Khilafat Roshni

Khilafat Roshni

خلافت ۔ روشنی صبح ازل کی

Author: Other Authors

Language: UR

UR
خلافت اسلامیہ احمدیہ

خلافت کا موضوع بے شمار ذیلی عناوین اور شاخوں میں پھیلا ہوا ہے، اس مبارک اور مقدس عنوان پر جس نے بھی قلم اٹھایا ہے  اس نے اپنی  اپنی بساط اور ذوق کے مطابق قابل قدر مواد مرتب کیا ہے۔ زیر نظر کتاب میں مصنف موصوف نے اپنا وہ غیر مطبوعہ مسودہ پیش کیا ہے جس میں خلافت کی تعریف، اہمیت، مقام، انوار و برکات، اس بابت ہماری ذمہ داریوں وغیرہ کا تذکرہ کرکے  جماعت میں خلافت کی تاریخ، اس کے زیر سایہ عالمگیر ترقیات اور اس مقدس و مطہر نظام پر کم علمی اور شقاوت کے باعث ہونے والے اعتراضات کے جوابات بھی دیئے گئے ہیں۔ الغرض ساڑھے چار سو صفحات پر بہت قیمتی مواد، اعلیٰ و دیدہ زیب پیشکش اور حوالہ جات کے عمدہ معیار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

خلافت الرحمن الرحيم الجديدة العامر الجملة الى التراب الحب Hijrat 129745 ليَسَتْ خَلِفَتَهُم هير لعظم المُصَل KHILAFATE Aragon Mayz Hijraf 1527H5 شینی صبح اول کی ہادی علی چوہدری

Page 2

بِسْمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيْمَ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ المَوْعُوْد خلافت روشنی صبح ازل کی ( غیر مطبوعہ ) از بادی علی چوہدری جامعہ احمدیہ کینیڈا

Page 3

|| بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُوْرِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ - اَلزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ لَا يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ، نُوْرٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي ط اللهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ ، وَ يَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ.وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (النور: ۳۶) ط ترجمہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے.اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو.وہ چراغ شیشے کے شمع دان میں ہو.وہ شیشہ ایسا ہوگو یا ایک چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے.وہ چراغ زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا گیا ہو جو نہ مشرقی ہو اور نہ مغربی.اس (درخت) کا تیل ایسا ہے کہ قریب ہے کہ وہ از خود بھڑک کر روشن ہو جائے خواہ اسے آگ کا شعلہ نہ بھی چھوا ہو.یہ نور علی نور ہے.اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کا دائمی علم رکھنے والا ہے.

Page 4

III بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًاء يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ “ (النور:۵۶) ترجمہ: اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنادے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا.اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اُسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور اُن کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا.وہ میری عبادت کریں گے ( اور ) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دیئے جائیں گے.

Page 5

IV بِسْمِ اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِيم "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (ال عمران : ۱۰۴) اور اللہ کی رہتی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو.

Page 6

V عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيْكُمْ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ فَتَكُوْنُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا - ثُمَّ تَكُوْنَ مُلْكًا عَاضًا فَيَكُوْنُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ يَكُوْنُ مُلكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُوْنُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ 66 أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ - ثم سكت (مسند احمد بن حنبل مسند الكوفيين حدیث نعمان بن بشير و مشکوۃ المصابیح باب الانذار والتحذير ) ترجمہ : حضرت حذیفہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں بات اس وقت تک باقی رہے گی جب تک خدا تعالی چاہے گا.پھر خدا تعالیٰ نبوت کو اٹھا لے گا اور پھر اس کے بعد نبوت کے طریق (منہاج ) پر خلافت ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک خدا تعالیٰ چاہے گا.پھر خدا تعالیٰ خلافت کو اٹھالے گا.پھر ایک کاٹنے ( قتل و غارت ) والی بادشاہت آئے گی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک خدا تعالی چاہے گا.پھر ایک جور و جبر والی بادشاہت ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک خدا تعالیٰ چاہے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی.پھر رسول اللہ تم خاموش ہو گئے.

Page 7

VI ” اے عزیز و! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دوقدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی لمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے.اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے.جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہ ہوگا.“ الوصیت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵) حضرت نبی کریم نے فرمایا ہے کہ پہلے خلفاء ہوں ﷺ گے.پھر بادشاہت شروع ہو جائے گی.پھر آخری زمانہ میں منہاج نبوت پر خلفاء کا زمانہ آئے گا اور یہ کہہ کر آپ خاموش ہو گئے ( مسند احمد ) جس کا مطلب یہ ہے کہ پھر اس کا سلسلہ قیامت تک چلے گا.( خطاب حضرت خلیفہ مسیح الثالث اجتماع خدام الاحمد یه ۱۹۷۷ء.الفضل ربوه ۲۱ مئی ۱۹۷۸ء)

Page 8

L 11 ۳۹ ۶۱ ۱۲۱ ۱۴۳ ۲۵۳ ۳۱۷ ۳۴۳ ۳۵۵ ۳۹۵ ۴۲۵ ۳۳۷ ۴۴۳ VII ابتدائے عقیدت فہرست مضامین خلافت کی تعریف اہمیت اور اقسام خلیفہ خدا بناتا ہے برکات وانوار خلافت امت میں خلافت کے قیام کی تاریخ خلافت را شد و خلفائے اربعہ پر ایک طائرانہ نظر خلافت را شده ( دور آخرین ) قیام خلافت کی تحریکات پر محاکمہ طاعت در معروف صد سالہ خلافت جو بلی پر اعتراضات کے جواب بیعتوں کی تعداد پر اعتراض اور اس کا جواب خلافت روحانی و ظاہری کی اصطلاحات کے عقب میں وساوس خلافت و خلفاء پر متفرق اعتراضات اور ان کے جواب نا قابل تسخیر ہماری ذمہ داریاں ہماری جو بلی ا ۹ ۹ 11 ۱۳ ۱۴ نوٹ : مضامین کی تفصیلی فہرست متعلقہ باب میں ملاحظہ فرمائیں

Page 9

VIII خلافت کمالات و نور رسالت کی مشکوۃ خلافت خواص نبوت کی ظلت ہے ثبوت کی منہج پر وعدہ خدا کا رسالت کے عارض پہ آفاقی تل ہے زمین بوت پہ فجر مقدس پر ایماں، گتر و بی قلوب اس کی گل ہے مٹاتی ہے یہ فرق معشوق و عاشق جماعت بدن ہے تو یہ اس کی دل ہے ہادی علی چوہدری )

Page 10

IX عرض حال خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے خلافت احمد یہ خدا تعالیٰ کی بیش بہا برکتوں اور اس کے لامتناہی انعامات کے جلو میں ایک سوسال کا سفر طے کر چکی ہے.یہانتک کہ اب ارضِ مذاہب کے اُس پار فتح دین مصطفی سیم اور غلبہ اسلام کی روشنی دکھائی دینے لگی ہے.اس منظر میں خدا تعالیٰ کے نہ شمار ہو سکنے والے فضلوں کے اظہار تشکر کے لئے جماعت صد سالہ خلافت جوبلی منا رہی ہے.اس جو بلی کے افق سے جماعت مومنین کی اگلی منزل بھی مزید نمایاں ہو رہی ہے اور بفضل تعالیٰ فتح وظفر کا سورج بھی بہت روشن ہو چکا ہے.اور انشاء اللہ مٹا کے کفر و ضلال و بدعت کریں گے آثار دیں کو تازہ خدا نے چاہا تو کوئی دن میں ظفر کے پرچم اڑائیں گے ہم اس عاجز کی خوش قسمتی ہے کہ جو بلی کے اس بابرکت موقع پر منصب خلافت کے مختلف پہلوؤں پر قلم اٹھانے کی توفیق مل رہی ہے.اس کے لئے خاکسار برادرم مکرم ملک کلیم احمد صاحب صدر انصار اللہ و نائب امیر کینیڈا کاممنون و مشکور ہے کہ انہوں نے اس بارہ میں لکھنے کے لئے خاکسار کو ترغیب دلائی.اللہ تعالیٰ انہیں دنیا و آخرت میں بہترین جزا دے.ہم سب کو خلافت کی برکتوں سے کما حقہ فیضیاب کرے، اس کے انوار سے منور کرے.آمین ثم آمین والسلام خاکسار خاکپاۓ خلافت ہادی علی چوہدری ٹورانٹو ۲۰ ؍ دسمبر ۲۰۰۷

Page 11

X ا: :۲ صد سالہ جو بلی خلافت احمدیہ کی روحانی تیاری ماہانہ نفلی روزہ رکھیں دو نفل روزانہ پڑھیں سات بار سورۃ فاتحہ روزانہ پڑھیں مندرجہ ذیل دعائیں روزانہ اابار پڑھی جائیں رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِيْنَ (البقرہ:۲۵۱) اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ مندرجہ ذیل دعائیں روزانہ ۳۳ بار پڑھی جائیں (ابوداؤد) رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً : إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (ال عمران : ۹) اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّاتُوْبُ إِلَيْهِ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ روزانہ کم از کم ۳۳ بار درود شریف پڑھیں

Page 12

تھا رشتہ دل و جاں پہلی خلافتوں سے باندھا ہے تجھ سے دامن اسی شدّتِ وفا سے

Page 13

خلاف امت محمدیہ میں خلافت راشدہ وہ نعمت عظمیٰ ہے جو اقوام عالم میں پھیلے ہوئے مومنوں کو مساوات کی فلسفیانہ بحثوں اور جمہوریت کے بگڑے ہوئے نظریات کی دھند سے نکال کر انتخاب کے روشن میدان تقوی میں مرضی کو رضائے الہی کے سائبان تلے لا کھڑا کرتی ہے.پھر تائید الہی اور رضائے باری تعالیٰ منتخب فرد کو اپنے حصار میں لے کر خلیفہ اللہ اور ہر صاحب ایمان کا محبوب ، آقا اور مطاع بنادیتی ہے.اور خلافت الہام الہی ، تائید خداوندی اور خدا داد بصیرت سے ایمان متبعین کو جلا بخشتی ہے،اُس آبشار کی طرح جو بلندیوں سے اتر کر کشت ویراں کو زندگی کا پیام دیتی ہے.مومنوں کے لئے یہ خدا تعالیٰ کی وہ عطا ہے جو سر زمین قلوب کو انوار نبوت اور برکاتِ رسالت سے فیضیاب کر کے انہیں حیاتِ جاودانی عطا کرتی ہے.لبِثِيْنَ فِيْهِ أَبَداً خلافت روشنی صبح ازل کی عروج آدم خاکی کی جھلکی مقام اس کا ہے مضمر اُسْجُدُو امیں حکومت یہ خدائے لَمْ يَزَل کی ☆☆

Page 14

Page 15

ابتدائے عقیدت خلافت حقہ کے بارہ میں مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے مسعد دمضامین لکھے گئے ، پڑھے گئے، دوہرائے گئے اور شائع کئے گئے اور یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا کیونکہ سلسلۂ خلافت بھی جاری ہے ،اس کے ساتھ ساتھ اس کا فیض بھی دائمی ہے اور اس کے ذریعہ برکات و انوار نبوت کا انعکاس بھی ہمیشہ کے لئے درخشندہ ہوتا ہاں ہے.حضرت المصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جماعت کے مبلغین کو اور دیگر صاحب علم لوگوں کو یہ نصیحت فرمائی تھی کہ وہ خلافت کے مقام،حقیقت، اہمیت ،عظمت اور برکات کو بار بار جماعت کے سامنے پیش کرتے رہا کریں.چنانچہ آپ نے فرمایا : در مبلغین اور واعظین کے ذریعہ بار بار جماعتوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے کہ پانچ روپے کیا، پانچ ہزار روپیہ کیا، پانچ لاکھ روپیہ کیا، پانچ ارب روپیہ کیا ، اگر ساری دنیا کی جانیں بھی خلیفہ کے ایک حکم کے آگے قربان کر دی جاتی ہیں تو وہ بے حقیقت اور نا قابل ذکر چیز ہیں......اگر یہ باتیں ہر مرد، ہر عورت ، ہر بچے ، ہر بوڑھے کے ذہن نشین کی جائیں اور ان کے دلوں پر ان کا نقش کیا جائے تو وہ ٹھوکریں جو عدم علم کی وجہ سے لوگ کھاتے ہیں کیوں کھائیں......پس سب سے اہم ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے........ہماری جماعت کے علماءلوگوں کو تیار کر سکتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی جن کو خدا تعالیٰ نے علم و فہم بخشا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی خشیت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور الہی محبت کے حاصل کرنے کی خواہش اپنے قلوب میں پاتے ہیں لوگوں کو اس رنگ میں تیار کر سکتے ہیں اور ان کے

Page 16

اعمال کی اصلاح میں حصہ لے سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی نظر میں خلیفہ وقت کے نائب قرار پاسکتے ہیں.(تعلیم العقائد والاعمال پر خطبات صفحه ۵۶ از حضرت المصلح الموعود مرتب شیخ یعقوب علی عرفانی دیگر مومنوں کی طرح خلافت کے ساتھ فطرتی محبت ،عقیدت اور فدائیت کا رشتہ تو تھا ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا ارشاد کی تعمیل میں اپنے حصہ کے فرض کی ادائیگی کے طور پر خلافت کی برکات کے بارہ میں چند حقیقتیں جمع کرنے کا ارادہ کیا مگر مشکل یہ در پیش آئی کہ ابتداء کہاں سے کروں.کیا ایمان کی اس حقیقت کے اظہار سے شروع کروں کہ جس کی بناء پر خدا تعالیٰ نے مومنین سے خلافت کا وعدہ کیا ہے یا اعمال صالحہ کی ان بنیادوں سے جو خلافت کے قیام کی وجہ بنتے ہیں.کیا مضمون کے دروازے تائید الہی کے ان جلووں سے کھولوں جو ہر آن خلافت کے شاملِ حال رہتے ہیں یا ان ناکامیوں اور نامرادیوں کی کسی داستان سے وا کروں جو اس کی مخالفت کے باعث تاریخ اسلام کے درخشاں باب کو بدنما کر گئیں.کیا اس محبت اور عقیدت سے شروع کروں جو اس کی روشنی میں جلا پا کر مقدس ہو جاتی ہے یا اس اطاعت و فرمانبرداری اور فدائیت کے ان نمونوں سے ابتداء کروں جو خلافت سے وابستگی کی شرط اول ہے.الغرض کون سا پھول چنوں گلشن سے ایک سے ایک سوا لگتا ہے سوچوں کی اس کشمکش میں ذہن کے تار اس عظیم الشان حقیقت افروز واقعہ میں الجھ گئے جو امت میں خلافتِ راشدہ کے ظہور کے ساتھ ہی رونما ہوا.جس نے خلافت کی حقیقت، اہمیت اور برکتوں کو اتنی وضاحت بخشی کہ اس کی صداقت اور اس کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ رہی.اس ایک واقعہ نے عظمت خلافت کو اس قدر روشن کر دیا کہ ماحول سے شرک کی گھٹائیں دور ہو گئیں اور دین میں بظاہر کمزوری اور خوف کے تمام بادل چھٹ گئے.

Page 17

اس واقعہ سے ثابت ہو گیا کہ جس طرح مقام نبوت پر فائز شخص کو دنیا کی کوئی طاقت جنبش نہیں دے سکتی اسی طرح مسند خلافت پر متمکن وجود نا قابل تسخیر ہوتا ہے.جس طرح خدا تعالیٰ کا نبی اس کی صفات کا مظہر کامل ہوتا ہے اسی طرح خلیفہ وقت کے وجود میں بھی دنیا خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے مشاہدہ کرتی ہے.وہ واقعہ یہ تھا کہ پیارے آقا، سردار دو جہاں ، سید ولد آدم حضرت محمد مصطفی نے آخری علالت میں شام کے ایک علاقہ انکی میں (جوموتہ کے قریب تھا ) بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر شکر کشی کا حکم دیا اور ایک فوج کی تیاری کا ارشاد فرمایا اور اس کی سپہ سالاری حضرت اسامہ بن زیڈ کے سپرد کی.ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حضور حاضر ہو گئے.پیارے آقا و مطاع کی وفات ہر مسلمان کے لئے گہرے غم کا موجب تھی ، اپنے محبوب کی جدائی کے صدمہ سے روحیں گھائل اور جگر چھلنی تھے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے وصال کی خبر جب اکناف میں پھیلی تو عرب کے بعض دیگر قبائل کے ساتھ عیسائی اور یہودی قبائل بھی دلیر ہو گئے.شام کے سرحدی قبائل بن قضاعہ میں سے بھی بعض ارتداد کی اس آندھی میں گم گشتہ راہ ہو گئے تھے.اسی طرح عرب کے مختلف اطراف سے اور مدینہ کے قرب و جوار سے خبریں موصول ہونے لگیں کہ بعض قبائل زکوۃ و صدقات کی ادائیگی سے منکر ہو رہے ہیں اور بعض مرتد ہو کر بغاوتیں اور یورشیں کرنے لگے ہیں اور ان کی طرف سے جارحانہ حملوں کا امکان ہے.مدینہ ہر طرف سے شدید خطرہ میں ہے.دشمنانِ اسلام، اسلام کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کے لئے اپنی تلواروں کو آب دے رہے تھے.ان حالات میں اسلام کے بارہ میں دشمنوں کا تصورتھا کہ یہ ”چراغ سحر ہے، بجھا چاہتا ہے“ گویا عناد، ارتداد اور مخالفت کے طوفان میں اسلام اس جزیرے کی طرح دکھائی دیتا تھا جو بھرے ہوئے سمندر میں بے بسی سے اس کی لہروں کو جذب کرتا ہے.اسلام کی اس حالت کی مثال علامه ابن خدون نے ان الفاظ میں دی ہے.الْمُسْلِمُوْنَ كَالْغَنَمِ فِي اللَّيْلَةِ الْمُمْطِرَةِ لِقِلَّتِهِمْ وَ كَفْرَةِ

Page 18

عدُوِّهِمْ وَإِظْلَامِ الْجَوَ بِفَقْدِ نَبِيِّهِمْ تاریخ ابن الخلدون جلد ۲ صفحه ۵۶ باب خبر السقیفه و ابن اثیر ذکر انفاذ جیش اسامہ بن زید) کہ اپنی قلت تعداد اور کثرت دشمن کی وجہ سے اپنے نبی کی وفات کے باعث مسلمانوں کی حالت ایسی تھی جیسے طوفانِ با دو باراں والی شب تیرہ و تار میں بکریوں کا ریوڑ ہو.اس انتہائی خوفناک حالت میں خدا تعالی نے اپنا وعده وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا (اور ہم ان کے خوف کو امن کی حالت میں بدل دیں گے ) پورا کیا اور حضرت ابوبکر کوخلیفہ الرسول اور امیر المومنین کی خلعت عطا کی.یہ پہلا خلیفہ الرسول "عزم کی چٹان اور استقلال کی آہنی دیوار بن کر اس کفر وارتداد کے طوفان کے مقابل کھڑا ہو گیا.خلیفہ اول کے حضور اس قسم کی تجاویز پیش ہونے لگیں کہ ان حالات میں اگرا کا برصحابہ اور چوٹی کے جانباز مدینہ سے باہر ہوں تو دفاعی اعتبار سے مدینہ انتہائی کمزور رہ جائے گا.وغیرہ وغیرہ.ان مشوروں پر خلیفتہ الرسول حضرت ابو بکڑ نے اپنے آقا و مولی کے لئے غیرت سے بھر کر ، تو تکل علمی اللہ کی چٹان پر قائم ہوکر ، کمال اعتماد کے ساتھ فرمایا : وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ لَوْ جَرَّتِ الْكِلَابُ بِأَرْجُلِ أَزْوَاجِ رَسُوْلِ اللهِ الله مَا اَرُدُّ جَيْشًا وَجَهَهُ رَسُوْلُ اللهِ ع وَلَا حَلَلْتُ لِوَاء عَقَدَهُ (زرقانی، ابن سعد والسيرة الحلبية سرية اسامة بن زيد) کہ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں.اگر کتے رسول اللہ ﷺ کی ازواج کی ٹانگیں بھی کھینچتے پھریں تو بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کی روانگی کا حکم رسول اللہ ﷺ نے جاری فرمایا تھا اور نہ ہی اس جھنڈے کو کھولوں گا جو رسول اللہ سلیم نے خود باندھا تھا.اس لشکر کی روانگی کی ضرورت ظاہر کرنے کے لئے حضرت ابو بکر یہاں عام طرز پر بھی بات کر سکتے تھے مگر خاص طور پر ازواج رسول اللہ کا ذکر کرنا لازماً خاص حالات کے پیش نظر انتہائی غیرت کے اظہار کی نشاندہی کرتا ہے.حضرت ابو بکر نے دراصل یہاں امت کو یہ سبق دیا تھا کہ احکام

Page 19

رسول کے نفاذ کے لئے اور ارشاد رسول کی تعمیل کے لئے ایک مؤمن کے اندر دنیا کے ہر عزیز ترین رشتہ سے بھی زیادہ غیرت ہونی ضروری ہے.اس کا تقدس اس کی ہر متاع عزیز اور ہر عزت کے تعلق سے زیادہ مقدس ہے.الغرض آپ نے آنحضرت ﷺ کے حکم کو کما حقہ قائم رکھا اور نافذ فرمایا اور جو صحابہ حضرت اسامہ کے لشکر میں شامل تھے انہیں واپس جرف کے مقام پر جا کرلشکر میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا.آپ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو پہلے اسامہ کے لشکر میں شامل تھا اور اسے رسول اللہ ہم نے اس میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا تھا، وہ ہر گز پیچھے نہ رہے اور نہ ہی میں اسے پیچھے رہنے کی اجازت دوں گا.اسے خواہ پیدل بھی جانا پڑے وہ ضرور ساتھ جائے گا.(زرقانی سریہ اسامہ بن زید) لشکر ایک بار پھر تیار ہو گیا.بعض صحابہ نے حالات کی نزاکت کے باعث پھر مشورہ دیا کہ فی الحال اس لشکر کو روک لیا جائے.لوگوں کی رائے لے کر حضرت عمرؓ آپ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے پھر اسی آہنی عزم کے ساتھ ارشاد فرمایا : لَوْ خَطَفَتْنِيَ الْكِلابُ وَالدِّقَابُ لَأَنْفَذْتُهُ كَمَا أَمَرَ بِهِ رَسُوْلُ اللَّهِ ﷺ وَلَا أَرُدُّ قَضَاءً قَضَى بِهِ رَسُوْلُ اللَّهِ وَلَوْ لَمْ يَبْقَ فِي الْقُرَى غَيْرِي لَأَنْفَذْتُهُ 66 ابن اثیر ذکر انفاذ جیش اسامہ بن زید) کہ اگر کتے اور بھیڑیئے مجھے گھسیٹتے بھی پھریں تو بھی میں اس لشکر کو رسول اللہ سلم کے فیصلہ کے مطابق بھجوا کر رہوں گا.اور میں رسول اللہ سلم کا جاری فرمودہ فیصلہ نافذ کر کے رہوں گا.ہاں اگر بستیوں میں میرے سوا کوئی بھی باقی نہ رہے تو بھی میں اس فیصلہ کو نافذ کروں گا.حضرت ابو بکر کے اس عزم راسخ اور حتمی فیصلہ نے جہاں باغیوں اور مرتد وں پر ایک رعب قائم کر دیا کہ اگر ان حالات میں بھی ایک عظیم لشکر مدینہ سے باہر جا سکتا ہے تو مدینہ میں لازماً طاقتور انتظام موجود ہوگا.وہاں ہر شخص پر ابتدائے خلافت میں ہی خلیفۃ الرسول کے اولوالعزم بلند مقام کی

Page 20

حقیقت کھل گئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: ” اَصْحَابِيْ كَا لَنُّجُوْمِ بِأَيِّهِم اقْتَدَيْتُمِ اهْتَدَيْتُمْ کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں.کسی ایک کی بھی پیروی کرو تو راہِ ہدایت حاصل کر سکتے ہو کتنا عظیم مقام ہے صحابہ رضوان اللہ علیہم کا کہ ہدایت کے لئے بڑے سے بڑے بزرگ کو بھی انہی کے در سے راہنمائی ملتی ہے.گویا چودہ صدیوں کے گل اولیاء اللہ اور مجد دین خادم اور مطبع ہیں ایک صحابی کے اور ادھر کل صحابہ دربار ابوبکر میں سر تسلیم خم کئے نظر آتے ہیں خلیفہ وقت کے سامنے.یعنی تمام صحابہ خادم اور مطیع ہیں خلیفہ وقت کے.وہ عظ ظیم الشان وجود، نورِ بصیرت سے معمور صحابہ کرام جن کے ارادوں سے سنگلاخ چٹانیں بھی موم ہو گئیں.جن کی ایک نظر چلتے قافلوں کا رُخ بدل دیتی تھی.جن کا ایک فیصلہ حکومتوں کی کایا پلٹ دیتا تھا.بڑی بڑی سلطنتوں کے صاحب جبروت بادشاہوں اور شہنشاہوں کے سامنے بھی جن کا سر عظمت کی وجہ سے اٹھا ہوتا تھا.آج ان تمام کا سر خلیفہ وقت کے سامنے جھکا نظر آتا ہے.سب کے ارادے، سب کی آراء خلیفہ وقت کے فیصلہ اور عزم کے سامنے ایک تابع اور مطیع کی رائے کے سوا کوئی اور حیثیت نہیں رکھتیں.وہی صحابہ جن کا قول تمام امت مسلمہ کے لئے واجب العمل ہے، خلیفہ وقت کا قول ان سب صحابہ کے قول پر فائق اور اولی ہے...وہی صحابہ، اگر ان میں سے کسی ایک کے نمونہ کو اپنایا جائے تو ہدایت مل جاتی ہے.یہ تمام ہدایت حاصل کرنے والے ہیں خلیفہ وقت سے بہر حال اس واقعہ نے اُمتِ مسلمہ پر واضح کر دیا کہ ا: ۴ اللہ تعالیٰ کے نبی کے بعد دنیا میں سب سے بڑا مؤخد اور سب سے بڑا متوکل باللہ انسان خلیفہ راشد ہوتا ہے.نبی کے بعد اس کا خلیفہ اسی کے ظلن میں ویسی ہی عظمت شان رکھتا ہے اور اس کے شاملِ حال بھی وہی تائید الہی ہوتی ہے جو نبی کے ساتھ ہوتی ہے.وہ نبی کے بعد مومنوں کا غیر مشروط طور پر واجب الاطاعت امام، مطاع اور آتا ہے.بلا شرکت غیر امت محمدیہ کا راہنما وہی ایک وجود ہے.

Page 21

ه: وہ شریعت اور احکام و تعالیم شریعت کا پاسبان ہے.وہ نبی کے احکام کو نہ تو خود ٹالنے والا ہے نہ ہی کسی کو ٹالنے کی اجازت دینے والا ہے.بلکہ وہ ہر حال میں ان کو پورا کرنے والا ہے.اسی نوع کے اور بیسیوں در بیچے ہیں جو منصب و نظام خلافت کے وسیع وعریض آنگن میں کھلتے ہیں.لیکن حق یہ ہے کہ اس کا ہر زاویہ ہی دلکش اور دلنشین ہے.بہر حال خلافت کا جو علم اور عرفان خاکسار کے نصیبے میں آیا وہ خلافت کا یہ ادنی غلام ہدیۂ قارئین کر رہا ہے اور اپنے حصہ کی ذمہ داری سے سبکدوش ہورہا ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ڈالی تھی.خلافت کا یہ ادنی غلام اپنے رب کریم کے حضور دعا گو ہے کہ وہ اس عاجز کو توفیق بخشے کہ تادم آخر اپنی استطاعت کی آخری حدوں تک تقریر اور تحریر اور جس طرح بھی ممکن ہو اس ذمہ داری کو ادا کرتار ہے.انشاءاللہ خلافت کا ادنی غلام خاکسار ہادی علی چو ہدری کینیڈا

Page 22

خلافت کشتی ملت کی امیدوں کا یارا ہے جو سچ پوچھو تو یہ ملت کا اک واحد سہارا ہے نہ جب تک کارواں میں ہو امام کا رواں کوئی نہیں ہوتا کسی کا اس جہاں میں پاسباں کوئی خلافت کیا ہے خود نور خدا کا جلوہ گر ہوتا بشر کا بزم موجودات میں خیر البشر ہونا

Page 23

11 خلافت کی تعریف، اہمیت اور اقسام

Page 24

۱۲ مندرجات خلافت کی تعریف خلافت کی اہمیت و عظمت خلافت کی اقسام ان نبوت ۲ : خلافت مهدی علیه السلام : خلافت نبوت خلافت راشده مجددیت،محدّثيت و ولايت وغيره ج: خلافت راشدہ کے ماتحت صلحاء اور ائمہ ۴ : خلافت حکومت و ملوکیت

Page 25

۱۳ خلافت کی تعریف: 66 خلیفہ یا خلافت لفظ ”خلف “ سے مشتق ہے جو چسپاں ہونے کے لحاظ سے وسیع المفہوم ہے.اس کے لغوی معنی نیابت، قائمقامی اور جانشینی کے ہیں.جو کسی کا جانشین ہوتا ہے وہ اس کا خلیفہ کہلاتا ہے.اسلامی اصطلاح میں نبی کا جانشین خلیفہ کہلاتا ہے اور مبہوت کی قائمقامی خلافت کہلاتی ہے.اسلام میں نبوت کی جانشینی میں قائم ہونے والی خلافت کے لئے ” خلافت راشدہ“، ” خلافت علی منہاج النبوۃ اور خلافت حقہ کی اصطلاحات رائج ہیں.جب یہ اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں تو ان سے مراد خالصہ وہی خلافت ہوتی ہے جو نبوت کی جانشینی میں اس کے انوار، کمالات اور برکات کی مظہر ہوتی ہے.وہ نبوت کی ذمہ داریوں، اس کے فرائض اور کاموں کو آگے چلانے والی ہوتی ہے.خلیفہ کے معنے بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ” خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ نیز فرمایا: سے وہی ہوسکتا ہے جوظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو.“ (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۳) یہ روحانی زندگی اور باطنی بینائی جو غیر مذہب والوں کو حق کی دعوت کرنے کے لئے اپنے اندر لیاقت رکھتی ہے، یہی وہ چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں خلافت کہتے ہیں.“ (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۵) خلافت کی تعریف کرتے ہوئے حضرت علیہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ” خلیفہ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے کا نائب ہوتا ہے.پس وعدہ کی ادنی حد یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد اس کے نائب ہوں.اور

Page 26

۱۴ یہ ظاہر ہے کہ جس رنگ کا نبی ہو، اگر اسی رنگ میں اس کا نائب ہو جائے تو وعدہ کی ادنی حد پوری ہو جاتی ہے.جس نبی کا کوئی خلیفہ ہوا سے وہی چیز ملے گی جو نبی کے پاس ہوگی اور جو اس کے پاس ہی نہیں ہوگی وہ اس کے خلیفہ کو کس طرح مل جائے گی.“ خلافت را شده، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۵۶۴) حضرت خلیفة المسیح الثالث خلیفہ کے معنے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” خلیفہ کے معنے نبی اکرم ﷺ کے اس جانشین کے ہیں جو ضرورت کے وقت تجدید دین کی خاطر آئے اور ان میں صحیح اسلامی روح پیدا کرے اور بدعات کو اسلام سے باہر نکال کر پھینک دے اور ایسے سامان پیدا کرے امّتِ مسلمہ کے لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بن سکیں.“ نیز خلیفہ کی تعریف کی معنوی وسعت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : الفضل ربوه ۲۶ / دسمبر ۱۹۶۸ء) امت محمدیہ میں ہر وہ شخص جس نے محمد رسول اللہ ہم کے افاضۂ روحانیہ کے ذریعہ کوئی خیر حاصل کی یا کوئی فائدہ حاصل کیا اور اسے لوگوں تک پہنچایا.وہ اپنے دائرے میں نبی کریمم کا خلیفہ اور نائب ہے.66 الفضل ربوه ۲۱ مئی ۱۹۷۸ء) عملی طور پر خدا تعالیٰ کی مرضی ، اس کا حکم ، اس کی شریعت وغیرہ زمین پر اس کی خلافت ہے.جو دنیا میں نبی کے ذریعہ آتی اور جاری ہوتی ہے.اس پہلو سے انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہوتے ہیں.پھر ان کے بعد ان کے جانشین ہوتے ہیں جو اُن کے کام کو آگے چلاتے اور بڑھاتے ہیں.

Page 27

۱۵ خلافت کی اہمیت و عظمت کو آنحضرت ام فرماتے ہیں : " مَا كَانَت نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَبَعَتْهَا خِلَافَةٌ “ 66 (کنز العمال جلد ا ا صفحه ۲۵۹ ناشر مکتبه التراسل اسلامی بیروت لبنان) کہ ہمیشہ نبوت کے بعد خلافت جاری ہوئی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر نبی کے بعد خلافت جاری نہ ہو تو اس کی وفات کے فوراً بعد اس کا سلسلہ بکھر سکتا ہے اور اس سے اس کی آمد کی غرض ختم ہو جاتی ہے.یعنی اس کی محدود زندگی کے بعد اس کی تیار کردہ جماعت اگر پھر پہلی حالتِ افتراق وضلالت میں لوٹ جائے تو اس کی آمد کا مقصد فوت ہو جاتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے نبی کے بعد خلافت کو رکھا تا کہ نبی کی روحانی زندگی زیادہ سے زیادہ طویل ہو سکے.اس لئے نبوت کے بعد روحانی اعتبار سے خلافت سب سے بڑی نعمت ہے جس کا اللہ تعالیٰ مومنوں سے ان الفاظ میں وعدہ فرماتا ہے : لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النور: ۵۶) کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنادے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنادیا تھا.اس وجہ سے خلافت کو نبوت کا تمہ کہا جاتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روشنی اور نور ، وہ رشد اور ہدایت جو نبی کے ساتھ دنیا میں آتا ہے، اس کو لمبے سے لمبے وقت تک بڑھانے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے ایک برگزیدہ بندہ کو کھڑا کرتا ہے.جو نبی کی وفات کے باعث جماعت میں جو مایوسی یا محرومی کے امکان کو دور کرتا ہے اور نبی کے پیغام اور اس کی تعلیم کو ایمان اور اعمال صالحہ کی انہی بنیادوں پر آگے بڑھاتا ہے جو نبی اپنی تیار کردہ جماعت میں قائم کر چکا ہوتا ہے.پس اس کی اہمیت کا اندازہ اسی پہلو سے ہو جاتا ہے کہ یہ نبوت کی جانشینی ہے اور اس کا نتمہ ہے.اس کی اہمیت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے کے لئے ذیل میں چند اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں.

Page 28

۱۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وو ” خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہو سکتا ہے جو ظلمی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں، لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف واولی ہیں ، ظلمی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانے میں برکاتِ رسالت سے محروم نہ رہے.“ شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۳، ۳۵۴) پھر آپ خلافت کی تا قیامت ضرورت کی وجہ اور اہمیت کے ایک اور پہلو کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللہ جل شانہ نے اسلامی امت کے کل لوگوں کے لئے ہمارے نبی شام کو شاہد ٹھہرایا ہے اور فرمایا إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ اور فرمایا وَ جِئْنَا بِكَ عَلَى هؤُلَاءِ شَهِيدًا مگر ظاہر ہے کہ ظاہری طور پر تو آنحضرت ا م صرف تئیس برس تک اپنی امت میں رہے.پھر یہ سوال کہ دائمی طور پر وہ اپنی امت کے لئے کیونکر شاہد ٹھہر سکتے ہیں.یہی واقع جواب رکھتا ہے کہ بطور استخلاف کے یعنی موسیٰ علیہ السلام کی مانند خدا تعالیٰ نے آنحضرت ام کے لئے بھی قیامت تک خلیفے مقرر کر دیئے اور خلیفوں کی شہادت بعینہ آنحضرت امام کی شہادت متصور ہوئی اور اس طرح پر مضمون آیت إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ بِ

Page 29

یک پہلو سے درست ہو گیا.“ ۱۷ اور فرمایا: نیز فرمایا: وو (شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۳) چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین میں متفرق آبادیوں میں آباد ہیں.کیا یورپ اور کیا ایشیا، ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو.مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہوسب میرے بعد مل کر کام کرو.“ ( الوصیت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶، ۳۰۷) یہ بات نہایت ضروری ہے کہ بعد وفات رسول اللہ ہم اس امت میں فساد اور فتنوں کے وقتوں میں ایسے مصلح آتے رہیں جن کو انبیاء کے کئی کاموں میں سے یہ ایک کام سپرد ہو کہ وہ دین حق کی طرف دعوت کریں.اور ہر ایک بدعت جو دین سے مل گئی ہو اس کو دور کریں...66 (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۴) حضرت خلیفہ المسح لثانی رضی اللہ عنہ خلافت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” جماعت کے اتحا داور شریعت کے احکام کو پورا کرنے کے لئے ایک خلیفہ کا ہونا ضروری ہے.جو اس بات کو رڈ کرتا ہے وہ گو یا شریعت کے احکام کورڈ کرتا ہے.صحابہ کا عمل اس پر ہے اور سلسلہ احمدیہ سے بھی خدا

Page 30

۱۸ تعالیٰ نے اسی کی تصدیق کرائی ہے.جماعت کے معنی یہی ہیں کہ وہ ایک امام کے ماتحت ہو.جولوگ کسی امام کے ماتحت نہیں وہ جماعت نہیں اور ان پر خدا تعالیٰ کے وہ فضل نازل نہیں ہو سکتے جو ایک جماعت پر ہوتے ہیں.کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۳) پس خلافت اسلام کا بنیادی اور اہم مسئلہ ہے جس پر امت کی وحدت، ترقی اور بقا کا انحصار ہے.خدا تعالیٰ کا بندہ سے تعلق، نبوت کی برکات اور اس کے انوار کا تسلسل وغیرہ وغیرہ ان گنت برکتیں ہیں اور افضال باری تعالیٰ ہیں جو خلافت کے توسّل اور توسط سے امت اور افرادِ امت کونصیب ہوتے ہیں.خلافت کی اہمیت اور اس کے عرفان کا اندازہ اس سے بڑھ کر اور کس بیان سے ہوگا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: خلافت کا مسئلہ میرے نزدیک اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے.بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر کلمہ شریفہ کی تفسیر کی جائے تو اس تفسیر میں اس مسئلہ کا مقام سب سے بلند درجہ پر ہوگا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کلمہ طیبہ اسلام کی اساس ہے مگر یہ کلمہ اپنے اندر جو تفصیلات رکھتا ہے اور جن امور کی طرف یہ اشارہ کرتا ہے ان میں سے سب سے بڑا امر مسئلہ خلافت ہی ہے.“ (خلافت راشده، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۴۴۴) مذکورہ بالا اقتباسات سے جہاں خلافت کی اہمیت واضح ہوتی ہے وہاں یہ اس کی عظمت کو بھی کھول کھول کر بیان کرتے ہیں.مثلاً خلافت نبوت کا تتمہ ہے.انوار نبوت اور برکاتِ رسالت کے انعکاس کا ذریعہ وآلہ ہے.خلافت اس قدر عظیم منصب ہے کہ کلمہ طیبہ کی تفسیر میں سب سے بڑا امر مسئلہ خلافت ہے اور خلیفہ ظلمی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہے.وہ درحقیقت رسول کا

Page 31

۱۹ خلق ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پوتے حضرت سید محمد اسمعیل شہید کی معرکہ آراء کتاب ” منصب امامت خلافت کی اہمیت و عظمت کے بیان میں ایک پُر عرفان شاہکار کتاب ہے.اس میں سے چند اقتباسات ہدیہ قارئین کئے جارہے ہیں.ان تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آپ کی جماعت میں جس عظیم خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام ہونا تھا، اس کے مقام و مرتبہ اور عظمت کے بارہ میں حضرت شاہ صاحب نے مسلمانوں کو ایک زبر دست عرفان عطا کیا ہے.آپ نے اس منصب کا عرفان دینے کے لئے گو مثالیں آنحضرت ﷺ کے خلفائے راشدین کی بھی دی ہیں مگر ان مثالوں کے آئینہ میں اس مقدس اور عظیم منصب اور نعمت الہیہ کو خوب واضح کیا ہے.آپ فرماتے ہیں: امامت تامہ کو خلافت راشدہ، خلافت علی منہاج النبوۃ اور خلافتِ رحمت بھی کہتے ہیں.واضح ہو کہ جب امامت کا چراغ شیشۂ خلافت میں جلوہ گر ہوا تو نعمت ربانی بنی نوع انسان کی پرورش کے لئے کمال تک پہنچی اور کمال روحانی اسی رحمت رحمانی کے کمال کے ساتھ نور علی نور آفتاب کی مانند چمکا.منصب امامت از حضرت سید محمد اسمعیل شہید ( مترجم ) صفحه ۸۲ ۸۳ مطبوعہ ۱۹۴۹ء نا شرحکیم محمدحسین مومن پورہ لاہور ) خلیفہ راشد اور دیگر ائمہ وصلحائے امت کے مابین فرق کیا ہے؟ اس کو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: خلیفہ راشد رسول کے فرزند ولیعہد کی بجائے اور دوسرے ائمہ دین بمنزلہ دوسرے بیٹوں کے.پس جیسا کہ تمام فرزندوں کی سعادتمندی کا تقاضا یہی ہے کہ جس طرح وہ مراتب پاسداری و خدمت گزاری اپنے باپ کے حق میں ادا لاتے ہیں، وہ بتمامہ اپنے باپ کے جانشین بھائی سے بجا لائیں.اور اسے اپنے باپ کی جگہ شمار کریں اور اس کے ساتھ مشارکت کا دم

Page 32

نیز فرمایا: نہ بھریں.“ منصب امامت از حضرت سید محد اسمعیل شہید (مترجم) صفحه ۹۳ مطبوعه ۱۹۴۹ء ناشر حکیم محمد حسین مومن پورہ لاہور ) امام، رسول کے سعادت مند فرزند کی مانند ہے اور تمام اکابر امت و بزرگانِ ملت ملازموں اور خدمتگاروں اور جانثار غلاموں کے مانند ہیں پس جس طرح تمام اکابر سلطنت و ارکان مملکت کے لئے شہزادہ والا قدر کی تعظیم ضروری اور اس سے توسل واجب ہے اور اس سے مقابلہ کرنا نمک حرامی کی علامت اور اس سے مفاخرت کا اظہار بد انجامی پر دلالت کرتا ہے.ایسا ہی ہر صاحب کمال کے حضور میں تواضع اور تذلل سعادت دارین کا باعث ہے.اور اس کے حضور اپنے علم و کمال کو سمجھ بیٹھنا دونوں جہان کی شقاوت ہے.اس کے ساتھ یگانگی رکھنا رسول سے یگانگت ہے اور اس سے بیگانگی ہو تو رسول سے بیگانگی ہے.خصوصاً اس وقت جبکہ نیابت پیغمبر بھی اللہ رب العزت کی طرف سے اسے تفویض ہو چکی ہو.......امام وقت سے سرکشی اور روگردانی اس کے ساتھ گستاخی ہے اور اس کے ساتھ بلکہ خود رسول کے ساتھ ہمسری ہے.اور خفیہ طور پر خود رب العزت پر اعتراض ہے کہ ایسے ناقص شخص کو کامل شخص کی نیابت کا منصب عطا ہوا.الغرض اس کے توسل کے بغیر تقرب الہی محض خلل وو ہم اور ایک خیال ہے جو سراسر باطل اور محال ہے.“ منصب امامت از حضرت سید محمد اسمعیل شہید (مترجم) صفحه ۷۸ مطبوعہ ۱۹۴۹ء نا شرحکیم محمدحسین مومن پورہ لاہور ) یہ اقتباسات خلافت کے مقام و مرتبہ اور تقدس وعظمت کے عرفان کی شیرینی سے اس طرح لبریز ہیں کہ ان کے ایک ایک بیان سے نعمائے خلافت کا شہد ٹپکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ

Page 33

۲۱ السلام سے قبل مگر آپ کے زمانہ سے پیوستہ زمانہ کا یہ جلیل القدر بزرگ سے بھی السنیہ، جامع المبدعة، محدث وفقیہ بے بدل، عارف باللہ، عاشق رسول اور مجاہد فی سبیل اللہ قرار دیا گیا، عرفان خلافت کی ایسی ایسی باتیں لکھ گیا ہے کہ جیسے وہ دور آخرین میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی بابت خلافت علی منہاج النبوۃ کو پورے جلال اور عظمت کے ساتھ امت کے دروازہ پر دستک دیتے ہوئے دیکھ رہا تھا.وہ اس سارے عرفان کو بانٹتے ہوئے مسیح و مہدی کی خلافت کی عظمت کی بھی نشاندہی کر رہا تھا اور گویا خفتگان امت کو بیدار کر رہا تھا کہ اٹھو اور اس نعمت خداوندی سے جھولیاں بھر لو.مبادا کہ اس عطیہ ورحمت الہیہ سے محروم ہو جاؤ.اس نعمت کی طرف کھینچنے کے لئے وہ اس کی عظمت اس طرح بیان کرتا ہے کہ خلیفہ راشد سایه رب العلمین ، ہمسایہ انبیاء مرسلین ،سرمایہ ترقی دین اور ہم پائیہ ملائکہ مقربین ہے.دائرہ امکان کا مرکز ، تمام وجوہ سے باعث فخر اور ارباب عرفان کا افسر ہے.دفتر افراد انسی کا ستر ہے.اس کا دل تجتبی رحمن کا عرش اور اس کا سینہ رحمت وافرہ اور اقبال جلالتِ یزداں کا پرتو ہے.اس کی مقبولیت جمال ربانی کا عکس ہے.اس کا قہر تیغ قضا اور مہر عطیات کا منبع.اس سے اعراض معارضہ تقدیر اور اس سے مخالفت مخالفت رب قدیر ہے.جو کمال اس کی خدمتگزاری میں صرف نہ ہو خیال ہے پُر از خلل ، اور جو علم اس کی تعظیم و تکریم کے بیان میں نہ لایا گیا، سراسر و ہم باطل و محال ہے.جو صاحبِ کمال اس کے ساتھ اپنے کمال کا موازنہ کرے وہ مشارکت حق تعالیٰ پر مبنی ہے.اہلِ کمال کی علامت یہی ہے کہ اس کی خدمت میں مشغول اور اس کی اطاعت میں مبذول رہیں.اس کی ہمسری 66 کے دعوئی سے دستبردار ہیں اور اسے رسول کی جگہ شمار کریں.“ منصب امامت از حضرت سید محمداسمعیل شہید (مترجم) صفحه ۸۲، ۸۳ مطبوعہ ۱۹۴۹ء ناشر حکیم محمدحسین مومن پورہ لاہور ) حضرت سید محمد اسمعیل شہید کے یہ سارے اقتباس سونے کے پانی سے لکھنے والے ہیں.

Page 34

۲۲ ان کی ڈیڑھ صد صفحات پر مشتمل مختصری کتاب ” منصب امامت مئے علم و ایمان و عرفانِ خلافت سے چھلک رہی ہے.مسلمانانِ ہند کے ایک ممتاز عالم مسلمہ مفکر اور تحریک خلافتِ ہند کے لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی خلافت کی عظمت و اہمیت پر قلم اٹھایا ہے جس کے حسب ذیل ترقحات ملاحظہ ہوں.وہ لکھتے ہیں: بوت کا مقام تعلیم و تربیت امت کی مختلف قوتوں سے مرکب تھا.قرآن حکیم نے ان کو تین اصولی قسموں میں بانٹ دیا ہے.يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ - - (۳-۶۲) تلاوت آیات.تزکیہ نفوس.تعلیم کتاب و حکمت.خلفاء راشدین ان تینوں منصبوں میں وجودِ نبوّت کے نائب تھے.وہ منصب اجتہاد و قضاء شرع کے ساتھ قوتِ ارشاد و تزکیہ و تربیت بھی رکھتے تھے.وہ ایک صاحب وحی کی طرح خدا کے کلام کی منادی کرتے ایک ایک نبی کی طرح دلوں اور روحوں کو پاکی بخشتے اور ایک رسول کی طرح تعلیم کتاب اور حکمت و سنت سے امت کی تربیت و پرورش کرنے والے تھے.جسموں کا نظام بھی انہی کے ہاتھوں میں تھا، دلوں کی حکمرانی بھی انہی کے قبضہ میں تھی.یہی حقیقی اور کامل معنی منصب نبوت کی نیابت کے ہیں اور اسی لئے ان کا وجود اور ان کے اعمال بھی اعمال نبوت کا ایک آخری جزء تھے کہ "عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ “.اورُ وَ عَضُوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ “ کے حکم میں نہ صرف سنّتِ عہد نبوت بلکہ خلافت را شده و خاصه کی سنت بھی داخل ہوئی اور شرح اس سر الہی کی بہت طولانی ہے، یہاں محض اشارت مطلوب.“ (مسئلہ خلافت صفحه ۲۱،۲۰ مطبوعہ خیابان عرفان کچہری روڈ لاہور )

Page 35

۲۳ پھر وہ خلافت راشدہ کی ضرورت و اہمیت کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: " کتاب وسنت نے جماعتی زندگی کے تین رکن بتلائے ہیں.ا: تمام لوگ کسی ایک صاحب علم و عمل مسلمان پر جمع ہو جائیں اور وہ ان کا امام ہو.۲: جو کچھ وہ تعلیم دے، ایمان و صداقت کے ساتھ قبول کریں.۳: قرآن وسنت کے ماتحت اس کے جو کچھ احکام ہوں ان کی بلا چون و چرا تعمیل و اطاعت کریں سب کی زبانیں گونگی ہوں، صرف اس کی زبان ہو.سب کے دماغ بیکار ہو جائیں ،صرف اس کا دماغ کار فرما ہو.لوگوں کے پاس نہ زبان ہو نہ دماغ ،صرف دل ہوں جو قبول کریں،صرف ہاتھ پاؤں ہوں جو عمل کریں.اگر ایسا نہیں ہے تو ایک بھیڑ ہے، ایک انبوہ ہے، جانوروں کا ایک جنگل ہے، کنکر پتھر کا ایک ڈھیر ہے ،مگر نہ تو جماعت ہے،نہ امت و قوم نہ اجتماع.اینٹیں ہیں مگر دیوار نہیں، کنکر ہیں مگر پہاڑ نہیں ، قطرے ہیں مگر دریا نہیں.کڑیاں ہیں جو ٹکڑے ٹکڑے کر دی جاسکتی ہیں مگر ز نجیر نہیں جو بڑے بڑے جہازوں کو گرفتار کر سکتی ہے.“ مسئلہ خلافت صفحه ۲۴۳ مطبوعہ خیابان عرفان کچہری روڈ لاہور ) مولانا آزاد باتیں تو بہت کھری اور سچی کر گئے ہیں مگر ان کی آنکھ اس امام اور خلیفہ اللہ کو شناخت کرنے سے قاصر رہی جو اس کے قریب، ارد گرد اور آس پاس تھا.ایسے لوگوں کی زبانیں سچی باتیں تو کہہ دیتی ہیں مگر ان کی اپنی کسی قلبی تاریکی کے باعث ان کے دل ہدایت کی روشنی سے محروم رہتے ہیں.در اصل بنیادی طور پر یہ وہی باتیں ہیں جو اُس دور کے خلیفہ اللہ نے کہی تھیں کہ ” خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم یا وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت

Page 36

۲۴ میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، سب سکیمیں باطل اور تمام تدبیر میں ناکام ہیں.( خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۳۶ء ، الفضل ۳۱ / جنوری ۱۹۳۶ء) نیز آپ نے فرمایا: نیز فرمایا: ” جماعت کے معنی یہی ہیں کہ وہ ایک امام کے ماتحت ہو.جو لوگ کسی امام کے ماتحت نہیں وہ جماعت نہیں اور ان پر خدا تعالیٰ کے وہ فضل نازل نہیں ہو سکتے جو ایک جماعت پر ہوتے ہیں.“ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۳) جس کو خدا اپنی مرضی بتاتا ہے.جس پر خدا اپنے الہام نازل فرماتا ہے.جس کو خدا نے اس جماعت کا خلیفہ اور امام بنا دیا ہے.اس سے مشورہ اور ہدایت حاصل کر کے تم کام کر سکتے ہو.اس سے جتنا زیادہ تعلق رکھو گے، اسی قدرتمہارے کاموں میں برکت ہوگی اور اس سے جس قدر دور ہو گے اسی قدرتمہارے کاموں میں بے برکتی پیدا ہوگی.جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو.وہ کئی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو.اسی طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکر وٹہ کر سکتا ہے.“ الفضل قادیان ۲۰ نومبر ۱۹۴۶ء) الغرض ان مذکورہ بالا اقتباسات اور افکار سے خلافت کی عظمت، اہمیت اور ضرورت کے مختلف زاویے اور پہلو اپنے الگ الگ اور حسین رنگ لئے سامنے آتے ہیں.ان میں سے ہر زاویہ،

Page 37

۲۵ ہر پہلو اور ہر رنگ خلافت حقہ کی عظمت اور اس کی اہمیت وضرورت کا انوکھا اور دلآویز حسن پیش کرتا ہے.یہ تمام حقائق و بصائر وہ ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے خلافت حلقہ سے وابستہ جماعت احمدیہ کے افراد روزانہ اور ہر لمحہ ملا حظہ و تجربہ کرتے ہیں اور ان سے فیضیاب ہوتے ہیں.فالحمد للہ علیٰ ذالک ختم الحمد للہ

Page 38

۲۶ خلافت کی اقسام : لفظ خلف اپنے معنوں کے لحاظ سے بہت وسعت رکھتا ہے اور اس سے مشتق لفظ ” خلیفہ کئی رنگ میں اپنے وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے.قرآنِ کریم میں لفظ خلف ، قوموں کی جانشین قوموں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے اور انفرادی طور پر بادشاہوں کے جانشین بادشاہوں کے لئے اور افراد کے جانشین افراد کے لئے بھی آیا ہے.اسی طرح نیکوں کے نیک جانشینوں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور بدوں کے بد جانشینوں کے لئے بھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنی جانشینی کے لئے اپنی صفات کے مظاہر انبیاء علیہم السلام کو بھی خلیفہ قرار دیا گیا ہے خواہ وہ کسی بڑے نبی کی امت میں اس کے خلیفہ تھے یا بذات خود آزادانہ طور پر نبی تھے.مثلاً حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ قرار دیا گیا.(البقرہ:۳۱) اور حضرت داؤد علیہ السلام کو بھی جو امت موسویہ کے ایک نبی تھے، ” يـــدَاوُدُ إِنَّـــا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ “ (ص:۲۷) کہہ کر خلیفہ کہا گیا.کہ اے داؤ دا یقیناً ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے.اسی طرح کسی کا نبی کی جانشینی کرنا ” خلافت علی منہاج النبوة“ کہلاتی ہے.الغرض خلافت کی حسب ذیل اقسام ہیں ا: نبوت: نبوت وہ خلافت الہیہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانشینی میں زمین پر نبیوں کے ذریعہ نافذ ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کی خلافت میں دنیا میں سب سے بڑے اور اصل خلیفہ اور خدا تعالیٰ کی صفات کے کامل مظہر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی رہی ہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے اس مقام رفیع الشان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجت اس جگہ صاحب درجات رفیعہ سے ہمارے نبی م مراد ہیں.جن کوظلمی طور پر انتہائی درجہ کے کمالات جو کمالات الوہیت کے اظلال و آثار ہیں بخشے گئے اور وہ خلافت حقہ جس کے وجود کامل کے تحقیق کے لئے سلسلہ بنی آدم کا قیام بلکہ ایجاد کل کائنات کا

Page 39

ہوا ہے آنحضرت ﷺ کے وجود باجود سے اپنے مرتبہ اتم و اکمل میں ظہور پذیر ہوکر آئینہ خدا نما ہوئے.“ سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۸۷،۱۸۶ حاشیه ) یہی وجہ ہے دنیا میں سلسلہ روحانیہ میں تمام انبیاء ،خلفاء، صلحاء اور اولیاء اللہ خواہ وہ کسی بھی سلسلہ نبوت سے تعلق رکھتے تھے، اپنے اوپر نبوت محمدیہ کی چھاپ رکھتے تھے.جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں: في طينه كُنْتُ مَكْتُوْباً عِنْدَ اللَّهِ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَ أَنَّ ادَمَ لَمُنْجَدِلٌ (مسند احمد مسند الشامتيين مسند عرباض بن ساریه و کنز العمال ۱۱۲/۶) کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس وقت سے خاتم النبین لکھا گیا ہوں جبکہ آدم اپنی تخلیق کے مراحل میں ابھی گیلی مٹی کی حالت میں تھا.بالفاظ دیگر سب انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کے خلفاء اور اس کی صفات کے مظاہر تھے مگرفی الحقیقت آنحضرت ﷺ کے اخلال تھے اور آپ کی مہر نبوت سے زمین پر اللہ تعالیٰ کے جانشین تھے.اس حقیقت کو حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ نے یوں واضح فرمایا ہے کہ وو حضرت آدم صفی اللہ سے لے کر خاتم الولایت امام مہدی تک حضور حضرت محمد مصطفی نم بار ہیں.پہلی بار آپ نے حضرت آدم علیہ السلام میں بروز کیا ہے اور پہلے قطب حضرت آدم علیہ السلام ہوئے ہیں.دوسری بار حضرت شیث علیہ السلام میں بروز کیا ہے اس طرح تمام انبیاء اور رسل صلوات اللہ علیہم میں بروز فرمایا ہے یہاں تک کہ آنحضرت م اپنے جسد عصری (جسم) سے تعلق پیدا کر کے جلوہ گر ہوئے اور دائرہ نبوت کو ختم کیا.اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق میں بروز فر مایا ہے پھر حضرت عمرہ میں بروز فرمایا پھر حضرت عثمان میں بروز فرمایا.اس کے بعد حضرت علی میں بروز

Page 40

۲۸ فرمایا ہے.اس کے بعد دوسرے مشائخ عظام میں نوبت بہ نوبت بروز کیا ہے اور کرتے رہیں گے حتی کہ امام مہدی میں بروز فرماویں گے.پس حضرت آدم سے امام مہدی تک جتنے انبیاء اور اولیاء قطب مدار ہوئے ہیں.تمام روح محمد ﷺ کے مظاہر ہیں.اور روح محمدی نے ان کے 66 اندر بروز فرمایا ہے....( مقابیس المجالس المعروف بہ اشارات فریدی.حصہ دوم صفحہ ۱۱۱، ۱۱۲ مولفہ رکن دین.مطبوعہ مفید عام پر لیس آگرہ ۱۳۲۱ھ) حضرت خواجہ غلام فرید نے اس بیان میں یہ ثابت کیا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام خواہ وہ پہلے تھے یا بعد میں دراصل آنحضرت سلیم کے نقوش لئے اس کرہ ارض پر خدا تعالیٰ کے خلیفہ تھے.وہ سب انوار محمدی سے فیضیاب تھے اور اسی کے ریفلیکٹر تھے.۲ : خلافت مہدی علیہ السلام : حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی خلافت دیگر تمام اقسام خلافت سے مختلف اور ممتاز ہے.آپ اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی سلام کے امتی نبی بھی ہیں اور آپ کی امت میں خاتم الخلفاء بھی.یہ شانِ خلافت نہ کسی اور نبی کی امت میں موجود ہے اور نہ ہی امت مسلمہ میں اس نوع کا کوئی خلیفہ رسول ہے.یہ خاص شان آنحضرت ﷺ کی کامل اتباع کا ثمرہ ہے جو اس امت کے مسیح اور مہدی کو عطا ہوا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود لکھا ہے یہ نبوت پہلی نبوتوں سے ایک بڑا اختلاف رکھتی ہے اور وہ یہ کہ پہلے نبی مستقل نبی تھے اور آپ امتی نبی ہیں.“ خلافت را شده ، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۵۶۶) نیز فرمایا: " جس طرح رسول کریم ہم پہلوں سے افضل تھے، آپ کی

Page 41

۲۹ خلافت بھی پہلے انبیاء کی خلافت سے افضل تھی.“ حضرت سید محمد اسمعیل شہید بیان فرماتے ہیں : خلافت را شده ، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۵۶۲) ی بھی امر ظا ہر ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی خلافت، خلافتِ 66 را شدہ سے افضل انواع میں سے ہوگی.“ منصب امامت از حضرت سید محمد اسمعیل شہید ( مترجم ) صفحه ۸۲، ۸۳ مطبوعه ۱۹۴۹ء نا شرحکیم محمدحسین مومن پورہ لاہور ) اس کی تائید و تصدیق حضرت سید عبد القادر جیلانی کے قول سے ہوتی ہے جو حضرت امام عبدالرزاق قاشانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب شرح فصوص الحکم میں مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں درج کیا ہے.آپ لکھتے ہیں : وو الْمَهْدِيُّ الَّذِي يَجِيُّ فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَإِنَّهُ يَكُوْنُ فِي الْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ تَابِعاً لِمُحَمَّدٍ ﷺ وَفِي الْمَعَارِنِ وَالْعُلُوْمِ وَ الْحَقِيْقَةِ تَكُوْنُ جَمِيعُ الْأَنْبِيَاءِ وَ الْأَوْلِيَاءِ تَابَعِيْنَ لَهُ كُلُّهُمْ......لِاَنَّ بَاطِنَهُ بَاطِنُ مُحَمَّدٍ الله.،، ( شرح فصوص الحکم صفحه ۲۵ مطبوعہ مصر ) کہ آخری زمانہ میں آنے والا مہدی احکامِ شریعت میں اپنے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ م کا تابع ہے.اور ( آنحضرت ﷺ کی وجہ سے ) معارف علوم اور حقیقت میں ( آپ کے سوا ) تمام کے تمام انبیاء اور اولیاء اس کے تابع ہیں کیونکہ اس کا باطن محمد میم کا باطن ہے.اس امت کا مسیح موعود جو احادیث میں مہدی اور نبی کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے، وہ امت محمدیہ کے مجددین میں مجد واعظم ہے اور اس کے خلفاء میں خاتم الخلفاء ہے اور آنحضرت دی ییم کی خلافت کے انتہائی بلند اور اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہے.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں: إِنِّي عَلَى مَقَامِ الْخَتْم مِنَ الْوَلَايَةِ كَمَا كَانَ سَيِّدِى الْمُصْطَفَى عَلَى مَقَامِ الْخَتْمِ مِنَ النُّبُوَّةِ وَإِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنَا خَاتَمُ

Page 42

الْاَوْلِيَاءِ لَا وَليَّ بَعْدِى إِلَّا الَّذِي هُوَمِنِّي وَ عَلَى عَهْدِى“ (خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۷۰،۶۹) ترجمہ: میں اسی طرح ولایت کے مقام ختم پر فائز ہوں جس طرح میرے آقا حضرت محمد مصطفی روی یکم نبوت کے مقام ختم پر فائز تھے.آپ خاتم الانبیاء ہیں اور میں خاتم الاولیاء ہوں.اب میرے بعد کوئی ولی نہیں بجز اس کے جو میرا ہو اور میرے طریق پر ہو.خاتم الخلفاء کا منصب اس حقیقت و معرفت کا عکاس ہے کہ نہ صرف امت میں روحانی خلفاء کے آپ خاتم ہیں بلکہ تمام امتوں کے خلفاء سے بھی افضل ہیں اور خلافت کا بلند ترین تصو ر آپ کی ذات پر ختم ہے، آپ کا مقام اس منصب کی معراج ہے.خلافت نوت یہ خلافت کا وہ منصب ہے جو نبی کے بعد نبی کے ظل میں اس کے کمالات وانوار اور برکات کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے.اس میں پھر آگے حسب ذیل اقسام ظاہر ہوتی ہیں.ل خلافت راشده: یہ خلافتِ نبوت کی سب سے اعلیٰ ، اولی اور اول نوع ہے جو علی منہاج النبوۃ قائم ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ مومنوں سے اس کے قیام کا وعدہ فرماتا ہے اور اس کو خود قائم فرماتا ہے.اپنی تائید و نصرت اس کے شامل حال کرتا ہے اور اس کی خاص علامات کے ساتھ اسے باقی خلافتوں سے ممتاز کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کی امتیازی علامات سورۃ النور میں آیت استخلاف میں بیان فرمائی ہیں.وہ اس کے ذریعہ کمالات و برکات اور انوار نبوت ظاہر فرماتا ہے اور امت میں اس کے فیوض جاری رکھتا ہے.خلافت کی اس نوع میں روحانی انواع خلافت کی تمام خوبیاں، صفات اور تاثیرات پائی جاتی ہیں.لہذا یہ تم اپنے منصب اور نام کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے.اس زیر مطالعہ کتاب میں بنیادی طور پر خلافت کی اسی اعلیٰ اور اولیٰ قسم یعنی خلافت علی منہاج النبوۃ کے متفرق مضامین کو پیش کیا گیا ہے اور اس میں مذکور تمام بحثیں دراصل اسی سے متعلق ہیں.

Page 43

مجددیت، محدثیت و ولايت وغيره: یہ خلافت کی وہ اقسام ہیں جو خلافت راشدہ کے اٹھ جانے کے بعد روحانی فیض رسانی کے لئے عام فیض کے رنگ میں جاری ہوتی ہیں.یہ آیت استخلاف کے وعدہ الہیہ کے تحت قائم نہیں ہوتیں.چنانچہ آنحضرت دل کی قوت قدسیہ کے اثر نیز آپ کی اتباع اور آپ کی پاک تعلیم کے فیض سے امت کے بہت سے بزرگوں نے مختلف روحانی مقامات حاصل کئے.وہ آنحضرت کم کی خلافت کے روحانی پہلو کے ساتھ دین کی تجدید اور امت کی اصلاح کے کام کرتے رہے.ان میں آنحضرت ام کی خلافت روحانی طور پر جاری ہوئی.اس پہلو سے وہ بھی ایک رنگ میں آپ کے خلیفہ کہلائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” ہم کب کہتے ہیں کہ مجد داور محدّث دنیا میں آکر دین میں سے کچھ کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں.بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے.تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے مجد داور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں.....وہ دین کو منسوخ کرنے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں....افسوس کہ معترض کو یہ سمجھ نہیں کہ مسجد دوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے.جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے.“ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۰،۳۳۹) اس تحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلافت کی اس قسم کو بیان فرمایا ہے جو امت میں مجد دین اور صلحائے امت کے ذریعہ جاری رہی.خلافت کی انہی اقسام کو بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث بیان فرماتے ہیں: آیت استخلاف میں خلافت کے ایک دوسرے سلسلہ کا وعدہ بھی

Page 44

۳۲ دیا گیا ہے جو پہلی دو شاخوں (یعنی آنحضرت ام کے بعد جاری ہونے والی خلافت راشدہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جاری ہونے والی خلافت راشدہ.ناقل ) سے مختلف ہے.ہے تو یہ خلافت حقہ ہی لیکن ہم نے ایک اصطلاح بتائی تھی.اس لئے اس کو ہم خلافتِ راشدہ نہیں کہتے.گو رشد سے وہ بھی بھری ہوئی ہے.ہم اسے خلافت ائمہ کہیں گے اور خلافت کا یہ سلسلہ جو ہے اس کی رُو سے امت محمدیہ میں سینکڑوں ، ہزاروں بلکہ لاکھوں خلفاء پیدا ہوئے.کچھ انبیاء کے نام سے اور کچھ ربّانی علماء کے نام سے.پس کما جو آیت استخلاف میں ہے.یہ کما ہم سے ایک دوسرا وعدہ بھی کرتا ہے.اور وہ یہ کہ جس طرح امت میں اللہ تعالیٰ کے ہزاروں نیک بندے خلیفہ کی حیثیت میں یعنی نائب رسول کی حیثیت میں رسول ہی کا کام کرنے والے پیدا ہوئے ، اسی طرح امت محمدیہ میں سینکڑوں ہزاروں ایسے خدا کے بزرگ بندے نبی اکرم ﷺ سے فیض پانے والے پیدا ہوں گے جو اسلام کے چہرہ کو روشن رکھیں گے.اور جیسا کہ ایک وقت میں امت موسویہ میں چار چار سونا ئب اور خلیفہ بھی پیدا ہوئے اس کے مقابلہ میں چونکہ امت محمدیہ کا دائرہ وسیع ہے.ہوسکتا ہے کہ امتِ موسویہ کے چارسو کے مقابلہ میں ایک ہی وقت میں چار ہزار بزرگ پیدا ہوں جو آنحضرت سلیم کے خدام کی حیثیت میں اور آپ کی نیابت میں آپ کا کام کریں.“ اسی طرح فرمایا : (الفضل ریوه ۲۶ / دسمبر ۱۹۶۸ء) " مجھ سے پہلے لاکھوں کروڑوں لوگ مختلف شکلوں میں آئے.کئی اولیاء کی شکل میں آئے.کئی محدّثین کی شکل میں آئے.دراصل تو خلافت ہی ہے.لیکن خلافت کی آگے کئی شکلیں بن جاتی ہیں.غرض جو سلسلہ

Page 45

۳۳ خلافت اس وقت قائم ہے اور پہلے بھی تھا کئی بزرگ اس شکل میں بھی آئے.لیکن خلافت ہی کی جو دوسری شکلیں ہیں ان میں بھی آئے.جیسے محد ثیت ہے.یہ بھی خلافت ہی کی ایک شکل ہے.یا ان میں اولیاء اللہ اور مقربین الہی ہیں.اللہ تعالیٰ جن کو یہ کہتا ہے کہ اس محدود دائرہ میں، اس تھوڑے وقت میں تم میرے بندوں کی اصلاح کرو اور میرے دین کی مدد کرو الفضل ربوه ۱۰ را گست ۱۹۷۶ء) ج: خلافت راشدہ کے ماتحت صلحاء اور ائمه: خلافت کی یہ وہ قسم ہے جو خلافت راشدہ سے وابستہ افراد میں جاری ہوتی ہے اور دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان اور اعمال صالحہ کے اس مقام پر فائز ہوتے ہیں جس پر خلافت راشدہ کا وعدہ استوار ہوتا ہے.خلیفہ راشد کی جماعت کے یہ مومنین اپنے اندر اس خلافت کو جذب کئے ہوتے ہیں اور اپنے اعمال میں جاری کئے ہوتے ہیں جن پر خلافت راشدہ کا نظام قائم ہوتا ہے.یہ لوگ نہ ہوں تو خدا تعالیٰ کی خلافت کی شرائط و علامات کے معدوم ہونے کی وجہ سے دنیا میں خلافت راشدہ کا نظام جاری نہیں ہوتا.خلافت راشدہ کا وعدہ ان لوگوں میں پورا ہوتا ہے جو انفرادی طور پر اپنے اپنے اندر خدا تعالیٰ کی خلافت کو قائم کر لیتے ہیں.ایسے لوگوں پر خدا تعالیٰ ایک خلیفہ کو خلیفہ راشد بنا کر کھڑا کرتا ہے جو اُن کی ذاتی و انفرادی خلافتوں کی تصدیق کے نشان کے طور پر ان کے سروں کا تاج ہوتا ہے اور وہ ان کا سردار قرار پاتا ہے.جس جماعت میں ایسے لوگ نہ ہوں جن کے دل انفرادی طور پر خدا تعالیٰ کی خلافت کی آماجگاہ نہ ہوں تو وہ جماعت خلافت سے مغائر گویا ایک الگ اور مختلف جنس بن جاتی ہے.اس وجہ سے وہ اس خلافت کو جو خلافت راشدہ ہے، اپنے سروں پر قائم نہیں کر سکتی جس کا خدا تعالیٰ وعدہ کرتا ہے.خلافت راشدہ کے تحت وہ جماعت آتی ہے جو ایمان اور اعمالِ صالحہ اور رشد کی وجہ خلافتِ راشدہ کی ہم جنس ہوتی ہے.خلافت راشدہ کے تحت ایسی خلافت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ

Page 46

۳۴ المسیح الثالث بیان فرماتے ہیں کہ دو دوسرے سلسلہ کے خلفا ءامت صلحائے امت ، ائمہ امت خلافت راشدہ کے ماتحت ہوتے ہیں.اگر اس سے اپنا رشتہ قطع کر لیں تو بلعم باعور بن جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کا ان سے تعلق قطع ہو جاتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے آجاتے ہیں.لیکن جب تک ان کا رشتہ قائم رہتا ہے، خلافت راشدہ کا خلیفہ ان تمام کا سردار ہوتا ہے.اور بڑا خوش قسمت ہے وہ خلیفہ وقت جس کے ماتحت دوسروں کی نسبت اس دوسرے سلسلہ کے خلفاء اور ائمہ موجود ہوں.“ (الفضل ربوه ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۸ء) حضرت خلیفہ امسح الثالث نے جس دوسرے سلسلہ کا یہاں ذکرفرمایا ہے یہ ایک ایسا سلسلۂ خلافت ہے جو خلافت کا منصب اور نام تو نہیں رکھتا مگر نبوت وخلافت راشدہ کی برکات کے طفیل خلافت کی صفات سے متصف اور اس کے رنگ میں رنگین ہوتا ہے.وہ خلیفہ وقت کے تحت اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کی خلافت کو عملی رنگوں میں جاری کئے ہوئے ہوتے ہیں.اس مضمون کو حضرت سید محمد اسمعیل شہید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں: دو لفظ خلیفہ کو بمنزلہ لفظ خلیل اللہ کلیم اللہ، روح الله حبیب اللہ، یا صدیق اکبر، فاروق اعظم ، ذوالنورین، مرتضی مجتبی ، اور سید الشہداء، یا ان کی مانند شمار نہ کرنا چاہئے.کیونکہ ان میں سے ہر ایک لقب بزرگانِ دین میں سے ایک خاص بزرگ کی ذات سے خصوصیت رکھتا ہے.اس لقب کے اطلاق سے اسی بزرگ کی ذات تصور کی جاتی ہے.اور اسی طرح یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ لفظ ” خلفائے راشدین خلفائے اربعہ کی ذات سے خصوصیت رکھتا ہے کہ اس لفظ کے استعمال سے انہی بزرگوں کی ذات تصور ہوتی ہے.حالتها وکلا بلکہ اس لقب کو بمنزلہ ولی اللہ، مجتہد، عالم، عابد، زاہد،

Page 47

۳۵ وو فقیہ، محدث، متکلم ، حافظ ، بادشاہ ، امیر یا وزیر کے تصوّر کرنا چاہئے.کیونکہ ان میں سے ہر ایک خاص منصب پر دلالت نہیں رکھتا.جو کوئی بھی اس صفت سے متصف اور اس منصب پر قائم ہو وہی اس لقب سے ملقب ہوسکتا ہے.منصب امامت از حضرت سیدمحمد اسمعیل شہید (مترجم) صفحه ۸۲، ۸۳ مطبوعہ ۱۹۴۹ ، نا شرحکیم محمدحسین مومن پورہ لاہور ) یہ دوسرے سلسلہ کے خلفاء ہیں جو خواہ ولی اللہ، مجتہد، عالم، عابد، زاہد، فقیہ، محدث، متکلم ، حافظ، بادشاہ، امیر یا وزیر ہوں مگر وہ خلافت کی صفت سے متصف اور اس منصب پر قائم ہوں وہ اس لقب سے ملقب ہو سکتے ہیں.اس کی وضاحت حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کے حسب ذیل بیان میں مذکور ہے جو پہلے بھی درج کیا گیا تھا کہ: آیت استخلاف میں خلافت کے ایک دوسرے سلسلہ کا وعدہ بھی دیا گیا ہے جو پہلی دو شاخوں ( یعنی آنحضرت ام کے بعد جاری ہونے والی خلافت راشدہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جاری ہونے والی خلافت راشدہ.ناقل ) سے مختلف ہے.ہے تو یہ خلافت حقہ ہی لیکن ہم نے ایک اصطلاح بتائی تھی.اس لئے اس کو ہم خلافتِ راشدہ نہیں کہتے.گو رشد سے وہ بھی بھری ہوئی ہے.ہم اسے خلافت ائمہ کہیں گے اور خلافت کا یہ سلسلہ جو ہے اس کی رُو سے امت محمدیہ میں سینکڑوں ، ہزاروں بلکہ لاکھوں 66 خلفاء پیدا ہوئے.کچھ انبیاء کے نام سے اور کچھ ربانی علماء کے نام سے.“ (الفضل ربوه ۲۶ ؍ دسمبر ۱۹۶۸ء) ۴ : خلافت حکومت و ملوکیت : یہ خلافت کی وہ قسم ہے جو حکومت یا ملوکیت سے تعلق رکھتی ہے.اس کا اُس خلافتِ روحانی سے گو تعلق نہیں ہے جو ایمان اور اعمال صالحہ کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے.لیکن اس کا ذکر چونکہ قرآن کریم میں الگ حوالہ کے ساتھ آتا ہے اس لئے محض علمی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا بھی ذکر کیا جا رہا

Page 48

دو ہے.اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : پہلی خلافتیں یا تو خلافت نبوت تھیں جیسے حضرت آدم اور حضرت داؤد علیہما السلام کی خلافت تھی اور یا پھر خلافت حکومت تھیں جیسا کہ فرمایا.وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْطَةٌ، فَاذْكُرُوا الاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (الاعراف: ۷۰) یعنی اس وقت کو یاد کرو جب کہ قوم نوح کے بعد خدا نے تمہیں خلیفہ بنایا.اور اس نے تم کو بناوٹ میں بھی فراخی بخشی یعنی تمہیں کثرت سے اولا ددی پس تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو.اس آیت میں خلفاء کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد صرف دنیوی بادشاہ ہیں اور نعمت سے مراد بھی نعمت حکومت ہی ہے.اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نصیحت کی ہے کہ تم زمین میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھ کر تمام کام کرو.ورنہ ہم تمہیں تباہ کر دیں گے.چنانچہ یہود کی نسبت اس انعام کا ذکر ان الفاظ میں فرماتا ہے.وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ تُلُوْ كاوَاتَاكُمْ مَالَمْ يُؤْتِ أَحَداً مِّنَ الْعَلَمِيْنَ (المائدہ:۲۱) یعنی اس قوم کو ہم نے دو طرح خلیفہ بنایا.اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاء کے ماتحت انہیں خلافت نبوت دی اور جَعَلَكُمْ شُلُوکا کے ماتحت انہیں خلافتِ ملوکیت دی.غرض پہلی خلافتیں دو قسم کی تھیں.یا تو وہ خلافت ہو ت تھیں.اور یا پھر خلافت ملوکیت.پس جب خدا نے یہ فرمایا کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ تو اس سے یہ استنباط ہوا

Page 49

کہ پہلی خلافتوں والی برکات ان کو بھی ملیں گی اور انبیاء سابقین سے اللہ تعالیٰ نے جو سلوک کیا وہی سلوک وہ امت محمدیہ کے خلفاء کے ساتھ بھی کرے گا.“ خلافت را شده، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۵۲۹) حضرت المصلح الموعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: در مبلغین اور واعظین کے ذریعہ بار بار جماعتوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے کہ پانچ روپے کیا ، پانچ ہزار روپیہ کیا، پانچ لاکھ روپیہ کیا، پانچ ارب روپیہ کیا، اگر ساری دنیا کی جانیں بھی خلیفہ کے ایک حکم کے آگے قربان کر دی جاتی ہیں تو وہ بے حقیقت اور نا قابل ذکر چیز ہیں......تعلیم العقائد والاعمال پر خطبات صفحه ۵۶ از حضرت مصلح الموعود) 66 ☆☆ حضرت ماریہ مسیح اور بابل فرماتے ہیں : الرابع خلافت کا کوئی بدل ہی نہیں ہے.ناممکن ہے کہ خلافت کی کوئی متبادل چیز ایسی ہو جو خلافت کی جگہ لے لے اور دل 66 اسی طرح تسکین پالیں.“ (خطبه جمعه فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء بمقام پیرس) ☆☆

Page 50

جس کو خدا اپنی مرضی بتاتا ہے.جس پر خدا اپنے الہام نازل فرماتا ہے.جس کو خدا نے اس جماعت کا خلیفہ اور امام بنا دیا ہے.اس سے مشورہ اور ہدایت حاصل کر کے تم کام کر سکتے ہو.اس سے جتنا زیادہ تعلق رکھو گے، اسی قدر تمہارے کاموں میں برکت ہوگی اور اس سے جس قدر دور ہو گے اسی قدرتمہارے کاموں میں بے برکتی پیدا ہوگی.جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو.وہ کئی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو.اسی طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکر وٹہ کر سکتا ہے.“ (الفضل قادیان ۲۰ نومبر ۱۹۴۶ء)

Page 51

۳۹ خلیفہ خدا تعالیٰ بناتا ہے

Page 52

مندرجات تجزیاتی منظر صفات الہیہ اور صفاتِ حسنہ کے آئینہ میں تائید و رضائے الہی خلیفہ راشد کے سات امتیازات اظہار تقدیر دو خلیفہ خدا بنا تا ہے" کی ایک لطیف تمثیل اس تمثیل کے عملی نظارے

Page 53

۴۱ تجزیاتی منظر اللہ تعالیٰ جب لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ “فرماتا ہے تو یہ وعدہ فرماتا ہے کہ خلافت وہ خود قائم کرے گا.یعنی خلیفہ بنانا اس کا کام ہے، کسی دوسرے ذریعہ سے اس کا قیام ممکن نہیں.پس جب خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ خلافت وہ خود قائم کرے گا یا وہ خود خلیفہ مقرر کرے گا تو اس کا مطلب کیا ہے؟ وہ کس طرح خلیفہ بناتا ہے یا خلافت کا قیام کس طرح خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے؟ اور وہ کو نسے عوامل یا وجوہات ہیں جن کی بناء پر ہم اس عقیدہ پر قائم ہوتے ہیں کہ واقعہ خلیفہ بنانا خدا تعالیٰ کا کام ہے.چنانچہ اس پہلو سے جب ہم خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کو دیکھتے ہیں تو اس کے حسب ذیل رُخ ہمارے سامنے آتے ہیں کہ بحیثیت بشر خلیفہ ایک انسان ہوتا ہے اور ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے ہی بنایا ہے.کائنات کی تمام تخلیقات ودنیا کی سب مخلوقات ، مثلاً انسان، حیوان، چرند ، پرند، نباتات، جمادات ہٹی ، پانی ، آگ ، ہوا، سورج ، چاند ، ستارے وغیرہ وغیرہ کی طرح انسان بھی خدا تعالیٰ ہی کی تخلیق ہے.لہذا خلیفہ بھی ایک انسان ہے جسے خدا تعالیٰ نے عام انسانوں کی طرح بنایا ہے.یعنی جسمانی اور بشری تخلیق کے اعتبار سے دیگر انسانوں میں اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے.اگر یہ سب کچھ ایسا ہے تو پھر ہم امتیازی طریق پر یہ کیوں کہتے ہیں کہ خلیفہ خدا بنا تا ہے؟ پھر یہ رخ سامنے آتا ہے کہ خلافت ایک منصب ہے.اس پہلو سے جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے مختلف منصب بھی خدا تعالیٰ ہی کی عطا ہوتے ہیں.مثلاً قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: ” يَقَوْمِ أَذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبَيَاءَ وَ جَعَلَكُمْ شُلُوكاً (المائدہ: ۲۱) کہ اے میری قوم! اپنے او پر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب اس نے تمہارے درمیان انبیاء بنائے اور تمہیں بادشاہ بنایا.اور ” توتی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ (ال عمران : ۲۷) کہ اللہ جسے چاہتا ہے،فرمانروائی عطا کرتا ہے.یہاں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ بادشاہت بھی خدا تعالیٰ ہی کی عطا ہے.اسی طرح ہر قسم کی

Page 54

۴۲ صفات بھی خدا تعالیٰ ہی کی عطا ہیں.وہی کسی کو انتظامی صلاحیت اور اختیارات ودیعت کر کے اسے دوسروں کا انتظام و انصرام عطا کرتا ہے.عام انسان خدا تعالیٰ کی عطا کردہ صفات کے مد نظر اپنے ہر منصب کو محض خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا قرار دے کر اس کے فضلوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے.مثلاً ایک سائنسدان کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ سائنسدان بنا ہے.کوئی ڈاکٹر ہو یا افسر، وہ یہی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ مقام عطا کیا ہے وغیرہ وغیرہ.یعنی انسان کو ہر خوبی توفیق اور منصب خدا تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے اور ان صفات کی بناء پر اسے کوئی منصب نصیب ہوتا ہے تو وہ خدا تعالی ہی کی عطا ہوتا ہے.وہ کسی کو بادشاہ بنا کر فرمانراوئی عطا کرتا ہے تو کسی کو وزیر بنا دیتا ہے.کسی کو اموال میں کثرت عطا کر کے اسے دوسروں پر فضیلت بخشتا ہے تو کسی کو تجارتوں اور جائیدادوں کا مالک بنا کر اسے معاشرہ میں مالی لحاظ سے بلند مقام نصیب فرماتا ہے.قرآنِ کریم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر نعمت اور فضیلت جو انسان کو عطا ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف منسوب کرتا ہے.اگر اسی طرح خلافت کا قیام خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس زاویہ سے بھی اس کی انسانوں کے دیگر منصبوں ،فضیلتوں اور عطاؤں پر بظاہر کوئی امتیازی حیثیت معلوم نہیں ہوتی.اگر ایسا ہے تو پھر ہم خاص طور پر یہ کیوں کہتے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے؟.تیسری صورت یہ ہے کہ اگر خلافت کو ایک صفت قرار دیا جائے.اس صورت میں بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ تمام انسانوں کو ہر قسم کی صفات کی عطا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہی منسوب ہوتی ہے.ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی خاص صفت سے نوازا ہوتا ہے.دنیا میں ایک سے ایک بڑھ کر صفات کا حامل انسان پایا جاتا ہے.اگر عملاً ایسا ہے تو پھر ہم خاص طور پر خلیفہ کے لئے یہ کیوں کہتے ہیں کہ اسے خدا تعالیٰ نے بنایا ہے یا قائم کیا ہے؟ یہ تین پہلو ہیں جو اس مسئلہ پر تجزیاتی بحث کے متقاضی ہیں.ان کے صحیح اور درست منظر کھل جائیں تو اس اعتقاد، عقیدہ اور ایمان پر تسلی ہوتی ہے کہ خلافت کو اللہ تعالیٰ ہی قائم فرماتا ہے اور خلیفہ بھی اس کے سوا اور کوئی نہیں بنا سکتا.

Page 55

۴۳ M جہانتک پہلی بات کا تعلق ہے تو اس پہلو سے خلیفہ حیثیتِ بشر ” إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ “ ہی کا مصداق ہے.یعنی وہ تخلیق کے لحاظ سے عام انسانوں میں سے ایک انسان ہی ہوتا ہے.اور بشریت کے لحاظ سے دیگر انسانوں سے کوئی الگ یا ممتاز حیثیت نہیں رکھتا.دوسرے پہلو کا جواب یہ ہے کہ دیگر سب منصب اور فضیلتیں ایسی ہیں جن کو ختم کرنے کا اختیار خود اس شخص کو بھی ہوتا ہے جو اس کا حامل ہے یا پھر دوسرے اس سے وہ منصب یا فضیلت واپس لینے کا اختیار رکھتے ہیں.مگر جب ہم خلافت کو ایک منصب قرار دے کر کہتے ہیں کہ یہ منصب خدا تعالیٰ عطا کرتا ہے تو پھر نبوت کے خلق ہونے کی وجہ سے کوئی دوسرا اس منصب کو واپس لینے کی طاقت نہیں رکھتا ، نہ ہی وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے خلیفہ راشد بنایا ہو خود اس عطا کو واپس کرنے کا اختیار رکھتا ہے.جیسا کہ حضرت عثمان نے منافقین کی طرف سے معزولی کے گمراہ گن مطالبہ کو انتہائی استقلال سے رڈ کیا اور فرمایا: 66 مَا كُنْتُ لِاخْلَعَ سِرْبَالًا سِرْبَلَنِيْهِ اللَّهُ تَعَالَى “ تاریخ الطبرى ذكر الخبر عن قتل عثمان - ۳۵ھ) کہ میں وہ لباس کس طرح اتار سکتا ہوں جوخود اللہ تعالی نے مجھے پہنایا ہے.اسی طرح حضرت حکیم نورالدین خلیفہ اسیح الاول نے بھی بڑی تحدی کے ساتھ یہ اعلان فرمایا : ” مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے.....خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی.خدا تعالیٰ نے معزول کرنا ہوگا تو مجھے موت دے گا.تم اس معاملہ کو خدا کے حوالہ کر دو تم معزول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے.(الحکم ۲۱ جنوری ۱۹۱۴) پس یہ ایک ایسی امتیازی خصوصیت ہے جو خلافت کے منصب کو دیگر تمام منصبوں اور فضیلتوں سے اس وجہ سے ممتاز کرتی ہے کہ کوئی اس سے یہ عطا واپس نہیں لے سکتا.جہانتک تیسرے پہلو کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ صفت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ

Page 56

۴۴ اپنے قائم کردہ خلیفہ کے اندر مختلف صفات رکھتا ہے جن کی نشاندہی اس نے بنیادی طور پر آیت استخلاف میں کی ہے.مثلاً وہ حصارِ ایمان اور اعمالِ صالحہ کی سند ہے.وہ تمکنت دین اور استحکام اسلام کا ذریعہ ہے.وہ امن کی ضمانت ہے.وہ عبادت کے قیام اور شرک سے بچاؤ کی سبیل ہے.اطاعتِ رسول ، قيام صلوۃ ، ایتائے زکوۃ اور رحمت خداوندی کا امین ہے.وہ باطل کے مقابلہ پر سپر ہے.وغیرہ وغیرہ وہ علامات ہیں جو آیت استخلاف اور اس سے منسلک آیات سے ماخوذ ہیں.علاوہ ازیں اس کی دیگر صفات جو مختلف ماخذوں سے معلوم ہوتی ہیں ، یہ ہیں کہ وہ انوار و برکات نبوت کا عکاس ہے.وہ یکجہتی اور اتحاد کی وجہ ہے.وہ مومنوں کا محبوب ومطاع ہے.وہ قلوب مومنین پر نزولِ ملائکہ کا سبب ہے.وہ تجدید دین کا ذمہ دار ہے اور قبولیت دعا کا وسیلہ ہے.وغیرہ وغیرہ یہ ایسی غیر معمولی اور ممتاز صفات ہیں جن سے ایک خلیفہ راشد متصف ومزین ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ صفات نہ انسان اپنی جد و جہد، مجاہدوں اور ریاضتوں سے حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ انہیں خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور سر چشمہ سے پا سکتا ہے.مثلاً فرشتوں کا بھیجنا صرف اور صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے.اور وہ نبی کے بعد خلیفہ راشد کے ذریعہ مومنوں پر اترتے ہیں.چنانچہ جب حضرت عثمان کے خلاف منافق اٹھے تو حضرت عبداللہ بن سلام نے انہیں تنبیہہ کی کہ خلافت کا وجود تائید وعونِ ملائکہ کا سبب ہے.فرمایا: وو اگر تم نے ( حضرت عثمان) کو قتل کیا تو وہ تلوار جو اس وقت نیام میں ہے، بے نیام ہو جائے گی اور پھر وہ قیامت تک نیام میں نہ جاسکے گی.اگر تم نے (حضرت عثمان ) کو قتل کیا ( اور خلافت کے نظام کو پامال کرنے کی کوشش کی تو یا درکھنا کہ مدینہ جس کو اللہ تعالیٰ کے فرشتے گھیرے ہوئے ہیں وہ مدینہ چھوڑ جائیں گے.6 (طبری.ذکر الخبر عن قتل عثمان بن عفان ۳۵ھ) اسی طرح دعاؤں کا سننا اور انہیں قبولیت کا شرف بخشنا بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اور وہ خلیفہ راشد کی دعائیں بھی امتیازی طور پر قبول فرماتا ہے اور اس کے وسیلہ سے مومنوں کی

Page 57

۴۵ دعاؤں کو بھی شرف قبولیت بخشتا ہے چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ جب کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دُعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے“.منصب خلافت، انوار العلوم جلد ۲ صفحه ۳۲) خدا تعالیٰ جسے اپنا خلیفہ بناتا ہے اسے ایک اور امتیازی صفت بھی عطا کی جاتی ہے جو بغیر خدا تعالیٰ کے انتخاب، اصطفاء اور اس کی عطا کے ممکن ہی نہیں اور وہ یہ ہے کہ اس کے دل پر حق کی تحبی ہوتی ہے.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دو صوفیاء نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد ۱۰ صفحه ۲۳۰،۲۲۹) علی ہذا القیاس دیگر تمام صفات میں خلیفہ راشد دیگر افرادِ امت سے جو مختلف صفاتِ حسنہ سے متصف ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی جناب سے عطا کردہ ایک الگ شان اور امتیازی مقام رکھتا ہے.یہ ایک الگ بحث ہے اور دنیا میں ایسی نظیریں موجود ہیں کہ غیر نبی کو بعض صلاحیتیوں یا صفات میں نبی پر فضیلت ہو سکتی ہے یا غیر خلیفہ کو خلیفہ راشد پر.مگر جزوی فضیلت بہر حال ایک جزوی بات ہے.اس کی وجہ سے کسی کا نبی یا خلیفہ سے افضل ہونا ثابت نہیں ہوتا.صفات الہیا اور صفات حسنہ کے آئینہ میں سی بھی ایک اصولی بات ہے کہ خلیفہ راشد کی یہ الگ شان اور اس کا یہ امتیازی مقام اس وجہ سے بھی ہے کہ وہ صفات الہیہ اور تمام انسانی صفات حسنہ میں اس دور کے جملہ انسانوں کے مقابل پر ایک جامعیت اور مکمل توازن رکھتا ہے.صفات حسنہ میں مکمل تو ازن عطا کرنا سوائے خدا تعالیٰ کی

Page 58

۴۶ خاص تقدیر کے کسی اور کا کام نہیں ہے.صفات کا یہ مجموعی توازن اس کے اندر وہ خاصیت پیدا کر دیتا ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت خدا تعالیٰ کی صفات کے قریب ترین وجود ہو جاتا ہے.پس وہی ہے جو بہت کے بعد خدا تعالیٰ کی جملہ صفات کا سب سے زیادہ مظہر قرار پاتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کی نظر انتخاب اس کو چن لیتی ہے لہذا اسکا انتخاب خدائی انتخاب قرار پاتا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: " جب کسی کو خدا خلیفہ بناتا ہے تو اسے اپنی صفات بخشتا ہے.اگر وہ اسے اپنی صفات نہیں بخشتا تو خدا تعالیٰ کے خلیفہ بنانے کے معنی ہی کیا ہیں.( الفرقان ، صفحہ ۳۷ مئی، جون ۱۹۶۷ء) جہانتک صفاتِ حسنہ کے اجتماع اور ان میں توازن کی خصوصیت کا تعلق ہے، حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں: دو جو خلیفہ مقرر کیا جاتا ہے اس میں دیکھا جاتا ہے کہ اس نے گل خیالات کو جمع کرنا ہے.اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے.ممکن ہے کسی ایک بات میں دوسرا شخص اس سے بڑھ کر ہو.ایک مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کے لئے صرف یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ پڑھا تا اچھا ہے کہ نہیں یا اعلی ڈگری پاس ہے یا نہیں ممکن ہے کہ اس کے ماتحت اس سے بھی اعلیٰ ڈگری یافتہ ہوں.اس نے انتظام کرنا ہے، افسروں سے معاملہ کرنا ہے، ماتحتوں سے سلوک کرنا ہے، یہ سب باتیں اس میں دیکھی جاویں گی.اسی طرح سے خدا کی طرف سے جو خلیفہ ہو گا اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے گا.خالد بن ولید جیسی تلوار کس نے چلائی ؟ مگر خلیفہ ابوبکر ہوئے.آج اگر کوئی کہتا ہے کہ یورپ میں میری قلم کی دھاک بچی ہوئی ہے تو وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا.خلیفہ وہی ہے

Page 59

۴۷ جسے خدا نے بنایا.خدا نے جس کو چن لیا اُس کو چن لیا.خالد بن ولید نے ۶۰ آدمیوں کے ہمراہ ۲۰ ہزار آدمیوں پر فتح پائی.عمرؓ نے ایسا نہیں کیا.مگر خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ ہی ہوئے.حضرت عثمان کے وقت میں بڑے جنگی سپہ سالار موجود تھے، ایک سے ایک بڑھ کر جنگی قابلیت رکھنے والا ان میں موجود تھا.سارے جہاں کو اس نے فتح کیا، مگر خلیفہ عثمان ہی ہوئے.پھر کوئی تیز مزاج ہوتا ہے، کوئی نرم مزاج، کوئی متواضع ، کوئی منکسر المزاج ہوتے ہیں، ہر ایک کے ساتھ سلوک کرنا ہوتا ہے جس کو وہی سمجھتا ہے.جس کو معاملات پیش آتے ہیں.تائید و رضائے الہی خطبات محمود جلد ۴ صفحه ۷۲ ، ۷۳ بحوالہ خطبات مسرور جلد ۲ صفحه ۲۴۶،۳۴۵) اس انتخاب الہیہ کا منطقی اور واقعاتی نتیجہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے اس انتخاب کو تنہا نہیں رہنے دیتا.وہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور علی منہاج النبوۃ اس کی تائید و نصرت فرماتا ہے.اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا امتیازی سلوک ہوتا ہے جس کا اعلان وہ ان الفاظ میں فرماتا ہے کہ "إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسَلَنَا وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْأَشْهَادُ (المومن : ۵۲) ترجمہ: یقینا ہم اپنے رسولوں کی اور ان کی جو ایمان لائے ، اس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے کئے جائیں گے.حضرت خلیفہ ایسیح الاوّل فرماتے ہیں : ” خدا جسے خلیفہ مقرر کرتا ہے اسے اپنی جناب سے موئید ومنصور کرتا ہے.“ ( درس القرآن صفحه ۵۷۲)

Page 60

۴۸ خلیفہ راشد رسول تو نہیں ، مگر خدا تعالیٰ چونکہ اسے ظلمی طور پر انوار و برکاتِ رسالت سے مزین کرتا ہے اور اسے نبی کے کمالات کا مظہر بناتا ہے.اس لئے اس کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا وہی سلوک ہوتا ہے جس کا وعدہ وہ اپنے نبی کے ساتھ کرتا ہے.یہی خلافت علی منہاج النبوۃ ہے اور یہ وہ معیار اور کسوٹی ہے جو خدا تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کو خالصۂ خدا تعالیٰ کا انتخاب ثابت کرتی ہے.ثبوت کے ساتھ کئے گئے اس وعدہ کو خدا تعالیٰ اس طرح پورا فرماتا ہے کہ اپنے قائم کردہ خلیفہ کی نبوت کے اظلال کے طور پر خود تائید و نصرت فرماتا ہے.نہ صرف اس خلیفہ پر بلکہ وہ اس پر ایمان رکھنے والے مومنوں پر بھی اپنی تائید و نصرت کا سائبان تان دیتا ہے.یہ ایک ایسی الگ اور نمایاں شان ہے جو صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کو عطا ہوتی ہے.اس بناء پر ایسا انتخاب خدا تعالیٰ کا انتخاب قرار پاتا ہے.اور حتمی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.اس انتخاب کی ایک مثال حضرت علی نے بھی فراہم فرمائی.آپ نے امیر معاویہ کو اپنی خلافت کی دلیل دیتے ہوئے لکھا: إِنَّهُ بَايَعَنِى الْقَوْمُ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ عَلَى مَا بَايَعُوهُمْ عَلَيْهِ “ کہ میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے ابوبکر، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی اور انہی اصولوں پر کی ہے جن پر ان تینوں کی بیعت کی تھی.اور آگے فرمایا: فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ وَّسَمُّوْهُ إِمَامًا كَانَ ذَلِكَ لِلهِ رِضی.کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر کسی ایک شخص کے ہاتھ پر جمع ہو جاتے ہیں اور اسے اپنا امام تسلیم کر لیتے ہیں تو خدا کی رضا اُس (امام) کے شامل حال ہو جاتی ہے.نہج البلاغہ مشہدی صفحہ ۱۸۸ من کتاب له الی معاویہ ونہج البلاغہ جلد ۲ صفحہ ۷ مطبوعہ مصر ) یعنی یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان، اعمالِ صالحہ اور اپنے تقوی وطہارت کے لحاظ سے اس معیار پر قائم ہیں کہ خدا تعالیٰ کی مرضی، خدا تعالیٰ کی رضا اور خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا وعدہ ان میں پورا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی یہ رضا اس کی طرف سے ان کے انتخاب کی تصدیق ہے.ان کے چھنے ہوئے امام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مرضی اور اس کی رضا شاملِ حال ہو جاتی ہے.رضائے الہی وہ امتیازی نشان ہے جسے کوئی شخص اپنی کوشش سے حاصل نہیں کر سکتا.لیکن

Page 61

۴۹ اس سے بھی بڑھ کر وہ تائید و نصرت الہی ہے جو خدا تعالیٰ اپنے قائم کردہ خلیفہ کو عطا کرتا ہے.یہ وہ موہبت ہے جو خاص طور پر نبوت کے ساتھ مخصوص ہے.خلیفہ راشد چونکہ خلقی طور پر انوار رسالت اور برکات نبوت کا حامل ہوتا ہے.اس لئے اس کے شامل حال بھی اللہ تعالیٰ کے وہی وعدے ہوتے ہیں جو ان آیات میں بیان فرمائے گئے ہیں کہ " كَتَبَ اللَّهُ لَاغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي“ (الجادلہ: ۲۲) کہ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور میں اور میرے رسول غالب آئیں گے.اور إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا...(المؤمن: ۵۲) کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ان کی جو ایمان لائے ، اس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے کئے جائیں گے.دراصل یہی وہ امتیازات ہیں جو خلیفہ راشد کو ہر دوسرے صاحب منصب اور صاحب صفات شخص سے ممتاز کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.یہ امتیازی نشان کسی ایسے شخص کو نصیب نہیں ہوتے ، جسے خدا تعالیٰ قائم نہیں کرتا خواہ اسے دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی خلیفہ قرار دے دیں.جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی اپنی رضا نہ ہو وہ ان لوگوں کے مقرر کردہ ایسے فرد کی تائید کرنے کا کس طرح پابند ہوسکتا ہے.خلیفہ راشد کے امتیازات : خدا تعالی کے قائم کردہ ان مذکورہ بالا امتیازات اور خصوصیات سے مختص خلیفہ راشد کی اس امتیازی شان کا ذکر کرتے ہوئے خلیفتہ اسیح الثانی بیان فرماتے ہیں: ” اسلام میں خلافت راشدہ کے مجموعی امتیازات سات ہیں:.اول : انتخاب: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: " إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤْدُّوا الْآمَنَتِ إلى أَهْلِهَا.(النساء : ۵۹) یہاں امانت کا لفظ ہے لیکن ذکر چونکہ حکومت کا ہے اس لئے امانت سے مراد امانت حکومت ہے.آگے طریق انتخاب مسلمانوں پر چھوڑ دیا.چونکہ خلافت اُس وقت سیاسی تھی مگر اس کے ساتھ

Page 62

مذہبی بھی ، اس لئے دین کے قائم ہونے تک اُس وقت کے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انتخاب صحابہ کریں کہ وہ دین اور دیندار کو بہتر سمجھتے تھے.ورنہ ہر زمانہ کے لئے طریق انتخاب الگ ہوسکتا ہے.اگر خلافت صحابہ کے بعد چلتی تو اس پر بھی غور ہو جاتا کہ صحابہ کے بعد انتخاب کس طرح ہوا کرے.بہر حال خلافت انتخابی ہے اور انتخاب کے طریق کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے.دوم.شریعت : خلیفہ پر اوپر سے شریعت کا دباؤ ہے وہ مشورہ کو رڈ کر سکتا ہے مگر شریعت کو رد نہیں کرسکتا.گویاوہ کانسٹی ٹیوشنل ہیڈ ہے، آزاد نہیں.سوم شوری : اُوپر کے دباؤ کے علاوہ نیچے کا دباؤ بھی اس پر ہے یعنی اسے تمام اہم امور میں مشورہ لینا اور جہاں تک ہو سکے اس کے ماتحت چلنا ضروری ہے.چہارم.اندرونی دباؤ یعنی اخلاقی : علاوہ شریعت اور شوری کے اس پر نگران اس کا وجود بھی ہے کیونکہ وہ مذہبی رہنما بھی ہے اور نمازوں کا امام بھی.اس وجہ سے اس کا دماغی اور شعوری دباؤ اور نگرانی بھی اسے راہِ راست پر چلانے والا ہے جو خالص سیاسی منتخب یا غیر منتخب حاکم پر نہیں ہوتا.پنجم.مساوات : خلیفہ اسلامی انسانی حقوق میں مساوی ہے جودُ نیا میں اور کسی حاکم کو حاصل نہیں.وہ اپنے حقوق عدالت کے ذریعہ سے لے سکتا ہے اور اس سے بھی حقوق عدالت کے ذریعہ سے لئے جاسکتے ہیں.

