Khilafat-eHazrat Abu Bakar Siddiq

Khilafat-eHazrat Abu Bakar Siddiq

خلافت حضرت ابوبکر صدیق ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
خلفائے راشدین

مولانا موصوف نے جلسہ سالانہ 1975ء کے موقع پر ’’خلافت حضرت ابو بکرصدیقؓ ‘‘ کے متعلق تقریر فرمائی تھی جس کی نظر ثانی کرتے وقت اس میں انہوں نے مفید حوالہ جات اور مضامین کا اضافہ کیا، اس طرح یہ تقریر ایک مستقل تصنیف بن گئی جسے ’’ادارۃ المصنفین‘‘ کی طرف سے شائع کیا گیا ہے۔ اس تصنیف میں آپ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کے پس منظر کو تاریخی لحاظ سے پیش کیا ہے، مستشرقین اور دیگر معترضین کے آپ کی خلافت کے متعلق اعتراضات کا مسکت اور مدلل جواب دیا گیا ہے۔الغرض  آیت استخلاف کی بین تفسیر پر مشتمل یہ تاریخی حقائق پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، کتاب کے آخر پرمقالہ کی تیاری کے لئے استفادہ کردہ کتب کی طویل فہرست بھی درج کی گئی ہے۔


Book Content

Page 1

خلافت حضرت ابو بکر صدیق از ام محمن احب تا امانیه محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مورخ احمدیت الناشر ادارة المصنّفين

Page 2

خلافت حضرت ابوبکر صدیق از محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہ مورخ احمدیت الناشر ادارة المصنفين

Page 3

محمدُهُ وَنَصَلى - بسم الله الرحمن الرحيم تعارف مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مورخ احمدیت نے جلسہ سالانہ ۶۱۹۷۵ کے موقع پر خلافت حضرت ابو بکر صدیق کے متعلق تقریر فرمائی تھی اور نظرثانی کرتے وقت انہوں نے اس میں بعض مفید حوالہ جات اور مضامین کا اضافہ کیا ہے اس طرح یہ تقریر ایک مستقل تصنیف بن گئی جسے طبع کرا کر احباب کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے.قابل مصنف نے اس تصنیف میں حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت کے پس منظر کو تاریخی لحاظ سے پیش کیا ہے اور مستشرقین اور دیگر معترضین نے آپکی خلافت کے متعلق جو اعتراضات کئے ہیں ان کا مفصل اور مسکت جواب دیا ہے اور بتایا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت سُورۃ نور میں اللہ تعالے کے بیان کردہ فرمان کے عین مطابق ہے اور جو وعدے خلافتِ حقہ کے ساتھ وابستہ کئے گئے تھے وہ یہ تمام و کمال آپ کے عہد مبارک میں پورے ہوئے اور یہ امر واضح ہو گیا کہ آپ کی خلافت، خلافت حقہ تھی اور خد اتعالے کے منشا کے عین مطابق تھی.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ مولانا موصوف کی

Page 4

تصنیف کو با برکت بنائے اور مزید خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.احباب سے درخواست ہے کہ وہ خود بھی اِس کتاب سے استفادہ کریں اور اپنے حلقہ احباب میں بھی اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی کوشش کریں.وبالله التوفيق : والسلام خاکسار ابو المنير نور الحق ۱۵ نومبر ۶۱۹ منیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ریو

Page 5

q 1.۱۹ ۲۵ ۲۵ ۲۶ الفهرس -INDEX - نمبر شمار عنوان اند یہی تاریخ کا اہم موضوع - آیت استخلاف.روشنی کا مینار تین پیش گوئیاں.۴ آیت استخلاف میں پہلی پیش گوئی.ثانی اثنین کی خلعت آسمانی.۱۶- قبول اسلام میں اولیت.۲۷ - شان صدیقیت - - خلافت بلا فضل - آیت استخلاف میں دوسری پیشگوئی.وصال نبوی کا درد ناک منظر - A اسلام کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی بغاوت.

Page 6

۲۹ ۳۳ مجھے سم ۴۱ ۴۲ آدم ۴۹ ۵۰ ۵۲ ۵۶ LL ۷۸ LA ۱۲ خلافت صدیقی پر اجماع.۱۳ خلیفہ خدا بناتا ہے.۱۴ | بیعت عامہ - عنوان ۱۵ وصیت نبوئی کے مطابق جنازہ - ۱۸ ۱ آیت استخلاف میں تیسری پیشگوئی.جيش اُسامہ کی روانگی اور کامیاب مراجعت.جھوٹے مدعیان نبوت کا عبرتناک انجام.19 خلافت اور زکوۃ کے باغیوں کے خلاف جنگی کارروائی.غازیان اسلام کے لئے نشانات.ارتداد اختیار کرنے والے باغیوں پر فتح.۲۲ صحابہؓ کی وعظ ونصیحت اور اس کے عمدہ اثرات.قیصر و کسریٰ کی حکومتوں سے تصادم اور فتوحات کا آغاز.۲۲ مستشرقین کی طرف سے صحیح قرآنی تاریخ پر پردہ ڈالنے کی سازش.۲۵ اسلامی دنیا مستشرقین کے طوفان کی زد میں.صورت حال کی خبر اور علاج.۲۷ احادیث اور بزرگان سلف کی تصریحات.حضرت مہدی موعود پر قرآنی تاریخ کی تجلی عظیم.۲۹ محبت اہلبیت افاضہ انوار الہی کا سر چشمہ

Page 7

۱۰۲ A ? ^ AY ۹۸ ۹۹ 69 صفح نمبر شمار عنوان شان سید الشہداء حسین علیہ السلام - ۳۱ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرہ کی شان ارفع و اعلیٰ.۳۲ خلافت صدیقی کی نسبت المامی انکشاف.ایت استخلاف خلافت صدیقی پر برہانِ ناطق ۳۴ حضرت مہدی موعود کے تو حوالے.۳۵ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق " کی آخری وصیت - دُنیائے اسلام معرکۂ یرموک کے دور ہیں.۳۷ حضرت مہدی موعود کی جماعت کا فرض.سید نا حضرت مصلح موعودہؓ کی عظیم انسان پیش گوئیاں.۳۹ کتابیات ( BIBLIOGRAPHY )

Page 8

به در تحمل وتصل ع رَسُولِهِ الكَري لى وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَهْدِي الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِ اِنَّ اللهَ وَ مَلِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّموا تسليما O (الاحزاب : ۵۷) اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى خُلَفَاءِ مُحَمَّدِ اہل تثلیث کہ تھے جھوٹی اداؤں والے شرک و بدعت کی گھٹا ٹوپ گھٹاؤں والے وقت جب آیا تو پھر ایک غدا والے نے کیسے مغلوب کئے تین خداؤں والے

Page 9

مذہبی تاریخ کا اہم موضوع امیر المومنین خلیفة الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آیت الله اور بر بالی محمد تھے صلی اللہ علیہ وسلم.آپ کی عظیم شخصیت ، آپ کا مقام صدیقیت اور آپ کا بابرکت عہد خلافت، اسلام کی مذہبی تاریخ کا ایک نہایت اہم موضوع ہے.علیم تاریخ سے دینی مباحث کو بہت کچھ مدد ملتی ہے.اپنی تاریخ سے آگاہ ہونا اقوام کی ترقی میں ایک بہت بڑا محرک ہوتا ہے.اور صحیح تاریخ ایک عمد معلم ہے جو بہت سے اعلیٰ مقاصد کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید سے بڑھ کر یقینی اور بنیادی ماخذہ مستند تاریخ کا ، اور کوئی نہیں ہو سکتا ہے ہے فقط سر آں ہی دنیا میں کتاب زندگی کھولتا ہے جس کا ایک اک لفظ باب زندگی آیت استخلاف روشنی کا مینار (حستن رمتناسی ) قرآن مجید میں حضرت ابو بکر صدیق کے وجود مقدس اور آپ کے مُبارک زمانہ خلافت کی نفسیات جابجا روشنی ملتی ہے.اور مختلف مکاتیب فکر سے متعلق قدیم مفتروں ، متکلموں ، مصنفوں اور دیگر بزرگوں نے ان کا مفصل تذکرہ بھی

Page 10

الكم المعظمة في البحر المحكمة في الحمة

Page 11

فرمایا ہے مگر یکی آج بنیادی طور پر جس آیت کریمہ کو پیش کر نا چاہتا ہوں وہ فرقان حمید کی شہرۂ عالم اور معرکۃ الآراء آیت.آیت استخلاف ہے جو سورہ نور میں درج ہے اور اس باب میں قیامت تک کے لئے روشنی کا مینار ہے.اللہ جلشانہ وعز اسمہ فرماتا ہے :- وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ ليَستَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنَا يَعْبُدُونِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الفَسِقُونَ (النور : ٥٧) یعنی " خدا نے تم میں سے بعض نیکو کار ایمان داروں کے لئے یہ وعدہ ٹھیرا رکھا ہے کہ وہ انہیں زمین پر اپنے رسولِ مقبول کے خلیفے کرے گا.خلیفہ کے معنے جانشین کے ہیں جو تجدید دین کرے نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے اس کو دور کرنے کے واسطے جو ان کی جگہ آتے ہیں انہیں خلیفہ کہتے ہیں ، ملفوظات مسیح موعود مجلد ۲ ۳۸۳) انہیں کی مانند جو پہلے کہ تارہا ہے اور اُن کے دین کو کہ جو اُن کیلئے اسے پسند کر لیا ہے یعنی دین اسلام کو زمین پر جما دے گا اور تحکم اور قائم کر دے گا اور بعد اس کے کہ ایمان دار خوف کی حالت میں ہوں گے یعنی بعد اس وقت کے کہ جب بباعث وفات حضرت خاتم الانبیاء

Page 12

صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ خوف دامنگیر ہوگا کہ شاید اب دین تباہ نہ ہو جائے تو اُس خوف اور اندیشہ کی حالت میں خدائے تعالیٰ اخلاف حقہ کو قائم کر کے مسلمانوں کو اندیشہ بہتری دین سے بے غم اور امن کی حالت میں کر دے گا وہ خالص میری پرستش کریں گے اور مجھ سے کیسی چیز کو شریک نہ ٹھیرائیں گے ؟ (ترجمه از براہین احمدیہ حصته سوم ه ۲۳، ص ۲۳ حاشیه ) تین پیشگوئیاں یہ آیت کریمہ تین واضح پیش گوئیوں پر مشتمل ہے :.اتولی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور اعمال صالحہ بجالانے والوں میں سے بعض وجود آنحضرت کے بعد یقیناً مقام خلافت پر فائز ہوں گے.دوم بخدا تعالیٰ اپنے تصرف خاص سے ان تخلفاء کو خود اس منصب پر کھڑا کریگا.سوم: خُلفاء رسول کے ذریعہ دین کو تمكنت ملے گی اور خوف کا ماحول امن میں بدل جائے گا.اب آئیے قرآن مجید اور واقعات کی روشنی میں تحقیق کریں کہ ان آسمانی خبروں کے مطابق کون سا پاک وجود خلافت اولیٰ کی مسند کے لئے مقدر تھا اور کی طرح اس کی شخصیت اور خلافت کے ذریعہ خدائی وعدوں کا ظہور ہوا ؟؟؟

Page 13

شگوئی آیت استخلاف میں پہلی پیش میں آیت استخلاف میں پہلی پیش گوئی یہ کی گئی تھی کہ نظام خلافت کا قیام عض مؤمنوں اور اعمال صالحہ بجالانے والوں کے ذریعہ معرض وجود ہیں آئے گا.قرآن مجید کا یہ زبر دست معجزہ ہے کہ اس نے دوسرے مقامات پر انحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے معا بعد خلیفہ الرسول نے والے برگزید وجود کا خصوصی ذکر کر دیا ہے چنانچہ انصر کو بطور عبارت النص اور حضرت ابوبیر کو بطور اشارة النص " ثانی اثنین قراردیتے ہوئے فرماتا ہے.اِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَانْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَايَدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السَّفْ وَكَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَاء وَاللهُ عَزِيز حكيم 0 ( التوبه : ۴۰ ) فرمایا: اگر تم اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ کرو تو یاد رکھو کہ ) اللہ تعالیٰ اُس وقت بھی اس کی مدد کر چکا ہے جبکہ اسے کافروں نے دو میں سے ایک کی صورت میں نکال دیا تھا جبکہ وہ دونوں (یعنی آنحضرت صلعم اور حضرت ابو کیش غار میں تھے اور آنحضرت اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کچھ غم نہ کرو اللہ یقیناً ہم دونوں کے ساتھ ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی محمد مصطفے امتنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی سکینت نازل فرمائی اور آپ کی مدد ایسے لشکروں سے کی

Page 14

جن کو تم نہیں دیکھتے تھے اور کافروں کی بات کو نیچا اور کبست کر دیا اور اللہ کی بات ہی اونچی اور بلند ہو کر رہتی ہے.اور اللہ بے حد غالب اور بہت حکمتوں والا ہے.اس آیت میں جس خوش نصیب وجود صاحب النبی اور خدا کی معیت میں رسُولِ عربی کے ساتھ شامل ہونے والے کا ذکر ہے وہ پوری ملت اسلامیہ کے نزدیک بالاتفاق حضرت ابو بکر صدیق نہیں جن پر (آپ کے بے مثال خلوص، عدیم النظیر ایثار اور قابل رشک فدائیت کے باعث ) خدائے ذو العرش کی نظر انتخاب پڑی اور انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص وحی اور الہام کی بناء پر ہجرت مکہ کے اضطراب انگیز موقعہ پر اپنا رفیق سفر بنایا ہے ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں یہ مرتبہ بلند ملا، جس کو مل گیا (حضرت امام محمد مہدی کے والد حضرت امام حسن عسکرہمی کی تفسیر میں بروایت حضرت امام باقر علیہما السلام لکھا ہے:." فَإِنَّ الله أولى إِلَيْهِ يَا مُحَمَّدُ...اَنَّ اَبَا جَهْلٍ وَ الْمَلَةَ مِنْ قُرَيْشٍ قَدْ دَبَّرُوا يُرِيدُونَ قَتَلَكَ.وَامُرُكَ اَنْ تَسْتَصْحِبَ اَبَا بَكْرِ فَإِنَّهُ إِنْ أَنَسَكَ وَسَاعَدَكَ وَوَازَرَكَ وَثَبَتَ عَلَى تَعَاهُدِكَ وَتَعَا قُدِكَ كَانَ فِي الْجَنَّةِ مِنْ رُفَقَائِكَ وَفِي عُرَفَاتِهَا مِنْ خُلَصَائِكَ...ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ لا بِي بَكْرٍ اَرَضِيْتَ أَنْ تَكُونَ مَعِيَ يَا أَبَا بَكْرٍ

Page 15

تُطْلَبُ كَمَا أطْلَبُ وتُعرَفُ بِإِنَّكَ أَنْتَ الَّذِي تَحْمِلُنِي عَلَى مَا اَدَّعِيهِ فَتَحْمِلُ عَنِى اَنْوَاعَ الْعَذَابِ قَالَ ابو بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللهِ اَمَّا اَنَا لَوُعِشْتُ عُمَرَ الدُّنْيَا أعَذِّبُ في اَشَدَّ عَذَابٍ لَا يَنْزِلُ عَلَى مَوْتُ مُريح وَلَا فَرَج مُنِي وَكَانَ ذَالِكَ فِي مُحَمَّتِكَ لَكَانَ ذَالِكَ احب إِلَى مِنْ أَنْ أَنْعَمَ فِيهَا وَأَنَا مَالِكُ لِجَمِيعِ مَمَالِك ملوكها فِي مُخَالَفَتِكَ مَا اهْلِي وَوَلَدِي إِلَّا فِدَاؤُكَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ لَا جَرَمَ اِنِ اطَّلَعَ اللهُ عَلَى قَلْبِكَ وَوَجَدَ مَا فِيهِ مُوَافِعًا لَهَا لِمَا جَرَى عَلَى لِسَانِكَ جَعَلَكَ مِنِّي بِمَنْزَلَةِ السَّيْعِ وَالْبَصَرِ وَالدَّمِ مِنَ الْجَسَدِ وَبِمَزَلَةِ الرُّوحِ مِنَ الْبَدَنِ ( تفسير الامام حسن عسکری ، ص۲۳ زیر آیت او كلما عاهدوا عهدا بروایت حضرت امام با قرض مطبوعه ۱۳۱۰ مطبع جعفری) i اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اطلاع دی کہ ابو جہل اور دیگر رؤساء قریش نے آپ کے قتل کا خفیہ منصوبہ بنایا ہے.یہ شرمناک سازش ایک جدید تحقیق کے مطابق ، ستمبر ۶۲۲ء کو ہوئی تھی ہم خدا تعالیٰ ے تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو خاکسار کا مقالہ مطبوعہ اخبار لاہور مورخ ۲۴ مارچ ۱۹۷۵ رفت ۱۳

Page 16

نے فرمایا ئیں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ابو بجز کو ساتھ لے کر ہجرت کی تیاری کریں اگر ابو نجومہ ہجرت میں رفاقت پسند کریں اور محبت و الفت سے آپ کی مدد کریں اور آپ کے ساتھ قدم ملا کے چلیں تو وہ جنت الفردوس میں آپ کے دیگر تحتین و مخلصین کے ساتھ بلند ترین مقامات پر ہوں گے.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر سے پوچھا کہ کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میرے ہمسفر ہوں اور آپ کے متعلق یہ جانا جاتے کہ جو کچھ میں دعویٰ کر رہا ہوں آپ ہی مجھے اس پر ابھار رہے ہیں اور پھر میری وجہ سے آپ طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہوں.حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر میں قیامت تک بھی زندہ رہوں اور مجھے زندگی بھر ہر طرح کے ایسے ہولناک دکھوں اور عذابوں میں مبتلا کیا جائے کہ جن سے نہ تو موت ہی آکر مجھے آرام پہنچا سکے اور نہ نجات کی کوئی اور راہ مل سکے تو بھی مجھے یہ گوارا ہو گا بشرطیکہ یہ سب کچھ حضور کی محبت و عقیدت کے جرم کی پاداش میں مجھے بھگتنا پڑے.یا رسول اللہ میں آپ کے قربان جاؤں گھر بار کیا چیز ہیں اگر میں وے زمین کے ان تمام بادشاہوں کا بادشاہ ہو جاؤں جو حضور کے مخالف ہیں اور مجھے نہایت ہی عیش و عشرت کی زندگی حاصل ہو جائے تو بھی میں اس شہنشاہیت کو پائے استحقار سے ٹھکرا دوں گا اور ہفت تعلیم کی سب بادشاہتوں پر حضور کی غلامی کو ترجیح دوں گا.یہ سن کر حضرت رسول مقبول نے فرمایا ابو بکیر با ضروری ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے تیرے دل پر اطلاع پا کر، جو کچھ تیری زبان پر جاری ہوا ہے ، اسے تیرے دلی

Page 17

) غار ثور ( رسم احمد صابر ناظر تكية مكة طير البقاء الذي نزل في في

Page 18

خیالات کے موافق پایا ہے تو وہ تجھے مجھے پر بمنزلہ سمع و بصر کے اور ہمزہ سے اور نمنزلہ روح کے بدن سے بنا دیگا یعنی تو میرا نمائیندہ اور نائب ہوگا) ثانی اثنین کی خلعت آسمانی میرے بزرگو اور بھائیو! اگر آپ واقعہ غار سے متعلق آیت کریمہ کا باریک نظری سے مطالعہ فرمائیں تو آپ یقیناً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ جہاں اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ نجم میں قاب قوسین کے پر جلال تخت پر متمکن فرمایا ہے اور مظہر اتمتم الوہیت کے تاج شاہی سے مفتخر کیا ہے وہاں اس آیت میں حضرت ابو بکر صدیق نہ جیسے مقبول بارگاہ الہی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب خاص سے نوازا گیا اور بالواسطہ ثانی اثنین کی خلعت آسمانی بنائی گئی ہے.مزید غوردون کر سے یہ نکتہ معرفت بھی گھلتا ہے کہ غار ثور میں یہ اعزا نہ جو کسی اور وجود کو نہیں بخشا گیا محض وقتی اور ہنگامی چیز نہیں بلکہ یہ ماضی، حال اور مستقبل تینوں زبانوں پر محیط ہے اور اس میں علاوہ غار کے اندر صاحب النبی ہونے کے تین اور حیثیتوں سے بھی حضرت اب گھر کے بالواسطہ ثانی اثنین ہونے کی نشان النافع واعلی اور الکل و اتم کی نشان دہی کی گئی ہے.آپ اس حیثیت سے بھی ثانی اثنین ہیں کہ آزا د مردوں میں سب سے اول آپ ایمان لائے.آپ اس اعتبار سے بھی ثانی اثنین تھے کہ نبوت کے بعد دوسرے درجہ

Page 19

یعنی صدیقیت پر ممتاز ہوئے اور صدیق کہلائے."1 پھر خدائے عزب وقبل نے آپ کو اس وجہ سے بھی ثانی اثنین ہونے کا شرف عطا کیا کہ باری تعالیٰ کے علم میں آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال خلیفہ اول بننے والے تھے اور اپنے عہد خلافت کو کامیابی سے گزارنے کے بعد آنحضرت کے بالکل ساتھ ایک پہلو میں تدفین کی سعادت پانے والے تھے.اب یکی ثانی اثنین " کے عظیم الشان خطاب کے ان تینوں پہلوؤں پر کچھ مزید عرض کرتا ہوں.۱- قبول اسلام میں اولیت جب آنحضرت صلی الہ علیہ وسلمنے اعلان نبوت فرمایا تو حضرت ابو را نجات کے لئے شام کی طرف گئے ہوئے تھے.واپس آئے تو ابھی راستہ میں ہی تھے کہ ایک شخص آپ سے ملا آپ نے اُس سے مکہ کے حالات دریافت فرمائے اور پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ.اس نے جواب دیا کہ نئی بات یہ ہے کہ تیرہ دوست محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے.آپ نے یہ سنتے ہی فرمایا کہ اگر آپ نے دعوی کیا ہے تو بلا شبہ آپ سچے ہیں.پھر مکہ پہنچتے ہی آنحضرت کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے.آپ سے کوئی بحث نہیں کی کوئی نشان اور معجزہ نہیں مانگا، صرف اتنا ہی پوچھا کہ کیا آپ نے نبوت کا دعوی کے نام عبد اللہ بن عثمان (مروج الذهب" جلد را ما) :

Page 20

کیا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یہ درست ہے.اس پر حضرت ابو بخرم نے کہا کہ آپ گواہ رہیں میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں.(بخاری کتاب التفسير باب قل يا تها الناس انی رسول الله اليكم جميعا و كتاب مناقب المهاجرين باب اسلام ابى بكر الصديق ) نہج البلاغہ کی شرح ابن عدید جلد را ص۲۱۳ مطبوعہ ایران میں لکھا ہے کہ " اِنَّ اَبَا بَكْرٍ هُوَ اوَّلُ مَنْ أَظْهَرَ إِسْلَامَهُ حضرت ابو بکر وہ ہستی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اپنے اسلام کا اظہار کیا.راسی کتاب میں حضرت عمر و بن عبسہ کی یہ روایت بھی درج ہے:." أتيتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو نازك بعكاظ فقلت يا رسول الله من اتبعك هذا الامر فقال حُرُ و عَبدُ ابو بكر وبلال ) یکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا حضور اُس وقت میدان عکاظ میں اُترے ہوئے تھے میں نے کہا اے اللہ کے رسول کس نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا ہے ؟ فرمایا ایک آزاد یعنی ابو بشجر اور ایک غلام یعنی بلال ایمان لائے ہیں.حضرت عمار بن یاسر فرماتے ہیں :- رائيتُ رسول الله وما معه الاخمسة عبدو امراتان و ابو بکر (بخاری باب ابى بكر الصديق)

Page 21

یں نے اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی جب الحضور سمیت صرف پانچ افراد سلمان ایک غلام ، دو عورتیں اور حضرت ابو جی.حضرت علامہ طبرسی اپنی تفسیر مجمع البیان میں (آیت والسابقون الاولون من المهاجرين والانصار کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :- وَقِيلَ اَنَّ اَوَلَ مَنْ أَسْلَمَ بَعْدَ خَدِيجَةَ ابوبكر ر مجمع البیان سورۃ تو به تالیف ۱۲۶۸ هـ ) حضرت خدیجہ کے بعد سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بخر تھے.ابن عساکر نے حضرت علی رض کے حوالہ سے اور عبد اللہ بن احمد نے اپنی کتاب " زوائد الزہد میں حضرت عباس کی زبانی لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر کو اسلام لانے میں اولیت حاصل ہے ( تاريخ الخلفاء للسيوطي مش۵۷ حضرت ابن عباس کی یہ روایت بھی امام زرقانی نے لکھا ہے کہ آنحضرت نے غار ثور میں ابو بکر صدیق کے لئے جناب الہی میں دعا کی تو ساتھ ہی آپ سے فرمایا رَحِمَكَ اللهُ صَدَّقْتَنِي حِينَ كَذَّبَنِي النَّاسُ وَ نَصَرتَنِي حِينَ خَذَ لَنِي النَّاسُ وَامَنتَ فِي حِيْنَ كَفَرَ في النَّاسُ وَانَسْتَنِي فِي وَحْشَى (زرقانی جلد ۳۳۵ ) اسے ابو بنجر خدا تم پر نظر رحمت فرمائے تو نے اس وقت میری تصدیق کی جب سب لوگوں نے مجھے جھٹلا دیا ، تو نے اُس وقت میری مدد کا بیڑا اٹھایا جب لوگ مجھے بے یارومددگار چھوڑ گئے ، تو اُس

