Khilafat-eAhmadiyya

Khilafat-eAhmadiyya

خلافت احمدیہ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
خلافت اسلامیہ احمدیہ

مولانا موصوف نے جلسہ سالانہ ربوہ 1969ء کے موقع پرمسجد مبارک ربوہ میں منعقد ہونے والے شبینہ اجلاس میں خلافت احمدیہ کے موضوع پرا یک اہم تقریر کی تھی جس کا مکمل متن، مفید اور ضروری اضافوں کے ساتھ نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔ اس کتاب میں مولانا موصوف نے اپنے مخصوص انداز میں وسیع جماعتی لٹریچر کا مطالعہ کرکے مفید اور دلچسپ حوالہ جات کو موضوع کے اعتبار سے بڑے قرینے سے سجایا ہے۔


Book Content

Page 1

خلافت احمدیه تقرير مکرم جنات لوی دوست محمد صاحب شاید مؤرخ احمدیت ختم نشره شان یار اشاعت تیر کو تصنیف صدر انجمن احمد منين (پاکستان) وبول

Page 2

خلافت الحمدية تقرير مولوی دوست محمد صاحب شاہد 1500 6 الناش نظارت اشاعت لتريجر وتصنيف صدر انجین احمدیہ پاکستان بوده

Page 3

Page 4

بسم الله الرحمن الرحيم پیشفق مولوی دوست محمد صاحب شاہد نے سالانہ جلسہ کے ۱۳۴۸ 71979 شیه اجلاس منعقد مسجد مبارک ربوہ میں خلافتِ احمدیہ کے موضوع پر ایک اہم تقریر کی تھی جس کا مکمل متن بعض مفید اضافوں کے ساتھ ہدیہ قارئین کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اسے ہر اعتبار سے نافع اور موجب برکت بنائے اور ہم سب کو ہمیشہ ہی نظام خلافت سے وابستہ رہ کو دینی خدمات بجالانے کی توفیق بخشے اور وہ دن ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں جبکہ خلافت احمدیہ کی برکت سے اکناف عالم پر اسلام کا پرچم لہرانے لگے.آمین : ناظر اشاعت لٹریچر تصنیف صدر انجمن احمدیہ پاکستنا ربوبی

Page 5

بني الله الرحمن الرحيمة : محمد ونصلى على رسوله الكرني وَعَلَى عَبْدة المسيح الموعود وَعَدَ الله الذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصلحت ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلمَكنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي أَرتَضى لَهُمْ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّاء يعبد وننى لا يُشْرِكُونَ فِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بعد ذاكَ فَأُوْلَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ.(سوره نورع) ه ملت احمد کی مالک نے جو ڈالی تھی بہت آج پوری ہو رہی ہے اے عزیزان دیار (در ثمین)

Page 6

مید محمدی کے درخت وجود کی سرسبز شاخو اور تحریک احمدیت کے جو گوشو اور نونہالو تمہیں ریت جلیل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک بار پھر شمع خلافت کے گرد پروانوں کی مانند جمع ہونا مبارک ہو.میری آج کی تقریر کا عنوان ہے خلافت احمدیہ " اللہ تعالی کی بے شمار کریں اور رحمتیں ہوں ملت اسلامیہ کے فدائی سید نا حضرت مصلح موعود پر کہ حضور نے اپنے اکاوٹنی سالہ عہد قیادت میں نہ صرف نظام خلافت کے قیام و استحکام کے لئے ایک بے نظیر جو مکھی لڑائی لڑی بلکہ اس کی آبیاری کے لئے اپنا مقدس خون تک پیش کر دیا جس پر یہ مسجد مبارک گواہ ہے ہے ہمارے جسموں پہ جو ہے بلیتی یہ خاک ربوہ نشاں دیگی اس مثالی قربانی کے علاوہ حضور پر نور نے جماعت احمدیہ کو خلافت سے متعلق ایسی زمین مفصل اور انقلاب انگیز ہدایات و نصائح سے نوازا جو قیامت تک روشنی کے بلند اور پرشکوہ مینار کا کام دیں گی اور جن کی ضیا پاشیوں سے انکار خلافت کی ظلمتیں ہمیشہ پاش پاش ہوتی رہیں گی.استحکام خلافت کے اس زندہ اور نا قابل فراموش اور دائمی کار نامه کے پیش نظر جو سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ (نوراللہ مرقده) کے ہاتھوں انجام پایا ئیں انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ اس وقت جو کچھ عرض کروں اکثر و بیشتر حضور نہی کے مبارک الفاظ میں عرض کروں.بلاشبہ ربط و تسلسل کی غرض سے مجھے بعض فقرات یا واقعات کا خود بھی اضافہ کرنا ہو گا مگر یکیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خواہ الفاظ میرے ہوں مگر بلا و احضرت

Page 7

مصلح موعود ہی کا ہوگا.آیت استخلاف کا ترجمہ و تشریح یکس نے شروع میں سورہ نور کی معرکة الآراء آیت آیت استخلاف پڑھی ہے جس کا ترجمہ حضرت مصلح موعود کے مبارک الفاظ میں یہ ہے کہ :- " اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنا وے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا اور جو دین اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا وہ میری عبادت کریں گے (اور) کیسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے، اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دئے جائیں گے یہ تفسیر صغیر) حضرت خاتم الانبیاء اور آپکے فرزند میلیل کی پیشگوئیاں حضور فرماتے ہیں :.جس طرح قرآن کریم نے کہا ہے کہ خینے ہوں گے.رسول اللہ میلے اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ میرے بعد خلیفے ہوں گے پھر ملے گا عاماً ہو گا پھر ملک جبر یہ ہوگا اور اس کے بعد خلافت علی

Page 8

منهاج النبوة ہو گی (مشكوة باب الإنذار والتحذير اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں الوصیة میں تحریر فرمایا ہے :- اسے عزیز و با جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے سو اب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ وائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا " ( الوقعیت منت ) یعنی اگر تم سیدھے رستہ پر چلتے رہو گے تو خدا کا مجھ سے وعدہ ہے کہ جو دوسری قدرت یعنی خلافت تمہارے اندر آوے گی وہ قیاست یک منقطع نہیں ہوگی یا د خلافت حقه اسلامیه منته بار تقریر حضرت مصلح موعود جامه ها 1907'

Page 9

۹ "الوصية" کے مطابق نظام خلافت پر اجماع سلسلہ احمدیہ کا قدیم لٹریچر شاہد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد سب سے پہلا اجماع قدرت ثانیہ یعنی نظام خلافت ہی پر ہوا اور الوصیة کے مطابق ۲۷ مئی شاہ کو حضرت مولانا نورالدین بھیروی رضی اللہ عہ خلیفہ اول منتخب ہوئے.اس موقعہ پر حضرت مولانا نور الدین کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی گئی جس پر جناب مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور دوسرے بہت سے عمائد انجمن کے دستخط ثبت تھے.اس درخواست میں یہ لکھا تھا کہ :.اما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رساله الوصية ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المهاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نور الدین صاحب جو ہم سب میں سے اعظم اور انفی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اس کی حسنہ قرارہ فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر سے چہ خوش بودے اگر ہر یک زانت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے

Page 10

سے ظاہر ہے کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السّلام کا ربدر ارجون شهر مت) تھا 19.علاوہ ازیں جناب خواجہ کمال الدین صاحب سیکرٹری صدرانجمن احمدید نے انجمن کے جملہ ممبروں کی طرف سے تمام بیرونی احمدیوں کی اطلاع کے نئے حسب ذیل بیان جاری کیا :.حضور علیہ السلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وا یا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صد را نمین احمدیہ موجودہ قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود علیہ السلام به انجازت حضرت ام المومنین گل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین الشریفین جناب حکیم نورالدین سمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بعیت کی معتمدین میں سے ذیل کے احباب موجود تھے :- مولنا حضرت سید محمد احسن صاحب - صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جناب نواب محمد علی خاں صاحب شیخ رحمت الله صاحب، مولوی محمد علی مصاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب،