Page 63

۵۱ ششم.عصمت صغریٰ: عصمت صغریٰ اسے حاصل ہے یعنی اسے مذہبی مشین کا پُرزہ قرار دیا گیا ہے اور وعدہ کیا گیا ہے کہ ایسی غلطیوں سے اُسے بچایا جائے گا جو تباہ گن ہوں اور خاص خطرات میں اس کی پالیسی کی اللہ تعالی تائید کرے گا اور اسے دشمنوں پر فتح دے گا.گویا وہ مؤید من اللہ ہے اور دوسرا کسی قسم کا حاکم اس میں اس کا شریک نہیں.ہفتم.وہ سیاسیات سے بالا ہوتا ہے اس لئے اس کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہوسکتا: وہ ایک باپ کی حیثیت رکھتا ہے اس کے لئے کسی پارٹی میں شامل ہونا یا اس کی طرف مائل ہونا جائز نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ (النساء :۵۹) یعنی جب ایسے شخص کا انتخاب ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ کامل انصاف سے فیصلہ کرے.کسی ایک 66 طرف خواہش شخصی ہو یا قومی ہو نہ جھکے “ اظہار تقدیر (ماہنامہ الفرقان ربوہ مئی ۱۹۶۷ء) خدا تعالیٰ خود خلیفہ بناتا ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ جس شخص کا برائے خلیفہ انتخاب کرتا ہے، وہ اس کے بارہ میں دنیا میں کئی طریق پر اپنی اس تقدیر کا قبل از وقت اظہار بھی کر دیتا ہے.پھر اس کی اس تقدیر کے آگے کوئی روک نہیں بن سکتا.جیسا کہ حضرت ابوبکر کے بارہ میں آنحضرت لم نے فرمایا تھا کہ آپ کا خیال تھا کہ ان کے بارہ میں وصیت لکھ دیتے مگر اس لئے نہیں لکھی کہ ان کے علاوہ اگر بعض لوگ کسی اور کو منتخب کرنا بھی چاہیں گے تو خدا تعالیٰ بھی ان کے اس انتخاب کا انکار کر دے گا اور مومن بھی اس کا انکار کر دیں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ہم پر

Page 64

۵۲ جس تقدیر کوکھولا تھا وہ بالآخر اسی طرح نافذ ہو کر رہی.اسی طریق پر اللہ تعالیٰ اپنے ہونے والے دیگر خلفاء کے بارہ میں پہلے سے ہی لوگوں کو کئی طریق سے آگاہ کر دیتا ہے.اس دور میں جماعتِ احمدیہ نے خدا تعالیٰ کی تقدیر کے ایسے کئی جلوے دیکھے ہیں کہ آئندہ ہونے والے خلیفہ کے بارہ میں اس نے کئی لوگوں کو رو یا وکشوف کے ذریعہ مطلع فرمایا.اس کی ایک غیر معمولی مثال یہ بھی ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول نے اپنے بعد قائم ہونے والے خلیفہ کا گو اپنی زندگی کے آخری دور میں نام بھی تحریر کر دیا تھا مگر ایک عرصہ پہلے ایک عجیب طرز پر نشاندہی بھی فرمائی تھی.جس کو لازماً اس دور کے اصحاب بصیرت تو واضح طور پر سمجھ گئے تھے مگر جن کے لئے ابتلاء مقدر تھا وہ اپنے ابتلا میں سرگرداں رہے اور اس ” خاص مصلحت اور خالص بھلائی“ سے فائدہ نہ اٹھا سکے.وہ واقعہ اس طرح سے ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول نے ۱۴ جنوری ۱۹۱۰ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں تصوف کے مضمون کو بیان فرمایا.اس کے بالکل آخر میں حسب ذیل بات کہہ کے خطبہ ختم فرما دیا کہ ایک نکتہ قابل یاد سنائے دیتا ہوں کہ جس کے اظہار سے میں باوجود کوشش کے رُک نہیں سکا.وہ یہ کہ میں نے حضرت خواجہ سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا ہے.ان کو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا.ان کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے.۷۸ برس تک انہوں نے خلافت کی.۲۲ برس کی عمر میں وہ خلیفہ ہوئے تھے.یہ بات یا درکھو کہ میں نے کسی خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لئے کہی ہے.“ (خطبات نور صفحه ۴۵۳ مطبوعه نظارت اشاعت قادیان ایڈیشن ۲۰۰۳ء) اس میں ” خاص مصلحت اور خالص بھلائی کیا تھی؟ غور فرمائیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد گو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا اور خلیفتہ امسیح الاول کو آپ سے محبت بھی بہت تھی.آپ کی ولادت با سعادت ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو ہوئی.جنوری ۱۹۱۰ ء میں اس خطبہ کے

Page 65

۵۳ وقت آپ کی عمر عین ۲۲ سال تھی.لہذا حضرت خلیقہ انبیع الاول کا اپنے خطبہ میں حضرت خواجہ سلیمان کی ۲۲ سال کی عمر کا ذکر کرنا ایک واضح اشارہ تھا.پھر ۷۸ برس تک ان کا خلافت کرنا ، ایک حیرت انگیز اظہار تھا جو سوائے خاص مصلحت الہی اور علیم الہی سے ممکن نہ تھا.کیونکہ حضرت صاحبزادہ رزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی نے بھی اتنی ہی عمر تک خلافت کی.آپ کی عمر سمسی لحاظ سے ۶ ۷ سال ۸ مامہ اور ۲۷ دن تھی جبکہ قمری اعتبار سے ۷۸ سال بنتی تھی.یہ ایسی بات تھی جو حضرت خلیفہ المسیح الاول نے 1910ء میں کہی مگر آگے جا کر خدا تعالیٰ نے اسے ۱۹۷۵ ء تک حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کو ۷۸ سال عمر دے کر ظاہر اور ثابت فرمائی.پس یہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے کہ جسے وہ چاہتا ہے اپنا خلیفہ بناتا ہے اور اس نے جس کو خلیفہ قائم کرنا ہوتا ہے، اس کی خوشبو خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لئے چارسو بکھیر دیتا ہے.66 خلیفہ خدا تعالیٰ بناتا ہے کی ایک لطیف تمثیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بحث کو ایک لطیف مثال کے ساتھ واضح فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں : لکھا ہے کہ ایک بزرگ جب فوت ہوئے تو انہوں نے کہا کہ جب تم مجھے دفن کر چکو تو وہاں ایک سبز چڑیا آئے گی.جس کے سر پر وہ چڑیا بیٹھے، وہی میرا خلیفہ ہوگا.جب وہ اس کو دفن کر چکے تو اس انتظار میں بیٹھے کہ وہ چڑیا کب آتی ہے اور کس کے سر پر بیٹھتی ہے؟ بڑے بڑے پرانے مرید جو تھے ان کے دل میں خیال گزرا کہ چڑیا ہمارے سر پر بیٹھے گی.تھوڑی ہی دیر میں ایک چڑیا ظاہر ہوئی اور وہ ایک بقال کے سر پر آ بیٹھی جو اتفاق سے شریک جنازہ ہو گیا تھا.تب وہ سب حیران ہوئے لیکن اپنے مرشد کے قول کے مطابق اس کو لے گئے اور اس کو اپنے پیر کا خلیفہ بنایا.“ ( ملفوظات جلد ۸ صفحه ۴۰۷)

Page 66

۵۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش فرمودہ یہ مثال خدا تعالیٰ کی خلافت کے قیام کے بارہ میں غیر معمولی عرفان کے دروازے کھولتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا انتخاب ہے جو ایک سبز چڑیا کی مثال میں ظاہر کیا گیا ہے.یہ چڑیا صرف اس شخص کے سر پر بیٹھتی ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک اس منصب کا اہل ہوتا ہے.ایسے موقعوں پر بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ خود کو اس منصب کا اہل سمجھ رہے ہوتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ان کے سوا اس جماعت کو چلانے والا کوئی نہیں ہے.یہ لوگ دراصل خلافت کے بارہ میں ایمان کی بنیادی کڑی کو چھوڑ رہے ہوتے ہیں اور سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ خلیفہ نہیں بناتا بلکہ وہ خود بہتر سمجھتے ہیں کہ خلیفہ کون ہو یا اسے کیسا ہونا چاہئے.اسی طرح بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے خیال علم اور معلومات کے مطابق کسی اور کو اس کا اہل سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ان کی نظریں اس پر لگی ہوتی ہیں.وہ اپنے دل کی عقیدت و وفا کو اس کے ساتھ وابستہ کر رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان دونوں قسم کے لوگوں کی مرضی پر اپنی مرضی کو نافذ کرتا ہے.کیونکہ اس کے نزدیک اس منصب کا اہل کوئی اور ہوتا ہے.چونکہ یہ خلافت خدا تعالیٰ کی خلافت ہے، اس لئے اس کا قیام خدا تعالیٰ خود اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اور اس چڑیا کو اپنے خلیفہ کے سر پر بیٹھنے کا حکم دیتا ہے.چنانچہ اس جماعت کے بعض لوگوں کے علی الرغم وہ چڑیا اس شخص کے سر پر بیٹھ جاتی ہے جو دراصل خدا تعالیٰ کا چنا ہوا خاص شخص ہوتا ہے.اس تمثیل کے عملی نظارے یہ " سبز چڑیا کیا ہے؟ یہ دراصل خدا تعالیٰ کی مرضی ہے جو منتخب کرنے والے افراد کے دلوں پر بیٹھتی ہے اور انہیں اس شخص کی طرف مائل کرتی ہے.وہ ان کے سروں پر بیٹھتی ہے اور ان کی عقلوں کو قائل کرتی اور ان کے دلوں کو مائل کرتی ہے کہ وہ اس کے لئے خدا تعالیٰ کے ارادہ سے ہم آہنگ ہاتھ کھڑا کریں جس کو خدا تعالیٰ خود قائم کرنا چاہتا ہے.اس قانونِ الہی کو سمجھاتے ہوئے ہمارے آقا و مولیٰ ،سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی را بیان فرماتے ہیں:

Page 67

۵۵ و, لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَ ابْنِهِ وَ أَعْهَدَ أَنْ يَقُوْلَ الْقَائِلُوْنَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَدُّوْنَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ ( بخاری کتاب المرضى باب قول المريض اتی وجع وار أساه ) کہ میں نے ایک دفعہ ارادہ کیا تھا کہ ابو بکر اور آپ کے بیٹے کو بلاؤں اور خلافت کی وصیت لکھ دوں تا کہ باتیں بنانے والے باتیں نہ بنا سکیں اور اس کی تمنا کرنے والے اس کی خواہش نہ کریں.پھر میں نے کہا کہ اللہ تعالی لازماً ( ابو بکرؓ کے علاوہ کسی بھی دوسرے کا ) انکار کر دے گا اور مومن بھی اسے ضرور رڈ کر دیں گے.آنحضرت سلیم کا یہ قول اس قانون خداوندی اور عقیدہ اسلام کا روشن ترین اظہار ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.یہ ” چڑیا اس کے سر پر بیٹھتی ہے جس پر بیٹھنے کا خد اتعالیٰ اسے حکم دیتا ہے.آنحضرت دم کے بعد اسی مرضی خدا کے مطابق حضرت ابو بکر بھی خلیفہ بنے اور آپ کے بعد دیگر خلفاء بھی.پھر دور آخرین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوئی تو ہر خلیفہ کا انتخاب اسی قانونِ خداوندی کے مطابق عمل میں آیا.دور آخرین میں اس کی ایک مثال جو اس قانون البہی کوعملی رنگ میں روشن کرتی ہے ، یہ ہے کہ حضرت خلیفة امسیح الاوّل کی وفات کے بعد جماعت میں سب سے بڑا سوال خلیفہ ثانی کا انتخاب کا تھا.اس وقت یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ مولوی محمد علی صاحب ( جو بعد میں لا ہوری جماعت کے امیر بنے ) یہ کوشش کرنے لگے کہ فی الحال جماعت کسی ایک خلیفہ کے ہاتھ پر جمع نہ ہو بلکہ کچھ عرصہ انتظار کرلیا جائے اور جب جماعت اچھی طرح سوچ لے تو پھر اس بارہ میں کوئی اقدام کیا جائے.اس بارہ میں وہ اپنے بعض ساتھیوں کے ہمراہ حضرت خلیفہ اسی الاول کی علالت کے ایام میں ہی تگ ودو کرتے رہے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ صدرانجمن احمد یہ کے سیکرٹری ہونے کی وجہ سے انجمن کو جماعت کا نگران بنانے کی کوشش میں تھے.چونکہ وہ صدر انجمن کے سیکرٹری تھے

Page 68

۵۶ اس لئے ظاہر تھا کہ خلیفہ المسیح الاول کی وفات کے بعد وہ خودہی جماعت کے نگران متصور ہو سکتے تھے.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تمثیل کے آئینہ میں ” بڑے بڑے پرانے مرید جو تھے ان کے دل میں خیال گزرا کہ چڑیا ہمارے سر پر بیٹھے گی“.لیکن حالات ایسے ہو گئے تھے کہ انہیں یقین تھا کہ اگر یہ فیصلہ اب ہوا تو یہ چڑیا ان کے سر پر نہیں بیٹھے گی.اس لئے انہوں نے یہ ترکیب سوچی کہ خلیفہ کے انتخاب کو معرض تأخیر میں ڈال کر چڑیا کو قابو کرنا چاہئے.مگر یہ حقیقت ان سے اوجھل رہی کہ خدا تعالیٰ کے کاموں پر کسی کو اختیار نہیں ہوسکتا.اس کی مرضی کو کوئی قابو نہیں کر ย سکتا.چنانچہ اکابر صحابہ ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہلِ بیت اور جماعت کی اکثریت ،سب اس عقیدہ کے حامل تھے کہ جلد از جلد خلیفہ کا انتخاب ہو اور سنت کے مطابق خدا تعالیٰ کا قائم کردہ خلیفہ ہی حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کی نماز جنازہ پڑھائے اور جماعت دوبارہ اسلام کے قانون کے مطابق ایک ہاتھ پر جمع ہو.اس ماحول اور ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی بیان فرماتے ہیں: ظہر کے بعد میں نے اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کیا اور ان سے اختلاف کے متعلق مشورہ طلب کیا.بعض نے رائے دی کہ جن عقائد کو ہم حق سمجھتے ہیں، ان کی اشاعت کے لئے ہمیں پوری طرح کوشش کرنی چاہئے.اور ضرور ہے کہ ایسا آدمی خلیفہ ہو جس سے ہمارے عقائد متفق ہوں.مگر میں نے سب کو سمجھایا کہ اصل بات جس کا اس وقت ہمیں خیال کرنا چاہئے وہ اتفاق ہے.خلیفہ کا ہونا ہمارے نزدیک مذہباً ضروری ہے.پس اگر وہ لوگ اس امر کو تسلیم کر لیں تو پھر مناسب یہی ہے کہ اوّل تو عام رائے لی جاوے.اگر اس سے وہ اختلاف کریں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کر لیا جائے

Page 69

۵۷ جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو اور اگر یہ بھی قبول نہ کریں تو ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جاوے اور میرے اصرار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام اہل بیت نے اس بات کو تسلیم کر لیا.یہ فیصلہ کر کے میں اپنے ذہن میں خوش تھا کہ اب اختلاف سے جماعت محفوظ رہے گی.مگر خدا تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.66 میں باہر آیا تو مولوی محمد علی صاحب کا رقعہ مجھے ملا کہ کل والی گفتگو کے متعلق ہم پھر گفتگو کرنی چاہتے ہیں.میں نے ان کو بلوا لیا.اس وقت میرے پاس مولوی سید محمد احسن صاحب، خان محمد علی صاحب اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب موجود تھے.مولوی صاحب بھی اپنے بعض احباب سمیت وہاں آگئے اور پھر کل کی بات شروع ہوئی.میں نے پھر اس امر پر زور دیا کہ خلافت کے متعلق آپ بحث نہ کریں.صرف اس امر پر گفتگو ہو کہ خلیفہ کون ہو.اور وہ اس بات پر مصر تھے کہ نہیں.ابھی کچھ بھی نہ ہو.کچھ عرصہ تک انتظار کیا جاوے.سب جماعت غور کرے کہ کیا کرنا چاہئے.پھر جو متفقہ فیصلہ ہو اس پر عمل کیا جاوے.میرا جواب وہی کل والا تھا اور پھر میں نے ان کو یہ بھی کہا کہ اگر پھر بھی اختلاف ہی رہے تو کیا ہوگا.اگر کثرت رائے سے فیصلہ ہونا ہے تو ابھی کیوں کثرت رائے پر فیصلہ نہ ہو....اس وقت جماعت کو تفرقہ سے بچانے کی فکر ہونی چاہئے.جب سلسلہ گفتگو کسی طرح ختم ہوتا نظر نہ آیا اور باہر بہت شور ہونے لگا اور جماعت کے حاضر الوقت اصحاب اس قدر جوش میں آگئے کہ دروازہ توڑے جانے کا خطرہ ہو گیا اور لوگوں نے زور دیا کہ اب ہم زیادہ صبر نہیں کر سکتے.آپ لوگ

Page 70

۵۸ کسی امر کو طے نہیں کرتے اور جماعت اس وقت بغیر کسی رئیس کے ہے.تو میں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ بہتر ہے کہ باہر چل کر جولوگ موجود ہیں ان سے مشورہ لے لیا جائے.اس پر مولوی محمد علی صاحب کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ آپ یہ بات اس لئے کہتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ وہ لوگ کسے منتخب کریں گے.اس پر میں نے ان سے کہا کہ نہیں میں تو فیصلہ کر چکا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلوں.مگر اس پر بھی انہوں نے یہی جواب دیا کہ نہیں.آپ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی کیا رائے ہے یعنی وہ آپ کو خلیفہ مقرر کریں گے.اس پر میں اتفاق سے مایوس ہو گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ کا منشا کچھ اور ہے.کیونکہ باوجود اس فیصلہ کے جو میں اپنے دل میں کر چکا تھا میں نے دیکھا کہ یہ لوگ صلح کی طرف نہیں آتے اور مولوی محمد علی صاحب کی مخالفت خلافت سے بوجہ خلافت کے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ ان کے خیال میں جماعت کے لوگ کسی اور کو خلیفہ بنانے پر آمادہ تھے.“ (حیات نور صفحہ ۷۲۸ تا ۷۳۰ مطبوعہ ۱۹۶۳ء پنجاب پر یس وطن بلڈنگ لا ہور *) یہ واقعہ تاریخ اسلام کا ایک اہم ترین واقعہ ہے جو واقعاتی لحاظ سے ایک نا قابلِ تردید اور قطعی ثبوت مہیا کرتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.مولوی محمد علی صاحب جو حضرت خلیفہ مسیح الا ول کی زندگی میں ہی جماعت کے انتظام و انصرام اور اختیار و اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لینے کی سر توڑ کوشش کرتے رہے تھے اور ایک مہم کے طور پر اپنے اخبار ” پیغام کے ذریعہ اور اشتہارات اور ٹریکٹوں کی اشاعت کے ساتھ مسلسل جد و جہد میں ( اس واقعہ کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے ” خلافتِ راشدۀ ( انوار العلوم جلد ۱۵ صفحہ ۴۹۷ تا ۵۰۱) میں اور اپنی تصنیف " اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات (صفحہ ۱۲۲ تا ۱۲۴ مطبوعہ الشركة الاسلامیہ ربوہ ) اور اپنے درس القرآن میں بھی بیان فرمائی ہے.)

Page 71

۵۹ تھے کہ کسی طرح خلیفہ وقت انجمن کے تحت ہو جائے.یعنی وہ ان کے دفتر کے ماتحت ہو اور اصل اقتدار انجمن کا یعنی ان کا اپنا ہو.اسی کے لئے وہ خلافت ثانیہ کے انتخاب میں تاخیر کے لئے کوشاں تھے تا کہ جماعت کچھ عرصہ تک انجمن کے انتظام کے تحت رہنے کی عادی ہو جائے گی تو پھر خلیفہ کے انتخاب کی ضرورت نہ رہے گی لہذا جماعت پر ان کا اقتدار قائم ہو جائے گا.عین اس وقت جب صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی ) ان کو خلیفہ بن جانے اور خود ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی پیشکش کرتے ہیں تو وہی مولوی محمد علی صاحب اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں.حالانکہ یہی اُن کے لئے نادر موقع تھا کہ اگر وہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی اس پیشکش کو قبول کر لیتے تو انہیں ان کے خوابوں کی تعبیر اور جد وجہد کی منزل مل جاتی اور وہ جماعت احمدیہ کے امام بن جاتے.لیکن ایک حتمی اور فیصلہ کن گھڑی میں مولوی محمد علی صاحب کا جماعت کا امام بننے سے پہلو تہی کر جانا خدا تعالیٰ کے اس تصرف کی پختہ ترین دلیل ہے کہ خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے خو دخلیفہ بناتا ہے.اور وہ سبز چڑیا اسی کے سر پر بیٹھتی ہے جس پر بیٹھنے کا اسے اذن ہوتا ہے.اس کے برعکس جسے اللہ تعالیٰ اس کا اہل نہیں سمجھتا، لوگ کوشش بھی کریں تو اس کے لب تک لائے ہوئے پیالہ کو اس کے منہ سے نہیں لگا سکتے.

Page 72

۶۰ نحضرت ماریہ امسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ ہی بناتا ہے.اگر بندوں پر اس کو چھوڑا جاتا تو جو بھی بندوں کی نگاہ میں افضل ہوتا اسے ہی وہ اپنا خلیفہ بنالیتے.لیکن خلیفہ خود اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں.وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چلتا ہے جسے وہ بہت حقیر سمجھتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ اس کو چن کر اس پر اپنی عظمت اور جلال کا ایک جلوہ کرتا ہے اور جو کچھ وہ تھا اور جو کچھ اس کا تھا اس میں سے وہ کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے سامنے کلی طور پر فنا اور بے نفسی کا لبادہ وہ پہن لیتا ہے.“ الفضل ربوہ ۷ ار مارچ ۱۹۶۷ء) حضرت خلیفة المسح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” سارا عام اسلام مل کر زور لگالے اور خلیفہ بنا کر دکھا دے.وہ نہیں بنا سکتے کیونکہ خلیفہ کا تعلق خدا کی پسند سے ہے.“ ( الفضل انٹر نیشنل ۲ اپریل ۱۹۹۳ء)

Page 73

۶۱ بركات و انوار خلافت

Page 74

۶۲ مندرجات ☆ برکات خلافت تلاوت آیات تزکیه نفوس تعلیم کتاب تعلیم حکمت سند ایمان و اعمال صالحه تمکنت دین و استحکام اسلام امن کی ضمانت پجہتی و اتحاد قیام توحید قیامِ عبادت اور شرک سے حفاظت اطاعت منبع سعادت حصار ایمان نزول و تائید ملائکہ تجدید دین قبولیت دعا کا وسیلہ ۶ ۹ 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵

Page 75

خلافت پشتی صبح ازل کی عروج آدم خاکی کی جھلکی مقام اس کا ہے نمر انجن میں حکومت خدا نے اپیل کی عبد المقارنا هيد

Page 76

۶۳ برکات خلافت خلافت کی برکات کی جب بات اٹھتی ہے تو ان برکات سے مراد کوئی نئی اور الگ برکتیں نہیں ہیں جو نبوت کی برکتوں سے سوایا علاوہ ہیں.نبوت کے بعد جب خدا تعالیٰ نبی کی جماعت میں خلافت جاری فرماتا ہے تو اس کی جملہ برکتیں اسی نبوت کا فیض اور تسلسل ہوتی ہیں جس کی وہ خلافت ہوتی ہے.نبوت کی برکات ، اور اس کے اظلال وانوار ، خلافت کے ذریعہ مومنوں پر نازل ہوتے ہیں.چنانچہ خلافت کی برکتوں کو اگر نبوت کی روشنی میں تلاش کریں تو قرآنِ کریم اور احادیث نبویہ میں ان برکتوں کا ایک ہجوم نظر آتا ہے جو نبوت کے ذریعہ اس دنیا میں اتریں.وہ برکتیں انفس و آفاق پر کائنات کی وسعتوں میں بھی پھیلی ہوئی ہیں اور اجتماعی اور انفرادی طور پر بھی دنیا کے ہر خطہ وقوم میں چمکتی ہیں.نبوت کی عدم موجودگی میں خالی طور پر ان سب برکتوں کا نزول خلافت کے راستہ جماعتِ مؤمنین پر جاری رہتا ہے.اور وہ برکتیں اس وقت تک جاری رہتی ہیں جب تک وہ جماعت اپنے ایمان کو اعمالِ صالحہ کے ساتھ مزین کئے رکھتی ہے.اس جماعت پر خدا تعالیٰ کا قائم کردہ خلیفہ خلقی طور پر نبوت کی تأثیر، اس کی برکات، اس کے انوار اور کمالات اپنے ہمراہ لاتا ہے.اس کے اس مقام اور مرتبہ کا عرفان بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وو طلیقہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہو سکتا ہے جو فنی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسولِ کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کاظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں ، لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے

Page 77

۶۴ وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی ہیں ،ظلمی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانے میں برکاتِ رسالت سے محروم نہ رہے.پس جو شخص خلافت کو صرف تمیں برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہر گز نہیں تھا کہ رسول کریم کی وفات کے بعد صرف تمہیں برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے.پھر بعد اس کے دنیا تباہ ہو جائے تو ہو جائے، کچھ پرواہ نہیں.بلکہ پہلے دنوں میں تو خلیفوں کا ہونا بجز شوکتِ اسلام پھیلانے کے کچھ اور زیادہ ضرورت نہیں رکھتا تھا.کیونکہ انوار رسالت اور کمالات نبوت تازہ بتازہ پھیل رہے تھے اور ہزار ہا معجزات بارش کی طرح ابھی نازل ہو چکے تھے اور اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اس کی سنت اور قانون سے یہ بھی بعید نہ تھا کہ بجائے ان چار خلیفوں کے اس تمیں برس کے عرصہ تک آنحضرت ﷺ کی عمر کو ہی بڑھا دیتا.“ پھر اسی مضمون کو مزید کھولتے ہوئے فرمایا : دو شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۴،۳۵۳) اللہ جل شانہ نے اسلامی امت کے کل لوگوں کے لئے ہمارے نبی ٹیم کو شاہد ٹھہرایا ہے اور فرمایا إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ اور فرمایا وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا مگر ظاہر ہے کہ ظاہری طور پر تو آنحضرت ام صرف تئیس برس تک اپنی امت میں رہے.پھر یہ سوال کہ دائی طور پر وہ اپنی امت کے لئے کیونکر شاہد ٹھہر سکتے ہیں.یہی

Page 78

واقع جواب رکھتا ہے کہ بطور استخلاف کے یعنی موسیٰ علیہ السلام کی مانند خدا تعالیٰ نے آنحضرت ام کے لئے بھی قیامت تک خلیفے مقرر کر دیئے اور خلیفوں کی شہادت بعینہ آنحضرت ٹیم کی شہادت متصور ہوئی اور اس طرح پر مضمونِ آیت إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ بِر یک پہلو سے درست ہو گیا.غرض شہادت دائگی کا عقیدہ جو نص قرآنی سے بتواتر ثابت اور تمام مسلمانوں کے نزدیک مسلّم ہے تبھی معقولی اور تحقیقی طور پر ثابت ہوتا ہے جب خلافت دائگی کو قبول کیا جائے.“ حضرت خلیہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ( شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۳) ” خلیفہ اپنے پیش رو کے کام کی نگرانی کے لئے ہوتا ہے.“ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.انوارالعلوم جلد ۲ صفحہ ۱۳) یعنی نبی کی نبوت جس قسم کی ہوگی ، اس کا خلیفہ بھی اسی نوع کی خلافت کے ساتھ اس کی جانشینی کرے گا.اس میں اپنے پیش رو نبی ہی کی برکات منعکس ہوں گی.برکات نبوت کو ظنی طور پر خلافت میں جاری ہونے کے اس عرفان کو ایک اور زاویہ سے واضح کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس آیت ( یعنی آیت استخلاف.ناقل ) کے ماتحت جس قسم کی خلافت آنحضرت ﷺ کے بعد ہوئی ، وہی خلافت راشدہ ہے اور اسی قسم کی خلافت مسیح موعود کے بعد ہونی ضروری ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں مسیح موعود کی نسبت فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُوْلًا مِنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِيْنٍ وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (الجمع:

Page 79

۶۶ ۴،۳) خدا ہی ہے جس نے امتیوں میں ایک رسول بھیجا جو انہی میں سے ہے اور جوان پر خدا کا کلام پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور بے شک اس سے پہلے وہ کھلی کھلی گمراہی میں تھے اور وہ رسول ایک اور قوم کو بھی سکھائے گا جو ابھی تک ان سے نہیں ملی اور خدا تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کے زمانہ کو آنحضرت ام کے زمانہ سے تشبیہہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ ایک دفعہ تو آنحضرت سلم نے صحابہ کی تربیت کی ہے اور ایک دفعہ وہ پھر ایک اور قوم کی تربیت کریں گے جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئی.پس مسیح موعود کی جماعت کو صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مشابہ قرار دے کر بتا دیا ہے کہ دونوں میں ایک ہی قسم کی سنت جاری ہوگی.پس جس طرح آنحضرت ام کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ہوا ضرور تھا کہ مسیح موعود کے بعد بھی ایسا ہی ہوتا.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود نے الوصیت میں صاف لکھ دیا ہے کہ جس طرح آنحضرت ﷺ کے بعد ابوبکر کے ذریعہ دوسری قدرت کا اظہار ہوا ضرور ہے کہ تم میں بھی ایسا ہی ہو اور اس عبارت کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے بعد سلسلہ خلافت کے منتظر تھے.“ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.انوارالعلوم جلد ۲ صفحہ ۳۱،۱۲۱) جماعت مسیح موعود علیہ السلام میں خلافت کے قیام کو ثابت فرما کر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ سورۃ الجمعہ کی مذکورہ بالا آیات کا ذکر کر کے ان میں بیان فرمودہ برکات کے بارہ میں فرماتے ہیں: انبیاء علیہم السلام کے اغراض بعثت پر غور کرنے کے بعد یہ سمجھ لینا

Page 80

۶۷ پھر فرمایا: بہت آسان ہے کہ خلفاء کا بھی یہی کام ہوتا ہے.کیونکہ خلیفہ جو آتا ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اپنے پیشرو کے کام کو جاری کرے.پس جو کام نبی کا ہوگا وہی خلیفہ کا ہوگا.اب اگر آپ غور اور تدبر سے اس آیت کو دیکھیں تو ایک طرف نبی کا کام اور دوسری طرف خلیفہ کا کام کھل جائے گا.“ منصب خلافت - انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۲۴) نبی کا کام بیان فرمایا تبلیغ کرنا کافروں کو مومن کرنا ، مومنوں کو شریعت پر قائم کرنا، پھر باریک در باریک راہوں کا بتانا، پھر تزکیہ نفس کرنا ، یہی کام خلیفہ کے ہوتے ہیں.“ منصب خلافت.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۲۸) ان اقتباسات سے بڑی پختگی کے ساتھ یہ بنیاد قائم ہوتی ہے کہ خلافت دراصل ان تمام برکتوں کے جلو میں قائم ہوتی ہے اور انہی کے ساتھ جاری رہتی ہے جو نبوت کے ذریعہ جماعت مومنین پر نازل ہوتی ہیں.اس زاویہ نگاہ سے جب برکات خلافت کے مضمون کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان تمام برکتوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں جو نبوت یا خلافت کا خاصہ ہیں.پس ان میں سے معدودے چند برکتوں کا مختصراً اور اجمالی طور پر یہاں ذکر کیا جا رہا ہے تا کہ یہ پہلو کسی حد تک واضح ہو جائے کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ خلافت راشدہ کے طفیل جن برکات نبوت سے فیضیاب ہو رہی ہے، وہ کس قدر عظیم ہیں اور یہ جماعت کس قدر خوش قسمت و خوش نصیب ہے کہ اس میں خلافت کی نعمت جاری ہے.

Page 81

۶۸ (1) تلاوت آیات اللہ تعالی نبی کریم ﷺ کا اور پھر آپ کے فل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کام یہ بتاتا ہے کہ " يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتہ “ آپ اپنے متبعین پر خدا کا کلام پڑھتے ہیں.آپ کے اسی کام کو آپ کے خلفاء جاری رکھتے ہیں اور آگے چلاتے ہیں.آیت کے ایک معنی نشان کے بھی ہیں.اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلافت کی تائید میں اپنے نشان ظاہر فرماتا ہے اور اسی کے ذریعہ اور اسی کے طفیل مومنوں کو بھی انفرادی طور پر اپنے پیار اور قرب کے نشان عطا فرماتا ہے.(۲) تزکیه نفوس فرمایا: ”وَ يُزَكَيْهِم “ اور انہیں پاک کرتے ہیں.یہی کام خلفاء بھی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے اندر لی طور پر کمالات نبوت رکھتا ہے تو ان میں بھی ویسی ہی قوت تزکیہ پیدا ہوتی ہے کہ وہ نبی کے ظل میں مومنوں کے تزکیہ نفوس کا ذریعہ بنتے ہیں اور اس کا سامان کرتے ہیں.اس آیت کریمہ کے مطابق در حقیقت نبی کے بعد خلفاء اس دنیا میں اصل مرگی ہوتے ہیں.(۳) تعلیم کتاب فرمایا: ”وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَاب“ اور وہ انہیں کتاب سکھاتے ہیں.نبی علوم قرآن کا سرچشمہ ہے.اس کے ظلت میں اس کا خلیفہ علوم قرآن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقع :۸۰) کہ قرآنِ کریم کو صرف پاک کئے ہوئے ہی چھو سکتے ہیں.اس آیت قرآنی کے مطابق خلیفہ راشد سے بڑھ کر علوم قرآن کا وارث اور کوئی نہیں قرار پاتا.پہلے اللہ تعالیٰ نے یزکیھم کے ذریعہ اسے مرگی قرار دیا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اگر

Page 82

۶۹ دوسروں کا تزکیہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی جناب سے وہ سب سے بڑھ کر خود پاک شدہ ہے.پس علومِ قرآن کا قلوب مومنین پر ظاہر و نازل ہونا بھی خلافت کی جملہ بڑی برکتوں میں سے ایک ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ نے دائمی خلیفوں کا وعدہ دیا تا وہ ظلی طور پر انوار ہوت پا کر دنیا کو ملزم کریں اور قرآن کریم کی خوبیاں اور اس کی پاک برکات لوگوں کو دکھلاویں.“ (۴) شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۲) تعلیم حکمت فرمایا: ” وَ الْحِكْمَةَ “ اور وہ انہیں حکمت و دانائی سکھاتے ہیں.حکمت و دانائی اور معرفت در اصل ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں اور ان کا اصل تعلق تقوی سے ہے.اعمالِ صالحہ بھی اسی سے منعکس ہوتے ہیں.یہ وہ خدا داد صلاحیت ونور ہے جو پاک انسان کو عطا ہوتا ہے.اس لئے اس کا بنیادی سرچشمهہ خدا تعالیٰ کا نبی ہوتا ہے.جس کے بعد اس حکمت و دانائی اور معرفت کو اس کا خلیفہ مومنوں پر منعکس کرتا ہے.وہ نبی کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید یافتہ ہوتا ہے.یعنی اس کا سر چشمه حکمت و معرفت براہِ راست ذات باری تعالیٰ ہے.پس خلافت کی یہ ایک بہت بڑی برکت ہے کہ اس سے وابستہ افراد علی قدر استعداد خدا داد حکمت و دانائی اور فراست و معرفت سے سیراب کئے جاتے ہیں.(۵) سند ایمان و اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے بارہ میں فرمایا ہے : وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ ( النور :۵۲) کہ یہ وعدہ ان لوگوں سے ہے جو

Page 83

دراصل مومن ہیں اور مناسب حال نیک عمل کرنے والے ہیں.یہ آیت واضح کرتی ہے کہ یہ وعدہ مشروط ہے ان لوگوں سے جو نظام خلافت پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ ایمان رکھتے ہیں کہ نظام خلافت برحق نظام ہے.یہ وعدہ ایمان اور اعمالِ صالحہ کا وہ خاص معیار چاہتا ہے جو خدا کے اس انعام کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو.لہذا جماعت میں خلافت راشدہ کا قیام اس جماعت کے ایمان اور اعمالِ صالحہ کے معیاری ہونے کی تصدیق کرتا ہے.یہ ضمون قرآن کریم کی ان آیات سے بھی سمجھا جاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: " يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (الشوری: ۵۰) کہ خدا جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹوں سے نوازتا ہے.خدا کی اس عطا اور موہبت کو جذب کرنے کے لئے انسان میں صلاحیت کی ضرورت ہے جس کے نتیجہ میں اولاد کا حصول ہوتا ہے اور جس میں یہ صلاحیت نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ کی اس عنایت کو حاصل نہیں کر سکتا.اسی طرح فرمایا: ” وَأَنْتُمْ تَزَرَعُوْنَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ (الواقعہ: ۲۵) کہ یہ جواہلہاتی سرسبز و شاداب کھیتیاں تمہیں نظر آتی ہیں یہ تم اُگاتے ہو یا ہم؟ یعنی اگر کسان بنجر اور سیم زدہ زمین میں بیج ڈالے گا تو فصل حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ فصل اُگانے کی صلاحیت اس زمین میں نہیں جو زرخیز زمین میں ہوتی ہے.اس لئے اس زمین میں فصل کا نہ ہونا اس بات کی تصدیق ہے کہ وہ نا قابلِ کاشت ہے.بعینہ کسی جماعت میں خلافت کا قائم نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے افراد میں لازماً ایمان اور اعمال صالحہ کا فقدان ہے.پس جس طرح ایک نجر اور سیم زدہ قطعہ زمین فصل پیدا نہیں کر سکتا اسی طرح خدا کی یہ نعمت اور وعدہ خلافت اس جماعت میں پورا نہیں ہو سکتا جو ایمان اور عمل صالح کے اس معیار پر قائم نہ ہو جو خلافت کے قیام کے لئے شرط ہے.مگر جس جماعت میں اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق خلافتِ را شدہ قائم فرمائے ، وہ یقینا مومنین اور صالحین کی جماعت ہے.امت مسلمہ خلافت راشدہ سے محرومی کے بعد جب لمحه به لحه زوال واد بار اور تشتت و انتشار کے زینے اترتی چلی گئی اور پھر ایک لمبے زمانہ کے بعد دردمند مسلمانوں نے خلافت کی کمی شدت سے

Page 84

اے محسوس کی اور اس کی فرقت کا احساس رُوح کو تڑپانے لگا تو خلافت کے قیام اور احیاءکو کے لئے کئی تحریکات نے سر اٹھایا.لیکن واحسرتا! کہ وہ سب تحریکات ناکامی کا داغ لئے اور اق تاریخ میں اوجھل ہو گئیں.ان کے اس انجام کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ کوکھ بانجھ تھی اور زمین سیم زدہ و بنجر.الغرض قیام خلافت کے لئے اللہ تعالیٰ کی تقدیر وہاں کام کرتی ہے جہاں ایمان اور اعمالِ صالحہ کی زرخیزی ہو اور جہاں یہ تقدیر کام کرتی ہے وہاں اُس جماعت کے ایمان اور اعمالِ صالحہ کی تصدیق بھی کرتی ہے.جیسا کہ حضرت علی نے امیر معاویہ کو اپنی خلافت کی صداقت کی دلیل دیتے ہوئے لکھا: إِنَّهُ بَايَعَنِى الْقَوْمُ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا اَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ عَلَى مَا بَايَعُوْهُمْ عَلَيْهِ لَم میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے ابو بکر، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی اور انہیں اصولوں پر کی ہے جن پر ان تینوں کی بیعت کی تھی.اور فرمایا : فَانِ اجْتَمَعُوْا عَلَىٰ رَجُلٍ وَّسَمُّوْهُ إِمَامًا كَانَ ذلِكَ لِلهِ رِضًا.یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر کسی ایک شخص کے ہاتھ پر جمع ہو جاتے ہیں اور اسے اپنا امام تسلیم کر لیتے ہیں تو خدا کی رضا اُس شخص کے شامل حال ہو جاتی ہے.نهج البلاغہ مشہدی صفحه ۸۸۱ من کتاب له الی معاویہ و نهج البلاغہ جلد ۲ صفحہ ۷ مطبوعہ مصر ) یعنی یہ لوگ وہ ہیں جو ایمان، اعمال صالحہ اور اپنے تقوی وطہارت کے لحاظ سے اس معیار پر قائم ہیں کہ خدا کی مرضی ، خدا کی رضا اور خدا کا وعدہ اِن لوگوں میں پورا ہوتا ہے.ظاہر ہے کہ حضرت علی نے اپنے اس بیان میں اپنی بیعت کرنے والوں کے ایمان اور تقویٰ پر فخر کیا ہے اور اسے قیامِ خلافت کی دلیل بنا کر پیش کیا ہے کہ خُدا کا وعدہ اعمال صالحہ بجالانے والے مومنوں کے ساتھ ہے.پس وہ جماعت جس میں خلافتِ راشدہ قائم ہو، اس کے لئے یہ کافی دلیل ہے کہ وہ لمصلہ جماعت لازما مومنین اور صالحین کی جماعت ہے.چنانچہ حضرت اصلح الموعودؓ فرماتے ہیں: ”اے مومنوں کی جماعت! اور اے عملِ صالح کرنے والو! میں تم سے کہتا ہوں کہ خلافت خُدا تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو.جب تک تم لوگوں کی اکثریت ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہے گی خُدا اس نعمت کو نازل کرتا چلا جائے گا.لیکن اگر تمہاری اکثریت ایمان اور عمل صالح

Page 85

۷۲ سے محروم ہوگئی تو پھر یہ امر اس کی مرضی پر موقوف ہے کہ وہ چاہے تو اس انعام کو جاری رکھے اور چاہے تو بند کر دے.پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی سوال نہیں.خلافت اس وقت چھینی جائے گی جب تم بگڑ جاؤ گے.پس اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری مت کرو اور خُد اتعالیٰ کے الہامات کو تحقیر کی نگاہ سے مت دیکھو بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تم دعاؤں میں لگے رہوتا قدرت ثانیہ کا پے در پے تم میں ظہور ہوتا رہے.تم ان نا کاموں اور نا مرادوں اور بے عملوں کی طرح مت بنو جنہوں نے خلافت کو رڈ کر دیا بلکہ تم ہر وقت ان دعاؤں میں مشغول رہو کہ خُدا قدرت ثانیہ کے مظاہر تم میں ہمیشہ کھڑے کرتا رہے تا کہ اس کا دین مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے اور شیطان اس میں رخنہ اندازی کرنے سے ہمیشہ کے لئے مایوس ہو جائے“.خلافت راشدہ انوار العلوم جلد ۵۱ صفحه ۵۹۳) حضرت خدیہ مسیح الا وال نے اس تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش فرمایا ہے کہ : جو ان خلفاء کا منکر ہواس کی پہچان یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ دینی کاموں سے رہ جاتا ہے.حضرت طلیقہ اسح الاساتید واللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: وو الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۱۳، حضرت خلیفہ مسیح الاول) ” صالح بنو اور دعاؤں میں لگے رہوتا کہ یہ خلافت کا انعام تم میں ہمیشہ جاری رہے.جیسا کہ میں نے کہا یہ اعزاز قائم رکھنے کے لئے ، اگر یہ گزشتہ ۹۷ سال سے کسی خاص ملک کے لوگوں کے حصے میں آ رہا ہے تو اس کو قائم رکھنے کے لئے ، دعاؤں اور نیک اعمال کی ضرورت ہے.ورنہ کوئی قوم بھی جوا خلاص اور وفا اور تقویٰ میں بڑھنے والی ہوگی اس علم کو بلند کرنے

Page 86

والی ہوگی.کیونکہ یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یہ قدرت دائی ہے.اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن دائمی قدرت کے 66 ساتھ شرائط ہیں.اعمالِ صالحہ.“ (الفضل ربوه ۵ / جولائی ۶۲۰۰۵) خلاصہ کلام یہ کہ اعمال صالحہ خلافت کے وعدہ کی ایک شرط ہے اور خلافت جماعت مومنین کے ایمان و اعمالِ صالحہ کی سند بھی ہے اور خلافت سے محروموں کے عدمِ ایمان اور ان میں اعمالِ صالحہ کے فقدان کی علامت بھی.(1) تمکنت دین و استحکام اسلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ” جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سر نو اس خلیفہ کے ذریعہ استحکام ہوتا ہے.(الحکم ( قادیان) ۴۱ / اپریل ۶۸۰۹۱) آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے خلافت حقہ کی ایک برکت لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمْ“ بیان فرمائی ہے کہ موت کے بعد اسلام کے دینی اور روحانی استحکام ، اس کی ترقی کا انحصار، اس کے غلبہ کا دارو مدار اور اس کی ترقیات کا سرچشمہ خلافت ہوگی کوئی دوسرا نظام نہیں.اس کی تشریح آیت كريم أنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (ال عمران :۱۴۰) میں بیان فرمائی گئی ہے کہ غلبہ اور برتری ایمان کے ساتھ وابستہ ہے.اس کے عملی نمونے آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے ذریعہ ظاہر ہوئے کہ آپ پر

Page 87

۷۴ ایمان لانے والے اللہ تعالیٰ کی مدد کے ساتھ دنیا کی ہر طاقت پر غالب آئے.ہر بڑی سے بڑی سلطنت ان قلیل التعداد مومنوں کے سامنے سرنگوں ہوئی.خیبر کے قلعے، ایران کے محلات اور شام کی فصیلیں اس کی گواہی کے لئے کافی ہیں.علم ، دلائل ، صداقت کے زندہ اور جاری نشانات ، تاثیرات روحانیہ اور تائیدات الہیہ کے لحاظ سے بھی ہر مذہب اسلام کے سامنے بے بس نظر آتا ہے.مگر کیا رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد یہ غلبہ ختم ہو گیا ؟ اگر مومنوں کا یہ غلبہ ختم نہیں ہوا تو آپ کے بعد وہ کون سا منصب عالی تھا جس پر ایمان لانا لازمی قرار پایا؟ اور وہ کون سا مقام بزرگ تھا جو ایمان کے قرار کا موجب بنا؟ اگر نبی اکرم م کے بعد بھی اسلام کے غلبہ کا تصوّ راور وعدہ موجود ہے اور ایمان ا س غلبہ کا لازمہ ہے تو پھر لازم نبوت کے بعد خلافت ہی وہ منصب عظیم ہے جس پر ایمان غلبہ وکامرانی سے ہمکنار کر سکتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے ” وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ میں تمکنت و استحکام دین اور غلبہ کو خلافت سے وابستہ کیا ہے.اس کا واضح نظارہ تاریخ اسلام کے اس خوفناک موڑ پر نظر آتا ہے کہ جب مسلمانوں کے دلوں میں سطح ایمان اس معیار سے نیچے اتر گئی کہ جس پر خلافت کے قیام کا وعدہ مشروط تھا تو خدا تعالیٰ نے اس نعمت عظمیٰ کو اُن میں سے اٹھا لیا.پھر جو مصیبتیں عالم اسلام پر افتراق وانتشار اور تنزل واد بار کی صورت میں نازل ہوئیں، سینہ تاریخ ان کی داستانوں سے خوں آشام ہے.یہی وہ دور ہے جس میں امت پر طلوع ہونے والا ہر سورج مسلمانوں کی شکست و ہزیمت کا پیامبر تھا اور ہر ڈھلنے والا دن حسرت و یاس کی علامت.اسی دور کا نام فیج اعوج یعنی ٹیڑھاؤ ور رکھا گیا.اسلام کی اس حالت زار میں خدا تعالیٰ نے وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمْ کی صداقت کے ثبوت کے لئے خلافت کے ذریعہ استحکام اسلام اور تمکنت دین کا جلوہ ظاہر کیا اور محمد مصطفی ایم کی جانشینی میں مسیح موعود اور مہدی معہود کو امتی نبی اور خاتم الخلفاء بنا کر مبعوث فرمایا اور اسے یہ نوید دی وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا تذکرہ: صفحہ ۶۱ الهام ۱۸۸۳ء.مطبوعہ الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ ۱۹۷۷ء) کہ خدا تعالیٰ تیرے ماننے والوں کو منکروں پر قیامت تک غالب رکھے گا.چنانچہ آپ کے ذریعہ

Page 88

۷۵ دامنِ اسلام کو ہر اعتراض سے پاک، اس کی حقانیت کو ثابت اور اسے دیگر ادیان پر غالب کر دیا گیا.پھر آنحضرت کم کی پیشگوئی کے مطابق آپ کی وفات کے بعد آپ کی جماعت میں دو خلافت على مِنْهَاجِ النُّبُوَّة قائم ہوئی اور نظامِ خلافت کے ذریعہ اس الہام کی صداقت چار دانگ عالم میں ظاہر ہوئی اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے ذریعہ آج دینِ مصطفی علم کو دنیا کے ہر خطہ میں علمی، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے برتری حاصل ہے.اسلام کے سامنے ہر مذہب کے پیش کردہ دلائل حباب بر آب ثابت ہو چکے ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: دیکھو ہم ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں مگر تم نے کبھی غور کیا کہ یہ تبلیغ کس طرح ہو رہی ہے؟ ایک مرکز ہے جس کے ماتحت وہ تمام لوگ جن کے دلوں میں اسلام کا درد ہے اکٹھے ہو گئے ہیں اور اجتماعی طور پر اسلام کے غلبہ اور اس کے احیاء کے لئے کوشش کر ہے ہیں وہ بظاہر چند افراد نظر آتے ہیں مگر ان میں ایسی قوت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ بڑے بڑے اہم کام سرانجام دے سکتے ہیں.جس طرح آسمان سے پانی قطروں کی صورت میں گرتا ہے پھر وہی قطرے دھاریں بن جاتی ہیں اور وہی دھار میں ایک بہنے والے دریا کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اس طرح ہمیں زیادہ قوت وشوکت حاصل ہوتی چلی جارہی ہے.....اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں خلافت کی نعمت عطا کی ہے.اور فرمایا: الفضل (ربوه) ۲۵ مارچ ۱۹۵۱ء) تم خوب یاد رکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس دن تم نے اس کو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہوگا.لیکن اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھے رہو گے اور اسے قائم رکھو گے تو پھر اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں ہلاک کرنا چاہے گی تو نہیں

Page 89

کر سکے گی اور تمہارے مقابلہ میں بالکل ناکام و نامراد رہے گی.جیسا کہ مشہور ہے اسفند یار ایسا تھا کہ اس پر تیر اثر نہ کرتا تھا.تمہارے لئے ایسی حالت خلافت کی وجہ سے پیدا ہوسکتی ہے.جب تک تم اس کو پکڑے رکھو گے تو کبھی دنیا کی مخالفت تم پر اثر نہ کر سکے گی.درس القرآن فرمودہ حضرت مصلح موعود ۲ مارچ ۱۹۲۱ء ، درس القرآن صفحہ ۷۲ مطبوعہ نومبر ۱۹۲۱ء بحواله الفضل انٹر نیشنل ۱۳ تا ۱۹ مئی ۲۰۰۵ء) اسی طرح فرمایا: اسلام کبھی ترقی نہیں کر سکتا جب تک خلافت نہ ہو.ہمیشہ خلفاء کے ذریعہ اسلام نے ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا.درس القرآن فرموده حضرت مصلح موعود ۲ مارچ ۱۹۲۱ء ، درس القرآن صفحہ ۷۲ مطبوعہ نومبر ۱۹۲۱ء بحواله الفضل انٹر نیشنل ۱۳ تا ۱۹ مئی ۲۰۰۵ء) پس خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ خلافت کی برکتوں سے ہی عالم اسلام تمکنت ، استحکام،شان وشوکت اور غلبہ حاصل کر سکتا ہے.اس کے علاوہ اور کوئی نظام یا طریقہ کار مذکور نہیں ہے جو اسلام کے لئے ترقی کا موجب بن سکے.(2) امن کی ضمانت خلافت حقہ اسلامیہ کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ جماعت مومنین میں پیدا ہونے والے خوف کو اس کے ذریعہ دور کر دیا جاتا ہے اور مومنوں کو امن واطمینان عطا کیا جاتا ہے.انسانی زندگی خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی ، اس میں نشیب وفراز ، دُکھ سکھ اور خوف وامن کا دور دورہ رہتا ہے.جب ایک قافلہ سوئے منزل روانہ ہوتا ہے تو کبھی پتھریلی چٹانیں اس کے قدموں کو اذیت سے ہمکنار کرتی ہیں تو کہیں سرسبز لہلہاتی کھیتیاں اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی ہیں.کبھی وہ

Page 90

22 تشنہ لبی کا شکار ہوتا ہے تو کبھی پھوٹتے ہوئے چشمے اس کی پیاس کا مداوا کرتے ہیں.وہ قافلہ بھی سکون وقرار سے راہ سفر طے کرتا ہے، اور کبھی راہزنوں کا خوف بھی اسے بے چین کرتا دیتا ہے.مذہبی زندگی بھی فطرت کی انہیں راہوں پر گامزن ہے.کبھی پے در پے ترقیات جماعتِ مومنین کی ہمتیں بلند کرتی ہیں تو کبھی منافقوں کا نفاق اور دشمنوں کی ریشہ دوانیاں اُن کے دلوں میں خوف پیدا کر دیتی ہیں.پیش رفت اور ترقی ، جانب بلندی رخ مثبت ہے جبکہ خوف و تنزل سمت منفی ہے اور جانب در ماندگی وشکست ڈھلوان ہے.خلافت جماعت مومنین کو اس معیار مثبت سے نیچے نہیں جانے دیتی.یہ اسے معیار مثبت سے آگے، اوپر اور اونچار کھنے کا الہی نظام ہے.خلافت ایسی نعمت عظمی ہے کہ اس کے ذریعہ سے جماعت کی ہر خوف کی حالت امن اور اطمینان میں تبدیل کر دی جاتی ہے.کسی بھی خوف سے اس کی ہمتیں ٹوٹتی نہیں بلکہ وہ منضبط ہو کر ایک نئی طاقت اور جذبہ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں.خلافت راشدہ کے زمانہ میں امت مسلمہ پر خوف کے عجیب وغریب حالات پیدا ہوئے اور مومنوں کا ہر خوف خلافت سے وابستگی کے سبب دور ہوتا گیا.ان بیسیوں واقعات کے علاوہ تاریخ اسلام میں ایک حیرت انگیز واقعہ یہ بھی رونما ہوا کہ جب حضرت عثمان کی شہادت کا کر بناک واقعہ پیش آیا تو امت مسلمہ لرزگئی مگر خدا تعالیٰ نے حضرت علی کو خلافت عطا کر کے اُمت کی ڈھارس بندھائی.لیکن ابھی آپ مسند خلافت پر متمکن ہوئے ہی تھے او منافقین کا فتنہ دبتا ہوا نظر آتا تھا کہ خوف کی ایک اور آندھی امیر معاویہ کی صورت میں اُٹھی.ایک خوف دور ہوا تو دوسرے میں تلواروں کی جھنکار سنائی دینے لگی.تلواروں کی اسی جھنکار میں حضرت علیؓ سے حضرت عثمان کے قاتلوں کی سزا کا مطالبہ شدت کے ساتھ ساتھ وحشت بھی اختیار کرنے لگا تو خدا کی تقدیر خلافت کے ذریعہ اس خوف کو دور کرنے کے لئے اس طرح جاری ہوئی کہ امت مسلمہ کے لئے ایک اور خوف کی صورت پیدا کر دی گئی.اور وہ یہ تھی کہ سلطنت روم کا عیسائی بادشاہ مسلمانوں میں خوف و ہراس اور انتشار دیکھ کر اسلامی مملکت پر حملہ کے لئے تلواروں کو آب دینے لگا.اس کی خبر پانے پر وہی معاویہ جو حضرت علی کی مخالفت

Page 91

<^ میں انتہا کو پہنچ رہے تھے ، یک دم رُخ بدل کر روم کے بادشاہ سے مخاطب ہوئے اور یہ کہلا بھیجا کہ وہ یہ نہ سمجھے کہ مسلمانوں میں اختلاف ہے اور اپنی کچلیوں کو ان پر آزمانے لگے.وہ یادر کھے کہ اگر اس نے مملکت اسلامیہ پر حملہ کیا تو سب سے پہلا جرنیل جو حضرت علی کی طرف سے اس کے مقابلہ کے لئے نکلے گا وہ معاویہ ہو گا.چنانچہ رومی بادشاہ، امیر معاویہ کی اس تنبیہہ سے خوفزدہ ہو کر اپنے ارادوں سے باز آ گیا اور اس طرح وہ شدید خوف امن میں بدل گیا.پس یہ خلافت کا عظیم مقام تھا کہ امیر معاویہ جیسا شخص بھی خلیفۃ الرسول حضرت علی سے اپنے بنیادی اختلافات کے باوجود آپ پر قربان ہونے کے لئے تیار تھا.بعینہ امت کے دور آخرین میں ہم نے خلافت کے ذریعہ خوف کو حیرت انگیز طور پر امن میں بدلتے ہوئے دیکھا ہے.تاریخ احمدیت اس پر شاہد ناطق ہے کہ جب بھی جماعت پر خوف و ہراس طاری کرنے کی کوشش کی گئی، خلافت کی برکتوں سے ہر طوفان صورت گرد بیٹھ گیا اور اسی ابتلاء میں جماعت مزید سرعت اور جوانمردی کے ساتھ عزم وحمد کے ایسے ترانے گاتے ہوئے ترقیات کے مدارج طے کرنے لگی.کہے وہ اور ہوں گے جوئیل دریا میں ڈوب مرنے کی ٹھان بیٹھے ہم ایسی موجوں کی کشمکش میں بڑھا کئے ہیں بڑھا کریں گے ہمیں ڈراتا ہے دشتِ ہستی کے خارزاروں سے کیا زمانہ ہم ایسی راہوں پر مسکرا کر چلا کئے ہیں چلا کریں گے ۱۹۷۴ء کے حالات کسی سے مخفی ہیں؟ جب پاکستان کے طول و عرض میں احمدیوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی.دشمنانِ احمدیت نے نہ صرف یہ کہ مخالفت کی آگ میں احمدیوں کے مکانوں، دوکانوں اور جائیدادوں کو جلایا بلکہ اس نے اسی آگ میں اپنے رشتہ ہائے ایمانی بھی بھسم کر دیئے.جماعت کو مٹانے کے لئے ہر انسانیت سوز حربہ استعمال کیا گیا اور ہر وحشتناک چال چلی گئی.لیکن دوسری طرف یہ نظارہ دیکھا گیا کہ وہ بیٹے جن کے باپ ان کی نظروں کے سامنے شہید کئے گئے تھے

Page 92

اور وہ باپ جن کے بیٹوں کو اُن کے رُو بروذ بح کیا گیا، جن کی متاع حیات دشمن کو نا امیدی کے دھوؤں میں تبدیل ہوتی نظر آتی تھی، وہ خلیفہ وقت سے ملے تو آنکھوں میں سکون و اطمینان کی آسودگی بھر گئی.چہرے بشاشت سے کھل اُٹھے، ان کے خوف کی پر چھائیاں قرار کے رنگوں میں بدل گئیں اور زبانیں نغمات تشکر الاپنے لگیں کہ کیا ہوا جو سب مال و اسباب لٹ گیا ، متاع ایمان تو محفوظ رہی.مومن کا یہی تو سرمایہ ہستی ہے کہ جس کے سامنے عزیز سے عزیز ترین چیز بھی بے حقیقت و بے بساط ہے.خلافت کی اس غیر معمولی رحمت اور اس الہی سائبان کے بے بدل سایہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الرابع فرماتے ہیں: خلافت کا کوئی بدل ہی نہیں ہے.ناممکن ہے کہ خلافت کی کوئی متبادل چیز ایسی ہو جو خلافت کی جگہ لے لے اور دل اسی طرح تسکین پا لیں.“ ( خطبه جمعه فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء بمقام پیرس) یہ تو خلافت حلقہ سے وابستہ ان راسخ الایمان مومنوں کا حال تھا.مگر خلیفہ وقت کے ساتھ خدا کا سلوک یہ تھا کہ وہ اپنے پاک الہام سے اسے یہ نوید دے رہا تھا کہ ” وَسِعْ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِيْنَ “ کہ تُو اپنے گھر کو وسیع تر کر.خُدا استہزاء کرنے والے مخالفوں سے خود نپٹ لے گا.پھر جلد ہی اس الہام کے عملی جلوے ظاہر ہونے لگے.ایک طرف تو دشمنوں کی راہیں پاس و حرمان اور بدنصیبی و نا کامی کے کانٹوں سے اٹنے لگیں اور دوسری جانب فجر احمدیت پر ہزاروں شگوفے نکل آئے.غیر احمدی احباب قافلوں کی صورت میں مرکز احمدیت ربوہ کی طرف رجوع کرنے لگے اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے لگے.مکانوں میں وسعت ہوئی.مرکز سلسلہ میں ہر بڑی سے بڑی جگہ چھوٹی ہونے لگی.افق پر چھائی ہوئی خوفناک خطرات کی دبیز گھٹائیں جلد ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی برکتوں اور رحمتوں کی موسلا دھار بارشوں میں تبدیل ہو گئیں.پس خلافت جماعت مومنین کے لئے وہ قلعہ ہے جس کی فصیلیں خوف کی دسترس سے بلند تر

Page 93

۸۰ ہیں.وہ خوف خواہ منافقت کا ہو یا عداوت کا، جنگ کا ہو یا سیاست کا ، کسی گروہ کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف سے، جماعت مومنین ہر حال میں خلافت امن کا نشان اور سلامتی کی ضمانت ہے.بڑی سے بڑی حکومت اور قوی سے قوی طاقت بھی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی.وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ ؟ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا اس پر سند ہے اور اس پر تاریخ کی عملی شہادت یہ ہے کہ جو حکومت بھی خلافت حقہ سے ٹکرائی ، وہ پاش پاش ہوگئی.یہی وہ ضمانت ہے جس کی بناء پر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ببانگ دہل یہ اعلان فرمایا تھا کہ : وو مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور کوئی شخص نہیں جو میرا مقابلہ کر سکے.اگر تم میں کوئی ماں کا بیٹا ایسا موجود ہے جو میرا مقابلہ کرنے کا شوق اپنے دل میں رکھتا ہے تو وہ اب میرے مقابلہ میں اُٹھ کر دیکھ لے.خدا اس کو ذلیل اور رسوا کرے گا بلکہ اسے ہی نہیں اگر دنیا جہان کی تمام طاقتیں مل کر بھی میری خلافت کو نابود کرنا چاہیں گی تو خدا ان کو مچھر کی طرح مسل دے گا.اور ہر ایک جو میرے خلاف بولے گا وہ خاموش کرایا جائے گا اور جو مجھے ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ خود ذلیل و رسوا ہو گا.“ پھر آپ اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو بھی یہی بشارت دی کہ : 66 (خلافت راشدہ.انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۵۹۲) میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہوجائے گا تو....اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی.خلافت فقه اسلامیه صفحه ۱۸ مطبوعه الشرکت الاسلامیدر بوه) خلافت حقہ کے ساتھ وابستہ اسی تقدیر الہی کو یاد کراتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الرابع ” بیان فرماتے ہیں : جس طرح اس احرار موومنٹ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت

Page 94

ΔΙ پر بے انتہا فضلوں کی بارشیں برسا دی تھیں ، میں یہ کامل یقین رکھتا ہوں کہ اس احرار موومنٹ کے نتیجہ میں بھی اتنی عظیم الشان رحمتیں اللہ تعالیٰ کی جماعت پر نازل ہوں گی جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.وہ جماعت آج کچھ اور ہے جس کو احرار نے مٹانے کی کوشش کی تھی ، اس سے آج سینکڑوں گنا زیادہ طاقتور ہے جتنی اس وقت ۱۹۳۳ء و ۱۹۳۲ء میں تھی.آج جس جماعت کو مٹانے کی یہ کوشش کر رہے ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کل یہی جماعت سینکڑوں گنا اُبھرے گی اور چھوٹے چھوٹے ممالک و ہم بھی نہیں کر سکیں گے کہ ہم اکیلے اس جماعت کے او پر حملہ کرنے کا بھی خیال کر سکتے ہیں.اگلی نسلیں جو مخالفتیں دیکھیں گی وہ بڑی بڑی حکومتوں کے اجتماع کی مخالفتیں ہوں گی....یہ چھوٹی چھوٹی چند حکومتیں مل کر جن کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے.جو دنیا سے مانگ کر بلتی ہیں اور ہر چیز میں محتاجی رکھتی ہیں اور خدا نے جو تھوڑا بہت دیا ہے اس پر تکبر کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ خدا کی جماعتوں سے ٹکر لینے کی سوچ رہی ہیں.جماعت کی تقدیر میں یہ لکھا ہوا ہے کہ مشکل راستوں سے گزرے اور ترقیات کے بعد نئی ترقیات کی منازل میں داخل ہو.یہ مشکلات ہی ہیں جو جماعت کی زندگی کا سامان مہیا کرتی ہیں.اس مخالفت کے بعد جو وسیع پیمانے پر مجھے مخالفت نظر آرہی ہے وہ ایک دو حکومتوں کا قصہ نہیں ، اس میں بڑی بڑی حکومتیں مل کر جماعت کو مٹانے کی سازشیں کریں گی اور جتنی بڑی سازشیں ہوں گی اتنی ہی بڑی ناکامی اُن کے مقدر میں بھی لکھ دی جائے گی.مجھ سے پہلے خلفاء نے آئندہ آنے والے خلفاء کو حوصلہ دیا تھا اور کہا تھا کہ تم خدا پر توکل رکھنا اور کسی مخالفت کا خوف نہیں کھانا.میں آئندہ آنے

Page 95

۸۲ والے خلفاء کو خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم بھی حو صلے رکھنا اور میری طرح ہمت وصبر کے مظاہرے کرنا اور دنیا کی کسی طاقت سے خوف نہیں کھانا.وہ خدا جو ادنی مخالفتوں کو مٹانے والا خدا ہے وہ آئندہ آنے والی زیادہ قوی مخالفتوں کو بھی چکنا چور کر کے رکھ دے گا اور دنیا سے ان کے نشان مٹا دے گا.جماعت احمدیہ نے بہر حال فتح کے بعد ایک اور فتح کی منزل میں داخل ہونا ہے.دنیا کی کوئی طاقت اس تقدیر کو بہر حال بدل نہیں سکتی“.خطاب حضرت خلیفہ امسح الرابع فرموده ۲۹ جولائی ۱۹۸۴ء بر موقع پہلا یورپین اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ ) پس نظامِ خلافت کی بنیاد میں ایک طرف ایمان کی مستحکم چٹان پر قائم ہیں اور دوسری طرف اس کی فصیلیں عرشِ رب العالمین کو چھو رہی ہیں.ان حدود میں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اور اس کی حفظ و امان کے جلوے ہر وقت جماعت کے لئے امن وسلامتی اور استحکام و ترقی کا موجب ہیں.(^) کجہتی و اتحاد آیت کریمہ "وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (ال عمران: ۱۰۴) میں : خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سب خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ پیدا نہ کرو.اور فرماتا ہے إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ، ایک وہ وقت تھا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو نبوت کے ذریعہ تمہیں ایسی محبت دی کہ تم بھائی بھائی بن گئے.مگر اب نبوت کے جانے کے بعد پھر بکھر نہ جانا.تم خدا کی رستی مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں اتحاد اور اتفاق کو اسی طرح قائم رکھو جس طرح نبی کے وقت میں تھا.اور اتحاد اور اتفاق قائم رکھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ تم خدا کی رسی کو جو خلافت کی صورت میں تمہیں عطا کی گئی ہے مضبوطی سے تھامے رکھو.نبوت کی جانشینی میں خلافت ہی وہ حبل اللہ ہے کہ جس کے ذریعہ اور جس کی برکت سے تم آپس میں محبت والفت کا نا تا برقرار رکھ سکتے ہو.اس کے بغیر خواہ تم اپنا سرمایہ ہستی خرچ کر ڈالو، خواہ تم کر ہ ارض کی ہر چیز کے دام لگا لو مگر تم صحن

Page 96

۸۳ دل میں ایک دوسرے کے لئے الفت کے پھول نہیں اُگا سکتے.آیتِ کریمہ "لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ (الانفال: ۶۴) ( تو خواہ روئے زمین کی ہر چیز خرچ کر ڈالے پھر بھی ان کے دلوں میں محبت پیدا نہیں کر سکتا ) اسی حقیقت کو بیان کر رہی ہے.حضرت ابوبکر نے بھی اپنی خلافت کے قیام کے ساتھ ہی یہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے تم میں اس لئے خلافت قائم کی ہے کہ تم آپس میں رشتہ محبت والفت میں منسلک رہو.پھر حضرت عثمان کے زمانہ میں جب خلافت کے خلاف فتنہ پردازیاں شروع ہوئیں اور منافق آپ کے قتل کے درپے ہوئے تو آپ نے فرمایا: اگر تم مجھے قتل کرو گے تو بخدا میرے بعد تم میں اتحاد قائم نہیں ہوگا اور کبھی متحد اور مجتمع ہو کر نماز نہیں پڑھ سکو گے اور نہ میرے بعد تم کبھی متحد ہوکر دشمن سے جنگ کر سکو گے.تاریخ الطبرى ذكر الخبر عن قتل عثمان ۳۵ھ) لیکن اس تنبیہہ کے باوجود آخر کار حضرت عثمان شہید کر دئیے گئے تو وہی ہوا جس کی نشاندہی آپ نے فرمائی تھی.یعنی ان پر خلافت کے ذریعہ تانی گئی ردائے الفت و محبت سرکنے لگی تو نعمت اتفاق و اتحاد بھی اٹھنے لگی اور پھر مساجد سے لے کر میدانِ جنگ تک صفیں جُد اجد ا ہونی شروع ہو گئیں.پھر بعد ازاں جب حضرت علیؓ کے زمانہ میں خلافت کی ناقدری شروع ہوئی تو نیچہ ایک طرف آپ کے مفرط حسین کے مستقل گروہ پیدا ہوئے اور دوسری طرف غالی مبغضین اور پھر ان کے در میان بغض و عناد کی خلیج وسیع تر ہوتی گئی.چنانچہ پھر جو مصائب اسلام پر جنگ جمل ، جنگ صفین ، جنگ بصرہ، جنگ ذاب، جنگ مکہ ، جنگ کر بلا وغیرہ کی صورت میں نازل ہوئے ، ان کی دکھ بھری داستانیں اوراق تاریخ میں آج بھی خونتا بہ بار ہیں.جن کے مطالعہ سے مسلمان ادھر آنکھیں اُدھر کف افسوس ملتا رہ جاتا ہے.اور ہر مسلمان اس کا گواہ ہے کہ یہ مصائب دامنِ خلافت کی بے حرمتی کی ہرم وجہ سے مسلمانوں پر ٹوٹے کیونکہ ثبوت کے بعد خلافت ہی امت میں اتحاد و یکجہتی کے قیام کا واحد

Page 97

۸۴ ذریعہ ہے.حضرت خلیفہ المسح الاول کی بصیرت افروز نصائح لوح قلب پر نقش کرنے کے قابل ہیں.آپ نے خلافت کے بارہ میں فرمایا: نیز فرمایا: اور فرمایا : یہی تمہارے لئے با برکت راہ ہے.تم اس حبل اللہ کو اب مضبوط پکڑ لو.یہ بھی خدا ہی کی رہتی ہے جس نے تمہارے متفرق اجزاء کو اکٹھا کر دیا ہے.پس اسے مضبوط پکڑے رکھو“.( بدر یکم فروری ۱۹۲۱ء) تم شکر کرو کہ ایک شخص کے ذریعہ تمہاری جماعت کا شیرازہ قائم ہے.اتفاق بڑی نعمت ہے اور یہ مشکل سے حاصل ہوتا ہے.یہ خدا کا فضل ہے کہ تم کو ایسا شخص دے دیا جو شیر از وحدت قائم رکھے جاتا ہے“.(بدر ۲۴ / اگست ۱۹۱۱ء) میں تم کو نصیحت کرتا ہوں، پھر نصیحت کرتا ہوں، پھر نصیحت کرتا ہوں، پھر نصیحت کرتا ہوں، پھر نصیحت کرتا ہوں، پھر کرتا ہوں، پھر کرتا ہوں، پھر کرتا ہوں ، پھر پھر پھر کرتا ہوں کہ آپس کے تباغض و تحاسد کو دور کرو، یہ مجتہدانہ رنگ چھوڑ دو، جو مجھے نصیحت کرنے میں وقت خرچ کرنا ہے وہ دعا میں خرچ کرو اور اللہ سے فضل چاہو.تمہارے واعظوں کا اثر مجھ بڑھے پر نہیں ہوگا.ادب کو ملحوظ رکھ کر ہر ایک کام کرو.اور یہ میں اپنی بڑائی کے لئے نہیں کہتا بلکہ تمہارے تمہارے ہی بھلے کے لئے کہتا ہوں...یم کے گولے اور زلزلہ سے بھی زیادہ خوفناک یہ بات ہے کہ تم میں وحدت نہ ہو.66 ( بدر ۲۱ /اکتوبر ۱۹۰۹ء)

Page 98

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۸۵ "وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ هُمُ البينت (ال عمران آیت : ۱۰۶) کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ بنو جو گھلے گھلے نشانات آچکنے کے بعد پراگندہ ہو گئے اور انہوں نے باہم اختلاف پیدا کر لیا.اس آیت میں بیان کردہ مثال بتاتی ہے کہ پہلی قو میں بھی اس آیت سے پہلے مذکورہ حبل اللہ کو چھوڑنے کے باعث اختلاف و انتشار کا شکار ہوکر دینی اور روحانی لحاظ سے ہی نہیں تمدنی اور قومی لحاظ سے بھی زوال پذیر ہوئیں.اسی طرح امتِ مسلمہ نے بھی اس منیبہ سے فائدہ نہ اٹھایا تو فرقہ بندی اور تشتت و انتشار کا شکار ہوگئی.اس زیاں بار حقیقت کو ہر دور کا مسلمان محسوس کرتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف خطہائے ارض پر مختلف اوقات میں خلافت کے احیاء کے لئے بار بار تحریکیں اٹھتی رہی ہیں.حتی کہ سعودی عرب میں بھی نظام خلافت کے قیام کی سکیمیں تیار ہوئیں.چنانچہ فیصل آباد پاکستان سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ” وفاق‘‘ نے لکھا: سعودی عرب کے بعض حلقے جو دوبارہ خلافت کے احیاء کی کوشش کر رہے ہیں وہ اپنے اقدام کے جواز میں کہہ رہے ہیں کہ خلافت کا منصب ہی واحد منصب ہے جو دنیائے اسلام کو متحد کرانے کا باعث ہو سکتا ہے اور زمانہ ماضی میں اسی منصب نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو اتحاد کے رشتے میں پرو دیا تھا.(وفاق ۲۱ اکتوبر ۱۹۶۰ء) یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ باوجود تمام تر وسائل کی مالک ہونے کے سعودی حکومت کیوں خلافت قائم نہیں کر سکی ؟ اس کا سادہ سا جواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ وہ خلافت جو اتحاد قائم کرتی ہے انسان کے ہاتھ سے ہر گز قائم نہیں ہوسکتی؟ بلکہ وہ فرماتا ہے: لَوْ أَنْفَقْتَ مَا الْأَرْضِ جَمِيْعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ (انفال: ٢٣) وه

Page 99

ΛΥ اتحاد جو خدا تعالیٰ خود قائم فرماتا ہے اور اس کا ذریعہ نبوت کے بعد اس کی قائم کردہ خلافت ہے جسے وہ حبل اللہ قرار دیتا ہے.اس خلافت کا قیام انسان کے بس کا روگ نہیں.یہ رسی خدا تعالیٰ آسمان سے خود مہیا فرماتا ہے.چنانچہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ اس پر سند ہے.اپنے اس وعدہ کے مطابق خدا تعالیٰ نے اس دور میں اپنے پاک مسیح اور مہدی علیہ السلام کے ذریعہ خلافت کا نظام قائم کر کے اُمتِ مسلمہ کے لئے یکجہتی اور اتحاد کا سامان کیا ہے.پس روئے زمین پر جماعت احمد یہ ہی ایسی جماعت ہے جس میں خدا کی قائم کردہ خلافت علی منہاج النبوة موجود ہے اور اسی کی برکت سے جماعت کے اندر بھی اتحاد و یکجہتی کی نعمت میتر ہے اور بیرونی طور پر مختلف فرقوں اور مذاہب کے لوگ اس میں شامل ہو کر ایک وحدت کی لڑی میں پروئے جارہے ہیں.فالحمد لله على ذلک.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: یہ مسئلہ جس حصہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے وہ وحدت قومی ہے.کوئی جماعت کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک ایک رنگ کی اس میں وحدت نہ پائی جائے.مسلمانوں نے قومی لحاظ سے تنزل اس وقت کیا ہے جب ان میں خلافت نہ رہی.جب خلافت نہ رہی تو وحدت نہ رہی.اور جب وحدت نہ رہی تو ترقی رک گئی اور تنزل شروع ہو گیا کیونکہ خلافت کے بغیر وحدت نہیں ہوسکتی اور وحدت کے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی.ترقی وحدت کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے.وحدت ایک ایسی رہتی ہوتی ہے جو قوم کو باندھے ہوئے ہوتی ہے اور اس قوم کے کمزور بھی طاقتوروں کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے جاتے ہیں.“ (درس القرآن فرموده حضرت مصلح موعود ۲ مارچ ۱۹۲۱ء ، درس القرآن صفحہ ۷۲ مطبوعہ نومبر ۱۹۲۱ء بحواله الفضل انٹرنیشنل ۱۳ تا ۱۹ مئی ۲۰۰۵ء)

Page 100

۸۷ (۹) قیام توحید قرآن کریم بتاتا ہے کہ انبیاء کی بعثت کی بنیادی غرض دنیا میں توحید الہی کا قیام ہے.انہی کے ذریعہ توحید حقیقی سب قوموں میں متعارف،مشتہر اور راسخ ہوئی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلّ أُمَّةٍ رَّسُوْلًا أَنِ اعْبُدُوْا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ“ (النحل:۳۷) ترجمہ: اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور بتوں سے اجتناب کرو.اللہ تعالیٰ کے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اپنے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی مہم کے ظلت میں اور آپ کی اتباع میں یہی فریضہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی سپر د ہوا.لیکن اس میں دیگر انبیاء سے ایک امتیاز یہ ہے آپ اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی سم کے امتی ہونے کی وجہ سے دیگر تمام انبیاء کے پیرایہ میں مبعوث ہوئے نیز آپ رسول اللہ کے نقش قدم پر تمام دنیا اور اس کی تمام قوموں کو دین واحد پر لانے پر مامور ہیں.اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے دو نسج پر کام ضروری تھا.اول یہ کہ تمام مسلمانوں کو ایک مسلک و مذہب میں پرویا جائے اور دوسرے یہ کہ تمام اقوام و ادیانِ عالم کو ایک دین پر جمع کیا جائے.پہلے منصوبہ کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ نوید و ہدایت دی کہ: إِنِّي مَعَكَ يَا بْنَ رَسُوْلِ اللهِ.تمام مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلَى دِيْنِ وَاحِدٍ 66 تذکرہ صفحہ ۵۷۷ ایڈیشن ۱۹۷۷ الهام نومبر ۱۹۰۵ء) کہ اے رسول اللہ ﷺ کے بیٹے! تمام مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں ، دین واحد ( اسلام ) پر جمع کرو.

Page 101

۸۸ اس الہی منصوبہ پر آپ نے اپنی ساری زندگی بھر پور، کامیاب اور نتیجہ خیز کام کیا اور آپ کے بعد اس تقدیر خداوندی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی قدرت ثانیہ یعنی خلافت راشدہ کی نوید دی جس کو آپ نے اپنے رسالہ ” الوصیت میں بیان فرمایا اور کئی ایک اور مقامات پر اس کی تشریح بھی فرمائی.جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں بھی کئی جگہ ہو چکا ہے.قبل ازیں آپ نے خلافت کے تمام خد وخال اپنی بصیرت افروز تصنیف ” شہادۃ القرآن میں بھی بیان فرمائے ہیں.اس الہی منصوبہ کی عالمگیریت کے لحاظ سے دوسرا اقدام یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام بنی نوع انسان کو توحید خالص اور دین واحد یعنی دین محمد م پر جمع کرنے کی ہدایت دی.چنانچہ آپ نے خاص طور پر اپنی بعثت کی اس غرض کا ذکر کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت فرمودہ لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے فرمایا: چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین میں متفرق آبادیوں میں آباد ہیں.کیا یورپ اور کیا ایشیا، ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا بھیجا گیا.سوتم اس مقصد کی پیروی کرو.مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پاکر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو.“ الوصیت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶، ۳۰۷) اس پیغام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی وضاحت کے ساتھ اور غیر مبہم الفاظ میں یہ واضح فرمایا ہے کہ آپ کے بعد اپنے اپنے وقت میں جو افراد خدا تعالیٰ سے روح القدس پا کر

Page 102

۸۹ کھڑے ہوں گے، وہ اسی منصوبہ کو لے کر آگے چلیں گے.توحید کے قیام کے لئے جماعت کا، قوم کا ، امت کا ایک ہاتھ پر جمع ہونا ضروری ہے.اس کے لئے تفرقہ ، اور افتراق ایک مہلک چیز ہے.تفرقہ و افتراق کے اس خدشہ کو دور کرنے کے لئے آپ نے یہ تجویز فرمایا تھا کہ آپ کے وصال کے بعد جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہو، اس وقت تک سب مل کر کام کریں.جب روح القدس سے تائید یافت شخص کو خدا تعالیٰ کھڑا کر دے تو پھر اس کی اتباع آپ کے نام پر بیعت کے ذریعہ ہو.یعنی وہ شخص آپ کا خلیفہ ہے اور آپ کے ظل میں خدا تعالیٰ کا قائم کردہ اور روح القدس سے تائید یافتہ ہے.وہ آپ ہی کے نام پر آپ ہی کے کام کے لئے بیعت لے گا.اسے قائم کرنے کی خدا تعالیٰ کی غرض وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی تھی.یعنی وہ بنی نوع انسان کو دین واحد پر جمع کرنے پر مامور ہے.پس آپ کے بعد یہ خلافت راشدہ کا فرض منصبی ہے.دور مسیح موعود علیہ السلام اور توحید کے قیام کی حقیقت دنیا میں توحید الہی کا علم وہ امام ہوتا ہے جسے خدا تعالیٰ قائم فرماتا ہے.خانہ کعبہ توحید کا وہ نشان ہے جو ظاہری علامت کی صورت میں ہے.اس کے حقیقی نشان اور مرکز آنحضرت ملی یکم تھے.جبکہ دیگر انبیاء اپنے اپنے وقتوں، علاقوں اور قوموں میں آنحضرت دم کی ظلیت میں توحید کے نشان اور مرکز تھے اور اس زمانہ میں اور اس دور میں آپ کے ظلت حقیقی ، امتی اور آپ کے فیض ، نور اور قوت قدسیہ سے یہ مقام پانے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے.اسی نسبت سے پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظلت میں آپ کے بعد آپ کے خلفاء اپنے اپنے وقت کے امام ہیں اور توحید کے Symbol) نشان ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس بلند مقام اور قیام توحید پر مشتمل اس مضمون کو سمجھنے کے لئے حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی مجد دالف ثانی (۹۷۱ تا ۱۰۳۴ھ ) کا حسب ذیل پر عرفان بیان ایک رہنما حقیقت اور اصل الاصول کی حیثیت کا حامل ہے.آپ کے اس بیان میں حقیقت کعبہ، حقیت محمدی، حقیقت احمدی اور حقیقت عیسوی کا ایک ایسا منظر پیش کیا گیا ہے

Page 103

جس سے آخری زمانہ میں قیام توحید کی نوعیت کا عرفان ملتا ہے.آپ فرماتے ہیں : باید دانست که صورت کعبہ بیچناں کہ مسجودصور اشیاء است ، حقیقت کعبه نیز مجود حقائق آں اشیاء است، وَأَقُولُ قَوْلًا عَجَباً لَمْ يَسْمَعْهُ أَحَدٌ وَمَا أَخْبَرَ بِهِ مُخْبِرٌ بِإِعْلَامِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَالْهَامِهِ تَعَالَى إِيَّايَ بِفَضْلِهِ وَ كَرَمِه آنکه بعد از هزار و چند سال از زمانِ رحلت آن سرورِ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّحِيَّاتُ زمانی می آید، که حقیقت محمدی از مقام خود عروج فرماید و به مقام حقیقت احمدی نام یابد و مظہر ذات احد جال سلطانه گردد، و هر دو اسم مبارک بسمی متحقق شود، و مقام سابق از حقیقت محمدی خالی ماند تا زمانے کہ حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نزول فرماید، وعمل بشریعت محمدی نماید عَلَيْهِمَا الصَّلَوَاتُ وَالتَّسْلِيْمَاتُ وَالتَّحِيَّات، درال وقت حقیقت عیسوی از مقام خود عروج فرموده بمقام حقیقت محمدی که خالی مانده بود استقرار کند ( مبدء و معاد مع اردو تر جمه نکته ۴۸ صفحہ ۷۹.ناشر ادارہ مجددیہ ناظم آباد کراچی ۱۹۶۸ء) آپ کی اس تحریر کا ترجمہ جو اسی کتاب میں طبع شدہ ہے ، من وعن یہ ہے کہ : وو جاننا چاہئے کہ جس طرح کعبہ کی صورت چیزوں کی صورتوں کی مسجود ہے، اسی طرح حقیقت کعبہ ان چیزوں کی حقیقتوں کی مسجود ہے.میں ایک عجیب بات کہتا ہوں، جو اس سے پہلے نہ کسی نے سنی اور نہ کسی بنانے والے نے بتائی، جو سبحانہ وتعالی نے اپنے فضل و کرم سے صرف مجھے بتائی اور صرف مجھ پر الہام فرمائی اور وہ بات یہ ہے کہ آں سرور کائنات علیہ وعلی آلہ الصلوات والتسلیمات کے زمانۂ رحلت سے ایک ہزار اور چند سال بعد ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ حقیقت محمدمی اپنے

Page 104

۹۱ مقام سے عروج فرمائے گی اور حقیقت کعبہ کے مقام میں ( رسائی پا کر اس کے ساتھ ) متحد ہو جائے گی.اس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی ہو جائے گا اور وہ ذات احد اللہ سلطانہ کا مظہر بن جائے گی.اور دونوں مبارک نام ( محمد واحمد ) اس مسمی ( مجموعہ حقیقت محمدی و حقیقت کعبہ ) میں متحقق ہو جائیں گے اور حقیقت محمد مکی کا پہلا مقام ( جہاں وہ اس سے پہلے تھی ) خالی رہ جائے گا اور وہ اس وقت تک خالی ہی رہے گا یہانتک کہ حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلواۃ والسلام نزول فرمائیں.اور نزول فرمانے کے بعد شریعت محمدمسی علیہما الصلوات والتسلیمات کے مطابق عمل فرمائیں.اس وقت حقیقت عیسوی اپنے مقام سے عروج کر کے حقیقت محمد سمی کے اس مقام میں جو خالی چلا آ رہا تھا، استقرار پائے گی (یعنی قیام پذیر ہو جائے گی.( مبدء و معاد مع اردو ترجمه ، نکته ۴۸ صفحه ۲۰۶،۲۰۵.ناشر ادارہ مجددیہ ناظم آباد کراچی ۱۹۶۸ء) حضرت مجد دالف ثانی اس میں یہ بیان فرماتے ہیں کہ جس طرح خانہ کعبہ کی ظاہری عمارت،انسان کے ظاہری رُخ اور ظاہری توجہ کی سمت کو معین کرنے کا ذریعہ ہے اور تمام انسانوں کا اس کی جانب رخ کر کے سجدہ کرنا ان کے سجدہ کو ایک مرکزیت اور وحدت عطا کرتا ہے.یہ رُخ ، توجہ اور سجدہ ایک ظاہری چیز ہے، حقیقت نہیں ہے.اور مقام محمدی اصل میں رُخ کعبہ ہے.جبکہ کعبہ کی حقیقت دراصل وراء الوراء ہے یعنی سر چشمہ تو حید ، ذاتِ باری تعالی ہے.روح سجدہ کا رُخ اسی کی سمت ہوتا ہے.یعنی سجدہ کی روح حقیقی اور رخ حقیقی در اصل ذات الہی ہے.پھر آپ نے حقیقت محمد مکی اور اس کے عروج نیز اس کا حقیقت کعبہ سے اتحاد کا ایک خاکہ اور منظر پیش کیا ہے.آپ نے جس طرح یہ منظر پیش فرمایا ہے، ظاہر ہے ایسا منظر کوئی اپنے تصوّ راور خیال سے بیان نہیں کر سکتا.یہ لازما خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو عطا کردہ لدنی علم تھا جس کو آپ نے بیان فرمایا ہے اور اپنے مرشد، خواجہ خواجگان حضرت خواجہ باقی باللہ کی خدمت میں بھی پیش کیا.

Page 105

۹۲ جسے انہوں نے بھی قبول فرمایا.در حقیقت یہ ایک ایسی سچائی ہے جو حضرت مجددالف ثانی " پر خدا تعالیٰ نے روشن فرمائی اور اسے خود عملا متق فرمایا.آپ اس منظر کشی میں آنحضرت ﷺ کے وصال سے ایک ہزار سال کے بعد اس واقعہ کے ظہور کا وقت بیان فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کے ظہور سے قبل تک حقیقت محمد می اپنے مقام پر قائم ہوگی.لیکن پھر وہ اپنے مقام سے عروج کرے گی اور حقیقت کعبہ یعنی ذات باری تعالیٰ سے متحد ہو جائے گی.جس جگہ سے وہ عروج کرے گا وہ جگہ اس وقت تک خالی رہے گی جب تک مسیح موعود کا نزول نہیں ہو جاتا اور وہ اس حقیقت پر قائم نہیں ہو جاتے.یعنی جب مسیح موعود نازل ہوں گے تو حقیقت محمدی پر قائم ہوں گے اور حقیقت محمدی مزید بلند اور رفیع ہو کر توحید حقیقی یعنی حقیقت کعبہ سے متحد ہو جائے گی.یہ منظر سورۃ الجمعہ میں بیان شدہ آنحضرت لم کی دوسری بعثت سے بھی پوری مطابقت رکھتا ہے اور سورۃ النجم کی آیات ” دَنَى فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى “ سے بھی مکمل طور پر ہم آہنگ ہے اور کلمہ طیبہ کی تصویر کشی ہے.آپ کے اس بیان کے مطابق ، اپنے عروج سے قبل جس ٹکنہ توحید پر آنحضرت نے کی ذاتِ والا صفات تھی ، وہ اب حقیقت عیسوی یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے نزول کی حقیقت ہے.یعنی آپ اپنے مطاع آقا حضرت محمد مصطفی کم کے تابع ، امتی اور نقش پا پر قائم ہیں.یہ مقام بلند حقیقت احمدی ہے جس کے مالک در اصل آنحضرت ام ہیں اور آپ ہی کی عطا ہے جو آپ ہی کے موعود مسیح کو نصیب ہوئی ہے..پس اگر حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج کر کے حقیقت کعبہ سے متحد ہو جائے گی.تو اس وقت حقیقت احمدی وہ مقام عالی ہو گا جو عروج سے قبل مقام حقیقت محمدی تھا اور وہ مقام مسیح موعود علیہ السلام کا جائے نزول ہے.اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے بعد آپ کی خلافت بھی اسی تجلی معروج کے باعث خلافت راشدہ ہے جو آپ کے ظل.میں علم توحید، آپ کی نبوت کے کمالات، انوار اور

Page 106

۹۳ برکات سے مرقع و منو ر ہے.لہذا ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد اس دنیا میں آپ کی ظلیت میں آپ کے مقدس خلفاء ہیں جو تو حید کے حقیقی علم ہیں.پس وعدہ الہی کے مطابق اس دنیا میں سلسلۂ خلافت تا قیامت قائم رہے گا اور اسی ذریعہ سے توحید کا قیام ہوگا.توحید کے قیام کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: " آخر تو حید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنے خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہو گا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا.اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا.اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہو گا.کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت کے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں، ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کنارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۰۵) پس اب حقیقی فتح آنحضرت کی ہے اور حتمی غلبہ توحید کا ہے.یہ وہ تقدیر الہی ہے جس کا نفوذ قطعی ہے.انشاء اللہ سنواب وقتِ توحید اتم ہے ستم اب مائلِ ملک عدم ہے

Page 107

۹۴ خدا نے روک ظلمت کی اٹھادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي (1+) قیام عبادت اور شرک سے حفاظت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "يَعْبُدُونَنِيْ لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا “ کہ وہ (مومن جن میں خلافت کے قیام کا وعدہ پورا ہو گا وہ صرف ) میری عبادت کریں گے (اور ) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے.اس قرآنی بیان کی روشنی میں یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ خلافت کی برکات میں سے ایک عظیم برکت یہ بھی ہے کہ نبوت کے بعد اس کے ساتھ عبادت کا حقیقی تصور قائم ہے.يَعْبُدُونَنی میں مومنوں کا انفرادی طور پر بھی اور حیثیت جماعت بھی عبادت پر قائم ہونا بیان ہوا ہے.عبد کے معنے غلام کے ہیں.جس طرح ایک غلام اپنے مالک کا ہر حکم مانتا ہے اور اس کی پابندی اس کی غلامی کا حقیقی تصور ہے.اسی طرح نبوت کی خلق میں خلافت کی پیروی خدا تعالیٰ کے احکام کی پابندی یعنی اس کا عبد بنے کا حقیقی ذریعہ ہے.اسی کے طفیل اور اسی کے ذریعہ تمام بدنی ، زبانی اور مالی عبادتیں اپنے حقیقی قالب میں ڈھلتی ہیں.یہ خدا تعالیٰ کی عبودیت کا اصل تصوّ رہے.ثبوت کے بعد حقیقی امامت کا تصور اور منصب خلافت کے ساتھ وابستہ ہے اور عبادت کا حقیقی تصور بھی امامت کے ساتھ منسلک ہے.پس خلافت راشدہ عبادت وعبود بیت ، دونوں کا مرکزی نفط ٹھہرتی ہے.لہذا جو جماعت اس نعمت عظمی سے محروم ہے وہ عبادت اور عبودیت کے سچے عمل سے بھی محروم ہے.پھر اس کے ساتھ جو لَا يُشْرِ کون بھی شئنا " فرمایا گیا ہے کہ وہ کسی چیز کو میرا شریک شَيْئًا نہیں بنائیں گے.یہ بھی جمع کا صیغہ ہے جو جماعت میں شامل افراد پر بھی چسپاں ہوتا ہے اور پوری

Page 108

۹۵ جماعت پر بھی دلالت کرتا ہے.شرک سے محفوظ رہنے کا یہ وعدہ الہیہ خلافت کے بغیر کسی اور جماعت میں ممکن نہیں ہوتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ خلافت کی نگرانی کے ذریعہ جماعت مومنین پیر پرستیوں ، تو ہم پرستیوں ،ٹونے ٹوٹکوں اور دیگر بے شمار قسم کے مشرکانہ افعال اور غیر اسلامی بد رسومات سے جو انسان کو شرک میں مبتلا کرتے ہیں، محفوظ رکھی جاتی ہے.بحیثیت جماعت شرک سے حفاظت کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا میں موجود مسلمان مذہبی جماعتیں اپنی حکومتوں سے یا اپنے ملک کی سیاسی پارٹیوں سے کچھ نہ کچھ امداد لیتی ہیں جس کی بناء پر ان کے کام چلتے ہیں.یعنی وہ حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں ان مذہبی جماعتوں کی رازق بن جاتی ہیں.جس کی وجہ سے ان کا ان پر ایک حق بلکہ ایک حد تک قبضہ قائم ہو جاتا ہے.اسی حق کی بناء پر وہ انہیں اپنا آلہ کار بناتی ہیں اور ان سے اپنی خواہش اور اپنے مفاد کے کام کراتی ہیں.اس طرح وہ ایک ایسے شرک میں مبتلا ہو جاتی ہیں جو انہیں حقیقتا خدا تعالیٰ سے دور سے دور تر کرتا چلا جاتا ہے.یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جا تا بلکہ بات اور بھی آگے چلتی ہے کہ وہ حکومتیں یا سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی بیرونی طاقت کی بھی آلۂ کار ہوتی ہیں جن کے ذریعہ وہ طاقتیں دوسرے ملکوں میں فساد کرواتی ہیں یا اپنے مفاد قائم کرتی ہیں.لہذا مذ ہبی جماعتیں بیرونی طاقتوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن جاتی ہیں.اس وقت ساری دنیا میں بڑی طاقتیں کم و بیش اسی نہج پر اور اسی طریق سے ملکوں سے وابستہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے ان کی سیاست کو کنٹرول کر رہی ہیں.پس یہ مذہبی جماعتیں خدا تعالیٰ کے دامن کو چھوڑ کر اپنے دنیوی رازقوں کو سجدے کرتی ہیں.اس دور میں سوائے جماعت احمدیہ کے دیگر تمام جماعتیں کسی نہ کسی دنیوی ” معبود کے آگے سجدہ کر رہی ہیں.صرف ایک جماعت احمدیہ ہے جو خلافت کی برکت سے خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور پر انحصار نہیں کرتی اور ان تمام روحانی ذرائع کو بروئے کار لاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی پاک تعلیم اور اسوہ رسول تم پر مبنی ہیں.اس کا رازق صرف خدائے واحد و یگانہ ہے جس پر اس کا بھروسہ ہے اور جس پر خلافت کی بنیاد قائم ہے.اس وجہ سے صرف وہی ایک جماعت ہے جو عبودیت کے حقیقی تصور

Page 109

۹۶ وابستہ ہے اور ہر قسم کے شرک کی لعنت سے کلیۂ دُور ہے.(11) اطاعت منبع سعادت اطاعت خود فراموشی کی منزل حقیقت میں اطاعت خود فروشی اطاعت کے بغیر دنیا کا کوئی نظام نہیں چلتا، اطاعت ہر نظام کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہے.مگر دنیوی نظام میں اطاعت صرف منصب و دولت وغیرہ کے حصول کی خاطر ہوتی ہے جبکہ دین میں اطاعت اور عدم اطاعت کا اثر اُخروی زندگی پر بھی پڑتا ہے.اسی اطاعت پر ایمان اور عدم ایمان کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے.قرآنِ کریم کی رُو سے اطاعت کرنے والا مومن اور انکار کرنے والا فاسق کہلاتا ہے.اطاعت خلافت ایک نعمت ہے جو رضائے باری تعالیٰ کی صورت میں مومن کو ملتی ہے.جس طرح نبوت پر ایمان یا اس کے انکار کی صورت میں انسان خدا تعالیٰ کی رضا یا اُس کی ناراضگی کا مورد بنتا ہے اسی طرح خلافت پر ایمان یا اس کا انکار اللہ تعالیٰ کی خوشنودی یا نا راضگی کا موجب ہے.خدا تعالیٰ نے اطاعت کی اس عظیم الشان نعمت کا اظہار تصوّرِ خلافت کے ساتھ ہی باندھ دیا تھا.چنانچہ حضرت آدم کا واقعہ بیان فرما کر بتایا کہ انسان کی تمام تر سعادتیں جذبہ اطاعت میں مضمر ہیں اور تمام تر شقاوتیں نافرمانی کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں.سعادتوں کا یہ سر چشمہ نبوت کے بعد خلافت ہے جس سے پہلو تہی دامن فسق سے ہمکنار کرتی ہے.(مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الفسقُونَ ) یہی اطاعت ہے جس کی حقیقی روح اور حسن لفظ ” سجدہ میں مضمر ہے.اسے ادا کرنے والا روح ملائکہ اور اس کا منکر بدروح ابلیس رکھتا ہے.چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل فرماتے تھے: اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا خلیفہ بنا دیا.جواس کی مخالفت کرتا ہے وہ جھوٹا اور فاسق ہے.فرشتے بن کر اطاعت و فرمانبرداری کرو.ابلیس نہ بنو.( بدر ۴ جولائی (۱۹۲ء)

Page 110

نیز فرمایا: ۹۷ اور فرمایا: ہے کہ چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے.تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مُردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں ( خطبات نور صفحه ۱۳۱ مطبوعه قادیان ۲۰۰۳ء) ”اگر تم میری بیعت کرنا چاہتے ہو تو سن لو بیعت پک جانے کا نام ہے.ایک دفعہ حضرت نے مجھے اشارہ فرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا.سو اس کے بعد میری ساری عزت اور سارا خیال انہی سے وابستہ ہو گیا اور میں نے کبھی وطن کا خیال تک نہیں کیا.پس بیعت کرنا ایک مشکل امر ہے.ایک شخص دوسرے کے لئے اپنی تمام تربیت اور بلند پروازیوں کو چھوڑ دیتا ہے.( بدر ۲ / جون ۱۹۰۸ء) آیت استخلاف سے منسلکہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اطاعت خلیفہ کا دوسرا پہلو یہ بیان فرمایا ” وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكَوةَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ“ (النور: ۵۷) ترجمہ: اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.آیت استخلاف کے بعد اس آیت کا مضمون بتاتا ہے کہ نبوت کے بعد اس کی اطاعت خلافت کے ساتھ وابستہ ہے.اس کے بغیر رسول کی اطاعت کا حق ادا نہیں ہوتا.نیز بتایا کہ یہی

Page 111

۹۸ اطاعت کی نعمت ہے جو خدا کی رحمتوں کا امید وار اور وارث بناتی ہے اور اسی منصب کی نافرمانی خدا کی رحمتوں سے دور کرتی ہے اور مایوسی کی تاریکیوں میں اتارتی ہے.یہی وجوہات ہیں کہ جن کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور آنحضرت ہم نے احادیث میں بڑی کثرت کے ساتھ اطاعت پر زور دیا ہے کیونکہ ہر نظام کے استحکام اور اس کی مضبوطی کا دارو مدار اطاعت پر ہے مگر جماعت مومنین کی زندگی کا دارو مدار اور اس کی ترقی کا انحصار خاص طور پر اطاعت خلافت پر اور اس کے نظام کی ہرا کائی کی اطاعت اور تابعداری پر ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں: ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے.......ہزار دفعہ کو ئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں، ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں خدا کے حضور اس کے ان دعووں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.جب تک جماعت کا ہر شخص اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہرلمحہ بسر نہیں کرتا اس وقت تک کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہوسکتا“.اسی طرح آپ نے تاکید فرمائی کہ منہ سے نکلے وہ عمل کئے بغیر نہیں چھوڑ نا“.(افضل ۱۵ نومبر ۱۹۶۴ صفحه ۶) ” خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہر فردشاگرد.جو لفظ بھی خلیفہ کے ( الفضل ۲ / مارچ ۱۹۷۴ء صفحه ۳) اطاعت خلافت کیوں جزو ایمان ہے ؟ اس کا عرفان دیتے ہوئے حضرت سید محمد اسمعیل شہید لکھتے ہیں کہ شریعت در اصل کتاب اللہ سنتِ رسول اور احکام خلیفتہ اللہ کا نام ہے اس لئے اس

Page 112

۹۹ کی اطاعت ایک مومن کے ایمان کا جزو لازم ہے.امام وقت کے احکام بھی شریعت کا جزو ہیں.آپ فرماتے ہیں: پس شرع، مجموعہ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ اور احکامِ خلیفہ اللہ سے مستفادہ شدہ امور سے مراد ہے.پس جیسا کہ کتاب و سنت اصولِ دینِ متین سے ہے، ایسا ہی حکم امام بھی ادلہ شرع مبین سے ہے.اور جس طرح سنت کو کتاب اللہ سے دوسرا درجہ حاصل ہے، ایسا ہی حکم امام ، سنتِ رسول سے دوسرے درجہ پر ہے.پس اصل کتاب اللہ ہے اور اسے واضح کرنے والی سنت نبوی اور ممبین امام ہے.کتاب اللہ پر ایمان سب سے اول ہے اور ایمان بالرسول بعدہ اور خلیفتہ اللہ پر یقین تیسرے درجہ پر.چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا أَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ أُوْلِي الأمْرِ مِنْكُمْ (النساء) اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے اولی الامر ہیں ان کی بھی تابعداری کرو.نبی لم نے فرمایا ہے : عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّينَ.میرا اور میرے خلفائے راشدین کا طریقہ لازم پکڑو.“ منصب امامت از حضرت سید محد اسمعیل شہید ( مترجم ) صفحه ۹۱ مطبوعه ۱۹۳۹ ، نا شرحکیم محمد حسین مومن پورہ لاہور ) (۱۲) حصار ایمان خلافت کے ذریعہ ملنے والی تمام برکتوں کے ہمراہ ایک یہ عظیم الشان برکت بھی جماعت مومنین کو عطا ہوتی ہے کہ بحیثیت جماعت مومن ہر قسم کی ایمانی، اخلاقی اور روحانی لغزشوں اور گمراہیوں سے بچ جاتے ہیں.خلافت ایک حصار ہے جو جماعت کو دشمنوں کے شیطانی ارادوں اور

Page 113

طاغوتی حملوں سے محفوظ و مصئون رکھتا ہے.خلافت خدا داد ہدایت سے جماعت کے لئے راہنمائی کے سامان کرتی ہے.خدا تعالیٰ کے قائم کردہ ایک امام کے ہاتھ کے ساتھ اٹھنے والی اور اس کے ہاتھ کے گرنے کے ساتھ بیٹھ جانے والی جماعت نہ راہ سداد سے بھٹک سکتی ہے اور نہ ہی گمراہی کی تاریکی ان کے دلوں کو ڈھانپ سکتی ہے؟ کیونکہ يَدُ اللهِ فَوْقَ الْجَمَاعَةِ “ ( کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے ) کی نوید بھی اسی جماعت کے لئے ہے.خلافت راشدہ اولیٰ کے زمانہ میں منافقوں نے جب خلافت پر نکتہ چینیاں شروع کیں اور خلافت کی قدرومنزلت کم کرنے کے لئے اوہام اور وساوس کا جال بچھا دیا تو ایک عظیم المرتبت صحابی حضرت حنظلہ الکاتب نے اس نعمت خداوندی کی ناشکری ہوتے دیکھی تو تعجب کے ساتھ فرمایا : عَجِبْتُ لِمَا يَخُوضُ النَّاسُ فِيْهِ يَرُوْمُوْنَ الْخِلَافَةَ أَنْ تَزُولاً وَلَوْ زَالَتْ لَزَالَ الْخَيْرُ عَنْهُمْ وَ لَاقَوْا بَعْدَهَا ذُلَّا ذَلِيْلًا وَكَانُوْا كَالْيَهُوْدِ أَوِ النَّصَارَى سَوَاءٌ كُلُّهُمْ ضَلُّوْا السَّبِيْلاً (الکامل فی التاریخ ابن اثیر حالات ذکر مقتل عثمان الناشر دار الكتب العلمیة بیروت) کہ مجھے تعجب ہوا ہے ان لوگوں پر جو خلافت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنارہے ہیں کہ یہ ختم ہو جائے.اور اگر یہ ختم ہوگئی تو ہر بھلائی ان سے جاتی رہے گی اور اس کے بعد وہ ذلالت کی گہرائیوں میں جاگریں گے.اور پھر وہ یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح ہو جائیں گے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ ہی برابر کے گم کردہ راہ ہیں.تاریخ اسلام گواہ ہے کہ حضرت حنظلہ الکاتب کی بصیرت افروز تنبیہہ سے روگردانی کرنے والوں نے جب خلافت کی قدر نہ کی تو ان کی مرکزیت ختم ہوگئی اور وہ منتشر ہو کر ان تمام عواقب سے دو چار ہوئے جن سے حضرت حنظلہ الکاتب نے آگاہ کیا تھا.