Page 22

۱۳ وقت مجھ پر ایمان لایا اور میرے ایام کرب و بلا میں میرا شریک غم بنا جبکہ دوسرے لوگ منکر ہو چکے تھے.شاعر النبی حضرت حسان کیا خوب فرماتے ہیں سے الثانى التالى المحمود مشهدة واوّل النَّاسِ مَن صَدّق الرُّسُلاً حضرت ابو بکر دوسرے ثانی اثنین ہیں جن کی غار ثور میں موجودگی نے انہیں قابل حمد (محمود) بنا دیا.آنحضرت پر سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت بھی آپ کو یہی نصیب ہوئی یہ دوسرے ثانی اثنین ہونے کی برکت ہی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار حضرت ابو بکر سے خود ارشاد فرمایا :- يَا اَبا بَكْرِ إِنَّ اللَّهَ أَعْطَانِي ثَوَابَ مَنْ آمَنَ بِهِ مِنْ يَوْمٍ خَلَقَ اللهُ أَدَمَ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ وَإِنَّ اللَّهَ أَعْطَاكَ يا اَبا بَكْرِ ثَوَابَ مَنْ آمَنَ بِي مُنْذُ بَعَثَنِي إِلَى انْ تَقُومَ السَّاعَةُ " دیلمی بحوالہ کنز العمال جلد لا مثا۳ ، ۳۱ ) حضرت سید نا علی بن ابی طالب نہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رائع الفار تھے تخلیفہ) کا مقدس خطاب عطا فرمایا ( فروع کافی بعد ما خلا بينابيع المودة من تالیف شیخ سلیمان الجی - مطبوعہ مکتبه العرفان بیروت ) یہ روایت آپ کی بیان فرمودہ ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اسے ابوبکر اللہ تعالیٰ نے مجھے اُن سب انسانوں کا

Page 23

i ثواب عطا فرما دیا ہے جو تخلیق آدم سے لے کر قیامت تک خدا پر ایمان لائینگے اور تجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن تمام لوگوں کا ثواب ملے گا جو میری بعثت سے قیامت تک میرے ماننے والوں میں شامل ہوں گے.۲ - شان صدیقیت ثانی اثنین کے آسمانی خطاب میں حضرت ابو بکر صدیق کی شان صدیقیت کی بھی نشان دہی ہوتی ہے کیونکہ قرآن مجید (سورہ نساع ۶) سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ نبی کے بعد دوسرا درجہ کمال صدیق ہی کو حاصل ہے اور صدیق کی تعریف یہ ہے کہ جو شخص خدا کے نبی سے کوئی نشان نہیں مانگتا اور صرف منہ دیکھ کر اس کو پہچان لیتا اور سب سے اول قبول کر لیتا ہے وہ صدیق کہلاتا ہے.چنانچہ حکیم الملت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں :- صدیق کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے ایمان لاتا ہے اور بغیر معجزہ کے لاتا ہے یا ر اسوه صحابه جلد ۲ ۳۲ از مولانا عبد السلام ندوی) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی یہ بیان فرموده تعریف جو فیضان نبوت کے جاری ہونے پر محکم اور ناقابل تردید اور فیصلہ کن دلیل ہے اس کی تائید دوسرے اکابر امت نے بھی فرمائی ہے.چنانچہ دہلی کے شہرہ آفاق صوفی حضرت خواجہ محمد ناصر کے ملفوظات وارشادات میں لکھا ہے :- " صديق...وہ لوگ ہیں جو انبیاء کی نبوت کی سب سے پہلے تصدیق کریں

Page 24

۱۵ ہے :.ہیں : اور انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ سے خدا کی وحدانیت کی تصدیق کریں ہے ر میخانه دزد مثه مرتبه خوابعه سید ناصر نذیر فرآق مارچ ۱۶۱۹۱۰) مجدد امت حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے جلالین شریف (ص ) میں لکھا " افاضل اصحاب الانبياء لمبا لغتهم في الصدق والتصديق انبیاء کے افضل ترین صحابہ جو صدق اور تصدیق کا انتہائی مقام رکھتے ہیں صدیق کہلاتے ہیں.حضرت شاہ رفیع الدین اپنے ترجمہ قرآن کے حاشیہ میں فرماتے " صدیق وہ (ہے) کہ جو وحی میں آو ہے.ان کا جی آپ ہی اس پر گواہی دے ، نامور مصری عالم عطا حسینی یک فرماتے ہیں کہ ائمہ اسلام حضرت ابو بکر کے صدیق ہونے پر متفق ہیں کیونکہ آپ نے سب سے پہلے رسالت محمدیہ کی تصدیق کی." لا نه اول من بادر للتصديق بالرّسالة " حلى الايام جلد اما) اب صحیح اور مستند احادیث و آثار کا مطالعہ کریں تو قطعی طور پر ثابت ہو جائے گا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ رسول میں سے صاحب الغار ثانی اثنین ابوبکرہ ہی وہ منفرد اور مخصوص وجود ہیں جن کا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے صدیق رکھا گیا.چنانچہ حضرت شیخ الشقة علامہ محمد بن يعقوب الكليمن تفسير في ط

Page 25

17 میں رجسے امت کا ایک طبقہ اصح الکتاب بعد القرآن یقین کرتا ہے ) تحریر فرماتے ہیں :." لَمّا كانَ رَسُولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم في الغارِ فقال لابي بكر...انت الصديق جب آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم غار ثور یں تھے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر سے فرمایا تو صدیق ہے.حضرت علامہ باقر مجلسی اپنی مشہور تصنیف " بحار الانوار" (جلد ۶ ۵۳۳) میں تحریر فرماتے ہیں:." عن خالد بن نجيح قلتُ لابي عبدِ اللهِ جُعِلتُ فِدَاك سمی رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا بكر الصديق قال نعم “ خالد بن نجیح کی روایت ہے کہ یکس نے حضرت ابو عبد الله ( امام جعفر صادق علیہ السلام) سے عرض کیا میں آپ پر قربان ہو جاؤں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو نجر کو التصدیق کا نام دیا تھا آپ نے جواب دیا ہاں.حضرت امام جعفر صادق سے یہ بھی دریافت کیا گیا کہ تلوار چاندی سے آراستہ کرنا جائز ہے یا نہیں.امام علیہ السلام نے فرما یا جائز ہے کیونکہ ابو بکر صدیق کی تلوار چاندی سے مرضع تھی.راوی نے کہا کہ اسے امام کیا آپ بھی ابوسیجر کو صدیق کہتے ہیں.به شن کر حضرت امام جعفر صادق نے پورے جاہ و جلال سے فرمایا.

Page 26

14 " نعم الصديق نعم الصديق نعم الصديق فمن لم يَقُل له الصِّدِّيق فلا صَدَّقَ الله قوله في الدنيا والأخرة " (كشف الغمة عن معرفة الائمه من ٢٢ مصنف مجتهد العصر علی ابن عیسی بحوالہ مسند اہل بیت منت حاشیہ مولفہ محمد بن محمد الباقری نامشر یہ شمس الدین تاجر کتب نار کلی لاہو) ابو بکر صدیق ہیں، صدیق ہیں، صدیق ہیں اور جو انہیں صدیق تسلیم نہ کرے اللہ تعالیٰ دنیا و عقبی میں اس کی کسی بات کی تصدیق نہ کرے.یہی نہیں شیر خدا خاتم الاولیاء حضرت علی المرتضی کرم الله وجمه و تفسیر صافی جاه م) نے فرمایا :- " إِنَّ اللهَ هُوَ الذى سمى ابا بكر على لسان رسول الله صلي الله عليه وسلّم صديقا ( ابونعیم بحوالہ کنز العمال جلد 4 ص۳۱ ) یقینا خدا ہی ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر ابو بکر کا نام صدیق رکھا ہے.ایک اور موقعہ پر حضرت علی نے خدا کی قسم کھا کر کہا."1 الله انْزَلَ اسم ابى بكر من السَّمَاءِ الصَّدِيقَ (ایضاً مناس)

Page 27

یعنی خدا نے ابو جبر کا نام الصدیق آسمان سے نازل فرمایا ہے.حضرت ابو ہریرہ کی حدیث ہے :- "عُرِجَ بى الى السماء فما مَرَرْتُ بسماءٍ إِلَّا وَجَدْتُ فيها اِسمى مُحمّدٌ رَّسُولُ الله وابو بكر الصديق مِنْ خلف" تعقبات سیوطی مثل از علامہ سیوطی المتوفی ۹۱۱ هـ ۶۵ مطبع محمدی لاہور ۲۶۱۸۸۶ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب مجھے آسمانوں کا معراج کرایا گیا تو جس آسمان سے بھی گزرا ئیں نے اپنا نام محمد رسول اللہ رکھا ہوا ) پایا اور ابوبکر صدیق میرے پیچھے پیچھے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت سے فرمایا کہ ابو بکر کی نسبت کوئی شعر کہا ہو تو سناؤ.اس پر انہوں نے یہ شعر پڑھے سے و ثاني اثنين في العَارِ المُنِيفِ وقد طان العدو به إِذْ يَصْعُد الجبلا وكان رِدنَ رسول اللهِ قَدْ عَلِمُوا مِنَ البَريَّةِ لَمْ يَعْدِل به رجُلا دکتر العمال جلد ۶ ص ۳۱ و نهج البلاغه شرح ابن عدید مدا جلد ا م ثمانی امنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلند فار میں موجود تھے اور دشمن نے خالہ کو اس وقت گھیر رکھا تھا جب آپ پہاڑ پر چڑھ رہے تھے اس وقت ابو بکر نفرت کے

Page 28

19 ساتھی تھے اور سب لوگ جانتے ہیں کہ مخلوق میں آپ ہی دیش شخص تھے جو بے مثل ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی شعر سن کر بہت محفوظ ہوئے اور فرمایا حستان تم نے بالکل ٹھیک کہا ہے.حضرت ابو بجزر نے اپنی شان صدیقی کے مطابق زمانہ نبوی میں مالی اور جانی اعتبار سے جو ان گنت مجاہدانہ کارنامے سر انجام دئے تاریخ اسلام ان سے بھری پڑی ہے مشہور واقعہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق جو قبل ازیں ایک سے زیادہ دفعہ اپنا گل گھر بار نثار کر چکے تھے حتی کہ سوٹی تک کو بھی اپنے گھر میں نہ رکھا تھا بغزوہ تبوک جیسے مصیبت کے ایام میں بھی سب صحابہ سے سبقت لے گئے اور آپ نے سب کچھ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کر دیا.آنحضرت نے پوچھا "ما البقيت لاَهْلِكَ " ابو بکر اپنے اہل و عیال کے لئے کیا باقی رکھا ہے ؟ عرض کیا" القیت لهم الله ورسوله (کنز العمال جلد ۱ ص۳۱) میں اُن کے لئے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں.پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس - خلافت بلا فضل میرے بزرگوار عزیز و رسول کریم صلی الہ علیہ سلم کے ساتھ دوسرے ثانی اثنین بننے کی سعادت حضرت ابو گیرہ کو اس لیے حاصل ہوئی کہ آپ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور رسول کریم صلعم نے انہیں صدیق قرار دیا تھا اس کی برکت سے وصال نبوی کے بعد آپ کے خلیفہ راشد نے کی

Page 29

ت انگیز پیش گوئی بھی کی گئی تھی چنانچہ بعض ثقہ روایات سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا انکشاف بذریعہ وحی خفی سفر ہجرت کے وقت ہی ہو چکا تھا.چنانچہ رابع الخلفاء" سید نا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :- " قال رسول الله صلى الله عليه وسلّم لجبريل من يهاجر معى قال ابو بكر وهو يلى امرامتك (کنز العمال جلد ۶ ص۳۲ ) من بعدك.پیغمبر خداحمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل امیں سے پوچھا میرے ساتھ کون ہجرت کرے گا ؟ کہا البولنجر ! اور وہی آپ کے بعد آپ کی امت کے والی ہوں گے.مهبط الوحي ثقة الاسلام حضرت الشیخ علی بن ابراہیم التی تحریر فرماتے ہیں :.ان ابا بكر يَلِي الْخِلَافَةَ مِنْ بَعْدِي ثُمَّ مِنْ بَعْدِهِ ابُوكِ فَقَالَتْ مَنْ اَخَبركَ بِهَذَا قَالَ اللهُ أَخبرني ( تفسیر قمی زیر تفسیر سورۃ تحریم ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ بنت عمر ضہ سے فرمایا کہ میرے بعد ابو بکر خلیفہ ہوں گے.پھر تمہارے والد عمر.انہوں نے عرض کی حضور کو کس نے خبر دی ؟ فرمایا اللہ نے مجھے بتایا ہے.علام حسن نے بھی تفسیر صافی میں یہ روایت درج فرمائی ہے.فرق صرف یہ ہے کہ " اللهُ اخْبَرَنِي" کی بجائے " نبانى العليم الخبير " کے الفاظ لکھے

Page 30

ہیں جس کے معنے ہیں کہ مجھے علیم وخبیر نے مطلع کیا ہے کہ میرے بعد یکے بعد دیگرے ابو نجر اور عمر مسند خلافت پر متمکن ہوں گے.اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شہادت ہے کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا کہ اپنے باپ ابو گجر اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تاکہ میں ایک تحریر لکھ دوں کیونکہ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تمنا کرنے والے تمنا کریں اور کوئی کہنے والا کہے کہ میں حقدار ہوں نہ کوئی اور.مگر پھر اس ارادہ کو آپ نے ترک کر دیا اور فرمایا " وَلَا يَا بَيَ اللهُ والمومِنُونَ الا ابا بكر (صحیح مسلم بحوالہ مشکوۃ باب مناقب ابوبکر صدیق و سیرت حلبیہ جلد ۳ الاسم کہ اللہ اور مومنین ابوبکر صدیق کے سوا دوسرے کی خلافت کا انکار کر دینگے.ایک بدوی نے چند تلواریں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فروخت کیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا فکر نہ کرو اگر میں اپنی زندگی میں قیمت نہ دے سکا تو میرا قرض ابو جر صدیق ادا کر دیں گے.(ایضاً (۲۳) ایک عورت نے آنحضرت سے کچھ دریافت کیا.حضور علیہ السلام نے فرمایا پھر آنا.وہ بولی اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں مطلب یہ کہ حضور فوت ہو چکے ہوں تو پھر کیا کروں.فرمایا :- " اِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَاتِي أَبَا بَكْرٍ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابو بکر صدیق کے پاس آنا.۲۴۴ دبخاری مصری جلد ۲ ۱۸۵۰.۱ انبیاء علیہم السلام استعارات اور مجازات سے کام لیتے ہیں.اسی طرح آنحضرت

Page 31

۲۲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اور لوگوں کو بھی انتشارات و کنایات سے یہ بتا دیا تا جب خدائے قادر و توانا کی یہ پیش گوئی پوری ہو تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو چنانچہ مذیفہ سے فرمایا مجھے معلوم نہیں کہ میں تم میں اور کتنے دن ہوں میرے بعد ان دونوں کے حکم کی پیروی کرنا.یہ فرماتے ہوئے آپ نے حضرت ابو بکر و عمرہ کی طرف اشارہ فرمایا (ترمذی) حضور علیہ السلام نے ایک شخص کو کھجوروں کے لدے ہوئے چند اُونٹ دئے اور فرمایا میرے بعد ابو بکر صدیق بھی ایسی تجود و عطا کا ثبوت دیں گے.(ترجمہ شواہد النبوۃ ص۲۳۳ از حضرت العلام نور الدین عبد الرحمن جامی ناشر مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ لاہور) حضور نے اپنے ایک آخری خطاب میں یہ بھی حکم دیا :- " لَا يَبقِينَ فِي الْمَسْجِدِ بَاب إِلَّا سُدَّ إِلَّا بَابُ إِلَى بَكْرِ (بخاری مصری جلد ۲ ها باب مناقب المهاجرين ) - مسجد کی طرف کھڑکیاں بند کی جاویں مگر ابو نجر کی کھڑ کی مسجد کی طرف کھلی رہے گی.اور فرمایا " وَرَأَيْتُ على باب ابى بكر نُورًا" دکتر العمال جلد ۶ ص۳۲) مجھے ابو نبر کے دروازے پر نور دکھائی دیا ہے جو صریحاً خلافت صدیقی کی طرف اشارہ تھا جس میں ایک بھید یہ تھا کہ مسجد چونکہ منظر اسرار الہی ہوتی ہے اس لئے حضرت ابو بنجر صدیق کی طرف یہ دروازہ بند نہیں ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشادِ مبارک کے علاوہ ایک عملی صورت بھی اختیار فرمائی اور وہ یہ کہ حضرت ابو بکر صدیق کو نمازوں میں اپنا نائب اور امام امت نامزد فرما دیا.حضرت عائشہ نے عرض کیا وہ نرم دل انسان ہیں جب حضور کے معتلی پر کھڑے ہوں گے تو انہیں حضور کا خیال آئیگا

Page 32

أ بالمسجات النبي

Page 33

۳۳ اور اُن کے لئے فرط غم سے جذبات پر قابو پانا مشکل ہوگا اور وہ نماز نہیں پڑھا سکیں گے مگر حضور نے ایک بار پھر تاکیدی حکم دیا کہ مُرُوا اَبَا بَكْرِ أَنْ يُصَلَّى بِالنَّاسِ ابو بکر کو حکم دو کہ وہی لوگوں کو نماز پڑھائیں (بخاری جلد امث ) ایک بار نماز کا وقت ہو گیا حضرت ابو بجزیہ تشریف نہیں لائے تھے کہ لوگوں نے حضرت عرض کو آگے کر دیا اور تکبیر بھی کہ ڈالی حضرت عمرض جبیر الصوت تھے.اُن کی آواز جونی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں تک پہنچی آپ بہت خفا ہوئے اور فرمایا ہرگز نہیں ، ہرگز نہیں ، ہر گز نہیں.اللہ اور مسلمان اس سے انکار کرتے ہیں.ابن ابی قحافہ ہی نماز پڑھائیں گے چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق کو نماز پڑھانے کے لئے بلوایا گیا.( ابوداؤد طلا باب فضل اصحاب النبی ).ایک بار تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز میں آپ کے ساتھ شامل ہوئے (سیرت حلبیہ جلد ۳ ۳۵ ، ۳۷۵) قرآن پاک کی آیت " وما ينطق عن الهوى ان هو الا وحي يوحى کے مطابق قطعی اور یقینی طور پر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نیابت و امامت کا یہ حکم اپنے ذاتی خیال سے نہیں وحی ربانی سے دیا تھا اور اسکی سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ آپ کی کشفی اور الہامی آنکھ اپنے بعد حضرت ابوبکر صدیق کو خلیفہ بلا فضل کی حیثیت سے دیکھ رہی تھی تاہم یہ حقیقت ہے کہ آنحضرت نے اپنے بعد کوئی خلیفہ نامزد نہیں کیا کیونکہ آپ کو خوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرما دے گا اور یہ خدا ہی کا کام ہے اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں " رائع الخلفاء حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :-

Page 34

۳۳ " إِنَّ رسول الله صلى الله عليه وسلّم لم يستخلف فان يُرِدِ اللهُ بالنَّاسِ خيرًا فسيجمعهم على خير (کنز العمال جلد ۲ ۳۱ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کوئی خلیفہ نامزد نہیں فرمایا اللہ تعالیٰ چاہے گا تو وہ لوگوں کو خود ہی خیر پر اکٹھا کر دے گا.

Page 35

۲۵ آیت استخلاف میں دوسری پیشگوئی آیت استخلاف میں دوسری پیش گوئی یہ کی گئی تھی کہ وصال نبوی کے بعد ضلعت خلافت اُسی وجود کو پہنائی جائے گی جس کا اس نے قبل از وقت فیصلہ کر رکھا ہے.قرآن مجید کی یہ دوسری پیشگوئی جس انتہائی نا موافق اور روح فرسا ماحول ہیں، پوری ہوئی اور خدائے قادر و توانا کی ازلی تقدیر جس کا انکشاف اس نے اپنے پاک سول نبیوں کے سردار محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا معرض وجود میں آئی وہ اپنی ذات میں اسلام، قرآن مجید اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ابدی نشان ہے.و حال نبوئی کا دردناک منظر نبیوں کے سرتاج ، رسولوں کے فخر حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک اُمت مسلمہ کی تاریخ کا سب سے دردناک حادثہ تھا جو قیامت کی طرح آن واحد میں ظاہر ہوا اور حشر بن کر عشاق رسول کے دلوں پر ٹوٹ پڑا.یہ سوموار کا دن تھا اور پر وغیر شہید اللہ راجشاہی یونیورسٹی اور مولانا غلام رسول صاحب مہر کی تحقیق کے مطابق ۲۶ مٹی کی تاریخ تھی (اخبار" جنگ " کراچی ۲۸ ستمبر ۶۱۹۵۸ مث : رسول رحمت ۶۵۳ ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور طبع اول ۱۹۷۰ء) چشم فلک نے ایسا الم انگیز نظارہ کبھی نہ دیکھا تھا.مدینہ النبی میں گہرام مچ گیا.حضرت عبداللہ بن انہیں تو اس صدمہ سے نڈھال ہو کر انتقال ہی کر گئے (ما ثبت من السنه ۲۳ - ۲۳۰ از حضرت شاه عبد الحق

Page 36

محدث دہلوی) عشاق رسول آنحضرت کی نعش مبارک کو صریحاً اپنی آنکھوں کے سامنے پڑا دیکھتے تھے مگر وہ اس بات کو قبول کرنے کے لئے تو تیار تھے کہ اپنے حواس کو متل مان لیں لیکن یہ باور کرنا انہیں دشوار تھا کہ ان کا سب سے پیارا رسول اُن سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا ہے.حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کی حالت تو بالکل برداشت سے باہر تھی.وہ عشق و وارفتگی میں عرصہ سے یہ مجھے میٹھے تھے کہ ہم سب صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی فوت ہوں گے اور حضور کی وفات ہمارے بعد ہو گی (مواہب اللدنيه للقسطلانی جلد ۲ ص ۳۷ مطبوعہ ۱۳۲۶ھ/ ۱۹۰۸ء) لیکن اس کے برعکس جب آنحضور کے وصال کی خبر پھیلی تو انہوں نے تلوار میان سے نکال لی اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرے نہیں زندہ ہیں اگر کو ئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت شدہ کہے گا تو میں اس کا سر تن سے جدا کر دوں گا.ایک صحابی جس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ مدینتہ النبی کس طرح میدان حشر کا نظارہ پیش کر رہا ہے عمان پہنچے اور لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر دی اور کہا کہ میں مدینہ والوں کو ایسے حال میں چھوڑ آیا ہوں کہ ان کے سینے ہنڈیا کی طرح اُبل رہے تھے.(اصابہ تذکرہ جہم بن کلوه الباہلی ؟ ) اسلام کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی بغاوت تمام صحابہ تو مدینہ منورہ میں رسولِ عربی کے فراق میں ماہی بے آب کی طرح تڑپ

Page 37

رہے تھے مگر اسلام کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے آنحضرت کی وفات پر بہت خوشیاں منائیں اور کہا قدمات هذا الرجلُ الذى كانتِ العرب تُنصَرُبه (کنز العمال جلد ۳ ص ۱۳) وہ مرد چل بسا جس کے باعث عرب مظفر و منصور تھے." اس کے علاوہ عرب میں مسیلمہ کذاب، طلیحہ اسجاح جیسے جھوٹے مدعیان نبوت اٹھ کھڑے جو بو تریخ اسلام حضرت علامہ الشیخ حسن بن محمد و با ر بکری تاریخ میں جلد ۲۲ میں لکھتے ہیں :- " ان العرب افترقت في رِدَتِها فقالت فرقة لوكان نبيا مامات وقال بعضهم انقضت النبوة بموته فلا نطيع احدا بعده وقال بعضهم نومن بالله ونشهد ان محمّدًا رسول الله ونصلّى ولكن لا نعطيكم اموالنا ترجمہ : عرب کے مرتدین میں تفرقہ برپا ہو گیا.ایک گروہ نے کہا اگر محمد رصلی اللہ علیہ وسلم ) نبی ہوتے تو فوت نہ ہوتے بعض نے کہا آنحضرت کی وفات سے نبوت ختم ہو گئی ہے.پس ہم آپ کے بعد کسی کی اطاعت نہیں کریں گے (یعنی کسی کو خلیفہ مجد دریا مذہبی صلح تسلیم نہیں کریں گے ) بعض لوگوں نے کہا ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور گواہی دیتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ہم نماز بھی پڑھتے ہیں لیکن ہم اپنے اموال تمہیں نہیں دیں گے (مطلب یہ کہ اسلام ہمارا دین ضرور

