Khilafat Ala Minhaj Un Nubawt 3

Khilafat Ala Minhaj Un Nubawt 3

خلافۃ علیٰ منھاج النبوۃ (جلد سوم)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
خلافت اسلامیہ احمدیہ

خلافت کے موضوع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی جملہ تصانیف، خطبات جمعہ ، مجالس عرفان، مجالس شوریٰ، تفاسیر اور غیر مطبوعہ تحریرات سے مواد جمع کرکے تین دیدہ زیب جلدوں میں طبع کروایا گیا ہے۔ یوں اس اہم اور بنیادی موضوع پر حضورؓ کی تحریرات و ارشادات یکجائی طور پر جمع کردیئے گئے ہیں۔


Book Content

Page 1

خلافة على منهاج النبوة افاضات حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جلد سوم

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD خلافت على منهاج النبوة (جلد سوم) Khilafat Ala Minhajin Nubuwwat - Volume 3 (Urdu) A collection of excerpts from the sermons, writings, and speeches of Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad Khalifatul-Masih Ilra (1889-1965) on the subject of Khilafat.First Published in UK in 2023 O Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey GU9 9PS, UK Printed at: For more information please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-228-5 (Khilafat Ala Minhajin Nubuwwat 3 Volume Set)

Page 3

سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد لمصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ گا اور اپنے پیشگوئی مصلح موعود مسچی سے اُس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا، وہ دنیا میں آئے نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اُسے کلمہء تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند - مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ، مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَّ اللهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَ كَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا.(اشتہار 20 فروری 1886ء)

Page 5

عرض ناشر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنی امت میں خلافت علی منہاج نبوت کے قیام کا بڑی صراحت کے ساتھ یوں ذکر فرمایا.حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر وہ اس کو اٹھا لے گا.پھر خلافت علی منھاج النبوۃ قائم ہو گی.اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس ( نعمت) کو بھی اٹھا لے گا.پھر ایذا رساں بادشاہت (کاٹ کھانے والی حکومت قائم ہو گی اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر جب وہ چاہے گا اسے ( بھی ) اٹھالے گا.پھر جابر بادشاہت (ظالم حکومت ) قائم ہو گی.اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر جب وہ چاہے گا اسے ( بھی ) اٹھا لے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی.پھر ( یہ فرمانے کے بعد ) آپ خاموش ہو گئے“.(مسند احمد بن حنبل".مسند الکوفیین.حدیث 18596)

Page 6

اس حدیث نبوی میں امت محمدیہ میں خلافت علی منہاج نبوت کے دو ادوار کا ذکر کیا گیا ہے.پہلا دور خلافت علی منہاج نبوت کا وہ دور ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معا بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت سے شروع ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت راشدہ تک قائم رہا.اس کے بعد جیسا کہ حدیث مذکورہ بالا میں بیان ہے ایذا رساں بادشاہت اور جابر حکومتوں کے ادوار آئے.اور پھر پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آیا اور اس نے زمانہ کی اصلاح و تکمیل اشاعت ہدایت کی غرض سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع و غلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو ظلی طور پر امتی نبوت کے مقام پر فائز فرماتے ہوئے مسیح موعود اور مہدی معہود بنا کر بھیجا.اور آپ کی وفات (26 مئی 1908ء) کے بعد 27 مئی 1908ء سے حضرت الحاج حکیم مولانانورالدین رضی اللہ عنہ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے ساتھ خلافت علی منہاج نبوت کے دوسرے مبشر دور کا آغاز ہوا جو انشاء اللہ حسب بشارات نبوی دائمی ہے.کیونکہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور دور کے آنے کا ذکر نہیں فرمایا.گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے جماعت احمدیہ مسلمہ اس موعود خلافت علی منہاج نبوت کی آسمانی قیادت سے فیضیاب ہے اور اس وقت ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کے پانچویں مظہر کے مبارک دور سے گزر رہے ہیں.

Page 7

1914ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلافت کے منصب پر فائز ہوئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے معا بعد سے ہی خلافت کے قیام و استحکام کے سلسلہ میں آپ نے غیر معمولی خدمات انجام دیں.بالخصوص آپ نے اپنی وفات (1965ء) تک اپنی خلافت کے ساڑھے اکاون برس سے زائد عرصہ میں نظام خلافت کے استحکام کے سلسلہ میں بہت سے عملی اقدامات فرمائے.آپ نے اپنے خطبات ، خطابات، کلمات طیبات، نہایت مدلل اور پر اثر تحریرات کے ذریعہ خلافت کی عظمت و اہمیت، اس کی غرض و غایت اور اس کی عظیم الشان برکات کو نهایت تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا.صد سالہ خلافت جوبلی (2008ء) کے تاریخی موقع کی مناسبت سے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی جملہ تصانیف، خطبات جمعہ ، خطابات، مجالس عرفان، مجالس شوری، تفاسیر اور غیر مطبوعہ تحریرات سے خلافت کے موضوع پر بیان فرمودہ مواد کو اکٹھا کر کے تین جلدوں میں مرتب کرنے کی سعادت و توفیق پائی.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کاوش کو بہت پسند فرمایا اور اس کتاب کے لیے خلافت علی منہاج النبوۃ کا نام منظور فرمایا.حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب یو کے سے شائع کی جار ہی ہے.

Page 8

اس کتاب کے لئے مواد کی تلاش و تحقیق اور اس کی کمپوزنگ ، ترتیب، پروف ریڈنگ وغیرہ متفرق امور کی انجام دہی اور اسے موجودہ فائنل صورت تک پہنچانے کے لیے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت بہت سے احباب نے بہت محنت اور جانفشانی سے مختلف خدمات کو انجام دیا.ایسے تمام احباب شکریہ اور دعاؤں کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن اور اس کے جملہ رفقائے کار کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور اپنی جناب سے انہیں بہترین جزا سے نوازے.آمین.امید ہے کہ احباب جماعت خصوصیت کے ساتھ خلافت کے موضوع پر اس علمی و روحانی بیش قیمت جواہر سے معمور خزانے سے کما حقہ فیضیاب ہوتے ہوئے خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے اپنے تعلق اخلاص و وفا اور محبت و فدائیت و اطاعت میں مزید آگے قدم بڑھائیں گے اور برکات خلافت سے وافر حصہ پانے کے لیے اعمال صالحہ کی مزید توفیق پاتے چلے جائیں گے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.خاکسار نصیر احمد قمر ایڈیشنل وکیل الاشاعت (طباعت ).لندن

Page 9

جلد سوم خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین از خطبات محمود ا ملتان میں خطبہ جمعہ فهرست عناوین خلافت سے وابستہ ہونے میں بڑی برکات ہیں خلفاء کی سچے دل سے اطاعت کرو خلافت ترکی اور مسلمانانِ ہند ۵ سفر یورپ کے متعلق انتظام وصیت کی اصل غرض اور ضرورت صفحہ نمبر شمار 1 N ۱۲ ۲۲ ۲۴ عناوین صفحہ ۱۳ خلیفہ وقت کی اطاعت ۱۴ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی ۱۵ سلسلہ احمدیہ میں نظام خلافت خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے اپنی تمام حرکات خلیفہ وقت کے احکام کے تابع رکھو ۱۷ امام اور ماموم کا مقام اور اس کے 13 ۷۳ ۸۴ ۹۳ ۱۱۷ ١١٩ ۱۴۸ ۱۵۵ ۱۷۲ تقاضے شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے خط کا جواب جو شخص خلافت کی مخالفت کرتا ہے وہ اسلام کی عملی زندگی پر تیر چلاتا ہے شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی طرف سے انکسار کا جھوٹا دعویٰ خلیفہ وقت کی اطاعت میں یقینی فتح اور کامیابی ہے ۲۵ ۲۷ N ۲۸ ۴۳ ۲۱ ۴۸ ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا نہ کرنے کی ہدایت حقیقی اطاعت و خلیفہ وقت کی مجلس میں بیٹھنے والوں 1.کے لیے چند ضروری آداب نظام سلسلہ کی پابندی کے بغیر ترقی محال ہے نئے سال کے لیے جماعت احمدیہ کا پروگرام ہر حال میں خلیفہ کی اطاعت فرض ۲۲ دنیا انبیاء اور خلفاء کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ کے نور کا مشاہدہ کرتی ہے ۵۸ ہے

Page 10

خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین ۲۳ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی تسلی کے لیے قسموں کا اعلان || صفحہ نمبر شمار ۲۰۴ ۳۷ جلد سوم عناوین صفح امام کی اطاعت کا ذکر ۳۳۰ تحریک جدید کے تقاضے اور اہمیت ۳۳۳ حضرت علی کی شہادت کے بعد کے ۳۹ تمہاری ڈھال تمہارا امام ہے سادہ زندگی اور خلیفہ وقت کا حکم ۳۳۵ ۳۳۶ اپنے اندر ایمان اور جوش پیدا کرنے واقعات سے متعلق ۴۰ ۲۱۵ ۲۵ جو شخص ایک خلیفہ پر حملہ کرتا ہے وہ در اصل سارے خلفاء پر حملہ کرتا ہے ۲۱۶ اور تبلیغ کرنے کا ذکر ۲۶ لیڈر بنانا خدا کا کام ہے ۲۱۸ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی مثال.انکسار ۲۷ خلیفہ کا مقام ۲۹ جرمنی میں تغییر ۲۸ خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض E خلافت جو بلی کے موقع پر جلوس اور چراغاں ۲۱۸ ۲۲۰ ۲۳۵ ۲۳۶ ۲۴۰ ۳۳۸ ۴۲ خدمت دین کرنے والوں کا مقام ۳۴۱ تم اگر خدا تعالیٰ کے لیے قربانی کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہیں ہمیشہ کی زندگی ۳۴۹ خلافت ایک عظیم الشان نعمت ہے ۳۵۱ بچوں کی تربیت نہایت اہم چیز ہے ۳۶۰ بخشے گا ۴۴ ۴۵ دعا کی فلاسفی ۴۷ خلیفہ اسیح کا مقام ۴۹ خدمت دین کے لیے آگے آنے کی ۳۶۳ خلافت جو بلی کی تقریب کے متعلق ۲۵۳ حکومت اور خلیفہ وقت کی اطاعت ۳۶۵ ۳۲ فتنہ غیر مبائعین کی مختصر تاریخ ۳۳ خلافت کے مخالفین کا ذکر ۳۴ خلیفہ وقت کے مقرر کردہ عہد یداروں کی اطاعت بھی ضروری ۲۷۹ ۳۱۳ ۳۱۶ تلقین ۵۰ خلیفہ وقت کا توکل علی اللہ تفسیر کبیر میں خلافت کے موضوع پر حضرت مصلح موعود کے ارشادات ہے ۳۵ درود شریف کی عظمت اور حکمت ۵۱ ۳۲۸ آدم سے پہلے بھی مخلوق موجود تھی ابتدائے خلافت میں قادیان کے ۵۲ تخلیق انسان یکدم نہیں ہوئی غریبوں کی بے نظیر قربانی ۳۲۹ ۵۳ خلیفہ کے معانی ۳۶۹ ۳۷۱ ٣٧٩

Page 11

جلد سوم صفحہ ۴۰۵ ۴۰۶ خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار III عناوین صفحہ نمبر شمار ۵۴ قتل نفس سے مراد ۵۵ حضرت مسیح موعود کے بعد خلافت کی بشارت ۵۶ نبی کے چارا ہم کام ه إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِی کے تین معانی ۵۸ سچے خلفاء کی علامات ۳۸۵ ۳۸۷ ۳۸۸ ۳۹۰ ۳۹۱ عناوین ۶۷ حضرت علی کی خلافت بلا فصل اور قرآن کریم خلافت وہ ری فلیکٹر ہے جو نبوت اور الوہیت کے نور کو دور تک پھیلا دیتا ہے ۶۹ آیت استخلاف کی تفسیر ۷۰ مجلس کے آداب بچے خلفاء سے تعلق ملائکہ سے تعلق اے عباد الرحمن کی صفات کا ذکر ۴۲۲ ۴۶۴ ۴۷۱ ۴۸۰ ۴۸۲ صداقت کی مخالفت ہمیشہ ہوتی چلی آئی ہے ۳۹۲ پیدا کر دیتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے + جانشینوں کی ذمہ داری ۳۹۳ ۷۳ تم ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت سے ۱ خلافت کی خواہش کا نتیجہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حضرت ۳۹۴ وابستہ رکھو ۷۴ امت محمدیہ پرمنی کا وقت ہارون کو جانشین مقرر کرنا عمل صالح کرنے والے مومنوں سے خلافت کا وعدہ ۶۴ ہاتھوں کو بوسہ دینے سے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا قیام ۲۶ انبیاء اور خلفاء کے دشمن ہمیشہ حریت کے نام پر ان کی مخالفت کرتے رہے ہیں ۳۹۵ ۳۹۶ ۳۹۸ ۳۹۹ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلی کے تحت آئے گا ۷۵ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہمیشہ یہ قانون جاری رہے گا کہ ان کی آخرة ، اولیٰ سے بہتر ہوگی حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں فتوحات اور آپ کا خدا کے حضور عجز و انکسار ۴۰۲ ۷۷ مَطْلَعِ الْفَجْرِ سے مراد ۴۸۴ ۴۸۶ = III

Page 12

خلافة على منهاج النبوة IV جلد سوم صفحہ نمبر شمار عناوین صفحہ نمبر شمار خلفائے اربعہ حقوق العباد کے ادا کرنے کی ایک بے نظیر مثال تھے ۴۸۸ و نظام خلافت کے بغیر حکومت الہیہ دنیا میں قائم نہیں ہو سکتی ۴۹۰ عناوین خلیفہ جماعت کو تباہ کر دینے والی غلطی نہیں کر سکتا خلفاء اور نبی کی وراثت ۵۲۰ ۵۲۱ نمائندوں کے انتخابات میں احتیاط ۵۲۲ خلافة عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّة كا ۸۹ خلیفہ کے گزارہ کا سوال وعده اللہ تعالیٰ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عظیم الشان فتوحات کے وعدے مجالس شوریٰ میں خلافت کے ۴۹۲ ۴۹۵ ۹۰ مجلس مشاورت اور خلافت کا جوڑ ۵۲۵ ۵۳۰ ۵۳۱ سوال کرنے کی اجازت دینا خلیفہ کا کام ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم استغفار کیوں پڑھتے تھے رسول اور خلفاء کی مجلس کے آداب ۵۳۲ ۵۳۱ موضوع پر ارشادات ۸۲ شخصی حکومت اور اسلامی تعلیم ۸۳ شوری کے فوائد مجلس شوری کا طریق ۸۴ انجمن اور خلیفہ ۸۵ خلافت کی موجودگی میں مشورہ کی ضرورت خلیفہ وقت کے گزارہ کا سوال کوئی خلیفہ اپنے کسی رشتہ دار کو اپنا جانشین نہیں مقرر کر سکتا ۵۰۱ ۵۰۳ ۵۰۳ ۵۰۸ ۵۱۳ ۹۱ | منصب خلافت کا احترام منصب خلافت مجلس شوری کا منصب ۵۳۳ ۵۳۳ ۵۳۶ جماعت کا ذمہ دار خلیفہ ہے ۵۳۷ مجلس معتمدین کے ممبروں کا انتخاب ۵۳۸ منصب خلافت کے خلاف تجویز کوئی سلسلہ احمدیہ کو مٹا نہیں سکتا ۵۴۰ ۵۴۲ بات کرتے وقت مخاطب خلیفہ ہونا چاہیے ۵۴۵ ۵۴۶ ۵۱۷ ۵۱۹ ۹۴ آداب مجلس خلافت ۸۷ ہر حالت میں فتنہ انگیزی سے بچو جماعت کے انتظام کے متعلق آخری ۹۵ زمانه قرب نبوت اور موعود خلافت ۵۴۷ آواز ۵۱۹ جماعت متحد الخیال ہو جائے ۵۴۸ IV

Page 13

V نمبر شمار خلافة على منهاج النبوة عناوین صفحہ نمبر شمار خلیفہ اُستاد ہے اور جماعت کا ہر فرد شاگرد صدر انجمن سے خطاب ۵۵۲ ۹۶ آداب خلافت عناوین متفرق از مواد مطبوعه و غیر مطبوعه | ۵۵۱ ۱۰۴ قرآن شریف نے خلیفہ کے انکار کا نام فستق رکھا ہے ۱۰۵۵۵۳ کیا خلافت کے منکر فاسق نہیں؟ ۹۷ انتخاب خلافت کے طریق ۵۵۶ ۱۰۶ جھوٹے مدعی خلافت کے پیچھے نماز ۹۸ خلیفہ کی نافرمانی خدا اور رسول کی نا فرمانی ہے پڑھنا جائز نہیں ۵۵۸ ۱۰۷ روحانی خلافت ۹۹ شوری میں رائے کا اظہار دیانتداری ۱۰۸ خلافت اور سلطنت جلد سوم صفحہ ۵۸۱ ۵۸۵ سے کریں خلیفہ وقت کے حکم کی تعمیل ۵۵۹ ۵۶۱ ۱۰۹ خلیفہ اور پریذیڈنٹ آدم و داؤد کی خلافت ۱۰۱ ٹرانسپورٹ مہمانوازی، امداد مستحقین اور خلافت لائبریری کے ۱۱۰ سلسلۂ خلافت بجٹ کی بابت ۱۰۲ متعدد زبانوں میں قرآن کریم کے ۱۱۲ ترکی خلافت مسئلہ خلافت جزوی ہے ۵۸۷ ۵۸۸ ۵۹۱ ۵۹۲ ۵۹۳ ۵۹۳ ۵۹۵ بیعت خلافت کی ضرورت تراجم شائع ہونا بھی خلافت کی برکات میں سے ہے اہلحدیث اور ترکی خلافت ۵۹۶ ۵۹۸ ۵۹۸ ۵۶۹ ۱۱۳ حضرت معاویہ اور یزید خلیفہ نہ تھے ۵۹۹ ۱۰۳ | انتخاب خلافت کے متعلق ایک ۱۱۴ مبائعین اور غیر مبائعین میں فرق ضروری ریزولیوشن مجلس انتخاب خلافت کے اراکین میں اضافہ ۵۷۰ ۵۷۰ ۱۱۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت ۶۰۰ ۶۰۱ ۱۱۶ خلافت ماموریت اور خلافت نیابت ۶۰۲ مجلس انتخاب خلافت کا دستور العمل ۵۷۱ ۱۱۷ حقوق خلافت ایک فرد کو حاصل ہیں بنیادی قانون ۱۵۷۳ یا پوری قوم کو ۶۰۳

Page 14

جلد سوم عناوین صفحه ۶۱۲ صحابہ کرام کی احتیاط قادیان سے باہر رہنے والوں کی معذوری VI صفحہ نمبر شمار مجلس میں بیٹھنے کی غرض ۶۱۲ ۶۱۲ ۱۲ اسلامی خلفاء کے زمانہ میں عوام کی ضروریات زندگی کا خاطر خواہ انتظام ۶۱۴ ۱۲۳ حضرت معاویہ خلیفہ تھے یا بادشاہ؟ ۶۱۶ ۶۱۷ ۶۲۶ ۶۲۹ ۶۰۴ ۶۰۶ ۶۰۶ ۶۰۷ خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین ١١٨ نَاقِصَاتُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ ہونے کا مطلب ایک حدیث کا مطلب چھوٹا دماغ عورت صدیق بن سکتی ہے؟ عورت قاضی بن سکتی ہے؟ ۱۱۹ خلافت کے مدارج ۱۲۰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۱۲۴ حضرت علی مدینہ چھوڑ کر عراق کیوں سلسلہ خلافت سے مراد ۶۰۸ تشریف لے گئے تھے؟ ۱۲۱ امام کی مجلس میں بیٹھنے کے ضروری ۱۲۵ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منہاج نبوت پر خلافت کیوں جاری نہ رہی اور آج اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ۱۲۶ خلافت عارضی ہے یا مستقل؟ VI ۶۱۰ ۶۱۰ ۶۱۱ ۶۱۱ آداب سوال کرنے کی ممانعت ضمنی طور پر سوال کرنا بے جا سوالات

Page 15

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ملتان میں خطبہ جمعہ ۱۹۱۳ء کو ملتان کی جماعت نے ایک جلسہ منعقد کیا اور حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی خدمت میں اجازت کے لئے لکھا.۲۹ ،۳۰ نومبر ۱۹۱۳ء کو جلسہ منعقد ہوا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد تشریف لے گئے.آپ کے ساتھ اور رفقاء بھی تھے.۲۹ نومبر کو آپ نے نماز جمعہ پڑھائی.حضرت صاحبزادہ نے خطبہ میں خلافت کی برکات اور رحمت کا بیان کیا.اور اس کی مخالفت کا خلاف قرآن و حدیث و تعامل صحابہ ہونا ثابت کیا.اور جماعت کو تاکید فرمائی کہ اختلافات میں نہ پڑیں.کوئی امر شر ان کے علم میں آوے تو اپنی مجلسوں میں اس پر مباحثات نہ کریں بلکہ ایسے معاملات حضرت خلیفہ امسیح تک پہنچا دیویں اور پھر وہاں سے جو حکم آوے اُس پر عمل درآمد کریں اور جو لوگ خلافت کے خلاف کوئی بکواس کر یں اُن کی مجلسوں میں بیٹھنا اور ان سے تعلق رکھنا غیرت کے خلاف سمجھیں.اخبار البدرد سمبر ۱۹۱۳ء)

Page 16

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم خلافت سے وابستہ ہونے میں بڑی برکات ہیں ( فرموده ۱۳ / اگست ۱۹۱۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی :.قل اعوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَت وَمِن شَرِّ التَّقْتَتِ فِي الْعُقَدِ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ پھر فرمایا :." آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیں دو عید میں نصیب ہوئی ہیں.ایک عید الفطر اور دوسری جمعہ کی عید.دونوں نمازوں کے ساتھ خطبے بھی ہیں.عید کے بعد خطبہ ہے اور جمعہ سے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طرز عمل تھا.میری عادت ہے کہ میں تقریر کرنے آتا ہوں تو کوئی مضمون سوچ کر نہیں آتا بلکہ اس وقت جو خدا تعالی دل میں ڈال دیتا ہے وہی سنا دیتا ہوں.ابھی ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ کچھ غیر مبائعین عید و جمعہ کے لئے آئے ہوئے ہیں اس لئے میں ان کے متعلق کچھ کہہ دوں.میں تو صرف بڑے آدمیوں ہی کو نہیں بلکہ ایک ضعیف، غریب اور ناکارہ سے ناکارہ انسان کو بھی جو نہایت ہی بدترین مخلوق سمجھا جاتا ہو سمجھانے کے لئے تیار ہوں بلکہ وہ غریب ایک منکر بادشاہ سے بہتر ہے کیونکہ وہ خدا کی باتوں پر زیادہ غور و فکر کرتا ہے.بہر حال میں اللہ تعالیٰ کے لئے سناتا ہوں اگر غیر مبائعین فائدہ نہ اُٹھا ئیں تو ممکن ہے کوئی اور ہی فائدہ اُٹھائے اور ہدایت پائے.حقیقت میں ہدایت دینا تو خدا ہی کا کام ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ

Page 17

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم کہ تو اُن پر داروغہ نہیں تیرا کام تو سنا دینا ہے منوانا نہ منوانا خدا کا کام ہے.اس طرح خلافت کے متعلق مجھے تعجب آتا ہے کہ خلافت کے لئے کس بات کا جھگڑا ہے.کیا یہ کوئی سیاست کا نزاع ہے، کوئی ایسی چیز میری تو سمجھ میں نہیں آتی.جھگڑے یا تو عقائد پر ہوتے ہیں یا شریعت پر کہ خدا کا فلاں حکم یوں ہے اور یوں کرنا چاہیے.پھر جھگڑے ملکوں پر ہوتے ہیں ، مال و دولت پر ہوتے ، مکانات پر اور مختلف اشیاء پر جھگڑے ہوتے ہیں.دیکھو جیسے فرانس ، جرمنی ، بیلجیئم ، آسٹریا ، یہ سب ملکوں کے لئے لڑتے جھگڑتے ہیں لیکن خلافت کسی ملک کا نام نہیں.خلافت کوئی مال کی تھیلی نہیں ، خلافت کوئی کھانے پینے کی چیز نہیں.خلافت کی دو ہی اغراض ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ جماعت پراگندہ نہ ہو ، جماعت کو تفرقہ سے بچایا جائے اور ان کو ایک مرکز پر جمع کیا جائے.یہی تفرقہ کو مٹانے ، پراگندگی کو دور کرنے کے لئے ایک خلیفہ کی ضرورت ہوتی ہے نیز اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جماعت کی طاقت متفرق طور پر رائیگاں نہ جائے بلکہ ان کو ایک مرکز پر جمع کر کے ان کی قوت کو ایک جگہ جمع کیا جائے.اب ایک فریق کہتا ہے کہ آیت استخلاف کے ماتحت خلافت ضروری ہے اور ایک کہتا ہے کہ خلافت ضروری نہیں.فیصلہ کے لئے ایک آسان راہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہر شخص یہی سوچ لے کہ جو کام میں کرتا ہوں جماعت کے لئے کس قدر مفید ہے اور کس قدر مضر.اگر اس کام کے کرنے سے جماعت کو فائدہ پہنچتا ہے تو کرے ورنہ اسے چھوڑ دے.اب دیکھو کہ جماعت کا کثیر حصہ خلافت کے وجود کو جماعت کے لئے رفع تفرقہ کے لئے ضروری سمجھتا ہے اور دوسرا فریق اسے غیر ضروری خیال کرتا ہے.بحثوں کا فیصلہ تو کبھی ہو نہیں سکتا.دیکھو خدا کی ہستی ہے اس میں اختلاف ہے پھر اس کی صفات میں اختلاف ہے.ملائکہ کا وجود ہے اختلاف اس میں بھی موجود ہے.اختلاف تو رہے گا.اب دونوں فریق میں سے کس کا فرض ہے کہ اپنی ضد اور ہٹ کو چھوڑ دے.اگر فریق مخالف یہ کہے کہ خلافت ثابت نہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کے خلاف بھی تو ثابت نہیں.خلافت کو ماننے والے اگر خلافت کو چھوڑ دیں تو خدا کے نزدیک مجرم ہیں کیونکہ وہ آیت استخلاف کے ماتحت خلافت کو مانتے ہیں مگر خلافت کا ہونا نہ ہونا یکساں سمجھنے والے اگر اتفاق کے لئے خلافت کو مان لیں تو

Page 18

خلافة على منهاج النبوة ۴ جلد سوم جماعت سے وہ تفرقہ مٹ سکتا ہے جس کی وجہ سے اتنا فتور پڑ رہا ہے.حضرت مولوی صاحب کی وفات کے روز مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ میاں صاحب! آپ ایثار کریں.میں نے کہا کہ کیا خلافت کا ہونا گناہ ہے؟ تو وہ کہنے لگے نہیں جائز ہے.میں نے کہا کہ میرے نزدیک ضروری اور واجب ہے.اب جب وہ دونوں گروہ ایک بات پر قائم ہیں ایک کے نزدیک فعل اور عدم فعل برابر ہے اور دوسرے کے نزدیک واجب ، تو اس فریق کو جو جواز کا قائل ہے چاہیے کہ وہ اپنی ضد کو چھوڑ دے.خدا تعالیٰ ضرور اس سے پوچھے گا کہ جب ایک فعل کا کرنا اور نہ کرنا تمہارے نزدیک برابر تھا تو تم نے کیوں اپنی ضد کو نہ چھوڑا.پس اس فریق کو خدا کے حضور جواب دینا پڑے گا.پھر میں بتاتا ہوں کہ اسلام نے جتنی اس زمانہ میں ترقی کی ہے جب کہ اس کے ماننے والے ایک خلیفہ کے ماتحت تھے اتنی پھر کسی زمانے میں نہیں کی.حضرت عثمان وعلی کے زمانے کے بعد کوئی بتا سکتا ہے کہ پھر بنی عباس کے زمانہ میں بھی ترقی ہوئی.جس وقت خلافتیں پرا گندہ ہو گئیں اُسی وقت سے ترقی رُک گئی جو لوگ خلیفہ کے متعلق مامور غیر مامور کی بحث شروع کر دیتے ہیں اپنے گھر ہی میں غور کریں کہ کیا ایک شخص کے بغیر گھر کا انتظام قائم کر ره سکتا ہے؟ یورپ کے کسی مصنف نے ایک ناول لکھا ہے جس میں اس نے ان لوگوں کا خوب خا کہ اُڑایا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ دولڑکیوں نے اپنے باپ کے اس اصول کو حجت قرار دے کر کہ مرد و عورتوں کے حقوق و فرائض یکساں ہیں اور گھر کا ایک واجب الا طاعت سر براہ ہونے کی ضرورت نہیں اپنے اپنے دل پسند مشاغل میں مصروف رہ کر اور انتظام خانہ داری میں اپنی خودسری سے ابتری ڈال کر باپ کو ایسا تنگ کیا کہ اُسی کو معافی مانگنی پڑی.الغرض ایک مرکز اور ایک امام کے بغیر کبھی کام نہیں ہو سکتا.جنگ میں بھی ایک آفیسر کے ماتحت فرمانبرداری کرنی پڑتی ہے اور اگر کوئی ذرا نا فرمانی کرے تو فوراً گولی سے اُڑا دیا جاتا ہے.بعض وقت آفیسر غلطی سے حکم دے دیتے ہیں تو بھی فوجی کو ماننا پڑتا ہے.اسلامی شریعت نے مسلمانون کو بتایا کہ اگر امام بھول جائے اور بجائے دو رکعت کے

Page 19

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم ނ چار پڑھ لے تو تم بھی اس کے ساتھ چار ہی رکعت ادا کر و.اگر وہ چار کی بجائے پانچ پڑھ لے تو تم بھی اس کی اتباع کرو حالانکہ وہ کوئی نیا حکم نہیں لاتا.پھر امام کا اتنا ادب ملحوظ رکھا کہ اس کو غلطی پر ٹوکنے کی بجائے سُبحَانَ اللہ کا کلمہ سکھایا جس کے معنے یہ کہ سہو و خطا سے پاک تو اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہو سکتی ہے.پھر یہ بات کہ غیر مامور خلیفہ غلطی کر سکتا ہے لہذا اس کی یا اس کا حکم ماننے کی ضرورت ہی نہیں کیسا خطرناک خیال ہے.در حقیقت غلطی کرنے سے پاک کوئی انسان نہیں ہو سکتا.دیکھو ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہتے ہیں کہ تم میں سے دو آدمی میرے پاس ایک فیصلہ لاتے ہیں لیکن ایک انسان زبان کی چالاکی سے اپنے حق میں فیصلہ کر ا لیتا ہے حالانکہ وہ حقدار نہیں ہوتا.پس اس طرح پر ا یا حق لینے والا آگ کا ٹکڑا لیتا ہے.سے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں بھی غلطی کر سکتا ہوں تو دوسرا کون ہے جو یہ کہے کہ میں غلطی سے پاک ہوں.اگر ایک شخص علیحدہ نماز پڑھے اور یہ کہے کہ میں امام کے پیچھے اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ وہ غلطی کرتا ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ اکیلا نماز پڑھے تو کیا وہ غلطی نہیں کر سکتا ؟ جس طرح امام بتقاضائے بشریت غلطی کر سکتا ہے اسی طرح پر وہ شخص بھی جو اکیلا نماز پڑھتا ہے غلطی سے نہیں بچ سکتا.پس جماعت جماعت ہے اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھنے والا اور اکیلا نماز پڑھنے والا دونوں کبھی برابر نہیں ہو سکتے.جو خلیفہ کی مخالفت کرتے ہیں ان کو واضح رہے کہ حضرت عثمان کے وقت میں جب لوگ مخالفت کے لئے اُٹھے تو آپ نے فرمایا تم خوب یا د رکھو تم یہ فتنہ مت پھیلا ؤ اس فتنہ سے تم میں کبھی صلح نہیں ہوگی ، تم میں کبھی اتفاق نہیں ہو گا.چنانچہ آج تک مسلمانوں میں صلح نہیں ہوئی.عبداللہ بن سلام کا یہ قول سن کر کہ آخری وقت میں فتنہ ہو گا ابن عباس نے کہا کہ تم جماعت کو اختیار کرنا.لوگوں نے کہا اگر چہ قاتل ہی ہو.انہوں نے کہا ہاں اگر چہ قاتل ہی ہو؟ (ایسے ہی تین بار کہا ) لوگ موازنہ کر کے دیکھ لیں کہ کس طرف زیادہ فوائد ہیں.تم کہتے ہو بیعت ضروری نہیں لیکن ہم کہتے ہیں اتفاق تو ضروری ہے پس کیوں اس طریق کو اختیار کرتے ہو جو اتفاق سے دور کرنے والا ہے.میں کل ہی ذکر کر رہا تھا لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ مُعَلَّقًا بِالْكُرَيَّالَنَا لَهُ رِجَالٌ مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسُ.اس میں رِجَال کا

Page 20

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم لفظ آیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک پیشگوئی ہے کہ اگر ایمان معلق بالثریا ہوگا تو ابناء فارس میں سے بعض رجال ایمان کو لائیں گے.تو اب ضروری ہے کہ ابناء فارس یعنی حضرت کے خاندان سے ہوں اور اگر کسی دوسرے خاندان سے ہوں تو وہ ابناء فارس سے نہیں کہلا سکتے.اور پھر یہ پیشگوئی غلط ہو جاتی ہے.رَجُلٌ مِنْ فَارِسُ نے بتایا اصل بانی سلسلہ ایک ہی ہے مگر رجال نے بتا دیا کہ اس کے مُمد و معاون اور بھی ابناء فارس سے ہوں گے.غرض میرا کام فساد کو بڑھانا نہیں.کسی انسان کے بنانے سے کچھ نہیں بن سکتا.چونکہ اس وقت دنیا میں شرک حد سے بڑھ چکا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے ایک کمزور انسان کو کھڑا کر کے بتا دیا کہ کسی کام کا کرنا میرے ہاتھ میں ہے.جب خدا نے مجھے پکڑ کر کھڑا کر دیا تو میرا اس میں کیا دخل ہے.میرے مخالفوں کو علم میں ، تجربہ میں ، جذبات میں مجھ سے بڑے ہونے کا دعویٰ ہے مگر خدا نے سب سے کمزور سے کام لیا.میں تو اپنی حیثیت کو کچھ نہیں سمجھتا.خدا یہ بتانا چاہتا ہے کہ میں کمزور سے کمزور کو بڑی طاقت دے سکتا ہوں.خلافت سے پہلے میں نے رویا میں دیکھا کہ میرا ایک ہم جماعت ہے وہ مجھ سے کہتا ہے کہ میں تمہارے لیکچر کے خلاف لیکچر دوں گا تو میں نے اس سے کہا کہ اگر تم میرے خلاف لیکچر دو گے اور مجھ پر سچا الزام بھی لگاؤ گے تو تم ہلاک ہو جاؤ گے.پس یا د رکھو خدا کے کاموں کو کوئی روک نہیں سکتا.خدا تمہیں ان باتوں کی سمجھ دے.آمین.الفلق : ۲ تا آخر ( خطبات محمود جلد ۴ صفحه ۴۲۰ تا ۴۲۴ ) الغاشية: ٢٣ بخاری کتاب الاحكام باب موعظة الامام للخصوم صفحہ ۱۲۳۴ حدیث نمبر ۷۱۶۹ مطبوع رياض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية المعجم الكبير للحافظ ابی القاسم سلمان بن احمد الطبرانی جلد ۱۸ صفحه ۳۵۵ مكتبه ابن تیمیہ قاہرہ ۱۳۹۷ھ

Page 21

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم خلفاء کی سچے دل سے اطاعت کرو ( فرمود ه ۲۹ جون ۱۹۱۷ء ) تشہد وتعوذ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقُولُوارًا عنا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا، وَلِلْكَفِرِينَ عذاب اليمن مايود الّذينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الكِتُبِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزِّل عَلَيْكُمْ مِّن خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ، وَاللهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ فرمایا:.بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے کلام اور اپنی تحریر پر قابو نہیں رکھتے.حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ صوفیاء کا قول ہے.الطَّرِيقَةُ كُلُّهَا اَدَبٌ “ تو جب تک انسان اپنے قول اور تحریر پر قابونہیں رکھتا اور نہیں جانتا کہ اس کی زبان اور قلم سے کیا نکل رہا ہے وہ انسان کہلانے کا مستحق نہیں وہ تو حیوان سے بھی بدتر ہے کیونکہ جانور بھی خطرہ کی جگہوں سے بچتا ہے.لیکن انسان مال اندیشی سے ہرگز کام نہیں لیتا.جانور کو کسی خطرہ کی جگہ مثلاً غار کی طرف کھینچیں تو وہ ہرگز ادھر نہیں جائیگا.مولوی رومی صاحب نے اپنی مثنوی میں ایک مثال لکھی ہے.کہ ایک چوہا ایک اونٹ کو جس طرف وہ اونٹ جار ہا تھا ادھر ہی اس کی نکیل پکڑ کر لے چلا لیکن جب راستہ میں ندی آئی تو اونٹ نے اپنا رخ پھیر لیا اور چوہا ادھر گھٹتا ہوا چلنے لگا جدھر اونٹ جارہا تھا تو ایک چوہا بھی ایک اونٹ کو جہاں خطرہ نہ ہو لے جا سکتا ہے مگر جہاں خطرہ ہو وہاں چوہا تو کیا ایک طاقتور آدمی بھی اونٹ کو نہیں لے جاسکتا.

Page 22

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم یا شکرے اور باز جس وقت آتے ہیں تو جانور درختوں میں اس طرح دبک کر بیٹھتے ہیں گویا وہاں کوئی جانور ہے ہی نہیں مگر انسانوں میں ایک ایسی جماعت ہے جو بات کہتی ہے اور نہیں سمجھتی کہ اس کا کیا مطلب ہے حالانکہ اکثر اوقات ذراسی غلطی خطرناک نتائج پیدا کر دیا کرتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مومنو! دو معنی والے لفظ رسول کے مقابلہ میں استعمال نہ کرو.ورنہ تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ مومن تھے اس لئے فرمایا کہ تمہار ایمان ضائع ہو جائے گا.فرمایا کہ تم اگر چہ اس وقت مومن ہو لیکن اگر تم نے اپنی زبانوں پر قابو نہ رکھا تو یا درکھو کہ ہم تمہیں کا فر بنا کے دُکھ کے عذاب میں مبتلا کر کے ماریں گے مومن سے شروع کیا لیکن اس غلطی کے باعث کفر پر انجام ہوا.پس انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول کا نگران ہو.ورنہ ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے.میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ زبان سے تو اقرار کرتے ہیں اور تحریر و تقریر میں خلیفة امسیح خلیفہ امسیح کہتے ہیں مگر جو حق اطاعت ہے اس سے بہت دور ہیں زبانی خلیفہ امسیح کہنا یا لکھنا کیا کچھ حقیقت رکھتا ہے؟ شیعوں نے لفظ خلیفہ کے استخفاف اور ہنسی کے لئے نائیوں اور درزیوں تک کو خلیفہ کہنا شروع کر دیا.لیکن کیا خلفاء ان لوگوں کی ہنسی سے ذلیل ہو گئے ہر گز نہیں.لوگوں نے اس لفظ خلیفہ کو معمولی سمجھا ہے.مگر خدا کے نزدیک معمولی نہیں.خدا نے ان کو بزرگی دی ہے اور کہا ہے کہ میں خلیفہ بنا تا ہوں اور پھر فرمایا ومن كفر بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الفسقون ان خلفاء کے انکار کا نام فسق ہے جوانکا انکار کرے گا وہ میری اطاعت سے باہر ہو گیا.پس لفظ خلیفہ کچھ نہیں لوگ نائی کو بھی خلیفہ کہتے ہیں.مگر وہ خلفاء جو خدا کے مامورین کے جانشین ہوتے ہیں ان کا انکار اور ان پر ہنسی کوئی معمولی بات نہیں وہ مومن کو بھی فاسق بنا دیتی ہے.پس یہ مت سمجھو کہ تمہارا اپنی زبانوں اور تحریروں کو قابو میں نہ رکھنا اچھے نتائج پیدا کرے گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایسے لوگوں کو اپنی جماعت سے علیحد ہ کر دوں گا.فاسق کے معنی ہیں کہ خدا سے کوئی تعلق نہیں.اس کو خوب یا درکھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو ا نتظام ہو جو شخص اس کی قدر نہیں کرے گا اور اس انتظام پر خواہ مخواہ اعتراضات کرے گا خواہ وہ

Page 23

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم مومن بھی ہو.اور جو اس کے متعلق بولتے وقت اپنے الفاظ کو نہیں دیکھے گا تو یا درکھو کہ وہ کا فر ہو کر مرے گا.اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقُولُوارًا عِنَا وَقُولُوا انظرنا مگر جس کیلئے ادب کا حکم ہوتا ہے وہ بھی اس آیت میں داخل ہوتا ہے.خدا نے حضرت ابو بکر کو اس مقام پر کھڑا کیا تھا جو ادب کی جگہ تھی.جس وقت اختلاف شروع ہوا آپ نے کہا کہ میں اُس وقت تک تم لوگوں سے لڑوں گا خواہ تمام جہان میرے برخلاف ہو جائے جب تک یہ لوگ اگر ایک رستی بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے نہیں دیں گے.سے پس یہ مت سمجھو کہ حفظ مراتب نہ کرنا کوئی معمولی بات ہے اور کسی خاص شخص سے تعلق رکھتا ہے.بلکہ خواہ دینی ہو یا دنیا وی خلافت جب ان کے لئے ادب کا حکم ہے سب کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ادب کیا جائے.کوئی شخص اگر با دشاہ کا ادب نہیں کرے گا تو جانتے ہو وہ سزا سے بچ جائے گا ؟ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ انشاء اللہ خان بڑا شاعر تھا اور ہمیشہ اس امر کی کوشش کیا کرتا تھا کہ بادشاہ کی تعریف میں دوسروں سے بڑھ کر بات کہے.دربار میں بادشاہ کی تعریف ہونے لگی کسی نے کہا ہمارے بادشاہ کیسے نجیب ہیں.انشاء اللہ خان نے فوراً کہا نجیب کیا حضور تو انجب ہیں.اب انجب کے معنی زیادہ شریف کے ہیں اور ساتھ ہی لونڈی زادہ کے بھی.اتفاق یہ ہوا کہ بادشاہ تھا بھی لونڈی زادہ.تمام دربار میں سناٹا چھا گیا اور سب کی توجہ لونڈی زادہ کی طرف ہی پھر گئی.بادشاہ کے دل میں بھی یہ بات بیٹھ گئی اور انشاء اللہ خان کو قید کر دیا جہاں وہ پاگل ہو کر مر گیا..پس زبان سے محض خلیفہ اسیح خلیفہ اسیح کہنا کچھ نہیں.مجھے آج ہی ایک خط آیا ہے جس میں اس خط کا لکھنے والا لکھتا ہے کہ آپ نے جو فیصلہ کیا ہے ، وہ غریب سمجھ کر ہمارے خلاف کیا ہے.اب اگر فی الواقع ایسی ہی بات ہو کہ کوئی شخص فیصلوں میں درجوں کا خیال رکھے تو وہ تو اول درجہ کا شیطان اور خبیث ہے چہ جائیکہ کہ اس کو خلیفہ کہا جائے.دیکھو میں نے ان

Page 24

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم لوگوں کی بھی کچھ پرواہ نہیں کی جو میرے خیال میں سلسلہ کے دشمن تھے.پس میں کسی انسان کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا خواہ سب کے سب مجھ سے علیحدہ ہو جائیں کیونکہ مجھ کو کسی انسان نے خلیفہ نہیں بنایا بلکہ خدا نے ہی خلیفہ بنایا ہے.اگر کوئی انسان کی ہی حفاظت میں آئے تو انسان اس کی کچھ حفاظت نہیں کر سکتا.خدا ایسے شخص کو ایسے امراض میں مبتلا کر سکتا ہے جن میں پڑ کر بُری طرح جان دے.میں اس خلافت کو جو کسی انسان کی طرف سے ہو لعنت سمجھتا ہوں.نہ مجھے اس کی پرواہ ہے کہ مجھے کوئی خلیفہ امسیح کہے.میں تو اُس خلافت کا قائل ہوں جو خدا کی طرف سے ملے بندوں کی دی ہوئی خلافت میرے نزدیک ایک ذرہ کے بھی برابر قدرنہیں رکھتی.مجھے کہا گیا ہے کہ میں انصاف نہیں کرتا غریبوں کی خبر گیری نہیں کرتا.پس اگر میں عادل نہیں ہوں تو میرے ساتھ کیوں تعلق رکھتا ہے.جو عدل نہیں کرتا وہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا ایسے لوگوں کا مجھے کوئی نقصان نہیں مجھے تو اس سے بھی زیادہ لکھا گیا ہے.قاتل مجھ کو کہا گیا.سلسلہ کو مٹانے والا غاصب اور اسی قسم کے اور بُرے الفاظ سے مجھ کو مخاطب کیا گیا ہے.پس اس کے مقابلہ میں تو یہ کچھ بھی نہیں.ہر ایک وہ شخص جو مقدمہ کرتا ہے وہ اپنے تئیں ہی حق پر سمجھتا ہے لیکن عدالت جو فیصلہ کرتی ہے وہ اس کو قبول کرنا پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ " جب تک یہ لوگ کامل طور پر تیرے فیصلوں کو نہ مان لیں یہ مومن ہو ہی نہیں سکتے.جب لوگوں کو عدالتوں کے فیصلوں کو ماننا پڑتا ہے تو خدا کی طرف سے مقرر شدہ خلفاء کے فیصلوں کا انکار کیوں.اگر دنیا وی عدالتیں سزا دے سکتی ہیں تو کیا خدا نہیں دے سکتا.خدا کی طرف سے فیصلہ کرنے والے کے ہاتھ میں تلوار ہے مگر وہ نظر نہیں آتی اس کی کاٹ ایسی ہے کہ دور تک صفایا کر دیتی ہے.دنیاوی حکومتوں کا تعلق صرف یہاں تک ہے مگر خدا وہ ہے جس کا آخرت میں بھی تعلق ہے.خدا کی سزا گو نظر نہ آوے مگر حقیقت میں بہت سخت ہے.اپنی تحریروں اور تقریروں کو قابو میں لا ؤ اگر تم خدا کی قائم کی ہوئی خلافت پر اعتراض کرنے سے

Page 25

خلافة على منهاج النبوة 11 جلد سوم باز نہیں آؤ گے تو خدا تمہیں بغیر سزا کے نہیں چھوڑے گا جہاں تمہاری نظر بھی نہیں جاسکتی وہاں خدا کا ہاتھ پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں فہم دے اپنے آپ کو اور اس شخص کے درجہ کو جو تمہارے لئے کھڑا کیا گیا ہے پہچانو.کسی شخص کی عزت اس شخص کے لحاظ سے نہیں ہوا کرتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اس لئے نہیں کہ آپ عرب کے باشندہ تھے اور عبداللہ کے بیٹے تھے بلکہ اس درجہ کے لحاظ سے ہے جو خدا نے آپ کو دیا تھا.اسی طرح میں ایک انسان ہوں اور کوئی چیز نہیں.مگر خدا نے جس مقام پر مجھ کو کھڑا کیا ہے اگر تم ایسی باتوں سے نہیں رکو گے تو خدا کی گرفت سے نہیں بچ سکتے.بعض باتیں معمولی ہوتی ہیں مگر خدا کے نزدیک بڑی ہوتی ہیں.خدا تم کو سمجھ دے.آمین.البقرة: ۱۰۶،۱۰۵ النور: ۵۶ خطبات محمود جلد نمبر ۵ صفحه ۴۹۸ تا ۵۰۲) تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحه ۶۰ الناشر مکتبہ نزار مصطفى الباز ۲۰۰۴ء النساء: ۶۶

Page 26

خلافة على منهاج النبوة ۱۲ جلد سوم خلافت ترکی اور مسلمانانِ ہند ( فرموده ۱۴ مارچ ۱۹۲۴ء ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.” عام قدرتی قواعد کے ماتحت یہ بات بُری سمجھی جاتی ہے کہ کوئی شخص کسی موقع پر اپنے بھائی کو یہ کہے کہ تم نے میری فلاں بات نہ مانی تو یہ نقصان ہوا.قرآن کریم نے ایک لڑائی کے موقع کا ذکر کر کے بعض لوگوں کے متعلق کہا ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو مشورہ دیا تھا اس کے خلاف جن کی رائے تھی ان کی رائے پر عمل کیا گیا اس لئے نقصان ہوا لے.اس بات کو اللہ تعالیٰ نے نا پسند فرمایا ہے اور کہا کہ یہ منافقت ہے.اگر تمہارے منشاء کے خلاف تھا اور اس سے نقصان بھی ہوا تو بھی نہیں کہنا چاہئے تھا.کیونکہ یہ ضروری نہیں تھا کہ تم نے جو مشورہ دیا تھا وہ ضرور مانا جاتا.تو یہ ایک تمدنی غلطی ہے جو قوموں میں رائج ہے.اور اس کی قرآن کریم نے تصدیق فرمائی ہے.اور ایسا کہنے کو منافقت ٹھہرایا ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کے خلاف چلنے والوں کو بھی بات کہی ہے جو عام تمدنی حالات میں درست نہ تھی کہ تم نے اس کی رائے کے خلاف کیا اس لئے نقصان ہوا.یہ کیوں کہا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھائی بھائی کو یا دوست دوست کو یا چھوٹا بڑے کو یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ تم نے میری رائے کے خلاف کیا اس لئے نقصان اُٹھایا.مگر جو بڑا ہے اور جس کو یہ حق ہے کہ دوسروں کی راہنمائی کرے اور جس کا کام سمجھا نا ہو اور لوگوں کی نگرانی کرنا ہو وہ کہہ سکتا ہے.ہے.بچہ کو حق نہیں کہ ماں باپ کو کہے تم نے میری فلاں بات نہ مانی اس لئے نتیجہ اچھا نہ نکلا مگر

Page 27

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم ماں باپ کو حق ہے کہ وہ ایسا کہیں.ماں باپ کے ایسا کہنے پر کوئی اعتراض نہیں کرتا.بچہ ایسی جگہ کھیلتا ہو جہاں اسے نہیں کھیلنا چاہئے اور جہاں سے ماں باپ نے اسے روکا ہو پھر اگر اسے تکلیف پہنچے تو ماں باپ کہتے ہیں ہم نے تمہیں پہلے نہیں کہا تھا کہ وہاں نہ کھیلو.یہ ایک اخلاق کی بات ہے اور درست ہے ماں باپ کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کو یہ نہیں کہنا چاہئے لیکن اگر برابر کا یا چھوٹا بڑے کو یہی بات کہے تو اس کو متکبر اور بے ادب کہا جائے گا.کیونکہ اس کو شرعاً ، عرفاً ، اخلاقاً ، قا نو نا حق نہیں کہ ایسا کہے جس کو حق حاصل ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے تمہیں پہلے نہیں کہ دیا تھا کہ تمہیں ایسا کرنے میں نقصان ہوگا.اس تمہید کے بعد میں ایک ایسے واقعہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو واقعہ مسلمانوں کے لئے نہایت اہم ہے اور وہ خلافت کا سوال ہے.جب ترکوں کی انگریزوں سے لڑائی شروع ہوئی تو مسلمانوں نے انگریزوں کی مدد کی.مولویوں نے فتوے دیئے کہ انگریزوں کی مدد کرنا فرض ہے اس لئے کہ وہ ہمارے حلیف ہیں اور حلیف کی مدد کرنا ضروری ہے.اس قسم کے فتوے تنخواہوں کے خیال سے یا مربعوں کی امید پر یا عہدوں اور خطابوں کے لالچ میں یا حکام کی نظر میں پسندیدہ ہونے کے لیے دیئے گئے اور انگریزی فوج کے لیے رکروٹ (RECRUIT) سے بھرتی کروائے گئے.اُس وقت بھی مسلمان ترکوں کے سلطان کو خلیفہ المسلمین کہتے تھے.مگر خلیفہ المسلمین کی فوجوں کے مقابلہ میں بندوقیں کندھوں پر رکھ کر گئے اور ان ہی مقامات مقدسہ کو جن کے لئے بر سر جدال ہوئے خلیفہ المسلمین سے گولیوں اور تلواروں کے زور سے چھین لیا.اُس وقت کسی نے اس کے خلاف آواز نہ اُٹھائی.کیا اُس وقت قرآن کریم کا حکم یاد نہ رہا تھا ؟ اگر چہ وہ عقیدہ جو یہ لوگ اب ظاہر کرتے ہیں اسلامی نہیں.مگر میں پوچھتا ہوں اس وقت اس عقیدے کے لحاظ سے ان کا کیا فرض تھا اور انہوں نے کیا کیا.ہم نے بھی انگریزوں کی مدد کی مگر ہم اپنے مذہبی عقیدے کی رو سے فرض سمجھتے تھے کہ ہم جس حکومت کے ماتحت رہیں اس کی مدد اور اس کی ہمدردی کریں.ہم انگریزوں کے ساتھ ہوکر ترکوں سے لڑنے کیلئے گئے.مگر خلیفہ المسلمین سے لڑنے نہ گئے تھے.کیونکہ ہم

Page 28

خلافة على منهاج النبوة ۱۴ جلد سوم سلطان ترکی کو خلیفتہ المسلمین نہیں مانتے.ہم اس لئے لڑنے کے لئے گئے کہ ترک ہمارے بادشاہ کے مخالف تھے اور ہم اپنے بادشاہ کے مخالف سے لڑنے گئے تھے.پس ہمار ا فعل جائز اور شریعت کے مطابق تھا.مگر جب جنگ کا نتیجہ نکلنے لگا اور صلح ہونے لگی تو وہ لوگ جو نہ صرف ترکوں سے لڑنے کو تیار تھے بلکہ لڑے تھے اور جنہوں نے اپنے خلیفہ کے قائم مقاموں کے سینوں پر گولیاں چلا کر اور ان سے ملک چھین کر انگریزوں کے قبضہ میں دیا تھا بگڑ گئے اور کہنے لگے یہ کیوں کرتے ہو اگر ایسا کرو گے تو یہ ہمارے مذہب میں دست اندازی ہوگی اور اس بات کے لئے انہوں نے انگریزوں کے ملک میں وہ طوفان بے تمیزی برپا کیا کہ اس کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی.اس بارے میں ہمیں بھی ترکوں سے ہمدردی تھی.اس لئے کہ ہمارے نز دیک ترکوں سے وہ سلوک نہیں کیا گیا تھا جو دوسرے مفتوحین سے کیا گیا.ہمارے نزدیک دوسرے مفتوحوں کے مقابلہ میں ترکوں سے زیادہ سختی کی گئی تھی اور وہ محض اس لئے تھی کہ ترک مسلمان تھے گو آسٹریا سے بھی سختی کی گئی تھی مگر وہ سختی جو ترکوں سے کی گئی تھی زیادہ تھی کیونکہ آسٹریا کے علاقے آزاد تھے اور آزاد ہونا چاہتے تھے مگر ترکوں کے ماتحت جو علاقے تھے ان سے نہیں پوچھا گیا تھا کہ تم ترکوں کے ماتحت رہنا چاہتے ہو یا نہیں؟ انہیں انگریزوں اور امریکنوں اور فرانسیسیوں نے جبراً ترکوں سے علیحدہ کر لیا.اگر ان علاقوں سے پوچھا جاتا تو ان میں کتنے ہی ترکوں کے ماتحت رہنے کو پسند کرتے.جن علاقوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا اُن کی سنی نہ گئی.پھر آسٹریا کا جو کچھ باقی رکھا گیا وہ آزاد تھا.لیکن ترکوں کو جو آزادی دی گئی وہ برائے نام تھی اور چار پانچ طاقتوں کا ان پر تسلط تھا.پس ترکوں کے متعلق اس فیصلہ سے مذہبی تعصب کی بو آتی تھی.ہم نے فاتحین کے اس فیصلہ کے متعلق اس طریق پر کام کیا اور توجہ دلائی جو رعایا کے لئے ضروری ہے اور جس طرح توجہ دلانا ہمارا حق تھا کہ ترکوں کے ساتھ وہ کیا جائے جو سیاسی طور پر ضروری ہے نہ یہ کہ انکے ساتھ فیصلہ میں مذہبی تعصب کو دخل دیا جائے.بعد میں اس کے مطابق فیصلہ ہوا اور یہ مان لیا گیا کہ پہلے صلح نامے میں سختی تھی اور ضروری تھا کہ اس میں تبدیلی کی جائے.

Page 29

خلافة على منهاج النبوة ۱۵ جلد سوم لیکن باوجود اس کے وہ لوگ ہمیں بزدل اور خوشامدی کہنے لگے جو باوجو د ترک سلطان کو اپنا خلیفہ سمجھنے کے اس کے خلاف لڑنے کے لئے گئے تھے.اگر ہم ترکوں کے سلطان کو اپنا خلیفہ مان کر اس سے لڑنے جاتے تو یہ ہماری بے غیرتی انگریزوں کی خوشامد اور انگریزوں کے مقابلہ میں بزدلی ہوتی.مگر جب یہ بات نہ تھی تو خوشامد اور بزدلی کیسی ؟ ہم تو ترکوں کے ساتھ لڑنے کے لئے اس لئے نکلے کہ وہ ہمارے خلیفہ نہ تھے اور ان سے لڑنے میں ہمارے لئے کوئی مذہبی روک نہ تھی.مگر غصہ میں انسان سوچتا نہیں.اور وہ لوگ جن پر الزام آتا تھا غصہ میں آکر ہمیں الزام دینے لگے.اسی غصہ کی حالت میں ایک غلط راستہ اختیار کر لیا گیا.ابتدا میں ترکوں کے خلاف فیصلہ کے متعلق سوچنے کے لئے دو جلسے کئے گئے.اور ان دونوں جلسوں میں مجھے بلایا گیا.میں جانتا تھا کہ ذاتی طور پر ان جلسوں میں میرا شامل ہونا غیر ضروری ہے.کیونکہ جس امر کے متعلق پہلے سے فیصلہ کر لیا جائے اس میں لوگوں کو بلا کر مشورہ کرنے کے معنی بجز اس کے کچھ نہیں کہ لوگوں کو اپنے پیچھے گھسٹتے پھریں.تا ہم میں نے حجت قائم کرنے کے لئے ان جلسوں میں دو ٹریکٹ لکھ کر بھیج دیئے جن میں میں نے بتایا کہ جو رویہ تم اختیار کر رہے ہو اور جس پر اپنے مطالبات کی بنیا د رکھ رہے ہو یہ ترکوں کے لئے مفید نہیں ہوسکتا بلکہ خطرناک ہے.مثلاً یہ کہنا کہ ترکوں کے بادشاہ کو سب مسلمان خلیفہ مانتے ہیں اس لئے ہم ان کی امداد کے لئے کھڑے ہوئے ہیں یہ اصولاً اور واقعتہ غلط تھا.شیعہ ترک سلطان کو خلیفہ نہیں مانتے.سات سو سال سے ایرانی حکومت عرب حکومت کے خلاف نبرد آزما رہی ہے اور پانچ چھ سو سال سے کرد اور ترک عرب کو زیر کرنے کی کوشش میں مصروف رہے ہیں اگر ایرانی خلیفہ سمجھتے تو ایسا کیوں کرتے.علاوہ ازیں اگر خلافت کا حق مقدم سمجھا جائے تو ابو بکر، عمر، عثمان زیادہ مستحق ہیں کہ ان کو خلیفہ مانا جائے لیکن شیعہ جو ان کو خلیفہ نہیں مانتے وہ سلطان ترکی کو کس طرح خلیفہ مان سکتے ہیں.پھر ہم لوگ ہیں ہم کسی بھی صورت میں ترک سلطان کو خلیفہ نہیں مان سکتے.ہمارے نزد یک خلیفہ وہ ہو سکتا ہے جو اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود کا متبع ہو اور اس کے سوا کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا.

Page 30

خلافة على منهاج النبوة ۱۶ جلد سوم اہلحدیث کا یہ مذہب ہے کہ خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے.ان میں سے جن لوگوں نے شور و ہنگامہ میں خلافت لڑکی کی تائید میں آواز اُٹھائی اور خلافت کو جائز سمجھا وہ ان کے مذہبی عقیدے کے مطابق رائے نہ تھی بلکہ بزدلی اور خود غرضی کے ما تحت رائے تھی.علاوہ اس کے سنیوں میں سے بھی اس خیال کے لوگ پائے جاتے ہیں جو ترک سلطان کو خلیفہ تسلیم نہیں کرتے.اس لئے میں نے کہا تھا کہ ترکوں کی ہمدردی کی تحریک کی بنیاد ایک ایسی بات پر رکھنا غلطی ہے جس پر سب مسلمان متفق نہیں ہو سکتے.بلکہ اس کی بجائے اس تحریک کو سیاسی طور پر چلایا جائے اور مخالف رائے کو موافق بنایا جائے اور ترکی حکومت کو بحیثیت ایک اسلامی سلطنت کے پیش کیا جائے.میری اس بات کو حقارت سے دیکھا گیا یا ظاہر کیا گیا کیونکہ بعض ذی اثر اصحاب نے اپنی پرائیویٹ ملاقاتوں میں میری تجویز کی تعریف کی اور کہا کہ ہونا تو ایسا ہی چاہئے مگر اب حالات ایسے ہیں کہ ہم عوام کی مخالفت نہیں کر سکتے.لیکن جو ہجرت کی تحریک کا نتیجہ ہوا اور بائیکاٹ کی تحریک کا ہوا وہی آخر کا ر خلافت کا نتیجہ ہوا.خلافت کی تحریک کے جوش کے زمانہ میں کہا جاتا تھا کہ نماز کا چھوڑ نا زکوۃ نہ دینا کوئی بات نہیں مگر جو خلافت کا منکر ہے وہ کافر ہے.اور وہ شخص جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ خلافت کا منجی ہے اور خلافت کو قائم کرنے والا ہے وہ آج خلافت کے متعلق ایسا فعل کرتا ہے جو نہایت شرمناک ہے.وہ خلافت کو مٹا کر ہی دم نہیں لیتا بلکہ ایک ایسے ظالمانہ فعل کا مرتکب ہوتا ہے جو بہت ہی شرمناک اور ظالمانہ ہے.وہ نہ صرف خلیفہ کو معزول کرتا ہے بلکہ اس کے خاندان کے بیوی بچوں اور کل افراد کو ملک سے نکال دیتا ہے اور ملک کا داخلہ ان پر بند کر کے ان لوگوں کو ان کے آبائی وطن میں آنے سے محروم کر دیتا ہے.یہ وہ سزا ہے جو چوروں اور ڈاکوؤں کو بھی نہیں دی جاتی.چور قید کیا جاتا ہے مگر اس کی نسل کو قید نہیں کیا جاتا.اس کی بیوی اور اس کے بچوں کو جلا وطن نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کا قصور نہیں ہوتا.مگر ترک خلیفہ کے ساتھ یہ سب کچھ کیا جاتا ہے.اگر خلیفہ تر کی خلافت کے اہل نہ تھا اگر وہ اپنے افعال کی بنا پر قابل سزا تھا تو یہ کون سا اخلاق کا قانون ہے کہ اس کے اہل کو بھی جلا وطن کر دیا جائے اور ان کی جائداد میں زیر نگرانی کر لی

Page 31

خلافة على منهاج النبوة ۱۷ جلد سوم جائیں.یہ وہ فعل ہے جو کسی ظالم ترین بادشاہ سے کیا جاتا ہے.پھر اس شرمناک طریق پر اس کو معزول کیا گیا ہے کہ جس سے افسوس ہوتا ہے.یہ نہیں کیا گیا کہ معمولی طور پر خط لکھ دیا ہو کہ آپ چلے جائیں آپ معزول کر دیئے گئے ہیں بلکہ جب وہ تخت پر بیٹھا ہوتا ہے تب اُس کو کہا جاتا ہے کہ ملک کی طرف سے حکم ہے کہ تخت سے اتر آؤ یہ کیسی ذلت کا نظارہ ہوگا جو وہاں پیش آیا.ایک وقت تھا جب دنیا کو اس کی مدد کے لئے اُبھارا جاتا تھا.اس بات کا خیال کر کے اس وقت خلیفہ کے دل میں مسلمانوں کی بیس کروڑ تعداد کی وفاداری کا کیا احساس ہوگا جب اسے کہا گیا ہوگا کہ تم تخت سے اُتر آؤ اور دو گھنٹے کے اندر اندر ملک سے باہر نکل جاؤ تم اور تمہاری اولاد بیوی اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو اس ملک میں گھنے کا حکم نہیں ہے.اگر کوئی سلطنت ہوتی تو مجھے امید ہے کہ وہ ایسا بز دلا نہ سلوک نہ کرتی.مگر یہ کیوں ہوا؟ یہ اس لئے ہوا کہ ترکوں کا خیال ہوا کہ خلافت کا مسئلہ سخت پیچیدہ ہو گیا ہے اور یہ کہ اس سے جمہوریت کے خلاف طوفان اٹھایا جاسکتا ہے.میرے نزدیک ترکوں کی یہ کارروائی مسلمانوں کے اس جوش کا نتیجہ ہے جو انہوں نے خلافت ٹرکی کے متعلق دکھایا.ترکوں کو یہ خیال ہوا کہ اگر خلیفہ اور جمہوریت کا سوال اٹھا تو خلیفہ کے ساتھ لوگوں کی ہمدردی ہوگی اور ہماری حکومت ٹوٹ جائیگی.سیاسی طور پر ان کا یہ خیال درست تھا اور ان کو اس خطرہ سے بچنے کے لئے خلافت کا نام و نشان مٹانا ضروری تھا.مگر جو غیر شریفانہ سلوک خلیفہ کے ساتھ اُنہوں نے کیا ہے وہ نہایت ہی قابل افسوس اور قابل نفرت ہے.امید ہے کہ مسلمانوں کی سمجھ میں اب وہ باتیں آجائیں گی جن کو وہ پہلے نہیں سمجھتے تھے.میں افسوس سے کہتا ہوں اور اس لئے کہتا ہوں کہ جس مقام پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اس کے لحاظ سے مجھے کہنے کا حق ہے کہ دیکھو میں نے کہا تھا کہ تم سلطنت لڑکی کے متعلق ایسا نہ کرو مگر تم نے وہی کیا.اب اس کی خوفناک غلطی تم پر ظاہر ہوگئی.میں یہ بات کہہ سکتا ہوں اور دوسرا نہیں کہہ سکتا اب بھی وہ راستہ کھلا ہے جو خدا نے کھولا تھا اس آواز کوسنیں جو خدا کے مامور نے بلند کی.اس آواز کے مقابلہ میں کوئی آواز نہیں ٹھہر سکتی.اب کو ئی خلیفہ نہیں ہو سکتا جس کی گردن میں مسیح موعود کی اتباع کا جوا نہ ہو.

Page 32

خلافة على منهاج النبوة ۱۸ جلد سوم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیارات حضرت مسیح موعود کو ملے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں جذبہ ہو کر ملے ہیں اور اب اُسی کو خلافت مل سکتی ہے جو مسیح موعود میں ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہو.جس وقت حسین کا می قادیان میں آیا تھا اُس وقت حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ میں کشفی نظر سے دیکھتا ہوں کہ سلطان کے دربار میں کچھ کچے دھاگے ہیں جو نازک وقت پر ٹوٹ جائیں گے.چنانچہ وہ ٹوٹ گئے اور سلطان کو بھی لے کر غرق ہو گئے.یہ کیسی عظیم الشان خبر تھی جو پوری ہوئی اور پندرہ سال کے عرصہ میں متعدد بار پوری ہو چکی ہے.پہلے سلطان عبدالحمید خان کے وقت میں پوری ہوئی پھر موجودہ خلیفہ سے پہلے کے وقت میں پوری ہوئی اور اب پھر پوری ہوئی جبکہ خلافت ٹوٹ گئی اور خدا کی بات پوری ہوگئی.ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک ایسے گاؤں میں رہنے والے جو سٹیشن سے بھی 1 میل دور ہے سیاست کو کیا سمجھ سکتے ہیں.ہم کہتے ہیں دیکھو سٹیشن سے امیل پرے رہنے والے کی بات پوری ہوئی اس لئے کہ اس میں صداقت بھری ہوئی تھی.سیاستدان بے خبر رہے مگر وہ جسے سیاست سے بے خبر کہا جاتا تھا اس کی بات سچی نکلی.اگر اس کی بات مانی جاتی تو آج سیاست دان منہ کے بل نہ گرتے.اب بھی مسلمانوں کے لئے موقع ہے کہ سمجھ سے کام لیں اور ٹوٹنے والے تا گوں کی نظیر سے فائدہ اُٹھائیں جیسا کہ مولوی رومی نے کہا ہے.ہر بلا کیں قوم را را حق داده اند زیر آن گنج کرم بنهاده اند اس وقت تمام جہان کی نگاہ ہندوستان پر پڑ رہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آئندہ ترقی کا سامان ہندوستان کی طرف سے ہو گا.اس بات کو کوئی مانے یا نہ مانے ہندوستان کی طرف توجہ کا ہونا اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ ہندوستان کو خاص درجہ حاصل ہو رہا ہے.دیکھو وہ شخص جو کل تک خلیفہ تھا آج مظلوم ہے اور جس کو سلطان المعظم کہا جاتا تھا وہ کہتا ہے کہ ہم ہندوستان کی آواز کے منتظر ہیں.پھر مسٹر گاندھی نے مسٹر محمد علی کو خلافت کے ٹوٹنے پر

Page 33

خلافة على منهاج النبوة ۱۹ جلد سوم جو تار دیا ہے اس میں لکھا ہے کہ اسلام کا مستقبل مسلمانانِ ہند کے ہاتھ میں ہے.اس کی کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کی طرف نگاہیں پڑ رہی ہیں.یہ دراصل خدا کی مخفی انگلی کام کر رہی ہے اور دنیا کو ہندوستان کی طرف متوجہ کر رہی ہے اس لئے نہیں کہ ہندوستان میں گاندھی اور محمد علی ہیں ان کی طرف دنیا کو لائے بلکہ اس لئے کہ غلام احمد ہندوستان میں پیدا ہوا ہے اور خدا چاہتا ہے کہ اس کی طرف دنیا کو لائے اور یہ ظاہر کرے کہ دنیا کی آئندہ نجات کس سے وابستہ ہے.یہ قدرت کی آواز امریکہ اور انگلستان کی طرف متوجہ نہیں کرتی جہاں ڈوئی اور پکٹ ہوئے.یہ ایران اور شام کی طرف متوجہ نہیں کرتی جہاں باب اور بہاء اللہ ہوئے.یہ افریقہ کی طرف نہیں لے جاتی کہ وہاں چارہ کار تلاش کیا جائے بلکہ ہندوستان کی طرف متوجہ کرتی ہے اس لئے کہ وہ راستباز ہندوستان میں آیا جس سے دنیا کی آئندہ ترقی وابستہ ہے.یہ جمعہ کا خطبہ ہے میں اس کو لمبا نہیں کرنا چاہتا مگر میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ جب وہ کسی طرف دنیا کی توجہ پھیر نی چاہتا ہے تو اس کے لئے غیر معمولی اور غیر متعلق سامان پیدا کر دیتا ہے.اب جہاں سیاسی امور کی وجہ سے ہندوستان پر نظر پڑ رہی ہے اسی طرح ہندوستان کو لوگوں کی نظروں میں لانے کے لئے اور سامان بھی کر دئیے گئے ہیں کیونکہ دنیا میں بیشمار لوگ ایسے ہیں جو مذ ہب پر براہ راست متوجہ ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتے اس لئے خدا تعالیٰ نے ہندوستان میں ٹیگور کو پیدا کیا کہ لٹریچر سے مذاق رکھنے والے ہندوستان کی طرف متوجہ ہوں اور اس طرح ٹیگور مسیح موعود کی طرف لوگوں کو لانے کا ایک ذریعہ ہو گیا.پھر خدا کے نبی سائنس کے مسائل حل کرنے کے لئے نہیں آتے مگر اس زمانہ میں چونکہ سائنس کی طرف دنیا متوجہ ہے اس لئے خدا نے ہندوستان میں بوسے کو پیدا کیا.جس نے اپنے اکتشافات سے ہندوستان کو دنیا کی نظر میں ممتاز کر دیا اور یہ اس لئے ہوا کہ وہ لوگ جن کو سائنس سے لگاؤ ہے وہ اسی ذریعہ سے ہندوستان کی طرف متوجہ ہوں.اور اس طرح یہ ذرائع اختیار کر کے خدا تعالیٰ نے دنیا کو مسیح موعود کے پاس لا کھڑا کیا ہے.اور یہ سامان اس لئے ہو رہے ہیں کہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ دنیا کی آئندہ مصلح قوم ہندوستان

Page 34

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم میں ہی ہوگی اور دنیا کا ہادی ہندوستان میں آیا ہے اور وہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.اب بھی مجھے امید ہے کہ ہمارے بھائی اگر غور کریں تو ٹھوکر سے بچ سکتے ہیں اور اس بات پر غور کر کے اسلام کو ہلاکت سے بچائیں کیونکہ حق کے قبول کرنے میں شرم نہیں ہوتی نہ بزدلی ہوتی ہے.بزدل وہ شخص ہوتا ہے جو حق کو پا کر قبول نہ کرے اگر وہ ۲۰.۳۰ سال تک مخالفت کرتے رہے ہیں اور اب ان کی سمجھ میں حق آگیا ہے تو اسے تسلیم کرنے میں کوئی عیب نہیں.اب بھی ستی سے کام نہ لیں.میں اپنے بھائی مسلمانوں اور دیگر اہل وطن کو کہتا ہوں کہ وہ خدا کی آواز کو سنیں.خدا نے جو ہاتھ بڑھایا ہے اس کو پکڑ لیں.خدا کے پیغام کو معمولی نہ سمجھیں اور خدا کے ہو کر اور خدا میں ہو کر زندگی بسر کریں.“ 66 ↓ ال عمران : ۱۵۵ ( خطبات محمود جلد ۸ صفحه ۳۲۴ تا ۳۳۱) RECRUIT: رنگروٹ.نیا سپاہی ، نیا بھرتی کیا ہوا ، نو آموز ( فیروز اللغات اردو جامع صفحه ۷۲۲ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء) تذکرہ صفحہ ۲۵۰ ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء میں ”میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں“ کے الفاظ ہیں.بوس سر جگد لیش چندر (۱۸۵۸ء) - ۱۹۳۷ء) پیدائش را ری خان ضلع ڈھاکہ.متحدہ بنگال کے مشہور ماہر طبیعات نباتی زندگی پر وسیع تحقیق سے انہیں عالمگیر شہرت حاصل ہوئی.لندن یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کلکتے کے پریذیڈنسی کالج میں طبیعات کے پروفیسر مقرر ہو گئے بعد میں انہیں کئی ڈگریاں اور اعزاز ملے.انہوں نے ایک آلہ کر یسکوگراف‘ ایجاد کیا جس سے پودوں کے نشو ونما کو ناپا جاسکتا تھا.نباتی زندگی کے متعلق ان کی بعض دریافتیں حیرت انگیز ثابت ہوئیں.کالج سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے نباتات کے بارے میں تحقیق کے

Page 35

خلافة على منهاج النبوة ۲۱ جلد سوم لیے ایک الگ ادارہ قائم کیا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ا صفحه ۲۷۰،۲۶۹ مطبوعہ لا ہور۱۹۸۷ء)

Page 36

خلافة على منهاج النبوة ۲۲ جلد سوم سفر یورپ کے متعلق انتظام (فرمودہ ۱۱ جولائی ۱۹۲۴ء) ۱۹۲۴ء میں حضرت مصلح موعود یورپ تشریف لے گئے ۱۱ جولا ئی ۱۹۲۴ء کو قادیان میں سفر یورپ کے متعلق خطبہ ارشادفرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ:.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو آدمی ہوں تو ان میں ایک امیر ہونا چاہیے لے مجھے ہندوستان میں جب کبھی سفر کا موقع پیش آیا ہے اس وقت اس بات کی ضرورت ہوتی تھی کہ قادیان کی جماعت کے لئے امیر مقرر کیا جائے.لیکن یہ سفر چونکہ ہندوستان سے باہر کا ہے اس لئے اس وقت یہی ضرورت نہیں کہ قادیان کے لئے کوئی امیر مقرر کیا جائے بلکہ یہ ضرورت ہے کہ ایسا نائب مقرر کیا جائے جو سارے ہندوستان کی جماعتوں کے معاملات سے تعلق رکھتا ہو اور میں نے اس غرض کے لئے مولوی شیر علی صاحب کو تجویز کیا ہے.وہ ایسے معاملات کے متعلق جو فوری اور ضروری ہوں اور جن کے متعلق مجھ سے مشورہ بذریعہ خط یا بذریعہ تار نہ لیا جا سکتا ہو فیصلہ کریں گے اور چونکہ یہ کام نہایت اہم ہے اور چونکہ خلیفہ اور نائب میں فرق ہے.کیونکہ خلیفوں کے لئے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ ان کی حفاظت کرتا ہے اور ایسے امور کی طرف ان کی راہنمائی کی جاتی ہے جن میں جماعت کی بہتری ہوتی ہے اور فرماتا ہے ان کا انتخاب خود خدا کرتا ہے گو بندوں کے ذریعہ ہی انتخاب ہوتا ہے مگر ان کی زبانوں پر خدا بول رہا ہوتا ہے.لیکن نائیوں کے لئے یہ نہیں“.( خطبات محمود جلد ۸ صفحه ۴۶۱ ) خلیفہ کا کام مرض کی تشخیص کرنا اور علاج تجویز کرنا ہے.اس کے بعد دوسرے لوگ

Page 37

خلافة على منهاج النبوة ۲۳ جلد سوم جو خلیفہ سے کم حیثیت رکھتے ہیں وہ نسخے دیں گے.پس یہ سفر اس لئے نہیں کہ ہم جا کر اہل یورپ کو کلمہ پڑھا آئیں.گو یہ بھی نہیں کہ اگر کوئی پڑھنا چاہے تو بھی نہیں پڑھائیں گے.مگر اس سفر کی غرض یہ نہیں.اگر اس سفر میں بھی خدا تعالیٰ بعض روحوں کو ہدایت دے دے تو یہ اُس کا احسان اور فضل ہوگا مگر ہماری یہ غرض نہیں کہ چند لوگوں کو مسلمان بنا آئیں بلکہ یہ ہے کہ کون سا طریق ہے کہ جس سے ساری دنیا کو مسلمان بنا ئیں.اتنی بڑی غرض بغیر قربانیوں کے حاصل نہیں ہو سکتی.“ خطبات محمود جلد ۸ صفحه ۴۷۰ ) ابوداؤد كتاب الجهاد باب فى الْقَوْمِ يُسَافِرُونَ صفحه ۳۷۷ حدیث نمبر ۲۶۰۸ مطبوع رياض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولی میں تین افراد کا ذکر ہے.