Page 11

ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، خلیفہ رشید الدین صاح اور خاکسار خواجہ کمال الدین جناب خواجہ صاحب نے اس اطلاعی بیان میں یہ بھی تحریر فرمایا :- لکل ماہ مرین نے جن کی تعداد او پر دی گئی ہے ہانا تفاق خلیفہ ایسے قبول کیا یہ خط بطور اطلاع محل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الامت خلیفہ اسیح و المہدی کی خدمت بابرکت میں بذات خود یا بذریعہ 19 ت پر بیعت کریں ( بدر - جون شاه م) محترم خواہبہ صاحب نے بعد ازاں یہ بھی تسلیم کیا کہ جب میں نے بیعت ارشاد کی بھی کہا کہ میں آپ کا حکم..بھی مانوں گا اور آنے والے خلیفوں کا حکم بھی مانوں گا یا دیکھ اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب # 1410 صفحه ۲۹ ۷ دسمبر ) این میله گون سوال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک بار قادیان میں خطبہ جمعہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ :- اس مسئلہ کے متعلق ایک سوال ہے جو ہماری جماعت کے دوستوں کو یا درکھنا چاہیئے اور ہمیشہ ان لوگوں کے سامنے پیش کرتے

Page 12

۱۲ رہنا چاہیئے اور وہ یہ کہ یہی لوگ جو آج کہتے ہیں کہ الوحقیقت سے خلافت کا کہیں ثبوت نہیں ملتا ان لوگوں نے اپنے دستخطوں سے ایک اعلان شائع کیا ہوا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول کی بعیت کے وقت انہوں نے کیا.پس جماعت کے دوستوں کو ان لوگوں سے یہ سوال کرنا چاہیے اور پوچھنا چاہئے کہ تم ہمیں الومیت کا وہ حکم دکھاؤ جسکے مطابق تم نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی.اسکے جواب میں یا تو وہ یہ کہیں گے کہ ہم نے جھوٹ بولا اور یا یہ کہیں گے کہ الوحیت میں ایسا حکم موجود ہے اور یہ دونوں صورتیں اُن کے لئے کھلی شکست ہیں.الفضل ۲۱ شهادت / اپریل ها خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعد وض) خلافت کو قدرت ثانیہ نام دینے کا فلسفہ ۶۱۹۴۰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلافت کو " قدرت ثانیہ کے نام سے کیوں موسوم فرمایا ؟ اس کی وضاحت میں حضرت مصلح موعود ی نے ارشاد فرمایا گرام نبی کی دو زندگیاں ہوتی ہیں ایک شخصی اور ایک قومی اور اللہ تعالے ان دونوں زندگیوں کو الہام سے شروع کرتا ہے.نبی کی شخصی زندگی

Page 13

تو الہام سے اس طرح شروع ہوتی ہے کہ جب وہ تیس یا چائیں سال کا ہوتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تو مامور ہے.نبی کی قومی زندگی الهام سے اس طرح شروع ہوتی ہے کہ جب وہ وفات پاتا ہے تو کسی بنی بنائی سکیم کے ماتحت اس کے بعد نظام قائم نہیں ہوتا بلکہ یکدم ایک تغیر پیدا ہوتا ہے اور خد اتعالیٰ کا منفی الہام قوم کے دلوں کو اس نظام کی طرف متوجہ کر دیتا ہے...اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا نام قدرت ثانیہ رکھا ہے " ر خلافت را شده صدا ۶ - ۶۲ تقریر حضرت مصلح موعود ۱۹۳۹) سلسلہ احمدیہ میں دائمی خلافت کی خبر حضرت مصلح موعود نے " الوصیت کے اس حوالہ کی روشنی میں قدرتی ثانیہ یعنی کے دائمی ہونے کی نسبت مزید وضاحت یہ فرمائی : در جیسے موسی کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں سال تک قائم رہی.اسی طرح گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت محمد یہ تو اتر کے رنگ میں عارمنی رہی لیکن میر محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر معین عرصہ تک چلتی چلی جائے گی یا الفضل

Page 14

نیز بتایا کہ : " یہ امرظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصہ تک پھیلے گی جن کا قیاس بھی اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا...کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرون اولیٰ میں ہوا وہ اُن حالات سے مخصوص تھا وہ ہر زمانہ کے لئے قاعدہ نہیں " خلیفہ خدا بناتا ہے الفصل ۳ اپریل ۱۹۵۷ء ص۳ مضمون حضرت مصلح موعود حضرت مصلح موعود که از تاریخ شاہ کو تخت خلافت پر متمکن ہوئے جسکے چند روز بعد حضور نے کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے " کے عنوان سے ایک تاریخی ٹریکٹ شائع فرمایا جس میں یہ حقیقت نمایاں کی کہ : خوب یاد رکھو کہ تخلیفہ خدا بناتا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کردہ ہوتا ہے.حضرت خلیفہ ایسے مولوی نورالدین صاحب اپنی خلافت کے زمانہ میں چھ سال متواتر اس مسئلہ پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے نہ انسان اور در حقیقت قرآن شریف کو غور سے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی " (صت)

Page 15

حلفیہ اعلان اور عظیم الشان پیشگوئی حضور نے اس مشہور ٹرنکیٹ میں یہ خلفیہ اعلان بھی فرمایا کہ : میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے کبھی انسان سے خلافت کی تمنا نہیں کی اور یہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے بھی کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ وہ مجھے خلیفہ بنا دے.یہ اس کا اپنا فعل ہے یہ میری درخواست نہ تھی میری درخواست کے بغیر یہ کام میرے سپرد کیا گیا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے کہ اس نے اکثروں کی گردنیں میرے سامنے مجھے کا دیں جس طرح پہلوں کو بنایا تھا.گوئیں حیران ہوں کہ میرے عیسا نالائق انسان اسے کیونکر پسند آگیا لیکن جو کچھ بھی ہو اس نے مجھے پسند کر لیا اور اب کوئی انسان اس گرفتہ کو مجھ سے نہیں اتار سکتا جو اس نے مجھے پہنایا ہے یہ خدا کی دین ہے اور کونسا انسان ہے جو خدا کے عطیہ کو مجھ سے چھین لے.خدا تعالیٰ میرا مددگار ہوگا.میں ضعیف ہوں مگر میرا مالک بڑا طاقتور ہے.کہیں کمزور ہوں مگر میرا آقا بڑا توانا ہے میں بلا اسبا ہوں مگر میرا بادشاہ تمام اسبابوں کا خالق ہے.نہیں بے مددگار ہوں مگر میرا رب فرشتوں کو میری مدد کے لئے نازل فرمائے گا انشاء اللہ.میں بے پناہ ہوں مگر میرا محافظ وہ ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی پناہ کی ضرورت نہیں یا (مٹ )

Page 16

14 ۱۹۲ میں حضور نے سفر یورپ کے دوران اسکرین خلافت کو خطاب کرتے ہوئے ایک نظم کسی جس میں فرمایا.میری غلیبت میں لگا لو جو لگانا ہو زور تیر بھی پھینکو کر و حملے بھی شمشیروں سے پھیر لو جتنی جماعت ہے میری سبعیت میں باندھ لو ساروں کو تم مکر کی زنجیروں سے پھر بھی مغلوب ہو گے مرے تا یوم البعث ہے یہ تقدیر خداوند کی تقدیروں سے ماننے والے مرے بڑھ کے رہیں گے تم سے یہ قضا وہ ہے جو ہر لے گی نہ تدبیروں سے حضورڑ کی پیش گوئی آج تک جس شان سے پوری ہو رہی ہے اس کے متعلق کچھ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں.حضرت مصلح موعود کی ایک اہم پیشگوئی مستقبل کے متعلق حضور نے سلسلہ احمدیہ میں دائمی خلافت کی خوشخبری سناتے ہوئے ۸ تبوک ۱۹۲۹ (مطابق در ستمبر نشا) کو کراچی میں ایک خطبہ جمعہ کے دوران یہ ایمان افروز ارشاد بھی فرمایا کہ : میری وفات خد اتعالیٰ کے منشاء کے مطابق اُس دن ہوگی میں ون یکی خدا تعالیٰ کے نزدیک، کامیابی کے ساتھ اپنے کام کو ختم کر