Page 114

1+1 (۱۳) نزول و تائید ملائکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ملائکہ اور روح القدس کا تنزل یعنی آسمان سے اتر نا اسی وقت ہوتا ہے جب ایک عظیم الشان آدمی خلعت خلافت پہن کر اور کلام الہی سے شرف پا کر زمین پر نزول فرماتا ہے روح القدس خاص طور پر اس خلیفہ کو ملتی ہے اور جو اس کے ساتھ ملائکہ ہیں وہ تمام دنیا کے مستعد دلوں پر نازل کئے جاتے ہیں.“ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۲ حاشیه ) موت کی جانشینی میں منصب خلافت جامع جملہ برکات الہیہ ہے.جو شخص خلافت سے وابستہ ہو جاتا ہے ملائکۃ اللہ کی حفاظت میں آجاتا ہے.وہ سوتا ہے تو فرشتے اس کے لئے جاگتے ہیں.وہ دشمن سے بے خبر ہوتا ہے تو فرشتے اس کی حفاظت اور اس کا دفاع کرتے ہیں.کوئی مومن اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ حضرت ابو بکر نے جب حضرت اسامہ والے لشکر کو روانہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے مدینہ کی حفاظت کے لئے فرشتے مقرر فرما دیے تھے جو اسلام کی حفاظت کے ذمہ دار ہو گئے تھے گویا وعدہ البى أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ منزلين (ال عمران : ۱۲۴) وہاں بھی پورا ہورہا تھا کہ تمہارا رب آسمان سے اترنے والے تین ہزار فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کرے گا“.اس آیت میں گورسول اللہ علم کے زمانہ کی ایک جنگ میں نزول ملائکہ کا ذکر ہے لیکن جو حالات اس وقت مدینہ کے تھے وہ حالتِ جنگ سے چنداں مختلف نہ تھے.خلیفہ راشد چونکہ رسول کی صفات کا مظہر ہوتا ہے اس لئے رسول کے ظلت میں خلیفہ راشد سے بھی ویسی ہی تائید ملائکہ وابستہ ہے جیسی رسول سے ہوتی ہے.جیسا کہ آیتِ کریمہ إِنَّا لَنَنْصُرُ

Page 115

۱۰۲ رُسَلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِى الْحَياةِ الدُّنْيَا وَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْأَشْهَادُ “ (المومن : ۵۲) اس پر دال ہے کہ یقینا ہم اپنے رسولوں کی اور ان کی جو ایمان لائے ، اس دنیا کی زندگی میں بھی مددکریں گے اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے کئے جائیں گے.فرشتے خلافت کی وجہ سے مومنوں کے لئے حفاظت و مدد کے سامان کرتے ہیں.چنانچہ جب حضرت عثمان کے خلاف منافق اٹھے تو اسی حقیقت کو حضرت عبداللہ بن سلام نے فتنہ پردازوں کے سامنے کھلی کھلی تنبیہہ کی صورت میں پیش کیا اور بتایا کہ دراصل خلافت کا وجود مومنوں کے لئے تائید وعون ملائکہ کا سبب ہے.فرمایا: فَوَاللَّهِ إِنْ سَلَلْتُمُوْهُ لَا تَعْمَدُوْهُ وَيْلَكُمْ !........فَإِنْ قَتَلْتُمُوهُ لَا يَقُوْمُ إِلَّا بِالسَّيْفِ، وَيْلَكُمْ إِنَّ مَدِيْنَتَكُمْ مَحْفُوفَةٌ بِمَلَائِكَةِ اللهِ، وَاللَّهِ إِنْ قَتَلْتُمُوهُ لَتَتْرَكُنَّهَا ، 66 (طبری.ذکر الخبر عن قتل عثمان بن عفان) کہ اگر تم نے ( حضرت عثمان کو قتل کیا تو وہ تلوار جو اس وقت نیام میں ہے اگر بے نیام ہوگئی تو پھر وہ قیامت تک نیام میں نہ جا سکے گی.اگر تم نے ( حضرت عثمان ) کو قتل کیا ( اور خلافت کے نظام کو پامال کرنے کی کوشش کی) تو یا درکھنا کہ مدینہ جس کو اللہ تعالیٰ کے فرشتے گھیرے ہوئے ہیں وہ مدینہ چھوڑ جائیں گے.یہ اس لئے ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازل سے ہی خلافت کی اطاعت اور اس کے کاموں کے لئے فرشتوں کو مامور کیا ہے.چنانچہ خلیفہ راشد کی اطاعت کرنے والے علی قدر ظرف واستطاعت فرشتوں کی صفات سے متصف ہوتے ہیں.اس طرح وہ ایک لحاظ سے فرشتوں کے ہم جنس بنتے ہیں تو آسمان سے ملائکتہ اللہ کا اس زمین میں اپنے ان ہم صفات لوگوں پر نزول ہوتا ہے اور وہ ان کی مدد کرتے ہیں.خلافت کے ذریعہ نزولِ ملائکہ کے بارہ میں حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں:

Page 116

١٠٣ وو ملائکہ سے فیوض حاصل کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ خلفاء سے مخلصانہ تعلق قائم رکھا جائے اور ان کی اطاعت کی جائے.بچے خلفاء سے تعلق رکھنا ملائکہ سے تعلق پیدا کر دیتا اور انسان کو انوار الہیہ کا مہبط بنادیتا ہے.“ (۱۴) تجدید دین ( تفسیر کبیر جلد ۲ صفحه ۵۶۱) خلافتِ راشدہ کی ایک بڑی برکت دینِ اسلام کی تجدید ہے.چنانچہ آنحضرت ہم نے امت کو یہ خوشخبری بھی دی : " إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهذِهِ الْأُمَّةِ عَلى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا (مشکوۃ کتاب الفتن ) کہ یقینا اللہ تعالیٰ اس اُمت کے لئے ہر صدی کے سر پر دین کی تجدید کرنے والا بھیجتا رہے گا.اس حدیث کی رُو سے امت مسلمہ پر کوئی ایسی صدی نہیں آتی جس میں آنحضرت ام کی حقیقی تعلیم دنیا سے رُوپوش ہو جائے.یعنی آپ کی کامل اتباع اور جانشینی میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو خدا تعالیٰ کی راہنمائی کے ساتھ تعلیمات اسلام کو قائم رکھنے والے، اُمت کو دینِ مصطفیٰ " پر چلانے والے اور بدعات و بدرسومات کا قلع قمع کرنے والے ہوں گے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے بعد عائم اسلام میں کثرت سے ایسے وجود پیدا ہوئے.امت مسلمہ کی چودہ صدیوں میں ایسے ہزاروں جانشین رسول جو اس حدیث کے مصداق ہیں خلافت، ولایت اور امامت کے لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں، انہیں کہیں مجد دین کے مقام پر خلافت رسول کی خلعت عطا ہوئی اور کہیں وہ اولیاء اللہ ، ابدال اور اقطاب کے پاکیزہ مراتب میں اس

Page 117

۱۰۴ منصب پر فائز ہوتے گئے.ان سب کا فرض اولین تجدید دین تھا.چنانچہ حدیث نبوی مَا كَانَتْ نُّبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَبِعَتُهَا خِلَافَةٌ ( کہ ہر نبوت کے بعد خلافت کا اجراء ہوتا ہے ) کئی رنگوں میں پوری ہوتی رہی.تجدید کے معنی کسی چیز کو نئے کرنے کے ہیں.خلافت کی عدم موجودگی میں مجد دین دو طرح سے تجدید دین کرتے تھے.ایک یہ کہ دین میں اگر کسی جگہ بدعات ورسوم کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوتا تو وہ اس کی تصحیح کر کے دین کو خالص رکھنے کی کوشش کرتے تھے.اور دوسرے یہ کہ مومنوں کے ایمان کی تجدید کے سامان کرتے تھے.یعنی مومنوں کے اعمال کی اصلاح اور ان کے ایمان کی تجدید کا نام مجد دیت ہے.پس یہ صلحاء مومنوں کے اعمال کی اصلاح اور ایمان کو سلامت رکھنے اور اسے کمزور ہونے یا بگڑنے سے بچانے کا موجب تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : " خلیفہ کے معنے جانشین کے ہیں جو تجدید دین کرے.نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے اس کو دور کرنے کے واسطے جو اُن کی جگہ آتے ہیں انہیں خلیفہ کہا جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد ۴ صفحه ۳۸۳) نبی کی جانشینی میں ایک بلند ترین مقام پر فائز ہونے اور نظام خلافت کے مالک ہونے کی وجہ سے تجدید دین کا فریضہ ادا کرنے والے ان پاک وجودوں میں خلیفہ راشد کا مقام سب سے بلند ہے.لیکن مسیح موعود جو احادیث میں مہدی اور نبی کے نام سے بھی موسوم کیا گیا وہ مجد داعظم ہونے کی وجہ سے خائم الخلفاء بھی ہے اور اس حدیث مجد د کے انتہائی بلند اور اعلی ترین مقام پر فائز ہونے کے باعث خاتم المجد دین بھی ہے.جیسا کہ دیو بندی فرقہ کے بانی مولا نا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے قاری محمد طیب صاحب مہتم دارالعلوم دیو بند آنے والے مسیح کی شان بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جب خاتم الد جالین کا اصلی مقابلہ تو خاتم النبیین سے ہے مگر اس مقابلہ کے لئے نہ حضور کا دنیا میں تشریف لانا

Page 118

۱۰۵ مناسب ، نہ صدیوں باقی رکھا جانا شایانِ شان ، نہ زمانہ نبوی میں مقابلہ ختم قرار دیا جانا مصلحت اور ادھر ختم دجالیت کے استیصال کے لئے چھوٹی موٹی روحانیت تو کیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی.عام مجد دین اور ارباب ولایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ برآ نہ ہو سکتے تھے جب تک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے.بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک موقر نہ تھی جب تک کہ اس کے ساتھ ختم نبوت کا پاور شامل نہ ہو تو پھر شکست دجالتیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ اس دقبال اعظم کو نیست و نابود کرنے کے لئے امت میں ایک ایسا خاتم المجد دین آئے جو خاتم النبیین کی غیر معمولی قوت کو اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتم النبیین سے ایسی مناسبت تامہ رکھتا ہو کہ اس کا مقابلہ بعینہ خاتم النبیین کا مقابلہ ہو.مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کی روحانیت کا انجذاب اسی مجد د کا قلب کر سکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہو.محض مرتبہ ولایت میں یہ حمل کہاں کہ وہ درجہ نبوت بھی برداشت کر سکے.چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندرا تار سکے.نہیں بلکہ اس انعکاس کے لئے ایک ایسے نبوت آشنا قلب کی ضرورت تھی جو فی الجملہ خاتمیت کی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہو.تا کہ خاتم مطلق کے کمالات کا عکس اس میں اتر سکے اور ساتھ ہی اس خاتم مطلق کی ختم نبوت میں فرق بھی نہ آئے.اس کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ انبیائے سابقین میں سے کسی نبی کو جو ایک حد تک خاتمیت کی شان رکھتا ہو اس امت میں مجد د کی حیثیت سے لایا جائے.جو طاقت تو موت کی لئے ہو مگر اپنی نبوت کا منصب تبلیغ اور مرتبہ تشریح لئے نہ ہو بلکہ ایک امتی کی حیثیت سے اس امت میں کام کرے اور

Page 119

خاتم النبیین کے کمالات کو اپنے واسطے سے استعمال میں لائے.“ تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام - صفحہ ۲۲۹،۲۲۸.ایڈیشن اول مطبوعہ مئی ۱۹۸۶ء نفیس اکیڈمی کراچی) حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں.چونکہ یہ آخری ہزار ہے.اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سر پر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظن کے ہو کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجد دصدی بھی ہے اور مجد والف آخر بھی.“ اسی طرح فرمایا: لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۰۸) إِنِّي عَلَى مَقَامِ الْخَتْمِ مِنَ الْوِلَايَةِ كَمَا كَانَ سَيِّدِى المُصْطَفَى عَلى مَقَامِ الْخَتْم مِنَ النُّبُوَّةِ وَإِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنَا خَاتَمُ الْاَوْلِيَاءِ لَا وَليَّ بَعْدِى إِلَّا الَّذِي هُوَ مِنِّي وَ عَلَى عَهْدِى“ (خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۷۰،۹۶) ترجمہ: میں اسی طرح ولایت کے مقام ختم پر فائز ہوں جس طرح میرے آقا حضرت محمد مصطفی مسی یکم نبوت کے مقام ختم پر فائز تھے.آپ خاتم الانبیاء ہیں اور میں خاتم الاولیاء ہوں.اب میرے بعد کوئی ولی نہیں بجز اس کے جو میرا ہو اور میرے طریق پر ہو.حدیث نبوی کے مطابق مسیح موعود کی نبوت کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوة (از راہِ نبوت اور معیار نبوت پر خلافت کا قیام ہوا اور حضرت مسیح موعود نے اپنے بعد اس خلافتِ راشدہ کو دائگی اور قیامت تک قرار دیا ہے.پس اب اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے مقدر کر دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے فن میں خلافت کے ذریعہ تجدید دین کے سامان کرے گا.یہ سلسلہ اب آپ کی

Page 120

۱۰۷ جماعت اور آپ کے عہد میں قائم خلافت سے باہر نہیں ہوگا.چنانچہ حضرت خلیفہ المسح الثانی فرماتے ہیں: وو خلیفہ تو خود مجد دسے بڑا ہوتا ہے اور اس کا کام ہی احکامِ شریعت کو نافذ کرنا اور دین کو قائم کرنا ہوتا ہے.پھر اس کی موجودگی میں مجد دکس طرح آسکتا ہے.ای طرح حضرت خلیلة اسمع الثالث نے فرمایا: ( الفضل ۸ /اپریل ۱۹۸۴ء) لفظ مجد دقرآن کریم میں کہیں موجود نہیں ہے.دراصل مجد دوالی حدیث کی تفسیر آیت استخلاف میں مضمر ہے جس میں خلافت کے ساتھ تجدید دین کو وابستہ کر دیا گیا ہے.الفضل نے رنومبر ۱۹۷۷ء) پس خلافتِ راشدہ کی موجودگی میں اس کے مقابل پر یا اس سے الگ کسی مجددیت کا تصو ركلميه غلط ، فضول اور عبث ہے.تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جب بھی دینِ اسلام میں بڑی بدعات پیدا ہوئیں تو دراصل انہیں خلافتِ راشدہ نے ہی ختم کیا.تمام بڑے بڑے بگاڑ خلافت کے ذریعہ ہی دور ہوئے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جب شرک پھیلنے کا اندیشہ ہوا اور یہ گمان ہونے لگا کہ آنحضرت ﷺ فوت نہیں ہو سکتے اور آپ عارضی طور پر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں حتی کہ حضرت عمرؓ نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو یہ کہے گا کہ آنحضرت یم فوت ہو گئے ہیں ، آپ اس کا سرتن سے جدا کر دیں گے.اس صورت حال میں کسی کو جرات نہ تھی کہ حضرت عمر کی اس بات کو رڈ کر سکتا.مگر آنحضرت کے جانشین بننے والے شخص حضرت ابو بکر نے اس وسوسہ کو الہی نصرت اور کمال جرأت کے ساتھ دور کیا اور قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ کہ محمد صرف ایک رسول ہیں آپ سے قبل تمام رسول وفات پاچکے ہیں.چنانچہ حضرت

Page 121

۱۰۸ عمر اور دوسرے صحابہ اس منطقی نتیجہ پر پہنچ گئے کہ محمد بھی ایک رسول ہیں لہذا آپ کے لئے بھی جان جانِ آفرین کے سپر د کر نا مقدر ہے بلکہ آپ معملاً اس تقدیر کے نیچے آچکے ہیں.اسی طرح صحابہ نے حضرت ابو بکر کو مشورہ دیا کہ حالات کی نزاکت کے باعث وہ لشکر جو نبی اکرم نے تیار کیا تھا اسے روک دیں، یہ نہ ہو کہ دشمن بعد میں مدینہ پر حملہ کر کے اسلام کو نقصان پہنچائے.اس موقع پر حضرت ابو بکڑ نے بڑے جلال سے فرمایا کہ اگر درندے ہماری لاشوں کو مدینہ کی گلیوں میں بھی گھسیٹتے پھریں تو بھی میں اس لشکر کی روانگی نہیں روک سکتا جس کو بھجوانے کا رسول اللہ لم نے ارشاد فرمایا ہو.پس اگر حضرت ابو بکر یہ لشکر روک دیتے تو غیر محسوس طور پر یہ بدعت قائم ہو جاتی کہ رسول اللہ سلم کے احکام کو ٹالا جاسکتا ہے اور پھر احکام رسول سے اعراض کا مستقل جواز پیدا کر لیا جاتا اور نتیجہ یہ بدعت تعلیمات رسول کی ہیئت اور دین اسلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتی.اسی طرح احکام شریعت کو ٹالنے کی ایک یہ رو بھی اٹھی کہ بعض قبائل نے از راہ بغاوت زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر نے بنیادی طور پر اس تحریک کو ختم کر کے رکھ دیا کیونکہ شریعت پر عمل کرنا ہر صاحب ایمان کے لئے ضروری ہے اور جو اسلام کا اقرار کرتا ہے، اُسے ارکانِ اسلام کا پابند ہونا ضروری ہے.چنانچہ آپ نے اس اصولی موقف پر قائم ہو کر بڑے عزم سے فرمایا : لَوْ مَنَعُوْنِيْ عِقَالًا لَجَاهَدْتُهُمْ عَلَيْهِ “ کہ اگر وہ مجھے زکوۃ میں ایک ریٹی تک دینے سے انکار کریں گے تو میں اس کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کروں گا.پھر حضرت عثمان کے زمانہ میں منافقین نے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کو منصب خلافت سے اتارنے کا یہ مطالبہ کیا تو آپ نے اس گمراہ گن مطالبہ کو انتہائی استقلال سے رڈ کیا اور فرمایا: "ما كُنْتُ لِاخْلَعَ سِرْ بالا سِرْ بَلَنِيْهِ اللهُ تَعَالیٰ “ کہ ردائے خلافت جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے وہ میں ہرگز نہیں اتار سکتا.تاریخ الطبرى ذكر الخبر عن قتل عثمان - ۳۵ھ) جس طرح نبوت خدا تعالیٰ کی ایسی عطا ہے کہ اسے دنیا کی کوئی طاقت یا حکومت نبی سے

Page 122

1+9 چھین نہیں سکتا، اسی طرح خدا کے قائم کردہ خلیفہ کو دنیا کی کوئی طاقت مسند خلافت سے نہیں اتار سکتی.اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں بھی نعمت خلافت کی ناشکری کرنے والے جب پیدا ہوئے اور یہ کھنے لگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کی کوئی خاص ضرورت نہیں یعنی آپ کے خلیفہ اول کو ردائے خلافت اتار دینی چاہئے تو حضرت حکیم نورالدین خلیفہ امسیح الاول نے حضرت عثمان کی طرح بڑی تحدّی سے فرمایا : ” مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے....خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی.خدا تعالیٰ نے معزول کرنا ہوگا تو مجھے موت دے گا.تم اس معاملہ کو خدا کے حوالہ کر دوتم معزول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے“.(الحکم ۲۱ جنوری ۱۹۱۳ء) پس جس قدر بڑے معاملات تھے بڑے منصب کے مجد دین یعنی خلفائے راشدین نے حل کئے اور انہوں نے بدعات و بد رسومات کے بڑے بڑے طوفانوں کا مقابلہ کیا اور دین کی تجدید کی.پھر ان کے بعد رخ اسلام سے بدعات کی گرد جھاڑنے کے لئے اولیاء اللہ کا ایک طویل سلسلہ چلا جس میں سے ہر ایک نے اپنی استعداد اور بساط کے مطابق تجدید دین کی.بالآخر یہ سلسلہ بھی قریب الاختتام ہوا اور امت ضلال مبین میں مبتلا ہو کر آنحضرت ام کی حسب ذیل پیشگوئیوں کا نقشہ پیش کرنے لگی: "لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلا اِسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى عُلَمَاءُ هُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ “ 66 (مقلوة كتاب العلم) کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف نقوش رہ جائیں گے، مسجدیں بظاہر آبا دیگر ہدایت سے خالی ہوں گی.لوگوں کے علماء آسمان تلے ہر مخلوق سے بدتر ہوں گے.اور

Page 123

11.يُقْبَضُ الْعُلَمَاءُ حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِماً، إِتَّخَذَ النَّاسُ رُؤْسًا جهالًا فَافْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَ أَضَلُّوْا ، (مشكوة كتاب العلم) کہ اللہ تعالیٰ حقیقی علماء کو اٹھالے گا پھر جب کوئی عالم نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنا لیں گے.پھر جب ان سے دین کی باتیں پوچھی جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے اور خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، کا نقشہ پیش کرنے لگی.روحانیت سے دل تہی اور سینہ اسلام سے خالی ہو گیا.دینِ اسلام روایات کا مجموعہ بن کر شرک و بدعات سے بھر گیا.مسلمان عارضِ اسلام کو غازہ انوار الہیہ سے خالی اور بے رونق دیکھ کر خزاں رسیدہ پتوں کی طرح عیسائیت کی گود میں گرنے لگے.حیات مسیح جیسے مہلک عقیدہ نے اسلام کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دین مصطفی کی پاسبانی کے لئے خاتم الخلفاء مجد داعظم مسیح موعود کا سر صلیب کو خلافت نبوت کے ساتھ بھیجا.آپ نے ایک دفعہ پھر زندہ نشانات اور پیغمبرانہ منجزات سے حسنِ اسلام کو تابندہ کر دیا.آپ نے اپنے فرائض منصبی کے طور پر صفت مسیحیت سے عیسائیت اور غیر مذاہب کو ہدایت کی طرف بلایا اور صفتِ مہدویت کے ناتے مسلمانوں کی اصلاح کی اور تجدید دین کا بیڑہ اس طرح اٹھایا کہ اسلام ایک بار پھر نیا نکور کر کے دیگر ادیان پر غالب، بالا اور اعلیٰ ثابت کیا.مسیح موعود کی غیر معمولی تجدید دین کے بارہ میں شیعہ عقائد کی مستند کتاب بحارالانوار میں لکھا ہے يُظْهِرُ الْإِسْلَامَ وَيُجَدِّدُ الدِّيْنَ 66 ( بحار الانوار جلد ۹) کہ وہ اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کر کے دکھائے گا اور دینِ متین کی تجدید کرے گا.اسی طرح امام جلال الدین سیوطی " مسیح موعود کے بارہ میں فرماتے ہیں : وَ آخِرُ المِئَيْنِ فِيْهَا يَأْتِي عِيْسَى نَبِيُّ اللَّهِ ذُوالْايَاتِ يُجَدِّدُ الدِّينَ لِهَذِهِ الْأُمَّة

Page 124

111 وَفِي الصَّلوةِ بَعْضُنَا قَدْ أُمَّهُ حج الكرامه صفحه ۱۳۸ از نواب صدیق حسن خان) کہ آخر میں عیسیٰ نبی اللہ نشانات و معجزات کے ساتھ آئیں گے اور اس اُمت میں دین کی تجدید کریں گے.اور ہم میں سے کوئی نماز میں اس کی امامت بھی کرے گا.پھر آگے جا کر فرمایا: وَ بَعْدَهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُجَدَّدٍ“ کہ اس کے بعد کوئی مجد دباقی نہیں رہے گا.گویا وہی آخری مجد دہوگا.امام جلال الدین سیوطی نے اپنے اس بیان میں یہ حقیقت افروز پیشگوئی فرمائی ہے کہ آنحضرت ام کے فرمان کے مطابق امام مہدی ومسیح موعود کے بعد چونکہ خلافت راشدہ ،خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو جائے گی اس لئے اس کی موجودگی میں دیگر مجد دوں کی آمد اور تجدید دین کا وہ تصور نہیں رہے گا جو امام مہدی کے ظہور سے قبل خلافتِ راشدہ کے بعد اور اس کی عدم موجودگی میں تھا کیونکه خلافت راشدہ تجدید دین کی اعلیٰ قسم ہے.پس مسیح موعود کے بعد آپ کے خلفاء آپ کی خلافت اور جانشینی میں آپ کے ظلت کے طور پر اصلاح امت اور تجدید دین کا کام کریں گے.جیسا کہ امام الزمان حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں : اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہو....یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجددِ صدی بھی ہے اور مسجد والف آخر بھی.لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۰۸) چونکہ حضرت مسیح موعود مجد دصدی بھی ہیں اور مجد والف آخر بھی نیز آپ کی خلافت کا سلسلہ قیامت تک ممتد ہے.جیسا کہ رسالہ الوصیت اور کتاب شہادت القرآن اس پر گواہ ہے کہ وو وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا“.اس لئے آئندہ خلافت را شده، خلافت علی منہاج النبوة جو حدیث مجدد کی اعلیٰ ترین تعبیر ہے، خدا تعالیٰ قیامت تک اسی کے ذریعہ اعلی پیمانہ پر تجدید و تبلیغ دین کے سامان کرتا چلا جائے گا اور اُمتِ

Page 125

۱۱۲ مسلمہ پر کوئی صدی، کوئی سال، کوئی وقت مجد د سے خالی نہ رہے گا.یعنی خلافت اپنی جملہ برکتوں اور فضلوں کے ساتھ اسلام کی پاسبانی اور ترقی کی ضامن رہے گی.انشاء اللہ العزیز اللہ ہمیشہ ہی خلافت رہے قائم احمد کی جماعت میں یہ نعمت رہے قائم ہر دور میں یہ نو ریبوت رہے قائم يفضل ترا تا بقیامت رہے قائم جب تک کہ خلافت کا یہ فیضان رہے گا تجدید ایمان ہر دور میں ممتاز مسلمان رہے گا خلیفہ راشد ہر مومن کے دین اور ایمان کی تجدید اس طرح بھی کرتا ہے کہ وہ مومنوں کے ایمان کو Renew کرتا ہے.یعنی جب کبھی کسی کے ایمان میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور وہ خلیفہ وقت سے ہدایت و راہنمائی کا طلبگار ہوتا ہے تو اس خلیفہ وقت کی ہدایت و روشنی اس کے ایمان کی تجدید، تقویت اور جلا کا موجب ہوتی ہے.اسی طرح جب منشائے الہی کے مطابق ایک خلیفہ راشد کا وصال ہوتا ہے تو اس کی جگہ قائم ہونے والا خلیفہ راشد تمام مومنوں کی بیعت کی ایک بار پھر تجدید کرتا ہے.اسلامی اصطلاح میں دین اور ایمان کی تجدید کرنے والا مجد د ہوتا ہے.شریعت کے حکم کے تحت خلیفہ کی بیعت ایک مومن کے ایمان کا جزو لازم ہے.پس جب ایک مومن ایک خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے تو وہ خلیفہ وقت سے اپنے ایمان کی تجدید کرواتا ہے اور خلیفہ اس کے ایمان کی تجدید کرتا ہے.یہ بیعت ، یہ عمل تجدید ثابت کرتا ہے کہ موت کی جانشینی میں خلافت سے بڑھ کر مجد دیت کا اور کوئی تصور ممکن نہیں.اجراء کے لحاظ سے خلافت اور مجددیت میں ایک لطیف فرق حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حسب ذیل اقتباس کا ایک حصہ پہلے بھی بیان کیا گیا تھا کہ خلیفہ تو خود مجد دسے بڑا ہوتا ہے اور اس کا کام ہی احکام شریعت کو دو نافذ کرنا اور دین کو قائم کرنا ہوتا ہے.پھر اس کی موجودگی میں مجد دکس طرح

Page 126

۱۱۳ آسکتا ہے؟“ اس کے بعد آپ فر ماتے ہیں کہ 66 مسجد دتو اس وقت آیا کرتا ہے جب دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے.“ الفضل ۸ رابریل ۱۹۸۴ء) آپ نے یہ فرق بیان فرمایا ہے کہ مجد داس وقت آیا کرتا ہے جب خلافت راشدہ اُٹھ جائے اور دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے.لیکن خلافت اس وقت قائم ہوتی ہے جب نبی ایک ایسی جماعت چھوڑ کر جاتا ہے جو ایمان اور اعمال صالحہ کے لحاظ سے اس میں بگاڑ نہیں ہوتا اور وہ اصلاح یافتہ ہوتی ہے اور اس معیار پر ہوتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا وعدہ قیام خلافت پورا ہوتا ہے.پھر جب وہ جماعت ایمان اور اعمال صالحہ کے اس معیار سے گر جاتی ہے تو اس وقت خدا تعالیٰ ان میں سے خلافت اٹھالیتا ہے.ایسے دور میں جب خلافتِ راشدہ، خلافت علی منہاج النبوة موجود نہ ہو تو مجد دیت اس کی قائمقامی میں کام کرتی ہے.یعنی اس کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب جماعتِ مومنین سے خلافت کی نگرانی اٹھ جائے اور اس میں بگاڑ پیدا ہو چکا ہو تو ایسے حالات میں وقتاً فوقتاً مجددین اس کی تجدید اور اصلاح کے لئے ظاہر ہوتے ہیں.پس خلافت کا قیام اصلاح یافتہ مومنوں میں ہوتا ہے اور مجددیت اس وقت آتی ہے جب لوگ بگڑ چکے ہوں.اس لحاظ سے امت کی کوئی صدی مسجد دواصلاح سے خالی نہیں رہی.(۱۵) قبولیت دعا کا وسیلہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دُعا کی اہمیت پر متعد دجگہ روشنی ڈالی ہے اور یہ بھی فرمایا ہے: " قُلْ مَا يَعْبُوبِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاءُ كُمْ (الفرقان : ۸۷) کہ تو کہہ دے کہ اگر تمہاری دعانہ رَبِّيا ہوتی تو میرے رب کو تمہاری کوئی پرواہ نہ ہوتی.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ " ” جو شخص دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف منہ نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھا

Page 127

۱۱۴ رہتا ہے اور اندھا مرتا ہے....و شخص روح کی سچائی سے دُعا کرتا ہے وہ جو جو ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نا مرا درہ سکے.پھر دوسری جگہ آپ نے دُعا کی تاثیرات بیان کرتے ہوئے فرمایا: یام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۳۷) اگر مُردے زندہ ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے.اگر اسیر رہائی پاسکتے ہیں تو دعاؤں سے اور اگر گندے پاک ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے“.لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۳۴) دُعا اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک قوت جاذبہ کی حیثیت رکھتی ہے.اس قوتِ جاذ بہ کا حصول نبوت اور پھر اس کی جانشینی میں خلافت سے وابستگی سے مشروط ہے جس کی طرف آیت کریمہ "وَ ابْتَغُوْا إِلَيْهِ الْوَسِيْلَةُ (المائده: ۱۳) اشارہ کرتی ہے.جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے قرب کے لئے کوئی وسیلہ ڈھونڈو.ظاہر ہے کہ نبوت کے بعد حصول قرب خداوندی کے لئے سب سے قومی وسیلہ خلافت راشدہ ہے.چنانچہ جماعت مومنین شاہد ہے کہ جس نے خلافت کے دامن کو تھام لیا، جو اس کے در کا غلام ہو گیا وہ قُرب خداوندی یا اس کے نشانوں سے نوازا گیا.خلافت ہی وہ وسیلہ ہے جو نبوت کے ظلق میں براہ راست انوار الہیہ اور تجلیات خداوندی کو منعکس کر کے قلوب مومنین تک پہنچاتا ہے.خلیفہ وقت ہی ہے جو ہر مومن کے درد کو اپنے دل میں محسوس کر کے اسے دعا کے ذریعہ خدا تک پہنچاتا ہے اور پھر اس کی وہ دعائیں قبولیت کا شرف پاکر مومنوں کے لئے سکینت اور ازدیاد ایمان کا موجب ہوتی ہیں اور ہر مومن " ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ “ (المومن: 1) کا نشان اپنی نظروں سے خلافت حلقہ میں ملاحظہ کرتا ہے.چنانچہ جب ۱۹۵۳ء اور ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کو مصائب کے طوفان سے گزارا گیا تو یہی دعا ئیں تھیں جو خلیفہ وقت کے دل سے نکل کر عرشِ ربّ العالمین سے جماعت کے لئے سکون وقرار کے نزول کا موجب بنیں اور خلیفہ وقت جماعت کا درد اپنے دل میں محسوس کر کے اسے اپنا در دسمجھ کر خدا کے حضور تڑا پتا تھا جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث فرماتے ہیں:

Page 128

۱۱۵ وو دنیوی لحاظ سے وہ تلخیاں جو دوستوں نے انفرادی طور پر محسوس کیں وہ ساری تلخیاں میرے سینے میں جمع ہوتی تھیں.ان دنوں مجھ پر ایسی راتیں بھی آئیں کہ میں خدا کے فضل اور رحم سے ساری ساری رات ایک منٹ سوئے بغیر دوستوں کے لئے دعا کرتا رہا ہوں“.(جلسہ سالانہ کی دعائیں صفحہ ۹۷) پس دعاؤں کی قبولیت خلافت سے وابستہ ہے.حضرت خلیفہ مسیح الثانی فرماتے ہیں : تمہارے لئے ایک شخص تمہارا در در کھنے والا ہے اور تمہاری محبت رکھنے والا اور تمہارے دُکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا ، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا اور تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے...تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے.( برکات خلافت - انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۵۶) پس خلافت سے دُعا کا دوہرا رشتہ ہے یعنی ایک طرف تو خلیفہ وقت کی دُعائیں مومنوں کے لئے قبول کی جاتی ہیں اور دوسری جانب مومنوں کی دعائیں خلیفہ وقت سے بات تعلق کی بناء پر پایہ قبولیت کو پہنچتی ہیں.اس حقیقت کو حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے بڑی وضاحت کے ساتھ جماعت کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے پہلے بھی یہی دیکھا تھا اور آئندہ بھی یہی ہوگا کہ اگر کسی احمدی کو منصب خلافت کا احترام نہیں ہے، اس سے سچا پیار نہیں ہے، اس سے عشق اور وارفتگی کا تعلق نہیں ہے اور صرف اپنی ضرورت کے وقت وہ دعا کے لئے حاضر ہوتا ہے تو اس کی دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی.یعنی خلیفہ وقت کی دعائیں اس کے لئے قبول نہیں کی جائیں گی ، اُسی کے لئے قبول کی جائیں گی جو اخلاص کے ساتھ دُعا کے لئے لکھتا

Page 129

117 ہے اور اس کا عمل ثابت کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے عہد پر قائم ہے کہ جو نیک کام آپ مجھے فرمائیں گے ان میں میں آپ کی اطاعت کروں گا.ایسے مطیع بندوں کے لئے تو بعض دفعہ ہم نے یہ نظارے دیکھے، ایک دفعہ نہیں، بسا اوقات یہ نظارے دیکھے کہ وہاں پہنچی بھی نہیں دُعا اور پھر قبول ہوگئی.ابھی کی جارہی تھی دُعا تو اللہ تعالیٰ اس پر پیار کی نظر ڈال رہا تھا اور وہ دُعا قبول ہورہی تھی.بعض دفعہ دُعا بنی بھی نہیں تو وہ دُعا قبول ہو جاتی ہے.اس لئے یہ ایسا ایک بنیادی اصول ہے جس کو ہمیشہ ہر احمدی کو پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر محمد مصطفی م پر درود نیچے دل اور پیار سے بھیجتا ہے اور وفا کا تعلق رکھتا ہے اپنے محبوب آقا سے تو آنحضرت ﷺ کی ساری دُعائیں ہمیشہ کے لئے ایسے امتیوں کے لئے سنی جائیں گی اور اگر وہ خلافت سے ایسا تعلق رکھتا ہے اور پوری وفاداری کے ساتھ اپنے عہد کو نبھاتا ہے اور اطاعت کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لئے بھی دعا ئیں سنی جائیں گی بلکہ آن کہی دُعائیں بھی سنی جائیں گی، اس کے دل کی کیفیت ہی دُعا بن جایا کرے گی.پس اللہ تعالیٰ جماعت کو حقیقت دُعا کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے“.(الفضل ۷ ۲ جولائی ۱۹۸۲ء) خلیفہ وقت کی دعائیں کیوں قبولیت کا شرف پاتی ہیں یا خلافت کے ذریعہ مومنوں کی دعائیں کیوں قبول ہوتی ہیں؟ اس کا فلسفہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے یوں بیان فرمایا ہے کہ : اللہ تعالیٰ جب کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دُعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے“.منصب خلافت.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۴۷)

Page 130

112 خلاصہ کلام : خلافت حقہ یعنی خلافت علی منہاج النبوة کی یہ چند برکات ہیں جو بطور نمونہ یہاں پیش کی گئی ہیں.اگر ہم تفصیل کے ساتھ قرآن کریم میں سے ان برکات کا جائزہ لیں جو نبوت کے ذریعہ نازل ہوتی ہیں اور پھر خلافت کے ذریعہ جماعت مومنین پر منعکس ہوتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسی کثرت کے ساتھ مذکور ہیں کہ ان کا شمار اور ان کی انواع کا علم انسان کے بس میں نہیں.مثلاً نبی تعلق باللہ اور عشق الہی کا وسیلہ ہے.وہ قرب خداوندی کا زینہ ہے.اس کے ساتھ عبادات ، قیامِ صلوۃ اور ایتائے زکوۃ کا تصور اور نظام وابستہ ہے.وہ دعوت الی الخیر کے منصب کے ساتھ آتا ہے.وہ معروف کے حکم اور منکر کی مناہی کی تعلیم لاتا ہے.وہ مومنوں میں قولِ سدید کی روح پھونکتا ہے.وہ اموال اور نفوس کے جہاد کی تحریض دلاتا ہے.اس کے ذریعہ مومنوں میں استقامت فوق الکرامت پیدا ہوتی ہے.اس کی تعلیم پر عمل کر کے ایک سالک سلوک کی منازل اور ولایت کے مدارج طے کرتا ہے.اس کے ذریعہ مومنوں میں بھی خدا تعالیٰ اپنے اعجازی اور اقتداری نشان ظاہر فرماتا ہے.وہ نبی کے بعد امت پر گواہ بھی ہے اور نگران بھی.وعلی ہذا القیاس بے شمار برکات ہیں جو نبوت کے ساتھ اترتی ہیں اور پھر بعد میں خلافت ان کی ضامن بنتی ہے.وہ برکات خلافت کے ذریعہ قیامت تک امت میں جاری ہیں.انشاء اللہ العزیز

Page 131

۱۱۸ خلافت کا فیضان خدا کا احسان ہے ہم بھاری کہ جس نے ہے اپنی یہ نعمت اتاری نہ مایوس ہونا گھٹن ہو نہ طاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری نبوت کے ہاتھوں جو پودا لگا ہے خلافت کے سائے میں پھولا پھلا ہے کرتی ہے اس باغ کی آبیاری رہے خلافت وہ گا خلافت کا فیضان جاری کوئی بھی ٹکر جو لے گا ذلت کی گہرائی میں جاگرے گا خدا کی سنت ازل سے ہے جاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری

Page 132

۱۱۹ خدا کا ہے وعدہ خلافت رہے گی نعمت تمہیں تا قیامت ملے گی مگر شرط اس کی اطاعت گزاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری محبت کے جذبے وفا کا قرینہ 6 اخوت کی نعمت 6 ترقی کا زینہ ساری خلافت سے ہی برکتیں ہیں رہے گا خلافت کا فیضان جاری الہی ہمیں تو فراست عطا کر گہری محبت عطا کر خلافت ہمیں دکھ نہ دے کوئی لغزش ہماری رہے گا خلافت کا فیضان جاری صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ )

Page 133

۱۲۰ ” خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی ہیں ،ظلمی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانے میں برکاتِ رسالت سے محروم نہ 66 شہادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۳، ۳۵۴)

Page 134

۱۲۱ امت میں خلافت راشده کے قیام کی تاریخ

Page 135

مندرجات ۱۲۲ آنحضرت ام کا وصال اور امت میں خلافتِ راشدہ کا قیام آنحضرت کا یوم وصال بحساب نظام قمری وشی آنحضرت ام کی عمر بحساب نظام قمری وشی نئے چاند کا طلوع اسلام میں خلافت کی ابتداء اور اس کا قیام (ستیہ کا واقعہ اور حضرت اوکڑی ابتدائی بیت) قیام خلافت کے لئے آراء کے اعتبار سے صحابہ کے تین گروہ خلافت کے بارہ میں آنحضرت میم کی دو پیشگوئیوں کا پورا ہونا حضرت ابوبکر کی خلافت کی پیشگوئی قریش میں امامت کی پیشگوئی مسجد نبوی میں حضرت ابوبکر کی عام بیعت خلافت راشدہ دور اولین پر ایک طائرانہ نظر حضرت ابوبکر اور آپ کا دورِ خلافت حضرت عمرؓ اور آپ کا دور خلافت حضرت عثمان اور آپ کا دورِ خلافت حضرت علی اور آپ کا دور خلافت

Page 136

Page 137

۱۲۳ امت میں خلافتِ راشدہ کا قیام امت میں خلافتِ راشدہ کے قیام کی معتین تاریخ کا علم بانی اسلام حضرت محمد مصطفی می کنم کے وصال کی معتین تاریخ کے علم کے بغیر ممکن نہیں.لہذا درج ذیل سطور میں اس معتین تاریخ کی تحقیق ہدیہ قارئین کی جارہی ہے.آنحضرت میر کا یوم وصال بحساب نظام قمری وشی آنحضرت ﷺ کے وصال کی تاریخ کے بارہ میں کتب تاریخ میں جو عمومی روایت چلی آتی ہے وہ ۱۲ ربیع الاول کی ہے.لیکن جیسا کہ یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ آپ کا وصال سوموار کے روز ہوا.یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس پر تمام کتب احادیث و تاریخ و سیر حتمی طور پر متفق ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی ثابت شدہ بات ہے کہ مجتہ الوداع میں یوم عرفہ کے روز جمعۃ المبارک کا دن تھا.اس جمعہ کے روز سے ربیع الاول کے مہینہ میں سوموار کے دن سے آپ کے وصال کی تاریخ بالکل معتین ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس حساب کے مطابق عصر حاضر کے بعض مؤرخین نے آپ کے وصال کی بالکل معین اور صحیح تاریخ نکالی ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں درج ذیل حقائق قابل ذکر ہیں.ا: :۲ :۴ ۹ر ذوالحجہ اھ کو یوم عرفات، جمعہ کا دن تھا.آنحضرت کیم کے وصال کا سال ا ھ تھا.وصال کے روز ماہ ربیع الاول کی کم سے بارہ (۱۲) تک کوئی تاریخ تھی، اور دن دوشنبہ یعنی سوموار کا تھا.یہ چار امور ایسے ہیں کہ محفوظ تاریخی ریکارڈ کے اعتبار سے ان میں کسی کلام کی گنجائش نہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ حجۃ الوداع یعنی ذوالحجہ ۱۰ ہجری کے بعد گل اکاسی (۸۱)

Page 138

۱۲۴ دن زندہ رہے.ان کے پیش نظر آنحضرت سلم کے یوم وصال کا اندازہ اس طرح لگایا جائے گا کہ حجۃ الوداع اور آپ کے وصال کا درمیانی عرصہ ذوالحجہ شاھ اور محرم صفر اور ربیع الاول لاھ، چار مہینوں پر محیط ہے.چنانچہ ماہ ربیع الاول میں دوشنبہ یعنی سوموار کا دن تلاش کرنے کے لئے ، ان پہلے تین مہینوں کے دنوں کو انتیس (۲۹) یا تمہیں (۳۰) دنوں میں پھر ا کر مختلف اندازے کئے جا سکتے ہیں.مثلاً ذوالحجہ محرم صفر ماه ربیع الاوّل میں سوموار کا دن ۳۰ دن ۲۹ دن ۲۹ دن....ا تاریخ ۸ تاریخ ۱۵ تاریخ ۱ تاریخ ۸ تاریخ ۱۵ تاریخ...۲۹...۲۹...۳۰...ra.....19........ra ا تاریخ ۸ تاریخ ۱۵ تاریخ ۷ تاریخ ۱۴ تاریخ ۲۱ تاریخ تاریخ ۱۴ تاریخ ۲۱ تاریخ ۷ تاریخ ۱۴ تاریخ ۲۱ تاریخ ظاہر ہے کہ زیر بحث مہینوں کے دنوں کی تعداد کے مذکورہ امکانات میں سے ماہ ربیع الاول میں ۱۲ تاریخ کسی طریق پر بھی معین نہیں ہوتی.جبکہ ان میں سے پہلے تین امکان ایسے ہیں جن میں یوم عرفہ (9 ذوالحجہ شاھ ) کے اکاسی دن بعد دوشنبہ کا دن ماہ ربیع الاول کی پہلی تاریخ کو ثابت ہوتا ہے.عصر حاضر کے بعض مؤرخین و محققین مثلاً مولانا شبلی نعمانی ،مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت اور پروفیسر محمد شہید اللہ صاحب راجشاہی یونیورسٹی متفق ہیں.پروفیسرمحمد شہید اللہ صاحب کا مضمون روز نامہ جنگ کراچی کی اشاعت ۲۸ ستمبر ۱۹۵۸ء کے صفحہ ے پر شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے مکمل تفصیلات کے ذکر کے بعد حتمی طور پر ثابت کیا تھا کہ آنحضرت کی تاریخ وصال یکم ربیع الاول لاھ بمطابق ۲۶ مئی ۶۳۲ ہے.اس کے علاوہ دیگر تاریخیں صحیح نہیں ہیں.

Page 139

۱۲۵ آنحضرت ٹیم کی عمر بحساب نظام قمری و شسی آنحضرت ﷺ کی پیدائش ۱/۱۲اپریل یا ۱/۲۰ اپریل ۵۷ء بمطابق یکم ربیع الاول یا ۹ ر ربیع الاول ہے اور آپ کا وصال ۲۶ مئی ۱۳۲ ء بمطابق یکم ربیع الاول لا کو ہوا.آپ کے سن ولادت کے چالیس (۴۰) سال بعد اکتالیسویں (۴۱) سال میں ماہ رمضان کی ۲۴ تاریخ، بمطابق ۲۰ / اگست ۱۱۰ء کو آپ پر وحی کبوت کا نزول ہوا.ان کوائف کے مطابق نظام قمری کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ کی کل عمر پورے تریسٹھ (۶۳) سال یا باسٹھ (۶۲) سال گیارہ ماہ اور ہیں راکیس دن بنتی ہے.یعنی اگر آپ کی ولادتِ مبارک کا دن یکم ربیع الاول قرار دیا جائے تو عمر تریسٹھ سال ہوگی اور اگر یہ دن نو (۹) ربیع الاول لیا جائے تو پھر عمر باسٹھ (۶۲) سال گیارہ (۱۱) ماہ اور میں راکتیس (۲۱/۲۰) دن ہوگی.اور آپ کی ثبوت کا عرصہ بائیس (۲۲) سال پانچ (۵) ماہ چھ دن ہے.سمی نظام کے حساب سے آنحضرت ام کی عمر آپ کے یوم ولادت ۱۲ اپریل ۵۷ء سے یومِ وصال تک ۲۶ مئی ۱۳۲ ء تک باسٹھ (۶۲) سال ایک (۱) ماہ اور چودہ (۱۴) دن بنتی ہے اور یوم ولادت ۲۰ را پریل ا۵۷ء کے حساب سے باسٹھ (۶۲) سال ایک (۱) ماہ چھ (۶) دن ہوگی.اس حساب کے مطابق آپ کا زمانہ نبوت اکیس (۲۱) سال نو (۹) ماہ سات (۷) دن ہوگا.واللہ اعلم بالصواب یہ سب اندازے ان کو ائف پر استوار ہیں جو مختلف معتین تحقیقات کے ذریعہ سامنے آئے ہیں.معلوم تاریخی حقائق و شواہد کے مطابق یہ کوائف حتمی قطعی اور یقینی ہیں اس لئے یہ تخمینے بھی تسکتی بخش ہیں.لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ ان کوائف یا تحقیقات میں مزید تدقیق وضیح کی گنجائش ممکن ہے.الغرض آنحضرت ﷺ کا وصال یکم ربیع الاول بمطابق ۲۶ مئی ۱۳۲ ء کو ہوا اور اسی دن امت میں خلافت راشدہ کا قیام عمل میں آیا.☆☆

Page 140

۱۲۶ نئے چاند کا طلوع شمس الہدی، سراج منیر، ہمارا آقا ومولیٰ ﷺ اپنے اعلیٰ وارفع افق میں چھپ چکا تھا اور وقتی طور پر ماحول ایک تاریکی میں ڈوب رہا تھا کہ اس تاریکی کے سایوں کو اڑا تا ہوا اسی افق سے صدیقیت کا نور لے کر ایک نیا چاند ابھرا.اس نے اس آفتاب عالمتاب کی ضوفشانیوں کو منعکس کر کے آنا فانا ماحول کو پھر بقعہ نور بنا دیا.یہ چاند خلافت راشدہ کی قبا میں حضرت ابوبکر صدیق کا وجودِ باجو د تھا.آنحضرت ام کے ایام علالت میں حضرت ابوبکر مسجد نبوی میں نماز کی امامت کرتے تھے.آپ کے معمولات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ زیادہ دیر مسجد میں نہ ٹھہر تے تھے.غالباً اس کی ایک وجہ تو ی تھی کہ آنحضرت ﷺ کی علالت کے باعث مسجد میں دردو غم کا المناک ماحول تھا جس میں آپ کے لئے ٹھہرنا جذباتی لحاظ سے اور وفور عشق کے باعث دشوار تھا اور دوسرے یہ کہ آنحضرت ام کی عدم موجودگی میں لوگوں کی نظریں آپ کی طرف اٹھتی تھیں.آپ اس صورتحال سے گریز کرتے گھا تھے.لہذا نماز پڑھانے کے بعد جلد از جلد وہاں سے رخصت ہو جانے کی کوشش کرتے تھے.حضرت ابوبکر صدیق اس قدر گداز دل اور حلیم الطبع تھے کہ آنحضرت ام کی جگہ نماز پڑھاتے ہوئے اس قدر رو رو پڑتے تھے حتی کہ آپ کی بھکھی بندھ جاتی تھی.دیگر تمام صحابہ کے ہمراہ آپ کی بیٹی حضرت عائشہ آپ کی اس حالت کی گواہ تھیں اور رسول اللہ ﷺ کے حضور سفارش کرتی تھیں کہ آپ حضرت ابو بکر صدیق کی بجائے حضرت عمر فاروق کو نماز پڑھانے کا فریضہ سونپ دیں کیونکہ رقت کے باعث ان کے لئے نماز پڑھانا عملاً مشکل ہے.آنحضرت ام غار ثور میں خدا تعالیٰ کے وعدہ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ، میں اللہ تعالیٰ کی اس معیت میں اپنے ساتھ حضرت ابوبکر گوشریک فرما چکے تھے اور حضرت علی کی ایک روایت کے مطابق اُسی ہجرت کے سفر میں ہی حضرت جبریل سے خبر پا کر حضرت ابو بکر کی خلافت کی پیشگوئی بھی فرما چکے تھے.اندرونی حکمتیں تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے بعد زمام امت سنبھالنے والے کو مضبوط کرنے کے لئے اور اس

Page 141

۱۲۷ مقام پر قائم ہو جانے کے لئے پہلے سے ہی مشاق بنانا شروع کر دیا تھا.چنانچہ حضرت ابوبکر اپنے محبوب آقا و مطاع یم کی جگہ نماز پڑھانے کی وجہ سے نمازوں میں رونے والی کیفیت سے آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی گزر چکے تھے اور امامت کے فریضہ کو ادا کرنے کے لئے مضبوط ہو چکے تھے.چنانچہ جب آنحضرت سلم کا وصال ہوا تو آپ اللہ تعالیٰ کی اس معیت کے ساتھ جس کا آنحضرت کم آپ سے وعدہ کر چکے تھے ، ایک آہنی چٹان بن کر ہر منفی تحریک اور فتنہ کے سامنے اس طرح کھڑے ہو گئے کہ کوئی طاقت تحریک یا طوفان آپ کے عزم و ارادہ کے آگے ٹھہر نہ سکا.اپنے محبوب آقائی ایم کے چہرہ کے دیدار کے بعد آپ جب بیت نبوی سے باہر تشریف لائے تو ایک لمحہ میں ہی آپ کے اندر وہ تبدیلی پیدا ہو چکی تھی جو آنحضرت ﷺ کی ذات میں دنیا کو تسخیر کرنے کی طاقت کے طور پر جلوہ گر تھی.مسجد میں حضرت عمر فاروق یہ اعلان کر رہے تھے کہ آنحضرت ہم ہرگز فوت نہیں ہوئے اور جو شخص یہ کہے گا کہ آپ وفات پاگئے ہیں ، آپ اس کا سر قلم کر دیں گے.آپ نے مسجد میں آکر جس اعتماد اور وقار کے ساتھ حضرت عمرؓ کو بیٹھ جانے کو کہا اور جس صبر اور اصطبار کے ساتھ اپنے محبّ اور سب کے محبوب کی جدائی کا اعلان کیا ، وہ آپ ہی کی اعجازی ہمت اور امتیازی شان تھی ، جس میں خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت کا ہاتھ نمایاں رنگ میں جلوہ گر تھا.چنانچہ اب تحت السماء اور فوق الارض آپ سے بڑھ کر جری، دلیر اور بہادر انسان اور کوئی نہ تھا.اس وقت جب بیرونی طور پر جھوٹے مدعیان نبوت مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے لئے نعرہ زن تھے اور ارتداد و بغاوت کی چوطرفی آندھیاں سائیں سائیں کرنے لگی تھیں اور اندرونی طور پر کئی وساوس تھے جو عقائد اسلام کو کھوکھلا کر سکتے تھے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک عظیم جرنیل بن کر آنحضرت ﷺ کی صفات کے رنگ لے کر کھڑے ہو گئے اور آنافا نا ہر اندرونی اور بیرونی خطرہ سے اسلام اور مسلمانوں کو نہ صرف بچانے میں کامیاب ہوئے بلکہ آپ نے کاروانِ اسلام کو مزید تیز رفتار کے ساتھ پیش رفت عطا کر دی.حضرت عائشہ انہی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرماتی ہیں کہ : " رسول اللہ علم فوت ہوئے تو میرا باپ ان حالات میں

Page 142

۱۲۸ آنحضرت ﷺ کا جانشین ہوا کہ اس پر ایسے مصائب پڑے اور غم ٹوٹے کہ اگر پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جاتے.“ (ازالۃ الخفاء فارسی مقصد دوم صفحه ۳۶ از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مطبوعه مطبع صدیقی بریلی و تاریخ الخلفاء السیوطی صفحه ۸۸ مترجم) انہی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے ابن خلدون لکھتے ہیں: وو " الْمُسْلِمُوْنَ كَالْغَنَمِ فِي اللَّيْلَةِ الْمُمْطِرَةِ لِقِلَّتِهِمْ وَكَثْرَةِ 66 عَدُوِّهِمْ وَإِظْلَامِ الْجَةِ بِفَقْدِ نَبِيِّهِمْ.“ ابن خلدون جلد ۲ صفحه ۶۵ خبر السقیفه و ابن اثیر ذکر انفاذ جیش اسامہ بن زید) کہ مسلمان اپنے نبی کریم ہم کی وفات کی وجہ سے نیز اپنی قلت تعداد اور کثرتِ اعداء کے باعث اُس وقت اُس بکری کی طرح تھے جو ایک تاریک اور بارش والی سر درات میں تنہا رہ جائے.

Page 143

۱۲۹ اسلام میں خلافت کی ابتداء اور اس کا قیام سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ اور حضرت ابوبکر کی ابتدائی بیعت یکم ربیع الاول لله (۲۶ مئی ۶۶۳۲) مسجد نبوی کی شمال مغربی جانب بنو خزرج کے قبیلہ بنوساعدہ کا ایک بڑا سا چھپر تھا.اس وقت یہ جگہ موجودہ مسجد نبوی سے تقریباً دوسو میٹر کے فاصلہ پر ایک باغیچہ کی شکل میں ہے.ایک مرتبہ آنحضرت ام بھی اس سقیفہ میں تشریف لائے تھے اور آپ نے یہاں پانی پیا تھا اور نماز بھی پڑھی تھی.اسی طرح صحابہ بھی اکثر یہاں آکر سایہ میں بیٹھا کرتے تھے.آنحضرت ﷺ فوت ہوئے تو آپ کے وصال کی خبر ہر طرف پھیل چکی تھی اور صحابہ افتان و خیزاں مسجد نبوی کی جانب لپک رہے تھے.باہر کے مقامات سے بھی جو وہاں پہنچ سکا، پہنچ گیا.یہ سقیفہ چونکہ مسجد سے زیادہ دور نہیں تھا اس لئے اس میں بھی صحابہ جمع ہو گئے تھے، جن میں اکثر انصار تھے.جبکہ بہت سے کبار صحابہ مہاجرین و انصار و اہل بیت وغیرہ ابھی مسجد نبوی میں ہی تھے ، وہ ایک دوسرے سے بیان کر کر کے آنحضرت ﷺ کے وصال کے غم کو اپنے دلوں سے ہلکا کرنے کی کوششیں کر رہے تھے.اور ان میں سے بعض افراد بیت کے ساتھ آنحضرت ام کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے.سقیفہ میں جمع انصار میں سے بعض کا یہ خیال تھا کہ انہوں نے ہجرت کے وقت بھی اسلام کی خدمت کی تھی اور وہ رسول اللہ علیم اور مہاجرین کے لئے ایک پناہ کا موجب بنے تھے اور اب اس نازک موقع پر بھی انہی کو یہ خدمت سرانجام دینی ہے.چنانچہ حضرت سعد بن عبادہ رئیس انصار جو بہنو ساعدہ کے سر براہ بھی تھے ، بیماری کی وجہ سے اپنے گھر میں تھے، انصار انہیں سقیفہ میں لے آئے.آنحضرت ام کی وفات کی وجہ سے پیش آمدہ حالات نیز آپ کی خلافت کے بارہ میں باتیں شروع ہوئیں تو حضرت سعد بن عبادہ نے انصار کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے انصار کے امتیازی مقام کا ذکر کیا اور کہا:

Page 144

وو دین حق کی اعانت کا جو شرف انصار کو حاصل ہے وہ عرب کے کسی اور قبیلہ کو حاصل نہیں.رسول اللہ ہم اپنی قوم کو تیرہ سال تک خدائے واحد کی عبادت کی تلقین اور بتوں کی پرستش سے منع کرتے رہے.لیکن چند افراد کے سوالوگوں نے آپ کے پیغام کو قبول نہ کیا.جولوگ آپ پر ایمان لائے وہ دین کا دفاع کرنے اور اپنے آپ کو کفار کے مظالم سے بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے انعامات کا وارث بنانے اور عزت و شرف عطا کرنے کے لئے چنا.اس نے تمہیں ایمان کی نعمت سے بھی نوازا اور رسول اللہ سلیم اور آپ کے صحابہ کی حفاظت کرنے ، دین کی عظمت قائم کرنے ، اسلام پر اپنی متاع جان قربان کرنے اور دشمنوں سے جہاد کرنے کی توفیق عطا فرمائی تم رسول اللہ میم کے دشمنوں پر سب سے زیادہ شدید تھے اور تمہاری تلواروں نے فتح اسلام کو قریب تر کر دیا اور بالآخر عربوں کے لئے دین خدا کے سامنے سرنگوں ہوئے بغیر کوئی چارہ نہ رہا.( یعنی اگر کوئی اسلام کی صداقت کا قائل نہ بھی ہوا تو اسے بھی اسلام کے سایہ امن میں عافیت کا سامان ملا.) رسول الله لم تمام عمر تم لوگوں سے راضی رہے.تم رسول اللہ م کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے.اب آپ وفات پاچکے ہیں.اب بھی تمہی اس کام کو اپنے ہاتھ میں لو کیونکہ یہ تمہارے سوا کسی اور کی میراث نہیں ہے.“ (ابن اثیر حدیث السقيفة وخلافته ابی بکر وارضاه) علالت کے باعث حضرت سعد بن عبادہ بہت کمزور تھے.اس وجہ سے بہت آہستہ آہستہ کلام کرتے تھے.چنانچہ لوگوں تک آپ کی آواز پہنچانے کا کام آپ کا بیٹا سر انجام دے رہا تھا.حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اس خطاب میں بڑی وضاحت کے ساتھ انصار کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے دیانتداری کے ساتھ یہ موقف پیش کیا تھا کہ ان خدمات کے پیش نظر

Page 145

۱۳۱ آئندہ بھی اسلام کی کامیابی کے لئے انصار کو مسلمانوں کی قیادت سپر د ہونی چاہئے.آپ نے اپنے اس خطاب میں انصار کو یہ نصیحت فرمائی کہ جو اعزاز انہیں آنحضرت ام کی وجہ سے نصیب ہوا تھا، وہ اسے آپ کی وفات کے بعد ضائع نہ ہونے دیں بلکہ حسب سابق خدمت اسلام کے لئے ہر قربانی کی پیشکش کے لئے تیا ر ر ہیں.اس ترغیب سے بعض انصار نے یہ سمجھا کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انصار کو عنانِ حکومت تھامنے کی ترغیب دی ہے.چنانچہ انہوں نے آپ سے کہا کہ اس منصب کے اہل آپ ہی ہیں.اسی لمحہ ایک شخص نے انصار سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر مہاجرین نے انصار کے امیر کی بیعت سے انکار کر دیا تو پھر کیا ہوگا؟ کیونکہ وہ آنحضرت ام کے اولین صحابہ ہیں ، اہل بیت رسول ہیں.وغیرہ وغیرہ.اسی طرح اس نے مہاجرین کے دیگر مناقب بیان کئے.دوسرے نے اس کا جواب یہ دیا کہ ہم انہیں کہیں گے کہ ” مِنَّا أَمِيْرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر اُن میں سے مقرر ہو جائے.اس کے سوا ہم کسی اور تجویز پر راضی نہ ہوں گے.حضرت سعد بن عبادہ نے جب یہ سنا کہ انصار اس بات کو پیش کرنا چاہتے ہیں کہ ”مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِير“ کہ ایک امیر مہاجرین میں سے ہو اور ایک انصار میں سے تو ان کی بصیرت نے فوراً اندازہ لگالیا کہ انصار اپنا موقف چھوڑ چکے ہیں.چنانچہ انہوں نے انہیں کہا: ” یہ تمہاری پہلی کمزوری ہے جو تم ظاہر کر چکے ہو.“ تاریخ الخمیس و ابن ہشام امر سقیفہ بن ساعدة وابن اثیر حدیث السقيفة وخلافته ابی بکر وارضاه) یعنی بجائے خدمات سرانجام دینے کے اور اسلام کی ترقی کے لئے ایک منظم اور مضبوط تنظیم قائم کرنے کے تم دو قیادتوں اور نظاموں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ہو.ایسے نظام جس میں دو سر براہ ہوں ،کبھی کامیاب نہیں ہوتے.یہ باتیں ابھی اسی مرحلہ پر چل ہی رہی تھیں کہ حضرت عمر کو انصار کے اس اجتماع کا علم ہوا.حضرت ابوبکر آنحضرت ام کی تجہیز و تکفین کے لئے آنحضرت ام کی میت کے پاس تھے.

Page 146

۱۳۲ حضرت عمرؓ نے آپ کو باہر بلوایا.آپ نے جواب دیا کہ آپ بے حد مصروف ہیں.حضرت عمرؓ نے دوبارہ پیغام بھجوایا کہ ایک ایسا واقعہ پیش آگیا ہے کہ آپ کا وہاں موجود ہونا از حد ضروری ہے.آپ باہر آئے اور حضرت عمرؓ سے کہنے لگے کہ اس وقت رسول اللہ یا کہ تجہیز و تکفین سے زیادہ اہم اور کون سا کام ہے جس کے لئے تم نے مجھے بلایا ہے.حضرت عمررؓ نے بتایا کہ انصار سقیفہ بنو ساعدہ میں جمع ہیں اور ارادہ کر رہے ہیں کہ سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنالیں.ان میں یہ رائے بھی ہے کہ ایک امیر انصار سے ہو اور ایک (مہاجرین) قریش میں سے.یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح " کے ہمراہ سقیفہ کی جانب روانہ ہوگئے.( ابن اخیر حدیث السقيفة و خلافتہ ابی بکر وارضاہ وابن ہشام امرسقیفہ بنی ساعدة) سقیفہ میں پہنچے تو انصار ابھی اسی گفتگو میں مشغول تھے.حضرت سعد بن عبادہ بھی کمبل اوڑھے وہیں موجود تھے.حضرت عمر انہیں پہچان نہ سکے تو ان کے بارہ میں پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ سعد بن عبادہ ہیں اور بخار کی وجہ سے علیل ہیں.( صحیح بخاری کتاب الحدود ما سحذر من الحدود باب رحم الحبالى من الزنى اذا أحصنت ) حضرت ابو بکر کے وہاں پہنچنے پر انصار نے اپنی رائے کا اظہار کیا.حضرت ابوبکر نے بھی اپنی رائے ظاہر فرمائی.امت کے بہتر مستقبل کے لئے ہر طرح کی آراء کا اظہار ہوا.اس تمام کارروائی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انصار و مہاجرین سب اسلام کے مفاد میں سوچتے تھے.روایات میں مذکور تفصیل میں ان کی سوچوں میں بعض اوقات قبائلی عصبیت کا رنگ بھی جھلکتا ہوا نظر آتا ہے اور کبھی یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ اس نازک موڑ پر خیالات اور حالات کا رُخ بدلنے کی کوششیں ہو رہی ہیں.اس کے باوجود صحابہ خواہ وہ انصار تھے یا مہاجر ، آنحضرت میم کے بعد خلافت کے متلاشی تھے.اور وہ ایک دن بھی بغیر جماعت اور امیر کے نہیں گزارنا چاہتے تھے.چنانچہ ایک رائے یہ تھی کہ انصار میں سے امیر ہو.دوسری رائے یہ تھی کہ مہاجرین ( قریش) میں سے امیر ہو کیونکہ قریش کے بغیر عرب کسی کی سربراہی قبول نہ کرے گا.اسی بحث و تمحیص

Page 147

۱۳۳ میں انصار و مہاجرین کے فضائل کا بھی کھل کر تذکرہ ہوا.اس کے علاوہ تیسری رائے وہ تھی جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ دو امیر ہوں.ایک انصار میں سے اور ایک قریش میں سے.اس تجویز پر اختلاف رائے بھی ہوا.لیکن جلد ہی یہ موقف بھی خدا تعالیٰ کی تقدیر کے آگے سرنگوں ہو گیا.حضرت ابو عبیدہ بن الجرائخ نے انصار کو مخاطب کر کے کہا : ”اے انصار مدینہ تم وہ ہو جنہوں نے سب سے بڑھ کر خود کو اس دین کی خدمت کے لئے پیش کیا تھا اور اب تم اس وقت سب سے پہلے اسے بدلنے اور بگاڑنے والے نہ بنو.“ ( ابن اثیر حدیث السقيفة وخلافته ابی بکر وارضاه) اس حقیقت افروز پیغام سے انصار نے اثر لیا اور ان میں سے حضرت بشیر بن سعد ا ٹھے اور انصار سے مخاطب ہوئے: ”اے انصار ! اللہ کی قسم ! گو ہمیں مشرکوں سے جہاد کرنے میں دین میں سبقت کے لحاظ سے مہاجرین پر فضیلت ہے.یہ ہم نے محض رضائے النبی کے حصول ، اطاعت رسول کی خاطر اور اپنے نفسوں کی اصلاح کے لئے کیا تھا.ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم اب فخر و مباہات سے کام لیں اور دینی خدمات کے بدلہ میں ایسے اجر کے طالب ہوں جس میں دنیا طلبی کی بُو آتی ہو.ہماری جزا اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہی ہمارے لئے کافی ہے.رسول اللہ علم قریش میں سے تھے اور وہی لوگ اس (خلافت) کے حقدار.ہیں.اللہ نہ کرے کہ ہم ان سے جھگڑے میں مبتلا ہوں.اے انصار! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور مہاجرین سے اختلاف نہ کرو.“ اسی لمحہ حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح " کے ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہوئے اور آپ نے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: وو ” تم نے جو اپنے اچھے اوصاف کا ذکر کیا ہے وہ بالکل صحیح ہے اور تم

Page 148

۱۳۴ ہی ہو جو ان اوصاف کے مالک ہو.لیکن عرب لوگ قبیلہ قریش کے حسب و نسب کے اعلیٰ ہونے کی وجہ سے کسی اور کی سرداری قبول نہیں کریں گے.“ چنانچہ حضرت عمررؓ اور حضرت ابو عبیدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو.پس ان کے نام پیش کرنے کی وجہ سے اگر میری گردن بھی اڑا دی جائے تو مجھے کچھ پرواہ نہیں.اگر میرا یہ کام میرا گناہ بھی شمار ہو تو میرے لئے یہ زیادہ پسندیدہ ہوگا کیونکہ میں ایسی قوم کے لئے امیر تجویز کر رہا ہوں جس میں خود ابو بکر ہے.اے میرے خدا! اگر اس وقت مجھے اس بات کا خیال نہ آتا تو موت کے وقت میرے نفس میں ایک کھٹکا رہتا.“ حضرت ابو بکر کے اس خطاب کے بعد حضرت حباب بن منذرانصاری نے پھر تقریر کی اور قریش کو مخاطب کرتے ہوئے ایک بار پھر انصار کی اہمیت اور ان کے تفوق کا ذکر کیا اور زور دیا کہ : " مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ ، پس ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے.حضرت حباب بن منذر کی تقریر سے ایک بار پھر صورتحال بدلنے لگی تو ایک روایت کے مطابق حضرت عمران کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ کیا تم جانتے نہیں کہ رسول اللہ علیم نے حضرت ابوبکرکونماز پڑھانے کا حکم دیا تھا؟ انہوں نے کہا: ” بے شک.‘“ آپ نے کہا کہ تم میں سے پھر کون ہے جو یہ چاہتا ہے کہ حضرت ابو بکر سے آگے بڑھے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کہ حضرت ابوبکر سے آگے بڑھیں.(ابن اثیر حدیث السقيفة وخلافته ابی بکر وارضاه و ابن سعد ذکر امر رسول الله أبا بكر أن يصلى بالناس في مرضه والسيرة الحلبية ) چنانچہ حضرت عمر فوراً حضرت ابو بکر کی طرف یہ پکارتے ہوئے لیکے کہ ابسُطُ يَدَكَ يَا ابابکر “اے ابوبکر ! آپ اپنا ہاتھ بڑھا ئیں.اور حضرت عمر نے حضرت ابو بکر ا ہاتھ تھامتے ہی آپ کی بیعت کر لی اور عرض کی : ” اے ابوبکر ! آپ کو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ آپ نماز

Page 149

۱۳۵ پڑھایا کریں.پس آپ ہی خلیفتہ اللہ ہیں.ہم آپ کی بیعت اس لئے کرتے ہیں کہ آپ رسول اللہ علیم کے ہم سب میں سے زیادہ محبوب ہیں.“ (صحیح بخاری کتاب الحدود ما حذر من الحدود باب رجم الحبالى من الترفى اذا أحصنت و ابن اثیر حدیث السقيفة وخلافته ابی بکر وارضاه وابن سعد ذکر امر رسول الله أبا بكر أن يصلى بالناس في مرضه والسيرة الحلبية ) یہ اسی دن کا واقعہ ہے جس دن رسول اللہ علیم کا وصال ہوا.یعنی ۲۶ مئی ۷۳۲ء بمطابق یکم ربیع الاول لا ھے.حضرت عمرؓ کے بعد حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے بیعت کی تو انصار میں سے حضرت بشیر بن سعد نے فوراً بیعت کر لی.اس کے بعد حضرت زید بن ثابت انصاری نے بیعت کی اور حضرت ابو بکر کا ہاتھ تھام کر انصار سے مخاطب ہوئے اور انہیں بھی حضرت ابو بکر کی بیعت کرنے کی ترغیب دی.چنانچہ انصار نے بھی حضرت ابو بکر کی بیعت کی.یہ بیعت تاریخ اسلام میں اور اسلامی لٹریچر میں بیعت سقیفہ اور بیعت خاصہ کے نام سے بھی مشہور ہے.قیام خلافت کے لئے آراء کے اعتبار سے صحابہ کے تین گروہ اس ساری بحث سے یہ منظر کھل جاتا ہے کہ آنحضرت نہ کی وفات پر صحابہ اس اصول پر متفق تھے کہ خلافت کا قیام امتِ مسلمہ کے لئے لابدی ہے.اس کے لئے ایک ایسا واجب الاطاعت امام ہونا ضروری ہے جو آنحضرت دال کے چلائے ہوئے سلسلہ کو قائم ودائم اور جاری وساری رکھے.لیکن باوجود اس اصول پر قائم ہونے کے، وہ ابتداء میں اس کی جزئیات میں مختلف آراء ر کھتے تھے.تفرقہ اور دیگر خطرات سے بچنے کے لئے اور اسلام کی پیش قدمی کے لئے بہترین سوچ جو وہ سوچ سکتے تھے ،انہوں نے سوچی.اس لحاظ سے اس ماحول میں صحتمند آراء کا اختلاف اور دلائل کی پیشکش کا ہونا ضروری تھا.بہر حال مجموعی تجزیہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مذکورہ بالا خیال کہ ایک امیر انصار میں سے اور ایک مہاجروں میں سے ہو، ایک رائے تھی جو آنحضرت ام کے وصال کے باعث پیدا شدہ خلا کو کسی حد تک پُر کرنے کے لئے فوری ضرورت کے طور پر سامنے آئی تھی.اس

Page 150

۱۳۶ کے ساتھ ساتھ خلافت کے قیام کے لئے دو اور آراء بھی تھیں.گویا یہ آراء تین حصوں میں بٹی ہوئی تھیں.ایک رائے یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ کے اہل بیت یا خاندان میں سے کوئی شخص آپ کا خلیفہ ہو کیونکہ وہ آپ کے منشاء کو بھی بہتر سمجھتا ہوگا اور صلیبی رشتہ کی وجہ سے وہ مؤمنوں کا پہلے سے ہی پسندیدہ اور محبوب ہوگا اس لئے اس کی اطاعت میں ہر فر دامت سرنگوں ہوگا.یہ رائے دنیوی بادشاہتوں کے عام تصور پر مبنی تھی کہ ایک بادشاہ کے بعد جب اس کا بیٹا بادشاہ بنتا ہے تو وہ پہلے سے ہی تسلیم شدہ بادشاہ ہوتا ہے اور لوگ بغیر کسی تردد کے اس کی اطاعت میں مصروف ہو جاتے ہیں.عام دنیوی رواج کے پیش نظر بظاہر یہ رائے بھی ایک مخلصانہ سوچ تھی.دوسری رائے یہ تھی کہ آنحضرت یم کے خلیفہ کے لئے اس کا اہلِ بیت یا اہلِ خاندان ہونا ضروری نہیں بلکہ جو اس منصب کا اصل حقدار ہو وہی آپ کا خلیفہ بنے.یہ رائے حقیقی روحانی اسلامی تصوّرِ خلافت اور اس کے قانون انتخاب پر مبنی تھی.بہر حال یہ دو خیال تھے جو ایک ہی وقت میں اس ماحول میں محسوس و مشہور تھے.تیسری سوچ جس کا ذکر ابتداء میں ہو چکا ہے، اس کی بنیاد در حقیقت مذکورہ بالا دوسری رائے ہی ہے.یعنی اختلاف یہ نہیں تھا کہ خلیفہ ہونا چاہئے یا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اختلاف یہ تھا کہ خلیفۃ الرسول کن لوگوں میں سے ہو.گروہ انصار کا خیال تھا کہ وہ واجب الاطاعت امام اگر انصار میں سے ہو تو اسلام کے مفاد میں بہترین ثابت ہو سکتا تھا.مہاجرین ایک اور عرفان کے پیش نظر یہ دیکھ رہے تھے کہ اسلام کا مفاد اس میں ہے کہ آنحضرت دم کا خلیفہ مہاجرین میں سے ہو.یہ روح تھی جو اُن آراء اور اختلاف آراء میں جلوہ گر تھی.بسا اوقات ان کے اظہار میں بعض صحابہ سے اپنے مختلف معیار سوچ اور متفرق عوامل کی وجہ سے ایسے خیالات کا اظہار ہو جاتا تھا جو قبائلی یا نسلی امتیازات کی ملاوٹ والے تھے.لیکن حیرت انگیز منظر یہ تھا کہ جب خلافت کا قیام ہو گیا تو مہاجر و انصار سب صحابہ نے اپنے ایسے خیالات کو پلک جھپکنے سے پہلے پس پشت ڈال دیا اور اپنے ایمان و عقیدت ،صدق و صفا اور اطاعت و وفا کو کامل طور پر خلیفہ وقت سے وابستہ کر دیا.چنانچہ جب حضرت ابو بکر کی بیعت

Page 151

(۱۳۷ ہوئی تو بیعت کرنے والوں میں اس قدر جوش و جذبہ تھا کہ انصار بھی خواہ وہ اوس سے تعلق رکھتے تھے یا خزرج سے، جلدی جلدی اور بڑھ بڑھ کر بیعت کرنے لگے.وہ اس مسابقت میں یہ بھی بھول گئے کہ رض حضرت سعد بن عبادہ جن کو چند لمحے پہلے وہ اپنا امیر بنا رہے تھے ، اب انہیں ان میں سے بعض کے پاؤں کی ٹھو کر لگ رہی تھی.حضرت سعد بن عبادہ بیمار اور وہیں بیٹھے ہوئے تھے.بیعت کرنے والے ان کے اوپر سے پھلانگ پھلانگ کر بیعت کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے.خلافت کے بارہ میں آنحضرت یم کی دو پیشگوئیوں کا پورا ہونا ۱: حضرت ابوبکر کی خلافت کی پیشگوئی یہاں آنحضرت ام کی یہ پیشگوئی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی : " لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَ ابْنِهِ وَ أَعْهَدَ أَنْ يَقُوْلَ الْقَائِلُوْنَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَتُّوْنَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَ يَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ ( صحیح بخاری کتاب المرضی باب قول المريض انى وجمع وار أساه.....کہ میں نے ایک دفعہ ارادہ کیا تھا کہ ابو بکر اور آپ کے بیٹے کو بلاؤں اور خلافت کی وصیت لکھ دوں تا کہ باتیں بنانے والے باتیں نہ بناسکیں اور اس کی تمنا کرنے والے اس کی خواہش نہ کریں.پھر میں نے کہا کہ ( ابو بکر کے علاوہ کسی بھی دوسرے کا ) اللہ تعالیٰ لازماً انکار کر دے گا اور مومن بھی اسے ضرور رد کر دیں گے.۲: قریش میں امامت کی پیشگوئی گے.آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا: "الأئِمَّةُ مِنْ قُرَيْشِ “ کہ امام قریش میں سے ہوں (السيرة الحلبية باب ما يذكر فيه مدة مرضه، وماوقع فيه...ومن الطیالسی حدیث ۹۲۶ بحوالہ خلافت رشده انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۴۸۲) آنحضرت ام کے ان الفاظ میں مہاجرین کے حق میں کوئی حکم نہیں تھا اور نہ ہی کوئی

Page 152

۱۳۸ سفارش تھی کہ آپ کے اس قول کی وجہ سے مہاجرین میں سے کسی کو خلافت سونپنا واجب ہو چکا تھا.بلکہ یہ ایک پیشگوئی تھی جو آپ نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر کی تھی اور اس پیشگوئی کو مہاجرین کے حق میں سچ ثابت ہونا لازم تھا.پس پیشگوئی پر مبنی ہونے کی وجہ سے آپ کا یہ فرمان کسی اعتراض کا ہدف نہیں بن سکتا.یہ پیشگوئی کن حکمتوں پر استوار تھی؟ ایک ظاہری جائزہ سے اس کی حسب ذیل وجوہات سامنے آتی ہیں.ا.ملہ عرب کا مرکزی شہر تھا اور علم توحید (خانہ کعبہ ) بھی یہیں پر تھا جس کے متولی قریش تھے.لہذا مذ ہبی لحاظ سے بھی ان کو دیگر قبائل پر فوقیت حاصل تھی.اس لئے دور و نزدیک کے دیگر قبائل قریش کے پاس تابعدارانہ حیثیت میں آتے رہتے تھے.اس زمانہ میں قریش ہی ایک ایسا قبیلہ تھا جو عرب میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل تھا.فتح مکہ کے اثرات کے سلسلہ میں قبل ازیں یہ لکھا جاچکا ہے کہ قریش کی ممتاز حیثیت کی وجہ سے دیگر قبائل ان پر نظریں جمائے بیٹھے تھے کہ وہ اسلام قبول کریں تو ان کے پیچھے دیگر قبائل بھی اسلام میں داخل ہوں گے.اس کے علاوہ متعدد شواہد ہیں جو قریش کی ممتاز حیثیت کو ظاہر کرتے ہیں.پس ان کے پیچھے چلنے میں کسی کو عار نہیں تھی.بلکہ وہ اس کی راہنمائی کو قبول کرتے تھے..اس کی ممتاز حیثیت اس وجہ سے بھی تھی کہ یہ قبیلہ آنحضرت ٹیم کا اپنا قبیلہ تھا.آپ کی وجہ سے اس کی ایک امتیازی عزت اور غیر معمولی عظمت قائم ہو چکی تھی.۴.قریش کے مورث اعلیٰ قصی بن کلاب نے حکومت کا جو نظام قائم کیا تھا اس کی وجہ سے قریش دیگر قبائل کی نسبت ملکی نظام و انصرام چلانے کی زیادہ صلاحیت رکھتے تھے.ان اوصاف میں ان سے زیادہ ماہر عرب میں کوئی دوسرا قبیلہ نہیں تھا..سب سے زیادہ نمایاں وجہ یہ تھی کہ آنحضرت م پر سب سے پہلے ایمان لانے والے مہاجرین تھے.انہوں نے ایک لمبا عرصہ آنحضرت ام کی صحبت اور تربیت پائی تھی.قربانیوں کی پیشکش میں بھی یہ دیگر مسلمانوں سے سبقت رکھتے تھے تعلیم قرآن وسنت میں بھی یہ دوسروں سے

Page 153

۱۳۹ بہت آگے تھے.اسی طرح اور کئی خوبیوں اور خصائل کے اعتبار سے یہ لوگ اسلام میں امتیازی شان کے حامل تھے.پس آنحضرت ﷺ کے فوراًبعد اسلام کے نظام او انصرام کے لئے مہاجرین میں سے خلیفہ ہونا الہی حکمتوں میں داخل تھا.جس کا اظہار آنحضرت لم نے پیشگوئی کی صورت میں کیا.آپ کی اس پیشگوئی میں مضمر جملہ حکمتوں سے حضرت ابوبکر بخوبی واقف تھے.اس لئے آپ نے اسلام کی بقا اور آنحضرت ﷺ کے بعد اس کے استحکام اور ترقی کے لئے ایک ٹھوس حقیقت اور ابدی سچائی پر مبنی خطاب فرمایا.یہ الگ بات ہے کہ آپ خود بھی مہاجرین میں سے تھے.مگر آپ کا یہ خطاب اپنے لئے کسی جاہ و حشم کی طلب پر مبنی نہیں تھا.مسجد نبوی میں حضرت ابوبکر کی عام بیعت ۲۴ ربیع الاول الاھے (۲۷ مئی ۱۶۳۲ء) سقیفہ میں حضرت ابوبکر صدیق کی بیعت سے اگلے روز جب سب لوگ مسجد نبوی میں جمع تھے.حضرت اسامہ والا لشکر بھی جرف سے مدینہ واپس پہنچ چکا تھا.اس میں شامل صحابہ بھی مسجد میں موجود تھے.حضرت ابوبکر منبر پر تشریف فرما تھے.حضرت عمر آپ کی موجودگی میں لوگوں سے مخاطب ہوئے اور آپ نے گزشتہ کل رونما ہونے والے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ”اے لوگو ! کل میں نے تم سے ایسی بات کہی تھی جو نہ کتاب اللہ میں تھی اور نہ ہی میں نے رسول اللہ ہم سے سنی تھی.میں رسول اللہ یم سے اپنی محبت کے جوش میں سمجھتا تھا کہ آپ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور بنفس نفیس ہمارے کاموں کی نگرانی فرمائیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہ کتاب ہمیشہ کے لئے باقی رکھی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ سلم کی رہنمائی فرمائی تھی.پس اگر تم اسے مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو تو اللہ تعالیٰ تمہاری بھی اسی طرح رہنمائی فرمائے گا جس طرح اس نے رسول اللہ علم کی رہنمائی فرمائی تھی.اللہ تعالیٰ نے اب تمہاری شیرازہ بندی اس

Page 154

۱۴۰ شخص کے ذریعہ کی ہے جو تم میں سے سب سے بہتر ہے.وہ رسول اللہ علیم کا ساتھی ہے جب وہ دونوں غار میں تھے اور وہ دونوں میں سے دوسرا ہے پس اٹھو اور اس کی بیعت کرو.“ ابن ہشام امر سقیفہ بنی ساعدہ، خطبة عمر بعد البيعة..) حضرت عمرؓ کے اس خطاب کے بعد مسجد میں حاضر سب لوگوں نے حضرت ابو بکر کی بیعت کی.اس بیعت کے موقع پر حضرت ابوبکر نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”اے لوگو! تمہاری باگ ڈور مجھے سونپی گئی ہے لیکن میں تم جیسا ہی ایک شخص ہوں اگر میں نیک کام کروں تو تم میری مددکر و اور اگر کوئی بُرا کام کروں تو مجھے درست کرو.سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت.تم میں سے کمزور شخص میرے نزدیک قوی ہے کیونکہ اس کا حق دلانے کے لئے میں اس کے ساتھ ہوں گا.پھر تم میں سے قوی شخص ضعیف ہوگا کیونکہ میں اس سے قابل ادا حق دلواؤں گا ، انشاء اللہ.جو قوم جہاد ترک کر دیتی ہے ، اللہ تعالیٰ اسے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے.جس قوم میں فحاشی عام ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس میں مصیبتیں اور آزمائشیں عام کر دیتا ہے.میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہوں تو تم میری اطاعت کرو.ہاں اگر میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا نافرمان ہوتا ہوں تو پھر تم پر میری اطاعت واجب نہیں.اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے.“ اس مختصر خطاب کے ساتھ ہی آپ نے لوگوں کو نماز کے لئے تیار ہونے کا ارشاد فرمایا.(ابن ہشام امر سقیفہ بنی ساعدہ، خطبۃ ابی بکر بعد البيعة..) خدا تعالیٰ نے ۲۶ مئی کو حضرت ابو بکر کو خلیفۃ الرسول کے منصب عالی پر فائز فرمایا اور آپ نے آنحضرت دم کے جسد اطہر کی تدفین کے بعد ۲۷ رمئی ۱۳۲ ء کو جماعت مومنین سے با قاعدہ

Page 155

۱۴۱ بیعت لی.پس یہاں خلافت علی منہاج النبوۃ کا پہلا دور شروع ہوا.خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ دور آخرین میں ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ۲۷ رمئی ۱۹۰۸ء کو پھر آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کا دوسرا جلوہ ظاہر ہوا اور امت میں پھر خلافت راشدہ ،خلافت على منهاج النبوۃ کا قیام ہوا اور خدا تعالیٰ کی تقدیر کے تحت اب اس انعام الہی کے ذریعہ اسلام کی فتح ہوگی اور وہ تمام ادیان پر غالب ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ ☆☆

Page 156

الدم

Page 157

۱۴۳ خلافت راشدہ خلفائے اربعہ پر ایک طائرانہ نظر

Page 158

الدلد

Page 159

۱۴۵ حضرت ابو بکر اور آپ کا دور خلافت اللہ تعالیٰ نے آپ کو یکم ربیع الاول لاھ بمطابق (۲۶ مئی ۶۶۳۲) مسند خلافت رسول پر متمکن فرمایا.آپ نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور تائید ونصرت کے ساتھ انوار و برکات نبوی کے ساتھ آنحضرت ام کے لائے ہوئے مشن کی تکمیل کے سفر کو جاری فرمایا.آپ کے عہد خلافت کے نمایاں کام حسب ذیل ہیں.ا: ج : ♡: :۶ بعض بنیادی عقائد کی تجدید اور انہیں استحکام فرمانا مثلاً : جماعت مومنین کی ایک ہاتھ پر شیرازہ بندی آنحضرت ام بعد از وصال اپنے جسم عنصری کے ساتھ واپس دنیا میں تشریف نہیں لائیں گے.آنحضرت ﷺ سے قبل تمام انبیاء اس دنیا سے رحلت فرما چکے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی دوبارہ دنیا میں واپس نہیں آئے گا.اللہ تعالی آنحضرت ام کی نیابت میں خلافتِ راشدہ جاری فرمائے گا.آنحضرت دم کے کسی حکم کو کسی حالت میں اور کسی قیمت پر ٹالا نہیں جائے گا.آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں حضرت اسامہ کے لشکر کی شام کے سرحدی علاقہ بلقاء میں ابنی کی طرف روانگی.جھوٹے باغی مدعیان نبوت کا استیصال.باغی منکرین زکوۃ کے فتنہ کی بیخ کنی.قرآن کریم کے متفرق اجزاء کی ایک کتابی شکل میں جمع و تدوین.عراق اور شام کے متعد د علاقوں کی فتح.

Page 160

۱۴۶ لا ۷: عرب کی مختلف صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم اور ان میں عتمال اور امراء وغیرہ کا تقرر الہی منشاء اور آنحضرت کم کی پیشگوئی کے مطابق اپنے بعد حضرت عمر کا بطور خلیفہ تقرر اسی طرح حضرت ابو بکر نے ربیع الاول لاھے سے جمادی الاول ۱۳ ھ تک سوا دو سال دیگر فرائض و امورِ خلافت سر انجام دیتے ہوئے اپنے حبیب یم کی عمر کے مطابق تریسٹھ سال کی عمر میں وصال پایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ابوبکر کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَإِنَّهُ كَانَ نُسْخَةٌ إِجْمَالِيَّةٌ مِنْ كِتَابِ النُّبُوَّةِ وَكَانَ إِمَامَ أَرْبَابِ الْفَضْلِ وَالفُتُوَّةِ وَمِنْ بَقِيَّةِ طِيْنِ النَّبِيِّينَ سر الخلافہ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۵۵) کہ وہ تو یقینا کتاب نبوت کا ایک اجمالی نسخہ تھے اور وہ تمام ارباب فضل و شجاعت کا امام ہے اور نبیوں کے خمیر کا بقیہ ہے.نیز فرمایا: وَلَا شَكَ أَنَّهُ فَخْرُ الْإِسْلَام وَ الْمُرْسَلِينَ (سر الخلافہ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۵۴) کر قطعی طور پر اسلام کے لئے بھی اور رسولوں کے لئے بھی فخر ہے.

Page 161

۱۴۷ حضرت عمر اور آپ کا دور خلافت حضرت ابو بکر نے الہی منشاء اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اپنی زندگی کے آخری ایام میں بعض صائب الرائے صحابہ کے مشورہ سے حضرت عمر کو خلیفتہ الرسول نا مزد کر دیا تھا.یعنی آپ " عملاً ( جمادی الاول ۱۳ ھ کے اواخر میں ) حضرت ابو بکر کی وفات کے دن سے خلافت کے فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل ہوئے.آپ کا عہدِ خلافت ،سنت و تعلیماتِ رسالت کے قیام کے عملی نمونوں سے معمور ہے مثلاً تعلیمات اسلامیہ کے مطابق ملکی نظم ونسق ، تعزیر حدود کے قیام، مالی نظام کی تشکیل اور بیت المال کا مضبوط قوانین اور نگرانی کے ساتھ قیام ، بدعات کا سد باب، تدوین حدیث کی ابتداء، غیر مسلموں کے حقوق کی نگہداشت کا نظام عوام کی فلاح و بہبود، غرباء اور مساکین کے حقوق کی نگہداشت کا نظام، رعایا کی خبر گیری، زرعی اصلاحات کا نفاذ، اشاعت اسلام کی مہمات، فوجی نظام کی ترتیب، فوجیوں کی تربیت، نظم و ضبط ، ٹریننگ اور مشقوں کے نظام کا قیام ، فوج کو آلات حرب کی فراہمی فوجی چھانیوں کا قیام،مساجد کی تعمیر وغیرہ قابلِ ذکر ہیں.نظام خلافت امت میں خلافتِ راشدہ کا قیام اور آغاز تو حضرت ابوبکر کے ذریعہ ہو چکا تھا مگر اپنے تفصیلی خد وخال کے ساتھ اس کا باقاعدہ نظام آپ کے عہد خلافت میں قائم ہوا.اس میں جمہوری طرز پر آراء اور حق نمائندگی کا بھی قیام عمل میں آیا.اس نظام کا ایک بڑا حصہ مجلس شورای کی تشکیل کی صورت میں تھا جس کا باقاعدہ نظام آپ کے ذریعہ جاری ہوا تبلیغ واشاعت کے کام کی توسیع ہوئی.اسی طرح آپ نے عمال ، امراء، گورنروں اور فوجی کمانڈروں وغیرہ کی نگرانی اور احتساب وغیرہ امور بھی باقاعدہ جاری فرمائے.اسی طرح ملکی نظم ونسق اور مفتوحہ علاقوں کا انتظام و

Page 162

۱۴۸ انصرام منظم اور مضبوط بنیادوں پر قائم فرمایا.عدلیہ کا با قاعدہ نظام قائم فرمایا.وغیرہ وغیرہ تعمیرات اور نئی آبادیاں : آپ کے دور میں بہت سی نئی تعمیرات ہوئیں.مکہ اور مدینہ کے درمیانی راستہ کو چوکیوں، پانی کی سبیلوں اور مسافروں کے قیام کے لئے سرائے وغیرہ بھی بنوا کر آسان بنایا.زراعت کے لئے نہریں کھدوائیں.سڑکیں ، پل ہمسجدیں، فوجی چھاؤنیاں اور بیر کیں، مختلف علاقوں میں بیوت الاموال کی عمارتیں اور دیگر سرکاری عمارتیں بنوائیں.اسی طرح کئی نئے شہر آباد کئے یا ان کی تعمیر نو کی.ان میں سے بصرہ ، کوفہ، فسطاط، موصل، حبیزہ وغیرہ قابل ذکر ہیں.آپ نے کاجھ میں حدود حرم پر نصب شدہ سب نشانوں کی تجدید بھی کروائی.مذہبی امور دیگر مذہبی امور میں دین اور شریعت کے احکام کا نفوذ ، سنت رسول کی تعمیل ، اشاعت اسلام کے کاموں کی توسیع ، عدل اور عدالت کا قیام علم وفضل کی ترویج وغیرہ آپ کے عہد کے زریں کارناموں میں سر فہرست ہیں.فتوحات آپ کے عہد خلافت میں فتح عراق کی تکمیل ہفتوحات ایران ،فتوحات شام، فتوحات مصر اور بعض دیگر علاقوں کی فتوحات بھی ہوئیں.شہادت: فیروز نامی ایک پارسی غلام نے ۲۸ ذوالحجہ ۲۳ھ کو نماز فجر کے دوران آپ پر قاتلانہ حملہ کر کے آپ کو شدید گھائل کر دیا.جس کے تین دن بعد یعنی یکم محرم بروز ہفتہ ۲۴ھ کو آپ جامِ شہادت نوش کر گئے.آپ کا عہد خلافت تقریباً دس سال سات ماہ پر مشتمل تھا.خلافت کمیٹی کا قیام قاتلانہ حملہ کے بعد آپ گواندازہ تھا کہ آپ اس سے جانبر نہ ہوسکیں گے.لہذا آپ نے اپنے بعد خلیفہ کے انتخاب کے لئے حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم پر مشتمل ایک کمیٹی ترتیب دی.

Page 163

۱۴۹ حضرت عثمان اور آپ کا دورِ خلافت حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد آپ کی تشکیل کردہ کمیٹی نے شہادت سے تیسرے روز متفقہ طور پر حضرت عثمان کو تیسر ا خلیفہ الرسول منتخب کیا.آپ کا عہد خلافت بھی گزشتہ خلفاء کی طرح تجدیدی تنظیمی اور اصلاحی کاموں نیز فتوحات سے معمور ہے.کئی مقامات پر گورنروں کے تبادلے اور تقرریاں بھی عمل میں آئیں.بعض علاقوں میں بغاوتیں اٹھیں تو ان کو دبایا گیا.مختلف علاقوں کو صوبوں اور اضلاع میں تقسیم فرمایا.ملکی معاملات میں سخت احتساب کا عمل جاری فرمایا.تعمیرات کا دائرہ وسیع ہوا.مدینہ پر سیلاب کی روک تھام کے لئے ایک بند تعمیر کیا اور پانی کا رخ پھیرنے کے لئے نہر کھدوائی.فتوحات: آپ کے بابرکت دور میں آذربائیجان، رے،اسکندریہ اور اندلس وغیرہ کے علاقے فتح ہوئے اور سلطنت اسلامیہ کی حدود قبرص، افریقہ اور خراسان، افغانستان،خراسان اور ترکستان وغیرہ تک وسیع ہوگئیں.بحری فتوحات کا آغاز بھی حضرت عثمان کے دور میں ہوا اور اس کے ذریعہ قبرص فتح ہوا.جمع قرآن آپ کے دور کا ایک بہت نمایاں کام اور تا قیامت جاری فیض یہ ہے کہ آپ نے تمام مسلمانوں کو قرآن کریم کی ایک قرآت پر جمع کر دیا.قبل ازیں مختلف قبائل اور علاقوں کی قراتوں کے مطابق قرآن کریم کے صحف تیار ہو چکے تھے اور وہ اپنی اپنی قرآت پر تلاوت کرتے تھے.آپ نے ان سب صحف اور قرآتوں کو کالعدم قرار دے کر سب کو قریش کی اصل قرآت کے مطابق ، جس میں قرآن کریم نازل ہوا تھا، صحیفہ تیار کروایا.اس پر تمام امت ہمیشہ کے لئے قائم ہے.فلاح و بہبود کے کام آپ نے تمام لوگوں کے لئے وظائف مقرر فرمائے.مستحقین کو

Page 164

۱۵۰ جاگیریں دیں.جانوروں کے لئے چھا گا ہیں، نوائیں.آپ کے دور میں تمام عالم اسلام میں خوشحالی کا دور دورہ تھا.مسجد حرام کی توسیع آپ نے ۲۶ھ میں مسجد حرام سے ملحقہ بعض مکانات خرید کر ان کی زمین کو مسجد حرام میں شامل فرما کر اس کی توسیع کروائی.حدود حرم کے نشانوں کی تجدید اسی سال آپ نے حدود حرم کے نشانوں کی تجدید کرائی اور ایک کمیٹی تشکیل دی تا کہ وہ اس کے نشانات و علامات کا خیال رکھے اور ہر سال ان نشانوں کی مرمت وغیرہ کرائے جو اس کی حدود کی تعین کے لئے نصب کئے گئے ہیں.مسجد نبوی کی توسیع : ۲۹ھ میں آپ نے مسجد نبوی کی توسیع اور تعمیر نو کروائی.اس کی تعمیر نو تراشیدہ پتھروں سے کی گئی اور ستون بھی پتھروں کے بنوائے اور چھت پر ساگوان کی لکڑی لگوائی.توسیع کے بعد مسجد کا طول ایک سو ساٹھ ہاتھ اور عرض ایک سو پچاس ہاتھ ہو گیا.شہادت: آپ کو بروز جمعہ ۱۸ ذوالحجہ ۳۵ ، آپ کے گھر پر حملہ کر کے شہید کر دیا گیا.اگلے روز آپ کی وصیت کے مطابق حضرت زبیر نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر جنت البقیع میں تدفین کی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلفائے ثلاثہ کے بارہ میں فرماتے ہیں : أَظْهَرَ عَلَيَّ رَبِّي أَنَّ الصِّدِيْقَ وَالْفَارُوْقَ وَعُثْمَانَ كَانُوا مِنْ أَهْلِ الصَّلَاحِ وَالْإِيْمَانِ وَكَانُوْا مِنَ الَّذِيْنَ أَثَرَهُمُ اللَّهُ وَخُصُّوا بِمَوَاهِبِ الرَّحْمَنِ 66 سر الخلافہ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه (۳۲۶) کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم سب اہلِ صلاح اور اہلِ ایمان تھے اور یہ لوگ تھے جن کو خدائے رحمن نے اپنے حضور میں برگزیدہ فرمایا اور اپنی موہبت سے خاص کیا تھا.

Page 165

۱۵۱ حضرت علی اور آپ کا دور خلافت حضرت علی کو حضرت عثمان کی شہادت سے اگلے روز خلیفہ منتخب کیا گیا اور تقریباً تمام صحابہ نے برضا ورغبت آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.حضرت علی کا دور خلافت پانچ سالوں پر محیط ہے.یہ سارا عرصہ عمومی طور پر خانہ جنگیوں اور ہمہ جہتی شورشوں کی نذر ہو گیا.اس وجہ سے اسلامی سلطنت کی جغرافیائی حدود میں کوئی وسعت نہ ہوئی اور فتوحات کا سلسلہ رک گیا.اس بدامنی کے حالات اور شورشوں کے قلع قمع کے لئے مہمات کے باوجود آپ کا دور خلافت عظیم الشان کاموں سے معمور ہے.مثلاً حضرت عمر کے قائم کردہ نظامِ حکومت اور شریعت کو پوری طرح قائم رکھا اور نافذ کیا.اس میں عمال کی نگرانی کا نظام، محاصل کے شعبہ میں اصلاحات کا قیام، خراج کی آمدنی کا احتساب،مضبوط بنیادوں پر عدل و مساوات کا قیام.بازار کی نگرانی کے نظام کا اجراء.جنگلات سے مالی فوائد حاصل کرنا ، رعایا سے شفقت اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے ہر نوع کا انتظام کرنا، ذمیوں سے نرم سلوک، فوجی چوکیاں قائم کرنا، قلعوں کی تعمیر اور بغاوتوں کو کچلنا، پلوں کی تعمیر وغیرہ وغیرہ قابلِ ذکر امور ہیں.خدمت قرآن : امام جلال الدین سیوطی نے تحریر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں آپ قرآن کریم کی تدوین ترتیب میں مصروف رہے.وہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے آپ سے پوچھا: کیا آپ کو میری خلافت نا پسند ہے؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے.مجھے آپ کی خلافت و امارت سے کسی قسم کی ناپسندیدگی یا انکار نہیں ہے لیکن میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک قرآن کریم کو ترتیب کے ساتھ جمع نہ کرلوں، اس وقت تک پنجوقتہ نماز کے سوا کسی دوسرے کام کومستعدی سے نہ کروں.

Page 166

۱۵۲ دینی خدمات آپ کے دور میں تبلیغ و اشاعت اور مذہبی تعلیم وتلقین کے کام بھی وسیع ہوئے.خارجیوں اور سبائیوں کی سرکوبی بھی آپ کی ایک بہت بڑی دینی خدمت تھی.وہ آپ کی محبت میں اس قد رغلو کرنے لگے تھے کہ آپ کو معبود قرار دیتے تھے.آپ نے ان کے ان بد عقائد کی وجہ سے ان پر سختی کی.مسلمانوں کی اخلاقی روایات و اقدار کے قیام کے لئے آپ نے بہت کام سرانجام دیئے.بدعات و بد رسومات کا بھی قلع قمع کیا.معاشرہ کو جرائم سے پاک کرنے کے لئے کڑے اقدامات اور سخت سزائیں قائم کیں.اس سلسلہ میں تعزیرات اور حدود کے ذریعہ اسلامی اقدامات بھی کئے.آپ کے دور میں خارجیوں کے علاوہ بھی کرمان اور فارس کی طرف بعض بغاوتوں نے سر اٹھایا تو آپ نے ان کو دبانے کی کارروائیاں کیں.شہادت: ۲۷ رمضان المبارک ۲۰ھ آپ کی شہادت ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت علی کے دور کے بارہ میں فرماتے ہیں: " وَالْحَقُّ اَنَّ الْحَقَّ كَانَ مَعَ الْمُرْتَضَى وَمَنْ قَاتَلَهُ فِي وَقْتِهِ فَبَغَى وَ طَغَى وَلَكِنْ خِلَافَتُهُ مَا كَانَ مِصْدَاقَ الْأَمْنِ الْمُبَشِّرَ بِهِ مِنَ الرَّحْمَنِ بَلْ أَوْذِيَ الْمُرْتَضَى بِالْأَقْرَانِ وَكَانَ فِي كُلِّ يَوْمٍ جَدِيدٍ نَزَاعُ قَوْمٍ جَدِيْدٍ وَكَثُرَتْ فِتَنُ الزَّمَنِ وَ طَارَتْ طُيُورُ الْأَمْنِ وَكَانَتِ المَفَاسِدُ هَالِجَةً وَالْفِتَنُ مَائِجَةٌ حَتَّى قُتِلَ الْحُسَيْنُ سَيِّدُ الْمَظْلُومِيْنَ.66 سر الخلافته روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۵۲) کہ سچ یہ ہے کہ حق اور راستی حضرت علی کے ساتھ تھی.جس نے ان کی خلافت کے دور میں ان سے مقاتلہ کیا، اس نے بغاوت اور سرکشی کی.لیکن امن جس کی بشارت ( آیت استخلاف میں ) دی گئی

Page 167

۱۵۳ ہے، آپ کے وقت میں پوری نہ ہو سکی.بلکہ آپ کو اپنے لوگوں کی طرف سے تکلیف پہنچی.حال یہ تھا کہ ہر روز کسی نہ کسی گروہ کی طرف سے کوئی نہ کوئی نیا جھگڑا کھڑا کر دیا جاتا تھا.چنانچہ فتنہائے زمانہ بڑی کثرت سے پیدا ہوئے اور طائر امن پرواز کر گیا.مفاسد بپھر گئے اور فتنوں نے خوب جوش مارا حتی کہ نوبت یہانتک پہنچ گئی کہ سید المظلومین حضرت امام حسین شہید کر دئیے گئے.نیز فرمایا: كَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَقِيًّا نَقِيًّا مِنَ الَّذِيْنَ هُمْ أَحَبُّ النَّاسِ إلَى الرَّحْمَانِ..........وَكَانَ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ الْمُقَرَّبِيْنَ وَمَعَ ذَلِكَ كَانَ مِنَ السَّابِقِيْنَ فِي ارْتَضَاعِ كَأْسِ الْفُرْقَانِ وَ أُعْطِيَ لَهُ فَهُمُ عَجِيْبُ لِاِدْرَاكِ دَقَائِقِ الْقُرْآن سر الخلافہ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۵۸) کہ حضرت علی متقی ، پاکباز تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جو خدائے رحمن کو بیحد پیارے ہوتے ہیں.اور وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے تھے.اس کے ساتھ وہ فرقان مجید کے دودھ کے جام چڑھانے والوں میں پیش پیش تھے.اور انہیں قرآن کریم کے دقائق کے ادراک کا عجیب فہم عطا کیا گیا تھا.رضی اللہ عنہ یہاں ضمنی طور پر یہ بیان کرنا غیر ضروری نہ ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اقتباس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے جن بنیادوں پر وعدہ خلافت کیا ہے ان میں سے جزوی طور پر مومنوں میں بعض بنیادوں کے کمزور ہو جانے یا کھوکھلی ہو جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بعض وعدوں کو بھی موقوف کر دیتا ہے.علی ھذا القیاس اس طرح رفتہ رفتہ خلافت کا وعدہ مجموعی طور پر ہی اٹھا لیا جاتا ہے.

Page 168

۱۵۴ بِسْمِ اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِيمِ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ “ (النور: ۵۶) ترجمہ: اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنادے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا.اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اُسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور اُن کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا.وہ میری عبادت کریں گے ( اور ) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دئیے جائیں گے.

Page 169

خلافت راشده (دَورِ آخرین )

Page 170

مندرجات خلافت احمدی حضرت خلیفہ ایسیح الاوّل اور آپ کا دور خلافت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت خلافت کا دور آپ کا عظیم الشان کارنامہ وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں آپ کا مقام تصنیفات حضرت خلیفہ اسیح الاوّل حضرت علیہ اسبیع الثانی اور آپ کا دور خلافت حضرت اصلح الموعود کی زندگی کے بعض خاص واقعات المبشرات تجدید و تمکنت و استحکام دین کے چند امور کا ذکر آپ کے دورِ خلافت میں اکناف عالم میں مشنوں کا آغاز حضرت خلیفہ اسیح الثالث اور آپ کا دور خلافت خلافت کا دور خلافت ثالثہ کی بابرکت تحریکات

Page 171

۱۵۷ قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث کے دور کی بعض با برکت تحریکات اور منصوبے ۱۹۷۴ء کا دور پر آشوب آپ کی زریں ہدایات بیرونی ممالک کے تبلیغی دورے آپ کا آخری خطاب حضور کی علالت اور وصال حضرت خلیلة اصبح الثالث کا یادگار لٹریچر حضرت خلیفہ مسیح الرابع اور آپ کا دور خلافت خلافت کا دور دورِ خلافت رابعہ کے بعض اہم واقعات قدرت ثانیہ کے مظہر رابغ کے دور کی بعض با برکت تحریکات اور منصوبے وفات حضر خلیق است انام ایدہ اللہ اور آپ کا دور خلافت حضرت خلیفۃ السیح الخامس ایدہ اللہ الودود کے اسفار قدرت ثانیہ کے مظہر خامس کے دور کی بعض با برکت تحریکات اور منصوبے اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور ترقی حضور انور کے خطاب سے نشاۃ ثانیہ اور اسلام کی ترقی کے چند امور کا بیان

Page 172

۱۵۸ خلافت خورشید جو بجھا تو طلوع قمر ہوا پھر ہر نگر ہوا روشن خدا کے نور سے سے پھر تکمیل فرض کر کے چلا خُلد کو جو ایک تو دوسرا ستارا نوید سحر ہوا احمد تیری دعا سے ہم خوش نصیب ہیں جب غم میلا کوئی تو کوئی چارہ گر ہوا نہ مشکلوں کا ڈر نہ اندھیروں کا خوف ہے نور خدا یہ جب سے میرا ہمسفر ہوا آساں ہیں راستے اور منزل ہے زیر پا جب راہنما خلیفہ راشد خضر ہوا

Page 173

۱۵۹ پیجہتی و وفا که خلافت کے دم سے ہے برکت سے جس کی حق کا شجر سبز تر ہوا دیکھو اے مومنو کہ خلافت کے فیض سر دین کا بلند رشک و فخر ہوا احمد کے گلستاں ہمیشہ رہے بہار P یہ آب مصطفیٰ سے با برگ و ثمر ہوا د, سجدے کا اذن دے کے مجھے تاجور کیا“ قدموں میں تیرے خاک ہوا تو معتبر ہوا (ڈاکٹر مہدی علی قمر امریکہ)

Page 174

17.خلافت احمدیہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے دو را ول اور دور آخر کو ایک مشابہت یہ بھی بخشی ہے کہ جس تاریخ کو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا وصال ہوا یعنی ۲۶ مئی اسی تاریخ یعنی ۲۶ رمئی ہی کو آپ کے عاشق صادق عکس کامل حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہوئے.آپ کے وصال سے اگلے روز یعنی ۲۷ مئی کو جماعتِ آخرین میں قدرت ثانیہ کا ظہور ہوا اور تمام جماعت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت حکیم مولوی نور الدین گو مسیح موعود علیہ السلام کا پہلا خلیفہ تسلیم کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی.

Page 175

میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہو نگے.

Page 176

۱۶۱ حضرت خلیفہ اسیح الاول اور آپ کا دورِ خلافت حاجی الحرمین حضرت حافلا مولوی نورالدین صاحب طریقہ اسی الاول ۱۹۳۱ء میں پنجاب کے ایک قدیم شہر بھیرہ میں پیدا ہوئے.والد کا نام حافظ غلام رسول اور والدہ کا نام نور بخت تھا.۳۲ ویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب حضرت عمر فاروقی سے ملتا ہے.آپ کے خاندان میں بہت سے اولیاء و مشائخ گزرے ہیں.گیارہ پشت سے تو حفاظ کا سلسلہ بھی برابر چلا آتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ اس مقدس خاندان کو ابتداء سے ہی قرآنِ کریم سے والہانہ شغف رہا ہے.آپ نے ابتدائی تعلیم ماں باپ سے حاصل کی پھر لاہور اور راولپنڈی میں تعلیم پائی.سکول سے فارغ ہو کر چار سال پنڈ دادنخان میں سکول کے ہیڈ ماسٹر رہے.پھر ملا زمت ترک کردی اور حصول علم کے لئے رامپور، لکھنؤ ، میرٹھ اور بھوپال کے سفر اختیار کئے.ان ایام میں آپ نے عربی، فارسی، منطق ، فلسفہ ،طب غرض ہر قسم کے مروجہ علوم سیکھے.قرآن کریم سے قلبی لگاؤ تھا اور اس کے معارف آپ پر کھلتے تھے.آپ کو تو کل کا اعلیٰ مقام حاصل تھا.ہر وقت دعاؤں سے کام لیتے تھے.جہاں جاتے غیب سے آپ کے لئے سہولت کے سامان پیدا ہو جاتے اور لوگ آپ کے گرویدہ ہو جاتے.ایک مرتبہ ایک رئیس زادہ کا علاج کیا تو اس نے اس قدر رو پیہ دیا کہ آپ پر حج فرض ہو گیا.چنانچہ آپ مکہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے ، حج بھی کیا اور وہاں کئی اکا بر علماء فضلاء سے حدیث پڑھی.اس وقت آپ کی عمر ۲۴، ۲۵ برس تھی.بلا د عرب و ہند سے واپس آکر بھیرہ میں تدریس اور مطب کا آغا ز کیا.مطب کی شان سیتھی کہ مریضوں کے لئے نسخے لکھنے کے دوران احادیث وغیرہ بھی پڑھاتے.۱۸۷۷ء میں لارڈلٹن وائسرائے ہند کے دربار میں شرکت کی.کچھ عرصہ بھوپال میں قیام کیا.پھر ریاست جموں وکشمیر میں ۱۸۷۶ء سے ۱۸۹۲ ء تک شاہی طبیب رہے.

