری پر جہاں خواب لکھا تھا ساتھ ہی ان تینوں کے دستخط کرالئے " ) ہفت روزہ ” البدر قادیان 20 دسمبر تا 27 دسمبر 2005ء سالانہ نمبر صفحہ 25) مکرم شیخ عمر احمد منیر صاحب ابن مکرم شیخ نور احمد منیر صاحب مرحوم راولپنڈی: ہیں: مکرم شیخ عمر احمد منیر صاحب ابن مکرم شیخ نور احمد منیر صاحب مرحوم راولپنڈی لکھتے میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر یہ عرض کرتا ہوں: جنوری 2003ء میں میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں لندن میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے پیچھے نماز جمعہ ادا کر رہا ہوں.حضور کے سلام پھیر نے کے بعد جب حضور انور کی نظر جاتے ہوئے مجھے پر پڑتی ہے تو حضور مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کب آئے ہیں حضور کی دست بوسی کے لئے آگے بڑھتا ہوں اور حضور انور سے مصافحہ کرتا ہوں تو حضور فرماتے ہیں شیخ 186

Page 187

صاحب میرے بعد اب آپ صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب سے مصافحہ کرنا ہے اتنی دیر میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب حضور کے ساتھ آ کھڑے ہو جاتے ہیں اور میں فوراً صاحبزادہ صاحب سے مصافحہ کر لیتا ہوں تو حضور انور میری کمر پر تھپکی دیتے ہیں اور اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے.“ ہفت روزہ ” البدر قادیان 20 دسمبر تا 27 دسمبر 2005ء سالانہ نمبر صفحہ 26) 187

Page 188

خلافت احمدیہ اور بشارات رحمانیہ 188

Page 189

آیت: عناوین: آیت استخلاف تفسیر آیت استخلاف خلافت احمدیہ کے متعلق قرآن کی پیش گوئی نظام خلافت اور مخبر صادق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں خلافت احمد یہ اور صحف قدیمہ خلافت احمدیہ کے متعلق صوفیا، اولیا، صلحا، مفسرین، متکلمین اور علمائے اسلام کی تصریحات خلافت احمدیہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئیاں ارشادات خلفائے احمدیت درباره نظام خلافت وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO (سورة النور : 56 ) دو تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.( ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) 189

Page 190

تفسیر آیت استخلاف: شیعہ مسلک کی معروف کتاب بحارالانوار میں سورۃ النور کی آیت استخلاف کے متعلق لکھ کہ یہ آیت امام مہدی کے متعلق نازل ہوئی: مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَقْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ بَكَارِبُنِ أَحْمَدَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ سُفْيَانَ الْجَرِيرِي ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ هَاشِمِ الطَّائِيُّ ، عَنْ إِسْحَاقٍ ابْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَلِيٍّ بنِ الْحُسَيْنِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ فَوَ رَبِّ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ إِنَّهُ لَحَقِّ مِثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنْطِقُونَ قَالَ: قِيَامُ الْقَائِمِ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ قَالَ : وَفِيهِ نَزَلَتْ : وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا قَالَ : نَزَلَتْ فِي الْمَهْدِى عَلَيْهِ السَّلَامُ.(بحارالانور از شیخ محمد باقر مجلسی جلد 51 صفحه -54-5 مطبوعه مؤسسة الوفاء الطبعة الثالثه 1983ء بيروت لبنان) حضرت علامہ فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں سورۃ النور کی آیت استخلاف کی تفسیر میں فرماتے ہیں: فَقَدْ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُو مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ أى الَّذِينَ جَمَعُوا بَيْنَ الْإِيْمَانِ وَالْعَمَلِ الصَّالِحِ أَنْ يَسْتَخْلِفَهُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَجْعَلَهُمُ الْخُلَفَاتَا لُغَالِبِينَ وَالْمَالِكِيْنَ كَمَا اسْتَخْلَفَ عَلَيْهَا مِنْ قَبْلِهِمْ فِي زَمَنِ دَاوُدَ وَ سُلَيْمَانَ عَلَيْهِمَا السَّلَامَ وَغَيْرَهُمَا، وَ أَنَّهُ يُمَكِّنَ لَهُمْ دِينَهُمْ وَتَمْكِينِهِ ذَلِكَ هُوَ أَنْ يُؤَيَّدَهُمُ بِالنُّصْرَةِ وَالْإِعْزَاز وَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِم مِّنَ الْعَدُوِّ أَمْنًا (تفسير كبير تفسير الفخر الرازى امام فخر الدین رازی جلد 12 صفحه 25 سورة النور زیر آیت وعدالله الذين امنو....دار الفکر بيروت 2002ء) ترجمہ: جن لوگوں نے ایمان اور عمل صالح کو ایک جگہ جمع کر دیا ان کو وہ زمین میں خلیفہ بنائے گا اور انہیں غالب اور مالک بنائے گا جیسا کہ اس نے اس سے پہلے ان چیزوں کا داؤد اور سلیمان علیہا السلام اور دیگر کو ان کے زمانے میں خلیفہ بنایا اور یہ کہ وہ ان کے لئے ان کے دین کو تمکنت عطا کرے گا اس تمکین سے مراد یہ ہے کہ وہ نصرت اور اعزاز سے ان کی تائید کرے گا اور دشمن کی طرف سے ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا.تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام: حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ النور کی آیت استخلاف کی تفسیر کرتے ہوئے اپنی کتاب سر الخلافہ میں فرماتے ہیں: وَأَمَّا تَفْصِيلُهُ لِيَبْدُوا عَلَيْكَ دَلِيْلَهُ فَاعْلَمُوا يَا أُولِي الْأَلْبَابَ وَالْفَضْلَ الْأَلْبَابَ اَنَّ اللَّهَ قَدْ وَعَدَ فِي هَذِهِ الْآيَاتِ لِلْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ أَنَّهُ سَيَسْتَخْلِفَنَّ بَعْضَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُمْ فَضْلًا وَّ رَحْمًا وَّ يُبَدِّلَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا فَهَذَا أَمْرْ لَا نَجِدُ مِصْدَاقَهُ عَلَى وَجْهِ أَتَمِّ وَأَكْمَلٍ إِلَّا خِلَافَةَ الصِّدِّيقِ ستر الخلافہ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 334) اس کی تفصیل کے متعلق اے عقلمندو اور اعلیٰ فضلیت والو! جان لو تا کہ تم پر اس کی دلیل واضح ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مسلمان مردوں اور عورتوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ضرور ان میں سے بعض مومنوں کو اپنے فضل اور رحمت سے خلیفہ بنائے گا اور ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا.پس یہ ایک ایسی بات ہے جس کا پورا اور مکمل مصداق ہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو پاتے ہیں.“ 190

Page 191

" (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 3 صفحہ 505) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا...یعنی خدا وعدہ دے چکا ہے کہ اس دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفے پیدا کرے گا اور قیامت تک اس کو قائم کرے گا.یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے دین میں مدت ہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتا رہا ایسے ہی اس جگہ بھی کرے گا اور اس کو معدوم ہونے نہیں دے گا.“ خلافت احمدیہ کے متعلق قرآن کی پیش گوئی: ) جنگ مقدس روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 290) ارشاد خداوندی ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايته وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ - وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.(سورة الجمعه آیت 4-3 ) ترجمعہ: وہی ہے جس نے اُمی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا.وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے.اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی ان سے نہیں ملے.وہ کامل غلبہ والا ( اور ) صاحب حکمت ہے.(ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) نظام خلافت کے بارے میں مخبر صادق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں: سورة الجمعہ کی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ کی تفسیر کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا جَلُوْسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَتْ عَلَيْهِ سُوْرَةُ الْجُمُعَةُ: ” وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ قَالَ: قُلْتُ : مَنْ هُمْ يَا رَسُولُ اللَّهِ؟ فَلَمْ يُرَاجِعُهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلَاثًا وَّ فِيْنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ ، وَضَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ ، ثُمَّ قَالَ: لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِندَ القُرَيَّا لَنَا لَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِّنْ هَؤُلَاءِ.( بخاری کتاب التفسير سورة الجمعه باب وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ) ترجمہ: حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ الجمعہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ نازل ہوئی.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ابھم نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب نہ دیا یہاں تک کہ انہوں نے (یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) نے تین دفعہ سوال کیا اور ہم میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان فارسی پر رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی چلا جائے تو ان میں سے کچھ مرد یا ایک مرد اسے واپس لے آئے گا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ حدیث مبارکہ میں آنے والے لفظ ”رِجَالٌ “ کی تشریح میں فرماتے ہیں: 191

Page 192

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ دین جب خطرہ میں ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کیلئے اہل فارس میں سے کچھ افراد کھڑا کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان میں سے ایک فرد تھے اور ایک فرد میں ہوں لیکن رجال کے ماتحت ممکن ہے کہ اہل فارس میں سے کچھ اور لوگ بھی ایسے ہوں جو دین اسلام کی عظمت قائم رکھنے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے کھڑے ہوں.“ پیش گوئی مخیر صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم: (خطبہ جمعہ فرموده 8 ستمبر 1950ء روزنامه الفضل 22 ستمبر 1950 صفحہ 6) عَنْ حُذِيفَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمُ مَا شَاءَ اللَّهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 273 - مقلوة بَابُ الْإِندَارِ وَالتَّحْذِير) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت عـلـى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ قائم ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا، پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ ظلم ستم کے اس دور کو ختم کر دے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی ! یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.خلافت احمدیہ اور صحف قدیمہ: حضرت مسیح کی آمد ثانی اور اس کی روحانی بادشاہت کے متعلق یہود کی شریعت کی کتاب طالمود میں لکھا ہے کہ : "I " The Rabbis are divided as to the continuance of the Messiah: some say forty years, some seventy years, some three generations, and some say that He will continue as long as from the creation of the world or the time up to the present time." Others say that the kingdom of the of Noah when there is a good Messiah will endure for thousands of years, as government it is not quickly dissolved." it is also said that He shall die, and His kindom descend to His son and grandson.In proof of this opinion Issaiah XLii.4 is quoted: " He shall not fail nor be discouraged, till He have set judgement in the earth." ( طالمود اس جوزف باکلے ایل ایل ڈی مطبوعہ لنڈن 1878ء صفحہ 37) ترجمہ: مسیح کے قیام کے متعلق ربیوں میں اختلاف پایا جاتا ہے کچھ کہتے ہیں کہ چالیس سال کچھ کہتے ہیں ستر 192

Page 193

سال کچھ کا کہنا ہے کہ تین نسلیں لیکن کچھ کہتے ہیں کہ اس کا عرصہ دنیا کی پیدائش سے یا نوح کے زمانے سے لے کر اب تک کے زمانے تک کا ہو گا کچھ دوسرے کہتے ہیں کہ مسیح کی (روحانی ) بادشاہت ہزاروں سال تک لمبی ہو گی کیونکہ جب کوئی اچھی حکومت قائم ہوتی ہے تو وہ جلدی ختم نہیں ہوتی.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب وہ (یعنی مسیح) فوت ہو جائے گا تو اس کی (روحانی) سلطنت اس کے بیٹے اور پوتے میں منتقل ہو جائے گی.اس رائے کے ثبوت میں یسعیاہ باب 42 آیت 4 کو پیش کیا جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے وہ ماند نہ ہوگا اور ہمت نہ ہارے گا جب تک کہ وہ دنیا میں عدل کو قائم نہ کرلے.مجدد ساسانِ اوّل کی پیش گوئی: ہے.زرتشتی مذہب کے صحیفہ دساتیر میں دین زرتشت کے مجدد ساسانِ اوّل کی درج کردہ ایک پیش گوئی درج کی جاتی اس پیش گوئی کے اصل الفاظ تو پہلوی زبان میں ہیں جسے زرتشتی اصحاب نے فارسی زبان میں ڈھالا ہے.چنانچہ فارسی میں اس پیش گوئی کے الفاظ درج ذیل ہیں: چوں ہزار سال تازی آئین را گزر د چناں شود آن آئین از جدائی ہا کہ اگر بائیں گر نمائند نداندش....در افتد در هم و کنند خاک پرستی و روز بروز جدائی و دشمنی در آنها افزون شود.پس شمایا بید خوبی را گر ماند یکدم از ہمیں خرج انگیزم از کسان تو و کے و آئین و آب تو به تو رسانم و پیغمبری و پیشوائی از فرزندان تو برنگیرم 66 (سفر نگ دساتیر صفحه 190) ترجمہ: ” پھر ایک عرصہ بعد ان کی آپس میں خانہ جنگی شروع ہو گی اور خاک پرستی شروع کر دیں گے (جیسے شیعہ اصحاب کربلا کی مٹی کی ٹکیہ سامنے رکھ کر نماز پڑھتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں اور دوسرے لوگ قبر پرستی کرتے ہیں) اور روز بروز ان میں دشمنی اور جدائی بڑھتی چلی جائے گی.پس تمہیں اس سے فائدہ پہنچے گا.اور اگر زمانہ میں ایک روز بھی باقی ہو گا تو کسی کو تیرے فرزندوں (فارسی الاصل) میں سے کھڑا کروں گا جو تیری عزت و آبرو کو قائم کرے گا اور پیغمبری اور سرداری تیرے فرزندوں سے نہیں اٹھاؤں گا.“ (موعود اقوام عالم از مولانا عبدالرحمن مبشر صفحه 21-20) امام مہدی کی خلافت امن سے قائم ہو گی: عَنْ أَبِي سَعِيدِ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم مِنَّا الْمَهْدِي فَامَّا الْقَائِمِ فَيَأْتِيْهِ الْخِلَافَةُ وَ لَمْ يُهْرَقُ فِيهَا مَحْجَةٌ مِّنْ دَمٍ.(ناسخ التورایخ صفحہ 186-185 جلد 1 کتاب احوال) ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ مہدی ہم سے ہے.پس قائم (مہدی) کو خلافت ملے گی اور ایک چلو بھر خون تک اس کے قائم کرنے کی خاطر نہیں بہایا جائے گا.حضرت بابا گورو نانک رحمتہ اللہ علیہ کی پیش گوئی: حضرت گورو بابا نانک پورے گرو یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی فرمانے کے بعد آپ علیہ السلام کے بعد آنے والے دائی خلافت کی پیشگوئی ان الفاظ میں بیان فرمائی: 193

Page 194

ڈھالسی ایسا دور دیبان ابھگ نوشتن جامه پہن کے بھنے الگ الگ اک پکیاں گور موکھ تحسن سینی نہال تانکا جو توڑے آپ دیال (جنم ساکھی بھائی بالا.صفحہ 526) یعنی اس پورے گورو کے بعد ایسا نظام قائم ہو گا، یہی دائمی اور غیر منقطع ہو گا.بابا جی نے اس پیشگوئی میں ”دور دیبان“ اور ”ابھگ“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں.لغات میں ان کے یہ معنے بیان کئے گئے ہیں: دیبان (1 وہ حاکم جس کے پاس داد فریاد کی جا سکے، انصاف کرنے والا حاکم، (2 (3 ابھگ: حاکم انتظام کرنے والا، خزانے والا حاکم.(شہدار تھ گورو گرنتھ صاحب.صفحہ 1071.دیبان کوش.صفحہ 1911.و گورو گرنتھ کوش.صفحہ 644) جو کبھی بھی ٹوٹنے والا نہ ہو.غیر منقطع بابا نانک نے خود ہی ان الفاظ کی یوں تشریح کی ہے: دیبان جو ہے سو ابھگ لگے گا تٹنے کا کدے ناہی“ یعنی وہ ایک ایسا نظام ہو گا جو دائمی اور غیر منقطع ہو گا.( گورو گرنتھ کوش.صفحہ 64) (جنم ساکھی بھائی بالا.صفحہ 527) (روز نامہ الفضل 26 مئی 1959 صفحہ 16 مضمون نگار مکرم عباد اللہ گیانی صاحب) خلافت احمدیہ کے متعلق صوفیا، اولیا، صلحی، مفسرین، متکلمین اور علمائے اسلام کی تصریحات: سلسلہ احمدیہ کے ایک بزرگ آغا محمد عبدالعزیز فاروقی احمدی نے اپنے ایک حیرت انگیز کشف جو 1930ء میں شائع ہوا میں فرمایا کہ: آفتاب تیسری منزل اور برج ثور کے آخری دائرہ پر آ پہنچا، انسانی لکھیوں نے اپنی بھنبھناہٹ شروع کر دی جس سے اس کی صدائے عجیب نہ سنی گئی تاہم نہایت مشکل سے ایک کمسن طفل مکتب نے اس کے الفاظ بغور 194

Page 195

سنے، آفتاب برج جوزا پر پہنچتے ہی ایک منارہ کی طرف لپکا.اب آفتاب ایک پرندہ کی شکل میں متمثل ہو گیا اس کے چار پر تھے...اگلے حصہ پر ” نور“ لکھا ہوا تھا اور دوسرے پر کے 1/3 حصہ پر محمود، تیسرے پر عین وسط میں ناصر الدین اور چوتھے پر اہل بیت.“ 66 کوکب دری از آغا محمد عبد العزیز فاروقی احمدی صفحہ 45 مطبوعہ لکشمی آرٹ سٹیم پریس راولپنڈی 1930ء) خلافت راشدہ کے اوقات: حضرت شاہ اسماعیل شہید خلافت کے بارہ میں فرماتے ہیں: کرتی پس جیسا کہ کبھی کبھی دریائے رحمت سے کوئی موج سر بلند ہوتی ہے اور آئمہ ہدی میں سے کسی امام کو ظاہر ہے ایسا ہی اللہ کی نعمت کمال تک پہنچتی ہے تو کسی کو تخت خلافت پر جلوہ افروز کر دیتی ہے اور وہی امام اس زمانے کا خلیفہ راشد ہے اور وہ جو حدیث میں وارد ہے کہ ”خلافتِ راشدہ کا زمانہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمہیں سال تک ہے اس کے بعد سلطنت ہو گی تو اس سے مراد یہ ہے کہ خلافت راشدہ متصل اور تواتر طریق پر تمیں سال تک رہے گی.اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیام قیامت تک خلافت راشدہ کا زمانہ وہی تمہیں سال ہے اور بس! بلکہ حدیث مذکورہ کا مفہوم یہی ہے کہ خلافت راشدہ تمیں سال گزرنے کے بعد منقطع ہو گی نہ یہ کہ اس کے بعد پھر خلافت راشدہ کبھی آ ہی نہیں سکتی بلکہ ایک دوسری حدیث خلافت راشدہ کے انقطاع کے بعد پھر عود کرنے پر دلالت کرتی ہے.چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سكت.ہو تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علی منھاج النبوۃ قائم.گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا، پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی اور : تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ ظلم ستم کے اس دور کوختم کر دے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی! یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.اور یہ بھی امر ظاہر ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی خلافت، خلافت راشدہ سے افضل انواع میں سے ہو گی یعنی وہ خلافت "منتظمہ محفوظہ “ ہو گی.“ (” منصب امامت از حضرت شاہ اسمعیل شہید.صفحہ 117 و 118 ناشر مگی دارالکتب اردو بازار لاہور 1994ء) مولانا ابوالکلام آزاد خلافت کے بارہ میں لکھتے ہیں: احادیث میں نہایت کثرت کے ساتھ اسلام کے ایک آخری دور کی بھی خبر دی ہے جو اپنے برکات کے اعتبار سے دور اول کے خصائص تازہ کر دے گا اور جس کا حال یہ ہو گا کہ: " لَا يَدْرِى أَوَّلَهَا خَيْرًا أَمْ اَخِرَهَا.نہیں کہا جا سکتا کہ امت کی ابتدا زیادہ کامیاب تھی یا اس کا اختتام ؟ یہی وہ آخری زمانہ ہو گا جب اللہ کا اعلان اپنے کامل معنوں میں پورا ہو کر رہے گا: 195

Page 196

196 لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (9:61) دین اسلام اور اس کا رسول اس لئے آیا کہ تمام دینوں اور قوموں پر بالآخر غالب ہو کر رہے کیونکہ آخری غلبہ بقا صرف اصلح کے لئے ہے اور تمام دینوں میں اصلح صرف اسلام ہی ہے.یہی وجہ ہے کہ مایوسیوں اور نامرادیوں کی اس عالمگیر تاریکی میں بھی جو آج چاروں طرف پھیلی ہوئی مومن قلب کیلئے فتح و اقبال کی روشنیاں برابر چمک رہی ہیں بلکہ جس قدر تاریکی بڑھتی جاتی ہے اتنا ہی زیادہ طلوع صبح کا وقت قریب آ جاتا ہے: إِنَّ مَوْعِدَ هُمُ الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ ان کے لئے صبح کا وقت مقرر ہے کیا صبح کا وقت قریب نہیں آ گیا؟ تفاوت ست میان شنیدن من و تو تو بستن در و من فتح باب می شنوم ہے ایک ڈاکٹر میر معظم علی علوی: مسئله خلافت از ابوالکلام آزاد 25-24 ناشر مکتبہ جمال لاہور 2001ء) دور حاضر میں نظام خلافت کی ضرورت و اہمیت پر ڈاکٹر میر معظم علی علوی نے کہا: آج کے لیکچر میں ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اگر یہ مبارک نظام انشاء اللہ سب سے پہلے پاکستان میں قائم.ہو گیا تو اس کے طفیل ہم کو دین اور دنیا کی کیا برکات حاصل ہوں گی؟ یہاں برکات کے بیان کرنے سے میں ایک چیز آپ سے عرض کر دوں اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص کے ذہن میں یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ کوشش جو ہم کر رہے ہیں یہ شاید ہمارے دماغ کی کوئی تحقیق ہے یا ہماری کوئی ریسرچ ہے.اس قسم کی کوئی بات نہیں.بلکہ ان تمام کوششوں کی، اس تمام فکر کی اور اس تمام دعوت کی بنیاد جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ ہے جو میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں.حضرت نعمان بشیر رضی اللہ عنہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ.(مسند حمد بن حنبل جلد 4 صفحه 273 ـ مشكوة بَابُ الْإِنْدَارِ وَالتَّحْدِيرِ) میں نبوت اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا اور اللہ تعالیٰ نبوت اٹھالے گا اور اس کے بعد نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہو گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر اللہ تعالیٰ اسے اٹھا لے گا اور پھر اس کے بعد بد اطوار بادشاہت ہو گی جب تک اللہ چاہے گا رہے گی پھر اللہ تعالیٰ اسے بھی اٹھا لے گا اور پھر نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہوگی.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.یہاں بھی میں وضاحت کر دوں کہ اس حدیث مبارکہ میں جن ادوار کا ذکر ہے ان میں سے دور نبوت، خلافت، بادشاہت کا دور گزر چکا ہے اس وقت جبر کی حکومت ہے اب اس کے بعد خلافت عـلـى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ کی باری ہے.دنیا نے سارے ہی نظام دیکھ لئے لیکن کسی میں بھی چین نصیب نہیں ہوا.اس وقت دنیا ہلاکت کے

Page 197

دہانے پر پہنچ چکی ہے اگر اسے اپنی زندگی اور مسائل کا حل مطلوب ہے تو اسے لازماً اسلام کی طرف پلٹنا ہو گا.نظامت خلافت راشدہ از ڈاکٹر میر معظم علی علوی صفحه 158 و 159 ناشر تحریک نظام خلافت راشده لندن برطانیہ 2001ء) وو خلافت احمدیہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دوسرا طریق انزال رحمت کا اِرسال مرسلین و نسبتین و ائمه و اولیا و خلفا ہے تا ان کی اقتدا و ہدایت سے لوگ راه راست پر آ جائیں اور ان کے نمونہ پر اپنے تئیں بنا کر نجات پا جائیں.سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعے سے یہ دونوں شق ظہور میں آ جائیں.“ خلافت قیامت تک جاری رہے گی: (سبز اشتہار روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 462) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نظام خلافت کے قیامت تک جاری رہنے کے متعلق فرماتے ہیں: " کیونکہ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہو سکتا ہے جو ظلتی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کیلئے دائمی طور پر بقا نہیں پر لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی ہیں ظلی طور ہمیشہ کیلئے تا قیامت قائم رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے.اصلاح و استحکام : 66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: شهادة القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحه (353) " خلیفہ: صوفیا نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور بنی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے، جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سر نو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرما دے گا کیونکہ یہ خدا کا ہی کام ہے اور خدا کے انتخاب نقص نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور سب میں سے اول حق انہی کے دل میں ڈالا.حضرت مولانا المکرم سید محمد احسن صاحب نے عرض کیا کہ حضور کے الہام میں بھی تو یہی مضمون ہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى جَعَلَكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَـ 197

Page 198

اور آیت استخلاف میں بھی اللہ نے اسناد لَيَسْتَخْلِفَنَّ اور لَيُمَكِّنَنَّ کی اپنی ہی طرف فرمائی ہے نہ کہ رسول کی طرف.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک الہام میں اللہ تعالیٰ نے ہمارا نام بھی شیخ رکھا ہے: الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعَ وَقْتُهُ.اور ایک اور الہام میں یوں آیا ہے کہ: مَثَلُک دُرِّ لا يُضَاعُ ـ ان الہامات سے ہماری کامیابی کا بین ثبوت ملتا دو وو ہے.خلافت کی راہیں ہمیشہ کھلی ہیں: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: (الحلم 14 اپریل 1908ء نمبر 37 جلد 12 صفحہ 2) ولایت اور امامت اور خلافت کی ہمیشہ قیامت تک راہیں کھلی ہیں اور جس قدر مہدی دنیا میں آئے یا آئیں گے ان کا شمار خاص اللہ جل شانہ کو معلوم ہے.وحی رسالت ختم ہو گئی مگر ولایت و امامت و خلافت کبھی ختم نہیں ہو گی، یہ سلسلہ ائمہ راشدین اور خلفاء ربانیین کا کبھی بند نہیں ہو گا.“ قدرت ثانیہ کی خوش خبری (بدر 14 جون 1906 صفحہ 3) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے بعد ظہور قدرت ثانیہ کی خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی.ترجمہ : خدا نے لکھ رکھا ہے کہ وہ اور اس کے نبی غالب رہیں گے.اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشا ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو جنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ جنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے: اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے، دوسرے ایسے وقت میں نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑھ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال 198

Page 199

لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقتی موت سمجھی گئی اور بہت بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ فِهِمْ أَمْنًا.یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا دیں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک ان میں سے مرتد ہو گیا.سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سو ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے اس لئے میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی عملین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے، اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے گا جو دائی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو اور چاہیے کہ ہر صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا ہے خدا ایسا قادر خدا ہے.66 (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304 تا 306) حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: وَقَدْ أُشِيْرَنِي فِي بَعْضِ الْأَحَادِيثِ أَنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودَ وَالدَّجَّالَ الْمَعْهُودَ يَظْهَرَانِ فِي بَعْضِ الْبِلَادِ الْمَشْرِقِيَّةِ يَعْنِى فِى مُلْكِ الْهِنْدِ، ثُمَّ يُسَافِرُ الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ اَوْ خَلِيفَةٌ مِّنْ خُلَفَائِهِ إِلَى أَرْضِ دِمَشْقَ.(حمامة البشرى روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 225) ترجمہ: بعض احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مسیح موعود اور دجال معہود بعض مشرقی علاقوں 199

Page 200

میں ظاہر ہوں گے یعنی ملک ہند میں.پھر مسیح موعود یا اس کا کوئی خلیفہ سر زمین دمشق کی طرف سفر کرے گا.سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: " دنیا کے مذاہب کی حفاظت کے لئے مؤید من اللہ ، نصرت یافتہ پیدا نہیں ہوتے.اسلام کے اندر کیسا فضل اور احسان ہے کہ وہ مامور بھیجتا ہے جو پیدا ہونے والی بیماریوں میں دعاؤں کے مانگنے والا، خدا کی درگاہ میں ہوشیار انسان، شرارتوں اور عداوتوں کے بد نتائج سے آگاہ، بھلائی سے واقف انسان ہوتا ہے.جب غفلت ہوتی ہے اور قرآن کریم سے بے خبری ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں میں بے سبھی پیدا ہو جاتی ہے تو خدا کا وعدہ ہے کہ ہمیشہ خلفا پیدا کرے گا.“ سمجھ (الحكم 17 جولائی 1902ء صفحہ 15) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پس یہ امر تو خدا تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے اور جب یہ اس کا قائم کردہ سلسلہ ہے تو یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ میری موت کا وقت آ جائے اور دنیا یہ کہے کہ مجھے اپنے کام میں کامیابی نہیں ہوئی.میری وفات خدا تعالیٰ کے منشا کے مطابق اس دن ہو گی جس دن میں خدا تعالیٰ کے نزدیک کامیابی کے ساتھ اپنے کام ختم کروں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پیشگوئیاں پوری ہو جائیں گی جن میں میرے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کے غلبہ کی خبر دی گئی ہے اور وہ شخص بالکل عدم علم اور جہالت کا شکار ہے جو ڈرتا ہے کہ میرے مرنے سے کیا ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میں تو جاتا ہوں لیکن خدا تمہارے لئے قدرت ثانیہ بھیج دے گا مگر ہمارے خدا کے پاس قدرت ثانیہ ہی نہیں اس کے پاس قدرت ثالثہ بھی ہے اور اس کے پاس قدرت ثالثہ ہی نہیں قدرت رابعہ بھی ہے.قدرت اولی کے بعد قدرت ثانیہ ظاہر ہوئی اور جب تک خدا اس سلسلہ کو ساری دنیا میں نہیں پھیلا دیتا اس وقت تک قدرت ثانیہ کے بعد قدرت ثالثہ آئے گی، قدرت ثالثہ کے بعد قدرت رابعہ آئے گی، قدرت رابعہ کے بعد قدرت خامسہ آئے گی، قدرت خامسہ کے بعد قدرت سادسہ آئے گی اور خدا کا ہاتھ لوگوں کو معجزہ دکھاتا چلا جائے گا اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت اور زبر دست سے زبردست بادشاہ بھی اس سکیم اور مقصد کے راستہ میں کھڑا نہیں ہو سکتا جس مقصد کے پورا کرنے کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو پہلی اینٹ بنایا اور مجھے اس نے دوسری اینٹ بنایا.“ (خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1950 مطبوعه روزنامه الفضل 22 ستمبر 1950 صفحہ 6) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنی ایک مبشر رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ میں بیت الدعا میں بیٹھا تشہد کی حالت میں دعا کر رہا ہوں ! کہ الہی میرا انجام ایسا ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہوا.پھر جوش میں آ کر کھڑا ہو گیا ہوں اور یہی دعا کر رہا ہوں کہ دروازہ کھلا ہے اور میر محمد اسماعیل صاحب اس میں کھڑے روشنی کر رہے ہیں، اسماعیل کے معنی ہیں خدا نے سن لی اور ابراہیمی انجام سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا انجام ہے کہ ان کے فوت ہونے پر خدا تعالیٰ نے حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام دو قائمقام کھڑے کر دیئے.یہاں ایک طرح کی بشارت ہے جس سے آپ لوگوں کو خوش ہو جانا چاہئے.“.عرفان الہی انوار العلوم جلد 4 صفحہ 288) حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے اعزاز میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے دی جانے والی الوداعی دعوت میں خطاب کرتے ہوئے 29اکتوبر 1969ء کو فرمایا کہ: 200

Page 201

السلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایک عظیم وعدہ یہ بھی دیا ہے کہ حضور علیہ السلام کے وصال کے بعد جماعت احمدیہ اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی قیامت تک اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتی رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے رسالہ الوصیت میں اسے قدرت ثانیہ یعنی خلافتِ حقہ قرار دیا ہے.چونکہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی ایک مجسم قدرت ہوں.اس پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آپ علیہ السلام بہر حال انسان ہیں ایک وقت میں آپ علیہ نے اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے کیا آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد جماعت اس مجسم قدرت سے محروم ہو جائے گی؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمیا کہ نہیں جماعت اس سے محروم نہیں ہو گی.آپ علیہ نے اس خوف کو دور کرنے کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت سنائی کہ میرے بعد بھی جماعت میں اللہ تعالیٰ کی قدرتیں اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی رہیں گی اور یہ سلسلہ جب تک کہ جماعت احمدیہ پر قیامت نہیں آجاتی اور روحانی طور پر یہ جماعت مردہ نہیں بن جاتی ( وَالعَاذُ بِاللهِ ) اس وقت تک یہ جماعت خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتی رہے گی.“ السلام (خطاب فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث 29اکتوبر 1969ء مشعل راه جلد 2 صفحہ 210) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ” میں آپ کو ایک خوشخبری دیتا ہوں کہ...اب آئندہ انشاء اللہ تعالی خلافت احمدیہ کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا، جماعت بلوغت کے مقام پر پہنچ چکی ہے خدا کی نظر میں، اور کوئی دشمن آنکھ، کوئی دشمن دل، کوئی دشمن کوشش اس جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گی اور خلافت احمد یہ انشاء اللہ تعالٰی اسی شان کے ساتھ نشو و نما پاتی رہے گی جس شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدے فرمائے ہیں کہ کم از کم ایک ہزار سال تک یہ جماعت زندہ رہے گی.تو دعائیں کریں، حمد کے گیت گائیں اور اپنے عہدوں کی پھر تجدید کریں.“ (خطبہ جمعہ 18 جون 1982 بحوالہ خطبات طاہر جلد 1 صفحہ 19-18) ارشاد حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز : دو کے حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: یہ قدرت ثانیہ یا خلافت کا نظام اب انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہنا ہے اور اس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ خلفا کے زمانہ کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.اگر یہ مطلب لیا جائے کہ وہ 30 سال تھی تو وہ 30 سالہ دور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق تھا اور یہ دائی دور بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی پیشگوئی کے مطابق ہے.66 (خطبه جمعه فرمودہ 27 رمئی 2005 ء - الفضل انٹر نیشنل 10 تا 16 جون 2005ء) 201

Page 202

202

Page 203

تاریخ خلافت احمدیہ مرتبہ محمد احمد فہیم استاد مدرسته الظفر وقف جدید ربوه 203

Page 204

204 آیت: عناوین قدرت ثانیہ کے متعلق پیشگوئیاں ظہور قدرت ثانیہ دور خلافت اولی تا خامسه خلافت أولى خلافت ثانیه خلافت ثالثه خلافت رابعه خلافت خامسه وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO شَيْئًا ( سورة النور : 56 ) دو تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو

Page 205

اُس نے اُن کے لیے پسند کیا ، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.“ حدیث: ( ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) عَنْ حُذِيفَةَ رَضِيَ : اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيْكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ.(مسند احمد بن ضبل جلد 4 صفحہ 273 - مقلوة بَابُ الْإِندَارِ وَالتَّحْذِير) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت عَلى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ قائم ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا، پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ ظلم ستم کے اس دور کو ختم کر دے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی ! یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.قدرت ثانیہ کے ظہور کے متعلق پیشگوئیاں: سیدنا اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: رو سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائی وعدہ کا دن ہے.“ (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 306،305) جماعت میں خلافت کے قیام کے وعدہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: " کفار کی شہادتیں قرآن شریف میں موجود ہیں کہ وہ بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ اب یہ دین جلد تباہ ہو 205

Page 206

206 جائے گا اور ناپدید ہو جائے گا ایسے وقتوں میں ان کو سنایا گیا کہ يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ اللهُ إِلَّا انْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (سورۃ توبہ (32) یعنی یہ لوگ اپنے منہ کی لاف و گزاف سے بکتے ہیں کہ اس دین کو کبھی کامیابی نہ ہو گی یہ دین ہمارے ہاتھ سے تباہ ہو جاوے گا لیکن خدا کبھی اس دین کو ضائع نہیں کرے گا اور نہیں چھوڑے گا جب تک اس کو پورا نہ کرے پھر ایک اور آیت میں فرمایا ہے.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ امَنُوا (سورة النورآيت : 56) یعنی خدا وعدہ دے چکا ہے کہ اس دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفے پیدا کرے گا اور قیامت تک اس کو قائم کرے گا یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے دین میں مدت ہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتا رہا ایسا ہی اس جگہ بھی کرے گا اور اس کو معدوم ہونے نہیں دے گا.“ ظہور قدرت ثانیہ : جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 290) جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہلا اجماع خلافت کے لئے حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ پر اتفاق انتخاب اور بیعت: 26 مئی 1908ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات ہوئی نعش مبارک کے قادیان پہنچنے کے بعد سب سے پہلا کام جو سلسلہ کے مقتدر بزرگوں نے اس وقت کیا وہ خلافت کے لئے حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کا انتخاب تھا.چنانچہ جماعت کے دوست اکٹھے ہوئے اور مشورہ ہوا تو سب کی نظر میں حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی طرف اٹھیں.چنانچہ جب متفقہ فیصلہ ہو چکا تو اکابر سلسله جماعت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے مکان پر حاضر ہرئے اور مناسب رنگ میں بیعت خلافت کے لئے درخواست پیش کی.آپ رضی اللہ عنہ نے کچھ تردد کے بعد فرمایا: ”میں دعا کے بعد جواب دوں گا چنانچہ وہیں پانی منگایا گیا آپ رضی اللہ عنہ نے وضو کیا اور غربی کوچہ کے متصل دالان میں نماز نفل ادا کی.اس عرصہ میں یہ وفد باہر صحن میں انتظار کرتا رہا.نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا چلو ہم سب وہیں چلیں جہاں ہمارے آقا کا جسد اطہر ہے اور جہاں ہمارے بھائی انتظار میں ہیں.چنانچہ حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی معیت میں تمام حاضرین باغ میں پہنچے.“ ( تاریخ احمدیت) بدر قادیان جون 1908ء میں لکھا ہے: حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ سب دوستوں کے سامنے جو باغ میں اپنے محبوب آقا کی نعش کے پاس جمع تھے کھڑے ہوئے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بطور نمائندہ مندرجہ ذیل تحریر پڑھ کر سنائیں: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ

Page 207

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى خَاتَمِ النَّبِيِّينَ مُحَمَّدِ الْمُصْطَفَى وَعَلَى الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ خَاتَمِ الْأَوْلَيَاءِ.أما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے مطمئن ہیں کہ اول المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں سے اَعْلَمُ (سب سے بڑھ کر علم رکھنے والے.ناقل) اور اتقی (سب سے بڑھ بڑھ کر متقی اور پرہیز گار.ناقل) ہیں اور حضرت امام (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) سے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوۂ حسنہ قرار فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ علیہ السلام کے شعر: چه خوش بودے اگر ہر یک زی اُمت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر یک پر از نور یقیں بودے سے ظاہر ہے کہ ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمد کی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام و مہدی موعود علیہ السلام کا تھا.“ صدر انجمن کی طرف سے جماعتوں کو اطلاع: ( بدر جون 1908ء) 28 مئی 1908ء کو احکام کا ایک غیر معمولی پرچہ شائع کیا گیا جس میں خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات اور حضرت خلیفۃ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کے انتخاب کی اطلاع مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع ہوئی: حضور علیہ الصلوۃ السلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ علیہ السلام کے وصایا مندرجہ الوصیت کے مطابق حسب مشوره معتمدین صدر انجمن احمدیہ موجودہ قادیان و اقربا حضرت مسیح موعود علیہ السلام باجازت حضرت اُم لمومنین کی قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سو (1200) تھی، والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ علیہ السلام کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ (خلیفہ اسیح الاول) کے ہاتھ پر بیعت کی.معتمدین میں سے ذیل کے اصحاب موجود تھے: مولانا حضرت سید محمد احسن صاحب، صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب، جناب نواب محمد علی خاں صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، خلیفہ رشید الدین صاحب و خاکسار (خواجہ کمال الدین) موت اگر چہ بالکل اچانک تھی اور اطلاع دینے کا بہت ہی کم وقت ملا تاہم انبالہ، جالندھر، کپورتھلہ، امرتسر، لاہور، گوجرانوالہ، وزیر آباد، جموں ، گجرات، بٹالہ، گورداسپور وغیرہ مقامات سے معزز احباب آگئے اور حضور علیہ الصلوۃ السلام کا جنازہ ایک کثیر جماعت نے قادیان اور لاہور میں پڑھا.حضرت قبلہ حکیم الامت سلمہ کو مندرجہ بالا جماعتوں کے احباب اور دیگر کل حاضرین نے جب کی تعداد اوپر دی گئی ہے بالا تفاق خلیفہ اسیح قبول کیا.یہ خط بطور اطلاع کل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے فی الفور حضرت حکیم الامت خلیفه امسیح و المہدی کی خدمت بابرکت میں بذات خود یا بذریعہ تحریر بیعت کریں.“ 207

Page 208

( بدر 2 جون 1908ء) الغرض حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جماعت کا سب سے پہلا اجماع خلافت پر ہوا اور حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ خلیفہ اسیح الاوّل قرار پائے.بیعت خلافت اولیٰ اور حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی درد انگیز تقریر: حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ جب مذکورہ بالا تحریر سنا چکے تو حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور تشہد و تعوذ اور آیت وَلَتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ - کی تلاوت کے بعد ایک دور انگیز تقریر کی جس میں فرمایا: ”میری پچھلی زندگی پر غور کر لو.میں کبھی امام بننے کا خواہش مند نہیں ہوا.مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم امام الصلوة بنے تو میں نے بھاری ذمہ داری سے اپنے تئیں سبکدوش خیال کیا تھا.میں اپنی حالت سے خوب واقف ہوں اور میرا رب مجھ سے بھی زیادہ واقف ہے.میں دنیا میں ظاہر داری کا خواہش مند نہیں، میں ہرگز ایسی باتوں کا خواہش مند نہیں.اگر خواہش ہے تو یہ کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جائے، اس خواہش کیلئے میں دعائیں کرتا ہوں اور قادیان بھی اس لئے رہا اور رہتا ہوں اور رہوں گا.میں نے اسی فکر میں کئی دن گزارے کہ ہماری حالت حضرت صاحب علیہ السلام کے بعد کیا ہو گی اس لئے میں کوشش کرتا رہا کہ میاں محمود کی تو اس درجہ تک پہنچ جائے.حضرت صاحب کے اقارب میں اس وقت تین آدمی موجود ہیں: اوّل میاں محمود احمد وہ میرا بھائی بھی ہے میرا بیٹا بھی، اس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں.قرابت کے لحاظ سے میر ناصر نواب صاحب ہمارے اور حضرت کے ادب کا مقام ہیں، تیسرے قریبی نواب محمد علی خاں صاحب ہیں.اسی طرح خدمت گزاران دین میں سے........اور بھی کئی اصحاب ہیں.“ " پس میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جن عمائد کا نام لیا ہے ان میں سے کوئی منتخب کر لو میں تمہارے ساتھ بیعت کرنے کو تیار ہوں.اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو کہ بیعت بک جانے کا نام ہے.ایک دفعہ حضرت علیہ السلام نے مجھے اشارہ فرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا سو اس کے بعد میری ساری عزت اور سارا خیال انہی سے وابستہ ہو گیا اور میں نے کبھی وطن کا خیال تک نہیں کیا.پس بیعت کرنا ایک مشکل امر ہے.66 آخر میں فرمایا: اب تمہاری طبیعتوں کے رُخ خواہ کسی طرف سے ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہو گی اگر یہ بات تمہیں منظور ہو تو میں طوعاً و کرہاً اس بوجھ کو اٹھاتا ہوں.وہ بیعت کے دس شرائط بدستور قائم ہیں، ان میں خصوصیت سے قرآن کو سیکھنے اور زکوۃ کا انتظام کرنے واعظین کے بہم پہنچانے اور ان امور کو جو وقتا فوقتا اللہ میرے دل میں ڈالے شامل کرتا ہوں.پھر تعلیم دینیات، دینی مدرسہ کی تعلیم میری مرضی اور منشا کے مطابق کرنا ہوگی اور میں اس بوجھ کو صرف اللہ کے لئے اٹھاتا ہوں جس نے فرمایا وَلَتَكُنْ مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْر - یاد رکھو کہ ساری خوبیاں وحدت میں ہیں جس کا کوئی رئیس نہیں وہ مر چکی.فقط حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفتہ امسیح الاول کی اس تقریر پر سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم آپ کے 208

Page 209

احکام مانیں گے.آپ ہمارے امیر ہیں اور ہمارے مسیح علیہ السلام کے جانشین ہیں.چنانچہ باغ میں یہ قریباً بارہ سو احباب نے بیعت کی.دور خلافت أولى: ( تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 556-557.جدید ایڈیشن) حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ (1841ء 1914ء) کی ابتدائی زندگی: ”حاجی الحرمین حضرت حافظ مولوی نورالدین صاحب خلیفة المسیح الاول 1841ء میں پنجاب کے ایک قدیم شہر بھیرہ میں پیدا ہوئے.آپ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام حافظ غلام رسول اور والدہ کا نام نور بخت تھا.32ویں پشت میں آپ رضی اللہ عنہ کا شجرہ نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان میں بہت سے اولیا اور مشائخ گزرے ہیں.گیارہ پشت سے تو حفاظ کا سلسلہ بھی برابر چلا آتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ اس مقدس خاندان کو ابتدا سے ہی قرآن کریم سے والہانہ شغف رہا ہے.ابتدائی تعلیم تو ماں باپ سے حاصل کی پھر لاہور اور راولپنڈی میں تعلیم پائی.نارمن سکول سے فارغ ہو کر چار سال پنڈ دادنخاں میں سکول کے ہیڈ ماسٹر رہے پھر ملازمت ترک کردی اور حصول علم کے لئے رامپور، لکھنو، میرٹھ اور بھوپال کے سفر اختیار کئے ان ایام میں آپ رضی اللہ عنہ نے عربی، فارسی، منطق، فلسفہ ، طب غرض ہر قسم کے مروجہ علوم سیکھے.قرآن کریم سے قلبی لگاؤ تھا اور اس کے معارف آپ رضی اللہ عنہ پر کھلتے رہتے تھے.توکل علی اللہ کا اعلیٰ مقام حاصل تھا، دعاؤں سے ہر کام لیتے تھے، جہاں جاتے غیب سے آپ رضی اللہ عنہ کے لئے سہولت کے سامان پیدا ہو جاتے اور لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے گرویدہ ہو جاتے.ایک مرتبہ ایک رئیس زادہ کا علاج کیا تو اس نے اس قدر روپیہ دیا کہ آپ رضی اللہ عنہ پر حج فرض ہو گیا.چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ مکہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے، حج بھی کیا اور وہاں کئی اکابر علما اور فضلا سے حدیث پڑھی.اس وقت آپ کی عمر چوبیں چھپیں برس تھی.بلاد عرب و ہند سے واپس آ کر بھیرہ میں درس و تدریس اور مطب کا آغاز کیا.مطب کی شان یہ تھی مریضوں کیلئے نسخے لکھنے کے دوران احادیث وغیرہ بھی پڑھاتے.1877ء میں لارڈ لٹن Lord) (Litton وائسرائے (Viceroy) ہند کے دربار میں شرکت کی کچھ عرصہ بھوپال میں قیام کیا.پھر ریاست جموں و کشمیر میں 1876 ء سے 1892ء تک شاہی طبیب رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت: گورداسپور کے ایک شخص کے ذریعہ آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غائبانہ تعارف ہوا اور حضور علیہ السلام کا ایک اشتہار بھی نظر سے گزرا.مارچ 1885ء میں قادیان پہنچ کر حضور علیہ السلام سے ملاقات کی.اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیعت نہ لیتے تھے تاہم فراست صدیقی سے آپ رضی اللہ عنہ نے.، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت صاحب علیہ السلام کو شناخت کیا اور حضرت صاحب رضی اللہ عنہ کے گرویدہ ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر آپ رضی اللہ عنہ نے پادری تھامس ہاول (Thomas Howell) کے اعتراضات کے جواب میں کتاب فصل الخطاب اور پنڈت لیکھرام کی کتاب ” تکذیب براہین احمدیہ 209

Page 210

کے جواب میں ” تصدیق براہین احمدیہ تصنیف فرمائی.23 مارچ 1889ء میں جب لدھیانہ میں بیعت اولی ہوئی تو سب سے اوّل آپ رضی اللہ عنہ کو بیعت کا شرف حاصل ہوا.ستمبر 1892ء میں ریاست کشمیر سے آپ رضی اللہ عنہ کا تعلق منقطع ہو گیا تو بھیرہ میں مطب جاری کرنے کے لئے ایک بڑا مکان تعمیر کرایا ابھی وہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے بموجب قادیان میں دھونی رما کر بیٹھ رہے.قادیان میں ایک مکان بنوا کر اس میں مطب شروع کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دربارِ شام میں نیز سیر و سفر میں ہمرکاب رہتے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس اولاد کو قرآن وحدیث پڑھاتے، صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے پھر طالب علموں کو درس حدیث دیتے اور طب پڑھاتے بعد نماز عصر روزانہ درس قرآن کریم دیتے ، عورتوں میں بھی درس ہوتا، مسجد اقصیٰ قادیان میں پنجوقتہ نماز اور جمعہ کی امامت کراتے، جب قادیان میں کالج قائم ہوا تو اس میں عربی پڑھاتے رہے، دسمبر 1905ء میں انجمن کار پرداز مصالح قبرستان کے امین مقرر ہوئے جب صدر انجمن بنی تو اس کے پریذیڈنٹ (President) مقرر ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حوالہ جات نکالنے میں مدد دیتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف کی پروف ریڈنگ proof) (reading کرتے ، مباحثات میں مدد دیتے، اخبار الحکم اور البدر کی قلمی معاونت فرماتے ، قرآن کریم کا مکمل ترجمہ کیا اور چھپوانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو دیا لیکن صرف پہلا پارہ چھپ سکا.حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ کا دور خلافت اور کار ہائے نمایاں: 27 مئی 1908ء کو جب کہ آپ کی عمر 67 سال تھی آپ رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے خلیفہ منتخب ہوئے.قریباً بارہ سو افراد نے بیعت خلافت کی.مستورات میں سب سے پہلے حضرت اماں جان.....نے بیعت کی.صدر انجمن کی طرف سے اخبار الحکم اور البدر میں اعلان کرایا گیا کہ: آپ (یعنی حضرت اقدس علیہ السلام) کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدر انجمن احمدیہ موجودہ قادیان و اقربا حضرت مسیح موعود علیہ السلام و باجازت حضرت (اماں جان) کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب نورالدین صاحب سلمہ کو آپ علیہ السلام کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ (رضی اللہ عنہ) کے ہاتھ پر بیعت معتمدین میں سے ذیل کے اصحاب موجود تھے.حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب، صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، جناب نواب محمد علی خاں رحمت اللہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب ، ڈاکٹر مرز یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب، 66 صاحب، خلیفه رشید الدین و خاکسار (خواجه کمال الدین)........اور سلسلہ کے سب ممبران کو ہدایت کی گئی کہ وہ فی الفور حکیم الامت خلیفتہ المسح والمہدی کی بیعت کریں.چنانچہ اس کے مطابق عمل ہو اور حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کا انتخاب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح اجماع قوم سے خاص خدائی تصرف سے ہوا اور کسی قسم کا اختلاف اس وقت نہ ہوا.1) واعظین کا سلسلہ: (1 شروع خلافت سے ہی واعظین سلسلہ کا تقرر ہوا.شیخ غلام احمد صاحب، حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی، حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اولین واعظ مقرر ہوئے جنہوں نے ملک کے طول و عرض میں پھر کر سلسلہ کی خدمات سر انجام 210

Page 211

دیں بے شمار تقاریر کیں.مباحثات کئے اور متعدد مقامات پر جماعتیں قائم کیں.(2) مساجد، مدرسه احمد بید، گرلز سکول، بورڈنگ اور اخبار نور کا اجرا اور انجمن انصار اللہ کا قیام: آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں گرلز سکول اور اخبار نور کا 1909 ء میں اجرا ہوا.نیز مدرسہ احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.1910ء میں مسجد نور کی بنیاد رکھی گئی.اسی طرح مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کے بورڈنگ کی بنیاد رکھی گئی.مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی، حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب (خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ) کی کوششوں سے انجمن انصار اللہ کا قیام عمل میں آیا اور اخبار الفضل جاری ہوا.1913ء میں یورپ میں سب سے پہلا احمد یہ مشن قائم ہوا.منکرین خلافت کا پہلا فتنہ اور اس کا تدارک: ایک عظیم کارنامہ: مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب جو صدر انجمن احمدیہ کے سرکردہ ممبر تھے ابتدا سے ہی مغربیت زدہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی ان کی یہ خواہش تھی کہ جماعت کا نظام اسی رنگ میں چلائیں.جیسے دنیاوی انجمنیں چلاتی ہیں.اسی وجہ سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی لنگر خانہ کے انتظام اور سلسلہ کے دوسرے کاموں پر اعتراض کرتے رہتے تھے اور اخراجات کے بارے میں حضور کی ذات پر بھی نکتہ چینی کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے.حضور کی زندگی میں تو ان کی کچھ پیش نہیں گئی لیکن حضرت خلیفہ امسیح الاول کی زندگی میں انہوں نے پر پرزے نکالنے شروع کئے.خلافت کے دور میں جو پہلا جلسہ سالانہ دسمبر 1908ء میں ہوا اس میں ایسی تقاریر کا انتظام کیا جس سے مقصود جماعت میں خیال پیدا کرنا تھا کہ دراصل صدر انجمن احمدیہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشین اور خلیفہ ہے لیکن حضرت خلیفہ اول نے ان خیالات کی تردید کرتے ہوئے ضرورتِ خلافت اورا طاعت خلیفہ پر زوردیا اور فرمایا: " تم نے خود میری بیعت کی بلکہ میرے مولیٰ نے تمہارے دلوں کو میری طرف جھکا دیا.پس تمہیں میری فرمانبرداری ضروری ہے.“ خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کے خیالات کی وجہ سے جماعت میں جو انتشار پیدا ہونے لگا تھا اس کے ازالہ کے لئے حضرت خلیفۃ امسیح الاول رضی اللہ عنہ نے 31 جنوری 1909ء کو نمائندگان جماعت کو قادیان میں طلب کیا اور واضح الفاظ میں یہ فیصلہ فرمایا کہ صدر انجمن تو محض ایک تنظیمی ادارہ ہے، جماعت کا امام اور مطاع تو صرف خلیفہ ہی ہے.اس اجتماع میں مندرجہ بالا دونوں حضرات سے جن میں سرکشی پائی جاتی تھی، حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ نے دوبارہ بیعت اطاعت لی لیکن بیعت کر لینے اور اقرار اطاعت کے باوجود ان حضرات کے دل صاف نہ ہوئے اور وہ تمرد اور سرکشی میں بڑھتے گئے یہاں کھلا مخالفت پر اتر آئے اور آپ کی شان میں گستاخانہ باتیں کرنے لگے.1910ء میں حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ گھوڑے سے گر گئے اور بہت چوٹیں آئیں.علالت کا سلسلہ طویل ہو گیا.اس دوران ایک مرتبہ حضرت خلیفہ اُمسیح الاول رضی اللہ عنہ نے وصیت تحریر فرمائی جو صرف دو الفاظ پر مشتمل تھی یعنی ”خلیفہ کہ کھلم کھ 211

Page 212

محمود.اس سے ظاہر ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کو خلیفہ نامزد کرنا نامزد کرنا چاہتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اپنی علالت کے دوران حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کو اپنی جگہ امام الصلوۃ مقرر فرمایا.یوں بھی حضرت خلیفۃ امسیح الاول رضی اللہ عنہ ان (یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ) کی بہت تعظیم و تکریم کرتے تھے اور برملا اس امر کا اظہار کرتے تھے کہ اپنے تقویٰ و طہارت، اطاعت امام اور تعلق باللہ میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے.جب حضرت خلیفۃ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کی علالت کا سلسلہ طویل ہو گیا تو منکرین خلافت نے گمنام ٹریکٹ لاہور سے ، شائع کئے جن میں اس امر کا اظہار کیا گیا کہ قادیان میں پیر پرستی شروع ہو گئی ہے اور مرزا محمود احمد صاحب کو خلافت کی گدی پر بٹھانے کی سازشیں ہو رہی ہیں، حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا گیا کہ ایک عالم دین نے ایڈیٹر پیغام صلح اور دوسرے ے متعلقین کو ذلیل و خوار کرنا شروع کر دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت متعلق تحریر کیا کہ وہ بزرگان سلسلہ (مراد خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کو بدنام کر رہے ہیں اسی طرح ان لوگوں نے حضرت خلیفۃ اسیج اول رضی اللہ عنہ کی دو مرتبہ بیعت اطاعت کرنے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ کو بدنام کرنے اور خلافت کے نظام کو مٹانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ اپنے مذموم ارادوں میں ناکام رہے.حضرت خلیفۃ اصبح الاول رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا یہی کارنامہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے خلافت کے نظام کو مضبوطی سے قائم کر دیا اور خلافت کی ضرورت و اہمیت کو جماعت کے سامنے بار بار پیش کر کے اس عقیدہ کو جماعت میں راسخ کر دیا کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے.انسانی منصوبوں سے کوئی شخص خلیفہ نہیں بن سکتا.خلافت کے الہی نظام کو مٹانے کے لئے منکرین خلافت نے جو فتنہ و فساد برپا کیا اور لوگوں کو ورغلانے اور اپنا ہم خیال بنانے کی جو کارروائیاں کی گئیں آپ نے ان کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا.منکرین خلافت نے اپنے خیالات کی ترویج کے لئے لاہور سے ایک خاص اخبار جاری کیا جس کا نام پیغام رکھا.یہ اخبار حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے نام بھی ارسال کیا جانے لگا.آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے مضامین کو پڑھ کر فرمایا.یہ تو ہمیں پیغام جنگ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ نے بیزار ہو کر اس اخبار کو وصول کرنے سے انکار کر دیا.حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات: تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 474،329) غرض حضرت خلیفۃ أمسیح الاول رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے سارے دور میں جہاں قرآن وحدیث نبوی کے درس و تدریس میں منہمک اور کوشاں رہے وہاں خلافت کے مسئلہ کو بار بار تقریروں اور خطبات میں واضح کیا یہاں تک کہ جماعت کی غالب اکثریت نے اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لیا.آپ رضی اللہ عنہ نے 13 مارچ 1914 ء بروز جمعہ داعی اجل کو لبیک کہا اور ا.مولائے حقیقی سے جاملے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں اپنے محبوب آقا کے پہلو میں دفن ہوئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ دور خلافت ثانیه: 66 تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 511 جدید ایڈیشن) المصلح موعود حضرت خلیلة امسح اثانی رضی اللہ عنہ (1889ء 1965 ء): حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو دور خلافت اس لحاظ سے ممتاز اور نمایاں ہے کہ اس کے بارے میں سابقہ انبیاء و صلحا کی پیشگوئیاں موجود ہیں.اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار نشانات اور اس کی پیہم تائیدات نے یہ ثابت کر دیا کہ آپ ہی 212

Page 213

وہ موعود خلیفہ ہیں جس کا وعدہ دیا گیا تھا.ابتدائی زندگی: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے 20 فروری 1886ء کو ایک مسیحی نفس لڑکے کے پیدائش کی خبر دی جو دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جانا تھا اور بتلایا گیا کہ وہ نو سال کی عرصہ میں ضرور پیدا ہو جائے گا.اس پیشگوئی کے مطابق سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم کے بطن سے 12 جنوری1889ء بروز ہفتہ تولد ہوئے.الہام الہی میں آپ کا نام محمود، بشیر ثانی اور فضل عمر بھی رکھا گیا اور کلمتہ اللہ نیز فجر رسل کے خطابات سے نوازا گیا.آ.رضی اللہ عنہ کے بارے میں الہاماً یہ بھی بتایا گیا کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا، خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا، وہ جلد جلد بڑھے گا، اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا، زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت سی بشارات ملی تھیں اس لئے حضور علیہ السلام آپ رضی اللہ عنہ کا بہت خیال رکھتے.کبھی آپ کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی.بچپن سے آپ رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں دین کی طرف رغبت تھی.دعا میں شغف تھا اور نمازیں بہت توجہ سے ادا کرتے تھے.آپ رضی اللہ عنہ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم الاسلام (قادیان) میں پائی.صحت کی کمزوری اور نظر کی خرابی کے باعث آپ رضی اللہ عنہ کی تعلیمی حالت اچھی نہ رہی اور آپ رضی اللہ عنہ ہر جماعت میں رعایتی ترقی پاتے رہے.مڈل اور انٹرنس (میٹرک) کے سرکاری امتحانوں میں فیل ہوئے اس طرح دنیوی تعلیم ختم ہو گئی.اس درسی تعلیم کے بعد حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل نے اپنی خاص تربیت میں لیا.قرآن کریم کا ترجمہ تین ماہ میں پڑھا دیا.پھر بخاری بھی تین ماہ میں پڑھا دی، کچھ طب بھی پڑھائی اور چند عربی کے رسالے پڑھائے.قرآنی علوم کا انکشاف تو موہبت الہی ہوتی ہے مگر یہ درست ہے کہ قرآن کریم کی چاٹ حضرت خلیفہ اُسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے ہی لگائی.جب آپ رضی اللہ عنہ کی عمر 18،17 سال کی تھی ایک دن خواب میں ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور اس نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھائی.اس کے بعد سے تفسیر قرآن کا علم خدا تعالیٰ خود عطا کرتا چلا گیا.1906ء میں جب کہ آپ کی عمر 17 سال تھی.صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ رضی اللہ عنہ کو مجلس معتمدین کا رکن مقرر کیا، 26 مئی 1908ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جب وصال ہوا تو غم کا ایک پہاڑ آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑا.غم اس بات کا تھا کہ سلسلہ کی مخالفت زور پکڑے گی اور لوگ طرح طرح کے اعتراضات کریں گے تب آپ رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کے جسدِ اطہر کے سرہانے کھڑے ہو کر اپنے رب سے عہد کیا کہ: اگر سارے لوگ بھی آپ (یعنی مسیح موعود علیہ السلام) کو چھوڑ دیں گے اور میں اکیلا رہ جاؤں گا تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پرواہ نہیں کروں گا“.یہ عہد آپ رضی اللہ عنہ کی اولو العزمی اور غیرت دینی کی ایک روشن دلیل ہے.تاریخ شاہد ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس عہد کو خوب نبھایا.16:15 برس کی عمر میں پہلی مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کو الہام ہوا کہ: إِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُو إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.اس پہلے الہام میں ہی اس امر کی بشارت موجود تھی کہ آپ ایک دن جماعت کے امام ہوں گے.قرآن کریم کا فہم آپ کو بطور موہبت عطا ہو اتھا.جس کا اظہار ان تقاریر سے ہوتا تھا جو وقتا فوقتاً آپ جلسہ سالانہ پر یا دوسرے مواقع پر کرتے تھے.آیت کریمہ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کے مطابق یہ اس امر کا ثبوت تھا کہ سیدنا پیارے محمود کے دل میں خدا اور اس کے رسول اور اس کے کلام پاک کی محبت کے سوا کچھ نہ تھا لیکن برا ہو حسد اور بغض کا، منکرین خلافت آپ رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی منصوبے بناتے رہتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ آپ سے بدظن ہو جائیں.ان کو آپ 213

Page 214

سے دشمنی اس بنا پر تھی کہ اوّل تو آپ حضرت خلیفہ اول کے کامل فرمانبردار اور حضور کے دست و بازو اور زبردست مؤید تھے، دوسرے آپ کے تقویٰ و طہارت، تعلق باللہ، اجابت دعا اور مقبولیت روز بروز ترقی کر رہی ہے اور خود حضرت خلیفہ اسی اول بھی آپ کا بے حد اکرام کرتے ہیں.ان وجو ہات کے باعث آپ رضی اللہ عنہ کا وجود منکرین خلافت کو خار کی طرح کھٹکتا تھا.خلافت اولی کے دور میں آپ نے ہندوستان کے مختلف علاقوں نیز بلادِ عرب و مصر کا سفر کیا.حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے.1911ء میں آپ نے مجلس انصار اللہ قائم فرمائی اور 1913ء میں اخبار الفضل جاری کیا اور اس کی ادارت کے فرائض اپنی خلافت کے دور تک نہایت عمدگی اور قابلیت سے سر انجام دیئے.عہد خلافت ثانیه حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 14 مارچ 1914 ء کو مسجد نور (قادیان) میں خلافت کا انتخاب ہوا.دو اڑھائی ہزار افراد نے جو اُس وقت موجود تھے بیعت خلافت کی، قریباً پچاس افراد ایسے تھے جنہوں نے بیعت نہیں کی اور اختلاف کا راستہ اختیار کیا.اختلاف کرنے والوں میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب جو اپنے آپ کو سلسلہ کا عمود سمجھتے تھے پیش پیش تھے.خلافت سے انکار اور حبل اللہ کی ناقدری کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ (قادیان) سے منقطع ہوئے؟ صدر انجمن احمدیہ سے منقطع ہوئے.نظام وصیت سے منقطع ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے منکر ہوئے اور اپنے کئی عقائد و نظریات میں اس لئے تبدیلی کرنے پر مجبور ہوئے کہ شاید عوام میں مقبولیت حاصل ہو لیکن وہ بھی نصیب نہ ہوئی.حضرت خلیفة أمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت اسلام کی ترقی اور بے نظیر کامیابیوں کا درخشاں دور ہے.اس باون سالہ دور میں خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرتوں کے ایسے عجیب در عجیب نشانات ظاہر ہوئے کہ ایک دنیا ورطہ حیرت میں پڑ گئی اور دشمن سے دشمن کو بھی یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہ رہا کہ اس زمانہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ نے غیر معمولی ترقی کی ہے اور یہ کہ امام جماعت احمدیہ بے نظیر صلاحیتوں کے مالک ہیں.حضرت خلیفہ اُسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے اس باون سالہ عہدِ خلافت میں مخالفتوں کے بہت سے طوفان اٹھے.اندرونی اور بیرونی فتنوں نے سر اٹھایا مگر آپ رضی اللہ عنہ کے پائے استقلال میں ذرا سی جنبش نہ ہوئی اور یہ الہی قافلہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بدستور بڑھتا گیا.ہر فتنہ کے بعد جماعت میں قربانی اور فدائیت کی روح میں نمایاں ترقی ہوئی اور قدم آگے ہی آگے بڑھتا گیا.جس وقت منکرین خلافت مرکز سلسلہ کو چھوڑ کر گئے اس وقت انجمن کے خزانے میں چند آنوں کے سوا کچھ نہ تھا لیکن جس وقت آپ رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا اس وقت صدر انجمن اور تحریک جدید کا بجٹ 71 لاکھ نواسی ہزار تک پہنچ چکا تھا.اختلاف کے وقت ایک کہنے والے نے مدرسہ تعلیم الاسلام کے متعلق کہا کہ یہاں اُلو بولیں گے لیکن خدا کی شان کہ وہ مدرسہ نہ صرف کالج بنا بلکہ اس کے نام پر بیسیوں تعلیمی ادارے مختلف ممالک میں قائم ہوئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتلایا تھا وہ لفظاً لفظاً پورا ہوا.حضرت فضل عمر جلد جلد بڑھے اور دنیا کے کنارون تک اشاعتِ اسلام کے مراکز قائم کر کے شہرت پائی.( دینی معلومات کا بنیادی نصاب شائع کردہ مجلس انصاراللہ پاکستان صفحہ 174 تا 178) خلافت ثانیہ میں انکارِ خلافت کا پہلا فتنہ اور اس کا سد باب سب سے پہلے حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو فتنہ انکارِ خلافت کا سامنا کرنا پڑا.جماعت احمدیہ پر ایک کڑا وقت آن پڑا تھا.قادیان میں حاضر احمدیوں میں سے اگر چہ جمہور نے بڑے اخلاص اور پاک نیت کے ساتھ حضرت مرزا بشیرالدین 214

Page 215

محمود احمد صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر کے نظام خلافت کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا تھا لیکن نظام جماعت کے اہم عہدوں پر ابھی تک منکرین خلافت قابض تھے، پریس کا بیشتر حصہ ان کے ہاتھ میں تھا، روپے پیسے کی کنجیاں ان کے پاس تھیں اور ایسی معروف اور بظاہر عظیم شخصیتیں ان کے ہم خیال تھیں جن کا اثر جماعت پر بلا شبہ بڑا گہر اور وسیع تھا، ان میں مولانا محمد علی صاحب پیش پیش تھے جن کو دنیاوی علوم کی برتری کے باعث اور انگریزی تفسیر القرآن کا مقدس کام تفویض ہونے کے سبب نیز صدر انجمن احمدیہ کے سیکرٹری ہونے کی وجہ سے جماعت میں ایک غیر معمولی عزت اور احترام کا مقام حاصل تھا.پھر سلسلہ کے بعض اور اہم افراد جن میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب خواجہ کمال الدین صاحب وکیل شیخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں بھی اس گروہ میں شامل تھے اور مولوی محمد علی صاحب کی سرکردگی میں منکرین خلافت کی صف اول میں کھڑے تھے.ان میں سے اکثر صدر انجمن احمدیہ کے ممبر ہونے کی وجہ سے بھی جماعت میں ایک خاص مقام رکھتے تھے.انتخاب خلافت کے ساتھ ہی انہوں نے جماعت کے تمام ابلاغ و اشاعت کے ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے سارے ہندوستان میں نظام خلافت کی تردید میں ایک خطرناک اور زہریلے پراپیگنڈے (Propaganda) کی مہم بڑی سرعت کے ساتھ شروع کر دی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پراپیگنڈے کا یہ منصوبہ خفیہ طور پر منظر عام پر آنے کا منتظر تھا.اس منصوبہ کے تحت بکثرت جماعتوں میں مہلک خیال پھیلا یا گیا کہ مرزا محمود احمد اور ان کے رفقا نے اپنے ذاتی مفاد اور اقتدار کی خاطر نظام خلافت کا یہ ڈھونگ رچایا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام واضح طور پر صدر انجمن احمدیہ کو اپنا جانشین مقرر فرما گئے تھے.نیز یہ کہا کہ ابھی سے ان لوگوں نے دین کو بگاڑنا شروع کر دیا ہے اور اگر اس نعوذ باللہ گمراہ کن غیر ذمہ دار کچی عمر کے نوجوان کی قیادت کو جماعت احمدیہ نے قبول کر لیا تو دیکھتے دیکھتے احمدیت کا شیرازہ بکھر جائے گا اور قادیان پر عیسائیت قابض ہو جائے گی.اس قسم کے زہریلے پراپیگنڈے سے لیس بیبیوں کارندے ہر طرف جماعتوں میں دوڑا دیئے گئے اور انہیں خلافت کی بیعت سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی.ان حالات کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خلافت پر متمکن ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بکثرت رسائل اور اشتہارات کے ذریعے جماعت پر اصل صورت حال واضح فرمائی اور منکرین خلافت کے ہر قسم کے اعتراضات کا مؤثر جواب دیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سنہری کارنامے اور آپ رضی اللہ عنہ کی بابرکت تحریک: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بہت سے کارناموں میں سے چند کا ذکر اختصار سے درج ذیل ہے: جماعتی کاموں میں تیزی اور مضبوطی پیدا کرنے کے لئے صدر انجمن احمدیہ کے کاموں کو مختلف شعبوں میں -1 -2 کر کے نظارتوں کو نظام قائم کیا.بیرونی ممالک میں تبلیغ کے کام کو وسیع پیمانے پر چلانے کیلئے 1934 ء میں تحریک جدید جاری فرمائی اور صدر انجمن احمدیہ سے الگ ایک نئی انجمن یعنی تحریک جدید انجمن احمدیہ کی بنیاد رکھی.اس کے نتیجہ میں بفضل ایزدی یورپ، ایشیا، افریقہ اور امریکہ کے مختلف ممالک اور جزائر میں نئے تبلیغی مشن قائم ہوئے، سینکڑوں مساجد تعمیر ہوئیں، قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے اور کثرت کے ساتھ اسلامی لٹریچر مختلف زبانوں میں شائع کیا گیا اور لاکھوں افراد اسلام کے نور سے منور ہوئے.اندرون ملک دیہاتی علاقوں میں تبلیغ کے کام کو مؤثر رنگ میں چلانے کے لئے 1957ء میں ”وقف جدید انجمن احمدیہ کے نام سے تیسری انجمن قائم کی.جماعت میں قوتِ عمل کو بیدار رکھنے کیلئے آپ رضی اللہ عنہ نے جماعت میں ذیلی تنظیمیں یعنی انصار اللہ، الاحمدیہ، اطفال الاحمديه، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ قائم فرمائیں تا کہ مرد اور عورتیں، بچے اور جوان سب اپنے اپنے رنگ میں -3 -4 خدام 215

Page 216

آزادانہ طور ر تعلیم و تربیت کا کام جاری رکھ سکیں اور نئی نسل میں قیادت کی صلاحیتیں اُجاگر ہوں.ان تنظیموں کا قیام جماعت پر احسانِ عظیم ہے.-5 -6 ނ 1944ء کو جماعت میں اسلامی نظام شوری کوزندہ رکھنے کیلئے مجلس شوریٰ کا قیام فرمایا.قرآنی علوم کی اشاعت اور ترویج کے لئے درس قرآن کا سلسلہ جماعت میں جاری رکھا.تفسیر کبیر کے نام کئی جلدوں میں قرآن کریم کی ایک ضخیم تفسیر لکھی جس میں قرآنی حقائق و معارف کو ایسے اچھوتے انداز میں پیش کیا کہ دل تسلی پاتے اور اسلام کی حقانیت خوب واضح ہوتی ہے.اس کے علاوہ ہر طبقہ کے لوگوں میں قرآنی علوم کو چسکا پیدا کرنے کے لئے قرآن کریم کی ایک نہایت مختصر مگر عام فہم تفسیر الگ تحریر فرمائی جس کا نام ”تفسیر صغیر ہے.-7 بحیثیت امام اور خلیفہ وقت جماعتی ذمہ داریوں کو نبھانے کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ نے ملک و ملت کی خدمت میں نمایاں اور قابلِ قدر حصہ لیا.آپ رضی اللہ عنہ کی تنظیمی صلاحیتوں کے پیش نظر مسلمانانِ کشمیر کو آزادی دلانے کے لئے جب آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ کو اس کا صدر منتخب کیا گیا.ہر اہم سیاسی مسئلہ کے بارے میں آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانان ہند کی رہنمائی کی اور بیش قیمت مشوروں کے علاوہ دامے درمے سخنے ہر طرح ان کی مدد کی.کئی مرتبہ اپنے سیاسی مشوروں کو کتابی شکل میں شائع کر کے ملک کے تمام سر برآوردہ اشخاص تک نیز ترجمہ کے ذریعہ ممبران برٹش پارلیمنٹ British) (Parliment اور برٹش کیبنٹ (British Cabinet) تک پہنچایا.-8 تقسیم ملک کے وقت جہاں آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی حفاظت اور بہبود کے لئے مقدور بھر کوشش کیں وہاں اپنی جماعت کیلئے 1948ء میں ربوہ جیسے بے آب و گیاہ علاقہ میں ایک فعال مرکز قائم کیا جہاں سے الحمد للہ تبلیغ اسلام کی مہم پورے زور سے پروان چڑھی.ایک بنجر اور شور زدہ علاقہ میں بے سر و سامانی کے باوجود ایک پُر رونق بستی کا آباد کر دینا خود اپنی ذات میں ایک بڑا کارنامہ ہے.یہ بستی نہ صرف تبلیغ اسلام کا اہم ترین مرکز ہے بلکہ ملک میں علم کی ترقی اور ترویج کا بھی ایک ممتاز سنٹر ہے اس کے علاوہ کھیلوں کے میدان میں بھی قابلِ ذکر کردار ادا کر رہی ہے.1940ء میں آپ رضی اللہ عنہ نے تاریخ اسلام کے واقعات کو بہتر رنگ میں سمجھنے اور یاد رکھنے کیلئے ہجری شمسی -9 سن جاری فرمایا..10.آپ رضی اللہ عنہ نے متعدد والیان ریاست اور سربراہان مملکت کو تبلیغی خطوط ارسال کئے اور انہیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے روشناس کرایا.ان میں امیر اللہ خاں والی افغان، نظام دکن، پرنس آف ویلز Prince of) Wales اور لارڈ ارون وائسرائے ہند Lord Erwin Viceroy of India) خاص طور پر قابل ذکر ہیں.دینی معلومات کا بنیادی نصاب صفحہ 179 تا 182 شائع کردہ مجلس انصار اللہ پاکستان) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تصنیفی خدمات: -1 -2 -3 -4 تفسیر صغیر ( قرآن مجید کا مکمل ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹس) تفسیر کبیر 10 جلدوں میں (قرآن کریم کے بڑے حصوں کی تفصیلی تفسیر ) انوار العلوم جلد 1 تا 17 (ابھی جاری ہے ) پر مشتمل تقاریر و تصانیف (آغاز سے 1944ء تک مکمل) خطبات محمود جلد 1 تا15 ( پر مشتمل خطبات جمعہ و عیدین و خطبات نکاح) ( آغاز تا1934ء جاری ہے.) 1944ء میں بذریعہ رؤیا والہام آپ پر اس امر کا انکشاف ہو کی آپ ہی وہ مصلح موعود ہیں جس کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی.اس انکشاف کے اعلان کے لئے آپ رضی اللہ عنہ نے ہوشیار پور، لدھیانہ، لاہور اور دہلی میں 216

Page 217

جلسے منعقد کر کے معرکۃ الآرا تقاریر کیں اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر کیا.رضی اللہ عنہ نے یورپ کا دو مرتبہ سفر کیا.پہلی مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ 1924 ء میں ویمبلے (Wembley) کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن تشریف لے گئے جہاں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان کیں.اس کانفرنس میں آپ کا مضمون ”احمدیت یعنی حقیقی اسلام انگیریزی میں ترجمہ کر کے پڑھا گیا.1954 ء میں آپ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا.علاج سے زخم تو بظاہر مندمل ہو گئے لیکن تکلیف جاری رہی اس لئے 1955ء میں آپ رضی اللہ عنہ دوسری مرتبہ بغرض علاج یورپ تشریف لے گئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات کا سانحہ: مندرجہ بالا سانحہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی صحت برابر گرتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ المناک گھڑی آ پہنچی جب آپ رضی اللہ عنہ تقدیر الہی کے ماتحت اس جہان فانی سے کوچ کر گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ 7 اور 8 نومبر 1965ء کی درمیانی شب تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفة أصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 9 نومبر کو بہشتی مقبرہ ربوہ کے وسیع احاطہ میں نماز جنازہ پڑھائی اور پچاس ہزار افراد نے دلی دعاؤں اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کو سپرد خاک کیا.دینی معلومات کا بنیادی نصاب صفحہ 183 شائع کردہ مجلس انصار اللہ پاکستان) دور خلافت ثالثه حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کے بارہ میں بشارات: سلسلہ عالیہ احمدیہ میں پیشگوئی مصلح موعود کو خاص اہمیت حاصل ہے.اس کے مصداق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسح الثانی رضی اللہ عنہ ہیں اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثالث نافلہ موعود کی پیشگوئی کے مصداق تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو موعود بیٹے اور پوتے کی یہ خبر ان حالات میں دی گئی جب کہ حضور علیہ السلام کے خلاف تکفیر کا بازار گرم تھا اور معاندین ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے.حضور علیہ السلام نے فرمایا: ”خدا جیسے پہلے تھا اب بھی ہے اور اس کی قدرتیں جیسے پہلے تھیں اب بھی ہیں اور اس کو نشان دکھانے پر جیسا کہ پہلے اقتدار تھا وہ اب بھی ہے پھر تم کیوں صرف قصوں پر راضی ہرتے ہو.“ چنانچہ نافلہ موعود کے بارہ میں جو بشارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئیں وہ یہ ہیں: تَرى نَسُلًا بَعِيدًا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ مَظْهَرِ الْحَقِّ وَ الْعُلَى كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةٍ لَكَ.اور تو اپنی ایک دور کی نسل کو دیکھ لے گا ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ حق کا ظہور ہو گا گویا آسمان سے خدا اترے گا.ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں.جو تیرا پوتا ہو گا.“ ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ”چند روز ہوئے یہ الہام ہوا تھا: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةً لگ.ممکن ہے کہ اس کی یہ تعبیر ہو کہ محمود کے ہاں لڑکا ہو کیونکہ نافلہ پوتے کو بھی کہتے ہیں یا بشارت کسی اور وقت تک موقوف ہو.“ پس پوتے کے لئے بیٹے کا لفظ بکثرت ہر زبان میں استعمال ہوتا ہے.اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت ام 217

Page 218

المومنین نے اپنے تمام پوتوں میں سے صرف حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کو ہی اپنے بیٹوں کی طرح پالا اور ان کی تربیت فرمائی.(حیات ناصر جلد 1 صفحہ 9.از محمود مجیب اصغر صاحب) حضرت خلیفة أسبح الثالث رحمہ اللہ تعالی (1909ء تا1982ء) ابتدائی زندگی: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرزند کی بشارت دی تھی.چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں: مجھے بھی خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا“.تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 320) غرض حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ بھی ایک رنگ سے موعود خلیفہ ہیں.ان پیش خبریوں کے مطابق حضرت ناصر احمد صاحب خليفة اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی 16 نومبر 1909 ء کو بوقت شب قادیان میں پیدا ہوئے.17 اپریل 1922 ء کو جب کہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی عمر 13 سال تھی حفظ قرآن کی تکمیل کی توفیق ملی.بعد ازاں حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ سے عربی اور اُردو پڑھتے رہے.پھر مدرسہ احمدیہ میں دینی علوم کی تحصیل کیلئے باقاعدہ داخل ہوئے اور جولائی 1929ء میں آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے پنجاب یونیورسٹی سے ”مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.اس کے بعد میٹرک کا امتحان دیا اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو کر 1934ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی.اگست 1934 ء میں آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی شادی ہوئی.6 ستمبر 1934 ء کو بغرض تعلیم انگلستان کیلئے روانہ ہوئے.آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم.اے کی ڈگر ی حاصل کر کے نومبر 1938ء میں واپس تشریف لائے.یورپ سے واپسی پر جون 1939ء سے اپریل 1944 ء تک جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہے.فروری 1939ء میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے صدر بنے.اکتوبر 1949ء میں جب حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بنفس نفیس خدام الاحمدیہ کی صدارت کا اعلان فرمایا تو نومبر 1954 ء تک بحیثیت نائب صدر مجلس کے کاموں کو نہایت عمدگی سے چلاتے رہے.مئی 1944 ء سے لے کر نومبر 1965ء تک (یعنی تا انتخاب خلافت) تعلیم الاسلام کالج کی پرنسپلی کے فرائض سر انجام دیئے.جون 1948 ء سے جون 1950 ء تک فرقان بٹالین کشمیر کے محاذ پر دادِ شجاعت دیتے رہے.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ اس بٹالین کی انتظامی کمیٹی کے ممبر تھے.1953ء میں پنجاب میں فسادات ہوئے اور مارشل لا (Martial Law) کا نفاذ ہوا تو اس وقت آر رحمہ اللہ تعالیٰ کو گرفتار کر لیا گیا.اس طرح سنت یوسفی کے مطابق آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کو کچھ عرصہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں.1954ء میں مجلس انصار اللہ کی زمام قیادت آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کی گئی.مئی 1955ء میں حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کو صدر انجمن احمدیہ کا صدر مقرر فرمایا.کالج کی پرنسپلی کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے کاموں کی نگرانی بھی تا انتخاب خلافت آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہی سپرد رہی.تقسیم ملک سے قبل باؤنڈری کمیشن Boundary) (Commision کیلئے مواد فراہم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور حفاظت مرکز ( قادیان) کے کام کی براہ راست نگرانی کرتے انتخاب خلافت ثالثه: ( دینی معلومات کا بنیادی نصاب صفحہ 184 تا 186 شائع کردہ مجلس انصار اللہ پاکستان) 218

Page 219

مورخہ 7 نومبر 1965ء کو بعد نماز عشاء مسجد مبارک ربوہ میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی مقرر کردہ مجلس انتخاب کا اجلاس بہ صدرات جناب حضرت مرزا عزیز احمد صاحب رضی اللہ عنہ ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ منعقد ہوا جس میں حسب قواعد ہر ممبر نے خلافت سے وابستگی کا حلف اٹھایا اور اس کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو آئندہ کے لئے خلیفہ امسیح اور امیر المؤمنین منتخب کیا.اراکین مجلس انتخاب نے اسی وقت آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کی جس کے بعد آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمایا اور پھر تمام موجود احباب نے جن کی تعداد اندازاً پانچ ہزار تھی رات کے ساڑھے دس بجے آپ رحمہ اللہ تعالی کی بیعت کی.(حیات ناصر جلد 1 صفحہ 358) انتخاب خلافت سے اگلے روز مؤرخہ 9 نومبر 1965ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی ہزاروں سوگوار احباب جماعت کے جلوس کے ساتھ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا تابوت لے کر بہشتی مقبرہ پہنچے اور پچاس ہزار احباب جماعت کے ساتھ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی.چھ تکبیرات کہیں اور تدفین کے بعد لمبی پُرسوز دعا کروائی.خلافت ثالثہ کی چند بابرکت تحریکات: (حیات ناصر جلد 1 صفحہ 363،362) حضرت خلیفة أمسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دور خلافت میں متعدد تحریکیں جاری فرمائیں جن کا مختصر ذکر درج ذیل پہلی تحریک: 17دسمبر 1965ء کو جب ملک میں غلہ کی کمی محسوس ہو رہی تھی.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے امرا اور خوشحال طبقہ کو تحریک کی کہ وہ غرباء مساکین اور یتامیٰ کے لئے مناسب بندوبست کریں اور کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو بھوکا سوئے اس پر جماعت نے بصد شوق عمل کیا اور کر رہی ہے..دوسری تحریک: 1965ء میں اس تعلق اور محبت کے اظہار کے لئے جو جماعت کو حضرت فضل عمر سے ہے، آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے 25لاکھ روپیہ کے سرمایہ سے فضل عمر فاؤنڈیشن قائم کرنے کی تحریک فرمائی.جماعت نے بفضل ایزدی 36 لاکھ سے زائد رقم اس مد میں پیش کی.اس فنڈ سے فضل عمر لائبریری قائم ہو چکی ہے.نیز علمی اور تحقیقی شوق پیدا کرنے کے لئے ہزار ہزار رپے کے 5 انعامات ہر سال بہترین مقالہ نگاروں کو پیش کئے جاتے ہیں.تیسری تحریک: القرآن کے بارے میں ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ جماعت میں کوئی فرد بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم ناظرہ نہ جانتا ہو.جو ناظرہ پڑھ سکتے ہوں وہ ترجمہ سیکھیں اور قرآنی معارف سے آگاہ ہوں.219

Page 220

چوتھی تحریک: وقف عارضی کی ہے.اس تحریک کے تحت واقفین دو سے چھ ہفتوں تک اپنے خرچ پر کسی مقررہ مقام پر جا کر قرآن کریم پڑھاتے اور تربیت کا کام کرتے ہیں.پانچویں تحریک: مجلس مومیان کا قیام ہے.موصیوں کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں تعلیم القرآن کا انتظام کریں اور نگرانی کریں کہ کوئی فرد ایسا نہ رہے کہ جو قرآن کریم نہ جانتا ہو.چھٹی تحریک: بد رسوم کو ترک کرنے کی جاری فرمائی.ساتویں تحریک: چندہ وقف جدید اطفال کی ہے جس کے تحت احمدی طفل کے لئے لازمی قرار دیا کہ وہ 50 پیسے ماہوار وقف جدید کا چندہ ادا کر کے اس کے مالی جہادی میں شریک ہو.آٹھویں تحریک: جلسہ سالانہ 1973ء میں صد سالہ جوبلی کے روحانی پروگرام کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: دو تسبیح و تحمید اور درود شریف کا بالالتزام ورد کرنا ہے.بڑے کم از کم 200 مرتبہ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ کا ورد کریں اور 100 بار استغفار کریں.15 سے 25 سال عمر والے 100 بار تسبیح پڑھیں اور 33 مرتبہ استغفار.7 سے 15 سال تک عمر والے 33 مرتبہ تسبیح پڑھیں اور 11 مرتبہ استغفار.7 سال سے کم عمر والے بچوں کو والدین 3 بار تسبیح اور استغفار پڑھائیں.نویں تحریک نصرت جہاں ریزرو فنڈ (Reserve Fund) سکیم: 1967ء میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے یورپ کے متعدد ممالک کا دورہ کیا اور ڈنمارک (Denmark) کے دارالسلطنت کو پن ہیگن (Copenhagen) میں مسجد نصرت جہاں کے افتتاح کے علاوہ اقوام مغرب کو جلد آنے والی تباہیوں کے متعلق انذار فرمایا.پھر 1970 ء میں حضور نے مغربی افریقہ کے سات ممالک نائیجیریا، گھانا، آئیوری کوسٹ، لائیپیر یا گیمبیا اور سیرالیون کا دورہ فرمایا.اس دورہ میں منشائے الہی سے ایک خاص پروگرام کا اعلان فرمایا جس کا نام حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے لیپ فارورڈ پروگرام Leap) (Forward Programme تجویز کیا اور اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک لاکھ پونڈ One hundred thousand) 220

Page 221

(Pounds Sterling کا نصرت جہاں ریزرو فنڈ قائم کرنے کی تحریک فرمائی.اس تحریک کا مقصد افریقہ میں اسلام کا قیام استحکام تھا.اس فنڈ سے افریقہ کے ممالک میں مزید تعلیمی سنٹر کھولے گئے.اس کے علاوہ وہاں طبی مراکز بھی قائم ہوئے.اسی فنڈ سے افریقہ کسی ملک میں ایک طاقتور ریڈیو سٹیشن قائم کرنے کی تجویز تھی.اسی طرح ایک بڑا پریس مرکز میں قائم کرنے کی تجویز تھی جس کے ذریعہ مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور دوسرا اسلامی لٹریچر شائع کا جانا تھا.دسویں تحریک صد سالہ احمد یہ جوبلی فنڈ سکیم“: و اللہ تعالیٰ کے منشا اور حکم کے مطابق جماعت احمدیہ کی بنیاد 1889ء میں رکھی گئی.اس لحاظ سے 1989ء میں اس کے قیام پر سو سال پورے ہوئے اس سال سے جماعت کی دوسری صدی شروع ہوگی جو اللہ تعالیٰ کی بشارات کے مطابق انشاء اللہ علیہا سلام کی صدی ہو گی.اس دوسری صدی کے استقبال کے لئے جس کے شروع ہونے میں ابھی سولہ سال باقی تھے حضرت اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حسب منشاء الہی جلسہ سالانہ 1973ء کے موقع پر جماعت ہائے بیرون کی تربیت، اشاعت اسلام کے کام کو تیز سے تیز تر کرنے، غلبہ اسلام کے دن کو قریب سے قریب تک لانے اور نوع انسان کے دل خدا اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کیلئے ایک عظیم منصوبے کا اعلان فرمایا.اس کے اغراض و مقاصد کی وضاحت اس منصوبے کی تکمیل کیلئے مالی قربانی کے سلسلہ میں حضور نے فرمایا: خليفة میں نے لصین جماعت سے آئندہ سولہ سال میں ڈھائی کروڑ روپیہ (2,50,00,000.Rs) جمع کرنے کی اپیل کی تھی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ انشاء اللہ یہ رقم پانچ کروڑ (5,00,00,000 ,.RS) تک پہنچ جائے گی.قرآن مجید کی عالمی اشاعت خلافت ثالثہ کا ایک اہم کارنامہ قرآن کریم کی وسیع اشاعت ہے.اس غرض کے لئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے یورپ، امریکہ اور افریقہ کے مختلف ممالک میں ہوٹلوں میں قرآن کریم رکھنے کی ایک مہم جاری فرمائی جس کے نتیجہ میں درجنوں ممالک کے ہوٹلوں (Hotels) میں کلام پاک کے ہزار ہا نسخے رکھوائے گئے اور یہ سلسلہ برابر جاری اور ترقی پذیر ہے.مسجد بشارت کی تاسیس: حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک کارنامہ مسجد بشارت کا سنگ بنیاد رکھنا ہے.چنانچہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ جون تا اکتوبر 1980ء یورپ کے سفر کے دوران سپین (Spain) تشریف لے گئے اور قرطبہ (Cordoba) سے بائیس تئیس میل دور قصبہ میں پیدور آباد Pedro Abad) میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو 44 سال بعد تعمیر ہونے والی سپین میں پہلی مسجد ہے.(حیات ناصر جلد 1 صفحہ 441 446t- از محمود مجیب اصغر صاحب) 1974ء کا بر آشوب دور: 1974ء کا سال ایک عظیم ابتلا لے کر آیا.اس وقت کی حکومت کی شہ پر پاکستان میں احمدیوں کے قتل و غارت اور لوٹ گھسوٹ کا بازار گرم رہا.معاندین نے احمدیوں کی مساجد، قرآن کریم کے نسخے اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیوں کے گھر نذر آتش کئے، احمدیوں کی دکانیں اور کاروبار تباہ کر دیئے گئے ، فیکٹریوں کو آگ لگائی گئی، کئی احمدی شہید کر دیئے گئے، 221

Page 222

غرضیکہ احمدیوں کو بڑی قربانیاں دینا پڑیں.حضرت خلیفہ امسح الثالث رحمہ اللہ تعالی کو پہلے تحقیقاتی ٹربیونل میں بیان دینے کے لئے لاہور طلب کیا گیا اور پھر جرح کے لئے پاکستان قومی اسمبلی میں اسلام آباد بلایا گیا.کئی روز کی جرح کے دوران حضور رحمہ اللہ تعالٰی نے جماعت احمدیہ کے عقائد کی خوب ترجمانی فرمائی.جماعت کے لئے یہ بہت نازک وقت تھا.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ جماعت کی دلداری فرماتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور مسلسل کئی کئی راتیں جاگ کر مناجات کرتے رہے اور مخالفت اور ظلم و تشدد کے طوفان کے آگے ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑے ہوگئے اور اپنی دعاؤں اور اولوالعزمی سے اس طوفان کا رُخ موڑ دیا.پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت احمدیہ کو آئینی اغراض کی خاطر غیر مسلم قرار دیا.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے الہاما بتایا: "وَسِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِءِ يُنَ“ کہ تم اپنے مکان وسیع کرو.میں ان استہزا کرنے والوں کے لئے کافی ہوں.چنانچہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو بھی مصیبت زدہ احمدی ملاقات کے لئے آتا حضور رحمہ اللہ تعالیٰ سے مل کر وہ تمام دُکھ بھول جاتا اور تعلق باللہ اور توکل اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی بشارتوں کے نتیجہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے چہرے پر جو بشاشت تھی وہ ملاقات کے بعد ان کے چہروں پر بھی منتقل ہو جاتی اور وہ ہنستے مسکراتے باہر جاتے اور جو قربانیاں اللہ تعالیٰ ان سے لے رہا تھا ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے.پاکستان قومی اسمبلی کے اس فیصلے کی کئی مسلمان حکومتوں نے توثیق کی اور عالمی سطح پر اس مسئلہ کو پہنچانے کی کوشش کی،اس موقع پر آپ حضرت مصلح موعود کو دی جانے والی اس خدائی بشارت کے مصداق ہوئے جس میں کہا گیا تھا کہ: میں تجھے ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا.“ 1974ء کے مصائب سے اس طرح بچ نکلنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعا کا ثمرہ لگتا ہے جس میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے انصار دین کے لئے اپنے مولیٰ کے حضور جیسا کہ عرض کرتے ہیں.کریما صد کرم کن ، بر کسے کو ناصر دیں است بلائے او بگرداں، گر گہے آفت شود پیدا اس طرح 1974ء سے جماعت احمدیہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کی وفات کا سانحہ: آخری خطاب: (حیات ناصر جلد 1 صفحہ 398 399 از محمود مجیب اصغر صاحب) 6 مئی 1982 ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی پندرہ روزہ تربیتی کلاس کے اختتامی خطاب فرمایا جو کسی جماعتی تنظیم سے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا آخری خطاب ہے.گئے.ربوہ میں آخری خطبہ جمعہ: 21 مئی 1982 ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ربوہ میں آخری خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور 23 مئی کو حضور اسلام آباد تشریف لے حضرت خلیفة أسبح الثالث رحمہ اللہ تعالی کی علالت اور انتقال پر ملال 222

Page 223

بفضل قیام اسلام آباد کے دوران 26 مئی 1982ء کو حضور پُر نور رحمہ اللہ تعالیٰ کی طبیعت علیل ہو گئی.بروقت علاج سے تعالیٰ افاقہ ہو گیا لیکن 31 مئی کو اچانک طبیعت پھر خراب ہو گئی.ڈاکٹری تشخیص سے معلوم ہوا کہ دل کا شدید حملہ ہوا ہے.علاج کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور 8 جون تک صحت میں بتدریج بہتری پیدا ہوتی گئی لیکن 8 اور 9 جون یعنی منگل اور بدھ کی درمیانی شب پونے بارہ بجے کے قریب دل کا دورہ شدید حملہ ہوا اور بقضائے الہی پونے ایک بجے رات بیت الفضل“ اسلام آباد پاکستان ه میں حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ " 9 جون 1982ء کو و حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا جسدِ اطہر اسلام آباد سے ربوہ لایا گیا.10 جون کو سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بعد نماز عصر احاطہ بہشتی مقبرہ میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں ایک لاکھ کے قریب احباب شریک ہوئے.نماز جنازہ کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے پہلو میں جانب شرق حضور کی تدفین عمل میں آئی.حضور رحمہ اللہ تعالی نے 73 برس کی عمر پائی.(حیات ناصر جلد 1 صفحہ 428،77 از محمود مجیب اصغر صاحب) دور خلافت رابعه سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی (1928ء تا2003ء): ابتدائی زندگی ہمارے پیارے امام حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعود کے حرم ثالث حضرت سیدہ ام طاہر مریم بیگم صاحبہ کے بطن سے 18 دسمبر 1928ء (5 رجب 1347ھ) کو پیدا ہوئے.الفضل 21 دسمبر 1928ء) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے نانا حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کلر سیداں تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور سید خاندان کے چشم و چراغ تھے.بڑے عابد و زاہد اور مستجاب الدعوت بزرگ تھے جنہوں نے 1901ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی والدہ حضرت سیده مریم بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا بھی نہایت پارسار اور بزرگ خاتون تھیں جو اپنے اکلوتے بیٹے کی تعلیم و تربیت کا بے حد خیال رکھتی تھیں اور اسے نیک، صالح اور عاشق قرآن دیکھنا چاہتی تھیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے 1942ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی.7 دسمبر 1947ء کو جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور 1953ء میں نمایاں کامیابی کے ساتھ شاہد کیا.اپریل 1955 ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ یورپ تشریف لے گئے اور لنڈن یونیورسٹی (University of London) کے سکول آف اورینٹل اسٹڈیز (School of Oriantle Studies) میں تعلیم حاصل کی.14 اکتوبر 1957ء کو ربوہ واپس تشریف لائے.12 نومبر 1958ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کو وقف جدید کی تنظیم کا ناظم ارشاد مقرر فرمایا.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں اس تنظیم نے بڑی تیز رفتاری سے ترقی کی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زندگی کے آخری سال میں اس تنظیم کا بجٹ ایک لاکھ ستر ہزار روپے تھا جو خلافت ثالثہ کے آخری سال میں 223

Page 224

بڑھ کر دس لاکھ پندرہ ہزار تک پہنچ گیا.نومبر 1960ء سے 1966 ء تک آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نائب صدر خدام الاحمدیہ رہے.1960ء کے جلسہ سالانہ پر آپ رحمہ اللہ تعالی نے پہلی مرتبہ اس عظیم اجتماع میں خطاب فرمایا.اس کے بعد قریباً ہر سال ہی جلسہ سالانہ کے موقع پر خطاب فرماتے رہے.1961ء میں آپ رحمہ اللہ تعالی افتا کمیٹی کے ممبر مقرر ہوئے.1966ء سے 1969 ء تک مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے صدر رہے.یکم جنوری 1970ء کو فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے.1974ء میں جماعت احمدیہ کے ایک نمائندہ پانچ رکنی وفد نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نور اللہ مرقدہ کی قیادت میں پاکستان اسمبلی کے سامنے جماعت احمدیہ کے مؤقف کی حقانیت کو دلائل و براہین سے واضح کیا.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ اس وفد کے ایک رکن تھے.یکم جنوری 1979 ء کو آپ رحمہ اللہ تعالیٰ صدر مجلس انصار اللہ مقرر ہوئے اور خلیفہ منتخب ہونے تک اس عہدہ پر فائز رہے.1970 ء میں آپ رحمہ اللہ تعالیٰ احمدیہ آرکیٹکٹس اینڈ انجینئر ایسوسی ایشن (Ahmadiyya Archetects and Engineers Association) کے سرپرست (Patron) مقرر ہوئے.جلسہ سالانہ 1970ء کے موقع پر اس ایسوسی ایشن نے جلسہ کی تقاریر کے ساتھ ساتھ انگریزی اور انڈو نیشین زبان میں ترجمہ پیش کرنے کا کامیاب تجربہ کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا دور خلافت: 10 جون 1982ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی مقرر کردہ مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس بعد نماز ظہر بیت مبارک میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل الاعلیٰ تحریک جدید منعقد ہوا اور آپ کو خلیفہ امسیح الرابع منتخب کیا گیا اور تمام حاضرین مجلس نے انتخاب کے معاً بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کی.حضور رحمہ اللہ تعالی 28 جولائی 1982 ء کو یورپ کے دورہ پر روانہ ہوئے.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے پروگرام کا بڑا مقصد مختلف مشنز (Missions) کی کارکردگی کا جائزہ لینا اور مسجد بشارت سپین (Spain) کا معینہ پروگرام کے مطابق افتتاح کرنا تھا.اس سفر میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ناروے، سویڈن، ڈنمارک، جرمنی، آسٹریلیا، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ، سپین اور انگلستان کا دورہ دورہ کیا اور وہاں کے مشنز (Missions) کا جائزہ لیا.سفر کے دوران تبلیغ و تربیت اور مجالس عرفان کے علاوہ استقبالیہ تقاریب، 18 پریس کانفرنسوں اور زیورک میں ایک پبلک لیکچر کے ذریعہ اہل یورپ کو پیغام حق پہنچایا.انگلستان میں دو نئے مشن ہاؤسز کا افتتاح کیا.یورپ کے ان ممالک میں ہر جگہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس شوری کا نظام قائم فرمایا.نیز حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے تمام ممالک کے احمدیوں کو توجہ دلائی کہ وہ شرح کے مطابق لازمی چندوں کی ادائیگی کریں 10 ستمبر 1982ء کو حسب پروگرام حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مسجد بشارت سپین کا تاریخ ساز افتتاح فرمایا اور واضح کیا کہ احمدیت کا پیغام امن و آشتی کا پیغام ہے اور محبت و پیار سے اہل یورپ کے دل اسلام کے لئے فتح کئے جائیں گے.مسجد بشارت پیدرو آباد کے افتتاح کے وقت مختلف ممالک سے آنے والے قریباً دو ہزار نمائندے اور دو ہزار کے قریب اہالیانِ سپین نے شرکت کی.ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعہ بیت بشارت کے افتتاح کا سارے یورپ بلکہ دوسرے ممالک میں بھی خوب چرچا ہو اور کروڑوں لوگوں تک سرکاری ذرائع سے اسلام کا پیغام پہنچ گیا.اَلحَمدُ لِلهِ عَلى ذلِکَ.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کے فضل سے یورپ میں اب ایسی ہوا چلی ہے کہ اہل یورپ دلیل سننے کی طرف مائل ہو رہے ہیں.دو ابتدائی بابرکت تحریکات: 224

Page 225

-1- تحریک بیوت احمد سپین میں تعمیر بیت کی توفیق ملنے پر ہر احمدی کا دل حمد باری تعالیٰ سے لبریز تھا اس حمد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده 29 اکتوبر 1982ء (اخاء1361 ہش) میں ارشاد فرمایا کہ خدا کے گھر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ہمیں غربا کیلئے مکان بنوانے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی طرف سے اس فنڈ میں دس ہزار رویے دینے کا اعلان فرمایا.2.داعی الی اللہ بننے کی تحریک سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1983 ء کے آغاز میں ہی اپنے متعدد خطبات جمعہ میں جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ موجودہ زمانہ اس امر کا متقاضی ہے کہ ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بوڑھا اور بچہ دعوت الی اللہ کے فریضہ کو ادا کرنے کے لئے میدان عمل میں اتر آئے تا کہ وہ ذمہ داریاں کما حقہ ادا کی جاسکیں جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی ہیں.اس تحریک کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس وقت ایسے مہلک ہتھیار ایجاد ہو چکے ہیں جن کے ذریعہ چند لمحوں میں وسیع علاقوں سے زندگی کے آثار مٹائے جا سکتے ہیں.ایسے خطرناک دور میں جب کہ انسان کی تقدیر لا مذہبی طاقتوں کے ہاتھ آچکی ہے اور زمانہ تیزی سے ہلاکتوں کی طرف جا رہا ہے.احمدیت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.احمدیت دنیا کو ہلاکتوں سے بچانے کا آخری ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے.آخری ان معنوں میں کہ اگر یہ بھی نا کام ہو گیا تو دنیا نے لازماً ہلاک ہو جانا ہے اور اگر کامیاب ہو جائے تو دنیا کو لمبے عرصہ تک اس قسم کی ہلاکتوں کا خوف دامن گیر نہیں رہے گا.حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کے دو عظیم کارنا ہے: 1) ایم.ٹی.اے (M.T.A): (خطبہ جمعہ 28 جنوری 1983ء) 7 جنوری 1994 ء کو خطبہ جمعہ سے ایم ٹی اے کی باقاعدہ نشریات کا آغاز ہوا.ہر احمدی جو خلیفہ وقت سے دوری کا درد محسوس کر رہا تھا ان نشریات سے بہت خوش ہوا.گویا حضور رحمہ اللہ تعالیٰ گھر گھر آگئے.ایم ٹی اے جہاں بڑوں کے لئے علم میں اضافے اور سکون کا باعث بنا وہاں بچوں کی تربیت اور خلافت سے وابستگی کا ذریعہ بھی بنا.1994ء میں جماعت احمدیہ امریکہ (U.S.A) کی مشترکہ کوششوں سے ارتھ اسٹیشن (Earth Station) کا قیام عمل میں آیا.1995ء میں انٹرنیٹ (Internet) پر احمد یہ ویب سائٹ (Web Site) قائم ہوئی.یکم اپریل 1996 ء سے چوبیس گھنٹے نشریات کا آغاز ہوا.7 جولائی 1996ء گلوبل بیم (Global Beam) کے ذریعے نشریات جاری ہوئیں.1999ء میں ڈیجیٹل (dijital) نشریات کا آغاز ہوا.عالمگیر دعوت الی اللہ اور عالمی بیعتیں: (سیدنا طاہر سوویٹر مطبوعہ جماعت احمدیہ برطانیہ صفحہ 19 تا 24) 225

Page 226

حضرت خلیفۃ أمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی قیادت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق پیغام دین حق کو زمین کے کناروں تک پہنچانے کی سچی تڑپ اور حقیقی لگن سے کام کیا.تعلیم و تربیت کے جدید ذرائع سے بھر پور فائدہ اٹھایا.ہر احمدی کو داعی الی اللہ قرار دیا.جماعت 175 ممالک میں مضبوطی سے قائم ہوئی.دس سالوں میں 17 کروڑ افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.(سیدنا طاہر سود بر مطبوعہ جماعت برطانیہ.صفحہ 24،19) حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی انقلاب انگیز تحریات کی تفصیل: حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دورِ خلافت میں متعدد تحریکات فرما ئیں.بعض تحریکات خصوصی دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلانے کیلئے تھیں اور بعض اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے عملی اقدامات کے طور پر کی گئیں جبکہ بعض کا تعلق خدمت خلق کے روشن پہلوؤں سے ہے.ان تمام ریکات کا احاطہ کرنا اس مضمون میں ممکن نہیں تاہم ان میں سے بیشتر تحریکات درج ذیل ہیں:.پہلے مطبوعہ پیغام میں عالم اسلام اور فلسطین کی بہتری کے لئے دعاؤں کی تحریک (الفضل 13 جون 82ء) جھوٹ کے خلاف جہاد کی تحریک (درس القرآن 19 جولائی 82ء) لجنہ کو عالمگیر دعوت الی اللہ کا منصوبہ بنانے کی تحریک (اجتماع لجنہ 16اکتوبر 82ء) محرم میں کثرت سے درود پڑھنے کی تحریک ( مجلس عرفان 24 اکتوبر 82ء) بیوت الحمد سکیم کا اعلان (خطبہ جمعہ 129اکتوبر 82ء) یہ حضور کے دور کی پہلی مالی تحریک ہے.وقف بعد از ریٹائر منٹ کی تحریک (اجتماع انصار اللہ 5 نومبر 82ء) تحریک جدید دفتر اول و دوم کو تا قیامت جاری رکھنے کی تحریک (خطبہ 5 نومبر 82ء) باہمی جھگڑے ختم کرنے کی تحریک (خطبہ 5 نومبر 82ء) نمازوں کی حفاظت کرنے کی تحریک (خطبہ 19 نومبر 82ء) مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات تیار کرنے کی تحریک (خطاب استقبالیہ تحریک جدید 2 دسمبر 82ء) امریکہ میں 5 نئے مراکز اور مساجد کے قیام کی تحریک (15 دسمبر 82ء) احمدی خواتین کو پردہ کی پابندی کی تحریک (خطاب جلسہ سالانہ 27 دسمبر 82ء) الفضل اور ریو یو آف ریلیجنز کی اشاعت دس ہزار کرنے کی تحریک (خطاب جلسہ سالانہ 27 دسمبر 82ء) کینیڈا میں نئے مراکز تبلیغ اور مساجد کی تحریک (20 اپریل 83ء) عید پر غربا کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کی تحریک (12 جولائی 83ء) بد رسوم کے خلاف جہاد کی تحریک (خطبہ جمعہ 16 دسمبر 83ء) جلسہ کے لئے 500 دیگوں کی تحریک (الفضل 8 فروری 84ء) برطانیہ اور جرمنی میں دو نئے مرکز قائم کرنے کی تحریک (خطبہ جمعہ 18 مئی 84ء) حبشہ (Ethiopia) کے مصیبت زدگان کی مالی امداد (خطبہ 9 نومبر 84ء) حفظ قرآن کی تحریک (11 نومبر 84ء) نستعلیق کتابت کے لئے کمپیوٹر کی خرید (خطبہ 12 جولائی 85ء) تحریک جدید کے دفتر چهارم کا آغاز (خطبہ 25 اکتوبر 85ء) 226

Page 227

قیام نماز کیلئے ذیلی تنظیمیں ہر ماہ اجلاس کریں (خطبہ 8 نومبر 85ء) وقف جدید کو عالمگیر کرنے کا اعلان (خطبہ 27 دسمبر 85ء) سیدنا بلال فنڈ کا قیام (خطبہ 14 مارچ86ء) توسیع مکان بھارت فنڈ (خطبہ 28 مارچ86ء) جلسہ ہائے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کی تحریک (خطبہ 8 اگست 86ء) فتنہ شدھی کے خلافت جہاد (خطبہ 22 اگست 86ء) متاثرین زلزله ایل سلواڈور (El Salvador) کی امداد (خطبہ 17 اکتوبر 86ء) لجنہ اماء الله مرکز یہ ربوہ کے نئے ہال و دفتر کے لئے چندہ (خطبہ 16 جنوری 87ء) صد سالہ جو بلی سے پہلے ہر خاندان ایک نیا احمدی خاندان بنائے (خطبہ 30 جنوری 87ء) صد سالہ جوبلی ہر ملک میں ایک یاد گار عمارت بنائی جائے (خطبہ 6 فروری87ء) تحریک وقف نو کا اعلان (خطبہ 3 اپریل87ء) توسیع مسجد نور ہالینڈ (Holland) (خطبہ 21 اگست 87ء) منهدم شدہ مساجد کی تعمیر کریں (خطبہ 18 ستمبر 87ء) اسیران کی فلاح و بہبود کیلئے کوشش (خطبہ 4 دسمبر 87ء) نصرت جہاں سکیم کی تنظیم نو (خطبہ 22 جنوری 88ء) سپینش (Spanish) سیاحوں کی میزبانی کی تحریک (خطبہ 4 اگست 88ء) نوجوانوں کو شعبہ صحافت سے منسلک ہونے کی تحریک (خطبہ 24 فروری 89ء) احمدی خاندان اپنی تاریخ مرتب کریں (خطبہ 17 مارچ 89ء) (سیدنا طاہر نمبر - صفحہ 26 ،27 سوویٹر جماعت برطانیہ) مسجد بیت الرحمن واشنگٹن (.Washington D.C) کے لئے چندہ (خطبہ 7 جولائی 89ء) افریقہ و ہندوستان کے لئے 5 کروڑ کی تحریک (خطاب جلسہ سالانہ یو کے 89ء) پانچ بنیادی اخلاق اپنانے کی تحریک (خطبہ 24 نومبر 89ء) واقفین نو کو تین زبانیں سیکھنے کی تحریک (خطبہ یکم دسمبر 89ء) متاثرین زلزلہ ایران (Iran) کے لئے امداد (جون 89ء) روس (Russia) میں دعوت الی اللہ اور وقف عارضی ( خطبہ 15 جون 90ء.18اکتوبر 91ء) فاقہ زدگان افریقہ کے لئے امداد (خطبہ 18 جنوری91ء) مہاجرین لائبیریا (Liberia) کیلئے امداد کی تحریک (خطبہ 26 اپریل 91ء) کفالت یتامی کی تحریک (جنوری91ء) خدمت خلق کی عالمی تنظیم کا اعلان (خطبہ 28 اگست 92ء) مختلف شعبوں کے احمدی ماہرین کو سابق روسی (Russian) ریاستوں میں جانے کی تحریک (خطبہ 12اکتوبر 92ء) بوسنیا (Bosnia) کے یتیم بچوں، صومالیہ (Somalia) کے قحط زدگان کیلئے امداد (خطبہ 30اکتوبر 92ء) مسی ساگا (Mississagua) (ٹورنٹو کینیڈا) کی احمد یہ مسجد کیلئے عطیات (خطبہ 30اکتوبر 92ء) 1993ء کو انسانیت کا سال منانے اور بہبود انسانی کی تحریک (خطبہ یکم جنوری 93ء) 227 || || || || || || || | | || || || || || || | || ||

Page 228

ظلم کے خلاف آواز اٹھانے تمام ممالک کے سربراہان سے رابطہ کر کے انہیں تقویٰ اور سچائی کی راہ پر بلانے کی تحریک ( خطبہ 22 جنوری 93ء) مظلومین بوسنیا کی مالی واخلاقی امداد (خطبہ 29 جنوری 93ء) | | || || | || | || || || || | || || | || | ||.مختلف مذاہب کیلئے نوجوانوں کی ریسرچ ٹیمیں بنانے کی تحریک (خطبہ 14 مارچ 93ء) ھر اور معاشرہ کو جنت نظیر بنانے کی تحریک (خطبہ 16 اپریل 93ء) جماعتی اجلاسوں میں بزرگوں کے تذکرے کریں (خطبہ 13 اگست 93ء) بزرگ پرستی سے بچیں تا آئندہ نسلیں بچ جائیں (خطبہ 13 اگست 93ء) قطب شمالی (North Pole) کی پہلی مسجد کے لئے مالی تحریک (خطبہ 8 اکتوبر 93ء) شہد پر منظم تحقیق کرنے کی تحریک ( پروگرام ملاقات 6 جون 94ء) مظلومین رونڈا (Rawanda) کے لئے مالی امداد (خطبہ 22 جولائی 94ء) نو مبایعین کیلئے مرکزی تربیت گاہوں کا قیام (خطبہ 19 اگست 94) کینسر پر ریسرچ کی تحریک (پروگرام ملاقات 6 دسمبر 94ء) M.T.A کیلئے متنوع اور دلچسپ پروگرام بنائیں (خطبہ 16 دسمبر 94ء) انگلستان کی مرکزی مسجد کے لیے پانچ ملین پاؤنڈ کی تحریک (خطبہ 24 فروری 94ء) نظام شوری کے چارٹر کو دیگر زبانوں میں ترجمہ کرنے کی تحریک (خطبہ 31 مارچ 95ء) امرائے اضلاع امارات کے تقاضے پورے کرے(خطبہ 14 جون96ء) مشرقی یورپ میں جماعتی ضروریات کیلئے 15 لاکھ ڈالرز کی تحریک (خطبہ 27 دسمبر 96ء) ہر احمدی گھرانہ ڈش انٹینا لگائے ( مجلس سوال و جواب 10 جنوری 97ء) شاملین وقف جدید کی تعداد بڑھائیں (خطبہ 2 جنوری 98ء) سرخ کتاب رکھنے کی تحریک (خطبہ 7 اگست 98ء) جیم (Belgium) کی مسجد کیلئے مالی امداد (خطبہ یکم مئی 98ء) خليفه وقت کا خطبہ براہ راست سنیں (خطاب جلسہ سالانہ تنجیم 3 مئی 98ء) درس القرآن ایم ٹی اے سے استفادہ کریں (خطبہ 19 جون 98ء) عمل الترب“ پر ریسرچ کریں ( پرگرام ملاقات 14 ستمبر 98) امانتوں کا حق ادا کریں (سلسلہ خطبات 28 اگست تا 18 ستمبر 98ء) امیر مسلم ممالک غریب ملکوں کے بچوں کیلئے دولت مختص کریں (خطبہ 25 دسمبر 98ء) یتامی اور بیوگان کی خدمت کی مالی تحریک نیز اہل عراق کے بچوں یتیموں اور بیواؤں کے لئے دعا کی تحریک (خطبات جمعہ 29 جنوری, 5 فروری99ء) || || || تعمیر مساجد کا منصوبہ (خطبہ 19 مارچ99ء) لواحقین کو شہداء کی تفصیلات جماعتی ریکارڈ کے لیے بھجوانے کی تحریک (خطبہ 21 مئی 99ء) نوافل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِه....پڑھنے کی تحریک (خطبہ 19 نومبر 99ء) پاک زبان استعمال کرنے کی تحریک (4 فروری 2000ء) جماعت انڈونیشیا (Indonesia) انفاق سبیل اللہ کی مثال بنے اور آئندہ 25 سال میں ایک کروڑ ہو جائیں 228

Page 229

(خطبات جلسہ انڈونیشیا 2 جولائی 2000ء) بیت الفتوح لندن کے لئے مزید 5 ملین پاؤنڈز (5,000,000) کی تحریک (خطبہ 16 فروری 2001ء) مریم شادی فنڈ کا اجرا (خطبہ 28،21 فروری 2003ء) ہیومینٹی فرسٹ (Humanity First) کے ذریعہ عراق (Iraq) کی مالی امداد کی تحریک (خطبہ 4 اپریل 2003ء) (سیدنا طاہر نمبر.صفحہ 29،28.سووینئر جماعت برطانیہ) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی تصانیف علمی کار ہائے نمایاں: سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کا پیدا کردہ انقلاب انگیز لٹریچر قبولیت کی سند عام حاصل کر چکا ہے اور مغرب و مشرق کے دانشوروں اور مفکروں نے اسے زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی متعدد تالیفات کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی مطبوعات کی فہرست درج ذیل ہے: -1 -2 -3 -4 مذہب کے نام پر خون........1962ء ورزش کے زینے......1965ء احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟...1968ء آیت خاتم النبین ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مفہوم اور جماعت احمدیہ کا مسلک.....1968ء 65.سوانح فضل عمر جلد اول ،جلد دوم......1975ء -7 -8 -9 رسالہ ”ربوہ سے تل ابیب تک“ پر تبصره........1976ء وصال ابن مریم مطبوعہ لاہور.........1979ء اہل آسٹریلیا سے خطاب اردو انگریزی..........1983ء 10 - مجالس عرفان 84-1983 کراچی 1989ء سلمان رشدی کی کتاب پر محققانہ تبصرہ 1989ء -11 -12 -13 -14 -15 -16 -17 -18 -19 خلیج کا بحران اور نظام جہاں نو...1992ء Islam's Response to Comtemporary Issues............1992ء ذوق عبادات اور آداب دعا.............1993ء زهق الباطل........1994ء Christianity - A Journey From Facts to Fiction......1994ء Absolute Justice.......1996ء کلام طاہر (شائع کردہ لجنہ اماء اللہ کراچی).......1996ء Revelation, Rationality Knowledge & Truth.....1998ء 20.قرآن کریم کا اردو ترجمہ ( مع حواشی کل صفحات 1315 طبع اول لندن جولائی 2000ء) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی المناک وفات: (سیدنا طاہر نمبر ، ہود یئر - صفحہ 26،25.جماعت برطانیہ) 229

Page 230

دور خلافت رابعہ کے آخری لمحات: 19 اپریل 2003ء کا دن جماعت احمدیہ کے لئے ایک بہت عظیم سانحہ کا دن تھا اس لئے کہ اس دن ہمارے دلوں کی ނ دھڑکن، ہمارا پیارا، ہمارے دل کا سہارا، ہمارا محبوب قائد، وہ وجود جو سینکڑوں وجودوں اور بے شمار خصائل کا مجموعہ تھا ہم اچا نک جدا ہو گیا.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ 18 دسمبر 1928 ء کو پیدا ہوئے.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی مقدس زندگی کی 75 بہاریں یوں لگتا پلک جھپکتے ہی گزر گئیں مگر یہ 75 بہاریں اپنے اندر اتنی بے شمار یادیں سمیٹے ہوئے ہیں کہ ان کا کئی کتابوں میں سمونا مشکل ہے.اتنی لمبی اور طویل یادوں کی فلم جب ہمارے سامنے آتی ہے اور دوسری طرف اس مقدس وجود کی المناک رحلت کا تصور کرتے ہیں تو دل بے شمار اداسیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے روز ہی آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کا جسد اطہر دیدار کے لئے بیت الفضل لندن کے احاطے میں رکھ دیا گیا.محمود ہال میں قطار اندر قطار دنیا بھر کے احمدی مرد و زن دیدار کے لئے حاضر ہوئے.ایم ٹی اے کی بدولت دیدار کے مناظر پوری دنیا میں دیکھے گئے.آخری دیدار کا یہ سلسلہ اگلے دو روز تک جاری رہا.23 اپریل بروز بدھ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے جسد مبارک کو ایک قافلے کی صورت میں بیت الفضل لندن سے اسلام آباد ٹلفورڈ (Tilford) لے جایا گیا.روانگی اور اسلام آباد کے فضائی اور زمینی مناظر ایم ٹی اے پر نشر کئے گئے.اس مقدس قافلے کے ساتھ ساتھ ایک پولیس سکواڈ Police) (Squad بھی تھا.اسلام آباد میں جسد اطہر کو ایک چھوٹی مارکی میں رکھا گیا.نماز ظہر و عصر کی ادائیگی، خطاب اور عالمی بیعت کے بعد حضرت خلیفة أسبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کا جنازہ پڑھایا.جسد اطہر کو مسلسل کندھا دیا اور پھر تدفین کی پوری کارروائی کے دوران قبر کے پاس موجود رہے.سب سے پہلے آپ ایدہ اللہ تعالی نے قبر میں مٹی ڈالی اور پھر دوسرے احباب کو موقع دیا گیا.لندن وقت کے مطابق ساڑھے چار بجے سہ پہر اور پاکستان کے وقت کے مطابق 8:30 بجے رات قبر تیار ہونے پر حضرت خلیفہ اُسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی.دعا سے پہلے قبر پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے نام کی تختی بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہی نصب فرمائی.دور خلافت خامسه الفضل 25 اپریل 2003 صفحہ 1) قدرت ثانیہ کے مظہر خامس: سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی المناک وفات کے بعد جماعت بہت بے تابی اپنے نئے عظیم روحانی لیڈر کی منتظر تھی اور احمدی بڑی بے قراری سے دعاؤں میں مصروف تھے.خدا تعالیٰ نے ان عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے 22 اپریل 2003ء کو حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو قدرت ثانیہ کو مظہر خامس کے طور پر منتخب فرمایا اور ایک بار پھر ہمارے خوف کو امن سے بدل دیا.قدرت ثانیہ کے مظہر خامس کے مختصر حالات درج ذیل ہیں: آپ ایدہ اللہ تعالٰی 15 ستمبر 1950ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب مرحوم اور محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم کے ہاں ربوہ میں پیدا ہوئے.آپ ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑپوتے ، حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے پوتے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے نواسے ہیں.آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ سے میٹرک کیا اور تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے بی اے کیا.1976ء 230

Page 231

میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ایم ایس سی کی ڈگری ایگریکلچرل اکنامکس میں حاصل کی.صاحبہ 31 جنوری 1977ء کو آپ ایدہ اللہ تعالی کی شادی مکرمہ سیدہ امته السبوح بیگم صاحبہ بنت محترمہ صاحبزادی امتہ الحکیم مرحومه و مکرم سید داؤد مظفر شاہ صاحب ہوئی.2 فروری کو دعوت ولیمہ ہوئی.آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے ایک صاحبزادی امتہ الوارث فاتح صاحبہ اہلیہ مکرم فاتح احمد صاحب ڈاہری نواب شاہ اور مکرم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب سے نوازا.1977ء میں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے زندگی وقف کی اور نصرت جہاں سکیم کے تحت اگست 1977ء میں غانا تشریف لے گئے.غانا (Ghana) میں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کا قیام 1977ء سے 1975ء تک رہا.اس دوران آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے بطور پرنسپل احمد یہ سیکنڈری سکول (Essarkyir) اور احمد یہ زرعی فارم ٹمالے(Tamale) شمالی غانا کے منیجر کے طور پر خدمات انجام دیں.آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے غانا میں گندم اُگانے کا پہلی بار کامیاب تجربہ کیا.آپ ایدہ اللہ تعالیٰ 1975ء میں غانا سے پاکستان تشریف لائے اور 17 مارچ 1975 ء سے نائب وکیل المال ثانی کے طور پر آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کا تقرر ہوا.18 جون 1994ء آپ ایدہ اللہ تعالٰی ناظر تعلیم صدر انجمن احمد یہ مقرر ہوئے.10 دسمبر 1997 ء کو ناظر اعلیٰ و امیر مقامی مقرر ہوئے اور تا انتخاب خلافت اس منصب اگست 1998 ء میں صدر مجلس کار پرداز مقرر ہوئے.بحیثیت ناظر اعلیٰ آپ ناظر ضیافت اور ناظر زراعت بھی خدمات پر مامور رہے..بجالاتے رہے.1994 ء تا 1997ء چیئرمین ناصر فاؤنڈیشن رہے.اسی عرصہ میں آپ صدر تزئین کمیٹی ربوہ بھی تھے.آپ نے گلشن احمد نرسری کی توسیع اور ربوہ کو سرسبز بنانے کیلئے ذاتی کوشش اور نگرانی فرمائی.1988ء سے 1995 ء تک ممبر قضا بورڈ رہے.خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں 77-1976ء میں مہتمم صحت جسمانی 85-1984ء میں مہتمم تجنید 86-1985ء میں مہتم مجالس بیرون اور 90-1989ء میں نائب صدر خدام الاحمدیہ پاکستان کے طور پر خدمات انجام دیں.1995ء میں انصار اللہ پاکستان میں قائد ذہانت و صحت جسمانی اور 1995ء تا 1997ء قائد تعلیم القرآن کے طور انجام دیں.1999ء میں ایک مقدمہ میں اسیران راہِ مولی رہنے کا اعزاز بھی حاصل کیا.30 اپریل کو گرفتار ہوئے اور 10 مئی کو رہا ہوئے.پر خدمات ( روزنامه الفضل 24 اپریل 2003ء) حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے متعلق ایک پیش خبری: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تائید و نصرت کے وعدے حضرت مسیح موعود کے الہامات میں وضاحت کے ساتھ پائے جاتے ہیں.چنانچہ دسمبر 1907 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالی کی طرف سے الہام ہوا.إِنِّي مَعَكَ يَا مَسْرُورُ ترجمہ: اے مسرور میں تیرے ساتھ ہوں.حضرت خلیفة أمسح الامس ایدہ اللہ تعلی کا بطور خلیفة مسح اتخاب المسيح (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 630) 22 اپریل 2003ء کو لندن وقت کے مطابق 11:40 بجے رات آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کو خدا تعالیٰ نے قدرت ثانیہ کا مظہر خامس بنایا.231

Page 232

(الفضل 24 اپریل 2003 صفحہ 2) حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پہلی بیعت عام سے قبل مختصر خطاب فرمایا جس کے الفاظ یہ ہیں: پر احباب جماعت سے صرف ایک درخواست ہے کہ آج کل دعاؤں پر زور دیں، دعاؤں پر زور دیں، دعاؤں زور دیں.بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ اپنی تائید و نصرت فرمائے اور احمدیت کا یہ قافلہ اپنی ترقیات کی طرف رواں دواں رہے.“ (الفضل 24 اپریل 2003ء،صفحہ 2) تجدید عہد : اس موقع پر ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اے جانے والے تو نے جس تیزی کے ساتھ دین کو اکناف عالم میں غالب کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھایا ہم ہمیشہ اس مشن کو آگے بڑھانے کیلئے ہر قسم کی قربانی دیتے رہیں گے.ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے جانے والے محبوب قائد نے اس کا حق ادا کر دیا.اللہ تعالیٰ کی آپ رحمہ اللہ تعالیٰ پر بے شمار برکتیں نازل ہوں.ہم آنے والے عظیم قائد سے خدا کو حاضر ناصر جان کر یہ عہد کرتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے امن اور سلامتی کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کے لئے اور خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہیں گے اور اپنے امام کی مدد ہمیشہ دعاؤں سے کرتے رہیں گے.انشاء اللہ تحریکات خلافت خامسه : حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مرزا مسرور احمد صاحب مؤرخہ 22 اپریل 2003ء کو خلافت پر متمکن ہوئے.آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کے دور کی بابرکت تحریکات کا درج ذیل ہیں: -1 دعوت الی اللہ کے لئے عارضی وقف کی تحریک حضرت خلیفة لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمود 4 جون 2004ء میں فرمایا: ”دنیا میں ہر احمدی اپنے لئے فرض کر لے کہ اس نے سال میں کم از کم ایک یا دو دفعہ ایک یا دو ہفتے تک اس کام کے لئے وقف کرنا ہے.“ -2- زیادہ سے زیادہ وصایا کرنے کی تحریک: حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یکم اگست 2004 ء جلسہ سالانہ برطانیہ سے موقع پر فرمایا: افضل 31 اگست 2004 ء چونکہ 2005ء میں نظام وصیت کے سو سال پورے ہو جائیں گے اس لئے کم از کم پچاس ہزار وصایا ہو جائیں.اس طرح 2008 ء تک خلافت جوبلی کے اظہار خوشنودی کے طور پر لازمی چندہ دہندگان میں سے کم از کم پچاس فیصد موصی ہو جائیں.“ (مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم صفحه 79،78) 232

Page 233

_3 صد سالہ خلافت جوبلی: 2008ء میں خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر استحکام خلافت اور اظہار خوشنودگی کے طور پر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مئی 2005 ء میں مالی قربانی کی تحریک فرمائی اور اس صد سالہ خلافت جوبلی کے لئے ایک روحانی پروگرام عطا فرمایا.اس کی تفصیل تحریر ہے: -1 ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھا جائے جس کے لئے ہر قصبہ ، شہر یا محلہ میں مہینہ کے آخری ہفتہ میں کوئی ایک دن مقامی طور پر مقرر کر لیا جائے.2 34 -5 -6 -7 -8 -9 دو نفل روزانہ ادا کئے جائیں جو نماز عشا کے بعد سے لے کر فجر تک یا نماز ظہر کے بعد ادا کئے جائیں.سورۃ فاتحہ (کم از کم سات مرتبہ غور اور تدبر سے) رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (روزانہ کم از کم گیارہ مرتبہ ) اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِی نُحُوْرِهِمْ وَ نَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ (روزانہ کم از کم گیارہ مرتبہ ) اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلَّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ إِليهِ ( روزانہ کم از کم 33 مرتبہ ) سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ - ( روزن کم از کم 33 مرتبہ ) رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبُنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.(روزانہ کم از کم 33) مکمل درود شریف.(روزانہ کم از کم 33 مرتبہ پڑھیں) خلافت خامسہ کے اہم واقعات: افتتاح بیت الفتوح (مورڈن): (ماہنامہ "خالد" جولائی 2005ء) مغربی یورپ کی سب سے بڑی بیت الذكر الفتوح کا افتتاح حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصره العزيز نے 3اکتوبر 2003 ء کو خطبہ جمعہ ارشاد کر کے فرمایا: حضرت خلیفة أمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی نے 19اکتوبر 1999ء کو اس کا سنگ بنیاد رکھا تھا.سنگ بنیاد میں آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے بیت المبارک قادیان کی اینٹ رکھی.اس کا رقبہ 5.2 ایکڑ ہے جو 1996ء میں 2.23 ملین پاؤنڈ سے خریدا گیا.گنبد کا قطر 15.5 میٹر ہے جو چھت سے آٹھ میٹر اور گراؤنڈ کی سطح سے 23 میٹر اونچا ہے.مینار کی اونچائی 25.5 میٹر ہے.بیت الفتوح زنانہ و مردانہ ہال میں قریباً چار ہزار جبکہ دیگر ہالز (Halls) کو ملا کر کل دس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے اس بیت میں وسیع و عریض طاہر، ناصر اور نور ہال (Hall) ہیں.جماعت کے دفاتر، کانفرنس روم، لائبریری اور جمنیزیم بھی موجود ہے.جامعہ احمدیہ کینیڈا کا قیام: کینیڈا میں پہلی بارمسی ساگا ٹورنٹو میں جامعہ احمدیہ قائم ہوا جس کا افتتاح 7 ستمبر 2003ء کو ہوا.233

Page 234

☆ ☆ ☆ خلافت خامسہ کے آغاز پر جماعت احمدیہ کی تاریخ میں پہلی بار ہونے والے واقعات: انتخاب خلافت کے متعلق اعلانات، اطلاعات، ساری دنیا کے احمدیوں نے بیک وقت دیکھے اور سنے.دلی طمانیت وسکون کے ساتھ ہر دل نے براہ راست بیعت کی.بار انتخاب خلافت برصغیر سے باہر یورپ میں ہوا.پہلی بار مسجد فضل لندن میں انتخاب ہوا.اس بیت کو چار خلفا کے قدم چومنے کی سعادت حاصل ہوئی.پہلی بار کسی خلیفہ کا انتقال بر صغیر سے باہر ہوا.پہلی بار رحلت کرنے والے خلیفہ کا آخری دیدار اور تدفین کے مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھے گئے، نماز جنازہ میں شرکت کی نئی صورت ہوئی کہ جس وقت لندن میں نماز جنازہ پڑھائی گئی ہر ملک میں مقامی طور پر مقامی امام کی اقتدار میں نماز جنازہ پڑھی گئی.حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوٹ، حضرت مصلح موعود ☆ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی پگڑی زیب تن کر رکھی تھی.خلافت کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: آئندہ انشاء اللہ خلافت احمدیہ کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا جماعت اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے کوئی بدخواہ اب خلافت احمدیہ کا بال بیکا نہیں کر سکتا اور جماعت اسی شان سے ترقی کرے گی خدا کا یہ وعدہ پورا ہو گا کہ کم از کم ایک ہزار سال تک جماعت میں خلافت قائم رہے گی.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جون 1982ء) 234

Page 235

سیرت خلفائے احمدیت مرتبہ حافظ طیب احمد طاہر استاد مدرسة الظفر 235

Page 236

236 حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ : تعارف تعلق باللہ قبولیت دعا عشق رسول عشق قرآن احباب جماعت سے تعلق ہمدردی خلق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ : تعارف تعلق باللہ قبولیت دعا عشق رسول عشق قرآن احباب جماعت سے سے تعلق ہمدردی خلق حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی: تعارف تعلق باللہ قبولیت دعا عشق رسول عشق قرآن احباب جماعت سے سے تعلق ہمدردی خلق حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی:

Page 237

تعارف تعلق باللہ قبولیت دعا عشق رسول عشق قرآن احباب جماعت سے سے تعلق ہمدردی خلق حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: احباب جماعت سے تعلق آیت: صِبْغَةَ اللَّهِ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَّ نَحْنُ لَهُ عَبدُونَ ، (سورة البقرة: 139 ) " اللہ کا رنگ پکڑو.اور رنگ میں اللہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں.“ 237

Page 238

حدیث عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قِيلَ يَا اللهُ عَنْهُ قَالَ قِيْلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ آئنا خير مَنْ ذَكَّرَكُمُ اللَّهُ رُؤْيَتُهُ وَ زَادَ فِي عِلْمِكُمْ مَنْطِقُهُ وَ ذَكَّرَكُمْ بِالْآخِرَةِ عَمَلُهُ.(الترغيب والترهيب - الترغيب فى المجالسة العلماء صفحه 86/1) ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلیقہ سے دریافت کیا گیا کہ کس کے پاس بیٹھنا بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے شخص کے پاس جس کو دیکھنے سے تمہیں خدا یاد آئے اور جس کی باتوں سے تمہارے علم میں اضافہ ہو اور جس کے عمل کو دیکھ کر تمہیں آخرت کا خیال آئے.سیرت حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاجی الحرمین حضرت حافظ مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ 1841 ء میں بھیرہ میں پیدا ہوئے جو پنجاب کا ایک قدیم اور موجودہ پاکستان میں ضلع سرگودھا میں واقع ایک شہر ہے.آپ رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام حافظ غلام رسول تھا.آپ رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نسل سے تھے.آپ رضی اللہ عنہ نے مارچ 1885ء میں قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی اور 23 مارچ 1889ء میں لدھیانہ کے مقام پر سب سے پہلی بیعت میں سب سے پہلے بیعت کی.27 مئی 1908ء کو 67 سال کی عمر میں جماعت احمدیہ کے پہلے امام اور خلیفہ اسیح الاوّل منتخب ہوئے.13 مارچ بروز جمعہ 1914 ء کو مالک حقیقی سے جاملے اور 14 مارچ کو بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے.تعلق باللہ: ایک دفعہ میں اچھے استاد کی تلاش میں وطن سے دور چلا گیا.تین دن کا بھوکا تھا مگر کسی سے سوال نہیں کیا.میں مغرب کے وقت ایک مسجد میں چلا گیا مگر وہاں کسی نے مجھے نہیں پوچھا اور نماز پڑھ کر سب چلے گئے.جب میں اکیلا تھا تو مجھے باہر سے آواز آئی.نور الدین! نور الدین! یہ کھانا آکر جلد پکڑ لو.میں گیا تو ایک مجمع میں بڑا پر تکلف کھانا تھا.میں نے پکڑ لیا.میں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ یہ کھانا کہاں سے آیا کیونکہ مجھے علم تھا کہ خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے.میں نے خوب کھایا اور پھر برتن مسجد کی ایک دیوار کے ساتھ کھونٹی پر لٹکا دیا.جب میں آٹھ دس دن کے بعد واپس آیا تو وہ برتن وہیں آویزاں تھا.جس سے مجھے یقین ہو گیا کہ کھانا گاؤں کے کسی آدمی نے نہیں بھجوایا تھا.خدا تعالیٰ نے ہی بھجوایا تھا.“ (حیات نور صفحہ 254 ) حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: طالب علمی کے زمانہ میں ایک مرتبہ میں نے نہایت عمدہ صوف لے کر دو صدریاں بنوائیں اور انہیں الگنی رکھ دیا مگر ایک کسی نے چرا لی.میں نے اس کے چوری ہو جانے پر خدا کے فضل سے اپنے دل میں کوئی تکلیف محسوس نہ کی بلکہ میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر بنا دینا چاہتا ہے.تب میں شرح صدر سے لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا اور صبر کے شکریہ میں دوسری کسی حاجت مند کو دے دی.چند روز ہی اس واقعہ گزرے تھے کہ شہر کے ایک امیر زادہ کو سوزاک ہوا اور اس نے ایک شخص سے جو میرا بھی آشنا تھا کہا کہ کوئی س إِنَّا پر 238

Page 239

ایسا لاؤ جو طبیب مشہور نہ ہو اور کوئی ایسی دوا بتا دے جس کو میں خود بنا لوں.وہ میرے پاس آیا اور مجھے اس کے پاس لے گیا.میں نے سن کر کہا کہ یہ کچھ بھی نہیں صدری ہے.میں جب وہاں پہنچا تو وہ اپنے باغ میں بیٹھا تھا.میں اس کے پاس کرسی پر جا بیٹھا.تو اس نے اپنی حالت کو بیان کر کے کہا کہ ایسا نسخہ تجویز کر دیں جو میں خود ہی بنا لوں.میں نے کہا: ہاں ہو سکتا ہے جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں کیلا کے درخت تھے.میں نے اس کو کہا کہ کیلا کا پانی 5 تولہ لے کر اس میں ایک ماشہ شورہ قلمی ملا کر پی لو.اس نے جھٹ اس کی تعمیل کر لی کیونکہ شورہ بھی موجود تھا.اپنے ہاتھ سے دوائی بنا کر پی لی.میں چلا گیا.دوسرے دن پھر میں گیا تو اس نے کہا مجھے تو ایک ہی مرتبہ پینے سے آرام ہو گیا ہے اب حاجت ہی نہی رہی.میں تو جانتا تھا کہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل نے پیدا کر دیا ہے اور آپ ہی میری توجہ اس علاج کی طرف پھیر دی.میں تو پھر چلا آیا مگر اس نے میرے دوست کو بلا کر زربفت کمخواب وغیرہ کے قیمتی لباس اور بہت سے روپے میرے پاس بھیجے.جب وہ میرے پاس لایا تو میں نے اس کو کہا کہ یہ وہی صدری ہے.وہ حیران تھا کہ صدری کا کیا معاملہ ہے.آخر سارا قصہ اس کو بتایا اور اس کو میں نے کہا زربفت وغیرہ تو ہم پہنتے نہیں.اس کو بازار میں بیچ لاؤ.چنانچہ وہ بہت قیمت پر بیچ لایا.اب میرے پاس اتنا روپیہ ہو گیا کہ حج فرض ہو گیا اس لئے میں نے اس کو کہا کہ اب حج کو جاتے ہیں کیونکہ حج فرض ہو گیا ہے.غرض اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کو کچھ بھی نقصان نہیں ہو تا.ہاں اس میں دنیا کی ملونی نہیں چاہئے بلکہ خالصاً لوجہ اللہ ہو.اللہ کی رضا مقصود ہو اور اس کی مخلوق پر شفقت ملحوظ ہو“.قبولیت دعا: حیات نور صفحه 46-47 از شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل) مکہ میں دعا کے بارہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: ”جب ہم حج پہ گئے تو ہم نے ایک روایت سنی ہوئی تھی کہ مکہ میں جو شخص دعائیں مانگے اس کی ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے یہ روایت تو چنداں قومی نہیں.تا ہم جب ہم دعا مانگنے لگے تو ہم نے یہ مانگا یا الہی میں مضطر ہو کر کوئی دعا تجھ سے مانگوں تو اس کو قبول کر لینا.“ جب حیات نور از شیخ عبد القادر سابق سوداگر مل صفحه 520 ) محترم حضرت چوہدری غلام محمد صاحب بی اے کی روایت ہے کہ چودھری حاکم دین صاحب کی بیوی کو پہلے بچے کے وقت سخت تکلیف تھی.آپ رات گیارہ بجے حضرت امام جماعت اول کے گھر گئے چوکیدار سے پوچھا کہ کیا میں حضرت صاحب کو اس وقت مل سکتا ہوں اس نے نفی میں جواب دیا لیکن اندرون خانہ حضرت صاحب نے آواز سن لی اور پوچھا کون ہے چوکیدار نے عرض کی کہ چودھری حاکم دین ملازم بورڈنگ ہیں فرمایا آنے دو.آپ اندر چلے گئے اور زچگی کی تکلیف کا ذکر کیا آپ اندر جا کر ایک کھجور لے آئے اور اس پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور چودھری صاحب کو دے کر فرمایا یہ اپنی بیوی کو کھلا دیں اور جب بچہ ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.تھوڑی دیر بعد بچی پیدا ہوگئی.چودھری صاحب نے سمجھا کہ اب دوبارہ حضرت صاحب کو جگانا مناسب نہیں اس لئے سو رہے.صبح کی ندا کے وقت وہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت مولوی صاحب اس وقت وضو کر رہے تھے.چودھری صاحب نے عرض کیا.کھجور کھلانے 239

Page 240

کے بعد بچی پیدا ہوگئی تھی آپ نے فرمایا کہ بچی پیدا ہونے کے بعد تم میاں بیوی آرام سے سو رہے اگر مجھے بھی اطلاع دے دیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا.میں تمام رات تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا.“ (حیات نور از شیخ عبدالقادر سابق سوداگر مل صفحه 642 ) چوہدری غلام محمد صاحب بی.اے کا بیان ہے کہ: 1909ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ لگا تار آٹھ روز بارش ہوتی رہی جس سے قادیان کے بہت سے مکانات گر گئے حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے قادیان سے باہر نئی کوٹھی تعمیر کی تھی وہ بھی گر گئی.آٹھویں یا نویں دن حضرت امام جماعت الاول نے ظہر کی نماز کے بعد فرمایا کہ میں دعا کر تا ہوں آپ سب لوگ آمین کہیں.دعا کے وقت بارش بہت زور سے ہو رہی تھی.اس کے بعد بارش بند ہو گئی اور عصر کی نماز کے وقت آسمان بالکل صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی.“ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم: حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حیات نور از شیخ عبدالقادر سوداگر مل صفحه 440-441 ) ”ایک دفعہ مجھے رؤیا ہوا کہ نبی کریم ملالہ نے مجھے اپنی کمر پر اس طرح اٹھا رکھا ہے جس طرح چھوٹے بچوں کو مشک بناتے ہوئے اٹھاتے ہیں پھر میرے کان میں کہا: تو ہم کو محبوب ہے.“ آنحضرت صل الله 66 (حیات نور از شیخ عبدالقادر سوداگر مل صفحه 519-520 ) حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:...کامل انسان اللہ تعالیٰ کا سچا پرستار بندہ تھا اور ہماری اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا.ان کے سوا الہی رضا ہم معلوم نہیں کر سکتے اور اسی لئے فرمایا: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله فَاتَّبِعُوا نِي يُحْبِبْكُمُ الله - جس طرح پر اس نے اپنے غیب اور اپنی رضا کی راہیں محمد رسول اللہ متعلقہ کے ذریعے ظاہر کی ہیں اسی طرح پر اب بھی اس کی غلامی میں وہ ان تمام امور کو ظاہر فرماتا ہے.اگر کوئی انسان اس وقت ہمارے درمیان ،آدم، نوح، ابراہیم موسیٰ، عیسی، داؤد، محمد، احمد ہے تو محمد صلی اللہ ہی کے ذریعہ سے ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی چادر کے نیچے ہو کر ہے.کوئی راہ اگر اس وقت کھلتی ہے اور کھلی ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہو کر ورنہ یقیناً یقینا سب راہیں بند ہیں.کوئی شخص براہِ راست اللہ تعالیٰ سے فیضان حاصل نہیں کر سکتا.“ حضرت حقائق الفرقان جلد 1 صفحہ 463 ) ت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله راست باز آدمی کو سچائی میں کس قدر طاقت دی جاتی ہے اور کہ راستی میں کتنی قوت ہوتی ہے اس کا اندازہ اس آیت سے ہو سکتا ہے.دیکھو محمد رسول اللہ مطلقہ کو ارشاد ہے کہ اعلان کر دو میں نے خدا کی فرمانبرداری کر کے یہ مقام حاصل کیا اب تم میرے پیچھے پیچھے چلو تم بھی خدا کے محبوب بن جاؤ گے.ہر شخص کی زندگی کا آرام اس بستی کے مقتدر کی مہربانی سے وابستہ ہوتا ہے.پھر اس گاؤں کے نمبردار سے اوپر چلیں تو اس ضلع کے حاکم سے.پس اللہ جو ربّ، رحمن، رحیم اور مالک ہے اس کے ساتھ تعلق کس قدر سکھوں کا موجب ہو سکتا ہے.یہاں تعلق کا وعدہ نہیں بلکہ فرمایا خدا اپنا محبوب ہمیں بنا لے گا.خدا پرست دیکھ کر اسے 240

Page 241

تجربہ کرلے.کیا مجرب نسخہ ہے! میں اکثر اوقات اس آیت کو پڑھ کے بے اختیار نبی کریم کرتا ہوں.پر درود بھیجا لڑکے پڑھنے میں سخت محنت کرتے ہیں یہاں تک کہ انہیں سل اور دق ہو جاتا ہے تا بی.اے بن جائیں اور پھر کوئی مرتبہ پائیں.اب دیکھئے پاس ہونا موہوم صحت موہوم، مرتبہ ملنے تک زندہ رہنا خیالی بات، باوجود اس کے لڑکے محنت کئے جاتے ہیں.پس وہ انسان کیسا بدبخت ہے جو اس خدا کے پاک وعدے کی جو ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے کچھ قدر نہ کرے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ شریعت مشکل ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ا اعلان اعلان کرتے ہیں میری چال اختیار کرو.کوئی کہہ سکتا ہے کہ شریعت مشکل ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و کرتے ہیں میری چال اختیار کرو.کوئی کہہ سکتا ہے ہم بڑے گنہگار ہیں.فرماتا ہے میرے رنگ میں رنکین ہو جاؤ.میرے فرمانبردار بن جاؤ.اللہ وعدہ کرتا ہے گناہ بخش کر پھر بھی اپنا محبوب بنالیں گے کیونکہ ہمارا نام غفور، رحیم ہے.عشق قرآن حقائق الفرقان جلد 1 صفحہ 462 ) حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قرآن شریف کے ساتھ مجھ کو اس قدر محبت ہے کہ بعض وقت تو حروف کے گول گول دوائر مجھے الف محبوب نظر آتے ہیں اور میرے منہ سے قرآن کا ایک دریا رواں ہو تا ہے اور میرے سینہ میں قرآن کا ایک باغ لگا ہوا ہے.بعض وقت تو میں حیران ہو جاتا ہوں کہ کس طرح اس کے معارف بیان کروں.“ بیماری کے ایام اور درس قرآن کریم: دو (بدر 19 اکتوبر 1911ء صفحہ 3 کالم (2) پر مصنف حیات نور مکرم شیخ عبدالقادر سوداگر مل نے ان ایام کا نقشہ یوں کھینچا ہے: جب آپ رضی اللہ عنہ جنوری 1914ء کے شروع میں بیمار ہوئے تو باوجود بیماری اور کمزوری کے حسب معمول بیت اقصیٰ میں تشریف لے جا کر ایک توت کے درخت کا سہارا لے درس دیتے رہتے.گو رستہ میں چند مرتبہ ناتوانی کی وجہ سے قیام بھی کر لیتے تھے.جب کمزوری بہت بڑھ گئی اور بیت کی سیڑھیوں پر چڑھنا دشوار ہو گیا تو بعض دوستوں کے اصرار پر مدرسہ احمدیہ کے صحن میں درس دینا شروع فرما دیا.ان ایام میں آپ رضی اللہ عنہ نقاہت کی وجہ سے دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر تشریف لے جاتے تھے اور اس طریق واپس تشریف لے جاتے تھے مگر جب ضعف اور بھی بڑھ گیا اور دوسروں کے سہارے بھی چلنا مشکل ہو گیا تو اپنے صاحبزادہ میاں عبدالحی صاحب کے مکان میں درس دیتے رہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ کھڑے ہو کر درس دیا جائے مگر آخری دو تین ہفتے جب اٹھنے بیٹھنے کی طاقت نہ رہی اور ڈاکٹروں نے درس بند کر دینے کا مشورہ دیا تو فرمایا کہ ( کلام الہی) میری روح کی غذا ہے اس کے بغیر میرا زندہ رہنا محال ہے لہذا درس میں کسی حالت میں بھی بند نہیں کر سکتا غلالباً انہی ایام کا ذکر کرتے ہوئے الفضل لکھتا ہے.ضعف کا یہ حال ہے کہ بغیر سہارے کے بیٹھنا تو درکنار سر کو بھی خود نہیں تھام سکتے.اس حالت میں ایک دن 241

Page 242

فرمایا کہ بول تو میں سکتا ہوں خدا کے سامنے کیا جواب دوں گا درس کا انتظام کرو میں (کلام الہی ) سنا دوں.“ الفضل 18 فروری 1914 ء) میونسپل گزٹ لاہور نے 19 مارچ 1914 ء کو لکھا: "آپ رضی اللہ عنہ جیسا کہ زمانہ واقف ہے ایک بے بدل عالم زہد و اتقا کے لحاظ سے جماعت کے لئے تو واقعی ہی ایک پاکباز اور مسودہ صفات.تھے.وہ ہندوستان.میں ایک عالم متبحر و جید فاضل تھے.کلام اللہ سے جو آپ کو عشق تھا وہ غالباً بہت کم عالموں کو ہو گا اور جس طرح آپ نے عمر کا آخری حصہ احمدی جماعت پر صرف قرآن مجید کے حقائق و معارف آشکار فرمانے میں گزارا، بہت کم عالم اپنے حلقہ میں ایسا کرتے ہوئے پائے گئے.اسلام کے متعلق آپ نے نہایت تحقیق و تدقیق سے کئی کتابیں لکھیں اور معترضین کو دندان شکن جواب دیئے.بہر حال آپ (رضی اللہ عنہ ) کی وفات جماعت کے لئے ایک صدمہ عظیم اور عام طور پر اہل اسلام کے لئے بھی کچھ کم افسوسناک نہیں.“ (روز نامہ الفضل 19 مارچ 1914 ء ، 26 مئی 1991 قدرت ثانیہ نمبر) احباب جماعت سے تعلق: احباب جماعت کے بارے میں ایک مرتبہ اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ: ”میری آرزو ہے کہ میں تم میں ایسی جماعت دیکھوں جو اللہ تعالیٰ کی محبت ہو.اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد کی متبع ہو.قرآن سمجھنے والی ہو.میرے مولیٰ نے بلا امتحان اور بغیر مانگنے کے بھی مجھے عجیب عجیب انعامات دیئے ہیں.جن کو میں گن بھی نہیں سکتا.وہ ہمیشہ میری ضرورتوں کا آپ ہی کفیل ہوا ہے.وہ مجھے ہے ا اور آپ ہی کھلاتا ہے.وہ مجھے کپڑا پہناتا ہے اور آپ ہی پہناتا ہے.وہ مجھے آرام دیتا ہے اور آپ ہی آرام دیتا ہے.اس نے مجھے بہت سے مکانات دیئے ہیں.بیوی بچے دیئے.مخلص اور سچے دوست دیئے.اتنی کتابیں دیں کہ دوسرے کی عقل دیکھ کر ہی چکر کھا جائے.“ کھانا کھلاتا حیات نور از شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل صفحه 470 ) جماعت کی طرف سے اپنے امام سے بے پناہ خلوص و محبت کا اظہار : حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کے گھوڑے سے گرنے کا واقعہ پوری جماعت کے لئے ایک دل ہلا دینے والا حادثہ تھا جس نے سب ہی کو تڑپا دیا اور جوں جوں دوستوں کو یہ خبر پہنچی وہ دیوانہ وار اپنے محبوب آقا کی عیادت کے لئے کھچے چلے آئے.بیمار پرسی کے لئے ہر طرف سے بکثرت خطوط پہنچنے لگے.اور جماعت کے چھوٹے بڑے سب دعاؤں میں مصروف ہو گئے اور جماعتی رنگ میں بھی دعائے خاص کی مسلسل تحریکیں ہونے لگیں.کئی دوستوں نے اصرار کیا کہ مرکز سے روزانہ بذریعہ کارڈان کو اطلاع دی جائے چنانچہ اس کا اہتمام بھی کیا گیا.غرضکہ مخلصین جماعت نے خلیفہ وقت سے اس موقع پر جس فدائیت و شیدائیت کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ تھا.حکیم محمد حسین صاحب قریشی نے ایک روز جناب باری میں عرض کی کہ اے مولیٰ! حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی کی ضرورتیں تو مختص المقام تھیں.اور اب تو ضرورتیں جو درپیش ہیں ان کو بس تو ہی جانتا ہے.ہماری دعا قبول کر اور ہمارے امام کو نوح علیہ السلام کی سی عمر عطا کر.محمد حسین صاحب (لائل پور) نے دعا کی کہ حضرت صاحب کی بیماری مجھ کو آجائے اسی طرح سید ارادت حسین 242

Page 243

صاحب مونگھیری نے اپنی دعا میں جناب باری سے التجا کی میری عمر دو سال کم ہو کر حضرت صاحب کو مل جائے ان دعاؤں کے علاوہ دوستوں نے صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کیا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا.یہ خوشی کی بات ہے کہ بیماری کے ایام میں جماعت اللہ کی طرف متوجہ ہے.ادا کیا.اس موقع پر احمدی ڈاکٹروں نے بھی علاج معالجہ میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جس پر حضرت نے خاص طور پر شکریہ ہمدردی خلق: ( تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 330-331 ) مکرم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب چغتائی ماڈل ٹاؤن لاہور تحریر فرماتے ہیں: آپ رضی اللہ عنہ بے حد فیاض اور ہمدرد بنی نوع بشر تھے.شاگردوں سے بہت اُنس تھی.اپنے پاس سے طلبا کو کتابیں کپڑے اور کھانا دیتے تھے.نذرانہ آتا تو اکثر دوستوں اور شاگردوں اور خدام میں بانٹ دیتے تھے.ایک دفعہ آپ کے ایک شاگرد نے عرض کی.گرم کپڑا نہیں ہے حضرت نے اپنے اوپر ایک دھہ لیا ہوا تھا فوراً اُتار کر دے دیا.“ تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 543 ) ایک صاحب الفضل مؤرخہ 19 مئی 1949ء میں لکھتے ہیں.حضرت اماں جی حرم حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ ایک روز حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کشمیری ڈھٹہ (کمبل) آیا.آپ رضی اللہ عنہ نے وہ کمبل کسی ضرورت مند کو دے دیا.اس روز کئی کمبل آئے اور سب کے سب آپ رضی اللہ عنہ نے تقسیم کر دیئے.ایک کمبل آیا تو مجھے خیال آیا کہ گھر کے لئے بھی ایک کمبل رہنا چاہئے.میں نے کہا یہ کمبل آپ کسی کو نہ دیں.آپ نے وہ کمبل مجھے دے دیا اور فرمایا کہ: ” ہم تو اپنے مولیٰ سے سودا کر رہے تھے.وہ بھیجتا تھا اور ہم کسی حاجت مند کو دے دیتے تھے.تم نے ہمارا سودا خراب کر دیا.اب کوئی کمبل نہ آئے گا.چنانچہ اس کے بعد وہ سلسلہ بند ہو گیا.“ حیات نور صفحه 522 از شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل) سائل کے سوال کو آپ رضی اللہ عنہ نے کبھی رد نہیں فرمایا.حاجی مفتی عبدالرؤف صاحب بھیروی کا بیان ہے.جو چیز آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آتی وہ تقسیم کر دیتے تھے.ایک حاجت مند آیا کہ لڑکی کی شادی کرنی ہے مگر کوئی پیسہ میرے پاس نہیں.آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کتنے پیسوں میں گزارا ہو جائے گا.اس نے اڑھائی سو روپے بتائے فرمایا بیٹھ جائیں.چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ مریضوں کے ہاتھ دیکھتے رہے.ظہر کے وقت اٹھنے لگے اور کپڑا اٹھایا گنتی کی گئی.پورے اڑھائی سو روپے نکلے جو اس غریب کو دے دیئے گئے.ایک شخص نے ایک مصلیٰ آپ رضی اللہ عنہ کو تحفہ دیا.آپ رضی اللہ عنہ نے وہ رکھ لیا اور ایک خادمہ کو بلوایا اور فرمایا تم جائے نماز مانگتی تھی خدا نے بھیج دیا ہے یہ اٹھا لے جاؤ.“ تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 544 ) آپ رضی اللہ عنہ عیدین کے موقع پر قادیان کے مستحق امداد لوگوں کے نام لکھ کر بچوں اور بالغوں کے لئے کپڑوں کو ٹانک کر کچھ نقدی کے ہمراہ بھجوا دیا کرتے تھے ایک دن عید میں جب کپڑے تقسیم کئے گئے تو ایک نے کہا کہ میرا پاجامہ اور جوتی نہیں.آپ رضی اللہ عنہ نے ایک طالب علم سے چادر لی اور پاجامہ اور 243

Page 244

جوتی نکال کر دے دی اور ننگے پاؤں گھر چلے گئے.عید کے لئے بلانے والا بار بار آرہا تھا.اتنے میں سرخ کھال کی جوتی اور کپڑے لاہور سے آپ رضی اللہ عنہ کو پہنچے تب آپ رضی اللہ عنہ نماز کے لئے تشریف لے گئے.حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 544 ) آپ رضی اللہ عنہ کا نام نامی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ ہے.آپ رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے ہیں.12 جنوری 1899 ء کو بہت ساری الہی بشارات کے تحت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے.آپ رضی اللہ عنہ ہی مصلح موعود تھے.آپ رضی اللہ عنہ 14 مارچ 1914 ء کو جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ منتخب ہوئے.آپ رضی اللہ عنہ کا دورِ مبارک 52 سال پر محیط تھا.تمام ذیلی تنظیموں کا آغاز آپ رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں ہوا.آپ رضی اللہ عنہ نے 87 نومبر 1965 ء کی درمیانی شب وفات پائی اور 9 نومبر 1965 ء کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.تعلق بالله : حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”جب میں گیارہ سال کا ہوا اور 1900 ء نے دنیا میں قدم رکھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں، اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے؟ میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا.آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے.وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی جس طرح ایک بچے کو اس کی ماں مل جائے تو اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا.سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا.میں اپنے جامہ میں پھولا نہیں سماتا تھا.میں نے اسی وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو.اس وقت میں گیارہ سال کا تھا.مگر آج بھی اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.میں آج بھی یہی کہتا ہوں خدایا تیری ذات کے متعلق مجھے کبھی شک پیدا نہ ہو.ہاں اس وقت میں بچہ تھا.اب مجھے زائد تجربہ ہے.اب میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو.جب میرے دل میں خیالات کی وہ موجیں پیدا ہونی شروع ہو میں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے تو ایک دن ضحی کے وقت یا اشراق کے وقت میں نے وضو کیا اور وہ جبہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ وست با میں نے وضو اور وہ جو اس سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور متبرک ہے یہ پہلا احساس میرے دل میں خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے مقدس ہونے کا تھا، بہن لیا تب میں نے اس کوٹھڑی کا جس میں میں رہتا تھا دروازہ بند کرلیا اور کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی اور میں اس میں خوب رویا خوب رویا، خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا.اس گیارہ سال کی عمر میں مجھ میں کیسا عزم تھا! اس اقرار کے بعد میں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی گو اس نماز کے بعد کئی سال بچپن کے ابھی باقی تھے میرا وہ عزم میرے آج کے ارادوں کو شرماتا ہے.“ (سوانح فضل عمر جلد 1 صفحہ 96-97 ) 244

Page 245

السلام : پر یہی تعجب شیخ غلام احمد صاحب واعظ رضی اللہ عنہ کے دل میں بھی پیدا ہوا جو ایک نو مسلم تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ کے ہاتھ پر اسلام میں داخل ہوئے تھے اور اخلاص اور ایمان میں ایسی ترقی کی کہ نہایت عابد و زاہد اور صاحب والہام بزرگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے.شیخ غلام احمد صاحب واعظ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ: ”ایک دفعہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ آج کی رات مسجد مبارک میں گزاروں گا، اور تنہائی میں اپنے مولا سے جو چاہوں گا، مانگوں گا مگر جب میں مسجد میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحاح سے دعا کر رہا ہے.اس کے اس الحاح کی وجہ سے میں نماز بھی نہ پڑھ سکا اور اس شخص کی دعا کا اثر مجھ بھی طاری ہو گیا اور میں بھی دعا میں محو ہو گیا، اور میں نے دعا کی کہ یا الہی! یہ شخص تیرے حضور سے جو کچھ بھی مانگ رہا ہے وہ اس کے دے دے اور میں کھڑا کھڑا تھک گیا کہ یہ شخص سر اٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آئے ہوئے تھے مگر جب آپ نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں محمود احمد صاحب ہیں.میں نے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا اور پوچھا میاں ! آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تو یہی مانگا ہے کہ الہی! مجھے میرے آنکھوں سے اسلام کو زندہ کر کے دکھا اور یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے.“ (سوانح فضل عمر جلد 1 صفحه 151 ) قبولیت دعا: حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: ”میرے دفتر میں ایک سکھ دوست جو قصبہ فتح گڑھ چوڑیاں ضلع گورداسپور کے قریب کے ایک گاؤں لالے منگل کے رہنے والے ہیں تشریف لائے انہوں نے بتایا (میں) تقسیم ملک سے قبل ایک مرتبہ قادیان آیا جمعہ کا دن تھا اور قادیان میں بارش ہو رہی تھی حضرت صاحب ( حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ) جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر، بیت اقصیٰ سے اپنے گھر تشریف لے جانے لگے تو میں نے عرض کی کہ قادیان میں تو بارش ہو رہی ہے لیکن میرے گاؤں میں سخت گرمی ہے اور وہاں بارش نہ ہونے کے سبب فصلوں کو بہت نقصان ہو رہا ہے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمارے گاؤں پر بھی بارش نازل فرمائے وہ کہتے ہیں جب میں نے عرض کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قادر ہے اور میں بھی دعا کروں گا اس کے بعد جب میں اپنے گاؤں واپس پہنچا تو وہاں بارش ہو رہی تھی اور جو فصلیں بارش نہ پڑنے کی وجہ سے تباہ ہو رہی تھیں وہ پھر ہری بھری ہو گئیں.(الفضل 16 مارچ 1958 صفحہ 5 ) سید اعجاز احمد شاہ صاحب لکھتے ہیں: 1951 ء کا واقعہ ہے کہ میں ربوہ میں تھا مجھے برادر خورد عزیزم سید سجاد احمد صاحب کی طرف سے جڑانوالہ سے تار ملا والد صاحب کی حالت نازک ہے جلدی پہنچوں نماز مغرب کے قریب مجھے تار ملا.مغرب کی نماز میں نے حضرت صاحب (حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ) کی اقتدا میں گھبراہٹ کے عالم میں ادا کی.آپ رضی اللہ عنہ نماز پڑھا کر واپس تشریف لے جانے لگے تو میں نے عرض کیا: ”جڑانوالہ سے چھوٹے بھائی کا تار ملا ہے ابا جی کی حالت نازک ہے کل صبح جاؤں گا آپ دعا کریں.آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اچھا دعا 245

Page 246

کروں گا آپ رضی اللہ عنہ کے ان چار لفظوں میں وہ سکینت تھی کہ بیان سے باہر ہے.اگلی صبح کو جڑانوالہ پہنچا تو والد صاحب محترم چار پائی پر حسب معمول پان چبا رہے تھے.بھائی سے شکوہ کیا کہ تم نے خواہ مخواہ تار دے کر پریشان کیا تو اس نے کہا کہ کل مغرب کے بعد ابا جی کی حالت معجزانہ طور پر اچھی ہونی شروع ہوئی اور خطرہ سے باہر ہوئی ورنہ مغرب سے پہلے سب علاج بے کار ثابت ہو کر حالت خطره والی، از حد تشویش ناک تھی پھر میں نے بتایا کہ میں نے کل مغرب کے بعد حضرت صاحب سے دعا کے لئے عرض کیا تھا یہ اسی کی (الفضل 17 اپریل 1966 ءصفحہ 4 ) برکت ہے.“ مکرم فتح محمد صاحب مٹھیانی ربوہ لکھتے ہیں: 1921-22 ء میں جب میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے احمدیت کی نعمت سے مشرف ہوا اور میرے ساتھ ہی ہمارے گاؤں مٹھیانہ ضلع ہوشیار پور کے چار اور آدمی بھی احمدیت کے حلقہ بگوش ہو گئے تو گاؤں بلکہ علاقہ بھر میں ہماری مخالفت شروع ہو گئی جگہ جگہ ہمارے خلاف چرچا ہونے لگا.بحث مباحثہ ہوتا رہتا تھا اور اختلافی مسائل پر گفتگو شروع رہتی جب ہمارے اعتراضات کا جواب دینے سے عاجز آگئے اور اپنے عقائد کی کمزوری ان کو نظر آنے لگی تو گاؤں کے بوڑھوں نے یوں کہنا شروع کر دیا ” کیا ہوا کہ یہ لوگ مرزائی ہو گئے ہیں ان کو ملتی تو لڑکیاں ہی ہیں؟ اتفاق سے ہم پانچوں کے ہاں جو کہ اس وقت احمدی ہوئے تھے لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں ، نرینہ اولاد کسی ایک کے پاس بھی نہ تھی.اس بات کا میرے دل پر بڑا صدمہ ہوا اور میں اسی صدمہ کے زیر اثر اپنے پیارے امام (حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ) کے حضور نہایت عاجزی سے درخواست کی کہ ہم سب کے ہاں نرینہ اولاد ہونے کی دعا کریں تا اس بارہ میں بھی مخالفین کے منہ بند ہو جائیں.حضرت صاحب نے جواب دیا کہ خداوند تعالیٰ آپ سب کو نرینہ اولاد دے گا چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کی دعا سے خداوند تعالیٰ نے ہم سب کو نرینہ اولاد سے نوازا اور اس رنگ میں نوازا کہ ہم اس کے حضور سجدہ تشکر بجا لائے.“ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم: الفضل 28 اپریل 1966ء صفحہ 4 ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت صتلاقہ کی ہتک کرتے ہیں.اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد رسول اللہ صل اللہ کے لئے ہے وہ کیا جانے کہ محمد مطلقہ کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی ہے.وہ میری جان ہے، میرا دل ہے.میری مراد ہے، میرا مطلوب ہے اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ھفت اقلیم بیچ ہے.وہ خدا تعالیٰ کا پیا را ہے پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں اس سے کیوں محبت نہ کروں، وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اس کا قرب نہ تلاش کروں.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (سوانح فضل عمر جلد 5 صفحه 362 ) 246

Page 247

میں کسی خوبی کا اپنے لئے دعویدار نہیں ہوں.میں فقط خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمد رسول اللہ مالقہ کی شان کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے.اس سے زیادہ نہ مجھے کوئی دعوی ہے نہ مجھے کسی دعوی میں خوشی ہے.میری ساری خوشی اسی میں ہے کہ میری خاک محمد رسول اللہ مطلقہ کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آجائے اور اللہ تعالیٰ مجھے پر راضی ہو جائے اور میرا خاتمہ رسول کریم کے دین کے قیام کی کوشش پر ہو.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (الموعود صفحه 66 و 67 ) اس دن (عید کے دن) خدا تعالیٰ نے ہمیں خوش ہونے کا حکم دیا ہے اور ہم خوشی منانے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے دلوں کو چاہئے کہ روتے رہیں کہ ابھی محمد رسول اللہ ملالہ اور اسلام کی عید نہیں آئی.محمد رسول اللہ صل اللہ اور اسلام کی عید سویاں کھانے سے نہیں آتی نہ شیر گرما کھانے سے آتی ہے بلکہ ان کی عید قرآن اور اسلام کے پھیلنے سے آتی ہے.اگر قرآن اور اسلام پھیل جائیں تو ہماری عید میں محمد رسول اللہ صلی اللہ بھی شامل ہو جائیں گے.پس کوشش یہی کرو کہ اسلام کی اشاعت ہو، قرآن کی اشاعت ہو تا کہ ہماری عید میں محمد رسول اللہ بھی شامل ہوں.اگر آج کی عید محمد رسول اللہ ملالہ کی بھی عید ہے تو پھر سارے مسلمانوں کی عید ہے.لیکن اگر آج کی عید میں محمد رسول اللہ صلی اللہ شامل نہیں تو پھر آج سارے مسلمانوں کے لئے عید نہیں بلکہ ان صلى الله کے لئے ماتم کا دن ہے.66 (سوانح فضل عمر جلد 5 صفحہ 32-33 ) عشق قرآن: قرآن مجید سے تعلق اور محبت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: " ہم نے صرف قرآن کے لفظوں کو نہیں دیکھا بلکہ ہم خود اس کی محبت کی آگ میں داخل ہوئے اور وہ ہمارے وجود میں داخل ہو گئی.ہمارے دلوں نے اس کی گرمی کو محسوس کیا اور لذت حاصل کی.ہماری حالت اس شخص کی نہیں جو دیکھتا ہے کہ بادشاہ باغ کے اندر گیا ہے اور وہ باہر کھڑا اس بات کا انتظار کرتا ہے کہ کب بادشاہ باہر نکلے تو میں اس کی دست بوسی کر وں بلکہ ہم نے خود بادشاہ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور باغ کے اندر داخل ہوئے اور روش روش پھرے اور پھول پھول کو دیکھا.خدا تعالیٰ نے ہمیں وہ علوم عطا فرمائے ہیں کہ جن الله کی روشنی میں ہم نے دیکھ لیا کہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے اور محمد رسول اللہ صل ایک زندہ رسول ہے.“ الفضل 16 ابريل 1924 ء ) حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اپنی شہرہ آفاق تقریر ” سیر روحانی میں فرماتے ہیں: و پس اے دوستو! میں اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان خزانے سے تمہیں مطلع کر تا ہوں.دنیا کے تمام علوم اس کے مقابلہ میں بیچ ہیں.دنیا کی تمام تحقیقا تیں اس کے مقابلہ میں بیچ ہیں اور دنیا کی تمام سائنس اس کے مقابلہ میں اتنی حقیقت بھی نہیں رکھتی جتنی سورج کے مقابلہ میں ایک کرم شب تاب حقیقت رکھتا ہے.دنیا کے علوم قرآن کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں.قرآن ایک زندہ خدا کا زندہ کلام ہے اور وہ غیر محدود معارف و حقائق کا 247