Page 38

خلافة على منهاج النبوة ۲۴ جلد سوم وصیت کی اصل غرض اور ضرورت حضور فرماتے ہیں :.(فرموده ۱۴رمئی ۱۹۲۶ء) سب سے بڑا فتنہ ایک اور پیدا ہوا جو خیال میں بھی نہیں آسکتا.اور وہ خلافت کے متعلق فتنہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خیال بھی نہ ہوگا جب آپ نے وصیت لکھی کہ ایسی جماعت بھی پیدا ہوگی جو اس کے ماتحت کہے گی کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہئے مگر اس طرح بھی وصیت ٹھوکر کا باعث ہوئی اور ایسا فتنہ پیدا ہوا جس نے جماعت کو تہ و بالا کر دیا.اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ سوائے معدودے چند لوگوں کے سب اس طرف ہو گئے کہ خلیفہ کو منتخب کرنا غلط تھا.مگر حضرت خلیفہ اول کی تقریر نے بتا دیا کہ یہ خیال غلط تھا اور خلیفہ کا انتخاب بالکل درست تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد جماعت پر روحانیت اور برکات کے نزول کا خاص وقت تھا اور یہ ممکن ہی نہیں کہ نبی کے فوت ہونے کے معاً بعد جماعت گمراہی اور ضلالت پر جمع ہو.کیا یہ ممکن ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے نبی کو اُٹھالیا اور جماعت سب سے زیادہ رحم کی مستحق ہو گئی اُس وقت خدا تعالیٰ جماعت کو گمراہ ہونے دے پس در حقیقت سچا فیصلہ وہی تھا جو جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے متعلق کیا.لیکن پھر بھی کچھ ایسے لوگ تھے اور اب تو ان میں اور بھی اضافہ ہو گیا جن کا خیال ہے کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہئے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت کے دوٹکڑے ہو گئے اور ایک ٹکڑہ پراگندہ ہو کر جماعت سے باہر چلا گیا.پراگندہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ اس میں کوئی اتحاد نہیں مگر ان میں ایسے لوگ شامل ہیں جو کسی وقت ( خطبات محمود جلده اصفحه ۱۷۴) 66 جماعت میں اہمیت رکھتے تھے.“

Page 39

خلافة على منهاج النبوة ۲۵ جلد سوم ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا نہ کرنے کی ہدایت ۲۱ رفروری ۱۹۳۰ء کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا :.صحابہ کو دیکھو.خلیفہ کے انتخاب کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سات آدمیوں کی ایک کمیٹی بنادی تھی.لیکن انہوں نے بھی آپس میں پرو پیگنڈ ا نہیں کیا.اس وقت میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ انہوں نے آپس میں کس طرح رائے کو پختہ کر لیا.باوجود یکہ پرو پیگنڈا بھی نہ کیا.مگر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس طرح پرو پیگنڈا جائز نہیں.اس لئے اگر کسی خاص شخص کی تائید میں کوئی شخص پرو پیگنڈا کر رہا ہو تو میں یہ کہوں گا کہ اس کی مخالفت کی جائے.لیکن یہ بات صرف جماعت کے لئے ہے.جب جماعت کسی فیصلہ پر پہنچ جائے تو پھر دوسروں میں اس کے متعلق پرو پیگنڈا ضرور ہونا چاہئے.کیونکہ اس کا اثر جماعت کی رائے پر نہیں بلکہ دوسروں کی رائے پر ہو گا لیکن اگر ثابت ہو جائے کہ جماعت میں کسی شخص کا دوست دشمن نہیں.کیونکہ ہوسکتا ہے کوئی دشمن کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے اس کے حق میں پرو پیگنڈا کر کے میرے ان الفاظ سے بھی فائدہ اُٹھانا چا ہے.اس لئے دشمن نہیں بلکہ اگر کسی دوست کی طرف سے پرو پیگنڈا ہورہا ہو تو اس کی مخالفت کی جائے.اس کے متعلق ایک ہدایت میں اور بھی دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ سمال ٹاؤن کمیٹی کا کام ابھی نیا نیا ہے اور نئے کا موں کو جاری رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ کام کرنے والوں کو کافی وقت دیا جائے.اس لئے اگر کسی ممبر پر کوئی خاص اعتراض نہ ہو تو میں یہی مشورہ دوں گا کہ موجودہ ممبران کو برقرار رکھا جائے تا انہیں کام کرنے کے لئے چھ سال کا موقع مل سکے.چھ سال کے بعد اگر بہتر آدمی ملے تو ضرور اسے منتخب کر لیا جائے.لیکن اب کے چاہے بہتر آدمی ملے پھر بھی اگر کسی ممبر کی ذات

Page 40

خلافة على منهاج النبوة ۲۶ جلد سوم میں کوئی خاص نقص نہ ہو جس کا اثر جماعت کے فوائد پر پڑتا ہو تو اسے ہی رہنے دینا چاہیے.تا انہیں کام کرنے کا موقع اور مل سکے.ابھی کام ابتدائی حالت میں تھا اور کمیٹی نے ٹیکس بھی وصول کرنے تھے.اور یہ قدرتی بات ہے کہ ایسی حالت میں کام کرنے والوں سے منافرت سی پیدا ہو جاتی ہے.لیکن وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ جماعت کے فائدہ کے لئے کرتے رہے ہیں.کیونکہ جب تک کسی قوم کو تمدنی حقوق نہ ملیں اور اس میں انہیں استعمال کرنے کی عادت نہ ہو جائے خاطر خواہ ترقی نہیں ہوسکتی.ٹیکس وغیرہ کا لگانا اور وصول کرنا جن لوگوں کے ذمہ ہوتا ہے وہ ہمیشہ نکو بن جایا کرتے ہیں.اور ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سختی کی.حالانکہ وہ جو کچھ کرتے ہیں شہر کے فائدہ اور آئندہ ممبروں کی سہولت کے لئے کرتے ہیں.اس ڈیوٹی کے لحاظ سے ان کے خلاف بعض باتیں ایسی ہو سکتی ہیں جن کی بنا پر ان کی مخالفت کا خیال پیدا ہو.لیکن ان کا خیال نہیں کرنا چاہئے.اگر موجودہ ممبروں میں سے کسی کا وجو د سلسلہ کے مفاد کے لحاظ سے نقصان رساں ہو تو اسے ضرور بدل دینا چاہئے.لیکن اگر ضرر کا سوال نہ ہو تو خواہ ان سے بہتر آدمی بھی مل سکیں تو بھی انکوا بھی نہیں ہٹانا چاہئے بلکہ کام کرنے کے لئے انہیں مزید موقع دینا چاہئے تا کہ وہ مفید عام کا م کر کے دکھا سکیں.الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۳۰ء ) 66

Page 41

خلافة على منهاج النبوة ۲۷ جلد سوم حقیقی اطاعت ۲۹ مارچ ۱۹۳۱ء کو ایک نکاح کا اعلان کرتے ہوئے یہ مضمون بیان فرمایا کہ اگر میاں بیوی محض اللہ کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے معاملہ کریں تو ان کے لئے رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور پھر ا براہیم کی اطاعت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.دو حقیقی اطاعت عبودیت تامہ کسی ایسی ذات کی نہیں ہوسکتی جو صحیح احکام نہ دے سکے.سوحقیقی اطاعت اسی کیلئے ہے جس کیلئے حقیقی حمد ہے اور وہ خدا تعالیٰ ہی ہے.پھر ظل کے طور پر جو اس کے مظہر ہوتے ہیں جیسے انبیاء اور خلفاء وغیرہ ان کی اطاعت کرنا بھی ضروری ہے.چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ل جو خدا اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ کامیاب ہو جائے گا.تو حمد کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے عبودیت کو رکھا اور اطاعت کے جواب میں فوز فرمایا.جس کا مطلب یہی ہے کہ اطاعت سے فوز اور حمد سے اطاعت پیدا ہوتی ہے.کامل حمد سے کامل اطاعت پیدا ہوگی اور کامل اطاعت کے بدلے فیضانِ الہی نازل ہوں گے.اس پر انسان اور حمد کرے گا اور خدا کے فضل زیادہ 66 سے زیادہ نازل ہوتے رہیں گے.“.الاحزاب : ۷۲ ( الفضل ۷ پریل ۱۹۳۱ء )

Page 42

خلافة على منهاج النبوة ۲۸ جلد سوم خلیفہ وقت کی مجلس میں بیٹھنے والوں کیلئے چند ضروری آداب (فرموده ۲۱ را پریل ۱۹۳۳ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.چونکہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھ رہی ہے اور نئے اور پرانے ہر قسم کے دوست قادیان میں آتے رہتے ہیں ، یہاں کے باشندوں کی تعداد بھی اب اتنی ہو چکی ہے کہ وہ اس بات کے محتاج ہیں کہ وقتا فوقتا ان کی تربیت کا خیال رکھا جائے.کیونکہ انہیں دینی کتب کے پڑھنے ، دینی باتیں سننے اور دینی تربیت حاصل کرنے کا بوجہ کثرت آبادی اتنا موقع نہیں ملتا جتنا پہلے ملا کرتا تھا ، اس لئے آج کا خطبہ میں اس امر کے متعلق پڑھنا چاہتا ہوں کہ جو دوست اس مجلس میں شامل ہوتے ہیں جس میں میں موجود ہوتا ہوں ، ان کو کیا طریق عمل اختیار کرنا چاہیے.پہلی بات جو ہمارے دوستوں کو مد نظر رکھنی چاہئے یہ ہے کہ مجھ سے ملنے والے نہ صرف احمدی ہوتے ہیں بلکہ غیر احمدی ، ہندو ،سکھ اور عیسائی ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں.پھر احمد یوں میں سے نئے بھی ہوتے ہیں اور پرانے بھی.سمجھدار طبقہ کے بھی ہوتے ہیں اور کم سمجھ کے بھی.واقف بھی ہوتے ہیں اور نا واقف بھی.ایسے لوگوں کی گفتگوئیں کبھی علمی رنگ کی ہوتی ہیں اور کبھی کج بحثی والی.کبھی ان میں تحقیق حق مد نظر ہوتی ہے اور کبھی محض چھیڑ خانی مقصد ہوتا ہے.مگر خواہ کوئی بھی مقصد و مدعا ہو ، دو باتیں ہیں جو ہماری جماعت کے ان لوگوں کو

Page 43

خلافة على منهاج النبوة ۲۹ جلد سوم جو اس مجلس میں موجود ہوں مد نظر رکھنی چاہئیں اور جو مجھے افسوس ہے کہ بعض اوقات دوستوں کے مدنظر نہیں رہتیں.اول تو یہ کہ جب کوئی کلام امام کی موجودگی میں کرتا ہے اور امام کو مخاطب کر کے کرتا ہے تو دوسروں کا حق نہیں ہوتا کہ وہ خود اس میں دخل دیں اور مخاطب کو خود اپنی طرف مخاطب کر کے اُس سے گفتگو شروع کر دیں.علاوہ اس کے کہ یہ عام آداب کے خلاف ہے، دشمن کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ امام خود جواب نہیں دے سکتا اور اس کے معتقدین کو ضرورت پیش آتی ہے کہ اس کے حملہ کو اپنے اوپر لے لیں.چنانچہ ایک دوست کی ایسی ہی سادگی کی وجہ سے ایک دفعہ مجھے یہ بات بھی سننی پڑی.کوئی صاحب اعتراض کر رہے تھے کہ ایک جو شیلے احمدی بول اُٹھے یہ بات تو بالکل صاف ہے، اس کا تو یہ مطلب ہے.آخر سوال کرنے والے نے چڑ کر کہا میں تو آپ کے امام سے مخاطب ہوں اگر وہ جواب نہیں دے سکتے تو میں آپ سے گفتگو شروع کر دیتا ہوں.یہ فقرہ اُس دوست نے اپنی سادگی یا بیوقوفی کی وجہ سے کہلوایا کیونکہ عام آداب کے یہ خلاف ہے کہ کسی کی گفتگو میں دخل دیا جائے.یہ محض اعصابی کمزوری کی علامت ہوتی ہے اور اس کے اتنے ہی معنی ہوتے ہیں کہ ایسا شخص اپنے جذبات کو دبا نہیں سکتا ہے.ایسی دخل اندازی اس کے علم پر دلالت نہیں کرتی بلکہ اس کی کمزوری اور کم فہمی پر دلالت کرتی ہے.پس ہمیشہ اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ جب امام کی مجلس میں امام سے گفتگو ہو رہی ہو تو سب کو خاموش ہو کر سامع کی حیثیت اختیار کرنی چاہئے اور کبھی اس میں دخل اندازی کر کے خود حصہ نہیں لینا چاہئے سوائے اس صورت کے کہ خود امام کی طرف سے کسی کو کلام کرنے کی ہدایت کی جائے.مثلاً بعض دفعہ کوئی ضروری کام آپڑتا ہے ، اس کے لئے مخاطب کرنا پڑتا ہے یا بعض دفعہ قرآن کی کسی آیت کی تلاش کیلئے اگر کوئی حافظ قرآن ہوں تو اُن سے آیت کا حوالہ پوچھنا پڑتا ہے یا ہوسکتا ہے کہ کسی کو عیسائیت کی کتب کے حوالہ جات بہت سے یاد ہوں اور ضرورت پر اس سے کلام کرنی پڑے.ایسی حالتوں میں سامعین میں سے بھی بعض شخص بول سکتے ہیں مگر عام حالات میں دخل اندازی بالکل نا واجب ہوتی ہے.ہماری شریعت نے ان تمام باتوں کا لحاظ رکھا ہے.چنانچہ خطبوں

Page 44

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم کے متعلق بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ اس دوران کلام نہیں کرنی چاہئے لی.غرض جب امام سے گفتگو ہو رہی ہو تو اس میں دخل نہیں دینا چاہئے.کیونکہ اس طرح یا تو بات ناقص اور ادھوری رہ جائے گی اور یا دشمن پر یہ اثر پڑے گا کہ شاید امام اس کا جواب نہیں دے سکتا اور معتقدین نے گھبرا کر اس حملہ کو اپنی طرف منتقل کر لیا ہے پس ایک تو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہئے.دوسرے اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ مخاطب اور مخاطب کا ایک تعلق ہوتا ہے.وہ آپس میں بعض دفعہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے ایک رنگ کی شدت کا پہلو بھی اختیار کر لیتے ہیں یا اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.ایسے موقع پر سامعین کو اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہئے اور دوسرے کی گفتگو پر ہنسنا نہیں چاہئے.کیونکہ گفتگو کا اصل مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ اُس شخص کو ہدایت حاصل ہو لیکن اگر گفتگو کے ضمن میں ایسا رنگ پیدا ہو جائے جس سے اس کے دل میں تعصب پیدا ہو جانے کا خطرہ ہو تو وہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا.میں نے دیکھا ہے نوجوان اور خصوصاً طالب علم ، اگر بعض دفعہ کوئی ایسا جواب دیا جا رہا ہو جو دوسرے کے کسی نقص کو نمایاں کرنے والا ہو تو ہنس پڑتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سائل سمجھتا ہے مجھے لوگوں کی نگاہ میں بیوقوف بنایا گیا اور ان کے ہنس پڑنے سے وہ خیال کرتا ہے کہ اس گفتگو کا مقصد مجھ پر بنی اُڑانا ہے بات سمجھانا مد نظر نہیں.اس وجہ سے اس کے اندر نفسانیت کا جذ بہ پیدا ہو جاتا اور حق کے قبول کرنے سے وہ محروم رہ جاتا ہے.پس جو لوگ ایسے موقع پر جبکہ امام کسی کو ہدایت دینے کی فکر میں ہوتا ہے ہنس پڑتے ہیں وہ دراصل اس شخص کو ہدایت سے محروم کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں.ان کے نزدیک بنی ایک معمولی چیز ہوتی ہے مگر جس پر ہنی اُڑائی جاتی ہے اس کے نزدیک خطر ناک حملہ ہوتا ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ اگر دوران گفتگو میں کوئی ایسا جواب دیا جائے جس سے ہنسی آسکتی ہو یا دوسرے کی کسی کمی کو نمایاں کر کے دکھا یا جائے تو وہ اپنے جذبات کو دبائے رکھیں.جواب دینے والا تو مجبور ہے کہ وہ ایسے نمایاں طور پر کسی کا نقص بیان کرے کہ اُسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے مگر ہننے والا اس مقصد پر پردہ ڈال دیتا اور سائل یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ان کا مقصد مجھے.

Page 45

خلافة على منهاج النبوة ۳۱ جلد سوم غلطی بتا نا نہیں بلکہ بیوقوف بنانا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحابہ کے متعلق ایک حدیث آتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں..اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ سوالات نہیں کرتے تھے ان سے زیادہ سوال کرنے والا ہمیں کوئی نظر نہیں آتا.حدیثیں ان کے سوالات سے بھری پڑی ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کلام کر رہے ہوتے تو وہ ہمہ تن گوش ہو جاتے اور یوں معلوم ہوتا کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اگر انہوں نے ذرا حرکت کی تو پرندے اُڑ جائیں گے.تیسری چیز جس کو مد نظر رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ جو لوگ چند دنوں کیلئے عارضی طور پر باہر سے یہاں آتے ہیں ان کو آگے بیٹھنے کا زیادہ موقع دینا چاہئے.میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ قادیان کے لوگ آگے نہ بیٹھا کریں بلکہ ان کے ایک حصہ کا آگے بیٹھنا ضروری ہوتا ہے اور دوسرے حصہ میں سے اگر کوئی شخص کوشش کر کے آگے بیٹھتا اور اس طرح اپنے حق کو مقدم کر لیتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے اس حق سے محروم کیا جائے.میں سمجھتا ہوں اگر کسی کو متواتر آگے بیٹھنے کا موقع ملتا رہے تو آخر میں وہ سست ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی شخص متواتر آگے بیٹھنے کے باوجود سُست نہیں ہوتا اور وہ ہمیشہ کوشش کر کے آگے جگہ حاصل کرتا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ محض اس وجہ سے کہ وہ ہمیشہ آگے بیٹھا کرتا ہے اُس کی محبت کو مسل دیا جائے اور اس کے جذبہ اخلاق کی قدر نہ کی جائے.پس ہم ایسے لوگوں کی محبت کی قدر کئے بغیر نہیں رہ سکتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا واقعہ ہے غرباء آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ! ہمیں ایک بڑی مشکل نظر آتی ہے.جب ہم جہاد کیلئے جاتے ہیں تو امراء بھی جہاد کے لئے چل پڑتے ہیں.جب روزوں کا وقت آتا ہے تو ہمارے ساتھ یہ بھی روزوں میں شریک ہو جاتے ہیں.جب نمازیں پڑھتے ہیں تو یہ بھی اخلاص سے نمازیں پڑھتے ہیں.مگر یا رسول اللہ ! جب چندہ دینے کا وقت آتا ہے تو ہم کچھ نہیں دے سکتے اور یہ سے آگے نکل جاتے ہیں.اس وجہ سے ہمیں بڑی تکلیف ہے اور ہماری سمجھ میں نہیں ا

Page 46

خلافة على منهاج النبوة ۳۲ جلد سوم آتا کہ مال کی وجہ سے انہیں جو فوقیت حاصل ہے اس کا ہم کیا جواب دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللهِ الْحَمدُ لِله اور چونتیس دفعہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو.یہ سو دفعہ ذکر الہی ہو جائے گا اور بڑے ثواب کا موجب ہوگا.انہوں نے بڑے شوق سے اس پر عمل شروع کر دیا.مگر چونکہ صحابہ میں سے ہر شخص نیکی کے حصول کے لئے کوشاں رہتا تھا امراء کا کوئی ایجنٹ بھی وہاں موجود تھا.اس نے انہیں جا کر بتا دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذکر بتایا ہے اور انہوں نے بھی پڑھنا شروع کر دیا.کچھ دنوں بعد پھر غرباء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ تو امراء نے بھی پڑھنا شروع کر دیا.ا آپ نے فرمایا جب خدا کسی پر اپنا فضل نازل کرنا شروع کر دے تو میں اسے کس طرح روک دوں سے.باوجود اس کے کہ دولت انسان کو اعمال میں سست کر دیتی ہے اگر وہ ست نہیں ہوتے بلکہ تقویٰ اور اخلاص میں بڑھ رہے ہیں تو میں انہیں نیکی سے کس طرح محروم کر سکتا ہوں.اسی طرح با وجود اس کے کہ متواتر صحبت انسان کو ست کر دیتی ہے اگر کوئی شخص اپنے اخلاص میں ترقی ہی کرتا چلا جاتا ہے تو کون ایسے شخص کو محروم کر سکتا ہے.پس میرا یہ منشاء نہیں کہ قادیان کے وہ مخلصین جو اپنے اوقات اور کاموں کا حرج کر کے اس مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے برکات کے وعدے کئے ہیں اور پھر اپنے امام کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں انہیں محروم کر دیا جائے.بلکہ میرا منشاء صرف یہ ہے کہ باہر سے آنے والوں کے حق کو نظر انداز نہ کیا جائے.اور اگر کبھی قادیان کے مخلصین باری باری اپنا حق بھی چھوڑ کر باہر کے لوگوں کو آگے بیٹھنے کا موقع دے دیا کریں تو میرے نزدیک یہ ان کے لئے ثواب کا موجب ہوگا.پھر ایک اور چیز بھی جس سے یہ موقع نکالا جاسکتا ہے بچوں کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ہے کہ وہ پیچھے رہیں گے.اس لحاظ سے سکولوں کے طالبعلم جو چھوٹی عمر کے ہوں اگر بعض دفعہ باہر سے آنے والے دوستوں کے لئے ان کو پیچھے بٹھا کر موقع نکالا جائے تو یہ بھی ایک طریق ہے جس سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے.مگر بچوں کے پیچھے بٹھانے کا بھی میں یہ مطلب نہیں سمجھتا کہ ان کے اندر

Page 47

خلافة على منهاج النبوة ۳۳ جلد سوم اخلاص کا جو جذ بہ پیدا ہورہا ہے اسے کچل دیا جائے.پچھلے دنوں یہ طریق نکالا گیا تھا کہ میرے آنے پر چونکہ ہجوم زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے قطار باندھ کر مصافحہ کیا جائے اور کسی کو آگے بڑھنے نہ دیا جائے.میں نے مستقل طور پر اسے کبھی پسند نہیں کیا کیونکہ جب جذبات کو دبا دیا جائے تو آہستہ آہستہ مُردنی پیدا ہو جاتی ہے.بچوں میں بھی اگر خلوص کے جذبات پیدا ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم انہیں دبا دیں.مگر یہ ایک ذریعہ ہے جس سے ہم دوسروں کے لئے موقع پیدا کر سکتے ہیں بچے اور رنگ میں بھی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور بوجہ قادیان میں مستقل رہنے کے ان کے لئے اور مواقع پیدا ہو سکتے ہیں.پس اگر باہر سے آنے والے لوگوں کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے ماتحت بچوں کو پیچھے رکھا جائے جبکہ اور موقعوں پر بھی وہ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں تو اس سے ان کے جذبات کو ٹھیس لگنے کا احتمال نہیں ہوسکتا.پھر ایک اور ہدایت اس موقع کے متعلق میں یہ دینا چاہتا ہوں کہ اسلام نے اجتماع کے موقعوں پر حفظانِ صحت کا خصوصیت سے خیال رکھا ہے.مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی.حفظانِ صحت کا خیال نہ صرف اپنی ذات کے لئے مفید ہوتا ہے بلکہ دوسروں پر بھی اس کا اچھا اثر پڑتا ہے.بعض لوگ مضبوط ہوتے ہیں اور کئی قسم کی بدعنوانیاں کرنے کے باوجود ان کی صحت میں نمایاں خرابی پیدا نہیں ہوتی.جس سے وہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ ان پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑا اس لئے دوسروں پر بھی کوئی خراب اثر ان کی وجہ سے پیدا نہیں ہوسکتا.حالانکہ دنیا میں سینکڑوں نہیں ہزاروں آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے اندر بیماریوں کے اثرات موجود ہوتے ہیں اور اپنی قوت کی وجہ سے وہ ان کا اثر محسوس نہیں کرتے مگر ان سے ملنے والے ان کے اثرات سے متاثر ہو جاتے ہیں.یہی وجہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ اور عیدین کے موقع پر فرمایا کہ نہا کر آؤ ، اچھے کپڑے پہن کر آؤ، خوشبو استعمال کرو اور ان امور کی تاکید کی.آپ خود ہمیشہ غسل کرتے اور دوسروں کو غسل کرنے کی تاکید فرماتے.خوشبو استعمال کرتے اور دوسروں کو خوشبو لگانے کی تاکید کر تے.حالانکہ جمعہ یا عیدین کے ساتھ منسل کی کوئی خصوصیت نہیں.ہر وقت انسان

Page 48

خلافة على منهاج النبوة ۳۴ جلد سوم.غسل کر سکتا ہے اور ہر وقت خوشبو استعمال کر سکتا ہے.جمعہ اور عیدین کے ساتھ منسل جو رکھا گیا ہے وہ محض اس لیے کہ ان موقعوں پر جبکہ اثر دہام ہوتا ہے کئی لوگوں کو جلدی بیماریاں ہوتی ہیں ، بعضوں کو کھجلی ہوتی ہے، بعضوں کو بغل گند کی شکایت ہوتی ہے ، بعضوں کے ہاتھ یا منہ وغیرہ میں بیماری ہوتی ہے مگر تازہ بتازہ غسل کے ساتھ کچھ عرصہ کے لئے اس قسم کی بیماریاں دب جاتی ہیں اور پاس بیٹھنے والے اتنی تکلیف محسوس نہیں کرتے جتنی دوسری صورت میں کر سکتے ہیں.یا مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسجد میں گندنا " پیاز اور لہسن وغیرہ ایسی چیزیں کھا کر مت آیا کرو.یہ چیزیں اپنی ذات میں مضر نہیں لیکن اِن کی بو سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کے کھانے سے فرشتے نہیں آتے.کے جس کے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی کو تکلیف دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے ملائکہ اس سے الگ ہو جاتے ہیں.یہ ایک مثال ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی.ورنہ اگر کسی کو کوئی ایسی بیماری ہے جس سے بُو پیدا ہوتی ہے اور وہ اس کا وقتی علاج کر کے بھی مجلس میں نہیں آتا تو وہ بھی فرشتوں کی معیت سے محروم رہتا ہے.عام طور پر میں دیکھتا ہوں ہمارے ملک میں پچانوے فیصدی لوگوں کے منہ سے بدبو آتی ہے یہ بدبو کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ محض اس بے اختیاطی کی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ کھانے کے بعد گلی نہیں کرتے یا درمیانی وقفوں میں اگر مٹھائی یا کوئی میوہ وغیرہ کھاتے ہیں تو اس کے بعد منہ کی صفائی نہیں کرتے یا لمبے عرصہ تک خاموش رہنے اور منہ بند ر کھنے کے بعد بھی منہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے.ایسے لوگ بھی صفائی کی طرف توجہ نہیں کرتے اور جب مجلس میں ایسے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے تو ہر ایک کی تھوڑی تھوڑی بُو مل کر ایسی تکلیف دہ چیز بن جاتی ہے کہ بیسیوں کمزور صحت والوں کو سر درد، نزلہ اور کھانسی وغیرہ کی شکایت ہو جاتی ہے.اسلام نے ہمارے لئے ہر بات کے متعلق احکام رکھے ہیں.یہ احکام بیکار اور فضول نہیں بلکہ نہایت ضروری ہیں اور انہی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے مجموعہ کا نام اسلامی تمدن ہے.اسلامی تمدن نماز کا نام نہیں ، روزے کا نام نہیں ، زکوۃ کا نام نہیں بلکہ ان چھوٹے چھوٹے احکام کے مجموعہ کا نام ہے جو ایسا تغیر پیدا کر دیتے ہیں کہ اس کی وجہ سے وہ سوسائٹی دوسری

Page 49

خلافة على منهاج النبوة ۳۵ جلد سوم سوسائٹیوں سے نمایاں اور ممتاز نظر آتی ہے.یورپین لوگ یوں تو صفائی کے بڑے پابند ہیں مگر کھانا کھانے کے بعد منہ کی صفائی کرنے کے وہ بھی عادی نہیں اور اس وجہ سے اگر ان کے اُن پوڈروں اور یو ڈی کلون وغیرہ خوشبوؤں کو نکال دیا جائے جو وہ اپنے چہروں پر ملتے ہیں تو صاف طور پر ان کے منہ سے بد بو محسوس ہوتی ہے.اب چونکہ انہیں ہندوستانیوں سے ملنے کا موقع ملا ہے اس لئے آہستہ آہستہ ان میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے اور مجھے بھی بعض انگریزوں سے ملنے کا موقع ملا ہے میں نے دیکھا ہے کہ اب مسلمانوں سے مل کر وہ صفائی کے اس پہلو کو بھی سیکھ رہے ہیں.غرض مجلس میں آنے والوں کو یہ امور مدنظر رکھنے چاہئیں.اگر کسی شخص کو بغل گند ہو یا اُس کے ہاتھوں کی انگلیاں خراب ہوں اوران میں ایسی بُو ہو جو دوسروں کو ناگوار گزرے تو اسے چاہیے کہ وہ ایسی صفائی کے بعد مجلس میں آئے جس سے اس کے اثر کو کم سے کم مضر بنایا جا سکے.یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج پیدا کیا ہے لیکن اگر کسی کو علاج میسر نہیں آتا تو وہ عارضی صفائی کے بعد مجلس میں آیا کرے.پھر مجلس میں ان چیزوں کے بعد ایک اور چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ جب لوگ بیٹھتے ہیں تو ایسا تنگ حلقہ بناتے ہیں کہ اس میں سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے.کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ مجلس میں زیادہ دیر بیٹھنے کو میرا جی چاہا مگر تنگ حلقہ کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر میں مجھے سر درد ہو گیا اور میں اُٹھنے پر مجبور ہو گیا اور بسا اوقات میں صحت کے ساتھ مجلس میں بیٹھتا ہوں اور بیمار ہو کر اُٹھتا ہوں.ہر شخص اپنے اخلاص میں یہ خیال کرتا ہے کہ اگر میں ایک انچ آگے بڑھ گیا تو کیا نقصان ہے اور اس طرح ہر شخص کے ایک ایک انچ بڑھنے سے وہی مثال ہو جاتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک شخص کو وہم کی بیماری تھی.وہ جب با جماعت نماز میں کھڑا ہوتا تو کہتا ” چار رکعت نماز فرض پیچھے اس امام کے اور پھر خیال کرتا کہ امام اور میرے درمیان تو کئی صفیں ہیں نیت ٹھیک نہیں ہوئی.یہ خیال کر کے وہ بڑھتے بڑھتے پہلی صف میں آجاتا اور امام کی طرف اشارہ کر کے کہتا پیچھے اس امام کے.آخر اس طرح بھی اس کی تسلی نہ ہوتی تو وہ امام کو ہاتھ لگا کر کہتا پیچھے اس امام کے.پھر بڑھتے بڑھتے اس کے وہم کی یہاں تک کیفیت ہو جاتی کہ وہ امام کو دھکے دینے لگ جاتا اور کہتا پیچھے اس

Page 50

خلافة على منهاج النبوة ۳۶ جلد سوم امام کے.ہر شخص مجلس میں آگے آنا چاہتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میرے ذرا سا آگے بڑھنے سے کیا نقصان ہو جائیگا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حلقہ نہایت ہی تنگ ہو جاتا ہے اور صحت پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے.مگر علاوہ اس کے کہ صحت کے لئے یہ مفید بات نہیں اس کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ زیادہ آدمی اس حلقہ سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.مجھے ایسے حلقہ میں سخت تکلیف ہوتی ہے کیونکہ مجھے گلے اور آنکھوں کی ہمیشہ تکلیف رہتی ہے.پھر یہ حلقہ تو بڑی بات ہے میری تو یہ حالت ہے کہ اگر لیمپ کی بتی خفیف سی بھی اونچی رہے اور اس سے ایسا دھواں نکلے جو نظر بھی نہ آسکتا ہو تو مجھے شدید کھانسی اور نزلہ ہو جاتا ہے.ناک کی حس اللہ تعالیٰ نے میری ایسی تیز بنائی ہے کہ میں دوسرے لوگوں کی نسبت کئی گنے زیادہ بُو یا خوشبو محسوس کر لیتا ہوں.یہاں تک کہ جانوروں کے دودھ سے پہچان لیتا ہوں کہ انہوں نے کیا چارہ کھایا ہے.جس شخص کے ناک کی جس اتنی شدید واقع ہو وہ اس قسم کی باتوں سے بہت زیادہ تکلیف محسوس کرتا ہے.ایک اور ادب مجلس کا یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے مجلس کو مفید بنانا چاہیے.اور خصوصاً جو باہر سے دوست آئیں انہیں چاہیے کہ اپنی مشکلات پیش کر کے میرے خیالات معلوم کر نے کی کوشش کیا کریں.بہت لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ بے ادبی ہے مگر میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ بے ادبی نہیں بلکہ مجلس کو مفید بنانا ہے.میں نے دیکھا ہے بسا اوقات مجلس میں دوست خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور میں بھی خاموش بیٹھا رہتا ہوں.میری اپنی طبیعت ایسی ہے کہ میں گفتگو شروع نہیں کر سکتا.اس مقام کے لحاظ سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فر مایا ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ بولوں مگر طبیعت کی اُفتاد ایسی ہے کہ کوشش کے با وجود میں کلام شروع نہیں کر سکتا اور جب کوئی شخص سوال کرے تبھی میرے لئے گفتگو کا راستہ کھلتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جو دوست باہر سے آیا کرتے تھے وہ مشکل مسائل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پوچھا کرتے اور اس طرح گفتگو کا موقع ملتا رہتا تھا اور بعض دوست تو عادتاً بھی کر لیا کرتے اور جب بھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں بیٹھتے کوئی نہ کوئی سوال پیش کر دیا کرتے.مجھے ان میں سے دو شخص جو اس کام کو خصوصیت سے کیا کرتے تھے اچھی طرح یاد ہیں.ایک

Page 51

خلافة على منهاج النبوة ۳۷ جلد سوم میاں معراج دین صاحب عمر جو آجکل قادیان میں ہی رہتے ہیں اور دوسرے میاں رجب الدین صاحب جو خواجہ کمال الدین صاحب کے خسر تھے.مجھے یاد ہے مجلس میں بیٹھتے ہی یہ سوال کر دیا کرتے کہ حضور فلاں مسئلہ کس طرح ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مسئلہ پر تقریر شروع فرما دیتے تو جو دوست باہر سے آتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے مطالب پیش کرنے کے علاوہ مشکل مسائل دریافت کیا کریں تا کہ مجلس زیادہ سے زیادہ مفید ہو اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے.میں نے بتایا ہے کہ اول تو میری عادت ہے کہ میں گفتگو شروع نہیں کر سکتا.لیکن اگر میں کبھی نفس پر زور دے کر گفتگو شروع بھی کر دوں تو بھی مجھے کیا معلوم ہوسکتا ہے کہ کسی کو کیا مشکلات درپیش ہیں.گوایسا بھی ہوتا ہے کہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ القاء اور الہام کے ذریعہ زبان پر ایسی گفتگو جاری کر دیتا ہے کہ جو اُس وقت کی مجلس کے مطابق ہو.مگر پھر بھی کئی خیالات ایسے ہو سکتے ہیں جن کے متعلق کوئی شخص چاہتا ہو کہ وہ مجھ سے ہدایت لے لیکن سوال نہ کرنے کی وجہ سے وہ اس سے محروم رہے.پس باہر سے آنے والوں کو چاہئے کہ وہ اس تبلیغی زمانہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے سوالات پوچھا کریں جن کے جوابات سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچے.مگر ایک چیز ہے جس کا خیال رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ بعض لوگ سوال تو کرتے ہیں مگر ان کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ مجھ سے کچھ سنیں بلکہ یہ ہوتی ہے کہ اپنی سنائیں.بعض مبلغین میں بھی یہ عادت پائی جاتی ہے.جب وہ میرے پاس آتے ہیں تو وہ شروع سے آخر تک مباحثہ کی روئید ا د سنانا شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں اس نے یہ اعتراض کیا میں نے یہ جواب دیا.اس نے فلاں اعتراض کیا میں نے فلاں جواب دیا.اور اس ذریعہ سے وہ اپنی گفتگو کو اتنا لمبالے جاتے ہیں کہ وہ ملال پیدا کرنے والا طول بن جاتا ہے اور پھر لوگوں کو بھی غصہ آتا ہے کہ یہ اپنی بات کیوں ختم نہیں کرتے.جو لوگ میرے پاس آتے ہیں ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مجھ سے کچھ سنیں یہ نہیں ہوتی کہ دوسروں کی سنیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی طرف سے خلاف آداب حرکات سرزد ہو جاتی ہیں.مثلاً یہی کہ کہتے ہیں جزاک اللہ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بس کریں اب ہم سے زیادہ باتیں نہیں سنی جاتیں.مگر وہ بھی اپنی طبیعت کے ایسے پختہ ہوتے

Page 52

خلافة على منهاج النبوة ۳۸ جلد سوم ہیں کہ جزاک اللہ پر خوش ہو کر اور زیادہ باتیں سنانے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ یہ جَزَاكَ الله تعریف کے لئے نہیں بلکہ گفتگو بند کرانے کے لئے کہا گیا ہے.پس یہ ایک مرض پیدا ہو رہا ہے جس کی طرف میں توجہ دلاتا ہوں لوگ میری وجہ سے یہ تو دوسرے کو نہیں کہہ سکتے کہ چُپ کرو اور میں بھی حیا کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکتا نتیجہ ہوتا ہے کہ ایسے اشاروں میں انہیں بات کہی جاتی ہے جو گرے ہوئے اخلاق پر دلالت کرتے ہیں.انہیں چاہئے کہ وہ بجائے اس کے کہ اپنی گفتگو سنائیں جو وہ پوچھنا چاہتے ہوں پوچھیں.پچھلے ایام میں میں ایک جگہ گیا وہاں بہت سے دوست میرے ملنے کے لئے جمع ہو گئے.مگر دو گھنٹہ تک ایک شخص مجھے اپنا مباحثہ ہی سناتا رہا اور آخر رات کے ساڑھے گیارہ بجے کے قریب اُس کی گفتگو ختم ہوئی.مگر اُس وقت اتنا وقت گزر چکا تھا کہ میں بھی اُٹھ کھڑا ہوا اور دوست بھی جو میری باتیں سننے کے لئے آئے تھے چلے گئے.وہ اس سارے عرصہ میں یہی سناتے رہے کہ اس نے یوں کہا میں نے یوں جواب دیا پھر اس نے یہ کہا میں نے یہ کہا.حالانکہ مباحثات کی تفصیل کی مجھے ضرورت ہی نہیں ہوتی اور گو دوسروں کو ضرورت ہو بھی مگر وہ محبت اور اخلاص کی وجہ سے میری باتیں سننے کے مشتاق ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے باتیں سننے کے لئے کافی اوقات ہیں.پس گفتگو ایسے رنگ میں ہونی چاہئے کہ دوستوں کا اصل مقصد یعنی یہ کہ وہ میری باتیں سننے کے لئے آتے ہیں کسی طرح فوت نہ ہو جائے اور وقت ضائع نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو ایسا بنایا ہے کہ لمبی چوڑی فلسفیانہ تقریریں اُس پر وہ اثر پیدا نہیں کرتیں جو اخلاص سے کہی ہوئی ایک چھوٹی سی بات کر جاتی ہے.گھروں میں روزانہ دیکھا جاتا ہے بعض اوقات بچہ ضد میں آکر ایک بات نہیں مانتا ، ہزاروں دلائل دو وہ کچھ نہیں سنتا لیکن جب ماں کہے بیٹا یوں کرنا اچھا نہیں ہوتا تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے.اس پر غیر کی زبردست دلیلیں اثر نہیں کرتیں مگر ماں کا یہ فقرہ کہ ایسا کرنا اچھا نہیں ہوتا فوراً اثر کر جاتا ہے.اسی طرح لوگوں کے سامنے اخلاص ہوتا ہے وہ دوسروں کی فلسفیانہ تقریریں سننا پسند نہیں کرتے بلکہ اپنے امام کے منہ سے چند سادہ کلمات سننا چاہتے ہیں اور یہ محبت کے کرشمے ہیں.جب تک اور جس سے اخلاص اور محبت ہو گی اُس

Page 53

خلافة على منهاج النبوة ۳۹ جلد سوم کی سادہ بات بہ نسبت دوسروں کی لمبی فلسفیانہ تقریر کے بڑا اثر کرے گی.پس مجلس کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے.پھر یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ میری مجلس میں جیسا کہ میں بنا چکا ہوں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں عالم بھی آتے ہیں اور جاہل بھی اور بعض دفعہ پاگل بھی آتے ہیں.چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ایک پاگل شخص آیا ہے اور اس نے مجھے اپنی باتیں سنانی شروع کر دیں.میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے اور وہ یہ کہ خاموشی سے وقت گزار دیا جائے.مگر دوسرے لوگ چونکہ اس امر کو نہیں سمجھتے اس لئے بعض دفعہ وہ بیچ میں آکو دتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری مدد کی ضرورت ہے.یہ دماغی خلل والے کئی لوگ میرے پاس آتے ہیں اور اس قسم کے سوال کرتے ہیں جن کے متعلق وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ معقول ہیں مگر میں اُن کی دماغی حالت کو جانتا ہوں.پس میں مختصر جواب دے دیتا ہوں یا خاموش رہتا ہوں اور جب وہ تکرار کرتے ہیں تو میں کہتا ہوں میں نے سن لیا اس پر غور کروں گا.مگر ناواقف آدمی دخل دے دیتا ہے اور اس طرح بات کو خراب کر دیتا ہے.اسی طرح میں سمجھتا ہوں ایک مصافحوں والا معاملہ بھی ہے.باہر سے آنے والے دوست جن کو یہاں آنے کا بار بار موقع نہیں ملتا یا جمعہ کے موقع پر جبکہ مقامی لوگوں میں سے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ہفتہ بھر ملنے کا اور کوئی موقع نہیں ملا ہوتا مجھ سے مصافحہ کرتے ہیں اور ان کے لئے مصافحہ کی معقولیت میری سمجھ میں آسکتی ہے.کیونکہ مصافحہ قلوب میں وابستگی اور پیوستگی پیدا کرتا ہے اور یہ معمولی چیز نہیں.بلکہ احادیث سے ثابت ہے کہ عیدین وغیرہ مواقع پر صحابہ خصوصیت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مصافحہ کیا کرتے.مگر مجھے شبہ ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر نماز کے وقت مصافحہ کرنا دینی ضرورتوں میں سے کوئی ضرورت ہے.بعض لوگ محبت میں گداز ہوتے ہیں میں اُن کو الگ کرتا ہوں کیونکہ ان پر کوئی قانون جاری نہیں ہو سکتا.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں سارا سارا دن اُس کھڑکی کے سامنے بیٹھے رہتے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام باہر آیا کرتے تھے.اور جب باہر آتے تو وہ آپ سے مصافحہ کرتے

Page 54

جلد سوم خلافة على منهاج النبوة حسین یا آپ کے کپڑوں کو ہی چھولیتے.ایسے لوگ محبت کی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں.مگر مجھے شبہ ہے کہ بعض لوگ دوسروں کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہر وقت مصافحہ کرنا ضروری ہے.مصافحہ کا اصل وقت تو وہ ہوتا ہے جب کوئی شخص باہر جا رہا ہو یا باہر سے آیا ہو.یا سا تو میں آٹھویں دن اس لئے مصافحہ کرے کہ تا دعاؤں میں اسے یا درکھا جائے اور اس کا تعارف قائم رہے یا کسی بیمار نے بیماری سے شفا پائی ہو تو وہ یہ بتانے کیلئے مصافحہ کرے کہ اب وہ اچھا ہو گیا ہے یہ اور چیز ہے مگر ہالالتزام بغیر اس کے کہ نفس اس مقام پر پہنچا ہوا ہو کہ انسان مصافحہ کرنے پر مجبور ہو جائے دوسروں کو دیکھ کر یہ کام کرنا کوئی پسندیدہ امر نہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں قاضی سید امیرح صاحب مرحوم کو جو میرے استاد بھی تھے بوجہ اس کے کہ وہ اہلحدیث میں سے آئے تھے بعض مسائل میں اختلاف تھا.ایک دفعہ یہ سوال زیر بحث تھا کہ مجلس میں کسی بڑے آدمی کے آنے پر کھڑا ہونا جائز ہے یا نہیں قاضی سید امیر حسین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یہ شرک ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے.آخر یہ جھگڑا اتنا طول پکڑ گیا کہ اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے پیش کیا گیا.اُس وقت یہ سوال ایک رقعہ پر لکھا گیا اور میں رقعہ لے کر اندر گیا.اُس وقت اگر چہ میں طالب علم تھا مگر چونکہ مذہبی باتوں سے مجھے بچپن ہی سے دلچسپی رہی ہے اس لئے میں ہی وہ رقعہ اندر لے گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کے جواب میں زبانی کہا یا تحریر کیا مجھے اچھی طرح یاد نہیں خیال یہی آتا ہے کہ آپ نے تحریر فرمایا کہ دیکھو وفات کے موقع پر کوئی ایسی حرکت کرنا جیسے دو ہتر مارنا شریعت نے سخت ناجائز قرار دیا ہے لیکن جہاں تک مجھے خیال ہے روایت تو صحیح یا دنہیں آپ نے غالباً حضرت عائشہ کا ذکر کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر انہوں نے بے اختیار اپنے سینہ پر ہاتھ مارا یہ روایت لکھ کر آپ نے تحریر فرمایا کہ ایک چیز ہوتی ہے تکلف اور بناوٹ اور ایک چیز ہوتی ہے جذبہ بے اختیاری.جوامر جذبہ بے اختیاری کے ماتحت ہو اور ایسا نہ ہو جو نص صریح سے ممنوع ہو بعض حالتوں میں وہ جائز ہوتا ہے اور وہاں یہ دیکھا جائے گا کہ یہ فعل کرنے والے نے کس رنگ میں کیا.سجدہ

Page 55

خلافة على منهاج النبوة ۴۱ جلد سوم تو بہر حال منع ہے خواہ کسی جذبہ کے ماتحت ہو مگر بعض افعال ایسے ہوتے ہیں کہ وہ بعض صورتوں میں تکلف اور بعض صورتوں میں جذبہ بے اختیاری کے ماتحت صادر ہوتے ہیں.اس کے بعد آپ نے تحریر فر مایا کہ اگر کوئی شخص اس لئے کھڑا ہوتا ہے کہ ایک بڑے آدمی کے آنے پر چونکہ باقی لوگ کھڑے ہیں اس لئے میں بھی کھڑا ہو جاؤں تو وہ گنہگار ہو گا.مگر وہ جو بے قرار ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے جیسے معشوق جب عاشق کے سامنے آئے تو وہ اس کے لئے کھڑا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ، اس پر گرفت نہیں.قاضی سید امیرحسین صاحب مرحوم نہایت ہی مخلص احمدی تھے.میں نے ان سے بہت عرصہ پڑھا ہے وہ احمدیت کے متعلق اپنے اندر عشق کا جذبہ رکھتے تھے.مجھے یاد ہے میری خلافت کے ایام میں ایک دفعہ جب میں مسجد میں آیا تو قاضی صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے میں نے کہا قاضی صاحب ! آپ تو کسی کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا شرک قرار دیا کرتے تھے کہنے لگے.” کی کراں میں سمجھدا تے ایہی ہاں پر دیکھدے ہی کچھ ہو جاندا اے رہیا جاندا ہی نہیں.یعنی کیا کروں میں سمجھتا تو یہی ہوں لیکن آپ کو دیکھ کر ایسا جذ بہ طاری ہوتا ہے کہ میں بیٹھا نہیں رہ سکتا.تو حالات کے مختلف ہونے اور جذبات کی بے اختیاری کی وجہ سے حکم بدلتے رہتے ہیں.میں سمجھتا ہوں مصافحہ بھی اسی رنگ کی چیز ہے.جب مصافحہ رسم ورواج کے ماتحت ہویا دکھاوے کے طور پر یا اس لئے ہو کہ شاید یہ شرعی احکام میں سے ہے یا اخلاص کے اظہار کا یہ بھی کوئی ذریعہ ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.لیکن جب کوئی دیر سے ملتا ہے اور چاہتا ہے کہ بتلائے کہ میں آگیا ہوں یا بیمار چاہتا ہے کہ میں بتاؤں مجھے صحت ہوگئی ہے یا کوئی اس لئے مصافحہ کرتا ہے کہ تا دعاؤں میں وہ یا درہ سکے تو ایسے موقعوں پر مصافحہ ایک نہایت ہی مفید مقصد کو پورا کر رہا ہوتا ہے.مگر دوسرے اوقات میں وہ بعض دفعہ وقت کو ضائع کرنے والا بھی ہو جاتا ہے.یہ چند باتیں ہیں جو میں نے کہی ہیں اور کچھ باتیں اس وقت بھول بھی گئی ہیں اور بعض ممکن ہے ابھی اور بھی بیان کرنے والی ہوں ، انہیں پھر بیان کر دوں گا.لیکن یہ تمام باتیں اپنی اپنی جگہ بہت سے مفید مقاصد رکھتی ہیں جماعت کو چاہئے کہ انہیں مدنظر رکھے.مجالس کو کھلا رکھنا چاہیے ، قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضروری ادب ہے اور اس کے بہت سے فائدے

Page 56

خلافة على منهاج النبوة ۴۲ جلد سوم ہیں.یہی فائدہ نہیں کہ دوسروں کو جگہ مل جائے گی اور صحت پر اس کا خوشگوار اثر پڑے گا بلکہ اور بھی بار یک روحانی مطالب پر مشتمل فوائد ہیں اور یہ مختصر خطبہ ان کا حامل نہیں ہوسکتا.اسی طرح کھڑکیوں کو کھلا رکھنا چاہئے.جسم اور گھروں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہئے.اور مجلس میں خوشبو لگا کر آنا چاہئے.بد بودار چیزیں کھا کر اجتماع کے موقعوں پر نہیں آنا چاہئے.اور بد بودار چیزیں ہی نہیں اگر کسی کو کوئی بغل گند وغیرہ کی بیماری ہو تو اچھی طرح صفائی کر کے آئے.مجلس کو مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہیے.مشکل مسائل درپیش ہوں تو ان کے متعلق سوال کرنا چاہئے.جب گفتگو ہورہی ہو تو اُس وقت دخل نہیں دینا چاہئے اور کسی کی غلطی معلوم کر کے اس پر ہنسنا نہیں چاہیے.ان باتوں پر عمل کرنے سے مجلس میں برکت ہوتی، تعلقات مضبوط ہوتے اور فائدہ زیادہ ہوتا ہے.لیکن اگر یہ باتیں نہ ہوں تو صحت کے خراب ہونے کے خیال سے یا وقت کے ضائع ہونے کے خطرہ سے طبیعت میں اس امر پر بشاشت پیدا نہیں ہوتی کہ مجلس میں بیٹھا جائے.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست آئندہ مجالس میں ان امور کو مدنظر رکھیں گے.“ خطبات محمود جلد ۴ صفحه ۹۴ تا ۱۰۹) بخارى كتاب الجمعة باب الانصات يوم الجمعة صفحه ۱۵۰ حدیث نمبر ۹۳۴ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية بخاری کتاب الجهاد باب فضل النفقة فی سبیل الله صفحه ۴۷۱،۴۷ حدیث نمبر ۴۲ ۲۸ مطبوعه رياض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية مسلم کتاب المساجد باب استحباب الذكر بعد الصلوة و بيان صفته صفحه ۲۴۱ حدیث نمبر ۱۳۴۷ مطبوعہ ریاض ۲۰۰۰ء الطبعة الثانية ابوداؤد کتاب الصلوة باب مقام الصبيان من الصف صفحہ ۱۰۷ حدیث نمبر ۶۷۷ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ ء الطبعة الأولى بخاری کتاب الجمعة باب الدهن للجمعة صفحه ۱۴۲ حدیث نمبر ۸۸۳ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء، الطبعة الثانية گندنا: ایک ترکاری کا نام جو ہسن سے مشابہ ہوتی ہے.( علمی اُردو لغت صفحه ۱۲۴۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۹۶ء مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلواة باب فهى من اكل ثوماً او بصلاً صفحه ۲۲۸ حدیث نمبر ۱۲۵۲ مطبوعہ ریاض ۲۰۰۰ء الطبعة الثانية طبقات ابن سعد جلد ۲ صفحه ۲۶۲ دار صادر بیرود

Page 57

خلافة على منهاج النبوة ۴۳ جلد سوم نظام سلسلہ کی پابندی کے بغیر ترقی محال ہے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے ۲ جون ۱۹۳۳ء کو خطبہ ارشادفرمایا جس میں نظام سلسلہ کی پابندی کے بغیر ترقی محال ہے کا ذکر کرتے ہوئے خلیفہ وقت کی اطاعت کے بارہ میں فرمایا.خلیفہ وقت کے ایک حکم کا انکار بھی انسان کو جماعت سے خارج کر دیتا ہے مگر یہاں یہ حالت ہے کہ خلیفہ تین مرتبہ ایک بات کو دُہراتا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، میں اس کی اجازت نہیں دیتا مگر وہی بات کر لی جاتی ہے.پھر یہ بیوقوف کہتے ہیں ناظر امور عامہ ظالم ہے کہ اُس نے سزا دی حالانکہ اگر ان کے اندر غیرت ہوتی اور واقعہ میں ان کے دلوں میں ایمان ہوتا تو بجائے اس کے کہ امور عامہ یہ سزا دیتا ، انہیں خود ایسے لوگوں کو سزا دینی چاہیے تھی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے.ایک دفعہ کسی منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا ہو گیا.وہ دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ فرمایا یا جو فرمانے لگے اُس منافق نے سمجھا کہ یہ میرے خلاف ہو گا تب اس نے یہودی سے کہا بہتر ہے کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلیں اور وہاں سے فیصلہ کرائیں.وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر پہنچے اور کہا ہمارا فیصلہ کر دیجئے.گفتگو کے دوران میں یہودی نے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوا.آپ نے کہا اچھا یہ بات ہے.میں ابھی آتا ہوں یہ کہہ کر گھر میں گئے تلوار لی اور باہر آ کر اُس منافق کی گردن اڑادی اور کہا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ منظور نہیں اُس کا فیصلہ یہ ہےلے تو بجائے اسکے کہ امور عامہ سزا تجویز کرتا ، اگر ان لوگوں کے دلوں میں ایمان ہوتا تو چاہئے تھا کہ خود سزا دیتے.یہ نہیں کہ ان لوگوں کو اس سے انکار ہو کہ میں نے انہیں منع نہیں کیا.انہوں نے خود اپنے بیان میں اس امر کو تسلیم کیا ہے

Page 58

خلافة على منهاج النبوة ۴۴ جلد سوم کہ ہم نے تین دفعہ پوچھا مگر تینوں دفعہ ہمیں روکا گیا لیکن باوجود اس کے نکاح کر دیا گیا.اس پر جب سزا دی گئی تو میں نے پانچ پانچ صفحوں کے بعض لوگوں کے خطوط پڑھے جن میں ایسی ایسی دلالیاں کی گئی ہیں کہ دلا لہ جو عرب میں مشہور ہے اُس نے بھی نہیں کی ہوں گی.ایک شور مچا رکھا ہے کہ ظلم ہو گیا ، اندھیر نگری اور چوپٹ راجہ والی مثال بن گئی.قادیان کے مخلصین ، مجاہدین اور مہاجرین جو سلسلہ کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں اور اپنے اخلاص اور تقویٰ میں بے نظیر ہیں ان کی کوئی بات سنی نہیں جاتی.بغیر سوچے سمجھے دباؤ ڈالا جاتا اور ہر طرح اپنی حکومت جتائی جاتی ہے.میں ایسے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ فرمانبرداری کس جانور کا نام ہے.تین دفعہ فیصلہ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ نکاح نہ ہو مگر دو چار بے وقوف اور دو چار لونڈے سمال ٹاؤن کمیٹی کے دفتر میں نکاح پڑھ دیتے ہیں.کیا قادیان کے نکاح اسی طرح ہوا کرتے ہیں؟ میں ان جو فروش گندم نما احمدی کہلانے والوں سے پوچھتا ہوں کہ وہ جو سزا دیے جانے پر پانچ پانچ صفحے کے مجھے خط لکھتے ہیں کہ کتنا ظلم اور اندھیر ہو گیا کیا وہ خط ان کی فرمانبرداری اور اطاعت کی روح پر دلالت کرتے ہیں یا اس بات پر کہ ان کے اندر اطاعت کی روح ہی نہیں ؟ وہ لوگ جنہوں نے براہِ راست نافرمانی کی انہوں نے تو ممکن ہے کسی معذوری کے ماتحت ایسا کیا ہو.ممکن ہے جس کے پاس لڑکی رہتی ہو اس نے چاہا ہو کہ میں جلدی اس کے بوجھ سے فارغ ہو جاؤں.اور ممکن ہے لڑکے نے یہ خیال کیا ہو کہ مجھے اور رشتہ تو ملتا نہیں چلو اسی سے نکاح کرلوں بعد میں معافی مانگ لوں گا.مگر یہ خط لکھنے والے وہ ہیں جن کا اس نکاح سے کوئی بھی واسطہ اور تعلق نہیں اور محض پرائے شگون میں ناک کٹا کر اپنے آپ کو جہنم میں گرا رہے ہیں.بظاہر وہ خطوط میں اپنا انتقاء بھی ظاہر کرتے ہیں مگر ان کا انقاء ایسا ہی ہے جیسے عبد اللہ بن ابی بن سلول بنو قینقاع اور بنو نضیر کے معاملہ میں ظاہر کرتا تھا.وہ بھی یہی کہتا تھا کہ رحم رحم مگر کیا قرآن نے اسے رحیم قرار دیا.قرآن مجید ا سے رحیم نہیں بلکہ منافق قرار دیتا ہے.اگر نظام سلسلہ کو اس رنگ میں چلا یا جائے اور اس قسم کے احمقوں کی بات کو مان لیا جائے تو وہی بے لگامی احمدیت میں آجائے جو اس وقت دوسروں میں ہے.

Page 59

خلافة على منهاج النبوة ۴۵ جلد سوم پس گو میں کئی دفعہ جماعت کے لوگوں کو توجہ دلا چکا ہوں کہ اگر انہوں نے بیعت کی ہے تو اس کے کوئی معنی ہونے چاہئیں ، کوئی قیمت ہونی چاہئے ، چاہے دھیلہ اور دمڑی ہی کیوں نہ ہو.مگر اس قسم کی بیعت کی کہ منہ سے بیعت کا اقرار کیا جائے اور اطاعت کے معاملہ میں خلیفہ وقت کی صریح نافرمانی کی جائے ایک دمڑی بھی قیمت نہیں.مگر اب میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ کمزور سے کمزور ایمان والوں کی بیعت کی بھی کچھ نہ کچھ قیمت ہوتی ہے.چاہے وہ کوڑی ہی ہولیکن اس قسم کی نا معقول حرکت کے بعد تو بیعت کی کوڑی بھر بھی قیمت نہیں رہتی اور یہ اطاعت کا اقرار نہیں بلکہ دھوکا بازی اور فریب ہے جسے کوئی بھی دنیا میں وقعت دینے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا.انسانوں کے سامنے ایسا آدمی ممکن ہے متقی بن جائے اور حقیقت سے نا واقف انسان اسے دیکھ کر کہے کہ کیا ہی متقی شخص ہے مگر خدا کے حضور وہ متقیوں کی فہرست میں نہیں ہوسکتا.اور ایسا شخص جو ان حالات میں دوسرے پر رحم کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اگر خود اسے کسی دفتر کا چپڑاسی بھی بنا دیا جائے تو وہ ساری دنیا کی گردنیں کاٹنے لگ جائے اور کہے کہ چپڑاسی کی یہ لوگ کیوں بات نہیں مانتے.میں دیکھتا ہوں کہ اس قسم کے خطوط لکھنے والے اگر مدرس ہیں تو چھوٹے چھوٹے طالب علموں کے متعلق ایسے ایسے بغض نکالتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.دکاندار ہیں تو وہ اپنے معاملات میں اتنے بغیض ہوتے ہیں کہ گویا خدا کی خدائی بھی انکی حکومت کے آگے بیچ ہے.مگر کوئی سلسلہ کے نظام کے خلاف بغاوت کرے تو اُس وقت یہ لوگ کو دکر سب سے آگے آجائیں گے اور کہیں گے رحم کریں ، رحم کریں.میں سمجھتا ہوں کبھی کوئی جماعت منافقوں سے خالی نہیں ہوئی.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت منافق موجود تھے تو اب بھی ہونے چاہئیں.مگر عموماً اس قسم کے لوگوں کا ذکر نہیں کیا جاتا.ہاں مومنوں کو بیدار کرنے کے لئے کبھی کبھی یہ باتیں بتائی جاتی ہیں.چونکہ ان کی باتیں سننے والا یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ جسے سزا دی گئی وہ ہمارا ایک بھائی ہے ، اس لئے وہ کہہ دیتا ہے کہ کتنا ظلم ہو گیا.حالانکہ منافق جب لوگوں سے باتیں کرتے ہیں تو انہیں یہ نہیں بتاتے کہ خلیفہ وقت سے تین دفعہ پوچھا گیا اور تینوں دفعہ انکار کے باوجود چند لفنگوں اور بدمعاشوں کو اکٹھا کر کے نکاح پڑھوا دیا گیا.بلکہ وہ کہتے ہیں تو یہ کہ ہمیں یہ پتہ

Page 60

خلافة على منهاج النبوة ۴۶ جلد سوم نہیں تھا کہ مسجد مبارک میں نکاح ہونا ضروری ہے اور اگر کسی اور جگہ نکاح پڑھوائیں گے تو ہمارا بائیکاٹ کر دیا جائے گا.وہ تین دفعہ کے انکار کا ذکر نہیں کرتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ سزا صرف اس لئے دی گئی ہے کہ کیوں یہ نکاح مسجد مبارک میں نہیں ہوا ؟ یہ سننے والا جھٹ کہہ اُٹھتا ہے کتنا بڑا ظلم ہے.شریعت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ہر نکاح مسجد مبارک میں ہی ہو یا کیا جماعت کے ذمہ دار افسروں کی طرف سے اعلان ہوا ہے کہ نکاح ہمیشہ مسجد مبارک میں ہی پڑھے جایا کریں ؟ تب سننے والا کہتا ہے یہاں کے لوگ کتنے ظالم اور سیاہ دل ہو گئے کہ مسجد مبارک میں نکاح نہیں ہوا تو محض اس بناء پر بائیکاٹ کر دیا گیا.منافق کھا جائیں گے اس بات کو کہ مجلس شوری میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ قادیان کے نکاح اور باہر کے بھی ایک مقرر شدہ فارم کی خانہ پری اور اس کی تصدیق کے بعد پڑھے جائیں مگر ایسا نہیں کیا گیا.وہ اس بات کو بھی کھا جائیں گے کہ تین دفعہ خلیفہ وقت سے پوچھا گیا مگر اس کے انکار کے باوجود چند لونڈے جن میں سے چند او باش اور چند بدمعاش تھے انہیں اکٹھا کر کے سمال ٹاؤن کمیٹی کے دفتر میں نکاح پڑھ دیا گیا.سمال ٹاؤن کمیٹی کے دفتر میں آخر کیا برکت ہو سکتی تھی سوائے اس کے کہ اس نکاح کی پوشیدگی مد نظر تھی.وہ ان تمام باتوں کو کھا جائیں گے اور صرف یہ کہہ کر پرو پیگنڈا کریں گے کہ دیکھئے کتنا ظلم ہو گیا ہے.صرف اتنے قصور پر کہ کیوں یہ نکاح مسجد مبارک میں نہیں ہوا ہمارا بائیکاٹ کیا جاتا ہے.اور اس طرح نا واقفوں کو دھوکا دینے کی کوشش کی جاتی ہے.بالکل ممکن تھا میرے حکم کو سننے میں انہیں کوئی غلط نہی ہوگئی ہو.گو میں نہیں سمجھ سکتا کہ تین دفعہ کے واضح انکار کے باوجود کس طرح کوئی غلط نہی ہوسکتی ہے.خصوصاً جبکہ ان کا اقرار ہے کہ انہیں کہا گیا کہ اس نکاح کی اجازت نہیں لیکن انہوں نے اس کے با وجود نکاح کر دیا.تا ہم مان لیا جا سکتا تھا کہ انہیں غلط فہمی ہوئی مگر وہ جو کہا جاتا ہے کہ خدا مجھے نادان دوستوں سے بچائے ان کے منافق دوست ہیں جو اس معاملہ کو بھیا نک شکل دیتے چلے جارہے ہیں.پس اس لئے اب انہیں جتنی بھی شدید سزا ملے اس کی ذمہ داری ان منافق پر و پیگینڈا کرنے والوں پر ہے جو ان کی تائید میں لکھتے ہیں اور محض جھوٹ اور فریب سے کام لے کر

Page 61

خلافة على منهاج النبوة ۴۷ جلد سوم لکھتے ہیں.اگر اس موقع پر رحم کیا جائے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے جو ذمہ داری مجھ پر عائد ہے اس سے میں عہدہ برآ نہیں ہو سکتا.خلیفہ وقت کا کام ہے کہ وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح ہو.ایسی چٹان کہ دنیا بھر کے سمندر بھی مل کر اسے ہلا نہ سکیں.اگر چند منافقوں سے میں ڈر جاؤں اور ایسے موقع پر رحم کرنے پر آمادہ ہو جاؤں جبکہ رحم مناسب نہیں تو میں اپنی خلافت کی ذمہ داریوں میں کوتا ہی کرنے والا ہوں گا.مجھے یہ چند منافق کیا اگر دنیا کی حکومتیں بھی مل کر ایک مقصد سے ہٹانا چاہیں تو نہیں ہٹا سکتیں اور اگر میں یا کوئی اور خلیفہ اس لئے نرمی کرے کہ لوگ اسے مجبور کرتے ہیں تو یقیناً وہ خدا کا قائم کردہ خلیفہ نہیں ہوسکتا.رحم ہمارا کام ہے لیکن دباؤ سے ماننا ہمارا کام نہیں ، بلکہ دباؤ کو کچلنا ہمارا کام ہے.یہ لوگ کیا ہیں ؟ شیطان کا ایک آلہ ہیں.مگر خدا کے خلفاء شیطان پر غالب آیا کرتے ہیں مغلوب نہیں ہوتے.اور ایک دن آتا ہے کہ شیطانی ہتھیاروں کو وہ تو ڑ کر رکھ دیتے ہیں.“ خطبات محمود جلد ۱۴ صفحه ۱۴۴ تا ۱۴۸) ل الصارم المسلول على شاتم الرسول صفحه ۳۹ ، ۴۰.ابن تیمیہ طبقہ اولیٰ حیدر آباد دکن

Page 62

خلافة على منهاج النبوة ۴۸ جلد سوم وو نئے سال کے لئے جماعت احمدیہ کا پروگرام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۴ / جنوری ۱۹۳۵ء کو نئے سال کے لئے جماعت احمد یہ کا پروگرام بیان فرمایا جس میں مختلف سکیموں کا ذکر کیا.عملی حصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:.دو مجھے قتل کی دھمکیوں کے کئی خطوط ملے ہیں لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِ ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے جوشوں کو اپنے قابو میں رکھیں.میں جانتا ہوں کہ وہ دُہرے طور پر جکڑے ہوئے ہیں.ان پر ا یک قانون کی گرفت ہے اور ایک ہماری ، اور ہماری گرفت قانون کی گرفت سے بہت زیادہ سخت ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس ناراضگی کے بعد جو ہمارے دلوں میں پیدا کی جا رہی ہے قانون کی گرفت کسی احمدی کے دل پر رہ سکتی ہے کیونکہ اشتعال اس قدر سخت ہے کہ صبر ہاتھوں سے نکالا جا رہا ہے.اگر احمدیت ہمیں نہ روکتی تو جس طرح سلسلہ کی بے حرمتی کی جا رہی ہے میں نہیں سمجھتا ایک منٹ کے لئے بھی قانون ہم میں سے کسی کو روک سکتا لیکن بہر حال قانون چلتا ہے اور ہمارا مذہب ہمیں اس کی پابندی کرنے کا حکم دیتا ہے.پس ایک طرف تو اس کی رُکاوٹ ہے دوسری طرف سے ہماری گرفت جماعت کے دوستوں پر ہے کہ وہ حتی الوسع اپنے جذبات کو دبائے رکھیں اور ہماری گرفت ایسی سخت ہے کہ اس کے مقابل میں قانون کی گرفت کوئی چیز نہیں.اور ان حالات میں میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کے دل خون ہو رہے ہیں، طبیعتیں بے چین ہیں ، صحتوں پر بہت بُرا اثر پڑ رہا ہے اور انہیں موت سے زیادہ تلخ پیالہ پینا پڑ رہا ہے مگر میں پھر بھی یہی کہتا ہوں کہ میں ان کی تکالیف سے ناواقف نہیں ہوں.جس وقت تک کہ میں دیکھوں گا کہ ہم دونوں پہلو نبھاہ سکتے ہیں میں ان کو صبر کی تلقین کرتا رہوں گا مگر جب میں دیکھوں گا کہ ہمارے صبر کی کوئی قیمت نہیں ، حاکم اسے کوئی وقعت نہیں دیتے بلکہ وہ اسے