Page 177

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت گورداسپور کے ایک شخص کے ذریعہ آپ کو حضرت مسیح موعود کا غائبانہ تعارف ہوا اور حضور کا ایک اشتہار بھی نظر سے گزرا.مارچ ۱۸۸۵ء میں قادیان پہنچ کر حضور سے ملاقات کی.اس وقت حضور نے نہ کوئی دعوای کیا تھا نہ بیعت لیتے تھے.تاہم فراست صدیقی سے آپ نے حضور کو شناخت کیا اور حضور کے گرویدہ ہو گئے.حضور کے ارشاد پر آپ نے پادری تھامسن ہاول کے اعتراضات کے جواب میں کتاب فصل الخطاب اور پنڈت لیکھرام کی کتاب ” تکذیب براہین احمدیہ کے جواب میں تصدیق براہین احمدیہ تصنیف فرما ئیں.۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء میں جب لدھیانہ میں بیعتِ اولیٰ ہوئی تو سب سے پہلے آپ نے بیعت کا شرف حاصل کیا.ستمبر ۱۸۹۲ء میں ریاست کشمیر سے آپ کا تعلق منقطع ہو گیا تو بھیرہ میں مطب جاری کرنے کے لئے ایک بڑا مکان تعمیر کرایا.ابھی وہ مکان مکمل نہیں ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے ارشاد کی تعمیل میں قادیان میں دھونی رما کر بیٹھ رہے.قادیان میں ایک شفا خانہ بنوا کر اس میں مطب شروع کیا.حضرت مسیح موعود کے ساتھ دربار شام میں نیز سیر وسفر میں ہمرکاب رہتے.حضور کی مقدس اولاد کو قرآن و حدیث پڑھاتے.صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے پھر طالب علموں کو درس حدیث دیتے اور طب پڑھاتے.بعد نماز عصر روزانہ درسِ قرآن کریم دیتے.عورتوں میں بھی درس ہوتا.مسجد الاقصیٰ میں پنجوقتہ نماز اور جمعہ کی امامت کراتے.جب قادیان میں کالج قائم ہوا تو اس میں عربی پڑھاتے رہے.دسمبر ۱۹۰۵ء میں انجمن کار پرداز مصالح قبرستان کے امین مقرر ہوئے.جب صدر انجمن بنی تو اس کے پریذیڈنٹ مقرر ہوئے.حضرت مسیح موعود کو حوالہ جات نکالنے میں مدد دیتے ، حضور کی تصانیف کی پروف ریڈنگ کرتے اور مباحثات میں مدد دیتے.اخبار الحکم اور البدر کی قلمی معاونت فرماتے.قرآن کریم کا مکمل ترجمہ کیا اور چھپوانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو دیا لیکن صرف پہلا پارہ چھپ سکا.خلافت کا دور حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو جبکہ حاجی الحرمین حضرت مولوی

Page 178

۱۶۳ حکیم نورالدین کی عمر ۶۷ سال تھی خلیفہ منتخب ہوئے.قریبا بارہ سو افراد نے بیعتِ خلافت کی.آپ نے شروع خلافت سے ہی واعظین سلسلہ کا تنقر رفرمایا.شیخ غلام احمد صاحب، حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی، حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اولین واعظ مقرر ہوئے جنہوں نے ملک کے طول و عرض میں پھر کر خدمات سرانجام دیں، بے شمار تقاریر کیں ،مباحثات کئے اور متعد دمقامات پر جماعتیں قائم کیں.آپ کے دور خلافت میں ۱۹۰۹ ء گرلز سکول اور اخبار ” نور“ کا اجراء ہوا.نیز مدرسہ احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.1910ء میں بیت نور کی بنیا درکھی گئی.اسی طرح مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کے بورڈنگ کی بنیاد رکھی گئی.مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی.حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی کی کوششوں سے انجمن انصار اللہ کا قیام عمل میں آیا اور اخبار الفضل جاری ہوا.۱۹۱۳ ء میں یورپ میں سب سے پہلا احمد یہ مشن قائم ہوا.آپ " کا عظیم الشان کارنامہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ آپ نے خلافت کے نظام کو مضبوطی سے قائم کر دیا اور خلافت کی ضرورت اور اہمیت کو بار بار جماعت کے سامنے پیش کر کے اس عقیدہ کو جماعت میں راسخ کر دیا کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے.انسانی منصوبوں سے کوئی شخص خلیفہ نہیں بن سکتا.خلافت کے الہی نظام کو مٹانے کے لئے منکرین خلافت نے جوفتنہ وفساد برپا کیا اور لوگوں کو ورغلانے اور اپنا ہم خیال بنانے کی جو کارروائیاں کیں ، آپ نے ان کا تارو پود بکھیر دیا.آپ نے مختلف اوقات میں بیعت کی اہمیت اور مقام خلافت کے متعلق ارشادات فرمائے.چنانچہ آپ نے ایک دفعہ فرمایا: میں نے تمہیں بارہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا کسی انسان کا کام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.آدم کو خلیفہ بنایا کس نے؟ بار ہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” إِنِّی جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيْفَةٌ“اس

Page 179

۱۶۴ خلافت آدم پر فرشتوں نے اعتراض کیا.مگر انہوں نے اعتراض کر کے کیا پھل پایا ؟ تم قرآن مجید میں پڑھ لو آخر انہیں آدم کے لئے سجدہ کرنا پڑا.پس اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے اور وہ اعتراض کرنے والا فرشتہ بھی ہو تو میں اُسے کہہ دوں گا کہ آدم کی خلافت کے سامنے سر بسجو د ہو جاؤ تو بہتر ہے اور اگر وہ اباء اور استکبار کو اپنا شعار بنا کر ابلیس بنتا ہے تو پھر یا در کھے کہ ابلیس کو آدم کی مخالفت نے کیا پھل دیا.میں پھر کہتا ہوں کہ اگر کوئی فرشتہ بن کر بھی میری خلافت پر اعتراض کرتا ہے تو سعادت مند فطرت اسے أسْجُدُوا لِآدَمَ کی طرف لے آئے گی.پھر آپ نے اپنی ایک تقریر میں فتنہ پردازوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ( بدر ۴ جولائی ۱۹۱۲ء) تم اس بکھیڑے میں کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.پس جب میں مر جاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہوگا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا...تم نے میرے ہاتھ پر اقرار کئے ہیں.تم خلافت کا نام نہ لو.مجھے خدا نے خلیفہ بنادیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہوسکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے.اگر تم زیادہ زور دو گے تو یاد رکھو میرے وردو پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے.ای طرح آپ نے ایک اور موقع پر فرمایا: ( بدر ۴ جولائی ۱۹۱۲ء تقریر احمد یہ بلڈ نگ لاہور ۱۶، ۱۷ جون ۱۹۱۲ء) میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے جس طرح آدم اور ابو بکر و عمر کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا.( بدر ۴ جولائی ۱۹۱۲ء)

Page 180

۱۶۵ پھر فرمایا: وو مجھے اگر خلیفہ بنایا ہےتو خدا نے بنایا ہے اور اپنے مصالح سے بنایا ہے.خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی.....خدا تعالیٰ نے معزول کرنا ہوگا تو وہ مجھے موت دے دے گا.تم اس معاملہ کو خدا کے حوالہ کر دو تم معزولی کی طاقت نہیں رکھتے جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا.(الحکم ۲۱ جنوری ۱۹۱۴ء) منکرین خلافت نے اپنے خیالات کی ترویج کے لئے لاہور سے ایک اخبار جاری کیا جس کا نام پیغام صلح رکھا.یہ اخبار حضرت خلیفتہ اسی الاول کے نام بھی ارسال کیا جانے لگا.آپ نے اس کے مضامین کو پڑھ کر فرمایا ” یہ تو ہمیں پیغام جنگ ہے.“ اور آپ نے بیزار ہوکر اس اخبار کو وصول کرنے سے انکار کر دیا.وفات آپ اپنی خلافت کے سارے دور میں جہاں قرآنِ کریم اور احادیث نبوی کے درس و تدریس میں منہمک اور کوشاں رہے وہاں آپ نے خلافت کے مسئلہ کو بار بار تقریروں اور خطبات میں واضح کیا یہاں تک کہ جماعت کی غالب اکثریت نے اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لیا.علالت کے دوران خفیہ ٹریکٹوں کی اشاعت نے آپ کو بہت دُکھ پہنچایا اور آپ کی صحت پر بہت بُرا اثر ڈالا.بالآخر آپ ۱۳ مارچ ۱۹۱۷ء بروز جمعہ اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں آپ کا مقام آپ کس شان اور رتبہ کے عظیم انسان تھے، اس کا اندازہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درج ذیل اقتباس سے ہوتا ہے.آپ نے حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کو آیات الہیہ میں سے ایک

Page 181

آیت قرار دیا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: میں رات دن خدا کے حضور چلاتا اور عرض کرتا تھا کہ اے میرے رب میرا کون ناصر و مددگار ہے.میں تنہا ہوں اور جب دعا کا ہاتھ پے در پے اُٹھا اور فضائے آسمانی میری دعاؤں سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو شرف قبولیت بخشا اور ربّ العالمین کی رحمت نے جوش مارا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا...اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے....جب وہ میرے پاس آکر مجھ سے ملا تو میں نے اسے اپنے رب کی آیتوں میں سے ایک آیت پایا اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ میری اس دعا کا نتیجہ ہے جو میں ہمیشہ کیا کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے اور میں لوگوں کی مدح کرنا اور ان کے شمائل کی اشاعت کرنا اس خوف سے بُراسمجھتا تھا کہ مبادا انہیں نقصان پہنچائے مگر میں اسے ان لوگوں میں سے پاتا ہوں جن کے نفسانی جذبات شکستہ اور طبعی شہوات مٹ گئی ہیں اور ان کے متعلق اس قسم کا خوف نہیں کیا جاسکتا.وہ میری محبت میں قسم قسم کی ملامتیں اور بدزبانیاں سہتا اور وطن مالوف اور دوستوں سے مفارقت اختیار کرتا ہے اور میرا کلام سننے کے لئے اس پر وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کے لئے اپنے اصل وطن کی یاد بھلا دیتا ہے اور ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض رکت تنفس کی پیروی کرتی ہے.“ آئینہ کمالات اسلام ترجمہ عربی عبارت.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۸۱، ۵۸۲)

Page 182

رد تناسخ تصنیفات حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نمبر شمار نام کتاب (1 (۲ (۴ فصل الخطاب في مسئلة فاتحة الكتاب فصل الخطاب مقد متہ اہل الکتاب ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات تصدیق براہین احمدیہ ۵) خطوط جواب شیعہ ورد نسخ قرآن سنِ اشاعت صفحات ۱۲۸ ۴۶۸ ۷۲ ۲۱۲ ۲۶ ۳۶ ۱۸۷۹ء ۱۸۸۸ء ۱۸۸۹ء ١٨٩٠ء 1901ء ۱۸۹۱ء ابطال الوہیت مسیح ۹۱-۱۸۹۰ء ۲۲ (A (۹ (1+ تفسیر سورة الجمعه ١٩٠٣ء نورالدین بجواب ” ترک اسلام“ ۱۹۰۴ء دینیات کا پہلا رسالہ ١٩٠٦ء ۶۶ ۲۵۶ ۲۰ 11) مبادی الصرف والنحو 1904ء (۱۲) ترجمۃ القرآن پاره اول معه تفسیری حواشی ۱۳) وفات مسیح موعود ۱۴) درس القرآن ۱۹۰۷ء ۱۹۰۸ء ١٠-١٩٠٩ء ۱۵) خطبات نور (14 ۱۶) روحانی علوم ۱۹۱۲ء ۲۴ ۴۰۲ ۳۷۲ ۱۹۰۸ء ۱۷ مرقاة اليقين في حياة نورالدین (خود نوشت سوانح) ۱۳۳۱ھ ۲۷۲

Page 183

۱۶۸ حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور آپ کا دور خلافت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان بیٹے کی پیدائش کی خبر دی اور اس کی جملہ صفات سے بھی آپ کو آگاہ فرمایا.آپ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ اس تفصیلی پیشگوئی کو ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ شائع کیا.آپ کے اس موعود بیٹے کی خبر صحف سابقہ میں بھی دی گئی تھی اور خاص طور پر آنحضرت ﷺ نے يَتَزَوَّجُ وَ يُوْلَدُ لَہ“ کے الفاظ میں بھی " اس کی نشاندہی فرمائی تھی.اسی طرح صلحائے امت نے بھی مسیح موعود کے اس عظیم المرتبت موعود فرزند کی پیشگوئیاں کی تھیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت شیم کی مذکورہ بالا پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : قَدْ أَخْبَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعَوْدَ يَتَزَوَّجُ وَ يُوْلَدُ لَهُ فَفِي هَذَا إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ اللَّهَ يُعْطِيْهِ وَلَدًا صَالِحًا يُشَابِهِ أَبَاهُ وَلَا يَأْبَاهُ وَيَكُونُ مِنْ عِبَادِ اللهِ الْمُكْرَمِيْن آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۷۸) کہ رسول اللہ سلم نے یہ خبر دی تھی کہ مسیح موعود یقیناً شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہوگی.دراصل اس میں اشارہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے یقیناً ایسا صالح بیٹا عطا فرمائے گا جو اپنے باپ کے مشابہ ہوگا اور اس کے خلاف نہیں ہوگا اور وہ اللہ تعالیٰ کے معز ز بندوں میں سے ہوگا.اس تحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے تحت اس موعود بیٹے کو اپنے مشابہ قرار دیا ہے.اسی طرح آپ نے جب اس بیٹے کے بارہ میں الہی بشارت کا ذکر کیا تو فرمایا:

Page 184

۱۶۹ بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہوگا ایک دن محبوب میرا کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذادی فسبحان الذي أخزى الأعادي اللہ تعالیٰ نے ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء بروز ہفتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس موعود بیٹے سے نوازا اور اس کے بارہ میں آپ کی پیشگوئی کے ساتھ دیگر تمام متعلقہ پیشگوئیاں بھی پوری فرمائیں.یہ غیر معمولی شان اور امتیازات کا حامل بیٹا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد مصل تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوسرا خلیفہ اور مسیح موعود بنایا.اللہ تعالیٰ نے ۱۹۴۴ء میں عالم رویا میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ جاری فرمائے : وو " أنا المَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِيْلُهُ وَ خَلِيفَتُهُ الفضل یکم فروری ۱۹۴۴ء) کہ میں مسیح موعود ہوں ، اس کا مثیل ہوں اور اس کا خلیفہ ہوں.پھر اس کیفیت اور حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے آپ عالم رویا میں ہی فرماتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ میری زبان پر کیا جاری ہوا.اور اس کا کیا مطلب ہے کہ میں مسیح موعود ہوں.اس وقت معا میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس کے آگے جو الفاظ ہیں کہ مثیلۂ میں اس کا نظیر ہوں وخلیفتہ اور اس کا خلیفہ ہوں.یہ الفاظ اس سوال کو حل کر دیتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا.اس کے مطابق اور اسے پورا کرنے کے لئے یہ فقرہ میری زبان پر جاری ہوا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس کا مثیل ہونے کے لحاظ سے ایک رنگ میں میں بھی مسیح موعود ہی ہوں.کیونکہ جو کسی کا نظیر ہوگا اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لے لے گا ، وہ

Page 185

۱۷۰ ایک رنگ میں اس کا نام پانے کا مستحق بھی ہوگا.“ الفضل یکم فروری ۱۹۴۴) پس حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشابہ اور مثیل ہونے کی وجہ سے آپ کے بروز کی حیثیت رکھتے تھے.اس حقیقت کو حضرت خلیفہ اسیح الا ول بھی بیان فرمایا کرتے تھے.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: " حضرت خلیفہ امسیح الاول فر مایا کرتے تھے کہ میرا زمانہ اس لئے حضرت مسیح موعود کا زمانہ ہے کہ دوبارہ بعثت مسیحی میں ابھی کچھ وقفہ ہے.اس لئے میں اس وقفہ کو پورا کرنے کے لئے آیا ہوں.جب وہ ہوگی تو خلیج پاٹ کر ایک ہی زمانہ پھر شروع ہو جائے گا.پس در حقیقت حضرت مسیح موعود کا زمانہ ممتد ہے میرے زمانے تک جب تک میں ہوں اسوقت تک حضرت مسیح موعود ہی کا زمانہ ہے.غرض تمام پیشگوئیوں سے ظاہر ہے کہ یہ زمانہ مسیح موعود کا ہے اور میں ان کا بروز اور ان کا نام پانے والا ہوں.“ حضرت ا مصلح الموعود کی زندگی کے بعض خاص واقعات آمین الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۶۱ء) ۷ جون ۱۸۹۷ ء اس موقع پر سیدنا حضرت مسیح موعود نے نظم ” محمود کی آمین،،لکھی ۱۸۹۸ء مدرسہ تعلیم الاسلام میں اکتوبر ۱۹۰۲ء میں سیدہ محمودہ بیگم ام ناصر صاحبہ سے ہوا.داخله مدرسه مجلس تشخیذ الا ذہان ۱۹۰۰ء میں بنیا د رکھی نکاح اوّل نکاح ثانی ۷ فروری ۱۹۲۱ ء سیدہ ام طاہر صاحبہ سے ہوا اکتوبر ۱۹۰۳ ء میں رخصتا نہ ہوا

Page 186

نکاح ثالث نکاح سادس ستمبر ۱۹۳۵ء سیّدہ مریم صدیقہ سے ہوا ۲۴ جولائی ۱۹۴۴ء سیده بشری بیگم صاحبہ مہر آپا صاحبہ ہوا میٹرک کا امتحان مارچ ۱۹۰۵ء امرتسر میں پہلا الهام ۱۹۰۵ء میں اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَة ممبر صدرانجمن احمد یہ جنوری ۱۹۰۶ ء میں مجلس معتمدین میں بطور ممبر نا مزدگی رسالة تشحیذ الا ذہان جلسہ سالانہ میں پہلی تقریر فرشتہ نے تفسیر سکھائی مارچ ۱۹۰۶ء میں آپ کی ادارت میں اجراء ہوا دسمبر ١٩٠٦ء 19ء میں ایک فرشتہ نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھائی حضرت مسیح موعود کیسا تھ آخری سفر ۱/۲۷ پریل ۱۹۰۸ء پہلی تصنیف پہلا درس القرآن پہلی دفعہ امیر مقامی دور کر سکتا ہے“ شائع ہوئی ۱۹۰۸ء میں آپ کی پہلی تصنیف ” صادقوں کی روشنی کون حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل نے ۲۴ جولائی ۱۹۱۰ ء سفر ملتان کے دوران آپ کو پہلی دفعہ امیر مقامی مقرر فرمایا فروری ۱۹۱۰ پرقادیان میں نماز مغرب کے بعد پہلا خطبہ جمعہ انجمن انصار اللہ کا قیام ۲۹ جولائی ۱۹۱۰ء شروع ۱۹۱۱ء میں آپ نے انجمن انصار اللہ قائم فرمائی اور نومبر ۱۹۲۶ ء میں بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے لئے مجلس قائم کی.۲۶ جولائی ۱۹۴۰ء میں مجلس انصاراللہ قائم کی.پہلے صدر حضرت مولوی شیر علی تھے.پہلا خطبہ عید ۲۵ ستمبر ۱۹۱۱ ء پہلا خطبہ عید الفطر ارشاد فرمایا

Page 187

۱۷۲ پہلا حج بیت اللہ الفضل کا اجراء خلافت پر فائز اپریل ۱۹۱۲ء ۱۹ جون ۱۹۱۳ء حضور کی زیر ادارت پہلے ہفت روزہ پھر سہ روزہ اور ۸ / مارچ ۱۹۳۵ء سے روز نامہ ہو گیا.۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ء بروز ہفتہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی وفات پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلیفتہ اسیح الثانی کے روحانی منصب پر فائز فرمایا کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے ۲۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ء پہلا اشتہار پہلی مجلس شوریٰ ۱۲ ۱ اپریل ۱۹۱۷ء حضور نے منصب خلافت پر تقریر کی تحفة الملوک نظام دکن کو تبلیغ کی خاطر یہ کتاب جون ۱۹۱۴ء میں شائع فرمائی القول الفصل حقيقة النبوة“ خلافت ثانیہ کا پہلا جلسہ سالانہ ۲۶ تا ۲۹ دسمبر ۱۹۱۴ء برکات خلافت موضوع تھا ۲۱ / جنوری ۱۹۱۵ء میں یہ کتاب تصنیف فرمائی مارچ ۱۹۱۵ء میں لکھی فاروق ۷ اکتوبر ۱۹۱۵ء میں خلافت ثانیہ کے دور کا پہلا اخبار ’ فاروق حضرت میر قاسم علی کی ادارت میں شروع ہوا انوار خلافت دسمبر ۱۹۱۵ء میں آپ کی تقاریر کا مجموعہ وو سیرت مسیح موعود نومبر ۱۹۱۶ء میں تحریر فرمائی صادق لائبریری دسمبر ۱۹۱۱ء میں مرکزی لائبریری قائم ہوئی "ذکر الہی" نور ہسپتال دسمبر ۱۹۱۱ء جلسہ میں تقریر فرمائی ۲۱ جون ۱۹۱۷ ء میں ہسپتال کا سنگ بنیادرکھا جس کی ستمبر میں تکمیل ہوئی حقیقة الرؤياء جلسہ سالانہ ۱۹۱۶ ء میں موضوع خطاب

Page 188

۱۷۳ ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۸ء میں شدید بیماری کے عالم میں وصیت تحریر فرمائی.نظارتوں کا قیام ” تقدیر الہی" یکم جنوری ۱۹۱۹ء پہلی مبلغین کلاس جلسہ سالانہ ۱۹۱۹ء کے خطاب کا موضوع ۲۱ جون ۱۹۲۰ء جلسہ سالانہ ۱۹۲۰ء کا خطاب ۲۲ اگست ۱۹۲۱ء کشمیر میں حضرت مسیح ناصری کے مزار پر تشریف لے گئے "مالك الله کشمیر کا سفر ہستی باری تعالی جلسہ سالانہ ۱۹۲۱ء کا موضوع خطاب مستقل مجلس شوری مسئلہ نجات ۱۵، ۱۶ / اپریل ۱۹۲۲ء جماعت احمدیہ کی مستقل طور پر پہلی مجلس شوری منعقد ہوئی جلسہ سالانہ ۱۹۲۲ء میں خطاب تحریک شدھی کے خلاف جہاد مارچ ۱۹۲۳ء تحریک شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا.۱۲ مارچ کو پہلا وفد تحریک شدھی کے علاقہ میں روانہ فرمایا احمد یہ ٹورنا منٹ نومبر ۱۹۲۳ء میں اس کا اجراء ہوا پہلا سفر یورپ ۱۲ / جولائی ۱۹۲۴ ء کو قادیان سے روانگی ویمبلے کا نفرنس ۲۳ ستمبر ” احمدیت یعنی حقیقی اسلام آپ کا مضمون مسجد فضل لندن حضرت چوہدری ظفر اللہ خان نے پڑھا بہائی ازم کی تاریخ و عقائد دسمبر ۱۹۲۴ ء میں جلسہ سالانہ کا موضوع خطاب ۱۹ / اکتوبر ۱۹۲۴ء کو بنیا درکھی مدرسۃ الخواتین کی بنیاد ۱۷ مارچ ۱۹۲۵ء

Page 189

۱۷۴ وو منہاج الطالبين" مختلف زبانوں میں تقاریر جلسه سالانه ۱۹۲۵ ء اس موضوع پر خطاب فرمایا.قادیان میں پہلی بار ۱۹۲۶ء میں ایک جلسہ میں " زبانوں میں تقریریں کی گئیں.یکم مئی ۱۹۲۶ء کو غرباء اور یتامی کے لئے اس ادارہ کو قائم فرمایا.دار الشیوخ کا قیام قصر خلافت کی بنیاد ۲۶ مئی ۱۹۲۶ء احمد یہ گزٹ کا اجراء ۲۶ مئی ۱۹۲۶ء رسالہ ” مصباح " سن رائز" سالانہ جلسه مستورات حق الیقین“ امة الحئی لائبریری ۱۵ / دسمبر ۱۹۲۶ء لجنہ اماءاللہ کے تحت دسمبر ۱۹۲۶ء میں انگریزی اخبار کا قادیان سے اجراء دسمبر ۱۹۲۶ء میں پہلی بار جلسہ سالانہ کا اعلان اور پروگرام بڑے بڑے پوسٹروں پر شائع کیا گیا دسمبر ۱۹۲۶ء کے جلسہ سالانہ کا عنوان ۱۶ ستمبر ۱۹۲۷ء کو قادیان میں اس لائبریری کا افتتاح ہوا مسیح موعود کے کارنامے جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء کی تقریر.پہلی بار اس جلسہ پر حضور کی حفاظت کا خاص انتظام کیا گیا جامعہ احمدیہ کا افتتاح ۲۰ رمئی ۱۹۲۸ء کو ہوا جلسہ یوم سیرت النبی ۱۷ جون ۱۹۲۵ء کو ملک کے طول وعرض میں وسیع پیمانہ پر جلسہ یوم سیرت النبی منایا گیا قادیان میں ریل کی آمد ۱۹؍ دسمبر ۱۹۲۸ء حضور کثیر احباب سمیت امرتسر سے فضائل القرآن“ کشمیر کا سفر قادیان اس گاڑی سے آئے جلسه ۱۹۲۸ء کا عنوان ۵ جون ۱۹۲۹ء اہل کشمیر کو اخلاقی، دینی اور روحانی تغیر

Page 190

۱۷۵ سائمن کمیشن پر تبصرہ پیدا کرنے کی تلقین کی ۳۰ اگست ۱۹۲۹ء سائمن کمیشن کی رپورٹ پر حضور کا تبصرہ شائع ہوا جسے بہت سراہا گیا اشتہارات کا آغاز ۷ ارجنوری ۱۹۳۰ء میں ندائے ایمان کے نام سے اشتہارات کا مفید سلسلہ شروع کیا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر ۲۵ جولائی ۱۹۳۱ء میں حضور کو اس کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا.۱۴ / اگست ۱۹۳۱ ء ہندوستان کے طول وعرض میں حضور کی تحریک پر یوم کشمیر منایا گیا.۸ اکتوبر ۱۹۳۲ء حضور کی تحریک پر پہلا یوم التبلیغ منایا گیا.یوم کشمیر پہلا لا يوم التبليغ ہوائی جہاز کا پہلا سفر تحریک سالکین یکم جنوری ۱۹۳۳ء میں احرار کی کانفرنس تحریک جدید کا اجراء دار الضیافت کا قیام تذکره ٹیلیفون کا افتتاح ۴ جنوری ۱۹۳۴ ء حضور نے تربیت و اصلاح کی خاطر ایک اہم تحریک تحریک سالکین جاری فرمائی.۲۱ تا ۲۳ / اکتوبر ۱۹۳۴ء میں قادیان کے قریب موضع رجادہ میں احرار کی کانفرنس منعقد ہوئی.۲۳ نومبر ۱۹۳۴ء جنوری ۱۹۳۵ء میں تحریک جدید کا مستقل دفتر قائم کیا.٢ / مارچ ۱۹۳۵ء دسمبر ۱۹۳۵ء میں پہلی دفعہ شائع ہوا ۱۴ دسمبر ۱۹۳۶ ء حضور نے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان سے گفتگو فرمائی.

Page 191

فضائل القرآن آخری لیکچر ۲۸ / دسمبر ۱۹۳۶ء لاؤڈ سپیکر جنوری ۱۹۳۸ء ، پہلی بار قادیان میں حضور نے مسجد اقصٰی میں لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ خطبہ ارشاد فرمایا.مجلس خدام الاحمدیہ ۲۱ جنوری ۱۹۳۸ء مجلس قائم کی اور ۴ فروری کو اس کا وو سیر روحانی ناصرات الاحمدیہ پہلا یوم پیشوانِ مذاہب خلافت جو بلی نام رکھا.جلسه ۱۹۳۸ء میں اس سلسلہ کے لیکچرز کا آغاز ہوا.فروری ۱۹۳۹ ء میں قیام عمل میں آیا.۲۳ دسمبر ۱۹۳۹ء، دنیا بھر میں جماعت احمدیہ نے جوش و خروش سے یہ دن منایا.۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ء ۲۵ سال خلافت کے پورے ہونے پر پہلی دفعہ لوائے خدام الاحمد یہ لہرایا.پھر زنانہ جلسہ گاہ میں لجنہ اماءاللہ کا جھنڈا لہرایا گیا.خلافتِ راشدہ کے موضوع پر تقریر فرمائی.جماعت نے تین لاکھ روپیہ حضور کی خدمت میں پیش کیا.ہجری شمسی تقویم ۲۶ جنوری ۱۹۴۰ء میں یہ کیلنڈر حضور نے جاری فرمایا نظام کو جلسہ سالانہ ۱۹۴۲ء میں تقریر کا عنوان وو اسوه حسنه جلسہ سالانہ ۱۹۴۳ء کی تقریر کا عنوان وقف زندگی دیہاتی معلمین ۲۹ جنوری ۱۹۴۳ء د مصلح موعود ہونے کا دعویٰ ۵، ۶ / جنوری ۱۹۴۴ء کی درمیانی شب اللہ نے رویا میں مصل حضور پر صلح موعود ہونے کا انکشاف فرمایا.۲۸ /جنوری کو قادیان میں پہلی دفعہ آپ نے مصلح موعود کے مصداق ہونے کا اعلان فرمایا.

Page 192

122 يوم یوم مصلح موجود ۲۹ جنوری ۱۹۴۴ء کو پہلی بار قادیان میں یوم مصلح موعود منایا گیا.تعلیم الاسلام کالج قادیان ۴ رجون ۱۹۴۴ء کو افتتاح ۲۵ / دسمبر ۱۹۴۴ء کو حضور نے مسجد الاقصی قادیان میں تحریک جدید کا دفتر دوم ۲۴ / نومبر ۱۹۴۴ء انصار اللہ کا پہلا اجتماع ضلع دار نظام پہلے اجتماع کا افتتاح فرمایا.۱۹۴۵ء میں ضلع دار نظام کے ماتحت پہلی دفعہ حضور نے آٹھ امراء اضلاع مقرر کئے.فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ۱۹ ر ا پریل ۱۹۴۶ء کو اس کا افتتاح ہوا.خدام الاحمدیہ کا قادیان میں ۱۸، ۱۹ ، ۲۰ اکتوبر ۱۹۴۶ء قادیان میں آخری سالانہ آخری اجتماع اجتماع منعقد ہوا.۱۷۵ خدام شامل ہوئے.متحدہ ہندوستان کا آخری جلسہ سالانه ۲۶، ۲۷، ۲۸ / دسمبر ۱۹۴۶ ء کو ہوا.۳۹۷۰۰/افراد نے شرکت کی ہجرت ۳۱ را گست ۱۹۴۷ء کو قادیان سے لاہور پہنچے صدرانجمن احمد یہ پاکستان کی بنیاد یکم ستمبر کولا ہور میں رکھی لوائے احمدیت ۳ ستمبر ۱۹۴۷ء کو ہندوستان سے پاکستان پہنچایا گیا پاکستان میں پہلا خطبہ ۵ ستمبر ۱۹۴۷ء پاکستان میں پہلی مجلس مشاورت ۷ ستمبر ۱۹۴۷ء پاکستان میں الفضل کا پہلا پرچہ ۲۵ ستمبر ۱۹۴۷ء کو جاری ہوا آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد ۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حضور کے ہاتھوں رکھی گئی.پہلے صدر غلام نبی گل کارا نور (احمدی) تھے.مرکز ربوہ ۱۸ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حضور نے اراضی ربوہ کا سفر اختیار

Page 193

پاکستان پہلا جلسہ سالانہ فرمایا اور ۵ اگست ۱۹۴۸ء کو راضی کا با قاعدہ قبضہ حاصل کیا.۲۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کور بوہ کا افتتاح فرمایا اور ۷ / دسمبر ۱۹۴۸ء کو پہلی عارضی عمارت کی بنیا درکھی گئی.پاکستان میں ۲۷، ۲۸ رستمبر ۱۹۴۷ء کو پہلا جلسہ سالانہ لاہور میں منعقد ہوا.تمه جلسه سالانه ۲۸ مارچ ۱۹۴۸ء، سالانہ جلسہ ۱۹۴۷ء کے تتمہ کے طور پر منعقد ہونے والے جلسہ میں ”سیر روحانی“ کے فرقان بٹالین سلسلہ کا خطاب فرمایا.جون ۱۹۴۸ء میں قائم ہوئی جو ۱۹۵۰ ء تک جاری رہی.ربوہ میں گاڑیوں کی آمد ورفت یکم اپریل ۱۹۴۹ء، مارچ ۱۹۵۰ء میں ربوہ میں با قاعدہ ریلوے سٹیشن بن گیا اور ۱۹۶۲ء میں اس کی عمارت مکمل ہوگئی ۱۹ رستمبر ۱۹۴۹ء کو حضور مستقل رہائش کے لئے ربوہ ربوہ میں پہلا جلسہ سالانہ ۱۵، ۱۶، ۱۷ سایریل ۱۹۴۹ء مستقل رہائش ربوہ میں پہلا خطبہ تشریف لائے.۳۰ ستمبر ۱۹۴۹ء پہلا سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ ۳۱،۳۰ اکتوبر ۱۹۴۹ء مجلس کی صدارت خودسنبھالی اور (ربوہ میں) جامعة المبشرین کا قیام ۱۹ اکتوبر ۱۹۵۶ء کوخدام کا موجودہ عہد نامہ تجویز فرمایا.۱۰ دسمبر ۱۹۴۹ء اور ۷ / جولائی ۱۹۵۷ء کو اسے جامعہ احمد یہ میں ضم کر دیا.

Page 194

۱۷۹ مختلف عمارتوں کا سنگ بنیاد ۳۱ رمئی ۱۹۵۰ء کو قصر خلافت، دفاتر صدر انجمن احمدیه، دفا تر تحریک جدید ، دفتر لجنہ اماءاللہ تعلیم الاسلام ہائی سکول ۵ را پریل ۱۹۵۲ء کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ، ۱۲۰ اپریل ۱۹۵۳ء ۲۵ رجون کو فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ، ۲۶ جون کو تعلیم الاسلام کالج اور اس کے ہوٹل کا سنگ بنیاداور ۶ ردیسمبر ۱۹۵۴ء کوئی آئی کالج کا افتتاح فرمایا.۱۴ جون ۱۹۵۱ء جلسہ ۱۹۵۱ء میں موضوع جامعہ نصرت کا افتتاح سیر روحانی رسالہ خالد کا اجراء اکتوبر ۱۹۵۲ء رسالہ ” تشحیذ الا ذہان“ ۲۷ جولائی ۱۹۵۷ء تعلق باللہ قاتلانہ حملہ دوسرا دورہ یورپ کے موضوع پر جلسہ ۱۹۵۲ء میں تقریر فرمائی.۱۰ / مارچ ۱۹۵۴ء مسجد مبارک ربوہ میں بعد نماز عصر حضور پر عبدالحمید نامی شخص نے قاتلانہ حملہ کیا.۱/۲۹ پریل ۱۹۵۵ء کراچی سے روانہ ہوئے اور ۲۵ رستمبر ۱۹۵۵ ء وا پس ربوہ تشریف لائے.مبلغین کی عالمی کانفرنس ۲۲ جولائی ۱۹۵۵ ء لندن میں حضور کی زیر صدارت شروع ہوئی اور ۲۴ جولائی کوختم ہوئی.” نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر فضل عمر ہسپتال ۲۷ / دسمبر ۱۹۵۵ء کو حضور نے خطاب فرمایا.کا سنگ بنیاد ۱۹۵۷ء میں رکھا گیا اور ۱۹۵۸ء میں افتتاح ہوا.وقف جدید دسمبر ۱۹۵۷ء میں اس تحریک کا اجراء ہوا اور ۱۹۶۳ ء میں

Page 195

۱۸۰ خلافت حقہ اسلامیہ ادارة ا لمصنفین کا قیام نگران بورڈ کا قیام جامعہ احمدیہ کی نئی عمارت آل پاکستان فضل عمر بیڈمنٹن ٹورنامنٹ اس کی عمارت کا سنگ بنیاد اور تعمیر ہوئی.جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء پر تقریر کا موضوع دسمبر ۱۹۵۷ء ١٩٦٠ء ۱۹۶۱ء میں افتتاح ہوا ۱۹۶۲ء میں آغاز ہوا ۵۰ سال (گولڈن جوبلی) خلافت ثانیہ کے پچاس سال پورے ہونے پر اللہ کے حضور اظہار تشکر ، دعا ئیں اور تجدید عہد ۱۹۶۴ء خلافت ثانیہ کا آخری جلسہ سالانہ ۲۶، ۲۸،۲۷ دسمبر ۱۹۶۴ء خلافت ثانیہ کی آخری عید الفطر ۴ فروری ۱۹۶۵ء کو مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھائی خلافت ثانیہ کی آخری مجلس مشاورت ۲۶، ۲۷، ۲۸ مارچ ۱۹۶۵ تعلیم الاسلام کالج ہال میں منعقد ہوئی وصال ۷، ۸ / نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی شب خدا کا یہ محبوب بندہ اپنے رب کریم کے حضور حاضر ہو گیا.وَ كَانَ أَمْرًا مَقْضِيّاً

Page 196

۱۸۱ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کو اپنی بشارت ” ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا“ کے مطابق کثرت سے رویا و کشوف اور الہامات سے سرفراز فرمایا تھا.نمونی چند ایک پیش خبریوں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت آپ کو بتائی تھیں اور پھر اپنے موعودہ وقت پر پوری ہوئیں اور ہوں گی انشاء اللہ.(1) امریکہ میں احمد یہ مشن کے قیام کی زبر دست پیشگوئی لمصلہ امریکہ میں احمد یہ مشن کا قیام حضرت المصلح الموعود نور اللہ مرقدہ کی ایک پیشگوئی کا نہایت شاندار ظہور اور دین حق کے زندہ مذہب ہونے کا ایک چمکتا نشان ہے جو رہتی دنیا تک یادگا ر ہے گا.آج سے ۸۸ برس پیشتر ۱۹۲۰ء میں حضرت اصلح الموعود نور اللہ مرقدہ کی ہدایت پر حضرت مفتی محمد صادق ” مشن کا افتتاح کرنے کی غرض سے امریکہ کے ساحل پر اترے تو امریکی گورنمنٹ نے ان پر المصل پابندی عائد کر دی.جب یہ خبر ہندوستان پہنچی تو بعض متعصب فرقہ پرستوں نے اس پر خوشی کے شادیانے بجائے لیکن حضور اقدس نے سیالکوٹ میں ایک پبلک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے نہایت واشگاف لفظوں میں یہ پیشگوئی فرمائی کہ: ”ہم نے اپنے ایک مبلغ کو امریکہ بھی بھیج دیا ہے جسے تا حال تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور اُسے روک دیا گیا ہے.لیکن ہم امریکہ کی رکاوٹ سے رُک نہیں جائیں گے.امریکہ جسے طاقتور ہونے کا دعوی ہے اس وقت تک اس نے ماڈی سلطنتوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی ہوگی.روحانی سلطنت سے اس نے مقابلہ کر کے نہیں دیکھا.اب اگر اس نے ہم سے مقابلہ کیا تو اُسے معلوم ہو جائے گا کہ ہمیں وہ ہر گز شکست نہیں دے سکتا کیونکہ خدا ہمارے ساتھ ہے.ہم امریکہ کے ارد گرد کے علاقوں میں تبلیغ

Page 197

۱۸۲ کریں گے اور وہاں کے لوگوں کو مسلمان بنا کر امریکہ بھیجیں گے اور ان کو امریکہ نہیں روک سکے گا اور ہم امید رکھتے ہیں کہ امریکہ میں ایک دن لَا إِلهِ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ کی صدا گونجے گی اور ضرور گونجے گی.الفضل ۱۵ / اپریل ۱۹۲۰ء) اس پُر شوکت اور عظیم الشان پیشگوئی پر صرف چند ماہ ہی گزرنے پائے تھے کہ امریکی حکومت کو خدا کی روحانی حکومت کے سامنے جھکنا پڑا اور شکاگو میں احمدیہ مشن کا قیام عمل میں آ گیا.اس وقت امریکہ کے طول وعرض میں تمام اہم شہروں میں جماعت کی شاخیں قائم ہو چکی ہیں اور متعد دمساجد اور مشن ہاؤس بھی موجود ہیں.جماعت کی طرف سے مسلم سن رائز“ کے نام سے ایک مقتدر جریدہ بھی شائع ہوتا ہے جو ملک بھر میں وسیع اثر رکھتا ہے.اسی طرح احمد یہ گزٹ ” النور‘ اور ذیلی تنظیموں کے اپنے رسالے ماہانہ اور سہ ماہی با قاعدہ شائع ہوتے ہیں.دینی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے متعد دانگریزی اردو اور دیگر زبانوں میں مطبوعات بھی شائع ہو چکی ہیں.اس وقت جماعتہائے احمد یہ متحدہ امریکہ میں پاکستانی و ہندوستانی افراد کے علاوہ بکثرت افر و امریکن اور مقامی لوگ شامل ہیں اور جماعت کے فقال ممبر ہیں.(۲) کمیونزم کی تباہی کے متعلق پیشگوئی حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: ا.لوگ سمجھتے ہیں کہ کمیونزم کامیاب ہو گیا حالانکہ اس وقت کمیونزم کی کامیابی محض زار کے مظالم کی وجہ سے ہے.جب پچاس ساٹھ سال کا زمانہ گزر گیا، جب زار کے ظلموں کی یاد دلوں سے مٹ گئی ، جب اس کے نقش دھندلے پڑ گئے اگر اس وقت بھی یہ نظام کامیاب رہا تو ہم سمجھیں گے کہ کمیونزم واقعہ میں ماں کی محبت اور باپ کے پیار اور بہن کی ہمدردی کو کچلنے میں کامیاب ہو گیا ہے.لیکن دنیا یا درکھے یہ محبتیں کبھی کچلی نہیں جاسکتیں.

Page 198

۱۸۳ ایک دن آئے گا کہ پھر یہ محبتیں اپنا رنگ لائیں گی ، پھر دنیا میں ماں کو ماں ہونے کا حق دیا جائے گا اور پھر یہ گم گشتہ محبتیں واپس آئیں گی.لیکن اس وقت یہ حالت ہے کہ کمیونزم انسان کو انسان نہیں بلکہ ایک مشین سمجھتا ہے.نہ وہ بچہ کے متعلق ماں کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے نہ وہ باپ کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے.وہ انسان کو انسان نہیں بلکہ ایک مشینری کی حیثیت دے رہا ہے مگر یہ مشینری زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی.وقت آئے گا کہ انسان اس مشینری کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گا اور اس نظام کو اپنے لئے قائم کرے گا جس میں عائلی جذبات کو اپنی پوری شان کے ساتھ برقرار رکھا جائے گا“.( اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ ۸۵) ۲.اس (اشترا کی تحریک.ناقل ) کا زوال نہایت خطرناک ہوگا.دوسری تحریکات میں تو یہ ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ مرتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا بادشاہ تخت حکومت پر بیٹھ جاتا ہے.ایک پارلیمنٹ ٹوٹتی ہے تو دوسری پارلیمنٹ بن جاتی ہے لیکن بالشویک تحریک میں اگر کبھی کمزوری آئی تو یک دم تباہ ہوگی اور اس کی جگہ زار ہی آئے گا کوئی دوسری حکومت نہیں آئے گی کیونکہ اس پر نیابت کی کوئی صورت نہیں.....پس جب یہ تحریک کرے گی تو گلی طور پر گرے گی جیسا کہ فرانس میں ہوا.جب فرانس کے باغیوں میں تنزل پیدا ہوا ان کی جگہ نپولین جیسے کامل الاقتدار آدمی نے لی، خود جمہور میں سے جمہوریت کا کوئی دلدادہ جگہ نہ لے سکا.(نظام تو صفحه ۴۸، تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء) کمیونزم کے مٹ جانے کی پیشگوئی بھی حضرت مصلح موعودؓ کے اس بیان کے پچاس سال گزرنے سے قبل پوری ہوگئی اور روسی ریاستوں سے کمیونزم اسی طرح ختم ہوا جس طرح آپ نے بیان فرمایا تھا.

Page 199

۱۸۴ (۳) نئی روی نسل میں بغاوت کی حیرت انگیز پیشگوئی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: بالشوزم کے موجودہ نظام پر نہیں جانا چاہئے.وہ اس وقت زار کے ظلموں کو یا در کھے ہوئے ہے.جس دن یہ خیال ان کے دل سے بھولا پھر یہ طبعی احساس کہ ہماری خدمات کا ہم کو صلہ ملنا چاہئے ان کے دلوں میں پیدا ہو جائے گا.نئی پود بغاوت کرے گی اور اس تعلیم کی ایسی شناخت ظاہر ہوگی کہ ساری دُنیا حیران رہ جائے گی“.نظام نو صفحه ۹۸، تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء) اشتراکیت کا خاکہ کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز نے تیار کیا.لینن نے اس خاکہ کو دنیا کے نقشہ میں جگہ دی اور سٹالن نے اپنے بیس سالہ زمانہ اقتدار میں اسے ایک عالیشان عمارت بنا ڈالا.اس بناء پر سٹالن کی زندگی میں ٹالن ازم اور بالشوزم ہم معنی لفظ بن گئے.لیکن ابھی سٹالن کا کفن میلا بھی نہ ہوا تھا کہ اس کے پہلے جانشین مسٹر مالنکوف نے سٹالن کے خلاف ایک زبردست باغیانہ تحریک بلند کر دی جو روسی ملک کے طول و عرض میں آگ کی طرح پھیل گئی.چنانچہ وہ روس جو کبھی سٹالن کی فولادی شخصیت کو بالشوزم کی مجسم تصویر قرار دیتا تھا آج ستالینی نظریات کے بنئے ادھیڑ رہا ہے.وہاں اب کارل مارک اور فریڈرک اینجلز کے نظریات ناکارہ اور فضول قرار پاچکے ہیں.(۴) دین حق کی عالمگیر حکومت کے قیام کی پیشگوئی حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں : ہم سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں بلکہ ہم سمجھتے اور یقین ہی نہیں رکھتے ، ہم اپنی روحانی آنکھوں سے وہ چیز دیکھ رہے ہیں جو دُنیا کو نظر نہیں آتی.ہم اپنی کمزوریوں کو بھی جانتے ہیں ، ہم ان مشکلات کو بھی جانتے ہیں جو ہمارے رستہ میں حائل ہیں، ہم مخالفت کے اُس اُتار چڑھاؤ کو بھی جانتے ہیں جو ہمارے سامنے آنے والا ہے، ہم ان قتلوں اور غارتوں کو بھی

Page 200

۱۸۵ دیکھ رہے ہیں جو ہمیں پیش آنے والے ہیں، ہم ان جسمانی اور مالی اور سیاسی مشکلات کو بھی دیکھتے ہیں جو ہمارے سامنے رونما ہونے والی ہیں مگر ان سب دھندلکوں میں سے پار ہوتی ہوئی اور ان سب تاریکیوں کے پیچھے ہماری نگاہ اس اونچے اور بلند تر جھنڈے کو بھی انتہائی شان وشوکت کے ساتھ لہراتا ہوا دیکھ رہی ہے جس کے نیچے ایک دن ساری دُنیا پناہ لینے پر مجبور ہوگی.یہ جھنڈا خدا کا جھنڈا ہوگا ، یہ جھنڈا محمد رسول اللہ علیم کا ہوگا.....یہ سب کچھ ایک دن ضرور ہو کر رہے گا.بے شک دنیوی مصائب کے وقت کئی اپنے بھی کہ اُٹھیں گے کہ ہم نے کیا سمجھا تھا اور کیا ہو گیا مگر یہ سب چیزیں مٹتی چلی جائیں گی ہٹتی چلی جائیں گی، آسمان کا نُورظاہر ہوتا چلا جائے گا اور زمین کی تاریکی دُور ہوتی چلی جائے گی اور آخر وہی ہوگا جو خدا نے چاہا، وہ نہیں ہوگا جود نیا نے چاہا“.(۵) چین میں دین حق کا پرچم لہرانے کی پیشگوئی حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں : الفضل قادیان ۱۲ مئی ۱۹۴۹ء) وہ دن دور نہیں جب اس جرنیل ( عبدالعزیز.ناقل ) کے خون کے قطروں کی پکار اس کی جنگلوں میں چلانے والی روح اپنی کشش دکھالے گی اور سچے مسلمان پھر سپین پہنچیں گے اور وہاں اسلام کا جھنڈا گاڑ دیں گے.اس کی روح آج بھی ہمیں بلا رہی ہے اور ہماری روحیں بھی یہ پکار رہی ہیں کہ اے شہید وفا اتم اکیلے نہیں ہو.محمد رسول اللہ سلم کے دین کے نچے خادم منتظر ہیں.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی اور پروانوں کی طرح اس ملک میں داخل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے نور کو وہاں پھیلائیں گے.یہ سوال نہیں کہ ہم امن پسند جماعت ہیں.مخالف امن پسندوں پر بھی

Page 201

۱۸۶ تلوار کھینچ کر اُن کو مقابلہ کی اجازت دلوا دیا کرتے ہیں.کیا محمد رسول اللہ علیہم امن پسند نہ تھے.مگر مخالفین کے ظلموں کی وجہ سے آخر اللہ تعالیٰ نے اُن کو مقابلہ کی اجازت دے دی.جیسا کہ فرمایا: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُوْنَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ جن لوگوں کو خواہ مخواہ نشانہ مظالم بنایا گیا اب ان کو بھی اجازت ہے کہ مقابلہ کریں.پس سپین کے لوگ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک یوں مقدر ہے تو ہماری تبلیغ تعلیم سے ہی کفر و شرک چھوڑ دیں گے اور یا پھر ہم پر اتناظلم کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقابلہ کی اجازت ہو جائے گی اور وہ جنہوں نے کان پکڑ کر مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکالا تھا، کان پکڑ کر محمد رسول اللہ سلم کے مزار پر حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ حضور کے غلام حاضر ہیں.(1) خطہ کشمیر کی آزادی کے متعلق پیشگوئی حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: الفضل قادیان ۶ رمئی ۱۹۴۴ء) کشمیر کے مسلمان یقینا غلام ہیں اور ان کی حالت دیکھنے کے بعد بھی جو یہ کہتا ہے کہ ان کو کسی قسم کے انسانی حقوق حاصل ہیں وہ یا تو پاگل ہے اور یا اول درجہ کا جھوٹا اور مکار.ان لوگوں کو خدا تعالیٰ نے بہترین دماغ دیئے ہیں اور ان کے ملک کو دنیا کی جنت بنایا ہے مگر ظالموں نے بہترین دماغوں کو جانوروں سے بدتر اور انسانی ہاتھوں نے اس بہشت کو دوزخ بنا دیا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کی غیرت نہیں چاہتی کہ خوبصورت پھول کو کا نٹا بنا دیا جائے.اس لئے وہ آپ چاہتا ہے کہ جسے اس نے پھول بنایا ہے وہ پھول ہی رہے اور کوئی ریاست اور حکومت اُسے کا نشانہیں بنا سکتی.روپیہ،

Page 202

۱۸۷ چالا کی مخفی تدبیریں اور پروپیگنڈا کسی ذریعہ سے بھی اُسے کا نانہیں بنایا جا سکتا.چونکہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے اس لئے کشمیر ضرور آزاد ہوگا اور اس کے رہنے والوں کو ضرور ترقی کا موقع دیا جائے گا“.(۷) دو بیٹوں کے بارہ میں بشارت حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: (الفضل ۳۱/جنوری ۱۹۳۲ء) ان بشارتوں میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ میں بیت الدعا میں بیٹھا تشہد کی حالت میں دعا کر رہا ہوں کہ الہی ! میرا انجام ایسا ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم کا ہوا.پھر جوش میں آکر کھڑا ہو گیا ہوں اور یہی دعا کر رہا ہوں کہ دروازہ کھلا ہے اور میر محمد اسمعیل صاحب کھڑے روشنی کر رہے ہیں.اسمعیل کے معنی ہیں خدا نے سن لی اور ابراہیمی انجام سے مراد حضرت ابراہیم کا انجام ہے کہ ان کے فوت ہونے پر خدا تعالیٰ نے حضرت ستحق اور حضرت اسمعیل دو قائمقام کھڑے کر دیئے.یہ ایک طرح کی بشارت ہے جس سے آپ لوگوں کو خوش ہو جانا چاہئے.“ ( عرفانِ الہی، انوار العلوم جلد ۴ صفحه ۲۸۸) اس بشارت کو اللہ تعالیٰ نے پورا فرمایا اور آپ کے دو بیٹے حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد " آپ کے بعد خلافت کے تخت پر متمکن ہوئے.یہ چند نمونے بطور مشتے از خروارے پیش ہیں ورنہ حضرت مصلح موعودؓ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظلت میں اپنے کلام، الہام اور علم غیب سے بکثرت حصہ دیا تھا جو " رویا وکشوف سید نامحمود “ کے نام پر الگ طور پر ایک ضخیم کتاب میں شائع شدہ ہیں.669

Page 203

۱۸۸ تجدید و ممکنت و استحکام دین کے چند امور کا ذکر ذیلی تنظیموں کا قیام حضرت مصلح موعود کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے جماعت کو مختلف ذیلی تنظیموں صلى الله میں منسلک کر کے ان کی تعلیمی وتربیتی اقدار کو محفوظ و تحکم کرنے کا شاندار و پائیدار نظام جاری فرما دیا.(۱) لجنہ اماءاللہ کا قیام عورتیں قوم کا آدھا دھڑ ہوتی ہیں بلکہ بعض لحاظ سے ان کا کام مردوں سے بھی زیادہ ذمہ داری کا رنگ رکھتا ہے کیونکہ قوم کا آئندہ بوجھ اُٹھانے والے نو نہال انہی کی گودوں میں پرورش پاتے ہیں.اسی لئے حضرت محمد ﷺ نے لڑکیوں کی تربیت پر خاص زور دیا ہے تا کہ وہ اس کام کے قابل بنائی جاسکیں جو بڑے ہو کر انہیں پیش آنے والا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی اس نکتہ کو ابتداء سے ہی مد نظر رکھا اور احمدی مستورات کی تنظیم اور تربیت کی طرف خاص توجہ فرمائی.چنانچہ ۱۹۲۲ء کے آخر یا ۱۹۲۳ء کے شروع میں آپ نے قادیان میں لجنہ اماءاللہ کی بنیاد رکھی.یہ انجمن خالص مستورات کی انجمن تھی اور اب تک ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے مخصوص فرائض مثلاً عورتوں کے چندوں کا حصول، عورتوں میں تبلیغ ، لڑکیوں کی تعلیم ،مستورات کی تربیت اور تنظیم وغیرہ کا کام لیتی ہیں.اور جب قادیان کی لجنہ کچھ عرصہ کام کر کے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی تو آپ نے بیرونی جماعتوں میں بھی تحریک فرمائی کہ وہ اپنی اپنی جگہ مقامی لجنہ قائم کریں.چنانچہ اب خدا کے فضل سے دنیا کے کونے کونے میں لجنات قائم ہیں اور ان کے ذریعہ احمدی مستورات میں بہت بڑی بیداری اور دعوت و تبلیغ اور خدمت انسانیت کے لئے کام کی زبر دست روح پیدا ہو رہی ہے.(۲) ناصرات الاحمدیہ ۱۹۴۵ء میں ناصرات الاحمدیہ کے نام سے احمدی بچیوں کی ایک علیحدہ ذیلی تنظیم تشکیل و گئی.یہ تنظیم صدر لجنہ کی ہدایت کے ماتحت سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ کے زیر نگرانی کام کرتی ہے.اس تنظیم کے بنیادی مقاصد بچیوں کی تربیت اور ان میں دینی روح کو جا گر کرنا اور ان کی تعلیم کا انتظام

Page 204

۱۸۹ وانصرام کرنا ہیں.(۳) خدام الاحمدیہ کا قیام ۱۹۳۸ء کے شروع میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی نے خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی.اس کی بڑی غرض و غایت جماعت کے نوجوانوں کی تنظیم وتربیت تھی تا کہ ان نو نہالوں کو اس اہم کام کے قابل بنایا جاسکے جو کل کو ان کے کندھوں پر پڑنے والا ہے.اس مجلس کے موجودہ پروگرام میں منجملہ دیگر امور کے مندرجہ ذیل باتیں نمایاں ہیں: اوّل: خدمت خلق دوم لوگوں کے دلوں میں اس احساس کو پیدا کرنا اور انہیں اس کی عملی تربیت دینا کہ کوئی کام بھی انسان کی شان سے بعید نہیں اور یہ کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا انسان کے لئے موجب عزت ہے نہ کہ باعث ذلت و شرم.سوئم: جماعت کے ناخواندہ لوگوں کی پرائیویٹ تعلیم کا انتظام کرنا چہارم: جماعت کے اندر خلیفہ وقت اور نظام سلسلہ کے متعلق جذبات اخلاص و محبت و وفاداری کو ترقی دینا وغیرہ وغیرہ.سوخدا کے فضل سے یہ سارے کام خدام الاحمدیہ کے ذریعہ سے بڑی خوبی کے ساتھ سرانجام پارہے ہیں.اس مجلس کے لئے حضور نے ایک عہد نامہ بھی تجویز کیا جو وہ اپنے ہر اجلاس میں دوہراتے ہیں.(۴) اطفال الاحمدیہ کا قیام تربیتی امور کی ابتداء چھوٹی عمر سے ہونا ضروری ہے کیونکہ اس عمر سے حافظہ اور عادات کو خاص نسبت ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۳۸ء میں احمدی بچوں کی تربیت کے لئے ایک علیحدہ تنظیم قائم فرمائی جس کا نام آپ کی منظوری سے اطفال الاحمدیہ" رکھا گیا.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:

Page 205

190 قومی نیکیوں کے تسلسل کے قیام کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس قوم کے بچوں کی تربیت ایسے ماحول اور ایسے رنگ میں ہو کہ وہ ان اغراض و مقاصد کو پورا کرنے کے اہل ثابت ہوں جن اغراض اور مقاصد کو لے کر وہ قوم کھڑی ہوئی ہو.الفضل قادیان ۲۲ اپریل ۱۹۳۸ء) مجلس اطفال الاحمدیہ کی نگرانی مجلس خدام الاحمدیہ کرتی ہے اور اس وقت اطفال کی یہ تنظیم مختلف ممالک میں قائم ہو کر ایک عالمگیر حیثیت رکھتی ہے.(۵) مجلس انصار اللہ کا قیام پہلی دفعہ ۱۹۱۱ء میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنی ایک خواب کی بناء پر ایک انجمن بنانے کا فیصلہ کیا تا کہ اس کے ذریعہ احمدیوں کے دلوں میں ایمان کو پختہ کیا جائے اور فریضہ تبلیغ کو باحسن وجوہ ادا کیا جائے.چنانچہ آپ نے نہ صرف خود استخارہ کیا بلکہ اور بزرگوں سے بھی استخارہ کروایا.تب آپ نے حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کی اجازت سے ایک انجمن انصار الله" کی بنیاد ڈالی اور اخبار بدر ۲۳ فروری ۱۹۱۱ء میں اس کے متعلق مفصل اعلان کر دیا.یہ مضمون حضرت خلیفہ اسیح الاول نے پڑھا تو آپ نے فرمایا: دو میں بھی آپ کے انصار اللہ میں شامل ہوں.( بدر ۹ / مارچ ۱۹۱۱ء) آپ نے اس انجمن کے لئے با قاعدہ قواعد وضوابط تجویز فرمائے اور نو شرائط اس کے لئے مقرر کیں اور آپ نے اس کی ممبر شپ کے لئے یہ شرط عائد کی کہ : وو ” جو شخص اس انجمن میں آنا چاہے وہ سات دفعہ استخارہ کرے.اگر اس کے بعد اس کا دل اللہ کے تصرف سے اس طرف مائل ہو تو پھر شوق سے داخل انجمن ہوسکتا ہے ورنہ نہیں“.( بدر ۲۳ فروری ۱۹۱۱ء بحواله تاریخ احمدیت حصہ چہارم صفحه ۳۸۶)

Page 206

۱۹۱ حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی سر پرستی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی قیادت دونوں نے اس انجمن کے ممبروں میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑادی اور دینِ حق ( ناقل ) اور احمدیت کی تبلیغ کا کام جو بہت پیچھے جا رہا تھا پھر سے تیز ہو گیا.چنانچہ جولائی ۱۹۱۳ ء تک اس کے ممبروں کے ذریعہ دو تین سو آدمی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ اسی طرح بعد میں بھی جاری رہا.انجمن نے اپنے خرچ پر چوہدری فتح محمد سیال کو خواجہ کمال الدین صاحب کی مدد کے لئے انگلستان بھجوایا.علاوہ ازیں شیخ عبدالرحمن بن مسلم اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ انصاراللہ کی طرف سے تعلیم وتبلیغ کی خاطر مصر بھیجے گئے.خلافت ثانیہ کے دور میں حضرت مصلح موعودؓ نے نومبر ۱۹۲۶ء میں اسی نام سے ایک انجمن بنائی اور اس کا بنیادی مقصد یہ قرار دیا گیا کہ اس انجمن کے ممبرنئی نسل کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ وہ خدمت دین کا فریضہ سرانجام دے سکیں اور آنے والی عظیم ذمہ داریوں کو اٹھا سکیں اور آپ نے ۲۷ دسمبر ۱۹۲۶ء کے خطبہ جمعہ میں اعلان فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ باہر کی جماعتوں میں بھی اس قسم کی شاخیں قائم ہوں اور وہ اس رنگ میں نئی پود کی تعلیم وتربیت کا کام کریں کہ وہ جماعت کے مثالی مبر ثابت ہوں.۲۶ جولائی ۱۹۴۰ء کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد علیہ اسی الثانی نے ۴۰ سال سے زائد عمر والے احمدی مردوں کی تنظیم مجلس انصار اللہ کے نام سے قائم فرمائی جس کے پہلے صدر حضرت مولوی شیر علی مقرر کئے گئے.پہلے پہل اس کی رکنیت صرف قادیان میں رہنے والے احباب کے لئے تھی جبکہ باہر کے دوستوں کی صوابدید پر منحصر تھا کہ وہ اس کے ممبر بنیں یا نہ بنیں.لیکن بعد میں اسے ۴۰ سے زائد عمر والے ہر احمدی کے لئے اس میں شمولیت کو ضروری قرار مصل دے دیا گیا.حضرت مسیح موعود نے ۱۹۵۶ء کے سالانہ اجتماع انصار اللہ میں ایک نیا عہد نامہ اس مجلس کے لئے تجویز کیا جو انصار اللہ کے ہراہم جلسہ میں دو ہرایا جاتا ہے.

Page 207

۱۹۲ نظارتوں کا قیام حضرت خلیفہ اسیح الثانی صدر انجمن احمد یہ کے نظام کے اس تفصیلی حصہ میں جو حضرت مسیح موعود کا فیصلہ کر وہ نہیں تھا بلکہ خود انجمن کا قائم کردہ تھا بعض نقائص کو دیکھ کر اس کی اصلاح کے سوال پر غور فرمارہے تھے.اس نظام میں سب سے بڑی کمزوری آپ کو یہ نظر آتی تھی کہ اس کے اندر مرکزیت کا اصول بہت زیادہ غلبہ پائے ہوئے ہے اور مختلف صیغہ جات ایک ہی سیکرٹری کے ماتحت اس طرح جمع ہیں کہ ان صیغوں کے افسروں کو کوئی ذمہ دارانہ پوزیشن حاصل نہیں رہتی.حتی کہ صدر انجمن احمد یہ کے مشوروں میں بھی ان افسروں کی آواز کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ صدر انجمن احمدیہ کے جملہ انتظامی فیصلہ جات خالصتہ ایسے ممبروں کی رائے سے تصفیہ پاتے ہیں جن کے ہاتھ میں کسی انتظامی صیغہ کی باگ ڈور نہیں.آپ نے اس نقص کو دیکھ کر اس کی اصلاح کی تجویز فرمائی مگر دوسری طرف آپ اس بات کو بھی محسوس کر رہے تھے کہ ممکن ہے کہ ایک قائم شدہ نظام کو یکلخت بدل دینے میں کوئی دوسری قسم کے نقصانات نہ پیدا ہونے لگیں.پس آپ نے اس کے لئے یہ طریق اختیار فرمایا کہ صدر انجمن احمدیہ کے نظام کو قائم رکھتے ہوئے اس کے پہلو میں ایک دوسرا متوازی نظام جاری فرما دیا جس میں ہر شخص ایک مستقل صیغہ کا انچارج تھا اور پھر یہ سب انچارج با ہم مل کر ایک انتظامی انجمن بناتے تھے.ان افسران کا نام آپ نے ناظر، تجویز فرمایا اور ان کی انجمن کا نام ”مجلس نظارت رکھا.اور مختلف ناظروں کے اوپر آپ نے ایک صدر ناظر مقرر کیا جس کا نام ” ناظرِ اعلیٰ رکھا گیا.جس کا کام مختلف نظارتوں میں اتحاد عمل قائم رکھنا اور ان کے اختلافی امور کا فیصلہ کرنا اور مجلس نظارت کے اجلاسوں میں صدارت کے فرائض بجالانا تھا.گویا اس طرح مرکز سلسلہ میں دو مختلف نظام قائم ہو گئے.ایک وہی پرانا صدر انجمن احمدیہ کا نظام اور دوسرے مجلس نظارت کا جدید نظام.ان دونوں میں کوئی ٹکراؤ کی صورت نہیں تھی کیونکہ صدر انجمن احمدیہ کا کام صدر انجمن کے ہاتھ میں رہا اور نیا کام خلافت ثانیہ میں جاری ہوا تھا وہ نظارت کے انتظام میں رکھ دیا گیا.اس موقع پر آپ نے مختلف قسم کے کاموں کو بھی ایک اصولی تقسیم کے مطابق منقسم فرمایا.چنانچہ ایک نظارت دعوت وتبلیغ کی قائم کی گئی ، ایک تعلیم

Page 208

١٩٣ و تربیت کی، ایک بیت المال کی ، ایک ضیافت کی ، ایک بہشتی مقبرہ کی، ایک امور خارجہ کی اور ایک امور عامہ کی وغیرہ ذالک.اس جداگانہ نظام نے کئی سال تک علیحدہ صورت میں کام کیا اور جب اس نظام کا اچھی طرح تجربہ ہو گیا تو اکتوبر ۱۹۲۵ء میں آکر صدر انجمن احمد یہ کا نام اور اس کی اصولی صورت قائم رہی مگر صیغہ جات کی تقسیم اور ناظروں کی ذمہ دارانہ پوزیشن جدید نظام کے مطابق قائم ہوگئی اور اب یہی مخلوط صورت جماعت کا مرکزی نظام ہے.مجلس مشاورت کا قیام حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے جہاں صدر انجمن احمدیہ کے انتظام میں اصلاح کی ضرورت کو محسوس کیا وہاں آپ کو اس ضرورت کا بھی احساس پیدا ہوا کہ ملتی امور میں جماعت سے مشورہ لینے کے لئے کوئی زیادہ پختہ اور زیادہ منظم صورت ہونی چاہئے.اب تک یہ کام اس طرح پر تھا کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جبکہ دسمبر کے آخری ہفتہ میں ملک کے مختلف معنوں سے قادیان میں احمدی جمع ہوتے تھے تو اس وقت ضروری امور میں تبادلہ خیالات کر لیا جاتا تھا.مگر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ تمام مقامی جماعتوں کو جماعتی امور کے مشورہ میں زیادہ منسلک کرنے کے لئے کوئی بہتر اور زیادہ با قاعدہ انتظام ہونا چاہئے.چنانچہ ۱۹۲۲ء سے آپ نے ایک مجلس مشاورت کی بنیاد قائم کی اور سال بھر میں اس کا کم سے کم ایک اجلاس ضروری قرار دیا اور تمام مقامی جماعتوں سے تحریک کی کہ وہ اس مجلس میں اپنے نمائندے بھجوایا کریں تا کہ ضروری امور میں مشورہ ہو سکے.یہ مجلس عموما ماہ مارچ یا اپریل میں منعقد ہوتی ہے جس میں جماعتوں کے نمائندے شریک ہوتے ہیں.ی نمائندے جو مشورے خلیفہ وقت کو دیتے ہیں وہ خلیفہ وقت کے لئے واجب العمل نہیں ہوتے بلکہ صرف مشورہ کا رنگ رکھتے ہیں.اس سے تین بڑے فائدے مرتب ہوتے ہیں.اول یہ کہ حضرت خلیفہ امسیح کو جماعت کے خیال اور رائے کا علم ہوجاتا ہے اور چونکہ بالعموم یہ مشورہ قبول کر لیا جاتا ہے اور اگر قبول نہ بھی کیا جائے تو پھر بھی مشاورت میں حضرت خلیفتہ امسیح کی آخری رائے مشورہ سننے کے بعد قائم ہوتی ہے.اس لئے لازما جماعت کے تمام اہم امور میں جماعت کی رائے کا

Page 209

۱۹۴ پر تو داخل ہو جاتا ہے.دوسرے اس طریق سے جماعت کو بھی تمام ملی امور میں نہ صرف تفصیلی اطلاع رہتی ہے بلکہ دلچسپی اور وابستگی بھی قائم رہتی ہے جو قومی ترقی کے لئے بڑی ضروری چیز ہے.تیسرے اس ذریعہ سے جماعت کے نمائندے اس بات کی عملی تربیت حاصل کرتے ہیں کہ جماعت کے نظام اور کام کو کس طرح چلانا چاہئے.مجلس مشاورت کے قیام کے بعد گویا جماعت کے نظام کا ابتدائی ڈھانچہ مکمل ہو گیا.یعنی سب سے او پر خلیفہ وقت ہے جو گویا سارے نظام کا مرکزی نقطہ ہے، اس کے نیچے انتظامی صیغہ جات کو چلانے کے لئے صدر انجمن احمد یہ ہے جس کے مختلف ممبر سلسلہ کے مختلف مرکزی صیغوں کے انچارج ہوتے ہیں اور اس کے بالمقابل مجلس مشاورت ہے جو مختلف مقامی جماعتوں کے نمائندوں کی مجلس ہے اور تمام اہم امور میں خلیفہ وقت کے سامنے مشورہ پیش کرتی ہے اور جس کی پوزیشن ایک طرح سے اور ایک حد تک قوانین وضع کرنے والی مجلس سمجھی جاسکتی ہے.مسجد فضل لندن کی بنیاد ۱۹۲۴ء میں برطانیہ کے قیام کے دوران آپ نے ۱۹ اکتو بر کومسجد فضل لندن کی بنیاد بھی رکھی.بنیادرکھتے ہوئے مختلف قوموں کے نمائندے اور متعد انگر یز نوسلم اور دوسرے معززین موجود تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے یہ اعلان فرمایا کہ گو یہ مسجد احمد یہ جماعت کی مسجد ہوگی لیکن چونکہ خدا کا گھر ایک وسیع دروازہ رکھتا ہے اور خدا کی خالص یاد ہر رنگ میں محبوب ہے.اس لئے آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق ہماری طرف سے اس بات کی کھلی اجازت ہوگی کہ جو شخص بھی چاہے خواہ وہ کسی مذہب اور کسی ملت کا ہو اس مسجد میں آ کر اپنے رنگ میں عبادت کرے.افتتاح مسجد فضل الندن ۱۹۲۲ء کو جب یہ خدا کا گھر تحمیل کو پہنچاتو مولا نا عبد الرحیم در دانچارج و امام مسجد فضل لندن نے حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی ہدایت کے ماتحت مسجد کا افتتاح خان بہادر سرعبدالقادر کے ذریعہ کروالیا جو اُن ایام میں لیگ آف نیشنز کی شرکت کے لئے ہندوستان کے نمائندہ کی حیثیت میں

Page 210

۱۹۵ برطانیہ گئے ہوئے تھے.جلسہ ہائے سیرت النبی کا آغاز ۱۹۲۷ء کے آخر میں اس اہم تحریک کی تجویز اللہ تعالیٰ نے القاء فرمائی جب کہ ہندوؤں کی طرف سے کتاب ”رنگیلا رسول اور رسالہ ” ورتمان میں آنحضرت ام کی شانِ مبارک میں انتہائی گستاخیاں کی گئیں اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی اس وقت یہ محسوس کیا گیا کہ جب تک نبی کریم کی مقدس زندگی کے حالات اور آپ کے عالمگیر احسانات کے تذکروں سے ملک کا گوشہ گوشہ گونج نہیں اُٹھے گا اس وقت تک مخالفین اسلام کی قلعہ محمدی پر موجودہ یورش بدستور جاری رہے گی اور دراصل یہی خیال تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سید نا صلح موعودؓ نے ”سیرت النبی کے جلسوں کی تجویز فرمائی.اس اہم قومی وملی مقصد کی تکمیل کے لئے آپ نے وسیع پروگرام تجویز فرمایا جس کے اہم پہلومندرجہ ذیل تھے.اول : ہر سال آنحضرت ﷺ کی مقدس سوانح میں سے بعض اہم پہلوؤں کو منتخب کر کے ان پر خاص طور سے روشنی ڈالی جائے.دوم : ان مضامین پر لیکچر دینے کے لئے آپ نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء پر ایک ہزار ایسے فدائیوں کا مطالبہ کیا جولیکچردیں گے.سوم: سیرۃ النبی پر تقریر کرنے کے لئے آپ نے مسلمان ہونے کی شرط ہٹا دی بلکہ فرمایا کہ غیر مسلم بھی تقاریر کریں کیونکہ آنحضرت یم کے احسانات ساری دُنیا پر ہیں.چهارم: غیر مسلموں کے لئے کہا گیا کہ ان میں سے جو اوّل ، دوم اور سوم آئیں گے انہیں علی الترتیب سو، پچاس اور چھپیں روپیہ کے نقد انعامات دیئے جائیں گے.پنجم : حضور کے سامنے چونکہ میلادالنبی کے معروف رسمی ، بے اثر اور محدود جلسوں کی مخصوص اغراض کی بجائے سیرت النبی کے خالص علمی اور ہمہ گیر جلسوں کا تصور تھا اس لئے آپ نے ان کے انعقاد

Page 211

۱۹۶ کے لئے ۱۲ ؍ ربیع الاول کے دن کے بجائے دوسرے دنوں کو زیادہ مناسب قرار دیا.چنانچہ ۱۹۲۸ء میں آپ نے یکم محرم ۱۳۴۷ھ بمطابق ۲۰ جون کو پہلا یوم سیرت منانے کا اعلان کیا جسے شیعہ فرقہ کے مسلمانوں کی بآسانی شمولیت کے پیش نظر ۱۷ جون میں تبدیل کر دیا.(الفضل ۴ مئی ۱۹۲۸ء) حضور نے اس پروگرام کے شایانِ شان جماعت احمد یہ اور دوسرے مسلمانوں کو تیاری کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی اور اس بارے میں کئی اہم مشورے دیئے مثلاً اصل جلسوں کی اہمیت بتانے کے لئے مختلف موقعوں پر مختلف محلوں میں جلسے کریں.جلسہ کی صدارت کے لئے بارسوخ اور سر بر آوردہ لوگ منتخب کئے جائیں.جلسہ گاہ کا مناسب انتظام ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ پہلا جلسہ سیرۃ النبی ملک کے طول وعرض میں نہایت شاندار طریقہ سے منایا گیا اور نہایت تزک واحتشام سے مختلف جگہوں پر یہ جلسے منعقد کئے گئے اور ایک ہی سٹیج پر ہر فرقہ کے مسلمانوں نے سیرت رسول پر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے تقریریں کیں.مسلمانوں کے علاوہ ہندو ،سکھ ، عیسائی اور جینی اصحاب نے بھی آنحضرت ام کی پاکیزہ سیرت، بیش بہا قربانیوں اور عدیم النظیر احسانات کا ذکر کیا اور نہ صرف ان جلسوں میں بخوشی شامل ہوئے بلکہ کئی مقامات پر انہوں نے ان کے انعقاد میں بڑی مدد بھی دی.جلسہ گاہ کے لئے اپنے مکانات دیے، ضروری سامان مہیا کیا، سامعین کی شربت وغیرہ سے تواضع کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان جلسوں میں شامل ہو کر تقاریر کیں.مجالس سیرت النبی کی کامیابی ایسے شاندار رنگ میں ہوئی کہ بڑے بڑے لیڈ ر دنگ رہ گئے اور اخباروں نے اس پر بڑے بڑے عمدہ تبصرے شائع کئے اور اس کی غیر معمولی کامیابی پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو مبارکباد دی.مثلاً اخبار ” مشرق، گورکھپور ۲۱ / جون ۱۹۲۸ء.کلکتہ کا ایک بنگالی اخبار ” سلطان ۲۱ / جون ۱۹۲۸ ء - اخبار کشمیری لاہور ۲۸ / جون ۱۹۲۸ء نے ” ۱۷ رجون کی شام“ کے عنوان سے تبصرہ شائع کیا.اخبار پیشوا دہلی ۸ / جولائی ۱۹۲۸ ء نے ۷ ارجون کے جلسوں کی کامیابی پر خوشی اور اس کے مخالفین پر افسوس کا اظہار کیا.اخبار ”ہمت“ لکھنو ۱۳ مئی ۱۹۲۹ء.اخبار

Page 212

۱۹۷ مشرق، گورکھپور ۹ رمئی ۱۹۲۹ ء - اخبار پیغام عمل“ فیروز پور ۲۴ رمئی ۱۹۲۹ء.باقی پریس نے بھی ان جلسوں پر مفصل تبصرہ کیا اور ان کی افادیت کا اقرار کیا.چنانچہ انقلاب (لاہور) کشمیری گزٹ (لاہور) مدینہ (بجنور) تعمیر ( فیض آباد) "محسن" وو 66 وو (ملتان) سیاست (لاہور) صحیفہ (حیدر آباد دکن) ”حقیقت“ ”ہمدم ”ہمت“ (لکھنو) اور بنگال کے متعدد انگریزی، اردو اور بنگالی اخبارات کے علاوہ بیرونی ممالک میں ” ڈیلی نیوز شکاگو اور افریقہ کے متعدد اخبارات نے اپنے اپنے رنگ میں اس تحریک کی پر زور تائید کی اور بعض نے ان جلسوں کی روئیدادیں بھی شائع کیں.آپ کے دورِ خلافت میں اکناف عالم میں مشنوں کا آغاز (1) اپریل ۱۹۱۴ء میں احمد یہ مشن لندن کا مستقل قیام ہوا.۲ ۱۴ مارچ ۱۹۱۵ء کو حضرت صوفی غلام محمد نے سیلون میں احمد یہ مشن کا قیام کیا.۳) ۱۵ جون ۱۹۱۵ء کو حضرت صوفی غلام محمد نے ماریشس میں احمد یہ مشن قائم کیا.۴ مئی ۱۹۲۰ء میں حضرت مفتی محمد صادق کے ذریعہ امریکہ مشن کا آغاز.۵ ۱۹ فروری ۱۹۲۱ء کو حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر نے سیرالیون میں احمد یہ مشن قائم کیا.(۶) ۲۸ فروری ۱۹۲۱ء کو حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر نے غانا میں احمد یہ مشن قائم کیا.) ۱۸ اپریل کو حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر نے نائیجیریا میں احمد یہ مشن قائم کیا.۱۸ / فروری ۱۹۲۲ء کو مصر میں مشن کے قیام کے لئے شیخ محمود احمد صاحب عرفانی روانہ ہوئے.۹ ۱۸ دسمبر ۱۹۲۳ء کو ملک غلام فرید صاحب کے ذریعہ جرمنی مشن قائم ہوا اور پھر ۱۹۴۹ء میں اس کا احیاء ہوا.۱۰) ۱۶ / اکتوبر ۱۹۲۴ ء ایران میں مشن کا قیام ہوا.۱۱) ۱۰ر دسمبر ۱۹۲۴ء مولوی ظهور حسین صاحب تبلیغ دین کے لئے روس میں داخل ہوئے.۱۲) ۱۷ جولائی ۱۹۲۵ء مولانا جلال الدین شمس صاحب اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب

Page 213

۱۹۸ شام میں مشن قائم کرنے کے لئے روانہ ہوئے.۱۳) ستمبر ۱۹۲۵ء میں مولوی رحمت علی صاحب نے انڈونیشیا میں مشن قائم کیا.۱۴) ۳۰ فروری ۱۹۳۱ء میں مولا نا رحمت علی صاحب نے جاوا میں مشن قائم کیا.۱۵ ۲۷ نومبر ۱۹۳۴ ء میں نیروبی کینیا میں احمد یہ مشن کا قیام ہوا.(۱۶) ۲ مارچ ۱۹۳۵ء برما میں مشن کا قیام اور ۲۸ دسمبر ۱۹۵۹ء کو تحریک جدید کے دفتر کے ذریعہ دوبارہ احیاء ہوا.۲۷۱۷ مئی ۱۹۳۵ ء ہانگ کانگ میں احمد یہ مشن کا قیام ہوا.(۱۸ جنوری ۱۹۳۶ ء ارجنٹائن میں احمد یہ مشن کا قیام ہوا.۱۹ ۲۱ فروری ۱۹۳۶ء میں بوڈا پسٹ میں احمد یہ مشن کا قیام ہوا.۲۰ (۱۰ / مارچ ۱۹۳۶ء کو ملک محمد شریف صاحب آف کھاریاں سپین میڈرڈ میں مشن قائم کرنے کے لئے پہنچے.پھر ۱۰ جون ۱۹۴۶ ء کو احمد یہ مشن سپین کا دوبارہ احیاء ہوا.۲۱ اپریل ۱۹۳۶ء میں البانیہ میں مولوی محمد دین صاحب نے احمد یہ مشن کی بنیاد رکھی.۲۲ دسمبر ۱۹۳۶ء میں یوگوسلاویہ میں احمد یہ مشن قائم ہوا.۲۳ مئی ۱۹۳۷ ء میں سنگا پور میں احمد یہ مشن کا قیام ہوا.۲۴ ۴ جون ۱۹۳۷ء میں جاپان میں احمد یہ مشن کا قیام ہوا.۲۵ دسمبر ۱۹۳۷ء میں اٹلی اور پولینڈ میں تبلیغی کوششوں کا منظم آغاز ہوا.(۲۶) ۱۷ رمئی ۱۹۴۷ء میں فرانس میں مشن کا قیام ہوا.۲۷ دسمبر ۱۹۴۷ء میں سوئٹزرلینڈ میں مشن قائم ہوا.۲۸ مارچ ۱۹۴۸ ءار دن میں احمد یہ مشن کا قیام ہوا.۲۹) ۲۳ فروری ۱۹۴۹ء کو مسقط میں مشن قائم ہوا.۳۰) فروری ۱۹۴۹ ء گلاسگو مشن کا قیام ہوا.۳۱ ۲۷ اگست ۱۹۴۹ء میں لبنان میں احمدیہ مشن کا قیام ہوا.

Page 214

۱۹۹ ۳۲ ۱۹۵۱ء میں ٹرینیڈاڈ میں مشن قائم ہوا.۳۳ ۱۹۵۶ء میں لائبیریا میں احمد یہ مشن کا قیام ہوا.۳۴ ۱۹۶۱ء میں آئیوری کوسٹ میں مشن کا اجراء ہوا.(۳۵ ۱۹۶۳ء میں جزائر فجی میں با قاعدہ مشن قائم ہوا.☆☆ سیاسی لحاظ سے بھی مسلمانوں کے مصالح اور حقوق کے حصول کے لئے تاریخ عالم پر حضرت مصلح موعودؓ کے کارنامے سنہری حروف سے ثبت ہیں.ان کارناموں میں سے ” مسلمانوں کے حقوق اور نہرورپورٹ، قضیہ فلسطین میں مسلمانان فلسطین کی رہنمائی میں آپ کی طویل اور مؤثر جد و جہد، قیام پاکستان کے لئے آپ کی مساعی جمیلہ، باؤنڈری کمشن میں مسلم حقوق کی حفاظت کے لئے کامیاب کوششیں کشمیریوں کے حقوق کا تحفظ اور کشمیر کی آزادی کی جد و جہد وغیرہ وغیرہ نا قابلِ فراموش تاریخ ہے جو حضرت مصلح موعودؓ کے کار ہائے نمایاں پر مبنی ہے.مذہبی اور انتظامی لحاظ سے جہاں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی شاندار اور فتحیاب قیادت فرمائی اور اسے ترقیات کی عظیم ترین منازل عطا کیں ،وہاں علمی لحاظ سے شریعت اسلامیہ کے ہر مسئلہ کا مکمل حل بڑے آسان پیرایہ میں پیش فرما کر دنیا میں اسلام کی علمی فوقیت کو ثابت فرمایا.الصلح الموعود خلیفہ مسیح الثانی کا باون سالہ دور خلافت اسلام کی شان وشوکت ،اس کی تمکنت و استحکام، اخلاقی ، روحانی اور علمی تفوق کا کامیاب و کامران دور تھا.اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقاصد کی تکمیل کے لئے عظیم اور غیر معمولی نمایاں کام سرانجام پائے.الحمد لله ثم الحمد لله ۷، ۸ رنومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی شب حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نظیر ، ملت کا فدائی، خدا کا یہ محبوب بندہ ، قوموں کو برکت عطا کرتا ہوا، زمین کے کناروں تک شہرت پا کر اپنے رب کریم کے حضور حاضر ہو گیا.وَ كَانَ أَمْرًا مَقْضِيّاً

Page 215

Page 216

حضرت خلیفہ اسیح الثالث اور آپ کا دور خلافت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جہاں اللہ تعالیٰ نے اولاد کی بشارت دی تھی وہاں ایک نافلہ (پوتے ) کی بھی خاص طور پر بشارت دی تھی کہ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةٌ لَّكَ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۲۹.تذکره صفحه ۶۴۶) کہ ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہوگا.حضرت خلیفہ مسیح الثانی کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرزند کی بشارت دی تھی.چنانچہ آپ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں: ” مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا“.تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحه ۳۲۰) غرض حضرت عایق اسی اثاثے بھی ایک رنگ سے موعود خلیفہ تھے.ان پیش خبر وں کے مطابق حضرت مرزا ناصر احمد صاحب حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۱۶ نومبر ۱۹۰۹ء کو بوقت شب پیدا ہوئے.۷ اپریل ۱۹۲۲ء کو جبکہ آپ کی عمر ۱۳ سال تھی ، حفظ قرآن کی تعمیل کی توفیق ملی.بعد ازاں حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب سے عربی اور اردو پڑھتے رہے.پھر مدرسہ احمدیہ میں دینی علوم کی تحصیل کے لئے باقاعدہ داخل ہوئے اور جولائی ۱۹۲۹ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.اس کے بعد میٹرک کا امتحان دیا اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو کر ۱۹۳۴ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی.اگست ۱۹۳۴ء میں آپ کی شادی ہوئی.

Page 217

درستمبر ۱۹۳۴ء کو بغرض تعلیم انگلستان کے لئے روانہ ہوئے.آکسفورڈ سے ایم اے کی ڈگری حاصل کر کے نومبر ۱۹۳۸ء میں واپس تشریف لائے.یورپ سے واپسی پر جون ۱۹۳۹ء سے اپریل ۱۹۳۴ ء تک جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہے.فروری ۱۹۳۹ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر بنے.اکتوبر ۱۹۴۹ء میں جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بنفس نفیس خدام الاحمدیہ کی صدارت کا اعلان فرمایا تو نومبر ۱۹۵۷ء تک حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ساتھ بحیثیت نائب صدر مجلس کے کاموں کو نہایت عمدگی سے چلاتے رہے.آپ نے مئی ۱۹۴۴ء سے لے کر نومبر ۱۹۶۵ء تک ( یعنی تا انتخاب خلافت ) تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے.۱۹۴۷ء میں تقسیم پاک و ہند کے موقع پر باؤنڈری کمیشن کے لئے متعلقہ امور، کوائف اور اعداد و شمار کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا.قیام پاکستان کے بعد ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء تا ۱۵ نومبر ۱۹۷ ء حفاظت مرکز احمدیت کے لئے قادیان میں قیام کیا.جون ۱۹۴۰ء سے ۱۹۵۰ء تک فرقان بٹالین میں کشمیر کے محاذ پر داد شجاعت دیتے رہے.آپ اس بٹالین کی انتظامی کمیٹی کے ممبر تھے.۱۹۵۳ء میں پنجاب میں فسادات ہوئے اور مارشل لاء کا نفاذ ہوا تو اس وقت آپ کو گرفتار کر لیا گیا.اس طرح سنت یوسفی کے مطابق آپ کو کچھ عرصہ قید وبند کی صعوبتیں جھیلنا پڑ یں.۱۹۵۴ء میں جلس انصار اللہ کی زمام قیادت آپ کے سپرد کی گئی.مئی ۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کو صدر انجمن احمدیہ کا صدر مقرر فرمایا.اس عہدہ پر آپ تا انتخاب خلافت فائز رہے.

Page 218

خلافت کا دور حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے عہد خلافت میں آئندہ خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک مجلس مقر فرما دی تھی جو مجلس انتخاب خلافت کے نام سے موسوم ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی وفات پر اس مجلس کا اجلاس ۸ /نومبر ۱۹۶۵ء کو بعد نماز عشاء مسجد مبارک میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ منعقد ہوا جس میں حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث منتخب کیا گیا.اراکین مجلس انتخاب نے اسی وقت آپ کی بیعت کی.بیرونی جماعتوں نے تاروں اور خطوط کے ذریعہ اقرار اطاعت کیا.اس طرح ساری جماعت نے والہانہ انداز میں قدرتِ ثانیہ کے تیسرے مظہر حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو اپنا امام تنها

Page 219

خلافت ثالثہ کی بابرکت تحریکات آپ نے اپنے دور خلافت میں متعدد تحریکیں جاری فرمائیں جن کا مختصر ذکر درج ذیل (۱) اطعموا الجائع پاک بھارت جنگ کے باعث ۱۹۶۵ء میں جب کہ ملک میں غلہ کی کمی محسوس ہورہی تھی تو ۷ار دسمبر کو آپ نے جماعت کے امراء اور خوشحال طبقہ کو تحریک کی کہ وہ غرباء، مساکین اور یتامیٰ کے لئے مناسب بندوبست کریں اور کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو بھو کا سوئے.اس پر جماعت نے بصد جذ بہ و شوق عمل کیا.(۲) فضل عمر فاؤنڈیشن ۲۱ دسمبر ۱۹۲۹ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت طلیقہ اسیح الثالث نے اس تعلق اور محبت کے اظہار کے لئے جو جماعت کو حضرت فضل عمر سے تھی ، جماعت کو ۲۵ لاکھ روپیہ کے سرمایہ سے فضل عمر فاؤنڈیشن قائم کرنے کی تحریک فرمائی.جماعت نے بفضل ایزدی ۳۶لا کھ سے زائد رقم اس مد میں پیش کی.اس فنڈ سے ربوہ میں خلافت لائبریری قائم ہو چکی ہے نیز احباب جماعت میں علمی اور تحقیقی شوق پیدا کرنے کے لئے پانچ نقد انعامات ہر سال بہترین مقالہ نگاروں کو پیش کئے جاتے ہیں.(۳) تحریک تعلیم القرآن یہ تحریک اا نومبر ۱۹۶۶ ء کو جاری کی گئی.اس کا مقصد یہ تھا کہ جماعت کا کوئی فرد بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم ناظرہ نہ جانتا ہو.جو ناظرہ پڑھ سکتے ہیں وہ ترجمہ سیکھیں اور پھر قرآنی معارف سے آگاہ ہوں.

Page 220

(۴) وقف عارضی چوتھی تحریک وقفِ عارضی کی ہے جس کے تحت واقفین دو سے چھ ہفتوں تک اپنے خرچ پر کسی مقررہ مقام پر جا کر قرآن کریم پڑھاتے اور تربیت کا کام کرتے ہیں.(۵) تحریک جدید دفتر سوم کا اجراء ۲۲ اپریل ۱۹۲۶ء کو حضور نے تحریک جدید دفتر سوم کا جراء فر مایا.آپ نے فرمایا کہ اس کا اجراء یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے سمجھا جائے گا تا یہ حضرت حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے دور سے منسوب ہو.نیز فرمایا : چاہئے کہ ہر فرد جماعت جو دفتر اول و دوم میں شامل نہیں ہوسکا اب دفتر سوم میں شامل ہونے کی جلد از جلد سعادت حاصل کرے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اس غرض کے لئے زیادہ سے زیادہ جد و جہد کریں اور امراء صاحبان پورا پورا تعاون کریں“.(1) مجالس موسیان کا قیام الفضل ربوه ۲ نومبر ۱۹۶۷ء) اس با برکت تحریک کے تحت موصیوں کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ وہ اپنے گھروں میں تعلیم القرآن کا انتظام کریں اور نگرانی کریں کہ کوئی فردا ایسا نہ رہے جو قرآنِ کریم نہ جانتا ہو.(۷) وقف جدید دفتر اطفال احمدی بچوں میں مالی قربانی کا شوق پیدا کرنے کے لئے آپ نے ہر احمدی طفل کے لئے لازمی قرار دیا کہ وہ کم از کم ۵۰ پیسے ماہوار وقف جدید کا چندہ ادا کر کے اس عظیم مالی جہاد میں شریک ہو.(۸) بد رسوم کے خلاف جہاد کی تحریک ۹ / دسمبر ۱۹۶۶ ء کو آپ نے معاشرہ میں رائج بدرسوم کے خلاف اعلانِ جہا د فرمایا.

Page 221

(۹) اتحاد بین المسلمین کی تحریک اگست ۱۹۶۷ء میں حضرت خلیفہ امسح الثالث نے مسلمانوں کو یہ تحریک کی کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو سات سال کی مدت کے لئے یہ طے کر لینا چاہئے کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے سر توڑ کوشش کریں گے اور اس عبوری دور میں ایک دوسرے پر کسی قسم کی نکتہ چینی نہیں کریں گے.(روز نامہ جنگ ۲۳ /اگست ۱۹۶۷ء) (10) تسبیح وتحمید، درود شریف اور استغفار کی تحریک ۱۵ مارچ ۱۹۶۸ء کو آپ نے تحریک فرمائی کہ روزانہ بڑے کم از کم ۲۰۰ مرتبہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ اَللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ کا ورد کریں اور ۱۰۰ بار استغفار کریں.۱۵ سے ۲۵ سال تک عمر والے ۱۰۰ بار تسبیح پڑھیں اور ۳۳ مرتبہ استغفار سے ۱۵ سال تک عمر والے ۳۳ مرتبہ تسبیح پڑھیں اور ۱۱ مرتبہ استغفار.۷ سال سے کم عمر کے بچوں کو والدین بار تسبیح اور استغفار پڑھا ئیں.(۱۱) مجلس ارشاد احباب جماعت کی علمی اور تحقیقی ترقی کے لئے سیدنا حضرت خلیفہ اصبح الثائف نے مجلس ارشاد مرکز یہ کا اپنی نگرانی میں با قاعدہ قیام فرمایا.حضور نے فرمایا کہ پاکستان کی مندرجہ ذیل بڑی بڑی جماعتوں میں بھی مرکز کے نہج پر مجلس ارشاد کے جلسے ہوا کریں گے اس کے لئے حضور نے امراء اور مربیان سلسلہ کو ذمہ دار قرار دیا.ا.کراچی ۲.حیدرآباد - کوئٹہ -۴- ملتان -۵ ساہیوال ۶.لاہور ۷.فیصل آباد ۸.سرگودھا ۹.سیالکوٹ ۱۰.راولپنڈی ۱۱.پشاور (۱۲) وقف بعد از ریٹائر منٹ اس تحریک کا مطلب یہ تھا کہ وقف کرنے والا احمدی ملازمت یا کاروبار کے دوران اپنے آپ کو تیار کرتا رہے تا کہ جب وہ ملازمت یا کاروبار سے فارغ ہو اور اُسے فرصت ملے تو اُسے خلیفہ

Page 222

وقت خدمت دین کے لئے منتخب فرما ئیں.ایسے احباب اپنی درخواستیں خلیفہ وقت کی خدمت میں بھیجتے ہیں.ان منتخب دوستوں کو ایک دینی نصاب دیا جاتا ہے جسے وہ اپنے طور پر پڑھتے ہیں اور ان کا امتحان بھی لیا جاتا ہے.(۱۳) سورۃ بقرہ کی ابتدائی ستر و آیات حفظ کرنے کی تحریک بر مؤرخہ ۱۲ ستمبر ۱۹۶۹ء کو حضور نے خطبہ جمعہ میں تمام احباب جماعت کو یہ اہم تحریک فرمائی ” میرے دل میں یہ خواہش شدت سے پیدا کی گئی ہے کہ قرآنِ کریم کی سورۃ بقرہ کی ابتدائی آئیں...ہر احمدی کو یاد ہونی چاہئیں اور ان کے معانی بھی آنے چاہئیں اور جس حد تک ممکن ہو ان کی تفسیر بھی آنی چاہئے پھر ہمیشہ دماغ میں مستحضر بھی رہنی چاہیئے.(۱۴) نصرت جہاں ریز روفنڈ سکیم (الفضل ربوده یکم اکتوبر ۱۹۷۹ء) ۱۹۷ء میں حضور نے یورپ کے متعدد ممالک کا دورہ کیا اور ڈنمارک کے دارالسلطنت کوپن ہیگن میں بیت نصرت جہاں کے افتتاح کے علاوہ اقوامِ مغرب کو جلد آنے والی تباہیوں کے متعلق انذار فرمایا.پھر ۱۹۷۰ ء میں حضور نے مغربی افریقہ کے چھ ممالک نائیجیریا، گھانا، آئیوری کوسٹ، لائبیریا، گیمبیا اور سیرالیون کا دورہ فرمایا.اس دورہ میں منشاء الہی سے ایک خاص پروگرام کا اعلان فرمایا جس کا نام حضور نے لیپ فارورڈ پروگرام تجویز کیا اور اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک لاکھ پونڈ کا ” نصرت جہاں ریز روفنڈ قائم کرنے کی تحریک فرمائی.اس تحریک کا مقصد افریقہ میں دین حق کا قیام و استحکام ہے جس کا نتیجہ انشاء اللہ العزیز دینِ حق کے عالمگیر غلبہ کی صورت میں نکلنا مقدر ہے.اس سکیم کے تحت افریقہ کے ممالک میں تعلیمی ادارے کھولے گئے اور مزید کھولے جارہے ہیں.وہاں طبی مراکز بھی قائم کئے گئے اور کئے جارہے ہیں.اسی طرح پرنٹنگ پریس قائم

Page 223

کئے جارہے ہیں جن کے ذریعہ مختلف زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم اور دوسرا دینی لٹریچر شائع کیا جا رہا ہے.نصرت جہاں ریزرو فنڈ سکیم کے تحت افریقی ممالک میں ابتداء اً جو میڈیکل سنٹرز اور سیکنڈری سکول کھولے گئے ان کی تفصیل یہ ہے: نائیجیریا میں تین میڈیکل سنٹر اور دو سیکنڈری سکول، غانا میں چار میڈیکل سنٹر اور چھ سیکنڈری سکول، لائبیریا میں ایک میڈیکل سنٹر اور ایک سیکنڈری سکول گیمبیا میں پانچ نئے میڈیکل سنٹر اور سیرالیون میں چار میڈیکل سنٹر اور چھ سیکنڈری سکول.اس کے بعد مزید افریقی ممالک میں بھی ایسے میڈیکل سنٹر، ہسپتال اور سکول کھولے گئے جن کی تعداد سینکڑوں سے تجاوز کر رہی ہے.الغرض اس بابرکت اللہی سکیم سے جو دور رس نتائج برامد ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ غلبہ اسلام کے نقوش نمایاں کر رہے ہیں.(۱۵) صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ سکیم اللہ تعالیٰ کے منشاء اور حکم کے مطابق جماعت احمدیہ کی بنیاد ۱۸۸۹ ء میں رکھی گئی.اس لحاظ سے ۱۹۸۹ ء میں اس کے قیام پر سو سال پورے ہو گئے اور اس سال سے جماعت کی دوسری صدی شروع ہوئی جو اللہ تعالیٰ کی بہارات کے مطابق غلبہ دین حق کی صدی ہوگی.اس دوسری صدی کے استقبال کے لئے جس کے شروع ہونے میں ابھی سولہ سال باقی تھے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حسب منشاء الہی جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء کے موقع پر جماعت ہائے بیرون کی تربیت، اشاعت دین کے کام کو تیز سے تیز تر کرنے ، غلبہ دینِ حق کے دن کو قریب سے قریب تر لانے اور نوع انسان کے دل خدا اور اس کے رسول حضرت محمد م کے لئے جیتنے کے لئے ایک عظیم منصوبے کا اعلان فرمایا.اس کے اغراض و مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ ابھی دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں ہماری منظم جماعتیں اور مشن قائم نہیں ہوئے.اس لئے اس منصوبہ کے ایک ابتدائی حصہ کی رُو سے یہ تجویز ہے کہ کم از کم سوز بانوں میں دینِ حق کی بنیادی تعلیم کے تراجم کر کے بیرونی ملکوں میں

Page 224

کثرت سے اشاعت کی جائے اور اس ذریعہ سے وہاں کے باشندوں کی تربیت واصلاح اور ان کو دین حق کی طرف لانے کی کوشش کی جائے.نیز فرمایا کہ کئی جگہ ہمیں نئے مشن کھولنے پڑیں گے اور وہاں مساجد بنانی پڑیں گی.اس عظیم الشان منصو بہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے حضور نے اڑھائی کروڑ روپیہ کا فنڈ مہیا کرنے کے لئے احباب جماعت کو تحریک فرمائی جس پر لبیک کہتے ہوئے احباب جماعت نے دس کروڑ روپیہ سے زائد کا وعدہ حضور کی خدمت میں پیش کیا.اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ ۵۴ سے زائد ممالک کی جماعتہائے احمدیہ نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے.اس تحریک کا ثمرہ یہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں نئی مساجد تعمیر ہوئیں.جن میں سے ایک سپین میں ۷۰۰ سال بعد تعمیر ہونے والی مسجد بشارت بھی ہے.اس عظیم منصوبے کے تحت قرآنِ مجید کا ترجمہ سو سے زائد زبانوں میں شائع کرنے کا منصو بہ بنایا گیا اور ابتک ۵۶ سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کے مکمل ترجمے شائع ہو چکے ہیں.ایک اور شیر میں شمر یہ ہے کہ اس منصوبہ کے تحت لندن میں ایک بین الاقوامی کسر صلیب کا نفرنس جون ۱۹۷۸ ء میں منعقد ہوئی جس میں کئی ممالک کے عیسائی اور مسلم محققین نے تحقیقی مقالے پڑھے اور ثابت کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر وفات نہیں پائی.اس عظیم منصوبہ کے روحانی پہلو کے طور پر حضور نے سولہ سال کے لئے جو پروگرام تجویز فرمایا وہ یہ تھا : ا.جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک صدی مکمل ہونے تک ہر ماہ احباب جماعت ایک نفلی روزہ رکھا کریں جس کے لئے ہر قصبہ، شہر یا محلہ میں مہینہ کے آخری ہفتہ میں کوئی ایک دن مقامی طور پر مقرر کر لیا جایا کرے.دو نفل روزانہ ادا کئے جائیں جو نماز عشاء کے بعد سے لے کر فجر سے پہلے تک یا نماز ظہر کے بعد ادا کئے جائیں.۳.کم از کم سات بار سورۃ فاتحہ کی دعا غور و تدبر کے ساتھ پڑھی جائے.

Page 225

-۴- درود شریف تسبیح و تحمید نیز استغفار کاور دروزانہ ۳۳، ۳۳ بار کیا جائے.درود اور تسبیح وتحمید کے لئے سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيْمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدِ پڑھ سکتے ہیں.مندرجہ ذیل دعائیں روزانہ کم از کم گیارہ بار پڑھی جائیں: رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِيْنَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ جماعت کے لئے تعلیمی منصوبہ حضور نے مجلس انصار اللہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ اکتوبر ۱۹۷۹ء کے آخری اجلاس میں غلبہ اسلام کی صدی کے استقبال کے لئے ایک دس نکاتی تعلیمی پروگرام پیش کیا.حضور نے مجلسِ مشاورت ۱۹۸۰ء کے موقع پر جماعت کے لئے ایک عظیم علمی منصوبہ کا اعلان فرمایا.صد سالہ احمدیہ تعلیمی منصوبے کے تحت دسمبر ۱۹۸۲ء تک ۴۸ طلبہ و طالبات کو بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانات میں اوّل ، دوم اور سوم آنے پر طلائی اور نقر کی تمغے عطا کئے گئے.مسجد بشارت کی تأسیس حضور نے جون تا اکتوبر ۱۹۸۰ ء یورپ کا جو سفر کیا اس کا اہم ترین واقعہ مسجد بشارت پید رو آباد کی تاسیس تھا.اس سفر کے دوران حضور سپین تشریف لے گئے اور قرطبہ سے ۲۲/ ۲۳ میل دور قصبہ پید رو آباد میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو حضور کے عہدِ مبارک میں ہی پایہ تکمیل کو پہنچ گئی.حضور نے اس کا نام مسجد بشارت تجویز فرمایا اور اس کے افتتاح کے لئے ۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ ء کی تاریخ مقرر فرمائی.یہ پین میں ۷۴۴ سال بعد تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے.مسجد کی بنیادر کھے جانے کے وقت پیدروآباد کے ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں نے بڑی خوشی سے اس تقریب میں شرکت کی.قصبہ کی ایک معمر ترین عورت اور ایک سب سے کم عمر بچے نے بھی (بذریعہ اپنی والدہ ) سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت حاصل کی.اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اسلام ہمیں یہ سکھاتا

Page 226

۲۱۱ ہے کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نھیں چودھویں صدی ہجری کو الوداع اور پندرہویں کا استقبال 66 چودہویں صدی ہجری کے آخری سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ مرکز یہ منعقدہ نومبر ۱۹۸۰ء کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ چودھویں صدی نے ہمیں خدا سے ملا دیا ہے اور ہم پر حضرت محمد ﷺ کا حسن اور قرآن کریم کی عظمت واضح کر دی ہے.پندرہویں صدی ہجری کے آغاز پر اس صدی کو غلبہ دین حق کی صدی بنانے کے لئے بہت دعائیں کی گئیں اور صدقات دیئے گئے.مرکزی ادارہ جات اور اہالیانِ ربوہ کی طرف سے یکم محترم الحرام ۱۴۰۱ء سے ۷ محترم تک ایک سو ایک (۱۰۱) بکرے بطور صدقہ دیئے گئے.9 نومبر کی شام کو غروب آفتاب کے چند منٹ بعد پہلا بکر احضور نے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور دعا کی.ربوہ کے علاوہ دوسرے مقامات کے احمدی مردوں اور عورتوں نے کثرت سے قربانیاں کیں اور غلبہ دین حق کے لئے دعائیں مانگیں.لا إله إلا الله کا ورد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مجلس خدام الاحمدیہ کے ۳۶ ویں سالانہ اجتماع منعقدہ نومبر ۱۹۸۰ ء پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ۱۸۸۲ء میں حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کو ایک الہام ہوا جس کے پورا ہونے کے ظاہری سامان نہیں تھے.پھر حضور نے اپنا ایک کشف بیان فرمایا جس میں آپ نے دیکھا کہ ساری کائنات سمندر کی انگوری رنگ کی لہروں کی طرح پر اہر در اہر آگے بڑھتی اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کا ورد کرتی جارہی ہے.حضور نے اس کشف کی یہ تعبیر فرمائی کہ اب توحید الہی کے قیام کا وقت آگیا ہے.۱۸۸۲ء کے حضرت مسیح موعود کے طویل سلسلہ الہامات کا آخری حصہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ تھا.اس کے بعد الہام ہوا فاكتب اسے لکھ رکھو اور طبع کراؤ اور پھر ساری زمین میں شائع 66 کر دو.اب اس الہام پر عمل کا وقت آگیا ہے.اسے طبع کروا کر ساری دنیا میں پھیلا دو.حضور کی اس ہدایت پر فوری عمل شروع ہو گیا اور بینروں کے ذریعہ نیز دوسرے طریق پر

Page 227

۲۱۲ جماعت میں اس کی اشاعت کی ایک روچل پڑی.فرض نمازوں کے بعد بھی گیارہ مرتبہ دھیمی آواز میں لا إِلهَ إِلَّا اللہ کا ورد کیا جانے لگا جو حضور کی زندگی میں برابر جاری رہا.ستاره احمدیت دسمبر ۱۹۸۱ ء میں حضور ( نور اللہ مرقدہ) نے جماعت احمدیہ کو ستارہ احمدیت دیا اور فرمایا: نبی کریم ﷺ کی برکتوں کے طفیل امت محمدیہ نے چودہ صدیوں کے اندر خدا تعالیٰ کے زندہ نشان ایک یا دو نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں دیکھے اور ہر صدی نے زبانِ حال سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اس لئے میں نے اس ستارے کے چودہ کونوں میں اللہ اکبر لکھوایا ہے“.حضور نے احباب جماعت کو ستارہ احمدیت دکھایا اور چودہ صدیوں کی طرف سے لا الهَ إِلَّا اللہ اور اللہ اکبر کا ورد کیا.قرآن مجید کی عالمی اشاعت خلافت ثالثہ کا ایک اہم کارنامہ قرآنِ کریم کی وسیع اشاعت ہے.اس غرض کے لئے حضور نے یورپ، امریکہ اور افریقہ کے مختلف ممالک میں ہوٹلوں میں قرآن کریم رکھنے کی ایک مہم جاری فرمائی جس کے نتیجہ میں درجنوں ممالک کے طول و عرض میں ہوٹلوں میں کلام پاک کے ہزار ہانسخے رکھوائے گئے.اور اب یہ سلسلہ کثرت سے تقسیم اور فروخت کی شکل میں برابر جاری اور وسعت پذیر ہے.

Page 228

۱۳ قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث کے دور کی بعض با برکت تحریکات اور منصوبے ۱) وقف جدید کے دفتر اطفال کا اجراء (۲) نوجوان گریجوئیٹس کے لئے وقف زندگی کی تحریک (۳) استحکام پاکستان کے لئے دعاؤں اور صدقات کی تحریک ۴) گھوڑے پالنے کی تحریک سائیکل سواری اور سائیکل سروے کی تحریک نشانہ غلیل میں مہارت پیدا کرنے کی تحریک ۷) خدام اور لجنہ کو اپنی اپنی کھیلوں کے کلب بنانے کی تحریک ۸) درخت لگانے (شجر کاری ) کی تحریک ۹) ربوہ کوسرسبز وشاداب بنانے کی تحریک ۱۰) آنحضرت ام کی سنت میں ہمیشہ مسکراتے رہنے کی تحریک ۱۱) امنِ عالم کے لئے صدقات اور دعاؤں کی تحریک ۱۲) حفظ قرآن کی تحریک ۱۳) غلبہ اسلام کی صدی کے لئے قرآنِ کریم سیکھنے اور سکھانے کے لئے دس سالہ تحریک ۱۴) ادائیگی حقوق طلبہ کی تحریک ۱۵) طلباء کو سویا بین کھانے کی تحریک ۱۶) ہر گھر میں تفسیر صغیر رکھنے کی تحریک ۱۷) ہر گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر رکھنے کی تحریک ۱۸) قلمی دوستی کی تحریک

Page 229

(۲۱۴ ۱۹) یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں کمیونٹی سنٹر اور عید گاہیں بنانے کی تحریک ۲۰) فولڈرز شائع کرنے کی تحریک ۱۲) بچوں کے لئے خوبصورت اور دلچسپ کتب لکھنے کی تحریک (۲۲) انصار اللہ کی صف اوّل اور صف دوم بنانے کی تحریک ۲۳) اطفال و ناصرات کے لئے معیار کبیر وصغیر کی تحریک ۲۴) مہمان خانے بنانے کی تحریک ۲۵) جلسہ سالانہ کے موقع پر غیر ملکیوں کو تقاریر کے تراجم سنانے کی تحریک (۲۶) جلسہ سالانہ صد سالہ جوبلی کے لئے دیگوں کی تحریک ۲۷) پریس لگانے اور ریڈیو سٹیشن بنانے کی تحریک (۲۸) سوز بانوں میں لٹریچر تیار کرنے کی تحریک ۲۹) اولاد کا اکرام کرنے کی تحریک ۳۰) بیوی بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور عزت سے مخاطب ہونے کی تحریک ۳۱) احمدی بچیوں کی بر وقت شادی کر دینے کی تحریک ۳۲) حلف الفضول کی طرح مجالس بنانے کی تحریک ۳۳) عاجزی اور انکساری اختیار کرنے کی تحریک ۳۴) دشمن سے بدلہ نہ لینے اور بدعا نہ کرنے کی تحریک ۳۵) افغان مہاجرین کے لئے دعا اور بیماروں کو بتی سہولتیں فراہم کرنے کی تحریک ۳۶) بنی نوع انسان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں قرآن کریم دینے کی تحریک ۳۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعا ( جو اسم اعظم کا درجہ رکھتی ہے ) پڑھنے کی تحریک ۳۸) دنیا کے اطراف و جوانب کو نور مصطفوی سے منور کرنے کی تحریک (۳۹) اسلامی آداب و اخلاق کی ترویج واشاعت کی تحریک ۴۰ جلسہ سالانہ پر رضا کاروں کی فراہمی کی تحریک

Page 230

۲۱۵ (۴۱) جماعتی تعمیرات کی نگرانی کے لئے احمدی انجنیئر وں کو تحریک (۴۲) تمام مجالس کے اجتماعات میں نمائندگی کی تحریک ۴۳) فضل عمر فاؤنڈیشن، انجمنوں اور ذیلی تنظیموں کوغیر ملکی مہمانوں کے لئے گیسٹ ہاؤسز بنانے کی تحریک ۴۴) جماعت کے افراد کو قوی اور امین بننے کی تحریک ۴۵) متلاشیان حق کو وفود کی شکل میں مرکز میں لانے کی تحریک (۴۶) ذیلی تنظیموں کے ضلعی اور علاقائی اجتماعات منعقد کرنے کی تحریک ۴۷) جنگی قیدیوں اور افغان مہاجرین کے لئے گرم کپڑے اور رضائیاں مفت سپلائی کرنے کی سکیم (۴۸) مشاورت میں کم عمر نمائندوں کی شمولیت کی تحریک علاوہ ازیں اور بے شمار ہدایات و نصائح ہیں جو خلیفہ وقت کی زبان سے جاری ہونے کی وجہ سے تحریک کے روپ میں ظاہر ہوتی ہیں اور جماعت کے عمل میں ڈھل کر افراد جماعت کی بہبود اور جماعت کی عظمت و ترقی کا موجب بنتی رہی ہیں.۱۹۷۴ء کا دور پُر آشوب دورِ خلافت ثالثہ میں ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کڑی آزمائشوں کے ایک اور دور میں داخل ہوئی.جب اپنوں ہی کی آنکھیں نفرت کے شعلے، ذہن تعصب کی آگ اور ہاتھ ظلم کی برچھی بن گئے تھے تو کشتی احمد کا ملاح اللہ پر توکل کرتا ہوا اپنے دن رات ایک کر کے خوف و دہشت کی چٹانوں سے اسے بچاتا ہوا ظلم کے شعلوں سے کتراتا ہوا تاریخ کے اوراق میں تحمل ، عفو اور درگزر کے ایک شاندار باب کا اضافہ کر کے کم حوصلگی کو بلند حوصلگی میں، مرجھائے پیکروں کو مسکراہٹ سے دسکتے چہروں میں بدل کر خدائی نصرت کے ساتھ خوف کو امن میں بدلنے کا موجب ہوا.اس دوران پاکستان کی قومی اسمبلی میں بنفس نفیس تشریف لے جا کر ۵۲ گھنٹے تک جماعتِ احمدیہ کے موقف کی وضاحت فرمائی.

Page 231

۲۱۶ وو وو آپ کی زریں ہدایات تعلیم حکمت کے سلسلہ میں حضور نے قرآن کریم پر مبنی بعض نہایت قیمتی Mollos اور زریں ہدایات جماعت کو دیں.مثلاً یہ کہ : ” ہمیشہ مسکراتے رہو" محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں، تکبر اور ریاء کی بجائے ہمیشہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو ”ہمارا خدا بہت ہی پیارا اور احسان کرنے والا ہے.اس سے کبھی منہ نہ موڑو برگزیدہ نبی کے تابع ہو کر کیوں بے ہمت ہوتے ہو؟“ " تم محض ہمدردی اور خیر خواہی اور خدمت کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو ہم کسی کے بھی دشمن نہیں“ ” ہم سب کے لئے خیر خواہ اور دعا گو ہیں“ بجز خدا کے اور کسی سے نہ ڈرو دنیا جو مرضی ہو کہتی رہے.ہوگا وہی جو خدا نے کہا اور خدا کی باتوں کو کبھی دنیوی منصوبے ناکام نہیں کر سکتے“ آپ نے افریقی ممالک کے احمدیوں کو پیغام دیا کہ اگر احمدیت کا جھنڈا تمہارے ہاتھ میں ہوگا تو دنیا کی لیڈرشپ افریقہ کے ہاتھ میں ہوگی ایسا ہی آپ نے فرمایا : جماعت احمدیہ کے افراد توحید خالص پر قائم ہیں اور قائم رہیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں خدا تعالیٰ اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی ہم سے جدا نہیں کر سکتی اور ہمارے لئے ہمارا خدا ہی کافی ہے اور بس.