Page 248

حامل ہے.یہ قرآن جیسے پہلے لوگوں کے لئے کھلا تھا اسی طرح آج ہمارے لئے کھلا آج جبکہ دنیا کے علوم میں ترقی ہو رہی ہے یہ پھر بھی کھلا ہے بلکہ جس طرح دنیوی علوم میں آج کل زیادتی رہی ہے اسی طرح قرآنی معارف بھی آج کل نئے سے نئے نکل رہے ہیں.ہمیشہ ہی جو حضرت (بانی ہو پروا سلسلہ احمدیہ) نے تقسیم کئے اور یہی وہ خزائن ہیں جو آج ہم تقسیم کر رہے ہیں.دنیا اگر حملہ کرتی ہے تو میں، وہ دشمنی کرتی ہے تو سو بار کرے، وہ عداوت و عناد کا مظاہرہ کرتی ہے تو لاکھ بار کرے.ہم انہیں کہتے ہیں کہ تم بے شک ہمارے سینوں میں خنجر مارے جاؤ.اگر ہم مرگئے تو یہ کہتے ہوئے مریں گے کہ ہم محمد رسول کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے مارے گئے اور اگر جیت گئے تو یہ کہتے ہوئے جیتیں گے کہ ہم نے محمد علاقہ کا جھنڈا دنیا میں بلند کر دیا.“ الله صلى الله (سیر روحانی صفحه 95 ) قرآن مجید سے گہری وابستگی اور قلبی لگاؤ اور قرآنی عظمت و شان بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے تو آج تک نہ کوئی ایسی کتاب دیکھی اور نہ مجھے کوئی ایسا آدمی ملا جس نے مجھے کوئی ایسی بات بتائی جو قرآن کریم کی تعلیم سے بڑھ کر ہو یا قرآن کریم کی کسی غلطی کو ظاہر کر رہی ہو یا کم از کم قرآن کریم کی تعلیم کے برابر ہی ہو.محمد صل اللہ جس کے سامنے تمام علوم بیچ ہیں.چودھویں صدی علمی ترقی کے لحاظ سے ایک ممتاز صدی ہے.اس میں بڑے بڑے علوم نکلے.بڑی بڑی ایجادیں ہوئیں اور بڑے بڑے سائنس کے عقدے حل ہوئے مگر یہ تمام علوم محمد ملاقہ کے علم کی گرد کو بھی نہیں پہنچ وو سکے 66 احباب جماعت سے تعلق: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: الفضل 30 جون 1939 ء) ” میں دیانت داری سے کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کے لئے جو اخلاص اور محبت میرے دل میں میرے اس مقام پر ہونے کی وجہ سے جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے، ہے اور جو ہمدردی اور رحم میں اپنے دل میں پاتا ہوں وہ نہ باپ کو بیٹے سے ہے اور نہ بیٹے کو باپ سے ہو سکتا ہے.پھر میں اپنے دل کی محبت پر انبیاء کی محبت کو قیاس کرتا ہوں جیسے ہم جگنو کی چمک پر سورج کو قیاس کر سکتے ہیں تو میں ان کی محبت اور اخلاص کو حد سے بڑھا ہوا پاتا ہوں.66 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: الفضل 4 اپریل 1924 ، صفحہ 7 " کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے.کوئی بھی فرق نہیں.لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا ، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا ، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے.248

Page 249

مگر ان کے لئے نہیں ہے.تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہار ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے.کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں.پس تمہاری آزادی میں تو کوئی فرق نہیں آیا ہاں تمہارے لئے ایک تم جیسے ہی آزاد پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہو گئی ہیں.“ (برکات خلافت انوار العلوم جلد 2 صفحہ 156 ) حضرت خلیفہ لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے ایک ایسی جماعت کا انتظام سپر د کیا ہے جس کی نسبت اگر میں یہ کہوں کہ وہ میری آواز پر کان نہیں رکھتی تو یہ ایک سخت ناشکری ہوگی.میری بات کی طرف توجہ کرنا تو ایک چھوٹی سی بات ہے میں دیکھتا ہوں کہ بہت ہیں جو میرے اشارے پر اپنی جان اور اپنا مال اور اپنی ہر عزیز چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.والحمد للہ علی ذالک.اور اس اخلاص بھری جماعت کو مخاطب کرتے وقت میرا دل اس یقین سے پر ہے کہ وہ فوراً اس نقص کو رفع کرنے کی کوشش کرے گی.جس کی طرف میں نے ان کو متوجہ کیا (سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ 85 ) حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ” مجھے ہمیشہ حیرت ہوا کرتی ہے اور میں اپنے دل میں کہا کرتا ہوں کہ الہی! تیری بھی عجیب قدرت ہے کہ تو نے کس طرح لوگوں کے دلوں میں میری نسبت محبت کے جذبات پیدا کر دئیے کہ جب کبھی سفر میں باہر جانے کا موقع ملے اور میں گھوڑے پر سوار ہوں تو ایک نہ ایک نوجوان حفاظت اور خدمت کے خیال سے میرے گھوڑے کے ساتھ پیدل چلتا چلا جاتا ہے اور جب میں گھوڑے سے اُترتا ہوں تو وہ فوراً آگے بڑھ کر میرے پاؤں دبانے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے حضور تھک گئے ہوں گے.میں خیال کرتا ہوں کہ میں تو گھوڑے پر سوار آیا اور یہ گھوڑے کے ساتھ پیدل چلتا آیا مگر اس محبت کی وجہ سے جو اسے میرے ساتھ ہے اس کو یہ خیال ہی نہیں آتا کہ یہ تو گھوڑے پر سوار تھے یہ کس طرح تھکتے ہوں گے.وہ یہی سمجھتا ہے کہ گویا گھوڑے پر وہ سوار تھا اور پیدل میں چلتا آیا.چنانچہ میرے اصرار کرنے کے باوجود کہ میں نہیں تھکا میں تو گھوڑے پر آ رہا ہوں.وہ یہی کہتا چلا جاتا ہے کہ نہیں حضور تھک گئے ہوں گے.مجھے خدمت کا موقع دیا جائے اور پاؤں دبانے لگ جاتا ہے.ہمدردی خلق: 66 حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پر الفضل : 15 - مارچ 1938 ء صفحہ 4 ) میں دیانت داری سے کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کے لئے جو اخلاص اور محبت میرے دل میں میرے اس مقام پر ہونے کی وجہ سے ہے جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اور جو ہمدردی اور رحم میں اپنے دل میں پاتا ہوں وہ 66 نہ باپ کو بیٹے سے ہے اور نہ بیٹے کو باپ سے ہو سکتا ہے.“ (سوانح فضل عمر جلد 5 صفحه 111 ) " میں کسی کا بھی دشمن نہیں گو ساری دنیا میری دشمن ہے مگر مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں.اس میں میرے لئے 249

Page 250

خدا تعالیٰ کے عفو اور غفران کی علامت ہے کیونکہ جو کسی کا دشمن نہ ہو پھر بھی اس سے دشمنی کی جائے تو خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخشنے کیلئے تیار ہوتا ہے.“ 66 سیرت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی : (سوانح فضل عمر جلد 5 صفحه 111 ) حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کا نام حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی پہلی بیوی حضرت محمودہ بیگم صاحبہ کے بطن مبارک سے 16 نومبر 1909ء کو پیدا ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے بیٹے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ حافظ قرآن تھے.1974 ء میں قومی اسمبلی میں جماعت کے خلاف ہونے والے فیصلے میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی طرف سے دندان شکن جواب دیئے.حضرت خلیفة أسبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ 9 نومبر 1965ء کو جماعت احمدیہ کے تیسرے امام اور خلیفہ اسیح الثالث منتخب ہوئے.26 مئی 1982 ء کو تھوڑی سی علالت کے بعد اسلام آباد پاکستان میں وفات پاگئے آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.تعلق باللہ: حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے تعلق باللہ کے بارے میں فرماتے ہیں: میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ جب ایک موقع پر ظالمانہ طور پر ہمیں بھی قید میں بھیج دیا گیا.گرمیوں کے دن تھے اور مجھے پہلی رات اس تنگ کوٹھڑی میں رکھا گیا جس میں ہوا کا کوئی گزر نہیں تھا اور اس قسم کی کوٹھڑیوں میں ان لوگوں کو رکھا جاتا ہے جنہیں اگلے دن پھانسی پر لٹکایا جانا ہو.زمین پر سوتا تھا.اوڑھنے کے لئے ایک بوسیدہ کمبل تھا اور سرہانے رکھنے کے لئے اپنی اچکن تھی.بڑی تکلیف تھی.میں نے اس وقت دعا کی کہ اے میرے رب! میں ظلم کر کے ، چوری کر کے، کسی کی کوئی چیز مار کر یا غصب کر کے یا کوئی اور گناہ کر کے اس کوٹھڑی میں نہیں پہنچا.میں اس جگہ اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ جہاں تک میرا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ میں تیرے نام کو بلند کرنے والا تھا.میں اس جماعت میں شامل تھا جو تو نے اس لئے قائم کی ہے کہ نبی اکرم صل اللہ کی محبت دلوں میں پیدا کی جائے.میرے رب! مجھے یہاں آنے سے کوئی تکلیف نہیں، مجھے کوئی شکوہ نہیں، میں کوئی گلہ نہیں کرتا، میں خوش ہوں کہ تو نے مجھے قربانی کا ایک موقع دیا ہے اور میری اس تکلیف کی میری اپنی نگاہ میں بھی کوئی حقیقت اور قدر نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میں اس جگہ جہاں ہوا کا گزر نہیں سو نہیں سکوں گا.میں یہ دعا کر رہا تھا اور میری آنکھیں بند تھیں.میں بلا مبالغہ آپ کو بتاتا ہوں کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے نزدیک ایک ایئر کنڈیشنر (Air Conditionar) لگا ہوا ہے اور اس سے ایک نہایت ٹھنڈی ہوا نکل کر پڑنی شروع ہوئی اور میں سو گیا.غرض ہر دکھ کے وقت، ہر مصیبت کے وقت میں جب منصوبے بنائے گئے ان اوقات میں اللہ تعالیٰ کا پیار آسمان سے آیا اور اس نے ہمیں اپنے احاطہ میں لے لیا اور ہمیں تکلیفوں اور دکھوں سے بچایا اور اسی لذت اور سرور کے سامان پیدا کئے کہ دنیا اس سے ناواقف ہی نہیں 250

Page 251

اس کی اہل بھی نہیں ہے.“ (حیات ناصر - صفحہ 173-174 ) خلافت کے زمانہ میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ نے کالج کا ذکر کرتے ہوئے خدا تعالی کی غیرت کا ایک واقعہ بیان فرمایا جو درج ذیل ہے: خدا تعالیٰ اس جماعت کے جو چھوٹے چھوٹے شعبے ہیں ان کے لئے بڑی غیرت دکھاتا ہے.ابھی میرے طور پر دوبارہ سفر یورپ پر جانے سے پہلے اس خاندان کا ایک آدمی آیا جس کے بارہ میں بتایا کرتا ہوں کہ ان کا بڑا ہوشیار لڑکا تھا.TOP کے نمبر لئے میٹرک میں.ہمارا کالج لاہور میں تھا.اس کے والد کو میں ذاتی جانتا تھا.وہ لڑکا ہمارے کالج میں داخل ہو گیا.میں نے بڑے پیار سے اسے داخل کیا.وہ میرے دوست کا بچہ تھا جو سیالکوٹ کے ایک گاؤں کے رہنے والے اور زمیندار تھے.اس کے چند رشتہ دار غیر مبائع تھے انہوں نے لڑکے کے باپ کا دماغ خراب کیا.اس سے کہنے لگے اتنا ہوشیار بچہ Superior Services کے Competition میں یہ پاس ہونے والا نہیں.تم یہ کیا ظلم کیا اپنے بچے کو جاکر احمدیوں کے کالج میں داخل کروا دیا.جس وقت یہ انٹرویو میں جائے گا.لوگوں کو یہ پتہ لگے گا یہ ٹی آئی کالج میں رہا ہے.اس کو لیں گے نہیں اور یہ دنیوی طور پر ترقی نہیں کر سکے گا.چنانچہ وہ میرے پاس آ گیا.میں خالی پرنسپل نہیں تھا اس کا ست بھی تھا.میرے دل میں اس کے بچے کے لئے بڑا پیار تھا.میں نے اس کو پندرہ بیس منٹ تک سمجھایا کہ اپنی جان پر ظلم نہ کرو خدا تعالیٰ بڑی غیرت رکھتا ہے جماعت احمدیہ اور اس کے اداروں کے لئے.تمہیں سزا مل جائے گی.خیر وہ سمجھ گیا اور چلا گیا.پھر انہوں نے بھڑکا یا پھر میرے پاس آ گیا.پھر میں نے سمجھایا پھر چلا گیا.پھر تیسری دفعہ جب آیا تو میں نے سمجھا اس کے باپ کو ٹھوکر نہ لگ جائے.میں نے کہا ٹھیک ہے میں دستخط کر دیتا ہوں مگر تمہیں یہ بتا دیتا ہوں کہ یہ لڑکا جس کے متعلق تم یہ خواب دیکھ رہے ہو کہ سپیرئر سروسز کے امتحان میں پاس ہو کر ڈی سی بنے گا.یہ ایف اے بھی نہیں پاس کر سکے گا.اس نے مائیگریشن فارم پر کیا ہوا تھا اتنے اچھے نمبر تھے کہ ٹی آئی کالج سے گورنمنٹ کالج اسے بڑی خوشی سے لے لیتا.چنانچہ میں نے اس کے فارم پر دستخط کئے اور وہ اسے لے کر چلے گئے.پھر مجھے شرم کے مارے ملا بھی نہیں.کوئی چار پانچ سال کے بعد مجھے ایک خط آیا جو شروع یہاں سے ہوتا تھا کہ میں آپ کو اپنا تعارف کرا دوں میں وہ لڑکا ہوں جس کے مائیگریشن فارم پر آپ نے دستخط کئے تو مجھے اور میرے باپ سے کہا تھا کہ میں ایف اے بھی نہیں پاس کر سکوں گا اور چار پانچ سال کا زمانہ ہو گیا ہے اور میں واقعی ایف اے پاس نہیں کر سکا پھر وہ تجارت میں لگ گیا.اب پھر مجھے ایک خط آیا جو اسی سفر میں ملا کہ میں اس کا بیٹا ہوں جس کو آپ نے یہ کہا تھا کہ تو ایف اے پاس نہیں کر سکے گا.پس خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ایک کالج اور اس کے ایک پرنسپل کے لئے اتنی غیرت دکھاتا ہے تو خلیفہ وقت کے لئے کتنی غیر دکھائے گا.“ حیات ناصر صفحہ 166-167 ) قبولیت دعا: حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مغربی افریقہ سے ایک خاتون نے مجھے لکھا کہ ہمیں شادی کئے 37 برس ہو چکے ہیں لیکن ہم اولاد کی نعمت 251

Page 252

سے محروم ہیں آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے باوجود اتنی عمر گزر جانے کے بھی اولاد کی نعمت سے نوازے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ بظاہر میں عمر کے ایسے دور میں داخل ہو چکی ہوں کہ اولاد کا ہونا ناممکن نظر آتا ہے میں نے اس کے لئے دعا شروع کی اور اللہ تعالیٰ نے میری دعاؤں کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے شادی کے 40 سال بعد اس کو لڑکا عطا فرمایا.الفضل 27 جولائی 1971 صفحہ 3 ) 66 حضرت امام جماعت الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں: ”ربوہ میں مجھے ایک شخص کا خط ملا کہ اس کے دو عزیزوں کو سزائے موت کا فیصلہ ہوا ہے اور اصل مجرم تو بچ گیا لیکن ہم جو مجرم نہیں انہیں سزا مل رہی ہے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا ہے بظاہر بچنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں.اب ہم رحم کی اپیل کر رہے ہیں آپ ہمارے لئے دعا کریں میں انہیں لکھا کہ میں دعا کروں گا خدا تعالیٰ بڑا ہی قادر اور رحیم ہے اس کے ہاں کوئی بات انہونی مایوس نہ ہوں.چند دنوں کے بعد مجھے ان کا خط ملا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے عدالت نے انہیں اس جرم سے بری الذمہ قرار دیا ہے.“ نہیں الفضل 31 اکتوبر 1967 ءصفحہ 3 ) فرینکفورٹ جرمنی کے ایک دوست کے ہاں پچھلے دس سال سے کوئی اولاد نہ تھی ڈاکٹروں نے یہ تشخیص کی کہ Uterus کے منہ پر کینسر کے آثار ہیں جس کے لئے اپریشن ضروری ہے مکرم خالد صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں دعا اور آپریشن کی اجازت کے لئے لکھا آپ نے فرمایا آپریشن ہرگز نہ کرائیں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا.وہاں کے چوٹی کے ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ بچہ پیدا ہونے کی 99 کوئی امید نہیں اور آپریشن کے نتیجہ میں جو ایک فیصد امید ہے وہ بھی جاتی رہے گی لیکن خدا کی قدرت دیکھیں کہ حضرت صاحب کی دعا سے ان کے ہاں بچی نے جنم لیا اور آپ نے اس بچی کا نام ”خولہ“ تجویز فرمایا.عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم: دو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: الفضل 25 جون 1971 ء صفحہ 2 ) صلى الله پیارے نبی ہمیشہ درود بھیجتے رہو.خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی اکرم پر ہر آن اور ہر لحظه درود اور سلام بھیج رہے ہیں.مظہر صفات الہیہ اور فرشتہ صفت بنو اور نبی پر ہمیشہ درود بھیجتے رہو تا اس کی برکت سے ہماری زبانوں سے حکمت و معرفت کی نہریں جاری ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: " جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کر نا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود پڑھے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو.“ (حیات ناصر.صفحہ 310 ) کالج کے زمانہ میں جب کہ آپ کا قیام تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں پرنسپل کی کوٹھی میں تھا اور قریب ہی سپرنٹنڈنٹ ہوٹل چودھری محمد علی صاحب رہتے تھے.راجہ غالب احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ جب 1963ء 1964ء میں ائیر فورس چھوڑ کر 252

Page 253

سیکنڈری بورڈ میں بطور ڈپٹی سیکرٹری پوسٹ ہوئے تو ربوہ تشریف لائے اور چودھری محمد علی صاحب کے پاس ٹھہرے.انہوں نے پرنسپل صاحب کی کوٹھی پر متعین پٹھان چوکیدار یا ملازم سے آپ کے شب و روز کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ آپ کا کیا پوچھتے ہیں.آپ تو سارا دن کام کر کے سخت تھک جاتے ہیں رات گئے تک کام کرتے رہتے ہیں اور پھر ڈرائنگ روم میں تہجد ادا کرتے ہیں اور مناجات کرنے اور خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑانے کی آوازیں باہر تک آتی ہیں.ذکر الہی کی آپ کو شروع سے ہی عادت تھی.اکثر اوقات آپ ایک طرف کا غذات پر دستخط فرما رہے ہوتے اور دوسری طرف دل میں خدا تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کر رہے ہوتے اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی صلاله پر درود و سلام نتیج رہے ہوتے.چنانچہ ایک مرتبہ اس امر کا اظہار آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے دوران ایک جلسہ سالانہ پر بھی کیا تھا اور فرمایا تھا کہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک بار پاس کھڑے ہوئے ہیڈ کلرک جنید ہاشمی صاحب کو بھی تحریک کی تھی کہ وہ کاغذات لے کر کھڑے ہیں اور دستخطوں کے دوران وہ بھی ذکر الہی کریں.عشق قرآن : حضرت خلیفۃ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حیات ناصر - صفحہ 217 ) قرآن جو ہمارے لئے ایک مکمل ہدایت ہے، قرآن جو خدائے واحد و یگانہ کی رحمانیت کو حرکت میں لاتا ہے، قرآن جو زبان اور اعمال کی کجیوں کو دور کرتا ہے، قرآن جب ہمارے دل میں اترتا اور ہماری زبان پر جاری ہو تا ہے تو اس کی برکت سے ہماری زندگی کی سب الجھنیں سلجھ جاتی ہے.قرآن خود کلید قرآن ہے.پس قرآن پڑھو، قرآن پڑھو.“ 66 حیات ناصر.صفحہ 310 ) حضرت خلیفۃ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قرآن کریم اتنی عظیم کتاب ہے کہ اس میں انسان کی تمام ضروریات کا حل موجود ہے.علمی لحاظ سے بھی اور عمل کر کے فائدہ اٹھانے کے لحاظ سے بھی.“ میں نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے دنیا کے چوٹی کے دانشوروں میں سے بعض کے ساتھ باتیں کی ہیں اور ہر ایک کو اس بات کا قائل کیا ہے کہ تمہارے علم کے متعلق بھی قرآن کریم ہمیں بنیادی حقیقت بتاتا ہے جیسے بعض دفعہ تم خود بھول جاتے ہو.مثلاً کیمسٹری (کیمیا) کا علم ہے.میں اس مضمون کا گریجوایٹ نہیں ہوں.نہ میں نے سکول میں کیمسٹری پڑھی ہے نہ کالج میں.لیکن ابھی پچھلے دنوں ایک احمدی طالب علم میری ملاقات ہوئی جو کیمسٹری میں پی.ایچ.ڈی کر رہا تھا.اس کو میں نے کیمیا کے متعلق بتانا شروع کیا اور جب یہ کہا کہ میں نے کیمیا کے متعلق قرآن کریم سے سیکھا ہے تو وہ حیران ہو کر میرا منہ دیکھنے لگا کیونکہ وہ حقیقت جو مختلف علوم کے اساتذہ کو معلوم نہیں وہ قرآن کریم ہمیں سکھاتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم بڑی عظیم کتاب ہے اور بڑی برکتوں والی کتاب ہے.“ بعض نادان لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں.چودہ سو سال پہلے کی کتاب ہے.آج کے مسائل کو کیسے حل کرے گی.خود میرے سامنے ہر قسم کے لوگ بات کرتے ہیں میں ایسے لوگوں سے کہا کر تا ہوں کہ چودہ سو سال پہلے جس خدا نے اس کتاب کو نازل کیا تھا وہ آج کے مسائل بھی جانتا تھا اس لئے یہ آج کے مسائل کو حل کر سکتی ہے اور کیسے حل کرے گی یہ تو ایک فلسفہ ہے.رہی حقیقت تو تم کوئی مسئلہ پیش کرو.میں اسے 253

Page 254

254 قرآن کریم سے حل کر کے بتا دیتا ہوں.کیونکہ اس کے اندر علوم کے دریا بہہ رہے ہیں.“ ”ہمارا ایک بڑا ذہین بچہ تھا.اس کو میں نے یہی مسئلہ سمجھایا اور بتایا کہ قرآن کریم کی رو سے اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کا ہر جلوہ ایک نئی شان کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے.وہ ایٹم کے بارہ میں مزید ریسرچ کرنے کیلئے حکومت جرمنی کے وظیفے پر جرمنی گیا تو وہاں اس نے اپنے پروفیسروں سے کہا کہ وہ اس موضوع پر ریسرچ کرنا چاہتا ہے کہ تابکاری کا اثر گیہوں پر اور قسم کا ہے، مکئی پر اور قسم کا ہے اور چاول پر اور قسم کا ہے.اس کے پروفیسر اسے کہنے لگے کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟ ہمارے دماغ میں تو کبھی یہ بات نہیں آئی.تمہارے دماغ میں آگئی.اس نے بعد میں مجھے بتایا کہ آپ نے (ہر روز اللہ کی شان کا نیا جلوہ ظاہر ہوتا ہے) کے بارہ میں بتایا تھا اس کے مطابق میں نے اپنے پروفیسروں سے باتیں کیں.بڑی مشکل سے اس موضوع پر ریسرچ کرنے کیلئے اجازت ملی اور جب ریسرچ کی تو یہی نتیجہ نکلا کہ اٹامک انرجی کا اثر گیہوں پر اور رنگ میں ظاہر ہوتا ہے اور مکئی پر اور رنگ میں ظاہر ہوتا ہے اور چاول پر اور رنگ میں ظاہر ہوتا ہے.چنانچہ اس کی اس ریسرچ پر اس کے جرمن پروفیسر بڑے حیران ہوئے.یہ تو قرآن کریم کی تعلیم کی برکت تھی.میں تو ایک واسطہ بن گیا.قرآن کریم کی تعلیم سکھانے کا.اللہ تعالیٰ کے فضل.66 پرا (روز نامه الفضل 26 مئی 1990 قدرت ثانیہ نمبر) حضرت خلیفہ لمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 5 اگست 1966 ء میں فرمایا: کوئی پانچ ہفتہ کی بات ہے.ابھی میں ربوہ سے باہر گھوڑا گلی کی طرف نہیں گیا تھا ایک دن جب میری آنکھ کھلی تو میں بہت دعاؤں میں مصروف تھا.اس وقت عالم بیداری میں میں نے دیکھا کہ جس طرح بجلی چمکتی ہے اور زمین کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشن کر دیتی ہے.اسی طرح ایک نور ظاہر ہوا اور اس نے زمین کو ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک ڈھانپ لیا پھر میں نے دیکھا کہ اس نور کا ایک حصہ جیسے جمع ہو رہا ہے.پھر اس نے الفاظ کا جامہ پہنا اور ایک پر شوکت آواز فضاء میں گونجی جو اس نور سے ہی بنی ہوئی تھی اور وہ یہ تھی بُشرى لَكُمُ یہ ایک بڑی بشارت تھی، لیکن اس کا ظاہر کرنا ضروری نہ تھا.ہاں دل میں ایک خلش تھی اور خواہش تھی کہ جس نور کو میں نے زمین کو ڈھانپتے ہوئے دیکھا ہے جس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک زمین کو منور کر دیا ہے اس کی تعبیر بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے سے مجھے سمجھائے.چنانچہ وہ ہمارا خدا جو بڑا ہی فضل کرنے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے اس نے خود اس کی تعبیر اس طرح سمجھائی کہ گزشتہ پیر کے دن میں ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا اور تیسری رکعت کے قیام میں تھا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کسی غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا ہے اور اس وقت مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ جو نور میں نے اس دن دیکھا تھا وہ قرآن کا نور ہے جو تعلیم القرآن کی سکیم اور عارضی وقف کی سکیم کے ماتحت دنیا میں پھیلایا جارہا اللہ تعالیٰ اس مہم میں برکت ڈالے گا اور انوار قرآن اسی طرح زمین پر محیط ہو جائیں گے جس طرح اس ہے.نور کو میں نے زمین پر محیط ہوتے ہوئے دیکھا ہے.“ (خطبات ناصر جلد 1 صفحہ 344 خطبہ 5 اگست 1966 ) احباب جماعت سے تعلق : ” اے جان سے زیادہ عزیز بھائیو! میرا ذرہ ذرہ آپ پر قربان کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے جماعتی اتحاد اور جماعتی

Page 255

استحکام کا وہ اعلیٰ نمونہ دکھانے کی توفیق عطا کی کہ آسمان کے فرشتے آپ پر ناز کرتے ہیں.آسمانی ارواح کے سلام کا تحفہ قبول کرو.تاریخ کے اوراق آپ کے نام کو عزت کے ساتھ یاد کریں گے اور آنے والی نسلیں آپ پر فخر کریں گی کہ آپ نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس بندہ ضعیف اور ناکارہ کے ہاتھ پر متحد ہو کر عہد کیا ہے کہ قیام توحید اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے قیام اور غلبہ اسلام کے لئے جو تحریک اور جو جدوجہد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع کی تھی اور جسے حضرت مصلح موعود نے اپنے آرام کھو کر، اپنی زندگی کے ہر سکھ کو قربان کر کے اکناف عالم تک پھیلایا ہے آپ اس جدوجہد کو تیز سے تیز کرتے چلے جائیں گے.تسكير.قلب میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں اور میں ہمیشہ آپ کی دعاؤں کا بھوکا ہوں.میں نے آپ کے تی کے لئے ، آپ کے بار کو ہلکا کرنے کے لئے، آپ کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے، اپنے رب رحیم سے پورا یقین اور بھروسہ ہے اس پاک ذات پر کہ وہ میری اس التجا کو رد نہیں قبولیت دعا کا نشان مانگا ہے اور کرے گا.“ مجھے (حیات ناصر صفحہ 374 ) حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی 1974 ء کے دلخراش حالات جو پاکستان کی جماعت پر گزرے ان کا ذکر کرتے " ہوئے فرماتے ہیں: علاوہ ازیں دنیوی لحاظ سے وہ تلخیاں جو دوستوں نے انفرادی طور پر محسوس کیں وہ ساری تلخیاں میرے سینے میں جمع ہوتی تھیں.ان دنوں مجھ پر ایسی راتیں بھی آئیں کہ میں خدا کے فضل اور رحم سے ساری ساری رات ایک منٹ سوئے بغیر دوستوں کے لئے دعائیں کرتا رہا ہوں.میں احباب سے یہ درخواست کر تا ہوں کہ وہ میرے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کرنے کی وفیق عطا کرے جو اس نے اس عاجز کے کندھوں پر ڈالی ہیں.میں اور احباب جماعت مل کر ان ذمہ داریوں کو پورا کریں کیونکہ میرے اور احباب کے وجود میں میرے نزدیک کوئی امتیاز اور فرق نہیں ہے.ہم دونوں امام جماعت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور ایک ہی چیز کے دو مختلف زاویے ہیں.پس ہمیں اپنی زندگیوں میں الہی بشارتوں کے پورا ہونے کی جھلکیاں نظر آنے لگیں جو بشارتیں کہ مہدی علیہ السلام کے ذریعہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ کے دین کے غلبہ کی ہمیں ملی ہیں.آمین روزنامه الفضل مؤرخہ 17 اپریل 1976 ء ) حضرت خلیفہ لمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: خلافت احمدیہ کی ایک صفت یہ ہے کہ اس خلافت کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ میں اس خلافت کے ذریعہ اپنی زبر دست قدرتوں کا زبردست ہاتھ دکھاؤں گا.یہ خدا تعالیٰ کی تائید یافتہ خلافت ہے اسی خلافت کا ایک وجود ہے خلافت تو روح ہے اور اس کا جسم بھی ہے (یعنی جماعت احمد یہ جسم ہے) روح اور جسم مل کر ایک وجود بنتے ہیں.اسی لئے خلافت کا یہ کام ہے کہ وہ جماعت کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرے.خلیفہ وقت آپ کے لئے دعا کریں.خلیفہ وقت پر بعض دفعہ ایسے حالات بھی آتے ہیں وہ ہفتوں ساری ساری رات آپ کے لئے دعائیں کر رہا ہوتا ہے جیسے 1974ء کے حالات میں دعائیں کرنی پڑیں.میرا خیال ہے کہ دو مہینے تک میں بالکل سو نہیں سکا تھا کئی مہینے دعاؤں میں گزرے تھے.“ خطاب خدام الاحمدیہ مؤرمحه 6 نومبر 1977 ء و الفضل 21 مئی 1978 صفحہ 4 ) 255

Page 256

ہمدردی خلق: دو مولوی غلام باری صاحب سیف لکھتے ہیں: ’ جامعہ کے ہوٹل میں دوسرے ہوٹلوں کی طرح ایک وقت دال پکتی اور شام کے کھانے میں اکثر گوشت ملتا.میرا گاؤں قادیان سے سات میل کے فاصلے پر تھا.اکثر جمعرات کی شام کو گاؤں چلا جاتا اور جمعہ کی شام کو واپس آجاتا.شام کو ہوٹل میں کھانے کی میز پر بیٹھا تو آج کوئی نئی چیز پکی ہوئی تھی پرندوں کا گوشت تھا جو حضور (حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے شکار کر کے طلبا جامعہ کے لئے بھجوائے تھے.“ مکرم وقیع الزمان صاحب لکھتے ہیں: (حیات ناصر صفحہ 130-131 ) ایک پروفیسر صاحب مجھے پسند نہ فرماتے تھے.ایک امتحان کے بعد انہوں نے میرا پرچہ لیا اور میرے لکھے ہوئے جوابات کو تضحیک کے انداز میں کلاس کے سامنے پڑھ پڑھ کر سنانا شروع کر دیا.میں شہری ماحول سے گیا ہوا طالب علم تھا، مجھے ناگوار گزرا.قادیان کی درس گاہوں کے آداب سے پوری طرح واقف نہ تھا اس لئے احتجاجا کلاس سے اٹھ کر باہر آ گیا اور پرفیسر صاحب کے روکنے کے باوجود نہ رکا.پروفیسر صاحب نے پرنسپل ( یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب) کے پاس میری شکایت کی.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو میرے جواب سے تسلی نہ ہوئی اور سزا سنائی کہ پانچ روپے جرمانہ یا پانچ چھڑیاں تمام کالج کے سامنے لگائی جائیں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ تو چند ماہ کے اندر ہی میرے وحشی قلب کو تسخیر کر چکے تھے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی میں ایک عجیب سپردگی کا عالم طاری ہو جاتا تھا.میں نے دریافت کیا کہ ان میں سے پہلی سزا کون سی ہے جرمانہ یا چھڑیاں.جو بھی پہلی سزا ہو وہی مجھے منظور ہے.ذرا سوچ کر فرمایا.جرمانہ اصل سزا ہے اگر نہ دینا چاہو تو چھڑیاں کھانا ہوں گی.جرمانہ فلاں دن تک جمع کروا دو.اس زمانے میں ایک طالب علم کے لئے پانچ روپے خاصی بڑی رقم ہوتی تھی.ہمارے ہوٹل کا سارے مہینے کا خوراک کا خرچ فی کس پانچ روپے کے قریب آتا تھا جرمانہ داخل کرنے کی تاریخ سے ایک دن قبل مسجد مبارک میں نماز عصر کے بعد مجھے ایک طرف بلایا اور پوچھا ” تم نے جرمانہ ادا کر دیا ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں.ابھی تک گھر سے منی آرڈر نہیں پہنچا ہے.آنکھیں نیچی کر کے شیروانی کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پانچ روپے کا نوٹ مجھے دیا کہ جاؤ کل جرمانہ ضرور داخل کر دو ورنہ سارے کالج کے سامنے چھڑیاں کھانا پڑیں گی اور ذرا رعایت نہ ہوگی.”مت پوچھ کہ دل پہ کیا گزری سیرت حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ: (حیات ناصر صفحہ 133-134 ) حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کا نام حضرت صاحبزائرہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الرا الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة أمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے تھے.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی 10 جون 1982ء کو جماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ منتخب ہوئے.256

Page 257

اپریل 1984ء میں آپ ہجرت فرما کر لندن تشریف لے گئے.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور مبارک میں اور بے شمار ترقیات کے علاوہ MTA کی چوبیس گھنٹے کی نشریات کا آغاز بھی یکم جنوری 1996ء کو ہوا.19 اپریل 2003ء کو آپ نے وفات پائی اور لندن میں تدفین عمل میں آئی.تعلق باللہ: حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اتنا کامل یقین خدا تعالیٰ کی ہستی کا میرے دل میں ہے کہ میں خدا کی قسم کھا کر آپ کو کہتا ہوں کہ آج دنیا میں شاید ہی کوئی اور انسان ہو جس کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا اپنے تجربے سے اتنا کامل یقین ہو جتنا مجھے ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں، کوئی تکبر نہیں.لازماً یہ بات سو فیصد درست ہے.“ الفضل انٹرنیشنل 15 اکتوبر 1999 ء ) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” جب بھی کوئی مشکل درپیش ہو تو آپ خدا کے حضور دعا میں لگ جائیں.اگر آپ دعا کرنے کو اپنی عادت بنا لیں تو ہر مشکل کے وقت آپ کو حیران کن طور پر خدا کی مدد ملے گی اور یہ وہ بات ہے جو میری ساری عمر کا تجربہ ہے.اب جبکہ میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہوں تو میں یہ بتاتا ہوں کہ جب بھی ضرورت پڑی اور میں نے خدا کے حضور دعا کی تو میں کبھی ناکام نہیں ہوا.ہمیشہ اللہ نے میری دعا قبول کی.“ ساڑھے دس سال کی عمر کا ایک واقعہ: (روز نامه الفضل 15 اگست 1999 ء) حضرت سیّدہ (مراد حضرت اُمّم طاہر صاحب کی یہ دعائیں کس طرح اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوئیں آج اس کا ایک زمانہ شاہد ہے مگر ساڑھے دس سال کی عمر میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کے عزائم کیا تھے اور حضرت سیدہ کی دعائیں کس طرح بار آور ہو رہی تھیں اس کا اندازہ ایک نہایت ہی ایمان افروز واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب جو برس ہا برس حضرت فضل عمر کے فیملی ڈاکٹر کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے بیان فرماتے ہیں: اس بچہ کا ایک عجیب و غریب واقعہ میں تازیست نہ بھولوں گا 1939 ء کی بات ہے جبکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ (یعنی حضرت فضل عمر ) دھرم سالہ میں قیام پذیر تھے اور جناب عبدالرحیم صاحب نیر بطور پرائیویٹ سیکرٹری حضور کے ہمراہ تھے.ایک دن نیر صاحب نے اپنے خاص لب و لہجہ کے ساتھ کہا: میاں طاہر احمد آپ نے ایک بات کوئی بات تھی) نہایت اچھی کہی ہے جس سے میرا دل بہت خوش ہوا.میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کو کچھ انعام دوں.بتلائیے آپ کو کیا چیز پسند ہے تو اس بچہ نے جس کی عمر اس وقت ساڑھے دس سال کی تھی برجستہ کہا: ”اللہ ! نیر صاحب حیران ہو کر خاموش ہو گئے.میں نے کہا: نیر صاحب اگر طاقت ہے تو اب میاں طاہر احمد کی پسندیدہ چیز دیجئے مگر آپ کیا دیں گے؟ اس چیز کے لینے کے لئے تو آپ خود ان کے والد کے قدموں میں بیٹھے ہیں.“ الفضل 13 مارچ 1944 ، صفحہ 2 ) 257

Page 258

قبولیت دعا: حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں: ہو ” مجھے یاد ہے گھانا میں ایک چیف کو میرے ہاتھ پر قبول حق کی توفیق ملی اس سے پہلے وہ مذہباً عیسائی تھے نرینہ اولاد کی حسرت لئے دل میں پھرتے تھے.دو مرتبہ ان کی اہلیہ کا حمل ضائع ہو چکا تھا اور اب وہ مایوس و چکے تھے انہوں نے مجھے دعا کے لئے کہا.کہنے لگے کہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے بیٹا دے اور میری اہلیہ بھی صحت و عافیت اور خیریت سے رہے.میں نے چیف اور اس کی بیگم کے لئے بڑے تضرع اور درد سے دعا کی اور انہیں لکھا کہ اللہ تعالیٰ میری اور ان کی دعاؤں کو ضرور شرف قبولیت بخشے گا.کچھ مدت کے بعد ان کی اطلاع ملی کہ خدا تعالیٰ نے دعائیں سن لی ہیں اور انہیں ایک صحتمند بیٹے سے نوازا ہے.“ وو ایک مرد خدا.مترجم مکرم چودھری محمد علی صاحب صفحہ 352) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ قبولیت دعا کا ایک اور واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں؟ غانین خاتون لکھتی ہیں! میری اولاد پیدائش کے دو ہفتہ کے اندر اندر فوت ہو جاتی تھی میں نے آپ کو دعا کے لئے خط لکھا اور مجھے یہ عجیب جواب ملا کہ بچے کا نام امتہ ائی رکھنا“ جو کہ بیٹی کا نام ہے.میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نشان دیکھ کر حیران رہ گئی خدا نے مجھے بیٹی عطا فرمائی جس کا نام میں نے امتہ ابھی رکھا.ایک سال ہو چکا ہے اور خدا کے فضل سے صحت مند اور ہشاش بشاش ہے.“ (ضمیمہ خالد جولائی 1987 ءصفحہ 10 ) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں.نائیجیریا سے سیف اللہ چیمہ تحریر فرماتے ہیں کہ گزشتہ مرتبہ جب میں آپ سے ملنے آیا میری بیوی بھی ساتھ ہم نے ذکر کیا کہ ہماری شادی پر عرصہ گزر گیا ہے اور کوئی اولاد نہیں اس وقت آپ نے بے اختیار یہ فقرہ کہا ”بشری بیٹی آئندہ جب آؤ تو بیٹا لے کر آنا وہ کہتے ہیں آپ کو یہ خوشخبری دے رہا ہوں کہ اب جب ہم آپ سے ملنے آئیں گے تو بیٹا لے کر آئیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ وہ بیٹا عطا فرما چکا ہے؟“ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم: لم حضرت خلیفة أصبح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: حقیقت (ضمیمہ خالد جولائی 1987 ، صفحہ 10 ) صلى الله یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں جماعت احمدیہ کے لئے حمد اور اطمینان کا ایک پہلو بھی ہے اور وہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد تک دنیا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ پر گندے حملے کیا کرتی تھی ایسے میں قادیان سے ایک پہلوان اٹھا اور حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ کے عشق میں دیوانہ تھا اس نے آنحضور پر ہونے والے حملوں کا اس شدت سے دفاع کیا اور دشمنان اسلام پر ایسے سخت حملے کئے کہ دشمنوں کی توجہ آپ کی طرف سے ہٹ گئی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تیر جو ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی ملاقہ پر چلا کرتے تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے سینے پر لے لئے اور اس وقت سے آج تک تمام دشمنان اسلام نے حضرت محمد مصطفی ملاقہ کے متعلق خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور سب کی توجہ ہمارے آقا 258

Page 259

ہے حضرت محمد مصطفی ملالہ کے غلام کی طرف ہوگئی ہے.یہ شان ہے جماعت احمدیہ کی قربانی کی اور عظمت مسیح موعود کے دعاوی کی سچائی کی.پس ان حملوں میں بھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر رحمت اور پر درود کے گلدستے دیکھتے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ جب صدیوں کی تاریکیاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ حملے رہی تھیں، وہ تیر جو ہمارے آقا و مولیٰ سید ولد آدم کی ذات اقدس کی طرف چلائے جاتے تھے، وہ گند جو پر اچھالا جاتا تھا خدا کی قسم! خدا کی تقدیر ان چیزوں کو پھولوں اور رحمتوں اور درود اور صلوٰۃ میں تبدیل فرما دیا کرتی تھی.جتنی گالیاں خدا کے نام پر آپ کو دی گئیں اس سے لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ رحمتیں آسمان سے آپ نازل ہوتی رہیں پس مبارک ہو تمہیں جو اس مجاہد اعظم کی غلامی کا دم بھرتے ہو جس نے حضرت محمد مصطفی ملالہ پر کئے جانے والے سارے حملوں کو اپنی چھاتی پر لے لیا اور اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں کی کہ اس کے نتیجہ میں آپ کی ذات پر کیا گزرتی ہے.“ ( زهق الباطل.خطبه جمعه فرمودہ حضرت خلیفة لمسح الرابع رحمہ اللہ تعالی 5 اپریل 1985 ء ) الله " حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”میرا یہ عقیدہ ہے کہ خاتم النبین کا ایک معنی یہ ہے کہ ہر حسن حضرت محمد مصطفی حلقہ پر ختم ہو گیا....خدا کا حسن نبیوں کی صورت میں جو چپکا ہے ان سب کا مجمع ان سب کو اکٹھا کرنے والا ان سب کا خاتم حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ تھے.جس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حسن ختم اس طرح کر لیا جس طرح سیاہی چوس“ سیاہی چوس جاتا ہے بلکہ اس طرح حسن ختم کیا ہے جس طرح سورج سب روشنی کا منبع بن جاتا ہے اور ہر چیز میں اس کی جھلک پیدا ہوتی ہے.جتنی زیادہ ہو اتنا وہ زیادہ چمکتا ہے.تو اصل میں کسی کی سیرت سے پیار اس رنگ میں چاہیے مسلمان کو کہ جہاں جہاں وہ رسول اکرم صلی اللہ کی تھوڑی تھوڑی جھلکیاں دیکھے اس وجہ سے کرے کہ یہ میرے محبوب کی جھلکی ہے اور وہ پیار جو ہے وہ عبادت بن جائے گا.پھر اس پیار میں خدا کی رضا شامل ہو جائے گی.وہاں نہ ٹھہریں بلکہ پیچھے چلے جائیں، پیچھے جا کے اس کا جو سرچشمہ ہے اس پر نظر ڈالیں تو وہ سرچشمہ آپ کو حضرت محمد مصطفی مطلقہ کی ذات نظر آئے گی اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے.یہ وہ ایسی چیز ہے جس میں کوئی شاعر بھی دنیا کا مبالغہ نہیں کرسکتا.بالکل حقیقت ہے اور پھر اس سے پرے خدا کی ذات کرنا ا پیار دکھائی دیتی ہے.یہ ہے خلاصہ خاتمیت کا جس پر ہمارا سارا ایمان سرسے پاؤں تک سارے وجود کا ایمان ہے اور اسی میں حقیقت ہے اور اس پر چونکہ آپ شاعر ہیں مجھے ایک غالب کا شعر یاد آگیا اس مضمون سے ملتا جلتا وہ یہ ہے کہ ہے پرے سرحد اوراک سے اپنا مسجود قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں والے سمجھتے ہیں اس قبلے کی طرف رُخ ہے، ہم اسے قبلہ نما سمجھ رہے ہیں یعنی خدا کی طرف رخ کرنے والا تو اس لئے آخری بات یہی ہے کہ ہر حسن کا رخ حضرت محمد مصطفی حلقہ کی طرف اور رسول اللہ حلقہ کے حسن کا سارا رخ اپنے خدا کی طرف ہے.اس حقیقت کو سمجھ کر جب آپ کسی انسان کی بھی مدح کہیں گے تو اس میں ایک پاکیزگی پیدا ہو جائے گی اور اللہ کی رضا داخل ہو جائے گی.“ الله مجلس سوال و جواب 15 فروری 1987 ء ) 259

Page 260

عشق قرآن: حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: پر " آج اللہ تعالیٰ نے قرآن کی عظمت کی خاطر قرآنی دلائل کی تلوار میرے ہاتھوں میں تھمائی ہے اور میں قرآن حملہ نہیں ہونے دوں گا.محمد رسول اللہ صل اللہ اور آپ کے ساتھیوں پر حملہ نہیں ہونے دوں گا.جس طرف سے آئیں، جس بھیس میں آئیں ان کے مقدر میں شکست اور نامرادی لکھی جاچکی ہے !!! کیونکہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کے ذریعے دوبارہ قرآن کریم کی عظمت کے گیت گانے کے جو دن آئے ہیں، آج یہ ذمہ داری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں میرے سپرد ہے.“ مکرم ނ (درس القرآن بیان فرموده 27 فروری 1994 ) عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر تحریر فرماتے ہیں: دسمبر 1993ء میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ماریشس کا دورہ فرمایا.یہ دورہ 18 ایام پر مشتمل تھا.اس سفر کے آخری تین چار دن آرام اور سیر کیلئے مخصوص تھے.حضور انور (حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) اور ممبران قافلہ کیلئے جماعت ماریشس نے سمندر کے کنارے ایک علیحدہ جگہ پر Huts حاصل کئے ہوئے تھے.پروگرام کے مطابق شام سے قبل حضور انور اس جگہ تشریف لے آئے.اگلے روز صبح نماز فجر کے لئے حضور (حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے Huts سے تشریف لا رہے تھے.ہم ممبران بھی اپنے Huts نکل کر نماز کیلئے جارہے تھے کہ حضور (حضرت خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) کی نظر پڑی تو ہاتھ کے اشارہ سے بلایا.عاجز حاضر خدمت ہوا تو فرمایا آج کیا پروگرام ہے؟ خاکسار نے عرض کی کہ آج ہم سب نے (یعنی ممبران قافلہ نے ( شاپنگ کا پروگرام بنایا ہے.صبح شہر جا کر شام سے قبل واپس آجائیں گے.اس پر فرمایا: آج ہم قرآنِ کریم کے ترجمہ کا کام نہ کر لیں؟ خاکسار نے عرض کیا جی حضور ضرور.نماز فجر کے بعد حضور (حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے - سب سے پوچھا کہ آج کیا پروگرام ہے تو سب نے کہا آج شاپنگ کا پروگرام ہے.حضور (حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی فرمانے لگے کہ ماجد صاحب سے چھ لیں، انہوں نے تو شاپنگ کیلئے نہیں جانا؟ انہوں نے تو آج ترجمہ کا کام کرنا خاکسار نے عرض کیا ہے.جی حضور آج ترجمہ کا کام کرنا ہے.حضور انور (حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) نماز کے بعد واپس جانے سے قبل فرمانے لگے کہ میں سیر کرکے ناشتہ کے بعد آجاؤں گا پھر ترجمہ کا کام شروع کر دیں گے.اس کے بعد حضور (حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) تشریف لے گئے.صبح پونے آٹھ بجے کا وقت تھا کہ خاکسار باتھ روم سے نہا کر نکلا تو دیکھا کہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ سامنے چار پائی پر تشریف فرما ہیں.فرمانے لگے کہ میں سیر سے سیدھا ادھر آگیا ہوں.ناشتہ ہم یہیں کریں گے اور ساتھ ساتھ کام بھی کرتے رہیں گے.خاکسار نے عرض کی کہ حضور! بس پانچ منٹ دے دیں تاکہ لکھی وغیرہ کر لوں اور کپڑے بدل لوں.پانچ سات منٹ میں خاکسار تیار ہوگیا.میز کرسی وغیرہ سیٹ کی.حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے پانچویں پارہ کے آخری ربع سے ترجمہ لکھوانا شروع کیا (اس سے قبل کا ترجمہ حضور ماریشس کے سفر سے قبل مکمل فرما چکے تھے.) حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ ترجمہ لکھواتے رہے اور خاکسار لکھتا رہا.یہ سلسلہ دو بجے دوپہر تک جاری رہا.اس پوچھ 260

Page 261

261 طرح مسلسل چھ گھنٹے تک حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ترجمہ لکھوایا یوں معلوم ہوتا تھا کہ ترجمہ نازل ہو رہا ہے.مسلسل روانی کے ساتھ بغیر کسی جگہ رکے حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ ترجمہ لکھوا رہے تھے.میز کے ایک طرف ناشتے کا سارا سامان موجود تھا.حضور نے فرمایا آپ نے کچھ نہیں کرنا، ناشتہ میں خود تیار کر کے دوں گا.ترجمہ کے دوران ہی ناشتہ کیا گیا.دو تین دفعہ چائے بھی پی.بریڈ (Bread) پر جام اور مکھن وغیرہ لگا کر بھی خود ہی دیا.چائے بھی خود ہی بنا کر دیتے رہے اور ساتھ ساتھ ترجمہ بھی لکھواتے رہے.خاکسار بھی کھانے پینے کے ساتھ ساتھ لکھتا رہا.غرض چھ گھنٹے مسلسل کام کے بعد جب دو پہر کے دو بج چکے تھے تو فرمایا اب وضو کر لیتے ہیں اور نماز کی تیاری کرتے ہیں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ وضو کیلئے باتھ روم میں گئے.ادھر خاکسار کو پریشانی لاحق ہوئی کیونکہ تولیہ نہیں تھا.ہم نے سب تو لیے ڈھلنے کیلئے بھجوائے ہوئے تھے، کوئی ٹشو پیپر بھی نہ تھا اتنے میں حضور انور وضو کر کے باہر تشریف لائے اور پوچھا تولیہ ہے؟ خاکسار نے عرض کی کہ ڈھلنے کیلئے بھجوائے ہوئے تھے اور کوئی ٹشو پیپر بھی نہیں ہے.اس پر آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے بستر کی چادر لے کر چہرہ اور ہاتھ صاف کیے اور فرمانے لگے آج چادر ہی سہی.اس دوران امیر صاحب ماریشس دو پہر کا کھانا لے کر پہنچ چکے تھے.فرمانے لگے پہلے کھانا کھا لیتے ہیں.نماز ظہر و عصر جمع کر کے عصر کے وقت میں پڑھ لیں گے.اس وقت باقی ممبران بھی واپس آچکے ہوں گے.چنانچہ وہیں بیٹھ کر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے دوپہر کا کھانا تناول فرمایا.4:30 بجے کے قریب حضور نمازوں کی ادائیگی کیلئے تشریف لائے.نمازوں کے بعد کسی تفریحی مقام کیلئے روانگی تھی.خاکسار کو بلایا اور فرمایا قرآن کریم لے کر گاڑی میں آجاؤ.خاکسار حاضر ہو گیا.حضور انور نے اپنے ساتھ پچھلی سیٹ پر بٹھا لیا اور ترجمہ لکھوانا شروع کر دیا.یہ سفر قریباً ایک گھنٹہ جانے کا اور ایک گھنٹہ واپس آنے کا تھا.ان دو گھنٹوں میں حضورانور رحمہ اللہ تعالیٰ مسلسل ترجمہ لکھواتے رہے.راستہ کچا تھا اور سڑک بہت خراب تھی.گاڑی کو بہت جمپ لگتے تھے.میرے لئے لکھنا بہت مشکل ہو رہا تھا.ہاتھ کبھی دائیں، کبھی بائیں اور کبھی اوپر نیچے جاتا تھا.حضور انور یہ صورتحال ملاحظہ فرما رہے تھے اور مسکرا رہے تھے.بالآخر فرمانے لگے: کیا لکھا ہے مجھے پڑھ کر سناؤ.خاکسار نے جب من وعن پڑھ کر سنایا تو فرمایا ٹھیک ہے.بس اس کے بعد پھر حضور انور ر کے نہیں مسلسل لکھواتے رہے.رو و گھنٹے کے سفر کے بعد واپس پہنچے تو 5 منٹ کے بعد شہر روز ہل (Rose Hill) کی طرف روانگی تھی.نماز مغرب و عشا مرکزی بیت الذکر میں ادا کرنے کے بعد صدر مجلس انصار اللہ کے گھر رات کا کھانا تھا.یہ سفر بھی پون گھنٹہ سے زائد کا تھا.اندھیرا بھی ہو چکا تھا.چلنے سے قبل فرمایا کہ قرآن کریم لے کر گاڑی میں آجاؤ.خاکسار حسب ارشاد حاضر ہو گیا.فرمایا: ساتھ بیٹھ جائیں.گاڑی کے اندر لائٹ جلا لی اور پھر مسلسل پون گھنٹہ تک ترجمہ لکھواتے رہے.آخر بیت الذکر پہنچے.نمازیں ادا کیں.نماز کے بعد بیت الذکر سے باہر تشریف لائے تو فرمایا: آجاؤ ، بیٹھ جاؤ.خاکسار نے عرض کی.حضور جس گھر میں جانا ہے وہ صرف دو منٹ کے پر ہے.فرمانے لگے اس وقت میں ہم ایک آیت ہی کر لیں گے اور اس وقت کا مصرف ہو جائے گا.خاکسار ساتھ بیٹھ گیا.ڈیڑھ دو منٹ کے بعد میزبان کے گھر پہنچ چکے تھے.اس دوران حضور نے تین آیات کا ترجمہ لکھوایا اور فرمایا: دیکھ ایک آیت کی بجائے تین آیات ہو گئی ہیں.صبح سے مسلسل لکھائی کرنے کی وجہ سے خاکسار کی انگلیاں جواب دے رہی تھیں اور درد کر رہی تھیں.اب مجھے فکر تھی کہ ابھی یون گھنٹہ کی واپسی بھی ہے لیکن یہ سوچ کر اطمینان ہو گیا کہ چونکہ یہ خدا کا کام ہے اس لئے خود ہی توفیق بھی دے گا.بہر حال جب حضور رحمہ اللہ کھانے سے فارغ ہو کر جانے کیلئے باہر تشریف لائے سفر وہ

Page 262

پورٹ نہیں پر لکھواتے تو خاکسار قرآن کریم کے ساتھ گاڑی کے پاس کھڑا تھا.مجھے دیکھ کر فرمایا: اب آرام کر لو.کل کام کریں گے.چنانچہ اگلے تین دن اسی طرح ترجمہ کا کام کرتے ہوئے گزرے.آخری دن جس دن ماریشس سے لندن واپسی کیلئے روانگی تھی، حضور انور جب اپنی رہائش گاہ سے ائر پورٹ کیلئے روانہ ہوئے تو فرمایا ترجمہ کیلئے گاڑی میں آجاؤ.خاکسار حاضر ہو گیا.ائر پورٹ تک کا سفر قریباً ایک گھنٹہ کا تھا.اس دوران ترجمہ لکھواتے رہے.ائر VIP لاؤنج میں پہنچے تو فرمایا: ہم دونوں ایک جگہ الگ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور ترجمہ کا کام جاری رکھتے ہیں.چنانچہ ایک کونے میں جگہ کا انتخاب کر کے حضور انور وہاں تشریف فرما ہوئے اور ترجمہ کہ رہے.یہاں بھی قریباً ایک گھنٹہ سے زائد ترجمہ کا کام کیا.جب جہاز کی روانگی میں 10 منٹ باقی رہ گئے تو متعلقہ آفیسرز نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ تشریف لے آئیں.جہاز میں داخل ہونے کے دوران آپ نے فرمایا کہ میرے ساتھ اگر کوئی سیٹ خالی ہوئی میں آپ کو بلالوں گا اس لئے تیار رہیں.یہ کہہ کر حضور فرسٹ کلاس میں تشریف لے گئے.یہ فلائٹ جو ماریشس سے فرانس تک تھی 13,12 گھنٹے کی فلائٹ تھی اور مسلسل تین دنوں سے لکھائی کا کام کرنے کی وجہ سے انگلیاں بہت دکھ رہی تھیں.صرف یہی خوف تھا کہ ایسا نہ ہو کہ حضور ” لکھوائیں اور میں لکھ نہ سکوں.دوسری طرف خوش نصیبی، سعادت اور برکت تھی جو ہر فکر اور پریشانی اور تکلیف پر غالب تھی.چنانچہ جہاز کی روانگی سے قریباً ایک گھنٹہ کے بعد حضور نیچے ہمارے حصہ میں جہاں ممبران قافلہ بیٹھے ہوئے تھے تشریف لائے اور مجھے دیکھ کر بڑے پیار سے فرمایا کہ میرے ساتھ سیٹ خالی ہے.13 گھنٹے کی مسلسل فلائیٹ اور تھکا دینے والے سفر کے بعد جہاز فرانس کے دارالحکومت پیرس کے انٹرنیشنل ائر پورٹ پر اترا.یہاں سے لندن روانگی کیلئے ایک دوسرے ایئر پورٹ پر جاکر فلائٹ لینی تھی.وقت قریباً فجر سے پہلے کا تھا اور دوسرے ائر پورٹ پر پہنچنے کیلئے 40 منٹ کا رستہ تھا.جب ایئر پورٹ سے باہر نکل کر گاڑیوں میں بیٹھنے لگے تو فرمایا: قرآن کریم لے کر آجائیں.خاکسار حاضر ہو گیا.گاڑی کی اندرونی لائٹیں جلالیں اور دوسرے ایئر پورٹ پہنچنے تک ترجمہ لکھواتے رہے.جب ائر پورٹ پر پہنچے تو یہاں سے لندن کیلئے جہاز کی روانگی میں ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا.یہاں جماعت فرانس نے حضور انور اور ممبران قافلہ کیلئے ناشتہ کا انتظام کیا ہوا تھا.فرمانے لگے ان سب کو ناشتہ کرنے دو ہم ترجمہ کا کام کرتے ہیں.ناشتہ لندن جاکر کر لیں گے.چنانچہ ایک بینچ پر حضور انور بیٹھ گئے اور ڈیڑھ گھنٹہ مسلسل ترجمہ کا کام کیا.مسافر آگے پیچھے، دائیں بائیں سے گزرتے رہے لیکن ہر چیز سے بے خبر مسلسل ترجمہ لکھواتے رہے.اب جہاز کی روانگی کا وقت تھا.فرمایا: جہاز میں میرے ساتھ جگہ خالی ہوئی تو وہاں بیٹھ جانا.چونکہ یہ ایک گھنٹہ سے کم وقت کی فلائیٹ تھی جس کی وجہ سے جہاز بڑا نہیں تھا.یہاں اکانومی کے مسافروں کو بھی اپنی سیٹوں تک پہنچنے کیلئے کلب اپر کلاس کے حصہ سے گزر کر جانا پڑتا تھا.حضور انور پہلے تشریف لے جا کر بیٹھ چکے تھے.جب بعد میں ہم ممبران قافلہ داخل ہوئے تو میں نے دیکھا کہ دائیں بائیں کوئی سیٹ خالی نہیں تھی.چنانچہ حضور کے پاس سے گزر کر جب پچھلے حصہ کی طرف جانے لگے تو آپ مسکرائے اور فرمایا.اب انشاء اللہ باقی کام لندن چل کر.چنانچہ پھر لندن پہنچ کر یہ کام مسلسل چار سال تک جاری رہا.“ احباب جماعت سے تعلق : (ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 87 تا 90 مارچ اپریل 2004 ) 262

Page 263

منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہلے خطبہ میں فرمایا: ”یہ کوئی معمولی بوجھ نہیں.میرا سارا وجود اس کے تصور سے کانپ رہا ہے کہ میرا رب مجھ سے راضی رہے.اس وقت تک زندہ رکھے جس وقت تک میں اس کی رضا پر چلنے کا اہل ہوں اور توفیق عطا فرمائے کہ ایک لمحہ بھی اس کی رضا کے بغیر میں نہ سوچ سکوں، نہ کر سکوں.وہم و گمان بھی مجھے اس کا پیدا نہ ہو.سب کے حقوق کا خیال رکھوں اور انصارف کو قائم کروں جیسا کہ اسلام کا تقاضا ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ انصاف کے قیام کے بغیر احسان کا قیام بھی ممکن نہیں اور احسان کے قیام کے بغیر وہ جنت کا معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا جسے ایساء ذِي الْقُرْبی کا نام دیا گیا ہے اس لئے سب دعائیں کریں.پیشتر اس کے کہ میں بیعت کا آغاز کروں میں چاہتا ہوں کہ حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب سے درخواست کروں کہ رُفقا کی نمائندگی میں آگے تشریف لاکر پہلا ہاتھ وہ رکھیں.میری خواہش ہے، میرے دل کی تمنا ہے کہ وہ ہاتھ جس نے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں کو چھوا ہے وہ پہلا ہاتھ ہو جو میرے ہاتھ پر آئے.حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب سے میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ تشریف لائیں.اس کے بعد بیعت کا آغاز ہوگا.“ (روز نامه الفضل مؤرخہ 19 جون 1982 ء) مکرم ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب تحریر فرماتے ہیں: جس روز حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ہسپتال سے گھر تشریف لائے اسی رات میں نے واپس پاکستان آنا تھا تو میں اجازت لینے کے لئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا.حضور نے فرمایا ذرا بیٹھو میں نماز ادا کرلوں تو میں نے کمرہ کے باہر بیٹھ کر انتظار کیا.حضور نے دس پندرہ منٹ میں نماز پڑھی اس کے بعد جب میں حضور کے کمرہ میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضور رحمہ اللہ کا چہرہ سرخ تھا آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور آنکھوں میں وہ نمی تھی جس کو حضور لوگوں سے چھپایا کرتے تھے اور حضور کے چہرے پر جذبہ تشکر غالب تھا.اس بات کا اندازہ شاید حضور کو خود تھا یا پھر دیکھنے والا بتا سکتا تھا اور میں اس بات کا اندازہ اس لئے بھی خاص طور پر کر سکتا تھا کہ ان بیماری کے دنوں میں کئی کئی گھنٹے حضور کے پاس خادم کے طور پر بیٹھا رہا اور اس بات کا کئی مرتبہ مشاہدہ کیا.کیونکہ اس آپریشن کے وقت کی اور بعد کی تمام کیفیات میں حضور پر خدا کے شکر کا جذبہ غالب تھا اور دوسرا اس جماعت کیلئے شکر کا احساس بھی تھا جو دن رات تڑپ تڑپ کر اپنے پیارے آقا کیلئے دعائیں کر رہی تھی اور صدقات دے رہی تھی.اس بات کا اتنا اثر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ پر ہوتا تھا کہ کئی مرتبہ کئی منٹ اور کئی کئی گھنٹے خاموش ہوتے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے کیونکہ آپ کی طبیعت میں یہ بات داخل تھی کہ جماعت کے لوگ ان کے لئے جو دعائیں کر رہے ہیں، جو صدقات دے رہے ہیں، تو اس کو وہ احسان سمجھتے تھے اور کسی معمولی سی بات پر بھی حضور بہت جلد احسان مند ہو جایا کرتے تھے.ایک طرف تو جماعت کے کروڑوں لوگ جو حضور کے لئے مسلسل دعائیں کر رہے تھے اور دوسری طرف یہ عالم تھا کہ ان چاہنے والوں کی دعاؤں کے نتیجہ میں ان کے پیارے امام اپنے دل میں یہ احساس لئے پھرتے تھے کہ میرے چاہنے والوں کو میری وجہ سے کتنا دکھ پہنچ رہا ہے اور یہ احساس کہ دعا کرنے والا ایک نہیں، دو نہیں لاکھوں نہیں کروڑوں ہیں تو حضور اس کا اپنے دل پر اور دماغ بہت زیادہ بوجھ لیتے تھے اور مجھے یہ گھبراہٹ ہوتی تھی کہ میڈیکل سائنس کے حوالہ سے اگر سوچا جائے کہ ایک انسان اپنے دماغ اور دل پر اس بیماری کی حالت میں اتنا بوجھ ڈالے تو اگر خدا کا فضل نہ ہو اور وہ نہ بچائے تو انسان کا دماغ ، دل یا اعضا shatter ہو جائیں.“ 263

Page 264

(ماهنامه خالد سیدنا طاہر نمبر 2004ء صفحہ 343-344 ) مکرم چودھری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید ربوہ بیان کرتے ہیں کہ 28 اپریل1984ء کو مسجد مبارک ربوہ میں ایک نماز کے بعد حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ.میں نے آپ کو یہاں اس لئے نہیں بٹھایا کہ میں نے کوئی تقریر کرنی ہے.میں نے آپ کو دیکھنے کے لئے بٹھایا ہے.میری آنکھیں آپ کو دیکھنے سے ٹھنڈک محسوس کرتی ہیں.میرے دل کو تسکین ملتی ہے.مجھے آپ سے ہے، عشق ہے.خدا کی قسم کسی ماں کو بھی اس قدر پیار نہیں ہو سکتا.“ (ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر 2004 ) ایک موقع پر فرمایا: راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو پس یہ پہلو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی فکر کریں احتیاط سے چلیں خیر و عافیت سے پہنچیں اور مجھے کوئی دکھ دینے والی خبر نہ بعد میں آئے کیونکہ آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ آپ میں سے جو بھی تکلیف اٹھاتا ہے اس کی مجھے کتنی تکلیف پہنچتی ہے.یہی خلافت کا حقیقی مضمون ہے ایک خلیفہ کے دل میں ساری جماعت کے دل دھڑک رہے ہوتے ہیں اور ساری جماعت کی تکلیفیں اس کے دل کو تکلیف پہنچا رہی ہوتی ہیں اور اسی طرح سب جماعت کی خوشیاں بھی اس کے دل میں اکٹھی ہو جاتی ہیں.پس اللہ کرے ہمیشہ آپ کی خوشیاں پہنچتی رہیں اور آپ کی تکلیف مجھے نصیب نہ ہو کیونکہ آپ کی تکلیف میری تکلیف ہے.اس اس آخری نصیحت کے بعد اب میں آپ کو اپنے ساتھ دعا میں شامل ہونے کی تحریک کر تا ہوں.}} مشعل راہ جلد 3 صفحه 687 ) ہمدردی خلق: د مکرم عبدالغنی جہانگیر صاحب نے بیت الفضل لندن کے ایک مستقل رہائشی کبوتر کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا که میجر صاحب نے ایک روز مجھے ایک عجیب و غریب کیس سے نپٹنے کے لیے بلایا اور کہا کہ فوراً بیت الفضل کے ویٹنگ روم میں پہنچوں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں ایک کبوتر میرا انتظار کر رہا تھا.میجر صاحب نے بتایا کہ اس کبوتر کو لنگر خانے اور بیت الفضل کے کچن کے برتنوں میں چھلانگ لگا کر بچی کچھی چیزیں کھانے کی عادت ہے مگر اس مرتبہ اس نے بدقسمتی سے چھلانگ لگانے سے پہلے برتن میں دیکھا نہیں، جب کہ برتن صفائی کے لئے پانی اور تیل سے بھرا ہوا رکھا تھا.اس وجہ سے کبوتر بے چارا تیل سے لت پت ہو گیا اور چونکہ اپنے پر خشک نہ کر سکتا تھا اس لئے اُڑنے کے قابل نہ رہا اور اسی حالت میں گھسٹتے اور ہوئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے گھر کے دروازے تک پہنچا اور وہاں کونے میں بیٹھ کر کانپنے لگا.مغرب کی نماز سے واپس آتے ہوئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسے اچانک دیکھا اور میجر صاحب سے فرمایا کہ ابھی اس کا کچھ بندوبست کریں.میجر صاحب نے یہ عرض کیا کہ میں (جہانگیر صاحب.ناقل ) اس کی دیکھ بھال کروں اور ساتھ ہی مجھے یہ بھی بتادیا کہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے اس کی رپورٹ بھی تے 264

Page 265

دینی ہے کہ اس کا کیا حال ہے.میں نے کبوتر کو تین مرتبہ شیمپو کیا تا کہ اس کے پروں سے تیل صاف ہو جائے اور پھر اس کو اچھی طرح سے خشک کیا.اس کے بعد اس کو میں نے تین دن کے لئے اپنے دفتر میں رکھا اور کھلایا پلایا.تین دن بعد جب اسے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے دیکھتے ہی فرمایا: ”کیا یہ وہی کبوتر ہے؟ آپ نے تو اسے مکمل طور پر بدل دیا ہے.میں چاہتا ہوں کہ آپ آج رات اسے فرینچ ملاقات پروگرام میں لے کر آئیں اور اس پر ایک مختصر ڈاکومنٹری بنائیں کہ اس کو کیا ہوا تھا اور کس طرح اس کی دیکھ بھال کی گئی چنانچہ اس رات فریج ملاقات پروگرام میں وہ خوش قسمت کبوتر star of the show' بن گیا.اس پروگرام میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو کبوتر کی ساری کہانی سنائی گئی اور بعد ازاں اس کی مختصر ڈاکو منٹری بنا کر MTA دکھائی گئی.اس کے بعد کبوتر کو آزاد کر دیا گیا مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ کس قدر خوش قسمت ہے جو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ کی شفقت بھری توجہ کو مورد بنا.“ ہے.66 پر (ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 148 مارچ ، اپریل 2004 ء ) مکرم احسان اللہ صاحب بیان کرتے ہیں: ”جب حضور رحمہ اللہ بیمار تھے ان ایام میں وہاں ایک لومڑی آتی تھی جو بڑی دبلی پتلی تھی.حضور رحمہ اللہ نے دیکھا تو فرمایا کہ اس لومڑی کا خیال رکھا کریں.چنانچہ حضور رحمہ اللہ کے پر شفقت ارشاد کی تعمیل میں ہم اسے سالن اور روٹی وغیرہ ڈالتے تھے لیکن وہ اسے کھاتی نہیں تھی.ایک دن میں نے اسے کچا گوشت ڈالا تو اس نے کھا لیا.اس کے بعد ہم روزانہ اسے کچا گوشت ہی ڈالا کرتے تھے جسے وہ بڑے شوق سے کھا لیتی تھی.شفقت کا یہ سلسلہ مستقل طور پر جاری ہو گیا تو اسے دیکھ دیکھ کر چھ سات لومڑیاں وہاں آنا شروع ہو گئیں اور انہیں با قاعدہ گوشت ڈالتے تھے اور حضور انور رحمہ اللہ باقاعدگی کے ساتھ پوچھتے کہ آج کتنی لومڑیاں آئیں تھیں اور انہیں کتنا گوشت ڈالا تھا.میری اس لومڑیوں کو گوشت ڈالنے کی ترکیب پر حضور انور رحمہ اللہ نے پیار سے میرا نام لومڑی سپیشلسٹ (Specialist) “ رکھ دیا.چنانچہ وہ لومڑی نہایت کمزور تھی ان لازوال شفقتوں سے وافر حصہ پاکر بڑی موٹی تازی ہوگئی.“ سیرت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: (سیدنا طاہر نمبر صفحہ 317 ) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا نام حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ہے.حضرت خلیفہ الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب اور صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کے ہاں 15 ستمبر 1950ء کو ربوہ میں پیدا ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے پوتے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑپوتے اور حضرت مصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے نواسے ہیں.حضرت خلیفة اصیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 22 / اپریل 2003 ء کو لندن میں جماعت احمدیہ کے پانچویں خلیفہ منتخب ہوئے.خدا تعالیٰ آپ کی عمر صحت اور کاموں میں برکت دے.آمین احباب جماعت سے تعلق: 265

Page 266

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: اب افریقہ کے دورے میں گزشتہ سال کی طرح اس دفعہ بھی مختلف ملکوں میں جاکر میں نے احمدیوں کے اخلاص و وفا کے جو نظارے دیکھے ہیں ان کی ایک تفصیل ہے.بعض محسوس کئے جاسکتے ہیں، بیان نہیں کئے جاسکتے.تنزانیہ کے ایک دور دراز علاقے میں جہاں سڑکیں اتنی خراب ہیں کہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک میں چھ سات کلومیٹر کا سفر بعض دفعہ آٹھ دس دن میں طے ہوتا ہے.ہم اس علاقہ کے ایک نسبتاً بڑے قصبے میں جہاں چھوٹا سا ائر پورٹ ہے، چھوٹے جہاز کے ذریعہ سے گئے تھے تو وہاں لوگ اردگرد سے بھی ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے.ان میں جوش قابل دید تھا.بہت جگہوں پر وہاں ایم ٹی اے کی سہولت بھی نہیں ہے.اس لئے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایم ٹی اے دیکھ کر اور تصویریں دیکھ کر یہ تعلق پیدا ہو گیا تھا.یہ جوش بتا تا تھا کہ خلافت سے ان نیک عمل کرنے والوں کو ایک خاص پیار اور تعلق ہے.جن سے مصافحے ہوئے ان کے جذبات کو بیان کرنا بھی میرے لئے مشکل ہے.ایک مثال دیتا ہوں.مصافحے کے لئے لوگ لائن میں تھے ایک شخص نے ہاتھ بڑھایا اور ساتھ ہی جذبات سے مغلوب ہو کر رونا شروع کر دیا.کیا تعلق، یہ محبت کا اظہار، ملوک یا بادشاہوں کے ساتھ ہوتا ہے یا خدا کی طرف سے دلوں میں پیدا کیا جاتا ہے.ایک صاحب پرانے احمدی جو فالج کی وجہ سے بہت بیمار تھے، ضد کر کے 40-50 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور فالج سے ان کے ہاتھ مڑ گئے تھے، ان مڑے ہوئے ہاتھوں سے اس مضبوطی سے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا کہ مجھے لگا کہ جس طرح شکنجے میں ہاتھ آگیا ہے.کیا اتنا ترڈ د کوئی دنیا داری کے لئے کرتا ہے.غرض کہ جذبات کی مختلف کیفیات تھیں.یہی حال کینیا کے دور دراز کے علاقوں کے احمدیوں میں تھا اور یہی جذبات یوگنڈا کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے احمدیوں کے تھے.جو رپورٹس شائع ہوں گی ان کو پڑھ لیں خود ہی پتہ چل جائے گا کہ خلافت کے لئے لوگوں میں کس قدر اخلاص ہے.اور انشاء اللہ تعالیٰ یہی نیک عمل اور اخلاص جماعت احمدیہ میں ہمیشہ استحکام اور قیام خلافت کا باعث بنتا چلا جائے گا.“ (خطبه جمعه فرموده 5 مئی 2005 ء ) جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط ہے اور ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہے.افریقہ میں بھی میں دورہ پر گیا ہوں ایسے لوگ جنہوں نے کبھی دیکھا نہیں تھا اس طرح ٹوٹ کر انہوں نے محبت کا اظہار کیا ہے جس طرح برسوں کے بچھڑے ملے ہوتے ہیں یہ سب کیا ہے؟ جس طرح ان کے چہروں پر خوشی کا اظہار میں نے دیکھا ہے، یہ سب کیا ہے؟ جس طرح سفر کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کر کے وہ لوگ آئے، یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا دنیا دکھاوے کے لیے یہ سب خلافت سے محبت ہے جوان دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے.تو جس چیز کو اللہ تعالیٰ پیدا کر رہا ہے وہ انسانی کوششوں سے کہاں نکل سکتی ہے.جتنا مرضی کوئی چاہے زور لگا لے.عورتوں، بچوں ، بوڑھوں کو باقاعدہ میں نے آنسوؤں سے روتے دیکھا ہے.تو یہ سب محبت ہی ہے جو خلافت کی ان کے دلوں میں قائم ہے.بچے اس طرح بعض دفعہ دائیں بائیں سے نکل کے سیکیورٹی کی توڑتے ہوئے آکے چمٹ جاتے تھے.وہ محبت تو اللہ تعالیٰ نے بچوں کے دل میں پیدا کی ہے، کسی کے کہنے پہ تو نہیں آسکتے.اور پھر ان کے ماں باپ اور دوسرے اردگرد لوگ جو اکٹھے ہوتے تھے ان کی محبت بھی دیکھنے والی ہوتی تھی.پھر اس بچے کو اس لیے وہ پیار کرتے تھے کہ تم خلیفہ وقت سے چمٹ کے اور اس سے پیار لے کر آئے ہو.“ الفضل انٹر نیشنل 4 تا 10 جون 2004ء) 266

Page 267

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جماعت کے اخلاص و وفا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: انڈونیشینز (Indonesians) کا میں ذکر کر رہا تھا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اللہ تعالیٰ.اور ہر جگہ یہی نظارے دیکھنے میں آئے ہیں خطبہ کے بعد جس میں خطبہ کا ذکر کر رہا تھا سنگا پور کے، آپس میں ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے تھے یہ لوگ.اور اس بات پر قائم تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی حالت بدلے گا.اور وہ مزید تائیدات کے نظارے دیکھیں گے.انشاء اللہ.سنگا پور میں ملائشیا اور انڈونیشیا کے علاوہ جن کی بڑی تعداد وہاں آئی ہوئی تھی بعض دوسرے ملکوں کے بھی چند لوگ آئے تھے، فلپائن، کمپوڈیا، پاپوا نیو گنی، تھائی لینڈ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب اخلاص و وفا کے نمونے دکھانے والے تھے.بعض چند سال پہلے کے احمدی تھے، مرد بھی اور خواتین بھی لیکن خلافت سے تعلق اور وفا کے جو اظہار تھے وہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی.وہاں آنے کا بھی کافی خرچ ان کو کرنا پڑا، کافی دور کے بھی علاقے ہیں، کرایہ خرچ کر کے آئے تھے، ٹکٹ وغیرہ کافی مہنگا ہے.ان کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود کے ان الفاظ کی سچائی ثابت ہوتی ہے کہ وہ خدا کے گروہ ہیں جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے.“ خطبه جمعه فرموده مؤرخہ 19 مئی 2006 ء بیت الفتوح لندن) 267

Page 268

268 سفر خلفائے احمدیت مرتبہ نداء المجيب استاد مدرسته الظفر

Page 269

آیت کریمہ: عناوین آیت کریمہ حدیث مبارکہ ابتدائیہ سفر حضرت خلیفہ رامسیح الاول رضی اللہ عنہ سفر حضرت خلیفة راسیح الثانی رضی اللہ عنہ سفر حضرت خلیفة اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سفر حضرت خلیفتر امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سفر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اِنْفِرُوا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَ جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.(سورة توبه :41) ترجمہ: نکل کھڑے ہو ہلکے بھی اور بھاری بھی اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو.یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو ( ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) 269

Page 270

حدیث مبارکہ : عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ إِلذَنْ لِى فِى الرِّيَاحَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ سِيَاحَةَ أُمَّتِي الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ.(ابو دائود كتاب الجهاد باب فى القوم يسافرون لوفرون) ترجمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے سیر و سیاحت کی اجازت دیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کی سیر و سیاحت اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد ہے.ابتدائیہ: دنیا میں ہر انسان کو کسی نہ کسی مقصد کے لئے سفر کرنا پڑتا ہے.مثلاً حصول علم کے لئے سفر، تلاش معاش کے لیے یا پھر عزیز و اقارب سے ملنے کی غرض سے سفر اور رضائے باری تعالیٰ یا احیائے کلمۃ اللہ کے لئے سفر.الغرض انسان کو درپیش مختلف سفروں کے مختلف اغراض و مقاصد ہیں.رضائے الہی اور احیائے کلمتہ اللہ کی غرض سے اختیار کئے جانے والے سفر میں خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی تائید و نصرت شامل ہوتی ہے.اس کے علاوہ دیگر نیک مقاصد کی خاطر اختیار کئے جانے والے سفر میں انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نیک اجر ملتا ہے.مثلاً طالب علم جب علم کی خاطر کوئی سفر کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے رہتے ہیں خدا کی خاطر کئے جانے والے سفر کے ہر قدم پر ثواب لکھا جاتا ہے.اسی طرح اگر کوئی اپنے بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی خاطر سفر کرتا ہے تو اس کے سفر کے ہر قدم پر اس کے لئے ثواب لکھ دیا جاتا ہے خص کیونکہ یہ بھی ایک جہاد ہے.دنیا میں انبیاء کا ہر سفر خالصتاً اللہ کی خاطر ہوتا ہے.ان میں تبلیغی سفر، سفر ہجرت اور جہاد کے سفر سب شامل ہیں.سفر ہر زمانے کے لحاظ سے اپنی الگ نوعیت رکھتے ہیں: کہیں پیدل، کہیں جانوروں پر، کہیں خشکی پر، کہیں دریاؤں اور سمندروں میں سفر درپیش ہوتے ہیں اور کہیں فضا میں.الغرض ہر سفر کے مختلف ذرائع ہیں جو انسان ضرورت کے وقت اختیار کرتا ہے.مسیح موعود کے لفظ میں یہ پیشگوئی شامل ہے کہ آنے والا مسیح بہت زیادہ سفر اختیار کرے گا اور یہ بھی کہ مسیح موعود کی اتباع میں اس کے خلفا بھی ضرورتِ دینیہ کے لئے سفر کے اس تسلسل کو جاری رکھیں گے.چنانچہ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ پیش گوئی خلفا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے کس طرح پوری ہوئی: حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے مبارک سفر: 1.سفر لاہور 15 جون 1912ء: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جناب شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور سے ان کی درخواست پر وعدہ فرمایا تھا کہ حضور علیہ السلام لاہور تشریف لے جا کر ان کے مکان کا سنگ بنیاد رکھیں گے مگر حضور علیہ السلام کا چونکہ وصال ہو چکا تھا اس لئے جناب شیخ صاحب موصوف قادیان میں حضرت خلیفۃ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے ساتھ مکان کی بنیاد رکھنے کا 270

Page 271

وعدہ فرمایا تھا اب آپ حضور علیہ السلام کے خلیفہ اول ہیں آپ اس وعدہ کو پورا فرمائیں.حضور رضی اللہ عنہ نے باوجود بیماری کے جناب شیخ صاحب موصوف کی اس عرضداشت کو منظور فرمالیا اور 15 جون 1912ء کی صبح کو عازم لاہور ہوئے.قافلہ کے ممبران یہ تھے: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب جناب مولوی صدر الدین صاحب حضرت خلیفہ اسیح کے اہل بیت اور صاحبزادگان اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب.بعض خدا م جو بٹالہ ریلوے اسٹیشن پر بروقت نہیں پہنچ سکے تھے وہ دوسری گاڑی میں لاہور پہنچے ان میں حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی تھے.دس بجے کے قریب حضور رضی اللہ عنہ لاہور پہنچے.اسٹیشن پر ایک بڑی جماعت حضور رضی اللہ عنہ کے استقبال کے لئے موجود تھی.لاہور میں احباب کے قیام کے لئے احمد یہ بلڈنگز کا مقام تجویز ہو چکا تھا.جناب شیخ رحمت اللہ صاحب نے مہمانوں کے واسطے کھانے کا انتظام بھی اسی جگہ کیا ہوا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کا قیام جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی کوٹھی پر تھا جو اس احاطہ کے اندر تھی.حضور رضی اللہ عنہ کے لاہور تشریف لے جانے کا اعلان چونکہ دو ہفتے قبل اخبار میں ہو چکا تھا اس لئے باہر سے بھی کافی تعداد میں احباب جمع ہو گئے تھے.لاہور پہنچ کر سب سے پہلے حضور رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے ، دو نفل نماز ادا کی اور بانیان مسجد اور ان کی اولاد در اولاد کے واسطے بہت دعائیں کیں.اس کے بعد اسی دن شاہ چھ بجے سب دوست جناب یح رحمت جناب شیخ رحمت اللہ صاحب کی زمین پر جمع ہوئے اور حشت بنیاد رکھی گئی.اینٹ رکھنے سے قبل حضور رضی اللہ عنہ نے ایک مختصر سی تقریر فرمائی جسے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے قلم بند کر لیا تھا.اس تقریر کا خلاصہ درج ذیل ہے.فرمایا: ”میرے آقا، میرے محسن (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے شیخ صاحب (شیخ رحمت اللہ صاحب) سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کی عمارت کی بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھیں گے.اللہ تعالیٰ کا منشا ایسا ہی ہوا کہ آپ علیہ السلام کے وعدہ کی تعمیل آپ علیہ السلام کا ایک خادم کرے.شیخ صاحب نے لکھا کہ تم آؤ! میں بیمار ہوں اور بعض اعضا بات میں درد کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے مگر میرے دل میں جوش ہے، اپنے پیارے کے منہ سے نکلی ہوئی پوری کرنا چاہتا ہوں.......اس عمارت کے ارد گرد بھی تازہ عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور بن رہی ہیں مگر اس عمارت کے ساتھ ہمارا ایک خاص تعلق ہے اور یہ تعلق شخصی بھی ہے اور قومی بھی.شخصی تو یہ کہ حضرت صاحب علیہ السلام نے وعدہ فرمایا تھا کہ اس عمارت کی بنیاد رکھیں گے اور حضرت صاحب کا ایک خادم اس وعدہ کو پورا کر دے.قومی تعلق یہ ہے کہ اس عمارت میں ہماری قوم کا بھی ایک حصہ ہے اس لئے قوم کو چاہئے کہ دردِ دل سے دعا کرے کہ انجام بخیر ہو اور اس مکان میں جو بسنے والے ہوں، جو اس کے مہتمم ہوں وہ راستباز ہوں اور نیکی سے پیار کریں.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سفر مبارک: (حیات نور.صفحہ 558-557) 271 * 1943* 1918 سفر ڈلہوزی (1

Page 272

(2 (3 (4) (5 (6 (7 (8 سفر ہائے سندھ * 1959, 1935 سفر سندھ و کوئٹہ 21 مئی تا 5 دسمبر 1994ء سفر دہلی 21 ستمبر تا اکتوبر 1946ء سفر یورپ جولائی 1924ء اور فروری 1955ء سفر جابه ( نخله ) 25 جون 1954 ء تا 9 جولائی 1962ء سفر ہوشیار پور 20 فروری 1944ء سفر دہلی 16 اپریل 1944ء حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سفروں کی تفصیل: (1) ڈلہوزی (Dilhousie) کے سفر : ڈلہوزی کے پُر فضا مقام پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تبدیلی آب و ہوا کے لئے اکثر جاتے رہتے تھے.مثلاً ایک دفعہ 22 جون 1918ء کو ڈلہوزی تشریف لے گئے جہاں 17 اگست 1918 ء تک قیام فرمایا.اس سفر ڈلہوزی میں حضور انور رضی اللہ عنہ نے ایک آزاد خیال عیسائی کے اسلام اور بانی اسلام پر کئے گئے اعتراضات کا نہایت مسکت جواب دیا.از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 208 1942ء میں حضور پر نور رضی اللہ عنہ کئی ماہ تک صاحب فراش رہے تھے اس لئے خاص طور پر بحالی صحت کے لئے اس سال ڈلہوزی تشریف سے گئے اس دفعہ حضور انور رضی اللہ عنہ 20 جون 1943ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور اگست 1943 ء کے شروع میں واپس تشریف لائے.از تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 434 -435) سندھ اور کوئٹہ کے سفر : حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے سندھ کے متعدد دورے فرمائے.حضور رضی اللہ عنہ کے ان تمام سفروں کا احاطہ کرنا ان چند لمحات میں ممکن نہیں اس لئے ہر ایک دورہ کی صرف تاریخ روانگی و تاریخ واپسی دی جا رہی ہے جبکہ 1949ء میں کئے گئے سندھ و کوئٹہ کے سفر کی تفصیل پیش خدمت ہے: 272 مقام دوره تعداد ایام تاریخ روانگی تاریخ واپسی حوالہ جات

Page 273

میر پور خاص سندھ 10 دن ومئی 1935ء 1935 19 الفضل 11 تا 24 مئی 1935ء میر پور خاص سندھ 10 دن 3 اکتوبر 1937ء 13 اکتوبر 1937 ء الفضل 6 تا 20 اکتوبر 1937ء 25 دن 30 اپریل 1938ء 24 مئی 1938ء 3 مئی، 28 مئی 1938ء جنوری 1940ء 11 مارچ1940ء 28 جنوری.13 مارچ 1940ء میر پور خاص سندھ میر پور خاص سندھ 25 دن میر پور خاص سندھ 1 ماه 21 اپریل 1941 ء 21 مئی 1941ء 23 اپریل، 23 مئی 1941ء میر پور خاص سندھ 24 دن قریباً 9مارچ 1946ء 3 اپریل 1946ء الفضل 11 مارچ 1946ء متحدہ ہندوستان سے آخری سفر سندھ سفر سندھ میر پور خاص سندھ دورہ سندھ دورہ سندھ دورہ سندھ دورہ سندھ 50 دن 195010 1 ماہ قریباً یکم مارچ 1947 ء 31 مارچ 1947 17 مارچ 22 اپریل 1947 ء قریباً 27 دن 14 فروری 1948ء 11 مارچ 1948ء 27 فروری، 24 مارچ 1948ء 1 ماہ قریباً 21 مئی 1949 ء 21 جون 1949ء 23 مئی، 23 جون 1949 ء 10 اگست 1950 ء 31 ستمبر 1950 17 اگست 22 ستمبر 1950ء قریباً 22 دن 20 فروری 1951ء 12 مارچ 1951 ء الفضل 22 فروری ، 13 مارچ 1951 ء 1 ماہ قریباً 25 فروری 1952ء 25 مارچ 1952 ء الفضل 10 مارچ، یکم اپریل 1952ء 1 ماہ قریباً 27 جون 1953 ء 31 اگست 1953ء سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ $1953-54 قریباً 2 ماه 4 جون 1954ء یکم ستمبر 1954ء الفضل 8 جون ، الفضل 2 ستمبر 1954ء دورہ سندھ دوره میر پور خاص 10 دن دوره میر پور خاص دوره میر پور خاص 9فروری 1957 ء 19 فروری 1957ء 24 فروری، 9مارچ1957ء 1 ماہ قریباً 18 فروری 1958ء 18 مارچ 1958ء 23 فروری ، 20 مارچ 1958ء 20 دن 22 فروری 1959ء 12 مارچ 1959ء حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا سفر ہوشیار پور: 28 فروری، 13 مارچ 1959ء حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے اعلان دعوی مصلح موعود کے بعد 1944ء کے شروع میں ہوشیار پور لاہور لدھیانہ اور دھلی میں جلسے منعقد کئے گئے چنانچہ اعلانِ دعوئی مصلح موعود کے سلسلہ کا پہلا جلسہ عام 20 فروری1944ء کو ہوشیار پور میں منعقد ہوا.اس جلسہ میں شرکت کے لئے حضور انور رضی اللہ عنہ 20 فروری 1944 ء کو پونے دو بجے دوپہر لاہور سے ہوشیار پور تشریف لے گئے.ہوشیار پور پہنچنے کے بعد حضور رضی اللہ عنہ نے ظہر عصر کی نمازیں نہایت خشوع و خصوع سے پڑھائیں.بعد ازاں جلسہ کا باقاعدہ آغاز تلاوت سے ہوا اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے تلاوت کی.بعد میں حضور انور رضی اللہ عنہ نے جلسہ سے نہایت پر سوز خطاب فرمایا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا سفر دہلی: از تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 578-584) 273

Page 274

موعود رضی اللہ عنہ کے زندہ نشان کے اعلان اور اہل ہندوستان پر اتمام حجت کے لئے چوتھا اور آخری جلسہ عام ہندوستان کے دارالسلطنت دہلی میں 16 اپریل 1944ء کو منعقد ہوا.پنجاب، یوپی، نواح دہلی اور حیدر آباد دکن تک سے قریباً پانچ ہزار احمدی اس مقدس اجتماع میں شامل ہوئے.جلسہ مصلح موعود کی خبر ملتے ہی دہلی میں اشتعال انگیز تقاریر اور اشتہارات کا ایک باقاعدہ سلسلہ جاری کر دیا گیا اور عوام کو ہر طرح سے مشتعل کر کے ہر صورت جلسہ درہم برہم کرنے کی تلقین کی گئی اور جگہ جگہ کھلے لفظوں میں اعلان کیا گیا کہ ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے مگر قادیانیوں کا جلسہ نہیں ہونے دیں گے.میل حصہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ جلسہ میں شمولیت فرمانے کے لئے 16 اپریل 1944ء کی صبح 9 بجے فرنٹر ، دہلی پہنچے جہاں حضور رضی اللہ عنہ کا استقبال احمدیوں کے ایک مجمع نے کیا.ٹھیک ساڑھے چار بجے باقاعدہ جلسہ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا.حسب سابق صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے تلاوت کی.تلاوت کے شروع میں ہی ایک شورش پسند طبقہ نے جو جلسہ کو درہم برہم کرنے آیا تھا اور بڑے دروازہ کے سامنے کھڑا تھا گالیاں دیتے اور شور مچاتے ہوئے مداخلت شروع کر دی جب ان لوگوں کو جلسہ گاہ سے باہر نکال دیا گیا تو سات آٹھ ہزار کا ایک بڑا ہجوم جلسہ گاہ کے ارد گرد جمع ہو گیا.جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی نہایت ایمان افروز تقریر شروع فرمائی تو شورو شر پیدا کر نے والے ہجوم کا ایک.دوبارہ گالیاں دیتا اور شور کرتا ہوا سٹیج پر حملہ کی نیت سے آگے بڑھا جسے احمدیوں نے روک دیا اور تقریر جاری رہی اس پر پنڈال سے باہر مشتعل ہجوم نے جلسہ گاہ پر پتھر پھینکنے شروع کر دیئے بعد میں یہ مشتعل ہجوم مستورات کی جلسہ گا ہ کی طرف بڑھا جس پر حضور رضی اللہ عنہ نے ایک سو احمدیوں کو زنانہ جلسہ گاہ کی طرف بھجوا دیا.حضور انور رضی اللہ عنہ کا جلسہ سے خطاب قریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا اس جلسہ میں شرکت کرنے والے کئی احمدیوں کو شر پسندوں کی طرف سے کی جانے والی سنگ باری سے شدید چوٹیں آئیں اور وہ لہو لہان ہو گئے ان میں حضور رضی اللہ عنہ کے داماد میاں عبدالرحیم صاحب بھی تھے جنہیں سخت چوٹیں آئیں اور وہ بے ہوش ہو کر گر گئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا سفر سندھ و کوئٹہ : تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 609-614) سال (1949ء) کی دوسری ششماہی کا قابل ذکر اور اہم واقعہ سیدنا حضرت خلیفة لمسیح الثانی امیر المؤمنين المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کا سفر سندھ و کوئٹہ ہے.حضور رضی اللہ عنہ 12 ماہ ہجرت مئی کو لاہور سے سندھ کے لئے مع اہل بیت و خدام روانہ ہوئے اور ساڑھے چار ماہ کے بعد تبوک ستمبر کو کوئٹہ سے روانہ ہو کر 5 تبوک ستمبر کو واپس لاہور تشریف لے آئے.روانگی اس سفر میں پچاس نفوس پر من پر مشتمل قافلہ حضور رضی اللہ عنہ کے ہمرکاب تھا جو روہڑی سے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا.حضور امیرالمؤمنین رضی اللہ عنہ اور اہل بیت میں سے حضور سیدہ اُم متین حرم ثالث اور حضرت سیدہ بشری بیگم صاحبہ حرم رابع اور حضور رضی اللہ عنہ کے بعض صاحبزادے اور صاحبزادیاں اور بعض خدام مثلاً حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب طبی مشیر اور چودھری سلطان احمد صاحب سپرنٹنڈنٹ اور شیخ نور الحق صاحب سپرنٹنڈنٹ ایم این سنڈیکیٹ اپنے ضروری ریکارڈ کے ساتھ سندھ تشریف لے گئے اور حضرت اُمّ المؤمنین حضرت سیدہ اُمّم ناصر حرم اوّل حضرت سیدہ اُمّم وسیم حرم ثانی و صاحبزادی امتہ العزیز صاحبہ اور میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری اور مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ زود نویسی کوئٹہ کی طرف روانہ ہوئے.274

Page 275

4 جون کو حضور انور رضی اللہ عنہ مع اہل بیت کنری تشریف سے گئے.اسی روز شام کو حضور رضی اللہ عنہ کنری سے روانہ ہو کر محمود آباد سٹیٹ تشریف لائے اور دو روز تک محمود آباد سٹیٹ کا معائنہ فرمایا.10 جون کو حضور رضی اللہ عنہ نے نا سازی طبع کے باوجود نماز جنازہ خود پڑھائی اور سندھی سیکھنے اور بولنے کی پر زور تحریک فرمائی.احمد آباد میں حضور رضی اللہ عنہ نے دو بستیاں آباد کرنے اور ان کے نام مہدی آباد اور مسیح آبادرکھنے کا ارشاد فرمایا.کوئٹہ میں ورود مسعود: حضرت امیر المؤمنين المصلح الموعود رضی اللہ عنہ قریباً ایک ماہ تک سندھ کی احمدی اسٹیٹ کا وسیع پیمانے پر دورہ و معائنہ کرنے اپنے خدام اور کارکنان کو قیمتی ہدایات سے نواز نے اور خطبات جمعہ کے ذریعہ می ہدایات سے نواز نے اور خطبات جمعہ کے ذریعہ مخلصین جماعت کے اندر فکر و عمل کی نئی قوت بھرنے کے بعد مع اہل بیت و خدام 21 احسان جون کو ایک بجے بعد دوپہر کنجیجی سے روانہ ہوئے اور اگلے روز 22 احسان/ جون کو چار بجے کے قریب بخریت کوئٹہ پہنچے اسٹیشن پر مخلصین کوئٹہ اپنے امیر میاں بشیر احمد صاحب کے ہمراہ بھاری تعداد میں اپنے مقدس و محبوب آقا کی پیشوائی کے لئے حاضر تھے.حضور رضی اللہ عنہ نے سب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر مع اہل بیت کاروں کے ذریعہ سے (جن کا اہتمام مقامی جماعت نے کیا تھا ) اپنی قیام گاہ واقع پارک ہاؤس (York House) میں تشریف لائے.قیام کوئٹہ کے اکثر و بیشتر ایام میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طبیعت سخت علیل رہی حضرت مسیح علیہ السلام کا قول ہے روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے یہی کیفیت حضور پر نور رضی اللہ عنہ کی تھی جو نہی بیماری کے حملہ میں معمولی سا افاقہ محسوس فرماتے حضور رضی اللہ عنہ کی دینی مصروفیات میں ایسی نمایاں تیزی اور غیر معمولی سرگرمی پیدا ہو جاتی کہ دیکھنے والا ورطہ حیرت میں پڑ جاتا.26 جولائی 1949ء بمطابق 29 رمضان المبارک کو حضور رضی اللہ عنہ نے اعلان رمضان کی برکات سے متعلق بصیرت افروز خطاب فرمایا اور اجتماعی دعا کی.29 جولائی 1949 ء کو حضور رضی اللہ عنہ نے پارک ہاؤس میں ایک نہایت اہم پیلک لیکچر (Public Lecture) دیا جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کا اردو ترجمہ سیکھنے کی پُر زور تحریک فرمائی اخبار پکار کوئٹہ نے اپنے 13 اگست 1949 ء کے ایشو میں اس تقریر کا مندرجہ ذیل مخلص شائع کیا: کوئٹہ 29 جولائی آج شام سات بجے یارک ہاؤس لٹن روڈ میں امیر جماعت احمدیہ نے ایک تقریر کرتے ہوئے اس بات زور دیا کہ لوگوں کو اردو بولنا چاہئے انہوں نے حاضرین جن میں اکثریت جماعت احمدیہ کے ممبروں کی تھی پر زور دیا کہ وہ پنجابی زبان کو ختم کر دیں.انہوں نے مزید کہا کہ ہر ایک کو چاہئے کہ وہ قرآن کریم کا کم از کم اردو ترجمہ ضرور یاد کریں.اس تقریر میں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہ ایک دفعہ میرے پاس دیو بند کے دو مولوی آئے اور مجھے کہا کہ آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں؟ میں نے ان کو جواب دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن پڑھے ہوئے تھے, میں بھی قرآن پڑھا ہو ہوں.مرزا صاحب نے تقریباً بیس منٹ تقریر کی اور اس کے بعد متعدد شہریوں او نمائندگان پریس سے ملے اور اپنی قیام گاہ میں تشریف لے گئے.(نامہ نگار ) چھ بجے شام جماعت احمدیہ کوئٹہ کے زیر انتظام پارک ہاؤس (York House) کے احاطہ میں ایک شاندار جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اسلام اور موجودہ مغربی نظریے کے موضوع پر ایک فکر انگیز خطاب فرمایا.21 اگست تاریخ احمدیت جلد 13 صفحہ 249 تا 258) 275

Page 276

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا سفر دیلی: 21 ستمبر 1946 ء کو حضور ( حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ) اپنے مشہور سفر دہلی پر تشریف لے گئے، یہ وہی سفر ہے جس میں حضور ( حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ) کی غیر معمولی دعاؤں اور کوششوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل قیام پاکستان کے سلسلہ میں پیش آنے والی بڑی بڑی روکیں دور ہوئیں.جماعت نے بھی اس بابرکت موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، مجالس علم و عرفان منعقد ہوتی رہیں، مسجد احمد یہ دریا کنج میں تین خطبات ارشاد فرمائے، 29 ستمبر کو خدام الاحمدیہ اور یکم اکتوبر کو خواتین سے خطاب فرمایا، 9اکتوبر کو اسلام دنیا کی موجودہ بے چینی کا کیا اعلاج پیش کرتا ہے“ کے موضوع پر تقریر فرمائی، 10 اکتوبر کو مشہور ادیب، صحافی خواجہ حسن نظامی صاحب جو اپنا وسیع حلقہ ارادت رکھتے ہیں سے ملاقات ہوئی.محترم خواجہ صاحب اس ملاقات کا بڑے اچھے رنگ میں ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آج شام کو نئی دہلی میں چودھری سر ظفر اللہ خان صاحب کے مکان پر جناب مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ جماعت احمدیہ سے ملنے گیا تھا، ڈیڑھ گھنٹہ تک باتیں کیں، ان کو مسلمان قوم کے ساتھ جو مخلصانہ ہمدردی سے وہ سن کر میرے دل پر بہت اثر ہوا اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج ایک ایسے لیڈر سے ملاقات ہوئی جس کو میں نے بے غرض، مخلص سمجھا ورنہ جو لیڈر ملتا ہے کسی نہ کسی غرض میں مبتلا نظر آتا ہے، مرزا صاحب مخلص بھی ہیں، دانش مند بھی ہیں، دور اندیش بھی ہیں اور بہادرانہ جوش بھی رکھتے ہیں.“ (منادی 24 اکتوبر 1946ء.بحوالہ الفضل 8 نومبر 1946ء صفحہ 2) دہلی سے واپسی پر اپنے الوداعی خطاب میں تبلیغی فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”ہندوستان مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا مولد ہے اس لئے بھی اور اس لئے بھی کہ دہلی ہندوستان کا صدر مقام ہے.دہلی والوں پر خاص کر بہت زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ہندوستان میں اس وقت چالیس کروڑ آدمی بستے ہیں، ان میں سے دس کروڑ مسلمان ہیں گویا 1/4 حصہ آبادی کو حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے بزرگان نے مسلمان کیا.اب تمہارے لئے موقع ہے کہ اس کام کو سنبھال لو، تین چوتھائی کام تمہارے حصہ میں آیا ہے اس کا پورا کرنا تمہارے ذمہ ہے.خدا تعالیٰ مجھ کو اور تم کو اس فرض کے ادا کرنے کی توفیق بخشے.وَاخِرُ دَعْــوانــا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے سفر یورپ (Europe): پہلا سفر : الفضل16.نومبر 1946ء صفحہ 8) جولائی 1924 ء کو حضور انور رضی اللہ عنہ اپنے رفقا کے ساتھ یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے.اس سفر کا مقصد لندن (London) کی مشہور ویمبلے کا نفرنس (Wambley Conference) میں شرکت تھی جس میں مختلف مکاتیب فکر کے اہل علم حضرات کو اپنے مذہب کی حقانیت بیان کرنے کی دعوت دی گئی تھی.جس دن حضور رضی اللہ عنہ سفر یورپ کے لئے روانہ ہوئے برطانوی پریس نے آپ رضی اللہ عنہ کی آمد کی خبریں اس قدر کثرت سے شائع کیں کہ ایک متعصب رومن کیتھولک Roman) (Catholic اخبار کو لکھنا پڑا کہ تمام برطانوی پریس سازش کا شکار ہو گیا ہے.276

Page 277

23 ستمبر 1924ء کو ویمبلے کا نفرنس میں حضور رضی اللہ عنہ کا بے نظیر مضمون پڑھا گیا جس نے سلسلہ احمدیہ کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے.حضور رضی اللہ عنہ کا مضمون حضور رضی اللہ عنہ کے حکم سے حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ نے پڑھا.یہ مضمون ایک گھنٹہ تک جاری رہا جس نے سامعین پر وجد کی سی کیفیت طاری کر دی اس مضمون میں حضور رضی اللہ عنہ نے غلامی، سود اور تعدد ازدواج وغیرہ مسائل کو نہایت واضح طور پر بیان فرمایا تھا.اسی مبارک دورہ یورپ میں حضور انور ( حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ) نے 19 اکتوبر 1924 ء کو مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد اپنے بابرکت ہاتھوں سے رکھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا دوسرا سفر یورپ (Europe): از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 422 تا 456) حضور انور ( حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ) پر قاتلانہ حملے کے بعد حضور ( حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ) کی صحت دن بہ دن خراب رہنے لگی چنانچہ مجلس مشاورت 1954ء میں مخلصین مخلصین جماعت نے مشورہ دیا تھا کہ حضور بغرض علاج امریکہ (U.S.A) تشریف لے جائیں اور ساتھ ہی ایک خاصی رقم اخراجات سفر کیلئے پیش کر دی چنانچہ جب ڈاکٹرز نے بھی علاج کے لئے یورپ یا امریکہ جانے کا مشورہ دیا تو حضور انور رضی اللہ عنہ نے استخارہ فرمایا.رضائے الہی پا کر حضور انور رضی اللہ عنہ 23 مارچ 1955 ء کو یورپ کے سفر کے لئے تشریف لے گئے.اپنے اس سفر یورپ کے دوران حضور انور رضی اللہ عنہ دمشق، ہالینڈ، جرمنی اور انگلینڈ میں تشریف لے گئے اور کئی ایک اہم لیکچرز ارشاد فرمائے.لندن میں حضور انور رضی اللہ عنہ کا سب سے اہم کارنامہ مبلغین کی وہ عظیم الشان کانفرنس ہے جو تاریخ اسلام میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور جس کے نتیجہ میں غیر اسلامی دنیا میں تبلیغ کا ایک نیا دور شروع ہوا.قریباً چھ ماہ تک یورپ کے مختلف ممالک میں قیام کے بعد حضور انور رضی اللہ عنہ 26اگست 1955ء کو لندن سے کراچی کے لئے عازم سفر ہوئے 5 دسمبر 1955ء کو حضور رضی اللہ عنہ بخریت کراچی پہنچ گئے.اسلام مشخص از تاریخ احمدیت جلد 17 صفحہ 542 تا 554) سفر جابه (نخله) یدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح موعود رضی اللہ عنہ تقسیم ہند سے قبل تبدیلی آب و ہوا کے لئے اکثر پالم پور اور ڈلہوزی تشریف لے جایا کرتے تھے کیونکہ یہ پہاڑی مقامات ایک تو زیادہ بلندی پر واقع نہیں ہیں.دوسرے ان کی آب و ہوا معتدل ہونے کے باعث حضور انور رضی اللہ عنہ کے مزاج مبارک کے موافق تھی.قیام پاکستان کے بعد اس مقصد کے لئے مری میں خیبر لاج حاصل کی گئی مگر مری موزوں جگہ ثابت نہ ہوئی اس لئے حضور کی ہدایت پر جابہ ضلع سرگودہا (حال ضلع خوشاب) کے قریب اس سال کے شروع میں ”نخلہ“ کے نام سے ایک اضافی بستی کی بنیاد رکھی گئی نخلہ کی زمین نواب مسعود احمد خاں صاحب کی ملکیت تھی.تعمیرات سے پہلے اس جگہ دو چھولداریاں نصب کی گئیں جو سرگودہا سے کرائے پر حاصل کی گئی تھیں.سب سے پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کوٹھی کی بنیاد رکھی گئی جس کی ابتدا میں بعض مقامی لوگوں نے مخالفت کی مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ روک غیر احمدی شرفا کی مداخلت سے بہت جلد دور ہو گئی.یہ کوٹھی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب چیئر مین صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی نگرانی میں 1956 ء کے وسط آخر میں نہایت تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچی.کوٹھی کا نقشہ سید سردار حسین شاہ صاحب نے تیار کیا اور اس کے حسابات کی خدمت مکرم ملک فضل عمر صاحب مولوی فاضل نے سر انجام دی.مخلہ میں حضور رضی اللہ عنہ کی کوٹھی کے علاوہ مندرجہ ذیل عمارات بھی تعمیر کی گئیں: 277

Page 278

(1) مسجد، (2) دفتر پرائیویٹ سیکرٹری (3) بیرکس برائے پہرے داران، (4) کوارٹرز برائے صاحبزادگان حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ، (5) کوارٹرز برائے ناظر صاحبان و وکلا حضرات تحریک جدید، (6) بیرکس برائے غیر ملکی طلباء (7) کوارٹرز برائے ڈسپنسری و ڈسپنسر، (8) کوارٹرز برائے معلم نخلہ اور (9) گیسٹ ہاؤس برائے جا معہ نصرت ربوہ.مخلہ کے ماحول کو خوشگوار اور پر فضا بنانے کے لئے ایک باغ بھی لگایا گیا جس میں ولایتی شریفہ ، یوکلپٹس، مالٹا، آلوچہ، آڑو، امرود، انگور، انجیر اور فالسہ کے پودے لگائے گئے.مخلہ کی قیام گاہوں میں روشنی اور پنکھوں کے لئے جزیٹر نصب کیا گیا جو محمد اکرام اللہ صاحب ملتان چھاؤنی کے ذریعہ مہیا ہوا ، وائرنگ کے لئے نصرت کمپنی کی خدمت حاصل کی گئیں جس کے نگران صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب اور منیجر چودھری غلام حسین صاحب تھے.نخلہ کے پرانے ریکارڈ کے مطابق سیدنا حضور مصلح موعود رضی اللہ عنہ تعمیرات کا معائنہ کرنے کے لئے مخلہ میں پہلی بار 6 جون 1956ء (احسان ہش (1335 کو رونق افروز ہوئے اور ایک رات کے قیام کے بعد مری تشریف لے گئے.اس ابتدائی سفر کے بعد حضور رضی اللہ عنہ ہر سال جابہ میں تشریف لے جاتے رہے.آخری بار حضور رضی اللہ عنہ نے 9 جولائی1962ء (وفا ہش (1341) کو سفر نخلہ اختیار فرمایا اور قریباً اڑھائی ماہ تک قیام فرما رہنے کے بعد 26 ستمبر 1962ء (تبوک ہش 1341) کو ربوہ تشریف لائے.مخلہ میں سلسلہ احمدیہ کے بہت سے اہم دینی کام سر انجام پائے.حضور رضی اللہ عنہ نے یہاں متعدد ایمان افروز خطبات جمعہ ارشاد فرمائے ، تفسیر صغیر جیسی مہتم بالشان تفسیر نہیں پایہ تکمیل تک پہنچی، بہت سے خوش قسمت افراد اور جماعتوں کو اپنے پیارے امام سے شرف باریابی کے قیمتی مواقع میسر آئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے مبارک عہد خلافت کے اوائل میں نخلہ تشریف لے گئے.افسوس مئی جون 1947ء کے ملکی ہنگاموں کے دوران نخلہ کی بستی نہایت بے دردی سے تاخت و تاراج کر دی گئی.حضرت خلیفہ امسح الثالث رحمہ اللہ تعالی کے مبارک سفر: سفر سندھ نومبر 1966ء.1980ء 6 جولائی 1967ء.اکتوبر 1980ء تاریخ احمدیت جلد 18 صفحہ 433 تا 436) * 1980- 1970 1980- 1976 سفر یورپ سفر افریقہ سفر امریکہ و کینیڈا حضرت خلیفة المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے سفر ہائے سندھ : حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی 10 نومبر 1966ء کو حیدر آباد سندھ تشریف لے گئے 11 نومبر کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بشیر آباد اسٹیٹ کے مختلف حلقوں کا دورہ فرمایا اور خطبہ جمعہ بشیر آباد کی وسیع مسجد میں ارشاد فرمایا جس کا لب لباب یہ تھا کہ مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر ہمیں زندہ خدا، زندہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور زندہ کتاب یعنی قرآن کریم جیسے فیوض حاصل ہوئے.13 نومبر 1966 ء کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ ناصر آباد اسٹیٹ کی اراضیات کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے اس کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ محمود آباد اسٹیٹ کی اراضیات اور باغ کے معائنہ کے لئے گئے حیدر آباد میں قیام کے دوران حضور رحمہ 278

Page 279

اللہ تعالیٰ نے ایک مسجد کا سنگ بنیاد بھی رکھا.20 نومبر کو حضور انور رحمہ اللہ تعالی اندرون سندھ کا دورہ مکمل فرمانے کے بعد کراچی تشریف لے گئے جہاں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مختصر قیام فرمایا اور مجالس عرفان بھی منعقد فرمائیں.الفضل 29 نومبر 2 9 دسمبر 1966ء) حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے کراچی (سندھ) کو دوسرا دورہ 1980ء میں فرمایا اس دورہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جام شورو میں مختصر قیام فرمایا اور خاص طور پر طلبا کو بیش قیمت نصائع سے نوازا.علم کے ہر میدان خصوصاً سائنس اور ٹیکنالوجی میں نمایاں کامیابیوں کے حصول کی تلقین فرمائی جام شورو سے حضور انور رحمہ اللہ تعالی کم و بیش پونے دو سو کلو میٹر کا سفر کرنے کے بعد محمود آباد تشریف لے گئے.حضرت خلیفة أسبح الثالث رحمہ اللہ تعالی کے سفر یورپ (Europe): (افضل 3 مارچ 1980 ء) 6 جولائی 1967ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے یورپ کا پہلا دورہ فرمایا اور لندن، گلاسگو، کوپن ہیگن (ڈنمارک)، اوسلو اور سٹاک ہالم کے مشنوں کا معائنہ فرمایا.اس دوران حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن کا افتتاح بھی فرمایا اس دورہ کے دوران وانڈز ورتھ ٹاؤن ہال لندن میں امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ کے عنوان سے اک معرکۃ الآرا خطاب بھی فرمایا.13 جولائی 1970 ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ دوسری مرتبہ سفر یورپ کے لئے روانہ ہوئے.اسی دورہ کے دوران حضرت خلیفہ اُسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورک میں مسجد محمود کا افتتاح بھی فرمایا اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے انگلستان کے علاوہ مغربی جرمنی اور سپین کا بھی دورہ فرمایا.1973 ء کو حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے یورپ کا تیسرا دورہ فرمایا.اس دورے کا بنیادی مقصد یورپ میں تبلیغ اسلام اور قرآن کی وسیع پیمانے پر اشاعت کا عظیم منصوبہ تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس دورے کے دوران انگلستان، ہالینڈ، جرمنی، سوئٹزر لینڈ، اٹلی، سویڈن اور ڈنمارک کا دورہ بھی فرمایا.1975ء میں حضرت خلیفہ اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی علاج کی غرض سے یورپ تشریف لے یورپ تشریف لے گئے اور انگلستان، مغربی جرمنی، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ اور سوئٹزر لینڈ کا دورہ بھی فرمایا.اس دورہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے عید الفطر کی نماز پڑھائی امام وقت کے لندن میں نماز پڑھانے کا یہ پہلا موقع تھا.1978ء میں جماعت احمدیہ کی طرف سے منعقدہ کسر صلیب کا نفرنس میں شرکت کے ارادے سے انفرنس میں شرکت کے ارادے سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ لندن روانہ ہوئے اس کانفرنس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت معرکۃ الآرا خطاب بھی فرمایا.1980ء کو حضرت خلیلیہ محی ال ضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے یورپ، امریکہ اور افریقہ کا دورہ فرمایا.19اکتوبر 1980ء کو حضرت خلیفۃ أسبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ساڑھے سات سو سال بعد سپین میں پہلی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا جو مسجد بشارت کے نام سے موسوم ہوئی.اسی دورہ کے دوران حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے انگلستان میں پانچ نئے مشنوں کا افتتاح فرمایا.شخص از حیات ناصر جلد 1.صفحہ 384 تا409) 1970 ء میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مغربی افریقہ کا پہلا دورہ فرمایا مغربی افریقہ میں جماعت احمدیہ کے قیام کے بعد کسی بھی خلیفہ اسی کا یہ پہلا دورہ تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نائیجیریا، غانا، آئیوری کوسٹ، 279

Page 280

گیمبیا، سیرالیون اور لائبیریا کا دورہ فرمایا.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نائیجیریا کے اس وقت کے صدر جنرل یعقوب گوان، لائبیریا کے صدر ٹب مین اور گیمبیا کے صدر داؤد جوارا" سے ملاقات فرمائی.اسی طرح غانا اور سیرالیون کے صدرانِ مملکت کو بھی شرف ملاقات بخشا اس دورہ سے واپسی پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں ریزرو فنڈ قائم فرمایا جس میں جماعت نے اس وقت 53لاکھ روپے جمع کرائے جس سے مغربی افریقہ میں سکول اور کلینک کھول کر ان اقوام کی خدمت اور خوشحالی کے سامان فرمائے.اسی دورہ کے دوران حضور رحمہ اللہ تعالیٰ (حضرت خلیفہ اُسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) نے مسجد اجیواڈے ( نائیجیریا) کی تعمیر شدہ تیسری مسجد کا افتتاح فرمایا اسی طرح غانا کے دارالحکومت آکرہ میں ایک مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا اس کے علاوہ حضور رحمہ اللہ تعالٰی حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے افریقہ کے مختلف ممالک میں مختلف علاقوں میں کئی مساجد کا افتتاح فرمایا اور کئی کا سنگ بنیاد ررکھا.1980 ء میں حضور رحمہ اللہ تعالی ( حضرت خلیفتہ اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالی) نے دوسری مرتبہ افریقہ کا دورہ فرمایا اس دورہ میں بھی حضور رحمہ اللہ تعالیٰ (حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نائیجیریا میں تین بڑی مساجد کا افتتاح فرمایا اس کے علاوہ مغربی افریقہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے تعلیمی اور طبی سر گرمیوں کا جائزہ لیا اور متعدد تعلمی اور طبی مراکز کھولنے کی منظوری فرمائی.حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کے سفر امریکہ و کینیڈا: از حیات ناصر جلد 1.صفحہ 388 تا410) 1976 ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ (حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی) امریکہ و کینیڈا کے پہلے دورے پر روانہ ہوئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے واشنگٹن، ڈیٹن، نیویارک اور نیو جرسی کا دورہ فرمایا اور ان شہروں کے جلسہ ہائے سالانہ میں شرکت فرمائی اور خطابات فرمائے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو کمیونٹی سنٹر بنانے اور ان میں پھلدار پودے لگانے کی تحریک بھی فرمائی.امریکہ کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کینیڈا بھی تشریف لے گئے جہاں آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کا والہانہ استقبال کیا گیا.1980ء میں حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ دوسری مرتبہ امریکہ و کینیڈا کے دورے کے لئے روانہ ہوئے.یہ حضورانور رحمہ اللہ تعالیٰ کا آخری غیر ملکی دورہ تھا.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کے مبارک سفر: 13 جنوری تا 19 جنوری 1983ء فروری 1983.فروری 1984ء 28 جولائی تا13 اکتوبر 1983ء سفر لاہور سفر سندھ سفر یورپ سفر مشرق بعید 22 اگست تا 14 اکتوبر 1983ء سفر کینیڈا اکتوبر تا نومبر 1987ء از حیات ناصر جلد 1.صفحہ 403 تا408) 280 سفر مغربی افریقہ جنوری تا فروری1988ء سفر مشرقی افریقہ 26 اگست تا 28 ستمبر 1988 سفر بھارت 15دسمبر 1991ء ء

Page 281

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا سفر لاہور: 13 جنوری 1983ء کو بعد نماز عصر سوا چار بجے سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی معہ حضرت بیگم صاحبہ چند دن کے لئے لاہور تشریف لے گئے.مسند خافت پر متمکن ہونے کے بعد اندرون ملک حضور رحمہ اللہ تعالٰی کا یہ پہلا تربیتی دورہ تھا.روانگی سے قبل حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اجتماعی دعا کروائی ٹھیک چھ بجے حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ شیخوپورہ پہنچے اور مکرم چودھری انور حسین صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے جہاں بہت سے لوگ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے استقبال کے لئے موجود تھے اور ایک سوال جواب کی مجلس منعقد ہوئی جو ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی آٹھ بجے سب مع قافلہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ لاہور کے لئے روانہ ہوئے اور نو بجے سے چند منٹ قبل ہی مکرم چودھری حمید نصر اللہ صاحب کی کوٹھی واقعہ لاہور چھاؤنی میں پہنچ گئے.14 جنوری کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مسجد احمد یہ دارالذکر لاہور میں نماز جمعہ ادا کی.اس سے قبل ایک گھنٹہ تک حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے نہایت پر معارف خطاب فرمایا.نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مختلف کالجوں کے پچاس کے لگ بھگ طلبا کو شرف ملاقات بخشا اور ان کے مختلف سوالات کے نہایت مدلل جواب ارشار فرمائے.15 جنوری کو چار بجے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے لاہور ہلٹن ہوٹل کے عظیم الشان ہال میں جماعت احمد یہ لاہور کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ میں شرکت فرمائی.15 جنوری سے جاری مجالس سوال و جواب کا سلسلہ 18 جنوری تک جاری رہا.19 جنوری کو اجتماعی دعا کے بعد قریباً سوا چار بجے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ معہ حضرت سیدہ بیگم صاحبہ لاہور سے روانہ ہوئے اور خدا کے فضل سے اڑھائی گھنٹے کے سفر کے بعد حضور بخریت و عافیت ربوہ واپس تشریف لے آئے.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کے دورہ ہائے سندھ: (الفضل 6-7 فروری 1983ء) فروری 1983 ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کراچی تشریف لے گئے اپنے اس سفر کے دوسرے مرحلے میں حضور انور رحمہ اللہ تعالی 20 فروری 1983 ء کو اندرون سندھ کی جماعتوں کے دورے پر روانہ ہوئے اپنے اس دورہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ میر پور خاص اور ناصر آباد کا بھی دورہ فرمایا.اپنے اس دورہ میں حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے کئی ایک پر معارف لیکچر ارشاد فرمائے اور مجالس عرفان منعقد فرمائیں.افضل 15 فروری 1984ء) ستمبر 1983ء کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ ایک بار پھر ناصر آباد میر پور خاص اور حیدر آباد تشریف لے گئے.(الفضل 29 ستمبر 1983 ء) 13 فروری 1984ء کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ عازم سندھ ہوئے اور ناصر آباد، میر پور خاص اور کراچی کی جماعتوں کو شرف استقبال نصیب ہوا.میر پور خاص میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اُمرائے اضلاع، قائدین، مربیان کرام اور صدرانِ جماعت سے خطاب فرمایا، مجالس عرفان منعقد فرمائیں، 17 فروری 1984ء کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ ناصر آباد میں ارشاد فرمایا اور 20 فروری کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ناصر آباد سے کراچی کے لئے تشریف لے گئے.281

Page 282

حضرت خلیفتہ امسح الرابع رحمہ اللہ تعالی کا دورہ یورپ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد پہلی مرتبہ 28 جولائی 1983 ء کو یورپ کے تاریخی سفر پر روانہ ب ہوئے.اس دورے میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ پہلے ناروے تشریف لے گئے اس کے بعد بالترتیب سویڈن، ڈنمارک، جرمنی، آسٹریلیا، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ، سپین، برطانیہ اور سکاٹ لینڈ تشریف لے گئے.اس دورہ کے دوران حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مجالس سوال و جواب منعقد فرمائیں ، کئی پریس کانفرنسز سے خطاب فرمایا، مختلف مشن ہاؤسز کا قیام عمل میں آیا، بے شمار لوگوں کو شرف ملاقات بخشا.اسی دورہ میں حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہسپانیہ (سپین) کی سر زمین پر بننے والی تاریخی مسجد بیت بشارت پیدرو آباد) کا افتتاح بھی فرمایا جو قریباً 700 سال بعد بننے والی سپین کی پہلی مسجد تھی.11اکتوبر کو یورپ کا تاریخی سفر اور تربیتی دورہ مکمل فرمانے کے بعد حضور واپسی کے لئے عازم سفر ہوئے اور 13 اکتوبر 1983 ء کو بخیر و عافیت مرکز سلسلہ پہنچ گئے.( حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کا دورہ مشرق بعید: (رساله خالد جنوری 1983ء.صفحہ 9 تا 18) 22 اگست 1983 ء کو سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشرق بعید کے چار ممالک سنگا پور، نجی، آسٹریلیا اور سری لنکا کے تبلیغی اور تربیتی دورے پر روانہ ہوئے.روانگی سے قبل حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بہشتی مقبرہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزاروں پر اور صحابہ کے مزاروں پر دعا کی.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ کے کسی بھی خلیفہ کا مشرق بعید کا پہلا دورہ تھا.دوره الفضل 22 اگست 1983 ء) حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا دورہ سنگا پور : حضور رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے دورہ کے پہلے مرحلے میں 8 ستمبر 1983 ء کو سنگا پور پہنچے.سنگا پور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی جماعت کے علاوہ انڈونیشیا، ملائشیا اور صباح کے احباب کی بڑی تعداد نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا استقبال نہایت پر تپاک طریقے سے کیا.الفضل 12 ستمبر 1983 ء) و ستمبر کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے سنگا پور کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھائی اسی روز انڈونیشیا سے آئے ہوئے احمدی افراد نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا شرف حاصل کیا.(الفضل 14 ستمبر 1983 ء) 12-11 ستمبر کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے انڈونیشیا، ملائشیا، صباح اور سنگا پور کی مجالس عاملہ کے اجلاس میں شرکت فرمائی اور مجالس عرفان میں بھی تشریف فرما ہوئے.سنگاپور، انڈونیشیا اور صباح کے احباب نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک پر عہد بیعت کی تجدید بھی کی.حضور رحمہ اللہ تعالی کا نجی میں ورود مسعود: (الفضل 17 ستمبر 1983ء) 282

Page 283

حضور رحمہ اللہ تعالیٰ 8 ستمبر سے 15 ستمبر تک سنگا پور کا تبلیغی اور تربیتی دورہ کامیابی سے مکمل فرمانے کے بعد 16 ستمبر کو بذریعہ ہوائی جہاز نجی پہنچے.نجی کے شہر نادی کے ائر پورٹ پر جماعت احمدیہ نجی کے سینکڑوں افراد نے حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ کا پر تپاک استقبال کرنے کی سعادت پائی.نادی شہر کے مشیر بھی حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے استقبال کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے بعد ازاں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ائر پورٹ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا اور سوالات کے جوابات دیئے.18 ستمبر کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے عید الاضحیٰ کی نماز پڑھائی حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے نجی سے جماعت احمدیہ کے احباب کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکانہ اور عید مبارک کا دعائیہ تحفہ ارسال فرمایا.الفضل 20 ستمبر 1983ء) 19 ستمبر کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے نجی کے قائم مقام وزیر اعظم Mr.Edward.Beddors سے ملاقات فرمائی جو نصف گھنٹہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہے.ریڈیو نجی نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے دو انٹرویو ریکارڈ کئے ایک اردو میں اور ایک انگریزی میں.الفضل 24 ستمبر 1983) 20 ستمبر کو مسجد سواوا میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس مشاورت کی صدارت فرمائی حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے نجی کی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرنے کی تحریک فرمائی پھر احمدی بچوں کو ارشاد فرمایا کہ وہ نجی کی زبان سیکھیں.نماز عشا کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس عرفان منعقد فرمائی.21 ستمبر کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ بذریعہ ہوائی جہاز سودا سے لمباسہ تشریف لے گئے جہاں پر لمباسہ ولوڈا اور ندروواقا سے آئے ہوئے احباب نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا پُرتپاک استقبال کیا.مغرب اور عشا کی نمازوں کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس عرفان منعقد فرمائی.(الفضل 25 ستمبر 1983) 22 ستمبر کو حضور رحمہ اللہ تعالی لمباسہ سے تاوی نونی تشریف لے گئے.اس جزیرے سے انٹر نیشنل ڈیٹ لائن گزرتی ہے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ڈیٹ لائن کا معائنہ فرمایا.23 ستمبر کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے نماز جمعہ مسجد فضل عمر سودا میں ادا کی.رات 8 بجے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ یونیورسٹی اور ساؤتھ پیسفک سودا تشریف لے گئے جہاں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک پر معارف لیکچر دیا.حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ کا دورہ آسٹریلیا: الفضل 27 ستمبر 1983) 25 ستمبر 1983ء کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نجی کا نوروزہ دورہ مکمل فرما کے آسٹریلیا کے شہر سڈنی پہنچ گئے مقامی جماعت کے احباب نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا استقبال کیا.( الفضل 28 ستمبر 1983) 26 ستمبر 1983ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بلیک ٹاؤن سڈنی میں جماعت احمدیہ کی مجوزہ مسجد کی جگہ کا دورہ فرمایا اور پر سوز اجتماعی دعا کروائی اسی روز حضور انور رحمہ اللہ تعالٰی نے ٹیلی فون پر ریڈیو آسٹریلیا کے نمائندے کو ایک مختصر انٹرویو بھی دیا.(الفضل یکم اکتوبر 1983) 30 ستمبر کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے آسٹریلیا میں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ایک اور رخشندہ نشان کے طور پر احمد یہ مسجد اور احمد یہ مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھا اس طرح جمعۃ المبارک کی مبارک گھڑی میں مسجد بیت الہدی کی تعمیر 283

Page 284

کے آغاز کے ساتھ ہی آسٹریلیا میں اسلام کی فتح کا نیا دور شروع ہو گیا.( الفضل 2 اکتوبر 1983) 5اکتوبر 1983 ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی زیر صدارت جماعت احمدیہ آسٹریلیا کی پہلی مجلس مشاورت ہوئی جس میں جماعت آسٹریلیا کے پندرہ نمائندے، مرکز سے دو اور انڈونیشیا اور نجی سے ایک ایک نمائندہ اور مولوی محمد حسین صاحب بطور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تربیت یافتہ بزرگ شامل ہوئے.نماز مغرب و عشا کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ مجلس عرفان میں تشریف فرما ہوئے.( افضل 6 اکتوبر 1983) 5اکتوبر کو بھی حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے دارالحکومت کینبرا کی آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس کے زیر اہتمام اسلام کی نمایاں خصوصیات پر ایک معرکۃ الآرا تقریر فرمائی.بعد ازاں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہاں کے قابل دید مقامات دیکھے.16 اکتوبر کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے آسٹریلین کونسل آف چرچ کی نمائندہ مس ماری کو کلے سے ملاقات فرمائی.(الفضل8اکتوبر 1983) حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی سری لنکا آمد 8 اکتوبر کو حضور انور رحمہ اللہ تعالی آسٹریلیا کے نہایت کامیاب دورے کے بعد مع اہل قافلہ سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں پہنچ گئے جہاں کولمبو کے جماعتی عہدیداران کے علاوہ جنوبی ہندوستان کی جماعتوں مدراس، کیرالہ اور حیدر آباد دکن کے بہت سے احباب نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا والہانہ استقبال کیا.ان جماعتوں یعنی ہندوستان کی جماعتوں کے افراد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لئے پہلے ہی کولمبو میں پہنچ گئے تھے.(الفضل 11 اکتوبر 1983ء) حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ 14 اکتوبر 1983ء کو مشرق بعید کے چار ملکوں کا نہایت کامیاب دورہ فرمانے کے بعد بخیر و عافیت مرکز سلسلہ واپس تشریف لے آئے.حضرت خلیة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کا دورہ امریکہ و کینیڈا: اکتوبر نومبر 1987 ء کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے امریکہ و کینیڈا کا دو ماہ کا دورہ فرمایا.17 اکتوبر 1987ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے واشنگٹن میں ایک استقبالیہ میں شرکت فرمائی.کولمبیا کے میئر نے اس دن کو حضرت مرزا طاہر احمد کا دن قرار دیا.9 اکتوبر کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے واشنگٹن میں جماعت کے نئے مرکز اور بیت الذکر کا سنگ بنیاد رکھا.130اکتوبر کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے پورٹ لینڈ امریکہ میں مسجد بیت رضوان کا افتتاح فرمایا.اس دورہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے امریکہ میں کل تین بیوت الذکر کا افتتاح اور پانچ کا سنگ بنیاد رکھا.حضرت خلیلة مسح الرابع رحمہ اللہ تعالی کا دورہ مغربی افریقہ: الفضل 11 جون 2003 ء ) جنوری فروری 1988ء کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مغربی افریقہ کا دورہ فرمایا جس میں حضور گیمبیا، سیرالیون، لائبیریا، 284

Page 285

آئیوری کوسٹ، غانا اور نائیجیریا تشریف لے گئے.22 جنوری کو خطبہ جمعہ حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے گیمبیا کے شہر سبا (Saba) میں ارشاد فرمایا جس میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں تحریک نو کی تحریک کا اعلان فرمایا.دورہ گیمبیا کے دوران حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے گیمبیا کی دو بیوت الذکر کا افتتاح فرمایا.24 جنوری کو حضور رحمہ اللہ تعالی سیرالیون (Sierra Leon) پہنچے.سیرالیون کی چھ جماعتوں کا دورہ فرمایا، صدر مملکت سیرالیون سے ملاقات فرمائی اور دو پریس کانفرنسز کیں.29 جنوری کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے سیرالیون میں جامعہ احمدیہ قائم کرنے کا اعلان فرمایا.31 جنوری کو حضور رحمہ اللہ تعالی لائبیریا (Liberia) پہنچے اور صدر مملکت لائبیریا سے ملاقات فرمائی.2 فروری کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ آئیوری کوسٹ (Ivory Coast) پہنچے اور صدر مملکت آئیوری کوسٹ سے ملاقات فرمائی اور دارالحکومت عابد جان میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.اس کے بعد حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ غانا (Ghana) پہنچے اور مشن ہاؤس کی نئی عمارت کا افتتاح فرمایا.حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے غانا کے صدر سے ملاقات فرمائی اور پھر اکرافو (Acrawfu) کے مقام پر غانا کے سب سے پہلے احمدیہ چیف مہدی آپاپا (Chief Mahdi Apapa) کی قبر پر دعا کی.19 فروری کا خطبہ جمعہ حضورانور رحمہ اللہ تعالیٰ نے نائیجیریا (Nigeria) کے شہر اجو کورو (Ojokoro) میں ارشاد فرمایا.حضرت خلیفة المسح الرابع رحمہ اللہ تعالی کا دورہ مشرقی افریقہ: الفضل 12 جون 2003 ء ) 26اگست تا28 ستمبر 1988ء کو حضورانور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مشرقی افریقہ کا دورہ فرمایا.یہ کسی بھی خلیفہ المسیح کا مشرقی افریقہ کا پہلا دورہ تھا.بنیاد رکھا.31اگست کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے شیاندا ( کینیا ) میں نئی بیت الذکر کا افتتاح فرمایا نیز مشن ہاؤس اور مدرسہ کا سنگِ یکم ستمبر کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہلٹن ہوٹل کینیا (Kenya) میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.احمد یہ قبرستان میں رفقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبروں پر دعا بھی کروائی.3 ستمبر کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ یوگنڈا تشریف لے گئے اور وزیر اعظم یوگنڈا (Uganda) سے ملاقات فرمائی.8 ستمبر کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ تنزانیہ (Tanzania) تشریف لے گئے اور دارالسلام یونیورسٹی سے خطاب فرمایا.(الفضل 16 جون 2003ء) 10 ستمبر کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے دارالسلام میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.حضور رحمہ اللہ تعالی مورو گورو (تنزانیہ) میں احمدیہ ڈسپنسری کا افتتاح فرمایا.نیز کسومو کے مقام پر نئے احمدیہ ہسپتال کا سنگ بنیاد بھی رکھا.13 ستمبر کو ایک اور بیت الحمد واقع ڈوڈوما (تنزانیہ) کا افتتاح فرمایا.اگلے دن حضور انور رحمہ اللہ تعالی نیامری عبیدی صاحب کی قبر پر دعا کی، وزیراعظم تنزانیہ سے ملاقات فرمائی.15 ستمبر کو حضور انور ماریشس تشریف لے گئے.اس جزیرے کے ایک مقام (New Grove) میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک بیت الذکر کا سنگ بنیاد رکھا.نیز ملٹری کوارٹرز میں بیت الذکر کا افتتاح فرمایا.285

Page 286

19 ستمبر کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ماریشس کے گورنر جنرل اور وزیر اعظم سے ملاقات فرمائی اسی دن شام کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ماریشس یو نیورسٹی میں ایک لیکچر دیا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کا دورہ بھارت: ( الفضل 17 جون 2003ء) مورخہ 15 دسمبر 1991ء کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ تاریخی صد سالہ جلسہ سالانہ میں شرکت کی غرض سے لندن کے مشہور ہیتھرو ائر پورٹ سے قادیان کے لئے روانہ ہوئے اور اگلے دن یعنی 16 دسمبر کو ہندوستان کے مقامی وقت کے مطابق گیارہ بجے سر زمین پر رونق افروز ہوئے.18 دسمبر کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے غیاث الدین تغلق کے تعمیر کردہ قلعہ اور اس کے بعد قطب مینار کی سیر فرمائی.19 دسمبر کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ دہلی سے امرتسر بذریعہ ٹرین روانہ ہوئے.جب ٹرین امرتسر پہنچی تو وہاں کے D.C اور S.P نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو خوش آمدید کہا.بٹالہ پہنچنے پر ایڈیشنل ڈی سی اور S.D.M بٹالہ نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا استقبال کیا، بٹالہ سے گزر کر حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی منزل یعنی قادیان دارالامان پہنچ گئے جہاں ناظر صاحب اعلیٰ قادیان اور پاکستان کی انجمنوں کے مختلف لوگوں نے شرف استقبال حاصل کیا.مؤرخہ 20 تا 25 دسمبر 1991 ء مسلسل چھ دن مسجد اقصٰی میں بعد از نماز مغرب و عشا مجالس عرفان منعقد ہوتی رہیں جن میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے احباب و مستورات کے تمام سوالات کا جواب نہایت تسلی بخش انداز میں دیتے رہے.26 دسمبر 1991ء کو تاریخی جلسہ قادیان کا آغاز سیدنا خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں لوائے احمدیت کی تقریب پرچم کشائی سے ہوا.یہ مقدس جلسہ سالانہ تین دن تک جاری رہا ان تین دنوں میں حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نہایت بصیرت افروز خطابات فرمائے.اس جلسہ میں نہ صرف ہندوستان کی دور دور کی جماعتوں سے کثرت سے احمدی و غیر احمدی احباب نے شرکت کی بلکہ بیرونی ممالک سے بھی ایک بڑی تعداد شریک جلسہ ہونے کی غرض سے حاضر ہوئی تھی.(ہفت روزه بدر 23 جنوری 1992ء) 4 جنوری 1992 ء کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ براستہ امرتسر دہلی کے لئے عازم سفر ہوئے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جس ٹرین میں سفر فرمایا وہ 4 جنوری کو رات 10:30 بجے دہلی سٹیشن ڑکی جہاں سے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ معہ قافلہ کاروں اور کوچ کے ذریعہ بیت الہادی دہلی پہنچے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا دہلی میں قیام مسجد ہادی سے منسلک مشن ہاؤس میں تھا.10 جنوری 1992 ء کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ کی بیگم صاحبہ سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ جو گزشتہ کئی دنوں سے علیل تھیں لندن واپس تشریف لے گئیں.10 جنوری 1992 ء کو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ دوبارہ قادیان کی مقدس بستی میں وارد ہوئے جہاں خلقت کا ایک انبوہ اپنے آقا کے استقبال کے لئے موجود تھا.قادیان دوبارہ ورود کے بعد حضور نے میونسپل کمشنر قادیان حکیم سئون سنگھ سے بھی ملاقت فرمائی.حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی کے مبارک سفر: (ہفت روزه بدر قادیان 30 جنوری 1992ء) 286

Page 287

سفر مغربی افریقہ 13 مارچ تا 14 اپریل 2003 ء سفر سپین سفر مشرقی افریقہ سفر کینیڈا سفر بھارت سفر مشرق بعید یکم جنوری تا 10 جنوری 2005 ء 26 اپریل تا 25 مئی 2006 ء 4 جون تا 7 جولائی 2005 ء 11 دسمبر 2005 ء تا 17 جنوری 2006ء 4 اپریل تا 15 مئی 2006ء حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا دورہ غانا: : 13 مارچ 2004ء بروز ہفتہ کو حضور ایدہ اللہ تعالٰی وبج کر 40 منٹ پر بیت الفضل لندن سے ہیتھرو ائر پورٹ کے لئے روانہ ہوئے.روانگی سے قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی.ہیتھرو ائر پورٹ پہنچنے پر امیر صاحب یو.کے.اور دوسرے جماعتی عہد یداران نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا.برٹش ائر پورٹ کی فلائٹ 819 BA 12:15 منٹ پر اکرا غانا کے لئے روانہ ہوئی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا جہاز غانا کے لوکل ٹائم کے مطابق شام چھ بج کر 35 منٹ پر اکرا کے انٹر نیشنل ائر پورٹ پر اُترا.تین ہزار سے زائد افراد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے استقبال کے لئے ائر پورٹ پر موجو د تھے.جہاز کی سیڑھیوں پر مکرم عبدالوہاب بن آدم صاحب امیر و مشنری انچارج غانا نے حضور پرنور ایدہ اللہ تعالیٰ کا استقبال کیا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو روایتی سکارف پہنایا.صدر مملکت غانا کی نمائندگی میں ان کے پریس سیکریٹری نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا استقبال کیا.14 مارچ کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ٹی آئی سیکنڈری سکول گومسوا پوٹسن کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے سکول کے نیوی کیڈٹ نے سکول بینڈ کے ساتھ جن کی تعداد ساٹھ تھی، گارڈ آف آنر پیش کیا، سکول میں مسجد کے لئے مجوزہ جگہ اور مسجد کا نقشہ بھی ملاحظہ فرمایا.حضور نے منگوس نامی قصبہ میں تعمیر شدہ وسیع و عریض مسجد بھی دیکھی جس کا افتتاح حضرت خلیفة أمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1988ء میں اپنے دورہ افریقہ کے دوران فرمایا تھا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدیہ ہسپتال اگو نہ سویڈرو کا بھی معائنہ فرمایا.بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ٹی آئی سکول Ekumfi Essarkyi کا دورہ بھی کیا جہاں حضور اکتوبر 1979 ء سے مارچ 1983 ء تک پرنسپل رہے تھے.الفضل 24 تا 26 مارچ 2004ء) 15 مارچ کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ غانا کے نیشنل ہیڈ کوارٹرز کا معائنہ فرمایا.نیشنل کوارٹرز کے Exhibition Hall میں اس گندم کے چند سٹے بھی رکھے گئے تھے جنہیں خود حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قیام غانا کے دوران ٹمالے (Temale) کے نواح میں کاشت فرمایا تھا.اسی دن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے غانا کے صدر مملکت سے ان کے صدارتی محل پر ملاقات فرمائی، اس کے علاوہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ غانا کے احمدیہ پرنٹنگ پریس کی نئی عمارت کے سنگ بنیاد کے طور پر سختی کی نقاب کشائی کی اور دعا کرائی اس پریس کی عمارت کی تعمیر کے بعد پریس اکرا ( Accra ) سے ٹیما(Tema) منتقل ہو جائے گا.الفضل 27 مارچ 2004ء) 16 مارچ کو حضور پرنور ایدہ اللہ تعالیٰ کا سوا (Kasoa) کے لئے روانہ ہوئے کاسوا کے قریب ایک قطعہ زمین جو تین ایکڑر ہے، مخصوص کر کے موصیان کے لئے قبرستان بنایا گیا ہے یہ تمام جگہ الحاج بی.اے بانسو صاحب نے جماعت کو بطور عطیہ دے دی تھی.اس قبرستان کا معائنہ کرنے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ویسٹرن ریجن میں واقع احمد یہ ہسپتال ڈابوسی رقبہ ہے مشتمل 287

Page 288

(Daboase) کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے.ہسپتال کے احاطے میں ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب نے اپنے خرچ پر ایک بیت الذکر تعمیر کروائی تھی، حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کے ساتھ اس بیت الذکر کا افتتاح فرمایا.حضور انور ایدہ اللہ تعالٰی غانا میں جماعت ا عت احمدیہ کی سب سے پہلے بننے والی مسجد واقع سالٹ پانڈ بھی تشریف لے گئے اور اس مسجد کو آباد کرنیکی تلقین فرمائی.الفضل 31 مارچ 2004ء) بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالینے غانا کے 75 ویں جلسہ سالانہ کا آغاز فرمایا.یہ جلسہ دو دن یعنی 18 اور 19 مارچ تک جاری رہا اور اس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بصیرت افروز خطاب بھی فرمائے.جلسہ کے بعد مختلف علاقوں کے پیرا ماؤنٹ چیفس کو شرف ملاقات بخشنے کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ 25 مارچ کو غانا سے بذریعہ کار واگا ڈوگو بُرکینا فاسو کے لئے تشریف لے گئے.( الفضل 6-7 ابريل 2004ء) برکینا فاسو (Burkina Faso) میں ورُودِ مسعود : غانا کا کامیاب دورہ فرمانے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مؤرخہ 25 مارچ 2004 ء بروز جمعرات پاگا(Paga) بارڈر کے راستے نانا سے بُرکینا فاسو میں وارد ہوئے.26 مارچ کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بُرکینا فاسو کے وزیر اعظم اور صدر مملکت کو ملاقات کا شرف بخشا.اس کے علاوہ حضور نے بُرکینا فاسو کے جلسہ سالانہ سے بھی خطاب فرمائے.مورخہ 3 اپریل 2004ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمد یہ ہسپتال وگا ڈوگو کا افتتاح فرمایا.آخر میں بُرکینا فاسو کی مجلس عاملہ اور مربیان کرام کو زریں ہدایات سے نوازنے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ 4 اپریل کو بُرکینا فاسو سے بینن کے لئے روانہ ہو گئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا دورہ بینن (Benin): الفضل 7-8-16 اپریل 2004ء) بینین (Benin) کے مقامی وقت کے مطابق حضور ایدہ اللہ تعالیٰ 14اپریل 2004ء کو بینن کے انٹرنیشنل کو تو نو ائر پورٹ (International Coutonou Air Port) پر 7:20 پر وارد ہوئے.یہ کسی بھی خلیفہ امسیح کا بینن کا پہلا دورہ تھا.جہاز کی سیڑھیوں پر امیر صاحب ببین مجلس عاملہ کے بعض ممبران مربیان اور ڈاکٹرز نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا استقبال کیا.بینن کے دورہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے پیرا کو (Parakou) شہر میں تعمیر ہونے والی پہلی احمدیہ بیت الذكر، بیت العافیہ کا افتتاح بھی فرمایا.نیز اسی شہر کے پہلے ہسپتال کا سنگ بنیاد بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دستے مبارک سے فرمایا، اس کے علاوہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پورٹونووو (Portonovo) کی بیت احمد یہ کا سنگ بنیاد بھی رکھا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بینن کے دورے کے دوران ہمسایہ ملک نائجر (Niger) سے آئے ہوئے وفد سے ملاقات بھی فرمائی، 62 افراد کے اس وفد میں سلطان آف آگاریں اپنے گیارہ رکنی وفد کے ساتھ شامل ہوئے.8 اپریل کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے صدر مملکت ببینن سے ملاقات فرمائی.10 اپریل 2004 ء کو حضور ایدہ اللہ تعالٰی نے بینن کے ایم ٹی اے (M.T.A) سٹوڈیو کا افتتاح فرمایا.11 اپریل کو حضور انور ایدہ اللہ تعالٰی بین کا دورہ مکمل فرمانے کے بعد نائیجیریا کے لئے تشریف لے گئے.288 (الفضل 28 دسمبر 2004ء)

Page 289

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کا دورہ نائیجیر یا(Nageria): بینن کا کامیاب دورہ مکمل کرنے کے بعد حضور پر نور ایدہ اللہ تعالیٰ نائیجیریا کے لئے روانہ ہوئے اور 11 اپریل 2004 ء کو قریباً ساڑھے دس بجے نائیجیریا پہنچے.اس دورہ کے دوران حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے (Owode) بیت الذکر کا افتتاح فرمایا اور دعا کروائی.اس دورہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ نائیجیریا سے خطاب بھی فرمائے.اپنے دورہ نائیجیریا کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہوٹل حفظ کلاس کا سنگِ بنیاد بھی اپنے دست مبارک سے رکھا.ازاں بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اوجورو کو بیت الذکر کا افتتاح بھی فرمایا.13 اپریل 2004 ء کو سوا بارہ بجے مربیان نائیجیریا کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی میٹنگ ہوئی جس میں حضور ایدہ اللہ تعالٰی نے دعوت الی اللہ اور تربیتی پروگراموں کا جائزہ لیا اور تفصیل سے ہدایات دیں.اسی دن شام پانچ بجے حضور انور ایدہ اللہ کی معلمین کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی.14 اپریل 2004ء کو حضور پرنور ایدہ اللہ تعالی افریقہ کا تاریخ ساز دورہ مکمل فرمانے کے بعد کامیابی سے بخیر و عافیت لندن پہنچ گئے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا دورہ سپین (Spain): یکم جنوری 2005ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالی فرانس کا دورہ مکمل فرمانے کے بعد سپین تشریف لے گئے.2 جنوری کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ میڈرڈ اور پھر پیدرو آباد روانہ ہوئے.(الفضل 28 دسمبر 2004ء) 5 جنوری کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے الحمرا محل اور اس سے ملحقہ باغ جنت العریف کا وزٹ (visit) فرمایا.6 جنوری کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سپین کے تاریخی شہر قرطبہ کا وزٹ فرمایا اور جلسہ سالانہ کے انتظامات کا جائزہ لہ 7 جنوری 2005 ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ سپین کے 20 ویں جلسہ سالانہ کا آغاز فرمایا.8 جنوری کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سے اختتامی خطاب فرمایا اس موقع پر صدر مملکت کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا.10 جنوری کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سپین کا دورہ مکمل فرما کر ہمسایہ ملک جبر الٹر تشریف لے گئے.الفضل 12-13-14-19-24 جنوری 2005ء) حضور ایدہ اللہ تعالی دورہ کینیا (Kenya): 26 اپریل 2005 ء کو حضور پرنور ایدہ اللہ تعالیٰ دورہ مشرقی افریقہ کے لئے لندن کے ہیتھرو ائر پورٹ سے روانہ ہوئی اور کینیا کے لوکل ٹائم کے مطابق شام 8:30 منٹ پر نیروبی کے انٹر نیشنل ائر پورٹ پر آپ ایدہ اللہ تعالی کا جہاز اترا.مکرم وسیم احمد چیمہ صاحب نے اپنی مجلس عاملہ کے چند ممبران کے ساتھ حضور کا استقبال کیا.28 اپریل کو کینیا کے چالیسویں جلسہ سالانہ کا انعقاد ہوا اس جلسہ میں کینیا کے نائب صدر جناب موڈی اوری ( Mudi Awori) نے بھی شرکت فرمائی.بعد میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ سے خطاب فرمائے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدیہ بیت الذکر نواشہ کا سنگ بنیاد بھی رکھا.اس کے علاوہ ناکورو (Nakuru) میں بھی ایک بیت الذکر کا سنگ بنیاد حضور ایده 289

Page 290

اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے رکھا.الفضل 42 - 11 مئی2005 ء حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا دورہ تنزانیہ (Tanzania): 8 مئی کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کینیا کا کامیاب دورہ فرمانے کے بعد بذریعہ ہوائی جہاز تنزانیہ کے دارالحکومت دارالسلام VIP لاؤنج میں مکرم امیر صاحب تنزانیہ اور نائب امیر صاحب تنزانیہ کے علاوہ گورنمنٹ کی طرف سے ڈپٹی میئر آف دار السلام نے حضور انور کا استقبال کیا.بیعت ہوئی 9مئی2005 ء کو تنزانیہ کا جلسہ سالانہ تھا.یہ تنزانیہ کا پہلا جلسہ سالانہ تھا جس میں کسی خلیفہ المسیح نے بنفس نفیس شرکت فرمائی.یہ جلسہ 2 دن جاری رہا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس میں دو خطاب فرمائے.دوسرے خطاب کے بعد جس میں 255 غیر از جماعت احباب کو بیعت کی سعادت حاصل ہوئی.13 فروری کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تنزانیہ کے وزیر اعظم Sumay Mr.Hon Fredrict T سے ملاقات فرمائی یہ ملاقات 35 منٹ جاری رہی.افضل 28 مئی و کیم جون 2005ء) 14 مئی 2005 ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے صدر مملکت تنزانیہ جناب (William-Mkapa) ملاقات فرمائی.ملاقات 20 منٹ تک جاری رہی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسی دن تنزانیہ کے مورو گوریجن کے مشن ہاؤس کی نئی عمارت کا افتتاح بھی فرمایا.15 مئی کو حضور انور نے مربیان کرام تنزانیہ سے میٹنگ فرمائی اور ان کے کاموں کا جائزہ لینے کے بعد زریں ہدایات سے بھی نوازا.فرمائے.16 مئی کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے معلمین کرام سے بھی میٹنگ فرمائی اور بعد ازاں ازراہ شفقت معلمین میں قلم تقسیم 17 مئی کو حضور انور انور ایدہ اللہ تعالیٰ تنزانیہ کا دورہ مکمل فرمانے کے بعد بذریعہ ہوائی جہاز یوگنڈا تشریف لے گئے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کا دورہ یوگنڈا (Uganda): (الفضل کم ، 2 جون 2005ء) 17 مئی 2005 ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ تنزانیہ سے بذریعہ ہوائی جہاز یوگنڈا تشریف لے آئے حکومت کی طرف سے VIP لاؤنج میں یوگنڈا کے منسٹر آف سٹیٹ فار فارن افیئر ز نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو یوگنڈا میں خوش آمدید کہا.VIP لاؤنج میں ہی ایک پریس کانفرنس منعقد ہوئی ایک سوال کے جواب میں حضور ایدہ اللہ نے یوگنڈا اور امن کا پیغام دیا.19 مئی 2005 ء کو حضور پر نور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جنجہ میں یوگنڈا کے جلسہ سالانہ سے افتتاحی خطاب فرمایا.20 مئی کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ سے اختتامی خطاب فرمایا.21 مئی کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بوسیا (Busia) کی نئی بننے والی بیت الذکر کا افتتاح بھی فرمایا.پیار 290

Page 291

25 مئی 2005ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالٰی لندن واپسی تشریف لے گئے.الفضل 2-3 جون 2005 ء) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا دورہ کینیڈا (Canada): 4 جون 2005 ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کینیڈا کے دورے کے لئے روانہ ہوئے.حضور انور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا جہاز ہیتھرو ائر پورٹ سے روانہ ہو کر 9 گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد وینکوور ائر پورٹ پر اُترا امیگریشن ایریا میں نائب امیر کینیڈا، صدر جماعت وینکوور اور مرزا محمد افضل صاحب مربی سلسلہ وینکوور نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خوش آمدید کہنے کی سعادت حاصل کی.گورنمنٹ کینیڈا کی طرف سے حضور کو State Guest یعنی حکومتی مہمان قرار دیا گیا.(الفضل 10 جون 2005 ء ) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس دورہ کے دوران وینکوور میں پہلی احمد یہ بیت الذکر کا سنگ بنیاد بھی رکھا.وزیر اعظم کینیڈا نے اپنے پیغام میں جماعت احمدیہ وینکوور کو اس مسجد کے سنگ بنیاد پر مبارک باد پیش کی.اس کے علاوہ حضور نے کیلگری بلکہ پورے صوبہ البرٹا کی پہلی بیت الذکر کا سنگ بنیاد بھی رکھا.24 جون 2005 ء کو کینیڈا کے 29 ویں جلسہ سالانہ کا آغاز ہوا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لوائے احمدیت لہرایا اور امیر صاحب کینیڈا نے کینیڈا کا پرچم لہرایا.25 جون کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء اللہ سے خطاب فرمایا.26 جون کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سے اختتامی خطاب فرمایا.30 جون کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کینیڈا کے وزیر اعظم پال مارٹن سے ملاقات کی اور طلبا جامعہ احمدیہ کا جائزہ لیا اور ہدایات سے نوازا.(الفضل 23 جون، 1-9-13-18 جولائی 2005ء) 5 جولائی کو ساڑھے نو بجے نیشنل مجلس عاملہ کینیڈا کی میٹنگ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوئی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے عاملہ کے ممبران سے باری باری ان کے کام پروگراموں اور آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں دریافت فرمایا اور ہدایات جاری فرمائیں.6 جولائی کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مربیان کی میٹنگ لی جس میں ان کے کاموں کا جائزہ لیا اور ہدایات سے نوازا.ایک ماہ سے زائد عرصہ پر محیط حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ دورہ کینیڈا 7 جولائی کو اختتام پذیر ہوا اور آپ ایدہ اللہ تعالیٰ 7 جولائی بروز بدھ کو لندن واپس تشریف لے آئے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کا دورہ بھارت: (الفضل 21 جولائی 2005ء) ماریشیس کا تیرہ روزہ دورہ مکمل فرمانے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالی 11 ستمبر 2005ء کو ہندوستان تشریف لے آئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا طیارہ 7 گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد دہلی کے اندرا گاندھی ائر پورٹ پر اترا جہاں صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا استقبال کیا.(الفضل 28 دسمبر 2005ء) 291

Page 292

12 دسمبر کو حضور انور ایدہ اللہ نے نیشنل اسمبلی کے سپیکر مسٹر سام ناتھ چڑجی کو شرف ملاقات بخشا اور قطب مینار، مسجد قوت الاسلام کی سیر کی.اس کے علاوہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر پر دعا کی اور غیاث الدین تغلق کے تعمیر کردہ قلعہ تغلق آباد کی سیر بھی کی.اس قلعہ کی سیر کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بیت الہادی تشریف لے گئے اور نماز ظہر وعصر جمع کر کے پڑھائیں.نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور ایدہ اللہ نے مقبرہ ہمایوں دہلی کی سیر بھی کی.13 دسمبر 2005ء کو حضور ایدہ اللہ تعالٰی دہلی سے آگرہ تشریف لے گئے.آگرہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تاریخی تاج محل کی سیر بھی فرمائی.آگرہ اور دہلی کی کئی ایک دیگر تاریخی عمارات کی سیر فرمانے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ قادیان کے لئے روانہ ہو گئے.قادیان میں دورہ مسعود الفضل 5 جنوری 2006ء) 15 ستمبر 2005ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ دہلی سے قادیان تشریف لے گئے.صبح ساڑھے سات بجے شیتا بدی ایکسپریس نامی ریل گاڑی دہلی سٹیشن سے امرتسر کے لئے روانہ ہوئی.جب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی گاڑی لدھیانہ پہنچی تو حضور کا پُر نور چہرہ دیکھتے ہی لدھیانہ کے احمدی احباب بچے اور خواتین فرط جذبات سے سسکنے اور رونے لگے.یاد رہے کہ لدھیانہ شہر وہ تاریخی شہر ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 23 مارچ 1989ء کو حضرت صوفی احمد جان صاحب کے گھر پر بیعت کا آغاز فرمایا تھا.امرتسر میں مختصر قیام کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بٹالہ سے گزرتے ہوئے چار بج کر پچاس منٹر پر دارالامان قادیان ہے کی بستی میں داخل ہوئے اور وہ تاریخ ساز دن آن پہنچا جب خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ کے قدم بطور خلیفہ اسیح پہلی بار قادیان کی مبارک سر زمین پر پڑے تو اس موقع پر قادیان کی پوری بستی کو دُلہن کی طرح سجایا گیا تھا اور مینارة امسیح بجلی کے قمقموں جگمگا رہا تھا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ قادیان میں داخل ہوتے ہی سیدھے بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر لمبی پر سوز دعا کی اور پھر دارا مسیح تشریف لے گئے.16 دسمبر کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مہمان خانہ کا وزٹ فرمایا اور منسٹر پنجاب سردار پرتاب سنگھ باجوہ صاحب سے ملاقات کی.اس ساری کاروائی کو میڈیا نے پہلے کی طرح خوب کوریج دی.(الفضل 13 جنوری 2006ء) 26دسمبر 2005ء کو خدا کے فضل سے قادیان میں 114 ویں جلسہ سالانہ کا پہلا دن تھا جس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لوائے احمدیت لہرایا.بعد میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سامعین سے جلسہ کا افتتاحی خطاب فرمایا.بعد میں حضور ایدہ اللہ تعالٰی نے لنگر خانے اور رہائشی انتظامات کا جائزہ لیا جلسہ سالانہ قادیان کو میڈیا نے بھر پور کوریج دی.الفضل 20 جنوری 2006ء) 27 دسمبر 2005ء کو جلسہ سالانہ کا دوسرا دن تھا جس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء اللہ سے خطاب فرمایا.28 دسمبر کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کا اختتامی خطاب فرمایا.قادیان کے اس جلسہ میں شرکت کے لئے 45 ممالک سے اڑھائی ہزار کے قریب احمدی قادیان آئے ہوئے تھے.29 دسمبر کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے قادیان کی سترھویں مجلس شوری سے خطاب فرمایا بعد میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ ماریشیس کے نئے تعمیر ہونے والے مشن ہاؤس کا افتتاح فرمایا اور اس کا نام سرائے عبیداللہ رکھا یہ نام حضرت مولوی عبیداللہ صاحب جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور مرکز قادیان سے ماریشیس جانے والے دوسرے مربی سلسلہ تھے، کے نام پر رکھا آپ (حضرت مولانا عبید اللہ صاحب رضی اللہ عنہ) عین جوانی کی حالت میں ماریشیس میں خدمت دین 292

Page 293

کی حالت میں وفات پائی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو ہندوستان کا پہلا شہید قرار دیا ہے.بعد میں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 8 نکاحوں کا اعلان بھی فرمایا.المسیح حضرت خلیہ اسح الخامس ایدہ اللہ کا سفر ہوشیار پور: الفضل 30 جنوری 2006ء) 8 جنوری 2006ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ قادیان سے ہوشیار پور کے لئے روانہ ہوئے.ڈیڑھ گھنٹہ کے سفر کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ہوشیار پور پہنچ گئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا استقبال سرو دھرم سو بھاؤ نا کمیٹی کے صدر، ضلع ہوشیار پور کے D.C، اے ایس پی اور D.S.P نے کیا.اس سارے سفر کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالی کو مکمل پولیس سکیورٹی دی گئی.بعد ازاں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اس تاریخی مکان میں تشریف لے گئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چلہ کشی کی تھی اور چالیس دن مسلسل دعاؤں میں گزارے تھے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چلہ کشی والے بالائی مکان میں بڑی لمبی اور پرسوز دعا کروائی اور اس جگہ کو بھی دیکھا جہاں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے سفر ہوشیار پور کے دوران 20 فروری 1944ء کو خطاب فرمایا تھا اور اپنے ” مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا تھا.رات سوا آٹھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ واپس قادیان تشریف لے آئے.( افضل 15 مارچ 2006ء) 11 جنوری 2006ء کو حضور پر نور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جامعہ احمدیہ قادیان کا جائزہ لیا اور طلبا کو زریں ہدایات سے نوازا.( الفضل 16 مارچ 2006ء) 13 جنوری کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نور ہسپتال قادیان کی نئی عمارت کا افتتاح فرمایا.15 جنوری کو قادیان سے لندن واپسی کا اُداس دن تھا.جب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ قادیان سے روانہ ہوئے تو ہر طرف سے سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں.قادیان سے بٹالہ امرتسر اور دہلی سے ہوتے ہوئے حضور پر نور ایدہ اللہ تعالیٰ 17 جنوری 2006ء کو ساڑھے بارہ بجے برٹش ائر ویز کے طیارے سے روانہ ہوئے اور 9 گھنٹے کے سفر کے بعد بخیر و عافیت واپس لندن پہنچ گئے.(الفضل 18 مارچ 2006ء) حضرت خلیفة امسح الخامس ایدہ اللہ تعالٰی کا دورہ مشرق بعید (Far East): سنگا پور (Singapore) کا دورہ: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ 4 اپریل 2006 ء کو مشرق بعید کے دورے پر روانہ ہوئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی پہلی منزل سنگا پور تھی.12 گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سنگا ! پہنچے جہاں احباب جماعت نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا پر تپاک استقبال کیا.7 اپریل کو حضور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور مختلف فیمیلیز سے ملاقاتیں فرمائیں.بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بیت طہ ملحقہ احاطہ میں جماعت سنگا پور کے مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا.9اپریل کو سنگا پور، ملائشیا، انڈونیشیا، کمبوڈیا اور پاپوا نیو گنی کے مربیان و معلمین کی اجتماعی میٹنگ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے 293

Page 294

ساتھ ہوئی جس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مربیان معلمین کو زریں ہدایات سے نوازا.الفضل 17-19-22 اپریل 2006ء) آسٹریلیا (Australia) میں ورود مسعود: 11 اپریل 2006ء کو سنگا پور کا دورہ مکمل فرمانے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالی آسٹریلیا تشریف لے گئے.آسٹریلیا ہ تشریف آوری کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مختلف فیملیز کو شرف ملاقات بخشا.14 اپریل کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آسٹریلیا کے 22 ویں جلسہ سالانہ سے افتتاحی خطاب فرمایا.15 اپریل کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ سے خطاب فرمایا.18 اپریل کو حضور پرنور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ آسٹریلیا کے ساتھ میٹنگ کی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے باری باری تمام شعبوں کا جائزہ لیا اور ہدایات سے سے نوازا.اسی دورہ کے دوران حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خلافت جوبلی ہال کا سنگ بنیاد رکھا اور بیت المسرور کا افتتاح فرمایا.الفضل 24-27-29 اپریل و 86 مئی 2006 ء حضور ایدہ اللہ تعالی کا دورہ نجی (Fiji): حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی آسٹریلیا کے بعد والی منزل زمین کا یک کنارہ نبی کا ملک تھا.128اپریل کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے براہ راست دنیا کے اس کنارے سے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.یہ دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک اہم دن اور سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.اپنے نجی کے دورہ میں حضور ایدہ اللہ نے جزائر فجی کے جلسہ سالانہ سے جو دو دن جاری رہا بھی خطاب فرمائے.130اپریل کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مجلس عاملہ لجنہ و خدام الاحمدیہ کی میٹنگ ہوئی.2 مئی 2006ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ جزیرہ (Taveuni) تشریف لے گئے.یہ وہ جزیرہ ہے جہاں سے انٹر نیشنل ڈیٹ لائن گزرتی ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انٹرنیشنل ڈیٹ لائن کا معائنہ فرمایا.3 مئی کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ ہال کا افتتاح بھی فرمایا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا دورہ نیوزی لینڈ (New Zealand): 4 مئی کو نجی کا کامیاب دورہ فرمانے کے بعد حضور ایدہ اللہ نیوزی لینڈ تشریف لے گئے.الفضل18-19-22 مئی 2006ء) 5 مئی بروز جمعہ کو نیوزی لینڈ کے 17 ویں جلسہ سالانہ کا انعقاد ہوا جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنفس نفیس شریک فرما ہوئے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ نیوزی لینڈ میں پہلا خطبہ جمعہ تھا جو حضور ایدہ اللہ تعالینے اس سر زمین پر دیا اور M.T.A پر براہ راست دیکھا اور سنا گیا.نیوزی لینڈ کا یہ جلسہ سالانہ بیت المقیت میں منعقد ہوا.اس دورہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت نیوزی لینڈ کی مختلف مجالس عاملہ سے میٹنگ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا نیز پروفیسر کیمنٹ (Clement) صاحب کی قبر پر دعا بھی کی.پروفیسر موصوف 1908ء میں قادیان آئے تھے اور دوبار 294

Page 295

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کی شرف حاصل کیا اور احمدیت قبول کر لی تھی اور آخر دم تک قائم رہے.الفضل 31 مئی و یکم جون 2006ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا دورہ جاپان (Japan): 8 مئی 2006ء کو نیوزی لینڈ کا دورہ مکمل فرمانے کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ جاپان تشریف لے گئے جاپان کے دورہ کے دوران حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کروشیا (Croatia) کے سفیر سے بھی ملاقات فرمائی.12 مئی کو جماعت جاپان کے 26 ویں جلسہ سالانہ کا انعقاد ہوا جماعت جاپان کا یہ پہلا جلسہ سالانہ تھاجس میں خلیفہ المسیح نے بنفس نفیس شرکت فرمائی.13 مئی 2006ء کو جلسہ جاپان کا اختتامی دن تھا جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمایا اس دورہ کے دوران حضور نے مختلف ذیلی تنظیموں کی مجالس عاملہ سے میٹنگ فرمائی اور ہیروشیما (Hiroshima) شہر کا وزٹ بھی فرمایا.15 مئی 2006ء کو مشرق بعید کا کامیاب دورہ مکمل فرمانے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ واپس لندن تشریف لے گئے.الفضل 2-3 جون 2006ء) 295

Page 296

296 رؤيا وكشوف خلفائے احمدیت مرتبه مسعود احمد حمد شاہد اُستاد مدرسته الظفر وقف جدید ربوه

Page 297

عناوین رویا و کشوف کی اہمیت از روئے قرآن رؤیا و کشوف کی اہمیت از روئے حدیث رؤیا و کشوف کی اہمیت از حضرت مسیح موعود علیہ السلام رویا و کشوف حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ رؤیا و کشوف حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رؤیا و کشوف حضرت خلیفة اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ رؤیا و کشوف حضرت خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ رؤیا و کشوف کی اہمیت از روئے قرآن : إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَبْشِرُوا بِا لْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُم تُوعَدُونَ - نَحْنُ اَوْلِيَتُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَاتَدَّعُونَ (حم السجدة: 31 و32) یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے، پھر استقامت اختیار کی، ان پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں که خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت ) کے ملنے) سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو.ہم 297

Page 298

اس دنیوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی.اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لیے وہ سب کچھ ہو گا جو تم طلب کرتے ہو.(ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیفه امسیح الرابع رحمه الله تعالی) ط وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلَّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِنْ وَرَآئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بَإِذْنِهِ مَا يَشَآءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ.(سورة الشورى: 52) اور کسی انسان کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی پیغام رساں بھیجے جو اس کے اذن سے جو وہ چاہے وحی کرے.یقیناً وہ بہت بلند شان (اور) حکمت والا ہے.(ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) رؤیا وکشوف کی اہمیت از روئے حدیث: عَنْ أَبِي سَعِيدِ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبَيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ رُؤْيَا يُحِبُّهَا فَإِنَّمَا هِيَ مِنَ اللهِ تَعَالَى فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ عَلِيْهَا وَلْيُحَدِّثُ بِهَا.وَفِي رِوَايَةٍ فَلَا يُحَدِّثُ بِهَا إِلَّا مَنْ يُحِبُّ.وَإِذَا رَأَى غَيْرَ ذَلِكَ مِمَّا يَكْرَهُ فَإِنَّمَا هِيَ مِنَ الشَّيْطَانِ فَلْيَسْتَعِذْمِنْ شَرِّهَا وَلَا يَذْكُرُهَا لَاحَدٍ فَإِنَّهَا لَا تَضُرُّهُ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب تم میں سے کوئی ایسی خواب دیکھے جو اس کو اچھی لگے تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک خوشخبری ہے اس لئے وہ اس خواب کو دیکھنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور لوگوں کو اپنا خواب بتائے.ایک اور روایت میں ہے کہ ایسی خواب صرف اپنے دوستوں کے پاس بیان کرے اور جب وہ کوئی برا خواب دیکھے تو وہ شیطانی خواب ہو گا.اس کے شر سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگے اور کسی کے سامنے اسے بیان نہ کرے اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کے شر سے محفوظ رہے گا.(ترجمه از حديقة الصالحین مصنفہ ملک سیف الرحمن صاحب) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالُوا مَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: اَلرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ.(بخاری کتاب التعبير باب المبشرات و ترمذی کتاب الرؤيا) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبوت کا صرف مبشرات والا حصہ باقی رہ گیا ہے.لوگوں نے پوچھا: مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا اور سچا خواب ( بھی مبشرات کا حصہ ہے).( ترجمہ از حديقة الصالحین مصنفہ ملک سیف الرحمن صاحب) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَكَدُ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ تَكْذِبُ وَرُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِّنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءً مِنَ النُّبُوَّةِ.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جب زمانہ ختم ہونے کے قریب ہو گا یا فاصلوں کے سمٹ آنے کی وجہ سے قرب کا تصور بدل جائے گا تو مومن کا خواب بہت کم غلط ثابت ہو گا.یعنی مومن کو سچی خوابیں آئیں گی.مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں.حصہ ہے.298

