Khilafat Haqa Islamia

Khilafat Haqa Islamia

خلافت حقّہ اسلامیہ

تقریر جلسہ سالانہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۵۶ء؁
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
خلافت اسلامیہ احمدیہ

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 27 دسمبر 1956ء کو جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر یہ بصیرت افروز تقریر فرمائی جس میں آپ ؓ نے خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے آئندہ ہمیشہ جاری رہنے  اور استحکام خلافت اور انتخاب خلافت کے متعلق طریق کار کو بڑی ہی عمدگی، خوش اسلوبی اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اس کتاب کا موجودہ دیدہ زیب ، ٹائپ شدہ ایڈیشن نظارت نشر و اشاعت قادیان کا شائع کردہ ہے۔


Book Content

Page 1

خلافت حقه اسلاميه کام کی ترقی سے اور ان کا آنا تمہارے اعوذ بالله من الشيطان الرجيم وعد الذين امنوا منكم وَعَمِلُوا الصبحي لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الأرض كمَا اسْتَخلَفَ لدين من قبلهم وَلَيَنكُن هُمْ دِيهُمُ الذي ارتضی نهم من بعد خوفهة أمناً ولي لا يشركون في شما وبعد ذلك ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 2

خلافت حقہ اسلامیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمداحمدخلیفہ امسح الثانی رضی اللہ عنہ الناشر نظارت نشر واشاعت قادیان

Page 3

خلافت حقہ اسلامیہ حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ السیح الثانی 2007ء ،تعداد 2000 مئی 2014ء ، تعداد 3000 دسمبر 2015ء ،تعداد 1000 نظارت نشر و اشاعت قادیان - 143516 ضلع گورداسپور.پنجاب (بھارت) فضل عمر پر نٹنگ پریس قادیان : : نام کتاب تقریر طبع اول : طبع دوم : حالیہ اشاعت : ناشر : ISBN: 978-81-7912-138-0 مطبع Khilafate Haqqa Islamiyah Speech delivered by: Hadhrat Mirza Bashiruddin Mahmud Ahmad Khalifatul Masih II (ra)

Page 4

بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ نے احیاء اسلام کے لئے اس زمانہ میں بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور حضرت محمد مصطفی سلی لی ایم کی اتباع اور کامل پیروی کے نتیجہ میں آپ کو امتی نبوت کا منصب عطا کیا اور اپنے وعدہ کے مطابق جماعت احمدیہ میں خلافت علی منھاج النبوۃ کے نظام کو جاری فرمایا.خلافت وہ بابرکت روحانی نظام ہے جس کے قیام کی بشارت ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی سالی تم نے دی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اللہ تعالیٰ خلافت علی منھاج النبوۃ کو قائم کرے گا جس کا سلسلہ دائمی ہوگا تا قیامت منقطع نہیں ہوگا.خدائے ذوالمنن کا یہ احسان ہے کہ اس نے مسلمانوں کی 1400 سالہ طویل محرومی کے بعد امام مہدی کے ذریعہ خلافت علی منھاج النبوۃ کی یہ نعمت جاری فرمائی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ 72 فرقوں کے مقابل پر یہی وہ واحد جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس انعام کی مستحق اور صراط مستقیم پر گامزن ہے.سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحم خلف المي الثاني لمصلح الموعودرضی الله تعالى عنہ نے 27 دسمبر 1956ء کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خلافت حقہ اسلامیہ “ کے عنوان پر بصیرت افروز تقریر فرمائی جس میں آپ نے خلافت احمدیہ کے آئندہ ہمیشہ جاری رہنے اور استحکام خلافت اور انتخاب خلافت کے متعلق طریق کار کو بڑی ہی عمدگی ، خوش اسلوبی اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے.

Page 5

سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے نظارت نشر و اشاعت قادیان اس اہم تقریر کو افادہ عام کے لئے ایک بار پھر شائع کر رہی ہے.الحمد للہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی اشاعت کو ہر لحاظ سے بابرکت بنائے اور خلافت کی اہمیت و برکات اور خلیفتہ اسیح کے مقام و مرتبہ کو پہچاننے اور خلافت کے فدائی بننے کی ہم سب کو توفیق وسعادت عطا فرمائے.آمین خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 6

أعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمُدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر خلافت حقہ اسلامیہ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا ! قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنَا يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ.(النور: ۵۶) اس آیت کے متعلق تمام پچھلے مفترین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت خلافت اسلامیہ کے متعلق ہے.اسی طرح صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) اور کئی خلفاء راشدین بھی اس کے متعلق گواہی دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنی کتابوں میں اس آیت کو پیش کیا ہے.اور بتایا ہے کہ یہ آیت خلافت اسلامیہ کے متعلق ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اے خلافت حقہ اسلامیہ پر ایمان رکھنے والے مومنو! (چونکہ یہاں خلافت لے یہ تقریر حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جلسہ سالانہ 1956ء کے موقعہ پر 27 دسمبر کوفرمائی تھی.

Page 7

خلافت حقہ اسلامیہ 2 کا ذکر ہے.اس لئے ا مَنُوا میں ایمان لانے سے مراد ایمان بالخلافت ہی ہوسکتا ہے.پس یہ آیت مبائعین کے متعلق ہے.غیر مبائعین کے متعلق نہیں کیونکہ وہ خلافت پر ایمان نہیں رکھتے ) اور اے خلافت حقہ اسلامیہ کو قائم رکھنے اور اس کے حصول کیلئے کوشش کرنے والو! تم سے اللہ ایک وعدہ کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم تم میں سے زمین میں اسی طرح خلفاء بناتے رہیں گے جس طرح تم سے پہلے لوگوں کو خلفاء بنایا اور ہم انکے لئے اسی دین کو جاری کریں گے جو ہم نے ان کیلئے پسند کیا ہے.یعنی جو ایمان اور عقیدہ ان کا ہے وہی خدا کو پسندیدہ ہے اور اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اسی عقیدہ اور طریق کو دنیا میں جاری رکھے گا.اور اگر ان پر کوئی خوف آیا تو ہم اس کو تبدیل کر کے امن کی حالت لے آئیں گے لیکن ہم بھی ان سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ تو حید کو دنیا میں قائم کریں گے اور شرک نہیں کریں گے.یعنی مشرک مذاہب کی تردید کرتے رہیں گے اور اسلام کی توحید حقہ کی اشاعت کرتے رہیں گے.خلافت کے قائم ہونے کے بعد خلافت پر ایمان لانے والے لوگوں نے خلافت کو ضائع کر دیا.تو فرماتا ہے مجھ پر الزام نہیں ہوگا اس لئے کہ میں نے ایک وعدہ کیا ہے.اور شرطیہ وعدہ کیا ہے، اس خلافت کے ضائع ہونے پر الزام تم پر ہوگا.میں اگر پیشگوئی کرتا تو مجھ پر الزام ہوتا کہ میری پیشگوئی جھوٹی نکلی.مگر میں نے پیشگوئی نہیں کی بلکہ میں نے تم سے وعدہ کیا ہے اور شرطیہ وعدہ کیا ہے کہ اگر تم مومن بالخلافہ ہو گے اور اس کے مطابق عمل کرو گے تو پھر میں خلافت کو تم میں قائم رکھوں گا.پس اگر خلافت تمہارے ہاتھوں سے نکل گئی تو یاد رکھو کہ تم مومن بالخلافۃ نہیں رہو گے کا فر بالخلافہ ہو جاؤ گے اور نہ صرف خلفاء کی اطاعت سے نکل جاؤ گے بلکہ میری اطاعت سے بھی نکل جاؤ گے اور میرے بھی باغی بن جاؤ گے.” خلافت حقہ اسلامیہ کے عنوان کی وجہ :: میں نے اس مضمون کا ہیڈ نگ ” خلافت حقہ اسلامیہ اسلئے رکھا ہے کہ جس طرح موسوی