Page 17

2.12 لوں گا اور وہ شخص بالکل عدم معلم اور جہالت کا شکار ہے جو ڈرتا ہے کہ میرے مرنے سے کیا ہوگا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام نے فرمایا کہ میں تو جاتا ہوں لیکن خد اتعالیٰ تمہارے لئے قدرت ثانیہ بھیج دے گا.مگر ہمارے خدا کے پاس قدرت ثانیہ ہی نہیں اس کے پاس قدرت ثالثہ بھی ہے اور اس کے پاس قدرت رابعہ بھی ہے.قدرت اولی کے بعد قدرت ثانیہ ظاہر ہوئی.اور جب تک خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو ساری دنیا میں پھیلا نہیں دیتا اس وقت تک قدرت ثانیہ کے بعد قدرت ثالثہ آئے گی اور قدرت ثالثہ کے بعد قدرت رابعہ آئے گی اور قدرت رابعہ کے بعد قدرت خامسہ آئے گی اور قدرت خامسہ کے بعد قدرت سادسہ آئے گی اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ لوگوں کو معجزہ دکھاتا چلا جائے گا یا الفضل ۲۲ ستمبر شاه ملت) خلافت کی اہمیت و ضرورت حضرت مصلح موعود کے ان الفاظ سے یہ حقیقت بالکل نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ نظامیہ خلافت کا اسلام کے عالمگیر غلبہ کے ساتھ نہایت پر دست اور گہرا تعلق ہے چنا نچہ حضوری خود ہی فرماتے ہیں کہ.خلافت کا مسئلہ میرے نزدیک اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر کلمہ شریف کی

Page 18

IA تفسیر کی جائے تو اس تفسیر میں اس مسئلہ کا مقام سب سے بلند ہوگا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کلمہ طیبہ اسلام کی احساس ہے مگر یہ کلمہ اپنے اندر رجو تفصیلات رکھتا ہے اور جن امور کی طرف اشارہ کرتا ہے ان میں سے سب سے بڑا امر مسئلہ خلافت ہی ہے (خلافت را شده حت) پھر لکھتے ہیں :.خلافت اسلام کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے اور اسلام کبھی ترقی نہیں کرسکتا جب تک خلافت نہ ہو ہمیشہ خلفاء کے ذریعہ اسلام نے ترقی کی ہے اور آئند بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا.اور ہمیشہ خدا تعالیٰ خلفا مقرر کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی خدا تعالی ہی خلفاء مقرر کرے گا.حال ہی میں ایک صاحب کا خط آیا ہے وہ لکھتے ہیں میں نے ایک شخص کو تبلیغ کی وہ کہتا ہے اگر تمہارے موجود خلیفہ کے بعد بھی سلسلہ قائم رہا تو میں معیت کر لوں گا.میں تو مر جاؤں گا لیکن میرے بعد جو حضرت مسیح موعود کے قائمقام ہوں گے ان کے متعلق (بھی) اسی طرح کہا جائے گا.اور یاد رکھو اگر یہ جڑ رہی تو سب کچھ رہے گا اور ہماری جماعت دن بدن ترقی ہی کرتی رہے گی ؟ در من القرآن در مطبوعه نو مبر که از حضرت مصلح موعودام

Page 19

14 مقام خلافت اور مجددیت ۱۹۳م کا واقعہ ہے کہ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں مجلس علم و عرفان کے دوران ایک شخص نے سوال کیا کہ " کیا خلیفہ کی موجودگی میں مجد دور ہو سکتا ہے ؟ اس پر حضور مرنے پہ طیف جواب دیا کہ :.خلیفہ تو خود مجدد سے بڑا ہوتا ہے اور اس کا کام ہی احکام شریعت کو نافذ کرنا اور دین کو قائم کرنا ہوتا ہے پھر اُس کی موجودگی میں مجتہ د کس طرح آ سکتا ہے ؟ مجدد تو اس وقت آیا کرتا ہے جب دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے " الفضل ۸ شهادت / اپریل هم حت خلافت اور گدیوں والی ولایت ۱۳۱۹ ۱۹۴ وسط هیا میں بعض نام نہاد صوفیوں نے خود پسندی اور خورستانی کی راہ سے پیسے لے کر دعائیں کرنے کا ڈھونگ رچایا اور اپنی ولایت بگھارتے لگے.حضرت امیر المومنین خلیفہ ایسی الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنی دور میں آنکھ سے اس فتنہ کے بداثرات کو بھانپ لیا اور ایک خطبہ نتیجہ میں اس کی حقیقت نمایاں کرتے ہوئے فرمایا : خلافت کی موجودگی میں اس قسم کی گولیوں والی ولایت کے کوئی معنے ہی نہیں.جیسے گوریلا والا کبھی جنگ کے زمانہ میں نہیں

Page 20

ہوا کرتی بچھا ہے اسی وقت مارے جاتے ہیں جب باقاعدہ جنگ کا زمانہ نہ ہو.خلفاء کے زمانہ میں اس قسم کے ولی نہیں ہوتے.نہ حضرت ابو بکر کے زمانہ میں کوئی ایسا ولی ہوا نہ حضرت عمر ضیا حضرت عثمان یا حضرت علی ان کے زمانہ ہیں.ہاں جب خلافت نہ رہی تو اللہ تعالیٰ نے ولی کھڑے کئے کہ جو لوگ اُن کے جھنڈے تلے جمع ہو سکیں انہیں کر لیں تا قوم با لکل ہی تنزبیر نہ ہو جائے لیکن جب خلافت قائم ہو اس وقت اس کی ضرورت نہیں ہوتی.جیسے جب منتظم فوج موجود ہو تو گوریلا جنگ نہیں کی جاتی.پس خلافت کی موجودگی میں ایسی ولایت کا وسوسہ در اصل کبر اور بڑائی ہے.الفضل مورخه ۱۶ را حسان ریبون ها ۲-۵) دنیائے رُوحانیت کا مسلمہ قانون دنیائے روحانیت کا یہ ستمہ قانون و اصول ہے کہ جس قدر عظیم نعمت کسی قوم کو عطا ہوتی ہے اسی قدر اضافہ اس کی ذمہ داریوں میں ہو جاتا ہے خلافت ایک عظیم ترین نعمت ہے جو اس زمانہ میں مسلمانوں کو احمدیت کے ذریعہ اللہ تعالی کے پاک وعدوں کے عین مطابق دی گئی ہے جس پر ہم جتنے بھی سجدات شکر بجالائیں کم ہیں ہماری زبانیں اس احسان عظیم پر اپنے مون کی حمد سے بر میز اور ' ہماری دو میں اس کے آستانہ پر سجدہ ریز ہیں.

