Khilafat Ka Muqam

Khilafat Ka Muqam

خلافت کا عظیم الشان مقام و مرتبہ

اسکی برکات، خلیفہء وقت کی محبت و اطاعت اور ہماری ذمہ داریاں
Author: Other Authors

Language: UR

UR
خلافت اسلامیہ احمدیہ

نظارت نشر واشاعت قادیان کی طرف سے شائع کردہ اس مختصر کتاب میں مندرجہ بالاعنوان میں درج موضوعات کے حوالہ سے مواد مرتب کیا گیا ہے جو مجلس شوریٰ قادیان بھارت 2015ء کی ایک تجویز کی روشنی میں مکرم مولوی سید آفتا ب احمد صاحب نیئر اور مولوی محمد عارف ربانی صاحب نے تیار کیا ہے۔


Book Content

Page 1

خلافت کا عظیم الشان مقام و مرتبہ اسکی برکات ، خلیفہ وقت کی محبت و اطاعت اور ہماری ذمہ داریاں من مدينة قال قال رسول الله 3 عن أبي هريرة قال ما شاء الله أن تكون كويرفعها إذا شاء أن يرفع دما يكون خلافة على منهاج الديون فتكون ما شاء الله أن تكين شويرفعها إذا شاء الله أن يرفعها.الني وفينا سلمان الدارسي تغيرفعها إذا شاء أن يرفعها ثم تكون ملكا جبرية فتكون ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها إذا شاء أن برها ثم تكون خلافة على منهاج السوق توفال لو مكان الإيمان عند الشبا لاله و جمال او رجل من هؤلاء قال رسول الله.نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 2

واعتصموا بحبل الله جميعًا ولا تفرقوا (البقرة) خلافت کا عظیم الشان مقام و مرتبہ، اسکی برکات خلیفہ وقت کی محبت و اطاعت اور ہماری ذمہ داریاں شائع کردہ: نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 3

نام کتا بچہ خلافت کا عظیم الشان مقام ومرتبہ، اسکی برکات ، خلیفہ وقت مرتبہ کی محبت و اطاعت اور ہماری ذمہ داریاں مکرم سید آفتاب احمد نیز اور مکرم محمد عارف ربانی مربیان سلسله سن اشاعت : 2016 ء تعداد ناشر مطبع 1000: نظارت نشر و اشاعت قادیان ،ضلع گورداسپور صوبہ پنجاب (انڈیا)-143516 : فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ISBN:978-93-8388-283-0

Page 4

پیش لفظ جماعت احمدیہ کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ جماعت احمدیہ میں حضرت مسیح موعود و امام مہدی علیہ السلام کے بعد عرصہ 108 سال سے خلافت کا مبارک نظام جاری ہے.جماعت احمدیہ پر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ہے.آج دُنیا اس نعمت سے محروم ہے اور اس کے قیام کیلئے سرتوڑ کوشش کر رہی ہے مگر دنیاوی ہزار کوششوں سے بھی یہ نظام جاری نہیں کیا جا سکتا جب تک خود خدا تعالیٰ جاری نہ فرمائے.جماعت احمد یہ اللہ کے فضل سے وہ خوش نصیب جماعت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بابرکت نظام جاری فرمایا ہے.جسکے ذریعہ دنیا بھر میں جماعتی تعلیم و تربیت کے علاوہ اشاعت و نشر ہدایت کے کام جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعہ برق رفتاری سے ہورہے ہیں.فالحمد للہ ! چنانچہ خلافت کی اہمیت، برکات کے پیش نظر اس سلسلہ میں ذمہ داریوں کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلانے کے لئے نظارت نشر و اشاعت قادیان نے حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے منظور شدہ مجلس شوری 2015ء کی تجویز پر زیر نظر کتابچہ بعنوان خلافت کا عظیم الشان مقام و مرتبہ، اسکی برکات، خلیفہ وقت کی محبت و اطاعت اور ہماری ذمہ داریاں تیار کروایا ہے.اس کتابچہ کی ترتیب و تالیف میں مکرم مولوی سید آفتاب احمد صاحب نیز اور مکرم مولوی محمد عارف ربانی صاحب مربیان

Page 5

سلسلو نے معاونت فرمائی ہے.فجزاهما الله احسن الجزاء.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے یہ کتا بچہ شائع کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے باعث برکت فرمائے.آمین ! ناظر نشر واشاعت قادیان

Page 6

تعارف اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے مقصد پیدائش کو پورا کرنے کے لئے سلسلہ انبیاء یھم السلام جاری فرمایا.چنانچہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فرستادے مبعوث ہوئے.یہ اللہ تعالیٰ کے خلفاء کہلائے.یہ انسان کو راہ راست پر لانے کی بھر پور کوشش کرتے رہے.اللہ تعالیٰ کے یہ پیامبر ایک لمبی جدوجہد کے بعد ایک الہی جماعت قائم کر کے بشریت کے تقاضا کے ماتحت اس جہانِ فانی کو دوسرے انسانوں کی طرح الوداع کہتے ہوئے اپنے مولائے حقیقی کے پاس چلے گئے.اناللہ وانا الیہ راجعون!! انبیاء کی وفات پر ان کے متبعین کی جماعت جیتے جی مرجاتی ہے.ان کی حالت دگر گوں ہو جاتی ہے.دشمن ان کی اس بظاہر کسمپرسی کی حالت کو دیکھ کر شادیانے بجاتے ہیں.ایسے میں اللہ تعالیٰ اس جماعت کو بے سہارا نہیں چھوڑتا بلکہ اس کا خیال کرتے ہوئے جانے والے کا کوئی قائمقام اور نائب کھڑا کرتا ہے جو گرتی ہوئی ملت کو سنبھال لیتا ہے.پھر رفتہ رفتہ یہ جماعت اپنے کاموں اور مشن کو پورا کرنے کی ڈگر پر آجاتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت اپنے پیارے نبی کامل صلی ای یتیم کے ساتھ بھی پوری ہوئی.آپ صلیم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے خلافت راشدہ کو قائم فرمایا.یہ خلافت راشدہ تئیس سال تک جاری رہی اور آنحضور صالتا پریتم کی پیشگوئی کے مطابق خلافت راشدہ کا یہ سلسلہ آخری زمانہ تک کے لئے منقطع ہو گیا.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلیا ایم کی پیشگوئیوں اور وعدہ کے مطابق خلافت راشدہ کا سلسلہ آخری زمانہ میں علی منھاج النبوت دوبارہ قائم ہونا تھا.اس اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ جب سورہ جمعہ کی یہ

Page 7

آیت نازل ہوئی کہ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ ق وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ - وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ - ( سورة الجمعه آیت 4،3 ) یعنی خدا نے عربوں میں اُنہیں میں سے اپنا ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں خدا کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک وصاف کرتا اور کتاب اور حکمت کی باتیں سکھاتا ہے اگر چہ اس سے قبل وہ کھلی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے اور ایک دوسری جماعت بھی انہی کے ساتھ کی ہے جس کی ہمارا یہ رسول (اپنے ایک ظل اور بروز کے ذریعہ ) تربیت فرمائی گا مگر یہ جماعت ابھی تک دنیا میں ظاہر ہوکر صحابہ کی جماعت سے ملی نہیں لیکن آئیندہ ایک زمانہ میں ضرور ظاہر ہو جائے گی.صحابہ نے آنحضرت مسلہ تم سے استفسار فرمایا کہ وہ کون لوگ ہوں گے جن میں آپ کی دوبارہ (ظلی اور بروزی رنگ میں ) بعثت ہوگی تو آپ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جو اس وقت موجود تھے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ القُرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ ( بخاری کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ جمعه ) یعنی اگر کسی زمانہ میں ایمان دُنیا سے غائب ہو کر ثریا ستارے پر بھی چلا گیا تو پھر بھی ان اہل فارس لوگوں میں سے ایک شخص اسے دوبارہ زمین پر ا تا رلائے گا.اور ایک دوسرے موقع پر آپ نے فرمایا کہ:.سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلِ الْبَيْتِ (طبرانی کبیر ومستدرک حاکم بحوالہ جامع الصغیر )

Page 8

یعنی سلمان فارسی ہمیں میں سے یعنی ہمارے اہل بیت میں سے ہے.اس حدیث میں یہ اشارہ تھا کہ آنے والے مسیح و مہدی نے اہل فارس میں سے ہونا تھا اور اس طرح ضمنا وہ دوسری پیشگوئی بھی پوری ہوگئی جو مہدی کے متعلق کی گئی تھی کہ وہ اہل بیت میں سے ہوگا.یوں آنحضرت سالی سلیم نے آخری زمانہ میں فارسی الاصل نسل میں سے اپنے ایک بروز کی پیشگوئی فرمائی اور مزید وضاحت بعض اور احادیث میں بیان فرمائی چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی یا یہ تم نے فرمایا: كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ ( صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم ) یعنی تمہارا اُس دن کیا حال ہو گا جس دن ابن مریم تم میں نازل ہوگا اور تم جانتے ہو کہ ابن مریم کون ہے وہ تمہارا ہی ایک امام ہو گا اور تم میں سے ہی (اے امتی لوگو ) پیدا ہوگا.ایک اور حدیث میں اس حقیقت کو بھی واضح فرمایا کہ یہی آنے والا مسیح امام مہدی بھی ہوگا یعنی مسیح و مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہوں گے چنانچہ فرمایا وَلَا الْمَهْدِقُ إِلَّا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ ابن ماجہ باب شدة الزمان صفحه 257 مصری.کنز العمال جلد 7 صفحہ 156) یعنی سوائے عیسی ابن مریم کے اور کوئی مہدی نہیں.آنحضرت صلی نیا کی تم نے آنے والے اس امام کی بعثت کا وقت بھی بیان فرمایا کہ إِذَا مَضَتْ أَلْفُ وَ مِأْتَانِ وَارْبَعُوْنَ سَنَةً يَبْعَثُ اللَّهُ الْمَهْدِقَ ( النجم الثاقب جلد 2 صفحہ 209 ) یعنی جب ایک ہزار دوسو چالیس سال گزرجائیں گے تو اللہ تعالیٰ مہدی کو مبعوث

Page 9

فرمائے گا.اس مسیح اور امام مہدی کا مقام ومرتبہ بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ يَعْنِى عِيسَى وَإِنَّهُ نَازِلٌ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ (ابوداؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال ) یعنی آنے والے مسیح اور میرے درمیان کوئی اور نبی نہیں ہے اور مسیح ضرور تم میں نازل ہوگا پس جب وہ آئے تو تم اُسے دیکھتے ہی پہچان لینا.صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے میسیج کو ایک ہی فقرہ میں بار بار نبی کے نام سے یاد فرمایا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:.وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللهِ عِيسَى وَاَصْحَابَهُ..فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَ أَصْحَابُهُ..فَيَرْغَبُ نبى اللهِ عِیسَی وَ أَصْحَابُهُ إِلَى اللهِ...الخ (مسلم باب ذکر الدجال) یعنی جب مسیح موعود یا جوج ماجوج کے زور کے زمانہ میں آئے گا تو مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی دشمن کے نرغہ میں محصور ہو جائیں گے...پھر مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی خدا کے حضور دعا اور تضرع کے ساتھ رجوع کریں گے...اور اس دعا کے نتیجہ میں مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی مشکلات کے بھنور سے نجات پاکر دشمن کے کیمپ میں کھس جائیں گے.لیکن وہاں نئی قسم کی مشکلات پیش آئیں گی...اور پھر مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی دوبارہ خدا کے حضور دعا کرتے ہوئے جھکیں گے اور خدا اُن کی مشکلات کو دور فرمادے گا.اس حدیث میں آنحضرت صلی ہی ہم ایک ہی جملہ کے اندر مسیح موعود کے متعلق چار

Page 10

دفعہ نبی اللہ کا لفظ استعمال فرماتے ہیں.مذکورہ بالا پیشگوئیوں سے یہ واضح ہے کہ آخری زمانہ میں تیرھویں صدی کے آخر میں مسیح و مہدی کا ظہور ہو گا جو آنحضرت صلا لا اسلم کا بروز وظل ہوگا اور خدا اس کو مقام نبوت سے سرفراز فرمائے گا.ان پیشگوئیوں کے عین مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے ٹھیک تیرھویں صدی کے آخر میں مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ فرما یا اللہ تعالیٰ نے آپ کو الهاماً مخاطب فرمایا کہ جَعَلْنَاكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ کہ ہم نے تمہیں مسیح ابن مریم بنادیا ہے.(ازالہ اوہام صفحہ 632) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صل السلام کی کامل پیروی اور متابعت میں پیشگوئیوں کے موافق آپ کو امتی نبی کا مرتبہ عطا فرمایا آپ اس مقام کے بارے میں فرماتے ہیں:.نبوت ہمارے نبی کریم صلی یہ تم پر ختم ہو گئی اور قرآن کریم کے سوا ( ہماری ) کوئی کتاب نہیں.جو سب سابقہ کتب میں سے بہتر ہے اور شریعت محمدیہ کے سوا (ہماری) کوئی شریعت نہیں.ہاں بے شک آنحضرت صلی یلم کی زبان سے میرا نام نبی رکھا گیا ہے اور یہ آپ کی کامل پیروی کی برکات میں سے ایک ظلی امر ہے.میں اپنے نفس میں کوئی خوبی نہیں پاتا اور جو کچھ بھی میں نے پایا ہے وہ اس مقدس ذات سے پایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک میری نبوت سے مراد صرف کثرت مکالمہ و مخاطبہ ہے اور جو اس سے زیادہ کا دعویٰ کرے یا اپنے نفس کو کچھ اہمیت دے یا اپنی گردن کو آنحضرت ل اسلام کے جوئے سے نکالے اس پر خدا کی لعنت ہے اور ہمارے رسول کریم صلی السلام خاتم النبیین ہیں اور ان پر رسولوں کا سلسلہ ختم ہو گیا اور کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ

Page 11

آنحضرت صلیہ السلام کے بعد نبوت مستقلہ کا دعوی کرے اب صرف کثرت مکالمہ باقی ہے اور وہ بھی اتباع نبوی کے ساتھ ہی مشروط ہے اس کے سوا نہیں.اور اللہ کی قسم ! مجھے یہ مقام محمد مصطفی صلی ا یتیم کے انوار کی شعاعوں کی پیروی سے ہی ملا ہے اور اللہ تعالیٰ نے میرا نام مجازی طور پر نبی رکھا ہے نہ کہ حقیقی طور پر.پس یہاں اللہ تعالیٰ کی غیرت یا رسول کریم صلی ایتم کی غیرت کے بھڑکنے کا کوئی مقام نہیں کیونکہ میری تربیت نبی کریم صل اسلام کے پروں کے نیچے ہوئی ہے اور میرا قدم نبی کریم صلی السلام کے نقوش قدم کی متابعت میں ہے اور میں نے کوئی بات اپنے پاس سے نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو میری طرف وحی کی اس کی پیروی کی ہے اور اس کے بعد میں مخلوق کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتا.“ ( ترجمه عربی متن الاستفتاء روحانی خزائن جلد 22،صفحہ 689،688) آپ نے 1889ء میں ایک پاک جماعت کا قیام فرمایا اور اس جماعت کو جماعت احمدیہ مسلمہ کے نام سے موسوم فرمایا.آپ کی اپنی پوری زندگی اسلام کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں غالب کرنے میں مصروف العمل رہی.آپ کی تحریر فرمودہ 80 سے زائد کتب اس امر کی شاہد ناطق ہیں.اس طرح اپنوں اور بیگانوں کی گواہیاں موجود ہیں جن سے دُنیا پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ کس طرح آپ نے غلبہ اسلام کی خاطر اپنی پوری زندگی صرف کر دی.اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق آپ علیہ السلام نے اپنے فرائض منصبی کو بحسن و خوبی ادا کیا اور تادم آخر اسی الہی مشن کے لئے اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو وقف رکھا اور اس کے لئے ایک پاک جماعت کا قیام فرمایا.آپ کی وفات پر دشمن یہ سمجھنے لگا کہ اب آپ کے مقاصد اور جماعت ختم ہو جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے حسب وعدہ خلافت کا نظام جاری فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ

Page 12

فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ( سورة النور آیت : 56) ترجمہ : یعنی تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے اُن کے دین کو ، جو اُس نے ان کے لئے پسند کیا، ضرور تمكنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نا فرمان ہیں.حضرت عبد الرحمان بن سہل بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا سلم نے فرمایا:.ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے.(کنز العمال، كتاب الفتن من قسم الافعال فصل في متفرقات الفتن جلد 11 صفحہ 115 حدیث نمبر 31444) حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.تم میں نبوت قائم رہے گی پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی.پھر ایذارساں بادشاہت قائم ہوگی.پھر اس کے بعد جابر بادشاہت قائم ہوگی.بعد ازاں خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی.اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے.(مسند احمد حدیث 17680) آنحضرت صالی شما تسلیم کی ان پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت احمدیہ کا مبارک و

Page 13

پر سعادت اور عظیم الشان نظام جاری ہوا جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدرت ثانیہ کے نام سے یاد فرمایا.چنانچہ حضرت مسیح موعود خلافت احمدیہ کی خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.دو یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.كَتَبَ اللهُ لَأَغْلِبَنَ انا وَرُسُلِي (المجادلہ: 22)‘ ( ترجمہ: خدا نے لکھ رکھا ہے کہ وہ اور اس کے نبی غالب رہیں گے ) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے..لیکن اس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے.اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (1 ) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے(2) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی

Page 14

- زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صللہ یتیم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ رضی اللہ عنھم بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نا بود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَطَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ( النور : 56 )..سواے عزیز و! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے...میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سوتم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو اور چاہیے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہواور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے...“ الوصیت روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 304 تا306)

Page 15

اسی حوالہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:." حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں سے ثابت ہے کہ آپ کے بعد اس رنگ میں خلافت کا سلسلہ قائم کیا جائے گا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قائم کیا گیا اور یہ کہ آپ کے خلفاء واجب الاطاعت ہوں گے اور سلسلہ کے حقیقی نمائندے وہی ہوں گے.“ خلافت علی منہاج النبوۃ جلد 3 صفحہ 601) اس کے مطابق مئی 1908ء میں حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت حافظ حکیم نور الدین صاحب پہلے خلیفہ منتخب ہوئے.1914ء میں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات پر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی منتخب ہوئے اور آپ کی وفات پر حضرت مسیح موعود کے تیسرے خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد رحمہ اللہ منتخب ہوئے.آپ کی وفات کے بعد 1982ء میں حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ خلیفہ اسیح الرابع منتخب ہوئے.سن 2003ء میں آپ رحمہ اللہ کی وفات پر ہمارے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پانچویں خلیفہ منتخب ہوئے جن کی سر براہی میں جماعت احمدیہ ترقیات کی شاہراہ پر رواں دواں ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے امام ہمام حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خليفة أسبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو صحت و سلامتی والی لمبی فعال زندگی عطا فرمائے اور آپ کا سایہ رحمت تادیر ہمارے سروں پر باقی رہے اور آپ کے دور مبارک میں حقیقی اسلام احمدیت کا غلبہ ہو.آمین ! انشاء اللہ یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا اور اس قدرت ثانیہ عظیمہ کے مظاہر اللہ تعالی کی منشاء کے مطابق ہمیشہ قائم ہوتے رہیں گے کیونکہ ہمارے خدا کے پاس قدرت

Page 16

ثانیہ، ثالثہ ، رابعہ ، خامسہ وغیرہ وغیرہ ہے.حضرت مصلح موعود اس حوالہ سے ایک جگہ فرماتے ہیں:.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ میں تو جاتا ہوں لیکن خدا تعالیٰ تمہارے لئے قدرت ثانیہ بھیج دے گا مگر ہمارے خدا کے پاس قدرت ثانیہ ہی نہیں اس کے پاس قدرت ثالثہ بھی ہے اور اس کے پاس قدرت رابعہ بھی ہے.قدرت اولیٰ کے بعد قدرت ثانیہ ظاہر ہوئی اور قدرت ثانیہ کے بعد قدرت ثالثہ آئے گی اور قدرت ثالثہ کے بعد قدرت رابعہ آئے گی اور قدرت رابعہ کے بعد قدرت خامسہ آئے گی اور قدرت خامسہ کے بعد قدرت سادسہ آئے گی اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ لوگوں کو معجزہ دکھاتا چلا جائے گا اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت اور زبر دست سے زبر دست بادشاہ بھی اس سکیم اور مقصد کے راستہ میں کھڑا نہیں ہوسکتا جس مقصد کے پورا کرنے کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود کو پہلی اینٹ بنایا اور مجھے اس نے دوسری اینٹ بنایا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرما یا کہ دین جب خطرہ میں ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لئے اہل فارس میں کچھ افراد کو کھڑا کرے گا.حضرت مسیح موعود ان میں سے ایک فرد تھے اور ایک فرد میں ہوں لیکن رجال کے ماتحت ممکن ہے کہ اہل فارس میں سے کچھ اور لوگ بھی ایسے ہوں جو دین اسلام کی عظمت قائم رکھنے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے کھڑے ہوں (الفضل 22 ستمبر 1950 ء صفحہ 6 تا 7 ).“ الفضل انٹر نیشنل 23 مئی 2014 ء تا 29 رمئی 2014 ء ) تاریخ احمدیت اس امر کی شاہد ہے کہ قدرت ثانیہ کے ان مظاہر کی قیادت میں جماعت احمد یہ ترقیات کی منازل تیز رفتاری کیساتھ سر کر رہی ہے.آج جماعت کو دنیا میں

Page 17

ایک ممتاز شخص حاصل ہے.یہ خدمت انسانیت تبلیغ اسلام اور تعلیم و تربیت کے میدانوں میں آگے سے آگے ہے.چوبیس گھنٹے ٹی وی چینلز اور ریڈیو، پریس اینڈ میڈیا، لیف لیٹس وغیرہ کے ذریعہ اسلام کا حقیقی پیغام دُنیا کے کونے کونے میں پھیلایا جارہا ہے.تعلیم و صحت کے میدانوں میں یا پینے کے پانی کی فراہمی اور انرجی کے حصول میں غریب و مستحق لوگوں کی مدد کی جارہی ہے.اسی طرح محبت ، امن ، بھائی چارے، اور ملکی قوانین کی پاسداری کی وجہ سے جانی جاتی ہے.اسلام کی حقیقی تصویر دنیا میں پیش کرنے کی وجہ سے غیر مسلم دنیا اسلام کی حسین تعلیم سے متعارف ہورہی ہے.قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر کی اشاعت میں جماعت احمد یہ بے نظیر ہے.آج دنیا کے دوسو سے زائد ملکوں میں مستحکم بنیادوں پر یہ سلسلہ قائم ہو چکا ہے.خلافت کی نعمت نے جماعت کو باہمی اتحاد و یگانگت ، مضبوط ایمان اور اعمال صالحہ کی دولت عطا کر کے بنیان مرصوص بنا دیا ہے اور موعود برکات سے وافر حصہ دیا ہے.خلافت احمدیہ کی قیادت میں جماعت احمدیہ یعنی حقیقی اسلام کی منادی چہار دانگ عالم میں ہورہی ہے.گروہ در گروہ لوگ اسلام میں داخل ہورہے ہیں.اللہ تعالیٰ کی نصرت دم بدم آسمان سے اتر تی نظر آ رہی ہے.الغرض خلافت کی وجہ سے جماعت حمد یہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو بھینچ رہی ہے اور انوار الہی سے متمتع ہو رہی ہے.جبکہ منکرین خلافت پسپائی ، ذلت اور تفرقہ کا شکار ہیں.خلافت احمدیہ کی نعمت کا دنیوی نعمتوں سے موازنہ کرنا نادانی ہے.چنانچہ اس حبل اللہ کے تار اللہ تعالیٰ اور مومنین میں باہم مربوط ہیں.جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس روحانی نظام نے شرائط پوری کرنے والے مومنین متقین کا سہارا بن کر انہیں ترقیات کے میدان طے کرتے ہوئے اپنے مقصد حیات کو پورا کرنے کی

Page 18

سعی بلیغ کی رہنمائی فرمائی ہے.دین کو جہاں تمکنت حاصل ہوتی رہی ہے وہاں ہمیشہ مومنین کی خوف کی گھٹا ٹوپ حالتیں امن کی فضا سے یکدم بدلتی نظر آئی ہیں.توحید کے پر چم لہراتے اور بت کدے گرتے نظر آئے ہیں.نبوت کے کاموں کی بجا آوری بحال ہوتی نظر آتی ہے.اس نعمت پر ہم اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر کریں کم ہے.اس تعلق میں ہماری اولین ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی اہمیت کا صحیح ادراک اور فہم پیدا کریں اور دل کی گہرائی سے اس کی قدر کریں اور اطاعت خلافت کو لازم کر لیں.خلافت احمدیہ کا فیض جاری ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے اس نظام آسمانی کو سمجھیں ؛ اس کے منصب و مقام کو پہچانیں ؛ خلافت احمدیہ سے اخلاص و وفا اور محبت کا ایسا تعلق باندھیں جس کی نظیر دنیاوی رشتوں میں سے کسی رشتے میں نہ ملتی ہو.اس سے متعلق شرائط کے پاسدار ہوں تو پھر نہ صرف ہم اس سے فائدہ حاصل کرنے والے ہوں گے بلکہ ہماری نسل در نسل اس سے مستفید ہوگی.خلافت کا عظیم الشان مقام ومرتبہ خلافت احمد یہ بے انتہا اہمیت کی حامل ہے.اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی ہوتا ہے کہ یہ آسمانی قیادت نبی کی وفات پر اس کے مشن کی تکمیل کے لئے اس کی نیابت میں قائم ہوئی ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ تائیدات کے وعدے ہیں.چنانچہ نصر تیں قدم قدم پر ملتی ہیں اور ایک دنیا حیران رہ جاتی ہے کہ کون سی طاقت ہے جو اس کے کاموں کے انصرام میں اس کی مددگار ہے.چنانچہ منصب خلافت سے سرفراز کیا جانے والا شخص نور نبوت کا عکس ہوتا ہے.وہ نبی کے کمالات اور خصائص اپنے اندر رکھتا ہے اور نبی کی برکتوں

Page 19

۱۴ سے حصہ پاتا ہے.اللہ تعالیٰ خلیفہ خود بناتا ہے گو کہ پاکوں کی جماعت کے افراد منتخب کرتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ منصب ہے جس سے ایک خلیفہ کو کبھی بھی معزول نہیں کیا جاسکتا نبوت کی نیابت سے سرفراز ہے.اللہ تعالیٰ ایسے شخص کا خوداستاد بنتا ہے اور اسے معارف سے نوازتا ہے.جہاں مومنین کے دلوں میں اس کی الفت پیدا کرتا ہے وہاں اس کے دل میں بھی ان کے لئے شفقت اور رافت پیدا کر دیتا ہے جس کی وجہ سے ان کی تکلیف پہ وہ تڑپتا ہے اور ان کے لئے دعائیں کرتا ہے.اس کو قبولیت دعا کا نشان دیا جاتا ہے.اس کو ایک غیر معمولی رعب دیا جاتا ہے.وہ دنیا پر بسنے والے انسانوں کا مطاع ہوتا ہے جس کی اطاعت اور پیروی مومنین پر عین فرض ہے اور اس سے انحراف کرتے ہوئے مرنا جاہلیت کی موت ہے.اس سے وابستگی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے وابستگی ہے.خلیفہ اپنے زمانہ میں روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا نمائندہ اور محبوب ترین بندہ ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود منصب خلافت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.” خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تاقیامت قائم رکھے.سواسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت ک تجویز کیا تا دنیا بھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے.66 شہادت القرآن صفحہ 57 روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 353) حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.”خوب یا درکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.اور جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کردہ ہوتا ہے...اور درحقیقت قرآن شریف کے غور سے

Page 20

۱۵ مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی.بلکہ ہر قسم کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ انہیں ہم بناتے ہیں.کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.انوار العلوم جلد 2 صفحہ 11) نبوت کے بعد سب سے بڑا عہدہ یہ ہے.ایک شخص نے مجھے کہا کہ ہم کوشش کرتے ہیں تا گورنمنٹ آپ کو کوئی خطاب دے.میں نے کہا یہ خطاب تو ایک معمولی بات ہے.میں شہنشاہ عالم کے عہدہ کو بھی خلافت کے مقابلہ میں ادنیٰ سمجھتا ہوں.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے معاملات میں ایسا رنگ اختیار کریں جس میں تقویٰ اور ادب ہو.اور میں کبھی یہ بھی نہیں پسند کر سکتا کہ وہ ہمارے دوست جن کو اعتراض پیدا ہوتے ہیں ضائع ہوں کیونکہ خلافت کے عہدہ کے لحاظ سے بڑی عمر کے لوگ بھی میرے لئے بچہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور کوئی باپ نہیں چاہتا کہ اس کا ایک بیٹا بھی ضائع ہو.“ (انوار العلوم جلد 9 صفحہ 426،425) ”بیشک لوگ ہی خلیفہ کو منتخب کرتے ہیں مگر اس کے انتخاب کو خُدا اپنا کیا ہوا انتخاب فرماتا ہے.اور اس طریق انتخاب کے ذریعہ نبیوں اور خلفاء میں تمیز ہو جاتی ہے.اگر خدا براہ راست کسی کو خلیفہ منتخب کرے اور کہے کہ میں تجھ کو خلیفہ بناتا ہوں تو اس خلیفہ اور نبی میں کوئی فرق نہیں رہ سکتا.پس نبی کا انتخاب خدا نے خاص اپنے ذمہ رکھا اور خلیفہ کا بندوں کے ذریعہ.مگر ایسا کہ بندوں سے اپنی منشاء کے مطابق انتخاب کراتا ہے اور اس کی تائید و نصرت کا وعدہ فرماتا ہے.“ خلافت علی منہاج النبوۃ جلد 3 صفحہ 593) ” خلافت ایک الہی انعام ہے کوئی نہیں جو اس میں روک بن سکے.وہ خدا