Page 299

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص رویائے صالحہ پر ایمان نہیں رکھتا وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا.“ استعداد رکھتا رؤیا و کشوف کی اہمیت از حضرت مسیح موعود علیہ السلام : ( تعطیر الانام جلد 1 صفحہ 2 عبدالغنی نابلسی) حضرت مسیح موعود علیہ السلام رؤیا اور کشوف کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”جب دنیا میں کوئی امام الزمان آتا ہے تو ہزار ہا انوار اس کے ساتھ آتے ہیں اور آسمان میں ایک صورت انبساطی پیدا ہو جاتی ہے اور انتشار روحانیت اور نورانیت ہو کر نیک استعداد میں جاگ اٹھتی ہیں.پس جو شخص الہام کی استعداد رکھتا ہے اس کو سلسلہ الہام شروع ہو جاتا ہے اور جو شخص فکر اور غور کے ذریعہ سے تفقہ کی ہے اس کے تدبر اور سوچنے کی قوت کو زیادہ کیا جاتا ہے اور جس کو عبادات کی طرف رغبت ہو اس کو تعبد اور پرستش میں لذت عطا کی جاتی ہے اور جو شخص غیر قوموں کے ساتھ مباحثات کرتا ہے اس کو استدلال اور اتمام حجت کی طاقت بخشی جاتی ہے اور یہ تمام باتیں در حقیقت اسی انتشار روحانیت کا نتیجہ ہوتا ہے جو امام الزمان کے ساتھ آسمان سے اُترتی اور ہر ایک مستعد کے دل پر نازل ہوتی ہے اور یہ ایک عام قانون سنت الہی ہے جو ہمیں قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کی رہنمائی سے معلوم ہوا اور ذاتی تجارب نے اس کا مشاہدہ کرایا ہے مگر مسیح موعود کے زمانہ کو اس سے بھی بڑھ کر ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ ہ پہلے نبیوں کی کتابوں اور احا دیث نبویہ میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس حس تک ہو گا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائے گا اور نابالغ بچے نبوت کریں گے اور عوام الناس روح القدس سے بولیں گے اور یہ سب کچھ مسیح موعود کی روحانیت کا پرتو ہو گا.“ ( ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد 13 ص474) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بعثت کے ساتھ پیشگوئیوں کے مطابق وہ دروازہ پھر کھولا گیا جس کو لوگ بند کئے بیٹھے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی پیروی کرنے والوں کیلئے خاص طور پر سچے رؤیا، کشوف اور الہامات کا انعام جاری کیا گیا.ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے خلفا کے رؤیا و کشوف اور الہامات درج کئے جاتے ہیں.ا رؤیا و کشوف حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ: اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی اپنے پیاروں کے ساتھ کیا عجیب ہوتا ہے.ایک مرتبہ آپ نے رویا میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ: تمہارا کھانا تو ہمارے گھر میں ہے لیکن نبی بخش کا ہم کو بہت فکر ہے.“ (حیات نور صفحہ نمبر 57 و مرقاة الیقین صفحه 122) اس رؤیا کے بعد حضرت خلیفہ صیح الاول رضی اللہ عنہ نے نبی بخش کو بہت تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکے.بہت دنوں کے بعد جب ملاقات ہوئی تو ان سے پوچھا کہ: آپ کو کوئی تکلیف ہو تو بتائیں اور ضرورت ہو تو میں آپ کو کچھ دام دے دیں؟ کہا کہ مجھ کو بہت شدت کی تکلیف تھی مگر آج مجھ کو چونہ اٹھانے کی مزدوری مل گئی ہے اور پیسے مزدوری کے ہاتھ آ گئے ہیں اس لئے 299

Page 300

ضرورت نہیں.“ حروف مقطعات کا حل: (حیات نور صفحہ نمبر 57 و مرقاة الیقین صفحه 122) 66 دوران قیام ریاست کشمیر حضرت خلیفتہ المسح الاول رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رؤیا دیکھا کہ آپ کے ایک پیر بھائی (یعنی شاہ عبدالغنی صاحب کے مرید ) مولوی عبد القدوس صاحب جو آپ کے مکان پر ترمذی شریف کا سبق پڑھنے آتے تھے ان کی گود میں کئی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جنہیں آپ نے جھپٹا مار کر چھین لیا ہے اور اپنی گود میں لے کر وہاں سے چل پڑے ہیں رستے میں حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ان بچوں سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو انہوں نے بتایا کہ ہمارا نام ” کھیعص “ ہے.اس خواب کی تعبیر حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کی سمجھ میں نہیں آتی تھی جب حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اس خواب کی تعبیر پوچھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کو اس کا علم دیا جائے گا اور یہ کہ ان بچوں سے مراد فرشتے تھے.اس رؤیا کے ایک مدت یعنی 1903 ء میں جب دھرم پال نے اسلام کے خلاف ترک اسلام نامی ایک کتاب لکھی تو اس سے بہت پہلے حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کو خواب میں بتایا گیا تھا کہ اگر کوئی منکر قرآن آپ سے کسی ایسی آیت کا مطلب پوچھے جس سے آپ ناواقف ہوں تو اس کا علم ہم تمہیں دیں گے.چنانچہ ترک اسلام کا جواب لکھتے ہوئے جب حروف مقطعات کی بحث کا موقع آیا تو ایک روز مغرب کی نماز میں دو سجدوں کے درمیان حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ نے صرف اتنا ہی خیال کیا کہ مولا! یہ منکر قرآن حروف مقطعات پر سوال کرتا ہے تو ہی ان کا علم مجھے عطا فرما.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اسی وقت یعنی دو سجدوں کے درمیان قلیل عرصہ میں مجھ کو مقطعات کا وسیع علم دیا گیا جس کا ایک شمہ میں نے رسالہ نورالدین میں مقطعات کے جواب میں لکھا ہے اور اس کو لکھ کر میں خود بھی حیران ہو گیا.“ احادیث پر عمل کرنا ہی حدیثیں کے یا دکرنے کا حقیقی ذریعہ ہے: ایسا ہی جموں میں ایک اور خواب حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ جلا کا کے محلہ میں ٹھٹیروں کی دکان کے پاس جو مندر ہے اس مندر کے سامنے ایک پرچون کی دکان ہے جہاں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں.حضرت خلیفة امسیح الاول رضی اللہ عنہ کو وہاں سے گزرتے دیکھ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم آٹا ہمارے یہاں سے لے جاؤ.یہ فرما کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لکڑی کے ترازو میں آٹا تولا جو بظاہر ایک آدمی کی خوراک کے برابر تھا.جب حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ آٹا اپنے دامن میں لے چکے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضرت! کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کوئی ایسی بات بتائی تھی جس سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں یاد رکھتے تھے؟ فرمایا: ہاں! حضرت خلیفہ ایچ الاول رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ وہ بات مجھے بھی بتادیجئے تاکہ میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں یاد کر لوں.فرمایا: اپنا کان میری طرف کرو.جب حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اپنا کان نزدیک کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فرمانا چاہتے ہی تھے کہ خلیفہ نورالدین رضی اللہ عنہ نے حضرت خلیفۃ ابیح الاول رضی اللہ عنہ کے پاؤں کو زور سے دبایا اور کہا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے.نورالدین کے نماز کے لئے اُٹھانے سے حضرت خليفة أسبح الاول رضی اللہ عنہ نے اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ احادیث پر عمل کرنا ہی حدیثوں کے یاد کرنے کا ذریعہ ہے کیونکہ 300

Page 301

اٹھانے والا بھی خواب کا فرشتہ ہی ہوتا ہے.“ خوشخبری حضرت طلیقہ اسح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (حیات نور صفحہ 126 تا 127) میں اپنی جان و دل سے شہادت دیتا ہوں کہ اپنی آنکھ سے فرشتوں کو دیکھا ہے.......ان کی محبت و احسان کو اپنی آنکھ سے دیکھا اور اپنے کانوں سے انہیں یہ کہتے سنا کہ نَحْنُ اَولِیتُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ هُم دنیا میں تمہارے دوست ہیں.“ استغفار اور لاحول: (الحكم 21 جولائی 1912ء ص3) کتاب نورالدین کے سرورق پر حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهُ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهُ، وَلَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّتَ إِلَّا بِاللهِ کے الفاظ لکھے.ان الفاظ میں دراصل ایک روحانی نظارہ کی طرف اشارہ تھا جو حضرت خلیفۃ اصبح الاول رضی اللہ عنہ کو انہی دنوں دکھایا گیا تھا.حضرت خلیفۃ ابیح الاول رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ہندوؤں کے گھر میں شادی کے بعد ایک مندر کی طرف لے جائے گئے ہیں جس میں دو بڑے بڑے بت ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کی موحدانہ طبیعت میں جوش آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے استغفار پڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک (بت) اپنے آپ گر گیا.پھر آپ رضی اللہ عنہ دوسرے کی طرف متوجہ ہوئے اور بہت استغفار پڑھا مگر دوسرا بت جوں کا توں موجود تھا.تب حضرت خلیفۃ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کو تحریک ہوئی کہ یہاں لا حول کے تیر سے کام لینا چاہئے.چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّتَ إِلَّا بِاللهِ پڑھاتو بت پاش پاش ہو گیا اس کی تفہیم یہ ہوئی کہ ”نورالدین کی اشاعت کے بعد دھرم پال کا فتنہ آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں مٹایا جائے گا اور دوسرا کام خدا تعالیٰ اپنی قدرت سے کر دے گا.چنانچہ وہ دھرم پال جو اسلام کو دنیا سے نعوذ باللہ سب سے برا مذہب قرار دیتا تھا نئے سرے سے اسلام کی تعریف سے رطب اللسان ہو گیا اور اسلام کے خلاف لکھی ہوئی کتابیں اپنے ہاتھ سے جلا (الفضل 22 مئی 1912ء) دیں.نصیر الدین نامی لڑکا: نصیر الدین صاحب حال مانسہرہ ضلع ہزارہ کا بیان ہے کہ ان کے والد عمر دین صاحب کے ہاں میں سال اولاد نہیں تھی.مولوی محمد ریٹی دیپ گراں نے حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کو کشف میں ایک لڑکا نصیر الدین نامی دکھایا گیا.چنانچہ سات ماہ بعد ان کی پیدائش ہوئی اور کشف کی بنا پر ان کا نام نصیر الدین رکھا گیا.روزنامه الفضل ربوه 22 مئی 1999ء ص 8) 301

Page 302

دعاؤں کی برکت: 10 فروری 1911ء کو بیماری کے ایام میں بروز جمعتہ المبارک حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ نے احباب کو مخاطب کر کے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا مجھ پر بڑا فضل ہے.اس بیماری میں خدا تعالیٰ نے اپنی قدرتوں اور بندہ نوازیوں کے عجیب جلوے دکھائے ہیں.میں اس بیماری میں دعاؤں کا بڑا قائل ہو گیا ہوں.دعائیں مجھ پر بڑا بڑا فضل کرتی ہیں.میرے خدا نے مجھ پر بڑے بڑے احسان کئے ہیں.میرا جی چاہتا ہے، خدا تعالیٰ مجھ کو طاقت دے تو میں تم پر وہ انعامات بیان کروں جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر فرمائے ہیں.آج مجھ کو الہام ہوا ہے.کہ اَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاکَ.نیند کے لئے ڈاکٹر مجھے دوائی پلاتے تھے کہ کسی طرح نیند آجائے اور نیند نہیں آتی تھی آج میں نے دوا جو چھوڑ دی تو پانچ گھنٹے نیند آئی.خدا تعالی بڑا بادشاہ ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.“ (حیات نور ص500) 302 ایک مبشر کشف: حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک دفعہ مجھے رویا ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی کمر پر اس طرح اٹھا رکھا ہے جس طرح چھوٹے بچوں کو مشک بناتے ہوئے اٹھاتے ہیں پھر میرے کان میں کہا تو ہم کو محبوب ہے.“ إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ: حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 66 (حیات نور صفحہ نمبر 519 تا520) میں نے بہت عرصہ پہلے خواب میں دیکھا کہ خدا کا غضب بھڑک اٹھا ہے اور زمین تاریک ہو چلی ہے.پہلے طاعون پھیلا ہے پھر اس کے بعد ہیضہ پڑا ہے.چند خاص دوستوں کو میں نے یہ خواب سنا بھی دیا اور دعا شروع کی کہ انہی! تو اپنے فضل وکرم سے احمدی جماعت، پھر خصوصیت سے قادیان کی جماعت پر اپنا رحم فرما.پھر چند روز ہوئے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ملک میں خطرناک طاعون ہے اور ایک عظیم الشان محل ہے جس میں ہم لوگ ہیں گویا خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم پہلے یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ: إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدار.اب صرف اتنی بات ہے کہ ہم اپنے تئیں اس محل میں رہنے کے اہل ثابت کریں.پھر کچھ دن ہوئے میں نے دیکھا کہ انہی ہماری دکانوں پر شیر حملہ کر رہا ہے.پس میں ڈر گیا اور بہت دعا کی اور بارگاہ الہی میں عرض کیا کہ طریق نجات کیا ہے؟ تو مجھ پر کھولا گیا کہ خدا کے حضور کھڑے رہنا اور دعائیں.طوفان میں ایک کشتی ہے جو ٹوٹی ہوئی ہے مگر دعاؤں سے جڑ سکتی ہے.پھر میں اس بات پر غور کر رہا تھا کہ ملک میں وبا کیوں پھیلتی ہے؟ تو ایک ملک (فرشتہ) نے ابھی رستے میں آتے ہوئے مجھے تحریک کی کہ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الدريت: 57) - ہر شخص فائدے کے لئے کوئی چیز بناتا ہے.مثلاً باغبان درخت لگاتا ہے، اب جب تک وہ چیز مثلاً درخت فائدہ دے اسے نہیں اُکھیڑا جاتا لیکن جب وہ غرض جس کے لئے وہ شے بنائی گئی

Page 303

پوری نہ کرے تو پھر اس شے کو توڑ دیا جاتا ہے.“ رحمت الہی: (خطبات نور صفحہ نمبر 487) پنڈ دادن خان میں رہائش کے دوران حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ایک رؤیا دیکھا جسے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک اور رویا میں نے پنڈ دادن خان میں دیکھا.وہاں ایک رشتہ دار تھا جو اپنی فضولیوں میں بڑا مشہور تھا.میں نے اس کو دیکھا کہ وہ بہشت میں ایک بڑی اونچی اٹاری پر ہے.جب میں نے اس کو اور اس نے مجھ کو دیکھا تو میں نے اس سے کہا کہ تم تو بڑے سیہ کار تھے تم کو بہشت میں اور پھر عرفات میں کیونکر موقع ملا؟ اس نے جواب میں کہا کہ: ”میری غریب الوطنی پر جناب الہی نے رحم فرمایا.“ میں نے بیداری کے بعد اس کی بہت جستجو کی مگر کہیں پتہ نہ لگا.یہی معلوم ہوا کہ عرصہ سے مفقود الخبر ہے.دو برس کے بعد ایک میرے رشتہ دار نے مجھ کو بتایا کہ فلاں آدمی بمبئی کے قریب ایک مقام کلیانی میں مر گیا ہے.وہ مکہ معظمہ کو پا پیادہ جاتا تھا.“ بشارت 8 فروری 1914 ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (مرقاة اليقين طبع اول 1912ء ص 160) ”خدا تعالیٰ نے اس بیماری میں مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ پانچ لاکھ عیسائی افریقہ میں مسلمان ہوں گے.پھر فرمایا: مغربی افریقہ میں تعلیم یافتہ ہوں گے.“ مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا فائدہ:.روزنامه الفضل ربوه 22 مئی 1999 ، صفحہ نمبر 5) حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نواب خان صاحب تحصیلدار مرحوم نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں نے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب سے ایک دفعہ عرض کیا کہ مولانا! آپ تو پہلے ہی باکمال بزرگ تھے آپ کو حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے زیادہ کیا فائدہ ہوا؟ اس پر حضرت مولانا صاحب نے فرمایا: نواب خان! مجھے حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے فوائد تو بہت حاصل ہوئے ہیں لیکن ایک فائدہ ان میں سے یہ ہوا ہے کہ پہلے مجھے زیارت بذریعہ خواب ہوا کرتی تھی اب بیداری میں بھی ہوتی ہے.“ حیات نورص 195-196 از حضرت مولانا شیخ عبالقادر صاحب سابق سوداگر مل مقام اشاعت چراغ سٹریٹ نمبر 3 دہلی دروازہ لاہور نومبر 1963 ء) جنتی ہونے کی دعا: 303

Page 304

مؤرخہ 10 مارچ 1912 ء نماز مغرب کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ نے درس کے دوران حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: ” مجھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جتنے لوگ اس وقت تیری مجلس میں بیٹھے ہیں اگر تو ان کے لیے دعا کرے گا تو یہ سب جنت میں جائیں گے.“ چنانچہ اس وقت حضرت خلیفۃ اصبح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: "کوئی دوست میری مجلس سے نہ اٹھیں میں ابھی دعا کرتا ہوں.“ 1913ء کا پر رونق جلسہ: (حیات نور صفحه 552,553 ) جلسہ سالانہ 1913ء کا پر رونق نظارہ دیکھ کر جلسہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل پر شکریہ ادا کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ایک نوٹ لکھا جس میں اپنی اس رویا کا ذکر کیا: اس جلسہ نے ان لوگوں کے خیالات کو بھی باطل کر دیا جو کہتے تھے کہ نورالدین گھوڑے سے گر گیا ہے جب ایک دفعہ خلافت کے خلاف شور ہوا تھا تو مجھے اللہ تعالیٰ نے رویا میں دکھایا تھا کہ میں ایک گھوڑے پر سوار ہوں اور ایسی جگہ پر جا رہا ہوں جہاں بالکل گھاس پھونس نہیں ہے اور خشک زمین ہے پھر میں نے گھوڑے کو دوڑانا شروع کر دیا اور گھوڑا ایسا تیز ہو گیا کہ ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری رانیں نہ ہلیں اور میں نہایت مضبوطی سے گھوڑے پر بیٹھا رہا.دور جا کر گھوڑا ایک سبزہ زار میدان میں داخل ہو گیا جس میں قریباً نصف نصف گز سبزہ اُگا ہوا تھا، اس میدان میں جہاں تک نظر جاتی تھی سبزہ ہی سبزہ نظر آتا تھا.گھوڑے نے تیزی کے ساتھ اس میدان میں بھی دوڑنا شروع کر دیا.جب میں درمیان میں پہنچا تو میری آنکھ کھل گئی.میں نے اس خواب سے سمجھا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ خلافت کے گھوڑے سے گر جائے گا جھوٹے ہیں اور اللہ تعالیٰ مجھے اس پر قائم رکھے گا بلکہ کامیابی عطا فرمائے گا.سو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے میری اس خواب کو بھی پورا کیا اور اس سال کے جلسہ نے اس کی صداقت بھی ظاہر کردی.“ (اخبار الفضل قادیان 7 جنوری 1914ء صفحہ 14) ولادت صاحبزادہ محمد عبداللہ صاحب 18 نومبر 1913ء کو اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ کو پانچواں فرزند عطا فرمایا جس کا نام حضرت خلیفۃ لمسیح الاول رضی اللہ عنہ نے عبداللہ رکھا.یہ بیٹا ایک نشان تھا کیونکہ جن دنوں حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے شدید بیمار تھے اور ڈاکٹر حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کی زندگی سے مایوس تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک لڑکے کی بشارت دی تھی.چنانچہ اس وقت حضرت خلیفۃ ابیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے دیکھا ہے کہ میری جیب میں کسی نے ایک روپیہ ڈال دیا ہے.اس کی تفہیم یہ ہے کہ ایک لڑکا ہوگا.اسی طرح ایک دوسرے موقع پر حضرت خلیفۃ ابیع الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا لمسیح 304

Page 305

”جب میں بہت بیمار ہو گیا تھا.تو ان ایام میں ہمارے ڈاکٹروں نے میری بڑی خدمت کی، ڈاکٹر الہی بخش صاحب رات کو بھی دباتے رہتے.انہوں نے بہت ہی خدمت کی.میرا رونگٹا رونگٹا ان کا احسان مند ہے مگر ان کو میرے بچنے کی امید نہ تھی ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے ایک بیٹے کی بشارت دی جو اب پوری ہوئی.فالحمد الله (حیات نور صفحہ 686) ولی کی رضا مندی کے بغیر ایک بیوہ کے ساتھ نکاح کے بعد خواب: حضرت خلیفة اصبح الاول رضی اللہ عنہ کو ایک بیوہ کا پتہ لگا جسے حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ مختلف اسباب سے پسند کرتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اس کے یہاں نکاح کی تحریک کی وہ عورت تو راضی ہو گئی مگر چونکہ ملک کے لوگ بیوگان کے نکاح کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس لئے اس عورت نے کہا کہ آپ نکاح کر لیں کچھ دنوں کے بعد میرے ولی بھی راضی ہو جائیں گے.حضرت خلیفة اصبح الاول رضی اللہ عنہ نے ان ولیوں کو اس خیال سے معزول سمجھا کہ وہ شریعت کے خلاف بیوہ کے نکاح کو روم کتے ہیں اور نکاح کی جرات کر لی.ابھی وہ عورت حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کے گھر میں نہیں آئی تھی کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے خواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زرد ہے، زمین پر لیٹے ہیں اور داڑھی منڈی ہوئی ہے.حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھ کر حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ ہوشیار ہو گئے اور سمجھ گئے کہ یہ نکاح سنت کے خلاف واقع ہوا ہے.اس پر حضرت خلیفۃ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ایک خط میاں نذیر حسین دہلوی اور ایک خط شیخ محمد حسین بٹالوی کو لکھا جس میں ان سے دریافت کیا کہ اگر الغ ہو مگر ولی نکاح میں روک بنے تو پھر کیا فتویٰ ہے؟ ان دونوں میں سے ایک کا جواب آیا کہ ایسے ولی معزول ہو جاتے ہیں اور بیوہ اپنے اختیار سے نکاح کر سکتی ہے کیونکہ حدیث لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ میں کلام ہے.بیوه خدائی انتباہ: یہ جواب حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے منشا کے عین مطابق تھا اس لئے آپ رضی اللہ عنہ اُٹھے کہ اس عورت کو گھر لے آویں مگر ابھی بیٹھک کے پھاٹک ہی پر پہنچے تھے کہ ایک شخص ایک حدیث کی کتاب لایا اور الْإِثْمُ مَـا حَــاكَ فِي صَدْرِكَ وَلَوْ اَفْتَاكَ الْمَفْتُونُ کی حدیث دکھا کر کہا کہ مجھے اس کا مطلب سمجھا دیجئے.حضرت خلیفۃ اسی الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: اس (حدیث) کو دیکھتے ہی میرا بدن بالکل سن ہو گیا اور میں نے کہا کہ تم لیجاؤ پھر بتادیں گے.“ حضرت خلیفة اصیح الاول رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ یہ خدائی انتباہ ہے جو آپ رضی اللہ عنہ کو مفتی کے فتوے کے بعد ہوا ہے.اس کے بعد جب حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ اس مسئلہ پر غور کرنے لگے تو آپ رضی اللہ عنہ پر نوم غیر طبعی طاری ہوگئی.خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، پچیس سال کے قریب عمر معلوم ہوتی ہے، بائیں جانب سے آپ کی داڑھی شخصی ہے اور دانی جانب بال بہت بڑے ہیں.حضرت خلیفۃ امسیح الاول رضی اللہ عنہ سمجھے کہ اگر بال دونوں طرف کے برابر ہوتے تو بہت خوبصورت ہوتے.پھر معاً حضرت خلیفۃ اصیح الاول رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ چونکہ اس حدیث کے متعلق آپ کو تامل ہے اس لیے یہ فرق ہے.تب حضرت خلیفہ اُسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اسی وقت دل میں کہا کہ اگر سارا جہان بھی اس حدیث کو ضعیف سمجھے تو بھی میں اس کو صحیح سمجھوں گا.یہ خیال کرتے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی دونوں طرف سے برابر ہوگئی اور حضور ہنس پڑے اور حضرت خلیفۃ اسیح الاول عنہ 305

Page 306

رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تو کشمیر دیکھنا چاہتا ہے؟ حضرت خلیفہ اصبح الاول رضی اللہ عنہ نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ یہ فرما کر ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم چلدیئے اور حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ پیچھے پیچھے تھے، بانہال کے راستہ کشمیر گئے.یہ گویا بھیرہ چھوڑنے اور کشمیر کی ملازمت کی تحریک تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوئی.(حیاتِ نور صفحہ 96 تا 97) آخری بیماری کے دوران میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے تین الہام: فروری 1914ء کے آخر اور مارچ 1914ء کے شروع میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی طبیعت بدستور علیل رہی.حرارت بھی ہو جاتی تھی اور رات کے وقت کھانسی کی تکلیف بھی ہو جاتی تھی.ان ایام میں حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کو تین الہام ہوئے..(1 (2 (3 إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَآدُّكَ إِلَى مَعَادٍ - الْحُمى مِنْ نَّارٍ جَهَنَّمَ فَاطْفَوْهَا بِالْمَاءِ 3 بتایا گیا کہ اکثر بیماریوں کا علاج ہوا، پانی اور آگ سے اور دردوں کا آگ اور پانی سے.پھر فرمایا بہت حکمتیں کھلی ہیں.انشاء اللہ طبیعت بحال ہونے پر بتا ؤں گا.رویا وکشوف حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ 1905ء میں ہونے والا الہام: (حیات نور صفحہ 696) حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو اوائل عمری میں ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رؤیا، کشوف اور الہامات سے نوازا گیا چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں ابھی سترہ سال کا تھا جو کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے کہ اس سترہ سال کی عمر میں خدا تعالیٰ نے الہاماً میری زبان پر یہ کلمات جاری کئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ہاتھوں سے ایک کاپی پر لکھ لیے کہ إِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُواكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِیمَةِ کہ وہ جو تیرے متبع ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں قیامت تک ان لوگوں پر فوقیت اور غلبہ دے گا جو تیرے منکر ہوں گے.“ افضل 9 جولائی 1937 ، صفحہ 4 ایک بار فرمایا:.میں سمجھتا ہوں کہ یہ الہام میرے متعلق ہے خدا تعالیٰ نے مجھے ایسے مقام پر کھڑا کیا کہ دنیا اس کی مخالفت کے لیے آگئی، بیرونی مخالف بھی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور منافق بھی اپنے سروں کو اٹھا کر یہ سمجھنے لگے کہ اب ان کی کامیابی کا وقت آگیا ہے مگر میں حضرت نوح علیہ السلام کے الفاظ میں کہتا ہوں کہ جاؤ اور تم سب کے سب مل جاؤ اور سب مل کر اکھٹے ہو کر مجھ پر حملہ کرو اور تم مجھے کوئی ڈھیل نہ دو اور مجھے تباہ کرنے اور مٹانے کے لیے متحد ہو جاؤ پھر بھی یاد رکھو کہ خدا تمہیں ذلیل اور رسوا کرے گا اور شکست پر شکست دے گا اور مجھے اپنے مقصد میں کامیاب کرے گا.“ 306

Page 307

(رویا کشوف سید نا محمود صفحہ نمبر 8 تا9) 1909ء میں ہونے والا الہام: حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمایا: ” مجھے بھی خدا تعالیٰ نے پہلے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا.“ ستمبر 1913ء کی رؤیا: حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمایا: ہے الفضل 8 اپریل 1915 ء) 1913ء میں میں ستمبر کے مہینہ میں چند دن کے لئے شملہ گیا تھا جب میں یہاں سے چلا ہوں تو حضرت خليفة امسیح (الاول) کی طبیعت اچھی تھی لیکن وہاں پہنچ کر میں نے پہلی یا دوسری رات دیکھا کہ رات کا وقت اور قریباً دو بجے ہیں، میں اپنے کمرہ (قادیاں) میں بیٹھا ہوں.مرزا عبدالغفور صاحب (جو کلا نور کے رہنے والے ہیں) میرے پاس آئے اور نیچے سے آواز دی میں نے اٹھ کر ان سے پوچھا کہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت خلیفہ اسیح کو سخت تکلیف ہے تپ کی شکایت ہے ایک سو دو (102) کے قریب تپ ہو گیا تھا آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے بھیجا ہے کہ میاں صاحب کو جا کر کہ دو کہ ہم نے اپنی وصیت شائع کر دی ہے مارچ کے مہینہ کے بدر میں دیکھ لیں.جب میں نے یہ رویا دیکھی تو سخت گھبرایا اور میرا دل چاہا کہ واپس لوٹ جاؤں لیکن میں نے مناسب خیال کیا کہ پہلے دریافت کر لوں کہ کیا آپ رضی اللہ عنہ واقع میں بیمار ہیں؟ سو میں نے وہاں سے تار (Telegram) دیا کہ حضور کا کیا حال ہے؟ جس کے جواب میں حضرت صاحب نے لکھا کہ اچھے ہیں.یہ رویا میں نے اس وقت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کو اور مولوی سید سرور شاہ صاحب کو سنا دی.اب دیکھنا چاہئے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت مجھے حضرت صاحب کی وفات کی خبر دی اور چار باتیں ایسی بتائیں کہ جنہیں کوئی شخص اپنے خیال اور اندازہ سے دریافت نہیں کر سکتا.اول تو یہ کہ حضور رضی اللہ عنہ کی وفات تپ سے ہو گی.دوم یہ کہ آپ رضی اللہ عنہ وفات سے پہلے وصیت کر جائیں گے.سوم یہ کہ وہ وصیت مارچ کے مہینے میں ہوگی.چہارم یہ کہ اس وصیت کا تعلق بدر کے ساتھ ہو گا.سے یہ اگر ان چاروں باتوں کے ساتھ میں یہ پانچویں بات بھی شامل کر دوں تو نامناسب نہ ہو گا کہ اس رؤیا.بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس وصیت کا تعلق مجھ سے بھی ہو گا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میری طرف آدمی بھیج کر مجھے اطلاع دینے سے کیا مطلب ہو سکتا تھا؟ بات کہ بدر میں دیکھ لیں تشریح طلب ہے کیونکہ وہ اس وقت بند تھا.بدر اصل میں چودھویں رات کے چاند کو کہتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے رویا میں ایک قسم کے اخفا رکھنے کے لیے مارچ کی چودھویں تاریخ کا نام 307

Page 308

308 چودھویں تاریخ کی مشابہت کی وجہ سے بدر رکھا اور بتایا کہ یہ واقعہ چودہ تاریخ کو ہو گا.چنانچہ وصیت باقاعدہ ، طور پر جو شائع ہوئی یعنی اس کے امین نواب محمد علی خان صاحب نے پڑھ کر سنائی تو چودہ تاریخ کو ہی سنائی اور اسی تاریخ کو خلافت کا فیصلہ ہوا.“ تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1914 ء.برکات خلافت صفحہ 41 تا46) دسمبر 1932ء کی رؤیا: وو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چند ہی دن ہوئے میں نے ایک اور رویا دیکھا: دروازہ پر آواز دی گئی ہے کہ باہر آئیں ایک ضروری کام ہے.جب میں باہر آیا تو دیکھا کہ دروازہ پر شیخ عبدالرحمان صاحب قادیانی اور منشی برکت علی صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمد یہ کھڑے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک پارسل ہے.پارسل رسیوں سے بندھا ہوا ہے اور اوپر مہریں لگی ہوئی ہیں وہ کاغذات کا بنڈل معلوم ہوتا ہے.انہوں نے بڑے ادب سے کاغذات پیش کئے، میرا ہی ادب نہیں کیا بلکہ کاغذات کا بھی ادب کیا، کہا: یہ پارسل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بصیغہ راز بھیجا ہے اور اس میں تاکیدی ارشاد فرمایا ہے اور یہ بھی کہ حاجی نبی بخش کو بھی شامل کر لیا جائے.منشی برکت علی صاحب کے سپرد میں نے چندہ کشمیر کا کام کیا ہوا ہے اس وقت میرا ذہن اس طرف گیا کہ اس پارسل میں کشمیر کے متعلق خاص ہدایات ہیں تو میں اس کام میں خدائی ہاتھ سمجھتا ہوں.“ جولائی یا اگست 1939ء کی رؤیا: حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمایا: افضل 10 جنوری 1933 ، صفحہ 4) انگلستان اور جرمنی کی ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ میں نے دھرم سالہ میں جہاں میں ان دنوں تبدیلی آب وہوا کے لئے مقیم تھا رویا دیکھا کہ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوں اور میرا منہ مشرق کی طرف ہے کہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے جیسا کہ میرے سرشتہ دار ہوتے ہیں بعض کا غذات میرے سامنے پیش کر دیے وہ کاغذات انگلستان اور فرانس کی باہمی خط و کتابت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.مختلف ڈاکومنٹس (Documents) کے ہے جو بعد ایک ڈاکومنٹ میرے سامنے پیش کیا گیا میں نے اسے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک چٹھی انگریزی حکومت کی طرف سے فرانسیسی حکومت کو لکھی گئی ہے اور اس کا مضمون یہ ہے کہ ہمارا ملک سخت خطرہ میں گھر گیا ہے، جرمنی اس پر حملہ آور ہونے والا ہے اور قریب ہے کہ اسے مغلوب کر لے اس لئے ہم آپ سے خواہش کرتے ہیں کہ انگریزی اور فرانسیسی حکومتوں کا الحاق کر دیا جائے کہ دونوں کے شہریت کے حقوق یکساں ہوں.یہ چٹھی پڑھ کر خواب میں میں سخت گھبرا گیا اور قریب تھا کہ اسی گھبراہٹ میں میری آنکھ کھل جاتی کہ یکدم مجھے آواز آئی کہ یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے یعنی اس حالت کے چھ ماہ بعد حالات بالکل بدل جائیں گے اور انگلستان کے خطرہ کی حالت جاتی رہے گی.یہ رویا دھرم سالہ میں جولائی 1939ء کے آخر میں یا اگست کے شروع میں دیکھا تھا.برطانیہ نے 17 جون 1940 ء کو فرانسیسی حکومت کو تار دیا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے اور فرانس کا برطانیہ سے الحاق کر دیا جائے.حکومت ایک ہو، پاریمنٹس

Page 309

(Parliments) بھی ملا دی جائیں اور خوراک کے ذخائر اور خزانہ کو بھی ایک ہی سمجھا جائے.“ (لنڈن ٹائمنر مورخہ 18 جون 1940 ء) حضرت خلیفۃ لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ اسی رؤیا کے بارے میں مزید فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ نے مجھے دوسری خبر یہ دی کہ یہ چھ مہینے کی بات ہے یعنی چھ ماہ کے بعد انگریزوں کی حالت بدل جائے گی.چنانچہ عین چھ ماہ کے بعد 10 دسمبر اٹلی کو پہلی شکست ہوئی اور انگریزوں کی حالت میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی.“ 6/5 جنوری 1944 ء کی رؤیا: کی الموعود صفحه 132 تا 135) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک رؤیا جو کہ آپ رضی اللہ عنہ نے 6/5 جنوری 1944ء کو دیکھی یہ ایک لمبی رؤیا ہے جس حصے میں آپ نے اپنے مصلح موعود ہونے کا ذکر فرمایا ہے وہ درج ذیل ہے: الله جس وقت میں یہ تقریر کر رہا ہوں جو الہامی ہے) یوں معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ نے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میری زبان سے بولنے کی توفیق دی ہے آپ صلی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصواۃ و السلام کے ذکر ایسا ہی ہوتا ہے اور آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: اَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُود اس کے بعد ان کو اپنی طرف توجہ دلاتا ہوں.چنانچہ اس وقت میری زبان پر جو فقرہ جاری ہوا یہ ہے وَاَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِيْلُهُ وَ خَلِيفَتُهُ اور میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی اس کا مثیل اور اس کا خلیفہ ہوں.تب خواب میں ہی مجھ پر ایک رعشہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان پر کیا جاری ہوا اور اس کا کیا مطلب ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اس وقت معاً میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس کے آگے جو الفاظ ہیں مَشِيلُہ میں اس کا نظیر ہوں اور اس کا خلیفہ ہوں.یہ الفاظ اس سوال کو حل کر دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا اس کے مطابق اور اسے پورا کرنے کے لئے یہ فقرہ میری زبان پر جاری ہوا اور مطلب یہ ہے کہ اس کا مثیل ہونے اور اس کا خلیفہ ہونے کے لحاظ سے ایک رنگ میں بھی مسیح موعود ہوں کیونکہ جو کسی کا نظیر ہو گا اور اس کے اخلاق کو اپنے اندار لے لے گا وہ ایک رنگ میں اس کا نام پانے کا مستحق بھی ہو گا.اس کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے 20 فروری 1944ء کو ہوشیار پور اور 12 مارچ1944 ء کو لاہور اور پھر مختلف جگہوں پر جلسوں میں اعلان فرمایا کہ حضور رضی اللہ عنہ ہی مصلح موعود ہوں.تقریر جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1944ء) 4 مئی 1944 ء کی رؤیا: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کل میں نے ایک چھوٹا سا نظارہ دیکھا جس کا کچھ حصہ یاد رہا اور کچھ حصہ بھول گیا یا شاید اتنا ہی نظارہ تھا.مجھے رویا میں آدمیوں کی قطار نظر آئی جیسے فوج ہوتی ہے مجھے وہ ساری قطار نظر نہیں آتی مگر یوں معلوم ہوتا ہے 309

Page 310

کہ سب لوگ قطاروں میں کھڑے ہیں اور میں اگلی صف میں ایک سرے پر ہوں مجھے وہاں سے ایک دو صفیں نظر آتی ہیں.ایک ایک صف میں پندرہ ہیں آدمی ہیں اور وہ دس بارہ فٹ لمبی چلی جاتی ہے مگر سپاہیوں کی طرح نہیں کہ فاصلہ فاصلہ پر قطاریں ہوں بلکہ ایک قطار کے ساتھ دوسری اور دوسری کے ساتھ تیسری لگی ہوئی ہے اور میں پہلی صف کے سرے پر ایک طرف کھڑا ہوں جیسے افسر کھڑے ہوتے ہیں.اس وقت کوئی شخص بعض الفاظ اپنی زبان سے نکالتا ہے مجھے اس کے سارے الفاظ تو یاد نہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مارچ کا لفظ بولا جاتا ہے کہ وہ کہ رہا ہے یہ مارچ ہے حملہ کے لیے بھی اور فتح کے لیے بھی.یعنی یہ لوگ جو مارچ کریں گے اس میں دشمن پر حملہ بھی ہو جائے گا اور فتح بھی ان کو حاصل ہو جائے گی.مجھے اس کا اصل فقرہ بھول گیا مگر مفہوم یہی تھا کہ یہ فوج اب مارچ کرے گی اور اس کے دو کام ہوں گے اول دشمن پر حملہ کرے گی دوم حملہ کے ساتھ ہی اسے فتح حاصل ہو جائے گی.“ پھر فرمایا: ”وہ لوگ جو قطاروں میں کھڑے ہیں جن کو میں فوج سمجھتا ہوں مگر ان سب کے کپڑے بالکل صاف اور ڈھلے ہوئے ہیں اس سے مجھے خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں زمینداروں میں یہ رُوح پیدا کرنی چاہئے کہ ان کے کپڑے ہمیشہ صاف ستھرے ہونے چاہئیں کیونکہ رویا میں میں نے جتنے آدمی دیکھے ان کے کپڑے کو سادہ تھے مگرسب کے سب دھلے ہوئے اور صاف ستھرے تھے ظاہری نظافت بھی باطنی پاکیزگی کے لیے ایک ضروری چیز ہو کرتی ہے." مئی 1944ء کی رؤیا: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: الفضل 16 مئی 1944ء صفحہ 2) میں نے دیکھا کہ میں ایک جہاز میں ہوں یا ایک ایسی چیز میں ہوں جو (بحری) جہاز کی طرز پر ہے اور اس (بحری جہاز میں سے ساحل پر اُترا جیسے کوئی شخص قبر سے لوٹ کر واپس آتا ہے.عرصہ کی بات ہے دس بارہ سال ہوئے میں نے ایک دفعہ ایک رؤیا میں دیکھا کہ ایک جہاز ہے جو مدرسہ احمدیہ کے صحن میں کھڑا ہے مدرسہ احمدیہ کا صحن لمبا سا ہے اور کچھ کمرے شمال کی طرف ہیں اور کچھ جنوبی طرف، میں نے رویا میں دیکھا کہ جنوبی طرف کے جو کمرے ہیں وہاں کمرے نہیں بلکہ ایک بڑا سا (بحری) جہاز کھڑا ہے اور مدرسہ احمدیہ کا محن ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے جہاز کا یارڈ ہوتا ہے، میں اس جہاز میں بیٹھنے کے لئے گیا ہوں میرے ساتھ کچھ اور دوست بھی ہیں.چودھری ظفر اللہ خاں صاحب بھی میرے ساتھ ہیں.ہم اس جہاز میں بیٹھ گئے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس جہاز میں بیٹھ کر ہم مدینہ منورہ جائیں گے.ہم اس جہاز میں اپنا اسباب بھی رکھ رہے ہیں.اور لوگ بھی اس میں بیٹھ رہے ہیں کہ اتنے میں میں نے حکم دیا ہے کہ ابھی سامان اُتار لو ابھی وقت نہیں آیا کہ مدینہ منورہ جائیں.چنانچہ سب دوست اُتر آئے اور سامان بھی اُتار لیا گیا کیونکہ میں کہتا ہوں کہ ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم مدینہ منورہ میں جائیں.مدینہ جانے سے مراد کسی ایسے مقام کا میسر آجانا ہے جو احمدیت کے لیے اس کی ترقیات اور فتوحات اور کامیابیوں کا ذریعہ ہو جیسے مدینہ منورہ اسلام کی شان و شوکت کا مقام ثابت ہوا اور وہاں پہنچ کر اسلام بڑی سرعت سے چاروں طرف پھیلنا شروع ہوا.پس جہاز کے ذریعہ واپس آنے کے 310

Page 311

ممکن ہے یہ معنی ہوں کہ آج سے دس بارہ سال پہلے جو خبر دی گئی تھی کہ ہم مدینہ منورہ جانے و والے ہیں وہ سفر اب طے ہو گیا ہے اور اللہ تعالیٰ احمدیت کو اپنے فضل سے ایسا مقام عطا کرنے والا ہے جو فتوحات اور کامیابیوں کا پیش خیمہ ہو گا.اسی طرح یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس دوران میں جو ابتلا آئیں وہ بھی بعض کمزور طبائع کے لیے ٹھوکر کا موجب ہوتے ہیں اور بعض کے دلوں میں ان سے افسردگی بھی پیدا ہوتی ہے.“ دو 21 اپریل 1949ء کو ہونے والا الہام: حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمایا: (الفضل 6 جون 1944ء صفحہ 3) جلسہ کے اختتام کے بعد جس دن ہم ربوہ سے واپس چلے (یعنی 21 اپریل 1949ء بروز جمعرات) مجھے ایک الہام ہوا.میں نے جس دن ربوہ سے واپس آنا تھا خاندان کی اکثر سواریاں ٹرین کے ذریعہ آئیں اور میں موٹر کے ذریعہ آیا، اس سے ایک تو پیسے کی بچت ہو گئی کیونکہ اگر میں موٹر میں نہ آتا تو موٹر نے خالی آنا تھا، دوسرے وقت کی بچت ہو گئی.میں، تین چار مستورات اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے چند آدمی، ہم موٹر پر آئے اور باقی افراد ٹرین کے ذریعہ.پہلے ٹرین لیٹ تھی اور اس کے آنے میں دیر ہوگئی اور یقین ہو گیا کہ یہ گاڑی لاہور کو جانے والی گاڑی کو نہیں پکڑ سکے گی اس لئے ہم نے سب سواریوں کو واپس بلالیا کہ سب کو لاریوں میں لے جائیں گے لیکن جب ٹرین آئی تو ایک انسپکٹر جو ساتھ تھا اس نے کہا کچھ ڈبے لاہور سے اگلے جنکشن آئے ہوئے ہیں اور آپ لوگوں کے لئے ریزرو (reserved) ہیں اس لئے انگلی گاڑی ان سواریوں کو لیے بغیر نہیں چلے گی.اس اطلاع پر پھر سواریوں کو ٹرین کے ذریعہ بھیج دیا گیا.جب ٹرین چلی تو معلوم ہو کہ ان کا کھانا رہ گیا ہے چنانچہ کھانا موٹر کے ذریعہ چنیوٹ بھجوایا گیا.اب صورت یہ تھی کہ جب تک موٹر واپس نہ آئے میں لاہور نہیں آ سکتا تھا اس لئے میں لیٹ گیا اور مجھ پر ایک غنودگی سی طاری ہو گئی اس نیم غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھ رہا ہوں.جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا کے پاؤں میں نے اسی حالت میں سوچنا شروع کیا کہ اس الہام میں جاتے ہوئے سے کیا مراد ہے؟ اس پر میں نے سمجھا کہ مراد یہ ہے کہ اس وقت تو پانی دستیاب نہیں ہو سکا لیکن جس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام رگڑنے سے زمزم پھوٹ پڑا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ کوئی ایسی صورت پیدا کردے گا کہ جس سے ہمیں پانی وافر میسر آنے لگے گا.اگر پانی پہلے ہی مل جاتا تو لوگ کہ دیتے کہ یہ وادی بے آب و گیاہ نہیں یہاں تو پانی موجود ہے.پاؤں کے نیچے سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اسماعیل قرار دیا ہے جس طرح اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے پانی یہ نکلا تھا اسی طرح یہاں خدا تعالیٰ میری دعاؤں کی وجہ سے پانی بہا دے گا، ” بہانے سے مطلب یہ ہے کہ پانی وافر ہو جائے گا.“ الفضل 18 اگست 1949ء صفحہ 5) 26/27 مئی 1950ء کا خواب: 311

Page 312

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے خواب دیکھا کہ ایک مرد ہے جو اپنے پاؤں سے کسی چیز کو مسل رہا ہے مگر خواب میں میں اس کو ایک مرد نہیں سمجھتا بلکہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ تمام مردوں کا نمائندہ یا ان کا قائم مقام ہے.اس مرد پر ایک چادر پڑی ہوئی ہے اور وہ اپنے پیروں کو زمین پر اس طرح مار رہا ہے جیسے کسی چیز کو مسلنے کے لئے بار بار پیر مارے جاتے ہیں.اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ جہاں اس کے پیر ہیں وہاں کیچڑ میں دنیا بھر کی عورتیں مچھلیوں کی صورت میں پڑی ہوئی ہیں.اور وہ ان کو اپنے پیروں سے مسلنا چاہتا ہے.یہ دیکھ کر میرے دل میں عورتوں کی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا اور میں اس کے سینے پر چڑھ گیا اور پھر میں نے اپنی لاتیں لمبی کیس اور جہاں اس کے پاؤں ہیں وہاں میں نے بھی اپنے پاؤں پہنچا دیئے مگر وہ تو ان عورتوں کو مسلنے کے لیے اپنے پیر مار رہا ہے اور میں اس کے پاؤں کی حرکت کو روکنے اور ان عورتوں کو ابھارنے کے لیے اپنے پاؤں لمبے کر رہا ہوں اس دوران میں میں ان عورتوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں : اے عورتو! تمہارے لیے آزادی کا وقت آ گیا ہے، تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کے ذریعہ تمہاری ترقی کے راستے کھول دیئے ہیں اگر اس وقت بھی تم نہیں اٹھو گی تو کب اٹھو گی؟ اور اگر اس وقت بھی تم اپنے مقام اور درجہ کے حصول کے لئے جدو جہد نہیں کرو گی تو کب کرو گی؟ وجہ میں نے دیکھا کہ جوں جوں میں نے ان کو اُبھارنے کے لئے اپنے پیر ہلانے شروع کئے، نیچے سے وہ مچھلیاں جن کو میں عورتیں سمجھتا ہوں اُبھرنی شروع ہوئیں اور وہ اتنی نمایاں ہو گئیں کہ میرے پیروں میں ان کی کھجلی شروع ہو گئی اور اس آدمی کے پیر آپ ہی آپ گھلنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ بالکل گھل گئے پھر میں نے اپنے مضمون کو بدل دیا اور عورتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے میں نے کہا: یہ وقت اسلام اور احمدیت کی خدمت کرنے کا وقت ہے اگر اس وقت مرد اور عورت مل کر کام نہیں کریں گے اور اسلام کے غلبہ کی کوشش نہیں کریں گے تو اسلام دنیا میں غالب نہیں آسکے گا.تم کو چاہئے کہ اپنے مقام کو سمجھو اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہوئے دین کی جتنی خدمت بھی کر سکو اتنی خدمت کرو.پھر میں اور زیادہ زور سے ان سے کہتا ہوں: اگر تمہارے مرد تمہاری بات نہیں مانتے اور وہ دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے اور تمہیں بھی دین کا کام نہیں کرنے دیتے تو تم ان کو چھوڑ دو اور انہیں بتا دو کہ تمہارا ان سے اسی وقت تک تعلق رہ سکتا ہے جب تک وہ دین کی خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں اور یہ الفاظ کہتے کہتے میری آنکھ کھل گئی.یہ رویا اس رویا سے جو پہلے شائع ہو چکی ہے اور جس میں ایک باغ اور ایک بادشاہ کا ذکر ہے ایک دو دن پہلے کی ہے.“ ا نومبر 1951 ء کی رؤیا: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چکی الفضل 20 جون 1950ء صفحہ 2) میں نے دیکھا کہ گویا ہم قادیان سے ہجرت کر رہے ہیں.یہ خیال نہیں آتا کہ وہی ہجرت ہے ہے اور اسی کا دوبارہ نظارہ دکھایا گیا ہے یا کوئی نئی ہجرت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی 312

Page 313

ساتھ ہیں گویا وہ ہجرت کر رہے ہیں اور میں ان کے ساتھ ہوں.جماعت نے اس خیال سے کہ پہلو پر سے کوئی حملہ نہ کرے تمام رستہ پر ایک طرف رسہ باندھا ہوا ہے اور دوسری طرف ریل یا ایسی ہی کسی چیز کی پڑی ہے درمیان میں چھوٹا سا رستہ ہے جس پر سے ہم گزر رہے ہیں.میں آپ علیہ السلام کے ساتھ چل رہا ہوں اور ادب سے ایک دو قدم آپ سے پیچھے رہتا ہوں لیکن جہاں رستہ تنگ ہو جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ باہر والی جانب آپ کے قریب ہو جائے گی اور حملہ کا امکان زیادہ ہو جائے گا وہاں میں تیز قدم چل کر آپ کے پہلو میں ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیتا ہوں تا کہ اگر حملہ ہو تو اس کی زد آپ علیہ السلام پر نہ پڑے اسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی.“ دسمبر 1952ء کی رؤیا: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: افضل 30 نومبر 1951 ، صفحہ 2 میں نے دیکھا کہ میں کچھ لوگوں سے کہتا ہوں کہ ہجرت مکہ مکرمہ کی طرف بھی مقدر ہے اور یہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے بتا رکھا ہے اور میری کاپی میں لکھا ہوا ہے اس وقت میں ایک کاپی نکال کر دکھاتا ہوں کہ دیکھو اس میں یہ لکھا ہوا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بہت سی غیب کی اخبار لکھی ہوئی ہے.اس رؤیا کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کسی وقت مکہ مکرمہ کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کرنی پڑے اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ اپنے اس مقدس شہر کو ہر شر سے بچائے اور اگر کسی وقت اسے خطرہ ہو تو ہم سب احمدی ہوں یا غیر احمدی اس کی حفاظت کے لئے سچی قربانی کی توفیق بخشے.اگر ظاہر مراد نہیں تو شاید اس رویا کی کوئی باطنی تعبیر ہو.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ الفضل 24 دسمبر 1952 ، صفحہ 2) 1956ء کا خواب: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے خواب دیکھا کہ جرمنی کے مبلغ کا ایک خط آیا ہے کہ جرمنی کا ایک بہت بڑا آدمی احمدی ہو گیا ہے.بعد میں رویا میں ہی مجھے تار بھی آئی اور اس میں لکھا تھا کہ وہ احمدی ہو گیا ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعہ جرمنی میں جماعت کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا.“ 2 ستمبر 1956ء کا خواب: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: الفضل 8 فروری 1957ء صفحہ 584) میں نے خواب میں دیکھا جیسے کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے (اغلبا فرشتہ ہی ہو گا) کہ: اللہ تعالی جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اس کی یہ غرض ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے یا جب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو وہ کس سرعت سے آپ کے ساتھ مڑتی ہے یا 313

Page 314

جب آپ اپنی منزل مقصود کی طرف جائیں تو وہ کس طرح اس منزل مقصود کو اختیار کر لیتی ہے.جب وہ فرشتہ یہ کہ رہا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے جولاہوں کی ایک لمبی تانی آئی جو بالکل سیدھی تھی اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ صراط مستقیم کی مثال ہے جس کی طرف آپ کو خدا لے جا رہا ہے اور ہر فتنہ کے موقع پر وہ دیکھتا ہے کہ کیا جماعت بھی اسی صراط مستقیم کی طرف جا رہی ہے یا نہیں.تانی دکھانے سے یہ بھی مراد ہے کہ کس طرح نازک تاگے آپس میں باندھے جا کر مضبوط کپڑا کی صورت اختیار کر لیتے ہیں یہی حالت جماعت کی ہوتی ہے تک ایک امام کا رشتہ اسے باندھے رکھتا ہے وہ مضبوط رہتی ہے اور قوم کے ننگ ڈھانکتی رہتی ہے لیکن امام کا رشتہ اس میں سے نکال دیا جائے تو ایک چھوٹا سا بچہ بھی اسے توڑ سکتا ہے اور وہ تباہ ہو کر دنیا کی یاد سے مٹا دی جاتی ہے.“ نومبر 1956ء کا خواب: حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: افضل 5 ستمبر 1956ء صفحه (1) ”میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائکہ ربوہ کے اوپر، سارے جو میں، وہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ مدینہ سے نکل جائیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے.لیکن قرآن شریف منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑوگے یہ دونوں جھوٹے وعدے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لئے ہیں.چنانچہ دیکھ لو پہلے تو پیغامیوں نے کہا کہ ہمارا اس فتنہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن اب وہ منافقوں کو ہر ممکن مدد دینے کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا روپیہ اور ہماری تنظیم اور ہمارا اسٹیج سب کچھ تمہارے لئے وقف ہے گویا وہی کہ رہے ہیں کہ جو خواب میں بتایا گیا تھا.لیکن ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرے گا کہ وہ اس مدد سے ہٹ جائیں گے اور ان لوگوں سے بے تعلق ہو جائیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی منشا ہے کسی بڑے آدمی کی طرف منسوب ہونا اب باغیوں کو کوئی فائدہ نہیں دے گا اور پیغام صلح والے اپنے وعدے جھوٹے ثابت کریں گے اور کبھی وقت پر ان کی مدد نہیں کریں گے.(نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر، تقریر جلسہ سالانہ 27 نومبر 1957 شائع کردہ الشرکتہ الاسلامیہ لمٹیڈ ربوہ) حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بارش ہو رہی ہے اور ہم نماز پڑھنا چاہتے ہیں مگر بارش کی وجہ سے چونکہ کیچڑ ہے ہم نماز نہیں پڑھ سکتے اور اس جگہ جو چھت ہے وہ (لکڑی کے) بالوں والی نہیں بلکہ لوہے کی سلاخوں کی ہے جس میں سے پانی گر سکتا ہے تب میں نے کسی چیز کا سہارا لے کر جو پاس کی چھت پر لوگ بیٹھے تھے ان سے کہا کہ پاس کے کمرہ میں عورتوں سے کہ دو کہ پردہ کرلیں تا کہ ہم کمرہ میں نماز پڑھ سکیں کیونکہ باہر بارش کی وجہ سے کیچڑ ہے.پھر میں نے ا نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میرا منشا تھا کہ اس جگہ مکان کو وسیع کیا جائے اور کچھ اور چھت ڈال لی جائے تا کہ نمازی اس میں آسکیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.314

Page 315

اس رویا میں بھی قادیان جانے کا ذکر ہے گو زیادہ تفصیلی نہیں.رویا میں زیادہ تفصیل تھی مگر بہر حال یہ بھی ایک مبارک رؤیا ہے اور مسجد مبارک کا دیکھنا بھی اچھا ہے.“ اگست 1957ء کا خواب: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: الفضل یکم فروری 1957ء صفحہ 3-2) ہو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کی پیٹھ کے پیچھے ایک پہاڑی ٹیلہ ہے اس پر کچھ لوگ بیٹھے ہیں اور میں سمجھتا ہو کہ وہ لوگ پیغامی ہیں.اس وقت میرے دل میں خیال گزرا کہ پیغامیوں کے لیے تو خدا نے شکست رکھی ہے یہ ٹیلہ پر کیوں بیٹھے ہیں؟ تب میں نے خلیفہ اول کو مخاطب کر کے یہی بات کہی کہ قرآن کے عین وسط میں تو لکھا ہے کہ مسیح موعود اور آپ کی سچی جماعت بہت اونچی جائے گی اور ٹیلہ پر تو پیغامی بیٹھے ہیں.اس وقت خواب میں مجھے یہ یاد نہیں آیا کہ وسط قرآن میں کون سی سورتیں ہیں.میں نے یوں ہی اشارہ بات کر دی.اس پر خلیفہ اول نے کہا کہ میاں! تم نے ہی اس مسئلہ کے متعلق سوچا ہے تو تم ہی اس پر تقریر کرو.اس کے بعد آنکھ کھل گئی.اور کئی دن میں سوچتا رہا کہ قرآن مجید کے وسط میں کون سا مضمون ہے جس سے میں نے استدلال کیا تھا لیکن خواب کا یہ حصہ ایسا بھولا کہ کسی طرح یاد نہ آتا تھا.آخر ہیں دن کے بعد یہ خواب آئی اور میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ قرآن کے وسط میں سورۃ اسراء آتی ہے جس کے مضمون کے متعلق پرانے مفسرین کا خیال ہے کہ اس میں معراج کا ذکر ہے.گو میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں.ہاں! یاد آیا کہ حضرت خلیفہ اول نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بھی خواب میں کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی مخلص جماعت کے لیے اتنے اونچے جانے کی خبر دی گئی ہے یعنی آسمان تک بلند ہونے کی خبر ہے.“ اکتوبر 1959ء کی رؤیا: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: الفضل 14 اگست 1957ء.صفحہ 3) ” مجھے بھی ایک دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے رویا میں دکھایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا نور ایک سفید پانی کی شکل میں پھیلنا شروع ہوا ہے یہاں تک کہ پھیلتے پھیلتے وہ دنیا کے گوشے گوشے اور اس کے کونے کونے تک پہنچ گیا.اس وقت میں نے بڑے زور سے کہا کہ احمدیوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتے ہوتے ایک زمانہ ایسا آئے گا.انسان یہ نہیں کہے گا اے میرے ربّ! اے میرے ربّ!! تو نے مجھے کیوں پیاسا چھوڑ دیا؟ بلکہ وہ یہ کہے گا کہ اے میرے ربّ! اے میرے ربّ! تو نے مجھے سیراب کر دیا یہاں تک کہ تیرے فیضان کا پانی میرے دل کے کناروں سے اچھل کر بہنے لگا.“ الفضل 28 اکتوبر 1959 ء.صفحہ 4) ایک مبشر رویا: 315

Page 316

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ میں بیت الدعا میں بیٹھا تشہد کی حالت میں دعا کر رہا ہوں کہ الہی! میرا انجام ایسا ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہوا.پھر جوش میں آکر کھڑا ہو گیا ہوں اور یہی دعا کر رہا ہوں کہ دروازہ کھلا ہے اور میر محمد اسماعیل صاحب اس میں کھڑے روشنی کر رہے ہیں.اسماعیل کے معنی ہیں خدا نے سن لی اور ابراہیمی انجام سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا انجام ہے کہ ان کے فوت ہونے پر خدا تعالیٰ نے حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام دو قائمقام کھڑے کر دیئے.یہ ایک طرح کی بشارت ہے جس سے آپ لوگوں کو خوش ہو جانا چاہئے.“ عرفان الہی انوار العلوم جلد 4 صفحہ 288) یہ مبشر رویا اس طرح پوری ہوئی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹوں حضرت اسحق علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو نبوت کے مقام پر فائز کیا اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دو بیٹوں حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو خلیفہ اسیح بنایا الحمد للہ.) رؤیا و کشوف حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ: خلیفہ اللہ تعالیٰ ہی بناتا ہے: حضرت خلیفۃ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی خلافت اور انتخاب خلافت کے بارے میں فرماتے ہیں: ”میری خلافت کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا: يَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيْفَةً فِي الْأَرْضِ “ 66 316 مبشر خواب: حیات ناصر جلد 1.صفحہ 370) حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں: میں نے دیکھا کہ ہم قادیان میں ہیں اور مجھے اور منصورہ بیگم جو میری بیگم ہیں) ان کو عرفانی صاحب کے پھر کسی تقریب پر بلایا گیا ہے اور جب ہم پہنچے ہیں تو وہ گلی (جو ہماری آنکھوں کے سامنے گلیاں پھرتی رہتی ہیں) قادیان کی اسی گلی میں سے گزرے ہیں جو ماتھا ہے گلی کی طرف عرفانی صاحب کے گھر کی وہ بھی وہی ہے جو ہم نے دیکھا تھا لیکن جس وقت ہم اندر داخل ہوئے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک بہت بڑا حلقہ ہے جس کا دروازہ جو ہے اندر داخل ہونے کے لئے وہ بھی قریباً اتنا بڑا ہے جتنی یہ مسجد اور دو منزلہ اوپر تک گیا ہوا ہے.دونوں طرف اس کے کمروں کی قطار ہے اور جہاں وہ ختم ہوتے ہیں وہاں ہماری حویلیاں چاروں طرف کمرے ہوتے ہیں.تو جو مجھے نظارہ نظر آیا اس سے ایک کمرہ پھر دونوں طرف ایک ایک کمرہ وہاں بھی ہے اور سامنے ایک اونچی جگہ ہے سبز گھاس سے ڈھکی ہوئی اور ساری اس تقریب کا انتظام وہاں ہے اور ہمیں ہو لے گئے ہیں اور سب سے اونچی جگہ جو اس قلعہ کے اندر کی دیوار کی طرف منہ کر کے ایک کا وچ بچھا ہوا ہے ہم دونوں کو اس کے اوپر جا کر بٹھا دیا اور اس وقت میں نے دیکھا کہ سامنے کی دیوار جو اندازے کے مطابق

Page 317

317.وہ شاید دو سو یا تین سو فٹ ہو گی جس کا ہال ہی اتنا بڑا تھا دا خلے کا ایک اندازہ کر سکتے ہیں، اتنی خوبصورتی کے ساتھ سجائی ہوئی ہے کہ انسان اس زندگی میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا، مختلف رنگ ہیں جو نکل رہے ہیں دیوار میں سے پھوٹ پھوٹ کر، نہ کوئی بلب ہے وہاں اور نہ کوئی ٹیوب ہے اور اس خوبصورتی میں میں محو ہو جاتا ہوں اتنی خوبصورتی ہے! میں تفصیل میں نہیں جاتا یعنی جب پہلی نظر اس پر پڑی ہے تو میں محو ہو گیا ہوں خوبصورتی میں، کچھ عرصہ کے بعد پھر میں نے اس کی تفصیل میں جانا شروع کیا تو پہلی چیز جو میرے سامنے نمایاں ہوئی یہ تھی کہ سامنے بالکل اس کی بلندی پر جو دوسری منزل کی چھت کے قریب ہے بہت خوبصورت پھول جو پہلے نظر آرہے تھے وہ ابھرے ہوئے تھے تو پہلے ہی لیکن توجہ نے انہیں اور اُبھار دیا اور میں نے دیکھا کہ وہاں پورے اس کی چوڑائی میں جو قریباً اتنی تھی جتنی یہ سامنے کی دیوار ہے.اس کے اوپر لکھا ہوا ہے: الیسَ اللَّهُ بكَافٍ عَبدَہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے اور مختلف رنگ ہیں اس کے بیچ سے پھوٹ رہے ہیں.اس کے بعد میں نے زیادہ غور کرنا شروع کیا خوبصورتی کی تعریف پر تو میں نے دیکھا (ویسے میں مختصر کر رہا ہوں کیونکہ دیر ہو گئی ہے بعض حصہ عام آپ کو بتا نے کے لئے تاکہ آپ کو دعا کی طرف زیادہ توجہ ہو) کہ وہ سارے خوبصورت پھول سے جو ہیں، وہ سارے شعر ہیں جن کو لکھا اس طرح گیا ہے.سبز رنگ کی روشنی ان میں سے نکل رہی ہے کہ وہ پھول نظر آتے ہیں پہلی نظر میں لیکن ہیں وہ شعر.جب میں نے غور کیا، مجھے کوئی شعر یاد نہیں رہا لیکن مجھے یہ یاد ہے کہ میں نے دو چار شعر پڑھے ہیں جب میں نے پڑھے تو مجھے یہ محسوس ہوا کہ یہ تو میرا سہرا ہے، شادی کے موقع پر جو سہرا کہا جاتا ہے، وہ ساری دیوار کے اوپر کئی سو شعر لکھا ہوا ہے اور سارا سہرا ہے اور میں دل میں حیران ہوتا ہوں اور اس کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غیر متوقع حالات میں خوشخبریوں کے سامان پیدا کرے گا، میں دل میں سوچتا ہوں کہ یہ عجیب لوگ ہیں انہوں نے مجھے بتایا ہی نہیں اور میرا یہ انتظام کر دیا ہے یہاں اور میرا سہرا بھی وہاں لکھ دیا ہے اور سارے پہ سجا دیا اور فنکشن کر دیا.یہ کیا انہوں نے کیا ہے؟ یہ عجیب بات ہے کہ نہ کوئی مشورہ اور نہ کچھ اور یہ کیا ہو گیا ہے.تو اس کے بعد میں نے اور غور کیا تو میں نے دیکھا کہ دائیں طرف کا برج اوپر سے نیچے تک نہایت خوبصورتی کے ساتھ سجا ہوا تھا اور جس کے ہر ابھار اور پھول کی شکل میں سے روشنی مختلف رنگوں کی نکل رہی تھی وہ سب کیلے کا ہے یعنی کیلے ہیں اس طرح ترتیب سے رکھے ہوئے کہ انہی سے الفاظ بنتے ہیں اور ان کے اندر سے ہی روشنی نکل رہی ہے.کیلا اپنی تاثیر کے لحاظ سے بہت اچھا ہے اور درمیان میں ساری دیوار کے اوپر جو سجاوٹ ہے وہ خشک پھل کی ہے، بادام اور پستہ اور اس قسم کی دوسری جو چیزیں ہیں ان کے ہی سارے پھول بنائے گئے ہیں اور ان سے ہی وہ شعر لکھے گئے ہیں اور حروف بنائے گئے ہیں اور ہر ٹکڑا جو ہے یعنی ایک بادام جو ہے اس کے اندر سے روشنی نکل رہی ہے کسی میں سے سرخ کسی میں سے سبز، کسی میں سے کسی اور قسم کی مختلف روشنیاں ہیں اور وہ اندر سے پھوٹ پھوٹ کر جس طرح پانی بہ رہا ہوتا ہے چشمہ سے نکل کے اسی طرح روشنیاں نکل رہی ہیں ان سے.پھر میں نے دیکھا تو دائیں طرف ایک کمرہ جو اکیلا ہی ہے اس حصہ کا اور اس بازو کا اس پر جب میری نظر پڑی یعنی مجھے خیال نہیں آتا خواب میں کہ اس وقت اُبھری ہیں لیکن میری نظر پڑی تو ہیں فٹ اونچائی اور بارہ پندرہ فٹ چوڑائی کی دیوار کے اوپر ایک عورت کی تصویر ہے اور جب میں نے اس کو غور سے دیکھا تو مجھے یہ نظر آیا کہ وہ عورت قیام میں ہے.اس طرح اس نے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں.آنکھیں اس کی نیچی ہیں سجدہ گاہ کی طرف اور سر ڈھکا ہوا ہے تو میرے دیکھتے دیکھتے یعنی پہلے تو میں سمجھا تھا کہ تصویر ہے دیوار کے اوپر بن گئی لیکن میرے دیکھتے دیکھتے اس میں زندگی پیدا ہوئی اور اس کے ہونٹ ہلنے

Page 318

لگے اور ہے وہ کافی فاصلے پر مجھ سے ے کیونکہ میں اس کے مقابلہ پر کاؤچ کے اوپر بیٹھا ہو اہوں لیکن وہ بڑی نمایاں مجھے نظر آرہی ہے اور اس کے ہونٹ اس طرح ہل رہے ہیں جس طرح وہ سورۃ فاتحہ پڑھ رہی ہو اور پھر اس کے بعد میں نے دیکھا کہ دائیں طرف وہ مجھے لے گئے ہیں دکھانے کیلئے تو جو دائیں طرف کمرہ تھا جب میں وہاں پہنچا ہوں میں اور جو میرے ساتھی ہیں تو جو سب کا مالک اور ان کا کرتا دھرتا ہے اس نے مجھے کہا یہ دیکھیں دائیں طرف !!! اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا جب میں نے اس طرف دیکھا تو وہاں پانچ آٹھ گز کی کارڈ بورڈ پر جس طرح کا رڈ پر آدمیوں کی شکلیں بنائی گئیں ہوں اس طرح پہلو بہ پہلو وہ کھڑی ہیں وہ پانچ شکلیں جن میں سے یا دو عورتیں تھیں یا تین لڑکیاں دو مرد یا دو لڑکیاں اور تین مرد اب مجھے یاد نہیں رہا اور جب میں نے یوں دیکھا تو ان کے اندر بھی زندگی پیدا ہوئی اور انہوں نے ہونٹ ہلانے شروع کئے لیکن میں یہ نہیں سمجھا کہ یہ ہونٹ قرآن کریم کی تلاوت یا خدا تعالیٰ کی حمد کر رہے ہیں لیکن ہونٹوں کو ہلتے ہوئے میں نے دیکھا اور کہنے والے نے اس وقت یہ کہا کہ یہ وہ ہمارے لوگ ہیں جو مر چکے ہیں تو میں نے اس کو جواب دیا جو تمہارے لوگ مر چکے ہیں مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہیں اور یہ کہ کر کہ مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہیں میں اپنی بائیں طرف گھوم گیا اور وہاں کچھ قرآن مجید رکھے ہوے تھے میں نے انہیں غور سے دیکھنا شروع کر دیا.ویسے تو بڑی مبشر خواب ہے اس کے دو حصے یہ بھی ہیں کہ ان اقوام کا ایک حصہ اسلام کی طرف مائل ہو جائے گا اور کچھ حصہ جو ہیں انہوں نے اپنے لئے ہلاکت اور موت کو اختیار کرنا ہے.ہمیں جس چیز میں دلچسپی ہے وہ یہ ہے کہ جتنوں کو ہم موت اور ہلاکت سے بچا سکیں ہم انہیں بچا لیں.“ دو (خطبات ناصر جلد 1 - صفحہ 782 تا 784) مُبَارَكٌ وَ مُبَارَكٌ وَكُلُّ اَمْرٍ مُبَارَكٌ يَجْعَلُ فِيْهِ: حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جس وقت ہم یورپ گئے اس وقت ہمارا یہ راستہ تھا.پہلے فرینکفورٹ پھر زیورک پھر ہیگ پھر ہیمبرگ.پھر کوپن ہیگن اور پھر لنڈن اور گلاسگو.زیورک میں ایک دن صبح میری آنکھ کھلی تو میری زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا یہ الہام تھا : مُبَارَكٌ وَ مُبَارَكٌ وَكُلُّ اَمْرِ مُبَارَكٌ يَجْعَلُ فِيهِ.(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 83) یہ الہام اخبار الفضل میں بھی چھپ چکا ہے.اس سے دوسرے دن تین بجے کے قریب میری آنکھ کھلی اور میری زبان پر قرآن کریم کی ایک آیت تھی اور ساتھ ہی مجھے اس کی ایک ایسی تعبیر بتائی گئی جو بظاہر انسان ان الفاظ سے نہیں نکال سکتا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تعبیر مجھے اللہ تعالیٰ نے ہی سکھلائی تھی.میں خوش بھی ہوا لیکن مجھے حیرت بھی ہوئی کہ بعض دفعہ کیا کیا تعبیریں نکل آتیں ہیں.اگر میرے ذہن پر چھوڑا جاتا یا آپ میں سے کو کی ماہر تعبیر بنانے والا بھی ہوتا تو اس کی وہ تعبیر نہ کرتا جو اس وقت میرے ذہن میں آئی اور ابھی اس خواب کو دیکھے چار پانچ گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ وہ پوری ہو گئی چونکہ طبیعت پر اثر تھا یہ خواب جلد پوری ہونے والی اس لئے جس وقت منصورہ بیگم کی آنکھ کھلی میں نے انہیں بتا دیا کہ میری زبان پر یہ آیت جاری ہوئی ہے اور مجھے اس کی یہ تعبیر بتائی گئی ہے اس کو یاد رکھ لو.پھر چار پانچ گھنٹوں کے بعد ہمیں پتہ لگ گیا کہ اس تعبیر کے لحاظ سے وہ خواب پوری ہو گئی جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مجھے دلی اطمینان کے لئے اللہ تعالیٰ نے دوسرے ہی روز ایک ایسی بات بتا دی جو چند گھنٹوں میں پوری ہونے والی تھی اور شاید اس وقت ہے 318

Page 319

دنیا کے اس حصہ میں پوری ہو رہی تھی جس کے متعلق خبر دی گئی تھی اسی لئے وہ میرے لئے بھی اور دوسروں کے لیے بھی تقویت ایمان اور تسکین قلب کا موجب ہوئی.وہ خواب کیا تھی اور وہ تعبیر کیا تھی جو مجھے بتائی ایک خاص مصلحت کے ماتحت میں اس وقت نہیں بتا رہا ویسے وہاں بھی اور یہاں بھی میں نے بعض گئی؟ وہ ہے دوستوں کو وہ خواب اور تعبیر بتا دی ہے.اسی طرح کوپن ہیگن میں صبح کی نماز سے پہلے جاگتے ہوئے (گو آنکھیں میری بند تھیں) میں نے ایک نظارہ دیکھا، وہ نظارہ اپنی ذات میں غیر معمولی نہیں لیکن اس کا جو اثر تھا وہ بڑا عجیب اور غیر معمولی تھا کہ دل و دماغ اور جسم کی روئیں روئیں سے سرور اور حمد کے چشمے پھوٹنے لگ گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ کر جو کیفیت ایک مومن کی ہوتی ہے ( وہ عجیب رنگ میں کچھ جذباتی بھی ہوتی ہے اور کچھ مجذوبانہ بھی، وہاں عقل کو کوئی دخل نہیں ہوتا محبت اور پیار کو دخل ہوتا ہے) پیدا ہو گئی.نظارہ تو میں نے صرف یہ دیکھا کہ میں ایک مسجد میں ہوں اور محراب میں تین صفیں پیچھے کھڑا ہوں یعنی تیسری صف میں اور گویا میں انتظار کر رہا ہوں کہ نمازی آئیں تو میں نماز پڑھاؤں.میں نے دیکھا کہ دائیں طرف سے دیوار کے ساتھ ساتھ ایک دوست جن کا نام عبدالرحمن مسجد میں داخل ہوئے ہیں چہرے سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کرتے ہی سیدھے چلے آرہے ہیں اور دیوار کے ساتھ ساتھ پہلی صف کی طرف خراماں خراماں چل رہے ہیں ( پہلی صف میں اس وقت صرف دو تین آدمی ہیں) میرے سامنے ان کا چہرہ کا بایاں حصہ آیا ہے اور عجیب بشاشت اور مسکراہٹ ان کے چہرہ پر پھیل رہی ہے اور اس کو دیکھ کر میرے دل میں بھی عجیب سرور پیدا ہوا میرے پیچھے ایک شخص کھڑا ہے جس کا نام بشیر ہے لیکن میں نے اسے نہیں دیکھا، میں نے خواب اس وقت کسی کو بتائی نہیں تھی لیکن اس روز مبلغین کی کانفرنس تھی شام کو چار بجے کے قریب تبادلہ خیالات اور رپورٹوں کے بعد بعض تجاویز زیر غور آئیں.آخر میں نے کچھ نصائح تھیں.اس وقت میں نے انہیں بتایا کہ آج صبح میرے ساتھ اللہ تعالیٰ نے پیار کا یہ سلوک کیا ہے اور سرور کی یہ روحانی کیفیت میرے اندر اب بھی موجود ہے اس پر چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ کہنے لگے میں نے اور بشیر احمد صاحب آرچرڈ نے گیارہ بجے یہ باتیں کیں تھیں کہ کوئی بات ضرور ہے حضور وہ نہیں جو روز ہوا کرتے تھے.تو گویا اس وقت وہ بھی ایک روحانی کیفیت محسوس کر رہے تھے اور میں اس وقت بھی سرور محسوس کر رہا تھا.گیارہ بجے کے قریب پندرہ منٹ کے لئے ہم نے کانفرنس کو بند کر دیا تھا کہ مبلغین ایک ایک پیالی چائے پی لیں کیونکہ وہاں لوگوں کو اس وقت ایک پیالی چائے پینے کی عادت ہے اور بشیر احمد آرچرڈ انگریز ہیں اور سکاٹ لینڈ میں ہمارے مبلغ ہیں.پس رحمن کی رحمانیت نے ایک بشارت دی اور کوپن ہیگن میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے پیار کے نظارے دیکھے اور لوگوں میں اس قدر رجوع تھا کہ وہاں بڑی تعداد میں آ رہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان لوگوں کو کچھ پتا نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور فرشتے ان کو دھکے دے کر بلا رہے ہیں.“ مبشر خواب: (خطبات ناصر جلد 1 صفحہ 821 تا 823) حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرینکفرٹ میں جرمن قوم کے متعلق اپنا پرانا مبشر خواب سنایا: کہ ایک جگہ ہے وہاں ہنکر بھی موجود ہے اور وہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ سے کہتا ہے کہ آئیں میں آپ کو اپنا عجائب خانہ دکھاؤں.چنانچہ وہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو 319

Page 320

ایک کمرہ میں لے گیا جہاں مختلف اشیا پڑی ہیں.کمرہ کے وسط میں ایک پان کی شکل کا پتھر ہے جیسے دل ہوتا ہے اس پتھر پر لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ لکھا ہوا ہے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تعبیر یہ فرمائی کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمن قوم اگر چہ اوپر سے پتھر دل ہے یعنی دین سے بے گانہ نظر آتی ہے مگر اس کے دلوں میں اسلام قبول کر نے کی صلاحیت موجود ہے.“ ہوئے فرمایا: حیات ناصر جلد 1 صفحہ 102) چنانچہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1973ء کے دورہ جرمنی میں ٹیلی ویژن کے نمائندوں کو انٹرویو دیتے آئندہ پچاس سال تک انشاء اللہ جرمن قوم اسلام قبول کر لے گی.اسلامی نقطہ نگاہ اور سائنسی ترقی میں باہم کوئی تضاد نہیں اس لئے ہمیں یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن اسلام ضرور یورپ میں پھیل کر رہے گا آئندہ زمانہ اگر آپ نہیں تو آپ کے بچے ضرور اسلام قبول کریں گے.میں نے عرصہ ہوا خواب میں دیکھا کہ جرمن قوم کے دلوں پر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ لکھا ہوا ہے.مجھے یقین ہے کہ یہ قوم بالآخر ضرور مسلمان ہوگی.“ الفضل ربوہ 27 ستمبر 1973 ء) ایناں دیواں گا کہ تو رج جاویں گا حضرت خلیفۃ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 18 مارچ 1966ء بمقام ربوہ میں فرمایا: گزشتہ رات بارہ ساڑھے بارہ بجے تک مجھے یہ توفیق ملی کہ میں دوستوں کے خطوط پڑھوں اور اس کے ساتھ ساتھ لکھنے والوں کے لئے دعا بھی کروں.پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق بھی عطا کی کہ میں اپنی کمزوری نا توانی اور بے مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے طاقت مانگوں.ہمت طلب کروں اور توفیق چاہوں تا اس نے جو ذمہ داریاں مجھ پر ڈالی ہیں انہیں صحیح رنگ میں اور احسن طریق میں پورا کر سکوں.پھر میں نے جماعت کی ترقی اور احباب جماعت کے لیے بھی دعا کی توفیق پائی.صبح جب میری آنکھ کھلی تو میری زبان پر یہ فقرہ تھا که ایناں دیواں گا کہ تو رج جاویں گا قرآنی انوار کا عالمی انتشار: حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 5.اگست 1966ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: (روزنامه الفضل ربوہ 23 مارچ 1966ء ) کوئی پانچ ہفتے کی بات ہے......ایک دن جب میری آنکھ کھلی تو میں بہت دعاؤں میں مصروف تھا اس وقت عالم بیداری میں میں نے دیکھا کہ جس طرح بجلی چمکتی ہے اور زمین کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشن کر دیتی ہے اسی طرح ایک نور ظاہر ہوا اور اس نے زمین کے ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک ڈھانپ لیا.پھر میں نے دیکھا کہ اس نور کا ایک حصہ جیسے جمع ہو رہا ہے.پھر اس نے الفاظ کا جامہ پہنا اور ایک پر شوکت آواز فضا میں گونجی جو اس نور سے ہی بنی ہوئی تھی اور وہ یہ تھی: بشرى لَكُمْ.یہ ایک بڑی بشارت تھی لیکن اس کا ظاہر کرنا ضروری نہ تھا ہاں دل میں ایک خلش تھی اور خواہش تھی کہ جس نور کو میں نے زمین کو ڈھانپتے ہوئے دیکھا ہے جس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک زمین کو منور کر دیا ہے اس کی 320

Page 321

بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے مجھے سمجھائے.چنانچہ وہ ہمارا خدا جو بڑا ہی فضل کر نے والا اور رحم کرنے والا ہے اس نے خود اس کی تعبیر اس طرح سمجھائی کہ گزشتہ پیر کے دن میں ظہر کی نما ز پڑھا رہا تھا اور تیسری رکعت کے قیام میں تھا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کسی غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا ہے اور اس وقت مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ جو نور میں نے اس دن دیکھا تھا وہ قرآن کا نور ہے جو تعلیم القرآن اور عارضی وقف کی سکیم کے ماتحت دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے.“ (روز نامه الفضل ربوہ 25 مئی 2000ء صفحہ 11) قیام دین حضرت خلیفة أصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 12 مئی 1967ء بمقام مسجد مبارک ربوہ میں فرمایا: ابھی چند دن کی بات ہے نماز فجر سے قبل میں استغفار میں مشغول تھا ایک خوف سا مجھ پر طاری تھا.اور میں اپنے رب سے اس کی مغفرت کا طالب ہو رہا تھا اس وقت اچانک میں نے محسوس کیا کہ ایک غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا ہے اور میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے: ”قیام دین اور پھر ایک دھکے کے ساتھ جس نے میرے سارے جسم کو ہلا دیا.میں پھر بیداری کے عالم میں آگیا اور اس کی تفہیم مجھے یہ ہوئی کہ موجودہ سلسلہ خطبات ( تعمیر بیت اللہ کے تئیس (23) عظیم الشان مقاصد.ناقل) کے ذریعہ جو پیغام میں جماعت کے سامنے رکھنے والا ہوں.اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دین اسلام کو قائم کرے گا، اس کے استحکام کے سامان پیدا کرے گا.(انشاء اللہ) وسعت مکانی کے بارے میں انقلابی بشارت: حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (روز نامه الفضل ربوه 25 مئی 2000ء صفحہ 11 تا12) میں تمہیں مثال دیتا ہوں 1974 ء کی جب یہ کہا گیا کہ سوال جواب ہوں گے اور اسی وقت آپ نے جواب دینا ہو گا تو صدر انجمن احمدیہ نے لکھا کہ نوے سال پر لٹریچر پھیلا ہوا ہے سینکڑوں کتابیں ہیں اور امام جماعت احمدیہ کا یہ دعوی ہرگز نہیں کہ ساری کتب ان کو زبانی یاد ہیں اس واسطے ایک دن پہلے آپ سوال کریں اور اگلے دن جواب مل جائے گا.انہوں نے کہا: نہیں یہی ہو گا.طبعا بڑی اہم ذمہ داری تھی اور پریشانی! ساری رات میں نے خدا سے دعا کی، ایک منٹ نہیں سویا، دعا کرتا رہا، صبح کی اذان کے وقت مجھے آواز آئی بڑی پیاری وَسِّعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ہمارے مہمانوں کی فکر کرو.وہ تو بڑھتے ہی رہیں گے تعداد میں..وسعُ مَكَانَكَ مہمان بڑھتے چلے جائیں گے، ان کی فکر کرو، اپنے مکانوں میں وسعت پیدا کرو.استہزاء کا منصوبہ ضرور بنایا ہے انہوں نے مگر اس کے لئے ہم کافی ہیں.کہتے ہیں 52 گھنٹے 10 منٹ میرے پر جرح کی اور 52 گھنٹے 10 منٹ میں نے خدا کے فرشتوں کو اپنے پہلو پہ کھڑا پایا.“ افضل الذکر لَا إِله إِلَّا الله کی صوتی لہریں: الفضل جلسہ سالانہ نمبر 1980ء.صفحہ 10) 321

Page 322

حالیہ دورہ (1980ء - ناقل) کے دوران مجھے دو مرتبہ کشف میں ایک نظارہ دکھایا گیا کہ کائنات کی ہر شے خدا کی تسبیح اور اس کی وحدانیت کا ورد کر رہی ہے.واقعہ یوں ہے کہ میں سونے کی تیاری میں تھا، لا الهَ إِلَّا الله کا ورد کر رہا تھا، آنکھیں میری بند تھیں مگر کشفی آنکھوں نے یہ نظارہ دیکھا کہ میرے آگے سے سمندر کی طرح کائنات کی ہر چیز ہلکے انگوری رنگ کے مائع کی صورت میں بہتی ہوئی گزر رہی ہے اور اس میں چھوٹے چھوٹے سفید چمکدار حصے تھے جو لا إِلهُ إِلَّا الله کی صوتی لہریں تھیں.“ قرآن کریم کی بکثرت اشاعت: (ماہنامہ خالد نومبر دسمبر 1980ء.صفحہ 7 روز نامہ الفضل ربوہ 25 مئی 2000ء.صفحہ 13) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 11 دسمبر 1976ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.اس وقت اصل چیز یہ ہے جو میرے دل کی تڑپ ہے اور جو آپ کے دل کی آواز ہے کہ قرآن کریم کی کثرت سے اشاعت کی جائے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ہم اس میں کامیاب ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے الہاما مجھے ایسا ہی بتایا ہے تفصیل نہیں بتا سکتا.“ 1980ء کے دورہ مغرب میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس راز سے پردہ اٹھایا اور خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جولائی 1980ء بمقام فرینکفرٹ (جرمنی) فرمایا: ایک دن مجھے یہ بتایا گیا کہ تیرے دور خلافت میں پچھلی دو خلافتوں سے زیادہ اشاعت قرآن کا کام ہو گا.چنانچہ اب تک میرے زمانہ میں پچھلی دو خلافتوں کے زمانوں سے قرآن مجید کی دو گنا زیادہ اشاعت ہو چکی دنیا کی مختلف زبانوں میں اب تک قرآن مجید کے کئی لاکھ نسخے طبع کروا کر تقسیم کئے جاچکے ہیں.“ نشان فتح نمایاں بنام ما باشد: ہے (بحوالہ دورہ مغرب 1400 ھ صفحہ 25، 26 - روز نامہ الفضل ربوہ 25 مئی 2000، صفحہ 13) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ا بھی ماریشس کو 12 مارچ 1968 ء کو آزادی ملی.یہ چھوٹا سا ملک ہے تقریباً تین لاکھ کی آبادی ہے اور مسلمان 20-21 یا 22 فیصد ہیں، 25 فیصد ہندو ہیں اور باقی جو لوگ ہیں وہ کریول (Creol) فرانسیسی بولنے والے عیسائی ہیں، کچھ چینی اور کچھ دوسرے لوگ ہیں یعنی بدھ مذہب وغیرہ.اس موقع پر مسلمان بھی آپس میں پھٹ گئے تھے اور عیسائی بھی کچھ ہندو اکثریت کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے تھے اور کچھ نہیں کر نا چاہتے تھے.جب تک میری ہدایت نہیں آ گئی تھی اپنے احمدیوں کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی اور ان میں بھی اختلاف رائے تھا.میں نے اپنے مربی کو لکھا کہ حکومت سے پورا تعاون کریں کیونکہ ہمارا تو آرٹیکل آف فیتھ (Article of Faith) اور اعتقاد ہی یہ ہے اور ملک کو غیر حکومت سے آزادی مل رہی ہے اس خوشی میں ضرور شامل ہونا چاہئے ، جشن مناؤ پھر دن سیلی بریٹ (Celebrate) کیا گیا یعنی دس تاریخ کو دو دن Celebrate کیا گیا تھا.....اس وقت وہ ماریشس والے احمدی) بہت پریشان تھے اور اسماعیل منیر صاحب (مربی سلسلہ ماریشس ناقل) مجھے لکھ رہے تھے دعا کے لئے اور دوسرے دوست بھی مجھے دعا کے لئے لکھ رہے تھے کہ کوئی پتہ نہیں کہ کیا حالات پیدا ہوں.فتنہ پھیل رہا ہے اور قتل و غارت ہو رہی ہے چنانچہ 322

Page 323

20، 25 آدمی تو وہاں مارے گئے اور کئی سو زخمی ہوئے تھے ، سینکڑوں مکان اور دکانیں لوٹی گئیں، بہت خراب حالت ہو رہی تھی اور یہ حالت کوئی ایک مہینہ آزادی سے پہلے تھی ، دوست خود بھی دعائیں کر رہے تھے بڑی دعا کرنے والی یہ قوم ہے مجھے بھی دعا کیلئے لکھ رہے تھے چنانچہ میں نے بھی ان کے لئے دعا کی لیکن میری دعا کسی علاقہ کے لئے محدود تو نہیں ہوتی ساری جماعت کے لئے اس رات بڑی کثرت سے دعا کرنے کی خدا نے مجھے توفیق دی اور صبح میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے نشان فتح جاری صبح سحری کے وقت جب میں بیدار ہوا ہوں تو نیم بیداری میں یا بیدار ہونے کے بعد مجھے غنودگی کا ایک جھونکا آیا اور یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے بیدار ہونے کے بعد میں نے مصرعہ کو مکمل کیا.نشان فتح نمایاں بنام ما باشد یہ مصرعہ حضرت مسیح موعود کے فارسی منظوم کلام کا تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ مصرعہ یہ ہے: ”ندائے فتح نمایاں برائے ما باشد.السلام کا لیکن اس وقت میری زبان پر غنودگی میں آدھا مصرعہ ”نشان فتح تھا جس وقت میں بیدار ہوا تو زبان خود بخود آگے چلتی گئی اور بنام ما باشد کے ساتھ وہ مصرعہ مکمل ہو گیا.چونکہ ان دنوں ان کے خطوط بھی آ رہے تھے اس لئے میں نے مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر کو لکھا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے رحمت کا اظہار کیا ہے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ تمہارے لئے یا صرف تمہارے لیے ہے لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ فتح کے نمایاں نشان کہیں نہ کہیں تو ظاہر کرے گا ہی.اور کل ہی جو ان کا خط آیا اس میں انہوں نے ساری تفصیل لکھ کر لکھا ہے کہ ہمارے لیے تو ”نشان فتح نمایاں ظاہر ہو گیا اختتامی خطاب بر موقع مشاورت 7 اپریل 1968ء مطبوعه الفضل ربوہ 9 ستمبر 1999ء.روزنامه الفضل ربوہ 25 مئی 2000ء صفحہ 13 ) ہے.66 وفات سے قبل اپنے رب سے رازو نیاز: خلافت کے بابرکت منصب پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلے خطبہ جمعہ (11جون 1982 ء) میں حضرت خلیفۃ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ اُسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضور کی یاد دل سے محو ہونے والی نہیں.اس کے تذکرے انشاء اللہ جاری رہیں گے.آخری بیماری کا ایک واقعہ میں صرف آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.وفات سے غالباً ایک یا دو دن پہلے آپا طاہرہ کو حضور نے فرمایا کہ گزشتہ چار دنوں میں میری اپنے رب سے بہت باتیں ہوئی ہیں.میں نے اپنے رب سے عرض کیا کہ اے میرے اللہ! اگر تو مجھے بلانے میں ہی راضی ہے تو میں راضی ہوں مجھے کوئی تردد نہیں.میں ہر وقت تیرے حضور بیٹھا ہوں لیکن اگر تیری رضا یہ اجازت دے کہ جو کام میں نے شروع کر رکھے ہیں ان کی تکمیل اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں تو یہ تیری عطا ہے.خدا کی تقدیر جس طرح راضی تھی اور جس طرح آپ نے تسلیم خم کیا آج ساری جماعت اس تقدیر کے حضور سر تسلیم خم کر رہی ہے.“ الفضل ربوہ 22 جون 1982ء) 323

Page 324

رؤيا وكشوف حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ: اللہ کی رحمت: حضرت خلیفة اصیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 30اکتوبر 1983 ء کو دورہ مشرق بعید اور آسٹریلیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ނ ہے اور جس دن ہم نے صبح کینبرا (Canberra) روانہ ہونا تھا اُس رات میں نے ایک ایسا خواب دیکھا جس میرا دل بہت مطمئن ہو گیا اور میں اس یقین سے بھر گیا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہمارا ساتھ نہیں چھوڑے گی میں نے صبح اٹھ کر بچوں کو بتایا کہ اب مجھے اور بھی زیادہ تسلی ہو گئی ہے.پہلے تو یہ تھا جو ہوا اس پر راضی ہے لیکن اب یہ تسلی بھی ہو گئی ہے کہ وہ (مخالف) ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے ان کی کچھ بھی پیش نہیں جائے گی.چنانچہ خواب کا مضمون کچھ اس طرز کا تھا جس سے انسان کو محسوس ہو جاتا ہے کہ یہ عام خواب نہیں میں نے دیکھا کہ ایک موٹر ہے جس کے دائیں طرف میں بیٹھا ہوں اور اس کا سٹرنگ (steering) کوئی نہیں پھر بھی میں اس کو چلا رہا ہوں میرے بائیں طرف جماعت کے تین چار عہدیدار بیٹھے ہوئے ہیں اتنے میں شیخ رحمت اللہ صاحب کراچی والے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے ساتھ بیٹھنا ہے میں نے کہا کہ میرے دائیں طرف بیٹھ جائیں جس طرح ہمارے ہاں آج کل جگہ نہ رہے تو سڑکوں پر رانگ سائیڈ (wrong side) پر بٹھانے کا رواج ہے تو میں نے ان کو کہا میرے دائیں طرف بیٹھ جائیں اور یہ رانگ سائیڈ نہیں تھی رائٹ سائیڈ تھی.وہاں ان کو بٹھا لیا اور وہ بڑی محبت سے میرے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئے اور مجھے کوئی تعجب نہیں ہے کہ میں کس طرح موٹر چلاؤں گا اس میں تو سٹرنگ کوئی نہیں ہے اور بظاہر کوئی انجن نظر نہیں آتا لیکن میں بیٹھا ہوا ہوں اور مجھے پورا یقین ہوتا ہے کہ اسی طرح موٹر چلے گی کچھ دیر کے بعد یہ نظارہ بدلا اور شیخ رحمت اللہ صاحب (ان کے نام میں اصل پیغام ہے) نے کہا کہ میں ایک منٹ کے لئے ذرا کہیں سے ہو کے آتا ہوں.جب وہ ایک منٹ کے لئے گئے تو ادھر سے ایک دو اور آدمی داخل ہو گئے کہ اچھا موقع مل گیا ہے اور انہوں نے ساری جگہ پر قبضہ کر لیا اور میں انتہائی دائیں جانب سمٹ گیا وہ سب میری طرف آ کر بیٹھ گئے اور وہ سب جماعت کے عہدیدار لگتے تھے کہ ٹھیک ہے اب ہمیں موقع مل گیا ہے شیخ صاحب واپس آئے انہوں نے کہا میں کہاں بیٹھوں میں نے کہا کہ آپ یہاں ساتھ کھڑے ہو جائیں.پرانے زمانے کی کاروں میں نیچے ایک چھوٹا سا پلیٹ فارم نکلا ہوتا ہے اس قسم کا ایک چھوٹا سا پلیٹ فارم بھی ان کو مل گیا اور وہ میرے ساتھ جڑ کر کھڑے ہو گئے میں نے کہا کہ نہیں اس طرح نہیں آپ اندر آجائیں اور میری گود میں بیٹھ جائیں وہ اندر آئے اور میری گود میں بیٹھ گئے اور جب وہ بیٹھے تو جگہ نکل آئی اور وہ اتر کر دائیں طرف آرام کے ساتھ جڑ کے بیٹھ گئے.میں نے اس خواب کے دیکھنے کے بعد اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح ہے اور یہ انسانی دماغ کی بنائی ہوئی خواب ہو ہی نہیں سکتی.وقتی طور پر جو پریشانی ہوئی اسے دیکھ کر بظاہر انہوں نے یہ سمجھا کہ اللہ کی رحمت جدا ہو گئی ہے اور اب وہ تائید الہی کا سلوک نہیں ہو رہا.یہ وہم تھا اس خواب کے ذریعے بتا دیا گیا کہ خدا کی رحمت جدا نہیں ہو گی اس نے تو خدا کے فضل سے ہمارے ساتھ جگہ بنانی ہی بنانی ہے.“ خوشخبری الفضل 14 فروری 1984 ء - و روزنامه الفضل ربوه 23 مئی 2005، صفحہ 11 تا 12 ) 324

Page 325

وو الوداعی معانقہ: حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 8 مئی1987ء میں فرمایا: چچا جان چند روز پہلے میں نے ایک عجیب خواب دیکھا.خواب میں دیکھا کہ حضرت بو زینب چچی جان حضرت چھوٹے کی بیگم صاحبہ مرحومہ جو صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی والدہ صاحبہ تھیں وہ تشریف لائی ہیں، ان کو میں نے پہلے تو کبھی خواب میں نہیں دیکھا تھا شائد ایک مرتبہ دیکھا ہو، وہ آئی ہیں اور قد بھی بڑا ہے جس حالت میں جسم تھا اس کے مقابل پر زیادہ پر شوکت نظر آئی ہیں، آپ آ کے مجھے گلے لگاتی ہیں لیکن گلے لگ کر پیچھے ہٹ جاتی ہیں اور بغیر الفاظ کے مجھ تک ان کا یہ مضمون پہنچتا ہے کہ میں خود ملنے نہیں آئی بلکہ ملانے آئی ہوں.اس کے معاً بعد ایک خیمہ سے حضرت پھوپھی جان نکلتی ہیں گویا کہ وہ ان کو ملانے کی خاطر تشریف لائی تھیں.خواب میں ایسا منظر ہے کہ اور نہ کوئی بات ہوئی ہے نہ کو ئی اور نظارہ ہے دائیں بائیں صرف خیمہ سے آپ کا نکلنا ہے اور بہت ہی خوش لباس ہیں اچھی صحت ہے آپ جب گلے لگتی ہیں اور اتنی دیر تک گلے لگائے رکھتی ہیں کہ اس خواب میں حقیقت کا احساس ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ جب میری آنکھ کھلی تو لذت سے میرا سینہ بھرا ہوا تھا اور بالکل یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ابھی مل کے گئی ہیں لیکن اس میں ایک غم کے پہلو کی طرف توجہ گئی کہ زینب نام میں ایک غم کا پہلو پایا جاتا ہے لیکن اس وقت یہ خیال نہیں آیا کہ یہ الوداعی معانقہ ہے.میرا دل اس طرف گیا کہ جماعت پر کوئی اور ابتلا آنے والا ہے ایک غم کی خبر ہو گی اس سے فکر پیدا ہو گئی لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو حفاظت میں رکھے گا چنانچہ ایک ملک کے امیر صاحب کو میں نے اسی تعبیر کے ساتھ خط میں یہ خواب لکھی کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ملک میں یہ واقع ہونے والا ہے لیکن اطمینان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ حفاظت فرمائے گا لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ واقعہ یہ اسی خواہش کا جواب تھا جو میرے دل میں بھی بہت شدید تھی اور حضرت پھوپھی جان کے دل میں بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے وصال سے پہلے ملادے اور معانقہ ہو جائے اور یہ معانقہ اتنا حقیقی تھا کہ اتنا گہرا اثر اور لذت تھی کہ خواب کے اندر یہ احساس نہیں ہوا کہ خواب تھی اور چلی گئی بلکہ یوں معلوم ہو ا جیسے چیز کوئی واقعہ کے بعد پیچھے رہ جاتی ہے.میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں ہماری ملاقات کا انتظام فرما دیا اور یہ الوداعی معانقہ تھا جو مجھے دکھایا گیا.“ دو اشعار (روز نامه الفضل ربوہ 23 مئی 2005ء ص 12) ان اشعار کے بارے میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 3 فروری1989ء میں فرمایا: چند دن پہلے صبح جب میں نماز کے لئے اٹھا تو میرے منہ پر حضرت مصلح موعود کے یہ شعر جاری تھے کہ: پڑھ چکے احرار بس اپنی کتاب زندگی ہو گیا پھٹ کر ہوا ان کا حباب زندگی لوٹنے نکلے تھے جو امن و سکون بے کساں 325

Page 326

خود انہی کے لٹ گئے حسن و شباب زندگی اس میں الہامی کیفیت تو نہیں ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان باتوں میں کچھ اشارے ضرور ہیں اور یہ ایک پیغام کا رنگ رکھتے ہیں.میں یہی سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعائیہ رنگ میں اس طرف متوجہ فرمایا ہے کہ ساری جماعت اس عرصہ میں یہ دعا بھی کرے کہ اب کی کتاب زندگی جس نے دنیا کو حقیقت کا دھوکہ دیا ہوا ہے وہ پھٹ جائے اور دنیا ان کی حقیقت کو دیکھ لے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ جماعت کو ان کی آنکھوں کے سامنے بیش از پیش ترقیات عطا کرتا چلا جائے.“ تو حضرت ملک سیف الرحمن صاحب کی وفات کے متعلق رویا: حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: روزنامه الفضل ربوہ 23 مئی 2005ء صفحہ (12) ”جب حضرت ملک سیف الرحمن صاحب کا وصال ہوا ہے تو جس دن اس کی اطلاع ملی اس سے پہلی رات میں نے یہ رویا دیکھی کہ اقبال کی ایک مشہور غزل کے دو اشعار میں پڑھ رہا ہوں اور خاص اس میں درد کی ایک کیفیت ہے اور اقبال کی یہ وہ غزل ہے جو بچپن میں کالج کے زمانے میں مجھے بہت پسند تھی چونکہ مد سے پڑھی نہیں اس لئے خواب میں کوشش کر کے یاد کر کے وہ شعر پڑھتا ہوں اور پھر آخر یا د آ جاتے ہیں اور وہ رواں ہو جاتے ہیں اور وہ شعر یہ تھے کہ.تھا جنہیں ذوق تماشا وہ تو رخصت ہو گئے لے کے اب تو وعده دیدار عام آیا تو کیا آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی نڈر صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا مدت بہت ہی درد ناک اشعار ہیں اور جب آنکھ کھلی تو میرے دل پر بہت ہی اس بات کا گہرا اثر تھا اور غم کی کیفیت تھی کہ معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ کے کوئی ایسے بزرگ جن کا خدا کے نزدیک ایک مرتبہ ہے رخصت ہونے والے ہیں جو انتظاری کی راہ دیکھتے دیکھتے میرے سے پہلے پہلے وصال پا جائیں گے دوسرے دن صبح ملک سیف الرحمن صاحب کے وصال کی اطلاع ملی.“ تین مبشر رویا: دو حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: (ماہنامہ خالد حضرت سیف الرحمن صاحب صفحہ نمبر 98،97 ستمبر اکتوبر 1995ء) پرسوں رات اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے تین مبشر رویا دکھائے جو جماعت کے حق میں بہت ہی مبشر اور مبارک ہیں.مختصر نظارے تھے لیکن یکے بعد دیگرے ایک ہی رات میں یہ تین نظارے دیکھے اور اس مضمون کو زیادہ قوت دینے کے لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر جماعت کے لئے خوشخبری ہے یہ ایک عجیب 326

Page 327

327 واقعہ ہوا کہ میرے ساتھ کے کمرے میں عزیزم مرزا لقمان احمد سوتے ہیں، وہ جب صبح اٹھے نماز کے لئے تو ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے القا کیا بڑے زور سے کہ آج رات خدا تعالیٰ نے مجھے کچھ خوشخبری دی ہے.تو ان کے دل میں یہ ڈالا گیا کہ میں پوچھوں کہ رات کیا بات ہوئی ہے جو خدا تعالیٰ نے خاص طور پر آپ کو خوشخبری عطا فرمائی ہے.تو بیک وقت یہ دونوں باتیں مزید اس بات کو اس امید بلکہ یقین کو طاقت دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کے ساتھ خاص نصرت اور حفاظت کا معاملہ فرمائے گا.پہلی رؤیا میں میں نے دیکھا کہ ایک برآمدہ میں ایک مجلس لگی ہوئی ہے جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ساتھ کرسیوں پر دوسرے احمدی بیٹھے آپ کی بات سن رہے ہیں.میں جاتا ہوں تو خواب میں مجھے تعجب نہیں ہوتا بلکہ یہ علم ہے کہ اس وقت میں خلیفہ ہوں اور یہ بھی علم ہے کہ آپ بیٹھے ہوئے ہیں اور کوئی اس بات میں آپس میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے یعنی ذہن میں معلوم ہونے کے باوجود کہ آپ فوت شدہ ہیں اس نظارے سے طبیعت میں کسی قسم کا کوئی تردد نہیں پیدا ہوتا.آپ کی جب مجھ پر نظر پڑتی ہے تو ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص کو جن کا چہرہ میں پہچانتا نہیں بہت سے آدمی ہیں لیکن بے نام چہرے ہیں تو اس کو فوراً اشارہ سے کہتے ہیں کرسی خالی کرو اور مجھے پاس بیٹھا کر مصافحہ کرتے ہیں اور ہاتھ کو بوسہ دیتے ہیں جس طرح کوئی خلیفہ وقت کے ہاتھ کو بوسہ دیتا ہے اور مجھے اس سے شرمندگی ہوئی ہے.مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ تم خلیفہ ہو لیکن طبیعت میں سخت شرم محسوس ہوتی ہے اور انکسار پیدا ہوتا ہے.تو میں فوراً آپ (حضرت خلیفہ اُسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی.ناقل) کے ہاتھ کو بوسہ دیتا ہوں تو آپ یہ بتانے کے لیے کہ نہیں میرا بوسہ باقی رہے گا تمہارے بوسے سے یہ Cancel نہیں ہوتا، دوبارہ میرے ہاتھ کو پھر بوسہ دیتے ہیں بھینچ کر اور پھر میں محسوس کرتا ہوں کہ اب تو اگر میں نے یہ سلسلہ شروع کر دیا تو ختم نہیں ہو گا اس لئے اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں.چنانچہ میں اصرار بند کر دیتاہوں.اس کے بعد مجھے فرماتے ہیں کہ اب تو تم پوری طرح خلافت کا چارج لے لو، اب مجھے رخصت کرو یعنی میرے ساتھ رہنے کی ضرورت کیا ہے اب؟ تو میں کہتا ہوں کہ اس میں ایک حکمت ہے اور وہ یہ سے کہ خلافت کوئی شریکا نہیں.کوئی ایسی چیز نہیں ہے دنیا کی جس میں کسی قسم کا حسد یا مقابلہ ہو بلکہ یہ ایک نعمت ہے اور انعام ہے.میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ صاحب انعام لوگوں میں آپس میں محبت ہوتی ہے، پیار کا تعلق ہوتا ہے اور کسی قسم یا مقابلہ نہیں ہوتا.تو یہ مفہوم میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں اور اس کے بعد یہ نظارہ ختم ہو گیا.ایک اور بات آپ نے مجھے خواب میں کہی جو مبارک ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ایک بات میں نے کہی ہے اور وہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے حق میں اچھی ہو گی.اس کے بعد یہ نظارہ ختم ہوا تو کچھ دیر کے بعد اسی رات خواب میں صرف یہ چھوٹا سا نظارہ دیکھا ہے کہ حضرت امة الحفیظ بیگم صاحبہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی اور ہماری پھوپھی ہیں وہ میرے گھر میں داخل ہو رہی ہیں اور اس کے سوا اور کوئی نظارہ نہیں ہے صرف ان کو میں گھر میں داخل ہوتے دیکھتا ہوں اور خواب ختم ہو جاتی ہے.کا حسد تیسری خواب میں دیکھا کہ ایک میز چھٹی ہوئی ہے اور اس پر ہم کھانا کھا رہے ہیں اور میرے دائیں جانب حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی ہیں اور بڑے خاص پیار اور محبت کے ساتھ میرے ساتھ کھانے میں شریک ہیں.تو یہ تینوں خواہیں اُوپر تلے نظر آنی اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت کی طرف دلالت کر رہی ہیں.معلوم یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ جماعت کو غیر معمولی نصرت بھی عطا فرمائے گا اور اگر کچھ حالات مخدوش

Page 328

پیدا ہوئے تو خدا خود بھی حفاظت فرمائے گا اور ہمیں کسی غیر کی حفاظت کی ضرورت نہیں ہے اور پھر انجام میں خدا تعالیٰ ایک دعوت دکھاتا ہے اور نواب مبارکہ بیگم صاحبہ جن کے متعلق الہاماً خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ: ” مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا ایسی آئی جنہیں ایہہ مصیبت پائی (تذکرہ صفحہ (277) یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پنجابی میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے متعلق ہوا تھا جسکا مطلب یہ ہے کہ نام بھی مبارک ہے اور ان کی معیت بھی مبارک ہے اور کبھی یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ آئیں اور کوئی مصیبت ساتھ رہے ان کے آنے سے مصیبتیں ٹل تو جائیں گی آنہیں سکتیں ساتھ اکٹھی نہیں رہ سکتیں.تو معنوی لحاظ سے بھی اور الہامات کی روشنی میں ہر لحاظ سے یہ خواہیں اور جو ایک ترتیب میں آئی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے لئے بہت ہی مبارک ہیں اور مجھے اندازہ ہے نظر آ رہا ہے بلکہ کہ خدا تعالیٰ جلد جلد انشاء اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ جماعت کو غیر معمولی تائیدی نشان دکھائے گا لیکن ان مبشرات کا ایک تقاضا بھی ہے اس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم کے ساتھ کچھ تائیدی نشان دکھاتا ہے تو اس کے مقابل پر جماعت پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور پہلے خوشخبریاں دکھانا ایک پیغام بھی رکھتا ہے کہ ان خوش خبریوں کے اہل بننے کی کوشش کرو اور ان کے مستحق ہونے کے لئے کرو ،، سلامتی و ظفر کا وعدہ: حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جد و جہد (خطبه جمعه فرموده 17 فروری 1984 خطات طاہر جلد 4 صفحہ نمبر 97 تا99) اللہ تعالیٰ نے پہلے مجھے رؤیا کے ذریعہ بعض خوشخبریاں عطا فرما ئیں اور پھر ایک بہت ہی پیارا کشفی نظارہ دکھایا جو میں آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں.چند روز پہلے تقریباً دو ہفتے پہلے شاید اچانک میں نے ایک نظارہ دیکھا کہ اسلام آباد جو انگلستان میں ہے اس وقت ہمارا یورپین مرکز انگلستان کے لئے، وہاں میں داخل ہو رہا ہوں اس کمرے میں جہاں ہم نے نماز پڑھی تھی اور سب دوست صفیں بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اسی طرح انتظار میں تو عین مصلے کے پیچھے چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اپنی اس عمر کے ہیں نظر آ رہے ہیں جو پندرہ ہیں سال پہلے کی تھی اور رومی ٹوپی پہنی ہوئی ہے، وہ جو پرانے زمانہ میں پہنا کرتے تھے اور نہایت ہشاش بشاش عین امام کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں.مجھے دیکھتے ہی وہ نماز کی خاطر اٹھ کھڑے ہوئے اور میں ان کی طرف بڑھنے لگا کہ پوچھوں چودھری صاحب آپ کب آئے؟ آپ تو بیمار تھے، اچانک کیسے آنا ہوا؟ تو وہ نظارہ جاتا آنکھیں کھلی تھیں اور جو منظر سامنے ویسے تھا وہ سامنے آگیا.تو اللہ تعالیٰ ایسی خوش خبریاں عطا فرما رہا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نصرت اور اس کے ظفر کے وعدے انشاء اللہ تعالیٰ جلد پورے ہوں گے تو یہ باتیں ان کے علاوہ ہیں.جماعت تو ہر حال میں ترقی کر رہی ہے جتنا خدا انتظار کروائے ہم کریں گے انشاء اللہ کیونکہ ہم کھو کچھ نہیں رہے ہمارے ہاتھ سے جا کچھ نہیں رہا اس لئے نقصان کا کوئی سودا تو ہے ہی نہیں، میں اس لئے تسلی نہیں دے رہا مگر میں یہ بتا رہا ہوں کہ اللہ کے رنگ عجیب ہیں.وہ بظاہر قربانی لیتا ہے اور حقیقت میں وہ ترقی ہو رہی ہوتی ہے اور پھر اس مزے اس روحانی لذت کے بھی بدلے عطا فرماتا ہے.یہ وعدے ہیں خدا کے جن کی طرف میں آپ کو توجہ دلا رہا ہوں.چنانچہ اس کشفی نظارے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے ایک کرم رہا.328

Page 329

اور یہ فرمایا جن دنوں پاکستان کے حالات کی وجہ سے بعض شدید کرب میں راتیں گزریں تو صبح کے وقت الہاماً بڑی شوکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”السلام علیکم اور ایسی پیاری ایسی روشن کھلی آواز تھی اور آواز مرزا مظفر احمد کی معلوم ہو رہی تھی یعنی بظاہر جو میں نے سنی آواز، اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ میرے کمرے کی طرف آتے ہوئے السلام علیکم کہتے ہوئے آنے والے ہیں، تو اس وقت تو خیال میں بھی نہیں تھا کہ یہ الہامی کیفیت ہے کیوں کہ میں جاگا ہوا تھا پوری طرح لیکن جو ماحول تھا اس وقت اس سے تعلق کٹ گیا تھا.چنانچہ فوراًمیرا رڈ عمل ہوا کہ میں اٹھ کر باہر جا کر ملوں ان کو اور اسی وقت وہ کیفیت جو تھی وہ ختم ہوئی اور مجھے چلا کہ یہ تو خدا تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ السلام علیکم کا وعدہ دیا ہے بلکہ ظفر کا وعدہ بھی ساتھ عطا فرما دیا ہے کیونکہ مظفر کی آواز میں ”السلام علیکم پہنچانا یہ ایک بہت بڑی اور دہری خوشخبری ہے اور پہلے بھی ظفر اللہ خاں ہی خدا تعالیٰ نے دکھائے اور دونوں میں ظفر ایک قدر مشترک ہے.“ بہ (خطباتِ طاہر جلد 3 صفحہ نمبر 680 تا681) Friday the 10th اور چار خوشخبریاں: حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ا بھی چند دن پہلے دو تین دن پہلے کی بات ہے کہ شدید بے چینی اور بے قراری تھی بعض اطلاعات کے نتیجہ میں اور ظہر کے بعد میں سستانے کے لئے لیٹا ہوں تو میرے منہ سے ”جمعہ ! جمعہ !“ کے الفاظ نکلے اور ساتھ ہی ایک گھڑی کے ڈائل کے اوپر جہاں دس کا ہندسہ ہے وہاں نہایت ہی روشن حروف میں دس چمکنے لگا اور خواب نہیں تھا بلکہ جاگتے ہوئے ایک کشفی نظارہ تھا اور وہ جو دس دکھائی دے رہا تھا باوجود اس کے کہ وہ دس کے ہند سے پر دس تھا جو گھڑی کے دس ہو تے ہیں لیکن میرے ذہن میں وہ دس تاریخ آرہی تھی کہ Friday the 10th یہ انگریزی میں میں کہ رہا تھا: Friday the 10th اور ویسے وہ گھڑی تھی اور گھڑی کے اوپر دس کا ہندسہ تھا.تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کون سا جمعہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے یہ روشن نشان عطا فرمانا ہے؟ مگر ایک دفعہ یہ واقع نہیں ہوا ہر دفعہ یہ ہوا کہ جب بھی شدت کی پریشانی ہوئی ہے جماعت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مسلسل خوشخبریاں عطا فرمائی ہیں.اس سے چند دن پہلے رویا میں اللہ تعالیٰ نے بار بار خوشخبریاں دکھائیں اور چار خوشخبریاں اکٹھی دکھائیں.جب میں اٹھا تو اُس وقت زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر تھا: غموں کا ایک دن اور چار شادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي یعنی چار خوشخبریوں کی حکمت یہ ہے چار دکھانے کی کہ ایک غم پہنچے گا تو خدا تعالی چار خوشخبریاں دکھائے گا اور دشمنوں کو بہر حال ذلیل کرے گا کیونکہ اس وقت جماعت کی حالت سب سے زیادہ دنیا کی نظر میں گری ہوئی ہے کلیتہ بیچارگی کا عالم ہے اور کامل بے اختیاری ہے.یہ وقت ہے خدا کی طرف سے خوشخبریاں دکھانے کا اور یہ وقت ہے ان خوشخبریوں پر یقین کرنے کا.آج جو اپنے خدا کے دیئے ہوئے وعدوں پر یقین رکھتا ہے، آج جس کے ایمان میں تزلزل نہیں ہے وہی ہے جو خدا کے نزدیک معزز ہے، وہی ہے جس کو دنیا میں غالب کیا جائے گا اور اسے خدا کبھی نہیں چھوڑے گا کیونکہ جو تنزل کے وقت اپنے خدا کی باتوں پر ایمان اور یقین رکھتا 329

Page 330

ہے اس کے ایمان میں کوئی تزلزل نہیں آتا.اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس کے لئے ایسے کام دکھاتی ہے کہ دنیا اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی." دو لقائے الہی کا مضمون : (خطبات طاہر جلد 3 صفحہ نمبر 777 تا 778) حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 20 اپریل1990 ء میں فرمایا: رات رویا میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مضمون کو ایک اور طریق پر دکھایا اور ساتھ ہی قرآن کریم کی ایک آیت کی ایک نئی ( تشریح) سمجھائی جس کا لقا سے بڑا گہرا تعلق ہے اور دراصل جو مضمون میں آج کے خطبہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں اسی کی تمہید ہے جو مجھے سمجھائی گئی ہے.رویا بڑی عجیب اور دلچسپ ہے.میں نے دیکھا کہ ربوہ میں کھلے گھاس کے میدان میں اکیلا بیٹھا ہوا ہوں اور وہاں سے پاکستان سے مختلف پروفیشنل گانے والے جو ریڈیوں یا ٹیلی ویژن وغیرہ میں گانوں میں حصہ لیتے ہیں، وہ کسی تقریب میں شمولیت کی غرض سے آئے ہوئے ہیں اور ان کا جو رستہ ہے ان کے درمیان اور میرے درمیان ایک دیوار حائل ہے گویا اس رستے پر جس پر وہ چل رہے ہیں ایک دیوار کی اوٹ ہے لیکن بعض در کھلے ہوئے ہیں.چنانچہ ایک در سے گزرتے ہوئے ان میں سے ایک شخص کی نظر مجھ پر پڑتی ہے اور خواب میں مجھ پر یہ تاثر ہے کہ یہ مجھے جانتا ہے اور میں اس کو جانتا ہوں اور جس طرح انسان جانی پہچانی شکل کو ملنے کے لیے آگے بڑھتا ہے وہ میری طرف آگے بڑھتا ہے لیکن قریب آنے کی بجائے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر مجھے پنجابی میں کچھ شعر سناتا ہے وہ جو پنجابی کے شعر ہیں وہ اس رنگ کے ہیں جیسے بعض دیہاتیوں کو یا کم علم والوں کو بعض دفعہ کوئی نکتہ ہاتھ آجائے تو وہ اسے بڑے فخر سے بڑے بڑے علما کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر مجلسوں میں بیان کرتے ہیں کہ ہم نے یہ سوال کیا لیکن اس کا کوئی جواب نہیں آیا.اس رنگ کا کوئی نقطہ ہے جو ایک پنجابی میں اس نے یاد کیا ہوا ہے اور وہ سوالیہ رنگ میں میرے سامنے رکھتا ہے لیکن اس کی طرز میں تکبر یا دکھاوا نہیں بلکہ وہ واقعتا اس نکتے میں الجھا ہوا معلوم ہوتا ہے اور اس کے طرز بیان میں ایک درد پایا جاتا ہے.پنجابی کے وہ شعر مجھے یاد تو نہیں مگر چند شعر ہیں، ان کا مضمون یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی جو یہ کائنات ہے اس کے راز تو بہت گہرے ہیں اور ہماری آنکھیں جو دیکھ رہی ہیں وہ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتیں اور ہماری آنکھیں جو دیکھتی ہیں وہ ہمیں کچھ اور منظر دکھاتی ہیں اور خدا کے قدرت کے راز یا عرفان کی باتیں ہیں ان تک ہماری آنکھیں پہنچ ہی نہیں سکتیں اور نہ ہم ان کو سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ہماری آنکھیں ٹیڑھا دیکھ رہی ہیں اور یہ کہتے کہتے وہ بڑے درد سے اپنی آنکھ کے نچلے پردوں کو انگلیوں سے نوچ کر نیچے کر کے آنکھیں ڈھا کتا ہے جن میں ایک قسم کی سرخی پائی جاتی ہے جیسے رو رو کے سرخی پیدا ہوگئی ہو اور وہ نظم میں ہی کہتا ہے کہ دیکھیں ان آنکھوں کی وجہ سے ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمیں تو خدا نے آنکھیں وہ دی ہیں جو غلط دیکھ رہی ہیں اور اس کے رازوں کی حقیقت کو پانہیں سکتے تو اب بتائیں کہ ہم کیا کریں؟ ہم کیسے سمجھیں؟ یہ نظم جب مکمل ہو جاتی ہے تو میں اس کو اشارہ کہتا ہوں کہ آئیں بیٹھیں اور میں آپ کو یہ مضمون سمجھاتا ہوں اور اتنے میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی خبر باقی ساتھیوں کو بھی پہنچ گئی ہے اور وہ دور دور سے واپس مڑے ہیں اور ایک دائرے کی شکل میں مجلس بنا کر میری بات سننے کے لئے بیٹھ گئے ہیں.میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ نے بظاہر بڑی الجھی ہوئی بات پیش کی ہے لیکن میں اس 330

Page 331

کی ایک سادہ تشریح آپ کو بتاتا ہوں جو ابھی آپ کو دیکھتے دیکھتے بات سمجھا دے گی اور وہ آپ کی اس عارفانہ نظم کی درحقیقت تفسیر ہے ، تفسیر کا لفظ تو میں نہیں بولتا، لیکن اس مضمون کو سمجھانے کے لئے میں کہتا ہوں.آپ کے سامنے میں ربوہ کی مثال رکھتا ہوں.آپ لوگ پاکستان کے مختلف شہروں میں رہتے ہیں.وہاں سے ربوہ تشریف لائے ہیں یہاں آپ نے کچھ چہرے دیکھے ہیں ان چہروں میں خدا کا خوف دکھائی دیتا ہے، ان چہروں میں آپ کو عبادت کے رنگ دکھائی دیتے ہیں، ان چہروں میں آپ کو تقوی دکھائی دیتا ہے، ان چہروں میں آپ کو دین کی محبت اور اسلامی آداب اور اسلامی اخلاق دکھائی دیتے ہیں، یہاں کے گلیوں میں چلنے پھرنے والوں کو آپ نے دیکھا اور آپ اپنے دل سے گواہی لے کر مجھے بتائیں کہ کیا آپ کی آنکھوں نے آپ کو صحیح خبر نہیں دی؟ کیا آپ کی آنکھوں نے واقعتا یہ اطلاع نہیں دی کہ اسلام کا جو بھی تصور ہے وہ یہاں پایا جاتا ہے اور جو مؤمنین کی ادائیں ہونی چاہئیں وہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں.پھر آنکھوں نے تو آپ سے کوئی دھوکہ نہیں کیا.اس کے باوجود اگر آپ کے دل کچھ اور پیغام لیں تو خدا کی بنائی ہوئی آنکھوں کا کیا قصور ہے؟ پھر میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ موازنے کے طور پر چنیوٹ چلے جائیں جو ربوہ کے قریب ہی ہے اور وہاں بھی جاکر لوگوں کے چہروں کا مشاہدے کریں، وہاں بھی ان کی حرکات و سکنات کو غور سے دیکھیں، وہاں جا کر بھی سوچیں کہ آپ کے نزدیک قرونِ اولیٰ کے مسلمان کیسے ہونے چاہئیں تھے؟ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پانے ( والوں) کی کیا ادائیں ہونی چاہئیں اور دیکھیں اور پھر اپنے نفس سے پوچھیں کہ کیا آنکھوں نے آپ سے جھوٹ بولا ہے؟ کیا آنکھوں کا پیغام یہی تھا کہ یہ جو ربوہ کے سب سے شدید مخالفین میں سے ہیں یہ بچے.......دکھائی دے رہے ہیں یا آپ کی آنکھوں نے آپ کو یہ بتایا تھا کہ اسلام کی کوئی بھی علامتیں ان میں نہیں پائی جاتیں.ان کا اٹھنا بیٹھنا ان کا بولنا، ان کا چلنا پھرنا، ان کے مزاج سارے سے دور پڑے ہوئے ہیں تو اب بتائیں کہ ہمارے خدا نے آپ کے ساتھ انصاف کیا کہ نہیں کیا.آپ کو سچی آنکھیں بخشیں کہ نہیں بخشیں.(سورۃ الحج آیت 47) والا مضمون ہے مگر اس آیت کا میں نے حوالہ نہیں دیا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں چھپے ہوئے ہیں.یہاں صدور سے مراد تاریکی کے پردوں میں چھپے ہوئے دل ہیں.پس وہ دل جو خود اندھیروں میں بس رہے ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں نہ کہ وہ آنکھیں جو صحیح پیغام جو کچھ وہ دیتی ہیں لوگوں تک پہنچا دیا کرتی ہیں.پس یہ رویا جو ہے یہ دیکھتے ہی میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اتنا واضح نظارہ ہے جیسے میں آمنے سامنے دیکھ رہا ہوں اسی کیفیت میں میں جاگ بھی چکا تھا اور رؤیا کا مضمون جاری تھا یعنی صفائی رؤیا کی ایسی تھی کہ گویا بالکل جاگے ہوئے کا کوئی نظارہ ہو اور چنانچہ نیند میں اٹھنے میں کوئی فرق نظر نہیں آیا اور رؤیا کے جو آخری فقرے ہیں وہ جاگ کر میں نے ادا کئے.جبکہ وہ منظر نظر سے غائب ہو چکا تھا.“ فرمایا: اسلام (الفضل 17 جون 1990ء) مذہبی دنیا کا ضائع شدہ مواد: حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مَغضُوبِ عَلَيْهِمْ کی تشریح بیان کرتے ہوئے خطبہ جمعہ 28 دسمبر 1990ء میں اس ضمن میں میں ایک دفعہ غور کر رہا تھا اور دعا کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس مضمون کو زیادہ واضح طور پر 331

Page 332

سمجھائے تو کشفی حالت میں خدا تعالیٰ نے یہ مضمون ایک اور رنگ میں مجھے دکھایا اور وہ یہ تھا کہ جیسے ایک کارخانے میں آپ ایک طرف سے کسی چیز کا Raw Material یعنی خام مال ڈالتے ہیں تو وہ ایک نہایت ہی خوبصورت اور اعلیٰ تکمیل کی شکل میں ایک طرف سے نکل رہا ہوتا ہے لیکن اس کے ایک طرف وہ گند بھی نکل رہا ہوتا ہے جو اس قابل نہیں ہوتا کہ اس کارخانے میں داخل ہو نے کے بعد وہ اپنے اندر ایسی تبدیلی کر سکے کہ اسے ایک مکمل صنعت کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے، اس کو وہ Waste Product کہتے ہیں.پس ایک چیز ہے End product اور ایک ہے Waste product تو ہر صنعت کا وہ مال ہے جس کی خاطر صنعت کاری کی جاتی ہے اور کارخانے بنائے جاتے ہیں اور اپنی آخری شکل میں بہت خوبصورت تبدیلیاں پیدا ہونے کے بعد وہ ایک نئے وجود کی صورت میں خام مال دنیا کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اب اس وقت آپ کے پاس جتنی بھی چیزیں ہیں وہ سب اسی طرح کسی نہ کسی کارخانے سے نکل کر ایک نئی شکل میں آپ کے سامنے ظاہر ہوئی ہیں.کسی نے کپڑے کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے، کسی نے قراقلی پہنی ہوئی ہے.اب تصور کریں کہ یہ کیا چیزیں تھیں؟ اسی طرح آپ کے لباس، آپ کے بوٹ، آپ کے قلم یہ سب خام مال تھے جو مختلف مراحل سے گزر کر بالآخر اس شکل میں آپ تک پہنچے جس میں آپ نے ان کو قبول کی اور استعمال کیا لیکن آپ کا ذہن اس گندگی کی طرف کبھی نہیں گیا جو اس دوران پیدا ہوتی رہی اور ان چیزوں سے الگ کی جاتی رہی اور اسے ضائع شدہ مال کے طور پر ایک طرف پھینک دیا گیا.چنانچہ اس زمانے میں صنعتوں نے جہاں بہت ترقی کی ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر دنیا کے سامنے ابھرا ہے کہ اس Waste ہے، material کا کیا کریں؟ یہ تو دنیا کے لئے عذاب بنتا جا رہا ہے.جب یہ کم ہوا کرتا تھا اس زمانے میں انسان کی توجہ کبھی اس طرف نہیں گئی اور آج سے سو سال پہلے بھی صنعت کاری تھی، بڑے بڑے کارخانے جاری تھے لیکن کبھی بھی اس زمانے کی اخباروں میں آپ کو یہ بخشیں دکھائی نہیں دیں گی کہ یہ جو اچھی چیزیں بناے کی ہم کوشش کرتے ہیں اس کوشش کے دوران جو چیزیں ضائع ہو رہی ہیں ان کا ہم کیا کریں؟ وہ سمندروں میں پھینک دیتے تھے یا عام کھلی جگہ پر پھینک دیتے تھے یا جھیلوں میں ڈال دیتے تھے اور کبھی ان کے نقصان کی طرف کسی کی توجہ نہ گئی.اب چونکہ زیادہ چیزیں بن رہی ہیں، اسی طرح waste material بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے اور waste material ایسی خطر ناک چیز بن کر دنیا کے سامنے ابھرا ہے کہ اس کے غضب سے دنیا ڈرنے لگی ہے اور یہ بڑا بھاری مسئلہ ہے.دنیا کی تمام بڑی قوموں میں اب بہت ہی فکر کے ساتھ ان مسائل پر غور ہورہا ہے کہ کس طرح ان مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کریں جو صنعت کے دوران By product کے طور پر waste product کے طور پر ہمارے ہاتھوں میں پڑی ہوئی ہیں اور ہم نہیں سمجھتے کہ کس طرح اس صنف سے چھٹکارا حاصل کریں.“ رشتہ ناطہ اور بیروزگاری کا مسئلہ: حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی نے خطبہ جمعہ 15 دسمبر 2000ء میں فرمایا: (روزمامه الفضل 6فروری1991) ایک رؤیا ایسی سنانی ہے جس سے خدا تعالیٰ نے میرے دو سوالات کا جواب دیا ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آج کے لیے وہی کافی ہو گا.مجھے خیال تھا کہ مجھے مصروفیتیں بڑھانی چاہئیں.یہ سوچتے سوچتے ہی سویا تھا تو 332

Page 333

رات خواب میں میاں احمد کو دیکھا یعنی میاں غلام احمد صاحب، میاں خورشید احمد صاحب کے چھوٹے بھائی اور وہ ہمیشہ بہت اچھا مشورہ دیا کرتے ہیں، قرآن کریم کے متعلق بھی انہی کا مشورہ تھا کہ بجائے تفسیر صغیر کے نوٹس لکھوں میں نیا ترجمہ کروں.تو الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے اس ترجمہ کی تو فیق عطا فرمائی اور بہت سے مسائل اس سے حل ہوتے ہیں.خواب میں میاں احمد ہی دکھائی دیئے انہوں نے کہا کہ ہمیں آپ کی دو کاموں میں بہت مدد کی ضرورت ہے.میں نے کہا کیا کیا کام ہیں؟ انہوں نے کہا ایک تو رشتہ ناطہ، رشتہ ناطہ کو بہت زیادہ نظر انداز کر دیا گیا ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں بے چاری شادی کے بغیر پڑی ہوئی بہت سے لڑکوں کو اپنا مناسب رشتہ نہیں ملتا پاکستان میں بھی بہت اچھے اچھے لڑکے ہیں جو اچھا ایک پروفیشن اختیار کر سکتے ہیں اور سادہ مزاج ہیں.اگر انگلستان کی لڑکیاں ناک بھوں نہ چڑھائیں اور اس رشتہ کو قبول کر لیں تو دونوں کا فائد ہے.بہر حال اس قسم کی باتیں انہوں نے کیں.ہیں، اور ساتھ ہی یہ کہا کہ دوسرا کام بے کار نوجوانوں کو کام پر لگانا ہے، اس کی طرف بھی توجہ بہت کم ہے.بہت سے اچھے تعلیم یافتہ ہیں جو بے کار ہیں اور ان کو کوئی کام نہیں دیا جا رہا یا کسی ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سختی کی وجہ سے ان سے ناانصافی ہو رہی ہے تو ایسے لوگوں کی باہر شادیاں کروا دینا دونوں مسائل کو اکٹھا کر دینا ہے کیونکہ اپنے ملک سے باہر شادیاں کریں گے تو باہر والوں کا بھی مسئلہ حل ہوگا اور پاکستان کا بھی مسئلہ حل ہوگا اور ان کو کام پر لگانے کا کا شعبہ بہت مستعد ہونا چاہئے.تو یہی دو باتیں ہیں جو میں آپ کو سنانی چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خود ہی میرے سوالات کا جواب دے دیا.“ الفضل ربوہ 13 فروری 2001ء) غانا (Ghana) سے بُرکینا فاسو (Burkina Faso) کا سفر: سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دورہ افریقہ کے دوران غانا سے بور کینا فاسو بذریعہ سڑک جانے کا ذکر کر تے ہوئے فرماتے ہیں: بذریعہ سڑک جانے کا پروگرام بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر سے ہی بنا لگتا ہے کیونکہ پہلے جو گھانا والوں نے روگرام بنایا تھا اور اس کی اپروول (Aproval) ہو گئی تھی، اس کے مطابق تو دورہ نارتھ (North) تک کا مکمل کرنے کے بعد ہمیں پھر واپس اکرا (Accra) آنا تھا وہاں سے بائی ایئر (By Air) پھر برکینا فاسو جانا تھا لیکن روزانہ فلائٹ نہیں جاتی بلکہ دو دن جاتی ہے.ان میں سے ایک جمعہ کا دن تھا.تو وکیل التبشیر ماجد صاحب نے مجھے کہا کہ جمعہ جلدی پڑھ کے فوراً ہی ائر پورٹ جانا ہو گا.اس پر مجھے کچھ انقباض ہوا میں نے کہ اس طرح نہیں جانا بلکہ بعض شہر جو انہوں نے پروگرام میں نہیں رکھے ہوئے تھے اور میرے علم میں تھے میں نے کہا کہ وہ بھی دیکھ کر جائیں گے اور بائی روڈ (By road) جائیں گے.بہر حال اس کا یہ فائدہ بھی ہوا کہ چند مزید مساجد کا افتتاح بھی ہو گیا لیکن اصل بات اس میں یہ ہے کہ لندن سے سفر شروع کرنے سے ، چند دن پہلے ماجد صاحب نے بتایا کہ برکینا فاسو کے مبلغ نے انہیں حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی ایک خواب یاد کروائی جو ماجد صاحب کو بھی یاد آ گئی کہ حضور (حضرت خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دیکھا تھا ہے کہ کاروں کے ذریعے سے بائی روڈ گھانا سے بور کینا فاسو میں داخل ہوئے ہیں اور کوئی اسماعیل نامی آدمی بھی ان کو وہاں ملتا ہے، بارڈر پہ یا کراس کر کے، اس پر حضور نے بعض اسماعیل نامی آدمیوں کی تصویریں بھی منگوائی 333

Page 334

تھیں، بہر حال پتہ نہیں کوئی ملا کہ نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک الہی تقدیر تھی کہ ہم بذریعہ کار بُرکینا فاسو داخل ہوں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہمارے قافلے میں ایک اسماعیل نامی ڈرائیور بھی تھا جس نے کچھ وقت ہماری گاڑی چلائی جس میں میں بیٹھا ہوا تھا.“ الفضل سالانہ نمبر 28 دسمبر 2004ءصفحہ 11) 334

Page 335

خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا کے واقعات مرتبہ عبد الحق مربی سلسلہ 335

Page 336

336 آیت: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَحِيبُوا لِى وَالْيُؤْمِ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (سورة البقره آیت 187) اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں.میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں.(ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) د حدیث عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ اَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَنْزِلُ رَبُّنَا كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حَتَّى يَبْقَى تُلْتُ اللَّيْلِ الآخِرِ فَيَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِى فَاسْتَجِيْبَ لَهُ مَنْ يَّسْأَ لُنِي فَأُعْطِيَهِ، وَمَنْ يَسْتَغْفِرُ نِي فَاغْفِرَ لَه (ترمذی کتاب الدعوات) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب ہر رات قریبی آسمان تک نزول فرماتا ہے جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کو جواب دوں، کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اُس کو دوں، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں.حدیث: عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ حَيْ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِ إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا خَائِبَيْنِ (ترمذی کتاب الدعوات) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ، بڑا کریم اور سخی ہے.جب بندہ اُس کے حضور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ اُن کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے.ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام: حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبولیت دعا کے متعلق فرماتے ہیں: ہے بلکہ یاد رہے کہ خدا کے بندوں کی مقبولیت پہچاننے کے لئے دعا کا قبو ل ہونا بھی ایک بڑا نشان ہوتا استجابت دعا کی مانند اور کوئی بھی نشان نہیں کیونکہ استجابت دعا سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بندہ کو جناب الہی

Page 337

فرمایا: میں قدر اور عزت ہے.اگر چہ دعا کا قبول ہو جانا ہر جگہ لازمی امر نہیں کبھی کبھی خدائے عز و جل اپنی مرضی بھی اختیار کرتا ہے لیکن اس میں کچھ بھی شک ہیں کہ مقبولین حضرت عزت کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے کثرت سے ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور کوئی استجابت دعا کے مرتبہ میں ان کا مقا بلہ نہیں کر سکتا.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22.صفحہ 334) ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ” یہ بالکل سچ ہے کہ مقبولین کی اکثر دعائیں منظور ہوتی ہیں بلکہ بڑا معجزہ ان کا استجابت دعا ہی ہے.جب ان کے دلوں میں کسی مصیبت کے وقت شدت سے بے قراری ہوتی ہے اور اس شدید بے قراری کی حالت میں وہ اپنے خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں تو خدا اُن کی سنتا ہے اور اس وقت ان کا ہاتھ گو یا خدا کا ہاتھ ہوتا ہے.خدا ایک مخفی خزانہ کی طرح ہے کامل مقبولین کے ذریعہ سے وہ اپنا چہرہ دکھلاتا ہے.خدا کے نشان تبھی ظاہر ہوتے ہیں جب اس کے مقبول ستائے جاتے ہیں اور جب حد سے زیادہ اُن کو دُکھ دیا جاتا ہے تو سمجھو کہ خدا کا نشان نزدیک ہے بلکہ دروازہ پر کیونکہ یہ وہ قوم ہے کہ کوئی اپنے پیارے بیٹے سے ایسی محبت نہیں کرے گا جیسا کہ خدا ان لوگوں سے کرتا ہے جو دل و جان سے اس کے ہو جاتے ہیں وہ ان کے لئے عجائب کام دکھلاتا ہے اور ایسی اپنی قوت دکھلاتا ہے کہ جیسا ایک سوتا ہوا شیر جاگ اٹھتا ہے.خدا مخفی ہے اور اس کے ظاہر کرنے والے یہی لوگ ہیں، وہ ہزاروں پردوں کے اندر ہے اور اس کا چہرہ دکھلانے والی یہی قوم ہے.“ (حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد 22.صفحہ 21.20) ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک درس قرآن کے دوران سورہ اخلاص کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اور خوارق میں سے آپ علیہ السلام کی دعاؤں کی قبولیت ہے جس میں مقابلہ کے واسطے تمام جہان کے عیسائیوں، آریوں وغیرہ کو بارہا چیلنج دیا جا چکا ہے مگر کسی کو طاقت نہیں کہ اس کے مقابلہ میں کھڑا ہو سکے.“ (ضمیمہ اخبار بدر.صفحہ 39) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد تمام دنیا کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ایسا ہے جسے اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کے سچا ہونے کا یقین ہے تو آئے اور ہم سے آکر مقابلہ کرلے........اس وقت دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا کس کی دعا قبول کرتا ہے.میں دعوئی سے کہتا کہ ہماری ہی دعا قبول ہو گی.“ ( الفضل 23 اکتوبر 1917ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے.تم میرے لئے دعا کرو کہ مجھے تمہارے لئے زیادہ دعا کی توفیق ملے اور اللہ تعالیٰ ہماری ہر قسم کی سستی دور کر کے چستی پیدا کرے.میں جو 337

Page 338

دعا کروں گا وہ انشاء اللہ فرداً فرداً ہر شخص کی دعا سے زیادہ طاقت رکھے گی.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنی دعاؤں کی قبولیت کے متعلق فرماتے ہیں: قبولیت دعا کا نشان: منصب خلافت - انوار العلوم جلد 2 صفحہ 47) ”خدا کا سایہ سر پر ہونے کے دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی کثرت سے دعائیں سنے گا یہ علامت بھی اتنی بہین اور واضح طور پر میرے اندر پائی جاتی ہے کہ اس امر کی ہزاروں نہیں لاکھوں مثالیں مل سکتی ہیں کہ غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ نے میری دعائیں سنیں وَذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَآءُ.پھر یہ نہیں کہ میری دعاؤں کی قبولیت کے صرف احمدی گواہ ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں عیسائی، ہزاروں ہندو اور ہزاروں غیر احمدی بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق میری دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور ان کی مشکلات کو دور کیا.الفضل میں بھی ایسے بیسیوں خطوط وقتاً فوقتاً چھپتے رہتے ہیں کہ کس طرح مخالف حالات میں لوگوں نے مجھے دعاؤں کے لئے لکھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کی مشکلات کو دور کر دیا.اس معاملہ میں بھی میں نے بار بار چیلنج دیا ہے کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو وہ دعاؤں کی قبولیت کے سلسلہ میں ہی میرا مقابلہ کر کے دیکھ مگر کوئی مقابل پر نہیں آیا....اگر لوگ اس معاملہ میں میری دعاؤں کی قبولیت کو چاہتے ہیں تو وہ بعض سخت مریض قرعہ اندازی کے ذریعہ تقسیم کر لیں اور پھر دیکھیں کہ کون ہے جس کی دعاؤں کو خدا تعالیٰ قبول کرتا ہے کس کے مریض اچھے ہوتے ہیں اور کس کے مریض اچھے نہیں ہوتے.“ دیکھنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: الموعود.صفحہ 182 تا 184) کسی دوست نے ایک غیر مبائع کے متعلق بتایا کہ وہ کہتے ہیں عقائد تو ہمارے ہی درست ہیں مگر دعائیں میاں صاحب کی زیادہ قبول ہوتی ہیں.“ حضرت (خلافت راشدہ انوار العلوم جلد 15.صفحہ 551) رت خليفة أمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ کی ذات اتنی پیاری اور محبت کرنے والی ہے کہ انسانی عقل اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی.اس تھوڑے سے عرصہ میں خدا تعالیٰ نے ہزار ہا لوگوں کی ضرورتوں کو اپنے فضل سے میری دعا کے ذریعہ پورا کیا، جن کے حق میں دعائیں قبول ہوئیں وہ ہر جگہ کے ہیں.“ (الفضل 25 جون 1971ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”میری دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں اور میں ہمیشہ آپ کی دعاؤں کا بھوکا ہوں.میں نے آپ کی تسکین قلب کے لئے، آپ کے بار ہلکا کرنے کیلئے، آپ کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے آپ رب رحیم قبولیت دعا کا نشان مانگا ہے اور مجھے پور ایقین اور پورا بھروسہ ہے اس پاک ذات پر کہ وہ میری اس التجا کو رد الفضل 30 دسمبر 1965ءصفحہ1.2) نہیں کرے گا.“ 338

Page 339

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے قبولیت دعا کے واقعات: 7 اپریل 1909 ء کا ذکر ہے حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ درس القرآن کیلئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے اور سورۃ آل عمران کے پانچوں رکوع کا درس دیا.اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے ان انعامات کا ذکر فرمایا ہے جو اس نے حضرت مریم علیہا السلام پر نازل کئے اور بتایا کہ کس طرح ان کے پیدا ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسے سامان مہیا کئے کہ جن کے نتیجہ میں ان کی نہایت اعلیٰ درجہ کی تربیت ہوئی اور وہ ایک خدا نما وجود اور صدیقہ بن گئیں.دمیں مجھے تھکنا ان مریمی صفات کے ذکر پر حضرت خلیفہ اصبح الاول رضی اللہ عنہ کا ذہن قدرتی طور پر اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کی طرف منتقل ہو گیا جو اُس نے خود حضور حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ) کی ذات والا صفات کئے تھے اور حضور حضرت خلیفة اصبح الاول رضی اللہ عنہ) نے محبت الہیہ کے جذبات سے سرشار ہو کر فرمایا: تمہیں کہاں تک سناؤں، سناتے سناتے تھک گیا مگر خدا کی نعمتوں کے بیان کرنے سے میں نہیں تھکا اور نہ چاہئے.اس نے مجھ پر بڑے بڑے فضل کئے ہیں.یہاں ایک اخبار کے ایڈیٹر نے اپنی نظم چھاپی ہے.”مجھے معلوم نہ تھا میں اسے پڑھتا اور سجدہ میں گر گر جاتا.چونکہ وہ بہت درد سے لکھی ہوئی تھی اس لئے اس نے میرے درد مند دل پر بہت اثر کیا.وہ صوفیانہ رنگ میں ڈوبی ہوئی نظم تھی.میں جس بات پر شکر کرتا ہوں وہ یہ تھی کہ خدا مجھ پر وہ وقت لایا ہی نہیں (میں یہ کہوں کہ) ” مجھے معلوم نہ تھا میں نے ہوش سنبھالتے ہی مولوی محرم علی مولوی اسماعیل، مولوی اسحاق کی کتابوں نصیحۃ المسلمین ، تقویۃ الایمان، روایت المسلمین وغیرہ کو پڑھا اور ان سے توحید کا وہ سبق پڑھا کہ ہر غلطی سے بحمد اللہ محفوظ رہا غرض خدا تعالیٰ جن کو نوازتا ہے عالم اسباب کو بھی ان کا خادم کر دیتا ہے.“ نظم جس کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس نے میرے درد مند دل پر بڑا ثر کیا.مکرم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کی تھی جو ان دنوں اخبار بدر کے اسٹنٹ ایڈیٹر تھے.اس نظم کا پہلا شعر یہ تھا کہ: عارضی رنگ بقا تھا مجھے معلوم نہ تھا سرمه چشم فنا تھا مجھے معلوم نہ تھا مکرم قاضی صاحب اسی سلسلہ میں حضور رضی اللہ عنہ کی قبولیت دعا کا ایک عجیب واقعہ بیان فرماتے ہیں.آپ لکھتے ہیں: میں دفتر ”بدر میں حسب معمول ایک دن چار پائی پر لیٹے ہوئے بستر کو تکیہ بنائے اور آگے میز رکھے دفتر ایڈیٹر و منیجر کا فرض بجا لا رہا تھا جو مجھے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی ایک چٹ ملی جس پر مرقوم تھا: ” میں نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اللہ تعالیٰ نعم البدل دے گا.وَلَمْ أَكُنُ بِدُعَا ئِكَ رَبِّ شَقِيًّا.میں کچھ حیرت زدہ ہوا کیونکہ یہ تو درست بات تھی کہ میرے دو لڑکے یکے بعد دیگرے چالیس دن کے اندر گولیکی (ضلع گجرات) میں فوت ہو چکے تھے، جمشید سات اکتوبر 1908ء کو ساڑھے نو ماہ اور خورشید پلوٹھا گیارہ نومبر 1908ء کو بعمر 5 سال 8 ماہ مگر میں نے حضور حضرت خلیفة امسیح الاول رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں دعا کی کوئی تحریک نہیں کی تھی.آخر معلوم ہوا کہ میری یہ نظم والده عبدالسلام مرحوم حضرت اماں جی نے گھر میں ترنم سے پڑھی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ آنکھیں بند کئے لیٹے ہوئے تھے جو ناگاہ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: سے الحمد للہ مجھے تو معلوم تھا.“ 339

Page 340

لکھتے ہیں:.اماں جی نے بتایا کہ یہ نظم اکمل صاحب کی ہے جو آپ کی شاگرد سکینۃ النساء کے شوہر ہیں.بیچاروں کے دو بیٹے یکے بعد دیگرے فوت ہو گئے ہیں.حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ پر اس کا ایسا اثر ہو کہ حضور کی توجہ فوراً دعا کی طرف پھر گئی اور اس کے بعد حضور نے مجھے وہ رقعہ لکھا جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے.اس کے بعد 1910ء میں میرے ہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے لڑکا تولد ہوا جس کا نام آپ (حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ) نے عبدالرحمن رکھا (جنید ہاشمی بی.اے) اور پونے تین سال بعد 1913ء میں دوسرا لڑکا تولد ہو جس کا نام آپ (حضرت خلیفۃ امسیح الاول رضی اللہ عنہ) نے عبدالرحیم رکھا ( شبلی ایم کام) اور اس طرح آپ کی دعا کی قبولیت کا ہم نے نظارہ دیکھا.فالحمد لله على ذلك حیات نور.صفحہ 430 تا 432) قاضی صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی قبولیت دعا کے واقعات کے سلسلہ میں ایک اور واقعہ بیان کیا ہے.آپ لکھنو کے شیخ محمد عمر صاحب لاہور میڈیکل میں پڑھتے تھے (جو بعد میں ڈاکٹر محمد عمر صاحب کے نام سے سلسلہ احمدیہ کے ایک مخلص نامور ممبر جناب بابو عبدالحمید صاحب ریلوے آڈیٹر لاہور کے داماد ہوئے) طبیعت ابتدا ہی سے آزاد پائی تھی، کسی کے سامنے جھکتے نہ تھے، بلحاظ وضع قطع اور انداز گفتگو وہ کچھ نہ تھے جو باطن میں تھے، صوم و صلوۃ کے پابند، تہجد خوان، مہمان نواز، غربا مریضوں کے ہمدرد، وہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں دعا کے لیے حاضر ہوتے تھے.ان کی میڈیکل استادوں اور سربراہ سے نہیں بنتی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ مجھے کوئی نہ کوئی نقص نکال کر فیل کر دیا جاتا ہے.جب دو سال متواتر فیل قرار دیئے گئے تو دیدہ و دانستہ حضرت خلیفہ اول کے جذبات کو برانگیخت کرنے کے لئے ان کی محفل میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے واشگاف غیر مومنانہ الفاظ میں کہنے لگے : ”خدایا تو ہے ہی نہیں یا ہے تو میڈیکل ممتحن کے سامنے اس کی پیش نہیں جاتی.حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ نے سن لیا اور آنکھیں اُوپر اٹھا کر فرمایا: دو ہلا جی! “ (یعنی اچھا جی ) اور پھر اپنے مطلب کے کام میں مشغول ہو گئے.اسی سال محمد عمر صاحب ڈاکٹر بن گئے اور کامیاب قرار پائے.میرے پاس آئے کہ اب یہ خبر کس طرح پہنچاؤں اور کس منہ سے حاضر خدمت ہوں.میں نے کہا: چلو چلتے ہیں.میں نے بیٹھتے ہی عرض کر دیا کہ محمد عمر پاس ہو گئے.آپ رضی اللہ عنہ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: دیکھا میرے قادر خدا کی قدرت نمائی!“ حیات نور صفحہ 432 و 433) محترم شیخ عبد اللطیف صاحب بٹالوی نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسح کی خدمت میں مولوی غلام محمد صاحب امرتسری حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ”دار لضعفا اور سکول میں غریب طالب علم جو غالبا مالا بار کے تھے.ان کے پاس سردی سے بچنے کیلئے کپڑے نہیں.حضور (حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: ہم ابھی دعا کرتے ہیں.چنانچہ دعا شروع فرما دی.دوسرے یا تیسرے دن اٹلی کے اعلیٰ قسم کے کمبل آنے شروع ہو گئے اور جوں جوں آتے حضور (حضرت خلیفۃ اصیح الاول رضی اللہ عنہ ) تقسیم فر ما دیتے.جب نواں یا گیارہواں کمبل آیا تو آپ (حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ) کی اہلیہ محترمہ حضرت اماں جی کو یہ کمبل بہت پسند آیا اور عرض کی کہ یہ کمبل تو ہم نہیں دیں گے.حضرت نے مسکرا کر فرمایا کہ آج اکیس کمبل آنے تھے 340

Page 341

مگر اب نہیں آئیں گے.چنانچہ اس کے بعد کوئی کمبل نہیں آیا.“ بارش بند ہونے کی دعا: (حیات نور.صفحہ 517) چودھری غلام محمد صاحب بی اے کا بیان ہے کہ: ” 1909ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ لگاتار آٹھ روز بارش ہوتی رہی جس سے قادیان کے بہت سے مکانات گر گئے.حضرت نوب محمد خاں صاحب مرحوم نے قادیان سے باہر نئی کوٹھی تعمیر کی تھی وہ بھی گر گئی.آٹھویں یا نویں دن حضرت خلیفہ ایچ اول رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز کے بعد فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں لوگ آمین کہیں.دعا کرنے کے بعد آپ (حضرت خلیفۃ امسیح الاول رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ میں نے آج وہ دعا کی ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر میں صرف ایک دفعہ کی تھی.دعا کے وقت بارش بہت زور سے ہو رہی تھی اس کے بعد بارش بند ہو گئی اور عصر کی نماز کے وقت آسمان بالکل صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی.“ (حیات نور.صفحہ 441 و 442) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قبولیت دعا کے واقعات حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی ہے اور مجھے اللہ عنہا تحریر فرماتی ہیں: پارٹیشن (partition) کے پریشانی کے دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک دن عصر کے وقت آپ (حضرت خلیفۃ اتر الثانی رضی اللہ عنہ) میرے پاس آئے، آپ کی آنکھیں سرخ اور متورم تھیں، آواز میں رفت تھی مگر اس پر پورا ضبط کئے ہوئے تھے.مجھے فرمانے لگے: صبح صبح عید ہے میں شائد آپ لوگوں کو عید دینی بھول جاؤں.کام کی مصروفیت غیر معمولی موجودہ حالات کے متعلق شدید گھبراہٹ ہے.گو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری دعا کو سنا ہے اور اس کا یہ وعدہ ہے کہ أَيْنَمَا تَكُونُوا يَأْتِي بِكُمُ اللَّهَ جَمِيعًا، میں سجدہ کی حالت میں تھا جس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت ملی ہے اور مجھے اس پر پورا ایمان ہے لیکن پھر بھی دعا کی سخت ضرورت ہے تم بھی درد سے دعائیں کرو.اللہ تعالی تبلیغ کے راستے ہمیشہ کھلے رکھے.“ میں نے آپ (حضرت خلیفۃ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) کا یہ الہام و بشارت نوٹ کر لیا اور اس کے پورا ہونے کی منتظر رہنے لگی.آج آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ وہ دعا اور پھر اس کو جواب جس میں بشارت تھی کسی خوبی اور کس خوبصورتی سے پورا ہوا.کس طرح قادیان سے نکلنے کے بعد پھر یہ ساری جمیعت ایک جھنڈے تلے جمع ہوئی اور پھر کس شان و شوکت سے اسلام کی تبلیغ چار دانگ عالم میں پہنچی، کس طرح زیادہ سے زیادہ حق کی تڑپ و جستجو رکھنے والے احمدیت کے اس دوسرے مرکز میں جوق در جوق پہنچے.فالحمد الله علی ذلک.(روز نامہ الفضل 26 مارچ فضل عمر نمبر 1966) پارٹمیشن حضرت سیدہ مہر آپا رضی اللہ عنہا مزید تحریر فرماتی ہیں: ایک اور واقعہ اسی زمانہ کا ہے جو اس مستجاب الدعوات کے شان نزول کا شاہد ہے.(partition) کے بعد خاص مشکلات کا سامنا رہا.اسلام دشمنی کے سند یافتہ کب پیچھا چھوڑ سکتے تھے.محض اور محض احمدیت کی دشمنی کی بنا پر جب عزیز محترم میاں ناصر احمد صاحب (خلیفۃ پر جب عزیز محترم میاں ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ 341

Page 342

العزیز) اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کو قید کر لیا گیا.آپ (حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) کا پریشان ہونا ایک قدرتی امر تھا.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ (حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) اس لحاظ سے ضرور مطمئن تھے کہ میرا بیٹا اور بھائی محض اس جرم میں ماخوذ ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور دین محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے علمبردار ہیں اور دین کے راستہ میں آزمائش بھی سنت نبوی ہے.گرمیوں کے دن تھے اور پھر ربوہ کی گرمی! عشا کے وقت ہم حسب معمول صحن میں تھے.باوجود اُوپر کی منزل میں ہونے کے گرمی کی شدت میں کمی نہ تھی.رات کا کھانا ہم اکٹھے کھارہے تھے اس دوران میں آپ (حضرت خليفة أمسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) نے گرمی کی شدت اور اس سے بے چینی کا اظہار فرمایا.میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا: ” پتہ نہیں میاں ناصر (خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ اور میاں صاحب (حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ) کا اس گرمی میں کیا حال ہوگا؟ خدا معلوم انہیں وہاں (یعنی جیل میں) کوئی سہولت بھی میسر ہے یا نہیں؟ آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) نے جواباً فرمایا: اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے وہ صرف اس جرم پر ماخوذ ہیں کہ ان کا کوئی جرم نہیں اس لیے مجھے اپنے خدا پر کامل یقین و ایمان ہے کہ وہ جلد ہی ان پر فضل کرے گا.“ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ آپ (حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ عشا کی نماز کیلئے کھڑے ہو گئے ، گریہ و زاری کا وہ منظر میں بھول نہیں سکتی.میں اس کی کیفیت کو قلمبند نہیں کر سکتی جو اس وقت میری آنکھوں نے دیکھا.اس گریہ میں تڑپ اور بے قراری بھی تھی، اس میں ایمان و یقین کامل کا بھی مظاہرہ تھا، اس میں ناز اور ناز برداری کی سی کیفیات بھی تھیں.یہی منظر پھر میں نے تہجد کے وقت دیکھا.اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ دعائیں بلند آواز سے نہایت بجز اور رقت کے ساتھ مانگ تھے...آپ (حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) کی دعا رات کے سکوت میں اس قدر بلند تھی کہ میں سمجھتی تھی کہ یہ آواز ہمارے ارد گرد بچوں کے گھروں تک ضرور پہنچی ہو گی.چنانچہ جب دن چڑھا اور ڈاک کا وقت ہوا تو پہلا تار جو ملا وہ یہ خوشخبری لئے ہوئے تھا کہ حضرت میاں صاحب، عزیز محترم میاں ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ) رہا ہو چکے ہیں.کتنی جلدی میرے خدا نے مجھے قبولیت دعا کا معجزہ دکھایا.الحمد للہ رہے روزنامه الفضل فضل عمر نمبر 26 مارچ 1966ء) حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب ”حیات قدسی“ میں تحریر فرماتے ہیں: ”میں نے قادیان میں اپنا ایک مکان بنوایا اور مکان بنوانے کے لیے بعض احباب سے قرض لیا تو میں پریشان تھا اور چاہتا تھا کہ یہ قرض جلد اتر جائے.چنانچہ میں نے رمضان المبارک کے مہینہ میں خصوصیت سے قرض کی ادائیگی کی بابت دعا شروع کی جب دعا کرتے آٹھواں دن ہوا تو اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہم کلام ہوا اور اس اپیارے محبوب مولا مولا نے مجھ سے ان الفاظ میں کلام فرمایا."اگر تو چاہتا ہے کہ تیرا قرضہ جلد اتر جائے تو خلیفہ سیح کی دعاؤں کو بھی شامل کرالے.اس کے بعد جلد معجزانہ رنگ میں یہ قرض اتر گیا.دو حیات قدی حصہ چہارم صفحہ 6,7) حضرت مولوی عبدالمالک خان صاحب مرحوم و مغفور یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ: 1939ء کا واقعہ ہے، میں فیروز پور میں متعین تھا.مختصراً میں ان کی طرف سے یہ بیان کر دیتا ہوں.ان کی 342

Page 343

صاحبہ بہت سخت بیمار ہو گئیں.بچے کی پیدائش کے نتیجہ میں ان کی بڑی بیٹی فرحت پیدا ہوئی تھیں جو آجکل حیدر آباد کن میں ہیں.اس کے نتیجے میں بے احتیاطی ہوئی، بخار چڑھ گیا جو انفیکشن (infection) کا بخار تھا.اس زمانے میں تو ابھی پنسلین و غیره ایجاد نہیں ہوئی تھیں.بخار اکثر مہلک ثابت ہوا کرتا تھا اور 108 تک درجہ حرارت پہنچ گیا.وہ اپنی بیوی کو ہسپتال چھوڑ کر سیدھا قادیان بھاگے اور جا کر وہ کہتے ہیں کہ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا قصر خلافت کا ، حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور کہا: مالک کس طرح آئے ہو؟ اور ساتھ ہی مجھے لے کر اندر ڈرائنگ روم میں چلے گئے جہاں حافظ مختار احمد صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے.میں نے عرض کیا کہ یہ کیفیت ہے اور بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.وہ کہتے ہیں کہ حضرت صاحب(حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) نے دعا کی اور چند لمحے توقف فرمایا اور میرے بازو پر ہاتھ مار کر فرمایا مولوی صاحب! اب آپ کی بیوی کو بخار نہ ہو گا.اس جگہ حضرت مختار احمد صاحب بھی تشریف فرما تھے.حضور (حضرت خليفة اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) نے مجھے یہ بشارت دی اور فرمایا آپ اب جا سکتے ہیں اس پر حضرت حافظ صاحب بھی میرے ہمراہ باہر تشریف لائے اور باہر نکل کر مجھے بتایا کہ آپ کی بیوی کا بخار پونے دس بجے ٹوٹا ہوگا کیونکہ جس لمحہ حضور (حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) نے آپ کو بشارت دی تھی اس وقت میں نے گھڑی دیکھی تو بعینہ اس وقت پونے دس کا وقت تھا اس لئے آپ جائے اور جا کر دریافت کریں کہ یہ بخار کب ٹوٹا تھا؟ کہتے ہیں میں واپس پہنچا فیروز پور ہسپتال میں جو عیسائی ہاسپٹل(Hospital) تھا وہاں کی عیسائی لیڈی ڈاکٹر سے انہوں نے کہا کہ میری بیوی ٹھیک ہو چکی ہے اور میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا اس کا بخار پونے دس بجے ٹوٹا تھا؟ اس نے کہا تمہیں کیسے پتا کہ یہ ٹھیک ہو گئی ہے اور تم رتمہیں کیسے پتا کہ پونے دس بجے ٹوٹا ہے؟ انہوں نے کہا: میں قادیان سے آرہا ہوں اس طرح میں نے دعا کی درخواست کی تھی، یہ واقعہ ہوا ہے اس لیے مجھے یقین ہے.شاید اس اُمید پر کہ یہ بات جھوٹی نکلے وہ اسی وقت، حالانکہ ملاقات کا وقت نہیں تھا ان کو ساتھ لے کر یعنی مولوی عبدالمالک خان صاحب کو ساتھ لے کر ،ان کے کمرے میں گئی اور بخار کا چارٹ دیکھا.عین نو بج کر پینتالیس بخار نارمل ہوا تھا اور وہ چارٹ گواہ بنا ہوا کھڑا تھا.“ منٹ پر (خطبہ عید الفطر 27 اپریل 1990 ء) محترم سعدیہ خانم صاحبہ اہلیہ محترم عبدالقیوم خان کمپونڈر ربوہ لکھتی ہیں:.1949ء کی بات ہے کہ میری لڑکی جو اس وقت صرف دو سال کی تھی.اس کے پاؤں کے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی پر شدید چوٹ آنے سے ہڈی کو سخت نقصان پہنچا اور زخم بڑھتے بڑھتے ناسور کی شکل اختیار کر گیا.ہم اس وقت راولپنڈی میں تھے.بڑے بڑے ڈاکٹروں، حکیموں، جراحوں اور نائیوں سے علاج کروایا مگر کسی.افاقہ نہ ہوا اور ڈاکٹروں نے خطرہ ظاہر کیا کہ کہیں لڑکی کی ٹانگ نہ کاٹنی پڑے.ہمیں لڑکی کے بارہ میں سخت تشویش تھی.اوپر سے زخم مل جاتا لیکن پھر مہینہ ہمیں دن کے بعد انگلی کی ہڈی سے پیپ بہنے لگتی.بے شمار دوائیں کھلائی گئیں.اسی عرصہ کے دوران ہمیں اپنی ڈاکٹری کی دکان کے سلسلہ میں ضلع ہزارہ میں رہنے کا موقع ملا.ایک دفعہ پھر پہلے کی طرح پیپ بہنے لگی.عصر کی نماز کا وقت تھا اور میں نماز پڑھ رہی تھی کہ وہاں کی پہاڑی عورتوں نے لڑکی کے والد کو مشورہ دیا کہ آپ اس کو فلاں خانقاہ پر لے جائیں اور وہاں کی مٹی سے دو تین دفعہ نہلائیں.لڑکی کے والد تو خاموش رہے لیکن جب نماز پڑھتے ہوئے یہ آواز میرے کان میں پڑی تو میرا دھیان اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی طرف پھر گیا اور میں نے نماز میں بڑے بجز و انکسار سے دعا کی کہ اے رحیم و غفور آقا! لڑکی کو صحت دے.میں نے لڑکی کے والد سے کہا کہ اگر لڑکی مرتی ہے تو مر جائے ہم اپنا 343

Page 344

ایمان کیوں خراب کریں، خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے وہ صحت دے گا.میں حضور اقدس حضرت خلیفہ اقدس(حضرت امسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) کی خدمت میں دعا کے لئے لکھوں گی.سو اسی دن میں نے حضور (حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا اور دو تین ہفتے متواتر سھتی رہی اور حضور ( حضرت خلیفہ ایج الثانی رضی اللہ عنہ) کی طرف سے جواب بھی ملتا رہا.قدرت خدا وند تعالیٰ کہ جو دوائی ہم بیسیوں دفعہ لگا چکے تھے اسی دوائی سے زخم بھر گیا اور کچھ دنوں میں کامل طور پر شفاء ہو گئی اور بفضلہ تعالی لڑکی اب تک بالکل ٹھیک اور تندرست ہے.فالحمد للہ علی ذلک.محترمہ سعدیہ خانم لکھتی ہیں: (ماہنامہ مصباح ستمبر 1962ء) ”میرا لڑکا روز پیدائش سے ہی بیمار اور کمزور رہنے لگا تھا.یہ 1955ء کی بات ہے صرف ہیں دن کا تھا کہ اسے نمونیہ ہوا اور پھر سال ڈیڑھ سال کے اندر چار دفعہ لگا تار اس کا حملہ ہوا.علاج معالجہ میں کمی نہ تھی لیکن آئے دن اس کی بیماری سے سخت پریشانی رہتی تھی.ایک دن عصر کے وقت جبکہ حضور نے نماز پڑھانے کے لیے آنا تھا میرے میاں بچے کو لے گئے.جب حضور قصر خلافت سے باہر تشریف لائے تو میرے میاں نے آگے بڑھ کر عرض کیا.حضور دعا فرما دیں.اس پر حضور نے ازراہ شفقت بچے کی کمر پر ہاتھ پھیرا اور دعا فرمائی اور پھر بفضلہ تعالیٰ بچہ اس موذی بیماری سے تندرست ہو گیا اور آج تک اس کے دوبارہ حملہ سے محفوظ ہے.فالحمد للہ محترمہ سعدیہ خانم صاحبہ تحریر کرتی ہیں: (ماہنامہ مصباح ستمبر 1962ء) ”میری ایک ہمشیرہ کے شادی کے سات سال بعد ایک لڑکا ہوا وہ بھی ایک سال کا تھا کہ فوت ہو گیا.شادی کو بارھواں سال ہو چکا تھا اور کوئی بچہ نہ تھا.میں نے حضور (حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) کی خدمت میں دعا کے لئے تفصیلی خط لکھا کہ حضور ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) میری ہمشیرہ کا میاں بھی اکیلا ہے نہ اس کا کوئی بھائی ہے نہ بہن ہے، نہ ماں نہ باپ ہیں.حضور ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے نیک اولاد کی نعمت سے نوازے.الحمد للہ کہ درخواست دعا کے پورے ایک سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو چاند جیسی لڑکی عطا فرمائی.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے ایک لڑکا اور ایک لڑکی اور ہیں.حضرت طلبیت لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی دعا کا معجزانہ اثر (ماہنامہ مصباح ستمبر 1962ء) مکرم ملک حبیب اللہ صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی انسپکٹرز آف سکولز لکھتے ہیں: شجاع آباد کے قیام کے دوران مجھے ایک ایسا مرض لاحق ہو گیا جس نے مجھے بالکل نڈھال اور مردہ کی مانند کر دیا.تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد پیٹ میں اتنا شدید درد اٹھتا کہ میں بے ہوش ہو جاتا.تقریباً دو سال میں نے ہر قسم کے علاج کئے لیکن حالت خراب ہو گئی.آخر تنگ آکر میں نے امرتسر کے سرکاری ہسپتال میں داخلہ لے لیا.وہاں ٹیسٹ ہوئے اور یہ فیصلہ ہو کہ میرے پتا اور اپنڈکس ہر دو کا اپریشن ہو گا.اس سے مجھے گھبراہٹ پیدا ہوئی اور میں ایک دن بلا اجازت ہسپتال سے چلا گیا اور قادیان پہنچا اور حضور (حضرت خلیفۃ ایج الثانی رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر ہو کر تمام ماجرا عرض کیا حضور ( حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) 344