Page 8

خلافت حقہ اسلامیہ 3 زمانہ میں خلافت موسویہ یہود یہ دوحصوں میں تقسیم تھی، ایک دور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسی علیہ السلام تک تھا.اور ایک دور حضرت عیسی علیہ السلام سے لیکر آج تک چلا آ رہا ہے اسی طرح اسلام میں بھی خلافت کے دو دور ہیں.ایک دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شروع ہوا.اور اس کی ظاہری شکل حضرت علی رضی اللہ عنہ پرختم ہوگئی اور دوسرا دور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے شروع ہوا.اور اگر آپ لوگوں میں ایمان اور عمل صالح قائم رہا اور خلافت سے وابستگی پختہ ہی تو انشاء اللہ یہ دور قیامت تک رہے گا.جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کی تشریح میں میں ثابت کر چکا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایمان بالخلافتہ قائم رہا اور خلافت کے قیام کیلئے تمہاری کوشش جاری رہی تو میرا وعدہ ہے کہ تم میں سے ( یعنی مومنوں میں سے اور تمہاری جماعت میں سے ) میں خلیفہ بناتا رہوں گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے متعلق احادیث میں تصریح فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں.مَا كَانَتْ نَبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَبعَتْهَا خِلَافَة“ (جامع الصغير للسيوطى) کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے.اور میرے بعد بھی خلافت ہوگی.اس کے بعد ظالم حکومت ہوگی پھر جابر حکومت ہوگی.یعنی غیر قو میں آکر مسلمانوں پر حکومت کریں گی جو ز بر دستی مسلمانوں سے حکومت چھین لیں گی.اس کے بعد فرماتے ہیں کہ پھر خلافت علی منھاج النبوة ہوگی.یعنی جیسے نبیوں کے بعد خلافت ہوتی ہے ویسی ہی خلافت پھر جاری کر دی جائے گی.( مشکوۃ باب الانذار والتحذير ) نبیوں کے بعد خلافت کا ذکر قرآن کریم میں دو جگہ آتا ہے ایک تو یہ ذکر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خلافت اس طرح دی کہ کچھ ان میں سے موسیٰ علیہ السلام کے تابع نبی بنائے اور کچھ ان میں سے بادشاہ بنائے اب نبی اور بادشاہ بنانا تو خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے ہمارے اختیار میں نہیں.لیکن جو تیسرا امر خلافت کا ہے وہ اس حیثیت سے کہ

Page 9

خلافت حقہ اسلامیہ 4 خدا تعالیٰ بندوں سے کام لیتا ہے ہمارے اختیار میں ہے چنانچہ عیسائی اس کے لئے انتخاب کرتے ہیں اور اپنے میں سے ایک شخص کو بڑا مذہبی لیڈر بنا لیتے ہیں.جس کا نام وہ پوپ رکھتے ہیں.گو پوپ اور پوپ کے متبعین اب خراب ہو گئے ہیں مگر اس سے یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ پھر اُن سے مشابہت کیوں دی ؟ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ جس طرح پہلے لوگوں کو میں نے خلیفہ بنایا تھا.اسی طرح میں تمہیں خلیفہ بناؤں گا.یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں خلافت قائم کی گئی تھی اُسی طرح تمہارے اندر بھی اس حصہ میں جو موسوی سلسلہ کے مشابہ ہوگا میں خلافت قائم کروں گا.یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت براہ راست چلے گی.پھر جب مسیح موعود آ جائے گا تو جس طرح مسیح ناصرٹی کے سلسلہ میں خلافت چلائی گئی تھی.اسی طرح تمہارے اندر بھی چلاؤں گا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ موسیٰ کے سلسلہ میں مسیح آیا اور محمدی سلسلہ میں بھی مسیح آیا.مگر محمدی سلسلہ کا مسیح پہلے مسیح سے افضل ہے.اس لئے وہ غلطیاں جو انہوں نے کیس وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے محمدی مسیح کی جماعت نہیں کرے گی.انہوں نے خدا کو بھلا دیا.اور خدا تعالیٰ کو بھلا کر ایک کمزور انسان کو خدا کا بیٹا بنا کر پوجنے لگ گئے.مگر محمدی مسیح نے اپنی جماعت کو شرک کے خلاف بڑی شدت سے تعلیم دی ہے بلکہ خود قرآن کریم نے کہہ دیا ہے کہ اگر تم خلافت حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر شرک کبھی نہ کرنا.اور میری خالص عبادت کو ہمیشہ قائم رکھنا جیسا کہ يَعْبُدُونَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْئًا میں اشارہ کیا گیا ہے.پس اگر جماعت اس کو قائم رکھے گی تبھی وہ انعام پائے گی.اور اس کی صورت یہ بن گئی ہے کہ قرآن کریم نے بھی شرک کے خلاف اتنی تعلیم دی کہ جس کا ہزارواں حصہ بھی انجیل میں نہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی شرک کے خلاف اتنی تعلیم دی ہے جو حضرت مسیح ناصری کی موجودہ تعلیم میں نہیں پائی جاتی.پھر آپ کے الہاموں میں بھی یہ

Page 10

خلافت حقہ اسلامیہ 50 تعلیم پائی جاتی ہے چنانچہ آپ کا الہام ہے.خُذُوا التَّوْحِيْدَ التَّوْحِيْدَ يَا أَبْنَاءَ الْفَارِسِ ( تذکره طبع اوّل ص ۱۳۲) اے مسیح موعود اور اس کی ذریت ! تو حید کو ہمیشہ قائم رکھوسواس سلسلہ میں خدا تعالیٰ نے توحید پر اتنا زور دیا ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے اور قرآنی تعلیم پر غور کرتے ہوئے یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے توحید کامل احمدیوں میں قائم رکھے گا.اور اس کے نتیجہ میں خلافت بھی ان کے اندر قائم رہے گی.اور وہ خلافت بھی اسلام کی خدمت گذار ہوگی.حضرت مسیح ناصری کی خلافت کی طرح وہ خود اس کے اپنے مذہب کو توڑنے والی نہیں ہوگی.جماعت احمدیہ میں خلافت قائم رہنے کی بشارت :: میں نے بتایا ہے کہ جس طرح قرآن کریم نے کہا ہے کہ خلیفے ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ میرے بعد خلیفے ہوں گے.پھر مُلْكًا عَاضًا ہوگا.پھر ملک جبریہ ہوگا.اور اس کے بعد خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النَّبُوَّةِ ہوگی.(مشکوۃ باب الانذار والتحذير ) اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ ” اے عزیز و! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر د یوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو.اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں.کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے.کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا (الوصیت ص ۶.۷)