Page 21

۱۶ تعالیٰ کے نور کے قیام کا ایک ذریعہ ہے جو اس کو مٹانا چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو مٹانا چاہتا ہے.ہاں وہ ایک وعدہ ہے جو پورا تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن اس کے زمانہ کی لمبائی مومنوں کے اخلاص کے ساتھ وابستہ ہے...“ وو خلافت على منهاج النبوة جلد 3 صفحہ 421-420) وہ خلفاء جو خدا کے مامورین کے جانشین ہوتے ہیں ان کا انکار اور ان پر جنسی کوئی معمولی بات نہیں وہ مومن کو بھی فاسق بنا دیتی ہے.پس یہ مت سمجھو کہ تمہارا اپنی زبانوں اور تحریروں کو قابو میں نہ رکھنا اچھے نتائج پیدا کرے گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایسے لوگوں کو اپنی جماعت سے علیحدہ کر دوں گا.فاسق کے معنی ہیں کہ خدا سے کوئی تعلق نہیں.اس کو خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو انتظام ہو جو شخص اس کی قدر نہیں کرے گا اور اس انتظام پر خواہ مخواہ اعتراضات کرے گا خواہ وہ مومن بھی ہو.اور جو اس کے متعلق بولتے وقت اپنے الفاظ کو نہیں دیکھے گا تو یا درکھو کہ وہ کافر ہوکر مرے گا.“ وو خلافت علی منہاج النبوة جلد 3 صفحہ 9-8) حضرت خلیفہ المسیح الثال رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں :....خلیفہ وقت ساری دنیا کا استاد ہے.اور اگر یہ سچ ہے اور یقینا سچ ہے تو دنیا کے عالم اور دنیا کے فلاسفر شاگرد کی حیثیت سے ہی اس کے سامنے آئیں گے.استاد کی 66 حیثیت سے اس کے سامنے نہیں آئیں گے...“ ( الفضل 21 دسمبر 1966ء) حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مصلح موعودؓ کے حوالہ سے فرماتے ہیں:.وو...یہ تو ہو سکتا ہے کہ ذاتی معاملات میں خلیفہ وقت سے کوئی غلطی ہو

Page 22

۱۷ جائے.لیکن ان معاملات میں جن پر جماعت کی روحانی اور جسمانی ترقی کا انحصار ہو اگر اس سے کوئی غلطی سرزد بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی حفاظت فرماتا ہے اور کسی نہ کسی رنگ میں اسے اس غلطی پر مطلع کر دیتا ہے.صوفیاء کی اصطلاح میں اسے عصمت صغریٰ کہا جاتا ہے.گو یا انبیاء کو تو عصمت کبری حاصل ہوتی ہے لیکن خلفاء کو عصمت صغریٰ حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے کوئی ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کے لئے تباہی کا موجب ہو.ان کے فیصلوں میں جزئی اور معمولی غلطیاں ہو سکتی ہیں.مگر انجام کار نتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہوگا اور اس کے مخالفوں کو شکست ہوگی.گو یا بوجہ اس کے کہ ان کو عصمت صغریٰ حاصل ہوگی خدا تعالیٰ کی پالیسی بھی وہی ہوگی جو ان کی ہوگی.بے شک بولنے والے وہ ہوں گے، زبانیں انہی کی حرکت کریں گی.ہاتھ انہی کے چلیں گے، دماغ انہی کا کام کرے گا مگر ان سب کے پیچھے ہوسکتی خدا تعالیٰ کا اپنا ہاتھ ہوگا.ان سے جزئیات میں معمولی غلطیاں ہو ہیں.بعض دفعہ ان کے مشیر بھی ان کو غلط مشورہ دے سکتے ہیں لیکن ان درمیانی روکوں سے گزر کر کامیابی انہی کو حاصل ہوگی.اور جب تمام کڑیاں مل کر زنجیر 66 بنے گی تو وہ صحیح ہوگی اور ایسی مضبوط ہو گی کہ کوئی طاقت اسے تو ڑ نہیں سکے گی.“ خطبات مسرور جلد اول صفحہ 341 تا 343 بحوالہ تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 376 تا 377) تو معلوم ہوا کہ نظام خلافت کے اس عظیم اور بلند مقام اور منصب کی مناسبت سے مومنوں کی سب سے اہم اور بنیادی ذمہ داری نظام خلافت سے دلی وابستگی اور خلیفہ وقت کی غیر مشروط مکمل اطاعت ہے.جب یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جس کو خلیفہ بنایا جاتا ہے وہ دنیا میں خدا کا نمائندہ اور سب سے محبوب شخص ہوتا ہے تو

Page 23

۱۸ پھر ان باتوں کا لازمی تقاضا ہے کہ ایسے بابرکت وجود سے دل و جان سے محبت کی جائے اور اپنے آپ کو کلیۃ اس کی راہ میں فدا کر دیا جائے.یہ مضمون سورہ نور کی آیت استخلاف کے مطالعہ سے خوب روشن ہو جاتا ہے.جہاں خلافت کے مضمون سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کا حکم دیا اور خلافت کا ذکر کرنے کے معا بعد پھر اطاعت رسول کا ذکر موجود ہے.اور یہ کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ اس میں یہ عظیم نکتہ مخفی ہے کہ خلیفہ کی اطاعت در اصل رسول ہی کی اطاعت ہے.اور رسول کی اطاعت کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیئے کہ اس کے خلیفہ کی اطاعت بھی اسی وفا اور جانفشانی سے کی جائے جس طرح رسول کی اطاعت کا حق ہے.خلیفہ وقت سے دلی وابستگی کی اہمیت اور فرضیت کے ذکر میں رسول مقبول صلی ایم کی یہ تاکیدی حدیث بھی ہمیشہ مد نظر رہنی چاہیئے جسمیں آپ نے فرمایا:.فَإِنْ رَأَيْتَ يَوْمَئِذٍ خَلِيفَةَ اللهِ فِي الْأَرْضِ فَالْزِمَهُ وَإِنْ 66 نُهِكَ جِسْمُكَ وَأُخِذَ مَالُكَ اگر تم دیکھ لو کہ اللہ کا خلیفہ زمین میں موجود ہے تو اس سے وابستہ ہو جاؤ اگر چہ تمہارا بدن تار تار کر دیا جائے اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے.(مسند احمد بن حنبل حدیث 22333) اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ خلافت ہی درحقیقت دُنیا میں سب سے بڑا اور قیمتی خزانہ ہے.جان اور مال سے بڑھ کر قیمتی دولت ہے.پس جب یہ دولت کسی جماعت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو تو اس سے چمٹ جانا اور ہر حالت میں چمٹے رہنا ہی زندگی اور بقا کی ضمانت ہے.

Page 24

۱۹ خلافت کی برکات تمکنت وین قیام امن عبادت الہی کا حقیقی قیام توحید خالص کا قیام خدمت انسانیت تبلیغ اسلام ترقیات وحدت و یکجہتی کا قیام آسمانی تائیدات جماعت مومنین کو ایک دردمند اور دعا گو وجود کا نصیب ہونا روحانی زندگی کی بقاء خلافت کی برکات کا ذکر قرآن مجید میں کئی جگہ ہوا ہے.عام طور پر سورۃ النور کی آیت نمبر 56 میں نہایت اختصار سے یہ بیان ہوا ہے کہ خلافت کی عظیم برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے دین کو تمکنت عطا ہوتی ہے اور مومنین کی خوف کی حالت امن میں تبدیل ہوتی ہے.عبادت الہی اور توحید خالص کی بنیاد میں مضبوط ہوتی ہیں اور ان کا قیام حقیقی طور پر کیا جاتا ہے.دین سے وابستہ ہر شعبہ میں نئی جان پڑ جاتی ہے.ترقیات کی نئی سے نئی راہ کھل جاتی ہے جس پر یہ آسمانی قیادت مومنین کو گا مزن کر کے اصل مطلوب زندگی کو حاصل کرنے کی پیہم کوشش کرتی ہے.راستے کی ہر روک کو ہٹانے کے گر بتلاتی

Page 25

ہے.ہر تکلیف اور دکھ و درد کا درماں کرتی ہے.سب سے بڑھ کر یہ کہ وحدت قومی کو قائم رکھنے اور شیرازہ کو یکجا رکھنے کی ہر دم سعی کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی صفات کا پر تو بنے کا نمونہ مومنین کے زیر نظر ہوتا ہے جس کی ھدایات اور اشاروں کنایوں سے مومنین آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ آسمانی قیادت مومنوں کو اعمال صالحہ اور نیکیوں کے معیار اور نیکی کرنے کے موزوں وقت بتلاتی ہے جس سے تقویٰ کے کھیت لہلہانے لگتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی مشیت کو سمجھ کر اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ خلیفمو منوں کو اللہ تعالیٰ کی پکار پر لبیک کہنے کے لئے تیار کرتا ہے.یہ الہی نظام دنیوی طور پر مخلوق کی بہبود اور رفاہ عامہ کے لئے مومنوں کو نہ صرف توجہ دلاتا رہتا ہے بلکہ اس کے انصرام کے لئے باقاعدہ ادارے قائم کرتا ہے جو خدمت انسانیت کے کام کر کے حقوق العباد کی ادائیگی کیلئے تو جہ دلاتارہتا ہے.یہ آسمانی قیادت نہایت عجیب ہے جس کی خوبیاں، فوائد اور برکات کا شمار کیا ہی نہیں جا سکتا.چنانچہ ایک خلیفہ کا دل انسانیت کی محبت سے لبریز ہوتا ہے.اس کا اپنے متبعین سے محبت والفت کے تعلق کا کسی دنیوی رشتہ سے موازنہ کرنا کم عقلی ہے.یہ تو شفیق ماں سے بڑھ کر ہوتا ہے جو اپنے پیروؤں کی تکلیف پر گڑھتا ہے اور رنج اٹھاتا ہے.لوگ سور ہے ہوتے ہیں تو یہ ان کی ترقیات کے منصوبے طے کر رہا ہوتا ہے.ان منصوبوں کی عملدرآمد کے لئے دعائیں کر رہا ہوتا ہے.یہ اسکی دعائیں ہی ہوتی ہیں جو پھر مخلصوں کی بگڑی سنوارتی ہیں.عام رحمت کے تقاضا سے ہر روز ایک خلیفہ کل عالم کو چشم تصور میں لا کر ہر ایک کے لئے بے قرار ہو جاتا ہے.ہر ایک کے لئے ہدایت اور فلاح کا خواستگار ہوتا ہے.چنانچہ بے شمار برکات ہوتی ہیں جو اس کے وجود باجود سے وابستہ ہوتی ہیں اور جس سے بے شمار لوگ حظ پاتے ہیں.یہ برکات برکات نبوت کا عکس ہوتی ہیں.ذیل

Page 26

۲۱ میں حضرت مسیح موعود اور خلفائے عظام کے مختصر ارشادات کی روشنی میں برکات خلافت کی ایک جھلک پیش کی جاتی ہے:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.” ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک خطرناک زمانہ پیدا ہوگیا تھا.کئی فرقے عرب کے مرتد ہو گئے تھے.بعض نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تھا.اور کئی جھوٹے پیغمبر کھڑے ہو گئے تھے.اور ایسے وقت میں جو ایک بڑے مضبوط دل اور مستقل مزاج اور قومی الایمان اور دلاور اور بہادر خلیفہ کو چاہتا تھا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مقرر کئے گئے.اور ان کو خلیفہ ہوتے ہی بڑے غموں کا سامنا ہوا.جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ باعث چند در چند فتنوں اور بغاوت اعراب اور کھڑے ہونے جھوٹے پیغمبروں کے میرے باپ پر جبکہ وہ خلیفہ رسول اللہ صلم مقرر کیا گیا وہ مصیبتیں پڑیں اور وہ غم دل پر نازل ہوئے کہ اگر وہ غم کسی پہاڑ پر پڑتے تو وہ بھی گر پڑتا اور پاش پاش ہو جا تا اور زمین سے ہموار ہو جاتا.مگر چونکہ خدا کا یہ قانون قدرت ہے کہ جب خدا کے رسول کا کوئی خلیفہ اس کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے تو شجاعت اور ہمت اور استقلال اور فراست اور دل قوی ہونے کی روح اس میں پھونکی جاتی ہے...یہی حکم قضا و قدر کے رنگ میں نہ شرعی رنگ میں حضرت ابوبکر کے دل پر بھی نازل ہوا تھا“ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 186،185 تحفہ گولڑویہ ) ”جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آ جاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سر نو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام

Page 27

ہوتا.۲۲ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 384) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:.ملائکہ سے فیوض حاصل کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ خلفاء سے مخلصانہ تعلق قائم رکھا جائے اور ان کی اطاعت کی جائے..تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نئے دل ملیں گے جن میں سکینت کا نزول ہوگا اور خدا تعالیٰ کے ملائکہ ان دلوں کو اُٹھائے ہوئے ہوں گے..تعلق پیدا کرنے کے نتیجہ میں تم میں ایک تغیر عظیم واقع ہو جائے گا، تمہاری ہمتیں بلند ہو جائیں گی تمہارے ایمان اور یقین میں اضافہ ہو جائے گا ملائکہ تمہاری تائید کے لئے کھڑے ہوجائیں گے اور تمہارے دلوں میں استقامت اور قربانی کی روح پھونکتے رہیں گے.پس سچے خلفاء سے تعلق رکھناملائکہ سے تعلق پیدا کر دیتا ہے اور انسان کو انوار الہیہ کا مہبط بنا دیتا ہے.“ 66 خلافت علی منہاج النبوۃ جلد 3 صفحہ 392) اللہ تعالیٰ نے تمہیں خلافت کی نعمت عطا کی ہے جس سے وہ لوگ ( یعنی دوسرے مسلمان.ناشر ) محروم ہیں.اس خلافت نے تھوڑے سے احمدیوں کو بھی جمع کر کے انہیں ایسی طاقت بخش دی ہے جو منفردانہ طور پر کبھی حاصل نہیں ہوسکتی.یوں تو ہر جماعت میں کمزور بھی ہوتے ہیں اور ایسے طاقتور بھی ہوتے ہیں جو ا کیلے تمام بوجھ کو اٹھا لیں مگر تمام افراد کو ایک رہتی سے باندھ دینا محض مرکز کے ذریعہ ہوتا ہے.مرکز کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ کمزور کو گرنے نہیں دیتا اور طاقتور کو اتنا آگے نہیں نکلنے دیتا کہ دوسرے لوگ اس کے مقابلہ میں

Page 28

۲۳ حقیر ہو جائیں.اگر مرکز نہیں ہوگا تو کمزور گرے گا، اگر مرکز نہیں ہوگا تو طاقتور اتنا آگے نکل جائے گا کہ باقی لوگ سمجھیں گے کہ یہ آسمان پر ہے اور ہم زمین پر ہیں ہمارا اور اس کا آپس میں واسطہ ہی کیا ہے لیکن نظام اسلامی میں آکر وہ ایسے برابر ہو جاتے ہیں کہ بعض مواقع پر امیر اور غریب میں کوئی فرق ہی نہیں رہتا.“ خلافت على منهاج النبوة جلد 3 صفحہ 359-358) یہ خلافت اور تنظیم کی ہی برکت ہے کہ جماعت نے متعد دزبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کر دیئے ورنہ جماعت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا مالدار نہیں جو ان تراجم میں سے ایک ترجمہ بھی شائع کروا سکتا.اسی طرح کوئی فرد ایسا رسوخ نہیں رکھتا کہ وہ علیحدہ طور پر کسی زبان میں بھی قرآن کریم کا ترجمہ شائع کراسکتا لیکن اجتماعی صورت میں ہم اس وقت تک انگریزی ، ڈچ ، روی ،سپینش، پرتگیزی ، اٹالین، جرمن اور فرانسیسی زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ کرواچکے ہیں...ہماری نیت ہے کہ ہرا ہم زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کر دیں تاکسی زبان کا جاننے والا ایسا نہ رہے جو اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے.“ خلافت على منهاج النبوة جلد 3 صفحہ 569) ضمناً یہاں واضح ہو کہ اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام شائع شدہ مکمل تراجم قرآن کریم کی تعداد 74 ہو چکی ہے.سال 2015ء کے دوران سنہالی اور برمی زبان میں قرآن کریم کے مکمل تراجم شائع ہوئے ہیں.الفضل انٹر نیشنل 25 ستمبر 2015 ء تا01/اکتوبر 2015ء) حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:.