Page 21

۲۱ انوار خلافت سے استفادہ کے پانچ ذرائع ستید نا حضرت المصلح الموعود نے انعام خلافت کے سلسلہ میں پانچ بنیادی ذرائع کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے مین کی تکمیل خلافت سے فیوض و انوار اور فیضان و عرفان حاصل کرنے کے لئے از بس ضروری ہے چنانچہ تھوڑ نے پہلے تقاضا کی نشان دہی ان الفاظ میں فرمائی : محض کسی کی ذات سے تعلق رکھنے والے عمو نا ٹھوکر کھایا کرتے ہیں.میرے خیال میں تو انبیاء کی صفات بھی ان کے درجہ اور عہدہ کے لحاظ سے ہی ہوتی ہیں نہ کہ ان کی ذات کے لحاظ سے.پس تمہیں دریجہ (خلافت کی قدر کرنی چاہئیے کسی کی ذات کو نہ دیکھنا چاہیے دورس القرآن من از حضرت مصلح موعود اس لطیف نکتہ کی وضاحت میں حضور کی زبان مبارک سے ایک حیرت انگیز مثال سُناتا ہوں.ارشاد فرماتے ہیں:.ہم اصل نہیں اور اگر ہم اصل ہوتے تو دنیا ہمیں کبھی کی فنا کر چکی ہوتی ہم تصویریں ہیں اس لئے منیب ہمیں جتنا بھی نقصان پہنچاتی ہے دین کا کچھ نہیں بگڑتا.تصویروں میں بعض دفعہ بادشاہ کا جلوس بھی دکھایا جاتا ہے.اب اگر کوئی شخص بادشاہ کے جلوس پر گولیاں برسائے تو کیا بادشاہ مر جائے گا ؟ اسی طرح ہم بھی تصویریں ہیں ہم کو وو

Page 22

= ۲۲ خدا تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے تاکہ اس کی حکومت دنیا میں قائم ہو.جس طرح تصویر پر گولی چلانے والا اصل کو نقصان نہیں پہنچا ستاسی طرح اگر کوئی شخص ہم پر گولی چلاتا ہے تو گو ہم کمر جاتے ہاں ہی ختم ہو جاتے ہیں لیکن اس مشن کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا جس کو قائم کرنے کے لئے اُس نے ہمیں کھڑا کیا ہے.پس اپنے اندر خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے ساتھ تعلق پیدا کرو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام یا ان کے خلفاء بیشک بوجہ خدا تعالیٰ کے نمائندہ ہونے کے ادب کے قابل ہیں لیکن وہ مقصود نہیں....باقی ساری چیزیں اظلال کے طور پر میں اور اخلاقی آتے بھی ہیں اور جاتے بھی ہیں.خدا تعالیٰ یہ ضرور کرتا ہے کہ جب خلیل کی کوئی شخص ہتک کرتا ہے تو وہ اسے اپنی ہتک قرار دیتا ہے....اس لئے ایسا آدمی بچتا نہیں.آدم سے لے کر اب تک ایسا آدمی نہیں بچا اور قیامت تک نہیں الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۵ م ) انعام نبوت کے قیام و استحکام کے لئے دوسرا اہم ذریعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ بتایا ہے کہ ہم خلیفہ وقت کو ہمیشہ قبولیت دی کا مجستم نشان یقین کریں چنانچہ حضور نے مسند خلافت پر تمکن ہونے کے معاً بعد قادیان میں ۱۲ اپریل ۱۹۱۳ م کو احمدی نمائندگان جماعت کی جو نچ سکتا پہلی کا نفرنس بلوائی اُسے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ :-

Page 23

۲۳ " اللہ تعالیٰ جب کسی کو منصب خلافت پر سر فرانہ کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے کیا ر منصب خلافت صدا مطبوعه امه از حضرت مصلح موعود اس ضمن میں حضرت مصلح موعود یہ دلچسپ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ :- یکن ایک دفعہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی دوست نے ایک غیر مبائعے کے متعلق بتایا کرتی کہتے ہیں عقائد تو ہمارے ہی درست ہیں مگر دُعائیں میاں صاحب کی زیادہ قبول ہوتی ہیں.گویا جیسے ابو ہریر نے کہا تھا کہ روٹی معاویہ کے ہاں سے اچھی ملتی ہے اور نماز علی کے ہاں اچھی ہوتی ہے اسی طرح اس نے کہا عقائد تو ہمارے ٹھیک ہیں مگر دعائیں ان کی قبول ہوتی ہیں ؟" خلافت راشده من از حضرت مصلح موعودو) تیسرا ذریعہ حضرت مصلح موعود نے سے فیض و برکت حاصل کرنے کے سلسلہ میں یہ بیان فرمایا کہ : جس کو خدا اپنی مرضی بتاتا ہے جس پر خدا اپنے الہام نازل فرماتا ہے جس کو خدا نے اس جماعت کا خلیفہ اور امام بنا دیا ہے اس سے مشورہ اور ہدایت حاصل کر کے تم کام کر سکتے ہو.اس سے

Page 24

۲۴ جتنا زیادہ تعلق رکھو گے اسی قدرتمہارے کاموں میں برکت ہوگی اور اس سے جس قدر دور رہو گے اسی قدر تمہارے کاموں میں بے برکتی پیدا ہو گی جس طرح وہی شاخ پھل لا سکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو وہ کئی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو اسی طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دُنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکر وٹہ کر سکتا ہے ؟ الفضل ۲۰ نومبر م حت) خلیفہ وقت سے براہ راست تعلق اور وابستگی کے نتیجہ میں ہر مخلص اور سچے مومن کو یہ حقیقت خود بخود دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ نظامیہ سلسلہ سب انسانوں سے بالا اور مقدم ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :.سلسلہ مقدم ہے سب انسانوں پر سلسلہ کے مقابلہ میں کیسی انسان کا کوئی لحاظ نہیں کیا جائے گا خواہ وہ کوئی ہو.کوئی انسان بھی سلسلہ سے بالا نہیں ہو سکتا.اسلام اور قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی بالا ہیں اسی طرح احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ السّلام سے بھی

Page 25

۲۵ بالا ہے.اسلام اور احمدیت کے لئے اگر ہمیں اپنی اولادوں کو بھی قتل کرنا پڑے تو ہم اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیں گے مگر سلسلہ کو قتل نہ ہونے دیں گے...احمدیت ایک ایسی دھا رہے کہ جو بھی اس کے سامنے آئے گا وہ مٹا دیا جائے گا اور جو بھی اس کے سامنے کھڑا ہوگا وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا.خدا تعالے جس سلسلہ کو قائم کرنا چاہیے اس کی راہ میں جو بھی کھڑا ہو وہ مٹا دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لئے اس کے مقابلہ میں کسی انسان کی پروا نہیں کی جائینگی خواہ وہ کوئی ہو.سلسلہ مقدم اور غالب ہے ہر انسان پر یا الفضل ۱۵ جون ۱۹۴۳ م ص ) حضرت مصلح موعودؓ نے نظام ملا کے چوتھے ذریعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : دو میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جو محبت جماعت احمدیہ کو اپنے امام سے اس وقت ہے اس کی مثال کیسی اور جگہ ملنا ممکن نہیں مگر باوجود اس کے میں یہ کہنے سے نہیں رک سکتا کہ وہ جذباتی ہے عملی نہیں.ایسے کم لوگ ہیں جو اس محبت کو اس طرح محسوس کریں کہ جو لفظ بھی خلیفہ کے منہ سے نکلے وہ عمل کئے بغیر نہیں چھوڑنا ) (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ ملا)

Page 26

۲۶ خلیفه استاد ہے اور جماعت کا ہر فرد شاگرد.جو لفظ بھی خلیفہ کے منہ سے نکلے وہ عمل کئے بغیر نہیں £1907.چھوڑنا " (الفضل ۲ بارخ ۴۱۹۲۶ ص۳) اطاعت خلافت کا معیار کیا ہونا چاہئیے ؟ اس کی وضاحت خود حضور نے یہ فرمائی کہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائند کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے...ہزار دفعہ کوئی شخص کہےکہ ہمیں مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں.ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں خدا کے حضور اس کے ان دعووں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی جب تک وہ اُس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا و اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے جب تک جماعت کا مشخص...اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ میسر نہیں کرتا اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہو سکتا.1987 الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۲۶ مت)