Page 63

خلافة على منهاج النبوة ۴۹ جلد سوم ہماری بزدلی پر محمول کرتے ہیں تو اس دن میں دوستوں سے کہہ دوں گا کہ میں ہر کوشش کر چکا لیکن تمہاری تکلیف کا علاج نہیں کر سکا اب تم جانو اور قانون.کیونکہ قانون صرف اپنی پابندی کا مجھ سے مطالبہ کرتا ہے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ میں اس کے حکم سے بھی زیادہ لوگوں کو رو کے رکھوں.جیسا کہ میں اب کر رہا ہوں کہ جہاں قانون اجازت دیتا ہے وہاں بھی تمہارے ہاتھ باندھے رکھتا ہوں.قانون یہ تو حکم دے سکتا ہے کہ یہ کرو اور وہ نہ کرو مگر اپنے مذہب کو اس کی تائید میں استعمال کرنے کا مجھے پابند نہیں کر سکتا.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک جو احمدی جوش میں آتے ہیں وہ قانون کے منشاء سے بھی بڑھ کر اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں اور اس کا باعث میری وہ تعلیم ہے جو میں اسلام کے منشاء کے مطابق انہیں دیتا ہوں.جب میری آواز اُنہیں آتی ہے کہ رُک جاؤ تو وہ رُک جاتے ہیں.جیسا کہ احرار کے جلسہ پر ہوا کہ میں نے انہیں کہا کہ خواہ کوئی مارے تم آگے سے جواب نہ دوحالانکہ قانون خود حفاظتی کی اجازت دیتا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے گھروں میں احرار گھس گئے.خود میری کوٹھی میں وہ لوگ آتے رہے اور بعض دوستوں نے ان کی تصاویر بھی لیں لیکن کسی نے انہیں کچھ نہ کہا حالانکہ گھر میں گھسنے والوں پر وہ قانو نا گرفت کر سکتے تھے لیکن آئندہ کے لئے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ حالات ایسی صورت اختیار کر رہے ہیں کہ ممکن ہے کسی وقت مجھے یہ بھی کہنا پڑے کہ میں اب تمہیں اپنے قانونی حق کے استعمال سے نہیں روکتا.تم اپنے حالات کو خود سوچ لو ، میری طرف سے تم پر کوئی گرفت نہ ہو گی لیکن اُس وقت تک کہ میں کوئی ایسا اعلان کروں مجھے امید ہے کہ ہماری جماعت کے دوست اپنے جوشوں کو اسی طرح دبائے رکھیں گے جس طرح کہ اس وقت تک دباتے چلے آئے ہیں.اور اگر چہ حکومت کے متعلق ان کے دل کتنے ہی رنجیدہ کیوں نہ ہوں اور انہیں بہت بُری طرح مجروح کیا جا چکا ہو مگر پھر بھی وہ میری اطاعت سے باہر نہیں جا سکتے اور انہیں صبر سے کام لینا چاہئے.میں جانتا ہوں کہ اس قسم کے مواقع پر کسی قسم کا ڈر یا خوف یا تعزیر کا خیال انسان کو نہیں روک سکتا.میں نے مولوی رحمت علی صاحب کا واقعہ کئی بار سنایا ہے.جس وقت ان کے کان میں یہ آواز پڑی کہ نیر صاحب مارے گئے ہیں اور بعض احمدی زخمی ہو گئے ہیں تو وہ پاگل ہو کر اس مکان کی طرف جا رہے

Page 64

خلافة على منهاج النبوة ۵۰ جلد سوم تھے وہ جانتے تھے کہ ممکن ہے وہاں لڑائی ہو اور میں مارا جاؤں یا زخمی ہو جاؤں.یا ممکن ہے مقدمہ چلے اور با وجود دفاعی پہلو اختیار کرنے کے میری براءت ثابت نہ ہو اور میں قید یا پھانسی کی سزا پاؤں مگر پھر بھی وہ تھر تھر کانپ رہے تھے کہ کیوں ہمیں روکا جا رہا.جا رہا ہے اور کوئی خیال انہیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتا تھا.اُس وقت میری آواز تھی کہ اگر ایک قدم بھی آگے بڑھے تو جماعت سے نکال دوں گا.یہ لفظ تھے جنہوں نے اُن کو آگے بڑھنے سے رو کاور نہ کوئی قانون اُس وقت تک نہ انہیں روکتا تھا اور نہ روک سکتا تھا.مگر کون سا قانون ہے جو مجھ سے یہ امید کرتا ہے کہ جب کسی کے بھائی بندوں پر یا اس پر دشمن حملہ آور ہو اور قانون اُسے خود حفاظتی کی اجازت دیتا ہو میں اسے اس حق کے استعمال سے روکوں.جہاں تک مجھے معلوم ہے ایسا کوئی قانون نہیں اور میں صرف سلسلہ کی نیک نامی اور حکومت کی خیر خواہی کے لئے یہ کام کر رہا ہوں مگر حکومت کا بھی تو فرض ہے کہ وہ اس قربانی کی قدر کرے وگرنہ ہمارے دل اس قدر زخمی ہیں کہ اگر دشمنوں کے حملوں کا جواب ہم سختی سے سے دیں تو کوئی قانون ایک لمحہ کے لئے بھی ہمیں گرفت نہیں کر سکتا کیونکہ مجرم وہ ہے جو پہلے گالی دیتا ہے.اس وقت تک میں یہی سمجھتا ہوں کہ انسانی فطرت ایسی سیاہ نہیں ہو گئی کہ ملک کے لوگ زیادہ دیر تک اس گند کی اجازت دیں اور نہ حکومت کی ساری کی ساری مشینری خراب ہو چکی ہے بلکہ اس کا بیشتر حصہ ابھی اچھا ہے چند مقامی افسر اسے دھوکا دے رہے ہیں اور ان کی نیست یہ ہے کہ احمد یوں کو گورنمنٹ سے لڑا کر وہ کام کریں جو کانگرس نہیں کر سکی مگر میں ان لوگوں کو نا کام کرنے کے لئے انتہائی کوشش کروں گا اور جماعت کا قدم وفاداری کی راہ سے ہٹنے نہ دوں گا.پس جب تک میں یہ نہیں کہہ دیتا کہ میری سب تدابیر ختم ہو چکی ہیں اُس وقت تک ہماری جماعت کے احباب کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے نفوس کی قربانی کر کے اور دلوں کا خون کر کے بھی جوشوں کو دبائیں اور ایسی باتوں سے مجتنب رہیں جن سے میری گرفت ان پر ہو اور میں یہ کہہ سکوں کہ تم نے ایسا فعل کیا ہے جس کی سزا گو قانون نہ دیتا ہومگر میں خود دینی چاہتا ہوں.یاد رکھو کہ ہمارا سلسلہ کوئی ایک دو دن کا نہیں بلکہ یہ ایک لمبی چیز ہے.ساری دنیا کی

Page 65

خلافة على منهاج النبوة ۵۱ جلد سوم باگیں ایک دن ہمارے ہاتھ میں آتی ہیں اس لئے ہمارے مد نظر ہر وقت یہ بات ہونی چاہئے کہ ہمارا مقصود ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے.ہمیں آدمیوں کا خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ان میں سے کوئی زندہ رہتا ہے یا مرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق قتل کے منصوبے کئے گئے ، حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے زمانہ میں پیغامی آپ کو اس قدر بد نام کرتے رہتے تھے کہ جس کے نتیجہ میں دلوں کے اندر اس قدر شکوک پیدا ہو چکے تھے کہ آپ سے محبت رکھنے والے بعض لوگ یہ بھی پسند نہ کرتے تھے کہ ان میں سے کسی کی دی ہوئی دوائی آپ استعمال کریں.اگر چہ میں آج بھی اس قدر مخالفت کے باوجود اس بات کو غلط سمجھتا ہوں اور میں یہ امید بھی نہیں کر سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے اس قدر گندے ہو سکتے تھے مگر میں دیکھتا تھا کہ ایسے لوگ موجود تھے جن کے دلوں میں یہ شکوک پائے جاتے تھے.اب یہ زمانہ ہے اور مجھے صراحتاً ہر سال کئی کئی بار قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور زمیندار کے مضمون کی اشاعت کے بعد متواتر تین چٹھیاں ایسی موصول ہوئیں.ایک ابھی ۳۱ / دسمبر کو ملی تھی کہ یکم جنوری کے روز تم کو قتل کر دیا جائے گا.میں ان کے بیشتر حصہ کو دھمکی سمجھتا ہوں مگر ایک حصہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو سنجیدگی سے میرے متعلق ایسا ہی ارادہ رکھتا ہو لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے ہمارا سلسلہ انسانوں کا نہیں کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ کسی شخص کی وفات کے بعد یہ ختم ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مخالف خیال کیا کرتے تھے کہ آپ کی زندگی کے ساتھ ہی یہ سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا.لیکن پھر حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں یہ کہا جانے لگا کہ مرزا صاحب تو جاہل تھے سارا کام مولوی صاحب ہی کرتے تھے ان کی آنکھیں بند ہونے کی دیر ہے تو بس یہ سلسلہ ختم.پھر ان کی آنکھیں بند ہوئیں اور لوگوں نے خیال کیا کہ اصل کام انگریزی خوان لوگ کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی نکال کر باہر کیا اور جماعت کی باگ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دی جس کے متعلق پیغامی کہتے تھے کہ ہم خلافت کے دشمن نہیں ہیں بلکہ ہماری مخالفت کی بناء یہ ہے کہ اگر جماعت کی باگ ایک بچے کے ہاتھ میں آگئی تو سلسلہ تباہ ہو جائے گا.مگر دیکھو کہ اس بچے کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کی گاڑی ایسی چلائی کہ وہ ترقی کر کے کہیں سے کہیں جا پہنچی اور اب اللہ تعالیٰ کا

Page 66

خلافة على منهاج النبوة ۵۲ جلد سوم ایسا فضل ہے کہ ان لوگوں کے وقت میں جتنے لوگ جلسہ سالانہ پر شامل ہوتے تھے اُس سے بہت زیادہ آج میرے جمعہ میں ہیں.سوائے افغانستان کے باقی تمام بیرونی ممالک کی جماعتیں میرے ہی زمانہ میں قائم ہوئی ہیں اور یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ یہ سلسلہ خدا کے ہاتھوں میں ہے اس لئے دشمن کی باتوں سے نہ گھبراؤ.وہ کسی کو مار بھی دیں تو بھی یہ سلسلہ ترقی کرے گا.تمہیں چاہئے کہ تم اپنے اصول کو قائم رکھو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اپنے ایمان کو قائم رکھو اور آپ کی آمد کے مقصد کو یاد رکھو ، خلافت کی اہمیت کو نہ بھولو اور اسے پکڑے رہو پھر تمہیں کوئی نہیں مٹا سکتا.ڈر کی بات صرف یہ ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ اپنے اصول کو نہ بھول جائیں اور سلسلہ کی وجہ سے جو فوائد حاصل ہو رہے ہیں انہیں اپنی طرف منسوب نہ کر لیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے اور آپ کی نبوت اور ماموریت سے آپ کی جماعت نے فائدہ اُٹھایا مگر بعض انگریزی دانوں نے سمجھا کہ ترقی ہم سے ہو رہی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو الگ کر دیا اور پھر بھی سلسلہ کو ترقی دے کر بتا دیا کہ اس سلسلہ کی ترقی کسی انسان سے وابستہ نہیں.پس مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد کیا ہوگا بلکہ ڈریہ ہے کہ خلافت سے علیحدہ ہو کر تم لوگ نقصان نہ اٹھاؤ.کسی خلیفہ کی وفات سلسلہ کے لئے نقصان کا موجب نہیں ہو سکتی لیکن خلافت سے علیحدگی یقیناً نقصان کا باعث ہے.یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے ایک رؤیا دیکھا ہے جس کے دونوں پہلو ہو سکتے ہیں ، منذ ر بھی اور مبشر بھی.لیکن چونکہ باہر سے بھی قریباً ایک درجن خطوط آئے ہیں جن میں دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کو قتل کر دیا گیا ہے اور اسی طرح دشمنوں کے ارادوں کے متعلق بھی دوست اطلاع دیتے رہتے ہیں اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ دوستوں کو ہوشیار کر دوں کہ اصل چیز اصول ہیں.اگر تم ان کو یاد رکھو گے تو کوئی تمہیں نہیں مٹا سکتا لیکن اگر اصول کو بھول جاؤ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفہ اصبح الاول اور میں مل کر بھی تم کو نہیں بچا سکتے.بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے دعائیں کیں تو معلوم ہوا کہ آپ کی عمر میں سال بڑھ گئی ہے مگر اصل بات اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے.اگر چہ دعا سے مبرم تقدیر میں بھی بدل جاتی

Page 67

خلافة على منهاج النبوة ۵۳ جلد سوم ہیں مگر وثوق سے قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا.بہر حال اس جلسہ پر بھی شبہ کیا جا تا تھا کہ دشمن شرارت کریں گے اور اس کے آثار بھی موجود تھے اس لئے ہمارے دوستوں نے کئی قسم کی تدابیر اختیار کیں لیکن چوبیس یا پچیس دسمبر کی شب کو میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جلسہ کے ایام میں مجھ پر حملہ کیا جائے گا اور بعض کہتے ہیں کہ موت انہی دنوں میں ہے.میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ ہے جس سے میں یہ بات پوچھتا ہوں اُس نے کہا کہ میں نے تمہاری عمر کے متعلق لوحِ محفوظ دیکھی ہے آگے مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ اس نے کہا میں بتانا نہیں چاہتا یا بھول گیا ہوں.زیادہ تر یہی خیال ہے کہ اُس نے کہا میں بتانا نہیں چاہتا.لیکن جلسہ کی اور بعد کی دو ایک تاریخیں ملا کر اس نے کہا کہ ان دنوں میں یہ بات یقیناً نہیں ہو گی.اُس دن سے میں نے تو بے پروا ہی شروع کر دی اور اگر چہ دوست کئی ہدایتیں دیتے رہے کہ یوں کرنا چاہئے مگر میں نے کہا کوئی حرج نہیں.چند دن ہوئے میں نے ایک اور رویا دیکھا ہے جس کا مجھ پر اثر ہے اور اس سے مجھے خیال آیا کہ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاؤں کہ وہ ہمیشہ اصل مقصود کو مد نظر رکھیں.میں نے دیکھا کہ ایک پہاڑی کی چوٹی ہے جس پر جماعت کے کچھ لوگ ہیں میری ایک بیوی اور بعض بچے بھی ہیں.وہاں جماعت کے سرکردہ لوگوں کی ایک جماعت ہے جو آپس میں کبڈی کھیلنے لگے ہیں جب وہ کھیلنے لگے تو کسی نے مجھے کہا یا یو نہی علم ہوا کہ انہوں نے شرط یہ باندھی ہے کہ جو جیت جائے گا، خلافت کے متعلق اس کا خیال قائم کیا جائے گا.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس فقرہ کا مطلب یہ تھا کہ جیتنے والے جسے پیش کریں گے وہ خلیفہ ہوگا یا یہ کہ اگر وہ کہیں گے کہ کوئی خلیفہ نہ ہو تو کوئی بھی نہ ہوگا.بہر حال جب میں نے یہ بات سنی تو میں ان لوگوں کی طرف گیا اور میں نے ان نشانوں کو جو کبڈی کھیلنے کے لئے بنائے جاتے ہیں مٹا دیا اور کہا کہ میری اجازت کے بغیر کون یہ طریق اختیار کر سکتا ہے یہ بالکل نا جائز ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا.اس پر کچھ لوگ مجھ سے بحث کرنے لگے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چه اکثریت پہلے صرف ایک تلعب کے طور پر یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کون جیتا ہے اور خلیفہ کا تعین کرتا ہے اور کم لوگ تھے جو خلافت کے ہی مخالف تھے مگر میرے دخل دینے پر جو لوگ

Page 68

خلافة على منهاج النبوة ۵۴ جلد سوم پہلے خلافت کے مؤید تھے وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے گویا میرے روکنے کو اُنہوں نے اپنی ہتک سمجھا.نتیجہ یہ ہوا کہ میرے ساتھ صرف تین چار آدمی رہ گئے اور دوسری طرف ڈیڑھ دوسو.اُس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ گویا احمدیوں کی حکومت ہے اور میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خون ریزی کے ڈر سے بھی میں پیچھے قدم نہیں ہٹا سکتا اس لئے آؤ ہم اُن پر حملہ کرتے ہیں.مخلصین میرے ساتھ شامل ہوئے مجھے یاد نہیں کہ ہمارے پاس کوئی ہتھیار تھے یا نہیں مگر بہر حال ہم نے ان پر حملہ کیا اور فریق مخالف کے کئی آدمی زخمی ہو گئے اور باقی بھاگ کر تہہ خانوں میں چھپ گئے.اب مجھے ڈر پیدا ہوا کہ یہ لوگ تو تہہ خانوں میں چُھپ گئے ہیں ہم ان کا تعاقب بھی نہیں کر سکتے.اور اگر یہاں کھڑے رہے تو یہ لوگ کسی وقت موقع پا کر ہم پر حملہ کر دیں گے اور چونکہ ہم تعداد میں بالکل تھوڑے ہیں ہمیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اگر ہم یہاں سے جائیں تو یہ لوگ پشت پر سے آ کر حملہ کر دیں گے.پس میں حیران ہوں کہ اب ہم کیا کریں؟ میری ایک بیوی بھی ساتھ ہیں اگر چہ یہ یاد نہیں کہ کونسی اور ایک چھوٹا لڑکا انور احمد بھی یاد ہے کہ ساتھ ہے.میرے ساتھی ایک زخمی کو پکڑ کر لائے ہیں جسے میں پہچانتا ہوں اور جو اس وقت وفات یافتہ ہے اور با اثر لوگوں میں سے تھا.میں اُسے کہتا ہوں کہ تم نے کیا یہ غلط طریق اختیار کیا اور اپنی عاقبت خراب کر لی مگر وہ ایسا زخمی ہے کہ مر رہا ہے.مجھے یہ درد اور گھبراہٹ ہے کہ اس نے یہ طریق لی کیوں اختیار کیا مگر جواب میں اُس کی زبان لڑکھڑائی اور وہ گر گیا.اتنے میں پہاڑی کے نیچے سے ایک شور کی آواز پیدا ہوئی اور ایسا معلوم ہوا کہ تکبیر کے نعرے بلند کئے جا رہے ہیں.میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا شور ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ یہ جماعت کے غرباء ہیں ان کو جب خبر ہوئی کہ آپ سے لڑائی ہو رہی ہے تو وہ آپ کی مدد کے لئے آئے ہیں.میں خیال کرتا ہوں کہ جماعت تو ہمیشہ غرباء سے ہی ترقی کیا کرتی ہے.یہ خدا کا فضل ہے کہ غرباء میرے ساتھ ہیں مگر تھوڑی دیر بعد وہ تکبیر کے نعرے خاموش ہو گئے اور مجھے بتایا گیا کہ آنے والوں سے فریب کیا گیا ہے.انہیں کسی نے ایسا اشارہ کر دیا ہے کہ گویا اب خطرہ نہیں اور وہ چلے گئے ہیں.کوئی مجھے مشورہ دیتا ہے کہ ہمارے ساتھ بچے ہیں اس لئے ہم تیز نہیں چل سکیں

Page 69

خلافة على منهاج النبوة ۵۵ جلد سوم گے آپ نیچے جائیں آپ کو دیکھ کر لوگ اکٹھے ہو جائیں گے اور آپ اس قابل ہو نگے کہ ہماری مدد کر سکیں.چنانچہ میں نیچے اُترتا ہوں اور غرباء میں سے مخلصین کی ایک جماعت کو دیکھتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ میں یہاں اس لئے آیا ہوں کہ تا مخلصین اکٹھے ہو جائیں.تم اوپر جاؤ اور عورتوں اور بچوں کو باحفاظت لے آؤ.اس پر وہ جاتے ہیں اتنے میں میں دیکھتا ہوں کہ پہلے مرد اترتے ہیں اور پھر عورتیں لیکن میرا لڑکا انور احمد نہیں آیا.پھر ایک شخص آیا اور میں نے اُس کو کہا کہ انوراحمد کہاں ہے؟ اس نے کہا وہ بھی آ گیا ہے.پھر جماعت میں ایک بیداری اور جوش پیدا ہوتا ہے.چاروں طرف سے لوگ آتے ہیں.ان جمع ہونے والے لوگوں میں سے میں نے شہر سیالکوٹ کے کچھ لوگوں کو پہچانا ہے.ان لوگوں کے ساتھ کچھ وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو باغی تھے اور میں انہیں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتحاد کے ذریعہ طاقت دی تھی اگر تم ایسے فتنوں میں پڑے تو کمزور ہوکر ذلیل ہو جاؤ گے.کچھ لوگ مجھ سے بحث کرتے ہیں میں انہیں دلائل کی طرف لاتا ہوں اور یہ بھی کہتا ہوں کہ اس سے جماعت کا تو کچھ نہیں بگڑے گا البتہ اس کے وقار کو جو صدمہ پہنچے گا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور تم ذمہ دار ہو گے.اس پر بعض لوگ کچھ نرم ہوتے ہیں لیکن دوسرے انہیں پھر ور غلا دیتے ہیں اور اسی بحث مباحثہ میں میری آنکھ کھل جاتی ہے.اس رؤیا کے کئی حصوں سے معلوم ہوتا ہے یہ واقعات میری وفات کے بعد کے ہیں وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب اور اس موقع پر اس رویا کا آنا شاید اس امر پر دلالت کرتا ہو کہ مجھے جماعت کو آئندہ کے لئے ہوشیار کر چھوڑ نا چاہئے کیونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا.اس رؤیا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ میرے ساتھ تعلق رکھنے والے خواہ تھوڑے ہوں اپنے دشمنوں پر غالب آئیں گے.اِنشَاءَ اللهُ جب میں ابھی بچہ تھا اور خلافت کا کوئی وہم وگمان نہ تھا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.یعنی تیرے ماننے والے اپنے مخالفوں پر قیامت تک غالب رہیں گے.اُس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہے کیونکہ

Page 70

خلافة على منهاج النبوة ۵۶ جلد سوم میرے اتباع کا تو خیال بھی میرے ذہن میں نہ آ سکتا تھا کہ کبھی ہوں گے.یہ عبارت قرآن کریم کی ایک آیت سے لی گئی ہے جو حضرت مسیح ناصری کے متعلق ہے مگر آیت میں وَجَاعِلُ الَّذِينَ ہے اور میری زبان پر اِنَّ الَّذِینَ کے لفظ جاری کئے گئے.غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے اس قدر عرصہ پہلے سے یہ خبر دے رکھی تھی اور کہا تھا کہ مجھے اپنی ذات کی قسم ہے کہ تیرے متبع تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے.اب اس کی ایک مثال تو موجود ہے.کتنے شاندار وہ لوگ تھے جنہوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی مگر دیکھو اللہ تعالیٰ نے ان کو کس طرح مغلوب کیا ہے.بعد کا میرا ایک اور رویا بھی ہے جو اس کی تائید کرتا ہے.میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نور کے ستون کے طور پر زمین کے نیچے سے نکلا.یعنی پاتال سے آیا اور اوپر آسمانوں کو پھاڑ کر نکل گیا.اگر چہ مثال بُری ہے لیکن ہندوؤں میں یہ عقیدہ ہے کہ شو جی زمین کے نیچے سے آیا اور آسمانوں سے گزرتا ہوا او پر چلا گیا.یہ مثال اچھی نہیں مگر اس میں اسی قسم کا نظارہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاتال سے نکل کر افلاک سے بھی اوپر نکل گیا.میں نے بھی دیکھا کہ ایک نور کا ستون پاتال سے آیا اور افلاک کو چیرتا ہوا چلا گیا.میں کشف کی حالت میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدا کا نور ہے.پھر اس نور میں سے ایک ہاتھ نکلا لیکن مجھے ایسا شبہ پڑتا ہے کہ اس کے رنگ میں ایسی مشابہت تھی کہ گویا وہ گوشت کا ہے.اس میں ایک پیالہ تھا جس میں دودھ تھا جو مجھے دیا گیا اور میں نے اسے پیا اور پیالے کو منہ سے ہٹاتے ہی پہلا فقرہ جو میرے منہ سے نکلا وہ یہ تھا کہ اب میری اُمت کبھی گمراہ نہ ہو گی.معراج کی حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تین پیالے پیش کئے گئے.پانی ، شراب اور دودھ کا اور آپ نے دودھ کا پیالہ پیا تو جبرائیل نے کہا کہ آپ کی اُمت کبھی گمراہ نہ ہو گی.ہاں اگر آپ شراب کا پیالہ پیتے تو یہ اُمت کی گمراہی پر دلالت کرتا ہے.پس ان رؤیاؤں سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے دشمن باہر سے مایوس ہو کر ہم میں سے بعض کو دور غلا نا چا ہے لیکن بہر حال فتح اُن کی ہے جو میرے ساتھ ہیں.میں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ یہ واقعات میری زندگی میں ہوں گے یا میرے بعد کیونکہ بعض اوقات زندگی کے

Page 71

خلافة على منهاج النبوة ۵۷ جلد سوم مسلمان بعد کے واقعات بھی رویا میں دکھا دیے جاتے ہیں.اور بظاہر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے واقعات ہیں مگر میں جماعت کو ہوشیار کرتا ہوں کہ یہ قیمتی اصول ہیں جن پر انہیں مضبوطی سے قائم رہنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مأموریت اور آپ کے امتی ہونے کو کبھی نہ بھولو.آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سب سے بڑی لذت اس میں ملتی ہے کہ میں امتی نبی ہوں.پس جس خوبصورتی پر آپ کو ناز تھا اسے کبھی نہ چھوڑو.پھر آپ کی تعلیم اور الہامات کو سامنے رکھو.اس کے بعد خلافت ہے جس کے ساتھ جماعت کی ترقی وابستہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی کہ جس دن مسلمانوں نے اس چادر کو پھاڑ دیا اُس کے بعد ان میں اتحاد نہیں ہو گا.حضرت عبد اللہ بن سلام نے جو یہود سے ہوئے تھے حضرت عثمان کی شہادت کے وقت کہا کہ اب مسلمانوں میں قیامت تک اتحاد نہیں ہوسکتا ہے پس خلافت بہت قیمتی چیز ہے.بے شک خلیفہ کا وجود قیمتی ہوتا ہے مگر اس سے بہت زیادہ قیمتی چیز خلافت ہے.جس طرح نبی کا وجود قیمتی ہوتا ہے مگر اس سے زیادہ قیمتی چیز نبوت ہوتی ہے.پس یہ اصول ہیں ان کو مضبوطی سے پکڑو.پھر یہ خیال نہ کرو کہ تم تھوڑے ہو یا بہت کیونکہ ان اصولوں کے پیچھے خدا ہے اور جو تم پر ہاتھ ڈالے گا وہ گویا خدا پر ہاتھ ڈالنے والا ہو گا.جس طرح بجلی کی تار پر غلط طریق پر ہاتھ ڈالنے والا ہلاک ہو جاتا ہے لیکن صحیح طور پر ہاتھ ڈالنے والا اس سے انجن چلاتا ہے اور بڑے بڑے فوائد حاصل کر لیتا ہے اسی طرح ان اصول کے اگر تم پابند رہو، اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو اور ہر قربانی کے لئے تیار ہو تو تم پر حملہ آور ہو نیوالا ہلاکت سے نہیں بچ سکے گا.“ خطبات محمود جلد ۶ اصفحه ۱۱ تا ۱۹) لبخارى كتاب الجهاد والسير باب يُقَاتَلُ مِنْ وَرَاءِ الْاِمَامِ صفحه ۴۸۹ حدیث نمبر ۲۹۵۷ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية ال عمران: ۵۶ بخاری کتاب مناقب الانصار باب المعراج صفحه ۶۵۳ حدیث نمبر ۳۸۸۷ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۱۷۸،۱۷۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء

Page 72

خلافة على منهاج النبوة ۵۸ جلد سوم ہر حال میں خلیفہ کی اطاعت فرض ہے فرموده ۸/فروری ۱۹۳۵ء) صلى الله.تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں ایک انصاری صحابی کا ذکر کیا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد بعض انصار کی تحریک تھی کہ انصار میں سے خلیفہ مقرر کیا جائے لیکن جب مہاجرین نے خصوصاً حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کو بتایا کہ اس قسم کا انتخاب کبھی بھی ملت اسلامیہ کے لئے مفید نہیں ہو سکتا اور یہ کہ مسلمان کبھی اس انتخاب پر راضی نہیں ہونگے تو پھر انصار اور مہاجر اس بات پر جمع ہوئے کہ وہ کسی مہاجر کے ہاتھ پر بیعت کر لیں اور آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ذات پر ان سب کا اتفاق ہوا.میں نے بتایا تھا کہ اُس وقت جب سعد نے بیعت سے تخلف کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اقْتُلُوا سَعْدًا یعنی سعد کو قتل کر دو مگر نہ تو انہوں نے سعد کو قتل کیا اور نہ کسی اور صحابی نے بلکہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت تک زندہ رہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شام میں فوت ہوئے جس سے ائمہ سلف نے یہ استدلال کیا ہے کہ قتل کے معنی یہاں جسمانی قتل نہیں بلکہ قطع تعلق کے ہیں اور عربی زبان میں قتل کے کئی معنی ہوتے ہیں جیسا کہ میں پچھلے خطبہ میں بیان کر چکا ہوں.اُردو میں بے شک قتل کے معنی جسمانی قتل کے ہی ہوتے ہیں لیکن عربی زبان میں جب قتل کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں سے ایک معنی قطع تعلق کے ہیں اور لغت والوں نے استدلال کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد قتل سے قتل نہیں بلکہ قطع تعلق تھا.ورنہ اگر قتل سے مراد ظاہری طور پر قتل کر دینا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ

Page 73

خلافة على منهاج النبوة ۵۹ جلد سوم نے جو بہت جو شیلے تھے انہیں خود کیوں نہ قتل کر دیا.یا صحابہ میں سے کسی نے کیوں انہیں قتل نہ کیا مگر جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہ صرف انہیں اُس وقت قتل نہ کیا بلکہ اپنی خلافت کے زمانہ میں بھی قتل نہ کیا.اور بعض کے نزدیک تو وہ حضرت عمرؓ کی خلافت کے بعد بھی زندہ رہے اور کسی صحابی نے ان پر ہاتھ نہ اُٹھایا.تو بہر حال اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قتل سے مراد قطع تعلق ہی تھا ظاہری طور پر قتل کرنا نہیں تھا.اور گو وہ صحابی عام صحابہ سے الگ رہے لیکن کسی نے ان پر ہاتھ نہ اُٹھایا.پس میں نے مثال دی تھی کہ رویا میں بھی اگر کسی کے متعلق قتل ہونا دیکھا جائے تو اس کی تعبیر قطع تعلق اور بائیکاٹ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ رویا بھی بسا اوقات الفاظ کے ظاہری معنی پر مبنی ہوتی ہے.مجھ سے ایک دوست نے بیان کیا ہے کہ انہی تین افراد میں سے جن کا میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں ذکر کیا تھا ایک نے خطبہ کے بعد کہا کہ سعد نے گو بیعت نہیں کی تھی لیکن مشوروں میں انہیں ضرور شامل کیا جاتا تھا.اس کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں یا تو میرے مفہوم کی تردید یا یہ کہ خلافت کی بیعت نہ کرنا کوئی اتنا بڑا جرم نہیں کیونکہ سعد نے گو بیعت نہیں کی تھی مگر مشوروں میں شامل ہوا کرتے تھے کسی شاعر نے کہا ہے تا مرد سخن نگفته باشد عیب و ہنرش نهفته باشد انسان کے عیب و ہنر اُس کے بات کرنے تک پوشیدہ ہوتے ہیں جب انسان بات کر دیتا ہے تو کئی دفعہ اپنے عیوب ظاہر کر دیتا ہے.اس شخص کا بات کرنا بھی یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو وہ خلافت کی بیعت کی تخفیف کرنا چاہتا ہے یا اپنے علم کا اظہار کرنا چاہتا ہے لیکن یہ دونوں با تیں غلط ہیں.علم کے اظہار کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بات اتنی غلط ہے کہ ہر عقلمند اس کوسن کر سوائے مسکرا دینے کے اور کچھ نہیں کر سکتا.صحابہ کے حالات کے متعلق اسلامی تاریخ میں تین کتابیں بہت مشہور ہیں اور تمام تاریخ جو صحابہ سے متعلق ہے انہی کتابوں پر چکر کھاتی ہے.وہ کتابیں یہ ہیں تہذیب التہذیب، اصابہ اور اسد الغابہ.ان تینوں میں سے ہر ایک میں یہی لکھا ہے کہ سعد باقی صحابہ سے الگ ہو کر شام میں چلے گئے اور وہیں فوت ہوئے سلے اور بعض لغت کی کتابوں نے بھی قتل کے لفظ پر

Page 74

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم بحث کرتے ہوئے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے.بات یہ ہے کہ صحابہ میں سے ساٹھ ستر کے نام سعد ہیں.انہی میں سے ایک سعد بن ابی وقاص بھی ہیں جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے.حضرت عمرؓ کی طرف سے کمانڈر انچیف مقرر تھے اور تمام مشوروں میں شامل ہوا کرتے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے کئی علم سے سعد کا لفظ سن کر یہ نہ سمجھا کہ یہ سعد اور ہے اور وہ سعد اور.جھٹ میرے خطبہ پر تبصرہ کر دیا.یہ میں نے سعد بن ابی وقاص کا ذکر نہ کیا تھا جو مہاجر تھے بلکہ میں نے جس کا ذکر کیا وہ انصاری تھے.ان دو کے علاوہ اور بھی بہت سے سعد ہیں بلکہ ساٹھ ستر کے قریب سعد ہیں جس سعد کے متعلق میں نے ذکر کیا ان کا نام سعد بن عبادہ تھا.عرب کے لوگوں میں نام دراصل بہت کم ہوتے تھے اور عام طور پر ایک ایک گاؤں میں ایک نام کے کئی کئی آدمی ہوا کرتے تھے جب کسی کا ذکر کرنا ہوتا تو اس کے باپ کے نام سے اس کا ذکر کرتے مثلاً صرف سعد یا سعید نہ کہتے بلکہ سعد بن عبادہ یا سعد بن ابی وقاص کہتے.پھر جہاں باپ کے نام سے شناخت نہ ہو سکتی وہاں اس کے مقام کا ذکر کرتے اور جہاں مقام کے ذکر سے بھی شناخت نہ ہو سکتی وہاں اس کے قبیلہ کا ذکر کرتے.چنانچہ ایک سعد کے متعلق تاریخوں میں بڑی بحث آئی ہے چونکہ نام ان کا دوسروں سے ملتا جلتا تھا اس لئے مؤرخین ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مثلاً ہماری مراد اوسی سعد سے ہے یا مثلاً خزرجی سعد سے ہے.ان صاحب نے معلوم ہوتا ہے ناموں کے اختلاف کو نہیں سمجھا اور یونہی اعتراض کر دیا مگر ایسی باتیں انسانی علم کو بڑھانے والی نہیں ہوتیں بلکہ جہالت کا پردہ فاش کرنے والی ہوتی ہیں.خلافت ایک ایسی چیز ہے جس سے جدائی کسی عزت کا مستحق انسان کو نہیں بنا سکتی.اسی مسجد میں میں نے حضرت خلیفہ اول سے سنا آپ فرماتے تم کو معلوم ہے پہلے خلیفہ کا دشمن کون تھا ؟ پھر خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن پڑھو تمہیں معلوم ہو گا کہ اس کا دشمن ابلیس تھا اس کے بعد آپ نے فرمایا میں بھی خلیفہ ہوں اور جو میرا دشمن ہے وہ بھی ابلیس ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خلیفہ مامور نہیں ہوتا گو یہ ضروری بھی نہیں کہ وہ ما مور نہ ہو.حضرت آدم ما مور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے.حضرت داؤد ما مور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے اسی

Page 75

خلافة على منهاج النبوة ۶۱ جلد سوم طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام مامور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے پھر تمام انبیاء ما مور بھی ہوتے ہیں اور خدا کے قائم کردہ خلیفہ بھی.جس طرح ہر انسان ایک طور پر خلیفہ ہے اسی طرح انبیاء بھی خلیفہ ہوتے ہیں مگر ایک وہ خلفاء ہوتے ہیں جو کبھی مامور نہیں ہوتے.گو اطاعت کے لحاظ سے ان میں اور انبیاء میں کوئی فرق نہیں ہوتا.اطاعت جس طرح نبی کی ضروری ہوتی ہے ویسے ہی خلفاء کی ضروری ہوتی ہے ہاں ان دونوں اطاعتوں میں ایک امتیاز اور فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ نبی کی اطاعت اور فرمانبرداری اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ وحی الہی اور پاکیزگی کا مرکز ہوتا ہے مگر خلیفہ کی اطاعت اس لئے نہیں کی جاتی کہ وہ وحی الہی اور تمام پاکیزگی کا مرکز ہے بلکہ اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ تنفیذ وحی الہی اور تمام نظام کا مرکز ہے.اسی لئے واقف اور اہلِ علم لوگ کہا کرتے ہیں کہ انبیاء کو عصمت گبر کی حاصل ہوتی ہے اور خلفاء کو عصمت صغر کی.اسی مسجد میں اسی منبر پر جمعہ کے ہی دن حضرت خلیفہ اول سے میں نے سنا آپ فرماتے تھے کہ تم میرے کسی ذاتی فعل میں عیب نکال کر اس اطاعت سے باہر نہیں ہو سکتے جو خدا نے تم پر عائد کی ہے کیونکہ جس کام کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ اور ہے اور وہ نظام کا اتحاد ہے اس لئے میری فرمانبرداری ضروری اور لازمی ہے.تو انبیاء کے متعلق جہاں الہی سنت یہ ہے کہ سوائے بشری کمزوریوں کے جس میں توحید اور رسالت میں فرق ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ دخل نہیں دیتا اور اس لئے بھی کہ وہ اُمت کی تربیت کیلئے ضروری ہوتی ہیں (جیسے سجدہ سہو کہ وہ بھول کے نتیجہ میں ہوتا ہے مگر اس کی ایک غرض اُمت کو سہو کے احکام کی عملی تعلیم دینا تھی) ان کے تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتے ہیں وہاں خلفاء کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ انکے وہ تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہونگے جو نظام سلسلہ کی ترقی کے لئے اُن سے سرزد ہو نگے اور کبھی بھی وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کریں گے اور اگر کریں تو اس پر قائم نہیں رہیں گے جو جماعت میں خرابی پیدا کرنے والی اور اسلام کی فتح کو اس کی شکست سے بدل دینے والی ہو.وہ جو کام بھی نظام کی مضبوطی اور اسلام کے کمال کے لئے کریں گے خدا تعالیٰ کی حفاظت اس کے ساتھ ہوگی اور اگر وہ کبھی غلطی بھی کریں تو خدا اس کی اصلاح کا خود ذمہ دار ہو گا.گویا نظام کے متعلق خلفاء کے اعمال

Page 76

خلافة على منهاج النبوة ۶۲ جلد سوم کے ذمہ دار خلفاء نہیں بلکہ خدا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلفا ء خود قائم کیا کرتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ یا تو ان ہی کی زبان سے یا عمل سے خدا تعالیٰ اس غلطی کی اصلاح کرا دے گا یا اگر ان کی زبان یا عمل سے غلطی کی اصلاح نہ کرائے تو اس غلطی کے بدنتائج کو بدل ڈالے گا.اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت چاہے کہ خلفاء کبھی کوئی ایسی بات کر بیٹھیں جس کے نتائج بظاہر مسلمانوں کیلئے مضر ہوں اور جسکی وجہ سے بظا ہر جماعت کے متعلق خطرہ ہو کہ وہ بجائے ترقی کرنے کے تنزل کی طرف جائے گی تو اللہ تعالیٰ نہایت مخفی سامانوں سے اس غلطی کے نتائج کو بدل دے گا اور جماعت بجائے تنزل کے ترقی کی طرف قدم بڑھائے گی اور وہ مخفی حکمت بھی پوری ہو جائے گی جس کے لئے خلیفہ کے دل میں ذہول پیدا کیا گیا تھا.مگر انبیاء کو یہ دونوں باتیں حاصل ہوتی ہیں.یعنی عصمت کبری بھی اور عصمت صغری بھی.وہ تنفیذ و نظام کا بھی مرکز ہوتے ہیں اور وحی و پاکیزگی اعمال کا مرکز بھی ہوتے ہیں.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر خلیفہ کے متعلق ضروری ہے کہ وہ پاکیزگی اعمال وہ کا مرکز نہ ہو.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ پاکیزگی اعمال سے تعلق رکھنے والے بعض افعالہ دوسرے اولیاء سے کم ہو.پس جہاں ایسے خلفاء ہو سکتے ہیں جو پاکیزگی اعمال کا مرکز ہوں اور نظامِ سلسلہ کا مرکز بھی ، وہاں ایسے خلفاء بھی ہو سکتے ہیں جو پاکیزگی اور ولایت میں دوسروں سے کم ہوں لیکن نظامی قابلیتوں کے لحاظ سے دوسروں سے بڑھے ہوئے ہوں.مگر ہر حال میں ہر شخص کے لئے ان کی اطاعت فرض ہو گی چونکہ نظام کا ایک حد تک جماعتی سیاست کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس لئے خلفاء کے متعلق غالب پہلو یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ نظامی پہلو کو برتر رکھنے والے ہوں.گو ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ دین کے استحکام اور اس کے صحیح مفہوم کے قیام کو بھی وہ مد نظر رکھیں اس لئے خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں خلافت کا ذکر کیا وہاں بتایا ہے کہ ويمكنن لهُمْ دِينَهُمُ الَّذِی ارتضى لَهُمْ کے خدا ان کے دین کو مضبوط کرے گا اور اسے دنیا پر غالب کر لگا.پس جو دین خلفاء پیش کریں وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے مگر یہ حفاظت صغری ہوتی ہے.جزئیات میں وہ غلطی کر سکتے ہیں اور خلفاء کا آپس میں اختلاف بھی

Page 77

خلافة على منهاج النبوة ۶۳ جلد سوم ہوسکتا ہے مگر وہ نہایت ادنی چیزیں ہوتی ہیں.جیسے بعض مسائل کے متعلق حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں اختلاف رہا بلکہ آج تک بھی اُمتِ محمد یہ ان مسائل کے بارے میں ایک عقیدہ اختیار نہیں کر سکی مگر یہ اختلاف صرف جزئیات میں ہی ہو گا اصولی امور میں ان میں کبھی اختلاف نہیں ہوگا بلکہ اس کے برعکس ان میں ایسا اتحاد ہوگا کہ وہ دنیا کے ہادی وراہنما اور اسے روشنی پہنچانے والے ہوں گے.پس یہ کہہ دینا کہ کوئی شخص با وجود بیعت نہ کرنے کے اسی مقام پر رہ سکتا ہے جس مقام پر بیعت کرنے والا ہو درحقیقت یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسا شخص سمجھتا ہی نہیں کہ بیعت اور نظام کیا چیز ہے.مشورہ کے متعلق بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک ایکسپرٹ اور ماہر فن خواہ وہ غیر مذہب کا ہو اس سے مشورہ لے لیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مقدمہ میں ایک انگریز وکیل کیا مگر اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ آپ نے اُمور نبوت میں اُس سے مشورہ لیا.جنگ احزاب ہوئی تو اُس وقت رسول کریم ﷺ نے سلمان فارسی سے مشورہ لیا اور فرمایا کہ تمہارے ملک میں جنگ کے موقع پر کیا کیا جاتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ملک میں تو خندق کھود لی جاتی ہے.آپ نے فرمایا یہ بہت اچھی تجویز ہے چنانچہ خندق کھو دی گئی.اور اسی لئے اسے غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے.مگر باوجود اس کے ہم نہیں کہہ سکتے کہ سلمان فارسی فنونِ جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ماہر تھے.انہیں فنونِ جنگ میں مہارت کا وہ مقام کہاں حاصل تھا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا.یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام کئے وہ کب حضرت سلمان نے کئے بلکہ خلفاء کے زمانہ میں بھی انہیں کسی فوج کا کمانڈر انچیف نہیں بنایا گیا حالانکہ انہوں نے لمبی عمر پائی.تو ایک ایکسپرٹ خواہ وہ غیر مذہب کا ہو اس سے بھی مشورہ لیا جا سکتا ہے.میں جب بیمار ہوتا ہوں تو انگریز ڈاکٹروں سے بعض دفعہ مشورہ لے لیتا ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خلافت میں میں نے ان سے مشورہ لیا.یا یہ کہ میں انہیں اسی مقام پر سمجھتا ہوں جس مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کو سمجھتا ہوں بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ میں نے طب میں مشورہ لیا.پس فرض کر وسعد بن عبادہ سے کسی دُنیوی امر میں جس میں وہ ماہر فن ہوں مشورہ لینا ثابت ہو تب

Page 78

خلافة على منهاج النبوة ۶۴ جلد سوم -d بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مشوروں میں شامل ہوتے تھے مگر ان کے متعلق تو کوئی صحیح روایت ایسی نہیں جس میں ذکر آتا ہو کہ وہ مشوروں میں شامل ہوتے تھے بلکہ مجموعی طور پر روایات یہی بیان کرتی ہیں کہ وہ مدینہ چھوڑ کر شام کی طرف چلے گئے تھے اور صحابہ پر یہ اثر تھا کہ وہ اسلامی مرکز سے منقطع ہو چکے ہیں اسی لئے ان کی وفات پر صحابہ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے کہا فرشتوں یا جنوں نے انہیں مار دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے نزدیک ان کی موت کو بھی اچھے رنگ میں نہیں سمجھا گیا کیونکہ یوں تو ہر ایک کو فرشتہ ہی مارا کرتا ہے.ان کی وفات پر خاص طور پر کہنا کہ انہیں فرشتوں نے یا جنوں نے مار دیا بتا تا ہے کہ ان کے نزدیک وفات ایسے رنگ میں ہوئی کہ گویا خدا تعالیٰ نے انہیں اپنے خاص فعل سے اُٹھالیا کہ وہ شقاق کا موجب نہ ہوں.یہ تمام روایات بتلاتی ہیں کہ ان کی وہ عزت صحابہ کے دلوں میں نہیں رہی تھی جو ان کے اس مقام کے لحاظ سے ہونی چاہئے تھی جو کبھی انہیں حاصل تھا اور یہ کہ صحابہ ان سے خوش نہیں تھے ورنہ وہ کیونکر کہہ سکتے تھے کہ فرشتوں یا جنوں نے انہیں مار دیا بلکہ ان الفاظ سے بھی زیادہ سخت الفاظ ان کی وفات پر کہے گئے ہیں جنہیں میں اپنے منہ سے کہنا نہیں چاہتا.پس یہ خیال کہ خلافت کی بیعت کے بغیر بھی انسان اسلامی نظام میں اپنے مقام کو قائم رکھ سکتا ہے واقعات اور اسلامی تعلیم کے بالکل خلاف ہے اور جو شخص اس قسم کے خیالات اپنے دل میں رکھتا ہے میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ بیعت کا مفہوم ذرہ بھر بھی سمجھتا ہو.“ ( خطبات محمود جلد ۱۶ صفحه ۹۰ تا ۱۰۱) د الغابة الجزء الثانی صفحه ۲۵۸ زیر عنوان ” سعد بن عبادة، مطبوعہ بیروت النور: ۵۶ تاریخ طبری جلد ۳ صفحه ۱۶۵.مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء

Page 79

خلافة على منهاج النبوة 13 خلیفہ وقت کی اطاعت خطبه جمعه ۲۴ / جنوری ۱۹۳۶ء میں قرآن کریم کے ذوالبطون ہونے کا ذکر نے کے بعد خلیفہ وقت کی اطاعت کا مضمون سمجھاتے ہوئے فرمایا :.ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت محسوس کرے کہ خلیفہ وقت جو کچھ کہتا ہے اُس پر عمل کرنا ضروری ہے.اگر تو وہ سمجھتی ہے کہ خلیفہ نے جو کچھ کہا وہ غلط کہا اور اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکل سکتا تو جو لوگ یہ سمجھتے ہوں ان کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ کو سمجھائیں اور اُس سے ادب کے ساتھ تبادلۂ خیالات کریں لیکن اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر ان کا فرض ہے کہ وہ اُسی طرح کام کریں جس طرح ہاتھ دماغ کی متابعت میں کام کرتا ہے.ہاتھ کبھی دماغ کو سمجھاتا بھی ہے کہ ایسا نہ کرو.مثلاً دماغ کہتا ہے فلاں جگہ مُکا مارو.ہاتھ مُکا مارتا ہے تو آگے وہ زرہ کی سختی محسوس کرتا ہے اور ہاتھ کو درد ہوتا ہے.اس پر ہاتھ دماغ سے کہتا ہے کہ اس جگہ مگا نہ مروائیں یہاں تکلیف ہوتی ہے اور دماغ اس کی بات مان لیتا ہے.اسی طرح جماعت میں سے ہر شخص کا حق ہے کہ اگر وہ خلیفہ وقت سے کسی بات میں اختلاف رکھتا ہے تو وہ اُسے سمجھائے اور اگر اس کے بعد بھی خلیفہ اپنے حکم یا اپنی تجویز کو واپس نہیں لیتا تو اس کا کام ہے کہ وہ فرما نبرداری کرے.اور یہ تو دینی معاملہ ہے دُنیوی معاملات میں بھی افسروں کی فرمانبرداری کے تاریخ میں ایسے ایسے واقعات آتے ہیں کہ انہیں پڑھ کر طبیعت سرور سے بھر جاتی ہے.بیلا کلاوا کی جنگ ایک نہایت مشہور جنگ ہے.اس میں انگریزوں کو روسی فوج کا مقابلہ کرنا پڑا.ایک دن جنگ کی حالت میں اطلاع ملی کہ روسی فوج کا ایک دستہ حملہ کیلئے آ رہا ہے اور اُس میں آٹھ نو سو کے قریب آدمی ہیں.اس اطلاع کے آنے پر انگریز کمانڈر نے ماتحت افسر کو حکم دیا کہ تم اپنی فوج کا ایک دستہ لے کر مقابلے کیلئے جاؤ.اس افسر کو اطلاع جلد سوم

Page 80

خلافة على منهاج النبوة ۶۶ جلد سوم مل چکی تھی کہ روسی دستہ آنے کی اطلاع غلط ہے اصل میں روسی فوج آ رہی ہے جو ایک لاکھ کے قریب ہے.جب انگریز کمانڈر نے حکم دیا کہ ایک دستہ لے کر مقابلے کیلئے جاؤ تو اُس افسر نے کہا یہ خبر صحیح نہیں ایک لاکھ فوج آرہی ہے اور اُس کا مقابلہ ایک دستہ نہیں کرسکتا.انگریز کمانڈر نے کہا مجھے صحیح اطلاع ملی ہے تمہارا کام یہ ہے کہ اطاعت کرو.وہ سات آٹھ سو کا دستہ لے کر مقابلہ کیلئے چل پڑا لیکن جب قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ حقیقت میں ایک لاکھ کے قریب دشمن کی فوج ہے.بعض ماتحتوں نے کہا کہ اس موقع پر جنگ کرنا درست نہیں ہمیں واپس چلے جانا چاہئے مگر اُس افسر نے گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے بڑھایا اور کہا ماتحت کا کام اطاعت کرنا ہے اعتراض کرنا نہیں.باقیوں نے بھی گھوڑے بڑھا دئیے اور سب ایک ایک کر کے اس جنگ میں مارے گئے.قوم آج تک اس واقعہ پر فخر کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اس کی قوم کے لوگوں نے اطاعت کا کیسا اعلیٰ نمونہ دکھایا اور گو یہ انگریز قوم کا واقعہ ہے مگر کون ہے جو اس واقعہ کو سن کر خوشی محسوس نہیں کرتا.ایک جرمن بھی جب اس واقعہ کو پڑھتا ہے تو وہ فخر محسوس کرتا اور کہتا ہے کاش! یہ نمونہ ہماری قوم دکھاتی ، ایک فرانسیسی بھی جب یہ واقعہ پڑھتا ہے تو فخر محسوس کرتا اور کہتا ہے کاش ! یہ نمونہ ہماری قوم دکھاتی ، ایک روسی بھی جب یہ واقعہ پڑھتا ہے تو فخر محسوس کرتا اور کہتا ہے کاش ! یہ نمونہ ہماری قوم دکھاتی.پس اطاعت اور افسر کی فرمانبرداری ایسی اعلیٰ چیز ہے کہ دشمن بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا مگر بغیر مصائب میں پڑے اور تکلیفوں کو برداشت کرنے کے یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا.اسی طرح ایک اور موقع پر ایک ترک جرنیل نے روسیوں سے لڑائی کی.ترک جرنیل کو مشورہ دیا گیا کہ اپنے ہتھیار ڈال دو کیونکہ دشمن بہت زیادہ طاقتور ہے لیکن وہ اس پر تیار نہ ہوا.آخر وہ قلعہ میں بند ہو گیا روسیوں نے مہینوں اُس کا محاصرہ رکھا اور کوئی کھانے پینے کی چیز باہر سے اندر نہ جانے دی.نتیجہ یہ ہوا کہ جب غذا کا ذخیرہ ختم ہو گیا تو اُس نے سواری کے گھوڑے ذبح کر کے کھانے شروع کر دیئے مگر ہتھیار نہ ڈالے لیکن آخر وہ بھی ختم ہو گئے تو اُس نے بوٹوں کے چمڑے اور دوسری ایسی چیزیں اُبال اُبال کر سپاہیوں کو پلانی شروع کر دیں مگر ہتھیار نہ ڈالے.آخر سب سامان ختم ہو گئے اور روسی فوج نے قلعہ کی دیواروں کو بھی توڑ دیا تو

Page 81

خلافة على منهاج النبوة ۶۷ جلد سوم یہ بہادر سپاہی اطاعت قبول کرنے پر مجبور ہوئے.چونکہ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ مفتوح فاتح کے سامنے اپنی تلوار پیش کرتا ہے اسی قاعدہ کے مطابق جب اُس ترکی جرنیل نے روسی کمانڈر کے سامنے اپنی تلوار پیش کی تو روسی کمانڈر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ کہنے لگا میں ایسے بہادر جرنیل کی تلوار نہیں لے سکتا.تو اطاعت اور قربانی اور ایثا ر ایسی اعلیٰ چیزیں ہیں کہ دشمن کے دل میں بھی درد پیدا کر دیتی اور اُس کی آنکھوں کو نیچا کر دیتی ہیں.انگریزی قوم سے جہاں اچھے واقعات ہوئے ہیں وہاں اس سے ایک بُرا واقعہ بھی ہوا مگر اس کے اندر بھی یہ سبق ہے کہ قربانی اور ایثار نہایت اعلیٰ چیز ہے.جب نپولین کو انگریزوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی اور اُس کے اپنے ملک میں بغاوت ہوگئی تو اس نے کہا میں اپنے آپ کو اب خود انگریزوں کے سپر د کر دیتا ہوں.انگریزوں سے ہی اس کی لڑائی تھی چنانچہ وہ اُسے پکڑ کر انگلستان لے گئے.جب پارلیمنٹ کے سامنے معاملہ پیش ہوا تو اُس نے کہا نپولین سے تلوار کیوں نہیں لی گئی ؟ یہ تلوار لینے کا وہی طریق تھا جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ مفتوح جرنیل سے فاتح جرنیل تلوار لے لیا کرتا تھا.جب پارلیمنٹ نے یہ سوال اُٹھایا تو ایک انگریز لارڈ کو اس غرض کیلئے مقرر کیا گیا کہ وہ جا کر نپولین سے تلوار لے آئے.جب اُس کے سپرد یہ کام کیا گیا تو وہ پارلیمنٹ میں کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا ایسے بہادر دشمن سے جس نے اپنے آپ کو خود ہمارے حوالے کر دیا ہے تلوار لینا ہماری ذلت ہے.مگر چونکہ اُس وقت انگریزوں میں بہت جوش تھا اور اُنہیں نپولین کے خلاف سخت غصہ تھا اس لئے بہادری کے خیالات ان کے دلوں میں دبے ہوئے تھے انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا نپولین سے تلوار ضرور لی جائے گی.پھر انہوں نے اُس لارڈ کے ساتھ ایک ایسے شخص کو کر دیا جو ایسے اعلیٰ اخلاق کا مالک نہیں تھا جن اعلیٰ اخلاق کا وہ لارڈ مالک تھا اور کہا کہ نپولین سے ضرور تلوار لی جائے.جب وہ نپولین کے پاس پہنچے تو وہ لارڈ نہایت رقت کے ساتھ نپولین سے کہنے لگا میری زبان نہیں چلتی اور مجھے شرم آتی ہے کہ میں آپ کو وہ پیغام پہنچاؤں مگر چونکہ مجھے حکم ہے اس لئے میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ اپنی تلوار ہمارے حوالے کر دیں.نپولین نے یہ سن کر کہا کیا انگریز قوم جس کو میں اتنا بہادر سمجھتا تھا اپنے مفتوح دشمن سے اتنی معمولی رعایت بھی نہیں کر سکتی ! یہ سن کر اُس لارڈ کی چیخ نکل گئی اور

Page 82

خلافة على منهاج النبوة ۶۸ جلد سوم وہ پیچھے ہٹ گیا مگر اس کے نائب نے آگے بڑھ کر اُس کی تلوار لے لی.تو بہادری اور جرات کے واقعات غیر کے دل پر بھی اثر کر جاتے ہیں.اگر ہمارے کارکن بھی وہ اطاعت، قربانی اور ایثار پیدا کریں جن کا حقیقی جرات تقاضا کرتی ہے تو دیکھنے والوں کے دل پر جماعت احمدیہ کا بہت بڑا رعب پڑے گا اور ہر شخص یہی سمجھے گا کہ یہ جماعت دنیا کو کھا جائے گی.اور اگر یہ نہ ہو بلکہ میں خطبے کہتا چلا جاؤں لوگ کچھ اور ہی کرتے جائیں، مبلغین کسی اور رستے پر چلتے رہیں، ناظر اپنے خیالوں اور اپنی تجویزوں کو عملی جامہ پہنانے کی فکر میں رہیں، اسی طرح کارکن ، سیکرٹری، پریذیڈنٹ ، استاد، ہیڈ ماسٹر سب اپنے اپنے راگ الاپتے رہیں اور بندھے ہوئے جانور کی طرح اپنے کیلے کے گرد بار بار پھرتے رہیں تو بتاؤ کیا اس طرح ترقی ہوسکتی ہے؟ خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اُس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم، وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اُس وقت تک سب خطبات رائیگاں ، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں نا کام ہیں.میں آج تک جس قدر خطبات دے چکا ہوں انہیں نکال کر ناظر دیکھ لیں کہ آیا وہ ان پر عمل نہ کرنے کے لحاظ سے مجرم ہیں یا نہیں ؟ اسی طرح محلوں کے پریذیڈنٹ ان خطبات کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ آیا وہ مجرم ہیں یا نہیں ؟ ۱۴ ماہ اس تحریک کو ہو گئے مگر کیا ناظروں ، محلہ کے پریذیڈنٹوں اور دوسرے کارکنوں نے ذرا بھی اُس روح سے کام لیا جو میں ان کے اندر پیدا کرنا چاہتا تھا.اگر وہ میرے ساتھ تعاون کرتے تو پچھلے سال ہی اتنا عظیم الشان تغیر ہو جاتا کہ جماعت کی حالت بدل جاتی اور دشمن مرعوب ہو جاتا مگر چونکہ وہ اس رنگ میں رنگین نہیں ہوئے جس رنگ میں میں اُنہیں رنگین کرنا چاہتا تھا اس لئے عملی طور پر انہوں نے وہ نمونہ نہیں دکھایا جو انہیں دکھانا چاہئے تھا.ان کی مثال بدر کے ان گھوڑوں کی سی نہیں جن کے متعلق ایک کافر نے کہا تھا کہ ان گھوڑوں پر آدمی نہیں موتیں سوار ہیں.بلکہ ان کی مثال حنین کے ان گھوڑوں کی سی ہے جنہیں سوار میدانِ جنگ کی طرف موڑتے مگر وہ مکہ کی طرف بھاگتے تھے کے

Page 83

خلافة على منهاج النبوة ۶۹ جلد سوم پس میں بریکاری کو دور کرنے کی طرف پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور تمام کارکنوں کو خواہ وہ ناظر ہوں یا افسر، کلرک ہوں یا چپڑاسی، پریذیڈنٹ ہوں یا سیکرٹری توجہ دلاتا ہوں کہ اس روح کو اپنے اندر پیدا کرو.کیا فائدہ اس بات کا کہ تم نے چار سو یا تین سو یا دوسو یا ایک سو ، یا ساٹھ یا پچاس روپیہ چندہ میں دے دیا، اگر تمہارے اندر وہ روح پیدا نہیں ہوئی جو ترقی کرنے والی قوموں کیلئے ضروری ہوتی ہے.ہم اگر پچاس روپے کا بیج خرید تے ہیں جسے گھن لگا ہوا ہے تو وہ سب ضائع ہے لیکن اگر ہم ایک روپیہ کا بیج خریدتے ہیں اور وہ تازہ اور عمدہ ہے تو وہ پچاس روپوں کے بیج سے اچھا ہے.اسی طرح صرف روپیہ کوئی فائدہ نہیں دے سکتا جب تک وہ ایثار، وہ قربانی ، وہ تعاون اور وہ محبت و اخوت کی روح پیدا نہیں ہوتی جو جماعت کو یکجان و دو قالب “ بنادیتی ہے.اگر خلافت کے کوئی معنی ہیں تو پھر خلیفہ ہی ایک ایسا وجود ہے جو ساری جماعت میں ہونا چاہئے اور اُس کے منہ سے جو لفظ نکلے وہی ساری جماعت کے خیالات اور افکار پر حاوی ہونا چاہئے ، وہی اوڑھنا ، وہی بچھونا ہونا چاہئے ، وہی تمہارا ناک، کان، آنکھ اور زبان ہونا چاہئے.ہاں تمہیں حق ہے کہ اگر کسی بات میں تم خلیفہ وقت سے اختلاف رکھتے ہو تو اسے پیش کرو.پھر اگر خلیفہ تمہاری بات مان لے تو وہ اپنی تجویز واپس لے لے گا اور اگر نہ مانے تو پھر تمہارا فرض ہے کہ اُس کی کامل اطاعت کرو ویسی ہی اطاعت جیسے دماغ کی اطاعت اُنگلیاں کرتی ہیں.دماغ کہتا ہے فلاں چیز کو پکڑو اور اُنگلیاں جھٹ اُسے پکڑ لیتی ہیں.لیکن اگر دماغ کہے اور اُنگلیاں نہ پکڑیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ ہاتھ مفلوج اور انگلیاں رعشہ زدہ ہیں کیونکہ رعشہ کے مریض کی یہ حالت ہوا کرتی ہے کہ وہ چاہتا ہے ایک چیز کو پکڑے مگر اس کی اُنگلیاں اسے نہیں پکڑ سکتیں.پس خلیفہ ایک حکم دیتا ہے مگر لوگ اُس کی تعمیل نہیں کرتے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ رعشہ زدہ وجود ہیں.لیکن کیا رعشہ والے وجود بھی دنیا میں کوئی کام کیا کرتے ہیں؟“ خطبات محمود جلد۷ اصفحہ اے تا ۷۶ ) ل السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول صفحه ۶۸۲ زیرعنون تشاور قریش فی الرجوع عن القتال ، مطبوعہ دمشق ۲۰۰۵ء السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول صفحه ۲۴ از رعنون رجوع الناس بنداء 66 العباس مطبوعہ دمشق ۲۰۰۵ء

Page 84

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی تفسیر ۱۹ جون ۱۹۳۶ء کو خطبہ جمعہ اهدنا الصراط الْمُسْتَقِيمَ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا :.میں نے متواتر بتایا ہے کہ ہر چیز اپنے ماحول کے ساتھ ہی ترقی کر سکتی ہے بغیر اس کے نہیں.تم اچھے سے اچھا گیہوں کا بیج اگر جیٹھ یا ہاڑ میں بو دو تو اس سے کھیتی پیدا نہیں ہو گی ، تم عمدہ سے عمدہ کپاس کا بیج اگر اگست اور ستمبر میں بود و تو اس پیج سے کپاس کی فصل نہیں ہوگی ، یا بہتر سے بہتر کتا اگر تم اپریل یا مئی میں بود و تو اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا کیونکہ ہر چیز کیلئے خدا تعالیٰ نے کچھ قانون مقرر فرمائے ہیں اور ان کے ماتحت ہی نتیجہ نکلا کرتا ہے.میں نے ہمیشہ بتایا ہے اور اب دو سال سے تو متواتر بتاتا چلا آ رہا ہوں کہ خلافت کی غرض و غایت کچھ نہ کچھ ضرور ہونی چاہئے اور جب کوئی شخص خلیفہ کی بیعت کرتا ہے تو اس کی بیعت کے بھی کوئی معنے ہونے چاہئیں.اگر تم بیعت کے بعد اور میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے کے بعد میری سنتے ہی نہیں اور اپنی ہی کہے چلے جاتے ہو تو ایسی بیعت کا فائدہ ہی کیا؟ اس صورت میں تو ایسی بیعت کو تہہ کر کے الگ پھینک دینا زیادہ فائدہ مند ہے بہ نسبت اس کے کہ انسان دنیا میں بھی ذلیل ہوا اور خدا تعالیٰ کی نظر میں بھی لعنتی بنے.میں نے متواتر آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ ہر کام جو آپ لوگ کریں عقل کے ماتحت کریں اور ان ہدایات کے ماتحت کریں جو میں آپ لوگوں کو دیتا آ رہا ہوں.آپ لوگ اس بات کو سمجھیں یا نہ سمجھیں ، اسی طرح دنیا اس بات کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت اسلام کی ترقی خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ وابستہ کر دی ہے جیسا کہ ہمیشہ وہ اپنے دین کی ترقی خلفاء کے ساتھ وابستہ کیا کرتا ہے.پس جو میری سُنے گا وہ جیتے گا اور جو میری نہیں سنے گا وہ

Page 85

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم ہارے گا ، جو میرے پیچھے چلے گا خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اُس پر کھولے جائیں گے اور جو میرے راستہ سے الگ ہو جائے گا خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اُس پر بند کر دئیے جائیں گے.ایسا انسان جس کی آنکھوں کے سامنے نمونہ نہ ہو وہ معذور ہوتا ہے مگر جس شخص کے سامنے نمونہ ہو اُس کا باوجود نمونہ سامنے ہونے کے صداقت پر مضبوطی سے قائم نہ رہنا بہت بڑا جرم ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے خلافت کی باگ میرے ہاتھ میں اُس وقت دی جب ہمارے خزانے میں صرف چند آنے کے پیسے تھے غالباً اٹھارہ آنے تھے جو اُس وقت خزانہ میں موجود تھے.پھر پندرہ ہیں ہزار روپیہ قرض تھا اور جماعت کا اٹھانوے فیصدی حصہ دشمنوں کے ساتھ ملا ہوا تھا تب اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اور میرے ہاتھوں سے تمام جماعت کو اکٹھا کیا ، اس کی مالی پریشانیوں کو دور کیا اور جماعت آگے سے بھی زیادہ مضبوطی کے ساتھ چلنے لگی.پھر مسائل کی بحث شروع ہوئی اگر اہل پیغام اس جنگ میں جیتے تو کیا نتیجہ نکلتا.احمدیت بالکل مٹ جاتی اور روحانی دنیا پر ایک موت آجاتی مگر کیا اس جنگ کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے فتح نہیں دی ؟ کیا ليمكنن لهُمْ دِينَهُمُ الَّذِی ارْتَضَى لَهُمْ لا کا نظارہ اس نے نہیں دکھایا ؟ پھر تبلیغ دین اور اشاعت احمدیت کی جنگ میں اس نے میری پالیسی کو کامیاب نہیں کیا ؟ سلسلہ کے نظام کے بارہ میں میری سکیم کو غیر معمولی برکت نہیں بخشی ؟ حتی کہ دشمن بھی اس پر رشک کرتے ہیں اور اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.پھر نیم سیاسی امور میں ہماری شرکت کے سوال کو لو کیا اس میدان میں اس نے میری باتوں کو درست ثابت نہیں کیا ؟ جب جنگ عظیم کے بعد ادھر خلافت کی شورش پیدا ہوئی ادھر کانگرس کی شورش نے ملک میں ایک آگ لگا دی تو یہ ایک بہت بڑا ابتلاء تھا اور ہندوستان کے عقلمند سے عقلمند انسان بھی اس شورش میں بہ گئے تھے اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے جو راستہ مجھے بتایا وہی ٹھیک اور درست نکلا اور آخر لوگ پچھتا کراسی جگہ پر واپس آگئے جس جگہ میں لانا چاہتا تھا.پھر ملکانوں میں تبلیغ کا زمانہ آیا خلافت کے فساد کے بعد نئے رنگ میں خلافت کے مٹنے کا جوش پیدا ہوا ، عرب میں اختلافات کا سلسلہ شروع ہوا، ان میں سے ہر معاملہ میں خدا تعالیٰ نے میری رائے کو صحیح ثابت کیا اور دوسروں

Page 86

خلافة على منهاج النبوة ۷۲ جلد سوم کی رائے غلط ثابت ہوئی.ایک وہ وقت تھا کہ حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل کے زمانہ میں پیغامیوں کے اس کہنے پر کہ ایک بچہ کے ذریعہ جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے، مسجد میں بیٹھے ہوئے احمدی گریہ و بکا کر رہے تھے اور رورہے تھے کہ واقعہ میں جماعت کو ایک بچہ کے ذریعہ تباہ کیا جا رہا ہے مگر آج وہی بچہ ہے جس کے سامنے وہی لوگ اس کی بیعت میں داخل ہو کر بیٹھے ہوئے ہیں کیا یہ سب کچھ نشان اور معجز نہیں؟ پس اگر خلافت کے کوئی معنی ہیں تو آپ لوگوں کو وہی طریق اختیار کرنا چاہئے جو میں بتا تا ہوں ورنہ بیعت چھوڑ دینا بیعت میں رہ کر اطاعت نہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے.وہ طریق جو میں نے متواتر بتایا ہے یہ ہے کہ ہمارے سامنے نہایت ہی اہم معاملات ہیں.آج تک ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت پر ایک عدالت نے جو حملہ کیا تھا وہ بغیر بدلہ لئے قائم ہے.میں ہر اُس احمدی سے جو سمجھتا ہے کہ وہ غیرت مند ہے کہتا ہوں اگر اس کی غیرت کسی اور جگہ ظاہر ہوتی ہے تو وہ سخت بے غیرت ہے.اگر وہ واقعہ میں غیرت مند ہے تو کیوں اس کی غیرت اس جگہ ظاہر نہیں ہوتی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت پر حملہ کیا جاتا ہے.ابھی تک نہ اس فیصلہ کی تردید ہندوستان میں پھیلا ئی گئی ہے نہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہی کثرت سے لوگوں میں پھیلایا گیا ہے اور نہ اس کے ازالہ کیلئے گورنمنٹ کو مجبور کیا گیا ہے.آجکل تو میں نے طریق ہی یہ اختیار کیا ہوا ہے کہ جب کوئی احمدی مجھے اس قسم کا خط لکھتا ہے کہ فلاں احمدی نے میرے ساتھ یہ معاملہ کیا تھا جس پر مجھے بڑا جوش آیا مگر میں نے پہلے آپ کو خبر دینا مناسب سمجھا تو میں اُسے لکھا کرتا ہوں میں یہ ماننے کیلئے ہرگز تیار نہیں کہ تم با غیرت ہو.تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کی حفاظت کیلئے غیرت نہیں دکھائی تو میں یہ کس طرح مان سکتا ہوں کہ تم میں اس وقت غیرت پیدا ہوسکتی ہے جب تمہاری ذات پر کوئی حملہ کرے.“ خطبات محمود جلد ۷ اصفحه ۳۹۶ تا ۳۹۸) النور : ۵۶

Page 87

خلافة على منهاج النبوة ۷۳ جلد سوم سلسلہ احمدیہ میں نظام خلافت خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے ۲۳ سالہ واقعات کی شہادت فرموده ۲۶ مارچ ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج سے ۲۳ سال قبل اس مقام پر اسی مسجد میں ہمارے سامنے ایک ایسا سوال پیش ہوا تھا جو ہماری جماعت کیلئے زندگی اور موت کا سوال تھا.تاریخ آج کی نہ تھی لیکن مہینہ یہی تھا جبکہ جماعت کے مختلف نمائندوں اور احباب کے سامنے یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ آیا ہماری جماعت کا نظام اسلامی طریق کے مطابق خلافت کے ماتحت ہوگا یا مغربی طریق پر ایک انجمن کے ماتحت.میری عمر اُس وقت پچیس سال دو ماہ تھی.دنیوی تجربہ کے لحاظ سے میں کوئی کام ایسا پیش نہیں کر سکتا تھا اور نہیں کر سکتا کہ جس کی بناء پر یہ کہا جا سکے کہ مجھے دنیا کے کاموں کا کوئی تجربہ حاصل تھا.سلسلہ کے تمام کام ایک ایسی جماعت کے سپرد تھے جو اُس وقت نظام خلافت کی شدید مخالف تھی اور اس کا دعویٰ تھا کہ نظام جماعت ایک انجمن کے ماتحت چاہئے جس کے پریذیڈنٹ کو کسی قدر اختیارات تو دے دیئے جائیں لیکن وہ کثرتِ رائے کا پابند ہوا اور خلافت کا نظام چونکہ اس زمانہ کے طریق اور اس زمانہ کی رو کے خلاف ہے اور اس نظام میں بہت سے نقائص ہیں اس لئے اسے اختیار نہیں کرنا چاہیئے.حضرت خلیفہ اول کی بیعت ایک پریشانی، گھبراہٹ اور صدمہ کے ماتحت ہوئی تھی اور ضروری نہیں کہ جماعت پھر اسی غلطی کا اعادہ کرے.اس کے برخلاف میں اور بعض میرے احباب اس بات پر قائم تھے کہ خلافت شریعت اسلامیہ کا ایک اہم مسئلہ ہے اور یہ کہ بغیر خلافت کے صحیح طریق کے اختیار کرنے کے

Page 88

خلافة على منهاج النبوة ۷۴ جلد سوم جماعت اور سلسلہ کو کوئی ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.ہمارے متعلق کہا جاتا تھا کہ ہم لوگ صرف خلافت کے حصول کیلئے اس مسئلہ کو پیش کر رہے تھے اور اپنی حکومت اور طاقت کے بڑھانے کا ذریعہ اسے بنارہے تھے.جب میں نے دیکھا کہ اس تائید کو ایک غلط رنگ دیا جاتا ہے اور غلط پیرا یہ میں اسے پیش کیا جاتا ہے تو میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کے فیصلہ کو کسی ایسے امر سے نقصان نہیں پہنچنا چاہئے جس کا ازالہ ہمارے امکان میں ہو اور اس لئے میں نے مولوی محمد علی صاحب کو جو اُس وقت اس تحریک کے لیڈر تھے اس غرض سے بلوایا تا ان کے ساتھ کوئی مناسب گفتگو کی جاسکے.اس مسجد کے دائیں جانب نواب محمد علی خان صاحب کا مکان ہے جہاں حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے وفات پائی تھی اس کے ایک کمرہ میں میں نے مولوی محمد علی صاحب کو بلوا کر کہا کہ خلافت کے متعلق کوئی جھگڑا پیش نہ کریں اور اپنے خیالات کو صرف اس حد تک محدود رکھیں کہ ایسا خلیفہ منتخب ہو جس کے ہاتھ میں جماعت کے مفاد محفوظ ہوں اور جو اسلام کی ترقی کی کوشش کر سکے.چونکہ صلح ایسے ہی امور میں ممکن ہوتی ہے جن میں قربانی ممکن ہو میں نے مولوی صاحب سے کہا جہاں تک ذاتیات کا سوال ہے میں اپنے جذبات کو آپ کی خاطر قربان کر سکتا ہوں لیکن اگر اصول کا سوال آیا تو مجبوری ہوگی کیونکہ اصول کا ترک کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں.ہمارے اور آپ کے درمیان یہی فرق ہے کہ ہم خلافت کو ایک مذہبی مسئلہ سمجھتے ہیں اور خلافت کے وجود کو ضروری قرار دیتے ہیں مگر آپ خلافت کے وجود کو ائز قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ابھی ابھی ایک خلیفہ کی بیعت سے آپ کو آزادی ملی ہے اور چھ سال تک آپ نے بیعت کئے رکھی ہے اور جو چیز چھ سال تک جائز تھی وہ آئندہ بھی حرام نہیں ہو سکتی.آپ کی اور ہماری پوزیشن میں یہ ایک فرق ہے کہ آپ اگر اپنی بات کو چھوڑ دیں تو آپ کو وہی چیز اختیار کرنی پڑے گی جسے آپ نے آج تک اختیار کئے رکھا.لیکن ہم اگر اپنی بات چھوڑیں تو وہ چیز چھوڑنی پڑتی ہے جسے چھوڑنا ہمارے عقیدہ اور مذہب کے خلاف ہے اور جس کے خلاف ہم نے کبھی عمل نہیں کیا.پس انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ آپ وہ راہ اختیار کرلیں جو آپ نے آج تک اختیار کر رکھی تھی اور ہمیں ہمارے مذہب اور اصول کے خلاف مجبور نہ کریں.باقی رہا یہ سوال کہ جماعت کی ترقی اور اسلام کے قیام کیلئے کون مفید ہوسکتا ہے

Page 89

خلافة على منهاج النبوة ۷۵ جلد سوم سوجس شخص پر آپ متفق ہوں گے اُسے ہی ہم خلیفہ مان لیں گے.کسی غیر جانبدار شخص کے سامنے اگر یہ باتیں پیش کر دی جائیں تو وہ تسلیم کرے گا کہ میرا نقطہ نگاہ صحیح تھا مگر مولوی صاحب یہی کہتے رہے کہ ہم کسی واجب الا طاعت خلیفہ کو ماننا نا جائز سمجھتے ہیں اور جب میں نے کہا کہ آپ لوگ حضرت خلیفہ اول کو چھ سال تک مانتے آئے ہیں تو کہا کہ ایک بزرگ سمجھ کر ہم نے ان کی بیعت کر لی تھی.اس پر میں نے کہا کہ اب بھی کسی بزرگ کو خلیفہ مان لیں میں تیار ہوں کہ اُس کی بیعت کرلوں.مگر وہ کسی بات پر رضامند نہ ہوئے اور جب بحث لمبی ہوگئی تو طبائع میں سخت اشتعال پیدا ہو گیا کہ جماعت کسی فیصلہ پر کیوں نہیں پہنچتی.لوگوں نے کمرہ کا احاطہ کر لیا اور بعض نے دروازے کھٹکھٹانے شروع کر دیئے اور اس میں اتنی شدت پیدا ہوئی کہ بعض شیشے ٹوٹ گئے.جماعت کے افراد کہہ رہے تھے کہ باہر آ کر فیصلہ کریں یا ہم خود فیصلہ کر لیں گے.اُس وقت میں نے پھر مولوی صاحب سے کہا کہ دیکھئے ! یہ بہت نازک وقت ہے اور شدید تفرقہ کا خطرہ ہے میں آپ سے اسی چیز کا مطالبہ کرتا ہوں جو آپ آج تک خود کرتے آئے ہیں اور آپ اس چیز کا مطالبہ کرتے ہیں جو ہمارے نزدیک جائز ہی نہیں.آپ کے خدشات کا میں نے ازالہ کر دیا ہے اس لئے آپ کے سامنے اب یہ سوال ہونا چاہئے کہ خلیفہ کون ہو؟ یہ نہیں کہ خلیفہ ہونا نہیں چاہئے.لیکن اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کیوں اس قدر زور دے رہے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ لوگ کے خلیفہ منتخب کریں گے.میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں کہ کسے منتخب کریں گے لیکن میں خود اُس کی بیعت کرلوں گا جسے آپ چنیں گے.اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ لوگ ہم میں سے کسی کو منتخب کریں گے تو جب میں آپ کے تجویز کردہ کی بیعت کرلوں گا تو پھر چونکہ خلافت کے موید میری بات مانتے ہیں مخالفت کا خدشہ ہی پیدا نہیں ہوسکتا.لیکن انہوں نے پھر یہی کہا کہ میں جانتا ہوں کہ آپ کیوں زور دے رہے ہیں.میں نے اُن سے کہا کہ میں اپنا دل چیر کر آپ کو کس طرح دکھاؤں.میں تو جو قربانی میرے امکان میں ہے کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن پھر بھی اگر آپ نہیں مانتے تو اختلاف کی ذمہ داری آپ پر ہوگی نہ کہ مجھ پر.یہ کہہ کر ہم وہاں سے اُٹھے اور اسی مسجد نور میں آگئے جہاں لوگ جمع تھے.