Page 345

نے توجہ سے سن کر فرمایا کہ آپ کو اپنڈے سائٹس تو قطعا نہیں ہاں تھیمیں نقص ہے آپ علاج کرائیں میں دعا کروں گا انشاء اللہ آرام آجائے گا.اس کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ میں تندرست ہو جاؤں گا.چنانچہ میں اپنی ملازمت پر واپس چلا آیا اور ملتان کے ایک حکیم صاحب سے معمولی ادویات لے کر استعمال کرنا شروع کیں.تین چار ماہ کے بعد بیماری کا نام و نشان بھی نہ رہا.حالا نکہ اس سے قبل تقریباً دو سال یونانی اور انگریزی ادویات استعمال کر چکا تھا.یہ صرف حضور کی معجزانہ دعا کا نتیجہ تھا جس نے میرے جیسے مردہ کی مانند مریض کو شفا یاب کر دیا.اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے آج تک مجھے پیٹ کی تکلیف نہیں ہوئی.حالانکہ غذا کے معاملہ میں سخت بد پرہیزی کرتا رہا ہوں.“ (روز نامه افضل 20 مارچ 1966 ء) مکر سیٹھ عبداللہ بھائی اللہ دین صاحب لکھتے ہیں: 1918ء میں میں نے اپنے لڑکے علی محمد صاحب اور سیٹھ اللہ دین ابراہیم بھائی نے اپنے لڑکے فاضل بھائی کو کے لیے قادیان روانہ کیا.علی محمد نے 1920ء میں میٹرک پاس کرلیا ان کو لندن جانا تھا.دونوں لڑکے مکان میں واپس آنے کی تیاری کر رہے تھے کہ یکایک فاضل بھائی کو TYPHOID بخار ہو گیا تو ہاسٹل کے معزز ڈاکٹر جناب حشمت اللہ صاحب اور حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کچھ ان سے ہو سکا سب کچھ کیا طبیعت درست بھی ہو گئی مگر بد پرہیزی کے سبب پھر ایسی بگڑی کہ زندگی کی کوئی امید نہ رہی.جب یہ خبر حضرت امیر المومنین حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) کو پہنچی تو حضور (حضرت خلیفۃ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ ( خود بورڈنگ میں تشریف لائے اور بہت دیر تک دعا فرمائی.اس کے طبیعت معجزانہ طور پر سدھر نے لگی اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے فاضل بھائی کو نئی زندگی حاصل ہو گئی.یقیناً حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا کہ موت نہیں ملتی مگر دعا سے.یہ حقیقت ہم نے صاف طور پر اپنی نظر سے دیکھ لی.الحمد لله (الحکم دسمبر 1939ء) مکرم سیٹھ عبداللہ بھائی اللہ دین صاحب لکھتے ہیں: اسی طرح ایک اور واقعہ ہوا.میری تیسری لڑکی عزیزہ ہاجرہ بیگم کے پیٹ میں یکا یک درد ہو گیا.ہم نے اپنے ، ہنے والے سرکاری خطاب یافتہ ڈاکٹر کو جو آنریری مجسٹریٹ بھی ہے بلوایا.انہوں نے دیکھ کر کہا کہ لڑکی کے پیٹ میں ہو گیا ہے فوراً آپریشن (operation) کر کے نکال دینا چاہئے ورنہ جان کا خطرہ ہے وہ دسمبر کا مہینہ تھا.مجھے قادیان سالانہ جلسہ پر ایک دو روز میں جانا تھا اور یہاں یہ حالت ہو گئی.پھر ہم نے یہاں کے ہاسپٹل (Hospital) کے بڑے یورپین ڈاکٹر کو بلوایا اس نے خوب معائنہ کیا اور کہا کہ نہ پیپ ہے اور نہ آپریشن کی ضرورت.ہم سب یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور خدا تعالیٰ کو شکر کیا لیکن وہ ڈاکٹر اپنی رائے پر ہی اڑا رہا کہ یقیناً ہے.فوراً آپریشن کی ضرورت ہے اس کے بغیر اگر یہ لڑکی بچ جائے تو میں اپنی ڈاکٹری چھوڑ دوں گا لیکن ہم نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی میں دوسرے روز قادیان روانہ ہو گیا.وہاں سے واپس آنے تک لڑکی اچھی رہی مگر اس کے بعد یکا یک لڑکی کی ناف میں سوراخ ہو گیا اور اس قدر پیپ نکلا کہ جس کی کوئی حد نہیں رہی.ہم نے پھر اسی ڈاکٹر کو بلوایا جس نے کہا تھا کہ پیپ ہے.اب ہم آپریشن کے لئے بھی رضامند ہو گئے مگر اس نے کہا کہ لڑکی کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے.اب آپریشن کا وقت نہ رہا.اب وہ کیس HOPELESS ہو گیا.ہم نے فوراً ایک تار حضرت امیر المومنین (حضرت خلیفة أمسیح الثانی رضی 345

Page 346

اللہ عنہ ) کی خدمت میں اور دوسرا الفضل کو روانہ کیا اور پھر ایک بار حضور (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ ) کی دعا کا معجزانہ نتیجہ دیکھا کہ بغیر کسی ڈاکٹری علاج کے صرف ایک معمولی دوائی کی.دوائی سے میری پیاری لڑکی کامل صحت پا گئی.الحمد للہ ثم الحمد للہ عنہ (الحکم دسمبر 1939ء) مکرم سیٹھ عبدا للہ بھائی اللہ دین صاحب لکھتے ہیں: ”حضرت امیر المومنین حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) کے ارشاد کے مطابق میں نے اپنے لڑکے علی محمد سلمہ.I.C.S کے لئے لندن روانہ کیا.وہاں ان کو پہلے.M.A کی ڈگری حاصل کرنا ضروری تھا.مگر.M.A میں اس قدر دیر ہو گئی کہ.I.C.S کے لئے موقع نہ رہا.M.A کے سات مضامین میں سے چھ تو انہوں نے پاس کر لئے مگر آخری مضمون CONSTITIONAL LAW AND CONSTITUTIONAL HISTORY میں متواتر فیل ہوتے گئے اس لئے وہ بیزار ہو کر واپس گھر آنا چاہتے تھے.ان کو سات سال کا عرصہ ہو گیا تھا اس لئے میں نے حضرت امیر المومنین حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) سے ان کو واپس بلا لینے کی اجازت چاہی مگر حضور ( حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا کہ میں نے خواب میں ان کا نام پاس ہونے والوں کی فہرست میں دیکھا ہے اس لئے انشاء اللہ یہ یقیناً پاس ہو کر آئیں گے.میں نے ان کو یہ سارا حال لکھ کر پھر کوشش کرنے کو کہا اس پر انہوں نے پھر ایک بار کوشش کی مگر پھر بھی فیل ہو گئے.یہ بے حد پریشان تھے کہ اب آئندہ کیا کیا جائے.ان کے استاد کو جب معلوم ہو کہ پھر فیل ہو گئے تو اس نے تحقیق کی.معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کا وہاں کیا کرشمہ ہوا کہ ایک دو روز میں ان کو یونیورسٹی کی طرف سے اطلاع ملی کہ آپ کے فیل ہونے کی خبر غلط تھی آپ پاس ہو گئے ہو.بہت خوش ہوئے اور سمجھ گئے یہ محض خدا تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کا خواب پورا کرنے کیلئے ان پر یہ کیا ہے.انہوں نے خدا تعالیٰ کا شکر یہ ادا کیا اور ڈگری حاصل کر کے حج کا موقع تھا اس لئے واپس ہوتے ہوئے حج کر کے الحاج علی محمد ایم.اے بن کر ہم کر آملے.الحمد للہ ثم الحمد للہ (الحكم دسمبر 1939ء) سیٹھ عبداللہ بھائی اللہ دین صاحب لکھتے ہیں: ”ہماری تجارتی فرم میں ہم چاروں بھائی مختلف کام دیکھتے تھے.خان بہادر احمد الہ دین بھائی سیمنٹ اور کوئلہ کا کام دیکھتے تھے.غلام حسین بھائی ایس اور سوڈا کا کام دیکھتے تھے.قاسم علی بھائی دفتر میں بوٹس ہڈی کا.میں جب احمدی ہوا تب سے مجھے حضرت امیر المومنین کی دعاؤں کی تاثیرات کا خوب علم تھا اس لئے میرے ذمہ جو کام تھا اس کی ترقی کے لئے حضور ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) سے دعائیں کرواتا رہتا تھا اور حضور کی خدمت میں ماہوار ایک سو روپیہ نذرانہ روانہ کرتا رہتا تھا جس کے طفیل ہماری فرم کو سالانہ اوسطاً دس ہزار روپیہ منافع ہوا کرتا تھا.میرے بھائی قاسم علی اہل حدیث ہو گئے اور میری مخالفت شروع کر دی.مولوی ثناء اللہ صاحب کو امرت سر سے بلوایا کر خوب مخالفت کروائی جس میں میرے غلام حسین بھائی بھی شریک ہو گئے.اب یہ دونوں بھائی میں جو کام دیکھتا تھا اس میں دخل دینے لگے اور میں جو ماہوار رقم قادیان روانہ کرتا تھا اس کے متعلق اعتراض کرنے لگے اس لئے میں نے روپیہ بھیجنا موقوف کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری فرم کا جو دس ہزار روپیہ منافع ہو تا تھا وہ جاتا رہا بلکہ نقصان ہوتا رہا.آخر وہ وقت آیا کہ ہماری فرم نے تجارت ترک کر دی.....میں نے حضور ( حضرت خلیفہ اُسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) سے آگے کے مطابق دعا 346

Page 347

کروانی شروع کی اور ماہوار آگے جو ایک سو روپیہ روانہ کرتا تھا اس کے عوض دو سو روپیہ روانہ کرنے لگا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم کو سالانہ اوسطاً پندرہ ہزار منافع ہونے لگا.الحمد للہ ثم الحمد للہ.(الحكم دسمبر 1939ء) حضرت خلیفة أصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے قبولیت دعا کے واقعات مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب لکھتے ہیں: ’1965 ء میں جبکہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ مسند خلافت یہ متمکن ہوچکے تھے.خاکسار ان ایام میں منڈی بہاؤالدین میں بطور مربی متعین تھا.مجھے ایک مرتبہ پیٹ میں دائیں جانب درد سی رہنے لگی.ایک ڈاکٹر کے پاس مشورہ کے لئے گیا تو ڈاکٹر صاحب نے پوری طرح معائنہ کے بعد دوبارہ آنے کے لئے کہا جب دوبارہ حاضر ہوا تو وہاں ایک اور ڈاکٹر بھی میرے معائنہ کے لئے موجود تھے.چنانچہ اس دفعہ دونوں ڈاکٹروں نے مل کر معائنہ کے بعد یہ رائے قائم کی کہ اپینڈیکس بڑھنے کا قوی امکان ہے اور اس صورت میں آپریشن کی ضرورت ہو گی.خاکسار کو یہ سن کر تشویش ہوئی اور اگلے ہی روز خاکسار نے ربوہ پہنچ کر حضور ( حضرت خلیفة أصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضری دی، ساری کیفیت بیان کر کے اور ڈاکٹروں کی رائے بتا کر دعا کی عاجزانہ درخواست کی.حضور ( حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نہایت توجہ سے ساری باتیں سن کر خاکسار کو تسلی دی کہ انشاء اللہ میں دعا کروں گا اور ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق اپینڈیکس کی تکلیف ہرگز نہ ہو گی آپ فکر نہ کریں.چنانچہ خاکسار کی ساری فکر جاتی رہی بلکہ اگر کوئی تکلیف پردہ غیب میں مقدر بھی تھی تو میرے پیارے آقا حضرت خلیفۃ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ڈاکٹروں کی رائے نے واقعاتی رنگ اختیار نہیں کیا.فالحمد للہ علی ذلک.مکرم سلطان محمود انور صاحب لکھتے ہیں:.(ماہنامہ خالد سیدنا ناصر نمبر.صفحہ 238.237.اپریل مئی 1983ء) "1972-73ء میں جب کہ خاکسار کراچی میں بطور مربی متعین تھا میرا چھوٹا بیٹا عزیزم سلمان محمود بعمر ڈیڑھ سال سخت بیمار پڑ گیا.اور محترمہ ڈاکٹر محمودہ نذیر صاحبہ (اللہ تعالیٰ موصوفہ کی مغفرت فرمائے اور بے شمار اجر عطا کرے (آمین) کے زیر علاج تھا.جب بیماری میں زیادہ شدت آگئی تو موصوفہ نے اپنے گھر والے کلینک میں بچے کو admit کر لیا اور بڑی توجہ سے علاج جاری رکھا مگر حالت دن بہ دن خراب ہو تی گئی.ایک روز بعد نماز مغرب خاکسار کو ٹیلیفون پر ڈاکٹر صاحبہ موصوفہ نے بتایا کہ بچے کی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ کچھ نہیں کہا جا سکتا.میں پوری کوشش کر چکی ہوں مگر صحت ہوتی نظر نہیں آتی اس طرح موصوفہ نے پوری مایوسی کا اظہار کر دیا.یہ سن کر خاکسار نے کراچی سے ربوہ اپنے پیارے آقا کی خدمت میں ٹیلیفون کال بک کرائی تا کہ دعا کے لئے درخواست کروں ان دنوں کال ملنے کے انتظار گھنٹوں کرنی پڑتی تھی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹھیک پانچ منٹ میں کال مل گئی اور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ اَعْلَى اللَّهُ مَثْوَاهَا نے فون اٹھایا اور بتایا کہ حضور (حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) تو اس وقت عشا کی نماز کے لئے مسجد میں ہیں آپ پیغام دے دیں.خاکسار نے بچے کی حالت کا ذکر کر کے دعا کی درخواست حضور (حضرت خلیفة رايح الثالث رحمہ اللہ تعالی) کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے عرض کیا اسی دوران حضور (حضرت خلیفة اصبح الثالث تعالیٰ) تشریف لے آئے تو حضرت بیگم صاحبہ نے مجھے فرمایا کہ انتظار کریں میں ابھی حضور (حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) کی خدمت میں عرض کئے دیتی ہوں.چنانچہ آپ، حضور (حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) کی خدمت میں عرض کرنے کے بعد مجھے فون پر بتا رہی تھیں کہ اسی دوران پیارے آقا (حضرت رحمم ا الله 347

Page 348

خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) خود ٹیلیفون کے نزدیک تشریف لے آئے اور خاکسار سے براہِ راست بچے کی بیماری اور علاج کی ساری تفصیل سن کر فرمایا: ” میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا آپ فکر نہ کریں بچہ صحت یاب ہو جائے گا گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں.اپنے محسن اور شفیق آقا سے تسلی پا کر خاکسار اسی وقت کلینک پہنچا.ڈاکٹر صاحبہ نے بچے کی حالت دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ اب بچہ ایسی حالت کو پہنچ چکا ہے کہ علاج جاری رکھنا ممکن نہیں رہا میں نے ڈاکٹر صاحبہ کو اپنے آقا (حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی) کی دُعا اور تسلی آمیز یقین دہانی کا ذکر کیا تو موصوفہ جیسے خوشی سے اُچھل پڑیں کیونکہ موصوفہ خود بھی نہایت دُعا گو احمدی خاتون تھیں.جب کمرے میں جا کر بچہ کی حالت دیکھی تو وہ ایسی حالت میں تھا کہ بڑی ہی کمزور نبض کی معمولی حرکت جاری تھی مگر جسم کی رطوبت ختم ہو کر جسم میں کوئی لوح نہ تھی بلکہ سارا جسم سخت اکٹڑ چکا تھا اور بچہ چند لمحوں کا مہمان نظر آتا تھا.بہر حال سوائے دعا کے کوئی چارہ نہ تھا اور ایسی حالت میں دعاؤں میں سخت رقت تھی.اچانک بچے کی آنکھوں میں ہلکی سی حرکت ہوئی اور اس کے ساتھ ہی تدریجاً اُمید کی صورت بڑھنے لگی.کچھ وقفہ کے بعد بچہ نے دُودھ بھی پی لیا اور ٹمپریچر نارمل کی طرف بڑھنے لگا اور چہرہ پر کچھ تازگی آ گئی.رات سکون سے گزری اور صبح جب ڈاکٹر صاحبہ نے بچہ کا معائنہ کیا تو ان کی رپورٹ یہ تھی کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بچہ معجزانہ طور پر بیماری کی گرفت سے پوری طرح نکل کر ناریل حالت پر آگیا ہے اور سوائے کمزوری کے کوئی رمق بیماری کی باقی نہیں رہی.تب ڈاکٹر صاحبہ نے بیماری کی صحیح کیفیت بھی بتا دی کہ بچہ بیک وقت سرسام اور گردن توڑ بخار سے بیمار تھا او ر DEHYDRATION سے رگیں تک سوکھ گئی تھیں اور سوائے دعا کے اعجاز کے صحت کی کوئی صورت ہرگز ممکن نہ تھی.“.، (ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی 1983ء.صفحہ 239,238) سعید احمد سعید صاحب چاہ بوہڑ والا ملتان لکھتے ہیں: ”خاکسار 1957ء تا1959ء تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں زیر تعلیم رہا ہے اور دنوں خاکسار کو اعصابی دورے پڑتے تھے.بعض لوگ اس کو مرگی کا دورہ بھی کہتے تھے.مہینہ میں کئی بار دورہ پڑتا تھا اور اکثر اوقات کئی کئی گھنٹے بے ہوش رہتا تھا.حضور ( حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اس وقت کالج کے پرنسپل تھے.ایک دن خاکسار کو بہت ہی سخت قسم کا دورہ پڑا.کافی دیر تک ہوش نہیں آرہا تھا.سارا فضل عمر ہوٹل پریشان تھا آخر کار حضور (حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کو کوٹھی پر اطلاع دی گئی کہ سعید احمد ہوٹل میں دورہ پڑنے سے بے ہوش ہو گیا ہے.حضور ( حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) اسی وقت ہوٹل میں تشریف لائے اور میری چارپائی پر تشریف فرما ہوئے پھر کھڑے ہو کر اجتماعی لمبی دعا کی جونہی حضور (حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی) نے دعا ختم کی خاکسار کو ہوش آگیا.آنکھیں کھولیں تو عجیب نظارہ دیکھا کہ حضور محبت اور شفقت سے میرے پاؤں اور ٹانگیں دبا رہے تھے.میں نے حضور (حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ حضور مجھے شرمندہ نہ کریں، آپ آرام فرمائیں اور گھر تشریف لے جائیں.حضور فوری طور پر مسکرائے اور فرمایا: ”میں نہیں جاتا، آج تم سگریٹ پی لو اجازت ہے.تم نے سگریٹ پینی ہو گی.خاکسار بہت شرمندہ ہوا اور حضور حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی کی دعاؤں کے طفیل سگریٹ نوشی ترک کر دی اور اب اللہ کے فضل سے وہ بیماری ختم ہو گئی میاں محمد اسلم صاحب پتو کی لکھتے ہیں: ہے.66 (ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی 1983ء.صفحہ 292) 348

Page 349

خاکسار 11 نومبر 1963ء کو احمدی ہوا اور 9 اپریل 1965 ء کو خاکسار کی شادی ہوئی.بارہ سال تک خاکسار کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تمام رشتہ دار غیر احمدی تھے اور مخالفت کرتے تھے.وہ تمام اور گاؤں والے بھی یہی ا کہتے کہ چونکہ یہ قادیانی ہو گیا ہے لہذہ یہ ابتر رہے گا (نعوذ باللہ ).خاکسار نے اس تمام عرصہ میں ہر قسم کا علاج کروایا لیکن اولاد نہ ہوئی.دوسری طرف میری بیوی بھی رشتہ داروں کے طعنے سن کر میری دوسری شادی کرنے پر رضا مند ہو گئی.اس اثنا میں خاکسار نے حضرت خلیفہ اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں تمام حالات لکھ کر درخواست دعا کی کہ خدا تعالیٰ اولاد سے نوازے.حضور ( حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) نے خط میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا اور ضرور نرینہ اولاد سے نوازے گا.حضور (حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) کی اس دعا کی برکت سے اب میرے چار لڑکے ہیں.تمام لوگ حیران ہیں کہ یہ اولاد کس طرح ہو گئی حالانکہ لیڈی ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ اس عورت سے اولاد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.خاکسار اس کے جواب میں اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کو یہی کہتا ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ نشان ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی دعا کی برکت سے دیا.“ ( میاں محمد اسلم آف کماس پتوکی ضلع قصور از ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی 1983 ء صفحہ 293,292) چودھری محمد سعید کلیم دارالعلوم غربی ربوہ لکھتے ہیں: ”میری بہو جو آج کل جرمنی میں ہے اس کو پیٹ میں درد ہوتا تھا چنانچہ وہاں کے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ آپریشن کراؤ.میں نے یہ خط حضور (حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) کو پیش کیا اور عرض کی کہ حضور (حضرت خلیفة رأسيح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) دعا کریں کہ میری بہو بغیر آپریشن کے ٹھیک ہو جائے تو آپ (حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اس کو لکھ دو کہ آپریشن نہ کرائے میں دعا کروں گا وہ ٹھیک ہو جائے گی.“ چنانچہ میں نے حضور (حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) کے الفاظ اس کو لکھ دیئے اور وہ بغیر آپریشن کے ٹھیک ہو گئی اور اب تک ٹھیک ہے.الحمد للہ“ (ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی 1983ء.صفحہ 291) مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں: فروری1970ء کی بات ہے عاجز کی اہلیہ بس کے ایک حادثہ سے زخمی ہو گئیں خصوصاً سر کی چوٹ کے باعث بیہوشی طاری تھی.خون بے حساب یہ چکا تھا.فضل عمر ہسپتال میں مرہم پٹی ہوئی سر کے زخم کو ٹانکے لگے.مکرم ڈاکٹر قریشی لطیف احمد صاحب اور مکرم عبدالجبار صاحب اینڈ (attend) کر رہے تھے (جزاکم اللہ ).بے ہوشی کے باعث جو تقریباً چھتیں گھنٹہ رہی، بے حد تشویش تھی.الحمد للہ حضور پر نور (حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) کی دعائے مستجاب میسر آ گئی.حضور انور (حضرت خلیفہ راح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) کی خدمت میں تحریری طور پر تفصیل عرض کی گئی جس پر حضور انور (حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) کے اپنے دست مبارک سے لکھے ہوئے یہ الفاظ دل کی ڈھارس کا باعث ہوئے اور شفا یابی کے بارے میں یقین کے مقام پر پہنچا گئے.(حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے شفا دے اور خیریت سے رکھے.چھتیس گھنٹے کے بعد جب اہلیہ اہم (یعنی میری اہلیہ ) ہوش میں آئیں تو پھر کامل شفا کے لئے حضور انور ( حضرت خلیفة أصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سے مزید درخواست دعا کی گئی اس پر حضور انور (حضرت خلیفۃ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا: ”الحمد للہ اللہ تعالیٰ صحت کاملہ عاجلہ عطا 349

Page 350

کرے.“ خدا تعالیٰ نے معجزانہ طور پر ام کو صحت عطا فرما دی اور وہ اڑتالیس گھنٹے بعد یعنی حادثہ کے تیسرے روز ہسپتال سے فارغ ہو کر گھر پہنچ گئیں.الحمد لله علی ذلک.“ 66 (ماہنامہ انصار اللہ اپریل 1984) حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے قبولیت دعا کے واقعات آنکھوں کا نو ر واپس آگیا: حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جولائی 1986ء کو قبولیت دعا کے نتیجے میں ایک دوست کی آنکھوں کی معجزانہ شفا یابی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ڈھاکہ کے ایک احمدی دوست اپنے ایک دوست کے متعلق جو احمدی نہیں لکھتے ہیں کہ میں ان کو سلسلے کا لٹریچر بھی دیتا رہا اور ٹیسٹس بھی سناتا رہا جس سے رفتہ رفتہ ان کا دل بدلنے لگا.جماعت کے لٹریچر سے ان کو وابستگی پیدا ہو گئی اور وہ شوق سے لٹریچر مانگ کر پڑھنے لگے.اس دوران ان کی آنکھوں کو ایسی بیماری لاحق ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے یہ کہہ دیا کہ تمہاری آنکھوں کا نور جاتا رہے گا اور جہاں تک دنیاوی علم کا تعلق ہے ہم کوئی ذریعہ نہیں پاتے کہ تمہاری آنکھوں کی بصارت کو بچا سکیں.اس کا حال جب اس کے غیر احمدی دوستوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے طعن و تشنیع شروع کر دی اور یہ کہنے لگے اور پڑھو احمدیت کی کتابیں.یہ احمدیت کی کتابیں پڑھ کر تمہاری آنکھوں میں جو جہنم داخل ہو رہی ہے اس نے تمہارے نور کو خاکستر کر دیا ہے.یہ اس کی جو تمہیں مل رہی ہے.انہوں نے اس کا ذکر بڑی بے قراری سے اپنے احمدی دوست سے کیا.انہوں نے کہا تم بالکل مطمئن رہو تم بھی دعا کرو میں بھی دعا کرتا ہوں اور اپنے امام کو بھی دعا کے لئے لکھتا ہوں اور پھر دیکھو اللہ کس طرح تم پر فضل نازل فرماتا ہے.چنانچہ کہتے ہیں اس واقعہ کے بعد چند دن کے اندر اندر ان کی آنکھوں کی کایا پلٹنی شروع ہوئی اور دیکھتے دیکھتے سب نور واپس آ گیا.جب دوسری مرتبہ وہ ڈاکٹر کو دکھانے گئے تو ڈاکٹر نے کہ اس خطرناک بیماری کا کوئی بھی نشان میں باقی نہیں دیکھتا.“.ہے (ضمیمہ ماہنامہ خالد ربوہ جولائی 1987ء) گلے کی تکلیف دور ہو گئی: مکرم پر منصور احمد صاحب لطیف آباد حیدر آباد تحریر کرتے ہیں کہ تقریباً بیس سال پہلے میرے گلے میں تکلیف ہوئی جو کئی مہینوں پر محیط ہو گئی میں خود بھی ہومیو پیتھی کا مطالعہ کرتا ہوں اس کی روشنی میں علامات کے لحاظ سے Lycopoqium200 دوا بنتی تھی یہ دوا استعمال کر کے دیکھ لی فائدہ نہیں ہوا.اس دوران حضور پرنور حضرت خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا.حضور پرنور (حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) نے بھی یہی روا اسی طاقت میں لکھی.پہلے جو دوا استعمال کی تھی اس میں سے آدھی بچی ہوئی تھی.حضور انور حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا خط آنے پر وہی دوائی استعمال کی اور صحت یاب ہو گیا.“ (روز نامه الفضل سیدنا طاہر نمبر 27 دسمبر 2003ء.صفحہ 53) 350

Page 351

لاعلاج مریض رونہ صحت ہو نے لگا: حضور (حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1986ء میں فرمایا: ایران سے ڈاکٹر فاطمۃ الزہراللھتی ہیں کہ میرا اکلوتا بیٹا دائیں ٹانگ کی کمزوری کی وجہ سے بیمار ہوا اور دن بدن حالت بگڑنے لگی یہاں تک کہ وہ لنگڑا کر چلنے لگا.ماہر امراض کو کھایا گیا لیکن کوئی تشخیص نہ ہو سکی اور انہوں نے اس کی صحت کے متعلق مایوسی کا اظہار کیا.وہ کہتی ہیں کہ مجھے اچانک دعا کا خیال آیا اور اس خیال کے ساتھ میں نے خود بھی دعا کی اور آپ کو دعا کے لئے خط لکھا.اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ مریض جسے ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا تھا اسی دن سے رُوبصحت ہونے لگا اور باوجود اس کے کہ ڈاکٹروں کو اس کی بیماری کی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی اس لئے وہ علاج کرنے سے بھی معذور تھے اس دن سے دیکھتے دیکھتے اس کی حالت بغیر علاج کے بدلنے لگی اور اللہ کے فضل سے اب بوقت تحریر وہ بالکل صحیح ہے.“ (ضمیمہ ماہنامہ خالد ربوہ جولائی 1987ء) فصلوں میں غیر معمولی برکت: و د مکرم مکرم منصور احمد صاحب لطیف آباد حیدر آباد سے تحریر کرتے ہیں کہ: میجر عبدالحمید شرما صاحب سابق نائب ناظم وقف جدید میرے بہنوئی مکرم چودھری محمود احمد صاحب آف نو کوٹ کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ وقف جدید کی دو گھوڑیاں (جو بہت کمزور تھیں) آپ نے اپنے پاس رکھ لیں.برادرم چوہدری صاحب نے نہ صرف گھوڑیاں رکھنے کی حامی بھری بلکہ ملازمین کو ہدایت کی کہ ان کو کھلا فصلوں میں چھوڑ دیا جائے اس پر مزارعین نے اعتراض کیا کہ آپ اپنے حصے کی تو قربانی دے رہے ہیں ہمارا جو نقصان ہوگا اس کا کون ذمہ دار ہے.آپ نے جواباً کہا کہ جن فصلوں میں گھوڑیاں نہیں چھوڑیں گئیں میں ان کی پیداوار کے لحاظ سے آپ کا حصہ دوں گا.اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ جن زمینوں میں گھوڑیاں چھوڑی گئیں ان کی فی ایکڑ پیداوار 50 من رہی اور جن میں نہیں چھوڑی گئیں ان کی اوسط پیداوار 45 من فی ایکڑ رہی.اس دوران گھوڑیاں بہت صحت مند ہو گئیں.میجر عبدالحمید شرما صاحب دوبارہ تشریف لائے اور گھوڑیاں دیکھ کر بہت خوش ہوئے انہوں نے یہ خوش کن اطلاع حضور پر نور کی خدمت میں بھجوائی تو حضور انور کی طرف سے جواب موصول ہوا کہ جن کھیتوں سے ان کھوڑیوں نے گھاس کھائی ہے اللہ کرے وہ کھیت سونا اگلیں.برادرم چوہدری صاحب بتاتے ہیں کہ اس کے بعد میری فصلوں میں غیر معمولی برکت عطا ہوئی اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے." یہ قبولیت کا نشان تھا: روزنامه الفضل سیدنا طاہر نمبر 27 دسمبر 2003ء) اکٹر سید برکات احمد صاحب انڈین فارن سروس میں رہے، کئی کتب لکھیں، حضور انور (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) کی کتاب ”مذہب کے نام پر خون کا انگریزی ترجمہ کیا.آپ مثانہ کے کینسر سے بیمار تھے جس کا امریکا میں آٹھ گھنٹے کا ناکام آپریشن ہوا اور ڈاکٹروں نے چار سے چھ ہفتے کی زندگی بتائی.حضور انور 351

Page 352

352 پر حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تو جواب آیا: ”دعا کی تحریک مشتمل آپ کے پر سوز و گداز خط نے خوب ہی اثر دکھایا اور آپ کے لئے نہایت عاجزانہ فقیرانہ دعا کی توفیق ملی اور ایک وقت اس دعا کے دوران ایسا آیا کہ میرے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا، میں رحمت باری سے امید لگائے بیٹھا ہوں کہ یہ قبولیت کا نشان تھا.چنانچہ حضور کی دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے انہوں نے چار سال تک فعال علمی اور تحقیقی زندگی گزاری.ڈاکٹر ان کی زندگی اور فعال علمی و تحقیقی زندگی پر حیرت زدہ تھے.اور برکات صاحب بتاتے کہ ہمارے روحانی پیشوا کی دعائیں خدا تعالیٰ نے سنی تو ڈاکٹر سر ہلا کر کہتے ہاں معجزہ ہے، معجزہ ہے.“ باقاعدہ جمعہ پڑھتے ہیں: (افضل 9 دسمبر 2000ء) لائبیریا (Liberia) میں ایک احمدی مسٹر ماسا کوئے (Massaquoi) صاحب کا دل بڑھ گیا اور پھیپھڑوں میں پانی پڑ گیا.ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو اس نے کہافی خوراک 600 امریکن ڈالر خرچ آئے گا وہ خوراک600امریکن برائے ہوئے امیر صاحب کے پاس مدد کے لئے آئے اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھی دعا کے لئے خط لکھا.انہیں حضور انور حضرت خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) کا نسخہ بنا کر دیا گیا.الحمد للہ اب بالکل ٹھیک ہیں اور باقاعدہ بیت الذکر میں جمعہ پڑھنے آتے ہیں.“ (الفضل انٹر نیشنل 13 اپریل 2001ء) کبھی آنکھیں خراب نہ ہوئیں: مکرمہ امتہ القدوس شوکت صاحبہ بنت عبدالستار خان صاحب تحریر کرتی ہیں کہ پاکستان میں گرمی کی وجہ سے میری آنکھیں ہر وقت خراب رہتی تھیں.حضور کو دعا کے لیے لکھا آپ نے دعا کی اور فرمایا انشاء اللہ ٹھیک ہو جائیں گی.اس وقت کے بعد کبھی میری آنکھیں خراب نہ ہوئیں.“ صحت مند بچے کی پیدائش: " ا روزنامه الفضل 31 مئی 2003ء) مکرم رانا وسیم احمد صاحب صدر جماعت قلعہ کالر والا ضلع سیالکوٹ تحریر کرتے ہیں کہ: 1994ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر خاکسار نے حضور (حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) سے معانقہ اور مصافحہ کرتے ہوئے عرض کی کہ میری اہلیہ کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا ہے.حضور انور (حضرت خلیفۃ ایج الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) بچے کے لئے دعا بھی کریں اور اس کی والدہ کو ہومیو پیتھک دوائی بھی استعمال کے لئے دیں کیونکہ قبل ازیں دو بچے ہوئے تھے انہوں نے اپنی والدہ کا دودھ نہیں پیا.حضور انور (حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت میری اہلیہ صاحبہ کے لئے ہومیو پیتھک دوائی بھی دی اور بچے کا نام اعجاز احمد تجویز فرمایا.حضور انور (حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں کے طفیل بچے نے اپنی والدہ کا دو سال دودھ بھی پیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے صحت مند بھی ہے اور چوتھی کلاس میں تعلیم حاصل کر رہا

Page 353

ہے.،، روزنامه الفضل سیدنا طاہر نمبر 27 دسمبر 2003.صفحہ 54) بچہ فر فر بولنے لگ گیا: مکرم نذیر احمد سندھو صاحب ایڈوکیٹ بوریوالہ تحریر کرتے ہیں کہ : اپریل 1980ء میں صدر مجلس انصار الله مرکز یہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے حکم پر دعوت الی اللہ کا ایک پروگرام میرے آبائی گاؤں چک 30/11/1 میں منعقد ہوا.مکرم چودھری نذیر احمد باجوہ صاحب امیر ضلع ساہیوال و صدر مقامی اس تقریب کے میزبان تھے.علاقے کے معززین مدعو تھے.بوریوالا میں میرے ایک صاحب ثروت اور بااثر دوست ملک نذیر حسین صاحب لنگڑیال (مرحوم) کے میزبان ن فیملی سے پہلے سے گہرے مراسم تھے.میں بھی ملک صاحب کو ساتھ لے کر تقریب میں شامل ہوا.حضرت میاں صاحب (حضرت خليفة أمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے میری ایک محبت بھری ملاقات اسی گاؤں میں ہوئی.دعوت الی اللہ کے پروگرام میں معمول کے مطابق خطاب اور سوال و جواب کی بھر پور مجلس ہوئی اپنے خطاب کے آخر میں آپ کر.(حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے حق و صداقت میں رہنمائی کے لئے دعا کرنے کی تحریک کی.بعد تقریب باجوہ صاحب نے ملک صباحت کا تعارف حضرت میاں صاحب (حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے کرایا.میری موجودگی میں ملک صاحب نے اپنی مقامی بولی میں بڑی چاہت سے پوچھا: ”میاں صاحب ! دعاواں قبول دی تھیندیاں نہیں.“ یعنی کیا دعائیں واقعی قبول ہوتی ہیں؟ آپ (حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فلسفہ دعا پر روشنی ڈالی اور ملک صاحب کی درخواست پر ان کیلئے دعا کرنے کا وعدہ لیا.آپ کو اطلاع دی گئی کہ ملک صاحب کا بیٹا صفدر حسین جوان ہو چکا ہے.ہائی سکول کی بڑی جماعت میں پڑھتا ہے مگر سخت لنت کی وجہ سے کسی سے بات بھی نہیں کر سکتا ہر جگہ سے دعائیں اور دوائیں لی ہیں مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا.خبر پاتے ہی آپ (حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) نے دعا جاری رکھنے کی حامی بھری نیز ایک مخصوص ہومیو دوا کھلانے کی تحریک فرمائی.ادھر ملک صاحب نے بازار سے دوا منگوالی ادھر سکول ٹیچر مبارک باد کہنے گھر پہنچ گیا کہ آج ملک صفدر حسین ماشاء اللہ فر فر بول رہا ہے.الحمد للہ کہ بوریوالہ میں قبولیت دعا کا یہ نشان زندہ موجود ہے جو شفا بدوں دوا کا مظہر بھی ہے.اس واقعہ کے چند سال بعد تک ملک صاحب حیات رہے مگر بوجوہ قبول احمدیت کا اعلان نہ کر سکے مگر تا دم آخر تسلیم کرتے رہے کہ: ”دعاواں قبول وی تھیندیاں نیں.“ اٹھارہ سال بعد بچی پیدا ہوئی: (روز نامہ الفضل سید نا طاہر نمبر 27 دسمبر 2003ء.صفحہ 54) مکرم قریشی داؤد احمد صاحب ساجد مربی سلسلہ برطانیہ لکھتے ہیں کہ: " خاکسار کی شادی کے چند سال بعد ہمارے ہاں اولاد نہ ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کے علاج کروانے شروع کئے.پاکستان میں قیام کے دوران ڈاکٹر فہمیدہ صاحبہ (ربوہ) ڈاکٹر نصرت صاحبہ (ربوہ) کے علاوہ بہت سے ڈاکٹروں سے علاج کروایا.گھانا (Ghana) میں قیام کے دوران ہو میو پیتھک کے علاوہ ایک انڈین 353

Page 354

(Indian) اور ایک انگیریز لیڈی ڈاکٹر (English Lady Doctor) سے بھی علاج کروایا لیکن کوئی شفا نہ ہوئی.خاکسار مع فیملی 1999 ء میں گھانا سے انگلستان آیا.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے دوران دعا کی درخواست کی.خاکسار کی اہلیہ کو ہومیو پیتھک سے کافی دلچسپی ہے.چنانچہ انہوں نے حضور کی کتاب سے مختلف ادویات کا مطالعہ کیا اور مندرجہ ذیل نسخہ استعمال کیا: Sulphur CM کی ایک خوراک.اگلے ماہ Sepia CM کی ایک خوراک.اس کے بعد تقریباً دو ماہ تک درج ذیل نسخہ استعمال کیا: Kali ,Phos Calc Phos Ferrum Phos تمیں طاقت میں اور.Lillium Tig بھی تمہیں طاقت میں.اس دوائی کے استعمال کے بعد اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے شادی کے اٹھارہ سال بعد 23 فروری 2001 ء کو ہمیں بیٹی سے نوازا.“ نشان پر آئندہ بیٹا لے کر آنا: الفضل انٹر نیشنل 28 ستمبر 2001ء) حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1986 ء میں مندرجہ ذیل قبولیت دعا کا واقعہ سنایا: نائیجیریا (Nigeria) سے سیف اللہ چیمہ تحریر فرماتے ہیں کہ گزشتہ مرتبہ جب میں آپ سے ملنے آیا میری بیوی بھی ساتھ تھی.ہم نے ذکر کیا کہ ہماری شادی پر ایک عرصہ گزر گیا ہے اور کوئی اولاد نہیں.اس وقت آپ نے بے اختیار یہ فقرہ کہا کہ: ”بشری بیٹی آئندہ جب آؤ تو بیٹا لے کر آنا وہ کہتے ہیں کہ الحمدللہ آپ کو یہ خوشخبری دے رہا ہوں کہ اب جب ہم آپ سے ملنے آئیں گے تو بیٹا لے کر آئیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ وہ بیٹا عطا فرما چکا ہے.(ضمیمہ ماہنامہ خالد ربوہ جولائی 1987ء) خوبصورت اور عمر پانے والا بچہ پیدا ہوگا: حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطاب میں اپنی قبولیت دعا کا انتہائی ایمان افروز روح پرور اور اعجازی پر مشتمل واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: غانا جب میں پہنچا ہوں تو وہاں کے ایک چیف نانا اوجیفو (Nana Ojefo) صاحب جو عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے وہ پہلی رات مجھے ملنے کیلئے آئے اور نماز کے بعد مجلس میں انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ کے ہاتھ پر دستی بیعت کرتا چاہتا ہوں.جب میں نے مربی صاحب سے وجہ پوچھی تو جو واقعہ سنایا وہ میں آپ کو سناتا ہوں وہ کہتے ہیں یہ خصوصیت کے ساتھ ایک تو ہم پرست کا ہن قوم سے تعلق رکھتے ہیں.ان لوگوں میں بڑے رسم و رواج ہیں اور بڑے تو ہمات ہیں ان کی بیوی کا حمل ہر دفعہ ضائع ہو جاتا تھا اور کبھی مدت پوری نہیں ہوتی تھی اس پریشانی کا ذکر انہوں نے عیسائی پادریوں سے کیا اور دم پھونکنے والے کے پاس گئے کوئی فائدہ نہ ہوا.آخر جب اس طرف سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے امام وہاب صاحب سے بات کی اور کہا کہ میں ہوں عیسائی لیکن مجھے عیسائیت پر سے دعا کا یقین اٹھ گیا ہے آپ لوگوں کے متعلق سنا ہے کہ آپ دعا کرتے ہیں تو خدا قبول بھی کرتا ہے تو اپنے امام کو میری طرف سے یہ ساری کہانی لکھیں اور ان کو بتائیں کہ مصیبت میں ہم گرفتار ہیں ہمارے لئے دعا کریں.چنانچہ انہوں نے ان کی دعا کا خط مجھے بھجوایا.اب 354

Page 355

میں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہوا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ایسا کروایا کہ میں نے ان کو جواب لکھا کہ آر نصیب ہو گا اور بہت ہی خوبصورت اور عمر پانے والا بچہ ہو گا.جب حمل ہوا بیوی کو تو ڈاکٹروں نے یہ کہا کہ نہ صرف بچہ مر جائے گا بلکہ بیوی کو بھی لے مرے گا.بچہ ایسی حالت میں ہے کہ تمہاری بیوی کی جان کو خطرہ ہے اس لئے تم اس حمل کو ضائع کرا دو.اس نے کہا کہ ہر گز نہیں مجھے جماعت احمدیہ کے امام کا خط آیا ہے نہ میری بیوی کو کوئی نقصان پہنچے گا نہ میرے بچے کو کوئی نقصان پہنچے گا.پھر وہ ہر ہفتے آ کر دعا کی یاد دھانی کروا جاتے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہایت ہی خوبصورت صحت مند بچہ عطا بچہ عطا فرمایا اور ان کی بیگم ور ان کی بیگم صاحبہ بھی بالکل ٹھیک ٹھاک رہیں کوئی ان کو تکلیف نہ ہوئی مجھے یاد ہے ان کی جو تار یہاں آئی تھی انہوں نے لکھا تھا کہ God has blessed me with a bounding son اس کا مطلب ہے.کہ خدا نے اچھلتا کودتا قوت کے ساتھ چھلانگیں لگاتا ہوا بچہ پیدا فرمایا ہے.چنانچہ ان کی خواہش تھی کہ میرے ہاتھ پر بیعت کریں اس لئے وہ دیر کرتے رہے.“ دو یہ جرمن نوجوان ضرور جیتے گا: (ضمیمہ ماہنامہ خالد ربوہ اگست 1988ء) جرمنی میں ایک سوال و جواب کی مجلس کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں لنڈن ٹی وی پر جرمن کھلاڑی کو کھیلتے ہوئے دیکھ رہا تھا وہ کھیل رہا تھا تو میں نے دعا کی کہ اے خدا اسے جیت عطا فرما میں نے اسی وقت اپنے گھر والوں کو کہہ دیا کہ یہ جرمن نوجوان ضرور جیتے گا کیونکہ مجھے قبولیت دعا کا یقین ہو گیا تھا.چنانچہ خدا کے فضل سے یہ جرمن کھلاڑی جیت گیا.آپ لوگ شاید دعا کی حقیقت کو پوری طرح نہ سمجھ سکیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ قبولیت دعا کا معجزہ تھا.اور اس سے میری جرمن قوم کے ساتھ دلی وابستگی کا پتہ چلتا ہے کیونکہ یہ وہ قوم ہے جس نے ہمارے نوجوانوں کے ساتھ احسان کا سلوک کیا ہے.66 دعائے مستجاب کا چمکتا ہوا نشان: (ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ دسمبر 1985ء) ملک مکرم عبدالسمیع نون صاحب آف سرگودھا حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی قبولیت دعا کا معجزانہ اور حیرت انگیز واقعہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ومن ہائیم جرمنی (Mon Heim Germani) میں 2001ء کی ایک صبح نہیں بھولتی جب میں عزیزم نادرحسین کو غنڈوں نے 50 لاکھ روپے تاوان کے لئے جبراً اغوا کیا تھا.سات رات اور دن آنکھیں باندھ کر نامعلوم مقام پر انہیں رکھا گیا.مجھے اسی رات فون پر اطلاع مل گئی تو اپنی آہ و زاری کے ساتھ سیدنا حضور (حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) کا در کھٹکھٹایا جو قیامت کھوکھر غرنی پر گزر گئی اس کا احوال بتا بتا کر کہ حضور (حضرت خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے دعائے مضطربانہ کی بار بار درخواست کی حتی کہ ایک دن میں دو دو بارفیکس بھی دیئے.حضور (حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) نے بہت کرم فرمایا، بہت دعا کی بہت الجھا ہوا مسئلہ آناً فاناً حل ہو گیا.یہ حضور (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) کی موروثی صفت تھی.بیگما 355

Page 356

وہ ہ کس باپ کا بیٹا تھا اور کس دادے کا پوتا تھا! آج یہی ابنائے فارس ہی تو ہیں جو وفا اور محبت اور رحم کے بے پناہ جذبات رکھتے ہیں اور غیروں کے دُکھوں دردوں کو بھی محسوس کرتے ہیں یہ تو پھر بھی اپنا غلام تھا، آخر حضور (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) کی دعائیں مستجاب ہوئیں اور خلاف توقع نہ صرف ساتویں دن عزیز موصوف کی رہائی ہوئی اور وہ لوگ 100 معززین کا وفد لے کر معذرت خواہی کے لئے آئے اور 50 لاکھ روپیہ موصول شدہ تاوان بھی واپس کر گئے.“ پہلے سے ایک تہائی قیمت پر سودا: (روز نامه الفضل سیدنا طاہر نمبر 27 دسمبر 2003ء.صفحہ 54) مکرم و محترم سید نصیر احمد صاحب چیئر مین ایم ٹی اے انٹر نیشنل تحریر فرماتے ہیں: 1996ء میں ہم امریکہ کینیڈا کے لئے ڈیجیٹل سروس شروع کر رہے تھے اور یہ ان وقتوں کے لحاظ سے ایک نہایت انقلابی قدم تھا.ابھی ڈیجیٹل ریسیور بھی دستیاب نہ تھے.بڑی کوششوں اور کئی مشکلات کے بعد ایک کمپنی سے طے پایا کہ وہ ہمارے لئے ریسیور نئے سرے سے Develope کریں گے.اگرچہ قیمت زیادہ تھی مگر کوئی چارہ نہ تھا.ایک تسلی کا سامان تھا کہ اب امریکہ کینیڈا کے لئے چوبیس گھنٹے کی نشریات بلارکاوٹ شروع ہو سکیں گی.حضور انور بھی مطمئن تھے.پھر اچانک اس کمپنی کا فون آیا کہ ہم کچھ مشکلات میں آگئے ہیں.لہذا اب ہم ریسیور نہیں بنا سکیں گے.تمام منصوبوں کا محل یکدم مسمار ہوتا نظر آیا.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ان دنوں ہالینڈ (Holand) کے دورے پر تھے.خاکسار نے ڈرتے ڈرتے، اپنے خیال میں نیچے تلے الفاظ میں حضور کی خدمت میں فیکس کر دیا اور احساس کے اندر ہی دفتر تبشیر سے مکرم اخلاق انجم صاحب کا فون آیا ہے اور فرمایا ہے: یعنی اللہ ہمارے ساتھ ہے.اے اللہ روح القدس سے ہماری مدد فرما.خلافت کی دعاؤں کی معجزانہ برکات کے سلسلہ میں اپنے گزشتہ حسین تجربات کی بنا پر خاکسار کو اسی وقت تسلی ہو گئی کہ محض حضور انور کی دعاؤں سے خدا تعالیٰ ضرور کوئی راستہ نکال دے گا.اس واقعہ کے تیسرے دن ایک دوسری کمپنی نے جس کا ہمیں اس سے قبل علم ہی نہ تھا، ریسیور بنانے کی پیشکش یوں کی کہ پہلے سے ایک تہائی قیمت پر سودا ہو گیا.اور پھر انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں ڈیجیٹل ریسیور ہماری عین ضرورت کے مطابق تیار کئے جو آج بھی امریکہ اور کینیڈا میں استعمال ہو رہے ہیں.اب اسے اگر محض اور محض خلافت کا اعجاز دعا تسلیم نہ کیا جائے تو اور کیا ہوسکتا ہے.“ الفضل انٹر نیشنل 25 جولائی 2003ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبولیت دعا کے متعلق فرماتے ہیں: ”دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے رب میں ایک تعلق جاذبہ ہے یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے.سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفا داری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہِ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں، تب اس 356

Page 357

ہے کی روح اس آستانہ آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالی کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب اللہ جل شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہو تا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں.مثلاً اگر بارش کیلئے دعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبیعہ جو بارش کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں اور اگر قحط کے لئے بد دعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے اسی وجہ سے یہ بات ارباب کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو ہے کہ کامل کی دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے یعنی باذنہ تعالٰی وہ دعا عالم سفلی اور علوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤید مطلوب ہے خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں میں اس کی نظریں کچھ کم نہیں ہیں بلکہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دراصل استجابت دعا ہی ہے اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیا ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل اور منبع یہی دعا ہے اور اکثر دعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں.وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ اس سے کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمی سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ بِعَدَ دِ هَمِّهِ وَ غَمِّهِ وَحُزْنِهِ لِهذِهِ الْأُمَّةِ وَاَنْزِلْ عَلَيْهِ أَنْوَارِ رَحْمَتِكَ اِلَى الابد.اور میں اپنے ذاتی تجربات سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبیعہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دعا ہے.“ بركات الدعا روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 9 تا11) 357

Page 358

خلفائے احمدیت اور جماعت کا باہمی تعلق 358

Page 359

آیت: عناوین: حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنه حضرت خلیفہ راح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفہ رایح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO شَيْئًا ( سورة النور : 56 ) و تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا ، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.“ (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت اردو ترجمہ از حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمه الله تعالی) 359

Page 360

آیت: لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمُ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُ وُفٌ رَّحِيمٌ (سورة التوبه : 128) ترجمہ: یقیناً تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آیا.اسے بہت سخت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو (اور) وہ تم پر (بھلائی چاہتے ہوئے ) حریص (رہتا) ہے.مومنوں کے لئے بے حد مہربان (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.حدیث: (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الزَّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ الله الا الله قَالَ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَ وَلَدِهِ ترجمہ: ہم ނ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب.الرسول من الايمان) ابو الیمان نے بیان کیا، کہا: شعیب نے ہمیں بتلایا.کہا کہ ابو زناد نے ہمیں بتلایا.انہوں نے اعرج سے، اعرج نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی الله فرماتے تھے: اسی کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے باپ اور اس کے بیٹے سے بھی زیادہ اسے پیارا نہ ہوں.(ترجمه از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب) حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملائکہ سے فیض حاصل کرنے کے طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آٹھواں طریقہ ملائکہ سے فیض حاصل کرنے کا یہ ہے کہ خلیفہ کے ساتھ تعلق ہو.یہ بھی قرآن سے ثابت ہے.جیسا کہ آتا ہے: وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ ايَةَ مُلْكِةٍ أنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيْهِ سَكِيْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ بَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ الُ مُوسَى وَالُ هَرُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلئِكَةُ - (البقرة: 249) کہ ایک زمانہ میں ایک نبی سے لوگوں نے کہا کہ ہمارے لئے اپنا ایسا جانشین مقرر کر دیجئے جس سے ہم دنیاوی معاملات میں مدد حاصل کریں لیکن جب ان کے لئے ایک شخص کو جانشین مقرر کیا گیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ اس میں وہ کون سی بات ہے جو ہمارے اندر نہیں ہے جیسا کہ اب پیغامی کہتے ہیں.نبی نے کہا: آؤ بتائیں اس میں کون سی بات ہے جو تم میں نہیں اور وہ یہ کہ جو لوگ اس سے تعلق رکھیں گے ان کو فرشتے تسکین دیں گے.اس سے ظاہر ہے کہ خلافت کے ساتھ وابستگی بھی ملائکہ سے تعلق پیدا کراتی ہے کیونکہ بتایا گیا ہے کہ ان کے دل فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے تابوت کے معنی دل اور سینہ کے ہیں.فرمایا: خلافت سے تعلق رکھنے والوں کی یہ علامت ہو گی کہ ان کو تسلی حاصل ہو گی پہلے صلحا اور انبیاء کے علم ان پر ملائکہ نازل کریں گے.پس ملائکہ کا نزول خلافت سے وابستگی پر بھی ہوتا اور ہے.ملا مگہ اللہ.انوار العلوم جلد 5 صفحہ 561) 360

Page 361

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ : حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ 18 نومبر 1910ء بروز جمعہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ کی کوٹھی سے واپس آتے ہوئے گھوڑے سے گرنے کے نتیجہ میں زخمی ہو گئے.حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھوڑے سے گرنے کا واقعہ پوری جماعت کے لئے ایک دل ہلا دینے والا حادثہ تھا جس نے سب ہی کو تڑپا دیا اور جوں جوں دوستوں کی یہ خبر پہنچی وہ دیوانہ وار اپنے محبوب آقا کی عیادت کے لئے کھنچے چلے آئے بیمار پرسی کے لئے ہر طرف سے بکثرت خطوط پہنچنے لگے اور جماعت کے چھوٹے بڑے سب دعاؤں میں مصروف ہو گئے اور جماعتی رنگ میں بھی دعائے خاص کی مسلسل تحریکیں ہونے لگیں.کئی دوستوں نے اصرار کیا کہ مرکز سے روزانہ بذریعہ کارڈ ان کو اطلاع دی جائے.چنانچہ اس کا اہتمام بھی کیا گیا.غرضیکہ مخلصین جماعت نے خلیفہ وقت سے اس موقع پر جس فدائیت و شیدائیت کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ تھا.حکیم محمد حسین صاحب قریشی نے ایک روز جناب باری میں عرض کی: ”کہ اے مولیٰ ! حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی کی ضرورتیں تو مخص المقام تھیں اور اب تو ضرورتیں جو درپیش ہیں ان کو بس تو ہی جانتا ہے.ہماری دعا قبول کر اور ہمارے امام کو نوح علیہ السلام کی سی عمر عطا کرے صاحب ' محمد حسین صاحب (لائل پور) نے دعا کی کہ حضرت صاحب کی بیماری مجھ کو آجائے.اسی طرح سید ارادت حسین مونگھیری نے اپنی دعا میں جناب باری سے التجا کی میری عمر دو سال کم ہو کر حضرت صاحب کو مل جائے ان دعاؤں کے علاوہ دوستوں نے صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کیا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ” یہ خوشی کی بات ہے کہ بیماری کے ایام میں جماعت اللہ کی طرف متوجہ ہے.“ اس موقع پر احمدی ڈاکٹروں نے بھی علاج معالجہ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جس پر حضرت نے خاص طور پر ادا کیا.فرمایا کہ : 66 شکریہ تاریخ احمدیت جلد 3 صفحه 330 331 ) حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کا جماعت احمدیہ کو پیغام: 29 نومبر 1910ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ضعف کے باوجود جماعت کو ایک پیغام دیا جس میں ارشاد مجھ پر جو ابتلا اس وقت آیا ہے.یہ میرے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی بڑی غریب نوازیوں، رحمتوں اور فضلوں کا نمونہ ہے.اللہ تعالیٰ نے بہت سے دلوں کی حالت کو جن کے ساتھ محبت میرے لئے ضروری تھی مجھ بہ ظاہر فرما دیا.بعض ایسے نفوس ہیں جن کی مجھے خبر نہ تھی کہ وہ میرے ساتھ اور جماعت کے ساتھ محبت کا کیا تعلق رکھتے ہیں لیکن اس بیماری میں جو خدمت رات دن انہوں نے کی ہے اس سے ان کے اخلاص کا اظہار اور اللہ تعالیٰ نے ان نفوس کے صفات کو ظاہر کر دیا.یہ خدا تعالیٰ کی غریب نوازی ہے کہ وہ لوگ دل ہے سے ایسی خدمت کر رہے ہیں.میں ان تمام لوگوں کا جنہوں نے اس وقت میری ہمدردی کی ہے شکر گزار ہوا ہوں.66 (حیات نور صفحہ 480 ) 361

Page 362

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھوڑے سے گرنے کی خبر جب احباب جماعت کو پہنچی تو احباب جماعت کا اپنے آقا سے محبت کی وجہ سے کیا رد عمل تھا اس کے متعلق حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ الحکم میں تحریر کرتے ہیں: اسی روز جب آپ کے واقعہ کی خبر احمدی جماعت میں پہنچی تو عورتوں اور مردوں کا اثر دہام ہو گیا.آپ نے یہ پیغام عورتوں کو دیا ان سے کہہ دو کہ میں اچھا ہوں میں گھبراتا نہیں اور نہ میرا دل ڈرتا ہے.وہ سب اپنے گھروں کو چلی جائیں اپنا نام لکھوادیں، میں ان کے لئے دعا کروں گا.میں مبالغہ کے رنگ میں نہیں اور نہ محض اعتقادی نظر سے کہتا ہوں بلکہ اصل بات ہی یہ ہے کہ آنحضرت صل اللہ کے امتی ،امتی کہنے کا.اپنی تکلیف اور درد کو بھول کر.اس گروہ اتقیا و خلفا کو ہر حالت میں اپنی قوم ہی یاد رہتی ہے.ایسے وقت میں بھی یہی فرمایا کہ میں تمہارے لئے دعا کروں گا.زندہ باش! اے ہمارے آقا اور تیری دعائیں ہمارے حق میں قبول ہوں.پھر دعاوں کو آپ ذریعہ حل مشکلات کے ساتھ سمجھتے ہیں.اس کا نمونہ بھی اس بیماری میں خصوصیت سے نظر آیا آپ نے اپنے خدام کو بار بار فرمایا کہ میرے لئے دعا کرو!“ حضرت خلیفة امسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: (احکم 28 نومبر 1910 ء جلد نمبر 14 نمبر 40 صفحہ 18 19 ) ”میری آرزو ہے کہ میں تم میں ایسی جماعت دیکھوں جو اللہ تعالیٰ کی محبّت ہو.اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد کی متبع ہو.قرآن سمجھنے والی ہو.میرے مولیٰ نے بلا امتحان اور بغیر مانگنے کے بھی مجھے عجیب عجیب انعامات دیئے ہیں جن کو میں گن بھی نہیں سکتا.وہ ہمیشہ میری ضرورتوں کا آپ ہی کفیل ہوا ہے.وہ مجھے کھانا کھلاتا ہے اور آپ ہی کھلاتا ہے.وہ مجھے کپڑا پہناتا ہے اور آپ ہی پہناتا ہے.وہ مجھے آرام دیتا ہے اور ہی آرام دیتا ہے.اس نے مجھے بہت سے مکانات دیئے ہیں.بیوی بچے دیے.مخلص اور سچے دوست دیئے.اتنی کتابیں دیں کہ دوسرے کی عقل دیکھ کر ہی چکر کھا جائے.“ (حیات نور صفحہ 470 ) حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خدام کو آپ سے کس قدر محبت تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت (حضرت خلیفۃ اسیح الاول رضی اللہ عنہ) کے خدام کو قدرتاً اور فطرتاً آپ سے ایک خاص محبت ہے اور وہ دل چاہتے ہیں کہ آپ کو جلد شفا ہو اور آپ کو پھر ایک بار اسی شان و شوکت سے خدا تعالیٰ کے پاس کلام کی تدریس کرتے ہوئے دیکھیں.اور اس سے فائدہ اٹھائیں.حضرت کی علالت کے ابتدائی ایام میں ڈاکٹروں اور بعض دوسرے خدام کے دو فریق ہو گئے.ڈاکٹر صاحبان جو پوری ارادت.وفاداری اور فرمانبرداری کے ساتھ حضرت کے علاج میں مصروف رہتے.حضرت خلیفہ اُسیح کے لئے بعض انگریزی مقوی اور مفرح ادویات تجویز کرتے اور تیار کر کے دیتے.بالمقابل بعض احباب کو یہ خیال گزرا کہ آریہ ادویات اپنے اندر حرارت زیادہ رکھتی ہیں اور اس وجہ حضرت شدت پیاس کو محسوس کرتے ہیں اور ایسا ہی ڈاکٹر نیند آور ادویات دینا چاہتے تو یہ لوگ پسند کرتے کہ ادویات کے ذریعہ نیند لانے کی کوشش نہ کی جاوے ان ہر دو فریقوں میں عجیب عجیب مکالمے ہوتے.“ (الحکم جلد نمبر 14 نمبر 41 ، 7 دسمبر 1910 ء ) 362

Page 363

بیمار کے لئے ساری رات دعا کرنا: صحابی مسیح موعود علیہ السلام چودھری حاکم دین صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کی بیوی کو پہلے بچہ کی پیدائش کے وقت سخت تکلیف ہوئی.چودھری صاحب رات کے گیارہ بجے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے گھر گئے.چوکیدار نے اطلاع دینے سے انکار کر دیا مگر حضور رضی اللہ عنہ نے اندرون خانہ میں آواز سن لی اور آپ رضی اللہ عنہ نے ایک کھجور پر کچھ پڑھ کر ان کو دیا کہ بیوی کو کھلا دیں اور بچہ پیدا ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دیں.تھوڑی دیر بعد بچی پیدا ہوئی مگر انہوں نے دوبارہ جا کر حضور رضی اللہ عنہ کو جگانا مناسب نہ سمجھا.مگر صبح حاضر ہوئے تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ بچی پیدا ہونے کے بعد تم میاں بیوی آرام سے سو رہے.اگر مجھے بھی اطلاع دے دیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا.میں تمام رات تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا ہوں.66 حضرت خلیفة امسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ : 553 ) حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ احباب جماعت سے محبت و پیار کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں دیانت داری سے کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کے لئے جو اخلاص اور محبت میرے دل میں میرے اس مقام پر ہونے کی وجہ سے جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اور جو ہمدردی اور رحم میں اپنے دل میں پاتا ہوں وہ نہ باپ کو بیٹے سے ہے اور نہ بیٹے کو باپ سے ہو سکتا ہے.پھر میں اپنے دل کی محبت پر انبیاء کی محبت کو قیاس کرتا ہوں جیسے ہم جگنو کی چمک پر سورج کو قیاس کر سکتے ہیں تو میں ان کی محبت اور اخلاص کو حد سے بڑھا ہوا پاتا ہوں.“ (سوانح فضل عمر جلد 5 صفحہ 468) احباب جماعت کو اپنے آقا سے کس قدر محبت ہے اس کا اظہار کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے ایک ایسی جماعت کا انتظام سپرد کیا ہے جس کی نسبت اگر میں یہ کہوں کہ وہ میری آواز پر کان نہیں رکھتی تو یہ ایک سخت ناشکری ہوگی.میری بات کی طرف توجہ کرنا تو ایک چھوٹی سی بات ہے میں دیکھتا ہوں کہ بہت ہیں جو میرے اشارے پر اپنی جان اور اپنا مال اور اپنی ہر عزیز چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.وَالْحَمْدُ لِلهِ عَلى ذلِکَ.اور اس اخلاص بھری جماعت کو مخاطب کرتے وقت میرا دل اس یقین سے پر ہے کہ وہ فوراً اس نقص کو رفع کرنے کی کوشش کرے گی.جس کی طرف میں نے ان کو متوجہ کیا ہے.“ (سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ 85 ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ خلافت سے محبت کرنے والوں اور خلافت کے منکرین کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے رو گردانی کی ہے کوئی فرق ہے.کوئی بھی فرق نہیں.لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، 363

Page 364

تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا ، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا ، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے.مگر ان کے لئے نہیں ہے.تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے ایسا کوئی نہیں ہے.کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا.لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں.پس تمہاری آزادی میں تو کوئی فرق نہیں آیا ہاں تمہارے لئے ایک تم جیسے ہی آزاد پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں.“ جماعت سے محبت کا عجیب مظاہرہ: (برکات خلافت انوار العلوم جلد 2 صفحہ:158 ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 15 جولائی 1924ء کو بمبئی سے ایک اٹالین (Italian) کمپنی کے افریقہ نامی بحری جہاز کے ذریعہ لندن کے لیے روانہ ہوئے.روانگی سے قبل محویت و توجہ کی ایک خاص کیفیت سے حضور رضی اللہ عنہ نے ایک پرسوز لمبی اجتماعی دعا کروائی.حضور رضی اللہ عنہ نے عرشہ جہاز سے جماعت کے نام ایک محبت بھرا پیغام دیا: تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ تھی اور ہے اور رہے گی.میں زندگی میں یا موت میں تمہارا ہی ہوں.“ (سوانح فضل عمر جلد 3 صفحہ 62,61 ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ” دنیا میں تو یہ جھگڑے ہوتے ہیں کہ میاں بیوی کی لڑائی ہوتی ہے تو بیوی کہتی ہے مجھے زیور بنوا دو اور میاں کہتا ہے میں کہاں سے زیور بنوا دوں میرے پاس تو روپیہ ہی نہیں، لیکن میں نے اپنی جماعت میں سینکڑوں جھگڑے اس قسم کے دیکھے ہیں کہ بیوی کہتی ہے میں اپنا زیور خدا تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتی ہوں مگر میرا خاوند کہتا ہے کہ نہ دو کسی اور وقت کام آجائے گا.غرض خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایسا اخلاص بخشا ہے کہ اور عورتیں تو زیور کے پیچھے پڑتی ہیں اور ہماری عورتیں زیور لے کر ہمارے پیچھے پھرتی ہیں.میں نے تحریک وقف کی تو ایک عورت اپنا زیور میرے پاس لے آئی.میں نے کہا میں نے سر دست تحریک کی ہے کچھ مانگا نہیں.اس نے کہا یہ درست ہے کہ آپ نے مانگا نہیں، لیکن اگر کل ہی مجھے کوئی ضرورت پیش آگئی اور میں یہ زیور خرچ کر بیٹھی تو پھر میں کیا کروں گی.میں نہیں چاہتی کہ میں اس نیکی میں حصہ لینے سے محروم رہوں.اگر آپ اس وقت لینا نہیں چاہتے تو بہر حال یہ زیور اپنے پاس امانت کے طور پر رکھ لیں اور جب بھی دین کو ضرورت ہو خرچ کر لیا جائے.میں نے بہتیرا اصرار کیا کہ اس وقت میں نے کچھ مانگا نہیں مگر وہ یہی کہتی چلی گئی کہ میں نے تو یہ زیور خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا ہے اب میں اسے واپس نہیں لے سکتی.یہ نظارے غربا میں بھی نظر آتے ہیں اور امرا میں بھی لیکن امرا میں کم اور غربا میں زیادہ.“ (سوانح فضل عمر صفحه 324 ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ” مجھے ہمیشہ حیرت ہوا کرتی ہے اور میں اپنے دل میں کہا کرتا ہوں کہ الہی! تیری بھی عجیب قدرت ہے کہ تو نے کس طرح لوگوں کے دلوں میں میری نسبت محبت کے جذبات پیدا کر دیئے کہ جب کبھی سفر میں باہر جانے کا موقع ملے اور میں گھوڑے پر سوار ہوں تو ایک نہ ایک نوجوان حفاظت اور خدمت کے خیال سے میرے گھوڑے کے ساتھ پیدل چلتا چلا جاتا ہے اور جب میں گھوڑے سے اترتا ہوں تو وہ فوراً آگے بڑھ کر میرے 364

Page 365

پاؤں دبانے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے حضور تھک گئے ہوں گے.میں خیال کرتا ہوں کہ میں تو گھوڑے پر سوار آیا اور یہ گھوڑے کے ساتھ پیدل چلتا آیا مگر اس محبت کی وجہ سے جو اسے میرے ساتھ ہے اس کو یہ خیال ہی نہیں آتا کہ یہ تو گھوڑے پر سوار تھے یہ کس طرح تھکے ہوں گے.وہ یہی سمجھتا ہے کہ گویا گھوڑے پر وہ سوار تھا اور پیدل میں چلتا آیا.چنانچہ میرے اصرار کرنے کے باوجود کہ میں نہیں تھکا میں تو گھوڑے پر آرہا ہوں.وہ یہی کہتا چلا جاتا ہے کہ نہیں حضور تھک گئے ہوں گے مجھے خدمت کا موقع دیا جائے اور پاؤں دبانے لگ (سوانح فضل عمر جلد 5 صفحہ 471 ) جاتا ہے.66 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ”خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لحظہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں، خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں.میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لئے کہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہیں.میں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہوں تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرا دیں، میں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں کود جانے کا حکم دوں تو وہ جلتے تنوروں میں کود کر دکھا دیں.اگر خودکشی حرام نہ ہوتی، اگر خود کشی اسلام میں ناجائز ہوتی تو میں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت کے سو آدمیوں کو میں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلاک ہو جانے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مر جاتا.“ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں انوار العلوم جلد 17 صفحہ 241 و 242 ) دو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ جب سفر یورپ کے لئے روانہ ہوئے تو راستے میں احباب جماعت کی عقیدت و محبت کے بے نظیر نمونے ظاہر ہوئے چنانچہ شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بٹالہ اسٹیشن پر گاڑی آچکی تھی جب حضور کی موٹر سٹیشن پر آئی.دیر سے پہنچنے کی وجہ ایک تو بِشُرُ الدُّعا پر لوگوں کے مصافحہ کرنے میں بہت وقت صرف ہوا.پونے دس کے قریب وہاں سے روانہ ہوئے تھے پھر راستہ میں موٹر اپنی معمولی امراض میں مبتلا ہوتے رہے اور حضرت اگر کچھ آگے نکل جاتے تو ٹھہر کر دوسری موٹر کا انتظار فرماتے باوجود یکہ وقت تنگ ہو رہا تھا اور خدام سفر گھبرا رہے تھے کہ مبادا ٹرین نکل جاوے مگر حضرت کے چہرہ پر اطمینان اور مستقل مزاجی کی رو دوڑتی نظر آتی تھی.باوجودیکہ موٹر دیر سے پہنچے اور گاڑی بھی آچکی تھی لیکن آپ اسی اطمینان سے اترے اور احباب سے مصافحہ کرنے میں مصروف ہو گئے.بٹالہ اسٹیشن پر احباب و خدام اور دوسرے لوگوں کا اس قدر مجمع ہو گیا تھا کہ جماعت بٹالہ نے باوجود ایک فوٹو کا انتظام کیا ہوا تھا مگر اس میں کامیابی نہ ہو سکی جس طرح سمندر میں موج اٹھتی ہے اسی طرح انسانوں کی یہ متحرک موج ایک عجیب منظر پیش کرتی تھی.چونکہ بٹالہ باب القادیان ہے اس لئے قادیان کے اکثر احباب بھی مشایعت کے لئے یہاں آئے اور بعض ان میں سے سہارنپور تک پہنچے گاڑی کی روانگی کا نظارہ قابل دید تھا سینکڑوں آدمی پائدانوں پر کھڑے تھے اور سینکڑوں کی تعداد میں گاڑی کے ساتھ دوڑتے تھے اور اپنی انتہائی کوشش سے ایسی مسابقت کرنا چاہتے تھے کہ اس سے آگے نکل کر اپنے آقا کے پاس پہنچ جاویں اور مصافحہ کر لیں.دراصل نفسیات کا یہ ستر ہے کہ جب کسی چیز کی محبت غالب آجاتی ہے تو اس کے لئے انسان ہر قسم کی قربانی حتی کہ اپنی جان کو بھی قربان کر دینا آسان سمجھتا ہے.ان دوستوں کے جذبات محبت و اخلاص اور ہر اس جان میں ایک جنگ ہو رہی تھی.اگر خدانخواستہ پاؤں پھسل گیا یا دھکا لگا تو کیا نتیجہ ہو گا ذرا 365

Page 366

بھی پروا نہ کی.گاڑی اپنی رفتار سے دوڑتی تھی اور احباب ساتھ ساتھ دوڑتے اور مصافحہ کرتے تھے وہ وقت خطرہ کا تھا اگر ایک ہی آدمی ہوتا تو ممکن تھا خطرہ کم ہوتا مگر جب ایک کثیر تعداد دوڑتی ہوئی جارہی ہو تو خطرات بڑھ جاتے ہیں.ایک دوسرے کے دھکا کا بھی خطرہ ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس روح کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی جب تک کوئی قوم کوئی جماعت اپنے اندر یہ شعور پیدا کر کے یہ فیصلہ نہیں کر لیتی کہ وہ اپنے امام کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے انشراح تام رکھتی ہے اس وقت تک اس کی کامیابی اور ترقی کا خیال ایک موہوم خیال ہو تا ہے.بہر حال یہ نظارہ محبتِ امام کا ایک پیارا منظر تھا جس کے ساتھ دیکھنے والوں کے لئے خوفناک منظر تھا اور خطرہ تھا کہ کسی کو نقصان نہ پہنچ جائے.مگر یہ جماعت مخلصین دوڑتی رہی جب تک پلیٹ فارم ختم نہ ہو گیا اور ریل کی تیز رفتاری نے اسے پیچھے نہ ڈال دیا.پائدانوں پر جو جماعت تھی وہ کھڑی رہی.آپ رضی اللہ عنہ کی گاڑی کا کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا مگر پھر بھی آپ رضی اللہ عنہ نے کسی کو اندر آنے سے روکنے نہیں دیا.یہ اسی محبت کا نتیجہ تھا جس سے یہ کشش اور جذب لوگوں میں پیدا ہوا.حقیقت میں آپ کی اسی محبت کی تاریں ہی تو تھیں جو دوسروں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں...گرمی کا موسم ہے اور ہجوم کا صحت پر برا اثر پڑتا ہے مگر باوجود اس کے نہایت خوشی اور خندہ پیشانی سے مخلوق کو اندر جمع کر رہے ہیں یہ حقیقت ہے اس امر کی کہ محبت محبت کو پیدا کرتی ہے.“......(سوانح فضل عمر جلد 5 صفحہ: 483 484 ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب 1924ء میں سفر یورپ پر تشریف لے گئے.احباب جماعت جس طرح اس عارضی جدائی پر بے قرار بے چین ہوئے اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے: بابو سراج الدین صاحب سٹیشن ماسٹر لکھتے ہیں: ”میرے آقا ! ہم دور ہیں مجبور ہیں.اگر ممکن ہوتا تو حضور کے قدموں کی خاک بن جاتے تاکہ جدائی کے صدمے نہ سہتے.آقا! میں چار سال سے دارالامان نہیں گیا تھا مگر دل کو تسلی تھی کہ جب چاہوں گا حضور کی قدم بوسی کر لوں گا لیکن اب ایک دن ہو رہا ہے.اللہ پاک حضور کو بخیر و عافیت، مظفر و منصور جلدی واپس لائے مشکل (سوانح فضل عمر جلد 5 صفحہ: 475 ) انگریزی اخبار ٹریبیون (Tribune) میں امرتسر کے نامہ نگار کے حوالہ سے 3 جون 1930 ء کو ایک جھوٹی خبر شائع ہوئی کہ امام جماعت احمدیہ (حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ) کا اچانک انتقال ہو گیا ہے یہ جھوٹی خبر جماعت پر غم و اندوہ کا پہاڑ بن کر گی چنانچہ حضرت یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: دو دوست میں جو راستہ پر بیٹھتا ہوں ان آنے والوں کو دیکھتا تھا کہ وہ محبت اور اخلاص کے پیکر ہیں.انہیں دورانِ سفر میں اس خبر کا افترا ہونا کھل چکا تھا مگر ان کی بے قراری ہر آن بڑھ رہی تھی اور یہ صرف اعجاز محبت تھا یہ اپنی اسی بے قراری میں قصرِ خلافت کی طرف بھاگے جا رہے تھے میں نے دیکھا بعض ان میں سے ایسے بھی تھے جنہوں نے اس سفر میں نہ کچھ کھایا نہ پیا.ان طبعی تقاضوں پر بھی محبت کا غلبہ تھا.جب تک قصر خلافت میں جاکر انہوں نے اپنے امام کو دیکھ نہ لیا اور مصافحہ اور معانقہ کی سعادت حاصل نہ کرلی ان کے دلِ بے قرار کو قرار نہ آیا.“ الفضل 15 جون 1930ء صفحہ 7) 366

Page 367

لکھتا ہے: اخبار الفضل محبت کی دیوانگی اور جنون میں از خود رفتہ ہو کر آنے والے مسافروں کے متعلق کا ”جو احباب یہ افواہ سن کر گھروں سے دیوانہ وار چل پڑے ان کا بیان ہے کہ شدت غم و الم سے از خود رفتہ ہو جانے کی وجہ سے انہیں یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ ان کے ساتھ گاڑی میں کون لوگ بیٹھے ہیں اور وہ کس کس اسٹیشن سے گزر رہے ہیں.وفور غم و اندوہ کی وجہ سے آنسو بھی نہ نکلتے تھے.بس ایک بے ہوشی کا سا عالم تھا اور خود فراموشی کا ایک دریا تھا جس میں بہتے چلے جارہے تھے جب رستہ میں کسی نے اس خبر کے غلط ہونے کا ذکر کیا تو بے اختیار خوشی کے آنسو نکل آئے.“ (سوانح فضل عمر جلد 5 صفحہ 522,521 ) 367

Page 368

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایمان افروز پیغام: جماعت احمدیہ کے اولوالعزم امام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قاتلانہ حملہ کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیار کہ 10 مارچ کی رات کو جماعت احمدیہ کے نام اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل برقی پیغام بزبان انگریزی تحریر فرمایا جو اخبار اصلح کراچی کی 12 مارچ 1954 ء کی اشاعت میں شائع ہوا:.66 " 'Almuslih Karachi' " Brethren you have heard about the attack made upon me by an ignorant enemy.May God open these people's eyes and make them understand their duty towards Islam and Holy prophet.My brethren pray to God that if my hour has come Allah may give my soul peace and bestow His blessings.Also pray that God through His bounty may give you a leader better suited to the job than I was, I have loved you always better than my wives and children and was always ready to sacrifice every one near and dear to me to the cause of Islam and Ahmadiyyat.I expect from you and your coming generations also to be so for all times God be with you.Wassalam Mirza Mahmud Ahmad." برادران! آپ سن چکے ہوں گے کہ مجھ پر ایک نادان دشمن نے حملہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی آنکھیں کھولے اور اسلام اور نبی اکرم حلقہ سے متعلق ان پر جو فرض عائد ہوتا ہے اسے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.برادران! اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اگر میرا وقت آن پہنچا ہے تو وہ میری روح کو تسکین عطا کرے اور اپنی حمتیں نازل فرمائے.نیز یہ بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ لوگوں کو ایسا لیڈر عطا فرمائے جو اس کام کے لئے مجھ سے زیادہ موزوں ہو.میں ہمیشہ آپ سے اپنی بیویوں اور بچوں سے زیادہ محبت کرتا رہا ہوں اور اسلام اور احمدیت کی خاطر اپنے ہر قریبی اور ہر عزیز کو قربان کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہا ہوں.میں آپ سے اور آپ کی آنیوالی نسلوں سے بھی یہی تو قع رکھتا ہوں کہ آپ بھی ہمیشہ اسی طرح عمل کریں گے.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو.والسلام مرزا محمود احمد تاریخ احمدیت جلد نمبر 17 صفحہ 234 235 ) 1956 ء میں خلافت ثانیہ کے دور میں جب بعض لوگوں نے خلافت کے خلاف فتنہ برپا کیا، تو جماعت کے ہر فرد میں نظام خلافت سے محبت و الفت اور منافقین سے بیزاری کے شدید جذبات دیکھنے میں آئے چنانچہ جماعت نے پیارے امام کے ساتھ بے مثال محبت و اخلاص کے ثبوت دیا اور اپنے عہد بیعت کی شاندار رنگ میں تجدید کی جیسے ممبران جماعت احمدیہ مصر (Egypt) کا 368

Page 369

اخلاص نامہ اس امر کا ثبوت ہے." کچھ عرصہ ہوا ہمیں اس فتنہ کے بارہ میں خبر ملی جسے بعض جماعت کی طرف منسوب ہونے والے اشخاص نے اٹھایا ہے.حالانکہ ان لوگوں نے اپنے ان بد ارادوں کی وجہ سے جن کا انہوں نے اظہار کیا ہے خود بخود ہی اپنے آپ کو جماعت سے الگ کر لیا ہے.ہم ممبران جماعت احمدیہ مصر (Egypt) اس موقع پر جبکہ منافقین حضور (رضی اللہ عنہ) کی ذات بابرکات پر اتہام لگا رہے ہیں اور حضور کے بلند مقام کو گرانا چاہتے ہیں.ہم اپنے اس عہد بیعت کو دوبارہ پختہ کرتے ہیں.جسے ہم قبل ازیں اپنے اوپر فرض کر چکے ہیں اور ہم پورے شرح کے ساتھ اس محبت اور اخلاص کا اعلان کرتے ہیں جو ہمیں حضور کی ذات سے حاصل ہے اور ہم اس مضبوط اور روحانی تعلق کی مزید برکات کو حاصل کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں.انشاء اللہ تعالی.“ صدر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ: تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 31 ) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: میں جانتا ہوں کہ جماعت کس طرح میرے لئے دعائیں کرتی ہے.وہ میرے اور اپنے مقاصد کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتی ہے.وہ جماعت کی پریشانیوں میں جب خلیفہ وقت کو پریشان ہونا پڑتا ہے تو پھر جماعت ایک اور لحاظ سے پریشان ہو جاتی ہے کہ ان حالات میں امام وقت کو پریشانی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے.اللہ تعالی حالات بدلے اور یہ پریشانی دور ہو.جس طرح انگلی کو تکلیف پہنچے تو انسان کی روح تڑپ اٹھتی ہے اور اگر کسی کو ذہنی کوفت ہو تو سارا جسم کو فت محسوس کر رہا ہوتا ہے یہی حال خلیفہ وقت اور جماعت احمدیہ کا ہے.پس یہ سمجھنا غلط ہے کہ خلیفہ وقت کوئی اور چیز ہے اور جماعت احمدیہ کوئی اور چیز.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر بڑا فضل کیا ہے.جماعت احمدیہ اور امام جماعت احمدیہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں دونوں کے مجموعہ سے ایک چیز بنتی ہے جو اپنے اندر یک جہتی کی علامت ہے.“ روزنامه الفضل مؤرخہ 21 مئی 1978 ء) حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی احباب جماعت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: ”اے جان سے زیادہ عزیز بھائیو! میرا ذرہ ذرہ آپ پر قربان کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے جماعتی اتحاد اور جماعتی استحکام کا وہ اعلیٰ نمونہ دکھانے کی توفیق عطا کی کہ آسمان کے فرشتے آپ پر ناز کرتے ہیں.آسمانی ارواح کے سلام کا تحفہ قبول کرو.تاریخ کے اوراق آپ کے نام کو عزت کے ساتھ یاد کریں گے اور آنے والی نسلیں آپ پر فخر کریں گی کہ آپ نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس بندہ ضعیف اور ناکارہ کے ہاتھ پر متحد ہو کر عہد کیا ہے کہ قیام توحید اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے قیام اور غلبہ اسلام کے لئے جو تحریک اور جو جدوجہد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع کی تھی اور جسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے آرام کھو کر، اپنی زندگی کے ہر سکھ کو قربان کر کے اکناف عالم تک پھیلایا ہے آپ اس جدوجہد کو تیز سے تیز کرتے چلے جائیں گے.میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں اور میں ہمیشہ آپ کی دعاؤں کا بھوکا ہوں.میں نے آپ کے تسکین قلب کے لئے، آپ کے بار کو ہلکا کرنے کے لئے ، آپ کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے، اپنے رب رحیم سے 369

Page 370

قبولیت دعا کا نشان مانگا ہے اور مجھے پور یقین اور بھروسہ ہے اس پاک ذات پر کہ وہ میری اس التجا کو رد نہیں کرے گا.“ (حیات ناصر صفحہ: 374 ) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 1967ء میں ڈنمارک (Denmark) میں کوپن ہیگن (Copenhagen) کے مقام پر چند عیسائی پادری مجھ سے ملنے آئے ان میں سے ایک نے مجھے کہا کہ جماعت احمدیہ میں آپ کا کیا مقام ہے میں نے اسے جواب دیا کہ میرے نزدیک آپ کا سوال درست نہیں ہے اس لئے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا امام اور جماعت احمد یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یعنی خلیفہ وقت اور جماعت دونوں مل کر ایک وجود بنتے ہیں اسی لئے خلافت کا یہ کام ہے کہ وہ جماعت کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرے.خلیفہ وقت آپ کے لئے دعا کریں خلیفہ وقت پر بعض دفعہ ایسے حالات بھی آتے ہیں کہ وہ ہفتوں ساری ساری رات آپ کے لئے دعائیں کر رہا ہوتا ہے جیسے 1974 ء کے حالات میں دعائیں کرنی پڑیں میرا خیال ہے کہ دو مہینے تک میں بالکل سو نہیں سکا تھا.کئی مہینے دعاؤں میں گزرے تھے.پس خلیفہ وقت وہ وجود ہے جو آپ کے رنج میں شریک آپ کی خوشیوں میں شریک ہو.“ دو ہو.روزنامه الفضل مؤرخہ 21 مئی 1978 ء ) احباب جماعت کے لئے اپنی دلی محبت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ لمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: علاوہ ازیں دنیوی لحاظ سے وہ تلخیاں جو دوستوں نے انفرادی طور پر محسوس کیں وہ ساری تلخیاں میرے سینے میں جمع ہوتی تھیں.ان دنوں مجھ پر ایسی راتیں بھی آئی کہ میں خدا کے فضل اور رحم سے ساری ساری رات ایک منٹ سوئے بغیر دوستوں کے لئے دعائیں کرتا رہا ہوں.میں احباب سے یہ درخواست کر تا ہوں کہ وہ میرے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کرنے کی توفیق عطا کرے جو اس نے اس عاجز کے کندھوں پر ڈالی ہیں.میں اور احباب جماعت مل کر ان ذمہ داریوں کو پورا کریں کیونکہ میرے اور احباب کے وجود میں میرے نزدیک کوئی امتیاز اور فرق نہیں ہے.ہم دونوں امام جماعت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور ایک ہی چیز کے دو مختلف زاویے ہیں.پس ہمیں اپنی زندگیوں میں ان بشارتوں کے پورا ہونے کی جھلکیاں نظر آنے لگیں جو بشارتیں کہ مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ حضرت محمد مصطفی ملاقہ کے دین کے غلبہ کی ہمیں ملی ہیں.آمین.“ روزنامه الفضل مؤرخہ 17 اپریل 1976 ء) 66 حضرت خلیفۃ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : " فضل عمر فاؤنڈیشن کا جب چندہ جمع ہو رہا تھا تو ایک دن ملاقاتیں ہو رہی تھیں.مجھے دفتر نے اطلاع دی کہ ایک بہت معمر مخلص احمدی آئے ہیں وہ سیڑھی نہیں چڑھ سکتے اور حقیقت یہ تھی کہ یہاں آنا بھی ایک لحاظ سے انہوں نے اپنی جان پر ظلم ہی کیا تھا.چنانچہ وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کھڑے بھی نہیں ہو سکتے تھے.میں نے کہا میں نیچے ان کے پاس چلا جاتا ہوں.خیر جب میں گیا.پتہ نہیں تھا کہ وہ کیوں آئے ہیں.مجھے دیکھ کر انہوں نے بڑی مشکل سے کھڑے ہونے کے لئے زور لگایا تو میں نے کہا نہیں آپ بیٹھے رہیں.وہ بہت معمر تھے.انہوں نے بڑے پیار سے دھوتی کا ایک پلو کھولا اور اس میں سے دو سو اور کچھ رقم نکالی اور کہنے لگے میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے لے کر آیا ہوں.پیار کا ایک مظاہرہ ہے.پس اس قسم کا اخلاص اور پیار اور 370

Page 371

اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کا یہ جذبہ ہے کہ جتنی بھی توفیق ہے پیش کر دیتے ہیں.اس سے ثواب ملتا ہے رقم سے تو نہیں ملتا.“ حیات ناصر صفحہ 516,515 ) حضرت خلیفة المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”1974ء میں جماعت احمدیہ نے بڑی تکلیف کے دن گزارے.ساری جماعت کا درد مجھے بھی اٹھانا پڑتا ہے.جماعت میں سے جس دوست کو بھی تکلیف پہنچتی ہے وہ تو اس کے لئے بڑے دکھ درد کا موجب ہوتی ہی ہے لیکن میں بھی اپنی جگہ بڑی پریشانی میں وقت گزارتا ہوں چنانچہ 1974ء میں بھی بڑی پریشانی رہی.بڑی دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس وقت جو جو باتیں بتائی تھیں ان پر ابھی اللہ تعالیٰ تین سال نہیں گزرے تھے کہ وہ باتیں پوری ہو گئیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَی ذَلِکَ.“ 66 مشعل راه جلد 3 صفحہ 488 489 ) محترمہ صاحبزادی امتہ العلیم صاحبہ حضرت خلیفتہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالی کے متعلق تحریر کرتی ہیں: ع ” خلافت سے گہری وابستگی اور خلیفہ وقت سے مخلصانہ پیار کی شدت اور اپنے پورے وجود کو، اپنی زندگی اور اپنے احساسات و جذبات کو خلیفہ وقت کے لیے وقف کر دینا ان کے احکامات پر خوش دلی سے تابع ہونا.یہ ایسے اوصاف تھے جن کو عملاً کر دکھلایا اور آنے والوں کے لیے ایک بے نظیر مثال چھوڑ دی اور اپنی خلافت کے بعد ایسی تربیت کی کہ لوگوں کی خلافت سے وابستگی گہری ہوتی چلی گئی.وہ اس کے مفہوم کو صحیح طریق پر سمجھنے لگے اور عمل کرنے لگے.اپنے پیار اور شفقت سے ایسے لوگوں کا دل جیتا کہ تمام کے تمام دل حضور پر والہانہ 66 ثار ہونے لگے.“ (سیدنا ناصر نمبر 1983ء صفحہ 52 ) مکرم مولا نا سلطان محمود انور صاحب اپنا ایک واقعہ تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: " آپ (حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے محبت کے سمندر کی یہی تو شان تھی کہ روئے زمین پہ پھیلے ہوئے ایک کروڑ احمدیوں میں سے ہر ایک یہی یقین رکھتا تھا کہ جو شفقت اور پیار مجھے اپنے آقا سے مل رہا ہے.اس کی مثال کسی اور میں نہیں پائی جاتی اور نہ ہی دوسرا اس کی لذت کا اندازہ کر سکتا ہے.66 (سیدنا ناصر نمبر 1983 ءصفحہ 240 ) حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو احباب جماعت سے کس قدر محبت تھی اس سلسلہ میں مکرم بشیر احمد رفیق صاحب سابق امام مسجد فضل لندن تحریر کرتے ہیں: " آپ (حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ مجسم شفقت تھے.اپنے خدام کی معمولی سی تکلیف بھی آپ کو بے چین کر دیا کرتی تھی.مئی 1971 ء میں خاکسار کو آپ کے پرائیویٹ سیکرٹری ہونے کا شرف حاصل تھا.مئی کی ایک تاریخ ملاقات کے لئے مقرر تھی.اس روز صبح سے ہی ملاقاتی دور و نزدیک سے جمع ہونے شروع ہو گئے.ملاقات کے لئے 11 بجے کا وقت مقرر تھا.دس بجے حضور کو شدید ضعف کا حملہ ہوا.مکرم و محترم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب فوراً تشریف لائے اور ایک گھنٹہ تک دوائیاں وغیرہ دیتے رہے.گیارہ بجے جب ملاقات کا وقت ہوا تو مکرم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے سختی سے ملاقات سے منع کیا اور عرض کیا کہ حضور کو مکمل آرام کرنا چاہئے.حضور نے فرمایا کہ ملاقاتی اتنی دور سے تشریف لائے ہیں یہ ناممکن ہے کہ میں ان کو ملاقات کا موقع دیئے بغیر رخصت کر دوں اس لئے میں ملاقات ضرور کروں گا.اس پر مکرم ڈاکٹر 371

Page 372

صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے یہ شرط عائد کر دی کہ حضور صرف مصافحہ فرماویں اور کسی قسم کی کوئی فرماویں.حضور نے ملاقات شروع کی.سب سے مصافحہ کرنے کے بعد لمبی گفتگو فرمائی اور پورے پونے دو گھنٹے احباب میں رونق افروز رہے.چہرہ سے ضعف و اضمحلال کے آثار بالکل نمایاں تھے اور صاف دکھائی دیتا تھا کہ طبیعت ناساز ہے لیکن جب تک ملاقاتیوں کو شرف ملاقات نہ بخشا اندر تشریف نہ لے گئے.“.(ماہنامہ خالد سیدنا ناصر نمبر صفحہ 176 ) مکرم بشیر احمد رفیق صاحب مزید تحریر کرتے ہیں: مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد پہلی مرتبہ آپ (حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ) 1967ء میں کوپن ہیگن (Copenhagen) کی احمدیہ مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لائے.میں کوپن ہیگن (Copenhagen) حاضر ہوا.خلافت کے بعد پہلی مرتبہ جب میری نظر آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے منور و تاباں چہرہ پر پڑی تو دل کی عجیب حالت ہوئی.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ازراہِ شفقت گلے لگایا.دیر تک ملاقات کا شرف عطا فرمایا.چند دن بعد حضور رحمہ اللہ تعالی انگلستان تشریف لائے.احباب خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے.لندن ایئر پورٹ (Air Port) پر استقبال کا انتظام کیا گیا تھا.ایک مختصر سا سٹیج (Stage) بنایا گیا تھا جس پر مائیکرو فون کا انتظام تھا.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے خدام میں تشریف لائے.نعرہ ہائے تکبیر اور دیگر اسلامی نعروں سے لندن ایئر پورٹ کی کوئین (Queens) بلڈنگ گونج اٹھی.میں نے عرض کیا کہ حضور! جماعت سے خطاب فرماویں.حضور نے فرمایا مجھے تو اپنے خدام سے ملنے کا شوق ہے اس لئے تقریر کی ضرورت نہیں.میں سب سے مصافحہ کروں گا.چونکہ مصافحہ کا پروگرام نہ تھا اس لئے انتظام کرنے میں مشکل پیش آئی آپ نے مصافحہ پر اصرار فرمایا.چنانچہ سینکڑوں احمدی جو وہاں موجود تھے حضور سے شرف مصافحہ اور بعض شرف معانقہ حاصل کر کے شاداں و فرحاں گھروں کو لوٹے.حضور کو مسلسل ایک ڈیڑھ گھنٹہ کھڑے رہنا پڑا لیکن آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کا چہرہ احباب کی ملاقات کی خوشی میں دمک رہا تھا.“ فرماتے ہیں: حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ: (ماهنامه خالد سیدنا ناصر نمبر صفحہ 170 ) احباب جماعت کس قدر اپنے آقا سے محبت کرتے ہیں اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی ڈھنگ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک زندہ معجزہ جو ہر دوسرے اعتراض پر، ہر مخالفت پر غالب آنے والا معجزہ ہے، وہ جماعت احمدیہ کا قیام ہے اور جماعت احمدیہ کی تربیت ہے اور جماعت احمدیہ کے رنگ ہیں، جماعت احمدیہ کی ادائیں ہیں.ایسی ادائیں تو دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آسکتیں.کوئی مثال نہیں اس جماعت کی.ایسا عشق، ایسی محبت ایسی وابستگی کہ دیکھ کر رشک آتا ہے.محبت ہونے کے باوجود رشک آتا ہے.ڈر لگتا ہے کہ ہم سے زیادہ نہ پیار کر رہے ہوں یہ لوگ.یہ کیفیت ایک ایسی کیفیت ہے کہ فی الحقیقت دنیا کے پردہ میں کوئی اس کی مثال چھوڑ اس کے شائبہ کی بھی کوئی مثال نظر نہیں آسکتی.“ (خطبات طاہر جلد 1 صفحہ 3,2) مکرم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن روایت کرتے ہیں: کینیڈا (Canada) کے ایک احمدی دوست ایک غیر مسلم پروفیسر ڈاکٹر Gualter کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ 372

Page 373

ملانے کے لئے لندن لے کر آئے.ملاقات کیلئے جانے سے قبل وہ میرے دفتر میں تشریف لائے.احمدی دوست نے ان کا تعارف کروایا اور لندن آنے کا مقصد بیان کیا.ابتدائی تعارفی بات چیت کے بعد مجھے خیال آیا کہ یہ پہلی بار حضور رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کیلئے آئے ہیں اور انہیں ابھی حضور کے بلند مقام اور منصب کا علم نہیں ہو گا اس لئے ان کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی شخصیت کے بارہ میں کچھ بتا دینا چاہیے.چنانچہ میں نے ہے چند باتوں کا ان سے ذکر کیا.ہر احمدی کے دل میں خلیفہ وقت کی محبت ہوتی ہے اور وہ جب بھی ذکر کرتا تو خلیفہ وقت سے محبت کا یہ پہلو اس کی گفتگو میں نمایاں ہوتا ہے.اس عاجز نے بھی اسی انداز میں کچھ باتیں کی ہوں گی جو مجھے پوری طرح یاد بھی نہیں لیکن انہوں نے ان باتوں سے بہت اچھا تاثر لیا.اس کے بعد وہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کیلئے گئے اور کافی دیر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا.تفاصیل کا مجھے علم نہیں کہ کن موضوعات پر بات ہوئی لیکن یہ معلوم ہے کہ اس دانش مند پروفیسر نے اس کا کیا عمدہ خلاصہ بیان کیا.اس احمدی دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ پروفیسر صاحب جب حضور رحمہ اللہ سے ملاقات کے بعد باہر آئے تو انہوں نے کہا کہ امام صاحب سے مل کر ان کی باتوں سے میں نے یہ تاثر لیا کہ احمدی حضرات اپنے روحانی سربراہ سے بہت محبت کرتے ہیں اور بعد میں جب میں نے احمدیوں کے روحانی رہنما سے گفتگو کی تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ احمدی ضرور اپنے روحانی سربراہ سے بھر پور محبت کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ ان کا سر براہ احمد یوں سے ان سے بہت بڑھ کر محبت اور پیار کرنے والا ہے.کتنا صحیح اور سچا تجزیہ ہے جو اس دانشور نے کیا.“ (ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر 2004 صفحہ 299 ) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: عجیب حال ہے کہ یہ لوگ یہ ساری باتیں یہ محبت بھرے خط یہ پیاری باتیں یہ عشق کے افسانے لکھتے ہیں اور ساتھ یہ بھی لکھتے ہیں بڑے فکر کے ساتھ کہ ہمارے لئے فکر نہ کیا کرو، ہمارا خیال نہ کیا کرو، یہ ہو کیسے سکتا ہے؟ یہ تو ناممکن ہے.کل ہی ایک خط کے جواب میں میں نے اس کو یہ لکھا کہ ایک شعر پڑھا کرتا تھا لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ کبھی مجھ پر یہ اطلاق پائے گا کہ پیار کرنے کا جو خوباں ہم پہ رکھتے ہیں گناہ ان سے بھی تو پوچھئے وہ اتنے کیوں پیارے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت اتنی پیاری ہے کہ اس سے پیار نہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے.بے اختیاری کا عالم ہے، میں تو ایک ہی غم میں گھل رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے یہ توفیق بخشے کہ اس عظیم جماعت کی جو مسیح موعود علیہ السلام کی میرے پاس امانت ہے اس کے حقوق ادا کر سکوں اور اس حال میں جان دوں کہ میرا اللہ مجھے کہہ رہا ہو کہ ہاں تم نے حقوق ادا کر دیئے.“ (خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 374,373 ) حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع کے اختتامی خطاب میں احباب جماعت سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو پس یہ پہلو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی فکر کریں احتیاط سے چلیں خیر و عافیت سے پہنچیں اور مجھے کوئی دکھ دینے والی خبر نہ بعد میں آئے کیونکہ آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ آپ میں سے جو بھی تکلیف اٹھاتا ہے اس کی مجھے 373

Page 374

ہیں : کتنی تکلیف پہنچتی ہے.یہی خلافت کا حقیقی مضمون ہے ایک خلیفہ کے دل میں ساری جماعت کے دل دھڑک رہے ہوتے ہیں اور ساری جماعت کی تکلیفیں اس کے دل کو تکلیف پہنچا رہی ہوتی ہیں اور اسی طرح سب جماعت کی خوشیاں بھی اس کے دل میں اکٹھی ہو جاتی ہیں.پس اللہ کرے ہمیشہ آپ کی خوشیاں پہنچتی رہیں اور آپ کی تکلیف مجھے نصیب نہ ہو کیونکہ آپ کی تکلیف میری تکلیف ہے.اس آخری نصیحت کے بعد اب میں آپ کو اپنے ساتھ دعا میں شامل ہونے کی تحریک کرتا ہوں.“ مشعل راہ جلد 3 صفحه 687 ) حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ایک خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کے خلوص و وفا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے یہ بہت ہی ایک ہمارے بہت ہی دلچسپ اور پیار کرنے والے دوست ہیں ان کا خط آیا ہے کہ مجھے تو یہ فکر ہے ہی نہیں نہ ہوئی تھی کبھی کہ انگلستان کے لوگ خیال نہیں رکھیں گے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کریں گے مجھے تو ایک فکر کھا رہا ہے اور پنجابی میں انہوں نے اس فکر کا اظہار کیا کہ کہیں آپ کو ” مل ہی نہ لیں“ پیارا اظہار انہوں نے کیا کہ مجھے تو فکر یہ ہے کہ آپ کو کہیں انگلستان کی جماعت مل ہی نہ لے.تو میں ان کو بھی بتاتا ہوں کہ تمام اہل پاکستان کو بھی بتاتا ہوں اور خاص طور پر ربوہ کے درویشوں کو کہ ”میں تو ملا جا چکا ہوں.میری زندگی میرا اٹھنا بیٹھنا میرا جینا اور میرا مرنا آپ کے ساتھ ہے.یہ ناممکن.یہ ناممکن ہے کہ میں خدا کی راہ کے درویشوں کی محبت کو کبھی بھلا سکوں کوئی دنیا کی طاقت اس محبت کو میرے دل سے نوچ کر باہر نہیں پھینک سکتی.کوئی دنیا کی کشش، کوئی دنیا کی نعمت میری نگاہوں کو آپ کی طرف سے ہٹا کر اپنی طرف منتقل نہیں کر سکتی.لاکھوں خدا کے پیارے ہیں جو مجھے بھی بہت پیارے ہیں، لاکھوں پیارے ہیں جو آپ کی طرح اپنے سے اور مجھ سے محبت کرتے ہیں صرف اس لئے کہ خدا کی طرف سے میں اس مقام پر فائز کیا گیا ہوں لیکن وہ سب محبتیں اپنی جگہ مگر اے ربوہ کے پاک درویشو! اے خدا کے در کے فقیرو! جو خدا کی خاطر دُکھ دیئے جارہے ہو تمہاری محبت کا ایک الگ مقام ہے، اس کی ایک عجیب شان ہے، اس کا کوئی دنیا میں مقابلہ نہیں کر سکتا.ایک شعر میرے ذہن میں آیا ہے اس سے شاید میرا مافی الضمیر ادا ہو جائے.ایک شاعر نے خوب کہا امام ہے کہ ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور تم - سے جہاں میں لاکھ سہی تم مگر کہاں (خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 31 532 ) حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ”جماعت احمدیہ پر جب بھی مصیبت آئی ہے جتنی بڑی مصیبت آئی ہے اتنا ہی زیادہ جماعت نے ہمیشہ اخلاص اور وفا کا نمونہ دکھایا ہے.حیرت انگیز جماعت ہے اس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں ہے.کوئی دنیا کی جماعت ایسی نہیں ہے جس پر ایسے خطرناک ابتلا آئیں اور وہ اپنی وفا اور ایثار اور قربانی میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جائے.پس پاکستان میں بھی جماعت کا یہی حال ہے اور حیرت انگیز اخلاص کے اندر اضافے ہو رہے ہیں.جو خطوط آتے ہیں ان سے پتہ چلتا سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ جو بعض دفعہ مسجد کی زیارت سے بھی محروم رہتے تھے وہ 374

Page 375

تہجدوں میں اٹھ کر گریہ و زاری کرتے ہیں اور اس کثرت سے دعاؤں کے خط آتے ہیں کہ دعا کریں ہمارے لئے اللہ ہمیں شہادت نصیب کرے اور ہر طرف سے، گزشتہ کچھ عرصہ سے خاندان مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے بچوں کی طرف سے بھی بڑے درد ناک خط آرہے ہیں کہ یہ دعا کریں اور ہمیں وعدہ دیں اپنا کہ جب آپ نے جان کی قربانی کا مطالبہ کیا تو پہلے ہمیں موقع دیں گے دوسروں کو بعد میں دیں گے کیونکہ حضرت مسیح موعود کے خاندان کا یہ بھی حق ہے کہ وہ قربانی کے ہر میدان میں آگے آئے.چنانچہ دہنی طور علیہ پر الصلوة والسلام میں تیار ہوں اور میں نے بعض عہد کر لئے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ ان نوجوان بچوں کا اخلاس ضائع نہیں جائے گا لیکن ساری جماعت کا یہ حال ہے پاکستان کی ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو حیران ہیں کہ ایسا معجزہ ہم نے کبھی زندگی میں سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ ظاہر ہو گا.وہ لوگ نہایت بیچارے جن کو ہم رڈی سمجھتے تھے اس قدر جوش اور محبت اور اخلاص کے ساتھ جان دینے کے لئے تڑپ رہے ہیں کہ صرف ایک اشارے کی ضرورت ہے.تو یہ جماعت کوئی مٹنے والی جماعت تو نہیں ہے.کون دنیا کی طاقت ہے جو ایسی جماعت کو مٹا سکے جو ہر ظلم کے وقت زیادہ روشن ہوتی چلی جائے، ہر اندھیرے پر اس کو نیا نور خدا کی طرف سے عطا ہو.چنانچہ باہر کی جماعتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی اخلاص، یہی جذبہ " د 66 (خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 287 288 ) (ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر 2004 ) چودھری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید بیان کرتے ہیں: 28 اپریل 1984ء کو (اگلے دن حضور نے ہجرت فرمائی تھی) مسجد مبارک ربوہ میں ایک نماز کے بعد حضرت خليفة أصبح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ.میں نے آپ کو یہاں اس لئے نہیں بٹھایا کہ میں نے کوئی تقریر کرنی ہے.میں نے آپ کو دیکھنے کے لئے بٹھایا ہے.میری آنکھیں آپ کو دیکھنے سے ٹھنڈک محسوس کرتی ہیں.میرے دل کو تسکین ملتی ہے.مجھے آپ سے پیار ہے، عشق ہے.خدا کی قسم کسی ماں کو بھی اس قدر پیار نہیں ہو سکتا.“ محترم ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب بیان کرتے ہیں: جس روز حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ہسپتال سے گھر تشریف لائے اسی رات میں نے واپس پاکستان آنا تھا تو میں اجازت لینے کے لئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا.حضور نے فرمایا ذرا بیٹھو میں نماز ادا کر لوں تو میں نے کمرہ کے باہر بیٹھ کر انتظار کیا.حضور نے دس پندرہ منٹ میں نماز پڑھی اس کے بعد جب میں حضور کے کمرہ میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضور رحمہ اللہ کا چہرہ سرخ تھا آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور آ میں وہ نمی تھی جس کو حضور لوگوں سے چھپایا کرتے تھے اور حضور کے چہرے پر جذبہ تشکر غالب تھا.اس بات کا اندازہ شاید حضور کو خود تھا یا پھر دیکھنے والا بتا سکتا تھا اور میں اس بات کا اندازہ اس لئے بھی خاص طور پر کر سکتا تھا کہ ان بیماری کے دنوں میں کئی کئی گھنٹے حضور کے پاس خادم کے طور پر بیٹھا رہا اور اس بات کا کئی مرتبہ مشاہدہ کیا.کیونکہ اس آپریشن کے وقت کی اور بعد کی تمام کیفیات میں حضور پر خدا کے شکر کا جذبہ غالب تھا اور دوسرا اس جماعت کیلئے شکر کا احساس بھی تھا جو دن رات تڑپ تڑپ کر اپنے پیارے آقا کیلئے دعائیں کر رہی تھی اور صدقات دے رہی تھی.اس بات کا اتنا اثر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ پر ہوتا تھا کہ کئی مرتبہ کئی منٹ اور اور کئی کئی گھنٹے خاموش ہوتے اور سے آنسو رواں ہوتے کیونکہ آپ کی طبیعت میں یہ بات داخل تھی کہ جماعت کے لوگ ان کے لئے آنکھوں آنکھوں 375

Page 376

جو دعائیں کر رہے ہیں، جو صدقات دے رہے ہیں، تو اس کو وہ احسان سمجھتے تھے اور کسی معمولی سی بات پر بھی حضور بہت جلد احسان مند ہو جایا کرتے تھے.ایک طرف تو جماعت کے کروڑوں لوگ جو حضور کے لئے مسلسل دعائیں کر رہے تھے اور دوسری طرف یہ عالم تھا کہ ان چاہنے والوں کی دعاؤں کے نتیجہ میں ان کے پیارے امام اپنے دل میں یہ احساس لئے بیٹھے تھے کہ میرے چاہنے والوں کو میری وجہ سے کتنا دکھ پہنچ رہا ہے اور یہ احساس کہ دعا کرنے والا ایک نہیں.دو نہیں لاکھوں نہیں کروڑوں ہیں تو حضور اس کا اپنے دل پر اور دماغ پر بہت زیادہ بوجھ لیتے تھے اور مجھے یہ گھبراہٹ ہوتی تھی کہ میڈیکل سائنس کے حوالہ سے اگر سوچا جائے کہ ایک انسان اپنے دماغ اور دل پر اس بیماری کی حالت میں اتنا بوجھ ڈالے تو اگر خدا کا فضل نہ ہو اور وہ نہ بچائے تو انسان کا دماغ، دل یا اعضاء shatter ہو جائیں.مکرم (ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر 204 ، 344,343 ) عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر بیان کرتے ہیں: ”جب لائبیریا (Liberia) کے حالات خراب ہوئے اور وہاں باغیوں نے بعض علاقوں پر بھر پور حملہ کر کے ان پر قبضہ کر لیا تو اس وقت ہمارے مشنری مکرم شیخ محمد یونس صاحب جس علاقہ میں تھے وہ بھی باغیوں کے قبضہ میں آ گیا اور وہاں بہت قتل و غارت ہوئی.رابطے بالکل کٹ گئے.انتہائی پریشان کن صورتحال تھی.حضور رحمہ اللہ بہت فکر مند تھے اور بار بار دریافت فرماتے تھے کہ کوئی اطلاع آئی ہے.خاکسار عرض کرتا کہ حضور (رحمہ اللہ ! کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہو رہا اور کچھ پتہ نہیں چل رہا.حضور انور نے اسی وقت صدقہ کیلئے رقم نکال کر دی اور فرمایا: ہارون جالو (Haroon Jalow) صاحب کیلئے بھی صدقہ نکالا تھا اور وہ مل گئے تھے.اب اللہ کے فضل سے یہ بھی انشاء اللہ مل جائیں گے.چنانچہ قریباً دو ہفتہ بعد سیرالیون (Sierra Leone) سے اطلاع ملی که مکرم شیخ یونس صاحب انتہائی کسمپرسی کی حالت میں لائبیریا کا بارڈر پار کر کے سیرالیون پہنچ گئے ہیں اور خیریت سے ہیں.جب حضور انور رحمہ اللہ کی خدمت میں یہ اطلاع پہنچائی گئی تو آپ کا چہرہ مبارک خوشی تمتما اٹھا اور فرمایا: الحمد للہ، ماشاء اللہ مبارک ہو.“ دو (ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر 2004ءصفحہ 99 ) مکرم عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر تحریر کرتے ہیں: 1993 ء میں حضور اپنے دورہ ماریشس (Mauritius) کے دوران ایک دن کیلئے جزیرہ روڈرگ (Rodrigues) تشریف لے گئے.یہ علیحدہ جزیرہ ماریشس کا ہی حصہ ہے اور ماریشس کے نیشنل ائر پورٹ سے اس جزیرہ تک پون گھنٹہ کی فلائٹ ہے.جماعت ماریشس نے جہاز کا بڑا حصہ ریزرو کروالیا تھا جس میں سب اپنے ہی ممبران تھے.35,30 کے قریب خدام و انصار اس سفر میں ساتھ تھے.حضور کے ساتھ والی سیٹ خالی تھی.دوران سفر ماریشس جماعت کے یہ ساتھ سفر کر نیوالے احباب باری باری حضور کے ساتھ بیٹھتے.ویڈیو تیار ہوتی اور تصاویر کھینچی جاتیں اور حضور سے باتیں کرتے.اس پون گھنٹہ کی فلائٹ میں ہر ایک نے باتیں کرتے.اس پون گھنٹہ کی فلائٹ میں ہر ایک نے حضور کے ساتھ بیٹھ کر ویڈیو بنوائی اور تصاویر اتر وائیں اور برکتیں حاصل کیں.اس روز حضور بے حد خوش تھے.حضور انور کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا.جب روڈرگ پہنچے تو احباب جماعت کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فیملیز (Families) سے ملاقات شروع کرنے سے قبل فرمایا: آئیں اب دور کے جزیرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے ملاقات کریں.“ حضور 376

Page 377

(ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر 2004 صفحہ 93 ) حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ اردو کلاس کے بچوں کو ہالینڈ (Holland) کی سیر کروائی اس موقع حضور رحمہ اللہ بچوں کے ساتھ کس قدر محبت کا سلوک فرماتے اس سلسلہ میں مکرم بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں: حضور انور سب کے ساتھ پیار اور شفقت کا ایسا سلوک فرماتے کہ سب بچے ایسا محسوس کرتے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ ہی رہ رہے ہیں اور حضور انور سب کا حال اور خیر و عافیت پوچھتے.اگر کوئی بیمار ہوتا تو اسے ہومیو پیتھی کی دوائی بھی دیتے اور پھر بار بار اس کی طبیعت کا پوچھتے.حضور” سب بچوں کو اس پیار کے انداز سے ملتے اور ان پر نظر شفقت کرتے کہ شاید ان کے والدین بھی اتنا نہ کرتے ہوں.“ (ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر 2004 صفحہ 250 ) حضرت خلیفة لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز احباب جماعت کے محبت و اخلاص کے اظہار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: نہایت پیار سے میں عرض کر دیتا ہوں کہ مجھے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیاری جماعت سے بہت پیار ہے اور سختی یا نرمی کے مواقع اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی طرح جانتا ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کی دی ہوئی توفیق سے فیصلے کرنے کی کوشش کروں گا.اللہ تعالیٰ اپنی رضا کے مطابق کام کرنے کی مجھے توفیق دے.لیکن پھر یہ بڑے پیار سے عرض کر دوں کہ جو جماعت کے بہتر سمجھوں گا ضرور کہوں گا اور یہ کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کی ضرورت تھی یا نہیں تھی.جب کہہ دیا ہے تو جماعت کے مفاد میں ہو گا.اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا، علیم ہے، قدرتوں کا مالک ہے، وہ آپ ہی میرے دل سے خیال نکال دے گا.مجھے اس بارہ میں کسی کے اس تبصرہ کی ضرورت نہیں کہ کیوں کہا.ہاں حالات سے باخبر رکھیں تاکہ تربیتی نقطہ نظر سے جہاں کہیں کچھ کہنے کی ضرورت ہو کہہ سکوں.لیکن آخر میں پھر ایک وضاحت کردوں کہ اس بات کو ختم کریں، مزید خطوط میں ان کا ذکر نہ کریں.ہاں اپنے اخلاص ، وفا اور پیار کا اظہار کریں.اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گائیں اور اسی کی حمد کرتے ہوئے، دعا کرتے ہوئے اس قافلے کو آگے بڑھاتے چلے جائیں.“ (خطبات مسرور جلد نمبر 2003 ، صفحہ 22 ,23 ) حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: اب افریقہ (Africa) کے دورے میں گزشتہ سال کی طرح اس دفعہ بھی مختلف ملکوں میں جاکر میں نے احمدیوں کے اخلاص و وفا کے جو نظارے دیکھتے ہیں ان کی ایک تفصیل ہے.بعض محسوس کئے جا سکتے ہیں، بیان نہیں کئے جا سکتے.تنزانیہ (Tanzania) کے ایک دور دراز علاقے میں جہاں سڑکیں اتنی خراب ہیں کہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچنے میں چھ سات سو کلومیٹر کا سفر بعض دفعہ آٹھ دس دن میں طے ہوتا ہے.ہم اس علاقہ کے ایک نسبتاً بڑے قصبے میں جہاں چھوٹا سا ائر پورٹ ہے، چھوٹے جہاز کے ذریعے سے گئے تھے تو وہاں لوگ ارد گرد سے بھی ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے.ان میں جوش قابل دید تھا.بہت جگہوں پر وہاں ایم اے کی سہولت بھی نہیں ہے اس لئے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایم ٹی اے دیکھ کر اور تصویریں دیکھ کر یہ تعلق پیدا ہو گیا تھا.یہ جوش بتاتا تھا کہ خلافت سے ان نیک عمل کرنے والوں کو ایک خاص پیار اور تعلق ہے.جن سے مصافحے ہوئے ان کے جذبات کو بیان کرنا بھی میرے لئے مشکل ہے.ایک مثال دیتا ہوں.مصافحہ کے لئے لوگ لائن میں تھے ایک شخص نے ہاتھ بڑھایا اور ساتھ ہی جذبات سے مغلوب ہو کر رونا شروع کر دیا.کیا یہ 377

Page 378

تعلق یہ محبت کا اظہار، ملوک یا بادشاہوں کے ساتھ ہوتا ہے یا خدا کی طرف سے دلوں میں پیدا کیا جاتا ہے.ایک صاحب پرانے احمدی جو فالج کی وجہ سے بہت بیمار تھے، ضد کر کے 40-50 کلومیٹر یا میل کا فاصلہ طے کر کے مجھ سے ملنے کے لئے آئے.اور فالج سے ان کے ہاتھ مڑ گئے تھے، ان مڑے ہوئے ہاتھوں سے اس مضبوطی سے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا کہ مجھے لگا کہ جس طرح شکنجے میں ہاتھ آگیا ہے.کیا اتنا ترڈ د کوئی دنیا داری کے لئے کرتا ہے.غرض کہ جذبات کی مختلف کیفیات تھیں.یہی حال کینیا (Kenya) کے دور دراز کے علاقوں کے احمدیوں میں تھا اور یہی جذبات یوگنڈا (Uganda) کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے احمدیوں کے تھے.جو رپورٹس شائع ہوں گی ان کو پڑھ لیں خود ہی پتہ چل جائے گا کہ خلافت کے لئے لوگوں میں کس اور انشاء اللہ تعالیٰ یہی نیک عمل اور اخلاص جماعت احمدیہ میں ہمیشہ استحکام اور قیام خلافت کا قدر اخلاص ہے باعث بنتا چلا جائے گا.“ الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 10 تا 17 جون 2005 ء ) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز افریقہ کے حالات بیان کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں: یوگنڈا (Uganda) میں ہی جب ہم اترے ہیں اور گاڑی باہر نکلی تو ایک عورت اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے، دو اڑھائی سال کا بچہ تھا، ساتھ ساتھ دوڑتی چلی جارہی تھی.اس کی اپنی نظر میں بھی پہچان تھی، خلافت اور جماعت سے ایک تعلق نظر آرہا تھا، وفا کا تعلق ظاہر ہو رہا تھا.اور بچے کی میری طرف توجہ نہیں تھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا منہ اس طرف پھیرتی تھی کہ دیکھو اور کافی دور تک دوڑتی گئی.اتنا رش تھا کہ اس کو دھکے بھی لگتے رہے لیکن اس نے پروا نہیں کی.آخر جب بچے کی نظر پڑگئی تو بچہ دیکھ کر مسکرایا.ہاتھ ہلایا.تب ماں کو چین آیا.تو بچے کے چہرے کی جو رونق اور مسکراہٹ تھی وہ بھی اس طرح تھی جیسے برسوں سے پہچانتا ہو.تو جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں خلافت سے محبت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے اس وقت تک خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں.“ الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 10 تا 17 جون 2005 ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ”جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط ہے اور ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہے.افریقہ میں بھی میں دورہ پر گیا ہوں ایسے لوگ جنہوں نے کبھی دیکھا نہیں تھا اس طرح ٹوٹ کر انہوں نے محبت کا اظہار کیا ہے جس طرح برسوں کے بچھڑے ملے ہوتے ہیں یہ سب کیا ہے؟ جس طرح ان کے چہروں پر خوشی کا اظہار میں نے دیکھا ہے، یہ سب کیا ہے؟ جس طرح سفر کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرکے وہ لوگ آئے، یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا دنیا دکھاوے کے لیے یہ سب خلافت سے محبت ہے جو ان دور دراز علاقوں میں رہنے سے والے لوگوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے.تو جس چیز کو اللہ تعالی پیدا کر رہا ہے وہ انسانی کوششوں کہاں نکل سکتی ہے.جتنا مرضی کوئی چاہے، زور لگا لے.عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو باقاعدہ میں نے آنسوؤں سے روتے دیکھا ہے.تو یہ سب محبت ہی ہے جو خلافت کی ان کے دلوں میں قائم ہے.بچے اس طرح بعض دفعہ دائیں بائیں سے نکل کے سیکیورٹی کو توڑتے ہوئے آکے چمٹ جاتے تھے.وہ محبت تو اللہ تعالیٰ نے بچوں کے دل میں پیدا کی ہے، کسی کے کہنے پہ تو نہیں آسکتے.اور پھر ان کے ماں باپ اور دوسرے اردگرد لوگ جو اکٹھے ہوتے تھے ان کی محبت بھی دیکھنے والی ہوتی تھی.پھر اس بچے کو اس لیے وہ پیار کرتے تھے کہ تم خلیفہ وقت سے چمٹ کے اور اس سے پیار لے کر آئے ہو.“ 378

Page 379

مشعل راه جلد 5 حصہ دوم صفحه 20 ) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز احباب جماعت کے محبت و اخلاص کے اظہار کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیاری جماعت نے جس خوشی اور اللہ تعالیٰ کی حمد کا اظہار کیا ہے وہ اس جماعت کا ہی خاصہ ہے.آج پوری دنیا میں سوائے اس جماعت کے اور کہیں یہ اظہار نہیں مل سکتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا اس دور میں یہی نشان کافی ہے لیکن گر دل میں ہو خوف کر دگار.اللہ تعالیٰ مومنوں کی جماعت کو جب اگلے جہان میں جنت کی بشارت دیتا ہے تو اس کے نظارے صرف بعد میں ہی کروانے کے وعدے نہیں کرتا بلکہ اس دنیا میں بھی اخلاص ، وفا اور پیار کے نمونے دکھا کر آئندہ جنتوں کے وعدوں کو مزید تقویت دیتا ہے.اس کے نظارے روزانہ ڈاک میں آج کل میں دیکھ رہا ہوں.دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے کہ کس طرح ایک شخص جو سینکڑوں ہزاروں میل دور ہے صرف اور صرف خدا کی خاطر خلیفہ وقت سے اظہار محبت و پیار کر رہا ہے اور یہی صورت ادھر بھی قائم ہو جاتی ہے.ایک بجلی کی رو کی طرح فوری طور پر وہی جذبات جسم میں سرایت کر جاتے ہیں.الحمد للہ، الحمد للہ دو 66 خطبات مسرور جلد 2003 صفحہ 17 ) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: اسی طرح فرانس (France) کا جلسہ بھی اپنے لحاظ سے الحمد للہ بہت کامیاب تھا.یہاں کے کارکنان بھی شکریہ کے مستحق ہیں اور یہاں کے جلسے کی جو سب سے بڑی خوبی تھی وہ یہ ہے کہ یہاں کافی بڑی تعداد ایسی ہے.جو غیر پاکستانی احمدیوں کی ہے جن میں افریقہ ، الجیریا، مراکو، فلپائن وغیرہ کے لوگ شامل ہیں اور سب نے اسی جوش و جذبہ سے ڈیوٹیاں ادا کی ہیں اور بڑی خوش اسلوبی سے ادا کی ہیں اور اس طرح ادا کر رہے تھے جس طرح بڑے پرانے اور ایک عرصہ سے تربیت یافتہ ہوں.اللہ تعالیٰ ان کے ایمان و اخلاص میں برکت عطاء فرمائے.ان لوگوں کی بھی خلافت اور جماعت سے محبت ناقابل بیان ہے.اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا اور اثبات قدم عطا فرمائے.“ رہے خطبات مسرور جلد 1 صفحہ 322 ) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جماعت کے اخلاص وفا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: انڈونیشینز (Indonesians) کا میں ذکر کر رہا تھا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اللہ تعالی.اور ہر جگہ یہی نظارے دیکھنے میں آئے ہیں خطبہ کے بعد جس میں خطبہ کا ذکر کر رہا تھا سنگا پور کے، آپس میں ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے تھے یہ لوگ، اور اس بات پر قائم تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی حالت بدلے گا اور وہ مزید تائیدات کے نظارے دیکھیں گے.انشاء اللہ سنگا پور میں ملائیشیا اور انڈونیشیا کے علاوہ جن کی بڑی تعداد وہاں آئی ہوئی تھی بعض دوسرے ملکوں کے بھی چند لوگ آئے تھے، فلپائن، کمبوڈیا، پاپوا نیو گنی، تھائی لینڈ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب اخلاص و وفا کے نمونے دکھانے والے تھے.بعض چند سال پہلے کے احمدی تھے، مرد بھی اور خواتین بھی.لیکن خلافت سے تعلق اور وفا کے جو اظہار تھے وہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی.وہاں آنے کا بھی کافی خرچ ان کو کرنا پڑا، کافی دور کے بھی علاقے ہیں، کرایہ خرچ کر کے آئے تھے، ٹکٹ وغیرہ کافی مہنگا ہے.ان کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ کی سچائی ثابت ہوتی ہے کہ وہ خدا کے گروہ ہیں جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے.“ (خطبه جمعه فرموده مورخه 19 مئی 2006 ء بیت الفتوح لندن) 379

Page 380

380 تحریکات خلفائے احمدیت اور اُن کے ثمرات مرتبہ محمد احمد فہیم استاد مدرسته الظفر وقف جدید ربوه

Page 381

عناوین: ابتدائیہ تحریکات خلافت اولی اور اُن کے ثمرات تحریکات خلافت ثانیہ اور اُن کے ثمرات: (1 (2 (3 تحریک جدید، وقف جدید 3) فضل عمر فاؤنڈیشن، تحریکات خلافت ثالثہ اور اُن کے ثمرات: (1 فضل عمر فاؤنڈیشن، (2) نصرت جہاں سکیم صد سالہ جوبلی منصوبہ، (3 صد سالہ جوبلی منصوبہ تحریکات خلافت رابعہ اور ثمرات : (1 (2 بیوت الحمد سکیم، دعوت الی اللہ وقف نو.تحریکات خلافت خامسہ اور ثمرات: (1 (2 وصایا کی تحریک، صد سالہ جوبلی منصوبہ.381

Page 382

بتدائیہ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانہ میں اسلام کی تجدید کے لیے مبعوث ہوئے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی نشاة ثانیہ کے وقت مسلمانوں کی حالت زار کا جو نقشہ پیش فرمایا تھا وہی کمزور ایمانی، اخلاقی انحطاط اس دور میں نظر آتا ہے.چنانچہ اسی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ: إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا - (ابو داؤد، كِتَابُ الْمَلَاحِمُ ، بَابٌ مَا يَذْكُرُ فِي قَرْنِ الْاثَةِ) ترجمہ: اللہ تعالی اس امت کے لیے ہر صدی کے سر پر ایک مجدد مبعوث فرمایا کرے گا جو آکر دین کی تجدید کرے گا.ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت میں خلافت کے نظام کو قائم فرمایا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے ب کے مشن کو آگے بڑھا رہی ہے اس لئے خلافت ہی اب مجددیت کی غرض کو پورا کر رہی حضرت خلیفہ اُسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 27 اگست 1993 ء میں فرمایا: میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایسے لوگ اگر سو سال کی عمریں بھی پائیں گے اور مر جائیں تو نامرادی کی حالت میں مریں گے اور کسی مجدد کا منہ نہیں دیکھیں گے، ان کی اولادیں بھی لمبی عمریں پائیں اور مرتی چلی جائیں اور اُن کی اولادیں بھی لمبی عمریں پائیں اور مرتی چلی جائیں، خدا کی قسم! خلافت احمدیہ کے سوا کہیں اور مجددیت کا منہ نہیں دیکھیں گی.یہی وہ تجدید دین کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے جو ہر صدی کے سر پر ہمیشہ جماعت کی ضرورتوں کو پورا کرتا چلا جائے گا.“ (ماہنامہ خالد مئی 1994) تجدید اسلام کی ان اغراض کو پورا کرنے کے لیے خلفاء نے جماعت کی روحانی و تربیتی رہنمائی کے لیے گاہے گاہے تحریکات جاری فرمائیں جن کی کچھ حد تک تفصیل اگلے صفحات میں دی جا رہی ہے.تحریکات خلافت أولى حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کی دو تحریکیں : دسمبر 1912ء کے آخر میں حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ نے دو اہم تحریکیں فرمائیں: (1) علم الرؤیا کا علم اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کو عطا فرمایا اور ان سے ورثہ میں علمائے امت کو پہنچا.چنانچہ پہلے مسلمانوں نے اس فن پر کامل اتعبیر اور تعطیر الانام وغیرہ عمدہ کتابیں لکھیں.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے تحریک فرمائی کہ ہم سے پہلے بزرگوں نے تو اپنا فرض ادا کر دیا لیکن اب کئی نئی ایجادیں نکل آئی ہیں ہمیں نئی ضروریات کے لیے اس فن کی ضخیم کتاب تیار کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.(ب) دوسری تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے یہ فرمائی کہ مال غنیمت کی تقسیم کے لیے جو اللہ اور رسول کا حق ہے اس کا مصرف موجودہ زمانہ میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی، اس کی صفات، اس کے افعال اور اس کے کلام پاک کی اشاعت پر رسالے اور ٹریکٹ شائع کیے جائیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ کی ادائیگی کے لیے حدیث شریف کی 382

Page 383

اشاعت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور حضور صلی اللہ علیہ السلام کے خلفا پر اعتراضات کے جوابات پر روپیہ خرچ کیا جائے.تحریک اشاعت لٹریچر (literature) اور اس کے ثمرات: انجمن مبلغین کا قیام: تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 428) حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی تحریک پر 1912ء کے ابتدا میں قادیان کے بعض نوجوانوں نے ایک انجمن مبلغین“ بنائی جس کا نام ” یاد گار احمد بھی تھا.انجمن کی غرض اسلام کی تائید اور باقی مذاہب کے ابطال میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ شائع کرنا تھا.اس انجمن نے پہلا ٹریکٹ کسر صلیب“ کے نام سے شائع کیا جو حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے قلم سے نکلا.اس انجمن کی دیکھا دیکھی لاہور میں احمدیہ ینگ مین ایسوسی ایشن (Ahmadiyyaa Young Man Association بھی قائم ہوئی جس نے کئی پمفلٹ چھاپے.”خطبات نور“ کی اشاعت: تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 429) بابو عبدالحمید صاحب آڈیٹر راجپورہ بٹھنڈا ریلوے لاہور نے حضرت خلیفہ اول کے خطبات کتابی شکل میں شائع کئے اور جس کا نام خود حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ ہی نے خطبات نور رکھا اور خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ”میرے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی ان کو جمع کرے گا.بڑی محنت کی ہے.جیسی آپ نے ان سے محبت کی ہے خدا آپ سے محبت کرے.“ قبل ازیں یہ تحریر اپنے دست مبارک سے لکھ کردی: بابو عبدالحمید صاحب نے میری اجازت سے اور مجھے مسودات دکھانے کے بعد میرے خطبات کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا انتظام کیا ہے.اللہ تعالیٰ اس اخلاص کے واسطے انہیں جزائے خیر دے اور ان کے کام کو با برکت کرے.“ تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 429) اب اللہ کے فضل و کرم سے حضرت خلیفتہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ کی تفسیر قرآن ”حقائق الفرقان“ کے نام سے چار جلدوں میں شائع شدہ موجود ہے.اس طرح حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ امسیح الاول کے علمی کاموں کو مرتب کرنے کے لیے نور فاؤنڈیشن (Noor Foundation) کا قیام فرمایا ہے.یتامی اور مساکین فنڈ کی اعانت کی تحریک اور اس کے ثمرات: جنوری 1909ء میں حضرت خلیفۃ امسح الاول رضی اللہ عنہ نے بتائی اور مساکین و طلبا فنڈ کی اعانت کے لیے تحریک فرمائی جس کے لیے اسی وقت سو روپیہ آپ رضی اللہ عنہ نے خود بھی عطا فرمایا.تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 291) 383

Page 384

اس تحریک پر احباب نے فوری لبیک کہا.چنانچہ ”دور الضعفا“ کے لیے حضرت نواب محمد علی خان صاحب مالیر کوٹلہ نے 22 “ مکانوں کے لیے قادیان میں ایک وسیع قطعہ زمین بہشتی مقبرہ کے قریب عطا فر مایا.اصحاب احمد جلد دوم صفحہ 467) 66 اس تحریک کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آگے بڑھاتے ہوئے کفالت یک صد یتامی“ اور “بوت الحمد سکیم کا منصوبہ جاری فرمایا جس کے ثمرات جاری و ساری ہیں.چنانچہ ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس تحریک کے ضمن میں فرمایا: اللہ کے فضل سے جماعت میں یک صد یتامی کی خبر گیری کا بڑا اچھا انتظام موجود ہے.مرکزی طور پر بھی انتظام جاری ہے.گو اس کا نام یک صد یتامی کی تحریک ہے لیکن اس کے تحت سینکڑوں یتامی بالغ ہو کر پڑھائی مکمل کر کے کام پر جانے تک ان کو پوری طرح سنبھالا گیا.اسی طرح لڑکیوں کی شادی تک کے اخرا جات پورے کئے جاتے رہے اور کئے جا رہے ہیں اور اللہ کے فضل سے جماعت اس میں دل کھول کر امداد کرتی ہے.“ لگ تحریکات خلافت ثانیہ تحریک جدید: تحریک جدید کا آغاز روزنامه الفضل 19 نومبر 2004ء) تحریک جدید کے آغاز کا پس منظر بیان کرتے ہوئے سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں:.یہ تحریک ایسی تکلیف کے وقت شروع کی گئی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی ساری طاقتیں جماعت احمدیہ کو مٹانے کے لیے اکٹھی ہو گئی ہیں.ایک طرف احرار نے اعلان کر دیا کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کو مٹا ینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ اس وقت تک سانس نہ لیں گے جب تک مٹا نہ لیں.دوسری طرف جو لوگ ہم سے ملنے جلنے والے تھے اور بظاہر ہم سے محبت کا اظہار کرتے تھے انہوں نے پوشیدہ بغض نکالنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سینکڑوں اور ہزاروں روپوں سے ان کی امداد کرنی شروع کر دی اور تیسری طرف سارے ہندوستان نے ان کی پیٹھ ٹھونکی یہاں تک کہ ایک ہمارا وفد گورنر پنجاب سے ملنے کے لیے گیا تو اسے کہا گیا کہ تم لوگوں نے احرار کی اس تحریک کا اندازہ نہیں لگایا.ہم نے محکمہ ڈاک سے پتہ لگوایا ہے، پندرہ سو روپیہ روزانہ ان کی آمدنی ہے.تو اس وقت گورنمنٹ انگریزی نے بھی احرار کی فتنہ انگیزی سے متاثر ہو کر ہمارے خلاف ہتھیار اٹھا لئے اور یہاں کئی بڑے بڑے افسر بھیج کر اور احمدیوں کو رستے چلنے سے روک کر احرار کا جلسہ کرایا گیا.“ تحریک جدید ایک الہامی تحریک (تقریر فرمودہ 27 دسمبر 1943ء) تحریک جدید کو تمام تر کامیابیوں کے حصول کا ذریعہ اور الہامی تحریک قرار دیتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ الثانی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 384

Page 385

الله پس جماعت کو اپنی ترقی اور عظمت کے لیے اس تحریک کو سمجھنا اور اس پر غور کرنا نہایت ضروری ہے.تعالیٰ جس طرح مختصر الفاظ میں ایک الہام کر دیتا ہے اور اس میں نہایت باریک تفصیلات موجود ہوتی ہیں.اسی طرح اس کا القا بھی ہوتا ہے اور جس طرح الہام مخفی ہوتا ہے، اسی طرح القا بھی مخفی ہوتا ہے، اسی طرح القا بھی مخفی ہوتا ہے بلکہ القا الہام سے زیادہ مخفی ہوتا ہے.یہ تحریک بھی جو القائے الہی کا نتیجہ تھی پہلے مخفی تھی مگر جب اس پر غور کیا گیا تو یہ اس قدر تفصیلات کی جامع نکلی کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے زمانے کے لیے اس میں اتنا مواد جمع کر دیا ہے کہ اصولی طور پر اس میں وہ تمام باتیں آگئی ہیں جو کامیابی کے لیے ضروری ہیں.“ تحریک جدید کی سکیم(scheme): الفضل 26 فروری 1961 ء و سوانح فضل عمر جلد 3 صفحہ 297 تا300) تحریک جدید کی جو سکیم اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے دل میں القا کی اس کی تفصیلات بیان کر نے سے پہلے جماعت کو اس کے لیے پہنی طور پر تیار کرنے کے لیے بطور تمہید آپ نے 19 اکتوبر1934ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: سات یا آٹھ دن تک اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی اور توفیق بخشی تو میں ایک نہایت ہی اہم اعلان جماعت کے لیے کرنا چاہتا ہوں چھ یا سات دن سے قبل میں وہ اعلان کرنا مناسب نہیں سمجھتا.اس اعلان کی ضرورت اور اس کی وجوہ بھی میں اسی وقت بیان کروں گا لیکن اب سے پہلے میں آپ لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ احمدی کہلاتے ہیں، آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ آپ لوگ خدا تعالیٰ کی چنیدہ جماعت ہیں، آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے مامور پر کامل یقین رکھتے ہیں، آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے آپ نے اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر رکھے ہیں اور آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ ان تمام قربانیوں کے بدلے اللہ تعالیٰ سے لوگوں نے جنت کا سودا کر لیا.یہ دعوئی آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر دہرایا بلکہ آپ میں سے ہزاروں انسانوں نے اس عہد کی ابتدا میرے ہاتھ پر کی ہے کیونکہ وہ میرے ہی زمانہ میں احمدی ہوئے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے ، تمہاری بیویاں، تمہارے عزیز و اقارب، تمہارے اموال اور تمہاری جائیدادیں تمہیں خدا اور اس کے رسول سے زیادہ پیاری ہیں تو تمہارے ایمان کی کوئی حقیقت نہیں.یہ ایک معمولی اعلان نہیں بلکہ اعلان جنگ ہو گا ہر اس انسان کے لیے جو اپنے ایمان میں ذرہ بھر بھی کمزوری رکھتا ہے، یہ اعلان جنگ ہو گا ہر اس شخص کے لیے جس کے دل میں نفاق کی کوئی بھی رگ باقی ہے لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے تمام افراد الا ماشاء اللہ سوائے چند لوگوں کے سب سچے مومن ہیں اور اس دعوئی پر قائم ہیں جو انہوں نے بیعت کے وقت کیا اور اس دعوئی کے مطابق جس قربانی کا بھی ان سے مطالبہ کیا جائے گا اسے پورا کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے.الفضل 23 اکتوبر 1934 ، و سوانح فضل عمر جلد 3 صفحہ 301) تحریک جدید کے مطالبات: تحریک جدید کے بیان کردہ چوبیس مطالبات میں سے چند چیدہ چیدہ درج ہیں: 385

Page 386

پہلا مطالبہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے جماعت سے اس تحریک کے سلسلہ میں جو مطالبہ فرمایا وہ سادہ زندگی اختیار کر نا تھا، دوسرا مطالبہ: کروائیں، جماعت کے مخلص افراد اپنی آمد کا 1/5 سے 1/3 حصہ تک سلسلہ کے مفاد کے لیے تین سال تک جمع تیسرا مطالبہ دشمن کے گندے لٹریچر کا جواب دیا جائے.چوتھا مطالبہ: احباب اپنی زندگیاں خدمت دین کے لیے وقف کریں.پانچواں مطالبہ اس سکیم کے لیے بعض احباب ماہانہ سو روپیہ چندہ دیں.غربا بھی ماہانہ پانچ روپے چندہ دے کر اس مالی قربانی میں شامل ہو سکتے ہیں.چھٹا مطالبہ: بعض احباب اشاعتِ سلسلہ کے لیے کم از کم تین سال وقف کریں.ساتواں مطالبہ وقف برائے تین ماہ کریں اور ملازم پیشہ احباب اپنے خرچ پر جماعتوں میں جائیں.آٹھواں مطالبہ پینشنر (pensioner) افراد خدمت دین کے لیے وقف کریں.نواں مطالبہ: جماعت کے افراد ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.دسواں مطالبہ اپنی جائیداد میں سے عورتوں کو ان کا شرعی حصہ ادا کریں.گیارھواں مطالبہ: مخلوق خدا کی خدمت کی جائے.بارہواں مطالبہ:.ہر احمدی امانت داری کی عادت ڈالے کسی کی امانت میں خیانت نہ کرے.(سوانح فضل عمرؓ جلد 3 صفحہ 306 تا 317) 386 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے فرمودات کی روشنی میں تحریک جدید کے ثمرات: حضور جماعت کی قربانی اور مطالبات کی تعمیل پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”دنیا میں تو یہ جھگڑے ہوتے ہیں کہ میاں بیوی کی لڑائی ہوتی ہے تو بیوی کہتی ہے کہ مجھے زیور بنوا دو اور میاں کہتا ہے میں کہاں سے زیور بنوا دوں میرے پاس تو روپیہ ہی نہیں، لیکن میں نے اپنی جماعت میں سینکڑوں جھگڑے اس قسم کے دیکھے ہیں کہ بیوی کہتی ہے میں اپنا زیور خدا تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتی ہوں ہوں مگر میرا خاوند کہتا ہے نہ دو کسی اور وقت کام آجائے گا.غرض خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایسا اخلاص بخشا ہے کہ اور عورتیں تو زیور کے پیچھے پڑتی ہیں اور ہماری عورتیں زیور لے کر ہمارے پیچھے پھرتی ہیں.میں نے تحریک وقف کی تو ایک عورت اپنا زیور میرے پاس لے آئی.میں نے کہا میں نے سر دست تحریک کی ہے کچھ مانگا نہیں.اس نے کہا یہ درست ہے کہ آپ نے مانگا نہیں لیکن اگر کل ہی مجھے کوئی ضرورت پیش آگئی اور میں یہ زیور خرچ کر بیٹھی تو پھر میں کیا کروں گی.میں نہیں چاہتی کہ میں اس نیکی میں حصہ لینے سے محروم رہوں.اگر آپ اس وقت لینا نہیں چاہتے تو بہر حال یہ زیور اپنے پاس امانت کے طور پر رکھ لیں اور جب بھی دین کو ضرورت ہو خرچ کر لیا جائے.میں نے بہتیرا اصرار کیا کہ اس وقت میں نے کچھ مانگا نہیں مگر وہ یہی کہتی چلی گئی کہ میں نے تو یہ زیور خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا ہے اب میں اسے واپس نہیں لے سکتی.یہ نظارے غربا میں

Page 387

بھی نظر آتے ہیں اور امرا میں بھی لیکن امرا میں کم اور غربا میں زیادہ.،، الفضل 22 جون 1946 ء) : حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 1934ء کے آخر میں جماعت جو بیداری پیدا ہوئی اس کے نتیجہ میں جماعت نے ایسی غیر معمولی قربانی کی روح پیش کی جس کی نظیر اعلی درجہ کی قوموں میں بھی مشکل سے مل سکتی ہے...تحریک جدید کے پہلے دور میں احباب نے غیر معمولی کام کیا اور ہم اسے فخر کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں.مؤرخ آئیں گے جو اس امر کا تذکرہ کریں گے کہ جماعت نے ایسی حیرت انگیز قربانی کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی اور اس کے نتائج بھی ظاہر ہیں.حکومت کے اس عنصر کو جو ہمیں مٹانے کے درپے تھا متواتر ذلت ہوئی....اور احرار کو تو اللہ تعالیٰ نے ایسا ذلیل کیا ہے کہ اب وہ مسلمانوں کے سیج (stage) پر کھڑے ہونے کی جرات نہیں کر سکتے...تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سب دشمنوں کو ایسی سخت شکست دی ہے کہ حکام نے خود اس کو تسلیم کیا ہے.“ الفضل 15 نومبر 1938ء و سوانح فضل عمر جلد 3 صفحہ 324 و 325) تحریک جدید کے مختلف مطالبات پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں جو با برکت انقلاب جماعت میں پیدا ہوا اس کا ذکر کرنے کے بعد حضور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وو یہ سب فتوحات جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں حاصل ہوئیں، ہمارا مقصد نہیں، ہمارا مقصد ان سے بہت بالا ہے اور اس میں کامیابی کے لیے ابھی بہت قربانیوں کی ضرورت ہے.“ الفضل 15 نومبر 1938ء و سوانح فضل عمر جلد 3 صفحہ 324 و 325) اس تحریک (تحریک جدید) کے پہلے دور کی میعاد دس سال تھی...اس دور میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جس قربانی کی توفیق دی ہے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس نے اس عرصہ میں جو چندہ اس تحریک میں دیا وہ تیرہ چودہ لاکھ روپیہ بنتا ہے اور اس روپیہ سے جہاں ہم نے اس دس سال کے عرصہ میں ضروری اخراجات کئے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ریزرو فنڈ (reserve fund ) بھی قائم کیا ہے اور اس ریز رو فنڈ (reserve fund کی مقدار 280 مربع زمین ہے.اس کے علاوہ بھی ایک سو مربع زمین ایسی ہے جس میں سے کچھ حصہ کے خریدنے کا ابھی وقت نہیں آیا.کچھ حصہ گو خریدا تو گیا ہے مگر اس پر ابھی قرض ہے اسے اگر شامل کر لیا جائے تو کل رقبہ 380 مربع ہو جاتا ہے...اس دوران میں تحریک جدید کے ماتحت ہمارے مبلغ جاپان (Japan) میں گئے ، تحریک جدید کے ماتحت چین (China) میں مبلغ گئے ، تحریک جدید کے ماتحت سماٹرا (Smatra) اور جاوا (Jawa ) میں مبلغ گئے اور اس تحریک کے ماتحت خدا تعالیٰ کے فضل سے سپین (Spain)، اٹلی (Italy)، ہنگری (Hungary)، پولینڈ (Poland)، البانیہ (Albania)، یوگو سلاویہ (Yugoslavia) اور امریکہ (America) میں بھی مبلغ گئے اور افریقہ (Africa) کے بعض ساحلوں پر بھی اسی تحریک کے ماتحت مبلغ گئے اور ان مبلغین کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور سلسلہ سے لاکھوں لوگ روشناس ہوئے.“ تحریک جدید کا ایک اور ثمر احرار کے انجام کی پیشگوئی: الفضل 28 نومبر 1934 ء و سوانح فضل عمر جلد 3.صفحہ 325) دعاؤں، انابت الی اللہ، تزکیۂ نفس، اسلامی تمدن و طریق کے مطابق زندگی بسر کرنے یعنی تحریک جدید کی الہامی و انقلابی 387

Page 388

سکیم (scheme) پر عمل کرنے سے مخالفت کے طوفان کا رُخ کس طرح تبدیل ہوا اس کے بارہ میں حضرت خض میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: احرار میرے مقابل پر اٹھے، احرار کو بعض ریاستوں کی بھی تائید حاصل تھی کیونکہ کشمیر کمیٹی کی صدارت جو میرے سپرد کی گئی تھی اس کی وجہ سے کئی ریاستوں کو یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ اس زور کو توڑنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی اور ریاست کے خلاف کھڑے ہو جائیں....احرار نے 1934ء میں شورش شروع کی اور اس قدر مخالفت کی کہ تمام ہندوستان کو ہماری جماعت کے خلاف بھڑکا دیا.اس وقت مسجد میں منبر پر کھڑے ہو کر میں نے ایک خطبہ میں اعلان کیا کہ تم احرار کے فتنہ سے مت گھبراؤ ! خدا مجھے اور میری جماعت کو فتح دے گا کیونکہ خدا نے مجھے جس راستہ پر کھڑا کیا ہے وہ فتح کا راستہ ہے جو تعلیم مجھے دی ہے وہ کامیابی تک پہنچانے والی ہے اور جن ذرائع کو اختیار کرنے کی اس نے مجھے توفیق دی ہے وہ کامیاب و بامراد کرنے والے ہیں.اس کے مقابلہ میں زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں سے نکل رہی ہے اور میں ان کی شکست کوان کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں.وہ جتنے زیادہ منصوبے کرتے اور اپنی کامیابی کے نعرے لگاتے ہیں اتنی ہی نمایاں مجھے ان کی موت دکھائی دیتی ہے.“ تحریک جدید کے مزید ثمرات: الفضل 30 مئی 1935 ء و سوانح فضل عمر جلد 3 صفحہ 295) اللہ کے فضل و کرم سے تحریک جدید کے ثمرات جاری وساری ہیں.30 جولائی 2005 ء کے جلسہ برطانیہ میں حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان ترقیات کے اعداد و شمار بیان فرمائے جو مختصراً تحریر ہیں: جماعت کا امسال تک نئے ممالک میں نفوذ = 181 ممالک کل بیوت الذکر کی تعداد 13 ہزار 776 بیوت (صرف ایک سال میں 319 نئی بیوت ملی ہیں) (1984ء سے تا حال) تراجم قرآن کریم = کل 60 زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں امسال 2005 ء میں 2لاکھ سے زائد افراد جماعت میں داخل ہوئے وقف جديد ایک اور بابرکت تحریک: الفضل 5 اگست 2005ء) جماعت کی مالی جہاد اور قربانیوں کی تاریخ نہایت شاندار اور قابل رشک ہے.اس عظیم مثالی کارنامہ کے پیچھے حضرت ت مصلح موعود کی ولولہ انگیز قیادت کا کسی قدر تذکرہ تحریک جدید کے ضمن میں ہو چکا ہے تحریک جدید کا اجرا 1934 ء میں ہوا جبکہ حضرت خليفة أمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی جوانی کا زمانہ اور شدید طوفانی مخالفت کی وجہ سے جماعت کے اندر غیر معمولی جوش و جذبہ کا زمانہ تھا.1958ء میں جبکہ حضور ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ) ایک ایسے خوفناک قاتلانہ حملہ سے دوچار ہو چکے تھے جس میں نادان دشمن کا وار شہ رگ سے چھوتے ہوئے اور اپنے اثرات چھوڑتے ہوئے نکل گیا تھا اس حملہ کے نتیجہ میں حضور (حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ) ایک انتہائی تکلیف دہ اعصابی بیماری میں مبتلا ہو چکے تھے مگر عمر کی زیادتی، بیماری کی شدت، ذمہ داریوں کے ہجوم میں ہمارا یہ خدا رسیدہ قائد ایک عجیب شان کے ساتھ جماعت کی روحانی ترقی اور تربیت کے لیے ایک نہایت 388

Page 389

پروگرام اس جماعت کے سامنے پیش کرتا ہے جو تقسیم وطن کے نتیجہ میں ایک بہت بڑے دھکے کو برداشت کر کے نئے سرے سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں مصروف ہے اور ایک دفعہ پھر دنیا پر یہ ثابت کر دیتا ہے کہ خدائی تائید یافتہ اولیاء اللہ کی شان دنیوی لیڈروں اور خود ساختہ پیروں سے کتنی مختلف اور ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے.اس سکیم کی اہمیت و فادیت کی اندازہ حضور حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ) کے مندرجہ ذیل ارشاد سے ہوتا ہے: میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی کے نقش قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں وہ اپنی زندگیاں براہ راست میرے سامنے وقف کریں تا کہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام کرسکیں....ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں ہے لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے...پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لیے وقف کریں...اور باہر جا کر نئے ربوے اور نئے قادیان بسائیں...وہ جا کر کسی ایسی جگہ بیٹھ جائیں اور حسب ہدایت وہاں لوگوں کو تعلیم دیں.لوگوں کو قرآن کریم اور حدیث پڑھائیں اور اپنے شاگرد تیار کریں جو آگے اور جگہوں پر پہنچ جائیں.“ افضل 6 فروری 1958 ء) حضرت خلیفہ لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں: یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہو کر رہے گا.میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لیے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں، کپڑے بیچنے پڑیں میں اس فرض کو پھر بھی پورا کروں گا.خدا تعالیٰ.....میری مدد کے لیے فرشتے آسمان سے اُتارے گا.“ ( الفضل 7 جنوری 1958ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس انجمن کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: ”پشاور سے کرچی تک رُشد و اصلاح کا جال پھیلا یا جائے بلکہ اصلی حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم نے رُشد و اصلاح کے لحاظ سے مشرقی اور مغربی پاکستان کا گھیراؤ کرنا ہے تو اس کے لیے ہمیں ایک کروڑ روپے سالانہ سے بھی زیادہ کی ضرورت ہے.“ وقف جدید کے ثمرات: (سوانح فضل عمر جلد 3.صفحہ 347 تا 350) اس امر کا اندازہ کہ وقف جدید کس حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہے اور دیہاتی جماعتوں پر اس کے کیا خوش کن اثرات ظاہر ہو رہے ہیں مندرجہ ذیل امور سے لگایا جا لگایا جا سکتا ہے: ر چندوں میں غیر معمولی اضافہ: معلمین کے ذریعہ دو طرح پر جماعتی چندوں میں اضافہ ہوتا ہے.اوّل ان کی تربیت کے نتیجہ میں جماعت میں قربانی کی روح ترقی کرتی ہے اور جماعتی چندوں پر بھی اس کا نہایت خوشگوار اثر پڑتا ہے.مثلاً ایک جماعت کے پریذیڈنٹ (President) صاحب تحریر کرتے ہیں.389

Page 390

جماعت کے چندہ میں معلم کے آنے سے قبل بقایا در بقایا تھا.ان کے آنے سے اب %75 چندہ ادا ہو چکا ہے جبکہ ابھی سال کے چار پانچ ماہ باقی ہیں.“ ایک اور پریذیڈنٹ (President) معلم کی تقرری سے قبل اور بعد کا موازنہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: چندہ عام دوصد روپے صرف تھا.اب 66-1965ء کا بجٹ جس میں حصہ آمد بھی شامل ہے دو ہزار روپے دو ہے.66 دوم: چونکہ معلمین کو تاکید کی جاتی ہے کہ نو مبائعین کو فوری طور پر جماعتی چندوں میں شامل کریں ورنہ ان کے ہے ذریعے ہونے والی بیعتیں حقیقی بیعتیں شمار نہیں ہوں گی اس لیے جوں جوں مبائعین کی تعداد بڑھتی جاتی چندوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے.اس ضمن میں ایک سیکرٹری مال نے جو اعداد و شمار بھجوائے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت کا چندہ عام کا کل سالانہ بجٹ 4907 رو.روپے 40 پیسے ہے جس میں 1215 روپے بجٹ ان نو مبائعین کا ہے جو وقف جدید کے ذریعہ سلسلہ میں داخل ہوئے، یہی نہیں بلکہ وہ لکھتے ہیں کہ اس بجٹ میں 725 روپے 50 پیسے کی وہ رقم بھی شامل ہونی چاہئے جو بعض نو مبائعین کی نقل مکانی کی وجہ سے دوسری جماعتوں میں منتقل کی گئی گویا چار ہزار نو سو سات روپے میں سے ایک ہزار نو سو چالیس روپے صرف نو مبائعین کا بجٹ ہے.فالحمد للہ علی ذلک.ب.نماز باجماعت کا قیام: اس اہم دینی فریضہ کی سر انجام دہی میں معلمین کو خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ حیرت انگیز کامیابی ہو رہی ہے.مختلف صدر صاحبان اور اُمرا کی طرف سے اس بارہ میں بیسیوں خوشنودی کا اظہار موصول ہوتے ہیں.مثال کے طور پر ایک بڑی جماعت کے صدر صاحب لکھتے ہیں: نماز باجماعت کے قیام میں معلم نے مختلف کوششوں کے طریق جاری رکھے.مثلاً صبح نماز کے وقت گاؤں میں بلند آواز سے درود شریف پڑھنا...معلم صاحب کے آنے سے پہلے تقریباً ساری جماعت ہی بے جماعت سمجھ لیں کیونکہ خاکسار اگر گھر پر ہوتا تو نماز ہو جاتی.اگر کا کسار گھر پر نہ ہوتا تو نماز باجماعت نہ ہوتی لیکن محترم معلم صاحب کے آنے سے یہ بیماری دور ہو گئی اور باقاعدہ نماز با جماعت ہونے لگی اور پھر نماز باجماعت ہی نہیں بلکہ نماز تہجد با جماعت کا سلسلہ بھی جاری رہنے لگا اور اس دوران میں ایک ماہ سے اوپر مستقل نماز تہجد جاری ہے.66 (سوانح فضل عمر جلد 3 صفحہ 354 و 355) ایک اور جماعت کے پریذیڈنٹ (President) صاحب مندرجہ ذیل الفاظ میں جماعت کی پہلی حالت اور بعد میں پیدا ہونے والی خوشگوار تبدیلی کا ذکر فرماتے ہیں: ” جب معلم پہلے دن یہاں ہمارے گاؤں میں تشریف لائے تو ان کو اکیلے ہی نماز ادا کرنی پڑتی.احمدی احباب کے گھروں میں جانا اور نماز کی طرف توجہ دلانا اور نماز بے جماعت اور نماز با جماعت کے متعلق تقریر کرنا اور ان کے مردہ شعور کو زندہ کرنے کے لئے کئی کئی گھنٹے وقت صرف کرنا پڑا جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج تمام مرد پانچ وقت نمازوں میں برابر شریک ہوتے اور نماز باجماعت ادا کرتے ہیں اور ہماری عورتیں بھی گھروں پر با قاعدہ نماز ادا کرتی ہیں.نماز تہجد کا شعور پیدا ہو چکا ہے.“ 390

Page 391

ج دینی تعلیم : محض نماز باجماعت کے قیام تک ہی معلمین کی سرگرمیاں محدود نہیں بلکہ نماز ناظرہ یاد کروانا، نماز کا ترجمہ سکھانا، قرآن کریم کی سورتیں حفظ کروانا اور دیگر دینی مسائل کی تعلیم دے کر ان کے ایمان اور عمل کو زیور علم - آراستہ کرنا بھی معلم کے فرائض میں داخل ہے.معلمین کی انہی نیک کوششوں سے متاثر ہو کر مختلف صدر " صاحبان ہمیں اپنی خوشنودی سے مطلع فرماتے رہتے ہیں.مثلاً ایک جماعت کے صدر لکھتے ہیں: معلم نے ساری جماعت کی نماز درست کروائی ہے اور خاص کر بچوں کی نماز کی درستگی کی ہے.جماعت کے تمام افراد کو نماز باترجمہ یاد کروائی ہے اور نماز سے متعلق تمام مسائل بھی یاد کروائے ہیں اور قرآنی دعائیں بھی یاد کروائی ہیں.ترجمہ قرآن کریم سکھایا جا رہا ہے اور دوسرے پارہ تک قرآن مجید کا ترجمہ مردوں، عورتوں اور بچوں نے پڑھ لیا ہے." ایک اور جماعت کے صدر صاحب اعداد و شمار میں معلم کے کام کی رپورٹ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: معلم کی کوشش سیارہ چودہ عورتیں اور بائیسچے نماز سیکھ چکے ہیں اور دس مرد، آٹھ عورتیں اور نو بچے نماز کر ترجمہ سیکھ چکے ہیں.“ اس وقت 200 سے زائد واقفین معلمین میدان عمل میں خدمات بجا لا رہے ہیں.“ (سوانح فضل عمره جلد 3 صفحہ 354 و 355) اللہ کے فضل و کرم سے خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں سال 2005 ء تک وقف جدید کی کل مالی وصولی اکیس لاکھ بیالیس ہزار پاؤنڈ تک پہنچ گئی ہے جو گزشتہ سال کی نسبت دو لاکھ پاؤنڈ زیادہ ہے اور وقف جدید کے شاملین کی تعداد چار لاکھ چھیاسٹھ ہزار ہے.ان میں امسال 51 ہزار افراد کا اضافہ ہوا ہے.الحمد للہ علی ذلک.(خطبه جمعه فرمودہ 6 جنوری 2006ء از حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ الفضل انٹرنیشنل مورخہ 27 جنوری تا 2 فروری 2006 ء) بعض اہم تحریکات: -1 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی چالیس روز تک خصوصی دعاؤں کی تحریک: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جماعت کی روحانی و جسمانی ترقی کیلئے یکے بعد دیگرے متعدد تجاویز و تحریکات پیش فرمائیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے مبارک معمول کے مطابق یہاں بھی دعاؤں کو اولیت کا مقام حاصل رہا.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 8 مارچ 1944 ء سے چالیس روز تک خاص دعائیں کرنے کی تحریک فرمائی اور پھر چند روز بعد ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تسبیح و تمہید اور درود شریف پڑھنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.ہر احمدی یہ عہد کرے کہ وہ روزانہ بارہ دفعہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِیمِ پڑھ لیا کرے گا اسی طرح دوسری چیز جو اسلام کی ترقی کے لیے ضروری ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کا دنیا میں وسیع ہونا ہے اور ان برکات اور فیوض کو پھیلانے کا بڑا ذریعہ درود ہے.بے شک ہر نماز میں تشہد کے وقت درود پڑھا جاتا ہے مگر وہ جبری درود ہے اور جبری درود اتنا فائدہ نہیں دیتا جتنا اپنی مرضی سے پڑھا ہوا درود انسان کو فائدہ دیتا ہے.وہ درود بے شک نفس کی ابتدائی صفائی کے لئے ضروری وو 391

Page 392

ہے لیکن تقرب الی اللہ کے حصول کے لئے اس کے علاوہ بھی درود پڑھنا چاہئے.پس میں دوسری تحریک یہ کرتا ہوں کہ ہر شخص کم سے کم بارہ دفعہ روزانہ درود پڑھنا اپنے اوپر فرض قرار دے لے....پس جو لوگ محبت اور اخلاص کے ساتھ درود پڑھیں گے وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اللہ تعالیٰ کی برکات سے حصہ پائیں گے ان کے گھر رحمتوں سے بھر دیے جائیں گے، ان کے دل اللہ تعالیٰ کے انوار کا جلوہ گاہ ہو جائیں گے اور نہ صرف ان روحانی نعما سے لطف اندوز ہوں گے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے چونکہ ان کی خواہش ہو گی کہ اسلام پھیلے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اکناف عالم تک پہنچے اس لئے وہ اپنے اس ایمانی جوش اور درد مندانہ دعاؤں کے نتیجہ میں اسلام کے غلبہ کا دن بھی دیکھ لیں گے اور سچی بات یہ ہے کہ دعائیں ہی ہیں جن سے یہ عظیم الشان کام ہو سکتا ہے.دنیوی کوششیں تو محض سہارے اور ہمارے اخلاص کے امتحان کا ذریعہ ہیں ورنہ قلوب کا تغیر محض خدا کے فضل سے ہو گا اور اس فضل کے نازل ہونے سے ہو گا اور اس فضل کے نازل ہونے میں ہماری وہ دعائیں محمد ہوں گی جو ہم عاجزانہ طور پر اس سے کرتے رہیں گے.“ (الفضل 23 مئی 1944ء) -2 خاندان مسیح موعود علیہ السلام کو وقف زندگی کی تحریک: اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے خاندان مسیح موعود علیہ السلام کو بطور خاص خدمت دین کرنے اور اس مقصد کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے کی تحریک کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”دیکھو ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے اس قدر احسانات ہیں کہ اگر سجدوں میں ہمارے ناک گھس جائیں، ہمارے ہاتھوں کی ہڈیاں گھس جائیں تب بھی ہم اس کے احسانات کا شکر نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری موعود کی نسل میں ہمیں پیدا کیا ہے اور اس فخر کے لئے اس نے اپنے فضل سے ہمیں چن لیا ہے....دنیا کے لوگوں کے لیے دنیا کے اور بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں مگر ہماری زندگی کا تو کلیۂ دین کی خدمت اور اسلام کے احیا کے لیے وقف ہونی چاہئے.“ -3 بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک: (الفضل 14 مارچ 1944ء) اسلامی معاشرہ میں غریب اور محتاج انسانوں کی مدد اور ان کی خبر گیری کی طرف بطور خاص توجہ دلائی گئی ہے.اس اسلامی حکم کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہر شخص کو اپنے اپنے محلہ میں اپنے ہمسائیوں کے متعلق اس امر کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ کوئی شخص بھوکا تو نہیں اور اگر کسی ہمسایہ کے متعلق اسے معلوم ہو کہ وہ بھوکا ہے تو اس وقت تک اس کو روٹی نہیں کھانی چاہئے جب تک وہ اس بھوکے کو نہ کھلا لے “ -4 وقف جائیداد کی مالی تحریک (الفضل 11 جون 1945ء) ہر اہم اور ضروری کام میں بنیادی طور پر مضبوط مالی حیثیت کی ضرورت ہوتی ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 392

Page 393

نے جماعت کے ایسی تربیت فرمائی کہ چندوں کی ادائیگی میں بشاشت و رغبت اور مسابقت کے جو نمونے یہاں نظر آتے ہیں ان کی مثال آج کی دنیا میں اور کہیں نہیں مل سکتی.اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے وقف جائیداد کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: " ہم میں سے کچھ لوگ جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے اپنی جائیداد کو اس صورت میں دین کے لیے وقف کردیں کہ جب سلسلہ کی طرف سے ان سے مطالبہ کیا جائے گا انہیں وہ جائیداد اسلام کی اشاعت کے لیے پیش کرنے میں قطعاً کوئی عذر نہیں ہو گا.“ (افضل 14 مارچ 1944 ء) میں نے جائیداد وقف کرنے کی تحریک کی تھی.قادیان کے دوستوں نے اس کے جواب میں شاندار نمونہ دکھایا ہے اور اس تحریک کا استقبال کیا ہے.بہت سے دوستوں نے اپنی جائیداد وقف کر دی ہے.66 (الفضل 31 مارچ 1944ء) خدا تعالیٰ کے فضل سے مخلصین جماعت نے چند گھنٹوں کے اندر اندر چالیس لاکھ کی جائیداد وقف کر دیں.5.وقف زندگی کی تحریک: خدمت دین کے لئے زندگی وقف کرنے کی اہمیت اور یہ بتانے کے بعد کہ اصل عزت خدمت دین میں ہے حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:.و بعض لوگ حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو تقریر اور تحریر کرے وہی مبلغ ہے.حالانکہ اسلام تو ایک محیط کل مذہب ہے، اس کے احکام کی تعمیل کے لئے ہمیں ہر قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے.وہی مبلغ نہیں جو تبلیغ کے لئے باہر جاتا ہے، جو سلسلہ کی جائیدادوں کا انتظام تن دہی اور اخلاص سے کرتا ہے اور باہر جانے والے مبلغوں کے لئے اور سلسلہ کے لٹریچر کے لئے روپیہ زیادہ سے زیادہ کماتا ہے وہ اس سے کم نہیں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک مبلغوں میں شامل ہے، جو سلسلہ کی عمارتوں کی اخلاص سے نگرانی کرتا ہے وہ بھی مبلغ ہے، جو سلسلہ کے لئے تجارت کرتا ہے وہ بھی مبلغ ہے، جو سلسلہ کا کارخانہ چلاتا ہے وہ بھی مبلغ ہے، جو زندگی وقف کرتا ہے اور اسے سلسلہ کے خزانہ کا پہریدار مقرر کیا جاتا ہے وہ بھی مبلغ ہے.کسی کام کی نوعیت کا خیال دل سے نکال دو اور اپنے آپ کو سلسلہ کے ہاتھ میں دے دو پھر جہاں تم کو مقرر کیا جائے گا وہی مقام تمہاری نجات اور برکت کا مقام ہو گا 6 (الفضل 31 مارچ 1944ء) نوٹ:.اللہ کے فضل سے اس وقت تقریباً 400 سے زائد واقفین مبلغین پاکستان و بیرونی ممالک میں خدمات بجا لا رہے ہیں بہت سے ممالک کے لوکل معلمین و مشنری واقفین کی تعداد اس کے علاوہ ہے.-6 کالج فنڈ (College Fund) کی تحریک: جماعت کے نوجوانوں کی علمی و تربیتی ضروریات کو بہتر رنگ میں پورا کرنے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپیہ چندہ کی تحریک فرمائی اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس مد میں گیارہ ہزا ر چندہ ادا کیا.(الفضل 23 مئی 1944ء) 393

Page 394

7.ماہرین علوم پیدا کر نے کی تحریک: اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے آپ کو روحانی لحاظ سے مالدار بنانے کی کوشش کرو، تم میں سینکڑوں فقیہ ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں محدث ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں مفسر ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں علم کلام کے ماہر ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں علم اخلاق کے ماہر ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں علم تصوف کے ماہر ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں منطق اور فلسفہ اور فقہ اور لغت کے ماہر ہونے چاہئیں تاکہ جب ان سینکڑوں میں سے کوئی شخص فوت ہو جائے تو تمہارے پاس ہر علم اور ہرفن کے 499 عالم موجود ہوں.....ہمارے لیے یہ خطرہ کی بات نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ اول بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا مولوی عبدالکریم صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا مولوی برہان الدین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا حافظ روشن علی صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا قاضی امیرحسین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا میر محمد اسحاق صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے بلکہ ہمارے لیے خطرہ کی بات یہ ہے کہ جماعت کسی وقت بحیثیت جماعت مر جائے اور ایک عالم کی جگہ ہمیں اپنی جماعت میں دکھائی نہ دے.“ رپورٹ مجلس مشاورت 1944ء - صفحہ 174 تا178) 8- حفظ قرآن و تبلیغ کی تحریک حفظ قرآن کی طرف حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو خاص توجہ تھی اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے متعدد تجاویز جاری فرمائیں اور جماعت کو اس سعادت سے بہرہ اندوز ہونے کی تلقین فرمائی.( الفضل 26 جولائی 1944 ء) دیوانہ وار تبلیغ کی تحریک فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”دنیا میں تبلیغ کرنے کے لیے ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مبلغ کہاں سے آئیں اور ان کے اخراجات کون برداشت کرے؟ میں نے بہت سوچا ہے مگر بڑے غور وفکر کے بعد میں سوائے اس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ جب تک وہی طریق اختیار نہیں کیا جائے گا جو پہلے زمانوں میں استعمال کیا گیا تھا.اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.حضرت مسیح ناصری نے اپنے حواریوں سے کہا کہ تم دنیا میں نکل جاؤ اور تبلیغ کرو اور جب رات کا وقت آئے تو جس بستی میں تمہیں ٹھہرنا پڑے اس بستی میں رہنے والوں سے کھانا کھاؤ اور پھر آگے چل دو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑی حکمت سے یہ بات اپنی اُمت کو سکھائی ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بستی پر باہر سے آنے والے کی مہمان نوازی تین دن فرض ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کے طریق کی طرف ہی اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے اگر تم کسی بستی سے تین دن کھانا کھاتے ہو تو یہ بھیک نہیں ہاں اگر تین دن سے زائد ٹھہر کر تم ان سے کھانا مانگتے ہو تو یہ بھیک ہو گی.اگر ہماری جماعت کے دوست بھی اسی طرح کریں کہ وہ گھروں سے تبلیغ کے لئے نکل کھڑیں ہوں ایک ایک گاؤں اور ایک ایک بستی اور ایک ایک شہر میں تین تین دن ٹھہرتے جائیں اور تبلیغ کرتے جائیں.اگر کسی گاؤں والے لڑیں تو جیسے حضرت مسیح ناصری نے کہا تھا وہ اپنے پاؤں سے خاک 394

Page 395

جھاڑ کر آگے نکل جائیں تو میں سمجھتا ہوں تبلیغ کا سوال ایک دن میں حل ہو جائے گا.“ ( الفضل 21 دسمبر 1944 ء) 9.نماز تہجد پڑھنے کی تحریک: ذکر الہی، نوافل اور نماز تہجد کی ادائیگی کی تحریک حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ ہمیشہ ہی فرماتے تھے.اس بابرکت دور میں نوجوانوں کو خصوصیت سے اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ” خدام کا فرض ہے کہ کوشش کریں سو فیصدی نوجوان نماز تہجد کے عادی ہوں یہ ان کا اصل کام ہو گا جس سے سمجھا جائے گا کہ دینی روح ہمارے نوجوانوں میں پید اہو گئی ہے.باقاعدہ تہجد پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ سو فیصدی تہجد گزار ہوں الا ماشاء اللہ سوائے ایسی کسی صورت کے جو مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کر سکیں اور خدا تعالیٰ کے حضور ایسے معذور ہوں کہ اگر فرض نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا نہ کر سکیں تو قابل معافی ہوں.“ 10.سات مراکز قائم کرنے کی تحریک: (الفضل 7 جولائی 1944ء) تبلیغ اسلام کو زیادہ منتظم و مئوثر طور پر کرنے کے لئے حضور نے ہندوستان کے مندرجہ ذیل سات اہم شہروں میں مساجد تعمیر کرنے اور تبلیغی مراکز قائم کرنے کی تحریک فرمائی.کراچی، مدراس، بمبئی، کلکتہ، دہلی، لاہور اور پیشاور.( افضل 4 اگست 1944 ء) یہ تو ابتدا تھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ان سات شہروں کے علاوہ اور بھی قریباً ہر شہر اور قصبہ میں ایسے مراکز قائم ہو چکے ہیں جہاں جماعت کے قیام کے الہی اغراض و مقاصد کے حصول کی خاطر مخلصین جماعت بڑی توجہ اور محنت سے سر گرم عمل ہیں.11.قرآن مجید اور بنیادی لٹریچر کے تراجم کی تحریک: انگریزی زبان میں ترجمہ کا کام تو جماعت میں ہو رہا تھا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس مبارک دور میں اس کے علاوہ دنیا کی مشہور سات زبانوں میں قرآن مجید اور بعض دوسری بنیادی اہمیت کی کتب کے تراجم شائع کرنے کی تحریک فرمائی اور حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اطالوی (Italian) زبان میں ترجمہ کا خرچ میں ادا کروں گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ چونکہ پہلے مسیح کا خلیفہ کہلانے والا (پوپ (Pope).ناقل) اٹلی (Italy) میں رہتا ہے اس مناسبت سے قرآن مجید کا جو ترجمہ اطالوی زبان میں شائع ہو وہ مسیح محمدی کے خلیفہ کی طرف سے ہونا چاہئے.“ اس تحریک پر جماعت نے عجیب والہانہ رنگ میں لبیک کہا اس پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ ادھر بات منہ سے نکلتی ہے اور اُدھر پوری ہو جاتی ہے.باوجود خطبہ کے دیر سے شائع ہونے کے چھ دن کے اندر سات زبانوں کے تراجم کے اخراجات کے وعدے آگئے نو تراجم کے اخراجات کے وعدے آچکے ہیں یہ خدا کا کتنا بڑا فضل اور انعام ہے کہ جماعت کے ایک تھوڑے سے حصہ نے نہایت قلیل عرصہ میں مطالبہ سے بڑھ کر وعدے پیش کر دیئے ہیں، خاص کر قادیان کی غریب جماعت نے اس تحریک میں بڑا حصہ لیا.“ وو الفضل 4 نومبر 1944 ء و سوانح فضل عمر جلد 3.صفحہ 376 تا383) 395