Page 27

۲۷ ایک دلچسپ واقعہ جناب مولوی عبد الباقی صاحب بہاری کا بیان ہے کہ " سیدنا حضرت خلیفہ المسیح اول کی وفات کے بعد بعض لوگ حضرت میاں عبد الھی صحاب (حضرت خلیفہ اول کے فرزند ناقل ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ خلیفہ بن بجاتے تو ہم آپ کی اطاعت کرتے.میاں عبد الحی صاحب نے فرمایا کہ یا تو آپ کو آپ کے نفس دھوکہ دے رہے ہیں یا آپ مجھوٹ بول رہے ہیں.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ بنتا تب بھی آپ میری اطاعت نہ کرتے.اطاعت کرنا آسان کام نہیں ہیں اب بھی تمہیں حکم دوں تو تم ہر گز نہ مانو یا اس پر ان میں سے ایک نے کہا کہ آپ ہمیں حکم دیں پھر دیکھیں کہ ہم آپ کی فرمانبرداری کرتے ہیں یا نہیں؟ حضرت میاں عبدالحی مرحوم نے فرمایا : " اگر تم اپنے دعوی میں بیتے ہو تو میں تمہیں حکم دیت کہ کرلو ہوں کہ جاؤ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیعت کر لو یہ بات سُن کر وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ تو نہیں ہو سکتا.الفضل ۴ ر ا گست ۱۹۳۷ در حد مضمون میاں عبد الوہاب صاحب عمر خلف حضرت خلیفہ اول) جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو اس جذبہ اطاعت و فدائیت سے سرشا

Page 28

۲۸ کرنے کے لئے حضور نے نہ صرف جماعت میں لجنہ اماء الله اطفال الاحمدیہ خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ جیسی اہم تحریکوں کی بنیاد رکھی اور ان کے عہد کے الفاظ میں خاص طور پر اس بنیادی شرط کو شامل فرمایا اور اسے قیامت تک دُہرانے کا تاکیدی فرمان جاری کیا بلکہ سلسلہ احمدیہ کے مرتبیان کو نصیحت فرمائی کہ وہ مقام خلافت کی عظمت شان اور حلالت مرتبت کا تذکرہ ہمیشہ جماعت کے سامنے کرتے رہا کریں.چنانچہ چنور نے ارشاد فرمایا : مبلغین اور واعظین کے ذریعہ بار بار جماعتوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے کہ پانچ روپے کیا.پانچ ہزار روپیہ کیا.پانچ لاکھ روپیہ کیا.پانچ ارب روپیہ کیا اگر ساری دنیا کی جانیں بھی خلیفہ کے ایک حکم کے آگے قربان کر دی جاتی ہیں تو وہ بے حقیقت اور نا قابل ذکر چیز ہیں.اگر یہ باتیں ہر مرد ہر عورت ہر بچے ہر وا ھے کے ذہن نشین کی جائیں اور ان کے دلوں پر ان کا نقش کیا جائے تو وہ ٹھوکریں جو عدم علم کی وجہ سے لوگ کھاتے ہیں کیوں کھائیں؟ پس سب سے اہم ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے.....ہماری جماعت کے علماء لوگوں کو تیار کرسکتے ہیں اور دوسرے لوگ میں مین کو خدا تعالی نے علم و فہم بخشا ہے اور وہ خدا تعالی کی حیثیت

Page 29

۲۹ اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور اعلی محبت کے حاصل کرنے کی خواہش اپنے قلوب میں پاتے ہیں لوگوں کو اس رنگ میں تیار کر سکتے اور ان کے اعمال کی اصلاح میں حصہ لے سکتے اور...خدا تعالیٰ کی نظر میں خلیفہ وقت کے نائب قرار پا سکتے ہیں ؟ "تعليم العقائد والاعمال پر خطبات" صدا از حضرت مصلح موعود مر تر شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ) اس تعلق میں حضور کا یہ فرمان مبارک بھی سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے کہ :.ایک شخص جو خلیفہ کے ہاتھ پر مبعیت کرتا ہے اسے بھنا چاہئے کہ خلفاء خدا مقرر کرتا ہے اور خلیفہ کا کام دن رات لوگوں کی راہ نمائی اور دینی مسائل میں غور وفکر ہوتا ہے اس کی رائے کا دینی مسائل میں احترام ضروری ہے اور اس کی رائے سے اختلاف اُسی وقت جائز ہو سکتا ہے جب اختلاف کرنے والے کو ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہو جائے کہ جو بات وہ کہتا ہے وہ درست ہے.پھر یہ بھی شرط ہے کہ پہلے وہ اس اختلاف کو خلیفہ کے سامنے پیش کر ہے.نہ کہ خود ہی اس کی اشاعت شروع کر دے...اگر کوئی شخص اس طرح نہیں کرتا اور اختلاف کو اپنے دل میں جگہ دے گر عام لوگوں میں پھیلاتا ہے تو وہ بغاوت کرتا ہے اسے

Page 30

اپنی اصلاح کرنی چاہیے یا منهاج الطالبین ص ۱۳ لیکچر حضرت مصلح موعود ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے نظام خلافت سے تعلق پانچواں اہم اور بنیادی ذریعہ یہ بیان فرمایا کہ جماعت کو انعام خلافت کی شکر گزاری میں ہر قسم کی قربانیوں کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئیے چنانچہ رمایا کہ ایک آخر ایسا میں ایک انسان ہوں اور آخر ایک دن ایسا آئے گا جب میں مرجاؤں گا اور پھر اور لوگ اس جماعت کے خلفاء ہوں گے یکیں نہیں جانتا اس وقت کیا حالات ہوں گے اس لئے ابھی سے تم کو نصیحت کرتا ہوں تا کہ تمہیں اور تمہاری اولادوں کو ٹھوکر نہ لگے.اگر کوئی خلیفہ ایسا آیا جس نے سمجھ لیا کہ جماعت کو زمینوں سے اس قدر آمد ہو رہی ہے.تجارتوں سے اس قدر آمد ہو رہی ہے صنعت و حرفت سے اس قدر آمد ہو رہی ہے تو پھر اب جماعت سے کسی اور قربانی کی کیا ضرورت ہے.اس قدر روپیہ آنے کے بعد ضروری ہے کہ جماعت کی مالی قربانیوں میں کمی کر دی جائے تو تم یہ سمجھ لو وہ خلیفہ خلیفہ نہیں ہو گا بلکہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ خلافت ختم ہوگئی اور کوئی اسلام کا دشمن پیدا ہو گیا...پس چاہیئے کہ اگر ایک ارب پونڈ خزانہ میں آجائے تب بھی

Page 31

۳۱ خلیفہ وقت کا فرض ہوگا کہ ایک غریب کی حبیب سے جس میں ایک میسیہ ہے دین کے لئے پیسہ نکال لے اور ایک امیر کی جیب میں سے جس میں دس ہزار روپیہ موجود ہے دین کے لئے دس ہزار نکالے کیونکہ اس کے بغیر دل صاف نہیں ہو سکتے اور بغیر دل صاف ہونے کے جماعت نہیں بنتی اور بغیر جماعت کے بننے کے خدا تعالیٰ کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہو سکتی...پس....تمہارے اندر زندگی پیدا کرنے کے لئے تمہارے اندر رونی است پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے اور ہمیشہ اور ہر آن کیا جائے.اگر قربانیوں کا مطالبہ ترک کر دیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہوگا.یہ تقویٰ اور ایمان پر ظلم ہوگا یہ (الفضل ، اپریل ۱۹۴۳ مٹ ) ) " اسی سلسلہ میں حضرت مصلح موعود رضا نے یہ انکشاف بھی فرمایا کہ ۱۹۶۵ سے قربانیوں کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے.چنانچہ حضور نے ۲۲ اگست ۲۵ ۹ہ کو ڈھوڑی کی چوٹیوں پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :- " میرے دل میں یہ بات مبلغ کی طرح گڑ گئی ہے کہ آئندہ ی انداز انیس سالوں میں ہماری جماعت کی پیدائش ہوگی