Page 90

خلافة على منهاج النبوة ۷۶ جلد سوم بعض لوگوں کی رائے تھی کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہوی کا نام تجویز کریں اور اس کیلئے وہ تیار تھے.مگر ابھی وہ لوگ اُٹھ ہی رہے تھے کہ مولوی محمد احسن صاحب نے خود کھڑے ہو کر میرا نام تجویز کر دیا.اُس وقت جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کیونکہ بہت گھبراہٹ اور شور تھا اور سارا مجمع مجھے نظر بھی نہ آتا تھا مولوی محمد علی صاحب نے کچھ کہنا چاہا مگر لوگوں نے اُن کو روک دیا.میں نے بعد میں سنا کہ انہوں نے یہی کہنے کی کوشش کی تھی کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی خلیفہ ہو مگر ان لوگوں نے جو اُن کے قریب بیٹھے تھے اُن سے کہہ دیا کہ ہم آپ کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں.اس پر مولوی صاحب مجمع سے اُٹھ کر اپنی کوٹھی میں جہاں اب جامعہ احمد یہ ہے چلے گئے اور ان کے جانے کے بعد تمام جماعت کا رحجان میری طرف ہو گیا.حالانکہ جیسا مجھے بعض دوستوں نے بعد میں بتایا اُس وقت تک وہ اس کیلئے تیار تھے کہ مولوی صاحب کی بیعت کر لیں.خدا کی قدرت ہے مجھے بیعت کے الفاظ بھی یاد نہ تھے اور جب لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں تو چونکہ میں چاہتا تھا کہ ابھی ٹھہر جائیں شاید صلح کی کوئی صورت نکل آئے.میں نے کہا کہ مجھے تو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں ہیں لیکن مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بھی وہاں موجود تھے وہ اُٹھ کر میرے قریب آگئے اور کہا کہ مجھے بیعت کے الفاظ یاد ہیں میں کہتا جاتا ہوں آپ دُہراتے جائیں.میں نے اس پر بھی کچھ ہچکچاہٹ ظاہر کی لیکن لوگوں نے شور مچا دیا کہ فوراً بیعت لی جائے.چونکہ میرا عقیدہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے میں نے سمجھ لیا کہ اب یہ خدائی فیصلہ ہے اور میں نے بیعت لینی شروع کر دی اور اُس وقت بیعت لی جبکہ جماعت پراگندگی کی حالت میں تھی ، جبکہ تمام لیڈر مخالف تھے اور جب کہ وہ دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگر یہ طریق اختیار کیا گیا تو ہم اُسے کچلنے کیلئے تمام ذرائع اختیار کریں گے.ماسٹر عبد الحق صاحب مرحوم جنہوں نے قرآن کریم کے پہلے پارہ کا ترجمہ انگریزی میں کیا تھا وہ پہلے ان لوگوں کے ساتھ تھے مگر بعد میں بیعت میں شامل ہو گئے.انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ یہاں سے جا کر مولوی صدر دین صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جس پر چالیس مومن اتفاق کریں وہ بیعت لے سکتا

Page 91

خلافة على منهاج النبوة 22 جلد سوم ہے.(حالانکہ اس سے مراد جماعت میں شامل کرنے کی بیعت ہے اطاعت کی نہیں ) ہم یہ کیوں نہ کریں کہ چالیس لوگوں کو جمع کر کے سید عابد علی شاہ صاحب کو خلیفہ بنادیں تا لوگوں کی توجہ ادھر سے ہٹ جائے.عابد علی شاہ صاحب کو الہام الہی کا دعوی تھا.اُن کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں کوئی عہدہ ملنے والا ہے چنانچہ انہوں نے عابد علی شاہ صاحب کو منوا بھی لیا لیکن لالٹین لے کر وہ ساری رات در بدر پھرتے رہے مگر انہیں چالیس آدمی بھی میسر نہ آئے.حالانکہ آبادی بہت کافی تھی اور ہزاروں اشخاص با ہر سے بھی آئے ہوئے تھے.خدا کی قدرت ہے اگر ان کو چالیس آدمی مل جاتے تو ممکن ہے اُسی وقت خلافت کا ڈھونگ رچاتے.لیکن اتنے آدمی بھی نہ ملے اور ادھر عابد علی شاہ صاحب کو دوسرے دن رؤیا ہوا اور انہوں نے آکر میری بیعت کر لی وَالله اَعْلَمُ یہ ان کی کوئی خیالی بات تھی یا اللہ تعالیٰ کا انہیں ہدایت دینے کا منشاء تھا.انہوں نے دوسرے روز آکر بیعت کر لی.لیکن پہلے چونکہ انہوں نے خلیفہ بنے کیلئے رضا مندی کا اظہار کر دیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کی انہیں بڑی سخت سزا دی.بیعت کے کچھ عرصہ بعد وہ کہنے لگے کہ دراصل اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ منتخب کیا ہے.میں نے کہا کہ آپ کا خدا بھی عجیب ہے بھی تو آپ کو خلیفہ مقرر کرتا ہے اور کبھی بیعت کرنے کا حکم دیتا ہے.مگر وہ آہستہ آہستہ اس دعوئی میں بڑھتے گئے اور آخر جماعت سے الگ ہوکر بیعت لینے لگ گئے.چند سالوں کے بعد جب طاعون پھیلی تو انہوں نے کہا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ میرا گھر طاعون سے محفوظ رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی یہی الہام تھا مگر دیکھو دونوں میں کتنا فرق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کے شائع ہونے کے بعد پانچ سات سال تک قادیان میں طاعون پھیلتی رہی بلکہ اس محلہ میں جس میں آپ کا گھر تھا پھیلتی رہی اور ان گھروں میں پھیلتی رہی جو آپ کے مکان کے دائیں بائیں واقع تھے اور پھر معمولی حالت میں نہیں بلکہ ایسی شدید تھی کہ تین تین ، چار چار اموات ان گھروں میں ہوئیں مگر آپ کے مکان میں ایک چھو ہا تک نہ مرا.لیکن سید عابد علی صاحب کے الہام کے بعد نہ صرف یہ کہ ان کے گھر میں آنے والے بعض لوگ طاعون سے ہلاک ہوئے بلکہ وہ خود بھی اور اُن کی بیوی بھی اسی سال طاعون سے فوت ہو گئے.بیشک و وہ

Page 92

خلافة على منهاج النبوة ۷۸ جلد سوم ظاہری نماز روزہ کے پابند اور صوفی منش آدمی تھے مگر بعض لوگوں کے اندر ایک مخفی رنگ کا کبر ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کو پسند نہیں ہوتا.ایسے لوگوں کو شیطان نیکی کی راہیں دکھا کر ہی قابو کرتا ہے اور بعد میں خدا تعالیٰ کا سلوک یہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ الہام شیطانی تھا یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو ان کا تو یہ حال ہوا.ادھر وہ لوگ جو اپنے آپ کو جماعت کا لیڈر اور رئیس سمجھتے تھے اور جن میں سے ایک نے اس سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جاتے ہیں لیکن دس سال نہیں گزریں گے کہ اس پر آریوں اور عیسائیوں کا قبضہ ہو گا مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دس سال گزرے پھر دس سال گزرے اور پھر تیسرے دس سالوں میں سے بھی تین سال گزر گئے مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس عمارت پر کسی عیسائی یا آریہ کا قبضہ نہیں بلکہ عیسائیوں اور آریوں کا مقابلہ کرنے والے احمدیوں کا ہی قبضہ ہے.اور جن احمد یوں کا قبضہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھتے اور طاقتور ہوتے جارہے ہیں اور وہ شخص جس نے اسی مسجد میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کرنا چاہا تھا کہ کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہئے اس سال ان کے اخبار میں اعلان کیا جا رہا ہے کہ ہم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک کوئی واجب الاطاعت خلیفہ مقرر نہ کریں اور ہمیں چاہئے کہ ہم مولوی محمد علی صاحب کو ایسا مان لیں.جس شخص کو میرے مقابلہ پر کھڑا کرنا چاہتے تھے وہ طاعون کا مارا ہوا اپنے گاؤں میں پڑا ہے اور جو لوگ میرے مقابل پر یہ کہہ رہے تھے کہ خلافت کی ضرورت ہی نہیں وہ آج نا کام ہو کر اس مسئلہ کی طرف آ رہے ہیں اور ۲۳ سال بعد پھر اسی نکتہ کی طرف کو ٹتے ہیں.یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ صدرانجمن کا پریذیڈنٹ بھی ایسا ہونا چاہئے جو کم سے کم چالیس سال کی عمر کا ہو کیونکہ اس سے کم عمر میں عقل اور تجربہ پختہ نہیں ہوسکتا.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ۲۵ سال عمر والے کو تو یہ نکتہ اسی وقت معلوم ہو گیا اور چالیس سال والے کو آج جبکہ وہ پینسٹھ سال کو پہنچ چکا ہے معلوم ہوا.مگر کیا وہ سمجھتے ہیں کہ انسانوں کے بنائے ہوئے خلیفے بھی خلیفے ہوتے ہیں.ہمارا اور ان کا ایک اختلاف یہ بھی تھا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور اب شاید اللہ تعالیٰ انہیں یہ دکھانا چاہتا ہے کہ خلیفے وہی بناتا ہے.انسانوں کے بنانے سے کوئی

Page 93

خلافة على منهاج النبوة 29 جلد سوم واجب الاطاعت خلیفہ نہیں بن سکتا.دیکھو جماعت کتنے خطرات میں سے گزر رہی ہے اور غور کرو ان کو دبانا کس انسان کی طاقت میں تھا.کم سے کم وہ انسان تو نہیں دبا سکتا تھا جس کے متعلق دوست دشمن سب کی یہی رائے تھی کہ یہ نا تجربہ کار نوجوان ہے.پھر سوچو کہ اس قدر شدید خطرات کے باوجود کون جماعت کو ترقی پر لے گیا ؟ کیا وہی خدا نہیں جس نے کہا ہوا ہے کہ خلیفے ہم بناتے ہیں؟ یہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیشہ کام ایسے ہی لوگوں سے لیتا ہے جنہیں دنیا نالائق سمجھتی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کام کرنے والا کون ہوسکتا ہے نہ آپ سے پہلے کوئی ایسا تھا نہ اب تک ہوا ہے اور نہ آئندہ ایسا ہو گا مگر دنیا نے آپ کی جو قیمت سمجھی تھی وہ پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعہ بتا دی تھی یعنی وہ پتھر جسے معماروں نے رڈ کر دیا.بائبل میں یہ بتا دیا گیا تھا کہ جو لوگ اپنے آپ کو کارخانہ عالم کے انجینئر سمجھتے ہیں اور دنیا کی عام اصلاح کے مدعی ہیں جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ہر اُن کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ یہی کہیں گے کہ یہ ہمارے مطلب کا نہیں ، مگر دنیا کے قیام اور زینت کا موجب وہی بنا.پھر اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ ال کام لیا.آج دشمن کہتے ہیں کہ آپ پاگل تھے مگر خدا کی شان دیکھو کہ اُس نے آپ سے کتنا کام لیا.سب نبیوں کو اُن کے مخالف پاگل کہتے آئے ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ بہت اچھا پاگل ہی سہی مگر ہمیں تو اُس شخص کی ضرورت ہے جو ہمیں خدا سے ملا دے اور اسلام کو دنیا میں قائم کر دے.اگر پاگل سے یہ امور سرزد ہوں تو ہم نے فلسفیوں کو کیا کرنا ہے بلکہ میں کہوں گا کہ لاکھوں فلسفیوں کو اُس کی جوتی کی نوک پر قربان کیا جاسکتا ہے.السلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی کے ابتدائی زمانہ میں لوگ کہتے تھے کہ مرزا صاحب تو نَعوذُ بِاللهِ جاہل ہیں.سارا کام تو نور الدین زمانہ گزرتا گیا گزرتا گیا اور گزرتا گیا.پھر کہا گیا کہ نہیں ہماری غلطی تھی نورالدین صرف مضامین بتا تا ہے لکھنا اور بولنا نہیں جانتا.مرزا صاحب کی تحریر اور تقریر میں بجلیاں ہیں جس دن آپ فوت ہوئے یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا.تب اللہ تعالیٰ نے نورالدین کو خلیفہ مقرر کیا جن

Page 94

خلافة على منهاج النبوة ہے.۸۰ جلد سوم کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ لکھنا اور بولنا نہیں جانتے.اُس وقت تو لوگوں نے بیعت کر لی مگر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ بعض نے کہا یہ ستر ا بہتر ہے، لائی لگ ہے، کمزور طبیعت ہے اور اگر اس مسئلہ کا فیصلہ اس کے زمانہ میں نہ کرایا گیا تو پھر نہ ہو سکے گا کیونکہ یہ تو ڈر جاتا مجھے اچھی طرح یاد ہے حضرت خلیفہ اول نے مسجد مبارک کے اوپر ان کو بلا یا.مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب کے علاوہ جماعت کے دوسرے دوست بھی بکثرت تھے.آپ نے فرمایا کہا جاتا ہے کہ تمہارا کام صرف نمازیں پڑھانا ، درس دینا اور نکاح پڑھانا ہے مگر میں نے کسی کو نہیں کہا تھا کہ میری بیعت کرو تم خود اس کی ضرورت سمجھ کر میرے پاس آئے.مجھے خلافت کی ضرورت نہ تھی لیکن جب دیکھا کہ میرا خدا مجھے بلا رہا ہے تو میں نے انکار مناسب نہ سمجھا.اب تم کہتے ہو کہ میری اطاعت تمہیں منظور نہیں.لیکن یاد رکھو اب میں خدا کا بنایا ہوا خلیفہ ہوں اب تمہاری یہ باتیں مجھ پر کوئی اثر نہیں کر سکتیں.یاد رکھو خلفاء کے دشمن کا نام قرآن کریم نے ابلیس رکھا ہے.اگر تم میرے مقابل پر آؤ گے تو ابلیس بن جاؤ گے آگے تمہاری مرضی ہے چاہے ابلیس بنو اور چاہے مومن.اس پر میری آنکھوں نے ان لوگوں کے چہرے زرد دیکھے ہیں.جماعت میں اس قدر جوش تھا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ اگر حضرت خلیفہ اول نہ ہوتے تو لوگ شاید ان کو جان سے مار ڈالتے.پھر میری آنکھوں نے وہ نظارہ بھی دیکھا ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کے حکم سے مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب آگے بڑھے اور دوبارہ بیعت کی.گویا جسے وہ کہتے تھے کہ کمزور دل ہے خدا تعالیٰ نے طاقتوروں کو اُس کے مقابل پر کھڑا کیا ، پھر اُس کمزور دل سے اُن کو شکست دلوائی اور دنیا پر ظاہر کر دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں بھی وہ کی خود ہی کام کرنے والا تھا.پھر ان لوگوں نے کہا کہ بڑھا تجربہ کار اور خرانٹ تھا.تھا تو نرم دل مگر تجربہ کار اور عالم تھا.تب اللہ تعالیٰ نے اُس شخص کو چنا جو پرائمری میں بھی فیل ہوتا رہا تھا.جس نے کبھی کسی دینی مدرسہ میں بھی پڑھائی نہ کی تھی.صحت کمزور تھی اور عمر صرف ۲۵ سال تھی.جسے کبھی.

Page 95

خلافة على منهاج النبوة ۸۱ جلد سوم کوئی بڑا کام کرنے کا موقع نہ ملا تھا اور کوئی تجربہ کار نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تم کہتے تھے نورالدین بڑھا ، تجربہ کار اور علم والا تھا آؤ ہم اب اس سے کام لے کر دکھاتے ہیں جو نہ عمر رسیدہ ہے اور نہ عالم.میرے خلاف تو سب سے بڑا اعتراض ہی یہ تھا کہ بچہ ہے، نا تجربہ کار ہے.پھر اس بچہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو جس طرح شکستیں دی ہیں اور جس طرح ہر میدان میں ذلیل کیا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے.اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے اہم اسلامی مسائل کا فیصلہ میرے ذریعہ سے کرایا ہے وہ سب کے سامنے ہے.وہ کونسا مسئلہ ہے جو پوشیدہ تھا اور خدا نے میرے ذریعہ سے اسے صاف نہیں کرایا.کئی معارف چھپے ہوئے موتیوں کی طرح پوشیدہ پڑے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ نکلوایا ہے.ایک طرف جماعت کی ترقی اور دوسری طرف اسلام کی ترقی کا کام اللہ تعالیٰ نے اس بچہ سے لیا اور اُن مطالب کا اظہار کیا جن سے دنیا فائدہ اُٹھا رہی ہے اور اُٹھاتی رہے گی.مخالفوں نے کہا دراصل پیچھے اور لوگ کام کر رہے ہیں اور بعض نے کہا کہ مولوی محمد احسن کا جماعت میں رسوخ تھا ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یہ سب کا رخانہ چل رہا ہے.اس کے بعد مولوی محمد احسن صاحب کو ایسا ابتلا آیا کہ وہ لا ہور چلے گئے اور جا کر اعلان کیا کہ میں نے ہی اسے خلیفہ بنایا تھا اور میں ہی اسے معزول کرتا ہوں.مگر خدا تعالیٰ نے کہا کہ تم کون ہو خلیفہ بنانے والے؟ اور چونکہ تم نے ایسا دعویٰ کیا ہے اس لئے ہم تمہیں قوت عمل سے ہی محروم کرتے ہیں.چنانچہ اُن پر فالج گر ا پھر وہ قادیان آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اور رو رو کر کہا کہ میرے بیوی بچوں نے مجھے گمراہ کیا ورنہ دل سے تو میں آپ پر ایمان رکھتا ہوں.سید حامد شاہ صاحب پرانے آدمیوں میں سے تھے اور بہت کام کرنے والے ، خدا تعالیٰ کی حکمت ہے وہ جلد فوت ہو گئے اُن کو بھی پہلے ابتلا آیا تھا مگر جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اُن کو ہدایت دے دی اور وہ بیعت میں شامل ہو گئے.ان کے علاوہ کچھ اور بھی ہیں جو ابتلا میں ہیں اور بجائے سلسلہ کی ترقی کا موجب ہونے کے وہ نفاق کی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں تا خدا تعالیٰ کا جلال دنیا پر ظاہر ہو اور وہ بتا دے کہ وہ خود کام کر رہا ہے.میں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں اور یہ ایک سچائی ہے جس کا اظہار

Page 96

خلافة على منهاج النبوة ۸۲ جلد سوم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری زبان یا قلم سے قرآن کریم کے جو معارف بیان کرائے ہیں یا جو اور کوئی کام مجھ سے لیا ہے مجھ سے زیادہ جھوٹا اور کوئی نہ ہوگا اگر میں کہوں کہ یہ میرا کام ہے.میں جب بھی بولنے کیلئے کھڑا ہوا ہوں یا قلم پکڑا ہے میرا دماغ بالکل خالی ہوتا ہے.شاید سو میں سے ایک آدھ دفعہ ہی ہو جب کوئی مضمون میرا سوچا ہوا ہوتا ہے ورنہ میرا ذہن بالکل خالی ہوتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ سب کچھ اُسی کا ہے جس کا یہ سلسلہ ہے.اگر میں اس پر اتراؤں تو یہ جھوٹی بات ہو گی ہاں جو غلطی ہو وہ بے شک مجھ سے ہے.بھلا ایک انسان جو ظاہری علوم سے بالکل ناواقف اور بے بہرہ ہو وہ ان باتوں کو کیسے نکال سکتا ہے جو شاید آئندہ صدیوں تک اسلام کی ترقی کیلئے بطور دلیل کام دیں گی جیسے تعزیرات ہند ہندوستان کے لئے کام دیتی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ غیر احمدی بھی اُن دلائل کو استعمال کر رہے ہیں جو میں نے پیش کئے ہیں.تمدن کے متعلق اسلامی تعلیم یعنی ترک سود، زکوۃ اور وراثت کا قیام یہ تین نکات والی سہ پہلو عمارت کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ پچھلی صدیوں میں کسی نے تیار کی ہو.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مجھے ہی توفیق دی ہے اور میں نے ان مسائل کو بیان کیا.پھرا اور سینکڑوں مسائل ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے سکھائے.پس یہ سلسلہ خدا کا ہے آدمیوں کا نہیں.اللہ تعالیٰ ہی اسے بڑھائے گا.انسانوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں.صرف ایک بات ہے جسے تمہیں یاد رکھنا چاہئے.جب تک تمہارے اندر اطاعت اور فرمانبرداری رہے گی وہ نور تم کو ملتا رہے گا.لیکن جب اطاعت سے منہ موڑو گے اللہ تعالیٰ کہے گا کہ جاؤ اب تو جوان ہو گئے ہوا اپنی جائیداد سنبھا لو.تب تم محسوس کرو گے کہ تم سے زیادہ کمزور اور کوئی نہیں.حضرت علیؓ کے بعد بھی مسلمانوں نے فتوحات حاصل کیں.ملک فتح کئے ، علمی تمدن اور سیاسی غلبے پائے مگر جو برکت، جو رعب ، جود بد بہ اور جو شوکت حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ، حضرت على رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ کے زمانہ میں تھی وہ تیرہ سو سال میں پھر حاصل نہیں ہوئی.اُس وقت تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ دنیا کے سر پر پاؤں رکھ کر کھڑے ہیں

Page 97

خلافة على منهاج النبوة ۸۳ جلد سوم اور کہہ رہے ہیں کہ کوئی ہے جو ہمارے مقابل پر آئے.گویا خدا تعالیٰ کے فرشتے اُن کے گرد کھڑے پہرہ دے رہے تھے.حضرت علیؓ کے وقت میں بعض بدبختوں نے اختلاف کیا جس سے ایسا تفرقہ پیدا ہوا کہ جو تیرہ سو سال میں بھی نہیں مٹا.اب دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اتحاد کی بنیا درکھی ہے اور آپ سے خدا تعالیٰ نے دوبارہ وعدہ کیا ہے کہ نُصِرْتَ بِالرُّعْب اور یہ رعب چلتا جائے گا.جب تک تم اس فیصلہ کا احترام کرو گے جو ۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ء کو اس مسجد میں تم نے کیا تھا.لیکن جب اس میں تزلزل آیا اللہ تعالیٰ بھی اپنی نصرت کو کھینچ لے گا جو اُس نے اس مسجد میں تمہارے فیصلہ کے بعد نازل کی تھی.جب تک تم اس فیصلہ میں تبدیلی نہ کرو گے چونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ إنَّ اللهَ لا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ لے وہ بھی نصرت کو واپس نہیں لے گا.اُس وقت تک تمام حکومتیں اور تمام طاقتیں تم سے ڈریں گی اور ہر ترقی پر تمہارا قدم ہوگا.دنیا کی تمام اقوام تمہارے پیچھے چلنے میں فخر محسوس کریں گی اور تمہارا سرسب.اونچا ہو گا.ابھی تو یہ ایک پیج ہے ، ایک کو نپل پھوٹی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک مضبوط درخت بنے گا جس پر دنیا کے بڑے بڑے حاکم آرام کیلئے گھونسلے بنائیں گے.لیکن جس دن تم اس فیصلہ کو بُھول جاؤ گے خدا نہ کرے اُس دن کے تصور سے بھی دل کانپ اُٹھتا ہے جب تم کہو گے کہ خدا نے خلیفہ کیا بنانا ہے ہم خود بنائیں گے تب فرشتے تبر لے کر آئیں گے کہ لو ہم اس درخت کو کاٹتے ہیں جسے خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے لگا یا تھا مگر تم نے اس کی قدر نہ کی.اب تم اپنے باغ لگاؤ اور مزے اُڑا ؤ.پچھلوں نے اس غلطی کا تجربہ کیا خدا نہ کرے کہ تم بھی کرو.لیکن خدانخواستہ اگر کبھی ایسی غلطی کی گئی تو دنیا دیکھ لے گی کہ تم صدیوں میں ایک 66 درخت بھی نہ لگا سکو گے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ پھر کوئی ما مور مبعوث کرے.“ تذکره صفحه ۵۶۶،۵۳ ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء خطبات محمود جلد ۱۸ صفحه ا۷ تا ۸۰) الرعد: ۱۲

Page 98

خلافة على منهاج النبوة ۸۴ جلد سوم اپنی تمام حرکات خلیفہ وقت کے احکام کے تابع رکھو ( فرموده ۷ رمئی ۱۹۳۷ء ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : - جو کچھ میں آج جمعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں شاید وہ اس اجتماع کے مناسب حال نہیں اور وہ وقت جو اس وقت میرے پاس ہے وہ بھی اس مضمون کیلئے کافی نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم میں سے بعضوں نے ریل کے ذریعہ واپس جانا ہے.مگر چونکہ سفر میں میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ مضمون کے ذریعہ قادیان کی جماعت اور بیرونی جماعتوں کو توجہ دلاؤں اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ خطبہ کے ذریعہ بیان کر دوں اور ز و دنو لیں جہاں تک اِن سے ہو سکے خطبہ لکھ کر الفضل کو بھجوا دیں تا کہ قادیان اور بیرونی جماعتوں کو اطلاع ہو جائے.جماعت کے دوستوں کو معلوم ہے کہ ایک عرصہ سے کچھ افراد قادیان میں ایسے آبسے ہیں جن کی غرض محض یہ ہے کہ جماعت میں فتنہ پیدا کریں اور انہوں نے قسم قسم کی تدابیر سے بعض مقامی ہندوؤں اور سکھوں کو بھی ملا لیا ہے.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ قادیان کے سارے کے سارے ہندو اور سکھ اِس میں شامل ہیں.ان میں سے بعض اچھے بھی ہیں اور وہ ہم سے تعلقات بھی رکھتے ہیں اور ان کی ایسی حرکات پر اظہار نا پسندیدگی کرتے ہیں.اس کے علاوہ ان کو اس بات سے بھی تقویت پہنچ گئی کہ ضلع کے بعض حکام کے مذہبی تعصب یا سیاسی اختلاف یا کسی ذاتی کمزوری کی وجہ سے جو بعض طبائع میں پائی جاتی ہے ان کو ایسی فضا میسر آ گئی ہے کہ ایسے حکام کو اپنے ساتھ شامل کر کے جماعت کے راستے میں مشکلات پیدا کریں.دو اڑھائی سال کے اختلاف کے بعد کسی قدر کمی پیدا ہوئی تھی لیکن

Page 99

خلافة على منهاج النبوة ۸۵ جلد سوم مہینہ دو مہینہ سے اس میں پھر کسی قدرحرکت معلوم ہوتی ہے.میں نے بارہا اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اَلْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ امام کے بنانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ڈھال کے طور پر ہوتا ہے اور جماعت اس کے پیچھے لڑتی ہے.یہ جائز نہیں کہ جماعت کے لوگ خود دلڑائی چھیڑ دیں.اعلانِ جنگ امام کا کام ہے اور وہ جس امر کے متعلق اعلان کرے جماعت اُس طرف متوجہ ہو.مگر کئی دوست نہیں سمجھتے اور جھٹ ہرامر پر اظہارِ خیال کرنے لگ جاتے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات دشمن اس سے چڑ کر شدت سے گالیاں دینے لگ جاتا ہے اور چھوٹی سی بات بہت بڑی بن جاتی ہے اور پھر ساری جماعت اس میں ملوث ہو جاتی ہے.ایک عام آدمی جس کو خدا تعالیٰ نے اختیار نہیں دیا ہوتا نہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ سلسلہ کی ضرورتیں کیا ہیں نہ اُس کو کسی سکیم کا پتہ ہوتا ہے، نہ دشمن کی چالوں کو سمجھتا ہے، نہ اسے یہ علم ہوتا ہے کہ طاقت کہاں کہاں خرچ کرنی ہے، نہ جماعت کی ضرورتیں اور ترقی کی سکیمیں اُس کے ذہن میں ہوتی ہیں ، نہ اس کے علم میں ہوتا ہے کہ خلیفہ کی اس امر کے متعلق کیا تجویز ہیں ہیں کیونکہ اس کے پاس کوئی رپورٹیں نہیں پہنچتیں اور نہ حالات کا اُس کو علم ہوتا ہے وہ اپنی حماقت سے ایک چنگاری چھوڑ دیتا یا دشمن کی لگائی ہوئی آگ کو اپنی پھونکوں سے روشن کر دیتا ہے اور پھر ساری جماعت کو اسے بجھانا پڑتا ہے.خلیفہ کو اپنی سکیمیں پیچھے ڈالنی پڑتی ہیں اور جماعت کی ساری طاقت اس شخص کی بھڑکائی ہوئی آگ کے بجھانے میں صرف ہو جاتی ہے.میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے امور میں قطعی طور پر امام کی اتباع کی جائے.اب کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو لوگ بیعت میں اقرار کریں کہ ہم آپ کی اطاعت کریں گے اور دوسری طرف اپنی جھوٹی عزت کا خیال کرتے ہوئے اور امام کے اعمال کی حکمت کو نہ سمجھتے ہوئے یہ خیال کریں کہ اگر امام گالی کا جواب نہیں دیتا تو اُس کی بے غیرتی ہے.حالانکہ امام خوب سمجھتا ہے کہ فلاں جگہ خاموش رہنا مناسب ہے یا جواب دینا اور وہی خوب سمجھتا ہے کہ اس کا کیا جواب دیا جائے.ہر گالی جواب کے قابل نہیں ہوتی.

Page 100

خلافة على منهاج النبوة ۸۶ جلد سوم بچپن میں لوگ ہمیں میاں صاحب اور قادیان کے محاورہ کے مطابق میاں جی بھی کہا کرتے تھے.پنجاب کے بعض دوسرے علاقوں میں میاں جی کو ملا بھی کہتے ہیں.پنجاب کی اردو ریڈروں میں لکھا ہوا ہے کہ میاں جی گھوڑے پر سوار ہیں.اُستاد کو بھی میاں جی کہتے ہیں.بعض طالب علموں نے جو استادوں کے خلاف ہوتے ہیں انہوں نے ان کے متعلق بعض فقرے بنائے ہوئے ہوتے ہیں.جیسے ”میاں جی سلام تہاڈی گھوڑی نوں لگام اسی طرح مجھے بھی بعض لڑکے چھیڑا کرتے.عمر کے لحاظ سے بعض دفعہ مجھے اس پر غصہ بھی آتا لیکن خاموش رہتا.ایک دفعہ میں گزر رہا تھا کہ ایک لڑکے نے مجھے دیکھ کر یہ فقرہ کہا.اس پر مجھے اشتعال آیا لیکن معا خیال آیا کہ یہ بچے ہیں میرے اشتعال سے ان کو کیا فائدہ.اگر میں نے اشتعال دکھایا تو یہی فقرہ دُہرایا جائے گا اور بچے یا درکھیں گے اور ایسا کہہ کر بھاگ جایا کریں گے.پس میں نے اپنے نفس کو روکاشی کہ ایک دو دن کے بعد وہ بھول گئے.پس ہر گالی قابل جواب نہیں ہوتی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِین ہے کہ ان مشرکوں کی طرف سے گالیاں دی جائیں گی تو ان کی طرف توجہ نہ کرنا اور تبلیغ کی طرف لگے رہنا تا ایسا نہ ہو کہ اصل مقصود بُھول جائے اور ایسے کام کی طرف لگ جاؤ جس کا کچھ فائدہ نہیں.یہ ایک عظیم الشان اور اخلاقی فلسفہ ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا کہ وَ اعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ - یاد رکھنا چاہئے کہ مخالف دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو کوئی اہمیت ذاتی یا پوزیشن رکھتے ہیں ان کو صداقت کی جاذبیت دیکھ کر غصہ پیدا ہوتا ہے اور وہ سخت کلامی کرتے ہیں.اور ایک اوباش ہوتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں سخت الفاظ کہنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ اس کی تو عزت کوئی نہیں ، اس کی ایک گالی کے جواب میں اگر تم بھی گالی دو گے تو اس کے جواب میں وہ پانچ دے گا اور تمہاری دس گالیوں کے مقابلہ میں پچاس دے گا پھر مقابلہ کیا رہا.وہ معزز شخص جس کے پیچھے ایک قوم ہوتی ہے اگر اُس کو اُس کی سخت کلامی کا جواب دیا جائے تو مفید ہوسکتا ہے کیونکہ اُس کے ساتھی اُس کو ملزم کریں گے اور اُس کو کہیں گے کہ غلطی تمہاری تھی، کیوں تم نے ابتداء کی اور وہ اپنی پردہ دری کے خوف سے چپ ہو جائے

Page 101

خلافة على منهاج النبوة ۸۷ جلد سوم گا.مگرا و باش کو کون بتلائے اور اسے کون سمجھائے.وہ بتلانے والے کو بھی دس ہیں سُنا دے گا.پس اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ استہزاء کرنے والوں کو جواب نہ دینا ، ہم خود جواب دیں گے کیونکہ ہم تمہاری طرف سے ان لوگوں کے مقابلہ کیلئے کافی ہیں جو حقارت اور تذلیل کے ذریعہ مخالفت کرتے ہیں ایسے لوگوں کے مقابلہ میں تمہیں نہ ہمت ہے نہ طاقت نہ ہی دُنیوی ڈھنگ آتے ہیں.ان لوگوں کی اپنی کوئی عزت نہیں ، وہ اس بڑھ کر گالیاں دیں گے اور بجائے اس کے کہ ان کے دل ٹھنڈے ہوں دشمن بدگوئی میں بڑھتا چلا جائے گا.ایسے انسان کی زبان کو لگام نہ عزت دے سکتی ہے نہ رتبہ نہ شرافت.کیونکہ یہ باتیں اسے میسر نہیں ہوتیں.اگر یہ چیزیں اسے حاصل ہوں تو جواب کی اہمیت اُس کی سمجھ میں آجاتی ہے کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ میری بھی عزت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کے بعض دشمنوں میں سے ایسے ہی بعض لوگوں کو جواب دیا جو مثلاً پادری تھے اور اپنی قوم میں معزز تھے.جبکہ وہ اسلام کے متعلق بدگوئی میں انتہا درجہ پر پہنچ گئے تا ان کو احساس ہو اور ان کی پوزیشن ان پر ظاہر ہو جائے.چنانچہ ایسے لوگوں کے پاس ایک جماعت متفرق لوگوں کی گئی جنہوں نے ان کو کہا کہ اگر تم ایسی سختی نہ کرتے تو حضرت مسیح موعود عَلَيْهِ السَّلام کے متعلق تم کو ایسی باتیں نہ سنی پڑتیں.جس سے ان کو شرم محسوس ہوئی اور وہ رُک گئے.حتی کہ بعضوں نے علی الاعلان کہنا شروع کیا کہ کسی مذہب کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہئے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آئندہ کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دشمنوں کی بد گوئی بہت حد تک رُک گئی.لیکن اگر آپ بعض او باش عیسائیوں کے خلاف لکھتے تو کسی شریف نے اُن کو روکنا نہیں تھا نہ خود اُن کو اپنی عزت کا پاس ہوتا اور اس طرح وہ گالیوں میں بڑھ جاتے.ایسے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کبھی مخاطب نہیں کیا بلکہ ان کی نسبت فرمایا کہ ان کی گالیاں سن کر ان کو دعا دو.خدا تعالیٰ بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنّا كَفَيْنكَ الْمُسْتَهْزِءين ٣ کہ جو تمسخر کرتے ہیں ان میں علم اور عقل نہیں ہوتی ان کے جواب کی تم میں ہمت نہیں ہم ان کو خود جواب دیں گے.پس ایسے لوگوں کو مخاطب کرنا بے فائدہ ہے.

Page 102

خلافة على منهاج النبوة ٨٨ جلد سوم اب قادیان کے ہند و مسلمانوں کی پوزیشن کیا ہے.وہ قوم میں معزز نہیں.وہ اگر گالیاں دیں تو و اعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ کے مطابق ایسے مشرکین سے اعراض کرنا ہئے.ایسے شخصوں کا مقابلہ کرنے والا در حقیقت پاگل ہے اور وہ خود زیادہ گالیاں دلاتا ہے بلکہ سلسلہ کا دشمن ہے کیونکہ آپ گالیاں دلاتا اور قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے تم ان کے بڑوں کو گالیاں مت دو کہ پھر یہ بغیر علم کے تمہارے خدا کو گالیاں دینے لگ جائیں گے.کیونکہ دشمنی کے ساتھ بعض دفعہ عقل بھی ماری جاتی ہے اور حملہ کرتے وقت صرف یہی احساس دل میں ہوتا ہے کہ دوسرے کے نقصان کی خاطر اگر اپنا نقصان بھی ہو جائے تو کوئی پرواہ نہیں.بیسیوں لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کی خاطر اپنے مکان کو آگ لگا دیتے ہیں تا کہ دوسرے کو مقدمہ میں پھنسا دیں.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے بیٹے کو مار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں نے مار دیا.پس پاگلوں کو چھیڑ نا خود پاگل پن ہے.ہماری جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو ایک امام کے تابع کیا ہے اور امام خوب سمجھتا ہے کہ کہاں جواب دینا مناسب ہے اور کہاں نہیں.ہر جگہ جواب دینے والے کی مثال گتے کی سی ہوتی ہے جو بغیر امتیاز کے بھونکتا ہے.ایک شریف انسان کو بھی جواب دیتا ہے لیکن وہ یہ دیکھتا ہے کہ کس کو جواب دیا جائے اور کیا جواب دیا جائے.پس یہ امام کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون سے دشمن اسلام ایسے ہیں جن کو جواب دیا جائے اور کون سے دشمن ایسے ہیں جن کے اعتراضات سننے کے باوجود خاموشی اختیار کی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ایسے گالیاں دینے والے لوگ موجود تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن کو کبھی جواب نہیں دیا.آخر جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے جواب دیا اور قادیان کے آریہ اور ہم کتاب لکھی تو دیکھو ان میں سے کون باقی رہا.سب طاعون سے فنا ہو گئے.پس اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیا.اس سے تم لوگ سمجھ سکتے ہو کہ اگر تمہارا جواب خدا کے حکم سے ہو تو اس کے نتیجہ میں بھی وہ بات پیدا ہو جائے.لیکن جب پیدا نہیں ہوتی تو معلوم ہوا کہ تمہارا جواب خدا کے حکم کے

Page 103

خلافة على منهاج النبوة ۸۹ جلد سوم خلاف ہے ورنہ چاہئے تھا کہ خدا کے فرشتے تمہاری مدد کرتے اور اس کا جواب دیتے.آسمان و زمین میں ایسے سامان پیدا ہو جاتے کہ وہ باتیں پوری ہو جائیں.اگر تم ان کو ذلیل و بے شرم کہتے تو خدا کے فرشتے بھی ان الفاظ کو دُہراتے اور ان کے دوست بھی انہیں ایسا ہی کہتے.لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ تمہارے سخت الفاظ محض الفاظ ہی ہیں ان میں حقائق نہیں.اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقائق پیش کئے.دشمنوں نے آپ کو ابتر کہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے دشمنوں کو ابتر کہا.ان کی اولادیں موجود تھیں لیکن خدا نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ بعضوں کی اولا دکولڑائیوں میں ختم کر دیا اور بعض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد بن گئے اور ان لوگوں کی اولاد ندر ہے.پنجابی میں اور بھی ابتر کو ہی کہتے ہیں.پنجابی عورتیں بھی یہ گالیاں دیتی ہیں کہ تم اوتر ہو جاؤ.لیکن وہ محض گالی ہوتی ہے.ان عورتوں کی اس گالی سے کسی کے بچے نہیں مرتے.لیکن رسول کریم ﷺ نے جن دشمنوں کو او تر کہا تو ان کی اولادیں واقعہ میں فنا ہو گئیں.پس معلوم ہوا کہ رسول کریم ﷺ کا ابتر کہنا گالی نہ تھی بلکہ واقعہ تھا جو پورا ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض سخت اقوال سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کیونکہ انہوں نے خدا کے حکم سے وہ الفاظ کہے اور زمین و آسمان ان کے ساتھ ہو گئے.میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت کے بعض لوگ جب جواب دینے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور دشمن اس کے جواب میں اس سے بڑھ کر گالیاں دیتا ہے تو بے غیرت بن کر اپنے گھر میں بیٹھ جاتے ہیں.حالانکہ ان کو چاہئے تھا کہ یا تو دشمن کا منہ بند کرتے یا گالی کا جواب دینے میں ابتداء نہ کرتے.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کے اخلاق دوسروں سے ا سے اعلیٰ ہونے چاہئیں.پیغام حق پہنچانا ، اخلاق فاضلہ پیدا کر کے دین و دنیا کی بہتری کی تجاویز سوچنا ، نیکی اور علم کو وسعت دینا اور دنیا کی تکالیف دور کرنا ان کا مقصود ہو ، تا کہ جو خدا کا مقصد سلسلہ احمد کے قیام سے ہے وہ پورا ہو.یہ سنت ہے کہ جب خدا کا کام بندہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے تو خدا اسے چھوڑ دیتا ہے.

Page 104

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم حضرت ابو بکر ایک مجلس میں بیٹھے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس جگہ تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص آپ کو گالیاں دینے لگا.آپ خاموش رہے.جب اُس نے زیادہ بختی کی تو حضرت ابو بکر نے بھی اُس کو جواب دیا.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تک آپ خاموش رہے خدا کے فرشتے اسے جواب دیتے رہے.لیکن جب آپ نے خود جواب دینا شروع کیا تو وہ چلے گئے.ہے پس جس کام کو خدا نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہوتا ہے اگر بندہ اس میں دخل دے تو خدا اسے چھوڑ دیتا ہے.لیکن اگر بندہ صبر کرے اور یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ جلد یا بدیر اس کا بدلہ لے لے گا تو خدا اس کا بدلہ لے لیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں ۱۳ سال تک اور پھر مدینہ میں جا کر بھی دشمن نے گالیاں دیں اور تنگ کیا.نہ صرف ایک دن نہ صرف ایک ماہ نہ صرف ایک سال بلکہ اس وقت تک مخالفین آپ کو گالیاں دے رہے ہیں اور تورات کی پیشگوئی کے مطابق کہ حضرت اسماعیل جو رسول کریم ﷺ کے جد امجد تھے ان کے خلاف ان کے بھائیوں کی تلوار ہمیشہ اُٹھی رہے گی.آپ کو لوگ ہمیشہ گالیاں دیتے رہتے ہیں لیکن خدا نے اس کا علاج اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور اس سے بہتر علاج اس کا کیا ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام میں داخل کر دے لیکن اسلام میں داخل کر نا ہمارے اختیار میں نہیں.مجھے ایک دفعہ ایک یہودی نے چٹھی لکھی کہ میں وہ شخص تھا کہ شاید ہی کسی کے دل میں میرے دل سے بڑھ کر محمد رسول اللہ علیہ کے متعلق دشمنی ہو بلکہ رسول کریم ﷺ کا نام سنتے ہی مجھے اشتعال پیدا ہو جاتا تھا.لیکن آپ کے مبلغوں سے اسلام کی خوبیاں سن کر اب میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ میں رات کو نہیں سوتا جب تک رسول کریم ﷺ پر درود نہ بھیچ لوں.بھلا ہماری گالیوں سے سلسلہ کی کیا خدمت ہو سکتی ہے.اگر ہم دعا کریں کہ اے خدا ! تیرا وعدہ إنَّا كَفَيْنَكَ المُستهزئين سچا ہے تو آپ اس کا علاج کر اور اس وعدہ پر اعتما درکھ کر چپ رہیں تو خدا خود ہی انتظام کرے گا.اور اگر تم نے خود اس میں دخل دینا شروع کر دیا تو تم بیعت میں رخنہ ڈالنے والے، دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے وعدہ کو پس پشت ڈالنے والے اور سلسلہ کو بد نام کرنے والے ہو گے.

Page 105

خلافة على منهاج النبوة ۹۱ جلد سوم رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ امام کی اطاعت کرو اور امام کے پیچھے ہو کر لڑو.پس لڑائی کا اعلان کرنا امام کا کام ہے تمہاری غرض محض اس کی اطاعت ہے.اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اس تعلیم کو خود ہی رڈ کرنے والے ٹھہرو گے.دنیا میں بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے عظیم الشان لڑائیاں ہو جاتی ہیں.جیسے آسٹریا کے شہزادہ کے قتل سے عظیم الشان جنگ ہوئی جس میں دو کروڑ سے زیادہ انسان قتل ہوئے.پس امام جب چاہے اعلانِ جنگ کرے جب چاہے چُپ رہے.لوگوں کو چاہئے کہ اس کے پیچھے رہیں اور خود بخو د کوئی حرکت نہ کریں.پس میں پھر جماعت کو نصیحت کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کی طرف متوجہ ہوگی.میں مصلحت کو سمجھتا ہوں.ہر بات کی دلیل بیان کرنا امام کیلئے ضروری نہیں.جرنیل اور کمانڈر کے ہاتھ میں سارا راز ہوتا ہے.وہ جانتا ہے کہ کہاں اور کس طرح حملہ کیا جائے.اگر وہ راز کھول دے تو دشمن اس کا تو رسوچ لے اور ساری سکیم باطل ہو جائے.اگر کوئی شخص بچے طور پر بیعت کرتا ہے اور اتباع کا اقرار کرتا ہے تو اس کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے اعتراض نہیں کرنا چاہئے ورنہ بیعت چھوڑ دے کیونکہ وہ منافق ہے.پس گالیوں کا جواب نہیں دینا چاہئے ورنہ آہستہ آہستہ بڑی لڑائی شروع ہو جائے گی اور پھر امام بھی مجبور ہوگا کہ اس میں شامل ہو اور اپنی طاقت ایسی جگہ خرچ کرے جہاں وہ مناسب نہیں سمجھتا.میں امید کرتا ہوں کہ دوست ان باتوں کی اہمیت کو سمجھیں گے.کوئی مومن اس قدر بیوقوف نہیں ہوتا کہ اس کے غصے سے ساری جماعت کو نقصان پہنچے.پس دوستوں کو چاہئے کہ اپنے نفس کو قابو میں رکھیں اور امام کے حکم کے منتظر رہیں.قرآن کریم میں جب لڑائی کا حکم آیا تو بعض لوگوں نے لڑنے سے انکار کر دیا اور کہا لو تعلم قتالاً قد اتبعتكم " کہ اگر ہم جانتے کہ یہ لڑائی ہے تو ہم ضرور شامل ہوتے.مگر یہ تو خود کشی ہے اور یہ وہی لوگ تھے جو لڑائی کیلئے زیادہ شور مچاتے تھے.پس زیادہ شور مچانا بسا اوقات نفاق کی علامت ہوتی ہے.ایسے لوگ جماعت کو لڑائی میں ڈال کر آپ پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور بعض بالکل خاموش رہنے والے بعض دفعہ زیادہ مومن اور بہادر ہوتے ہیں.حضرت ابوبکر صدیق خاموش طبیعت تھے لیکن لڑائی میں سب سے زیادہ

Page 106

خلافة على منهاج النبوة ۹۲ جلد سوم خطر ناک جگہ پر موجود رہتے تھے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ.کیونکہ لڑائی میں سب سے زیادہ خطرناک جگہ وہی ہوتی تھی جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تھے.کیونکہ دشمن کا سارا زور وہیں ہوتا تھا اور لوگ کہتے تھے کہ یوں تو یہ بڑھا بہت نرم دل ہے لیکن لڑائی میں سب سے آگے رہتا ہے.پس خاموشی سے اخلاص میں فرق نہیں پڑتا بلکہ ممکن ہے جو زیادہ خاموش رہنے والا ہے خدا کے نزدیک زیادہ مخلص ہو اور وہ جو زیادہ شور مچانے والا ہے وہ منافق ہو.کیونکہ خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ مومن کون ہے اور منافق کون ہے“.خطبات محمود جلد ۱۸صفحه ۱۳۱ تا ۱۳۸) بخاری کتاب الجهاد باب يُقَاتَلُ مِنْ وَرَاءِ الْاِمَامِ وَيَتَقَى به صفحه ۴۸۹ حدیث نمبر ۲۹۵۷ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية الحجر: ۹۵ الحجر : ٩٦ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۳۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء ال عمران: ۱۲۸

Page 107

خلافة على منهاج النبوة ۹۳ جلد سوم امام اور ماموم کا مقام اور اس کے تقاضے فرموده ۲۸ رمئی ۱۹۳۷ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- غالبا د و جمعے گزرے ہیں کہ میں نے ایک خطبہ اپنے سفر کے دوران میں پڑھا تھا اور ہدایت کی تھی کہ اسے فوراً الفضل میں چھپنے کیلئے بھجوا دیا جائے کیونکہ وہ خطبہ موجودہ فتنوں کے متعلق تھا اور گو وہ پڑھا سفر میں گیا تھا اور جو لوگ اُس وقت سامنے بیٹھے تھے ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی تھی جو قادیان میں نہیں رہتے تھے مگر اُس خطبہ کے پہلے مخاطب قادیان میں رہنے والے لوگ ہی تھے اور میں چاہتا تھا کہ جس قدر جلد ہو سکے اسے قادیان میں رہنے والے لوگوں تک پہنچا دیا جائے تا کہ کم سے کم خدا تعالیٰ کے سامنے میں بری الذمہ ہوسکوں اور اُسے کہہ سکوں کہ میں نے ان کے سامنے ہدایت اور راستی پیش کر دی تھی.اگر با وجود میرے ہدایت پیش کر دینے کے انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا تو اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ان پر ہے.میں آج پھر اُسی مضمون کے متعلق آپ لوگوں سے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں اور نہ صرف آپ لوگوں سے بلکہ باہر کی جماعتوں سے بھی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات سے بری الذمہ ہوتا ہوں کہ میں نے وہ صداقت آپ لوگوں تک پہنچادی ہے جو میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کا منشاء اور قرآنی تعلیم ہے.میں نے اُس خطبہ میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ ولا ئی تھی کہ جو جماعتیں منظم ہوتی ہیں اُن پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور کچھ شرائط کی پابندی کرنی ان کیلئے لازمی ہوتی ہے جن کے بغیر ان کے کام کبھی بھی صحیح طور پر نہیں چل

Page 108

خلافة على منهاج النبوة ۹۴ جلد سوم سکتے.اور سلسلہ کے متعلق میں نے کہا تھا کہ ان شرائط اور ذمہ داریوں میں سے ایک اہم شرط اور ذمہ داری یہ ہے کہ جب وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے اور اس کی اطاعت کا اقرار کر چکے تو پھر انہیں امام کے منہ کی طرف دیکھتے رہنا چاہئے کہ وہ کیا کہتا ہے اور اس کے قدم اُٹھانے کے بعد اپنا قدم اُٹھانا چاہئے.اور افراد کو کبھی بھی ایسے کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہئے جن کے نتائج ساری جماعت پر آ کر پڑتے ہوں کیونکہ پھر امام کی ضرورت اور حاجت ہی نہیں رہتی.اگر ایک شخص اپنے طور پر دوسری قوموں سے لڑائی مول لے لیتا ہے اور ایسا فتنہ یا جوش پیدا کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں ساری جماعت مجبور ہو جاتی ہے کہ اس لڑائی میں شامل ہو تو اس کے متعلق یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ اس نے امام اور خلیفہ کے منصب کو چھین لیا اور خود امام اور خلیفہ بن بیٹھا اور وہ فیصلہ جس کا اجراء خلیفہ اور امام کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے تھا خود ہی صادر کر دیا.اگر ہر شخص کو یہ اجازت ہو تو تم ہی بتاؤ پھر امن کہاں رہ سکتا ہے.ایسی صورت میں جماعت کے نظام کی مثال اُس ٹین کی سی ہوگی جو کتے کی دم سے باندھ دیا جاتا ہے اور جدھر جاتا ہے ساتھ ساتھ ٹین بھی حرکت کرتا جاتا ہے.امام کا مقام تو یہ ہے کہ وہ حکم دے اور ماموم کا مقام یہ ہے کہ وہ پابندی کرے.لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کے دوستوں نے باوجود بیعت کر لینے کے ابھی تک بیعت کا مفہوم نہیں سمجھا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بہت بڑی ذمہ داری جماعت کے علماء پر ہے.وہ خلافت اور اس کی اہمیت پر تقریریں کرنے سے ساکت رہتے ہیں اور ان کے لیکچر ہمیشہ اور اور مضامین پر ہوتے ہیں.اس امر کے متعلق بہت ہی کم دلائل قرآن مجید یا احادیث یا عقل سے دیئے جائیں گے کہ خلافت سے وابستگی کتنی اہم چیز ہے.وہ سمجھتے ہیں شاید لوگ ان مسائل کو جانتے ہی ہیں اس لئے ان مسائل پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے حالانکہ یہی وہ خیال تھا جس نے پہلے مسلمانوں کو تباہ کر دیا.گزشتہ علماء نے خیال کرلیا کہ توحید پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے.بھلا کوئی مسلمان ایسا بھی ہوسکتا ہے جو تو حید کو نہ مانے.نتیجہ یہ ہوا کہ تو حید اُن کے ہاتھ سے جاتی رہی.انہوں نے خیال کر لیا کہ رسالت پر ایمان لانے کی اہمیت واضح کرنے کی کیا حاجت ہے یہ تو ایک صاف اور واضح مسئلہ ہے.

Page 109

خلافة على منهاج النبوة ۹۵ جلد سوم نتیجہ یہ ہوا کہ رسالت پر ایمان بھی جاتا رہا.انہوں نے خیال کر لیا کہ نظام کی ضرورت پر دینے کی کیا ضرورت ہے سب کو معلوم ہی ہے کہ نظام میں سب برکت ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا نظام بھی ٹوٹ گیا.انہوں نے خیال کر لیا کہ نماز اور روزہ کی تاکید کرنے کی بار بار کیا ضرورت ہے سب لوگ نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہی ہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ نمازوں میں بھی سستی آگئی اور روزے بھی ہاتھ سے جاتے رہے.اسی طرح انہوں نے خیال کر لیا کہ حج کا مسئلہ بھی کوئی ایسا مسئلہ ہے جس سے کوئی نا واقف ہو اور نتیجہ یہ ہوا کہ حج کے مسائل بھی لوگوں کے ذہن سے اُتر گئے اور استطاعت کے باوجود انہوں نے حج کرنا چھوڑ دیا.تو جب کسی قوم کے علماء یہ خیال کر لیتے ہیں کہ فلاں فلاں مسائل لوگ جانتے ہی ہیں اس قوم میں آہستہ آہستہ ان مسائل سے نا واقفیت پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اور آخر اس نیکی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں.پس میں سمجھتا ہوں ایک حد تک اس کی ذمہ داری جماعت کے علماء پر ہے لیکن ایک حد تک اس کی ذمہ داری جماعت کے افراد پر بھی ہے.کیونکہ ان کے سامنے یہ مسائل بالکل تازہ ہیں اور وہ خلافت کی اہمیت سے پورے طور پر آگاہ کئے جاچکے ہیں اور گو آج اس پر بحثیں نہیں ہوتیں مگر آج سے ہیں سال پہلے اس پر خوب بخشیں ہو چکی ہیں اور خود جماعت کے افراد اس میں حصہ لیتے رہے ہیں.پھر آج وہ ان مسائل کو کیوں بھول گئے.میں نے اس امر کی طرف توجہ ان واقعات کی وجہ سے دلائی تھی جو قادیان میں حال ہی میں ظاہر ہوئے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ فتنہ و فساد کی نیت سے کوئی بات چھیڑ دیتے ہیں اور ہماری جماعت کے دوست فورا اس کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں اور وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ دشمن کی تو غرض ہی یہ تھی کہ وہ کوئی فتنہ و فساد پیدا کرے اور انہیں زیر الزام لائے.ان کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جس کا دشمن اس کیلئے گڑھا کھودتا اور اُس پر گھاس پھونس ڈال دیتا ہے اور وہ اپنی بیوقوفی سے گھاس پر پاؤں رکھتا اور گڑھے میں جا پڑتا ہے.بلکہ میں کہتا ہوں خیالی مثال کی کیا ضرورت ہے شیر کے شکاریوں کی مثال لے لو جو پہلے زمانہ میں شیر کا شکار اس طرح کرتے تھے کہ گھاس کے نیچے بانس کی کھپچیوں کے اوپر خاص طور پر سریش تیار

Page 110

خلافة على منهاج النبوة ۹۶ جلد سوم کر کے چپکا دیتے اور گھاس پر بکرا باندھ دیتے.شیر خیال کرتا کہ بکرا میرا شکار ہے اور وہ اُس پر حملہ کر دیتا.لیکن جب بکرے کے پاس پہنچتا تو کھپچیوں میں لپٹ جاتا.اسی طرح دشمن بعض دفعہ ایسی حرکات کرتا ہے جن کے ذریعہ وہ اپنے مخالف کو بلاتا ہے کہ آؤ اور مجھ پر حملہ کرو.عقلمند آدمی موقع کو خوب سمجھتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ حملے کا کونسا موقع ہے.لیکن نادان آدمی ان باتوں کو نہیں سمجھتا وہ حملہ کر دیتا ہے اور کھپچیوں میں پھنس جاتا ہے.پھر شور مچاتا ہے کہ آؤ آؤ اور مجھے اس مصیبت سے بچاؤ.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کی آواز سن کر دو چار آدمی اور دشمن پر حملہ کر دیتے ہیں اور وہ بھی انہی کھپچیوں میں پھنس جاتے ہیں اور اسی طرح یہ معاملہ بڑھتا جاتا ہے.انگریزوں میں ایک کہانی مشہور ہے جو اسی قسم کے فتنوں پر چسپاں ہوتی ہے.کہتے ہیں کسی کے پاس کوئی بلغ تھی.جب وہ کسی شخص پر ناراض ہوتا تو کسی طرح اُس کا ہاتھ بلغ کو لگوا دیتا.نتیجہ یہ ہوتا کہ اس بطبخ سے اُس کا ہاتھ چمٹ جاتا اور وہ چھوٹ نہ سکتا.یہ دیکھ کر اُس کے دوست اور رشتہ دار اُسے چھڑانے کیلئے آتے اور جو بھی بطخ پر ہاتھ ڈالتا اُس کے ساتھ چمٹا جاتا.یہی حال ایسی لڑائی کا ہوتا ہے.جب ایک شخص لڑائی میں شامل ہوتا اور دشمن کی گرفت میں آجاتا ہے تو شکوہ کرتا اور شور مچانے لگ جاتا ہے کہ میں جماعت کا ممبر ہوں ، میری مدد کیوں نہیں کی جاتی.میرے ساتھ ہمدردی اور محبت کا سلوک کیوں نہیں کیا جاتا.اس شخص کو جواب تو یہ ملنا چاہئے کہ تمہارے ساتھ ہمدردی کیا کی جائے تم نے نظام کو تو ڑا اور سلسلہ کی ہتک کی لڑائی کرنا امام کا کام تھا ، تمہارا کام نہیں تھا.لیکن اُس کی آواز سن کر کئی رحم دل یا یوں کہو کہ کمزور دل کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ آؤ اس کی مدد کریں.چنانچہ وہ اس کی مدد کیلئے اس کے پیچھے جاتے ہیں اور وہی لڑائی جو پہلے ایک شخص کی تھی اب نہیں آدمیوں کی لڑائی بن جاتی ہے اور پھر ایک کی بجائے ہیں آواز میں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں کہ آنا آنا ، بچانا بچانا.اس پر وہ لوگ بھی جو پہلے اس خیال سے خاموش ہوتے ہیں کہ یہ انفرادی فعل ہے اس میں ہمیں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے جوش سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں اب ایک کا سوال نہیں ہیں کا سوال ہے اور وہ بھی لڑائی میں شامل ہو جاتے ہیں

Page 111

خلافة على منهاج النبوة ۹۷ جلد سوم نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اب لڑائی میں چالیس آدمی شامل ہو جاتے ہیں.پھر وہ چالیس اپنے ساتھ اوروں کو ملاتے اور ساٹھ بن جاتے ہیں.ساٹھ ایک سو بیس کی کشش کا موجب بنتے ہیں اور ایک سو بیس کے شور مچانے پر دو سو چالیس کی تعداد ہو جاتی ہے.یہ دوسو چالیس پھر چارسو استی ہو جاتے ہیں جو بڑھ کر نو سو ساٹھ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں.یہاں تک کہ رفتہ رفته ساری جماعت ایک معمولی وجہ سے ایسی لڑائی میں شامل ہو جاتی ہے جس کا کوئی بھی نتیجہ نہیں ہوتا اور دشمن دل میں ہنستا ہے کہ جو میری غرض تھی وہ پوری ہو گئی.ایک مشہور واقعہ پنجاب کے ایک رئیس کا ہے جو اس مقام پر خوب چسپاں ہوتا ہے.پنجاب کے ایک مشہور راجہ گزرے ہیں جن کا نام لینے کی ضرورت نہیں ان کے ہاں کوئی اولا د نہیں تھی.ان کے دربار میں دو پارٹیاں تھیں.ایک وزیر اعظم کی اور ایک اور وزیر کی اور یہ دونوں پارٹیاں روزانہ آپس میں لڑتیں اور راجہ کے پاس شکایتیں ہوتیں.ایک پارٹی دوسری پارٹی کے خلاف شکایت کرتی اور دوسری پہلی کے خلاف راجہ کے کان بھرتی اور ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی کہ راجہ صاحب ہمارے ساتھ مل جائیں اور دوسری پارٹی پر ناراض ہو جائیں.اس لڑائی نے ترقی کرتے کرتے سخت بھیانک شکل اختیار کر لی.ایک دن ایک پارٹی نے تجویز کی کہ کوئی ایسا کام کرنا چاہئے جس سے مخالف پارٹی کو بالکل کچل دیا جائے.چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ ایک رانی کو اپنے ساتھ ملا یا جائے اور یہ مشہور کر دیا جائے کہ اُس کے ہاں اولاد ہونے والی ہے.چنانچہ انہوں نے ایک رانی کو اپنے ساتھ ملالیا اور اُسے کہہ دیا کہ عین وقت پر ہم تمہیں ایک بچہ لا کر دے دیں گے اس سے راجہ کی نگاہ میں تمہاری عزت بھی قائم ہو جائے گی اور اس کے بعد گدی پر بیٹھنے کا بھی وہی حقدار ہوگا.جب یہ خبر عام لوگوں میں مشہور ہو گئی تو دوسرے فریق نے راجہ کے کان بھرنے شروع کر دیئے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.مہارانی حاملہ نہیں بلکہ شرارت سے مخالف پارٹی نے اسے حاملہ مشہور کر دیا ہے.اب مہا راجہ صاحب نے بیوی کی نگرانی شروع کر دی اور کچھ عرصہ کے بعد انہیں پتہ لگا کہ یہ محض فریب کیا جا رہا ہے، رانی حاملہ نہیں ہے.اس پر انہوں نے گورنمنٹ کے پاس اس امر کے متعلق کوشش شروع کر دی کہ جس بچہ کے متعلق مشہور کیا

Page 112

خلافة على منهاج النبوة ۹۸ جلد سوم جا رہا ہے کہ وہ پیدا ہونے والا ہے وہ میرا نہیں ہوگا اور نہ تخت کا وارث ہوگا.یہ بات دوسرے فریق پر بھی کھل گئی اور انہوں نے مشورہ کیا کہ اب کوئی ایسی چال چلنی چاہئے جس کے نتیجہ میں ہماری سکیم فیل نہ ہو.چنانچہ انہوں نے مختلف لوگوں سے گورنمنٹ کے پاس چٹھیاں لکھوانی شروع کر دیں کہ مہا راجہ صاحب پاگل ہو گئے ہیں اور وہ گدی کا انتظام نہیں کر سکتے.ذرا ذرا سی بات پر لڑتے اور جوش میں آکر گالیاں دینے لگ جاتے ہیں اور ان کا غصہ حد اعتدال سے بالکل باہر نکل گیا ہے.مہا راجہ بیچارے کو پتہ بھی نہیں اور گورنمنٹ کے پاس شکایتیں ہو رہی ہیں کہ مہا راجہ صاحب پاگل ہو گئے ہیں.پہلے چھوٹوں کی طرف سے گورنمنٹ کو لکھا گیا.پھر بڑے بڑے افسروں کی طرف سے اور پھر ان سے بھی بڑے عہد یداروں کی طرف سے.جب شکایتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اور بڑے بڑے افسروں نے خود مل کر بھی گورنمنٹ کے پاس شکایت کرنی شروع کر دی تو گورنمنٹ کو خیال پیدا ہوا کہ تحقیقات کرنی چاہئے.چنانچہ اس نے مخفی طور پر کمشنر کو بھجوایا کہ وہ مہا راجہ سے باتیں کر کے رپورٹ کرے کہ یہ شکایتیں کس حد تک صحیح ہیں اور یہ بھی کہہ دیا کہ ڈاکٹر کو بھی ساتھ لیتے جاؤ اور باتوں باتوں میں اندازہ کر کے رپورٹ کرو کہ ان شکایتوں میں کس حد تک معقولیت ہے.فریق مخالف جس نے شکایت کی تھی وہ چونکہ ہر تد بیر سے اپنی بات کو منوانا چاہتا تھا اس لئے اس نے سرکاری دفاتر میں بھی بعض آدمی خریدے ہوئے تھے.جس وقت کمشنر صاحب تحقیقات کیلئے جانے لگے ، ان سرکاری آدمیوں نے اطلاع کر دی کہ کمشنر صاحب آ رہے ہیں.چنانچہ جو نہی انہوں نے سمجھا کہ اب کمشنر صاحب کے آنے کا وقت بالکل قریب آپہنچا ہے اور ایک آدھ منٹ میں ہی وہ دربار میں داخل ہو جائیں گے انہوں نے ایک چوری کے جھلنے والے کو اشارہ کر دیا جسے انہوں نے پہلے سے اپنے ساتھ ملایا ہوا تھا اور اُس نے جھک کر مہا راجہ کے کان میں دو تین گالیاں ماں اور بہن کی دے دیں.اب تم سمجھ سکتے ہو کہ مہا راجہ تخت پر بیٹھا ہوا ہو ، دربار لگا ہوا ہو اور چوری جھلنے والا مہا راجہ کو اُس کے کان میں ماں کی گالیاں دے دے تو اُس کی کیا کیفیت ہوسکتی ہے.مہا راجہ جوش سے اُٹھا اور اس نے بے تحاشا اُسے مارنا شروع کر دیا.اب غصہ سے اُس کے

Page 113

خلافة على منهاج النبوة ۹۹ جلد سوم منہ سے جھاگ نکل رہی تھی اور وہ اسے ٹھڈے پر ٹھڈے مارتا چلا جا رہا تھا کہ اتنے میں کمشنر صاحب اندر داخل ہو گئے اور وہ پارٹی کی پارٹی کھڑی ہوکر کہنے لگی ' حضور ! روز ساڈے نال اسے طرح ہوندا ہے.یعنی حضور ! ہمارے ساتھ روزانہ یہی سلوک ہوتا ہے.کمشنر صاحب کی رپورٹ پر گورنمنٹ نے فیصلہ کیا کہ مہا راجہ واقعہ میں حواس باختہ ہے نتیجہ یہ ہوا کہ مہا راجہ صاحب کے اختیارات محدود کر دئیے گئے اور وہ لڑکا جسے رانی نے گود میں ڈال لیا تھا اور جو ایک ملازم سرکار کا لڑکا تھا جسے بعد میں حج بنا دیا گیا جوان ہو کر گدی پر بٹھایا گیا اور خوش قسمتی سے نہایت شریف اور کامیاب راجہ ثابت ہورہا ہے.تو بعض دفعہ دشمن اس قسم کی چالا کی بھی کرتا ہے.سمجھنے والے تو بچ جاتے ہیں لیکن جو اندھا دھند کام کرنے والے ہوں وہ پھنس جاتے اور مصیبتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اسی وجہ سے اسلام نے حکم دیا کہ اْلاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہ سے کہ امام کو ہم نے تمہارے لئے ڈھال کے طور پر بنایا ہے.اگر اس کے پیچھے ہو کر لڑو گے تو زخموں سے بچ جاؤ گے.لیکن اگر آگے ہو کر حملہ کرو گے تو مارے جاؤ گے کیونکہ وہ خوب سمجھتا ہے کہ کیا حالات ہیں.کس وقت اعلانِ جنگ ہونا چاہئے اور کس وقت دشمن کے فریب سے بچنا چاہئے.کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان تفصیل سے بیان نہیں کر سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھی بعض دفعہ لوگ آتے اور گھنٹوں آپ سے مخفی باتیں کرتے.قرآن کریم میں اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے هو اذن کہ منافق کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو کان ہی کان ہیں.ہر وقت لوگ آتے اور انہیں رپورٹیں پہنچاتے رہتے ہیں.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کئی مخفی باتوں کا علم ہوا کرتا تھا.بیسیوں دفعہ ایسا ہوا کہ آپ فرماتے میرے پاس رپورٹ آئی ہے کہ آج فلاں جگہ یہ کام ہو رہا ہے.تو امام کو وہ معلومات ہوتی ہیں جو اور لوگوں کو نہیں ہوتیں.اس لئے وہ جانتا ہے کہ فلاں کام جو ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے اور کس طرح ہورہا ہے اور اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جماعت سے اُسی وقت لڑائی کرائی جائے جب لڑائی کا کوئی فائدہ ہو.ورنہ یہ تو نہیں کہ لڑائی کرنے میں تم مجھ سے زیادہ بہادر ہو.