Page 38

ہے مگر ملک میں نظام معیشت ہم اپنی مرضی سے استوار کریں گے) یہ اندرونی فتنہ ہی کچھ کم خطرناک اور قیامت خیز نہ تھا کہ قیصر و کسرنی کی حکومتیں جو آج کے روس اور امریکہ کی طرح پوری دنیا کے اقتدار اور سیاست پر چھائی ہوئی تھیں اور سالہا سال سے مرکز اسلام مدینتہ الرسول کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی سازشیں کر رہی تھیں، دیکھتے ہی دیکھتے حرکت میں آگئیں.چنانچہ علامہ قسطلانی نے مواہب اللدنیہ میں (بحوالہ طبرانی) یہ روایت نقل کی ہے کہ عرب کے عیسائیوں نے ہر قل کو لکھ بھیجا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا انتقال ہو گیا ہے اور عرب سخت قحط کی وجہ سے بھوکوں مر رہے ہیں اس بناء پر ہر قتل نے چالیس ہزار فوج جمع کی.دسیرت النبی جلد ا هم از علامہ شبلی ).اسی طرح بارھویں صدی کے مجدد اور سعودی عرب کے دینی پیشوا حضرت امام محمد بن عبد الوہاب رحمتہ اللہ علیہ نے مختصر سیرت الرسول" میں لکھا ہے کہ : " لَمَّا ارْتَدَتِ الْعَرَب بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلم قال كسرى مَنْ يَكْفِينى امرَ العَرَب فقد مات صاحبهم وهم الأن يختلِفونَ بَينَهُمُ الا ان يُرِيدَ الله بقاء ملكهم فيجتمعون على أفضلهم قالو اند لك على الملِ الرَّجُلِ مخارف بن النعمان ليس في النَّاسِ مثْله وهو من اهل بيت دانت لهم العَرَب وهؤلاء جيرانك بكر بن وائل فارسل اليهم واَخَذَ منهم ستمارة الأشرت فالأشرف مختصر سیرت الرسول

Page 39

۲۹ مطبعة السنة المحمدية ، اشارع مشریف باشا الكبير قاہرہ ۱۳۷۵ هـ مطابق ۱۹۵۶ء ص ۲۲، ص۲۲۲ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد عربوں نے ارتداد اختیار کر لیا تو کسری نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ اس وقت میری طرف سے ان عربوں کے معاملہ میں پورے طور پر کون نیٹے گا ؟ اس وقت ان عربوں کا یہ اہنما اور آقا تو فوت ہو گیا ہے اور وہ باہم اختلاف میں مبتلا ہیں.ہاں اگر اللہ تعالیٰ ان کی بادشاہت کو قائم رکھنا چاہے گا تو وہ اپنے میں سے بہترین پر متفق ہو جائیں گے اور نہ اب ان کا ہلاک ہونا یقینی ہے ) قوم کے لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کو اس کام کے لئے بہترین اور بے نظر شخص کا پتہ بتاتے ہیں وہ مخارف بن النعمان ہے.عرب لوگ پہلے بھی اس کے خاندان کے تابع رہ چکے ہیں اور یہ لوگ آپ کے پڑوسی قبیلہ بنوبکر بن وائل ہیں.کسری نے بنو بکر کو پیغام بھیج کر بلایا اور ان میں سے اعلیٰ طبقہ کے چھ سو افراد کو شورش بیا کرنے کے لئے منتخب کر لیا.خلافت صدیقی پر اجماع برادران اسلام با آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر خدا کی طرف سے نہ ہوتے اور اسلام خدا کا دین اور قرآن اس کی کتاب نہ ہوتی تو آنحضرت کی وفات پر اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ یقینی تھا.وہ زمانہ تارا ٹیلی فون ، ریڈیو اورٹیلیوتین کا نہ تھا اور نہ صحابہ کے پاس کوئی ایسے ذرائع و وسائل تھے جن سے وہ آنا فانا

Page 40

۳۰ اہل عرب اور بیرون ملک کی زبر دست حکومتوں کے اندرونی منصوبوں کی اطلاعات حاصل کر سکتے اور صورت حال کی سنگینی کا اندازہ کرکے کوئی فیصلہ کر سکتے مگر یخدا کی قدرت دیکھو! کہ اس نے اپنے اُن بے کس اور غم زدہ بندوں کو جو اپنے محبوب آقا کی وفات پر بے سہارا اور تیم رہ گئے تھے اور دُنیا اُن کے سامنے اندھیر ہو چکی تھی اپنے تصرف خاص سے فی الفور اس طرف مائل کیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عالمگیر مشن کو جاری رکھنے کے لئے رسول اللہ کا خلیفہ منتخب کر لیں.حضرت ابن اثیر جزری فرماتے ہیں " كَرِهُوا أَنْ يَبْقُوا بَعْضَ يَوْمٍ وَلَيَسُوا في جَمَاعَةٍ (كامل ابن اثیر جلد ۲ (۱۳) صحابہ نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ ایک لمحہ بھی امام کے بغیر زندہ رہیں.چنانچہ مشتاق اسلام اور فدایان ملت خیر الانام نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ ارشادِ خداوندی اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا " (نساء رکوع ۸) کی تعمیل میں سقیفہ بنو ساعده میں جمع ہوئے تاکہ وہ غور کریں کہ بینظیم اور نازک ورقه داری جو اس ماحول میں کانٹوں کے تاج اور آگ کے دہکتے انگاروں سے کم نہیں تھی کیس کے سپرد کی جا ؟ ** مہاجرین اور انصار دونوں نے خالص دینی بہبود اور دیانتداری سے اپنی آزادانہ آرام پیش کیں.ایک نقطہ نگاہ یہ تھا کہ انصار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر بے دریغ قربانیاں دے کر ثابت کر دکھایا ہے کہ حفاظت اسلام کی موجودہ ذمہ داریوں سے انصار ہی عہدہ برآ ہو سکتے ہیں.دوسرا نقطہ نگاہ یہ سامنے آیا کہ اسلام کی حقیقی تصویر کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جانے والے مہاجر ہیں اس لئے یہ امانت کسی مہاجر کو سونپی جانی چاہیئے تیسرا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ

Page 41

۳۱ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جامع الصفات تھے مگر اب مہاجرین و انصار میں سے کوئی ایک شخص تنهایہ خدمت کامیابی سے انجام نہیں دے سکے گا اس لئے مہاجرین وانصا سے دو بزرگ منتخب کر لئے جائیں تا صرف ایک شخص پر بوجھ نہ پڑے اور مختلف قبائل باہم متحد و متفق ہو کر غلبہ اسلام کی مہم جاری رکھ سکیں.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دوسرے نقطۂ نگاہ کی حمایت کی کیونکہ ان کی دور بین نگاہ دیکھ رہی تھی کہ اِذا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ کے مطابق اب وہ زمانہ ، اسلام کی وسیع اشاعت و ترقی کا آرہا ہے.ایسے وقت میں اُسی قوم کے کسی فرد کو زمام قیادت سنبھالنی چاہیے جیسے تیرہ سالہ صبر آزما مگی دور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ کے انوار سے فیضیاب ہونے اور اُن کو صحیح شکل میں آگے پہنچانے اور پھیلانے کا موقع ملا.یقیناً وہی آئندہ نسلوں کو اسلام کی حقیقی روایات سے وابستہ رکھ سکے گا اور اُسی کے ذریعہ تقبیل میں داخیل اسلام ہونے والی قوموں اور نسلوں کو اسلام کی صحیح روشنی مل سکے گی.تاہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہرگز ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ بار خلافت ان کے نحیف و نزار کندھوں پر ڈال دیا جائے (موطا امام محمد بحوالہ اسوہ صحابہ ۲ ص از مولانا عبد السلام ندوی ، بینی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی یہ رائے پیش کرتے ہی حضرت عمر رض اور حضرت ابو عبیدہ کا نام اس منصب کے لئے تجویز کر دیا اور کہا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو ( طبری مصری ش حالات جلدم لابی جعفر محمد بن جریر طبری) مگر دونوں نے انکار کیا اور کہا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں امام اور خلیفہ بنایا اور جوسب

Page 42

مہاجرین میں سے بہتر ہے ہم اُسی کی بیعت کریں گے (کامل ابن اثیر جلد ۲ (۱۳۹۰) مطلب یہ تھا کہ اس منصب کے لئے حضرت ابو بجز سے بڑھ کہ اور کوئی شخص موزوں نہیں.اس پر پہلے حضرت عمر رض اور پھر حضرت ابو عبیدہ اور سعد بن بشیر خزرجی ان نے اور بعد ازاں دوسرے تمام صحابہ نے حضرت ابوبکر صدیق کے دست مبارک پر بیعت کی.اس موقعہ پر انصار نے ایثار اور وسعت حوصلہ کی شاندار مثال قائم کی اور سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابو جبر کی بعیت خلافت پر کوئی سوال نہیں اُٹھایا.اس طرح زمین و آسمان کی وہ عظیم الشان امانت جیسے اُٹھانے کیلئے حضرت ابوبکر کو بہت تائل تھا آخر آپ ہی کے کمزور کندھوں پر ڈال دی گئی ہے آسمان باید امانت نتوانست کشید d قرعه خالی بنام من دیوانه نزدند.(حافظ شیرازی ).وہ بوجھ اُٹھا نہ سکے حبس کو آسمان و زمیں اُسے اُٹھانے کو آیا ہوں کیا عجیب ہوں میں مصلح موعود رض) خلاصہ یہ کہ خدا کے وعدوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے میں مطابق تمام صحابہ رسولِ ثانی اثنین کے ہاتھ پر اکٹھے ہو گئے اور خلافتِ صدیقی پر اجماع امت ہو گیا مشجر الاولیاء ملك از سید العابر فین محمد نور خبر القہستانی ) جو دراصل اپنے خدا سے یہ عملی عہد تھا کہ ہم اسلام اور محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہونے دیں گے.اسلام کی آواز پست

Page 43

۳۳ نہ ہوگی.خدائے واحد کا نام ماند نہ پڑے گا اور ہمیشہ خلیفۂ وقت (جو ایک وقت میں ایک ہی ہو سکتا ہے ) کے حکموں کے مطابق زندگی کے آخری سانس تک اسلام کی خدمات بجالاتے رہیں گے اور یہی معنے بیعت خلافت کے تھے اور ہیں.پھیلائیں گے صداقتِ اسلام کچھ بھی ہو بھائیں گے ہم جہاں بھی کہ جانا پڑے ہمیں پروا نہیں جو ہاتھ سے اپنے ہی اپنا آپ حرف غلط کی طرح مٹانا پڑے ہمیں خلیفہ خُدا بناتا ہے بیعت خلافت صدیقی نے ثابت کر دیا کہ جس طرح ہمارے سید و مولی سید الر مسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں سنگریزوں کی جو مٹھی چلائی اس کے پیچھے الہی طاقت کار فرما تھی (وَمَا رَمَيْتَ اذْرَميتَ وَلَكِنَّ الله رفی - انقال : (۱۸) اسی طرح اگر چہ حضرت ابو بکر صدیق کا انتخاب بظا ہر مومنوں نے کیا مگر حقیقتاً آپ کو خلافت کی قبا خدا نے اپنے دست قدرت سے پہنائی تھی سید نا حضرت علی المرتضی بہ شیر خدا نے اس حقیقت پر کیا پیارے اور مختصر فقرے میں روشنی ڈالی ہے :- " إنما الشورى للمهاجرين والانصارِ فان اجتمعوا على رجل وسموه را ما ما كان ذلك لِله رضى ا نهج البلاغہ ملا مطبوعه تهران ۱۳۰۲ هر و نهج البلاغه مترجم

Page 44

#} مهم ۳ مترجم نائب حسین نقوی ناشر غلام علی اینڈ سنز لاہور فروری ۱۱۹۶۳) شوری کا حق صرف مہاجرین اور انصار کو حاصل ہے.پس جب وہ کسی شخص کی بہوت پر جمع ہو جائیں اور اُسے امام کے نام سے موسوم کر دیں تو خدا کی رضا بھی وہی ہو جاتی ہے.حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اپنے مختصر مگر جامع کلمات میں یہ بھی فرمایا کہ رضينا عن اللهِ قَضَاءَهُ وَسَلَّمُنَا لَهُ امْرَةً }..فَنَظَرْتُ فِي امْرِى فَإِذَا طَاعَتِى قَدْ سَبَقَتْ بَيْعَتِي بیعی ر نهج البلاغہ خطبہ ۳۷ حصہ اول ۲۲۲، ۲۲۵ (مترجم) ناشر غلام علی اینڈ سنٹر ۶۱۹۶۳ ) یعنی ہم اللہ کی اس تقدیر پر راضی ہیں اور ہمار ا سر اس کے فیصلہ کے سامنے مجھکا ہوا ہے.میں نے اپنے معاملہ پر غور کیا تو میرا اطاعت (خلافت) کرنا بیعت خلافت سے سبقت کر چکا تھا.حضرت علامہ ابو جعفر ابن جریر طبری اپنی مشہور تاریخ میں بروایت حبیب بن ابی ثابت واضح لفظوں میں تحریر فرماتے ہیں :- " إِنَّ عَلِيَّا كَانَ فِي بَيْتِهِ فَالَى الَيْهِ الْخَبَرُ عَنْ جُلُوسِ ابي بَكْرِ البَيْعَةِ فَخَرَجَ فِي قَمِيْصٍ مَا عَلَيْهِ إِزَارَ قَلَا رِدَاء عَجَلا كَرَاهِيَةٌ أَنْ يُبْطِئَ عَنْهُ حَتَّى بَايَعَه ثُمَّ جَلَسَ الَيْهِ وَ بَعَثَ وَاحْضَر تَوْبَه وَتَخَلَّلَهُ وَلزِم

Page 45

۳۵ مجلسه " (طبری جلد ۲ ۱۸۲۵) یعنی جناب علی نہ گھر میں تشریف فرما تھے کہ انہیں حضرت ابو بکر صید لق کی بیعت کی خبر ملی.آپ اُس وقت صرف ایک قمیص میں ملبوس تھے.ازار اور چادر بھی نہیں ملتی مگر اس کے باوجود آپ جلدی سے باہر نکل کھڑے ہوئے کیونکہ آپ کو گوارا نہ تھا کہ بیعت خلافت سے پیچھے رہ جائیں.چنانچہ آپ نے بیعت کی اور حضرت ابو بکرم کے پاس بیٹھ گئے.پھر یہیں سے ایک آدمی بھیجا جو آپ کے کپڑے لایا جن کو آپ نے پہنا اور جب تک حضرت ابو بکرہ مجلس میں رونق افروز رہے آپ نے بھی بیٹھنے کا التزام فرمایا.سبحان اللہ ! خلیفہ بلا فصل کی عقیدت و محبت کا کیا ایمان افروز نمونہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے دکھایا.فتبارك الله احسن الخالقین.حبیب کبریا ابو تراب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اقلیم زہد و فقر کے بادشاہ تھے یہی وجہ ہے کہ اطاعت خلافت اور درویشی کا جو اظہار اس فانی فی اللہ نے انتخاب خلافت صدیقی کے موقعہ پر کیا اُس کا نمونہ آپ نے اُس وقت بھی دکھایا جب صحابہ کرام ذوالنورین حضرت عثمان بن عفان کی شہادت پر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُنہیں بار خلافت اُٹھانے کی درخواست کی مگر آپ نے فرمایا :- دَعُونِي وَاليَسُوا غَيْرِى" مجھے چھوڑ دو اور میرے سوا کسی اور کو تلاش کرو.پھر فرمایا :-

Page 46

اميرا " اِنْ تَرَكْتُمُونِي فَأَنَا كَا حَدِكُمْ وَلَعَلَى اسْمَعُكُمْ وَأَطْوَعُكُمْ يمن وليتموه امركم وَاَنَا لَكُمْ وَزِيرًا خَيْراً نهج البلاغه ص۵۹ مطبوعہ ایران ) اگر تم مجھے چھوڑ دو تو میں بھی تم جیسا ایک فرد ہی ہوں گا اور میں شخص کو بھی تم والی خلافت بناؤ گے میں تم سے زیادہ اس کا فرماں بردار او مطیع رہوں گا.یکیں امیر کی نسبت وزیر بننے کو پسند کرتا ہوں.مگر جب صحابہ نے اصرار کیا تو بیعت لینے کے بعد فرمایا :- واللهِ مَا كَانَتْ لِي فِي الْخَلَافَةِ رَغْبَةً وَلَا فِي الْوِلَايَةِ ارْبَةُ شرح نهج البلاغہ لابن ابی الحدید جلد ۲ ص ) خدا کی قسم نہ کبھی خلافت میں مجھے کوئی رغبت ہوئی اور نہ میں ولایت و حکومت ہی کا طلبگار رہا ہوں.سيد العارفين محمد نور بخش القهستانی کے مشجر الاولیاء میں ایک حقیقت افروز روایت لکھی ہے جس سے حضرت سید نا علی رض کے واقعہ بیعت کی ایک نگشندہ کڑی کا سراغ ملتا ہے.فرماتے ہیں کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں جب انتخاب خلافت کا مرحلہ در پیشین تھا تو اس وقت آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نسل اور تمیز و تکفین میں مشغول تھے.آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے انگوٹھی اُتاری اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حوالے کی اور فرمایا لوگوں کے پاس جائیں اور ان کو سنبھالیں اور اپنی امارت پر متفق کریں.اس پر حضرت ابوبکر تشریف لے گئے.آپ کے ساتھ حضرت عمر

Page 47

۳۷ بن الخطاب بھی تھے.حضرت عمر نے لوگوں سے خلافت کے متعلق گفتگو کی تو وہ سب حضرت ابو بکر کی خلافت پر راضی ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی انگوٹھی کی برکت اور حضرت علی المرتضی نے کی حسین تدبیر سے وہ سارے متفق ہو گئے.(تلخیص از مشیر الاولیاء ص۲۳۳، ص۲۳۲) بیعت عامہ سقیفہ بنی ساعدہ کی پہلی بیعت کے بعد جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے معا بعد ہوئی تھی.دوسری سبعیت اگلے روز مسجد نبوی میں ہوئی اس بیعت کو مورخین بیعت عامہ کا نام دیتے ہیں.(طبری دوم ص ۱۸۲ - ۱۸۲۹ ، ما ثبت بالسنه م ۲۷۵ از حضرت عبد الحق محدث دہلوی ) اس موقعہ پر حضرت عرض کے متواتر اصرار کو دیکھ کر حضرت ابوبکرہ منبر کی طرف بڑھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد نے تڑپا دیا اور نیچے بیٹھ گئے جہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروز ہوا کرتے تھے.اس موقعہ پر تمام صحابہ نے ایک بار پھر بیعت کی.بعد ازاں خلیفہ بلا فصل سید نا حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ رسول اللہ نے پہلا خطاب عام کیا جو تھا کساری، عاجزی، منکسر المزاجی اور بے نفسی کا آئینہ دار تھا.آپ نے دوران خطبہ یہ بھی فرمایا :- " وَاللهِ ما كنتُ حريصًا على الإمارة يوما ولا ليلة قط ولا كنت راغبا فيها ولا سالتها الله في سر ولا علانية

Page 48

مرسم ولكن اشفقت من الفتنة ومالي في الإمارة من راحة لقد قلّدت امرًا عظيما مالی به من طاقة ولا يد الا بتقوية الله تعالى ( تاريخ الخلفاء للسيوطى من ، ما - سیرت حلبیہ جلد ۳ ۳۸) خدا کی قسم مجھے امارت و خلافت کی کبھی خواہش نہیں ہوئی.نہ کبھی دن کو یہ خیال آیا نہ رات کو اور نہ یکں نے مخفی یا ظاہری طور پر یہ عہدہ اللہ تعالیٰ سے طلب کیا.صرف فتنہ کے ڈر سے میں نے یہ نصب قبول کیا ہے.مجھے اس خلافت کے قبول کرنے میں کوئی بھی راحت محسوس نہیں ہوئی بلکہ میرے سپرد ایسا کام کر دیا گیا ہے کہ میں اُسے محض اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے ہی انجام دے سکوں گا.وصیت نبوی کے مطابق جنازہ اسلام میں خلافت کا با برکت نظام قائم ہو چکا تو حضرت ابوبکر صدیق اور دوسرے صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے اہم دینی فریضہ کی طرف متوجہ ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل یہ فرمایا تھا کہ :- یکن وہاں دفن ہونگا جہاں میری روح قبض کی جائے گی ) ترجمہ جلاء العیون جلد ۱ - ۲ از حضرت علامہ محمد باقر مجلسی

Page 49

۳۹ طبع سوم ناشتر تاجر کتب خانہ اثنا عشری لکھنو) صحابہ رسول نے اس فرمان مبارک کی ایسے فدائیانہ رنگ میں تعمیل کی کہ حیرت آتی ہے.انہوں نے اشکبار آنکھوں اور محزون ومجروج دلوں کے ساتھ آنحضرت کو نہ صرف حضرت عائشہ صدیقہ کے اُسی حجرہ میں دفن کیا جس میں آپ نے انتقال فرمایا تھا، بلکہ آپ کے جسد اطہر کو زیارت وغسل اور جنازہ کے وقت بھی اُس مبارک حجرہ اور مقام مقدس سے جدا کیا جانا برداشت نہیں کیا ور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے حضور کے جنازہ کی صرف وہی منفرد اور مخصوص شکل اختیار کی جو حضور کے مقام امامت، مقام محمدیت اور مقام خاتمیت کے عین مطابق اور براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تجویز فرمودہ تھی جیسا کہ حضرت علامہ محمد باقر مجلسی مجتہد العصر نے جلاء العیون میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ : ور سب سے پہلے آدمیوں میں سے وہ مجھ پر نماز پڑھے جو میرے اہلبیت میں سے مجھ سے زیادہ نزدیک ہو.اس کے بعد عورتیں اور لڑکے میرے اہلبیت میں سے اور ان کے بعد اور لوگ " ترجمہ جلاء العیون مث ، الخصائص الكبرى للسيوطى " جلد ۲ حث ۲۷ ، کامل ابن اثیر جلد ۳ ص ۱۳۲ ، طبری ،ص ۱۸۳ ۲۶۱ ما ثبت بالسنه از عبد الحق محدث دہلوی ص۳۶) حضرت علامہ محمد باقر مجلسی نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ : ر جناب امیر (سیدنا علی، دروازے کے آگے کھڑے ہوئے اور

Page 50

۴۰ حضرت پر نماز پڑھی.بعد اس کے اصحاب کو اجازت دی کہ دس دس نفر داخل ہوتے اور گردو جنازہ کھڑے ہوتے تھے اور جناب امیر ان کے بیچ میں کھڑے ہو کر یہ آیت پڑھتے تھے إِنَّ الله وملا ايه يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تسلیما اور یہ لوگ بھی یہی آیت پڑھتے اور درود حضرت پر بھیجتے اور باہر آجاتے تھے یہاں تک کہ جمیع اہل مدینہ و اطراف مدینہ نے حضرت پر درود بھیجا ترجمہ اردو جلاء العیون جلد اول ص ) ۶۹۶ بعینہ یہی روایت حیات القلوب جلد ۲ ص میں اور حضرت محمد بن لعقوب کلینی کی کتاب الکافی کے صا (مطبوعہ ایران ) اور سیرت حلبیہ (جلد ۳ ۱۳۸۵، ص ۳۹ تالیف حضرت علی بن برہان الدین ) پر بھی موجود ہے.اور حضرت علامہ سیوطی نے خصائص کبری متے ہیں اور حضرت عبد الحق محدث دہلوی نے ما ثبت بالسنہ صل۲۶ میں مزید لکھا ہے کہ حضرت علی نے صحابہ کرام کو بلا امام نماز جنازہ پڑھنے کی تلقین کی اور اس کی جو لطیف حکمت بیان فرمائی وہ آپ کی نکتہ آفرینی کا نقطۂ معراج تھا.آپ نے فرمایا :- هُوَا مَا مُكُمْ حَيَّا وَمَيْتًا " هُوَاِمَامُدٌ (الخصائص الکبری جلد ۲ ما) کہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم زندگی میں بھی تمہارے امام تھے اور وفات کے بعد بھی تمہارے امام ہیں (لہذا آپ کی نماز جنازہ کے وقت کوئی اور امام نہیں