Page 32

اور یکں سمجھتا ہوں آئندہ میں سال کا عرصہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین زمانہ ہے جیسے بچہ کی پیدائش کا وقت نازک ترین وقت ہوتا ہے.کیونکہ بسا اوقات وقت کے پورا ہونے پر پیدائش کے وقت کسی وجہ سے بچہ کا سانس رک جاتا اور وہ مردہ وجود کے طور پر دنیا میں آتا ہے.پس جہاں تک ہماری قومی پیدائش کا تعلق ہے میں اس بات کو میچ کی طرح گڑا ہوا اپنے دل میں پاتا ہوں کہ یہ میں سال کا عرصہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین مرحلہ ہے.اب یہ ہماری قربانی اور ایثا رہی ہوں گئے جن کے نتیجہ میں ہم قومی طور پر زندہ پیدا ہوں گے لپس میں جماعت کے دوستوں کو آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ جماعت ایک نازک ترین دکور میں سے گذرنے والی ہے اس لئے اپنے ایمانوں کی فکر کرو کسی شخص کا یہ سمجھ لینا کہ دس پندرہ سال کی قربانی نے اس کے ایمان کو محفوظ کر دیا ہے اس کے نفس کا دھوکہ ہے جب تک عزرائیل ایمان والی جان لے کر نہیں بہاتا.جب تک ایمان والی جان ایمان کی حالت میں ہی عزرائیل کے

Page 33

ہاتھ میں نہیں پہلی بجاتی اس وقت تک ہم کسی کو محفوظ نہیں کہ سکتے خواہ و شخص کتنی بڑی قربانیاں کر چکا ہو اگر وہ اس مرا یہیں پیچھے رہ گیا تو اس کی ساری قربانیاں باطل ہو جائیں گی اور وہ سب سے زیادہ ذلیل انسان ہوگا کیونکہ چھت پر چڑھ کر گرنے والا انسان دوسروں سے زیادہ ذلت کا مستحق ہوتا ہے؟ الفضل ستمبر ۱۹۳۵ م ) پھر فر مایا : " انسان کو ایک قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوسری قربانی کی توفیق ملتی ہے اس طرح یہ سمجھتا ہوں کہ جماعت کی موجودہ قربانیاں آئندہ قربانیوں کا راستہ کھولنے والی ہوں گی اور جس کے دل میں آئندہ قربانیوں کے لئے انقباض پیدا نہ ہوا سے سمجھ لینا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانیوں کو قبول کر لیا ہے اور آئندہ قربانیوں کے لئے بھی اسے اللہ تعالے توفیق عطا فرمائے گا لیکن میں شخص کے دل میں آئندہ قربانیوں کے لئے انقباض پیدا ہوتا ہے....ایسے آدمی کو اللہ تعالے کے حضور بہت استغفار کرنا چاہئیے اور بہت دعائیں کرنی چاہئیں تا اللہ تعالی اسے معاف فرمائے اور ایسے مزید قربانیوں کی توفیق عطا کرے جس طرح تین ماہ میں ایک دھیلہ چندہ نے بڑھتے بڑھتے موجودہ مالی قربانیوں کی صورت اختیار کرتی ہے اسی طرح

Page 34

جانی قربانی کا وقت بھی آنے والا ہے....جس دن کفر کو یہ معلوم ہو گیا کہ تم اسے دنیا سے مٹا دینے والے ہو وہ یقینا سختی سے تمہارا مقابلہ کرے گا اور تمہاری گردنوں ہیں ، تمہارے سینوں میں، تمہارے جگر میں خنجر گاڑ دے گا اور کفر اپنا پورا زور لگائے گا کہ اسلام کو قتل کر دے اور اسلامی عمارت کو منہدم کر دیے.گو ابھی وہ دان دُور ہیں لیکن آہستہ آہستہ قریب آتے جاتے ہیں.کوئی عمارت بھی ایک دن میں تیار نہیں ہوتی ایسے ہی یہ نہیں ہو سکتا کہ لوگ جمع ہو کر آئیں اور وہ کہیں کہ اگر تم میں سے پانچ ہزار آدمی اپنی گردنوں میں چھری پھیر لیں تو ہم اسلام کو قبول کر لیں گے بلکہ یہ قربانیاں آہستہ آہستہ دینی پڑیں گی پہلے ایک دو پھر آٹھ دس پھر پندرہ ہیں.اسی طرح آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے.آخر وہ دن آجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو غلبہ عطا کرتا ہے اور گھر ہتھیار ڈال دیتا ہے : و الفضل استمبر 9 ص

Page 35

۳۵ مصلح موعودؓ کی جماعت احمدیہ کو قیمتی نصیحت الغرض سید نا حضرت المصلح الموعود خلافت کے معدہ کو عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھنے، خلیفہ وقت کو قبولیت دعا کا مرکز سمجھنے ، اس سے عمر بھر فقید المثال مخلصانہ تعلق قائم رکھنے، اس کے ہر لفظ پر والہانہ طور پر لبیک کہنے اور اس کے حکم پر مالی و جانی قربانیوں کے لئے ہر زمانہ بلکہ ہر لمحہ اور ہر آن تیار رہنے کی ہمیشہ پر زور تلقین فرماتے رہے.یہی نہیں حضور نے جماعت احمدیہ کو بار بار یہ وصیت فرمائی کہ وہ ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہے.مثلاً ۹۲ کہ میں فرمایا : تم خوب یا درکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس دن تم نے اس کو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہوگا لیکن اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھے رہو گے اور اسے قائم رکھو گے پھر اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں ہلاک کرنا چاہے گی تو نہیں کر سکے گی.بے شک افراد مریں گے مشکلات آئیں گی.تکالیف پہنچیں گی مگر جماعت کبھی تباہ نہ ہو گی بلکہ دن بدن مگر بڑھے گی اور اس وقت تم میں سے کسی کا مرنا ایسا ہی ہو گا جیسا کہ مشہور ہے کہ اگر ایک دیو کٹتا ہے تو ہزاروں پیدا ہو جاتے ہیں تم میں سے اگر ایک بارا

Page 36

جائے گا تو اس کی بجائے ہزاروں اس کے خون کے قطروں سے پیدا ہو جائیں گے " (درس القرآن ) اسی طرح حضور رض نے ۲۲ اگست ۱۹۴۷ م کو یعنی ہجرت پاکستان سے صرف نو دن بیشتر قادیان سے پاکستانی احمدیوں کے نام ایک درد انگیز پیغام ارسال فرمایا جس میں اپنے قلم سے تحریر فرمایا.خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کے لئے ہر مومن آمادہ کھڑا ہو....میرا یہ پیغام باہر کی جماعتوں کو بھی پہنچا دو اور انہیں اطلاع دو کہ تمہاری محبت میرے دل میں ہندوستان کے احمدیوں سے کم نہیں تم میری آنکھ کا ارا ہو.میں یقین رکھتا ہوں کہ جلد سے جلد اپنے اپنے ملکوں میں احمدیت کا جھنڈا گاڑ کر آپ لوگ دوسرے ملکوں کی طرف توجہ دیں گے اور ہمیشہ خلیفہ وقت جو ایک وقت میں ایک ہی ہو سکتا ہے فرمانبردار رہیں گے اور اس کے حکموں کے مطابق اسلام کی خدمات کریں گے یہ نا پریخ احمد برین سیل ره وانه ۱۳۶۳ ) پھر ہ کے سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ کو خطاب کرتے ہوئے تاکیدی ہدایت فرمائی.