Page 396

تحریکات خلافت ثالثه : حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمی اللہ تعالی کی پہلی بابرکت تحریک فضل عمر فاؤنڈیشن: تحریک کا پس منظر: 1965ء کے تاریخی جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تکمیل میں حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب حج عالمی عدالت نے 19 دسمبر کو احباب کے سامنے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بے مثال کارناموں اور عظیم الشان ان گنت احسانوں کی یاد گار کے طور پر پچیس لاکھ روپے کا ایک فنڈ قائم کرنے اور اس میں بڑھ چڑھ کر رقوم پیش کرنے کی تحریک کی.“ فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک کا اعلان: جدید، وقف جدید جلسہ سالانہ 1965ء کے اختتامی خطاب میں 21 دسمبر کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کل مخدومی و محترمی چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے احباب جماعت کی خدمت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی یاد میں ایک فنڈ قائم کرنے کی تحریک کی تھی اب مشورہ کے بعد اس فنڈ کا نام ”فضل عمر فاؤنڈیشن تجویز ہوا ہے.اس فنڈ سے بعض ایسے کام لئے جائیں گے جن سے حضور (حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ) کو خاص دلچسپی تھی اس میں شک نہیں کہ موجودہ شکل میں صدر انجمن احمدیہ، تحریک انصار الله، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمديه، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کی جو ذیلی تنظیمیں حضور (حضرت مصلح رضی اللہ عنہ) نے جماعت میں قائم فرمائی ہوئی ہیں وہ سب حضور (حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ) کی یاد گار ہیں اور جب تک یہ قائم ہیں اور جب تک ان تنظیموں کے اچھے اور خوشکن نتائج نکلتے چلے جائیں گے اس وقت تک حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کا نام اور کام بھی زندہ رہے گا اور دنیا عزت سے حضور (حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ) کو یاد کرتی رہے گی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم حضور (حضرت مصلح موعود موعود رضی اللہ عنہ) کی یاد میں صدقہ جاریہ کے طور پر نئی سکیمیں جاری نہ کریں اس لیے میں دوستوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی تمام مالی قربانیوں پر قائم رہتے ہوئے اور ان میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر بشاشت قلب کے ساتھ محض رضائے الہی کی خاطر اس فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیں اور ساتھ ہی دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ اس فنڈ کو بابرکت کرے اور اس کے اچھے نتائج کا ثواب حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کو بھی اور ہمیں بھی پہنچائے.“ الفضل 24 فروری 1966 ء و حیات ناصر جلد اول - صفحہ 512 تا513 از محمود مجیب اصغر صاحب) تحریک فضل عمر فاؤنڈیشن کے ثمرات: اللہ تعالی کی خاص تائید و نصرت 396

Page 397

اس تحریک کے جاری کرنے کے چند ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسح الثالث رحمہ اللہ کو بذریعہ اطلاع دی: تینوں اینا دیواں گا کہ تو رج جاویں گا حضور (حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) کے علاوہ جماعت کے بعض دوستوں کو بھی بشارتیں ملیں.حضور (حضرت خلیفہ لمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر کر تے ہوئے ایک اور موقع پرفرمایا: ایک دوست کو خواب میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نظر آئے....آپ (حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ) نے اس دوست کو کہا کہ اس کو یعنی مجھے یہ پیغام پہنچا دو کہ فضل عمر فاؤنڈیشن سے منارہ ضرور بنایا جائے اور منارہ کی تعبیر ایسے شخص کی ہوتی ہے جو اسلام کی طرف دعوت دینے والا ہو اور اس کا مطلب یہ تھا کہ فضل عمر فاؤنڈیشن سے جید عالم ضرور پیدا کئے جائیں اس سے بے توجہی نہ برتی جائے.بہت سی اور خواہیں بھی دوستوں نے دیکھی ہیں...ہم نے فیصلہ کیا کہ اس فنڈ کی رقم یعنی جو سرمایہ ہے اس کو خرچ نہیں کیا جائے گا بلکہ جن مقاصد کے پیش نظر فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام کیا گیا ہے ان کو پورا کر نے کے لیے جس قدر روپیہ کی ہمیں ضرورت پڑے گی وہ اس فنڈ کی آمد سے حاصل کیا جائے گا.“ حیات ناصر جلد 1.صفحہ 514 تا 515) جس شوق اور جذبے سے حضرت خلیفۃ لمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کہ پہلی تحریک پر احباب جماعت نے حصہ لیا اس کی نظیر مانی مشکل ہے.اس شوق اور جذبے کی ایک جھلک مندرجہ ذیل واقعہ میں نظر آتی ہے جو ایک مجلس عرفان میں حضور (حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت کے دوران ایک مرتبہ خود بیان فرمایا: وفضل عمر فاؤنڈیشن کا جب چندہ جمع ہو رہا تھا تو ایک دن ملاقاتیں ہو رہی تھیں.مجھے دفتر نے اطلاع دی کہ ایک بہت معمر مخلص احمدی آئے ہیں وہ سیڑھی نہیں چڑھ سکتے اور حقیقت یہ تھی کہ یہاں آنا بھی ایک لحاظ سے اپنی جان پر ظلم ہی کیا تھا.چنانچہ وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کھڑے بھی نہیں ہو سکتے تھے.میں نے کہا میں نیچے ان کے پاس چلا جاتا ہوں.خیر جب میں گیا پتہ نہیں تھا کہ وہ کیوں آئے ہیں.مجھے دیکھ کر انہوں نے بڑی مشکل سے کھڑے ہونے کے لیے زور لگایا تو میں نے کہا نہیں آپ بیٹھے رہیں، وہ بہت معمر تھے، انہوں نے بڑے پیار سے دھوتی کا ایک پلو کھولا اور اس میں سے دو سو روپے) اور کچھ رقم نکالی اور کہنے لگے میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے لیے لے کر آیا ہوں.پیار کا ایک مظاہرہ ہے.پس اس قسم کا اخلاص اور پیار اور اللہ تعالیٰ کے لیے قربانی کا یہ جذبہ ہے کہ جتنی بھی توفیق ہے پیش کر دیتے ہیں.اس سے ثواب ملتا ہے رقم سے تو نہیں ملتا.“ (حیات ناصر جلد 1.صفحہ 515تا516) تحریک کے پہلے دور کا انتقام اور حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کا اظہار تشکر : اس تحریک کا ابتدائی زمانہ ادارہ کے انتظامی امور کی تکمیل کے ساتھ ساتھ وعدوں کے حصول میں اور پھر تین سال وصولی جد و جہد میں گزرے.عطایا کی ادائیگی کی معیاد 1969ء کے آخری حصہ میں ختم ہو گئی.گو تحریک کے لیے عطایا کی حد پچیس لاکھ روپیہ مقرر ہوئی تھی مگر مخلصین نے جس جذبہ فدائیت کے ساتھ حصہ لیا اس سے وصولی کے مقدار عملاً چونتیس لاکھ کے لگ بھگ پہنچ گئی.دور اول کی کامیابی پر اظہار تشکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 397

Page 398

ہے ” دل فضل عمر فاؤنڈیشن کے درخت کو پروان چڑھتا دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر کہ اس نے فاؤنڈیشن کے درخت کو حوادث سے محفوظ رکھا اور اسے پھل دینے کے قابل بنایا.دراصل اب فاؤنڈیشن کے لیے عطایا جمع کرنے کا دور ختم ہو رہا ہے اور اب دوسرا دور شروع ہو رہا ہے.یہ دوسرا دور درخت کی خاطر خواہ حفاظت کا دور ہے تا کہ یہ درخت خدا تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ پھل دیتا چلا جائے.دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام: (25 مئی 1969ء بحوالہ سالانہ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن و حیات ناصر جلد 1 صفحہ 516 تا517) سب سے پہلا کام فضل عمر فاؤنڈیشن کے دفتر کا قیام کے قیام کا تھا.صدر انجمن احمدیہ کے احاطہ میں نوے سال کے لیے زمین پٹہ (Lease) پر لے کر دفتر کی عمارت تعمیر کی گئی ، حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے 6 اگست 1966ء کو دفتر کی بلڈنگ کا سنگِ بنیاد رکھا اور 15 جنوری 1967ء کو فاؤنڈیشن کے صدر چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب نے دفتر کا افتتاح فرمایا.فضل عمر فاؤنڈیشن کے چند مزید ثمرات حیات ناصر جلد 1 صفحہ 518 حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 4 جولائی 1980 ء کو مسجد نور فرینکفورٹ (Frankfurt West Germany) میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”سب سے پہلے میری طرف سے فضل عمر فاؤنڈیشن کا منصوبہ پیش ہوا جماعت نے اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق اس میں حصہ لیا.اس کے تحت بعض بنیادی نوعیت کے کام انجام دیئے گئے یہ گویا ابتدا تھی ان منصوبوں کی جو اخدائی تدبیر کے ماتحت غلبہ اسلام کے تعلق میں جاری ہوئے تھے.“ چنانچہ جو بنیادی کام اس فنڈ کی آمد کے سرمایہ سے سر انجام دیئے گئے ان کا تعلق زیادہ تر ان کاموں سے ہے جن سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو خاص دلچسپی تھی اور وہ درج ذیل ہیں: ( )) سوانح فضل عمر : جس مقدس وجود کی یاد میں فضل عمر فاؤنڈیشن قائم کی گئی تھی اس کی سوانح پر کسی مستند کتاب کا ہونا ضروری تھا چنانچہ یہ لکھنی کام فاؤنڈیشن نے اپنے ذمہ لیا اور ایک نگران بورڈ کے مشوروں سے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (جو بعد میں خلافت رابعہ کے منصب جلیلہ سے سرفراز ہوئے) نے لکھنی شروع کی.اس کا پہلا حصہ خلافت ثالثہ میں شائع ہوا دوسرے حصہ کا مسودہ خلافت ثالثہ میں مکمل ہوا لیکن اشاعت بعد میں ہوئی.(حیات ناصر جلد 1.صفحہ 518 تا519) نوٹ:.اور اب مزید اسی فاؤنڈیشن کے تحت خلافت رابعہ میں سوانح فضل عمر کی پانچ جلدیں شائع ہو چکی ہیں جو کہ اسی تحریک کا ثمرہ ہے.398

Page 399

(ب) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تقاریر و خطبات: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی بشارت وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ کے مطابق اپنے باون سالہ دور خلافت میں بے شمار علمی جواہر پارے اپنی یادگار چھوڑے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بے شمار تقاریر و خطبات باون سال سے زائد کی اخباروں اور رسالوں میں بکھرے پڑے ہیں ان سب کو اکٹھا کر کے محفوظ رکھنے کا کام اس فاؤنڈیشن کے بنیادی کاموں میں سے ہے.اس سلسلہ میں خطبات محمود کے نام سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات اور تقاریر کی تدوین واشاعت کا کام فاؤنڈیشن کر رہی ہے.اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تصانیف انوار العلوم کے نام سے سیٹ کی شکل میں شائع کی جا رہی ہیں.حیات ناصر جلد 1 صفحہ 519) نوٹ: اللہ کے فضل و کرم سے اس فاؤنڈیشن کے تحت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تقاریر و تصانیف آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز سے 1944 ء تک کی تقاریر کتب پر مشتمل: (i) انوار العلوم کی سترہ (17) جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے، (ii) اس طرح خطبات محمود پر مشتمل خطبات جمعہ و عیدین و خطبات نکاح جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے آغاز سے 1934ء تک کے دور کا احاطہ کرتے ہیں، کی پندرہ جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور ابھی یہ سلسلہ بھی جاری ہے.(iii) مزید حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر کبیر کی 10 جلدوں میں اشاعت اور مختصر تفسیری نوٹس پر مبنی اور (iv) تفسیر صغیر کی اشاعت بھی اسی فاؤنڈیشن کا کارنامہ ہے.(ج) خلافت لائبریری حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جماعت کے پاس لائبریری کی کتب تو تھیں لیکن ایک وسیع بلڈنگ کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ایک جدید لائبریری کی وسیع عمارت اس فاؤنڈیشن کے ذریعے تعمیر کی گئی جس پر پہلے سوا چار لاکھ روپے خرچ آیا پھر اس کی مزید توسیع کی گئی جس پر مزید آٹھ لاکھ روپے خرچ ہوئے.فاؤنڈیشن (Foundation) نے لائبریری آرمیٹلٹس (Laibrary Architects) سے باقاعدہ ڈیزائن کروا کر ایک شاندار عمارت کی شکل میں تعمیر کروائی اور اسے جدید فرنیچر اور جدید آلات سے مزین کیا گیا.اس عمارت کا سنگ بنیاد حضرت خليفة أسبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک سے 18 جنوری 1970 ء کو رکھا گیا اور اس کا افتتاح بھی حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہی فرمایا جو 3 اکتوبر 1971ء کو عمل میں آیا.فاؤنڈیشن نے یہ لائبریری معہ فرنیچر مدر انجمن احمدیہ کے رد کر دی.اس لائبریری کا پہلا نام محمود لائبریری" رکھا گیا جسے بدل کر ” خلافت لائبریری“ کر دیا گیا.ابتدا میں اس لائبریری کی گنجائش پچاس ہزار کتب تھی لیکن اب اس میں ایک لاکھ تمیں ہزار سے زائد کتب موجود ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لائبریری کی اہمیت کے بارہ میں فرمایا تھا.سپرد " صدر یہ اتنی اہم چیز ہے کہ ہمارے سارے کام اس سے وابستہ ہیں.تبلیغ اسلام، مخالفوں کے اعتراضات کے جوابات، تربیت یہ سب کام لائبریری سے ہی متعلق رکھتے ہیں....لائبریری کے متعلق میرے نزدیک سلسلہ سے 399

Page 400

66 بہت بڑی غفلت ہوئی ہے لائبریری ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی تبلیغی جماعت اس کے بغیر کام نہیں کر سکتی.“ غرض فضل عمر فاؤنڈیشن کے ذریعہ مرکز سلسلہ میں ایک جدید لائبریری کا فراہم کرنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عنہ كمان اہم کاموں سے تھا جن سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو خاص دلچسپی تھی اور جن کو پورا کر نے کا عزم نافلہ موعود خلیفۃ المسیح الثالث رضی اللہ عنہ نے کیا تھا.حیات ناصر جلد 1.صفحہ 520) (د) انعامی مقالہ جات: اس کے لئے فاؤنڈیشن نے ہر سال علمی تحقیقی انعامی مقالہ جات لکھوانے کا سلسلہ شروع کیا جس کا مدعا علمی ذوق پیدا کرنا اور کتب تصنیف کرنے کی اس جامع سکیم پر عملدرآمد کرنا تھا جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1949ء میں احباب جماعت کے سامنے رکھی تھی.اول انعام حاصل کر نے والے کو ایک ہزار روپے سے اڑھائی ہزار تک کے انعامات دیئے جاتے رہے ہیں.خلافت ثالثہ کے اختتام تک ستائیس مقالہ جات پر انعامات دیئے گئے ، انعامات کی کل رقم پچاس ہزار کے لگ روپے بھنگ دی گئی.(1) سرائے فضل عمر : خلافت ثالثہ میں جلسہ سالانہ پر غیر ملکی وفود میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا ہے.غیر ملکی مہمانوں کی رہائش کے لیے مرکز سلسلہ میں کئی گیسٹ ہاؤس بنائے گئے جن میں سے ایک گیسٹ ہاؤس جو تحریک جدید کے احاطہ میں سوا گیارہ لاکھ روپے کی لاگت سے 1974ء میں تعمیر ہوا اور ”سرائے فضل عمر کے نام سے موسوم ہے فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت تعمیر ہوا.اس کاسنگ بنیاد حضرت خليفة اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 30 جنوری 1974ء کو اپنے دست مبارک سے رکھا تھا.اس گیسٹ ہاؤس میں ائر کنڈیشنرز اور پانی گرم کرنے کے لئے گیزر بھی نصب کئے گئے ہیں اور یہ گیسٹ ہاؤس جدید قسم کی سہولتوں سے مزین ہے.(و) ٹرانسلیشن بوتھ (Translation Booth): غیر ملکی مہمانوں کو جلسہ سالانہ پر اصل تقریر کے ساتھ ساتھ ان کے تراجم سنانے کی دقت محسوس کی جارہی تھی.غیر ملکی مہمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش فرمائی کہ ترجمانی کے لئے آلات نصب کر کے غیر ملکیوں کو سہولت دی جائے.اس پر بعض مخلص انجینئرز کی کوششوں سے ڈیزائن تیار کر لیا گیا.یوں 1980ء کے جلسہ سالانہ پر پہلی مرتبہ یہ آلات نصب کر کے دو زبانوں میں تراجم سنوانے کا بندو بست کیا گیا جن میں سال بہ سال اضافے کی گنجائش رکھی گئی.چنانچہ جلسہ سالانہ 1980ء پر زنانہ مردانہ دونوں جلسہ گاہوں میں انگلش اور انڈونیشین تراجم سنوائے گئے اور سلسلہ بعد میں بھی اضافے کے ساتھ جاری ہے.ترجمانی کے نظام کے لیے آلات کے ڈیزائن کا کام تو انجینئروں نے رضا کارانہ طور پر کیا لیکن آلات کی قیمت کے لئے ایک لاکھ روپے کا ابتدائی سرمایہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے فراہم کیا.(ز) لٹریری کمیٹی (Literary Committee): فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت ایک لٹریری کمیٹی (Literary Committee) قائم کی گئی جو جماعت کی علمی ترقی کے لئے 400

Page 401

تجاویز پیش کرتی ہے.(ح) متفرق مصارف اس فنڈ کے متفرق مصارف درج ذیل ہیں: -1 -2 -3 -4 اعلیٰ سائنسی تعلیم کے لئے وظائف کی فرہمی جامعہ احمدیہ کے لئے 80 (اسی) ہزار روپے کی لاگت سے فوٹو سٹیٹ مشین ( Photostat) فرانسیسی (French) ترجمہ قرآن کے لیے معاونت بعض دیگر جماعتی ضروریات میں معاونت (حیات ناصر جلد 1.صفحہ 521 تا525) نصرت جہاں سکیم“ ایک انقلاب انگیز تحریک: حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کی مغربی افریقہ سے پاکستان واپسی لندن کے راستے ہوئی اور حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس تحریک کا اعلان پہلے لندن میں فرمایا اور پھر پاکستان پہنچ کر 12 جولائی 1970ء کو ربوہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور نصرت جہاں سکیم کے پس منظر اور لندن میں تحریک کے اعلان اور اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے میرے اپنے پروگرام نہیں رہنے دیئے بلکہ بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ یہ وقت ہے کہ تم کم سے کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ بڑی برکت ڈالے گا اور بہت بڑے اور اچھے نتائج نکلیں گے میرے آنے کے بعد مولویوں نے بڑی مخالفت شروع کر دی ہے اور میں بہت خوش ہوں کیونکہ اس آگ میں تو ہم نے تو بہر حال گزرنا ہے ہمارے لئے یہ پیشگوئی ہے کہ آگ تمہارے لئے ضرور جلائی جائے گی جو الہام میں ہے نا کہ: ”آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے اس میں دو پیشگوئیاں ہیں ایک یہ کہ تمہیں راکھ کرنے کے لئے آگ جلائی جائے گی دوسری یہ کہ وہ آگ تمہیں راکھ نہیں کر سکے گی بلکہ فائدہ پہنچانے والی ہو گی.تمہاری خدمت کرنے والی ہو گی پھر جب ہم سیرالیون میں آئے تو اور زیادہ جرأت تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے گہ دیا تھا کہ کرو خرچ! میں اچھے نتائج نکالوں گا.چنانچہ وہاں پروگرام بنائے.پھر میں لندن آیا تو میں نے جماعت کے دوستوں سے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ منشا معلوم ہوا ہے کہ ان چھ افریقی ممالک میں تو کم از کم ایک لاکھ پونڈ خرچ کرو.......اس سلسلہ میں انگلستان کی جماعتوں میں سے مجھے دو سو ایسے مخلص آدمی چاہئیں جو دو سو پونڈ فی کس کے حساب سے دیں اور باقی جو ہیں وہ چھتیس پونڈ دیں، ان میں سے بارہ پونڈ......فوری پر دے دیں.میں نے انہیں کہا کہ قبل اس کے کہ میں انگلستان چھوڑ دوں اس مد میں دس ہزار پونڈ جمع ہونے چاہئیں اور اس وقت انگلستان سے روانگی میں بارہ دن باقی تھے.چنانچہ دوستوں کے درمیان صرف دو گھنٹے بیٹھا.ایک جمعہ کے بعد اور دوسرے اتوار کے روز جس میں اور نئے آدمی بھی آئے ہوئے تھے اور ان دو گھنٹوں میں اٹھائیس ہزار پونڈ کے وعدے ہو گئے اور تین اور چار ہزار پونڈ کے درمیان نقد جمع ہو گئے تھے.میں نے پھر اپنے سامنے نیا اکاؤنٹ کھلوایا اور اس کا نام ” نصرت جہاں ریزرو فنڈ رکھا ہے........میں نے جمعہ طور 401

Page 402

کے خطبہ میں انہیں کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا منشا ہے کہ ہم یہ رقم خرچ کریں اور ہسپتالوں اور سکولوں کے لئے ڈاکٹر اور ٹیچر چاہئیں وہاں مہیا کریں......مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ یہ رقم آئے گی یا نہیں یا آئے گی تو کیسے آئے گی؟ یہ مجھے یقین ہے کہ ضرور آئے گی اور نہ یہ خوف ہے کہ کام کرنے کے لئے آدمی ملیں گے یا نہیں ملیں گے.یہ ضرور ملیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ کام کرو.خدا کہتا ہے تو یہ اس کا کام ہے لیکن جس چیز کی مجھے فکر ہے وہ آپ کو بھی فکر کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ محض خدا کے حضور قربانی دے دینا کسی کام نہیں آتا جب تک اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول نہ کر لے.“ نصرت جہاں سکیم کے ثمرات: (حیات ناصر جلد 1.صفحہ 527 تا530) ہے.حضرت خلیفة أمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دل میں مغربی افریقن ممالک کی خدمت کے لئے خرچ کر نے کا جو القاء گیمبیا کے مقام پر ہوا اور جو منصوبہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو سمجھایا اس کا نام حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شریک حیات سیدہ نصرت جہاں بیگم کے نام پر نصرت جہاں آگے بڑھو منصوبہ“ رکھا حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ”میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہو گی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاول کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہانوں کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے.“ غرض یہ وہ منصوبہ ہے جو سارے جہان میں اسلام کی نصرت کا باعث ہو گا اس لئے حضور (حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس سکیم کے لئے حضرت نصرت جہاں بیگم کے لخت جگر اور اپنے مقدس والد اور پیش رو خلیفہ کی خلافت کی مدت کے برابر رقم کی خواہش فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے حضور (حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) کی خواہش کو فرمایا.چنانچہ حضور (حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے وقت بہت سے دوستوں کا یہ خیال تھا کہ شاید میری یہ خواہش پوری نہ ہو ہو سکے گی کہ حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کے جتنے سال ہیں اتنے لاکھ رویے جمع ہو جائیں گے مگر جماعت نے اس فنڈ میں بڑی قربانی دی چنانچہ میری خواہش تو 51 لاکھ روپے کی تھی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے سالوں میں قریباً 53 لاکھ روپے جمع ہو چکے ہیں.فالحمد للہ علی ذلک ثمرات کی ایک اور جھلک: 66 نصرت جہاں سکیم کا اعلان اور چند عمائدین کی آرا پورا (حیات ناصر جلد 1.صفحہ 533 و 534) مغربی افریقہ کے عمائدین کی جماعت کے بارے میں جو رائے قائم ہو چکی ہیں ان کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے.صدر جمہوریہ سیرالیون(Sierra Leone ): صدر جمہوریہ سیرا لیون ڈاکٹر سٹیونس نے 2.دسمبر 1971ء کو احمد یہ سیکنڈری سکول بو کے معائنہ کے وقت تقریر میں خطاب 402

Page 403

کرتے ہوئے کہا: میں سب سے پہلے جماعت احمدیہ کا اس کام کے لئے جو یہ تعلیم کے میدان میں کر رہی ہے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں.اب اس جماعت نے تعلیم کے ساتھ ساتھ طبی امداد میں بھی ہماری مدد کرنی شروع کر دی ہے میں ان تمام گراں قدر خدمات کے لئے جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں.“ ریجنل کمشنر غانا (Regional Commissioner Ghana): غانا میں 1974ء میں احمد یہ ہسپتال اگونا کی نئی عمارت کا افتتاح کرنے سے قبل ریجنل کمشنر نے تقریر کرتے ہوئے کہا: میں گورنمنٹ کی طرف سے جماعت احمدیہ غانا کو دور اندیشی، عزم و ہمت اور کامیابی پر جو اس ہسپتال کی تعمیر سے ظاہر ہے اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو یہ ملک میں تعلیمی اور طبی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ادا کر رہی ہے.جماعت احمدیہ کی غانا میں سرگرمیاں دُہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ملک میں جابجا پھیلے ہوئے سکول اور ہسپتال اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ یہ جماعت اس ملک میں تعمیر نو میں کس قدر حصہ لے رہی ہے.“ حیات ناصر جلد 1.صفحہ 548) وزیر صحت گیمبیا (The Gambia) گیمبیا کے وزیر صحت و تعلیم و سماجی بہبود آنریبل الحاج گار با جاہمپا Garba Jahampa) نے احمدیہ مسجد دارالسلام ہم روز بل (Rose Hill) ماریشس (Maritius) میں ایک استقبالیہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا: اور بالخصوص یہ عاجز حضرت امام جماعت احمدیہ کا از حد شکر گزار ہے کہ جب 1970ء میں حضرت خلیفة اصیح احمد یہ مشن کے معائنہ کی غرض سے اس ملک (Gambia) میں تشریف لائے تو خاکسار اس وقت بھی صحت، تعلیم اور سماجی بہبود کا وزیر تھا.اس حیثیت سے خاکسار کو حضرت خلیفہ اسیح سے بارہا ملاقات کرنے کا موقع ملا اور ایک دعوت کے موقع پر آپ کے شریک طعام ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا.میں اس امر کا اظہار کرنے میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اسیح کی گیمبیا میں تشریف آوری ہمارے لئے بہت سود مند ثابت ہوئی.یہ آپ کی وہاں تشریف آوری کا ہی ثمرہ ہے کہ ہم خدمت خلق کے میدان میں جماعت احمدیہ کی رفاہی سرگرمیوں سے متمتع ہو رہے ہیں.نہ صرف کور میں بلکہ سالکین، گنجور، سوما اور باتھرسٹ میں.ان کا ہسپتال میری رہائش گاہ سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے.یہ سب وہ برکات ہیں جن کے ہم احمدی مسلمانوں کے جذبہ روا داری، عزم و استقلال اور ان کے قائدین کی نوازشات کی بدولت مورد ہوئے ہیں.جماعت احمدیہ کی ان طبی خدمات کے جن سے غربا متوسط طبقہ کے لوگ اور اُمرا سب مستفید ہو رہے ہیں ہم شکر گزار ہیں.ہزاروں ہزار پونڈ کی رقوم جماعت احمدیہ کی طرف سے اس ملک میں خرچ کی جائیں گی.اگر دیکھا جائے تو یہی حقیقی اسلام ہے (جس کا عملی نمونہ آج جماعت احمدیہ پیش کر رہی ہے.) خلافت رابعہ میں نصرت جہاں کے جاری ثمرات کا مختصر جائزہ مجلس نصرت جہاں کے تحت سکول: (حیات ناصر جلد 1.صفحہ 549) 403

Page 404

1985-86ء میں غانا، نائیجیریا، سیرالیون گیمبیا، لائبیریا اور یوگنڈا میں 31 ہائر سیکنڈری سکول تھے.سیکنڈری کے علاوہ پرائمری اور نرسری سکولوں کی مجموعی تعداد 174 تھی.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور مبارک میں کانگو اور آئیوری کوسٹ میں بھی سکولز کا قیام عمل میں آیا.2003ء میں مجموعی طور پر افریقہ کے 8 ممالک میں 40 ہائر سیکنڈری سکولز ، 37 جونئر سیکنڈری سکولز.238 پرائمری سکولز، 58 نرسری سکولز کام کر رہے ہیں اور کل تعداد 373 ہے.گویا کہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور ہجرت میں 199 سکولز کا اضافہ ہوا.مجلس نصرت جہاں کے تحت ہسپتال: 1985-86ء میں 7 ممالک غانا، نائیجیریا، سیرالیون، گیمبیا، لائبیریا، آئیوری کوسٹ اور یوگنڈا میں 24 ہسپتال کام کر رہے تھے.ان ممالک میں مزید وسعت کے علاوہ درج ذیل ممالک میں بھی ہسپتالوں کا اضافہ ہوا.بُرکینا فاسو، بینین، کانگو اور تنزانیہ.اور یوں اس وقت افریقہ کے 12 ممالک میں احمدیہ کلینکس اور ہسپتال کی تعداد 32 ہو چکی ہے.اس کے علاوہ جماعت احمدیہ کے انتظامات کے تحت دنیا بھر میں سینکڑوں کلینکس اور ہومیو پیتھک ڈسپنسریاں بھی کام کر رہی ہیں.اللہ کے فضل سے خلافت خامسہ میں مجلس نصرت جہاں کے تحت افریقہ کے 12 ممالک میں 37 ہسپتال اور کلینکس کام کر رہے ہیں.اور 465 ہائر سیکنڈری سکولز اور جونئیر سکولز قائم ہو چکے ہیں.موقع ( الفضل 5 اگست 2005ء وسیدنا طاہر سود نیئر مطبوعه جماعت برطانیہ - صفحہ 22) خلافت ثالثہ کی ایک اور بابرکت تحریک، صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ: احمدیت کی پہلی صدی کی تکمیل پر اظہار تشکر اور احمدیت کی دوسری صدی (جو غلبہ اسلام کی صدی ہے) کے شایان شان استقبال کی تیاری کے لیے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک جامع منصوبہ بنا کر اسے 1973ء کے جلسہ سالانہ کے پر جماعت کے سامنے پیش کیا اور اس کے دوسرے حصے یعنی تعلیمی منصوبے کا اعلان حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1979ء میں اس وقت فرمایا جب تاریخ اسلام میں آٹھ سو سال کے وقفے کے بعد پہلے احمدی مسلمان.......سائنس دان عبدالسلام نے فزکس میں دو امریکی سائنسدانوں کے ساتھ عالمی اعزاز ” نوبل انعام حاصل کیا.غلبہ اسلام کی آسمانی مہم صد سالہ جوبلی منصوبہ کے ساتھ تعلیمی منصوبے کو بھی منسلک کرنے سے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ تھا کہ: ”جب تک تعلیمی بنیاد مضبوط نہ ہو کوئی شخص علوم قرآنی.بہرہ ور نہیں ہو سکتا اور یہ کہ: ”جب انسان اپنے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جائے تو انسان کی مدد کے لئے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن ہی آئے گا.نیز یہ کہ: ”ہم اسلام کو اس وقت تک نہیں پھیلا سکتے جب تک یو رو پینوں کو تعلیم کے میدان میں شکست نہ دے دیں.“ صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے کا اعلان: حیات ناصر جلد 1.صفحہ 556) حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ 1973ء پر جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی یہ خواہش تھی کہ جماعت صد سالہ جشن منائے یعنی وہ لوگ جن کو سواں سال دیکھنا نصیب ہو وہ صد سالہ جشن منائیں اور میں بھی اپنی اسی خواہش کا اظہار کرتا ہوں کہ صد سالہ جشن منایا جائے اس لیے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے اور میں نے بڑی دعاؤں کے بعد اور بڑے غور 404

Page 405

ہے کے بعد تاریخ احمدیت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگلے چند سال جو صدی پورا ہونے سے قبل باقی رہ گئے ہیں وہ ہمارے لیے بڑی ہی اہمیت کے مالک ہیں.اس عرصہ میں ہماری طرف سے اس قدر کوشش اور اللہ کے حضور اس قدر دعائیں ہو جانی چاہئیں کہ اس کی رحمتیں ہماری تدابیر کو کامیاب کرنے والی بن جائیں اور پھر جب ہم یہ صدی ختم کریں اور صد سالہ جشن منائیں تو اس وقت دنیا کے حالات ایسے ہوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا منشا کہ یہ جماعت اس کے حضور قربانیاں پیش کر کے غلبہ اسلام کے ایسے سامان پیدا کردے.اسی کے فضل اور اسی کی دی ہوئی عقل سے اور فہم سے اور اسی کے سمجھائے ہوئے منصوبوں کے نتیجہ میں دنیا کہ وہ لوگ بھی جنہیں اس وقت اسلام سے دلچسپی نہیں ہے وہ بھی یہ سمجھنے لگیں کہ اب اسلام کے آخری اور کامل غلبہ میں کو ئی شک باقی نہیں رہ گیا.یہ سپریم ایفرٹ (Supreme Effort) یعنی انتہائی کوشش جو آج کا دن اور آج کا سال ہم سے مطالبہ کرتا ہے.اس آخری کوشش کے لئے ہمیں کچھ سوچنا ہے اور پھر سب نے مل کر بہت کچھ کرنا ہے.یہ خیال کر کے کہ سولہ سال کے بعد جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک سو سال پورے ہو جائیں گے یعنی حضرت مسیح موعود رضی اللہ عنہ کی بعثت پر، اس معنی میں کہ آپ نے جو پہلی نے جو پہلی بیعت لی اور صالحین اور مطہرین کی ایک چھوٹی سی جماعت بنائی تھی اس پر 23 مارچ 1989 ء کو پورے سو سال گزر جائیں گے.“ صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے کا روحانی پروگرام: (حیات ناصر جلد 1 - صفحہ 556 و557) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے کے اغراض و مقاصد پورا ہونے کے لئے جماعت کو سولہ سالوں کے لیے ایک روحانی پروگرام دیا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے: * * * * * سورۃ فاتحہ سات بار روزانه رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرُنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِینَ.گیارہ بار روزانه اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ گیاره مرتبہ روزانه اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبّى مِنْ كُلّ ذَنْبٍ وَّ أَتُوبُ إِلَيْهِ تینتیس بار روزانه سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ تینتیس بار روزانه * * دو نفل بعد نماز ظہر بعد نمازعشا روزانہ ایک نفلی روزہ ہر ماہ تحریک کے ثمرات: صد سالہ احمد یہ جوبلی فنڈ : (حیات ناصر جلد 1.صفحہ 569 و570) صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبے کے لیے حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اڑھائی کروڑ روپے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے جماعت کے مخلصین کو دس کروڑ کے وعدے کرنے کی توفیق بخشی.(حیات ناصر جلد 1 صفحہ 570) 405

Page 406

صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے شیریں ثمرات کی ایک جھلک: صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کی تکمیل تو 23 مارچ 1989ء کو ہوئی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے شروع سے ہی اس منصوبہ میں غیر معمولی برکت ڈالی اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی زندگی میں ہی اس شجرہ طیبہ کے شیریں ثمرات جماعت کو عطا ہونے شروع ہوئے.ذیل میں ان میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے: 1.سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں مسجد ناصر اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد 27 ستمبر 1975ء کو بعد تکمیل اس کا افتتاح 20 اگست 1976 ء کو حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے خود وہاں تشریف لے جا کر 2.ناروے کے شہر اوسلو میں مسجد اور مشن ہاؤس کا افتتاح حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے یکم اگست 1980ء کو فرمایا.3.سپین میں مسلمانوں کے زوال کے 744 سال بعد جماعت احمدیہ کو یہ سعادت ملی کہ 9اکتوبر 1980ء کو (چودھویں صدی کے اختتام سے پہلے) قرطبہ کے قریب حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.-4 مسیح ناصری کے آخری آرام گا والے شہر سری نگر میں شاندار مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر ہوئی.5.کینیڈا کے شہر کیلگری میں چالیس ایکڑ زمین جس پر بہت بڑی عمارت بھی ہے مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے خرید لی گئی.یہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہے.6.اٹلی اور جنوبی امریکہ میں مساجد اور مشن ہاؤسز کے لئے ، خدام الاحمدیہ کی طرف سے خدام کے چندہ سے فنڈ کا مہیا کر کے پیش کیا جانا ( نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب کے چندہ ماہ کے بیرونی ممالک کے دور ہ میں یہ رقم جمع ہو گئی.) 7.جاپان کے شہر Nagoya میں ایک نہایت خوبصورت نو تعمیر شدہ مکان کی خرید برائے مسجد و احمد یہ سنٹر.8.انگلستان میں جماعت کی وسعت کے پیش نظر پانچ مراکز اور ہالوں کی خرید.جس کے لئے وہاں کے مبلغ انچارج نے 31اکتوبر 1979ء کو چندہ کی تحریک کی اور چند ہی مہینوں میں فنڈز کا انتظام ہو گیا اور بریڈ فورڈ میں 20 اپریل 1980ء، ساؤتھ ہال میں 31 مئی 1980 ء، مانچسٹر میں 16 جون 1980ء، ہڈرز فیلڈ میں 10 جولائی 1980ء اور برمنگھم میں 31اگست 1980ء کو عمارتیں خرید کر قبضہ لے لیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے 1980 ء کے دورہ میں ان کا افتتاح فرمایا.9.انگلستان کے شہر لندن میں ایک عالمگیر کسر صلیب کانفرنس کا انعقاد جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے خود شمولیت فرمائی.10.بڑے وسیع پیمانہ پر اشاعت لٹریچر کا کام شروع ہو چکا ہے انگریزی اور فرنچ میں ترجمہ کے کے ہزاروں صفحات کا اسلامی لٹریچر شائع ہو چکا ہے.ہیں.11.متعدد زبانوں میں اسلام سے متعلق تعارفی فولڈرز شائع ہو کر مختلف ممالک میں آنے والے زائرین میں تقسیم ہو رہے 12.باہمی رابطہ کے لئے ایک درجن ممالک میں ٹیلیکس Telex کا انتظام ہو چکا ہے.13.جماعتی تقاریب کی بولتی فلمیں بنوا کر ان کا تبادلہ شروع ہو گیا 14.بیرونی ممالک سے آنے والے وفود کی رہائش کے لیے سرائے فضل عمر ، سرائے محبت، سرائے خدمت (خدام الاحمدیہ)، انصار اللہ گیسٹ ہاؤس کی تعمیرات جن میں تمام ماڈرن سہولتیں موجود ہیں.15.ایک وسیع تعلیمی سکیم کا اجرا، جس کے ماتحت جماعت کا کوئی Genius نوجوان انشاء اللہ تعلیم سے محروم نہیں رہے گا.406

Page 407

مسابقت کی روح پیدا کرنے کے لئے یونیورسٹیوں اور بورڈوں میں اول، دوم، سوم آنے والوں کو سونے، چاندی کے تمغات دیئے جاتے ہیں.صد سالہ جوبلی منصوبے کے شیریں ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ لمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری جلسہ سالانہ پر فرمایا:.”اب ہم پندرھویں صدی میں خدا تعالیٰ کے بڑے عظیم نشانوں کو دیکھنے کے لیے داخل ہو چکے ہیں.........جو سال گزرا ہے اس صدی کا، اس میں بھی بے انتہا نشان دکھائے ہیں اور بڑی عظمتوں کا نشان مثلاً 745 سال بعد سپین کی مسجد مکمل ہو گئی الحمد لله.....پھر ہم پھیلے مشرق کی طرف، ابھی ادھر نہیں گئے تھے، جاپان میں اللہ تعالیٰ نے ایک گھر کی خرید کا سامان پید اکر دیا.دیا............پھر بڑی وسعت پیدا ہو رہی ہے کینیڈا اور امریکہ میں، پھر بڑی وسعت پیدا ہو رہی ہے افریقہ کے بہت سے حصوں میں.میں تو حیران ہوں، حیرت میں ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی عظمت میرے اس زمانہ میں اس بات سے ثابت ہوئی کہ میرے جیسے عاجز انسان کا اس نے ہاتھ پکڑا اور اعلان کیا کہ اس ذرہ ناچیز سے میں دنیا میں انقلاب بپا کردوں گا اور کر دیا.خلافت ثالثہ کی تحریکات کی تفصیل: (حیات ناصر جلد 1.صفحہ 592 تا594) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی سترہ سالوں پر پھیلی ہوئی لاتعداد تحریکات اور منصوبوں کی پوری طرح احاطہ نہیں کیا جا سکتا تا ہم زیادہ معروف منصوبے اور تحریکات یہ ہیں: تحریک جدید کے دفتر سوم کا اعلان ☆ ☆ وقف جدید کے دفتر اطفال کا اجرا فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے پچیس لاکھ روپے کی تحریک وقف بعد از ریٹائرمنٹ (retirement) کی تحریک نوجوان گریجویٹس (Graduates) کے لئے تحریک وقف زندگی بد رسوم کے خلاف جہاد کی تحریک أَطْعِمُوا الْجَائِعَ یعنی مساکین کو کھانے کھلانے کی تحریک وقف عارضی کی تحریک ☆ ☆ مجالس موصیان کا قیام مجلس ارشاد کا قیام نصرت جہاں لیپ فارورڈ منصوبہ استحکام پاکستان کے لئے دعاؤں اور صدقات کی تحریک اتحاد بین المسلمین کی تحریک مکہ میں حج کی تاریخ کے مطابق دنیا بھر میں عید اضحی کی تقریب منانے کی خواہش کا اظہار گھوڑے پالنے کی تحریک 407

Page 408

☆ ☆ ☆ ☆ سائیکل سواری اور سائیکل سروے کی تحریک نشانہ غلیل کی مہارت پیدا کرنے کی تحریک خدام اور لجنات کو اپنی اپنی کھیلوں کے کلب بنانے کی تحریک درخت لگانے اور شجر کاری کی تحریک ربوہ کو سرسبز و شاداب بنانے کی تحریک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی میں مسکراتے رہنے کی تحریک تسبیح و تحمید درود شریف اور استغفار کی خاص تحریک صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبے کے لئے اڑھائی کروڑ روپے مہیا کرنے کی تحریک امن عالم کے لیے صدقات اور دعاؤں کی تحریک چودھویں صدی ہجری کو الوداع کہنے اور پندرھویں صدی ہجری کا استقبال کرنے کے لئے لا الہ الا اللہ کا ورد کرنے کی تحریک اور دو زائد ماٹو (motto) تعلیم القرآن کی تحریک اشاعت قرآن کی تحریک حفظ قرآن کی تحریک ⭑☆ ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات حفظ کرنے کی تحریک غلبہ اسلام کی صدی کے لئے قرآن کریم سیکھنے سکھانے کے لئے دس سالہ تحریک ادائیگی حقوق طلبا طلبا، ڈاکٹروں اور انجینئروں کو ایسوسی ایشنیں بنانے کی تحریک طلبا کو سویا بین کھانے کی تحریک ہر گھر میں تفسیر صغیر رکھنے کی تحریک ہر گھر میں مرحلہ وار تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جلدیں رکھنے کی تحریک صد سالہ احمدیہ جوبلی تک سو سائنس دان اور انگلی صدی میں ایک ہزار سائنس دان اور محققین پید اکر نے کی چودھویں صدی کی تکمیل پر ”ستارہ احمدیت“ کا تحفہ صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے کے اعلان کے موقع پر مزید دو ماٹو (motto) استغفار کرنے کی تحریک قلمی دوستی کی تحریک یورپ.امریکہ اور کینیڈا میں کمیونٹی سنٹر اور عید گاہیں بنانے کی تحریک فولڈرز شائع کرنے کی تحریک بچوں کے لئے خوبصورت اور دلچسپ کتب لکھنے کی تحریک انصار اللہ کی صف اول اور صف دوم بنانے کی تحریک اطفال و ناصرات کے لئے معیار کبیر و صغیر کی تحریک مہمان خانے بنانے کی تحریک (وَسِعُ مَكَانَكَ) 408

Page 409

جلسہ سالانہ کے موقع پر غیر ملکیوں کو تقاریر کے تراجم سنانے کی تحریک مختلف ممالک سے آنے والے مہمانوں کی طرف سے ان ممالک کے جھنڈے لہرانے کی تحریک پریس لگانے اور ریڈیو سٹیشن بنانے کی تحریک سو زبانوں میں لٹریچر تیار کرنے کی تحریک سالہ احمد یہ جوبلی تک سو ممالک میں جماعتیں قائم کرنے کی تحریک اولاد کا اکرام کرنے کی تحریک بیوی بچوں کے ساتھ حسن سلوک اور عزت سے مخاطب ہونے کی تحریک افریقی ممالک کے لئے ڈاکٹروں اور اسا تذہ کو وقف کرنے کی تحریک حلف الفضول کی طرح مجالس بنانے کی تحریک عاجزی اور انکساری اختیار کرنے کی تحریک سے بدلہ نہ لینے اور بد دعا نہ کرنے کی تحریک افغان مہاجرین کے لیے دعا اور بیماروں کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کی تحریک بنی نوع انسان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں قرآن کریم دینے کی تحریک دنیا کے اطراف و جوانب کو نور مصطفوی سے منور کرنے کی تحریک جلسہ سالانہ صد سالہ احمدیہ جوبلی کے لئے دیگوں کی تحریک وظائف کمیٹی کی تشکیل احمدی بچیوں کی بروقت شادی کر دینے کی تحریک ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ کی تحریک ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ جلسہ سالانہ پر رضا کاروں کی فراہمی کی تحریک تمام مجالس کے اجتماعات میں نمائندگی کی تحریک مشاورت میں کم عمر نمائندوں کی شمولیت کی تحریک جماعتی تعمیرات کی نگرانی کے لئے احمدی انجینیئروں کو تحریک اور ایسوسی ایشن کا قیام کھانے پینے کے لئے اسلامی آداب اختیار کرنے کی تحریک صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کی کامیابی کے لئے ماہوار ایک نفلی روزہ رکھنے کی تحریک صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کی کامیابی کے لئے روزانہ کم از کم سات مرتبہ سورۃ فاتحہ غور و تدبر کے ساتھ پڑھنے صد سالہ احمدیہ جوبلی کی کامیابی کے لئے روزانہ کم از کم دو رکعت نفل نماز پڑھنے کی تحریک صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کی کامیابی کے لئے تسبیح و تحمید، درور شریف، استغفار اور قرآن کریم اور حدیث کی بعض دعائیں معین تعداد میں روزانہ پڑھنے کی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعا (جو اسم اعظم کا درجہ رکھتی ہے ) پڑھنے کی تحریک.☆ ☆ مجلس صحت کا قیام فضل عمر فاؤنڈیشن ،انجمنوں اور ذیلی تنظیموں کو غیر ملکی مہمانوں کے لئے گیسٹ ہاؤس بنانے کی تحریک جماعت کے افراد کو قوی اور امین بننے کی تحریک متلاشیان حق کو وفود کی شکل میں مرکز میں لانے کی تحریک 409

Page 410

☆ ☆ قلمی دوستی کے ذریعے دعوت الی اللہ کی تحریک ذیلی تنظیموں کے ضلعی اور علاقائی اجتماعات منعقد کرنے کی تحریک جنگی قیدیوں اور افغان مہاجرین کے لئے گرم کپڑے اور رضائیاں بنا کر مفت سپلائی کرنے کی سکیم اسلامی آداب و اخلاق کی ترویج و اشاعت (حیات ناصر جلد 1 صفحہ 606 تا 610) تحریکات خلافت رابعہ: خلافت رابعہ کی پہلی تحریک بیوت الحمد“: سپین (Spain) میں تعمیر بیت کی توفیق ملنے پر ہر احمدی کا دل حمد باری تعالیٰ سے لبریز تھا اس حمد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اکتوبر 1982ء (اخاء1361 ہش) میں ارشاد فرمایا کہ خدا کے گھر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ہمیں غربا کے لئے مکان بنوانے کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہئے.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی طرف سے اس فنڈ میں دس ہزار روپے دینے کا اعلان فرمایا.(خطبه جمعه فرموده 29 اکتوبر 1982ء الفضل 27 نومبر 1982ء) تحریک کے ثمرات: اللہ کے فضل وکرم سے حضرت خلیفۃ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد خلافت میں ہی87 کشادہ اور آرام دہ مکان بن گئے، پانچ سو افراد کو گھر کی حالت بہتر بنانے یا وسعت دینے کے لئے رقم دی گئی، اس طرح قادیان میں بھی 37 بیوت گئے جہاں درویشان قادیان کے خاندان یا ان کی بیوائیں رہائش پذیر ہیں.کئے ( جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ صفحہ 115 مرتبہ شیخ خورشید احمد صاحب) خلافت خامسہ میں بیو ت الحمد کے تحت اب ان گھروں کی تعداد اللہ کے فضل سے ایک سو تک پہنچ گئی ہے.اس طرح تقریباً 652 مستحق خاندانوں کو ان کی ملکیتی زمین پر گھروں کی تعمیر اور توسیع کے لئے لاکھوں روپے کی امداد کی جا چکی ہے.اور 66 یہ سلسلہ جاری و ساری ہے.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی دوسری بابرکت تحریک: داعی الی اللہ بننے کی تحریک: (روز نامہ الفضل 27 اپریل 2006ء) سیدنا حضرت خلیفة اصیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1983 ء کے آغاز میں ہی اپنے متعدد خطبات جمعہ میں جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ موجودہ زمانہ اس امر کا متقاضی ہے کہ ہر احمدی مرد، عورت، جوان بوڑھا اور بچہ دعوت الی اللہ کے فریضہ کو ادا کرنے کے لیے میدان عمل میں اتر آئے تا کہ وہ ذمہ داریاں کما حقہ ادا کی جاسکیں جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی ہیں.410

Page 411

تحریک کا پس منظر : وو اس تحریک کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: اس وقت ایسے مہلک ہتھیار ایجاد ہو چکے ہیں جن کے ذریعہ چند لمحوں میں وسیع علاقوں سے زندگی کے آثار تک مٹائے جا سکتے ہیں.ایسے خطر ناک دور میں جب کہ انسان کی تقدیر لا مذہبی طاقتوں کے ہاتھ میں آچکی اور زمانہ تیزی سے ہلاکتوں کی طرف جا رہا ہے.احمدیت پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.احمدیت دنیا کو ہلاکتوں سے بچانے کا آخری ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے.آخری ان معنوں میں کہ اگر یہ بھی نا کام ہو گیا تو دنیا نے لازماً ہلاک ہو جانا ہے اور اگر کامیاب ہو جائے تو دنیا کو لمبے عرصہ تک اس قسم کی ہلاکتوں کا خوف دامنگیر نہیں رہے گا.ہے دعوت الی اللہ کے ثمرات اور عالمی بیعت: المسیح (خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1983ء) حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق پیغام دین حق کو زمین کے کناروں تک پہنچانے کی سچی تڑپ اور حقیقی لگن کے ساتھ کام کیا.تعلیم و تربیت کے جدید ذرائع سے بھر پور فائدہ اٹھایا، ہر احمدی کو داعی الی اللہ قرار دیا، جماعت 175 ممالک میں مضبوطی سے قائم ہو ئی اور صرف دس سالوں میں 17 کروڑ افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے جس کی تفصیل ذیل میں تحریر ہے: سال بیعتوں کی تعداد 204,308 1993 421,753 1994 847,725 1995 1,602,721 1996 3,004,585 1997 5,004,591 1998 10,820,226 1999 41,308,975 2000 81,006,721 2001 20,654,000 2002 میزان 164.875,605 ما شاء الله دعوت الی اللہ کے ثمرات کی مزید جھلک: مختلف ممالک میں نئی جماعتوں کا قیام: 411

Page 412

سکتا حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور ہجرت میں نئی جماعتوں کے قیام میں غیر معمولی اور حیرت انگیز اضافہ ہوا.لندن آنے کے بعد پہلے سال یعنی 85-1984ء میں یہ تعداد 254 ہو گئی ، سال 87-1986ء میں یہ تعداد بڑھ کر 258 ہوگئی.اس کے بعد اس میں سال به سال مسلسل حیرت انگیز اضافہ ہوتا رہا.اس رفتار کا اندازہ آخری تین سالوں کے جائزہ سے لگایا جا ہے.سال 2000-1999ء میں 12343 مقامات پر نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا اور سال 2002-2001 ء میں دنیا بھر میں 4485 نئی جماعتیں قائم ہوئیں.اس طرح ہجرت کے 19 سالوں میں دنیا بھر میں 35358 مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوئیں.خلافت رابعہ میں مساجد کی تعمیر : دور ہجرت کے پہلے سال 85-1984 ء میں نئی مساجد جو دنیا بھر میں قائم ہوئیں ان کی تعداد 32 تھی.☆ ☆ 1985-86ء میں یہ تعداد 32 سے بڑھ کر 206 ہوگئی.1986-87ء میں 136 نئی مساجد تعمیر ہوئیں.مساجد کی تعمیر اور بنی بنائی مساجد کے عطا ہونے کی رفتار میں حیرت انگیز طور پر جو اضافہ ہوا جس کا اندازہ مندرجہ ذیل تین سالوں کے جائزہ سے لگایا جا سکتا ہے: 1999ء میں..............1524، 2000ء میں.............1915، 2001ء میں...........2570 ہجرت کے 19 سالوں میں مجموعی طور پر کل 13065 نئی بیوت جماعت احمدیہ کو دنیا بھر میں قائم کرنے کی توفیق ملی.اللہ کے فضل سے اسی تحریک کی بدولت خلافت خامسہ میں 2005 ء تک 181 ممالک میں یہ پودا پھیل چکا ہے اور بیوت الذکر کی تعداد بھی بڑھ کر (1984 ء سے تاحال) 13 ہزار 776 تک پہنچ گئی ہے.احمدیہ مراکز تبلیغ کا قیام: الفضل مورخہ 5 اگست 2005ء) یورپ : 1984ء میں آٹھ ممالک میں کل تعداد سولہ تھی جو بڑھ کر اٹھارہ ممالک میں ایک سو اڑتالیس ہو چکی ہے.ریکہ امریکہ میں تعداد 6 سے بڑھ کر 36 ہو چکی ہے.کینیڈا: 1984 ء میں 5 مشن ہاؤسز تھے جن میں 5 کا اضافہ ہوا.بعض پرانے مشن ہاؤسز فروخت کر کے گئی گنا بڑے مشن ہاؤسز خریدے گئے.افریقہ 1984ء میں 14 ممالک میں کل تعداد 68 تھی اب 25 ممالک میں تعداد 656 ہو چکی ہے.تراجم قرآن کریم دور خلافت رابعہ میں تراجم قرآن کریم کا تاریخ ساز کام ہوا.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے دیگر زبانوں میں معیاری اور مستند تراجم کا بے حد شوق اور جذبہ سے اہتمام کروایا.چنانچہ آپ کے اکیس سالہ دور خلافت میں جن زبانوں میں معیاری تراجم کروا کر ان کی دیدہ زیب اور اعلیٰ معیار کی طباعت کا اہتمام ہوا، ان کی کل تعداد 57 ہو چکی ہے.جن زبانوں میں مکمل تراجم کی اشاعت ہوئی ان کے نام درج ذیل ہیں.نیز ان کے علاوہ دنیا کی کل 117 زبانوں میں مختلف مضامین پر مشتمل منتخب آیات کے تراجم بھی شائع کئے جا چکے ہیں: Albanian, Assamese, Bengali, Bulgarian, Chinese, Czech Danish, Dutch, English, 412

Page 413

Esperanto, Fifian, French, German, Greek, Gujrati, Gurumukhi, Hausa, Hindi, Lobo, Indonesian, Italian, Japanese, Kashmiri, Kikuyu, Korean, Luganada, Malay, Malayalam, Manipuri, Marathi, Mende, Nepalalese, Norwegian, Orian, Pasht, Persian, Polish, Portuguese, Punjabi, Russian, Saraeki, Sindhi, Spanish, Sundanese, Swahili, Swedish, Tagalog, Tamil, Telugu, Turkish, part 1-10, Jual ,Kikamba.Tuvalu, Urdu, Vietnamese ,Yuruba, Thai-vol:1 اللہ کے فضل سے اب خلافت خامسہ میں تراجم قرآن کریم کی کل تعداد 60 ہو چکی ہے.(سو وینٹر سیدنا طاہر ص 20 تا23 مطبوعہ جماعت برطانیہ و الفضل 5 اگست 2005ء) حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی انقلاب انگیز تحریکات کی تفصیل: حضور نے اپنے دور خلافت میں متعدد تحریکات فرمائیں.بعض تحریکات خصوصی دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلانے کے لئے تھیں اور بعض اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے عملی اقدامات کے طور پر کی گئیں جبکہ بعض کا تعلق خدمت کے روشن پہلوؤں سے تھا.ان تمام تحریکات کا احاطہ کرنا اس مضمون میں ممکن نہیں تاہم ان میں سے بیشتر تحریکات درج ذیل ہیں: پہلے مطبوعہ پیغام میں عالم اسلام اور فلسطین کی بہتری کے لئے دعاؤں کی تحریک (الفضل 13 جون 82) جھوٹ کے خلاف جہاد کی تحریک ( درس القرآن 19 جولائی 82ء) لجنہ کو عالمگیر دعوت اللہ کا منصوبہ بنانے کی تحریک (اجتماع لجنہ 18 اکتوبر 82ء) محرم میں کثرت سے درود پڑھنے کی تحریک ( مجلس ء پڑھنے کی تحریک (مجلس عرفان 124اکتوبر 82ء) بیوت الحمد سکیم کا اعلان (خطبہ جمعہ 29 اکتوبر 82ء).یہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور کی پہلی مالی تحریک ہے.وقف بعد از ریٹائرمنٹ کی تحریک (اجتماع انصار اللہ 5 نومبر 82ء) تحریک جدید دفتر اول و دوم کو تا قیامت جاری رکھنے کی تحریک (خطبہ 5 نومبر 82ء) باہمی جھگڑے ختم کرنے کی تحریک (خطبہ 5 نومبر 82ء) نمازوں کی حفاظت کرنے کی تحریک (خطبہ 19 نومبر 82ء) مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات تیار کرنے کی تحریک (خطبات استقبالیہ تحریک جدید 2 دسمبر 82ء) امریکہ میں 5 نئے مراکز اور مساجد کے قیام کی تحریک (15 دسمبر 82ء) احمدی خواتین کو پردہ کی پابندی کی تحریک (خطبات جلسہ سالانہ 27 دسمبر 82ء) الفضل اور ریویو آف ریلیجز کی اشاعت دس ہزار کرنے کی تحریک (خطبات جلسہ سالانہ 27 دسمبر 82ء) کینیڈا (Canada) میں نئے مراکز تبلیغ اور مساجد کی تحریک (20 اپریل 83ء) عید پر غربا کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کی تحریک (12 جولائی 83ء) بد رسوم کے خلاف جہاد کی تحریک (خطبہ جمعہ 16 دسمبر 83ء) جلسہ کے لئے 500 دیگوں کی تحریک (الفضل 8 فروری 84ء) برطانیہ اور جرمنی میں دو نئے مراکز قائم کرنے کی تحریک (خطبہ جمعہ 18 مئی 84ء) حبشہ (Africa) کے مصیبت زدگان کی مالی امداد (خطبہ 9 نومبر 84ء ) 413

Page 414

|| || || || | || || || | || || || || || || | || || حفظ قرآن کی تحریک (11 نومبر 84ء) نستعلیق کتابت کے لئے کمپیوٹر (Computer) کی تحریک (خطبہ 12 جولائی 85ء) تحریک جدید کے دفتر چہارم کا آغاز (خطبہ 25 اکتوبر 85ے) قیام نماز کے لیے ذیلی تنظیمیں ہر ماہ اجلاس کریں (خطبہ 8 نومبر 85ء) وقف جدید کو عالمگیر کرنے کا اعلان (خطبہ 27 دسمبر 85ء) سیدنا بلال فنڈ کا قیام (خطبہ 14 مارچ86ء) توسیع مکان بھارت فنڈ (خطبہ 28 مارچ86ء) جلسہ ہائے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کی تحریک (خطبہ 8 اگست 86ء) فتنہ شدھی کے خلاف جہاد (خطبہ 22 اگست 86ء) متاثرین زلزلہ ایل سلواڈور (El Salvador) کی امداد (خطبہ 17 اکتوبر 86ء) لجنہ اماء الله مرکز یہ ربوہ کے نئے ہال و دفتر کے لئے چندہ (خطبہ 16 جنوری 87ء) صد سالہ جوبلی سے پہلے ہر خاندان ایک نیا احمدی بنائے (خطبہ 30 جنوری 87ء) صد سالہ جوبلی پر ہر ملک میں ایک یاد گار عمارت بنائی جائے (خطبہ 6 فروری 87ء) تحریک وقف نو کا اعلان (خطبہ 13 اپریل 87ء) توسیع مسجد نور ہالینڈ (Holand) (خطبہ 21 اگست 87ء) منهدم شدہ مساجد کی تعمیر کریں (خطبہ 18 ستمبر 87ء) اسیران کی فلاح و بہبود کے لئے کوشش (خطبہ 4 دسمبر 87ء) نصرت جہاں تنظیم نو (خطبہ 22 جنوری 88ء) سپینش (Spanish) سیاحوں کی میزبانی کی تحریک (خطبہ 4 اگست 88ء) نوجوانوں کو شعبہ صحافت سے منسلک ہونے کی تحریک (خطبہ 24 فروری 89ء) احمدی خاندان اپنی تاریخ مرتب کریں (خطبہ 17 مارچ 89ء) مسجد الرحمن واشنگٹن (.Washington D.C) کے لئے چندہ (خطبہ 7 جولائی 89ء) افریقہ و ہندوستان کے لئے 5 کروڑ کی تحریک (خطاب جلسہ سالاہ یو کے89ء) پانچ بنیادی اخلاق اپنانے کی تحریک (خطبہ 24 نومبر 89ء) واقفین نو کو تین زبانیں سیکھنے کی تحریک (خطبہ یکم دسمبر 89ء) متاثرین زلزلہ ایران کے لئے امداد (جون 89ء) روس (Rusia) میں دعوت الی اللہ اور وقف عارضی (خطبہ 15 جون90ء،18اکتوبر91ء) فاقہ زدگان افریقہ کے لئے امداد (خطبہ 18 جنوری91ء) مہاجرین لائبیریا (Laberia) کے لئے امداد کی تحریک (خطبہ 26 اپریل 91ء) کفالت یتامی کی تحریک (جنوری1991ء) خدمت خلق کی عالمی تنظیم کا اعلان (خطبہ 28 اگست 92ء) مختلف شعبوں کے احمدی ماہرین کو سابق روسی ریاستوں میں جانے کی تحریک (خطبہ 2 اکتوبر 92ء) بوسنیا (Bosnia) کے یتیم بچوں ،صومالیہ (Smalia) کے قحط زدگان کے لئے امداد (خطبہ 30 اکتوبر 92ء) | || || || || || 414

Page 415

مسی ساگا (ٹورانٹو کینیڈا) احمدیہ مسجد کے لئے عطیات(خطبہ 30اکتوبر 92ء) 1993 ء کو انسانیت کا سال منانے اور بہبود انسانی کی تحریک (خطبہ یکم جنوری 93ء) ظلم کے خلاف آواز اٹھانے، تمام ممالک کے سربراہان سے رابطہ کر کے انہیں تقویٰ اور سچائی کی راہ پر بلانے کی تحریک (خطبہ 22 جنوری 93ء) مظلومین بوسنیا کی مالی و اخلاقی امداد (خطبہ 29 جنوری 93ء) | || || || || | || || || || | || || | مختلف مذاہب کے لئے نوجوانوں کی ریسرچ ٹیمیں بنانے کی تحریک (خطبہ 14 مارچ 93ء) گھر اور معاشرہ کو جنت نظیر بنانے کی تحریک (خطبہ 16 اپریل 93ء) جماعتی اجلاسوں میں بزرگوں کے تذکرے کریں (خطبہ 13 اگست 93ء) بزرگ پرستی سے بچیں تا آئندہ نسلیں بچ جائیں (خطبہ 13 اگست 93ء) قطب شمالی (North Pole) کی پہلی مسجد کے لئے مالی تحریک (خطبہ 8 اکتو بر 93ء) شہد پر منظم تحقیق کرنے کی تحریک ( پروگرام ملاقات 6 جنوری 94ء) مظلومین روانڈا کے لئے مالی امداد (خطبہ 22 جولائی 94ء) نو مبایعین کے لئے مرکزی تربیت گاہوں کا قیام (خطبہ 19 اگست 94ء) کینسر (Cancer) پر ریسرچ کی تحریک ( پروگرام ملاقات 6 دسمبر 94ء) MTA کے لئے متنوع اور دلچسپ پروگرام بنائیں (خطبہ 16 دسمبر 94ء) انگلستان کی مرکزی مسجد کے لئے پانچ ملین پاؤنڈ کی تحریک (خطبہ 24 فروری 94ء) نظام شوری کے چارٹر (charter) کا دیگر زبانوں میں ترجمہ کرنے کی تحریک (خطبہ 31 مارچ 95ء) امرائے اضلاع، امارات کے تقاضے پورے کریں(خطبہ 14 جون96ء) مشرقی یورپ میں جماعتی ضروریات کے لئے 15 لاکھ ڈالرز کی تحریک (خطبہ 27 دسمبر 96ء) ہر احمدی گھرانہ ڈش انٹینا (Dish Antena) لگائے ( مجلس سوال و جواب 10 جنوری 97ء) شاملین وقف جدید کی تعداد بڑھائیں (خطبہ 2 جنوری 98ء) سرخ کتاب رکھنے کی تحریک (خطبہ 7 اگست 98ء) (Belgium) کی مسجد کے لئے مالی امداد (خطبہ یکم مئی 98ء) خلیفہ وقت کا خطبہ براہ راست سنیں (خطاب جلسہ سالانہ تجسیم 3 مئی 98ء) درس القرآن ایم ٹی اے سے استفادہ کریں (خطبہ 19 جون 98ء) عمل الترب“ پر ریسرچ کریں (پروگرام ملاقات 14 ستمبر 98ء) امانتوں کا حق ادا کریں (سلسلہ خطبات 28 اگست تا18 ستمبر 98ء) امیر مسلم ممالک غریب ملکوں کے بچوں کے لئے دولت مختص کریں (خطبہ 25 دسمبر 98ء) یتامی بیوگان کی خدمت کی عالمی تحریک نیز اہل عراق کے بچوں ٹیموں اور بیواؤں کے لئے دعا کی تحریک (خطبات جمعہ 29 جنوری 5 فروری 99ء) || || تعمیر مساجد کا منصوبہ (خطبہ 19 مارچ 99ء) لواحقین کو شہدا کی تفصیلات جماعتی ریکارڈ کے لئے بھجوانے کی تحریک (خطبہ 21 مئی 99ء) نوافل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سبحان اللہ و بحمدہ...پڑھنے کی تحریک (خطبہ 19 نومبر 99ء) 415

Page 416

پاک زبان استعمال کرنے کی تحریک (4 فروری 2000ء) جماعت انڈونیشیا (Indonesia) انفاق سبیل اللہ کی مثال بنے اور آئندہ 25 سال میں ایک کروڑ ہو جائیں (خطبات جلسہ انڈونیشیا 2 جولائی 2000ء) بیت الفتوح کے لئے مزید 5 ملین پاؤنڈ کی تحریک (خطبہ 16 فروری 2001ء) مریم شادی فنڈ کا اجرا (خطبہ 28،21 فروری 2003ء) ہیومینٹی فرسٹ (Humanity First) کے ذریعہ عراق کی مالی امداد کی تحریک (خطبہ 4 اپریل 2003ء) تحریک وقف نو: خلافت رابعہ کی انقلاب انگیز تحریک: (سیدنا طاہر نمبر سود نیر جماعت برطانیہ صفحہ 29,28) احمدیت کے قیام پر 23 مارچ 1989ء کو سو سال پورے ہونے پر خدا تعالیٰ کے احسانوں پر تشکر کے جذبات کے اظہار کے لئے حضرت خلیفۃ اصسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے دسمبر 1973 ء میں صد سالہ جشن تشکر منصوبے کا اعلان سالہ جشن تشکر منصوبے کا اعلان فرمایا جس پر کام کا آغاز آر پ کی زندگی میں ہوا مگر جون 1982ء میں آپ کی وفات کے بعد حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دور خلافت ثالثہ کے اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے کئی کام کئے.جوں جوں نئی صدی قریب آتی گئی حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دل میں نئی صدی کے استقبال کے لئے مزید جوش اور ولولہ پیدا ہوتا رہا اور اسی کے تحت حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 3 اپریل 1987ء کو ایک تحریک فرمائی جو تحریک وقف نو کے نام سے موسوم ہے.ޏ حضرت خلیفہ ایسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں فرمایا: میں نے یہ سوچا کہ ساری جماعت کو میں اس بات پر آمادہ کروں کہ اگلی صدی میں داخل ہونے جہاں ہم روحانی اولاد آئندہ ہونے والے بچوں کو خدا کی راہ میں ابھی سے وقف کر دیں اور یہ دعا مانگیں کہ اے خدا ہمیں ایک بیٹا دے لیکن اگر تیرے نزدیک بیٹی ہی ہوئی مقدر ہے تو ہماری بیٹی ہی تیرے حضور پیش ہے........مائیں دعائیں کریں اور والد بھی ابراہیمی دعائیں کریں کہ اے خدا ہمارے بچوں کو اپنے لئے چن لے ان کو اپنے لئے خاص کرلے.اس وقف کی شدید ضرورت ہے.آئندہ سو سالوں میں کس کثرت سے اسلام نے ہر جگہ پھیلنا ہے وہاں لاکھوں تربیت یافتہ غلام چاہئیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے غلام ہوں.واقفین زندگی چاہئیں کثرت کے ساتھ اور ہر طبقہ زندگی سے واقفین زندگی چاہئیں، ہر ملک سے واقفین زندگی چاہئیں، آپ اگلی صدی میں خدا کے حضور جو تحفے بھیجنے والے ہیں یا مسلسل بھیج رہے ہیں.احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بے شمار چندے دے رہے ہیں مالی قربانیاں کر رہے ہیں ایک تحفہ جو مستقبل کا تحفہ ہے وہ باقی رہ گیا تھا.مجھے خدا نے یہ توجہ دلائی کہ میں آپ کو بتا دوں کہ آئندہ دو سالوں کے اندر یہ عہد لیں جس کو بھی جو اولاد نصیب ہو گی وہ خدا کے حضور پیش کر دے.“ تحریک پر والہانہ لبیک اور دفتر وقف نو کا قیام: رکر (خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 1987 ء) 416

Page 417

ہے.ابتدا میں تحریک وقف نو دو سال کے لئے تھی.پھر حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسے مزید دو سال کے لئے بڑھا یا اور پھر احباب جماعت کے اشتیاق کے پیش نظر یہ تحریک دائمی تحریک بن گئی.1992ء میں حضور نے واقفین نو بچوں کی تربیت کی خاطر ایک نئی وکالت قائم فرمائی جو وکالت وقف نو کہلاتی حضرت خلیفة أمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی روشنی میں دنیا بھر میں احمدی احباب اپنے بچوں کی تربیت کر رہے ہیں.مقامی جماعتوں میں سیکر ٹریان وقف نو کا بھی اسی غرض کے لئے تقرر کیا جاتا ہے تا وہ بچوں کی تربیت کر سکیں.اس وقت واقفین نو بچوں کی تعداد 26 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے.حضرت ”دینی معلومات کا بنیادی نصاب.صفحہ 221,219 شائع کردہ مجلس انصار اللہ پاکستان.صفحہ 223) تحریکات خلافت خامسه : لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مرزا مسرور احمد صاحب مورخہ 22 اپریل 2003ء کو خلافت ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دور کی تحریکات تحریر ہیں: 1.دعوت الی اللہ کے لئے عارضی وقف کی تحریک: حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جون 2004ء میں فرمایا: ”دنیا میں ہر احمدی اپنے لئے فرض کر لے کہ اس نے سال میں کم از کم ایک یا دو دفعہ ایک یا دو ہفتے تک اس کا م کے لئے وقف کرنا ہے.“ -2.زیادہ سے زیادہ وصایا کرنے کی تحریک: متمكن لفضل 31 اگست 2004ء) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یکم اگست 2004 ء جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر فرمایا: چونکہ 2005ء میں نظام وصیت کے سو سا پورے ہو جائیں گے اس لئے کم از کم پچاس ہزار وصایا ہو جائیں.اس طرح 2008 ء تک خلافت جوبلی کے اظہار خوشنودی کے طو پر لازمی چندہ دہندگان میں سے کم از کم پچاس فیصد موصی ہو جائیں.تحریک وصایا اور اس کے ثمرات: مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم - صفحه 79,78) حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 ء کے موقع پر جب زیادہ سے زیادہ وصایا کرنے کی تحریک فرمائی تو اس وقت تک وصیت کنندگان کی کل تعداد صرف 38000 کے قریب تھی.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ اگلے سال میں پہلے مرحلے کے طور پر 15000 نئی وصایا ہو جائیں تا کہ وصیت کے سو سال پورے ہونے پر یہ تحفہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر سکیں.اس تحریک پر احباب جماعت نے والہانہ طور لبیک کہا.چنانچہ جلسہ سالانہ برطانیہ 2005ء پر حضور اقدس نے اعلان فرمایا کہ ایک سال میں اللہ کے فضل سے 16 ہزار 148 احباب نے وصیت کر دی ہے.پر 417

Page 418

روزنامه الفضل مورخہ 5 اگست 2005 ، ماہنامہ خالد ستمبر 2004 ص9) اللہ کے فضل و کرم سے ماہ مئی 2006ء تک اب وصیت کنندگان کی 58000 (اٹھاون ہزار) سے زائد کی درخواستیں آچکی ہیں.خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی: 2008ء میں خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر استحکام خلافت اور اظہار خوشنودگی کے طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مئی 2005 ء میں مالی قربانی کی تحریک فرمائی اور اس خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی کے لئے ایک روحانی پروگرام عطا فرمایا.اس کی تفصیل تحریر ہے: -1 ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھا جائے جس کے لئے ہر قصبہ ، شہر یا محلہ میں مہینہ کے آخری ہفتہ میں کوئی ایک دن مقامی طور پر مقرر کر لیا جائے.جائیں.-2 -3 4.دونفل روزانہ ادا کئے جائیں جو نماز عشا کے بعد سے لے کر فجر سے پہلے تک یا نماز ظہر کے بعد اد اکئے سورۃ فاتحہ (روزانہ کم از کم سات مرتبہ پڑھیں) رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (2:251) (روزانہ کم از کم 11 مرتبہ پڑھیں) ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْهَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.(3:9) (روزانہ کم از کم -5 33 مرتبہ پڑھیں) ترجمہ: اے ہمارے رب !ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر.یقیناً تو ہی ہے جو بہت عطا رکرنے والا ہے.-6 اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ.(روزانہ کم از کم 11 مرتبہ پڑھیں) ترجمہ: اے اللہ ہم تجھے ان (دشمنوں) کے سینوں میں کرتے ہیں (یعنی تیرا رُعب ان کے سینوں میں بھر جائے ) اور ہم ان کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں.اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلَّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ إِلَيْهِ.(روزانہ کم از کم 33 مرتبہ پڑھیں) پڑھیں) -7 ترجمہ: میں بخشش مانگتا ہوں اللہ سے جو میرا رب ہے ہر گناہ سے اور میں جھکتا ہوں اس کی طرف.سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ.(روزانہ کم از کم 33 مرتبه _8 ترجمہ: اللہ تعالیٰ پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ اللہ پاک ہے اور بہت عظمت والا ہے.اے اللہ! رحمتیں بھیج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر.مکمل درود شریف.-9 (روزانہ کم از کم 33 مرتبہ پڑھیں) (ماہنامہ "خالد" جولائی 2005ء) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خلافت کے انعام او احباب جماعت کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا: 418

Page 419

”آپ میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ دعاؤں پر بہت زور دے اور اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھے اور یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھے کہ اس کی ساری ترقیات اور کامیابیوں کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی ہے.وہی شخص سلسلہ کا مفید وجود بن سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں.جب تک آپ کی عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت رہیں گے اور آپ اپنے امام کے پیچھے کے پیچھے پیچھے اس کے اشاروں پر چلتے رہیں گے، اللہ تعالی کی مدد اور نصرت آپ کو حاصل رہے گی.“ (روز نامہ الفضل 30 مئی 2003ء) 419

Page 420

420 خلافت احمدیہ کے مخالف تحریکات اور ان کا انجام مرتبہ عبد الحق استاد مدرسته الظفر وقف جدید ربوه

Page 421

آیت: عناوین: آیت استخلاف حدیث اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیشگوئی خلافت احمدیہ کے خلاف پہلی مخالفانہ تحریک اور اس کا انجام قادیان میں احرار کی اشتعال انگیز سرگرمیاں گورنمنٹ کی مخالفانہ سرگرمیاں قادیان میں احرار تبلیغ کانفرنس قادیان میں فساد کرانے کی شرمناک شازش احرار کا عبرتناک انجام حضرت خلیفہ اُسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو مولوی ظفر علی خان صاحب کا خراج تحسین خلافت احمدیہ کے خلاف دوسری مخالفانہ تحریک خدائی نشان ظہور تحریک کا انجام خلافت ثالثہ کے متعلق پیشگوئی خلافت احمدیہ کے خلاف تیسری تحریک اور اس کا انجام خلافت احمدیہ کے خلاف چوتھی مخالفانہ تحریک اور اس کا انجام آرڈننس 1984 ضیاء الحق کی غلطی آسمانی فیصلہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا فتح کے متعلق اقتباس وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ 421

Page 422

لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِم ا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِيٍّ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO (سورة النور: 56 ) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.“ حدیث (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفه امسیح الرابع رحمه الله تعالی) عَنْ حُذِيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلَكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 273 - مشكوة بَابُ الْإِنْذَارِ وَالتَّحْذِيرِ) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت عَلى مِنْهَاج النُّبُوَّة قائم ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ جب ا چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا، پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ ظلم ستم کے اس دور کو ختم کر دے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی! یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ السلام: حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے سو خبردار رہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ.زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے.جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے.اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا.سو تم اس کو مت چھوڑو اور ضرور ہے کہ تم دُکھ دیئے جاؤ اور اپنی کئی اُمیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ، سو ان صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں؟ اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو.تم خد ا کی آخری 422

Page 423

جماعت ہو سو وہ عمل نیک دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو.دیکھو! میں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا درحقیقت موجود ہے.اگر چہ سب اسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اس شخص کو چن لیتا ہے جو اس کو چتا ہے وہ اس کے پاس آجاتا ہے، جو اس کے پاس جاتا ہے، جو اس کو عزت دیتا ہے وہ بھی اس کو عزت دیتا ہے.تم اپنے دلوں کو سیدھے کر کے اور زبانوں اور آنکھوں اور کانوں کو پاک کر کے اس کی طرف آجاؤ کہ وہ تمہیں قبول کرے گا.“ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15) جماعت احمدیہ کی کامیابی کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیشگوئی: حضرت خلیفۃ السیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مل کر ہمارے مقابلہ میں ایک فیصدی کامیابی کر سکیں تو وہ سچے مگر ناممکن ہے کہ انہیں کامیابی ہو.باقی رہیں عارضی مشکلات سو یہ آیا ہی کرتی ہیں وہ بے شک ہمیں ماریں، پیٹیں، ہم میں سے بعض کو لولا لنگڑا کردیں یا جان سے مار دیں، ہمیں اس کی پروا نہیں! جس چیز کی پروا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ہار نہ جائیں اور یہ یقینی بات ہے کہ دشمن ہی ہاریں گے ہم نہیں بار سکتے چاہے کوئی گورنمنٹ کھڑی ہو جائے ، علما اور عوام سب مل جائیں.یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ ہم جیتیں گے، ہم کونے کا پتھر ہیں جس پر ہم گرے وہ بھی ٹوٹ جائے گا اور جو ہم پر گرا وہ بھی سلامت نہیں رہے گا.یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا.“ تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 448 تا 449) خلافت احمدیہ کے خلاف پہلی مخالفانہ تحریک اور اس کا انجام 1932 ء میں بعض مخالفین نے جماعت احمدیہ کی بڑھتی ہوئی ترقی کو روکنے بلکہ اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دی اور پھر تمام مخالف احمدیت طاقتیں میدانِ مخالفت میں اتر پڑیں، حتی کہ صوبہ پنجاب میں برسر اقتدار انگریزی حکومت حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور جماعت احمدیہ کے خلاف حرکت میں آگئی اور سراسر ناروا، ناشائستہ اور ناجائز حربوں سے حملہ آوروں کی پشت پناہی کرنے لگی.خلافت احمدیہ اور احمدیت کے خلاف اپنی نوعیت کی اس پہلی منظم اور ہمہ گیر مخالفت میں کیسے عروج و زوال آیا اس کی تفصیل کچھ یوں ہے: 1932ء میں جب مخالفین ابھی اپنی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے اور اندر ہی اندر سازش تیار ہو رہی تھی.ایک احراری لیڈر نے اظہار کر دیا کہ وہ احمدیوں کو کچل کر رکھ دیں گے.حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس کے بارہ میں فرمایا: ابھی تھوڑے دنوں کا واقعہ ہے کہ احرار کے لیڈروں میں سے ایک لیڈر نے جو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے تھے ایک مجلس میں جو صلح کے لئے منعقد ہوئی تھی کہہ دیا کہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم احمدیوں کو کچل ڈالیں گے.“ ( تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 9) مخالفین کی فہرست میں سب سے اوپر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور پھر جماعت کا وجود تھا.خلافت سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے احرار اور گورنمنٹ ہمیشہ اس کوشش میں رہی کہ کسی طرح اس کا خاتمہ کیا جائے جیسا کہ احرار کی لیڈر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: 423

Page 424

عنقریب چند یوم میں خلیفہ قادیان قتل کیا جائے گا اور منارہ گرا دیا جائے گا اور گورنمنٹ سن لے کہ ہم جلدی خلیفہ قادیان کو قتل کرا دیں گے.“ تاریخ احمدیت جلد نمبر 7 صفحہ 386) اس سے واضح ہو گیا کہ مخالفین کے مد نظر خلیفہ اور خلافت ہی تھی جو جماعت احمدیہ کی یکجائیت اور ترقی کی وجہ تھی.دوسرا اس سے یہ بھی کھل گیا کہ گورنمنٹ کھلے طور پر لوگوں کا ساتھ دے رہی تھی ورنہ ممکن نہ تھا کہ اس طرح کھلے طور پر عوام میں تقریر کرتے ہوئے کسی کو قتل کی دھمکیاں دی جائیں اور اس پر قانونی گرفت نہ ہو.یہ سب کچھ گورنمنٹ اور احرار کی ملی بھگت سے ہو رہا تھا جس کی وجہ سے احراری لیڈر دندناتے پھر تے تھے.احراریوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے ہر حربہ استعمال کیا ان میں سے چند ایک کا ذکر پیش ہے: -1 -2 احراریوں نے گورنمنٹ سے مطالبہ شروع کر دیا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے یہ مطالبہ ان کا اپنا کے متعلق نہیں تھا بلکہ ہندو لیڈروں کے ذہن کی پیداور تھا جس کی تکمیل کے لئے احرار کو استعمال کیا گیا.دوسرا حربہ احرار نے یہ استعمال کیا کہ (معاذ اللہ ) بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پھیلانا شروع کر دیا کہ آپ (علیہ السلام) انگریز کے جاسوس اور خود کاشتہ پودا تھے.تیسرا حربہ احراریوں نے یہ استعمال کیا کہ پراپیگینڈا (propaganda) شروع کر دیا کہ احمدی لوگ در پردہ اپنی طاقت بڑھا کر سیاسی اقتدار قائم کرنا چاہتے ہیں انہوں نے قادیان میں ایک متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے جس کے قوانین _3 برطانوی آئین سے مزاحم ہیں.نے فرمایا: ) تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 389 تا 407) گویا یہ مخالفت صرف مذہبی نہ تھی بلکہ مذہبی، سیاسی اور اقتصادی تینوں لحاظ سے تھی جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس وقت ہمارے خلاف جو فتنہ ہے یہ صرف مذہبی نہیں، نہ صرف سیاسی اور نہ صرف اقتصادی ہے بلکہ مذہبی بھی ہے اقتصادی بھی ہے اور سیاسی بھی تینوں وجوہات کی بنا پر مذہبی، سیاسی اور اقتصادی رنگ میں ہماری مخالفت کی جاتی ہے.ہم ہر ایک کے دوست اور خیر خواہ ہیں....ہماری ترقی کو دیکھ کر سب جماعتیں پریشان ہو و گئی ہیں اور ہمارے تباہ کرنے کے لئے متفق ہو گئی ہیں یا پھر موجودہ فتنہ کی وجہ یہ ہے اللہ تعالیٰ ہماری آزمائش کرنا چاہتا ہے ہم جو روزانہ اس کے سامنے فخر سے کہتے ہیں کہ اے اللہ ! ہم تجھ پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لائے اور اس کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہیں، اس کے مطابق اب خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم کس حد تک قربانیاں کرتے ہیں اور ہمارے دلوں میں کتنا ایمان ہے؟“ قادیان میں احرار کی اشتعال انگیز سرگرمیاں: - ( تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 430 تا 438) سلسلہ احمدیہ کا مقدس نظام چونکہ ایک واجب الاطاعت امام اور ایک فعال مرکز سے وابستہ ہے اس لئے اس وقت کے احرار اور حکومت دونوں نے جماعت احمدیہ کو پارہ پارہ کرنے کیلئے براہ راست قادیان ہی کو اپنی اشتعال انگیزیوں کی آماجگاہ بنا لیا اور سر توڑ کوشش شروع کر دیں کہ احمدیوں کے خلاف ایسی فضا پیدا کردی جائے کہ وہ صبر و عمل کا دامن چھوڑ کر قانون شکنی پر مجبور ہو جائیں اور بالآخر ملکی آئین کے ساتھ ایسا کھلا تصادم شروع ہو جائے کہ حکومت کے لئے پہلے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر اور پھر آپ رضی اللہ عنہ کے بعد قادیان اور اس سے باہر پورے صوبے میں پھیلے ہوئے دوسرے احمدیوں پر ہاتھ ڈالنا 424

Page 425

آسان ہو جائے.اس سکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کے لئے سب سے پہلا اور اہم قدم یہ اٹھایا گیا کہ ابتدا 6 اکتوبر 1933 ء کو دو نوجوان قادیان میں صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لئے بھیجے گئے پھر جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ 1933ء میں ہر طرح سے لوگوں کو روکنے اور فساد ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن احمدیوں کے صبر کی وجہ سے احرار کو کامیابی حاصل نہ ہوسکی.1934 ء کی ابتدا میں قادیان میں احرار کا دفتر قائم کر دیا گیا.قادیان میں احرار کے دفتر کی بنیاد جس شخص کے ذریعے رکھی گئی اس کی نسبت اپریل 1935 ء میں اخبار ”زمیندار“ نے لکھا کہ اس نے مسجد کے نام پر لوگوں سے پیسہ جمع کیا لیکن حساب کتاب مانگنے پر جواب ندارد.بالآخر اعتراف جرم کر کے فرار ہونے کی کوشش کی مگر حوالہ پولیس ہوا.گورنمنٹ کی مخالفانہ سرگرمیاں: تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 438 تا 442) احرار کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ نے بھی جماعت تنگ کرنا شروع کر دیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ڈاک پر سنسر شپ (censor ship) بیٹھا دی، کسی نہ کسی بہانے وہ حضور رضی اللہ عنہ پر گرفت کرنے پر تلی ہوئی تھی.انہیں دنوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مکرم شیخ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیں: سر ایمرسن (Sir Emerson) گورنر پنجاب) حضرت اقدس رضی اللہ عنہ کی خدا داد ذہانت اور فراست دیکھ کر حیران تھے.وہ کہتے تھے کہ یہ عجیب انسان ہے.اپنی قوم کو بیدار کرنے اور ابھارنے کے لئے ایسی زبر دست تقریر کرتا ہے کہ جو سراسر قابل اعتراض ہوتی ہے مگر آخر میں ایک فقرہ ایسا کہہ جاتا ہے کہ جس سے پہلی تقریر ساری کی ساری ناقابل اعتراض ہو کر رہ جاتی ہے اور ہم اس پر کوئی گرفت نہیں کر سکتے.“ قادیان میں احرار تبلیغ کا نفرنس: تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 457 ) احرار اور حکومت پنجاب نے احمدیت کے خلاف مظالم کا جو سلسلہ جاری کر رکھا تھا اس کی ایک کڑی احرار تبلیغ کانفرنس" جو 22،21، 23 /اکتوبر 1934 ء تھی.یہ کانفرنس جس کا نام تبلیغ کانفرنس“ رکھا گیا تھا شروع سے لے کر آخر تک جماعت احمدیہ اور اس کے امام کے خلاف اشتعال پھیلانے کے لئے وقف رہی اور دشنام آمیز گندی زبان میں شدید حملے کئے گئے یہ کانفرنس محض فساد کے لئے کی گئی تھی.احمدیوں کو اس میں جانے سے روک دیا گیا.اگر تبلیغی کا نفرنس تھی تو احمدیوں کو کھلے عام بلاتے اور پھر سارے لوگ یہ قریباً پانچ ہزار (5000) تھے جو باہر سے آئے ہوئے تھے وہ کسی اور جگہ بھی اکٹھے ہو سکتے تھے بلکہ اگر لاہور، امرتسر یا جالندھر وغیرہ میں کانفرنس ہوتی تو زیادہ سامعین ہوتے.لہذا ثابت ہوا کہ قادیان میں کانفرنس کا مقصد صرف اور صرف فساد تھا.اسی کا نتیجہ تھا کہ مختلف علاقوں میں احمدیوں کو مارا پیٹا گیا، ان پر حملے کئے گئے، پانی بند کیا گیا ، مال لوٹ لیا گیا، بائیکاٹ کیا گیا اور قبرستانوں میں احمدیوں کو اپنے مردے دفنانے سے روکا گیا.قادیان میں فساد کرانے کی شرمناک سازش: تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 485 تا 537) 8 جولائی 1935ء کو ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لخت جگر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب 425

Page 426

قاتلانہ حملہ کر دیا.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب معجزانہ طور پر بچ گئے.صاحبزادہ صاحب احمد صاحب معجزانہ طور پر بچ گئے.صاحبزادہ صاحب پر حملہ کوئی انفرادی نوعیت کا فعل نہیں تھا بلکہ ایک سوچی سمجھی سکیم کا نتیجہ تھا جس کے پیچھے قادیان میں فساد کرنے کی سازش کار فرما تھی.جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 12 جولائی 1935 ء کو خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: ”وہ حملہ جو شریف احمد صاحب پر کیا گیا ہے ہمیں عقل و جذبات کا توازن قائم رکھتے ہوئے اس کے متعلق سوچنا چاہئے کہ یہ انفرادی فعل تھا یا سازش کا نتیجہ تھا؟ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس فعل کی نوعیت بتاتی ہے کہ یہ فعل انفرادی نہیں تھا.لیکن اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ وہ دشمن جو ہمیں ذلیل کرنا چاہتا تھا دنیا کی نظروں میں ذلیل ہو گیا.دشمن کی شدید انگیخت کے باوجود امن قائم رہا.گویا صیاد نے جو جال ہمارے لئے بچھایا تھا وہ خود ہی اس کا شکار ہو گیا ہے.جب دنیا کے سامنے یہ بات آئے گی کہ اس حملہ سے پہلے ہمیں اس کی اطلاع تھی اور ہم نے حکومت کو اس کی اطلاع دے دی تھی جس نے قطعاً کوئی کارروائی نہیں کی اور وہ یہ واقعات پڑھے گی کہ ایک ذلیل گداگر جس کی ساری عمر احمدیوں کے ٹکڑوں پر بسر ہوئی ہے، مرزا شریف احمد صاحب پر حملہ آور ہوا اور احمدی پھر بھی خاموش رہے تو وہ وقت تمہاری فتح کا ہو گا.“ احرار کا عبرتناک انجام: (الفضل 20 جولائی 1935ء) مخالفین احمدیت خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ ہم احمدیوں کے خلاف ملک گیر شورش برپا کر نے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اب عنقریب احمدیت کا نام و نشان مٹادیں گے کہ اچانک خدا کی بے آواز لاٹھی مسجد شہید گنج کے قضیے کی شکل میں نمو دار ہوئی اور ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی.لاہور میں ایک مسجد شہید گنج تھی جو سکھوں کے قبضے میں تھی.8 جولائی 1935 ء میں سکھوں نے یکا یک یہ مسجد مسمار کر دی اس کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو گئی ، پولیس کو گولی چلانا پڑی، مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہو گیا، عام مسلمانوں کا خیال تھا کہ احرار مسلمانوں کی قیادت کے فرائض سر انجام دیں گے مگر احراری لیڈر نہ صرف اپنے دفتر میں آرام بیٹھے تماشا رہے بلکہ مسجد پر قربان ہونے والوں کو حرام موت مرنے والا قرار دیا.اس سے احراری حقیقت کے رُخ سے نقاب اُٹھ گیا.مسلمان ان سے بیزاری کا اظہار کرنے لگے اور سخت سے سخت الفاظ استعمال کرنے لگے.نمونے کے طور پر ایک حوالہ پیش ہے، دہلی کے رسالہ اسلامی دنیا نے جولائی 1935ء میں لکھا: مجلس احرار جیسی افتراق انگیز انجمنوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے ایسے ہی غداروں کے ہاتھوں مسلمان ذلیل ہوئے ہیں.مجلس احرار کی اس غدارانہ روش کے بعد مسلمانوں کو معلوم ہو گیا کہ عطاء اللہ شاہ بخاری کی مجلس احرار کوفیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی جنہوں نے آل رسول کو اور عاشقان اسلام کو بلا کر یزید کے ہاتھوں شہید کرا دیا تھا.“ ( تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 561) الغرض ہر طرف احرار کی رُسوائی ہوئی.کانگریس جس کے روپے پیسے پر احرار پل رہے تھے انہوں نے احرار کو مسلمانوں کا نمائندہ ماننے سے انکار کر دیا، مسلمانوں نے رڈ کر دیا، آپس میں بھی اختلاف پڑ گیا، مولوی ظفر علی خان جو کبھی احراریوں کے ساتھ تھے، وہ گالیاں دینے لگے.مولوی ظفر علی خان صاحب لکھتے ہیں: 426

Page 427

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو مولوی ظفر علی خان صاحب کا خراج تحسین: مولوی ظفر علی خان صاحب نے صرف مجلس احرار کی تذلیل و تحقیر ہی نہیں کی بلکہ ان کی خلاف احمدیت سرگرمیوں پر بھی زبردست تنقید کی اور جماعت احمدیہ کی تبلیغی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا.چنانچہ احرای لیڈر مولوی مظہر علی صاحب اظہر اپنی کتاب ایک خوفناک سازش“ میں لکھتے ہیں:.”مولوی (ظفر علی خاں نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا : احمدیوں کی مخالفت کی آڑ میں احرار نے خوب ہاتھ رنگے.احمدیوں کی مخالفت کا احرار نے محض جلب زر کے لئے ڈھونگ رچا رکھا ہے، قادیانیت کی آڑ میں غریب مسلمانوں کی گاڑھے پسینہ کی کمائی ہڑپ کر رہے ہیں.کوئی ان احرار سے پوچھے بھلے مانسو! تم نے مسلمانوں کا کیا سنوارا؟ کون سی اسلامی خدمت تم نے سر انجام دی ہے؟ کیا بھولے سے بھی تم نے تبلیغ اسلام کی؟ احرار! کان کھول کر سن لو تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے.مرزا محمود کے پاس قرآن کا علم ہے تمہارے پاس کیا خاک دھرا ہے؟ تم میں ہے کوئی جو قرآن کے سادہ حروف بھی پڑھ سکے؟ تم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا.تم خود کچھ نہیں جانتے تم لوگوں کو کیا بتاؤ گے؟ مرزا محمود کی مخالفت تمہارے لئے فرشتے بھی نہیں کر سکتے.مرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اس کے ایک اشارہ پر اس کے پاؤں میں نچھاور کرنے کو تیار ہے.تمہارے پاس کیا ہے؟ گالیاں اور بدزبانی! تف ہے تمہاری غذاری پر! لاہور میں مسجد شہید ہوئی تم ٹس سے مس نہ ہوئے......سوائے چند تنخواہ دار اور بھاڑے کے ٹوؤں کے تم کسی کو جیل خانہ نہیں بھجوا سکے.مرزا محمود کے پاس مبلغ ہیں، مختلف علوم کے ماہر ہیں، دنیا کے ہر ایک ملک میں اس نے جھنڈا گاڑ رکھا ہے........میں حق بات کہنے سے باز نہیں رہ سکتا یہ میں ضرور کہوں گا کہ اگر تم نے مرزا محمود کی مخالفت کرنی ہے تو پہلے قرآن سیکھو، مبلغ تیار کرو، عربی مدرسہ جاری کرو.قادیان میں دو چار مفسدہ پرداز بھیجنے سے کام نہیں چلتا.یہ تو چندہ بٹورنے کے ڈھنگ ہیں.اگر مخالفت کرنی ہے تو پہلے مبلغ تیار کرو، غیر ممالک میں ان کے مقابلہ میں تبلیغ اسلام کرو یہ کیا شرافت ہے کہ.......مرزائیوں کو گالیاں دلوا دیں.کیا یہ تبلیغ اسلام ہے ؟ یہ تو اسلام کی مٹی خراب کرنا ہے.“ خلافت احمدیہ کے خلاف دوسری مخالفانہ تحریک: تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 556 تا 557) خلافت احمدیہ کے خلاف پہلی تحریک 1934ء میں ناکام ہوئی تو احرار مسلسل اس کوشش میں رہے کہ کوئی نہ کوئی موقع پیدا کیا جائے جس سے ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل ہو سکے اور وہ اپنی کھوئی ہوئی سیاسی شہرت بھی حاصل کر سکیں.چنانچہ یہ موقع انہیں 1952ء میں میسر آگیا.یہ تحریک دراصل ایک سیاسی تحریک تھی جس کامیابی کے لئے عوام کو اپنے ساتھ ملا کر مذہبی رنگ دے دیا گیا جیسا کہ خواجہ ناظم الدین صاحب وزیر اعظم پاکستان نے تحقیقاتی عدالت میں اس کا اعتراف کیا وہ کہتے ہیں: اس تحریک کے پس پردہ وہ لوگ ہیں جو سیاسی اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں.میری مراد صوبہ پنجاب کے ان لیڈروں سے تھی جن کے ہاتھوں میں صوبائی حکومت کی باگ دوڑ تھی مجھے برابر اطلاع مل رہی تھی کہ خود وزیر اعلیٰ اور ان کے افسر خود تحریک کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے.“ ( تاریخ احمدیت جلد 15 صفحہ 462) 427

Page 428

اس دوسری تحریک کا آغاز مئی 1952ء میں جماعت احمدیہ کراچی کے سالانہ جلسہ کی مخالفت سے کیا گیا اس جلسہ کو روکنے کے لئے ہر طرح کی کوشش کی گئی لیکن اللہ کے فضل سے جلسہ کامیاب ہوا.جلسہ کامیاب ہوتا دیکھ کر ہنگامہ آرائی کرنے والوں نے احمدیوں کے املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا اور اکا دُکا احمدیوں کو پکڑ کر مارا پیٹا گیا.جون 1952ء میں احرار نے حکومت پاکستان سے تین مطالبات شروع کر دیئے._1 -2 -3 احمدی غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جائیں، چودھری ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ کے عہدے سے برطرف کئے جائیں، احمدیوں کو تمام کلیدی آسامیوں سے ہٹا یا جائے.تاریخ احمدیت جلد 15 صفحہ 127) یہ مطالبات تو محض ایک آڑ تھے ورنہ اصل مقصد در پردہ اپنی سیاسی اغراض حاصل کرنا تھا جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جلسہ سالانہ 1952ء کے موقع پر فرمایا: ” جماعت احمدیہ کے خلاف فتنہ گزشتہ دو سال سے جاری تھا مگر اس سال اس نے خاص شہرت اختیار کر لی تھی کیونکہ ملک کے بعض عناصر نے اپنی اپنی سیاسی اور ذاتی اغراض کے ماتحت احراریوں سے جوڑ توڑ کرنے اور انہیں ملک میں نمایاں کرنے کی کوشش کی.احمدیت کی مخالفت اور اسی طرح چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی مخالفت تو محض ایک آڑ تھی ورنہ اصل مقصد در پردہ وہ اپنی سیاسی اغراض حاصل کرنا تھا.“ وو تاریخ احمدیت جلد 15 صفحہ 372,371) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ میں مخالفین کے انجام کے متعلق فرمایا: یاد رکھو اگر تم نے احمدیت کو سچا سمجھ کر مانا ہے تو تمہیں یقین رکھنا چاہئے کہ احمدیت خدا تعالی کی قائم کی ہوئی ہے مودودی، احراری اور ان کے ساتھی اگر احمدیت سے ٹکرائیں گے تو ان کا حال اس شخص کا سا ہو گا جو پہاڑ سے ٹکرا تا ہے.اگر یہ لوگ جیت گئے تو ہم چھوٹے ہیں لیکن اگر ہم بچے ہیں تو یہی لوگ ہاریں گے.انشاء اللہ تعالی و باللہ التوفیق تاریخ احمدیت جلد 15 صفحہ 486,487) فروری 1953ء کے آخر میں پنجاب میں بالخصوص اور پورے پاکستان میں بالعموم عام فسادات شروع ہو گئے جس میں حکومتی لوگوں کی املاک کی توڑ پھوڑ کی گئی اور نقصان پہنچایا گیا.حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک مقدس نام یعنی ختم نبوت کے نام پر کیا جا رہا تھا.انہیں ایام میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک پیغام میں جماعت کو فرمایا: آپ بھی دعا کرتے رہیں، میں بھی دعا کرتا ہوں، انشاء اللہ فتح ہماری ہے.کیا آپ نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا.سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑا آرہا ہے.وہ میرے پاس ہے، وہ مجھ میں ہے، خطرات ہیں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے.“ خدائی نشان کا ظہور : تاریخ احمدیت جلد 15 صفحہ 493,492) 428

Page 429

18 مارچ 1953ء گورنر پنجاب کی طرف سے حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کو نوٹس جاری کیا گیا کہ آپ احرار احمدی تنازع یا جماعت احمدیہ کے خلاف ایجی ٹیشن (agitation) یا اور کسی امر کے بارے میں جس سے مختلف طبقات کے مابین منافرت یا دشمنی کے جذبات کے اُبھر نے کا امکان ہو تقریر کرنے یا بیان یا رپورٹ شائع کرنے سے احتراز کریں.باوجود اس کے کہ ان دنوں میں مخالفین پورے جوش و خروش سے جماعت لٹریچر تقسیم کر رہے تھے اور ہر طرح کے بیان بھی ہرے رہے تھے لیکن حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے قانون پر عمل کیا اور ساتھ ہی گورنر کو بھی انتباہ فرمایا.حضرت خليفة أمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ” بے شک میری گردن آپ کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ کے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں آپ کے گورنر نے میرے ساتھ جو کچھ کرنا تھا کر لیا اب میرا خدا ہاتھ دکھائے گا.“ ہے.تاریخ احمدیت جلد 16 صفحہ 242) خدا کے خلیفہ کا قول پورا ہوا اور چند دن کے اندر اندر گورنر پنجاب کو برطرف کر دیا گیا.اس کی جگہ نیا گورنر مقرر ہوا.اس نے یکم مئی 1953ء کو یہ ظالمانہ نوٹس واپس لے لیا.تاریخ احمدیت جلد 16 صفحہ 240 تا 247) جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار و نزار انہیں ایام میں قصرِ خلافت کی تلاشی لی گئی اور حضرت مرزا ناصر احمد (خليفة أسبح الثالث) اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گرفتار کر لیا گیا اور دو ماہ قید رکھا گیا.علاوہ ازیں 1953 ء میں 6 احمدی شہید ہوئے اور 12 احمدیوں کو اسیران راہ مولی بنایا گیا.تحریک کا انجام اس مخالفانہ تحریک کا انجام یہ ہوا کہ صوبائی اور مرکزی حکومت ٹوٹ گئی اور تحریک خود ہی سرد پڑ گئی اور اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا.مخالفین کا کوئی بھی مطالبہ پورا نہ ہوا اور وہ آپس میں لڑ پڑے.تاریخ احمدیت جلد 16 صفحہ 253) 6 مارچ 1953 ء کو لاہور میں مارشل لاء کا نفاذ عمل میں آیا جو 15 مئی 1953 ء تک رہا.1953ء کی مخالفانہ تحریک میں مجلس احرار اور جماعت اسلامی دونوں ہی سب سے نمایاں اور پیش پیش تھیں اور انہوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن تحریک بری طرح ناکام ہو گئی اور لیڈر گرفتار کر لئے گئے.کچھ عرصہ کے بعد جب یہ لوگ رہا ہوئے تو باہم برسر پیکار ہو گئے اور ایک دوسرے کے خلاف قلمی اور لسانی جنگ کا وسیع محاذ کھول دیا.مثال کے طور پر دو حوالے ملاحظہ ہوں.سید ابو الاعلیٰ مودودی امیر و بانی جماعت اسلامی نے احراریوں کی تحریک ختم نبوت“ کے متعلق اپنی رائے یہ دی کہ: اس کارروائی سے دو باتیں میرے سامنے بالکل عیاں ہو گئیں: ایک یہ کہ احرار کے سامنے اصل سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں ہے بلکہ نام اور سہرے کا ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کے جان و مال کو اپنی اغراض کے لئے جوئے کے داؤ پر لگا دینا چاہتے ہیں.دوسرے یہ کہ رات کو بالا تفاق ایک قرار داد طے کرنے کے بعد چند آدمیوں نے الگ بیٹھ کر ساز باز کیا ہے اور ایک دوسرا ریزولیوشن بطور خود لکھ لائے ہیں جو بہر حال کنونشن کی مقرر کردہ بجیکٹس 429

Page 430

کمیٹی کا مرتب کیا ہوا نہیں ہے.میں نے محسوس کیا کہ جو کام اس نیت اور ان طریقوں سے کیا جائے اس میں کبھی خیر نہیں ہو سکتی اور اپنی اغراض کے لئے خدا اور رسول کے نام سے کھیلنے والے جو مسلمانوں کے سروں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کریں، اللہ کی تائید سے کبھی سرفراز نہیں ہو سکتے.“ تاریخ احمدیت جلد 16 صفحہ 515) احرار اور گورنمنٹ کے متعلق ججوں نے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں درج ذیل الفاظ اپنی رائے کا اظہار کیا: احراریوں سے تو ایسا برتاؤ کیا گیا گویا وہ خاندان کے افراد ہیں اور احمدیوں کو اجنبی سمجھا گیا.احراریوں کا رویہ اس بچے کا ساتھا جس کو اس کا باپ کسی اجنبی کو پیٹنے پر سزا کی دھمکی دیتا ہے اور وہ بچہ یہ جان کر کہ اسے سزا نہ دی جائے گی اجنبی کو پھر پیٹنے لگتا ہے اس کے بعد چونکہ دوسرے لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں اس لئے باپ محض پریشان ہو کر بیٹے کو مارتا ہے لیکن نرمی سے تا کہ اسے چوٹ نہ لگے.“ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو صفحہ 422) اس تحریک میں حصہ لینے والے سب کے سب اپنے انجام کو پہنچے.بہت سے مولوی جیلوں میں بند کردیئے گئے، ختم نبوت کے نام پر جمع ہونے والوں میں روپے کا جھگڑا شروع ہو گیا، ایک دوسرے پر الزام لگائے اور کفر کے فتوے لگائے گئے، مولوی اختر علی خان خلف مولوی ظفر علی خان ایڈیٹر زمیندار نے تحریک میں خوب روپیہ اکٹھا کیا لیکن یہ ڈھنگ دولت ان کے ہاتھ سے انجام کار جاتا رہا اور ایسی گمنامی کی حالت میں مرے کہ جنازے میں ہیں تھیں لوگ بھی نہ تھے.سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب لیڈر احرار جب فالج کی وجہ سے بیمار پڑے تھے تو خود اپنے متعلق کہتے ہیں: ”جب تک یہ کتیا (یعنی ان کی زبان.ناقل ) بھونکتی تھی سارا بر صغیر ہندو پاک ارادتمند تھا.اس نے بھونکنا چھوڑ دیا ہے تو کسی کو پتہ ہی نہیں رہا کہ میں کہاں ہوں.“ تاریخ احمدیت جلد 16 صفحہ 529) دوسری طرف اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو اپنے وعدوں کے مطابق بے انتہا ترقی عطا فرمائی اور اس مخالفانہ تحریک کے بعد تو ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے یہ تحریک جماعت کی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لئے چلائی گئی تھی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیشگوئی کہ خدا میری مدد کے لئے دوڑا چلا آرہا ہے لفظ بلفظ پوری ہوئی.خلافت ثالثہ کے متعلق پیشگوئی: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خلافت ثالثہ کے متعلق فرمایا: ”میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہو جائے گا.....اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی.“ تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 161) ساری دنیا جانتی ہے کہ خلافت ثالثہ میں یہ پیشگوئی خلافت ثالثہ کے حق میں حرف بہ حرف پوری ہوئی.خلافت احمدیہ کے خلاف تیسری تحریک اور اس کا انجام : خلافت احمدیہ کے خلاف تیسری تحریک کا بڑا کردار مسٹر ذو الفقار علی بھٹو تھا.اس نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے بطور وزیر اعظم اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بھٹو کی ان کوششوں کے پس پردہ اس 430

Page 431

فتنہ کی اصل حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 1973ء میں بھٹو صاحب نے پاکستان میں بڑے ٹھاٹھ سے اسلامی ممالک کی ایک کانفرنس منعقد کی.بھٹو صاحب کی شدید خواہش تھی اور ان میں اس کی صلاحیت بھی تھی کہ بین الاقوامی سطح پر ان کا تشخص ایک قد آور لیڈر کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے.ظاہر ہے اس مقصد کے لئے پاکستان کی سٹیج تو بے حد محدود اور ناکافی تھی اس لئے کچھ عرصہ تک تو وہ تیسری دنیا کا لیڈر بننے کی کوشش میں لگے رہے جس میں برطانیہ اور فرانس کی نو آبادیات اور دیگر ممالک شامل تھے لیکن سوئے اتفاق سے یہ گدی پہلے ہی پنڈت نہرو اور اس کی بیٹی مسز اندرا گاندھی کے قبضے میں آچکی تھی.چنانچہ مایوس ہو کر وہ دُنیائے اسلام کا لیڈر بننے کا خواب دیکھنے لگے.اس سلسلے میں انہیں سعودی عرب کی پوری حمایت حاصل تھی، اس کے صلے میں کامیابی کی صورت میں جہاں بھٹو صاحب عالم اسلام کے سرکردہ سیاسی لیڈر کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آجاتے وہاں سعودی عرب کے فرمانروا کو بھی مسلمانوں کے روحانی سربراہ اور خلیفہ کے طور پر تسلیم کرا لیا جاتا.“ ایک مرد خدا.مترجم چودھری محمد علی صاحب صفحہ 154,155) ظاہر ہے کہ اس منصوبہ کی راہ میں ایک ہی روک تھی جو ایک ناقابل عبور اور بلند و بالا پہاڑ کی طرح حائل تھی اور وہ تھی جماعت احمدیہ کی خلافت اور اس عظیم منصب اور ادارے کا پورے تمکن.تحریک اور استحکام کے ساتھ اس کا فعال قیام اور اس کی موجودگی.یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ بیک وقت مسلمانوں کے دو خلفا ہوں اس لئے انہیں اس کا ایک ہی حل نظر آیا اور وہ یہ تھا کہ خلافت احمدیہ کو سرے سے راستے سے ہٹا دیا جائے یا بالفاظ دیگر احمدیوں کے اسلامی تشخص کو ختم کر کے انہیں غیر مسلم قرار دے دیا جائے.نہ رہے بانس نہ بجے بانسری.“ ایک مرد خدا.چودھری محمد علی صاحب صفحہ 156) اس کے لئے پہلے سے سازش تیار کر لی گئی تھی.حضرت مرزا طاہر احمد (خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) نے بعض حکومتی نمائندگان سے ذکر کیا تو وہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے لیکن ہوا وہی جسے آپ کی دور بین نگاہوں نے پہلے ہی تاڑ لیا تھا.بھٹو صاحب کی یہ سازش تو ناکام ہو گئی پھر وہ جماعت کی کھلم کھلا مخالفت پر اتر آئے جس کے نتیجے میں وہ بدنام زمانہ قرار داد پیش کی گئی جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جا سکے.1974ء میں مجوزہ آئینی ترمیم پیش کی گئی.یہ ساری کاروائی عوام سے مخفی رکھی گئی اور احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا.وہ دن اور آج کا دن احمدیوں کو اجازت نہیں ہے کہ وہ مکہ مکرمہ جا کر فریضہ حج ادا کر سکیں، بری اور ہوائی افواج سے سینئر احمدی افسروں کو ریٹائر کر دیا گیا، نوجوان احمدی افسروں کی ترقیاں روک دی گئیں، سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں کام کرنے والے احمدی افسروں اور ماتحتوں سے یہی سلوک روا رکھا گیا، احمدی سفارتکاروں اور سفیروں پر ترقی کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے، اس کے بعد یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے احمدی لیکچراروں پر پروفیسر بننے کے امکانات ختم ہو گئے ، اسی طرح ہسپتالوں میں کام کرنے والے احمدی ڈاکٹر بھی اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی صدارت کے فرائض سر انجام دینے کے نا اہل قرار دے دیئے گئے، اور تو اور ٹیلیفون (Telephone) اور کمپیوٹر انجینئرنگ (Computer Engineering) وغیرہ قسم کے محکموں میں بھی احمدی نوجوانوں کے ساتھ اسی قسم کا امتیازی سلوک روا رکھا جانے لگا، نئے فارغ التحصیل احمدی نوجوان طلبا اعلی تیکنیکی (technical) اور سائنسی امتحانات نمایاں کامیابی کے ساتھ پاس کرنے کے بعد جب سرکاری ملازمت حاصل 431

Page 432

کرنے کی کوشش کرتے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے اور ان کے نااہل ہم جماعت کامیاب قرار دے دیئے جاتے.اس صورتحال سے جماعت احمدیہ کے معاندین کا جی خوش ہو گیا.یہ الگ بات ہے کہ اس ظالمانہ طریق کارنے انصاف کر گلا گھونٹ کر رکھ دیا.جب احمدی نوجوانوں پر اپنے وطن میں انصاف کے دروازے بند کر دیئے گئے تو چار و ناچار انہیں بیرونی ممالک کی طرف رُخ کرنا پڑا.اپنے وطن میں اپنے خلاف اس منفی سلوک سے زچ ہو کر وہ بادل ناخواستہ برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، امریکہ اور دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے.یہ نوجوان صحت مند بھی تھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی.دراصل ایسے نوجوان ہی کسی ملک کا حقیقی سرمایہ ہوا کرتے ہیں لیکن اب یہی نوجوان اپنی دینی اور مذہبی قدروں کو سینوں سے لگائے ترک وطن کے خطرات مول لینے پر مجبور ہو گئے.ان کے جانے سے جہاں پاکستان اس افرادی دولت سے محروم ہو گیا وہاں دوسرے ممالک کو اس سے فائدہ بھی پہنچا.جماعت احمدیہ کو شکایت تھی اور یہ ایک جائز اور وزنی شکایت تھی کہ قومی اسمبلی کی ساری کاروائی جس کی بنا پر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا بالکل خفیہ اور بصیغہ راز ہوئی اور پریس (Press) اور پلک (Public) کو اس کی تفصیلات سے سراسر بے خبر رکھا گیا.جماعت احمدیہ نے بار بار مطالبہ کیا کہ قومی اسمبلی کی پوری کارروائی اور بحث اور دلائل کی تفصیل شائع کی جائے لیکن بھٹو حکومت نے یہ مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر دیا اور جوں جوں یہ مطالبہ زور پکڑتا گیا بھٹو حکومت اسی شدت سے انکار پر انکار کرتی چلی گئی.“ ایک مرد خدا.مترجم چودھری محمد علی صاحب.صفحہ 153 تا 182) ان ایام کا تذکرہ کرتے ہوئے خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مسٹر بھٹو کی حکومت بتدریج تیزی کے ساتھ غیر مستحکم ہوتی چلی گئی.ان کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا تھا.انہوں نے بڑی مایوسی اور پریشانی کے عالم میں ہاتھ پاؤں مارنے شروع کئے کہ اقتدار کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے اور سیاسی مصلحت کے ہاتھوں مجبور ہو کر جب بھی موقع ملا اپنے پرانے ساتھی چھوڑ کر نئے ساتھی تلاش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا.جولائی 1977 ء میں جنرل ضیاء الحق نے جسے مسٹر بھٹو نے سینئر افسروں کو نظر انداز کر کے پاکستان کی بری افواج کا کمانڈر انچیف مقرر کیا تھا ایک فوجی انقلاب کے ذریعے مسٹر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور پھر دو سال بعد دنیا بھر کے احتجاج کے باوجود اسی جنرل ضیاء الحق نے مسٹر بھٹو کو ایک سیاسی مخالف کے والد کے قتل کے الزام میں ماخوذ کر کے مقدمہ عدالت کے سپرد کر دیا.عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی، اس فیصلے کے خلاف عالم گیر صدائے احتجاج بلند ہوئی اور اکناف عالم میں احتجاج کا ایک شور برپا ہو گیا.عام تاثر یہی تھا کہ سزائے موت کا عدالتی فیصلہ مبنی بر انصاف نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے اور سیاسی مصلحتوں اور ضرورتوں کا مرہون منت ہے تاہم جنرل ضیاء الحق اس کانٹے کو اپنے راستے سے ہٹانے کا کتنا ہی خواہش مند کیوں نہ ہو وہ مسٹر بھٹو کو تختہ دار پر لٹکانے کی جرات کبھی نہیں کر سکے گا.یہ کسی کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس سزا پر عمل درآمد بھی ہو گا.“ ایک مرد خدا.مترجم چودھری محمد علی صاحب صفحہ 179) لیکن اس کے ساتھ خدا کی تقدیر کچھ اور ہی ظاہر کرنا چاہتی تھی جو دنیا کی نظروں سے اوجھل تھا لیکن بعد میں کھل گیا.4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور خدا کے مسیح کی پیشگوئی پوری ہوئی كَلْبٌ يَمُوتُ عَلَى كَلْبِ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 432

Page 433

ایک شخص کی موت کی نسبت خدا تعالیٰ نے اعداد تہجی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ كَلْبٌ يَمُوتُ عَلى كَلب.یعنی وہ کتا ہے اور کتنے کے عدد پر مرے گا جو باون (52) سال پر دلالت کر رہے ہیں.اس یعنی اس کی عمر باون(52) سال سے تجاوز نہیں کرے گی، جب باون سال کے اندر قدم دھرے گا تب اسی سال کے اندر اندر ہی ملک بقا ہو گا.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 190) خلافت احمدیہ کے خلاف چوتھی مخالفانہ تحریک اور اس کا انجام : خلافت احمدیہ کے خلاف چوتھی تحریک جنرل ضیاء الحق نے چلائی اور اس نے خلافت اور جماعت احمدیہ کو تباہ کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کی یہ سزا دی کہ رہتی دنیا تک اسے عبرت کا نشان بنا دیا.ضیاء الحق کا اقتدار پر قبضہ: ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے بعد کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے آئن ایڈم سن صاحب (Iean Adam Son) طے لکھتے ہیں: جولائی 1977ء میں مسٹر بھٹو کی پیپلز پارٹی خاصی اکثریت کے ساتھ ایک بار پھر بر سر اقتدار آ گئی تھی.مخالف سیاسی جماعتوں کو شکایت تھی کہ الیکشن (Election) کے دوران دھاندلی ہوئی ہے، وہ سڑکوں پر نکل آئی تھیں، ہنگامے ہو رہے تھے، مخالف جماعتوں اور مسٹر بھٹو کے درمیان گفت و شنید جاری تھی.بالآخر باہم ایک معاہدہ پا گیا جس کے مطابق مسٹر بھٹو اس بات پر آمادہ ہو گئے تھے کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی کچھ نشستیں خالی چھوڑ دے.اس طرح اس شکایت کا ازالہ بھی مقصود تھا کہ الیکشن میں تصرف ہوا ہے.معاہدے کو ضبط تحریر میں لایا جا رہا تھا اور جلد اس کا اعلان ہونے والا تھا.صبح کے چھ بج رہے تھے جنرل ضیاء الحق کمانڈر انچیف بری افواج پاکستان نے اچانک اقتدار پر قبضہ کر لیا اور مسٹر بھٹو ان کے وزیروں اور نو جماعتی حزب اختلاف کے تمام لیڈروں کو گرفتا ر کر لیا گیا.جنرل ضیاء الحق اور پانچوں علاقائی کمانڈروں نے مارشل لا (Martial Law) کا اعلان کر دیا.جنرل ضیاء الحق نے اعلان کیا کہ نئے انتخابات نوے دن کے اندر اندر کروادئیے جائیں گے.شروع شروع میں تو لوگ پڑ امید تھے.وہ سمجھتے تھے کہ جنرل ضیاء سچ بول رہا ہے اور حقیقتا چاہتا ہے کہ ملک سے رشوت ستانی اور بد دیانتی کا خاتمہ ہو اور پاکستان جلد سے جلد پارلیمانی جمہوریت کی طرف واپس آ جائے.ایک مرد خدا - مترجم چودھری محمد علی صاحب صفحہ 273,272) ضیاء نے لوگوں سے انتخاب کا وعدہ تو کیا لیکن پورا کرنے کی بجائے اپنے اقتدار کو طول دیتا گیا اور اصل مقصد سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے اس نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک محاذ کھول دیا.ہر طرح دق کونے کی کوشش کی.حضرت خلیفۃ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ان دنوں کو تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایسے مطلق العنان آمروں کو جانا پہچانا طریقہ واردات یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ وہ عوام کی توجہ ان کے حقیقی مسائل سے ہٹانے کے لئے کسی مذہبی یا نسلی اقلیت کو چن لیتے ہیں اور تعصب کی چنگاریوں کو ہوا دے کر ان اقلیتوں کے خلاف مخالفت کی آگ بھڑکا دیتے ہیں یہی کچھ ضیاء نے بھی کیا.ضیاء کی نظر انتخاب جماعت احمدیہ پر 433

Page 434

و پڑی.ایک سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت جماعت پر ایذا رسانی کے دروازے کھول دیئے گئے ظلم و کی انتہا کر دی گئی، احمدیوں کی دکانیں لوٹی اور جلائی گئیں مشتعل ہجوم ان کی مساجد کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ان پر حملہ آور ہوئے اور مساجد کے اندر داخل ہو کر انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، مسٹر بھٹو نے سرکاری محکموں میں احمدی ملازمین کے خلاف امتیاز کی جو مہم شروع کی تھی اب اس میں شدت پیدا ہو گئی ، معصوم اور بے گناہ احمدیوں کو جن کا واحد قصور یہ تھا کہ وہ احمدی تھے اور کسی قانونی یا اخلاقی کو تاہی یا جرم کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، بھرے ہوئے ہجوم اور کرائے کے غنڈوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، ان کو سرعام زد و کوب کیا گیا، انہیں قتل کیا گیا، اس سارے عمل کو پولیس خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی، نہ ہی اس نے جرم کے ارتکاب کو روکا اور نہ ہی کسی کاروائی کی ضرورت سمجھی، دُور جانے کی ضرورت نہیں ماضی قریب میں بھی ایسا ہی تشدد اور اسی قسم کی ایذا رسانی ایک اور مذہبی اقلیت کے خلاف بھی روا رکھی گئی تھی.سب جانتے ہیں کہ دنیا کو اس کی کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی تھی.دو (حضرت) خلیفہ اسیح نے مظلوم احمدیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: جارحیت کا جواب جارحیت سے نہ دو.اپنی حفاظت ضرور کرو لیکن حملہ کرنے والوں پر حملہ مت کرو نہ جسمانی طور پر اور نہ ہی زبان سے.یاد رکھو کہ (حضرت) مسیح موعود (علیہ السلام) نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ تمہیں ستایا جائے گا اور تم پر ستم توڑے جائیں گے، گند اُچھالا جائے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ انجام کار جماعت احمدیہ ہی فتح یاب ہو گی.“ ایک مرد خدا.مترجم چودھری محمد علی صاحب صفحہ 275,274) اپنے امام کے حکم کے مطابق احمدیوں نے تو صبر کا دامن نہ چھوڑا لیکن ضیاء اپنے ظلم وستم میں بڑھتا چلا گیا یہ سب سے بڑا قدم اس نے اپریل 1984 ء میں اٹھایا جب آرڈینینس نافذ کیا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جمعرات کا دن تھا اور 26 اپریل 1984ء کی تاریخ جب حکومت پاکستان کے گزٹ (Gazett) میں صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کی طرف سے مارشل (martial Law) کا بدنام زمانہ آرڈینینس نمبر ہیں لا 20 Ordinance Number جاری کیا گیا تا کہ احمدیوں کو خواہ مخواہ قادیان کی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں یا لاہوری جماعت سے ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں سے باز رکھا جا سکے.آرڈنینس (Ordinance) کے الفاظ یہ تھے: ”ہر گاہ کے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ قانون میں ایسی ترمیم کی جائے جس سے احمدیوں کو خواہ وہ قادیانی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں یا لاہوری جماعت سے انہیں ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں سے روکا جا سکے اور ہر گاہ صدر پاکستان کو اطمینان ہے کہ ایسے وجوہ موجود ہیں جن کی وجہ سے اس بارے میں فوری اقدامات ناگزیر ہو گئے ہیں.لہذا پانچ جولائی 1977 ء کے اعلان اور ان اختیارات کے ماتحت جو صدر پاکستان کو اس اعلان کے ذریعے دو حاصل ہیں.صدر پاکستان مندرجہ ذیل فرمان کا اجرا اور نفاذ کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں: مختصر عنوان اور آغاز : -1 یہ آرڈنینس (Ordinance) قادیانی گروپ، لاہوری گروپ اور احمدیوں کی خلاف اسلام سرگرمیوں (امتناع و - 434

Page 435

435 تعزیر) آرڈنینس 1984ء کے نام سے موسوم ہو گا.-2 یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا.0 آرڈینینس (Ordinance) عدالتوں کے احکام اور فیصلوں پر غالب ہو گا.اس آرڈینینس (Ordinance) کے احکام کسی عدالت کے کسی حکم یا فیصلے کے باوجود مؤثر ہوں گے.ایکٹ نمبر 45 بابت 1860ء میں نئی دفعات: 298 B-298) اور 298 - ج (298) کا اضافہ.مجموعہ تعزیرات پاکستان ایکٹ نمبر 45-1860 کے باب میں دفعہ 298 الف کے بعد حسب ذیل نئی دفعات کا اضافہ کیا جائے گا : یعنی 298.ب (298) بعض مقدس شخصیات یا مقامات کے لئے مخصوص القاب، اوصاف یا خطابات وغیرہ کا ناجائز استعمال.قادیانی گروپ لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی‘یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہوں) کا کوئی فرد -1 جو الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا نظر آنے والی کسی علامت کے ذریعے.ر خلفائے راشدین یا (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کے علاوہ کسی اور شخص کو امیر المومنین یا خلیفہ المسلمین یا صحابی یا رضی اللہ عنہ کہہ کر پکارے، (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے علاوہ کسی اور کو اُم المؤمنین کے نام ب.سے یاد کرے یا مخاطب کرے، ج اہل بیت کے علاوہ کسی فرد کو اہل بیت کہہ کر یاد کرے یا مخاطب کرے یا.اپنی عبادت گاہ کو مسجد کے نام سے یاد کرے یا پکارے.تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو تین سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا.قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہوں) کو کوئی شخص جو زبانی یا تحریری الفاظ کے ذریعے یا کسی مرئی طریقے سے اپنی مذہبی عبادت کے لئے بلانے کے طریقے یا طرز کو اذان کہہ کر یاد کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان اذان دیتے ہیں تو اسے ایک ہی کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائیگی جو تین سال تک ہو سکتی ہے او ر وہ جرمانے کا مستوجب بھی ہو گا.جو 298 - ج (C-298) قادیانی گروپ وغیرہ کا شخص جو خود کو مسلمان کہے یا اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے.قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص بالواسطہ یا بلا واسطہ خود کو مسلمان ظاہر کرے یا اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر موسوم کرے یا منسوب کرے یا الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا کسی مرئی طریقے سے اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے یا دوسروں کو اپنی مذہب قبول کرنے کی دعوت دے یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کرے تو اس کو کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو تین سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کا مستوجب ہوگا.“

Page 436

دنیا اس آرڈینینس کی خبر سن کر سکتے میں آگئی.خود پاکستان میں کیا وکلا، اساتذہ اور سفارت کار اور کیا عام شہری اور کاروباری لوگ سبھی اس بات پر حیران اور ششدر تھے کہ اب اذان اور نماز بھی جرم قرار دیئے جا تھے.سبھی افسردہ خاطر تھے کہ ان کا وطن عزیز مذہبی تعصب، منافرت، مذہب کے نام پر مفاد پرستی کی ایک خوفناک اور بھیانک دلدل میں پھنس کر رہ گیا ہے اور ان بدنام زمانہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جن کی حکومتیں اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے اپنے شہروں کو مذہب یا رنگ ونسل کی آڑ میں طرح طرح کے ظلم و تشدد کا نشانہ بناتی رہتی ہے.“ مجھ ایک مرد خدا.مترجم چودھری محمد علی صاحب صفحہ 283 تا 286) اس آرڈینینس (Ordinance) کے نفاذ کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی.اب صرف میری اپنی سلامتی ہی خطرے میں نہیں تھی بلکہ میری زبان بندی بھی کر دی گئی تھی.اس نئے قانون کی آڑ میں جنرل ضیاء الحق نے پر ہی نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے فعال امام اور سربراہ کی حیثیت سے میری زبان پر بھی پہرے بٹھا دیئے تھے اور میرے لئے فرائض منصبی کی ادائیگی محال کر دی تھی یعنی پاکستان میں تو رہوں لیکن بولوں تو جیل (Jail) کی ہوا کھاؤں اور جب سزا بھگت کر واپس آؤں اور پھر بولوں تو پھر تین سال کے لئے جیل (Jail) بھیج دیا جاؤں.ایک مرد خدا.مترجم چودھری محمد علی صاحب صفحہ 289) اس کے بعد حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ کے مشیروں سے معتمدین نے اتفاق رائے سے مشورہ دیا کہ آپ کو فوراً پاکستان سے چلے جانا چاہئے حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ مشورہ تو مان لیا لیکن صرف اس شرط پر کہ پاکستان چھوڑتے وقت آپ کے خلاف کسی قسم کے وارنٹ گرفتاری جاری نہ ہوئے ہوں اور نہ ہی کسی مبینہ الزام کی جواب دہی کے لئے آپ کو کسی کمیشن (Commission) کے رو برو پیش ہونے کے لئے کہا گیا ہو.ضیاء کی غلطی: چنانچہ جب آپ لندن تشریف لے جانے کے لئے ربوہ سے کرچی پہنچے تو کراچی کے ائر پورٹ کے پاسپورٹ کنٹرول (passport control) کے سامنے جنرل ضیاء کا اپنے دستخطوں سے جاری کردہ ایک حکم نامہ پڑا تھا.یہ حکم نامہ ملک کے تمام ہوائی ، سمندری اور بری راستوں اور گزرگاہوں تک پہنچ چکا تھا حکم نامے کے الفاظ یہ تھے: مرزا ناصر احمد کو جو اپنے آپ کو جماعت احمدیہ کا خلیفہ کہتے ہیں، پاکستان کی سر زمین چھوڑنے کی ہرگز اجازت نہیں.“ اس لئے کراچی ائر پورٹ (Air Port پر جہاز کی روانگی میں کچھ تاخیر ہوئی تو چنداں تعجب کی بات نہ نہ تھی.جنرل ضیاء کو (حضرت) خلیفہ ثالث سے اکثر سابقہ پڑتا رہا تھا اس لئے اس نے غلطی سے حکم نامے پر (حضرت) خلیفہ رابع یعنی (حضرت) مرزا طاہر احمد کی بجائے (حضرت) خلیفہ ثالث یعنی (حضرت) مرزا ناصر احمد کا نام اپنے ہاتھ سے لکھ دیا! جنرل ضیاء الحق نے پابندی لگائی بھی تو (حضرت) خلیفہ ثالث پر جو اس پابندی کے لگنے سے دو سال قبل وفات 436

Page 437

پا چکے تھے! (حضرت) خلیفہ رابع کے پاسپورٹ پر وضاحت سے لکھا ہوا تھا کہ ان کا نام (حضرت) مرزا طاہر احمد ہے اور یہ کہ وہ عالمی جماعت احمدیہ کے امام ہیں.“ ایک مرد خدا.مترجم چودھری محمد علی صاحب صفحہ 300,301) کافی تگ و دو کے بعد ائر پورٹ کے عملہ کی طرف سے جہاز کو پرواز کی اجازت دے دی گئی اور آپ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) بحفاظت لندن تشریف لے گئے.آسمانی فیصلہ: حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاکستان سے تشریف لے جانے کے بعد ضیاء کے تشدد میں سختی آگئی حضور (حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ضیاء سے کہا کہ وہ باز آجائے اور خدا کے غضب سے بچ جائے.چنانچہ ضیاء الحق کے باز نہ آنے پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے 10 جون 1987ء کو مباہلے کا چیلنج دے دیا.حضرت خلیفہ ایچ لرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اگر تمہارے دل میں خدا کی کوئی رمق موجود ہے اور اگر اپنی دنیوی وجاہت کی وجہ سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ہچکچاتے ہو تو تم کم از کم اتنا کرو کہ اس ظلم وستم سے باز آ جاؤ اور احمدیوں پر کئے جانے والے تشدد سے ہاتھ کھینچ لو اور خاموشی اختیار کر لو.ہم فرض کر لیں گے کہ تم نے مباہلے کا چیلنج قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ وہ تمہیں اپنے غضب کی آگ سے بچالے! لیکن افسوس کہ اس پر بھی ایذا رسانیاں بند نہ ہوئیں.“ ایک مرد خدا.مترجم چودھری محمد علی صاحب صفحہ 378,377) بعض لوگوں کو خیال تھا کہ مباہلہ کی شرائط پوری نہیں ہوئیں کیونکہ ضیاء نے علی الاعلان چیلنج قبول نہیں کیا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس نقطہ نظر کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا: ضروری نہیں کہ ایسا شخص چیلنج قبول کرنے کا اعلان بھی کرے.اس ظلم و ستم پر اصرار ہی اس امر کا اعلان ہے کہ اس نے چیلنج قبول کر لیا ہے.اب وقت ہی فیصلہ کرے گا.ظالم خدا تعالیٰ کے سامنے کہاں تک اپنے کبر و غرور اور ہٹ دھرمی پر قائم رہتا ہے.خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ فریق ثانی کی خاموشی کا کیا مطلب.ایک مرد خدا.مترجم چودھری محمد علی صاحب صفحہ 378) ہے.6 12 اگست 1987ء کے خطبہ جمعہ میں (حضرت) خلیفہ رابع نے اعلان کیا کہ جنرل ضیاء الحق نے لفظاً، معناً، عملاً کسی شکل میں بھی احمدیوں پر کئے جانے والے مظالم پر پشیمانی کا اظہار نہیں کیا.اب معاملہ اللہ (تعالی) کے سپرد ہے، ہم اس کی فعلی شہادت کے منتظر ہیں.آپ (حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا: اب جنرل ضیاء الحق اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے عذاب سے بچ کر نہیں جا سکتا.“ ایک مرد خدا.مترجم چودھری محمد علی صاحب صفحہ 381) حضور (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) کے الفاظ بعینہ پورے ہو گئے.17 اگست 1988ء جنرل ضیاء ان جرنیلوں کے ساتھ جو ظلم میں اس کے دست و بازو تھے ایک طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گیا.آج تک طیارے کے حادثے کی وجہ معلوم نہیں کی جا سکی لیکن یہ سب جانتے ہیں یہ حادثہ کیوں ہوا تھا.خلاصہ کلام 437

Page 438

438 ہے کہ خلافت کے مقابل پر جو بھی آیا تباہ و برباد ہو گیا، جس نے خلافت کو نقصان پہنچانے کے لئے جس طرح کی کوشش کی اس طرح کا اس کا انجام ہوا.احمدیت کی فتح کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ارشاد: ہے اور " ہم ان سے کہتے ہیں تم کیا؟ اگر تم دنیا کی ساری حکومتوں اور ساری قوموں کو بلا کر بھی اپنے ساتھ لے آؤ پھر بھی تم جیت جاؤ تو ہم جھوٹے.اگر ان لوگوں نے ایسا کیا تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس چیز سے ٹکراتے ہیں.اگر انہوں نے ہم پر حملہ کیا تو چکنا چور ہو جائیں گے اور اگر ہم نے ان پر حملہ کیا تو بھی وہ چکنا چور ہو جائیں گے.یہ خدا کا قائم کردہ سلسلہ اس کی مشیت اور ارادہ ہے کہ اسے کامیاب کرے.اس کے خلاف کوئی انسانی طاقت کچھ نہیں کر سکتی.بے شک ہم کمزور ہیں، ضعیف ہیں اس کا ہمیں اقرار ہے مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ پر ہمیں یقین ہے اور اس کے متعلق ہم کوئی ضعف نہیں دکھا سکتے.ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کو کچل دیں گے مگر یہ ضرور یقیناً اور حتمی طور پر کہتے ہیں کہ خدا ان کو کچل دے گا خواہ وہ کتنی بڑی فوجوں کے ساتھ ہمارے خلاف کھڑے ہو جائیں.لڑائی کا نام اسلامی اصطلاح میں آگ رکھا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے: "آگ سے ہمیں مت ڈراؤ! آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 447)

Page 439

خلافت احمدیہ اور دجالی تحریکات کا مقابلہ مرتبہ نداء الحبيب استاد مدرسة الحفظ وقف جدید ربوه 439

Page 440

440 آیت: عناوین آیت قرآنی حدیث نبوی خلافت ایک انعام مقاصد خلافت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ردّ عیسائیت ہندوستان میں عیسائیت کا پھیلاؤ مسیح موعود علیہ السلام کا روحانی حربہ تحریک شدھی ملکانه عیسائی ممالک میں مراکز احمدیت کا قیام مستشرقین کا رڈ ویمبلے کانفرنس کسر صلیب کانفرنس هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ.(سورة الصف : 10) ترجمہ: وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے دین (کے ہر شعبہ) کلیه غالب کر دے خواہ مشرک برا منائیں.

Page 441

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ” یہ قرآن شریف میں ایک عظیم الشان پیش گوئی ہے جس کی نسبت علما محققین کا اتفاق ہے کہ یہ مسیح موعود کے ہاتھ پر پوری ہو گی.“ حدیث: تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 232) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبِى عَنْ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ إِنَّا سَعِيدِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ سَمِعَ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُؤْشِكُنَّ أَنْ يَنْزُلَ فِيْكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدَلًا فَيَكْسُرَ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيُضَ الْمَالَ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتَّى تَكُونَ السَّجَدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرٌ مِّنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا.( بخاری کتاب الانبیاء باب نزول المسیح ابن مریم) ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے، صحیح فیصلہ کرنے والے، عدل سے کام لینے والے ہوں گے، وہ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، لڑائی کو ختم کریں گے یعنی اس کا زمانہ مذہبی جنگوں کے خاتمہ کا زمانہ ہو گا، اسی طرح وہ مال بھی لٹائیں گے لیکن کوئی اسے قبول نہیں کرے گا ایسے وقت میں ایک سجدہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہو گا یعنی مادیت کے فروغ کا زمانہ ہو گا.خلافت ایک انعام: خلافت اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم الشان انعام ہے جو انبیاء علیہم السلام کے بعد مؤمنین کی جماعت کو عطا کیا جاتا ہے تاکہ تقویٰ اور روحانیت کا جو بیج ان کے دلوں میں انبیاء کے ذریعے بویا گیا وہ خلفا کی روحانی آب پاشی کے ذریعہ ایک مضبوط اور تناور درخت کی طرح ہو جائے.خلافت ہی وہ عظیم ذریعہ ہے جس کے توسط سے خدا تعالیٰ انبیاء کے عظیم کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے اور ان کی بعثت کے مقاصد کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھتا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یوشع بن نون اور مسیح ناصری کی وفات کے بعد پطرس نے موسوی اور عیسوی انوار کو بنی اسرائیل تک پہنچایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب بھیروی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت خلیفة أسبح الثالث رحم اللہ تعالیٰ پھر حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اور اب ہمارے موجودہ امام حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی مساعی سے اسلام کو وہ شوکت اور قوت حاصل ہو رہی ہے کہ طاغوتی طاقتیں اس کے مقابل پر سر بھی نہیں اٹھا سکتیں.مقاصد خلافت خلفا درحقیقت انبیاء کے بوئے ہوئے بیج کی آب یاری کا کام سرانجام دیتے ہیں.قرآن کریم نے انبیاء کے مندرجہ ذیل چار بنیادی کام بتائے ہیں: (1 انبیاء لوگوں کو قرآن کریم کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں یعنی وہ ان عقلی امور کی طرف ان کی رہنمائی کرتے ہیں 441

Page 442

جو خدا یا اس کی صفات کی طرف ان کو متوجہ کرنے والے ہوں اسی طرح وہ ان کے سامنے اپنے معجزات اور نشانات پیش کرتے ہیں، (2 (3 (4 انبیاء مؤمنین کا تزکیہ کرتے ہیں، انبیاء مؤمنین کو کتاب اللہ سکھاتے ہیں، انبیاء مؤمنین کو احکام الہیہ کی حکمت سے روشناس کراتے ہیں.انبیاء کو اپنے مفوضہ کام سرانجام دینے کیلئے کئی اقسام کی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.یہ مشکلات کبھی اپنوں کی طرف سے ہوتی ہیں اور کبھی غیر اقوام کی طرف سے لیکن ان تمام رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود نبی اپنے کام کو باذن الہی جاری رکھتا اور اپنے بالآخر مقصد عظیم میں کامیاب ہو جاتا ہے.دیگر انبیاء علیہم السلام کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی کئی نوع کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان تمام مصائب و آلام کے باوجود آپ علیہ السلام کامیابی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی عہدہ برا ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ علیہ السلام کے خلفا کو بھی دشمنان دین کی طرف سے کئی ایک اندرونی اور بیرونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یعنی اپنوں اور غیر اقوام کی جانب سے.اس مضمون میں، بیرونی اقوام کی طرف سے اسلام اور بانی اسلام کے خلاف کی جانے والی سازشوں اور خلفائے احمدیت کی طرف سے ان کا سد باب موضوع بحث ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ردّ عیسائیت: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف جگہوں پر دجال کی مختلف تشریحات بیان فرمائی ہیں.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف کتاب البریہ میں فرماتے ہیں: دجال ایک شخص کا نام نہیں ہے.لغت عرب کی رُو سے دجال اس گروہ کو کہتے ہیں جو اپنے تئیں امین اور متدین ظاہر کرے مگر دراصل نہ امین ہو نہ متدین ہو بلکہ اس کی ہر ایک بات میں دھوکہ دہی اور فریب دہی ہو.سو یہ صفت عیسائیوں کے اس گروہ میں ہے جو پادری کہلاتے ہیں اور وہ گروہ جو طرح طرح کی کلوں اور صنعتوں اور خدائی کاموں کو اپنے ہاتھ میں لینے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں جو یورپ کے فلاسفر ہیں وہ اس وجہ سے دجال ہیں کہ خدا کے بندوں کو اپنے کاموں سے اور نیز اپنے بلند دعووں سے اس دھوکہ میں ڈالتے ہیں کہ کارخانہ خدائی میں ان کو دخل ہے اور پادریوں کا گروہ اس وجہ سے نبوت کا دعوی کر رہا ہے کہ وہ لوگ اصل آسمانی انجیل کو گم کر کے محرف اور مغشوش مضمون بنام نہاد ترجمہ انجیل کے دنیا میں پھیلاتے ہیں.“ (کتاب البرية - روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 243 و 244 - حاشیہ) پھر فرمایا: ” دراصل یہی لوگ دجال ہیں جن کو پادری یا یورپین فلاسفر کہا جاتا ہے.یہ فلاسفر دجال معہود کے دو جبڑے ہیں جن سے وہ ایک اژدہا کی طرح لوگوں کے ایمانوں کو کھاتا جاتا ہے.اول تو احمق اور نادان لوگ پادریوں کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں اور اگر کوئی شخص ان کے ذلیل اور جھوٹے خیالات سے کراہت کر کے ان کے پنجے سے بچا رہتا ہے تو وہ یورپین فلاسفروں کے پنجے میں ضرور آ جاتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ عوام کو پادریوں کے دجل کا زیادہ خطرہ ہے اور خواص کو فلاسفروں کے دجل کا زیادہ خطرہ ہے.“ (کتاب البریۃ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 252 و 253 - حاشیہ) 442

Page 443

ہندوستان میں عیسائیت کا پھیلاؤ انیسویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں عیسائیت اپنے پورے زوروں پر تھی اور مسلمانوں کو عیسائی بنایا جا رہا تھا اور جس تیزی کے ساتھ مسلمان عیسائی ہو رہے تھے لگتا تھا کہ کچھ ہی عرصہ میں سارا ہندوستان عیسائی ہو جائے گا لیکن ایسے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کیا تاکہ دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کر کے دکھا دے.چنانچہ 1988ء میں پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر چارلس ایچی سن نے شملہ مسیحی مبلغین کی ایک میٹنگ میں تقریری کرتے ہوئے یہاں تک کہ دیا کہ: "One hears in these days a good deal of adverse criticism upon Mission work.Fortunately, in this country at least, missionaries have no reason to shrink from this touch of scientific criticism; and perhaps it may surprise some who have not had an opportunity of looking into the matter, to learn that Christianity in India is spreading four or five times as fast as the ordinary population, and that the Native Christians now number nearly a million of souls....." (The Missions by Revrend Robert Clarke page: 155) ترجمہ: جس رفتار سے ہندوستان کی مغربی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے چار پانچ گنا تیز رفتار سے عیسائیت اس ملک میں پھیل رہی ہے اور اس وقت ہندوستانی عیسائیوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے.فضل، پھر امریکہ کے جان ہنری بیروز نے 1896ء اور 1897ء میں ہندوستان کے مختلف مقامات پر لیکچر دیئے جو کرسچن لٹریچر سوسائٹی فار انڈین مدراس نے 1897ء میں کتابی صورت میں شائع کئے.ایک لیکچر میں ڈاکٹر مذکور نے عیسائیت کے غلبہ اور استیلا کا ذکر کرتے ہوئے فخریہ انداز میں اعلان کیا: آسمانی بادشاہت پورے کرہ ارض پر محیط ہوتی جا رہی ہے.آج دنیا بھر میں اخلاقی اور فوجی طاقت، علم و صنعت و حرفت اور تمام تر تجارت ان اقوام کے ہاتھ میں ہے جو آسمانی ابوت اور انسانی اخوت کی مسیحی تو ایمان رکھتے ہوئے یسوع مسیح کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرتی ہیں.“ (بیروز لیکچرز صفحه 19) آگے چل کر ایک برطانوی ادیب کے حوالے سے عیسائیت کے غلبہ کا نقشہ اس طرح فخریہ انداز میں کھینچتا ہے: ”دنیائے عیسائیت کا عروج آج اس درجہ زندہ حقیقت کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ یہ درجہ عروج اسے اس ے پہلے کبھی نصیب نہ ہوا تھا.ذرا ہماری ملکہ عالیہ (ملکہ وکٹوریہ Queen Victoria) کو دیکھو جو ایک ایسی سلطنت کی سربراہ ہے جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا.دیکھو! وہ ناصرہ کے مصلوب کی خانقاہ پر کمال درجہ تابعداری سے احتراماً جھکتی اور خراج عقیدت پیش کرتی ہے یا پھر گاؤں کے گرجا میں جا کر نظر دوڑاؤ اور دیکھو وہ سیاسی مدبر (وزیر اعظم برطانیہ) جس کے ہاتھوں میں ایک عالمگیر سلطنت اور اس کی قسمت کی باگ ڈور ہے، جب یسو مسیح کے نام پر دعا کرتا ہے تو کیسی عاجزی اور انکساری سے اپنا سر جھکاتا ہے.دیکھو! جرمنی کے نوجوان قیصر کو جب وہ خود اپنے لوگوں کے لئے بطور پادری فرائض سرانجام دیتا تو یسوع مسیح کے مذہب یعنی دین 443

Page 444

عیسائیت سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتا ہے اور مشرقی انداز پر ماسکو (Moscow) کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹ میں زار روس(Czar of Russia) کو دیکھو، تاج پوشی کے وقت ابن آدم کے طشت میں رکھ کر اسے تاج پیش کیا جاتا ہے یا پھر مغربی جمہوریت (امریکہ) کے ایک صدر کے بعد دوسرے صدر کو دیکھو! کہ ان میں سے ہر ایک عبادت کے نسبتاً سادہ لیکن عمیق اسلوب میں ہمارے خداوند کے ساتھ وفاداری اور تابعداری کا اظہار کرتا چلا جاتا ہے.امریکی، برطانوی، جرمنی اور روسی سلطنتوں کے حکمران اقرار کرتے ہیں کہ وہ یسوع مسیح کے وائسرائے ہیں اور اسی حیثیت سے اپنی اپنی سلطنتوں کے حکمران ہیں.کیا ان سب کے زیرنگیں علاقے مل کر ایک ایسی وسیع و عریض سلطنت کی حیثیت نہیں رکھتے کہ جس کے آگے آزمنہ قدیم کی بڑی سے بڑی سلطنت بھی سراسر بے حیثیت نظر آنے لگتی ہے.پھر عیسا یت کے عالمی اثرات کے زیر عنوان اپنے ایک پبلک لیکچر میں اسلامی ممالک کے اندر عیسائیت کی عظیم الشان فتوحات پر فخر کرتے ہو ئے ڈاکٹر بیروز نے یہ اعلان کیا: " اب میں اسلامی ممالک میں عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتا ہوں.اس ترقی کے نتیجے میں صلیب کی چرکار آج ایک طرف لبنان پر ضوفگن ہے تو دوسری طرف فارس کے پہاڑوں کی چوٹیاں اور باس فورس کا پانی اس کی چمکا ر سے جگمگ جگمگ کر رہا ہے.یہ صورت حال پیش خیمہ ہے اس آنے والے انقلاب کا کہ جب قاہرہ، دمشق اور طہران کے شہر خداوند یسوع مسیح کے خدام سے آباد نظر آئیں گے.حتیٰ کہ صلیب کی چہکار صحرائے عرب کے سکوت کو چیرتی ہوئی وہاں بھی پہنچے گی.اس وقت خداوند یسوع اپنے شاگردوں کے ذریعے مکہ کے شہر اور خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہو گا اور بالآخر وہاں اس کے حق و صداقت کی منادی کی جائے گی کہ ابدی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور یسوع مسیح کو جانے جسے تو نے بھیجا ہے.“ 66 بیروز لیکچرز صفحه 42 بحوالہ تعارف کتاب سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب روحانی خزائن جلد 12 صفحه 7 و 8 مرتبہ مولانا جلال الدین شمس صاحب) قبل ازیں 1851 ء میں ہندستانی عیسائی صرف 91092 تھے اور 1881ء میں ان کی تعداد 417372 تھی، جس زمانہ میں یہ مباحثہ ہوا اُس وقت مسیحی مناد، عیسائی مشنری یوپین اور ہندوستانی پنجاب کے بیسیوں مقامات پر لوگوں کو عیسائیت کی طرف دعوت دے رہے تھے اور دجال پورے زور سے دین اسلام کی تباہی کے لئے ہمہ تن مصروف تھا اور علمائے اسلام خواب خرگوش میں تھے.سب سے پہلے چرچ مشنری سوسائٹی نے ہندستان میں 1899ء میں تبلیغی کام شروع کیا تھا لیکن اس وقت بہت سی مشنری سوسائٹیاں کام کر رہی تھیں جن کے ہیڈ کوارٹرز انگلستان جرمن اور امریکہ وغیرہ ممالک وغیرہ تھے.1901ء میں ان مشنری سوسائٹیوں کی تعداد 37 تھی اور ایک بہت بڑی تعداد مشنریوں کی ایسی بھی تھی جو ان سوسائٹیوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے.وسط ایشیا میں عیسائیت کے مشنری کام کیلئے پنجاب کو ایک قدرتی ہیں (Base) سمجھتے تھے اور پنجاب کے تیرہ مشہور شہروں میں ان کے بڑے بڑے مشن قائم تھے، ان میں ایک مشن امرت سر میں قائم تھا، یہ مشن چرچ مشنری سوسائٹی نے 1852ء میں قائم کیا تھا.تعارف کتاب جنگ مقدس روحانی خزائن جلد نمبر 6 صفحه 8 از مولانا جلال الدین شمس صاحب) احادیث میں مذکور ہے کہ مسیح موعود کے کاموں میں سے ایک اہم کام کسر صلیب یعنی صلیب کو توڑنا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسر صلیب کا بیڑہ اٹھایا اور اپنے روحانی حربوں کی مدد سے صلیبی گروہ کو پاش پاش کر دیا اور پاش پاش بھی ایسا کہ تاقیامت سر اٹھانے کے قابل نہ چھوڑا.امرت سر میں اہل اسلام اور عیسائیوں کے مابین 22 مئی 1893ء سے لے کر 5 جون 1893ء تک مناظرہ ہوا جس میں اہل اسلام کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور عیسائیوں کی طرف سے ڈپٹی 444

Page 445

عبداللہ آتھم مناظر تھے.اس مباحثہ کو ڈاکٹر مارٹن کلارک نے جنگ مقدس کا نام دیا: یہ جنگ مقدس جو کاسر صلیب اور حامیان صلیب کے مابین ہوئی اس میں میدان اسلام کے پہلوان کے ہاتھ رہا اور کسر صلیب ایسے رنگ میں ہوا کہ پھر صلیب جڑنے کے قابل نہ رہی.مسلمان خوش ہوئے اور اہالیان صلیب کے ہاں صف ماتم بچھ گئی.مسیح موعود علیہ السلام کا روحانی حرید: احادیث میں آتا ہے کہ مسیح موعود دجال کو اپنے حربہ (برچھی) کے ایک ہی وار سے قتل کر دے گا اور ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ وہ باب لد میں قتل کرے گا اور لذعربی زبان میں الڈ کی جمع ہے یعنی ایسے لوگ جو جدال اور مباحثہ میں غالب آ جائیں.سو اس میں اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود اور آپ کے ساتھی دجال کو مباحثات کے دروازے سے قتل کریں گے.چنانچہ یہ پیش گوئی اپنی پوری شان سے پوری ہوئی.“ تعارف کتاب جنگ مقدس روحانی خزائن جلد 6 صفحه 15 از مولانا جلال الدین شمس صاحب) کاسر صلیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتدائے مباحثہ میں ہی ایک ایسا وار کیا کہ جس سے آپ علیہ السلام کا حریف پادری عبداللہ آتھم اور اس کے مددگار آخر دم تک نیم مردہ کی مانند آئیں بائیں شائیں تو کرتے رہے لیکن حقیقی جواب نہ اُن سے نہ بن پایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس کامیاب وار کے بارے میں فرماتے ہیں: اس بحث میں نہایت ضروری ہو گا کہ جو ہماری طرف سے کوئی سوال ہو یا ڈپٹی عبداللہ آتھم کی طرف سے کوئی جواب ہو وہ اپنی طرف سے نہ ہو بلکہ اپنی اپنی الہامی کتاب کے حوالہ سے ہو جس کو فریق ثانی حجت سمجھتا ہو اور ایسا ہی ہر ایک دلیل اور ہر ایک دعویٰ جو پیش کیا جاوے وہ بھی اسی التزام سے ہو.غرض کوئی فریق اپنی اپنی کتاب کے بیان سے باہر نہ جائے جس کا بیان بطور حجت ہو سکتا ہے.“ جنگ مقدس روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 89) سارے مباحثہ کو اوّل تا آخر پڑھ لیا جائے تو یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ مسیحی مناد آخر دم تک اس معیار پر پورا نہیں اتر سکا بلکہ تعجب ہے کہ وہ دعوئی اور دلیل میں بھی فرق نہ کر سکا جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم سے جو دعوئی پیش فرمایا اس کے اثبات میں عقلی و نقلی دلائل بھی قرآن کریم سے ہی دیئے.مباحثہ کے نتائج: اس مباحثہ سے بہت سارے خوش گوار نتائج اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے حق میں ظاہر ہوئے.چنانچہ ایام مباحثہ کے دوران میاں نبی بخش سوداگر پشمینہ امرت سر اور ماہر فقہ عالم باعمل حضرت قاضی امیرحسین رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہو گئے، اسی طرح کرنل الطاف علی خان صاحب رئیس کپور تھلہ جو عیسائیت اختیار کر چکے تھے اسلام لے آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس رنگ میں اسلام کو زندہ مذہب، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ نبی اور قرآن کریم کو زندہ کتاب کے طور پر پیش کیا وہ ایسے امور نہ تھے جن سے عیسائی دنیا متاثر نہ ہوتی.چنانچہ 1894ء میں دنیا بھر کے پادریوں کی جو عظیم الشان کانفرنس لندن میں منعقد ہوئی اس کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے لارڈ بشپ آف گلوسٹر ریورنڈ چارلس جان ایلی کوٹ (Glouster Rev.Charles Jhon Elcot) نے کیا: ، 445

Page 446

"The other adhering firmly to old principles, and, in effect, probably less altimately harmful.But perhaps the movement in Muhammadanism is the most striking.I learn from those who are experienced in these things that there is now a new kind of Muhammadanism showing itself in many parts of our empire in India, and even in our own island here at home.Muhammadanism now speaks with reverence of our blessd Lord and Master, but is none the less more intensely monotheistic then ever.It discards many of those usages which have made Muhammadanism hateful in our eyes, but the False Prophet holds his place no less pre-eminently than before.Changes are plainly to be recognised; but Muhammadanism is not the less aggressive, and, alas! to some minds among us (God grant that they be not many) even additionally attractive.Unitarianism has found in it an unlooked for ally.All these things you will hear set forth in various forms; and I do now very solemnly command to your anxious consideration the papers that will be read, and the statements that will be made, in refrence to the present state of Judaism and Muhammadanism." (The official report of the Missionary Conferance 1894, page 64) اس خطاب کا ترجمہ درج ذیل ہے: اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں.مجھے ان لوگوں نے جو تجربہ کار ہیں، نے بتایا ہے ہندوستان کی برطانوی مملکت میں ایک نئی طرز کا اسلام ہمارے سامنے آرہا ہے.اس جزیرے میں بھی کہیں نہیں اس کے آثار نظر آرہے ہیں.یہ ان بدعات کا سخت مخالف ہے جن کی بنا پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مذہب ہمارے نگاہ میں قابل نفرین قرار پاتا ہے.اس نئے اسلام کی وجہ سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہوتی جا رہی ہے.یہ نئے تغیرات بآسانی شناخت کئے جا سکتے ہیں.پھر یہ نیا اسلام اپنی نوعیت میں مدافعانہ ہی نہیں بلکہ جارحانہ حیثیت کا بھی حامل ہے.افسوس ہے تو اس بات کا کہ ہم سے بعض ذہن اس کی طرف مائل ہو رہے ہیں.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی پر ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ پادریوں کے دلوں پر آپ علیہ السلام کا رُعب چھا گیا اور مسیحی دنیا نے محسوس کر لیا کہ اسلام کے غلبہ اور عیسائیت کی شکست کا وقت آن پہنچا ہے.علمائے اسلام کا اعتراف: عیسائیت کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فتح مبین کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک غیر احمدی مولوی نور احمد نقش بندی یوں رقم طراز ہیں: 446

Page 447

جوابوں اس زمانہ میں پادری لیفرائے (Lefroy) پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنا دوں گا.ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا.اسلام کی سیرت و احکام پر جو اس کا حملہ ہوا تو وہ ناکام ثابت ہوا کیونکہ احکام اسلام و سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور احکام انبیاء بنی اسرائیل اور ان کی سیرت جس پر اس کا ایمان تھا یکساں تھے.پس الزامی ونقلی و عقلی ، ہار گیا مگر حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور لیفرائے (Lefroy) اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں.پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو.اس ترکیب سے اس نے لیفرائے (Lefroy) کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی.“ (دیباچہ معجز نما کلاں قرآن شریف اصبح المطالب دلی مطبوعہ 1934ء صفحہ 30) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیت کے رد میں صرف زبانی مباحثات ہی نہیں کئے بلکہ آپ علیہ السلام نے عیسائیت کے رد میں بہت بڑا قلمی جہاد بھی کیا ہے.اس جہاد کا میدان کم و بیش 84 کتب پر پھیلا ہوا ہے.اس علمی خزانے اور عیسائیت کے خلاف ناقابل تسخیر ہتھیار نے احمدی مبلغین کو بھی ناقابل تسخیر بنا دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ کتب جو آپ علیہ نے عیسائیت کے رد میں تصنیف فرمائی ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: السلام (3 (1) انجام آتھم مسیح ہندوستان میں مولانا ابوالکلام آزاد: (4 (2) سراج الدین عیدائی کے چار سوالوں کے جواب جنگ مقدس (5 5) اعجاز مسیح 6 6) چشمه مسیحی مولانا ابوالکلام آزاد صاحب اخبار "وکیل" میں لکھتے ہیں کہ : ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع، عرفان حقیقی کو سر راہ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹا دینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبر دست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گیری کے لئے ٹوٹی پڑی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ توپوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اڑا دیئے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطرناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا.غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کے مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا.اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت انجام دی.“ 447

Page 448

(اخبار وکیل بحوالہ بدر قادیان 18 جون 1908ءصفحہ 2 و 3) تحریک شدھی ملکانه : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات بعد کے تقریباً 1923ء کے آغاز میں ہی آپ علیہ السلام کے خلیفہ ثانی کے دور خلافت میں ایک اور خطر ناک حملہ آریہ سماج کی طرف سے اسلام پر کیا گیا جو تاریخ میں تحریک شدھی ملکانہ کے نام سے زبان زدعام ہے جس میں ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کو مرتد کر کے دوبارہ ہندو بنانے کی مذموم کوشش کی گئی اور کئی ضعیف الاعتقاد مسلمان اس فتنہ کا شکار ہو کر اسلام سے منحرف ہو کر آریوں کے گندے عقائد کے پیروکار بن گئے.یہ صورت حال بھلا خلفائے احمدیت کیلئے کیسے قابل برداشت ہو سکتی تھی؟ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی نے ہندوؤں کی اس مذموم سازش کا وسیع پیمانہ پر مقابلہ کرنے کا عظیم پروگرام بنایا.ذیل میں اس تحریک مذموم کی تفصیلات ملاحظہ ہوں: شدھی تحریک کا پس منظر: ہندستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد تو فاتح سندھ محمد بن قاسم کے ہاتھوں 712ء میں رکھی گئی مگر اسلام کا پیغام اس بر صغیر میں عرب تاجر اور سیاح برسوں پہلے پہنچا چکے تھے اور اس کی وسیع تبلیغ و اشاعت اکا بر اولیا و اصفیا وصلحائے امت نے کی.ان بزرگوں کی اخلاقی قوت، ان کے خوارق و کرامات اور ان کے زبردست روحانی اثرات کی وجہ سے ہندوستان کی کئی سے ہندوستان کی کئی بت پرست قومیں راجپوت، جاٹ، میواتی وغیرہ اس کثرت سے اسلام میں داخل ہو گئیں کہ ہر طرف مسلمان ہی مسلمان نظر آنے لگے مگر جیسا عظیم الشان یہ داخلہ تھا ویسے وسیع پیمانے پر اس کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کا انتظام نہ ہو سکا اور بعض ہندو قومیں اسلامی تعلیم و تربیت سے بکلی محروم رہیں.چونکہ وہ اسلام کو سچا سمجھ کر مسلمان ہوئی تھیں اس لئے اپنے آپ کو سمجھتی اور کہتی تو مسلمان رہیں اور ہندو بھی انہیں مسلمان ہی خیال کرتے رہے لیکن اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے اور کہلانے کے سوا ان کا رہنا سہنا، کھانا پینا، بول چال، پہناوا، برتاؤ اور رسم و رواج سب ہندووانہ تھے.یہاں تک کہ نام بھی ہندووانہ، کام بھی ہندوانہ اور ماحول بھی ہندووانہ.ان کے ہاں شادی کے موقع پر قاضی جی بھی بلائے جاتے تھے اور پنڈت جی بھی ! یہی حالت نمی کے موقع پر تھی.ان قوموں کے مردے بھی جاتے تھے اور جلائے بھی جاتے تھے.ان کے کئی دور اسی حالت میں گزر چکے تھے.وہ تو ناواقفی کی وجہ سے اپنی اس غیر اسلامی حالت کو اسلامی حالت سمجھ کر مطمئن تھیں اور مسلمان اپنی غفلت و بے پروائی کے باعث اور ان قوموں کا اس حالت پر قائم و برقرار رہنا بھی صرف اس لئے ہو سکا کہ یہ جہاں کہیں بھی تھیں سناتنی ہندوؤں میں گھری ہوئی تھیں اور سناتنی ہندو کسی غیر مذہب کو اپنے مذہب میں داخل و شامل کرنا خود مذہبی عقائد کی رُو جائز نہیں سمجھتے اور اس کے سخت مخالف تھے اس لئے انہوں نے سودی کاروبار کے ذریعہ سے ان قوموں کا خون تو جہاں تک چوس سکے خوب چوسا لیکن مذہبی لحاظ سے ان کے معاملات میں نہ کوئی مداخلت کر سکتے تھے اور نہ انہوں نے کوئی مداخلت کی.ہاں جب اُنیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں پنڈت دیانند سرسوتی کی کوشش سے سناتنی ہندوؤں کے خلاف ایک نیا فرقہ آریہ ظہور میں آیا تو وہ غیر مذاہب والوں کو اپنے مذہب میں شامل کر لینے کا قائل اور اس کیلئے بڑا جوش و خروش رکھنے والا تھا.چنانچہ اس نے قوت پاتے ہی شدھی یعنی غیر مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب میں شامل کرنے کا سلسلہ شرور کر دیا.دفن کئے شدھی کے پیچھے ہندو راج کے منصوبے: تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 326و327) 448

Page 449

اس خطر ناک حملہ کی شدت کا اندازہ لگانے کے لئے آرہ کے وہ بیانات بھی کافی رہنما ئی کرتے ہیں جو بعد کو ان کی زبانوں سے خود بخود جاری ہو گئے اور جن میں انہوں نے کھلا اعتراف کیا کہ شدھی کی تحریک صرف ملکانہ کے مسلم راجپوتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کے لئے نہیں بلکہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو ہندو دھرم کی چوکھٹ پر لا ڈالنے کے لئے اُٹھائی گئی ہے.چنانچہ ایک آریہ سماجی راجکمار ایٹھی نے دہلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا: بلا شدھی ہندو مسلم ایکتا (اتحاد) نہیں ہو سکتی.جس وقت سب مسلمان شدھی ہو کر ہندو ہو جائیں گے تو ہندو ہی ہندو نظر آئیں گے پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کو آزادی سے نہیں روک سکتی.“ دو تیج دہلی 20 مارچ 1925 صفحہ 6 بحوالہ ہندو راج کے منصوبے از ملک فضل حسین صاحب بار ہشتم ستمبر 1930ء صفحہ 138) سوا می دچارند نے گوروکل کانگڑی کی سلور جوبلی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا: سب دھرموں سے ہمارا دھرم پرانا ہے تو ہمارے دھرم کے سامنے کسی کو ادھیکار (حق) نہیں کہ وہ شدھ کرے.سوراج کیلئے ہند و مسلم ایکتا (اتحاد) ضروری ہے لیکن ہم کچی ایکتا شدھی میں مانتے ہیں جب تک بھارت ورش کے مسلمان اور عیسائی شدھ نہیں ہو جائیں گے اس وقت تک تم کو سوراج نہیں مل سکتا.“ (پیغام صلح بحوالہ ہندو راج کے منصوبے از ملک فضل حسین صاحب بار ہشتم ستمبر 1930ءصفحہ 139،138) اسی موقع پر پنڈت لوک ناتھ جی نے کہا: اگر اس چھتری کو جس گو کی گردن پر چل رہی ہے، بند کرنا چاہتے ہو تو اس کا علاج شدھی ہے.نہ رہے بانس نہ بجے بانسری اگر آپ ہمیشہ کیلئے کانٹے دار درخت کو مٹانا چاہتے ہیں تو اس کی جڑ نکال دو.“ دو کام (پیغام صلح بحوالہ ہندو راج کے منصوبے از ملک فضل حسین صاحب بار ہشتم ستمبر 1930ءصفحہ 139،138) شدھی کا کبھی بند نہ ہونے پائے ہندوؤ! تم میں ہے گر جذبہ ایمان باقی بھاگ سے وقت یہ قوموں کو ملا کرتے ہیں رہ نہ جائے کوئی دنیا میں مسلمان باقی تیج دہلی 13 جنوری 1925 صفحہ 6 بحوالہ ہندو راج کے منصوبے از ملک فضل حسین صاحب بار ہشتم ستمبر 1930ء صفحہ 144 و تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 329و330) ت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان: مسلم پریس نے شدھی کے خلاف آواز تو مارچ 1923ء میں بلند کی مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 1923ء کے آغاز میں ہی اس فتنہ کی طرف توجہ فرمائی اور یہ معلوم ہوتے ہی کہ ایک قوم کی قوم ارتداد کیلئے تیار ہے.فوراً دفتر کو ہدایت فرمائی کہ پوری تحقیق کریں.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے مطابق پہلے مختلف ذرائع سے اس خبر کی تصدیق کی گئی، ضروری حالات معلوم کرنے کے بعد دوسرا قدم یہ اٹھا یا گیا کہ فروری 1923 ء میں صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی اے اور ایک اور احمدی کو علاقہ ملکانہ میں ابتدائی سروے اور فراہمی معلومات کیلئے بھجوا دیا.صوفی عبدالقدیر صاحب نے واپس آ کر مفصل بتایا کہ حالت بہت مخدوش ہے اور فوری تدارک کی ضرورت ہے.“ 449

Page 450

(الفضل 17 مارچ 1923ء) اس رپورٹ پر حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے شدھی کا وسیع پیمانے پر مقابلہ کرنے کیلئے ایک زبر دست سکیم تیار کی.چنانچہ 9 مارچ 1923 ء کو خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ ارتداد کی وسعت بیان کرتے اور جماعت کو اپنی سکیم کے ایک حصہ سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: اس حالت کو دیکھ کر میں نے تجویز کیا ہے اور میرا اس وقت یہی اندازہ ہے کہ ہمیں اس وقت ڈیڑھ سو آدمیوں کی ضرورت ہے جو اس علاقہ میں کام کریں اور کام کرنے کا طریق یہ ہو کہ اس ڈیڑھ سو کو تمیں تمھیں کی جماعت پر تقسیم کر دیا جائے اور اس کے چار حصے میں ہیں کے بنائے جائیں اور تمہیں آدمیوں کو ریزرو (reserve) رکھا جائے کہ ممکن ہے کوئی حادثہ ہو، کوئی آدمی بیمار ہو جائے یا کوئی اور سانحہ ہو تو ہم ان میں سے بھیج سکیں.اس ڈیڑھ سو میں سے ہر ایک کو یہ اقرار کر کے فی الحال تین مہینہ کے لئے زندگی وقف کرنی ہو گی جو میں اب بیان کر دوں گا.پہلے بعض لوگوں کی درخواستیں آئی ہیں میں نے ان کو جواب نہیں دیا وہ اب مجھ لیں گویا ان کی درخواستیں واپس کر دی گئی ہیں ان شرائط کے سننے کے بعد جو درخواستیں آئیں گی وہ منظور کی جائیں گی: اول یہ کہ ہم ان کو پیسہ بھی خرچ کیلئے نہ دیں گے، اپنا اور اپنے اہل و عیال کا خرچ انہیں خود برداشت کرنا ہو گا.جو لوگ اس طرز پر زندگی وقف کرنے اور اس علاقے میں جانے کیلئے تیار ہوں وہ درخواستیں دیں.ڈیڑھ سو آدمیوں کی ضرورت ہے.وہاں کا خرچ، کرایہ وغیرہ وہ سب خود برداشت کریں گے، چاہیے وہ پیدل سفر کریں یا سواری پر یہ ان کو اختیار ہے مگر ہم ان کے خرچ کا ایک پیسہ نہیں دیں گے سوائے ان لوگوں کے جن کو ہم خود انتظام کرنے کیلئے بھیجیں گے ان کو بھی جو ہم کرایہ دیں گے وہ تیسرے درجہ کا ہو گا چاہے وہ کسی درجہ اور اس کی حالت کے ہوں اور اخراجات بہت کم دیں گے.ان لوگوں کے علاوہ زندگی وقف کرنے والے خود اپنا خرچ آپ کریں گے، اپنے اہل و عیال کا خرچ خود برداشت کریں گے البتہ ڈاک کا خرچ یا وہاں تبلیغ کا خرچ اگر کوئی ہو گا تو ہم دیں گے.“ سیاب مدافعت اور اس کا اقرار: الفضل 15 مارچ 1923ء صفحہ 5) الحمد للہ کہ احمدی مبلغوں کی کوششیں بارآور ہوئیں اور اللہ کے فضل و کرم سے شدھی کی رو میں زبردست کمی آ گئی اور شدھ کئے ہوئے خاندان بڑی کثرت سے دوبارہ اسلام میں آنے لگے، شورش انگیز اور تشدد آمیز کارروائیوں اور چیرہ دستیوں اور مخالف طاقتوں کی زبردست شورش کے باوجود ہر طرف اسلام کی فتوحات کے دروازے کھل گئے، ریاست بھرت پور کے کئی گاؤں شدھی سے تائب ہو کر پھر سے اسلامی لشکر میں آشامل ہوئے.آنور کا قصبہ جس کے قریب سری کرشن جی کی پیدائش ہوئی اکثر و بیشتر مسلمان ہو گیا، اسہار کے ایک بڑے حصے نے اسلام قبول کر لیا.مجاہدین احمدیت کے ہاتھوں شدھی تحریک کو جس عبرتناک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اس کا اقرار ہندوؤں اور سکھوں دونوں کی طرف سے برملا کیا گیا.چنانچہ لالہ سنت رام بی اے جات پات توڑک منڈل لاہور نے بیان دیا: الفاظ بہت کڑے ہیں اور سخت مایوسی سے بھرے ہوئے ہیں مگر یہ سچائی ہے چاہے کڑوی ہو.بہت سے بھائی پوچھیں گے ہم اخباروں میں روز شدھی اور اچھوت ادھار کی خبریں پڑھتے ہیں.پھر تم کہتے ہو کہ شدھی اور 450