Page 51

۴۱ آیت استخلاف کی تیسری پیشگوئی معزز حضرات ! آیت استخلاف میں تیسری پیش گوئی یہ کی گئی تھی کہ نظام خلافت کی برکت سے دین اسلام کو تمکنت اور قوت و شوکت نصیب ہو گی اور خوف کی فضا امتن میں بدل جائے گی.خدا کی یہ بات بھی کمال صفائی سے سراسر نا موافق اور مخالف حالات میں پوری ہوئی.أم المؤمنين زوج النبي سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں :- تُونِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ بابِي بَكْرِ مَا لَوْ نَزَلَ بِالْجِبَالِ لَهَا ضَهَا ازالۃ الخفاء فارسی مقصد دوم صدا از حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی مطبوعہ مطبع صديقي بريلي و تاريخ الخلفاء للسيلولي م مترجم رسول اله صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال پر میرے باپ حضرت ابو بکر صدیق پر مصیبتیں پڑیں اور وہ کم دل پر نازل ہوئے کہ اگر وہ کسی پہاڑ پر پڑتے غم تو وہ بھی گر پڑتا اور پاش پاش ہو جاتا.علامہ ابن خلدون (شهره آفاق مورخ اسلام ) اِس حالت کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں کہ وَالمُسلِمُونَ العَلَم في الليلةِ الْمُنْطِرَةِ لِقِلَتِهِمْ وَكَثرَةِ عُدُو هِمْ وَ اظْلَامِ الْجَوَ بِفَقَدِ نَبِيهِمْ ( ابن خلدون جلد ۲ مشه )

Page 52

۴۲ مشہور مصری ادیب محمد حسین سہیل نے بھی اپنی محققانہ کتاب ابو بکر صدیق اکبر میں لکھا ہے کہ :.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے مسلمانوں کی حالت اُس ریوڈ کی طرح ہو گئی تھی جو جھاڑے کی نہایت سرد اور بارش والی رات کو ایک لق و دق صحرا میں بغیر چرواہے کے رہ جائے اور اُسے سر چھپانے کو بھی کہیں جگہ نہ مل سکے.(ترجمہ ص۱۳) افق عرب پر کفر وطنیان اور ضلالت و گمراہی کے سیاہ اور تاریک بادل چھا گئے تھے اور مکہ ، طائف اور مدینہ کے سوا اسلام کا نام و نشان مٹ گیا حتی کہ مرکز اسلام مدینہ النبی میں صرف دو مسجدیں ایسی رہ گئیں جہاں با قاعدہ نماز باجماعت پڑھی جاتی تھی.(مروج الذهب للمسعودى جلدا ص۲) اور جیسا کہ سید امیر علی مرحوم سی آئی ای ای ایل ڈی ڈی ایل پریوی کونسلر نے لکھا ہے :- اسلام تقریباً مدینہ کی حدود میں سمٹ کر رہ گیا تھا.ایک مرتبہ پھر ایک شہر کو سارے جزیرہ نما کی فوجوں سے لڑنا تھا " ( تاریخ اسلام اردو (ص ) جیش اسامی کی روانگی اور کامیاب مراجعت ( سند نا حضرت ابوبکر صدیق نے اللہ تعالیٰ سے دعاؤں اور اس کے خاص القاء

Page 53

۴۳ سے ان فتنوں کے خلاف اولین قدم یہ اٹھایا کہ حضرت اسامہ بن زید کی سرکردگی میں ایک اسلامی لشکر رومی حکومت کے مقابلہ کے لئے روانہ کیا.بی شکر آخرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں تیار کیا تھا کہ حضور کا انتقال ہوگیا.تمام جلیل القدر صحابہ نے حضرت ابو بکر صدیق رض کی خدمت میں درخواست کی کہ یہ وقت سخت خطر ناک ہے.اگر اسامیہ کا لشکر بھی عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے پھیلا گیا تو مدینہ میں صرف بچے اور بوڑھے رہ جائیں گے اور مسلمان عورتوں کی حفاظت نہ ہو سکے گی ہم آپ سے التجا کرتے ہیں کہ آپ اس لشکر کو روک لیں اور پہلے عرب کے باغیوں کا مقابلہ کریں جب ہم انہیں دبا لیں گے تو پھر اسامہ کے شکر کو عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے روانہ کیا جا سکتا ہے لیکن حضرت ابو بکر صدیق نے یہ درخواست رد کر دی اور نہایت پر شوکت اور پر علال الفاظ میں جواب دیا کہ کیا ابو قحافہ کا بیٹا خلافت پر فائز ہونے کے بعد پہلا کام یہ کرے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری مہم تیار کی تھی اُسے روک دے یہ نہیں ہو سکتا.پھر فرمایا :- عقدة " والذى لا اله إلا هو لو جَرَّتِ الكلاب با رجل ازواج النبي ما رَدَدْتُ جَيْشًا وَجَهَهُ رسُولُ اللهِ وَلَا حَلَلْتُ لوام جهة.( تاريخ الخلفاء للسيوطي ) اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں اگر صحرا کے گئے بھی مدینہ میں گھس آئیں اور ازواج مطہرات پاؤں تک بھیٹے لگیں تب بھی ہیں اس لشکر کو نہیں لوٹاؤں گا جسے محمد رسول اللہ

Page 54

سلام مودم باند صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کیا تھا اور جو جھنڈا رسول خدا نے باندھا اور تھا میں اُسے ہرگز نہیں کھولوں گا.پیش کر جائے گا اور ضرور جائیگا.(ایضا تاریخ کامل جلد ۳ ص ۱۲) جیش اسامہ اگر چہ انتہائی بے بسی کے عالم میں بھجوایا گیا تھا مگر وہ جہاں جہاں سے گزرا اُس نے مدینہ سے باہر ہر جگہ اسلامی حکومت کی دھاک بٹھا دی کیونکہ لوگوں نے اُسے دیکھ کر یہ زبر دست نفسیاتی تاثر کیا کہ اگر اہل مدینہ کے پاس طاقت اور قوت نہ ہوتی تو ایسے نازک وقت میں وہ اس لشکر کو ہر گز نہ بھجوا سکتے.( تاريخ الخلفاء للسيوطى منه ) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کی دعاؤں اور مجاہد صحابہ کی قربانیوں کو شرف قبول بخشا اور اسلامی لشکر چند ماہ کے اندر اندر فتح و ظف کے پرچم لہرانا ہوا واپس مدینتہ النبی میں پہنچ گیا ہے خُدا کے پاک لوگوں کو خُدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے جھوٹے مدعیان نبوت کا عبرتناک انجام خُدائے قادر و توانا جل شانہ کی تائید و نصرت کے اس عظیم نشان کے طور کے بعد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رہنے اپنی پوری توجہ اس نظم شورش اور سکے بغاوت کے استیصال کی طرف مبذول کر دی جس کو قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کی پشت پناہی حاصل تھی اور جو منکرین نبوت محمدیہ منکرین خلافت اور منکرین زکوة

Page 55

هم نے اٹھا رکھی تھی.یہ وہی بادیہ نشین تھے جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے پیش گوئی فرمائی تھی: قَالَتِ الأَعْرَابُ أَمَنَاء قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ، (الحجرات : ۱۵) منکرین نبوت محمدیہ سے مراد علیہ مسیلمہ، سجاح اور ذو الستان لقیط بن مالک جیسے جھوٹے مدعیان نبوت تھے جو اسلامی سلطنت کو پارہ پارہ کرنے کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اور مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا بر سر پیکار تھے بعضرت ابو نبر صدیق کو آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی تو یہ اور برکت سے فیضان ختم نبوت کا مکمل و تم عرفان تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کو مخاطب کر کے فرمایا تھا.66 أبو بكر اَفضَلُ هَذِهِ الْأُمِّةِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيَّ (کنوز الحقائق وكنز العمال جلد ۶ تا ۱۳) ابو بکر افضل امت ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی پیدا ہو جائے.حضرت ابو بریہ کو یہ ھی معرفت کا علم حاصل تھی کہ آخر صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے سیم محمدی کو چار بار نبی اللہ کے نام سے یاد فرمایا ہے اور یہ خیر دی ہے کہ " انه لیس بینی و بینه نبی“ (بخاری ) کہ میرے اور مسیح محمدی کے درمیان کوئی نبی نہیں ہو گا لہذا اس درمیانی عرصہ میں دھوئی نبوت کرنے والا ہر شخص و تقال و کذاب ہو گا ) اس فیصلہ نبوی کے مطابق آپ اس یقین پر علی وجہ البصیرت قائم تھے کہ یہ

Page 56

۴۶ لوگ سیاسی نقطہ نگاہ سے باغی اور مذہبی اعتبار سے قطعی طور پر کذاب اور منتری ہیں.یہ سب بد بخت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل مستقل نبوت کے دعویدار تھے.اور قرآنی احکام میں منسوخی و تبدیلی ان کا مشغلہ تھا ( مدعیان نبوت صدا تا حث تاليف اعتقاد السلطنة موسسه انتشارات آسیا تهران - الصديق من از حافظ عبد الرحمن صاحب امرتسری ، ۶۱۸۹) مسیلمہ کذاب نے تو شراب اور زنا تک کو جائز قرار دے دیا تھا (سیرت الصديق ص از محمد حبیب الرحمن خان شیروانی حبیب گنج ضلع علی گڑھ.مطبوعہ علی گڑھ ۱۳۳۲ھ) اور قرآن کا مذاق اُڑانے کے لئے سورۃ والعادیات کے مقابل نئی سورة اختراع کر لی تھی (جذب القلوب الى ديار المحبوب از حضرت شیخ عبد الحق محدث) لیکھا ہے کہ مسیلمہ کذاب نے سماح کو مصالحتی پیغام بھیجا کہ نصف زمین قریش کی تھی نصف ہماری.اب وہ نصف تم کو دی جاتی ہے اور اس کے بعد اسے نکاح کا پیغام دیا بتجارح رضامند ہو گئی سجارج نے مہر کا مطالبہ کیا تو مسیلمہ کذاب نے کہا کہ پانچ نمازیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرض کی طقیں کیں تمہارے مہر میں صبح و عشاء کی دو نمازیں معاف کرتا ہوں.(اشاعت اسلام ص از مولانا حبیب الرحمن ناظم دارالعلوم دیوبند) ران جھوٹے معیاری نبوت نے ملک بھر میں خوفناک فتنہ اٹھایا اور لاکھوں لوگ ان کے پیچھے بھی ہو گئے مگر وہ بہت جلد خدا کی قمری تجلی کا شکار ہو کر نیست و نابود ہو گئے طلیحہ اور سجاح نے تو اسلام قبول کر لیا اور سیلمہ کذاب اور ذو التاج

Page 57

۴۷ اسلامی افواج کے ہاتھوں مارے گئے اور یہ سب فتنہ حضرت ابو بجز کے عہد ہیں با لکل ختم ہو گیا.( نبراس شرح عقائد نسفی از الحافظ محمد عبد العزيز الفرہاری رحمت اله علیہ ص ۲۳ مطبوعہ طبع ہاشمی میرٹھ) لعنت ہے مفتری پر خدا کی کتاب میں عزت نہیں ہے ذرہ بھی اس کی جناب میں کوئی اگر بخدا پر کرے کچھ بھی افتراء ہو گا وہ قتل ہے یہی اس مجرم کی سزا خلافت اور زکوۃ کے باغیوں کے خلاف جنگی کارروائی اب رہے وہ باغی جو خلافت اور نظام زکواۃ دونوں کے منکر ہوچکے تھے.ان کی نسبت بھی سب بزرگ صحابہ نے بارگاہ خلافت میں عرض کی کہ عرب نئے نئے زمانہ جاہلیت سے نکل کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں انہیں زکوۃ معان کر دی جائے اور نماز کوکافی سمجھ کر قبول کر لیا جائے.اس پر حضرت ابوبکر صدیقی نے ایک بار پھر سیلالی خطبہ دیا کہ :." والله لا أبرح اقومَ بِأَمْرِ اللَّهِ وَأَجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللهِ حَتَّى يُنْجِزَ اللهُ لَنَا وَلَقِيَ لَنَا عَهْدَه...فَإِنَّ اللهَ قَالَ لَنَا وَلَيْسَ لِقَوْلِهِ خُلْفٌ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَاللَّهِ لَوْ مَنْعُونِي عِقَالًا

Page 58

مَّا كَانُوا يُعْطُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ معهم الشجرُ والمَدَر و الجن و لجاهَدْتُهُمْ حَتَّى تَلْحَقِّ رُوحِي بِاللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَمْ يُفَرِّقُ بين الصلوة والزكواة (کنز العمال جلد ۳ ۱۲ حدیث ۲۳۵۳) (ترجمہ) بخدا یکی ہمیشہ خدا کے حکموں پر عمل کروں گا اور اسکی راہ میں جہاد جاری رکھوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالٰی ہمارے کام کو پائیہ تکمیل تک پہنچا دے اور ہمارے لئے اپنا عہد پورا فرما دے کیونکہ اس کے وعدہ میں تختلف نہیں.اُسی نے ہمیں ارشاد فرمایا ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخَلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قبلهم - اللہ نے وعدہ کیا ہے تم میں اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے، کہ وہ ضرور اُن کو زمین پر (یعنی ملک میں) خلیفے بنائے گا ر ایسے ہی خلیفے ، جیسا کہ اُن سے پہلے بنائے بغدا کی قسم ! اگر وہ لوگ ایک دستی کو بھی روک لیں گے جو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے اور اس بغاوت میں ان کے ساتھ جنگلوں کے مکین ، شہروں کے باشندے اور سر بر آوردہ لوگ اور عوام بھی شامل ہو جائیں تو بھی یکں آخر دم تک اُن کے خلاف علم جہاد بلند رکھوں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکواۃ میں قطعاً رقم

Page 59

۴۹ کوئی امتیاز نہیں کیا.چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق نے زکواۃ اور خلافت کے منکر باغیوں کی طرف پے در پے شکر بھیجوائے لشکروں کی راہ میں مشکلات کے پہاڑ آکھڑے ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے خشکی اور تری میں ایسے ایسے نشانات دیکھائے کہ مسلمان مجاہدوں کے ایمان کو تقویت ملی.ان کے حوصلے بلند ہو گئے اور سب باغی ہتھیار ڈال دینے پر مجبور ہو گئے.غازیان اسلام کے لئے نشانات چنانچہ تجرین کے باغیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مدینہ النبی سے ایک فوجی دسته حضرت علاء ابن الحضرمٹی کی سرکردگی میں بھجوایا گیا.غازیان اسلام ایک لق و دق صحرا میں سے گزر رہے تھے کہ ان کے تمام اونٹ بے قابو ہو کر بھاگ گئے.نہ کوئی اُونٹ رہا نہ تو شہ ، نہ توشہ دان نه خیمہ سب کا سب ریگستان میں غائب ہو گیا اور یقین ہو گیا کہ ہلاک ہو جائیں گے مگر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اُن اُونٹوں کی واپسی کا غیبی سامان کیا بلکہ عین اُس جگہ جہاں وہم و گمان بھی نہ تھا چشمہ جاری کر دیا.۱۲۶ ۱۲۵، ص ۱۳ ناسر شریف اکیڈمی کراچی تاریخ طبری حصّہ دوم مترجم باغیوں کی بھاری جمعیت خیلی وار ہیں میں جمع ہو گئی تھی.دار بن پر حملہ کرنے کے لئے جہازوں اور کشتیوں کی ضرورت تھی جو مسلمان شکر کے پاس موجود دینہ تھیں حضرت علاء الحضرمی نے لشکر اسلام میں خطبہ پڑھا کہ تم لوگ خشک میدان

Page 60

۵۰ میں خدا کی جب قسم کی تائید اور امداد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو تم کو اس قتم کی امداد اور تائید کی توقع دریا میں بھی رکھنی چاہیئے تم سب دریا میں داخل ہو جاؤ.اس پر اسلامی لشکر یہ دعائیہ کلمات پڑھتے ہوئے سمندر میں داخل ہوگیا يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ يَا كَرِيمُ يَا حَلِيمُ - يَا أَحَدُ يَا صَمَدُ - يَا حَيُّ يَا مُحْيِ الْمَوْلى يَا حَى وَقَيُّومُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ يَا رَبَّنَا.کوئی اُونٹ پر سوار تھا، کوئی گھوڑے پر کوئی خچر پیز کوئی گدھے پر اور بہت سے با پیادہ تھے سمندر کا پانی خشک ہو کر اس قدر رہ گیا کہ اونٹ اور گھوڑے کے صرف پاؤں بھیگتے تھے.اسلامی لشکر ایسے آرام سے ہولناک دریا کو طے کر رہا تھا ہ گویا بھیگے ہوئے رہتے پر چل رہا ہے.دارین میں کیسی کو یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ مسلمان جہازوں اور کشتیوں کے بغیر اس طرح دریا کو پا پیادہ طے کرکے پہنچیں گے.وہ غافل تھے کہ مسلمان وہاں پہنچے گئے اور دار بن پر اسلامی جھنڈا گاڑ دیا.تاریخ کامل جلد ۲ ص بحوالہ اشاعت اسلام م ، من از مولوی محمد حبیب الرحمن صاحب ناظم دارالعلوم دیوبند) ۱۴۲ ہوں جہاں گر دہم میں پھر پیدا + سند باد اور پھر جہازی بخش سید الانبیاء کی امت کو : جو ہوں غازی بھی وہ نمازی بخش (المصالح الموعود ض) ارتداد اختیار کرنیوالے باغیوں پر فتح وہ باغی عناصر جو اسلام سے بالکل مرتد ہو کر اسلامی حکومت کا تختہ

Page 61

الٹے میں سر گر یہ شمس تھے حضرت ابو بکر صدیق خان کی سرکوبی کے لئے بنفس نفیس لشکر لے کر جانا چاہتے تھے مگر سید نا حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے آپ کی سواری کی باگیں پکڑ لیں اور عرض کیا :." اَيْنَ تَذْهَبُ مِنَ الْمَرْكَزِ وَ اَنْتَ نِظَامُ الْإِسْلَامِ وَ اِلَيْكَ مَدَارُ الإِسْلامِ لَا تَخْرُجَنَّ مِنْ دَارِ الْخِلَافَةِ ولكن اَرْسِلَ مَعَ الْعَسْكَرِ نَائِبًا مِنْكَ ، مشجر الاولیاء صد ناشر شمس الدین تاجر کتب مسلم مسجد چوک انارکلی لاہور ) آپ مرکز چھوڑ کر کہاں تشریف لے جا رہے ہیں.آپ ہی تو نظام اسلام اور مدار اسلام ہیں آپ دار الخلافہ سے ہرگز نہ جائیں بلکہ آپ کسی نائب کوشش کر کے ساتھ بھیج دیں.یہ شجر الاولیاء کی روایت ہے کنز العمال (جلد ۱۳۵۳ - ۱۲ ) میں حضرت علی رض کے یہ الفاظ منقول ہیں :- " إلى أيْنَ يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ الله....لا تُفجعنا بِنَفْسِكَ وَارْجِعْ إِلَى الْمَدِينَةِ فَوَ اللَّهِ لَئِنْ فُجِعْنَا لَا يَكُونُ لِلْإِسْلَامِ نِظام اَبَدًا خلیفہ رسول آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں ؟ ہمیں اپنے وجود سے کسی مصیبت میں مبتلا نہ کریں اور مدینہ کی طرف لوٹ آئیں.خدا کی قسم اگر کوئی حادثہ رونما ہو گیا تو نظام اسلام کبھی ء

Page 62

۵۲ قائم نہ ہوسکے گا.حضرت ابو بکر صدیق نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یقیمتی مشور منظور فرما لیا اور ایک لشکر میں تو حضرت خالد بن ولید کو اور دوسرے میں حضرت اسامہ کو اپنا نائب بنا کر بھیج دیا.(مشجر الاولیاء ص ۲۳) حضرت ابوبكر صديق " کا اصل مقصد چونگ کی بغاوت کے اڈوں کو ختم کرناتھا اِس لئے آپ نے سپہ سالاروں کو واضح الفاظ میں ہدایات جاری فرمائیں کہ باغیوں کی سرکوبی سے قبل ان کو کلمہ شہادت پڑھنے کی دعوت دیں اور اگر وہ یہ دعوت قبول کرلیں تو ان باغیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے.حضرت ابو بکر صدیق کے سرکاری خطوط ما ، م ، م ، م ، خطا مولف خورشید احمد فاروق استاد ادبیات عربی دہلی یونیورسٹی ندوۃ المصنفین اردو بازار جامع مسجد دہلی لا طبع اول دسمبر ۲۶۱۹۶۰ صحابہ کی وحفظ نصیحت اور اس کے عمدہ اثرات " بغاوت کی جو چنگاریاں ابھر رہی تھیں وہ تو جنگی کارروائی کے نتیجہ میں بالکل ختم ہو گئیں مگر ارتداد کے عام اثرات کو صحابہ رسول نے وعظ و نصیحت سے مٹایا ، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اہل کتاب صحابہ و تابعین از مولوی حافظ مجیب اللہ ندوی ۱۹۵۱ء) ان کے باطل شکن دلائل و براہین نے سینکڑوں قبائل اور ہزاروں نفوس کو جو اسلام سے دُور جا چکے تھے پھر سے اسلام میں داخل کر دیا.

Page 63

۵۳ صحابہ نے اس دور میں کس طرح تبلیغ اسلام کا جہاد کبیر کیا اس کی ایک مثال بارھویں صدی ہجری کے مجتہد اور سعودی حکومت کے مذہبی پیشوا حضرت محمد بن عبد الوہاب نجدی رحمۃ اللہ علیہ (ولادت ۶۱۷۰۳ وفات ۶۱۷۹۱) کی کتاب مختصر سیرت الرسول صلى الله کہ اسے بیان کرتا ہوں.فرماتے ہیں:.عليه وم جب اہل ہجر اسلام سے برگشتہ ہونے لگے تو آنحضرت کے (محبوب صحابی حضرت جارو و من المعلی اپنی قوم کو سمجھانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تو انہوں نے فرمایا لوگو ! تم موسی کو کیا مجھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں.پھر حضرت جارود نے پوچھا کہ تم حضرت عیسی کو کیا جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ خدا کے رسول ہیں.اس پر حضرت بارودا نے فرمایا > انا اشهد ان لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ عَاشَ كَمَا عَاشُوا وَمَاتَ كَمَا مَا تُوْا میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں.آپ نے ویسے ہی زندگی گزاری جس طرح حضرت موسی و عیسی زندہ رہے اور اسی طرح فوت ہوئے جیسے حضرت موسی و عیسی وفات پاگئے.حضرت جار و دین المعلی کی اس موثر تقریر کا یہ اثر ہوا کہ قبیلہ عبد القیس میں سے کسی فرد نے ارتداد اختیار نہ کیا صحیح کو مرنے دو کہ اسلام کی زندگی اسی میں ہے “ ملفوظات مسیح موعود

Page 64

۵۴ جلد ۱ ص ۲۵) (ترجمه از مختصر سیرت رسول ص ۲۲ مطبع ) المحمديه القاهره ۱۳۷۵ ۵/ ۱۶۱۹۵۶ فتنہ ارتداد کو مٹانے میں اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں سے حضرت ثمامہ بن اثال ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت سہیل بن عمر اور دوسرے بجانثار صحابہ نے شاندار خدمات انجام دیں مگر سید نا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے تبلیغی جہاد کا حق ادا کر دیا جیسا کہ رب العالمین کے اس محبوب اور اس کے منصور اسدالله الغالب نے ایک بار فرمایا :- فَمَشَيْتُ عِنْدَ ذلِكَ إِلَى إِلَى بَكْرِ فَبَايَعْتُهُ وَنَهَضْتُ في تلك الأحداثِ حَتَّى زَاغَ الْبَاطِلُ وَزَهَقَ وَكَانَتْ كَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا " ( منار الهدى مولفه شيخ على الحراني ص ۳) یکی خود چل کر حضرت ابو بنجر کے پاس گیا اور ان کی بیعت کر لی اور ان حوادث میں ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور یہاں تک مقابلہ کیا کہ باطل را و حق سے ہٹ گیا اور بھاگ گیا اور خدا تعالیٰ کا کلمہ توحید بلند ہو گیا.رگین کا حیرت انگیز اعتراف یورپ کا نامور مورخ گی ABDOM قرآنی پیش گوئی ولید کنم BBON) من بعد خوفهم أمنًا کی حقانیت کو عملاً تسلیم کرتے ہوئے لکھتا ہے :-

Page 65

۵۵ The various rebels of Arabia, without a chief or a cause, were speedily suppressed by the power and discipline of the rising monarchy: and the whole nation again professed.and more steadfastly held, the religion of the Koran.The ambition of the caliphs provided an immediate exercise for the restless spirit of the their valour was united in the pro- Saracens of a holy war; and their enthusiasm was cjselly contrmed by oppoistion and vie- tory.SUC (The History of the Decline and Fall of the Roman Empire by Edward Gibbon Vol.VI.P-4) ( ترجمہ ) عرب کے مختلف باغیوں کو...نئی اکبر نے والی حکومت نے اپنی قوت اور تنظیم کی بدولت بہت جلد مغلوب کر لیا اور ساری قوم نے از سر نو قرآنی مذہب پر عمل درآمد کا اعلان کیا اور اُس پر مضبوطی سے قائم ہوگئی مسلمانوں کی سیمانی روح کے لئے خلفاء کے عزائم نے فوری عمل کا سامان فراہم کیا اور مسلمانوں کی جدائت ایک مقدس جنگ کے لئے متحد عمل ہوگئی اور ان کا جوش و خروش، مقابلہ اور فتح و کامرانی دونوں صورتوں میں یکساں طور پر نمایاں ہو گیا.