Page 114

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم.پچھلے دو سال میں میں نے ایک ہی وقت میں گورنمنٹ سے اور دوسرے مخالف اقوام سے لڑائی لڑی ہے یا نہیں ؟ تم میں سے کئی لوگ تھے جو اُس وقت کہتے تھے کہ ہمیں کس مصیبت میں پھنسا دیا.مگر میں جانتا تھا کہ وہ وقت لڑنے کا تھا.پس ہم لڑے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے فتح پائی.لیکن اب جماعت کو ایک ایسے فتنہ میں مبتلا کیا جا رہا ہے جس میں میں سمجھتا ہوں ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو دکھا دیں کہ ہم مظلوم اور ہمارا دشمن ظالم ہے اور شرارت کی تمام تر ذمہ داری ہمارے دشمن پر ہے ہم پر نہیں.پس جبکہ ہم کو معلوم ہے کہ اس لڑائی کی وجہ لڑائی نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم نے پچھلے دنوں جو حکومت پر یہ ثابت کر دیا تھا کہ ہم ظالم نہیں بلکہ مظلوم ہیں اور ہمارا دشمن مظلوم نہیں بلکہ ظالم ہے وہ چاہتے ہیں کہ اس خیال کو مٹایا جائے اور بعض اور ذرائع سے اپنی مظلومیت حکومت پر ظاہر کریں.اگر تم ذرا بھی سوچ سمجھ سے کام لو تو یہ موٹی بات تو تمہیں بھی نظر آسکتی ہے کہ قادیان میں بلا وجہ فتنے مختلف شکلیں بدلتے رہتے ہیں.ایک وقت مسلمانوں کی طرف سے شور مچایا جاتا ہے اور پھر یک دم اس میں تغیر آجاتا ہے اور پولیس کی طرف سے شور اُٹھنا شروع ہو جاتا ہے.پھر یک دم یہ حالت بھی بدل جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری لڑائی نہ مسلمانوں سے ہے نہ پولیس سے بلکہ سکھوں سے ہے.پھر سکھوں سے لڑتے لڑتے یک دم تغیر آجاتا ہے اور سکھ تو بالکل خاموش ہو جاتے ہیں اور ہند و شور مچانا شروع کر دیتے ہیں اور ان لڑائیوں میں سے کسی لڑائی کے پیدا کرنے میں بھی ہما را دخل نہیں ہوتا.جس وقت مسلمان شور مچار ہے ہوتے ہیں اُس وقت کوئی ایسی حرکت ہم نے نہیں کی ہوتی جو پندرہ میں سال پہلے ہم نے نہ کی ہو.گویا کوئی تازہ حرکت ایسی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ہم سمجھیں کہ ان کا شور مچانا حق بجانب ہے.اسی طرح جب پولیس کی طرف سے شور مچایا جاتا ہے تو ہماری کوئی ایسی حرکت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ اشتعال میں آئے.پھر جب سکھ اور ہند و شور مچاتے ہیں اُس وقت بھی کوئی ایسا نیا فعل ہم سے صادر نہیں ہوتا جس کی وجہ سے سمجھا جائے کہ ان کا شور اور فتنہ وفساد کسی بنیاد پر ہے.پس کیا اس محاذ کی تبدیلی سے تمہاری سمجھ میں اتنی موٹی بات بھی نہیں آتی کہ یہ کسی سازش اور چالا کی کا نتیجہ ہے.اگر تم بات کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ تمہیں وسیع علم ہے اور نہ وسیع معلومات

Page 115

خلافة على منهاج النبوة 1+1 جلد سوم کے ذرائع تمہیں حاصل ہیں تو کم سے کم اتنی بات تو تمہیں سمجھ لینی چاہئے تھی کہ کیوں بلا وجہ ایک وقت مسلمانوں کو جوش آتا ہے تو دوسرے وقت پولیس والوں کو کبھی سکھوں کو جوش آجاتا ہے تو کبھی ہندوؤں کو.کم سے کم اتنی موٹی بات تمہیں سمجھ لینی چاہئے تھی کہ یہ تغیرات جو پیدا ہوئے ان کا کوئی نہ کوئی سبب ہوگا ورنہ بلا سبب تو یہ نہیں ہو سکتے اور جب یہ بلا سبب نہیں ہو سکتے اور تمہیں ان کا سبب معلوم نہیں تو تم کیوں اندھیرے میں چھلانگ لگاتے اور سلسلہ کی بدنامی اور ہتک کا موجب بنتے ہو.یہ معاملات اُن لوگوں کے ہاتھ میں چھوڑ دو جو اِن تغیرات کا سبب جانتے اور اس کی وجہ کو خوب پہچانتے ہیں.وہ جب دیکھیں گے کہ سلسلہ کی عظمت لڑائی کرنے میں ہے تو اُس وقت وہ بغیر کسی قسم کے خطرہ کے لڑائی کریں گے اور اُس وقت تم میں سے وہ لوگ جو اس وقت بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے اور کہتے ہیں ہم صبر نہیں کر سکتے ، ہم دشمن سے لڑیں گے اور مر جائیں گے وہ لڑائی کرنے سے انکار کر دیں گے اور کہیں گے کہ ہم ہلاکت کے منہ میں اپنے آپ کو نہیں ڈال سکتے.گویا جس وقت ہم کہتے ہیں ہمیں صلح رکھنی چاہئے اور بلا وجہ دشمن سے لڑائی نہیں لڑنی چاہئے اُس وقت وہ بزدل اور منافق جو اگرلڑائی ہو تو سب سے پہلے میدانِ جنگ سے بھاگ نکلیں گے کہتے ہیں ہم بے غیرت نہیں ، ہم دشمن سے ضرور لڑیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں اب کسی نے لڑنا نہیں اور جب لڑائی ضروری ہو جائے تو کہہ دیتے ہیں صلح رکھنی چاہئے ، آپس کے تعلقات کو خراب کر لینے سے کیا فائدہ.آخر کیا تم خیال کرتے ہو کہ ایک شخص کے ہاتھ پر تم بیعت کرتے ہو اور پھر یہ مجھتے ہو کہ اس کے دل میں سلسلہ کے متعلق اتنی بھی غیرت نہیں جتنی تمہارے دلوں میں ہے.حالانکہ اس نے اپنی غیرت کا عملی ثبوت بھی تمہارے سامنے پیش کیا ہوا ہے.میں ہمیشہ اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ جماعت کا بیشتر حصہ سچے مخلصوں اور باتیں بنانے والوں میں فرق کیوں نہیں کرتا.گزشتہ دو سال میں تم نے دیکھ لیا کہ وہ لوگ جو بڑھ بڑھ کر باتیں کر نیوالے تھے جب اُن پر مقدمے ہوئے تو انہوں نے کیسی بزدلی اور دوں ہمتی دکھائی.جماعت کا ان مقدموں اور سیاسی شرارتوں کے مقابلہ کیلئے تھیں چالیس ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ روپیہ خرچ ہو چکا

Page 116

خلافة على منهاج النبوة ۱۰۲ جلد سوم ہے.حالانکہ ان لوگوں کو سوچنا چاہئے تھا کہ ہماری حرکات سے اگر سلسلہ کیلئے مشکلات پیش آئیں گی اور سلسلہ کا روپیہ خرچ ہو گا تو اس کا کون ذمہ وار ہوگا.اور پھر جب بعض حالات میں مقدمات چلائے گئے تو کیوں یہ لوگ گھبرا گھبرا کر اچھے سے اچھے وکیلوں اور اچھے سے اچھے سامانوں کے طالب ہوئے.جن لوگوں کے افعال کی وجہ سے یہ صورتِ حالات پیدا ہوئی تھی انہیں چاہئے تھا کہ یا وہ خود مقدمہ چلاتے یا کانگرس والوں کی طرح ڈیفنس پیش کرنے سے انکار کر دیتے اور قید ہو جاتے.مگر انہیں شرم نہیں آتی کہ کہتے تو وہ یہ تھے کہ ہم سلسلہ کیلئے اپنی جانیں قربان کر دیں گے مگر جماعت کا پندرہ بیس ہزار روپیہ انہوں نے مقدمات پر خرچ کر دیا اور پھر بھی وہ مخلص کے مخلص بنے ہوئے ہیں.ان میں سے بعض کے کھانوں اور سفر خرچ کے بل جا کر دیکھو تو تم کو تعجب ہو گا کہ یہ کیا ہوا ہے.لیکن حقیقت یہ تھی کہ دشمن جھوٹ بول رہا تھا اور سلسلہ کو بدنام کرنے کیلئے جھوٹے مقدمات کر رہا تھا.ہم ان کی مدد کیلئے مجبور تھے گوہم جانتے تھے کہ بعض جگہ دشمن کو موقع دینے والے خود ہمارے اپنے آدمی تھے.اگر ہمارے آدمی میری تلقین کے مطابق صبر سے کام لیتے اور گالی کا جواب نہ دیتے تو اتنا فتنہ نہ بڑھتا.لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر انہوں نے لڑائی کرنا دین کیلئے ضروری ہی سمجھا تھا تو ان کا فرض تھا کہ یا مقدمہ کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے اور کہتے کہ ہماری جماعت کی مالی حالت کمزور ہے ، ہم اس پر اپنا بوجھ ڈالنا نہیں چاہتے اور یا جواب دعوئی سے دستبردار ہو کر معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیتے.مگر یہ جماعت کا تمہیں چالیس ہزار روپیہ خرچ کرا دینے کے باوجود مخلص کے مخلص بنے پھرتے ہیں ( میں سب مقدمات کے بارہ میں نہیں کہتا.بعض مقدمات سلسلہ کی ضروریات کیلئے خود کئے گئے ہیں اور نہ سب آدمیوں کے متعلق کہتا ہوں جو ان میں مبتلا تھے.مگر چونکہ اصل لوگوں کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا میں نے بات کو عام رکھا ہے تاکسی خاص شخص پر الزام نہ آئے اور اس نوٹ کے ذریعہ سے میں نے اس کا بھی ازالہ کر دیا ہے کہ نا کردہ گناہ لوگوں پر کوئی بدظنی کرے ).میں پوچھتا ہوں بھلا گالیاں دینے یا بے فائدہ جوش دکھانے میں کونسی خوبی اور کمال ہے.کیا موچی دروازہ کے غنڈے گالیاں نہیں دیتے ؟ اگر تم بھی دشمن کے جواب میں زبان

Page 117

خلافة على منهاج النبوة ۱۰۳ جلد سوم سے گالیاں دیتے چلے جاتے ہو تو زیادہ سے زیادہ یہی کہا جائے گا کہ تم نے وہ کام کیا جو حق کے دشمن کر رہے ہیں مگر تمہاری اس حرکت کو قربانی قرار نہیں دیا جائے گا.قربانی وہ ہوتی ہے جسے عام آدمی پیش نہ کر سکے.مگر تقریر کیلئے کھڑے ہو جانا اور اس میں پندرہ بیس گالیاں دے دینا یہ تو ہر شخص کر سکتا ہے اور کرتا ہے.پس صرف اس لئے کہ کوئی شخص بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہے مخلص اور مومن نہیں کہلا سکتا.کیونکہ مخلص وہ ہے جو اس چیز کو پیش کرے جسے عام لوگ پیش کرنے سے ہچکچاتے ہیں.تم چلے جاؤ لا ہور میں یا اور کسی شہر میں اور چلے جاؤ بداخلاق نمائندگان مذاہب کی مجالس میں تمہیں یہی نظر آئے گا کہ جو شیلے اور فسادی لوگ ہمیشہ گالیاں دیتے ، پتھر پھینکتے اور تالیاں پیٹتے ہیں.مگر مخلص وہ قربانی کرتے ہیں جو دوسرے نہیں کرتے.لا ہور میں ہی جب کوئی فساد ہو ، کمزور اخلاق کے لوگ ہمیشہ بڑھ بڑھ کر لاٹھی چلائیں گے.لیکن جب اسلام کیلئے مال کی قربانی کا سوال ہو تو پیچھے ہٹ جائیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ہمارا کام اتنا ہی ہے کہ ہم گالیاں دیں، لٹھ ماریں اور پھر پلاؤ زردہ کھا ئیں.پس گالیاں دینا تو کمزور طبع لوگوں کا کام ہے کامل مومنوں والا کام نہیں اور اگر واقعہ میں ان میں اخلاص ہوتا تو جن لوگوں پر مقدمہ چلایا گیا تھا وہ کہتے ہم جماعت کا ایک پیسہ بھی اس پر خرچ نہیں ہونے دیں گے ہم نے اپنی ذمہ داری سے کام کیا ہے اور اب اس بوجھ کو بھی یا خود برداشت کریں گے یا برداشت نہ کر سکنے کی صورت میں قید ہو جائیں گے.جماعت کے پاس آگے ہی روپیہ کونسا زیادہ ہے ہم اس پر مزید اپنے مقدمات کا بوجھ کیوں ڈالیں.کیا یہ اتنی موٹی بات نہیں جو تمہاری سمجھ میں آسکے.تو تمہیں چاہئے کہ تم مخلص اور کمزور طبع انسانوں میں فرق کرو.میں انہیں منافق نہیں کہتا.بعض کمزور طبائع ہوتی ہیں ان کا دل ایسا کمزور ہوتا ہے کہ وہ نتائج کی برداشت نہیں کر سکتے.ہوتے مومن ہی ہیں مگر دل کی کمزوری کی وجہ سے نتائج برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے.یہی حال ان لوگوں کا ہے انہوں نے بھی بڑھ بڑھ کر باتیں کیں اور جماعت کو مزید مشکلات میں مبتلا کرا دیا اور جب کبھی ان کی مدافعت کی غلط تدبیروں سے فساد اور بڑھ گیا اور اس کے نتائج کو برداشت کرنے کا وقت آیا تو کمزوری دکھا دی اور مقدمہ لڑ کر اس امر کی کوشش شروع کر دی کہ ان کی بریت ہو جائے.حالانکہ اگر

Page 118

خلافة على منهاج النبوة ۱۰۴ جلد سوم کوئی سمجھتا ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دے گا میں ضرور ا سے سزا دوں گا تو اگر اس کا یہ مقولہ صحیح ہے تو سزا دینے کے بعد اسے دلیری سے اپنے جرم کا اقرار کرنا چاہئے اور اسے کہنا چاہئے مجھے جہاں چاہتے ہو لے جاؤ میں نے اس کے منہ سے گالی سنی اور میں اسے برداشت نہیں کر سکا.فرض کرو کوئی شخص کہتا ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دے گا میں اُسے بُھو تی ماروں گا.اگر اسے ہماری تعلیم سے اتفاق نہیں تو جائے اور اُسے جوتی مارے اور پھر نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہے.مگر ادھر تو وہ ہماری رائے سے اتفاق نہیں کرتا اُدھر جب دوسرے کو مار کر آتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے فعل کے جواب دہ تم ہو.یا درکھو دنیا میں قیام امن دو ذرائع سے ہوتا ہے یا اُس وقت جب مارکھانے کی طاقت انسان میں پیدا ہو جائے یا جب دوسرے کو مارنے کی طاقت انسان میں پیدا ہو جائے ، درمیانی دوغلہ کوئی چیز نہیں.اب جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم میں مار کھانے کی طاقت ہونی چاہئے.بالکل ممکن ہے تم میں سے بعضوں کا یہ خیال ہو کہ ہم میں مارنے کی طاقت ہونی چاہئے.میں اسے غیر معقول نہیں کہتا ہاں غلط ضرور کہتا ہوں.یہ ضرور کہتا ہوں کہ اُس نے قرآن کریم کو نہیں سمجھا ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کو نہیں سمجھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے مارنے کیلئے جو شرائط رکھی ہیں وہ اس وقت ہمیں میسر نہیں.پس کم سے کم میں اسے شرارتی یا پاگل نہیں کہوں گا میں زیادہ سے زیادہ یہی کہوں گا کہ اُس کی ایک رائے ہے جو میری رائے سے مختلف ہے.لیکن تمہاری یہ حالت ہے کہ تم میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے اور پھر جب وہ ہماری تعلیم کے صریح خلاف کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے تو بھاگ کر ہمارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے مجھے بچانا مجھے بچانا.آخر جماعت تمہیں کیوں بچائے ؟ کیا تم نے جماعت کے نظام کی پابندی کی یا اپنے جذبات پر قابو رکھا ؟ اور اگر تم اس خیال کے قائل نہیں تھے تو پھر تمہیں ہمارے پاس بھاگ کر آنے کی کیا ضرورت ہے.تمہیں چاہئے کہ تم دلیری دکھاؤ اور اپنے جرم کا اقرار کر و.اگر ان دونوں عقیدوں کے چالیس چالیس آدمی بھی میسر آجائیں تو ہم دنیا

Page 119

خلافة على منهاج النبوة ۱۰۵ جلد سوم کو ڈرا سکتے ہیں.اگر چالیس آدمی ایسے مل جائیں جو مار کھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ دنیا کو ڈرا سکتے ہیں اور اگر چالیس آدمی ایسے میسر آجائیں جو مارنے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ بھی دنیا کو ڈرا سکتے ہیں.مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تم میں سے بعض دشمن سے کوئی گالی سنتے ہیں تو ان کے منہ میں جھاگ بھر آتی ہے اور وہ کو دکر اُس پر حملہ کر دیتے ہیں.لیکن اُسی وقت ان کے پیر پیچھے کی طرف پڑ رہے ہوتے ہیں.تم میں سے بعض تقریر کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مر جائیں گے مگر سلسلہ کی ہتک برداشت نہ کریں گے لیکن جب کوئی ان پر ہاتھ اُٹھاتا ہے تو پھر ادھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھائیو! کچھ روپے ہیں جن سے مقدمہ لڑا جائے ، کوئی وکیل ہے جو وکالت کرے؟ بھلا ایسے خنٹوں کے نے بھی کسی قوم کو فائدہ پہنچایا ہے؟ بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مار کر پیچھے ہٹتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو دلیری سے سچ بولتا ہے.اور اگر مار کھانے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر جوش میں نہیں آتا اور اپنے نفس کو شدید اشتعال کے وقتوں میں بھی قابورکھتا ہے.پس اگر تم جیتنا چاہتے ہو تو دونوں میں سے ایک اصل اختیار کرو.جو کچھ میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ بہادر بنو مگر اس طرح کہ مار کھانے کی عادت ڈالو اور امام کے پیچھے ہو کر دشمن سے جنگ کرو.ہاں جب وہ کہے کہ اب لڑو اُس وقت بینک لڑو.لیکن جب تک تمہیں امام لڑائی کا حکم نہیں دیتا اُس وقت تک دشمن کو سزا دینے کا تمہیں اختیار نہیں.لاٹھی اور سوئے سے ہی نہیں بلکہ ایک ہلکا ساتھپڑ مارنا بھی تمہارے لئے جائز نہیں.بلکہ میں کہتا ہوں تھپڑ تو الگ رہا ایک گلاب کے پھول سے بھی تمہیں دشمن کو اُس وقت تک مارنے کی اجازت نہیں جب تک امام تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دے.لیکن اگر تمہارا یہ عقیدہ نہیں تب بھی میں شریف انسان تمہیں تب ہی سمجھوں گا کہ اگر تمہارا یہ دعوی ہو کہ گالی دینے والے دشمن کو ضرور سزا دینی چاہئے اور تم اُس گالی دینے والے کے جواب میں سخت کلامی کرتے ہو اور اس سے جوش میں آکر وہ پھر اور بد کلامی کرتا ہے تو پھر تم مٹ جاؤ اور اپنے آپ کو فنا کر دو لیکن اُس منہ کو توڑ دو جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کیلئے گالی نکلی تھی.اُس کو خاموش کرانا تمہارا ہی فرض ہے کیونکہ تمہارے ہی فعل سے اُس نے مزید گالیاں دی ہیں.کیا

Page 120

خلافة على منهاج النبوة 1.7 جلد سوم شرم نہیں آتی کہ تم ایک سخت بد لگام دشمن کا جواب دے کر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دلواتے ہو اور پھر خاموشی سے گھروں میں بیٹھ رہتے ہو !! اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی حیا ہے اور تمہارا سچ سچ یہ عقیدہ ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے تو پھر یا تم دنیا سے مٹ جاؤ یا گالیاں دینے والوں کو مٹا ڈالو.مگر ایک طرف تم جوش اور بہادری کا دعویٰ کرتے ہو اور دوسری طرف بُزدلی اور دون ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہو.میں تو ایسے لوگوں کے متعلق بھی یہی کہتا ہوں کہ وہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دلواتے ہیں اور وہ آپ سلسلہ کے دشمن اور خطرناک ہیں.اگر کسی کو مارنا پیٹنا جائز ہوتا تو میں تو کہتا کہ ایسے لوگوں کو بازار میں کھڑا کر کے انہیں خوب پیٹنا چاہئے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ گالیاں دلواتے ہیں اور پھر مخلص اور احمدی کہلاتے پھرتے ہیں.میں اس موقع پر ان لوگوں کو بھی جو انہیں اعلیٰ مخلص سمجھتے ہیں کہتا ہوں کہ مومن بیوقوف نہیں ہوتا.کیا تم سمجھتے ہو کہ گالیاں دینا کوئی بہادری ہے؟ تم کسی چوہڑے کو دو روپے دے کر دیکھ لو وہ تم سے زیادہ گالیاں دے دے گا.پس تم بھی اگر گالیاں دیتے ہو تو زیادہ سے زیادہ چوڑھوں والا کام کرتے ہو.یہ کوئی ایسا پیچیدہ مسئلہ نہیں جو تمہیں سمجھ میں نہ آسکے.مگر میں متواتر تین سال سے سمجھا رہا ہوں اور تم ابھی تک سمجھنے میں نہیں آتے.میرے سامنے کوئی آٹھ دس برس کا بچہ لے آؤ ، میں یہ باتیں اُس کے سامنے دُہرا دیتا ہوں تمہیں خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ وہ بچہ میری بات کو کتنی جلدی سمجھ لیتا ہے مگر کیا میرے تین سالہ خطبات بھی تمہیں میرے منشاء سے آگاہ نہیں کر سکے.پس میں پھر ایک دفعہ کھول کھول کر بتا دیتا ہوں کہ شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں.یا انسان کو مرنا آتا ہو یا انسان کو مارنا آتا ہو.ہمارا طریقہ مرنے کا ہے مارنے کا نہیں.ہم کہتے ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے ابھی اس مقام پر رکھا ہوا ہے کہ مر جاؤ مگر اپنی زبان نہ کھولو.کیا تم نے جہاد پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظم نہیں پڑھی؟ اس میں کس وضاحت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا ہے کہ اگر جہاد کا موقع ہوتا تو خدا تعالیٰ تمہیں تلوار کیوں نہ دیتا.اُس کا تلوار نہ دینا بتاتا ہے کہ یہ تلوار سے جہاد کا موقع

Page 121

خلافة على منهاج النبوة 1+2 جلد سوم نہیں.اسی طرح اگر تمہارے لئے مارنے کا مقام ہوتا تو تمہیں اس منہ کے توڑنے کی طاقت اور اس کے سامان بھی ملتے جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دی جاتی ہیں.مگر تمہیں اس کی توفیق نہیں دی گئی اور وہ سامان نہیں دیئے گئے.پس معلوم ہوا کہ تمہار لئے اللہ تعالیٰ نے یہی مقام مقدر کیا ہے کہ تم گالیاں سنو اور صبر کرو.اور اگر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہے تو میں اسے کہوں گا اے بے شرم ! تو آگے کیوں نہیں جاتا اور اُس منہ کو کیوں تو ڑ نہیں دیتا جس منہ سے تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دلوائی ہیں.گندے سے گندے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہے جاتے ہیں.تم خود دشمن سے وہ الفاظ کہلواتے ہو اور پھر تمہاری تگ و دو یہیں تک آ کر ختم ہو جاتی ہے کہ گورنمنٹ سے کہتے ہو کہ وہ تمہاری مدد کرے.گورنمنٹ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ تمہاری مدد کرے.کیا اُس کا اور تمہارا مذہب ایک ہے؟ یا اس کی اور تمہاری سیاست ایک ہے؟ یا اس کا نظام تمہارے نظام سے ملتا ہے؟ پھر گورنمنٹ تمہاری کیوں مدد کرے.گورنمنٹ اگر ہمدردی کرے گی تو اُن لوگوں سے جو تمہارے دشمن ہیں کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں اور تم اقلیت میں اور گورنمٹوں کو اکثریت کی خوشنودی کی ضرورت ہوتی ہے.پس گورنمنٹ کو تم سے کس طرح ہمدردی ہو سکتی ہے.اُس کو تو اُسی وقت تک تمہارے ساتھ ہمدردی ہو سکتی ہے جب تک تم خاموش رہو اور دشمن کے مقابلہ میں صبر سے کام لو اور اس صورت میں بھی صرف شریف حاکم تمہاری مدد کریں گے اور کہیں گے انہوں نے ہمیں فتنہ وفساد سے بچالیا.مگر یہ خیال کرنا کہ گورنمنٹ اُس وقت مدد کرے جب دشمن تم کو گالیاں دے رہا ہو اور تم جواب میں اُسے گالیاں دے رہے ہو نادانی ہے.اُس وقت اُس کی ہمدردی اکثریت کے ساتھ ہو گی کیونکہ وہ جانتی ہے اقلیت کچھ نہیں کر سکتی.پس گورنمنٹ سے اسی صورت میں تم امداد کی توقع کر سکتے ہو جب خود قربانی کر کے لڑائی اور جھگڑے سے بچو اور اُس وقت بھی صرف شریف افسر تم سے ہمدردی کریں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے ہماری بات مان لی اور خاموش رہ کر اور صبر کر کے فتنہ وفساد کو بڑھنے نہ دیا مگر رذیل حکام پھر بھی تمہارے ساتھ لڑیں گے اور کہیں گے کیا ہوا اگر دشمن کا تھپڑ اُنہوں نے کھا لیا.وہ زیادہ

Page 122

خلافة على منهاج النبوة 1+A جلد سوم تھے اور یہ تھوڑے.اگر اکثریت سے ڈر کر تھپڑ کھا لیا ہے تو یہ کوئی خوبی نہیں.پس وہ تمہارے صبر کو بُزدلی پر محمول کریں گے اور تمہاری خاموشی کو کمزوری کا نتیجہ قرار دیں گے.پس تمہارا گورنمنٹ کے پاس شکایت کرنا بالکل بے سود ہے اور مجھے تمہاری مثال ویسی ہی نظر آتی ہے جیسے پہلے زمانہ میں جب یہ معلوم نہ تھا کہ کشمیری فوج میں بھرتی ہونے کے قابل نہیں.ایک دفعہ سرحد پر لڑائی ہوئی اور حکومت انگریزی نے مہا راجہ صاحب جموں سے کہا کہ اپنی فوج میں سے ایک دستہ ہماری فوج کے ساتھ روانہ کر دیں.اُنہوں نے ایک کشمیری دستہ کو تیار ہو جانے کا حکم دے دیا جب وہ تیار ہو گئے تو کشمیری افسر ایک وفد کی صورت میں مہا راجہ صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے اتنی مدت تک آپ کا نمک کھایا ہے ہمیں لڑائی سے ہر گز انکار نہیں، ہم ہر وقت جانے کیلئے تیار ہیں صرف ایک ہماری عاجزانہ التماس ہے اور وہ یہ کہ سُنا ہے پٹھان سخت وحشی ہوتے ہیں آپ ہمارے ساتھ کچھ سپاہی کر دیں جو ہماری جانوں کی حفاظت کریں.تم بھی خدا کے سپاہی کہلاتے ہومگر انگریزی سپاہیوں کے پہرے میں کام کرنا چاہتے ہو.پھر تم سے زیادہ بے غیرت اور کون ہوسکتا ہے.اس وقت تم سب اس مثال کے سننے پر ہنس پڑے ہو مگر کیا تمہاری بھی یہی حالت نہیں ؟ تم کہتے ہو دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں مگر انگریزی سپاہیوں کی حفاظت میں.اگر واقعہ میں تم خدا تعالیٰ کے سپاہی ہو اور اُس کے دشمن کے مقابل پر کھڑے ہو تو پھر تمہیں کسی حفاظت کی ضرورت ہی کیا ہے.تم میرے بتائے ہوئے طریق کے ماتحت صبر اور شکر کرو پھر خدا تعالیٰ کے سپاہی آپ تمہاری مدد کیلئے آسمان سے اُتریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایک دفعہ ایک مقدمہ ہوا.جس مجسٹریٹ کے پاس وہ مقدمہ تھا اُس پر لاہور کے بعض آریوں نے سخت زور ڈالا کہ جس طرح بھی ہو سکے تم کسی نہ کسی طرح مرزا صاحب کو سزا دے دو اور اِس قدر اصرار کیا کہ آخر اس نے وعدہ کر لیا کہ میں کچھ نہ کچھ سزا انہیں ضرور دے دوں گا.ایک ہندو دوست جو اس مجلس میں موجود تھے انہوں نے یہ تمام حالات ایک احمدی وکیل کے پاس بیان کئے اور کہا کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا آریوں نے بہت اصرار کیا اور آخر مجسٹریٹ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ میں ضرور

Page 123

خلافة على منهاج النبوة 1+9 جلد سوم حضرت مرزا صاحب کو کچھ نہ کچھ سزا دے دوں گا.وہ احمدی وکیل گھبرائے ہوئے گورداسپور آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اُن دنوں گورداسپور میں ہی تھے میں وہاں موجود نہیں تھا لیکن جو دوست وہاں موجود تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب اُس دوست نے آکر ذکر کیا کہ حضور! ہمیں کوئی فکر کرنا چاہئے اس مجسٹریٹ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ کو ضرور سزا دے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کی طرف کوئی توجہ نہ فرمائی.آخر انہوں نے دوبارہ اور سہ بارہ یہی بات دہرائی اور کچھ اور دوست بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور سب نے کہا کہ اب ضرور کوئی فکر کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس وقت لیٹے ہوئے تھے.آپ نے جب متواتر یہ بات سنی تو آپ نے چار پائی سے سر اُٹھایا اور لیٹے لیٹے کہنی پر ٹیک دے کر بڑے جلال سے فرمایا وہ مجسٹریٹ ہوتا کیا چیز ہے وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے.پس کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر خدا تمہارے ساتھ ہو تو یہ مجسٹریٹ اور افسر اور پولیس کے آدمی تمہیں کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟ کبھی نہیں.ہاں تمہیں اُس تعلیم پر عمل کرنا چاہئے جو خدا تعالیٰ کے مامور نے تمہیں دی اور جو یہ ہے کہ گالیاں سن کر دعا دو پا کے دُکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار اور جو تعلیم قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے دی ہے کہ جب کسی مجلس میں خدا اور اُس کے رسول کو گالیاں دی جاتی ہوں تو وہاں سے اُٹھ کر چلے آؤ اور بے غیرت مت بنو.مگر تمہاری غیرت کا یہ حال ہے کہ ادھر ہم منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اُن کے جلسہ میں کوئی نہ جائے اور اُدھر تم میں سے کوئی کونوں میں چھپ کر ان کی تقریر میں سنتا ہے ، کوئی کسی ہمسایہ کے مکان پر چڑھ کر وہاں سے تقریر میں سنتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے دل میں یہ گد گدی اُٹھ رہی ہوتی ہے کہ کسی طرح جائیں اور گالیاں سنیں.کیا تم نے کبھی مجھے بھی دیکھا کہ میں ان جلسوں میں گیا ہوں؟ پھر کیا تمہارے سینہ میں ہی دل ہے میرے سینہ میں نہیں.پھر تم کو کیوں شوق آتا ہے کہ جاؤ اور گالیاں سنو.اسی وجہ سے کہ تمہارے دلوں میں غیرت نہیں اور

Page 124

خلافة على منهاج النبوة 11.جلد سوم جب میں یہ کہتا ہوں کہ تمہارے دلوں میں غیرت نہیں تو اس سے مراد وہی خاص لوگ ہیں جو بڑھ بڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور پھر قابل شرم بے غیرتی کا نمونہ دکھاتے ہیں.پس تمہارا گالیاں سننا بتا تا ہے کہ تمہارے دل مردہ ہو چکے ہیں.تم بے ایمانی کے ساتھ ایمان کا جبہ پہن کر نکلے ہوا اور تمہاری غرض محض تماش بینی ہے.ایسے لوگ اُس وقت بھی تماش بین ہوتے ہیں جب وہ ہماری مجلسوں میں شور مچارہے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت کی حفاظت ہونی چاہئے.اور جب وہ اُس مجلس میں جاتے ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دی جاتی ہیں تو وہاں بھی ان کی حیثیت ایک تماش بین کی سی ہوتی ہے اور یقیناً ایسے لوگ اپنی قوم کیلئے عارا ورنگ کا باعث ہوتے ہیں.پھر میں تمہیں کہتا ہوں تم اپنے آپ کو با غیرت کہتے ہو اور تم سمجھتے ہو کہ تم سلسلہ کے قربانی دینے والے ہو مگر تمہارے پاس اس الزام کا کیا جواب ہے کہ جب آریوں کا پر وسیشن نکل رہا تھا تو تم میں سے ایک شخص نے مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگایا.اس میں غیرت کا کونسا سوال تھا ؟ کیا دوسری قوموں کا حق نہیں کہ وہ بھی اپنے بزرگوں کے حق میں نعرے لگائیں ؟ تم کہتے ہو لوگ ہم پر جھوٹا الزام لگاتے ہیں کہ ہم میں سے کسی نے دیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا تھا.میں کہتا ہوں یہ درست ہے کہ تم میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا مگر تم انصافاً آپ ہی بتاؤ کہ جس وقت تمہارا پروسیشن نکل رہا ہو اور تم محمد زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہو تو اُس وقت اگر کوئی شخص ابو جہل زندہ باد کا نعرہ لگا دے تو تمہارے تن بدن میں آگ لگ جائے گی یا نہیں ؟ اگر لگ جائے گی تو تمہیں سمجھنا چاہئے کہ تمہارے دشمن کے سینہ میں بھی دل ہے.اور اُس کا دل بھی اُس وقت دُکھتا ہے جب تم اُس کے مظاہرہ کے وقت میں مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہو.پس تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے مُردہ باد نہیں کہا تھا زندہ باد کہا تھا.سوال یہ نہیں کہ تم نے کیا کہا بلکہ سوال یہ ہے کہ ایسے موقع پر زندہ باد کا نعرہ لگانا بھی دوسرے کو چڑانا اور اسے تکلیف دینا ہوتا ہے.جس وقت تم اپنا پر وسیشن نکال رہے ہو اور سلسلہ کی تعریف میں نعرے لگا رہے ہو اُس وقت اگر کوئی شخص لیکھر ام زندہ باد یا ثناء اللہ زندہ باد کا نعرہ لگا دے تو ایمان سے کہو کہ تمہیں غصہ آئے گا یا نہیں ؟ آئے گا اور

Page 125

خلافة على منهاج النبوة 111 جلد سوم ضرور آئے گا.پھر کیا تمہارے ہی سینہ میں دل ہیں اور تمہارے دشمن کے سینہ میں دل نہیں کہ تمہیں تو ایسے نعرے بُرے لگ سکتے ہیں مگر انہیں بُرے نہیں لگ سکتے ہیں میں تو حیران ہوتا ہوں جب میں یہ بحث سنتا ہوں کہ ہم نے مرزا غلام احمد زندہ باد کہا تھا لیکھر ام مردہ بادتو نہیں کہا تھا حالانکہ سوال زندہ باد کہنے کا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ زندہ باد کا نعرہ کس موقع پر لگایا تھا.کیا وہ تمہارا جلسہ تھا؟ اگر تم اپنے جلسہ میں اس قسم کا نعرہ لگاتے تو یہ ایک معقول بات سمجھی جا سکتی تھی مگر غیر کے جلسہ یا جلوس میں نعرے لگا نا صریح اشتعال دلانے والی حرکت تھی.پس یہ بحث ہی کیا ہوئی کہ ہم نے لیکھرام مردہ باد نہیں کہا ، مرزا غلام احمد زندہ با دکہا.اُس وقت مرزا غلام احمد زندہ باد کہنا بھی لیکھر ام مردہ باد کہنے کے مترادف تھا.یاد رکھو جب کوئی قوم اپنے کسی لیڈر کے اعزاز میں پر وسیشن نکال رہی ہو تو اس وقت تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم اُس میں دخل دو اور اگر تم اپنے لئے یہ بات جائز سمجھتے ہو تو پھر دشمن کا بھی حق ہوگا کہ وہ تمہارے پر وسیشن میں لیکھرام زندہ باد کے نعرے لگائے.میں یہ مانتا ہوں کہ جن لوگوں نے یہ کہا کہ لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا گیا تھا انہوں نے جھوٹ بولا.کیونکہ اس وقت تک کوئی گواہی ایسی نہیں ملی جس سے یہ الزام ثابت ہوا ہو.علاوہ ازیں جب وہ شخص جس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے قسم کھا کر کہہ چکا ہے کہ میں نے اس قسم کا نعرہ نہیں لگا یا تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اُس کی قسم کو تسلیم کریں.پس یہ جو کہا گیا کہ احمدیوں کی طرف سے لیکھر ام مردہ باد کا نعرہ لگایا گیا یہ جھوٹ کہا گیا اور اس میں کسی قسم کی سچائی نہیں.یہ کہنا کہ پولیس کی ڈائری میں یہ لکھا ہوا ہے یہ بھی کوئی معقول ثبوت نہیں.پولیس والے بیسیوں جھوٹ بول لیتے ہیں اور جب وہ انہی کے چٹے بٹے ہیں تو ان سے ہم سچائی کی توقع کس طرح رکھ سکتے ہیں.پھر جس شخص کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اُس نے لیکھرام مردہ باد کا نعرہ لگایا جب وہ قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں نے ایسا نعرہ نہیں لگا یا تو اب اس کے بعد تصفیہ کی صورت یہی رہ جاتی ہے کہ پولیس والے قسم اُٹھا لیں کہ واقعہ میں لیکھرام مردہ باد کا نعرہ لگایا گیا تھا پھر خدا خود فیصلہ کر دے گا کہ کس نے سچ بولا اور کس نے جھوٹ.پولیس کی ڈائریوں کا تو یہ حال ہے کہ گزشتہ سالوں میں جب یہ الزام لگایا گیا کہ احمدی

Page 126

خلافة على منهاج النبوة ١١٢ جلد سوم - لیکچراروں نے ڈپٹی کمشنر کو حرامزادہ کہا ہے تو پولیس کے جس آدمی نے یہ رپورٹ کی تھی اُسے جب کہا گیا کہ ڈپٹی کمشنر چھوڑ کسی کو بھی کسی احمدی لیکچرار نے حرامزادہ نہیں کہا پھر تم نے ایسا کیوں لکھا ؟ تو وہ کہنے لگا یہ ایک راز کی بات ہے میں اس کا جواب نہیں دے سکتا.پھر کم سے کم ہیں فیصلے ہائی کورٹ کے میں ایسے پیش کر سکتا ہوں جن میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ پولیس والوں نے جھوٹ بولا.پس ہم کہتے ہیں یہ الزام بالکل جھوٹا ہے.جس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے وہ قسم اور غلیظ قسم کھا کر اپنے کو بری ثابت کر چکا ہے اور اگر یہ جھوٹی قسم ہے تو اس کے مقابلے میں دوسرا شخص جسے یہ یقین ہے کہ واقعہ میں لیکھر ام مردہ باد کا نعرہ لگایا گیا کیوں ایسی ہی قسم نہیں کھا لیتا.پھر یہ بھی تو غور کرنا چاہئے کہ کیا یہ مکن نہیں کہ کسی مخالف نے خود اس قسم کا نعرہ لگا دیا ہو تا کہ فتنہ پیدا ہو جائے.پس قسمیہ طور پر اس بات کو بیان کر دینے کے بعد کہ لیکھر ام مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا گیا ہم اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ یہ الزام درست ہے.ہاں ہم یہ ضرور کہیں گے کہ اس موقع پر مرزا غلام احمد زندہ باد کہنا بھی فتنہ پیدا کرنے کا موجب تھا.ہماری جماعت بھی اپنے جلوسوں میں زندہ باد کے نعرے لگایا کرتی ہے.ایسے مواقع پر اگر مقابل کا فریق بھی نعرے لگانا شروع کر دے تو فساد ہوگا یا نہیں.پس میں تو ہر گز نہیں سمجھتا کہ جس چیز کو ہم اپنے لئے جائز نہیں سمجھتے وہ دوسروں کیلئے جائز سمجھیں.بحیثیت انسان ہونے کے ہندو بھی وہی حق رکھتے ہیں جو ہم رکھتے ہیں بلکہ سکھوں اور ہندوؤں کو جانے دو چوڑھوں کا بھی انسان ہونے کے لحاظ سے وہ حق ہے جو ایک مسلمان یا سکھ یا ہندو کا ہے.اور ہمیں کوئی اختیار نہیں کہ ہم یہ کہیں کہ ہمیں تو فلاں حق حاصل ہے مگر ہندوؤں یا سکھوں یا چوڑھوں کو حاصل نہیں.جو حق ہمیں حاصل ہو گا وہ دوسروں کو بھی حاصل ہوگا اور جو بات ہمیں بُری معلوم ہوتی ہو ہم کو چاہئے کہ دوسرے کے حق میں بھی اِس طرح نہ کریں.آج ہی اگر میں ایک میٹنگ کر کے لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کروں کہ جب آپ لوگ کہتے ہیں ” محمد زندہ باد “ یا ” غلام احمد کی جے تو کیا آپ اُس وقت برداشت کریں گے کہ آپ کے جلوس میں ہی مخالف ابو جہل زندہ باد یا لیکھرام زندہ باد کے نعرے لگا ئیں تو میں سمجھتا ہوں کہ سو فیصدی لوگ اشتعال میں آ جائیں

Page 127

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم گے اور وہ کہیں گے کہ ہم اپنے جلسہ یا جلوس میں اس قسم کے نعرے ہر گز نہیں سنیں گے.پس اگر تم اپنے جلسوں اور جلوسوں میں ان نعروں کو سننے کیلئے تیار نہیں تو کیا تمہارا فرض نہیں کہ دوسروں کے جلسوں اور جلوسوں میں بھی تم اپنی زبانوں کو روکو اور اپنے جذبات پر قابورکھو.پھر ایک اور موٹی بات ہے جس کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے اور وہ یہ کہ تم میں سے ایک شخص ایک مجرمانہ فعل کرتا ہے تو تم سب کو کیوں فکر پڑ جاتی ہے حالانکہ تمہارا فرض صرف اتنا ہے کہ تم مجرم کو مجرم قرار دے دو اور اس کے فعل سے اپنی بے تعلقی اور براءت کا اظہار کر دو.آج ہندوستان میں جس قدر فسادات ہیں ان کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص مجرم کرتا ہے اور اُس کی ساری قوم سمجھ لیتی ہے کہ شاید ہم پر الزام لگا ہے اور زخم کردہ قوم واقعہ میں بھی اس ساری قوم کو مجرم سمجھنے لگتی ہے.اگر تم بھی ایسا ہی کرو تو تم میں اور ان میں کیا فرق رہ جائے.اگر کسی نے مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگایا تو بیشک یہ فقرہ بالکل سچ تھا مگر سچے فقرے بھی بعض دفعہ فتنہ وفساد کا موجب ہو جاتے ہیں.قرآن کریم میں ہی آتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ہمارے رسول ! لبعض منافق تیرے پاس آتے اور قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ تو اللہ تعالیٰ کا رسول ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے مگر اے ہمارے رسول منافق اس وقت جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں.پس بعض لوگوں کا رسول اللہ ﷺ کو رسول کہنا بھی جھوٹ تھا حالانکہ اس سے بڑھ کر سچی بات اور کیا ہو سکتی ہے.اسی طرح حضرت علیؓ کے زمانہ میں کچھ لوگ تھے جنہوں نے ایک دفعہ کہا بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ھے مسلمانوں کے کام باہمی مشورہ سے ہونے چاہئیں.حضرت علیؓ سے کسی نے یہ بات کہی تو آپ نے فرمایا كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ أُرِيدَ بِهَا الْبَاطِلُ کہ یہ بات تو سچی ہے مگر اس سے فساد پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تو ہر سچی بات موقع ومحل کو مدنظر رکھے بغیر بیان کرنی جائز نہیں ہوتی.میاں اور بیوی کے تعلقات سے زیادہ حلال اور کونسا تعلق ہوسکتا ہے مگر کیا جائز ہے کہ انسان مخصوص تعلقات کا ذکر کرے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اُس عورت پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے جو اپنے خاوند کے پاس جاتی اور پھر باہر جا کر اُس کے متعلق باتیں کرتی ہے مگر کیا وہ سچ نہیں ہوتا.

Page 128

خلافة على منهاج النبوة ۱۱۴ جلد سوم غرض سچائی کے اظہار کیلئے بھی شرائط ہوتی ہیں اور ان شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ہر شخص جس بات کو سچائی سمجھتا ہے وہ اس سچائی کے اظہار کا حق تو رکھتا ہے لیکن دشمن کی مجلس میں جب طبائع میں جوش ہو اُسے اس کے بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے.جب لوگ جلوس نکال رہے ہوتے ہیں اُس وقت ان کی ساری عقیدت جو اپنے پیشواؤں کے ساتھ وہ رکھتے ہیں پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہوتی ہے.محرم میں جب شیعہ لوگ روتے پیٹتے ہیں ، سنی بھی شیعہ ہو جاتے اور ان میں سے اکثر ان میں شامل ہو جاتے ہیں.کسی عقلمند کا مقولہ ہے کہ مسلمان گیارہ مہینے سنی رہتے ہیں اور بارہویں مہینہ سب شیعہ بن جاتے ہیں.درحقیقت یہ بات بالکل درست ہے.جس وقت شیعہ لوگ یا حسین یا حسین“ کے نعرے لگاتے ہیں تو واقعات کربلا کی یا دسینیوں کی عقلوں پر بھی پردہ ڈال کر انہیں شیعہ بنادیتی ہے اور اپنی سنیت انہیں بھول جاتی اور شیعیت ان پر غالب آجاتی ہے.اسی طرح جس وقت ہندو یا سکھ جلوس نکال رہے ہوتے ہیں ان کی عقیدت کا جوش انتہاء تک پہنچا ہوا ہوتا ہے.اُس وقت اگر کوئی مخالف اپنے عقیدہ کا اظہار کرتا ہے تو گو وہ ایک سچائی ہی ہو مگر چونکہ اس سے دوسرے کی دل آزاری ہوتی ہے اس لئے وہ مجرم ہے اور اس کی جماعت کا کوئی حق نہیں کہ اس سے ہمدردی کرے.در حقیقت میں تو اب کچھ مدت سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ تمام جلوسوں کو بند کر دے.جلوسوں کی وجہ سے ہندوستان میں بڑے بڑے فساد ہوتے ہیں.جب جلوس نکلتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک آفت آ گئی.ادھر جلوس والوں میں جوش ہوتا ہے اُدھر جلوس کو دیکھ کر مخالفوں کے دلوں میں غیظ و غضب بھڑک اُٹھتا ہے اور بسا اوقات فساد اور کشت و خون تک نوبت پہنچ جاتی ہے.پس ہندوستان کے امن کی راہ میں جلوس ایک خطر ناک روک ہیں اور گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ ان جلوسوں کو بند کر دے.اگر گورنمنٹ جلوسوں کے متعلق کوئی ایسا عام فیصلہ صادر کر دے کہ کسی کو بھی جلوس نکالنے کی اجازت نہ ہو گی تو میں اپنی جماعت کی طرف سے حکومت کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس کے خلاف نہ صرف کوئی پروٹسٹ نہیں کریں گے بلکہ حتی الامکان اس کی مدد کریں گے.کیونکہ اس

Page 129

خلافة على منهاج النبوة ۱۱۵ جلد سوم زمانہ میں جلوس سخت فسادات کا موجب بنے ہوئے ہیں.66 پس تم میں سے جس شخص نے بھی یہ نعرہ لگایا اُس نے سخت غلطی کی اور ایک مجرمانہ فعل کا ارتکاب کیا.میں بتا چکا ہوں کہ یہ کوئی سوال نہیں کہ نعرہ کیا لگایا گیا اور میں تو یہاں کے لوگوں کے خطوں کو پڑھ پڑھ کر سفر میں حیران ہوتا رہا کہ یہ کیا لکھا ہوتا ہے کہ پولیس کا الزام غلط ہے.ایک شخص نے مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا لیکھر ام مردہ باد کا نعرہ اس نے نہیں لگایا، مجھے ان دونوں فقرات میں فرق تو نظر آتا ہے مگر مجھے ان میں سے کسی کے جواز کی بھی دلیل نظر نہیں آتی.میرے نزدیک تو یہ کہنا کہ لیکھر ام مردہ باد ہم نے نہیں کہا مرزا غلام احمد زندہ با د ہم نے کہا.ویسی ہی بات ہے جیسے میری ایک بھانجی کو ایک اُستاد پڑھایا کرتا تھا.بچی بہت چھوٹی تھی.اُسے آداب کا کوئی پتہ نہ تھا.ایک دن اس نے کسی لڑکی کے منہ سے گدھی کا لفظ سنا اسے یہ لفظ بہت پسند آیا اور جب اُستاد اُسے پڑھانے آیا اور کسی بات پر ناراض ہوا تو وہ کہنے لگی ددھی یعنی تو گدھی ہے بوجہ زبان کے صاف نہ ہونے کے گدھی کی جگہ اُس نے ددھی“ کہا.اُستاد نے اس کے والد کے پاس شکایت کی کہ آپ کی لڑکی نے آج مجھے گدھی کہا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کہیں سے گدھی کا لفظ سنا ہے اور اب یہ گالی اس کی زبان پر چڑھ گئی ہے.باپ نے لڑکی کو بلایا.چونکہ واقعہ تازہ ہی تھا اس لئے وہ سمجھ گئی کہ ضرور اسی بات کی وجہ سے مجھے بلایا گیا ہے.وہ ڈرتی ڈرتی اور کانپتی کانپتی آئی اور کہنے لگی ددھی نہیں ددھا یعنی میں نے گدھی کہنے میں غلطی کی اصل میں مجھے گدھا کہنا چاہئے تھا.اُس نے سمجھا شاید غلطی اس میں ہوئی ہے کہ میں نے مرد کو گدھی کہہ دیا حالانکہ اسے گدھا کہنا چاہئے تھا اور اسے یہ خیال ہی نہ آیا کہ مجھے ان میں سے ایک لفظ بھی نہیں کہنا چاہئے تھا.یہی مثال اس شخص پر صادق آتی ہے جس نے یہ حرکت کی ہے.اس موقع کے لحاظ سے یہ دونوں فقرے جو زیر بحث ہیں نامناسب تھے اور نہیں کہنے چاہئیں تھے.پس تم اپنے جذبات کو روکنے کی عادت ڈالو اور لوگوں کے احساسات کا خیال رکھو.اب یہ ہوتا ہے کہ ہم انتہائی کوشش کر کے دشمن کو جب اس مقام پر لے آتے ہیں جہاں وہ مجرم ثابت ہونے والا ہوتا ہے اور اس کی سو گالیاں پکڑ لیتے ہیں تو جھٹ تم میں سے ایک شخص کوئی سخت لفظ کہ دیتا ہے اور

Page 130

خلافة على منهاج النبوة 117 جلد سوم خواہ وہ گالی نہ ہو محض ایک سخت لفظ ہو حکومت ان کی سو گالیوں کو پرے پھینک کر کہہ دیتی ہے کہ آپ کے آدمی نے بھی یہ گالی دی ہے.پس تمہارے اس ایک آدمی کی غلطی کی وجہ سے حکام ایک عرصہ تک یہی دُہراتے چلے جاتے ہیں کہ آپ کے آدمی نے بھی یہی بات کہی تھی اور اس طرح ہماری ساری سکیم تم میں سے ایک شخص جوش میں آکر تباہ کر دیتا ہے اور جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں اب ضرب لگانے کا وقت ہے، ہماری جماعت کا کوئی شخص اپنی بیوقوفی سے اُس ضرب کو اپنے اوپر لے لیتا اور بنی بنائی سکیم کو بگاڑ دیتا ہے.پس میں پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میری یہ باتیں سمجھنی مشکل نہیں.تم میں سے جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ یہ باتیں مشکل ہیں اور جلدی سمجھ میں نہیں آسکتیں وہ کوئی آٹھ دس سال کا بچہ میرے سامنے لے آئے ، میں اُسے یہ تمام باتیں سمجھا کر بتا دیتا ہوں.پھر اتنی وضاحت کے بعد بھی اگر تم لوگ نہ سمجھو تو سوائے اس کے اور کیا معنے ہوں گے کہ تم چاہتے ہی نہیں کہ سمجھو اور میری باتوں پر عمل کرو.میں سوئے ہوئے کو تو جگا سکتا ہوں مگر جو جاگ رہا ہو اور یونہی آنکھیں بند کر کے پڑا ہوا ہو اُ سے کس طرح جگا سکتا ہوں.اس کے متعلق تو میرے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ میں خدا سے ہی کہوں کہ خدایا! مجھے اس نادان دوست سے بچا کہ یہ میرے کام میں روک بنا ہوا ہے.“ ( خطبات محمود جلد ۱۸ صفحه ۱۴۳ تا ۱۶۴ء) 66 لے پوری پرندوں کے پروں کا مخصوص انداز کا بنا ہوا گول پنکھا ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلدے صفحه ۶۲۵ مطبوعہ کراچی ۱۹۸۷ء) بخارى كتاب الجهاد والسير باب يقاتل من وراء الامام ویتقی به صفحه ۴۸۹ حدیث نمبر ۲۹۵۷ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ ء الطبعة الثانية التوبة: ٦١ خنشون : خفشی: بیجا، نامرد ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد ۸ صفحہ ۷۰۷ مطبوعہ کراچی ۱۹۸۷ء) ۵، ۶ تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۳۳۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء

Page 131

خلافة على منهاج النبوة 112 جلد سوم شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے خط کا جواب خطبہ جمعہ ۱۶ جولائی ۱۹۳۷ء میں شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے تیسرے خط کے جواب میں حضور فرماتے ہیں :.تیسرے خط میں شیخ صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے معلوم ہو چکا ہے اب آپ سے نرمی کرنا سلسلہ کے ساتھ غداری ہے.مگر سوال یہ ہے کہ دو سال تک یہ مسئلہ کیوں نہ سُوجھا.۱۳ روز کے اندر اندر ہی یہ رموز ان پر کھلے، دو سال پہلے کیوں نہ کھلے.اس الزاموں والے خط میں بعض جگہ تو الزام نمایاں ہیں گو مجمل اور تشنہ ، تفصیل اور بعض جگہ یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ کہتے کیا ہیں.ان دونوں طریقوں سے صاف پتہ لگتا ہے کہ پہلا خط اس غرض سے تھا کہ دھمکیوں سے ڈر کر میں اِن کی بات مان لوں اور وہ جو چاہیں مجھ سے کراسکیں.جیسے دلی میں بادشاہ گر ہوتے تھے یہ خلیفہ گر بننا چاہتے تھے.وہ چاہتے تھے کہ ظاہر میں تو میں لیکن باطن میں وہ خلیفہ ہوں.مگر انہیں کیا معلوم کہ خدا اور انسان کے بنائے ہوئے خلفاء میں کیا فرق ہوتا ہے.خدا کا بنایا ہوا خلیفہ بھی کسی سے نہیں ڈرتا.کیا میں اس بات سے ڈر جاؤں گا کہ لوگ مرتد ہو جائیں گے؟ جس کے لئے ارتداد مقدر ہے وہ کل کی بجائے بیشک آج ہی مرتد ہو جائے ، مجھے کیا فکر ہے.میں جب جانتا ہوں کہ میں خدا کا بنایا ہوا خلیفہ ہوں تو خواہ ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ ہو تو بھی مجھے کیا ڈر ہے.جب خدا تعالیٰ خود مجھے تسلیاں دیتا ہے تو میں انسانوں سے کیوں ڈروں.ادھر یہ لوگ مجھے ڈراتے اور اُدھر خدا تعالیٰ مجھے تسلیاں دیتا ہے.ان چند روز میں اس کثرت سے مجھے الہام اور رویا ہوئے ہیں کہ گزشتہ دو سال میں اتنے نہ ہوئے ہوں گے.ابھی چند روز ہوئے کہ مجھے الہام ہوا جو اپنے اندر دعا کا رنگ رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اے خدا! میں چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا ہوں تو میری

Page 132

خلافة على منهاج النبوة ,, ۱۱۸ جلد سوم مددفرما“.اور پھر اس کے تین چار روز بعد الہام ہوا جو گویا اس کا جواب ہے کہ ” میں تیری مشکلات کو دُور کروں گا اور تھوڑے ہی دنوں میں تیرے دشمنوں کو تباہ کر دوں گا“.آخری الفاظ تباہ کر دوں گا“ یا ” بر باد کروں گا یا ” مٹا دوں گا “ تھے، صحیح طور پر یاد نہیں رہے.تو جب خدا تعالیٰ خود مجھے تسلیاں دیتا ہے تو میں بندوں سے کیوں ڈروں.اور کیا ان واقعات کے بعد میں کسی بندے پر اعتماد کر سکتا ہوں ؟ شیخ عبدالرحمن مصری میرے بچپن کے دوست تھے مگر آج ان کے اقرار کے بموجب وہ دو سال سے میرے خلاف مواد جمع کر رہے تھے مگر ہماری تازه تحقیق کے مطابق اس سے بھی بہت پہلے سے کینہ دل میں چھپائے بیٹھے تھے.پھر میں کسی انسان پر کس طرح بھروسہ کر سکتا ہوں.“ ( خطبات محمو دجلد ۱۸صفحه ۴ ۲۸ تا ۵ ۲۸ )

Page 133

خلافة على منهاج النبوة 119 جلد سوم جو شخص خلافت کی مخالفت کرتا ہے وہ اسلام کی عملی زندگی پر تنبر چلاتا ہے فرموده ۲۳ / جولائی ۱۹۳۷ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں آج بہت زیادہ دیر سے آسکا ہوں جس کی وجہ یہ ہے کہ کل مجھے شدید سر درد کا دورہ ہوا اور اس کی وجہ سے میں رات بھر جاگتا رہا.صبح اُٹھ کر میں نے برومائیڈ پیا اور تھوڑی دیر کے لئے سو گیا.پھر میں دفتر میں آیا اور کچھ دوست جو مجھ سے ملنے آئے ہوئے تھے اُن سے ملا.اس کے بعد چونکہ بعض حوالے تاریخی کتب سے میں نے نکالنے تھے اس لئے وہ حوالہ جات تلاش کرتا رہا اور ان سے ایسے وقت میں فارغ ہوا جبکہ غنسل اور کھانے کے بعد نماز کو بہت دیر ہو جاتی تھی.چنانچہ میں نے جلدی جلدی ان دونوں کاموں سے فراغت پائی مگر پھر دیر ہوگئی.اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں مصری صاحب کے بعض ان اعتراضات کے جوابات دیئے تھے جو انہوں نے اپنے ایک اشتہار میں شائع کئے ہیں اور وہ اعتراض دو تھے.ایک تو یہ کہ جماعت نے بغیر تحقیق کئے انہیں گالیاں دی ہیں اور دوسرا یہ کہ جماعت نے ایک ایسے آدمی کو گالیاں دی ہیں جس نے جماعت کے مفاد کیلئے قربانی کی ہے.میں نے بتایا تھا کہ ان کی یہ دونوں باتیں غلط ہیں.جماعت نے ان کو کوئی گالیاں نہیں دیں بلکہ انہوں نے جماعت کو گالیاں دیں اور جماعت نے جو کچھ جوابا کہا وہ

Page 134

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۰ جلد سوم اس سے بہت کم ہے جو انہوں نے ہمارے متعلق کہا.اسی طرح ان کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ میں نے جماعت کیلئے قربانی کی.وہ حالات سے مجبور ہو گئے تھے اس لئے وہ ہم سے علیحدہ ہوئے ور نہ انہوں نے پہلا خط جو مجھے لکھا اس سے ان کا مقصد ہرگز جماعت سے علیحد گی نہیں تھا بلکہ مجھے ڈرانا اور بعض باتیں مجھ سے منوانا تھا.لیکن جب ان کی وہ غرض پوری نہ ہوئی اور انہوں نے دیکھا کہ اب میرا اندرونہ بھی ظاہر ہو چکا ہے جس کے بعد میرا اس جماعت میں رہنا ناممکن ہے تو انہوں نے خود ہی اپنے تیسرے خط میں جماعت سے علیحدہ ہونے کا وقت مقرر کر دیا.اسی اشتہار میں انہوں نے ایک بات یہ بھی لکھی ہے کہ میرے متعلق کہا یہ جاتا ہے کہ میں جماعت سے الگ ہو گیا ہوں حالانکہ میں جماعت سے الگ نہیں ہوا صرف بیعت سے الگ ہوا ہوں.میں نے اس سوال کے اصولی حصہ کا جواب پہلے دے دیا ہے بلکہ ان کے اشتہار کے شائع ہونے سے بھی پہلے میرے ایک خطبہ میں ان کے اس اعتراض کا جواب آچکا ہے اور وہ خطبہ آج کے الفضل میں چھپ بھی گیا ہے.آج میں ان کے بعض اُن دلائل کا جواب دینا چاہتا ہوں جو انہوں نے اس بارہ میں اپنے اشتہار میں دیئے ہیں.وہ ہیں.وہ لکھتے ہیں میں اس جگہ بعض دوستوں کے اس خیال کے متعلق بھی کہ خلیفہ سے علیحدگی جماعت سے علیحدگی کے ہی مترادف ہے کچھ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.یہ بات بالکل غلط ہے کہ جو شخص خلیفہ کی بیعت نہیں کرتا یا بیعت سے علیحدگی اختیار کرتا ہے وہ اصل سلسلہ سے بھی الگ ہو جاتا ہے.حضرت علی کرم اللہ وجہ نے حضرت ابوبکر کی چھ ماہ تک بیعت نہیں کی تھی تو کیا کوئی ان کے متعلق یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ وہ اُس وقت تک اسلام سے خارج تھے؟ حضرت علی کی بیعت مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ نے نہیں کی تھی تو کیا وہ سب اسلام سے خارج تھے ؟ حضرت عائشہ صدیقہ نے حضرت علی کی بیعت نہیں کی تھی تو کیا انہیں اسلام سے خارج سمجھتے ہو؟ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر جیسے جلیل القدر صحابہ نے حضرت علی کی بیعت کر لینے کے بعد بیعت کو فتح کر لیا مگر کوئی ہے جو جرأت کر کے انہیں اسلام سے خارج قرار دے.دوستو ! یہ خیال کسی مصلحت کے ماتحت آج پیدا کیا جا رہا ہے ورنہ قرآن کریم ،

Page 135

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۱ جلد سوم احادیث نبوی عمل صحابہ کرام میں اس کا نام ونشان بھی نہیں ملتا.یہ گویا انہوں نے اس بات کی تائید میں اپنی طرف سے دلائل دیئے ہیں کہ میں خلیفہ کی بیعت سے الگ ہوا ہوں جماعت سے الگ نہیں ہوا.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مصری صاحب نے اس جگہ دیدہ دانستہ غلط بیانی سے کام لیا ہے.مجھے ہرگز یہ امید نہیں تھی کہ باوجود اس تمام مخالفت کے جو انہوں نے اختیار کی ہے، باوجود اس تمام عناد کے جو انہوں نے ظاہر کیا ہے اور باوجود اس شدید دشمنی کے جس کے وہ مرتکب ہوئے ہیں وہ احمدیت سے اتنے بے بہرہ ہو جائیں گے کہ چند دنوں کے اندر ہی اندر دیدہ دانستہ خلاف بیانی کے مرتکب ہونے لگ جائیں گے.چنانچہ میں ابھی ثابت کر دوں گا اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایسا ثابت کر دوں گا کہ ایک جاہل سے جاہل اور ان پڑھ سے ان پڑھ انسان بھی یقینی طور پر سمجھ جائے گا کہ مصری صاحب نے قطعی طور پر جان بوجھ کر غلط بیانی سے کام لیا ہے.میرے اعلان کا مضمون یہ تھا کہ مصری صاحب ہماری جماعت سے الگ ہیں میں انہیں اپنی جماعت سے خارج سمجھتا اور ان کے خروج کا اعلان کرتا ہوں.مصری صاحب اس پر اعتراض یہ کرتے ہیں کہ میں نے جماعت سے نہیں بلکہ بیعت سے الگ ہونے کو کہا تھا.پس یہ مجھ پر غلط الزام ہے کہ میں نے جماعت چھوڑ دی ہے.حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر الگ ہو گئے تھے مگر کوئی ہے جو جرات کر کے انہیں اسلام سے خارج قرار دے.اب اس امر کو دیکھو کہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ وہ جماعت سے الگ ہو گئے اور وہ مثال میں حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر کو پیش کرتے ہوئے دریافت یہ کرتے ہیں کہ کیا وہ اسلام سے نکل گئے تھے؟ یہ وہ دیدہ دانستہ دھوکا ہے جو انہوں نے لوگوں کو دیا.کیا ہماری جماعت آج قائم ہوئی ہے کہ ابھی تک ہم اپنی اصطلاحات کے مفہوم کو واضح نہیں کر سکے یا کیا مصری صاحب نئے آدمی ہیں کہ انہیں آج تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ خلیفہ وقت کی بیعت سے جب کوئی شخص الگ ہوتا ہے تو وہ احمدیت یا اسلام سے خارج نہیں سمجھا جا تا بلکہ جماعت سے علیحدہ سمجھا جاتا ہے.جماعت احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت کے سلسلہ میں منسلک ہوئے قریبا تمیں سال گزر چکے ہیں.مئی ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود

Page 136

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۲ جلد سوم علیہ الصلوۃ والسلام نے وفات پائی اور آج جولائی ۱۹۳۷ء ہے گویا ۲۹ سال اور کچھ مہینے سلسلۂ خلافت کو شروع ہوئے ہو چکے ہیں.اس تیس سال کے عرصہ میں ان اصطلاحات کے متعلق ہماری جماعت کے خیالات بار بار ظاہر ہو چکے ہیں.اگر کوئی نئی بات ہو تو انسان کہہ سکتا ہے کہ مجھے معاف فرمائیے مجھے چونکہ علم نہیں تھا اس لئے دھوکا کھایا.مگر جس امر کے متعلق ۳۰ سال تک ہرا دنی اعلیٰ ، چھوٹا بڑا ، عالم جاہل گفتگو کرتے چلے آئے ہوں اور بار باراس کے متعلق جماعت کے خیالات ظاہر ہو چکے ہوں ، اس کے متعلق ایک عالم کہلانے والا ، ایک مولوی کہلانے والا ، ایک تبلیغیں کرنے والا ، ایک مناظرے کرنے والا ، ایک بحثیں کرنے والا اور ایک مدرسہ دینیہ کا لمبے عرصہ تک ہیڈ ماسٹر رہنے والا اگر یہ کہے کہ مجھے اس بات کا علم نہیں تھا، دراصل مجھے دھوکا لگ گیا تھا تو کیا کوئی بھی عقلمند اس کے اس عذر کو تسلیم کرے گا ؟ اگر مصری صاحب جب میری بیعت سے الگ ہوئے تھے ہم ان کی نسبت کہتے کہ مصری صاحب غیر احمدی ہو گئے ہیں تب بیشک وہ کہہ سکتے تھے کہ میں نے تو صرف خلیفہ وقت کی بیعت چھوڑی ہے اور آپ لوگ مجھے احمدیت سے ہی خارج سمجھنے لگ گئے ہیں.یا اگر میں نے اپنی کسی تحریر یا تقریر میں ایک جگہ بھی یہ الفاظ استعمال کئے ہوں کہ مصری صاحب غیر احمدی ہو گئے ہیں تب تو بے شک وہ یہ مثال پیش کر سکتے اور کہہ سکتے تھے کہ جب حضرت طلحہ اور حضرت زبیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے الگ ہوئے تھے تو کیا وہ اسلام سے خارج ہو گئے تھے ؟ اگر نہیں تو پھر مجھے کیوں غیر احمدی کہا جاتا ہے.لیکن ہم نے ایسا نہیں کہا.اگر کوئی شخص میری کسی تحریر یا تقریر سے اشارہ یا وضاحاً ظا ہر یا باطناً یہ ثابت کر دے کہ میں نے کہا ہو مصری صاحب احمدیت سے علیحدہ ہو گئے ہیں اور اب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر بھی ایمان نہیں رکھتے تب بیشک یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بیعت سے علیحدگی اختیار کی ہے، احمدیت سے علیحد گی تو اختیار نہیں کی اور تب بیشک وہ خود بھی سوال کر سکتے تھے کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے بھی حضرت علی کی بیعت کو فتح کر لیا تھا مگر کیا کوئی ہے جو جرات کر کے انہیں اسلام سے خارج قرار دے.لیکن جب میں نے ایک دفعہ بھی یہ الفاظ استعمال نہیں کئے اور نہ ہماری جماعت نے انہیں غیر احمدی کہا تو ان کا اپنے دعوئی کے ثبوت

Page 137

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۳ جلد سوم میں حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کو پیش کرنا اور یہ دریافت کرنا کہ کیا وہ بیعت سے علیحدہ ہو کر اسلام سے نکل گئے تھے صریح دھوکا اور فریب نہیں تو اور کیا ہے.میں نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ جماعت سے الگ ہو چکے ہیں نہ یہ کہ وہ احمد بیت یا اسلام سے علیحدہ ہو گئے ہیں.اب دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ اگر ہماری جماعت کا یہ محاورہ ہوتا کہ جو شخص بھی ہماری جماعت میں نہیں وہ احمدی نہیں تب بھی وہ کہہ سکتے تھے کہ گوتم نے یہ الفاظ نہ کہے ہوں کہ میں احمدیت سے خارج ہوں مگر چونکہ جماعت میں عام محاورہ یہی ہے کہ جو شخص جماعت سے علیحدہ ہوتا ہے اسے احمدی نہیں سمجھا جاتا اس لئے میں نے دھوکا کھایا اور سمجھا کہ آپ مجھے احمدی نہیں سمجھتے.گو ہم پھر بھی مصری صاحب کو غلطی پر سمجھتے.کیونکہ جب ہم نے انہیں غیر احمدی نہ کہا ہوتا تو انکا کوئی حق نہ تھا کہ وہ خود بخود یہ قیاس کر لیتے کہ مجھے احمدی نہیں سمجھا جا تا.لیکن بہر حال اس صورت میں کسی حد تک ہم سمجھ سکتے تھے کہ انہوں نے دھوکا کھایا.مگر واقعہ یہ ہے کہ ہماری جماعت میں نہ صرف یہ کہ یہ محاورہ نہیں بلکہ اس کے بالکل الٹ محاورہ رائج ہے.آپ لوگوں میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ ۲۳ سال حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل کو وفات پائے گزر چکے ہیں.اس ۲۳ سال کے عرصہ میں احمد یوں میں سے جن لوگوں نے میری بیعت نہیں کی وہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور گو ہم ان کی نسبت یہ کہتے ہیں کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں مگر ہم یہ کبھی نہیں کہتے کہ وہ احمدی نہیں.ہم یہ تو کہا کرتے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب ہماری جماعت میں نہیں یا یہ تو ہم کہا کرتے ہیں کہ خواجہ کمال الدین صاحب ہماری جماعت میں نہیں مگر ہم یہ نہیں کہتے کہ مولوی محمد علی صاحب احمدی نہیں یا خواجہ کمال الدین صاحب احمدی نہیں.چنانچہ اگر کوئی شخص ہماری جماعت کے کسی آدمی سے کہے کہ مولوی محمد علی صاحب کے پاس میری سفارش کر دیں تو وہ یہی کہے گا کہ مولوی محمد علی صاحب سے ہمارا کیا تعلق ، وہ ہماری جماعت میں نہیں.لیکن کیا آج تک ہم میں سے کسی شخص نے یہ کہا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب غیر احمدی ہیں؟ یقیناً ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ ہم میں سے کسی عالم دین نے اُن کو غیر احمدی کہا ہو.پس ۲۳ سال کے عرصہ میں

Page 138

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۴ جلد سوم سینکڑوں ہیں جو ہماری جماعت میں سے نکلے مگر کیا ہم ان کو بیعت نہ کرنے کی وجہ سے یا بعض کو بیعت توڑ دینے کی وجہ سے غیر احمدی کہتے ہیں؟ ہم انہیں احمدی ہی کہتے ہیں.گو ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ متفرق گروہ ہے.مگر بہر حال کہتے ہم انہیں احمدی ہی ہیں اور آج تک کسی ایک شخص نے بھی میرے منہ سے یہ نہیں سنا ہوگا کہ میں نے کہا ہو مولوی محمد علی صاحب غیر احمدی ہیں ، خواجہ کمال الدین صاحب غیر احمدی تھے یا شیخ رحمت اللہ صاحب غیر احمدی تھے.پس ہم ۲۳ سال سے برابر یہ اقرار کرتے چلے آئے ہیں کہ گو بعض لوگ ہماری جماعت میں نہیں مگر ہیں وہ احمدی ہی.پس یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں تھا جو آج پیدا ہوا.اگر مصری صاحب پہلے احمدی ہوتے جس نے خلیفہ وقت کی بیعت کو تو ڑا ہوتا تب تو کہا جا سکتا تھا کہ انہیں دھوکا لگ گیا مگر وہ بیعت توڑنے والوں میں سے پہلے نہیں بیسیوں احمدی ان سے پہلے بیعت توڑ چکے ہیں مگر ان کو اگر وہ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہوں ہم نے کبھی نہیں کہا کہ وہ غیر احمدی ہو گئے تو آج مصری صاحب کو یہ شبہ کس طرح پڑ گیا کہ انہیں غیر احمدی کہا جاتا ہے.جب وہ ہم میں شامل تھے وہ بھی یہی کہا کرتے تھے کہ مولوی محمد علی صاحب ہماری جماعت میں نہیں ، خواجہ کمال الدین صاحب ہماری جماعت میں نہیں مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ گو وہ ہماری جماعت میں نہیں مگر ہیں وہ احمدی ہی.اسی طرح شیخ رحمت اللہ صاحب اور سید محمد احسن صاحب امروہی کے متعلق بھی باوجود یہ کہنے کے کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں وہ یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ وہ غیر احمدی ہیں.جو شخص ۲۳ سال خود یہ محاورہ استعمال کرتا رہا ہو اُس کا بیعت سے الگ ہوتے ہی یہ کہنا شروع کر دینا کہ مجھے جماعت سے الگ قرار دے کر غیر احمدی سمجھا جاتا ہے سراسر دنیا داری اور چالا کی ہے.یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا کسی کیلئے مشکل ہو.تم کسی احمدی بچے کے پاس چلے جاؤ.ایک سکول کے احمدی طالب علم سے ہی دریافت کرلو کہ کیا مولوی محمد علی صاحب ہماری جماعت میں ہیں؟ وہ کہے گا نہیں پھر اس سے پوچھو کیا مولوی محمد علی صاحب احمدی ہیں؟ وہ کہے گا ہاں.بلکہ وہی طالب علم جنہیں وہ پڑھایا کرتے تھے ان سے سوال کر کے دیکھ لو کہ کیا مولوی محمد علی صاحب ہماری جماعت میں ہیں وہ کہیں گے نہیں پھر ان سے سوال کرو کہ کیا وہ احمدی ہیں؟ وہ کہیں گے ہاں.