Page 451

اچھوت اُدھار کی تحریک کامیاب نہیں ہوئی.اس کے جواب میں میری عرض یہ ہے کہ کسی کو جھوٹا کہنے کی ضرورت نہیں.پرمیشور نے آپ کو آنکھیں دی ہیں کہ اس وقت ہندو سماج میں دوسرے دھرموں سے کتنے لوگ شدھ ہو کر آئے ہیں جن کی شدھی کی خبریں اخباروں میں جلی الفاظ میں چھپتی ہیں.ان کی تعداد کم سے کم پانچ سو تو ہو گی مگر ان میں سے مجھے میں کے نام تو گن دیجئے جو آج بھی ہندو ہوں؟ مکانوں کی شدھی پر بڑا کیا جاتا ہے، تھی بھی وہ بڑی فخر کی بات مگر جو لوگ سچائی کو جانتے ہیں وہ بڑے متفکر ہیں.ملکانوں کی شدھی کی جو رپورٹ وقتاً فوقتاً اخبارات میں چھپتی رہی ہے اس کے بموجب شدھ ہونے والوں کی گنتی ڈھائی لاکھ سے کم نہیں پہنچی مگر...ان لوگوں میں بہت سے تو اپنی پہلی حالت میں واپس چلے گئے اور باقی بیچ میں لٹکے ہوئے کسی ٹھوکر کی راہ دیکھ رہے ہیں.“ پروفیسر پریتم سنگھ ایم اے اپنی کتاب ”ہندو دھرم اور اصلاحی تحریکیں“ میں لکھتے ہیں: " آریہ سماج نے شدھی یعنی ناپاک کو پاک کرنے کا طریقہ جاری کیا.ایسا کرنے سے آریہ سماج کا مسلمانوں کے ایک تبلیغی گروہ یعنی قادیانی فرقہ سے تصادم ہو گیا.آریہ سماج کہتی تھی کہ وید الہامی ہیں اور سب سے پہلا آسمانی صحیفہ ہیں اور مکمل گیان ہیں قادیانی کہتے تھے کہ قرآن شریف خدا کا کلام ہے اور حضرت محمد خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں.اس کدو کاوش کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی عیسائی یا مسلمان مذہب کی خاطر آریہ سماج میں شامل نہیں ہوتا.مذہب کی تبدیلی بے معنی سی ہو گئی ہے.آریہ سماج کا تعلیمی کام اب تک جاری ہے مگر سماج کا تبلیغی کام تقریباً بند ہے.آریہ سماج کی تحریک خاطر خواہ ترقی نہ کر سکی.پرانے ہندو جو بت پرست اور مقلد تھے وہ ویسے کے ویسے رہے اور کچھ انگریزی پڑھے لکھے لوگ جو سماج میں داخل ہوئے وہ مادیت میں پھنس کر دہر یہ ہو گئے ان کی تو وہی حالت ہے نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم“ مسلمان علما کا خراج تحسین: تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 387 و 388) زمیندار اخبار اپنی 24 جون 1923ء کی اشاعت میں رقم طرز ہے: ”جو حالات فتنہ ارتداد کے متعلق بذریعہ اخبارات علم میں آچکے ہیں ان سے صاف واضح ہے کہ مسلمانان جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں اور ایثار اور کمر بستگی، نیک نیتی اور توکل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے.وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے اندازہ عزت اور قدر دانی کے قابل ضرور ہیں.جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرت بے حس و حرکت پڑے ہیں اس الوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت کر کے دکھا دی.“ غیر مسلم اخبارات کا خراج تحسین: 1) اخبار پرتاب لاہور : دد (اخبار زمیندار لاہور 24 جون 1923 ء بیان شیخ نیاز علی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور ) مشکل یہ ہے کہ ہندوؤں کو اپنے ہی ہم وطنوں کی ایک جماعت کی طرف سے خطرہ ہے اور وہ خطرہ اتنا عظیم 451

Page 452

ہے کہ اس کے نتیجے کے طور پر صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے.وہ خطرہ ہے تنظیم و تبلیغ کا.مسلمانوں کی طرف یہ کام اس تیزی سے ہو رہا ہے کہ ہندوؤں کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں، ان کی تعداد سال بہ سال کم ہو رہی ہے اگر اسے کسی طرح روکا نہ گیا تو ایک وقت ایسا آ سکتا ہے جبکہ آریہ دھرم کا کوئی بھی نام لیوا نہ رہے." 2 دیو سماجی اخبار ”جیون نت“ لاہور : (2 (اخبار پرتاب لاہور 21اکتوبر 1929ء) ملکانہ راجپوتوں کی شدھی کی تحریک کو روکنے اور ملکانوں میں اسلامی مت کا پرچار کرنے کیلئے احمدی صاحبان خاص جوش کا اظہار کر رہے ہیں.چند ہفتے ہوئے قادیانی فرقہ کے لیڈر مرزا محمود احمد صاحب نے ڈیڑھ سو ایسے کام کرنے والوں کیلئے اپیل کی تھی جو تین ماہ کیلئے مالکانوں میں جا کر مفت کام کرنے کیلئے تیار ہوں، جو اپنا اور اپنے اہل و عیال کا وہاں کے کرایہ کا کل خرچہ برداشت کر سکیں اور انتظام میں جس لیڈر کے ماتحت جس کام پر انہیں لگایا جاوے اسے وہ خوشی خوشی کرنے کیلئے تیار ہوں.بیان کیا جاتا ہے کہ اس اپیل پر چند ہفتوں کے اندر چار سو سے زیادہ درخواستیں موصول ہو چکی ہیں اور تین پارٹیوں میں نوے احمدی صاحبان آگرہ کے علاقہ میں پہنچ چکے ہیں اور بہت سرگرمی سے ملکانوں میں اپنا پرچار کر رہے ہیں.اس نئے علقہ کے حالات معلوم کرنے کیلئے ان میں سے بعض نے جن میں گریجوایٹ نوجوان بھی شامل تھے اپنے بسترے کندھوں پر رکھ کر اور تیز دھوپ میں پیدل سفر کر کے علاقہ کا دورہ کیا ہے.اپنے مت کے پرچار کیلئے ان کا جوش اور ایثار قابل تعریف ہے.66 عیسائی ممالک میں مراکز احمدیت کا قیام: اخبار جیون نت لاہور 24 اپریل 1923ء) ہندوستان میں مسیح محمدی کی تیغ برہان کا نشانہ بننے والے مسیحی منادوں نے جب دیکھا کہ ہندوستان میں ان کی دال نہیں گلے گی تو انہوں نے اپنے دجالی حربوں کا نشانہ افریقہ کے سادہ لوح اور غریب عوام کو بنانا چاہا جو کچھ تو کاملاً مسلمان تھے یا پھر کلیۂ لامذہب تھے.اس صورت حالات کو دیکھتے ہوئے مسیح موعود علیہ السلام کے خدام نے اپنے امام وقت کی رہنمائی میں سادہ لوح افریقیوں کو اپنے دجل کا نشانہ بنانے والی عیسائیت کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے.یوں افریقی اسلام احمدیت کے مضبوط حصارِ عافیت میں آ گئے.ذیل میں مسیح موعود علیہ السلام کے خدام اور مسیحیت کے علم برداروں کے مابین افریقہ کے تپتے صحراؤں میں ہونے والی معرکہ آرائیوں کا مختصراً ذخر کیا جاتا ہے جن میں اسلام نے فتح پائی اور باطل بھاگ گیا.افریقہ میں سب سے پہلے 1896ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو صحابہ حضرت منشی محمد افضل صاحب اور حضرت میاں عبداللہ صاحب کے ذریعہ احمدیت قائم ہوئی.یہ دونوں صحابہ کینیا کی کالونی ممباسا پہنچے اور احمدیت کی داغ بیل ڈالی.“ خص از تاریخ احمدیت جلد 7 صفحه (257) دار التبليغ غانا(Ghana) کا قیام: " 66 حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے افریقہ میں پہلے مشن ہاؤس (Mission House) کے قیام کیلئے مولانا 452

Page 453

عبدالرحیم صاحب نیر کا انتخاب فرمایا جو ان دنوں لنڈن (London) میں خدمات سرانجام دے رہے تھے.چنانچہ مولانا نیر رضی اللہ 9فروری 1921ء کو لنڈن سے روانہ ہوئے اور 19 فروری 1921 ء سیرالیون پہنچے.چند روز سیرالیون میں تبلیغ احمدیت کے بعد مولانا نیر صاحب رضی اللہ عنہ 28 فروری 1921ء کو غانا کی بندرگاہ سالٹ پانڈ پہنچے.اس طرح غانا میں پہلا احمد یہ مشن ہاؤس قائم کیا جس کے اثر سے گولڈ کوسٹ جو عملاً عیسائیت کا گڑھ تھا آہستہ آہستہ اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں میں آنے لگا.11 مارچ 1921ء کو اکرافول میں پہلا جلسہ ہوا.پھر 18 مارچ 1921ء کو دوسرا جلسہ ہوا اور جلسہ کے دوسرے یہ دن ہزاروں لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.“ ملخص از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 269) نائجیر یا مشن ہاؤس: 66 غانا میں ہزاروں لوگوں کے قبول احمدیت کے بعد حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب نے اپنی توجہ نائجیریا کی طرف مبذول کی.چنانچہ پہلی بار مولانا نیر صاحب بذریعہ جہاز 8 اپریل 1921ء کو نائجیریا کے دارالحکومت لیگوس پہنچے.لیگوس میں مسلمانوں کی تعداد پینتیس ہزار اور عیسائی ہیں ہزار کے لگ بھگ تھے مگر علم، دولت، تجارت اور سرکاری عہدے سب عیسائیوں کے ہاتھ میں تھے اور عیسائیوں کے چالیس مدارس کے مقابل مسلمانوں کا صرف ایک (محمدن سکول) تھا.ان حالات میں مولانا نیر صاحب نے لیگوس میں قدم رکھا اور مختلف مساجد میں لیکچرز دینا شروع کئے پھر پبلک لیکچروں کا باقاعدہ سلسلہ شروع فرمایا جن سے ہزاروں سعید روحیں احمدیت کی طرف کشاں کشاں آنے لگیں.“ ملخص از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 269) اس کے بعد انہی بزرگوں کی کوششوں اور دعاؤں اور رہنمائی سے کئی ایک مشن ہاؤسز قائم ہوئے.چنانچہ مغربی افریقہ کے ملک گیمبیا کے گورنر جنرل الحاج سر ایف ایم سنگھاٹے کا قبول احمدیت انہی مشن ہاؤسز کی مساعی کا ہی ایک نتیجہ تھا.سر ایف ایم سنگھائے 1965ء میں احمدی ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“ کے پہلے مظہر بنے..جس طرح حضرت مسیح موعو علیہ السلام کو تبلیغ اسلام میں بہت سی اندرونی اور بیرونی رکاوٹوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا اسی طرح آپ علیہ السلام کے بعد آپ علیہ السلام کے متبعین اور فدائین کو بھی اسلام کی تبلیغ میں کئی قسم کے آلام جھیلنے پڑے.چنانچہ ہندوستان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پر عیسائیت کی طرف سے ڈپٹی عبداللہ آتھم سامنے آیا اور افریقہ میں بہت سے دشمنان حق کے علاوہ ایک شخص امریکی نژاد مسیحی مناد ڈاکٹر بلی گراہم بھی دائمین احمدیت کے مقابل آیا اور منہ کی کھا کے واپس امریکہ بھاگ گیا.ذیل میں افریقہ میں جماعت کے احمدی مشنری انچارج مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کی طرف سے ڈاکٹر بلی گراہم کو دیئے جانے والے روحانی چیلجز کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے.ڈاکٹر بلی گراہم (Dr.Billy Graham) کو مقابلہ روحانی کا چیلنج: امریکہ کے مشہور مسیحی مناد ڈاکٹر بلی گراہم 1961 ء کے شروع میں افریقہ کے تبلیغی دورہ پر روانہ ہوئے تو امریکی پریس 66 ،، خصوصاً اخبار ٹائم (Times) “ اور ” نیوز ویک (News Week نے اس دورہ کو بہت اہم قرار دیا اور عیسائیت کی کامیاب کی بڑی امیدیں اس سے وابستہ کیں.افریقہ کے طول و عرض میں کئی ماہ سے ان کی آمد کا زبردست پرو پیگنڈا جاری تھا کہ ڈاکٹر 453

Page 454

بلی گراہم فروری کے آخر میں نیروبی پہنچے اور عظیم الشان جلسے منعقد کئے گئے جن میں انہوں نے لاکھوں نفوس سے خطاب کیا.شیخ مبارک احمد صاحب نے 3 مارچ 1961ء کو ڈاکٹر بلی گراہم کے نام ایک خط لکھا جس میں ان کے سامنے انجیل کے اصولوں کی رُو سے بذریعہ دعا لا علاج بیماروں کو تندرست کرنے کا طریق رکھا اور اس کے مطابق اسلام اور عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کو للکارا.اخبارات میں اس چیلنج کا خوب چرچا ہوا اور پریس نے شیخ صاحب کا فوٹو شائع کر کے اس کو اہمیت دے دی جس سے متاثر ہو کر ڈاکٹر گراہم سے ان کے ایک لیکچر کے بعد سوال کیا گیا کہ کیا آپ یہ پہینچ قبول کریں گے؟ ڈاکٹر گراہم نے جواب دیا میرا کام محض وعظ کرنا ہے مریضوں کو چنگا کرنا نہیں.عیسائی حلقوں کی طرف سے ڈاکٹر بلی گراہم (Dr.Billy Graham) کو مجبور کیا جانے لگا کہ وہ یہ چیلنج قبول کر کے عیسائیت کی سچائی کا ثبوت دیں ورنہ عیسائیت کو سخت زک پہنچے گی مگر وہ آمادہ نہ ہو سکتے تھے اور نہ ہوئے.افریقہ کے غیر احمدی مسلمانوں نے شیخ مبارک احمد صاحب کو مبارک باد دی اور اقرار کیا کہ آپ نے عیسائیت کے بالمقابل اسلام کا جھنڈا خوب بلند رکھا ہے.میں لکھا: اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد غزنوی نے پاکستان کے اخبار مشرق (لاہور) مؤرخہ 18 اکتوبر 1963ء ” چند سال سے افریقہ میں تبلیغ کے سلسلہ میں مسلمانوں و عیسائیوں کے درمیان معرکہ جاری ہے عیسائی مشنری اپنے تمام ہتھیاروں سے لیس ہو کر افریقہ پر ایک مدت سے حملہ آور ہیں اس کے مقابل میں مسلمان مشنریوں نے وہی طریقے اختیار کئے فرق صرف اتنا تھا کہ مسلمانوں کی تنظیم اتنی مکمل نہ تھی اور ان کے مالی وسائل حد درجه محدود تھے جس کی کمی پوری کرنے کے لئے انہوں نے حد درجہ جسمانی مشقت سے کام لیا.امریکہ کے ایک پادری بلی گراہم کو پچھلے دنوں بڑے شہرت حاصل ہوئی تھی مسلمان مبلغوں نے ان کا افریقہ میں اس طرح پیچھا کیا کہ ان کی خطابت اور زور بیان کا بھرم کھل گیا.ہر جلسہ میں ان سے عیسائیت کے بارے میں ایسے سوال کئے گئے کہ کوئی عیسائی ان کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا.انہیں ہر شہر میں مناظرہ کا چیلنج دیا گیا جب انہوں نے یہ رنگ دیکھا تو وہ اپنا چار مہینہ کا طویل پروگرام مہینہ بھر میں ختم کر کے واپس بھاگ گئے اور اس دن سے ان کی شہرت پھر کبھی سننے میں نہ آئی.“ برکینا فاسو (Burkina Faso) میں احمدیت کا پیغام: تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 89-288) بُرکینا فاسو میں پہلی مرتبہ غانا (Ghana) سے احمدیت کا پیغام 51-1950 ء میں پہنچا.ابتدا میں Sourou کے علاقہ میں دو جماعتیں قائم ہوئیں اور ان کی خوب مخالفت ہوئی حتی کہ ایک جماعت Kou Gny کے افراد کو گاؤں بدر بھی کر دیا گیا مگر ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی اور وہ ہجرت کر گئے.بُرکینا فاسو میں مکرم محمود ناصر ثاقب صاحب 2001 ء سے بطور امیر و مشنری انچارج خدمات سر انجام دے رہے ہیں.جماعت کو رجسٹرڈ ہوئے 18 سال گزر چکے ہیں اور ترقی قابل دید ہے.جماعتی لحاظ سے یہ ملک 12 ریجنز (Regions) پر منقسم ہے جس کا انچارج ریجنل مشنری کہلاتا ہے، دعوت الی اللہ کے ذریعہ جماعت کو اب تک 4000 بیوت الذکر حاصل ہو چکی ہیں جن میں سے 27 جماعت کی خود تعمیر کردہ ہیں.454

Page 455

الفضل 26 ستمبر 2005، صفحہ 4) یوگنڈا (Uganda) میں احمدیت : یوگنڈا مشرقی افریقہ کا ملک ہے.یوگنڈا میں ساحل سمندر سے قریباً 8 سو میل اندرون علاقہ میں ایک سر سبز خطہ ہے سے پہلے یہاں دو شخص احمدی ہوئے.بیان کیا جاتا ہے کہ وہ جہلم (پاکستان) کے رہنے والے تھے اور ہاتھی دانت کی تجارت کرتے تھے.بعد ازاں یہ لوگ کانگو (Congo) چلے گئے.ان کے بعد کئی لوگ مثلاً ڈاکٹر لعل دین صاحب، بھائی محمد حسین صاحب کھوکھر وغیرہ تشریف لے گئے اور اس طرح ایشیائی احمدیوں کی ایک جماعت کا وہاں قیام عمل میں آیا.فروری 1947ء میں چھ مجاہدین کا ایک قافلہ قادیان سے بھجوایا گیا جن کو یوگنڈا سمیت مشرقی افریقہ کے کئے علاقوں میں تعینات کیا گیا.27 جولائی 1957 ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خواہش کی تعمیل میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے یوگنڈا میں الذکر کی بنیاد رکھی اور ماہ اگست 1957 ء کومشن ہاؤس کی بنیاد بھی رکھ دی گئی یہ دونوں عمارات 1959ء میں مکمل ہو گئیں.19 اگست 1957ء میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے کمپالا جو یوگنڈا کا دارالحکومت ہے میں بیت الذکر کا سنگ بنیاد رکھا یہ بیت الذکر 1962ء میں مکمل ہوئی.یوگنڈا میں آج کل 9 مربیان خدمت بجا لا رہے ہیں.الفضل 19 مئی 2005 ء اس وقت افریقہ کے 12 ممالک میں 37 ہسپتال اور کلینک دکھی انسانیت کی خدمت بجا لا رہے ہیں اور 465 ہائر سیکنڈری اور جونیئر سیکنڈری سکولز علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں.بُرکینا فاسو میں جماعت احمدیہ کا پہلا ریڈیو اسٹیشن قائم ہو چکا ہے جس کے ذریعہ روزانہ ساڑھے سولہ گھنٹے تک دین حق کا پیغام پہنچایا جا رہا ہے.اب اس ملک کے دارالحکومت میں T.V سٹیشن قائم کرنے کی کوشش کی جاری رہی ہے.(فولڈر جماعت احمدیہ ترقی کی شاہراہوں پر جولائی 2005 تک کا جائزہ) افریقہ کے بعد اب بعض دوسرے براعظموں میں عیسائی ممالک میں جماعت احمدیہ کے مشن ہاؤسز کے قیام کی ابتدائی رُوداد درج کی جارہی ہے.اب تو اللہ کے فضل سے ان ممالک میں احمدیت کا پورا مضبوطی سے جڑ پکڑ چکا ہے لیکن ابتدائی حالات کا علم ہونا بھی ضروری ہے کہ کس طرح احمدیت کے سپوتوں نے عیسائیت کی یلغار کو نہ صرف روکا بلکہ خود انہی ممالک میں جا کر ان پر حملہ کیا اور میدان کا نقشہ بدل کے رکھ دیا.احمدیہ مشن ہاؤس امریکہ (.U.S.A): دار التبلیغ امریکہ کی بنیاد: 1920ء کے سال کو ایک نمایاں خصوصیت یہ حاصل ہے کہ اس میں سلسلہ احمدیہ کی باقاعدہ تبلیغی مہم پرانی دنیا کی حدود سے نکل کر نئی دنیا میں جاپہنچی اور امریکہ میں مستقل مرکز کی بنیاد پڑی.یہ وہی امریکہ ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی پیشگوئی کے مطابق ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی فالج زدہ ہو کر کچھ دنوں کے بعد 9 مارچ 1907ء کو بڑی حسرت و اندوہ کی حالت میں ختم ہو گیا.ڈوئی اس عداوت و دشمنی کا بد ترین نمونہ تھا جو امریکن پادریوں کو اسلام اور بانی اسلام حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رہی ہے.دراصل امریکہ کے پادری گزشتہ صدی سے تمام عالم اسلام حتی کہ مرکز اسلام مکہ معظمہ پر بھی صلیب کے جھنڈے لہرانے 455

Page 456

کے خواب دیکھ تھے.چنانچہ مسٹر جان ہنری بیروز (John Henry Berose) نے گزشتہ صدی کے نصف آخر میں کہا تھا کہ ہے صلیب کی چمکار آج ایک طرف لبنان پر ضو افگن ہے تو دوسرے طرف فارس کے پہاڑوں کی چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کی چمک سے جگمگا رہا ہے یہ صورت حال پیش خیمہ ہے اس آنے والے انقلاب کا جب قاہرہ دمشق اور تہران کے شہر خداوند یسوع مسیح کے خدام سے آباد نظر آئیں گے.حتی کہ صلیب کی چہکار صحرائے عرب کے سکوت کو چیرتی ہوئی وہاں بھی پہنچے گی.اس وقت خداوند یسوع اپنے شاگردوں کے ذریعہ مکہ کے شہر اور خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہو گا.سمندر یہ حالات تھے جن میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو جو اس وقت انگلستان میں تھے امریکہ چلے جانے کا حکم صادر فرمایا.آپ 26 جنوری 1920ء کو انگلستان کی بندرگاہ لیور پول سے روانہ ہوئے اور پندرہ فروری 1920ء کو امریکہ کی بندر گاہ فلاڈلفیا پر اُترے لیکن شہر کے اندر داخل نہ ہو سکے کیونکہ راہداری کے انسپکٹر نے کئی گھنٹے پوچھ کچھ کے بعد صرف اس وجہ سے کہ آپ ایک ایسے مذہب کے داعی او مبلغ تھے جو تعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے.آپ کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی گئی اور فیصلہ کیا کہ آپ جس جہاز میں آئے ہیں اس میں واپس چلے جائیں.حضرت مفتی صاحب نے اس فیصلہ کے خلافت محکمہ آباد کاری (واشنگٹن.Washington D.C) میں اپیل کی.اپیل کے فیصلہ تک آپ کو کے کنارے ایک مکان میں بند کر دیا گیا جس سے باہر نکلنے کی ممانعت تھی مگر چھت پر ٹہل سکتے تھے اس کا دروازہ دن میں صرف دو مرتبہ کھلتا تھا جبکہ کھانا کھلایا جاتا تھا.اس مکان میں کچھ یورپین بھی نظر بند تھے جو عموماً نوجوان تھے اور پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت تک کے لئے یہاں نظر بند کر دیئے گئے تھے جب تک حکام کی طرف سے ان کے متعلق کوئی فیصلہ ہو یہ لوگ حضرت مفتی صاحب کا بڑا ادب کرتے تھے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے ان کیلئے نماز پڑھنے کی جگہ بھی انہوں نے بنا دی تھی اور برابر خدمت کرتے رہتے تھے حضرت مفتی صاحب نے موقع فائدہ اُٹھا کر ان نوجوانوں ہی کو تبلیغ کرنا شروع کر دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو ماہ کے اندر پندرہ آدمی اسی مکان میں مسلمان ہوئے.ادھر یہ صورت ہوئی ادھر آپ کی شہرت کا غیبی سامان یہ ہوا کہ امریکن پریس نے آپ کی آمد اور ملک میں داخلے میں ممانعت کا بہت چرچا کیا اور بعض مشہور ملکی اخبارات مثلاً فلاڈلفیا ریکارڈ پبلک ریکارڈ نارتھ امریکن بلیٹن ایونگ بلیٹن پبلک لیجر ”دی پریس نے نہ صرف آپ کی آمد کے بارے میں خبر دی بلکہ جماعت احمدیہ کے حالات بھی شائع کئے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امریکی حکومت کے اس رویہ پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: دو ނ ' امریکہ (.U.S.A) جسے طاقتور ہونے کا دعوی ہے اس وقت تک اس نے مادی سلطنتوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی ہو گی.روحانی سلطنت سے اس نے مقابلہ کر کے نہیں دیکھا اب اگر اس نے ہم سے مقابلہ کیا تو اسے معلوم ہو جائے کہ ہمیں وہ ہر گز شکست نہیں دے سکتا کیونکہ خدا ہمارے ساتھ ہے ہم امریکہ کے ارد گرد علاقوں میں تبلیغ کریں گے اور وہاں کے لوگوں کو مسلمان بنا کر امریکہ بھیجیں گے اور ان کو امریکہ نہیں روک سکے گا اور ہم امید رکھتے ہیں کہ امریکہ میں ہر دن لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا گونجے گی اور ضرور گونجے گی.آخر شروع مئی 1920 ء میں امریکی حکومت کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے پابندی اٹھا لی گئی جس کی فوری وجہ یہ ہوئی کہ حضرت مفتی صاحب کو تبلیغ سے کئی انگریزوں کے مسلمان ہونے کی خبر جب متعلقہ محکمہ کے افسر کو پہنچی تو وہ بہت گھبرایا اور سوچنے لگا کہ اس طرح تو یہ آہستہ آہستہ نظر بند نوجوانوں کو مسلمان کر لیں گے اور جب شہر کے پادری صاحبان کو اس کا علم ہو گا تو وہ سخت ناراض ہوں گے اور شہر کی پبلک میرے خلاف ہو جائے گی اس پر اس نے اعلیٰ افسروں کو تار دے کہ 456

Page 457

کس قدر جلد سے جلد ممکن ہو ہندوستانی مشنری کو اندرون ملک میں داخلے کی اجازت دے دی جائے.چنانچہ حکام نے بھی آ.آپ کے امریکہ داخل ہونے کا فیصلہ کر دیا ور حضرت مفتی صاحب نے نیویارک میں داخل ہو سکے ایک مکان کا حصہ لیکچروں اور دفتر کے لئے کرایہ پر لے کر تبلیغ اسلام کا کام شروع کر دیا اور سعید روحیں حلقہ بگوش اسلام ہونے لگیں.اس کے بعد آپ نے ڈیٹرائٹ میں چند ماہ قیام فرمایا اور عرب آبادی میں خاص طور پر پیغام حق پہنچایا.1921ء میں آپ شکاگو (Chicago) منتقل ہو گئے.وہاں آپ نے ایک عمارت خرید کر امریکہ مشن کا مرکز قائم کیا دی مسلم سن رائزر کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ بھی جاری کیا حضرت مفتی صاحب ( جو امریکہ میں آج تک ڈاکٹر صادق کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں) 4 دسمبر 1923ء کو قادیان واپس آ گئے اور امریکہ کا چارج حضرت مولوی محمد الدین صاحب نے سنبھال لیا.احمد یہ مشن ہاؤس لنڈن: ) تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 249 تا 251) حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم اے پہلے بیرونی مشن کی بنیاد تو جولائی 1913ء میں رکھ چکے تھے لیکن اس کا مستقل اور ممتاز صورت میں قیام دراصل اپریل 1914ء میں ہوا جب کہ آپ دوکنگ چھوڑ کر لنڈن تشریف لے آئے اور یہاں کرائے کے ایک مکان کو مرکز بنا کر تبلیغ اسلام کا کام شروع کر دیا.پہلا شخص جو آپ کے ہاتھ پر اسلام میں داخل ہوا ایک صحافی کوریو ( Mr.Coriao) نامی تھا.چودھری صاحب کی واپسی تک ( جو مارچ 1916 ء میں ہوئی ) قریباً ایک درجن انگریز مسلمان ہو چکے تھے مشن کے اس ابتدائی دور میں آپ کی تبلیغ زیادہ تر لیکچروں کے ذریعہ ہوئی جو انہوں نے مختلف کلبوں اور سوسائٹیوں میں ئے.6 ستمبر 1915ء کو حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی اے بی ٹی انگلستان تشریف لے گئے.حضرت قاضی صاحب پورے چار سال تک وہاں اعلائے کلمۃ اللہ میں مصروف رہے پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے آپ کو کئی پریشانیوں اور تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر آپ نے لڑیچر اور خطوط کے ذریعہ سے اپنی کوششیں برابر جاری رکھیں.آپ ابھی انگلستان ہی میں تھے کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے 10 مارچ 1917ء کو روانہ ہو کر اپریل 1917ء میں ساحل انگلستان پر قدم رکھا.حضرت مفتی صاحب یہاں کچھ عرصہ قیام فرمانے اور حضرت قاضی صاحب کا ہاتھ بٹانے کے بعد 1920 ء کے شروع میں امریکہ تشریف لے گئے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے چودھری فتح محمد صاحب سیال حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کے ساتھ دوبارہ 15 جولائی 1919 ء کو عازم انگلستان ہوئے اور 6/اگست 1919ء کو لندن پہنچے.چودھری صاحب نے گزشتہ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تبلیغ کے کام میں اور زیادہ وسعت دی اور مسجد کے لئے بڑی جدوجہد کے بعد لنڈن کے محلہ پٹنی ساؤتھ فیلڈ میں ایک یہودی سے زمین کا ایک قطعہ مع مکان بائیس سو سینتیس پونڈ میں خرید لیا.اگست 1920ء کا واقعہ ہے اسی ماہ مولوی مبارک علی صاحب بی اے بنگالی قادیان سے انگلستان کے لئے روانہ ہوئے اور 18 ستمبر 1920ء کو لنڈن پہنچے.چند ماہ بعد حضرت مولوی عبدا لرحیم نیر فروری 1921ء میں نائیجیریا روانہ ہوگئے اور چودھری صاحب مولوی مبارک علی صاحب چارج دے کر ستمبر 1921ء میں قادیان واپس آگئے.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر نے سیرالیون، گولڈ کوسٹ (غانا ) اور نائیجیریا میں مشن قائم کرنے کے بعد واپس آکر لنڈن مشن کا چارج لے لیا.حضرت مولوی عب الرحیم نیر صاحب کے دور میں ہی حضرت امیر المؤمنین خلیفة امسیح الثانی بنفس نفیس ویمبلے کانفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے اور اپنے دست مبارک سے 19 اکتوبر 1924ء کو مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد 457

Page 458

وو رکھا.حضرت اقدس رضی اللہ عنہ کے وجود باوجود سے لندن مشن کو عالمگیر شہرت حاصل ہوگئی اور لنڈن کی مذہبی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ واپس آ گئے اور مولوی عبدالرحیم صاحب دردمشن کے انچار ج مقرر ہوئے.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے تقرر کے ساتھ ہی رسالہ ” ریویو آف ریچز “ قادیان کی بجائے لنڈن سے نکلنے لگا اور تبلیغ کے ساتھ آپ کی ادارتی ذمہ داریوں کا بھی اضافہ ہو گیا.مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا تھا مولانا درد صاحب نے اس کی کی طرف توجہ دی.چنانچہ آپ نے 1925 ء میں چند دوستوں کے ساتھ دعائیں کیں اور مسجد کی بنیادیں کھودی گئیں اور اس کی تعمیر ایک انجینئر نگ کمپنی کے سپرد کر دی گئی.مسجد کی تکمیل 1926 ء میں ہوئی اور اس کا افتتاح 3 اکتوبر 1926ء کو خان بہادر عبدالقادر صاحب بی اے بیرسٹر ایٹ لا کے ہاتھوں ہوا.اس موقع پر پہلی اذان مسجد کے مینار کے پاس مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم اے نے دی اور مسجد کے پہلے برطانوی مؤذن ہونے کا شرف ایک نومسلم بلال دانیال اوکرٹل Mr.Billal) (Daniel Hawker Nuttal کو حاصل ہوا جو حضرت مولانا درد کے زمانہ میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے.مسجد کے افتتاح پر دنیا کے اخباروں نے عموماً اور لنڈن کے پریس نے خصوصاً بڑے بڑے آرٹیکل لکھے اور چار دانگ عالم میں اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی تبلیغی مساعی کی بہت شہرت ہوئی.آسٹریلیا (Australia) میں مراکز احمدیت: تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 149-147) آسٹریلیا ایک وسیع ملک ہے اور اس کے ایک اہم تجارتی شہر سڈنی (Sydney) میں جمات احمدیہ کی ایک بہت بڑی اور خوبصورت مسجد ہے یہ مسجد سڈنی کی میں شاہراہ کے اوپر واقع ہے یہ مسجد ایک وسیع و عریض پلاٹ پر تعمیر کی گئی ہے جس کا رقبہ 128ایکڑ ہے اس مسجد کا افتتاح حضرت خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا.اس پلاٹ کی باقی زمین پر جماعت آسٹریلیا کا بڑھتی ہوئی جماعتی ضروریات کے پیش نظر ایک وسیع ہال تعمیر کرنے کا ارادہ ہے جس میں گیسٹ ہاؤس اور ذیلی تنظیموں کے دفاتر بھی ہوں گے.سڈنی (Sydney) کے علاوہ برسبین (Brisbane) میں دس ایکڑ کا رقبہ بھی جماعت نے خریدا ہے اس میں نمازوں کے لئے ہال، مشن ہاؤس اور گیسٹ ہاؤس بھی تعمیر کیا گیا ہے.اس کے علاوہ ایڈیلیڈ (Adelaid) میں جماعت کی قریباً 120ایکڑ ہے یہاں فی الحال عارضی مسجد ہے لیکن یہاں بھی مستقل مسجد کا منصوبہ ہے.اس جگہ جماعت کو ایک لگا لگایا Oliv کا باغ بھی مل گیا ہے.آسٹریلیا میں نجیئن (Fijion) احمدی اب کافی تعداد میں آباد ہو گئے ہیں.جگہ مستشرقین کا رو: حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مستشرقین کا رڈ: از خطبه جمعه 19/05/06) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی جگہ اپنی تحریروں میں مستشرقین کا رڈ فرمایا ہے.خاص طور پر سر ولیم میور Sir) (William Muir کو اسلام کو نقصان پہنچانے والا عیسائیت کا ایک عہدہ دار قرار دیا ہے.458

Page 459

( ملفوظات جلد 3 صفحہ 84) ہے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اور مستشرقین کا رڈ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ علیہ السلام کے جانشینوں نے بھی ان متعصب مستشرقوں کی جا بجا بیخ کنی کی مثلاً حضرت خلیفة اصیح الاول رضی اللہ عنہ نے 1888ء میں ایک معرکۃ الآرا کتاب تصنیف فرمائی جس کا نام فصل الخطاب رکھا.عیسائیت کے رد میں یہ ایک زبردست کتاب ہے جس میں مستشرقین کے ان تمام لچر اور بے ہودہ اعتراضات کے دندان شکن جواب دیئے گئے ہیں جو انہوں نے اسلام اور بانی اسلام پر کمال بے باکی سے کئے اس کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب میں اسلام کی خصوصیات، حقیقت جہاد، احکام اسلامی کی حکمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضلیت پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے.اس کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کی ایک اور شہرہ آفاق کتاب ”الوہیت مسیح ہے جس میں قرآن و بائبل اور عقل کی رُو سے ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام صرف ایک عاجز انسان تھے، خدا یا خدا کے بیٹے نہ تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور مستشرقین کا رڈ: پھر آگے چل کر جب ہم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی مقدس سوانح پر نظر دوڑاتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ ہمیں جگہ جگہ مستشرقین اور پادریوں کے خلاف مورچہ زن نظر آتے ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بہت ہی مشہور تصنیف تفسیر کبیر ہے جو کہ دس جلدوں پر مشتمل ہے اس تفسیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جابجا مستشرقوں کی دھجیاں بکھیری ہیں.کہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تاریخ کے حقائق سے اہل مغرب کو آگاہ کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں ان کی طرف سے اسلام پر کئے گئے فضول اور لچر اعتراضات کا جواب دیتے دکھائی دیتے ہیں اور کہیں عیسائیت کے جھوٹے اور باطل عقائد کا پول کھولتے نظر آئے ہیں.اس کے علاوہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کئی ایک کتابیں تصنیف فرمائی ہیں جن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے نہ صرف مستشرقین کا رڈ فرمایا ہے بلکہ اسلام کی حقانیت پر بھی نہایت فصاحت و بلاغت سے روشنی ڈالی ہے: مثلاً حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک تقریر جو کہ انوار العلوم کی جلد نمبر 3 میں نجات کی حقیقت کے عنوان سے شائع ہو چکی ہے، میں بھی عیسائی عقیدہ کا نہایت مدلل رڈ فرمایا ہے اس کے علاوہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے عیسائی مستشرقین کے رڈ کیلئے کئی ایک کامیاب سفر بھی کئے.مثلاً 1924 ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ لندن کی مشہور ویمبلے کانفرنس میں شرکت کے لئے یورپ تشریف لے گئے جس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا پر معارف مضمون پڑھا گیا جس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اسلام کی حقیقت و حقانیت پر نہایت مدلل بحث فرمائی اور مخالفین اسلام کے اعتراضات کے مدلل جواب مختلف میٹنگز میں دیئے.پھر ایک بار اوائل 1914ء میں لاہور کے تین یورپین عیسائی علما تحقیق اور مطالعہ کی غرض سے قادیان تشریف لائے ان میں ایک مسٹر والٹر (Mr.Walter) جو کہ ایک عیسائی مستشرق تھے اور کرسچین ایسوسی ایشن لاہور کے سیکرٹری تھے ان کا ارادہ احمدیت پر ایک کتاب لکھنے کا تھا اس غرض سے وہ احمدیت کا گہری تنقیدی نظر سے مطالعہ کر رہے تھے ان کی خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک طویل گفتگو ہوئی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مسٹر والٹر (Mr.Walter) کے سوالات کے اس قدر مدلل جواب دیئے کہ بعد میں مسٹر لیوکس جو کہ ان تین علما میں سے ایک تھے، نے سامعین کے سامنے اپنی تقریر میں بڑے وثوق سے کہا: عیسائیت اور اسلام کی جنگ کا فیصلہ دنیا کے کسی بڑے شہر میں نہیں ہو گا بلکہ ایک نامعلوم بستی میں ہو گا جس کا نام قادیان ہے.459

Page 460

(سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ 89 تا 91) پھر حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی پاکیزہ زندگی پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی تحریر و تقریر دونوں میں بکثرت عیسائی عقائد کا رڈ فرمایا ہے.مثلاً 1978 ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے عیسائیت کا بطلان ثابت کرنے کیلئے یورپ کے ملک برطانیہ میں ایک عظیم کانفرنس کا انعقاد فرمایا اور اپنے بصیرت افروز لیکچرز ثابت کر دیا کہ اسلام ہی دین حق ہے اور نجات صرف اسلام سے وابستہ ہونے سے ہی ممکن ہے.پھر 1980ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مغرب کے دورہ کے لئے روانہ ہوئے جس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یورپ امریکہ و افریقہ کے کئی ممالک کے نہایت کامیاب دورے فرمائے مجالس سوال و جواب منعقد فرمائیں.مثلاً انگلستان کا دورہ کرتے ہوئے 14 اگست 1980ء کو احمد یہ مشن ہاؤس انگلستان نے کیفے رائل ہوٹل پکاڈلی میں نہایت وسیع پیمانہ پر ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خطاب فرما کر اسلام کے خلاف پھیلی ہوئی کئی غلط فہمیوں کا نہایت مؤثر رنگ میں ازالہ فرمایا اس پر ہجوم کانفرنس میں مختلف ایجنسیوں اور کارپوریشنوں کے 60 سے زائد رپورٹروں اور فوٹو گرافروں نے اسلامی تعلیمات پر اعتراضات کے رنگ میں سوالات کی بوچھاڑ کرنے کی غرض سے شرکت کی، وہ اپنے سوالات میں اسلام کو ظلم و تعدی اور بربریت کا مذہب ثابت کرنا چاہتے تھے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ان سوالات کے نہایت مدلل اور برجستہ جواب دے کر قرآنی آیات کی رُو سے ثابت کیا کہ اسلام جبر کا نہیں بلکہ ایک نہایت پر امن مذہب ہے.حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اور مستشرقین کا رڈ: دوره مغرب صفحه 283 و 284) حضرت خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی مقدس حیات بھی ہمیں مستشرقین کے خلاف ایک فتح نصیب جرنیل کی زندگی نظر آتی ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے کتب کے علاوہ رمضان کے دروس القرآن میں خاص طور پر عیسائی مستشرقین کو آڑے ہاتھوں لیا او اسلام کا زبردست دفاع کیا ہے.مثلاً منٹگمری واٹ (Montgomery Watt) جو ایک نہایت متعصب مستشرق ہے اس کے تعدد ازدواج پر کئے گئے انتہائی بے ہودہ اعتراضات کا نہایت شاندار جواب 4 رمضان 25 جنوری 1996ء کے درس القرآن میں دیا ہے.اسی طرح جیمز اور ویل نے بھی تعدد ازدواج پر اعتراضات کئے جن کا تفصیلی اور دندان شکن جواب حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے 6 رمضان 27 جنوری 1996ء کے درس القرآن میں دیا ہے.پھر مستشرقین کے اس اعتراض کا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے کا نہایت علمی اور محققانہ جواب اپنے 17 رمضان 7فروری 1996 ء کے بیان فرمودہ درس القرآن میں نہایت تفصیل سے دیا ہے.اس کے علاوہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ حیات پر لگائے جانے والے بہتانوں اور تہمتوں کا نہ صرف رڈ فرمایا بلکہ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے عیسائیت کو فطری قوتوں کے منافی مذہب قرار دیا خاص طور پر عیسائیت کی راہبانہ تعلیم کو آڑے ہاتھوں لیا.اس کے علاہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جیفرے ہیگن و سیری، مارگولیس، ولیم میور، اور زونڈ یکی جیسے مستشرقین کے مختلف اعتراضات کے تفصیلی جواب دیئے.ویمبلے (Wambley) کانفرنس: ویمبلے کانفرنس (Wambley Conference) کے لئے تحریک: 460

Page 461

شروع 1924 ء میں انگلستان کی مشہور ویمبلے نمائش کے سلسلہ میں سوشلسٹ لیڈر مسٹر ولیم لافٹس ہیری Mr.William) Loftus Harry) نے یہ تجویز کی کہ اس عالمی نمائش کے ساتھ ساتھ ایک مذاہب کانفرنس بھی منعقد کی جائے جس میں برطانوی مملکت کے مختلف مذاہب کے نمائندوں کو دعوت دی جائے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہو کر اپنے اپنے مذہب کے اصولوں پر روشنی ڈالیں.نمائش کے منتظمین جن میں مستشرقین بھی شامل تھے، نے اس خیال سے اتفاق کیا اور لنڈن یونیورسٹی کے مدرسہ علوم شرقیہ (The School of Oriental Studies) کے زیر انتظام کا نفرنس کے وسیع پیمانہ پر انعقاد کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی.کانفرنس کا مقام امپیریل انسٹی ٹیوٹ لنڈن مقرر کیا گیا اور 22 ستمبر 1924 سے 3اکتوبر 1924 ء تک کی تاریخیں اس کیلئے تجویز کی گئیں.کمیٹی نے مندرجہ ذیل مذاہب کے مقررین کا انتخاب کیا: ہندومت، اسلام، بدھ ازم، پارسی مذہب، جینی مذاہب، سکھ ازم، تصوف، برہمو سماج، آریہ سماج، کنفیوشس ازم وغیرہ.اس کانفرنس میں حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اسلام کی طرف سے نمائندگی کی دعوت دی گئی لہذا حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مجلس مشاورت بلائی اور تمام جماعتوں سے مشورہ کرنے کے بعد ویمبلے کا نفرنس میں شرکت کے لئے یورپ روانہ ہوئے.تاریخ احمدیت جلد نمبر 4 صفحہ 422) تمام جماعتوں سے مشورہ اور اتفاق رائے سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ ویمبلے کا نفرنس میں شرکت کے ارادے سے یورپ کی طرف عازم سفر ہوئے.12 جولائی 1924ء سے 21 اگست 1924 ء تک دشوار گزار سفر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے گیارہ رفقا کے ہمراہ مورخہ 22 اگست 1924ء کو 6 بجے کے قریب لندن کے مشہور وکٹوریہ (Victoria) سٹیشن پہنچے.22 ستمبر 1924 ء کو حضور اپنے رفقا کے ہمراہ ویمبلے کا نفرنس میں شمولیت کیلئے تشریف لے گئے.کا کانفرنس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مضمون کی شاندار کامیابی: پورا ہو ہو گیا.مسلسل 23 ستمبر 1924 ء کا دن سفر یورپ کی تاریخ میں سنہری دن ہے کیونکہ اس دن ویمبلے کا نفرنس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بے نظیر مضمون پڑھا گیا جس نے سلسلہ احمدیہ کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے.یورپ میں اسلام کی روحانی فتح کی بنیادیں رکھ دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لنڈن میں تقریر کرنے کا رویا پوری آب و تاب سے حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مضمون کا وقت 5 بجے شام مقرر تھا جب کہ لوگ اڑھائی گھنٹے سے بیٹھے اسلام سے متعلق مضامین سن رہے تھے.انگلستان کے باشندے زیادہ دیر تک بیٹھنے کی عادی نہیں ہیں مگر جونہی حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر کا وقت آیا وہ نہ صرف وہیں اپنی اپنی جگہ پورے شوق و ذوق سے بیٹھ گئے بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا ہال سامعین سے بھر گیا کسی اور لیکچر کے وقت حاضرین کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہوئی.اجلاس کے صدر سر تھیوڈر ماریسن نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سامعین سے تعارف کرنے کے بعد نہایت ادب و احترام کے جذبات کے ساتھ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کی کہ اپنے کلمات سے محظوظ فرمائیں اس پر حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ جو اپنے رفقا کے ساتھ ینے رفقا کے ساتھ سٹیج پر ہی تشریف فرما تھے کھڑے ہوئے اور انگریزی میں فرمایا: مسٹر پریذیڈنٹ، بہنو اور بھائیو! میں سب سے خدا کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس کانفرنس کے بانیوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کیا کہ لوگ اس طریق پر مذہب کے سوال پر غور کریں اور مختلف مذاہب سے متعلق تقریریں سن 461

Page 462

یہ دیکھیں کہ کس مذہب کو قبول کرنا چاہئے اس کے بعد میں اپنے مرید چودھری ظفر اللہ خان صاحب بار ایٹ لا سے سے کہتا ہوں کہ میرا مضمون سنائیں.میں ایسے طور پر اپنی زبان میں بھی پرچہ پڑھنے کا عادی نہیں ہوں کیونکہ میں ہمیشہ زبانی تقریریں کرتا ہوں اور چھ چھ گھنٹے بولتا ہوں.مذہب کا معاملہ اسی دنیا تک ختم نہیں ہو جاتا بلکہ وہ مرنے کے بعد دوسرے جہان تک چلتا ہے اور انسان کی دائمی راحت مذہب سے وابستہ ہے اس لئے آپ اس پر غور کریں اور سوچیں اور مجھے امید ہے کہ آپ توجہ سے سنیں گے.اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت چودھری صاحب رضی اللہ عنہ کے کان میں کہا کہ: گھبرانا نہیں میں دعا کروں گا.“ چنانچہ مکرم چودھری صاحب کھڑے ہوئے اور ایک گھنٹہ میں نہایت بلند، مؤثر اور نہایت پر شوکت لہجہ میں یہ مضمون پڑھ کر سنایا.چودھری صاحب ایک دن پہلے حلق کی خراش کی وجہ سے بیمار تھے مگر اللہ تعالیٰ نے روح القدس سے ان کی تائید فرمائی.حضرت امیر المؤمنين خليفة أسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مضمون اور مکرم چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی زبان نے (جسے حضور نے ایک مجمع میں میری زبان کہا تھا حاضرین پر وجد کی کیفیت طاری کر دی..(الفضل 8 نومبر 1924 صفحه 8 و الفضل 21اکتوبر 1924 صفحه 5) ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب حاضرین گویا احمدی ہیں تمام لوگ ایک محویت کے عالم میں اخیر تک بیٹھے رہے جب مضمون میں اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بیان کی جاتی جو ان کیلئے نئی ہوتی تو کئی لوگ خوشی سے اُچھل پڑتے.غلامی، سود، اور تعدد ازدواج وغیرہ مسائل کو نہایت واضح طور پر بیان کیا گیا تھا.اس حصہ کو بھی نہ صرف مردوں نے بلکہ عورتوں نے بھی نہایت شوق اور خوشی سے سنا ایک گھنٹہ بعد لیکچر ختم ہوا تو لوگوں نے اس گرم جوشی کے ساتھ اور اتنی دیر تک تالیاں بجائیں کہ پریذیڈنٹ (سر تھیوڈر مارین ) کو اپنے ریمارکس کے لئے چند منٹ انتظار کرنا پڑا.پریذیڈنٹ (President) نے کہا: مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، مضمون کی خوبی اور لطافت کا اندازہ خود مضمون نے کرا لیا ہے میں اپنی طرف سے اور حاضرین کی طرف سے مضمون کی خوبی ترتیب، خوبی خیالات اور اعلیٰ درجہ کے طریق استدلال کیلئے حضرت خلیفہ اُسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا شکریہ ادا کرتا ہوں حاضرین کے چہرے زبان حال سے میرے اس کہنے کے ساتھ متفق ہیں اور میں یقین کرتا ہوں کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ میں ان کی طرف سے شکریہ ادا کرنے میں حق پر ہوں اور ان کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا ہوں.پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا: میں آپ کو لیکچر کی کامیابی پر مبارکباد عرض کرتا ہوں.آپ کا مضمون بہترین مضمون تھا جو آج پڑھے گئے.کیا آپ کا خیال نہیں ہے کہ اس کامیابی کے لئے جو آج آپ کو حاصل ہوئی ہے آپ یہاں تشریف لائے.اجلاس ختم ہونے پر سر تھیوڈرمالین دیر تک سٹیج پر کھڑے کھڑے مختلف باتیں کرتے رہے اور بار بار مضمون کی تعریف کرتے رہے.مضمون کے پڑھنے پر لوگوں نے مکرم چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی مبارکباد دی.چنانچہ (فری چرچ کے ہیڈ ) ڈاکٹر والٹر واش (Dr.Walter Walsh) نے جو خود فصیح البیان لیکچرار تھے, اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: ”میں نہایت خوش قسمت ہوں کہ مجھے یہ لیکچر سننے کا موقع ملا.قانون کے ایک پروفیسر نے بیان کیا کہ جب وہ مضمون سن رہا تھا تو یہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ دن گویا ایک نئے دور کا آغاز کرنے والا ہے.پھر کہا کہ اگر آپ لوگ کسی اور طریق سے ہزاروں ہزار روپیہ بھی خرچ کرتے تو اتنی زبردست کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے.ایک پادری منش نے کہا: ”تین سال ہوئے مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ حضرت مسیح تیرہ حواریوں کے ساتھ یہاں تشریف لائے ہیں اور اب میں دیکھتا ہوں کہ یہ خواب پورا ہو گیا ہے.“ مس شارپلز کانفرنس کی سیکرٹری) نے کہا کہ لوگ اس مضمون کی بہت تعریف کرتے ہیں اور خود ہی بتایا کہ ایک صاحب 462

Page 463

نے ہنر ہولی نس ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے متعلق کہا کہ یہ اس زمانہ کا لوتھر معلوم ہوتا ہے، بعض نے کہا ان کے سینہ میں آگ ہے ایک نے کہا یہ تمام پرچوں سے بہتر پر چہ تھا.ایک جرمن پروفیسر نے جلسہ کے بعد سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں مبارکباد عرض کی اور کہا میرے پاس بعض بڑے بڑے انگریز بیٹھے کہہ رہے تھے: ” یہ نادر خیالات ہیں جو ہر روز سننے میں نہیں آتے.“ مسٹرلین نے جو انڈیا آفس میں ایک بڑے عہدیدار تھے تسلیم کیا کہ خلیفہ مسیح ( حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ) کا پرچہ سب سے اعلیٰ اور بہترین پرچہ تھا.پریس نے بھی اس عظیم الشان لیکچر کی نمایاں خبریں شائع کیں اور اس کی عظمت کا اقرار کیا.چنانچہ مانچسٹر گارڈین (Manchester Guardian) نے 24 ستمبر 1924ء کی اشاعت میں لکھا: ہے " اس کانفرنس میں ایک ہلچل ڈالنے والا واقعہ جو اس وقت ظاہر ہوا، وہ آج سہ پہر کو اسلام کے ایک نئے فرقہ کا ذکر تھا.نئے فرقہ کا لفظ ہم نے آسانی کے لئے اختیار کیا ہے ورنہ یہ لوگ اس کو درست نہیں سمجھتے تھے، اس فرقہ کی بنا ان کے قول کے بموجب آج سے چونتیس پینتیس سال پہلے اس مسیح نے ڈالی جس کی پیشگوئی بائبل ا اور دوسری کتابوں میں ہے.اس سلسلہ کا یہ دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے صریح الہام کے ماتحت اس سلسلہ کی بنیاد اس لئے رکھی ہے کہ وہ نوع انسان کو اسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ تک پہنچائے.ایک ہندوستان کے باشندے نے جو سفید دستار باندھے ہوئے ہے اور جس کا چہرہ نورانی اور خوش کن ہے اور سیاہ داڑھی رکھتا اور جس کا لقب ہنر ہولی نس خلیفہ اسیح الحاج میرزا بشیر الدین محمود احمد یا اختصاراً خلیفہ اسیح ہے، مندرجہ بالا تحدی اپنے مضمون میں پیش کی جس کا عنوان ہے ”اسلام میں احمدیہ تحریک آپ کے ایک اور شاگرد نے جو سرخ رومی ٹوپی ہوئے تھا، آپ کا پرچہ کمال خوبی کے ساتھ پڑھا آپ نے اپنے مضمون کو جس میں زیادہ تر اسلام کی حمایت اور تائید تھی، ایک پر جوش اپیل کے ساتھ ختم کیا جس میں...حاضرین کو اس نئے مسیح اور اس نئی تعلیم کے قبول کرنے کے لئے مدعو کیا.اس بات کا بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس پرچہ کے بعد جس قدر تحسین و خوشنودی کا چیئرز کے ذریعہ اظہار کیا گیا اس سے پہلے کسی پرچہ پر ایسا نہیں کیا گیا تھا.“ کسر صلیب کانفرنس : الفضل 8 نومبر 1924 صفحه 2 و تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 451 تا 454) 2، 3، 4 جون 1978ء کو جماعت احمدیہ نے مسیح علیہ السلام کی صلیب سے نجات کے موضوع پر لندن میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن تشریف لے گئے.اس کانفرنس کا وہاں بڑا چرچا ہو رہا تھا اور چرچ کی طرف سے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جا رہا تھا انہوں نے دھمکیوں کے خطوط بھی لکھے لیکن حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے قرآنی ہدایت فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي (البقرہ:151) کے تحت دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر کانفرنس میں شمولیت اختیار فرمائی اور اس میں معرکتہ الآرا خطاب فرمایا.دنیا کے بعض اور نامور مفکرین (جو مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھتے تھے ) نے بھی اپنے تحقیقی مقالے پڑھے جس سے برطانوی چرچ میں ہلچل مچ گئی.برٹش کونسل آف چرچز کی طرف سے ایک پریس نوٹ کے ذریعے تبادلہ خیالات کی دعوت دی گئی جسے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ 463

Page 464

تعالٰی نے نہ صرف قبول فرمایا بلکہ اس قسم کے تبادلہ خیالات کی رومن کیتھولک چرچ کو بھی دعوت دی اور لندن، روم، مغربی افریقہ اور ایشا کے دارالحکومتوں اور امریکہ میں بھی اس طرح کے اجلاس منعقد کرنے کی دعوت دی اس کانفرنس کی اتنی پیلیسٹی ہوئی کہ اندازاً 15 کروڑ افراد تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا.دو (ملخص حیات ناصر جلد 1 مرتبه محمود مجیب اصغر صفحه 405 و 406) ر صلیب کانفرنس کے انعقاد سے پہلے اور بعد میں مغربی میڈیا نے اس کو بہت اہمیت دی اور ان کے تمام بڑے بڑے اخبارات میں اس کانفرنس پر مختلف دانشوروں کے تبصرے شائع ہوئے.مثلاً مڈلینڈ برطانیہ کے ہفتہ وار اخبار ”سنڈے مرکزی (Sunday Mercury) نے 11 جون 1978ء کی خصوصی اشاعت میں کانفرنس کی رُوداد شائع کی جو تصاویر سے مزین تھی.صفحہ اوّل پر جلی عنوانات کے ساتھ اخبار نے جو بڑی خبر شائع کی اس کا ترجمہ درج ذیل ہے: گزشتہ اتور کے روز 4 جون 1978 ء کو کامن ویلتھ انسٹی ٹیوٹ لندن Commonwealth Institute) (London کے ایگزی بیشن ہال (Exhibition Hall) کی گیلریاں بھی سامعین سے بھری ہوئی تھیں کیونکہ اس روز مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے دنیا کے مختلف ممالک کے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ افراد مسیح کی صلیبی موت سے نجات کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس کے اختتامی اجلاس (حضرت) خلیفة اسبح الثالث (رحمہ اللہ تعالیٰ) کے خطاب سننے کیلئے وہاں کھنچے چلے آئے تھے.69 سالہ خلیفہ مسیح حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ کے ایک کروڑ افراد کے روحانی پیشوا ہیں ہال کے مرکزی اسٹیج سے کانفرنس سے خطاب فرمایا.ہال جماعت کے ممتاز افراد سے تھا.علاوہ ازیں گیمبیا، ماریشس، اور سیرالیون کے ہائی کمشنرز اور لائبریا کے سفیر موصوف بھی تشریف لائے ہوئے تھے.اپنے ایک گھنٹہ کے خطاب کے دوران خلیفہ امیج کو مسلسل پریس فوٹوگرافروں کے کیمروں کی فلیش لائٹوں اور فلڈ لائٹوں کی چکا چوند کا سامنا رہا.ان کے دورہ برطانیہ کی مصروفیات پر مشتمل ایک دستاویزی فلم پر تیار کی جارہی ہے.اس سہ روزہ کانفرنس میں انفرادی طور پر بہت سے عیسائیوں نے اور پادریوں نے بھی شرکت کی ان پادریوں میں ویسٹ منسٹر کیتھولک آرچ بشپ کارڈینل ہیوم کے ایک نمائندے اور پولینڈ کے کیتھولک چرج کے دو باضابطہ نمائندے بھی شامل تھے.مؤخر الذکر دو نمائندے کا نفرنس کی کاروائی سننے کے لئے پولینڈ سے برطانیہ آئے تھے.اپنے اختتامی خطاب میں خلیفہ اسیح نے فرمایا: اس کائنات کی بنیادی صداقت توحید باری تعالی ہے...صرف اور صرف اسی کی ذات اس لائق ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام مخلوق اس کی عبادت کرے.“ احمدیوں کا ایک بنیادی عقیدہ ان کے اس دعوی پر مشتمل ہے کہ مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے.صلیب سے زندہ اترنے اور صحت یاب ہونے کے بعد اسرائیل کے گمشدہ قبائل کی تلاش میں وہ ہندوستان آئے اور طویل عمر وو پانے کے بعد وہیں انہوں نے وفات پائی.ان کا مقبرہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں ہے.کانفرنس کے دوسرے روز (3) جون 1978 ء ) کو کانفرنس میں شرکت کرنے والے چھ سو مندوبین نے متفقہ طور پر ایک قرار داد پاس کی جس میں انڈین گورنمنٹ سے احترام اور تقدس برقرار رکھتے ہوئے مقبرہ کے متعلق تحقیق کرنے کا مطالبہ کیا گیا.سب سے پہلے اس مقبرہ کی نشاندہی (حضرت) مرزا غلام احمد (علیہ السلام) نے کی تھی.کانفرنس میں شرکت کے علاوہ خلیفتہ امیج جو یہاں اپنی حرم حضرت بیگم صاحبہ کے ساتھ تشریف لائے ہوئے 464

Page 465

گوناگوں جماعتی مصروفیات میں منہمک ہیں، بہت سے برطانیہ اور دیگر متعدد ممالک کے اخباری نمائندوں اور پریس فوٹو گرافروں کو آپ انٹرویو دے چکے ہیں اسی طرح ریڈیو کے کئی نمائندوں اور بی بی سی ٹیلی وژن کے نمائندوں نے بھی آپ کا انٹرویو ریکارڈ کیا ہے.31 مئی 1978ء کو ہیتھرو ائیر پورٹ (Heathrow Airport) پر اترنے کے بعد گیمبیا کے ہائی کمشنر High) (Commisioner، کانفرنس کے کنوینر (Convener) امام مسجد لنڈن مسٹر بی اے رفیق، سر ظفر اللہ خان، پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام نے حضرت خلیفہ ایج الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا استقبال کیا، آپ موٹروں کے ایک قافلہ کے ساتھ ائر پورٹ سے پٹنی میں واقع مسجد فضل لنڈن روانہ ہوئے جہاں آپ کے ایک ہزار متبعین آپ کی تشریف آوری کے انتظار میں چشم برہ تھے.ائر پورٹ سے مسجد لندن کے راستہ میں جگہ جگہ آپ کی جماعت کے افراد نے جنہوں نے خیر مقدمی قطعات اٹھائے ہوئے تھے، آپ کی موٹر کاروں کی طرف جس پر جماعت کا سفید اور کالے رنگ کا ایک چھوٹا سا آرائشی نشان آویزاں تھا ہاتھ ہلا ہلا کر آپ کا استقبال کیا.مسجد لندن پہنچ کر خلیفہ اسیح نے تمام دنیا سے آئے ہوئے مندوبین اور برطانیہ کے احمدیوں سے جن میں سے بیشتر برطانیہ کے شمالی علاقہ مڈلینڈ سے بسوں اور موٹر کاروں کے ذریعہ لندن آئے تھے ملاقات فرمائی اور ان سے باتیں کیں.کانفرنس کے افتتاح کے روز (2 جون 1978 ء) کو آپ نے مسجد لندن میں جمعہ کی نماز پڑھائی.بدھ کے روز یعنی 7 جون 1978 ء کو آپ نے اس استقبالیہ میں شرکت فرمائی جس کا اہتمام آپ کے اعزاز میں ممبر پارلیمنٹ مسٹر ٹام کا کس نے دارالعوام میں کیا تھا.(سنڈے مرکزی.مورخہ 11 جون 1978ء - ترجمہ از ماہنامہ خالد جولائی و اگست 1978ء صفحہ 35 تا 37) 465

Page 466

466 خلفائے سلسلہ احمدیہ کی طرف سے مخالفین کو دیئے جانے والے چیلنجز (Challenges) مرتبہ وزیر خان ساجد استاد مدرسته الظفر ربوه

Page 467

عناوین آیت مبارکہ حدیث مبارکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے مباہلہ کا چیلنج ساری دنیا کو عمومی چیلنج خلفائے سلسلم کی طرف علمی اور فکری چیلنجز حضرت خلیفۃ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کی طرف سے آریہ سماج کو چیلنج حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے دیئے جانے والے مختلف چیلنجز حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے دیوبندیوں کو تفسیر نویسی کا چیلنج حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے بہائیوں کو قبولیت دعا کے میدان میں مقابلہ کرنے کا چیلنج حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے مولوی محمد علی امیر جماعت غیر مبایعین کو تفسیر نویسی کا چیلنج حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف مولوی محمد علی امیر جماعت غیر مبایعین کو رؤیا وکشوف میں مقابلہ کرنے کا چیلنج -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے ساری دنیا کو معارف قرآنیہ میں مقابلہ کرنے کا چیلنج حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے قبولیت دعا کے میدان میں مقابلہ کا چیلنج حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے دنیا کے ہر علم کے ماہر کے ہر اعتراض کا قرآن کریم کے ذریعہ جواب دینے کا چیلنج حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا تمام الہامی کتب پر قرآن کریم کی فضیلت کا چیلنج حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا غیر مبائعین کو چیلنج کہ کس کا گروہ تعداد میں بڑھ رہا ہے.10.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے مستریوں کو مباہلہ کا چیلنج -11 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے احرار کو مباہلہ کے چیلنجز اور ان کا انجام -12 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا دعویٰ مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے متعلق حلفیہ بیان اور مخالفین کو مباہلہ -13 کی دعوت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے مولوی محمد علی امیر جماعت غیر مبائعین کو مباہلہ کا چیلنج اعادہ حضرت خلیفہ رايح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلینج کا ا حضرت خلیفہ راح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عیسائیوں کو قبولیت دعا میں مقابلہ کا چیلنج حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گزشتہ صدی کے ختم ہونے سے پہلے مسیح کو آسمان سے اُتارنے اور دجال کا گدھا پیدا کرنے کا چیلنج حضرت خليفة أبيح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کو مباہلہ کا چیلنج حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسوائے زمانہ مولوی منظور احمد چنیوٹی کو مباہلہ کا چیلنج اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ السلام 467

Page 468

468 آیت فَمَنْ حَاجَّكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَانَنَا وَ أَبْنَاءَ كُمْ وَنِسَاءَ نَا وَ نَسَاءَ كُمُ وَانْفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ مَن ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَذِبِينَ.(سوره ال عمران:62) پس جو تجھ سے اس بارے میں اس کے بعد بھی جھگڑا کرے کہ تیرے پاس علم آچکا ہے تو گہ دے: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تمہارے بیٹوں کو بھی اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو بھی اور اپنے نفوس کو اور تمہارے نفوس کو بھی.پھر ہم مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں.(ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) از احادیث مبارکہ: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَوْ بَاهَلَ أَهْلُ نَجْرَانَ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَرَجَعُوا لَا يَجِدُونَ أَهْلًا وَّلَا مَالًا (الدر المنشور تفسير بالماثور جلد 2 صفحہ 220 تا 221) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اہل نجران رسول اللہ سے مباہلہ کر لیتے تو واپس لوٹتے تو اپنے گھروں میں اہل وعیال اور مال کو نہ پاتے.فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ آتَانِيَ الْبَشِيرُ بِمَكَّةَ اَهْلَ نَجْرَانَ حَتَّى الطَّيْرَ عَلَى الشَّجَرِ لَوْ تَمُوا عَلَى الْمَلَاعَنَة.(الدر المنظور تفسیر بالماثور جلد 2 صفحہ 220 تا 221) حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ ملاعنت کو پورا کر دیتے ہیں تو مجھے خوشخبری دینے والے نے اہل نجران کی ہلاکت کی خبر دی ہے یہاں تک کہ درختوں پر بیٹھے پرندے بھی ہلاکت کا شکار ہو جائیں گے.قَالَ: إِنْ كَانَ الْعَذَابُ لَقَدْ نَزَلَ عَلَى أَهْلِ نَجْرَانَ وَلَوْ فَعَلُوا لَاسْتَوْصَلُوا عَنْ وَجْهِ الْأَرْضِ.(الدر المنشور تفسیر بالماثور جلد 2 صفحہ 220 تا 221) فرمایا: اگر اہل نجران پر عذاب نازل ہوتا اور وہ مباہلہ کرتے تو ضرور وہ سطح زمین سے اکھیر دیے جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے مباہلہ کا چیلنج اب اے مخالف مولویو! اور سجادہ نشینو !! نزاع ہم میں اور تم میں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور اگر چہ جماعت بہ نسبت تمہاری جماعتوں کے تھوڑی سی اور فِئَةٌ قَليلَة ہے اور شاید اس وقت تک چار ہزار، پانچ ہزار سے زیادہ نہ ہوگی.تاہم یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے خدا اس کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا.وہ راضی نہیں ہو گا جب تک اس کو کمال تک نہ پہنچاوے اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گرد احاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا.کیا تم نے کچھ کم زور لگایا؟ پس اگر یہ انسان کا کام ہوتا تو کبھی کا یہ درخت کاٹا جاتا اور اس کا نام و نشان باقی نہ رہتا.اُسی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں آپ لوگوں کے سامنے

Page 469

مباہلہ کی درخواست پیش کروں تا جو راستی کا دشمن ہے وہ تباہ ہو جائے اور جو اندھیرے کو پسند کرتا ہے وہ عذاب کے اندھیرے میں پڑے پہلے میں نے کبھی ایسے مباہلہ کی نیت نہیں کی اور نہ چاہا کہ کسی پر بد دعا کروں.عبدالحق غزنوی ثم امرتسری نے مجھے سے مباہلہ چاہا مگر میں مدت تک اعراض کرتا رہا، آخر اس کے نہایت اصرار سے مباہلہ ہوا مگر میں نے اس کے حق میں کوئی بد دعا نہیں کی لیکن اب میں بہت ستایا گیا اور دکھ دیا گیا، مجھے کافر ٹھہرایا گیا، مجھے دجال کہا گیا، میرا نام شیطان رکھا گیا، مجھے کذاب اور مفتری سمجھا گیا، میں ان کے اشتہاروں میں لعنت کے ساتھ یاد کیا گیا.میں ان کی مجلسوں میں نفرین کے ساتھ پکارا گیا، میری تکفیر آپ لوگوں نے ایسے کمر باندھی کی گویا آپ کو کچھ بھی شک میرے کفر میں نہیں ہر ایک نے مجھے گالی دینا اجرِ کا موجب سمجھا اور میرے پر لعنت بھیجنا اسلام کا طریق قرار دیا.پر ان سب تلخیوں اور دکھوں کے وقت خدا میرے ساتھ تھا.ہاں وہی تھا جو ہر یک وقت مجھ کو تسلی اور اطمینان دیتا رہا.کیا ایک کیڑا ایک جہان کے مقابل کھڑا ہوسکتا ہے، کیا ایک ذرہ تمام دنیا کا مقابلہ کرے گا، کیا ایک دروغ گو کی ناپاک روح یہ استقامت رکھتی ہے، کیا ایک ناپاک مفتری کو یہ طاقتیں حاصل ہوسکتی ہیں.سو یقیناً سمجھو کہ تم مجھ سے نہیں بلکہ خدا سے لڑ رہے ہو.کیا تم خوشبو اور بدبو میں فرق نہیں کر سکتے ، کیا تم سچائی کی شوکت کو نہیں دیکھتے.بہتر تھا کہ خدا تعالیٰ کے سامنے روتے اور ایک ترساں اور ہراساں دل کے ساتھ اس سے میری نسبت ہدایت طلب کرتے اور پھر یقین کی پیروی کرتے نہ شک اور وہم کی.سو اب اٹھو اور مباہلہ کے لئے تیار ہو جاؤ.“ ساری دنیا کو عمومی چیلنج: انجام آتھم روحانی خزائن جلد نمبر 11 صفحہ 64 تا65) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ساری دنیا کو چیلنج دیا کہ اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذاہب کی سچائی ثابت کریں.سکتا ہے چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اب آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ حضرت مرزا صاحب تو وفات پا چکے ہیں.اب کس طرح مقابلہ ہو کیونکہ آپ علیہ السلام کا سلسلہ مٹ نہیں گیا اب بھی آپ علیہ السلام کی جماعت موجود ہے اور ہم لوگ اس مقابلہ کے لیے تیار ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ آج بھی اسلام کی صداقت ظاہر کرنے اور اپنے پیارے بندوں کی اپنے نشانات سے تائید کرنے کے لیے اسی طرح موجود ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے وقت تائید کرتا رہا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے بعد ہمارے وقت میں بھی تائید کرے گا اس لئے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد تمام دنیا کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ایسا ہے جیسے اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کے سچا ہونے کا یقین ہے تو آئے اور آکر ہم سے مقابلہ کرے.مجھے تجربہ کے ذریعہ ثابت ہو گیا ہے کہ اسلام ہی زندہ مذہب ہے اور کوئی مذہب اس کے مقابلہ پر نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ ہماری دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے اور ایسے حالات میں قبول کرتا ہے جب کہ ظاہری سامان بالکل مخالف ہو تے ہیں اور یہی اسلام کے زندہ مذہب ہونے کی بہت بڑی علامت ہے اگر کسی کو شک و شبہ ہے تو آئے اور آزمائے.ہاتھ کنگن کو آرسی کیا! اگر کوئی ایسے لوگ ہیں جنہیں یقین ہے کہ ہمارا مذہب زندہ ہے تو آئیں ان کے ساتھ جو خدا کا تعلق اور محبت ہے اس کا ثبوت دیں.اگر 469

Page 470

خدا کو ان سے محبت ہو گی تو وہ مقابلہ میں ضرور ان کی مدد اور تائید کرے گا.ایک کمزور اور ناتواں انسان اپنے پیاروں کو دکھ اور تکلیف میں دیکھ کر جس قدر اس کی طاقت اور ہمت ہوتی ہے اس کی مدد کرتا ہے تو کیا انہوں نے اپنے خدا کو ایک کمزور انسان سے بھی کمزور سمجھ رکھا ہے جو ان کی مدد نہیں کرے گا.اگر نہیں تو میں ان کو چیلنج دیتا ہوں کہ مقابلہ پر آئیں تاکہ ثابت ہو کہ خدا کس کی مدد کرتا ہے اور کس کی دعا سنتا ہے.آپ لوگوں اہیے کہ اپنی طرف سے لوگوں کو اس مقابلہ کے لیے کھڑا کریں لیکن اس کے لئے یہ نہیں ہے کہ ہر ایک ہو کر کہ دے کہ میں مقابلہ کرتا ہوں بلکہ ان کو مقابلہ پر آنا چاہیے جو کسی مذہب یا فرقہ کے قائم مقام ہوں اس وقت دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا کس کی دعا قبول کرتا ہے میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ہماری ہی دعا قبول ہو گی.افسوس ہے کہ مختلف مذاہب کے بڑے لوگ اس مقابلہ پر آنے سے ڈرتے ہیں اگر وہ مقابلہ کے لیے نکلیں تو ان کو ایسی شکست نصیب ہو گی کہ پھر مقابلہ کرنے کی انہیں جرات ہی نہ رہے گی.“ خلفائے سلسلہ کے علمی وفکری چیلنجز: حضرت خلیفة امسح الاول رضی اللہ عنہ کا آریہ سماج کو علمی چیلنج زندہ مذاہب انوار العلوم جلد نمبر 3 صفحہ 612,613) سنو! مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے تمام قرآن شریف کو اول سے آخر تک پڑھو اس میں ہر گز نہیں پاؤ گے کہ عرش کوئی چیز محدود اور مخلوق ہے..خدا نے بار بار قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا میں ہی پیدا کرنے والا ہوں، میں ہی زمین آسمان اور رُوحوں اور ان کی تمام قوتوں کا خالق ہوں، میں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے، ہر ایک ذرہ اور ہر ایک چیز جو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے جس کا میں پیدا کرنے والا ہوں.اگر کوئی آریہ قرآن شریف میں سے نکال دے کہ عرش بھی کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے تو میں اس کو قبل اس کے جو قادیان سے باہر جائے ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا.میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے کہ میں قرآن شریف کی وہ آیت دیکھتے ہی ہزار روپیہ حوالہ کر دوں گا ورنہ میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ ایسا شخص خود لعنت کا محل ہو گا جو خدا پر جھوٹ بولتا ہے.“ حقائق الفرقان جلد نمبر 4 صفحہ 199) حضرت خلیفۃالمسیح الاول کے اس انعامی چیلنج کا آریہ سماج سے کوئی جواب بن نہ پڑا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے دیئے جانے والے مختلف چیلنجز: وو (1) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے دیو بندیوں کو تفسیر نویسی کا چیلنج: مولوی صاحبان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن میں وہ معارف ہیں جو پہلی کتب میں نہیں ہیں.پس حضرت مرزا صاحب کے دعوئی کے پرکھنے سے پہلے ہمیں جدت و کثرت کا معیار قائم کر لینا 470

Page 471

اور اس کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ غیر احمدی علما مل کر قرآن کریم کے معارف روحانیہ بیان کریں جو پہلی کسی کتاب میں نہیں ملتے اور جن کے بغیر روحانی تکمیل نا ممکن تھی، پھر میں ان کے مقابلہ پر کم سے کم دگنے معارف قرآنیہ بیان کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے لکھے تھے اور ان مولویوں کو تو کیا سوجھنے تھے پہلے مفسرین ومصنفین نے بھی نہیں لکھے.اگر میں کم سے کم دگنے ایسے معارف نہ لکھ سکوں تو بے شک مولوی صاحبان اعتراض کریں طریق فیصلہ یہ ہو گا کہ مولوی صاحبان معارف قرآنیہ کی ایک کتاب ایک سال تک لکھ کر شائع کر دیں اور اس کے بعد میں اس پر جرح کروں گا جس کے لئے مجھے چھ ماہ کی مدت ملے گی.اس مدت میں جس قدر باتیں ان کی میرے نزدیک پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں ان کو میں پیش کروں گا اگر ثالث فیصلہ دیں کہ وہ باتیں واقع میں پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں تو اس حصہ کو کاٹ کر صرف وہ حصہ ان کی کتاب کا تسلیم کیا جائے گا جس میں ایسے معارف قرآنیہ ہوں جو پہلی کتب میں نہیں پائے جاتے.اس کے بعد میں چھ ماہ کے عرصہ میں ایسے معارف قرآنیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے یا آپ علیہ السلام کے مقرر کردہ اصول کی بنا پر لکھوں گا جو پہلے کسی مصنف اسلامی نے نہیں لکھے اور مولوی صاحبان کو چھ ماہ کی مدت دی جائے گی کہ وہ اس پر جرح کر لیں اور جس قدر حصہ ان کی جرح کا منصف تسلیم کریں اس کو کاٹ کر باقی کتاب کا مقابلہ ان کی کتاب سے کیا جائے اور دیکھا جائے کی آیا میرے بیان کردہ معارف قرآنیہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے لئے گئے ہوں گے اور جو پہلی کسی کتاب میں موجود نہ ہوں گے ان علما کے ان معارف قرآنیہ سے کم از کم دگنے ہیں یا نہیں جو انہوں نے قرآن کریم سے ماخوذ کئے ہوں گے اور وہ پہلی کسی کتاب میں موجود نہ ہوں.اگر میں ایسے دُگنے معارف دکھانے سے قاصر رہوں تو مولوی صاحبان جو چاہیں کہیں لیکن اگر مولوی صاحبان اس مقابلہ سے گریز کریں یا شکست کھائیں تو دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا دعویٰ منجانب اللہ تھا.یہ ضروری ہو گا کہ ہر فریق اپنی کتاب کی اشاعت کے معا بعد اپنی کتاب دوسرے فریق کو رجسٹری کے ذریعہ سے بھیج مولوی صاحبان کو میں اجازت دیتا ہوں کہ وہ دگنی چوگنی قیمت کا وی پی میرے نام کر دیں.اگر مولوی صاحبان اس طریق فیصلہ کو ناپسند کریں اور اس سے گریز کریں تو دوسرا طریق یہ ہے کہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا ادنی خادم ہوں میرے مقابلہ پر مولوی صاحبان آئیں اور قرآن کریم کے تین رکوع کسی جگہ سے قرعہ ڈال کر انتخاب کر لیں اور وہ تین دن تک اس ٹکڑے کی ایسی تفسیر لکھیں جس میں چند ایسے نکات ضرور ہوں جو پہلی کتب میں موجود نہ ہوں اور میں بھی اسی ٹکڑے کی اسی عرصہ میں تفسیر لکھوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی روشنی میں اس کی تشریح بیان کروں گا اور کم سے کم چند ایسے معارف بیان کروں گا جو اس سے پہلے کسی مفسر یا مصنف نے نہ لکھے ہوں گے اور پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے قرآن کریم کی کیا خدمت کی ہے اور مولوی صاحبان کو قرآن کریم اور اس کے نازل کرنے والے سے کیا تعلق اور کیا رشتہ ہے.“ مخالفین احمدیت کے بارے میں انوار العلوم جلد 9 صفحہ نمبر 97 تا 98) دے.چنانچہ اس چیلنج کے بارے میں تاریخ احمدیت میں لکھا ہے کہ: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے اس پر شوکت اعلان پر دیوبند کی طرف سے کوئی تسلی بخش جواب نہ آیا البتہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے ایک مدت بعد علمائے دیوبند کی خاموشی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا.ماہ جولائی 1925 میں قادیان سے دیوبندی علما کے لئے تفسیر نویسی کا چیلنج شائع ہوا دیوبندیوں کے ساکت رہنے پر میں سینہ ٹھونک کر میدان میں آنکلا کہ میں دیوبند کی ہوں مجھ سے مقابلہ کر لو جبکہ خود جناب مولوی 471

Page 472

نے حضور رضی اللہ عنہ کی طرف سے شائع کردہ مقابلہ کی کوئی بھی صورت قبول نہ کی.“ تاریخ احمدیت جلد نمبر 4 صفحہ 534، 535) (2 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے بہائیوں کو قبولیت دعا کے میدان میں مقابلہ کرنے کا چیلنج: "آج میں کہتا ہوں کہ دنیا کا کوئی مذہب دعا سے مقابلہ کر لے.میرے مقابلہ میں دعا کر کے دیکھ لے کہ خدا میری مدد کرتا ہے یا اس کی اور میں ہی اپنے متعلق ہی نہیں کہتا میرے مرنے کے بعد بھی لمبے عرصہ تک جماعت احمدیہ میں ایسے انسان ہوں گے کہ جو نشان دکھائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی تعلیم کے کامل ہونے کا اپنی کتابوں میں اس قدر ذکر کیا ہے کہ میں حیران ہوں کہ حضرت صاحب کو راست باز جان کر کس طرح کوئی کہ سکتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم منسوخ ہو گئی؟ یا تو ایسے شخص کو عقل سے کورا کہنا پڑے گا یا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بہاء اللہ ) دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے.“ (انوار العلوم جلد نمبر 8 صفحہ 38) اہل بہاء کی طرف سے حضرت مصلح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کو قبول کرنے کی کسی کو بھی جرات نہ ہوئی.3 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے مولوی محمد علی امیر جماعت غیر مبائعین کو تفسیر نویسی کا چیلنج علم قرآن کے بارے میں مولوی صاحب (مولوی محمد علی صاحب.ناقل) کو بار بار مقابلہ کا چیلنج دے چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ اگر انہیں علم قرآن کا دعوی ہے تو وہ میرے سامنے بیٹھ جائیں اور تفسیر نویسی میں مجھ سے مقابلہ کر لیں لیکن وہ کبھی بھی اس طرف نہیں آئے اور مجھے یقین ہے کہ اب بھی نہ آئیں گے.“ (سوانح فضل عمر جلد نمبر 5 صفحہ 126) مولوی محمد علی صاحب حضور کی مقابلہ کی شرائط کے مطابق مقابلہ کے لئے تیار نہ ہوئے اور ہمیشہ کی طرح حیلے بہانے کر کے راہ فرار اختیار کی.(4) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے مولوی محمد علی امیر جماعت غیر مبایعین کو رؤیا و کشوف میں مقابلہ کرنے کا چیلنج: ”اس لحاظ سے بھی ہم میں اور غیر مبایعین میں کیسا عظیم الشان فرق ہے؟ دونوں طرف کے لیڈروں کو ہی لے لو میرے صرف ایک سال کے رویا کشوف اور الہامات جمع کئے جائیں تو وہ مولوی محمد علی صاحب کی ساری عمر کی خوابوں سے بڑھ جائیں گے پھر اگر ان رؤیا کشوف اور الہامات کو لے لیا جائے جو پورے ہونے سے پہلے 472

Page 473

غیر مذہب والوں کو بتا دیئے گئے تھے تو اس میں بھی مولوی محمد علی صاحب میرا مقابلہ نہیں کر سکتے.“ الفضل 13 جولائی 1941 ، صفحہ 8) خدا تعالیٰ ہمیشہ کبھی وحی الہام اور کبھی رویا کشوف کے ذریعہ سے اپنے پیاروں پر ہی تجلی فرماتا ہے مولوی محمد علی صاحب اس چیلنج کا جواب کیسے دے سکتے تھے.(5) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے ساری دنیا کو معارف قرآنیہ میں مقابلہ کرنے کا چیلنج: و پھر میں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا؟ مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لئے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے، وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا وہ چشمہ روحانی جو میرے سینہ میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں ہے جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو.خدا نے مجھے علم قرآن بخشا ہے اور اس زمانہ میں اس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے.خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں.دنیا زور لگا لے، وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمیعتوں کو اکٹھا کر لے، عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں، یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے، دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقتور قومیں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں نا کام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے طفیل اور صدقے اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم کر لیا جائے.اے میرے دوستو! میں اپنے لئے کسی عزت کا خواہاں نہیں جب تک خدا تعالیٰ مجھ پر ظاہر کرے کسی مزید عمر کا امیدوار.ہاں خدا تعالیٰ کے فضل کا میں امیدوار ہوں اور میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی عزت کے قیام میں اور دوبارہ اسلام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور مسیحیت کے کچلنے میں میرے گزشتہ یا آئندہ کاموں کا انشاء اللہ بہت کچھ حصہ ہو گا اور وہ ایڑیاں جو شیطان کا سر کچلیں گی اور مسیحیت کا خاتمہ کریں گی ان میں سے ایک ایڑی میری بھی ہو گی.انشاللہ تعالی.میں اس سچائی کو نہایت کھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں.یہ آواز وہ ہے جو زمین و آسمان کے 473

Page 474

خدا کی آواز ہے، یہ مشیت وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی مشیت ہے.یہ سچائی نہیں ٹلے گی! نہیں ملے گی! اسلام دنیا پر غالب آ کر رہے گا، مسیحیت دنیا میں مغلوب ہو کر رہے گی.اب کوئی سہارا نہیں جو عیسائیت کو میرے حملوں سے بچا سکے.خدا میرے ہاتھ سے اس کو شکست دے گا اور یا تو میری زندگی میں ہی اس کو اس طرح کچل کر رکھ دے گا کہ وہ سر اٹھانے کی بھی تاب نہیں رکھے گی اور یا پھر میرے بوئے ہوئے بیج سے وہ درخت پیدا ہو گا جس کے سامنے عیسائیت ایک خشک جھاڑی کی طرح مرجھا کر رہ جائے گی اور دنیا میں چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا انتہائی بلندیوں پر اڑتا ہوا دکھائی دے گا.“ الموعود انوار العلوم جلد نمبر 17 صفحہ 648,647) حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے اس چیلنج کو قبول کرنے کی کسی کو کوئی جرات نہ ہوئی جیسا کہ حضرت خلیفۃ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں: میں نے بار بار لوگوں کو چیلنج دیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر میں میرا مقابلہ کریں مگر آج تک کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ قرآنی تفسیر میں میرا مقابلہ کر سکے.“ الموعود انوار العلوم جلد نمبر 17 صفحہ 571) 6) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے قبولیت دعا کے میدان میں مقابلہ کا چیلنج:.میں نے بار بار چیلنج دیا ہے کی اگر کسی میں ہمت ہے تو وہ دعاؤں کی قبولیت کے سلسلہ میں ہی میرا مقابلہ کر کے دیکھ لے مگر کوئی مقابلہ پر نہیں آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس رنگ میں دنیا کو مقابلہ کا چیلنج دے چکے ہیں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ”میرے مخالف منکروں میں سے جو شخص اشد مخالف ہو اور مجھ کو کافر اور کذاب سمجھتا ہو وہ کم سے کم دس نامی مولوی صاحبوں یا دس نامی رئیسوں کی طرف سے منتخب ہو کر اس طور سے مجھ سے مقابلہ کرے جو دو سخت بیماروں پر ہم دونوں اپنے صدق و کذب کی آزمائش کریں یعنی اس طرح پر کہ دو خطرناک بیماروں کو جو کسی کے خطرناک مرض میں مبتلا ہوں قرعہ اندازی دے ذریعہ سے دونوں بیماروں کو اپنی اپنی دعا کے لئے تقسیم کر لیں.پھر جس فریق کا بیمار بکی اچھا ہو جاوے یا دوسرے بیمار کے مقابل پر اس کی عمر زیادہ کی جائے وہی فریق سچا سمجھا جاوے.میری طرف سے بھی ہے اگر لوگ اس معاملہ میں میری دعاؤں کی قبولیت کو دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ بعض سخت مریض قرعہ اندازی کے ذریعہ تقسیم کر لیں اور پھر دیکھیں کہ کون ہے جس کی دعاؤں کو خدا تعالیٰ قبول کرتا ہے.کس کے مریض اچھے ہوتے ہیں اور کس کے مریض اچھے نہیں ہوتے.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے اس دعا کے چیلنج کو قبول کرنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی.الموعود انوار العلوم جلد نمبر 17 صفحہ 631) (7) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے دنیا کے ہر علم کے ماہر کے ہر اعتراض کا قرآن کے ذریعے جواب دینے کا چیلنج 474

Page 475

بھی میں ان سے کہتا ہوں دنیا کے کسی علم کا ماہر میرے سامنے آ جائے، دنیا کا کوئی پروفیسر میرے سامنے آجائے، دنیا کا کوئی سائنس دان میرے سامنے آ جائے اور وہ اپنے علوم کے ذریعہ قرآن کریم پر حملہ کر کے دیکھ لے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے ایسا جواب دے سکتا ہوں کہ دنیا تسلیم کرے گی کہ اس کے اعتراض کا رد ہو گیا اور میں دعویٰ کرتا ہوں کہ خدا کے کلام سے ہی اس کو جواب دوں گا اور قرآن کریم کی آیات کے ذریعہ سے ہی اس کے اعتراضات کو رد کر کے دکھا دوں گا.“ (انوار العلوم جلد نمبر 17 صفحہ 277) حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کے اس عظیم الشان دعوئی کے سامنے دنیا کے کسی بھی ماہر کو مقابلہ کی جرأت نہ ہوئی.(8 8 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا تمام الہامی کتب پر قرآن کریم کی فضیلت کا چیلنج: غرض قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی اور کسی کتاب کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا دعوی ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے، اگر کوئی توریت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے، اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی ایسا استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں بھی استعارہ سمجھوں.پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی نہ پیش کر دوں تو وہ بیشک مجھے اس دعوئی میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کر دوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں.“ (فضائل القرآن از حضرت مصلح موعود صفحه 439) کے عظیم معلم کے اس چیلنج کو وید، تورات اور انجیل کے پیروکاروں نے قبول نہ کیا اور خاموشی میں ہی عافیت عظیم (9) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے غیر مبایعین کو چیلنج کہ کس بار کا گروہ تعداد میں بڑھ رہا ہے: میں نے بار ہا چیلنج کیا ہے کہ وہ لوگ جو تم میں سے نکل کر ہم میں شامل ہوئے ہیں ان کی بھی گنتی کر لو اور جو لوگ ہم میں سے نکل کر تم میں شامل ہوئے ہیں ان کی بھی گنتی کر لو ، پھر تمہیں خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ کون بڑھ رہا ہے اور کون گھٹ رہا ہے؟ مگر انہوں نے کبھی اس چیلنج کو قبول نہیں کیا.اسی طرح میں نے بار دیا ہے کہ تم اس بات میں بھی ہمارا مقابلہ کر لو کہ تمہارے ذریعہ سے کتنے لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں مگر انہیں کبھی اس مقابلہ کی توفیق بھی نہیں ملی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ گر انہوں نے مقابلہ کیا تو ان کا پول کھل جائے گا.“ خدا تعالیٰ کی یہ قدیم صفت ہے کہ الہی جماعتوں کی تعداد ہمیشہ بڑھتی رہتی ہے اور بالآخر ایک دن غلبہ نصیب بن جاتا ہے اس طرح جماعت احمد یہ ایک الہی جماعت ہونے کی وجہ سے دن بدن ترقی کر رہی تھی اور ترقی کر رہی ہے اور مولوی محمد علی کے (سوانح فضل عمر جلد نمبر 5 صفحہ 125) 475

Page 476

پیرو کار دن بدن کم ہوتے جا رہے تھے اور اب ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے تو وہ لوگ جلد حضور کا یہ چیلنج کیسے قبول کر سکتے تھے؟ (10) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے مستریوں کو مباہلہ کا چیلنج : دسمبر 1927 میں جماعت احمدیہ میں ایک اندرونی فتنہ نے جنم لیا جو فتنہ مستریاں کے نام سے مشہور ہے اس کے بانی کا نام عبدالکریم مستری تھا اور اس فتنہ کی مکمل پشت پنا ہی لاہوری کر رہے تھے مستریوں نے قادیان سے ایک اخبار ”مباہلہ نکالنا شروع کیا جس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات پر نہایت ہی غلیظ ، شرمناک اور ظالمانہ حملے کئے جاتے تھے.حضور رضی اللہ عنہ کی ذات پر الزام لگانے کے ساتھ وہ اس بات کا بھی اعلان کر رہے تھے اگر یہ الزامات درست نہیں تو مرزا محمود ساتھ مباہلہ کر لیں اس کا جواب دیتے ہوئے اخبار 'جواب مباہلہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک نوٹ لکھا ہمارے جس میں آپ نے فرمایا.اس قسم کے امور کے لیے جن کے متعلق حدود مقرر ہیں اور گواہی کے خاص طریق مذکورہ ہیں مباہلہ چھوڑ کر بھی جائز نہیں مجھے یہ کامل یقین ہے کہ ایسے امور کے متعلق مباہلہ کا مطالبہ کرنا یا ایسے مطالبے کو منظور کرنا ہرگز درست نہیں بلکہ شریعت کی حد تک ہے اور میں ہر مذہبی جماعت کے لیڈر یا مقتدر اصحاب سے جو اس امر کا انکار کریں مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں اگر مولوی صاحب (محمد علی) یا ان کے ساتھی جو ” مباہلہ کی اشاعت میں یا اس قسم کے اشتہارات کی اشاعت میں حصہ لے رہے ہیں مجھ سے متفق نہیں اور ان کا یقین ہے کہ جو شخص ایسے مطالبہ کو منظور نہیں کرتا وہ گویا اپنے جرم کا ثبوت دیتا ہے تو ان کو چاہیے کہ اس امر پر مجھ سے مباہلہ کر لیں پھر اللہ تعالیٰ حق و باطل میں خود فرق کر دے گا.“ (اخبار جواب مباہلہ بحوله تاریخ احمدیت جلد نمبر 5 صفحہ 147) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے اس باطل شکن اور پر شوکت اعلان کا مستریوں کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا.مستریوں پر مزید اتمام حجت کے لیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے متعلق دعوت مباہلہ دیتے ہوئے فرمایا: میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے اور جس کے ہاتھ میں جزا سزا اور ذلت اور عزت ہے کہ میں اس کا مقرر کردہ خلیفہ ہوں اور جو لوگ میرے مقابل پر کھڑے ہیں اور مجھ سے مباہلہ کا مطالبہ کرتے ہیں وہ اس کی مرضی اور قانون کے خلاف کام کر رہے ہیں اگر میں اس امر میں دھوکہ سے کام لیتا ہوں تو اے خدا! تو اپنے نشان کے ساتھ صداقت کا اظہار فرما.اب جس شخص کو دعوئی ہو کہ وہ اس رنگ میں میرے مقابل پر آنے میں حق بجانب ہے وہ بھی قسم کھالے.اللہ تعالیٰ خود فیصلہ کر دے گا.“ (اخبار جواب مباہلہ بحوالہ غلبہ حق صفحہ 203 از قاضی محمد نزیر صاحب) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے دیئے جانے والے مباہلے کے دونوں چیلنج کسی کو قبول کرنے کی جرأت نہ ہو ئی اور ان لوگوں کو خدا کے پیارے کو تنگ کرنے اور مباہلہ کی ذلت اس طرح نصیب ہوئی کہ پہلے تو قادیان کی مقدس بستی کو چھوڑ کر چلے گئے اور بٹالہ میں مقیم ہو گئے لیکن مَالَهُ مِنْ قَرَارِ کے مصداق وہاں سے اٹھے اور امرت سر آ گئے اور آخر کار حکومت وقت نے حکومت کے خلاف کام کرنے کی وجہ سے ان کے سر گردہ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کے یہ اخبار وغیرہ بند ہو گئے.11 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے احرار کو مباہلہ کے چیلنج اور ان کا انجام 476

Page 477

1935ء میں احرار جماعت احمدیہ پر پر مسلسل ناکام حملے کر رہے تھے اور وہ یہ مسلسل شور کر رہے تھے کہ احمدیوں کے دلوں میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عزت نہیں ہے اور اسی طرح احمدی مکہ ومدینہ اور دیگر مقامات مقدسہ کی بھی تعظیم نہیں کرتے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس احرار کو ہر دو امور پر مباہلہ کے چیلنج دیئے: (1) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے احرار کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم پر مباہلہ کا چیلنج حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مباہلہ کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا: ”دوسرا طریق یہ ہے کہ ان مخالفین میں سے وہ علما جنہوں نے سلسلہ احمدیہ کی کتب کا مطالعہ کیا ہوا ہو پانچ سو یا ہزار میدان میں نکلیں ہم میں سے بھی پانچ سو یا ہزار میدان میں نکل آئیں گے.دونوں مباہلہ کریں اور دعا کریں کہ وہ فریق جو حق پر نہیں اللہ تعالیٰ اسے اپنے عذاب سے ہلاک کرے.ہم دعا کریں گے کہ اے خدا ! تو جو ہمارے سینوں کے رازوں سے واقف ہے اگر تو جانتا ہے کہ ہمارے دلوں میں واقعی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت نہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے انبیاء سے افضل و برتر یقین نہیں کرتے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں نجات سمجھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خادم اور غلام نہیں جانتے بلکہ درجہ میں آپ علیہ السلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بلند سمجھتے ہیں تو اے خدا ہمیں اور ہمارے بیوی بچوں کو اس جہاں میں ذلیل و رسوا کر اور ہمیں اپنے عذاب سے ہلاک کر.اس کے مقابلے میں وہ دعا کریں کہ اے خدا! ہم کامل یقین رکھتے ہیں کہ احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ ہتک کرتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر و تذلیل پر خوش ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کو گرانے اور کم کرنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں.اے خدا اگر ہمارا یہ یقین غلط یہ یقین غلط ہے تو تو اس دنیا میں ہمیں اور ہمارے بیوی بچوں کو ذلیل و رسوا کر اور اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک کر “ (سوانح فضل عمر جلد نمبر 3 صفحہ 289-290) (2) مکہ و مدینہ اور دیگر مقامات مقدسہ کی حرمت وعظمت: مکہ و مدینہ اور دیگر مقامات مقدسہ کی حرمت و عظمت کے متعلق الزامات کا فیصلہ کرنے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مجلس احرار کو مباہلہ کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا: اس کے لئے بھی وہی تجویز پیش کرتا ہوں جو پہلے امر کے متعلق پیش کر چکا ہوں کہ اس قسم کا اعتراض کرنے والے آئیں اور ہم سے مباہلہ کرلیں ہم کہیں گے کہ اے خدا! مکہ و مدینہ کی عظمت ہمارے دلوں میں قادیان سے بھی زیادہ ہے.ہم ان مقامات کو مقدس سمجھتے اور ان کی حفاظت کے لیے اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اے خدا اگر ہم دل سے یہ نہ کہتے ہوں بلکہ جھوٹ اور منافقت سے کام لے کر کہتے ہوں اور ہمارا اصل عقیدہ یہ ہو کہ مکہ اور مدینہ کی کوئی عزت نہیں یا قادیان سے کم ہے تو تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر عذاب نازل کر اس کے مقابلہ میں احرار اٹھیں اور وہ یہ قسم کھا کر کہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ احمدی مکہ معظمہ اور مدینہ کے دشمن ہیں اور ان مقامات کا گرنا اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جانا احمدیوں کو پسند ہے.پس اے 477

Page 478

خدا اگر ہمارا یہ یقین ہے اور احمدی مکہ و مدینہ کی عزت کرنے والے ہیں تو تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر عذاب نازل کر.وہ اسی طریق فیصلہ کی طرف آئیں اور دیکھیں کہ خدا اس معاملہ میں اپنی قدرت کا کیا ہاتھ کھاتا ہے لیکن اگر وہ اس کے لیے تیار نہ ہوں تو یاد رکھیں جھوٹ اور افترا دنیا میں کبھی کامیاب نہیں کر سکتا.“ (سوانح فضل عمر جلد نمبر 3 صفحہ 291) حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا چیلنج جماعت کی طرف سے بڑے بڑے پوسٹروں اور پمفلٹوں کی صورت میں بکثرت شائع کیا جاتا رہا اور حضور رضی اللہ عنہ کے نمائندگان خطوں پر خط احراری لیڈروں کے نام لکھ رہے تھے مگر احراری لیڈر مباہلہ پر آمادگی کا پراپیگنڈا کرنے کے باوجود تصفیہ شرائط کے بارے میں بالکل چپ سادھے بیٹھے رہے لیکن وقتاً فوقتاً احرار کی طرف سے قادیان میں آکر یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ مرزائی مباہلہ سے فرار ہو گئے ہیں.حالانکہ مباہلہ کے لیے نہ کوئی شرائط طے ہوئیں اور نہ ہی مباہلہ کی تاریخوں کا تعین کیا گیا جماعت کی طرف سے جب بار بار احراریوں کو شرائط طے کرنے کے بعد مباہلہ کے میدان میں اترنے کے لیے للکارا گیا تو انہوں نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ امام جماعت احمد یہ مباہلہ میں خود شریک نہیں ہو رہے بلکہ دوسرے احمدیوں کو شامل کر رہے ہیں اور دوسرے یہ کہ مباہلہ لاہور یا گورداسپور میں ہونے کی بجائے قادیان میں ہی ہو.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ چونکہ احرار کو بھاگنے کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتے تھے اس لیے حضور رضی اللہ عنہ نے صاف الفاظ میں اعلان کردیا کہ: ”مباہلہ میں شامل ہونے والا اول وجود میرا ہو گا اور سب سے پہلا مخاطب میں اس دعوت مباہلہ کا اپنے آپ کو سمجھتا ہوں." 66 احرار کے دوسرے مطالبہ کے بارے میں فرمایا کہ: اگر ان کو قادیان میں مباہلہ کرنے کا شوق ہو تو خوشی سے قادیان تشریف لے آئیں بلکہ ہماری زیادہ خواہش یہ ہے کہ وہ ہمارے ہی مہمان بنیں ہم ان کی خدمت کریں گے، انہیں کھانا کھلائیں گے ان کے آرام اور سہولت کا خیال رکھیں گے، پھر ان کے سارے بوجھ اٹھا کر انشاء اللہ ان سے مباہلہ بھی کریں گے.“ دوسرے طرف احراری اصل میں قادیان میں مباہلہ کی آڑ میں کانفرنس منعقد کر کے ہنگامہ برپا کرنا چاہتے تھے.اسی دوران حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے احرار کی نیت لوگوں پر واضح کی کہ یہ لوگ دراصل فساد چاہتے ہیں اس لیے مباہلہ کی شرائط اور تاریخ مباہلہ کی تعین نہیں کر رہے.17 نومبر 1935 کو مسجد خیرالدین امرتسر میں مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری نے اپنی نیت خوب واضح کر دی انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا ”لوگ پوچھتے ہیں کہ مباہلہ ہو گا کہ نہیں؟ میاں سنو! ہمیں مباہلہ سے کیا؟ ہو یا نہ ہو، میں صرف کہتا ہو کہ تم قادیان چلو باقی کچھ نہ پوچھو.مرزائیوں کے اب آخری دن ہیں مباہلہ کریں یا نہ کریں ہم ان کو مٹا دیں گے.پچاس سال انہوں نے موجیں کر لی ہیں.“ احرار کی اس نیت کو دیکھتے ہوئے گورنمنٹ پنجاب نے احرار کو قادیان جانے سے روک دیا اور حکومت کی اس ممانعت کے باعث اگر چہ احرار کے ارمان دل میں ہی رہ گئے مگر انہوں نے مباہلہ سے چھٹکارا پا کر سکھ کا سانس لیا اور وہ پیالہ جسے ٹالنے کے لیے مختلف بہانے تراش رہے تھے حکومت پنجاب کی مہربانی سے ٹل گیا.ان کا مباہلہ سے فرار ان کے لئے دکھتی ہوئی رگ بن گیا.جسے چھیڑتے ہوئے ایک مشہور صحافی ابو العلاء چشتی نے اخبار احسان لاہور کے اداریہ میں لکھا کہ میں مرزا بشیر الدین محمود نہیں جس سے مباہلہ کرنے کا نام سن کر رہنما یا ان احرار کے بدن پر رعشہ طاری ہو جاتا ہے.“ (اخبار احسان یکم نومبر 1925ء بحوالہ الفضل 7نومبر 1935ء) 478

Page 479

حق کی فتح احرار کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے شیر خدا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ پھر اپنے چیلینج کا اعادہ کیا اور احرار کو میدان مباہلہ میں آنے کے لیے للکارا مگر احرار کی طرف سے خاموشی چھائی رہی اور کوئی واضح جواب نہ آیا.از تاریخ احمدیت جلد نمبر 8 صفحہ 234 تا260) (12) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے دعویٰ مصلح موعود کیبارہ میں حلفیہ بیان اور - مخالفین کو مباہلہ کی دعوت: د میں کہتا ہوں اور خدا اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پیشگوئیوں کا مورد بنایا ہے جو ایک آنے والے موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام نے فرمائیں.جو شخص سمجھتا ہے کہ میں نے افترا سے کام لیا ہے یا اس بارہ میں جھوٹ اور کذب بیانی کا ارتکاب کیا ہے وہ آئے اور اس معاملہ میں میرے ساتھ مباہلہ کر لے اور یا پھر اللہ تعالیٰ کی مؤکد بعذاب قسم کھا کر اعلان کر دے کہ اسے خدا نے کہا ہے کہ میں جھوٹ سے کام لے رہا ہوں پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اپنے آسمانی نشانات سے فیصلہ فرما دے گا کہ کون کاذب ہے اور کون صادق؟ الموعود انوار العلوم جلد نمبر 17 صفحہ 645) 13 - حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے مولوی محمد علی کو مباہلہ کا چیلنج : مولوی محمد علی نے 26 مئی 1944 کو جماعت احمدیہ پر الزام لگایا کہ: یاد رکھو قادیان والو نے کلمہ طیبہ کو منسوخ کر دیا ہے اس بارے میں تمہارے دل میں شک نہیں ہونا چاہئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس ظالمانہ حملہ کا سخت نوٹس لیا اور اس کے جواب میں جون 1944ء کے خطبہ جمعہ میں مولوی محمد علی کو دعوت مباہلہ دی اور نہایت پر جلال انداز میں فرمایا: وو یہ ایک ایسا اتہام ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس سے بڑا جھوٹ بھی کوئی بول سکتا ہے وہ قوم جو کلمہ طیبہ کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتی ہو اس پر الزام لگانا کہ وہ اسے منسوخ قرار دیتی ہے یہ بڑا ظلم ہے اور اتنی بڑی دشمنی ہے کہ ہماری اولادوں کو قتل کر دینا بھی اس سے کم دشمنی ہے...میں سمجھتا ہوں اب فیصلہ کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اگر مولوی صاحب میں تخم دیانت باقی ہے تو وہ اور ان کی جماعت ہمارے ساتھ اس بارے میں مباہلہ کریں کہ آیا ہم کلمہ طیبہ کے منکر ہیں.“ اس دعوت مباہلہ کے ساتھ ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قبل از وقت یہ بھی بتا دیا کہ: ”وہ بھی اپنے آپ کو اپنے بیوی بچوں کو اس مقام پر کھڑا نہ کریں گے بلکہ اس عظیم الشان جھوٹ بولنے کے بعد بزدلوں کی طرح بہانوں سے اپنے سے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جھوٹوں کی سزا سے بچانے کی کوشش کریں گے.“ 479

Page 480

آخر وہی ہوا جو حضرت امیرالمؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے پہلے الثانی رضی اللہ عنہ نے پہلے سے ہی فرما دیا تھا.مولوی محمد علی صاحب موصوف نہ مباہلہ کے لیے آمادہ ہوئے اور نہ اپنا جھوٹا الزام واپس لینے کو تیار ہوئے.( تاریخ احمدیت جلد نمبر 10 صفحہ 181) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کا اعادہ 1967ء کے دورہ یورپ کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ چیلنج آج بھی قائم ہے اور میں اس بات کا آج بھی اعادہ کرتا ہوں کہ رومن کیتھولک اور عیسائیوں کے دوسرے فرقوں کے سربراہ اس چیلنج کو قبول کریں اور اسلام اور عیسائیت کی سچائی کا فیصلہ کریں.“ حیات ناصر جلد نمبر 1 صفحہ 473) حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ نے اس چیلنج کے متعلق مزید فرمایا: اس چیلنج کو دیئے پچاس ساتھ سال ہو چکے ہیں اور اس چیلنج کے قبول کرنے والے کو حضور علیہ السلام نے پانچ سو روپے دینے کا وعدہ بھی کیا لیکن کسی عیسائی کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ اس چیلنج کو قبول کرے....اور اب میں نے پانچ سو روپے سے بڑھا کر انعام کی رقم پچاس ہزار روپے کر دی ہے.“ (خطبات ناصر جلد 1 صفحہ 475-474) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے دجال کے مرکز یورپ میں جا کر مسیحیوں کو میدان میں آنے کیلئے للکارا اور فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ چیلنجز آج بھی قائم ہیں جو آپ علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں مسیحیوں کو دیئے تھے اور تمہارے لئے انعامات حاصل کرنے کے مواقع اب بھی موجود ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر آج تک کسی پادری کو اس چیلنج کو قبول کرنے کی جرات نہ ہوئی اور یکسر الصلیب کی پیشگوئی ایک نئے انداز سے پوری ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کے الفاظ یہ ہیں: سو توریت اور انجیل قرآن کا کیا مقابلہ کریں گی؟ اگر صرف قرآن شریف کی پہلی سورت کے ساتھ ہی مقابلہ کرنا چاہیں یعنی سورہ فاتحہ کے ساتھ جو فقط سات آیتیں ہیں اور جس ترتیب انسب اور ترکیب محکم اور نظام فطرتی سے اس سورۃ میں صد با حقائق اور معارف دینیہ اور روحانی حکمتیں درج ہیں ان کو موسیٰ کی کتاب یا یسوع کے چند ورق انجیل سے نکالنا چاہیں تو گو ساری عمر کوشش کریں تب بھی یہ کوشش لا حاصل ہو گی اور یہ بات لاف گزاف نہیں بلکہ واقعی اور حقیقی یہی بات ہے کہ توریت اور انجیل کو علوم حکمیہ میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ بھی مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں.ہم کیا کریں اور کیونکر فیصلہ ہو.پادری صاحبان ہماری کوئی بھی بات نہیں مانتے.بھلا اگر وہ اپنی توریت یا انجیل کو معارف اور حقائق کے بیان کرنے اور خاص کلام الوہیت ظاہر کرنے میں کامل سمجھتے ہیں تو ہم بطور انعام پانسو روپیہ نقد ان کو دینے کے لئے طیار ہیں.اگر وہ اپنی کل ضخیم کتابوں سے جو ستر (70) کے قریب ہوں گی، وہ حقائق اور معارف شریعت اور مرتب اور منتظم در حکمت و جواہر معرفت و خواص کلام الوہیت دکھلا سکیں جو سورۃ فاتحہ میں سے ہم پیش کریں اور اگر یہ روپیہ تھوڑا ہو تو جس قدر ہمارے 480

Page 481

لئے ممکن ہوگا ہم ان کی درخواست پر بڑھا دیں گے اور ہم صفائی فیصلہ کے لئے پہلے سورۃ فاتحہ کی ایک تفسیر طیار کر کے اور چھاپ کر پیش کریں گے اور اس میں وہ تمام حقائق و معارف و خواص کلام الوہیت نه تفصیل بیان کریں گے جو سورۃ فاتحہ میں مندرج ہیں اور پادری صاحبوں کا یہ فرض ہو گا کہ توریت اور انجیل اور اپنی تمام کتابوں میں سے سورۃ فاتحہ کے مقابل پر حقائق اور معارف اور خواص کلام الوہیت جس سے مراد فوق العادة عجائبات ہیں جن کا بشری کلام میں پایا جانا ممکن نہیں پیش کر کے دکھلائیں اور اگر وہ ایسا مقابلہ کریں اور تین منصف غیر قوموں میں سے گہ دیں کہ وہ لطائف اور معارف اور خواص کلام الوہیت جو سورۃ فاتحہ میں ثابت ہوئے ہیں وہ ان کی پیش کردہ عبارتوں میں بھی ثابت ہیں تو ہم پانسو روپیہ روپیہ جو پہلے سے ان کے لئے ان کی اطمینان کی جگہ پر جمع کرایا جائے گا دے دیں گے.“ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب روحانی خزائن جلد نمبر 12 صفحہ 360) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عیسائیوں کو قبولیت دعا میں مقابلہ کا چینج: حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کو قبولیت دعا کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا: صرف اور صرف اسلام کا ہی خدا زندہ خدا ہے اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے زندہ رسول ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زندہ خدا کے مظہر اور زندہ نشان ہیں اور ان کے جانشین کی حیثیت سے دعوت مقابلہ دیتا ہوں کہ اگر کسی عیسائی کو بھی دعوی ہے کہ اس کا خدا زندہ خدا ہے تو وہ میرے ساتھ قبولیت دعا میں مقابلہ کرے اور اگر وہ جیت جائے تو ایک گراں قدر انعام حاصل کرے.“ حیات ناصر جلد نمبر 1 صفحہ 474 ، 475) مسیح محمدی کے خلیفہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے دعا کے اس چیلنج کو موسوی مسیح کے کسی بھی پیروکار کو قبول کرنے کی جرات تک نہ ہوئی.حضرت خلیلة المسح الرابع رحمہ اللہ کا اس صدی سے پہلے مسیح کو آسمان سے اتار نے اور دجال کا گدھا پیدا کرنے کا چیلنج: امت محمدیہ کے مسائل کا اصل حل تو مسیح کے نازل ہونے میں ہے اور ان کے ذریعہ مسلمانوں کو عالمی غلبہ نصیب ہو گا اس صدی کے گزرنے میں چند سال باقی ہیں میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ تم سب مل کر اگر کسی طرح مسیح کو اتار دو صدی سے پہلے پہلے تو تم میں سے ہر ایک کو کروڑ روپیہ دوں گا.سب مولویوں کو دوبارہ چینج دیتا ہوں جو یہ دعوئی کر دے کہ میری کوشش سے اترا ہے میں بغیر بحث کئے اس کی بات مان جاؤں گا اور ایک ایک کروڑ کی تھیلی ہر ایک کو پہنچائی جائے گی.“ مزید فرمایا: 481

Page 482

وو ہر مولوی دنیا کے پردے پر جہاں کہیں ہو، ہندوستان کا تو خاص طور پر پیش نظر ہے مسیح کو اُتار دے آسمان سے، جو چاہے کر کے.“ پھر فرمایا: " پھر خیال آیا کہ مسیح تو بہت پاک وجود ہے اسے کہاں اتار سکتے ہیں دجال کے گدھے کو ہی پیدا کردے.اگر صدی کے ختم ہونے سے پہلے دجال کا گدھا ہی بنا کے کھا دو جس کے آئے بغیر مسیح نے نہیں آنا تو پھر ایک ایک کروڑ روپیہ ہر مولوی کو ملے گا اور یہ دعوئی میرا آج بھی قائم ہے اب تو اس قسم کے چیلنجوں کے وقت آگئے ہیں مسیح کو اتارو اور جھگڑا ختم کرو.میں اور میری ساری جماعت پہلے ہی مسیح کو مانے ہوئے ہیں ایک اور مسیح کو ماننے میں کیا حرج ہے.“ پھر فرمایا: " آنے والا تو آ چکا ہے اب کو ئی نہیں آئے گا.اب دلیلوں کے وقت نہیں رہے بلکہ ایسے آسمانی نشانات کے وقت ہیں جو متقیوں پر الہام اور کشوف کی صورت میں اُتریں گے فرمایا یہ چینج ہے جو ہندوستان کے اس مناظرے سے میرے دل میں پیدا ہوا اور اسے پاکستان کے مولویوں پر اور ان بڑے بڑے دعویداروں پر جو مسیح کے مردے کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ کہتا ہوں: شوق سے کرو اس کو آسمان سے اتار کر دکھاؤ جماعت احمدیہ کے خزانے ختم نہیں ہوں گے اور تمہیں کروڑ کروڑ کی تھیلیاں عطا کرتے جائیں گے مگر تمہارے نصیب میں آسمان سے ایک کوڑی کا بھی فیض نہیں.“ ،، هفت روزه بدر قادیان 5 تا 12 جنوری 1995ء) خدا کے پیارے حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس چیلنج کو ہمیشہ کی طرح کسی بھی مولوی کو قبول کرنے کی جرات نہ ہوئی اور اس طرح وہ اربوں روپے سے بھی محروم ہو گئے اور حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا کہ: ”وہ آسمان سے ایک کوڑی کا بھی فیض نہ پاسکیں گے.“ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی طرف سے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کو مباہلہ کا " چینج: ضیاء الحق نے ملک پاکستان میں احمدیوں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کے حق سے کلیۂ محروم کر دیا اور مذہبی منافرت اور لاقانونیت کو ایک ناجائز اور جعلی قانونی جواز فراہم کیا اور مذہبی اختلافات کے شعلوں کو ہوا دے کر کچھ اس طرح بھڑکایا کہ احمدیوں کے خلاف مشتعل ہجوم لوٹ مار اور اور قتل و غارت کے نشے میں دھت گلی کوچوں میں نکل آیا اور پاکستان کی گلیوں میں احمدیوں کا ناحق خون بہایا جانے لگا، احمدیوں کی مساجد اور قبروں کی بے حرمتی کی گئی اور احمدیوں کی نعشوں کو قبرستان سے نکال کر صرف اس لئے باہر پھینک دیا گیا کہ وہاں پرفون مسلمانوں کے آرام اور چین میں خلل پڑتا ہے، اپنے ہی ملک میں احمدیوں پر ظ کے پہاڑ توڑے جانے لگے تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ضیاء الحق کو متنبہ کیا کہ وہ احمدیوں پر مظالم ڈھالنے سے باز آ جائے لیکن ضیاء الحق کے غیظ و غضب اور تشدد میں کمی نہ آئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ضیاء الحق کو خدا کے عذاب سے ڈراتے ہوئے ان الفاظ میں مباہلہ کا چیلنج دیا: ”اے قادرو توانا، عالم الغيب والشهادة خدا! ہم تیری جبروت اور تیری عظمت اور تیرے وقار اور تیرے جلال کی 482

Page 483

کھا کر اور تیری غیرت کو ابھارتے ہوئے تجھ سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو فریق بھی ان دعاوی میں سچا ہے جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اس پر دونوں جہان کی رحمتیں نازل فرما، اس کی ساری مصیبتیں دور کر، اس کی سچائی کو ساری دنیا پر روشن کر دے، اس کو برکت پر برکت دے اور اس کے معاشرہ سے ہر فساد اور ہر شر کو دور کر دے اور اس کی طرف منسوب ہونے والے ہر بڑے اور چھوٹے ، مرد عورت کو نیک چلنی اور پاکبازی عطا کر اور سچائی تقویٰ نصیب فرما اور دن بہ دن اس سے اپنی قربت اور پیار کے نشان پہلے سے بڑھ کر ظاہر فرما تاکہ دنیا خوب دیکھ لے کہ تو ان کے ساتھ ہے اور ان کی حمایت اور ان کی پشت پناہی میں کھڑا ہے اور ان کے اعمال، ان کی خصلتوں اور اٹھنے اور بیٹھنے اور اسلوب زندگی سے خوب اچھی طرح جان لے کہ یہ خدا والوں کی جماعت ہے اور خدا کے دشمنوں اور شیطانوں کی جماعت نہیں ہے.اور اے خدا! تیرے نزدیک ہم میں سے جو فریق جھوٹا اور مفتری ہے اس پر ایک سال کے اندر اندر اپنا غضب نازل فرما اور اسے ذلت اور نکبت کی مار دے کر اپنے عذاب اور قہری تجلیوں کا نشانہ بنا اور اس طور سے ان کو عذاب کی چکی میں ہیں اور مصیبتوں پر مصیبتیں ان پر نازل کر اور بلاؤں پر بلائیں ڈال کہ دنیا خوب اچھی طرح دیکھ لے کہ ان آفات میں بندے کی شرارت اور دشمنی اور بغض کا دخل نہیں بلکہ محض خدا کی غیرت اور قدرت کا ہاتھ یہ سب عجائب کام دکھلا رہا ہے.اس رنگ میں اس جھوٹے گروہ کو سزا دے کہ اس سزا میں مباہلہ میں شریک کسی فریق کے مکر و فریب کے ہاتھ کا کوئی بھی دخل نہ ہو اور وہ محض تیرے غضب اور تیری عقوبت کی جلوہ گری ہو تا کہ بچے اور جھوٹے میں خوب تمیز ہو جائے اور حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر ہو اور ظالم اور مظلوم اور مظلوم کی راہیں جدا جدا کر کے دکھائی جائیں اور ہر وہ شخص جو تقویٰ کا بیج اپنے سینہ میں رکھتا ہر آنکھ جو اخلاص کے ساتھ حق کی متلاشی ہے اس پر معاملہ مشتبہ نہ رہے اور ہر اہلِ بصیرت پر خوب کھل جائے کہ سچائی کس کے ساتھ ہے اور حق کس کی حمایت میں کھڑا ہے.(آمین یا رب العالمین) ہے اور پمفلٹ مباہلہ صفحہ 15 تا16) ضیاء الحق کی ہلاکت کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا واضح اعلان اور امام مسجد فضل کی رؤیا: 12 اگست 1987ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ رابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا کہ جنرل ضیاء الحق نے لفظاً، معنا، عملاً کسی شکل میں بھی احمدیوں پر کئے جانے والے مظالم پر پشیمانی کا اظہار نہیں کیا اب معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے.ہم اس کی فعلی شہادت کے منتظر ہیں.لہذا آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا:.اب جنرل ضیاء الحق اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے عذاب سے بچ کر نہیں جا سکتا اب واپسی کے سارے راستے بند ہو چکے ہیں.“ پانچ دن اور گزر گئے اگست کی سترہ تاریخ تھی لندن مسجد کے سابق امام جناب بی اے رفیق نے صبح ہی صبح ایک مکتوب حضرت خلیفة أمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھیجا جس میں انہوں نے اپنے خواب کی تفصیل بیان کی تھی جو انہوں نے اسی رات دیکھا تھا.خواب میں انہوں نے دیکھا کہ وہ جنرل ضیاء الحق سے ملے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ (حضرت) خلیفہ رابع کو آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہیے.اس پر جنرل ضیاء الحق اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر ان کی ٹھوڑی پکڑ کر بڑی درشتی سے ان کا 483

Page 484

رخ دوسری جانب دھکیلتا ہے.پھر جناب بی اے رفیق کی طرف انگلی سے اشارہ کرتا ہے اور بڑی ترش روئی سے اور ناک چڑھاتے ہوئے کہتا ہے:.میں اُس کو (یعنی حضرت خلیفہ رابع رحمہ اللہ ( کو ایسا سبق سکھاؤں گا جسے وہ عمر بھر یا د رکھے گا.“ ( حضرت ) خلیفہ رابع نے اس مکتوب کے جواب میں لکھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق اصلاح کی طرف ہرگز مائل نہیں ہے.خدا تعالیٰ اس دشمن احمدیت کے منصوبوں کو خاک میں ملا دے اور اسے اپنے ارادوں میں ناکام و نامراد کرے.ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں کا انجام: اس دن یعنی سترہ اگست کو اس خواب اور حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس تبصرہ کچند گھنٹے بعد اچانک پاکستان کا آمر مطلق، جنرل ضیاء الحق اپنے C130 طیارے سمیت آسمان پر ہی جل مرا اور پھر آگ کے شعلوں میں لپٹا ہوا اس کا طیارہ زمین پر گرا اور یوں یہ دشمن احمدیت جل کر خاکستر ہو گیا.ضياء الحق.گئے.پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق صدارتی ہوائی جہاز سہ پہر تین بج کر چھیالیس منٹ پر پاکستان کے جنوب مشرق میں واقع بہاولپور کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوا.وہ آج میجر جنرل محمود درانی کی درخواست پر صبح صبح بہاولپور پہنچے تھے.میجر جنرل محمود ان کے ملٹری سیکرٹری رہ چکے تھے اور اب بکتر بند فوج کے کمانڈر تھے.انہوں نے جنرل ضیاء الحق سے گزارش کی تھی کہ نئے اور جدید ساخت کے ایک امریکی ٹینک کی آزمائش کے وقت پاکستان کی بری افواج کے تمام کمانڈر موقع پر موجود ہوں گے لیکن اگر آپ نہ آئے تو امریکہ اسے اپنی ہتک خیال کرے گا.ٹینک کا آزمائشی تجربہ سرے سے ناکام رہا اور اس کا نشانہ چوک گیا لیکن جنرل ضیاء الحق بڑے خوشگوار موڈ میں تھے.انہوں نے دوپہر کا کھانا آفیسرز میں (Officers Mess) میں کھایا.کھانے سے فارغ ہو کر وہ رن وے پر پہنچے جہاں ان کا ہوائی جہاز پاک ون Pak One) انتہائی حفاظتی پہرے میں ان کا منتظر تھا، جنرل ،قبلہ رُخ ہو کر جھکے، بہاولپور ہی میں رُک جانے والے جرنیلوں سے ملے، اُن سے فرداً فرداً معانقہ کیا، رخصت ہو کر سیڑھیاں طے کرتے ہوئے جہاز میں داخل ہوئے اور سفر پر روانہ ہو C130 ایک ٹرانسپورٹ طیارہ ہے.ایک خاص قسم کا ائر کنڈیشنڈ سفری کمرہ جہاز کے اندر نصب کر دیا گیا تھا.اس کے اگلے حصے میں جو اہم ترین شخصیات کے لیے مخصوص تھا، جنرل ضیاء الحق بیٹھے ہوئے تھے، ان کے سامنے جنرل اختر عبدالرحمان چیئر مین جوائنٹ چیف آف سٹاف تشریف فرما تھے جو جنرل ضیاء الحق کے بعد پاکستان کی مقتدر ترین شخصیت تھے، ان کے ساتھ پاکستان میں مقیم امریکن سفیر آرنلڈ - ایل.ریفائل (Arnold L.Raphael) اور پاکستان میں امریکن ملٹری مشن کے سربراہ جنرل ہر برٹ واسم (General Herbert Wassom) براجمان تھے.ان کے بعد آٹھ پاکستانی جرنیل اپنی اپنی نشستوں پر متمکن تھے.پہلے سینا (Cessna) حفاظتی طیارے نے ارد گرد کا جائزہ لیا.یہ معمول کی احتیاطی پرواز اس وقت سے باقاعدہ کی جاری تھی جب چھ سال قبل جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو میزائل کے ذریعے مار گرانے کی کوشش کی گئی تھی.اس احتیاطی جائزے کے بعد کنٹرول ٹاور نے جہاز کو پرواز کی اجازت دے دی.طیارہ اڑا اور ذرا فضا میں بلند ہوا.کنٹرول ٹاور نے جہاز کے کپتان سے دریافت کیا: ”جہاز کا محل وقوع بتائیں؟“ جہاز کے کپتان نے جواب دیا: یہ پاک ون Pak One) ہے! جواب کا انتظار کریں.اس کے بعد مکمل خاموشی چھا گئی.طیارے سے رابطہ منقطع ہو گیا اور روانگی کے چند منٹ کے بعد صدارتی طیارہ 484

Page 485

لاپتہ ہو چکا تھا.چھ میل دور دریا کے کنارے کسان کھیتوں میں کام کر رہے تھے.انہوں نے ایک ہوائی جہاز کو ہوا میں ڈگمگاتے ہوئے دیکھا جو لہروں کے نرغے میں پھنسی ہوئی سمندری کشتی کی طرح ہچکولے کھا رہا تھا.تیسری قلابازی کھانے کے بعد طیارہ سیدھا زمین پر آرہا.گرتے ہی ریتلی زمین میں پھنس گیا اور ایک دھماکے کے ساتھ شعلوں کی لپیٹ میں آگیا.اکتیس کے اکتیس آدمی جو طیارے میں سفر کر رہے تھے آن کی آن میں لقمہ اجل بن گئے.یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سب زمین پر گرنے سے پہلے ہی سفر آخرت پر روانہ ہو چکے ہوں.حادثہ جہاز کے پرواز کرنے کے ٹھیک پانچ منٹ کے اندر تین بج کر اکیاون منٹ پر وقوع پذیر ہوا.حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دوسرے دن کے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ: ”خدا نے فیصلہ کر دیا.“ یہ خاص خدا تعالیٰ کا قہری نشانہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی خاص تائید سے ظاہر ہوا.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جنرل ضیاء الحق کی بیگم اور دیگر افراد خاندان کے نام تعزیت کا پیغام بھیجا کہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر کے احمدی اس سانحہ پر خوش ہیں اس لئے نہیں کہ کوئی مر گیا ہے بلکہ اس لیے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی تائید اور سچائی کی فتح مبین کا نظارہ کیا ہے یہ نصرت الہی کا ایک آسمانی نشان جو ہمیں دیا گیا ہے اور آنے والے دنوں میں ہماری آئندہ نسلیں اس واقع کو فخر کے ساتھ یاد کیا کریں گی کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ان کے آباؤ اجداد کی مدد کے لئے آسمان سے زمین پر اُترا.“ حادثہ کی تحقیق کرنے والی ٹیم نے بھی حضور رحمہ اللہ تعالٰی کی اس بات کو سو فیصد سچ ثابت کر دیا کہ اس حادثہ میں انسانی ہے (1 (2 (3 ہاتھ کار فرما نہیں بلکہ ٹیم نے حادثہ کے امکانی اسباب کو ایک ایک کر کے واضح کر دیا.مثلاً انہوں نے کہا: جہاز پر کوئی دھما کہ خیز مادہ نہیں تھا کیونکہ تباہ شدہ جہاز کا ملبہ دور دور تک پھیلا ہوا نہیں تھا، جہاز کسی آتشی میزائل کا ہدف بھی نہیں بنا ورنہ اس کے ایلومینیم کے خول پر اس کا نشان ہوتا، حادثہ آگ لگنے سے بھی نہیں ہوا کیونکہ امریکن ملٹری مشن کے سربراہ جنرل ولیم کے پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ وہ حادثہ کے نتیجے میں جلنے سے نہیں بلکہ اس سے پہلے وفات پا چکے تھے، (4) نہ ہی انجنوں کی خرابی سے یہ حادثہ رونما ہوا کیونکہ تفتیش سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ طیارہ جس وقت زمین پر ٹکرایا اس کے انجن پوری رفتار سے چل رہے تھے، (5 (6 ایندھن میں بھی کسی قسم کی آلودگی نہیں پائی گئی، جن کل پرزوں کی مدد سے جہاز کا کپتان جہاز اڑاتا ہے یعنی کنٹرول، اس میں بھی تخریب کاری کا کوئی نشان نہیں ملا بلکہ اس پاک ون ہر کولیس طیارے میں تو کنٹرول کے تین سسٹم تھے اور تفتیشی ٹیم کی رائے میں تینوں سسٹم درست حالت میں تھے.اب صرف یہی امکان رہ گیا تھا کہ پائلٹ یا شاید کبھی مسافر یکا یک بے ہوش ہو گئے تھے.تحقیقاتی ٹیم یہ نہیں بتلا سکی کہ یہ حادثہ آخر ہوا کیسے؟ لیکن اتنا تو سب جانتے ہیں کہ یہ حادثہ کیوں ہوا؟ حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جنرل ضیاء الحق کو خدا تعالٰی کے قہر اور غضب سے خبردار کیا تھا لیکن ضیاء الحق نے اس تنبیہ کو درخور اعتنا نہ سمجھا پس زمین و آسمان کے مالک کی قہری تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیے اور ان جرنیلوں کو بھی تباہ و برباد کر دیا جو اقتدار کے اس بے جا اور بے محابا استعمال میں اس کے دست و بازو تھے.ایک مرد خدا.مترجم چودھری محمد علی صاحب صفحہ نمبر 358 تا 386) 485

Page 486

حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی طرف سے رسوائے زمانہ مولوی، منظور احمد چنیوٹی کو مباہلہ کا چیلنج: مولوی منظور احمد چنیوٹی جماعت احمدیہ کے معاونین اور مخالفین میں سے ایک نام تھا جو شیطان کے کامل ظل کی صورت میں احمدیت کی مخالف کو جزو فطرت اور مقصد حیات بنائے ہوئے تھا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مباہلہ کا اعلان جب کیا تو مولوی صاحب نے کہا:.”اگلے سال 15 ستمبر تک میں تو ہوں گا قادیانی جماعت زندہ نہیں رہے گی.“ (روزنانہ جنگ لاہور 17 اکتوبر 1988ء) ہے یا اس کے جواب میں امام جماعت احمدیہ نے بڑے جلال اور تحدی کے ساتھ فرمایا: انشاء اللہ ستمبر آئے گا اور ہم دیکھیں گے کہ احمدیت نہ صرف زندہ ہے بلکہ زندہ تر ہے ہر زندگی کے میدان میں پہلے سے بڑھ کر زندہ ہو چکی ہے.منظور چنیوٹی اگر زندہ رہا تو اس کو ایک ملک ایسا دکھائی نہیں دے گا جس میں احمدیت مرگئی ہو اور کثرت سے ایسے ملک کھائی دیں گے جہاں احمدیت از سرِ نو زندہ ہوئی احمدیت نئی شان کے ساتھ داخل ہوئی ہے اور کثرت کے ساتھ مردوں کو زندہ کر رہی ہے.پس ایک اعلان وہ ہے جو منظور چنیوٹی نے کیا تھا اور ایک یہ اعلان ہے جو میں آپ کے سامنے کر رہا ہوں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا ادھر سے اُدھر ہو جائے خدا کی خدائی میں یہ بات ممکن نہیں ہے کہ منظور چنیوٹی سچا ہواور میں جھوٹا نکلوں، منظور چنیوٹی جن خیالات اور عقائد کا قائل ہے وہ سچے ثابت ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو عقائد ہمیں عطا فرمائے ہیں، آپ اور میں جن کے علمبردار ہیں یہ عقائد جھوٹے ثابت ہوں اس لئے یہ شخص بڑی شوخیاں دکھاتا رہا اور جگہ جگہ بھاگتا رہا اب اس کی فرار کی راہ اس کے کام نہیں آئے گی اور خدا کی تقدیر اس کے فرار کی ہر راہ بند کر دے گی اور اس کی ذلت اور رُسوائی دیکھنا آپ کے مقدر میں لکھا گیا ہے.انشاء الله 66 (خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 1988ء) اس کے دو ماہ بعد 16 اکتوبر 1988 کی کانفرنس ختم نبوت ربوہ میں مولوی منظور نے اپنے اس کھلے بیان سے انحراف کیا اور اعلان کیا کہ : 66 ”مرزا طاہر احمد کے ختم ہو جانے کی بات کی تھی ساری قادیانی جماعت کی نہیں.“ (جنگ لاہور 30 جنوری 1989) حضرت خلیفۃ امسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مولوی کے اس کھلم کھلا جھوٹ کا تعاقب کرتے ہوئے فرمایا: تو بالکل جھوٹ ہے.”اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ 15 ستمبر سے پہلے لازماً مر جاؤں گا..ہے؟ جن کے مباہلہ کی بنا جھوٹ پر ہو وہ تو جھوٹے ثابت ہو گئے پھر اور کون سا مباہلہ باقی مولوی منظور چنیوٹی نے حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے مباہلہ کو تسلیم کرنے کا اقرار کیا تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر مولوی چنیوٹی زندہ رہا تو ذلتوں کے لئے ہی زندہ رہے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مباہلے کو تسلیم کرنے کے بعد اسے ہر بار ناکامیوں اور نامرادیوں کا سامنا کرنا پڑا.ذلتوں کا ہار اس کی گردن کا طوق بنا رہا جس کا ہر منکا 486

Page 487

ایک الگ نوعیت کی ذلت کا عکاس ہے.ذلتوں کے اس ہار میں سے کچھ پیش خدمت ہے: نہیں.“ (1 محمد یار شاہد جو منظور چنیوٹی کا دست راست اور عقیدت مند تھا وہ ان کے بارے میں کہتا ہے: اگر اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے تو میں اہم انکشافات کروں گا جس سے ان پردہ نشینوں کے اصل کرتوتوں سے شہریوں کو آگاہی ہو گی......اور ہم عنقریب ایک پریس کانفرنس میں دستاویزی ثبوت فراہم کریں گے کہ اسلام کے یہ نام لیوا در پردہ کیا ہیں؟“ (2.(ڈیلی بزنس رپورٹ فیصل آباد 26 ستمبر 1988) قاری یا مین گوہر نے چنیوٹ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا مولوی منظور چنیوٹی ان دونوں تنظیموں میں سے کسی کے کارکن یا مبلغ نہیں لیکن اس شخص نے محض چندہ بٹورنے کے لیے اپنے اوپر مبلغ ختم نبوت کا لیبل لگایا ہوا ہے اس پر طرہ یہ کہ اس نے بعض مسلمانوں کے خلاف فتویٰ لگا کر علمائے اسلام کے خلاف نفرت کا بیج بویا.“ (3 مولانا اللہ یار ارشد کا بیان: ”مولانا منظور چنیوٹی نے ختم نبوت کے نام کو بیچ کر قوم سے ووٹ حاصل کئے اور پنجاب اسمبلی میں جا کر جو مذموم کردار ادا کیا وہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے رُسوائی کا سبب بنا.مولانا نے کہا: جھوٹ اس کا مشن دھوکہ اس کا پیشہ ہے اور صوبائی اسمبلی میں معافی مانگ کر اس شخص نے ختم نبوت کے پروانوں کے سر جھکا دیئے 66 ہیں." (4) ہے، (روز نامه حیدر راولپنڈی یکم نومبر 1988ء) مولوی منظور چنیوٹی کا غیر شریفانہ رویہ، ملک کے نامور شاعر اور دانشور علامہ سید محسن نقوی کے کہا: مولانا چنیوٹی اپنے علاقے میں مذہبی منافرت پھیلا نے اور فرقہ ورانہ تعصب کے زہر سے فضا کو مکدر کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں.علامہ محسن نقوی نے مطالبہ کیا کہ منظور چنیوٹی کو اس کے غیر شریفانہ رویہ کی بنا پر اسمبلی کی رکنیت سے خارج کیا جائے.“ 5) پاکستان علما کونسل نے کہا کہ: (5 دو (6 (روز نامه مساوات 23 دسمبر 1988ء) مولوی منظور چنیوٹی عملاً اسمبلی کی رکنیت کھو چکے ہیں اب وہ صرف چنیوٹ کے کھال فروش قصاب کے سوا کچھ بھی (روزنامہ مساوات 29 اپریل 1989 ء) پنجاب اسمبلی کے 27 مئی 1989 کے اجلاس میں مولوی صاحب کے بارے میں اراکین اسمبلی نے جو مختلف تبصرے کئے وہ مولوی صاحب کی ذلتوں کے عکاس ہیں: (1 (2 انہیں مولانا کہتے رہے.(3 وہ ایک مسلمان کو کافر کہہ کر خود کافر ہو گئے ہیں، ان کو مولا نا نہیں کہا جا سکتا یہ ایک عالم دین کی توہین ہے، ایک ممبر نے کہا اصل میں ہم لاعلمی میں مولانا کے ایمان کی کمزوری درست کی جائے، (4) منظور چنیوٹی بلیک میلر ہے، (5 منظور چنیوٹی کا نکاح ٹوٹ گیا.اگر ان کا نکاح ٹوٹ گیا تو ان کی اولاد کیا کہلائے گی؟ 487

Page 488

(6 (7 (8 (9 (10 ان کو کوڑے لگائے جائیں، کوڑے نہیں اسلام میں دُروں کی سزا ہے، بقیہ اجلاس کیلئے ان کا داخلہ ایوان میں روک دیا جائے، مولانا کی زبان پر کنٹرول کیا جائے ورنہ خود ہی کر سکتے ہیں، مولانا کو معافی مانگنی چاہیے ورنہ لوگ انہیں فتوی فروشی کا الزام دیں گے، آخر میں مولانا نے ایوان سے معافی مانگ لی.(فتح مباہلہ یاذلتوں کی مارصفحہ 22) (11) آخر پر آئیے دیکھتے ہیں کہ چنیوٹ کے باسی مولانا کے بارے میں کیا کہتے ہیں: روزنامہ امروز 7 جولائی 1989 ء میں چنیوٹ کے شہریوں کی قرارداد درج ہے جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ: مولانا چنیوٹی کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا جائے.“ ان حقیقوں کے آئینہ میں ذرا مولوی صاحب کو پکاریں تو یہ پکارتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ”میرا قاضی میری ذلتوں کے سوا کچھ بھی نہیں.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ہر ایک نے جو مجھ سے مباہلہ کیا آخر کار خدا نے یا تو اسے ہلاک کیا اور یا ذلت اور تنگی معاش کی زندگی اس کو نصیب ہوئی یا اس کی قطع نسل کی گئی اور ہر ایک جو میری موت چاہتا رہا اور بد زبانی کی آخر وہ آپ ہی مر گیا اور اتنے نشان خدا نے میری تائید میں دکھلائے کہ وہ شمار سے باہر ہیں.اب کوئی خدا ترس جس کے دل میں خدا کی عظمت ہے اور کوئی دانشمند جس کو کچھ حیا اور شرم ہے یہ بتلا دے کہ کیا یہ امر خدا تعالیٰ کی سنت میں داخل ہے کہ ایک شخص جس کو وہ جانتا ہے کہ وہ مفتری ہے اور خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولتا ہے اس سے خدا تعالیٰ یہ معاملات کرے؟ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جب سلسلہ الہامات کا شروع ہوا تو اس زمانہ میں میں جوان تھا اب میں بوڑھا ہوا اور ستر سال کے قریب عمر پہنچ گئی اور اس زمانہ پر قریباً پینتیس سال گزر گئے مگر میرا خدا ایک دن بھی مجھ سے علیحدہ نہیں ہوا.اس نے اپنی پیشین گوئیوں کے مطابق ایک دنیا کو میری طرف جھکا دیا.میں مفلس اور نادار تھا، اس نے لاکھوں روپے مجھے عطا کئے اور ایک زمانہ دراز فتوحات مالی پہلے مجھے خبر دی اور ہر ایک مباہلہ میں مجھ کو فتح دی اور صدہا میری دعائیں منظور کیں اور مجھ کو وہ نعمتیں دیں کہ میں شمار نہیں کر سکتا.پس کیا یہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اس قدر فضل اور احسان ایک شخص پر کرے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس پر افترا کرتا ہے جبکہ میں میرے مخالفوں کی رائے میں تھیں بہتیس برس سے خدا تعالیٰ پر افترا کر رہا ہوں اور ہر روز رات کو اپنی طرف سے ایک کلام بناتا ہوں اور صبح کہتا ہوں کہ یہ خدا کا کلام ہے اور پھر اس کی پاداش میں خدا تعالیٰ کا مجھ سے یہ معاملہ ہے کہ وہ جو اپنے زعم میں مومن کہلاتے ہیں ان پر مجھے فتح دیتا ہے اور مباہلہ کے وقت میں ان کو میرے مقابل پر ہلاک کرتا ہے یا ذلت کی مار سے پامال کر دیتا ہے.‘“ سے (حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ 461) 488

Page 489

نظام خلافت اور مجلس شوریٰ مرتبہ طارق محمود بلوچ استاد مدرسة ة الظفر 489

Page 490

490 آیت: شوری اور نظام خلافت کا باہمی تعلق شوریٰ کا پس منظر، تاریخی حیثیت و اہمیت اور مقام شوری کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات شوری کے اغراض و مقاصد کے بارہ میں خلفائے سلسلہ احمدیہ کے ارشادات، فرمودات اور ہدایات شوری اور نظام خلافت کا باہمی تعلق وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلوةَ وَاَمْرُهُمْ شُوَرى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ * (سورة الشورى: 39 ) ترجمہ: اور جو اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کا امر باہمی مشورہ سے طے ہوتا ہے اور اس میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا خرچ کرتے ہیں.(ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ)

Page 491

حدیث: عَنْ عُمَرَ رضى الله تعالى عنه أَنَّه قَالَ : لَا خِلَافَة إِلَّا عَنْ مَشْوَرَةٍ ترجمہ: خلافت کا انعقاد مشورہ اور رائے لینے کے بغیر درست نہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (كنز العمال كتاب الخلافة مع الامارة) ” میرا مذہب ہے: لَا خِلَافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ - خلافت جائز ہی نہیں جب تک اس میں شوری نہ ہو.) منصب خلافت.انوار العلوم جلد 2 صفحہ 25) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”دنیاوی مجالس مشاورت میں تو یہ ہوتا ہے کہ ان میں شامل ہونے والا ہر شخص کہہ سکتا ہے.کہ چاہے میری بات رد کر دو مگر سن لو.لیکن خلافت میں کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں.یہ خلیفہ کا ہی حق ہے کہ جو بات مشورہ کے قابل سمجھے اس کے متعلق مشورہ لے.اور شوریٰ کو چاہیے کہ اس کے متعلق رائے دے.شوری اس کے سوا اپنی ذات میں اور کوئی حق نہیں رکھتی کہ خلیفہ جس امر میں اس سے مشورہ لے اس میں وہ مشورہ دے.“ رپورٹ مجلس مشاورت 1930 ، صفحہ 42-43 ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مشورہ لینے کا حق اسلام نے نبی کو اور اس کی نیابت میں خلیفہ کو دیا ہے مگر کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ نبی یا خلیفہ کے سامنے تجاویز پیش کرنے کا حق دوسروں کے لئے رکھا گیا ہے کوئی ایسی مثال نہیں مل سکتی کہ کسی نے اپنی طرف سے رسول کریم مطلقہ کے سامنے تجویز پیش کی ہو.اور اسے اپنا حق سمجھا ہو.“ دد مکرم.رپورٹ مجلس مشاورت 1930 ، صفحہ 7 ) سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: مولانا ابو العطا صاحب جالندھری نے اپنی رپورٹ کی ابتدا میں ایک تمہیدی نوٹ دیا تھا جس کے الفاظ تھے کہ: ”سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری سمجھی گئی ہے.کہ تمام جماعتوں اور افراد پر اچھی طرح واضح رہے که مشورہ لینے کا حق نبی یا امام وقت کو دیا گیا ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فرمایا ہے.امام جس طریق پر اور جن افراد سے مشورہ لینا پسند کرے.اس کا اسے از روئے شریعت اختیار ہے.جماعتوں اور افراد کا یہ حق نہیں کہ کسی خاص طریق پر مشورہ دینے کا مطالبہ کریں.مجلس شوریٰ کو خلیفہ وقت بلاتے ہیں.اور اس بارہ میں انہیں پورا اختیار ہے کہ جس طریق پر اور جن افراد سے اور جتنی تعداد سے مشورہ لینا چاہیں مشورہ لے سکتے ہیں.یہ وضاحت کرنا اس لئے ضروری سمجھا گیا تا کسی نئے احمدی کے ذہن میں مغربی طرز فکر کے ماتحت پارلیمنوں (Parliments) کے طریق پر نمائندگی کے حق کا سوال پیدا نہ ہو.“ اس تمہیدی نوٹ پر حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”جہاں تک مجلس شوری کا سوال ہے وہی فقرہ درست ہے جو مکرم ابو العطا صاحب نے اپنے تمہیدی نوٹ میں ہے.کیونکہ یہ فیصلہ کرنا کہ کسی مجلس کو مشورہ کے لئے قائم کیا جائے یا نہ کیا جائے یہ جماعت کا حق نہیں ہے بلکہ خلیفہ وقت کا حق ہے.اگر آپ اسے جماعت کا حق فرض کر لیں تو ساتھ ہی ہمیں اس وقت یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے جماعت کو یہ حق نہیں دیا کیونکہ انہوں نے اس قسم کی مجلس لکھا 491

Page 492

شوری بلائی ہی نہیں اور اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے جماعت کا ایک حق مار لیا (نعوذ باللہ)، جو غلط بات ہے.اور پھر اس کا نتیجہ فوراً یہ نکلتا ہے کہ حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ 1914ء میں مسندِ خلافت پر بیٹھے اور پہلی مجلس شوری 1922 ء میں منعقد ہوئی.اگر مجلس شوری کا قیام جماعت کا حق تسلیم کیا جائے تو 1914 ء سے 1922ء تک آپ رضی اللہ عنہ نے قوم کو اس کا حق نہیں دیا.اور یہ بالکل غلط بات ہے ان کا حق تھا ہی نہیں.اس لئے حق دینے یا نہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.غرض جہاں تک مجلس شوریٰ کا سوال ہے اسے کس شکل میں بلایا جائے اس کی نمائندگی کا کیا طریق ہو.انتخاب کس اصول پر ہو وغیرہ.یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کا فیصلہ کرنا خلیفہ وقت کا کام ہے اور اس کے متعلق خلیفہ وقت مشورہ لیتا ہے.وہ مشورہ کے بعد اکثریت کے حق میں فیصلہ کر رہا ہو یا اکثریت کے خلاف فیصلہ کر رہا ہو.یہ علیحدہ بات ہے لیکن بہر حال وہ مشورہ لیتا ہے اور کام کرتا ہے.“ ” رپورٹ مجلس مشاورت 1967 ، صفحہ 244 تا 247) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: خلیفہ کا طریق حکومت کیا ہو؟ خدا تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر دیا ہے.تمہیں ضرورت نہیں کہ تم خلیفہ کے لئے قواعد اور شرائط تجویز کرو یا اس کے فرائض بتاؤ.اللہ تعالیٰ نے جہاں اس کے اغراض و مقاصد بتائے ہیں قرآن مجید میں اس کے کام کا طریق بھی بتادیا ہے : وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ.ایک مجلس شوری قائم کرو، ان سے مشورہ لے کر غور کرو پھر دعا کرو جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں قائم کر دے اس پر قائم جاؤ.خواہ وہ اس مجلس کے مشورہ کے خلاف بھی ہو.تو خدا تعالیٰ مدد کرے گا.“ ہو منصب خلافت - انوار العلوم جلد 2 صفحہ 56) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہ نہیں کہ ووٹ لیے جائیں اور ان پر فیصلہ کیا جائے بلکہ جیسا اسلامی طریق ہے کہ مختلف خیالات معلوم کیے جائیں اور مختلف تجاویز کے پہلو معلوم ہوں تاکہ ان پر جو مفید باتیں معلوم ہوں وہ اختیار کر لیں.اس زمانہ کے لحاظ سے یہ خیال پیدا ہونا کہ کیوں رائے نہ لیں اور ان پر فیصلہ ہو.مگر ہمارے لیے دین نے یہی رکھا ہے کہ ایسا ہو : فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى الله مشورہ لو مگر جب ارادہ کر لو تو پھر اس بات کو کر لو.یہ نہ ہو کہ لوگ کیا کہیں گے.اور اسلام میں ایسا ہی ہو تا رہا ہے.جب ایران پر حملہ کیا گیا تھا تو دشمن نے ایک پل کو توڑ دیا اور بہت سے مسلمان مارے گئے تھے.سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ مسلمان تباہ ہو جائیں گے.اگر جلد فوج نہ آئے گی تو عرب میں دشمن گھس آئیں گے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رائے طلب کی تو سب نے کہا خلیفہ کو خود جانا چاہیے.حضرت علی رضی اللہ عنہ خاموش رہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی پر خیال آیا اور پوچھا آپ کیوں چپ ہیں؟ کیا آپ اس رائے کے خلاف ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں میں خلاف ہوں.پوچھا کیوں تو کہا اس لیے کہ خلیفہ کو جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیے اس کا کام یہ ہے کہ لڑنے والوں کو مدد دے.جو قوم ساری طاقت خرچ کر دے اور جسے مدد دینے کے لیے کوئی نہ رہے تو وہ تباہ ہو جاتی ہے.اگر آپ کے جانے پر شکست ہو گئی تو پھر مسلمان کہیں نہ ٹھہر سکیں گے اور عرب پر دشمنوں کا قبضہ ہو جائے گا.اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہ گئے اور انہی کی بات مانی گئی.تو مشورہ کی غرض ووٹ لینے نہیں بلکہ مفید تجاویز معلوم کرنا ہے.پھر چاہے تھوڑے لوگوں کی اور اور چاہے ایک ہی کی بات مانی جائے.پس صحابہ خاموشی رضی اللہ عنہم کا یہ طریق تھا اور یہی قرآن سے معلوم ہوتا ہے اور عارف کے لیے یہ کافی ہے.“ 492

Page 493

(رپورٹ مجلس مشاورت 1922 ، صفحہ 8 تا 13 ) حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے کثرت رائے سے اختلاف کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: نمائندگان شوری کی کثرت رائے سے اختلاف کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں.جہاں جہاں بھی حضرت خلیفہ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ نے کثرتِ رائے سے اختلاف کیا تو اس اختلاف کی وجہ بیان فرمائی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف اس وقت کے حاضر ممبران آپ رضی اللہ عنہ کی رائے سے دلی طور پر مطمئن ہو گئے بلکہ آج بھی ہر معقول آدمی ان معاملات پر نظر ڈال کر یقیناً اس فیصلہ تک پہنچے گا کہ آپ رضی اللہ عنہ کا کثرت رائے کو قبول نہ کرنا نہ صرف معقول اور مناسب تھا بلکہ ایسا نہ کرنا قومی مفادات کے لئے مضر ثابت ہوتا.کہیں ایک جگہ بھی محقق آپ رضی اللہ عنہ کے اختلاف رائے میں آمریت کا شائبہ تک نہ پائے گا.یہ تمام امور جماعت احمدیہ کے ریکارڈ میں موجود اور رسائل و جرائد میں شائع شدہ ہیں.اور ہر دلچسپی رکھنے والے کو دعوتِ فکر و نظر دے رہے ہیں.چند مثالیں پیش خدمت ہیں.:اول مجلس شوری میں یہ تجویز پیش ہوئی تھی کہ صوبائی امیر جمعہ کے روز اگر کہیں موجود ہوں اور وہاں کا امیر مقامی کوئی اور شخص ہو تو جمعہ کے پڑھانے کا اصل حق امیر مقامی کا ہو گا.البتہ صوبائی (Provincial) امیر، مقامی (Local) امیر کو اطلاع دے کر حسب ضرورت جمعہ پڑھا سکے گا.اس تجویز کے متعلق جب رائے شماری ہوئی تو اکثریت نے اس کے حق میں رائے دی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اکثریت کے اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں اکثریت کی رائے درست نہیں ہے میرے نزدیک جب تک یہ عہدے الگ الگ ہیں اس وقت تک یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جہاں پراونشل (Provincial) امیر ہو وہاں اسے اپنے خیالات کے اظہار اور ان کی اشاعت کے لئے کوئی موقع حاصل ہونا چاہیے.مجھے تو یہ ذریعہ حاصل ہے کہ اخبار ہے اور اخبار والے میری تقریرں اور خطبے نوٹ کر کے شائع کرتے اور جماعت تک پہنچاتے ہیں مگر صوبہ کی جماعتوں کے امرا کو یہ ذریعہ حاصل نہیں کہ ایک جگہ اپنے جن خیالات کا وہ اظہار کریں وہ سارے صوبہ کی جماعتوں تک پہنچ جائے اس لئے باوجود اس کے کہ اکثریت دوسری طرف گئی ہے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ اپنے صوبہ میں جہاں بھی پراونشل (Provincial) امیر ہو جمعہ کا خطبہ دینے کا حق اسے مقدم طور پر حاصل ہوگا.اس کی موجودگی میں اس کی اجازت سے لوکل (Local) امیر یا کوئی اور شخص خطبہ پڑھا خطبہ پڑھا سکتا ہے.ہاں جہاں پر پراونشل (Provincial) امیر موجود نہ ہو یا اس غرض کے لئے کوئی دوسرا امام مرکز سلسلہ کی طرف سے مقرر نہ ہو تو خطبہ دینے کا اوّل حق لوکل (Local) امیر کو حاصل ہو گا.“ ثانياً: مجلس شوری میں یہ تجویز پیش تھی کہ کراچی اور لاہور اور راولپنڈی کو مقامی ضروریات کے لئے ان کے چندوں کا تیسرا حصہ بطور گرانٹ دیا جائے.جماعت کے مالی حالات کے لحاظ سے یہ تجویز اپنی موجودہ صورت میں درست نہ تھی لیکن اس تجویز کو اپنے اختیارات کے تحت رڈ کرنے کی بجائے آپ رضی اللہ عنہ نے اس تجویز کے ناموزوں ہونے کے دلائل دیئے اور اس کے نقصان دہ پہلوؤں کی جماعت کے نمائندگان کے سامنے وضاحت فرمائی.چنانچہ اس تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چندوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اس تجویز کو منظور کر لیا جائے تو قریباً دو لاکھ روپیہ بجٹ آمد سے کم ہو جاتا ہے.ہمارا کل بجٹ بارہ لاکھ ننانوے ہزار کا ہے اور اگر یہ دو لاکھ روپیہ اس سے نکال دیا جائے تو آمد دس 493

Page 494

لاکھ ننانوے ہزار بلکہ اس سے بھی کم رہ جاتی ہے.اور اس دس لاکھ ننانوے ہزار روپیہ کی آمد سے بارہ لاکھ ننانوے ہزار کے اخراجات چلانا کسی انجمن کی طاقت سے باہر ہے.درحقیقت یہ بحث اخراجات کی کمیٹی کے سامنے اٹھانی چاہئے تھی کہ اس قدر اخراجات کم کر دیئے جائیں.کالج بند کر دو.زنانہ کالج بند کردو لنگر خانہ بند کر دو.نظارت امور عامہ بند کردو.نظارت اصلاح و ارشاد کے کارکنوں کو رخصت کر دو اور اخراجات کے بجٹ کو دس لاکھ ننانوے ہزار پر لے آؤ.ورنہ یہ کہ خرچ تو وہی رکھو آمد تقسیم کر لو یہ وہی بات ہے جیسے کوئی ایک ناممکن چیز کی خواہش کرے یا جیسے بچے روتے ہیں تو کہتے ہیں ستارے دے دو.دس لاکھ ننانوے ہزار میں بارہ لاکھ ننانوے ہزار کے اخراجات کا بجٹ پورا کرنا بھی ستارے لانے والی بات ہے یہ ایک ناممکن العمل بات ہے اس لئے اس تجویز پر رائے دیتے وقت سوچ لیا جائے کہ آیا اس بجٹ کو نامنظور کیا جائے یا رہنے دیا جائے کیونکہ تخفیف کے بعد خرچ نہیں چل سکتا.کہا گیا ہے کہ اس کی ضرورت ہے.ٹھیک ہے اس کی ضرورت ہے لیکن اگر کوئی ضرورت ہو تو اس کے لئے آمد بڑھائی جانی چاہئے.دعائیں کرتے رہو اللہ تعالیٰ کو سب طاقت ہے اور وہ سب برکتیں دے سکتا ہے.ایک وقت وہ تھا کہ جب مجھے خلیفہ بنایا گیا.تو خزانہ مقروض تھا اور اس میں صرف اٹھارہ آنے تھے اور اب آپ کا بجٹ تحریک کے سالانہ بجٹ کو ملا کر انتیس لاکھ روپے کا ہے.اب دیکھو کجا اٹھارہ آنے اور کجا انتیس لاکھ روپیہ.تو اللہ تعالیٰ میں بڑی طاقت ہے.(رپورٹ مجلس مشاورت 1957 ء صفحه 83 تا 91 از سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ 201 تا 203 ) سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مشورہ صحیح وہی نہیں ہوا کرتا جو آخر میں منظور ہو جائے بلکہ ہر وہ مشورہ ( خواہ وہ مانا جائے یا نہ مانا جائے) جو ضي دیانتداری کے ساتھ ، خلوص کے ساتھ اور نیک نیتی کے ساتھ آپ پیش کرتے ہیں وہ صحیح مشورہ ہے.اور میں یہاں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کے مشوروں کو سننے کے بعد جب میں کسی نتیجہ پر پہنچوں اور کسی کام کے کرنے کا ارادہ اور عزم کروں تو محض اپنے رب پر توکل رکھتے ہوئے اور اس کی زندہ طاقتوں اور زندہ قدرتوں پر یہ امید رکھتے ہوئے کہ میری کوشش میں جو میں کروں یا کرواؤں، وہ برکت ڈالے گا.میں وہ عزم کروں اور دل میں دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ ان نیک کاموں میں ہماری راہبری بھی کرے کیونکہ مشوروں میں جہاں اس کی ہدایت کی ضرورت ہے.وہاں عمل میں بھی اس کی ہدایت کی ضرورت ہے اور وہ ہماری حقیر کوششوں میں برکت ڈالے اور ان کے ایسے شاندار نتائج نکالے جو اس کی نگاہ میں بھی شاندار ہوں.رپورٹ مجلس مشاورت 1967 ء صفحہ 6 ) سیدنا حضرت اقدس خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران آیت 160 کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس آیت کی تلاوت میں نے اس لئے کی ہے کہ آج کل جو مارچ کا موسم ہے اس میں جماعت احمد یہ عالمگیر میں کثرت سے مجالس شوری منعقد کی جاتی ہیں.بعض مجبوریوں کی وجہ سے تاخیر سے بھی کرتے ہیں مگر یہ وہ موسم ہے جس میں اکثر مجالس شوری کا انعقاد ہوتا ہے اور یہ جو ادارہ ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب دنیا میں چکا ہے.زیادہ سے زیادہ ہماری کوشش ہے کہ بڑے بڑے ملکوں کے علاوہ چھوٹے ملکوں میں بھی نظام شوری قائم کیا جائے کیونکہ یہ حضرت اقدس محمد مصطفی مطلقہ کی سنت تھی کہ آپ مشورہ کیا کرتے تھے حالانکہ اگر انسانوں میں سے کسی کو سب سے کم مشورے کی ضرورت ہے تو وہ آنحضرت مخالہ کو تھی کیونکہ خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نگہبان تھا، خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت فرمایا کرتا تھا اور اس کے باوجود مشورہ کرنا آپ صلی ہو 494

Page 495

الله علیہ وسلم کی سنت تھی جسے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترک نہیں کیا.تو عملاً مجالس شوری کا انعقاد اس زمانے میں تو تقریباً ہر روز ہی ہوا کرتا تھا یعنی جس سے بھی رسول اللہ صلی اللہ پسند فرماتے اس سے مشورہ کر لیا کرتے تھے.اس کو باقاعدہ انسٹیٹیوٹ (Institute) بنا کر جماعت احمدیہ میں رائج کیا گیا ہے اور مرکزی بات ج جو بنیادی بات ہے وہ میں یہ بتانی چاہتا ہوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنتَ لَهُمْ ، وَ لَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرُلَهُمْ وَ شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ ۚ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكَّلِینَ.کہ مشورہ تو کرنا ہے اس لئے کہ تیری بات، تیرے وجود، تیری ہر چیز سے یہ محبت کرتے ہیں اور تیرا بہت نرم دل ہے اور تیری طرف جھکے رہتے ہیں تو مشورہ سے ان کو ایمانی تقویت نصیب ہوتی ہے لیکن فیصلہ تونے کرنا ہے.مشورہ جو بھی ہے اس سے قطع نظر کہ وہ کیا مشورہ ہے آخری فیصلہ تیرا ہے.پس صلح حدیبیہ کے موقع پر دیکھئے کہ تمام صحابہ کا ایک ہی مشورہ تھا کہ چاہے قتل و غارت کرنا پڑے، اپنے خون سے ہولی کھیلنی پڑے لیکن ہم ضرور خانہ کعبہ حج پر جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیا پوری ہو گی جس میں کسی سال کا کوئی ذکر نہیں تھا مگر صحابہ نے یہی سمجھا کہ اسی سال یہ رویا پوری ہوتی ہے.اس وقت بھی حضور اکرم ملحقہ نے تمام صحابہ کا مشورہ ترک فرما دیا، نظر انداز فرما دیا اور اس میں کوئی بھی استثنا نہیں تھا.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى الله جب عزم کر لیا تو پھر اللہ پر ہی تو کل کے نتیجے میں صلح حدیبیہ سے ہی پھر آئندہ ساری فتوحات کی بنیاد ڈالی گئی اور عظیم الشان صلح کی شرائط تھیں جس نے اگلے زمانے کی گویا کایا پلٹ دی.تو اس پہلو سے میں سب شوری میں شامل لوگوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ مجلس شوریٰ میں جو فیصلے ہوتے ہیں ان میں فیصلوں سے زیادہ لفظ مشورے کا اطلاق ہونا چاہئے جو مجلس شوری کی جان ہے.فیصلہ ہوتا ہی کوئی نہیں.مشورے ہوتے ہیں اور جو کثرت رائے سے مشورے ہوں ان کو پھر امیر کی معرفت خلیفہ اسیح کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے اور پھر وہاں فیصلہ ہوتا ہے.پس آپ بھی اس طریقے کو چمٹے رہیں کیونکہ اسی میں برکت ہے اسی میں جماعت کی زندگی کا راز ہے.مجلس شوری ایک بہ مجلس شوری ایک بہت بڑا احسان ہے اللہ تعالیٰ کا جو خدا تعالیٰ نے یہ نظام ہمارے اندر جاری فرما کے ہمیں ایک ہاتھ پر باندھ دیا.تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ ہر جگہ مشورے کریں گے اور توکل اللہ پر ہی کریں گے.جب فیصلہ جماعت کی طرف سے کیا جائے تو پھر تو کل کا مقام ہے اور خدا تعالیٰ کبھی بھی اس تو کل کو ضائع نہیں فرماتا.“ (خطبه جمعه فرمودہ 24 مارچ 2000 ء ) حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”جماعت احمدیہ میں مجلس مشاورت کا نظام نظام خلافت سے وابستہ اور اس پر منحصر ہے اور جماعت احمدیہ کے نزد یک خلیفہ اُس شَاوِرُ هُمْ فِي الْأَمْرِ کے مخاطب کی حیثیت سے جب چاہے اور جس رنگ میں چاہے مشورہ کے لیے صائب الرائے احباب کو دعوت دے سکتا ہے.ہر ایسے مشورہ کی ابتدا دعاؤں اور ذکر الہی کے ساتھ ہوتی ہے تاکہ فیصلہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا خوف اور تقویٰ مدنظر رہے اور اس کی نصرت اور رہنمائی شامل حال رہے.ہر وہ شخص جسے کوئی مشورہ پیش کرنا ہو اسے پوری آزادی ہے کہ باجازت صدر مجلس بے تکلفانہ رائے کا اظہار کر ہے لیکن ضروری ہے کہ اس مشورہ میں اصل مخاطب حاضرین مجلس نہ ہوں بلکہ خلیفہ اسیح ہوں.بعد مشورہ خلیفہ اسی کو پورا اختیار ہے کہ خواہ کثرت رائے کے مشورہ کو قبول کریں یا رد کر دیں.یہ جماعت کی مجلس 495

Page 496

مشاورت کے نظام کا اصولی خلاصہ ہے." حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ 193,192 ) ”وہ لوگ جو جماعت احمدیہ کے اس روحانی نظام کو دنیاوی پیمانوں سے جانچتے ہیں اور اس امر پر کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر خلیفہ وقت کو آرا کو رد کرنے کا آخری اختیار حاصل ہے تو ایسے مشورہ کا فائدہ ہی کیا اور اس طریق مشورہ کو محض ایک پردہ سمجھتے ہیں جو گویا آمریت کو چھپائے ہوئے ہے.ان کے لیے مجلس مشاورت جماعت احمدیہ کی کارروائیوں کا مطالعہ یقیناً آنکھیں کھولنے کا باعث بن سکتا ہے.وہ حیرت سے اس حقیقت کا مشاہدہ کریں گے کہ خلیفہ وقت 99 فیصدی سے زائد مرتبہ کثرتِ رائے کی تائید کرتا ہے اور جب کثرتِ رائے اختلاف کرتا ہے تو ایسے قوی دلائل اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کرتا ہے کہ کثرت رائے ہی نہیں تمام مجلس بالاتفاق خلیفہ وقت کی رائے کی فضیلت کی قائل ہو جاتی ہے.گویا یہ ایک ایسی مجلس مشاورت ہے جس کا آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو مشوروں کو قبول یا رد کرنے کا اختیار رکھنے والا عوامی نمائندوں کی آرا سے متفق ہو یا عوامی نمائندے بشرح قلب اس فیصلہ کرنے والے کے فیصلہ سے مطمئن ہوں.دنیا کے پردے پر ایسے عظیم طوعی اتفاق نظر و فکر کی کوئی مثال نظر نہیں آسکتی.مزید برآں تربیت یہ کی گئی ہے اور واقعتا اس طریق کار پر سو فیصدی عمل بھی ہے کہ جن دوستوں کی آرا کو کثرت رائے نے رد کر دیا ہو وہ آخری فیصلہ کے بعد عملدرآمد کے وقت اپنی رائے کو اتنی بھی اہمیت نہیں دیتے جو ردی کی ٹوکری میں پھینکے ہوئے ایک کاغذ کے پرزے کو ہوسکتی ہے بلکہ بلا استثنا اپنی تمام استعدادوں کے ساتھ کثرت رائے کے اس فیصلہ پر بشرح صدر عمل پیرا ہو جاتے ہیں جسے خلیفہ وقت کی منظوری حاصل ہو.“ (سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ 199 200 ) سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: خلیفہ وقت یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ ممبران نے بڑے غور سے سوچ سمجھ کر کسی معاملے میں رائے قائم کی ہوگی اور عموماً مجلس شوری کی رائے کو اس وجہ سے من وعن قبول کر لیا جاتا ہے، اسی صورت میں قبول کر لیا جاتا ہے.سوائے بعض ایسے معاملات کے جہاں خلیفہ وقت کو معین علم ہو کہ شوریٰ کا یہ فیصلہ ماننے پر جماعت کو نقصان ہو سکتا ہے اور یہ بات ایسی نہیں ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے یا اس سے ہٹ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہوئی ہے.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى الله (سورة آل عمران آیت ( 160 ) یعنی اور ہر اہم معاملے میں ان سے مشورہ کر ( نبی کو یہ حکم ہے) پس جب کوئی فیصلہ کر لے تو پھر اللہ پر توکل کر.یعنی یہاں یہ تو ہے کہ اہم معاملات میں مشورہ ضروری ہے، ضرور کرنا چاہئے اور اس حکم کے تابع آنحضرت مطلقہ بھی مشورہ کیا کرتے تھے بلکہ اس حد تک مشورہ کیا کرتے تھے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت سے زیادہ کسی کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے نہیں دیکھا.تو یہ حکم الہی بھی ہے اور سنت بھی ہے اور اس حکم کی وجہ سے جماعت میں بھی شوری کا نظام جاری ہے.لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ مشورہ تو لے لو لیکن اس مشورے کے بعد تمام آرا آنے کے بعد جو فیصلہ کر لو تو ہوسکتا ہے کہ بعض دفعہ یہ فیصلہ ان مشوروں سے الٹ بھی ہو.تو فرمایا جو فیصلہ کر لو پھر اللہ تعالیٰ صال الله 496