Page 66

۵۶ قیصر و کسرٹی کی حکومتوں تصادم او فتوحات کا آغاز آیت استغلاف میں تمکنت دیں کو جو نظام خلافت سے وابستہ کیا گیا تھا اس کی تشریح و توضیح بھی اللہ تعالیٰ نے دوسری بہت سی آیات قرآنی میں فرمائی اور پہلے سے خبر دی کہ روم و ایران جیسی پر شکوہ حکومتوں سے عنقریب تصادم ہوگا اور ان کے زیر نگیں علاقوں پر اسلام کا جھنڈا لہرائے گا اس ضمن میں چند آیات یہ ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.وَعَدَكُمُ اللهُ مَغَانِمَ كَثيرة - - - (الفتح : ۲۱) (تفسیر منہج الصادقين) افَلَا يرون انا ناتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۳۴۹...( الانبياء : (۴۵) (مجمع البحرین زیر لفظ ننقص كَتَبَ اللهُ لأَغْلِينَ أنا ورسلي --- (المجادلہ: ۲۲) (تفسیر مجمع البیان) ستدعون إلى قوم أولى باس ---- (الفتح : ١٧) وَتُرِيدُ أنْ نَمنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُم ايمة ونَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ....(القصص : 1) وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ انَ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِى الصّالِحُونَ....( الانبياء : ١٠٣) الم غُلِبَتِ الرُّومُ في أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ....(الروم : ۲ تا ۴) (فروع کافی کتاب الروضه جلد ۳ ۱۳) ہیں نہیں ان فتوحات کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کو عالم کشف میں

Page 67

نظارہ بھی دکھایا گیا تھا چنانچہ تفسیر می (شاه) ، حیات القلوب جلد ۳۵۲ سیرت حلبیہ جلد ۲ ۲۲۳، زرقانی جلد ۲ ص اور سیرت ابن ہشام میں غزوہ اختزاب کا یہ ایمان افروز واقعہ درج ہے کہ جب خندق کھودی جا رہی تھی تو آخرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے گدال پکڑا اور پتھر پر مارا پھر فرمایا اللہ اکبر.پھر کدال مارا اور ساتھ ہی کہا اللہ اکبر پھر تیسری دفعہ کدال مارا ساتھ ہی پتھر ٹوٹ گیا.اس پر آپ نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا او صحابہ کو بتایا کہ کال پڑنے سے تین دفعہ روشنی نمودار ہوئی تینوں دفعہ خُدا نے مجھے اسلام کی آئندہ ترقیات کا نقشہ دکھا یا پہلی روشنی میں قیصر کے شاہی محلات دکھائے گئے اور اُنکی گنجیاں مجھے دی گئیں.دوسری دفعہ کی روشنی میں مدائن کے سفید محلات مجھے دکھائے گئے اور مملکت فارس کی چابیاں مجھے دی گئیں تیسری دفعہ کی روشنی میں صنعا کے دروازے مجھ پر تھولے گئے.جنگ خندق فروری مارچ ۶۲۷ء میں ہوئی جس میں دشمن کی مسلح فورج اندازاً جو میں ہزار تھی اور مدینہ کے مسلمان انتہائی اقلیت میں تھے یعنی گل مسلمان مردوں کی تعداد بچوں اور اپاہجوں کو ملا کر مشکل تین ہزار ہوگی.خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت یہ نظارہ دیکھا اس وقت مدینہ انہی چاروں طرف سے خطرہ میں گھر چکا تھا اور کفار مکہ اور اندرونی منافقین اور یہود نے مدینہ کے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا مگر حضرت البو برمیدیا کے زمانہ خلافت میں اللہ تعالیٰ نے حالت خوف کو دور کر کے امن کا سامان پیدا کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نہ صرف مسلمانوں کی حالتِ

Page 68

۵۸ خوف امن میں تبدیل ہوگئی بلکہ عراق اور شام کے بہت سے علاقے بھی ختم ہو گئے اور ان کی حکومتوں پر ضرب کاری لگی اور عہد فاروقی میں مسلمان شہسواروں کے گھوڑوں نے قیصر و کسرٹی کے تاج اپنے پاؤں تلے روند ڈالے اور ان کے اقتدار کے پرچے اڑا دئیے حقی غالب آگیا اور باطل کو شکست فاش ہوئی اور خُدا کی بادشاہت پھر سے زمین پر قائم ہو ایک امریکن مورخ واشنگٹن را رونگ نہایت حیرت اور استعجاب کے انداز میں لکھتا ہے :."It is singular to see the fate of the orce mighty and magnificent empires of the orient, Syria, Chaldea, Babylonia, and the dominions of the Medes and Persians, thus debated and decided in the mosque of Medina, by a handful of grey headed Arabs, who but a few years previously had been homeless fugitives" (Lives of the successors of Mohamet by Washington Irving, London, Published by John Murray, Albemarle Street, 1970) (ترجمه) به امر بالکل بے مثال ہے کہ ام ، انڈیا، بے بی گونیا، میڈیا اور ایران جیسی عظیم مشرقی سلطنتوں کی قیمتیں مدینہ کی مسجد میں موضوع سخن بنی (جنوبی عراق) کے (جدید عراق ) سے شمالی ایران

Page 69

۵۹ ہوئی تھیں جہاں مٹھی بھر عمر رسیدہ عرب ان کے بارے میں منشور سے اور فیصلے کر رہے تھے جبکہ وہ خود چند سال پہلے بے یار و مددگار گھروں سے نکالے گئے تھے.ایک فرانسیسی مصنف نے اس مضمون کو ایک اور انداز میں بیان کیا ہے لکھتا ہے کہ یکی محمد عربی کو نبی نہیں مانتا مگر کیں اس واقعہ کو کہاں لے جاؤں کہ مدینہ میں ایک چھوٹی اور کچی مسجد ہے جس کی چھت پر کھجور کی ٹہنیاں پڑی ہیں اور بارش کا پانی اس سے ٹپک پڑتا ہے.اس مسجد میں چند فاقہ مست لوگ جن میں سے بعض کو کھانے کی روٹی بھی میسر نہیں اور نہ سارا تن ڈھانکنے کے لئے کوئی کپڑا ہے ، یہ کہہ رہے یں کہ ہم ساری دنیا کو فتح کر لیں گے اور ابھی چند سال نہیں گزرتے کہ یہ ناممکن بات عملی شکل اختیار کرلیتی ہے اور قیصر و کسری کی زبر دست حکومتیں پاش پاش ہو جاتی ہیں اور ان کے مقبوضات اسلامی حکومت میں شامل ہو جاتے (بحواله منهاج الطالبین ص لا تصنیف حضرت مصلح موعود ) ہوئے وہ قیصر و کسری کے کتر و فر بر باد ہیں ہیں.مکہ کے جب بوریا نشین گئے یہ ہے آیت استخلات کی روشنی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی عہد خلافت کی صحیح قرآنی تاریخ جو بے شمار خدائی نصر توں ، رحمتوں اور کتوں سے معمور ہے اور اسلام، قرآن اور محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و حقانیت کا چمکتا ہوا نشان ہے.کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دیکھا وے یہ نمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے

Page 70

مصطفی پر تیرا ہے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ تو کر لیا با ریت رایا ہم نے خلافت صدیقی کی ان فتوحات نمایاں اور متواتر نشانوں کے تصور ہی سے لیے اختیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بلا فصل سید نا حضرت ابو برمید لالی پر درودو سلام جاری ہو جاتا ہے.اسے خلیفہ رسول ! تم پر لاکھوں کروڑوں درود و سلام !! تم نے اپنے خون سے گلشن اسلام کی آبیاری کی.امت محمدیہ روز محشر تک تمہارے احسانوں کا بدلہ نہیں اُتار سکتی.حق یہ ہے کہ اگر اُس وقت ابو بکر رش نہ ہوتے تو اسلام بھی نہ ہوتا.یقیناً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بڑا احسان حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ہے.قیصر روم نے ایک بار کہا تھا کہ اگر یکی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جناب میں پہنچ سکتا تو آنجناب مقدس کے پاؤں دھونا اپنا فخر سمجھتا.اسی طرح بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر پوری اُمت حضرت ابو بنجر کے لئے اپنی سب دعائیں مخصوص کر دے اور قیامت تک جناب الہی کے حضور سجدات شکر بجا لاتی رہے تب بھی وہ حضرت ابو بکر صدیق کا شکریہ ادا نہیں کر سکتی ہے اگر ہر بال ہو جائے سخن ور تو پھر بھی شکر ہے اِمکاں سے باہر

Page 71

41 مُستشرقین کی طرف سے صحیح قرآنی تاریخ پر پردہ ڈالنے کی سازش میرے پیارے بھائیو اور بزرگو! اپنے مضمون کے دوسرے حصہ میں مجھے نہایت درد بھرے دل کے ساتھ یہ عرض کرنا ہے کہ مستشرقین یورپ منافقوں اور اسلام کے دشمنوں کی آن موضعی جھیلی اور من گھڑت روایتوں اور خلاف عقل تاویلوں کا سہارا لے کر جن کا ایک بہت بڑا انبار فیج اعوج کے زمانہ تک تیار ہو چکا تھا فوائد المجموعہ فی بیان احادیث الموضوعه از حضرت محمد بن علی شوکانی " مجاله نافعه از حضرت شاه عبد العزیز تعقبات سیوطی از حضرت علامہ جلال الدین سیوطی موضوعات كبير از حضرت امام علی القاری قرآن مجید کی اس مستند اور آسمانی تاریخ پر پردے ڈال رہے ہیں اور اسے انتہائی بھیانک اور مسخ شدہ صورت میں پیش کر رہے ہیں.یہ خدا نا ترس لوگ علم تاریخ کے ذریعہ مسلمانان عالم کو حقیقی اسلامی تاریخ سے بدل بلکہ متنفر کرنا چاہتے ہیں سٹیفنز (STEPHENS SAMES ) با باس اور تھر سمتھ BOSWORTH ) سیل (SALE ) ، آسبرن Smith ) (OSBORNE ) ، ویری (E.N.WHERRY) ، ہنری کوپی ( COPPEE ) اور ولیم میور ( WILLAM MUIR ) ( تاریخ اشاعت اسلام ۳۶- ۳۱۴ مولفہ مولانا شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی مرحوم ) اور دوسرے عیسائی مصنفوں

Page 72

۶۲ کی حضرت خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے دشمنی اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ وہ آپ کی مقدس زندگی کو معاذ اللہ (خاکم بدہن محض ایک خونی اور فوجی آمر کی حیثیت دیتے اور اسلام کی تلوار کا رہین منت سمجھتے ہیں.یہی فرماتے رہے شیخ سے پھیلا اسلام یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے؟ (اکبر الہ آبادی) مستشرقین میں صبر و نوجین ( JABEER DANOGEN ) بظا ہر ایک سنجیدہ انسان شمار ہوتا ہے مگر اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی نسبت ایسی سو فیصدی جھوٹی ، دل آزار اور ناپاک اور شرمناک کہانی وضع کر ڈالی ہے کہ جس کا تصور کر کے بھی ایک عاشق رسول عربی کا جگر شق اور دل پارہ پارہ ہو جاتا ہے (دیباچہ حیات محمد از محمد حسین سیکل صدا مطبوعہ قاہرہ ۱۳۵۴هـ ) مستشرقین کے نزدیک اسلام اور قرآن محض آنحضرت کے دماغ کا منصوبہ اور اختراع ہے.چنانچہ مغربی دنیا کا مایہ ناز موتریخ اور ماہر عمرانیات ٹائن بی (TOYNBEE ARNOLD ) جس نے اسی سال ۲۳ اکتوبر ۱۹۷۵ء کو انتقال کیا ہے اپنی عمر بھر کی تحقیق یہ بیان کرتا ہے کہ بانی اسلام نے ابتداء میں یہودیت سے فیض اُٹھایا جو خالص سریانی مذہب تھا بعد میں نسطوریت سے استفادہ کیا جو سیحیت کی ایک شاخ تھی (ترجمہ مطالعه تاریخ حصہ اول که از ٹائن بی ، ناشر مجلس ترقی ادب ۲ کلب روڈ لاہور ) نیز کہتا ہے کہ (حضرت محمد کی خلاق روح نے یہودیت اور سیحیت سے جو روشنی حاصل کی اس کو بدل کر اسلام کے نئے اعلیٰ مذہب کی شکل دے دی.(1) ۵۴

Page 73

۶۳ اس انداز فکر کا بی نتیجہ یہ ہے کہ مستشرقین اور مغربی مورخین جہاں اپنی مذہبی تاریخ لکھتے وقت اپنے اسلاف کے ادنی اور معمولی کاموں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے اور ان کو بڑی عظمت دیتے ہیں وہاں آنحضور خاتم العارفین خاتم المرسلين سيد الأولين والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی ) کی صداقت کو مشتبہ اور قوت قدسیہ کو داغدار کرنے کے لئے ایک تو نظام خلافت کو محض عرب کے سیاسی ماحول کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جو ان کے نزدیک عربوں کے بلاد فارس اور مشرقی سلطنت روما کے ایک بڑے حصے پر تسلط کی پیداوار تھا جیسا کہ سر ٹامس آرنلڈ نے خلافت (THE CAILA PHATE ) میں تاثر دیا ہے دوسری طرف آپ کے جانشین اور خلیفہ بلا فضل حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کو بھی سازش ٹھہراتے ہیں اور آپ کی فتوحات کو محض ایک سیاسی عمل، اتفاق یا مادی ذرائع سے تعبیر کرتے ہیں چنانچہ ولیم اپنے ٹیکنیل WILLIAM) (H.MCNEILL اور کارلین رونین والدیکین ROBINSON WALDMANY نے اپنی تازہ کتاب اسلامی دنیا (THE ISLAMIC WORLD) کے صفحہ ۷۵ پر اس امر پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ جب پیغمبر اسلام ہی موجود نہ تھے تو یہ کیسے تمکن تھا کہ مسلمان خالق ارض و سما کی مشقت اور تقدیر کو سمجھتے اور خدا کی مرضی کے مطابق انتخاب عمل میں آسکتا ؟ فرانسیسی مستشرق لا ئینس اور ڈاکٹر فلپ جیتی نے پی مضحکہ خیز نظریہ قائم کیا ہے کہ خلافت صدیقی در اصل حضرت ابو جردن، حضرت عمر، حضرت ابو عبيدة عامر بن الجراح کی سیاسی سازش کے نتیجہ میں معرض وجود میں آئی ( ترجمہ ابو بکر (MARILYN

Page 74

19 صدیق موقفہ عمر ابو النصر م و ص ۱۳۲ متر جم شیخ محمد احمد پانی پتی مرحوم ، ناشر حجم ادارہ فروغ (لاہور) ڈاکٹر فلپ کے حتی ( DR.PHILIP K.HITTI) نے یہ افسانہ بھی تصنیف کیا ہے کہ حضرت علی کو ابتداء ہی سے سرگرم عامیوں کی ایک جماعت ہل گئی تھی جن کا مذہبی عقیدہ یہ تھا کہ رسول اللہ کے بعد علی او صرف علی کو جانشین بننا چاہیے کیونکہ وہ رسول اللہ کے چچیرے بھائی ، آپ کی صاحبزادی فاطمہ کے شوہر اور کنگن کے والد تھے ( تاریخ العرب از رحتی جز اول ، ما طبع سوم ۱۹۶۱ء - ترجمه تاریخ بشام کا مترجم مولانا غلام رسول مهر، ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ) حتی نے حضرت علی پر یہ نا پاک افتراء اور ظالمانہ اتہام صرف اس لئے باندھا ہے تا یہ تاثر دیا جا سکے کہ (حضرت) بانی اسلام کے قریبی رشتہ دار اور ان کے ہم عصر صحابہ کے خیال میں بھی اسلام بین الا قوامی ، آفاقی اور آسمانی تحریک نہیں تھا بلکہ اس کی حیثیت محض ایک تسلی ، خاندانی اور قبائلی مذہب کی تھی.مستشرقین اور دوسرے مغربی مصنفین اسلام سے بغض و عداوت کا زہر نہایت میٹھے اور شیریں الفاظ میں ملا کر پیش کرنے کو ایک فن سمجھتے ہیں.فرانسیسی تحقیق ڈاکٹر گستاؤ لیبان نے اپنی کتاب " تمدن عرب میں اس فن کو کمال تک پہنچا دیا ہے.یہ شخص وان کریمیر (VAN CRAEMER ) ، رگبین (330 ( 6 )، ڈاکٹر ویل ( RODWELL ) اور ڈاکٹر سٹروپر ( SIR WEER ) کی طرح حضرت ابو بکر صدیق کی سادگی اور بے لوث ملکی خدمات کی بہت تعریف کرتا ہے (جہاد صدیق ما ، ما از میجر جنرل

Page 75

۶۵ اکبر خاں ، مگر ساتھ ہی بڑے معصومانہ انداز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اسلامی حکومت کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والے باغیوں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اور یہ کہ کر چپکے سے اسلامی تاریخ کے جسم میں خنجر گھونپ دیتا ہے کہ پیغمبر عرب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کا ذکر خود پیغمبر نے کبھی نہیں کیا تھا اور انہیں اس پہ غیر کی تعلیم کو جاری رکھنے کا کوئی حق نہ تھا متمدن غرب" اُردو ۳ مترجم سید علی بلگرامی) گستاؤلی بان بازنطینی عیسائی حکومت اور کسریٰ کی ایرانی حکومت کی خطرناک سازشوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر یہ بھی لکھتا ہے کہ بہت ہی تھوڑے دنوں میں حضرت ابو نخرہ کو معلوم ہو گیا کہ سب سے عمدہ طریقہ ان نا اتفاقیوں کے بند کرنے کا یہ ہے کہ عربوں کو ملک سے باہر اپنی جیبی جنگ و جدال کی عادت کو کام میں لانے کا موقعہ دیا بھائے اور یہی خوش تدبیری ان کے بعد کے خلفاء نے بھی برتی اور جب تک یہ تدبیر بھاری رہی اسلام برابر ترقی کرتا رہا جس روز عربوں کیلئے دنیا میں کوئی ملک فتح کرنے کو باقی نہ رہا اُسی روز انہوں نے آپس میں خانہ جنگی شروع کردی.(تمدن عرب ( ۱۳ ) گستاؤلی بان کا صاف مطلب یہ ہے کہ عہد صدیقی اور بعد کے خلفاء کی فتوحات محض عربوں کو خانہ جنگی سے بچانے کی جنگی چال اور سیاسی مہتھیار تھا جو قیصر و کسری کے خلاف جارحانہ طور پر استعمال کیا گیا.نور فرمائیے کس درجہ بے ثبوت مہمل اور بے سروپا دعوی ہے.اس ضمن میں آرنلڈ جے ٹائن بی نے ایک قدم اور بڑھا کہ یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ عربوں کی

Page 76

1 ۶۶ سب فتوحات اس بات کا نتیجہ تھیں کہ اُن کے اسلاف متعد د نسلوں تک رومی فوجوں میں رہ پچکے تھے (مطالعہ تاریخ جلد عاما، حالانکہ تاریخ سے قطعاً یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت خالد بن ولید، حضرت ابو عبیدہ ، حضرت عمرو بن عاص یا بعد میں آنے والے مشہور مسلمان جرنیلوں نے اپنے اسلاف کی جنگی ہنر مندیوں سے کبھی کسی مرحلہ پر فائدہ اُٹھایا ہو.جان ہے گاٹ گلب (MN BAGOT GLUBB JOHN) نے اپنی کتاب محمد کی سوانح اور آپ کا عہد" میں موب قبائل کے ارتداد اور ساتھ بغاوت کو ایک ہی چیز سمجھا ہے اور پھر اسے عالمی بغاوت ( UNIVERSAL REBELLION) کا نام دے کہ یہ دعا کیا ہے کہ اسے دعوت و تبلیغ سے نہیں خالص فوجی طاقت سے فرد کیا گیا.The life and times of Muhammad p-367 By John Bagot glubb-Second impression 1970) مسٹر کلب کا یہ دعوئی بالکل خلاف حقیقت ہے چنانچہ جیسا کہ میں بتا آیا ہوں خلافت میدیق کے آغاز میں جو بے شمار لوگ از سیر نو اسلام میں داخل ہوئے وہ محض صحابہ رسول کی تبلیغی سرگرمیوں کا نتیجہ تھا جس میں کسی نوع کے سیاسی یا فوجی دباؤ کا ذرہ برابر عمل دخل نہیں تھا.در اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اور آپکی وفات کے بعد کفار مکہ ، منافقین مدینہ اور قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کی نگاہ میں

Page 77

حضرت ابوبکر صدیق کی بند پار شخصیت ہمیشہ خار کی طرح کھٹکتی رہی ہے.رومی اور ایرانی بادشاہ جو اسلام کو شروع ہی سے اپنا حریف سمجھتے تھے اپنے درباروں میں حضرت ابو جرہ کو علانیہ آنحضرت" کے وزیر کے نام سے موسوم کرتے تھے.المخلفاء الراشدون هذا از محمد اسعد طلس مطبع اندلس بیروت لبنان (۶۱۹۵۸ آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ یہ پر منافقوں کی تہمت کا اصل سبب یہی تا کہ کفر کی تیز آنکھ دیکھ چکی تھی کہ تمام صحابہ رسول میں سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق و فدائی آپ ہی ہیں اس لئے انہوں نے مسلمانوں میں تفرقہ ، منافرت اور انتشار پھیلانے کا یہ حربہ اختیار کیا کہ حضرت ابوبکرصدیق کے تقدس اور عظمت کو پامال اور مجروح کیا جائے تا آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ 6 وسلم اور مسلمانوں کی نظر سے گر جائیں مسند احمد بن حنبل جلد علہ ۳۳۳۳ مروج الذہب جلد عام اور طبری میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ اسلام کے دشمنوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق کو زہر دیگر مارنے کی بھی سازش کی تھی.یہ علیحدہ بات ہے کہ اِنَّ اللهَ مَعَنَا کے خدائی وعدہ کے مطابق دشمن اسلام نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر کے نہ آپ کو.تاہم یہ پرانی دشتی صدیوں سے چلی آرہی ہے.یہی وجہ ہے کہ یورپ - پاکے وہ متعقیب مصنف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ناپاک سے نا پاک اور ذلیل سے ذلیل حملے کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے منانی انشین صدیق اکبر خليفة الرسول حضرت ابو بکر کو اپنے تیروں کا نشانہ ضرور بناتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ انہیں حضرت ابو بکر صدیق کو

Page 78

۶۸ برا بھلا کہنے میں خاص طور پر مزہ آتا ہے.جان نارمین پالیسٹر 50) (NORMAN HOLLISTER نے اپنی ایک کتاب میں نبض آوارہ مزاج مجهول النسب اور گمنام عناصر کی آڑمیں جن کو مسلمانوں کا کوئی شائستہ اور متین طبقہ اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اور نہ ان کی حرکات کو پسند کرتا ہے.حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمانیہ کو ایسی ایسی گندی اور غلیظ گالیاں دی ہیں کہ لکھنو کے بھٹیا ر خا نے بھی شرما گئے ہیں.(ORIENTAL RELIGIONS SERIES LUZAC AND COMPANY LIMITED 1953) VOLUME VIII, LONDON ناطقہ سریگر یہاں کہ اسے کیا کہتے شیکسپئر ( Shakespeare ) کہتا ہے :- "What is in a name, call a rose by an other name it will smell like a rose." ا ا ا ا ا ا ا ا و واہ کیا اورنام سے پکاریں خوشبو تو اس سے گلاب ہی کی آئے گی.نام میں کیا رکھا ہے گلاب کو خواہ کسی اور نام سے پکاریں خوش ہو تو اس جو ہر ذاتی کبھی تبدیل ہو سکتا نہیں ایک دانا کو کوئی کہہ دے اگر ناداں تو کیا پھول آخر پھول ہیں ہر حال میں مکیں گے وہ گلستان کا نام رکھ دے کوئی خارستان تو کیا مولانا ظفری و تفری

Page 79

۶۹ کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی سے ایک بزرگ ابوالحسن خرقانی نے کہا کہ بایزید نے فرمایا ہے کہ جس نے مجھے دیکھا اُس پر دوزخ کی آگ حرام ہو جاتی ہے.بادشاہ نے کہا کیا وہ نعوذ باللہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر تھے کہ آنحضرت کو ابولہب اور ابو جہل نے دیکھا اور وہ بدبخت ہی رہے.اُس بزرگ نے جواب دیا اسے بادشاہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُصِرُونَ اعران : ۱۹۹) - (تذکرۃ الاولیاء باب ۷۷ ) جس طرح کفار مکہ نے اپنی تعصب کی آنکھ سے محمدبن عبد اللہ کو دیکھا لیکن محمد رسول اللہ گو نہیں دیکھا اسی طرح مستشرقین یورپ ابو حجر ” ابنِ ابی قحافہ کو دیکھتے ہیں مگر ابو نجر صديق " خلیفۂ رسول اللہ کو شناخت نہیں کر سکتے اور انہوں نے اسلام کے معاندوں کی روایات چن کر با صحیح واقعات سے غلط نتائج اخذ کر کے یا اُسے اصل ماحول سے جدا کر کے ایک ایسی تاریخ بنا ڈالی ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور خلافتِ راشدہ پر سخت حرف آتا ہے.اللہ کے پیاروں کو تم کیسے بُرا سمجھے خاک ایسی سمجھ پر ہے مجھے بھی تو کیا مجھے