Page 232

(۲۱۷) بیرونی ممالک کے تبلیغی دورے (۱) دورہ یورپ ۶ / جولائی تا ۲۱ / اگست ۱۹۶۷ء ا.مغربی جرمنی ۲.سوئٹزرلینڈ - ہالینڈ ۴.ڈنمارک ۵.برطانیہ (انگلستان) (۲) دورہ یورپ و مغربی افریقہ ۱/۴ پریل تا ۸ جون ۱۹۷۰ء ۱.سوئٹزر لینڈ ۲.مغربی جرمنی ۳ نائیجیریا ۴ غانا -۵ آئیوری کوسٹ ۶.لائبیریا ۷.گیمبیا ۸ - سیرالیون ۹ برطانیہ ۱۰.سپین ۱۱.برطانیہ (۳) سفر انگلستان ۱۳ / جولائی تا ۲۶ ستمبر ۱۹۷۳ء (۴) سفر یورپ ۱۵ راگست تا ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۵ء ا.انگلستان ۲.مغربی جرمنی ۳.ڈنمارک ۴.ہالینڈ ۵.سوئٹزرلینڈ (۵) دورہ امریکہ و یورپ ۲۰ جولائی تا ۲۰/اکتوبر ۱۹۷۶ء ا.برطانیہ ۲.امریکہ ۳.کینیڈا ۴.سویڈن ۵.ناروے ۶.ڈنمارک ۷.جرمنی ۸.سوئٹزرلینڈ ۹.ہالینڈ (1) دورہ یورپ ( بسلسلہ کسر صلیب کانفرنس) ۸ مئی تا ۱۱ اکتوبر ۱۹۷۵ء ا.برطانیہ ۲.ناروے ۳.سویڈن ۴.ڈنمارک ۵.مغربی جرمنی (۷) دورہ یورپ، امریکہ و افریقہ ۲۶ جون تا ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۰ء

Page 233

۲۱۸ ا.مغربی جرمنی ۲.سوئٹزرلینڈ ۳.آسٹریا ۴.ڈنمارک ۵.سویڈن ۶.ناروے ے.ہالینڈ - انگلستان و سپین ۱۰.نائیجیریا اا.غانا ۱۲.کینیڈا ۱۳.امریکہ آپ کا آخری خطاب ۶ رمئی ۱۹۸۲ء کو حضور نے ربوہ میں آخری خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور ۲۳ رمئی کو حضور اسلام آباد تشریف لے گئے.حضور کی علالت اور وصال قیام اسلام آباد کے دوران ۲۶ رمئی ۱۹۸۲ء کو حضور پر نور کی طبیعت علیل ہوگئی.بروقت علاج سے بفضل تعالیٰ افاقہ ہو گیا لیکن ۳۱ مئی کو اچانک طبیعت پھر خراب ہوگئی.ڈاکٹری تشخیص سے معلوم ہوا کہ دل کا شدید حملہ ہوا ہے.علاج کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور ۸ / جون تک صحت میں بتدریج بہتری پیدا ہوتی گئی لیکن ۱۹۷۸ جون یعنی منگل اور بدھ کی درمیانی شب پونے بارہ بجے کے قریب دل کا دوبارہ شدید حملہ ہوا اور بقضائے الہی پونے ایک بجے شب ” بیت الفضل اسلام آباد میں آپ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۱۹ جون ۱۹۸۲ء کو حضور کا جسدِ اطہر اسلام آباد سے ربوہ لایا گیا.۱۰ رجون کو سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفتہ اسیح الرابع نے بعد نماز عصر احاطہ بہشتی مقبرہ میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں ایک لاکھ کے قریب احباب شریک ہوئے.نماز جنازہ کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے پہلو میں جانب شرق حضور کی تدفین عمل میں لائی گئی.حضور نوراللہ مرقدہ نے ۷۳ سال عمر پائی.

Page 234

۲۱۹ حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا یادگارلٹریچر مشتمل بلند پایه ذیل میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے بصیرت افروز خطبات و تقاریر پر لٹریچر کی فہرست دی جا رہی ہے جو مختلف اداروں کی طرف سے کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے.(۱) تین اہم امور ( خطبات ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ ء ۳۰ / اپریل ۱۹۶۶ء ۱۷ / دسمبر ۱۹۶۶ء) ۲) " تحریک جدید دفتر سوم کا اجراء اور صدر انجمن احمد یہ کے چندوں کی صحیح بجٹوں کی تیاری اور بروقت وصولی کے متعلق زریں ہدایات (خطبہ ۱/۲۲اپریل ۱۹۶۶ء) ۳) ” قرآنی انوار (خطبات از ۲۴ /جون تا ۱۶ ستمبر ۱۹۶۶ء) دو (۴) مجاہدہ (خطبه جمعه ۲۸/اکتوبر ۱۹۶۶ء) (۵) خطبۂ صدارت جلسہ تقسیم انعامات واسناد تعلیم الاسلام کالج ربوہ (۱۹۷۷ء) (۶) تعمیر بیت اللہ کے ۲۳ عظیم الشان مقاصد ( خطبات از ۱۳ مارچ ۱۹۲۷ء تا ۱۶/جون ١٩٦ء) وو ے ”امن کا پیغام اور ایک حرف انتباه ( تقریر ۲۸ جولائی ۱۹۶۷ء وانڈ زورتھ ہال لندن) ۸) احمدی خواتین سے اہم خطاب“ ( تقریر ۲۱/اکتوبر ۱۹۶۷ء) ۹ اعلان سال نو تحریک جدید (خطبه ۱٫۲۵ کتوبر ۱۹۶۸ء) (۱۰) تعلیم القرآن کے دوسرے دور کا آغاز (خطبہ ۱/۲۶اپریل ۱۹۶۹ء) (۱۱) عظمت قرآن پاک (خطبه ۲۸ / مارچ ۱۹۶۹ء) دو ۱۲) اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور فلسفہ (خطبات ۱۹۶۹ء) ۱۳) ربوہ کے ماحول کو پاکیزہ رکھیں، (خطبہ ۸/جنوری ۱۹۷۰ء) ۱۴) ” صفات باری کے مظہر اتم.انسانیت کے محسن اعظم کی عظیم روحانی تجلیات ( خطبہ ۱۲۰ مارچ ۱۹۷۰ء) ۱۵) احمدی ڈاکٹروں سے بصیرت افروز خطاب ( تقریر ۳۰ /اگست ۱۹۷۰ء)

Page 235

۲۲۰ ۱۶) ایک سچے اور حقیقی خادم کے ۱۲ اوصاف“ (تقریر ۱۶/اکتوبر ۱۹۷۰ء) ۱۷) حالات حاضرہ کے متعلق ایک اہم خطبہ (خطبہ ۲۶ نومبر ۱۹۷۱ء) وو ۱۸) پاکستان انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے“ (خطبہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۱ء) (۱۹ (مجلس خدام الاحمدیہ کی سالانہ تربیتی کلاس سے خطاب (خلاصہ تقریرے /جون ۱۹۷۲ء) (۲۰) لجنہ اماءاللہ کے پندرھویں سالانہ مرکزی اجتماع سے بصیرت افروز خطاب ( تقریر ۱۸؎ نومبر ۱۹۷۱ء) دو ۲۱) مقام محمدیت کی تفسیر (خطبہ ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء) (۲۲) ” کشمیر اسمبلی کی ایک قرارداد پر تبصره (خطبه ۴ رمئی ۱۹۷۳ء) (۲۳) تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی اہمیت (۱۹۲۶ء تا ۱۹۷۳ء کے خطبات کے اہم اقتباسات) (۲۴) حقوق انسانی اور آئین پاکستان وو ۲۵) ” جلسہ سالانہ کی دعائیں (۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۵ ء تک) ۲۶) احمدی خواتین سے بصیرت افروز خطاب“ ( تقریر ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۵ء) ۲۷) اسلام کو ترک کرنے والے کا سلسلہ احمدیہ ( مبائعین خلافت ) سے کوئی تعلق نہیں“ (خطبہ ۱/۳۰ پریل ۱۹۷۶ء) (۲۸) ” ہمارے عقائد ( تقریر ۱/۲۲ اکتوبر ۱۹۷۸ء) وو ۲۹) ” ہمارے لئے خدا اور محمد مہی کافی ہیں (خطبہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۷۸ء) دو (۳۰) اسلام مذہبی آزادی اور آزادی ضمیر کا ضامن ہے (خطبات ۲۹ دسمبر ۱۹۷۸ء تا ۱۲/ جنوری ۱۹۷۹ء) ۳۱) المصابیح ( تقاریر برائے لجنہ اماءاللہ ۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۸ء) (۳۲) پیغام.بھارت کے دکھی احمدیوں کے نام (۵ رمئی ۱۹۷۹ء) وو ۳۳) ” جماعت سے خطاب (فرمودہ سالانہ اجتماع انصار اللہ ۱۹۷۹ء)

Page 236

(۳۴ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے چھتیسویں (۳۶) سالانہ اجتماع سے افتتاحی خطاب ( تقریر ۱۹ نومبر ۱۹۸۰ء) (۳۵) دورہ مغرب ۱۳۰۰ حضور کے شہرہ آفاق تبلیغی وتربیتی دورہ کی ایمان افروز روئیداد اور مبارک ارشادات کا حسین مرقع ۳۶) افتتاحی خطاب (جلسہ سالانہ ۱۹۸۱ء)

Page 237

۱۲۲۲ حضرت خلیفہ اسیح الرابع اور آپ کا دورِ خلافت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد حضرت مصلح موعودؓ کی حرم ثالث حضرت سیدہ مریم بیگم ( ام طاہر ) صاحبہ کے بطن سے ۱۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء ۵ /رجب ۱۳۴۷ھ ) کو پیدا ہوئے.حضرت سلح موعود آپ کی پیدائش سے قبل الہی بشارت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے رویا مصلہ میں دیکھا کہ ” میری گود میں ایک بچہ ہے جس کا نام طاہر احمد ہے.آپ نے ایک مرتبہ حضرت ام طاہر کو مخاطب کر کے فرمایا : ” مجھے خدا تعالیٰ نے الہام بتایا ہے کہ طاہر ایک دن خلیفہ بنے گا“ (ایک مرد خدا صفحه ۲۰۸) حضرت خلیفہ المسح الرابع کے نانا حضرت ڈاکٹرسیدعبدالستار شاہ صاحب کلر سیداں تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور سید خاندان کے ایک بڑے عابدزاہد مستجاب الدعوات بزرگ تھے جنہوں نے ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ کی والدہ حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ بھی نہایت پارسا اور بزرگ خاتون تھیں جو اپنے اکلوتے بیٹے کی تعلیم و تربیت کا بے حد خیال رکھتی تھیں اور اُسے نیک صالح اور عاشق قرآن دیکھنا چاہتی تھیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی.آپ ۷ / دسمبر ۱۹۴۹ء کو جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور ۱۹۵۳ء میں نمایاں کامیابی کے ساتھ شاہد کی ڈگری لی.اپریل ۱۹۵۵ ء میں آپ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ یورپ تشریف لے گئے اور لندن یونیورسٹی آف اور میٹل سٹڈیز میں تعلیم حاصل کی تحصیل علم کے بعد ۴/اکتوبر ۱۹۵۷ءکور بوہ واپس تشریف لائے.

Page 238

۱۲۲۳ ۱۲ نومبر ۱۹۵۸ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو وقف جدید کی تنظیم کا ناظم ارشاد مقرر فرمایا.آپ کی نگرانی میں اس تنظیم نے بڑی تیز رفتاری سے ترقی کی.حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی کے آخری سال میں اس تنظیم کا بجٹ ایک لاکھ ستر ہزار روپے تھا جو خلافت ثالثہ کے آخری سال میں بڑھ کر دس لاکھ پندرہ ہزار روپے تک پہنچ گیا.نومبر ۱۹۲۰ء سے ۱۹۶۶ء تک آپ نائب صدر خدام الاحمد یہ رہے.۱۹۹۰ء کے جلسہ سالانہ پر آپ نے پہلی مرتبہ اس عظیم اجتماع سے خطاب فرمایا.اس کے بعد قریبا ہر سال ہی جلسہ سالانہ کے موقع پر خطاب فرماتے رہے.لا19ء میں آپ افتاء کمیٹی کے ممبر مقرر ہوئے.۱۹۶۶ء سے نومبر ۱۹۶۹ء تک مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر رہے.یکم جنوری ۱۹۷ء کوفضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے.۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کے ایک نمائندہ پانچ رکنی وفد نے حضرت خلیفہ مسیح الثالث نو ر اللہ مرقدہ کی قیادت میں پاکستان اسمبلی کے سامنے جماعت احمدیہ کے موقف کی حقانیت کو دلائل و براہین سے واضح کیا.آپ اس وفد کے رکن تھے.یکم جنوری ۱۹۷۹ ء کو آپ صدر مجلس انصاراللہ مقرر ہوئے اور خلیفہ منتخب ہونے تک اس عہدہ پر فائز رہے.۱۹۸۰ء میں آپ احمد یہ آرکیٹیکٹس اینڈ انجنیئر زایسوی ایشن کے سر پرست مقرر ہوئے.

Page 239

خلافت کا دور ۲۲۴ ۱۹ جون ۱۹۸۲ء کو حضرت خلیفہ امسح الثالث و ر اللہ مرقدہ کی وفات کے بعد ۱۰ رجون ۱۹۸۲ء کو حضرت مصلح موعود کی مقرر کردہ مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس بعد نماز ظہر مسجد مبارک میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرز ا مبارک احمد صاحب وکیل الاعلیٰ تحریک جدید منعقد ہوا اور آپ کو خلیفہ امسیح الرابع منتخب کیا گیا اور تمام حاضرین مجلس نے انتخاب کے معا بعد حضور کی بیعت کی.حضور ۲۸ / جولائی ۱۹۸۲ ء کو یورپ کے دورہ پر روانہ ہوئے.آپ کے پروگرام کا بڑا مقصد بیرونی مشوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا اور مسجد بشارت سپین کے معینہ پروگرام کے مطابق افتتاح کرنا تھا.اس سفر میں حضور نے ناروے، سویڈن، ڈنمارک، جرمنی، آسٹریا، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ، سپین اور انگلستان کا دورہ کیا اور وہاں کے مشنوں کا جائزہ لیا.سفر کے دوران اصلاح و ارشاد اور مجالس عرفان کے علاوہ استقبالیہ تقاریب، ۱۸ پریس کانفرنسوں اور زیورک میں ایک پبلک لیکچر کے ذریعہ اہل یورپ کو پیغام پہنچایا.انگلستان میں دو نئے مشن ہاؤسز کا افتتاح کیا.حضور نے یورپ کے ان ممالک میں ہر جگہ مجلس شوری کا نظام قائم فرمایا.نیز آپ نے تمام ممالک کے احمدیوں کو تو جہ دلائی کہ وہ شرح کے مطابق لازمی چندوں کی ادائیگی کریں.۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ء کو حضور نے ” مسجد بشارت پین کا تاریخ ساز افتتاح فرمایا اور واضح کیا کہ احمدیت کا پیغام امن و آشتی کا پیغام ہے اور محبت و پیار سے اہلِ یورپ کے دل دینِ حق کے لئے فتح کئے جائیں گے.مسجد بشارت پیڈ رو آباد کے افتتاح کے وقت مختلف ممالک سے آنے والے قریباًا دو ہزار نمائندوں اور دو ہزار کے قریب اہالیان سپین نے شرکت کی.ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعہ مسجد بشارت کے افتتاح کا سارے یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی خوب چرچا ہوا اور کروڑوں لوگوں تک سرکاری ذرائع سے دین حق کا پیغام پہنچایا گیا.الحمد للہ علی ذلک حضور نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کے فضل سے یورپ میں اب ایسی ہوا چلی ہے کہ اہلِ یورپ دلیل سننے کی طرف مائل ہورہے ہیں.

Page 240

۲۲۵ حضور ۲۲ اگست ۱۹۸۳ء کو مشرق بعید اور آسٹریلیا کے دورہ کے لئے تشریف لے گئے اور اسی دورہ میں ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ ء کو آپ نے آسٹریلیا کے بلیک ٹاؤن شہر میں بیت الہدیٰ کا سنگ بنیاد رکھا اور اسے اس علاقہ میں اشاعت دین حق اور اشاعتِ قرآن کا بہت بڑا مؤثر ذریعہ قرار دیا.اس دورہ سے ۱۴ ۷ اکتوبر ۱۹۸۳ء کو آپ واپس پاکستان تشریف لے آئے.۲۶ را پریل ۱۹۸۴ء کو حکومت پاکستان نے جماعت کے خلاف آرڈینینس جاری کیا جس کے تحت جماعت کو اذان دینے ، اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے اور آزادانہ طور پر اپنے عقائد کو پھیلانے سے روک دیا گیا.چنانچہ اشاعت دین کے کام کو رواں دواں رکھنے کے لئے ۱/۲۹ پریل ۱۹۸۴ء کو حضور ربوہ سے ہجرت کر کے برطانیہ تشریف لے گئے اور لندن میں قیام فرمایا.حضور کی زیر ہدایت اور آپ کی رہنمائی میں ساری دنیا میں اشاعت انوار قرآنی اور شمع ہدایت کو روشن کرنے کا کام انتہائی شاندار طریق سے کامیابی کے ساتھ جاری وساری ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس عرصہ قیام میں جماعت احمدیہ پر برکات و انوار کی وہ بارش نازل کی ہے کہ جسے شمار کرنا مشکل ہے.۱۹۸۹ء میں جواحد یہ صد سالہ جشن تشکر کا سال تھا ایک لاکھ آٹھ ہزار افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے اور اس وقت یہ ایک ریکارڈ کامیابی تھی جو اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفتہ المسیح الرابع کے با برکت دور میں ایک سال کے عرصہ میں عطا فرمائی ہے.لیکن اس کے بعد اس طرح فتوحات کا شاندار سلسلہ جاری ہوا کہ ہر طرف سے لوگ افواج در افواج اور قبائل در قبائل جماعت میں داخل ہونے شروع ہوئے اور کروڑوں کی تعداد میں داخل ہوئے.آپ کے دورِ خلافت میں حضرت مسیح موعود کے الہام کے مطابق کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے افریقہ کے علاقہ کے چار بادشاہ دائرہ احمدیت میں داخل ہو کر اس پیشگوئی کی سچائی کا مصداق بنے اور آپ کے دور میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پورا ہوا.اور وہ تنہا آواز جو ایک سو سال پہلے قادیان کی گمنام بہستی سے

Page 241

اُٹھی تھی آپ کے مبارک دور میں دنیا کے ڈیڑھ صد سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے اور وہ وجود جو ایک سو سال پہلے ایک تھا آج کروڑوں میں تبدیل ہو چکا ہے.فالحمد للہ علی ذلک دور خلافت رابعہ کے بعض اہم واقعات ۱۰رجون ۱۹۸۲ء منصب خلافت پر فائز ہوئے ۱۳ / جون ۱۹۸۲ء فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لئے دعا کی تحریک ۲۸ جولائی ۱۹۸۲ء دورہ یورپ کے لئے روانگی ۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ء مسجد بشارت سپین کا افتتاح ۱۳ اکتوبر ۱۹۸۲ء مرکز سلسلہ میں کامیاب مراجعت ۲۹ اکتوبر ۱۹۸۲ء بيوت الحمد منصوبہ کا اجراء اور اس کے فنڈ کی تحریک ۲۵/ دسمبر ۱۹۸۲ء مرکزی مجلس صحت کا قیام ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء دورِ خلافت رابعہ کا پہلا جلسہ سالانہ تعلیمی انعامی تمغہ جات کی تقسیم کی آٹھویں تقریب ۱۲ جولائی ۱۹۸۳ء عید کے دن غرباء کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کی تحریک ۱۲ جولائی ۱۹۸۳ء قرآنِ کریم کے گورمکھی ترجمہ کی اشاعت ۲۲ / اگست ۱۹۸۳ء دورہ مشرق بعید اور آسٹریلیا کے لئے ربوہ سے کراچی روانگی ۳۱ / اگست ۱۹۸۳ء انسانیت کا مستقبل“ کے عنوان پر سوئٹزرلینڈ یونیورسٹی میں لیکچر دیا اور سوالات کے جواب دیئے ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء بلیک ٹاؤن آسٹریلیا میں بیت الہدی کا سنگ بنیاد ۵/اکتوبر ۱۹۸۳ء آسٹریلیا کی یونیورسٹی میں ”اسلام کی امتیازی خصوصیات“ کے موضوع پر لیکچر دیا اور سوالات کے جواب دیئے ۱۴ / اکتوبر ۱۹۸۳ء آسٹریلیا کے سفر سے کامیاب مراجعت

Page 242

۲۲۷ ۲ جنوری ۱۹۸۴ء عرب بھائیوں کے لئے دعا کی تحریک ۲۶ / اپریل ۱۹۸۴ء جماعت کے خلاف آرڈنینس کا نفاذ ۲۹ / اپریل ۱۹۸۴ء سفر یورپ کے لئے ربوہ سے روانگی ۲۹ جون ۱۹۸۴ء ٹلفورڈ (اسلام آباد) میں جماعت انگلستان کے عظیم تاریخی جلسہ کا دسمبر ۱۹۸۴ء اپریل ۱۹۸۵ء انعقاد امریکہ میں ڈوئی کے شہر زائن میں جماعتِ احمدیہ کے مرکز کا قیام گلاسگومشن کے لئے عمارت کی خرید ۱۰ رمئی ۱۹۸۵ء پاکستان کے لئے خصوصی دعاؤں کی تحریک جون ۱۹۸۵ء یورپی مراکز میں جماعت کی نمایاں قربانی ، ۲ کروڑ روپے سے زیادہ کی وصولی ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۵ء نستعلیق کتابت کے کمپیوٹر کے لئے ڈیڑھ لاکھ پونڈ کی تحریک ۱۳ ستمبر ۱۹۸۵ء الینڈ میں نئے مرکز بیت القور کا افتتاح فرمایا ۱۵ ستمبر ۱۹۸۵ء میں نئے مرکز کا افتتاح فرمایا ۷ارستمبر ۱۹۸۵ء مغربی جرمنی میں دو مراکز کا افتتاح فرمایا ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۵ء جماعت انگلستان کے نئے مرکز اسلام آباد کا افتتاح فرمایا ۲ اپریل ۱۹۸۶ء لندن میں جدید کمپیوٹرائز ڈ پریس کا افتتاح اور نائیجیریا میں تین مقامی روایتی بادشاہوں کا قبول احمدیت دورہ امریکہ کے دوران تین مساجد کا افتتاح اور پانچ مساجد کا سنگِ دسمبر ۱۹۸۶ء بنیاد ۴ / جون ۱۹۸۷ء زیورک یو نیورٹی میں لیکچر دیا اورسوالات کے جواب دیئے.یہ لیکچر حضور کی معرکہ آراء تصنیف ” الہام، عقل علم اور سچائی کا بنیادی تصوّ روخا کہ تھا

Page 243

۲۲۸ ۱۰/جون ۱۹۸۸ء حضور کی طرف سے دنیا بھر کے مکذبین و مکفرین کو مباہلہ کا چیلنج ۱۷ اگست ۱۹۸۸ء پاکستان میں خدا تعالیٰ کے ایک قہری نشان کا ظہور ور ستمبر ۱۹۸۸ء تنزانیہ یونیورسٹی میں لیکچر دیا اور سوالات کے جواب دیئے ۱۹ ستمبر ۱۹۸۸ء ماریشس یونیورسٹی میں لیکچر دیا اور سوالات کے جواب دیئے ۲۳ / مارچ ۱۹۸۹ء جماعت احمدیہ کے قیام پر سو سال پورے ہوئے.پوری دنیا میں احباب جماعت نے صد سالہ جشنِ تشکر پورے جوش و خروش سے منایا ۲۴ مارچ ۱۹۸۹ء احمدیت کی دوسری صدی کا پہلا جمعہ ماریشس اور جرمنی میں بذریعہ ٹیلیفون براہِ راست سنایا گیا ۳۱ مارچ ۱۹۸۹ء آئرلینڈ مشن ہاؤس کا افتتاح ۷ ارمئی ۱۹۸۹ء سوئٹزر لینڈ یونیورسٹی میں لیکچر دیا اور سوالات کے جواب دیئے ۳۰/ جون ۱۹۸۹ء مشن ہاؤس سان فرانسسکو امریکہ کا افتتاح ۳ جولائی ۱۹۸۹ء گوئٹے مالا میں مسجد کا افتتاح ے جولائی ۱۹۸۹ء لاس اینجلیس امریکہ میں مسجد کا افتتاح ۹ تا ا ا ر ا گست ۱۹۸۹ء اسلام آباد (تلفورڈ ) میں جماعت احمد یہ انگلستان کا عظیم الشان جلسہ اور متعد د حکومتوں کے نمائندگان کی شمولیت ۲۴ فروری ۱۹۹۰ء حضور نے کوئین الزبتھ ( دوم ) کانفرنس سینٹر لندن میں ” دین ، موجود الوقت مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے؟ پر لیکچر دیا اور سوالات کے جواب دیئے ۱۲ مارچ ۱۹۹۰ء حضور نے اشبیلیہ یونیورسٹی پین میں دین کی بنیادی تعلیمات کا فلسفہ“ کے عنوان سے لیکچر دیا اور سوالات کے جواب دیئے مارچ ۱۹۹۰ء بورکینا فاسو میں جلسہ سالانہ کا آغاز مارشل آئی لینڈ، مائکرونیشیا،ٹوکیلاؤ اور میکسیکو میں جماعت کا نفوذ ہوا

Page 244

۲۲۹ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء حضور کا خطبہ انگلستان سمیت ۶ ممالک ، جاپان، جرمنی، ماریشس، امریکہ اور ڈنمارک میں سنا گیا ۲۳ جون ۱۹۹۱ء حضور کا خطبہ عیدالاضحیہ ۲۴ ممالک میں سنا گیا ۵ / جولائی ۱۹۹۱ء خدام الاحمدیہ فرانس کا پہلا اجتماع دسمبر ۱۹۹۱ء ١٩٩١ء ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد پہلی بار خلیفہ المسیح کا قادیان میں ورود اور صدسالہ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت نیو کیلیڈونیا اور منگولیا میں جماعت کا نفوذ ہوا ۳۱ / جنوری ۱۹۹۲ء حضور کا خطبہ جمعہ پہلی دفعہ بذریعہ سیٹلائٹ بر اعظم یورپ میں دیکھا اور سنا گیا ۲۱ / اگست ۱۹۹۲ء حضور کے خطبات جمعہ بذریعہ سیٹلائٹ چار بر اعظموں یعنی یورپ، ایشیاء، افریقہ اور آسٹریلیا میں نشر ہونا شروع ہوئے ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۲ء مسجد بیت الاسلام ٹورانٹو کینیڈا کا افتتاح جو پہلی بار براہِ راست تین بر اعظموں میں نشر کیا گیا ۱۹۹۲ء طوالو میں پہلی احمد یہ مسجد کی تعمیر ۱۹۹۲ء مجلس انصار اللہ سوئٹزرلینڈ کا پہلا سالانہ اجتماع ۱۹۹۲ء گوام، چووکس ، لیتھوینیا، بیلورشیا میں جماعت کا نفوذ ہوا ١٩٩٣ء شمالی امریکہ میں سیٹلائٹ کے ذریعہ حضور کے خطبات با قاعدہ نشر ہونے شروع ہوئے ۱۹۹۳ء ہنگری، کولمبیا، ازبکستان، یوکرین اور تاتارستان میں جماعت کا نفوذ ہوا ۷ / جون ۱۹۹۴ء حضور نے خطبہ جمعہ کے ساتھ ایم ٹی اے کی روزانہ نشریات کا آغاز فرمایا

Page 245

۱۲۳ ١٩٩٤ء جماعت احمدیہ کینیڈا اور امریکہ کی مشترکہ کاوش سے امریکہ میں ارتھ اسٹیشن قائم ہوا ۱۴ اکتوبر ۱۹۹۴ء مسجد بیت الرحمن امریکہ اور ارتھ اسٹیشن کا افتتاح ۱۸ / اکتوبر ۱۹۹۴ء ولنگبر و امریکہ میں مسجد بیت النصر کا سنگ بنیاد ۲۳ اکتوبر ۱۹۹۴ء شکا گوامریکہ میں مسجد بیت الجامع کا سنگ بنیاد البانیہ، رومانیہ، بلغاریہ، چاڈ، کیپ وردے، قازقستان، نارفولکس میں جماعت کا نفوذ ہوا ۷ را پریل ۱۹۹۵ء پاپانیوگنی میں ایم ٹی اے کے ذریعہ وہاں کی پہلی مسجد کا افتتاح ۱۹۹۵ء کمبوڈیا، ویتنام، لاؤس، جمیکا، گریناڈا، ایکٹوریل گنی ، میسیڈونیا میں جماعت کا نفوذ ہوا ١٩٩٦ء ایم ٹی اے کی ویب سائٹ کے ذریعہ بھی باقاعدہ خطبہ جمعہ نشر ہونا ١٩٩٦ء ۱۹۹ء شروع ہوا ایل سیلواڈور، سلوو بینیا، بوسنیا اور قرغزستان میں جماعت کا نفوذ ہوا کرویشیا میں جماعت کا نفوذ ہوا ۲۰ تا ۲۲ مارچ ۱۹۹۸ ء گنی بساؤ میں پہلا سہ روزہ جلسہ سالانہ ۳ جولائی ۱۹۹۸ء مسجد بیت البصیر سانہوزے امریکہ کا افتتاح ۱۱،۱۰ اکتوبر ۱۹۹۸ء مڈغاسکر میں جلسہ سالانہ کا آغاز ١٩٩٨ء نکاراگوا اور مایو آئی لینڈ میں جماعت کا نفوذ ہوا ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۹ء مسجد بیت الفتوح لندن کا سنگ بنیاد ١٩٩٩ء ١٩٩٩ء ایم ٹی اے کی ڈیجیٹل نشریات کا آغاز ہوا چیک ریپبلک، سلو یکیار پبلک اورایکواڈور لیسوتھو میں جماعت کا نفوذ ہوا

Page 246

(۲۳ ۱۸ ۱۹ مئی ۲۰۰۰ء مجلس انصار اللہ کا پہلا یورپین اجتماع جرمنی میں منعقد ہوا ۳۱ اگست ۲۰۰۰ء جرمنی میں ایک مسجد کا افتتاح اور ایک کا سنگ بنیاد سنٹرل ایفریقن رپبلک،ساؤٹومے سیشلز ،سوازی لینڈ، بوٹسوانا، نمیبیا، ویسٹرن صحارا، جبوتی ، اریٹریا، کوسوو، مونا کو اور انڈورا میں جماعت کا نفوذ ہوا ۱۳ تا ۱۵ رمئی ۲۰۰۱ء پہلاسالانہ اجتماع واقفین کو پاکستان وینزویلا ، سائپرس، مالٹا ، آذربائیجان میں جماعت کا نفوذ ہوا ٢٠٠٢ء لجنہ اماءاللہ آسٹریلیا کا پہلا سالانہ اجتماع ٢٠٠٢ مالدووا میں جماعت کا نفوذ ہوا ار مارچ ۲۰۰۳ء بوسنیا میں پہلی مسجد بیت السلام کا قیام

Page 247

۲۳۲ قدرت ثانیہ کے مظہر رابع کے دور کی بعض با برکت تحریکات اور منصوبے (1) تدوین تاریخ شعبہ ہائے صدر انجمن احمد یہ ۲) شرک ، جھوٹ اور بد رسومات کے خلاف جہاد دفتر اول تحریک جدید تا قیامت جاری رکھنے کی تحریک اہل عرب اور اہل سپین کے لئے دعائے خاص لجنہ اماءاللہ کا دعوت الی اللہ کا عالمی منصوبہ ۶) سائنس میں آگے بڑھو ۷) غیر ملکی زبانیں سیکھنے کا منصوبہ دینی و تربیتی Tapes کی تیاری (۹) تعمیر بیوت الحمد (۱۰) وقف بعد از ریٹائرمنٹ برائے انصار (11) صد سالہ جشنِ تشکر تک سو جماعتوں کا قیام ۱۲) وقف عارضی برائے سپین ۱۳) زینت ربوه ۱۴) وقف برائے ریسرچ ۱۵) رفع تنازعات (۱) ریویو آف ریلیجنز کی دس ہزار اشاعت ۱۷) دعوت الی اللہ (۱۸) رابطه بذریعہ جمیل الر حمن كلب ۱۹) عید کے دن غرباء کو تحائف دیئے جائیں

Page 248

۲۰) احمدی عورتیں عالمی دورے کریں (۲۱) مہمانان جلسہ کے لئے زائد راشن ۲۲) وقف عارضی برائے فضل عمر ہسپتال ۲۳) جلسہ سالانہ کے لئے دیگیں (۲۴) سات دعا ئیں خاص طور پر پڑھی جائیں ۲۵) تعمیر مراکز امریکہ و یورپ (۲۶) افریقہ ریلیف فنڈ ۲۷) حفظ قرآن (۲۸) نستعلیق کمپیوٹر کی خریداری ۲۹) تحریک جدید دفتر چهارم کا اجراء ۳۰) سیدنا بلال فنڈ ۳۱) توسیع مکانات بھارت ۳۲) سوزبانوں میں تراجم قرآن مجید بذریعہ سیدنا بلال فنڈ ۳۳ نئی شدھی تحریک کے خلاف جہاد ۳۴) تربیت والدین (ذیلی تنظیمیں بچوں کی تربیت کے لئے ماں باپ کی تربیت کریں ) (۳۵) تحریک برائے تعمیر دفاتر و ہال لجنہ اماءاللہ (۳۶) ایک خاندان مزید ایک خاندان احمدی بنائے ۳۷) وقف کو (۳۸) وقف جدید کی عالمی توسیع (۳۹) تحریک تعطیل جمعه ۴۰ نصرت جہاں سکیم تو ۴۱) وقف ہومیو پیتھک ڈاکٹرز

Page 249

۴۲) وقف تو بچوں کو عربی اور اردو پڑھائی جائے ۴۳) کفالت یتامی ۴۲) عالمی منصوبے ۴۳) تاریخ فتح یاب بزرگان سلسله ۴۶) جرمنی میں سومساجد کی تعمیر ۴۷) آئندہ ہر ملک میں ذیلی تظیموں کے صدر ہوں گے جو براہ راست خلیفۃالمسیح کے زیر ہدایت کام کریں گے پانچ بنیادی اخلاق اور قیام عبادات کی تحریک ۴۹) افریقہ و بھارت فنڈ ۵۰) ۱۹۹۰ ء کارمضان بطور شکرانه سال تشکر ۵۱) صاحب لقاء اصحاب پیدا کرنے کے لئے دعائے خاص کی تحریک ۵۲) تبلیغی مساعی میں تیزی کی تحریک اور عالمی بیعت کا اجراء ۵۳) عالمی طور پر ہو میو پیتھی علاج کو رواج دینے کی تحریک ۵۴) غریب بچیوں کی شادی کے لئے ” مریم شادی فنڈ“ کی تحریک بیوت الحمد تحریک سپین میں سات سو سال بعد تعمیر ہونے والی پہلی مسجد کے افتتاح سے واپسی پر حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے ۲۹ اکتوبر ۱۹۸۲ء کو مسجد اقصیٰ ربوہ میں اس مالی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: اس سلسلہ میں مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا مضمون بھی سمجھایا جس کا اب میں یہاں اعلان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اللہ کا گھر بنانے کے شکرانے کے طور پر خدا کے غریب بندوں کے گھروں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اس طرح یہ حمد کی عملی شکل ہوگی“.

Page 250

ایک موقع پر آپ نے فرمایا : ۲۳۵ میں چاہتا ہوں کہ جلسہ جو بلی تک ہم کم از کم ایک کروڑ روپے کی لاگت سے مکان بنا کر غرباء کو مہیا کر دیں“.ی تحریک خدائے ذوالمجد والعطا کے فضلوں کی منادی بن گئی اور سرسبز و شاداب درختوں میں گھری ہوئی ۸۰ مکانوں پر مشتمل بیوت الحمد کالونی اس تحریک کا شیریں ثمر ہے.دوسو کے قریب مستحقین کو لاکھوں روپے کی جزوی امدا د اس کے علاوہ ہے.نیز والدین کی شفقت سے محروم بچوں کے لئے دار الاکرام کے نام سے ایک ہوٹل کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے.امریکہ میں نئے مشن ہاؤسز اور مساجد کے لئے تحریک ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مساجد اور مشنوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر ۱۵ دسمبر ۱۹۸۵ء کو احباب جماعت کے نام اپنے ایک پیغام میں اڑھائی ملین ڈالر جمع کرنے کی تحریک کی.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم پانچ مشن ہاؤسز کی تعمیر کو پیش نظر رکھ کر کام شروع کر دیں اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے تو فیق بڑھانے کی کوششیں کریں تو بعید نہیں کہ ہم ان پانچ مشن ہاؤسز کا بوجھ برداشت کرسکیں“.دونئے یورپی مراکز بنانے کی تحریک (روز نامه الفضل مؤرخہ ۳۱ مارچ ۱۹۸۳ء) ۱۸ مئی ۱۹۸۳، کوسید نا حضرت خلیفہ مسیح الرائع نے دو نئے یورپین مراکز کے قیام کی تحریک کی جن میں سے ایک انگلستان میں اور ایک جرمنی میں بننا تھا.حضور نے فرمایا: وو دو نئے مراکز یورپ کے لئے بنانے کا پروگرام ہے، ایک جرمنی میں.انگلستان کو یورپ میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے اس لئے

Page 251

انگلستان میں بہر حال بہت بڑا مشن چاہئے.اس لئے انگلستان میں بہت بڑا مرکز قائم کرنا ہے اور ایک جرمنی میں“.(خطبه جمعه فرموده ۶ ارمئی ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تحریک جدید کے دفتر اول اور دفتر دوم کے احیاء کی تحریک اس تحریک کا آغاز ۱۹۳۴ء میں ہوا اور ابتداء اس میں شامل ہونے والے احباب دفتر اول میں شمار کئے گئے.دفتر اول ۱۹۴۲ء تک جاری رہا.۱۹۴۴ء میں دفتر دوم کا آغاز ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے ان دونوں دفتروں کے وفات یافتہ مجاہدین کی قربانیوں کو تسلسل دینے کے لئے ورثاء کو ان کے کھاتے زندہ رکھنے کی تحریک فرمائی.فرمایا: ” میری خواہش ہے کہ یہ دفتر قیامت تک جاری رہے اور جولوگ ایک دفعہ (احمدیت) کی ایک مثالی خدمت کر چکے ہیں ان کا نام قیامت تک نہ مٹنے پائے اور ان کی اولادیں ہمیشہ ان کی طرف سے چندے دیتی رہیں اور ایک دن بھی ایسا نہ آئے جب ہم یہ کہیں کہ اس دفتر کا ایک آدمی فوت ہو چکا ہے.خدا کے نزدیک بھی وہ زندہ رہیں اور قربانیوں کے لحاظ سے اس دنیا میں بھی اُن کی زندگی کی علامتیں ہمیں نظر آتی رہیں.تحریک جدید دفتر چهارم کا آغاز دفتر اول، دفتر دوم اور دفتر سوم کے بعد تحریک جدید کے دفتر چہارم کے آغاز کا اعلان فرماتے ہوئے لکھا: دفتر سوم پر بیس سال گزر چکے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دفتر چہارم کا اعلان کریں.....اس لئے آج اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان اور اس کی دی ہوئی توفیق کے مطابق دفتر چہارم کا بھی اعلان کرتا ہوں.آئندہ سے جو بھی چندہ دہندہ تحریک جدید میں شامل ہوگا وہ دفتر

Page 252

چہارم میں شامل ہوگا.باہر کی دنیا میں خصوصیت کے ساتھ بچوں کو ، نئے احمد یوں کو ، نئے بالغ ہونے والوں کو اس میں شامل کریں.معمولی قربانی کے ساتھ آپ کو ایک عظیم الشان اعزاز نصیب ہو جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ“ وقف جدید کی عالمی وسعت (خطبه جمعه فرموده ۲۵ اکتوبر ۱۹۸۵ء بمقام مسجد فضل لندن) پہلے یہ تحریک صرف پاکستان تک محدود تھی.وقف جدید کے ۲۰ ویں مالی سال میں حضرت خلیفتہ امسح الرائع نے وقف جدید کی دینی خدمات کا تذکرہ فرماتے ہوئے اس کو پوری دنیا پر وسیع کرنے کا اعلان فرمایا.چنانچہ حضور نے فرمایا: اس غرض سے کہ ہندوستان میں وقف جدید کی تحریک کو مضبوط کیا جائے اور اس غرض سے کہ پاکستان میں جہاں کام پھیل رہا ہے اور نئی ضرورتیں پیدا ہوئی ہیں اس کام کو تقویت دی جائے.میں اس سال وقف جدید کی مالی تحریک کو پاکستان اور ہندوستان میں محدود رکھنے کی بجائے ساری دنیا میں وسیع کرنے کا اعلان کرتا ہوں.سیدنا بلال فنڈ ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۸۵ء بمقام مسجد فضل لندن) حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے سیدنا بلال فنڈ کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: الہی جماعتوں کی زندگی کی ضمانت اس بات میں ہے کہ اُن کے قربانی کرنے والوں کو اپنے پسماندگان کے متعلق کوئی فکر نہ رہے اور یہ حقیقت اتنی واضح اور کھلی کھلی ہے کہ ہر ایک کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ ہم بطور جماعت زندہ ہیں اور بطور جماعت ہمارے سب دکھ اجتماعی حیثیت رکھتے ہیں.اگر کسی جماعت میں یہ یقین پیدا ہو جائے تو اس کی قربانی کا معیار عام دنیا کی جماعتوں سے سینکڑوں گنا بڑھ جاتا ہے“.

Page 253

آپ نے سیدنا بلال فنڈ میں حصہ لینے والوں کے لئے فرمایا: ” جو شخص اس میں حصہ لے گا وہ اس بات کو اعزاز سمجھے گا کہ مجھے جتنی خدمت کرنی چاہئے تھی اتنی نہیں کی....اس لحاظ سے سب باتیں سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے اور آج اس تحریک کا اعلان کرتا ہوں.خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۶ء) وفات ۲۱ سالہ کامیاب و کامران اور برکاتِ الہیہ سے معمور اور فتوحات سے ایک بھر پور دورِ خلافت گزارنے کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفۃ اسیح الرابع مورخہ ۱۹ / اپریل ۲۰۰۳ء بروز ہفتہ لندن وقت کے مطابق صبح ساڑھے نو بجے اپنے محبوب حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.

Page 254

(۲۳ حضرت خلیفۃ اریح الخامس..اور آپ کا دورِ خلافت الله حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد ادہ مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ ایده الله بنصرہ العزیز ۱۵ / ستمبر ۱۹۵۰ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد اور حضرت صاحبزادی بی بی ناصرہ بیگم مد ظلتها العالی کے ہاں ربوہ میں پیدا ہوئے.☆ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑ پوتے ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد کے پوتے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے نواسے ہیں.ہے آپ نے میٹرک تعلیم الاسلام ہائی سکول اور بی اے تعلیم الاسلام کا لج ربوہ سے کیا.آپ نے ۱۹۶۷ء میں ساڑھے سترہ سال کی عمر میں نظام وصیت میں شمولیت کی.۱۹۷ء میں آپ نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ایگریکلچرل اکنامکس میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی.۱۹۷۶ء تا ۱۹۷۷ء آپ نے مجلس خدام الاحم یہ مرکزیہ میں مہتم صحت جسمانی کے عہدہ پر کام کیا.آپ نے ۱۹۷۷ء میں جماعت کے لئے زندگی وقف کی اور آپ کو نصرت جہاں سکیم کے تحت گھانا بھجوایا گیا.آپ ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۵ء تک گھانا میں سلا گا کے مقام پر ۲ سال تک اور پھر ایسار چر میں ۴ سال تک احمد یہ سیکنڈری سکول کے پرنسپل رہے.اس کے بعد ۲ سال کے لئے شمالی گھانا میں ٹمالے کے مقام پر احمد یہ زرعی فارم کے مینیجر کے طور پر کام کیا.ر آپ کو ۱۹۸۵ء میں واپس پاکستان بلالیا گیا.یہاں نائب وکیل المال ثانی کے طور پر آپ کا تقرر ہوا.

Page 255

آپ ۱۹۸۵ء میں مہتم مجنید ، ۱۹۸۵ء تا ۱۹۸۹ء مهتم مجالس بیرون اور ۱۹۸۹ء تا ۱۹۹۰ء نا ئب صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان رہے.۱۸ جون ۱۹۹۴ ء کو آپ ناظر تعلیم صدر انجمن احمد یہ مقرر ہوئے.۱۰؍ دسمبر ۱۹۹۷ء کو آپ ناظر اعلیٰ و امیر مقامی مقرر ہوئے اور تا انتخاب خلافت آپ اسی منصب پر فائز رہے.اگست ۱۹۹۸ ء میں آپ صدر مجلس کار پرداز مقرر ہوئے.بحیثیت ناظر اعلیٰ آپ چیئر مین ناصر فاؤنڈیشن رہے.اسی عرصہ میں آپ صدر تزئین ربوہ کمیٹی بھی تھے.اس عرصہ میں گلشن احمد نرسری کی توسیع اور ربوہ کی شادابی کے لئے ذاتی طور پر نگرانی فرمائی.۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۵ یو تک ممبر قضا بور ڈ بھی رہے.۱۹۹۵ء میں قائد ذہانت و صحت جسمانی اور ۱۹۹۵ ء تا ۱۹۹۷ء قائد تعلیم القرآن مجلس انصار اللہ پاکستان رہے.۳۰ ۱ اپریل ۱۹۹۹ء میں ایک مقدمہ میں گرفتار ہو کر اسیر راہ مولیٰ ہوئے.۱۰رمئی کو اس اسیری سے آپ کی رہائی ہوئی.۲۲ / اپریل ۲۰۰۳ء کو لندن کے مقامی وقت کے مطابق رات ۱۱ بجکر ۴۰ منٹ پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پانچویں خلیفہ کے طور پر قائم فرمایا.اللهُمَّ آتِدَهُ بِرُوْحٍ مِنْكَ وَارْزُقْهُ بِنَصْرِكَ الْمُؤدَّرِ وَاجْعَلْ لَهُ مِنْ لَّدَنْكَ سُلْطَانًا نَصِيراً ☆

Page 256

۴ حضرت ماریہ امسح الخامس اید واللہ الودود کے اسفار ۱) اگست ستمبر ۲۰۰۳ء جرمنی ہالینڈ میتھیئم اور فرانس ۲) ۱۳/ مارچ تا ۱۳ را پریل ۲۰۰۴ء گھانا، نائیجیریا، بورکینا فاسو، بینن ۳) ۱۵ رمئی تا ۷ /جون ۲۰۰۴ء جرمنی، حکیم ، ہالینڈ ۴) ۲۱ / جون تا ۵ / جولائی ۲۰۰۴ء کینیڈا ۱۶۵ اگست تا ۱۵ رستمبر ۲۰۰۴ء جرمنی، سوئٹزر لینڈ تھیم ۲ ۲۲ / دسمبر ۲۰۰۴ ء تا ۷ ارجنوری ۲۰۰۵ فرانس و سپین ۲۶۷ را پریل تا ۲۵ رمئی ۲۰۰۵ء مشرقی افریقہ یوگنڈا، کینیا، تنزانیہ ۸ ۴ جون تا ۶ / جولائی ۲۰۰۵ء لینڈا ۹) ۱۲ اگست تا ۳۰ ستمبر ۲۰۰۵ء تقیم ، جرمنی ، سویڈن، ناروے، ڈنمارک، ہالینڈ ۱۰) ۲۷ نومبر ۲۰۰۵ ء تا ۷ ارجنوری ۲۰۰۶ء ماریشس و قادیان (بھارت) ۱۱) ۴ /اپریل تا مئی ۲۰۰۶ء سنگا پور ،آسٹر یلیا ، تی نیوزی لینڈ، جاپان ۱۲ ۳/ جون تا ۲۰ / جون ۲۰۰۶ء جرمنی، ہالینڈ تھیم ۱۳) ۱۸؍ دسمبر ۲۰۰۶ ء تا ۷ /جنوری کن جرمنی، جیم ، ہالینڈ ۱۴) ۱۸ / اگست تا ۸ ستمبر ۲۰۰۷ء فرانس، ہالینڈ، جرمنی

Page 257

ا: :۲ ۴ ♡: :۶ لا ۷: :9 :11 :۱۲ :۱۴ ܬܙ: :17 :12 :۱۸ قدرت ثانیہ کے مظہر خامس کے دور کی بعض با برکت تحریکات اور منصوبے احمدی ٹیچر ، وکیل، ڈاکٹر اور دوسرے ماہرین جو انسانیت کی خدمت کر سکتے ہیں ضرورت مندوں کی مددکریں درود شریف اور استغفار کے التزام کی تحریک ربوہ اور افریقہ کے لئے ڈاکٹرز سے وقف کی تحریک وعارَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا پڑھنے کی تحریک دعارَبِّ إِنِّي مَظْلُومٌ پڑھنے کی تحریک امت مسلمہ اور عام مسلمانوں کے لئے دعا کی تحریک تحریک جدید کے دفتر پنجم میں لاکھوں افراد کی شمولیت کی خواہش ذیلی تنظیموں کی ذمہ داری کہ احمدی نوجوانوں کو جو دور ہٹ رہے ہیں ان کو قریب لائیں گھروں کو بسانے کے متعلق تربیت کے تحت سمجھانے کا کام کریں ایسے جو بدعات پھیلانے والے ہیں ان کا سد باب کرنے کی کوشش کریں ہر احمدی کو احسان کے اعلی ترین خلق کو دنیا میں رائج کرنا چاہئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ شعائر اسلام کو اتنا رواج دے کہ یہ احمدی کی پہچان بن جائے احمدیوں کو رعب دجال سے بچنے کی تلقین احمدی عفو و درگزر کا خُلق اپنائے الکحل ملی اشیاء یا سور کی چیزوں سے بڑی احتیاط کرنے کی تلقین ایم ٹی اے کے لئے مختلف ممالک کو پروگرام بنانے کی تلقین و تحریک قرآن کریم کے درس کا جماعتوں میں رواج دیں زکوۃ کی ادائیگی کی طرف توجہ کرنے کی تلقین.نصاب اور شرح کے مطابق ادا کریں

Page 258

۴۱ عالم اسلام کو دعاؤں میں یا در رکھنے کی تحریک سال میں کم از کم ایک یا دو ہفتے دعوت الی اللہ کے لئے وقف کریں یتامی کی نگہداشت کے لئے جماعتی نظام اور تمام دنیا میں ان کی نگہداشت کی تحریک جماعت کے کمانے والے چندہ دہند افراد کے پچاس فیصد کو موصی بنانے کی عالمی تحریک :19 ۲۰ :11 :۱۲

Page 259

اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور ترقی ’ہمیشہ خلفاء کے ذریعہ اسلام نے ترقی کی ہے“ ( حضرت مصلح موعود ) جہانتک جماعت احمدیہ کی ترقی کا تعلق ہے تو اس بارہ میں زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق معتین اعداد وشمار پیش کرناممکن نہیں.البتہ چند پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے مورخہ ۲۹؍جولائی ۲۰۰۶ء کوسیدنا امیر المومنین حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت احمد یہ برطانیہ کے ۴۰ ویں جلسہ سالانہ کے دوسرے دن کے خطاب میں دورانِ سال جماعت احمدیہ پر ہونے والے افضال باری تعالیٰ کے نظاروں اور تائیدات الہیہ کا تذکرہ فرمایا تھا.یہ تھوڑا سا ذکر ہی خلافت کے ذریعہ اسلامی ترقیات کی داستان کو خوب کھول رہا ہے.اس سے یہ اندازہ بھی بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے غلبہ کا جو پیغام اپنی پاک کتاب میں بیان فرمایا تھا، وہ ایسی تقدیر ہے جس کی کو آب افق پر دکھائی دے رہی ہے.اللہ تعالیٰ خلافت کو ہمیشہ قائم ودائم رکھے اور جماعت پر اپنے فضلوں کو جاری رکھے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی گئی خوش خبریاں ہمیں پوری ہوتی ہوئی دکھاتا چلا جائے.آمین حضور انور کے خطاب سے نشاۃ ثانیہ اور اسلام کی ترقی کے چند امور کا بیان احمدیت میں داخل ہونے والے ممالک حضورانور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک دُنیا کے ۱۸۵ ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے.الحمد للہ.پاکستان کے ۱۹۸۴ ء کے آرڈینینس کے بعد سے اب تک ۹۴ نئے ممالک احمدیت میں شامل ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان میں سے سعید روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطاء فرمائی ہے.اس سال چار ممالک شامل ہوئے ہیں.ان میں اسٹونیا(Estonia) انٹی گوا (Antigua) برمو(Barmuda) اور بولیو (Bolivia) شامل ہیں.

Page 260

۴۵ اسٹونیا جرمنی کے سپر د تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے نو افراد پر مشتمل جماعت قائم ہوگئی.انٹی گواغرب الہند (ویسٹ انڈیز) کا ایک جزیرہ ہے.وہ ٹرینیڈا کے سپر د تھا.وہاں تبلیغ کے ذریعہ ۲ عیسائی خواتین اور ایک فلسطینی فیملی احمدی ہوگئی.برمودا اور بولیو یا کینیڈا کے سپرد تھے.بولیویا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بیعت ملی اور یہاں با قاعدہ تبلیغ کی کوشش کی جائے گی.نئی جماعتوں کا قیام جہاں نئی جماعتوں کا قیام ہوا ہے، اُن کی تعداد ۹۴۵ ہے.ان ۹۴۵ جماعتوں کے علاوہ ۵۸۹ نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے.اس طرح مجموعی طور پر ۱۵۳۴ نئے علاقوں میں احمدیت کا نفوذ ہوا ہے.ان میں ہندوستان سر فہرست ہے، جہاں ۸۶ انٹی جماعتیں قائم ہوئی ہیں.نو مبا نکین سے رابطہ مہم بعض نومبائعین سے بیعتیں کرانے کے بعد رابطہ انتظامی کمزوری کی وجہ سے منقطع ہو گیا تھا.ان کو میں نے کہا تھا، بحال کروائیں.اُن میں جائیں ، دیکھیں، کس حد تک وہ لوگ ابھی تک اپنے آپ کو احمدیت سے منسلک کئے ہوئے ہیں.اس رابطہ کی مہم میں گھانا سر فہرست ہے.انہوں نے ۳۱۳ دیہات کے ۲ لاکھ کے ہزار نو مبائعین سے رابطہ بحال کیا ہے اور تقریباً دو تہائی حصہ میں با قاعدہ نظام قائم کر کے کام شروع کر دیا گیا ہے.پھر بور کیفیا فاسو نے ایک لاکھ ۶۸ ہزار سے رابطے بحال کئے.نائیجریا نے ایک لاکھ ۲۴ ہزار رابطے بحال کئے.اُن کے علاوہ کئی ممالک نے بھی اس طرف توجہ دی.نئی مساجد دوران سال اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ۳۵۹ مساجد عطاء فرمائیں.جن میں سے اے انٹی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور ۸۸ اپنی بنائی ملی ہیں.مختلف ممالک میں نئی مساجد کی تعمیر ہوئی ہے.مالی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی پہلی مسجد زیر تعمیر ہے.اس کے علاوہ بھی یہاں ۵۳ بنی بنائی مساجد جماعت کو ملی ہیں.بینن میں اس سال ۲۱ نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور اب ۲۵۱ تعداد ہوگئی ہے.

Page 261

گزشتہ ۲۱ سالوں میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ۱۴ ہزار ۱۳۵ مساجد بنانے کی توفیق عطاء فرمائی یا بنی بنائی ملیں.مشن ہاؤسز کا قیام اسی طرح مشن ہاؤسز میں اس سال ۹۶ کا اضافہ ہوا ہے.جو ہر براعظم میں بنے ہیں.سوئٹزرلینڈ میں زیورک سے ذرا باہر تقریباًے ہزار مربع میٹر پر مشتمل ایک جگہ خریدی گئی ہے، جس میں ۱۵ کمروں اور دو ہال پر مشتمل ایک بلڈنگ بھی بنی ہوئی ہے.جماعت احمد یہ یو کے کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال شیفیلڈ میں ایک بلڈنگ خریدنے کی توفیق ملی، جو اصل قیمت سے تین حصے کم قیمت پر ملی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید ہے.اسی طرح جامعہ احمدیہ کے لئے ساڑھے سات لاکھ پونڈ خرچ کر کے بلڈ نگ خریدی گئی ، جہاں اب جامعہ احد یہ قائم ہے.ترجمه قرآن کریم امسال تھائی لینڈ کی زبان تھائی میں ترجمہ قرآن کریم کی دوسری جلد (11ویں پارہ سے ۲۰ ویں پارہ تک ) طبع کی گئی ہے.اس وقت تک جو تراجم قرآن کریم مکمل ہو چکے ہیں اور چیکنگ یا دیگر مراحل میں ہیں، گزشتہ سال ان کی تعداد ۱ ۲ تھی.اس سال اُن میں ایک مزید کرغیزی ترجمہ شامل ہوگا ہے.اس طرح تعداد ۲۲ ہو گئی ہے.اور یہ طباعت کی تیاری میں ہیں.جو تر جسے ابھی تیار کروائے جار ہے ہیں ان کی تعداد ۱۲ ہے.کتب اور فولڈرز کتب اور فولڈر ز مختلف زبانوں میں ۷۴ کے قریب تیار کروائے گئے.دوران سال بورکینا فاسو کی زبان مورے میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ ہوا، رسالہ ” الوصیت کا نیپالی زبان میں ترجمہ ہوا اور اب تک رسالہ ” الوصیت از بانوں میں ترجمہ ہو کر چھپ چکا ہے.تفسیر کبیر عربی جلد ششم اس سال شائع ہوئی ہے.قرآن کریم کے مشکل الفاظ کی ڈکشنری بھی چھپ گئی ہے.کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ کی متعدد کتب مختلف زبانوں میں ترجمہ کر کے شائع کی گئیں.

Page 262

خطبات طاہر ( عیدین ) طاہر فاؤنڈیشن نے شائع کروائے ہیں.انوار العلوم کی جلد نمبر ۱۶ فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت شائع ہوئی.خدام الاحمدیہ نے خلفاء کے ارشادات پر مشتمل مشعل راہ کی پانچویں جلد شائع کی ہے.سیرۃ حضرت اماں جان شائع ہوئی.نمائشیں دُنیا میں لگنے والی ۲۶۷ نمائشوں کے ذریعہ سے ۲لاکھ اے ہزار افراد تک پیغام پہنچایا گیا.مختلف کتب کے مطالعہ کے بعد غیر از جماعت کے احمدیت اور دین کے حق میں تاثرات کے بارہ میں بھی حضور انور نے اختصاراً بیان فرمایا.نصرت جہاں اسکیم مجلس نصرت جہاں اسکیم کے تحت اس وقت افریقہ کے ۱۲ ممالک میں ۳۴ ہسپتال اور کلینکس کام کر رہے ہیں، جن میں ہمارے باہر سے گئے ہوئے ۳۳ڈ اکٹر خدمت میں مصروف ہیں.اس کے علاوہ ااممالک میں ۴۹۴ ہائر سیکنڈری اسکول ، جونیئر سیکنڈری اسکول، پرائمری اسکول، اور نرسری اسکول کام کر رہے ہیں اور اس سال کینیا میں شیانڈا کے مقام پر نئے ہسپتال کی تعمیر شروع ہو چکی ہے.فرنچ ممالک میں ڈسپنسری کی منظوری دی گئی تھی ، وہاں بھی کام شروع ہو گیا ہے.ایسٹ افریقہ میں بھی پرائمری اسکولوں کا پروگرام بن چکا ہے.انشاء اللہ شروع ہو جائیں گے.زیمبیا میں پہلے سیکنڈری اسکول کا قیام عمل میں آیا ہے.حضور انور نے ہسپتالوں کی کارکردگی اور احمدی ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفاء کے واقعات بیان فرمائے.مسلم لیلی ویژن احمد یہ انٹر نیشنل ایم ٹی اے انٹر نیشنل ترقیات کی منازل طے کر رہا ہے.ایم ٹی اے، انٹرنیٹ پر بھی آنے لگ گیا ہے.اس کا فائدہ بعض ایسی جگہوں پر بہت ہو رہا ہے جہاں ڈش نہیں لگ سکتے.فرمایا : اس سال میرے دوروں کے دوران ، قادیان سمیت دنیا کے پانچ چھ ممالک سے ایم ٹی اے کی نشریات خطبہ جمعہ کے ذریعہ سے سنی گئیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا جماعت پر ایک فضل اور احسان ہے.

Page 263

دیگر ٹی وی اور ریڈیو پروگرام ایم ٹی اے کے علاوہ دوسرے ٹیلی ویژن اور ریڈیو پروگراموں میں مختلف ممالک میں ۱۲۴۳ٹی وی پروگرام دکھائے گئے جو ۵۰۸ گھنٹے پر مشتمل تھے اور جن کو لے کروڑ افرا دسکتے اور دیکھتے پرش ہیں.اس طرح سے کروڑ افراد تک پیغام پہنچانے کا موقع ملا اور ریڈیو پروگرام بھی ۱۲۲۴۹ گھنٹے پر مشتمل ہیں.جماعت کو ان کے ذریعہ سے بھی ۵ کروڑ افراد تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا موقع ملا.بورکینا فاسو کے احمد یہ ریڈیو چینل کے حوالے سے حضور نے بعض اور واقعات بیان فرمائے.احمد یہ ویب سائٹ احمد یہ ویب سائٹ میں ہر ہفتہ خطبات نشر کئے جاتے ہیں.۱۷۰ کتابیں آن لائن آگئی ہیں.تفسیر کبیر، تفسیر صغیر، حقائق الفرقان اور فہم القرآن وغیرہ ان میں شامل ہیں.مختلف جماعتی اخبارات ورسائل اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی ترجمۃ القرآن کلاسز بھی ویب سائٹ پر موجود ہیں.تحریک وقف نو تحریک وقف تو ایک عظیم تحریک ہے جس کے پکے پھل انشاء اللہ چندسالوں میں جماعت احمدیہ کو نظر آئیں گے اور ان کے نتائج بھی انشاء اللہ تعالیٰ نظر آئیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال و اقفین نو کی تعداد میں ۳۱۸۰ کا اضافہ ہوا ہے.اب واقفین نو کی تعدا میں ۳۳۱۹۰ ہوگئی ہے.لڑکوں کی تعداد ۲۱۶۸۲ اور لڑکیوں کی تعداد ۱۱۵۰۸ ہے.یہ نسبت ۲:۱ کی ابھی تک قائم ہے.ان میں سے زیادہ تعداد پاکستان کے واقفین نو کی ہے جو ۲۰۲۷۰ ہے جبکہ بیرون پاکستان ۱۲۹۲۰ ہے.اور پاکستان میں بھی ربوہ میں سب سے زیادہ ہیں یعنی ۷ ۶۱۴.اس کے بعد انڈیا ، کینیڈا، انگلستان اور انڈونیشیا کے ممالک ہیں.ومیو پیتھی ہو میو پیتھی کے ذریعہ خدمت خلق کا اللہ تعالیٰ جماعت کو موقع دے رہا ہے.اس میں بھی

Page 264

اس سال ۳۱ ڈسپنسریوں سے ۴۱۲، ۷ ۳ مریضوں کا علاج کیا گیا.(حضور انور نے فرمایا یہ تعداد مجھے کم لگی ہے.گنتی صحیح نہیں کی گئی ) ربوہ میں طاہر ہو میو پیتھک ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں ۱۲۱۵۶۰ مریضوں کا علاج کیا گیا.جس میں ۴۱۵۶۰ غیر از جماعت مریضوں کا علاج کیا گیا.حضور انور نے ہومیو پیتھی علاج کے ذریعہ شفاء پانے کے واقعات بیان فرمائے.اس کے علاوہ حضور انور نے دُنیا بھر کے مختلف ممالک میں آپریشنز کے بعد شفاء پانے والے مریضوں کا بھی تذکرہ فرمایا.ہیومینیٹی فرسٹ ہیومینیٹی فرسٹ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدمت انسانیت کا کام ہورہا ہے اور یہ دنیا کے ۱۹ ممالک میں رجسٹر ڈ ہو چکی ہے.اور حال ہی میں UNO (اقوام متحدہ) نے بھی اپنے اداروں میں اس کو رجسٹرڈ کر لیا ہے.اس سال جو پاکستان میں زلزلہ آیا تھا، اس میں ہیومینیٹی فرسٹ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا کام کیا ہے اور کینیڈا، امریکہ، جرمنی، یو کے اور ہالینڈ وغیرہ سے وہاں ڈاکٹروں اور رضا کاروں وغیرہ کی ٹیمیں گئی ہیں اور کام کرتی رہیں اور انہوں نے چھ مہینے سے زائد عرصہ تک کام کیا ہے.دراصل اسی کام کو دیکھتے ہوئے، اقوام متحدہ نے اس ٹیم کو رجسٹر ڈ کیا ہے.۷۵۰۰۰ زخمیوں اور مریضوں کو ہمارے ڈاکٹروں نے دیکھا ہے.پاکستان میں ۵لاکھ ۲۰ ہزار کلو گرام امدادی سامان دیا گیا.جس میں خوراک اور دوسری چیزیں شامل ہیں.۳۹۰۰۰ متاثرین کو عارضی رہائش گاہ کی سہولت دی گئی، جن میں ٹینٹ اور جستی چادروں کے شیلٹرز وغیرہ شامل تھے.ہیومینیٹی فرسٹ نے اسلام آباد میں میڈیکل ریلیف سنٹر قائم کیا جہاں شدید زخمی متاثرین اور ان کے خاندانوں کو ۱۳۲ دن تک رکھا گیا اور ہر ممکن دیکھ بھال کی گئی.۱۲۵ شدید زخمی اور ان کے ۸۵۰ افراد خاندان کو ساتھ کھانا بھی مہیا کیا گیا.۲۴ گھنٹے سہولتیں فراہم تھیں.۱۳ کچھ ۵۶ ہزار ۴۰۰ سے زائد افراد کو کھانے مہیا کئے گئے.ہیومینیٹی فرسٹ کے کل رضا کاروں نے ۴لاکھ ۸۱ ہزار ۱۹۲ مین آوورز فیلڈ آپریشن میں خرچ کئے.یہ انسانیت کا کام ہم نے کیا قطع نظر اس کے کہ وہاں کیا سمجھا جاتا

Page 265

ہے اور کیا کہا جاتا ہے.افریقہ میں بھی اس کے تحت کام ہورہا ہے.آئی ٹی اور کمپیوٹر سنٹر کھل رہے ہیں.گیمبیا میں ۲۷ ایکٹر زمین پر مختلف پراجیکٹس کا کام ہورہا ہے.اس میں سیکنڈری اسکول بھی شامل ہے.مالی ، نائیجریا و غیر ملکوں میں نلکے اور طبی سہولتوں کو مہیا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.انڈونیشیا میں جو سونامی طوفان آیا تھا، اس میں بھی ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ مدد کی گئی اور اب جو پچھلے دنوں جاوا میں سونامی آیا ہے، اس میں جو سب سے پہلے مدد کے لئے ٹیم پہنچی ، وہ ہماری ہیومینیٹی فرسٹ کی ٹیم تھی.IAAAE کی خدمات انٹرنیشنل احمد یہ ایسوسی ایشن آف آرکیٹکٹس اینڈ انجینئر ز کے ذمہ میں نے کام لگایا تھا کہ افریقہ میں کم قیمت پر بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع تلاش کرنا ، عمارات کی تعمیر اور ڈیزائن کے لئے انجینئر زوقف عارضی کریں اور ڈیزائن کر کے دیں.چنانچہ ان ہدایات کی روشنی میں یورپین چیپٹر نے کافی کام کیا ہے.سولر سیل کی ٹیکنالوجی اور ونڈ ٹربائن کے غانا میں تین پائلٹ پراجیکٹ لگائے ہیں.چائنا جا کر اس ٹیکنالوجی کی مزید معلومات حاصل کی گئیں اور ۳۰ عد دسولر اور ونڈ سسٹمز چائنا سے خریدے گئے.کافی تعداد میں سولر لائٹس خریدی گئیں ، آسٹریلیا سے بھی معلومات حاصل کی گئیں.افریقہ میں پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے گئے.غانا میں ڈرلنگ اور جیوفیزیکل ٹیسٹنگ وغیرہ کے کام کئے اور بور کینا فاسو میں ہینڈ پمپس وغیرہ لگائے گئے ، جو پرانے بند ہو گئے تھے، اُن کو دوبارہ چالو کیا گیا اور کچھ نئے بھی لگائے گئے.کینیڈا کی انجینئر زٹیم بھی اس میں شامل ہوئی تھی.پھر ہالینڈ، سپین ،سوئٹزر لینڈ ، سویڈن، پرتگال، ناروے وغیرہ کی جماعتی تعمیرات میں انہوں نے کافی کام کیا ہے.اس کے علاوہ گیمبیا اور آئیوری کوسٹ کے پرا جیکٹس میں بھی کام کیا.قادیان کے بہشتی مقبرہ کے تعلق میں بھی کام کر رہے ہیں.اسی طرح مینارہ مسیح کے محفوظ کرنے کے لئے بھی یہاں کے انجینئر کام کر رہے ہیں.

Page 266

۲۵۱ نئے حاصل ہونے والے پھل اس سال جماعت نائیجیریا کو مجموعی طور پر ایک لاکھ ۱۵ ہزار ۷۶ بیعتیں حاصل کرنے کی توفیق ملی.اس میں ۴۱ اماموں نے احمدیت قبول کی اور ۷۸ مقامات پر پہلی بار احمدیت کا نفوذ ہوا.جماعت احمد یہ غانا کو ایک لاکھ ۳ ہزار ۸۰۰ بیعتیں کرانے کی توفیق ملی.پچھلے سال صرف گیارہ ہزار تھیں.امسال انہوں نے ۱۰ گنا جمپ لیا ہے اور ا۵ نئے مقامات پر احمدیت کا نفوذ ہوا ہے.۲ پیراماؤنٹ چیفس ، ۸ چیفس اور ۴۶ امام احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.غانا میں جلسہ گاہ کے لئے مختلف پراجیکٹس کے لئے ۴۶۰ ایکڑ زمین خریدی گئی ہے جو بڑی با موقع اور ہائی وے پر ہے.اور شہر کے تقریبا ساتھ ہی ہے.حضور انور نے مختلف ممالک میں نئی بیعتوں کی صورتحال اور ایمان افروز واقعات کا تذکرہ فرمایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال بیعتوں کی کل تعداد ۲۹۳۸۸۱ ہے.اور ۱۰۲ ممالک سے ۲۷۰ قو میں احمدیت میں داخل ہوئی ہیں.حضور انور نے خوابوں کے ذریعہ سے احمدیت قبول کرنے اور دعاؤں کی قبولیت کے واقعات بیان فرمائے.تائیدات کے عظیم نظارے حضور انور نے آخر پر فرمایا: یہ جو میں مواد لے کر آیا تھا، اس کا تیسرا حصہ آپ کو بتایا ہے اور اتنا وقت لگ گیا.اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائیدات کے اتنے عظیم نظارے ہیں اور اللہ تعالیٰ جماعت کو دکھا رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں پر یقین اور ایمان اور بڑھتا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ ایمان بڑھتا جائے گا.شخص از رپورٹ روز نامه الفضل ربوه مورخه ۴ راگست (۲۰۰)

Page 267

اسلام کبھی ترقی نہیں کر سکتا جب تک خلافت نہ ہو.ہمیشہ خلفاء کے ذریعہ اسلام نے ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا.( درس القرآن فرمودہ حضرت مصلح موعود ۲ / مارچ ۱۹۲۱ء)

Page 268

جميل الرحمن

Page 269

(۲۵۳ تحریکات قیام خلافت پر محاکمہ

Page 270

۲۵۴ مندرجات ایک بات خوش آمدید.......خلافت خلافت على منهاج النبوة مستقل عارضی خلافت تحریکات قیام خلافت کی ناکامیوں کے اسباب ملک روحانی کی شاہی خلافت الہیہ

Page 271

۲۵۵ بنائے تحریر قیام خلافت کے لئے خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے طریق اور اس کی سنت سے منہ موڑ کر نیز اس کے مُرسل مامور زمانہ کا انکار کر کے خود ساختہ لائحہ عمل پر مبنی نام نہاد خلافت کے قیام کے لئے ماضی میں جو بھی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں ان کا انجام طبعا نا کامیوں کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا.ان کی ناکامیاں تاریخ اسلام کا ایک عبرتناک باب ہیں.لیکن اس کے باوجود مختلف ممالک میں وقتاً فوقتاً امت کے بعض مکاتیب فکر ، کچھ مذہبی بنیادوں پر اور کچھ سیاسی بنیادوں پر خلافت کے قیام کے لئے سرگرم عمل رہتے ہیں.یورپ و امریکہ میں تحریک حزب التحریر اور دیگر مختلف تحریکوں کے علاوہ پاکستان میں بھی یہ تحریکیں پوری سرگرمی سے اس نوع کا شور مچاتی دکھائی دیتی ہیں.ساری دنیا میں ان جملہ تحریکوں کا تفصیلی لائحہ عمل چونکہ پاکستان میں اٹھنے والی تحریکوں سے کچھ مختلف نہیں ہے ، اس لئے اس باب میں ان جملہ تحریکوں پر مجموعی نظر رکھتے ہوئے پاکستانی تحریکوں کو زیر بحث لایا گیا ہے اور ان کا کھوکھلا ، بے فیض ، بے بنیاد اور ناکام ہونا ثابت کیا گیا ہے.وباللہ التوفیق سیارا عالم اسلام مل کر زور لگا لے اور خلیفہ بنا کر دکھا دے وہ نہیں بنا سکتے کیونکہ خلیفہ کا تعلق خدا کی پسند سے ہے.“ (حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی)

Page 272

۲۵۶ خوش آمدید......خلافت آج عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ خلافت ہے.ہم اسے قلب سلیم سے خوش آمدید کہتے ہیں کیونکہ اس کی موجودگی ایک طرف اسلام کی عظمت اور اس کے جبروت کی علامت ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعہ امت خدا تعالیٰ کی راہنمائی اور نصرت کی مورد بنتی ہے.آج عالم اسلام بیرونی اور اندرونی سیاستوں اور سازشوں کا تر نوالہ بنا ہوا ہے.اس امت میں مذہبی جماعتیں تشئت و افتراق کا شکار اور تنزل و ادبار کی جیتی جاگتی تصویر بن چکی ہیں.اس عذاب سے نجات کے لئے اسے ایک ایسے نا خدا کی ضرورت ہے جو اس کی ڈگمگاتی کشتی کو پار لگا دے.اسے ایک ایسے ناقابل تسخیر مرد حق سربراہ کی ضرورت ہے جو انہیں مذہبی ، روحانی ملتی اور قومی وحدت میں پروکر اسلامی غلبہ و برتری کے اعتماد سے ہمکنار کر دے.درحقیقت اسے ایک ایسے آسمانی ہدایت یافتہ پاک وجود کی ضرورت ہے جو خلافت علی منہاج النبوة کا امین بن کر خود خدا تعالیٰ سے ہدایت حاصل کرے اور پھر امت کی رہنمائی کرے.یہ ایک حقیقی ولا بدی ضرورت ہے جس کے بغیر امت کا اتحاد، اس کی پیجہتی ، طاقت اور ترقی ناممکن ہے.ہم جب اس نکتہ نظر سے عالم اسلام کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ سوچ کر بہت بڑی بلکہ ناممکن طرز کی مشکل یہ نظر آتی ہے کہ خلافت کا وہ اہل شخص کس جماعت سے ہوگا ؟ تو مایوسی کی تہ در تہ اور دبیز پر چھائیاں اس طرح گھیر لیتی ہیں کہ ایک قدم بھی آگے بڑھانا ناممکن ہو جاتا ہے.چنانچہ یہ سوال بار بار ذہن کو جھنجھوڑتا ہے کہ : کیا یہ دیو بندی ، خلافت قائم کریں گے جن کے متعلق اکابر علماء کا یہ فتویٰ ہے کہ وہابیہ دیو بند یہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء انبیا ء حتی کہ حضرت سید الاولین و آلاخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی اور خاص ذاتِ باری

Page 273

تعالیٰ شانہ کی اہانت و ہتک کرنے کی وجہ سے قطعاً مرتد و کافر ہیں اور ان کا ارتداد کفر میں سخت سخت سخت اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے.ایسا کہ جو اُن مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں ذرا بھی شک کرے وہ بھی انہیں جیسا مرتد و کافر ہے.اور جو اس شک کرنے والے کے کفر میں شک کرے وہ بھی مرتد و کافر ہے.مسلمانوں کو چاہئے کہ ان سے بالکل ہی محترز ، مجتنب رہیں.ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں اور نہ اپنی مسجدوں میں گھنے دیں.نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ان کی شادی و غمی میں شریک ہوں.نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں.یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں.مریں تو گاڑنے تو پنے میں شرکت نہ کریں.مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ نہ دیں.غرض ان سے بالکل احتیاط واجتناب رکھیں.پس وہابیہ دیو بند یہ سخت سخت اشد مرتد و کافر ہیں.ایسے کہ جو ان کو کافر نہ کہے خود کا فر ہو جائے گا.اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی اور جو اولاد ہوگی وہ حرامی ہوگی اور از روئے شریعت ترکہ نہ 66 پائے گی.‘“ اس اشتہار میں سید جماعت علی شاہ، حامد رضا خاں قادری نوری رضوی بریلوی ، محمد کرم دین بھیں، محمد جمیل احمد بدایونی عمر نعیمی مفتی شرح اور ابومحمد دیدار علی مفتی اکبر آبا داور دیگر بہت سے علماء کے نام بھی لکھے ہیں.نیز لکھا ہے کہ یہ فتوے دینے والے صرف ہندوستان ہی کے علماء نہیں ہیں بلکہ جب وہابیہ دیو بندیہ کی عبارتیں ترجمہ کر کے بھیجی گئیں تو افغانستان و خیوا و بخارا و ایران و مصر و روم و شام اور مکہ معظمہ و مدینہ منورہ وغیرہ تمام دیارِ عرب و کوفه، بغداد شریف غرض تمام جہاں کے علماء اہل سنت

Page 274

۲۵۸ نے بالا اتفاق یہی فتویٰ دیا ہے.“ (خاکسار محمد ابراہیم بھاگلپوری باہتمام شیخ شوکت حسین مینیجر کے حسن برقی پریس اشتیاق منزل نمبر ۶۳ ہیوٹ روڈ لکھنو میں چھپا.سنِ اشاعت درج نہیں ، قیام پاکستان سے قبل کا فتویٰ ہے.) کیا وہ خلیفہ اہلِ حدیث میں سے ہوگا جن کے بارہ میں بریلوی آئمہ اس طرح امت کو خبر دار کرتے ہیں کہ: وہابیہ وغیرہ مقلد بن زمانہ با تفاق علمائے حرمین شریفین کا فرو مرتد ہے.ایسے کہ جو اُن کے اقوال ملعونہ پر اطلاع پا کر انہیں کافر نہ جانے یا شک ہی کرے خود کا فر ہے ان کے پیچھے نماز ہوتی ہی نہیں.ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام.ان کی بیویاں نکاح سے نکل گئیں.ان کا نکاح کسی مسلمان کا فریا مرتد سے نہیں ہوسکتا.ان کے ساتھ میل جول ، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا ، سلام کلام سب حرام.ان کے مفضل احکام کتاب مستطاب حسام الحرمین سریف میں موجود ہیں.واللہ تعالیٰ دار الافتاء مدرسہ اہل سنت والجماعت.بریلی آل رسول احمد رضا خاں.بریلی شفیع احمد خاں رضوی سنی حنفی قادری (فتاویٰ ثنائیہ، جلد ۲ صفحه ۴۰۹ ، مرتب محمد داؤ دراز ، مکتبہ اشاعت دینیات ، (تن ) بمبئی ) حملہ کیا اس نام نہا د خلافت کا قیام بریلوی فرقہ میں ہوگا جن کے بارہ میں دیو بندی علماء نے یہ شرعی حکم سنایا ہے کہ ” جو شخص اللہ جل شانہ کے سو اعلم غیب کسی دوسرے کو ثابت کرے اور اللہ تعالیٰ کے برابر کسی دوسرے کا علم جانے وہ بے شک کا فر ہے.اس کی امامت اور اس سے میل جول محبت و مودت سب حرام

Page 275

ہیں.“ ۲۵۹ مہر (فتاوی رشید یه کامل متبوب صفحه ۶۲ - از مولوی رشید احمد گنگوہی.محمد سعید اینڈ سنز تاجران کتب قرآن محل کراچی، ۱۸۸۳ ، ۸۴) یا جن کے بارہ میں مشہور دیو بندی عالم جناب مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی سابق صدر مدرس دارالعلوم دیو بند ہمیں یہ خبر دے رہے ہیں کہ : یہ سب تکفیریں اور لعنتیں بریلوی اور اس کے اتباع کی طرف لوٹ کر قبر میں ان کے واسطے عذاب اور بوقت خاتمہ ان کے موجب خروج ایمان وازالہ تصدیق وایقان ہوں گی کہ ملائکہ حضور علیہ السلام سے کہیں گے إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ اور رسولِ مقبول علیہ السلام دجال بریلوی اور ان کے اتباع کو سحقا سحقاً فرما کر حوض مور و دو شفاعتِ محمود سے کتوں سے بد تر کر کے دھتکار دیں گے اور امت مرحومہ کے اجر وثواب و منازل و نعیم سے محروم کئے جائیں گے.“ ( رجوم المذنبين على رؤس الشياطين، المشهور به الشہاب الثاقب على المُستَرقِ الكاذب.صفحہ ۱۱۱.مولوی سید حسین احمد مدنی.کتب خانہ اعزاز یہ دیوبند ) کیا شیعوں میں یہ خلافت قائم ہوگی جن کے متعلق سنی علماء ان لرزہ خیز الفاظ میں تنبیہ کرتے ہیں کہ بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں کے باب میں حکم یقینی قطعی اجماعی ہے کہ وہ علی العموم کفار مرتدین ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے.ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے.معاذ اللہ مرد رافضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الہی ہے.اگر مر دستی اور عورت ان خبیثوں کی ہو جب بھی نکاح ہر گز نہ ہو گا محض زنا ہوگا.اولاد

Page 276

ولد الزنا ہوگی.باپ کا ترکہ نہ پائے گی اگر چہ اولا د بھی سنی ہی ہو کہ شرعاً ولد الزنا کا باپ کوئی نہیں.عورت نہ ترکہ کی مستحق ہوگی نہ مہر کی کہ زانیہ کے لئے مہر نہیں.رافضی اپنے کسی قریب حتی کہ باپ بیٹے ماں بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پاسکتا.سنی تو سنی کسی مسلمان بلکہ کسی کافر کے بھی.یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذہب رافضی کے ترکہ میں اس کا اصلاً کچھ حق نہیں.ان کے مرد و عورت ، عالم جاہل، کسی سے میل جول ، سلام کلام سخت کبیر و اهد حرام.جو ان کے ملعون عقیدوں پر آگاہ ہو کر بھی انہیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے باجماع تمام آئمہ دین خود کافر بے دین ہے اور اس کے لئے بھی یہی سب احکام ہیں جو اُن کے لئے مذکور ہوئے.مسلمان پر فرض ہے کہ اس فتویٰ کو بگوش ہوش سنیں اور اس پر عمل کر کے سچے پکے سنی بنیں“.(رساله رد الرفضه، صفحه ۲۳ - فتاوی، مولانا شاہ مصطفی رضا خاں.نوری کتب خانہ لاہور، ۱۳۲۰ھ ) اور کیا جماعت اسلامی والے اس نام نہا د خلافت کو قائم کریں گے جن کے بارہ میں بریلوی اور دیوبندی علماء یہ اعلان کرتے ہیں کہ : وو مودودی صاحب کی تصنیفات کے اقتباسات دیکھنے سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے خیالات اسلام کے مقتدایان اور انبیائے کرام کی شان میں گستاخیاں کرنے سے مملو ہیں.ان کے ضال مضل ہونے میں کوئی شک نہیں.میری جمیع مسلمانان سے استدعا ہے کہ ان کے عقائد و خیالات سے مجتنب رہیں اور ان کو اسلام کا خادم نہ سمجھیں اور مغالطے میں نہ رہیں.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اصلی دجال سے پہلے تیں دجال اور پیدا ہوں گے جو اس دقبال اصلی کا راستہ صاف کریں

Page 277

۲۶۱ گے.میری سمجھ میں ان تہیں دجالوں میں ایک مودودی ہیں.“ فقط والسلام محمد صادق عفی عنہ مہتم مدرسہ مظہر العلوم محلہ کھڑہ کراچی ۲۸/ذوالحجہ ۱۳۷۱ھ ۱۹ ستمبر ۱۹۵۲ء حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب: مرتبہ مولوی احمد علی.شائع کردہ: انجمن خدام الدین لاہور، ۱۹۵۲ء صفحہ ۹۷) اسی طرح دیوبندی عالم ، جمعیت علماء کے صدر مولانا مفتی محمود صاحب نے اعلان کیا کہ: مودودی گمراہ ، کافر اور خارج از اسلام ہے.اس کے اور وو اس کی جماعت سے تعلق رکھنے والے کسی مولوی کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز اور حرام ہے.اس کی جماعت سے تعلق رکھنا صریح کفر اور ضلالت ہے.(ہفت روزہ زندگی، ۱۰ نومبر ۱۹۶۹ء.منجانب جمعیتہ گارڈ.لائل پور ) پس تکفیر کی اس اندھیر نگری میں نہ اہل سنت کے گروہ میں خلافت کے قیام کا امکان باقی رہتا ہے نہ اہل تشیع میں.ان میں شریعت کی جزئیات کی تشریح اور عقائد میں ایسی وسیع خلیج موجود ہے کہ اسے پاٹنا کسی کے بس میں نہیں.اس ماحول میں اگر ایک فرقہ یا گروہ میں کسی شخص کو لیڈر بنا کر اسے خلیفہ قرار دے دیا جاتا ہے تو مذکورہ بالا فتووں کا شرعی تقاضا یہ ہے کہ وہ ” خلیفہ دوسرے کسی نہ کسی فرقہ یا گروہ کے نزدیک لازماً شرعی طور پر کافر ہو گا.لہذا اس کے ہاتھ پر امت کا جمع ہونا ایک عبث خیال ہے.اس لائحہ عمل سے خلافت کا قیام قطعی ناممکن ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ خلافت کے مدعی کہاں ، کس مسلک کی اور کس قسم کی خلافت قائم کرنے کے خواہشمند ہیں؟ یہاں اس سوال کی تشفی ہونی بھی ضروری ہے کہ فتاؤئے کفر کے اس ماحول میں جماعت احمد یہ بھی تو کافر قرار دی گئی ہے.بلکہ یہی وہ ایک جماعت ہے کہ اس کے کفر پر مسلمانوں کے تمام فرقوں کا اکٹھ اور ایکا ہو چکا ہے.خصوصاً ۱۹۷۴ء میں اس کے خلاف سب

Page 278

۲۶۲ فرقوں کے ایکے کو بڑے زور و شور کے ساتھ پیش کیا گیا اور اس کی چار سُو وسیع اشاعت کی گئی.لہذا اس میں قائم خلافت پر بھی وہی مذکورہ بالا نتیجہ صادق آتا ہے جو دیگر فرقوں یا گروہوں پر صادر ہوا ہے.اس کا جواب دراصل اسی ایکے میں موجود ہے جو اس جماعت کے خلاف مسلمانوں کے تمام فرقے کر چکے ہیں.یہی اکٹھ اور ایکا اسے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق سچا اور برحق ثابت کرتا ہے.رسول اللہ سلم نے جب اپنی امت کے دوسرے دور میں خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کی خبر دی تو اس کے ساتھ ایک خبر یہ بھی دی کہ و, جب امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی تو ان میں سے باقی سارے تو ایک طرف آگ میں ہوں گے اور ایک ہوگا جو اُن سے الگ ہوگا.وہ ناری نہیں ہو گا.“ ترندی کتاب الایمان باب افتراق هذه الامته ) پس تاریخ اسلام کا یہ حیرت انگیز واقعہ تھا جو ۱۹۷۴ ء میں رونما ہوا کہ سب فرقوں نے ایکا کیا اور اعلان کیا کہ وہ سب ایک طرف اکٹھے ہیں اور جماعت احمد یہ ان سے باہر ہے.چنانچہ یہ اعلان کیا گیا کہ پوری امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار چاہے وہ مرزا غلام احمد کی نبوت کا یقین رکھتے ہوں یا اسے اپنا مصلح یا مذہبی رہنما کسی بھی صورت میں گردانتے ہوں ، دائرہ اسلام سے خارج ہیں.66 ( قومی اسمبلی میں اسلام کا معرکہ صفحہ ۱۳۹۸ از شیخ الحدیث مولانا عبدالحق.ناشر مؤتمر المصنفین دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ) آنحضرت ﷺ کے قائم کردہ معیار کے مطابق اس ایکے سے جماعت احمدیہ کا قطعی، لازمی اور منطقی طور پر برحق ہونا ثابت ہوتا ہے.جس سے یہ سچائی بھی پایہ ثبوت پہنچتی ہے کہ اس میں قائم خلافت ہی دراصل وہ خلافت علی منہاج النبوت ہے جو آنحضرت ام کی پیشگوئی کی

Page 279

۲۶۳ حقیقی تعبیر ہے.دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ جب ساری امت ہی ناری قرار دی جا رہی ہو تو ظاہر ہے کہ وہ لا زمانہ ایمان کی حقیقی بنیاد پر قائم ہے اور نہ ہی اس میں اعمالِ صالحہ کا صدور ممکن ہے.ایسی حالت میں آنحضرت ا ہم نے امت کے لئے اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہ بیان فرمائی تھی کہ وہ اس میں اپنی طرف سے امام مبعوث فرمائے گا جو اس کے لئے حکم وعدل اور مسیح و مہدی ہوگا.اس کی جاری کردہ خلافت، در اصل خدا تعالیٰ کی قائم کردہ خلافت ہے جو ایمان اور عملِ صالح کے وعدہ الہیہ پراستوار ہے اور اپنے اندر خلافت حقہ اسلامیہ کی تمام شرائط ،صفات ، نشانیاں اور سچائیاں سموئے ہوئے ہے.ممکن ہی نہیں کہ اس کے علاوہ کوئی اور نسخہ ہو جو کسی جماعت یا گروہ میں خلافت کے قیام کے لئے کارگر ہو.پس جماعت احمد یہ ان فرقوں اور گروہوں سے الگ اور جدا وہ کچی جماعت ہے جو اپنے وجود میں سچائی اور ایمان کی کشش رکھتی ہے اور انہی بنیادوں پر دیگر فرقوں سے سعید روحوں کو اپنی طرف کھینچتی چلی جارہی ہے.یہ عمل تیز سے تیز تر اور وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے.ہاں اس مذکورہ بالا سوال کا تیسرا جواب یہ ہے کہ جماعت احمد یہ پر فتاوی کفر اور دیگر جماعتوں یا فرقوں پر فتاوی کفر کی بنیاد، وجہ اور گنہ مختلف ہے.دیگر فرقے جب ایک دوسرے کو کا فرقرار دیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے بعض عقائد ایسے ہیں جو قرآن وسنت و حدیث سے منافی ہوتے ہیں.یا بعض عقائد میں غلو یا افراط و تفریط کا عنصر پایا جاتا ہے.اس بنیاد پر ایک فرقہ دوسرے کو کا فرقرار دے دیتا ہے.بسا اوقات ان فتاوی کفر کی وجوہات ذاتی یا سیاسی بھی ہوتی ہیں.لیکن اس موقع پر ان کی تفصیلات میں جانا مقصود نہیں.جہانتک جماعت احمدیہ پر فتاوی کفر کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی عقیدہ وطریق وغیرہ منافی قرآن وسنت یا حدیث اختیار کیا تھا بلکہ اس کی وجہ خالصہ وہ سچائی اور عرفان ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ خدا تعالیٰ کے انبیاء،

Page 280

۲۶۴ مأمورین اور پاک بندے روح کا فرگری کا نشانہ بنتے رہے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس قدر عرفاں بڑھا میرا کہ کافر ہو گیا آنکھ میں اس کی کہ ہے وہ دور تر از صحن یار کیا تماشا ہے کہ میں کافر ہوں تم مومن ہوئے پھر بھی اس کا فر کا حامی ہے وہ مقبولوں کا یار براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۳) خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں اس وجہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مجد دالف ثانی تحریر فرماتے ہیں : وو علمائے ظواہر مجتہدات اور اعلی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام از کمال دقت و غموض ما خذ ا نکار نمائند و مخالف کتاب وسنت دانند 66 (مکتوبات دفتر دوم حصه هفتم صفحه ۱۴ مکتوب ۵۵) کہ اس مسیح و مہدی کا علم اس قدر گہرا اور وسیع ہوگا اور عرفان اس قدر بلند ہوگا کہ علمائے ظاہر نہ اس علم کی تہہ تک پہنچ سکیں گے نہ اس عرفان کی بلندیوں کو چھو سکیں گے لہذا ہمارے نبی کریم م کے بارہ میں آپ کے اجتہادات سے، ان کے ماخذ کے کمال دقیق اور گہرا ہونے کی وجہ سے انکار کر دیں گے اور ان کو کتاب وسنت کے مخالف جانیں گے.ظاہر ہے کہ علمائے ظاہر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو کفر کا فتوای جاری کیا اس کی وجہ آپ کا کوئی کفریہ عقیدہ وغیرہ نہیں تھا بلکہ آپ کے عرفان کی بلندی تھی جس تک ان کا فر گر علمائے ظاہر کی نظریں پہنچنے سے قاصر تھیں.جو خود اللہ تعالیٰ سے دور اور عرفان و معرفت وغیرہ سے تہی دست تھے، لہذا انہوں نے آپ کو کا فرقرار دے دیا.مگر ان کا فر گر علمائے ظاہر کے مقابل پر خدا تعالیٰ آپ کا موید و نصیر تھا اور وہ اس سے دور مہجور اور مردود تھے.پس حضرت مجد دالف ثانی کا یہ پُر معرفت بیان اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا اشعار آپ پر اور آپ کی جماعت پر فتاوی کفر کی وجہ اور اصلیت کی بڑی واضح اور روشن منظر کشی کرتے ہیں.

Page 281

اب آئیے ہم ایک دفعہ قیامِ خلافت کی مدعی تحریکوں کے پیش کردہ دسا تیر کا محاکمہ کر کے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ خلافت علی منہاج النبوۃ کیا ہے؟ اگر اس کا قیام ممکن ہے تو کس طرح؟ نیز یہ کہ کیا قیام خلافت کے لئے یہ سرگرم تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہیں یا نہیں.

Page 282

۲۶۶ خلافت على منهاج النبوة خلافت ، اسلام میں نبوت کے بعد اہم ترین اساس اور بلند ترین روحانی منصب ہے.جس سے سارا نظام شریعت وابستہ ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (النور: ۵۶) ترجمہ : اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان کو زمین میں اسی طرح خلافت عطا کرے گا جس طرح پہلے لوگوں کو اس نے خلافت عطا کی تھی اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے اس کو ضرور مضبوط بنائے گا اور ان کے خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرائیں گے.اور جو کوئی اس کے بعد انکار کرے گا وہ فاسقوں میں سے ہوگا.خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کو آنحضرت سلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے : تمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ کہ بالاخر تم میں خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی.خلافت علی منہاج النبوۃ سے مراد وہ خلافت حقہ ہے جس کی بنیاد نبوت ہو، جو نبوت کی سرزمین پر قائم ہو، جو نبوت کے ذریعہ ہر قلب مومن پر تسلط قائم کرے.خلافت علی منہاج النبوۃ ، خلافت کی وہ قسم ہے جس کی صداقت کو ثبوت کے معیار

Page 283

۲۶۷ صداقت پر پرکھا جا سکے اور جسے نبوت کی کسوٹی پر پرکھا اور اس کے معیار پر جانچا جا سکے.جوظلّی طور پر نبوت کے کمالات ، انوار اور اس کی برکات کے ساتھ قائم ہو.اس سے وہ خلافت مراد نہیں جس کی بنیاد حاکمیت اور ملوکیت قسم کی کسی چیز پر ہو.دراصل خلافت علی منہاج النبوة، خلافت کا وہ بہترین تصور ہے جسے ثبوت نے ایمان اور عمل صالح کے پانی سے سیراب کیا ہو.جسے نبوت کے نور نے تابانی عطا کی ہو.اس خاصیت کی بناء پر وہ انوار نبوت کے انعکاس کی صلاحیت رکھتی ہے.دراصل یہی وہ خلافت ہے جس کی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی اسی بینم نے پیشگوئی فرمائی تھی.اس خلافت کا قیام نبوت کی سرزمین کے علاوہ ممکن نہیں ، اس کے قیام اور انصرام کا عمل خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے.وہ خود اس کی حفاظت اور رہنمائی فرماتا ہے.اس کی حکمت بالغہ اس کو تمکنت عطا کرتی ہے.اس خلافت کی برکت سے اعمالِ صالحہ بجالانے والے مومنوں کی جماعت کلّی طور پر خدائے واحد و یگانہ پر بھروسہ اور تو کل کرتی ہے اور کلی طور پر دنیاوی اور مصنوعی خداؤں کے تسلط سے پاک ہوتی ہے.اسی خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ ایمان عملِ صالح ، امن ، دین کے استحکام، عبادت کے قیام اور شرک سے حفاظت کی ضمانت دیتا ہے.یہی وہ بنیادی امور ہیں جن کی وجہ سے اس خلافت سے وابستہ مومنوں کی جماعت ایک طرف خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کو جذب کرتی ہے اور دوسری طرف دنیا میں عظمت اور غلبہ حاصل کرتی ہے.آنحضرت ﷺ کے ذریعہ قائم ہونے والی خلافت راشدہ اس کی بتین مثال ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے جب لوگوں کی عدم اہلیت کی بناء پر اس خلافت کو اٹھا لیا تو اس وقت بھی اور بعد میں بھی حتی کہ آج تک اس کی ضرورت ، اہمیت اور عظمت کو بڑی شدت اور بیقراری سے محسوس کیا گیا.کیونکہ یہی وہ روحانی منصب جلیل ہے جس کی موجودگی کے ساتھ امت کی عظمت اور دین کا غلبہ وابستہ ہے.اس حقیقت کو احیائے خلافت کی حالیہ تحریکوں میں سے ایک تحریک کے داعی چوہدری رحمت علی صاحب اپنی کتاب ” دار السلام میں یوں بیان کرتے ہیں: نفاذ و غلبہ اسلام اور وجود و قیام خلافت لازم و ملزوم ہیں.