Page 497

توکل کرو کیونکہ جب تمام چھان پھٹک کے بعد ایک فیصلہ کر لیا ہے پھر معاملہ خدا تعالیٰ پر ہی چھوڑنا بہتر ہے اور جب اے نبی ! تو نے معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی کی بات کی لاج رکھے گا.اور انشاء اللہ اس کے بہتر نتائج ظاہر ہوں گے.جس طرح تاریخ میں ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر قیدیوں سے سلوک کے بارے میں اکثریت کی رائے رڈ کر کے آنحضرت صلی اللہ نے صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے مانی تھی، پھر بعض دفعہ دوسری جنگوں کے معاملات میں صحابہ کے مشورہ کو بہت اہمیت دی جنگ اُحد میں ہی صحابہ کے مشورے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں گئے تھے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند نہ کرتے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ خیال تھا کہ مدینہ میں رہ کر مقابلہ کیا جائے اور جب اس مشورہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہتھیار بند ہو کر نکلے تو صحابہ کو خیال آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف فیصلہ ہوا ہے، عرض کی یہیں رہ کر مقابلہ کرتے ہیں.تب آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں نبی جب ایک فیصلہ کر لے تو اس سے پھر پیچھے نہیں ہلتا، اب اللہ پر توکل کرو اور چلو.پھر یہ بھی صورت حال ہوئی کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی متفقہ رائے تھی کہ معاہدہ پر دستخط نہ کئے جائیں لیکن آنحضرت صل اللہ نے ان سب کی رائے کے خلاف اس پر دستخط فرما دیئے.اور پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ نے اس کے کیسے شاندار نتائج پیدا فرمائے.تو مشورہ لینے کا حکم تو ہے تاکہ معاملہ پوری طرح نتھر کر سامنے آجائے لیکن ضروری نہیں ہے کہ مشورہ مانا بھی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی میں ہی ہمارا نظام شوری بھی قائم ہے، خلفا مشورہ لیتے ہیں تاکہ گہرائی میں جاکر معاملات کو دیکھا جا سکے لیکن ضروری نہیں ہے کہ شوری کے تمام فیصلوں کو قبول بھی کیا جائے اس لئے ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ شوری کی کارروائی کے آخر پر معاملات زیر غور کے بارے میں جب رپورٹ پیش کی جاتی ہے تو اس پر یہ لکھا ہوتا ہے که شوری یہ سفارش کرتی ہے، یہ لکھنے کا حق نہیں ہے کہ شوریٰ یہ فیصلہ کرتی ہے.شوریٰ کو صرف سفارش کا حق فیصلہ کرنے کا حق صرف خلیفہ وقت کو ہے.اس پر کسی کے ذہن میں یہ بھی سوال اٹھ سکتا ہے کہ پھر شوری بلانے کا یا مشورہ لینے کا فائدہ کیا ہے، آج کل کے پڑھے لکھے ذہنوں میں یہ بھی آجاتا ہے تو جیسا کہ بھی کہہ آیا ہوں کہ مجلس مشاورت ایک مشورہ دینے والا ادارہ ہے.اس کا کردار پارلیمنٹ (Parliment) کا نہیں ہے جہاں فیصلے کئے جاتے ہیں.آخری فیصلے کے لئے بہر حال معاملہ خلیفہ وقت کے پاس آتا ہے اور خلیفہ وقت کو ہی اختیار ہے کہ فیصلہ کرے، اور یہ اختیار اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے.لیکن بہر حال عموماً مشورے مانے بھی جاتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا سوائے خاص حالات کے، جن کا علم خلیفہ وقت کو ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ بعض حالات میں بعض وجوہات جن کی وجہ سے وہ مشورہ رد کیا گیا ہو ان کو خلیفہ وقت بتانا چاہتا ہو ایسی بعض مجبوریاں ہوتی ہیں.“ ہے.میں (خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 196 تا 198 ) سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: الله جیسا کہ ہم جانتے ہیں جماعت میں مجلس شوری کا ادارہ نظام جماعت اور نظام خلافت کے کاموں کی مدد کے لئے انتہائی اہم ادارہ ہے.اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول اس سلسلہ میں بڑا اہم ہے کہ: لَا خِلَافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ کہ بغیر مشورے کے خلافت نہیں ہے.اور یہ قول قرآن کریم کی ہدایت اور آنحضرت صلہ کے اُسوہ کے عین مطابق ہے.آپ مطلقہ صحابہ سے ہر اہم کام میں مشورہ لیا کرتے تھے لیکن جیسا کہ آیت سے واضح ہے مشورہ لینے کا حکم تو ہے لیکن یہ حکم نہیں کہ جو اکثریت رائے کا مشورہ ہو اسے قبول بھی کرنا ہے اس لئے 497

Page 498

فرمایا: وضاحت فرما دی کہ مشورہ کے مطابق یا اسے رد کرتے ہوئے ، اقلیت کا فیصلہ مانتے ہوئے یا اکثریت کا فیصلہ مانتے ہوئے جب ایک فیصلہ کر لو، کیونکہ بعض دفعہ حالات کا ہر ایک کو پتہ نہیں ہوتا اس لئے مشورہ رڈ بھی کرنا پڑتا ہے.تو پھر یہ ڈرنے یا سوچنے کی ضرورت نہیں کہ ایسا نہ ہو جائے، ویسا نہ ہو جائے.پھر اللہ پر توکل کرو اور جس بات کا فیصلہ کر لیا اس پر عمل کرو.“ (خطبه جمعه فرموده 24 مارچ 2006 ء - الفضل انٹرنیشنل 14 تا 20 اپریل 2006 ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے پارلیمنٹ (Parliment) کی نسبت شوری کے طریق کی فضیلت واضح کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں یہی ہوتا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ رائے نہ ملی تو گورنمنٹ ٹوٹ جائے گی.اس لیے سارے رائے دے دیتے ہیں تو عام طبائع ایسی نہیں ہوتیں کہ صحیح رائے قائم کر سکیں.اس لیے اکثر لوگ دوسروں کے پیچھے تے ہیں اگر کہیں کہ وہ اہل الرائے ہوتے ہیں تو بھی یہی ہوتا ہے کہ بڑے کی رائے کے نیچے ان کی رائے ، جاتی ہے اس لیے یہی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے دونوں کا مقابلہ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں.ہر وقت مقابلہ رہتا ہے.مگر شوری میں یہ بات نہیں ہوتی کیونکہ اس میں پارٹی کا خیال نہیں ہوتا.پس چونکہ پارٹی ہوتی نہیں اور خلیفہ سب سے تی تعلق رکھتا رکھتا ہے اس لیے اس کا تعلق سب سے ایسا ہی ہوتا ہے جیسے باپ بیٹے کا.بھائی بھائی تو لڑ پڑتے ہیں مگر باپ سے لڑائی نہیں ہو سکتی.چونکہ خلیفہ کا سب سے محبت کا تعلق ہوتا ہے.اس لیے اگر ان میں لڑائی بھی ہو جائے تو وہ دور کر دیتا ہے اور بات بڑھنے نہیں پاتی.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ر پورٹ مجلس مشاورت 1922 ء صفحہ 16 ) " آنحضرت مطلقہ خود فرماتے ہیں کہ میں غلطی کر سکتا ہوں.تو پھر خلیفہ سے غلطی کس طرح ناممکن ہے ؟ مگر پھر بھی اس کے فیصلے کو شرح صدر کے ساتھ ماننا ضروری ہے.اس اصل کو بھلا دو تو تمہارے اندر بھی تفرقہ اور تنفر پیدا ہو جائے گا.اسے مٹا دو اور لوگوں کو کہنے دو کہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے تو تم بھی پراگندہ بھیڑوں کی طرح ہو جاؤ گے.جن کو بھیڑیئے اٹھا کر لے جائیں گے اور دنیا کی لعنتیں تم پر پڑیں گی.جسے خدا نے عزت دی ہے تمہارے لئے اس کی عیب جوئی جائز نہیں اگر وہ غلطی بھی کرتا ہے اور اس کی غلطی سے تمہیں نقصان پہنچتا ہے تو صبر کرو.خدا دوسرے ذریعہ سے تمہیں اس کا اجر دے گا.اور اگر وہ گندہ ہو گیا ہے تو جیسا کہ حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم خدا کے آگے اس کا معاملہ پیش کرو.وہ اگر تم کو حق پر دیکھے گا اسے خود موت دے دے گا اور تمہاری تکلیف دور کر دے گا.“ الفضل 18 جولائی 1937 ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”ہمارا عقیدہ ہے کہ خلیفہ کا محافظ خدا تعالیٰ ہے اور وہ اس سے ایسی غلطی سرزد نہیں ہونے دے گا جو اصولی امور کے متعلق ہوں.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: الفضل 29 جولائی 1952 ء ) عصمت صغریٰ اسے (خلیفہ کو.ناقل ) حاصل ہے.یعنی اسے مذہبی مشین کا پرزہ قرار دیا گیا ہے.اور وعدہ کیا 498

Page 499

آیت گیا ہے کہ ایسی غلطیوں سے اسے بچایا جائے گا جو تباہ کن ہوں اور خاص خطرات میں اس کی پالیسی کی اللہ تعالی تائید کرے گا اور اسے دشمنوں پر فتح دے گا.گویا وہ مؤید من اللہ ہے اور دوسرا کسی قسم کا حاکم اس میں اس کا شریک نہیں.“ شوریٰ کا پس منظر ، تاریخی حیثیت، مقام: اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے: الفرقان خلافت نمبر 1 اپریل مئی 1952 ، صفحہ 5 ) * وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَاَمْرُهُمْ شُوَرى بَيْنَهُم ص وَمِمَّا دَ رَزَقْنهُمْ يُنفِقُونَ (سورة الشورى: 39 ) ترجمہ: اور جو اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کا امر باہمی مشورہ سے طے ہو تا ہے اور اس میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا خرچ کرتے ہیں.(ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفتہ مسیح الرابع رحمه الله تعالی) وَ شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (سورة آل عمران آیت 160 ) ترجمہ: اور ہر اہم معاملہ میں ان سے مشورہ کر.پس جب تو (کوئی) فیصلہ کر لے تو پھر اللہ ہی پر توکل کر.یقیناً اللہ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے.“ حدیث : (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) يُروى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ مَشْوَرَةٍ لِاصْحَابِهِ مِنْ رَّسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ " وَسَلَّمَ.(ترمذی ابواب الجهاد باب ما جاء في المشورة) ”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: میں نے آنحضرت سے زیادہ کسی کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا“ الله حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ رسول کریم ملاقہ کے زمانہ میں مشورہ کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: رسول کریم صائقہ اور خلفا تین طریقے سے مشورہ لیتے تھے: جب مشورہ کے قابل کوئی معاملہ ہوتا تو ایک شخص اعلان کرتا کہ لوگ جمع ہو جائیں اس پر لوگ جمع ہو جاتے.عام طور پر یہی طریق رائج تھا کہ عام اعلان ہوتا اور لوگ جمع ہو کر مشورہ کر لیتے اور معاملہ کا فیصلہ (1 رسول کریم صلى الله ملاقه یا خلیفہ کر دیتے..(2 دوسرا طریق مشورہ کا یہ تھا کہ وہ خاص آدمی جن کو رسول کریم صلاقہ مشورہ کا اہل سمجھتے ان کو الگ جمع 499

Page 500

کر لیتے باقی لوگ نہیں بلائے جاتے تھے.جن سے رسول کریم کریم صلی الله مشورہ لیتے تھے، تاریخ سے معلوم ہوتا ہے تمہیں (30) کے قریب ہوتے تھے.رسول کریم ملاقہ سب کو ایک جگہ بلا کر مشورہ لے لیتے.کبھی تین چار کو بلا کر مشورہ لے لیتے.3 تیسرا طریق یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص معاملہ میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ دو آدمی بھی جمع نہ ہونے چاہئیں.علیحدہ علیحدہ مشورہ لیتے.پہلے ایک کو بلا لیا.اس سے گفتگو کر کے اس کو روانہ کر دیا اور دوسرے کو بلالیا.اس سے گفتگو کر کے اس کو روانہ کر دیا اور دوسرے کو بلالیا.یہ ایسے وقت (3 میں ہوتا جب خیال ہو تا کہ ممکن ہے رائے کے اختلاف کی وجہ سے دو بھی آپس میں لڑ پڑیں.یہ تین طریقے تھے مشورہ لینے کے اور یہ تینوں اپنے اپنے رنگ میں بہت مفید ہیں.میں بھی ان طریق سے مشورہ لیتا ہوں.“ رپورٹ مجلس مشاورت 1922 ء صفحہ 6-7 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احباب جماعت سے مشورہ طلب کرنے کے بارے میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بعض امور جب پیش آتے تو آپ علیہ السلام سال میں دو تین چار بار بھی اپنے خدام کو بلا لیتے کہ مشورہ کرنا ہے.کسی جلسے کی تجویز ہوتی تو یاد فرما لیتے ، کوئی اشتہار شائع کرنا ہوتا تو مشورہ کے لئے طلب کر لیتے.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (رپورٹ مجلس مشاورت 1928ءصفحہ 144 ) سے قرآن کریم نے مثالی اسلامی معاشرہ کا تصور پیش کرتے ہوئے جو مختلف اصول بیان فرمائے ہیں ان میں ایک باہمی مشورہ کا اصول بھی ہے جیسا کہ فرمایا: وَأَمْرُهُمْ شُورى بَيْنَهُمْ (سورة الشورى: 39) اس مشورہ کے امر کو جماعت احمدیہ میں ایسے رنگ میں قائم کرنا جو صحیح اسلامی اقدار کے عین مطابق ہو اور افراط و تفریط ہو قیام جماعت احمدیہ کے اولین اغراض و مقاصد میں شامل ہے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اہم امور میں صائب الرائے احباب سے مشورہ لینے کی سنت پر ہمیشہ کار بند رہے اور وقتاً فوقتاً عند الضرورت کبھی انفرادی طور پر اور کبھی اجتماعی طور پر احباب جماعت سے مشورہ لینے کا انتظام فرمایا.اجتماعی مشورہ کی ایک اہم مثال 1891ء میں ہمارے سامنے آتی ہے جبکہ دسمبر میں جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا.جماعت کی تعداد اس وقت اتنی قلیل تھی کہ جلسہ کے موقع پر صرف 75 زائرین شامل ہوئے.اس قلیل تعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے جلسہ اور مشاورت کا الگ انتظام کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی لہذا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی جلسہ سالانہ سے مشاورت کا کام بھی لیا.اور جماعت احمدیہ کی اس پہلی مجلس مشاورت میں جو تجویز پیش کی گئی وہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بکثرت ظاہر ہونے والے نشانات کا ریکارڈ (Record) محفوظ کرنے کی خاطر ایک ایسی انجمن بنائی جائے جو احمدی اور غیر احمدی حضرات پر مشتمل ہو.یہ تجویز بالاتفاق اس ترمیم کے ساتھ منظور ہوئی کہ فی الحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رسالہ ”آسمانی فیصلہ کو جس میں یہ تجویز موجود ہے شائع کر دیا جائے.اس پر مخالفین سلسلہ کا عندیہ معلوم کرنے کے بعد بہ تراضی فریقین مجوزه انجمن کے ممبران مقرر کیے جائیں.اجتماعی مشاورت کا یہ سلسلہ باقاعدہ سالانہ صورت میں جاری نہیں کیا گیا تھا بلکہ خلافت ثانیہ کے آغاز تک ایسی مجلس حسب ضرورت بلائی جاتی رہی.1922ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ با قاعدہ 500

Page 501

سالانہ مجلس مشاورت کا نظام قائم فرمایا.“ (سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ 176,175 ) مجلس شوری کا قیام: حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جہاں صدر انجمن احمدیہ کے انتظام میں اصلاح کی ضرورت کو محسوس کیا.وہاں اللہ آپ رضی اللہ عنہ کو اس ضرورت کا بھی احساس پیدا ہوار کہ اہم ملی امور میں جماعت سے مشورہ لینے کے لئے کوئی زیادہ مناسب اور زیادہ منظم صورت ہونی چاہئے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے وسط اپریل 1922ء میں مستقل طور پر مجلس شوری کی بنیاد رکھی.مجلس شوریٰ کے قیام سے گویا جماعتی نظام کا ابتدائی ڈھانچہ مکمل ہو گیا یعنی سب سے اوپر خلیفہ وقت ہے جو گویا پورے نظام کا مرکزی نقطہ ہے.اس سے نیچے ایک طرف مجلس شوریٰ ہے اور اہم اور ضروری اُمور میں خلیفہ وقت کے حضور اپنا مشورہ پیش کرتی ہے اور دوسری طرف اس کے متوازی صدر انجمن احمد یہ ہے جسے نظارتوں کے انتظامی صیغہ جات چلانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے.جماعت احمدیہ کی پہلی مجلس شوری 15-16 اپریل 1922ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول (قادیان) کے ہال میں منعقد ہوئی اور اس میں 52 بیرونی اور 30 مرکزی نمائندوں نے شرکت کی.ہال کی شمالی جانب حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے لئے میز اور کرسی بچھائی گئی تھی اور سامنے نصف دائرہ کی شکل میں نمائندے کرسیوں پر بیٹھے تھے ساڑھے نو بجے صبح کے قریب حضور حضرت خلیفة أسیح الثانی رضی اللہ عنہ) نے افتتاحی تقریر فرمائی جو بارہ بجے تک جاری رہی یہ چونکہ اپنی نوعیت کی پہلی مجلس شوری تھی اس لئے حضور نے تفصیل کے ساتھ اس کی ضرورت واہمیت اور اس کے طریق کار پر روشنی ڈالی اور نمائندگان کو متعدد اہم ہدایات دیں جو ہمیشہ کے لیے مشعل راہ ہیں.مجلس شوری کا طریق: -2 تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 296 ) ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شوری کا طریق کار بیان کرتے ہوئے فرمایا: 1.خلیفہ عام ہدایات پیش کرے گا کہ کن باتوں پر مشورہ لینا ہے اور کن باتوں کا خیال رکھنا اس کے بعد ہر محکمہ کے لئے سب کمیٹیاں مقرر ہو جائیں گی کیونکہ فوراً رائے نہیں دینی چاہئے بلکہ تجربہ کار بیٹھ کر سکیم تجویز کریں اور پھر اس پر بحث ہو.پہلے کمیٹی ضرور ہونی چاہئے جیسے معاملات ہوں ان کے مطابق وہ غور کریں.سکیم بنائیں پھر اس پر غور کی جائے.کمیٹی پوری تفاصیل پر بحث کرے اور پھر رپورٹ کرے.وہ تجاویز مجلسِ عام میں پیش کی جائیں اور ان پر گفتگو ہو.جب تجاویز پیش ہوں تو موقع دیا جائے کہ لوگ اپنے خیالات پیش کریں کہ اس میں یہ زیادتی کرنی چاہیے یا یہ کی کرنی چاہیے یا اس کو یوں ہونا چاہیے.تینوں میں سے جو کہنا چاہے کھڑے ہو کر پیش کر دے.ان تینوں باتوں کے متعلق جس قدر تجاویز ہوں ایک شخص یا بہت سے لکھتے جائیں پھر ایک طریق یا ایک طرز کی باتوں کو لے کر پیش کیا جائے کہ فلاں یہ کمی چاہتا ہے اور فلاں یہ زیادتی.اس پر بحث ہو مگر ذاتیات کا ذکر نہ آئے.اس بحث کو بھی لکھتے جائیں.جب بحث ختم ہو جائے تو وہ اس وقت یا بعد خلیفہ بیان کر دے، کہ یہ -3 کمی 501

Page 502

502 66 بات یوں ہو." مجلس شوری میں عورتوں کی نمائندگی: رپورٹ مجلس مشاورت 1922 صفحه 16-17 ) سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی سوانح فضل عمر جلد دوم میں تحریر فرماتے ہیں: ابتدا میں مستورات کی آرا معلوم کرنے کا کوئی علیحدہ انتظام نہ تھا لیکن 1930ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے حسب ذیل طریق پر اہم مسائل پر عورتوں کی آرا معلوم کرنے کا طریق معتین فرمایا: عورتوں کے حق نمائندگی کے متعلق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جہاں جہاں لجنہ اماء اللہ قائم ہیں وہ اپنی لجنہ رجسٹرڈ کرائیں یعنی میرے دفتر سے اپنی لجنہ کی منظوری حاصل کرلیں.ان کو جنہیں میری اجازت سے منظور کیا جائے گا مجلس مشاورت کا ایجنڈا بھیج دیا جائے وہ رائے لکھ کر پرائیویٹ سیکرٹری کے پاس بھیج دیں.میں جب ان امور پر فیصلہ کرنے لگوں گا تو ان آراء کو بھی مدِ نظر رکھ لیا کروں گا.اس طرح عورتوں اور مردوں کے جمع ہونے کا جھگڑا بھی پیدا نہ ہو گا اور مجھے بھی پتہ لگ جائے گا کہ عورتیں مشورہ دینے میں کہاں تک مفید ثابت ہو سکتی ہیں.ان کی رائیں فیصلہ کرتے وقت مجلس میں سنا دی جائیں گی.“ (رپورٹ مجلس مشاورت 1930 ، صفحہ 127 ) 1941ء تک اسی طریق پر عمل ہو تا رہا.لیکن جب آپ نے اس طریق میں کئی نقص محسوس کئے تو 1941ء کی مجلس شوریٰ میں اس میں تبدیلی کرتے ہوئے حسب ذیل فیصلہ فرمایا: ایک ضروری بات میں لجنہ کی نمائندگی کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں ہر سال لجنہ سے رائے لی جاتی ہے اور ہر سال اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے اور کبھی اسے مجلس شوریٰ میں پیش نہیں کیا جاتا.میری تجویز یہ ہے کہ آئندہ مجلس شوریٰ میں ایک لجنہ اماء اللہ کا نمائندہ بھی ہوا کرے.اور بیرونی جماعتوں کی لجنات سے جو تجاویز پرائیوٹ سیکرٹری کو موصول ہوں وہ سب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری لجنہ کے اس نمائندے کو پہنچا دیا کرے.اس نمائندے کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ہر موقع پر لجنات کی رائے بھی پیش کرتا چلا جائے اور بتائے کہ فلاں لجنہ کی اس کے متعلق یہ رائے ہے اور فلاں کی یہ رائے.اس طرح نہ صرف ان کی آرا کا پتہ لگ جائے گا بلکہ ممکن ہے کہ بعض دفعہ کوئی لطیف اور مفید بات بھی معلوم ہو جائے.اور اگر اس طریق کا کوئی اور فائدہ نہ بھی ہوا تو بھی کم سے کم اس طرح یہ پتہ لگتا رہے گا کہ ہماری جماعت کی مستورات کی دینی ترقی کا کیا حال ہے جب ان کی آرا پڑھی جائیں گی تو اس وقت معلوم ہوگا کہ بعض دفعہ تو ان کی رائے نہایت ہی مضحکہ خیز ہوگی.جس ہم یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ فلاں فلاں معاملہ میں عورتوں کو حالات کا بالکل علم نہیں اور بعض دفعہ ان کی رائے بہت اعلیٰ ہو گی جس سے ہم یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ فلاں فلاں معاملہ میں عورتوں کا علم زیادہ پختہ ہے.تو ان کی آرا پڑھے جانے پر ہماری جماعت کے دوست ساتھ ساتھ یہ موازنہ بھی کرتے چلے جائیں گے کہ ہماری عورتوں کی دماغی اور دینی ترقی کس طرح ہو رہی ہے اور بعض دفعہ یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ یہ دیکھ کر کہ عورتوں کی فلاں معاملہ میں جو ان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے یہ رائے ہے وہ ان کا احترام کرتے ہوئے اپنی رائے بدل لیں اور انہی کے حق میں فیصلہ کردیں.“ ( رپورٹ مجلس مشاورت 1941ء صفحه 117-118 از سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ 194 تا 196 )

Page 503

503 سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں جماعت کے علم میں ایک بات لانی چاہتا ہوں کہ امسال لجنہ اماء اللہ کی نمائندگی کا طریق کار تبدیل کیا گیا ہے اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ مجلس لجنہ اماء اللہ کا ایک نمائندہ مردوں میں سے ان کی آواز یہاں تک پہنچاتا تھا اور یہ نمائندہ رابطہ رکھنے کے لئے اگر چہ دشواری محسوس کرتا تھا مگر وہاں سے مختصر چٹیں آجاتی تھیں اور وہ چٹیں لے کر جو کچھ بھی سمجھ سکتا تھا ان سے وہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی کوشش کرتا تھا.اس سلسلہ میں جو میں نے تحقیق کی ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ 1929ء میں پہلی دفعہ یہ مسئلہ جماعت کے سامنے آیا.1929 ء کی مجلس شوری میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یہ معاملہ جماعت کے سامنے رکھا اور اس موضوع پر بہت لمبی بحثیں ہوئیں.جماعت کے چوٹی کے علما دوحصوں میں منقسم تھے اور ایک معمولی اکثریت سے سب کمیٹی نے اس تجویز کے حق میں رائے دی کہ لجنہ اماء اللہ یا احمدی مستورات کو مجلس شوری میں خود بولنے کا حق ملنا چاہیے.اس کمیٹی کے انیس (19) ممبر تھے.نو (9)، نو (9) ، ممبر (Member) برابر بٹ گئے اور پریذیڈنٹ (President) نے اپنا ووٹ تجویز کے حق میں دیا اس طرح وہ منظوری کے لئے پیش ہوا اور وہاں بھی ایسی زبردست بحثیں ہوئیں کہ گویا وہ جماعت کا ماشاء اللہ ایک علمی کارنامہ ہے.دونوں طرف کے چوٹی کے علما (جن میں بہت سے صحابہ بھی شامل تھے ) نے ایسے ایسے باریک نکات نکالے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کی کسی بھی مجلس کے لئے وہ بحث ایک قابل فخر بحث ہونی چاہیے.کوئی باریک سے باریک پہلو ایسا نہیں چھوڑا گیا جس پر احباب کی نظر نہ گئی ہو اور دونوں طرف سے یہ رائے پیش کی جارہی تھی (الا ما شاء اللہ) کہ نص صریح سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جماعت کی مجلس مشاورت میں عورتوں کو بولنے کا حق نہیں ملنا چاہئے اور نص صریح سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ملنا چاہئے.اب یہ بھی ایک صورت حال سامنے آتی ہے.اس کے جو بعض دلچسپ پہلو ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.ایک تو یہ کہ یہ واقعہ جماعت احمدیہ میں خلافت کی اہمیت کے احساس کا مظہر ہے میں نے یہ کہا کہ احساس ہے اس طرح کہنے سے میرا یہ مطلب نہیں کہ میں آپ کو احساس دلا رہا ہوں کہ بلکہ اطمینان دلا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں خلافت سے متعلق جو طمانیت عطا فرمائی ہے اس کے اظہار کا یہ ایک موقع تھا.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جب اپنی رائے پیش کی تو دونوں طرف کے علما نے سو فیصدی حضور کے سامنے اپنی رائے چھوڑ کر سر تسلیم خم کر دیا، اور جماعت نے مکمل تعاون اور اطاعت کا ایک نمونہ دکھایا.ایسا موقع اگر خلافت کے بغیر پیش آتا تو اس وقت دو فرقے پیدا ہو چکے ہوتے.ایک فرقہ کے نزدیک قرآن اور سنت کی رو سے عورتوں کا مردوں کی مجلس میں خطاب کرنا حرام قرار دیا جاتا اور دوسرے کے نزدیک حلال اور ضروری.پس یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور اس پر غور کرنے سے ہمیں اختلافات کے اسباب سمجھ آتے ہیں.دراصل خلافت کی برکت کے نہ ہونے کے نتیجہ میں مذہبی قوموں میں اختلاف پیدا ہوتے ہیں.اگر خلافت حقہ موجود ہو تو کسی اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا دونوں فریق اپنی اپنی رائے دیانتداری سے پیش کرتے ہیں اور جب خلیفہ وقت اس پر محاکمہ کرتا ہے اور فیصلہ صادر کر دیتا ہے تو پھر وہ ایک ہی قوم کی رائے بن جاتی ہے.قومی وحدت کی حفاظت کے لئے ایسا کامل نظام دنیا کے پردہ پر آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا.اسے پڑھتے ہوئے ایک تو میرا دل حمد سے بھر گیا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسا پیارا اور پاکیزہ نظام اپنی توحید کے اظہار اور ملت میں وحدت پیدا کرنے کی خاطر ہمیں بخشا ہے.اسی لئے قرآن کریم نے آیت استخلاف سے یہ نتیجہ نکالا : يَعْبُدُونَنِي لَا

Page 504

شَيْئاً (النور آیت: 56 ) کہ اگر انعام خلافت تمہیں عطا ہو گا اور جب بھی عطا ہوگا تو اس کا آخری نتیجہ نکلے گا کہ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وہ میری عبادت کریں گے اور میرے سوا کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.پس جو آسمانی توحید قائم ہے وہ تو قائم ہے ہی.میری مراد یہ ہے کہ اس توحید کی برکت سے جماعت کو بھی ایک وحدت نصیب ہوگی اور ساری جماعت کا ایک ہی رُخ ہو گا.اس مسئلہ میں جو دوسرے امور قابل ذکر ہیں ان میں ایک نہایت ہی لطیف حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے پیش کیا آپ کی نگاہ نہایت باریک بین تھی اور اس نکتہ کو پیش کرنے میں آپ منفرد تھے.آپ نے فرمایا کہ مجلس شوری کی دو حیثیتیں ہیں ایک یہ کہ وہ خلیفہ وقت کو مخاطب کر کے مشورہ دیتی ہے اس حیثیت سے تو حق کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا اور یہ جو خطرات ظاہر کئے گئے ہیں کہ عورتوں کی اکثریت ہو جائے گی اور وہ فیصلوں کو کھینچ کر اپنی طرف لے جائیں گی یہ بالکل لغو اور بے معنی بات ہے کیونکہ اسلامی نظام شوری میں تو صرف مشورہ ہی دیا جا تا ہے.لیکن شوریٰ کی ایک حیثیت یہ بھی ہے کہ خلیفہ وقت فوت ہو جائے تو دوسرے خلیفہ کے انتخاب میں مجلس شوریٰ کو ایک کردار ادا کرنا ہوتا ہے اس وقت تک یہی شکل تھی.تو مجلس شوری کی یہ حیثیت ایسی ہے جس پر غور ہونا چاہیے اور پہلی حیثیت کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں رکھتی.اس وقت یہ دیکھنا پڑے گا کہ مستورات کو اگر نمائندگی دی جائے تو کس حد تک دی جائے؟ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو محاکمہ فرمایا وہ بہت دلچسپ تھا آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ جو دونوں طرف سے بحث اٹھائی گئی ہے یعنی نص صریح سے حرام ہونا یا نص صریح سے ضروری ہونا قرار دیا گیا ہے یہ دونوں باتیں بالکل بے محل اور بے معنی ہیں.نص صریح سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ نہ قرآن کریم روک رہا ہے نہ اس کا حکم دے رہا ہے بلکہ یہ ایک عقلی مسئلہ ہے اور اس نوعیت کا ہے کہ اگر اسلام نے عورت کو ایک حق سے محروم نہ کیا ہو اور جماعت اسے اس حق سے محروم کر دے گی تو اس کے نتیجہ میں جو خطرناک رجحانات بعد میں پیدا ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ کسی زمانہ میں دنیا کی عورت ایسے احکامات کے خلاف بغاوت کرے جو خدا تعالیٰ کے نہیں ہیں بلکہ بندوں کے بنائے ہوئے احکامات ہیں تو اس صورت میں اس کی ساری ذمہ داری ہمیشہ کے لئے اس مجلس شوری پر پڑے گی.پس آپ نے بڑی عظیم الشان اور نہایت پر شوکت رنگ میں تنبیہہ کی.دوسری طرف آپ نے بڑے عزم کے ساتھ اس بات کا اعلان کیا کہ جہاں تک قرآنی احکامات کا تعلق ہے ان کے نفاذ میں میرے دل میں خوف کا شائبہ تک نہیں کہ قرآنی احکام کے نفاذ میں عورتیں اگر کوئی بغاوت کرتی ہیں تو اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے.ہمیں کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہوگی یہ اللہ کے کام ہیں ہم دیانتداری سے یہ فیصلہ کریں گے کہ اللہ کی مرضی کیا ہے.وہ مرضی لازما نافذ کی جائے گی اس کے نتیجہ میں اگر دنیا کی آزاد خیال عورتیں متنفر ہوتی ہیں یا بھاگتی ہیں تو ہم ذمہ دار نہیں ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں اور وہی ان کے نافذ کرنے کا ذمہ دار ہے اور اسی کو طاقت ہے کہ وہ ان کو نافذ کرے.پس آخری بات یہ ثابت ہوئی کہ یہ ایک عقلی مسئلہ ہے اور شریعت کے نام پر عورتوں کو نمائندگی کے حق سے محروم کرنا بہر حال جائز نہیں ہے اور جہاں تک حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ذاتی رائے کا تعلق ہے وہ 504

Page 505

505 اس محاکمہ سے یہی معلوم ہوتی تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ نہ صرف جائز سمجھتے تھے بلکہ یہ محسوس فرمارہے تھے کہ ایسا وقت آنے والا ہے کہ جب عورت کو اس قسم کے معاملات میں مردوں کے ساتھ شامل کرنا پڑے گا.چنانچہ اس کے ثبوت کے طور پر سب سے پہلی اجازت جو آپ رضی اللہ عنہ نے مستورات کو دی وہ اسی مجلس میں عمل میں لائی گئی تھی.آپ رضی اللہ عنہ نے مستقل دستور نہیں بنایا بلکہ فرمایا کہ فی الحال پہلے دستور کو جاری رہنے دیا جائے لیکن کسی کو یہ وہم ہو کہ شاید خلاف شرع ہے اس وہم کو دور کرنے کے لئے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں لجنہ اماء اللہ کی نمائندگان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ بولیں لیکن کوئی نمائندہ نہیں بولا.پھر آپ رضی اللہ عنہ نے شاید یہ محسوس کیا کہ ہو سکتا ہے یہ خیال ہو کہ اپنے گھر کی مستورات کی آواز سننا شائد انہیں ناگوار گزرے اور مراد یہ ہے کہ کوئی بولے.تو اس وہم کو دور کیا اور فرمایا کہ میں اپنے گھر کی مستورات کو بھی کہتا ہوں کہ وہ بولنا چاہیں تو وہ بھی بولیں.پھر بھی خاموشی رہی پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دیکھو! ہمیشہ کے لئے تم ایک تاریخ بنا رہی ہو.مرد تمہارے حق میں بول رہے ہوں اور تم اپنے حق کو استعمال کرنے میں شرماؤ تو اس طرح تم ثابت کر دو گی کہ ہم اس بات کی اہل نہیں ہیں اس لئے میں تمہیں متنبہ ک تمہیں متنبہ کرتا ہوں اور چند منٹ دیتا ہوں اس کے اندر اندر بولنا ہے تو بول لو.چنانچہ وہ پہلی تاریخی عورت جس نے اس مجلس شوری میں حصہ لیا وہ استانی نمونہ تھیں جو لجنہ اماء اللہ کی بڑی ہی سرگرم کارکن تھیں اور ہمارے ایک واقف زندگی وکیل ملک غلام احمد صاحب عطا کی والدہ تھیں انہوں نے پھر ایک دو منٹ میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.پس ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ پہلی مجلس مشاورت ہو گی جس میں عورت نے براہ راست خطاب کیا ہو بلکہ تیسری مجلس مشاورت ہوگی.پہلی وہ تھی، دوسری وہ مجلس شوری جو بیرونی دنیا کے نمائندگان پر مشتمل تھی جو کہ اسی جلسہ سالانہ پر منعقد ہوئی تھی.اس میں امریکہ اور افریقہ کی بعض نمائندہ خواتین نے براہِ راست اپنے مافی الضمیر کو پیش کیا تھا اور یہ یعنی موجودہ شورکی تاریخ احمدیت میں تیسری مجلس شوری ہے اور آئندہ سے انشاء اللہ تعالیٰ اسی طریق کو جاری رکھا جائے گا.- اس سلسلہ میں غلط فہمی جو گزشتہ بحث کے مطالعہ سے سامنے آتی ہے وہ دُور ہونی چاہئے.اور وہ اشارتاً تو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے بیان فرما دی لیکن کھل کر اس پر گفتگو نہیں ہوئی.اسلامی نظام شوری عورت یا مرد کے مشورہ دینے کے حق کی بات ہی کہیں نہیں کرتا.بلکہ شوریٰ سے متعلق دو طرح کے اظہار ہیں.ایک ہے شَاوِرُهُمْ فِی الْاَمرِ ـ اس میں مشورہ لینے والے کو حکم ہے یعنی اسے جو یا خود رسول ہو یا رسول کی مسند خلافت پر بیٹھا ہو اس کی نمائندگی میں اسے ظلی طور پر یہ آیت مخاطب کرے گی.اس کے لئے حکم ہے فرض ہے کہ وہ لازماً مشورہ لے.جہاں تک آنحضرت ملالہ کا تعلق ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ لینے کی سب سے کم ضرورت تھی دنیا میں آج تک کبھی کوئی انسان مشورہ سے اتنا مستغنی نہیں ہوا جتنا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ تھے کیونکہ جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا تعلق ہے اپنی صلاحیتوں کا اور فطرت کی جلا کا تعلق ہے اس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ تو ایسا نور تھا جو آسمانی شعلہ نور نازل نہ بھی ہوتا تب بھی بھڑک اٹھنے کے لئے تیار تھا یعنی آپ کی فطرت کامل طور پر پاکیزہ تھی.در حقیقت تقویٰ ہی عقل کا دوسرا نام ہے تو کامل متقی انسان جو اپنی بناوٹ کے لحاظ سے ایسا متقی ہو کہ اس پر الہام کا نور نازل نہ بھی ہوا ہو تب بھی وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہو لازمی بات ہے کہ وہ دنیا میں سب سے کم مشورہ کا محتاج ہوتا ہے اور پھر یہ نور علی نور ہو کہ اس پر اللہ تعالیٰ کے الہام کا شعلہ نازل ہو چکا ہو

Page 506

اور اسے نُورٌ عَلى نُورٍ بنا دیا ہو تو اسے مشورہ کی کیا ضرورت تھی.چنانچہ تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ آنحضرت ملالہ نے ہمیشہ جو فیصلہ دیا وہی درست ثابت ہوا اور جہاں بھی مشورہ قبول نہیں کیا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے فیصلے درست ثابت ہوئے جہاں مشورہ قبول کیا لیکن یہ فرما کر کہ میری ذاتی رائے یہ نہیں تھی لیکن تم لوگوں کی وجہ سے میں مانتا ہوں وہ رائے غلط نکلی اور آنحضر صلی اللہ کی رائے درست ثابت ہوئی.پس اس سے میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ بظاہر آنحضرت متعلقہ کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن اس سے بعد میں آنے والوں کو پابند کیا گیا ہے.یہ آیت یہ مضمون پیش کرے گی کہ اے بنی نوع انسان! دنیا میں وہ ایک شخص جو مشورہ لینے سے مستغنی قرار دیا جا سکتا تھا میں اسے بھی پابند کر رہا ہوں اس لئے بعد میں آنے والے کم تر انسان یہ وہم ہی دماغ سے نکال دیں کہ وہ بغیر مشورہ کے میرے منشا کے مطابق فیصلہ کر سکیں گے.لیکن ساتھ ایک ضمانت بھی دے دی.فرمایا: فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى الله - کہ فیصلہ کی ذمہ داری اس نمائندہ پر ہو گی جو رسالت کا نمائندہ ہے اور مشورہ صرف اتنی حیثیت رکھے گا کہ فیصلہ کرنے والے تک ایک رائے پہنچ جائے.اس کے بعد چونکہ اس کے حکم کی اطاعت ہوگی اور پوری دیانتداری سے مشورہ لیا ہو گا تو پھر قرآن کریم اسے کہیں بھی مجلس شوریٰ کا فیصلہ قرار نہیں دیتا بلکہ فرماتا ہے.فَإِذَا عَزَمْتَ “ پھر فیصلہ تو ایک وجود نے کرنا ہے اور ہم تجھے یقین دلاتے ہیں کہ اس فیصلہ میں ہم تیرے ساتھ ہوں گے فَتَوَكَّلْ عَلَى الله پھر اپنے اللہ پر بھروسہ رکھو 66 اور جو فیصلہ ہو گا خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا اور تیرے ساتھ ہوگا یہ ہے اسلامی مجلس شوری.پس یہ ساری بحثیں کہ عورت کا حق ہے یا نہیں یہ ساری باتیں لغو ہیں نہ مرد کا حق ہے نہ عورت کا حق ہے بلکہ خلیفہ وقت کا فرض ہے کہ وہ مشورہ طلب کرے.کن حالات میں اور کس طرح طرح طلب کرے؟ سنت نبوی سے یہ ثابت ہے کہ مختلف حالات میں مختلف طریق پر مشورے طلب کئے جاتے رہے.ایک جگہ یہ اعتراض کیا گیا کہ عورتوں اور مردوں سے اکٹھا مشورہ نہیں لیا گیا.ایسی مجلس شوری نہ وہاں قائم تھی اور نہ کوئی ایسا موقع پیش آیا بلکہ ایسے مواقع پیش آتے رہے کہ مرد اور عورتوں کے معاملات الگ الگ ہوتے رہے اور ان پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ طلب فرماتے رہے لیکن صلح حدیبیہ کے مقام پر جب مردوں نے ایک معاملہ میں ایسے حالات میں کہ ان کے قبضہ قدرت میں بات نہیں رہی تھی ایسا طریق اختیار کیا کہ آنحضرت مطلقہ کے دل کو اس سے سخت صدمہ پہنچا تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت ہی سے مشورہ کیا یعنی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اور عورت ہی کا مشورہ سچا ثابت ہوا.اس لئے عورت کے مشورہ کو نظر انداز کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس جہاں تک اکٹھے مشورہ کا سوال ہے وہاں صرف یہ بحث اٹھتی تھی کہ ان مشوروں میں مرد کو عورت کی آواز سننی چاہئے یا نہیں تو وہ تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ آنحضرت مطلقہ کی مجالس میں عورتیں حاضر ہوئیں انہوں مسائل بلکہ نجی مسائل پیش کئے اور ان کے راوی مرد موجود ہیں وہ گواہ کے طور پر تو نہیں بلائے گئے تھے بلکہ وہ اس مجلس میں خود موجود ہوتے تھے.عورتیں حاضر ہو کر اپنا مافی الضمیر بیان کیا کرتی تھیں پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کا عام پبلک سے جو خطاب ہے وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے اس لئے ہے اس لئے یہ سارے تو ہمات ہیں.پس اصل بات یہی ہے کہ خلیفہ وقت پابند ہے کہ وہ مشورہ لے اور حسب حالات جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے محاکمہ فرمایا تھا.خلاصہ کلام یہ بنتا ہے کہ یہ عقلی مسئلہ ہے حالات کے مطابق عورت کا مشورہ 506

Page 507

فرمایا: نئی نئی شکلیں اختیار کرتا چلا جائے گا صرف ایک پہلو یہ باقی رہ جاتا ہے کہ عورت کے حق کا سوال نہیں بلکہ اس کو نمائندگی کس طریق پر دی جائے بحث یہ نہیں ہوگی کہ عورت کو نمائندگی کا حق کس طرح استعمال کرنا ہے بلکہ یہ کہ عورت سے مشورہ لینے کے لئے مجلس شوریٰ میں کیا طریق اختیار کیا جائے.میرے نزدیک اس کے لئے کسی تعداد کی تعیین کی ضرورت نہیں بلکہ خلیفہ وقت حسب حالات جتنی مستورات کو جس شکل میں نمائندہ کے طور پر بلانا چاہے وہ بلاتا رہے گا اور اس کے لئے کسی قاعدہ کی ضرورت نہیں ہے.“ فرمایا: (رپورٹ مجلس مشاورت 1983 ءصفحہ 49 تا 56 ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”میری طبیعت خدا نے ایسی بنائی ہے کہ میں یہ سوچتا رہتا ہوں کہ کون سا کام کریں جس سے دنیا میں ہدایت وہ دن یا وہ سال جس میں جماعت کا قدم آگے نہ ہو میرے لیے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے.میری نظر اس بات پر پڑ رہی ہے کہ ہماری جماعت نے آج ہی کام نہیں کرنا بلکہ ہمیشہ کرنا ہے.دنیا کی انجمنیں ہوتی ہیں جو یہ کہتی ہیں آج کام کر کے دکھا دو اور لوگوں کے سامنے رپورٹ (report) پیش کر دو، مگر میں نے رپورٹ خدا کے سامنے پیش کرنی ہے.اور خدا کی نظر اگلے زمانوں پر بھی ہے.اس لیے مجھے یہ فکر ہوتی ہے که آج جو کام کر رہے ہیں یہ آئندہ زمانے کے لیے بنیاد ہو.ہمارا کام یہ نہیں کہ دیکھیں ہمارا کیا حال ہو گا بلکہ ہے کہ جو کام ہمارے سپرد ہے اسے اس طریق پر چلائیں کہ خدا کو کہہ سکیں کہ اگر بعد میں آنے والے احتیاط سے کام لیں تو تباہ نہ ہوں گے.پس مجھے آئندہ کی فکر ہے اور میری نظر آئندہ پر ہے کہ ہم آئندہ کے لیے بنیاد رکھیں.جس کی نظر وسیع نہیں اسے تکلیف نظر آرہی ہے.مگر اس کی آئندہ نسل ان لوگوں پر جو یہ بنیادیں رکھیں گے درود پڑھے گی....وہ زمانہ آئے گا جب خدا ثابت کر دے گا، کہ اس جماعت کے لیے یہ کام بنیادی پتھر ہے.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس شوری کے منصب اور جماعتی نظام میں اس کے مقام کی وضاحت کرتے ہوئے رپورٹ مجلس مشاورت 1922 ، صفحہ 20 ) خلیفہ وقت نے اپنے کام کے دوحصے کیے ہوئے ہیں ایک حصہ انتظامی ہے اس کے عہد یدار مقرر کرنا خلیفہ کا دوسرا حصہ خلیفہ کے کام کا اصولی ہے اس کے لیے وہ مجلس شوریٰ کا مشورہ لیتا پس مجلس کام ہے.ہے.معتمدین انتظامی کاموں میں خلیفہ کی ایسی ہی جانشین ہے جیسی مجلس شوری اصولی کاموں میں خلیفہ کی جانشین ہے.(رپورٹ مجلس مشاورت 1930 ء ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس شوری کے منصب اور جماعتی نظام میں اس کے مقام کی وضاحت کرتے ہوئے د مجلس شوریٰ ہو یا صدر انجمن احمدیہ، خلیفہ کا مقام بہر حال دونوں کی سرداری ہے.انتظامی لحاظ سے وہ صدر انجمن احمدیہ کا رہنما ہے اور آئین سازی اور بحث کی تعیین کے لحاظ سے وہ مجلس شوری کے نمائندوں کے لیے بھی صدر اور راہنما کی حیثیت رکھتا ہے.“ (الفضل 27 / اپریل 1938 ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس شوری کے فیصلوں کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: 507

Page 508

در مجلس شوریٰ میں جو فیصلہ ہوتا ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ خلیفہ کا فیصلہ ہے کیونکہ ہر امر کا فیصلہ مشورہ لینے کے بعد خلیفہ ہی کرتا ہے اس لیے ان فیصلوں کی پوری پوری تعمیل ہونی چاہیے.جب تک کام کرنے والوں میں یہ روح نہ ہو کہ جو حاکم ہو اس کے احکامات کی اطاعت کی جائے اس وقت تک ان کے حکم کا بھی کوئی احترام نہیں کرے گا.“ رپورٹ مجلس مشاورت 1930 ءصفحہ 36 ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آج بے شک ہماری مجلس شوری دنیا میں کوئی عزت نہیں رکھتی مگر وقت آئے گا اور ضرور آئے گا جب دنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمنٹوں (Parliments) کے ممبروں (Members) کو وہ درجہ حاصل نہ ہو گا جو اس کی ممبری کی وجہ سے حاصلہ ہو گا.کیونکہ اس کے ماتحت ساری دنیا کی پارلیمنٹیں (Parliments) آئیں گی.پس اس مجلس کی ممبری (Membership) بہت بڑی عزت ہے اور اتنی بڑی عزت ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بادشاہ کو ملتی تو وہ بھی اس پر فخر کرتا اور وہ وقت آئے گا جب بادشاہ اس پر فخر کریں گے.،، رپورٹ مجلس مشاورت 1928 ، صفحہ 15 ) سید نا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: نظام خلافت کے بعد دوسرا اہم اور مقدس ادارہ جماعت میں شوریٰ کا ادارہ ہی ہے.اور جب خلیفہ وقت اس لئے بلا رہا ہو اور احباب جماعت بھی لوگوں کو اپنے میں سے منتخب کر کے اس لئے بھیج رہے ہوں کہ جاؤ اللہ تعالیٰ کی تعلیم دنیا میں پھیلانے، احباب جماعت کی تربیت اور دوسرے مسائل حل کرنے اور خدمت انسانیت کرنے کے لئے خلیفہ وقت نے مشوروں کے لئے بلایا ہے اس کو مشورے دو تو کس قدر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے.66 شوری کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات: 66 ( خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 196 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: افسوس ہے کہ بعض لوگ پہلے مشورہ نہیں لیتے.مشورہ ایک بڑی بابرکت چیز ہے.اس پر حضرت مولوی نور الدین صاحب نے فرمایا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ خود اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ وہ مشورہ کیا کرے تو پھر دوسروں کے لئے یہ حکم کس قدر زیادہ تاکیدی ہو سکتا ہے.جو اللہ کا رسول نہیں ہے خود جس کو اللہ تعالیٰ براہ راست بھی ہدایت دیتا ہے، ایسا شخص کیسے مشورہ سے احتراز کرسکتا ہے.”آج کل لوگوں کا حال یہ ہے کہ یا تو مشورہ پوچھتے نہیں یا پوچھتے ہیں تو پھر مانتے نہیں“.یہ بات میرے تجربہ میں بھی آئی ہے.یہ نامناسب حرکت ہے یا تو مشورہ لیا ہی نہ کریں لیکن جب مشورہ لیا کریں تو اس کو قبول کرنا آپ کے لئے ضروری ہے.حضرت صاحب نے فرمایا ” تو پھر ایسی بات کی لوگ سزا بھی پاتے ہیں.ایسوں کے حالات سے زیادہ تر وہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو عبرت حاصل کریں.“ وو ( بدر - جلد 7 نمبر 16 صفحہ 14 - بتاریخ 23 اپریل 1908 ء ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ 1892ء کے دوسرے دن مؤرخہ 28 دسمبر 1892ء کو اشاعت اسلام اغراض کو پورا کرنے کے پیش نظر احباب جماعت کی مجلس شوری منعقد کروائی جس کی روداد بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام 508

Page 509

فرماتے ہیں: پھر اس کے بعد 28 دسمبر 1892ء کو یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے معزز حاضرین نے اپنی اپنی رائے پیش کی.اور قرار پایا کہ ایک رسالہ جو اہم ضروریاتِ اسلام کا جامع اور عقائد اسلام کا خوبصورت چہرہ معقولی طور پر دکھاتا ہو تالیف ہو کر اور پھر چھاپ کر یورپ اور امریکہ میں بہت سی کا پیاں اس کی بھیج دی جائیں.بعد اس کے قادیان میں اپنا مطبع قائم کرنے کیلئے تجاویز پیش ہوئیں اور ایک فہرست ان صاحبوں کے چندہ کی مرتب کی گئی جو اعانت مطبع کیلئے بھیجتے رہیں گے.یہ بھی قرار پایا کہ ایک اخبار اشاعت اور ہمدردی کے لئے جاری کیا جائے اور یہ بھی تجویز ہوا کہ حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی اس کے واعظ مقرر ہوں اور وہ پنجاب اور ہندوستان کا دورہ کریں.بعد اس کے دعائے خیر کی گئی.آئندہ بھی ہمیشہ اس سالانہ جلسہ کے یہی مقاصد رہیں گے کہ اشاعت اسلام اور ہمدردی نومسلمین امریکہ اور یورپ کے لئے احسن تجاویز سوچی جائیں اور دنیا میں نیک چلنی اور نیک نیتی اور تقویٰ اور طہارت اور اخلاقی حالات کے ترقی دینے اور اخلاق اور عادات دنیہ اور رسوم قبیحہ کو قوم میں سے دور کرنے کی کوششیں اور تدبیریں کی جائیں.“ اسلام سلسلہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 615-616 ) حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں ہونے والی مجلس شوری کے متعلق فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احباب جماعت سے مشورہ طلب کرنے کے بارہ میں ایک اور روایت حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں بعض امور جب پیش آئے تو پیش آئے تو آپ علیہ السلام سال میں دو تین چار بار بھی اپنے خدام کو بلا لیتے.پس مجلس شوریٰ جو سال میں ایک دفعہ منعقد ہوتی ہے.اس کا یہ مطلب نہیں نہیں ہے کہ اس وقت جو بھی امام ہو وہ صرف ایک ہی دفعہ مشورہ کر کے کافی سمجھے اس بات کو.جب بھی کسی اہم امر میں فیصلہ کرنا مقصود ہو تو فیصلے سے چھوٹی مجلس عاملہ بھی بلائی جاسکتی ہے.مشورہ کے لئے احباب جماعت میں سے جو اچھی رائے رکھنے والے صائب الرائے کہلاتے ہیں ان کا بلایا جاسکتا ہے اور خاص طور پر بلانے والوں میں عبادت کرنے والے اور امین لوگوں کو بلانا مناسب ہے.پس حضرت مفتی صاحب کی روایت کے مطابق سال میں دو تین چار بار بھی اپنے خدام کو بلا لیتے کہ مشورہ کرنا ہے.کسی جلسے کی تجویز ہوتی تو یاد فرمالیتے “ اور یہاں تک کہ کوئی اشتہار شائع کرنا ہوتا تو (تب بھی) مشورہ طلب کر لیا کرتے تھے.اسلام جلسہ سالانہ 1892ء کے دوسرے دن 28 دسمبر 1892ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے یورپ اور امریکہ میں دعوت الی اللہ کے لئے حاضرین سے مشورہ طلب فرمایا.پس یورپ اور امریکہ میں جو تبلیغ ہو رہی ہے اور اس کے بڑے عظیم الشان پھل نکل رہے ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ کے بعد کی بات نہیں ہے آپ علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں ہی اپنی نسل ساری دنیا پر پھیلائی تھی اور خاص پر یورپ اور امریکہ وغیرہ میں تبلیغ کے لئے اپنے احباب سے مشورہ طلب فرمایا تھا اور یہ آپ ہی کے اس مشورہ کا فیض ہے کہ آج دنیا میں ہر جگہ خصوصاً یورپ اور امریکہ میں جماعت بڑی تیزی ترقی کر رہی طور ہے.(خطبه جمعه بیان فرموده 23 فروری 2001ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 30 مارچ 2001 ءصفحہ 7 ) 509

Page 510

شوری کے اغراض و مقاصد کے بارہ میں خلفائے سلسلہ احمدیہ کے ارشادات، فرمودات اور ہدایات: حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: " قرآن شریف کا حکم ہے کہ اَمرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ مشورہ کرنا ایسا پاک اصول ہے کہ اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور برکت عطا ہوتی 66 (الحكم 10 / اپریل 1908 ء صفحہ 6 - حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ 549 ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس مشاورت کے اغراض و مقاصد کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے ہمیں پھر توفیق دی کہ ہم ساری دنیا سے اختلاف رکھتے ہوئے آج اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ باقی دنیا کو جو اپنی مادی ترقی کے لیے مشورے کرتی اور دنیوی ترقی کے لیے اپنے دماغوں کو خرچ کرتی ہے دین کی دعوت دیں اور روحانیت کی طرف متوجہ کریں.باقی دنیا صرف دنیا کے لیے جد و جہد کر رہی ہے لیکن ہم خدا کے فضل سے اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ وہ نور وہ ہدایت اور وہ صداقت جو اللہ تعالیٰ نے دنیا ہدایت کے لیے بھیجی ہے اس کی ترقی کے لیے کوشش کریں، اس کی اشاعت کے لیے غور کریں اور اسے پھیلانے کے لیے تجاویز سوچیں اور ان کے ضمن میں جو مادی، تمدنی اور سیاسی باتیں پیدا ہوں ان پر غور کریں.لیکن اس لیے نہیں کہ اپنی ذات کے لیے کچھ حاصل کریں بلکہ اس لیے کہ ساری دنیا کو فائدہ پہنچائیں کیونکہ کوئی نبی کی جماعت ایسی نہیں ہو سکتی جس کے کسی کام کی غرض محض اپنی ذات کو فائدہ پہنچانا ہو بلکہ اس کی ہر کوشش اور ہر کام کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچائے.دوسروں کی مشکلات کو دور کرے اور دوسروں کی بہتری اور بھلائی مدنظر رکھے.پس ہم بھی اگر نبی کی جماعت بننا چاہتے ہیں تو ہماری تمام کوششیں اور تدبیریں ایسی ہونی چاہئیں کہ ان سے سب دنیا کو فائدہ پہنچے.قطع نظر اس کے کہ کوئی احمدی ہو یا غیر احمدی، مسلم ہو یا غیر مسلم.سب کی خدمت اور سب کی بھلائی ہمارا فرض ہے کیونکہ مومن سب دنیا کا خدمت گزار ہوتا ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جب دوسرے لوگ اس لیے جلسے کرتے ہیں کہ چھینا جھپٹی کر کے خود فائدہ اٹھا ئیں.ہم اس لیے جمع ہوتے ہیں کہ دنیا میں امن قائم کریں.راستی اور انصاف پر دنیا کو کار بند کریں.پس ساری دنیا ہماری مخاطب ہے اور ہم ساری دنیا کی خدمت کرنے والے ہیں.اور یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رپورٹ مجلس مشاورت 1930 ء صفحہ 2,1 ) میں پھر ایک دفعہ اس سوال کا جواب دیتا ہوں کہ اگر کوئی بات ماننی ہی نہیں تو مشورہ کا کیا فائدہ؟ یہ بہت چھوٹی سی بات ہے ایک دماغ سوچتا ہے تو اس میں محدود باتیں آتی ہیں اگر دو ہزار آدمی قرآن مجید کی آیات غور کر کے ایک مجلس میں معنی بیان کریں تو بعض غلط بھی ہوں گے مگر اس میں بھی تو کوئی شبہ نہیں کہ اکثر درست بھی ہوں گے.پس درست لے لیے جائیں گے اور غلط چھوڑ دیئے جائیں گے.اسی طرح ایسے مشوروں پر 510

Page 511

میں جو امور صحیح ہوں وہ لے لیے جائیں گے ایک آدمی اتنی تجاویز نہیں سوچ سکتا.ایک وقت میں بہت سے آدمی ایک امر پر سوچیں گے تو انشاء اللہ کوئی مفید راہ نکل آئے گی.پھر مشورہ سے یہ بھی غرض ہے کہ تمہاری دماغی طاقتیں ضائع نہ ہوں بلکہ قومی کاموں میں مل کر غور کرنے اور سوچنے اور کام کرنے کی طاقت تم میں پیدا ہو.پھر ایک اور بات ہے کہ اس قسم کے مشوروں سے آئندہ لوگ خلافت کے لیے تیار ہوتے رہتے ہیں.اگر خلیفہ لوگوں سے مشورہ ہی نہ لے تو نتیجہ یہ نکلے کہ قوم میں کوئی دانا انسان ہی نہ رہے اور دوسرا خلیفہ احمق ہی ہو کیونکہ اسے کبھی کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا.ہماری پچھلی جماعتوں میں یہی نقص تھا.شاہی خاندان کے لوگوں کو مشورہ میں شامل نہ کیا جاتا تھا جس کا نتیجہ یہ ہو تا کہ ان کے دماغ مشکلات حل کرنے کے عادی نہ ہوتے تھے اور حکومت رفتہ رفتہ تباہ ہو جاتی تھی.پس مشورہ لینے سے یہ بھی غرض ہے کہ قابل دماغوں کی رفتہ رفتہ تربیت ہو سکے تاکہ ایک وقت وہ کام سنبھال سکیں.جب لوگوں سے مشورہ لیا جاتا ہے تو لوگوں کو سوچنے کا موقع ملتا ہے اور اس سے ان کی استعدادوں میں ترقی ہوتی ہے.ایسے مشوروں میں یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے کے چھوڑنے میں آسانی ہوتی اور طبیعتوں ہے میں ضد اور ہٹ نہیں پیدا ہوتی.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شوری کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرمایا: اب میں شوری کے فوائد بیان کرتا ہوں.-1 -2 -3 -4 _5 منصب خلافت.انوار العلوم جلد 2 صفحہ 60 ) کئی نئی تجاویز سوجھ جاتی ہیں.مقابلہ کا خیال نہیں ہوتا اس لیے لوگ صحیح رائے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ بھی فائدہ ہے کہ باتوں باتوں میں کئی باتیں اور طریق معلوم ہو جاتے ہیں.یہ بھی فائدہ ہے کہ باہر کے لوگوں کو کام کرنے کی مشکلات معلوم ہوتی ہیں.یہ بھی فائدہ ہے کہ خلیفہ کے کام میں سہولت ہو ولت ہو جاتی ہے.وہ بھی انسان ہوتا ہے اس کو بھی دھوکا دیا ہے.اس طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ لوگوں کا رجحان کدھر ہے.یوں تو بہت نگرانی کرنی پڑتی ہے کہ غلط راستہ پر نہ پڑ جائیں.مگر جب شوری ہو تو جب تک اعلیٰ درجہ کے دلائل عام رائے کے خلاف نہ ہوں لوگ ڈرتے ہیں کہ اس پر عمل کریں اور اس طرح خلیفہ کی نگرانی میں سہولت ہو جاتی ہے.“ جاسکتا رپورٹ مجلس مشاورت 1922 ، صفحہ 16 ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس مشاورت کی ضرورت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”سب سے پہلے میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مجلس جس کو پرانے نام کی وجہ سے کارکن کانفرنس کے نام سے یاد کرتے رہے ہیں کیا چیز ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے کہ اَمرُهُم شُوری بَيْنَهُمُ اپنے معاملات میں مشورہ لے لیا کریں.مشورہ بہت مفید اور ضروری چیز ہے اور بغیر اس کے کوئی کام مکمل نہیں ہو سکتا.اس مجلس کی غرض کے متعلق مختصر الفاظ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسی اغراض جن کا جماعت کے قیام اور ترقی سے گہرا تعلق ہے ان کے متعلق جماعت کے لوگوں کو جمع کر کے مشورہ لیا جائے، تاکہ کام میں آسانی پیدا ہو جائے یا ان احباب کو ان ضروریات کا پتہ لگے جو جماعت سے لگی ہوئی ہیں تو یہ مجلس شوری ہے.ص رپورٹ مجلس مشاورت 1922 ، صفحہ 4 ) 511

Page 512

حضرت خلیفة أمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1967ء کی مجلس مشاورت کے افتتاحی خطاب کے دوران فرمایا: ”آپ یہاں کسی ذاتی غرض کے لئے جمع نہیں ہوئے بلکہ اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ آپ اپنی نفسانی خواہشات کو بھلا کر اور طبیعت کے میلان اور رجحان کو پیچھے چھوڑ کر دیانتداری کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد جذب کرتے ہوئے ان معاملات کے متعلق خلیفہ وقت کو مشورہ دیں جو اس وقت آپ کے سامنے ایجنڈا کے طور پر رکھے جائیں گے.“ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (رپورٹ مجلس مشاورت 1967 ءصفحہ 5 و 6 افتتاحی خطاب) ”ہمارے کام کی اور ہماری ذمہ داریوں کی شکل بدل رہی ہے.بدل چکی بھی ہے اور بدل رہی بھی ہے.اس واسطے یہ چیز کہ Routine کے مطابق ہماری مشاورت یہاں آکر بیٹھے، باتیں کرے اور چلی جائے اس کا دنیا کو کوئی فائدہ نہیں.آپ نے دنیا کے مسائل کو حل کرنا ہے.اس کے متعلق سوچیں اور اصل میں تو خدا نے آپ کو Base بنا دیا ہے.“ 66 (رپورٹ مجلس مشاورت 1977 ء غیر مطبوعہ صفحہ 19 بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 23 فروری 2001 صفحہ 3) حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مجلس (شوری) ساری دنیا کے لئے نمونہ ہے.ہم اتنے اہم مشورے کے لئے جمع ہوں اور پھر غیر محتاط الفاظ ہمارے منہ سے نکل جائیں، یہ ہمیں زیب نہیں دیتا.ترقی کرنے والی قوموں کی زندگی مسلسل غور و فکر اور عزم میں گزرتی ہے.ایک وقت ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص یا قوم پوری طرح فکر اور تدبر کرنے کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچتی ہے اور اس پر وہ عمل کرتی ہے.ہمیں قرآن کریم نے یہ فرمایا ہے کہ ایک وقت تم پر ایسا آتا ہے جب تم شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ پر عمل کر رہے ہوتے ہو.تم جماعت کی ترقی، اسلام کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے کے لئے باہم مشورہ کر رہے ہوتے ہو.پھر ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب تم فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللہ پر عمل کر رہے ہوتے ہو.یعنی کسی پختہ نتیجہ تک پہنچ جاتے ہو اور پھر تم اپنے وسائل کی طرف نظر نہیں کرتے بلکہ اس نتیجہ پر پہنچنے کے بعد خواہ وسائل تھوڑے ہوں خواہ زیادہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے میدان عمل میں قدم رکھ دیتے ہو اور اس کے بعد تم ایک قدم پیچھے نہیں ہٹتے.“ قیام (رپورٹ مجلس مشاورت 1966 ءصفحہ 80,79 ) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”جماعت احمدیہ کی تربیت کے لئے مجلس شوری بہت ہی اہم کردار ادا کرتی ہے.اس کی شخصیت کو زندہ رکھنے کے لئے، اس کی صلاحیتوں کی حفاظت کے لئے یہ نظام بہت ضروری اور بہت ہی اہم کام کرنے والا ہے.چنانچہ جتنے یورپ کے ممالک میں اور دوسرے ممالک میں بھی جن میں مجلس شوری قائم ہو چکی ہے وہاں سے اطلاعیں مجھے ملتی ہیں.وہ کہتے ہیں کہ جماعت میں ایک بالکل نئی زندگی، نئی تازگی اور نیا اعتماد پیدا ہو گیا ہے اور ترقی کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے.“ ہوئے فرمایا: (خطاب 9/ ستمبر 1922 ء بمقام برسلز صفحه 2 ) حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی نے 9 ستمبر 1992ء کو بلیجیم (Belgium) کی مجلس شوری سے خطاب کرتے در مجلس شوری کا نظام جماعت کی زندگی کے لئے بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.آج سے آٹھ دس سال پہلے مجلس 512

Page 513

شوری کا نظام مرکزی طور پر جماعت میں تو قائم تھا اور وہیں بین الاقوامی مجلس شوریٰ کا بھی جلسے کے بعد انعقاد کر دیا جایا کرتا تھا یا مجلس شوریٰ میں بین الاقوامی تجاویز آجایا کرتی تھیں لیکن ہر ملک کی مجلس شوری کا رواج نہیں تھا.تو میں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ قرآن کریم نے مجلس شوری پر غیر معمولی زور دیا ہے اور اسلامی نظام خلافت کے بعد یہ سب سے زیادہ اہم ادارہ ہے جس سے جماعت کی تربیت ہوتی ہے اسے ہر ملک میں جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جب سے پورپ اور مغرب اور افریقہ اور بعض دیگر مشرقی ممالک میں شوریٰ کا نظام جاری کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ غیر معمولی طور پر جماعت میں صحت اور توانائی کے آثار ظاہر ہوئے ہیں.بہت سے فوائد کے علاوہ ایک تو مجلس شوری میں شامل ہونے سے نظام جماعت کی ذمہ داری کے ساتھ براہ راست وابستہ ہونے کی توفیق ملتی ہے.ہر ممبر جو مجلس شوری کا ممبر بن کر تجاویز پر غور کرنے کے لئے مجلس شوری میں شمولیت کرتا ہے اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت اہم ادارہ ہے جس میں اس نے حصہ ڈالا ہے اور اس کے ذریعہ ساری جماعت کی نمائندگی ہو جاتی ہے.“ (خطاب فرموده 9 ستمبر 1992 ء بمقام برسلز بلجیم قلمی بر موقع شوری بحواله الفضل انٹرنیشنل 16 فروری 2001 ء صفحہ 3 ) ضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: پس میں امید رکھتا ہوں کہ تمام دنیا میں مجالس شوری انہی نصیحتوں کو پیش نظر رکھ کر جاری رہیں گی اور جاری جائیں گی.اور اعلیٰ اخلاق کی حفاظت کی جائے گی.کوئی بات اس طریقے پر نہیں کی جائے گی جس میں کسی کا یا اپنے بھائی کی دل آزاری کا عنصر ہو.اور اگر کوئی سادگی یا نادانی یا ناتجربہ کاری سے ایسی بات تو حوصلے کے ساتھ سن کر اسے سمجھانے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ جواباً آپ بھی پتھر ہے پتھر ماریں اور سارا ماحول پراگندہ ہو جائے.پس میں امید رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ جو بہت ہی عظیم الشان نظام شوری خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے دوبارہ ہمیں عطا کیا ہے یہ اتنا قیمتی نظام ہے کہ اس کی خاطر ہر بڑی سے بڑی قربانی بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی.حضرت کا دیتا 66 (خطبه جمعه فرموده 29 اپریل 1994 ء) سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: مشورہ لینے کا فائدہ ہوتا ہے.کیونکہ مختلف ماحول کے، مختلف قوموں کے، مختلف معاشرتی حالات کے لوگ، زیادہ اور کم پڑھے لکھے لوگ مشورہ دے رہے ہوتے ہیں پھر آج کل جب جماعت پھیل گئی ہے؟ ہے، مختلف ملکوں سے ان کے حالات کے مطابق مشورے پہنچ رہے ہوتے ہیں تو خلیفہ وقت کو ان ملکوں میں عمومی کے لحاظ حالات اور جماعت کے معیار زندگی اور جماعت کے دینی روحانی معیار اور ان کی سوچوں کے بارے میں علم ہو جاتا ہے ان مشوروں کی وجہ سے.اور پھر جو بھی سکیم یا لائحہ عمل بنانا ہو اس کو بنانے میں مدد ملتی ہے.غرض کہ اگر ملکوں کی شوری کے بعض مشورے ان کی اصلی حالت میں نہ بھی مانے جائیں تب بھی خلیفہ وقت کو دیکھنے اور سننے سے بہر حال ان کو فائدہ ہوتا ہے.مشورہ دینے والے کا بہر حال یہ فرض بنتا ہے کہ نیک نیتی سے مشورہ دے اور خلیفہ وقت کا یہ حق بھی ہے اور فرض بھی ہے کہ وہ جماعت سے مشورہ لے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو فرمایا کرتے تھے کہ لَا خِلَافَةَ إِلَّا عَنْ مَّشْوَرَةٍ“ کہ خلافت کا انعقاد مشورہ اور رائے لینے کے بغیر درست نہیں.اور یہ بھی کہ خلافت کے نظام کا ایک اہم ستون مشاورت ہی ہے.(کنز العمال كتاب الخلافة جلد 3 صفحه 139 ) تو جماعتی ترقی کے لئے اور کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے ایک انتہائی اہم چیز ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کیونکہ قوم کی مشترکہ کوششیں ہوں تو پھر کامیابی کی راہیں کھلتی جاتی ہیں.“ 66 513

Page 514

سیدنا حضرت خلیفة ، خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: (خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 198 199 ) پھر ایک اور روایت ہے جس سے مشورے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے.حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کے بعد اگر ہمیں کوئی ایسا امر در پیش ہوا جس کے بارے میں وحی قرآن نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا تو ہم کیا کریں گے؟ اس پر آنحضور متعلقہ نے فرمایا ایسے معاملے کو حل کرنے کے لئے مومنوں میں سے علما کو یا عبادت گزار لوگوں کو جمع کرنا اور اس معاملے کے بارے میں ان سے مشورہ کرنا اور ایسے معاملے کے بارے میں فرد واحد کی رائے پر فیصلہ نہ کرنا.(کنز العمال باب فی فضل حقوق القرآن جلد 2 صفحه 340) اس حدیث کی طرف بھی جماعت کو توجہ کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جماعت میں ہمیشہ دینی علوم کے بھی اور دوسرے علوم کے بھی ماہرین پیدا فرماتا رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عباد الرحمن پیدا فرمائے اور ہمیں عبادالرحمن بنائے تاکہ خلیفہ وقت کو مشورہ دینے میں بھی کبھی دقت پیش نہ آئے اور ہمیشہ مشورے سن کر احساس ہو کہ ہاں یہ نیک نیتی سے دیا گیا مشورہ ہے.یہ نیک نیتی پر مبنی مشورہ ہے.اور اس میں اپنی ذات کی کسی قسم کی کوئی ملونی نہیں.“ خطبات مسرور جلد 2 صفحه 199 ) 514

Page 515

نظام نو اور مرتبه: طاہر جمیل احمد استاد مدرسة رسة الظفر وقف جدید ربوه 515

Page 516

516 آیات: عناوین آیات احادیث ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نظام نو اور خلافت راشدہ کا باہمی تعلق بیان فرمودہ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان کردہ نظام نو وصیت کے مذہبی فوائد رسالہ الوصیت اور خواجہ کمال الدین صاحب کی بے ساختگی نظام وصیت کے معاشی فوائد نظام وصیت ایک عالمگیر نظام ہے جلد جلد وصیتیں کرو نظام نو کی ضرورت بیان فرمودہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی مومن اور منافق میں فرق کرنے والا نظام از افاضات حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیغام حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO (سورة النور : 56 ) "تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو

Page 517

اُس نے اُن کے لیے پسند کیا ، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.“ (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ، ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ يَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلُكُمْ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَرُ وَمَسَكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنْتِ عَدْنٍ ، ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ o (سورة الصف: 11تا13) ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت پر مطلع کروں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے نجات دے گی؟ تم (جو) اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو اور اللہ کے راستے میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہو، یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کر دے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں اور ایسے پاکیزہ گھروں میں بھی جو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں ہیں.یہ بہت بڑی کامیابی ہے.“ إنَّ اللَّه اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ط (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) (سورة التوبه: 111) یقیناً اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں تاکہ اس کے بدلہ میں انہیں جنت ملے (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) احادیث رسالہ الوصیت جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نظام وصیت کا ذکر کیا ہے، کی اشاعت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے جو مسلم کی روایت میں موجود ہے کہ: يُحَدِ ثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ (مسلم کتاب الفتن باب ذكر الدجّال) ترجمہ: (مسیح موعود ) اپنی جماعت کے لوگوں سے ان کے درجات جو جنت میں ان کو عنایت ہوں گے بیان کرے گا.حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِى وَقَاصِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ نِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ وَجَعِ اشْتَدَّ بِي فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي قَدْ بَلَغَ بِي مِنَ الْوَجَعِ مَاتَرَىٰ وَ أَنَا ذُوْمَالٍ وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِّيَ أَفَاتَصَدَقَ بِثُلُثَى مَالِي؟ قَالَ : لَا قُلْتُ فَالشَّطْرُ يَا رَسُوْلَ اللهِ ؟ فَقَالَ: لَا قُلْتُ : فَالقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: القُلتُ وَ الثُّلْتُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ اَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِّنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ - سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے سال مکہ میں میں بیمار پڑ گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے.میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت 517

Page 518

اپنی بیماری کی شدت کا ذکر کرتے ہوئے عرض کیا کہ میرے پاس کافی مال ہے اور ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی قریبی وارث نہیں.کیا میں اپنی جائیداد کا دو تہائی حصہ صدقہ کر دوں؟ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.نہیں.اس پر میں نے درخواست کی کہ آدھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.نہیں.پھر میں نے عرض کیا کہ تیسرے حصہ کی اجازت دی جائے تو آپ نے فرمایا.ہاں جائیداد کے تیسرے حصہ کی اجازت ہے اور اصل میں تو یہ تیسرا حصہ بھی زیادہ ہی ہے کیونکہ اپنے وارثوں کو خوشحال اور فارغ البال چھوڑ جانا اس بات سے بہتر ہے کہ وہ تنگ دست اور پائی پائی کے محتاج ہوں اور لوگوں سے مانگتے پھریں.“ ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام : ہے (بخاری کتاب الفرائض كتاب ميراث البنات) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں خلافت احمدیہ کے بارے میں پیش گوئی بیان فرمائی.اس پیش گوئی کا رسالہ الوصیت میں بیان ہونا نظام وصیت اور نظام خلافت کا آپس میں گہرا تعلق ثابت کرتا ہے.چنانچہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور ی ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آجائے گی.“ وو (رساله الوصیت - روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 301-306 ) دو لکھیں نظام وصیت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ہر ایک صاحب جو شرائط رسالہ الوصیۃ کی پابندی کا اقرار کریں ضروری ہوگا کہ وہ ایسا اقرار کم سے کم و گواہوں کی ثبت شہادت کے ساتھ اپنے زمانہ قائمی ہوش و حواس میں انجمن کے حوالہ کریں اور تصریح کہ وہ اپنی جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کا دسواں حصہ اشاعت اغراض سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے بطور وصیت یا وقف دیتے ہیں.“ (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 323 ) نظام وصیت کی مد میں جمع ہونے والے اموال کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.518

Page 519

ہیں:.یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف دُور از قیاس باتیں ہیں بلکہ یہ اس قادر کا ارادہ ہے جو زمیں و آسمان کا بادشاہ ہے.مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے؟ اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہوگی جو ایمانداری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے؟ بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعدوہ لوگ جن کے سپر د ایسے مال کئے جائیں وہ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار نہ کریں.سو میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں.ہاں جائز ہو گا کہ جن کا کچھ گزارہ نہ ہو ان کو بطور مدد خرچ اس میں سے دیا جائے.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 319 ) بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں: اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنا دے اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خوابگاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لئے ہو گئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا.آمین یا رب العالمین.پھر میں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر خدا اس زمین کو میری جماعت میں سے ان پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لئے ہو چکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی ان کے کاروبار میں نہیں.آمین یا رب العالمین.پھر میں تیسری دفعہ دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر کریم! اے خدائے غفور و رحیم ! تو صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجا لاتے ہیں اور تیرے لئے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کر چکے ہیں جن سے تو راضی ہے اور جن کو تو جانتا ہے کہ وہ بکلی تیری محبت میں کھوئے گئے اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کے ساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں.آمین یا رب العالمین.“ نظام وصیت اور خلافت راشدہ کا باہمی تعلق: (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 316 تا 318 ) حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نظام وصیت اور نظام خلافت کا تعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں دو باتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ایک تو یہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعد نظام خلافت کا اجرا اور دوسرے اپنی وفات پر آپ کو یہ فکر پیدا ہونا کہ ایسا نظام جاری کیا جائے جس سے افراد جماعت میں تقویٰ بھی پیدا ہو اور اس میں ترقی بھی ہو اور دوسرے مالی قربانی کا بھی ایسا نظام جاری ہو جائے جس سے کھرے اور کھوٹے میں تمیز ہو جائے اور جماعت کی مالی ضروریات بھی باحسن پوری ہو سکیں اس لیے وصیت کا نظام جاری فرمایا تھا.تو اس لحاظ سے میرے نزدیک...نظام خلافت اور نظام وصیت کا بڑا گہرا تعلق ہے اور ضروری نہیں کہ ضروریات کے تحت پہلے خلفا جس طرح تحریکات کرتے رہے ہیں آئندہ بھی اسی طرح مالی تحریکات ہوتی رہیں بلکہ نظام وصیت کو اب اتنا فعال ہو جانا چاہئے کہ سو سال بعد 519

Page 520

تقویٰ کے معیار بجائے گرنے کے نہ صرف قائم رہیں بلکہ بڑھیں اور اپنے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا کرنے والے بھی پیدا ہو تے رہیں اور قربانیاں پیدا کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں، اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے پیدا ہوتے رہیں.جب اس طرح کے معیار قائم ہوں گے تو انشاء اللہ تعالی خلافت حقہ بھی قائم رہے گی اور جماعتی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں گی کیونکہ متقیوں کی جماعت کے ساتھ ہی خلافت کا ایک بہت بڑا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو اس کی توفیق دے اور ہمیشہ خلافت کی نعمت کا شکر ادا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں اور کوئی احمدی بھی ناشکری کرنے والا نہ ہو.کبھی دنیا داری میں اتنے محو نہ ہوجائیں کہ دین کو بھلا دیں.“ از خطبه جمعه فرموده 6 اگست 2004 - الفضل انٹرنیشنل 20 تا 26 اگست 2004 ء حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ یو.کے 2004 ء کی اختتامی تقریر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مختلف ارشادات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کا قرب پانے اور انجام بخیر حاصل کرنے کے لئے ایک اور ذریعہ بھی ہے جو تمہیں نیکیوں پر قائم رہنے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے میں مددگار ہو گا بلکہ انتہائی اہم نسخہ ہے.اس سے اللہ تعالٰی کے دین کی اشاعت کے سامان بھی پیدا ہو رہے ہوں گے اور حقوق العباد ادا کرنے کے سامان بھی پیدا ہو ر.رہے ہوں گے اور وہ ہے نظام وصیت.اس کی اہمیت کے بارے میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: " تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے، ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں، وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاھتے ہیں ان کے لئے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں‘ (رسالہ الومیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308 ) پس آپ نے وصیت کا نظام جاری کرتے ہوئے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ یہ نظام خدا تعالیٰ کا قرب پانے کا ایک ذریعہ ہے اور اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں خدا تعالیٰ سے خاص انعام ملے تو اس نظام میں شامل ہو جاؤ اور اس دروازے میں داخل ہو جاؤ.“ الفضل انٹرنیشنل 29 جولائی تا 11 اگست 2005 ) حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا: ”جب وصیت کا نظام شروع کیا اس وقت 1905 ء میں آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے یہ رسالہ لکھا تھا اور اس کو لکھنے کی وجہ یہ فرمائی تھی کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ میرا وقت قریب ہے اور اب ایک تو نظام خلافت کا سلسلہ شروع ہو گا جو میرے بعد میرے کاموں کی تکمیل کرے گا اور دوسرا اس سلسلہ کو چلانے کے لئے ایسے مخلصین جماعت میں پیدا ہوتے رہیں گے جن کا پہلے ذکر آچکا ہے جو روحانیت کے بھی اعلیٰ معیار تک پہنچنے والے ہوں گے اور مالی قربانیوں کو بھی اعلیٰ معیار تک پہنچانے والے ہوں گے اور ایسے مخلصین جو ہوں گے ان کی انفرادیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بہشتی قرار دیا ہے اور اس وجہ سے ان کا ایک علیحدہ قبرستان بھی ہو گا جہاں ان کی تدفین ہوگی اس لئے بہشتی مقبرہ کا قیام عمل میں آیا تھا.......پس یہ وہ نظام ہے جو اس زمانے میں خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی یقین دہانی کرانے والا نظام ہے، یہ وہ نظام ہے جو دین کی خاطر قربانیاں دینے والی جماعت کا نظام ہے اور یہ وہ جماعت ہے جو دنیا میں دھی انسانیت کی خدمت کرتی ہے.پس ہر احمدی ان باتوں کے سننے کے بعد غور کرے اور دیکھے کہ کس قدر فکر سے اور کوشش سے اس نظام میں شامل ہونا چاہئے.“ 66 520

Page 521

وو (جلسہ سالانہ یو کے 2004 اختتامی خطاب الفضل انٹرنیشنل 29 جولائی تا 11 اگست 2005 ) حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بعض تجاویز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: بہت سے لوگوں کی طرف سے یہ تجویز بھی آئی ہیں کہ 2008 ء میں خلافت کو بھی سو سال پورے ہو جائیں گے اس وقت خلافت کی بھی سو سالہ جو بلی منانی چاہئے تو بہر حال وہ تو ایک کمیٹی کام کررہی ہے.وہ کیا کرتے ہیں؟ رپورٹس دیں گے تو پتہ لگے گا.لیکن میری یہ خواہش ہے کہ 2008 ء میں خلافت کو قائم ہوئے انشاء اللہ تعالیٰ سو سال ہو جائیں گے تو دنیا کے ہر ملک میں ، ہر جماعت میں جو کمانے والے افراد ہیں جو چندہ دہند ہیں ان میں سے کم از کم پچاس فیصد تو ایسے ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس عظیم الشان نظام میں شامل ہو چکے ہوں اور روحانیت کو بڑھانے کے اور قربانیوں کے یہ اعلیٰ معیار قائم کرنے والے بن چکے ہوں اور یہ بھی جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک حقیر سا نذرانہ ہو گا جو جماعت خلافت کے سو سال پورے ہونے پر شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہو گی اور اس میں جیسا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ایسے لوگ شامل ہونے چاہئیں جو انجام بالخیر کی فکر کرنے والے اور عبادات بجا لانے والے ہیں.“ (جلسہ سالانہ یو کے.یکم اگست 2004 ، اختتامی خطاب الفضل انٹرنیشنل 20 تا 26 اگست 2004 ) پھر فرمایا: ” پس غور کریں فکر کریں جو سستیاں، کو تاہیاں ہو چکی ہیں ان پر استغفار کرتے ہوئے اور حضرت مسیح موعود السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جلد از جلد اس نظام وصیت میں شامل ہو جائیں اور اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنی نسلوں کو بھی بچائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی حصہ پائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق علیہ عطا فرمائے.“ (جلسہ سالانہ یو کے یکم اگست 2004 ء ، اختتامی خطاب - الفضل انٹر نیشنل 10 تا 16 دسمبر 2004 ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ کا پیش کردہ نظام نو: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نظام نو کی ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ضرورت ہے کہ اس موجودہ دور میں اسلامی تعلیم کا نفاذ ایسی صورت میں کیا جائے کہ وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو ان دنیوی تحریکوں میں ہیں اور اس قدر روپیہ بھی اسلامی نظام کے ہاتھ میں آجائے جو موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے مساوات کو قائم رکھنے اور سب لوگوں کی حاجات کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے.“ دو (نظام نوصفحه 113 ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دنیا کے لیے نئے نظام کی ضرورت کو انبیاء سے وابستہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.نئے نظام وہی لاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں مبعوث کئے جاتے ہیں جن کے دلوں میں نہ امیر کی دشمنی ہوتی ہے نہ غریب کی بے جا محبت ہوتی ہے جو نہ مشرقی ہوتے ہیں نہ مغربی.وہ خدا تعالیٰ کے پیغامبر ہوتے ہیں اور وہی تعلیم پیش کرتے ہیں جو امن قائم کرنے کا حقیقی ذریعہ ہوتی ہے.پس آج وہی تعلیم 521

Page 522

امن قائم کرے گی جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ آئی ہے اور جس کی بنیاد الوصیۃ کے ذریعہ 1905ء میں رکھ دی گئی ہے.“ اسلامی نظام کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: المسيح اسلامی سکیم کے اہم اصول یہ ہیں:.(نظام نو صفحه 131 ) اول : سب انسانوں کی ضرورتوں کو پور اکیا جائے، دوم : مگر اس کام کو پورا کرتے وقت انفرادیت اور عائلی زندگی کے لطیف جذبات کو تباہ نہ ہونے دیا جائے، تیسرے: چوتھے : به کام مالداروں سے طوعی طور پر لیا جائے اور جبر سے کام نہ لیا جائے، یہ نظام ملکی نہ ہو بلکہ بین الاقوامی ہو.آج کل جس قدر تحریکات جاری ہیں وہ سب کی سب ملکی ہیں مگر اسلام نے وہ تحریک پیش کی ہے جو ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے.اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان چاروں مقاصد کو اس زمانہ کے مامور، نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے حکم سے کس طرح پورا کیا اور کس طرح اسلامی تعلیم کے عین مطابق دنیا کے ایک نئے نظام کی بنیاد رکھ دی.یہ بالشوزم، سوشلزم اور نیشنل سوشلزم کی تحریکیں سب جنگ کے بعد کی پیدائش ہیں.ہٹلر جنگ کے بعد کی پیدائش ہے، مسولینی جنگ کے بعد کی پیدائش ہے اور سٹالن جنگ کے بعد کی پیدائش ہے.غرض یہ ساری تحریکیں جو دنیا میں ایک نیا نظام قائم کرنے کی دعویدار ہیں 1919ء اور 1921ء کے گرد چکر لگا رہی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے مامور نے نئے نظام کی بنیاد 1905 ء رکھ دی تھی اور وہ الوصیت“ کے ذریعہ رکھی تھی.“ (نظام نو صفحه 115 ) نظام وصیت میں شامل ہونے کے مذہبی فوائد: حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نظام وصیت میں شامل ہونے کے مذہبی فوائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر اسلامی حکومت نے ساری دنیا کو کھانا کھلانا، ساری دنیا کو کپڑے پہنانا ہے، ساری دنیا کی رہائش کے لئے مکانات کا انتظام کرنا ہے، ساری دنیا کی بیماریوں کے لئے علاج کا انتظام کرنا ہے، ساری دنیا کی جہالت کو دور کرنے کے لئے تعلیم کا انتظام کرنا ہے تو یقیناً حکومت کے ہاتھ میں اس سے بہت زیادہ روپیہ ہونا چاہئے جتنا پہلے زمانہ میں ہوا کرتا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اعلان فرمایا کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے جو حقیقی جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ انتظام فرمایا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے اپنے مال کے کم سے کم دسویں حصہ کی اور زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ کی وصیت کر دیں اور آپ فرماتے ہیں ان وصایا سے جو آمد ہوگی وہ ترقی اسلام اور اشاعت علم قرآن و کتب دینیہ اور اس سلسلہ کے واعظوں کے لئے “ خرچ ہو گی.شرط نمبر 2 اسی طرح ہر ایک امر جو مصالح اشاعتِ اسلام میں داخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام امور ان اموال سے انجام پذیر ہوں گے.یعنی اسلام کی تعلیم کو دنیا میں قائم اور راسخ کرنے کے لئے جس قدر امور ضروری ہیں اور جن کی تعبیر کرنا قبل از وقت ہے ہاں اپنے زمانہ میں کوئی اور : 522

Page 523

یا ان امور کو کھولے گا.ان تمام امور کی سر انجام دہی کے لئے یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا.یہ وہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی.آپ صاف فرماتے ہیں کہ ہر ایک امر جو مصالح اشاعت اسلام میں داخل ہے اور جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے اس پر یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا.اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ایسے امور بھی ہیں جن کو ابھی بیان نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب دنیا چلا چلا کر کہے گی کہ ہمیں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے تب چاروں طرف سے آوازیں اٹھنی شروع ہو جائیں گی کہ آؤ! ہم تمہارے سامنے ایک نیا نظام پیش کرتے ہیں.روس کہے گا آؤ میں کو نیا نظام دیتا ہوں، ہندوستان کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں، جرمنی اور اٹلی کہے گا آؤ میں ایک نیا نظام دیتا ہوں، امریکہ کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں! اس وقت میرا قائم مقام قادیان سے کہے گا کہ نیا نظام ”الوصیت میں موجود ہے اگر دنیا فلاح و بہبود کے رستہ پر چلنا چاہتی ہے تو اس کا ایک ہی “ طریق ہے اور وہ یہ کہ الوصیت کے پیش کردہ نظام کو دنیا میں جاری کیا جائے.“ (نظام نوصفحه 116-117 ) رسالہ الوصیت اور خواجہ کمال الدین صاحب کی بے ساختگی: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خواجہ کمال الدین صاحب (جو بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نبی ہونے کے منکر ہو گئے تھے ) پر الوصیت میں بیان کردہ نئے نظام کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وصیت لکھی اور اس کا مسودہ باہر بھیجا تو خواجہ کمال الدین صاحب اس کو پڑھنے لگ گئے.جب وہ جب وہ پڑھتے پڑھتے اس مقام پر پہنچے تو وہ بے خود ہو گئے، ان کی نگاہ نے اس کے حسن کو ایک حد تک سمجھا.وہ پڑھتے جاتے اور اپنی رانوں پر ہاتھ مار مار کر کہتے جاتے کہ : ”واہ اوئے مرزا ! احمدیت دیاں جڑاں لگا دیتیاں ہیں یعنی واہ واہ مرزا تو نے احمدیت کی جڑوں کو مضبوط کر دیا ہے.خواجہ صاحب کی نظر نے بے شک اس کے حسن کو ایک حد تک سمجھا مگر پورا پھر بھی نہیں سمجھا.درحقیقت اگر وصیت کو غور پڑھا جائے تو یوں کہنا پڑتا ہے کہ واہ او مرز !! تو نے اسلام کی جڑیں مضبوط کر دیں! واہ اومرزا ! تو نے انسانیت کی جڑیں ہمیشہ کے لیے مضبوط کر دیں.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَ عَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَ بَارِک وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ ނ مَجِيدٌ.نظام وصیت کے معاشی فوائد: (نظام نو صفحہ 128 ) وصیت حاوی ہے اس تمام نظام پر جو اسلام نے قائم کیا ہے.بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ وصیت کا مال صرف لفظی اشاعت اسلام کے لئے ہے مگر یہ بات درست نہیں.وصیت لفظی اشاعت اور اور عملی اشاعت دونوں کے لئے ہے جس طرح اس میں تبلیغ شامل ہے اسی طرح اس میں اس نئے نظام کی تکمیل بھی شامل ہے جس کے ماتحت ہر فردِ بشر کی باعزت روزی کا سامان مہیا کیا جائے.جب وصیت کا نظام صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہو گی بلکہ اسلام کے منشا کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پور ا کیا جائے مکمل.ہو گا تو 523

Page 524

524 گا اور دُکھ اور تنگی کو دُنیا سے مٹا دیا جائے گا انشاء اللہ.یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی، بے سامان پریشان نہ پھرے گا کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہوگی، جوانوں کی باپ ہو گی، عورتوں کا سہاگ ہو گی اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس کے ذریعہ سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہو گا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا، نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب ، نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دنیا پر وسیع ہوگا.“ نظام وصیت ایک عالمگیر نظام ہے:.(نظام نو صفحه 130 ) ” یہ نظام ملکی نہ ہوگا بلکہ بوجہ مذہبی ہونے کے بین الاقوامی ہو گا.انگلستان کے سوشلسٹ وہی نظام پسند کرتے ہیں جس کا اثر انگلستان تک محدود ہو، روس کے بالشویک وہی نظام پسند کرتے ہیں جس کا اثر روس تک محدود ہو مگر احمدیت ایک مذہب ہے وہ اس نئے نظام کی طرف روس کو بھی بلاتی ہے، وہ جرمنی کو بھی بلاتی ہے، وہ انگلستان کو بھی بلاتی ہے، وہ امریکہ کو بھی بلاتی ہے، وہ ہالینڈ کو بھی بلاتی ہے، وہ چین اور جاپان کو بھی بلاتی ہے.پس جو روپیہ احمدیت کے ذریعہ اکٹھا ہو گا وہ کسی ایک ملک پر خرچ نہیں کیا جائے گا بلکہ ساری دنیا کے غریبوں کے لئے خرچ کیا جائے گا.وہ ہندوستان کے غربا کے بھی کام آئے گا، وہ چین کے غربا کے بھی کام آئے گا، وہ جاپان کے غربا کے بھی کام آئے گا، وہ افریقہ کے غربا کے بھی کام آئے گا، وہ عرب کے غربا کے بھی کام آئے گا، وہ انگلستان، امریکہ، اٹلی ، جرمنی اور روس کے غربا کے بھی کام آئے گا.“ جلد جلد وصیتیں کرو (نظام نو صفحہ 121 ) پس جوں جوں تبلیغ ہو گی اور لوگ احمدی ہوں گے وصیت کا نظام وسیع سے وسیع تر ہو تا چلا جائے گا اور کثرت سے اموال جمع ہونے شروع ہو جائیں گے.قاعدہ ہے کہ شروع میں ریل آہستہ آہستہ چلتی ہے مگر پھر بہت ہی تیز ہو جاتی ہے.اسی طرح اگر خود دوڑنے لگو تو شروع کی رفتار اور بعد کی رفتار میں بہت بڑا فرق ہو پس وصیت کے ذریعہ اس وقت جو اموال جمع ہو رہے ہیں ان کی رفتار بے شک تیز نہیں مگر جب سے احمدیت پھیل گئی اور جوق در جوق لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہو گئے اس وقت اموال خاص طور پر جمع ہونے شروع ہو جائیں گے اور قدرتی طور پر جائیدادوں کا ایک جتھا دوسری جائیدادوں کو کھینچنا شروع کر دے گا اور جوں جوں وصیت وسیع ہو گی نظام نو کا دن انشاء اللہ قریب سے قریب تر آجائے تا.ہے.کثرت گا....پس تم جلد سے جلد وصیتیں کرو تاکہ جلد سے جلد نظام نو کی تعمیر ہو اور وہ مبارک دن آجائے جبکہ چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانے لگے.“ ( نظام نوصفحه 129 تا 132 ) نظام نو کی ضرورت:

Page 525

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک پیش گوئی فرمائی تھی کہ : ” اُس وقت میرا قائم مقام قادیان سے کہے گا کہ نیا انظام الوصیت میں موجود ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی یہ پیش گوئی ظاہری رنگ میں بھی 28 دسمبر 1991 کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ذریعہ اس طرح پوری ہوئی جب حضرت خلیفۃ اُمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے نظام وصیت کے ایک بنیادی حصہ اقوام متحدہ کے نئے قیام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”انسانیت کو مصیبتوں سے بچانے کے لئے قادیان کا جلسہ ایک نمونہ ہے جہاں تمام قومیں سچے دل کے ساتھ، محبت کے ساتھ ایک ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، جہاں انگریز احمدی مسلمان ہو یا امریکن احمدی مسلمان ہو، جرمن احمدی مسلمان ہو یا ہندوستانی احمدی مسلمان ہو اپنے درمیان سے سب فرق مٹتے ہوئے دیکھتے ہیں.پس اگر حقیقت میں دنیا میں اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی جانی ہے تو میں خدا کی قسم کھا کر آپ کو کہتا ہوں کہ یہ وہ سر زمین ہے جہاں آئندہ اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی جائے گی.“ مومن اور منافق میں فرق کرنے والا نظام : اختتامی خطاب جلسہ سالانہ قادیان 28 دسمبر 1991 ) نظام وصیت ایک ایسا نظام ہے جو دراصل مومن اور منافق میں تفریق پیدا کرنے والا نظام ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دد ممکن ہے کہ بعض آدمی جن پر بدگمانی کا مادہ غالب ہو، وہ اس کاروائی میں ہمیں اعتراضوں کا نشانہ بناویں اور اس انتظام کو اغراض نفسانیہ پر مبنی سمجھیں یا اس کو بدعت قرار دیں لیکن یاد رہے کہ خدا تعالیٰ کے کام میں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.بلا شبہ اس نے ارادہ کیا ہے کہ اس انتظام سے منافق او رمومن میں تمیز کرے او رہم خود محسوس کرتے ہیں کہ جو لوگ اس الہی انتظام پر اطلاع پاکر بلا توقف اس فکر میں پڑتے ہیں کہ دسواں حصہ کل جائیداد کا خدا کی راہ میں دیں بلکہ اس سے زیادہ اپنا جوش دکھلاتے ہیں وہ اپنی ایمانداری پر مہر لگا دیتے ہیں.کیا لوگ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.الم- أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.(سورة العنكبوت:2) یہ گمان کرتے ہیں کہ میں اسی قدر پر راضی ہو جاؤں کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے اور ابھی ان کا امتحان نہ کیا جائے؟ اور یہ امتحان تو کچھ بھی چیز نہیں.صحابہ رضی اللہ عنہم کا امتحان جانوں کے مطالبہ پر کیا گیا اور انہوں نے اپنے سرخدا کی راہ میں دیئے.پھر ایسا گمان کہ کیوں یونہی عام اجازت ہر ایک کو نہ دی جائے کہ وہ اس قبرستان میں دفن کیا جائے کس قدر دور از حقیقت ہے.اگر یہی روا ہو تو خدا تعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں امتحان کی کیوں بنیاد ڈالی؟ وہ ہر ایک زمانہ میں چاہتا رہا ہے کہ خبیث اور طیب میں فرق کر کے دکھلاوے اس لئے اب بھی اس نے ایسا ہی کیا.خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض خفیف امتحان بھی رکھے ہوئے تھے جیسا کہ یہ بھی دستور تھا کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قسم کا مشورہ نہ لے جب تک پہلے نذرانہ داخل نہ کرے.پس اس میں بھی منافقوں کے لئے ابتلا تھا.ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ اس وقت کے امتحان سے بھی اعلیٰ درجہ کے مخلص جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جائیں گے اور ثابت ہو جائے گا کہ بیعت کا اقرار انہوں نے پورا کر کے دکھلا دیا اور اپنا صدق ظاہر کر دیا.بے شک 525

Page 526

انتظام منافقوں پر بہت گراں گزرے گا اور اس سے ان کی پردہ دری ہوگی اور بعد موت وہ مرد ہوں یا عورت اس قبرستان میں ہرگز دفن نہیں ہو سکیں گے.فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ الله مَرَضًا لیکن اس کام میں سبقت دکھلانے والے راستبازوں میں شمار کئے جائیں گے اور اب تک خدا تعالیٰ کی ان پر رحمتیں ہوں گی.بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ بلاؤں کے دن نزدیک ہیں اور ایک سخت زلزلہ جو زمین کو تہ و بالا کر دے گا قریب ہے.پس وہ جو معائنہ عذاب سے پہلے اپنا تارک الدنیا ہونا ثابت کر دیں گے اور نیز یہ بھی ثابت کر دیں گے کہ کس طرح انہوں نے میرے حکم کی تعمیل کی خدا کے نزدیک حقیقی مومن وہی ہیں اور اس کے دفتر میں سابقین، اولین لکھے جائیں گے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ زمانہ قریب ہے کہ ایک منافق جس نے دنیا سے محبت کر کے اس حکم کو ٹال دیا ہے وہ عذاب کے وقت آہ مار کر کہے گا کہ کاش! میں تمام جائیداد کیا منقولہ اور کیا غیر منقولہ خدا کی راہ میں دیتا اور اس عذاب سے بچ جاتا.یاد رکھو! کہ اس عذاب کے معائنہ کے بعد ایمان بے سود ہو گا اور صدقہ خیرات محض عبث.دیکھو! میں بہت قریب عذاب کی تمہیں خبر دیتا ہوں.اپنے لئے وہ زاد جلد تر جمع کرو کہ کام آوے.میں یہ نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کر لوں.بلکہ تم اشاعتِ دین کے لئے ایک انجمن کے حوالے اپنا مال کرو گے اور بہشتی زندگی پاؤ گے.بہتیرے ایسے ہیں کہ وہ دنیا سے محبت کر کے میرے حکم کو ٹال دینگے مگر بہت جلد دنیا سے جدا کئے جائیں گے تب آخری وقت میں کہیں گے: هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ.“ وو 66 (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 327 تا 329 ) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جماعت احمد یہ عالمگیر کو پیغام: پیارے احباب جماعت احمدیہ عالمگیر.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ الحمد للہ کہ الفضل انٹرنیشنل الوصیت نمبر شائع کر رہی ہے.اللہ کرے کہ اس کے ذریعے سے جماعت کے ہر فرد کو نظام وصیت کی اہمیت اور برکات کا علم ہو جائے اور ان کے اندر نیک اور پاک تبدیلیاں پیدا ہوں.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے ذریعہ ایک ایسی جماعت قائم ہو جو صرف دنیا پر ہی نہ ٹوٹی پڑے بلکہ اس کو آخرت کی بھی فکر ہو کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو نا ہے اس لیے ایسے اعمال بجا لائے جائیں جو خاتمہ بالخیر کی طرف لے جانے والے ہوں.آپ علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی اس اہم کام میں صرف کی اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے مخلصین کی ایک جماعت تیار کی.دسمبر 1905 ء میں جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بار بار یہ خبر دی کہ قَرُبَ اَجَلُكَ الْمُقَدَّرَ اور آپ کو ایک قبر دکھلائی گئی جو چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اس کی تمام مٹی چاندی کی تھی اور بتایا گیا کہ یہ آپ کی قبر ہے، نیز آپ کو ایک اور جگہ دکھلائی گئی جس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا تو الہی اشاروں پر آپ کے ذہن میں ایک ایسے قبرستان کی تجویز آئی جو جماعت کے ایسے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور جنہوں نے دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لیے ہو گئے اور نیکیوں پر قدم مارنے والے گئے اور ایسی پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ: تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہو گا جو یہ وصیت کرے جو اس کی موت کے بعد دسواں بن.وو 526

Page 527

527 حصہ اس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہو گا.“ اس طرح آپ نے مالی قربانی کا ایک ایسا اہم نظام جاری فرمایا جو آپ کے ماننے والوں کے لیے تزکیہ نفس کا بھی ذریعہ ہو، اس سے اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت بھی ہو اور حقوق العباد کے سامان بھی ہوں جیسا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ان اموال میں ان یتیموں اور مسکینوں اور نو مسلموں کا بھی حق ہو گا جو کافی طور پر وجوہ معاش نہیں رکھتے اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں.“ پ نے اپنی جماعت کے افراد کو اس مالی نظام میں شامل ہونے کی یوں تلقین فرمائی کہ تم اس وصیت کی تکمیل میں میرا ہاتھ بٹاؤ.وہ قادر خدا جس نے پیدا کیا ہے دنیا اور آخرت کی مرادیں دے دے گا.عذا پھر آپ نے فرمایا: ”بلاؤں کے دن نزدیک ہیں اور ایک سخت زلزلہ جو زمین کو تہ و بالا کر دے گا قریب ہے.پس وہ جو معائنہ اپنا تارک الدنیا ہونا ثابت کر دیں گے اور نیز یہ ثابت کر دیں گے کہ کس طرح انہوں نے کی تعمیل کی خدا کے نزدیک حقیقی مومن وہی ہیں اور اس کے دفتر میں سابقین ،اولین لکھے جائیں میں یہ نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کر لوں بلکہ تم اشاعتِ دین کے لیے ایک انجمن کے حوالے اپنا مال کرو گے اور بہشتی زندگی پاؤ گے.“ نیز فرمایا:.”خدا کی رضا کو تم کسی طرح پاہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر، اپنی لذات چھوڑ کر، اپنی عزت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ سخی نہ اٹھا لو گے (یعنی اس نظام وصیت میں شامل ہو جاؤ گے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی دل و جان سے کوشش کرتے رہو گے ) تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے، ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں.وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں.ان کے لیے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں.“ پس میرا تمام دنیا کے احمدیوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان ارشادات میں آپ کی خواہشات کے تابع آگے بڑھیں اور مالی قربانی کے اس نظام میں شامل ہو جائیں.اپنی اصلاح کی خاطر اور اپنے انجام بالخیر کی خاطر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے قدم آگے بڑھائیں اور اس کی جنتوں کے وارث بنیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان برگزیدہ لوگوں کی قبریں بھی دکھائی گئیں جو اس نظام میں شامل ہو کر بہشتی ہے ہیں.خدا نے آپ کو فرمایا کہ: ہو یہ بہشتی مقبرہ ہے بلکہ یہ بھی فرما که : اُنْزِلَ فِيْهَا كُلُّ رَحْمَةٍ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اُتاری گئی ہے." پس جیسا کہ میں نے کہا ہے اس نظام میں پوری مستعدی کے ساتھ شامل ہوں.جو خود شامل ہیں وہ اپنے بیوی بچوں کو اور دوسرے عزیزوں کو بھی اس میں شامل کرنے کی کوشش کریں اور خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کریں.میں اپنی اس خواہش کا اظہار پہلے بھی ایک موقع پر کر چکا ہوں کہ 2008 ء میں جب خلافت احمدیہ کو قائم ہوئے انشاء اللہ سوسال پورے ہو جائیں گے تو دنیا کے ہر ملک میں،

Page 528

ہر جماعت میں جو کمانے والے افراد ہیں جو چندہ دہند ہیں ان میں سے کم از کم پچاس فی صد ایسے ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس عظیم الشان نظام میں شامل ہو چکے ہوں اور یہ افراد جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک حقیر سا نذرانہ ہو گا جو جماعت خلافت کے سو سال پورے ہونے پر شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہو گی.یہ بھی یاد رکھیں کہ نظام وصیت کا نظام خلافت کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات کی خبروں پر جہاں جماعت کی تربیت کی فکر پیدا ہوئی اور آپ نے مالی قربانی کے نظام کو جاری فرمایا وہاں آپ نے جماعت کو یہ خوشخبری بھی دی کہ میری وفات کی خبروں سے غمگین مت ہو کیونکہ خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ ایک دوسری قدرت کا ہاتھ سب کو تھام لے گا..آپ علیہ السلام نے فرمایا: تم میری اس بات سے غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.“ پس رسالہ الوصیت میں نظام خلافت کی پیشگوئی فرمانا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان دو نظاموں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور جس طرح نظام وصیت میں شامل ہو کر انسان تقویٰ کے اعلیٰ معیار اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے اسی طرح خلافت احمدیہ کی اطاعت کا جوا گردن پر رکھنے سے اس کی روحانی زندگی کی بقا ممکن ہے.مالی قربانی کا نظام بھی خلافت کے بابرکت سائے میں ہی مضبوط ہو سکتا ہے.پس جب تک خلافت قائم رہے گی جماعت کی مالی قربانیوں کے معیار بڑھتے رہیں گے اور دین بھی ترقی کرتا چلا جائے گا.پس میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان دونوں نظاموں سے وابستہ رکھے.جو ابھی تک نظام وصیت میں شامل نہیں ہوئے اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس میں حصہ لے کر دینی اور دنیوی برکات سے مالا مال ہوسکیں اور اللہ کرے کہ ہر احمدی ہمیشہ نظام خلافت سے اخلاص اور وفا کا تعلق قائم رکھے اور خلافت کی بقا کے لئے ہمیشہ کو شاں رہے اور اپنی تمام تر ترقیات کے لئے خلافت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور ان کو پورا کرنے کی توفیق دے اور سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلاتے ہوئے ہم سب کا انجام بالخیر فرمائے.آمین.والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد خليفة اصیح الخامس الفضل انٹرنیشنل 29 جولائی تا 11 اگست 2005 ء) 528

Page 529

529

Page 530

530 نظام خلافت اور ہماری ذمہ داریاں مرتبہ حافظ طیب احمد طاہر مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ

Page 531

آیت: عناوین: آیت استخلاف احادیث اقتباسات خلفائے راشدین اقتباسات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اقتباسات حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اقتباسات حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اقتباسات حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اقتباسات حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اقتباسات حضرت خلیفة اصیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واقعات درباره اطاعت خلافت اقتباسات حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنًا يَعْبُدُونَنِى لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO ( سورة النور : 56 ) دو تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.“ (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفته لمسیح الرابع رحمه الله تعالی) 531

Page 532

حدیث: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ الا الله عَلَيْكَ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِى عُسْرِكَ وَيُسْرِكَ وَمَنْشَطِكَ وَمَكْرَ هِكَ وَاثَرَةٍ عَلَيْكَ.(مسلم کتاب الامارة وجوب طاعة الامر ائفى غير معصية و تحريمها فى المعصية حديث 4754) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت مطلقہ نے فرمایا : تنگ دستی اور خوش حالی، خوشی اور ناخوشی، حق تلفی اور ترجیحی سلوک غرض ہر حالت میں تیرے لئے (حاکم وقت کے حکم کو ) سننا اور اطاعت کرنا واجب ہے.حدیث: عَنْ أَبِى عَبَّاسِ عَنِ النَّبِيِّ الله قَالَ : مَنْ رَأَى مِنْ آمِيُرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرُ، فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا ﷺ فَمَاتَ إِلَّا مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً.(بخاری کتاب الفتن باب سترن بعدی امور اتنکرونها......حديث 7054) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم متعلقہ نے فرمایا: جو شخص اپنے سردار اور امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جو اسے پسند نہ ہو تو صبر سے کام لے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی دور ہوتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرے گا.حدیث: أَمَايَخْشَى أَحَدُكُمْ، أَوْ لَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ؟ أَوْيَجْعَلَ اللَّهُ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ؟ آنحضرت مطلقہ نے فرمایا: (بخاری کتاب الآذان باب اثم من رفع راسه قبل الامام) کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے ڈرتا نہیں کہ جب وہ اپنا سرامام سے پہلے اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کا سر بنا دے یا اس کی شکل گدھے کی شکل بنا دے.حدیث: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمَرِو السُّلَمِيِّ وَحُجُرُ بْنُ حُجْرٍ قَالَا : أَتَيْنَا الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ وَهُوَ مِمَّنْ نَزَلَ فِيْهِ وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا آتَوُكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلَكُمْ عَلَيْهِ (التوبة: 93) ﴾ فَسَلَّمْنَا وَ قُلْنَا آتَيْنَاكَ زَائِرِينَ وَ عَائِدِيْنَ وَ مُقْتَبِسِيْنَ، فَقَالَ الْعِرْبَاضُ صَلِّ بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظْنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجَلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَانَ هَذِهِ مَوْعِظَةٌ مُوَدَّعٌ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا فَقَالَ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَالسَّمْعَ وَالطَّاعَةَ وَإِنَّ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشُ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اِخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّينَ تَمَسَّكُوْا بِهَا وَعَضَّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِدِ وَإِيَّاكُمْ وَ مُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٌ ضَلَالَةٌ.532

Page 533

( ابو داؤد كتاب السنة باب في لزوم السنة) ترجمه: عبدا لرحمن بن عمر و سلمی اور حجر بن حجر بیان کرتے ہیں کہ وہ عرباض بن ساریہ کے پاس آئے یہ وہی عرباض ہیں جن کے بارہ میں یہ آیت نازل ہوئی کہ نہ ان لوگوں پر کوئی الزام ہے جو تیرے پاس سواری حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں (تا کہ غزوہ میں شریک ہوسکیں) تو تو ان کو جواب دیتا ہے کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے وہ یہ جواب سن کر رنج وغم میں ڈوبے واپس جاتے ہیں ان کی آنکھیں آنسو بہا رہی ہوتی ہیں کہ افسوس ان کے پاس خرچ کرنے کے لئے کچھ نہیں.سورۃ التوبہ: 93 ہم نے ان کی خدمت میں سلام عرض کیا اور کہا کہ ہم آپ سے ملنے اور کچھ استفادہ کرنے آئے ہیں.اس پر عرباض نے فرمایا: ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت مؤثر اور فصیح و بلیغ انداز میں ہمیں وعظ فرمایا جس سے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور دل ڈر گئے.حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے.آپ کی نصیحت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری وصیت یہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، بات سنو اور اطاعت کرو خواہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہو کیونکہ ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی میرے بعد زندہ رہا تو بہت بڑے اختلافات دیکھے گا پس تم ان نازک حالات میں میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی کرنا اور اسے پکڑ لینا، پچھلے بڑے دانتوں سے مضبوط گرفت میں کر لینا.تمہیں دین میں نئی باتوں کی ایجاد سے بچنا ہوگا کیونکہ ہر نئی بات جو دین کے نام سے جاری ہو بدعت ہے اور بدعت نری گمراہی ہے.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسند خلات پر متمکن ہوتے ہی پہلے خطبہ میں اطاعت کے بارے میں فرمایا: اللہ پاک صرف ان اعمال کو قبول فرماتے ہیں جو صرف اس کے لیے کئے جائیں.لہذہ تم صرف اللہ کے لئے عمل کرو اور سمجھ لو کہ جو کام تم محض اللہ کے لئے کرو گے وہ اس کی حقیقی اطاعت ہوگی.وہ حقیقی کامیابی کی طرف قدم ہو گا اور وہی اصلی سامان ہو گا جو اس دنیائے فانی میں تم دائمی آخرت کیلئے مہیا کرو گے اور تمہاری ضرورت کے وقت کام آئے گا.اے اللہ کے بندو! تم میں سے جو مر گئے ہیں ان سے عبرت حاصل کرو اور جو تم سے پہلے تھے ان پر غور کرو کہ وہ کہاں تھے؟ کہاں ہیں وہ جابر فرمانروا؟ کہاں ہیں وہ سورما جن کی شجاعت اور فتح مندی کی داستانیں مشہور ہیں؟ جن سے عالم میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا.آج وہ خاک ہو چکے اور ان کے متعلق صرف باتیں ہی باتیں رہ چکی ہیں اور ظاہر ہے کہ رہتی دنیا میں بروں کی برائیوں ہی کا چرچا ہوتا ہے بادشاہ کہاں گئے جنہوں نے دھرتی کے سینے کو چاک کیا اور اس کو خوب آباد کیا؟ آہ! وہ چل بسے اور آج کوئی ان کا نام تک نہیں لیتا.یوں گویا کہ وہ بھی تھے ہی نہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کی بداعمالیوں کی سزا میں ان کو برباد کر دیا اور ان کی تمام لذتیں ختم ہو گئیں.وہ چل بسے، ان کی برائیاں باقی رہ گئیں اور ان کی دنیا دوسروں کے قبضے میں چلی گئی.اب ہم ان کے جانشیں ہوئے ہیں اگر ہم نے ان کی حالت سے عبرت حاصل کی تو ہم نجات حاصل کر لیں گے اور اگر ہم ان کی دنیاوی عیش و عشرت کی زندگی سے دھوکے میں آگئے تو ہمارا بھی وہی انجام ہو گا جو ان کا ہوا.وہ حسین چہرے والے آج کہاں ہیں جو اپنی جوانی پر فخر کرتے تھے؟ وہ سب مٹی میں مل کر مٹی ہو چکے اور صرف ان کی بد اعمالیوں کی حسرت ان کے پاس رہ گئی ہے.وہ ا ہے.وہ لوگ کہاں گئے جنہوں نے شہر بسائے اور ان کے گرد فصیلیں بنائیں اور دنیا کے عجائبات ان شہروں میں جمع کئے وہ ان وہ 533

Page 534

اپنے بعد والوں کے لئے چھوڑ مرے.آج ان کے محل برباد ہیں اور وہ قبر کی تاریکی میں بے نام و نشان پڑے سڑ رہے ہیں.خود تمہاری اولاد اور تمہارے دوست اور عزیز کہاں ہیں جن کو موت آگئی اور اب ان کو اپنے اعمال کا جواب دینا پڑ رہا ہو گا.سن لو اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے.وہ اپنی مخلوقات کے ساتھ بلا کسی غرض کے بھلائی کرتا ہے اور اس کی اطاعت اور حکم کی اتباع کے بغیر کوئی ضرور نقصان مخلوق سے دور نہیں ہوتا.اور سمجھ لو کہ تم مقروض غلام ہو اور اس کی اطاعت کے بغیر تم آزادی حاصل نہیں کر سکتے ،کوئی بھلائی بھلائی نہیں جس کا نتیجہ دوزخ ہوا اور کوئی برائی برائی نہیں جس کا نتیجہ جنت ہو.“ تاریخ طبری جلد 2 حصہ 2 - صفحہ 456 تا 460) مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پہلے خطبہ میں اطاعت کے بارے میں فرمایا: اللہ عزو جل نے ایسی کتاب نازل فرمائی جو لوگوں کو ہدایت کرنے والی ہے اس کتاب میں ہرقسم کے خیر و شر کو بیان کیا گیا ہے اب تمہیں چاہئے کہ تم خیر کو قبول کرو اور شر کو چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کے فرائض کو ادا کرو وہ تمہیں جنت میں داخل کرے گا.اللہ تعالیٰ نے بہت سے امور فرمائے ہیں جو قطعاً ڈھکے چھپے نہیں اور تمام حرام کاموں سے زیادہ مسلمانوں کا خون حرام فرمایا ہے اس نے مسلمانوں کے ساتھ اخلاص اور باہم متحد رہنے کا حکم فرمایا ہے اور مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان بھائی محفوظ رہیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے اس کی ایذا دہی کا حکم دیا ہو.تم لوگ موت کے آنے سے قبل اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرو جبکہ موت تمہیں گھیر تی چلی آرہی ہے اس لئے تم لوگ گناہوں سے ہلکے ہو کر موت سے ملو، لوگ تو ایک دوسرے کا انتظار کرتے ہی رہتے ہیں تم لوگ اللہ کے بندوں اور اس کے شہروں کی بربادی کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم سے اس کا ضرور سوال کیا جائے گا حتی کہ چوپایوں اور گھاس پھوس تک کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا.اللہ عزوجل کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی نہ کرو اور جس چیز میں بھی تمہیں خیر نظر آئے تم اسے قبول کرو اور جو بھی برائی دیکھو اسے چھوڑ دو اور اس وقت کو یاد کرو جب تم لوگ تھوڑی تعداد میں تھے اور زمین میں کمزور تھے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: تاریخ طبری جلد 3 حصہ 2.صفحہ 441) سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو.اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آجائے گی.“ (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 306) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرماتے ہیں: اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو.اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں شرط یہ ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے.534

Page 535

ر.....اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے.بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے مؤحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی.یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم، قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کر.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہی تو ستر ہے.اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے.پیغمبر خدا متعلقہ کے زمانہ میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے.خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی.وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابو بکر صدیق رضی الہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بار گراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ اُن میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی مگر رسول کریم ملک اللہ کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا......ناسمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا یا گیا مگر میں کہتا ہوں یہ صحیح نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہہ نکلی تھیں.یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا........جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزور کھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو.اطاعت ہو تو ویسی ہو.باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو.غرض ہر رنگ میں، ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی.‘“ 66 جہاں ( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 2 صفحہ 246 تا 248 تفسیر سورۃ النساء زیر آیت 60) حضرت خلیفۃ المسح الاول رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: آخر میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھ ہو.قرآن تمہارا دستور العمل ہو.باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضان الہی کو روکتا موسیٰ علیہ السلام کی قوم جنگل میں اسی نقص کی وجہ سے ہلاک ہو ئی.رسول کریم ملالہ کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہو گئے.اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے اس لئے چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غستال کے ہاتھ میں ہوتی ہے.تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ.اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں.استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو.وحدت کو ہاتھ سے نہ دو.دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو.تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا.پس اس نعمت کا شکر کرو.کیونکہ شکر کرنے پر از دیا دنعمت ہوتا ہے.لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمُ (ابراہیم 8) لیکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے.اِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ - (ابراہیم (8).حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: (خطبات نور صفحه 131) 535

Page 536

" کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھا دینا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے.یہ کام تو ایک ملاں بھی کر سکتا ہے اس کے لئے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں.بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے.“ حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: الفرقان خلافت نمبر مئی ، جون 1967 ء - صفحہ 28) ”ایک شہد کی مکھی سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے وہ کیسی دانائی سے گھر بناتی ہے، شہد بناتی ہے.....بدبودار چیز پر بھی نہیں بیٹھتی پھر اپنے امیر کی مطیع ہوتی ہے.“ علیہ ( حقائق الفرقان جلد 2 صفحہ 68) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ پیشگوئی مصلح موعود کو اپنے اوپر چسپاں کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں اس موقع پر جہاں آپ لوگوں کو یہ بشارت دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود یہ السلام کی اس پیشگوئی کو پورا کر دیا جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتی تھی.وہاں میں آپ لوگوں کو ان ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں جو آپ لوگوں پر عائد ہوتی ہیں.آپ لوگ جو میرے اس اعلان کے مصدق ہیں.آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اسلام اور احمدیت کی فتح اور کامیابی کے لئے بہانے کو تیار ہو جائیں.بیشک آپ لوگ خوش ہو سکتے ہیں کہ خدا نے اس پیشگوئی کو پورا کیا بلکہ میں کہتا ہوں.آپ کو یقیناً خوش ہونا چاہئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود لکھا ہے کہ تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی.پس میں تمہیں خوش ہونے سے نہیں روکتا.میں تمہیں اچھلنے اور کودنے سے نہیں روکتا.بیشک تم خوشیاں مناؤ اور خوشی سے اُچھلو اور گو دو لیکن میں کہتا ہوں اس خوشی اور اُچھل کود میں تم اپنی ذمہ داریوں کو فراموش مت کرو.جس طرح خدا نے مجھے رویا میں دکھایا تھا کہ میں تیزی کے ساتھ بھاگتا چلا جا رہا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی جا رہی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے الہاماً میرے متعلق یہ خبر دی ہے کہ میں جلد جلد بڑھوں گا.پس میرے لئے یہی مقدر ہے کہ میں سُرعت اور تیزی کے ساتھ اپنا قدم ترقیات کے میدان میں بڑھاتا چلا جاؤں گا مگر اس کے ساتھ ہی آپ لوگوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے قدم تیز کریں اور اپنی سُست روی کو ترک کر دیں.مبارک ہے وہ جو میرے قدم کے ساتھ اپنے قدم کو ملاتا اور سرعت کے ساتھ ترقیات کے میدان میں دوڑتا چلا جاتا ہے.اور اللہ تعالیٰ رحم کرے اس شخص پر جو سستی اور غفلت سے کام لے اپنے قدم کو تیز نہیں کرتا اور میدان میں آگے بڑھنے کی بجائے منافقوں کی طرح اپنے قدم کو پیچھے ہٹا لیتا ہے.اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو، اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر سمجھتے ہو تو قدم بہ قدم اور شانہ بہ شانہ میرے ساتھ بڑھتے چلے آؤ تاکہ ہم کفر کے قلب میں محمد رسول اللہ متعلقہ کا جھنڈا گاڑ دیں اور باطل کو ہمیشہ کیلئے صفحہ عالم سے نیست و نابود کر دیں.اور انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا.زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں.“ تقریر حضرت مصلح موعود الموعود".صفحہ 214 215 216) خلافت کے بعد مبایعین کی ذمہ داریاں بیان فرماتے ہوئے سیدنا المصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ”جو جماعتیں منظم ہوتی ہیں ان پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور کچھ شرائط کی پابندی کرنی ان کے لئے لازمی ہوتی ہے جن کے بغیر ان کے کام کبھی بھی صحیح طور پر نہیں چل سکتے.....ان شرائط اور ذمہ داریوں میں سے ایک اہم شرط اور ذمہ داری یہ ہے کہ جب وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے اور اس کی اطاعت کا 536

Page 537

اقرار کر چکے تو پھر انہیں امام کے منہ کی طرف دیکھتے رہنا چاہئے کہ وہ کیا کہتا ہے اور اس کے قدم اٹھانے کے بعد اپنا قدم اٹھانا چاہئے اور افراد کو کبھی بھی ایسے کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہئے جن کے نتائج ساری جماعت پر آ کر پڑتے ہوں پھر امام کی ضرورت اور حاجت ہی نہیں رہتی.....امام کا مقام تو یہ ہے کہ وہ حکم دے اور مومن کا مقام یہ ہے کہ وہ پابندی کرے.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: الفضل 5 جون 1937ء صفحہ 2،1) تم سب امام کے اشارے پر چلو اور اس کی ہدایت سے ذرہ بھر بھی ادھر اُدھر نہ ہو.جب وہ حکم دے بڑھو اور جب وہ حکم دے ٹھہر جاؤ اور جدھر بڑھنے کا حکم دے اُدھر بڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا حکم دے اُدھر سے ہٹ انور العلوم جلد 14 صفحہ 516،515) جاؤ.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”اے دوستو! بیدار ہو اور اپنے مقام کو سمجھو اور اس کی اطاعت کا نمونہ دکھاؤ جس کی مثال دنیا کے پردہ پر کسی اور جگہ پر نہ ملتی ہو اور کم سے کم آئندہ کے لئے کوشش کرو کہ سو (100) میں سے سو ہی کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھائیں اور اس ڈھال سے باہر کسی کا جسم نہ ہو جسے خدا تعالیٰ نے تمہاری حفاظت کیلئے مقرر کیا ہے اور الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ پر ایسا عمل کرو کہ محمد رسول کریم متعلقہ کی روح تم سے خوش ہو جائے.“ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: (انور العلوم جلد 14 صفحہ 525) ” خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں، تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں نا کام ہیں.“ وو ، (خطبہ جمعہ 24 جنوری 1936 ء مندرجہ الفضل 31 جنوری 1936 ء صفحہ 9) رت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: یاد رکھو ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے.......ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لاتا ہوں.ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں.خدا کے حضور اس کے ان دعووں کی کوئی قیمت نہیں ہو گی جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح اس کی اطاعت نہیں کرتا اور جب تک اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر نہیں کرتا اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہو سکتا.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: الفضل 15 نومبر 1946 ء صفحہ 6) 537

Page 538

جماعت کا ہر فرد جو اس سلسلہ میں منسلک ہے.اس کا فرض ہے کہ امام کی طرف سے جو بھی آواز بلند ہو اس پر خود بھی عمل کرے اور دوسروں کو بھی عمل کرنے کی تحریک کرے اور چاہے صدر انجمن احمدیہ ہو یا کوئی اور انجمن حقیقی معنوں میں وہی انجمن سمجھی جا سکتی ہے جو خلیفہ وقت کے احکام کو ناقدری کی نگاہ سے نہ دیکھے بلکہ ان پر عمل کرے اور کرتی چلی جائے اور اس وقت تک آرام کا سانس نہ لے جب تک ایک چھوٹے سے چھوٹا حکم بھی ایسا موجود ہو جس پر عمل نہ کیا جاتا ہو.پس ہر احمدی جس نے منافقت سے میری بیعت نہیں کی اور ہر احمدی جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہونا چاہتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے احکام پر عمل کرنے اور دوسروں سے عمل کرانے کیلئے کھڑا ہو جائے.ہمارا خدا زندہ ہے اور وہ کبھی مر نہیں سکتا.اسی طرح میں کہتا ہوں جس نے خلیفہ وقت کی بیعت کی ہے اسے یاد رکھنا چاہئے کہ خلیفہ وقت کی بیعت کے بعد اس پر یہ فرض عائد ہو چکا ہے کہ وہ اس کے احکام کی اطاعت کرے.“ (روزنامه الفضل 15 نومبر 1946ء) ہے جنگ اُحد میں درّہ کو چھوڑنے والے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اگر وہ لوگ محمد رسول کریم ملالہ کے پیچھے اسی طرح چلتے جس طرح نبض حرکت قلب کے پیچھے چلتی ہے.اگر وہ سمجھتے کہ رسول کریم صل اللہ کے ایک حکم کے نتیجہ میں اگر ساری دنیا کو بھی اپنی جانیں قربان کرنی پڑتی ہیں تو وہ حقیقت شے ہیں.اگر وہ ذاتی اجتہاد سے کام لے کر اس پہاڑی درہ کو نہ چھوڑتے جس پر رسول کریم حلقہ نے انہیں اس ہدایت کے ساتھ کھڑا کیا تھا کہ خواہ ہم فتح حاصل کریں یا مارے جائیں تم نے اس مقام سے نہیں ہلنا تو نہ دشمن کو دوبارہ حملہ کرنے کا موقع نہ ملتا اور نہ آنحضرت صل اللہ اور آپ ملالہ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کوئی نقصان پہنچتا.اللہ تعالیٰ اس آیت میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ وہ لوگ جو محمد رسول کریم متعلقہ کے احکام کی پوری اطاعت نہیں بجا لاتے اور ذاتی اجتہادات کو آپ کے احکام پر مقدم سمجھتے ہیں.انہیں ڈرنا چاہئے کہ اس کے نتیجہ میں کہیں ان پر کوئی آفت نہ آجائے یا وہ کسی شدید عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں.گویا بتایا کہ اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارا کام یہ ہے کہ تم ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اٹھو اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جاؤ“ ( تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 410 تا412) حضرت خلیفة لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پس میں نوجوانوں کو کہتا ہوں کہ وہ دین کی خدمت کے لئے آگے آئیں اور صرف آگے ہی نہیں بلکہ اس ارادہ سے آگے آئیں کہ انہوں نے کام کرنا ہے.گو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نوجوان آدمی تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی جگہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو کمانڈر انچیف مقرر کر دیا.اس وقت حضرت خالد بن ولید کی پوزیشن ایسی تھی کہ حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے خیال کیا کہ اس وقت ان سے کمانڈر لینا مناسب نہیں.حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اپنی برطرفی کا کسی طرح علم و گیا.وہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کے پاس میری برطرفی کا آیا ہے لیکن آپ نے ابھی تک اس حکم کو نافذ نہیں کیا.حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا: خالد تم نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی ہے.اب بھی تم خدمت کرتے چلے جاؤ.خالد رضی اللہ عنہ نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن خلیفہ وقت کا حکم ماننا بھی ضروری ہے.آپ مجھے برطرف کر دیں اور کمانڈر انچیف کا عہدہ خود ہو 538

Page 539

سنبھال لیں.میرے سپرد آپ چپڑاسی کا کام بھی کر دیں گے تو میں اسے خوشی سے کروں گا لیکن خلیفہ وقت کا حکم بہر حال جاری ہونا چاہئے.حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا کمان تو مجھے لینی ہی پڑے گی کیونکہ خلیفہ وقت کی طرف سے یہ حکم آچکا ہے لیکن تم کام کرتے جاؤ.خالد رضی اللہ عنہ نے کہا آپ حکم دیتے جائیں، میں کام کرتا چلا جاؤں گا.چنانچہ بعد میں ایسے مواقع بھی آئے کہ جب ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں سوسو عیسائی تھا لیکن خالد رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ یہی مشورہ دیا کہ آپ ان کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہیں.خدا تعالیٰ کے اس وعدہ پر یقین رکھو کہ اسلام اور احمدیت نے دنیا پر غالب آنا ہے.اگر یہ فتح تمہارے ہاتھوں سے آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت تمہارے لئے وقف ہو گی کیونکہ تم اسلام کی کمزوری کو قوت سے اور اس شکست کو فتح سے بدل دو گے.خدا تعالیٰ کہے گا گو قرآن کریم میں نازل کیا ہے لیکن اس کو دنیا میں قائم ان لوگوں نے کیا ہے.پس اس کی برکات تم پر ایسے رنگ میں نازل ہوں گی کہ تم اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرو گے اور وہ تمہاری اولاد کو بھی ترقیات بخشے گا.“ و (فرموده 9 دسمبر 1955ء مطبوعہ الفضل 18 دسمبر 1955ء) ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس طرح وہی شاخ پھل لا سکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو.وہ کئی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو.اس طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکر وٹا.پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آتا ہے تو میری آپ کو نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں.ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے.“ الفضل انٹر نیشنل 23 تا 30 مئی 2003ء صفحہ (1) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: پھر خلافت کے ذکر کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَ أتُوا الزَّكَوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ یعنی جب خلافت کا نظام جاری کیا جائے تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ تم نمازیں قائم کرو اور زکوۃ دو اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو.گویا خلفا کے ساتھ دین کی تمکین کر کے وہ اطاعتِ رسول کرنے والے ہی قرار پائیں گے.یہ وہی نکتہ ہے جو رسول کریم صلى الله نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ مَنْ أَطَاعَ اَمِيْرِى فَقَدْ اَطَاعَنِى وَمَنْ عَصَى أَمِيُرِكْ فَقَدْ عَصَانِی یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.پس وَ اَقِیمُوا الصَّلوةَ وَاتُوُا الزَّكَوةَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون - فرما کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اس وقت رسول کریم کی اطاعت اسی رنگ میں ہو گی کہ اشاعت و تمکین دین کے لئے نمازیں قائم کی جائیں.زکوتیں دی جائیں اور خلفا کی پورے طور پر اطاعت ،طور بچے اطاعت کی جا اطاعت کی جائے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہوسکتی.“ ( تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعود جلد 6 - صفحہ 367) 539

Page 540

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اطاعت رسول بھی جس کا اس آیت میں ذکر ہے خلیفہ کے بغیر نہیں ہو سکتی کیونکہ رسول کی اطاعت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ سب کو وحدت کے ایک رشتہ میں پرو دیا جائے.یوں تو صحابہ رضی اللہ عنہم بھی نمازیں پڑھتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی نمازیں پڑھتے ہیں.صحابہ رضی اللہ عنہم بھی حج کرتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی حج کرتے ہیں.پھر صحابہ رضی اللہ عنہم اور آج کل کے مسلمانوں میں فرق کیا ہے؟ یہی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ایک نظام کا تابع ہونے کی وجہ سے اطاعت کی روح حد کمال کو پہنچی ہوئی تھی.چنانچہ رسول کریم صلہ انہیں جب بھی کوئی حکم دیتے صحابہ رضی اللہ عنہم اُسی وقت اُس پر عمل کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے لیکن یہ اطاعت کی روح آج کل کے مسلمانوں میں نہیں.....کیونکہ اطاعت کا مادہ نظام کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا.پس جب بھی خلافت ہو گی اطاعت رسول بھی ہو گی.“ (تفسیر کبیر جلد 6.صفحہ 369) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ”ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلافت اسلام کا ایک اہم جزو ہے اور جو اس سے بغاوت کرتا ہے وہ اسلام سے بغاوت کرتا ہے.اگر ہمارا یہ خیال درست ہے تو جو لوگ اس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہیں ان کے لئے الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَّرَآئِه - کا حکم بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ خلافت کی غرض تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد عمل اور اتحادِ خیال پیدا کیا جائے اور اتحاد عمل اور اتحاد خیال خلافت کے ذریعہ سے تبھی پیدا کیا جا سکتا ہے، اگر خلیفہ کی پر پورے طور پر عمل کیا جائے اور جس طرح نماز میں امام کے رکوع کے ساتھ رکوع اور قیام کے ساتھ قیام اور سجدہ کے ساتھ سجدہ کیا جاتا ہے اسی طرح خلیفہ وقت کے اشارہ کے ماتحت ساری جماعت چلے اور اس کے حکم سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کرے.نماز کا امام جو صرف چند مقتدیوں کا امام ہوتا ہے جب اس کے بارہ میں رسول کریم ملالہ فرماتے ہیں کہ جو اس کے رکوع اور سجدہ میں جانے سے پہلے رکوع یا سجدہ میں جاتا ہے یا اس سے پہلے سر اٹھاتا ہے وہ گنہگار ہے، تو شخص ساری قوم کا امام ہو اور اس کے ہاتھ پر سب نے بیعت ہو، اس کی اطاعت کتنی ضروری سمجھی جائے گی.ہدایات کی اسی طرح تم سب امام کے اشارہ پر چلو اور اس کی ہدایت سے ذرہ بھر بھی ادھر اُدھر نہ ہو.جب وہ حکم دے بڑھو اور جب وہ حکم دے ٹھہر جاؤ! اور جدھر بڑھنے کا حکم دے اُدھر بڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا حکم دے اُدھر سے ہٹ آؤ.(انوار العلوم جلد 14 صفحہ 515-516 - قیام امن اور قانون کی پابندی کے متعلق جماعت احمدیہ کا فرض) حضرت خلیفة أصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد فرمایا: و جس کو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے ڈھال بنایا تھا اس ڈھال کو اس نے ہم سے لے لیا اور اس نے مجھے آگے کر دیا.میں بہت ہی کمزور بلکہ کچھ بھی نہیں.شاید مٹی کے ایک ڈھیلے میں مدافعت کی قوت مجھ سے زیادہ ہو، مجھ میں تو وہ بھی نہیں لیکن جب سے ہمیں ہوش آئی ہے ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.اگر یہ سچ ہے اور یقیناً یہ سچ ہے تو پھر نہ مجھے گھبرانے کی ضرورت ہے اور نہ آپ میں سے کسی کو گھبرانے کی ضرورت ہے.جس نے یہ کام کرنا ہے وہ یہ کام ضرور کرے گا اور یہ کام ہو کر رہے گا لیکن کچھ ذمہ داریاں مجھ پر عائد ہیں اور کچھ آپ پر.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر آپ لوگوں کو گواہ ٹھہراتا ہوں اس بات پر کہ ہوتی 540

Page 541

جہاں تک اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھ دی ہے، جہاں تک اس نے مجھے توفیق دی ہے، جہاں تک اس نے مجھے طاقت دی ہے ، آپ مجھے اپنا ہمدرد پائیں گے، میں ہر لمحہ اور ہر لحظہ دعاؤں کے ساتھ اور اگر کوئی وسیلہ بھی مجھے حاصل ہو تو اس وسیلہ کے ساتھ آپ کا مددگار رہوں گا اور میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ آپ کو بھی یہ توفیق دے گا کہ آپ صبح و شام اور رات اور دن اپنی دعاؤں سے، اپنے اچھے مشوروں سے، اپنی ہمدردیوں سے اور اپنی کوششوں سے میری اس کام میں مدد کریں گے کہ خدا تعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم ہو اور محمد رسول کریم ص کا جھنڈا تمام دنیا میں لہرانے لگے...دنیا انشاء اللہ یہ نظارے دیکھے گی مگر ہم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتا رہے.6 صلى الله ( الفضل 3 دسمبر 1965ء) حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو خلیفہ وقت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے کی وہ محمد صل الله نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پس اے میرے عزیز بھائیو! جو مقامات قرب تمہیں حاصل ہیں اگر انہیں قائم رکھنا چاہتے ہو اور روحانیت میں ترقی کرنا چاہتے ہو تو خلیفہ وقت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا کیونکہ اگر یہ دامن چھوٹا تو محمد رسول کریم ملالہ کا دامن چھوٹ جائے گا کیونکہ خلیفہ وقت اپنی ذات میں کوئی شے نہیں اسے جو مقام بھی حاصل ہے کا دیا ہوا مقام ہے نہ اس میں اپنی کوئی طاقت نہ اس میں کوئی اپنا علم.پس اس شخص کو نہ دیکھو، اس کرسی کو دیکھو جس پر خدا اور اس کے رسول نے اس شخص کو بٹھا دیا ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے جس خلافت راشدہ کے وقت میں جتنے زیادہ خلفا اس دوسرے سلسلہ کے ہوں گے یعنی سلسلہ خلافت ائمہ کے جو مضبوطی کے ساتھ اس کے دامن کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور جن کے سینہ میں وہی دل جو خلیفہ وقت کے سینہ میں دھڑک رہا ہے، دھڑک رہا ہو گا.آنحضرت ملاقہ کی قوت قدسیہ ان کو طاقت بخشتی رہے گی.آپ کے روحانی فیوض سے وہ حصہ لیتے رہیں گے اتنا ہی اسلام ترقی کرتا چلا جائے گا اور دنیا میں غالب آتا چلا جائے گا اور غالب رہتا چلا جائے گا.اور اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کے فضلوں کو انسان حاصل کرتا چلا جائے گا لیکن جو شخص خلافت راشدہ کے دامن کو چھوڑتا ہے اور خلافت راشدہ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس شخص پر خدا تعالیٰ اپنی حقارت کی نظر ڈالتا ہے اور وہ اس کے غضب اور قہر کے نیچے آجاتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسا سامان پیدا کرے کہ ہم میں استثنائی طور پر بھی کوئی ایسا بد قسمت پیدا نہ ہو.“ خلافت و مجددیت - صفحہ 48 - 49 - بر موقع اجتماع انصار الله 1968 ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: پہلے سبق کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی منشا اپنے سلسلہ میں خلافت راشدہ کو قائم رکھنے کی ہے.اس وقت تمام برکتیں خلافت سے وابستہ ہوتی ہیں.اور ہر وہ شخص جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتا وہ ان برکتوں سے محروم رہ جاتا ہے.میرا یہ تجربہ ہے ذاتی کہ بعض لوگ جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتے ان کے حق میں میری دعائیں قبول نہیں بلکہ رد کر دی جاتی ہیں حالانکہ میں نے اپنے لئے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ اگر کوکسی شخص کے متعلق مجھے یقین بھی ہو جائے کہ وہ خلافت کی اہمیت کو نہیں سمجھتا اور اس کے دل میں خلافت کے نظام سے وہ محبت اور پیار نہیں جو ایک احمدی کے دل میں ہونی چاہئے.تب بھی میں اس کیلئے دعا کرتا رہتا ہوں.اور دعا کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا.اس کے لئے دعا کرنا میرا کام ہے میں اپنا کام کر دیتا ہوں.دعا قبول کرنا میرے رب کا کام ہے اور میں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ ایسے لوگوں کے حق میں میری دعائیں قبول نہیں ہوتی.541

Page 542

حالانکہ اس کے برعکس بہت سے ایسے احمدی بھی ہیں جو اگرچہ اعتقادا پختہ ہوتے ہیں اور نظامِ جماعت سے ان کا بڑا گہرا اور سچا تعلق ہوتا ہے.اور خلافت سے حقیقی تعلق رکھتے ہیں لیکن عملاً بہت سی ذاتی کمزوریاں ان میں پائی جاتی ہیں.جب اس گروہ کے متعلق یا ان میں سے کسی فرد کے متعلق دعا کی جائے تو اللہ بسا اوقات محض اپنے پنے فضل سے اس دعا کو بڑی جلد قبول کر لیتا ہے.یہ ایک ذاتی مشاہدہ ہے.اس مختصر سے وقت میں یعنی جب سے میں مسندِ خلافت پر بٹھایا گیا ہوں جو میں نے ذاتی مشاہدے کئے اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو نازل ہوتے دیکھا ہے.اور بعض دعاؤں کو رڈ ہوتے پایا یہ میرا مشاہدہ ہے جو میں نے اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے.“ مشعل راہ جلد 2 صفحہ 621) حضرت خلیفہ لمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَاَطِيْعُوا وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لانْفُسِكُمْ کہ جہاں تک ہو سکے اپنی طاقت، قوت اور استعداد کے مطابق تقوی کی راہوں پر چلتے رہو اور تقوی یہ ہے کہ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا (بخارى كتاب الجهاد والسير باب السمع والطاعة للامام) کہ اللہ تعالیٰ کی آواز سنو اور لبیک کہتے ہوئے اس کی اطاعت کرو.اگر تم تقویٰ کی راہوں پر چل کر وَاسْمَعُوا وَاَطِيْعُوا کا نمونہ پیش کرو گے تو تمہیں اللہ تعالیٰ اس بات کی بھی توفیق دے گا اپنی جانوں، مالوں اور عزتوں سب کو اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اس طرح تمہیں دل کے بخل سے محفوظ کر لیا جائے گا.یہی کامیابی کا راز ہے.اس نسخہ کو نبی کریم ملالہ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے خوب سمجھا اور پھر اس پر خوب عمل کیا دیکھو دنیا میں بھی انہیں ایسی کامیابی نصیب ہوئی کہ کسی اور قوم کو ویسی کامیابی نصیب نہیں ہوئی.اور اسی زندگی میں ان کو آئندہ کے متعلق ایسی بشارتیں ملیں کہ کسی اور قوم کو ان کا حقدار قرار نہیں دیا گیا پھر اس نسخہ کو حضرت مسیح موعود کی جماعت نے سمجھا اور اس کے مطابق عمل کر کے حقیقی کامیابی اور فلاح کے حصول کے لئے جدوجہد کی اور کر رہی ہے اور آئندہ بھی اسی راہ پر گامزن رہے گی.انشاء اللہ (خطبات ناصر جلد 1 صفحہ 244 245.خطبہ جمعہ 6 مئی 1966ء) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ان امور پر میں کئی دفعہ خطبات دے چکا ہوں لیکن پھر بار بار یہ باتیں سامنے آتی ہیں کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں معمولی باتیں ہیں کیا فرق پڑا اگر ہم نے چپکے سے فلاں کی بات سن لی؟ ساتھ ساتھ اپنی دانست میں خلیفہ وقت کی حفاظت بھی کر لی.کہہ دیا کہ ہاں ہاں کسی کی باتوں میں آ گیا ہو گا خود تو اپنی ذات میں شریف آدمی لگتا ہے، خود تو جھوٹا اور غیر منصف نظر نہیں آتا اس لئے ضرور باتوں میں آ گیا ہو گا یعنی غیر منصف بھی قرار دے دیا اور ساتھ ہی بے وقوف بھی قرار دے دیا.اچھا دفاع کیا ہے خلیفہ وقت کا.یعنی پہلے تو صرف ظالم کہا تھا آپ نے کہا کہ ظالم صرف نہیں ہے، احمق بھی بڑا سخت ہے اس کو چغلیوں کی بھی عادت ہے یک طرفہ باتیں سنتا ہے اور فیصلے دیتا چلا جاتا ہے.حسن ظنی میں میں کہتا ہوں کہ آپ نے اپنی طرف سے دفاع کیا لیکن یہ کیا دفاع ہے؟ اس پر تو غالب کا یہ مصرع آپ پر صادق آتا ہے کہ: ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو اگر آپ نے خلافت کا ایسا ہی دفاع کرتا ہے آپ کے یہی عزم تھے جب آپ نے عہد کئے تھے کہ ہم قیامت تک اپنی نسلوں کو بھی یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ تم نے خلافت احمدیہ کی حفاظت کرنی ہے اور اس کے لئے ہر 542

Page 543

چیز کی قربانی کے لئے تیار رہو گے اگر عہد سے آپ کی یہی مراد ہے تو یہ عہد مجھے نہیں چاہئے.خلافت احمدیہ کو یہ عہد نہیں چاہئے.کیونکہ اس قسم کی حفاظت نقصان پہنچانے والی ہے فائدہ پہنچانے والی نہیں ہے لیکن یہ صرف ایک خلافت کا معاملہ نہیں ہے سارے نظام اسلام کا معاملہ ہے تمام اسلامی قدروں کو معاملہ ہے.ہم تو دور کے مسافر ہیں ایک صدی کا ہمارا سفر نہیں ہے سینکڑوں سال تک اور خدا کرے ہزاروں سال تک ہم اسلام کی امانت کو حفاظت کے ساتھ نسلاً بعد نسل دوسروں تک منتقل کرتے چلے جائیں ان اہم مقاصد کے لئے اپنے سینوں کو پیش کرتے ہیں جن میں قرآن کریم نے آپ کو کھول کر بیان فرمایا ہے کہ ان اصولوں سے ہٹو گے تو موت کے سوا تمہارا کوئی مقدر نہیں ہے.“ (ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ دسمبر 1987ء) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تمہارا فرض ہے کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ خلیفہ وقت واقعتاً معصوم ہے تو جن باتوں میں تم سمجھتے ہو کہ وہ آگئے ہیں تم خلیفہ وقت کو بتاؤ کہ تم ان باتوں میں نہ آؤ اس کو لکھ کر بھیجو اور تمہارے لئے دو ہی رستے ہیں یا تو پھر اس کے عدل پر حملہ کرو یہ نہ کہو کہ ناظر امور عامہ بددیانت ہے پھر جرات کے ساتھ تقویٰ کے ساتھ یہ فیصلہ کرو جو بھی تمہیں تقویٰ نصیب ہو اس کے مطابق فیصلہ کرو کہ خلیفہ وقت جھوٹا ہے، خلیفہ وقت بدیانت ہے اور اس کو چھوڑ دو.اگر چھوڑ دو تب بھی رخنہ پیدا نہیں ہو گا لیکن جب تم تصادم کی راہ اختیار کرو گے تو تفاوت پیدا ہو گا اور تفاوت کے نتیجہ میں لازماً فتور ہو گا یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے.اگر لوگ ہمیشہ یہ مسلک اختیار کرتے تو کبھی کوئی فتنہ کبھی سر ہی نہیں اٹھا سکتا تھا.آج بھی پاکستان میں بھی اور باہر بھی جہاں بھی مفتی پیدا ہوتے ہیں وہ پہلا حملہ خلیفہ وقت پر نہیں کیا کرتے.وہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے ہماری دشمنی میں خلیفہ وقت تک یہ بات پہنچائی.فلاں شخص نے فلاں آدمی سے پیسے کھا لئے اس کی دعوتیں اڑائیں اور پھر خلیفہ وقت سے یہ بات کہی.ایک مخرج ہے اس وقت وہ لوگوں کے پاس پہنچتا ہے اور بڑی چاپلوسی سے کہتا ہے کہ میں تو خلیفہ وقت کا عاشق ہوں، خلیفہ وقت تو بہت ہی بلند مقام رکھتے ہیں.میں تو معافیوں کی عاجزانہ درخواستیں بھی کر رہا ہوں لیکن معافی نہیں ملتی.ناظر اُمور عامہ ایسا ذلیل آدمی ہے کہ وہ راشی ہے، وہ فریق ثانی سے دعوتیں اُڑا چکا ہے، فریق ثانی سے پیسے کھا چکا ہے حالانکہ جو مخرج ہے اس کے متعلق میں جانتا ہوں کہ اس کو لوگوں کے پیسے چڑھانے اور دعوتیں کھلانے کی عادت ہے.میں نے آغاز خلافت ہی میں عہدیداروں کو اس کے متعلق متنبہ کر دیا تھا کہ آپ نے اس کی کوئی دعوت قبول نہیں کرنی.اب وہ کیونکہ خود اس مرض کا شکار ہے اس لئے دوسروں کے متعلق یا ناظر امور عامہ کے متعلق باتیں کرتا ہے اور ظلم کی بات یہ ہے کہ سننے والے سن لیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہاں خلیفہ وقت نے ناظر اُمور عامہ کی بات سن لی اس لئے اس بے چارے پر ظلم ہو رہا ہے حالانکہ اس سے اگلا نتیجہ نہیں نکالتے جو خلیفہ اتنا بے وقوف اور احمق ہو کہ اس کو معاملہ فہمی ہو ہی نہیں.جس طرف سے بات سنی اس کو فوراً قبول کر لیا وہ اس لائق کہاں کہ تم اس کی بیعت میں رہو؟ اس لئے تمہارے تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ اگر تم متقی ہو تو اس کی بیعت سے الگ ہو جاؤ لیکن بیعت پر قائم رہتے ہوئے تمہیں تصادم کی اجازت نہیں دی جا سکتی یہ وہ بات ہے جس کے متعلق قرآن کریم کی ایک آیت ہمیں ہمیشہ کیلئے متنبہ کر چکی ہے کہ خبردار تفاوت کی راہ اختیار نہ کرنا.تفاوت کے نام ہے دو موتوں کے ٹکرانے کا، دو ایسی چیزوں کے ٹکرانے کا جو دونوں اپنے منصب سے ہٹ چکی ہوں اس لئے اگر ایک کو اپنا منصب نہ چھوڑتے ہوئے دیکھو بھی تو تم اس رو میں بہہ کر اپنا منصب نہ چھوڑ دینا.“ 543

Page 544

مشعل راہ جلد 3 صفحہ 335،334) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: آپ نے خلافت کی حفاظت کا جو وعدہ کیا ہوا ہے اس میں بھی یہ بات داخل ہے کہ خلافت کے مزاج کو نہ بگڑنے دیں.خلافت کے مزاج کو بگاڑنے کی ہر گز کوشش نہ کریں.ہمیشہ اس کے تابع رہیں ہر حالت میں امام کے پیچھے چلیں.امام آپ کی رہنمائی کے لئے بنایا گیا ہے اس لئے کسی وقت بھی اس سے آگے نہ بڑھیں.اللہ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور مجھے بھی توفیق عطا فرمائے کہ میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکوں.“ (روزنامه الفضل 11 فروری 1984 ء) سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 11 مئی 2003ء کو احباب جماعت کے پیغام میں فرمایا: نام پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائمی بنائیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں.امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں اور وہی آپ کیلئے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں کے مقابلہ کیلئے ایک ڈھال ہے.66 خصوصی الفضل انٹر نیشنل 23 تا 30 مئی 2003 صفحہ 1) سید نا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: آپ کے بعد چونکہ نظام خلافت قائم ہے اس لئے خلیفہ وقت کے احکامات کی ہدایات کی پیروی کرنا تمہارا کام ہے.لیکن یہاں یہ خیال نہ رہے کہ خادم اور نوکر کا کام تو مجبوری ہے، خدمت کرنا ہی ہے.خادم کبھی کبھی بڑ بڑا بھی لیتے ہیں اس لئے ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ خادمانہ حالت ہی ہے لیکن اس سے بڑھ کر کیونکہ اللہ کی خاطر اخوت کا رشتہ بھی ہے اور اللہ کی خاطر اطاعت کا اقرار بھی ہے.اور اس وجہ سے قربانی کا عہد بھی تو قربانی کا ثواب بھی اس وقت ملتا ہے جب انسان خوشی سے قربانی کر رہا ہوتا ہے.تو یہ ایک ایسی شرط ہے جس آپ جتنا غور کرتے جائیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں ڈوبتے چلے جائیں گے اور نظام جماعت کا پابند ہوتا ہوا اپنے آپ کو پائیں گے.“ پر ہے.خطبات مسرور جلد اول صفحه (325) سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: آنحضرت ملالہ سے زیادہ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنے والا کون تھا؟ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ حق کا نہ خیال رکھا جائے تب بھی ہم اطاعت کریں گے.لیکن یہاں کچھ اصول بدل رہے ہیں.حالانکہ تمام صحابہ اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ آپ حق سے بڑھ کر حق ادا کرنے والے تھے اور آپ کے متعلق تو یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آپ کسی کے حق کا خیال رکھیں گے.لیکن یہاں کیونکہ نظام جماعت کی بات ہو رہی ہے جس میں اس کے ماننے والوں کا اطاعت سے باہر رہنے کا ادنی سا تصور بھی برداشت نہیں ہو سکتا اس لئے یہ عہد لیا جا رہا ہے کہ ہم ہر حالت میں چاہے ہمارے حقوق کا نہ بھی خیال رکھا جا رہا ہو، ہم مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کے جذبہ سے اس عہد بیعت کو نبھائیں گے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ آنحضرت ملالہ کا حق مار رہے ہیں بلکہ اب جب جماعتی زندگی کا معاملہ آئے گا تو حق کے معیار بدلنے چاہئیں.اب تم اپنی ذات کے بارہ میں نہ 544

Page 545

سوچو بلکہ جماعت کے بارہ میں سوچو.اور اپنے ذاتی حقوق خود خوشی سے چھوڑو اور جماعتی حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرو.یہاں وہی مضمون ہے کہ اعلیٰ چیز کے لئے ادنی چیز کو قربان کرو.پھر جو ہمارا عہدیدار یا امیر مقرر ہو گیا اب اس کی اطاعت تمہارا فرض ہے.اس کی اطاعت کریں اور یہ سوال نہ اُٹھائیں کہ یہ کیوں بنایا گیا.“ (خطبات مسرور جلد اول صفحه 264) حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اپنے سب سے پیغام میں فرمایا: قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے.وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے.اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں.ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں.اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو اسلام کبھی ترقی نہیں کر سکتا.پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائی بنائیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں.امام سے وابستگی میں ہی سب ہیں.اور وہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں کے مقابلہ کے لئے ڈھال ہے..پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں.ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے.“ برکتیں دو روز نامه الفضل ربوہ 30 مئی 2003ء) اپنے ایک پیغام میں حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت سے فرمایا: یہ خلافت کی ہی نعمت ہے جو جماعت کی جان ہے.اس لئے اگر آپ زندگی چاہتے ہیں تو خلافت احمدیہ کے ساتھ اخلاص اور وفا کے ساتھ چمٹ جائیں.پوری طرح اس سے وابستہ ہو جائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے.ایسے بن جائیں کہ خلیفہ وقت کی رضا آپ کی رضا ہو جائے.خلیفہ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم اور خلیفہ وقت کی خوشنودی آپ کا مطمع نظر ہو جائے.“ (ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر مارچ اپریل 2004ء) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ ایک ہندو بٹالہ سے آپ (حضرت خلیفہ اُسیح الاول رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میری اہلیہ سخت بیمار ہے از راہ نوازش بٹالہ چل کر اسے دیکھ لیں.آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت مرزا صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) سے اجازت حاصل کرو.اس نے حضرت کی خدمت میں درخواست کی.حضور علیہ السلام نے اجازت دی.بعد نماز عصر جب حضرت مولوی صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے فرمایا کہ امید ہے آپ آج ہی واپس آ جائیں گے.“ عرض کی بہت اچھا“.بٹالہ پہنچے، مریضہ کو دیکھا، واپسی کا ارادہ کیا مگر بارش اس قدر ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے.ان لوگوں نے عرض کی کہ حضرت! راستے میں چوروں اور ڈاکوؤں کا بھی خطرہ ہے پھر بارش اس قدر زور سے ہوئی ہے کہ واپس پہنچنا مشکل ہے.کئی مقامات پر پیدل پانی میں سے گزرنا پڑے گا مگر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خواہ کچھ ہو، سواری کا انتظام بھی ہو یا نہ ہو، میں پیدل چل کر بھی قادیان ضرور پہنچوں گا کیونکہ 545

Page 546

میرے آقا کا ارشاد یہی ہے کہ آج ہی مجھے واپس قادیان پہنچنا ہے.خیر یکہ کا انتظام ہو گیا اور آپ چل پڑے مگر بارش کی وجہ سے راستہ میں کئی مقامات پر اس قدر پانی جمع ہو چکا تھا کہ آپ کو پیدل وہ پانی عبور کرنا پڑا.کانٹوں سے آپ کے پاؤں زخمی ہو گئے مگر قادیان پہنچ گئے اور فجر کی نماز کے وقت مسجد مبارک میں حاضر ہو گئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ ”کیا مولوی صاحب رات بٹالہ سے واپس تشریف لے آئے تھے؟ قبل اس کے کہ کوئی اور جواب دیتا آپ رضی اللہ عنہ فوراً آگے بڑھے اور عرض کی: ”حضور میں واپس آ گیا تھا.“ یہ بالکل نہیں کہا کہ حضور! رات شدت کی بارش تھی، اکثر جگہ پیدل چلنے کی وجہ سے میرے پاؤں زخمی ہو چکے ہیں اور میں سخت ہو چکے ہیں اور میں سخت تکلیف اٹھا کر واپس پہنچا ہوں وغیرہ وغیرہ، بلکہ اپنی تکالیف کا ذکر تک نہیں کیا.“ (حیات نور صفحہ 189) حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت صاحبزادہ سید عبدالطیف شہید رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ” اور مجھ سے ان کی ملاقات ہوئی تو قسم اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے ان کو جب اپنی پیروی اور اپنے دعویٰ کی تصدیق میں ایسا فنا شدہ پایا کہ جس سے بڑھ کر انسان کیلئے ممکن نہیں.جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے ایسا ہی میں نے ان کو اپنی محبت میں بھرا ہوا پایا، اور جیسا کہ ان کا چہرہ نورانی تھا ایسا ہی ان کا دل مجھے نورانی معلوم ہوتا تھا.اس بزرگ مرحوم میں نہایت قابل رشک یہ صفت تھی کہ در حقیقت وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتا تھا اور درحقیقت ان راستبازوں میں سے تھا جو خدا سے ڈر کر اپنے تقویٰ اور اطاعت الہی کو انتہا تک پہنچاتے ہیں اور خدا کے خوش کرنے کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کیلئے اپنی جان اور عزت اور مال کو ایک ناکارہ خس و خاشاک کی طرح اپنے ہاتھ سے چھوڑ دینے کو تیار ہوتے ہیں.اس کی ایمانی قوت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر میں اس کو ایک بڑے سے بڑے پہاڑ سے تشبیہ دوں تو میں ڈرتا ہوں کہ میری تشبیہ ناقص نہ ہو.اکثر لوگ باوجود بیعت کے اور باوجود میرے دعوی کے تصدیق کے پھر بھی دنیا کو دین پر مقدم رکھنے کے زہریلے تم سے بکلی نجات نہیں پاتے بلکہ کچھ ملونی ان میں باقی رہ جاتی ہے.اور ایک پوشیدہ بخل خواہ وہ جان کے متعلق ہو خواہ آبرو کے متعلق اور خواہ مال کے متعلق اور خواہ اخلاقی حالتوں کے متعلق ان کے نامکمل نفسوں میں پایا جاتا ہے.اسی وجہ سے ان کی نسبت ہمیشہ میری یہ حالت رہتی ہے کہ میں ہمیشہ کسی خدمت دینی کو پیش کرنے کے وقت ڈرتا رہتا ہوں کہ ان کو ابتلا پیش نہ آوے.اور اس خدمت کو اپنے پر ایک بوجھ سمجھ کر اپنی بیعت کو الوداع نہ کہہ دیں لیکن میں کن الفاظ سے اس بزرگ مرحوم کی تعریف کروں جس نے اپنے مال اور آبرو اور جان کو میری پیروی میں یوں پھینک دیا کہ جس طرح کوئی ردی چیز پھینک دی جاتی ہے.اکثر لوگوں کو میں دیکھتا ہوں کہ ان کا اوّل اور آخر برابر نہیں ہوتا.“ (روحانی خزائن جلد نمبر 20 تذکرۃ الشہادتین - صفحه 10) منشی امام دین صاحب پٹواری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے 1894ء میں بیعت کی تھی انہیں حقہ پینے کی بہت عادت تھی.حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے ابتدائی زمانے میں کسی خطاب میں حقہ کی مذمت بیان کی تو اسی وقت حقہ چھوڑ دیا اور عزم کیا کہ اب ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا.شروع میں بیمار ہو گئے اور لوگوں نے کہا کہ آہستہ آہستہ چھوڑیں لیکن ایسی اطاعت کی کہ پھر ہاتھ بھی نہیں لگایا.اصحاب احمد - جلد 1 - صفحہ 118) حضرت ابو عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رئیس کھیوا باجوہ سیالکوٹ (جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیمی صحابہ میں شامل 546

Page 547

تھے، جن کے بارہ میں لوگ کہا کرتے تھے کہ شاید مولوی عبداللہ ہی امام مہدی کا دعوی کر دیں.تاہم آپ رضی اللہ عنہ تو امام مہدی کی بیعت کر کے غلاموں میں شامل ہو گئے ) ایک مرتبہ سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ تعالی عنہ کی صحبت میں بیٹھے ہوئے تھے اور حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت ارشاد فرمائیں.حضور (حضرت خلیفة امسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا: مولوی صاحب (میں) نہیں سمجھتا کہ کوئی چیز کرنے کی ہو اور آپ کر نہ چکے ہوں.اب تو حفظ قرآن ہی باقی ہے.چنانچہ تقریباً 65 سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا.باوجود اتنی عمر ہونے کے حافظ قرآن ہو گئے.“ (الفضل قادیان 21/19 اپریل 1947ء) حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب منصب امامت میں لکھتے ہیں: ”امام وقت سے سرکشی اور روگردانی گستاخی کا باعث ہے.امام کے ساتھ بلکہ خود گویا کہ رسول کے ساتھ ہمسری ہے خفیہ طور پر خود رب العزت پر اعتراض ہے کہ ایسے ناقص شخص کو کامل شخص کی نیابت کا منصب عطا ہوا.الغرض اس کے توسل کے بغیر تقرب الہی محض وہم و خیال ہے جو سراسر باطل اور محال ہے.“ (منصب امامت صفحہ 111 - از شاه اسماعیل شہید مترجم حکیم محمد حسین علوی مطبوعہ حاجی حنیف اینڈ سنز لاہور ) 547

Page 548

فیضان خلافت 548

Page 549

آیت: عناوین: فیضان خلافت روحانی فیضان فیضان علمی انتظامی فیضان وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَO ( سورة النور : 56 ) جو "تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، اُس نے اُن کے لیے پسند کیا ، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.“ (ترجمه از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) 549

Page 550

حدیث: عَنْ حُذِيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيْكُمْ مَاشَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلَكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ.(مسند احمد بن ضبل جلد 4 صفحہ 273 - مقلوة بَابُ الْإِنْدَارِ وَالتَّحْذِيرِ) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت على مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ قائم ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا، پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ ظلم ستم کے اس دور کو ختم کر دے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی ! یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.خلافت على مِنْهَاج النُّبُوَّة سے مراد وہ خلافت حقہ ہے جس کی بنیاد نبوت ہو، جو نبوت کی سر زمین پر قائم ہو، جو نبوت کے ذریعہ ہر قلب مومن پر تسلط قائم کرے.خلافت على منهاج النبوة وہ خلافت ہے جس کی صداقت کو نبوت کے معیار صداقت پر پرکھا جا سکے، جسے نبوت کی کسوٹی پر جانچا جا سکے.اس سے وہ تصوراتی خلافت مراد نہیں جس کی بنیاد حاکمیت اور ملوکیت قسم کی کسی چیز پر ہو.دراصل خلافت عــلـى مِنْهَاجِ النُّبُوَّة ، خلافت کا وہ بہترین تصور ہے جسے نبوت نے ایمان اور عمل صالح کے پانی سے سیراب کیا ہو، جسے نبوت کے نور نے تابانی عطا کی ہو.یہی وہ خلافت ہے جس کی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ملاحقہ نے پیشگوئی فرمائی تھی.اس خلافت کا قیام نبوت کی سرزمین کے علاوہ ممکن نہیں، اس کے قیام و انصرام کا عمل خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے، وہ خود اس کی حفاظت اور رہنمائی فرماتا ہے.اس کی حکمت بالغہ اس کو تمکنت عطا کرتی ہے.اس خلافت کی برکت سے اعمال صالحہ بجا لانے والے مومنوں کی جماعت کلی طور پر خدائے واحد و یگانہ پر بھروسہ اور توکل کرتی ہے اور کلی طور پر دنیاوی اور مصنوعی خداؤں کے تسلط سے پاک ہوتی ہے.اسی خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ ایمان عملِ صالح، امن، دین کے استحکام، عبادت کے قیام اور شرک سے حفاظت کی ضمانت دیتا ہے.یہی وہ بنیادی اُمور ہیں جن کی وجہ سے مومنوں کی جماعت خدا تعالی کی تائید و نصرت کو جذب کرتی ہے.( ” خلافت مصنفہ بادی علی چودھری صفحہ 9) خلافت ایک ایسا بیج ہے جس کی آبیاری نبوت کرتی ہے اور نبوت سے پانے والے فیضان کو خلافت آگے جاری کرتی ہے اور باب خلافت کی ہر آہٹ فیضان نبوت کی عکاسی ہوتی ہے.آنحضرت مطلقہ نے فرمایا ہے کہ : مَا كَانَتْ نُبُوَّةُ قَطُّ إِلَّا تَبِعَتُهَا خلافة - (كنز العمال جلد 11) کہ ہمیشہ نبوت کے بعد ہی خلافت کا قیام ہوا ہے.اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ذرا تاریخ مذاہب پر نظر تو دوڑائیں اور ڈھونڈیں تو آپ کو ایک نظیر بھی ایسی نہیں ملے گی بغیر نبوت کے خدا تعالیٰ کی خلافت قائم ہوئی جس خلافت کا خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے وہ خلافت عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ہے جیسا کہ آنحضرت صلہ نے بیان فرمایا ہے.یہ خلافت نبی کے ذریعہ ہر مومن کے دل میں اُتارتا ہے جن کو وقت کا نبی اپنی تعلیم اپنی روحانیت، خدا تعالیٰ کے نشانات، معجزات اور دیگر انوار کے پانی سے سیراب کرتا ہے تب مومنوں کے دل ایمان سے معمور اور ان کے جسم و جان اعمال صالحہ پر مامور ہو جاتے الله ہو.550

Page 551

ہیں.یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ اپنی خلافت دنیا میں قائم فرماتا ہے، جس کے ذریعہ ہر مومن خدا تعالیٰ کی خلافت کا امین ہو جاتا ہے.پھر جب نبی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو ہر مومن اس خلافت کی حفاظت اس شخص کے سپرد کرتا ہے جسے خدا تعالی نبی کا جانشین بناتا ہے.اس طرح اس خلیفہ کے ذریعہ اس خلافت کی سرپرستی اور حفاظت ہوتی ہے جو نبوت کے ذریعہ مومنوں کے دل میں قائم ہوئی ہوتی ہے، چنانچہ مومنوں کی اس جماعت میں ایک خلیفہ کے ذریعہ خلافت کا نظام جاری ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی تائید اور اسکے جملہ وعدے اس خلافت کے حق میں پورے ہوتے ہیں.خلافت بادی علی چودھری صفحہ 15) خلافت سنت الہیہ ہے: قیام خلافت دراصل نبوت کے فیضان کا پر تو ہے جو نبوت کے اختتام پر جلوہ گر ہو کر فیضان نبوت کو بڑھاتا اور پھیلاتا پرتو ہے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے : كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي ا (مجادلہ: 22) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشا ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھیٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے: اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو آخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت ملالہ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت.اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا : ولَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمُ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنَّا (النور: 56) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدے کے مطابق منزل مقصود تک پہنچاویں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ 551

Page 552

کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا“ (رساله الوصیت صفحہ 7,6 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305,304) الوہیت، نبوت اور خلافت کا باہمی تعلق: خلافت نبوت کا ظل ہوتی ہے اور نبوت کے فیضان کو اپنے تئیں جذب کر کے تا قیامت برکات رسالت سے دنیا کو منور کرتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی ہیں، ظلی طور پر ہمیشہ کیلئے تا قیامت قائم رکھے.سو اس غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے.“ شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد 6 صفحه 353) اُلوہیت، نبوت اور خلافت باہم لازم و ملزوم ہیں.نبوت کا مرجع فیض اُلوہیت ہے اور خلافت کا مرجع فیض نبوت ہے.نبوت، الوہیت کے نور کو حاصل کر کے پھیلاتی ہے اور نبوت کے نور کو جو اصل میں اُلوہیت ہی کا نور ہوتا ہے، خلافت منعکس کرتی ہے.گویا خلافت ایک ایسے ری فلیکٹر (Reflector) کا کام سر انجام دیتی ہے جس کا مقصد نبوت کے فیضان کو آگے پھیلانا ہوتا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ نور کی آیت نمبر 36 کی تفسیر کرتے ہوئے نورِ الوہیت کے ذکر میں فرماتے ہیں: نبوت میں یہ نور آکر مکمل تو ہو جاتا ہے لیکن اس کا زمانہ پھر بھی محدود ہوتا ہے کیونکہ نبی بھی موت سے محفوظ نہیں ہوتے.پس اس روشنی کو دور تک پہنچانے کیلئے اور زیادہ دیر تک قائم رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ کوئی اور تدبیر کی جاتی سو اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے ری فلیکٹر (Reflector) بنایا جس کا نام خلافت ہے.جس طرح طاقچہ تین طرف سے روشنی کو روک کر صرف اس جہت میں ڈالتا ہے جدھر اس کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح خلفا نبی کی قوت قدسیہ کو جو اس کی جماعت میں ظاہر ہو رہی ہوتی ہے ضائع ہونے سے بچا کر ایک خاص پروگرام کے ماتحت استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں جماعت کی طاقتیں پراگندہ نہیں ہوتیں اور تھوڑی سی طاقت سے بہت سے کام نکل آتے ہیں کیونکہ طاقت کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوتا.اگر خلافت نہ ہو تی تو بعض کاموں پر تو زیادہ طاقت خرچ ہو جاتی اور بعض کام توجہ کے بغیر رہ جاتے اور تفرقہ اور شقاق کی وجہ سے کسی مام کے ماتحت جماعت کا روپیہ اور اس کا علم اور اس کا وقت خرچ نہ ہوتا.غرض خلافت کے ذریعہ سے سے الہی نور کو جو نبوت کے ذریعہ سے مکمل ہوتا ہے، ممتد اور لمبا کر دیا جاتا ہے......خلافت وہ ری فلیکٹر (Reflector) ہے جو نبوت اور الوہیت کے نور کو لمبا کر دیتا ہے اور اسے دور تک پھیلا دیتا ہے.“ نظام (تفسیر کبیر جلد6،صفحہ 321-320) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: مگر حقیقت یہ ہے کہ مذہب تو انبیاء کے ذریعہ سے قائم ہوتا ہے.خلفا کے ذریعہ سنن اور طریقے قائم کئے جاتے ہیں.ورنہ احکام تو انبیاء پر نازل ہو چکے ہوتے ہیں.خلفا دین کی تشریح اور وضاحت کرتے ہیں اور مغلق امور کو کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں اور ایسی راہیں بتاتے ہیں جن پر چل کر اسلام کی ترقی 552