Page 80

اسلامی دنیا مستشرقین کے طوفان کی زد میں افسوس صد افسوس مستشرقین کے اس حملہ نے جو اٹھارھویں صدی کے قریب شروع ہوا اُن لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کو جو زمانہ نبوی سے ہزار سالہ بعد کے باعث اسلام اور خلافت کی حقیقت سے بالکل بے خبر اور محض نا آشنا ہو چکے تھے اسلام ہی سے باغی کر دیا اور جو خوش نصیب ان کا شکار ہونے سے بچ رہے انہوں نے بھی ہر چیز غیر مسلم مورفین کی عینک سے ہی دیکھی جو کچھ انہوں نے بتا یا قبول کر لیا خصوصا جن مسلمان مفکروں اور ادبیوں کی پوری عمر مغربی ٹریچر کے مطالعہ میں گزری مغربی خیال ایک حد تک ان کی طبیعت ثانیہ بن گیا اور وہ دانستہ یا نادانستہ اسی نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرنے لگے (مکاتیب اقبال حصہ اول ص مرتبہ شیخ عطاء اللہ ایم.اے) جن لوگوں کو برا ہ را ست عربی تاریخیں پڑھنے کا موقعہ ملا انہوں نے بھی یورپ کے مستشرقین کی زبردست تنقید (HIGHER CRITICISM ) سے ڈر کر ان بے سروپا اور جعلی روایات کو جن پر انہوں نے اپنی تحقیق کی بنیاد رکھی تھی صحیح اور مقدم سمجھ لیا.اس المناک حقیقت کی وضاحت کے لئے صرف چند افکار و آراء کی طرف اشارہ کہہ نا کافی ہوگا.جدید دنیائے عرب کے ایک مشہور مورخ اور ممتاز سیرت نگار عمر ابو النصر نے گستاؤلی بان کے پیش کردہ نظریہ کی تائید میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے اپنی دور اندیشی اور دورینی سے معلوم کر لیا

Page 81

41 کہ ملک عرب کی مضبوطی اور نظام خلافت کی استواری اور اسلام کی شان و شوکت کے لئے قبائل عرب کا ایران و روم سے برسر پیکار ہو جانا ضروری ہے.(اردو ترجمہ حضرت ابوبکر صدیق صد تاليف عمر ابو النصر ) مصر کے مشہور فاضل اور بالغ نظر عالم ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن نے اپنی کتاب التنظیم الاسلامی" میں لکھا ہے کہ آنحضرت کی وفات کے بعد جانشینی کا سوال ایک سیاسی ہنگامہ کی شکل میں اُٹھا جس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت نے اپنی زندگی ہیں اس کا فیصلہ اس لئے نہیں کیا تھا کہ آپ عربوں کے نظام جمہوری کو بہت پسند کرتے تھے صحابہ اس سے واقف تھے اس لئے آپ کو اعتماد تھا کہ مسلمان جمہوری طریقہ انتخاب سے ایک شخص کو حاکم بنا لیں گے مگر صحابہ میں شدید اختلاف پیدا ہو گیا اور حضرت ابو بکردم، حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ نے اپنی غیر معمولی فراست سے یہ ہنگامہ فرو گیا.ستید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی پاکستان کے ایک مشہو ر انشاء پرداز مصنف اور ادیب ہیں جو ایک سیاسی جماعت کے بانی ہیں اور جنہوں نے "تحریک خلافت کے دور میں گاندھی جی کی سیرت بھی لکھی ہے (کتاب مولانا مودودی صدا ناشر مکتبہ المجیب اچھرہ ۱۹۵۵ء) آپ نے اس فرانسیسی مستشرق کے نقطۂ نگاہ کو با قاعدہ اسلامی دینیات کا رنگ دے دیا ہے.چنا نچہ تحریر فرماتے ہیں :.عرب جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی سب سے پہلے اُسی کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں کیا گیا.اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 82

نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول و مسلک کی طرف دعوت دی مگر اس کا انتظار نہ کیا کہ یہ دعوت قبول کی جاتی ہے یا نہیں بلکہ قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کہ و یا.آں حضرت کے بعد جب حضرت ابوبکریم پارٹی کے لیڈر ہوئے تو انہوں نے روم اور ایران دونوں کی غیر اسلامی حکومت پر حملہ کیا اور پھر حضرت عمر ر ا نے اس حملہ کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچا دیا تقسیمات زیر عنوان " جہاد فی سبیل اللہ ، مولفہ مولاناسید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی طبع چهارم ۱۹۴۷ء ناشر مکتبه جماعت اسلامی بیٹھا نکوٹ) سرڈاکٹر علامہ محمد اقبال بر صغیر کے شہرہ آفاق فلسفی شاعر تھے جنہیں آپکے عقیدت مندہ کلیم ایشیا» « رسول چمن اور پیغمبر گلشن وغیرہ بہت سے انتخاب سے یاد کرتے ہیں.سر اقبال کے نزدیک فتح ایران تاریخ اسلام کا اہم ترین واقعہ تھا اور اس کی اہمیت آپ کے بقول یہ تھی کہ : اس نے عربوں کو ایک حسین ملک کے علاوہ ایک قدیم تہذیب بھی عطا کی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ ایک ایسی قوم سے روشناس ہوئے جو سامی اور آریائی عناصر کے امتزاج سے ایک نئی تہذیب کو جنم دے سکتی تھی ہماری مسلم تہذیب سامی اور آریائی تصورات کی پیوند کاری کا حاصل ہے.گویا یہ ایسی اولا د ہے جیسے آریائی ماں

Page 83

کی نرمی و لطافت اور سامی باپ کے کردار کی پختگی و صلابت ورثہ میں ملی ہے.فتح ایران کے بغیر اسلامی تہذیب یک دخی رہ جاتی " (شذرات منکر اقبال حلت مرتبہ ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال مجلس ترقی ادب لاہور به دسمبر ۱۶۱۹۷۳ علامہ اسلم جیراجپوری کو بعض حلقے قرآنی منکر اور قرآنی بصیرت کا مجتہد کہتے ہیں.علامہ موصوف حضرت ابو بکر صدیق اور دوسرے خلفاء راشدین کا مقام صرف یہ سمجھتے تھے کہ اُن میں اور دوسرے مسلمانوں میں بجز عدۂ خلافت کے اور کوئی امتیاز نہ تھا اور نہ ان کو اس قسم کی دینی ریاست حاصل تھی کہ جو چاہیں حکم دے دیں وہی مذہبی مسئلہ ہو جائے.نوادرات ۱.ادارہ طلوع اسلام کراچی ۱۹۵۱) سرسید احمد نماں کا شمار پچھلی صدی میں صف اول کے حقیقت شناسی زیرک اور صاحب فراست مسلمان مدتیروں اور دانشوروں میں ہوتا ہے.آپ نے نومبر ۱۸۷۸ء میں مستشرقین یورپ کی تنقید کے سامنے سپر انداز ہو گویا فسوسناک نظر یہ قائم کر لیا تھا کہ استحقاق خلافت آنحضرت صلعم کا من حیث النبوة کیسی کو بھی نہ تھا اس لئے کہ خلافت فی النبوۃ تو محالات سے ہے.باقی رہ گئی خلافت فی البقائے اصلاح امت و اصلاح تمدن اس کا ہر کسی کو استحقاق تھا.جس کی چل گئی وہی خلیفہ ہو گیا.انا مقالات سرسید جلد طلا ۳ ناشر مجلس ترقی ادب لاہور ) M

Page 84

√ ۷۴ مولانا الطاف حسین خاں حالی نے حیات جاوید میں لکھا ہے کہ سرسید کیسی خلافت کے ماننے یا نہ ماننے کو ضروریات دین میں سے نہیں سمجھتے تھے بلکہ خلافت کو محض دنیوی سلطنت کی ایک صورت جانتے تھے.(۳۶۳) ایک بار کسی شخص نے ان سے سوال کیا کہ اگر آپ آنحضرت کے وصال مبارک کے وقت ہوتے تو آپ حضرت ابو بکر کی خلافت کے لئے کوشش کرتے یا گیسی اور کے لئے سرسید احمد خاں نے نہایت بے اعتنائی سے جواب دیا کہ حضرت مجھے کیا غرض تھی کہ کسی کے لئے کوشش کرتا مجھے تو جہاں تک ہو سکتا اپنی ہی خلافت کا ڈول ڈالتا اور سو فیصدی کامیاب ہوتا.(ص۳۶۳) قیاس گن زرگلستان من بهار مرا..与 سرسید مرحوم اپنی تحقیق کا خلاصہ ان الفاظ میں لکھتے ہیں :- حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت تو شمار کرنا نہیں چاہئیے کیونکہ وہ زمانہ بھی حضرت مزہ کی خلافت کا تھا اور وہی بالکل دخیل ومنتظم تھے.(ایضاً ) ر افسوس عہد حاضر میں سرسید کے ایک ہم خیال اور مقلد نے اس ضمن میں حضرت ابو بکر صدیق رض کی طرف ایک روایت بھی منسوب کر ڈالی ہے جو سراسر جعلی اور وضعی ہے اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا " خلیفہ تو عمر انہیں لیکن انہوں نے قبول خلافت سے انکار کر دیا تھا.اس لئے یہ بار میرے کندھوں پہ رکھا گیا!" شاہ کار رسالت منث از جناب غلام احمد صاحب پرویز یہی نہیں سرسید سے صلح کل اور مرنجان مریخ شخص کے قلم سے یہ خلاف

Page 85

۷۵ واقعہ اور سخت بے ادبی کا دلشکن مجملہ بھی نکل گیا کہ حضرت ابو بکر تو صرف برائے نام بزرگ آدمی تھے ؟ مقدمه مقالات سرسید حصہ اول هم ناشر مجلس ترقی ادب لاہور ) دل کے پھپھولے پھل اُٹھے سینہ کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے إِنَّا لِلَّهِ وَانَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ :- جب بیگانوں کے تعصب اور اپنوں کی قرآنی تاریخ سے بے خبری اس حد تک پہنچ گئی تو عہد صدیقی تو کیا علم ومعرفت کا پورا اسلامی خزانہ غلافوں میں بند ہو کر دبیز پردوں میں چھپ گیا.جناب سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی" باني جماعت اسلامی نے اس زمانہ کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے.لکھتے ہیں :.دور علم و عمل کی دنیا میں ایسا عظیم تغیر واقع ہو چکا تھا جسکو خدا کی نظر تو دیکھ سکتی تھی مگر کسی غیر نبی انسان کی نظر میں یہ طاقت نہ تھی کہ قرنوں اور صدیوں کے پر دے اُٹھا کر ان تک پہنچ سکتی تنقیحات مد ۲ طبع سفتم ناشهر مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی) قرآن مجید میں اس درد ناک صورت حال کی خبر اور علاج معزز سامعین ! یہ صورت حال در اصل اپنی ذات میں اسلام کی صداقت کا ثبوت تھی اس لئے کہ قرآن مجید میں پہلے سے اِس در دناک کیفیت اور اسکے

Page 86

เ علاج کی پیش گوئی موجود تھی.چنانچہ اللہ جل شانہ نے فرمایا : " مَا كَانَ اللهُ لِيَدَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا انْتُمْ عَلَيْهِ حتى يَمِيرُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُم عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللهَ يَجْتَبِي مِنْ رُّسُلِهِ مَنْ يَشَاء ( ال عمران : ۱۸۰) یعنی اللہ تعالٰی مومنوں کو ان کی حالت پر نہیں چھوڑ دے گا جب تک نا پاک کو پاک سے علیحدہ نہ کر دے مگر اللہ تعالیٰ اس غرض سے تم میں سے ہر ایک کو غیب پر آگاہ نہیں کرے گا بلکہ اپنے فرستادوں اور برگزیدوں میں سے جس کو وہ خود بچا ہیگا چن لے گا.قرآنی محاورہ کے مطابق اسلام اور قرآن کی صحیح تفسیر طیب اور اس کی غلط تفسیر خبیث کہلاتی ہے.اس آیت میں اُس کیفیت کا پورا خا کہ کھینچا گیا ہے سے دنیائے اسلام اس آخری زمانہ میں دو چار ہونے والی تھی نیز بتا یا گیا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ قرآنی تاریخ ، قرآنی فلسفہ، قرآنی علم کلام ، قرآنی اقتصادیات، قرآنی عمرانیات اور دوسرے علوم قرآنی غیر قرآنی علوم کے ساتھ ایسے گنڈ ہو جائیں گے کہ ان کو ممتاز کرتا بظاہر نا ممکن ہوگا مگر یہ علوم ہمیشہ پردہ اخفاء میں نہ رہیں گے اور بالآخر وہ وقت آن پہنچے گا جب اللہ تعالیٰ حقیقی علوم قرآن کو اپنے ایک فرستادہ پر بذریعہ الہام و وحی کھول دے گا اور پھر سے قرآنی اتور بالکل روشن اور نمایاں ہو جائیں گے.

Page 87

تريد ،، احادیث اور بزرگان سلف کی تصریحات ہمارے آقا محمد مصطفے احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی فرستادہ کو مہدی سیح اور نبی اللہ کا نام دیا اور خبر دی کہ وہ حکم عدل ہوگا اور اس پر وحی نازل ہوگی (مسلم باب ذکر الدقبال ، مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی خبر کے مطابق اکابرین امت مثلاً حضرت علامہ شہاب الدین ابن حجر سیتیمی ، حضرت امام عبدالوہا شعرانی و حضرت محی الدین ابن عربی ، حضرت امام ابو جعفر محمد باقر، حضرت امام ابو عبد الله جعفر صادق عليهما السلام نے صاف لکھا ہے کہ مہدی موعود پسر شریعت محمدیہ کا الہام ہو گا اور وہ وحی الہی سے فیصلہ کرے گا.(روح المعانی جلد مثلا ، کشف الغمه عن جميع الامه جز اول هنا مصرى ۱۳۵۴ هـ ، اسعاف الراغبين مولفہ علامہ محمد الصعبان بر حاشیہ نور الابصار في مناقب اہل بيت الشيخ الشبلنجی 1 مطبوعه مصر ۱۳۴۵ هـ و کتاب المهدی مصر آ تالیف السید صدرالدین قدر مطبوعه تهران، بحار الانوار جلد ۱ ص ۲۰۰۱، بحار الانوار جلد عام اور خلیفہ راشد عارف یزدانی حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا :- ހ يَظْهَرُ صَاحِبُ الرَّأْيَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ وَالدَ وَلَةِ الْأَحْمَلَةِ الْقَامُ لوائے محمدیت کا علمبردار اور سلطنت احمدیت کا تاجدار مهدی موعود امام قائم ظاہر ہوگا.دينا بيع المودة من تاليف السيد السن سلیمان امینی تعلیمی طبی ثانی معبد الرفان بیروت)

Page 88

+ مهدی موعود پر قرآنی تاریخ کی تیلی عظیم چنانچہ وہ نیچے وعدوں والا خدا میں نے اپنے پاک کلام میں اپنے ایک برگزیدہ کے ذریعہ صحیح قرآنی علوم کے لیے نقاب کرنے کا وعدہ فرمایا تھا ہمارے زمانہ میں حضرت مہدی موعود علیہ السلام پر ظاہر ہوا اور اس نے روئے زمین کے سب مسلمانوں کو دین واحد پر جمع کرنے کے لئے صحیح قرآنی تاریخ کی تجلی عظیم فرمائی.چنانچہ حضرت مهدی موعود نے اعلان فرمایا :- "خدا کا ارادہ ہے کہ صحیح معنے قرآن کے ظاہر کرے.خدا نے مجھے اسی لئے مامور کیا ہے اور میں اس کے الہام اور وحی سے قرآن شریف کو سمجھتا ہوں" الملفوظات حضرت مسیح موعود جلد ۶ ص۱۶) محبت اہلبیت افاضہ انوار الہی کا سر چشمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند علیل سید نا المهدی الموعود علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے اہلبیت نبوتی یعنی پنجتن پاک کے مقام بلند کی نسبت بذریعہ الهام آسمانی بادشاہت کا یہ راز کھولا کہ :- ا فاضیہ انوار الہی میں محبت اہل بیت کو نہایت عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل

Page 89

ہوتا ہے وہ انہیں طیبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے او تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھرتا ہے " (براہین احمدیہ حصہ چهارم ماه ماشیبه در حاشیه م) اسی لئے فرماتے ہیں سے جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است شان سید الشهداء حسین علیہ السلام بالخصوص حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی شان بلند کی نسبت آپ پر ظاہر کیا گیا کہ :- حسین رضی اللہ عنہ ظاہر ومطر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وه سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الہی اور جبر اور استقامت اور زندہ اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے یایا مجموعه اشتهارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ۳ ۵۴۵۰

Page 90

حضرت البوتجر اور حضرت محمر کی شان ارفع و اعلی دوسری طرف حضرت مهدی موعود علیہ السلام کو جناب الہی کی طرف سے شیخین یعنی حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کی شان ارفع و اعلیٰ ایسی شرح وبسط سے بتائی گئی کہ ایک دفعہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وستم کے محامد و کمالات اور جناب شیخین علیہما السلام کے فضائل پر چھ گھنٹے تقری فرمائی جس میں آپ نے یہاں تک فرمایا :- میرے لئے یہ کافی فخر ہے کہ میں ان لوگوں کا مذاح اور خاک پا ہوں.جو جزائی فضیلت نندا تعالیٰ نے انہیں کھیتی ہے وہ قیامت تک کوئی اور شخص نہیں پاسکتا.کب دوبارہ محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں پیدا ہوں اور پھر کسی کو ایسی خدمت کا موقعہ ملے جو جناب شیخین علیهما السّلام کو ملاء ( ملفوظات جلد ۳۲) خلافت صدیقی کی نسبت الهامی انکشاف حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت عظمی کی نسبت آپ کو مندر کی طرف سے بتایا گیا کہ :- : ان الصديق أَعْظَمُ شَانًا وَارْفَعُ مَكَانَا مِنْ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ وَهُوَ الْخَلِيفَةُ الْأَوَّلُ بِغَيْرِ الْإِسْتَرَابَةِ ☑

Page 91

Al وَفِيهِ نَزَلَتْ آيَاتُ الْخِلافَةِ " (ستر الخلافہ ملا) حضرت ابو بکر صدیق اپنی علو شان اور بلند مقام میں تمام صحابہ سے بڑھ کر تھے.وہ لاریب آنحضرت ص کے پہلے خلیفہ تھے اور آپ کے بارہ میں ہی خلافت کی آیات نازل ہوئیں.ایت استخلاف خلافت صدیقی پر بر بان ناطق اس الہامی انکشاف کی روشنی میں جب آپ نے قرآن مجید کا بغور مطالعہ فرمایا تو آپ اس قطعی نتیجہ پر پہنچے کہ آیت استخلاف خلافت صدیقی کی عظمت پر برہان ناطق ہے.آپ کا حلفیہ بیان ہے کہ :- خدا کی قسم میں نے قرآن کریم کو بارہا ند بیرون کریسے دیکھا فوری جدید کی آیات کا بنظر غور مطالعہ کیا اور امر خلافت کے لئے تحقیق کے تمام ذرائع اور وسائل اختیار کئے اور تحقیق و تدقیق میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی یکی نے ہر طرف نظر دوڑائی اور ہر جانب تلاش و جستجو کے تیر چلائے لیکن اس میدان میں آیت استخلاف سے بڑھ کر کوئی سیف قاطع مجھے نظر نہیں آئی.اس سے مجھے معلوم ہوا کہ خلافت (صدیق ) کے ثبوت میں یہ ایک عظیم الشان آیت اور ایک ناطق دلیل ہے اور ہر طالب حق و انصاف کے لئے یہ ربّ کائنات کی طرف سے نص صریح ہے.ترجمه از شتر الخلافه ص )

Page 92

2.اس دلیل ناطق کی تشریح و توضیح حضرت مهدی موعود نے ایسے دلکش اور حسین پیرا یہ میں فرمائی ہے کہ روح وجد میں آجاتی ہے.آپ ستر الخلافہ میں فرماتے ہیں ( اصل عبارت نہایت اعلیٰ پایہ کی بے نظر فصیح و بلیغ عربی زبان میں ہے میں اس کتاب کے نو حوالوں کا اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ترجمہ سناتا ہوں ) :- پہلا حوالہ غور کرو کہ حضرت ابو بیرہ کے خلیفہ مقرر ہونے پر مسلمانوں کی کیا حالت تھی.اسلام اُس وقت آفات و مصائب کی بھٹی میں پڑا ہوا تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے حالات بدلے اور اسلام کو ر عمیق سے نکالا اور جھوٹے مدعیان نبوت بُری طرح مارے گئے اور مرتد لقمہ اجل ہو گئے.اور اللہ تعالیٰ مومنوں کو اس خوف سے امن میں لے آیا جس کے باعث وہ مُردوں کی طرح (بے جان ) ہو رہے تھے.مومن اس تکلیف کے دُور ہونے کے بعد خوشی و مسرت سے بھر گئے.وہ حضرت صدیق " کو مبارکباد دیتے اور آپ کو تحسین و آفرین کہتے اور آپکی تعریف کے گن گاتے اور خُدا کے حضور آپ کے لئے دعائے خیر کرتے.وہ آپ کی پوری تعظیم بجا لاتے حضر ابو بکر صدیق کی محبت اُن کے نہاں خانہ دل میں داخل

Page 93

۸۳ ہو گئی اور وہ جذبات تشکر سے تمام امور میں آپ کی پیروی کرتے.انہوں نے اپنے خیالات و جذبات کو خوب صاف کیا اور اپنے کشت ایمان کو خوب میراب کیا اور محبت و الفت میں ترقی کرتے گئے.انہوں نے حضرت ابو بکرہ کی مقدور بھر اطاعت کی کیونکہ وہ آپکو ایک مبارک اور ملبوں کی طرح تائید یافتہ وجود خیال کرتے تھے.( ترجمه سر الخلافه ما ) خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتب احادیث و تواریخ سے ثابت ہے کہ صحابہ کی گردنیں حضرت ابوبکر صدیق رض کے سامنے ہمیشہ نیچی رہتیں اور وہ آپ کی ویسے ہی والہانہ اطاعت کرتے جس طرح محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیا کرتے تھے.(ابو داؤد کتاب الحدود باب الحكم فيمن سب النبي جواله اسوۂ صحابه دوم ما از مولانا عبد السلام ندوی) ۳ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- ابو بكر أطيب مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ وَ أَنَا أَضَلُّ مِنْ بعير اهلی (کنزل العمال جلد ۶ ص ۳۱ ) حضرت ابوبکر مشک سے بھی زیادہ خوشبودار اور یکں اپنے گھر کے اُونٹ سے بھی زیادہ حقیر ہوں.حضرت ابو رجاء العطاردی نہ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو حضرت.2.

Page 94

ابو بکر صدیق کے اردگرد لوگوں کا ہجوم تھا میں نے دیکھا ایک شخص آپ کا سر چوم رہا ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ ہم آپ پر فدا ہیں.اگر آپ نہ ہوتے تو ہم ہلاک ہو جاتے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ بزرگ حضرت معرہ ہیں.یہ اُس ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے جبکہ مخالفین زکواۃ کے خلاف مسلمان نبرد آزما تھے.(کنز العمال جلد ۶ ص۳۱۲ ) خاندان نبوت کی عقیدت خلفاء ثلاثہ کا اندازہ اس سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت علی کے ایک صاحبزادے کی کنیت ابو بنجر ایک کا نام عمر اور ایک کا نام عثمان تھا.موخر الذکر صاحبزادے نے میدانِ کربلا میں شہادت پائی.(بحار الانوار جلد و ما مطبوعه ایران ) کٹا کر گردنیں بہت لا گئے یہ کربلا والے خدام کبھی بندوں کے آگے مجھک نہیں سکتے خدا والے خاتون جنت سيدة النساء جگر گوشہ رسول حضرت فاطمتہ الزہراء کا انتقال ہوا تو خلیفہ رسول حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے فرمایا کہ جنازہ پڑھائیے مگر حضرت علی نے فرمایا خدا کی قسم آپ ہی جنازہ پڑھائیں گے.تب حضرت ابو بجزیہ آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا.مشجر الاولیاء ص ۲۳) حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک بار واضح لفظوں میں فرمایا :- " إني لاستحى من ربى ان اخالِف أَبا بكر (کنز العمال جلد ۱ ص ۳۱ )

Page 95

۸۵ میں اپنے رب سے شرماتا ہوں کہ ابو بکر کی خلاف ورزی کروں " وَهَلْ آنَا إِلَّا حَسَنَةً مِنْ حَسَنَاتِ إِلَى بَكْرٍ ( ایضا) یکی تو حضرت ابو بکر صدیق کی نیک یادگاروں میں سے فقط ایک یادگار ہوں.دوسرا حوالہ بخدا آپ اسلام کے آدم ثانی اور خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کے مظہر اول تھے.آپ نبی تو نہ تھے لیکن آپ میں رسولوں کی سی قوتیں ودیعت کی گئی تھیں.آپ کے صدق و صفا کا ہی نتیجہ تھا کہ چین اسلام کی بہار و رونق واپس آگئی اور آفات و مصائب کی آندھیوں کے بعد اسکی زینت کوٹ آئی اور گلشن اسلام میں طرح طرح کے پھول کھلنے لگے اور مُرجھائی ہوئی شاخیں از سر نو سر سبز و شاداب ہو گئیں.( ترجمه سر الخلافه ص) تیسرا حوالہ آپ نے اسلام کو ایک ایسی دیوار کی طرح پایا جو شریروں کی شر انگیزی سے گرا ہی چاہتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے آپکے ہاتھ سے

Page 96

AY اس دیوار کو ایک ایسا مضبوط قلعہ بنا دیا جس کی دیواریں لوہے کی طرح مضبوط ہوں اور اس میں ایک فرمانبردار اور مطیع شکر جرار ہو.(ترجمہ ستر الخلافہ مٹا) چوتھا حوالہ حضرت ابو بکر کی اور بھی خوبیاں اور متعدد برکات ہیں جن کو شمار کرنا مشکل ہے مسلمانوں کے سر آپ کے بار احسانات سے مجھکے ہوئے ہیں.جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایمانداروں کے واسطے امن کا موجب بنایا اور کفر و ارتداد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا ذریعہ بنا یا اسی طرح آپ کو قرآن کریم کا حامی اول اور خادم اول بھی بنایا اور آپ نے اللہ کی کتاب مبین کی اشاعت کی توفیق پائی.آپ نے قرآن پاک کو جمع کرنے اور محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے مطابق اُسے مرتب کرنے میں اپنی تمام تر کوشش صرف کر دی.دین کی تنخوار میں اور انکساری میں آپ کی آنکھیں اُبلتے چشمہ کا نظارہ پیش کرتیں.له تاريخ الخلفاء للسيوطى ( ترجمہ میر الخلافه مث ) !