Page 11

خلافت حقہ اسلامیہ 6 یعنی اگر تم سیدھے راستہ پر چلتے رہو گے تو خدا کا مجھ سے وعدہ ہے کہ جو دوسری قدرت یعنی خلافت تمہارے اندر آوے گی وہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگی.عیسائیوں کو دیکھ لوگ جھوٹی خلافت ہی سہی انیس سو سال سے وہ اس کو لئے چلے آرہے ہیں.مگر مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کو ابھی اڑتالیس سال ہوئے تو کئی بلیاں چھچھڑوں کی خواہیں دیکھنے لگیں.اور خلافت کو توڑنے کی فکر میں لگ گئیں.پھر فرماتے ہیں کہ تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعائیں کرتے رہو.(الوصیت ص۷) سوتم کو بھی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے ماتحت دعائیں کرتے رہو.کہ اے اللہ ! ہم کو مومن بالخلافت رکھیں.اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دیجیو.اور ہمیں ہمیشہ اس بات کا مستحق رکھیو کہ ہم میں سے خلیفے بنتے رہیں.اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے تا کہ ہم ایک جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو کر اور ایک صف میں کھڑے ہو کر اسلام کی جنگیں ساری دُنیا سے لڑتے رہیں اور پھر ساری دنیا کو فتح کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں گرادیں.کیونکہ یہی ہمارے قیام اور مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض ہے.قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہے:: یہ جو میں نے قدرت ثانیہ کے معنے خلافت کے کئے ہیں یہ ہمارے ہی نہیں بلکہ غیر مبائعین نے بھی اس کو تسلیم کیا ہوا ہے.چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب لکھتے ہیں:.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدر انجمن احمد یہ موجودہ قادیان واقرباء حضرت مسیح موعود با اجازت حضرت ام المومنین کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعدا د اس وقت بارہ سوتھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ

Page 12

خلافت حقہ اسلامیہ 7 کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیع کی....یہ خط بطور اطلاع کل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے (الخ) ( بدر ۲ جون ۱۹۰۸ء) یہ خط ہے جو انہوں نے شائع کیا.اس میں مولوی محمد علی صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب وغیرہ کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے کہ معتمدین میں سے وہ اس موقعہ پر موجود تھے اور انہوں نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی بیعت کی.سو ان لوگوں نے اس زمانہ میں یہ تسلیم کر لیا کہ یہ جو قدرت ثانیہ کی پیشگوئی تھی یہ خلافت کے متعلق تھی.کیونکہ الوصیت میں سوائے اس کے اور کوئی ذکر نہیں کہ تم ” قدرت ثانیہ کے لئے دُعائیں کرتے رہو اور خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ مطابق حکم الوصیت“ ہم نے بیعت کی.پس خواجہ صاحب کا اپنا اقرار موجود ہے کہ ” الوصیت میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ ” خلافت کے متعلق تھی.اور قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہی ہے.پس حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر خواجہ کمال الدین صاحب ، مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کا بیعت کرنا اور اسی طرح میرا اور تمام خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیعت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام جماعت احمدیہ نے بالاتفاق خلافتِ احمدیہ کا اقرار کر لیا.پھر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول کے تمام خاندان اور جماعت احمدیہ کے نانوے فیصدی افراد کا میرے ہاتھ پر بیعت کر لینا اس بات کا مزید ثبوت ہوا کہ جماعت احمدیہ اس بات پر متفق ہے.کہ خلافت احمدیہ کا سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا.آئندہ انتخاب خلافت کے متعلق طریق کار :: چونکہ اس وقت حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے خاندان میں سے بعض نے اور اُن کے دوستوں نے خلافت احمدیہ کا سوال پھر اٹھایا ہے.اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ اس مضمون کے متعلق پھر روشنی ڈالوں.اور جماعت کے سامنے ایسی تجاویز پیش کروں جن سے خلافت احمد یہ شرارتوں سے محفوظ ہو جائے.

Page 13

خلافت حقہ اسلامیہ 8 میں نے اس سے پہلے جماعت کے دوستوں سے مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ خلیفہ وقت کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ کی مجلس شوری دوسرا خلیفہ چنے.مگر موجودہ فتنہ نے بتا دیا ہے کہ یه طریق درست نہیں.کیونکہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ہم خلیفہ ثانی کے مرنے کے بعد بیعت میاں عبد المنان کی کریں گے اور کسی کی نہیں کریں گے.اس سے پتہ لگا کہ ان لوگوں نے یہ سمجھا کہ صرف دو تین آدمی ہی اگر کسی کی بیعت کر لیں تو وہ خلیفہ ہو جاتا ہے.اور پھر اس سے یہ بھی پتہ لگا کہ جماعت میں خلفشار پیدا ہوسکتا ہے.چاہے وہ خلفشار پیدا کرنے والا غلام رسول نمبر 35 جیسا ہی آدمی ہو.اور خواہ وہ ڈاہڈا جیسا گمنام آدمی ہی ہو.وہ دعوئی تو یہی کریں گے کہ خلیفہ چنا گیا ہے.سو جماعت احمدیہ میں پریشانی پیدا ہوگی.اس لئے وہ پرانا طریق جو طول عمل والا ہے.میں اس کو منسوخ کرتا ہوں.اور اس کی بجائے میں اس سے زیادہ قریبی طریقہ پیش کرتا ہوں بے شک ہمارا دعویٰ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے مگر اس کے باوجود تاریخ کی اس شہادت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفے شہید بھی ہو سکتے ہیں جس طرح حضرت عمر.حضرت عثمان اور حضرت علی شہید ہوئے.اور خلافت ختم بھی کی جاسکتی ہے.جس طرح حضرت حسن کے بعد خلافت ختم ہوگئی.جو آیت میں نے اس وقت پڑھی ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں خلافت قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ مشروط ہے.کیونکہ مندرجہ بالا آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلافت پر ایمان لانے والوں اور اس کے قیام کیلئے مناسب حال عمل کرنے والے لوگوں سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان میں خلافت کو قائم رکھے گا.پس خلافت کا ہونا ایک انعام ہے.پیشگوئی نہیں.اگر پیشگوئی ہوتا تو حضرت امام حسن کے بعد خلافت کا ختم ہونا نعوذ باللہ قرآن کریم کو جھوٹا قرار دیتا.لیکن چونکہ قرآن کریم نے اس کو ایک مشروط انعام قرار دیا ہے.اس لئے اب ہم یہ کہتے ہیں کہ چونکہ امام حسنؓ کے زمانہ میں عام مسلمان کامل مومن نہیں رہے تھے اور خلافت کے قائم رکھنے کیلئے صحیح کوشش انہوں نے چھوڑ دی