Page 284

۲۶۸ بالفاظ دیگر جیسے دن سورج کا محتاج ہے اور بغیر اندھیرے کے رات کا تصوّرنا ممکن ہے.اسی طرح خلافت معرضِ وجود میں ہوگی تا اسلام کا نفاذ و غلبہ ممکن ہوگا.ورنہ ایں خیال است و محال است و جنون نیز تاریخ مزید ثبوت مہیا کرتی ہے کہ جب خلافت اپنے عروج پر تھی.اسلام کا بھی وہی سنہری دور تھا.جونہی خلافت کا آفتاب مہتاب دھندلانے لگا.ٹھیک اسی وقت اسلام والوں کا سورج نصف النہار سے نیچے لڑھکنے لگا.حتی کہ وہ وقت آ کے رہا کہ دوسرے ادیان، باطل کا علمبر دار ہوتے ہوئے بھی غالب ٹھہرے، جب کہ دینِ حق کے پیروکار اپنی کا ہلی و بے حسی کی وجہ سے محکوم و مجبور.خلافت قائم تھی تو مرکزیت حاصل تھی.خلافت گئی تو انتشار و طوائف الملو کی نے ڈیرے آجمائے.خلافت تھی تو جملہ ذرائع و وسائل مجتمع تھے.خلافت عنقا ہوئی تو وسائل وذرائع کی فراوانی بھی بے معنی و بے اثر ہو کر رہ گئی.خلافت تھی تو ہر ملک ، ملک ما است که ملک خدائے ما است ، والا منظر تھا.لیکن خلافت گئی تو محرومی و مجبوری بلکہ غلامی مسلمانوں کا مقدر بن گئی.“ دار السلام، صفحه ۳، از چوہدری رحمت علی: عمران پیلی کیشنز اچھر و لا ہور ، ۱۹۸۵ء) نعمت خلافت کو کھونے کے بعد مسلمانوں کو جب ہوش آیا تو اس کی برکتوں کو تلاش کرنے کے لئے بیتابی اور بے قراری بڑھنے لگی اور خلافت کے احیاء کے لئے کئی بے قرار بلکہ مجنونانہ تحریکیں اٹھیں.لیکن یہ ایک تلخ تاریخ ہے کہ جو تحریک بھی اٹھی وہ امت کے لئے اتحاد و تمکنت کی بجائے تشتت و افتراق کا موجب بنی.کیونکہ جو بھی تحریک اٹھی وہ خلافت کے قیام کے جذبہ سے تو سرشار تھی لیکن اس کی شرائط سے غافل اور اس کے عرفان سے عاری تھی.ان تحریکوں میں کہیں عرفان خلافت کے لحاظ سے جہالت کی تاریکیاں تھیں تو کہیں خود غرضی کی پر چھائیاں،

Page 285

۲۶۹ کہیں ذاتی منفعتوں کی پوتھی تو کہیں اقتدار کی ہوس.الغرض ان تحریکوں کے محرکات کی جتنی چھان پھٹک کریں، اتنی زیادہ قباحتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں.خلافت علی منہاج النبوۃ کا نام لے کر تسلط اور حکومت کا لائحہ عمل تیار کرنا ، بجائے خود اپنے اندر ایک کھلا کھلا تضاد رکھتا ہے.روحانی نظام کے قیام کے آئینہ میں سیاسی اقتدار کے حصول کا خواب نہ پہلے کبھی شرمندہ تعبیر ہوا نہ آئندہ ہوگا.کیونکہ خلافت خدا تعالیٰ کی روحانی بادشاہت کا نام ہے.اس بادشاہت کا قیام کسی سیاسی عمل یا سیاسی نماند ہی تحریک کے ذریعہ نہیں ہوتا.بلکہ خدا تعالیٰ نے جب بھی اسی خلافت کا قیام فرمایا، اپنے نبی کے ذریعہ فرمایا.جیسا کہ ہمارے پیارے نبی امی نے بیان فرمایا کہ: مَا كَانَتْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَبِعَتُهَا خِلَافَةٌ (کنز العمال ، جلد ۱ صفحه ۲۵۹- از علامہ علاء الدین علی المنتقی الهبدی ناشر منشورات مكتبه التراسل الاسلامی ) کہ ہمیشہ نبوت کے بعد ہی خلافت کا قیام ہوا ہے.اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ذرا تاریخ مذاہب پر نظر تو دوڑائیں اور ڈھونڈیں تو آپ کو ایک نظیر بھی ایسی نہیں ملے گی کہ بغیر نبوت کے خدا تعالیٰ کی خلافت قائم ہوئی ہو.جس خلافت کا خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے وہ خلافت علی منہاج النبوۃ ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے بیان فرمایا ہے.یہ خلافت خدا تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ ہر مومن کے دل میں اتارتا ہے تو ہر قلب مومن اس خلافت الہیہ کا مسکن بن جاتا ہے.جس کو وقت کا نبی تعلیمات الہیہ، تاثیرات روحانیہ اور قوت قدسیہ اور انوار ویقین کے پانیوں سے سیراب کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے اپنے تائیدی نشانات اور کھلے کھلے معجزات سے ثابت و راسخ فرماتا ہے.یہ وہ قدرت ہے جس سے مومنوں کے قلب و روح ایمان سے معمور اور ان کے جسم و جان اعمال صالحہ پر مامور ہو جاتے ہیں.یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ اپنی خلافت دنیا میں قائم فرماتا ہے.جس کے ذریعہ ہر مومن خدا تعالیٰ کی خلافت کا پاسبان و امین ہو جاتا ہے.پھر جب نبی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو ہر مومن اپنے اندر بھی ہوئی خدا تعالیٰ کی اس خلافت کو اس شخص کے سپرد کرتا ہے جسے خدا تعالیٰ نبی کا جانشین بناتا ہے.اس طرح اس خلیفہ کے ذریعہ

Page 286

اس خلافت کی سر پرستی اور حفاظت ہوتی ہے جو بنوت کے ذریعہ مومنوں کے دل میں قائم ہوئی ہوتی ہے.پھر خدا تعالیٰ اس خلیفہ کے ذریعہ جماعت مومنین کو انوار نبوت سے فیضیاب کرتا ہے.پس مومنوں کی اس جماعت میں اس نہج پر ایک خلیفہ کے ذریعہ خلافت کا نظام جاری ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی تائید اور اس کے جملہ وعدے اس خلافت کے حق میں پورے ہوتے ہیں.اس کے برعکس کسی سیاسی عمل سے خلافت کا قیام نہ صرف یہ کہ ناممکن ہے بلکہ سرے سے ہی ایک احمقانہ خیال ہے.کیونکہ کوئی سیاسی عمل نہ مومن پیدا کر سکتا ہے نہ کسی کو ایمان اور عمل صالح پر قائم کر سکتا ہے.پس احیائے خلافت کی نام نہاد تحریکات میں جب یہ پہلی شرط ہی قرار نہیں پکڑتی تو کسی دوسرے خود ساختہ طریق پر خلافت کے قیام کی بات کرنا عبث ہے.خدا تعالیٰ کی خلافت کی عمارت ایمان اور اعمالِ صالحہ کی مضبوط بنیاد پر استوار ہوتی ہے.لہذا یہ ناممکن ہے کہ ایک غیر روحانی سیاسی عمل لوگوں کے دلوں میں ایمان قائم کر سکے پھر یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ ان میں خلافت قائم ہو سکے.ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کسی سیاسی عمل سے کسی شخص کو سر براہ تسلیم کر کے اسے خلیفہ کا نام دے دیا جائے لیکن ایک جنس کو دوسری کا نام دے دینے سے اسے دوسری جنس نہیں بنایا جا سکتا.مثلا کرسی کو میز قرار دینے سے وہ میں نہیں بن سکتی، اس کا نام جو چاہیں رکھ دیں مگر کرسی کرسی ہی رہے گی.سڑک کو نہر کہہ دینے سے وہ بہنے نہیں لگ جائے گی.اس کا تصور ، مقصد اور مصرف وہی رہے گا جو اس کا ہے.بعینہ کسی حکمران ، بادشاہ یا صاحب اقتدار شخص کو خلیفہ قرار دینے سے نہ خلافت کی شرائط اس میں پوری ہوسکتی ہیں نہ اس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں ایمان اور عمل صالح کا قیام ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس عمل سے خدا تعالیٰ پابند ہوسکتا ہے کہ وہ خلافت کے لئے اپنے تائید ونصرت کے وعدہ کو اس سیاسی حکمران کے لئے پورا فرمائے.لہذا وہ شخص صاحب اقتدار تو ہوسکتا ہے ، خلیفہ نہیں ہوسکتا.خدا تعالیٰ کا نصرت اور تائید کا وعدہ تو اس خلیفہ سے ہے جسے وہ خود قائم کرتا ہے اور ان لوگوں سے ہے جن میں وہ خود خلافت قائم کرتا ہے، اس حکمران سے نہیں ہے جسے بعض سیاسی یا سیاسی نماند ہی تحریکوں نے قائم کیا ہو.پس اگر خلافت کے قیام کے لئے روحیں بے چین اور دل

Page 287

۲۷۱ بیتاب ہیں تو انہیں چاہئے کہ نبوت کے ذریعہ خدا کی مرضی کے مطابق قائم ہونے والی خلافت کے حصار میں آئیں نہ کہ خدا تعالیٰ کو مجبور کرنے کی کوشش کریں کہ وہ سیاسی بنیادوں پر اختراع کی گئی ، انوار نبوت سے تہی نام نہا د خلافت کی تائید و نصرت کرے.جہانتک ماضی میں قیام خلافت کے لئے اٹھنے والی تحریکات کا تعلق ہے، تو جیسا کہ پہلے عرض کی گئی ہے کہ وہ ناکامیوں کی گرد سے آئی ہوئی ایک طویل داستان ہے جسے یہاں نہ چھیڑنا ہی بہتر ہے لیکن جو تحریکیں فی زمانہ اُٹھی ہیں ان کا مختصر جائزہ اس لئے پیش کیا جا رہا ہے تا کہ یہ عرفان حاصل ہو سکے کہ وہ خلافت جو آسمان سے قلوب مومنین پر اترتی ہے اور خدا تعالیٰ اسے قائم فرماتا ہے ، وہ کتنی روشن، پر نور اور خدا تعالیٰ کی جناب سے تائید یافتہ ہے اور اس کے برعکس وہ خلافت جو سطح زمین سے ابھرنے کی کوشش کرتی ہے کتنی فتیح، بدشکل اور نا کام ہے.چنانچہ ملاحظہ فرمائیں.پاکستان کے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب جو تحریک خلافتِ پاکستان کے داعی اور تنظیم اسلامی کے امیر ہیں اور خلافت کا قیام اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں، لکھتے ہیں : اول دور خود حضور اور خلفائے راشدین کا دور ہے، جسے خلافت علی منہاج النبوۃ کہا جاتا ہے اور قیامت سے پہلے آخری دور میں پھر خلافت علی منہاج النبوۃ کا نظام قائم ہوگا.اس قول سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ حضور نے اسلام کا نظام عدل اجتماعی جس طریقے سے قائم فرمایا تھا صرف اسی طریقے سے اب یہ نظام قائم ہو سکتا ہے.وہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہر شخص اپنی ذات میں اللہ کا خلیفہ بنے پھر اپنے گھر اور دائرہ اختیار میں خلافت کا حق ادا کرے، اس کا تقاضہ پورا کرے اور جو لوگ یہ دو مرحلے طے کر لیں انہیں بنیان مرصوص بنا کر ایک نظم میں پرو دیا جائے اور پھر یہی لوگ باطل کے ساتھ ٹکرا جائیں، میدان میں آکر منکرات کو چیلنج کریں اور اپنے سینوں میں گولیاں کھائیں کہ :

Page 288

۲۷۲ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نه مال غنیمت کشور کشائی ہم نہ تو توڑ پھوڑ کے قائل ہیں اور نہ ہی دنگا فساد کو صحیح سمجھتے ہیں.کسی کی املاک کو نقصان پہنچانا بھی ہمارا کام نہ ہوگا.ہم کسی پر گولی نہ چلائیں گے بلکہ اپنے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کروانے کے لئے کھول دیں گے کہ یا ہم نہیں یا کافر کا یہ نظام نہیں.لیکن یہ مرحلہ اس وقت آئے گا جب ہمارے پاس طاقت ہوگی.“ پاکستان میں نظام خلافت ، امکانات ، خدو خال اور اس کے قیام کا طریق صفحہ ۳۲ از ڈاکٹر اسرار احمد : ناشر: ناظم مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور ، ۱۹۹۲ء) وو ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں : ” ہر شخص اپنی ذات میں اللہ کا خلیفہ بنے.“ اس لحاظ سے تو یہ بات درست ہے کہ جب خدا تعالیٰ دنیا میں نبی بھیجتا ہے تو اس کے ہاتھ پر ایمان لانے والا ہر شخص اپنی ذات میں اس خلافت کو جذب کر لیتا ہے جو نبی کے ذریعہ خدا تعالیٰ آسمان سے اتارتا ہے.لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے برگزیدہ نبی کی تو تکذیب کرے مگر اس کی ذات میں خدا تعالیٰ کی خلافت قائم ہو جائے.خلافت کے قیام کی پہلی شرط ہی خدا تعالیٰ نے ایمان رکھی ہے.مامورِ زمانہ کی موت پر اگر ایمان نہیں تو خلافت کے قیام کی تمنا ایک خیالِ خام ہے.66 وہ کہتے ہیں : ” پھر انہیں ایک نظم میں پرو دیا جائے.“ ان کے اس فقرے میں ہی خلیفہ کے اوپر ایک بالا اتھارٹی کا تصور موجود ہے جو بطور نگران، منتظم یا حاکم ان لوگوں کو جو اپنی ذات میں اللہ کا خلیفہ بن چکے ہوں گے ایک نظم میں پرونے کا عمل کرے گا.پس اگر وہ ذات یا وہ شخص جو پہلے سے ہی بطور نگران یا منتظم موجود ہے جو أن منتشر افراد کو منظم کرے گا تو پھر سوال خلافت کا نہیں بلکہ محض نظم وضبط کا رہتا ہے.اصل کام تو پھر لوگوں کو منظم کرنے کا ہے.یہ کام پولیس بھی کر سکتی ہے یا اگر لوگ زیادہ ہی بے لگام ہوں تو

Page 289

۷۳ اس مقصد کے حصول کے لئے ملک میں مارشل لاء لگایا جا سکتا ہے.اس کے لئے خلافت کا نام لے کر خواہ مخواہ مفسدانہ تحریکیں چلانے کی کیا ضرورت ہے جو مزید انتشار کا باعث بنیں.(ویسے یہ یادر ہے کہ یہ فتنہ و فساد پیدا کرنے والے لوگ وہی ہوں گے جو بقول ڈاکٹر صاحب اپنی ذات میں اللہ کا خلیفہ بن چکے ہوں گے !! ) وہ پھر کہتے ہیں : ” یہ مرحلہ اس وقت آئے گا جب ہمارے پاس طاقت ہوگی.“ اس قول میں آپ کو کہیں بھی اسلام کی روح نہیں بلکہ روح مودودیت جھانکتی نظر آئے گی.جس نے سرکار دو جہاں شہنشاہ قدوسیاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلّم کی تاثیرات روحانیہ اور قوت قدسیہ کو اپنے ایسے ہی مردود خیالات کے غبار سے ڈھانپنے کی کوشش کی تھی اور کہا تھا کہ : " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳ برس تک اسلام کی دعوت دیتے رہے ، وعظ و تلقین کا جو مؤثر سے مؤثر انداز ہوسکتا تھا اسے اختیار کیا ، مضبوط دلائل دیئے ، واضح حجتیں پیش کیں ، فصاحت و بلاغت اور زور خطابت سے دلوں کو گرمایا ، اللہ کی جانب سے محیر العقول معجزے دکھائے ، اپنے اخلاق اور پاک زندگی سے نیکی کا بہترین نمونہ پیش کیا اور کوئی ذریعہ ایسا نہ چھوڑا جوحق کے اظہار و اثبات کے لئے مفید ہوسکتا تھا، لیکن آپ کی قوم نے آفتاب کی طرح آپ کی صداقت کے روشن ہو جانے کے باوجود آپ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا...لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے تلوار ہاتھ میں لی تو رفتہ رفتہ بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا.طبیعتوں سے فاسد مادے خود بخو دنکل گئے.روحوں کی کثافتیں دور ہو گئیں اور یہی نہیں کہ آنکھوں سے پردہ ہٹ کر حق کا نور صاف عیاں ہو گیا، بلکہ

Page 290

۲۷۴ گردنوں میں وہ بختی اور سروں میں وہ نخوت باقی نہ رہی جو ظہور حق کے 66 بعد انسان کو اس کے آگے جھکنے سے باز رکھتی ہے.“ الجہاد فی الاسلام ، صفحہ ۱۷۳ ۱۷۴، از سید ابوالاعلیٰ مودودی) نعوذ بالله من ذالک - نعوذ بالله من ذالک.خدا کی قسم ! مودودی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے،جھوٹ لکھا ہے.خدا تعالیٰ کا کلام یہ ثابت کرتا ہے کہ مودودی صاحب کا یہ بیان جھوٹا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ، آپ کی پاک سیرت ، آپ کا پاکیزہ نمونہ، آپ کا پُر نور اسوۂ حسنہ ثابت کرتا ہے کہ یہ قطعی جھوٹ ہے کہ نعوذ باللہ، نعوذ باللہ آپ نے تلوار کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح کی.یہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اتنا بڑا بہتان ہے کہ جس کی توقع صرف اور صرف رسول اللہ سلم کے دشمن سے ہی کی جاسکتی ہے.آپ کے کسی پیروکار سے ایسی مکر وہ بات کی توقع نہیں کی جاسکتی.سردار قد وسیاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ئیں تھیں، پاک تعلیم اور پاک سیرت تھی ، آپ کا نور تھا ، آپ کا اسوۂ حسنہ تھا ، آپ کی قوت قدسیہ تھی جس نے معاشرہ کی اصلاح کی تھی ، نہ کہ تلوار نے.جو چیز طاقت اور زور کے بل بوتے پر قائم کی جائے وہ زبر دستی جسموں پر تو قائم ہوسکتی ہے روحوں پر ہر گز اثر انداز نہیں ہو سکتی.ہاں دل اور روح اگر ایمان اور عمل صالح سے ہوں تو ان میں خدا تعالیٰ کی بادشاہت اور خلافت اتر سکتی ہے.معمور آگے دیکھیں یہی ڈاکٹر صاحب کس طرح خود غرضی کا دامن پکڑ کر اس طرح آگے چلتے ہیں کہ ان کی خود غرضی کی بلی تھیلے سے باہر آ جاتی ہے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں : نظام خلافت کیسے قائم ہوگا ؟ کس تدریج سے قائم ہو گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے اسے سرزمین عرب میں قائم کیا پھر وہ تدریج کے ساتھ آگے پھیلتا چلا گیا.اب بھی کسی ایک ملک سے ہی آغاز ہوگا.یہ ملک کونسا ہو گا ؟ ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے.مسلمانوں کی گزشتہ چارسوسال کی تاریخ کے جائزے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اللہ

Page 291

۲۷۵ تعالیٰ نے پاکستان کی سرزمین کو نظام خلافت کے احیاء کے لئے پسند فرمایا ہے.“ (’ پاکستان میں نظامِ خلافت، صفحہ ۳۳، ڈاکٹر اسرار احمد: ناشر ناظم مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن ، لاہور ۱۹۹۴ء ) پھر وہ لکھتے ہیں : ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے اسے سرزمین عرب میں قائم کیا پھر وہ تدریج کے ساتھ آگے پھیلتا چلا گیا.اب بھی کسی ایک ملک سے ہی آغاز ہوگا.“ یعنی یہ یقینی بات ہے کہ کسی ایک ملک سے ہی آغاز ہو گا.دنیا کے ممالک سے باہر کسی اور جگہ اس کا آغاز نہیں ہوگا! یہ تو انہوں نے کہہ دیا لیکن پھر خیال آیا اس سے لوگوں کی توجہ کسی اور اسلامی ملک کی طرف مبذول ہو گئی تو مشکل پڑ جائے گی چنانچہ فورا گویا ہوئے کہ : مسلمانوں کی گزشتہ چارسوسال کی تاریخ کے جائزے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی سرزمین کو نظام خلافت کے احیاء کے لئے پسند فرمایا ہے.“ اس طرح یہ اپنی مزعومہ خلافت کو پاکستان تک کھینچ لائے لیکن پھر ڈرے کہ معاملہ کہیں بکھر ہی نہ جائے.پاکستان میں بھی تو کئی تنظیمیں ہیں.ایسا نہ ہو کہ ان کا تیار کردہ منصو بہ کوئی اور اچک لے اور ان کی اسکیم دھری کی دھری رہ جائے.چنانچہ انہوں نے اس بات کو اور آگے بڑھاتے ہوئے ذرا لپیٹ کر اس طرح لکھا کہ : اس کے لئے انقلابی عمل ناگزیر ہے جسے میں بار بار دھراتا ہوں تا کہ ذہنوں میں یہ بات راسخ ہو جائے اور اس کا عمومی طریقہ یہی ہے کہ جو انقلابی پارٹی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ وہ تنظیم اسلامی ہو.اللہ کرے یہ کام ہمارے ہاتھوں ہو جائے یا اگلی نسل کے ہاتھوں ہو.جو بھی ہوں گے یہ ان کی ذمہ داری ہوگی کہ پہلے حکومت بنائیں.“ وہ کہتے ہیں : ” ہو سکتا ہے وہ تنظیم اسلامی ہو.اللہ کرے یہ کام ہمارے ہاتھوں ہو جائے.“ ان کی اس تمنا کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کتاب کے سرورق کو دیکھیں تو وہاں لکھا ہے :

Page 292

ڈاکٹر اسرار احمد.داعی تحریک خلافت پاکستان اور امیر تنظیم اسلامی ڈاکٹر صاحب اتنی دور کی جو کوڑی لائے ہیں ، اس کی بجائے سیدھی بات کرتے کہ خلافت کا مجھ سے زیادہ کون اہل ہو سکتا ہے.مجھے خلیفہ مان لو میں ہی اس کا مستحق ہوں.کہا جاتا ہے کہ ایک گاؤں میں ایک دفعہ پریاں اتریں.گاؤں کے لوگ ان کے سراپا کو دیکھ کر انگلیاں منہ میں دبانے لگے اور ان کو پکڑنے کے لئے لیکے.جب پریوں نے یہ دیکھا تو وہ بھا گئیں اور ایک دیوار کی اوٹ سے غائب ہو گئیں.جب لوگ اس دیوار کی اُس طرف پہنچے تو پر یاں غائب تھیں البتہ گندگی میں لت پت چند بھیڑیں وہاں گھاس چر رہیں تھیں.لوگوں نے ان سے پوچھا کہ ابھی یہاں پریاں آئی تھیں کیا تمہیں معلوم ہیں کہ وہ کہاں گئیں؟ اس پر بھیٹروں نے جواب دیا کہ پریاں تو ہم نے نہیں دیکھیں البتہ لوگ ہم پر ہی پری ہونے کا شک کرتے ہیں...!! اور ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے خلافت قائم کرنے والی انقلابی تنظیم اسلامی ہو.“ اب دیکھئے خلافت کے قیام کے ایک دوسرے داعی چوہدری رحمت علی صاحب یہ بتاتے ہیں کہ اب خلافت کس طرح قائم ہوسکتی ہے.لکھتے ہیں کہ پھر لکھتے ہیں : وو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا کام تو یہ کیا کہ قران کی 66 شکل میں ایک قانون اور دستور دیا.“ یہ دستور دینے کے ساتھ ساتھ جو دوسرا بڑا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہ قبائلی سرداروں ، جو اپنی علیحدہ علیحدہ ڈیڑھ انچ کی مسجدیں بنائے ہوئے تھے اور باہم دگر رہتے تھے سے اقتدار چھین کر ایک خلیفہ کے ہاتھ میں تھما دینے کا تھا.اسلامی تاریخ میں خلافت کا

Page 293

۲۷۷ معرض وجود میں آجانا دوسرا بڑا موڑ (Turning Poin) تھا.66 (ماہنامہ " سبق پھر پڑھ " جلد ۲، شماره ۸ صفحه ۱۲ اگست ۱۹۹۲ ء مدیر مسئول، چوہدری رحمت علی.اچھرہ ، لاہور : مرکزی تبلیغ اکیڈمی) پھر وہ آگے جا کر مزید لکھتے ہیں : دو حیرت و تأسف تو اس بات پر ہے کہ آج کی دنیا میں صرف کفار و مشرکین ہی طاغوتی نظاموں کی سر پرستی نہیں کر رہے مسلمان بھی خلافت سے منہ موڑ کر ایسی ہی من مرضی کی حکومتیں رواں دواں رکھے ہو ئے ہیں.اس میں کیا شک ہے کہ قرآن وسنت کے مطابق پوری اسلامی دنیا کا صرف ایک ہی خلیفہ (سربراہ) ہوسکتا ہے.ہمارا مسلم دنیا کو مصنوعی بلکہ سازشی لکیروں سے تقسیم کر کے یہ درجنوں خود مختار مملکتیں معرض وجود میں لے آنا دین حق سے بر ملا روگردانی ہے اس وقت پوری امت پر ایک خلیفہ کے بجائے جو درجنوں سربراہان مسلط ہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر سب غصب کرده پوزیشنوں پر قابض ہیں.قرآن اور سنت کی رو سے انہیں اس طور حکمرانی کرنے کا کوئی حق و جواز حاصل حقیقت ان تمام حکمرانوں نے وہی شکل اختیار کر رکھی ہے جو دور جہالت میں قبائلی سرداروں نے اختیار کر رکھی تھی اور جن سے اقتدار چھین کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ایک خلیفہ کے سپرد کیا تھا.قرآن وسنت سے ہماری یہ بڑی روگردانی اس ذلت اور رسوائی کا باعث بنی ہوئی ہے جس سے اس وقت امت مسلمہ دو چار ہے.حل ایک ہی ہے کہ خلافت کی گاڑی جہاں پڑی سے اتری تھی وہیں سے اسے پھر پٹڑی پر ڈال دیا جائے.واضح اور دوٹوک تشخیص کے

Page 294

بعد امت کے تمام دکھوں کے لئے ایک ہی شافی کا نسخہ ہے کہ خلافت کو اس دنیا میں پھر بحال کر دیا جائے وقت گزرتا جا رہا ہے.ہمارے وہ محترم بھائی جو آج کسی نہ کسی طور امت کی قیادت پر متمکن ہیں اور دورِ جہالت کے سرداروں کی طرح باہم دگر رہتے ہیں، خلافت کو بحال کرنے کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں.پھر قائدانہ مناصب پر ہوتے ہوئے ان کے لئے بحالی خلافت کا کام قدرے آسان بھی ہے.لہذا وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے سے پہلے اگر یہ کام کر جائیں تو انشاء اللہ قیامت کے دن اپنے رب کے ہاں سرخرو ہوں گے“ (ماہنامہ ” سبق پھر پڑھے “.جلد ۲، شماره ۸ ،صفحه ۱۶ ، اگست ۱۹۹۲ء) قارئین ! ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے ایک تو یہ بتایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دورِ جہالت کے قبائلی سرداروں کو ایک خلیفہ کے ہاتھ پر جمع کر دیا تھا اور دوسری بات یہ کی ہے کہ مختلف ملکوں میں آج کے مسلمان حکمران بعینہ دور جہالت کے قبائلی سرداروں کی طرح ہیں.دیکھیں کہ اب گنگا کس طرح الٹی بہتی ہے.اس وقت رسول اللہ صلی علیہ وسلّم نے خلافت قائم فرمائی تھی اور اس کے ساتھ سرداروں کو منسلک کر دیا تھا اور آج یہ صاحب دورِ جہالت کے قبائلی سرداروں کی طرح کے حکمرانوں کے سپر دوہ کام کر رہے ہیں جو آنحضرت ا لیکم نے کیا تھا.اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ دور جہالت کے قبائلی سرداروں کی طرح کے حکمرانوں کی قائم کردہ خلافت کیسی ہوگی ! کیا وہ انوار و برکاتِ رسالت سے لبریز اس خلافت کی طرح ہو سکتی ہے جو آنحضرت ﷺ کی تیار کردہ زمین پر قائم ہوئی تھی.جو خلافت نبوت کی سرزمین سے ابھرتی ہے وہی خلافت حقہ ہے جو علی منہاج النبوة ہے اور جو چیز دور جہالت جیسی سرداری کی کوکھ سے جنم لے گی اسے چاہے کچھ نام دے دیں ، جہالت اور قبائلی تفاخر کا ہی مرتب ہو گی.ان کی تمنا یہ ہے کہ اس مرکب کو خلافت سے تعبیر کر کے امت میں رائج کر دیا جائے.پس ان کی یہ سوچ ہی جاہلانہ ہے.پھر وہ لکھتے ہیں:

Page 295

” خلافت کی گاڑی جہاں سے پڑی سے اتری تھی وہیں سے اسے پھر پڑڑی پر چڑھا دیا جائے.“ ان کا یہ بیان بھی انتہائی گستاخانہ ہے.پٹڑی سے اترنا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے، صحیح راہ سے برگشتہ ہو جانا ، راہ حق کو چھوڑ دینا وغیرہ وغیرہ.خلافت کے نام اور اس کے مقدس مقام کے ساتھ اس سے بڑی گستاخی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے لئے ایسے محاورے استعمال کئے جائیں جن کا مفہوم یہ ہو کہ وہ راہ حق سے برگشتہ ہوگئی ہے.نعوذ باللہ من ذالک.حیرت تو اس بات پر ہے کہ جو خود پڑی سے اترا ہوا ہے وہ خلافت کو پڑی پر چڑھانے کی باتیں کر رہا ہے.ایسا شخص نہ خلافت کے مقام کو سمجھتا ہے نہ اس سے یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ اس کا احترام کرے گا.حقیقت یہ ہے کہ خلافت حقہ نہ کبھی پٹڑی سے اتری ہے نہ اتاری گئی ہے.ہاں وہ لوگ خود بے وقر اور بے وقار ہو گئے تھے جنہوں نے اس کا دامن چھوڑا تھا، چنانچہ وہ خود پڑی سے اتر گئے.خلافت حقہ جب تک رہی ہے ، رشد و ہدایت سے بھری ہوئی خلافت راشدہ ہی رہی ہے.یہی چوہدری رحمت علی صاحب خلافت کے قیام کا ایک اور طریق بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے لئے تین صورتیں ممکن ہیں.اولا : اس وقت وہ تمام حکمران جو مختلف مسلم ممالک کی سربراہی پر متن ہیں خدا خوفی، دانشمندی اور ایثار و قربانی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے آپ میں سے کسی کو خلیفہ چن لیں ، باقی سب ان صوبوں کے گورنر بن جا کیں جو اس وقت تو خود مختار مملکتیں ہیں لیکن خلافت کی شکل میں دار السلام یعنی دنیا میں عظیم تر واحد اسلامی مملکت کے صوبوں کا روپ دھار جائیں گے.یہ طریق کار احسن تر اور آسان تر ہے.یوں ہو جانے سے اس دنیا میں اسلام والے غالب ہونگے اور آخرت میں بھی سرخرو.یہ کس

Page 296

حکمران سے مخفی ہے کہ اگر وہ یہ طریقہ از خود اختیار کرنے سے قاصر رہے تو بصورت دیگر بھی اسے ایک نہ ایک دن قیادت کو خیر باد کہنا ہے.ثانیاً : موجودہ مسلمان حکمرانوں میں سے کوئی اس قدر طاقت پکڑ لے یا ان میں سے بالفعل کسی کو اپنے ملک میں بطور خلیفہ نصب ہونے کا شرف حاصل ہو جائے کہ وہ دوسرے چھوٹے بڑے مسلم ممالک کو کسی نہ کسی طور ایک مملکت میں مدغم کر گزرے.اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں جن میں بہ رضا و رغبت ، بذریعہ طاقت یا کوئی اور انداز جو بھی اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے میں ممد و معاون ہو اختیار کیا جا سکتا ہے.مقصد واضع تر ہوتا گیا تو بظاہر یہ مشکل کام بھی آسان ہو جائے گا.ثالثاً : مندرجہ بالا دونوں صورتوں کے کارگر نہ ہونے کی صورت میں تیسری اور آخری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ پوری اسلامی دنیا کے عوام جب دار السلام کے قیام کو اپنا صح نظر بنا لیں تو سڑکوں پر نکل آئیں اور جملہ سر برا ہوں کو مجبور کر دیں کہ وہ ہر قیمت پر بحالی خلافت پر نہ صرف متفق ہو جائیں بلکہ ایسا بالفعل کر گزریں.یادر ہے ہر سہ صورتوں میں جو 66 بیان ہو ئیں پہلے چند ماہ تو جیسی تیمی ہوئی عارضی خلافت قائم ہوگی." خلافت ہمارے جملہ مسائل کا حل صفحہ ۱۱، ۱۱۲، از رحمت علی چوہدری.: مرکزی تبلیغ اکیڈمی اچھرہ ، لاہور ۱۹۹۱ء ) " جیسی تیسی عارضی خلافت کے اظہار سے ہی انہوں نے اپنے اندرونی فتح کو ظاہر کر دیا ہے کہ وہ لوگ خلافتِ حقہ اور خلافت کے پاک تصور سے محض مذاق کرتے ہیں اور اس کے تقدس کو پامال کرنے کے درپے ہیں.ان کی یہ تحریر بتاتی ہے کہ ان کے تصور عزائم فتیح ہیں اور وہ اپنے ان احمقانہ خوابوں کی جاہلانہ تعبیروں کے منتظر ہیں.یہ محض ان کی خود غرضانہ تعلیاں ہیں جن کا سنت اللہ سے دور کا بھی تعلق نہیں.خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے ” لَيَستَخلِفَنَّهُم “ ہم

Page 297

۲۸۱ تمہارے اندر خلافت قائم فرمائیں گے.یہ خلافت کسی تحریک کے ذریعہ ہر گز قائم نہیں ہوگی.لیکن پھر بھی اگر بفرض محال ہم ایک لمحہ کے لئے ان کی بات مان لیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک حکمران طاقت پکڑتا ہے لیکن دوسرے ملک برضا و رغبت اس کے ساتھ مدغم ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو بقول ان کے وہ حکمران طاقت کا سہارا لے گا.اگر وہ طاقت کا سہارا لیتا ہے تو دوسرے ممالک مل کر اس کو شکست سے دو چار کر دیں گے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کو اس سے خطرہ ہوگا.یا پھر کسی بڑی طاقت کی مدد سے اس کی پٹائی کر دی جائے گی.اس کی مثال خلیج کی گزشتہ جنگ کی صورت میں بھی سامنے آچکی ہے.بعینہ اسی طرح خلافت کا علمبر دار حکمران پٹ کر رہ جائے گا اور چوہدری رحمت علی صاحب کی بے ڈھنگی نامعقول خلافت قائم ہونے کی بجائے زندہ درگور ہو جائے گی اور امت کو ایک بہت بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا.پھر وہ کہتے ہیں : اگر یہ صورت کارگر نہ ہو تو آخری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ عوام سڑکوں پر نکل آئیں اور جملہ سر برا ہوں کو مجبور کر دیں کہ وہ نہ صرف قیام خلافت پر متفق ہوں بلکہ بالفعل ایسا کر گزریں.“ ان کے اس پروگرام کے پیش نظر پاکستان کو مثال کے طور پر سامنے رکھیں.اس کے وہ حکمران جو خلافت کے قیام پر آمادہ نہیں ، کیا وہ عوام کو سڑکوں پر برداشت کریں گے ؟ کسی بھی مذہبی یا سیاسی کشمکش کے لئے عوام جب سڑکوں پر نکلے ہیں تو مار دھاڑ ، توڑ پھوڑ اور جلاؤ بجھاؤ کے علاوہ اور کیا حاصل ہوا ہے؟ چنانچہ اب بھی جب عوام سڑکوں پر نکلیں گے تو محض بھاری جانی و مالی نقصانات کے سوا کوئی نئی چیز بہر حال سامنے نہیں آئے گی.اس سے قطع نظر کہ ایسے جلوس کے ساتھ کیا ہوگا ، کیا نہیں ہوگا ، اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ اس عمل سے کسی قسم کی خلافت قائم ہو بھی جائے تو چو ہدری رحمت علی صاحب کو مثلاً خلیفہ بنا بھی دیا جائے تو وہ بھی تو عوام الناس کے رحم و کرم پر ہی رہیں گے کیونکہ کل ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے اُکسانے پر وہ پھر سڑکوں پر نکل آئیں گے اور انہیں خلیفہ بنا دیں گے اور یہ ڈرامہ

Page 298

۲۸۲ اس طرح دو ہرایا جاتا رہے گا اور تعمیر کی بجائے تخریب کاری کشت وخون اور قتل و غارت کی را ہیں فراخ اور کشادہ تر ہوتی چلی جائیں گی.ویسے بھی یہ کہتے ہیں کہ چند ماہ جیسی تیسی ہوئی عارضی خلافت ہوگی، لیکن جو طریق کار بتاتے ہیں اس سے تو یقیناً عارضی خلافت ہی بار بار قائم ہوتی رہے گی.مستقل خلافت کے قیام کا خواب کبھی پورا نہ ہوگا.

Page 299

(۲۸۳) مستقلاً عارضی خلافت یہ مدعیانِ قیامِ خلافت صرف اپنی مزعومہ اور نام نہا د خلافت کے قیام کی ہی ترکیبیں نہیں بتاتے بلکہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب کوئی خلیفہ بن جائے تو اس سے دل بھر جانے پر اس سے جان کس طرح چھڑانی ہے.چنانچہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کہتے ہیں: خلیفہ جو براہ راست منتخب ہوگا جتنی اس کی مدت ہے چارسال یا پانچ سال اتنی مدت وہ رہے گا.الا یہ کہ قانون کے مطابق اس کی معزولی کا جواز پیدا ہو جائے.“ نظام خلافت.....صفحه ۳۸ از ڈاکٹر اسرار احمد ) ایک خلیفہ پر سے اگر عوام کا اعتما داٹھ جائے تو اس کی تبدیلی کا کیا طریقہ ہو گا ؟“ اس سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایا : ” وہ تو میں نے بتا ہی دیا ہے کہ جب ہم نے یہ طے کر لیا کہ اس کی مدت چار سال یا پانچ سال کی ہے تو ٹرم (Term) پوری کرنے کے بعد دوبارہ الیکشن ہونے ہی ہیں.خلافت راشدہ میں تو یہ تھا کہ ایک شخص منتخب ہو گیا اور تا دمِ مرگ وہ خلیفہ رہا.لیکن یہ آپ پر واجب نہیں کیا گیا کیونکہ ایک ٹرم معتین کر دینا حرام نہیں.دوسرا معاملہ عوام کا اعتما داٹھنے کا نہیں بلکہ معزولی کا ہے.اگر آپ اسے معینہ مدت کے اندر معزولی کر دیتے ہیں تو ہٹ جائے گا ورنہ نہیں.“ نظام خلافت......صفحه ۳۸ ،۳۹، از ڈاکٹر اسرار احمد )

Page 300

۲۸۴) یعنی آپ اسے معزول کر دیتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ وہ مسلط رہے گا اور ان کا الیکشن ا کارت جائے گا اور چار پانچ سال کی ٹرم کی تعین بھی بھاڑ میں جائے گی.کہتے ہیں کہ تادم مرگ خلیفہ رہنا آپ پر واجب نہیں کیا گیا کیونکہ ایک ٹرم معین کر دینا حرام نہیں ہے.یہاں سوال حلال و حرام کا نہیں.سوال یہ ہے کہ کسی کو اختیار کس نے دیا ہے کہ خلیفہ بنائے یا اسے معزول کرنے کے فیصلے کرے یا اس کی خلافت کے دورانیہ کو معین کرے.خلافت کے اوپر مزید کسی سُپر خلیفہ کا تصور اسلام میں تو نہیں پایا جاتا ، ڈاکٹر صاحب موصوف نہ جانے کس دین کی باتیں کرتے ہیں؟ خدا تعالیٰ کے فرمودات کے مطابق یہ صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ کب ، کہاں، اور رکن میں خلافت قائم کرتا ہے اور کس کو خلیفہ بناتا ہے.یہ اختیارات خدا تعالیٰ نے کسی اور کو نہیں دیئے.خدا تعالیٰ جب کسی کو خلافت علی منہاج النبوۃ کے منصب پر متمکن فرماتا ہے تو پھر اس پر کی مرضی کے آگے کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ دم مار سکے دنیا کی کوئی طاقت خلیفہ وقت سے خلعت خلافت نہیں چھین سکتی.جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ خلافت کی مسند سے اتر جائیں تو آپ نے خدا تعالیٰ کے جلال کی پناہ میں آتے ہوئے ، منصب خلافت کی ایک بنیادی شرط کو واضح کرتے ہوئے فرمایا : مَا كُنْتُ لَا خُلَعَ سِرْبَالًا سَرْ بَلَنِيْهِ اللَّهُ تَعَالَى 66 کہ میں وہ ردائے خلافت کس طرح اتار سکتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے.یعنی جو منصب خدا تعالیٰ کا عطا کردہ ہے اسے چھوڑنے کا حق خود ا سے ہے جسے وہ منصب عطا کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی اور طاقت اسے معزول کر سکتی ہے.بہر حال خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلیفہ میں بناتا ہوں مگر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تعلی دیکھئے کہ کہتے ہیں کہ ہم نے طے کر لیا ہے کہ خلیفہ کے دور خلافت کی مدت چار یا پانچ سال ہے.

Page 301

۲۸۵ ہمیں اس سے سروکار نہیں کہ انہوں نے کیا الم غلم لکھا ہے.اعتراض اس بات پر ہے کہ بات خلافت علی منہاج النبوۃ کی کرتے ہیں لیکن جو تصو ر اس کا پیش کرتے ہیں وہ بالکل مسخ شدہ ہے اور کلیہ منافی تصورِ خلافت اسلامیہ ہے، جس میں ان کی اپنی ہوس اقتدار اور خود غرضی جھانکتی نظر آتی ہے.اب چوہدری رحمت علی صاحب کی بھی سنئے ، وہ فرماتے ہیں : منصب خلافت پر متمکن رہنے کی تین پانچ سال وغیرہ کی کوئی قید نہیں.خلیفہ دوہی صورتوں میں معزول و برخاست کیا جا سکتا ہے.ایک تو اس صورت میں کہ وہ قرآنی معیار اہلیت سے محروم ہو جائے اور دوسرے اس صورت میں کہ وہ ذاتی وجوہات کی بناء پر اس منصب جلیلہ کی ذمہ داریاں نبھانے سے خود معذرت کر لے.“ وو خلافت ہمارے جملہ مسائل کاحل، صفحه ۳۵، از رحمت علی ، چوہدری ) کوئی ان سے پوچھے کہ اگر ان کا نام نہاد خلیفہ قرآنی معیار اہلیت سے محروم ہوتا ہے تو اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ وہ معیار سے گر گیا ہو.غالبا یہ اختیار وہ خود اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں تا کہ اس خلیفہ کے اوپر وہ خود ایک Super خلیفہ کے طور پر بیٹھ جائیں کیونکہ معیار اہلیت سے محرومی کا فیصلہ کرنے والا بہر حال اس سے بالا اور اعلیٰ ہونا ضروری ہے جو اس سے بلند مقام پر فائز ہو.یہ الگ بحث ہے کہ خلیفہ سے بڑا یا نبی ہو سکتا ہے یا خدا تعالی....اور سوائے خدائے واحد و یگانہ کے خدائی مقام پر کوئی فائز نہیں ہو سکتا اور نبوت کے ہوتے ہوئے خلافت کا تصوّر نہیں ہوتا.خلافت کا قیام ہوتا ہی نبی کے وصال کے بعد ہے.اس لئے خلیفہ سے بڑا صرف خدا ہی ہوسکتا ہے.لیکن اصل سوال پھر اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ اگر وہ خلیفہ جو اُن کے لائحہ عمل کے مطابق ہنگاموں، جلوسوں ، گولیوں ، توڑ پھوڑ اور کشت وخون کے بعد بنے گا ، قرآنی معیار سے محروم بھی ہو جاتا ہے لیکن برضا و رغبت اس منصب سے ہٹنے کا نام بھی نہیں لیتا تو پھر !!! ہنگامے مارکٹائی توڑ پھوڑ قتل و غارت یعنی پھر اسی عمل کا اعادہ ہو گا جس کے لئے ڈاکٹر

Page 302

۲۸۶ اسرار احمد بڑے جذباتی ہو کر نعرہ زن ہوئے تھے کہ یہی لوگ باطل کے ساتھ ٹکرا جائیں ، میدان میں آکر منکرات کو چیلنج کریں اور اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں کہ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نه مال غنیمت کشور کشائی 66 نظام خلافت...صفحہ ۳۵ از ڈاکٹر اسرار احمد ) یہاں ایک دلچسپ بات یہ بھی نکل آئی کہ کل جس خلافت کو انہوں نے اللہ کی خلافت قرار دے کر قائم کیا تھا ، ٹرم پوری ہونے کے بعد اسے ہی باطل قرار دے دیا جائے گا اور اسی سے ٹکرانے کے لئے پھر اس جماعت کو اکسایا جائے گا.پس یہ عجیب خلافت ہے کہ ایک دفعہ اس کے قیام کے لئے عوام کو سڑکوں پر لایا جائے گا اور اسے اللہ کی خلافت قرار دے دینے کے بعد اس کی معزولی کے لئے انہی عوام کو صرف سڑکوں پر ہی نہیں لایا جائے گا بلکہ ان کے سینے بھی گولیاں سے چھلنی کئے جائیں گے.نتیجہ مائیں بیٹوں سے ، بہنیں بھائیوں سے اور بیویاں اپنے سہاگوں سے محروم ہو جائیں گی.معاشرہ اپاہج ہو جائے گا اور ان کی خلافت پھر بھی ” جیسی تیسی عارضی ہی رہے گی.

Page 303

۲۸۷ تحریکات قیام خلافت کی ناکامیوں کے دیگر اسباب قیام خلافت کے لئے اب جس نہج پر تحریکیں اٹھتی ہیں ، اسی طرح کی تحریکیں ماضی میں بھی اٹھتی رہی ہیں.وہ تحریکیں اور کوششیں بھی نا کامی کے بدنما داغ لئے ماضی کے دھندلکوں میں کھو گئیں.اور حالیہ تحریکیں بھی لازماً انہیں کے نقش قدم پر نامرادی کا شکار ہو کر تاریخ اسلام میں اپنے مزید بد نما داغ اور عبرت خیز نقوش چھوڑ جائیں گی.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تحریکیں انسانی سوچ کی اختراع ہیں.یہ تحریکیں سیاست کی سرزمین کی پیداوار ہیں.وہ خلافت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم ہوتی ہے اس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَيَستَخلِفَنَّهُم کہ اللہ تعالیٰ تم میں خلافت قائم کرے گا یعنی کسی تحریک یا سیاسی عمل کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ خلافت کو قائم کر سکے خدا تعالیٰ کی خلافت ، خلافت علی منہاج النبوة ، نبوت کے ذریعہ قلوب مومنین پر اترتی ہے اور ایمان اور اعمال صالحہ کے پانی سے اس کی آبیاری کی جاتی ہے.کوئی خلافت جو خلافت حقہ کی سرزمین کے علاوہ کسی اور جگہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے وہ ن لَيَستَخلِفَنَّهُم کی مصداق قرار پاتی ہے نہ ہی اس کی آبیاری ایمان اور اعمال صالحہ کے پانی سے کی جانی ممکن ہے.سیاسی عمل اور ووٹوں کے ذریعہ کسی کو سر براہ مقرر کر کے اس کے منصب کو خلافت قرار دینا دین کے منافی ، ایک احمقانہ جسارت ہے.پس خلافت کے قیام کے لئے یہ سر گرم تحریکیں اس لئے ناکام رہیں گی کیونکہ نہ ان کے سر پر لَيَستَخلِفَنَّهُم کی چھتری ہے اور نہ ہی یہ موت کی نہج پر ہیں.یہ بھی قطعی بات ہے کہ الہی منشاء کے بغیر سیاست و ملوکیت کبھی بھی لَيَستَخلِفَنَّهُم کا مصداق نہیں ہو سکتیں.اس لئے ان لوگوں کا خلافت کے نام پر دینی و روحانی کامیابیوں کی راہوں کو تلاش کرنا امر محال اور سعی لا حاصل ہے.ان تحریکوں کی ناکامی کی دوسری وجہ ویسی ہی ہے جس کا ذکر مجملاً اوپر گزر چکا ہے

Page 304

۲۸۸ کہ خلافت کے لئے نبوت کی سرزمین درکار ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : مَا كَانَتْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَبِعَتْهَا خِلَافَةٌ کہ کوئی ایسی نبوت نہیں جس کے بعد خلافت کا نظام نہ جاری ہوا ہو.یعنی اس حدیث کا مال ہے کہ ممکن نہیں کہ نبوت کے بغیر کبھی بھی خلافت جاری ہو.چنانچہ آپ کو تا ریخ عالم میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام کہیں بھی نبوت کے بغیر نہیں ملے گا.اس لئے اگر کوئی تحریک خلافت کے قیام کے لئے سنجیدہ ہے تو اس کے لئے تو اس لائحہ عمل کی پیروی ضروری ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے.یعنی خلافت سے پہلے نبوت کو ماننا ضروری ہے.قرآن کریم اور آنحضرت ام کی پیشگوئیوں کے مطابق دورِ حاضر میں خلافت کا قیام ایک الہی منشاء تھا.دینِ مصطفیٰ کو اس کی اشد ضرورت تھی.اسی لئے اللہ نے اس زمانہ میں مسیح موعود و مہدی معہود کی آمد مقدر فرمائی تھی اور اسے نبوت کے مقام پر سرفراز فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نبی قرار دیا اس پر ایمان لانا اور اس کی بیعت کرنالازم ٹھہرایا ہے.پھر اس کے بعد خدا تعالیٰ نے اس کی جماعت میں خلافت علی منہاج النبوة کا سلسلہ جاری فرمایا ہے.پس خدا تعالیٰ کی یہ قطعی تقدیر ہے کہ اس خلافت کے علاوہ دنیا میں اور کوئی خلافت قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ یہی ایک خلافت ہے جو مَا كَانَتْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَبَعَتْهَا خِلَافَةٌ کے مطابق قائم ہوئی ہے.خدا تعالیٰ اس کی نصرت فرماتا ہے.اس میں وہ تمام علامتیں اور صفات خلافت حقہ کی موجود ہیں جو قرآن کریم نے اس کے لئے ضروری قرار دی ہیں.پس یہی وہ خلافت ہے جو اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے قائم فرمائی ہے اور یہی وہ خلافت حقہ اسلامیہ احمد یہ ہے جس کی صداقت کو نبوت کی صداقت کے معیار پر پرکھا جا سکتا ہے.یہی وہ خلافت ہے جو معیار صداقت نبوت إِنَّا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْأَشْهَادُ ( کہ ہم یقیناً اپنے رسولوں کی اور ان پر ایمان لانے والوں کی اس دنیا میں بھی اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے نصرت کرتے ہیں (المومن : ۵۲ ) ) کے تحت خدا

Page 305

۲۸۹ تعالیٰ سے تائید و نصرت حاصل کرتی ہے.لہذا اگر کوئی خلافت قائم کرنے کا متمنی ہے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ پہلے کوئی نبوت قائم کرے تا کہ پھر اس نبوت کی زمین پر خلافت کا قیام ہو سکے.لیکن اسے اس کے لئے اپنی ” ختم نبوت کی نام نہاد تشریح تبدیل کرنی پڑے گی.پس خلافت کا قیام ایک ایسا مسئلہ ہے جو اُن لوگوں کے لئے ایک زبر دست عملی اور اعتقادی الجھاؤ رکھتا ہے ، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو چھوڑ کر خو د خلافت کے قیام کی ترکیبیں سوچتے ہیں.یہاں یہ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی سرزمین پرنئی خلافت قائم کر رہے ہیں اس لئے کسی نبوت کی ضرورت نہیں.بظا ہر تو یہ بات معقول اور بہت بھلی نظر آتی ہے لیکن اس کا بطن سخت فتیح اور بھیا نک ہے کیونکہ اس کا آخری نتیجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا.اگر کسی میں یہ طاقت ہوتی اور وہ اس قابل ہوتا کہ آخری زمانہ میں خلافت علی منہاج النبوۃ قائم کر سکتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی پیشگوئی فرماتے نہ کہ نبی اللہ مسیح و مہدی کی آمد کی.جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم فرمودہ کھلے کھلے اور غیر مبہم لائحہ عمل سے روگردانی کرتے ہوئے کوئی خود ساختہ لائحہ عمل تجویز کرتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کھلا کھلا نافرمان ہے.وہ ایک طرف اس بچے مسیح و مہدی کا انکار کر کے نافرمانی کر رہا ہے تو دوسری طرف نیا لائحہ عمل تجویز کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے اور تیسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے مقابل پر اپنی بھری ، بودی اور احمقانہ تجاویز پیش کرتا ہے.الغرض اس طرح خلافت نہ کبھی قائم ہوئی ہے، نہ قائم ہو سکتی ہے.جو طریقہ خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اور جو لائحہ عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے ،صرف وہی قابل عمل ہے اور اسی کے مطابق خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں نبوت کے ذریعہ خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کا قیام فرمایا ہے اس کے علاوہ کسی اور خلافت کا قیام بہر حال ناممکن ہے.جو تحریک اور جو سیاست کسی نام نہا دخلافت کے قیام کے لئے اٹھے گی ، خدا تعالیٰ کے قول اور اس کے فعل سے متصادم ہوگی.

Page 306

اس لئے یقیناً ناکام و نا مراد ہوگی.ان تحریکوں کی ناکامی کی تیسری وجہ اس بات پر غور کرنے سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ تحریکیں بظا ہر اس لئے اٹھتی ہیں کہ احیائے اسلام اور نفاذ وغلبہ اسلام ممکن ہو.سوال یہ ہے کہ یہ نفاذ و غلبہ اسلام کون کرے گا ؟...امت جو اس قدر تفرقہ و انتشار کا شکار ہے کہ بکھر کر ریزہ ریزہ ہو چکی ہے.امت کی اس حالت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حسب ذیل پیشگوئی اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ اظہر من الشمس کر رہی ہے.چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے : قَالَ رَسُوْلُ اللهُ : لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقْتَ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَ سَبْعِيْنَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِى النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوْا : مَنْ هِيَ يَارَسُوْلَ اللهِ ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي “ ( ترمذی کتاب الایمان باب افتراق هذه الامتة و ابن ماجہ کتاب الفتن باب افتراق الامم ) ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت پر بھی وہ حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے جن میں ایسی مطابقت ہوگی جیسے ایک پاؤں کے جوتے کی دوسرے پاؤں کے جوتے سے ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی اپنی ماں سے برا کرے گا....تو میری امت میں سے بھی کوئی ایسا بد بخت نکل آئے گا.بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی.لیکن ایک فرقہ کے سوا باقی آگ میں ہوں گے.صحابہ نے پوچھا یہ ( ناجی ) فرقہ کونسا ہے تو حضور نے فرمایا وہ فرقہ جو میری اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل پیرا ہو گا.زمانہ گواہ ہے کہ اس پیشگوئی کا ایک ایک حرف اپنی پوری صداقت کے ساتھ سچا ثابت

Page 307

* ۲۹۱ * * ہو کر ظاہر ہو چکا ہے.چنانچہ امت کی حالت یہ ہے کہ اس کے تمام فرقوں میں شریعت کی تشریح اور عقائد کے اختلافات کی ایسی وسیع خلیج موجود ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک مکتبہ فکر کا خلیفہ مقرر کر بھی دیا جائے تو دوسرے مکتبہ فکر کے مسلمانوں کو اپنے بنیادی اور اصولی عقائد کی وجہ سے اس کا انکار لازم ٹھہرتا ہے.یہ ان کے شرعی مسائل میں سے بنیادی مسئلہ ہے.مثلا بریلوی فرقہ میں کوئی خلیفہ مقرر ہو تو واضح رہے کہ وہ لوگ آنحضرت گو خدا کا درجہ دیتے ہیں.شمع توحید صفحه ۵ از مولوی ثناء اللہ امرتسری) خدا کے علاوہ بزرگوں کو مشکل کشا سمجھتے ہیں اور مدد مانگتے ہیں.(انوار الصوفیہ صفحہ ۳۲.مطبوعہ لا ہور ، اگست وہ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ آنحضرت کو عرش تک سید عبد القادر جیلانی نے پہنچایا.681910 گلدسته کرامات صفحه ۱۸) سید جماعت علی شاہ کو حضور کے برا برسیدوں کے سید.مظہر خدا.نور خدا.شاہ لولاک پھر وہ اپنے رہنما اور ہادی کل قرار دیتے ہیں.(انوار الصوفیہ ،شمارہ ستمبر ۱۹۱۱ء ، صفحہ ۷ او تمبر ۱۹۱۳ء ، صفحہ ۱۵ و جولائی ۱۹۱۲ء ، صفحہ ۸.مطبوعہ لاہور ) پس اگر کوئی ایسا خلیفہ قائم ہو جائے جو بریلوی عقائد کا پابند ہو تو دیگر فرقے اپنے عقائد کی رُو سے شرعا اس کا نہ صرف انکار کریں گے بلکہ اسے باطل قرار دینے پر مجبور ہوں گے.اسی طرح اگر دیوبندیوں میں سے کوئی خلیفہ مسلط ہو جائے تو دیوبندیوں کے ان عقائد کی وجہ سے کہ وہ خدا تعالیٰ کو جھوٹ بولنے پر قادر سمجھتے ہیں.(فتاوی رشیدیه در دیوبندی مذہب، حصہ اول صفحه ۱۹ از غلام مہر علی شاہ گولڑوی)

Page 308

۲۹۲ * * * * آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علم بچوں ، مجنونوں اور جانوروں کے علم برابر سمجھتے ہیں.شیطان کا علم حضور علیہ السلام سے وسیع تر تھا.( حفظ الایمان صفحہ ۹.از اشرف علی تھانوی.دیو بند ) ( براہین قاطعہ صفحه ۵۱، (مصدقہ رشید احمد گنگوہی ) از خلیل احمد ) حاجی امداداللہ صاحب کو رحمۃ للعالمین کہتے ہیں.(افاضات الیومیہ، جلد ۱ صفحہ ۱۰۵، از اشرف علی تھانوی) مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی بانی اسلام کے ثانی ہیں.ماں کے ساتھ زنا عقلا جائز سمجھتے ہیں.66 (مرثیه از محمود الحسن) (افاضات الیومیہ، جلد ۲ ، از اشرف علی تھانوی) ظاہر ہے کہ یہ عقائد ایسے ہیں کہ ہر دوسرا فرقہ ان عقائد کو مردود قرار دے گا اور ان عقائد کے کار بند خلیفہ کو اپنے عقائد کی رُو سے ” شرعاً جھوٹا قرار دینے پر مجبور ہوگا.اسی طرح اگر جماعت اسلامی یا اس کی متعلقہ جماعتوں میں سے کوئی خلیفہ بنے کا دعویدارا ٹھے تو ان عقائد کی وجہ سے کہ آنحضرت نے قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کر دیا.آنحضرت م وعظ وتلقین میں ناکام رہے.( حقیقت جہاد.صفحہ ۶۵ از سید ابوالاعلیٰ مودودی) " الجہاد فی الاسلام صفحہ ۱۷۳ - ۱۷۴، از سید ابوالاعلیٰ مودودی) فرشتے تقریب وہی چیز ہیں جس کو ہندوستان میں دیوی دیوتا قرار دیتے ہیں.“ (تجدید و احیائے دین.صفحہ ۱۰ طبع چہارم از سید ابوالاعلیٰ مودودی ) قرآن مجید میں نہ تصنیفی ترتیب پائی جاتی ہے نہ کتابی اسلوب“ (تفہیم القرآن ، دیباچه صفحه ۲۵ از سید ابوالاعلیٰ مودودی) 66 حضرت ابوبکر صدیق سے غلطیاں صادر ہوئیں.“

Page 309

۲۹۳ * غلطی ہے.حضرت عمرؓ کے قلب سے جذ بہا کا بر پرستی محو نہ ہو سکا.“ (ترجمان القرآن.جلد ۳۳، صفحه ۲) ترجمان القرآن - جلد ۱۲ عدد ۴ صفحه ۲۹۵ بحوالہ مودودیت کا پوسٹمارٹم صفحہ ۳۸) آنحضرت ام سے لے کر مصطفیٰ کمال تک کی تاریخ کو اسلامی کہنا مسلمانوں کی (ترجمان القرآن.جلد ۲، نمبر ۱ ، صفحہ ۷) مودودی صاحب کی جماعت سے اگر کوئی شخص بطور خلیفہ مقرر کیا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ہر دوسرا فرقہ اس کے ان مذکورہ بالا عقائد پر تخف کرتے ہوئے اسے رد کر دے گا.اسی طرح اگر شیعہ مذہب میں سے کوئی منصب خلافت کا علمبر دار اٹھے تو اہلِ سنت کے سب فرقے اسے نہ ماننے پر شرعاً ، مجبور ہوں گے کیونکہ خلفائے ثلاثہ " کی تو ہین اہل تشیع کے بنیادی عقائد میں داخل ہے نیز وہ یہ بھی عقیدے رکھتے ہیں.* * * * و, حضرت علی خدا ہیں.“ " حضرت علیؓ خدا ہیں اور محمد اس کے بندے ہیں.“ " حضرت علی فرزند خدا ہیں.“ ( تذکرة الائمہ - صفحہ (۹) مناقب مرتضوی حیات القلوب - جلد ۲ ، باب (۴۹) " قرآن در اصل حضرت علی کی طرف نازل ہوا.“ 66 حضرت علی جمیع انبیاء سے افضل ہیں.“ (رساله نورتن - صفحہ ۲۶) (رساله نورتن - صفحہ ۳۷) (غنیۃ الطالبین اور حق الیقین مجلسی.باب ۵) اگر حضرت علی شب معراج میں نہ ہوتے تو حضرت محمد رسول اللہ کی ذرہ قدر بھی نہ ہوتی.“ 66 (جلاء العیون مجلسی از خلافت شیخین صفحه ۱۷)

Page 310

۲۹۴ پس امت میں عقائد کا اختلاف اور ان کی تشریحات میں اس حد تک غلو پایا جاتا ہے کہ کسی ایک فرقہ یا مکتب فکر میں قائم ہونے والا خلیفہ دوسرے فرقہ کی نظر میں لازماً باطل اور جھوٹ ٹھہرتا ہے اور اسی غبار کے اندر امت کو خلافت کے نظام میں پرونے کا تصوّ ردھندلا جاتا ہے.امت میں افتراق و انتشار کی یہ صورت خود ایک ایسے وجود کا تقاضا کرتی ہے جو خدا کی طرف سے حکم و عدل بن کر سب کے عقائد درست کرے، ان کے درمیان توازن قائم کرے اور شریعت کی تشریح اور اس پر عمل کو دوبارہ حضرت محمد مصطفی میں ہم سے جا ملائے.امت ایسے رجل کی متلاشی ہے جو اس کے لئے ایمان کو ثریا سے اتا رلائے.امت کا عقائد و نظریات میں اختلاف اور اس کی بناء پر اس کا نتز ل وا د بار یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ جری اللہ آئے جو اس کی بگڑی بنا دے.چنانچہ ہم جب اس مسئلہ کے حل کے لئے آنحضرت ﷺ کی طرف رجوع کریں تو ہمیں علم ہوتا ہے آپ بڑے واضح رنگ میں یہ بیان فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں مسیح و مہدی کا نزول ہوگا جو قتل دجال اور کسر صلیب کا کام کرے گا اور وہ اسی زمانہ کے لئے امام ہوگا جو حکم و عدل بن کر قیام شریعت واحیائے اسلام کا کام کرے گا.پیشگوئیوں کے مطابق یہ سب کام اس مسیح کے ہیں جس نے مہدی بن کر نبوت کے مقام پر فائز ہو کر آنا تھا.اس کے علاوہ یہ اور کسی کے بس کی بات نہیں تھی.چنانچہ آنحضرت لم نے قتل دجال و یا جوج و ماجوج کے سلسلہ میں فرمایا : لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِم“ ( صحیح مسلم.کتاب الفتن ، باب ذکر الدجال وصفته و ما معه ) کہ سوائے مسیح کے کسی اور میں طاقت نہیں کہ ان کا مقابلہ کر سکے اور ان کو قتل کر سکے.چنانچہ فرمایا : لَيَنْزِ لَنَّ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَما عَدَلَا فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيْبَ وَلَيَقْتُلَنَّ الخِنْزِير وَلَيَضَعَنَّ الجِزْيَةَ...(صحیح مسلم کتاب الایمان )

Page 311

۲۹۵ کہ یقینا تم میں ابن مریم کا نزول ہوگا اس حال میں کہ وہ حکم عدل ہوگا وہ صلیب کو پاش پاش کرے گا، خنزیر کو قتل کرے گا اور جزیہ کو اٹھا دے گا.نیز فرمایا : يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يُلْقَى عِيْسَى بْنَ مَرْيَمَ إِمَاماً مَهْدِيّاً ( مسند احمد ، جلد ۲ روایت ابوھریرہ) کہ تم عیسی بن مریم سے اس حال میں ملو گے کہ وہ امام اور مہدی ہوں گے.پس آنحضرت ﷺ کی جناب سے یہ سب کام تو مسیح موعود و مہدی معہود کے سپر د کئے گئے ہیں جسے خود خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا.یہ کام نہ تو کوئی تحریک سرانجام دے سکتی ہے اور نہ کوئی سیاسی عمل.ظاہر ہے کہ کوئی مفکر یا مد تبر خدا تعالیٰ کی تدبیر سے تو بہتر تدبیر نہیں کرسکتا.پس جو کوئی بھی خدا تعالیٰ کی تدبیر کے مقابل پر کھڑا ہوگا وہ ناکام و نامراد ہی نہیں ، اس سے متصادم ہونے کی وجہ سے پاش پاش ہو جائے گا.دنیا کی سب طاقتیں مل کر بھی خدا تعالیٰ کی تقدیر کا مقابلہ نہیں کرسکتیں.تو ان کٹھ پتلی تحریکوں کی کیا حیثیت ہے جو خلافت کے قیام کے لئے سرگرمِ عمل ہوتی ہیں؟ اس زمانہ کے مامور مسیح و مہدی کی خلافت ، خدا تعالیٰ کی قائم کردہ خلافت ہے اور اس کی تقدیر کا ہاتھ اس کی تائید پر مامور ہے.جبکہ اس کے برعکس ان نئی تحریکوں کی ناکامی تقدیر الہی کا ایک حصہ ہے جس میں ایک ذرہ بھی شک نہیں.یہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت ہی تھی کہ جس نے خلافت کے ذریعہ مسیح و مہدی کی جماعت کو دین کے لئے ایسے عظیم الشان کارنامے سرانجام دینے کی توفیق دی جو چودہ سو سال میں امت کے تمام فرقوں کو مجموعی طور پر بھی ان کی توفیق نہیں ملی.باوجود اس کے کہ ان کے ساتھ حکومتوں، بادشاہتوں اور دنیاوی طاقتوں کے بہت بڑے بڑے سہارے موجود تھے.خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ خلافت کے زیر سایہ جماعت احمد یہ اب تک ۵۵ سے زائد بڑی بڑی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کر چکی ہے.مزید ۱۳ زبانوں میں تراجم ہو رہے ہیں اور ۱۲۰ زبانوں میں قرآن کریم کے مختلف مضامین پر مشتمل آیات کے تراجم قوموں تک پہنچائے جاچکے ہیں.اسی طرح ۱۲۰ زبانوں میں منتخب

Page 312

۲۹۶ احادیث کے مجموعے قوموں تک پہنچائے جاچکے ہیں.طبی خدمت کے لئے افریقہ اور بعض دوسرے ممالک میں جماعت احمدیہ کے قائم کردہ ۳۰ سے زائد ہسپتال کام کر رہے ہیں.تعلیمی خدمت کے لئے ساڑھے تین سو سے زائد سکول جاری کئے.عبادت کے قیام کے لئے مختلف ممالک میں دو ہزار سے زائد مساجد بنائی گئی ہیں.دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں قرآن کریم ، حدیث و سنتِ رسول اور دینی علوم پر مشتمل یکصد سے اوپر رسائل و اخبارات جاری ہیں.ساری دنیا میں روزانہ سٹیلائٹ کے ذریعہ ۲۴ گھنٹے مختلف زبانوں میں اسلام کا پیغام پہنچایا جا رہا ہے.جماعت احمد یہ یہ سب کام اور اس طرح کے اور کام جو خدمت دین کی فہرست میں آتے ہیں.خلافت کے زیر سایہ جماعت احمد یہ شب و روز سر انجام دے رہی ہے اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں مختلف ممالک واقوام سے لوگ اس میں داخل ہورہے ہیں.اب کوئی اور بے بنیاد اور عرفان و فیض سے عاری خلافت کس طرح یہ کام کر سکتی ہے جو صرف عرفان و فیض سے ہی عاری نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے نظام میں مردود و متروک ہے.ہاں ایسی نئی تحریک اسلام کے نام پر فتنوں اور تخریب کاریوں کی بنیادیں تو ڈال سکتی ہے، احیائے اسلام اور اسلام کا غلبہ و نفاذ کا کام نہیں کر سکتی.کیونکہ یہ نہ تو اس کا کام ہے اور نہ ہی اس کے بس کی بات.جس مسیح و مہدی کا یہ کام تھا، خدا تعالیٰ نے اسے اپنے وعدوں کے مطابق بھیج کر اس کے ذریعہ وہ نظام قائم کر دیا جو نفاذ و غلبہ اسلام اور اس کے احیاء کا کام کر رہا ہے.وہ نظام ، خلافت على منهاج النبوة ، خلافت حقہ اسلامیہ احمد یہ ہے.پس آؤ لوگو کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے لو تمہیں طو ر تسلی کا بتایا ہم نے

Page 313

۲۹۷ خلافت الهیه ملک روحانی کی شاہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ملک سے مجھ کو نہیں مطلب نہ جنگوں سے ہے کام کام ہے میرا دلوں کو فتح کرنا ئے دیار مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تا جوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں آسماں پر رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار ملک روحانی کی شاہی کی نہیں کوئی نظیر گو بہت دنیا میں گزرے ہیں امیر و تاجدار حضرت خلیفہ المسح الثانی فرماتے ہیں : ( در همین صفحه ۱۴۰ مطبوعہ لندن ) اگر کوئی کسی نبی کا کام کرتا ہے تو وہ اس نبی کا خلیفہ ہے.اگر خدا نے نبی کو بادشاہت اور حکومت دی ہے تو خلیفہ کے پاس بھی بادشاہت ہونی چاہئے اور خدا خلیفہ کوضرور حکومت دے گا.اور اگر نبی کے پاس ہی حکومت نہ ہو تو خلیفہ کہاں سے لائے.آنحضرت مریم کو چونکہ خدا تعالیٰ نے دونوں چیزیں یعنی روحانی اور جسمانی حکومتیں دی تھیں اس لئے ان کے خلیفہ کے پاس بھی دونوں چیزیں تھیں.لیکن اب جبکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو حکومت نہیں دی تو اس کا خلیفہ کس سے لڑتا پھرے کہ مجھے حکومت دو.ایسا

Page 314

۲۹۸ اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر غور نہیں کیا.“ برکات خلافت - انوار العلوم جلد ۲ صفحه ۱۶۰،۱۵۹) ہاں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ خلیفہ اپنے پیش رو کے کام کی نگرانی کے لئے ہوتا ہے.اسی لئے آنحضرت ام کے خلفاء ملک و دین دونوں کی حفاظت پر مامور تھے کیونکہ آنحضرت سلیم کو اللہ تعالی نے دینی اور دنیاوی دونوں بادشاہتیں دی تھیں لیکن مسیح موعود جس کے ذریعہ آنحضرت ام کا جمالی ظہور ہوا صرف دینی بادشاہ تھا اس لئے اس کے خلفاء بھی اسی طرز کے ہوں گے.“ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۳) مسلمانوں کا عام تصوّرِ خلافت یہ ہے کہ خلافت ایک ایسی طرزحکومت یا نظام حاکمیت ہے کہ گل عالم اسلام کی مملکتیں اس کے زیر نگین آکر ایک مملکت کی حیثیت اختیار کر لیں.خلیفہ المسلمین ایک حکمران کی صورت میں ان پر حاکم ہو اور اس کا خلیفہ بنایا اس کا اس منصب کو خیر باد کہنا اس کے یا لوگوں کے اختیار میں ہو.وغیرہ وغیرہ ظاہر ہے یہ تصورِ خلافت نہیں تصویر حاکمیت ہے یا خواہش حکمرانی، جو آنحضرت کم کی منشائے خلافت کے منافی اور اسلامی تصوّ رو نظام خلافت سے متصادم ہے.اسلامی نظامِ خلافت نبوت کی تیار کردہ جماعت میں قائم ہوتا ہے اور نبوت کی نہج پر قائم ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ نے ایسے ہی نظام خلافت کی پیشگوئی فرمائی تھی جو مسیح و مہدی کی موت کے بعد قائم ہونا تھا.قرآن کریم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کام لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِه بیان ہوا ہے.چنانچہ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ غلبہ برادیان باطلہ عِنْدَ خُرُوجِ الْمَهْدِى اور عِنْدَ نُزُولِ عِيْسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ ہے.قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ ظاہری سلطنت کوکوئی بقا نہیں.روحانی بادشاہت ہے جو دوام رکھتی ہے.آنحضرت سلیم کے بعد خلفائے راشدین کی خلافت آپ ہی کی پیشگوئیوں کے مطابق

Page 315

۲۹۹ محدود المیعاد تھی.آپ نے اس کا عرصہ میں سال بتایا تھا.چونکہ آپ گو نبوت کے ساتھ حکومت بھی عطا ہوئی تھی اس لئے آپ کے بعد خلافت بھی اسی نہج پر تھی یعنی اس کے ساتھ حکمرانی بھی تھی اور نبوت کی تا شیر خلافت کی صورت میں تھی.اس کے خلاف جتنی بھی سازشیں اور منافقتیں ہوئیں وہ بنیادی طور پر سیاسی نوعیت کی تھیں.چونکہ سیاسی بنیاد پر اس خلافت کی مخالفتیں ہوئیں اس لئے آنحضرت میم نے اس کے بعد سیاست پر مبنی ملوکیت کے دور کی پیشگوئی فرمائی تو اس کے ساتھ خلافت حقہ کو نہیں باندھا.ظلم و جور والی اس ملوکیت کے اختتام پر پھر خلافت علی منہاج النبوۃ کی پیشگوئی فرمائی تو اس کے ساتھ بادشاہت کو نہیں باندھا اور نہ ہی آپ نے اس خلافت کی کوئی حد بندی فرمائی.جہانتک آنحضرت یہ کے فیض اور روحانی تأثیرات کا تعلق ہے تو اس کا سلسلہ آپ کی امت میں صلحاء، اولیاء، مجد دین اور ائمہ کے ذریعہ جاری رہا.یعنی ان معنوں میں آپ کی روحانی خلافت ختم نہیں ہوئی.وہ کسی نہ کسی رنگ میں جاری رہی لیکن ظاہری سلطنت کا رُخ بدلا تو وہ بدلتے بدلتے کالعدم ہوگئی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کا سبق امت پر سورۃ سبا آیت ۱۵ میں حضرت سلیمان کے بیٹے کی مثال دے کر واضح فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ ظاہری مملکتیں تو پلک جھپکتے ختم ہو جاتی ہیں.ایک نسل کے بدلنے سے ہی ان کا سماں بدل جاتا ہے.حضرت سلیمان کو اپنے باپ حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح دونوں چیزیں وراثت میں ملی تھیں یعنی نبوت اور بادشاہت.مگر آپ کا بیٹا چونکہ دنیا کا کیڑا تھا اس لئے اس کی توجہ بادشاہت اور ظاہری شان و شوکت کی طرف تھی.جب اسے سلطنت ملی تو چونکہ وہ دابتہ الارض تھا لہذا ظاہری بادشاہت حکومت اور دولت کو بھی کھا گیا.اُس سے غلبہ چھن گیا اور رفتہ رفتہ ان پر دوسری قومیں حکمران بن گئیں.پس یہ حال ان ظاہری مملکتوں کا ہے جن کے تذکروں سے خدا تعالیٰ امت کو سبق دیتا ہے.اسلام چونکہ ایک ازلی صداقت ہے اور اس کا سفر ابد تک ہے اس لئے اس کا اظہار اسی طریق پر مقدر ہے جو سچا، بر حق اور قائم رہنے والا ہے اور وہ طریق خلافت کا دائگی نظام ہے جس کا قیام نبوت کی سرزمین پر اگتا ہے.یہی ملک روحانی کی بادشاہی ہے اور رضوانِ یار کی حکومت ہے جس کی

Page 316

آماجگاہ اور زمین تمام روئے زمین پر پھیلے ہوئے دل ہیں.یہ کسی ایک ملک یا خطہ پر محدود نہیں.یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کے ذریعہ مقد رہے.آپ فرماتے ہیں: قبضہ تقدیر میں دل ہیں اگر چاہے خدا پھیر دے میری طرف آجائیں پھر بے اختیار انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں اور ان کا پھیرنا بھی اسی کے اختیار میں ہے اس لئے آپ نے اس کے لئے دعاؤں اور دعاؤں اور پھر دعاؤں کی طرف توجہ دلائی اور آپ کے مقدس خلفاء بار بار اور مسلسل اپنی جماعت کو اسی حربہ کو تھامنے کی تلقین و تاکید کرتے ہیں.پس یہی وہ روحانی ہتھیار ہے جو خلافتِ روحانی کی بنیاد اور اساس ہے جو سیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں موجود ہے لیکن دیگر جماعتوں اور تنظیموں میں مفقود ہے.

Page 317

طاعت روف

Page 318

مندرجات ” معروف“ اور ” غیر معروف“ کی بحث ” معروف“ کا متضاد منکر ہے ” معروف“ کا متضاد ” معصیۃ اللہ ہے طاعت در معروف میں آنحضرت ام کی بیعت ایک اور پہلو معروف کی شرط کیوں

Page 319

طاعت در معروف رسول اللہ مریم کی بیعت کی ایک شرط "...لَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ (المتحہ:۱۳) وہ معروف امور میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ایک شرط یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت با قرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تاوقت مرگ قائم رہے گا...66 خلافت کے ساتھ عہد 66 " خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے ، اس کی یا بندی کرنی ضروری سمجھوں گا.“ ☆{☆}☆ ” معروف“ اور ” غیر معروف“ کی بحث خلیفہ وقت کے احکام، فیصلوں یا ارشادات پر ایک بحث یہ اٹھائی جاتی ہے کہ وہ معروف ہیں یا غیر معروف ہیں.ایسی بحث اٹھانے والے اس کی آڑ میں اپنے ایمان کی دیوار میں نافرمانی اور عدم اطاعت کی دراڑ دیکھ کر اس میں سے ایسی حالت میں نکل رہے ہوتے ہیں کہ عین اسی وقت اپنے آپ کو نظام خلافت کا حصہ بھی شمار کر رہے ہوتے ہیں.ظاہر ہے کہ یہ بحث و مشخص نہیں کرتا جو بیعت کی روح سمجھتا ہے اور خلیفہ کی بیعت کرتے وقت اس کے ہاتھ میں اپنے پک جانے کی حقیقت جانتا ہے.یہ بھی ظاہر ہے کہ ایک احمدی صرف خلافت کی بیعت کے وقت ہی معروف فیصلوں کی

Page 320

اطاعت والے الفاظ بیعت نہیں دو ہرا تا بلکہ وہ خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عقد بیعت باندھتا ہے.طاعت در معروف“ کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بیعت کی شرائط میں لازم رکھے ہیں اور خلیفہ کی بیعت کے وقت وہ آپ ہی کی اتباع میں دو ہرائے جاتے ہیں.اگر خلیفہ وقت کے بارہ میں ایک بظاہر بیعت کنندہ یہ سوچتا ہے کہ اس کے فیصلوں میں بعض فیصلے غیر معروف بھی ہیں یا بالفاظ دیگر وہ اس کے فیصلوں کے معروف یا غیر معروف ہونے کے فیصلہ کا اختیار رکھتا ہے.اور اس اختیار کی بناء پر وہ یہ بھی حق رکھتا ہے کہ وہ بعض فیصلوں کو معروف ہونے کی وجہ سے مانے گا اور بعض پر غیر معروف کی مہر لگا کر انہیں رد کر دے گا تو یہ اس کی جاہلانہ سوچ ہے.ایسی سوچ بیعت کے بنیادی تصور کے خلاف اور اس سے متصادم ہے.اس سوچ کے ساتھ وہ صرف خلیفہ وقت کی بیعت سے ہی نکلنے کی جسارت نہیں کرتا بلکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے بھی نکل جاتا ہے.کیونکہ آپ کے ساتھ اس کا عقد بیعت بھی ” طاعت در معروف‘ کے الفاظ کے ساتھ بندھا ہوا تھا.یہ قصہ یہیں خلیفہ وقت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ختم نہیں ہو جا تا بلکہ اس کی تان آنحضرت ﷺ کے ساتھ عقد بیعت پر جا کر ٹوٹتی ہے.آپ جب بیعت لیتے تھے تو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق لفظ ” معروف کو شامل کر کے بیعت لیتے تھے.پس کیا اس شخص کا اختیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی نہیں، آنحضرت ﷺ کے فیصلوں پر بھی چلتا ہے؟ کیا وہ مختار ہے کہ وہ آپ کے بعض احکام کو معروف قرار دے کر مانے اور اور بعض کو غیر معروف قرار دے کر رڈ کر دے.نعوذ باللہ ایسا اختیار اسے اس کے عقد بیعت سے تو لازماً نکال دیتا ہے لیکن وہ ان احکام اور فیصلوں کو ہرگز غیر معروف نہیں کرسکتا.اگر یہ صورت ہو کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آنحضرت ﷺ کے فیصلوں پر معروف اور غیر معروف کا اختیار نہیں رکھتا یا آپ کے فیصلوں پر معروف اور غیر معروف کی بحث اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتا تو پھر سوال یہ ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے فیصلوں پر ایسا اختیار کس حق اور ہمت کی بناء پر

Page 321

۳۰۵ رکھتا ہے؟ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے نبی کے انکار کا اس میں حوصلہ نہیں ہے.کیونکہ اس کی وجہ سے اسے دائرہ احمدیت یا دائرہ اسلام سے نکلنا پڑتا ہے لیکن اس کا گمان ہے کہ خلیفہ وقت کا انکار شاید اسے دائرہ احمدیت سے نہیں نکال سکتا.یہ اس کی منافقت کی بنیاد ہے جس نے اباء کی کوکھ سے جنم لیا ہے.یہ ابا ء اس کی بیعت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیتی ہے.وہ با وجود اس کے کہ خود بیعت کنندہ ہے مگر اپنی اس اباء سے پھوٹی ہوئی کج سوچ کی بناء پر خود کو خلیفہ وقت کے اوپر ایک فیصلہ کن اختیار والا بنا بیٹھتا ہے.اور پھر استکبار سے خیال کر بیٹھتا ہے کہ خلیفہ وقت کو اس سے پوچھنا چاہئے کہ وہ جو فیصلہ یا حکم صادر کرنا چاہتے ہیں ، معروف کی ذیل میں آتا ہے یا نہیں ( نعوذ باللہ ).پس قرآنِ کریم میں بیان شدہ قصہ آدم کی روشنی میں یہ ایک منطقی نقشہ ہے جو اس شخص کی ایسی سوچ پر مرتب ہوتا ہے.اس سوچ کو دنیا کا ہر مذہب اور عقیدہ ہی نہیں قرآن کریم بھی مردود اور ابلیسی سوچ قرار دیتا ہے.جہانتک اس مسئلہ کے علمی اور اعتقادی پہلوؤں کا تعلق ہے تو ذیل میں اس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور وہ وجہ بیان کی گئی کہ جس کی بناء پر خدا تعالیٰ نے بیعت کو ” معروف“ سے مشروط کرنے کا تاکیدی حکم دیا تھا اور آنحضرت ﷺ نے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ” معروف“ کو عہد بیعت کے ساتھ لازم کیا تھا اور جس کی اتباع میں بیعت خلافت کے ساتھ بھی اسے لازم رکھا گیا ہے." معروف“ کا متضاد منکر ہے اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کے بارہ میں فرماتا ہے: " يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ (الاعراف: ام (۱۵۸) کہ آپ معروف کا حکم دیتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ مہاجر صحابہ کی بھی یہی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: الَّذِيْنَ اِنْ مَّكَنْهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَ اتَوُا الزَّكَوةَ وَ أَمَرُوْا بالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَن الْمُنْكَر “ ( لج : ۴۲) کہ انہیں اگر ہم زمین میں تمکنت عطا کریں تو وہ نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور (معروف یعنی ) نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بُری باتوں سے روکتے ہیں.

Page 322

اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ان صحابہ کے بارہ میں ہے جو ہجرت کر کے مدینہ آگئے تھے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے یہ آیت کریمہ بطور ایک سرٹیفکیٹ کے ہے کہ جب انہیں تمکنت ملے گی تو وہ معروف کا حکم دیں گے.وغیرہ وغیرہ.اللہ تعالیٰ نے انہی صحابہ میں سے خلفاء بھی قائم فرمائے.پس اس آیت کریمہ میں یہ واضح کیا گیا ہے نبی کے یہ پیروکار اس مقام پر فائز ہوں گے کہ وہ کوئی غیر معروف حکم نہیں دیں گے.ان کے علاوہ افرادِ امت بھی بکثرت ایسے ہیں کہ جو معروف کا حکم دیتے ہیں.اس مضمون کی وضاحت اس سے بھی ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے معروف کو منکر کے مقابل پر رکھا ہے.لفظ معروف کے معنی اچھائی اور نیکی کے ہیں اور منکر کے معنی ہیں بُرائی اور بدی.یعنی جو معروف ہے وہ منکر نہیں ہے اور جو منکر ہے وہ معروف نہیں ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ معروف کو منکر کے بالمقابل رکھتے ہوئے فرماتا ہے : " كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ (ال عمران:۱۱) کہ تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو.تم (معروف) اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو.اگر نبی ﷺ کے پیروکار معروف ہی کا حکم دیں گے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ان کا مطاع نبی م کوئی غیر معروف حکم دے.یعنی اسلام جب معروف کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا، نبی کریم م معروف کے سوا کوئی حکم نہیں دیتے ، مہاجر صحابہ معروف کے سوا کوئی حکم نہیں دیتے تو اسی اصل اور قاعدہ کے مطابق لازم ہے کہ خلیفہ راشد بھی معروف کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا.وہ نبی کے بعد امت میں سب سے بلند روحانی مقام پر فائز ہے.وہ اللہ اور نبی کے احکام کو ہی آگے چلاتا ہے.وہ ظلمی طور پر کمالات نبوت کا حامل ہے.وہ انوار رسالت اور برکات نبوت منعکس کرتا ہے.لہذا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ معروف کے سوا اور کوئی حکم دے.

Page 323

” معروف“ کا متضاد ” معصیۃ اللہ ہے ربیع الآخر ثہ کی بات ہے کہ آنحضرت لام کو یہ خبر لی کہ اہلِ حبشہ میں سے کچھ لوگ جدہ کے ساحل پر اترے ہیں.آپ نے حضرت علقمہ کو تین سو افراد کی کمان دے کر ان کی طرف بھجوایا.حبشیوں کو ان کی آمد کا علم ہوا تو وہ اپنی کشتیوں پر سوار ہو کر سمندر میں فرار ہو گئے.حضرت علقمہ نے ایک جزیرہ تک ان کا پیچھا کیا.حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں: ” میں بھی اس مہم میں اس لشکر کے ساتھ تھا.جب یہ مہم ختم ہوگئی تو بعض افراد نے مدینہ واپس جانے کی اجازت طلب کی.ان میں حضرت عبد اللہ بن حذافہ اسبھی بھی تھے.حضرت علقمہ نے ان کو ان واپس جانے والوں پر امیر مقرر کر دیا.حضرت عبد اللہ بن حذافہ کی طبیعت میں مزاح تھا.راستہ میں ایک جگہ انہوں نے کھانا پکانے کے لئے آگ جلائی.حضرت عبداللہ بن حذافہ کو مذاق سوجھا.آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: " کیا تم پر میری اطاعت فرض نہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ” کیوں نہیں.“ حضرت عبد اللہ نے کہا: ” پھر میں جو حکم دوں گا تم پر اس کا بجالا نا فرض ہوگا.انہوں نے کہا: ” بےشک.‘ آپ نے کہا کہ پھر میں تم پر اپنے اس حق اطاعت کی وجہ سے حکم دیتا ہوں کہ اس آگ میں کود پڑو.اس حکم کے بعد آپ نے دیکھا کہ ان میں سے بعض اس آگ میں کودنے کے لئے تیار ہورہے ہیں اور وہ ضرور اس میں کود پڑیں گے.آپ نے انہیں روکا اور کہا: ” میں تو تم لوگوں سے مذاق کر رہا تھا.“ جب ہم مدینہ پہنچے تو یہ تمام واقعہ آنحضرت سلم کی خدمت میں ذکر کیا گیا.آپ نے فرمایا: "مَنْ أَمَرَكُمْ مِنْهُمْ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا تُطِيعُوهُ " کہ اگر کوئی ایسا حکم دے جس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی لازم آتی ہو تو اس کی اطاعت نہ کرو.“ (ابن ماجہ کتاب الجہاد باب لا طاعتہ فی معصیۃ اللہ وزرقانی و ابن سعد بعث علقمہ بن حجر زالی الحسبة ) جب یہ واقعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا لَوْ دَخَلُواهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقَيَامَةِ الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ “ کہ اگر وہ اس (امیر کے اس حکم کو مان کر آگ ) میں اتر جاتے تو اس میں سے قیامت تک نہ نکل سکتے ، اطاعت صرف معروف میں لازم ہے.ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا : " لا

Page 324

طَاعَةً فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوْفِ “ کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے حکم میں اطاعت جائز نہیں ، اطاعت معروف میں لازم ہے.(تاریخ الخمیس بعث عالقمہ بن نجز زالی الحسبة ) یہاں آنحضرت ہم نے ” معروف کو معصیۃ اللہ کے مقابل پر رکھا ہے.یعنی وہ احکام یا فیصلے جو اللہ کی نافرمانی والے ہوں ، معروف نہیں ہیں یعنی ” معروف“ کا متضاد ” معصیۃ اللہ ہے.مذکورہ بالا واقعہ کے پیش نظر آنحضرت ہم نے فرمایا تھا: ” لَا طَاعَةً فِي مَعْصِيَةِ اللهِ إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ “ کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے حکم میں اطاعت جائز نہیں ،معروف میں اطاعت لازمی ہے.آپ نے اس فرمان میں ” معروف کو معصية الله “ کے مقابل پر رکھا ہے.یعنی جو معروف ہے وہ معصیة اللہ نہیں ہے اور معصیة اللہ کو معروف قرار نہیں دیا جا سکتا.پس منکر اور معصیۃ اللہ یعنی بُرائی اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے احکام کا صدور آپ سے ممکن ہی نہیں.اس لئے بیعت کرنے والے کو یہ اختیار تو ہے کہ وہ اپنی بیعت واپس لے لے یا آپ کی بیعت سے نکل جائے.لیکن بیعت میں رہتے ہوئے اسے آپ کے کسی حکم کی نافرمانی کا کوئی اختیار نہیں.یہ ویسے ہی نا معقول اور نا قابل قبول بات ہے کہ ایک شخص ایک طرف تو آپ کی بیعت کر رہا ہو اور پھر آپ کی کمزوریاں اور آپ کے عیوب بھی تلاش کر رہا ہو اور یہ نتیجے نکالنے کی کوشش کر رہا ہو کہ آپ کا کونسا حکم معروف تھا اور کونسا معروف نہیں تھا.وہ اس تاک میں ہو کہ وہ کس حکم کی تعمیل کرے اور کس کو غیر معروف قرار دے کر اس کی تعمیل سے انکار کر دے.اس کا منطقی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ ایسے لوگ عقد بیعت باندھ کر جس کو اپنا آقا ، مطاع اور مالک بناتے ہیں اور اس کی اطاعت کا جو اپنی گردن پر ڈالتے ہیں ، اس پر خود گم اور جج بننے لگتے ہیں.بیعت کے بنیادی تصور کی روشنی میں ان کا یہ عمل ان کی بیعت کو بے حقیقت اور بے اصل قرار دیتا ہے.طاعت در معروف میں آنحضرت ام کی بیعت آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ کے دن جب عورتوں سے بیعت لی تو آپ کے ان الفاظ

Page 325

بیعت میں یہ الفاظ بھی شامل تھے کہ " وَلَا تَعْصِيْنَنِي فِي مَعْرُوفٍ “ اور تم کسی معروف میں میری نافرمانی نہ کرو گی.ظاہر ہے کہ آپ نے معروف کی یہ شرط قرآن کریم کے حسب ذیل حکم کی تعمیل میں عہدِ بیعت کے ساتھ لگائی تھی...وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعُهُنَّ (المتن: ۱۳) کہ وہ معروف امور میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی.اس شرط کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نعوذ باللہ آپ بسا اوقات غیر معروف حکم بھی ارشاد فرمایا کریں گے تو اس کا ماننا ضروری نہیں ہوگا.ایسا تصور بالبداہت کفر ہے اور بیعت کے بنیادی تصور سے متصادم ہے.اس اصل کو بیان کرتے ہوئے حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفتہ امسیح الاول بیان فرماتے ہیں: ایک اور غلطی ہے وہ اطاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں اطاعت نہ کریں گے.یہ لفظ نبی کریم کے لئے بھی آیا ہے وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعُهُنَّ ( امتحن : ۱۳) اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ میل می کنیم کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنا لی ہے.اسی طرح حضرت صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے بھی شرائط بیعت میں طاعت در معروف لکھا ہے.اس میں ایک ستر ہے.میں تم میں سے کسی پر ہرگز بدظن نہیں.میں نے اس لئے ان باتوں کو کھولا تا تم میں سے کسی کو اندر ہی اندر دھوکہ نہ لگ جائے.“ ( خطبات نور صفحه ۸۱ خطبہ عید الفطر فرموده مورخه ۱۶ / اکتوبر ۱۹۰۹ ء مطبوعہ احمدیہ بلڈ پور بوہ مارچ ۱۹۶۹ء) اس آیت کی طرح قرآن کریم کی دیگر متعدد آیات نے بھی اس سچائی کو قطعی طور پر ثابت فرمایا ہے کہ کوئی حکم اللہ تعالیٰ کا ہو یا رسول اللہ یم کا یاکسی خلیفہ راشد کا، وہ بُرائی پر استوار نہیں ہوا.یہ سچائی صرف ایک اعتقادی بنیاد پر ہی قائم نہیں ہے بلکہ واقعاتی اور تاریخی شواہد پر بھی استوار ہے.اس بحث سے یہ قطعی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلام کا ہر حکم معروف ہے اور نیکی ہے.وہ بُرائی کا نہ حکم دیتا

Page 326

ہے، نہ اس کی طرف معصیۃ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی منسوب کی جاسکتی ہے.ایک اور پہلو جہاں تک کسی امیر یا لیڈر کی اطاعت کا تعلق ہے، تو آنحضرت ﷺ نے اپنے اس حکم میں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ کوئی اور شخص جو تم پر نگران مقرر ہو، اگر وہ کوئی ایسا حکم دیتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی معصیت لازم آتی ہے تو اس کی صرف اس حد تک تعمیل نہیں کی جائے گی.لیکن اس کے معروف حکم کی نافرمانی نہیں کی جائے گی.اس بارہ میں حسب ذیل واقعہ بھی ہمارے لئے رہنمائی مہیا کرتا ہے.یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس میں امیر کی اطاعت میں کیا گیا عمل معصیۃ الرسول ہونے کی وجہ سے آنحضرت ام کے لئے تکلیف اور اذیت کا موجب بنا.چنانچہ فتح مکہ کے بعد مکہ میں قیام کے دوران آنحضرت ہم نے شوال ۸ھ میں حضرت خالد بن ولید کوقبیلہ بنو کنانہ کی شاخ بنو جذیمہ کی طرف جو مکہ کے قریب یکمکم کی جانب آباد تھے، اسلام کی اطاعت قبول کرنے کے پیغام کے ساتھ بھجوایا.ان انقلابی حالات میں بنو جذیمہ کی طرف سے رد عمل کے خدشہ سے آپ نے تین سو پچاس افراد کی فوج بھی ان کے ہمراہ بھجوائی.ان ساڑھے تین سو افراد میں مہاجرین وانصار کے ساتھ قبیلہ بنوسکیم کے افراد بھی تھے.حضرت عبداللہ بن عمرؓ جو اس سریہ میں شامل تھے، بیان فرماتے ہیں : ہم بنو جذیمہ کو اسلام کی اطاعت میں آنے کی دعوت دی.انہوں نے اس دعوت کو قبول کیا لیکن” أسلمنا“ کہ ہم مطیع ہوتے ہیں، کہنے کی بجائے ”صَبَـانَا ، صَبَانَ “ کہا کہ ہم صابی ہیں ہم صابی ہیں.ان کے ان الفاظ اور اس طرز اظہار سے حضرت خالد نے اندازہ لگایا کہ انہوں نے اطاعت قبول کرنے سے انکار کیا ہے اور وہ مقابلہ کا ارادہ رکھتے ہیں.لہذا آپ نے ان سے جنگ شروع کر دی جس کے نتیجہ میں ان کے بہت سے افراد قتل ہوئے اور بہت سے قیدی بھی بنائے گئے.ہم میں سے ہر ایک کے سپر د ایک ایک قیدی کر دیا گیا.ایک روز حضرت خالد نے ہم سب کو حکم دیا کہ ہر کوئی اپنے اپنے قیدی کو قتل کر دے.اس پر میں نے آپ سے کہا کہ میں اپنے قیدی کو ہرگز قتل نہیں کروں گا بلکہ ہم میں سے کوئی بھی

Page 327

۳۱۱ اپنے قیدی کو اس وقت تک قتل نہیں کرے گا جب تک ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہو جائیں.“ (بخاری کتاب المغازی سر یہ حضرت خالد بن ولید بطرف بنو جذیمہ ) اس فوج میں بنو سلیم کے افراد نے حضرت خالد کے حکم پر اپنے قیدیوں کو ہلاک کر دیا.لیکن مهاجرین وانصار نے ( اپنی بصیرت اور تجربہ کے آئینہ میں ) اس حکم کو آنحضرت ﷺ کی سنت اور رحیمانہ مزاج کے پیش نظر ( معصیۃ الرسول سمجھا اور ) نا قابل عمل سمجھ کر اپنے اپنے قیدی رہا کر دیئے.( ابن سعد وزرقانی بعث حضرت خالد بن ولید بطرف بنو جذیمہ ) حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: ” ہم نے مکہ پہنچ کر جب آنحضرت ٹیم کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دو مرتبہ خدا کے حضور التجا کی: " اللَّهُمَّ إِنِّي اَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ.کہ اے اللہ ! جو کچھ خالد نے کیا میں تیرے حضور اس سے بری ہوں.اے اللہ ! جو کچھ خالد نے کیا میں تیرے حضور اس سے برات چاہتا ہوں.( بخاری کتاب المغازی سر یہ حضرت خالد بن ولید بطرف بنو جذیمہ ) آپ نے فورا حضرت علی کو بنو جذیمہ کی طرف روانہ فرمایا اور ان کے مقتولین کا خون بہا اور ان کے اموال کے نقصان کا اس طرح پورا معاوضہ ادا فرمایا کہ مرنے والے کتوں کی بھی قیمت دی.جب سب ادا ئیگی ہو چکی تو آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا سب خون بہا ادا ہو چکا ہے اور سارے نقصان کا مداوا ہو چکا ہے یا ابھی کچھ باقی ہے؟ بنو جذیمہ والوں نے بتایا کہ سب کچھ پورا ہو چکا ہے تو آپ پوری تسلی کرنے کے بعد وہاں سے مکہ کے لئے روانہ ہوئے.مکہ پہنچ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں تفصیل پیش کی تو آنحضرت ﷺ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا.لیکن جو زخم آپ کو پہنچ چکا تھا اس نے پھر کروٹ لی اور ایک بار پھر آپ کا دل افسوس سے بھر گیا اور آپ نے ہاتھ اٹھائے اور خدا تعالیٰ کے حضور وہی التجا کی." اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِد“اے اللہ ! جو کچھ خالد نے کیا میں تیرے حضور اس سے برات چاہتا ہوں.یہ التجا آپ نے تین بار دوہرائی.(طبری وزرقانی بعث حضرت خالد بن ولید بطرف بنو جذیمہ ) اس واقعہ سے واضح ہے کہ آنحضرت ﷺ کے نزدیک حضرت خالد کی اطاعت نہ کرنے

Page 328

۳۱۲ والوں نے بالکل درست کیا تھا اور جنہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل میں اپنے قبضہ کے قیدیوں کو ہلاک کیا تھا ان کی غلطی کا اندازہ آنحضرت م کی اس تکلیف سے اور آپ کی خدا تعالیٰ کے حضور التجا سے اور حضرت علی کو بنو جذیمہ کے پاس بھجوا کر مقتولین کی دیت کی ادائیگی سے کیا جا سکتا ہے.یہ واقعہ طاعت در معروف کے مسئلہ پر کھلی کھلی روشنی ڈالتا ہے.حضرت خالد اسلام میں نووارد تھے.آپ کا مذکورہ بالا حکم گولا علمی پر مبنی تھا مگر اس سے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی معصیت لازم آتی تھی.اس سے جو صحابہ آگاہ تھے، انہیں علم تھا کہ یہ فیصلہ معروف نہیں ہے بلکہ معصیۃ اللہ اور معصیۃ الرسول ہے اس لئے ان کا انکار آنحضرت ام کے نزدیک درست قرار پایا اور وہ جنہوں نے اس کی تعمیل کی ان کی اطاعت آنحضرت ام کے لئے تکلیف کا موجب بنی.اس مسئلہ کو خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر کے ایک فرمان سے بھی وضاحت ملتی ہے.آپ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے سب سے بڑے عارف تھے اور آپ کے بعد احکام قرآن کے سب سے بڑے عالم تھے.آپ منصب خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے مسجد نبوی میں اپنے سب سے پہلے خطاب میں اس اصل کا بھی خاص طور پر ذکر کیا اور فرمایا: اے لوگو ! تمہاری باگ ڈور مجھے سونپی گئی ہے لیکن میں تم جیسا ہی ایک شخص ہوں.اگر میں نیک کام کروں تو تم میری مددکردو اور اگر کوئی بُرا کام کروں تو مجھے درست کرو.سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت......میں اللہ تعالیٰ اور اس کی رسول کی اطاعت کرتا ہوں تو تم میری اطاعت کرو.ہاں اگر میں اللہ تعالی اور اس کے رسول کا نافرمان ہوتا ہوں تو پھر تم پر میری اطاعت واجب نہیں.اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے.“ ( ابن ہشام امرسقیفہ بنی ساعدہ ، خطبۃ ابی بکر بعد البيعة...) حضرت ابوبکر کے اس خطاب سے بالکل عیاں ہے کہ اپنے مطاع اور امام کے ہر حکم اور

Page 329

۳۱۳ فیصلہ کی اطاعت دراصل طاعت درمعروف ہے سوائے اس کے کہ اس کے کسی حکم سے معصیۃ اللہ یا معصیۃ الرسول ہوتی ہو.حضرت ابو بکر صدیق کا یہ فرمان نیز حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی اور حضرت خالد بن ولیڈ والے دونوں واقعات ثابت کرتے ہیں کہ کسی امیر یا لیڈر کا ایسا حکم یا فیصلہ جو کھلا کھلا معصیۃ اللہ اور معصیۃ الرسول پر مبنی ہو اس میں اطاعت جائز نہیں.اس کے علاوہ ہر حکم کی اطاعت، طاعت در معروف ہے.معروف کی شرط کیوں؟ الغرض اگر یہ ممکن ہی نہیں کہ اسلام کی کوئی تعلیم یا کوئی حکم خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کردہ ہو یا رسول کی طرف سے، یا خلیفہ راشد کی طرف سے ، وہ منکرات میں سے ہو، یا بالفاظ دیگر یہ کہ نبی اللہ تعالی کے احکام کی تعیل کا علم دیتا ہے اور خلیفہ، اللہ اور اس کے نبی کی تعلیم پر عمل کرنے کا حکم دیتا ہے، اس لئے ان کے احکام اور فیصلے معروف ہوتے ہیں، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ پھر ان کی اطاعت کو خاص طور پر معروف کے ساتھ کیوں مشروط کیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے ایک مبائع یعنی بیعت کنندہ کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ حقیقی ، اصل اور غیر مشروط اطاعت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے.رسول یا خلیفہ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے اور اسی سے منسلک ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اور خلیفہ راشد با وجودمومنوں کے مطاع اور آقا ہونے کے خود اللہ تعالیٰ ، اس کے حکم ، قانون اور شریعت کے اطاعت گزار اور مطیع ہوتے ہیں.یعنی صرف اور صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو اطاعت کے قانون سے بالا ہے.لہذا اس اصل کے تحت الہی ادب کا تقاضہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر ذات کی اطاعت مشروط ہو.اس مشروط حیثیت کے اظہار کے لئے رسول اور خلیفہ کے احکام، ارشادات اور فیصلوں کے ساتھ لفظ ” معروف“ کولازم رکھا گیا ہے.اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ رسول اور خلیفہ کے احکام کی

Page 330

۳۱۴ پابندی، ارشادات کی اطاعت اور فیصلوں کی تعمیل ایک شرعی حکم اور فریضہ ہے اور ان کے ساتھ ایک پیروکار کی جزا سزا کا معاملہ بندھا ہوا ہے.آنحضرت ام فرماتے ہیں: مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ اَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَ مَنْ يُطِعِ الْأَمِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ يَعْصِ الْأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي 66 مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعة الامراء في غير معصية ) کہ جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی ، اس نے اللہ کی نافرمانی کی.اور جس نے امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی ، اس نے میری نافرمانی کی.آنحضرت لم نے اپنے اس ارشاد میں اطاعت کے نظام کو اس طرح یکجا کیا ہے کہ امیر سے لے کر اپنے وجود باجود تک اطاعت کو خدا تعالیٰ کی اطاعت سے باندھ دیا ہے.اگر امیر کی نافرمانی ، رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی قرار پاتی ہے تو اس مذکورہ بالا حدیث رسول اور قرآن کریم کے مطابق آپ کی نافرمانی موجب معصیت الہی ہے.لہذا اس سے یہ تاثر قائم ہوسکتا ہے کہ ایک امیر خلیفہ یا رسول کا حکم یا فیصلہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے.اور اس کی وجہ سے رسول یا خلیفہ اور دیگر واجب الا طاعت ہستیوں کی عظمت خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت کے ساتھ خلط ملط ہو جانے کے امکان کو دور کیا گیا ہے.یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ گو اطاعت کے لحاظ سے رسول اور خلیفہ کے حکم کی نافرمانی کرنا، ان کے فیصلہ کو بغیر تیل کے چھوڑ نا معصیت الہی کا موجب ہوگا مگر ان کا حکم کلام الہی یا حکم الہی نہیں ہے.کلام الہی کی ایک الگ عظمت ہے اور بالاشان ہے.پس اس لفظ ” معروف“ کے ذریعہ احکام الہی اور احکام رسول وخلیفہ میں ایک امتیاز قائم کیا گیا ہے نیز بیعت کنندہ کو شرکیہ رجحان کے امکان سے بھی محفوظ کیا گیا ہے.نبی وخلیفہ کے احکام اور فیصلوں کے ساتھ معروف کا لفظ لگا کر بیعت کنندہ کو یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ گو نبی یا خلیفہ کی بیعت کرنے کا معنی پک جاتا ہے اور ان کی اطاعت کا نام بھی سجدہ ہے مگر نبی اور خلیفہ خدائی کے مقام پر نہیں ہیں گو اس کی صفات کے مظہر ہیں اور اس دنیا میں اس کے جانشین ہیں.ان کے احکام یا فیصلے خدا تعالیٰ کے

Page 331

۳۱۵ احکام اور فیصلے نہیں ہیں گو اس کی جناب میں مقبول اور اس کی طرف سے تائید یافتہ ہیں.یہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر نبی یا خلیفہ کی بیعت کے ساتھ ” معروف“ کا لفظ لازم کیا گیا ہے.پس بیعت کرنے والا اس شعور اور تحفظ کے احساس ساتھ اپنی بیعت کا اقرار کرتا ہے کہ وہ خود کو کسی ایسے عہد میں نہیں باندھ رہا جس میں اللہ کی نافرمانی کا امکان ہے یا وہ کسی ایسی اطاعت سے منسلک نہیں کیا جا رہا جو منکرات پر مبنی ہے.بیعت کے معاہدہ میں یہ الفاظ اسے یہ یقین فراہم کرتے ہیں اور اس طرف متوجہ رکھتے ہیں کہ اس نے اپنے لئے اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور اس کے خلیفہ کی اطاعت کے ذریعہ معصیت اور منکرات کے راستے بند کر کے خالصہ معروف اور نیکیوں کی راہگزر پر قدم رکھا ہے.اسے یہ عرفان دیا جاتا ہے کہ ” معروف میں اطاعت کے اس ایک اقرار کے ساتھ خلافت حقہ کے الہی حصار میں آکر وہ معصیت الہی اور منکرات دنیا کی ہر قید سے آزاد ہو چکا ہے.⭑}⭑{⭑

Page 332

اس جہاں میں خواہش آزادگی بے سود ہے اک تری قید محبت ہے جو کر دے رستگار دل جو خالی ہو گداز عشق سے وہ دل ہے کیا دل وہ ہے جس کو نہیں بے دلبر یکتا قرار فقر کی منزل کا ہے اوّل قدم نفی وجود پس کرواس نفس کو زیر و زبراز بہرِ یار ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

Page 333

۳۱۷ صد ساله خلافت جو بلی پر اعتراضات کے جواب

Page 334

۳۱۸ مندرجات صدسالہ خلافت جو بلی ۲۰۰۸ء پر اعتراض پہلا اعتراض اور اس کا جواب خلافت ثانیہ کی جو بلی کی تحریک صد سالہ خلافت جوبلی ۲۰۰۸ء دوسرا اعتراض اور اس کا جواب حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں پیش کی جانے والی رقم

Page 335

۳۱۹ صد سالہ خلافت جو بلی ۲۰۰۸ء پر اعتراض جماعت احمد بو عالمگیر سیدنا حضرت امیر المونین فایده اصبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے خلافت احمد یہ صد سالہ جو بی ۲۰۰۸ ء منارہی ہے.اس مبارک موقع پر اپنے محبوب آقا حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں خلافت کی اس عظیم نعمت کی شکر گزاری کے اظہار میں دس لاکھ (۱۰٬۰۰۰۰۰) پاؤنڈ سٹرلنگ پیش کر رہی ہے.اس با برکت تحریک پر حسب ذیل اعتراض اٹھائے گئے ہیں: ا: ا ” خلافت ثانیہ کے عہد میں ۱۹۳۹ء میں خلافت کی سلور جوبلی منائی گئی تھی.حالانکہ خلافت کا قیام ۱۹۰۸ء میں ہوا تھا.۱۹۳۹ء میں سلور جو بلی منانے کا معنی یہ ہے کہ خلافتِ اولی کے چھ سالوں کو کلیۂ نظر انداز کر کے جو بلی منائی گئی تھی.” جماعتی فنڈ ز کسی فرد کو ذاتی استعمال کے لئے نہیں دیئے جانے چاہئیں، چاہے وہ خلیفہ وقت ہی کیوں نہ ہو.یہ امر اخلاقی اور قانونی ہر 66 دو پہلوؤں سے محلِ نظر ہے.“ پہلا اعتراض اور اس کا جواب پہلا اعتراض یہ ہے کہ " ” خلافت ثانیہ کے عہد میں ۱۹۳۹ء میں خلافت کی سلور جوبلی منائی گئی تھی.حالانکہ خلافت کا قیام ۱۹۰۸ء میں ہوا تھا.۱۹۳۹ ء میں سلور جوبلی

Page 336

منانے کا معنیٰ یہ ہے کہ خلافتِ اولی کے چھ سالوں کو کلیۂ نظر انداز کر کے جوبلی منائی گئی تھی.“ اس کے جواب میں عرض ہے کہ خلافت جوبلی کے نام سے جوسلور جوبلی حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے عہد میں منائی گئی ، وہ جماعت میں خلافت کے قیام کو مد نظر رکھ کر نہیں منائی گئی تھی بلکہ خلافت ثانیہ کے پچیس سال پورے ہونے پر منائی گئی تھی.ہاں اگر وہ خلافت کے قیام کو مد نظر رکھ کر منائی جاتی تو لاز ما ۱۹۳۳ء میں منائی جاتی.199 ء میں منائی منائے جانے والی جو بلی حضرت طریقہ اسیح الثانی کی خلافت کی سطور جوبلی تھی منہ کہ غلاب احمدیہ کی سلور جوبلی.چنانچہ تاریخی طور پر اس کا ذکر کرتے ہوئے قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد " تحریر فرماتے ہیں: وو حضرت خلیلة اصبح عالی ۱۴ مار ۱۹۱۳۵ء کو مسند خلافت پر متمکن ہوئے تھے اور اس طرح ۱۳ مارچ ۱۹۳۹ء کو آپ کی خلافت پر ، ہاں کامیاب و کامران مظفر و منصور ، مبارک و مسعود، شاہد و مشہود، عامر و معمور، خلافت پر پچیس سال کا عرصہ پورا ہو گیا.صداقت اور خدمت کی شان عرصوں اور زمانوں کی قید سے بالا ہے اور اچھے کام کی ایک گھڑی بیکا ر وقت کے ہزار سال سے بہتر.مگر ان پچیس سالوں کی شان کا کیا کہنا ہے جس کا ایک ایک لمحہ خدمت خلق اور اعلاء کلمۃ اللہ میں گزرا.جس کی ابتداء نے جماعت احمدیہ کو انشقاق و افتراق کی پُر خطر وادی میں گھرا ہوا پایا مگر جس کی.انتہاء آج اسے ایک مضبوط اور متحد دستہ کی صورت میں ایک بلند پہاڑ پر دیکھ رہی ہے.یہ ایک فطری امر ہے کہ محبوب کی کامیابی انسان کے دل میں شکر و امتنان کے جذبات کے ساتھ ساتھ مسرت و انبساط کی لہر بھی پیدا کر دیتی ہے.اور خدا بھلا کرے چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کا کہ اس لہر نے

Page 337

پہلی حرکت انہی کے دل میں پیدا کی اور انہوں نے آج سے قریباً دو سال پہلے آنے والی خوشی کی گرمی کو محسوس کر کے اس تجویز کی داغ بیل رکھی کہ حضرت خلیفہ اسیح ثانی کی خلافت کے پچیس سال پورے ہونے پر جماعت کی طرف سے خوشی اور شکر کے اظہار کے لئے ایک تقریب کی صورت پیدا کی جائے اور اس مبارک تقریب پر جماعت اپنی طرف سے کچھ رقم (چوہدری صاحب نے تین لاکھ روپے کی رقم تجویز کی) حضرت علیہ اسح ثانی کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ پیش کرے کہ حضور اس رقم کو جماعت کی طرف سے قبول کر کے جس مصرف میں پسند فرمائیں کام میں لائیں...مگر جس غرض کے لئے میں نے اس ذکر کو اس جگہ داخل کیا ہے وہ سیہ ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح ثانی کو اس سلسلہ میں بھی جماعت کی تربیت کا از حد خیال ہے.چنانچہ آپ متعدد مرتبہ جماعت کو نصیحت فرما چکے ہیں کہ اگر یہ تقریب محض رسم کے طور پر ہے اور دنیا کی نقل میں ایک قدم اٹھایا جارہا ہے تو اس میں میری خوشی کا کوئی حصہ نہیں اور نہ میں اس صورت میں جماعت کو اس کی اجازت دے سکتا ہوں.لیکن اگر آپ لوگوں نے اسے دنیا کی رسومات اور دنیا کی نمائشوں کے طریق سے پاک رکھ کر ایک خالص دینی خوشی کا رنگ دینا ہے اور اسے ان عیدوں کی طرح منانا ہے جس طرح اسلام اپنی عیدوں کے منانے کا حکم دیتا ہے تو اس قسم کا جو قدم بھی اٹھایا جائے وہ مبارک ہے اور میں اسے روکنا نہیں چاہتا.“ خلافت ثانیہ کی جو بلی کی تحریک (سلسلہ احمدیہ صفحہ ۴۲۷ تا ۴۲۹ مطبوعه نظارت تالیف و تصنیف قادیان (۱۹۳۹ء) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد نے اُس جو بلی کا جو مختصر نقشہ پیش فرمایا ہے.اس کی تفصیل

Page 338

۳۲۲ یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اسی الثانی کے دور خلافت پر ۱۹۳۹ء میں پچیس سال پورے ہورہے تھے.اس کے مد نظر ( غالباً ماہ اکتوبر یا نومبر ( ۱۹۳۷ء میں حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ دنیا میں عام رواج ہے کہ سلور اور گولڈن جو بلیاں منائی جاتی ہیں.جماعتِ احمد یہ پر خدا تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ اسے خلافت جیسی نعمت عظمی عطا ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خلافت پر چھپیں سال پورے ہورہے ہیں.اس موقع کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے شکر کی ادا ئیگی میں کیوں نہ جماعت احمد یہ خلافت ثانیہ کی سلور جوبلی منائے.چونکہ یہ خواہش ایسی تھی جو ایک تحریک کی شکل میں احباب جماعت کے سامنے پیش کی جانی چاہئے تھی اس لئے حضرت چوہدری صاحب نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خدمت میں عرض کی کہ ایسی کوئی تحریک جس میں جماعت مخاطب اور شامل ہو، خلیفہ وقت کی اجازت کے بغیر نہیں ہونی چاہئے اس لئے درخواست ہے کہ حضور اس کی اجازت عنایت فرمائیں تا کہ اسے جماعت کے سامنے پیش کیا جائے.آپ کی اس درخواست کو خلیفہ اسیح الثانی نے منظور فرمایا.حضرت چوہدری صاحب کے ذہن میں جو تجویز تھی ، اس کا اعلان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : قریباً دو سال کا عرصہ گزرا.میرے دل میں یہ تحریک ہوئی کہ جس طرح دنیا وی نظام رکھنے والے لوگ اپنے نظام پر ایک عرصہ گزر جانے کے بعد خوشی اور مسرت کے اظہار کی کوئی صورت پیدا کرتے ہیں.ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی کامیاب دینی نظام پر ایک عرصہ گزرنے پر اللہ تعالیٰ کے شکر کا اظہار کریں.اس وقت شہنشاہ جارج پنجم کی جو بلی کا موقع تھا.اس کے بعد حضور نظام حیدر آباد اور سر آغا خان کی جو بلی آئی.میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ بیشک بادشاہ بھی اور حکومتیں بھی اگر وہ عمدہ طریق پر چلائی جارہی ہوں نعمت ہوتی ہیں اور اعلی لیڈ ر بھی نعمت ہوتے ہیں.لیکن ہمیں سب سے بڑھ کر قیمتی نعمت ملی ہوئی ہے.اس کے لئے ہمیں بھی خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے.اس نعمت کو عطا ہوئے پچیس سال ہونے کو آئے ہیں.اور وہ

Page 339

۱۳۲۳ نعمت خلافت ثانیہ ہے.خلافت ثانیہ ۱۹۱۴ء میں خدا تعالیٰ نے قائم کی.اور مارچ ۱۹۳۹ء کو اس پر چھپیں سال پورے ہو جائیں گے.اس خیال سے میرے دل میں جوش پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور نمونہ کے طور پر اور اس نعمت کے شکریہ کے طور پر ہماری طرف سے بھی نذرانہ پیش ہونا چاہئے.اس وقت مالی رنگ میں میرے ذہن نے ایک تجویز سوچی.اور وہ یہ تھی کہ جماعت میں اس کے متعلق ایک تحریک کی جائے.میں نے اس وقت یہ تحریک اپنے بعض دوستوں کی خدمت میں پیش کی.تا کہ وہ اس میں خصوصیت کے ساتھ حصہ لیں.وہ تحریک یہ ہے کہ ہم ایک ایسی رقم جمع کریں جو کم از کم پہلے ایک وقت میں جماعت نے جمع نہ کی ہو.اور وہ رقم مارچ ۱۹۳۹ء میں یا اس کے قریب مناسب موقع پر مثلاً اس سال کی مجلس مشاورت پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کی جائے اور حضور سے درخواست کی جائے کہ یہ جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور شکر کا اظہار ہے.حضور اس کو جس طرح پسند فرمائیں خرچ کریں.اس رقم کا اندازہ میں نے تین لاکھ روپیہ کیا ہے.میں نے اس رقم کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے.ایک حصہ میں نے عام دوستوں کے لئے چھوڑا ہے اور اس کی مقدار ایک لاکھ روپیہ ہے.دوسرا حصہ یہ ہے کہ ایک عام تحریک کر کے جماعت کے دوسرے احباب سے دو لاکھ روپیہ جمع کیا جائے.پہلا حصہ تو اسی وقت شروع کر دیا گیا تھا اور دوستوں نے توقع سے بڑھ کر اس میں حصہ لیا.....تحریک کے پہلے حصہ کے متعلق شرط ہے کہ جو دوست کم سے کم ایک

Page 340

۳۲۴ ہزار روپیہ کی رقم اپنے ذمہ لیں اور وعدہ کریں کہ وہ اتنے عرصہ کے اندرادا کر دیں گے، وہ شریک ہوں.پہلی تحریک پر ۸۵ ہزار کے وعدے آچکے ہیں اور کچھ رقم ادا بھی کی گئی ہے.یہ رقم خزانہ صدر انجمن احمد یہ میں داخل ہوتی رہی ہے.....اب میں مختصراً پہلے حصہ کے متعلق تحریک کرتا ہوں کہ جن احباب کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ ایک ہزار کی رقم اپنے ذمہ لیں اور بیت المال میں مارچ ۱۹۳۹ ء تک یعنی پندرہ ماہ کے عرصہ میں بھجوا دیں.تحریک کا دوسرا حصہ عام ہے اور وہ دولاکھ روپے کی فراہمی سے تعلق رکھتا ہے.اس وقت میں اس کو بھی پیش کرتا ہوں تا کہ احباب جماعت مارچ ۱۹۳۹ ء تک اس رنگ میں جو عشقیہ رنگ ہے اور جس میں وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو عظیم الشان نعمت انہیں دی ہے.اس پر ۱۹۳۹ء کے مارچ میں پورے پچیس سال ہو جائیں گے، اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور شکر کے طور پر دو لاکھ روپے کی رقم پیش کریں.“ الفضل قادیان ۲۷ دسمبر ۱۹۳۷ء) پھر اس خلافت جو بلی کی اہمیت اور غرض و غایت بیان کرتے ہوئے ۲۷ / اپریل ۱۹۳۸ء کو حضرت چوہدری صاحب فرماتے ہیں: یہ عجیب اتفاق ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ آئندہ سال ہمیں وہ تین نوع کی خوشیوں کا موقع عطا فرمانے والا ہے.پہلی خوشی تو یہ ہے کہ خلافت ثانیہ کا عہد مبارک آئندہ مارچ یعنی ۱۹۳۹ء میں چھپیں سال کا ہوگا.انشاء اللہ تعالی.دوسری یہ کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی عمر کے پچاس سال بھی آئندہ سال پورے ہوں گے.کیونکہ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء آپ کی پیدائش کا دن ہے اور پچاس

Page 341

۱۳۲۵ سال بھی جو بلی کا موقع ہوتا ہے.آئندہ سال خود سلسلہ کے قیام پر بھی پچاس سال پورے ہو جائیں گے.ہمارے ذہن میں تو پچیس سالہ جو بلی ہی تھی لیکن یہ حسن اتفاق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے اخلاص کی قبولیت اور اس کے متعلق خوشنودی کا اظہار ہے کہ ہمارے لئے ایک کی بجائے تین جو بلیاں آنے والی ہیں.“ ( الفضل قادیان یکم مئی ۱۹۳۸ء) اس جو بلی کی تقریبات کے لئے ایک کمیٹی مرتب کی گئی جس نے اس کے جملہ پروگراموں کو معتین اور منضبط کر کے جو بلی کی مناسبت سے مختلف تقریبات اور متعدد پروگرام تجویز کئے.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کی منظوری اور ہدایات کے بعد ان کی تیاری کی گئی.ان میں سے چند نمایاں تقریبات حسب ذیل تھیں.ا جلسہ سالانہ ۱۹۳۹ ء کو جو بلی کے لئے مخصوص کر دیا جائے.: جوبلی کے جلسہ میں ہندوستان و بیرونی جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں.۳: الفضل کا خاص نمبر نکالا جائے.۴: حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی نایاب تصنیفات کو مناسب تقطیع پر شائع کیا جائے.۵: قادیان میں ایک مکمل لائبریری بنائی جاوے.: سلسلہ احمدیہ کی ترقیات کا خوبصورت چارٹ تیار کیا جائے.ے: جماعت احمدیہ کا مناسب جھنڈا تیار کیا جائے.۸: تمام مساجد، منارة امسیح بہشتی مقبرہ، قصر خلافت اور دوسری عمارات پر چراغاں کیا جائے.: حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریروں کے علاوہ شانِ محمود، نظام خلافت، برکات خلافت پر تقاریر ہوں.۱۰: ریڈیو کے ذریعہ حضور کی تقریر