Page 29

۲۴ وو.قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے.یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے.اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں.ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں.اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو دین حق کبھی ترقی نہیں کر سکتا.پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائمی بنا ئیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں.امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں.اور وہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں کے مقابلہ کے لئے ڈھال ہے.“ مشعل راہ جلد 5 حصہ اول صفحه 4، 5 مطبوع مجلس خدام الاحمدیہ بھارت مئی 2007 ء ) یہ قدرت ثانیہ ہے یا خلافت کا نظام اب انشاء اللہ قائم رہنا ہے اور اس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اگر یہ مطلب لیا جائے کہ وہ تیس سال تھی تو وہ تیس سالہ دور آپ کی پیشگوئی کے مطابق تھا.اور یہ دائمی دور بھی آپ کی ہی پیشگوئی کے مطابق ہے قیامت کے وقت تک کیا ہونا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن یہ بتادوں کہ یہ دور خلافت آپ کی نسل در نسل در نسل اور بے شمار نسلوں تک چلے جانا ہے انشاء اللہ تعالیٰ ، بشرطیکہ آپ میں 66 نیکی اور تقویٰ قائم رہے.“ (خطبہ جمعہ 27 مئی 2005 ء ) ( اخبار بدر خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی نمبر 2008، صفحہ 18،17) اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ خلفاء احمدیت کی قیادت میں جماعت کے خوفوں کو امن

Page 30

۲۵ میں بدلا اور ان ابتلاؤں میں ( دین حق ) کو پہلے سے بڑھ کر تمکنت اور تقویت عطا فرمائی اور جس طرح پہلے چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا اسی طرح آج بھی دنیا دیکھ رہی ہے اور آئندہ بھی دیکھے گی کہ خدا تعالیٰ کی تائید یافتہ خلافت کے نظام کے زیر سایہ جماعت کو مٹانے کا زعم لے کر اٹھنے والے آگ کے بگولے جماعت کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے.ان کے منصوبوں کی خاک خدا انہیں کے سروں پر ڈال دے گا.اسی آگ میں ان کی حسرتیں فنا کر دی جائیں گی.ان سے پہلے بھی یہ حسرتیں اپنے سینوں میں لے کر منوں مٹی کے نیچے دب گئے اور یہ بھی دب جائیں گے لیکن کبھی کوئی احمدیت کی ترقی کو ایک پل کے لئے بھی نہ روک سکے گا.اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ان کی خاک اڑا کر دنیا کو یہ دکھایا ہے کہ خلافت احمدیہ کی پشت پناہی کرنے والا میں وہ حی و قیوم اور قادر توانا خدا ہوں جو ہمیشہ الہی سلسلوں کے لئے اپنی زبر دست قدرت کا ہاتھ دکھایا کرتا ہے.اسی تائید و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے...اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.“ (ضمیمہ تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ 50،49) مخالفین نے تو جماعت کو دنیا کے چند خطوں میں پھیلنے سے روکنے کی ناکام کوششیں کی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے پسر موعود کے ہاتھوں دین اسلام اور اپنے مہدی کی باتوں کو دُنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لئے تحریک جدید کی شکل

Page 31

میں جس عظیم الشان منصوبے کا آغاز کیا تھا.اسی کا ایک دلنشین فیض آج ایم ٹی اے کی صورت میں ہمیں عطا ہوا ہے.اللہ نے یہ نعمت عطا فرما کر خلیفہ وقت کی آواز کو ساری دنیا میں عام کر دیا ہے.“ (بحوالہ سو نیز خلافت احمدیہ صدسالہ جوبلی نمبر 200ء) تحریک جدید انجمن احمد یہ پاکستان صفحه XV) آج خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت اور خلیفہ وقت کے درمیان ملہی محبت کا لازوال رشتہ قائم ہو چکا ہے.احمدی مرد عورتیں بچے بوڑھے اور جو ان سب خلیفہ وقت کے اس قدر قریب ہو گئے ہیں جو سوائے خدا تعالیٰ کی تائید کے ممکن نہیں تھا.ساری دنیا میں خلافت کے عشاق اور پروانے پھیلے ہوئے ہیں جو خلافت کی صورت میں عطا ہونے والی حبل اللہ کو تھامے ہوئے ساری دنیا میں اسلام کی امن اور محبت کی حسین تعلیم کا علم بلند کئے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے خلافت کی برکت سے جماعت احمدیہ کو ایک ہاتھ پر متحد کیا ہے اور انہیں خلافت کی بابرکت لڑی میں پرو دیا ہے.یہی وہ الہی تائید یافتہ جماعت ہے جو دنیا کے تمام جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے ہر مذہب وملت اور رنگ ونسل کے لوگوں تک ( دین حق ) کا پیغام پہنچارہی ہے.خلافت کے پروانوں کا یہ گروہ ہر لمحہ ( دین حق ) کی اشاعت میں مصروف ہے اور ہر آنے والا دن احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ترقی اور فتوحات کی نوید لے کر طلوع ہو رہا ہے.اسی کا نام تمکنت دین ہے.پس اللہ تعالیٰ نے مومنین سے خلافت کے قیام، خوف کے بعد امن عطا کرنے اور تمکنت دین کے جو وعدے کئے ہیں.جماعت احمد یہ ان کے پورا ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے.پس ان برکات سے دائی حصہ پانے کے لئے، اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ رکھنے کے لئے خلافت کے ساتھ چھٹے رہیں.ہمیشہ

Page 32

۲۷ خلافت کے ساتھ وابستہ رہیں اور اپنی اولا دوں کو بھی یہی سبق دیتے رہیں اور اپنی دعاؤں ، اخلاص اور وفا کے ساتھ خلیفہ وقت کے مددگار بنے رہیں.اللہ آپ سب کو اس کی توفیق دے.آمین.“ ( بحوالہ سوٹئیر خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی 2008 ء ) ( تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان صفحه XVI) ”ہمارا یہ ایمان ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ خود بناتا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں ہوتا.جسے اللہ یہ کر نہ پہنائے گا کوئی نہیں جو اس کرتے کو اس سے اُتار سکے یا چھین سکے.وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چنتا ہے جسے لوگ بعض اوقات حقیر بھی سمجھتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اس کو چن کر اس پر اپنی عظمت اور جلال کا ایک ایسا جلوہ فرماتا ہے کہ اس کا وجود دنیا سے غائب ہو کر خدا تعالیٰ کی قدرتوں میں چھپ جاتا ہے.تب اللہ تعالیٰ اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اور اپنی تائید و نصرت ہر حال میں اس کے شامل حال رکھتا ہے اور اس کے دل میں اپنی جماعت کا درد اس طرح پیدا فرما دیتا ہے کہ وہ اس در دکو اپنے درد سے زیادہ محسوس کرنے لگتا ہے اور یوں جماعت کا ہر فرد یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کا دردر کھنے والا ، اس کے لئے 66 خدا کے حضور دعائیں کرنے والا اس کا ہمدرد ایک وجود موجود ہے.“ روزنامه الفضل 30 مئی 2003 صفحہ 2) ( بحوالہ اخبار بدر خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی نمبر 2008 صفحہ 17)...افراد جماعت کا خلافت سے تعلق اور خلیفہ وقت کا احباب سے تعلق ایک ایسا تعلق ہے جو دنیا داروں کے تصور سے بھی باہر ہے.اس کا احاطہ وہ کر ہی نہیں دو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑا سچ فرمایا تھا کہ جماعت اور خلیفہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.بہر حال یہ تعلق جو جماعت اور خلافت کا ہے ان

Page 33

۲۸ جلسوں پر اور ابھر کر سامنے آتا ہے.الحمد للہ، مجھے اس بات کی خوشی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کینیڈ ابھی اس اخلاص و وفا کے تعلق میں بہت بڑھی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ ان کا یہ تعلق مزید بڑھاتا چلا جائے اور یہ وقتی جوش اور جذبے کا تعلق نہ ہو.آپ لوگوں نے ہمیشہ محبت اور وفا کا اظہار کیا ہے.27 مئی کو جب میں نے خلافت کے حوالے سے خطبہ دیا تھا تو جماعتی طور پر بھی اور مختلف جگہوں سے ذاتی طور پر بھی ، سب سے پہلے اور سب سے زیادہ خطوط وفا اور تعلق کے مجھے کینیڈا سے ملے تھے.اللہ کرے یہ محبت اور وفا کے اظہار اور دعوے کسی وقتی جوش کی وجہ سے نہ ہوں بلکہ ہمیشہ رہنے والے اور دائمی ہوں اور آپ کی نسلوں میں بھی چلنے والے اور قائم رہنے والے ہوں.“ 66 (خطبات مسرور جلد 3 صفحہ 388 تا 389، مطبوعہ قادیان 2005ء) نائیجیریا کی جماعت کے حوالے سے برکات خلافت کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:.نائیجیریا کی جماعت تو خلافت کی برکات کا براہ راست مشاہدہ کر چکی ہے.آپ لوگوں کو تو بہت زیادہ اس انعام کی قدر کرنی چاہیئے.آپ جانتے ہیں کہ جو لوگ یہاں مساجد سمیت خلافت سے علیحدہ ہو گئے تھے آج ان کی کیا حیثیت ہے؟ کچھ بھی نہیں لیکن جو لوگ خلافت کے انعام سے چمٹے رہے، جنہوں نے اپنے عہد بیعت کو نبھانے کی کوشش کی اللہ تعالیٰ نے انہیں بے شمار انعامات سے نوازا.آج ہر شہر میں آپ جماعت کی ترقی کے نظارے دیکھتے ہیں.آج آپ کی یہاں ہزاروں میں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ خلافت کے ساتھ ہی برکت ہے.پس ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے رہیں.اللہ

Page 34

۲۹ تعالی آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور اس انعام سے فیض یاب ہوتے رہیں.آمین تاثرات خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی 2008ء صفحہ 77،76) یکم مئی 2008ء کو لجنہ اماء اللہ یو کے نے دورہ مغربی افریقہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کامیاب مراجعت پر ایک استقبالیہ دیا جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف لطیف رسالہ الوصیت کے حوالے سے فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے جب حضور اقدس علیہ السلام کو بتایا کہ اب آپ کا واپسی کا وقت قریب ہے اور ایک مقبرہ قائم کیا جائے جس میں اعلیٰ معیار اور قربانی کرنے والے لوگوں کی تدفین ہوگی.اس وقت آپ نے ایک رسالہ لکھا ”رسالہ الوصیت“ کے نام سے.اس میں آپ فرماتے ہیں: ”سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لیے تم میری بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لیے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.“ (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305 )

Page 35

ہم نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کو ، اس خوش خبری کو ہمیشہ گزشتہ سو سال میں سچا ہوتے دیکھا اور دیکھتے رہے.خلافت اولیٰ کے وقت لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات ہوگئی ہے اب احمدیت چند دن کی مہمان ہے.پھر خلافت ثانیہ میں جب اندرونی فتنہ بھی اٹھا اور ایسے لوگ جو خلافت کے منکر تھے ان کو پیغامی بھی کہا جاتا ہے اور لاہوری بھی اور غیر مبایعین بھی.انہوں نے بہت زور لگایا کہ انجمن اب حق دار ہونی چاہیے نظام جماعت کو چلانے کی اور خلافت کی کوئی ضرورت نہیں.حضرت مصلح موعود کی عمر اس وقت صرف چوبیس سال تھی اور بڑے بڑے پڑھے لکھے علما اور دین کا علم رکھنے والے اور جو اس وقت اسلام کے، احمدیت کے، نظام جماعت کے ستون سمجھے جاتے تھے اس وقت علیحدہ ہو گئے اور کچھ لوگ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے لیکن ہم نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا باون سالہ دور خلافت ہر روز ترقی کی ایک نئی منزل طے کرتا تھا.آپ کے دور میں افریقہ میں مشن کھلے، یورپ میں مشن کھلے اور خلافت کے دس سال بعد ہی یہاں لندن میں آپ نے اس مسجد کی بنیاد بھی رکھی.پھر خلافت ثالثہ کا دور آیا.اس میں بھی خاص طور پر افریقن ممالک میں اور ان افریقن ممالک میں جو انگلستان کی ایک کالونی رہی کسی زمانے میں، ان میں احمدیت خوب پھیلی اور کافی حد تک Establish ہو گئی.پھر خلافت رابعہ کے دور میں ہم نے ہر روز ترقی کا ایک نیا چکر دیکھا.افریقہ میں بھی ، یورپ میں بھی اور ایشیا میں صرف ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا کے کونے کونے تک جماعت کی آواز پھیلی.