Page 14

خلافت حقہ اسلامیہ 9 تھی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس انعام کو واپس لے لیا.اور باوجود خلافت کے ختم ہو جانے کے قرآن سچا رہا جھوٹا نہیں ہوا.وہی صورت اب بھی ہوگی.اگر جماعت احمد یہ خلافت کے ایمان پر قائم رہی اور اس کے قیام کیلئے صحیح جد و جہد کرتی رہی تو اس میں بھی قیامت تک خلافت قائم رہے گی.جس طرح عیسائیوں میں پوپ کی شکل میں اب تک قائم ہے گو وہ بگڑ گئی ہے میں نے بتا دیا ہے کہ اس کے بگڑنے کا احمدیت پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا.مگر بہر حال اس فساد سے اتنا پتہ لگ جاتا ہے کہ شیطان ابھی مایوس نہیں ہوا.پہلے تو شیطان نے پیغامیوں کی جماعت بنائی لیکن بیالیس سال کے انتظار کے بعد اس باسی کڑھی میں پھر اُبال آیا اور وہ بھی لگے مولوی عبد المنان اور عبد الوہاب کی تائید میں مضمون لکھنے اور ان میں سے ایک شخص محمد حسین چیمہ نے بھی ایک مضمون شائع کیا ہے کہ ہمارا نظام اور ہمار ا سٹیج اور ہماری جماعت تمہاری مدد کیلئے تیار ہے شاباش ! ہمت کر کے کھڑے رہو.مرزا محمود سے دینا نہیں.اس کی خلافت کے پردے چاک کر کے رکھ دو.ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے.کوئی اس سے پوچھے کہ تم نے مولوی محمد علی صاحب کو کیا مدد دے لی تھی.آخر مولوی محمد علی صاحب بھی تمہارے لیڈر تھے.خواجہ کمال الدین صاحب بھی لیڈر تھے ان کی تم نے کیا مددکر لی تھی جو آج عبدالمنان اور عبد الوہاب کی کر لو گے.پس یہ باتیں محض ڈھکونسلے ہیں.ان سے صرف ہم کو ہوشیار کیا گیا ہے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مطمئن نہ ہو جانا اور یہ نہ سمجھنا کہ خدا تعالیٰ چونکہ خلافت قائم کیا کرتا ہے.اس لئے کوئی ڈر کی بات نہیں ہے تمہارے زمانہ میں بھی فتنے کھڑے ہورہے ہیں اور اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی فتنے کھڑے ہوئے تھے.اسلئے خلافت کو ایسی طرز پر چلاؤ جو زیادہ آسان ہو اور کوئی ایک دو لفنگے اٹھ کر اور کسی کے ہاتھ پر بیعت کر کے یہ نہ کہہ دیں کہ چلو خلیفہ مقرر ہو گیا ہے.پس اسلامی طریق پر جو کہ میں آگے بیان کروں گا آئندہ خلافت کیلئے میں یہ قاعدہ منسوخ کرتا ہوں کہ شوری انتخاب کرے بلکہ میں یہ قاعدہ مقرر کرتا ہوں کہ آئندہ جب کبھی خلافت کے انتخاب کا وقت آئے تو صدر انجمن احمدیہ کے

Page 15

خلافت حقہ اسلامیہ 10 ناظر اور ممبر اور تحریک جدید کے وکلاء اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے زندہ افراد اور اب نظر ثانی کرتے وقت میں یہ بات بھی بعض دوستوں کے مشورہ سے زائد کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ بھی جن کوفوراً بعد تحقیقات صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ صحابیت کا ٹیفکیٹ دیدے اور جامعتہ المبشرین کا پرنسپل اور جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمدیہ اور تمام جماعت ہائے پنجاب اور سندھ کے ضلعوں کے امیر اور مغربی پاکستان اور کراچی کا امیر اور مشرقی پاکستان کا امیر مل کر اس کا انتخاب کریں.اسی طرح نظر ثانی کرتے وقت میں یہ امر بھی بڑھاتا ہوں کہ ایسے سابق امراء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیر رہ چکے ہوں.گو انتخاب کے وقت بوجہ معذوری کے امیر نہ رہے ہوں.وہ بھی اس لسٹ میں شامل کئے جائیں.اسی طرح ایسے تمام مبلغ جو ایک سال تک غیر ملک میں کام کر آئے ہیں.اور بعد میں سلسلہ کی طرف سے ان پر کوئی الزام نہ آیا ہو.ایسے مبلغوں کی لسٹ شائع کرنا مجلس تحریک کا کام ہوگا.اسی طرح ایسے مبلغ جنہوں نے پاکستان کے کسی ضلع یا صوبہ میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم سے کم ایک سال کام کیا ہو.ان کی فہرست بناناصدرانجمن احمدیہ کے ذمہ ہوگا.مگر شرط یہ ہوگی کہ اگر وہ موقعہ پر پہنچ جائیں.سیکرٹری شوری تمام ملک میں اطلاع دیدے کہ فوراً پہنچ جاؤ.اس کے بعد جو نہ پہنچے اس کا اپنا قصور ہوگا.اور اس کی غیر حاضری خلافت کے انتخاب پر اثر انداز نہیں ہوگی.نہ یہ عذر سنا جائے گا کہ وقت پر اطلاع شائع نہیں ہوئی.یہ ان کا اپنا کام ہے کہ وہ پہنچیں.سیکرٹری شوری کا کام ان کو لانا نہیں ہے.اس کا کام صرف یہ ہوگا کہ وہ ایک اعلان کر دے اور اگر سیکر ٹری شوری کہے کہ میں نے اعلان کر دیا تھا تو وہ انتخاب جائز سمجھا جائے گا ان لوگوں کا یہ کہہ دینا یا ان میں سے کسی کا یہ کہہ دینا کہ مجھے اطلاع نہیں پہنچ سکی.اس کی کوئی وقعت نہیں ہوگی.نہ قانونا نہ شرعاً یہ سب لوگ مل کر جو فیصلہ کریں گے وہ تمام جماعت کیلئے قابل قبول ہوگا.اور جماعت میں سے جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ باغی ہوگا.اور جب بھی انتخاب