Page 139

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۵ جلد سوم اب دوسری موٹی مثال اس کی میں یہ دیتا ہوں کہ اسی منبر پر کھڑے ہو کر میں نے مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کی وفات پر اُن کا جنازہ پڑھنے کا علان کیا اور ساری جماعت کے ساتھ ان کا جنازہ پڑھا.لیکن اس کے مقابلہ میں کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ہم نے کسی غیر احمدی کا کبھی کبھی جنازہ پڑھا.ہم غیر احمدیوں کا جنازہ کبھی نہیں پڑھتے صرف احمدیوں کا جنازہ پڑھتے ہیں.پس میرا مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کا جنازہ پڑھنا بتاتا ہے کہ میں ایسے لوگوں کو جو خلیفہ وقت کی بیعت سے الگ ہو جائیں یا احمدی کہلا کر بیعت نہ کریں احمدی ہی سمجھتا ہوں.اور مصری صاحب تو میرے متعلق یہ اعلان کر رہے ہیں کہ میں انہیں معزول کراؤں گا.لیکن مولوی سید محمد احسن صاحب وہ تھے جنہوں نے میرے متعلق یہ اعلان کیا تھا کہ میں نے انہیں خلافت سے معزول کر دیا.پس وہ ہماری جماعت سے الگ ہو چکے تھے.مگر باوجود اس کے کہ وہ ہماری جماعت سے الگ تھے اور باوجود اس کے کہ انہوں نے میرے متعلق یہ اعلان کیا تھا کہ میں انہیں خلافت سے معزول کرتا ہوں اُن کی وفات پر میں نے اُن کا جنازہ پڑھا اور یہ ہر شخص جانتا ہے کہ اگر ہم انہیں غیر احمدی سمجھتے تو کبھی ان کا جنازہ نہ پڑھتے.لیکن جب میں نے مولوی سید محمد احسن صاحب کا جنازہ پڑھا تو اس کے معنی یہی تھے کہ میں ان کو احمدی سمجھتا ہوں.پھر شیخ رحمت اللہ صاحب فوت ہوئے تو میں نے اُن کا جنازہ پڑھا ، وہ بھی مبائع نہیں تھے.مگر باوجود اس کے کہ وہ ہماری جماعت میں شامل نہ تھے میں نے ان کا جنازہ پڑھا.جس کے معنے یہ ہیں کہ کسی شخص کے جماعت میں نہ ہونے کا ہم یہ مفہوم نہیں لیتے کہ وہ احمدی نہیں.بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ وہ مبائع احمدی نہیں.یعنی خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کرنے والی جماعت کا وہ حصہ نہیں وہ بیشک پہلے ہمارے ساتھ تھا مگر اب وہ کٹ گیا اور ہماری جماعت سے الگ ہو گیا ہے.تو یہ کتنا بڑا دھوکا ہے کہ ایک شخص ۲۳ سال ہمارے اندر رہتا ہے، جماعت کی اصطلاحات اور محاورات سے واقف ہے خود بھی یہ محاورہ استعمال کرتا رہتا ہے مگر جونہی وہ جماعت سے علیحدہ ہوتا ہے لوگوں کو دھوکا دینے کیلئے کہتا ہے مجھ پر اتہام لگایا جاتا ہے کہ میں احمدی نہیں رہا.سوال یہ ہے کہ کس نے تمہیں کہا کہ تم احمدی نہیں رہے.جب کسی نے بھی ایسا نہیں کہا تو تمہارا جماعت پر یہ الزام

Page 140

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۶ جلد سوم لگا نا بتاتا ہے کہ خود تمہارے دل میں کوئی شکوک پیدا ہوئے ہیں جن کو تم دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہو.ہمارا تو یہ طریق ہی نہیں کہ جب کوئی شخص ہماری جماعت میں سے الگ ہو تو اُس کے متعلق ہم یہ کہنا شروع کر دیں کہ وہ احمدی نہیں رہا.خواجہ کمال الدین صاحب کے متعلق بھی ہم یہی کہتے تھے کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں.مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کے متعلق بھی یہی کہتے تھے کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں.مولوی محمد علی صاحب کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں.اسی طرح باقی تمام غیر مبائعین کے متعلق ہم یہی کہتے ہیں کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں.ہاں ساتھ ہی ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ سب احمدی ہیں اور ہم انہیں احمدی ہی سمجھتے ہیں گو احمد یہ جماعت میں نہیں سمجھتے.چنانچہ جب کبھی پیغامیوں اور ہماری جماعت میں مباحثہ ہو تو ہم انہیں یہی کہتے ہیں کہ جماعت تو ہماری ہی ہے جو ایک خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کر چکی ہے تم لوگ پراگندہ اور متفرق ہو.تمہارا حق نہیں کہ تم اپنے آپ کو جماعت کہو.پھر میرے متعد دفتو ے موجود ہیں جن میں دوستوں نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ کیا غیر مبائعین کے پیچھے نماز جائز ہے؟ اور میں نے ہمیشہ انہیں یہی جواب دیا کہ جائز تو ہے مگر مگر وہ ہے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم امام اُس شخص کو بناؤ جو تم میں سے اتقی اور معزز ہو.وہ لوگ چونکہ خلیفہ وقت کا انکار کر کے ومَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأوليكَ هُمُ الفسقون لے کے ماتحت آچکے ہیں اس لئے ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا پسندیدہ فعل نہیں سمجھا جا سکتا.ہاں اگر کسی موقع پر مجبور ہو جاؤ تو نماز کے ادب کے لحاظ سے یہ جائز ہے کہ تم کسی غیر مبائع کے پیچھے نماز پڑھ لو.لیکن کیا یہی فتویٰ ہم نے کبھی غیر احمدیوں کے متعلق بھی دیا ہے کہ اگر مجبور ہو جاؤ تو ان کے پیچھے نماز پڑھ لو؟ جب نہیں تو صاف معلوم ہوا کہ ہمارے نزدیک بیعت سے الگ ہونا اور چیز ہے اور احمدیت سے الگ ہونا اور چیز.اب باوجود یکہ پیغامیوں کو ہم اپنی جماعت میں نہیں سمجھتے پھر بھی ہم انہیں احمدی ہی کہتے ہیں.کیونکہ جماعت اور چیز ہے اور احمدیت اور چیز.جماعت متفرق ہو جاتی ہے مگر مذہب دنیا میں باقی رہتا ہے.

Page 141

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۷ جلد سوم خلافت راشدہ جب دنیا سے مٹی تو جماعت بھی ساتھ ہی مٹ گئی مگر اس کے ساتھ مذہب نہیں مٹا.بلکہ مسلمانوں کی کئی جماعتیں بن کر کوئی افغانستان میں قائم ہوگئی ، کوئی ایران میں ، کوئی عرب میں قائم ہو گئی اور کوئی سپین میں.پس با وجود اس کے کہ مسلمان دنیا میں متفرق ہو گئے مذہب ان کے پاس رہا.اس میں کوئی شک نہیں کہ خلافت موجود نہ ہو تو بیعت میں نہ شامل ہونے والے کا اور حال ہوتا ہے اور جب موجود ہو تو اور ہوتا ہے.جس طرح پانی کی موجودگی میں تیم کرنے والے اور عدم موجودگی میں تیمم کرنے والے میں فرق ہے.لیکن پھر بھی ہم یہ نہیں کہتے کہ جس نے بیعت توڑ دی وہ مسلمان نہیں رہا.ہاں اُس شخص کو گنہ گار اور روحانیت سے دور ہو جانے والا ضرور قرار دیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر اس کے نفس میں شرارت ہے تو وہ ایمان سے کسی دن محروم ہو جائے گا.یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء ہمارے ساتھ عقائد میں بھی اختلاف رکھتے ہیں.مثلاً وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کے قائل نہیں.وہ آپ کے منکروں کے متعلق یقین رکھتے ہیں کہ ان میں بھی بزرگ اور نیک ہو سکتے ہیں.لیکن اس وقت تک شیخ عبد الرحمن صاحب مصری نے کوئی ایسا اعلان نہیں کیا جس سے ظاہر ہو کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کے قائل نہیں.پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم مولوی محمد علی صاحب کے متعلق تو یہ کہیں کہ وہ احمدی ہیں اور مصری صاحب کے متعلق یہ کہیں کہ وہ احمدی نہیں.جنہوں نے عقائد میں ہم سے بہت زیادہ اختلاف کیا جب ہم انہیں بھی آج تک احمدی کہتے رہے اور کہتے ہیں تو مصری صاحب کے متعلق یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ چونکہ انہوں نے بیعت سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اس لئے وہ احمدی نہیں رہے.پس یہ کیسی چالبازی ہے کہ کہا جاتا ہے ” حضرت طلحہ اور حضرت زبیر جیسے جلیل القدر صحابہ نے حضرت علی کی بیعت کر لینے کے بعد بیعت کو فسخ کر لیا.مگر کوئی ہے جو جرات کر کے انہیں اسلام سے خارج قرار دے.یہ سوال تو تب ہوتا جب ہم کہتے کہ چونکہ مصری صاحب نے بیعت سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اس لئے وہ غیر احمدی ہو گئے ہیں.لیکن جب ہم نے یہ کہا ہی نہیں تو ایک جھوٹی بنیاد پر لوگوں کو اشتعال دلا نا صریح دھوکا دہی ہے جو انہوں

Page 142

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۸ جلد سوم نے اختیار کی.غرض یہ بات جو کہی گئی ہے اس میں دیدہ دانستہ اور جانتے بوجھتے ہوئے انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے.اگر غیر مبائعین کو ہم غیر احمدی کہا کرتے تب تو انہیں شبہ ہوسکتا تھا اور وہ کہہ سکتے تھے کہ مجھے بھی ان کی طرح غیر احمدی کہا جاتا ہے.مگر غیر مبائعین جو نہ صرف خلافت بلکہ نبوت میں بھی ہم سے اختلاف رکھتے ہیں ، جب ہم نے انہیں بھی آج تک غیر احمدی نہیں کہا تو ان کو کس طرح احمدیت سے خارج قرار دے سکتے تھے اور جب ہم نے انہیں احمدیت سے خارج قرار نہیں دیا تو ان کا یہ کہنا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے الگ ہو گئے تھے تو کیا وہ اسلام سے نکل گئے تھے ، صریح غلط بیانی ہے جو انہوں نے لوگوں کو جوش دلانے کیلئے کی ہے.پس نہ کبھی ہم نے ان کو غیر احمدی کہا اور نہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے متعلق ہم نے کہا کہ وہ اسلام سے نکل گئے تھے بلکہ مصری صاحب سے زیادہ اختلاف رکھنے والوں یعنی غیر مبائعین کے متعلق بھی ہم نے کبھی نہیں کہا کہ وہ غیر احمدی ہو گئے ہیں.باوجود یکہ وہ ہم سے خلافت میں اختلاف رکھتے ہیں، امامت میں اختلاف رکھتے ہیں، نبوت میں اختلاف رکھتے ہیں ، غیر احمدیوں کے جنازے پڑھنے اور ان سے رشتہ داری تعلقات قائم کرنے میں اختلاف رکھتے ہیں، کفر و اسلام میں اختلاف رکھتے ہیں پھر بھی ہم نے انہیں کبھی نہیں کہا کہ وہ غیر احمدی ہو گئے بلکہ ان کے پیچھے اشد ضرورت کے موقع پر نماز پڑھ لینے کے جواز کے متعلق میرے فتوے شائع شدہ موجود ہیں.اور ان میں سے بعض کے جنازے پڑھنا میرے عمل اور طریق سے ثابت ہے.تو پھر کس طرح ممکن تھا کہ مصری صاحب کی موجودہ حالت میں ہم انہیں غیر احمدی کہتے.اب میں ان روایات کو لیتا ہوں جو انہوں نے بیان کی ہیں.پہلی روایت انہوں نے یہ پیش کی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت ابو بکر کی چھ ماہ تک بیعت نہیں کی تھی کے یہ روایت صحیح ہے.چنانچہ بعض روایتوں میں اس قسم کا ذکر آتا ہے مگر ساتھ ہی یہ یا درکھنا چاہئے کہ یہ مختلف فیہ روایت ہے یعنی یہ بھی روایت آتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت فورا کر لی تھی سکے اور یہ بھی روایت آتی ہے کہ انہوں نے

Page 143

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۹ جلد سوم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی چھ ماہ تک بیعت نہیں کی تھی.پس ایک روایت کو قائم کرنے اور اسے درست قرار دینے کی کوئی وجہ ہونی چاہئے.پھر جن روایات میں یہ آتا ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی اُنہی میں سے بعض میں ( میں نے حضرت خلیفہ اول سے سنا ہے ) یہ بھی آتا ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دستی بیعت میں نے ابتدائی چھ ماہ میں اس لئے نہ کی کہ حضرت فاطمہ اتنی شدید بیمار تھیں کہ میں انہیں چھوڑ کر نہیں آ سکتا تھا حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کا یہی مذہب تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر کی بیعت فورا ہی کر لی تھی.پس یہ دلیل کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی اول تو یہ مکمل دلیل نہیں کیونکہ اس کے خلاف بھی روایات پائی جاتی ہیں اور اگر بفرض محال دوسری روایت درست ہو تو پھر بھی یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت سے کبھی انکار نہیں کیا.صرف حضرت فاطمہ کی شدید بیماری کی وجہ سے تیمارداری میں مشغول رہنے کے باعث وہ فورا دستی بیعت نہیں کر سکے.اور یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص باہر ہو اور وہ کسی اشد مجبوری کی وجہ سے نہ آ سکے.ایسی حالت میں اگر وہ اپنے دل میں خلیفہ وقت کی بیعت کا اقرار کر چکا ہے تو وہ بیعت میں ہی شامل سمجھا جائے گا.دوسری دلیل انہوں نے یہ دی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے حضرت علی کی بیعت نہیں کی تھی.مگر حضرت عائشہ کے متعلق یہ کہنا کہ انہوں نے حضرت علی کی بیعت نہیں کی تھی اول تو تاریخی طور پر ثابت نہیں اور میں نے یہ کہیں نہیں پڑھا کہ حضرت عائشہ نے اپنی وفات تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی.لیکن اگر بفرضِ محال اس امر کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ وہ ثابت کریں کہ اُس زمانہ میں ہر فرد واحد خلیفہ وقت کی اصالتاً دوبارہ بیعت کیا کرتا تھا.ہمیں تو تاریخی کتب کے مطالعہ سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اُس زمانہ میں بڑے بڑے آدمی خلیفہ وقت کی بیعت کر لیا کرتے تھے اور اُن کے بیعت کر لینے کی وجہ سے سارے علاقوں کی بیعت سمجھی جاتی تھی.صرف وہ لوگ خارج از بیعت سمجھے جاتے تھے جو خود بیعت کا انکار کریں ورنہ خاموشی اقرار بیعت قرار دی جاتی تھی.خصوصاً عورتوں کا

Page 144

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم خلفاء کی بیعت کرنا یہ تفصیلاً ثابت نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چونکہ مذہب کے بدلنے کا سوال ہوتا تھا اس لئے ہر فردِ واحد آپ کی بیعت کرتا تھا.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جہاں تک تو میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر مرد، ہر عورت اور ہر بچہ نے خلفاء کی دوبارہ بیعت کی ہو بلکہ جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ شہر کے معزز مرد بیعت کر لیا کرتے تھے اور انہی کی بیعت میں عورتوں اور بچوں کی بیعت بھی شامل سمجھی جاتی تھی.یاممکن ہے بعض عورتیں شوقیہ طور پر یا بعض مصالح کے ماتحت بیعت میں شامل ہو جاتی ہوں لیکن ملک کے تمام مردوں ، تمام عورتوں اور تمام بچوں کے بیعت کرنے کا ثبوت کم از کم میری نگاہ سے کوئی نہیں گزرا.پس حضرت عائشہ کا بیعت نہ کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا.عورتوں سے بلکہ دُور دراز کے مردوں سے بھی بیعت کا خاص تعہد نہ ہوتا تھا.جب عام بیعت ہو جاتی تو باقی توابع اور عورتوں کی بیعت بیچ میں ہی شامل سمجھی جاتی تھی.ان حالات میں جب تک کوئی یہ ثابت نہ کر دے کہ اُس زمانہ میں تمام عورتیں خلفاء کی بیعت کیا کرتی تھیں اور حضرت عائشہ نے بیعت نہ کی تھی اُس وقت تک حضرت عائشہ عنہا کے بیعت کا ثبوت تاریخ میں نہ ملنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا.پھر صریح طور پر تاریخوں میں آتا ہے کہ گو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ابتدا میں مقابلہ کرنا چاہا تھا مگر جس وقت حضرت علیؓ کے لشکر اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے لشکر میں لڑائی ہوئی ہے اُس وقت وہ لڑائی کیلئے نہیں بلکہ صلح کیلئے نکلی تھیں.چنانچہ جتنے معتبر راوی ہیں وہ تو اتر اور تسلسل سے یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ اسی لئے نکلی تھیں کہ وہ دونوں لشکروں میں صلح کرائیں.اصل بات یہ ہے کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے حضرت علی کی اس شرط پر بیعت کی تھی کہ وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے جلد سے جلد بدلہ لیں گے.یہ شرط ان کے خیال میں چونکہ حضرت علیؓ نے پوری نہ کی اس لئے شرعاً وہ اپنے آپ کو بیعت سے آزاد خیال کرتے ا تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اس سے قبل حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے جہاد کا اعلان کر چکی تھیں اور صحابہ کو اُنہوں نے اپنی مدد کیلئے طلب کیا تھا.اس پر لوگوں کا ایک

Page 145

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۱ جلد سوم حصہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے ساتھ ہو گیا اور انہوں نے جنگ کیلئے ایک لشکر تیار کیا.حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے بھی ایک لشکر تیار کیا.لیکن جب دونوں لشکر اکٹھے ہوئے تو دوسرے صحابہ نے دونوں فریق کو سمجھانا شروع کیا اور آخر صلح کا فیصلہ ہو گیا.جب یہ خبر اس فتنہ کے بانیوں کو پہنچی تو انہیں سخت گھبراہٹ ہوئی اور انہوں نے مشورہ کیا کہ جس طرح بھی ہو صلح نہ ہونے دو کیونکہ اگر صلح ہوگئی تو ہمارے بھانڈے پھوٹ جائیں گے.چنانچہ جب رات ہوئی تو انہوں نے صلح کو روکنے کیلئے یہ تدبیر کی کہ ان میں سے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے انہوں نے حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ وزبیر کے لشکر پر اور جو اُن کے لشکر میں تھے انہوں نے حضرت علیؓ کے لشکر پر شبخون مار دیا اور ہر فریق نے یہ خیال کیا کہ دوسرے فریق نے اس سے دھوکا کیا ہے.اس پر جنگ شروع ہو گئی اور دونوں فریق کے سرداروں کو میدان میں نکلنا پڑا.یہ دیکھ کر بعض صحابہ اور رؤسا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور اُن سے کہا کہ اے عائشہ ! آپ کے سوا آج اسلامی لشکر میں کوئی صلح نہیں کر سکتا.آپ تشریف لائیں اور صلح کرا ئیں.چنانچہ وہ صلح کیلئے باہر نکلیں.یہ دیکھ کر اُن شریروں اور فتنہ پردازوں نے جو یہ چاہتے تھے کہ صلح نہ ہو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ اور ہودج پر تیر مارنے شروع کر دیے.اس پر وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار تھے ، آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے اردگر دحلقہ باندھ لیا اور ان لوگوں کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر تیر چلا رہے تھے.یہ دیکھ کر ایک شخص ان لوگوں میں سے ایک شخص کے پاس گیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے اِرد گر د حلقہ باندھے ہوئے تھا اور کہا کہ کیا تو مسلمانوں کے اوپر تیر چلائے گا ؟ وہ کہنے لگا خدا گواہ ہے میں مسلمانوں کے اوپر تیر نہیں چلانا چاہتا مگر میں اپنے آقا کی بیوی کو بھی یونہی نہیں چھوڑ سکتا.پس شرارتیوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر تیر چلائے اور بعض صحابہ نے دفاع کے طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے دشمنوں کا مقابلہ کیا.ورنہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی

Page 146

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۲ جلد سوم کیلئے نہیں نکلی تھیں بلکہ آپس میں صلح کرانے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقابلہ کرنے والے لشکر کو سمجھانے کیلئے نکلی تھیں اور ان کا وہی فعل بیعت تھا.باقی رہا یہ کہنا کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لینے کے بعد بیعت کو فسخ کر لیا.مگر کوئی ہے جو جرات کر کے انہیں اسلام سے خارج قرار دے.میں اس کے متعلق بتا چکا ہوں کہ ہم نہ انہیں غیر مسلم کہتے ہیں اور نہ مصری صاحب کو غیر احمدی کہتے ہیں.ہاں اس سے یہ معلوم ضرور ہوتا ہے کہ انہیں غیر احمدی کہلانے کا شوق ہے اور شاید یہ پیش خیمہ ہے ان کے غیر احمدی بننے کا.چنانچہ کچھ تعجب نہیں کہ وہ تھوڑے دنوں کے بعد ہی یہ کہنے لگ جائیں کہ چلو جب جماعت مجھے غیر احمدی سمجھتی ہے تو میں غیر احمدی ہی ہو جاتا ہوں.ورنہ ہم نے تو آج تک ایک دفعہ بھی انہیں غیر احمدی نہیں کہا.یا د رکھنا چاہئے کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے متعلق جو یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کو توڑا، یہ ایک غلط مثال اور تاریخ سے ان کی نا واقفیت کا ثبوت ہے.تاریخیں اس بات پر متفقہ طور پر شاہد ہیں کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جو بیعت کی تھی وہ بیعت طوعی نہیں تھی بلکہ جبراً اُن سے بیعت لی گئی تھی.چنانچہ حمد اور طلحہ دو راویوں سے طبری میں یہ روایت آتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب شہید ہو گئے تو لوگوں نے آپس میں مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ جلد کسی کو خلیفہ مقرر کیا جائے تا امن قائم ہو اور فساد مئے.آخر لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اُن سے عرض کیا کہ آپ ہماری بیعت لیں.حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا اگر تم نے میری بیعت کرنی ہے تو تمہیں ہمیشہ میری فرمانبرداری کرنی پڑے گی اگر یہ بات تمہیں منظور ہے تو میں تمہاری بیعت لینے کیلئے تیار ہوں ورنہ کسی اور کو اپنا خلیفہ مقرر کر لو میں اُس کا ہمیشہ فرمانبردار رہوں گا اور تم سے زیادہ اُس کی اطاعت کروں گا.انہوں نے کہا ہمیں آپ کی اطاعت منظور ہے.آپ نے فرمایا پھر سوچ لو اور آپس میں مشورہ کر لو.چنانچہ انہوں نے مشورہ سے یہ طے کیا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت

Page 147

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۳ جلد سوم کر لیں تو سب لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لیں گے ورنہ جب تک وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کریں گے اُس وقت تک پورے طور پر امن قائم نہیں ہوگا.اس پر حکیم بن جبلہ کو چند آدمیوں کے ساتھ حضرت زبیر کی طرف اور مالک اشتر کو چند آدمیوں کے ساتھ حضرت طلحہ کی طرف روانہ کیا گیا.جنہوں نے تلواروں کا نشانہ کر کے اُنہیں بیعت پر آمادہ کیا یعنی وہ تلواریں سونت کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ حضرت علی کی بیعت کرنی ہے تو کرو ورنہ ابھی ہم تم کو مارڈالیں گے.چنانچہ انہوں نے مجبور ہو کر رضا مندی کا اظہار کر دیا اور یہ واپس آگئے.دوسرے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور فرمایا اے لوگو! تم نے کل مجھے ایک پیغام دیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ تم اس پر غور کر لو.کیا تم نے غور کر لیا ہے اور کیا تم میری کل والی بات پر قائم ہو؟ اگر قائم ہو تو یا درکھو تمہیں میری کامل فرمانبرداری کرنی پڑے گی.اس پر وہ پھر حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے پاس گئے اور اُن کو زبردستی کھینچ کر لائے.روایت میں صاف لکھا ہے کہ جب وہ حضرت طلحہ کے پاس پہنچے اور ان سے بیعت کیلئے کہا تو انہوں نے جواب دیا اِنّى إِنَّمَا أُبَايِعُ كَرُهَا دیکھو میں زبر دستی بیعت کر رہا ہوں خوشی سے بیعت نہیں کر رہا.اسی طرح حضرت زبیر کے پاس جب وہ لوگ گئے اور بیعت کیلئے کہا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ إِنِّي إِنَّمَا أُبَايِعُ گھا تم مجھ کو مجبور کر کے بیعت کروا ر ہے ہو دل سے میں یہ بیعت نہیں کر رہا.اسی طرح عبدالرحمن بن جندب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان کے قتل کے بعد اشتر ، طلحہ کے پاس گئے اور بیعت کے لئے کہا.انہوں نے کہا مجھے مُہلت دو میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ لوگ کیا فیصلہ کرتے ہیں مگر انہوں نے نہ چھوڑا اور جَاءَ بِهِ يَتْلُهُ تَلا عَنِيفًا ان کو زمین پر نہایت سختی سے گھسیٹتے ہوئے لے آئے جیسے بکرے کو گھسیٹا جاتا ہے.پھر حارث الوالی کی روایت ہے کہ حضرت زبیر کو جبراً حکیم بن جبلہ بیعت کیلئے لایا تھا اور حضرت زبیر یہ کہا کرتے تھے کہ جَاءَ نِی لِصٌ مِنْ لُصُوصِ عَبْدِ الْقَيْسِ فَبَايَعْتُ وَاللجُ عَلى عُنُقِی کے یعنی عبد القیس قبیلہ کے چوروں میں سے ایک چور میرے پاس آیا اور اس کے مجبور کرنے پر اس حالت میں میں نے بیعت کی کہ تلوار میری گردن پر تھی اور مجھے کہا جاتا

Page 148

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۴ جلد سوم تھا کہ بیعت کرو ورنہ تمہاری گردن اُڑا دی جائے گی.اس بیعت کو کون شخص ہے جو بیعت کہہ سکے.پھر تاریخوں سے صاف ثابت ہے کہ جب وہ حضرت علی کی بیعت کرنے لگے تو انہوں نے کہا ہماری شرط یہ ہے کہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے آپ بدلہ لیں.پس چونکہ اُنہوں نے شرط کر کے بیعت کی تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کی شرط پوری نہ کر سکے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ خیال تھا کہ پہلے تمام صوبوں کا انتظام ہو جائے اور پھر قاتلوں کو سزا دینے کی طرف توجہ کی جائے اور اس سے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے یہ سمجھا کہ حضرت علی اپنے عہد سے پھرتے ہیں اور پھر چونکہ جبراً ان سے بیعت لی گئی تھی اس لئے وہ چوتھے دن ہی چلے گئے اور بیعت سے الگ ہو گئے.پس یہ کہنا کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر نے بیعت کر کے چھوڑ دی ایک مغالطہ ہے وہ بیعت نہیں تھی بلکہ جبری بیعت تھی.اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی شخص کا ہاتھ زبر دستی نیل کے مٹکے میں ڈال دیا جائے اور پھر کہنا شروع کر دیا جائے کہ اس نے اپنے ہاتھ نیلے کر لئے ہیں.انہوں نے بھی جبراً بیعت کی تھی.وہ خود کہتے ہیں ہم نے ایسی حالت میں بیعت کی وَالله عَلَى أَعْنَاقِنَا جبکہ تلوار میں ہماری گردنوں پر رکھی تھیں.پھر انہوں نے بیعت پر زیادہ دیر بھی نہیں لگائی.تیسرے یا چوتھے دن وہ سکے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں چونکہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے بدلہ نہیں لیا جاتا اور اسی شرط پر ہم نے بیعت کی تھی اس لئے ہم اپنی بیعت پر قائم نہیں رہتے.اب بتاؤ اس میں اور مصری صاحب کی بیعت میں آیا کوئی بھی مناسبت ہے؟ اور کیا مصری صاحب سے جب بیعت لی گئی تھی تو تلوار اُن کی گردن پر رکھی گئی تھی؟ یا کیا انہوں نے کسی شرط پر میری بیعت کی تھی؟ اور کیا وہ ۲۳ سال تک میری اطاعت اور فرمانبرداری کا اقرار نہیں کرتے رہے؟ پھر ان کی اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی نسبت ہی کیا ہے کہ وہ ان کی مثال اپنے لئے پیش کرتے ہیں.چنانچہ اس بات کا ایک اور ثبوت کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر سے زبر دستی بیعت لی گئی یہ ہے کہ جب جنگ جمل ہوئی انہوں نے حضرت علیؓ کا مقابلہ کیا.تو لکھا ہے حضرت علی

Page 149

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۵ جلد سوم 스 رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ سے کہا اما با يَعْتَنِی؟ تم نے میری بیعت نہیں کی تھی ؟ حضرت طلحہ نے کہا بَايَعْتُكَ وَ عَلَی عُنُقِى اللج ^ میں نے بیعت تو کی تھی مگر ایسی حالت میں جب تلوار میری گردن پر تھی.مگر باوجود اس جبر کے انہوں نے بیعت کے وقت اقامتِ حد کی شرط کر لی.گویا حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے جو بیعت کی وہ انہوں نے اپنی خوشی سے نہیں کی بلکه ز بر دستی ان سے بیعت کرائی گئی.اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے جبراً کسی شخص سے کلمہ پڑھایا جائے اور پھر کہہ دیا جائے کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے.حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر کو بھی وہ تلواروں سے ڈرا دھمکا کر بلکہ سختی سے گھسیٹ کر لائے اور انہوں نے کہہ بھی دیا کہ گو ہم بیعت کرتے ہیں مگر جبر ا کرتے ہیں اور پھر اس شرط پر کرتے ہیں کہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے.دراصل زبر دستی بیعت لوگوں نے انہیں اس لئے کرائی کہ وہ سمجھتے تھے.دونوں صحابہ اثر و رسوخ رکھنے والے ہیں اور اگر ان دونوں نے بیعت کر لی تو باقی مسلمان بھی بیعت کر لیں گے اور عالم اسلامی میں امن قائم ہو جائے گا.مگر کیا مصری صاحب اور ان کے رفقاء نے بھی ایسی حالت میں بیعت کی تھی کہ ان کی گردنوں پر تلوار میں تھیں؟ اور کیا انہوں نے بھی بیعت کے وقت کوئی شرط کی تھی ؟ پھر حدیثوں میں محمد وطلحہ کی روایت سے یہاں تک آتا ہے کہ بیعت کرنے کے معاً بعد حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور بعض دوسرے صحابہ حضرت علی کے گھر گئے اور انہوں نے کہا کہ ہماری بیعت میں شرط تھی کہ حضرت عثمان کے قاتلوں پر حد قائم کی جائے گی پس آپ ان کو سزا دیں اور حضرت عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لیں.حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عذر کیا اور کہا اس وقت فساد کا خطرہ ہے اور سب سے مقدم اسلام کی حفاظت ہے قاتلوں کے معاملہ میں دیر ہو جانے سے کوئی حرج نہیں.گویا انہوں نے ایک گھنٹہ بھی انتظار نہیں کیا بلکہ ادھر بیعت کی اور اُدھر اُن کے گھر چلے گئے کہ ہماری شرط پوری کی جائے ورنہ ہم آپ کی بیعت سے آزاد ہیں.اور یہ وہ ہیں کہ ۲۳ سال تک ان کا منہ میری تعریفیں کر کر کے سوکھتا رہا مگر آج یہ کہہ رہے ہیں کہ میرا اور طلحہ وزبیر کا معاملہ ایک ہی ہے.میں ضمناً اس جگہ یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اُس زمانہ میں بیعت کا مفہوم کیا سمجھا جایا

Page 150

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم کرتا تھا.حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں سے بیعت لی تو اُس کے الفاظ یہ تھے علیک عهد الله و ميثاقه بالوفاء لتكونن لسلمنا سلما و لحربنا حربا و لتكفن عنا لسانک ویدک کہ تم خدا کی قسم کھا کر مجھ سے یہ عہد کرتے ہو کہ تم ہمیشہ میرے مطیع و فرمانبردار رہو گے.جس سے میں صلح کروں اُس سے تم بھی صلح کرو گے اور جس سے میں جنگ کروں گا اُس سے تم بھی جنگ کرو گے اور تم نہ اپنی زبان سے مجھ پر کوئی اعتراض کرو گے اور نہ اپنے اعمال سے میرے لئے کسی تکلیف کا باعث بنو گے.گویا بیعت کی یہ اہم شرط تھی کہ و لتکفن عنا لسانک ویدک.اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھنا ہے اور مجھ پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کرنا.یہ عہد تھا جو صحابہ بیعت کا سمجھتے تھے مگر مصری صاحب کہتے ہیں کہ میں برابر دو سال تک آپ کے خلاف مصالحہ جمع کرتا رہا اور ابھی ان کے نزدیک وہ میری بیعت میں ہی شامل تھے.پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کیا قصور کیا ، ہم نے صرف اعتراض ہی کیا تھا اور اعتراض کرنے میں آزادی ہونی چاہئے.انہیں غور کرنا چاہئے کہ اگر خلفاء پر اعتراضات کرنے میں اسلام آزادی سکھاتا ہے تو وَ لَتَكُفَنُ عَنَا لَسَانَكَ وَيَدَكَ کا کیا مفہوم ہے.اس میں تو صاف طور پر حضرت علیؓ نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ تم اپنی زبانوں کو رو کے رکھنا اور کبھی مجھ پر اعتراض نہ کرنا.اسی طرح اپنے ہاتھوں کو ہمیشہ بند رکھنا اور کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جو میرے لئے دُکھ اور اذیت کا موجب ہو.پھر روایتوں سے یہ بھی ثابت ہے کم سے کم حضرت طلحہ کی نسبت کہ انہوں نے وفات سے پہلے دوبارہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی اور حضرت زبیر نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی سن کر حضرت علیؓ کا مقابلہ کرنے سے اعراض کر لیا تھا.چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضرت زبیر جب جنگ کیلئے حضرت علیؓ کے سامنے نکلے تو اُس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر سے کہا ز بیر ! تم کو وہ دن بھی یاد ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دن میں اور تم اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے مجھے اور تمہیں اکٹھے بیٹھے دیکھ کر میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا اے علی ! وہ بھی کیا دن ہو گا جب یہ تیرے چا کا بیٹا

Page 151

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۷ جلد سوم زبیر تجھ سے ایسی حالت میں لڑائی کرے گا جبکہ یہ ظالم ہوگا اور تو مظلوم ہوگا.یہ سن کر حضرت زبیر اپنے لشکر کی طرف واپس کو ٹے اور انہوں نے قسم کھائی کہ وہ حضرت علیؓ سے ہر گز جنگ نہیں کریں گے اور اقرار کر لیا کہ انہوں نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی لیکن لطیفہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زبیر کو حضرت علیؓ کے مقابلہ میں ظالم قرار دیتے ہیں اور مصری صاحب کہتے ہیں اگر میں نے بیعت توڑ دی ہے تو کیا حرج ہوا زبیر نے بھی تو بیعت توڑی تھی اور حضرت علی کا مقابلہ کیا تھا.گویا وہ اپنے منہ سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ظالم ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو حضرت زبیر سے نسبت دیتے ہیں اور حضرت زبیر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالم قرار دیا تھا.اب کیا ظالم ہونا ان کے خیال میں کوئی گناہ نہیں صرف غیر احمدی ہونا ہی گناہ ہے.یہ مانا کہ حضرت زبیر نے حضرت علی کی بیعت عملاً تو ڑ دی تھی مگر ساتھ ہی یہ بھی تو حدیث ہے کہ اے زبیر! تو علی سے ایسی حالت میں مقابلہ کرے گا جبکہ تو ظالم ہو گا.پس جب وہ حضرت زبیر سے اپنی نسبت دیتے ہیں تو کیا وہ اس حدیث کے ماتحت ظالم قرار نہیں پاتے ؟ اور کیا ظالم ہونا ان کے نزدیک کم گناہ ہے کہ وہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں.پس حضرت زبیر تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی سن کر جنگ سے الگ ہو گئے اور اچانک حملہ کے وقت چونکہ وہ زخمی ہو گئے تھے بعد میں فوت ہو گئے.باقی رہے حضرت طلحہ ان کی نسبت روایات میں آتا ہے کہ حضرت طلحہ بھی میدانِ جنگ کو چھوڑ کر چلے گئے تھے.ان کے پیچھے ایک شخص گیا اور ان پر غفلت میں حملہ کر کے انہیں زخمی کر دیا.اس کے بعد ان کے پاس سے ایک شخص گزرا اور آپ نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ تیرا ہاتھ علی کا ہاتھ ہے اور میں تیرے ہاتھ پر علی کی دوبارہ بیعت کرتا ہوں.اب کجا حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی حالت اور کجا مصری صاحب کی حالت.کیا ان دونوں میں کوئی بھی نسبت ہے؟ اور کیا ان کا حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی مثال پیش کرنا کسی لحاظ سے بھی درست ہو سکتا ہے؟ مصری صاحب دریافت کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے جب بیعت کو فسخ کر لیا تھا تو کوئی ہے جو جرات کر کے انہیں اسلام.خارج قرار دے.اور میں انہیں کہتا ہوں کہ ہم اگر انہیں اسلام سے خارج قرار نہیں دیتے

Page 152

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۸ جلد سوم تو آپ کو بھی بیعت سے الگ ہو جانے کی وجہ سے احمدیت سے کب خارج قرار دیتے ہیں.اگر آپ ایک بھی میری ایسی تحریر دکھا دیں جس میں میں نے آپ کو غیر احمدی قرار دیا ہو تب تو سمجھ لیا جائے گا کہ آپ سچ بولتے ہیں.لیکن اگر کوئی تحریر نہ دکھا سکیں تو کیا اس سے صاف طور پر یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ نے دیدہ دانستہ غلط بیانی کی ہے.میری جس قدر تحریر میں ہیں وہ چھپ چکی ہیں ، میری تقاریر بھی محفوظ ہیں اور شائع ہو چکی ہیں پس اگر ان میں شرافت کا ایک ذرہ بھی باقی ہے اور اگر ایمان کی کوئی حس اِن میں موجود ہے تو وہ میرا کوئی ایک ہی ایسا حوالہ پیش کریں جس میں میں نے یہ کہا ہو کہ وہ میری بیعت سے الگ ہو کر غیر احمدی ہو گئے ہیں.اس وقت ہزاروں وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرے خطبات کو سُنا اور ہزاروں وہ لوگ ہیں جنہوں نے ”الفضل“ کے ذریعہ میرے خطبات کو پڑھا پھر کیا ان ہزاروں لوگوں میں سے کوئی ایک بھی بتا سکتا ہے کہ میں نے شیخ صاحب کو غیر احمدی کہا.جب ایک بھی ایسی گواہی نہیں مل سکتی تو یقیناً انہوں نے غلط بیانی کی.یقیناً انہوں نے ایک جرم عظیم کیا ، یقیناً انہوں نے لوگوں کو دھوکا و فریب دیا.اور پھر دیدہ دانستہ ان امور کا ارتکاب کیا کیونکہ ہم پہلے بھی کئی لوگوں کو اپنی جماعت سے خارج کر چکے ہیں اور ہم نے ان میں سے آج تک کسی کو محض جماعت سے الگ ہونے کی وجہ سے غیر احمدی نہیں کہا.اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ دیکھتے ہیں کہ وہ کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت علیؓ کی مخالفت کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے ”سر الخلافہ میں تحریر فرماتے ہیں والحق ان الحق كان مع المرتضى ومن قاتله في وقته فبغی و طغى یعنی سچی بات یہ ہے کہ سچ اور حق جو تھا وہ حضرت علی کے ساتھ تھا.ومن قاتله في وقته فبغی وطنی اور حضرت علی کی خلافت کے زمانہ میں جن لوگوں نے آپ کا مقابلہ کیا وہ باغی اور سرکش تھے.اب چاہے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر ہی کیوں نہ ہوں جس کسی نے حضرت علی کا مقابلہ ان کی خلافت میں کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس وقت تک وہ حضرت علیؓ کے مقابلہ میں کھڑا رہا اُس وقت تک وہ باغی اور طاغی تھا ( مگر میں جیسا کہ بتا چکا ہوں کہ صحابہ مقابلہ سے پہلے ہی پیچھے ہٹ گئے تھے اور فی الحقیقت مقابلہ کرنے والوں میں

Page 153

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۹ جلد سوم سے نہ تھے ).اب اگر مصری صاحب اس لئے خوش ہیں کہ میں گو غیر احمدی نہیں مگر باغی اور طاغی ہوں تو وہ بے شک خوش ہو لیں.ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جو شخص مومن ہو وہ خدا تعالیٰ کی ادنیٰ سے ادنی ناراضگی سے بھی ڈرتا اور چھوٹے سے چھوٹے گناہ کے ارتکاب سے بھی خوف کھاتا ہے.ان کو اگر اس بات کی پرواہ نہیں اور انہیں اس بات پر فخر ہے کہ میں باغی اور طاغی ہوں غیر احمدی نہیں تو بیشک اس پر فخر کر لیں ہم بھی انہیں غیر احمدی نہیں کہتے بلکہ باغی اور طافی ہی کہتے ہیں.پس یا د رکھو حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے گو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی مگر وہ جبری بیعت تھی ، طوعی بیعت نہیں تھی.اور پھر بیعت کے وقت انہوں نے شرط بھی کر لی تھی کہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے گا.مگر جب ان کی نگاہ میں یہ شرط پوری نہ ہوئی تو انہوں نے بیعت توڑ دی.لیکن تاریخی طور پر ثابت ہے کہ ان کے بیعت توڑنے کے فعل کو اُن کے ساتھیوں نے بھی نا پسند کیا.چنانچہ ایک شخص سے جب کسی دوسرے شخص نے کہا کہ تم تو حضرت عثمان کے قاتلوں کے مخالف تھے پھر آج حضرت علیؓ کے ساتھیوں میں کیوں شامل ہو گئے؟ تو اُس نے کہا میں اس لئے ان کے ساتھ شامل ہوا ہوں کہ إِنَّهُمْ نَكَفُوا الْبَيْعَة.طلحہ اور زبیر نے بیعت کی اور پھر توڑ دی گویا باوجود یکہ ان کی بیعت جبری بیعت تھی پھر بھی ان کے ساتھیوں نے ان کے فعل کو نا پسند کیا اور کہا کہ جب بیعت کر لی تھی تو خواہ جبری بیعت تھی پھر بھی اس بیعت کو توڑنا نہیں چاہئے تھا.غرض ان لوگوں کی مثالوں سے استنباط بالکل غلط ہے.انہوں نے بیعت یا تو عارضی طور نہ کی اور پھر کر لی یا پھر جنہوں نے بیعت کی گڑھا کی اور پھر فوراً الگ ہو گئے ، استقرار بیعت کبھی نہیں ہوا.یا پھر انہوں نے بیعت نہ کی مگر خلافت کا مقابلہ بھی نہیں کیا بلکہ صرف ، کہا کہ اگر فلاں امر ہو جائے مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے بدلہ لے لیا جائے تو ہم بیعت کر لیں گے.جیسے حضرت معاویہؓ ہیں کہ انہوں نے گو حضرت علیؓ کی اسی وجہ سے بیعت نہیں کی مگر انہوں نے آپ کا مقابلہ بھی نہیں کیا.غرض تمکین خلافت کے بعد کسی کی مخالفت یا بیعت طوعی کا توڑنا ہرگز ثابت نہیں اور اگر ہو تو اس کے متعلق حضرت مسیح موعود

Page 154

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۰ جلد سوم علیہ الصلوۃ والسلام کا فیصلہ یہی ہے کہ فَبَغِی وَ طَغَی.بعض نادان اس موقع پر کہا کرتے ہیں کہ جب بیعت سے الگ ہونے کی وجہ سے کوئی شخص غیر احمدی نہیں ہو جاتا تو پھر بیعت نہ کرنا یا بیعت کا تو ڑ دینا کوئی بڑا گناہ تو نہ ہوا.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایک خطر ناک غلطی ہے.ایمان کے معاملہ میں جب انسان جان بوجھ کر کہتا ہے کہ فلاں فعل کا ارتکاب اگر چہ گناہ ہے مگر میں نے اگر کر لیا تو کیا حرج ہوا تو وہ ضرور اپنے ایمان کو تباہ کر لیتا ہے.اگر کوئی شخص مجور یا عادتا یا جہالتا نادانی سے کوئی گناہ کرتا ہے تو یہ اور بات ہے.لیکن اگر ایک شخص سمجھتا ہے کہ فلاں امر گناہ ہے اور پھر وہ اسے معمولی بات خیال کر کے اس گناہ کا ارتکاب کر لیتا ہے تو اس شخص کو خدا دولتِ ایمان سے محروم کر کے ہی چھوڑتا ہے کیونکہ وہ باغی ہے اور خدا تعالیٰ کی ہتک کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی تباہی میں بھی بہت بڑا دخل اس امر کا بھی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چھوٹا گناہ ہے اور وہ بڑا.حالانکہ مومن کامل وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی ادنی ناراضگی سے بھی ڈرے اور اس کے ارتکاب سے بچے.یہ نہ کہے کہ میرا احمدی نہ ہونا تو بہت بڑا گناہ ہے لیکن احمدی ہو کر نماز نہ پڑھنا یا روزے نہ رکھنا معمولی باتیں ہیں.جو شخص اس طرح اپنی رضامندی اور خوشی سے جانتے بوجھتے ہوئے کوئی گناہ کرتا ہے اور اسے چھوڑتا نہیں وہ خدا تعالیٰ کو چیلنج کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے تیری رضا کی پرواہ نہیں.پس مومن تو خدا تعالیٰ کی ادنی ناراضگی سے بھی ڈرتا ہے گجا یہ کہ اس قدر اہم ناراضگی سے نہ ڈرے جو گو کفر نہیں مگر کفر کے دروازہ تک انسان کو پہنچا دیتی ہے.اور ومَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأولئكَ هُمُ الفيسقون کا اسے مورد بنا دیتی ہے.دراصل جو شخص نیکیوں کو یہ سمجھ کر چھوڑتا چلا جاتا ہے کہ وہ معمولی ہیں اور گناہوں کا اس لئے ارتکاب کر لیتا ہے کہ اس کے نزدیک ان گناہوں کا ارتکاب کوئی بڑی بات نہیں ، اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کسی شخص کو بہادری کا دعویٰ تھا وہ ایک دن کسی گودنے والے کے پاس گیا اور کہا کہ میرے بازو پر شیر گود دو.اس نے شیر گودنے کیلئے جب سوئی ماری تو اُسے درد ہوا اور کہنے لگا بتاؤ کیا کرنے لگے ہو؟ اس نے کہا میں شیر کا کان گود نے لگا ہوں.کہنے لگا کون سا کان دایاں یا بایاں ؟ اس نے کہا دایاں.وہ کہنے لگا اچھا

Page 155

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۱ جلد سوم.اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو آیا شیر رہتا ہے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا رہتا کیوں نہیں.اس نے کہا اچھا تو دایاں کان چھوڑ دو اور آگے چلو.جب اس نے دوسرا کان بنانے کیلئے سوئی ماری تو پھر اسے درد ہوا اور وہ کہنے لگا اب کیا کرنے لگے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ اب بایاں کان گود نے لگا ہوں.وہ کہنے لگا اگر بایاں کان نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ اس نے کہا رہتا کیوں نہیں.وہ کہنے لگا اسے بھی چھوڑ دو اور آگے چلو.پھر جب اس نے ٹانگ گودنا شروع کی تو وہ پھر کہنے لگا اگر ٹانگ نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا ٹا نگ کے بغیر بھی شیر ہوسکتا ہے.کہنے لگا اسے بھی چھوڑو اور آگے چلو.اس کے بعد اس نے دوسری ٹانگ گودنی پاہی تو پھر اس نے روک دیا.یہ دیکھ کر اُس گودنے والے نے سوئی ہاتھ سے رکھ دی اور کہنے لگا ایک کان کے بغیر بھی شیر رہ سکتا ہے اور دوسرے کان کے بغیر بھی مگر یہ سب چیزیں چھوڑ دی جائیں تو پھر شیر کا کچھ نہیں رہتا.تو جب انسان دلیری سے یہ کہتا ہے کہ اگر فلاں نیکی چھوڑ دوں تب بھی ایمان باقی رہتا ہے اور فلاں گناہ کرلوں تب بھی میرے ایمان میں کوئی خلل واقع نہیں ہو سکتا.وہ آہستہ آہستہ تمام نیکیوں کو چھوڑتا ہی چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اُس کے ایمان میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا.پھر یہ بھی یاد رکھو کہ زمانوں کے بدلنے سے سزائیں بھی بدل جاتی ہیں.اور گو واقعہ ایک ہی قسم کا ہوتا ہے مگر حالات کے اختلاف کی وجہ سے سزا کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے.مثال کے طور پر دیکھ لوتم کسی شہر میں رہتے ہو اور تمہارے پاس کوئی بھوکا شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے کچھ کھانے کیلئے دو تمہارے پاس کھانا موجود ہے مگر تم اسے نہیں دیتے اور وہ چلا جاتا ہے.اب تم ایک گناہ کے مرتکب ہوئے ہو کیونکہ وہ بھوکا تھا مگر تم نے اسے کھانا نہیں دیا.لیکن اگر تم ایک ایسے جنگل میں ہو جہاں ہیں ہیں تھیں تھیں میل تک آبادی کا نام و نشان نہیں اور کہیں سے کھانا ملنے کی امید نہیں ہو سکتی لیکن تمہارے پاس وافر کھانا موجود ہے مثلاً ایک گھوڑا روٹیوں اور کھانے پینے کے سامان سے لدا ہوا تمہارے پاس کھڑا ہے ایسی حالت میں اگر ایک بھو کا تمہارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے میرا بہت بُرا حال ہے مجھے ایک روٹی دے دو تا اسے کھا کر میرے بدن میں کچھ طاقت آجائے اور میں آبادی کے قریب پہنچ جاؤں تو ایسی

Page 156

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۲ جلد سوم حالت میں اگر تم اسے روٹی نہیں دیتے اور وہ بھو کا چلا جاتا ہے تو اس صورت میں بھی تم ایک گناہ کے مرتکب ہو گے کیونکہ کھانا تمہارے پاس موجود تھا مگر تم نے اسے نہیں دیا.لیکن ان دونوں جگہ ایک بین فرق بھی موجود ہے جو تمہارے جرم کو ایک جگہ معمولی اور دوسری جگہ سنگین بنا دیتا ہے.جب تم نے آبادی میں ایک بھو کے اور غریب شخص کو روٹی نہ دی تو اُس وقت امکان تھا کہ اسے کوئی اور شخص روٹی دے دیتا مگر جنگل میں جب تم نے ایک بھو کے کو روٹی نہ دی اور ایسی حالت میں نہ دی جبکہ ہیں ہیں تھیں تھیں میل تک اسے کھانا ملنے کی امید نہ ہو سکتی تھی تو تم نے اسے بھوکا ہی نہیں رکھا بلکہ اگر وہ مر جائے گا تو تم اس کے قاتل بھی ٹھہرو گے.تو صرف عمل کو دیکھا نہیں جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ارد گرد کے حالات اس عمل کو کیا شکل دے رہے ہیں.بالکل ممکن ہے ایک عمل ظاہری نگاہ میں بالکل چھوٹا ہو مگر حالات کی وجہ سے وہ بہت بڑی اہمیت رکھنے لگے.مثلاً دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو حافظ قرآن ہیں اگر کوئی شخص کسی حافظ قرآن کو قتل کرتا ہے تو ہم اسے قاتل کہیں گے.لیکن فرض کرو اگر کسی وقت دنیا میں صرف ایک ہی حافظ قرآن ہو تو اگر کوئی شخص اُس کو مارے گا تو نہیں کہا جا سکے گا کہ دونوں کا فعل ایک جیسا ہے کیونکہ گو دونوں جگہ حافظ قرآن ہی قتل ہوئے ہوں گے مگر ان دونوں قتلوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.پہلا قاتل صرف ایک عام آدمی کا قاتل ہے مگر دوسرا قاتل صرف ایک آدمی کا قاتل نہیں بلکہ قرآن کا بھی قاتل ہے.کیونکہ اس کے قتل کے بعد دنیا میں کو ئی شخص ایسا نہیں رہے گا جس کے سینہ میں قرآن محفوظ ہو.تو صرف کسی عمل کی ظاہری شکل نہیں دیکھی جاتی بلکہ اس کے باطنی حالات بھی دیکھے جاتے ہیں.اب دیکھ لو رسول کریم میہ کے زمانہ میں بہت بڑا فرق ہے.اُس وقت حکومت ساتھ تھی ، اسلام مضبوط ہو چکا تھا ، ملکوں کے ملک اسلام میں داخل ہو چکے تھے اور اسلامی شریعت پر رات اور دن عمل کروایا جا رہا تھا.پس اُس وقت تفرقہ صرف سیاسی کمزوری پیدا کرتا تھا مگر یہ زمانہ اور ہے، ترقی آہستہ ہے، حکومت غیر ہے، اسلامی تمدن قائم نہیں ہوا.پس آج کا تفرقہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کو بالکل رائیگاں کر سکتا ہے.صلى الله اسی لئے آج کا فساد اور اُس وقت کا فساد بالکل مختلف ہے.اُس وقت رسول کریم ع کے ہے.

Page 157

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۳ جلد سوم زمانہ میں ہی اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی اور اس وجہ سے وہ تمام مسائل جن کا تعلق حکومت کے ساتھ ہے قائم کر دیئے گئے تھے.مثلاً زکوۃ اور عشر کی تقسیم، لین دین کے مسائل، اقتصادیات کے متعلق احکام ، بادشاہوں کا رعایا سے تعلق اور رعایا کا بادشاہ سے تعلق.یہ تمام امور ایسے تھے کہ ان کے متعلق شریعتِ اسلامی جن تفاصیل کی حامل ہے وہ مسلمانوں میں قائم کر دی گئی تھی.پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جو تفرقہ ہوا گو اس سے مسلمانوں کو سیاسی لحاظ سے کمزوری ہوئی مگر بہر حال اس تفرقہ کے نتیجہ میں جو حکومتیں قائم ہوئیں وہ اسلامی حکومتیں ہی تھیں کیونکہ اسلام عملی صورت میں دنیا میں قائم ہو چکا تھا.مگر اس زمانہ میں اسلام کی ترقی آہستہ آہستہ مقدر ہے اور ابھی احمدی حکومتیں دنیا میں قائم نہیں ہوئیں.زکوۃ اور خراج کے مسائل ، لین دین کے معاملات ، حکومت اور رعایا یا امیر اور غریب کے متعلق احکام ، آقا اور ملازمین کے تعلقات، رعایا کے فرائض ، اسلامی حکومت کے حقوق اور فرائض ، حکومتوں کے آپس کے تعلقات اور ورثہ اور سُود وغیرہ سینکڑوں مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق اسلامی تعلیم دنیا میں قائم نہیں ہوئی.پس یہ ساری عملی اسلامی زندگی ابھی پوشیدہ ہے اور اُس وقت کا انتظار کر رہی ہے جب کہ اسلامی بادشاہتیں دنیا میں پھر قائم ہوں اور ان امور کے متعلق اسلامی تعلیم کا احیاء ہو.پس چونکہ ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم دنیا میں صحیح طور پر قائم نہیں ہوئی اور نہ تمدن کے متعلق اسلام کی وہ تعلیم دنیا میں رائج ہوئی ہے جس کو کامل طور پر رائج کرنا خدا تعالیٰ کا منشاء ہے اس لئے آج اگر کوئی شخص تفرقہ کرتا اور جماعت کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ صرف معمولی مجرم نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قاتل ہے.کیونکہ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم دنیا میں قائم نہیں ہوئی اور اس کے قائم ہونے میں ایک لمبا عرصہ درکار ہے.چنانچہ قرآن کریم میں صاف طور پر اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود کی جماعت کی نسبت فرماتا ہے گزرع اخرج قطاة فازره فاستغلظ فَاسْتَوَى عَلى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزراع " یعنی وہ

Page 158

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۴ جلد سوم جماعت اس سبزے کی طرح ہوگی جو زمین میں سے نکلتا ہے اور نہایت ہی کمزور اور ناطاقت ہوتا ہے.جدھر سے بھی ہوا چلتی ہے وہ اس کے دباؤ سے جھک جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ آندھیاں اور ہوائیں اُسے جڑ سے نہیں اُکھاڑ سکیں گی بلکہ وہ پودا بڑھے گا اور بڑھتا چلا جائے گا یہاں تک کہ مضبوط ہو جائے گا اور دنیا کے حوادث اور مخالفت کی آندھیاں اسے اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکیں گی.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی خلافت قائم ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد بھی خلافت قائم ہوئی مگر ان دونوں خلافتوں میں ایک فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی اسلام کے تمام احکام عملی طور پر قائم ہو گئے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد ان احکام کے عملی صورت میں قائم ہونے کیلئے ایک لمبا عرصہ مقدر ہے.پس گو پہلے خلفاء کے زمانہ میں بھی اگر کوئی تفرقہ کرتا تو وہ شدید گناہ کا مرتکب ہوتا مگر عملی صورت میں یقیناً اسلامی احکام کو نقصان نہ پہنچ سکتا کیونکہ اسلامی تعلیم قائم ہو چکی تھی اسے جو بھی نقصان اور ضعف پہنچتا وہ سیاسی ہوتا.لیکن آج اگر کوئی شخص تفرقہ پیدا کرتا اور جماعت کے اتحاد کو تباہ کرنے کے درپے ہوتا ہے تو وہ صرف تفرقہ پیدا نہیں کرتا بلکہ اسلام کو ضعف پہنچاتا اور اس کی ترقی میں زبر دست روک بنتا ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی سزاؤں میں بھی دونوں جگہ فرق ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ فعل بتا رہا ہے کہ اُس زمانہ کے خلفاء اور اس زمانہ کے خلفاء کے انکار کی سزاؤں میں بہت بڑا فرق ہے.اُس وقت جو خلافت کے مخالفین تھے وہ مذہب سے دور نہیں ہوئے مگر آج جو شخص خلافت کی مخالفت کرتا ہے وہ آہستہ آہستہ مذہب کو بھی یا تو بالکل چھوڑ دیتا ہے یا اس کے مذہب میں رخنہ پڑ جاتا ہے.چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی سعد نے بیعت نہ کی.آپ نے حکم دیا کہ ان سے قطع تعلق کر لیا جائے.چنانچہ کوئی شخص اُن سے نہ بولتا اور نہ لین دین کے تعلقات رکھتا لیکن وہ مسجد میں آتے نماز پڑھتے اور چلے جاتے.پھر سعد جب فوت ہوئے تو تمام مسلمانوں نے اُن کا جنازہ پڑھا اور اس طرح اُنہوں نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ وہ انہیں مومن ہی سمجھتے تھے ( سعد نے بھی کبھی کوئی اعتراض حضرت ابو بکر پر یا نظام سلسلہ

Page 159

خلافة على منهاج النبوة پر نہیں کیا نہ کبھی عملاً اس کی مخالفت کی ).۱۴۵ جلد سوم حضرت طلحہ ، حضرت زبیر اور حضرت معاویہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی مگر ان کے ایمانوں میں کوئی فرق نہیں آیا.یہ ممکن ہے دنیا میں انہیں جسمانی طور پر بعض سزا ئیں ملی ہوں مگر ان کے ایمان ضائع نہیں ہوئے.پھر بعض نے ان میں سے توبہ کر لی اور بعض کے متعلق ہمیں پورے حالات معلوم نہیں.بہر حال ان میں سے کسی کے ایمان ضائع ہونے کی خبر ہمیں نہیں ملتی مگر اس زمانہ میں جس نے بھی خلفاء کی مخالفت کی آہستہ آہستہ اس کے مذہب میں بھی رخنہ پڑ گیا اور وہ اصل اسلام اور احمدیت سے بہت دور ہو گیا.چنانچہ سب سے پہلے مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء نے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی مخالفت کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد سب سے پہلا جو جلسہ سالا نہ ہوا اُس میں اپنی تقریروں کے دوران میں انہوں نے آپ پر حملے کرنے شروع کر دئیے اور جماعت کے لوگوں کو اس امر کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ جانشین اور خلیفہ صدرانجمن احمد یہ ہے حضرت خلیفہ اول نہیں.مگر اس مخالفت کا کیا نتیجہ ہوا ؟ سعد کی طرح ان کا حال نہیں ہوا ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر اور حضرت معاویہ کی طرح محض حدود کے قیام تک ان کی مخالفت محدود نہیں رہی بلکہ خلافت کا انکار کرنے کے بعد انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا بھی انکار کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ اور مقام کا بھی انکار کر دیا.بعض اُن امور کا بھی انکار کر دیا جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عقائد میں شامل فرمایا ہے اور اس طرح ان کے مذہب میں بہت بڑا رخنہ واقع ہو گیا.پھر مستریوں نے جب میری مخالفت کی تو انہوں نے سب سے پہلے جو اعلان کیا وہ مصری صاحب کی طرح ایک دردمندانہ اپیل ہی تھی اور اس میں لکھا کہ ہم احمدیت سے الگ نہیں ہوئے.ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر کامل ایمان ہے ہمارا اختلاف صرف موجودہ خلیفہ سے ہے ورنہ یہ کب ہو سکتا ہے کہ ہم احمدیت چھوڑ دیں.مگر پھر وہی عبدالکریم وفات مسیح کے مسئلہ پر احمدیوں سے مناظرے کرتا رہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وہ بالکل الگ ہو گئے.آخر یہ فرق جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے خلفاء کے منکروں اور

Page 160

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۶ جلد سوم موجودہ خلفاء کے منکروں کی سزا میں ہے ، کیوں ہے؟ خدا نے اُس وقت کے خلفاء کے منکرین کے ایمان کیوں ضائع نہ کئے اور آج جو خلفاء کا انکار کرتا ہے اس کا ایمان کیوں ضائع ہو جاتا ہے؟ اسی لئے کہ آج جو شخص خلفاء کا انکار کرتا ہے اور جماعت میں تفرقہ و انشقاق پیدا کرتا ہے وہ نہ صرف خلفاء کا انکار کرتا ہے بلکہ اسلام کی اُس عملی زندگی پر بھی تبر چلاتا ہے جس کو قائم کرنا خدا تعالیٰ کا منشاء ہے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسلام کی عملی زندگی قائم ہو چکی تھی اور خلفاء کا انکار سیاسی نقصان پہنچا تا تھا.پس چونکہ آج جو شخص خلفاء کی مخالفت کرتا ہے وہ اسلام کی عملی زندگی اور دنیا کے ایمان پر تبر چلاتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ اس مُجرم کی سزا میں اس کا ایمان بھی ضائع کر دیتا ہے.لیکن پہلے زمانہ میں مخالفت ، اسلام کو صرف سیاسی نقصان پہنچاتی تھی اس لئے مخالفت کرنے والوں کو دنیا میں بعض جسمانی سزائیں مل جاتیں روحانی سزا اس حد تک انہیں نہیں ملتی تھی.مصری صاحب بے شک کہہ رہے ہیں کہ گو مجھے خلیفہ وقت سے اختلاف ہے مگر میں احمدیت پر قائم رہوں گا.پہلوں سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے اس اختلاف کو وسیع کر کے احمدیت کے خصائص بھی ترک کر دیئے.اب میں بتاؤں گا کہ مخالفت اور اختلاف کے باوجود کس طرح احمدیت پر انسان قائم رہتا ہے.مگر جس قسم کے گندے اعتراض وہ کر رہے ہیں اور جس قسم کے ناپاک حملوں کے کرنے کی ان کی طرف سے اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے اطلاعیں آرہی ہیں اگر وہ ان پر مصر رہے اور اگر انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے تو بہ نہ کی تو میں کہتا ہوں احمدیت کیا اگر ان کے خاندانوں میں حیا بھی باقی رہی تو وہ مجھے کہیں.بلکہ میں اس سے بھی واضح الفاظ میں یہ کہتا ہوں کہ جس قسم کے خلاف اخلاق اور خلاف حیا حملے وہ کر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں اگر ان کے خاندان فحش کا مرکز بن جائیں تو اسے بعید از عقل نہ سمجھو.پس میں پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہوں نے اپنے اشتہار میں جس قدر مثالیں پیش کی ہیں وہ بالکل غلط ہیں اور ان میں سے ایک بھی ان کے طریق عمل پر چسپاں نہیں ہوتی.علاوہ ازیں خدا تعالیٰ کے فعل نے پہلے زمانہ اور اس زمانہ میں نمایاں امتیاز قائم

Page 161

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۷ جلد سوم کر کے دکھلا دیا ہے.پس اب جو شخص خلافت کی مخالفت کرتا ہے وہ پہلوں سے بہت زیادہ سزا کا مستحق ہے اور یقیناً اگر کوئی شخص خلافت کے مقابلہ پر اصرار کرے گا اور اپنے اس فعل سے تو بہ نہیں کرے گا تو اُس کا ایمان بالکل ضائع ہو جائے گا اور آج نہیں تو کل وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی حملہ کرنے لگے گا.اور پھر بالکل ممکن ہے وہ اس سزا کے نتیجہ میں اخلاق فاضلہ کو بھی اپنے ہاتھ سے چھوڑ دے اور حیا اور شرم سے اسے دور کی بھی نسبت نہ رہے.پس زمانہ کے حالات سزاؤں کو بدل دیتے ہیں.اُس زمانہ کے حالات بالکل اور تھے اور اب حالات اور ہیں.اب جو لوگ خلافت کا مقابلہ کریں گے انہیں یقیناً ایسی سزائیں ملیں گی جو نہایت ہی عبرتناک ہوں گی اور یقیناً اپنی اپنی مخالفت اور عناد کے مطابق ان کے ایمان بھی ضائع ہوتے چلے جائیں گے.“ 66 النور: ۵۶ خطبات محمود جلد ۱۸ صفحه ۲۸۹ تا ۳۱۴) تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۳۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء تاریخ طبری جلد ۴ صفحہ ۲۶.۲۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء تاریخ طبری جلد ۵ صفحه ۴۵۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء ۵ تاک تاریخ طبری جلد ۵ صفحه ۷ ۴۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء تاریخ طبری جلد ۵ صفحه ۵۴۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء 2 تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۲۴۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء سر الخلافة صفحه ۳۸ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۵۲ شائع کرده نظارت اشاعت ربوه ل الفتح: ٣٠

Page 162

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۸ جلد سوم شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی طرف سے انکسار کا جھوٹا دعویٰ خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۳۷ء میں شیخ عبد الرحمن صاحب مصری کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.ان لوگوں کی طرف سے ایک دستی اشتہار آج ہی مجھے دفتر نے بھیجا ہے جس میں مصری صاحب کی امارت کا اعلان کر دیا گیا ہے.ہمیں اس سے خوشی ہے کیونکہ جو شخص جماعت میں تفرقہ پیدا کرے اسے خدا تعالیٰ خود سزا دیتا ہے.اور یہ اعلان کر کے انہوں نے اپنے آپ کو اس مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ الہی سزا کے مستحق ہو گئے ہیں.اس اعلانِ امارت کے ساتھ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی سزا کو کھینچا ہے دور نہیں کیا..اسی اشتہار میں ان کی پارٹی کی طرف سے اعلان ہوا ہے کہ دیکھو! ہمیں مرتد ، منافق ، فاسق وغیرہ الفاظ سے پکارا جاتا ہے، ایسا نہ کیا جائے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے تو انہیں ان ناموں سے نہیں پکا را بلکہ ہمارے آدمیوں نے تو صرف اُن کی اپنی باتیں دُہرائی ہیں.پکارنے والا تو ابتدا کرنے والا ہوتا ہے.انہوں نے مجھے مرتد قرار دیا، معزول کرنے کے لائق کہا حالانکہ میں تو خلیفہ ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جب تک تم اپنے دُنیوی بادشاہ میں کفر بواح نہ دیکھو اس کی اطاعت کرویے اللہ تعالیٰ خود اسے سزا دے گا اور اس لحاظ سے مصری صاحب نے گویا یہ کہا ہے کہ مجھ میں کفر بواح یعنی کھلا کھلا پایا جاتا ہے.باقی رہا فتنہ پرداز کہنا ، سو جیسا کہ میں نے بتایا ہے اپنے پہلے خط میں ہی انہوں نے مجھے فتنہ پرداز کہا ہے اور پھر فتبينوا والی آیت مجھ پر چسپاں کر کے مجھے فاسق

Page 163

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۹ جلد سوم قرار دیا ہے.پھر مجھے منافق بھی کہا ہے یہ کہہ کر کہ میں جماعت کو دہریت کی طرف لے جا رہا ہوں حالانکہ بظاہر اسلام سے تعلق ظاہر کرتا ہوں.پس یہ ثابت ہے کہ پہل انہوں نے کی اور اُنہوں نے جو کچھ ہمارے متعلق کہا جماعت نے اُسے دُہرا دیا ہے.وہ اپنے الفاظ واپس لے لیں تو میں جماعت کو بھی آئندہ ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دوں گا مگر پہلے وہ تو بہ کریں پھر ان کا حق ہوگا کہ ہم سے ایسا مطالبہ کریں.حقیقت یہ ہے کہ وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے بیعت توڑی ہے اور ہر جماعت کی اصطلاح میں ایسے شخص کو مرتد کہتے ہیں.بیعت میں یہ اقرار ہوتا ہے کہ مبالع کامل فرمانبرداری اور گلی طور پر تعاون کرے گا اور جو شخص اس اقرار کو تو ڑ دے اُسے اگر مرتد نہیں تو اور کیا کہا جائے گا.مرتد کے معنی ہیں واپس جانے والا.پس جو بیعت کو توڑ دے اُسے مرتد ہی کہا جاسکتا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے غیر احمدی کہتے ہیں کہ ہمیں کا فر کیوں کہا جاتا ہے.حالانکہ کافر کے معنی ہیں نہ ماننے والا.اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانتا اسے ہم مومن کس طرح کہہ دیں.اگر ہم ان سے پوچھیں کہ کیا آپ لوگ مرزا صاحب کے دعوئی ماً موریت کو مانتے ہیں؟ تو وہ یہی کہیں گے کہ نہیں.پس چونکہ نہ ماننے والے کو عربی میں کافر کہتے ہیں کسی مدعی ماموریت کو جب کوئی نہ مانے تو اُسے کافر کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے.اسی طرح اگر بیعت کرنے کے بعد کوئی واپس کوٹے تو اُسے مرتد کے سوا اور کیا کہا جائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عرب میں اکثر لوگ نمازیں بھی پڑھتے تھے ، روزے بھی رکھتے تھے صرف زکوۃ کے متعلق انہیں شبہ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ہی کیلئے حکم تھا مگر پھر بھی اُن کو مرتد ہی کہا جاتا تھا.پھر یہ لوگ اندر ہی اندر سازش کر رہے تھے.میاں عبد العزیز کا فوراً الگ ہو جانا بتا تا ہے کہ وہ پہلے ہی ان کے ہم خیال ہو چکے تھے.اور فخر الدین صاحب کے اخراج پر مصری صاحب کا نوٹس دینا بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ پہلے ہی جتھے بنارہے تھے اور اندر ہی اندر فتنہ پیدا کر رہے تھے.پھر ایسے لوگوں کو اگر فتنہ پرداز نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے.پھر آیت استخلاف میں خلافت کی بیعت کے بعد انکار کرنے والوں کو فاسق کہا گیا ہے

Page 164

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۰ جلد سوم اور سب سے بڑھ کر لطیفہ یہ ہے کہ کہتے ہیں ہمیں منافق نہ کہا جائے.لیکن اسی اشتہار میں جس میں امارت کا اعلان بھی کیا گیا ہے یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص خلیفہ کی بیعت میں رہتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ ملنا چاہے اُس کا نام پوشیدہ رکھا جائے گا.گویا وہ صرف منافق ہی نہیں بلکہ منافق گر ہیں.وہ لوگوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ تم بظاہر خلیفہ کی بیعت میں رہوا اور خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر عہد کر لو کہ ہم ہر ایک نیک بات میں آپ کی فرمانبرداری کریں گے.سَمْعًا وَّ طَاعَةً کے نعرے بھی لگا ؤ، مگر در پردہ ہم سے ملے رہو اور پھر ساتھ ہی کہتے ہیں کہ ہمیں منافق نہ کہو.یہ تو صحیح ہے کہ جس جماعت کا کوئی نظام نہ ہو اُس کے افراد خفیہ بیعت کر سکتے ہیں جیسے کہ سید محمد علی شاہ صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خفیہ بیعت کی اجازت دی تھی.مگر شاہ صاحب کسی اور پیر کے مرید تو نہ تھے وہ ایک آزاد آدمی تھے ان کی خفیہ بیعت کسی عہد کو باطل نہ کرتی تھی.ایسے شخص کو اگر کوئی مجبوری ہو تو اختیار ہے کہ چاہے اپنے عقیدہ کو ظاہر کرے اور چاہے چُھپائے.مگر ظاہر میں کسی اور کے ساتھ بیعت کا رشتہ قائم کر کے در پردہ کسی اور سے تعلق رکھنا ہرگز ہرگز جائز نہیں.اگر ایک شخص کا مکان کسی کے پاس رہن نہیں تو اسے اختیار ہے کہ چاہے اپنا مکان خفیہ طور پر اسے رہن کر دے اور چاہے ظاہرا کر دے لیکن جس کا مکان پہلے سے رہن ہے وہ اگر خفیہ طور پر کسی دوسرے کے پاس رہن کر دیتا ہے تو ہر شخص کہے گا کہ یہ پکا بدمعاش ہے.پس ایک طرف بیعت کرنے والا دوسری طرف ملے تو یقینا وہ منافق ہے.ہاں جو کسی سلسلہ میں شامل نہیں وہ اگر خفیہ طور پر کسی سے ملتا ہے تو یہ اور بات ہے.صحابہ اس امر کا اس قدر لحاظ رکھتے تھے کہ ایک دفعہ قیصر روم کا ایلچی حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور چاہا کہ اسلام قبول کرے.انہوں نے اس سے صاف انکار کیا اور فرمایا اس وقت تم قیصر کے ایچی ہو.اس وقت تمہارا اسلام میں داخل ہونا بد دیانتی ہوگا.واپس جا کر استعفیٰ دے کر آؤ تو پھر تم کو اسلام میں داخل کرلوں گا.پھر مصری صاحب کہتے ہیں کہ جماعت ایک آزاد کمیشن مقرر کرے مگر یہ معلوم نہیں اس سے ان کا مطلب کیا ہے.میں اس وقت تک ان کے اس مطالبہ کولغو سمجھتا ہوں مگر ممکن ہے ان کے ذہن میں کوئی ایسی صورت ہو جو ہمارے ذہن میں نہ ہو اور وہ ہمارے نز دیک بھی معقول