Page 342

وغیرہ وغیرہ پروگرام اس جو بلی کی نمایاں تقریبات کے طور پر تھے.جو بلی کی جملہ تقریبات میں یہ پہلو خاص طور پر نمایاں تھا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے ہر ایک موقع کے بارہ میں اسلامی روح و روایات کی پاسداری کے لئے تفصیلی ارشادات فرمائے.مثلاً وقارِ اسلامی کو مد نظر رکھا جائے.ہمیں ایسے رنگ میں منانی چاہئے کہ اس میں کوئی بات فضول نہ ہو.صرف وہی نظمیں پڑھنے کی اجازت دی جائے جو دینی جوش کے ماتحت کہی گئی ہوں.“ وغیرہ وغیرہ اسی طرح صدقہ و خیرات کے ساتھ ساتھ ہر پہلو میں قربانی ، وقار اور شعار اسلامی قائم رکھنے کی طرف توجہ دلائی.لوائے احمدیت بنانے کا کام صحابہ اور صحابیات کے سپرد کیا گیا جس کی روئی ،اس کا کا تنا اور سلائی وغیرہ وغیرہ سب دستی طور پر کرنے کے لئے ان کے ذمہ تھا.ان مذکورہ بالاتفصیلات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ سلور جوبلی صرف حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے ساتھ خاص تھی جو آپ کی خلافت پر کہیں سال گزرنے کی وجہ سے منائی گئی تھی جس کے ساتھ حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی عمر کے پچاس سال پورے ہونے کا نیز جماعت کے قیام کے بھی پچاس سال پورے ہونے کا تصور بھی منسلک تھا.اس جو بلی کو منانے کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی مخصوص ہدایات تھیں جو اسے سادگی، کم خرچ ، وقار و شعار اسلامی کی پاسداری، خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانوں کی یاد اور جماعت کی عظمت کے ذکر وغیرہ وغیرہ محاسن سے سجاتی تھیں.صدساله خلافت جوبلی ۲۰۰۸ء ظاہر ہے کہ ۱۹۳۹ء والی جوبلی کا انعقاد جماعت احمدیہ کا نہ کوئی خصوص قانون تھا اور نہ ہی مستقل رسم کہ جس کے تتبع میں گولڈن جو بلی بھی منائی جاتی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا دور مبارک ۱۹۱۴ء سے ۱۹۶۵ ء تک یعنی باون سال پر ممند تھا.اگر ہر چھپیں سال پورے ہونے پر جوبلی منانے کا کوئی قانون ہوتا تو آپ کی خلافت پر پچاس سال پورے ہونے پر گولڈن جوبلی کا بھی انعقاد ہوتا.ایسا نہ ہونا بتاتا ہے کہ آپ کی خلافت کی سلور جوبلی آپ کے خاص فیصلہ اور اجازت کی مرہونِ منت

Page 343

۱۳۲۷ تھی.ہاں اب جو جو بلی ۲۰۰۸ء میں منائی جائے گی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کی مجموعی مدت سو سال پورے ہونے پر منعقد ہوگی.یہ اپنی الگ حیثیت منفر دنوعیت اور امتیازی شان رکھتی ہے جو حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اپنے فیصلہ واختیار پر استوار ہے اور لازم وقار وشعار اسلامی اور دیگر مقدس روایات سے مزین ہوگی.انشاء اللہ العزیز جماعت کی تأسیس پر ایک صدی گزرنے کی وجہ سے گزشتہ کئی سالوں سے جماعت کے مختلف مواقع اور تقریبات پر چونکہ سو سال پورے ہور ہے ہیں،اس لئے ان مواقع وغیرہ کی مناسبت سے ان کی صد سالہ تقریبات بھی منعقد کی جارہی ہیں.مثلاً 1991ء میں قادیان میں جلسہ سالانہ کے سو سال منائے گئے.اسی طرح کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کے بھی سوسال منائے گئے وغیرہ وغیرہ.اس طرز کی تقریبات کا انعقاد زندہ قوموں کی اعلیٰ روایات میں شامل ہے جن پر کسی معترض کا اعتراض خود اس کی اپنی تنگ دلی اور بخل پر دلالت کرتا ہے.جماعت احمدیہ کی مومنانہ شان یہ ہے کہ وہ ان با برکت مواقع پر دین خدا کی فتح اور خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نشانات کی یاد میں دعاؤں کے جلو میں اس کے حضور تشکر وامتنان سے بھرے دل پیش کرتی ہے اور اس کی حمد کے ترانے گاتی ہے.تاریخ احمدیت شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام مقدس خلفاء کو اور ان کے ادوار خلافت کو اپنی تائید و نصرت کے اعجازی نشانوں کے ساتھ خاص امتیازی شان عطا فرمائی ہے.چنانچہ یہ جو بلی جو ۲۰۰۸ ء میں ہونا قرار پائی ہے، اس میں خلافت اولیٰ کے دور سے اب تک کے سب ادوار کو جمع کر لیا گیا ہے اور یہ سو سالہ دورِ خلافت بفضلہ تعالی و بتائیدہ کامیاب و کامران مظفر و منصور، مبارک و مسعود، شاہد و مشہود، عامر و معمور ہے.جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ خلافت جوبلی اس بنیاد پر منائی جارہی ہے کہ خلافت احمد یہ کے قیام پر سوسال پورے ہورہے ہیں.اس کے انعقاد کی روح ، طریق اور غرض وہی ہے جو خلافت ثانیہ پر پچیس سال پورے ہونے پر سلور جوبلی منانے کی تھی.جس طرح اُس وقت قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد نے اُس جوبلی کے ضمن میں احباب جماعت کے دلی جذبات اور ان کی کیفیات کی ترجمانی میں اظہار فرمایا تھا، بعینہ ۲۰۰۸ء میں منعقد ہونے والی اس صد سالہ جوبلی کے

Page 344

(۳۲۸) موقع پر بھی ” جہاں ہر احمدی کا دل شکر و محبت کے انتہائی جذبات کے ساتھ لبریز ہے وہاں ہر احمدی کا ہاتھ بھی خدا تعالیٰ کے حضور اس دعا کے ساتھ اٹھ رہا ہے کہ خدایا تو نے جس طرح ان گزرنے والے سالوں کو خوشی اور کامیابی اور کامرانی کے ساتھ پورا کیا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر آنے والے سالوں کو بھی ہمارے لئے مبارک کر اور ہماری اس جو بلی کو اس عظیم الشان جوبلی کا پیش خیمہ بنا دے جو تیرے جلال کے انتہائی ظہور کے بعد آنے والی ہے.اور اے ہمارے مہربان آقا! تو ہمارے اس امام کو جس کی مبارک قیادت میں جماعت نے تیری ہزاروں برکتوں سے حصہ پایا ہے ایک لمبی اور بامراد زندگی عطا کر اور اس کے آنے والے عہد کو گزرنے والے عہد کی نسبت بھی زیادہ مقبول اور زیادہ شاندار اور زیادہ مبارک بنادے.آمین ثم آمین دوسرا اعتراض اور اس کا جواب اس ضمن میں دوسرا اعتراض یہ ہے کہ : جماعتی فنڈ ز کسی فرد کو ذاتی استعمال کے لئے نہیں دیئے جانے چاہئیں، چاہے وہ خلیفہ وقت ہی کیوں نہ ہو.یہ امر اخلاقی اور قانونی ہر دو پہلوؤں سے محلِ نظر ہے.“ ظاہر ہے کہ یہ بات وہ شخص نہیں کر سکتا جو خلیفہ وقت کے ہاتھ پر پک چکا ہو.بیعت میں ایک مومن خلیفہ وقت کے حضور صرف اپنا مال ہی نہیں پیش کرتا بلکہ اپنے آپ کو بھی غیر مشروط طور پر اس کے ہاتھ میں فروخت کرتا ہے.ایک مومن کی بیعت کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ پر استوار ہوتی ہے کہ : إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبه (1) کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو (اس وعدہ کے ساتھ ) خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی.نیز بیعت کی بنیاد ایک مومن کے اس غیر مشروط عہد پر اٹھائی جاتی ہے کہ وہ اپنے جان، مال ، اپنی عزت اور وقت کو خلافت احمدیہ پر ہر لمحہ قربان کرنے کے لئے تیا ر رہے گا.ایک مومن اس

Page 345

(۳۲۹ عہد کو عملاً پورا کر دکھانے کے لئے ہر آن مستعد رہتا ہے.مومن کی یہ بیعت ، اس کا یہ اقرار اور عہد محض کاغذی یا زبانی نہیں ہوتا ، بلکہ وہ عملاً اس کو پورا کرتا ہے.ہم اس کے عملی مظاہرے اسلام کے پہلے دور میں بھی بکثرت دیکھتے ہیں اور دور آخرین بھی ایسے نمایاں اور امتیازی نمونوں سے لبریز ہے.مذکورہ بالا آیت کریمہ کی روشنی میں ظاہر ہے کہ مومن کا یہ عمل اخلاق کے اعلیٰ ترین اور بلند ترین نقاضے پورے کرتا ہے.اس کے اس عمل کو اخلاق کے منافی قرار دینا درحقیقت بذات خود قرآنی تعلیم کے منافی ہے.یہ عمل جہاں مومن کے ایمان اور وفا کی مثال پیش کرتا ہے وہاں منصب نبوت اور منصب خلافت کے منجانب اللہ ہونے کی بھی دلیل پیش کرتا ہے.کیونکہ اس کے حضور اخلاص و وفا کی بنیاد پر پیش کئے جانے والے اموال خدا تعالیٰ تک پہنچتے ہیں اور مومن کے لئے تزکیہ کے سامان کرتے ہیں.پس جب ایک بیعت کنندہ اپنی ہر قیمتی متاع کے ساتھ اپنا مال بھی اس کے حضور پیش کرتا ہے تو اس میں کسی تنگ نظر اور کم نظر شخص کی بے چینی ایک پچھے کٹنی کے کردار کے علاوہ کچھ نہیں.یہ خلیفہ وقت اور اس بیعت کنندہ کے درمیان اعتماد و اعتقاد کا معاملہ ہے جس کو بیعت کی حقیقت نہ جاننے والا شخص سمجھنے سے قاصر ہے.یہ آقا اور غلام محبت اور محبوب کے درمیان ایک ایسا رشتہ عقیدت و وداد ہے جس کے تقدس کو ایک کثیف الاعتقاد شخص محسوس نہیں کر سکتا.یہ کہنا کہ جماعتی فنڈ کسی فرد کو ذاتی استعمال کے لئے نہیں دیئے جانے چاہئیں.“ ظاہر کرتا ہے کہ اس شخص کو اعتراض یہ ہے کہ جماعت اپنے محبوب امام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ کی تحویل میں کیوں رقمیں پیش کرتی ہے؟ اس ضمن میں یہ یادرکھنا چاہئے کہ خلیفہ اسیح بحیثیت منصب خدا تعالیٰ کا مقرر و قائم کردہ خلیفہ ہے.وہ انوار و برکاتِ رسالت کا آلہ انعکاس ہے.وہ جماعت مومنین کے مجموعی تقوی کا مظہر اور اس جماعت کا تاج ہے.اس کا یہ مقام اور منصب اسے دیگر مومنوں سے بہت بلند اور ممتاز کرتا ہے.چنانچہ اپنے اموال اس کے سپرد کرنا اور اس پر اپنی ہر عزیز متاع نچھاور کرنا شیوہ مومنین ہے جو ابتدائے اسلام سے اب تک مسلسل چلا آرہا ہے.یہ آنحضرت ﷺ کی سنت ہے اور خلفائے راشدین کا مصد قہ طریق ہے.اس پاک سنت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دور میں زندہ بھی فرمایا اور جاری بھی رکھا.آپ کے بعد آپ کے مقدس

Page 346

۱۳۳۰ خلفاء اس سنت کے حامل ہیں.ان کے اس عمل کے ساتھ انفرادی سطح پر بھی ، اجتماعی رنگ میں بھی اور جماعتی طور پر بھی مومنوں کی ایسی دلی رغبت شامل ہے جو اُن کے راسخ اور غیر متزلزل ایمان پر استوار ہے.اس وجہ سے کسی مومن کے دل میں خلیفہ وقت پر کسی عدم اعتمادی کا تصو رتک پیدا نہیں ہوتا.خلیفہ وقت پر عدم اعتماد در اصل اس شخص کے اپنے عدم ایمان کی علامت ہے جو ایسا کرتا ہے.بات صرف یہ نہیں کہ افراد جماعت جو بلی کے موقع پر خدا تعالیٰ کے حضور خلافت کی نعمت کے شکرانے کے طور پر دس لاکھ پاؤنڈ کی رقم خلیفہ وقت کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں.بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ اس کے علاوہ جتنے بھی چندے اور جتنی بھی مالی قربانیاں افراد جماعت خدا کے حضور پیش کرتے ہیں ان کی نگرانی خلیفہ وقت ہی کرتا ہے اور وہی ان کا مالک ہوتا ہے.جو بلی کے خاص موقع پر پیش کی جانے والی مخصوص و محد و در تم اس مالیت کا عشر عشیر بھی نہیں جو دنیا کی تمام جماعتوں کے مجموعی چندوں ، اموال اور جائیدادوں کی ہے.ان تمام اموال اور جائیدادوں اور املاک کا محافظ اور نگران بلکہ بلا شرکت غیرے مختار گل اور مالک، خلیفہ وقت ہے.وہی ایک ہے جو ان تمام اموال اور املاک پر غیر مشروط تصرف کا حق رکھتا ہے.خلیفہ وقت کی اس غیر معمولی امتیازی شان اور بلند مقام کو نہ سمجھتے ہوئے یا اس سے اوجھل رہتے ہوئے ایک خاص موقع پر پیش کی جانے والی مقابلہ اور نسبتاً ایک معمولی سی رقم پر واویلا کرنا محض اپنے نفس کی بداعتمادی اور بد اعتقادی کا اظہار ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ خلافت احمد یہ اور جماعت احمدیہ کے صدق و اخلاص اور وفا کا مقام اتنا بلند ہے کہ کوئی بد اعتماد و بدا اعتقاد اس تک رسائی نہیں رکھتا.پس ظاہر ہے کہ جہانتک اس اعتراض کی روح کا تعلق ہے تو یہ ایک بے اعتمادی اور بھنی پر مبنی خیال ہے جس نے بد اعتقادی کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور اس نے صاحب خیال کے عدم ایمان کی نشاندہی کی ہے.ایسے خیال کو جہاں مومنوں کا عمل بیک جنبش قلم رو کرتا ہے وہاں آنحضرت ا م ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے راشدین کی سنت بھی اس کو جھوٹا کرتی ہے.اموال کے حوالہ سے آنحضرت ام کی ساری زندگی شاہد ہے کہ صحابہ نے آپ پر اپنے اموال بے دریغ نچھاور کئے اور انہوں نے ان کی کوئی رسید طلب نہ کی.اور نہ ہی ان کے مصرف کی

Page 347

(۳۳۱ جانچ پڑتال کا خیال تک دل میں لائے.انہوں نے یہ بھی کبھی نہیں پوچھا تھا کہ ان کا دیا ہوا مال فلاں پر کیوں خرچ کیا گیا یا فلاں مصرف میں کیوں لایا گیا.ان کے ان جذبوں کا منبع ان کا اخلاص و وفا ، تسلیم و رضا اور صدق وصفا تھا اور ان کے اعتماد اور حسنِ ظن کا اظہار ان کے قلبی ایمان سے پھوٹتا تھا.آپ پر اموال لٹانے کا واقعہ ایک دفعہ یا دو یا تین دفعہ نہیں ہوا بلکہ وہ مسلسل اور ہر وقت ظاہر ہوتا رہتا تھا اور خصوصاً غزوات وسرایا کے مواقع تو مالی قربانیوں کی انتہائی حدود کو چھو جاتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بھی آپ کے صحابہ ” کا یہی نمونہ تھا.ساقی کوثر نے آپ کے صحابہ کو بھی آنحضرت ﷺ کے صحابہ والی کے پلائی تھی.جس میں مخمور وہ فدائی انہی کی طرح ہر طرح کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ اموال کی قربانی میں اپنی استطاعت اور توفیق کے آخری قطرے تک نچوڑ دیتے تھے.وہ چند ایک نہیں تھے بلکہ ان گنت تھے جن کی بے شمار مثالیں تاریخ احمدیت کے اوراق پر جگمگ جگمگ کر رہی ہیں.پھر دونوں ادوار کے خلفائے راشدین کے ادوار بھی مومنوں کی ایسی مالی قربانیوں کے روشن نمونوں اور نورانی اداؤں سے بھرے پڑے ہیں.نیز یہ مثالیں اور واقعات قرآن کریم، احادیث نبویہ اور کتب تاریخ وغیرہ میں آسانی سے دستیاب ہیں.پھر قرآن کریم، احادیث نبویہ اور کتب تاریخ کے دائمی ریکارڈ میں ان لوگوں کی مثالیں رقم ہیں جو خدا تعالیٰ کی ان مقدس و مقرب پاک ذاتوں پر اموال کے سلسلہ میں الزام تراشی کرتے رہے ہیں.جب صادق و امین، شاہد و مشہود، سید المعتبر بین حضرت محمد مصطفی ، جیسا پاک ترین، امین ترین اور مقدس ترین وجود بھی ایسے لوگوں کے حملوں سے نہیں بچ سکا تو آپ کے بعد پھر کسی اور کے بارہ میں کوئی کیا ضمانت دے سکتا ہے کہ اس پر ایسے گندے الزامات نہیں لگائے جائیں گے.اللہ تعالیٰ آنحضرت ام پر ایسے الزامات پر حقارت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتا ہے: وو وَ مِنْهُمْ مَنْ يُلْمِرُكَ فِي الصَّدَقَاتِ ، فَإِنْ أَعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَإِنْ لَّمْ يُعْطُوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُوْنَ“ (التوبہ: ۵۸) ترجمہ: اور ان میں سے ایسے بھی ہیں جو تجھ پر صدقات کے بارہ میں الزام لگاتے ہیں.اگر ان

Page 348

۳۳۲ ( صدقات ) میں سے کچھ انہیں دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انہیں ان میں سے نہ دیا جائے تو وہ فورانا راض ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ جو علام الغیوب ہے اور دلوں کے پاتال تک کی خبر رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ ایسے الزام لگانے والے کس ذہنیت کے لوگ ہیں اور وہ خواہش کیا رکھتے ہیں.چنانچہ یہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے مقدس بندوں پر اس قسم کے اعتراض کرنے والے کو خواہ وہ پہلے گزرے ہوں ،اب موجود ہوں یا بعد میں آئیں عموماً خود مالی قربانی کرنے والوں کی صف میں سب سے پیچھے کھڑے ہوں گے یا وہ محض تماش بینوں کی حیثیت رکھتے ہوں گے.ایسے لوگوں کا مقصد نہ کبھی پہلے نیک ہوانہ آئندہ ہو گا.ایسے لوگ تو محض نفاق پھیلانے یا کسی ذاتی انتقام کے در پے ہوتے ہیں.اور ہاں ان میں سے بعض کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ فَاِنْ أَعْطُوْا مِنْهَا رَضُوا وَ إِنْ لَّمْ عْطُوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ.اگر ان ( صدقات ) میں سے کچھ انہیں دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انہیں ان میں سے نہ دیا جائے تو وہ فور ناراض ہو جاتے ہیں.چنانچہ روایت ہے کہ آنحضرت سلم غزوہ حنین میں حاصل ہونے والے اموال غنائم نیز اپنا پانچواں حصہ ( شمس ) وغیرہ تمام اموال تقسیم فرما چکے تھے.پھر بھی بعض سنگدل ایسے تھے کہ جو آپ تقسیم اموال میں نا انصافی کا الزام لگا رہے تھے.چنانچہ ہو تمیم میں سے ایک بدقسمت شخص جس کا نام ذوالخویصرہ تھا، آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا آج آپ نے انصاف نہیں کیا.آپ نے فرمایا: " تم پر رض افسوس ہے.اگر میں انصاف نہ کروں گا تو دنیا میں اور کون ہے جو انصاف کرے گا.“ اس پر صحابہ غیرت وغصہ میں اٹھے.حضرت عمرؓ نے عرض کی: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اُڑا دوں.آپ نے فرمایا: ” اس کو رہنے دو، کیونکہ اس جیسے اور بھی اس کے ساتھی ہیں.تم ان کی نمازوں کے مقابل پر اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے مقابل پر اپنے روزوں کو حقیر جانو گے.یہ قرآن بہت پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا.یہ دین سے اس طرح نکلیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے.“ ( بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة ومسند احمد مسند المكثرين من الصحابة ومسلم کتاب الزكوة باب ذكر الخوارج والسيرة الحلبيه )

Page 349

۳۳۳ یعنی یہ لوگ بظاہر دینی احکامات کی پابندی اور عبادات کی ادائیگی میں اس قدر غلو کریں گے کہ ان کے مقابل پر دوسرے لوگ اپنی عبادت کو کم اور تھوڑا سمجھیں گے لیکن باطنی طور پر یہ ہدایت اور نور سے خالی ہوں گے.چنانچہ بعد میں یہ شخص اور اس کے قبیلہ کے لوگ اس گروہ کے سردار بنے جنہوں نے حضرت علیؓ کے زمانہ میں بغاوت کی اور خوارج کے نام سے مشہور ہوئے.یہ کہنا کہ ” جماعتی فنڈ کسی فرد کو ذاتی استعمال کے لئے نہیں دیئے جانے چاہئیں، چاہے وہ خلیفہ وقت ہی کیوں نہ ہو.یہ امرا خلاقی اور قانونی ہر دو پہلوؤں سے محلِ نظر ہے.“ در اصل یہ اسی اعتراض کی بازگشت ہے جو ذوالخویصرہ نے آنحضرت تم پر کیا تھا.یعنی صرف چہرے بدلے ہیں اور زمانہ بدلا ہے، جبکہ اعتراض اور اس کی روح وہی ہے.اس اعتراض میں ایک خاص جھلک یہ بھی دکھائی دیتی ہے کہ گویا خلیفہ وقت کو چاہئے کہ وہ ایسے لوگوں کی خواہشات اور توقعات کے مطابق عمل کیا کرے.یہ لوگ فیصلہ کریں کہ جماعت کے کام چلانے کے لئے فنڈ ز کس کو اور کہاں دینے چاہئیں.اور یہ لوگ خلیفہ وقت کو بتائیں گے کہ اموال کے مصارف میں اخلاقی ضابطے کیا ہوتے ہیں اور قانونی تقاضے کیا ہیں.نعوذ باللہ من ذلک حقیقت یہ ہے کہ جس کے ہاتھ پر انسان پکتا ہے اور جس وجود کی وہ بیعت کرتا ہے تو وہ اسے اپنا مالک اور آقا بناتا ہے.پھر اسے اپنے اسی مالک اور آقا کے اشارے پر چلنا ہوتا ہے ، مالک اور آقا اپنے غلام اور بیعت کنندہ کی خواہشات کی یا ارادوں کی پیروی نہیں کیا کرتا.پس سائل کا مذکورہ بالا خیال ایسی الٹی گنگا ہے جس میں اترنے والا صرف عقل و دانش کا دامن ہی نہیں چھوڑتا بلکہ دائرہ اطاعت سے نکل کر اپنے ایمان کو بھی خیر باد کہ دیتا ہے.قرآن کریم تو بیعت کنندگان کے لئے یہ ضروری قرار دیتا ہے کہ جب وہ نبی کریم ہم کے پاس جائیں تو صدقہ پیش کریں.یہ اصول آپ کی نیابت میں خدا تعالیٰ کے قائم کردہ ہر امام وقت پر صادق آتا ہے.یعنی قرآنی تعلیم کے مطابق امام وقت کے حضور صدقات و اموال پیش کرنا ،مومن کے ایمان کی ایک نشانی ہے.اموال کی اس پیشکش کی سند اور بیعت کی بنیا دسورۃ التوبہ کی وہ آیتِ کریمہ بھی ہے جس کا ذکر ابتداء میں کیا گیا ہے.اگر کوئی ان سچائیوں سے نا آشنا ہو یا عمدا گریزاں ہو

Page 350

۳۳۴ تو اس کے خیال یا معیار پر مومنوں کے ایمان کو تو نہیں پر کھا جائے گا.ایسا شخص خود تو آزاد ہوسکتا ہے کہ وہ ایسی تحریکات سے پہلو تہی کر کے ان کی برکات سے محروم ہو جائے مگر یہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہو گا کہ افراد جماعت اس کے خیالات کی اتباع کریں اور اس کے الٹے رُخ اور باطل تصورات کے پیچھے چلیں.حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی خدمت میں پیش کی جانے والی رقم اسی الثانی پیش کی جہانتک اس رقم کا تعلق ہے جو حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی خدمت میں جو بلی کے تحفہ کے طور پر پیش کی گئی تھی کہ وہ کس مصرف میں آئی؟ تو اس بارہ میں کوئی اخفاء یا راز داری نہیں ہے بلکہ تاریخ احمدیت کا وہ ایک کھلا باب ہے جس میں اس رقم کے مصارف کی ساری تفصیلات محفوظ ہیں.چنانچہ مورخہ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ء کو جو بلی کے اس جلسہ میں وہ رقم حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں پیش کی گئی.اسی جلسہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم " آمین بھی پڑھی گئی.اس کے اس مصرعہ کے جزو " دے اس کو عمر و دولت کو مد نظر ر کھتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے اپنی دوسری تقریر میں فرمایا کہ میں اس امر پر غور کرتا رہا ہوں کہ اسے کس طرح خرچ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ اس سے برکاتِ خلافت کے اظہار کا کام لیا جائے.یہ امر ثابت ہے کہ رسول کریم میم کے خلفاء اس کام کے کرنے والے تھے جو آپ کے کام تھے.یعنی يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (الجمع : ۳) قرآن کریم میں رسول کریم کے چار کام بیان کئے گئے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نشان بیان کرتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا، ان کو کتاب پڑھاتا اور حکمت سکھاتا ہے.کتاب کے معنے کتاب اور تحریر کے بھی ہیں اور حکمت کے معنے سائنس

Page 351

۱۳۳۵ فرمایا: کے بھی اور قرآن کریم کے حقائق و معارف اور مسائل فقہ کے بھی ہیں.پھر میں نے خیال کیا کہ خلیفہ کا کام استحکامِ جماعت بھی ہے.اس لئے اس روپیہ سے یہ کام بھی کرنا چاہئے...66 غیر مسلموں کے آگے اسلام کو ایسے رنگ میں پیش کیا جائے کہ وہ اس کی طرف متوجہ ہوں.چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ یہ سلسلہ پہلے ہندوستان میں اور پھر بیرونِ ممالک میں شروع کیا جائے اور اس غرض سے ایک، چار یا آٹھ صفحہ کا ٹریکٹ لکھا جائے جسے لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کی مختلف زبانوں میں چھپوا کر شائع کیا جائے.اردو کے بعد میرا خیال ہے سب سے زیادہ اس ٹریکٹ کی اشاعت ہندی میں ہونی چاہئے.66 ” میرا ارادہ ہے کہ ایسے اشتہار ایک لاکھ ہندی میں، ایک لاکھ گور لکھی میں، پچاس ہزار تامل میں اور اسی طرح مختلف زبانوں میں بکثرت شائع کئے جائیں اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسلام کے موٹے موٹے مسائل غیر مسلموں تک پہنچا دیئے جائیں.اشتہار ایک صفحہ، دو صفحہ یا زیادہ سے زیادہ چار صفحہ کا ہو اور کوشش کی جائے کہ ہر شخص تک اسے پہنچادیا جائے اور زیادہ نہیں تو ہندوستان کے ۳۳ کروڑ باشندوں میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا اشتہار پہنچ جائے.یہ اسلام کی بہت بڑی خدمت ہو گی.اسی طرح میرا ارادہ ہے کہ ایک چھوٹا سا مضمون چار یا آٹھ صفحات کا مسلمانوں کے لئے لکھ کر ایک لاکھ شائع کیا جائے.جس میں مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپ کے دعاوی سے آگاہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ آپ نے آکر کیا پیش کیا.پہلے یہ کام چھوٹے پیمانہ پر ہوں مگر کوشش کی جائے کہ آہستہ آہستہ ان کو وسیع کیا

Page 352

جائے.۱۳۳۶ فرمایا: نیز فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اس رقم کو ایسے طور پر خرچ کیا جائے کہ اس کی آمد سے خرچ ہوتا رہے اور سرمایہ محفوظ رہے....اس میں دینی تعلیم جو خلفاء کا کام ہے وہ بھی آجائے گی.پھر آرٹ اور سائنس کی تعلیم نیز غرباء کی تعلیم و ترقی بھی خلفاء کا اہم کام ہے.ہماری جماعت کے غرباء کی اعلی تعلیم کے لئے فی الحال انتظامات نہیں ہیں.66 اسی طرح میں نے جلسہ ہائے سیرت کی جو تحریک شروع کی ہوئی ہے، اسے بھی وسعت دینی چاہئے.یہ بھی مفید تحریک ہے اور سیاسی لیڈر بھی اسے تسلیم کرتے ہیں.“ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ صفحه ۱۰۴ تا ۱۰۸ بحوالہ سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ ۲۳۹،۲۳۸) اسی طرح حضور نے اس رقم سے شروع میں ہر سال ایک ایک وظیفہ دینے اور بعد ازاں مختلف امتحانوں میں اول آنے والے طلبہ کو وظائف دینے کا اعلان فرمایا.نیز غریب طلبہ کی تعلیمی ضروریات اور ان کی ترقی کے لئے تفصیلی لائحہ عمل پیش فرمایا اور اسے صرف لائق اور ذہین احمدی طلبہ تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ ہر طالبعلم جو امتیازی طور پر ذہین ہو اور غربت کی وجہ سے اپنے تعلیمی اخراجات پورے نہ کر سکتا ہو، اسے بھی اس رقم سے وظائف دینے کا ارشاد فرمایا اور ترجیحی بنیاد پر چن کر بعض طلباء کو بیرونِ ملک بھجوا کر اعلیٰ تعلیم کے لئے بھی وظائف دینے کا لائحہ عمل دیا ).آپ نے فرمایا يُزَكِّيهِمْ کے ایک معنی ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جانے کے بھی ہیں اور اس طرح اس میں اقتصادی ترقی بھی شامل ہے.اس کی فی الحال کوئی سکیم میرے ذہن میں نہیں.مگر میرا ارادہ ہے کہ انڈسٹریل

Page 353

۳۳۷ تعلیم کا کوئی معقول انتظام بھی کیا جائے تا پیشہ وروں کی حالت بھی بہتر ہو سکے.اسی طرح ایگریکلچرل تعلیم کا بھی ہو تا زمینداروں کی حالت بھی درست ہو سکے.خلفاء کا ایک کام میں سمجھتا ہوں اس عہدہ کا استحکام بھی ہے.میری خلافت پر شروع سے ہی پیغامیوں کا حملہ چلا آتا ہے مگر ہم نے اس کے مقابلہ کے لئے کما حقہ توجہ نہیں کی.بیس اس فنڈ سے اس قوم کی ہدایت کے لئے جدو جہد کرنی چاہئے اور اس کے لئے بھی میں کوئی تجویز کروں پس یہ خلفاء کے چار کام ہیں اور انہی پر یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا.پہلے اسے کسی نفع مند کام میں لگا کر ہم اس سے آمد کی صورت پیدا کریں گے اور پھر اس آمد سے یہ کام شروع کریں گے.ایک تو ایسا اصولی لٹریچر شائع کریں گے کہ جس سے ہندو، سکھ اسلامی اصول سے آگاہی حاصل کر سکیں.اب تک ہم نے ان کی طرف پوری توجہ نہیں کی.پیس اب ان کے لئے لٹریچر شائع کرنا چاہئے.میں چاہتا ہوں کہ یہ اتنا مختصر ہو کہ اسے لاکھوں کی تعداد میں شائع کر سکیں.پھر ایک حصہ مسلمانوں میں تبلیغ پر خرچ کیا جائے.ایک آرٹ ، سائنس، انڈسٹری اور زراعت وغیرہ کی تعلیم پر اور ایک حصہ نظام سلسلہ پر دشمنوں کے حملہ کے مقابلہ کے لئے.آہستہ آہستہ کوشش کی جائے کہ اس کی آمد میں اضافہ ہوتا رہے اور پھر اس آمد سے یہ کام چلائے جائیں.اس روپیہ کو خرچ کرنے کے لئے یہ تجویزیں ہیں.“ ( تقریر بجواب ایڈریسہائے جماعتہائے احمدیہ.انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۴۳۴ تا ۴۳۸) اہم یہ وہ سکیم تھی جس کی بنیاد وہ رقم تھی جو جو بلی کے روز خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں پیش کی گئی.اس رقم کا مصرف اسی سکیم کے مطابق شروع ہوا اور یہ رقم تقسیم ہو کرختم نہیں ہوئی بلکہ اسے نفع

Page 354

۳۳۸ وو مند بنا کر اس کی آمد سے مذکورہ بالا کام سرانجام پاتے رہے.حتی کہ ۱۹۵۲ء میں مجلس شوری نے تحریک جدید کی طرف سے اشاعت لٹریچر کے لئے متفقہ طور پر ایک لمیٹڈ کمپنی قائم کرنے کی تجویز دی.مگر اس کے لئے چار لاکھ روپے کے سرمایہ کی فراہمی کا مسئلہ تھا.ادھر اشاعت لٹریچر کی غیر معمولی افادیت کے پیش نظر حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے چار لاکھ کی بجائے آٹھ لاکھ کے سرمایہ سے دو کمپنیاں بنانے کا ارشادفرمایا.جہاں چارلاکھ روپے مہیا کرنا ایک انتہائی مشکل کام تھا وہاں آٹھ لاکھ روپے جمع کرنے ناممکن نظر آتے تھے.مگر خود حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی نے مالی قربانی کی بے نظیر قائدانہ مثال پیش کرتے ہوئے اس مشکل کو آسان فرما دیا.آپ نے فرمایا : بہر حال اگر غیر ملکی زبانوں میں لٹریچر شائع کرنے کے لئے ایک لمیٹڈ کمپنی کی ضرورت ہے تو ایسی ضرورت ملکی زبان میں لٹریچر شائع کرنے کے لئے صدر انجمن احمدیہ کو بھی ہے.اس لئے میرے نزدیک دو لمیٹڈ کمپنیاں ہونی چاہئیں.بڑا سوال سرمایہ کا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سرمایہ کا سوال بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی آسانی سے حل ہوسکتا ہے.خلافت جوبلی فنڈ کا جو دولاکھ ستر ہزار کے قریب ہے میں اس کمپنی کو دیتا ہوں جو صدر انجمن احمدیہ کی ہوگی.اس کے علاوہ گزشتہ سالوں میں صدر انجمن احمد یہ چھ ہزار روپیہ سالانہ مجھے گزارہ کے لئے قرض کے طور پر دیتی رہی ہے.بعض سالوں میں اس سے کم رقم بھی ملی ہے.بہر حال آپ لوگ مجھے امداد کے طور پر اور تم دینا چاہتے تھے اور میں نے قرض کے طور پر لی.اب میں چاہتا ہوں کہ اس رقم کو بھی جب میں ادا کر سکنے کے قابل ہوسکوں تو اس مد میں ادا کر دوں.اس رقم کو ملا کر تین لاکھ ستر ہزار بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ رقم جمع ہو جائے گی.کچھ سرمایہ پہلے سے اس مد میں فروخت کتب سے حاصل ہو چکا ہے، اسے ملا کر قریباً چار لاکھ روپیہ کا سرمایہ ہو جاتا ہے.جب کمپنی جاری ہو تو اس وقت ایک لاکھ کے حصے اگر صاحب توفیق احباب خرید

Page 355

۱۳۳۹ لیں تو پانچ لاکھ سرمایہ ہو جائے گا.اور یہ اتنا بڑا سرمایہ ہے کہ اس سے اعلیٰ درجہ کا پریس اور کافی کتب شائع کی جاسکتی ہیں.سر دست میں اس غرض کے لئے چار لاکھ سرمایہ کی ہی اجازت دیتا ہوں.اگر ضرورت پڑی تو بعد میں اس رقم کو بڑھایا بھی جاسکتا ہے.جب اس کمپنی کی وجہ سے آمد شروع ہوگئی تو چونکہ خلافت جو بلی فنڈ کے روپیہ پر اس کی بنیا درکھی گئی ہے...اس لئے اس کی آمد کے پیدا ہونے پر اس کا ایک حصہ وظائف میں بھی رکھا جا سکتا ہے.اب رہ گئی تحریک جدید کی چار لاکھ روپیہ کی کمپنی....اس کمپنی کے سرمایہ کے لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ قرآنِ کریم کے غیر زبانوں میں تراجم کا کام چونکہ اس کا ایک حصہ ہے اس لئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ تراجم قرآن کا دو لاکھ روپیہ اس کمپنی کو دے دیا جائے.وہ تراجم بھی یہی کمپنی شائع کرے اور اس کے علاوہ دوسرا لٹریچر بھی یہی کمپنی شائع کرے.باقی دولاکھ روپیہ رہ گیا.اس کے لئے میرے ذہن میں ایک اور صورت ہے.....وہ ایسی نہیں کہ فوری طور پر روپیل جائے لیکن بہر حال اگر کوشش کی جائے تو مجھے امید ہے دو لاکھ روپیہ ہمیں مل جائے گا.اس کے لئے ایک زمین کو فروخت کرنے کی ضرورت ہے.جو مجھے کسی دوست نے تحفہ کے طور پر پیش کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ تحفہ بھی اس طرف منتقل کر دوں.“ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۰۴ تا ۱۰۸.بحوالہ سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ ۲۳۹،۲۳۸) جماعت کے ایک ایک پیسے کی حفاظت اور اسے بہترین سے بہترین مصرف میں لگانا اور اسے سودمند بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنا، اپنا ذاتی روپیہ بھی جماعت کی ملکیت سمجھنا اور پھر لاکھوں روپیہ اور لاکھوں روپوں کی مالیت کی جائیداد اللہ تعالیٰ کے رستہ میں پیش کر دینا، جس قدر ممکن ہو جماعت کے کاموں کو آگے سے آگے بڑھاتے چلے جانے کی تڑپ رکھنا اور اس کے لئے عملی

Page 356

اقدامات کرنا وغیرہ وغیرہ اعمال حسنہ ہیں جو ان مذکورہ بالا اقتباسات سے ظاہر ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس خلفاء کا گویہ عام معیار قربانی ہے اور اس کے سادہ سادہ نمونے ہیں مگر ان کی شان انتہائی بلند اور عظیم ہے.مالی قربانیوں کی یہ ایسی مثالیں ہیں جو تاریخ عالم میں شاذ شاذ نظر آتی ہیں.ان پاک وجودوں پر بدظنی کرنا ایک بد باطن شخص کی بدسوچوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں.وہ صرف اپنے نفس کے بخل اور بدیانتی پر دوسروں کو قیاس کر کے محض اپنے فسق و فجور کا اظہار کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے شخص کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ وو طعنه بر پا کاں نہ برپاکاں بود خود کنی ثابت کہ ہستی فاجرے“ کہ پاکبازوں پر طعنہ زنی کبھی پاک لوگوں پر نہیں پڑتی بلکہ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ خود فاجر ہے.خلافت حقہ دراصل انوار نبوت اور برکات رسالت کو منعکس کرتی ہے.اس منصب پر فائز وجود انوار بوت کی تأثیر سے ایک نورانی وجود ہوتا ہے اور اُن تمام الائشوں سے پاک ہوتا ہے جن کا تصو ر بد باطن یا بدیانت لوگ کرتے ہیں.چنانچہ ان کے ایسے الزامات ووساوس وغیرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ۱۹۵۲ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے خود وضاحت کرتے ہوئے بیان فرمایا: میں مارچ ۱۹۱۴ ء میں خلیفہ ہوا ہوں اور اس وقت میری خلافت پر ۳۸ سال گزر چکے ہیں.تم ہی بتاؤ میں نے اس عرصہ میں بیت المال سے کیا لیا ہے؟ آخر میں تمہیں تو جہ دلاتا ہوں ، ڈراتا ہوں اور ہوشیار کرتا ہوں تو اس لئے نہیں کہ اس میں میرا کچھ فائدہ ہے.میں تمہیں اس لئے توجہ نہیں دلاتا کہ سلسلہ کے مال میں میرا کوئی حصہ مقرر ہے.یہ نہیں کہ ۸لا کھ آمد ہو گی تو ایک لاکھ میرا ہو گا، بارہ لاکھ ہوگی تو ڈیڑھ لاکھ میرا ہوگا.مجھے سلسلہ کے مال سے کوئی حصہ نہیں ملتا.جس کی وجہ سے میں تمہیں ڈراتا ہوں.میں ۲۵ سال کی عمر کا تھا جب خلیفہ ہوا.اب ۶۳ سال کا ہوں.اب تک خزانہ سے میں نے کیا لیا ہے جس کی وجہ سے کسی کو شبہ ہو کہ میں نے یہ بات کسی غرض کی

Page 357

۱۳۴۱ وجہ سے کہی ہے.میں نے جماعت کو کچھ دیا ہے، یا نہیں.پچھلے دنوں کسی شخص نے میرے متعلق جھوٹ بولا کہ میں جماعت کا چندہ کھا گیا ہوں تو میں نے اپنے چندہ کا حساب نکلوایا تو معلوم ہوا کہ میں صرف تحریک جدید کو پچھلے ۱۸ سالوں میں دولاکھ سے زائد روپیہ دے چکا ہوں.پس جب میں تمہاری مالی حالت کی طرف توجہ دلاتا ہوں تو اپنے فائدہ کے لئے نہیں صرف تمہارے فائدہ کے لئے کچھ کہتا ہوں.“ خطبات محمود نمبر اخطبه نمبر ۴۲ صفحه ۴۵۵) خلفائے راشدین کے مذکورہ بالا نمونے اور ان کی طرف سے وقتاً فوقتاً کی جانے والی وضاحتیں اس خیال اور وسوسہ کو کلیۂ غلط اور جھوٹا ثابت کرتی ہیں کہ جماعتی فنڈ ز کسی فرد کو ذاتی استعمال کے لئے نہیں دیئے جانے چاہئیں، چاہے وہ خلیفہ وقت ہی کیوں نہ ہو.یہ امر اخلاقی اور قانونی ہر دو پہلوؤں سے محلِ نظر ہے.“ ظاہر ہے کہ ایسا اظہار بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود طعنہ زن کے فسق و فجور کی نقاب کشائی کرتا ہے.اس استفسار کا یہ پہلو بھی لا یعنی ہے کہ دین و ایمان کے تقاضوں کے تحت اپنے محبوب آقا ومطاع کے حضور اموال پیش کرنا قانونی لحاظ سے محلِ نظر ہے.جس شخص کے ذہن میں ایسا خیال آتا ہے، ہم اسے یقین دلاتے ہیں کہ خلیفہ وقت کے حضور جو بھی اموال پیش کئے جاتے ہیں وہ ہر ملک میں اس کے قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں.اس سلسلہ میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا.لہذا اسے اس بارہ میں متفکر ہونے کی ضرورت نہیں.

Page 358

جوبلی منانے کا طریق اور مقصود حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو جو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی صورت میں اتارا ہے ہمیشہ جاری رکھنے کے لئے استغفار کا مسلسل ورد اور توجہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا ضروری ہے.تاکہ یہ انعام ہماری نسلوں میں تا قیامت چلتا رہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو حضرت مسیح موعود کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اور آپ کے اس فیض سے جو اللہ تعالیٰ نے خلافت کے ذریعہ ہم میں جاری فرمایا، فیضیاب ہونے کے لئے دعاؤں کے ساتھ ، ایسی دعائیں جو اللہ تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے والی ہوں، ایسی دعائیں جو عرش کے پائے ہلا دینے والی ہوں، ایسی دعائیں جو مردہ دلوں میں جان ڈال دینے والی ہوں، خلافت کی اس صدی کو الوداع کہیں اور اپنی دعاؤں کے ساتھ خلافت کی نئی صدی میں قدم رکھیں.جب اس طرح اس صدی کو دعاؤں کے ساتھ اور پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے الوداع کریں گے اور نئی صدی میں داخل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کو اپنی زندگیوں میں پہلے سے بھی بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتا دیکھیں گے کہ كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ آنَاوَ رُسُلِي یعنی اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے.“ (خطاب ۲۹ جولائی سخت ۲، جلسہ سالانہ یو کے )) ۲۰۰۷ ء

Page 359

بیعتوں کی تعداد پر اعتراض اور اس کا جواب

Page 360

مندرجات بیعتوں کا حصول اور ان کا اندراج دوہرے اندراج تعد دازدواج و کثرت بچگان نو احمدی نمایاں طور پر نظر کیوں نہیں آتے ارتداد ارتداد کی وجوہات رابطہ کا انقطاع فعالیت

Page 361

۳۴۵ ☆☆ خلیفہ وقت پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ بیعتوں کی تعداد کے غلط اعلان کرتا ہے.مثلاً یہ کہ گزشتہ سالوں میں کسی ملک میں ہر سال جتنی بیعتوں کا جو اعلان کیا جاتا ہے اگر ان کے پیش نظر اس ملک کی آبادی کا جائزہ لیا جائے تو ہر تیسرا، چوتھا یا پانچواں فرد احمدی نظر آنا چاہئے.وغیرہ وغیرہ.ایک سرسری اور خیالی جائزہ کے مطابق بظاہر یہ اعتراض ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس کے مطابق جماعتوں کی طرف سے شمار کردہ اور خلیفہ اسیح کی طرف سے اعلان کردہ بیعتوں کی تعداد بظاہر غیر حقیقی معلوم ہوتی ہے.لیکن اس جائزہ کو اگر بیعتوں کی تعداد اور شمار کا حقیقت افروز جائزہ لیا جائے تو یہ اعتراض بے حقیقت ثابت ہوتا ہے.جماعت احمدیہ میں گزشتہ ایک سو سال سے مسلسل اور ہر روز داخلہ کا سلسلہ جاری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ہر قوم اس چشمہ کی طرف لپکتی ہے.جماعت کی مقبول دعوت و تبلیغ کے نتیجہ میں گزشتہ تقریباً ایک سوسال میں دنیا کے دوسو کے لگ بھگ ممالک میں جماعت احمد یہ اپنے نظام کے ساتھ سرگرم عمل ہے.بعض سالوں میں اس تبلیغی جد و جہد میں ایک خاص حکمت عملی کے باعث سرعت پیدا ہوئی جس کی وجہ سے بعض ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں بیعتیں ہوئیں.ان بیعتوں کے ساتھ مساجد، علاقے ، مشن ہاؤسز ،سکول و ہسپتالوں وغیرہ میں بھی خاطر خواہ اضافے ہوئے.چار دانگ عالم میں جماعت احمدیہ کی ایک عمومی ترقی نمایاں طور پر نظر آتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نمایاں ترقی میں ایک حد تک جماعت میں داخل ہونے والے ان نو مبائعین کا بھی حصہ ہے جو گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں.جہانتک بیعتوں کی تعداد یا جماعت میں داخل ہونے والوں کے اعداد و شمار پر تنقید کا تعلق

Page 362

۳۴۶ ہے تو اسے حسب ذیل حقائق کی روشنی میں پرکھا جا سکتا ہے.بیعتوں کا حصول اور ان کا اندراج: جماعت میں داخل ہونے والوں کی تعداد یا ان کی بیعتوں کا شمار ایک ایسا طریق ہے جو ابتداء ہی سے آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق اور آپ کے اختیار کردہ طریق پر مبنی ہے.آنحضرت ا م کے زمانہ میں بسا اوقات جب کسی قبیلہ کی طرف سے کوئی وفد مدینہ آتا تو وہ خود بھی بیعت کرتا اور اپنے قبیلہ کی طرف سے سب افراد کی بیعت کا اقرار کر کے جاتا تھا.اس قبیلہ کی بیعتوں کا شمار سوائے ایک موٹے اندازہ کے اور کچھ نہ تھا.تاریخ اسلام میں ایسے وفود کی تعداد ایک سوساٹھ سے زائد بتائی جاتی ہے.آنحضرت ہم نے دعوت و تبلیغ پر مبنی مختلف اطراف میں کئی مہمات بھی بھجوائیں نیز مبلغین بھی کئی علاقوں کی طرف روانہ فرمائے.چنانچہ بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ ان مبلغین اور مہمات کے ذریعہ کئی علاقے حلقہ بگوش اسلام ہو گئے.ان کی تعداد کا معتین اندازہ نہیں ہوا اور نہ ہی وہاں حتمی شمار کرنا ممکن تھا کہ آیا اس علاقہ یا قبیلہ کے سارے افراد مسلمان ہوئے تھے یا ایک اندازہ سے اس سارے علاقہ یا قبیلہ کو مسلمان شمار کیا گیا تھا.جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض قبائل خاص طور پر ایسے تھے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا مگر اسلامی سلطنت کے نظام میں داخل تھے.لیکن یہ قطعی حقیقت ہے کہ ان وجوہات کی بناء پر الا ماشاء اللہ سارے عرب کو مسلمان سمجھا گیا.جماعت احمدیہ میں گو مسلسل اکا دُکا انفرادی طور پر افراد اور گھرانے ہر ملک میں بیعت کر کے اس کے ممبر بنتے رہتے ہیں اور ان کا اندراج بھی بہت معتین طور پر ساتھ ساتھ ہوتا رہتا ہے.لیکن بعض ممالک اور علاقوں میں قبائل یا قومیں اسی طریق پر گروہ در گروہ بھی جماعت میں داخل ہوتی ہیں جس طریق پر قرونِ اولیٰ میں لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے.البتہ جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والوں کی تعداد کے اندراج کا با قاعدہ نظام موجود ہے.جس علاقہ میں جتنی بیعتیں ہوتی ہیں ان کا ساتھ ساتھ اندراج کیا جاتا ہے لیکن بعض جگہوں پر یہ تعداد لاکھوں میں پہنچتی ہے تو ان کے اندراج میں ایک لمبا عرصہ لگتا ہے.بلکہ بعض اوقات وہاں بیعتوں میں مسلسل اضافہ اندراج کی رفتار

Page 363

سے تیز ہونے کی وجہ سے مزید تاخیر کا باعث بنتا ہے.دوہرے اندراج: اس صورتحال میں ایک مشکل ایسی پیش آتی ہے جس پر قابو پا ناممکن نہیں رہتا.وہ مشکل یہ ہے کہ ایک فرد جو بیعت کرتا ہے ، وہ اپنی سادگی یا لاعلمی کے باعث اگلے سال پھر بیعت کر لیتا ہے اور نئی بیعتوں میں شمار ہو جاتا ہے.اس کا شمار اس سال کی بیعتوں میں بھی ہو جانا کسی جھوٹ یا غلط بیانی پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ لاعلمی یا عملی مجبوری کی بناء پر ہوتا ہے.لہذا اسے جھوٹی رپورٹ قرار دینا درست نہیں.تعد دازدواج و کثرت بچگان: ایک پہلو بیعتوں کا یہ بھی ہے کہ اکثر افراد اپنے اہل وعیال کے ساتھ جماعت میں داخل ہوتے ہیں.افریقہ میں کئی ایک افراد کی ایک سے زائد بیویاں اور ہیں سے زیادہ بچے ہیں.لیکن عملاً وہ ایک فرد اپنی ساری بیویوں اور تمام بچوں سمیت بیعت کرتا ہے تو یہ تعداد بیسیوں پر مشتمل ہوتی ہے.ان میں پچیس بیعت کنندگان میں سے صرف وہی ایک شخص جماعت کے پروگراموں میں شامل نظر آتا ہے.اس کے باوجود افریقہ کے ممالک کی جماعتوں میں فعّال احمدیوں کی تعدا د لاکھوں سے اوپر ہے.نو احمدی نمایاں طور پر نظر کیوں نہیں آتے: اس بارہ میں کئی تجزیے کئے جاتے ہیں کہ اگر ایک ملک میں گزشتہ چند سالوں میں لاکھوں اور ملینز کی تعداد میں احمدی ہوئے ہیں تو اس ملک کی آبادی کے لحاظ سے ہر تیسرا یا چوتھا شخص جماعت کا فرو نظر آنا چاہئے.اس بارہ میں یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ ایک شخص جو بیعت فارم پُر کرتا ہے ، ضروری نہیں کہ وہ اسی دن جماعت کا فعّال رکن بن کر عملاً بھی اسلامی تعلیم پر عمل شروع کر دے.ہر شخص کے لئے تعلیم و تربیت کا معیار اور عرصہ الگ الگ درکار ہوتا ہے.لہذا وہ آہستہ آہستہ جماعت کا عملی رکن بنتا ہے.جب تک وہ عملاً جماعت کا نمبر نہیں بنتا وہ جماعت سے پختگی کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتا.لہذا بیعت کرتے ہی یکلخت اس کا نمایاں طور پر احمدی نظر آنا ممکن نہیں ہوتا.کیونکہ مذہب یا دین کوئی ایسی نمایاں نشانی نہیں رکھتا کہ چہرہ یا لباس سے اسے پہچانا جا سکے کہ وہ کون ہے.اس حقیقت سے بھی

Page 364

۲۴۸ انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض لوگ بیعت کر کے عملاً جماعت کے فعال رکن نہیں بنتے اور اپنی پرانی حالت میں رہتے ہوئے بھی خود کو جماعت میں ہی شمار کرتے ہیں.بعض اوقات نظر کچھ دیکھتی ہے مگر حقیقت کچھ اور ہوتی ہے.اس لئے ضروری نہیں کہ ایک حاسد یا نقاد جب جماعت کی تعداد کو اپنے معیار گنتی کے مطابق دیکھے تو وہ درست ہی ہو.اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمتیں ہیں جن کے تحت وہ اصل صورتحال پر اخفاء کا پردہ ڈال دیتا ہے.مثلاً ملاحظہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: دو وَإِذْ يُرِيْكُمُوْهُمْ إِذَا الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا وَّ يُقَتِلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا “ (الانفال: ۴۵) کہ جب وہ تمہیں ان کو ، جب تمہاری ان سے مڈھ بھیڑ ہوئی تمہاری نظروں میں کم دکھا رہا تھا اور تمہیں ان کی نظروں میں بہت کم دکھا رہا تھا تا کہ اللہ اس کام کا فیصلہ نیٹا دے جو بہر حال پورا ہو کر رہنے والا تھا.لوگوں کا جماعت کو قبول کرنا اور دوسروں کو ان کا کم نظر آنا بھی خدا تعالیٰ کی خاص حکمت کے تحت معلوم ہوتا ہے.جماعت کو اپنی تعداد کے بارہ میں کسی مغالطہ یا ابہام کا سامنانہیں.اگر دوسروں کو وہ نظر نہیں آتا جسے جماعت صحیح سمجھ رہی ہے تو اس کی جماعت ذمہ دار نہیں ٹھہر سکتی.ارتداد الہی سلسلوں میں ارتداد کا سلسلہ بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جو جماعت کی تعداد کے تعین میں روک ہے.بیعتوں کے بارہ میں غلط فہمی دور کرنے کے لئے اس مسئلہ کی نوعیت کو سمجھنا بھی ضروری ہے.تاریخ اسلام بتاتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بیعت کرنے والوں میں مختلف قبائل اور لوگوں کے علاوہ مسیلمہ بن حبیب، طلیحہ الاسدی، سجاح متبنیہ ، اور اسود العنسی جیسے بھی تھے، جو مرتد ہوئے تو اپنے اپنے ساتھ اپنے متبعین کی کثیر تعداد لے کر اسلام سے منکر ہوئے اور بغاوت کی راہ اختیار کر گئے

Page 365

(۳۴۹ تھے.ارتداد کے ایسے نمونے صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ مذاہب عالم میں بھی ہمیشہ سے چلے آتے ہیں.چنانچہ مذہب سے کبھی کوئی انفرادی طور پر ارتداد اختیار کرتا ہے تو کبھی مرتدین گروہوں کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں.غرض مذاہب عالم میں ایمان و کفر اور اقرار و ارتداد ایک مشترک چیز ہے.اس کی وجہ سے کسی مذہب کی معین تعداد کا شمار ممکن نہیں ہوسکتا.گزشتہ مذاہب یا انبیائے سابقہ کے حالات کا مطالعہ کریں تو ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کبھی بچھڑے کو معبود بناتے نظر آتے تھے اور کبھی بلا جھجک آپ کے فرمودات کا انکار کرتے دکھائی دیتے تھے.ایسے ہی نمونے حضرت عیسی کے حواریوں سے بھی ظاہر ہوئے تھے.اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں بھی ان کی اپنی قوم ان سے بغاوت کرتی پائی جاتی ہے.اسی طرح بعض انبیاء کے گھر والے بھی ان کے مخالف پائے جاتے ہیں.اسی طرح آنحضرت ام کے دور میں مرتدین میں سے وہ بھی ہیں جو آپ کی زندگی میں اپنے اچھے حالات میں بھی مرتد ہوئے اور وہ بھی ہیں جو کسی سرزنش یا اس کے خوف کی وجہ سے ارتداد اختیار کر گئے.خصوصاً آپ کے وصال کے بعد ارتداد کا سلسلہ ایسا وسیع ہوا کہ عرب کا طول و عرض اس کی لپیٹ میں آگیا.آپ کی زندگی میں عبد العزی بن خطل ، ہبار بن اسود اور عبداللہ بن ابی سرح جیسے لوگ مرتد ہوئے.اور رعل ، ذکوان ، عصیہ، عکل اور عرینہ وغیرہ قبائل کے لوگ بظاہر اسلام قبول کرنے کے بہانے دھوکہ دے گئے.اسی طرح آپ کے وصال کے بعد قریش اور ثقیف قبائل کے سوا تقریباً ہر قبیلہ میں ہی جزوی یا کلی طور پر ارتداد واقع ہوا.یمن، بحرین ، عمان ، شام کے سرحدی علاقے اور عرب کے اندرونی قبائل میں عمومی ارتداد ہوا.وہاں کوئی نقاد عرب میں مسلمانوں کی تعداد کے غیر حقیقی ہونے کی بات نہیں کرتا.در حقیقت ہمیشہ الہی سلسلوں میں سے ہمیشہ وہی لوگ باہر نکلتے ہیں جو روحانی اور دینی اعتبار سے کمزور اور بیمار ہوں.ایسے بیماروں کے نکل جانے سے الہی جماعت تندرست اور سرسبز رہتی ہے اور اس کا دین خالص رہتا ہے اور وہ ترقیات کی منازل طے کرتی رہتی ہے.اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ

Page 366

فرماتا ہے: د, يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ لا أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِيْنَ يُجَاهِدُوْنَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لائِمٍ ، ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُثْ ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ ط وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (المائدہ:۵۵) ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہو جائے تو ضرور اللہ (اس کے بدلے ایک ایسی قوم لے آئے گا جس سے وہ محبت کرتا ہو اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں.مومنوں پر وہ بہت مہربان ہوں گے (اور ) کافروں پر بہت سخت.وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہ رکھتے ہوں گے.یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا ( اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.اس میں امتِ مسلمہ کے لئے پیشگوئی تھی کہ لوگ اسلام قبول کرنے کے باوجود بھی اس سے نکلیں گے.ان کا نکلنا مذ ہب اسلام کے باطل ہونے کا ثبوت نہیں ہوگا بلکہ اس کی صداقت کی نشانی ہوگا.کیونکہ بنیادی طور پر اور اصل کے لحاظ سے اسلام ایک روحانی مذہب ہے اور نکلنے والے ایسے لوگ نہیں ہوں گے جو دینی اور روحانی لحاظ سے کسی معیار پر قائم ہوں گے.بلکہ یہ لوگ وہ ہوں گے جوخود غرضی، دنیا پرستی یا جاہ وحشم کے متلاشی ہوں گے.ان کی ایسی صفات کا مذہب سے متصادم ہونا ان کے اسلام سے نکلنے کا ایک منطقی نتیجہ ہے.چونکہ ان کے ذہن و روح اسلام کے مزاج کے موافق اور ہم آہنگ نہیں ہیں.اس لئے ان کا اس دین میں ٹھکانہ محض عارضی ہوگا.سوائے اس شخص کے جو اپنے اندر سچائی اور ایمان اور تقوی کو صیقل کرے اور تعلق باللہ میں آگے بڑھے، دوسرا انسان اسلام سے منسلک نہیں رہ سکتا.نام کا مسلمان ہونا ایک الگ چیز ہے مگر دل اور روح کے ساتھ اس پر عملاً کار بند ہونا بالکل اور چیز ہے.

Page 367

۳۵۱ مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اسی بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ مرتد ہونے والوں کے بدلہ میں جو لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوں گے وہ محبت الہی میں سرشار ہوں گے.اسی طرح دیگر اسلامی صفات سے متصف ہوتے چلے جائیں گے.ارتداد کی وجوہات : ارتداد کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ جو ہمیشہ ہی مذاہب میں نظر آتی ہے یہ ہے کہ بعض لوگ یا گروہ یا قبائل وغیرہ نبوت کو ایک دنیوی سیاست کی طرز کا اقتدار سمجھ کر قبول کرتے ہیں اور اپنے کسی نہ کسی فائدہ یا منفعت کو مد نظر رکھ کر اس میں داخل ہوتے ہیں.پھر انہیں جب وہ مقصد پورا ہوتا نظر نہیں آتا یا طبیعت کے برخلاف عبادت کرنی پڑتی ہے اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے دیگر قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے تو وہ اس مذہب کو خیر باد کہہ دیتے ہیں.اسلام میں سے خارج ہونے والوں میں بعض لوگ ایسے بھی تھے.چنانچہ عبد العزی بن خطل اور ہبار بن اسود وغیرہ اسی طرز کے لوگ تھے.بعض نبوت کو ایک بادشاہت کے تسلط کی طرح خیال کر کے اس کے تحت آتے ہیں اور تسلط کا وہ معیار یا اقتدار کی وہ طرز جو اُن کے ذہنوں میں ہوتی ہے، اسے اس الہی جماعت میں مفقود پا کر وہ بھی اس سے کٹ جاتے ہیں.چنانچہ آنحضرت مریم کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والے کئی سرداروں اور قبائلی لیڈروں نے کچھ ایسا ہی سمجھا تھا کہ اسلام ایک سیاسی طاقت ہے جس کے ساتھ ملنا ان کے قبائلی تحفظ کے لئے ضروری ہے.انفرادی طور پر عیینہ بن حصن الفزاری وغیرہ ایسے ہی لوگ تھے اور اجتماعی طور پر مسیلمہ، اسود عنسی ، طلیحہ ، سجاح اور یمن و بحرین وغیرہ کے لیڈر اور ان کی جماعتوں نے ایسے نمونے پیش کئے تھے.اس بحث سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام پر قائم رہنے یا اس سے نکل جانے کے دو پہلو تھے.ایک پہلو سیاسی تھا اور دوسرا اعتقادی یا دینی.سیاسی پہلوکومد نظر رکھ کر جو لوگ یا قبائل اسلام کے سایہ تلے آئے انہوں نے آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد خیال کیا کہ اب اسلام ختم ہو جائے گا.اس لئے وہ مدینہ کے زیر تسلط رہنے سے روگردان ہو گئے بلکہ بغاوتوں پر اتر آئے.اس کے نتیجہ

Page 368

۵۲ میں اسلام کو خوفناک شورشوں کاسامنا کرنا پڑا.دوسرا پہلو اسلام کی اعتقادی اور دینی حالت کا ہے.جس شخص نے اسلام کو اس پہلو سے قبول کیا اور اپنے اندر روحانی زندگی پیدا کی اس پر کبھی موت نہ آسکی.وہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی اسلام سے پوری طرح وابستہ تھا اور بعد میں خلفاء کے زمانوں میں بھی وہ اس کے روحانی ثمرات سے متمتع ہوتا تھا.اس پہلو سے اسلام سے ارتداد کا کوئی نمونہ نظر نہیں آتا.پس الہی سلسلوں سے ارتداد خدا تعالیٰ کی ایسی تقدیر ہے جس سے ان میں کھرے اور کھوٹے میں تمیز ہو جاتی ہے گو اس سے ان کی تعداد معین نہیں رہتی.اس میں داخل ہوتے وقت تو ایک حد تک ان کی گنتی ہو جاتی ہے مگر جب ان میں سے بعض نکلتے ہیں تو ان کا شمار نہیں ہوسکتا.بعینہ جماعت احمدیہ میں بیعتوں کی تعداد کا تعین بھی گزشتہ الہی سلسلوں میں داخل ہونے والوں کی تعداد اور ان کے شمار سے مختلف نہیں ہے.جماعت میں داخل ہونے والوں کی تعداد کا اعلان ان شماریات پر ہوتا ہے جو ہر ملک اور وہاں کی جماعت میں اس سال داخل ہونے والوں کی مرکز سلسلہ پہنچتی ہے.رابطہ کا انقطاع ارتداد کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ بعض ممالک میں خصوصاً افریقہ میں کسی روایتی بادشاہ (چیف یا پیراماؤنٹ چیف) کے احمدی ہو جانے کی وجہ سے سارا قبیلہ جماعت میں داخل ہو جاتا ہے.لیکن بد قسمتی سے بعض اوقات ملکی حالات یا کسی اور وجہ سے اس سے مستقل رابطہ کا سلسلہ قائم نہیں رہتا.نتیجہ وہ سارا قبیلہ اپنی پہلی حالت میں لوٹ جاتا ہے.ایسے لوگوں کا جماعت میں اندراج تو ہو جاتا ہے مگر عملاً وہ جماعت کا حصہ نہیں بن سکتے.یہ مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ آنحضرت دم کے زمانہ میں بھی ایسا ہوا ہے کہ قبیلہ کے سردار نے سارے قبیلہ کی طرف سے بیعت کی اور اپنے ساتھ قبیلہ کو بھی اسلام میں داخل کیا.بنو اسد کے سردار طلیحہ اور بنو فزارہ کے سردار عیینہ اور کئی سرداروں کی ایسی مثالیں موجود ہیں.جو بعد میں اپنے پورے قبیلوں سمیت یا جزوی طور پر ارتداد کر گئے.

Page 369

۵۳ فعالیت: کسی مذہب میں صرف داخل ہونے والوں ہی میں نہیں ، اس مذہب میں پیدا ہونے والوں میں بھی ایک مخصوص تعداد ہمیشہ ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو عبادات اور دینی مساعی میں مصروف اور خدمت کے کاموں میں مشغول نظر آتی ہے.اسی طرح کچھ لوگ میانہ رو ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو پیچھے رہنے والے ہوتے ہیں.یہ تینوں قسم کے لوگ ہر دور میں ایک خاص تناسب سے ہر مذہب و ملت میں ہوتے ہیں.اس لحاظ سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جماعت احمدیہ میں عبادات و دین سے وابستہ اور دینی کاموں اور مساعی میں سرگرم لوگوں کی تعداد تناسب کے لحاظ سے اس دور کی دیگر جماعتوں سے بہت زیادہ ہے اور اس کی کامیابیاں دیگر تمام جماعتوں سے مجموعی لحاظ سے بھی کہیں زیادہ عظیم ہیں.اس کے باوجود نقا دو حستاد سبھی جماعت کے سب افراد کو سرگرم دیکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس جماعت کا ہر فردا سے معاشرہ میں چلتا پھرتا نمایاں نظر آنا چاہئے.جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس معیار تنقید کو وہ دیگر جماعتوں اور مذاہب پر لاگو نہیں کرتے.جماعت میں بیعتوں کی تعداد کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کی یہ نا انصافی ہے جو وہ جماعت سے یا لاعلمی کی بناء پر یا کرتے ہیں یا بغض اور حسد کی بناء پر.اگر یہ لوگ اس پیمانہ پر دیگر مذاہب کی پیش کردہ تعداد کو پرکھیں تو اس کے مقابل پر عیسائیت تو کیا اسلام بھی آٹے میں نمک کے برابر نظر آئے گا.پس یہ قطعی حقیقت ہے کہ ان کی تنقید کی بنیا د غلط ہے.جماعت احمدیہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے خلافت حقہ ، خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہے.اس جماعت کو جعلی بنیادوں پر اپنی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے نہ عادت.ہر شعبہ میں اس کی روز افزوں ترقی اور اس کی تعداد میں شب و روز اضافہ اور ہر ملک و دیار میں بکثرت فعّال کارکنوں کا بڑھتے چلے جانا وغیرہ اس کی سچائی کا آئینہ دار اور منہ بولتا ثبوت ہے.

Page 370

۵۴ حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں: ہماری جماعت کی ترقی کا زمانہ خدا تعالیٰ کے فضل سے قریب آگیا ہے.وہ دن دور نہیں جبکہ افواج در افواج لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے.مختلف ملکوں سے جماعتوں کی جماعتیں داخل ہوں گی اور وہ زمانہ آتا ہے کہ گاؤں کے گاؤں اور شہر کے شہر احمدی ہوں گے.......خدا تعالیٰ نے ہماری ترقی کی ہوائیں چلا دی ہیں.پس ہوشیار ہو جاؤ دیکھو میں آدمی ہوں اور جو میرے بعد ہوگا وہ بھی آدمی ہو گا جس کے زمانہ میں فتوحات ہوں گی.وہ اکیلا سب کو نہیں سکھا سکے گا.تم ہی لوگ ان کے معلم بنو گے.پس اس وقت تم خود سیکھوتا ان کو سکھا سکو.خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ دین کے پروفیسر بنادیئے جاؤ.اس لئے تمہارے لئے ضروری اور بہت ضروری ہے کہ تم خود پڑھو تا آنے والوں کے استاد بن سکو.“ انوار خلافت، انوار العلوم جلد ۳ صفحه ۱۶۵)

Page 371

۳۵۵ خلافت روحانی و ظاهری کی اصطلاحات کے عقب میں وساوس

Page 372

۵۶ مندرجات رد فتنه از انوارِ خلافت خلافت ظاہری اور خلافت باطنی رروحانی برکات و کمالات نبوت سے فیضیاب خلافت ” سب میرے بعد مل کر کام کرو“ خاتم الخلفاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امتیازی خلافت : اس خلافت کے ہمراہ دنیوی بادشاہت وحکومت نہیں ہوگی جماعت احمدیہ کا سر براہ ایک خلیفہ ہوگا

Page 373

۳۵۷ بعض فتنہ پردازوں نے ایک وسوسہ یہ بھی چھوڑا ہے کہ خلافت احمد یہ میں ایک وقت میں دو خلافتیں قائم ہوتی ہیں.ایک روحانی اور دوسری ظاہری.ان دونوں خلافتوں پر کبھی ایک ہی وجود فائز ہوتا ہے تو کبھی دو الگ الگ وجود ہوتے ہیں جن میں اسے ایک ظاہری خلیفہ ہوتا ہے جس کو جماعت منتخب کرتی ہے اور دوسرا روحانی خلیفہ ہوتا ہے جسے خدا براہِ راست بھیجتا ہے یا مامور کرتا ہے.ایسی سوچ والے اپنے دعوئی کی تائید میں اور اپنے مدعا کے ثبوت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حسب ذیل دو اقتباس پیش کرتے ہیں.خدا نے تم سے بعض نیکو کارایمانداروں کے لئے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انہیں زمین پر اپنے رسول مقبول کے خلیفے کرے گا.ان ہی کی مانند جو پہلے کرتا رہا ہے اور ان کے دین کو کہ جو اُن کے لئے پسند کر لیا ہے یعنی دین اسلام کو زمین پر جما دے گا اور مستحکم اور قائم کر دے گا اور بعد اس کے کہ ایماندار خوف کی حالت میں ہوں گے.یعنی بعد اُس وقت کے کہ بباعث وفات حضرت خاتم الانبیاء کے یہ خوف دامنگیر ہوگا کہ شاید اب دین تباہ نہ ہو جائے تو اس خوف اور اندیشہ کی حالت میں خدائے تعالیٰ خلافت حقہ کو قائم کر کے مسلمانوں کو اندیشہ ابتری دین سے بے غم اور امن کی حالت میں کر دے گا.وہ خالصاً میری پرستش کریں گے اور مجھ سے کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے.یہ تو ظاہری طور پر بشارت ہے مگر جیسا کہ آیات قرآنیہ میں عادت الہیہ جاری ہے کہ اس کے نیچے ایک باطنی معنے بھی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ باطنی طور پر ان آیات میں خلافت روحانی کی طرف بھی اشارہ

Page 374

۳۵۸ ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر یک خوف کی حالت میں جب محبت الہیہ دلوں سے اٹھ جائے اور مذاہب فاسدہ ہر طرف پھیل جائیں اور لوگ رو بدنیا ہو جائیں اور دین کے گم ہونے کا اندیشہ ہو تو ہمیشہ ایسے وقتوں میں خدا روحانی خلیفوں کو پیدا کرتا رہے گا کہ جن کے ہاتھ پر روحانی طور پر نصرت اور فتح دین کی ظاہر ہو اور حق کی عزت اور باطل کی ذلت ہو، تا ہمیشہ دین اپنی اصلی تازگی پر عود کرتا رہے.اور ایماندار ضلالت کے پھیل جانے اور دین کے مفقود ہوا جانے کے اندیشہ سے امن کی حالت میں آجائیں.“ ( براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۶۰،۲۵۹ حاشیہ نمبر۱۱) مجد دوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے طور سے ضرورت ہے جیسے کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے.“ (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۰) ان اقتباسات سے ان کے حسب ذیل استدلالات ہیں جو اُن کے فتنہ کی بنیاد ہیں.اس بات پر اتفاق ہے کہ سلسلہ احمدیہ کی خلافت قیامت تک رہے گی.مگر اس میں دونوں قسم کی خلافت شامل ہے.( یعنی ظاہری اور باطنی ) وقتاً فوقتاً دونوں اقسام کے خلفاء کی تابعداری مومنین پر لازم ہے.روحانی خلیفہ چونکہ منہاج نبوت پر نازل ہوتا ہے اور مرسل کے پیرائے میں آتا ہے.اس لئے اس کو شناخت کرنا اور اس پر ایمان لانا ہر مومن پر فرض ہے اور اس ظاہری خلیفہ پر بھی فرض ہے جس کی زندگی میں وہ نازل ہو.اللہ تعالیٰ اپنے روحانی خلیفہ یعنی خلیفہ اللہ کا تقرر بلا شرکت غیر درج ذیل اصول قرآنی یعنی ” يُلْقِي الرُّوْحَ عَلَى مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ (سورۃ المؤمن :۱۲) کرتا ہے.وہ پابند نہیں کہ کسی ظاہری خلیفہ کو ضرور روحانی خلافت بھی عطا کر دے.ہاں کبھی کبھار ظاہری خلفاء اور بادشاہوں کو روحانی خلافت بھی عطا کر دیتا ہے جیسے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے معاملے میں ہوا.نیز حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بھی.

Page 375

۳۵۹ ۴ ہمارا خدا وعدوں کا سچا ہے اور اس نے کسی صدی کو بھی خالی نہیں چھوڑا اور موجودہ پندرویں صدی ہجری میں بھی اپنی قدیم سنت کے مطابق اپنا مرسل نازل فرمایا ہے تا کہ جماعت میح موعود پھر سے تر و تازگی حاصل کرے.

Page 376

رد فتنه از انوارِ خلافت ظاہر ہے کہ ایسے خیالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارتوں سے صاف انحراف ، آپ کے اور آپ کے مقدس خلفاء کے اجماع سے واضح رُوگردانی اور جماعت کے ایک ثابت شدہ مسلک وعقیدہ سے کھلی کھلی بغاوت ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی مختلف عبارتوں اور تشریحات سے نیز حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی سنت سے واضح ہے کہ جماعت میں خلافت ، خلافت راشدہ ، خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہے جو خدا تعالیٰ کی تقدیر اور اس کی تائید سے ہم آہنگ ہے.اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت نے اسی خلافت کو آیت استخلاف کے مطابق ثابت فرمایا ہے.پس اس کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش مردود ہے اور اس کے برعکس کوئی بھی تشریح قطعی طور پر قابل رڈ ہے.خلافت کے موجودہ طریق پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام، آپ کے مؤید من اللہ تمام خلفائے راشدین نیز جماعت احمدیہ کے ہر فرد کا اجماع ہے.معترض نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں سے خلافتِ روحانی ر باطنی اور خلافت ظاہری کی اصطلاحات کو بنیاد بنایا ہے.اس نے کوشش کی ہے جماعت احمدیہ میں جاری خلافت راشده ، خلافت حققہ اسلامیہ، علی منہاج النبوۃ کو ظاہری خلافت کا نام دے کر عام ملوکیت و بادشاہت کی طرز کا نظام ثابت کرے.بظاہر یہ ایک بد عقیدہ شخص کی ایک معمولی سی کوشش معلوم ہوتی ہے مگر در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں جاری قدرتِ ثانیہ کے علیٰ منہاج النبوت نظام اور منصب پر بدعتی حملہ ہے.ظاہر ہے کہ ایک ہی وقت میں دو برسر اقتدار خلفاء کا تصوّر توحید کے بنیادی منشاء اور اس کے نظام کے سراسر خلاف ہے، جسے آیت کریمہ لَوْ كَانَ فِيْهِمَا الِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا“ (سورۃ الانبیاء: ۲۳) ایک ہی ضرب میں پاش پاش کرتی ہے.کہ اگر ان دونوں ( یعنی زمین و آسمان )

Page 377

۳۶۱ میں اللہ کے سوا اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہو جاتے.ایک انتظامی خلیفہ اور اس کے متوازی ایک روحانی خلیفہ کا نظریہ ایسا ہی ہے جیسا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کے وصال پر غیر مبائعین کا تھا.ان کا خیال تھا کہ خلیفہ صرف بیعت لے، نمازیں پڑھا دے وغیرہ وغیرہ لیکن جماعت کا انتظام وانصرام انجمن کے اراکین کے سپر د ہو اور وہی جماعت کے انتظامی سربراہ ہوں.اس تصو راور بد عقیدہ کے حاملین جس طرح شکست وریخت کا شکار ہوئے نیز وقت کے نبی کی نبوت سے منکر ہوئے وہ دیدہ عبرت کے لئے کافی بڑا سبق ہے.بیک وقت دوخلیفوں کا تصور اپنے اندر یہ روح بھی رکھتا ہے کہ وہ خلیفہ جو ظاہری انتخاب کے ذریعہ منتخب ہوتا ہے، (نعوذ باللہ ) روحانیت سے خالی ہوتا ہے اور نعوذ باللہ وہ بے فیض ہے.جبکہ روحانی خلیفہ روح القدس کے ہمراہ ہوتا ہے اور وہ آسمان سے نازل ہوتا ہے.ظاہر ہے کہ یہ خیال ہی خلافت راشدہ کے حقیقی منصب کی تخفیف اور تو ہین ہے.کیونکہ خلیفہ راشد جو ایک وقت میں ایک ہی ہوتا ہے ، منہاج نبوت پر فائز ہو کر دراصل آسمان سے ہی اترتا ہے.اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سرے سے خلافت راشدہ کا قیام بھی مکن نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: عادت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی رسول یا نبی یا محدّث اصلاح خلق اللہ کے لئے آسمان سے اترتا ہے تو ضرور اس کے ساتھ اور اس کے ہمرکاب ایسے فرشتے اترا کرتے ہیں کہ جو مستعد دلوں میں ہدایت ڈالتے ہیں اور نیکی کی رغبت دلاتے ہیں اور برابر اترتے رہتے ہیں جب تک کفر وضلالت کی ظلمت دور ہو کر ایمان اور راستبازی کی صبح نمودار ہو جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرِ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَع الفجر (سورة القدر : ۲،۵) سوملائکہ اور روح القدس کا تنزل یعنی آسمان سے اتر نا اسی وقت ہوتا ہے جب ایک عظیم الشان آدمی خلعت خلافت پہن

Page 378

۳۶۲ کر اور کلامِ الہی سے شرف پا کر زمین پر نزول فرماتا ہے روح القدس خاص طور پر اس خلیفہ کوملتی ہے اور جو اس کے ساتھ ملائکہ ہیں وہ تمام دنیا کے مستعد دلوں پر نازل کئے جاتے ہیں.“ فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۲ حاشیه ) پس خلیفتہ اللہ خواہ وہ نبی ہو یا رسول یا محدّث یا خلیفہ راشد، ایک عظیم الشان وجود ہے جو فرشتوں کے جلو میں روحانی طور پر آسمان سے اترتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تعلیم سے برعکس وساوس پیدا کرنے والے پر حجت قائم کرنے کے لئے ، اس تمہیدی تفصیل کے بعد ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلیفہ اول و ثانی رضی اللہ عنہما کی تحریرات اور پر عرفان تشریحات کو یکجائی نظر سے دیکھتے ہیں.ان روشن تحریرات میں خلافت روحانی رباطنی اور خلافت ظاہری کی اصطلاحات کے صحیح حقیقی اور اصل معنوں کا تعین ہوتا ہے، جو دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش نظر تھے.جہانتک حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے نزدیک خلافت احمدیہ کا تعلق ہے، آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت سے صرف ایک ہی خلافت مراد لی ہے جو نبی کے بعد خلافت راشدہ کا مرتبہ و مقام رکھتی ہے.آپ نے اس تصویر خلافت کو اپنی تقریروں اور تحریروں میں ہمیشہ آیت استخلاف کی تشریح و تعبیر قرار دیا ہے.خلافت کے اسی تصور اور منصب کو آپ نے معتین طور پر جماعت میں قائم اور راسخ فرمایا.آپ نے اس کے ساتھ کبھی کسی ظاہری خلافت کا تصور منسلک نہیں کیا.اسی طرز پر آپ کی خلافت بھی ، خلافت راشدہ تھی جو خدا تعالیٰ کی قدرت ثانیہ کا مظہر تھی.یہ وہ مقام و منصب خلافت ہے جس کے اسلوب پر جماعت میں خلافت راشدہ علیٰ منہاج النبوة كا نظام مستقل بنیادوں پر جاری ہوا ، جاری ہے اور جاری رہے گا.آپ کے دور خلافت میں تمام صحابہ کا اسی عقیدہ پر ایمانی، اعتقادی اور عملی اجماع تھا.یہی وجہ تھی کہ اس وقت خلافت کی روحانی رباطنی اور ظاہری قسموں پر کوئی بحث نہیں اٹھی.کیونکہ جماعت کے عقائد کے مطابق یہ بحث نہ صرف یہ کہ غیر ضروری ہے بلکہ در حقیقت یہ کوئی بحث ہے ہی نہیں.

Page 379

۳۶۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلافت کے ان پہلوؤں پر جولکھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جو تشریح اور تفسیر ان تحریرات کی پیش فرمائی ، وہ مختلف اقتباسات کی شکل میں درج ذیل ہے.ان اقتباسات سے جو استدلال اور استخراج ہوتے ہیں وہ ان کے ساتھ ساتھ درج کئے گئے ہیں تا کہ ساتھ ساتھ ہمارا مدعا اور مقصد بھی واضح ہوتا جائے.

Page 380

۳۶۴ خلافت ظاہری اور خلافتِ باطنی رروحانی آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا: " الْخِلَافَةُ ثَلَاثُوْنَ سَنَةً ثُمَّ يَكُوْنُ مُلْكا کہ خلافت تمہیں سال رہے گی پھر بادشاہت ہوگی.(مشكوة كتاب الفتن ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حدیث خلافت علی منہاج نبوت کا ذکر کر کے فرماتے ہیں: یعنی رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم میں نبوت رہے گی جب تک خدا چاہے گا پھر خدا اس نعمت کو اٹھالے گا اور تمہیں خلافت علی منہاج النبوة کی نعمت دے گا اور یہ خلافت تم میں اس وقت تک رہے گی جب تک خدا چاہے گا.پھر خدا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا.اور جب تک چاہے گا تم میں ملوکیت کو قائم رکھے گا.پس جبکہ رسول کریم ہم نے خلفاء کے بادشاہ ہونے سے بھی انکار کیا ہے جیسا کہ پہلے خلافت ہوگی اور پھر ملوکیت تو معلوم ہوا کہ خلافت نبوت اور خلافت ملوکیت دونوں امت محمدیہ کے افراد کو نہیں مل سکتیں.“ خلافت را شده، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۵۴۸) حمد حکومت یا ملوکیت الگ چیزیں ہیں اور خلافت نبوت الگ.آنحضرت ام کے ان ارشادات میں ان دونوں کا فرق نمایاں طور پر واضح ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اللہ جل شانہ نے حضرت موسیٰ کو اپنی رسالت سے مشرف کر کے پھر بطور اکرام و انعام خلافتِ ظاہری اور باطنی کا ایک لمبا سلسلہ ان کی شریعت میں رکھ دیا.جو قریباً چودہ سو برس تک ممتد ہو کر آخر حضرت عیسیٰ علیہ

Page 381

۳۶۵ السلام پر اس کا خاتمہ ہوا.اس عرصہ میں صد ہا بادشاہ اور صاحب وحی والہام شریعت موسوی میں پیدا ہوئے.“ (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۲) شریعت موسوی میں چودہ سو برس تک خلافت کا سلسلہ ممتد رہا.نہ صرف تمہیں برس تک اور صد ہا خلیفے روحانی اور ظاہری طور پر ہوئے نہ صرف چار اور پھر ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوا.“ (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۴) یہودیوں اور نصاری کی کتابوں کو دیکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ گواس قوم کا دشمن یعنی فرعون ان کے سامنے ہلاک ہوا.مگر وہ خود تو زمین پر نہ ظاہری خلافت پر پہنچے نہ باطنی خلافت پر.بلکہ اکثر ان کی نافرمانیوں سے ہلاک کئے گئے اور چالیس برس تک بیابان لق و دق میں آوارہ رہ کر جان بحق تسلیم ہوئے.پھر بعد ان کی ہلاکت کے ان کی اولا د میں ایک ایسا سلسلہ خلافت کا شروع ہوا کہ بہت سے بادشاہ اس قوم میں ہوئے اور داؤد اور سلیمان جیسے خلیفة اللہ اسی قوم میں پیدا ہوئے.یہاں تک کہ آخر یہ سلسلہ خلافت کا چودہویں صدی میں حضرت مسیح پر ختم ہوا.شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۶،۳۲۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں عام طور پر خلافتِ ظاہری سے بادشاہت مراد لی گئی ہے اور روحانی یا باطنی خلافت بوت ہے یعنی خلافت را شده، مجددیت محد ثیت وغیرہ.بادشاہت و ملوکیت جو حکمرانی کی خلافت ہے.اس کا روحانی خلافت سے جو کہ نبوت کی خلافت ہے، کوئی تعلق نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: جس شخص کے دل میں حق کی تلاش ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ قرآن

Page 382

۳۶۶ شریف کے رُو سے کئی انسانوں کا بروزی طور پر آنا مقد رتھا.(۱) اول مثیلِ موسیٰ کا یعنی آنحضرت ام کا جیسا کہ آیت إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُوْلاً سے ثابت ہے.(۲) دوم خلفائے موسیٰ کے مثیلوں کا جن میں مثیل مسیح بھی داخل ہے.جیسا کہ آیت كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ سے ثابت ہے.(۳) عام صحابہ کے مثیلوں کا جیسا کہ آیت وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ سے ثابت ہے.۴: چہارم ان یہودیوں کے مثیلوں کا جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام پر کفر کا فتو ی لکھا اور ان کو قتل کرنے کے فتوے دیئے اور ان کی ایذاء اور قتل کے لئے سعی کی.جیسا کہ آیت غیر الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں جود عا سکھائی گئی ہے اس سے صاف مترشح ہو رہا ہے.(۵) پنجم یہودیوں کے بادشاہوں کے ان مثیلوں کا جو اسلام میں پیدا ہوئے جیسا کہ ان دو بالمقابل آیتوں سے جن کے الفاظ باہم ملتے ہیں سمجھا جاتا ہے اور وہ یہ ہیں.یہودیوں کے بادشاہوں کی نسبت قَالَ عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ (الجزو نمبرے، سورۃ الاعراف: ۱۳۰) اسلام کے بادشاہوں کی نسبت ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَلِيْفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِتَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (الجزو نمبر اسورة يونس : ۱۵) یہ دو فقرے یعنی فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ جو یہودیوں کے بادشاہوں کے حق میں ہیں اور اس کے مقابل پر دوسرا فقرہ یعنی لِننظر

Page 383

۳۶۷ كَيْفَ تَعْمَلُونَ جو مسلمانوں کے بادشاہوں کے حق میں ہے صاف بتلا رہے ہیں کہ ان دونوں قوموں کے بادشاہوں کے واقعات بھی باہم متشابہ ہوں گے.سو ایسا ہی ظہور میں آیا.اور جس طرح یہودی بادشاہوں سے قابل شرم خانہ جنگیاں ظہور میں آئیں اور اکثر کے چال چلن بھی خراب ہو گئے.یہاں تک کہ بعض ان میں سے بدکاری، شراب نوشی ، خونریزی اور سخت بے رحمی میں ضرب المثل ہو گئے.یہی طریق اکثر مسلمانوں کے بادشاہوں نے اختیار کئے.ہاں بعض یہودیوں کے نیک اور عادل بادشاہوں کی طرح نیک اور عادل بادشاہ بھی بنے جیسا کہ عمر بن عبد العزیز.(1) چھٹے ان بادشاہوں کے مثیلوں کا قرآن شریف میں ذکر ہے جنہوں نے یہودیوں کے سلاطین کی بدچلنی کے وقت ان کے ممالک پر قبضہ کیا 66 حضرت طلیقہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: دو (تحفہ گولڑو یہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۰۷،۳۰۶) پہلی خلافتیں یا تو خلافت موت تھیں جیسے حضرت آدم اور حضرت داؤدعلیہا السلام کی خلافت تھی اور یا پھر خلافت حکومت تھیں جیسا کہ فرمایا.وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْطَةٌ ، فَإِذْكُرُوا الْآءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (الاعراف: ۷۰) یعنی اس وقت کو یاد کرو جب کہ قوم نوح کے بعد خدا نے تمہیں خلیفہ بنایا.اور اس نے تم کو بناوٹ میں بھی فراخی بخشی یعنی تمہیں کثرت سے اولا ددی پس تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو.اس آیت میں خلفاء کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد صرف دنیوی بادشاہ ہیں اور نعمت سے مراد بھی نعمت حکومت ہی ہے.اور اللہ تعالیٰ نے

Page 384

۳۶۸ انہیں نصیحت کی ہے کہ تم زمین میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھ کر تمام کام کرو.ورنہ ہم تمہیں تباہ کر دیں گے.چنانچہ یہود کی نسبت اس انعام کا ذکر ان الفاظ میں فرماتا ہے.وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ تُلُوْ كاوَاتَاكُمْ مَالَمْ يُؤْتِ أَحَداً مِّنَ الْعَلَمِيْنَ (المائدہ:۲۱) یعنی اس قوم کو ہم نے دو طرح خلیفہ بنایا.إِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاء کے ماتحت انہیں خلافت نبوت دی اور جَعَلَكُمْ شُلُوکا کے ماتحت انہیں خلافتِ ملوکیت دی.غرض پہلی خلافتیں دو قسم کی تھیں.یا تو وہ خلافت نبوت تھیں.اور یا پھر خلافت ملوکیت.پس جب خدا نے یہ فرمایا کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ تو اس سے یہ استنباط ہوا کہ پہلی خلافتوں والی برکات ان کو بھی ملیں گی اور انبیاء سابقین سے اللہ تعالیٰ نے جو سلوک کیا وہی سلوک وہ امت محمدیہ کے خلفاء کے ساتھ بھی کرے گا.“ (خلافت راشده، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۵۲۹) وو دوسری آیات میں بادشاہوں کا بھی وعدہ ہے مگر اس جگہ بادشاہت کا ذکر نہیں بلکہ صرف مذہبی نعمتوں کا ذکر ہے.چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ کہ خدا اپنے قائم کردہ خلفاء کے دین کو دنیا میں قائم کر کے رہتا ہے.اب یہ اصول دنیا کے بادشاہوں کے متعلق نہیں اور نہ ان کے دین کو خدا تعالیٰ نے کبھی دنیا میں قائم کیا.بلکہ یہ اصول روحانی خلفاء کے متعلق ہی ہے.پس یہ آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس جگہ جس خلافت سے مشابہت دی گئی ہے وہ خلافت نبوت ہی ہے نہ کہ خلافتِ ملوکیت.اسی طرح فرماتا

Page 385

۳۶۹ ہے.وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آشنا کہ خدا ان کے خوف کو امن سے بدل دیا کرتا ہے.یہ علامت بھی دنیوی بادشاہوں پر کسی صورت میں چسپاں نہیں ہوسکتی.کیونکہ دنیوی بادشاہ اگر آج تاج و تخت کے مالک ہوتے ہیں تو کل تخت سے علیحدہ ہو کر بھیک مانگتے دیکھے جاتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے خوف کو امن سے بدل دینے کا کوئی وعدہ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات جب کوئی سخت خطرہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے مقابلہ کی ہمت تک کھو بیٹھتے ہیں.پھر فرماتا ہے.يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا کہ وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے.گویا وہ خالص موحد اور شرک کے شدید ترین دشمن ہوں گے.مگر دنیا کے بادشاہ تو شرک بھی کر لیتے ہیں.حتی کہ رسول کریم نہ فرماتے ہیں.یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے کبھی کفر بواح صادر ہو جائے.پس وہ اس آیت کے مصداق کس طرح ہو سکتے ہیں.چوتھی دلیل جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خلفاء سے مراد دنیوی بادشاہ ہر گز نہیں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأَوْلَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ یعنی جو لوگ ان خلفاء کا انکار کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے.اب بتاؤ کہ جو شخص کفر بواح کا بھی مرتکب ہوسکتا ہو آیا اس کی اطاعت سے انکار کرنا انسان کو فاسق نہیں بنا سکتا.فسق کا فتوای انسان پر اسی صورت میں لگ سکتا ہے جب وہ روحانی خلفاء کی اطاعت کا انکار کرے.غرض یہ چاروں دلائل جن کا اس آیت میں ذکر ہے اس امر کا ثبوت

Page 386

ہیں کہ اس آیت میں جس خلافت کا ذکر کیا گیا ہے وہ خلافت ملوکیت نہیں.پس جب خدا نے یہ فرمایا کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ کہ ہم ان خلیفوں پر ویسے ہی انعامات نازل کریں گے جیسے پہلے خلفاء پر انعامات نازل کئے تو اس سے مراد یہی ہے کہ جیسے پہلے انبیاء کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی رہی ہے اسی طرح ان کی مدد ہوگی.پس اس آیت میں خلافت نبوت سے مشابہت مراد ہے نہ کہ خلافت ملوکیت سے.“ خلافت را شده، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۵۲۹ تا ۵۳۱) آیت استخلاف میں خلافت روحانی ، خلافت نبوت اور خلافت راشدہ علیٰ منہاج النبوۃ کا ذکر ہے.اس میں حکومت و ملوکیت کی خلافت کا ذکر نہیں ہے.ان دونوں اقتباسات میں ملوکیت کی جانشینی اور موت کی جانشینی کونکھار کر الگ الگ کر دکھایا گیا ہے تا کہ نہ تو کوئی ابہام رہے نہ کوئی ظاہری خلافت کی اصطلاح کی آڑ میں کسی کو گمراہ کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر صرف اس قدر ہوتا کہ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلحت تو کچھ معلوم نہ ہو سکتا تھا کہ یہ کن ایمانداروں کا ذکر آیا ہے؟ آیا اس امت کے ایماندار یا گزشتہ امتوں کے اور اگر صرف منكم ہوتا اور الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحت نہ ہوتا تو یہ سمجھا جاتا کہ فاسق اور بدکار لوگ بھی خدا تعالیٰ کے خلیفے ہو سکتے ہیں.حالانکہ فاسقوں کی بادشاہت اور حکومت بطور ابتلا کے ہے نہ بطور اصطفا کے.اور خدا تعالیٰ کے حقانی خلیفے خواہ وہ روحانی خلیفے ہوں یا ظاہری وہی لوگ ہیں جو متقی اور ایماندار اور نیکوکار ہیں.“ شہادۃ القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۳، ۳۳۴)

Page 387

اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانی خلیفہ سے مراد وہ مجدد و محدث و مصلح وغیرہ ہیں جنہیں خلیفہ راشد ہونے کا منصب عطا نہیں ہوا اور ظاہری خلیفہ سے مراد وہ خلیفہ ہے جسے خلیفہ راشد کا منصب بھی عطا ہوا.اس کی خلافت صرف روحانیت تک محدود نہیں رہی بلکہ منصب تک بھی پہنچی.اس اعتبار سے یہ قاعدہ کلیہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ ہر روحانی خلیفہ خلیفہ راشد نہیں ہوتا لیکن ہر خلیفہ راشد ضرور روحانی خلیفہ ہوتا ہے.یا پھر ظاہری خلافت سے پہلی امتوں کے وہ بادشاہ یا حکمران خلیفہ مراد ہیں جو نیک تھے اور مقام نبوت تک پہنچے ہوئے تھے جیسے حضرت داؤ دو حضرت سلیمان علیہما السلام.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بسا اوقات ظاہری خلافت سے نیک بادشاہوں کی بادشاہت بھی مراد لی ہے جیسے حضرت عمر بن عبد العزیز.لیکن آپ نے روحانی یا باطنی خلافت سے بادشاہت مراد نہیں لی.

Page 388

۳۷۲ برکات و کمالات نبوت سے فیضیاب خلافت حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وو سوخدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس نبی کریم کے خلیفے وقتاً فوقتاً بھیجتا رہوں گا اور خلیفہ کے لفظ کو اشارہ کے لئے اختیار کیا گیا کہ وہ نبی کے جانشین ہوں گے اور اس کی برکتوں میں سے حصہ پائیں گے جیسا کہ پہلے زمانوں میں ہوتا آیا ہے.“ ( شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۹) اگر یہ کہا جائے کہ موسوی سلسلہ میں تو حمایت دین کے لئے نبی آتے رہے اور حضرت مسیح بھی نبی تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرسل ہونے میں نبی اور محدث ایک ہی منصب رکھتے ہیں اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے نبیوں کا نام مرسل رکھا.ایسا ہی محد ثین کا نام بھی مرسل رکھا.اس اشارہ کی غرض سے قرآن شریف میں وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُل آیا ہے.اور یہ نہیں کہ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالْأَنْبِيَاء.پس یہ اس کی طرف اشارہ ہے کہ اس سے مراد مرسل ہیں.خواہ وہ رسول ہوں یا نبی ہوں یا محدث ہوں.چونکہ ہمارے سید و رسول تیم خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت لا کوئی نبی ! نہیں آسکتا اس لئے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محد ث رکھے گئے.“ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۴،۳۲۳) جس طرح موسوی سلسلہ میں خلفاء مرسل تھے اسی طرح محمدی سلسلہ میں خلفاء محدّث مجد داور خلفائے راشدین تھے گو وہ نبی نہیں کہلائے.مگر كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيل تھے.” ہم کب کہتے ہیں کہ مجد داور محدث دنیا میں آکر دین میں سے

Page 389

۳۷۳ کچھ کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں.بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے.تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے مجد د اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں.....وہ دین کو منسوخ کرنے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں.....افسوس کہ معترض کو یہ سمجھ نہیں کہ مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے.جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے.“ (شہادۃ القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۰،۴۳۹) د وہ پاک لوگ جو بات کی جانشینی میں روحانی مقامات کے حامل ہیں، وہی روحانی خلافت پر فائز ہیں.یہ بات نہایت ضروری ہے کہ بعد وفات رسول اللہ ام اس امت میں فساد اور فتنوں کے وقتوں میں ایسے مصلح آتے رہیں جن کو انبیاء کے کئی کاموں میں سے یہ ایک کام سپرد ہوا کہ وہ دین حق کی طرف دعوت کریں.اور ہر ایک بدعت جو دین سے مل گئی ہو اس کو دور کریں....66 (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۴) یہ روحانی خلافت ہے جو مختلف مصلحین کے ذریعہ جاری رہی.بعض صاحب آیت وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ کی عمومیت سے انکار کرتے ہیں.کہ سنگم سے صحابہ ہی مراد ہیں اور خلافت راشدہ حقہ انہیں کے زمانہ تک ختم ہوگئی اور پھر قیامت تک اسلام میں اس خلافت کا نام ونشان نہیں ہوگا.گو ایک خواب

Page 390

(۳۷۴ و خیال کی طرح اس خلافت کا صرف تمہیں برس ہی دور تھا.اور پھر ہمیشہ کے لئے اسلام ایک لا زوال نحوست میں پڑ گیا.مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا کسی نیک دل انسان کی ایسی رائے ہو سکتی ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت تو یہ اعتقادر کھے کہ بلاشبہ ان کی شریعت کی برکت اور خلافت راشدہ کا زمانہ برابر چودہ سو برس تک رہا.لیکن وہ نبی جو افضل الرسل اور خیر الانبیاء کہلاتا ہے اور جس کی شریعت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے،اس کی برکات گویا اس کے زمانے تک ہی محدود ر ہیں.اور خد اتعالیٰ نے چاہا کہ کچھ مدت تک اس کی برکات کے نمونے اس کے روحانی خلیفوں کے ذریعہ ظاہر ہوں.ایسی باتوں کو تو سن کر ہمارا بدن کانپ جاتا ہے.مگر افسوس کہ وہ لوگ بھی مسلمان ہی کہلاتے ہیں کہ جو سراسر چالا کی اور بے باکی کی راہ سے ایسے بے ادبانہ الفاظ منہ پر لے آتے ہیں.کہ گویا اسلام کی برکات آگے نہیں بلکہ مدت ہوئی کہ ان کا خاتمہ ہو چکا ہے.“ شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۰) موسوی شریعت میں خلافت راشدہ ، نبوت کے پیرا یہ میں تھی اور امت محمدیہ میں روحانی خلافت ( خلافت علی منہاج النبوة ) خلافتِ راشدہ کے پیرا یہ میں تھی.گو مجددیت و محدثیت وغیرہ بھی خلافتِ روحانی ہے مگر نبوت کے بعد خلافتِ راشدہ( علی منہاج النبوة ) روحانی خلافت کا بلند ترین مقام ہے.خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہو سکتا ہے جو فلمی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ در حقیقت رسول کاظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے

Page 391

۳۷۵ لئے دائمی طور پر بقا نہیں، لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف واولی ہیں، فلمی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانے میں برکاتِ رسالت سے محروم نہ رہے.پس جو شخص خلافت کو صرف تمیں برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہر گز نہیں تھا کہ رسول کریم کی وفات کے بعد صرف تمہیں برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے.پھر بعد اس کے دنیا تباہ ہو جائے تو ہو جائے، کچھ پرواہ نہیں.بلکہ پہلے دنوں میں تو خلیفوں کا ہونا بجز شوکتِ اسلام پھیلانے کے کچھ اور زیادہ ضرورت نہیں رکھتا تھا.کیونکہ انوار رسالت اور کمالات نبوت تازہ بتازہ پھیل رہے تھے اور ہزار ہا مجزات بارش کی طرح ابھی نازل ہو چکے تھے اور اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اس کی سنت اور قانون سے یہ بھی بعید نہ تھا کہ بجائے ان چار خلیفوں کے اس تیس برس کے عرصہ تک آنحضرت م کی عمر کو ہی بڑھا شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۴،۳۵۳) خلیفہ راشد نبی کے کمالات کا مظہر ہے اور برکاتِ رسالت دراصل روحانی خلافت سے منعکس ہوتی ہیں.حضرت موسیٰ کے خلیفوں کا چودہ سو برس تک سلسلہ ممتد ہو اور اس جگہ صرف تمہیں برس تک خلافت کا خاتمہ ہو جائے.اور نیز جب کہ یہ امت خلافت کے انوار روحانی سے ہمیشہ کے لئے خالی ہے تو پھر آیت

Page 392

أُخْرِجَتْ لِلنَّاس کے کیا معنی ہیں.سواے لوگو جو مسلمان کہلاتے ہو برائے خدا سوچو کہ اس آیت کے یہی معنی ہیں ہمیشہ قیامت تک تم میں روحانی زندگی اور باطنی بینائی رہے گی.اور غیر مذہب والے تم سے روشنی حاصل کریں گے.اور یہ روحانی زندگی اور باطنی بینائی جو غیر مذہب والوں کو حق کی دعوت کرنے کے لئے اپنے اندر لیاقت رکھتی ہے، یہی وہ چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں خلافت کہتے ہیں.پھر کیونکر کہتے ہو کہ خلافت صرف تمہیں برس تک ہوکر پھر زاویہ عدم میں مخفی ہوگئی.“ (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۵) یعنی خلافت روحانی ، بادشاہت نہیں ہے ورنہ مسلمانوں میں بہت سے بادشاہ گزرے ہیں.انہیں روحانی خلیفہ تسلیم نہیں کیا گیا.حق کی دعوت کے لئے لیاقت کا تعلق روحانی خلافت سے ہے بادشاہت سے نہیں.اللہ جل شانہ نے اسلامی امت کے کل لوگوں کے لئے ہمارے نبی ﷺ کو شاہد ٹھہرایا ہے اور فرمایا إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ اور فرمایا وَ جِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا مگر ظاہر ہے کہ ظاہری طور پر تو آنحضرت صرف تئیس برس تک اپنی امت میں رہے.پھر یہ سوال کہ دائمی طور پر وہ اپنی امت کے لئے کیونکر شاہد ٹھہر سکتے ہیں.یہی واقع جواب رکھتا ہے کہ بطور استخلاف کے یعنی موسیٰ علیہ السلام کی مانند خدا تعالیٰ نے آنحضرت ا کے لئے بھی قیامت تک خلیفے مقرر کر دیئے اور خلیفوں کی شہادت بعینہ آنحضرت ﷺ کی شہادت متصور ہوئی اور اس طرح پر مضمون آیت إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ بِ یک پہلو سے درست ہو گیا.غرض شہادت دائگی کا عقیدہ جو نص قرآنی سے بتواتر ثابت اور تمام مسلمانوں کے نزدیک مسلم ہے تبھی معقولی اور تحقیقی طور

Page 393

پر ثابت ہوتا ہے جب خلافت دائمی کو قبول کیا جائے.“ (شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۳) ” اے عزیز و! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں کہ خدا تعالی اپنی قدیم سنت کو ترک کر د یو ہے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی ہمگین مت ہواور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے.اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائی ہے.جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہ ہوگا.“ وو (الوصیّت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵) سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو.اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہوکر دعا میں لگے رہیں.تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو.اور تمہیں 66 دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے." ( الوصیت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶) با دشاہت دوسری قدرت نہیں ہے.جو قدرت خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتی ہے، اس کا ثبوت قدرتِ ثانیہ یعنی خلافت علی منہاج النبوۃ سے ملتا ہے.یہ ثبوت بادشاہت سے نہیں ملتا.؎ قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے.حمد یہ خلافت تا قیامت ہے اور وہ دائی شہادت رسول ہے جس کا ذکر ” شہادۃ القرآن میں ہے.قدرت ثانیہ حضرت ابو بکر کی مثال کے تحت خلافت راشدہ ہے جس پر تمام خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اجماع ہے.حضرت سید محمد اسمعیل شہید قفرماتے ہیں:

Page 394

۳۷۸ ” خلیفہ راشد وہ شخص ہے جو صاحب منصب امامت ہو اور سیاستِ ایمانی کے معاملات اس سے ظاہر ہوں.جو اس منصب تک پہنچا وہی خلیفہ راشد ہے.خواہ زمانہ سابق میں ظاہر ہوا،خواہ موجودہ زمانہ میں ہو ،خواہ اوائل امت میں ہو، خواہ اس کے آخر میں...پس جیسا کہ کبھی کبھی دریائے رحمت سے کوئی موج سر بلند ہوتی ہے اور ائمہ ہدی میں سے کسی امام کو ظاہر کرتی ہے.ایسا ہی اللہ کی نعمت کمال تک پہنچتی ہے تو کسی کو تخت خلافت پر جلوہ افروز کر دیتی ہے اور وہی امام اس زمانہ کا خلیفہ راشد ہے.اور وہ جو حدیث میں وارد ہے کہ ” خلافت راشدہ کا زمانہ رسولِ مقبول علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد تمیں سال تک ہے.اس کے بعد سلطنت ہوگی.اس سے مراد یہ ہے کہ خلافت راشدہ متصل اور تواتر طریق پر تمیں سال تک رہے گی.اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیام قیامت تک خلافت راشدہ کا زمانہ وہی تمیں سال ہے اور بس.بلکہ حدیث مذکورہ کا مفہوم یہی ہے کہ خلافت راشدہ میں سال گزرنے کے بعد منقطع ہو گی نہ یہ کہ اس کے بعد پھر خلافت کبھی عود ہی نہیں کر سکتی.بلکہ ایک دوسری حدیث خلافت راشدہ کے انقطاع کے بعد پھر عود کر نے پر دلالت کرتی ہے....یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ خلافت کا زمانہ اوائل امت یعنی زمانہ خلفائے اربعہ کا تھا یا اواخر اُمت میں مہدی علیہ السلام کا زمانہ ہوگا اور ان کے درمیان کا زمانہ معطل ہے کہ ہرگز اس میں خلافتِ راشدہ ظاہر ہونے کی نہیں.“ ( 'منصب امامت از حضرت سید محمداسمعیل شہید ( مترجم ) صفحه ۸۲ تا ۸۵ مطبوعه ۱۹۴۹ء ناشر حکیم محمد حسین مومن پورہ لاہور ) یعنی خلافت راشدہ جو امام مہدی علیہ السلام کے بعد ہوگی ،اس کی نوعیت اور منہاج اُسی خلافت

Page 395

راشدہ کی ہوگی جو آنحضرت کے بعد قائم ہوئی تھی.

Page 396

۳۸۰ وو سب میرے بعد مل کر کام کرو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’ چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین میں متفرق آبادیوں میں آباد ہیں.کیا یورپ اور کیا ایشیا، ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو.مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہوسب میرے بعد مل کر کام کرو.“ الوصیت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۷،۳۰۶) بیعت کا تعلق بھی بادشاہت سے نہیں ، نہ نفس پاک بادشاہت وحکمرانی کا تقاضا ہوسکتا ہے.با دشاہ نفس پاک تو ہو سکتا ہے لیکن اسکے لئے یہ شرط نہیں ہے جبکہ روحانی خلافت کے لئے نفس مطہر ہ لازمی اور بنیادی شرط ہے.اس اقتباس میں مذکور باقی امور بھی بادشاہت سے متعلق نہیں ہیں.” جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہوسب میرے بعد مل کر کام کرو.“ یہ کوئی جمہوریت کا عام مغربی تصور نہیں بلکہ یہ اس محدود اور معین وقت کے لئے لائحہ عمل ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد خلافت کے انتخاب کا درمیانی وقفہ تھا.اس وقفہ میں چونکہ کوئی امام نہیں ہوتا اس لئے سب کو مل کر کام کی تلقین فرمائی.انتخاب کے بعد خلیفہ ہی بجتی اور اتحاد کا ذریعہ ہوتا ہے.یہ طریق کار ہے جو ہمیشہ ایسے مواقع کے لئے ہے.