Page 16

خلافت حقہ اسلامیہ 11 خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے میں اس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا.اور جو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہو گا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ذلیل کیا جائے گا.اور تباہ کیا جائے گا کیونکہ ایسا خلیفہ صرف اس لئے کھڑا ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرے کہ خلافت اسلامیہ ہمیشہ قائم رہے.پس چونکہ وہ قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کو پورا کرنے کیلئے کھڑا ہوگا.اس لئے اسے ڈرنا نہیں چاہئے.جب مجھے خلیفہ چنا گیا تھا تو سلسلہ کے بڑے بڑے لیڈر سارے مخالف ہوگئے تھے.اور خزانہ میں کل اٹھارہ آنے تھے.اب تم بتاؤ.اٹھارہ آنے میں ہم تم کو ایک ناشتہ بھی دے سکتے ہیں؟ پھر خدا تعالیٰ تم کو کھینچ کر لے آیا اور یا تو یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر صرف بارہ سو آدمی جمع ہوئے تھے اور یا آج کی رپورٹ یہ ہے کہ ربوہ کے آدمیوں کو ملا کر اس وقت جلسہ مردانہ اور زنانہ میں پچپن ہزار تعداد ہے.آج رات کو ۴۳ ہزار مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا ہے.بارہ ہزار ربوہ والے ملالئے جائیں تو ۵۵ ہزار ہو جاتا ہے پس عورتوں اور مردوں کو ملا کر اس وقت ہماری تعداد ۵۵ ہزار ہے.اُس وقت بارہ سو تھی.یہ پچپن ہزار کہاں سے آئے؟ خدا ہی لایا.پس میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہو جائے گا تو منان وہاب اور پیغامی کیا چیز ہیں ؟ اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی (نعر ہائے تکبیر ) جماعت احمدیہ کو حضرت خلیفہ اول کی اولا د سے ہرگز کوئی تعلق نہیں.جماعت احمدیہ کو خدا کی خلافت سے تعلق ہے اور وہ خدا کی خلافت کے آگے اور پیچھے لڑے گی.اور دنیا میں کسی شریر کو جو کہ خلافت کے خلاف ہے خلافت کے قریب بھی نہیں آنے دے گی.

Page 17

خلافت حقہ اسلامیہ 12 اب یہ دیکھ لو ابھی تم نے گواہیاں سن لی ہیں کہ عبد الوہاب احراریوں کو مل کر قادیان کی خبریں سنایا کرتا تھا.اور پھر تم نے یہ بھی سن لیا ہے کہ کس طرح پیغامیوں کے ساتھ ان لوگوں کے تعلقات ہیں.سواگر خدانخواستہ ان لوگوں کی تدبیر کامیاب ہو جائے تو اس کے معنے یہ تھے کہ بیالیس سال کی لڑائی کے بعد تم لوگ احراریوں اور پیغامیوں کے نیچے آجاتے.تم بظاہر اس کو چھوٹی بات سمجھتے ہو لیکن یہ چھوٹی بات نہیں.یہ ایک بہت بڑی بات ہے اگر خدانخواستہ ان کی سکیم کامیاب ہو جاتی تو جماعت احمد یہ مبائعین ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی اور اس کے لیڈر ہوتے مولوی صدرالدین.اور عبد الرحمن مصری.اور ان کے لیڈر ہوتے مولوی داؤ د غزنوی اور عطاء اللہ شاہ بخاری.اب تم بتاؤ کہ مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری اور داؤد غزنوی اگر تمہارے لیڈر ہو جائیں تو تمہارا دنیا میں کوئی ٹھکا نہ رہ جائے.تمہارا ٹھکانہ تو تبھی رہتا ہے جب مبائعین میں سے خلیفہ ہو اور قرآن مجید نے شرط لگائی ہے مِنكُم کی یعنی وہ مبائعین میں سے ہونا چاہئے اس پر کسی غیر مبائع یا احراری کا اثر نہیں ہونا چاہئے.اگر غیر مبائع اور احراری کا اثر ہو تو پھر وہ نہ منگم ہوسکتا ہے اور نہ خلیفہ ہو سکتا ہے پس ایک تو میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جب بھی وہ وقت آئے آخر انسان کے لئے کوئی دن آنا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ابھی میں نے حوالہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنی موت کی خبر دی اور فرمایا.پریشان نہ ہو کیونکہ خدا تعالیٰ دوسری قدرت ظاہر کرنا چاہتا ہے سو دوسری قدرت کا اگر تیسرا مظہر وہ ظاہر کرنا چاہے تو اس کو کون روک سکتا ہے.ہرانسان نے آخر مرنا ہے مگر میں نے بتایا ہے کہ شیطان نے بتا دیا ہے کہ ابھی اس کا سر کچلا نہیں گیا.ابھی وہ تمہارے اندر داخل ہونے کی اُمید رکھتا ہے ”پیغام صلح کی تائید اور محمد حسین چیمہ کا مضمون بتا تا ہے کہ ابھی مارے ہوئے سانپ کی دُم ہل رہی ہے.پس اس کو مایوس کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آئندہ یہ نہ رکھا جائے کہ ملتان اور کراچی اور حیدر آباد اور کوئٹہ اور پشاور سب جگہ کے نمائندے جو پانسو کی تعداد سے زیادہ ہوتے ہیں وہ آئیں تو انتخاب ہو بلکہ صرف ناظروں اور

Page 18

خلافت حقہ اسلامیہ 13 وکیلوں اور مقررہ اشخاص کے مشورہ کے ساتھ اگر وہ حاضر ہوں خلیفہ کا انتخاب ہوگا.جس کے بعد جماعت میں اعلان کر دیا جائے گا اور جماعت اس شخص کی بیعت کرے گی.اس طرح وہ حکم بھی پورا ہو جائے گا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.اور وہ حکم بھی پورا ہو جائے گا کہ ایساوہ مومنوں کے ہاتھ سے کرتا ہے.در حقیقت خلافت کوئی ڈنڈے کے ساتھ تو ہوتی نہیں.مرضی سے ہوتی ہے اگر تم لوگ ایک شخص کو دیکھو کہ وہ خلاف قانون خلیفہ بن گیا ہے اور اس کے ساتھ نہ ہو تو آپ ہی اس کو نہ آمدن ہوگی نہ کام کر سکے گا.ختم ہو جائے گا.اسی طرح یہ کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ چیز اپنے اختیار میں رکھی ہے.لیکن بندوں کے توسط سے رکھی ہے.اگر صحیح انتخاب نہیں ہوگا تو تم لوگ کہو گے کہ ہم تو نہیں مانتے.جو انتخاب کا طریق مقرر ہوا تھا اس پر عمل نہیں ہوا.تو پھر وہ آپ ہی مٹ جائے گا اور اگر خدا تعالیٰ نے اسے خلیفہ بنایا تو تم فوراً اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو جاؤ گے.جس طرح ۱۴ء میں رائے بدلنے پر مجبور ہو گئے تھے.اور جوق در جوق دوڑتے ہوئے اس کے پاس آؤ گے اور اس کی بیعتیں کرو گے مجھے صرف اتنا خیال ہے کہ شیطان کے لئے دروازہ نہ کھلا رہے.اس وقت شیطان نے حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں کو چنا ہے جس طرح آدم کے وقت میں اُس نے درخت حیات کو چنا تھا.اس وقت بھی شیطان نے کہا تھا کہ آدم! میں تمہاری بھلائی کرنا چاہتا ہوں.میں تم کو اس درخت سے کھانے کو کہتا ہوں جس کے بعد تم کو وہ بادشاہت ملے گی جو کبھی خراب نہیں ہوگی.اور ایسی زندگی ملے گی جو کبھی ختم نہیں ہوگی.سواب بھی لوگوں کو شیطان نے اسی طرح دھوکا دیا ہے کہ لوجی ! حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں کو ہم پیش کرتے ہیں.گو آدم کو دھو کہ لگنے کی وجہ موجود تھی.تمہارے پاس کوئی وجہ نہیں.کیونکہ حضرت خلیفہ اول کے بیٹے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے بیٹوں کو تباہ کرنے کیلئے کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ ان کا دعوی یہی ہے کہ یہ اپنے خاندان میں خلافت رکھنا چاہتے ہیں.خلافت تو خدا اور جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں ہے.اگر خدا اور جماعت احمد یہ بنو فارس میں خلافت رکھنے کا فیصلہ کریں تو یہ حضرت