Page 37

وہ خلافت کی برکات کو یاد رکھیں اور....سال میں ایک دن خلافت ڈے کے طور پر منایا کریں.اس میں وہ خلافت کے قیام پر خدا تعالی کا شکریہ ادا کیا کریں اور اپنی پیرانی تاریخ کو دہرایا کریں.الفضل یکم اجرت ۳۳ مطابق یکم مئی ۹۵ درصد) ازاں بعد ۷ ارمئی ۹۵ مئہ کو اپنے ایک الوداعی پیغام میں فرمایا :- "اے دوستو ! میری آخری نصیحت یہ ہے کہ سب برکتیں خلافت میں ہیں.نبوت ایک بیج ہوتی ہے جس کے بعد خلافت اس کی تاثیر کو دنیا میں پھیلا دیتی ہے.تم خلافت حقہ کو مضبوطی سے پکڑو اور اس کی برکات سے دنیا کو متمتع کرو.....اور میری اولاد کو بھی ان کے خاندان کے عہد یاد دلاتے ہو الفضل ٢٠ مئی 41909 خلافت ثالثہ کی نسبت عظیم الشان بشارتیں بس ) اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں مجھے یہ عرض کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے حضرت مصلح موعود کو خلافت ثاللہ کے عہد مبارک کی نسبت متعدد تفصیلات بتائی گئیں.نظارے دکھائے گئے اور خبر یں دی گئیں جن میں سے بعض کا اظہار بھی حضور نے وقتاً فوقتاً فرمایا.مثلاً

Page 38

حضور کو القاء کیا گیا کہ شاہ سے قربانیوں -- کی بشارت :- کے ایک عہد جدید کا آغاز ہونے والا ہے (جیسا کا بھی عرض کر چکا ہوں ) اس امر کا ثبوت کہ اس نئے عہد سے مراد خلافت ثالثہ ہے واضح طور پر یہ ہے کہ حضور کو ۱۹۴ میں بذر یو رویا کہ دکھایا گیا کہ آپ کی مزید عمر اکیس تک ہو گی (الفضل ۲۹ اپریل ۱۹۲۴ ) اس کے علاوہ حضرت مصلح موعود نے مجلس مشاورت ۱۹۴۷ میں نئی پیدائش سے بیعت مراد لی چنانچہ فرمایا :- 149 بیعت کا وقت تو نہایت سنجیدگی کا وقت ہوتا ہے.یہ تو نئی پیدائش کا وقت ہوتا ہے" (منا) حضرت مصلح موعود کو جناب الہی کی دوسری بشارت : طرف سے یہ الہامی بشارت دی گئی : سے کہ آپ کے وصال پر جماعت میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہوگی.تفسیر کبیر اعلق م بالفاظ دیگر پوری جماعت بالاتفاق خلافت ثالثہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی جیسا کہ یہ رُوح پرور نظارہ پوری دُنیا نے دیکھا.حضور نے ۲۶ ستمبر شائر کو ایک خط ہیں تیسری بشارت رقم فرمایا کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے بھر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمربستہ ہو گا (الفضل ۸ اپریل شائد مث )

Page 39

٣٩ خدا تعالی کی تھا اور نہ تجلیات ملاحظہ ہوں کہ پاکستانی پولیس نے حضرت خلیفہ المسیح الثالت کے خلیفہ منتخب ہونے کی خبر دیتے ہوئے حضور ایک اللہ سم گرامی " ناصر الدین ہی لکھا (نوائے وقت اللہ مہر شاہ ملا - رنویر راحت ناماں کے نہایت مقدسین اور نہایت پیارے لفظ پر مجھے یاد آیا کہ شیعہ بزرگوں کی مشہور کتاب بحار الانوار ( جلد ۱۳ مشت؟ میں لکھا ہے کہ امام قائم کا نام غلام ، احمد اور محمود بھی ہوگا.نیند "الصراط السوى فى أحوال المھدی میں یہ بھی درج ہے کہ اللہ تعالیٰ امام مہدی کو منی طلب کرتے ہوئے فرمائے گا کہ :- مرحبا اے میرے بندے میرے دین کے ناصر....یں نے قسم کھائی ہے کہ تیرے وسیلہ سے شبختوں گا اور تیرے ذریعہ لوگوں کو عذاب کروں گا.بیماری حفاظت و حمایت و عنایت میں ہے.اس وقت تک جبکہ میں اس کے ذریعہ سے حق کو ظاہر کروں اور باطل کو جیسے بست و نابود کروں اور صرفف میر میں خالص دنیا میں باقی رہے.ص ( حصہ اول م ۳۹ او هوں اس سلطين المرسوی طبع اول ۱۲ نفر اور پر مینیجر البران بازار حکیمان لاہور) صفر

Page 40

حضرات ! یہ عجیب بات ہے کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے اقتصادی نظام کے جس فلسفہ پر مفصل روشنی ڈالی ہے اس کی بنیا و حضور نے آیت مخلصين له الدین پر ہی رکھی ہے جیسا کہ حضور کے ان مطبوعہ خطبات سے بھی ظاہر ہے جو " اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور فلسفہ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں اوراپنی نظیر آپ ہیں سے ہم پر کرم کیا ہے خدائے غیور نے پورے ہوئے جو وعدے کئے تھے حضور نے یہاں برسبیل تذکره " ناصر نام کی ایک تاریخی اہمیت و عظمت معلوم کرنے کے لئے ایک صدی قبل کا ایک عجیب حوالہ بھی مشین لیجئے.جناب نواب صدیق حسن قنوجی کو بعض اہل حدیث علماء مجد د بھی تسلیم کرتے ہیں اور انہیں " کلیم عصر" اور "مسیح وقت کے القاب سے بھی پکارا جاتا رہا ہے.آپ نے اپنی مشہور کتاب حجم الكرامة (مطبوعہ اے کے من پر ۶۱۸۷۴ بعض قدیم بزرگوں کے یہ میر اسرار شعر و رح فرماتے ہیں :- الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى لَهُ عَادَةٌ شادَتْ فَصَارَتْ مَثَلًا سَائِرَا اذ اغدَا بِالْكُفْرِ مُسْتَوْطَنَّا آن يَبْعَثَ اللهُ لَهُ نَاصِرًا

Page 41

فَنَاصِرُ طَهَّرَهُ أو لا ونا مر طهره اخرا مسجد اقصٰی کی عادت ہے جو اس پر حاوی اور مستولی ہے اور اب و مشہور عام بات ہے کہ جب وہ کفر کا وطن بن جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے ایک ناصر مبعوث کرتا ہے.ایک ناصر نے، اُسے پہلے پاک کیا تھا اور ایک ناصر اُسے آخری دور میں پاک کرے گا.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس اہم پیش گوئی کی حقیقت کیا ہے اور اس کا ظہور کسی رنگ میں ہونے والا ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جیسا کہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ پر اوائل خلافت میں منکشف کیا گیا ہے کہ پچیس تیس سال کے اندر اندر حیرت انگیز انقلاب اسلامی برپا ہونے والا ہے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں :." اسلام کے غلبے کا عظیم دن طلوع ہو چکا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کو ٹال نہیں سکتی ، "" انشاء اللہ پچیس سال کے اندر اندر اسلام کا غلبہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گئے یہ ہے." اسلام کی فتح کا دن قریب آچکا ہے یہ دلوں کی منتح ہماری محبت ساری دنیا کی نفرت پر غالب آکے رہینگی اور بالآخر تمام صفحہ زمین پر اسلام ہی کا بول بالا ہو گا یا

Page 42

پھر فرمایا :- و اگر چه بادی النظر میں یہ چیز ناممکن نظر آتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اسلام کے غلبے کا دن طلوع ہو چکا ہے اس کا فضل شامل حال رہا تو یہ بظا ہر ناممکن ممکن ہو گے رہے گا ہے (الفضل ۲ جون نشانه ) جس بات کو کہیے کہ کروں گا یہ میں ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے خلافت ثالثہ کے مبارک عہد کو عظیم الشان چوتھی بشارت :- خصوصیت حاصل ہے کہ جس طرح حضرت مہدی معہود علیہ السلام کا مقدس دور حضرت سید نا لمصلح الموعود کی ذات بابر کا کی شکل میں مند کیا گیا تھا اسی طرح حضرت سیدنا محمود المصلح الموعود من الشد عنہ کا انوار و برکات سے معمور زمانہ حضرت سید نا خلیفہ المسیح الثالث فاتح الان سے یادر ہے.جون 1904 ء کو حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کو ایک فرزند کی خبر دی گئی جس کے حسب ذیل نام بذریعہ الامام الہی بتائے گئے کلمتہ العزیز حکمت الہ خان، وارڈ ، بشیر الدولہ ، شادی خان، عالم کباب ، ناصر دین ، فاتح الدین الحکم ۲۴- جون ۶۱۹۰۶ صد و بدتر ۱۲۱ جون ۶۱۹۰۶ ص بحوالہ تذکره طبع سوم ص ۶۲ - ۶۲۷) مولانا قاضی حمد نذیری صاحب فاضل لائل پوری کی تحقیق کے مطابق اس فرزند موعود سے مراد ہمارے امام تمام سیدناحضرت خلیفہ السیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میں جیسا کہ قرائن سے بھی واضح طور پر اس کی تصدیق ہوتی ہے.(ملاحظہ ہو مباحثہ میانوالی)