Page 97

AL حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :."إِنَّ أَكْرَمَ الْخَلْقِ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى اللهِ بعد نبيها وارْفَعَهُمْ دَرَجَةً ابو بَكْرِ الجَمْعِهِ القران " (کنز العمال جلد ۶ ص ۳۱ مطبوعه حیدر آباد دکن ۱۳۱۳ه) اس امت محمدیہ میں اُس کے نبی کے بعد تمام مخلوق میں معزز اور درجہ میں بلند حضرت ابوبکر صدیق نہیں کیونکہ آپ ہی نے جمع قرآن کا کارنامہ انجام دیا ہے.حضرت علامہ نووی نے لکھا ہے :- " كان احد الصحابة الذين حفظوا القُرآن كله حلى الايام فی خلفاء الاسلام از عطا حسنی بک جلد ۱۳ آپ کا شمار آن جلیل القدرصحابہ میں ہوتا ہے جنہیں پورا قرآن حفظ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.پانچواں حوالہ صدیق اور فاروق بتد ا کے عالی مرتبہ امیر قافلہ ہیں.وہ سر فلک پہاڑ ہیں.انہوں نے شہریوں اور بیابان نشینوں کو حق کی طرف بلایا یہاں تک کہ ان کی دعوت اقصائے بلاد یک پہنچی.ان کی "

Page 98

AA خلافت اسلام کے پھلوں سے لدی ہوئی اور کامرانی و کامیابی سے معطر اور مشوح تھی.(ترجمہ ستر الخلافہ ۲، ۳۵) ان کارناموں کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتب صحاح ستہ ، کنز العمال، ابن خلدون، طبقات ابن سعد، تاریخ انمیں ، طبری، ازاله الخلفاء، تاریخ الخلفاء محاضرات للخضرى ) اسی مضمون کو آپ نے ایک عربی قصیدہ میں یوں باندھا ہے.له باقیات صالحات کشارق لهُ عَينُ آيَاتِ لهذا التطهر و خدماته مثلُ البُدُور مُنيرة وتَمَرَاتُهُ مِثْلَ الجنا المستكثر ستر الخلافه مث ) آپ کے باقیات صالحات سُورج کی طرح ہیں اور آپ کے تقدس کے لئے نشانات کے بیچے جاری ہیں.آپ کی خدمات چودھویں کے چاندوں کی طرح روشن نہیں اور اس کے ثمرات چنے ہوئے میوہ کی طرح بکثرت ہیں.چھٹا حوالہ حضرت مهدي موعود علیہ السلام حضرت ابوبکر صدیق کے فقرو زہراؤ درویشانہ زندگی کا نقشہ یوں بھینچتے ہیں :-

Page 99

اپنے وطنوں ، عزیزوں اور اپنے مال و متاع کو اللہ اور اس کے رسول کے لئے چھوڑا.کفار کے ہاتھوں ہر طرح کی ایز اسہی شریروں کی شرارت سے گھروں سے بے گھر ہوئے لیکن پھر بھی انہوں نے اخبار و ابرار بن کر صبر کیا.دولت و ثروت بے حد آئی لیکن انہوں نے اپنے گھروں کو سونے چاندی سے نہیں بھرا نہ اپنی اولاد ہی کے لئے سونے یا چاندی کا ورثہ چھوڑا بلکہ جو کچھ ملا اسے بیت المال میں دے دیا.(ترجمہ شیر الخلافہ ملا) یکی خدا کے فضل و کرم سے حضرت مہدی موعود علیہ السّلام کے اِس ارشاد کے ایک ایک لفظ بلکہ ایک ایک نقطہ پر تاریخ اسلام کی بے شمار شہادتیں پیش کر سکتا ہوں مگر افسوس وقت اس کی اجازت نہیں دیتا اس لئے بطور نمونہ صرف دو ایک واقعات پر اکتفا کرتا ہوں.حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے بحوالہ ابن سعد لکھا ہے کہ بیت خلافت کے دوسرے دن حضرت ابو بکر صدیق رض کچھ چادریں لئے بازار میں جا رہے تھے حضرت عمر رض نے عرض کیا کہاں تشریف لے جا رہے ہیں.ارشاد فرمایا بیچنے کے لئے حضرت محمر رض نے کہا اب آپ مسلمانوں کے خلیفہ اور امیر المومنین ہیں یہ نہ کریں.حضرت ابو بکر صدیق ہونے نہایت وقت بھرے دل سے فرمایا پھر میرے اہل و عیال کی گزر اوقات کیسے ہوگی ؟ حضرت بری امیرالمومنین کی زبان سے یہ دردناک جواب سنتے ہی حضرت ابو عبید ہم کے پاس پہنچے

Page 100

+ * ٩٠ اور ان کو تحریک کی کہ خلیفتہ الرسول کے لئے ایک مہاجر کی حیثیت سے خوراک اور لباس کا انتظام کر دیں اور جب کپڑے پرانے ہو جائیں تو واپس لے کر ان کے بدلہ میں نئے دے دیں.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا (سیرتِ حکمیہ جلد ۳ ۳۸ حضرت ابو بکر رض نے وفات سے قبل حضرت عائشہ ان سے فرمایا بیٹی کسی نے خلافت کے زمانہ میں بیت المال کا کوئی روپیر میبیہ نہیں لیا.سادہ کھانا کھایا اور معمولی لباس پہنا مسلمانوں کی ملکیت میں سے میرے پاس صرف ایک حبشی غلام پانی لانے والا اونٹ، دودھ دینے والی اونٹنی، کھانے کا بڑا پیالہ اور یہ دھاری دار چادر ہے جیسے ہم سب اوڑھتے ہیں.ان سب سے ہم نے دُور خلافت میں استفادہ کیا ہے جبکہ ہم مسلمانوں کے کام انجام دے رہے تھے.اب میرے انتقال کے بعد یہ سب چیزیں حضرت عمر کو دے دینا.چنانچہ آپ کے انتقال کے بعد حضرت عائشہ رہن نے یہ سب چیز بی حضرت عمر کو بھجوا دیں.حضرت عمر زار و قطار رونے لگے اور فرمایا اللہ تعالیٰ ابو سنتر رحم و کرم کی بارشیں نازل کرے.آپ نے مجھ پر ایک اور بوجھ لاد دیا ہے.(تاریخ الخلفاء للسيوطى منه مترجم )..ساتواں حوالہ حضرت مہدی موعود فرماتے ہیں :.انہوں نے دنیا پرستوں کی طرح گمراہی کا راستہ اختیار کرتے

Page 101

۹۱ ہوئے اپنے بیٹوں کو جانشین مقرر نہ کیا اور نہ امراء ورؤساء کی طرح ناز و نعمت کی طرف مائل ہوئے بلکہ اس دُنیا میں فقر وزہد کا جامہ اوڑھ کر زندگی بسر کی.بخد یہ لوگ مختیم انصاف اور عدل تھے.بخدا کی قسم اگر انہیں ناجائزہ مال کی بھری ہوئی وادی بھی مل جاتی تو وہ اس پر بالکل نہ تھوکتے اور اگر انہیں سونے کے پہاڑ دے دئیے جاتے یا ان کے لئے ساتوں زمینیں سونے کی بنادی جاتیں تو وہ کبھی بندہ حرص و ہوا بن کر ان کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھتے.جو بھی پاک و حلال بال انہیں ملا وہ انہوں نے خُدا کی راہ میں اور دین کے کاموں میں خرچ کر دیا پھر ہم کیونکر خیال کرسکتے ہیں کہ چند درختوں کی خاطر وہ دیگر گوشت رسول خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمتہ الزہراء رضی اللہ عنہا کے حقوق کو غصب کرنے والے بن گئے.(ترجمہ ستر الخلافہ صلا ، ص۱) اس سلسلہ میں شرح نہج البلاغہ (خطبات حضرت علی ) لابن الحديد جلد میں حضرت ابو بکر صدیق کا خلافت کے ابتدائی ایام کا یہ حقیقت افروز ۲۹۲ بیان موجود ہے کہ " فَوَ اللهِ لَقَرابَةُ رَسُولِ اللهِ اَحَبُّ إِلَى انْ اصلها من قرابتي واني وَاللهِ مَا الوكم من هذهِ الأموال التي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَكُم الا الخير ولكني سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ يقول لا نورث ما تركناه صدقةً وانما يا كُل ال مُحَمَّدٍ مِنْ هذا المال والى وَاللهِ

Page 102

۹۲ لا اترك أَمْرًا صَنَعَهُ رَسُولُ اللهِ إِلا صَنَعْتُهُ ، بخاری شریف کتاب بدء الخلق ) اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت مجھے اپنی قرابت کے مقابل بہت زیادہ محبوب ہے.بند ایکی اِن اموال میں جو میرے اور آپ کے زیر نظر ہیں اپنی طرف سے خیر و برکت کا ثبوت دینے میں کوئی کوتا ہی نہیں کروں گا میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سُنا حضور فرماتے تھے ہم وارث نہیں کئے جائیں گے ہمارا اسب ترکہ صدقہ ہو گا.ہاں آل محمد کے خوردو نوش کا انتظام اسی مال سے ہو گا.بغدا کی قسم میں وہ امر ہرگز نہیں چھوڑوں گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اختیار فرمایا.چونکہ یہ مبارک فیصلہ سنت نبوی کے عین مطابق اور دربار رسول سے صادر شدہ تھا اسلئے حضرت فاطمتہ الزہراڈ نے اس پیر اقتصاد خوش نودی کیا.فرضیت عنه - الشرح نهج البلاغه لابن الحديد جلد عاطت مطبوعه (ایران) انہاں بعد دوسرے خلفاء حتی کہ رائع الخلفاء حضرت علی المرتضیٰ نے بھی اپنے مقدس عہد خلافت میں ہمیشہ اسی کے مطابق عمل در آمد کیا، چنانچہ حضرت علامہ محمد باقر مجلسی نے تحریر فرمایا ہے کہ :- " عن ابراهيم الكرخي قال سألت أبا عبد الله

Page 103

۹۳ عليه السّلام لاى علة ترك امير المؤمنين عليه السّلام ندگا لما ولى الناس فقال للاقتداء برسول الله صلى الله عليه وسلم اسی ضمن میں حضرت علامہ باقر مجلسی نے (بحار الانوار جلد ۳۸ میں) حضرت ابو جعفر محمد بن علی کا فیصلہ کن بیان بھی درج فرمایا ہے کہ سَلَكَ فِيهِمْ طَرِيقَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ.امیر المومنین حضرت علی نے اہلبیت کے معاملہ میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ہی کے مسلک کو بھاری رکھا ) آٹھواں حوالہ حضرت مهدی موعود فرماتے ہیں :.اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت ابو بکر صدیق پر رحمتیں نازل فرمائیے آپ نے اسلام کو زندہ و تازہ کر دیا...اور نیکیوں کا فیضان قیامت تک جاری کر دیا.آپ گریہ یعقوب کرنے والے اور خدا کے لئے دنیا سے منقطع ہونے والے تھے.دعا و تضرع مولا کے آگے گرنا، خدا کے حضور گریہ و بکاء کرنا اور آستانہ الوہیت پر اپنی جبین تذلل سے سجدہ ریز ہونا اور خدا کی خفگی و ناراضی سے پناہ مانگنا آپ کی عادت تھی سجدہ میں دعا ونداء کے لئے آپ ہمیشہ کوشاں رہتے اور تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے روتے.

Page 104

۹۴ بلاشبہ آپ فخر اسلام اور غیر مسکین تھے اور آپ کے فجر جو ہر لطیف کو خیر البریہ و افضل خلائق صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک قریبی رشتہ و تعلق تھا....اور آپ کتاب نبوت کے نسخہ اجمالی تھے.(ترجمہ شیر الخلافہ ۳، ص۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان مبارک ہے:- دعوا أبا بكرِ فَانَّهُ مِنْ تَيَمَّةِ النُّبُوة " ۰۲۵۲ ا تفسیر کبیر رازی جلد ۷ ۲۵ مصری) ابونجہ کی کیا بات !! وہ تو نبوت کا تتمہ ہیں.حضرت ابو بنجر کی وفات ہوئی تو حضرت علی روتے ہوئے آپ کے مکان کی طرف گئے اور آپ نے آپ کی نعش مبارک کو مخاطب کرتے ہوئے ایک دردناک خطبہ پڑھا جس میں آپ کے مناقب و محاسن کو بڑے موثر پیرا یہ میں بیان کیا.البزاز مجمع الزوائد الموافقة بين اہل البیت و اصحابه از جار الله زمخشری اور کنز العمال میں اس تاریخی خطبہ کا متن محفوظ ہے.الضنا مسند اہلبیت ملک ، ملا ، تاریخ اسلام از اکبرشاه خان جلد ۱ ص ۳۲ مطبوعه ۱۳۴۳ هو طبع دوم ) حضرت علی رض فرماتے ہیں :- " وكان افضلهم نعمت في الاسلام وانصحهم الله ولِرَسُولِه الخليفة وخليفة الخليفة ولعمرى ان مكانهما في الاسلام يعظم وان المُصَابَ بهما

Page 105

۹۵ I الجرح في الاسلام شدید فرحمهما الله وجزاهما احسن ما عملا " (شرح ابن ابی الحدید جلد ۲ ۲۱۹) تم بھی جانتے ہو کہ اسلام میں سب سے افضل اور اللہ اور اس کے رسول کے سب سے زیادہ خیر خواہ خلیفہ رسول حضرت ابو بکر صدیق ہی تھے اور ان کے بعد دوسرے درجہ پر خلیفہ خلیفہ (یعنی فاروق ) تھے.خدا کی قسم اسلام میں ابھی دونوں کا مرتبہ نہایت بلند ہے اور ان دونوں کی وفات سے اسلام کو شدید زخم پہنچا ہے خدا ان دونوں پر رحم فرمائے اور انہیں ان کے کارناموں کی بہترین جزا عطا فرمائے.نواں حوالہ حضرت مهدی موعود فرماتے ہیں :- حضرت ابو بکر فوت ہوئے اور معصوموں کے امام انبیوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پہلو میں دفن ہوئے گویا آپ نے نہ زندگی میں خدا کے محبوب اور رسول کا دامن چھوڑا اور نہ موت کے بعد بلکہ اس حیات چند روزہ کے بعد بھی وہ اکٹھے رہے.(ترجمہ ستر الخلافہ ص ۳) روصال و تدفین کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی تصنیف " ما ثبت من السنہ".1

Page 106

1 44 حضرت امام حسین علیہ السلام کے صاحبزادہ علی سے کسی نے دریافت کیا کہ حضرت ابوبکرین اور حضرت عمر کی دربار نبوی میں کیا قدر و منزلت نفی ہے فرمایا جو آج ہے کہ دونوں بزرگ آنحضرت کے پاس لیٹے ہوئے ہیں.موافقته بین اہل البیت و الصحابه از جاد الله (زمخشری ) اللہ اکبر ان کے صدق اور باطنی پاکیزگی کی بلندشان کا کیا کہنا وہ اس قابل فخر مقام میں مدفون ہوئے کہ موسیٰ و عیسی بھی زندہ ہوتے تو صد رشک و تمنا کرتے.( ترجمه از شتر الخلافه ص۲) یہاں اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ دشمنان اسلام صدیوں سے حضرت ابو بکر صدیق رض سے یہ مقدس اعزاز بھی چھیننے کی جد وجہد کرتے رہے ہیں.چنانچہ ایک یا ور میں عیسائیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک کو سرنگ کے ذریعہ لے جانے کی سازش کی مگر ایک طرف حضرت سلطان نور الدین محمود شهید بن عماد الدین زنگی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و مسلم نے بذریعہ خواب اس واقعہ کی اطلاع کر دی دوسری طرف عین اس وقت جبکہ نقب لگانے والے قبر مبارک کے قریب پہنچنے والے تھے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور گرج اور چمک سے زلزلہ عظیم پیدا ہو گیا اور پھر سلطان نور الدین بھی لاؤلش کر سمیت پہنچ گئے اور یہ سازش ناکام ہوگئی.اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد طلبیوں نے حجرہ شریفیہ سے حضرت ابو بکر اور حضرت محمرہ کے مقدس حسیموں کو نکالنے کا منصوبہ

Page 107

حو النقل الطبع والسحور اللوا ابراهمنا الحج المصرى

Page 108

94 باندھا.پر چالیس آدمی تھے.امیر مدینہ سے گٹھ جوڑ کر کے رات کو پھاؤڑے، کدال ، شمع اور گرانے اور کھودنے کے اوزار لے کر آئے لیکن ابھی یہ معاندین اُمت منبر نبوی کے مقابل بھی نہیں پہنچے تھے کہ زمین پھٹ گئی اور اس نے ان سب کو مع اُن کے آلات کے نگل لیا.تاریخ مدینه از حضرت عبد الحق محدث دہلوی (مترجم) عملا و ناشر مدینہ پبلیشنگ کمپنی بندر روڈ کراچی )

Page 109

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق کی آخری وصیت میرے پیارے بزرگو اور بھائیو احضرت مہدی موعود علیہ السّلام کی زبان مبارک سے حضرت ابو بکر صدیق کے عہد خلافت پر مختصر روشنی ڈالنے کے بعد آخر میں آپ کی خدمت میں نہایت ادب اور درد دل سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ۲۲ اگست ۶۶۳۴ کوسیدنا حضرت ابو بکر صدیق کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ۶۳ سال کی عمرمیں مروج الذہب جلد ما ص۲۸ از ابو الحسن مسعودی مصر ۱۳۰۳ هـ ) وصال ہوا تو شام کے محاذ پر یرموک کے میدان میں کفر و اسلام کی جنگ لڑی جارہی تھی (طبری جلد ۲ ص ۲۳) یہی وہ معرکہ ہے جس کے آغاز میں رومیوں نے ایک عرب جاسوس مسلمانوں کے شکر میں بھیجا تو اس نے ایک دن اور ایک رات اسلامی افواج کا قریبی مشاہدہ کرنے کے بعد یہ اطلاع دی کہ " بالليل رهبان و بالیوم فرسان " (سیرت الصديق من مصنفہ محمد حبیب الرحمن خاں شروانی مطبع احمدی علیگڑھ ۱۳۳۲ هـ ) کہ مسلمان مجاہدوں اور غازیوں کا عیسائیوں کی بڑی سے بڑی حکومت مقابلہ نہیں کرسکتی.یہ وہ بیگانہ روزگار لوگ ہیں جو دن میں شہسواری کے جوہر دکھاتے اور راتوں کو اپنی سجدہ گاہوں کو اپنے آنسوؤں سے تر کر دیتے ہیں.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے چند دن قبل یہ وصیت

Page 110

i : ۹۹ فرمائی کہ " ولا يزال الجهاد لا هل عداوته حتى يدينوا دين الحق ويُقِرُّوا بحكم الكتاب " (کنز العمال جلد ۳ ص ۱۲) جب تک ایک متنفس بھی دین حق سے باہر ہے اور کتاب اللہ رَّسُولُ اللہ نہیں پڑھ لیتا جہاد جاری رہے گا.دُنیائے اسلام معرکہ یرموک کے دور میں شجر اسلام کی سرسبز شاخو ! چودہ سو سال کی زبر دست آویزش اور کشمکش کے باوجود کلی طیبہ پڑھنے والوں کی تعداد دنیا کی مجموعی آبادی کے صرف چوتھائی حصہ کے برابر پہنچ سکی ہے اور تمام غیر اسلامی طاقتیں اپنے علمی اور مذہبی اور مادی اسلحہ کے ساتھ اسلام اور خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کا منصو بہ باندھ رہی ہیں اور پوری دنیائے اسلام معرکۂ یہ موکی کے دور میں داخل ہو چکی ہے.یہ صورت حال ایک سچے مسلمان کے دل میں درد کا ایک طوفان ضرور پیدا کر دیتی ہے مگر مایوسی پیدا نہیں کر سکتی کیونکہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں سے وعدہ کر رکھا ہے كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللهِ (البقره : ۲۵۰ )

Page 111

1..حضرت امام ابو الحسن فرماتے ہیں :- " إن الله إذا أَرَادَ أَمْرًا فَعَلَ الكَثِيرَ وَكَثْرَ القَلِيل (بحار الانوار جلد ۱۳ صدا مطبوعه (ایران) جب اللہ تعالی کسی امر کا ارادہ کرتا ہے تو وہ بہتوں کو تھوڑے اور تھوڑوں کو بہت کر دیتا ہے.اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ پر معارف ارشاد ہے کہ يبعث الله النَّبِيَّ وَحْدَهُ ثُمَّ يَجْتَمِعُ اِلَيْهِ ناس قليل يُؤْمِنُونَ بِهِ ثُمَّ يَكُونَ الْقَلِيلُ كَثِيرًا در منثور جلد ۶ ص للسيوطي) اللہ تعالی نبی کو تنہا بھیجتا ہے.پھر اس کے گرد چند لوگ جمع ہو جاتے ہیں جو اس پر ایمان لے آتے ہیں مگر بالآخر ایسا انقلاب عظیم برپا ہو جاتا ہے کہ یہ اقلیت اکثریت میں اور اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جاتی ہے.ہے یہ تقدیر خدا وند کی تقدیروں سے اس سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی پیش گوئی فرمائی إِذَا قَامَ الْقَائِمُ الْمَهْدِيُّ لَا يَبْقَى أَرْضُ إِلَّا نُودِيَ فِيهَا شَهَادَةً أن لا إله إلا الله وَانَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ (يَنابيع المودة موقفہ حضرت شیخ سلمان البلغمی طبع دوم مكتبه العرفان بیروت و بحار الانوار جلد ۳ امثا)

Page 112

کہ جب مهدی موعود ظاہر ہوں گے تو دنیا کا گوشہ گوشہ اشهد ان لا اله الا الله وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رسُولُ اللہ کی پرشکوہ اور دلر با آواز سے گونج اٹھیں گا.زمیں سے مظلمت شرک ایک دم میں ہوگی دُور ہوا جو جلوہ نما لا اله الا الله بروز حشر سبھی تیرا ساتھ چھوڑیں گے کرے گا ایک وفا لا الهَ اِلَّا الله حضرت مہدی موعود کی جماعت کا فرض (المصلح الموعود ) اس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق تمام اقوام عالم کے دلوں کو جیتنے اور خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدموں میں لانے کی اصل ذمہ داری اُس موعود جماعت پر ہے جس سے مہدی موعود اور آپ کے خلفاء کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بعیت کی ہے اور اپنے خدا سے خدمت اسلام کا نیا عہد باندھا ہے.ے عشق خدا کی مے سے بھرا جام لائے ہیں ہم مصطفیٰ کے ہاتھ پر اسلام لائے ہیں المصلح الموعود حضرت مہدی موعود کے خلیفہ دوم سیدنا حضرت المد سلح الموعود نے