Page 19

خلافت حقہ اسلامیہ 14 خلیفہ اول کے بیٹے کون ہیں جو اس میں دخل دیں.خلافت تو بہر حال خدا تعالیٰ اور جماعت احمدیہ کے اختیار میں ہے اور خدا اگر ساری جماعت کو اس طرف لے آئے گا تو پھر کسی کی طاقت نہیں کہ کھڑا ہو سکے.پس میں نے یہ رستہ بتا دیا ہے.لیکن میں نے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے جو عیسائی طریقہ انتخاب پر غور کرے گی.کیونکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ “ ( النور : ۵۶) جس طرح اس نے پہلوں کو خلیفہ بنایا تھا اسی طرح تم کو بنائے گا سو میں نے کہا عیسائی جس طرح انتخاب کرتے ہیں اس کو بھی معلوم کرو.ہم نے اس کو دیکھا ہے گو ابھی پوری طرح تحقیق نہیں ہوئی وہ بہت سادہ طریق ہے.اس میں جو بڑے بڑے علماء ہیں ان کی ایک چھوٹی سی تعداد پوپ کا انتخاب کرتی ہے اور باقی عیسائی دنیا اسے قبول کر لیتی ہے.لیکن اس کمیٹی کی رپورٹ سے پہلے ہی میں نے چند قواعد تجویز کر دیئے ہیں جو اس سال کی مجلس شوری کے سامنے پیش کر دئیے جائیں گے تاکہ کسی شرارتی کیلئے شرارت کا موقعہ نہ رہے.یہ قواعد چونکہ ایک ریز ولیشن کی صورت میں مجلس شوری کے سامنے علیحدہ پیش ہوں گے اس لئے اس ریزولیوشن کے شائع کرنے کی ضرورت نہیں.میں نے پرانے علماء کی کتابیں پڑھیں تو ان میں بھی یہی لکھا ہوا پایا ہے کہ تمام صحابہ اور خلفاء اور بڑے بڑے ممتاز فقیہہ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ خلافت ہوتی تو اجماع کے ساتھ ہے لیکن یہ وہ اجماع ہوتا ہے کہ يَتَيَسَّرُ اجْتِمَاعُهُمْ.رسالۃ الخلافة ص ۱۱ مصنفہ شیخ رشید رضا مصری بحوالہ المنهاج للنووی) جن ارباب حل و عقد کا جمع ہونا آسان ہو.یہ مراد نہیں کہ اتنا بڑا اجتماع ہو جائے کہ جمع ہی نہ ہو سکے اور خلافت ہی ختم ہو جائے بلکہ ایسے لوگوں کا اجتماع ہوگا جن کا جمع ہونا آسان ہو.سو میں نے ایسا ہی اجتماع بنا دیا ہے جن کا جمع ہونا آسان ہے اور اگر ان میں سے کوئی نہ پہنچے تو میں نے کہا

Page 20

خلافت حقہ اسلامیہ 15 ہے کہ اس کی غلطی سمجھی جائے گی.انتخاب بہر حال تسلیم کیا جائے گا.اور ہماری جماعت اس انتخاب کے پیچھے چلے گی مگر جماعت کو میں یہ حکم نہیں دیتا بلکہ اسلام کا بتایا ہوا طریقہ بیان کر دیتا ہوں تا کہ وہ گمراہی سے بچ جائیں.ہاں ! جہاں میں نے خلیفہ کی تجویز بتائی ہے وہاں یہ بھی شریعت کا حکم ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی پروپیگنڈہ کیا جائے وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا.یا جن لوگوں کے متعلق پرو پیگنڈہ کیا جائے وہ خلیفہ نہیں ہو سکتے.یا جس کو خود تمنا ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کو وہ مقام نہ دیا جائے تو حضرت خلیفہ اول کی موجودہ اولاد بلکہ بعض پوتوں تک نے چونکہ پروپیگنڈہ میں حصہ لیا ہے.اس لئے حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں یا اُن کے پوتوں کا نام ایسے انتخاب میں ہرگز نہیں آسکے گا.ایک تو اسلئے کہ انہوں نے پروپیگنڈہ کیا ہے اور دوسرے اس لئے کہ اس بنا پر ان کو جماعت سے خارج کیا گیا ہے پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خواب بھی بتاتی ہے کہ اس خاندان میں صرف ایک ہی پھانک خلافت کی جانی ہے.اور ”پیغام صلح نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اس سے مراد خلافت کی پھانک ہے.پس میں نفی کرتا ہوں حضرت خلیفہ اول کی اولاد کی.اور ان کے پوتوں تک کی یا ایسے تمام لوگوں جن کی تائید میں پیغامی یا احراری ہوں یا جن کو جماعت مبائعین سے خارج کیا گیا ہو اور اثبات کرتا ہوں مِنكُمْ کے تحت آنے والوں کا یعنی جو خلافت کے قائل ہوں.چاہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جسمانی ذریت ہوں یا رُوحانی ذریت ہوں.تمام علماء سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود کی رُوحانی ذریت ہیں.اور جسمانی ذریت تو ظاہر ہی ہوتی ہے ان کا نام خاص طور پر لینے کی ضرورت نہیں.یہ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے بیٹوں کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے.اب روحانی ذریت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دس لاکھ ہے اور جسمانی ذریت میں سے اس وقت صرف تین فرد زندہ ہیں.ایک داماد کو شامل کیا جائے تو چار بن جاتے ہیں.اتنی بڑی جماعت کے لئے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ان میں سے کوئی خلیفہ ہو.