Page 553

ہوتی ہے.“ ( افضل 4 ستمبر 1937 ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: انبیاء علیہم السلام کے اغراض بعثت پر غور کرنے کے بعد یہ سمجھ لینا بہت آسان ہے کہ خلفا کا بھی یہی کام ہوتا ہے کیونکہ خلیفہ جو آتا ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اپنے پیش رو کے کام کو جاری کرے.پس جو کام نبی کا ہو گا وہی خلیفہ کا ہو گا.“ (منصب خلافت.انوار العلوم جلد 2 صفحہ 24) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ”اے دوستو! میری آخری نصیحت یہ ہے کہ سب برکتیں خلافت میں ہیں.نبوت ایک بیج ہوتی ہے جس کے بعد خلافت اس کی تاثیر کو دنیا میں پھیلا دیتی ہے.تم خلافت حقہ کو مضبوطی سے پکڑو اور اس کی برکات سے دنیا کو متمتع کرو اور میری اولاد کو بھی ان کے خاندان کے عہد یاد دلاتے رہو.“ خلافت کا روحانی فیضان: (الفضل 20 مئی 1959 ء صفحہ 3) اللہ تعالیٰ قوموں کی اصلاح اور انہیں دین واحد پر قائم کرنے کے لئے انبیاء بھیجتا ہے جو ساری عمر نیک فطرت لوگوں کو توحید کی طرف کھینچتے ہیں.انبیاء کے وصال کے بعد اللہ تعالی خلافت قائم کر کے اس سلسلہ کو جاری رکھتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام رُوحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا، ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو.“ (رساله الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306 تا 307) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد توحید کو قائم کرنے والے مشن (Mission) کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفا نے خوب آگے بڑھایا اور مسلسل بڑھاتے چلے جا رہے ہیں.دراصل نبوت کے قیام کا خاصہ ہی توحید کا قیام ہے جس کے ذریعہ سے دنیا کے سارے لوگ وصرت کی ایک لڑی میں پروئے جاتے ہیں.نبوت کے اس فیضان کو خلفائے احمدیت جاری رکھے ہوئے ہیں.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے 17 جنوری 1902 ء کو درس القرآن کے دوران احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ جل شانہ کی سچی فرمانبرداری اختیار کرو.اس کی اطاعت کرو.اس سے محبت کرو.اس کے آگے تذلل کرو.اس کی عبادت کرو اور اللہ کے مقابل کوئی غیر تمہارا مطاع، محبوب، مطلوب، امیدوں کا مرجع نہ ہو.اللہ کے مقابل تمہارے لئے کوئی دوسرا نہ ہو.ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تمہیں ایک طرف بلاتا ہو اور کوئی اور چیز خواہ وہ تمہارے نفسانی ارادے اور جذبات ہوں یا قوم اور برادری، سوسائٹی (Society) کے اصول اور دستور ہوں، سلاطین ہوں، امرا ہوں، ضرورتیں ہوں، غرض کچھ ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابل تم پر اثر 553

Page 554

انداز نہ ہو سکے.پس خدا تعالیٰ کی اطاعت، عبادت، فرمانبرداری، تذلل اور اس کی حب کے سامنے کوئی اور شے محبوب، مقصود، مطلوب اور مطاع نہ ہو.“ (روز نامه الفضل ربوہ 25 جولائی 1993ء) حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد جب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے پہلے جلسہ سالانہ پر 28 دسمبر 1914ء کو بطور خلیفہ اسیح الثانی جو تقریر ارشاد فرمائی اس میں بڑی تحدی کے ساتھ جماعت کو توحید الہی پر قائم ہونے اور شرک سے کلیۂ اجتناب کرنے کی تلقین کی.چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں بڑے زور سے بتلاتا ہوں کہ دنیا میں لوگ خدا تعالیٰ سے غافل ہوگئے ہیں.حالانکہ اس سے بڑھ کر خوبصورت، اس سے بڑھ کر محبت کرنے والا، اس سے بڑھ کر پیارا اور کوئی نہیں ہے.تم لوگ اگر پیار کرو تو اس سے کرو، محبت لگاؤ تو اس سے لگاؤ، ڈرو تو اس سے ڈرو، خوف کرو تو اس سے کرو.اگر وہ تمہیں حاصل ہو جائے تو پھر تمہیں کسی چیز کی پروا نہیں رہ جاتی اور کوئی روک تمہارے سامنے نہیں ٹھہر سکتی.“ برکات خلافت صفحه 110) پھر خدا تعالی کی واحدانیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صرف ایک ہی اللہ ہے.اگر کوئی سمجھے کہ اس کو چھوڑ کر اور کسی کو تلاش کر لوں گا تو ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ ایک ہی ہے دو نہیں، چار نہیں اور ہزاروں لاکھوں نہیں.جب ایک ہی اللہ ہے تو اس کو چھوڑ کر کہاں جاؤ گے؟“ دو برکات خلافت، صفحہ 111) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: یہ ایک دھوکا ہے کہ سلسلہ خلافت سے شرک پھیلتا ہے اور گدیوں کے قائم ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ آج سے ، تیرہ سو سال پہلے خدا تعالیٰ نے خود اس خیال کو رڈ فرما دیا ہے کیونکہ خلفا کی نسبت فرماتا ہے.يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا - (النور: 56) خلفا میری ہی عبادت کیا کریں گے اور میرے سرہ خلفا میری ہی عبادت کیا کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں قرار دیں گے.خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ ایک زمانہ میں خلافت پر یہ اعتراض کیا جائے گا کہ اس سے شرک کا اندیشہ ہے اور غیر مامور کی اطاعت جائز نہیں.پس خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں ہی اس کا جواب دے دیا کہ خلافت شرک پھیلانے والی نہیں بلکہ اسے مٹانے والی ہو گی اور خلیفہ مشرک نہیں بلکہ موحد ہوں گے ورنہ آیت استخلاف میں شرک کے ذکر کا کوئی موقعہ نہ تھا.“ (انوار العلوم جلد 2 صفحہ 14,13) ضرت خلیفہ لمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ، کامل تو کل علی اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ”خدا کی عجب شان ہے کہ جب 1971 ء کے شروع میں گھوڑے سے گرا اور علاج کے کئی مراحل سے مجھے گزرنا پڑا تو اس سے میرے گھٹنے اکٹر (Stiff) گئے.ایک ڈاکٹر صاحب مجھے کہنے لگے کہ یہ تو اب ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے.میں نے کہا میں نے تمہیں خدا کب مانا ہے.میں تو اللہ کو مانتا ہوں اور اس پر بھروسہ رکھتا ہوں جو ہے.اس کے سامنے کوئی چیز انہونی نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور یہ تکلیف دور ہو گئی.قادر مطلق فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ (روز نامه الفضل ربوہ.2 مارچ 1980ء) 554

Page 555

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ، کامل توکل علی اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں: " آج میں تم کو بتا تا ہوں کے مجھے دنیا کے کسی سہارے کی ضرورت نہیں اور اسی پر میرا تو کل ہے.میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس صدی میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلالہ کا پیار قائم ہو گا.“ خطاب جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1980ء) حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی جب مند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے قیام کا مدعا ان الفاظ میں بیان فرمایا: خلافت کے قیام کا مدعا توحید کا قیام ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اہل.ایسا کہ جو کبھی ٹل نہیں سکتا.زائل نہیں ہو سکتا.اس میں کوئی تبدیلی کبھی نہیں آئے گی......خلافت کا انعام یعنی آخری پھل تمہیں یہ عطا کیا گیا ہے کہ میری عبادت کرو گے میرا کوئی شریک نہیں ٹھہراؤ گے.کامل توحید کے ساتھ میری عبادت کرتے چلے جاؤ گے اور میری حمد وثنا کے گیت گایا کرو گے.یہ وہ آخری جنت کا وعدہ ہے جو جماعت احمدیہ سے کیا گیا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 66 الفضل 22 جون 1982 ء) میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے جب توحید کا پیغام دنیا میں پہنچایا ہے تو یاد رکھیں کہ اس راہ میں تکلیفیں دی جائیں گی میں جانتا ہوں کہ اس زمانے میں توحید کے لئے جتنی جماعت احمدیہ نے قربانیاں دکھائی ہیں دنیا کے پردے پر توحید کے لئے دی جانے والی ساری قربانیاں ایک طرف کر دیں تو اس کے مقابلہ پر ان کی کوئی اہمیت نہیں.اس زمانے میں توحید کے نام پر سوائے احمدیت کے کسی کو سزا نہیں دی جارہی....خدا کی قسم! آج آپ ہی تو ہیں جو توحید کے لئے ایسی قربانیاں پیش کر رہے ہیں.....پس ہم توحید کے محض دعویدار نہیں ہیں، ہم تو حید کو اپنے اعمال میں جاری کر چکے ہیں.آج ایک ہم ہی تو ہیں جو توحید کے نام پر ہر قسم کے ابتلا میں مبتلا کئے گئے اور ہر ابتلا سے ثابت قدم باہر نکلے ہیں.اسی کا نام قدم صدق ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت احمدیہ کو قدم صدق عطا فرماتا رہے.66 روزنامه الفضل ربوہ 20 نومبر 1993ء) خلفائے احمدیت نے اپنے پاک نمونے اور انفاخ قدسیہ سے احباب جماعت کے دلوں میں توحید کو قائم کیا اور عبادت الہی کے جو بابرکت بیج بودیئے ان کے نمونے افراد جماعت میں بکثرت نظر آتے ہیں.چند مثالیں پیش ہیں: ایک دفعہ ایک نوجوان نے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یورپ میں فجر کی نماز اپنے وقت پر ادا کرنا بہت مشکل ہے.حضرت چودھری صاحب نے فرمایا: اگر چہ مجھے اپنی مثال پیش کرتے ہوئے سخت حجاب ہوتا ہے لیکن آپ کی تربیت کے لئے بتاتا ہوں کہ خدا کے فضل سے نصف صدی کا عرصہ یورپ میں گزارنے کے باوجود فجر تو فجر میں نے کبھی نماز تہجد بھی قضا نہیں کی.یہی حال باقی پانچ نمازوں کا ہے.الفضل 20 مارچ 2002 ء ) ایک دفعہ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے کس عمر میں نماز با جماعت پڑھنا شروع کی تو فرمایا: ” نماز کے بارہ میں تو مجھے یاد نہیں البتہ تہجد کی نماز میں نے 15 سال کی عمر سے پڑھنا شروع کر دی تھی.“ (سونیئر مجلس خدام الاحمدیہ مسلم 2005ء صفحہ 46) 555

Page 556

سیرالیون کے ایک احمدی الحاج باسعیدو بنگورا (Alhaj Pa Saidu Bangura) نماز باجماعت کے علاوہ تہجد.پہلے گزاری میں بھی ایک نمونہ تھے.باوجود گھر دور ہونے کے صبح کی نماز سے پہلے بیت الذکر پہنچ کر نماز کے لئے ایسی بلند اور سریلی اذان بلند کرتے کہ سارا علاقہ گونج اٹھتا اور ان کا نام بلال احمدیت (روح پرور یا دیں صفحہ 515) مشہور ہو گیا تھا.سویڈن (Sweden) کے ایک نو احمدی محمود ارکسن کو جب ضروری فوجی تعلیم کے لئے فوج میں داخل ہونا پڑا تو انہوں نے براہِ راست بادشاہ سے نماز کو صحیح اوقات پر ادا کرنے کی رخصت کی درخواست کی جسے منظور کر لیا گیا.یہ سویڈن کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا.تاریخ احمدیت جلد 18 صفحہ 485) مکرم غلام احمد چشتی معلم وقف جدید، وقف سے پہلے فوج میں تھے.دوسری جنگ عظیم میں شرکت کی.جنگ کے اختتام پر آپ کو فارغ کر دیا گیا اور ان کے افسر نے لکھا کہ اس نوجوان کے دماغ میں کوئی عارضہ ہے جس کی وجہ سے یہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر عبادت کرتا ہے اور روتا ہے.الفضل ربوہ 30 ستمبر 2000ء صفحہ 7) انگلستان میں ایک پرانے احمدی بلال مثل صاحب جب احمدی ہوئے تو انہوں نے اپنے لئے بلال‘ نام انتخاب کیا اور پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی کے تتبع میں انہوں نے نماز کی خاطر اذان دینے میں ایک خاص نام ا کیا.انہیں سچ مچ نماز کیلئے بلانے کا از حد شوق تھا.الفضل 28 جون 2003ء) یورپ کے خوش نصیب واقفین زندگی میں ایک بشیر احمد آرچرڈ مربی گلاسگو (Glasgow) تھے.آپ 1944ء میں احمدیت میں داخل ہوئے اور قادیان میں کچھ عرصہ دینی تعلیم حاصل کر کے زندگی وقف کر کے خادم دین کے زمرہ میں داخل ہو گئے.آرچرڈ صاحب کی زندگی میں ایک ایسا ہمہ گیر انقلاب آیا کہ ان کی کایا پلٹ گئی.عبادت الہی اور دعاؤں میں شغف، امام وقت کی دل و جان سے اطاعت اور مالی قربانی بشاشت سے کرنے میں بہتوں سے آگے نکل گئے.(الفضل 10 جنوری 1978 ء) وہ لکھتے ہیں: ”حلقہ بگوش احمدیت ہونے کے بعد قادیان کے تاریخی دورہ کا سب سے پہلا شمرہ ترک شراب نوشی تھا.ساتھ ہی جوا اور سگریٹ نوشی سے بھی توبہ کر لی.میں گھوڑوں، کتوں اور تاش وغیرہ پر جوئے کی بڑی بڑی شرطیں لگایا کرتا تھا.ایک دفعہ تاش کی بازی پر اپنی پورے مہینہ کی تنخواہ ہار گیا.احمدیت میں داخل ہونے کے بعد اس لعنت سے چھٹکارا حاصل ہوا.احمدیت سے میں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتا تھا اب میں 1/3 حصہ کا موصی ہوں اور باقی چندے بھی ادا کرتا ہوں.احمدیت نے مجھے نماز اور دعا کا پابند بنا دیا ہے." ناروے کے ایک احمدی دوست نور احمد بولستاد (Noor Ahmad Bolstod) ہیں.انہوں نے قریباً 16 سال کی عمر میں احمدیت قبول کی جس کے بعد ان کی زندگی میں ایک عظیم تغیر رونما ہوا.پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی کے علاوہ انہوں نے اپنے آپ کو آنریری (Honorary) مربی بھی بنا لیا اور ناروے میں دعوت الی اللہ کی مہم کا آغاز کیا.آپ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں: ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے میں تمام دینی احکام پر عمل کرنیکی کوشش کرتا ہوں.“ لندن کے طاہر ایشون پٹیل بھی ہندوؤں سے احمدیت میں آئے تھے.احمدی ہوتے ہی انہوں نے شراب پینی چھوڑ دی.سگریٹ نوشی ترک کر دی اور باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کر دی.556

Page 557

(الفضل یکم اپریل 1989ء) تزکیہ نفس اور تطہیر قلوب ایسے عناصر ہیں جو انسان کو مسلسل کے بعد عطا ہوتے ہیں.خلفائے احمدیت نے ہمیشہ اپنے خطبات، خطابات اور تقاریر کے ذریعہ سے ایسے راستہ کی طرف رہنمائی فرمائی جس کی منزل تزکیہ نفس اور تطہیر قلب کی صورت میں ملتی ہے.خلافت کا یہ ایک عظیم الشان فیضان ہے جس نے لوگوں کی حالت یکسر بدل دی جس کے بعض نمونے پیش ہیں: سیرالیون کے علی روجرز (Rogers) نے احمدیت قبول کی تو اس وقت وہ جوان تھے اور ان کی بارہ بیویاں تھیں.جماعت کے مربی مولانا نذیر احمد صاحب علی نے انہیں فرمایا کہ اب آپ احمدی ہو چکے ہیں اس لئے قرآنی تعلیم کے مطابق چار بیویاں رکھ سکتے ہیں اور باقی کو طلاق اور نان نفقہ دے کر رخصت کر دیں.انہوں نے نہ صرف اس ہدایت پر فوراً عمل کیا بلکہ مربی سلسلہ کے کہنے پر ادھیڑ عمر چار بیویاں اپنے پاس رکھیں اور نوجوان بیویوں کو رخصت کر دیا.(الفضل 28 جون 2003ء) سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یورپ کے بعض احمدی دکانداروں کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان کے ہوٹل کے کاروبار ہیں اور وہاں شراب بھی بکتی ہے.چنانچہ جب میں نے ان کا سختی سے نوٹس لیا کہ آپ کو یہ کاروبار چھوڑنا ہو گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی بھاری تعداد ایسی تھی جنہوں نے اس کاروبار کو ترک کر دیا.بعضوں کو خدا تعالیٰ نے فوراً بہتر کاروبار بھی عطا کیے بعضوں کو ابتلا میں بھی ڈالا.وہ لمبے عرصے تک دوسرے کاروبار سے محروم رہے لیکن وہ پختگی کے ساتھ اپنے اس فیصلے پر قائم رہے.“ مکرم (الفضل 17 جنوری 1989ء) رانا فیض بخش صاحب نون بیان کرتے ہیں: ” پہلے اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ پر میرا ایمان رسمی تھا.نماز بھی کبھی کبھار پڑھ لیتا تھا.اب اسلام سے ،قرآن سے اور حضور اکر مصلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی محبت ہے اگر میری مجلس میں سارا دن ان کا ذکر ہوتا رہے تو فرحت اور خوشی محسوس ہوتی ہے.دل اور روح سکون پاتے ہیں.ایسی مجلس ڈھونڈنے کے لئے میں کوشاں رہتا ہوں.سب سے بڑی نعمت یہ ملی ہے کہ خدا جو پوشیدہ تھا.صرف رسمی اور عقلی دلائل سے خدا تعالیٰ کو تسلیم کرتا تھا اب اس خدا کی باتیں کئی بار سن چکا ہوں.اس کی آواز ظاہری کانوں نے سنی ہے.دعائیں کثرت سے سنتا اور قبول فرماتا ہے.سچے خوابوں، کشف رؤیا، صالحہ اور الہام سے نوازتا رہتا ہے.“ (عالمگیر برکات مامور زمانه از عبدالرحمن مبشر صاحب حصہ 2 صفحہ 291) ایک جرمن احمدی دوست کہتے ہیں کہ اگر ایک ہفتہ ایسا گزر جائے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری بدقسمت آنکھیں آنسو نہ بہائیں تو مجھے بڑی تکلیف پہنچتی ہے.اور میں کہتا ہوں خاک ہے ان آنکھوں پر جو اللہ کی راہ میں نمناک نہیں ہوتیں اور پھر میرا دل اس غم سے ایسا بھر جاتا ہے کہ عشق خدا ابل ابل کر میری آنکھوں سے برسنے لگتا ہے.(الفضل 31 دسمبر 1983ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں 100 سے زائد تربیتی اور روحانی تحریکات جاری فرمائیں.نمازوں کا عشق جگایا، تہجد کیلئے بیدار کیا، قرآن کے معارف سنائے.الہامات اور غیبی خبروں سے ایمانوں کو جلا بخشی، یہی وجہ تھی کہ جب 1923ء میں آپ رضی اللہ عنہ نے تحریک شدھی کے مقابلہ کیلئے 150 سرفروشوں کی تحریک کی تو 1500 خدام نے لبیک کہا جن 557

Page 558

میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، وکیل، صحافی اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے معززین سر فہرست تھے جو اپنے تمام اخراجات خود براداشت کرتے ، کھانے خود پکاتے ، میلوں پیدل چلتے ، کئی کئی وقت فاقے کرتے.چلچلاتی دھوپ میں سر پر سامان اٹھا کر سفر کرتے اور دین کی خدمت کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرتے.ہندوؤں نے ایمان پر ڈٹی رہنے والی مائی جمیا کی فصل کاٹنے سے انکار کر دیا تو یہی بی اے اور ایم اے وکیل اور ڈاکٹر جنہوں نے کبھی زرعی آلات کو ہاتھ نہ لگایا تھا درانتیاں لے کر فصل کاٹنے لگے.ہاتھ زخمی کر لئے پاؤں چھلنی کر لئے مگر دین کی غیرت کا حق ادا کر دیا.تزکیہ نفس اسے ہی تو کہتے ہیں.( الفضل 14 جون 2006ء) چنانچہ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی، صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی.اے، ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم، شیخ یوسف علی رہا صاحب بی.اے اور دوسرے مجاہدین نے تیز اور چلچلاتی دھوپ میں کئی کئی میل روزانہ پیدل سفر کیا.بعض اوقات کھانا تو الگ ان کو پانی بھی نہ مل سکا.کھانے کے وقت یا تو اپنا بچا کھچا باسی کھانا کھاتے یا بھونے ہوئے دانے کھا کر پانی پی لیتے اور اگر سامان میسر آسکتا تو آٹے میں نمک ڈال کر اپنے ہاتھوں روٹی پکا کر کھا لیتے.رات کو جہاں جگہ ملتی سو جاتے.ملکانوں نے ان کی خاطر تواضع دودھ سے کرنا چاہی مگر انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے واپس کر دیا.بعض رؤسا نے مبلغین کے بستر اور سامان کے لئے مزدور دینا چاہے لیکن یہ جانباز سپاہی اپنا سامان اٹھائے پیدل سفر کرتے رہے اور ایک گاؤں میں کام ختم ہونے پر اس بات کی پروا کئے بغیر کہ کیا وقت ہے یا دوسرا گاؤں کتنے فاصلے پر ہے فوراً آگے روانہ ہو جاتے.انہوں نے بعض اوقات اندھیری راتوں میں ایسے تنگ اور پر خطر راستوں سے سفر کیا جہاں جنگلی سور اور بھیڑیئے بکثرت پائے جاتے تھے.یہ مجاہد ملکانوں پر پانی تک کا بوجھ نہ ڈالتے اور یہ کہتے کہ آپ لوگوں کو دین سکھانے کے لئے ہمارے آدمی آئیں گے جو آپ سے کچھ نہ لیں گے بلکہ اپنا خرچ بھی آپ برداشت کریں گے.یہ لوگ چونکہ اپنے مولوی صاحبان کی شکم پروریوں کی وجہ سے بدظن ہو چکے تھے.اس لئے ان کے نزدیک یہ بات بڑی حیرت انگیز تھی کہ ایسے خادم دین بھی موجود ہیں جو رضا کارانہ طور پر اسلام کی تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے کا بیڑا اُٹھائے ہوئے ہیں.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ نے نہ صرف تین دن کے اندر اندر ضلع ایٹہ کے اکثر دیہات کا دورہ مکمل کرلیا اور ہر گاؤں سے متعلق ایسے تفصیلی کوائف مہیا کئے گویا مدت سے ان دیہات میں ان کی آمدو رفت تھی.ہوتی ( تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 355 - 354) تزکیہ نفس اور تطہیر قلب جیسے عناصر انسانی زندگی پر اس رنگ میں اثر انداز ہوتے ہیں کہ طرز معاشرت میں تبدیلی واقع ہے چنانچہ ایک غیر احمدی دوست علامہ نیاز فتح پوری صاحب اس خاصہ کا یوں ذکر کرتے ہیں: " آپ کی اور احمدی جماعت کی زندگی میں کتنا نمایاں فرق ہے.آپ کے ہاں زندگی کا تصور ہے منتشر انفرادی تشخص کا اور ان کے یہاں مرکزی ہیئت اجتماعی کا.آپ کی اجتماعیت افراد میں بٹ کر هَبَاءً مَنْشُورًا ہو چکی ہے اور ان کے یہاں تمام افراد چمٹ کر صرف ایک حَبْلُ الْمَتِین سے وابستہ نظر آتے ہیں آپ کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور وہ اس بکھرے ہوئے شیرازہ کے اوراق کو اکٹھے کر رہے ہیں.ان کی سادہ معاشرت ان کی سادہ زندگی، ان کا جذبہ خلوص و صداقت، احساس ایثار قربانی، پاس عہد، پابندی شریعت اور سب سے زیادہ ان کی عملی استقامت اور شدائد کے مقابلہ میں فلسفیانہ صبر و ضبط.یہ ہیں احمدی جماعت کے بنیادی عناصر اور اجزا جن پر ان کے قصر اجتماعیت کی تعمیر ہوئی ہے.(فیضان مهدی دوران از مکرم عبدالرحمن مبشر صاحب.صفحہ 219) 558

Page 559

خلافت احمدیہ کے بابرکت سائے تلے جماعت احمدیہ کی قربانیاں: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں ایک انسان ہوں اور آخر ایک دن ایسا آئے گا جب میں مر جاؤں گا اور پھر اور لوگ اس جماعت کے خلفا ہوں گے.میں نہیں جانتا اس وقت کیا حالات ہوں گے اس لئے ابھی سے تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تمہیں اور تمہاری اولادوں کو ٹھوکر نہ لگے.اگر کوئی خلیفہ ایسا جس نے سمجھ لیا کہ جماعت کو زمینوں سے اس قدر آمد ہو رہی ہے.تجارتوں سے اس قدر آمد ہو رہی ہے.صنعت و حرفت سے اس قدر آمد ہو رہی ہے تو پھر اب جماعت سے کسی اور قربانی کی کیا ضرورت ہے؟ اس قدر روپیہ آنے کے بعد ضروری ہے کہ جماعت کی مالی قربانیوں میں کمی کر دی جائے تو تم یہ سمجھ لو وہ خلیفہ خلیفہ نہیں ہو گا بلکہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ خلافت ختم ہو گئی اور کوئی اسلام کا دشمن پیدا ہو گیا.......پس چاہئے کہ ایک ارب پونڈ خزانہ میں آجائے تب بھی خلیفہ وقت کا فرض ہو گا کہ ایک غریب کی جیب سے جس میں ایک پیسہ ہے دین کے لئے پیسہ نکال لے اور ایک امیر کی جیب میں سے دس ہزار روپیہ موجود ہے دین کیلئے دس ہزار نکالے کیونکہ اس کے بغیر دل صاف نہیں ہو سکتے اور بغیر دل صاف ہونے کے جماعت نہیں بنتی اور بغیر جماعت بننے کے خدا تعالیٰ کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہو سکتی...پس...تمہارے اندر زندگی پیدا کرنے کیلئے، تمہارے اندر روحانیت پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ تم سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے اور ہمیشہ اور ہر آن کیا جائے.اگر قربانیوں کا مطالبہ ترک کر دیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہو گا، یہ تقویٰ اور ایمان پر ظلم ہوگا.“ (الفضل 7اپریل1944ءصفحہ 7) ”اب دیکھ لو کہ جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے کس قدر مالی قربانی دے رہی ہے.کہیں چندہ عام ہے کہیں حصہ آمد ہے، کہیں تحریک جدید ہے اور کہیں وقف جدید ہے اور کہیں نصرت جہاں سکیم ہے اور فضل عمر فاؤنڈیشن اور بیوت الحمد وغیرہ تحریکیں ہیں اور یہ کروڑ ہا رقوم کی تعداد میں ہر سال پورے تسلسل کے ساتھ ریکات جاری و ساری ہیں اور اس میں صرف عاقل و بالغ مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں اور بچے بھی پورے اخلاص کے ساتھ شریک ہیں اور سب سے بڑی بات یہ جو بہ فیض حضرت امام لزماں اس جماعت کو حاصل ہے.وہ یہ ہے کہ چندے تو جمع ہو جاتے ہیں لیکن ان میں ہیرا پھیری، غبن، بے جا اسراف وغیرہ جیسی بلائیں جو دوسری جگہ عام ہیں یہاں ان کا نام و نشان بھی نہیں ہے.66 (فیضان مهدی دوران از مکرم عبدالرحمن مبشر صاحب - صفحه 107) مالی قربانیوں میں جماعت احمدیہ کے انشراح صدر کا معیار ہمارا نظام وصیت ہے.ایک عام احمدی ہر ماہ اپنی آمدنی کا 1/10 حصہ نظام وصیت میں ادا کرتا ہے.لازمی چندوں کے علاوہ سلسلہ کی متفرق تحریکات، تحریک وقف جدید، امانت تربیت، خلافت جوبلی فنڈ، ذیلی تنظیموں، یتامی، مریضان، بیوت الحمد اور امداد طلبا میں حصہ لیتا ہے اور اپنے والدین اور بیوی بچوں کی طرف سے بھی.ذاتی صدقہ و خیرات لوکل فنڈ اور ہنگامی خدمات اس کے علاوہ ہیں.جدید ان سب قربانیوں کے باوجود پھر یہ وصیت کر جاتا ہے کہ میرے ترکہ میں بھی 1/10 تا 1/3 حصہ دین حقہ کو پیش کیا جائے.اور یہی نصیحت اپنی اولاد در اولاد کو کرتا چلا جاتا ہے.یہ سلسلہ پورے سو سال سے جاری اور ترقی 559

Page 560

پذیر ہے.کیا دنیا میں کوئی قوم اس کی مثال پیش کر سکتی ہے.اسی لئے جماعت کے ایک مخالف نے لکھا کہ: دو ہر قادیانی اپنے باطل مذہب کی اشاعت کے لئے اپنی آمد میں سے 1/16 یا 1/10 حصہ دیتا ہے.1/10 حصہ جو شخص جماعت کے نام وقف کر دے وہ ان کے نزدیک بہشتی شمار ہوتا ہے اور مرنے کے بعد اسے بہشتی مقبرہ میں دفن کیا جاتا ہے.ایسے لوگوں کی تعداد میں ہزار سے زائد ہو چکی ہے جن کے نام باقاعدہ ان کے الفضل میں شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن افسوس کہ ختم نبوت کے عظیم مقصد کیلئے ابھی تک ایک عاشق بھی ایسا نہیں ملا جو 1/10 چھوڑ کر 1/100 حصہ بھی وقف کر دیتا.“ اخبار (ماہنامہ الفرقان جنوری 1974ء صفحہ 20) احمدیت کی تاریخ شاہد ہے کہ اپنے پیارے امام کی آواز پر جہاں مردوں نے والہانہ لبیک کہا وہاں عورتوں نے بھی دلی جوش سے ہر طرح کی قربانی پیش کر کے اپنے ایمانی جذبہ اور خلوص کا شاندار مظاہرہ کیا.جو نقوش جہاں انمٹ ہیں وہاں قابل صد افتخار بھی ہیں.انہیں نقوش پا پر چلتے چلتے آج احمدی مستورات ایک ایسے مقام پر آپہنچی ہیں جہاں باقی دنیا کی عورتیں پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں.جماعت کی کوئی مالی تحریک ایسی نہیں جس میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیا ہو.مثلاً بیوت الذکر کی تعمیر ، تبلیغی مشنوں کا قیام، قرآن کریم کی اشاعت الرقیم پریس، ایم ٹی اے غرض جب بھی ضرورت پڑی خواتین نے اپنی جمع پونجی، محنت مزدوری کا معاوضہ بشاشت سے اللہ کے حضور پیش کر دیا.وو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: (محسنات مرتبه لجنہ اماء اللہ کراچی صفحہ 184) یہ خلافت ہی کی برکت ہے جو تم دیکھ رہے ہو کہ کس طرح قادیان کے غریبوں اور مسکینوں نے ایسی قربانی پیش کی جس کی نظیر کسی اور جماعت میں نہیں مل سکتی.آج بھی مجھے حیرت ہوئی جب کہ ایک غریب عورت جو تجارت کرتی ہے جس کا سارا سرمایہ سو ڈیڑھ سو روپے کا ہے اور جو ہندوؤں سے مسلمان ہوئی ہے صبح ہی میرے پاس آئی اور اس نے دس دس روپے کے پانچ نوٹ یہ کہتے ہوئے مجھے دیے کہ یہ میری طرف سیمسجد کی توسیع کے لئے ہیں.میں نے اس وقت اپنے دل میں کہا کہ اس عورت کا یہ چندہ اس کے سرمایہ کا آدھا یا ثلث ہے مگر اس نے خدا کا گھر بنانے کیلئے آدھا ثلث سرمایہ پیش کر دیا ہے پھر کیوں نہ ہم یقین کر یں کہ خدا بھی اپنی اس غریب بندی کا گھر جنت میں بنائے گا اور اسے اپنے انعامات سے حصہ دے گا.الفضل 14 مارچ 1944ء صفحہ 11) (بیت) اقصیٰ اور (بیت) مبارک قادیان کی توسیع کیلئے حضرت فضل عمر (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) نے 23 دسمبر 1938ء کو ایک تحریک کی کہ ہر کمانے والا دس روپے فی کس کے حساب سے چندہ دے اور جن عورتوں کی کوئی آمدنی نہیں اور بچے بھی صرف ایک پیسہ فی کس چندہ دیں تا کہ جماعت کا کوئی فرد اس ثواب سے محروم نہ رہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے عورتوں کے جذبہ قربانی کا یوں تذکرہ فرمایا: ”جب میں نے اس کے متعلق خطبہ پڑھا تو باوجود یہ کہ میں نے کہہ دیا تھا اس تحریک میں دس روپے سے زیادہ کسی سے نہ لیا جائے پھر بھی ایک عورت نے اپنی دوسو روپے کے قریب مالیت کی چوڑیاں اس فنڈ میں داخل کر دیں جو میں نے بہ زور واپس کیں اور کہا کہ آپ اس میں سے دس روپے تک ہی دے سکتی ہیں.“ تاریخ لجنہ جلد 1 صفحہ 436 و 437) نائیجیریا (Nigeria) میں جب امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفة أصبح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے تحریک فرمائی تو ایک خاتون 560

Page 561

نے 30,25 ہزار پاؤنڈ پیش کئے آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” میرے علم میں افریقی ممالک کا کوئی اکیلا فرد بھی ایسا نہیں جس نے بیک وقت 30,25 ہزار چندہ دیا ہو.اسی طرح ایک اور نائیجیرین خاتون الحاجہ لا رگا نے بھی دس ہزار پاؤنڈ مسجد کے لئے پیش کئے.امریکہ میں پرانے زمانوں میں بہت غربت تھی یعنی احمدی افراد اکثر پیدائشی امریکیوں میں سے آئے تھے اور ان کے حالات اس وقت بہت ہی غربت کے حالات تھے تو احمدی خواتین خدمت کر کے اپنی قربانی کی روح کو تسکین دیا کرتی تھیں.ہماری ایک مخلص خاتون کلیولینڈ اوہایو (Cleveland, Ohio) سے تعلق رکھتی ہیں انہوں نے بتایا کہ ہم اتنے غریب تھے کہ میرا سارا خاندان اتنا شکستہ حال تھا کہ کچھ بھی ہم خدمت کرنے کے لائق نہ تھے.میں اپنے خدمت کے جذبے کو تسکین دینے کے لئے یہ کیا کرتی تھی کہ جمعہ کے روز علی اصبح مشن ہاؤس جاتی اپنے ساتھ پانی کی بالٹی اور گھر میں بنائے ہوئے صابن کا ٹکڑا لے جاتی تھی یعنی اس زمانے میں امریکہ جیسے ملک میں بھی ان کو صابن خریدنے کی توفیق نہیں ملتی تھی گھر میں بنایا ہوا صابن لے جا کر ساری مسجد دھوتی اور پالش کرتی اور جمعہ سے پہلے اس لئے واپس آجایا کرتی تھی کہ کسی کو پتہ نہ لگے کہ یہ کام کس نے کیا ہے.عجیب حسین اور ہمیشہ زندہ رہنے والی قربانیاں ہیں لیکن بے آواز ہیں اور ہر ملک میں احمدی عورتیں اس قربانی میں برابر شریک ہوتی ہیں.“ (محسنات از لجنہ اماء اللہ کراچی - صفحه 214) حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تقریر 12 ستمبر 1992ء کو جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر فرمایا: حضرت فضل عمر اس زمانے میں مسجد برلن کی تعمیر کی تحریک کے دوران ایک احمدی پٹھان عورت کی قربانی کا ذکر کرتے ہیں.کہتے ہیں: ضعیف تھی، چلتے وقت قدم سے قدم نہیں ملتا تھا، لڑکھڑاتے ہوئے چلتی تھی، میرے پاس آئی اور دو روپے میرے ہاتھ میں تھما دیئے.زبان پشتو تھی، اُردو اٹک اٹک کر تھوڑا تھوڑا بولتی تھی اتنی غریب عورت تھی کہ جماعت کے وظیفہ پر پل رہی تھی اس نے اپنی چھنی کو ہاتھ لگا کر دکھایا کہ یہ جماعت کی ہے اپنی قمیص کو ہاتھ میں پکڑ کر بتایا کہ یہ جماعت کی ہے، جوتی کی طرف اشارہ کر کے کہا یہ بھی جماعت کی ہے اور جو وظیفہ ملتا تھا اس میں سے جو دو روپے تھے وہ کہتی ہے وہ بھی جماعت ہی کے تھے.میں نے اپنے لئے اکٹھے بچائے ہوئے تھے اب میں یہ جماعت کے حضور پیش کرتی ہوں.کتنا عظیم جذبہ تھا وہ دو روپے جماعت ہی کی وظیفہ سے بچائے ہوئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور اس دو روپے کی عظیم قیمت ہو گی.حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس نے کہا یہ جوتی دفتر کی ہے، میرا قرآن بھی دفتر کا ہے یعنی میرے پاس کچھ بھی نہیں مجھے ہر چیز دفتر سے ملتی ہے.فرماتے ہیں اس کا ایک ایک لفظ ایک طرف تو میرے دل پر نشتر کا کام کر رہا تھا ور دوسری طرف میرا دل اس محسن کے احسان کو یاد کر کے جس نے ایک مردہ قوم میں سے زندہ اور سر سبز روحیں پیدا کر دیں.شکر و احسان کے جذبات سے لبریز ہو رہا تھا اور میرے اندر سے یہ آواز آ رہی تھی.خدایا! تیرا مسیحا کس شان کا تھا جس نے ان پٹھانوں کی جو دوسروں کا مال لوٹ لیا کرتے تھے ایسی کایا پلٹ دی کہ مرہ تیرے دین کے لئے اپنے ملک اور اپنے عزیز اور اپنا مال قربان کر دینا ایک نعمت سمجھتے ہیں.“ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”جب مسجد کوپن ہیگن کی تحریک ہو رہی تھی اور عورتیں جس طرح والہانہ طور ہو رہی تھی اور عورتیں جس طرح والہانہ طور پر سب کچھ حاضر کر رہی تھیں تو اتفاق سے ایک غیر احمدی عورت بھی وہاں بیٹھی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی.اس نے یہ تبصرہ کیا کہ ہم نے دیوانہ وار لوگوں کو پیسے لیتے دیکھا ہے لیکن دیوانہ وار لوگوں کو پیسے دیتے کبھی نہیں دیکھا.یہ آج احمدی عورتوں نے ہمیں وو پر 561

Page 562

بتایا ہے کہ پیسے لیتے ہوئے جوش نہیں ہوا کرتا اصل جوش وہ ہے جو پیسے دیتے وقت دکھایا جائے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ وہ زندگی کی علامت ہے جس نے احمدی خواتین کو سب دنیا میں ممتاز کر دیا ہے.“ فیضان علمی: محسنات صفحه 212 و 213 از لجنہ اماء اللہ کراچی) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد بیان کرتے و ہے فرمایا: "يُـخــي الدِّينَ وَ يُقِيمُ الشَّرِيعَة..که موعود نبی دین اسلام کا احیا اور شریعت کا قیام کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اس عظیم الشان مقصد کو خلفائے احمدیت نے آگے بڑھایا.کہیں تو نبوت کے فیضان کو ٹھوس علمی اور تحقیقی کتب کے ذریعہ سے عام کیا اور کہیں زمانے کے تقاضوں کے مطابق قرآن و حدیث کی ایسی تشریحات کیں کہ جن سے روح وجد میں آ گئی.خطبات اور خطابات کے ذریعہ تشنہ روحوں کی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے مسائل میں رہنمائی فرمائی.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں علمی فیضان کی ایک جھلک احمدی اخبارات و رسائل کی شکل میں نظر آتی ہے.چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں اخبار نور، اخبار الحق، رسالہ احمدی، احمدی خاتون، اخبار پیغام صلح اور الفضل کا اجرا ہوا.الفضل 24 مئی 2006ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی تعلیمی حالت کا ذکر اپنی کتاب ملا نگہ اللہ میں یوں فرمایا ہے: ” میں نے کوئی امتحان پاس نہیں کیا.ہر دفعہ فیل ہی ہوتا رہا ہوں مگر اب میں خدا کے فضل سے کہتا ہوں کہ کسی علم کا مدعی آجائے، ایسے علم کا مدعی آجائے جس کا میں نے نام بھی نہ سنا ہو اور وہ اپنی باتیں میرے سامنے مقابلہ کے طور پر پیش کرے اور میں اسے لاجواب نہ کر دوں تو جو اس کا جی چاہے کہے.ضرورت کے وقت پر خدا علم مجھے سکھاتا ہے اور کوئی شخص نہیں ہے جو مقابلے میں ٹھہر سکے.“ مانگہ اللہ - صفحہ 53 ، ایڈیشن 1956 ء) رضی اللہ عنہ کے اس دعویٰ کی تصدیق و معرکۃ الآرا خطابات و تقاریر کر رہے ہیں جن میں آپ رضی اللہ عنہ نے صدیوں پرانی گتھیوں کو سلجھایا اور دین اسلام کے نہ صرف حاضرہ مسائل کا حل کیا بلکہ اسلام کے مستقبل سے بھی آگاہ کیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مختلف علمی موضوعات پر کتب تحریر فرمائیں جن کی تقسیم کچھ یوں کی جا سکتی ہے.1) دینی و مذہبی تصانیف (2) دعوت الی اللہ سے متعلق تصانیف (3) اصلاحی و اخلاقی تصانیف (4) سیاسی تصانیف (5) اقتصادی و عمرانی مسائل پر تصانیف (6) تاریخی و سوانحی تصانیف (7 دہریت اور عیسائیت کے باب میں تصانیف 8) ہندومت، آریہ دھرم اور سکھ پیٹھ کے بارے میں تصانیف 9) فلسفیانہ تصانیف (10) تصوف و الہیات سے متعلق تصانیف (11) مذہب اور سائنس کے بارے میں تصانیف (12) مخالفین رسول کے جوابات (13) زمینداروں کے مسائل کے بارے میں (14) تحریک کشمیر پر 15 خواتین کے مسائل 16) قیام و استحکام پاکستان (17) سرمایہ داری اور کیمونزم وغیرہ پر.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تصنیفات میں دورِ حاضر کے بعض پیچیدہ مسائل کا حل نہایت عمدگی سے عام فہم انداز میں تحریر فرمایا.اس سلسلہ میں بطور مثال دو تصنیفات کے متعلق عرض ہے.562

Page 563

1) اسلام میں اختلافات کا آغاز : (1 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت باریک بینی اور ذہانت سے اس عنوان کا حق ادا کیا ہے.آپ رضی اللہ عنہ نے 26 فروری 1919ء کو اسلامیہ کالج لاہور میں مشہور مؤرخ سید عبدالقادر صاحب ایم.اے پروفیسر شعبہ تاریخ کی صدارت میں اپنا مذکورہ لیکچر پیش کیا جو بعد میں اہل شوق کے تقاضے پر کتابی صورت میں پیش کیا گیا.اس لیکچر کی علمی حیثیت اور تاریخی اہمیت سے متعلق پروفیسر مذکورہ نے ان الفاظ میں اپنے صدارتی خطاب میں ارشاد فرمایا: فاضل باپ کے فاضل بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام نامی اس بات کی کافی ضمانت ہے کہ یہ تقریر نہایت عالمانه مجھے بھی اسلامی تاریخ سے کچھ شد بُدھ ہے اور میں دعوئی سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان ہے.اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مؤرخ ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد کے اختلافات کی تہہ تک پہنچ سکے ہیں اور اس مہلک اور پہلی خانہ جنگی کے فتنہ کے اسباب سمجھنے میں کامیابی ہوئی ہے بلکہ انہوں نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائے میں ان واقعات کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایوان خلافت مدت تک تزلزل میں رہا.میرا خیال ہے ایسا مدلل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے نہیں گزرا ہو گا.2 اسلام کا اقتصادی نظام: (پیش لفظ کتاب مذکور ) دنیا کے امن و امان اور تعمیر و ترقی میں اقتصادی و معاشی حالت کو ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے.آج کی ترقی یافتہ ریاستیں اس دعوے کی منہ بولتی دلیل ہیں مگر ان کی اقتصادی ترقی نے ان کی روحانی حالت کو از بس بگاڑ دیا ہے.ان حالات کو دیکھ کر بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اقتصادی حالات کے سنورنے سے انسان صرف مادی طور پر ترقی کر سکتا ہے اور اس کے لئے وہ یورپ اور اشترا کی ملکوں اور امریکہ وغیرہ کی مثال پیش کرتے ہیں مگر ایسے حالات میں قرآن نے جو اقتصادی نظام پیش کیا ہے،ا ہل عالم کو اس کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ وہ مادی اور روحانی دونوں پہلوؤں میں مساوی ترقی کے مواقع پیش کرتا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دنیا کی اسی ضرورت کے تحت 1945ء میں احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کے زیر انتظام لاہور میں ایک علمی لیکچر اسلام کا اقتصادی نظام کے عنوان پر دیا.اس لیکچر کو سننے کے لئے احمدی احباب کے علاوہ ہزاروں کی تعدا میں مسلم اور غیر مسلم معززین تشریف لائے جن کی اکثریت تعلیم یافتہ تھی اور پنجاب یونیورسٹی کے طلبا اور اساتذہ خصوصاً اس موقع پر موجود تھے.اس تقریر کی صدارت ایک ہندو سکالر مسٹر رامچند مچندہ ایڈووکیٹ لاہور ہائی کورٹ نے کی.یہ تقریر تقریباً اڑھائی گھنٹے جاری رہی اور تقریر کے دوران حاضرین کے وفورِ شوق کا عالم دیدنی تھا.صدر جلسہ نے تقریر کے بعد اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی قیمتی تقریر سننے کا موقع ملا.مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ تحریک احمدیہ ترقی کر رہی ہے اور نمایاں ترقی کر رہی ہے.جو تقریر اس وقت آپ لوگوں نے سنی ہے اس کے اندر نہایت قیمتی اور نئی نئی باتیں امام جماعت احمدیہ نے بیان فرمائی ہیں.جماعت احمدیہ اسلام کی پیش کرتی ہے جو اس ملک کے لئے نہایت مفید ہے.پہلے تو میں یہ سمجھتا تھا اور میری غلطی تھی کہ اسلام اپنے قوانین میں صرف مسلمانوں کا ہی خیال رکھتا ہے غیر مسلموں کا کائی لحاظ نہیں رکھتا.مگر آج حضرت امام جماعت دو وہ 563

Page 564

6 احمدیہ کی تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام تمام انسانوں میں مساوات کی تعلیم (دیباچہ اسلام کا اقتصادی نظام) حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ایک بلند پایہ مصنف بھی تھے.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتب عصر حاضر کا بہترین علمی شاہکار ہیں.جن میں مذہب کے نام پر خون وصال ابن مریم، سوانح فضل عمر حصہ اول و دوم، ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ,Response to Contemporary Issues, Christianity: A Journey from Facts to Fiction.Revelation.Rationality نیز قرآن کریم کی سورتوں کے تعارف اور مختصر تشریحی نوٹس کے ساتھ ترجمہ قابل ذکر ہیں.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کا منظوم کلام بھی جماعتی تعلیم و تربیت میں بڑا ممد و معاون ثابت ہوا جو کہ کلام طاہر کے نام سے شائع ہو چکا ہے.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے تعلیمی و تربیتی اور عالمی و ملکی مسائل سے متعلق متعدد سلسلہ وار خطبات بھی کتابی صورت میں چھپ کر اپنوں اور غیروں کی رہنمائی کا باعث بن رہے ہیں.جن میں سے خلیج کا بحران اور نظام جہان نو، ذوق عبادت اور آداب دعا.زھق الباطل اور سلمان رشدی کی کتاب پر محققانہ تبصرہ کے عنوان سے معروف ہیں.جماعت احمدیہ میں علم حدیث کی ترویج: الفضل 24 مئی 2006 ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات اور عملی نمونہ کی اتباع میں جماعت احمدیہ میں قرآن کریم کے بعد حدیث کو افراط و تفریط سے بچ کر اس کا صحیح مقام دیا گیا ہے.خاص طور پر صحیح بخاری کے درس و تدریس کا سلسلہ تو حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی شروع فرمایا تھا اور اپنی وفات سے پہلے جو وصیت تحریر کروائی تھی اس میں لکھا تھا : قرآن اور حدیث کا درس جاری رہے.آپ رضی اللہ عنہ کو اس بات کا بہت احساس تھا کہ صحیح بخاری کا ترجمہ اور ضروری مقامات کی تشریح جماعت کی طرف سے شائع ہو.ایک دفعہ صحیح بخاری کے درس کے دوران فرمایا: جو ترجمہ صحیح بخاری درس حدیث میں احباب کے سامنے ہوتا ہے وہ ترجمہ مولوی وحید الزمان کا ہے جو لاہور اور امرتسر میں چھپا ہے.اس کا اشتہار اخبار بدر میں بھی ہوتا ہے.جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس کے سوائے اور کوئی ترجمہ بین السطور نہیں ہے.مولوی وحید الزمان سلسلہ کا سخت دشمن ہے اور اس نے جا بجا اپنے حاشیہ میں خواہ مخواہ ہم کو گالیاں دی ہیں لیکن جب تک وہ وقت نہ آجائے کہ ہمارے اپنے ترجمے اور حاشیے چھپیں تب تک ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان لوگوں کی گالیوں سے ڈر کر بخاری کے ترجمہ کو پڑھنا چھوڑ دیں.......اصل بخاری اور اس کے ترجمہ میں تو کوئی دخل ہی کیا دے سکتا ہے باقی رہے حواشی سو خُذْ مَا صَفَا وَ دَعْ مَا كَدَرَ پر عمل کرنا چاہئے.بدر 7 اگست 1913ء درس حدیث صحیح بخاری صفحہ 6) حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے صحیح بخاری درساً حضرت خلیفۃ انسیح الاول رضی اللہ عنہ سے پڑھی تھی.آپ رضی اللہ عنہ کو بھی باوجود اپنی دیگر مصروفیات اور فرائض کی ادائیگی کے اس ضرورت کا بہت احساس تھا کہ جماعت میں حدیث کی تعلیم عام ہو.چنانچہ 28 اکتوبر 1926ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جامع صحیح بخاری کے ترجمہ اور تشریح کا کام حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کر کے فرمایا: بہت سے ضروری کام ہیں جو کرنے کے ہیں مگر ان کی طرف توجہ نہیں تھی.مثلاً صحیح بخاری کے ترجمہ اور اس کی شرح کا کام بھی نہایت ضروری اور اہم ہے.اگر ہم نے نہ کیا تو ان لوگوں سے کیا توقع ہو سکتی ہے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی صحبت میں رہنے کا موقع نہیں ملا اور جو آپ علیہ السلام کے فیضان سے 564

Page 565

براه راست مستفیض نہیں ہوئے.غیروں کے تراجم اور حواشی رہ جائیں گے اور پھر جو اناپ شناپ لکھا ہوا ہو گا اسی پر دارومدار ہو گا اور پھر بعد از وقت اعتراضوں کو دیکھ کر ادھر ادھر کے جوابوں کی سوجھے گی.(دیباچہ جلد ہذا صفحه 47) حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ رضی اللہ عنہ نے حضرت خلیفہ لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کی تعمیل میں صحیح بخاری کے ترجمہ اور شرح پر کام شروع کر دیا لیکن 1926 ء سے 1947ء تک کا عرصہ جماعت احمدیہ کا انتہائی ہنگامہ خیز دور تھا.قیام پاکستان کے بعد اس کی اشاعت کا کام اداراۃ المصنفین کے سپرد ہوا جس کے منیجنگ ڈائریکٹر حضرت مولانا ابو المنیر نور الحق صاحب فاضل تھے.چنانچہ آپ کی نگرانی میں 1960ء سے 1976 ء تک کے سولہ سالوں میں صحیح بخاری کے ترجمہ اور شرح کے پندرہ پاروں تک کی اشاعت ہوئی.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات 16 مئی 1967 ء تک 19 پاروں کے ترجمہ اور شرح کا کام مکمل کر لیا تھا اور اگلے پاروں کا ترجمہ کا ترجمہ بھی مکمل کر لیا تھا.آپ رضی اللہ عنہ کی وفات پر اس کی اشاعت حضرت مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب کے سپرد ہوئی.1983 ء میں بعض حالات کی بنا پر ادارۃ المصنفین کو بند کرنا پڑا اور حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بخاری کا زیر تکمیل کام نظارت اشاعت کے سپرد فرمایا.نظارت کے زیر اہتمام حضرت مولوی ابو المنیر نور الحق صاحب نے اگلے پاروں کا کام جاری رکھا.مولوی صاحب کی وفات کے بعد نظارت اشاعت کی درخواست پر ناظر اعلیٰ صاحب صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب نے 2002ء میں یہ سارا کام مولانا شبیر احمد صاحب ثاقب صدر شعبہ حدیث جامعہ احمدیہ ربوہ کے سپرد فرمایا.المسيح 2005ء میں حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے علم حدیث کی ترویج اور اشاعت کے لئے حضرت حاجی الحرمین حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے نام پر نور فاؤنڈیشن قائم فرمائی ہے جو صحاح ستہ یعنی صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ نیز مسند احمد تحسنبل کا پہلے مرحلہ میں اردو میں ترجمہ کرے گی.ا (پیش لفظ صحیح البخاری - صفحہ 6-5) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اخبار الفضل قادیان جیسا بلند پایه اخبار اپنی منفرد ذاتی کوششوں سے 18 جون 1913ء کو جاری فرمایا جس میں ”تاریخ اسلام ایک مستقل کالم کا اجرا بھی کیا.یہ کالم جو بخاری کی مستند احادیث کی شرح کی روشنی میں آپ رضی اللہ عنہ کے قلم مبارک سے نکلا.اُنیسویں صدی میں عشاق رسول کیلئے اپنی نوعیت کا منفرد اسلوب و انداز کا حامل تھا.یہ کلام احمد کے گلشن کی نئی بہار تھی جس نے قلوب و اذہان کو معطر کر دیا اور رگ رگ میں عشق نبوی کی شمعیں روشن کر دیں.خصوصاً نوجوانان احمدیت کو احادیث کی معرفت کا ایک ایسا شعور بخشا جس کی یاد مدتوں تک تازہ رہے گی.علم و عرفان کا یہی بیش بہا خزانہ ہے جسے حضور رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں پہلی بار یکم دسمبر 1924 ء کو شائع کر دیا گیا اور قادیان اور ربوہ سے اس کے متعدد ایڈیشن چھپ چکے ہیں.خلات اور خدمت قرآن کریم: ( الفضل 24 مئی 2006 ء ) فیضان خلافت کا ایک نہایت روشن پہلو خدمت قرآن خلفائے احمدیت نے قرآن مجید کی محبت دلوں میں اُجاگر کی ہے.اور اس کا علم سیکھنے اور سیکھانے کے لئے مختلف ذرائع اختیار کیے.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مردوں اور عورتوں میں الگ الگ قرآن مجید کا درس دینا شروع کیا جو بعد میں کتابی شکل میں تفسیر کبیر کے نام سے شائع ہو گیا.یہ تفسیر علمی اور تربیتی 565

Page 566

لحاظ سے اتنی اعلیٰ درجہ کی ہے کہ کئی غیر از جماعت علما نے بھی اس کی تعریف کی ہے.کئی لوگ اسے پڑھ کر ہی احمدی ہوگئے.پھر حضور رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کا اردو زبان میں سلیس، سادہ اور بامحاورہ ترجمہ بھی کیا اور اس کے ساتھ ضروری مقامات پر تفسیری نوٹ بھی لکھے.یہ ترجمہ سب سے پہلے 1957ء میں تفسیر صغیر کے نام سے شائع ہوا.اسے اپنوں اور غیروں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے.جماعت کی تربیت کے لئے دوسرا ذریعہ حضور رضی اللہ عنہ نے خطبات و تقاریر کا اختیار کیا.قریباًہر دینی مسئلہ پر اور تربیت کے ہر پہلو پر حضور رضی اللہ عنہ نے تقاریر فرمائیں اور خطبات دیئے.یہ خطبات و تقاریر بہت ہی پراثر ہیں جو انوار العلوم اور خطبات محمود کے عنوان سے شائع ہو رہے ہیں.(الفضل 24 مئی 2006ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ابتدائے خلافت سے یہ دستور رہا ہے کہ حضور رضی اللہ عنہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ہمیشہ ایک خالص علمی موضوع پر تقریر فرمایا کرتے ہیں.چنانچہ 1928ء کے جلسہ پر حضور رضی اللہ عنہ نے ”فضائل القرآن“ کے عنوان پر ایک اہم سلسلہ تقاریر کا آغاز فرمایا جو 1933 ء تا1935ء کو مستثنیٰ کر کے 1936ء کے جلسہ تک جاری رہا.حضور رضی اللہ عنہ کا منشا مبارک دراصل یہ تھا کہ قرآن کریم کی فضیلت سے متعلق سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے براہین احمدیہ میں جو تین سو دلائل لکھنے کا وعدہ فرمایا تھا وہ اگر چہ حضور رضی اللہ عنہ ہی کی دوسری تصنیفات میں پایہ تکمیل تک پہنچ گیا مگر وہ ظاہری طور پر بھی پورا کر دیا جائے مگر مشیت ایزدی کے مطابق صرف چھ لیکچر ہو سکے.فضائل القرآن کے لیکچروں کے اس بیش بہا مجموعہ میں جو 444 صفحات پر م ہے حضور رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں پر فضیلت کے متعدد دلائل دیئے ہیں اور قرآن مجید کے بہت سے مشکل مقامات کو نہایت خوبی اور نفاست سے حل کیا ہے اور مستشرقین کے اعتراضات کا ایسے مؤثر رنگ میں جواب دیا ہے کہ انسان عش عش کیے بغیر نہیں رہ سکتا.مشتمل ؟ اس سلسلہ کی چھٹی تقریر حضور رضی اللہ عنہ کے ایک ایسے چیلنج پر ختم ہوئی جس کو قبول کرنے کی جرأت آج تک کسی غیر مسلم مفکر کو نہیں ہوئی.پینج کے الفاظ یہ ہیں: قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی کسی اور کتاب کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا یہ دعوی ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو میرے سامنے آئے.اگر کوئی توریت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے، اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں استعارہ سمجھوں پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی پیش نہ کر دوں تو وہ بے شک مجھے اس دعوی میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کر دوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی کوئی اور کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں.“ تاریخ احمدیت جلد نمبر 5 صفحہ 96-95) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کے درس و تدریس سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور کو ناسازی طبع کے باوجود بہت محنت و مشقت کرنا پڑتی.درس القرآن کو علمی اور تحقیقی پہلو سے مکمل کرنے کے لئے حضور گرمی کے تکلیف دہ موسم میں رات کے بارہ بارہ بجے تک کتب کا مطالعہ کر کے نوٹ تیار کرنے میں مصروف رہتے اور پھر دن میں سلسلہ کے اہم اور ضروری معاملات کی سرانجام دہی کے علاوہ روزانہ چار پانچ گھنٹہ تک سینکڑوں کے اجتماع میں بلند آواز سے درس دیتے.جس قدر وقت میسر آسکا اسے کلام اللہ پر غور کرنے اور اس کے حقائق و معارف بیان کرنے میں مصروف فرماتے.تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 59) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی قرآن مجید سے محبت اور اس کے علم کی غیروں نے بھی داد دی.چنانچہ مولانا ظفر علی 566

Page 567

خاں ایڈیٹر اخبار ”زمیندار“ لاہور رقمطراز ہیں:.".....تم اور تمھارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے.مرزا محمود احمد کے پاس قرآن ہے اور قرآن کا علم ہے.تمھارے پاس کیا دھرا ہے؟ تم نے تو کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا.“ ایک خوفناک سازش از مولانا مظہر علی اظہر صفحه 196) 4 مارچ 1927 ء کو لاہور میں ایک جلسہ منعقد ہوا.یہ جلسہ شاعر مشرق جناب ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی صدارت میں ہوا جس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک تقریر فرمائی.اس تقریر کے بعد صدر جلسہ علامہ اقبال نے حاضرین سے اپنے نہایت مختصر خطاب کے دوران فرمایا:......ای پر از معلومات تقریر بہت عرصے کے بعد لاہور میں سننے میں آئی ہے.خاص کر جو قرآن شریف کی آیات سے مرزا صاحب نے استنباط کیا ہے وہ تو نہایت ہی عمدہ ہے.میں اپنی تقریر کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ سکتا تا مجھے اس تقریر سے جو لذت حاصل ہو رہی ہے وہ زائل نہ ہو جائے.“ دو (الفضل 15 مارچ 1927 ء) حضرت خلیفة المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بابرکت عہد خلافت میں جن تحریکات کا اجرا فرمایا وہ تمام کی تمام غیر معمولی طور پر کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور جماعت کی ترقی کا باعث بنیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم پڑھنے ھنے اور پڑھانے کی جو تحریک فرمائی ہے وہ بھی بہت کامیاب ہو رہی ہے.ہزاروں احمدی اپنے خرچ پر وقف عارضی کی تحریک میں حصہ لے کر لوگوں کو قرآن کریم پڑھانے میں مشغول ہیں اور انہیں برائیوں سے بچنے اور نیک کام کرنے کی تلقین کر رہے ہیں.اس تحریک کے نتیجہ میں جماعت کی دینی تعلیم کا اور اس کی تربیت کا انتظام ہو رہا ہے اور وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے.الفضل 24 مئی 2006ء) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی کی خدمات قرآن کے حوالہ سے عظیم الشان خدمت اور تاریخ احمدیت میں سنہری حروف سے لکھا جانے والا امر آپ کا وہ معرکۃ الآرا ترجمۃ القرآن جو متن کے قریب تر رہ کر ایسا بامحاورہ ترجمہ ہے کہ جو اردو زبان کے محاسن سے بھی مرصع ہے اور قرآن مجید کی غرض و غایت اور اصل مضامین کو بھی اظہر من الشمس کر رہا ہے.اس ترجمہ کو خوب سے خوب تر بنانے میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایسی والہانہ اور انتھک محنت کی کہ جس کی نظیر نہیں ملتی.انگلستان میں قیام ہو یا بیرونی دورہ جات کا اثناء مخصوص کیسے ہوئے وقت کے علاوہ بھی جب وقت میسر آتا (بلکہ وقت نکالتے) معاون کو بلا کر ترجمہ پر نظر ثانی کا کام شروع فرما دیتے.متعدد لغات اور گزشتہ تفاسیر کو بھی پیش نظر رکھا حتی کے متعدد بار مکمل ترجمہ قرآن کی از سر نو دُہرائی فرمائی اور ہر بار اس محبوب کے حسن کو مزید سنوار کر اور نکھار کر پیش فرمایا جس میں جا بجا اچھوتے ترجمہ کے پھول بہار جاوداں دکھا رہے ہیں اور اس پر مستزاد سورتوں کے آغاز میں وہ تعارفی نوٹ ہیں جو عرفان قرآن اور تربیتی اخلاقی مضامین کے ساتھ ساتھ زمانہ حاضر کی جدید سائنسی ترقیات اور آئندہ سے متعلق پیشگوئیوں پر مشتمل معارف کا بھی نہایت احسن احاطہ کر رہے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی نے اپنے کئی خطبات کے ذریعہ جماعت میں یہ یقین راسخ فرمایا کہ: ”ہماری نسلوں کو اگر سنبھالنا ہے تو قرآن کریم نے سنبھالنا ہے.جب تک یہ کتب قریب نہ آئے اس دنیا کے مسائل حل نہیں ہو سکتے اور نہ ہماری تربیت ہو سکتی ہے.“ چنانچہ قرآن کریم کو ذہنوں اور دلوں کے قریب کرنے اور تربیت کی بنیادی ضرورت پوری کرنے کے لئے اور قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرنے کا طریق سکھانے کیلئے آپ نے ایک ترجمہ القرآن کلاس کا آغاز فرمایا.درحقیقت امام وقت ہی ہوتا ہے 567

Page 568

جس پر زمانے کی ضروریات کے مطابق کلام الہی کے معارف کھولے جاتے ہیں اور وہی جماعت کے دلوں کو باہم باندھ کر کلام الہی سے محبت پیدا کرنے والا ہوتا ہے.اس کلاس کے دوران حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی ملاقہ کے اسوہ کی اتباع میں تعلیم و تفہیم کے ہر انداز کو اپنایا.کبھی ایک مشکل بتا کر خود اس کا حل بتاتے اور کبھی حاضرین کو غور کرنے اور جواب دینے کی دعوت دیتے اور جواب درست ہونے پر بے حد حوصلہ افزائی فرماتے ، کبھی مختصر اصولی بحث فرماتے ، کبھی قدرے تشریح وضاحت فرماتے اور کبھی یوں بھی ہوتا کہ کوئی مسئلہ فوری طور پر حل پذیر نہ ہوتا تو قرآن مجید کے اصل مطلب اور مضمون سے عشق کی بنا پر کمال عجز سے فرماتے کہ اس کی سمجھ نہیں آئی کل غور کر کے اس پر بات کریں گے اور بعض اوقات یوں بھی ہوا کہ حاضرین میں سے کسی کا پیش کردہ حل قبول فرما لیا مگر بعد میں اس پر تدبر فرماتے ہوئے اور بھی بہتر جواب عطا فرما دیا.ان کلاسز کا اجرا 15 جولائی 1994 ء سے ہوا اور مکمل ترجمۃ القرآن پرمشتمل 305 کلاسز کے ذریعہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے شاگردوں کو فہم قرآن اور عشق قرآن کے اسلوب سمجھائے.ان کلاسز کے اتنے لمبے عرصہ پر پھیلے ہوئے اتنے طویل سلسلہ کو جس باقاعدگی لگن اور عزم و استقلال سے جاری رکھا اور تکمیل کو پہنچایا وہ ایک عاشق حقیقی کے سوا کسی اور کا نصیبہ ہو سکتا ہی نہیں.ایک مرتبہ تھکا دینے والے لمبے دورہ سے واپس تشریف لائے تو اگلے ہی دن ترجمۃ القرآن کلاس آ گئی تو حسب سابق پورے وقت پر تشریف لائے اور آکر فرمایا: یہ اچھا ہوا کہ سفر سے واپسی پر ترجمہ سے آغاز ہو رہا ہے.“ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وو کلاس نمبر 12 الفضل 27 دسمبر 2003ء) ہے " آج اللہ تعالیٰ نے قرآن کی عظمت کی خاطر قرآنی دلائل کی تلوار میرے ہاتھ میں تھمائی ہے.میں قرآن پر حملہ نہیں ہونے دوں گا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر حملہ نہیں ہونے دوں گا.جس طرف سے آئیں، جس بھیس میں آئیں ان کے مقدر میں شکست اور نامرادی لکھی جا چکی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دوبارہ قرآن کریم کی عظمت کے گیت گانے کے جو دن آئے ہیں آج یہ ذمہ داری مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں میرے سپرد ہے اس لئے جب تک میں حق ادا نہ کر لوں ان آیات پر ٹھہرا رہوں گا یہاں تک کہ آپ پر اور سب پر، ہر ذی عقل پر ثابت ہو جائے گا کہ یہ جھوٹے عقیدے ہیں.(درس القرآن فرموده: 16 رمضان المبارک 27 فروری 1994ء) حضرت خلیفة اصبح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے 21 سالہ دور خلافت میں متعدد زبانوں میں تراجم قرآن تیار ہوئے جن کی حضرت خلیفة أمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے براہِ راست نگرانی فرمائی اور نہایت دیدہ زیب اور اعلیٰ معیار کی طباعت کا بھی اہتمام فرمایا ان تراجم کی کل تعداد 57 ہو چکی ہے.اسی طرح دنیا کی 117 زبانوں میں مختلف مضامین مشتمل منتخب آیات کے تراجم شائع کئے گئے اور دنیا بھر کو قرآن کریم کی شیریں تعلیم سے روشناس کرایا گیا.حضرت خلیفة أمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ مختلف مواقع کے خطابات، مجالس عرفان، انفرادی و اجتماعی ملاقاتیں اور انتظامی و تربیتی معاملات میں ہدایات قرآنی رہنمائی کے آئینہ دار تھے مگر وہ درس القرآن جو متعدد سالوں کے رمضان المبارک کے ایام میں ارشاد فرمائے ایک ایسا حسین منظر پیش کر رہے ہیں جس میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک کے عشق سے مخمور کبھی معارف کے بحر ذخار کی تہہ سے عرفان کے چمکدار اور قیمتی موتی چن کر لارہے ہیں اور کبھی قرآن کی 568

Page 569

میں راہ پاجانے والی غلط باتوں کی اصلاح فرما رہے ہیں اور بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ آپ خدا کے پہلوان کی طرح شیر ببر بن کر قرآن مجید پر حملہ آور ہونے والوں کے مقابلہ پر چومکھی لڑائی میں مشغول نظر آتے ہیں.بدطینت مستشرقین کی قرآن پاک، رسول اللہ ملالہ اور آپ ملالہ کے اصحاب کے خلاف ہرزہ سرائی کا دندان شکن جواب بھی دے رہے ہیں اور الزام تراشی کرنے والوں اور قرآن کے حسن کو گہنانے کی کوشش کرنے والوں کے مقابل پر فتح و ظفر کے جھنڈے لہرا رہے ہیں.اس طرح یہ سلسلہ دروس حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے قرآن مجید سے عشق اور اس کی خدمت کا ایک عظیم الشان اور سنہرا باب ہے.جدید اکتشافات کے بیان اور علمی تحقیقات سے مزین ان دروس کا آغاز حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت کے معاً بعد آنے والے رمضان المبارک 1984ء میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر سے ہوا.ابتدائی سالوں میں بعض معین دنوں میں بزبان انگریزی یہ درس ہوتا تھا.پھر MTA کے آغاز کے بعد رمضان المبارک فروری 1993ء سے رمضان المبارک 2001 ء تک مسلسل یہ درس بزبان اردو براہِ راست نشر ہوتا رہا.اردو میں ارشاد فرمائے گئے ان دروس کا آغاز سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 145 سے ہوا اور آخری درس میں سورۃ انفال کی آیت نمبر 2 کی تفسیر بیان فرمائی.(الفضل انٹر نیشنل 25 جولائی 2003ء بحوالہ الفضل 27 دسمبر 2003ء) ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت کے امام کو پہچاننے کی توفیق دی اور اس کا سراسر فضل و احسان ہے کہ ہمیں خلافت کے نظام میں شامل کیا، ایک امام عطا کیا جو ہمارے لئے اپنے دل میں درد رکھتا ہے، ہمارے لئے اپنے دل میں پیار رکھتا ہے، اس خوش قسمتی پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے، اس شکر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز سنیں، اس کی ہدایات کو سنیں اور ان پر عمل کریں کیونکہ اس کی آواز کو سننا باعث ثواب اور اس کی باتوں پر عمل کرنا دین و دنیا کی بھلائی کا موجب ہے.اس کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے، خدا تعالیٰ کے یہ برگزیدہ بندے زمانے کی ضرورت کے مطابق بولتے اور خدائی تقدیروں کے اشاروں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں.الہی تائیدات و نصرت ان کے شامل حال ہوتی ہیں.خدائی صفات ان کے اندر جلوہ گر ہوتی ہیں.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانے کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے......اسے اپنی صفات بخشا ہے.66 حضرت مصلح موعو رضی الہ عنہ فرماتے ہیں: (الفرقان مئی، جون 1967ء.صفحہ 37) ” خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں،سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم یا وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں.“ (خطبہ جمعہ 24 جنوری 1936 ء مندرجہ الفضل 31 جنوری 1936ء) خلافت احمدیہ کے قیام کا پہلا سو سال گواہ ہے کہ خلفائے احمدیت نے ہر موڑ پر خطبات، خطابات اور تقاریر کے ذریعہ سے جماعت کی ایسے رنگ میں رہنمائی فرمائی کہ آج جماعت احمدیہ کا جھنڈا بڑے طمطراق کے ساتھ دنیا کے 181 ممالک میں لہرا رہا ہے.خطابات، خطبات اور تقاریر خلفائے احمدیت کا یہ ایک ایسا مستقل اور مسلسل جاری رہنے والا فیضان ہے کہ اس میں سے ہر کوئی حصہ پارہا ہے.خلافت اولی میں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے خطبات و خطابات نے خلافت کی اہمیت و برکت 569

Page 570

دلوں میں جاگزیں کی اور جماعت میں انشقاق کا بیج بونے والوں کا قلع قمع کیا.چنانچہ 31 جنوری 1909 ء بروز اتوار جماعت کے سر کردہ ممبران کو قادیان میں جمع کر کے مسجد مبارک میں ایک تقریر فرمائی جس میں مسئلہ خلافت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال کر جماعت کو بتایا کی اصل چیز خلافت ہی ہے جو نظام اسلامی کا ایک اہم اور ضروری حصہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے بھی خلافت ہی کا ثبوت ملتا ہے......آپ رضی اللہ عنہ کی یہ تقریر اس قدر دردناک اور رقت آمیز تھی کہ اکثر حاضرین بے اختیار ہو کر رونے لگے اور منکرین خلافت نے بھی معافی مانگ کر آپ کو خلافت کے قدموں میں ڈال دیا.“ پینے (سلسلہ احمدیہ صفحہ 314) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کا دور خلافت بھی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے خطبات، خطابات اور تقاریر کے ذریعہ سے سے جماعت کی بنیاد کو مستحکم کیا.اسی طرح خلافت ثانیہ میں اٹھنے والے فتنوں کامنہ توڑ جواب دیا.1934ء کا دور ہو یا 1953 ء کا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے جماعت کی ہر لمحہ ایسی رہنمائی فرمائی کہ جس سے افراد جماعت کے ایمان کو مضبوطی حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ دشمن عناصر اپنے بدارادوں میں ناکام رہے.علاوہ ازیں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے مختلف اوقات میں حالات کی مناسبت سے خطبات کا سلسلہ جاری کیا جس پیش آنے والے ممکنہ حالات سے جماعت کو آگاہ کیا.مثال کے طور پر جب حضرت خلیفۃ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے 5 جون 1929 ء تا 30 ستمبر 1929 ء کشمیر میں قیام فرمایا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے دورانِ قیام ریاست کشمیر و جموں کی جماعت احمد یہ اور دوسرے مسلمانوں کو اپنی تقریروں اور خطبوں میں ایمان کے ساتھ عمل صالح اختیار کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی اور مختلف طریقوں اور تدابیروں سے ان کو اخلاقی ، پہنی اور روحانی تغیر پیدا کرنے کی انقلاب انگیز دعوت دی اور خصوصاً کشمیری احمدیوں کو ان کی تنظیمی اور تبلیغی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرمایا.اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کے خطبات و تقاریر کے بعض اقتباسات درج کئے جاتے ہیں.یہاں کی جماعت تنظیم کی طرف توجہ نہیں کرتی.اگر وہ منتظم جماعت کی صورت میں ہو اور تبلیغی کوششوں میں لگ جائے تو ریاست میں اچھا اثر پڑے.اس علاقہ میں جماعتیں تو موجود ہیں اور اچھی جماعتیں ہیں مگر چونکہ ان کی کوئی تنظیم نہیں اس لئے علاقہ پر اثر نہیں پڑتا...اگر ایسا ہو جائے تو مسلمان ترقی کر سکتے ہیں.“ (فرمودہ 27 جون 1929 ء بمقام سری نگر تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 140) -1 -2 صحیح طریق یہ ہے کہ انسان ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جس قدر کسی کی طاقت ہو اس قدر کرے اس سے وہ اپنی حالت میں ایک پورا درخت ہو جائے گا جو بیش و مدد دوسروں کیلئے فائدہ کا موجب ہوگا اس کے اندر حسن سلوک کی عادت احسان کرنے کا مادہ ہو، لوگوں کی کرنے اور بھلائی کرنے کی عادت ہو الغرض تمام قسم کی نیکیاں کم و بیش اس کے اندر ہوں......تب ہی اس کے اندر سر سبز درخت والی خوبصورتی پیدا ہوگی.“ (فرمودہ 21 جون 1929ء بمقام سری نگر خطبات محمود جلد 12 صفحہ 125 و 126) سمجھیں -3 جو باتیں مسلمانوں نے چھوڑ دی ہیں جب تک وہ دوبارہ ان میں پائی نہ جائیں کبھی اور کسی حال میں ترقی نہیں کر سکتے.محنت کی عادت ڈالیں، دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں، خدمت خلق کو اپنا فرض تب وہ ترقی کر سکتے ہیں.......اسلام کیونکہ اچھی چیز تھی اس وقت تک اس ملک میں اسلام کی خوبیوں کا نقش موجود ہے.گو مسلمان اپنی غفلت کی وجہ سے مٹا دیئے گئے یہاں کشمیر میں بھی یہی مرض پایا جاتا ہے اسلئے میں نے اپنے خطبے میں اس طرز کے بیان کرنے شروع کئے ہیں کہ مسلمانوں میں عمل نہ کرنے کی وجہ جو پستی ہے 570

Page 571

اس میں تبدیلی پیدا ہو کیونکہ مسلمان اپنی مدد آپ نہ کریں گے محنت نہ کریں گے، دیانتداری سے کام نہ کریر گے، اپنے آپ کو مفید نہ بنائیں گے تب تک ترقی نہ ہو گی...مسلمانوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی امداد کے طالب ہوں.دوسروں پر تو کل نہ کریں بلکہ خود عمل کریں اور خدا تعالیٰ کے ماننے والوں میں سے ہوں.“ فرمودہ 5 جولائی 1930 ء بمقام سرینگر.تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 140) حضرت خلیفة أصبح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعتی تعلیم و تربیت اور دعوت الی اللہ کے ضمن میں جو خطبات و تقاریر کیں اور علمی لیکچرز دیئے وہ علم الادیان، علم الابدان اور علم الکلام کا عظیم علمی شاہکار ہیں.اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی کا رمضان المبارک میں درس القرآن، مجالس سوال و جواب اور مجالس علم و عرفان اور دیگر علمی اور ادبی کلاسز حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وسعت علمی اور وسعت نظری کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور جماعت کی تعلیم و تربیت اور دعوت الی اللہ کے لئے انتہائی مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہوئیں.( الفضل 24 مئی 2006ء) اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی آواز میں ایک تاثیر رکھ دیتا ہے جس سے ہر طرح کی عقل و فہم رکھنے والا انسان متاثر ہوتا خلفائے احمدیت کے خطبات و خطابات کو براہ راست سننے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ خلافت کے اس فیضان کو اچھی طرح جذب کرنے والے بن سکیں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک بار فرمایا تھا کہ: ہے.”میرا دل چاہتا ہے کہ ہر احمدی میری آواز میں میری بات خود سن لے.اگر (اردو) نہیں سمجھ سکتا تو اس کے ترجمے اس تک پہنچ جائیں اور ان ترجموں کو سن کر وہ فائدہ اٹھائے کیونکہ وہ الفاظ دل کی گہرائی سے نکلتے ہیں.خواه فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ان میں کیسے ہی نقص کیوں نہ ہوں لیکن بڑا فرق ہے اور سچے دل کے درد سے جو بات اٹھتی ہے، اس کا اور اثر ہوتا ہے.“ انتظامی فیضان روزنامه الفضل سالانہ نمبر 1991ء) جماعت احمد یہ خدا کے فرستادہ کی جماعت ہے.اس کے افراد جہاد اکبر یعنی اپنے نفوس کی اصلاح و تزکیہ کے علاوہ جہاد ریعنی اعلاء کلمتہ اللہ اور تبلیغ اسلام میں ہمہ تن مشغول ہیں.چنانچہ اس چھوٹی سی جماعت نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود محض خدا کے فضل سے مغربی اور مشرقی ممالک میں تبلیغی مراکز قائم کر لئے ہیں.اسی جماعت کے مبلغین و مجاہدین امریکہ کی دور افتادہ سر زمین میں خدائے واحد کے نام کی منادی کر رہے ہیں اور سینکڑوں تثلیت پرستوں کو حلقہ بگوش اسلام کر چکے ہیں.اسی جماعت کے مبلغین و مجاہدین براعظم افریقہ کے مغربی کناروں اور مشرقی اطراف میں تبلیغ دین کا فرض بجا لا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کی مساعی کو بار آور کیا اور ہزار ہا نفوس شرک کے تاریک گڑھے سے نکل کر توحید کے بلند مینار پر پہنچ گئے.یورپین ممالک میں بھی اسی جماعت حقہ کے جانباز فرزند پرچم توحید کو تھامے کھڑے ہیں.احمدی خواتین ہی کے زیورات اور چندوں سے انگلستان میں مسجد قائم ہوئی.مشرق وسطی، چین و جاپان اور جاوا سماٹرا میں اسی جماعت کے سرفروش اسلام کی تبلیغ بجا لاتے ہیں.آج بلاد عربیہ اور ماریشس وغیرہ مبلغین احمدیت کے ذریعہ ہی آسمانی آواز کے شنوا ہو رہے ہیں.غرض اسلام کی اس نشاة ثانیہ میں یہ جماعت صحابہ کے نقش قدم پر گامزن ہے اور اسے غیر معمولی کامیابی حاصل ہو رہی ہے.(فرقان جنوری 1942 ء ) یہ تمام تر کامیابیاں اس اعلیٰ قیادت کے مرہونِ منت ہیں جس کے ایک اشارے پر لاکھوں جانیں قربان ہونے کو تیار ہیں.اللہ تعالیٰ خلافت کے فیضان کو تاقیامت ہمارے سروں پر سلامت رکھے تا کہ ان کی رہنمائی میں ہم توحید کے پرچم پر نئے 571

Page 572

اُفق پر گاڑتے چلے جائیں گے.تبلیغ کے میدان میں ہونے والی ترقیات ایسی غیر معمولی ہیں کہ متعصب مخالف بھی ان کو سراہنے پر مجبور ہو گئے ہی چنانچہ مصر سے شائع ہونے والے ایک متعصب اخبار " الفتح نے احمدیت کی ترقی کا اعتراف کچھ یوں کیا: ترجمه میں نے بغور دیکھا تو قادیانیوں کی تحریک حیرت انگیز پائی.انہوں نے بذریعہ تقریر و تحریر مختلف زبانوں میں اپنی آواز بلند کی ہے اور مشرق و مغرب کے مختلف ممالک و اقوام میں بصرف کثیر اپنے دعویٰ کو تقویت پہنچائی ہے.ان لوگوں نے اپنی انجمنیں منظم کر کے زبردست حملہ کیا ہے.یہاں تک کہ ان کا معاملہ بہت بڑھ گیا ہے اور ایشیا، یورپ ، امریکہ اور افریقہ میں ان کے ایسے تبلیغی مراکز قائم ہو گئے ہیں جو علم و عمل کے لحاظ سے تو عیسائیوں کی انجمنوں کے برابر ہیں لیکن تاثیرات اور کامیابی میں عیسائی پادریوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں.قادیانی لوگ بہت بڑھ چڑھ کر کامیاب ہیں کیونکہ ان کے پاس اسلام کی صداقتیں اور پر حکمت باتیں ہیں.جو بھی ان لوگوں کے حیرت زدہ کارناموں کو دیکھے گا اور واقعات کا پورا اندازہ کرے گا وہ حیران و ششدر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کس طرح اس چھوٹی سی جماعت نے اتنا بڑا جہاد کیا ہے جسے کروڑوں مسلمان نہیں کر شخص سکے.ان لوگوں نے اپنے اس تبلیغی جہاد اور اس میں کامیابی کو اپنے عقائد کی صداقت پر زبردست معجزہ قرار دیا ہے اور ایسا کہنے کا ان کو اس لئے موقع مل گیا کہ باقی نام کے مسلمان پر موت طاری ہو چکی ہے.کیا اندریں حالات مسلمانوں پر واجب نہ تھا کہ اہل یورپ و امریکہ کے دماغوں سے ان گندے عقائد کو زائل کریں جو وہ دین اسلام اور نبی اسلام کے متعلق رکھتے ہیں.در حقیقت ، مسلمانوں، امراء اغنیا، عوام اور علما پر فرض ہے لیکن آج ان اوہام کا ازالہ کون کر رہا ہے؟ یقیناً کوئی نہیں سوائے ان قادیانیوں کے.صرف وہی ہیں جو اس راہ میں اپنے اموال اور جانیں خر چ کر رہے ہیں اور اگر دوسرے مدعیان اصلاح اس جہاد کے لئے بلائیں یہاں تک کہ ان کی آوازیں بیٹھ جائیں اور لکھتے لکھتے ان کے قلم شکستہ ہو جائیں تب بھی تمام عالم اسلام میں سے اس کا دسواں حصہ اکٹھا نہ کر سکیں گے جتنا یہ تھوڑی سی جماعت مال و افراد کے لحاظ سے خرچ کر رہی ہے.“ (الفتح صفحہ 315 مؤرخہ 20 جمادی الثانی سن 1351 ہجری بحوالہ فرقان جنوری 1942ء صفحہ 3,4) حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں تبلیغی سرگرمیوں کے لحاظ سے ایک خاص واقعہ یہ کہ حضرت خلیفة امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جماعت احمدیہ کا پہلا بیرونی مشن انگلستان (England) میں ابتدائی طور پر قائم ہوا.حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے جماعت احمدیہ کے پہلے باقاعدہ مربی تھے جو دعوت الی اللہ کے لئے لندن بھیجے گئے.(افضل 24 مئی 2006 ء) احمدیت دین حق کی اشاعت کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے.حضرت خلیفہ امسح الثانی رضی اللہ عنہ نے خلعت خلافت زیب تن کرنے کے بعد سب سے پہلے اس کی طرف توجہ دی پہلے اس کی طرف توجہ دی.چنانچہ ایک طرف تو حضرت خلیفہ اُسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ و تفسیر تیار کرنے کا کام نئے سرے سے شروع کر دیا تا کہ اس کے ذریعے اکناف عالم میں دین حق کی اشاعت ہو سکے اور دوسری طرف حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مربیان تیار کرنے اور پھر انہیں مختلف ممالک میں بھجوانے کا انتظام کیا جسے بعد میں تحریک جدید کے سپرد کر دیا گیا.انگلستان کے بعد سب سے پہلے ماریشس میں احمدیہ مشن قائم 572

Page 573

ہوا جہاں پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت صوفی غلام محمد صاحب کو بھیجا پھر امریکہ میں سلسلہ احمدیہ کے پرانے بزرگ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفیق حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کے ذریعے دین حق کا پیغام پہنچایا گیا پھر مغربی افریقہ میں سلسلہ کے ایک بزرگ رفیق حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر تشریف لے گئے.ان بزرگوں کے ذریعے کثرت کے ساتھ لوگ دین حق میں داخل ہوئے اور خدا تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی کامیابی بخشی.براعظم امریکہ، براعظم یورپ، براعظم افریقہ کے بہت سے ممالک کے علاوہ فلسطین، لبنان، شام، عدن، مصر، کویت، بحرین، دوبئی، برما، سیلون، ہانگ کانگ، سنگا پور، جاپان، انڈونیشیا، شمالی بورنیو، فلپائن اور ملائیشیا میں بھی جماعت احمدیہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے سنہری دور خلافت میں قائم ہو چکی تھی.دنیا کے کناروں تک احمدیت کے پیغام کا پہنچنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے.(افضل 16 فروری 2006ء) 1970ء میں حضرت خلیفہ امسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہلی مرتبہ مغربی افریقہ کا دورہ کیا اور اس سفر کے ذریعہ افریقہ میں دعوت دین حق کیلئے نئے دور کا آغا ز ہوا جس کے لئے حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں آگے بڑھو (Nusrat Jahan Leap Forword Scheme) سکیم جاری فرمائی.اس سکیم کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق حضرت خلیفة أسبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے کم از کم ایک لاکھ پونڈ جمع کرنے کی تحریک فرمائی.یہ تحریک بھی کامیاب رہی.اس کے ماتحت احمدی ڈاکٹر اور استاد افریقہ میں ڈسپنسریاں، ہسپتال اور سکول قائم کر کے اہل افریقہ کی کے لوث خدمت کر رہے ہیں.اس طرح افریقہ میں احمدیت کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی.( الفضل 24 مئی 2006 ء) حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور ہجرت میں نئی جماعتوں کے قیام میں غیر معمولی اور حیرت انگیز اضافہ ہوا.ربوہ سے ہجرت کر کے لندن آنے کے بعد پہلے سال یعنی 85-1984ء میں 28 نئی جماعتیں قائم ہو ئیں اور پھر اگلے سال 1985-86ء میں یہ تعداد 254 ہو گئی.سال 87-1986ء میں یہ تعداد بڑھ کر 258 ہو گئی.اس کے بعد اس میں سال بہ سال مسلسل حیرت انگیز اضافہ ہوتا رہا.اس رفتار کا اندازہ آخری تین سالوں کے جائزہ سے لگایا جا سکتا ہے.سال 2000-1999ء میں دنیا بھر میں 6175 مقامات پر جبکہ سال 01-2000 ء میں 12343 مقامات پر نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا اور سال 02-2001ء میں دنیا بھر میں 4485 نئی جماعتیں قائم ہوئیں.اس طرح ہجرت کے 19 سالوں میں دنیا بھر میں 35358 مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوئیں.حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے عالمی بیعت کا سلسلہ 1993ء میں شروع فرمایا اور 10 سالوں میں 16 کروڑ 48لاکھ 75 ہزار 605 نئے افراد جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے سال وارتفصیل یہ ہے: 2,06,54000 2002 8,10,06721 & 2001 4,13,08975 2000 1,08,20226 1999 50,04591 1998 30,04585 1997 16,02721 1996 573 8,47725 1995

Page 574

4,21753 1994 ء 2,04308 1993 میزان 16,48,75,605 ( الفضل 27 دسمبر 2003ء) دور ہجرت کے پہلے سال 85-1984ء میں نئی بیوت الذکر (مراکز نماز ) جو دنیا بھر میں قائم ہوئیں ان کی تعداد 32 تھی.1985-86ء میں یہ تعداد 32 سے بڑھ کر 206 ہو گئی.87-1986ء میں 136 نئی بیوت تعمیر ہوئیں.بیوت الذکر کی تعمیر اور بنی بنائی بیوت کے عطا ہونے کی رفتار میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا جس کا اندازہ مندرجہ ذیل تین سالوں کے جائزہ سے 1524 1915 2570 لگایا جا سکتا ہے: 1999ء میں 2000ء میں 2001ء میں ہجرت کے 19 سالوں میں مجموعی طور پر کل 13065 نئی بیوت جماعت احمدیہ کو دنیا بھر میں قائم کرنے کی توفیق ملی.( افضل 27 دسمبر 2003ء) تبلیغ کے میدان میں مبلغین نے ایسی مثالیں رقم کی ہیں جو دور اوّل کے صحابہ کے ساتھ انہیں ملاتی ہیں.خلافت کے فیضان کو جو اصل میں نبوت کا ہی فیضان ہے عالم کل میں پھیلانے کے لئے مبلغین کو ہر قسم کی تکالیف جھیلنی پڑیں.چنانچہ حضرت مولوی ظہور حسین صاحب رضی اللہ عنہ کو روس میں قید و بند کی صعوبتیں بھی بھگتنی پڑیں.وہ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ کئی دن تک وہ نہ رات کو سو سکے نہ دن کو اور مسلسل فاقے کرنے پڑے.ان کے سامنے قید میں سور کا گوشت بھی رکھا جاتا جسے وہ کھا نہیں سکتے تھے اور محض پانی میں روٹی بھگو کر کھاتے.ان کو قید میں رکھا گیا اور طرح طرح کی اذیتیں قید میں ان کو دی گئیں.(آپ بیتی مجاہد بخارا) جب حضرت مولوی ظہور حسین صاحب رضی اللہ عنہ واپس ہندوستان تشریف لائے تو ایک اخبار نے لکھا کہ انہیں ” بے کسی اور بے بسی کی حالت میں...بخارا کی طرف جانا پڑا وہ بھی دسمبر کے مہینہ میں.جبکہ راستہ برف سے سفید ہو رہا تھا.راستے میں روسیوں کے ہاتھ پڑ گئے.جہاں آپ پر مختلف مظالم توڑے گئے.قتل کی دھمکیاں دی گئیں.بے رحمی سے مارا گیا.کئی کئی دن سور کا گوشت ان کے سامنے رکھا گیا لیکن وہ سرفروش عقیدت جاده استقلال پر برابر قائم رہا.کوئی شخص جو قید خانے میں انہیں دیکھنے آیا مولوی صاحب انہیں پیغام دینے لگ گئے اس طرح تقریباً چالیس اشخاص احمدی ہو گئے.“ الفضل 23 جنوری 1984ء) دعوت الی اللہ کے میدان میں ایک باپ بیٹا کس طرح سرشام نظر آتے ہیں.چنانچہ برطانیہ کے ایک 58 سالہ مخلص احمدی جو دل کے مریض ہیں ان کا بائی پاس کا آپریشن ہو چکا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ: ایک دن میں نے اپنے جواں سال بیٹے کے مشورہ کے ساتھ یہ پروگرام بنایا کہ ہم دونوں باپ بیٹا سارا دن گھر گھر جا کر یہ پمفلٹ دیں گے.چنانچہ مقررہ دن ہم نے مسلسل آٹھ گھنٹے یہ کام کیا اور پسینے سے شرابور ہو گئے اور تھکاوٹ بھی بہت ہوئی.تاہم اسی روز رات کو خواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خليفة أمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی زیارت نصیب ہوئی جس سے دل و دماغ خوشی و مسرت سے معطر ہو گئے اور نہ صرف یہ کہ ہر قسم کی تھکاوٹ بھول گئی بلکہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ خدا تعالیٰ نے اس طرح اپنی محبت اور رضا کا اظہار فرمایا ہے.“ 66 574

Page 575

الفضل سالانہ نمبر 28 دسمبر 2001ء صفحہ 35) تبلیغ کے میدان میں جذبات و احساسات کی قربانی کی جو مثال مولانا رحمت علی صاحب اور ان کی اہلیہ نے رقم کی وہ اپنی مثال آپ ہے.جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا رحمت علی صاحب کو انڈونیشیا بھجوایا گیا مگر جماعت احمدیہ کی غربت کا ان دنوں یہ حال تھا کہ مربی بھجوانے کے لئے تو پیسے جمع کر لئے جاتے مگر واپس بلانے کا خرچ مہیا نہیں ہوتا تھا.چنانچہ مولانا کو بھی جب بھجوایا گیا تو سال پر سال گزر تے گئے لیکن جماعت کو یہ توفیق نہ مل سکی کہ انہیں اپنے بیوی بچوں سے ملنے کے لئے واپس بلائے.ان کے بچے باپ کی محبت سے محروم یتیموں کی طرح پل کر بڑے ہونے لگے.ایک دن ان کے سب سے چھوٹے بیٹے نے جو سکول میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اپنی ماں سے پوچھا کہ اماں سکول میں سب بچے اپنے ابا کی باتیں کرتے ہیں اور جن کے ابا باہر ہیں وہ بھی آخر واپس آہی جاتے ہیں اور اچھی اچھی چیزیں اپنے بچوں کے لئے لاتے ہیں.پھر یہ میرے ابا کہاں چلے گئے کہ واپس آنے کا نام ہی نہیں لیتے ؟ ماں یہ سن کر آبدیدہ ہو گئی اور جس سمت میں اس نے سمجھا کہ انڈونیشیا واقع ہے اس سمت میں انگلی اٹھا کر یہ کہا کہ بیٹا تمہارے ابا اس طرف خدا کا پیغام پہنچانے گئے ہیں اور اسی وقت واپس آئیں گے جب خدا کو منظور ہو گا.اس عورت کے جواب میں درد تو تھا لیکن شکوہ نہیں تھا.احساس بے اختیاری تو تھا لیکن احتجاج نہیں تھا کیونکہ وہ خود بھی قربانی کے جذبہ سے سرشار تھیں.مولوی صاحب کو انڈونیشیا گئے ہوئے دس سال گزر چکے تھے.جب آپ کو پہلی مرتبہ انڈونیشیا سے کچھ عرصہ کے لئے بلوایا گیا لیکن پھر جلد ہی انڈونیشیا بھجوایا گیا.انڈونیشیا میں اپنے اہل و عیال سے الگ رہ کر تربیت میں جو وقت انہوں نے صرف کیا اس کا عرصہ 26 سال بنتا ہے.بالآخر جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ان کو مستقلاً واپس بلا لیا جائے تب ان کی بیوی جو اب بوڑھی ہو چکی تھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بڑے درد سے یہ عرض کہا کہ دیکھیں جب میں جوان تھی تو اللہ ہی کی خاطر صبر کیا اور اپنے خاوند کی جدائی پر اُف تک نہ کی.اپنے بچوں کو کسمپرسی کی حالت میں پالا پوسا اور جوان کیا.اب جبکہ میں بوڑھی اور بچے جوان ہو چکے ہیں اب ان کو واپس بلانے سے کیا فائدہ؟ اب تو میری تمنا پوری کر دیجئے کہ میرا خاوند مجھ سے دور خدمت دین کی مہم ہی میں دیار غیر میں مر جائے اور میں فخر سے کہہ سکوں کہ میں نے اپنی تمام شادی شدہ زندگی دین کی خاطر قربان کر دی.(ماہنامہ خالد ربوہ.فروری 1988ء) جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں کو ایک غیر احمدی دوست جناب علامه فتح نیاز پوری صاحب نے اس طرح سراھا ہے کہ:.دوسرا معیار جس سے ہم کسی کی صداقت کو جان سکتے ہیں.نتیجہ عمل ہے.سواس بات میں احمدی جماعت کی کامیابی اس درجہ واضح اور روشن ہیں کہ اس سے ان کے مخالفین بھی اندار جرات نہیں کر سکتے.اس وقت دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں ان کی تبلیغی جماعتیں اپنے کام میں مصروف نہ ہوں اور انہوں نے خاص عزت و وقار نہ حاصل کر لیا ہو.“ فیضان مهدی دوران صفحہ 216) کسی بھی نظام کو بہتر طور پر پروان چڑھانے کے لئے مضبوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ خلافت کا فیضان ہمیں مستحکم مرکزی اداروں کی صورت میں نظر آتا ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے بابرکت دور خلافت میں جماعت کو بہت سارے پہلوؤں میں ترقی نصیب ہوئی.یکم مارچ 1909 ء میں باقاعدہ طور پر مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی.بیت نور تعمیر ہوئی.تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کے بورڈنگ کی عظیم الشان عمارتیں تعمیر ہوئیں اسی طرح نور ہسپتال اور بیت اقصیٰ میں توسیع ہوئی.(الفضل 24 مئی 2006ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1919 ء میں صدر انجمن احمدیہ میں نظارتوں کا نظام قائم فرمایا اور پھر تمام جماعتوں میں 575

Page 576

با قاعدہ عہد یدار منتخب کرنے اور پھر ان کے کام کی نگرانی کرنے کا انتظام فرمایا جس کی وجہ سے جماعت ہر لحاظ سے منظم ہو کر کام کرنے لگی.جماعت کی تربیت کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1922 ء میں احمدی عورتوں کی تنظیم لجنہ اماء اللہ قائم فرمائی.پھر 1926ء میں ان کے لئے ایک علیحدہ رسالہ ”مصباح“ کے نام سے جاری فرمایا.1928ء میں ”نصرت گرلز ہائی سکول قائم کیا اور 1951ء میں بمقام ربوہ جامعہ نصرت قائم کیا جس میں احمدی بچیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتی ہیں.ان اداروں میں دینی تعلیم کا انتظام فرمایا.1938ء میں حضور نے احمدی نوجوانوں کی تنظیم خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی نیز احمدی بچوں کے لئے اطفال الاحمدیہ اور بچیوں کے لئے ”ناصرات الاحمدیہ" کی تنظیم قائم کی اور چالیس سال سے اوپر کی عمر کے احمدیوں کو منظم کرنے کے لئے مجلس ”انصار اللہ قائم کی.ان تنظیموں نے جماعت کی تعلیم و تربیت میں بہت اہم حصہ لیا اور رہتی دنیا تک کرتی رہیں گی.ان کے وجہ سے جماعت احمدیہ کا کام کرنے کے لئے ہزاروں کارکنوں کی ٹریننگ ہوئی اور انہوں نے اپنے اپنے وقت پر جماعت کی نمایاں خدمت میں حصہ لیا.1922 ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس مشاورت کا نظام جماعت میں قائم فرمایا.سال میں ایک دفعہ خلیفہ وقت کے حکم سے تمام احمدی جماعتوں کے نمائندے جنہیں وہ جماعتیں خود منتخب کرتی ہیں مرکز میں جمع ہوتے ہیں اور جماعت کے متعلق جو معاملات خلیفہ وقت کی خدمت اقدس میں مشورہ کے لئے پیش کئے جائیں ان کے متعلق یہ نمائندے اپنی رائے اور مشورے پیش کرتے ہیں.خلیفہ وقت ان مشوروں میں سے جو بھی مناسب سمجھتے ہیں انہیں منظور کر لیتے ہیں اس طرح ساری جماعت کو جماعت کے معاملات کو سمجھنے اور مشورہ دینے کا موقع ملتا ہے.بعض اوقات جماعت کے لوگوں میں آپس میں جو شکر رنجیاں پیدا ہو جاتی ہیں ان کا فیصلہ کرنے کیلئے حضور نے 1925ء میں محکمہ قضا قائم کیا جو کہ قرآن کریم کے حکموں اور دینی تعلیم کے مطابق تمام جھگڑوں کا فیصلہ کر دیتا ہے اور احمدیوں کو عدالتوں میں اپنے مقدمے لے جانے نہیں پڑتے.( الفضل 16 فروری 2006ء) خلافت ثانیہ کی بابرکت تحریکات میں سے ایک تحریک جدید ہے جسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے1934ء میں جاری فرمایا تھا.اس تحریک میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 27 مطالبے جماعت کے سامنے رکھے.ان مطالبات میں مطالبات بھی شامل تھے.☆ دعوت حق کے لئے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں.رو احمدی مالی قربانی میں حصہ لیں.جس کے ذریعہ دین حق کی بیرونی ممالک میں اشاعت کی جائے.یہ تحریک بہت ہی با برکت ثابت ہوئی.اس کی وجہ سے دنیا کے بہت سارے ممالک میں جماعت کے مشن قائم ہوئے.ہزاروں لوگوں نے دین حق قبول کیا.کئی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہوئے.جماعت میں قربانی اور اخلاص کی لہر پیدا ہو گئی.دوسری تحریک 1957ء میں وقف جدید کے نام سے جاری فرمائی.یہ تحریک حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ملک کے دیہاتی علاقوں میں لوگوں تک پیغام حق پہنچانے اور ان کی تعلیم و تربیت کرنے کے لئے جاری فرمائی.اس تحریک کے ماتحت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کم تعلیم یافتہ احمدی نوجوانوں کو تحریک فرمائی کہ وہ دیہات میں رہ کر لوگوں کو دعوت الی اللہ کرنے اور ان کی تعلیم و تربیت کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.چنانچہ بہت سے نوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا.یہ تحریک خدا کے فضل سے بہت کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے.(الفضل 24 مئی 2006ء) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو زمین کے کناروں تک پہنچانے کے لئے دن رات ایک کر دیا.دعوت 576

Page 577

الی اللہ کے لئے تمام جدید ذرائع سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور جماعت کے ہر فرد کو داعی الی اللہ قرار دیا.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت دورِ خلافت میں بے شمار مشکلوں اور رکاوٹوں کے باوجود خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ عالمگیر 175 ممالک میں مضبوطی سے قائم ہوئی.منصب خلافت پر متمکن ہونے کے معا بعد حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے پیدرہ آباد سپین میں 700 سال بعد تعمیر ہونے والی پہلی بیت الذکر کا مؤرخہ 10 ستمبر 1982ء کو افتتاح فرمایا جس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 9اکتوبر 1980ء کو رکھا تھا.سپین میں خدا کا پہلا گھر مسجد بشارت بنانے کی خوشی میں شکرانے کے طور پر غریب اور ضرورت مند لوگوں کے لئے مکان بنانے کی سکیم ( بیوت الحمد منصوبہ ) کا بیت الاقصیٰ میں مورخہ 29 اکتوبر 1982 ء کو اعلان فرمایا.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد خلافت میں 87 کشادہ، خوبصورت اور آرام دہ مکان بن چکے تھے.500 افراد کو گھر کی حالت بہتر بنانے یا وسعت دینے کے لئے رقم فراہم کی گئی.قادیان دارلامان میں بھی 37 مکان تعمیر کئے گئے جہاں درویشان قادیان کے خاندان یا ان کی بیوائیں رہائش پذیر ہیں.1984ء میں جب پاکستان کے حالات خراب ہوئے تو حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو ربوہ سے ہجرت کر کے لندن تشریف لے جانا پڑا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت کے19 سالوں میں84 نئے ممالک جماعت احمدیہ کو ملے اور دنیا بھر میں 35 ہزار 358 نئی جماعتیں قائم ہوئیں.سکتا ہے.خلافت رابعہ کا سب سے بڑا تحفہ MTA ہے جس کا باقاعدہ آغاز 7 جنوری 1984 ء کو ہوا.اس کے بعد یکم اپریل1996ء سے چوبیس گھنٹے کی نشریات کا آغاز ہوا.پھر 7 جولائی 1996 ء کو گلوبل ہیم کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت نیز دعوت الی اللہ میں آسانی کے سامان پیدا ہو گئے.ایم ٹی اے خدا کے فضل سے دنیا کا وہ واحد چینل ہے جس پر صرف اور صرف دینی پروگرام پیش کئے جاتے ہیں.اسی طرح ایم ٹی اے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسے ساری دنیا میں دیکھا اور سنا جا چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی آئندہ تعلیمی، تربیتی اور دعوت الی اللہ کی ضروریات کے پیش نظر مؤرخہ 3 اپریل 1987ء کو وقف نو“ جیسی بابرکت تحریک جاری فرمائی جس کے تحت اس وقت تک پچپن ہزار بچے وقف نو کی با برکت تحریک میں شامل ہوچکے ہیں.جنوری 1991ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے کفالت یک صد یتامی“ کا منصوبہ پیش فرمایا جس کے تحت تقریباً ڈیڑھ ہزار یتامی کو فیض پہنچ رہا ہے.شہدائے احمدیت کے ورثا کی کفالت کیلئے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 14 اپریل1986ء کے خطبہ جمعہ میں ”سیدنا بلال فنڈ کا اعلان فرمایا.حضرت خلیفة أمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی زندگی کی آخری مالی تحریک غریب بچیوں کی شادی کے اخراجات کے لئے 21 فروری 2003ء کو ایک فنڈ قائم کر کے کی.اس تحریک کی برکت سے صرف ایک ہفتہ میں ایک لاکھ پونڈ جمع ہو گیا.مؤرخہ 28 فروری 2003ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس فنڈ کا نام ”مریم شادی فنڈ“ تجویز فرمایا.(الفضل 24 مئی 2006ء) علامہ نیاز فتح پوری 28 جولائی 1960 ء کو امر تسر سے قادیان تشریف لائے اور صرف 24 گھنٹے قادیان میں قیام کیا.بعدہ اپنے رسالہ ماہنامہ نگار کے ستمبر 1960ء کے شمارہ میں اپنے تاثرات یوں تحریر کئے: زندگی میں سب سے پہلی سے پہلی مرتبہ جماعت احمدیہ کی جیتی جاگتی تنظیم عملی دیکھ کر میں ایک جگہ ٹھٹھک کر رہ گیا ہوں.اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنی زندگی کے اس نئے تجربہ و احساس کو کن الفاظ میں ظاہر کروں.میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور علمائے اسلام کی بے عملی کی طرف سے اس قدر مایوس ہو چکا ہوں کہ میں اس کا 577

Page 578

تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ان میں کبھی آثار حیات بھی پیدا ہو سکتے ہیں لیکن اب احمدی جماعت کی جیتی جاگتی تنظیم کو دیکھ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا........غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل خون کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا قادیان میں جماعت احمدیہ کے افراد 200 سے زیادہ نہیں.یہی وہ مختصر سی جماعت ہے جس نے 1947ء کے خونی دور میں اپنے آپ کو ذبح وقتل کے لئے پیش کر دیا اور اپنے ہادی و مرشد کے مستقط الراس کو ایک لمحہ کے لئے چھوڑ نا گوارا نہ کی موج خون سر سے گذر ہی کیوں نہ جائے آستانے یار سے اٹھ جائیں کیا؟.یہی وہ جماعت ہے جس نے محض اخلاق سے ہزاروں دشمنوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور ان سے بھی قادیان کو دار الامان تسلیم کر الیا.یہی وہ جماعت ہے جو ہندوستان کے تمام احمدی اداروں کا سر رشتہ تنظیم اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہے اور یہی وہ دُور افتادہ مقام ہے جہاں سے تمام اکناف ہند میں اسلام و انسانیت کی عظیم خدمت انجام دی جا رہی ہے.آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ صرف پچھلے تین سال کے عرصہ میں انہوں نے تعلیم اسلامی، سیرت نبوی، ضرورت ،مذہب، خصوصیات قرآن وغیرہ متعدد مباحث پر 40 کتابیں، ہندی، اردو، انگریزی اور گورمکھی زبان میں شائع کیں اور ان کی 440500 کا پیاں تقریباً مفت تقسیم کیں.“ ذیلی تنظیموں کا قیام: (فیضان مهدی دوران صفحه 229-228) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود صاحب خلیفہ لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی روحانی بصیرت اور خدا داد فکر و فراست نے یہ ضروری سمجھا کہ اصل مقصود کو پانے کے لئے پہلے افراد جماعت کو اندرونی طور پر منظم کرنا ضروری ہے.چنانچہ اس مقصد کے پیش نظر آپ نے مسند خلافت پر فائز ہوتے ہی افراد جماعت کی تنظیمی لحاظ سے تربیت کرنا شروع کر دی اور سب سے پہلے عورتوں کی و تربیت اور تنظیم کی طرف توجہ دی کیونکہ عورتیں کسی بھی قوم کا اہم جزو شمار ہوتی ہیں.بلکہ بعض لحاظ سے تو ان کا کام مردوں سے بھی زیادہ ذمہ داری کا رنگ رکھتا ہے کیونکہ قوم کا آئندہ بوجھ اٹھانے والے نونہال انہیں کی گودوں میں پرورش پاتے ہیں.پس حضرت خلیفة أسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کی دور بین نگاہ نے جماعت کی ترقی کے لئے ضروری سمجھا کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دی جائے تا کہ وہ جماعت کے نظام کا ایک کا رآمد حصہ بن سکیں.چنانچہ اسی مقصد کے حصول کے لئے حضرت خلیفۃ الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی تربیت شروع کر دی.ان میں اسلام اور احمدیت کی خاطر قربانی کا جذبہ پیدا کیا اور ان کی طرف توجہ دی اور مستورات میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہ مردوں سے قربانی میں کسی طرح بھی کم نہیں.لجنہ اماء اللہ کا قیام: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے 25 دسمبر 1922ء کو باقاعدہ طور پر لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کی بنیاد رکھی.احمدی عورتوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کی قیادت میں ترقی کی جو منازل طے کیں اس کی تفصیل بڑی دلچسپ اور 578

Page 579

احباب جماعت کے لئے بہت ہی حوصلہ افزا ہے.عورتوں کے خصوصی تعلیمی اداروں کا قیام، جامعہ نصرت کے ذریعہ کالج کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام جس میں دینی تربیت کا پہلو نمایاں تھا.پھر لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کے ذریعہ مختلف دست کاریوں کی تربیت عورتوں کی علیحدہ علیحدہ کھیلوں کا انتظام ان میں مباحثوں اور تقاریر کا ذوق و شوق پیدا کرنا، مضمون نگاری کی طرف انہیں توجہ دلانا ،ان کے لئے علیحدہ اخباروں اور رسالوں کا اجرا اور جلسہ سالانہ میں عورتوں کے علیحدہ اجلاسات میں خواتین مقررین کا عورتوں کو خود خطاب کرنا، ہر قسم کی تعلیمی سہولتیں اس رنگ میں مہیا کرنا کہ غریب سے غریب احمدی بچی بھی کم از کم بنیادی تعلیم سے محروم نہ رہے.ناصرات الاحمدیہ کا قیام: 1928ء سے لجنہ اماء اللہ کی زیر نگرانی چھوٹی بچیوں کی بھی ایک مجلس قائم کی گئی جس کا نام بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے ”ناصرات الاحمدیہ رکھا.اس مجلس میں سات سے پندرہ سال کی عمر تک کی بچیاں بطور ممبر شامل ہوتی ہیں جو اپنے عہد یدار خود چنتی ہیں اور لجنہ اماء اللہ کی زیر نگرانی اپنے الگ الگ اجتماعات منعقد کرتی ہیں اور دوسری علمی اور دینی دلچسپیوں میں حصہ لیتی ہیں.ابتدائے عمر سے ہی بچیوں میں دینی اور علمی شوق پیدا کرنے کے لحاظ سے یہ مجلس بہت مفید کام کر رہی ہے.شروع سے بچیوں کی تربیت اس انداز میں کی جاتی ہے کہ بڑی ہو کر جب وہ لجنہ اماء اللہ کی ممبر بنیں تو اپنے تجربہ اور تربیت کی بنا پر مجلس کی بہترین کارکن ثابت ہوں.لجنہ اماء اللہ جو فیضان خلافت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے، کی سرگرمیوں کو غیروں نے بھی سراہا ہے.چنانچہ مولوی عبدالحمید صاحب قریشی ایڈیٹر اخبار تنظیم امرت سر نے لکھا: لجنہ اماء اللہ قادیان احمد یہ خواتین کی انجمن کا نام ہے.اس انجمن کے ماتحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاحی مجالس قائم کی گئی ہیں اور اس طرح پر وہ تحریک جو مردوں کی طرف سے اٹھتی ہے خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے.اس انجمن نے تمام احمدی خواتین کو سلسلہ کے مقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کر دیا ہے عورتوں کا ایمان مردوں کی نسبت زیادہ مخلص اور مربوط ہوتا ہے.عورتیں مذہبی جوش کو مردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں.لجنہ اماء اللہ کی جس قدر کار گزاریاں اخبارات میں چھپ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی ، آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پر جوش ہوں گی اور احمد یہ عورتیں اس چمن کو تازہ دم رکھیں گی جس کا مرور زمانہ کے باعث اپنی قدرتی شادابی اور سر سبزی سے محروم ہونا لازمی تھا.“ ایک کٹر آریہ سماج اخبار تیج ( 25 جولائی 1927 ء) نے رسالہ مصباح پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ”میرے خیال میں یہ اخبار اس قابل ہے کہ ہر ایک آریہ سماجی اس کو دیکھے اس کے مطالعہ سے انہیں احمدی عورتوں کے متعلق جو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ پردہ کے اندر بند رہتی ہیں اس لئے کچھ کام نہیں کرتیں فی الفور دور ہو جائے گی اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ عورتیں باوجود اسلام کے ظالمانہ حکم کے طفیل پردہ کی قید میں رہنے کے کس قدر کام کر رہی ہیں اور ان میں مذہبی احساس اور تبلیغی جوش کس قدر ہے.ہم استری سماج قائم کر کے مطمئن ہو چکے ہیں لیکن ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ احمدی عورتوں کی ہر جگہ باقاعدہ انجمنیں ہیں اور جو وہ کام کر رہی ہیں اس کے آگے ہماری استری سماجوں کا کام بالکل بے حقیقت ہے.مصباح کو دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ احمدی عورتیں ہندوستان، افریقہ، عرب، مصر، یورپ اور امریکہ میں کس طرح اور کس قدر کام کر رہی ہیں.ان کا مذہبی احساس اس قدر قابل تعریف ہے کہ ہم کو شرم آنی چاہئے.چند سال ہوئے ان کے امیر نے ایک مسجد کے لئے پچاس ہزار روپے کی اپیل کی اور یہ قید لگا دی کہ یہ رقم صرف عورتوں کے چندے سے ہی پوری کی 579

Page 580

جائے چنانچہ پندرہ روز کی قلیل مدت میں ان عورتوں نے پچاس ہزار کی بجائے پچپن ہزار روپیہ جمع کر دیا.“ مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام: ( تاریخ احمدیت جلد نمبر 4 صفحہ 310) حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ کی مشیت خاص کے تحت غلبہ دین کے لئے جن عظیم الشان تنظیموں کی بنیاد رکھی ان میں سے نہایت اہم اور مستقبل کے اعتبار سے نہایت دور رس نتائج کی حامل تنظیم مجلس خدام الاحمدیہ ہے جس کا قیام 1938 ء کے آغاز میں ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی کو اپنے عہد خلافت کی ابتدا سے ہی احمدی نوجوانوں کی تنظیم و تربیت کی طرف ہمیشہ توجہ رہی کیونکہ قیامت تک اعلائے کلمتہ اللہ اور غلبہ دین حق کے لئے ضروری تھا کہ ہر نسل پہلی نسل کی پوری قائمقام ہو اور جانی و مالی قربانی میں پہلوں کے نقش قدم پر چلنے والی ہو اور ہر زمانے میں جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کی تربیت اس طور پر ہوتی رہے کہ وہ دین حق کا جھنڈا بلند رکھیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف انجمنیں قائم فرمائیں مگر ان سب تحریکوں کی جملہ خصوصیات مکمل طور پر مجلس خدام الاحمدیہ کی صورت میں جلوہ گر ہوئیں اور حضرت صاحب کی براہِ راست قیادت، غیر معمولی توجہ اور حیرت انگیز قوت قدسی کی بدولت مجلس خدام الاحمدیہ میں تربیت پانے کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو ایسے مخلص، ایثار پیشہ درد دل رکھنے والے انتظامی قابلیتیں اور صلاحیتیں رکھنے والے مدبر دماغ میسر آگئے جنہوں نے آگے چل کر سلسلہ احمدیہ کی عظیم ذمہ داریوں کا بوجھ نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور آئندہ بھی ہم خدا سے یہی امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر نسل میں ایسے لوگ پیدا کرتا چلا جائے گا.مند مجلس انصار اللہ کا قیام: سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی کی رہنمائی اور نگرانی میں 1922 ء سے عورتوں کی تربیت کے لئے لجنہ اماء اللہ اور 1938 ء سے نوجوانوں کی تربیت کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ کی تنظیمیں قائم تھیں اور بہت جوش و خروش سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی تھیں اور ان کی وجہ سے جماعت میں خدمت دین کا ایک خاص ماحول پیدا ہو چکا تھا مگر ایک تیسرا طبقہ ابھی باقی تھا جو اپنی پختہ کاری، لمبے تجربہ اور فراست کے اعتبار سے اگرچہ سلسلہ احمدیہ کی بہترین خدمات بجا لا رہا تھا مگر کسی مستقل تنظیم سے وابستہ نہ ہونے کے باعث قوم کی اجتماعی تربیت میں پورا حصہ نہیں لے سکتا تھا حالانکہ اپنی عمر اور تجربہ کے لحاظ سے قومی تربیت کی ذمہ داری براہِ راست اسی پر پڑتی تھی.علاوہ ازیں خدام الاحمدیہ کے نوجوانوں کے اندر خدمت دین کے جوش کا تسلسل قائم رکھنے کے لئے بھی ضروری تھا کہ جب جوانی کے زمانہ کی دینی ٹرینگ کا دور ختم ہو اور وہ عمر کے آخری حصہ میں داخل ہوں تو وہ دوبارہ ایک تنظیم ہی کے تحت اپنی زندگی کے بقیہ ایام گزاریں اور زندگی کے آخری سانس تک دین کی نصرت و تائید کے لئے سرگرم عمل رہیں.حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالی کو مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھتے وقت بھی اس اہم ضرورت کا شدید احساس تھا مگر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ چاہتے یہ تھے کہ پہلے خدام الاحمدیہ کی رضا کارانہ تنظیم کم از کم قادیان میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے تو بتدریج کوئی نیا عمل قدم اٹھایا جائے.چنانچہ دو اڑھائی سال کے بعد جبکہ یہ مجلس حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کی تجویز فرمودہ لائنوں پر چل نکلی اور نوجوانوں نے رضا کارانہ طور پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کے منشاء 580

Page 581

مبارک کے مطابق کام کرنے کا پوری طرح اہل ثابت کر دکھایا تو 26 جولائی 1940 ء کو حضرت خلیفتہ اہسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے مجلس انصاراللہ قائم فرمائی اور اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے مجلس انصار اللہ کی نسبت بعض ہدایات بھی دیں جن کے بارے میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا: " چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوں ان کے لئے بھی لازمی ہو گا کہ وہ روزانہ آدھ گھنٹہ خدمت دین کے لئے وقف کریں.اگر مناسب سمجھا گیا تو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے ایک مہینہ میں تین دن یا کم و بیش اکٹھے بھی لیے جا سکتے ہیں مگر بہر حال تمام بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا بغیر کسی استثنا کے قادیان میں منظم ہو جانا لازمی ہے.مجلس اطفال الاحمدیہ کا قیام: اطفال الاحمدیہ کی نی تنظیم کے قائم کرنے کا ارشاد حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے اول 15 اپریل 1938ء کو بیت الاقصیٰ قادیان میں خطبہ جمعہ کے دوران بایں الفاظ میں فرمایا: اصل چیز یہ ہے کہ اچھی عادت بھی ہو اور علم بھی ہو مگر یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب عادت کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے اور علم کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے.عادت کا زمانہ بچپن کا زمانہ ہوتا ہے اور علم کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا کا زمانہ ہوتا ہے.پس خدام الاحمدیہ کی ایک شاخ ایسی بھی کھولی جائے جس میں پانچ چھ سال کے بچوں سے لے کر 16-15 سال کی عمر تک کے بچے شامل ہو سکیں یا اگر کوئی اور حد بندی تجویز ہو تو اس کے ماتحت بچوں کو شامل کیا جائے.بہر حال بچوں کی ایک الگ شاخ ہونی چاہئے اور ان کے الگ نگران مقرر ہونے چاہئیں مگر یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ ان بچوں کے نگران نوجوان نہ ہوں بلکہ بڑی عمر کے لوگ ہوں.....نماز کے بغیر دین کوئی چیز نہیں اگر کوئی قوم چاہتی ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں میں اسلامی روح قائم رکھے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی قوم کے ہر بچہ کو نماز کی عادت ڈالے.اسی طرح سچ کے بغیر اخلاق درست نہیں ہو سکتے جس قوم میں سچ نہیں اس قوم میں اخلاق فاضلہ بھی نہیں اور محنت کی عادت کے بغیر سیاست اور تمدن کوئی چیز نہیں.جس قوم میں محنت کی عادت نہیں اس قوم میں سیاست اور تمدن بھی نہیں.گویا یہ تین معیار ہیں جن کے بغیر قومی ترقی نہیں ہوتی.ہر مقام کے احمدی نوجوان جہاں خود خدام الاحمدیہ میں شامل ہوں وہاں سات سے پندرہ سال تک کی عمر کے بچوں کے لئے مجلس اطفال الاحمدیہ قائم کریں.“ 581

Page 582

582

Page 583

583 پیشگوئی مصلح موعود

Page 584

پیشگوئی کی حقیقت و اہمیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں پیشگوئی مصلح موعود کا پس منظر پیشگوئی مصلح موعود 20 فروری 1886ء پیشگوئی میں مذکورہ مصلح موعود کی باون (52) علامات بشیر اول کی پیدائش کے بعد جلد وفات پر مخالفین کا شور وغوغا مصلح موعود کے متعلق بیان شدہ دیگر علامات پیدائش مصلح موعود..ظاہری تعلیم کی کمی اور روشن جلالی مستقبل کامل انکشاف پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مصلح موعود کے متعلق نشاندہی حضرت خلیفة اصبح الاول رضی اللہ عنہ کے نزدیک پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق تقریر حضرت مولوی محمد احسن صاحب رضی اللہ عنہ اور مصلح موعود کی نشاندہی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا دعوی مصلح موعود پیشگوئی مصلح موعود میں مذکور علامات کا ظہور.بیان فرمودہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مصلح موعود کا علوم ظاہری سے پر کیا جانا مصلح موعود کا علوم باطنی سے پر کیا جانا.سورۃ فاتحہ کی تفسیر اور ہر معترض کا جواب فاتحہ سے مصلح موعود کی زمین کے کناروں تک شہرت اور اسلام کی اکناف عالم میں اشاعت اسیروں کی رُستگاری جلال الہی کا ظہور خلافت ثانیہ اور مخالفانہ تحریکات (پیغامی فتنہ احرار کا قادیان میں ہنگامہ / تقسیم ملک اور جماعت کی حفاظت 1953ء کا مخالفانہ ہنگامہ وغیرہ) پیشگوئی کی حقیقت واہمیت: انبیاء کی صداقت پر ایک عظیم الشان نشان ان کی وہ پیشگوئیاں ہوتی ہیں جن کی خدا تعالیٰ قبل از وقت انہیں اطلاع دیتا ہے اور پھر وہ پیشگوئیاں اپنے مقررہ وقت پر بڑی شان کے ساتھ پوری ہوتی ہیں.چنانچہ اس الہی نشان کی حقیقت آشکار کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: 584

Page 585

ہے جو پہلی ”جاننا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نہایت کریم و رحیم ہے.جو شخص اس کی طرف صدق اور صفا سے رجوع کرتا ہے وہ اس سے بڑھ کر اپنا صدق و صفا اس سے ظاہر کرتا ہے، اس کی طرف صدق دل سے قدم اٹھانے والا ہر گز ضائع نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ میں بڑے بڑے محبت اور وفاداری اور فیض اور احسان اور کرشمہ خدا ئی دکھلانے کے اخلاق ہیں مگر وہی ان کو پورے طور پر مشاہدہ کرتا ہے جو پورے طور پر اس کی محبت میں محو ہو جاتا ہے.اگر چہ وہ بڑا کریم و رحیم ہے مگر غنی اور بے نیاز ہے اسی لئے جو شخص اس کی راہ میں مرتا ہے وہی اس سے زندگی پاتا ہے اور جو اس کیلئے سب کچھ کھوتا ہے اسی کو آسمانی انعام ملتا ہے.خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنے والے اس شخص سے مشابہت رکھتے ہیں جو اول دور سے آگ کی روشنی دیکھے اور پھر اس سے نزدیک ہو جائے یہاں تک کہ اُس آگ میں اپنے تئیں داخل کر دے اور تمام جسم جل جائے اور صرف آگ ہی باقی رہ جائے.اسی طرح کامل تعلق والا دن بہ دن خدا تعالیٰ کے نزدیک ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ محبت الہی کی آگ میں تمام وجود اس کا پڑ جاتا ہے اور شعلہ نور سے قالب نفسانی جل کر خاک ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ آگ لے لیتی ہے یہ انتہا اس مبارک محبت کا ہے جو خدا سے ہوتی ہے.یہ امر کہ خدا تعالیٰ سے کسی کا کامل تعلق اس کی بڑی علامت یہ ہے کہ صفات الہیہ اس میں پیدا ہو جاتی ہیں اور بشریت کے رذائل شعلہ نور سے جل کر ایک نئی ہستی پیدا ہوتی ہے اور ایک نئی زندگی نمودار ہوتی زندگی سے بالکل مغائر ہوتی ہے اور جیسا کہ لوہا جب آگ میں ڈالا جائے اور آگ اس کے تمام رگ و ریشہ میں پورا غلبہ کر لے تو لوہا بالکل آگ کی شکل پیدا کر لیتا ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ آگ ہے گو خواص آگ کے ظاہر کرتا ہے اسی طرح جس کو شعلۂ محبت الہی سر سے پیر تک اپنے اندر لیتا ہے وہ بھی مظہر تجلیات الہیہ ہو جاتا ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدا ہے بلکہ ایک بندہ ہے جس کو اس آگ نے اپنے اندر لے لیا ہے اور اس آگ کے غلبہ کے بعد ہزاروں علامتیں کامل محبت کی پیدا ہو جاتی ہیں کوئی ایک علامت نہیں ہے تا وہ ایک زیرک اور طالب حق پر مشتبہ ہو سکے بلکہ وہ تعلق صد با علامتوں کے ساتھ شناخت کیا جاتا ہے (ایک بڑی علامت کامل تعلق کی یہ ہوتی ہے کہ جس طرح خدا ہر ایک چیز پر غالب ہے اسی طرح وہ ہر ایک دشمن اور مقابلہ کرنے والے پر غالب رہتا ہے: كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِى مِنْهُ - من جملہ اس علامت کے یہ بھی ہے کہ خدائے کریم اپنا فصیح اور لذیذ کلام وقتاً فوقتاً اُس کی زبان پر جاری کرتا رہتا ہے جو الہی شوکت اور برکت اور غیب گوئی کی کامل طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک نور اُس کے ساتھ ہوتا ہے جو بتلاتا ہے کہ یہ یقینی ا یہ یقینی امر ہے ظنی نہیں ہے.اور ایک ربانی چمک اُس کے اندر ہوتی ہے اور کدورتوں سے پاک ہوتا ہے اور بسا اوقات اور اکثر اور اغلب طور پر وہ کلام کسی زبردست پیشگوئی پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کی پیشگوئیوں کا حلقہ نہایت وسیع اور عالمگیر ہوتا ہے اور وہ پیشگوئیاں کیا باعتبار کمیت اور کیا باعتبار کیفیت بے نظیر ہوتی ہیں کوئی اُن کی نظیر پیش نہیں کر سکتا اور ہیبت الہی ان میں بھری ہوئی ہوتی ہے اور قدرت تامہ کی وجہ سے خدا کا چہرہ ان میں نظر آتا ہے اور اُس کی پیشگوئیاں نجومیوں کی طرح نہیں ہوتیں بلکہ اُن میں محبوبیت اور قبولیت کے آثار ہوتے ہیں اور ربانی تائید اور نصرت سے بھری ہوئی ہوتی ہیں اور بعض پیشگوئیاں اس کے اپنے نفس کے متعلق ہوتی ہیں اور بعض اپنی اولاد کے متعلق اور بعض اس کے دوستوں کے متعلق اور بعض اس کے دشمنوں کے متعلق اور بعض عام طور پر تمام دنیا کیلئے اور بعض اس کی بیویوں اور خوشیوں کے متعلق ہوتی ہیں اور وہ امور اُس پر ظاہر ہوتے ہیں جو دوسروں پر ظاہر ر نہیں ہوتے اور وہ غیب کے دروازے اُس کی پیشگوئیوں پر کھولے جاتے ہیں جو دوسروں پر نہیں کھولے جاتے.خدا کا کلام اس پر اسی طرح نازل ہوتا ہے جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں اور رسولوں پر نازل ہوتا ہے اور وہ ظن 585

Page 586

سے پاک اور یقینی ہوتا ہے یہ شرف تو اُس کی زبان کو دیا جاتا ہے کہ کیا باعتبار کمیت اور کیا باعتبار کیفیت ایسا بے مثل کلام اس کی زبان پر جاری کیا جاتا ہے کہ دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اُس کی آنکھ کو کشفی قوت عطا کی جاتی ہے جس سے وہ مخفی در مخفی خبروں کو دیکھ لیتا ہے اور بسا اوقات لکھی ہوئی تحریریں اس کی نظر کے سامنے پیش کی جاتی ہیں اور مردوں سے زندوں کی طرح ملاقات کر لیتا ہے اور بسا اوقات ہزاروں کوس کی چیزیں اُس کی نظر کے سامنے ایسی آجاتی ہیں گویا وہ پیروں کے نیچے پڑی ہیں.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں: (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 16 تا 18) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت میں دلائل دیتے ہوئے اپنی تصنیف دعوۃ الامیر میں تحریر فرماتے ہیں: دسویں دلیل آپ علیہ السلام کی صداقت کی کہ وہ بھی درحقیقت سینکڑوں بلکہ ہزاروں دلائل مشتمل ہے یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نہایت کثرت سے اپنے غیب پر مطلع کیا تھا.پس معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام خد اتعالیٰ کے فرستادہ تھے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولِ (سورۃ (جن) یعنی وہ غیب پر کثرت سے اطلاع دیتا مگر اپنے رسولوں کو.(اظْهَرَ عَلَيْهِ کے معنی ہیں اس کو اس پر غلبہ دیا ) پس جس شخص کو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع ملے اور اس پر وحی مصفیٰ پانی کی طرح ہو جو ہر قسم کی کدورت سے پاک ہو اور روشن نشان اُس کو دیئے جاویں اور عظیم الشان امور سے قبل از وقت اسے آگاہ کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کا امور ہے اور اس کا انکار کرنا گویا قرآن کریم کا انکار ہے جس نے یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے اور سب نبیوں کا انکار کرنا ہے جنہوں نے اپنی صداقت کے ثبوت میں ہمیشہ اس امر کو پیش کیا ہے.چنانچہ بائبل میں بھی آتا ہے کہ جھوٹے نبی کی علامت ہے کہ جو بات وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہے وہ پوری نہ ہو.اس معیار کے ماتحت جب ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو دیکھتے ہیں تو آپ علیہ السلام کی سچائی ایسے دن کی طرح نظر آتی ہے جس کا سورج نصف النہار پر ہو.آپ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے اس کثرت اور اس تواتر کے ساتھ غیب کی خبریں ظاہر کیں کہ رسول کریم کے سوا اور کسی نبی کی پیشگوئیوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی بلکہ سچ یہ ہے کہ ان کی تعداد اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ اگر ان کو تقسیم کیا جائے تو کئی نبیوں کی نبوت ان سے ثابت ہو جائے.“ پیشگوئی مصلح موعود کا پس منظر: (دعوة الامير انوار العلوم جلد 7 صفحہ 516 تا517) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف براہین احمدیہ کی اشاعت کے بعد جبکہ تمام مذاہب آپ علیہ السلام کے مخالف ہو گئے اور خود مسلمانوں میں بھی ایک طبقہ ایسا تھا جس نے آپ علیہ السلام کے خلاف لکھنا شروع کر دیا تو آپ علیہ السلام کے دل میں سخت درد پیدا ہوا اور آپ علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے یہ دعائیں مانگنی شروع کیں کہ تو مجھے اپنی تائید سے ایسا موقع بہم پہنچا کہ میں ان تمام وساوس کو جو اسلام کے خلاف پھیلائے جاتے ہیں اور ان تمام حملوں کو جو اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ 586

Page 587

کئے جاتے ہیں کامیابی سے دور کر سکوں نیز قادیان کے ہندوؤں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام ایک خط لکھا جس میں لکھا کہ : ساہوکران و دیگر ہند و صاحبان قادیان کا خط بنام مرزا صاحب علیہ السلام: مرزا صاحب مخدوم و مکرم مرزا غلام احمد صاحب سلمه بعد ما وجب بکمال ادب عرض کی جاتی ہے کہ جس حالت میں آپ نے لنڈن اور امریکہ تک اس مضمون کے رجسٹری شده خط بھیجے ہیں کہ جو طالب صادق ہو اور ایک سال تک ہمارے پاس آ کر قادیان میں ٹھہرے تو خدائے تعالیٰ اس کو ایسے نشان درباره اثبات حقیت اسلام ضرور دکھائے گا کہ جو طاقت انسانی سے بالاتر ہوں سو لوگ جو آپ کے ہمسایہ اور ہم شہری ہیں، لنڈن اور امریکہ والوں سے زیادہ تر حق دار ہیں.ہاں ایسے نشان ضرور چاہئیں جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہوں.جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ سچا اور پاک پر میشر بوجہ آپ کی راست بازی دینی کے عین محبت اور کرپا کی راہ سے آپ کی دعاؤں کو قبول کر لیتا ہے اور قبولیت دعا سے قبل از وقوع اطلاع بخشتا ہے یا آپ کو اپنے بعض اسرار خاصہ پر مطلع کرتا ہے اور بطور پیشگوئی ان پوشیدہ بھیدوں کی خبر آپ کو دیتا ہے یا ایسے عجیب طور سے آپ کی مدد اور حمایت کرتا ہے جیسے برگزیدوں اور مقربوں اور بھگتوں اور خاص بندوں سے کرتا آیا ہے.ہم سرا سر سچائی اور راستی سے اپنے پر میشر کو حاضر ناظر جان کر یہ اقرار نامہ لکھتے ہیں اور اسی سے اپنی نیک نیتی کا قیام چاہتے ہیں اور سال جو نشانوں کے دکھانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے وہ ابتدائے ستمبر 1885ء سے شمار کیا جاوے گا جس کا اختتام ستمبر 1886ء کے اخیر تک ہو جائے گا.العبد : قدیم سے لچھن رام بقلم خود.جو اس خط میں ہم نے لکھا ہے اس کے موافق عمل کریں گے.پنڈت بھارا مل بقلم خود بشن داس ولد رعدا ساہو کار بقلم خود منشی تارا چند کھتری بقلم خود.پنڈت نہال چند.سنت رام - فتح چند.پنڈت ہر کرن.پنڈت بیجناتھ چودھری بازار قادیان.بشن داس ولد ہیرا نند برہمن.( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 89 - 90 جدید ایڈیشن) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خط کے جواب میں تحریر فرمایا : " بعد ما وجب! آپ صاحبوں کا عنایت نامہ جس میں آپ نے آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے درخواست کی ہے مجھ کو ملا.آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ صاحبان ان عہود کے پابند رہیں گے کہ جو اپنے خط میں لوگ کر چکے ہیں تو ضرور خدائے قادر مطلق جل شانہ کی تائید و نصرت سے ایک سال تک کوئی ایسا نشان آپ کو دکھلایا جائے گا جو انسانی طاقت سے بالاتر ہو.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 91 جدید ایڈیشن) چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعاؤں اور استخاروں سے کام لینا شروع کر دیا کہ الہی بعض مقامات بھی خاص طور پر بابرکت ہوتے ہیں تو اپنے خاص فضل سے اس بارہ میں بھی میری رہنمائی فرما کہ میں یہ دعائیں کہاں کروں اور کس جگہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کیلئے دعائیں کرنے کیلئے جاؤں.ان دعاؤں اور استخاروں کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا کہ ” تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہو گئی“ (تذکرہ صفحہ 647).چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنوری 587

Page 588

1886ء کو ہوشیار پور کی طرف سفر کیلئے روانہ ہوئے.آپ علیہ السلام کے ساتھ تین افراد تھے.آپ علیہ السلام نے جانے سے قبل ہوشیار پور میں اپنے دوست شیخ مہر علی رئیس ہوشیار پور کو خط لکھا کہ مکان کا انتظام کر دیں.چنانچہ میاں عبداللہ سنوری کی روایت مندرج سیرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 56-55 کے مطابق انہوں نے اپنا ایک مکان جو کسی وقت طویلہ کے کام آتا تھا خالی کر دیا.ہوشیار پور پہنچ کر حضور علیہ السلام نے اس مکان کے بالا خانہ میں قیام فرمایا.چنانچہ چالیس دن آپ علیہ السلام نے اس بالا خانہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور علیحدگی میں دعائیں کیں.اس دوران میں آپ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض عظیم انکشافات ہوئے جن کی بنا پر آپ علیہ السلام نے ” اخبار ریاض ہند کو 20 فروری 1886ء کو ایک اشتہار لکھا جس میں آ السلام نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی عظیم الشان خوشخبری پیشگوئی مصلح موعود کی خبر دی.الشان علیہ (ماخوذ از ” الموعود صفحه 11 تا13) 588 پیشگوئی مصلح موعود کے الفاظ : ” 20 فروری 1886ء به پایه پہلی پیشگوئی بالهام اللہ تعالیٰ و اعلامه عز و جل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے (جل شَآنُهُ وَ عَزَّاسُمُهُ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لودھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذُریت و نسل ہو گا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے.وہ نوراللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیح نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا، (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الاَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَاءِ كَاَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہو گا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور

Page 589

خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا.اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا.“ 66 ریاض ہند امرتسر یکم مارچ 1886ء صفحہ 147 مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحه 95-96) پیشگوئی مصلح موعود کی باون علامات: یہ پیشگوئی بڑی تفصیلی ہے جس سے ظاہر ہے کہ آنے والا کئی قسم کی خصوصیات کا حامل ہو گا.چنانچہ اگر اس پیشگوئی کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی میں آنے والے موعود کی مندرجہ ذیل علامات بیان کی گئی ہیں: پہلی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قدرت کا نشان ہو گا.دوسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ رحمت کا نشان ہو گا.تیسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قربت کا نشان ہو گا.چوتھی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فضل کا نشان ہو گا.پانچویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ احسان کا نشان ہو گا.چھٹی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ صاحب شکوہ ہو گا.ساتویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ صاحب عظمت ہو گا.آٹھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ صاحب دولت ہو گا.نویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مسیحی نفس ہو گا.دسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.گیارھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کالمۃ اللہ ہو گا.بارھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت اور غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہو گا.تیرھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ سخت ذہین ہوگا.چودھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ سخت فہیم ہوگا.پندرھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دل کا حلیم ہوگا.سولھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علوم ظاہری سے پر کیا جائے گا.سترھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علوم باطنی سے پر کیا جائے گا.اٹھارویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا.انیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ دو شنبہ کا اس کے ساتھ خاص تعلق ہو گا.بیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فرزند دلبند ہو گا.اکیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ گرامی ارجمند ہو گا.بائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر الا ول ہو گا.تئیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر الآخر ہو گا.چوبیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر الحق ہو گا.589

Page 590

پچیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر العلا ہو گا.چھبیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ كَاَنَّ اللهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ کا مصداق ہوگا.ستائیویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کا نزول بہت مبارک ہوگا.اٹھائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کا نزول جلال الہی کے ظہور کا موجب ہو گا.انتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نور ہو گا.تیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ خدا کی رضامندی کے عطر سے ممسوح ہو گا.اکتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا اس میں اپنی روح ڈالے گا.بتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا.تینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا.چونتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا.پینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.چھتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ قومیں اس سے برکت پائیں گی.سینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.اڑتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دیر سے آنے والا ہوگا.انتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ دور سے آنے والا ہوگا.چالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فخر رسل ہو گا.اکتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی ظاہری برکتیں تمام زمین پر کی پھیلیں گی.بیالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.تینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ یوسف کی طرح اس کے بڑے بھائی اس کی مخالفت کریں گے.چوالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ بشیر الدولہ ہو گا.پینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شادی خاں ہو گا.چھیالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عالم کباب ہو گا.سینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نظیر ہو گا.اڑتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمتہ العزیز ہو گا.انچاسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمتہ اللہ خاں ہو گا.پچاسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ناصر الدین ہو گا.اکیاونویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فاتح الدین ہو گا.باونویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بشیر ثانی ہو گا.بشیر اول کی پیدائش اور وفات پر مخالفین کا شور و غوند: الموعود تقریر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ صفحہ 71 تا 75) پیشگوئی مصلح موعود 20 فروری 1886 ء کی اشاعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 22 / مارچ 1886ء کو ایک 590

Page 591

اشتہار شائع کیا جس میں آپ علیہ السلام نے مصلح موعود کی پیدائش کے متعلق تحریر فرمایا کہ: " ہم جانتے ہیں کہ ایسا لڑکا بموجب وعدہ الہی 9 برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے.بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا.“ وو ( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 98 جدید ایڈیشن) اس پیشگوئی کے بعد 7 راگست 1887ء بروز یک شنبہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا جو 4 نومبر 1888ء کو اسی روز یعنی یک شنبہ کو وفات پا گیا جس پر مخالفین نے شور مچایا.اس لڑکے یعنی بشیر اوّل کی وفات کے بعد حضور علیہ السلام نے سبز اشتہار کے نام سے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا: واضح ہو کہ اس عاجز کے لڑکے بشیر احمد کی وفات سے جو 7 اگست 1887ء روز یک شنبہ میں پیدا ہوا تھا اور 4 نومبر 1888ء کو اسی روز یک شنبہ میں ہی اپنی عمر کے سولہویں مہینے میں بوقت نماز صبح اپنے معبود حقیقی کی طرف واپس بلایا گیا عجیب طور کا شور و غوغا خام خیال لوگوں میں اٹھا اور رنگا رنگ کی باتیں خویشوں وغیرہ نے کیں اور طرح طرح کی نافہمی اور کج دلی کی رائیں ظاہر کی گئیں.مخالفین مذہب جن کا شیوہ بات بات میں خیانت و افترا ہے انہوں نے اس بچے کی وفات پر انواع و اقسام کی افترا گھڑنی شروع کی.سو ہر چند ابتدا میں ہمارا ارادہ نہ تھا کہ اس پسر معصوم کی وفات پر کوئی اشتہار یا تقریر شائع کریں پر کوئی اشتہار یا تقریر شائع کریں اور نہ شائع کرنے کی ضرورت تھی.کیونکہ کوئی ایسا امر درمیان نہ تھا کہ کسی فہیم آدمی کی ٹھوکر کھانے کا موجب ہو سکے لیکن جب یہ شور وغوغا انتہا کو پہنچ گیا اور کچے اور ابلہ مزاج مسلمانوں کے دلوں پر بھی اس کا مضر اثر پڑتا ہوا نظر آیا تو ہم نے حض اللہ یہ تقریر شائع کرنا مناسب سمجھا.اب ناظرین پر منکشف ہو کہ بعض مخالفین پسر متوفی کی وفات کا ذکر کر کے اپنے اشتہارات و اخبارات میں طنز سے لکھتے ہیں کہ یہ وہی بچہ ہے جس کی نسبت اشتہار 20 فروری 1886ء و 8 اپریل 1886ء اور 7 اگست 1887ء میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.بعضوں نے اپنی طرف سے افتراء کر کے یہ بھی اپنے اشتہار میں لکھا کہ اس بچہ کی نسبت یہ الہام بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ بادشاہوں کی بیٹیاں بیاہنے والا ہو گا.لیکن ناظرین پر منکشف ہو کہ جن لوگوں نے یہ نکتہ چینی کی ہے انہوں نے بڑا دھوکا کھایا ہے یا دھوکا دینا چاہا ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ ماہ اگست 1887ء تک جو پسر متوفی کی وفات کا مہینہ ہے، جس قدر اس عاجز کی طرف سے اشتہار چھپے ہیں جن کا لیکھرام پشاوری نے وجہ ثبوت کے طور پر اپنے اشتہار میں حوالہ دیا ہے.ان میں سے کوئی شخص ایک ایسا حرف بھی پیش نہیں کر سکتا جس میں یہ دعوی کیا گیا ہو کہ مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا تھا جو فوت ہو گیا ہے.“ ( یہ سہو کاتب ہے صحیح بجائے ” وفات“ کے ” پیدائش ہے.شمس) پر (سبز اشتہار روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 2-1) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: " آج تک ہم نے کسی اشتہار میں نہیں لکھا کہ یہ لڑکا عمر پانے والا ہو گا اور نہ یہ کہا کہ یہی مصلح موعود ہے.بلکہ ہمارے اشتہار 20 فروری 1886ء میں بعض ہمارے لڑکوں کی نسبت یہ پیشگوئی موجود تھی کہ وہ کم عمری میں فوت ہوں گے.پس سوچنا چاہئے کہ اس لڑکے کی وفات سے ایک پیش گوئی پوری ہوئی یا جھوٹی نکلی بلکہ جس قدر ہم نے لوگوں میں الہامات شائع کئے اکثر اُن کے اِس لڑکے کی وفات پر دلالت کرتے تھے.چنانچہ 591

Page 592

592 در 20 فروری 1886ء کے اشتہار کی یہ عبارت کہ ایک خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.یہ مہمان کا لفظ ر حقیقت اسی لڑکے کا نام رکھا گیا تھا اور یہ اس کی کم عمری اور جلد فوت ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے جو چند روز رہ کر چلا جاوے اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہو جاوے اور جو قائم مقام ہو اور دوسروں کو رخصت کرے اس کا نام مہمان نہیں ہو سکتا.اور اشتہار مذکور کی یہ عبارت کہ وہ رجس سے (یعنی گناہ سے) بکلی پاک ہے یہ بھی اس کی صغرسنی کی وفات پر دلالت کرتی ہے اور یہ دھوکا کھانا نہیں چاہیے کہ جس پیش گوئی کا ذکر ہوا ہے وہ مصلح موعود کے حق میں ہے کیونکہ بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ یہ سب عبارتیں پسر متوفی کے حق میں ہیں اور مصلح موعود کے حق کی جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے اور ضرور تھا کہ اس کا آنا معرض التوا میں رہتا جب تک یہ بشیر جو فوت ہو گیا ہے پیدا ہو کر پھر واپس اٹھایا جاتا کیونکہ یہ سب امور حکمت الہیہ نے اس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے اور بشیر اول جو فوت ہو گیا ہے ثانی کے لئے بطور ارہاص تھا اس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا..66 (سبز اشتہار روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 366-367) مصلح موعود کی دیگر علامات: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وو ” سو اے وے لوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی.“ (سبز اشتہار روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 463) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں مصلح موعود کے متعلق جن صفات کا تذکرہ فرمایا ہے وہ درج ذیل ہیں: ایک اولو العزم پیدا ہو گا.وہ حسن اور احسان میں تیرا نظیر ہو گا.وہ تیری ہی نسل سے ہوگا.فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَاءِ كَانَّ اللهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ ".(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 442-443) " سَيُولَدُ لَكَ الْوَلَدُ وَ يُدْنى مِنْكَ الْفَضْلُ إِنَّ نُورِى قَرِيبٌ.اور تجھے ایک بیٹا عطا ہو گا اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا.“ دافع الوساوس روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 266-267) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: اور خدا نے مجھے وعدہ دیا ہے کہ تیری برکات کا دوبارہ نور ظاہر کرنے کے لئے تجھ سے ہی اور تیری ہی نسل میں سے ایک شخص کھڑا کیا جائے گا جس میں میں روح القدس کی برکات پھونکوں گا.وہ پاک باطن اور خدا سے نہایت پاک تعلق رکھنے والا ہوگا.اور مظہر الحق والعلاء ہوگا گویا خدا آسمان سے نازل ہوا.و تــــــك عَشْرَةٌ كَامِلَةٌ.دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا کی میں بڑی قبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہو گا.یہ

Page 593

باتیں انسان کی باتیں نہیں یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیدائش: (تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 181-182) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 12 جنوری 1889ء کو شرائط بیعت پر میں آپ نے اپنے دوسرے بیٹے بشیر الدین محمود احمد کی پیدائش کی خبر دی.” خدائے عز و جل نے جیسا کہ اشتہار دہم جولائی 1888 ء و اشتہار دسمبر 1888ء میں مندرج ہے اپنے لطف و سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اول کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہو گا اور اس عاجز کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہو گا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا.وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.ہے.سو آج 12 جنوری 1889ء میں مطابق 9 جمادی الاول 1306ھ روز شنبه میں اس عاجز کے گھر بفضلہ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہو گیا ہے جس کا نام بالفعل محض تفاول کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی آئے گی.مگر ابھی تک مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا وہ کوئی اور ہے لیکن میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالٰی اپنے وعدے کے موافق مجھ سے معاملہ کرے گا اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہو گا.اور اگر مدت مقررہ سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو خدئے عز و جل اس دن کو ختم نہیں کرے گا جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کر لے.مجھے ایک خواب میں اس موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا: بیعت تبلیغ شائع فرمایا جس مشتمل ایک اشتہار بعنوان " اے فخر رسل قرب تو معلوم شد دیر آمده ز راه دور آمده پس اگر حضرت باری جل شانہ کے ارادہ میں دیر سے مراد اسی قدر دیر ہے جو اس پسر کے پیدا ہونے میں جس کا نام بطور تفاول بشیر الدین محمود رکھا گیا ہے ظہور میں آئی تو تعجب نہیں کہ یہی لڑکا موعود لڑکا ہو.ورنہ وہ بفضلہ تعالیٰ دوسرے وقت پر آئے گا اور ہمارے بعض حاسدین کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری کوئی ذاتی غرض اولاد کے متعلق نہیں اور نہ کوئی نفسانی راحت ان کی زندگی سے وابستہ ہے.پس یہ ان کی بڑی غلطی ہے کہ جو انہوں نے بشیر احمد کی وفات پر خوشی ظاہر کی اور بغلیں بجائیں.انہیں یقیناً یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہماری اتنی اولاد ہو جس قدر درختوں کے تمام دنیا میں پتے ہیں او وہ سب فوت ہو جائیں تو ان کا مرنا ہماری کچی اور حقیقی لذت اور راحت میں کچھ خلل انداز نہیں ہو سکتا.ممیت کی محبت میت کی محبت سے اس قدر ہمارے دل پر زیادہ تر غالب ہے کہ اگر وہ محبوب حقیقی خوش ہو تو ہم خلیل اللہ کی طرح اپنے کسی پیارے بیٹے کو بدست خود ذبح کرنے تیار ہیں کیونکہ واقعی طور پر بجز اس ایک کے ہمارا کوئی پیارا نہیں.جَلَّ شَآنُهُ وَعَزَّاسُمُهُ.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى اِحْسَانِه منه ( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 160 و 161 حاشیہ) کامل انکشاف پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مصلح موعود کے متعلق نشاندہی: 593

Page 594

594 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: محمود جو میرا بڑا بیٹا ہے.اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی 1888ء میں اور نیز اشتہار یکم دسمبر 1888ء میں جو سبز رنگ کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا.پیشگوئی کی گئی اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمود رکھا جائے گا اور یہ اشتہار محمود کے پیدا ہونے کے سے پہلے ہی لاکھوں انسانوں میں شائع کیا گیا.چنانچہ اب تک ہمارے مخالفوں کے گھروں میں صدہا یہ سبز رنگ اشتہار پڑے ہوئے ہوں گے اور ایسا ہی دہم جولائی 1888ء کے اشتہار بھی ہر ایک کے گھر میں موجود ہوں گے پھر جب کہ اس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی.اور مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں میں سے کوئی بھی فرقہ باقی نہ رہا جو اس سے بے خبر ہو.تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے 12 /جنوری 1889ء کو مطابق 9ر جمادی الاول 1306ھ میں بروز شنبہ محمود پیدا ہوا.اور اس کے پیدا ہونے کی میں نے اس اشتہار میں خبر دی ہے.جس کے عنوان پر تحمیل تبلیغ موٹی قلم سے لکھا ہوا ہے جس میں بیعت کی دس شرائط مندرجہ ہیں اور اس کے صفحہ 4 میں یہ الہام پسر موعد کی نسبت ہے: اے فخر رسل قرب تو معلومم شد دیر آمده ز راه دور آمده حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا : تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 219) ایسا ہی جب میرا پہلا لڑکا فوت ہو گیا تو نادان مولویوں اور اُن کے دوستوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں نے اس کے مرنے پر بہت خوشی ظاہر کی اور بار بار اُن کو کہا گیا کہ 20 فروری 1886ء میں یہ بھی ایک پیشگوئی ہے کہ بعض لڑکے فوت بھی ہوں گے.پس ضرور تھا کہ کوئی لڑکا خورد سالی میں فوت ہو جاتا تب بھی وہ لوگ اعتراض سے باز نہ آئے.تب خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے لڑکے کی مجھے بشارت دی.چنانچہ میرے سبز اشتہار کے ساتویں صفحہ میں اس دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ بشارت ہے.دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود ہے.وہ اگر چہ اب تک جو یکم ستمبر 1888 ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا.زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں.یہ ہے عبارت اشتہار سبز کے صفحہ سات کی جس کے مطابق جنوری 1889ء میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمود رکھا گیا اور اب تک بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہے اور سترھویں سال میں ہے.66 (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 373 و 374) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ”میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے.ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ محمود.تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کیلئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر 1888ء ہے اور یہ اشتہار مؤرخہ یکم دسمبر 1888 ء ہزاروں آدمیوں میں شائع کیا گیا.اب تک اس میں سے بہت سے اشتہارات میرے پاس موجود ہیں.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 214)

Page 595

پر پھر ایک اور نشان یہ ہے جو یہ تین لڑکے جو موجود ہیں ہر ایک کے پیدا ہونے سے پہلے اس کے آنے کی خبر دی گئی ہے.چنانچہ محمود جو بڑا لڑکا ہے اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی معہ محمود کے نام کے موجود ہے جو پہلے کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا.جو رسالہ کی طرح کئی ورقوں کا اشتہار سبز (ضمیمہ انجام آنقم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 299) رنگ کے ورقوں پر ہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: "پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہو گا اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا.اور اس پیشگوئی کی اشاعت کیلئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے.چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کے میعاد میں پیدا ہوا اور اب نویں سال میں ہے.66 (سراج منیر روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 36) چونتیسواں نشان یہ ہے کہ میرا ایک لڑکا فوت ہو گیا تھا اور مخالفوں نے جیسا کہ ان کی عادت ہے اس لڑکے کے مرنے پر بڑی خوشی ظاہر کی تھی تب خدا نے مجھے بشارت دے کر فرمایا کہ اس کے عوض میں جلد ایک اور پیدا ہو گا جس کا نام محمود ہو گا اور اس کا نام ایک دیوار پر لکھا ہوا مجھے دکھایا گیا تب میں نے ایک سبز رنگ کا اشتہار میں ہزار ہا موافقوں اور مخالفوں میں یہ پیشگوئی شائع کی اور ابھی 70 دن پہلے لڑکے کی موت پر نہیں گزرے تھے کہ یہ لڑکا پیدا ہو گیا اور اس کا نام محمود احمد رکھا گیا.“ لڑکا (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 227) حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت پیر منظور محمد رضی اللہ عنہ کے مطابق پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق: حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ کے دوران اور بعد میں مسندِ خلافت متمکن ہونے کے بعد پورا وتوق اور یقین کامل رکھتے تھے کہ پسر موعود حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ہی ہیں.چنانچہ پیر منظور محمد صاحب نے 10 ستمبر 1913 ء کو حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ: ” مجھے آج حضرت اقدس (مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات کو پڑھ کر پتہ چل گیا ہے کہ پسر موعود میاں صاحب (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد.ناقل) ہی ہیں.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: " ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کس خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں.“ حضرت پیر صاحب موصوف رضی اللہ عنہ نے یہی الفاظ لکھ کر تصدیق کیلئے پیش کئے تو حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا: یہ لفظ میں نے برادرم پیر منظور محمد سے کہے ہیں.“ دو 595

Page 596

وو نورالدین +1913 10 حضرت پیر صاحب رضی اللہ عنہ نے خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام میں حضرت خلیفہ لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے مصلح موعود ہونے کے بارہ میں ” پسر موعود “ کے نام سے ایک لاجواب رسالہ شائع کیا جس میں حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی اس تحریر کو بھی چھاپ دیا.“ (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 485) مصلح موعود کی نشاندہی.تقریر حضرت مولوی محمد احسن صاحب اور ان الہامات میں سے ایک یہ بھی الہام تھا کہ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَاءِ....الخ جو اس حدیث کی پیشنگوئی کے مطابق تھا جو مسیح موعود کے بارے میں ہے کہ يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ - یعنی آپ علیہ السلام ہاں ولد صالح عظیم الشان پیدا ہو گا.چنانچہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب موجود ہیں.من جملہ ذریت طیبہ کے اس تھوڑی سے عمر میں جو خطبہ انہوں نے چند آیات قرآنی کی تفسیر میں بیان فرمایا اور سنایا ہے اور جس قدر معارف اور حقائق بیان کئے ہیں وہ بے نظیر ہیں.اب کوئی انہیں معمولی سمجھے اور کہے یہ تو کل کے کے - بچے ہیں.ابھی ہمارے ہاتھوں میں پلے ہیں اور کھیلتے کودتے پھرتے تھے تو یاد رہے یہ فرعونی خیالات ہیں.پس جبکہ صدہا یہ الہام زور شور پورے ہوئے کہ جو الہام ذریت طیبہ کیلئے ہیں کیا وہ پورے نہ ہوں گے.گلا وَحَاشَـا ضرور پورے ہوں گے.أَيُّهَا الْاَحْبَابُ ! ان الہامات پر بھی کامل ایمان ہونا چاہیے.ایسا نہ ہو کہ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نُكَفِّرُ بِبَعْضٍ کی وعید میں کوئی آ جائے.نعوذ باللہ خصوصاً ایسی حالت میں کہ آثار ان الہامات کے پورے ہونے شروع ہو گئے ہیں.حضرت خلیفہ امیج کے حکم سے ہماری کل جماعت کے وہ امام ہیں اور انہوں نے تھوڑے ہی عرصہ میں ایسی غیر معمولی ترقی کی ہے جیسے کہ الہام میں تھی اور میں نے تو ارہاص کے پر یہ سب ارشاد مشاہدہ کئے ہیں اس لئے میں مان چکا ہوں کہ یہی وہ فرزند ارجمند ہیں جن کا نام محمد احمد سبز اشتہار میں موجود ہے.(ضمیمه اخبار بدر مطبوعہ 26/جنوری 1911ءصفحہ 2 تا 4) طور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا دعوی مصلح موعود : گو میں پہلے بھی مختلف مقامات پر اس کا اعلان کر چکا ہوں مگر اب جبکہ ساری جماعت یہاں جمع ہے میں اس کے سامنے ایک بار پھر یہ اعلان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے اذن اور اسی کے انکشاف کے ماتحت میں اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ وہ مصلح موعود جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے ماتحت دنیا میں آنا تھا اور جس کے متعلق یہ مقدر تھا کہ وہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا اور اس کا وجود خدا تعالیٰ کے جلالی نشانات کا حامل ہو گا وہ میں ہی ہوں اور میرے ذریعہ ہی وہ پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اپنے ایک بیٹے کے متعلق فرمائی تھیں یاد رہے کہ میں کسی خوبی کا اپنے لئے دعوے دار نہیں ہوں.میں فقط خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے خدا موعود 596

Page 597

تعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے اس سے زیادہ نہ مجھے کوئی دعوئی ہے نہ مجھے کسی دعوئی میں خوشی ہے.میری ساری خوشی اسی میں ہے کہ میری خاک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آ جائے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہو جائے.اور میرا خاتمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے قیام کی کوشش پر ہو.“ الموعود تقریر حضرت اصلح الموعود رضی اللہ عنہ فرمودہ 28 دسمبر 1944ء بمقام قادیان 66 تا 68) دعوی مصلح موعود کے متعلق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کا حلفیہ اعلان: میں کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پیشگوئیوں کا مورد بنایا ہے جو ایک آنے والے موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے فرمائیں.جو شخص سمجھتا ہے کہ میں نے افترا سے کام لیا ہے یا اس بارہ میں جھوٹ اور کذب بیانی کا ارتکاب کیا ہے وہ آئے اور اس معاملہ میں میرے ساتھ مباہلہ کر لے اور یا پھر وہ اللہ تعالیٰ کی مؤکد بعذاب کھا کر اعلان کر دے کہ اسے خدا نے کہا ہے کہ میں جھوٹ سے کام لے رہا ہوں پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اپنے آسمانی نشانات سے فیصلہ فرما دے گا کہ کون کاذب ہے اور کون صادق...غرض اللہ تعالٰی کے فضل اور اس کے رحم سے وہ پیشگوئی جس کے پورا ہونے کا ایک لمبے عرصہ سے انتظار کیا جا رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق اپنے الہام اور اعلام کے ذریعہ مجھے بتادیا ہے کہ وہ پیشگوئی میرے وجود میں پوری ہو چکی ہے اور اب دشمنان اسلام پر خدا تعالیٰ نے کامل حجت کر دی ہے اور ان پر یہ امر واضح کر دیا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے فرستادہ ہیں.جھوٹے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو جھوٹا کہتے ہیں کاذب ہیں وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاذب کہتے ہیں.خدا نے اس عظیم الشان پیشگوئی کے ذریعہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے.پیشگوئی مصلح موعود میں مذکور علامات کا ظہور : 66.الموعود تقریر حضرت مصلح الموعود رضی اللہ عنہ صفحہ 207 تا209) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پہلی پیشگوئی یہ کی گئی تھی کہ وہ علوم ظاہری سے پُر کیا جائے گا.اس پیشگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ علم ظاہری سیکھے گا نہیں بلکہ خدا کی طرف سے اسے یہ علوم سکھائے جائیں گے یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ علوم ظاہری میں خوب مہارت رکھتا ہو گا بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ وہ علوم ظاہری سے پُر کیا جائے گا.جس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی اور طاقت اسے یہ علوم ظاہری سکھائے گی.اس کی اپنی کوشش اور محنت اور جدوجہد کا دو اس میں دخل نہیں ہو گا.یہاں علوم ظاہری سے مراد حساب اور سائنس وغیرہ علوم نہیں ہو سکتے کیونکہ یہاں ” پر کیا جائے گا“ کے الفاظ ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے یہ علوم سکھائے جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے سائنس اور حساب اور جغرافیہ وغیرہ علوم نہیں سکھائے جاتے بلکہ دین اور قرآن سکھلایا پس پیشگوئی کے ان الفاظ کا کہ وہ علوم ظاہری سے پُر کیا جائیگا یہ مفہوم ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم دینیہ اور قرآنیہ سکھلائے جائیں گے اور خدا خود اس کا معلم ہوگا.“ جاتا ہے.597

Page 598

الموعود تقریر حضرت مصلح الموعود رضی اللہ عنہ صفحہ 76) حضرت خلیفۃالمسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: دو وہ ہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا اور وہ چشمہ روحانی جو میرے سینہ میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو خدا نے مجھے علم قرآن بخشا ہے اور اس زمانہ میں اس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں.اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں.دنیا زور لگالے وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے.دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقت ور قومیں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں نا کام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں.پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا.اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا.جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے.“ الموعود تقریر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ صفحہ 210 تا 212) ” دوسری خبر اس پیشگوئی میں یہ دی گئی تھی کہ وہ باطنی علوم سے پر کیا جائے گا.باطنی علوم سے مراد وہ علوم مخصوصہ ہیں جو خدا تعالیٰ سے خاص ہیں جیسے علم غیب ہے جسے وہ اپنے ایسے بندوں پر ظاہر کرتا ہے جن کو وہ دنیا میں کوئی خاص خدمت سپرد کرتا ہے تا کہ خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق ظاہر ہو اور وہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کے ایمان تازہ کر سکیں سو اس شق میں بھی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر خاص عنایت فرمائی ہے اور سینکڑوں خواہیں اور الہام مجھے ہوئے ہیں جو علوم غیب پر مشتمل ہیں." الموعود تقریر حضرت مصلح الموعود رضی اللہ عنہ صفحہ 99) تیسری پیشگوئی یہ کی گئی تھی کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اسلام کی تبلیغ اس کے ذریعہ سے مختلف ملکوں میں ہوگی.یہ پیشگوئی بھی ایسے رنگ میں پوری ہوئی ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا.اس طرح میرے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی جو تبلیغ ہوئی ہے وہ ساری دنیا پر حاوی ہو جاتی ہے ان میں سے کئی مقامات ایسے ہیں جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی بری جماعتیں پائی جاتی ہیں.چنانچہ انگلستان میں ہماری بڑی جماعت ہے.اسی طرح اٹلی میں بھی جماعت کے لوگ پائے جاتے ہیں.ہنگری میں بھی جماعت کے لوگ پائے جاتے ہیں.عراق میں بھی جماعت کے لوگ پائے جاتے ہیں.پائے جاتے ہیں.فلسطین میں بھی نہایت اعلیٰ کا اخلاص رکھنے والی جماعت پائی جاتی ہے.وہ لوگ اپنا رسالہ نکالتے اور عربی ممالک میں تبلیغ احمدیت کا کام درجه 598

Page 599

بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ سر انجام دیتے ہیں.اسی طرح مصر میں بھی ہماری جماعت پائی جاتی ہے اور اب تو سوڈان اور ایسے سینیا میں بھی ایک ایک دو دو احمدی خدا تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو گئے ہیں.ویسٹ افریقہ میں تو ہماری اتنی بڑی جماعت قائم ہے کہ اس کی تعداد 75 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے.غرض دنیا کے چاروں کونوں میں احمدیت میرے زمانہ میں اور میرے ذریعہ سے پھیلی اور ہزارہا لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے نام سے آشنا نہ تھے، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے آشنا نہ تھے، جو اسلام کے دشمن، عیسائی مذہب کے پیرو یا بت پرست تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو میرے ذریعہ سے اسلام میں داخل کیا اور اس طرح مجھے اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا بنایا جو مصلح موعود کے متعلق کی گئی تھی کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.“ الموعود تقریر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ صفحہ 147-150-151) ایک پیشگوئی یہ کی گئی تھی کہ وہ اسیروں کی رُستگاری کا موجب ہو گا.اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو بھی میرے ذریعہ سے پورا کیا.اوّل تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے اُن قوموں کو ہدایت دی جن کی طرف مسلمانوں کو کوئی توجہ ہی نہیں تھی.اور وہ نہایت ذلیل اور پست حالت میں تھیں.وہ اسیروں کی سی زندگی بسر کرتی تھیں.نہ ان میں تعلیم پائی جاتی تھی نہ ان کا تمدن اعلیٰ درجے کا تھا نہ ان کی تربیت کا کوئی سامان تھا جیسے افریقن علاقے ہیں کہ ان کو دنیا نے الگ پھینکا ہوا تھا اور وہ صرف بیگار اور خدمت کے کام آتے تھے ابھی مغربی افریقہ کے ایک نمائندہ آپ لوگوں کے سامنے پیش ہو چکے ہیں اس ملک کے بعض لوگ تو تعلیمیافتہ ہیں لیکن اندرون ملک میں کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کپڑے تک نہیں پہنتے تھے اور ننگے پھرا کرتے تھے ایسے وحشی لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے ذریعہ ہزارہا لوگ اسلام میں داخل ہوئے وہاں کثرت سے عیسائیت کی تعلیم پھیل رہی تھی اور اب بھی بعض علاقوں میں عیسائیوں کا غلبہ ہے لیکن میری ہدایت کے ماتحت ان علاقوں میں ہمارے مبلغ گئے اور انہوں نے ہزاروں لوگ مشرکوں میں سے مسلمان کئے اور ہزاروں لوگ عیسائیت میں سے کھینچ کر اسلام کی طرف لے آئے.اس کا عیسائیوں پر اس قدر اثر ہے کہ انگلستان میں پادریوں کی ایک بہت بڑی انجمن ہے جو شاہی اختیارات رکھتی ہے اور گورنمنٹ کی طرف سے عیسائیت کی تبلیغ اور اس کی نگرانی کیلئے مقرر ہے اس نے ایک کمیشن اس غرض کے لئے مقرر کیا تھا کہ وہ اس امر کے متعلق رپورٹ کرے کہ مغربی افریقہ میں عیسائیت کی ترقی کیوں رک گئی ہے اس کمیشن نے اپنی انجمن کے سامنے جو رپورٹ پیش کی اس میں درجن سے زیادہ جگہ احمدیت کا ذکر آتا ہے اور لکھا ہے کہ اس جماعت نے عیسائیت کی ترقی کو روک دیا ہے.غرض مغربی افریقہ اور امریکہ دونوں ملکوں میں حبشی قومیں کثرت اسلام لا رہی ہیں.اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان قوموں میں تبلیغ کا موقع عطا فرما کر مجھے ان اسیروں کا رستگار بنایا اور ان کی زندگی کا معیار بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائی.پھر اسیروں کی رُستگاری کے لحاظ سے کشمیر کا واقعہ بھی اس پیشگوئی کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہے اور ہر جو ان واقعات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی کشمیریوں کی رُستگاری کے سامان پیدا کئے اور ان کے دشمنوں کو شکست دی.“ الموعود تقریر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ صفحہ 155-156) "پانچویں خبر یہ دی گئی تھی کہ اس کا نزول جلال الہی کے ظہور کے موجب ہو گا یہ خبر بھی میرے زمانہ میں ہی پوری ہوئی.چنانچہ میرے خلاف متمکن ہوتے ہی پہلی جنگ ہوئی اور اب دوسری جنگ شروع ہے جس سے 599

Page 600

ہے اور جلال الہی کا دنیا میں ظہور ہو رہا ہے شاید کوئی شخص کہہ دے کہ اس وقت لاکھوں کروڑوں لوگ زندہ ہیں اگر ان لڑائیوں کو تم اپنی صداقت میں پیش کر سکتے ہو تو اس طرح ہر زندہ شخص ان کو اپنی تائید میں پیش کر سکتا کہہ سکتا ہے کہ یہ جنگیں میری صداقت کی علامت ہیں.اس کے متعلق میرا جواب یہ ہے کہ اگر اُن لاکھوں کروڑوں لوگوں کو جو اس وقت زندہ ہیں ان جنگوں کی خبریں دی گئی ہیں تو یہ ہر زندہ شخص کی علامت بن سکتی ہیں اور اگر اُن کو ان لڑائیوں کی خبریں نہیں دی گئیں تو پھر جس کو ان جنگوں کی تفصیل بتائی گئی ہے اسی کے متعلق جلال الہی کا یہ ظہور کہا جائے گا.“ "الموعود تقریر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ صفحہ 177) 600

Page 600