Page 113

۱۰۲ حضرت ابو بکر صدیق کی آخری وصیت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یہاں تک فرمایا کہ : " اگر ہمارے چڑوں کے تسمے بنائے جائیں اور اسلام کا جو جنم تیار ہو رہا ہے اس کے جوتوں میں باندھنے کے کام آجائیں تو یہ ایک ایسی عزت ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی.الفضل ۱۱ستمبر ۶۱۹۴۵ ص کالم ۲) حضرت مصلح موعود نے ایک ایک احمدی کو مخاطب کر کے بتایا کہ :- "آج خانہ کعبہ کی حفاظت کے لئے گولیاں کھانا تمہارا فرض ہے.تمہارے سپردخدا تعالیٰ نے خانہ کعبہ اور اسلام کی حفاظت کا کام کیا ہے " سیر روحانی جلد ما ص ۲۱ - ۲۱۰ مطبوعه ۶۱۹۵۴ ناشر الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ ) سید نا حضرت مصلح موعود کی عظیم الشان پیش گوئیاں سیدنا حضرت مصلح موعود نے جماعت احمدیہ کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف تو بہ دلانے کے علاوہ یہ پیش گوئی بھی فرمائی کہ اس کمزور جماعت کے ہاتھوں اسلام کی عالمیگر روحانی حکومت کا قیام خدا کی اہل تقدیر وں میں سے ہے چنانچہ ۱۹۴۴ء میں حضور نے ہندوستان کے دارالسلطنت دہلی میں اپنے

Page 114

i : ایک پر اثر خطاب کے دوران فرمایا :- یکی اس خدائے واحد لاشریک لہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ...آخر ایک دن میرے اور میرے شاگردوں کے ذریعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ ساری دنیا پڑھے گی اور ایک دن آئے گا کہ جب ساری دنیا پر...اسلام کی حکومت قائم ہو جائے گی " (رسالة الفرقان قادیان- اپریل ۹۹۰۶۱۹۴۲) پھر حضور نے دس برس بعد ربوہ کے اسی پلیٹ فارم پر ایک جلائی تقریر کرتے ہوئے فرمایا :- اگر تم اپنے وعدوں پر پورسے رہو.اگر تم اپنی بحیت پر قائم رہو تو خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ رسول کریم کا تاج..تم پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر رکھو گے..کچھ عرصہ تک تمہارے بوجھ بڑھتے چلے جائیں گے کچھ عرصہ تک تمہاری مصیبتیں بھیانک ہوتی چلی جائیں گی.کچھ عرصہ تک تمہارے لئے ناکامیاں ہر قسم کی شکلیں بنا بنا کر تمہار ہے سامنے آئیں گی لیکن پھر وہ وقت آئے گا جب آسمان کے فرشتے اتریں گے اور وہ کہیں گے بس ہم نے ان کا دل جتنا دیکھنا تھا دیکھ لیا.جتنا امتحان لینا تھا لے لیا.خدا کی

Page 115

۱۰۴ مرضی تو پہلے سے یہی تھی کہ ان کو فتح دے دی جائے جاؤ ان کو فتح دے دو.اور تم فاتحانہ طور پر اسلام کی خدمت کرنے والے اور اس کے نشان کو پھر دنیا میں قائم کرنے والے قرار پاؤ گے.(الفصل ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۵ء مٹ ) مٹا کے نقش و نگار دیں کو یونہی ہے خوش دشمن حقیقت جو پھر کبھی بھی نہ مٹ سکے گا اب ایسا نقشہ بنائیں گے ہم مٹا کے کفر و ضلال و بدعت کریں گے آثار دیں کو تازہ خدا نے چاہا تو کوئی دن میں ظفر کے پرچم اُڑائیں گے ہم (کلام محمود)

Page 116

کتابت BIBLIOGRAPHY

Page 117

تفسیر سن عسکری - از حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ولادت ۳۱ ہو.شهادت ۲۶۰ هـ (مطبع جعفری طبع ۱۳۱۰ هـ ) ۲ - مجمع البیان فی تفسیر القرآن - از حضرت شیخ ابو علی فضل ابن الحسن الطبرسی الطوسي، السبزواري المشهری متوفی ۲۸ ۵ هـ (اشاعت ۵۱۲۸۲) ۳ - جلالین - از حضرت جلال الدین محمد بن احمد المحل ولادت ۷۹۱ ھ وفات ۸۶۴ ه - و حضرت امام جلال الدین سیوطی - ولادت ۸۴۹ هـ وفات ۹۱۱ ھ (ناشر عیسی البابی و الحلبی و شرکاء قاہرہ من اشاعت ربیع الاول ۱۳۳۲ھ ) م - تفسیر قمی از ثقة الاسلام حضرت شیخ علامہ حمد بن یعقوب الکلینی المهرازی البغدادی متوفی ۳۲۹ ھ (مطبوعه ایران ۱۳۱۳ هـ ) - تفسیر صافی - از حضرت محمد بن مرتضی ملا محسن الكاشانی 7 گیارھویں صدی کے مفتر.- تفسیر کبیر از حضرت امام فخر الدین محمد بن عمر الرازی ولادت ۵۴۴ هو وفات ۶۰۶ ه ( ناشر مکتبہ عبد الرحمن محمد جامع الازہر مصر ) ۷ - تفسیر روح المعانی از خاتمہ الادباء حضرت العلامہ الامام السید محمود بن عبد الله الحسینی الالوسى البغدادی ولادت ۱۲۱۷ هـ - وفات ۱۲۷۰ھ ( طبع اول مطبع الكبرى الميريه بولاق مصر (۱۳۰ هـ )

Page 118

- در منشور - از خاتمة الحفاظ المحدثین حضرت علامہ جلال الدین سیوطی المطبعة الميمنه مصر شوال ۱۳۱۴ هـ ) ۹ - تفسیر ثنائی مقدمہ حصہ اول از مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مدرس اول مدرسه تائید الاسلام امرتسر ولادت ۶۱۸۶۸ - وفات ۰۶۱۹۴۸ حدیث و اصول حدیث ۱ - بخاری - از حضرت امام محمد بن اسمعیل بخاری - ولادت ۱۹۴ ه - وفات ۲۵۶ھ ( مطبع عثمانیہ مصر به ۱۳۵۱ هـ ) ۲ - مسلم - از حضرت مسلم بن حجاج - ولادت ۲۰۴.وفات ۲۶۱ هر ( ناشر مصطفی البابی الحلبی و اولاده المبصر ۱۳۴۸ هـ ) ۳ - موطا امام مالک - از حضرت امام مالک بن انس - ولادت ۹۵ هر - وفات ۷۹اهر (مطبع احمدی دہلی ۱۲۶۶ھ ) ۴- کنز العمال - از حضرت شیخ علاء الدين على المشفى الهندى (تصنیف ۹۵۷ه مطبوعه حیدر آباد دکن ۱۳۱۳ هـ ) -۵- کنوز الحقائق از حضرت علامہ عبدالرؤوف بن تاج العارفین منادى القاهرة الشافعی - ولادت ۹۵۳ هـ - وفات ۱۰۳۱ ھ ( ترجمہ شائع کرد مجبو علم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار لاہور ۱۹۳۰ ء طبع اول) - موطا امام محمد- از حضرت امام محمدبن احسن الشیبانی فقه الحنفی - ولادت ۱۳۱ھ

Page 119

ولادت ۱۸۹ ه د مترجم شائع کردہ ملک سراج الدین اینڈ سنٹر کشمیری بازار لاہور ) موضوعات کبیر از حضرت امام علی القارى الهروی امام المسنت - متوفی ۱۰۱۴ھ (مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۱۵ھ) - الفوائد المجموعه فی بیان حدیث موضوعه - از حضرت امام محمد بن علی شوکانی ولادت ۱۱۷۴ھ وفات ۱۲۵۰ هـ ۹ - تعقبات سیوطی - از حضرت علامہ جلال الدین سیوطی و ملی حمدی لاہور (۱۳۹۲/۶/۸۸۹ ١٠- عجالہ نافعہ - از حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی.ولادت ۱۱۵۹ ھر وفات ۱۲۳۹ - مترجم - ناشر نورمحمد کارخانه تجارت کتب آرام باغ کراچی ) ۱۱ مشکوۃ المصابیح - از حضرت الشیخ ولی الدین محمد بن عبد الله الخطيب العمری -11 التبريزي تصفيف ۷۳۷ در مطبع فاروقی دہلی ۱۳۰۷ هـ ) ه ۱۲.مسند اہلبیت - از محمدبن محمد الباقری (مترجم محمدسلیمان کیلانی طبع ۱۳۷۳ھ نامشنر شمس الدین تاجر کتب لاہور ) ۱۳ - الاصول من الجامع الکافی از رئيس المحدثين الشيخ الامام الحافظ ثقة الاسلام ابو جعفر حضرت محمد بن یعقوب بن اسحق الكليني الرازی متوفی ۵۳۲۹ (مطبع نولکشور ۱۳۰۲ھ ) ۱۴ - الفروع من الجامع الکافی - از حضرت محمد یعقوب کلینی رحمۃ اللہ علیہ (مطبع نولکشور ۱۳۰۲هـ )

Page 120

1- کشف الغمہ ع جميع الامه - ازحضرت امام عبد الوہاب شعرانی میتونی 1914 مطبع مصطفی البابی الحلبی و اولاده بمصر ۶۱۹۵۱ ) ۲ - جلاء العیون از شیخ الاسلام عمدة المحدثین حضرت علامہ محمد باقر مجلسی ولادت ۱۳۷ د وفات 11 ھ ( طبع سوم - ناشر سید عبدالحسین تاجر کتب خانہ اثنا عشری محله درگاه سردار باغ لکھنو ۶۱۹۱۹ ) تاریخ ، سیرت ، سواسخ ۱ - شرح مواہب اللدنیہ - از حضرت الامام العلامہ محمد بن عبدالباقي الزرقانی المالکی ولادت ۱۰۵۵ هـ - وفات ۱۱۲۲ ه ( طبعه ا ولی مطبعه الازبر المصريه ۱۳۲۵ ) ۲ - الاصابہ فی تمییز الصحابه - از حضرت شہاب الدین احمد بن علی.ابن حجر عسقلانی ولادت ۷۷۳ هـ - وفات ۸۵۲ ه ( مطبع مدرستہ الاسقف في كلكة المحروسة ) - تاریخ الخميس في احوال النفس النفيس از حضت الامام شیخ حسین بن حمد دیار بکری متوفی ۹۶۶ هـ- (مطبعة الفقیر عثمان عبد الرزاق - طبع اول ۱۳۰۲هـ ) - تاریخ الخلفاء - از حضرت علامہ جلال الدین سیوطی (ناشر مهتم و مالک

Page 121

مطبع فخر المطابع لکھنو ) ۵ - الکامل فی التاریخ جلد ۲ - از حضرت العلامہ ابی الحسن علی بن ابی الکریم المعروف ابن اثیر الجزری - ولادت ۵۴۴ ۵ - وفات ۶۰۶ هـ - ۶ - تاریخ الرسل و الملوک جلد ۴- از حضرت ابو جعفر محمد بن جریر الطبری ولادت ۲۲۴ هـ - وفات ۳۱۰ ھ (مطبوعہ ۶۱۸۹۰) تاریخ اشاعت اسلام - از حضرت مولانا شیخ محمد المعیل صاحب پانی پینتی مرحوم - متوفی ۱۲ر اکتوبر ۶۱۹۷۲ - ( ناشر غلام علی اینڈسٹر کشمیری بازار لاہور ) - - جذب القلوب الى ديار المحبوب - از حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی ولادت ۵۹۵۸ - وفات ۱۰۵۲ ه (مترجم ناشر مدینہ پبلیشنگ کمپنی بندر روڈ.کراچی ) ۹ به مروج الذہب - الحضر ابوالحسن علی بن الحسين بن على المسعودي المتوفى ٣٣٦ مطبع از سریه مصر طبع اول ۱۳۰۳ هـ ) ۱۰ - بحار الانوار جلد ۱۳- از شیخ الاسلام حضرت علامہ محمد باقر مجلسی.ولادت ۱۰۳۷ھ.وفات ۱۱۱۰ ھ.۱۱ - مدعیان نبوت - اعتقاد السلطنه ناشر موسسه انتشارات آسیا تهران اشاعت ۰۱۳۴۳ - ( یہ ایرانی کیلنڈر ہے.شاہد) ۱۲- حضرت ابو بکر صدیق کے سرکاری خطوط - از مولانا خورشید احمدفاروقی استاد ادبیات عربی دہلی یونیورسٹی ندوۃ المصنفین اردو بازار

Page 122

جامع مسجد دہلی ملا (طبع اول دسمبر ۱۹۶۰ء) ۱۳- بینابیع المودة - از شیخ السيد سند مسلمان الحسيني البلغي العظیمی - ولادت ۱۲۲۰ هـ - وفات ۱۲۹۴ هـ (مکتبه العرفان بیروت مطبوعہ قاہرہ ۱۳۵۴ هـ ) ۱۴ حیات محمدؐ - از محمدحسین سیکل قاہرہ - ولادت ۱۳۰۵ ھ وفات ۱۳۷۶ هـ - ( مطبع مصر ۵۱۳۵۴) ۱۵- تذکرۃ الاولیاء از حضرت خواجہ فرید الدین عطائه - ولادت ۵۱۳ هـ - وفات ۶۲۷ ه ( مطبع محمدی لاہور ۱۳۰۷ هـ ) -۱۶ - اشاعت اسلام - از مولانا محمد عیب الرحمن صاحب ناظم دارالعلوم دیوبند ناشر کتب خانه رحیمی قصبہ رائے پور ضلع سہارنپور یوپی ۱۳۲۵ھ) ۱۷ - جذب القلوب الى ديار المحبوب - از حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ولادت ۹۵۸ ه - وفات ۱۰۵۲ هـ (مترجم حکیم سید عرفان عسلی پیلی بھیت ناشر مدینہ پیشنگ کمپنی بندر روڈ کراچی ) ۱۸- تاریخ اسلام - از سید امیر علی صاحب سی آئی.ای - ای - ایل.ڈی ڈی ایل پریوی کو نسلر ولادت ۶۱۸۶۷ ( ترجمہ باری علیگ نظر ثانی صوفی شیر میان اشرار دو اکیڈیمی لاہور طبع سوم جولائی ۱۹۹۹ء) 19 - ابوبکر صدیق - عمر ابو النصر (مترجم شیخ محمد احمدپانی پیتی مرحوم متوٹی وجنوری ۶۱۹۶۲- ناشر ادارہ فروغ اگر دو.لاہور ) ۲۰.مولانا مودودی اپنوں اور بیگانوں کی نظر میں.انہ جناب محمد یوسف

Page 123

q مكتبه الحبیب اچھرہ لاہور.نومبر ۶۱۹۵۵ ) ۲۱ - جهاد صدیق اکبر از میجر جنرل محمد اکبر خان کرنل کمانڈنٹ رائل پاکستان آرمی سرویس کور ( ناشر فیروز سنز لاہور - طبع اول ) ۲۲ - انسان العيون في سیرت الامين المامون از حضرت علی بن برہان اداری جلبی المتوفی ۱۰۴۴ هـ ( ناشر محمد آفندی مصطفی مصر ) -۲۳ - الخصائص الکبری - از حضرت علامہ جلال الدین سیوطی و مطلع دائرة المعار حیدر آباد دکن - طبع اول ۱۳۱۹ هـ ) ۲۴.شواہد النبوة- از حضرت مولانا نور الدین عبد الرحمن جامی المتوفی ۱۸۹۸ (مترجم.ناشر مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ لاہور ) ۲۵ - ما ثبت من السنه - از حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی.ولادت ۱۹۵۸ وفات ۱۲ ه مترجم مولانا مفتی حکیم سید غلام محی الدین نعیمی ناشر ادارہ تعمیہ رضویہ سواد اعظم لال کھوہ موچی گیٹ لاہور) -۲۶ - کتاب المهدی - از استاذ الفقهاء والمتكلمين آیت الله العظمى الستيد ر الدین صدر ولادت ۱۲۹۹ ه - وفات ۱۳۷۳ھ (ناشر کتاب فروشی اسلامیه مطبوعه طهران ) ۲۷ - اسوۂ صحابہ از مولانا عبدالسلام ندوی.ولادت ۱۳۰۰ هـ (ناشر دار استین اعظم گڑھ ۶۱۹:۲۲ ) -۲۸ - سیرت النبی حصہ اول - از شمس العلما حجة الله والدین علامہ شبلی نعمانی مرحوم - والادت ۱۳۰۵ هـ - وفات ۱۳۳۲ ه ( ناشه مولوی

Page 124

سعود علی صاحب ندوی مطبع معارف، اعظم گڑھ، طبع دوم ۱۳۲۱) -۲۹ مختصر سیرت الرسول - از مجدد اسلام حضرت امام محمد بن عبد الوہائیے.و عادت ۱۱۱۵ هـ - وفات ۱۲۰۶ هـ (مطبع المسنة المحمدیہ ١٦ شارع شریف باشا الكبير قاهره ۱۳۷۵ هـ / ۶۱۹۵۶ ) ۳۰ - مشجر الاولیا - از سید العارفین حضرت محمد نوربخش القهستانی " متونی ۵۸۶۹ (ناشر شمس الدین تاجر کتب مسلم مسجد چوک انار کلی لاہور ) ۳۱- سیرت الصدیق - از محمد حبیب الرحمن خاں شیروانی حبیب گنج ضلع علی گڑھ ولادت ۱۲۸۳ هد (مطبوعہ علی گڑھ ۱۳۳۲ ه ) ۳۲- الصدیق - از حافظ عبدالرحمن صاحب امرتسری - ولادت ۱۲۵۶ هر وفات ۱۳۲۵ ه ( مطبع بازار امرتسر ۶۱۸۹۷ ) ۳۳.اہل کتاب صحابہ اور تابعین - از مولوی مجیب اللہ صاحب ندوی رفیق دار المصنفین (معارف پریس اعظم گڑھ مطبوعہ ۶۱۹۵۱ ) ۱۳۴ میخانه درد از خواجه سید ناصر نذیر فراق دہلوی - ولادت ۱۲۸۲ هـ وفات ۱۳۵۱ هـ (مطبوعہ حید ر برقی پریس دہلی مارچ ۶۱۹۱۰ ) کلام، عقائد 1 - نبراس شرح عقائد نسفی - از حضرت الحافظ محمدعبد العزيز الغربارى الملمانی مولف کو ثر النبی ( مطبع ہاشمی میرٹھے طبع اول ۱۳۱۸ھ ) -۲- ازالۃ الخفاء - از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی.ولادت ۱۱۱۴ھ

Page 125

وفات 116ھ (مطبع صدیقی بریلی ) -- منار الهدی فی اثبات النص على المتة اثنا عشر- از مصدرالعلوم حي المعار قدوة العلماء والمتكلمين حضرت الشیخ علی بن عبد الله بن على المقتر متوفی ۱۳۱۹ھ رتصنیف ۱۲۹۵ھ - ناشر الشيخ على المحلاتي الحائری مطبع گلزار حسنی بمبئی ۱۳۲۰ هـ ) -۴- پنہج البلاغت مجموعه خطبات و مکتوبات اسد الله الغالب سید نا حضرت امیر المومنین علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ - ولادت ۳- قبل از ہجرت وفات ۶۰ ھ (مرتبہ الشريف المرتضیٰ ابو القاسم علی بن طاہر الحسینی " متوفی ۴۳۶ ه - ناشر فخر الحاج حاجی شیخ رضا کتاب فروش مطبوعه تهران ۱۳۰۲ هـ ) -۵- شرح ابن حدید - از ابو حامد حضرت عبد الحمید بن ہبتہ اللہ بن محمدبن محمد بن الحسين المدائني المعروف ابن ابی حدید ولادت ۵۸۶ هو وفات ۶۵۵ هـ - فرمودات حضرت مهدی موعود ) ولادت ۱۲۵۰ هـ - وفات (۵۱۳۲۶) ۱ - براہین احمدیہ حصہ اوّل تا چهارم - اشاعت ۶۱۸۸۰-۶۱۸۸۴ مطبوعہ سفیر ہند پرئیس امرتسر و مطبع ریاض مسند امرتسر باہتمام محمد حسین صاحب مراد آبادی)

Page 126

-۲- ستر الخلافہ - ( مطبع ریاض ہند پر لیس امرتسر محرم ۱۳۱۲ هـ ) ۳- مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود د جلد اول - دوم سوم انه ۱۸۷۸ تا ۱۹۰۸ء (ناشر الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ) ۴- ملفوظات حضرت مسیح موعود جلد اول تا دہم (ناشر الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ ریوه ) فرمودات حضرت مصلح موعود (ولادت ۱۳۰۶ هـ - وفات ۱۳۸۵ ه ) ۱ - اسلام میں اختلافات کا آغاز.دلیچر ۲۶ فروری ۱۹۱۹ء زیر انتظام مارٹن ہسٹا ریکل سوسائٹی اِسلامیہ کالج لاہور ) -۲- خلافت را شده لیچر جلسه سالانه قادیان مورخه ۲۸ - ۲۹ دسمبر ۶۱۹۳۹ ( ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ریوہ طبع اول دسمبر ۱۹۶۱ء) -۳- سیر ئه و حانی جلد دوم مجموعه تقاریر ۶۱۹۴۸-۶۱۹۵۰-۶۱۹۵۱ (ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ طبع اول اپریل ۱۱۹۵۶) گفته مصنفین احمدیت ا.خلافت راشده - از حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی.ولادت ۶۱۸۵۸- وفات ۶۱۹۰۵ (مطبوعہ قادیان ۶۱۹۲۲ ) -۲- فضائل صحابہ کرام از مولانا محمد اسد اللہ صاحب قریشی مربی سلسلہ احمدیہ

Page 127

مورخ کشمیر ولادت ۶۱۹۲۶ ( ناشر نظارت اشاعت لریچر و تصنیف صدره انجمن احمدیہ پاکستان ربوه مینی ۶۱۹۷۴ ) اخبارات و رسائل سلسلہ عالیه احمدیة ا - روزنامه الفضل (قادیان ) ۱۰ ستمبر ۶۱۹۲۵ / -ṛ ( ربوه ( ۲۸ اکتوبر ۶۱۹۵۵ ۳.ماہنامہ فرقان (قادیان) اپریل ۶۱۹۴۴ اردو ادب ۱ - مقالات سرسید جلد - مرتبہ حضرت مولانا شیخ محمد المعيل منا پانی پیتی متوفی ۱۲ اکتوبر ۱۹۷۲ء (ناشر مجلس ترقی ادب لاہور ) ۲ - اقبال نامہ حصہ اول - مرتبہ شیخ عطاء اللہ صاحب ایم.اسے شعبہ معاشیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (ناشر شیخ محمد اشرف صاحب کشمیری بازار لاہو) - نوادرات - از علامہ اسلم جیراجپوری - ولادت ۶۱۸۸۱- وفات ۱۹۵۵ء (ناشر ادارہ طلوع اسلام کراچی ۶۱۹۵۱ ) -۴- تفہیمات - از مولانا سید ابو الاعلی صاحب مودودی بانی جماعت اسلامی ولادت ۶۱۹۰۳ (طبع چهارم ۶۱۹۴۷ ناشر مکتبہ جماعت اسلامی پٹھانکوٹ) تنقیحات - از مولاناسید ابو الا علی صاحب مودودی بانی جماعت اسلامی - الاعلیٰ..ولادت ۱۹۰۳ء (طبع هفتم مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان )

Page 128

-4 شاہر کار رسالت از جناب غلام احمد صاحب پرویز ( ناشر اداره طلوع اسلام لاہور) مُستشرقین کا لٹریچر ۱ - دی ہسٹری آف دی ڈی کلائن اینڈ فال آف دی رومن امپائر بلڈ از ایڈورڈ گین.ولادت ۶۱۷۳۷- وفات ۶۱۷۹۴ دناشر لنڈن جارج بیل اینڈ سنٹر ۶۱۹۰۰ ) ۲.لائیوز آف دی سیکسیسر ز آن محمد - از واشنگٹن ارونگ انڈین ولادت ۶۱۷۸۳- وفات ۶۱۸۵۹ (مطبوعہ البرٹ سٹریٹ لنڈن (۱۱۹۵۰ ۳- تمدن عرب گستاولی بان فرانسیسی - انتر به شمس العمار مولوی بریانی صاحب بلگرامی مطبوعہ اعظم سٹیم پریس حیدر آباد دکن - طبع دوم مئی ۱۹۳۶ء) ۴- اور نیٹل ریلیجنز سیریز جلد ۸- از جان فارمن با مسٹر ( ناشر لوزاکینڈ کمپنی لمیٹڈ لنڈن ۶۱۹۵۳ ) - مطالعہ تاریخ - تالیف آرنلڈ جو زن ٹائن بی.ولادت ۶۱۸۷۹ وفات ۱۹۷۵ء تلخیص ڈی سی.سومرویل (مترجم مولانا غلام رسول صاحب مہر ناشر مجلس ترقی ادب -۲- کلب روڈ لاہور.(

Page 129

دی اسلامک ورلڈ - از مارلین رو نسن والڈ ہین.تاریخ شام.از ڈاکٹر فلپ خوری حتی.ولادت ۱۸۸۶ء مترجم مولانا غلام رسول صاحب مہر ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور

Page 130

ناشر مطبع تعد ا و طبع ادارة الصنفين ربوه پن کو پریس لاہور ایک ہزار }

Page 131

= مطیع به سونی را نفر آرٹ برنرز لاهور.

Page 131