Page 21

خلافت حقہ اسلامیہ 16 اس کا نام اگر یہ رکھا جائے کہ میں اپنے فلاں بیٹے کو کرنا چاہتا ہوں تو ایسے قائل سے بڑا گدھا اور کون ہوسکتا ہے.میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذریت جسمانی کے چار افراد اور دس لاکھ اس وقت تک کی ذریت روحانی کو خلافت کا مستحق قرار دیتا ہوں (جو ممکن ہے میرے مرنے تک دس کروڑ ہو جائے) سو جو شخص کہتا ہے کہ اس دس کروڑ میں سے جو خلافت پر ایمان رکھتے ہوں کسی کو خلیفہ چن لو اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنے کسی بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے نہایت احمقانہ دعویٰ ہے.میں صرف یہ شرط کرتا ہوں کہ منکم کے الفاظ کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی خلیفہ چنا جائے اور چونکہ حضرت خلیفہ اول کی نسل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ پیغامیوں کے ساتھ ہیں اور پیغامی اُن کے ساتھ ہیں اور احراری بھی ان کے ساتھ ہیں اور غزنوی خاندان جو کہ سلسلہ کے ابتدائی دشمنوں میں سے ہے اُن کے ساتھ ہے اس لئے وہ منکم نہیں رہے.ان میں سے کسی کا خلیفہ بننے کیلئے نام نہیں لیا جائے گا اور یہ کہہ دینا کہ ان میں سے خلیفہ نہیں ہوسکتا.یہ اس بات کے خلاف نہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے سوال یہ ہے کہ جب خلیفہ خدا بناتا ہے تو ان کے منہ سے وہ باتیں جو خلافت کے خلاف ہیں کہلوائیں کس نے ؟ اگر خدا چاہتا کہ وہ خلیفہ بنیں تو ان کے منہ سے وہ باتیں کیوں کہلواتا ؟ اگر خدا چاہتا کہ وہ خلیفہ بنیں تو ان کی یہ باتیں مجھ تک کیوں پہنچا دیتا، جماعت تک کیوں پہنچا دیتا؟ یہ باتیں خدا کے اختیار میں ہیں.اس لئے ان کے نہ ہونے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے اور جماعت احمدیہ مبائعین میں سے کسی کا خلیفہ ہونا بھی بتا تا ہے کہ خدا خلیفہ بناتا ہے.دونوں باتیں یہی ثابت کرتی ہیں کہ خدا ہی خلیفہ بناتا ہے بہر حال جو بھی خلیفہ ہوگا وہ منکم ہو گا.یعنی وہ خلافت احمدیہ کا قائل ہوگا اور جماعت مبائعین میں سے نکلا ہوا نہیں ہوگا.اس لئے میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ جو بھی خلیفہ چنا جائے وہ کھڑے ہو کر یہ قسم کھائے کہ میں خلافت احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں.اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کیلئے پوری کوشش کروں گا.اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کیلئے انتہائی

Page 22

خلافت حقہ اسلامیہ 17 کوشش کرتا رہوں گا.اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا.اور اگر میں بدنیتی سے کہہ رہا ہوں یا اگر میں دانستہ ایسا کرنے سے کوتاہی کروں تو خدا کی مجھ پر لعنت ہو.جب وہ یہ قسم کھالے گا تو پھر اس کی بیعت کی جائے گی اس سے پہلے نہیں کی جائے گی.اسی طرح منتخب کرنے والی جماعت میں سے ہر شخص حلفیہ اعلان کرے کہ میں خلافت احمدیہ کا قائل ہوں اور کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو جماعت مبائعین میں سے خارج ہو یا اس کا تعلق غیر مبائعین یا غیر احمدیوں سے ثابت ہو.غرض پہلے مقررہ اشخاص اس کا انتخاب کریں گے اس کے بعد وہ یہ قسم کھائے گا کہ میں خلافت احمد یہ حقہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں اُن کو جو خلافت احمد یہ کے خلاف ہیں جیسے پیغامی یا احراری وغیرہ باطل پر سمجھتا ہوں.اب ان لوگوں کو دیکھ لو.ان کے لئے کس طرح موقعہ تھا میں نے مری میں خطبہ پڑھا اور اس میں کہا کہ صراط مستقیم پر چلنے سے سب باتیں حل ہو جاتی ہیں.یہ لوگ بھی صراط مستقیم پر چلیں اور اس کا طریق یہ ہے کہ پیغامی میرے متعلق کہتے ہیں کہ یہ حضرت خلیفہ اول کی بہتک کر رہا ہے.یہ اعلان کر دیں کہ پیغامی جھوٹے ہیں ہمارا پچھلا میں سالہ تجربہ ہے کہ پیغامی ہتک کرتے چلے آئے ہیں اور مبائعین نہیں کرتے رہے مبائعین صرف دفاع کرتے رہے ہیں.مگر باوجود اس کے ان کو توفیق نہیں ملی.اور یوں معافی نامے چھاپ رہے ہیں.ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ اعلان کیا تو ہمارا اڈہ جو غیر مبائعین کا ہے اور ہمارا اڈہ جو احراریوں کا ہے وہ ٹوٹ جائے گا.سوا گراڈہ بنانے کی فکر نہ ہوتی تو کیوں نہ یہ اعلان کرتے.مگر یہ اعلان کبھی نہیں کیا.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے مجھے سنایا کہ عبدالمنان نے ان سے کہا.ہم اس لئے لکھ کر نہیں بھیجتے کہ پھر جرح ہوگی کہ یہ لفظ کیوں نہیں لکھا.وہ لفظ کیوں نہیں لکھا.حالانکہ اگر دیانت داری ہے تو بیشک جرح ہو حرج کیا ہے.جو شخص حق کے اظہار میں جرح سے ڈرتا ہے تو اس کے صاف معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ حق کو چھپانا چاہتا ہے اور حق کے قائم ہونے کے مخالف ہے.

Page 23

خلافت حقہ اسلامیہ 18 غرض جب تک شوری میں معاملہ پیش ہونے کے بعد میں اور فیصلہ نہ کروں اوپر کا فیصلہ جاری رہے گا.تمہیں خوشی ہو کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت چلی تھی واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ تمہارے اندر بھی اسی طرح چلے گی.مثلاً حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر خلیفہ ہوئے.میرا نام عمر نہیں بلکہ محمود ہے.مگر خدا کے الہام میں میرا نام فضل عمر رکھا گیا اور اس نے مجھے دوسرا خلیفہ بنا دیا جس کے معنے یہ تھے کہ یہ خدائی فعل تھا.خدا چاہتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خلافت بالکل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی خلافت کی طرح ہو میں جب خلیفہ ہوا ہوں تو ہزارہ سے ایک شخص آیا.اس نے کہا کہ میں نے خواب دیکھی تھی کہ میں حضرت عمر کی بیعت کر رہا ہوں تو جب میں آیا تو آپ کی شکل مجھے نظر آئی.اور دوسرے میں نے حضرت عمر کو خواب میں دیکھا کہ ان کے بائیں طرف سر پر ایک داغ تھا.میں جب انتظار کرتا ہوا کھڑا رہا آپ نے سرکھجلایا اور پگڑی اٹھائی تو دیکھا وہ داغ موجود تھا.اس لئے میں آپ کی بیعت کرتا ہوں پھر ہم نے تاریخیں نکالیں تو تاریخوں میں بھی مل گیا کہ حضرت عمرؓ کو بائیں طرف خارش ہوئی تھی.اور سر میں داغ پڑ گیا تھا.سونام کی تشبیہ بھی ہوگئی.اور شکل کی تشبیہ بھی ہوگئی.مگر ایک تشبیہ نئی نکلی ہے وہ میں تمہیں بتاتا ہوں.اس سے تم خوش ہو جاؤ گے.وہ یہ ہے کہ حضرت عمر نے جب اپنی عمر کا آخری حج کیا تو اس وقت آپ کو یہ اطلاع ملی کہ کسی نے کہا ہے.حضرت ابو بکر کی خلافت تو اچانک ہوگئی تھی یعنی حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ نے آپ کی بیعت کر لی تھی.پس صرف ایک یادو بیعت کر لیں تو کافی ہو جاتا ہے اور وہ شخص خلیفہ ہو جاتا ہے.اور ہمیں خدا کی قسم اگر حضرت عمر فوت ہو گئے تو ہم صرف فلاں شخص کی بیعت کریں گے.اور کسی کی نہیں کریں گے.(تاریخ الخلفاء للسیوطی ص ۶۳ ورساله الخلافة ص ۱۳) جس طرح غلام رسول نمبر ۳۵ اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ خلیفہ ثانی فوت گئے تو ہم صرف