Page 397

۳۸۱ حضرت ابو بکر کی مثال اور حضرت خلیفہ المسح الاول کی مثال پر جو بھی خلیفہ بنے گا، وہ ایک ہی ہوگا، اور وہ روح القدس پا کر قائم ہوگا.جماعت مسیح موعود علیہ السلام میں ایسا سلسلۂ خلافت قیامت تک رہے گا.انشاء اللہ العزیز

Page 398

۳۸۲ خاتم الخلفاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امتیازی خلافت حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: سنت اللہ کے موافق ایک آسمانی نظام قائم ہو گا اور ایک آسمانی مصلح آئے گا.درحقیقت اسی مصلح کا نام مسیح موعود ہے.“ ( شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه (۳۱۲) لا مسیح موعود علیہ السلام کی شان خاتم الخلفاء کی ہے جو الگ بلند مقام رکھتی ہے.تب روح القدس تو اس مجد داور مصلح سے تعلق پکڑتا ہے جو اجتبا اور اصطفا کی خلعت سے مشرف ہو کر دعوت حق کے لئے مامور ہوتا ہے.“ (شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آسمانی مصلح سے مراد خاتم الخلفاء مسیح موعود مرا دلیا ہے، خلیفہ راشد مراد نہیں آیا.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود لکھا ہے یہ نبوت پہلی نبوتوں سے ایک بڑا اختلاف رکھتی ہے اور وہ یہ کہ پہلے نبی مستقل نبی تھے اور آپ امتی نبی ہیں.پس جس طرح آپ کی نبوت کے پہلے نبیوں کی نبوت سے مختلف ہونے کے باوجود اس وعدہ کے پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ اسی طرح خلافت کے مختلف ہونے کی وجہ سے بھی اس وعدہ کے پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آسکتا.اور اگر بعض باتوں میں پہلی خلافتوں سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے یہ خلافت اس آیت سے باہر نکل جاتی ہے تو ماننا پڑے گا کہ

Page 399

۳۸۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی اس آیت کے ماتحت نہیں آتی.کیونکہ اگر ہماری خلافت ابو بکر اور عمر کی خلافت سے کچھ اختلاف رکھتی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی پہلے نبیوں سے کچھ اختلاف رکھتی ہے.پس اگر ہماری خلافت اس آیت کے ماتحت نہیں آتی تو ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی اس آیت کے ماتحت نہیں آتی.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس نبوت کو با وجود مختلف ہونے کے اسی آیت کے ماتحت قرار دیتے ہیں.پس جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پہلی نبوتوں سے اختلاف رکھنے کے باوجود اس آیت کے وعدہ میں شامل ہے.اسی طرح یہ خلافت با وجود پہلی خلافتوں 66 سے ایک اختلاف رکھنے کے اس آیت کے وعدہ میں شامل ہے.“ (خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۵۶۷،۵۶۶) جس طرح رسول کریم ﷺ پہلوں سے افضل تھے، آپ کی خلافت بھی پہلے انبیاء کی خلافت سے افضل تھی.“ خلافت را شده، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۵۶۲) خاتم الخلفاء کا منصب اس حقیقت و معرفت کا عکاس ہے کہ نہ صرف امت میں روحانی خلفاء کے آپ خاتم ہیں بلکہ تمام امتوں کے خلفاء سے بھی افضل ہیں اور خلافت کا بلند ترین تصور آپ کی ذات پر ختم ہے ، آپ کا مقام اس منصب کی معراج ہے.اس کی تائید میں حضرت امام عبد الرزاق قاشانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب شرح فصوص الحکم میں مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں حضرت سید عبد القادر جیلانی " کا قول درج کیا ہے.آپ فرماتے ہیں: " الْمَهْدِيُّ الَّذِي يَجِيُّ فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَإِنَّهُ يَكُوْنُ فِي الْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ تَابِعاً لِمُحَمَّدٍ ﷺ وَفِي الْمَعَارِفِ

Page 400

۳۸۴ وَالْعُلُوْمِ وَ الْحَقِيقَةِ تَكُوْنُ جَمِيعُ الْأَنْبِيَاءِ وَ الْأَوْلِيَاءِ تَابَعِيْنَ لَهُ كُلُّهُمْ......لاَنَّ بَاطِنَهُ بَاطِنُ مُحَمَّدٍ الله.شرح فصوص الحکم صفحه ۲۵ مطبوعہ مصر ) کہ آخری زمانہ میں آنے والا مہدی احکام شریعت میں اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی اسم کا تابع ہے.اور (اسی کی اتباع کی وجہ سے ) معارف علوم اور حقیقت میں ( آپ کے سوا ) تمام کے تمام انبیاء اور اولیاء اس کے تابع ہیں کیونکہ اس کا باطن محمد سلیم کا باطن ہے.حضرت سید محمد اسمعیل شہید بیان فرماتے ہیں: یہ بھی امرظاہر ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی خلافت ، خلافتِ راشدہ سے افضل انواع میں سے ہوگی.“ منصب امامت از حضرت سید محد اسمعیل شہید ( مترجم ) صفحه ۸۲، ۸۳ مطبوعہ ۱۹۴۹ء نا شرحکیم محمد حسین مومن پورہ لاہور )

Page 401

۱۳۸۵ اس خلافت کے ہمراہ دنیوی بادشاہت وحکومت نہیں ہوگی حضرت طریقہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وو ” خلیفہ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے کا نائب ہوتا ہے.پس وعدہ کی ادنی حد یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد اس کے نائب ہوں.اور یہ ظاہر ہے کہ جس رنگ کا نبی ہو اگر اسی رنگ میں اس کا نائب ہو جائے تو وعدہ کی ادنیٰ حد پوری ہو جاتی ہے.اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے سپر دملکی نظام نہ تھا.اس لئے آپ کی امر نبوت میں جو شخص نیابت کرے وہ اس وعدہ کو پورا کر دیتا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوملکی نظام عطا ہوتا تب تو اعتراض ہوسکتا تھا کہ آپ کے بعد خلفاء نے نیابت کس طرح کی.مگر نظام ملکی عطا نہ ہونے کی صورت میں یہ اعتراض نہیں ہوسکتا.کیونکہ جس نبی کا کوئی خلیفہ ہوا سے وہی چیز ملے گی جو نبی کے پاس ہوگی اور جو اس کے پاس ہی نہیں ہوگی وہ اس کے خلیفہ کوکس طرح مل جائے گی.“ (خلافت راشده، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۵۶۴) خلیفہ کا اصل معنی یہ ہے اور اس کا صحیح مفہوم بھی یہی ہے جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے.اس کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت صرف خلافتِ راشدہ، علی منہاج النبوۃ ہے جس کے ساتھ حکومت و ملوکیت منسلک نہیں ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : وو محمدی استخلاف کا سلسلہ موسوی استخلاف کے سلسلہ سے بکتی مطابق ہونا چاہئے جیسا کہ کما کے لفظ سے مفہوم ہوتا ہے اور جبکہ بکتی

Page 402

۱۳۸۶ مطابق ہوا تو اس امت میں بھی اس کے آخری زمانہ میں جو قرب قیامت کا زمانہ ہے حضرت عیسی کی مانند کوئی خلیفہ آنا چاہئے کہ جو تلوار سے نہیں بلکہ روحانی تعلیم اور برکات سے اتمام حجت کرے.“ (شہادۃ القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۵،۳۶۴) ملک سے مجھ کو نہیں مطلب نہ جنگوں سے ہے کام کام ہے میرا دلوں کو فتح کرنا ئے دیار مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں آسماں پر رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار ملک روحانی کی شاہی کی نہیں کوئی نظیر گو بہت دنیا میں گزرے ہیں امیر و تاجدار در ششمین صفحه ۱۴۰ مطبوعه لندن) آپ کے منصب کے ساتھ دنیوی بادشاہت ، حکومت و ملوکیت کا کوئی حصہ نہیں تھا.اس لئے آپ کی خلافت میں بھی اس کا حصہ نہیں ہوگا.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: " ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلیفہ وہ ہوتا ہے جو بادشاہ ہو یا ماموریتم کون ہو؟ بادشاہ ہو؟ میں کہتا ہوں نہیں.مامور ہو؟ میں کہتا ہوں نہیں.پھر تم خلیفہ کس طرح ہو سکتے ہو؟ خلیفہ کے لئے بادشاہ یا ماً مور ہونا شرط ہے.یہ اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر ذرا بھی تدبر نہیں کیا.اگر کوئی کسی نبی کا کام کرتا ہے تو وہ اس نبی کا خلیفہ ہے.اگر خدا نے نبی کو بادشاہت اور حکومت دی ہے تو خلیفہ کے پاس بھی بادشاہت

Page 403

۱۳۸۷ ہونی چاہئے اور خدا خلیفہ کو ضرور حکومت دے گا.اور اگر نبی کے پاس ہی حکومت نہ ہو تو خلیفہ کہاں سے لائے.آنحضرت ام کو چونکہ خدا تعالیٰ نے دونوں چیزیں یعنی روحانی اور جسمانی حکومتیں دی تھیں اس لئے ان کے خلیفہ کے پاس بھی دونوں چیزیں تھیں.لیکن اب جبکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؓ کو حکومت نہیں دی تو اس کا خلیفہ کس سے لڑتا پھرے کہ مجھے حکومت دو.ایسا اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر غور نہیں کیا.“ ( برکات خلافت.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۵۹ ۱۶۰) ان دونوں اقتباسات سے یہ بالکل واضح ہے کہ خلافت حقہ احمد یہ اسلامیہ کے ساتھ ملوکیت نہیں ہوگی.حضرت خلیفہ المسح لثانی رضی اللہ عنہ سورۃ الجمعہ کی پہلی آیات کا ذکر کر کے فرماتے ہیں : انبیاء علیہم السلام کے اغراض بعثت پر غور کرنے کے بعد یہ سمجھ لینا بہت آسان ہے کہ خلفاء کا بھی یہی کام ہوتا ہے.کیونکہ خلیفہ جو آتا ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اپنے پیشرو کے کام کو جاری کرے.پس جو کام نبی کا ہوگا وہی خلیفہ کا ہوگا.اب اگر آپ غور اور تدبر سے اس آیت کو دیکھیں تو ایک طرف نبی کا کام اور دوسری طرف خلیفہ کا کام کھل جائے گا.“ منصب خلافت - انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۲۴) نبی کی شان روحانی یعنی بادشاہت کے بغیر اور خلیفہ بھی روحانی شان والا یعنی اس کے ساتھ بھی ملوکیت نہیں ہوگی اور نہ ہی دو الگ الگ وجود خلیفہ ہوں گے.نبی کا کام بیان فرمایا تبلیغ کرنا ، کافروں کو مومن کرنا ، مومنوں کو شریعت پر قائم کرنا، پھر بار یک در باریک راہوں کا بتانا، پھر تزکیہ نفس کرنا، یہی کام خلیفہ کے ہوتے ہیں.“ منصب خلافت.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۲۸)

Page 404

۱۳۸۸ یعنی کسی اضافی ظاہری خلیفہ کی کوئی گنجائش رضرورت نہیں.ایک ہی خلیفہ ہے جو ظاہری و باطنی برکتوں کے جلو میں ظلمی طور پر رسول کے کمالات سے متصف اور قائم ہے اور اس کے کام چلاتا ہے.ہاں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ خلیفہ اپنے پیش رو کے کام کی نگرانی کے لئے ہوتا ہے.اسی لئے آنحضرت میم کے خلفاء ملک و دین دونوں کی حفاظت پر مامور تھے کیونکہ آنحضرت ہم کو اللہ تعالی نے دینی اور دنیاوی دونوں بادشاہتیں دی تھیں لیکن مسیح موعود جس کے ذریعہ آنحضرت ا م کا جمالی ظہور ہوا صرف دینی بادشاہ تھا اس لئے اس کے خلفاء بھی اسی طرز کے ہوں گے.“ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۳)

Page 405

۳۸۹ جماعت احمدیہ کا سر براہ ایک خلیفہ ہوگا حضرت خلیفہ امسح الا ال قرماتے ہیں: أمسيح أَبَشَرًا مِّنَا وَاحِدًا نَّتَّبِعُہ امام ایک ہی ہونا چاہئے.تا کہ وحدت قائم رہے.اس زمانہ میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ایک کی اطاعت کو گمراہی اور مصیبت کا موجب سمجھتے ہیں.حالانکہ یہ بات غلط ہے.ایسے خیالات کے لوگوں کے لئے یہ آیت غور طلب ہے.“ ( درس القرآن صفحه ۵۷۲) ” خلیفہ اللہ ہی بناتا ہے.میرے بعد بھی اللہ ہی بنائے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ” اس آیت( آیت استخلاف.ناقل) کے ماتحت جس قسم کی خلافت آنحضرت ام کے بعد ہوئی، وہی خلافتِ راشدہ ہے اور اسی قسم کی خلافت مسیح موعود کے بعد ہونی ضروری ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں مسیح موعود کی نسبت فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُوْلًا مِنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِيْنٍ وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (الجمع: ۴،۳) خدا ہی ہے جس نے امتیوں میں ایک رسول بھیجا جو انہی میں سے ہے اور جوان پر خدا کا کلام پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور بے شک اس سے پہلے وہ کھلی کھلی گمراہی میں تھے اور وہ رسول ایک اور قوم کو بھی سکھائے گا جو ابھی تک ان سے نہیں ملی اور خدا تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کے زمانہ کو

Page 406

آنحضرت ا کے زمانہ سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ ایک دفعہ تو آنحضرت ام نے صحابہ کی تربیت کی ہے اور ایک دفعہ وہ پھر ایک اور قوم کی تربیت کریں گے جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئی.پس مسیح موعود کی جماعت کو صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مشابہ قرار دے کر بتا دیا ہے کہ دونوں میں ایک ہی قسم کی سنت جاری ہوگی.پس جس طرح آنحضرت یم کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ہوا ضرور تھا کہ مسیح موعود کے بعد بھی ایسا ہی ہوتا.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود نے الوصیت میں صاف لکھ دیا ہے کہ جس طرح آنحضرت ﷺ کے بعد ابوبکر کے ذریعہ دوسری قدرت کا اظہار ہوا ضرور ہے کہ تم میں بھی ایسا ہی ہو اور اس عبارت کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے بعد سلسلہ خلافت کے منتظر تھے.“ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۲، ۱۳) جماعت مسیح موعود علیہ السلام میں خلافت حضرت ابو بکر کی خلافت کی طرز اور اس کے اسلوب پر قائم ہوگی.یعنی ایک وقت میں ایک ہی خلیفہ ہوگا.جماعت کے اتحا داور شریعت کے احکام کو پورا کرنے کے لئے ایک خلیفہ کا ہونا ضروری ہے.جو اس بات کو رد کرتا ہے وہ گویا شریعت کے احکام کورڈ کرتا ہے.صحابہ کا عمل اس پر ہے اور سلسلہ احمدیہ سے بھی خدا تعالیٰ نے اسی کی تصدیق کرائی ہے.جماعت کے معنی یہی ہیں کہ وہ ایک امام کے ماتحت ہو.جو لوگ کسی امام کے ماتحت نہیں وہ جماعت نہیں اور ان پر خدا تعالیٰ کے وہ فضل نازل نہیں ہو سکتے جو ایک جماعت پر ہوتے

Page 407

۳۹۱ ہیں.“ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۳) ایک خلیفہ ہوگا جو امام ہوگا.دو وجود بطور خلیفہ الگ الگ منصبوں پر فائز نہیں ہوں گے." حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر تو ابتداء میں صرف تین آدمیوں نے بیعت کی تھی یعنی حضرت عمرؓ، حضرت ابوعبید گانے مہاجرین میں سے اور قیس بن سعد نے انصار میں سے اور بیعت کے وقت بعض لوگ تلواروں کے ذریعہ سے بیعت کوروکنا چاہتے تھے اور پکڑ پکڑ کر لوگوں کو اٹھانا چاہتے تھے اور بعض ایسے پُر جوش تھے کہ طعنہ دیتے تھے اور بیعت کو لغو قرار دیتے تھے.تو کیا اس کا یہ نتیجہ سمجھنا چاہئے کہ نعوذ باللہ حضرت ابو بکر کو خلافت کی خواہش تھی کہ صرف تین آدمیوں کی بیعت پر آپ بیعت لینے کے لئے تیار ہو گئے اور باوجود سخت مخالفت کے بیعت لیتے رہے.یا یہ نتیجہ نکالا جائے کہ آپ کی خلافت ناجائز تھی.جو شخص ایسا خیال کرتا ہے وہ جھوٹا ہے.پس جبکہ ایک شخص کی دو ہزار آدمی بیعت کرتے ہیں اور صرف چند آدمی بیعت سے الگ رہتے ہیں تو کون ہے جو کہہ سکے کہ وہ خلافت نا جائز ہے.اگر اس کی خلافت نا جائز ہے تو ابو بکر، عثمان وعلی اور نور الدین رضوان اللہ علیہم کی خلافت اس سے بڑھ کرنا جائز ہے.“ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۶،۱۵) خلیفہ ایک ہی ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ مومنوں کے انتخاب سے قائم فرماتا ہے.کسی شخص کا اپنے خود ساختہ استدلال اور بہکے ہوئے خیالات کے تحت کسی کو کسی قسم کا خلیفہ قرار دے دینا اسے خلافت کا منصب عطا نہیں کرسکتا.بالآخر ایک حتمی فیصلہ ارشاد فرماتے ہوئے حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی اور خلیفہ مقرر کریں.اگر وہ یہ

Page 408

۳۹۲ چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ ایک وقت میں دو خلیفہ نہیں ہو سکتے اور شریعت اسلام اسے قطعاً حرام قرار دیتی ہے.پس اب وہ جو کچھ بھی کریں گے اس سے جماعت میں تفرقہ پیدا کریں گے.کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ان کے لئے صرف دو ہی راہ کھلے ہیں.یا تو وہ میری بیعت کر کے جماعت میں تفرقہ کرنے سے باز رہیں یا اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ کر اس پاک باغ کو جسے پاک لوگوں نے خون کے آنسوؤں سے سینچا تھا اکھاڑ کر پھینک دیں.جو کچھ ہو چکا ہو چکا.مگر اب اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کا اتحاد ایک ہی طریق سے ہو سکتا ہے کہ جسے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے.ورنہ ہر ایک شخص جو اس کے خلاف چلے گا تفرقہ کا باعث ہوگا.کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۷) پس معترض کے ایسے وساوس کہ بیک وقت ایک ظاہری خلیفہ اور ایک باطنی خلیفہ ہو، قطعی طور پر شریعت اسلامیہ کے خلاف اور حرام ہیں.خلاصه کلام یہ پر معارف تحریرات واضح طور پر یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ جماعت احمدیہ میں خلافت راشدہ کا قیام ہوگا جو علی منہاج النبوۃ ہوگی.ہر خلیفہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ خلیفہ راشد ہوگا.یہ خلافت آیت استخلاف کی مصداق ہوگی جو تا قیامت جاری رہے گی.حضرت ابو بکر اور حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی مثال پر ایک وقت میں خلیفہ ایک ہی ہوگا جو

Page 409

۱۳۹۳ ظلمی طور پر رسول کے کمالات کے ہمراہ ہوگا.خلافتِ ظاہری اور روحانی و باطنی کی بحث علمی طور پر مسئلہ خلافت کے پہلوؤں کو واضح کرتی ہے، ان سے بیک وقت دومتوازی خلیفوں کے نظریہ کا استدلال ایک جاہلانہ جسارت ہے.خلافتِ روحانی و باطنی مجددین مصلحین اور محد ثین وغیرہ کی خلافت ہے اور خلافتِ راشدہ اس کی بلند اور اعلیٰ ترین صورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفائے راشدین آپ کی طرح دنیوی بادشاہت وحکومت کے ساتھ نہیں ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت لم کی امت کے خاتم الخلفاء ہیں.آپ آنحضرت ﷺ کے فیض سے آپ کے ظلت میں خلافت روحانی کی ہرقسم میں ایک بلند اور اعلیٰ ترین مقام رکھتے ہیں.

Page 410

۱۳۹۴ " خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف واولی ہیں ، خلقی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانے میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے.“ (شہادۃ القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۳، ۳۵۴)

Page 411

۳۹۵ خلافت وخلفاء پر متفرق اعتراضات اور ان کے جواب

Page 412

۳۹۶ ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ مندرجات امام وقت پر آمریت کا الزام اپنے پیشرو امام یا خلیفہ کی مخالفت کا التزام حق، حقدار کو نہیں بلکہ کمتر مخلص کو دیدیا گیا ہے جزئی فضیلت کی بحثیں یا نفاق کا چور دروازہ خلیفہ وقت کی غلطیوں کی نشاندہی اور ان کے چرچے اپنی پسند کے آدمیوں کو مسلط کرنے کا الزام بڑھاپے اور جسمانی کمزوری کے باعث نا اہلی کا الزام قومی اموال میں غلط تصرف کا الزام قومی ،لسانی یا خاندانی برتری کی بنیاد پر اعتراض بعض اور اعتراض ایک حقیقت افروز تنبیہہ

Page 413

۳۹۷ ☆☆ خدا تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے تحت آنحضرت میم نے اپنے بعد خلافت راشدہ کے بارہ میں اطلاع دی تھی کہ وہ تمیں سال تک جاری رہے گی.لیکن جب آخری زمانہ میں مسیح موعود و مہدی معہود کی جماعت میں خلافت را شده ، خلافت علی منہاج النبوة کی پیشگوئی فرمائی تو اس کی کوئی حد بندی فرمانے کی بجائے اسے آئندہ زمانہ کی وسعتوں تک لامحد و در کھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کا ناقابل تسخیر حصار، اسلام کی عظمت، امت کے اتحاد اور اس کی بیجہتی ، ترقی اور آخری غلبہ کا آئینہ دار ہے.جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں ملاحظہ کیا کہ خلافت راشدہ کی برکات زمان و مکان پر وسیع اور عظیم الشان ہیں.ابتدائے خلافت آدم سے ہی ہوتا آیا ہے کہ خلافت الہیہ کو زائل کرنے کے لئے طاغوتی تحریکیں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہیں.کبھی خلافت کی مخالف یہ تحریکات براہ راست دشمنوں کی طرف سے سراٹھاتی ہیں اور کبھی خلافت کی اتباع کا دعویٰ کرنے والے بیمار ومنافق طبع لوگ مومنوں کے دلوں میں وساوس پیدا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں.مگر خلافت کا قیام چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی ایک خاص تقدیر کے تحت عمل میں آتا ہے.اس لئے جب تک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے خلافت کے مقابل پر ہر قسم کی تحریک نا کامی کا منہ دیکھتی ہے.وہ عظیم وجود جسے تاج خلافت عطا ہوتا ہے ، طاغوتی طاقتوں کے بالمقابل نا قابل تسخیر ، تقویٰ کے اعلیٰ ترین مقام پر فائزہ اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں بے نظیر اور اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں اولوالعزم ہوتا ہے.اس لئے وہ خُدا تعالیٰ کا پسندیدہ وجود ہوتا ہے.اس کے ساتھ اس کی جماعت ایمان اور عملِ صالحہ کے اس معیار پر قائم ہوتی ہے جس پر خلافت کے حق میں خدا تعالیٰ کے جملہ وعدے پورے ہوتے ہیں.لہذا ہر قسم کے دشمن کا ہر حربہ، ہر مخالفانہ تحریک اور ہر منافقانہ وسوسہ جو مقام خلافت کو زائل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا

Page 414

۳۹۸ ہے تار عنکبوت ثابت ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے وعدہ و تقدیر اور آنحضرت سلم کے فرمان کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت راشدہ کا قیام ہوا تو مسیح موعود علیہ السلام کی تمام جماعت بالا تفاق حضرت حاجی الحرمین شریفین حکیم مولوی نور الدین کے ہاتھ پر جمع ہوئی اور اس نے آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر آپ کو خدا تعالیٰ کے پاک مسیح و مہدی کا خلیفہ اور اپنا آقا ومطاع تسلیم کیا.اپنی پرانی سنت پر چلتے ہوئے طاغوتی طاقتیں یہاں بھی متحرک ہوئیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر مخالفین احمدیت تو جماعت کی تباہی کے خواب دیکھ رہے تھے اس لئے طبعا خلافت کا قیام ان کے لئے سخت تکلیف دہ امر تھا.مگر کچھ دیر کے بعد بظاہر اتباع خلافت کے دعویدار بعض منافق طبع لوگوں نے بھی سر اٹھایا.انہوں نے خلافت راشدہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رسالہ الوصیت، شہادۃ القرآن اور دیگر کتب و ملفوظات میں بیان شده عرفانِ خلافت کو پس پشت ڈال کر خلافت کی برکات، فیوض اور اس کی اہمیت کو نظر انداز کیا اور نتیجہ انہوں نے خلیفہ وقت کی ذات اور اُس کے اختیارات کے بارہ میں بحثیں شروع کر دیں اور خلافت کو بے حیثیت ثابت کرنے بلکہ زائل کرنے کے لئے با قاعدہ پروگرام مرتب کئے اور آہستہ آہستہ وہ لوگ ایک معلم پہنے کی صورت میں منصہ شہود پر رونما ہوئے.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے دور میں جو انکارِ خلافت کا فتنہ اُٹھا اس کے نقوش کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی دنیا میں رونما ہونے والا یہ کوئی نیا اور الگ فتنہ نہیں تھا.بلکہ الہی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچہ کو کمزور کرنے اور ان کی مرکزیت کو پراگندہ کرنے کے لئے ہمیشہ مذہبی دنیا میں اسی شکل وصورت کے فتنے برپا ہوتے رہے ہیں اور ممکن ہے کسی قدر آئندہ بھی برپا ہوتے رہیں.ذیل میں شق وار اس کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے : حمید نوٹ : درج ذیل اکثر و سادس و اعتراض اور ان کے جواب بنیادی طور پر حضرت خلیفہ مسیح الرابی کی تصنیف سوانح فضل عمر جلد اول سے ماخوذ ہیں.گو بعض جگہ حسب ضرورت اور حالات زمانہ تبدیلی اور کمی بیشی کی گئی ہے.

Page 415

۳۹۹ امام وقت پر آمریت کا الزام : حضرت خلیفہ مسیح الاول پر ایک خطر ناک اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ آپ جماعت پر اپنا نعلم ٹھونس کر آمر بن بیٹھے ہیں اور جماعت کے جمہوری نظام کو آمریت میں تبدیل کر رہے ہیں.یہ اعتراض اس لئے سرے سے ہی غلط ہے کہ اعتراض کرنے والے منصب خلافت کی گنہ سے بے بہرہ اور اس کی حقیقت و عظمت سے بیگانہ ہوتے ہیں.خلافت راشدہ کو جمہوریت کے بگڑے ہوئے مغربی تصور پر تولنا اور پرکھنا ایک قیاس مع الفارق ہے.یعنی ان دونوں کی بہت سی بنیادی اقدار ایسی ہیں جن کا اطلاق ایک دوسری پر نہیں ہوسکتا.لہذا ایک کو دوسری پر قیاس کرنے سے نتیجہ ہمیشہ غلط نکلتا ہے.چنانچہ ایسے معترض اسی غلط نتیجہ کے شکار ہو کر دھو کہ کھاتے ہیں.حقیقت حال یہ ہے کہ جمہوریت متقاضی ہوتی ہے اکثریت کے ووٹ کی.اس کا طریق یہ ہے کہ ووٹ حاصل کرنے والے لوگ ووٹروں کو ایسے انداز میں سبز باغ دکھاتے ہیں کہ ان کے دام میں آکر وہ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ کے مصداق بن جاتے ہیں.اس کے برعکس خلافت کا انتخاب کسی کی خواہش، مطالبہ یا درخواست کی بناء پر نہیں ہوتا بلکہ پہلے خلیفہ کی وفات کے بعد بغیر کسی پراپیگنڈہ اور درخواست کے ہوتا ہے.محض اللہ ہونے کی وجہ سے اس انتخاب پر کلیۂ خدا تعالیٰ کا تصرف ہوتا ہے.خلافت راشدہ ایک الہی نظام ہے اور اس کی ماہیت یہ ہے کہ یہ اپنے پیشرو مامورمن اللہ کی تعلیم پر اور اس کے نقش قدم پر براہ راست خدا تعالیٰ سے رشد و فراست کے ذریعہ کام کرتی ہے.وہ إِنَّ هُدى اللَّهِ هُوَالْهُدَی (البقرہ:۱۲۱) ( کہ اصل راہنمائی خدا تعالیٰ کی رہنمائی ہے ) کے تحت خدائی رشد و ہدایت کے ذریعہ اپنے متبعین کی راہنمائی کرتی ہے.خلافت وہ نور خداوندی ہے جواز راہ برکات رسالت اور انوار نبوت اکثریت کی راہنمائی کرتی ہے.مغربی جمہوریت کی طرح جمہوری اکثریت اس کی راہنمائی نہیں کرتی.خلافت جمہوریت کا وہ حقیقی تصور ہے جس میں خلیفہ وقت اور اس کی جماعت میں رشتہ محبت و وابستگی اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ ان میں سے محبوب اور محب کا امتیاز مٹ جاتا ہے.اس

Page 416

▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ حقیقت اور ان جذبات کو بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الثالث فرماتے ہیں : جماعت احمد یہ بغیر امام کے کوئی وجود نہیں رکھتی اور جماعت احمدیہ وو کا امام ، جماعت احمدیہ کے بغیر وجود نہیں رکھتا.پس یہ دونوں دراصل ایک ہی وجود کے نام ہیں اور ان کا باہمی اتحاد اور اتصال اور تعلق گہرا ، مضبوط اور مستحکم ہے.“ (خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۵ء) اس ضمن میں یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ صرف خلیفہ وقت پر ہی نہیں ، قرآن کریم کی شہادت کے مطابق گزشتہ انبیاء پر بھی اسی قسم کے اعتراض کئے جاتے رہے ہیں.بلکہ حضرت شعیب کی جمہوریت پسند قوم نے تو آپ کے انکار کی ایک بڑی دلیل یہ پیش کی کہ ہم اپنے معاملات میں تمہارے حکم کے تابع کیسے ہو سکتے ہیں.اسی طرح تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ مدینہ کے یہودی اور دوسرے منافقین خود سید ولد آدم حضرت رسول اکرم ہم پر بھی اعتراض کرتے تھے اور اہل مدینہ کو اس بناء پر بد دل کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ اسلام کا رسول آمر بننے کی کوشش کرتا ہے.نعوذ باللہ من ڈلک پس یہ جمہوریت کی رٹ کوئی نئے زمانہ کی پیداوار نہیں، نہ ہی جدید روشنی اور ترقی یافتہ تہذیب و تمدن سے اس کا کوئی تعلق ہے.بلکہ جب سے خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ ” اولوالامر دنیا میں آرہے ہیں، جمہوریت کے نام پر ان کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں.اگر چہ دنیوی آمر اور مذہبی رہنما کے ” اولوالامر“ ہونے کے مابین قطبین کا بعد ہے.لیکن آمر کے لفظی اشتراک کے باعث بعض اوقات فتنہ پرداز عامۃ الناس کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں.آمر اور اولوالامر میں متعد ددوسرے بنیادی اختلافات کے علاوہ جن پر انسان ادنی سے تدبر سے اطلاع پا سکتا ہے، ایک فرق یہ ہوتا ہے کہ آمر ایک مادر پدر آزاد اور جابر حاکم ہوتا ہے.جس کی حکومت بیرونی پابندیوں سے نا آشنا اور جبر و اکراہ پر مبنی ہوتی ہے.اس کے برعکس اولوالامر بیک وقت ایک پہلو سے آمر اور ایک پہلو سے مامور ہوتا ہے.وہ براہ راست جسموں پر نہیں بلکہ دلوں کی

Page 417

معرفت اجسام پر حکومت کرتا ہے.وہ ایک مذہبی ضابطہ حیات اور دستور العمل کے اس حد تک تابع ہوتا ہے کہ سر مو بھی اس سے انحراف نہیں کر سکتا.وہ اتنے اخلاص، احترام اور فروتنی کے ساتھ اس کے ایک ایک نقطے پر عمل پیرا ہوتا ہے کہ کوئی دنیوی جمہوریت کا پرستار اس کا عشر عشیر بھی اپنے جمہوری دستور کا احترام نہیں کرتا.آمر کا تو معاملہ ہی الگ ہے، ایک جمہوری حکمران بھی جب چاہے اپنی چرب زبانی اور اثر ورسوخ سے کام لے کر بنیادی جمہوری دستور کی ہر اس شق کو تبدیل کروا سکتا ہے جسے وہ نا پسند کرتا ہے.لیکن ایک اولوالا مرماً مور من اللہ یا اس کا خلیفہ قانونِ شریعت کا ایک شعشہ بھی اپنے مقام سے نہیں ٹالتا بلکہ اس کا پابند رہتا ہے اور اپنی جماعت کو اس کی پابندی کراتا ہے.المختصر یہ کہ ایک مامور من اللہ یا خلیفہ راشد پر بنیادی معنوں میں ” آمر“ ہونے کا الزام لگانا یا تو جہالت کے نتیجہ میں ہو سکتا ہے یا اندھی دشمنی اور حسد کے نتیجہ میں.حقیقت اور سچائی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے.ایسے لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ اسیح الاول نے فرمایا تھا: أَبَشَرَاتِنَا وَاحِدًا نَّتَّبِعُہ.امام ایک ہی ہونا چاہئے.تا کہ وحدت قائم رہے.اس زمانہ میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ایک کی اطاعت کو گمراہی اور مصیبت کا موجب سمجھتے ہیں.حالانکہ یہ بات غلط ہے.ایسے خیالات کے لوگوں کے لئے یہ آیت غور طلب ہے.“ ( درس القرآن صفحه ۵۷۲)

Page 418

اپنے پیشتر و امام یا خلیفہ کی مخالفت کا الزام : ایک اور اعتراض جو منکرین خلافت اور منافقین حضرت خلیفہ انبیع الاول کی ذات بابرکات پر کرتے رہے وہ یہ تھا کہ نعوذ باللہ آپ نے حضرت مسیح موعود کے منشاء اور وصیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے انجمن کی حکمرانی کی بجائے خلافت کو جماعت پر ٹھونس دیا.مثلاً کہا گیا کہ وو ” حضرت مولوی صاحب کی طبیعت میں ضد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ دوسرے کی سُن ہی نہیں سکتے.وصیت کو پس پشت ڈال کر خدا کے فرستادہ کے کلام کی بے پرواہی کرتے ہوئے شخصی وجاہت اور حکومت ہی پیش نظر ہے.سلسلہ تباہ ہو تو ہو مگر اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات نہ ٹلے.وہ سلسلہ جو کہ حضرت اقدس کے ذریعہ بنا تھا اور جو کہ بڑھے گا ، وہ چند ایک اشخاص کی ذاتی رائے کی وجہ سے اب ایسا گرنے کو ہے کہ پھر ایک وقت کے بعد ہی سنبھلے تو سنبھلے“.(خط ڈاکٹر سید محمدحسین صاحب بنام سید حامد علی شاہ صاحب سیالکوئی بحوالہ سوانح فضل عمر جلد اول) یہ اعتراض بھی کوئی نیا نہیں کیونکہ قدیم سے منافقین کی یہ عادت چلی آئی ہے کہ وہ خود ایک امام کی زندگی میں تو اس پر اعتراض کرتے ہیں یا اُس کے فیصلوں کو بادل نخواستہ قبول کرتے ہیں.لیکن جب وہ امام گزر جاتا ہے اور اسکے تابع فرمان مخلصین کی صف اول میں سے ایک نیا امام اس کا جانشین مقرر ہوتا ہے تو اس نئے امام پر یہ الزام لگانے لگتے ہیں کہ وہ گزشتہ امام کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتا.تاریخ شاہد ہے کہ سید ولد آدم حضرت محمد مصطفی مریم کے پاک خلفاء کو بھی بارہا اسی قسم کے طعنوں کے چر کے دیئے گئے اور ان کے فیصلوں کو یہ کہ کر چیلنج کیا گیا کہ نعوذ باللہ یہ آنحضرت ام کے ارشادات یا تعامل کے خلاف ہے.

Page 419

▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ ایسے معترضین کے قول و فعل میں یہ حیرت انگیز تضاد ہوتا ہے کہ وہ جب خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو اپنے خود ساختہ معنے پہناتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی تو ہی اختیار پر قبضہ جما رہے ہوتے ہیں جو اُن کے خیال میں خلیفہ اسیح کے پاس نہیں ہونا چاہئے.حالانکہ خلیفہ وقت جو سب سے زیادہ اس اختیار کا اہل اور حقدار ہے ، اسے یہ حق شریعت عطا کرتی ہے.اگر کوئی اس حق پر اعتراض کرتا ہے تو وہ لازماً جھوٹا ہے.خلیفہ وقت اپنے پیشرو نبی کا جانشین ہوتا ہے.وہ ہر دوسرے فرد بشر سے زیادہ حق رکھتا ہے کہ اپنے نبی کے فرمودات کی تشریح کرے.اور یہ شرعی مسئلہ ہے کہ خلیفہ راشد کی تشریح دیگر ہر تشریح سے بالا ، اعلیٰ ، اولی اور افضل ہوتی ہے.خلیفہ کی سرشت میں ہی یہ نہیں ہوتا اور یہ خلیفہ کے معنوں ہی کے منافی ہے کہ وہ اپنے نبی کی یا اپنے سے پہلے خلیفہ کی مخالفت کرے یا اس کی منشاء کے مخالف اقدام کرے.اگر وہ ایسا کرتا ہے تو نبی کا جانشین نہیں کہلا سکتا.خلافت کے بارہ میں اگر ایک مبائع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ عرفان سے آگاہ ہو تو خلافت کے بارہ میں ایسے وساوس اس کے دماغ کو خراب نہیں کر سکتے.اپنے نبی کی تعلیم کو اگر اس کا خلیفہ جو اپنی منصبی جبلت کے لحاظ سے اپنے اندر ظلمی طور پر اس کے کمالات رکھتا ہے، نہیں سمجھتا تو کوئی دوسرا یہ صلاحیت کس طرح پا سکتا ہے.پس ظاہر ہے کہ ایسا معترض خلافتِ راشدہ کے بارہ میں عرفان سے کلیۂ عاری ہے اور اس کا اعتراض قطعی جھوٹ اور فریب ہے.ایسا سوال سادگی اور لاعلمی میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے اور بعض اوقات نہایت اخلاص اور صاف نیت کے ساتھ اس خیال سے بھی ایسی بات کر دی جاتی ہے کہ ممکن ہے خلیفہ وقت کے ذہن میں متعلقہ ارشاد نبوی یا گزشتہ خلیفہ کا فیصلہ مستحضر نہ ہو.اس طریق پر اگر بات کی جائے تو یہ تقویٰ کے خلاف نہیں.لیکن معترض اگر مومنین کی جماعت میں خلافت کے خلاف یہ بدظنی پھیلانے کی کوشش کریں کہ نعوذ باللہ خلیفہ وقت عمد ا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے جماعت کو غلط راستے پر ڈال رہا ہے تو یہ لاز ما از او فسق فتنہ پردازی ہے.

Page 420

▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ قومی اموال میں غلط تصرف کا الزام : ایک اعتراض یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ خلیفہ وقت نعوذ باللہ جماعتی اموال کا درد نہیں رکھتا، اسے بیجا خرچ کرتا ہے یا نا جائز طور پر تقسیم کرتا ہے.یہ اعتراض بھی پرانے منافقین کی روش کا اعادہ ہے.خلفائے راشدین کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے احباب پر خوب روشن ہوگا کہ کس طرح معترضین نے ایک کے بعد دوسرے خلیفہ پر مالی بے ضابطگیوں اور نا انصافیوں کے الزامات عائد کئے.خلفاء تو پھر خلفاء تھے دونوں جہاں کے سردار حضرت محمد مصطفی م پر بھی ظالم اس بارہ میں زبان طعن دراز کرنے سے باز نہ آئے یعنی اس سردار دو عالم ﷺ پر بھی قومی اموال کی ناجائز تقسیم کا الزام لگایا گیا جو اس دنیا میں بھی عدل کی بلند ترین گرسی پر فائز فرمایا گیا اور قیامت کے دن بھی خدا کے بعد عدل وانصاف کی گرسیوں میں اس کی گرسی سب سے اونچی ہوگی.خدا کا نبی تو براہِ راست خدا کا انتخاب ہوتا ہے لیکن نبی کے خلفاء کا انتخاب چونکہ الہی تصرف کے تحت نبی کی تربیت یافتہ صالحین کی جماعت کرتی ہے اور انتخاب کے وقت معیار محض اللہ کا تقومی ہوتا ہے.اس لئے انبیاء کے خلفاء کو بھی خدا تعالیٰ ہی کا انتخاب شمار کیا جاتا ہے.جماعت احمدیہ (مبائعین ) کا اسی مذہب پر اجماع ہے.پس جس وجود کو خلافت کی عظیم ذمہ داری محض اس لئے سونپی جاتی ہے کہ وہ اپنے وقت کے انسانوں میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اپنے دل میں رکھتا ہے، اس پر اس قسم کے لغو اعتراضات مضحکہ خیزی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے.دین کی راہ میں مالی قربانی کے میدان میں یہ معترضین خلیفہ وقت کی جوتیوں کی خاک کو بھی نہیں پہنچتے.خلیفہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ " صوفیاء نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق

Page 421

▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ ڈالا جاتا ہے.66 لملفوظات جلد ۱۰ صفحه ۲۳۰،۲۲۹) پس خدا تعالیٰ جسے خلیفہ بناتا ہے، اس کا دل دیگر مومنوں کی نسبت منجانب اللہ حق سے کہیں زیادہ معمور ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایسا بیان فرما نا جہاں خلیفہ وقت کو طاہر و مطہر اور پاک قرار دیتا ہے تو وہاں اس پر اعتراض خود معترض ہی کو حق سے خالی اور سچ سے دور ثابت کرتا ہے.

Page 422

▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ حق، حقدار کو نہیں بلکہ کمتر شخص کو دیدیا گیا ہے: خلیفہ وقت پر عائد کیا جانے والا یہ اعتراض بھی ہزاروں سال پرانا وہ اعتراض ہے جو منکرین ثبوت انبیائے وقت پر کرتے رہے ہیں اور منکرین خلافت ،خلفائے وقت پر.یہی اعتراض حضرت خلیفہ اسی 1 قول پر بھی اور بعد میں آنے والے خلفاء پر بھی کیا گیا اور خدا جانے کب تک کیا جاتا رہے گا.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نے اس کا جواب یہ دیا کہ وو یہ اعتراض کہ خلافت حقدار کو نہیں پہنچی رافضیوں کا عقیدہ ہے.اس سے تو بہ کر لو.اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا خلیفہ بنا دیا.جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ جھوٹا اور فاسق ہے.فرشتے بن کر اطاعت کر وفرمانبرداری اختیار کرو.ابلیس نہ بنو.“ ( بدر ۴ جولائی ۱۹۱۲ء) دراصل شیطان مؤمنین کی جماعت پر مختلف اطراف سے مختلف بھیس بدل کر حملہ آور ہوتا رہتا ہے.کہیں وہ ان میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی مذہبی قیادت کے خلاف عدمِ اعتماد پیدا کرنے کی کبھی وہ پھپھا کٹنی کا رُوپ دھار لیتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ امام وقت سے بڑھ کر کوئی اور تمہارا ہمدرد اور بہی خواہ موجود ہے.کبھی وہ ظاہری علم کی قبا اوڑھ کر آتا ہے اور یہ وسوسہ پھیلاتا ہے کہ تمہارے امام کا علم خام ہے جبکہ اس کی نسبت بہت بڑے بڑے عالم تم میں موجود ہیں.کبھی وہ ایک جُبہ پوش عابد و زاہد بن کر اُن کو ورغلاتا ہے کہ تمہارے امام سے کہیں بڑھ کر خدا کا پیارا تم میں موجود ہے.پس جو کچھ مانگنا ہے، اس کی معرفت مانگو.حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی کا جماعت احمدیہ پر ایک عظیم احسان ہے کہ آپ نے اس قسم کے فتنہ پردازوں کے اطوار و عادات کو بار بارایسی وضاحت کے ساتھ کھول کر جماعت کے سامنے رکھ دیا ہے کہ اب جب بھی جس بھیس میں بھی فتنہ پرداز حملہ آور ہوتے ہیں ، جماعت کی بھاری

Page 423

۴۰۷ اکثریت کا رد عمل اس مصرعہ کے مصداق ہوتا ہے ے ہم سمجھے ہوئے ہیں اُسے جس بھیس میں جو آئے ہاں چند احمق یا روحانی بیمار اور منافق طبع لوگ ضرور ہر بار شیطان کے ہاتھ لگ جاتے ہیں اور قرآن کریم کا یہ پہلا سبق بھول جاتے ہیں کہ سب سے پہلا فریب جو ابلیس نے خود کھایا اور اپنے متبعین کھلایا وہ اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ ( کہ میں اس سے بہتر ہوں ) کا فریب تھا.حق پرست اور حق شناس بندگانِ خدا کا امتیازی نشان اَنَا خَيْرٌ مِّنْہ کا دعویٰ نہیں بلکہ " أَنَا أَحْقَرُ الْعِلْمَانَ “ کا اعلان ہوتا ہے.وہ خود عاجزانہ راہوں پر قدم مارتے ہیں اور دُنیا کو بھی یہی تعلیم دیتے ہیں کہ بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں حقیقت یہی ہے کہ خلفاء کی عظمت، خدا تعالیٰ کے حضور ان کے عجز و انکسار میں مضمر ہوتی دو ہے.خدا تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: جو خلیفہ مقررکیا جاتا ہے اس میں دیکھا جاتا ہے کہ اس نے گل خیالات کو جمع کرنا ہے.اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے.ممکن ہے کسی ایک بات میں دوسرا شخص اس سے بڑھ کر ہو.ایک مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کے لئے صرف یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ پڑھا تا اچھا ہے کہ نہیں یا اعلیٰ ڈگری پاس ہے یا نہیں ممکن ہے کہ اس کے ماتحت اس سے بھی اعلی ڈگری یافتہ ہوں.اس نے انتظام کرنا ہے، افسروں سے معاملہ کرنا ہے، ماتحتوں سے سلوک کرنا ہے، یہ سب باتیں اس میں دیکھی جاویں گی.اسی طرح سے خدا کی طرف سے جو خلیفہ ہوگا اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے گا.خالد بن ولید ” جیسی تلوار کس نے چلائی ؟ مگر خلیفہ ابوبکر ہوئے.آج اگر کوئی کہتا ہے کہ یورپ میں میری فلم کی دھاک بچی ہوئی ہے تو وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا.خلیفہ وہی ہے

Page 424

▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ جسے خدا نے بنایا.خدا نے جس کو چن لیا اُس کو چن لیا.خالد بن ولید نے ۶۰ آدمیوں کے ہمراہ ۶۰ ہزار آدمیوں پر فتح پائی.عمر نے ایسا نہیں کیا.مگر خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ ہی ہوئے.حضرت عثمان کے وقت میں بڑے جنگی سپہ سالار موجود تھے، ایک سے ایک بڑھ کر جنگی قابلیت رکھنے والا ان میں موجود تھا.سارے جہاں کو اس نے فتح کیا، مگر خلیفہ عثمان ہی ہوئے.پھر کوئی تیز مزاج ہوتا ہے، کوئی نرم مزاج، کوئی متواضع ، کوئی منکسر المزاج ہوتے ہیں، ہر ایک کے ساتھ سلوک کرنا ہوتا ہے جس کو وہی سمجھتا ہے.جس کو معاملات پیش آتے ہیں.خطبات محمود جلد ۴ صفحه ۷۲ ، ۷۳ بحوالہ خطبات مسرور جلد ۲ صفحه ۲۴۶،۳۴۵) پس اس کرہ ارض پر خدا تعالیٰ کی صفات کا سب سے زیادہ مظہر نبی کے بعد اگر خلیفہ وقت ہے تو پھر معترض کا اعتراض ابلیس کے آباء و استکبار کے علاوہ اور کچھ نہیں.

Page 425

مجد کی فضیلت کی بحثیں یا نفاق کا چور دروازہ: در حقیقت یہ اعتراض بھی ایک رنگ میں پہلے اعتراض ہی کا شاخسانہ ہے اور اس کا جواب بھی حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس والے واقعہ میں موجود ہے جو خود خدا تعالیٰ کا مہیا فرمودہ جواب ہے.اس سے بڑھ کر کسی اور جواب کی ضرورت نہیں رہتی.خلیفہ وقت سے بہتر ہونے کا گھمنڈ ر کھنے والے یا اس پر کسی دوسرے کی فضیلت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بعض اوقات پختہ ایمان والوں کے دلوں میں راہ پانے کے لئے ” جزئی فضیلت کے چور دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں.ان کی چکنی چپڑی باتیں کچھ اس نہج پر چلتی ہیں کہ خلیفہ وقت فلاں معاملہ میں تو بہت قابل ہے لیکن فلاں معاملہ کی اسے کوئی واقفیت نہیں.اس معاملہ میں فلاں شخص کا جواب نہیں وغیرہ وغیرہ.یہ فتنہ مختلف شکلیں اختیار کر لیتا ہے.کبھی وہ تقریر وتحریر کی فضیلت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، کبھی عبادت گزاری کی صورت میں کبھی وہ ظاہری سادگی اور درویشانہ زندگی کی قباء پہن کر آتا ہے اور کبھی علم قرآن کا چوغہ اوڑھ کر کبھی وہ دنیاوی علوم کی برتری کا تذکرہ بن کر اٹھتا ہے، کبھی سیاست اور تدبر اور معاملہ نہی کا چر چا.غرضیکہ جس رخنہ سے موقع ملے، یہ مومنوں کی مرصوص صف بندی میں داخل ہو کر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک قیادت کی طرف مرکوز جماعتی توجہ کو دو یا تین زائد قیادتوں کی طرف پھیر کر وحدت ملی کے نقصان کا موجب بنتا ہے.روحانی قیادت کے خلاف فتنے کی ایسی ختلف شکلی از منہ گزشتہ میں بھی پائی جاتی تھیں اور وہ خلافت راشدہ کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کر چکا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے زمانہ میں اس نے یہ شکل اختیار کی کہ آپ کی بزرگی اور علم قرآن کو تو تسلیم کیا جاتا تھا لیکن ساتھ ہی یہ شوشہ بھی چھوڑ دیا جاتا تھا کہ دراصل خلیفہ اسی لائق ہوتا ہے کہ نمازیں پڑھائے ، درس و تدریس کا کام کرے، بیعتیں لے اور دعائیں کرے.اس کا دیگر انتظامی امور وغیرہ سے کیا تعلق؟ یہ کام تو صاحب تجربہ

Page 426

۴۱۰ جہاندیدہ اور علوم دنیوی سے آراستہ لوگوں کا ہے.لہذا جماعت کو ایک سر کی بجائے دو (۲) سروں والی قیادت کی ضرورت ہے.ایک سر تو مرکزی ملا کے فرائض سرانجام دے اور ایک سر بصورت انجمن تمام دیگر امور میں جماعت کی قیادت کرے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے عہد میں اس فتنہ نے جو صورت اختیار کی، اس کی نوعیت مذکورہ بالا سطور والی تھی.چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ، اس لئے عین ممکن ہے کہ یہ کسی دوسری خلافت میں اس کے بالکل برعکس شکل میں ظاہر ہو اور کسی خلیفہ کے بارہ میں یہ پراپیگنڈہ کیا جائے کہ دراصل خلیفہ تو انتظامی سربراہ ہوتا ہے اور اسی قابلیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جماعت نے فلاں شخص کا انتخاب کیا تھا.جہاں تک روحانیت اور تعلق باللہ کا سوال ہے، فلاں شخص کا کوئی مقابلہ نہیں.پس انتظامی امور میں بے شک خلیفہ کی اطاعت کرو مگر ارادت مندی اور عقیدت اور دلی محبت فلاں بزرگ سے رکھو.گویا انجمن کے کام چلانے کے لئے تو خلیفہ ہو اور روحانی قیادت اور رہنمائی کے لئے ایک بت تراش لیا جائے.جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، حقیقت خلافت سے متعلق حضرت طلیقہ مسیح الا وال کے پر معرفت جلالی خطبات اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی زندگی بھر کی بھر پۂ رجد وجہد کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی ایسی ٹھوس اور گہری تربیت ہو چکی ہے کہ جماعت کی بہت بھاری اکثریت ان فتنہ پردازوں کے چھپے ہوئے بدا را دوں کو فورا بھانپ لیتی ہے اور اُن کے دلوں میں پکنے والے بغض وعناد، حسد و خود پرستی کے زہریلے مواد سے پناہ مانگتی ہے.إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۖ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلا هَادِيَ لَهُ

Page 427

۴۱۱ خلیفہ وقت کے فیصلوں پر تنقید اور اُن کے چرچے: مذکورہ بالا فتنہ کی ایک شکل یہ بھی بنتی ہے کہ خلیفہ کے فیصلہ جات پر پہلے دبی زبان سے تنقید کی جاتی ہے پھر حسب حالات کھل کر اُن کی مذمت کی مہم چلائی جاتی ہے.ایسے فتنے بعض اوقات عمومی شکل بھی اختیار کر جاتے ہیں لیکن اکثر اوقات یہ محدود دائرے سے تعلق رکھتے ہیں.اسی طرح تمام جماعت سے تعلق رکھنے والے مرکزی فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے.نیز بعض قضائی یا انتظامی فیصلے ایسے ہوتے ہیں کہ لازما خلیفتہ اسیح کا فیصلہ ایک فریق کے حق میں اور دوسرے فریق کے خلاف ہوتا ہے.اس صورت میں منافقین کی ہمدردیاں حق اور ناحق کی تمیز کے بغیر بلا استثناء متاثرہ فریق سے ہوتی ہیں اور وہ انسانی ہمدردی اور اخلاق حسنہ کے پردہ میں متاثرہ دوستوں سے ایسی لگاوٹ کی باتیں کرتے ہیں جو رفتہ رفتہ خلیفہ وقت کے خلاف منافرت انگیزی پر منتج ہو جاتی ہیں.حضرت خلیفہ امسیح الاول نے جب منکرین خلافت کا بڑی سختی سے محاسبہ کیا تو فتنہ کی یہی شکل اس موقع پر بھی رونما ہوئی اور اندر اندر ایک دوسرے کے ساتھ اس رنگ میں ہمدردیاں کی جانے لگیں گویا وہ سخت مظلوم اور حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی تیغ ستم کا گشتہ ہیں.فتنوں کی تاریخ میں یہ شکل بھی بہت قدیمی ہے اور اسی طرح مردود ہے جس طرح دیگر اقسام.

Page 428

۴۱۲ ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ اپنی پسند کے آدمیوں کو مسلط کرنے کا الزام : ایک الزام خلیفہ وقت پر ایسا بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنی پسند کے آدمیوں کو ( جومعترضین کی نظر میں نا اہل ہوتے ہیں ) جماعت پر مسلط کرتا ہے.یہ الزام حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل پر بھی لگایا گیا.یہ اُسی نوعیت کا الزام ہے جو حضرت عثمان کے مبارک عہد میں ایک خطر ناک وباء کی صورت میں پھوٹا تھا.جسے تمام عالم اسلام غلط اور مردود قراردیتا ہے.دراصل ہر زندہ حقیقت کے ساتھ موت کی منحوس صورتیں ہمیشہ نبرد آزما رہی ہیں، اور رہیں گی اور ان وباؤں کے ساتھ مقابلہ میں جب بھی کوئی زندہ جماعت غالب آتی ہے تو اس نوعیت کے دوسرے فتنوں کے مقابلہ کی پہلے سے بڑھ کر طاقت اس میں پیدا ہو جاتی ہے.اور اس ازلی و ابدی حقیقت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا کہ ہر زندہ حقیقت کو موت یا اس سے مشابہ قوتوں کے ساتھ نبرد آزما رہنا پڑتا ہے اور اس میں اس کے ارتقاء اور تحسین عمل کا راز مضمر ہے.قرآنِ کریم اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: تَبَارَكَ الَّذِي بَيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ وَ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ ) (الملک: ۳،۲) ترجمہ: بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں ہر قسم کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ تمہیں آزمائش میں ڈال کر معلوم کرے کہ تم میں سے کون بہترین عمل کرنے والا ہے.اور وہ غالب اور بہت بخشنے والا ہے.حضرت خلیفہ اصبح الا ول پر یہ الزام عائد کرنے والوں کے پیش نظر بالخصوص حضرت صاحبزادہ مرزامحموداحد صاحب کی ذات تھی جن پر حضرت خلیفہ امسیح غیر معمولی اعتماد فرماتے تھے اور

Page 429

۴۱۳ معترضین کی نظر میں نا اہل ہونے کے باوجود نہایت اہم جماعتی ذمہ داریاں آپ کے سپر دفرماتے تھے.یہاں تک بھی چہ میگوئیاں کی جاتیں کہ اپنے بعد میاں محمود کوخلیفہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے.اپنی آخری بیماری میں حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کا یہ فرمانا اسی اعتراض کے پیش نظر تھا کہ : وہ جو کہتا ہے کہ فلاں شخص کو میں نے خلیفہ مقرر کر دیا ہے غلط ہے.مجھے کیا علم ہے کہ کون خلیفہ ہوگا اور کیا ہوگا.کون خلیفہ بنے گا یا مجھ سے بہتر خلیفہ ہوگا.میں نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا.میں کسی کو خلیفہ نہیں بناتا.میرا یہ کام نہیں.خلیفے اللہ ہی بناتا ہے.میرے بعد بھی اللہ ہی بنائے گا“.(الحکم ۲۸ فروری ۱۹۱۴ء)

Page 430

۴۱۴ ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ بڑھاپے اور جسمانی کمزوری کے باعث نا اہلی کا الزام: حضرت خلیفہ مسیح الاوان پرتنقید کا ایک یہ بیان بھی بنایا جاتا تھا کہ چونکہ آپ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں، لہذا عمر کے طبعی تقاضے کے پیش نظر ( نعوذ باللہ ) طبیعت میں تلون اور ضدّ بہت بڑھ گئے ہیں.اس ضمن میں بعض خطوط میں سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیے: ا: خلیفہ صاحب کا تلوّن طبع بہت بڑھ گیا ہے اور عنقریب ایک نوٹس شائع کرنے والے ہیں جس سے اندیشہ بہت بڑے ابتلاء کا ہے.اگر ذرا بھی تخالف خلیفہ صاحب کی رائے سے ہو تو برافروختہ ہو جاتے ہیں....سب حالات عرض کئے گئے مگر ان کا جوش فرو نہ ہوا اور ایک اشتہار جاری کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں“.( خط ڈاکٹر مرز ایعقوب بیگ صاحب بنام سید حامد علی شاہ صاحب سیالکوئی بحوالہ سوانح فضلِ عمرؓ) حضرت مولوی صاحب کی طبیعت میں ضد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ دوسرے کی سُن ہی نہیں سکتے.وصیت کو پس پشت ڈال کر خدا کے فرستادہ کے کلام کی بے پرواہی کرتے ہوئے شخصی وجاہت اور حکومت ہی پیش نظر ہے.سلسلہ تباہ ہو تو ہومگر اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات نہ ٹلے.وہ سلسلہ جو کہ حضرت اقدس کے ذریعہ بنا تھا اور جو کہ بڑھے گا، وہ چند ایک اشخاص کی ذاتی رائے کی وجہ سے اب ایسا گرنے کو ہے کہ پھر ایک وقت کے بعد ہی سنبھلے تو سنبھلے“.(خط ڈاکٹر سیدمحمد حسین صاحب بنام سید حامد علی شاہ صاحب سیالکوئی بحوالہ سوانح فضل عمر) ان تحریروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض وساوس ہیں اور بعینہ ایسی ہی باتیں ہیں جیسی ابلیس نے حضرت آدم کے خلیفتہ اللہ بننے کے وقت کی تھیں کہ اس کی وجہ سے بڑا فساد ہوگا اور خون

Page 431

۴۱۵ خرابہ ہوگا وغیرہ وغیرہ.یہاں بھی ویسی صفات والوں کے ایسے خدشات تھے کہ خلیفہ وقت کے فیصلوں اور اقدامات سے اندیشہ بہت بڑے ابتلاء کا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قائم کردہ سلسلہ اب ایسا گرنے کو ہے کہ پھر ایک وقت کے بعد ہی سنبھلے تو سنبھلے“.ایسے لوگ دراصل اس ابتلاء سے پہلے خود اہلیستیت میں مبتلاء ہو چکے ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں کرتے کہ اس ابتلاء سے پہلے اور اس سلسلہ کے گرنے سے پہلے اس سے الگ ہو جائیں تا کہ بزعم خویش بچ جائیں.منافقین کا یہ پر انا وطیرہ ہے کہ بل فریب سے بات کرتے ہیں اور کسی بزرگ ہستی کی گستاخی کے لئے زبان بے قابو ہورہی ہو تو لفظی چالا کی سے کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ کی تقدیر کے خلاف زبان درازی مقصود ہو تو فلک کو بُرا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال لی جاتی ہے.اسی وجہ سے آنحضرت ام نے افلاک یا گردشِ ایام کو بُرا بھلا کہنے سے سختی سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ در اصل تقدیر الہی کو بُرا کہنے کے مترادف ہے.پس منافقین بھی خلیفہ وقت کو کوسنے کی جرات نہ پا کر کبھی اس کے بڑھاپے کو بُرا بھلا کہتے اور کبھی اس کی بیماری کو آڑ بنا کر مومنوں کی جماعت میں ” عزل خلیفہ کے جراثیم پھیلانے کی کوشش کرتے اور اس حقیقت کو فراموش کر دیتے کہ مومنوں کی سوسائٹی میں خلیفہ کا مقام اس سے بہت بڑھ کر ہے جو ایک خاندان کے ماحول میں ماں باپ کو حاصل ہوتا ہے یعنی ان ماں باپ کو جن کے بارہ میں قرآن کریم یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر اُن میں سے دونوں یا ایک بوڑھے ہو جائیں ، تب بھی ( دامنِ دب ہاتھ سے نہ جانے دینا اور ) اُن کے سامنے اُف تک نہ کرنا.

Page 432

۴۱۶ ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ قومی یا لسانی یا خاندانی برتری کی بنیاد پر اعتراض ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ خلیفہ فلاں قوم سے کیوں ہے اور فلاں سے کیوں نہیں؟ اس اعتراض کو کبھی رنگ ونسل کے نام نہاد امتیازات کے سانچہ میں ڈھال کر پیش کیا جاتا ہے تو کبھی اس کی زبان کو زیر بحث لایا جاتا ہے.جیسا کہ پہلے ٹھوس اور قطعی دلائل اور وجوہات کی بناء پر ثابت کیا جا چکا ہے کہ خلافت کا قیام یا خلیفہ بنانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اس لئے یہ اعتراض براہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات پر اٹھتا ہے کہ اس نے اسے فلاں قوم یا خاندان سے کیوں قائم فرمایا ہے ،فلاں میں سے کیوں نہیں قائم فرمایا.اللہ تعالیٰ جب خلیفہ مقررفرماتا ہے تو وہی جانتا ہے کہ کون اس کا اہل ہے.اس کی نظر میں نہ کسی قوم اور خاندان کو کوئی مصنوعی برتری حاصل ہے ،نہ رنگ ونسل کی کوئی حیثیت ہے.اس کا انتخاب نہ کسی قوم یا فرد کی خواہشات کا پابند ہے اور نہ کسی زبان اور علمیت کا.اس لئے ایسا ہر اعتراض خود بخو درڈ ہو جاتا ہے جس کی زد خدا تعالیٰ کے علم وارادہ پر پڑتی ہے.چنانچہ کفارِ مکہ نے بھی اسی نوع کا اعتراض رسول اللہ ہم پر بھی کیا اور کہا: وَ قَالُوْا لَوْلَا نُزِلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيْم (الزخرف: ۳۲) ترجمہ: اور انہوں نے کہا کیوں نہ یہ قرآن ان دو معروف بستیوں ( یعنی مکہ اور طائف) کے کسی بڑے شخص پر اتارا گیا.اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی عطا فر مایا کہ دو أَهُمْ يَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ، نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ

Page 433

۴۱۷ دَرَجَتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا = وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ“ (الزخرف:۳۳) ترجمہ: کیا وہ ہیں جو تیرے رب کی رحمت تقسیم کریں گے؟ ہم ہی ہیں جنہوں نے ان کی معیشت کے سامان ان کے درمیان اس ورلی زندگی میں تقسیم کئے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسروں پر ہم نے مراتب کے لحاظ سے فوقیت بخشی ہے تا ان میں سے بعض بعض کو زیر نگیں کر لیں.اور تیرے رب کی رحمت اُس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں.نبوت کے بعد اور اس کے ظلت میں خلافت، خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے.جو محض خدا تعالیٰ کی عطا ہے.کوئی انسان کسی کو خلیفہ نہیں بناتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ کسی کو خلیفہ بناتا ہے.دنیا میں معیشت کے سامان کی تقسیم کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض کے تحت کیا ہے تا کہ سب کا رزق چلتا رہے.لیکن نعمت خلافت کسی انسان کے تحت نہیں ہے.وہ وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُون کی مصداق ہے.انسان کی اپنی معیشت کے سامان بھی خدا تعالیٰ کی مقررہ تقسیم سے ہوتے ہیں تو اس اعلی قسم کی نعمت پر کوئی کیونکر پابندی لگا سکتا ہے.اس کے لئے خدا تعالیٰ نے قوم وملک، خاندان وقبیلہ، رنگ و نسل اور زبان و کلام کو روحانی سلسلہ میں کسی قسم کی کوئی ترجیح نہیں دی بلکہ اپنے قرب و انتخاب کی بنیا و تقوی قرار دی ہے.جیسا کہ فرمایا: ”يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَّ أُنْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوْبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ ، إِنَّ اللهَ عَلِيْمٌ خَبِيرٌ (الحجرات:۱۴) ترجمہ:اے لوگو یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو.بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.یقینا اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور ) ہمیشہ باخبر ہے.پس جو وجود خدا تعالیٰ کے علم اور آگاہی کے مطابق تقوی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہے وہی

Page 434

۴۱۸ سب سے زیادہ اکرام والا ہے.اسی کے دل میں اللہ تعالیٰ پہلے حق ڈالتا ہے پھر اسے خلافت کا منصب عطا کرتا ہے.یعنی اس کا انتخاب کسی قبیلہ، خاندان، رنگ ونسل یا قوم وغیرہ کی ترجیح پر نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالی کی طرف سے خلافت کی خلعت صرف اسے عطا ہوتی ہے جو اس کی نظر میں جماعت مومنین میں اَتْقَاكُمْ کی کسوٹی پر سب سے بلند، اعلیٰ اور ارفع مقام پر ہوتا ہے.خلافت کے قیام کے لئے خدا تعالیٰ کی یہی سنت ماضی میں بھی کارفرمارہی ہے اور آئندہ بھی یہی جاری رہے گی.انشاء اللہ

Page 435

۴۱۹ ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ بعض اور اعتراض حضرت خلیفہ المسیح اشانی تحریر فرماتے ہیں: بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیفہ نے انجمن کا حق غصب کر لیا.پھر کہتے ہیں کہ یہ لوگ شیعہ ہیں.میں جب ان باتوں کو سنتا ہوں تو مجھے افسوس آتا ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا.کہتے ہیں کہ بیٹے کو خلافت کیوں مل گئی ؟ میں حیران ہوں کہ کیا کسی ولی یا نبی کا بیٹا ہونا ایسا نا قابل عفو جرم ہے کہ اس کو کوئی حصہ خدا کے فضل سے نہ ملے اور کوئی عہدہ وہ نہ پائے؟ اگر یہ درست ہے تو پھر نعوذ باللہ کی ولی یا نبی کا بیٹا ہونا تو ایک لعنت ہوئی برکت نہ ہوئی.پھر انبیاء علیہم السلام اولاد کی خواہش یونہی کرتے تھے اور آنحضرت سلم نے مسیح موعود کی اولاد کی پیشگوئی نعوذ باللہ لغو کی.اور خدا تعالیٰ نے مسیح موعودؓ سے جو وعدے کئے وہ برکت کے وعدے نہ تھے(نعوذ باللہ من ڈلک) اور اگر یہ پیر پرستی ہے کہ کوئی بیٹا وارث ہو تو پھر اس کے معنے یہ ہوئے کہ پیر کی اولا دکو ذلیل کیا جائے تا کہ پیر پرستی کا الزام نہ آئے.پھر احترام اور عزت و تکریم کے دعاوی کس حد تک درست سمجھے جائیں.میں تمہیں کھول کر کہتا ہوں کہ میرے دل میں یہ خواہش نہ تھی اور کبھی نہ تھی.پھر اگر تم نے مجھے گندہ سمجھ کر میری بیعت کی ہے تو یا درکھو کہ تم ضرور پیر پرست ہو.لیکن اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں پکڑ کر جھکا دیا ہے تو پھر کسی کو کیا؟ یہ کہنا کہ میں نے انجمن کا حق غصب کر لیا ہے بہت بڑا بول ہے.کیا تم کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ

Page 436

۴۲۰ میں تیری ساری خواہشوں کو پورا کروں گا.اب ان لوگوں کے خیال کے موافق تو حضرت صاحب کا منشاء اور خواہش تو یہ تھی کہ انجمن ہی وارث ہے اور خلیفہ ان کے خیال میں بھی نہ تھا تو اب بتاؤ کہ کیا اس بات کے کہنے سے تم اپنے قول سے یہ ثابت نہیں کر رہے کہ نعوذ باللہ خدا نے ان کے منشاء کو پورا نہ ہونے دیا.سوچ کر بتاؤ کہ شیعہ کون ہوئے؟ شیعہ بھی تو یہی کہتے ہیں کہ آنحضرت میم کا منشاء تھا کہ حضرت علی خلیفہ ہوں.آپ کے خیال و و ہم میں بھی نہ تھا کہ ابوبکر عمر عثمان خلیفہ ہوں.تو جیسے ان کے اعتقاد کے موافق مسئلہ خلافت میں آنحضرت ام کے منشاء کو لوگوں نے بدل دیا اسی طرح یہاں بھی ہوا.افسوس! کیا حضرت مسیح موعود کی کوئی عزت وعظمت تمہارے دلوں میں ہے کہ تم قرار دیتے ہو کہ وہ اپنے منشاء میں نعوذ باللہ ناکام رہے.خدا سے ڈرو اور توبہ کرو.پھر ایک تحریر لئے پھرتے ہیں اور اس کے فوٹو چھپوا کر شائع کئے جاتے ہیں.یہ بھی وہی شیعہ والے قرطاس کے اعتراض کا نمونہ ہے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے قرطاس نہ لانے دیا.اگر قر طاس آجا تا تو ضرور حضرت علی کی خلافت کا فیصلہ کر جاتے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ افسوس ! قرطاس لکھ کر بھی دے گئے پھر بھی کوئی نہیں مانتا.بتاؤ شیعہ کون ہوا.میں کہتا ہوں کہ اگر وہ قرطاس ہوتا تو کیا بنتا؟ وہی کچھ ہونا تھا جو ہو گیا.آنحضرت م نے نہ لکھوایا اور شیعہ کو خلیفہ ثانی پر اعتراض کا موقع ملا.یہاں مسیح موعودؓ نے لکھ کر دیا اور اب اس کے ذریعہ اس کے خلیفہ ثانی پر اعتراض کیا جاتا ہے.▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

Page 437

۴۲۱.اسی طرح قرطاس کی حقیقت معلوم ہوگئی.سن لو! خدا تعالی کے مقابلہ میں قرطاس کی کیا حقیقت ہوتی ہے؟ اور میں بھی تمہیں کھول کر سناتا ہوں کہ قرطاس منشاء الہی کے خلاف بھی نہیں.حضرت خلیفہ اسیح فرمایا کرتے تھے کہ ایک شیعہ ہمارے استاد صاحب کے پاس آیا اور ایک حدیث کی کتاب کھول کر ان کے سامنے رکھ دی.آپ نے پڑھ کر پوچھا کیا ہے.شیعہ نے کہا کہ منشاء رسالت پناہی حضرت کی خلافت کے متعلق معلوم ہوتا ہے.فرماتے تھے میرے استاد صاحب نے نہایت متانت سے جواب دیا.ہاں منشاء رسالت پنا ہی تو تھا مگر منشاء الہی اس کے خلاف تھا.اس لئے وہ منشاء پورا نہ ہو سکا.میں اس قرطاس کے متعلق پھر کہتا ہوں کہ اگر کوئی کہے تو یہ جواب دوں گا کہ حقیقتہ الوحی میں ایک جانشین کا وعدہ کیا ہے اور یہ بھی فرمایا خَلِيفَةٌ مِنْ خُلَفَائِه پس غصب کی پکار بالکل بیہودہ اور عبث ہے.منصب خلافت انوار العلوم جلد ۲ صفحه ۵۱ تا ۵۳) ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

Page 438

۴۲۲ ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ ایک حقیقت افروز تنبیہہ : حضرت خلیفہ المسح الخمس اليد اللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ” خلافت قائم رکھنے کا وعدہ ان لوگوں سے ہے جو مضبوط ایمان والے ہوں اور نیک اعمال کررہے ہوں.جب ایسے معیار مومن قائم کر رہے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق خلافت کا نظام جاری رکھے گا.نبی کی وفات کے بعد خلیفہ اور ہر خلیفہ کی وفات کے بعد آئندہ خلیفہ کے ذریعہ سے یہ خوف کی حالت امن میں بدلتی چلی جائے گی.اور یہی ہم گزشتہ ۱۰۰ سال سے دیکھتے آرہے ہیں.لیکن شرط یہ ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہوں اور دُنیا کے لہو ولعب ان کو متاثر کر کے شرک میں مبتلا نہ کر رہے ہوں.اگر انہوں نے ناشکری کی ، عبادتوں غافل ہو گئے ، دُنیاداری ان کی نظر میں اللہ تعالیٰ کے احکامات سے زیادہ محبوب ہوگئی تو پھر اس نافرمانی کی وجہ سے وہ اس انعام سے محروم ہو جائیں گے.پس فکر کرنی چاہئے تو ان لوگوں کو جو خلافت کے انعام کی اہمیت نہیں سمجھتے.یہ خلیفہ نہیں ہے جو خلافت کے مقام سے گرایا جائے گا بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خلافت کے مقام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے فاسقوں میں شمار ہوں گے.تباہ وہ لوگ ہوں گے جو خلیفہ یا خلافت کے مقام کونہیں سمجھتے ہنسی ٹھٹھا کرنے والے ہیں.

Page 439

۴۲۳ پس یہ وارننگ ہے، تنبیہہ ہے ان کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.یاوہ وارننگ ہے ان کمزور احمدیوں کو جو خلافت کے قیام و استحکام کے حق میں دعائیں کرنے کی بجائے اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کہاں سے کوئی اعتراض تلاش کیا جائے.“ (الفضل ربوه ۵/ جولائی ۲۰۰۵ء) ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

Page 440

۴۲۴ اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آتا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں.“ (خطبہ جمعہ ارمئی ۲۰۰۳، حضرت خلیت اصبح الخامس اید الله الرود)

Page 441

۴۲۵ نا قابل تسخیر

Page 442

۴۲۶ ☆☆ قارئین کرام! گزشتہ صفحات میں نفاق کے پردوں میں پنپ کر خلافت حقہ کو زائل کرنے کی اندرونی سازشوں کا نمونہ پیش کیا گیا تھا.آئندہ چند صفحات میں آپ بیرونی کوششوں کے بارہ میں کچھ ملا حظہ فرمائیں گے جو خلافت کو ختم کرنے کے متحرک ہوتی ہیں.جہانتک خلافت کو زائل کرنے کی ان بیرونی کوششوں کا تعلق ہے تو دشمن کھل کر یہ زور آزمائی بھی کرتا رہا ہے.یہاں پرانی تاریخ کو دوہرانے کی گنجائش نہیں.البتہ موجودہ دور میں خلافتِ حقہ کو ختم کرنے کے لئے جو کوشش کی گئی وہ اندرونی وساوس کی قسم کی کوئی سازش نہ تھی بلکہ اس حصارِ امن و ایمان ویقین کو توڑنے کے لئے ایک حکومت کو استعمال کیا گیا جس کے پیچھے دراصل دشمن اسلام طاقتیں کارفرما تھیں.یہ ایک خوفناک سازش تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ خلافت کے وجود کوختم کر کے پھر بزور طاقت جماعت احمدیہ کو کچل دیا جائے اور اس جماعت کو جو خلافت کے حصار میں غلبہ اسلام کے عظیم الشان کام کر رہی ہے، اسے اُن سے روک دیا جائے.چنانچہ حضرت امیر المومنین خلیفہ امسح الرابع اس سازش کا تفصیلا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان کے ارادے ایسے ہیں کہ ان کو سوچ کر بھی ایک انسان جس کا دنیا میں کوئی سہارا نہ ہو، اس کی ساری زندگی خراب ہو سکتی ہے.اس کے تصور سے بھی انسان کا وجود لرزنے لگتا ہے.لیکن میں جانتا ہوں کہ نہ مجھ پر یہ اثر ہے اور نہ آپ پر یہ اثر ہوگا کیونکہ میں بھی جانتا ہوں کہ ہمارا خدا موجود ہے جو ہمارے ساتھ ہمیشہ رہا ہے اور ہمارے ساتھ ہمیشہ رہے گا اور آپ بھی جانتے ہیں.اس لئے جب میں آپ سے بات کرتا ہوں تو ڈرانے کے لئے یہ بات نہیں کرتا ، صرف بتانے کے لئے کہ آنکھیں کھول کر وقت

Page 443

گزاریں.۴۲۷ اس دور میں یعنی ۱۹۸۴ء کی جو شرارت ہے اس میں ایک مکمل سکیم کے تابع پاکستان میں جماعت احمدیہ کے مرکز کو ملیا میٹ کرنے کا ارادہ تھا اور جماعت احمدیہ کی ہر اُس انسٹی ٹیوشن، ہر اس تنظیم پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ تھا جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے.چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے ایسے قانون بنائے جن کے نتیجہ میں خلیفہ وقت پاکستان میں رہتے ہوئے خلافت کا کوئی بھی فریضہ سرانجام نہیں دے سکتا....خلیفہ وقت اگر پاکستان میں اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ بھی کہے تو حکومت کے پاس یہ ذریعہ موجود ہے اور وہ قانون موجود ہے جس کو بروئے کار لا کر وہ اسے پکڑ کر تین سال کے لئے جماعت سے الگ کر سکتے ہیں اور یہی نیت تھی اور ابھی بھی ہے.چنانچہ میرے آنے سے پہلے دو تین دن کے اندر جو واقعات ہوئے ہیں اُن کا اس وقت تو ہمیں پورا علم نہیں تھا کیونکہ خدا کی تقدیر نے خاص رنگ میں میرے باہر بھجوانے کا انتظام فرمایا..یہ خلافت کے قلع قمع کی ایک نہایت بھیانک سازش تھی جس کی پہلی کڑی یہ سوچی گئی تھی کہ خلیفہ وقت اگر اپنے آپ کو کسی طرح بھی مسلمان ظاہر کرے تو فوری طور پر قید کر کے تین سال کے لئے جماعت سے الگ کر دیا جائے...آرڈر یہ تھے کہ اگر یہ خطبہ دے ( آرڈینینس کے دوسرے دن جمعہ تھا ) تو خطبہ چونکہ ایک اسلامی کام ہے اور صرف اسی بہانے پر اس کو پکڑا جا سکتا ہے کہ تم خطبہ دے کر مسلمان بنے ہو.تشہد پڑھا ہے، اس کے نتیجہ میں پکڑا جا سکتا ہے.اگر خطبہ دے تو تب پکڑو اور اگر خطبہ نہ دے تو پھر کوئی بہانہ تلاش کرو.اور اگر ربوہ کی کسی ایک بھی مسجد میں اذان ہو جائے یا

Page 444

۴۲۸ کوئی اور بہانہ مل جائے تو تب بھی اس کو پکڑ لو.اور آخری آرڈر یہ تھا کہ اگر کوئی بہانہ نہ بھی ملے تو بہانہ تراشو اور پکڑو.مُرادی تھی کہ خلیفہ وقت اگر ربوہ میں رہے تو ایک مُردہ کی حیثیت سے وہاں رہے اور اپنے فرائض منصبی میں سے کوئی بھی نہ ادا کر سکے.اگر وہ ایسا کرنے پر تیار ہو یعنی ایک مُردہ کی طرح زندہ رہنے پر تیار ہو تو ساری جماعت کا ایمان ختم ہو جائے گا.ساری جماعت یہ سوچے گی کہ خلیفہ وقت ہمیں تو قربانیوں کی طرف بلا رہا ہے، ہمیں تو کہتا ہے کہ اسلام کا نام بلند کرو اور خود ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا.چنانچہ یہ جماعت کے ایمان پر حملہ تھا اور اگر خلیفہ وقت جماعت کا ایمان بچانے کے لئے بولے تو اس کو تین سال کے لئے جماعت سے الگ کر دو، چونکہ جماعت ایک نظام کی وجہ سے خلیفہ کا انتخاب کر ہی نہیں سکتی جب تک کہ پہلا خلیفہ مر نہ جائے ، اُس وقت تک اس لحاظ سے تین سال کے لئے جماعت اپنی مرکزی قیادت سے محروم رہ جائے گی.جس جماعت کو خلیفہ وقت کی عادت ہو، جو نظام خلیفہ کے محور کے گردگھومتا ہواس کو کبھی بھی خلیفہ کی عدم موجودگی میں کوئی انجمن نہیں سنبھال سکتی.....خلافت کا کوئی بدل ہی نہیں ہے.ناممکن ہے کہ خلافت کی کوئی متبادل چیز ایسی ہو جو خلافت کی جگہ لے لے اور دل اسی طرح تسکین پالیں.تو تین سال کا عرصہ جماعت سے خلافت کی علیحد گی اس حال میں کہ کوئی رابطہ قائم نہ رہ سکے، یہ اتنی خوفناک سازش تھی کہ اگر خدانخواستہ یہ عمل میں آجاتی تب آپ کو اندازہ ہوتا کہ کتنا بڑا حملہ جماعت کی مرکزیت پر کیا گیا ہے.ساری دنیا کی جماعتیں بے قرار ہو جاتیں اور ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ رہتا ، کچھ سمجھ نہ آتا کہ کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنا ہے اور پھر ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

Page 445

۴۲۹ جذبات سے بے قابو ہو کر غیر ذمہ دارانہ حرکتیں بھی ہوسکتی تھیں.جس طرح شدید مشتعل اور زخمی جذبات کو اللہ تعالیٰ نے مجھے سنبھالنے کی توفیق دی ، خلیفہ وقت کی عدم موجودگی یا بے تعلقی کے نتیجہ میں تو ناممکن تھا کہ جماعت کو اس طرح کوئی سنبھال سکتا.بعض لوگ مجھے خط لکھتے ہیں تو آپ تصور نہیں کر سکتے کہ اُن کا حال کیا ہے.وہ اس وقت تڑپ رہے ہوتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ! اگر آپ کے ہاتھ پر ہم نے عہد نہ کیا ہوتا کہ ہم صبر دکھائیں گے ، خواہ ہمارے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیے جاتے ، ہمارے بچے ہمارے سامنے ذبح کر دیے جاتے تب بھی ان ظالموں سے ہم ضرور بدلہ لیتے.یہ حالت ہو جس جماعت کے اخلاص کی اور محبت کی اور عشق کی ، اُسے خلافت کے سواسنبھال ہی کوئی نہیں سکتا.اس لئے یہ ایک نہایت خطرناک سازش تھی اور پھر اس کی انگلی کڑیاں تھیں.جن لوگوں کو جھوٹ کی عادت ہو، ظلم اور سفا کی کی عادت ہو، افتراء پردازی کی عادت ہو، وہ کوئی بھی الزام لگا کر ، کوئی بھی جھوٹ گھڑ کے پھر خلیفہ کی زندگی پر بھی حملہ کر سکتے تھے اور اس صورت میں جماعت کا اُٹھ کھڑے ہونا اور اپنے قومی سے قابو کھودینا، جذبات سے قابوکھودینا اور دماغی کیفیات سے بھی نظم وضبط کے کنٹرول اتار دینا ایک طبعی بات تھی.ناممکن تھا کہ جماعت ایسی حالت میں کہ اُن کو پتہ ہے کہ خلیفہ وقت کلیہ ایک معصوم انسان ہے ، ان باتوں میں نہ ہماری جماعت کبھی پڑی نہ پڑسکتی ہے.اس پر ایک جھوٹا الزام لگا کر ایک بدکردار انسان نے اُسے موت کے گھاٹ اتارا ہے.ناممکن تھا کہ جماعت اس کو برداشت کر سکتی.جبکہ برداشت کرنے کے لئے جو ذریعہ خدا تعالیٰ نے بخشا ہے، خلافت، اُس کی رہنمائی سے محروم ہو.اس صورت میں ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

Page 446

۴۳۰ جماعت کا کوئی بھی رد عمل ہوسکتا تھا جو اتنا بھیا نک ہوسکتا تھا اور اتنے بھیا نک نتائج تک پہنچ سکتا تھا کہ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے.اور باوجود اس کے کہ ہمیں ان باتوں کا پہلے علم نہیں تھا جس رات یہ فیصلہ ہوا ہے اس رات خدا تعالیٰ نے مجھے اس بات کا اچانک علم دیا ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک بڑے زور سے یہ تحریک ڈالی کہ جس قدر جلد ہو اس ملک سے تمہارا نکنا نظام خلافت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے.تمہاری ذات کا کوئی سوال نہیں ہے.ایک رات پہلے میں یہ عہد کر چکا تھا کہ خدا کی قسم کہ میں احمدیت کی خاطر جان دوں گا اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے روک نہیں سکے گی اور اس رات خدا تعالیٰ نے مجھے ایسی اطلاعات دیں کہ جن کے نتیجہ میں اچانک میرے دل کی کایا پلٹ گئی.اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ جماعت کے خلاف کتنی خوفناک سازش ہے جسے ہر قیمت پر مجھے نا کام کرنا ہے اور وہ سازش یہ تھی کہ خلیفہ وقت کو قتل کیا جائے اور جماعت اس پر ابھرے تو پھر نظامِ خلافت پر حملہ کیا جائے ، ربوہ کو فوج کے ذریعہ ملیا میٹ کیا جائے اور وہاں خلافت کا نیا انتخاب نہ ہونے دیا جائے اور وہ انسٹی ٹیوشن ہی ختم کر دی جائے.اس کے بعد دنیا میں کیا باقی رہ جاتا.خدا تعالیٰ کے اپنے کام ہوتے ہیں اور جن حالات میں اللہ تعالیٰ نے نکالا ہے یہ اس کے کاموں کا ہی ایک ثبوت ہے.یہ میں نہیں کہتا کہ یہ ہو سکتا تھا.ناممکن تھا کہ یہ ہو جاتا ورنہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر سے دنیا کا ایمان اُٹھ جاتا کہ خدا نے خود ایک نظام قائم کیا ہے.خود اس کے ذریعہ ساری دنیا میں اسلام کے غلبہ کے منصوبے بنا رہا ہے اور پھر اس جماعت کے دل پر ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

Page 447

۴۳ ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ ہاتھ دالنے کی دشمن کو توفیق عطا فرمادے جس جماعت کو اپنے دین کے احیاء کی خاطر قائم کیا ہے.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا.اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ اس ایک تدبیر کو نا کام کر کے دشمن کی ہر تد بیر نا کام کردی.خدا تعالیٰ کا اتنا بڑا احسان ہے کہ جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے.آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کتنے خوفناک نتائج سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بچالیا کتنی بڑی سازش کو کلیہ نا کام کر دیا.از خطبه جمعه فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۳ ء بمقام پیرس فرانس) دشمن کی یہ خوفناک سازش جو ایک حکومت کی تمام طاقت کو استعمال کر کے خلافتِ احمدیہ کو مٹانے کے لئے تیار کی گئی تھی، خدا تعالیٰ کی تقدیر کے ساتھ ٹکرا کر مردود اور ناکام و نامراد ہوگئی.خلافتِ احمدیہ کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر مخالفت جو خلافت کو تباہ کرنے کے لئے اٹھی ، آپ اپنی موت مرگئی اور جماعت کو ترقیات کے نئے سنگ میل مہیا کر گئی.۱۹۳۰ ء کے دہا کہ میں احرار جب مخالفت کے لئے اُٹھے تو خدا تعالیٰ نے جماعت کو تحریک جدید کے عظیم الشان انعام سے نوازا جس کے ذریعہ احمدیت بیرونی دنیا میں بڑی تیزی سے پھیلی.اب پھر احرار نے سر اٹھایا اور خلافت کو زائل کرنے کے لئے اوچھے ہتھیاروں پر اترے تو خدا تعالیٰ نے نہ صرف خلافت کی حفاظت کی بلکہ جماعت کو ہر بڑ اعظم میں بے بہا برکتوں سے معمور بیبیوں مراکز کے تھے عطا فرمائے.اس پس منظر میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے خلافت کی راہ میں آئندہ آنے والی بڑی بڑی مخالفتوں، ان کے انجام اور ان کے نتیجہ میں جماعت احمد یہ پر خدا تعالیٰ کے افضال و انعامات کے نزول کی خبر دیتے ہوئے نا قابل تسخیر عزم کے ساتھ پر شوکت اعلان فرمایا کہ: اس دفعہ بھی احرار ہی کا دور ہے.....بظاہر وہ احمدیت کی موت کے ترانے الاپ رہے ہیں لیکن میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ اپنی موت کے گانے گا رہے ہیں.اس کے سوا اور کوئی آواز نہیں ہے جو اُن کے مونہوں سے نکل رہی ہے.

Page 448

۴۳۲ احمدیت کی صف لپیٹنے والا کسی ماں نے کوئی بچہ نہیں جنا، نہ پہلے تھا، نہ آج ہے، نہ آئندہ کبھی ہوگا.یہ وہم و گمان اگر کسی دماغ سے گزر رہا ہے تو ایک پاگل کی بڑسے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.چنانچہ تحریک جدید کے اس دور کی طرف میں واپس لے کے جاتا ہوں جب یہی مجلس احرار بڑے بڑے نعرے بلند کر رہی تھی کہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے.منارۃ اسیح کو اور ان کی مسجدوں کو منہدم کر دیں گے.کوئی نام لیوا نہیں رہے گا مرزا غلام احمد قادیانی کا.اُس وقت حضرت مصلح موعود نے خطبہ میں یہ اعلان کیا کہ میں احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی ہوئی دیکھ رہا ہوں.اور چند ہفتے کے اندر اندر ایسی کایا پلٹی کہ سارے پنجاب سے احرار کی صف لپٹتی ہوئی دکھائی دینے لگی اور احمدیت اس کے مقابل پر بڑی شان و شوکت کے ساتھ اُبھری.اور وہی تحریک جدید ہے جس کا سایہ آج ساری دنیا پر قائم ہو چکا ہے.پس بظاہر تو ایک نہایت ہی ادنی غلام اور حقیر انسان جو خلافت کے منصب پر اللہ تعالیٰ کی کسی حکمت کے نتیجہ پر فائز کیا جاتا ہے اس کا کلام ہوتا ہے.بظاہر تو اس کی زبان بات کرتی ہے لیکن ہمارا تجربہ یہ ہے کہ اس کی بات کے پیچھے خدا کی بات کارفرما ہوتی ہے اور جماعت احمدیہ کے لئے عظیم الشان خوشخبریاں رکھ دی جاتی ہیں.جس طرح اس احرار موومنٹ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت پر بے انتہا فضلوں کی بارشیں برسا دی تھیں، میں یہ کامل یقین رکھتا ہوں کہ اس احرار موومنٹ کے نتیجہ میں بھی اتنی عظیم الشان رحمتیں اللہ تعالیٰ کی جماعت پر نازل ہوں گی جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.وہ جماعت آج ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

Page 449

۴۳۳ کچھ اور ہے جس کو احرار نے مٹانے کی کوشش کی تھی ، اس سے آج سینکڑوں گنا زیادہ طاقتور ہے جتنی اس وقت ۱۹۳۳ ء و ۱۹۳۴ء میں تھی.آج جس جماعت کو مٹانے کی یہ کوشش کر رہے ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کل یہی جماعت سینکڑوں گنا اُبھرے گی اور چھوٹے چھوٹے ممالک و ہم بھی نہیں کر سکیں گے کہ ہم اکیلے اس جماعت کے او پر حملہ کرنے کا بھی خیال کر سکتے ہیں.اگلی نسلیں جو مخالفتیں دیکھیں گی وہ بڑی بڑی حکومتوں کے اجتماع کی مخالفتیں ہوں گی...یہ چھوٹی چھوٹی چند حکومتیں مل کر جن کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے.جو دنیا سے مانگ کر پلتی ہیں اور ہر چیز میں محتاجی رکھتی ہیں اور خدا نے جو تھوڑا بہت دیا ہے اسی پر تکبر کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ خدا کی جماعتوں سے ٹکر لینے کی سوچ رہی ہیں.پس یہ دور مٹنے والا دور ہے.آئندہ بھی مخالفت ضرور ہوگی اس سے کوئی انکار نہیں ہے کیونکہ جماعت کی تقدیر میں یہ لکھا ہوا ہے کہ مشکل راستوں سے گزرے اور ترقیات کے بعد نئی ترقیات کی منازل میں داخل ہو.یہ مشکلات ہی ہیں جو جماعت کی زندگی کا سامان مہیا کرتی ہیں.اس مخالفت کے بعد جو وسیع پیمانے پر مجھے مخالفت نظر آرہی ہے وہ ایک دوحکومتوں کا قصہ نہیں، اس میں بڑی بڑی حکومتیں مل کر جماعت کو مٹانے کی سازشیں کریں گی اور جتنی بڑی سازشیں ہوں گی اتنی ہی بڑی ناکامی اُن کے مقدر میں بھی لکھ دی جائے گی.مجھ سے پہلے خلفاء نے آئندہ آنے والے خلفاء کو حوصلہ دیا تھا اور کہا تھا کہ تم خدا پر توکل رکھنا اور کسی مخالفت کا خوف نہیں کھانا.اے حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے فرمایا تھا کہ ” جب بھی انتخاب خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )

Page 450

بقیہ حاشیہ پھر فرمایا: ۴۳۴ میں آئندہ آنے والے خلفاء کو خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم بھی حو صلے رکھنا اور میری طرح ہمت وصبر کے مظاہرے کرنا اور دنیا کی کسی طاقت سے خوف نہیں کھانا.وہ خدا جواد فی مخالفتوں کو مٹانے والا خدا ہے وہ آئندہ آنے والی زیادہ قومی مخالفتوں کو بھی چکنا چور کر کے رکھ دے گا اور دنیا سے ان کے نشان مٹا دے گا.جماعت احمدیہ نے بہر حال فتح کے بعد ایک اور فتح کی منزل میں داخل ہونا ہے.دنیا کی کوئی طاقت اس تقدیر کو بہر حال بدل نہیں سکتی.( خطاب حضرت خلیفہ مسح الرابع فرموده ۲۹ جولائی ۱۹۸۳ء برموقع پہلا اور چین اجتماع مجلس خدام الاحمدی) مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے میں اس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چُنا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا اور جو بھی اس کے مقابل کھڑا ہو گا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ذلیل کیا جائے گا اور تباہ کیا جائے گا کیونکہ ایسا خلیفہ صرف اس لئے کھڑا ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و استلام اور محمد رسول اللہ سلم کی اس ہدایت کو پورا کرے کہ خلافت اسلامیہ ہمیشہ قائم رہے.(خلافت حقہ اسلامیہ صفحہ اے) پس میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالی خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہو جائے گا تو اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی.(خلافت حقہ اسلامیہ صفحہ ۱۸)

Page 451

۴۳۵ ” اب انشاء اللہ خلافتِ احمدیہ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا.جماعت احمد یہ بلوغت کے مقام پر پہنچ چکی ہے خدا کی نظر میں.اور کوئی دشمن آنکھ، کوئی دشمن دل، کوئی دشمن کوشش اس جماعت کا بال بیکا نہیں کر سکے گی اور خلافت احمد یہ انشاء اللہ تعالی اسی شان کے ساتھ نشو و نما پاتی رہے گی جس شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے وعدے فرمائے ہیں کہ کم از کم ایک ہزار سال تک یہ جماعت زندہ رہے گی.تو دعائیں کریں، حمد کے گیت گائیں اور اپنے عہدوں کی پھر تجدید کریں.“ خطبہ جمعہ حضرت خلیفه امسیح الرابع ۱۸ جون ۱۹۸۲ء)

Page 452

۴۳۶ جب تک خلافت رہے گی دنیا کی کوئی " قوم تم پر غالب نہیں آسکے گی.“ 66 حضرت خلیفہ المسیح الثانی

Page 453

۴۳۷ ہماری ذمہ داریاں

Page 454

۴۳۸ وو ہماری ذمہ داریاں منتخب خلیفہ اپنے انتخاب کے وقت لوگوں کی بیعت سے قبل یہ قسم کھاتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں خلافتِ احمد یہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں ان لوگوں کو جو خلافتِ احمدیہ کے خلاف ہیں باطل پر سمجھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور قرآن شریف اور حدیث کے علوم کی ترویج کے لئے جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوشاں رہوں گا 66 جب اللہ تعالی اسے قائم فرماتا ہے تو گو یہ عہد بظاہر خلفۃ المسیح دو براتا ہے لیکن دراصل اس عہد کا ہر پہلو ہر احمدی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جو خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے.وہ اپنی بیعت کے ساتھ خلافت کے وجود کا جزء بنتا ہے.لہذا اس پر یہ تمام ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو اس عہد میں بھی مذکور ہیں.نیز خلیفہ وقت کی طرف سے جو بھی منصوبہ یا ہدایت، تحریک یا نصیحت تعلیم یا وصیت جاری ہو اس پر عمل کرنا اس کی بیعت کے اولین تقاضوں میں سے ہے اور اس کی زندگی کی اہم ترین ترجیحات میں سے ہے.خلافت حقہ سے وابستہ جماعت مومنین کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ حضرت خلیفہ المسیح الثالث سورۃ النور کی آیات ۵۶،۵۵ پیش فرما کر جماعت کو توجہ دلاتے ہیں کہ

Page 455

۴۳۹ و, اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور بتایا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کھول کر الہی احکام اور شریعت کے ارشادات کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور مومنوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان احکام کی بجا آوری میں اطاعت کا کامل نمونہ دکھاویں.اور اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا کہ اگر تم کامل اطاعت کا نمونہ دکھلاؤ گے تو ان راہوں کی طرف تمہیں ہدایت دی جائے گی جن پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جاسکتی ہے.اور یہ بھی وعدہ دیا گیا کہ اگر کامل اطاعت کا نمونہ دکھاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری بشری کمزوریوں کے پیش نظر خلافت حقہ کا نظام تم میں جاری کرے گا اور ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کا تعلق پختہ اور کامل طور پر اپنے رب سے ہوگا.وہ اپنے اور تمہارے رب کے منشاء کے مطابق تمہاری رہنمائی کرتے رہیں گے اور تمہیں سہارا دیتے رہیں گے.تمہاری غفلتوں، سستیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور ان اعمال کی طرف راہنمائی کرتے رہیں گے جو حالات حاضرہ کا تقاضا ہوں.“ خطاب بر موقع سالانہ اجتماع انصار الله مرکز یہ ربوہ اکتوبر ۱۹۶۸ء بحوالہ حیات ناصر صفحه ۶۰۵) جماعت کو خلافت کے گرانقدر انعام کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اس سے متعلقہ ذمہ داریاں نبھانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ، سید نا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: فرمایا: اس زمانہ کی قدر کو پہچانو اور اپنے پیچھے آنے والوں کیلئے نیک نمونہ چھوڑو تا کہ بعد کی نسلیں تمہیں محبت اور فخر کے ساتھ یاد کریں، اور تمہیں احمدیت کے معماروں میں یاد کریں نہ کہ خانہ خرابوں میں.“

Page 456

۴۰ نیز فرمایا: وو ” خلیفہ کے مقابل پر کوئی شخص بھی چاہے وہ کتنا ہی عالم ہو، کم حیثیت رکھتا ہے.کیونکہ جماعت کی رہنمائی اور بہتری کے لئے اللہ تعالیٰ خلیفہ سے ایسے الفاظ نکلوادیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہوں.پس ہر ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ جیسا کہ پہلے بھی ذکر آچکا ہے کہ لغویات اور فضولیات میں نہ پڑیں اور استحکامِ خلافت کے لئے دعائیں کریں تا کہ خلافت کی برکات آپ میں ہمیشہ قائم رہیں.“ ,, ہر احمدی کو اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھتے ہوئے دعاؤں کے ذریعہ سے ان فصلوں کو سمیٹنا چاہئے جن کا وعدہ اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعودؓ سے فرمایا ہے.اپنے بزرگوں کی اس قربانی کو یاد کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اُنہوں نے جو قیام اور استحکام خلافت کے لئے بھی بہت قربانیاں دیں.(الفضل ربوه ۵ جولائی ۲۰۰۵ء) خدا تعالی کی نعمتوں اور انعامات کی شکر گزاری اس کے بندوں پر لازم ہے.جماعت میں خدا تعالیٰ کی اس جاری نعمت کی شکر گزاری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: یہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمد یہ پر بہت بڑا احسان ہے اور اس کی نعمت ہے جس کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے اور یہ شکر ہی ہے جو اس نعمت کو مزید بڑھاتا چلا جائے گا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اگر تم شکر گزار بنے رہو تو میں اور بھی زیادہ دوں گا.اس نعمت کے جو افضال ہیں ان سے میں تمہیں بھرتا چلا جاؤں گا.“ (الفضل ربوه ۵ / جولائی ۲۰۰۵ء)

Page 457

۴۴۱ حضرت المصلح الموعود خليفة لمسیح الثانی جماعت خلافت کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نصیحت فرماتے ہیں: ”اے دوستو ! میری آخری نصیحت یہ ہے کہ سب برکتیں خلافت میں ہیں.نبوت ایک بیج ہوتی ہے جس کے بعد خلافت اس کی تاثیر کو دنیا میں پھیلا دیتی ہے.تم خلافت حقہ کو مضبوطی سے پکڑو اور اس کی برکات سے دنیا کو تمتع کرو.الفضل ۲۰ مئی ۱۹۵۹ء) نیز حضور نے جماعت کو ایک عزم دے کر باور کرایا کہ خلافت ہر فردِ جماعت کی عزیز سے عزیز ترین چیز سے بھی قیمتی، اعلیٰ اور ارفع ہے جس کے لئے ہر احمدی ہر وقت ہر قربانی کے لئے تیار خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کے لئے ہر مومن ہو.آپ فرماتے ہیں: آمادہ کھڑا ہو.تاریخ احمدیت جلد ۱۰ صفحه ۷۲۳ - ۲۲ / اگست ۱۹۴۷ء) ہمارا عہد حقیقت یہ ہے کہ خلافت ضمانت ہے اسلام کی ترقی اور غلبہ کی.خلافت ضمانت ہے شریعت کے احکام کی اشاعت کی.خلافت ضمانت ہے ہر مومن کی انفرادی و اجتماعی بقاء کی.خلافت ضمانت ہے جماعت میں الفت و اتحاد کی اور عکاس ہے جملہ انوار و برکات نبوت کی.لہذا ہم آج اپنے جسم و روح کے قیام سے اسی طرح عزم وحمد کے ساتھ عہد کرتے ہیں جس طرح حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲۴ جنوری ۱۹۶۰ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کے تمام افراد کو کھڑا کر کے ان سے یہ عہد لیا تھا کہ: ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم

Page 458

۴۴۲ تک جد وجہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تا کہ قیامت تک خلافت احمد یہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ علیم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.الفضل ۱۶ / فروری ۱۹۶۰ء) ہم اس عہد کو ہر لمحہ اپنے دلوں میں تازہ رکھنے کا عہد کرتے ہیں.اے اللہ! ہمیں یہ تو فیق عطا فرما.آمین اللھم آمین سید نا حضرت خلیفہ اصبح الخامس ایدہ اللہ نصرہ العزیز فرماتے ہیں: ”اے مسیح محمدی کے پیارو! آج اس مسیح نے جو امانت تمہارے سپرد کی ہے، اللہ تعالیٰ کے مومنین سے کئے گئے وعدہ سے فیض اٹھانے کے لئے اس امانت کی حفاظت کرو.اپنے عمل سے اس کی حفاظت کرو، اپنی دعاؤں کے ساتھ اس کی حفاظت کرو، اپنی دعاؤں کے ساتھ اس انعام کو نئی صدی میں داخل کرو تا کہ پھر ان قربانیوں کی وجہ سے جو تمہارے آباء واجداد نے کیں ، ان قربانیوں کی وجہ سے جو تم نے کیں اس کو نئے پھل لگتے جائیں.اپنے بڑوں کے پھینکے ہوئے بیج کے پھل تم نے کھائے ، اب ایسے کھیت تیار کرو اور دعاؤں سے ان کی ایسی آبیاری کرو کہ اس کے شیریں پھل آئندہ خلافت کی صدی میں تمہاری نسلیں بھی کھائیں اور یہی خلافت کی صدی کو الوداع کہنے اور نئی صدی کے استقبال کا صحیح طریق ہے.“ (خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۷، جلسہ سالانہ یو کے )

Page 459

۴۴۳ ہماری جوبلی

Page 460

۴۴۴ ☆☆ حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبہ جمعہ اار مارچ ۱۹۹۴ء میں فرماتے ہیں: ”ہم ہی ہیں وہ آخرین کے دور میں پیدا ہونے والے جنہوں نے حضرت مسیح موعود سے برکتیں پائیں.ہم ہی ہیں جن کو آخر میں ہونے کے باوجود اولین سے ملایا گیا تھا اور ہم وہ خوش نصیب ہیں جو سو سال کے بعد پیدا کئے گئے ہیں.اس زمانہ میں پیدا کئے گئے جب مسیح موعود کی سو سالہ تاریخ دوہرائی جا رہی ہے.وہ ساری برکتیں اللہ تعالیٰ ہمیں عطا فرمارہا ہے.میں نے اپنی خلافت کے بعد پہلے خطاب میں جماعت کو متوجہ کیا تھا کہ یادرکھو یہ غیر معمولی دن ہیں جن میں ہم داخل ہوئے ہیں.بیاسی (۱۸۸۲ء) میں پہلا ماموریت کا الہام ہوا ہے حضرت مسیح موعود کو اور بیاسی ( ۱۹۸۲ء) ہی میں اللہ تعالیٰ نے مجھے قائم فرمایا.اس خلافت کے بعد سے وہ ساری تاریخ بیاسی سے لے کر آخر تک دوہرائی جا رہی ہے اور دوہرائی جائے گی.وہ ساری برکتیں جو مسیح موعود کو اللہ تعالی نے عطا کرنی شروع کی تھیں سیاسی دور سے تعلق رکھتی ہیں.سب اس میں شریک ہیں، میں نہیں، آپ

Page 461

۴۴۵ سب.وہ ساری جماعت جس کو خدا نے آغاز سے لے کر آخر تک کے لئے برکتوں کو دیکھنے کے لئے چن لیا ہے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو کتنی بڑی برکتیں دیکھیں گے.مگر دعا ہمیں یہی کرنی چاہئے کہ ہم میں سے بھاری تعداد ایسی ہے جو بیاسی (۱۹۸۲ء) سے لے کر آخر تک کم از کم ۲۰۰۸ء تک زندہ رہ کر اللہ کے فضلوں کے گواہ بنتے رہیں.اور یہ وہ مبارک عظیم دور ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں اس کا شکر کا حق کیسے ادا ہو سکتا ہے.ناممکن ہے.یہ وہ جادو ہے جو میں کہ رہا ہوں جس کے نشہ میں ہم چل رہے ہیں اور یہی وہ جادو ہے جو حقیقت بن کر دنیا کی تقدیر بدلے گا.آپ پر اس جادو کا نشہ طاری ہے تو یاد رکھیں کہ پھر اس سے دنیا میں تبدیلیاں پیدا ہوں گی.اس روح کے ساتھ آپ ترقی کی اس راہ پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.دشمن تکلیفیں پہنچاتا رہے، فضلوں کی راہ نہیں روک سکتا نہیں روک سکتا نہیں روک سکے گا.جو چاہے کر لے.لیکن آپ وفا کے ساتھ اس راہ پر قدم رکھتے رہیں، اس سے قدم ہٹا ئیں نہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہر آنے والا دن ہمارے لئے اور برکتیں لے کر آئے گا.ہر آنے والا مہینہ ہمارے لئے اور برکتیں آسمان سے انڈیلے گا.ہر آنے والا سال برکتوں کے ساتھ ہمارا خیر مقدم کرے گا.ہر جانے والا سال برکتیں چھوڑ کر ہمارے لئے

Page 462

۴۴۶ جائے گا.یہ عظیم دور ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں.پس خدا کے شکر کے گیت گاتے ہوئے ،اس کی حمد و ثناء کرتے ہوئے محمد مصطفی ام پر درود بھیجتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جاؤ، کوئی نہیں جو تمہاری راہ روک سکے.“ ( افضل ۲۵ جنوری ۲۰۰۱ء)

Page 463

۴۴۷ " کوئی نہیں جو تمہاری راہ روک سکے" اے رات ! ستاروں سے کہہ دے، گلشن کی بہاروں سے کہہ دے ہم ڈرتے نہیں طوفانوں سے، موجوں کے اشاروں سے کہہ دے آزاد کریں ہر حلقہ شب سے، سورج کو سچائی کے ضامن ہیں تمہاری ہستی کے، کرنوں کے اجالوں سے کہہ دے جو دجل کی تیرہ شب میں بھی خورشید و قمر سے چمکے ہیں دنیا کا وہ روشن مستقبل ہم ہیں اندھیاروں سے کہہ دے تھامے ہیں محبت کا پرچم، ہم اہل صفا، ہم اہلِ حرم ہر بازی تم کو مات کریں، نفرت کے ماروں سے کہہ دے لڑ کر سب طوفانوں سے ،چیر کے سب منجدھاروں کو پہنچیں گے تم تک وعدہ ہے، ساحل سے، کناروں سے کہہ دے

Page 464

۴۴۸ پروانے جمع خلافت کے ہم اللہ کی رہتی تھامے ہیں جل جاؤ گے اپنی آگ میں تم، ابلیسی شراروں سے کہہ دے ہم صبر و رضا کے بحرِ کراں، ہم عزم و وفا کے کوہ گراں مٹ جاؤ گے، ہم سے الجھو تو ، جاکفر کے دھاروں سے کہہ دے 66 ہو جائیں گے نابود جہاں سے یہ ”اعل همین کہنے والے ہے امر ” أنا الحق“ کا نعرہ، سب جان نثاروں سے کہہ دے سب کوه و دمن، سب دشت و چمن، گونجیں گے ”اللہ اکبر سے حق آئے گا، تم بھا گو گے، باطل کے یاروں سے کہہ دے توحید کے پھولوں سے دیکھو دھرتی کا آنگن مہکا ہے تم سب سے حسیں ہے یہ منظر، ان مست نظاروں سے کہہ دے (ڈاکٹر مہدی علی چوہدری.کولمبس او بایو )

Page 465

۴۴۹ تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيْعُ الدُّعَاءِ

Page 465