Page 36

تو یہ ترقیات جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دوسری قدرت کا آنا ضروری ہے کیونکہ وہ دائمی ہے اور ہمیشہ رہنے والی ہے اور ہمیشہ وہی چیزیں رہا کرتی ہیں جو اپنی ترقی کی منازل بھی طے کرتی چلی جائیں.تو اللہ تعالی کے فضل سے خلافت کی وابستگی کی وجہ سے جماعت ترقی کرتی چلی گئی اور خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ منصب دیا تو باوجود اس خوف کے جو میرے دل میں تھا کہ جماعت کس طرح چلے گی ؟ اللہ تعالیٰ نے خود ہر چیز اپنے ہاتھ میں لے لی اور ہر طرح تسلی دی اور جو ترقی کا قدم جس رفتار سے بڑھ رہا تھا اسی طرح بڑھتا چلا گیا اور چلتا چلا جارہا ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے خدا کا وعدہ ہے کہ : ”میں تیری جماعت کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ اللہ تعالیٰ کے فضل سے زمین کے کناروں تک پہنچ رہی ہے اور لوگ جوق در جوق اس میں شامل بھی ہو رہے ہیں.تو اس سے اللہ تعالیٰ کو اپنے پیاروں کی عزت کا بڑا خیال رہتا ہے.اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا اپنا ایک کام ہے جو بعض لوگوں کے ذریعہ سے کرواتا ہے اور انبیاء کو جو اس دنیا میں بھیجتا ہے وہ اپنے پیارے، جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ان کے ذریعہ سے وہ دُنیا میں اپنی تعلیم اور اپنا نظام قائم کرنا چاہتا ہے اور پھر انبیاء کے بعد ان کے ماننے والوں کے ذریعہ اور پھر خلافت کے ذریعہ سے وہ نظام جاری رہتا ہے اور ترقی کرتا چلا جاتا ہے.“ الفضل انٹر نیشنل.خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی نمبر.25 جولائی تا7 اگست 2008ء.صفحہ 16) تاثرات خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی 2008ء صفحہ 89 تا 91) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت احمدیہ کو بشارت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.

Page 37

۳۲ وو یہ دور جس میں خلافتِ خامسہ کے ساتھ خلافت کی نئی صدی میں ہم داخل ہو رہے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی اور فتوحات کا دور ہے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ایسے باب کھلے ہیں اور کھل رہے ہیں کہ ہر آنے والا دن جماعت کی فتوحات کے دن قریب دکھا رہا ہے.میں تو جب اپنا جائزہ لیتا ہوں تو شرم سار ہوتا ہوں.میں تو ایک عاجز ، ناکارہ ، نااہل، پر معصیت انسان ہوں.مجھے نہیں پتہ کہ خدا تعالیٰ کی مجھے اس مقام پر فائز کرنے کی کیا حکمت تھی لیکن یہ میں علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اِس دور کو اپنی بے انتہا تائید و نصرت سے نوازتا ہوا ترقی کی شاہراہوں پر بڑھاتا چلا جائے گا.انشاء اللہ.اور کوئی نہیں جو اس دور میں احمدیت کی ترقی کو روک سکے اور نہ ہی آئندہ کبھی یہ ترقی رکنے والی ہے.خلفا کا سلسلہ چلتا رہے گا اور احمدیت کا قدم آگے سے آگے انشاء اللہ بڑھتا رہے گا.“ الفضل انٹر نیشنل.خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی نمبر 25 جولائی تا 7 اگست 2008 ، صفحہ 12) تاثرات خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی 2008 صفحہ 113،112) فرمایا: ”افراد جماعت خلیفہ سے بہت محبت رکھتے ہیں اور خلیفہ اُن سے بہت محبت رکھتا ہے اور وہ سب خدا سے محبت رکھتے ہیں.انشاء اللہ یہ باہمی محبت ہمیشہ رہے گی.“ (الفضل انٹر نیشنل 11 جولائی تا 17 جولائی 2008ء صفحہ 10 ) ( تا ثرات خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی 2008، صفحہ 127) خلافت کی گراں قدر نعمت کے حوالے سے پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے چودہ سوسال بعد پھر ایک نعمت اتاری جس نے

Page 38

۳۳ پچھلوں کو پہلوں سے ملا دیا.پس اس نعمت کی قدر کرنا اسے ہمیشہ یادرکھنا، اس سے استفادہ کرنا ہر احمدی کا فرض ہے پھر اس نعمت کے بعد خلافت کی نعمت بھی جاری فرمائی اور اس سے اخلاص و وفا کا تعلق رکھنا بھی ضروری ہے.ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ شرائط بیعت پر تقوی کے ساتھ عمل پیرا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ تمہارے لیے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے.جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا ہی کافی ہے اور خلافت کی بیعت کی ضرورت نہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کیے گئے عہد سے باہر جانے والے ہیں......آپ خوش قسمت ہیں جن کو خلافت کی بیعت کی توفیق ملی لیکن اس کے لیے تقویٰ کی بھی ضرورت ہے.آج ہم نہ صرف خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے کامیابیوں اور کامرانیوں کے جلو میں اسے آگے بڑھتے ہوئے بھی دیکھ رہے ہیں.( الفضل انٹرنیشنل.22 تا25 اگست 2008ء صفحہ نمبر 2) تاثرات خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی 2008ءصفحہ 181،180) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: " آج جب میں دنیا کے کسی بھی ملک میں بسنے والے احمدی کے چہرے کو دیکھتا ہوں تو اس میں قدر مشترک نظر آتی ہے اور وہ ہے خلافت احمدیہ سے اخلاص و وفا کا تعلق.چاہے وہ پاکستان کا رہنے والا احمدی ہے یا ہندوستان میں بسنے والا احمدی ہے.انڈونیشیا اور جزائر میں بسنے والا احمدی ہے، بنگلہ دیش میں رہنے والا احمدی ہے.آسٹریلیا میں رہنے والا احمدی ہے یا یورپ اور امریکہ میں بسنے والا

Page 39

۳۴ احمدی یا افریقہ کے دُور دراز علاقوں میں بسنے والا احمدی ہے.خلیفہ وقت کو دیکھ کر ایک خاص پیار، ایک خاص تعلق، ایک خاص چمک چہروں اور آنکھوں میں نظر آرہی ہوتی ہے اور یہ صرف اس لیے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بیعت اور وفا کا تعلق، سچا تعلق ہے اور یہ صرف اس لیے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کامل اطاعت اور محبت کا تعلق ہے اور یہ اس لیے ہے کہ اس بات کا مکمل فہم و ادراک ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جو کل انسانیت کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے نجات دہندہ بنا کر بھیجے گئے اور خلافت احمد یہ آپ تک لے جانے کی ایک کڑی ہے.اس وحدت کی نشانی ہے جو خدائے واحد کے قدموں میں ڈالنے کے لیے ہمہ وقت مصروف ہے.پس کیا کبھی ایسی قوم کو ایسے جذبات رکھنے والی روحوں کوکوئی قوم شکست دے سکتی ہے؟ کبھی نہیں اور کبھی نہیں.اب جماعت احمدیہ کا مقدر کا میابیوں کی منازل کو طے کرتے چلے جانا ہے اور تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.یہ اس زمانے کے امام سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جو کبھی اپنے وعدوں کو جھوٹا نہیں ہونے دیتا.“ (الفضل انٹر نیشنل.31 اکتوبر تا 7 نومبر 2008ء صفحہ نمبر 12) ( تاثرات خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی 2008ء صفحہ 195) یہ خلافت کی برکات کا ایک مجمل خاکہ تھا.اصل تو یہ ہے کہ ہمارے فہم لا چار ہیں کہ تمام برکات کا احاطہ کر سکیں اور ہماری قلم کوتاہ ہے کہ تفصیل لکھ سکے لیکن منجملہ طور پر ایک حقیقت واشگاف ہے کہ تمام قسم کے فیوض نبوت کے بعد اس حبل اللہ سے وابستہ ہیں.ہر خیر کا حصول اس سے متعلق ہے.مومنین اس بات کے مقر ہیں کہ اسی ذریعہ سے استفاضہ ممکن ہے.واضح رہے کہ برکات خلافت کے حصول کے لئے یہ لا بدی ہے کہ خلافت کی برکات کو یادرکھا جائے.چنانچہ اس بارہ میں حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں:.

Page 40

۳۵ یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ خلافت کی برکات کو یا درکھیں.اور کسی چیز کو یا درکھنے کے لئے پرانی قوموں کا یہ دستور ہے کہ وہ سال میں اسکے لئے خاص طور پر ایک دن مناتی ہیں مثلاً شیعوں کو دیکھ لو ، وہ سال میں ایک دفعہ تعزیہ نکال لیتے ہیں تا قوم کو شہادت حسین کا دن یادر ہے.اسی طرح میں بھی خدام کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سال میں ایک دن ” خلافت ڈے کے طور پر منایا کریں.اس میں وہ خلافت کے قیام پر خدا تعالیٰ کا شکر یہ ادا کریں.اور اپنی پرانی تاریخ کو دھرایا کریں.اسی طرح وہ رؤیا کشوف بیان کئے جایا کریں جو وقت سے پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے دکھائے اور جن کو پورا کر کے خدا تعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ اس کی برکات اب بھی خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں.(الفضل یکم مئی ۱۹۵۷ء) خلیفہ وقت کی محبت و اطاعت اور ہماری ذمہ داریاں خلافت کے ساتھ وابستگی اور اس سے وفا اور محبت یہی ہے کہ خلیفہ وقت کے ہر حکم کی بر وقت تعمیل کی جائے اور اس کی ہر آواز پر لبیک کہا جائے اور اُس کے قدم پر قدم رکھ کر منازل طے کی جائیں.چنانچہ اس الہی نظام سے منکر ، اس سے علیحدہ ہونے والوں اور اطاعت سے باہر نکلنے والوں کو قرآن مجید نے فاسق قرار دیا ہے.حضرت رسول اکرم صلی ایم نے فرما یا کہ جو شخص اس حال میں مرا کہ اُس نے امام وقت کی بیعت نہیں کی وہ جاہلیت کی موت مرا.(مسلم کتاب الامارۃ) خلیفہ کی بیعت کر کے پھر اگر ایک مبائع اُس کے احکام اور نصائح کے برطبق

Page 41

عمل نہیں کرتا تو اس کی مثال بھی غیر مبائعین یا منکرین جیسی ہی ہے.بلکہ ان سے بڑھ کر بدنصیب ہے اور انکی نسبت زیادہ قابل مواخذہ ہے.خلافت سے ہی نظام جماعت منضبط ہے.کیونکہ نظام جماعت خلیفہ کی طرف سے قائم کردہ SET-UP ہے جو مفوضہ کاموں کے بآسانی انتظام کے لئے ہوتا ہے.اس نظام کی مکمل اطاعت بھی ضروری ہے.اس سے جڑے رہنا لازمی ہے.اس سے ہٹ کر اطاعت اور وفاداری کا دم بھر نا خیال خام ہے.جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول نہیں بلکہ فسق کی ایک کڑی ہے.اطاعت کا پہلا زینہ تو یہ ہے کہ پہلے ایک مومن خلیفہ کی آواز کو سُنے.اس کے لبوں اور زبان سے کب کیا نکلے ؟ اس کی جستجو میں ہمیشہ رہے.قرآن مجید میں مومنین کی جماعت کا شعار سمعنا واطعنا کے الفاظ میں بیان ہوا ہے.وہ ہمیشہ نیکی کی باتوں کو توجہ سے سنتے سمجھتے اور یادر کھتے ہیں اور پھر ان باتوں پر دل و جان سے عمل بھی کرتے ہیں.جو شخص سنے گا نہیں وہ عمل کیا کرے گا؟ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ السلام نے فرمایا:.أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَبْعِ وَالطَّاعَةِ ( ترمذی کتاب الایمان کتاب الاخذ بالسنة ) یعنی میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے نیز سُنے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں.اس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ حصول تقویٰ کے دو بڑے زینے ہیں کان کھول کر ہدایات کا سننا اور ان پر عمل کرنا (اطاعت ).پھر یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ السلام نے فرمایا: اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا ( بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعة ) یعنی سنو اور اطاعت کرو.

Page 42

۳۷ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اینم نے فرما یا : سنو اور اطاعت کرو.خواہ تم پر ایسا حبشی غلام (حاکم بنا دیا جائے) جس کا سر منقہ کی طرح (چھوٹا ) ہو.( صحیح بخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعة للامام مالم تكن معصية ) حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت مصلای ایام کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچا وہ اللہ تعالیٰ سے (قیامت کے دن ) اس حالت میں ملے گا کہ نہ اس کے پاس کوئی دلیل ہوگی نہ عذر.اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے امام وقت کی بیعت نہیں کی تھی تو وہ جاہلیت اور گمراہی کی موت مرا.( صحیح مسلم کتاب باب وجوب ملازمته جماعة المسلمين ) پھر ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی تم نے فرمایا: تنگدستی اور خوشحالی ، خوشی اور ناخوشی حق تلفی اور ترجیحی سلوک، غرض ہر حالت میں تیرے لئے حاکم وقت کے حکم کو سنا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے.( صحیح مسلم کتاب الامارة ) پھر حضرت عبادہ بن ولید اپنے دادا کی روایت اپنے والد کی زبانی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت سال اینم سے سننے اور بات ماننے کی بنیاد پر بیعت کی تھی سختی اور راحت اور خوشی اور نا خوشی میں خواہ ہمارے حق کا خیال نہ رکھا جائے اور اس بنیاد پر کہ ہم جھگڑا نہ کریں گے.اس شخص کی سرداری میں جو اس کے لائق ہے اور ہم سچ بات کہیں گے جہاں ہوں گے.اللہ کی راہ میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے.( صحیح مسلم کتاب الامارہ.باب وجوب طاعة الامراء فی غیر معصیة و تحریمھا فی المعصية ) ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت لم نے فرمایا: سنا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے.خواہ وہ امر اس کو پسند ہو یا

Page 43

۳۸ نا پسند.سوائے اس کے کہ اسے معصیت کا حکم دیا جائے.اور اگر معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اطاعت اور فرمانبرداری نہ کی جائے.( صحیح بخاری کتاب الأحکام باب السمع والطاعة لامام ) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ہم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.( صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعة الامراء فی غیر معصیة وتحريمها في المعصية ) گویا ایک سچے مومن کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ مامور یا اُس کے خلفاء کی ہدایت سنے اور پھر اطاعت اور عمل کے لئے کمر کس لے.خلافت اور نظام جماعت کی اطاعت اور ہماری ذمہ داریوں کے تعلق سے زیریں سطور میں خلفائے کرام کے بعض ارشادات ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں جن سے اس موضوع پر کافی وشافی روشنی پڑتی ہے.وباللہ التوفیق !! حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:.اب چونکہ خدا تعالیٰ نے پھر اپنے فضل سے مسلمانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ میں خلافت قائم کی ہے اس لئے میں اپنی جماعت سے کہتا ہوں کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھو اور خلافت کے قیام کے لئے قربانیاں کرتے چلے جاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو خلافت تم میں ہمیشہ رہے گی.خلافت تمہارے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے دی ہی اس لئے ہے تا وہ کہہ سکے کہ میں نے اسے تمہارے