Page 43

" سلم لهم ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے وجود گرامی سے دوبارہ پلٹ آیا ہے جیسا کہ خود حضرت مصلح موعود کو قبل از وقت عالم کشف میں دکھایا گیا کہ گویا لیکن دو وجود ہوں میرا ایک وجود نماز پڑھا رہا ہے اور ایک وجود چھار پائی پر لیٹا ہے.میرا وہ وجود جو نماز پڑھا رہا تھا اس نے میرے پہلو میں سجدہ کیا اور اس کی تسبیح کی آوازیں مجھے آرہی تھیں.الفضل ۱۵ جون ۹۵ مت ) اس کشف سے قبل حضور پر یہ واضح انکشاف ہو چکا تھا کہ : خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں خود مجھ کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا اور میں پھر کسی شرک کے زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے آؤں گا جس کے معنے یہ ہیں کہ میری روح ایک زمانہ میں کسی اور شخص پر جو میرے جیسی طاقتیں رکھتا ہوگا نازل ہو گی اور وہ میرے نقش قدم پر چل کر دنیا کی اصلاح کرے گا " المصلح الموعود) پانچویں الفضل ۱۹- فروری ۱۹۵۶) حضرت اقدس نے ۲۸ دسمبر ۹ر کے سالانہ را نخوس بشارت جلسه پر فرمایا - جب بھی انتخاب خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے

Page 44

مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے ہیں اس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ - اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا اور جو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہوگا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ذلیل کیا جائے گا اور تباہ کیا جائے گا کیونکہ ایسا خلیفہ صرف اس لئے کھڑا ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو پورا کرنے کہ خلافت اسلامیہ ہمیشہ قائم رہے.پس میں ایسے تشخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ..اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکریں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی (خلافت حقہ اسلامیہ مک ۱۸) یہی نہیں سستید نا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ چھٹی بشارت - عنہ نے خلافت ثالثہ کے بلند پائیلی و روحانی مقام کی بھی واضح شہر دی ہے چنانچہ حضور نے اپنے علیم مبارک سے تحریرفرمایا خلیفے خدا بناتا ہے جب اُس نے مجھے خلیفہ بنایا تھا تو جماعت کے بڑے بڑے آدمیوں کی گردنیں پکڑوا کر میری بیعت کروادی تھی جن میں ایک میرے نانا.دو میرے ماموں.ایک میری والدہ ایک میری تائی اور ایک میرے بڑے بھائی بھی شامل تھے.اگر خدا تعالیٰ نے یہ تصیلہ کیا کہ ناصر احمد خلیفہ ہو تو ایک

Page 45

میاں بشیر کیا ہزار میاں بشیر کو بھی اس کی بیعت کرنی پڑے گی.(الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۵۶ ۳) اس سلسلہ میں آخری بات یہ ہے کہ حضرت ساتویں بشارت :- مصلح موعود نے جہاں حضرت خلیفہ ثالث کو قبل از وقت بشارتیں دیں وہاں جماعت احمدیہ کو مل کر کے سالانہ جلسہ کی تقریر عنوان انوار خلافت کے دوران عظیم الشان خوشخبری شنائی کہ :.ود ہماری جماعت کی ترقی کا زمانہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت قریب آگیا ہے اور وہ دن دور نہیں جبکہ افواج در افواج لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے مختلف ملکوں سے جماعتوں کی جاتیں داخل ہوں گی.اور وہ زمانہ آتا ہے کہ گاؤں کے گاؤں اور شہر کے شہر احمدی ہوں گے.دیکھو ئیں آدمی ہوں اور جو میرے بعد ہو گا وہ بھی آدمی ہی ہو گا جس کے زمانہ میں یہ فتوحات ہونگی وہ اکیلا اسب کو نہیں سکھا سکے گا تم ہی لوگ ان کے معلم بنو گے.پس اس وقت تم خود سیکھوتا ان کو سکھا سکو، خدا تعالیٰ نے فصیلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ دنیا کے پر و فیسر بنا دیے جاؤ.اس لئے تمہارے لئے ضروری اور بہت ضروری ہے کہ تم خود پڑھو تا آنے والوں کے استادین سکوی انوار خلافت ص ۱۱۵ ۱۱۹ صنا تقریر حضرت مصلح موعود

Page 46

پھر وصیت فرمائی کہ : صحیح معنوں میں احمدی وہی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ احمدیت کے دنیا میں غالب آجانے کے معنے یہ ہیں کہ یورپ.امریکہ.جاپان چین غرضیکہ دنیا کے ہر ملک کے بڑے بڑے مؤرخ.فلاسفر سائنسدان لائے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ تمہارے شاگرد ہیں ان کو پڑھاؤ اور پھر اس کیلئے تیاری کرتے ہیں الفضل در اپریل ۹۲۳ النص بطحا کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب بڑھتا رہے وہ نور نبوت خدا کون سے قائم ہو پھر سے میکم محمد جہان میں ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے والمصالح الموعود واخر د عُوا مَنَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ضر خليفة السبع الثالشايه برافروز فرمان مندرجہ بالا نظری پیلی بار اخبار الفضل ۱-۱۲-۱۶ و ماه احسان ها £196 ١١-٠١٢- مطابق ۱۱-۱۲-۱۶ جون شکر میں شائع ہوئی.یہ وہ مبارک ایام تھے جن میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ مغربی افریقیہ کے بابرکت اور

Page 47

کامیاب سفر سے واپس تشریف لاچکے تھے اور ربوہ میں ہی رونق افروز تھے حضور نے اس مبارک اور رحمتوں سے معمور دورہ سے مراجعت کے بعد جو پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اس میں اس تقریر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کو نہایت بصیرت افروز الفاظ میں نصیحت فرمائی کہ :- اللہ تعالیٰ کے فضل جس قوم پر نازل ہو رہے ہوں اس پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد کرتے چلے جاتے ہیں میری طبیعت پر اثر ہے اور میرے دل میں بڑی شدت سے یہ بات ڈالی گئی ہے کہ آئندہ ۲۳ - ۲۵ سال احمدیت کے لئے بڑے ہی اہم ہیں.کل کا اخبار آپ نے دیکھا ہو گا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شاہ میں کہا تھا کہ اگلے مہیں سال احمدیت کی پیدائش کے ہیں اس واسطے چوکس اور بیدار رہو بعض دفعہ غفلتوں کے نتیجہ میں پیدائش کے وقت بچہ وفات پا جاتا ہے میں خوش ہوں اور آپ کو بھی یہ خوشخبری سناتا ہوں کہ وہ بیچتے ۱۹۶۵ میں بخیر و عافیت زندہ پیدا ہو گیا جیسا کہ آپ نے کہا تھا میرے دل میں یہ ڈالا گیا ہے کہ وہ بچہ خیریت کے ساتھ پوری صحت کے ساتھ اور پوری توانائی کے ساتھ 1970 میں پیدا ہو چکا ہے.اب شاہ سے ایک دوسرا دور شروع ۱۹۶۵ء ہو گیا اور یہ دور خوشیوں کے ساتھ بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانے کا E

Page 48

: ہے.اگلے سو ۲ سال کے اندر اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اس دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہونے والا ہے یا دنیا ہلاک ہو جائے گی یا اپنے خدا کو پہچان لے گی.یہ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے میرا کام دنیا کو انذار کرنا ہے اور وہ میں کرتا چلا آرہا ہوں آپ کا کام انذار کرنا اور میرے ساتھ مل کر دعائیں کرنا ہے تا یہ دنیا اپنے رب کو پہچان لے اور تباہی سے محفوظ ہو جائے یہ الفضل دار جولائی كلام صلا) ) کتابت : حمید الدین بلوه طبع اول می نياء الاسلام پولیس - ربوة 30-6

Page 48