Page 24

خلافت حقہ اسلامیہ 19 عبد المنان کی بیعت کریں گے دیکھ لو یہ بھی حضرت عمرؓ سے مشابہت ہوگئی.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی ایک شخص نے قسم کھائی تھی کہ ہم اور کسی کی بیعت نہیں کریں گے.فلاں شخص کی کریں گے.اس وقت بھی غلام رسول نمبر ۳۵ اور اس کے بعض ساتھیوں نے یہی کہا ہے جب حضرت عمر کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے یہ نہیں کیا جیسے مولوی علی محمد اجمیری نے شائع کیا تھا کہ آپ پانچ وکیلوں کا ایک کمیشن مقر ر کریں جو تحقیقات کرے کہ بات کونسی سچی ہے.حضرت عمر نے ایک وکیل کا کمیشن مقرر نہیں کیا.اور کہا میں کھڑے ہو کر اس کی تردید کروں گا.بڑے بڑے صحابہ ان کے پاس پہنچے اور انہوں نے کہا حضور یہ حج کا وقت ہے اور چاروں طرف سے لوگ آئے ہوئے ہیں.ان میں بہت سے جاہل بھی ہیں.ان کے سامنے اگر آپ بیان کریں گے.تو نہ معلوم کیا کیا باتیں باہر مشہور کریں گے.جب مدینہ میں جائیں تو پھر بیان کریں.چنانچہ جب حضرت عمرؓ حج سے واپس آئے تو مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ممبر پر کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہو کر کہا کہ اے لوگو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں سے کسی نے کہا ہے کہ ابو بکر کی بیعت تو اچا نک واقعہ تھا.اب اگر عمر مر جائے تو ہم سوائے فلاں شخص کے کسی کی بیعت نہیں کریں گے.پس کان کھول کر سن لو کہ جس نے یہ کہا تھا کہ ابو بکر کی بیعت اچانک ہوگئی تھی اس نے ٹھیک کہا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس جلد بازی کے فعل کے نتیجہ سے بچالیا.اور یہ بھی یاد رکھو کہ تم میں سے کوئی شخص ابو بکر کی مانند نہیں جس کی طرف لوگ دُور دُور سے دین اور روحانیت سیکھنے کیلئے آتے تھے.پس اس وہم میں نہ پڑو کہ ایک دو آدمیوں کی بیعت سے بیعت ہو جاتی ہے.اور آدمی خلیفہ بن جاتا ہے کیونکہ اگر جمہور مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی شخص نے کسی کی بیعت کی تو نہ بیعت کرنے والے کی بیعت ہوگی اور نہ وہ شخص جس کی بیعت کی گئی ہے وہ خلیفہ ہو جائے گا بلکہ دونوں اس بات کا خطرہ محسوس کریں گے کہ سب مسلمان مل کر ان کا مقابلہ کریں اور ان کا کیا کرایا اکارت ہو جائے گا حالانکہ ابوبکر کی بیعت صرف اس خطرہ سے کی گئی تھی کہ مہاجرین اور انصار میں فتنہ پیدانہ

Page 25

خلافت حقہ اسلامیہ 20 ย ہو جائے مگر اس کو خدا تعالیٰ نے قائم کر دیا.پس وہ خدا کا فعل تھا نہ کہ اس سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ کوئی ایک دو شخص مل کر کسی کو خلیفہ بنا سکتے ہیں.پھر علامہ رشید رضا نے احادیث اور اقوال فقہاء سے اپنی کتاب الخلافۃ میں لکھا ہے کہ خلیفہ وہی ہوتا ہے جس کو مسلمان مشورہ سے اور کثرت رائے سے مقرر کریں.مگر آگے چل کر وہ علامہ سعد الدین تفتازانی مصنف شرح المقاصد اور علامہ نووی وغیرہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت کا جمع ہونا وقت پر مشکل ہوتا ہے پس اگر جماعت کے چند بڑے آدمی جن کا جماعت میں رسوخ ہو کسی آدمی کی خلافت کا فیصلہ کریں اور لوگ اس کے پیچھے چل پڑیں تو ایسے لوگوں کا اجتماع سمجھا جائے گا اور وہ سب مسلمانوں کا اجتماع سمجھا جائے گا.اور یہ ضروری نہیں ہوگا کہ دنیا کے سب مسلمان اکٹھے ہوں اور پھر فیصلہ کریں.اسی بنا پر میں نے خلافت کے متعلق مذکورہ بالا قاعدہ بنایا ہے جس پر پچھلے علماء بھی متفق ہیں.محد ثین بھی اور خلفاء بھی متفق ہیں.پس وہ فیصلہ میرا نہیں بلکہ خلفاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور صحابہ کرام کا ہے.اور تمام علمائے امت کا ہے جن میں حنفی شافعی وہابی سب شامل ہیں.وہ کہتے ہیں کہ بڑے آدمی سے مراد یہ ہے کہ جو بڑے بڑے کاموں پر مقرر ہوں.جیسے ہمارے ناظر ہیں اور وکیل ہیں اور قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مومنوں کی جماعت کو مخاطب کیا گیا ہے وہ مراد ایسے ہی لوگوں کی جماعت ہے نہ کہ ہر فرد بشر.یہ علامہ رشید کا قول ہے کہ وہاں بھی یہ مراد نہیں کہ ہر فرد بشر بلکہ مراد یہ ہیکہ ان کے بڑے بڑے آدمی ( الخلافته ص ۴۱) پس صحابہ احادیث رسول اور فقہاء امت اس بات پر متفق ہیں کہ خلافت مسلمانوں کے اتفاق سے ہوتی ہے مگر یہ نہیں کہ ہر مسلمان کے اتفاق سے بلکہ اُن مسلمانوں کے اتفاق سے جو مسلمانوں میں بڑا عہدہ رکھتے ہوں.یا رسوخ رکھتے ہوں.اور اگر ان لوگوں کے سوا چند او باش مل کر کسی کی بیعت کر لیں تو نہ وہ لوگ مبائع کہلائیں گے اور نہ جس کی بیعت کی گئی ہے وہ خلیفہ کہلائے گا.(الخلافہ مصنفہ علامہ رشید رضا شامی ثم المصری صفحه ۹ تا ۸۱ ) اب خلافت حقہ اسلامیہ کے متعلق میں قرآنی اور احادیثی تعلیم بھی بتا چکا ہوں اور وہ قواعد بھی بیان کر چکا ہوں جو آئندہ سلسلہ میں خلافت کے انتخاب کیلئے جاری ہوں گے چونکہ انسانی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا نہ معلوم میں اس وقت تک رہوں یا نہ رہوں.اس لئے میں نے اوپر کا قاعدہ تجویز کر دیا ہے تا کہ جماعت فتنوں سے محفوظ رہے.

Page 25