Page 44

۳۹ ہاتھ میں دیا تھا.اگر تم چاہتے تو یہ چیز تم میں قائم رہتی.اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اسے الہامی طور پر بھی قائم کرسکتا تھا.مگر اس نے ایسا نہیں کیا.بلکہ اس نے یہ کہا کہ اگر تم لوگ خلافت کو قائم رکھنا چاہو گے تو میں بھی اسے قائم رکھوں گا.گویا اس نے تمہارے منہ سے کہلوانا ہے کہ تم خلافت چاہتے ہو یا نہیں چاہتے.اب اگر تم اپنا منہ بند کرلو، یا خلافت کے انتخاب میں اہلیت مدنظر نہ رکھو تو تم اس نعمت کو کھو بیٹھو گے.پس مسلمانوں کی تباہی کے اسباب پر غور کرو.اور اپنے آپ کو موت کا شکار ہونے سے بچاؤ تمہاری عقلیں تیز ہونی چاہئیں اور تمہارے حوصلے بلند ہونے چاہئیں.تم وہ چٹان نہ بنو جو دریا کے رخ کو پھیر دیتی ہے.بلکہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم وہ چینل (Channel) بن جاؤ جو پانی کو آسانی سے گزارتی ہے.تم ایک ٹنل ہو جس کا کام یہ ہے کہ وہ فیضان الہی جو رسول کریم صلی یتیم کے ذریعہ حاصل ہوا ہے اسے آگے چلاتے چلے جاؤ.اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے تو تم ایک ایسی قوم بن جاؤ گے جو کبھی نہیں مرے گی اور اگر تم اس فیضان الہی کے رستہ میں روک بن گئے ، اس کے رستہ میں پتھر بن کر کھڑے ہو گئے تو وہ تمہاری قوم کی تباہی کا وقت ہوگا.پھر تمہاری عمر کبھی لمبی نہیں ہوگی اور تم اسی طرح مرجاؤ گے جس طرح پہلی قو میں مریں.“ ( تفسير سورة النمل تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 429 تا430) تمہارا فرض ہے کہ جب بھی تمہارے کانوں میں خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز آئے تم فوراً اس پر لبیک کہو اور اس کی تعمیل کے لئے دوڑ پڑو کہ اسی میں تمہاری ترقی کا راز مضمر ہے بلکہ اگر انسان اس وقت نماز پڑھ رہا ہوتب بھی اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ نماز توڑ کر خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز کا جواب دے.یہی حکم

Page 45

اپنے درجہ کے مطابق خلیفۃ الرسول پر بھی چسپاں ہوتا ہے اور اس کی آواز پر جمع ہو جانا بھی ضروری ہو جاتا ہے.“ ( تقریر منصب خلافت بحوالہ نظام خلافت کی برکات اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ 42) ”جو جماعتیں منظم ہوتی ہیں ان پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کے بغیر ان کے کام کبھی بھی صحیح طور پر نہیں چل سکتے...ان شرائط اور ذمہ داریوں میں سے ایک اہم شرط اور ذمہ داری یہ ہے کہ جب وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تو پھر انہیں امام کے منہ کی طرف دیکھتے رہنا چاہئیے کہ وہ کیا کہتا ہے اور اس کے قدم اٹھانے کے بعد اپنا قدم اٹھانا چاہیئے...امام کا مقام تو یہ ہے کہ وہ حکم دے اور ماموم کا مقام یہ ہے کہ وہ پابندی کرے.“ الفضل 5 جون 1937ء بحوالہ نظام خلافت کی برکات اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ 43،42) اس بات کو خوب اچھی طرح یا درکھو کہ خلافت حبل اللہ ہے اور ایسی رسی ہے کہ اسی کو پکڑ کر تم ترقی کر سکتے ہو.اس کو جو چھوڑے گا وہ تباہ ہو جائے گا.“ درس القرآن بیان فرموده یکم مارچ 1912 ء بحوالہ درس القرآن صفحہ 67 تا 84 مطبوعہ قادیان نومبر 1912ء) ”ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلافت اسلام کا ایک اہم جزو ہے اور جو اس سے بغاوت کرتا ہے وہ اسلام سے بغاوت کرتا ہے.اگر ہمارا یہ خیال درست ہے تو جولوگ اس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہیں، ان کے لئے الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ کا حکم بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.کیونکہ خلافت کی غرض تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد عمل اور اتحاد خیال پیدا کیا جائے اور اتحاد عمل اور اتحاد خیال خلافت کے ذریعہ سے تبھی پیدا کیا جاسکتا ہے، اگر خلیفہ کی ہدایات پر پورے طور پر عمل کیا جائے اور جس طرح نماز میں امام کے رکوع کے ساتھ رکوع اور قیام کے ساتھ قیام اور

Page 46

۴۱ سجدہ کے ساتھ سجدہ کیا جاتا ہے.اسی طرح خلیفہ وقت کے اشارہ کے ماتحت ساری جماعت چلے اور اس کے حکم سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کرے.نماز کا امام جوصرف چند مقتدیوں کا امام ہوتا ہے جب اس کے بارہ میں رسول کریم صلی سیستم فرماتے ہیں کہ جو اس کے رکوع اور سجدہ میں جانے سے پہلے رکوع یا سجدہ میں جاتا ہے یا اس سے پہلے سر اُٹھاتا ہے، وہ گنہگار ہے ، تو جو شخص ساری قوم کا امام ہو اور اس کے ہاتھ پر سب نے بیعت کی ہو، اس کی اطاعت کتنی ضروری سمجھی جائے گی...اسی طرح تم سب امام کے اشارہ پر چلو اور اس کی ہدایت سے ذرہ بھر بھی ادھر ادھر نہ ہو.جب وہ حکم دے بڑھو اور جب وہ حکم دے ٹھہر جاؤ! اور جدھر بڑھنے کا وہ حکم دے اُدھر بڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا حکم دے اُدھر سے ہٹ آؤ (انوار العلوم جلد 14 صفحہ 515 تا516 ' قیام امن اور قانون کی پابندی کے متعلق جماعت احمدیہ کا فرض ) فرماتے ہیں:.جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو.وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جُدا ہو.اسی طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکر وٹا.پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جا ئیں.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں.ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے.“ الفضل انٹر نیشنل 23 تا 30 مئی 2003، صفحہ 1)

Page 47

۴۲ ”جو جماعتیں منظم ہوتی ہیں ان پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور کچھ شرائط کی پابندی کرنی ان کے لئے لازمی ہوتی ہے جن کے بغیر ان کے کام کبھی بھی صحیح طور پر نہیں چل سکتے...ان شرائط اور ذمہ داریوں میں سے ایک اہم شرط اور ذمہ داری یہ ہے کہ جب وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے اور اس کی اطاعت کا اقرار کر چکے تو پھر انہیں امام کے منہ کی طرف دیکھتے رہنا چاہیئے کہ وہ کیا کہتا ہے اور اس کے قدم اٹھانے کے بعد اپنا قدم اٹھانا چاہیئے اور افراد کو بھی بھی ایسے کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہئے جن کے نتائج ساری جماعت پر آ کر پڑتے ہوں پھر امام کی ضرورت اور حاجت ہی نہیں رہتی...امام کا مقام تو یہ ہے کہ وہ حکم دے اور ماموم کا مقام یہ ہے کہ وہ پابندی کرے.“ الفضل 5 جون 1937ء صفحہ 1 اور 2 ) ” خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہر فردشاگرد.جو لفظ بھی خلیفہ کے منہ سے نکلے وہ عمل کئے بغیر نہیں چھوڑنا.“ (الفضل 2 مارچ 1946ء) ”اے دوستو! بیدار ہو اور اپنے مقام کو سمجھو اور اس اطاعت کا نمونہ دکھاؤ جس کی مثال دنیا کے پردہ پر کسی اور جگہ پر نہ ملتی ہو اور کم سے کم آئندہ کے لئے کوشش کرو کہ سو (100) میں سے سو ہی کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھائیں اور اس ڈھال سے باہر کسی کا جسم نہ ہو جسے خدا تعالیٰ نے تمہاری حفاظت کیلئے مقرر کیا ہے اور الامام جنة يقاتل من ورائه “ پر ایسا عمل کرو کہ محمد رسول سیا سیستم کی روح تم سے خوش ہو جائے.“ (انوار العلوم جلد 14 صفحہ 525)

Page 48

۴۳ خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں ، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں.“ خطبہ جمعہ 24 جنوری 1936ء مندرجہ الفضل 31 جنوری 1936 ، صفحہ 9) امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اٹھاتا ہے اس کے پیچھے اٹھاتا ہے اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے.اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے.اپنے ارادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے.اپنی آرزوؤں کو اس کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتا ہے.اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہوجائیں تو ان کے لئے کامیابی اور فتح یقینی ہے ہے.الفضل 4 ستمبر 1937ء بحوالہ نظام خلافت کی برکات اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ 45،44) وو 66 یاد رکھو...ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرماں برداری کی جائے.“ (الفضل 15 دسمبر 1994ء بحوالہ نظام خلافت کی برکات اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ 45)...ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں.ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں.خدا کے حضور اس کے ان دعوؤں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جسکے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح

Page 49

۴۴ اس کی اطاعت نہیں کرتا اور جب تک اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر نہیں کرتا اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہوسکتا.“ (الفضل 15 نومبر 1946ء) ”بیشک میں نبی نہیں ہوں لیکن میں نبوت کے قدموں پر اور اس کی جگہ پر کھڑا ہوں ہر وہ شخص جو میری اطاعت سے باہر ہوتا ہے وہ یقیناً نبی کی اطاعت سے باہر ہوتا ہے....میری اطاعت اور فرمانبرداری میں خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے.(الفضل 4 ستمبر 1937ء) ” خلیفہ جس بات کا حکم دیتا ہے اس کی نافرمانی کرنے والا ایسا ہی مجرم ہے جیسا خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والا.اور اگر چہ اس کی کوئی سزا شریعت نے مقرر نہیں کی مگر مومنوں کے نزدیک خود نا فرمانی اپنی ذات میں سزا ہے اور یہ احساس کہ خلیفہ کا حکم نہیں مانا گیا اپنی ذات میں ایک سزا ہے اور اصل سزا یہی ہے دوسری سزا ئیں تو مصلحتادی جاتی ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ سلسلہ اور خلیفہ کی نافرمانی سے بڑھ کر اور کیا سزا ہوسکتی ہے.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ناراضگی خود بہت بڑی سزا ہے دوزخ کی سزا کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہے پس گواوامر کی نافرمانی کے لئے سزا مقرر نہیں مگر بہر حال وہ احکام ہی ہیں.“ ( رپورٹ مجلس مشاورت 1942 ، صفحہ 25) خلافت علی منهاج النبوۃ جلد 3 صفحہ 558) خدا تعالیٰ نے پھر اپنے فضل سے مسلمانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ میں خلافت قائم کی ہے اس لئے میں

Page 50

۴۵ اپنی جماعت سے کہتا ہوں کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھو اور خلافت کے قیام کے لئے قربانیاں کرتے چلے جاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو خلافت تم میں ہمیشہ رہے گی.( تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 430) وو خلافت علی منهاج النبوة جلد 3 صفحہ 478) حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :....خلیفے خدا مقرر کرتا ہے اور آپ ان کے خوفوں کو دور کرتا ہے جو شخص دوسروں کی مرضی کے موافق ہر وقت ایک نوکر کی طرح کام کرتا ہے اس کو خوف کیا اور اس میں موحد ہونے کی کونسی بات ہے.حالانکہ خلفاء کے لئے تو یہ ضروری ہے کہ خدا انہیں بناتا ہے اور ان کے خوف کو امن سے بدل دیتا ہے اور وہ خدا ہی کی عبادت کرتے ہیں اور شرک نہیں کرتے.فرمایا کہ اگر نبی کو بھی ایک شخص نہ مانے تو اس کی نبوت میں فرق نہیں آتا وہ نبی ہی رہتا ہے.یہی حال خلیفہ کا ہے اگر اس کو سب چھوڑ دیں پھر بھی وہ خلیفہ ہی ہوتا ہے کیونکہ جو حکم اصل کا ہے وہ فرع کا بھی ہے.خوب یاد رکھو کہ جو شخص محض حکومت کے لئے خلیفہ بنا ہے تو جھوٹا ہے اور اگر اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے کام کرتا ہے تو خدا کا محبوب ہے خواہ ساری دنیا اس کی دشمن ہو.( منصب خلافت انوار العلوم جلد ۲ صفحہ (۵۴،۵۳ وو (خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 201 تا 202، مطبوعہ قادیان 2005ء)...آپ لوگوں کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم انعام کی قدر کریں اور اس پر خدا کا شکر ادا کریں.خلیفہ وقت اور نظام جماعت کے ساتھ محبت اور اطاعت کا نہ ٹوٹنے والا رشتہ استوار کریں اور یہی بات آپ کا طرہ امتیاز ہونی

Page 51

۴۶ چاہئیے.اللہ کرے کہ آپ نیکی ، تقویٰ ، اخلاص اور اطاعت کا وہ عظیم الشان نمونہ بن جائیں...میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر آپ تقویٰ پر قائم رہے، اگر آپ کا خلیفہ وقت سے عشق و وفا کا تعلق رہا اور نظام جماعت اور خلافت احمد یہ سے اطاعت اور احترام آپ کے دلوں میں موجزن رہا تو آپ اللہ تعالیٰ کے ان دائمی انعامات کے ہمیشہ حقدار بنے رہیں گے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے مومن بندوں سے فرمایا ہے.اس کی برکت سے آپ کے دین و دنیا بھی سنور میں گے اور آپ کو تمکنت بھی نصیب ہوگی اور اس کی برکت سے آپ کے خوفوں کو خدا ہمیشہ امن میں بدلتا ر ہے گا.مگر عبادت اور اعمال صالحہ شرط ہیں.ان کو پیش نظر رکھیں اور خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے ہمیشہ مستعد ر ہیں تو کامیابیاں آپ کے قدم چومیں گی.اور دنیا و آخرت کی ترقیات سے آپ کو سر فراز کیا جائے گا.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ آپ کو میری ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ حقیقی رنگ میں اس مقدس بستی کا حق ادا کرنے والے بن جائیں.آمین.“ (رسالہ انصار اللہ قادیان ) ( خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی نمبر 2008 ، صفحہ 29) یا درکھیں...اگر یہ دعویٰ کیا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی خاطر خلافت سے محبت ہے تو پھر نظام جماعت جو نظام خلافت کا حصہ ہے اس کی بھی پوری اطاعت کریں.“ الفضل انٹر نیشنل 15 جولائی 2005ء) اللہ اور رسول کی اطاعت اسی میں ہے کہ نظام جماعت کی عہدیداران کی اطاعت کرو، ان کے حکموں کو ، ان کے فیصلوں کو مانو.اگر یہ فیصلے غلط ہیں تو اللہ

Page 52

۴۷ تمہیں صبر کا اجر دے گا.کیونکہ تم یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ پر معاملہ چھوڑو.تمہیں اختیار نہیں ہے کہ اپنے اختلاف پر ضد کرو.تمہارا کام صرف دو اطاعت ہے، اطاعت ہے، اطاعت ہے.“ خطبات مسر در جلد 1 صفحہ 258 تا 266) اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی غلامی اور خلافت کی اطاعت میں ہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے راستے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں.اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو بھی اس کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے...اس اخلاص اور وفا اور اطاعت کے تعلق کو بڑھاتے چلے جائیں تا کہ ہم جلد سے جلد دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو گاڑ کر دنیا میں اسلام کی حکومت قائم کر دیں.“ الفضل انٹر نیشنل 12 جون تا 18 جون 2015ء صفحہ 10) ”اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جوڑ کر پھر خلافت سے کامل اطاعت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے.یہی چیز ہے جو جماعت میں مضبوطی اور روحانیت میں ترقی کا باعث بنے گی.خلافت کی پہچان اور اُس کا صحیح علم اور ادراک اس طرح جماعت میں پیدا ہو جانا چاہیئے کہ خلیفہ وقت کے ہر فیصلے کو بخوشی قبول کرنے والے ہوں اور کسی قسم کی روک دل میں پیدا نہ ہو، کسی بات کو سن کر انقباض نہ ہو...خلیفہ وقت کی ہر صورت میں اطاعت اور نظام کی فرمانبرداری کی ایک اہمیت ہے اور ہر ایک پر یہ اہمیت واضح ہونی چاہیئے.(خطبہ جمعه فرمودہ 31 جنوری 2014ء) الفضل انٹر نیشنل 12 جون تا 18 جون 2015 ، صفحہ 10)