Page 165

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۱ جلد سوم ہو اس لئے میں ان سے ان کے ان الفاظ کے معنے پوچھنا چاہتا ہوں اور اس ضمن میں پہلی بات میں ان سے یہ پوچھتا ہوں کہ:.پہلے خلفاء کے خلاف بھی بعض لوگوں نے شکایات کی ہیں اور بعض دفعہ ایسے مقدمات عدالتوں میں بھی سنے گئے ہیں ، مصری صاحب بتائیں کہ ان کے فیصلوں کیلئے کس قسم کے کمیشن مقرر ہوئے تھے؟ یا ان خلفاء کے اپنے مقرر کردہ قاضی ہی ان مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آزاد کمیشن مانگنا مصری صاحب کا ہی حق ہے یا اور کسی کا بھی ؟ کیا جب کوئی آکر کہے کہ خلیفہ کے متعلق آزاد کمیشن بٹھایا جائے یہ مطالبہ منظور ہو جانا چاہئے یا صرف اُس وقت جب مصری صاحب اس کا مطالبہ کریں؟ جس طرح پنجابی میں مثل مشہور ہے کہ ” جتھے میاں نور جمال اوتھے مُردہ کھو تا وی حلال“.غرض وہ بتائیں کہ ہر معترض آزاد کمیشن طلب کر سکتا ہے یا صرف وہی ایسا کر سکتے ہیں.تیسرا سوال یہ ہے کہ وہ بتائیں کہ آزاد کمیشن سے ان کی مراد کیا ہے؟ کیا مادر پدر آزاد؟ یعنی دہریوں کا کمیشن وہ مانگتے ہیں یا ان کے نزدیک آزاد کمیشن وہ ہے جسے وہ مقرر کریں خلیفہ نہ مقرر کرے؟ اگر یہ دونوں مراد نہیں تو وہ بتائیں کہ ان کا مطلب کیا ہے.آیا وہ چاہتے ہیں کہ ساری جماعت کو دعوت دی جائے اور پھر ووٹ لئے جائیں کہ کون کون حج مقرر ہو؟ اور ہمیشہ کیلئے یہی طریق ہو کہ جب کوئی الزام لگائے جماعت کو یہاں بلا لیا جائے ؟ اور ضمناً اس بات کا بھی وہ جواب دیں کہ ایسا کرنے پر پچاس ساٹھ ہزار بلکہ لاکھ روپیہ کا خرچ ہوگا وہ مصری صاحب دیں گے یا کون دے گا ؟ پھر یہ ممکن ہے کہ کل کوئی اور اُٹھے اور کہے کہ مصری صاحب نے جو الزام لگائے تھے وہ غلط تھے اب میں یہ الزام لگاتا ہوں ان کی تحقیقات کی جائے اور ادھر لوگ مصری صاحب کے کمیشن سے فارغ ہو کر گھر پہنچیں اور اُدھر پھر تاریں چلی جائیں کہ خلیفہ پر ایک اور مقدمہ ہو گیا ہے فوراً چلے آؤ.اور پھر اس سے فارغ ہو کر جائیں تو کوئی اور کہہ دے کہ میں خلیفہ پر یہ الزام لگا تا ہوں اور لوگ ابھی بعض رستوں میں ہی ہوں اور بعض ابھی پہنچے ہی ہوں کہ پھر تاریں چلی جائیں کہ فوراً آجاؤ پھر آزاد کمیشن بیٹھنے لگا ہے.پھر یہ بھی سوال ہے کہ آیا ہر الزام پر آزاد کمیشن چاہئے یا

Page 166

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۲ جلد سوم آزاد کمیشن والے الزامات کی کوئی خاص نوعیت والے الزام ہی آزاد کمیشن کے حقدار ہوں گے تو اس نوعیت کا فیصلہ قرآن وحدیث کی کس سند کے ذریعہ کیا جائے گا ؟ وہ یہ بھی بتائیں کہ آزاد کمیشن کا مطالبہ کرنے کا حق ان کو اگر حاصل ہے تو صرف اس دفعہ ہی یا جب وہ چاہیں جماعت سے اس کا مطالبہ کر لیں.اور اگر دوسروں کو بھی اس کا حق حاصل ہے تو انہیں بھی ایک ایک دفعہ عمر بھر میں یا جب اور جس وقت کوئی شخص آزاد کمیشن کا مطالبہ کرے فوراً آزاد کمیشن بیٹھ جانی چاہئے.اور یہ آزاد کمیشن جماعت کے اندر رہنے والے لوگ مانگ سکتے ہیں یا جماعت سے باہر کے لوگ بھی اس کا مطالبہ کر سکتے ہیں.مثلاً پیغامی اور غیر احمدی اس بارہ میں مطالبہ کریں تو آیا ان کا یہ مطالبہ جائز سمجھا جائے گا یا نا جائز ؟ اگر جماعت سے باہر کے لوگوں کا یہ مطالبہ درست تسلیم نہ کیا جائے تو پھر مصری صاحب جو جماعت سے نکل چکے ہیں ان کو ایسا مطالبہ کرنے کا حق کہاں سے حاصل ہوا ہے.اور اگر یہ قانون ہے کہ جو جماعت سے قریب زمانہ میں نکلا ہو وہ آزاد کمیشن کا مطالبہ کر سکتا ہے دوسرا نہیں تو پھر وہ یہ بھی بتا ئیں کہ کتنی دیر تک کا مرتد اس قسم کا مطالبہ کر سکتا ہے.پھر وہ یہ بھی بتائیں کہ آزاد کمیشن سے مراد غیر احمدیوں کا کمیشن ہے یا احمدیوں کا یا مشترک؟ اگر مشترک مراد ہے تو کس کس نسبت سے احمدی اور غیر احمدی ممبر مقرر کئے جائیں گے اور انہیں کون مقرر کرے گا.اگر خلیفہ مقرر کرے گا تو پھر وہ بقول مصری صاحب آزاد نہ رہے گا اور اگر احمدی مقرر کریں گے تو پھر بھی آزاد کمیشن نہ رہے گا کیونکہ وہ تو پہلے ہی خلیفہ کو حق پر سمجھ رہے ہیں ورنہ مصری صاحب کے ساتھ ہی بیعت تو ڑ کر الگ ہو جاتے اور اگر وہ کہیں کہ نہیں احمدی بہ حیثیت حج مقرر کرنے والے کے دیانتدار ہیں تو پھر غیر احمدی کمیشن کی کیا ضرورت رہی.پھر احمدی حج ہی کمیشن بن سکتے ہیں.اسی طرح وہ یہ سوال بھی حل کریں کہ ان ممبران کمیشن کو اگر جماعت احمدیہ نے مقرر کرنا ہے تو کیا ساری جماعت کو اکٹھا ہو کر منتخب کرنا چاہئے یا الگ الگ جماعتیں ایسا انتخاب کریں.اور اگر غیر احمدیوں نے بھی کوئی حصہ منتخب کرنا ہے تو ان کے انتخاب کا کیا ذریعہ ہوگا.اور اگر آزاد کمیشن سے مراد یہ ہے کہ آدھے حج معترض تجویز کیا کریں اور آدھے خلیفہ وقت کیا کرے تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر غیر احمدی ججوں پر خلیفہ کو اعتبار نہ ہوتو کیا

Page 167

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۳ جلد سوم وہ حصہ بھی معترض ہی مقرر کر دیا کرے گا یا خلیفہ کو مجبور کیا جائے گا کہ ضرور کچھ غیر احمد یوں پر یا غیر مسلموں پر اعتبار کر کے ان میں سے حج مقرر کرے.اور جب احمدیت خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر جائے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق دوسری اقوام اس کے ماتحت آجائیں گی تو اُس وقت غیر احمدی یا غیر مسلم بھی جانبدار نہ رہیں گے.اُس وقت آزاد کمیشن کیلئے ممبر کہاں سے لائے جائیں گے.آیا یہ کوشش کی جائے گی کہ کچھ حصہ دنیا کا بالکل آزاد ر ہے اور اسلامی حکومت میں داخل نہ ہو تا مصری صاحب کے ہم خیالوں کیلئے آزاد کمیشن کے ممبر ملتے رہیں اور پھر یہ بھی سوال ہے کہ اگر آزاد کمیشن یہ کہے کہ مصری صاحب جھوٹے ہیں تو ان کو کیا سزا دی جائے گی خلیفہ کیلئے تو یہ سزا ہوئی کہ وہ غیر احمدیوں کے کہنے پر خلافت سے معزول ہو جائے گا مگر اس کے مقابل پر مصری صاحب کیلئے کیا سزا ہو گی.آیا ان کیلئے صرف یہ کافی ہوگا کہ ہنس کر کہیں کہ چلو تو بہ کرتے ہیں یا کوئی اور سزا بھی ہوگی.پھر یہ بھی سوال ہے کہ اگر ان کے خلاف کمیشن فیصلہ کرے تو کیا وہ اس کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو جھوٹا کہیں گے؟ یا یہ کہیں گے کہ خلیفہ ہے تو بد کا رہی مگر کمیشن کی خاطر میں اسے مان لیتا ہوں.اگر اپنے آپ کو جھوٹا کہیں گے تو اُس وقت وہ براہین کہاں جائیں گے جن کی وجہ سے خلافت سے روگردانی ان کیلئے جائز ہو گئی ہے.اگر پھر بھی وہ اپنے آپ کو حق پر ہی سمجھتے رہیں گے اور باوجود اس کے خلیفہ کی بیعت کرلیں گے تو آج آپ کو بیعت توڑنے کی کیا مجبوری پیش آئی تھی.یا آپ کا ارادہ یہ ہے کہ اگر فیصلہ آپ کے حق میں ہوا تو قابلِ قبول ہو گا ورنہ نہیں.یہ بہت سے سوال ہیں جن کا جواب دینا آزاد کمیشن کے مطالبہ سے پہلے ضروری ہے.اور امید ہے کہ مصری صاحب جلد ان کا جواب دے کر اپنے نقطہ نگاہ کو واضح کر دیں گے.بہر حال ہمیں یہ علم ہونا چاہئے کہ وہ آزاد کمیشن کسے کہتے ہیں.اس کے فیصلہ کی پابندی ان کیلئے ضروری ہوگی یا نہیں.اسے کون مقرر کرے، کس طرح کرے اور کس کس کو ایسا کمیشن مقرر کرانے کا حق ہے.ایک سوال اور بھی ہے کہ اگر خلافت کے عزل کا سوال آزاد کمیشن سے طے کرایا جا سکتا ہے تو خلیفہ مقرر بھی کیوں غیر احمدیوں کی ایک کمیٹی سے نہ کروایا جائے.آخر میں میں

Page 168

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۴ جلد سوم ایک اور شبہ کا ازالہ کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس فتنہ کو اہمیت کیوں دی جاتی ہے؟ مصری صاحب یا ان کے ساتھیوں کی حیثیت ہی کیا ہے.ایسے لوگوں کی واقفیت کیلئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسے اہمیت مصری صاحب کی حیثیت کی وجہ سے نہیں دی جاتی بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ احراریوں ، مستریوں اور پیغامیوں کے نمائندہ ہیں.بلکہ شبہ ہے کہ بعض حکام سے بھی ان کے تعلقات ہیں.یا کم سے کم ان کے بعض ساتھی ایسا کہتے ہیں اور چونکہ بعض حکام نیز احرار اور پیغامیوں کی امداد ان کی پشت پر ہے اور وہ مل کر حملہ کر رہے ہیں اس لئے ہمارا فرض ہے کہ جماعتی طور پر اس فتنہ کا مقابلہ کریں اور اسے کچل دیں.احرار کے فتنہ نے ہمارے ایمانوں کو بیشک خراب نہیں کیا مگر دنیوی طور پر تو انہوں نے ضرور دق کیا ہے.اسی طرح ان لوگوں کے متعلق خیال ہے کہ یہ سلسلہ کیلئے مشکلات نہ پیدا کریں.پھر اس کے علاوہ ہمارا فرض صرف یہی نہیں کہ احمدیوں کی حفاظت کریں بلکہ جن لوگوں کو ہم نے احمدی بنایا ہے ان کی حفاظت کرنا بھی ہمارا فرض ہے.یہ لوگ باہر ہمارے خلاف بہت پرو پیگنڈا کر رہے ہیں اور غیر احمدیوں میں اپنا زہر پھیلا رہے ہیں.کئی جگہ سے ہمارے دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے ان کے اشتہار تقسیم کر نیوالوں سے مانگے تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہمیں ہدایت ہے کہ آپ لوگوں کو نہ دیے جائیں.“ صلى الله 66 ( خطبات محمود جلد ۱۸ صفحه ۳۳۰ تا ۳۳۵) بخاری کتاب الفتن باب قول النبي ﷺ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أُمُوراً تُنْكِرُونَهَا صفحه ۱۲۱۷ حدیث نمبر ۷۰۵۶ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية

Page 169

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۵ جلد سوم لیفہ وقت کی اطاعت میں یقینی فتح اور کامیابی ہے فرموده ۲۷ /اگست ۱۹۳۷ء) تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ”سب سے پہلے تو میں ایک رپورٹ کے متعلق بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں جو ایک دوست نے ایک باہر کے گاؤں سے لکھ کر بھیجی ہے.وہ دوست بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی بیماری کے متعلق مشورہ کرنے کے لئے اور بعض انتظامات کی خاطر قادیان آیا تھا.ایک مجلس میں مجھے باہر کے ایک مہمان کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا جس کا نام تو میں نہیں جانتا مگر غالباً وہ ایم.اے تھے.وہ دوست لکھتے ہیں کہ موجودہ فتنہ کے متعلق ہماری باہمی گفتگو شروع ہو گئی.اور میں نے برسبیل تذکرہ یہ بات بیان کی کہ ہمارے گاؤں میں بعض نوجوان اُن اتہامات اور الزامات کی وجہ سے جو آجکل بعض جماعت سے خارجین کی طرف سے لگائے جاتے ہیں بہت اشتعال میں تھے لیکن میں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے خطبات اور نصائح کی طرف ان کو توجہ دلائی اور بتلایا کہ ہمارے جوش اسی راہ پر چلنے چاہئیں جس پر چلنے کی خلیفہ وقت کی طرف سے ہدایت ہو اور ہماری قربانیاں اسی رنگ میں ہونی چاہئیں جس رنگ میں امام کی طرف سے قربانی کے لئے ہمیں بلایا جائے.اس پر وہ دوست جو بیرونی مہمان تھے اور جن کا رپورٹ کرنے والے دوست کو نام معلوم نہیں کہنے لگے کہ آپ کو کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ خوامخواہ ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرتے.چونکہ جس شخص سے ان کی بات ہوئی ہے اس کا نام وہ نہیں جانتے اور جس کا نام معلوم نہیں اسے پرائیویٹ طور پر نصیحت کرنا ناممکن ہے اور پھر چونکہ ناممکن ہے کہ ایسے اور لوگ بھی ہوں میں نے مناسب سمجھا کہ اس رپورٹ کے متعلق

Page 170

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم خطبہ میں بعض باتیں بیان کروں.میں نے متواتر جماعت کو بتلایا ہے کہ خلافت کی بنیاد محض اور محض اس بات پر ہے کہ الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِه یعنی امام ایک ڈھال ہوتا ہے اور مومن اس ڈھال کے پیچھے سے لڑائی کرتا ہے.مومن کی ساری جنگیں امام کے پیچھے کھڑے ہو کر ہوتی ہیں.اگر ہم اس مسئلہ کو ذرا بھی بھلا دیں، اس کی قیود کو ڈھیلا کر دیں اور اس کی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر دیں تو جس غرض کیلئے خلافت قائم ہے وہ مفقود ہو جائے گی.میں جانتا ہوں انسانی فطرت کی کمزوریاں کبھی کبھی اسے اپنے جوش اور غصہ میں اپنے فرائض سے غافل کر دیتی ہیں.پھر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کبھی انسان ایسے اشتعال میں آجاتا ہے کہ وہ یہ نہیں جانتا کہ میں منہ سے کیا کہ رہا ہوں مگر بہر حال یہ حالت اس کی کمزوری کی ہوتی ہے نیکی کی نہیں.اور مومن کا کام یہ ہے کہ کمزوری کی حالت کو مستقل نہ ہونے دے اور جہاں تک ہو سکے اسے عارضی بنائے بلکہ بالکل دُور کر دے.اگر ایک امام اور خلیفہ کی موجودگی میں انسان یہ سمجھے کہ ہمارے لئے کسی آزاد تد بیر اور مظاہرہ کی ضرورت ہے تو پھر خلیفہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی.امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اُٹھاتا ہے اُس کے پیچھے اُٹھاتا ہے اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے ، اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے ، اپنے ارادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے، اپنی آرزوؤں کو اس کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتا ہے.اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہو جائیں تو ان کیلئے کامیابی اور فتح یقینی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اسی نکتہ کو واضح کرنے کے لیے فرماتا ہے کہ وليُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنا ل یعنی جو خلفاء الله تعالیٰ کی طرف سے مقرر کئے جاتے ہیں ہمارا وعدہ یہ ہے کہ وَلِيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ار تضى لهم یعنی ان کے طریق کو جو ہم ان کیلئے خود چنیں گے دنیا میں قائم کریں گے.دین کے معنی صرف مذہب کے ہی نہیں.گو مذ ہب بھی اس میں شامل ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مذہب تو انبیاء کے ذریعہ سے قائم ہوتا ہے.خلفاء کے ذریعہ سنن اور طریقے قائم کئے جاتے ہیں

Page 171

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۷ جلد سوم ور نہ احکام تو انبیاء پر نازل ہو چکے ہوتے ہیں.خلفاء دین کی تشریح اور وضاحت کرتے ہیں اور مُغلق امور کو کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں اور ایسی راہیں بتاتے ہیں جن پر چل کر اسلام کی ترقی ہوتی ہے.یا د رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ جو مسلمانوں کا دین ہوگا ہم اسے مضبوط کریں گے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جو خلیفہ کا دین ہوگا اسے مضبوط کریں گے.جس پالیسی کو خلفاء پیش کریں گے ہم اسے ہی کامیاب بنائیں گے اور جو پالیسی ان کے خلاف ہو گی اُسے نا کام کریں گے.پس اگر کوئی مبائع اور مومن کوئی اور طریق اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اسے نا کام کریں گے.اب اس پر غور کرو ایک شخص یا دس ہیں یا ہزار دو ہزار یا دس بیس ہزار لوگ خلیفہ سے کوئی الگ پالیسی رکھتے ہیں یا اپنی اپنی الگ پالیسیاں رکھتے ہیں تو خدا تعالیٰ نے تو جیسا کہ وہ فرما چکا ہے صرف خلیفہ کی پالیسی کو ہی کامیاب کرنا ہے.تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اگر جماعت ایک لاکھ کی ہے تو اس میں سے اتنے ہزار کی کوششیں رائیگاں جائیں گی.اگر ایک ہزار کی کوششیں اللہ تعالیٰ رڈ کر رہا ہے تو گویا ننانوے ہزار یا اگر دس ہزار کی رڈ ہو رہی ہیں تو نوے ہزار ، اگر بیس ہزار کی رڈ ہو رہی ہیں تو اسی ہزار ، اگر پچاس ہزار کی رڈ ہو رہی ہیں تو صرف پچاس ہزار لوگوں کی کوششیں کامیابی کے راستہ پر ہو رہی ہوں گی اور اس طرح جس نسبت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے فتوحات آنی ہیں وہ اسی نسبت سے کم ہوتی جائیں گی.ایک لاکھ سپاہیوں کو جو کامیابی ہوئی تھی اتنی نہیں ہوگی اور جتنی کوششیں رڈ ہو رہی ہوں گی اتنی کامیاب کوششوں میں کمی ہو جائے گی اور اس طرح ایسے لوگ دین کی مدد کر نے والے نہیں ہوں گے بلکہ اس میں رخنہ ڈالنے والے اور اسے ضعیف اور کمزور کرنے والے ہوں گے.یہ تمام نقائص پیدا ہی تب ہوتے ہیں جب خدا تعالیٰ کے کلام پر یقین نہ ہوا اور یہ خیال ہو کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مدد نہیں آئے گی بلکہ ہم نے خود کام کرنا ہے.یا خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلنے سے کامیابی نہیں ہوگی بلکہ کامیابی اس طریق پر چلنے سے ہوگی جو ہم نے سوچا ہے.جس شخص نے جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو اُس کیلئے ضروری

Page 172

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۸ جلد سوم ہے کہ سستیوں کو دور کر کے لوگوں کے اندر اخلاص، تقویٰ اور اُمنگ پیدا کرے.لیکن اگر کچھ آدمی ایسے ہوں کہ جتنی اُمنگیں اور امیدیں اور جوش خلیفہ پیدا کرے اس کا ایک حصہ وہ ضائع کر دیں تو ایسے لوگ بجائے اسلام کی ترقی کا موجب ہونے کے اس کے تنزل کا موجب ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دیکھ لوصلح حدیبیہ کی مثال بالکل واضح ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رویا میں دیکھا کہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں.چونکہ وہ حج کا وقت نہیں تھا آپ نے عمرہ کی نیت کی اور صحابہ کو بھی اطلاع دی.چلتے چلتے آپ کی اونٹنی حدیبیہ کے مقام پر بیٹھ گئی اور زور لگانے کے باوجود نہ اُٹھی.آپ نے فرمایا کہ اسے خدا تعالیٰ نے بٹھا دیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مشیت یہی ہے کہ ہم آگے نہ جائیں گے.مسلمانوں کی آمد دیکھ کر کفار نے بھی اپنا لشکر جمع کرنا شروع کیا کیونکہ وہ یہ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ مسلمان طواف کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے آدمیوں کی انتظار میں تھے کہ آئیں تو شائد کوئی سمجھوتہ ہو جائے.ان کی طرف سے مختلف نمائندے آئے اور آخر کا ر صلح کا فیصلہ ہوا.شرائط صلح میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ مسلمان اس وقت واپس چلے جائیں.وہ سمجھتے تھے کہ اگر اب انہوں نے طواف کر لیا تو ہمارے پر سٹیج (PRESTIGE) میں فرق آئے گا اس لئے انہوں نے یہی شرط پیش کی کہ اب کے واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر طواف کرلیں.دوسری شرط یہ ہوئی کہ اگر کوئی کا فر مسلمان ہوکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ جائے تو آپ اسے واپس کر دیں گے لیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر مکہ والوں کے پاس جانا چاہے تو اسے اس کی اجازت ہو گی.بظاہر یہ شرطیں بڑی کمزور شرطیں تھیں اور پھر جس وقت آپ نے اس شرط کو منظور کر لیا اُسی وقت ایک مسلمان جس کے ہاتھوں اور پاؤں میں کڑیاں اور بیڑیاں پڑی تھیں، جس کا تمام جسم لہولہان تھا نہایت تکلیف سے لڑھکتا اور گر تا پڑتا وہاں پہنچا اور عرض کیا يَا رَسُولَ اللهِ ! میرا حال دیکھئے میں مسلمان ہوں اور میرے رشتہ داروں نے اس طرح مجھے بیڑیاں پہنائی ہوئی ہیں اور مجھے شدید تکالیف پہنچا رہے ہیں.آج کفار لڑائی کیلئے تیار ہوئے تو میرا پہرہ ذرا کمزور ہوا اور میں موقع پا کر نکل بھاگا

Page 173

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۹ جلد سوم اور اس حالت میں یہاں پہنچا ہوں.صحابہ کو اُس کی حالت دیکھ کر اتنا جوش تھا کہ وہ آپے سے باہر ہورہے تھے.لیکن اہل مکہ کی طرف سے جو شخص سفیر ہو کر آیا ہوا تھا اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر کہا کہ ہمیں آپ سے غداری کی امید نہیں.آپ نے وعدہ کیا ہے کہ ہم میں سے اگر کوئی شخص آپ کے پاس آئے تو اسے واپس کر دیں گے اس لئے یہ شخص واپس کیا جائے.اُس وقت اُن ہزاروں آدمیوں کے سامنے جو اپنے گھروں سے جانیں دینے کیلئے نکلے تھے، ان کا ایک بھائی تھا جو مہینوں سے قید تھا ، جس کے ہاتھوں اور پاؤں سے خون کے فوارے پھوٹ رہے تھے اور جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لایا تھا اسے دیکھ کر صحابہ کی تلواریں میانوں سے باہر نکل رہی تھیں اور وہ دلوں میں کہہ رہے تھے کہ ہم سب یہیں ڈھیر ہو جائیں گے مگر اسے واپس نہیں جانے دیں گے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ خدا کے رسول دھو کا نہیں کیا کرتے.ہم نے وعدہ کیا ہے اور اب خواہ ہمارے دلوں کو کتنی تکلیف ہو ، اسے پورا کریں گے اور آپ نے کفار کے نمائندہ سے فرمایا کہ اسے لے جاؤ.جب اس شخص نے دیکھا کہ مجھے واپس کیا جا رہا ہے تو اس نے پھر نہایت مترحمانہ نگاہوں کے ساتھ صحابہؓ کی طرف دیکھا اور کہا تم جانتے ہو مجھے کس طرف دھکیلتے ہو؟ تم مجھے ظالم لوگوں کے قبضہ میں دے رہے ہو؟ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی کو تاب نہ تھی کہ آنکھ اُٹھا سکے اس لئے خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے.ہے لیکن صحابہ کو اس کا رنج اتنا تھا ، اتنا تھا کہ جب صلح نامہ پر دستخط ہو چکے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ اس سال ہمیں عمرہ کا موقع نصیب نہ ہو.جاؤ اور اپنی قربانیوں کو ذبح کر دو.آپ نے یہ فرمایا اور وہ صحابہ جو آپ کے ایک اشارے پر اُٹھ کھڑے ہوتے اور نہایت بے تابی کے ساتھ فرمانبرداری کا اعلیٰ نمونہ دکھانے کی کوشش کرتے تھے ان میں سے ایک بھی نہ اُٹھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے.آپ کے ساتھ اُمہات المؤمنین میں سے ایک بی بی تھیں.آپ نے ان سے کہا کہ آج میں نے وہ نظارہ دیکھا ہے جو نبوت کے ایام میں کبھی نہیں دیکھا تھا.میں نے باہر جا کر صحابہؓ سے کہا کہ اپنی قربانیاں ذبح کرد و مگر

Page 174

خلافة على منهاج النبوة 17.جلد سوم ان میں سے ایک بھی نہیں اُٹھا.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! آپ کسی سے بات ہی نہ کریں.آپ سیدھے جا کر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کر دیں.یہ زجر زبان کی زجر سے بہت سخت تھی اور یہ مشورہ نہایت ہی اچھا تھا.چنانچہ آپ باہر آئے ، نیزہ لیا اور بغیر کسی مدد کے اپنے جانور ذبح کرنے شروع کر دیئے.جو نہی صحابہ نے یہ دیکھا معاً انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ دوڑے، بعض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کیلئے اور بعض اپنی قربانیوں کی طرف.اور ان کی بے تابی اِس قدر بڑھ گئی کہ وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے تلواروں کی نوکوں سے ایک دوسرے کو ہٹاتے تھے..لیکن گو انہوں نے یہ فرمانبرداری دکھائی اور ان کا جوش بھی ٹھنڈا ہوا مگر پوری طرح نہیں ہوا.حضرت عمر جیسا مخلص انسان بھی اپنے جوش کو نہ دبا سکا.آپ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جا کر بیٹھ گئے اور عرض کیا کہ يَارَسُولَ اللهِ! کیا آپ خدا کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم خدا کی کچی جماعت نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہیں.حضرت عمر نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ کو ایک رویا ہوئی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہو کر عمرہ کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ صحیح ہے.اس پر حضرت عمر نے عرض کیا کہ یہ نا کامی پھر کس بات کا نتیجہ ہے؟ ہم ایمان پر ہوتے ہوئے دب گئے اور کفار کا پہلو بھاری رہا اور ہم نے ایسی ایسی شرطیں منظور کر لیں کہ اپنے ایک بھائی کو سخت مصیبت کی حالت میں دیکھا مگر کچھ نہ کر سکے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک مجھے رویا ہوئی تھی مگر کیا میں نے کہا تھا کہ اس سال ہم عمرہ کریں گے؟ میں نے صرف قیاس کیا تھا اور اسی قیاس کی بناء پر آیا اور تم کو معلوم ہے کہ یہ بات شرائط میں ہے کہ ہم اگلے سال عمرہ کریں گے اور خواب پورا ہوگا.پھر اس میں ذلت کی کوئی بات نہیں کہ جو مسلمان ہوا سے واپس کیا جائے اور جو کافر ہوا سے اپنے ہم مذہبوں کے پاس جانے دیا جائے.جس مسلمان کو کفار پکڑ کر رکھیں گے وہ تبلیغ ہی کرے گا اور جو مسلمان مرتد ہو جائے تم بتاؤ ہم نے اُسے رکھ کر کرنا ہی کیا ہے.اس پر حضرت عمر خاموش ہو گئے.ان کا جوش کم ہوا مگر پوری طرح فرو نہیں ہوا.اور پھر وہ اس شخص کے پاس پہنچے جسے اللہ تعالیٰ نے صدیق کہا ہے اور جس کی نبض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبض کے تابع چلتی تھی اور کہا ابوبکر ! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Page 175

خلافة على منهاج النبوة 171 جلد سوم خدا کے رسول ہیں ؟ کیا ہمارا دین سچا ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب نہیں دیکھا تھا کہ ہم عمرہ کر رہے ہیں؟ پھر ہوا کیا ؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا عمر ! کیا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہم ضرور اسی سال عمرہ کریں گے؟ خواب صرف یہی ہے کہ ہم عمرہ کریں گے سوضرور کریں گے.تب حضرت عمرؓ کا دل صاف ہوا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ صداقت جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلی اُسی طرح ابو بکر کی زبان سے بھی نکلی.تو صلح حدیبیہ بڑا بھاری امتحان تھا ، بڑی آزمائش تھی مگر صحابہ نے انتہائی اطاعت کا نمونہ دکھایا.مؤمن کو بعض دفعہ ایسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم انتہائی طور ذلیل کئے جارہے ہیں.پہلوں سے بھی ایسا ہوا اور ضروری ہے کہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہو.محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی غرضیکہ سب انبیاء کی جماعتوں سے ایسا ہوا.حضرت عیسی کی صلیب کا واقعہ کچھ کم نہیں.حضرت عیسی علیہ السلام ہمیشہ یہ وعظ کیا کرتے تھے کہ اپنے کپڑے بیچ کر بھی تلوار میں خرید و مگر جب حکومت نے آپ کو پکڑا تو پطرس جوش میں آیا اور اُس نے لڑنا چاہا مگر حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا پطرس جوش میں مت آ اور خاموش رہ.چنانچہ انجیل میں آتا ہے پطرس نے تلوار جو اس کے پاس تھی کھینچی اور سردار کا ہن کے نوکر پر چلا کر اُس کا داہنا کان اُڑا دیا.یسوع نے پطرس سے کہا تلوار کومیان میں رکھ.جو پیالہ باپ نے مجھ کو دیا کیا میں اسے نہ پیوں کے حضرت موسی کے زمانہ میں بھی کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ ان کی قوم جوش میں لڑنا چاہتی مگر وہ حکم دیتے کہ ٹھہر جاؤ.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کیلئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو گلی طور پر خدا کی تدبیر کے ماتحت کر دیں.مگر وہ مردہ نہیں ہوتے ان کے اندر جوش اور اخلاص ہوتا ہے.وہ قربانی کیلئے تیار رہتے ہیں مگر قربانی کرنے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف دیکھتے ہیں.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اذن ہو اور جس رنگ میں ہو وہ اُسی وقت اور اُسی رنگ میں قربانی کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی فوقیت اور عظمت کی بڑی علامت فرمانبرداری اور اطاعت کا ایسا نمونہ ہی ہوتا ہے جو دوسری قوموں میں نظر نہیں آتا.جو چیز دوسروں کی نگاہ

Page 176

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۲ جلد سوم میں ذلت ہو وہ ان کی نگاہ میں عزت ہوتی ہے.جو دوسروں کو عزت نظر آئے وہ اسے ذلت سمجھتے ہیں.لوگ عزت اس میں سمجھتے ہیں کہ اپنے نفس کا غصہ نکال لیں اور مومن اس میں کہ خدا تعالیٰ کا حکم پورا ہو، نفس کا غصہ بے شک نہ نکلے.جب کوئی شخص ایسا ہو جائے تو اس کیلئے اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتے نازل کرتا ہے جو اُس کی مدد کرتے ہیں اور یہی کامیابی کا ذریعہ ہے.تم سوچو تو سہی کیا ہماری اتنی طاقت ہے کہ ساری دنیا کو فتح کر سکیں.ہمیں تو جو کامیابی ہوگی فرشتوں کے ذریعہ سے ہوگی اور یہ اُسی وقت ہوتا ہے جب مومن اپنے نفسوں پر قابو رکھیں اور دل میں اس کیلئے بالکل تیار رہیں کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی اپنے نفسوں کو قربان کر دیں گے مگر اپنے ہاتھوں اور زبانوں کو قابو میں رکھیں گے اور کوئی بات ایسی نہ کریں گے جو خلاف شریعت اور خلاف آداب ہو.شریعت وہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ہے اور آداب وہ ہیں جو خلفاء کی زبان سے نکلیں.پس ضروری ہے کہ آپ لوگ ایک طرف تو شریعت کا احترام قائم کریں اور دوسری طرف خلفاء کا ادب و احترام قائم کریں اور یہی چیز ہے جو مومنوں کو کامیاب کرتی ہے.تمہارے دل پتھر کے ہوں گے اگر وہ ان معجزات سے متاثر نہیں ہوتے جو خدا تعالیٰ نے گزشتہ پچاس سال میں جماعت کیلئے ظاہر کئے ہیں.میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر وہ نشانات جمادات پر ظاہر ہوں تو درختوں پر اور پتھروں پر اور لوہے پر اور لکڑی پر بھی ان کا اثر ضرور ہو اور تم تو انسان ہو.غور تو کرو تم نے کتنے نشان دیکھے ہیں اور کتنی وحیوں ، کشوف اور الہامات کو پورا ہوتے دیکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ، آپ کے خلفاء اور پھر اپنے نفسوں کے ذریعہ تم میں سے بہت ہی کم ہوں گے جنہیں خدا تعالیٰ نے کبھی کوئی سچا خواب نہ دکھایا ہو اور پھر وہ پورا نہ ہوا ہو.تم تو زمین پر اللہ تعالیٰ کا چلتا پھرتا نشان ہو.دنیا کو تم انسان نظر آتے ہو مگر خدا تعالیٰ کی نظر میں تم خدا کا ہاتھ ہو جو دنیا کی طرف بڑھایا گیا.تم خدا تعالیٰ کا دنیا کی طرف ایک چیلنج ہو جس طرح پرانے بادشاہ بکرے چھوڑ دیتے تھے اور وہ علامت ہوتے تھے اس بات کی کہ جو اُن پر ہاتھ اُٹھائے گا وہ گویا با دشاہ کو چیلنج دے گا اور پھر اس بکرے کیلئے ہزاروں لاکھوں انسان تہ تیغ ہو جاتے تھے.اسی طرح تم خدا کے بڑے ہو.

Page 177

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۳ جلد سوم خدا تعالیٰ نے دنیا میں تم کو چھوڑا اور کہا ہے کہ یہ میری نشانیاں ہیں.جو ان پر ہاتھ اُٹھائے گا وہ مجھ پر ہاتھ اُٹھانے والا سمجھا جائے گا.پس تم کو خدا تعالیٰ نے اپنی طاقت کی آزمائش کیلئے بھیجا ہے نہ کہ تمہاری طاقت کے اظہار کیلئے.ذرا سوچو کہ بکرے کی کیا طاقت ہوتی ہے.اگر وہ خود سینگ مارنے لگے تو لوگ اُس پر ہنسی کریں گے.لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ اُس بکرے کے پیچھے بادشاہ کی طاقت ہے اور جس طرح بادشاہ کا بکرا اپنے سینگ مار کر اپنی ہلاکت خریدتا ہے اسی طرح تمہارا حال ہے.کیا تم کو خدا تعالیٰ پر یقین نہیں کہ تم اپنی تدبیروں سے کامیابی کی کوشش کرو.جو لوگ کامیابی اپنی تدبیروں سے سمجھتے ہیں وہ سوچیں تو سہی کہ ہماری طاقت کیا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمارے ذریعہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے.پس تم اُسی کی طاقت پر بھروسہ رکھو اور اپنی تدبیروں کو دماغ سے نکال دو.مومن وہ ہے جو ہر ابتلاء سے بچتا ہے اور جسے دنیا کی کوئی طاقت اپنی طرف نہیں پھیر سکتی.موجودہ فتنہ جو ہے اس گند کے دو ہی نتیجے ہو سکتے ہیں.جن لوگوں کے دلوں میں ایمان اور تقویٰ ہے اُن پر تو اس کا کچھ اثر ہو نہیں سکتا اور ایسے لوگوں کو کیا صدمہ ہوسکتا ہے اور جن پر اثر ہوتا ہے وہ ازلی را ندے ہوئے لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ سلسلہ سے الگ کر دے اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو کون بچا سکتا ہے.انہیں تو نہ میں بچا سکتا ہوں اور نہ تم نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچا سکتے تھے اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.جس کے دل پر موت وارد کرنے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرلے اسے کون بچا سکتا ہے.ہدایت دینا اور پھر ابتلاؤں سے بچانا اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے.ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے ایمانوں کو مضبوط بنالیں اور ایسے مقام پر کھڑے ہوں کہ اس کے فضل سے ہمارے ایمان پر کوئی چھاپہ نہ مار سکے.جب کوئی شخص اپنے ایمان کو حملہ سے بچا لیتا ہے تو پھر فرشتے خود بخود اُس کی حفاظت کرتے ہیں.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ میں پندرہ سولہ سال کا تھا جب اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا که إِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ یعنی میں تیرے متبعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا.یہ الہام اُس وقت کا ہے جب مجھے نہ خلافت کا

Page 178

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۴ جلد سوم پتہ تھا اور نہ اس کا کوئی وہم و گمان ہو سکتا تھا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا الہام ہے جسے حضور نے خود اپنے ہاتھ سے اپنی کاپی میں درج فرمایا.پندرہ سولہ سال کے بچہ کو ان باتوں کا علم ہی کیا ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے وقت میری عمر انیس سال کی تھی اور یہ دو تین سال پہلے کا الہام ہے جبکہ میری عمر زیادہ سے زیادہ سترہ سال کی ہو گی.اُس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ کبھی میرے متبع ہوں گے اور پھر میرے منکر بھی ہوں گے.پھر اگر متبع ہوں تو منکروں کا ہونا تو ضروری نہیں ہوتا.حضرت خلیفہ اول کی بیعت سب نے کر لی تھی صرف دو تین آدمی رہ گئے تھے مگر وہ بھی کبھی ظاہر نہیں ہوئے.حضور کی وفات کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم نے بیعت نہیں کی تھی مگر لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ بیعت میں شامل ہیں اور ایسا ہی پھر بھی ہو سکتا تھا یعنی اگر میرے متبع ہوتے تو منکر نہ ہوتے.پھر میری خلافت کے خلاف تو حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں ہی ایجی ٹیشن شروع ہو گئی تھی.اُس وقت جو لوگ صاحب کا ر اور صاحب تدبیر تھے وہ ہمیشہ میرے خلاف جماعت کو اُکساتے رہتے تھے اور پھر دوسری طرف حضرت خلیفہ اول کو مجھ سے بدظن کرنے کی کوششیں کرتے رہتے تھے.وہ جماعت کو تو کہتے تھے کہ یہ غلو کرتا ہے، کفر و اسلام کا مسئلہ چھیڑ کر جماعت کو تباہ کرنا چاہتا ہے اور حضرت خلیفہ اول کو عجیب تدبیروں سے مجھ سے ناراض کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے.یہ دو ہی ذریعے میری خلافت کے ممکن تھے یعنی یا تو جماعت منتخب کرتی اور یا پھر حضرت خلیفہ اول نامزد کرتے.اور یہ لوگ دونوں رستے بند کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے.حضرت خلیفہ اول جب پہلی بار بیمار ہوئے تو آپ نے اپنی وصیت میں تحریر فرما دیا تھا کہ میرے بعد محمود خلیفہ ہو مگر بعد میں مخالفتوں کو دیکھ کر آ وہ وصیت پھاڑ دی.معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ خیال کیا کہ اگر میں نے یہ لکھ دیا تو مخالفت کر نیوالے اسے میرا بنایا ہوا خلیفہ کہیں گے اور خلافت کا امر مشتبہ ہو جائے گا ، اللہ تعالیٰ جسے چا ہے بنا دے.حضرت خلیفہ اول کو مجھ سے جس رنگ میں بدظن کرنے کی کوشش کی جاتی تھی میں اس کی ایک مثال سناتا ہوں.حضرت خلیفہ اول اُس کمرہ میں رہا کرتے تھے جہاں اب

Page 179

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۵ جلد سوم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ آ کر ٹھہرتے ہیں یعنی مسجد مبارک کے ساتھ جو کمرہ ہے.ایک روز قریشی امیر احمد صاحب مجھے گھر پر بلانے آئے اور کہا کہ حضرت خلیفہ اسی بلاتے ہیں.میں گیا تو اُس وقت وہاں شیخ رحمت اللہ صاحب ، مرزا الیعقوب بیگ صاحب ، ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور غالباً مولوی صدر الدین صاحب بیٹھے تھے.جب میں دروازہ میں پہنچا تو دیکھا ان کے چہروں کے رنگ اُڑے ہوئے ہیں.میں گھبرایا کہ خدا خیر کرے.میں نے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہا اور مجھے یاد نہیں حضرت خلیفہ اول نے جواب دیا یا نہیں اور فرمایا میاں ! تم بھی اب ہمارے خلاف منصوبوں میں شامل ہوتے ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں میں تو کسی ایسے منصوبہ میں شامل نہیں ہوا؟ آپ نے فرمایا یہ لوگ بیٹھے ہیں میں نے ایک مکان کے متعلق کہا تھا کہ وہ فلاں شخص کو دے دیا جائے اور ان لوگوں نے میرے خلاف فیصلہ کیا ہے اور میرے پوچھنے پر کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے.میں نے کہا یہ بالکل خلاف واقعہ امر ہے.اِن لوگوں نے یہ معاملہ پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ شخص کم قیمت دیتا ہے.میں نے کہا حضرت خلیفہ اول کا منشاء ہے کہ اسی کو دیا جائے.اس پر ڈاکٹر محمد حسین صاحب نے کہا کہ ہم لوگوں کو تقویٰ سے کام لینا چاہئے.ہم لوگ ٹرسٹی ہیں اور جماعت کے اموال کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعتمادی بنایا ہے دین کیلئے ہمیں جہاں سے زیادہ رقم ملے لے لینی چاہئے.میں نے کہا کہ حضرت خلیفتہ امسیح سے زیادہ تقویٰ کا خیال کون رکھ سکتا ہے.اگر ان کے نزدیک کم قیمت پر اس شخص کو دے دینا ضروری ہے تو میرے نزدیک یہی تقویٰ ہے.مگر یہ کہنے لگے کہ حضرت خلیفہ اسیح نے اجازت دے دی ہے.میں نے کہا کہ ان کی تحریر دکھائیں.اس پر انہوں نے آپ کی ایک تحریر دکھائی جس میں لکھا تھا کہ میں نے وہ مشورہ دیا تھا جو میرے نزدیک صحیح تھا لیکن اب میں وہ مشورہ واپس لیتا ہوں جس طرح چا ہو کر و.یہ دیکھ کر میں نے کہا یہ اجازت تو نہیں نا راضگی کی تحریر ہے اس لئے اگر آپ لوگوں کا پہلے ارادہ بھی کسی اور کو دینے کا تھا تو اب رُک جانا چاہئے.لیکن اس کے جواب میں انہوں نے پھر کہا کہ تقویٰ سے کام لینا چاہئے اور میں یہ کہہ کر کہ میرے نزدیک تقوی وہی ہے جو حضرت خلیفہ اسیح پسند کرتے ہیں خاموش ہو گیا.حضرت خلیفہ اول نے ان سے

Page 180

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم پوچھا کہ یہ بات ٹھیک ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ٹھیک تو ہے مگر انہوں نے منع بھی نہیں کیا.اس پر حضرت خلیفہ اول جوش میں آگئے اور فرمایا کہ تم لوگ مجھے اس پر ناراض کرنے کی کوشش کرتے ہو!.یہ بڑی عمر کا تھا یا تم ! اس نے کہ دیا کہ اطاعت کرو اور کیا کرتا تم لوگوں کے ہاتھ پکڑ لیتا !! غرض حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کو مجھ سے بدظن کرنے کی جو تذا بیر بھی ممکن تھیں یہ لوگ انہیں اختیار کرتے رہتے تھے مگر خدا کی مشیت نے پورا ہوکر رہنا تھا.انسانوں نے سارا زور لگایا اور خلافت کے جتنے دروازے ان کے نزدیک تھے وہ مجھ پر بند کرنے کی کوشش کرتے رہے.حالانکہ میرے تو ذہن میں بھی کبھی خلافت کا خیال نہ آیا تھا بلکہ اگر کوئی کبھی مجھ سے اس کے متعلق کوئی ذکر بھی کرتا تو میں اسے روک دیتا اور کہتا کہ یہ جائز نہیں.ابھی حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے ایک حلفی بیان شائع کرایا ہے جس میں لکھا ہے کہ ” حضرت خلیفہ اول بیمار تھے اور مجھے گوجرانوالہ ایک مباحثہ پر جانے کا حکم ہوا.مولوی محمد علی صاحب مجھے ملے تو کہنے لگے حافظ صاحب ! آپ سفر پر جاتے ہیں اور مولوی صاحب بیمار ہیں.خلیفہ بنانے میں جلدی نہ کرنا.میں نے یہ بات حضرت مرزا محمود احمد صاحب کے سامنے پیش کی کہ آپ کا کیا خیال ہے؟ تو آپ نے فرمایا حافظ صاحب ! اگر مولوی محمد علی صاحب کو اللہ تعالیٰ خلیفہ بنادے تو میں اپنے تمام متعلقین کے ساتھ ان کی بیعت کرلوں گا“.تو میں آگے آنا نہیں چاہا تھا ، میں پیچھے ہٹتا تھا مگر خدا کے ہاتھ نے مجھے پکڑا اور کہا کہ جب ہم کام لینا چاہتے ہیں تو تو پیچھے رہنے والا کون ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کر دیا.اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم خوش نہیں ہیں مگر میں کہتا ہوں تمہاری خوشی کا سوال ہی کیا ہے.اگر تم خوش نہیں ہو تو جاؤ اُس سے لڑو جس نے مجھے خلیفہ بنایا ہے.اگر تم میں کچھ طاقت اور زور ہے تو اُس کے پاس جاؤ اور اس سے اُس تائید اور نصرت کو بند کرا دو جو مجھے مل رہی ہے.مگر میں ہرایسے شخص کو بتا دیتا ہوں کہ اسے سوائے ناکامی و نامرادی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا.یہ سلسلہ خدا کا سلسلہ ہے اور خدا کے سلسلوں پر کوئی غالب نہیں آ سکتا.آج بے شک تم اتنے لوگ میرے ساتھ ہو مگر اُس وقت کون تھا جب خدا تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا.بے شک

Page 181

خلافة على منهاج النبوة 172 جلد سوم قادیان کے اکثر لوگوں نے بیعت کر لی تھی لیکن باہر کی بہت سی جماعتیں مترڈ تھیں.بڑے بڑے کا رکن سب مخالف تھے ، خزانہ خالی تھا اور مخالفت کا دریا تھا جو اُمڈا ہوا چلا آ رہا تھا.کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ اُس وقت میں اس کی نصرت سے کامیاب ہوا.اُس وقت خدا ہی تھا جو میری تائید کیلئے آیا اور اسی نے دوسرے دن مجھ سے وہ ٹریکٹ نکلوایا کہ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے اور جہاں جہاں یہ ٹریکٹ پہنچا جس طرح حسنین کی لڑائی کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ آواز بلند کرائی گئی کہ اے انصار ! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے اور صحابہ بیتاب ہو کر اُس آواز کی طرف بھاگے بلکہ جن کے گھوڑے نہیں مڑتے تھے انہوں نے اُن کی گردنیں کاٹ دیں اور پیدل دوڑے ہے اسی طرح جب میری آواز باہر پہنچی مترڈ د جماعتوں کے دل صاف ہو گئے اور تاروں اور خطوں کے ذریعہ بیعت کرنے لگیں.وہی خدا جو اُس وقت فوجوں کے ساتھ تائید کرنے آیا آج میری مدد پر ہے اور اگر آج تم خلافت کی اطاعت کے نکتہ کو سمجھ لو تو تمہاری مدد کو بھی آئے گا.نصرت ہمیشہ اطاعت سے ملتی ہے.جب تک خلافت قائم رہے نظامی اطاعت پر اور جب خلافت مٹ جائے انفرادی اطاعت پر ایمان کی بنیاد ہوتی ہے.پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خواہ تم کتنے عقلمند اور مد بر ہو، اپنی تدابیر اور عقلوں پر چل کر دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.جب تک تمہاری عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت نہ ہوں اور تم امام کے پیچھے پیچھے نہ چلو ہرگز اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تم حاصل نہیں کر سکتے.پس اگر تم خدا تعالیٰ کی نصرت چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ اس کا کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ تمہارا اٹھنا بیٹھنا ، کھڑا ہونا اور چلنا ، تمہارا بولنا اور خاموش ہونا میرے ماتحت ہو.بیشک میں نبی نہیں ہوں لیکن میں نبوت کے قدموں پر اور اس جگہ پر کھڑا ہوں.ہر وہ شخص جو میری اطاعت سے باہر ہوتا ہے وہ یقیناً نبی کی اطاعت سے باہر جاتا ہے.جو میرا جوا اپنی گردن سے اُتارتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جواً اُتارتا ہے.اور جو اِن کا جواُ اُتارتا ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اُ اُتارتا ہے.اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جواُ اُتارتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا جواً اُتارتا ہے.میں بے شک انسان ہوں خدا نہیں

Page 182

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۸ جلد سوم ہوں مگر میں یہ کہنے سے نہیں رہ سکتا کہ میری اطاعت اور فرمانبرداری میں خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے.مجھے جو بات کہنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے میں اسے چھپا نہیں سکتا.مجھے اپنی بڑائی بیان کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اس وقت تک اس شرم کی وجہ سے رُکا رہا ہوں لیکن آخر خدا تعالیٰ کے حکم کو بیان کرنا ہی پڑتا ہے.میں انسانوں سے کام لینے کا عادی نہیں ہوں.تم بائیس سال سے مجھے دیکھ رہے ہو اور تم میں سے ہر ایک اس امر کی گواہی دے گا کہ ذاتی طور پر کسی سے کام لینے کا میں عادی نہیں ہوں.حالانکہ اگر میں ذاتی طور پر بھی کام لیتا تو میرا حق تھا مگر میں ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہوں کہ خود دوسروں کو فائدہ پہنچاؤں مگر خود کسی کا ممنونِ احسان نہ ہوں.خلفاء کا تعلق ماں باپ سے بھی زیادہ ہوتا ہے.تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس سے اس کے ماں باپ نے خدمات نہ لی ہوں گی.مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کسی سے ذاتی فائدہ اٹھانے یا خدمات لینے کی میں نے کوشش کی ہو.میرے پاس بعض لوگ آتے ہیں کہ ہم تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں ، آپ اپنی پسند کی چیز بتا دیں مگر میں خاموش ہو جاتا ہوں.آج تک ہزاروں نے مجھ سے یہ سوال کیا ہوگا مگر ایک بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس کا جواب دیا ہو.میرا تعلق خدا تعالیٰ سے ایسا ہے کہ وہ خود میری دستگیری کرتا ہے اور میرے تمام کام خود کرتا ہے.بندے کا کام خدا تعالیٰ کا امتحان لینا نہیں مگر میں نے کئی دفعہ ابراہیم کی طرح جوشِ محبت میں خدا تعالیٰ سے اُس کی قدرتوں کے دیکھنے کی خواہش کی ہے اور اس نے میری خواہش پوری کی ہے.ایک دفعہ میں ایک سفر پر تھا اور ایسے علاقہ سے گزر رہا تھا جہاں کوئی احمدی نہ تھا.غالبا نشانات کا ذکر تھا میں نے اُس وقت اللہ تعالیٰ سے کہا کہ مجھے اپنے نشان کے طور پر ایک روپیہ دلوادیں.اب یہ بات تو بالکل عقل کے خلاف تھی کہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی مجھے ایک روپیہ دے دیتا.اور اُس وقت یہ ذکر ہو رہا تھا کہ اس علاقہ میں کوئی احمدی نہیں اور لوگ شدید مخالف ہیں.مگر ادھر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا اور اُدھر سامنے ایک گاؤں کے لوگ کھڑے نظر آئے اور ہمارے کسی ساتھی نے کہا کہ اس گاؤں میں سے نہیں گزرنا چاہئے یہ لوگ سخت مخالف ہیں اور نمبر دار کئی دفعہ کہہ چکا ہے کہ یہاں اگر کوئی

Page 183

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۹ جلد سوم احمدی آیا تو اُسے جوتے مرواؤں گا اس لئے اس گاؤں سے ہٹ کر چلنا چاہئے.مگر ہم اس قدر قریب پہنچ چکے تھے کہ اور کوئی رستہ ہی نہ تھا ، اس لئے چلتے گئے.ہمیں دیکھ کر وہ نمبردار آگے بڑھا.میرے ساتھی میرے ارد گرد ہو گئے کہ ایسا نہ ہو حملہ کر دے.مگر اُس نے بڑھ کر سلام کیا اور ایک روپیا اپنی ہتھیلی پر رکھ کر بطور نذرانہ پیش کیا.میں مسکرا پڑا اور وہ دوست گاؤں سے باہر نکل کر اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کرنے لگے.ایک نے کہا اس کا روپیہ لینا نہیں چاہئے تھا.میں نے کہا اسی کا تو لینا چاہئے تھا.اسے کیا معلوم تھا کہ وہ روپیہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندہ کے ناز کو پورا کرنے کی علامت تھا.تو اللہ تعالیٰ کا معاملہ مجھ سے ایسا ہے کہ اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا.بیسیوں مرتبہ میں نے اپنی آمد اور اخراجات کا حساب کیا ہے تو اخراجات آمد سے ہمیشہ دو گنا ہوئے ہیں اور پھر پتہ نہیں وہ کس طرح پورے ہوتے ہیں.پھر حساب کے معاملہ میں میں اس قدر محتاط ہوں کہ میں چیلنج کرتا رہتا ہوں کہ جو چاہے میرے حساب کو دیکھ لے.پچھلے دنوں ایک شخص کے اعتراضات کے جواب میں میں نے جو خطبہ پڑھا تو ایک غیر مبائع کا خط آیا کہ میں نے آپ کا خطبہ پڑھا ہے میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ کے حسابات ہمارے حسابات سے زیادہ صاف ہیں.ہم پر اعتراض ہو سکتے ہیں مگر آپ پر نہیں.مگر آخر میں یہ بھی لکھ دیا کہ تین سال سے جو فلاں شخص پیدا ہوا ہے شاید اس سے ڈر کر یہ حساب رکھے گئے ہیں.میں نے اسے لکھا کہ تین سال سے نہیں بلکہ ۲۲ سال سے ہی ایسے ہیں جب سے میں خلیفہ ہوا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کو اپنے ساتھ دیکھ کر میں کسی انسان پر کوئی امید نہیں رکھ سکتا.کئی لوگ کہتے ہیں کہ موٹر رکھا ہوا ہے.نادان نہیں جانتے کہ موٹر تو جلدی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا ذریعہ ہے.موٹر کی قیمت عرب کے گھوڑے کے برا بر ہی ہوتی ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی گھوڑے رکھتے تھے.پھر گاڑی بھی تو سواری کا ذریعہ ہے.اگر موٹر سادگی کے خلاف ہے تو پھر گاڑی میں بھی سفر نہیں کرنا چاہئے.کامل سادگی اسی میں ہے کہ پیدل چلا جائے.میرا موٹر تو بہت سارا دینی کاموں کے کام آتا ہے.سلسلہ کے جو مہمان یہاں آتے ہیں ان کے سواری کے کام یہی آتا ہے.پھر سلسلہ کے کاموں

Page 184

خلافة على منهاج النبوة 12 • جلد سوم لا ہور وغیرہ جانا پڑے تو اسی پر چلے جاتے ہیں.اگر سلسلہ موٹر خریدتا اور میں اسے استعمال کرتا تب بھی کوئی اعتراض کی بات نہ تھی.اگر وائسرائے گاڑی میں سفر کرے یا ہوائی جہاز پر کرے تو کیا حکومت اس کا انتظام کرتی ہے یا نہیں ؟ اس کیلئے سواری کا انتظام حکومت کے ہی ذمہ ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ پھرے گا نہیں تو کام کیسے کرے گا.اس لئے اگر سلسلہ کی طرف سے خرید کردہ موٹر کو میں استعمال کرتا تو بھی کوئی اعتراض کی بات نہ تھی.لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ میرے روپے سے خریدا گیا اور سلسلہ کے کام آتا ہے یہ ایک قابلِ تعریف بات تھی لیکن نا دان اس پر بھی اعتراض کرتے ہیں.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ سید عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ ایک ایک ہزار دینار کا لباس پہنا کرتے تھے.کسی نے اس پر اعتراض کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ نادان نہیں جانتا کہ میں اُس وقت تک کوئی کپڑا پہنتا ہی نہیں ہوں جب تک خدا تعالیٰ مجھے نہیں کہتا کہ اے عبد القادر ! تجھے میری ہی قسم کہ یہ کپڑا پہن.اور میں نہیں کھاتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے نہیں کہتا کہ عبد القادر! تجھے میری ہی قسم کھا.اور تم کو یاد ہوگا کہ ۱۹۳۳ء کی عید الفطر کے خطبہ کے موقع پر میں نے اپنا ایک رؤیا سنایا تھا.میں نے دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم ہے میں اس میں بیٹھا ہوں اور ایک دو غیر احمدی بھی میرے پاس بیٹھے ہیں.کچھ لوگ مجھے دبا ر ہے ہیں.ان میں سے ایک شخص جو سامنے کی طرف بیٹھا تھا اُس نے آہستہ آہستہ میرا ازار بند پکڑ کر گرہ کھولنی چاہی.میں نے سمجھا اس کا ہاتھ اتفاقا لگا ہے اور میں نے ازار بند پکڑ کر اُس کی جگہ پر اٹکا دیا.پھر دوبارہ اُس نے ایسی ہی حرکت کی اور میں نے پھر یہی سمجھا کہ اتفاقیہ اُس سے ایسا ہوا ہے.تیسری دفعہ پھر اُس نے ایسا ہی کیا تب مجھے اُس کی بد نیتی کے متعلق شبہ ہوا اور میں نے اسے روکا نہیں جب تک کہ میں نے دیکھ نہ لیا کہ وہ بالا رادہ ایسا کر رہا ہے تا جب میں کھڑا ہوں تو ننگا ہو جاؤں اور لوگوں میں میری سبکی ہو.تب میں نے اُسے ڈانٹا اور کہا تو جانتا نہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے عبد القادر بنایا ہے ( یہ خواب جیسا کہ ظاہر ہے موجودہ فتنہ پر بوضاحت دلالت کرتا ہے ).پس میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بالکل سید عبد القادر جیلانی والا ہے.وہ میرے لئے اپنی

Page 185

خلافة على منهاج النبوة 121 جلد سوم قدرتیں دکھاتا ہے مگر نادان نہیں سمجھتا.یہ زمانہ چونکہ بہت شُبہات کا ہے اس لئے میں تو اس قدر احتیاط کرتا ہوں کہ دوسروں سے زیادہ ہی قربانی کروں.پس یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کو دیکھتے ہوئے میں انسانوں پر انحصار نہیں کر سکتا اور تم بھی یہ نصرت اس طرح حاصل کر سکتے ہو کہ اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ.اور ایسا کرنے میں صرف خلیفہ کی اطاعت کا ثواب نہیں بلکہ موعود خلیفہ کی اطاعت کا ثواب تمہیں ملے گا.اور اگر تم کامل طور پر اطاعت کرو تو مشکلات کے بادل اُڑ جائیں گے، تمہارے دشمن زیرہ ہو جائیں گے اور فرشتے آسمان سے تمہارے لئے ترقی والی نئی زمین اور تمہاری عظمت و سطوت والا نیا آسمان پیدا کریں گے.لیکن شرط یہی ہے کہ کامل فرمانبرداری کرو.جب تم سے مشورہ مانگا جائے مشورہ دور نہ چپ رہو ، ادب کا مقام یہی ہے.لیکن اگر تم مشورہ دینے کے لئے بیتاب ہو بغیر پوچھے بھی دے دونگر عمل وہی کرو جس کی تمہیں ہدایت دی جائے.ہاں صحیح اطلاعات دینا ہر مومن کا فرض ہے اور اس کیلئے پوچھنے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے.باقی رہا عمل اس کے بارہ میں تمہارا فرض صرف یہی ہے کہ خلیفہ کے ہاتھ اور اُس کے ہتھیار بن جاؤ تب ہی برکت حاصل کر سکو گے اور تب ہی کامیابی نصیب ہوگی.اللہ تعالیٰ تم کو اس کی توفیق بخشے (خطبات محمود دجلد ۱۸ صفحه ۳۶۶ تا ۳۸۰) ے بخارى كتاب الجهاد باب يقاتل من وراء الامام صفحه ۴۸۹ حدیث نمبر ۲۹۵۷ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية النور : ۵۶ بخاری کتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد صفحه ۴۴۷ حدیث نمبر ۲۷۳۲٬۲۷۳ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانی صفحه ۱۱۱۲ ۱۱۳ از یر عنوان مجىء ابى بصير الى المدينة ، مطبوعہ دمشق ۲۰۰۵ء ۱،۵ بخاری کتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد صفحه ۴۴۷ تا ۴۵۰ حدیث نمبر ۲۷۳۲٬۲۷۳۱ مطبوعه رياض ١٩٩٩ ء الطبعة الثانية کے یوحنا باب ۱۸ آیت ۱۰، ۱۱ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانی صفحه ۱۲۴۰ از یر عنوان "رجوع الناس بنداء العباس) مطبوعہ دمشق ۲۰۰۵ء 66 66

Page 186

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۲ جلد سوم دنیا انبیاء اور خلفاء کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ کے ءاور نور کا مشاہدہ کرتی ہے فرموده ۱۷ ستمبر ۱۹۳۷ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.گزشتہ اتوار کی رات میں نے ایک عجیب رویا دیکھا.میں نے دیکھا کہ ایک بڑا جلسہ گاہ ہے مگر اس رنگ کا نہیں جیسا کہ ہمارا جلسہ گاہ ہوا کرتا ہے بلکہ جیسا کہ تاریخوں میں ہم پڑھتے ہیں کہ روم میں بڑے بڑے قومی اجتماعوں کیلئے ایمی تھیٹر (AMPHI THEATRE) بنائے جایا کرتے تھے اسی رنگ کا وہ جلسہ گاہ ہے.یعنی جو خطیب ہے اُس کے سامنے مربع یا مستطیل شکل میں جلسہ گاہ نہیں بلکہ ہلالی شکل میں ہے.جس طرح گھوڑے کا نعل بیچ میں سے خالی ہوتا اور قریباً نصف دائرہ یا اس سے کچھ زیادہ بنتا ہے اسی طرح ایک وسیع میدان میں جو نصف میل یا میل کے قریب ہے اس طرح پینچ لگے ہوئے ہیں.جس طرح پہلے دن کا چاند ہوتا ہے ایک گول دائرہ ہے جو دور فاصلہ سے شروع ہو کر دونوں کناروں سے آگے بڑھنا شروع ہوتا ہے.اور جس طرح چاند کی ایک طرف خالی نظر آتی ہے اسی طرح ایک طرف اس دائرہ کی خالی ہے اور وہاں لیکچرار یا خطیب کی جگہ ہے.اس وسیع میدان میں کہ لوگوں کی شکلیں بھی اچھی طرح پہچانی نہیں جاسکتیں بہت سے لوگ لیکچر سننے کیلئے بیٹھے ہیں اور جو درمیانی جگہ خطیب کی ہے جہاں چاند کے دونوں کو نے ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں وہاں میں کھڑا ہوں اور اس وسیع مجمع کے سامنے ایک تقریر کر رہا ہوں.وہ وں.وہ تقریر

Page 187

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۳ جلد سوم الوہیت، نبوت اور خلافت کے متعلق اور ان کے باہمی تعلقات کی نسبت ہے.گو یوں بھی میری آواز خدا تعالیٰ کے فضل سے جب صحت ہو تو بہت بلند ہوتی ہے اور دور دور سنائی دیتی ہے لیکن وہ دائرہ اتنا وسیع ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھ سے دُگنی آواز والا شخص بھی اپنی آواز اُن لوگوں تک نہیں پہنچا سکتا.مگر رویا میں میری آواز اتنی بلند ہو جاتی ہے کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ اس وسیع دائرہ کے تمام سروں تک میری آواز پہنچ رہی ہے.اسی ضمن میں میں مختلف آیات قرآنیہ سے اپنے مضمون کو واضح کرتا ہوں اور بعض دفعہ تقریر کرتے کرتے میری آواز اتنی بلند ہو جاتی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے سروں تک پہنچ رہی ہے.جب میں اپنی تقریر کے آخری حصہ تک پہنچتا ہوں تو اُس وقت میری حالت اس قسم کی ہو جاتی ہے جس طرح کوئی شخص جذب کی حالت میں آجاتا ہے.میں نے اُس وقت الوہیت، نبوت اور خلافت کے متعلق ایک مثال بیان کر کے اپنے لیکچر کوختم کیا اور اُس وقت میری آواز میں ایسا جلال پیدا ہو گیا کہ اسی کے اثر سے میری آنکھ کھل گئی.مجھے صرف وہ مثال ہی یاد رہ گئی ہے باقی مضمون بھول گیا ہے.وہ مثال میں نے رویا میں یہ دی تھی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء اور اس کے خلفاء کے تعلق کی مثال چوکٹھے میں لگے ہوئے آئینہ کی ہوتی ہے.آئینہ کا کام تو در حقیقت درمیانی شیشہ دیتا ہے مگر اس شیشہ کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی لگی ہوئی ہوتی ہیں جیسے آئینہ کے پیچھے قلعی ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد چوکٹھا ہوتا ہے.لیکن دراصل جو چیز ہماری شکل ہمیں دکھاتی ہے اور جو چیز ہمارے عیب اور صواب کے متعلق ہماری راہ نمائی کرتی ہے وہ آئینہ ہی ہے.نہ وہ قلعی جو اس کے پیچھے لگی ہوئی ہوتی ہے وہ اپنی ذات میں شکل دکھا سکتی ہے اور نہ وہ چوکٹھا جو اس کے ارد گرد لگا ہوتا ہے وہ ہمارے عیب اور صواب کے متعلق ہمیں کوئی ہدایت دے سکتا ہے.لیکن آئینہ بھی عیب اور صواب ہمیں تبھی بتا تا ہے جب اُس کے پیچھے قلعی کھڑی ہو.اور وہ محفوظ بھی اُسی وقت تک رہتا ہے جب تک وہ چو کٹھے میں لگا رہتا ہے.چنانچہ چوکٹھوں میں لگے ہوئے آئینے لوگ اپنے میزوں پر رکھ لیتے ہیں اور اس طرح وہ ٹوٹنے سے محفوظ رہتے ہیں.مگر جب ہم اس کے چوکٹھے کو اُتار دیں اور اُس کی قلعی کو کھرچ دیں تو آئینہ بلحاظ روشنی کے تو آئینہ ہی رہتا ہے مگر پھر وہ ہماری شکل ہمیں نہیں دکھا تا.