Page 53

۴۸ ہر فرد جماعت کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ کامل اطاعت کرے.جب ہر ایک کامل اطاعت کرے گا تو روحانی بلندیوں کی طرف ہمارے قدم انشاء اللہ بڑھیں گے.(خطبہ جمعہ فرموده 06 جون 2014ء) الفضل انٹر نیشنل 12 جون تا 18 جون 2015ء،صفحہ 11) ہر ایک کے لئے اپنی اطاعت کے ماپنے کا یہ معیار ہے کہ کیا دل میں نور پیدا ہو رہا ہے؟ اطاعت سے روح میں لذت، روشنی آرہی ہے؟ اگر ہر ایک خود اس پر غور کرے تو وہ خود ہی اپنے معیار اطاعت کو پرکھ لے گا کہ کتنی ہے.کس قدروہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر رہا ہے.کس قدر وہ رسول کی اطاعت کر رہا ہے.اور کس قدر مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم کردہ نظام خلافت کی اطاعت کر رہا ہے.اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد کوئی نور حاصل نہیں ہوتا تو آپ نے فرمایا اس کا کوئی فائدہ نہیں.حکومت وقت کی اطاعت سے امن اور سکون تو پیدا ہو گا لیکن روحانی روشنی اور لذت روحانی نظام کی اطاعت میں ہی دو ہے.(خطبہ جمعہ فرمودہ 5 دسمبر 2014ء) ((الفضل انٹر نیشنل 12 جون تا 18 جون 2015 ، صفحہ 11)...یاد رکھیں امراء بھی ، صدر ان بھی اور عہد یداران بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہد یداران بھی کہ وہ خلیفہ وقت کے مقرر کردہ انتظامی نظام کا ایک حصہ ہیں اور اس لحاظ سے خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں.اس لئے ان کی سوچ اپنے کاموں کو اپنے فرائض کو انجام دینے کے لئے اسی طرح چلنی چاہئیے جس طرح خلیفہ وقت کی.اور انہیں ہدایات پر عمل ہونا چاہیئے جو مرکزی طور پر دی جاتی ہیں.اگر اس طرح نہیں کرتے تو پھر اپنے عہدے کا حق ادا نہیں کر رہے.جو اس کے

Page 54

۴۹ انصاف کے تقاضے ہیں وہ پورے نہیں کر رہے.“ (خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 951) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نمائندگان شوری اور دوسرے کارکنان کو خلیفہ وقت کی اطاعت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:....شوری کے فیصلوں پر عملدرآمد کروانا نمائندگان شوری اور عہد یداران کا کام ہے.اور کیونکہ یہ فیصلے خلیفہ وقت سے منظور شدہ ہوتے ہیں اس لئے اگران پر عملدرآمد کروانے کی طرف پوری توجہ نہیں دی جا رہی تو غیر محسوس طریقے پر خلیفہ وقت کے فیصلوں کو تخفیف کی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں.اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اطاعت کے دائرے کے اندر نہیں رہ رہے ہوتے جبکہ جن کے سپر د ذمہ داریاں کی گئی ہیں ان کو تو اطاعت کے اعلیٰ نمونے دکھانے چاہئیں جو کہ دوسروں کے لئے باعث تقلید ہوں نمونہ ہوں.پس یہ جو خدمت کے موقعے ملے ہیں ان کو صرف عزت اور خوشی کا مقام نہ سمجھیں کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور بڑی عزت کی بات ہے ہمیں خدمت کا موقع مل گیا.اس کے ساتھ جب تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم ہوں گے تب یہ عزت اور خوشی کی بات ہوگی اور تب یہ عزت اور خوشی کے مقام بنیں گے...اللہ سب کو تقویٰ کی راہوں پر چلاتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام وہ لوگ جن کو کسی بھی رنگ میں جماعت کی خدمت کا موقع مل رہا ہے خلیفہ وقت کے دست راست بن کر رہیں.“ خطبات مسرور جلد چہارم صفحہ 165 تا 166 ، مطبوعہ قادیان 2005ء) نظام خلافت کی کامل اطاعت کے لئے یہ ضروری ہے کہ افراد جماعت نظام شوری کی افادیت کو سمجھیں تاکہ مجالس شوریٰ میں جماعت کی ترقیات کے جو منصوبے

Page 55

اپنے نمائندگان کے ذریعہ خلیفہ وقت کے پاس بھجوائیں وہ منصوبے ہمہ وجوہ سے جماعت اور سلسلے کے لئے موزوں اور مفید ہوں تا کہ پھر عملاً ان منصوبوں کے مطابق عملدرآمد ہو اور خلیفہ وقت کی اس طرح کامل رنگ میں اطاعت کی بجا آوری بھی ہو.اس سلسلہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ممبران شوری کو اپنا مقام سمجھنے اور خلیفہ وقت کی اطاعت کرنے کی تلقین کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں :.وو ” جب جماعتی معاملے میں خلیفہ وقت کی طرف سے نظام کی طرف سے بلایا جائے کہ مشورہ دو تو اس میں دیکھیں کس قدر احتیاط کی ضرورت ہے.مجلس شوریٰ میں جب بھی مشورے کے لئے بلایا جاتا ہے تو ایک بہت بڑی ذمہ داری مجلس شوری پر ڈالی جاتی ہے ،ممبران شوری پر ڈالی جاتی ہے اور ایک مقدس ادارے کا اسے ممبر بنایا جاتا ہے کیونکہ نظام خلافت کے بعد دوسرا اہم اور مقدس ادارہ جماعت میں شوری کا ادارہ ہی ہے.اور جب خلیفہ وقت اس لئے بلا رہا ہو اور احباب جماعت بھی لوگوں کو اپنے میں سے منتخب کر کے اس لئے بھیج رہے ہوں کہ جاؤ اللہ تعالیٰ کی تعلیم دنیا میں پھیلانے،احباب جماعت کی تربیت اور دوسرے مسائل حل کرنے اور خدمت انسانیت کرنے کے لئے خلیفہ وقت نے مشوروں کے لئے بلایا ہے اس کو مشورے دو تو کس قدر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے.اگر یہ تصور لے کر مجلس شوری میں بیٹھیں تو پوری طرح مجلس کی کاروائی سننے اور استغفار کرنے اور درود بھیجنے کے علاوہ کوئی دوسرا خیال ذہن میں آہی نہیں سکتا تا کہ جب بھی اس مجلس میں رائے دینے کے لئے کھڑا کیا جائے تو صحیح اور مکمل ذمہ داری کے ساتھ رائے دے سکیں کیونکہ یہ آراء خلیفہ وقت کے پاس پہنچتی ہیں اور خلیفہ وقت یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ ممبران نے بڑے غور سے سوچ سمجھ کر کسی

Page 56

۵۱ معاملے میں رائے قائم کی ہوگی اور عموما مجلس شوری کی رائے کو اس وجہ سے من و عن قبول کر لیا جاتا ہے، اسی صورت میں قبول کر لیا جاتا ہے.سوائے بعض ایسے معاملات کے جہاں خلیفہ وقت کو معین علم ہو کہ شوریٰ کا یہ فیصلہ ماننے پر جماعت کو نقصان ہوسکتا ہے اور یہ بات ایسی نہیں ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے یا اس سے ہٹ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہوئی ہے.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَشَاوِرُ هُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ علَى اللهِ (سورۃ آل عمران آیت (۱۶۰) یعنی اور ہر اہم معاملے میں ان سے مشورہ کر ( نبی کو یہ حکم ہے ) پس جب کوئی تو فیصلہ کر لے تو پھر اللہ پر توکل کر.یعنی یہاں یہ تو ہے کہ اہم معاملات میں مشورہ ضروری ہے،ضرور کرنا چاہئے اور اس حکم کے تابع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مشورہ کیا کرتے تھے بلکہ اس حد تک مشورہ کیا کرتے تھے کہ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے نہیں دیکھا.“ خطبات مسرور جلد دوم صفحه 195 تا 196) یہاں موقعہ کی مناسبت سے یہ بات واضح کرنی ضروری ہے کہ نظام شوری رسول پاک سانی پیلم کی سنت کی پیروی میں ہی قائم ہے جو کہ خلیفہ وقت کوصرف کئی معاملات میں مشورہ دے سکتی ہے جبکہ خلیفہ فیصلہ لینے میں مختار ہے.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.تاریخ میں ہے کہ جنگ بدر کے موقعے پر قیدیوں سے سلوک کے بارے میں اکثریت کی رائے رد کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت ابوبکر

Page 57

۵۲ کی رائے مانی تھی ، پھر بعض دفعہ دوسری جنگوں کے معاملات میں صحابہ کے مشورہ کو بہت اہمیت دی جنگ احد میں ہی صحابہ کے مشورے سے آپ وہاں گئے تھے ورنہ آپ پسند نہ کرتے تھے.آپ کا تو یہ خیال تھا کہ مدینہ میں رہ کر مقابلہ کیا جائے اور جب اس مشورہ کے بعد آپ ہتھیار بند ہوکر نکلے تو صحابہ کو خیال آیا کہ آپ کی مرضی کے خلاف فیصلہ ہوا ہے.عرض کی یہیں رہ کر مقابلہ کرتے ہیں.تب آپ نے فرمایا کہ نہیں نبی جب ایک فیصلہ کر لے تو اس سے پھر پیچھے نہیں ہٹتا، اب اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور چلو.پھر یہ بھی صورت حال ہوئی کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر تمام صحابہ کی متفقہ رائے تھی کہ معاہدہ پر دستخط نہ کئے جائیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کی رائے کے خلاف اس پر دستخط فرما دیئے.اور پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ نے اس کے کیسے شاندار نتائج پیدا فرمائے.تو مشورہ لینے کا حکم تو ہے تا کہ معاملہ پوری طرح نتھر کر سامنے آجائے لیکن ضروری نہیں ہے کہ مشورہ مانا بھی جائے تو آپ کی سنت کی پیروی میں ہی ہمارا نظام شوری بھی قائم ہے، خلفاء مشورہ لیتے ہیں تا کہ گہرائی میں جا کر معاملات کو دیکھا جا سکے لیکن ضروری نہیں ہے کہ شوریٰ کے تمام فیصلوں کو قبول بھی کیا جائے اس لئے ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ شوری کی کاروائی کے آخر پر معاملات زیر غور کے بارے میں جب رپورٹ پیش کی جاتی ہے تو اس پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ شوریٰ یہ سفارش کرتی ہے، یہ لکھنے کا حق نہیں ہے کہ شوری یہ فیصلہ کرتی ہے.شوریٰ کو صرف سفارش کا حق ہے.فیصلہ کرنے کا حق صرف خلیفہ وقت کو ہے.اس پر کسی کے ذہن میں یہ بھی سوال اٹھ سکتا ہے کہ پھر شوری بلانے کا یا مشورہ لینے کا فائدہ کیا ہے، آج کل کے پڑھے لکھے ذہنوں میں یہ بھی آجاتا ہے

Page 58

۵۳ تو جیسا کہ میں پہلے بھی کہ آیا ہوں کہ مجلس مشاورت ایک مشورہ دینے والا ادارہ ہے.اس کا کردار پارلیمنٹ کا نہیں ہے جہاں فیصلے کئے جاتے ہیں.آخری فیصلے کے لئے بہر حال معاملہ خلیفہ وقت کے پاس آتا ہے اور خلیفہ وقت کو ہی اختیار ہے کہ فیصلہ کرے، اور یہ اختیار اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے لیکن بہر حال عموما مشورے مانے بھی جاتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا سوائے خاص حالات کے، جن کا علم خلیفہ وقت کو ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ بعض حالات میں بعض وجوہات جن کی وجہ سے وہ مشورہ رد کیا گیا ہو ان کو خلیفہ وقت بتانا نہ چاہتا ہو ایسی بعض مجبوریاں ہوتی ہیں.تو بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مشورہ لینے کا فائدہ ہوتا ہے.کیونکہ مختلف ماحول کے مختلف قوموں کے، مختلف معاشرتی حالات کے لوگ زیادہ اور کم پڑھے لکھے لوگ مشورہ دے رہے ہوتے ہیں پھر آج کل جب جماعت پھیل گئی ہے، مختلف ملکوں کے لحاظ سے ان کے حالات کے مطابق مشورے پہنچ رہے ہوتے ہیں تو خلیفہ وقت کو ان ملکوں میں عمومی حالات اور جماعت کے معیار زندگی اور جماعت کے دینی روحانی معیار اور ان کی سوچوں کے بارے میں علم ہو جاتا ہے ان مشوروں کی وجہ سے.اور پھر جو بھی سکیم یا لائحہ عمل بنانا ہو اس کو بنانے میں مدد ملتی ہے.غرض کہ اگر ملکوں کی شوریٰ کے بعض مشورے ان کی اصلی حالت میں نہ بھی مانے جائیں تب بھی خلیفہ وقت کو دیکھنے اور سننے سے بہر حال ان کو فائدہ ہوتا ہے.مشورہ دینے والے کا بہر حال یہ فرض بنتا ہے کہ نیک نیتی سے مشورہ دے اور خلیفہ وقت کا یہ حق بھی ہے اور فرض بھی ہے کہ وہ جماعت سے مشورہ لے.خطبات مسرور جلد دوم صفحه 197 تا 199)

Page 59

۵۴ خلیفہ وقت کی بات نہ مانے کا انجام اپنے آپکو اوراپنی نسلوں کو خدا کے فضلوں اور دین سے دور کرنا ہے.اس ضمن میں حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.اگر جماعت کی قدر نہیں کریں گے اگر خلیفہ وقت کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے تو آہستہ آہستہ نہ صرف اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے فضلوں سے دور کر رہے ہوں گے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی دین سے دور کرتے چلے جائیں گے.پس غور کریں سوچیں کہ اگر یہ دنیا آپ کو دین سے دور لے جا رہی ہے تو یہ انعام نہیں ہلاکت ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بے قدری ہے.ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کی بیعت کی ہے جس کے آنے کی ہر قوم منتظر ہے.جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیار کے الفاظ استعمال کئے ہیں.جس کے لئے آنحضرت سال یا یہ ہم نے سلام بھیجا ہے.( المعجم الاوسط جلد 3 من اسمه عیسی ، حدیث نمبر 4898 صفحہ 383 تا 384.دار الفکر ، عمان اردن طبع اوّل 1999ء) تو کیا ایسے شخص کی طرف منسوب ہونا کوئی معمولی چیز ہے؟ یقینا یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو ایک احمدی کو ملا ہے.پس اس اعزاز کی قدر کرنا ہر احمدی کا فرض ہے.یہ قدر پھر ایک حقیقی احمدی کو عبد شکور بنائے گی اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر اترتے دیکھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے منسوب ہونا صرف زبانی اعلان نہیں ہے بلکہ ایک عہد بیعت ہے جو ہم نے آپ سے کیا ہے اور آپ کے بعد آپ کے نام پر خلیفہ وقت سے وہ عہد کیا ہے.اس بیعت کے مضمون کو سمجھنے کی بھی ہر احمدی کو ضرورت ہے.بیعت بیچ

Page 60

۵۵ دینے کا نام ہے.یعنی اپنی خواہشات ، تمام تر خواہشات اور جذبات کو خدا تعالیٰ کے حکموں پر قربان کرنے اور ان کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کا ایک عہد ہے.اپنی مرضی کو بالکل ختم کرنے کا نام ہے جو خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کیا جاتا ہے اور اگر اس دن پر یقین ہو جو خدا تعالیٰ سے ملنے کا دن ہے، جس دن ہر عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.“ (خطبات مسرور جلد ہشتم صفحه 191 تا192) خلافت سے وابستگی رکھنے کے تعلق سے فرماتے ہیں:.پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں.ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے.“ (روز نامہ الفضل ربوہ 30 مئی 2003ء) اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت کی نعمت سے نوازا ہے جو تمام قسم کی ترقیات کے لئے ایک بابرکت راہ ہے.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں.وحدت اور یک جہتی کے قیام کے لئے اور کامیابیوں کے حصول کے لئے خلافت کے دامن سے ہمیشہ وابستہ رہیں اور نسل درنسل اپنی اولادوں کو بھی اس نعمت عظمی سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہیں.ہمیشہ اس کی سر بلندی اور مضبوطی کے لئے کوشاں رہیں اور اس راہ میں در پیش ہر قربانی کے لئے مستعد رہیں.“ (مشعل راہ جلد 5 صفحه 32 تا33) یا درکھیں اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور حضرت مسیح موعود کے واضح

Page 61

ارشادات کی روشنی میں خلافت سے تعلق کے نتیجہ میں ہی ایمانی اور عملی ترقی ہوگی.چاہے کوئی کتنا ہی بڑا عالم یا مد بر یا بظاہر کسی روحانی مقام پر پہنچا ہوا ہو، اگر خلیفہ وقت سے تعلق کا وہ معیار نہیں جو ہونا چاہیے تو جماعتی ترقی یا کسی کی روحانی ترقی میں اس کے اس مقام کا رتی برا براثر نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ آپ سبہ کو اس بات کو اس کی گہرائی میں جا کر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.“ ( حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کامران شورٹی ( پاکستان )2014ء کے نام پیغام.بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 23 مئی 2014 ء تا 29 مئی 2014، صفحہ 1) اسی طرح ہر احمدی کا یہ کام ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو احمدیت کی طرف منسوب کرتا ہے تو ہمیشہ نظام جماعت سے مضبوط تعلق رکھے اور خلافت احمدیہ سے وفا اور اطاعت کا تعلق رکھنا اس پر فرض ہے کیونکہ یہی بیعت کرتے ہوئے عہد کیا تھا.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ نئے شامل ہونے والے ،خاص طور پر وہ جنہوں نے پورے یقین کے ساتھ علی وجہ البصیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو سمجھ کر قبول کیا وہ اپنے عہد بیعت اور اس کی شرائط پر غور بھی کرتے رہتے ہیں.بہت سارے لوگ مجھے خطوط بھی لکھتے رہتے ہیں..66 (الفضل انٹر نیشنل 30 اکتوبر 2015 ء تا5 رنومبر 2015ءصفحہ 6) آج ہر احمدی جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر مومنین کی اُس جماعت میں شامل ہو گیا ہوں جس کے ساتھ خلافت کا وعدہ ہے، اُس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہمیشہ اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرتے چلے جانے کی کوشش کرتار ہے.ہر مرد، ہر عورت ، ہر بچہ، ہر جوان یہ سوچ پیدا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت

Page 62

۵۷ کے انعام سے نوازا ہے.ہم نے اس کا اہل بنے کی حتی المقدور کوشش کرنی ہے.ہم نے اُن انعامات کے حصول کی کوشش کرنی ہے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے فرمایا ہے، جن پر خلافت کی نعمت اتاری گئی ہے.ہم نے اُن اعمال صالحہ کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.یاد رکھیں اگر آج ہم نے اپنی حالتوں کو تبدیل کرنے اور اس پر مستقل مزاجی سے قائم رہنے کی طرف توجہ نہ دی تو ہٹتے ہٹتے اتنی دور چلے جائیں گے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی اور نتیجہ پھر اُس انعام کے بھی مستحق نہیں ٹھہریں گے جو خلافت سے وابستہ ہے اور نہ صرف خود محروم ہورہے ہوں گے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی محروم کر رہے ہوں گے...آج ہمارا فرض ہے اور آج ہم نے اس ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے ، اس نعمت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی نسلوں میں اس کی اہمیت کو قائم کرنا ہے.اپنی نسلوں سے یہ عہد لینا ہے کہ چاہے جس طرح بھی ہو ، جان، مال، وقت اور اپنے نفس کی قربانی دیتے ہوئے خلافت احمدیہ کی حفاظت کرنی ہے اور ہمیشہ کرتے چلے جانا ہے.اور اپنی نسل میں اپنی قوم اور دنیا میں اسلام اور احمدیت کے پیغام کو پہنچانے کی کوشش کرتے چلے جانا ہے...66 الفضل انٹر نیشنل 24 مئی 2013 ء تا 30 مئی 2013 ، صفحہ 8) ”آپ میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ دعاؤں پر بہت زور دے اور اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھے اور یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھے کہ ساری ترقیات اور کامیابیوں کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی ہے.وہی شخص سلسلہ کا مفید وجود بن سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ دنیا بھر

Page 63

۵۸ کے علم جانتا ہو اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں.جب تک آپ کی عقلیں اور تدبیر میں خلافت کے ماتحت رہیں گی اور آپ اپنے امام کے پیچھے پیچھے اس کے اشاروں پر چلتے رہیں گے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت آپ کو حاصل رہے گی.“ روزنامه الفضل 30 مئی 2003، صفحہ (2) خلافت کے ساتھ تعاون کرنے کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کے حوالہ سے حضرت خلیفہ اصیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.ایک خطبہ میں اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرتبیان اور علماء کو ایک بڑی اہم نصیحت فرمائی تھی.انہوں نے فرمایا کہ ہر مومن جو دین کا درد اور سلسلہ سے اخلاص رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا سلسلہ نیک نامی کے ساتھ دنیا میں قائم رہے اور اسلام کو وہی عزت پھر حاصل ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئی تھی اور اس کام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوششیں باطل اور رائیگاں نہ جائیں تو اس کا فرض ہے کہ خلیفہ کے ساتھ دن رات تعاون کر کے اس کام میں لگ جائے کہ ذہنی طور پر بھی جماعت کی اصلاح ہو جائے.ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ جس طرح شادی کے موقع پر لوگ اپنی جھولیاں پھیلا دیتے ہیں ( بعض جگہوں پر رواج ہوتا ہے چھوارے بانٹے جاتے ہیں اور لوگ اپنی جھولیاں پھیلا دیتے ہیں) کہ اس میں چھوارے گریں.اسی طرح جب خلیفہ جماعت کی اصلاح کے لئے کچھ کہے تو اسے لیں اور افراد جماعت کے سامنے اسے دہرائیں اور دہرائیں اور دہرائیں حتی کہ کند ذہن آدمی بھی سمجھ جائے اور دین پر صحیح طور پر چلنے کے لئے رستہ پالے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 18 صفحہ 214-215)‘“ الفضل انٹر نیشنل 19 جون تا 25 جون 2015ء صفحہ 8)

Page 64

۵۹ یہ خلافت کی ہی نعمت ہے جو جماعت کی جان ہے اس لئے اگر زندگی چاہتے ہیں تو خلافت احمدیہ کے ساتھ اخلاص اور وفا کے ساتھ چمٹ جائیں، پوری طرح سے وابستہ ہو جائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے.ایسے بن جائیں کہ خلیفہ وقت کی رضا آپ کی رضا ہو جائے.خلیفہ وقت مطر کے قدموں پر آپ کا قدم اور خلیفہ وقت کی خوشنودی آپ کا سمح نظر ہو جائے.“ (ماہنامہ خالد سید ناطاہر نمبر مارچ اپریل 2004ء صفحہ 4) ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہیئے کہ...استحکام خلافت کے لئے دعائیں کریں تا کہ خلافت کی برکات آپ میں ہمیشہ رہیں...اپنے اندر خاص تبدیلیاں پیدا کریں.پہلے سے بڑھ کر ایمان و اخلاص میں ترقی کریں...اب احمدیت کا 66 علمبر دار وہی ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہے اور خلافت سے چمٹارہنے والا ہے.خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مئی 2005ء) اسلام ، احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کے لئے آخر دم تک جد و جہد کرنی ہے اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا ہے.اور اپنی اولاد کو ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہنا ہے.اور ان کے دلوں میں خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنی ہے.یہ اتنا بڑا اور عظیم الشان نصب العین ہے کہ اس عہد پر پورا اترنا اور اس کے تقاضوں کو نبھانا ایک عزم اور دیوانگی چاہتا ہے.“ (ماہنامہ الناصر جرمنی جون تا ستمبر 2003 صفحہ (1) یا درکھیں وہ سچے وعدوں والا خدا ہے.وہ آج بھی اپنے پیارے مسیح کی اس پیاری جماعت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے.وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی

Page 65

نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا.وہ آج بھی اپنے مسیح سے کئے ہوئے وعدوں کو اسی طرح پورا کر رہا ہے جس طرح وہ پہلی خلافتوں میں کرتا رہا ہے.وہ آج بھی اسی طرح اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نواز رہا ہے.جس طرح پہلے وہ نوازتا رہا ہے اور انشاء اللہ نوازتا رہے گا...بس دعائیں کرتے ہوئے اور اس کی طرف جھکتے ہوئے اور اس کا فضل مانگتے ہوئے ہمیشہ اس کے آستانہ پر پڑے رہیں اور اس مضبوط کڑے کو ہاتھ ڈالے رکھیں.تو پھر کوئی بھی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.“ (ارشاد حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ الہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرموده 21 مئی 2004 ء) در حقیقت ایک حقیقی احمدی کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ خلیفہ وقت کے ہر فرمودہ کو تو جہ سے سنے کیونکہ یہ آواز ایک سچے مومن کی کایا پلٹتی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور اس کی برکات مضمر ہوتی ہیں.چنانچہ خلیفہ وقت اللہ تعالیٰ کے خاص اذن سے بولتا ہے.معارف اس کی زبان پر جاری کئے جاتے ہیں جن سے کہ دنیا محروم ہوتی ہے اور ڈھونڈنے سے نہیں مل سکتے.وہ عین ضرورت اور منشاء الہی کے مطابق مومنین کو دعوت عمل دیتا ہے اور اس طرح وہ سانچہ ایک خلیفہ ہی بنا سکتا ہے جس میں پھر صلاحیت کے ساتھ عمل ڈھل سکتے ہیں.ہمہ وجوہ ترقیات کی راہیں وقت کے خلیفہ کی ہدایات کی بدولت ہی صحیح طور پر طے کی جاسکتی ہیں.لہذا خلیفہ وقت کے پر معارف خطبات ، خطابات، کلاسز ، پیغامات کو با قاعدگی اور توجہ سے خودسننا، بچوں کو سنانا، اہل وعیال کو سنانا اور دیگر دوست رشتہ داروں اور حلقہ احباب کو تحریک کرنا ہر ایک احمدی مرد و عورت کا فرض ہے.اسی سے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ خلیفہ وقت کیا فرما رہا ہے ، وہ ہم سے کیا چاہتا ہے، ہم سے کیا توقعات رکھتا ہے وغیرہ؟ جو شخص ان ارشادات اور ہدایات کو اہتمام کے

Page 66

۶۱ ساتھ نہیں سنتا وہ کامل طور پر اطاعت کی سعادت سے محروم ہے جو دونوں جہاں میں نا قابل تلافی نحسر ان پر منتج ہوتا ہے!! ایک حقیقی مومن کے شایان شان تو صرف اطاعت خلافت ہے ؛ اُس کا اوڑھنا بچھونا خلافت سے وفاداری اور وابستگی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہی تو سر ہے.اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے.پیغمبر خدا صلی اسلام کے زمانہ میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے.خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی.وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بارگراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ اُن میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی مگر رسول کریم سال اسلام کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کچھ فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا صلی الہیم نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا...ناسمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا مگر میں کہتا ہوں یہ صحیح نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہن نکلی تھیں.یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا...تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزور کھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا

Page 67

۶۲ 66 کرو.اطاعت ہو تو ویسی ہو.باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو.غرض ہر رنگ میں ، ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 2 صفحہ 246 تا 248 تفسير سورة النساء زیر آیت 60) پس اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم نعمت خلافت کی کما حقہ قدر کرنے والے ہوں اور ہم اپنے عہد کو پورا کر سکیں اور زندگی کے آخری سانس تک وفا کے ساتھ خلافت سے چھٹے رہیں تا کہ یہ نعمت نسل در نسل ہمیں نصیب رہے.آمین ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ بھی تو فیق دے کہ خلافت کی باتوں کو نہ صرف سننے والے ہوں بلکہ عمل کرنے والے بھی ہوں.اللہ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہم خلافت کے انعام کو سنبھالنے والے ہوں.

Page 68

۶۳ خلافت کا فیضان خُدا کا یہ احسان ہے ہم پہ بھاری کہ جس نے ہے اپنی یہ نعمت اُتاری نہ مایوس ہونا گھٹن ہو نہ طاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری نبوت کے ہاتھوں جو پودا لگا ہے خلافت کے سائے میں پھولا پھلا ہے یہ کرتی ہے اس باغ کی آبیاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری خلافت سے کوئی بھی ٹکر جو لے گا وہ ذلت کی گہرائی میں جاگرے گا خدا کی یہ سنت ازل سے ہے جاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری خدا کا ہے وعدہ خلافت رہے گی یہ نعمت تمہیں تاقیامت ملے گی مگر شرط اس کی اطاعت گزاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری محبت کے جذبے وفا کا قرینہ اخوت کی نعمت ،ترقی کا زینہ خلافت سے ہی برکتیں ہیں یہ ساری رہے گا خلافت کا فیضان جاری الہی ہمیں تو فراست عطا کر خلافت سے گہری محبت عطا کر ہمیں دکھ نہ دے کوئی لغزش ہماری رہے گا خلافت کا فیضان جاری ( محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ )

Page 68