Page 188

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۴ جلد سوم اور اگر دکھاتا ہے تو نہایت دُھندلی سی.جیسے مثلاً ( یہ مثال میں نے رویا میں نہیں دی.صرف سمجھانے کیلئے بیان کر رہا ہوں ) دروازوں میں وہی شیشے لگے ہوئے ہوتے ہیں ، کھڑکیوں میں بھی وہی شیشے لگے ہوئے ہوتے ہیں جو آئینوں میں ہوتے ہیں مگر ان میں سے شکل نظر نہیں آسکتی کیونکہ ان کے پیچھے قلعی نہیں لگی ہوتی.اسی طرح جن شیشوں کے چوکٹھے اُتر جاتے ہیں رویا میں ہی میں کہتا ہوں کہ ان شیشوں کا محفوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے اور وہ ٹوٹ جاتے ہیں.تو آئینہ اپنے اندرونی جو ہر ظاہر کرنے کیلئے ایک ایسی چیز کے آگے کھڑا ہوتا ہے جو اپنی ذات میں تو چہرہ دکھانے والی نہیں مگر جب وہ آئینہ سے مل جاتی ہے تو آئینہ میں شکل نظر آنے لگ جاتی ہے اور وہ قلعی ہے.اسی طرح اس کا چوکٹھا اسے محفوظ رکھتا ہے.تو میں رویا میں یہ مثال دے کر کہتا ہوں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کی مثال ایک آئینہ کی سی ہے اور انسان کی پیدائش کا اصل مقصد اسی کو حاصل کرنا ہے.وہی ہے جو ہمیں علم دیتا ہے ، وہی ہے جو ہمیں عرفان دیتا ہے، وہی ہے جو ہمیں عیب سے آگا ہی بخشتا ہے، وہی ہے جو ہمیں ثواب کی باتوں کا علم دیتا ہے لیکن وہ اپنی قدیم سنت کے مطابق اُس وقت تک دنیا کو عیب اور صواب سے آگا ہی نہیں بخشتا جب تک اُس کے پیچھے قلعی نہیں کھڑی ہو جاتی جو نبوت کی قلعی ہے.یعنی وہ ہمیشہ اپنے وجود کو نبیوں کے ہاتھ سے پیش کرواتا ہے.جب نبی اپنے ہاتھ میں لے کر خدا تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتا ہے تبھی دنیا اُس کو دیکھ سکتی ہے ورنہ نبوت کے بغیر خدا تعالیٰ کی ہستی اتنی مخفی اور اتنی وراء الورا ہوتی ہے کہ انسان صحیح اور یقینی طور پر اس کا اندازہ ہی نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ آسمانوں میں بھی ہے ، اللہ تعالیٰ زمینوں میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ دریاؤں میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ پہاڑوں میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ سمندروں میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ خشکیوں میں بھی ہے.غرض ہر ایک ذرہ ذرہ سے اس کا جلال ظاہر ہو رہا ہے مگر باوجود اس کے کہ دنیا کے ذرہ ذرہ میں اس کا جلال پایا جاتا ہے بغیر انبیاء کے دنیا نے کب اس کو دیکھا.انبیاء ہی ہیں جو خدا تعالیٰ کا وجود دنیا پر ظاہر کرتے ہیں.لیکن انبیاء خدا تعالیٰ کو بناتے تو نہیں ، وہ تو ازل سے موجود ہے پھر وجہ کیا ہے کہ انبیاء کے آنے پر دنیا خدا تعالیٰ کو دیکھنے لگ جاتی ہے اور پہلے نہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ جس طرح آئینہ کے پیچھے

Page 189

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۵ جلد سوم قلعی کا وجود ضروری ہوتا ہے اسی طرح انبیاء کو خدا تعالیٰ نے اپنے ظہور کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.پھر چوکٹھا جو ہوتا ہے وہ آئینہ کی حفاظت کا ذریعہ ہوتا ہے اور وہ بھی نبوت اور خلافت کا مقام ہے یعنی انبیاء اور ان کے خلفاء اللہ تعالیٰ کے وجود کو دنیا میں قائم رکھتے ہیں.خود اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ حی و قیوم ہے لیکن اُس نے اپنی سنت یہی رکھی ہے کہ وہ اپنے وجود کو بعض انسانوں کے ذریعہ قائم رکھے.ان وجودوں کو مٹا دوساتھ ہی خدا تعالیٰ کا ذکر بھی دنیا سے مٹ جائے گا.تم ساری دنیا کی تاریخیں پڑھ جاؤ (اب یہ جو اگلا حصہ ہے یہ خواب کا نہیں بلکہ بطور تشریح میں خود بیان کر رہا ہوں ) تمہیں کہیں یہ نظر نہیں آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کا وجود بغیر انبیاء کے دنیا میں قائم ہوا ہو.حالانکہ انبیاء بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہر وقت موجود ہے اور اُس کا نور ہر چیز سے ظاہر ہے.مگر باوجود اس کے کہ اُس کا نور دنیا کی ہر چیز سے ظاہر ہو رہا ہے پھر بھی انبیاء ہی ہیں جو اسے ایسی طرز پر ظاہر کرتے ہیں کہ لوگ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کیا خدا نہیں تھا ؟ خدا اُس وقت بھی اسی طرح آسمان سے ظاہر ہو رہا تھا ، اسی طرح زمین سے ظاہر ہو رہا تھا ، اسی طرح دریاؤں سے ظاہر ہو رہا تھا ، اسی طرح فضا سے ظاہر ہو رہا تھا ، اسی طرح پاتال سے ظاہر ہو رہا تھا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ظاہر ہوا.پھر پہلے زمانہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فرق کیا تھا ؟ فرق یہی تھا کہ اُس وقت اللہ تعالیٰ کے نور کے ظہور کیلئے کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا.ایک آئینہ تھا مگر اس آئینہ کے ساتھ وہ قلعی نہیں تھی جو اسے روشن کر کے لوگوں کی نظروں کے قابل بنا دیتی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شیشے کو اپنے ہاتھ میں پکڑا تو جس طرح آئینہ کے پیچھے جب قلعی کھڑی کر دی جاتی ہے تو آئینہ کو ایک خاص شکل مل جاتی ہے اور اس میں دوسروں کی بھی شکلیں نظر آنے لگ جاتی ہیں اسی طرح ساری دنیا کو خدا نظر آنے لگ گیا اور اس کے وجود کا اسے احساس ہو گیا اور نہ شیشہ جتنا زیادہ مصفی ہو اتنا ہی لوگوں کو کم نظر آیا کرتا ہے.کئی دفعہ جب اعلیٰ درجہ کے شیشے

Page 190

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم دروازوں سے لگائے جاتے ہیں تو بعض دفعہ لوگ ان دروازوں سے ٹھوکر کھا جاتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ رستہ کھلا ہے حالانکہ وہ آئینہ ہوتا ہے اور رستہ بند ہوتا ہے.رات کے وقت جب کمرہ میں روشنی ہو تو اُس وقت انسان کیلئے یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ منافذ میں شیشہ موجود ہے یا نہیں.بعض دفعہ شیشہ لگا ہوا ہوتا ہے اور انسان اس کے بہت زیادہ مصفے ہونے کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ شیشہ کوئی نہیں.اور بعض دفعہ شیشہ نہیں ہوتا اور وہ خیال کرتا ہے کہ شیشہ ہے.پس شیشہ جتنا زیادہ مصفی ہو اُتنا ہی لوگوں کو کم نظر آتا ہے.مگر انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا وجود جو نہایت ہی مخفی اور وراء الورا ہے اسی طرح لوگوں کو نظر آنے لگ جاتا ہے جس طرح شیشہ کے پیچھے جب قلعی کھڑی کر دی جائے تو وہ شکلیں دکھانے کے قابل ہو جاتا ہے.یہ مضمون ہے جو رڈیا میں میں نے بیان کیا اور اسی مثال پر میری تقر مرختم ہو گئی.میں نے رؤیا میں اس مضمون کے متعلق کئی آیات بھی بیان کیں مگر جاگنے پر وہ ذہن سے اُتر گئی تھیں.اس پر میں نے غور کرنا شروع کیا کہ وہ آیتیں کون سی تھیں جو میں رویا میں اس مضمون کو ثابت کرنے کیلئے پڑھ رہا تھا اور جن سے اس مضمون کا میں نے استدلال کیا.مگر باوجود اس کے کہ میں نے کافی غور کیا مجھے وہ آیتیں سمجھ میں نہ آئیں کیونکہ وہ بھول چکی تھیں.صرف اس تقریر کا آخری حصہ یا د ر ہا تھا جو یہ تھا کہ انبیاء اور خلفاء کی اللہ تعالیٰ سے وابستگی ایسی ہی ہے جیسے شیشے کے ساتھ چو کٹھا ہوتا ہے اور اس کے پیچھے قلعی لگی ہوئی ہوتی ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کو دنیا میں قائم رکھتے ہیں.ان کے ذریعہ خدا ظاہر ہوتا ہے اور انہی کے ذریعہ اس کا وجود عالم میں محفوظ رہتا ہے.غرض میں نے جن جن امور کو رڈیا میں بیان کیا تھا اُن پر میں نے پھر غور کیا مگر مجھے وہ باتیں یاد نہ آئیں.گو ابھی جبکہ میں یہ خطبہ پڑھ رہا ہوں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام یاد آ گیا جس میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے اور جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی تشریح کی ہے.گو الفاظ اس کے اور ہیں مگر مفہوم یہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے جس میں اللہ تعالیٰ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے.يَا قَمَرُ يَا شَمْسُ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ يَا یعنی

Page 191

خلافة على منهاج النبوة 122 جلد سوم اے سورج اور اے چاند ! تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں.اب سورج اور چاند آپس میں ایک خاص نسبت رکھتے ہیں.سورج براہِ راست روشنی ڈالتا ہے لیکن چاند براہِ راست روشنی نہیں ڈالتا بلکہ سورج سے روشنی لے کر دنیا کی طرف پہنچاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں يَاقَمَرُ يَا شَمُسُ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا منگ میں ایک دفعہ خدا نے مجھے سورج قرار دیا ہے اور ایک دفعہ مجھے چاند قرار دیا ہے اور فرماتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ نے مجھے سورج قرار دیا تو اپنے آپ کو چاند قرار دیا ہے اور جب مجھے چاند قرار دیا ہے تو اپنے آپ کو سورج قرار دیا ہے.اب یہ جو بات ہے کہ خدا سورج ہے اور بندہ چاند ، یہ بالکل واضح ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بندہ اسی طرح خدا کے نور سے لیتا اور اسے دنیا میں پھیلاتا ہے جس طرح چاند سورج سے نور لیتا اور اسے دنیا میں پھیلاتا ہے.مگر یہ جو خدا نے فرمایا کہ تو سورج ہے اور خدا کی ذات بمنزلہ چاند ہے یہ بات بظاہر حقیقت سے دور معلوم ہوتی ہے.بھلا بندے کی کیا حقیقت ہے کہ وہ سورج کہلائے اور خدا اس کے مقابلہ میں چاند کہلائے.تو چونکہ یہ بات بظاہر قابل اعتراض نظر آتی تھی اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود دنیا سے مخفی ہوتا ہے اور جب وہ ظاہر ہوتا ہے تو انبیاء کے ذریعہ ہی ظاہر ہوتا ہے.پس چونکہ خدا تعالیٰ کے نور کا ظہور انبیاء کے ذریعہ ہوتا ہے اس لئے دنیا والوں کی نگاہ میں نبی سورج اور خدا چاند ہوتا ہے.کیونکہ جب نبی آتا ہے تب ہی خدا کا چہرہ انہیں نظر آنے لگتا ہے.اس سے پہلے وہ پوشیدہ ہوتا ہے.پس گو حقیقتا خدا ہی سورج ہے اور بندہ چاند ہے مگر دنیا والے جن کی نگاہیں کمزور ہوتی ہیں اور جو نبی کے ذریعہ خدا کے جلال اور اس کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں ان کے لحاظ سے نبی سورج اور خدا چاند ہوتا ہے.جیسے سورج کی روشنی جب چاند پر پڑے تب وہ چمکتا ہے نہ پڑے تو چاند تاریک رہتا ہے اسی طرح جب تک نبی کا وجود خدا تعالیٰ کو ظاہر نہ کرے وہ مخفی رہتا ہے مگر جب نبوت کی روشنی الوہیت پر پڑتی ہے تو خدا کا وجود ہر ایک کو نظر آنے لگ جاتا ہے.پس دنیا کے حالات کے مطابق تمثیلی زبان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بندہ سورج ہے اور

Page 192

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۸ جلد سوم خدا چاند.یہ بھی ویسی ہی مثال ہے جیسی میں نے رویا میں دی اور اس سے بھی یہی امرظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی روشنی اور اس کے جلال کو ظاہر کرنے کا ذریعہ انبیاء و خلفاء اور اولیاء وصلحاء ہوتے ہیں.زمین و آسمان سے خدا کا وجود حق الیقین کے طور پر ثابت نہیں ہوسکتا.جیسے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر مفصل بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کر کے انسان جس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس زمین و آسمان کا کوئی خالق ہونا چاہئے.مگر یہ کہ وہ ہے اس کا پتہ زمین و آسمان سے نہیں لگتا.گویا یہ نتیجہ صرف سکنے سے تعلق رکھتا ہے، ہے سے نہیں.یعنی یہ تو ہوسکتا ہے کہ انسان اس عالم کی صنعتوں پر نظر کر کے صانع کی ضرورت محسوس کرے مگر ضرورت کا محسوس کرنا اور ھے ہے اور اس درجہ عین الیقین تک پہنچنا کہ جس خدا کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے وہ در حقیقت موجود بھی ہے یہ اور بات ہے.اسی لئے آپ نے بتایا کہ جتنے فلسفی عقلی ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو معلوم کرنا چاہتے ہیں وہ ٹھو کر کھاتے اور بالآخر دہر یہ بن جاتے ہیں اور زمین و آسمان کی مصنوعات پر غور کرنا انہیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.کیونکہ اس غور وفکر کا نتیجہ صرف اس حد تک نکلتا ہے کہ خدا کا وجود ہونا چاہئے.یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ خدا کا وجود ہے.آپ فرماتے ہیں جب وہ زمین کو دیکھتے ہیں تو اسے دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کا کوئی پیدا کرنے والا ہونا چاہئے.جب وہ آسمان کو دیکھتے ہیں تب بھی وہ یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کا کوئی پیدا کرنے والا ہونا چاہئے.مگر یہ وہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ پیدا کرنے والا یقینی طور پر موجود ہے اور اس طرح پھر بھی شبہ رہ جاتا ہے اور انسان خیال کرتا ہے کہ ممکن ہے کوئی مخفی قانون ایسا ہو جس کے ماتحت یہ کارخانہ عالم آپ ہی آپ چل رہا ہو.جس طرح آجکل کے فلسفی کہتے ہیں کہ اس دنیا کی پیدائش میں خود ہی ایک ایسا قانون مخفی ہے جس کی وجہ سے یہ تمام دنیا چل رہی ہے، کسی خاص وجود کو تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں.غرض آپ نے اس بات پر بحث کی اور یہ ثابت فرمایا ہے کہ فلسفہ اور عقلِ انسانی خدا تعالیٰ کے متعلق انسان کو ہونا چاہئے کی حد تک ہی رکھتے ہیں مگر الہام الہی نبوت کے ذریعہ ” ہے‘ ثابت کرتا ہے.ہم جب زمین کو دیکھتے ہیں ، ہم جب آسمان کو دیکھتے ہیں تو انہیں دیکھ کر یہ کہتے ہیں

Page 193

خلافة على منهاج النبوة وو جلد سوم کہ ان کو بنانے والا کوئی ہونا چاہئے اور ہماری دلیل ختم ہو جاتی ہے.مگر جب خدا ہمیں مخاطب کرتا اور فرماتا ہے انى انا اللہ یقیناً میں ہی خدا ہوں تو یہ اب ” ہے “ بن گیا اور ہونا چاہئے کی حد سے اس نے ہمیں نکال دیا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی گھر میں آگ جل رہی ہو ، چولہے پر ہنڈیا چڑھی ہوئی ہو ، ہنڈیا کے اُبلنے کی آواز آرہی ہو تو ہم باہر سے اس آواز کوسُن کر یہ نتیجہ نکالیں کہ اس گھر کا کوئی مالک ہونا چاہئے کیونکہ ہم غور اور فکر کرنے کے بعد فورا اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ کوئی شخص ہوگا جو یہ ہنڈ یا پکا رہا ہوگا ، کوئی شخص ہوگا جس نے آگ جلائی ہوگی اور کوئی شخص ہو گا جو گوشت وغیرہ لایا ہو گا مگر اس قدر نتائج نکالنے کے بعد بھی ہم اسی حد تک پہنچیں گے کہ گھر کا کوئی مالک اندر ہونا چاہئے.اس نتیجہ پر ہم نہیں پہنچ سکتے کہ وہ شخص اندر ہے بھی.ممکن ہے کوئی کہے اس سے زیادہ وضاحت اور کیا ہو سکتی ہے.جب آگ جل رہی ہے، ہنڈیا چولہے پر چڑھی ہے ، اس کے اُبلنے اور جوش کھانے کی آواز آ رہی ہے تو اس سے ہم یہ نتیجہ کیوں نہیں نکال سکتے کہ اندر واقعہ میں کوئی شخص موجود ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان تمام قرائن کے باوجود ہم یقینی طور پر یہ ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ اندر کوئی مالک موجود ہے.فرض کرو اندر واقعہ میں کوئی شخص ہو اور اس نے ہنڈیا چولہے پر چڑھائی ہو مگر ہنڈیا چو لہے پر رکھتے ہی وہ مر گیا ہو اور ہم یہ سمجھتے ہوں کہ اندر وہ موجود ہے حالانکہ وہ مر چکا ہو.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی بیٹھے بیٹھے دل کی حرکت بند ہو جاتی ہے اور وہ اُسی وقت مر جاتے ہیں.پس ممکن ہے وہ دل کی حرکت بند ہو جانے کی وجہ سے مرا پڑا ہو.یا ممکن ہے اسے کسی سانپ نے کاٹا ہو اور وہ مر چکا ہو.یا بعض دفعہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہنڈیا رکھنے کے بعد ا سے کوئی ضروری کام یاد آ گیا ہو اور وہ گھر چھوڑ کر اُس وقت باہر گیا ہوا ہو.مثلاً فرض کرو اُس نے ہنڈیا چڑھائی ہوا اور اس کے معا بعد ایک شخص اس کے پاس دوڑتا ہوا آیا ہو اور اس نے کہا ہو کہ تمہارا بیٹا ڈوب گیا ہے اور وہ اسی وقت اس کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا ہو اور ہنڈیا اس نے چولہے پر ہی رہنے دی ہو.تو چونکہ ایسی کئی صورتیں ممکن ہیں اس لئے باوجود ہنڈیا کی آواز سننے کے اور باوجو د آگ کو جلتا دیکھنے کے ہم اگر یہ نتیجہ نکالیں کہ اندر کوئی شخص واقعہ میں موجود ہے تو ہم اس نتیجہ کے نکالنے میں غلطی پر

Page 194

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۰ جلد سوم ہو سکتے ہیں.مگر جب حالات یہ نہ ہوں بلکہ جونہی ہم کسی کے دروازہ پر پہنچیں گھر کا مالک ر سے باہر نکل آئے اور ہمیں کہے کہ آپ مسافر ہیں، تھکے ماندے آئے ہیں ، تھوڑی دیر میرے پاس آرام کیجئے تو اس شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہم ”ہونا چاہئے“ کی حد سے نکل کر ” ہے کی حد میں داخل ہو جاتے ہیں.تو نبوت اور الہام سے خدا کا وجود ہے شکل میں ظاہر ہوتا ہے لیکن باقی دلیلوں سے ہم اس کے متعلق صرف ہونا چاہئے کی حد تک پہنچتے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام بھی اسی مضمون کی تائید کرتا ہے مگر یہ خیال بھی مجھے اسی وقت آیا ہے پہلے نہیں آیا.بہر حال رؤیا سے بیداری کے بعد میں غور کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ اس مضمون پر میں نے اور کیا کیا باتیں بیان کی تھیں مگر مجھے کوئی بات یاد نہ آئی.لیکن اس رؤیا کا اثر میری طبیعت پر گہرا رہا اور کئی دفعہ مجھے یہ خیال آیا کہ وہ کون سی آیات تھیں جو رویا میں میں نے پڑھیں اور جن میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے مگر قرآن کریم کی کوئی آیت میرے ذہن میں نہ آئی.اس کے دوسرے یا تیسرے دن یعنی پیر یا منگل کو مجھے اب یہ اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ کونسا دن تھا بہر حال ان میں سے کسی دن نماز ظہر یا عصر ( یہ بھی مجھے صحیح طور پر یاد نہیں ) میں پڑھا رہا تھا اور اُس وقت مجھے خواب کا خیال بھی نہیں تھا.گویا اُس وقت وہ میرے ذہن سے بالکل اُتری ہوئی تھی کہ جب میں نے رکوع کے بعد قیام کیا اور پھر سجدہ میں جانے کیلئے اللہ اکبر کہا تو جس وقت اوپر سے نیچے سجدہ کی طرف جانے لگا تو معا القاء کے طور پر میرے دل پر ایک آیت نازل ہوئی اور مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ آیت ہے جو اس مضمون کی حامل ہے جو خواب میں بتایا گیا ہے.اور پھر بجلی کی طرح اس طرح وہ وسیع مضمون میرے سامنے آگیا کہ اس کی وجہ سے نہ صرف وہ آیت بلکہ سورۃ کی سورۃ ہی حل ہو گئی.اور اس کی ترتیب جو میں پہلے سمجھتا تھا اس کے علاوہ ایک ایسی ترتیب مجھ پر کھول دی گئی کہ مجھے یوں معلوم ہونے لگا کہ اس سورۃ میں ہر آیت اس طرح پروئی ہوئی ہے جس طرح ہار کے موتی پروئے ہوئے ہوتے ہیں اور کوئی آیت اس سورۃ میں ایسی نہ رہی جس کے متعلق یہ شبہ ہو سکے کہ اس کا پہلی آیتوں یا بعد کی آیتوں سے کیا تعلق ہے.وہ سورۃ جس کی طرف میرا ذہن منتقل کیا گیا سورہ نور ہے اور وہ

Page 195

خلافة على منهاج النبوة IAL جلد سوم آیت جس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ اس میں الوہیت ، نبوت اور خلافت کے تعلقات پر بحث کی گئی ہے اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ہے.قرآن کریم کی تفہیم کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ میرے ساتھ کئی دفعہ ہوا ہے کہ ایک سیکنڈ میں بعض دفعہ ایک وسیع مضمون القاء کیا جاتا ہے اور الہام کے طور پر وہ میرے دل پر ایک نکتہ کی شکل میں نازل کیا جاتا ہے.پھر وہ نکتہ نازل ہو کر یوں پھیل جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے بیسیوں مطالب میرے دل پر حاوی ہو جاتے ہیں اسی طرح اُس دن میرے ساتھ ہوا.پہلے بھی اپنی بعض تقریروں میں میں ایسے نکات بیان کر چکا ہوں مثلاً الم نشرح لك صدرك " کی تفسیر اور اس کے مطالب ایک سیکنڈ کے اندر میرے دل پر نازل ہوئے تھے اور میں نے کسی جلسہ سالانہ کے موقع پر انہیں بیان کر دیا تھا.اسی طرح اور کئی مواقع پر اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا.اُس دن بھی نماز میں معا مجھے القاء کیا گیا کہ وہ آیت الله نور السموت والارض ہے اور اس کے ساتھ ایسے عظیم الشان مطالب کھولے گئے جو پہلے میرے وہم اور گمان میں بھی نہیں تھے.اگر چہ اس سارے مفہوم کو سمجھنے کیلئے اس ساری سورۃ کو ہی سمجھنا ضروری ہے.کیونکہ ساری سورۃ کے مطالب کو آپس میں اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کہ ایک بات کی تکمیل دوسری بات کے بغیر نہیں ہوسکتی.مگر چونکہ خطبہ میں اتنی لمبی تشریح نہیں کی جاسکتی اس لئے میں صرف اس آیت کو لے لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ یہ مضمون کس عمدگی کے ساتھ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الله نور السمواتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشكوة فِيهَا مِصْبَاحُ الْمِصْبَاحُ في ط زجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لا شرقيّةٍ ولا غَرْبِيَّةٍ ، يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيّ : وَلَوْلَمْ تَمْسَسْهُ نَارُ نُورُ عَلَى نُورِ يَهْدِى الله لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ، وَ يَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ، وَاللَّهُ بِكُلّ شَيْءٍ عَلِيمُ في بُيُوتِ اذن الله آنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ ، يُسَبِّحُ لَهُ فيها بالغدر والا صَالِ رِجَالُ ، لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةً وَلَا بَيْمُ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وإقام الصلوة وإيتَاءِ الزَّكوة يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ

Page 196

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۲ جلد سوم وَالْأَبْصَارُ اليَجْزِيَهُمُ الله اَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِّن فَضْلِهِ، وَ اللهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ ٣ یہ آیتیں سورہ نور کی ہیں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خلافت، نبوت اور اللہ تعالیٰ کا تعلق بیان کیا ہے اور یہ بات میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے قطعی اور یقینی دلائل سے ثابت کروں گا کہ وہ شخص جو قرآن کریم کو بے ترتیب، بے ربط اور بے جوڑ کتاب نہ کہتا ہو وہ اس بات پر مجبور ہوگا کہ اس مضمون کو مانے جو میں بیان کر رہا ہوں.کیونکہ اس مضمون سے ان تمام آیات بلکہ تمام سورۃ کا آپس میں ایسا ربط قائم ہو جاتا ہے کہ اس کے بغیر ان آیات کے کوئی معنے ہی نہیں بنتے.مگر جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ اس مضمون کو خطبہ کی وجہ سے اختصار کے ساتھ بیان کروں گا اور چونکہ ان دنوں خلافت کا مسئلہ خصوصیت سے زیر بحث ہے اس لئے ان آیات کی تشریح سے خلافت کا مسئلہ بھی آسانی سے سمجھ میں آجائے گا.اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ آسمان اور زمین کا نور ہے.معلُ نُور اور اس کے نور کی مثال گمشکوۃ ایک طاقچے کی سی ہے.مشکوہ اُس طاقچے دو کو کہتے ہیں جو دیوار میں بنا ہوا ہو اور جس کے دوسری طرف سوراخ نہ ہو.دیوار میں طرح کے طاق بنائے جاتے ہیں.ایک کھڑ کی کی طرح کا ہوتا ہے یعنی اُس کے آر پارسوراخ ہوتا ہے کیونکہ کھڑکی کی غرض باہر دیکھنا ہوتی ہے.یا مثلاً روشندان رکھنے کیلئے طاقچہ کی طرح خلاء رکھا جاتا ہے.اس کے بھی آر پار سوراخ ہوتا ہے کیونکہ روشندان سے یہ غرض ہوتی ہے کہ ہوا اور روشنی کی آمد ورفت رہے.مگر پرانی عمارتوں خصوصاً مساجد میں اس قسم کے طاقچے بنائے جایا کرتے تھے جن میں چراغ یا قرآن شریف رکھے جاتے تھے اور جن کے دوسری طرف سوراخ نہیں ہوتا تھا.اس مسجد میں بھی بعض طاقچے بنے ہوئے ہیں بعض تو بڑے بڑے ہیں جو قرآن شریف رکھنے کیلئے ہیں اور ایک دو چھوٹے طاقچے ہیں جو لیمپ رکھنے کیلئے بنائے گئے ہیں.میں نے شاہی عمارتوں میں بھی دیکھا ہے کہ ان میں چھوٹے چھوٹے طاقچے بنے ہوئے ہیں جو دراصل دیا رکھنے کے لئے بنائے جایا کرتے تھے.تو مشکلو ۃ اُس طاقچہ کو کہتے ہیں کہ جس کے دوسری طرف سوراخ نہیں ہوتا اور وہ لیمپ رکھنے کے کام آتا ہے.تو فرماتا

Page 197

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۳ جلد سوم ہے اللہ تعالیٰ کے نور کی مثال کیا ہے؟ گمشکوۃ اُس کے نور کی مثال ایک طاقچے کی سی ہے.فيها مصباح.جس میں ایک بنتی رکھی ہوئی ہو.المصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ.اور وہ بنی ایک شیشہ یا چمنی میں ہو.الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَب دري اور وہ چمنی یا گلوب ایسے اعلیٰ درجہ کے شیشے کا بنا ہوا ہو اور ایسا روشن ہو کہ گویا وہ ایک ستارہ ہے جو چمک رہا ہے.اس کے بعد تُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُبرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ میں اس کی تفصیل بتائی ہے.مگر ابھی میں اس کی تفصیل کی طرف نہیں جاتا اور جو مضمون کا اصل حصہ ہے وہ میں بیان کرتا ہوں.اس موقع پر حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا کسی دوست کے پاس ٹارچ ہے؟ مگر ٹارچ نہ ملی.اس کے بعد فرمایا ).ان آیات میں در حقیقت اللہ تعالیٰ کے نور کو تین چیزوں میں محصور قرار دیا گیا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کمال نور ہمیشہ تین ذرائع سے ہوتا ہے.ایک مشکوۃ سے، ایک مصباح سے اور ایک زجاجہ سے.یہ مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے دی اور بتایا کہ ہمارا نور جو دنیا میں کامل طور پر ظاہر ہوا اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک طاقچہ میں ایک بنی ہوا ور بتی پر گلوب یا چمنی ہوا ور وہ گلوب اتنا روشن ہو کہ گویا وہ ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے.ہمارے ملک میں چونکہ عام طور پر اس قسم کے لیمپوں کا رواج نہیں اس لئے میں نے چاہا تھا کہ ٹارچ کے ذریعہ آپ لوگوں کو یہ مضمون سمجھاؤں کیونکہ ٹارچ میں یہ تینوں چیزیں پائی جاتی ہیں.اور یہ عجیب بات ہے کہ قرآن مجید با وجودیکہ ایسے زمانہ میں نازل ہوا جبکہ سائنس ابھی کمال کو نہیں پہنچی تھی اور ایسے ملک میں نازل ہوا جہاں کے لوگ بدو سمجھے جاتے تھے اور تہذیب و تمدن سے نا آشنا تھے اور ایسے انسان پر نازل ہوا جو اُمّی تھا پھر بھی روشنی کے کمال کو جس عجیب طرز سے ان آیات میں بیان کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بیسویں صدی کا انجینئر روشنی کی حقیقت بیان کر رہا ہے.مشکوۃ جس طرح اُس طاقچے کو کہتے ہیں جو دیوار میں بنایا جاتا ہے اور جس کے دوسری طرف سوراخ نہیں ہوتا اسی طرح مصباح اُس شعلہ کو کہتے ہیں جو بتی میں سے نکلتا ہے یا بلب کی وہ تاریں سمجھ لو جن سے بجلی کی روشنی پیدا ہوتی ہے بشرطیکہ وہ روشن ہوں.مصباح کے معنے دراصل '' صبح کر دینے کا آلہ کے ہیں اور اس لحاظ سے وہ ہر ,,

Page 198

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۴ جلد سوم چیز جس سے روشنی ہوتی ہوا سے مصباح کہا جاتا ہے اور وہ چونکہ بتی کا گل ہی ہوتا ہے یا بجلی کی وہ تاریں ہوتی ہیں جو بلب کے اندر ہوتی ہیں اور چمکتی ہیں اس لئے عربی زبان میں انہیں مصباح کہتے ہیں.گویا وہ شعلہ جو آگ لگنے کے بعد بتی میں سے نکلتا ہے یا بجلی کی وہ تار جہاں بجلی پہنچتی ہے تو وہ یکدم روشن ہو جاتا ہے وہ مصباح ہیں.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے نور کی مثال ایک طاقچہ کی سی ہے جس میں ایک بتی جل رہی ہو اور پھر وہ بتی ایک زجاجہ میں ہو.اب تو قادیان میں بجلی آگئی ہے اور لوگوں کا ایک حصہ بجلی جلاتا ہے لیکن پھر بھی اکثر گھروں میں ابھی بجلی نہیں لگی اور وہ لیمپ جلاتے ہیں اور جن کے ہاں بجلی لگی ہوئی ہے ان کی بجلی کی رو بھی جس دن فیل ہو جائے اُس دن اُنہیں لیمپ جلانے پڑتے ہیں.یا انہیں قادیان سے جب باہر جانا پڑے تو لیمپ دیکھنے اور جلانے کا انہیں اکثر موقع ملتا رہتا ہے.بہر حال یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہری نین (HURRICANE LAMP) روشن کرنے کیلئے جب کوئی شخص دیا سلائی جلاتا اور بتی کو لگاتا ہے تو اُس وقت بتی کی روشنی کی کیا حالت ہوتی ہے.ایک زرد سا شعلہ بتی میں سے نکل رہا ہوتا ہے اور اُس کا دھواں اُٹھ اُٹھ کر کمرہ میں پھیل رہا ہوتا ہے.نازک مزاج اشخاص کے دماغ میں وہ دُھواں چڑھتا ہے تو انہیں چھینکیں آنے لگ جاتی ہیں ، بعض کو نزلہ ہو جاتا ہے.لیکن جو نہی بتی میں سے دھواں نکلتا اور کمرے میں پھیلنے لگتا ہے انسان جلدی سے چمنی پر ہاتھ مارتا اور ہری کین کا ہینڈل دبا کر اُسے بتی پر چڑھا دیتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُسی وقت دُھواں جاتا رہتا ہے اور اس شعلہ کا رنگ ہی بدل جاتا ہے اور اس کی پہلی روشنی سے بعض دفعہ ہیں گئے ، بعض دفعہ تمیں گنے ، بعض دفعہ پچاس گنے ، بعض دفعہ سو گئے اور بعض دفعہ دو سو گنے تیز روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور تمام کمرہ روشن ہو جاتا ہے.پھر زائد بات اس چمنی یا گلوب سے یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ بھی بجھتی نہیں.تیز بارشوں کے ایام میں رات کے وقت لوگ ہری کین لے کر باہر چلے جاتے ہیں.آندھی آرہی ہوتی ہے ، طوفان اُٹھ رہا ہوتا ہے، چھتیں ہل رہی ہوتی ہیں ، عمارتیں کانپ رہی ہوتی ہیں ، پیر لڑ کھڑا رہے ہوتے ہیں مگر وہ روشنی جو انسان ہاتھ میں اُٹھائے ہوتا ہے نہیں بجھتی کیونکہ اُس کی چمنی اس کے ماحول کو محفوظ کر دیتی ہے.تو چمنی نہ صرف اس کی روشنی کو کئی گنا

Page 199

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۵ جلد سوم زیادہ کر دیتی ہے بلکہ اسے بجھنے سے بھی محفوظ کر دیتی ہے.مگر بعض لیمپ ہری کین سے بھی زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور جو بڑے بڑے لیمپ کمروں کو روشن کرنے کیلئے جلائے جاتے ہیں اُن کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ اُن کی روشنی تیز کرنے کیلئے ان کے پیچھے ایک اس قسم کی چیز لگا دی جاتی ہے جو روشنی کو آگے کی طرف پھینکتی ہے.پرانے زمانوں میں لوگ اس غرض کیلئے لیمپ کو طاقچہ میں رکھ دیا کرتے تھے اور اس زمانہ میں اس کی ایک مثال ٹارچ ہے.ٹارچ پیچھے سے لمبی چلی آتی ہے اور اس کے آگے اس پر ایک نسبتا بڑا خول چڑھا دیتے ہیں جو بلب کے تین طرف دائرہ شکل میں پھیلا ہوا ہوتا ہے.جس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ روشنی کو آگے کی طرف پھیلا دے.اگر اس خول کو اُتار لیا جائے تو ٹارچ کی روشنی دس پندرہ گز تک رہ جاتی ہے.لیکن اس خول کے ساتھ وہی روشنی بعض دفعہ پانچ سو گز ، بعض دفعہ ہزار گز اور بعض دفعہ دو دو ہزار گز تک پھیل جاتی ہے.یہ روشنی کو دور پھینکنے والا جو خول ہوتا ہے اسے انگریزی میں ری فلیکٹر (REFLECTOR) کہتے ہیں.اس ری فلیکٹر کی وجہ سے ٹارچ کی روشنی بعض دفعہ ہزار گز اور بعض دفعہ دو ہزار گز تک چلی جاتی ہے اور بڑی طاقت کے لیمپ تو ری فلیکٹر کی وجہ سے بہت دور دور تک روشنی پہنچا دیتے ہیں.ہمارے مینارۃ المسیح پر جب روشنی کرنے کا سوال پیدا ہوا اور اس پر بحث ہوئی کہ لیمپ کیسے لگائے جائیں تو ری فلیکٹر لگوانے کا سوال زیر بحث آیا اور ماہرین فن نے بتایا کہ پانچ سو طاقت کی اگر یتی لگائی جائے اور اس پر اعلیٰ درجہ کا ری فلیکٹر لگا دیا جائے تو اس سے کئی گنے طاقت تک کی روشنی پیدا ہو سکتی ہے.مگر چونکہ ری فلیکٹر بہت گراں آتے تھے غالباً اسی لئے پھر وہ منگوائے نہیں گئے تو پوری روشنی چمنی کے ذریعہ ہوتی ہے اور پھر اس روشنی کو دور پھینکنے کے لئے اس کے پیچھے ایک ایسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے تین جہت سے روک کر سامنے کی طرف لے جائے.اس طرح روشنی مکمل ہو جاتی ہے اور لوگ اس سے پوری طرح فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ ان آیات میں یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ تین چیزیں ہیں جن سے نور مکمل ہوتا ہے.ان میں سے ایک تو شعلہ ہے جو اصل آگ ہے اور جس کے بغیر کوئی نور ہو ہی نہیں سکتا.روحانی دنیا میں وہ شعلہ اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور چمنی جس سے وہ نور روشن

Page 200

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۶ جلد سوم ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے انبیاء ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے دنیا کے ہر ذرہ سے خدا تعالیٰ کا نور ظاہر ہے مگر وہ نور لوگوں کو نظر نہیں آتا.ہاں جب خدا کا نبی آتا اور اسے اپنے ہاتھ میں لے کر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تب ہر شخص کو وہ نور نظر آنے لگ جاتا ہے.بالکل اسی طرح جس طرح بنتی جب جلائی جائے تو ہوا کا ذرا سا جھونکا بھی اُسے بجھا دیتا ہے.اس میں سے دھواں نکل رہا ہوتا ہے مگر جونہی اس پر شیشہ رکھا جاتا ہے اندھیرا سب دور ہو جاتا ہے، تاریکی سب مٹ جاتی ہے اور وہی نور آنکھوں کے کام آنے لگ جاتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اصل چیز شیشہ ہے اصل چیز تو وہ نور ہی ہے جو بتی میں سے نکل رہا ہوتا ہے.مگر چونکہ وہ نور دھویں کی شکل میں ضائع ہو رہا ہوتا ہے اس لئے لوگ اس سے اُس وقت تک فائدہ نہیں اُٹھا سکتے جب تک اُس پر شیشہ نہیں چڑھایا جاتا.ہاں جب شیشہ چڑھ جاتا ہے تو وہی نور جو پہلے ضائع ہو رہا ہوتا ہے ضائع ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے.پھر چمنی سے مل کر پہلے نور سے ہیں گنے ، سو گنے ، دو سو گئے ، ہزار گنے بلکہ دو ہزار گنے زیادہ تیز ہو جاتا ہے.یہ شیشے اور گلوب دراصل انبیاء کے وجود ہوتے ہیں جو خدا کے اس نور کو جو قدرت میں ہر جگہ پایا جاتا ہے لیتے ہیں اور اپنے گلوب اور چمنی کے نیچے رکھ کر اس کا ہر حصہ انسانوں کے استعمال کے قابل بنادیتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا اس نور کو دیکھنے لگ جاتی ہے اُس کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور وہ اس سے فائدہ حاصل کر نے لگ جاتی ہے.اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی بیان فرمایا ہے.چنانچہ حضرت موسی کے ذکر میں فرماتا ہے کہ حضرت موسی نے اللہ تعالیٰ کے نور کو آگ کی شکل میں دیکھا.وہ فرماتے ہیں ان انست تارا ہے میں نے ایک آگ دیکھی ہے.اس فقرہ سے صاف ظاہر ہے کہ دوسرے لوگ اس آگ کو نہیں دیکھ رہے تھے.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی کے وجود میں ظاہر ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ظہور اس دنیا میں بطور نار کے ہوتا ہے.یعنی کوئی تیز نظر والا ہی اسے دیکھتا ہے.اس کی روشنی تیز نہیں ہوتی لیکن جب وہ نبی میں ظاہر ہوتا ہے تو پھر وہ نور ہو جاتا ہے یعنی لیمپ کی طرح اس کی روشنی تیز ہو جاتی ہے.نبوت میں آکر یہ نو ر مکمل تو ہو جاتا ہے لیکن اس کا زمانہ پھر بھی محدود رہتا ہے.کیونکہ نبی بھی موت کا شکار ہوتے ہیں.

Page 201

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۷ جلد سوم پس اس روشنی کو دُور تک پہنچانے کیلئے اور زیادہ دیر تک قائم رکھنے کیلئے ضروری تھا کہ کوئی اور تدبیر کی جاتی.پس اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے ایک ری فلیکر ایجاد کیا جس کا نام خلافت رکھا.نبی کی روشنی اس ری فلیکٹر کے ذریعہ سے دور تک پہنچا دی جاتی ہے.پرانے زمانہ کے طریق کے مطابق اس کا نام طاق رکھا گیا.جو تین طرف سے روشنی کو روک کر صرف اُس جہت میں ڈالتا ہے جدھر اُس کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح خلیفہ نبی کی قوت قدسیہ کو جو اس کی جماعت میں ظاہر ہو رہی ہوتی ہے ضائع ہونے سے بچا کر ایک خاص پروگرام کے ما تحت استعمال کرتا ہے اور جماعت کی طاقتیں پراگندہ نہیں ہوتیں اور تھوڑی سی طاقت سے بہت سے کام نکل آتے ہیں کیونکہ طاقت کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوتا.اگر خلافت نہ ہوتی تو بعض کا موں پر زیادہ طاقت خرچ ہو جاتی اور بعض کام توجہ کے بغیر رہ جاتے اور تفرقہ اور شقاق کی وجہ سے کسی نظام کے ماتحت جماعت کا رو پیدا اور اس کا علم اور اس کا وقت خرچ نہ ہوتا.غرض خلافت کے ذریعہ سے الہی نور کو جو نبوت کے ذریعہ سے دنیا کے لحاظ سے مکمل ہوا تھا ممتد اور لمبا کر دیا جاتا ہے.چنانچہ محمدی نور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہو گیا بلکہ ابو بکر کی خلافت کے طاقچہ کے ذریعہ اس کی مدت کو تین سال اور بڑھا دیا گیا.پھر حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد وہی نور خلافت عمر کے طاق کے اندر رکھ دیا گیا اور سات سال اس کی مدت کو اور بڑھا دیا گیا.پھر وہ نور عثمانی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور تیرہ سال اس کی مدت کو اور بڑھا دیا گیا.پھر حضرت عثمان کی وفات کے بعد وہی نور علوی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور وہ چھ سال اور اس نور کو لے گیا.گویا چھپیں تمہیں سال محمدی نور خلافت کے ذریعہ لمبا ہو گیا.جیسے ٹارچوں کے اندر ری فلیکٹر ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ بلب کی روشنی دور دور تک پھیل جاتی ہے یا چھوٹے چھوٹے ری فلیکر بعض دفعہ تھوڑا سا خم دے کر بنائے جاتے ہیں.جیسے دیوار گیروں کے پیچھے ایک ٹین لگا ہوا ہوتا ہے جو دیوار گیر شے کا ری فلیکٹر کہلاتا ہے اور گو اس کے ذریعہ روشنی اتنی تیز نہیں ہوتی جتنی ٹارچ کے ری فلیکٹر کے ذریعہ تیز ہوتی ہے مگر پھر بھی دیوار گیر کی روشنی اس ری فلیکٹر کی وجہ سے پہلے سے بہت بڑھ

Page 202

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۸ جلد سوم جاتی ہے.چھ چھ آنے کے جو دیوار گیر آتے ہیں ان کے ساتھ بھی یہ ریفلیکٹر لگا ہوا ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ دیوار گیر کی روشنی زیادہ دور تک جاتی ہے.اسی طرح خلافت وہ ری فلیکٹر ہے جو نبوت اور الوہیت کے نور کو لمبا کر دیتا اور اسے دور دور تک پھیلا دیتا ہے.پس مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خلافت ، نبوت اور الوہیت کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہمارے نور کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بتی کا شعلہ.وہ ایک نور ہے جو دنیا کے ہر ذرہ سے ظاہر ہو رہا ہے مگر جب تک وہ نبوت کے شیشہ میں نہ آئے لوگ اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.جیسے نیچر پر غور کر کے اللہ تعالیٰ کی ہستی معلوم کرنے کا شوق رکھنے والے ہمیشہ ٹھوکر کھاتے اور نقصان اُٹھاتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لايت أولي الألباب ل بالكل درست ہے.اور زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی آیات پائی جاتی ہیں مگر یہی خلق السموت والارض یورپ کے فلاسفروں کو دہریہ بنا رہی ہے.گویا خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْض میں اللہ تعالیٰ کا جو نور ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بتی کا شعلہ.یہ شعلہ جب نکلتا ہے تو اس کے ساتھ دُھواں بھی اُٹھتا ہے جو بعض دفعہ نزلہ پیدا کر دیتا اور آنکھوں کو خراب کرتا ہے.وہ دُھواں تب ہی دور ہوتا ہے جب اس پر چمنی یا گلوب رکھ کر اسے روشنی کی صورت میں تبدیل کر دیا جائے.اگر اس کے بغیر کوئی اس شعلہ سے نور کا کام لینا چاہئے تو اسے ضرور کچھ نور ملے گا اور کچھ دُھواں، جو اس کی آنکھوں اور ناک کو تکلیف دے گا.چنانچہ اسی وجہ سے جو شخص نیچر پر غور کر کے خدا تعالی کو پانا چاہتا ہے تو وہ کئی ٹھوکر میں کھاتا ہے اور بعض دفعہ بجائے خدا تعالیٰ کو پانے کے دہر یہ ہی ہو جاتا ہے.مگر جو شخص خدا تعالیٰ کے وجود کو نبوت کی چمنی کی مدد سے دیکھنا چاہتا ہے اس کی آنکھیں اور اس کا ناک دھویں کے ضرر سے بالکل محفوظ رہتے ہیں اور وہ ایک نہایت لطیف اور خوش کن روشنی پاتا ہے جوسب کثافتوں سے پاک ہوتی ہے.غرض کا ئنات عالم پر غور کر کے خدا تعالیٰ کے وجود کو پانے والوں کیلئے خدا تعالیٰ نے کچھ ابتلا ءر کھے ہیں، کچھ شکوک رکھے ہیں، کچھ شبہات رکھے ہیں تا وہ مجبور ہو کر نبوت کی چمنی

Page 203

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۹ جلد سوم اس نور پر رکھیں.چنانچہ جب بھی الہی نور پر نبوت کی چمنی رکھی جائے اس نور کی حالت یکدم بدل جاتی ہے اور یا تو وہ بو دینے والا دھواں نظر آ رہا تھا اور یا یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نور ہی نور ہے اور اس میں دُھویں کا نشان تک نہیں.پھر جب اس روشنی کو اُٹھا کر ہم طاقچہ میں رکھ دیتے ہیں تو پہلے سے بہت دور دور اس کی روشنی پھیل جاتی ہے.غرض یہ آیت ہے جو مجھے بتائی گئی اور مجھے سمجھایا گیا کہ اس میں الوہیت ، نبوت اور خلافت کا جوڑ بتایا گیا ہے.اگر کوئی کہے کہ آخر خلافت بھی تو ختم ہو جاتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خلافت کا ختم ہونا یا نہ ہونا تو انسانوں کے اختیار میں ہے.اگر وہ پاک رہیں اور خلافت کی بے قدری نہ کریں تو یہ طاقچہ سینکڑوں ہزاروں سال تک قائم رہ کر ان کی طاقت کو بڑھانے کا موجب ہو سکتا ہے.اور اگر وہ خود ہی اس انعام کو ر ڈ کر دیں تو اس کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے.اللہ نور السموت والارض والی آیت کا مضمون مختصر ابتانے کے بعد میں اب یہ بتا تا ہوں کہ کس طرح یہ تمام سورۃ اسی ایک مضمون کے ذکر سے بھری ہوئی ہے اور اس کی کوئی آیت ایسی نہیں جس میں اسی مضمون کے مختلف پہلوؤں کو بیان نہ کیا گیا ہو.اس سورۃ نور کو اللہ تعالیٰ نے بد کاری اور بدکاری کے الزامات لگانے والوں کے ذکر سے شروع کیا ہے اور اس کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام لگا تھا اُس کا ذکر کرتا ہے.پھر اور بہت سی باتیں اسی کے ساتھ تعلق رکھنے والی بیان کرتا ہے اور مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ انہیں ایسے مواقع پر کن کن باتوں پر عمل کرنا چاہئے.پھر وہ ذرائع بیان کرتا ہے جن پر عمل کرنے سے بدکاری دنیا سے مٹ سکتی ہے.ہے.یہ تمام مضامین اللہ تعالیٰ نے پہلے دوسرے اور تیسرے رکوع میں بیان کئے ہیں.چنانچہ دیکھ لو پہلا رکوع ان آیات سے شروع ہوتا ہے سُورَةُ الزِّلْنَهَا وَفَرَضْنَهَا وَانْزَلْنَا فيها ايك بيّنتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ الزَّانِيَةُ والزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلّ وَاحِدٍ مِّنْهُما مائة جلدة کے یہ مضمون چلتا چلا جاتا ہے.پھر آگے فرماتا ہے والَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِارْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُ وَهُمْ تمنين جلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوالَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا، وأوليك هُمُ الفسقُونَ زنا کا

Page 204

خلافة على منهاج النبوة الزام ۱۹۰ جلد سوم لگانے والوں کا ذکر اور ان کی سزا کا بیان کیا ان کی سزا کا بیان کیا ہے.پھر فرماتا ہے إلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذلِكَ وَاصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ تِّ حِيم ن اس کے بعد و الَّذِينَ يَرْمُونَ ازْوَاجَهُمُ ا میں ان لوگوں کا ذکر کیا جو اپنی بیویوں پر بدکاری کا الزام لگاتے ہیں.پھر ان الذين جاءو بالا فكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ " کہہ کر مخصوص طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے والوں کا ذکر کرتا ہے.پھر الزام لگانے کے نقائص بیان فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا ہے لهُمْ عَذاب اليم، في الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَ اللهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ وَلَوْلا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَانَّ اللهَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ یہاں دو رکوع سورة نور کے ختم ہو جاتے ہیں.پھر اسی مضمون کو اگلے رکوع میں بھی جاری رکھتا اور فرماتا يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطي " پھر اس شبہ کا ازالہ کرتا ہے کہ شاید صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانا کوئی اہمیت رکھتا ہے.عام الزام ایسے خطر ناک نہیں ہوتے اور فرماتا ہے ان الذين يرمُونَ الْمُحْصَنَتِ الْغَيْلَتِ الْمُؤْمِنَتِ لعنوا في الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ، وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمُ اس کے بعد چوتھا رکوع شروع ہوتا ہے اور پھر اسی سلسلہ میں مختلف ہدایات دی گئی ہیں کہ ان الزامات کے مراکز کو کس طرح روکنا چاہئے.چنانچہ فرماتا ہے يايها الذين امنوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ ياَيُّهَا الَّذِينَ حتى تستأنسُوا وَ تُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ١٥ اس موقع پر ایک دوست محمد احمد صاحب مالک محمود الیکٹرک سٹور قادیان نے ٹارچ لا کر حضور کی خدمت میں پیش کر دی.اس پر حضور نے ہاتھ سے بتایا کہ اس ٹارچ کے اندر جو بلب ہے اس کی باریک تاریں مصباح ہیں اور وہ گول شیشہ جس میں بلب رکھا جاتا ہے وہ زجاجہ ہے اور اس کا بیرونی دائرہ طاقچه یاری فلیکٹر ہے جو روشنی کو لمبا کر کے آگے کی طرف پھینکتا ہے.گویا تیرہ سو سال ترقی کرنے کے باوجود سائنس روشنی کے متعلق اسی مقام پر آکر ۱۵ ٹھہری ہے جو قرآن کریم نے بتایا تھا اس سے آگے نہیں بڑھی ).پھر اسی رکوع میں اللہ تعالیٰ بدی سے محفوظ رہنے کے ذرائع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا

Page 205

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۱ جلد سوم بے قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ.پھر شادیوں کا ذکر کرتا ہے اور اس پر چوتھا رکوع ختم ہو جاتا ہے.گویا پہلے رکوع سے لے کر چوتھے رکوع تک سب میں ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے.کسی جگہ الزام لگانے والوں کے متعلق سزا کا ذکر ہے، کسی جگہ الزامات کی تحقیق کے طریق کا ذکر ہے، کسی جگہ شرعی ثبوت لانے کا ذکر ہے، کسی جگہ ایسے الزامات لگنے کی وجوہ کا ذکر ہے، کسی جگہ اُن دروازوں کا ذکر ہے جن سے گناہ پیدا ہوتا ہے.غرض تمام آیتوں میں ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے مگر اس کے معا بعد فرماتا ہے اللہ نور السموات والارض کے اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے.اب انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اس کا پہلے رکوعوں سے کیا تعلق ہے؟ ایک ایسا مفسر جو یہ خیال کرتا ہے کہ قرآن کریم میں کوئی ترتیب نہیں وہ بے ربط کلام ہے اس کی آیتیں اسی طرح متفرق مضامین پر مشتمل ہیں جس طرح دانے زمین پر گرائے جائیں تو کوئی کسی جگہ جا پڑتا ہے اور کوئی کسی جگہ وہ تو کہہ دے گا اِس میں کیا حرج ہے.پہلے وہ مضمون بیان کیا گیا تھا اور اب یہ مضمون شروع کر دیا گیا ہے.مگر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے واقف ہے جو جانتا ہے کہ قرآن کریم کا ہر لفظ ایک ترتیب رکھتا ہے وہ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ پہلے تو بدکاری کے الزامات اور ان کو دور کرنے کا ذکر تھا اور اس کے معا بعد یہ ذکر شروع کر دیا گیا ہے کہ الله نور السموت والارض ان دونوں کا آپس میں جوڑ کیا ہوا.پھر انسان اور زیادہ حیران ہو جاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ پانچویں رکوع میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ نُورُ السّموات والارض اور اس سے دور کوع بعد یعنی ساتو میں رکوع میں اللہ تعالیٰ یہ ذکر شروع کر دیتا ہے کہ وعد الله الذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصلحت ليَسْتَخْلِفَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۱۸ که الله تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ بجالائے یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ پہلے زنا کے الزامات کا ذکر ہے.پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگنے کا بیان ہے.پھر ان الزامات کے ازالہ کے طریقوں کا ذکر ہے.پھر

Page 206

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۲ جلد سوم الله نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ذکر آ گیا.اور پھر کہہ دیا کہ میرا یہ وعدہ ہے کہ جو مومن ہوں گے انہیں میں اس اُمت میں اسی طرح خلیفہ بناؤں گا جس طرح پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے دین کو دنیا میں قائم کروں گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دوں گا.وہ میری عبادت کریں گے ، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو شخص ان خلفاء کا منکر ہوگا وہ فاسق ہوگا.پس لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پہلے زنا کے الزامات کا ذکر کیا پھر الله نُورُ السّموت والارض کا ذکر کیا اور پھر خلافت کا ذکر کر دیا.ان تینوں باتوں کا آپس میں جوڑ ہونا چاہئے ورنہ یہ ثابت ہو گا کہ قرآن کریم نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ بے جوڑ باتوں کا مجموعہ ہے اور اس کے مضامین میں ایک عالم اور حکیم والا ربط اور رشتہ نہیں ہے.( اس جگہ ضمنی طور پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں دوسروں پر الزام لگانے والوں کا ذکر ہے وہاں الزام لگانے والوں کے متعلق فرمایا ہے کہ والَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِارْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُ وَهُمْ ثَمُنِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوالَهُمْ شَهَادَةً ابداء واوليكَ هُمُ الفسقُونَ کہ وہ لوگ جو بے گناہ لوگوں پر الزام لگاتے ہیں اور پھر ایک موقع کے چار گواہ نہیں لاتے تو فَاجْلِدُ وَهُمْ لمَنِينَ جَلْدَةً تم ان کو ۸۰ کوڑے مارو.وَلَا تَقْبَلُوالَهُمْ شَهَادَةً اور تم اُن کی موت تک ہمیشہ اُن کو جھوٹا سمجھو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو.اوليك هُمُ الفسقُونَ اور یہی وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے نزدیک فاسق ہیں.پھر اسی سورۃ میں جہاں خلفاء کا ذکر کیا وہاں بھی یہی الفاظ رکھے اور فرمایا وَ مَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأوليكَ هُمُ الفسقون 19 کہ جو شخص خلیفہ کا انکار کرے وہ فاسق ہے.اب جو زنا کا الزام لگانے والوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے الفاظ رکھے تھے اور جو نام ان کا تجویز کیا تھا بعینہ وہی نام خدا تعالیٰ نے خلافت کے منکرین کا رکھا اور قریباً اسی قسم کے الفاظ اس جگہ استعمال کئے.وہاں بھی یہ فرمایا تھا کہ جو لوگ بدکاری کا الزام لگاتے اور پھر چار گواہ ایک موقع کے نہیں لاتے انہیں ۸۰ کوڑے مارو، انہیں ساری عمر جھوٹا سمجھو اور سمجھ لو کہ وادليك هُمُ الفسقُونَ یہی لوگ فاسق ہیں.اور یہاں بھی یہ فرمایا کہ جو شخص خلفاء کا انکار کرتا ہے سمجھ لو کہ وہ فاسق ہے.تو نام دونوں جگہ ایک ہی رکھتا ہے ).

Page 207

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۳ جلد سوم ہے اب میں پھر اصلی مضمون کی طرف لوٹتا ہوں جو یہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم کو ایک حکیم کی کتاب سمجھتا ہے اور اس کے اعلیٰ درجہ کے با ربط اور ہم رشتہ مضمونوں کے کمالات کے دیکھنے کا جسے ذرا بھی موقع ملا ہے وہ اس موقع پر سخت حیران ہوتا ہے کہ کس طرح پہلے بدکاری اور بدکاری کے جھوٹے الزامات لگانے کا ذکر کیا گیا پھر یکدم الله نور السموات والارض کہہ دیا گیا اور پھر خلافت کا ذکر شروع کر دیا گیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں مضمونوں میں ضرور کوئی اعلیٰ درجہ کا جوڑ اور تعلق ہے.اور یہ تینوں مضمون آپس میں مربوط اور ہم رشتہ ہیں.اس شکل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مضمون پر غور کرو جو میں نے اوپر بتایا ہے اور جو یہ ہے کہ الله نور السموات والارض کی آیت میں الوہیت اور نبوت اور خلافت کے تعلق کو بتایا گیا ہے.اس مضمون کو ذہن میں رکھ کر آخری دو مضمونوں کا تعلق پالکل واضح ہو جاتا ہے.کیونکہ اللہ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ والی آیت میں خلافت کا اصولی ذکر تھا اور بتایا گیا تھا کہ خلافت کا وجود بھی نبوت کی طرح ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے جلالِ الہی کے ظہور کے زمانہ کو ممتد کیا جاتا ہے اور الہی نور کو ایک لمبے عرصہ تک دنیا کے فائدہ کیلئے محفوظ کر دیا جاتا ہے.اس مضمون کے معلوم ہونے پر طبعا قرآن کریم پڑھنے والوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہونا تھا کہ خدا کرے ایسی نعمت ہم کو بھی ملے.سو وعد الله الّذینَ آمَنُوا مِنْكُمُ کی آیات میں اس خواہش کے پورا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرما دیا اور بتایا کہ یہ نعمت تم کو بھی اسی طرح ملے گی جس طرح پہلے انبیاء کی جماعتوں کو ملی تھی.غرض میرے بیان کردہ معنوں کے رو سے اللهُ نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ کی آیت اور اس کی متعلقہ آیتوں کا وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهیم کی آیت اور اس کی متعلقہ آیتوں سے ایک ایسا لطیف اور طبعی جوڑ قائم ہو جاتا ہے جو دل کو لذت اور سرور سے بھر دیتا ہے اور ایمان کی زیادتی کا موجب ہوتا ہے اور قرآنی مطالب کی عظمت کا سکہ دلوں میں بٹھا دیتا ہے.لیکن یہ سوال پھر بھی قائم رہتا ہے کہ اس مضمون کا پہلی آیتوں سے کیا تعلق ہوا.

Page 208

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۴ جلد سوم یعنی سورۃ نور کے پانچویں رکوع کا اِس کے نویں رکوع تک تو خلافت سے جوڑ ہوا لیکن جو پہلے چار رکوع ہیں اور جن میں بدکاری اور بدکاری کے الزامات کا ذکر آتا ہے اُن کا اِس ہے.جب تک یہ جوڑ بھی حل نہ ہو اُس وقت تک قرآن کریم کی ترتیب ثابت سے کیا تعلق.نہیں ہو سکتی.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ پہلے چار رکوعوں کا باقی پانچ رکوعوں سے جن میں خلافت کا ذکر آتا ہے کیا تعلق ہے.یہ بات ظاہر ہے کہ پہلے چار رکوعوں میں بدکاری کے الزامات کا ذکر اصل مقصود ہے اور ان میں خصوصاً اس الزام کا رڈ کرنا مقصود ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تھا.اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام لگانے والوں نے الزام لگایا تو اس کی اصل غرض کیا تھی.اس کا سبب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی دشمنی تھی.ایک گھر میں بیٹھی ہوئی عورت سے جس کا نہ سیاسیات سے تعلق ہو ، نہ قضا سے ، نہ عہدوں اور اموال کی تقسیم سے ، نہ لڑائیوں سے ، نہ مخالف اقوام پر چڑھائیوں سے ، نہ حکومت سے ، نہ اقتصادیات سے، اس سے کسی نے کیا بغض رکھنا ہے.غرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے براہِ راست بغض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی.پس اس الزام کے بارہ میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ کہ الزام سچا ہو جس امر کو کوئی مومن ایک منٹ کیلئے بھی تسلیم نہیں کر سکتا اور اللہ تعالیٰ نے عرش سے اس گندے خیال کو رڈ کیا ہے.دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت عائشہ پر الزام بعض دوسرے وجودوں کو نقصان پہنچانے کے لئے لگایا گیا ہو.اب ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بدنام کرنا منافقوں کے لئے یا ان کے سرداروں کے لئے فائدہ بخش ہو سکتا تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافق اپنی دشمنی نکال سکتے تھے.ایک ادنی تدبر سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جا سکتی تھی.ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ایک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے.کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھی اور ایک کی بیٹی تھیں.یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی یا اقتصادی لحاظ سے یا دشمنیوں کے لحاظ سے

Page 209

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۵ جلد سوم بعض لوگوں کے لئے فائدہ بخش ہو سکتی تھی.یا بعض لوگوں کی اغراض ان کو بد نام کرنے کے ساتھ وابستہ تھیں ورنہ خود حضرت عائشہ کی بدنامی سے کسی شخص کو کوئی دلچسپی نہ ہو سکتی تھی.زیادہ سے زیادہ آپ سے سوتوں کا تعلق ہو سکتا تھا اور یہ خیال ہوسکتا تھا کہ شاید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے حضرت عائشہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں گرانے اور اپنی نیک نامی چاہنے کیلئے اس معاملہ میں کوئی حصہ لیا ہو.مگر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے اس معاملہ میں کوئی حصہ نہیں لیا.بلکہ حضرت عائشہ کا اپنا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے جس بیوی کو میں اپنا رقیب اور مد مقابل خیال کرتی تھی وہ حضرت زینب تھیں.ان کے علاوہ اور کسی بیوی کو میں اپنا رقیب خیال نہیں کرتی تھی مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں زینب کے اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتی کہ جب مجھ پر الزام لگایا گیا تو سب سے زیادہ زور سے اگر کوئی اس الزام کا انکار کیا کرتی تھیں تو وہ حضرت زینب ہی تھیں.پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اگر کسی کو دشمنی ہو سکتی تھی تو وہ ان کی سوتوں کو ہی ہو سکتی تھی.اور وہ اگر چاہتیں تو اس میں حصہ لے سکتی تھیں تا حضرت عائشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے گر جائیں اور ان کی عزت بڑھ جائے.مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں دخل ہی نہیں دیا.اور اگر کسی سے پوچھا گیا تو اُس نے حضرت عائشہ کی تعریف ہی کی.چنانچہ ایک اور بیوی کے متعلق ذکر آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے اِس معاملہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے تو سوائے خیر کے عائشہ میں کوئی چیز نہیں دیکھی.تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنی دشمنی نکالنے کا امکان اگر کسی کی طرف سے ہوسکتا تھا تو ان کی سوتوں کی طرف سے مگر ان کا اس معاملہ میں کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا.اسی طرح مردوں کی عورتوں سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی.پس آپ پر الزام یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کی وجہ سے لگایا گیا یا حضرت ابو بکر سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے.انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی وہ

Page 210

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۶ جلد سوم اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں اور وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکر ہی ہے.پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشہ پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے گر جائیں اور ان کے گر جانے کی وجہ سے حضرت ابو بکر کو مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے اور مسلمان آپ سے بدظن ہو کر اس عقیدت کو ترک کر دیں جو انہیں آپ سے تھی اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر کے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہو جائے.جس طرح حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں پیغامیوں کا گر وہ مجھ پر اعترض کرتا رہتا تھا اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا.پس یہی وجہ تھی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عائشہ پر الزام لگنے کے واقعہ کے بعد خلافت کا بھی ذکر کیا.حدیثوں میں صریح طور پر آتا ہے کہ صحابہؓ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکر کا ہی مقام ہے.پھر حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ يَا رَسُولَ الله آپ میری فلاں حاجت پوری کر دیں.آپ نے فرمایا اس وقت نہیں پھر آنا.وہ بدوی تھا اور تہذیب اور شائستگی کے اصول سے ناواقف تھا اُس نے کہا آخر آپ انسان ہیں اگر میں پھر آؤں اور آپ اُس وقت فوت ہو چکے ہوں تو میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا اگر میں دنیا میں نہ ہوا تو ابوبکر کے پاس چلے جانا وہ تمہاری حاجت پوری کر دے گا.اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اے عائشہ ! میں چاہتا تھا کہ ابوبکر کو اپنے بعد نا مزد کر دوں مگر میں جانتا ہوں کہ اللہ اور مومن اس کے سوا اور کسی پر راضی نہ ہونگے ۲۳ اس لئے میں کچھ نہیں کہتا.غرض صحابہ یہ قدرتی طور پر سمجھتے ہیں کہ رسول کریم کے بعد ان میں سے اگر کسی کا درجہ ہے تو ابو بکر کا اور وہی آپ کا خلیفہ بننے کے اہل ہیں.مکی زندگی تو ایسی تھی کہ اس میں حکومت اور اس کے انتظام کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا.لیکن مدینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے

Page 211

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۷ جلد سوم کے بعد حکومت قائم ہو گئی.اور طبعا منافقوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہونے لگا کیونکہ آپ کی مدینہ میں تشریف لانے کی وجہ سے ان کی کئی امید میں باطل ہو گئی تھیں.چنانچہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ مدینہ میں عربوں کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج.اور یہ ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے اور قتل اور خونریزی کا بازار گرم رہتا.جب انہوں نے دیکھا کہ اس لڑائی کے نتیجہ میں ہمارے قبائل کا رُعب مٹتا جا رہا ہے تو انہوں نے آپس میں صلح کی تجویز کی اور قرار پایا کہ ہم ایک دوسرے سے اتحاد کر لیں اور کسی ایک شخص کو اپنا بادشاہ بنا لیں چنانچہ اوس اور خزرج نے آپس میں صلح کر لی اور فیصلہ ہوا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کو مدینہ کا بادشاہ بنا دیا جائے.اس فیصلہ کے بعد انہوں نے تیاری بھی شروع کر دی اور عبد اللہ بن ابی بن سلول کے لئے تاج بننے کا حکم بھی دے دیا گیا.اتنے میں مدینہ کے کچھ حاجی مکہ - واپس آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ آخری زمانہ کا نبی مکہ میں ظاہر ہو گیا ہے اور ہم اس کی بیعت کر آئے ہیں.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی کے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں.اور چند دنوں کے بعد بعض اور لوگوں نے بھی مکہ جا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لی.پھر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ہماری تربیت اور تبلیغ کے لئے کوئی معلّم ہمارے ساتھ بھیجیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو مبلغ بنا کر بھیجا اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے.اُنہی دنوں میں چونکہ مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو بہت سی تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں اس لئے اہل مدینہ نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مدینہ میں تشریف لے آئیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے صحابہ سمیت مدینہ ہجرت کر کے آگئے.اور عبد اللہ بن ابی بن سلول کے لئے جو تاج تیار کروایا جا رہا تھا وہ دھرا کا دھرا رہ گیا کیونکہ جب انہیں دونوں جہانوں کا بادشاہ مل گیا تو انہیں کسی اور بادشاہ کی کیا ضرورت تھی.عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ دیکھا کہ اُس کی بادشاہت کے تمام امکانات جاتے رہے ہیں تو اسے سخت غصہ آیا.اور گو وہ بظاہر مسلمانوں میں مل گیا مگر ہمیشہ اسلام میں رخنے ڈالتا رہتا تھا.اور چونکہ اب وہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا اس لئے اُس کے دل میں اگر

Page 212

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۸ جلد سوم کوئی خواہش پیدا ہو سکتی تھی تو یہی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں تو میں مدینہ کا بادشاہ بنوں لیکن مسلمانوں میں جو نہی بادشاہت قائم ہوئی اور ایک نیا نظام انہوں نے دیکھا تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دیئے کہ اسلامی حکومت کا کیا طریق ہے.آپ کے بعد اسلام کا کیا حال ہوگا اور اس بارہ میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے.عبداللہ بن ابی بن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اسے خوف پیدا ہونے لگا کہ اب اسلام کی حکومت ایسے رنگ میں قائم ہوگی کہ اس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا وہ ان حالات کو روکنا چاہتا تھا اور اس کیلئے جب اس نے غور کیا تو اسے نظر آیا کہ اگر اسلامی حکومت کو اسلامی اصول پر کوئی شخص قائم کر سکتا ہے تو وہ ابوبکر ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی نظر اسی کی طرف اُٹھتی ہے اور وہ اسے سب دوسروں سے معزز سمجھتے ہیں.پس اُس نے اپنی خیر اسی میں دیکھی کہ ان کو بدنام کر دیا جائے اور لوگوں کی نظروں سے گرا دیا جائے بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے بھی گرا دیا جائے.اور اس بد نیتی کے پورا کرنے کا موقع اسے حضرت عائشہ کے ایک جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپ پر گندہ الزام لگا دیا جو قرآن کریم میں اشارۃ بیان کیا گیا ہے اور حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہے.عبد اللہ بن ابی بن سلول کی اس میں یہ غرض تھی کہ اس طرح حضرت ابوبکر ان لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہو جائیں گے اور آپ کے تعلقات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خراب ہو جائیں گے اور اس نظام کے قائم ہونے میں رخنہ پڑ جائے گا جس کا قائم ہونا اسے لابدی نظر آتا تھا اور جس کے قائم ہونے سے اس کی امید میں تباہ ہو جاتی تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکومت کے خواب صرف عبد اللہ بن ابی بن سلول ہی نہیں دیکھ رہا تھا اور بعض لوگ بھی اس مرض میں مبتلا تھے.چنانچہ مسیلمہ کذاب کی نسبت بھی حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے عرض کی کہ میرے ساتھ ایک لاکھ سپاہی ہیں میں چاہتا ہوں کہ اپنی تمام جماعت کے ساتھ آپ کی بیعت کرلوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام میں چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں اگر تم پر حق کھل گیا ہے تو تم بیعت کر لو.وہ کہنے لگا میں

Page 213

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۹ جلد سوم بیعت کرنے کیلئے تیار تو ہوں مگر میری ایک شرط ہے.آپ نے فرمایا وہ کیا؟ وہ کہنے لگا میری شرط یہ ہے کہ آپ تو خیر اب عرب کے بادشاہ بن ہی گئے ہیں لیکن چونکہ میری قوم عرب کی سب سے زیادہ زبر دست قوم ہے پس میں اس شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں کہ آپ کے بعد میں عرب کا بادشاہ ہوں گا.آپ نے فرمایا میں کوئی وعدہ نہیں کرتا.یہ خدا کا انعام ہے وہ جسے چاہے گا دے گا.اس پر وہ ناراض ہو کر چلا گیا اور اپنی تمام قوم سمیت مخالفت پر آمادہ ہو گیا.تو مسیلمہ کذاب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بادشاہت ملنے کی آرزو کی تھی ، زندگی میں نہیں.یہی حال عبد اللہ بن ابی بن سلول کا تھا.چونکہ منافق اپنی موت کو ہمیشہ دور سمجھتا ہے اور وہ دوسروں کی موت کے متعلق اندازے لگاتا رہتا ہے اس لئے عبد اللہ بن اُبی بن سلول بھی اپنی موت کو دور سمجھتا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا.وہ یہ قیاس آرائیاں کرتا رہتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں تو میں عرب کا بادشاہ بنوں گا.لیکن اب اس نے دیکھا کہ ابو بکر کی نیکی اور تقویٰ اور بڑائی مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو ابو بکر آپ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فتویٰ پوچھنے کا موقع نہیں ملتا تو مسلمان ابو بکر سے فتویٰ پوچھتے ہیں.یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی بن سلول کو جو آئندہ کی بادشاہت ملنے کی امید لگائے بیٹھا تھا سخت فکر لگا اور اُس نے چاہا کہ اس کا ازالہ کرے.چنانچہ اسی امر کا ازالہ کرنے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شہرت اور آپ کی عظمت کو مسلمانوں کی نگاہوں سے گرانے کے لیے اس نے حضرت عائشہ پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہ پر الزام لگنے کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ سے نفرت پیدا ہو اور حضرت عائشہؓ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نفرت کا یہ نتیجہ نکلے کہ ابو بکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی نگاہوں میں جو اعزاز حاصل ہے وہ کم ہو جائے اور ان کے آئندہ خلیفہ بنے کا کوئی امکان نہ رہے.چنانچہ اسی امر کا اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ذکر کرتا اور فرماتا ہے.ان الَّذِينَ جَاءَ بِالافْكِ عُصْبَةً نكُمْ کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عائشہ پر اتہام لگایا وہ تم لوگوں میں سے ہی مسلمان کہلانے والا ایک جتھا ہے مگر فرماتا ہے لا تَحْسَبُوهُ شَرا لكُم، بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُم ٢٥ |

Page 214

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۰ جلد سوم تم یہ خیال نہ کرو کہ یہ الزام کوئی بُرا نتیجہ پیدا کرے گا بلکہ یہ الزام بھی تمہاری بہتری اور ترقی کا موجب ہو جائے گا چنانچہ لو اب ہم خلافت کے متعلق اصول بھی بیان کر دیتے ہیں اور تم کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ یہ منافق زور مار کر دیکھ لیں یہ ناکام رہیں گے اور ہم خلافت کو قائم کر کے چھوڑیں گے.کیونکہ خلافت، نبوت کا ایک جزو ہے اور الہی نور کے محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ ہے.پھر فرماتا ہے لِكُلِّ امْرِئُ مِّنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الاثم - ٢٦ ان الزام لگانے والوں میں سے جیسی جیسی کسی نے کمائی کی ہے ویسا ہی عذاب اسے مل جائے گا.چنانچہ جو لوگ الزام لگانے کی سازش میں شامل تھے انہیں اسی اسی کوڑے لگائے گئے.پھر فرمايا و الذي تولى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِیم ۲۷ مگر ان میں سے ایک شخص جو سب سے بڑا شرارتی ہے اور جو اس تمام فتنہ کا بانی ہے اسے ہم کوڑے نہیں لگوائیں گے بلکہ اس کو عذاب ہم خود دیں گے.والذي تولى كبره وہ شخص جس نے اصل میں بات بنائی ہے ( یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول ) وہ عام عذاب کا مستحق نہیں خاص اور بڑے عذاب کا مستحق ہے جو عذاب ہم ہی دے سکتے ہیں.چنانچہ اس حکم کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے عذاب مل گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی وہ ہلاک ہو گیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے بعد خلیفہ ہو گئے.اس الزام کا ذکر کرنے اور عبد اللہ بن ابی ابن سلول کی اس شرارت کو بیان کرنے کے بعد کہ اس نے خلافت میں رخنہ اندازی کرنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگایا ، اللہ تعالیٰ معافرماتا ہے الله نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُور كَمشكوة فِيهَا مِصْبَاح ، المِصْبَاحُ في زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ کہ اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کا نور ہے مگر اُس کے نور کو مکمل کرنے کا ذریعہ نبوت اور اس کے بعد اس کے دنیا میں پھیلانے اور اسے زیادہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ خلافت ہی ہے.پس ان منافقوں کی تدبیروں کی وجہ سے ہم اس عظیم الشان ذریعہ کو تباہ نہیں ہونے دیں گے بلکہ اپنے نور کے دنیا میں دیر تک قائم رکھنے کیلئے اس سامان کو مہیا کریں گے.اس بات کا مزید ثبوت کہ اس آیت میں جس نور کا ذکر ہے وہ نورِ خلافت ہی ہے اس

Page 215

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۱ جلد سوم سے اگلی آیتوں میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اِس سوال کا جواب دیتا ہے کہ یہ نور کہاں ہے.فرماتا ہے في بيوت یہ نور خلافت چند گھروں میں پایا جاتا ہے.نور نبوت تو صرف ایک گھر میں ہے مگر نورِ خلافت ایک گھر میں نہیں بلکہ في بيوت چند گھروں میں ہے.پھر فرماتا ہے اذن الله ان ترفة وہ گھر ابھی چھوٹے سمجھتے جاتے ہیں مگر خدا نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ ان گھروں کو اونچا کرے.کیونکہ نبوت کے بعد خلافت اس خاندان کو بھی اونچا کر دیتی ہے جس میں سے کو ئی شخص منصب خلافت حاصل کرتا ہے.اس آیت نے یہ بتا دیا کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کا مقصد نورِ خلافت کو بیان کرنا ہے اور یہ بتا نا ہے کہ نورِ خلافت، نور نبوت اور نور الوہیت کے ساتھ گلی طور پر وابستہ ہے اور اس کو مٹانا دوسرے دونوں نو روں کو مٹانا ہے.پس ہم اسے مٹنے نہ دیں گے اور اس نور کو ہم کئی گھروں کے ذریعہ ظاہر کریں گے تا نور نبوت کا زمانہ اور اس کے ذریعہ سے نور الہیہ کے ظہور کا زمانہ لمبا ہو جائے.چنانچہ خلافت پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئی.پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئی.پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئی اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئی.کیونکہ خدا نے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ ان بیوت کو اونچا کرے.ترفع کے لفظ نے یہ بھی بتا دیا کہ الزام لگانے والوں کی اصل غرض یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو نیچا کریں اور انہیں لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کریں.مگر خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ان کو اونچا کرے اور جب خدا انہیں عزت دینا چاہتا ہے تو پھر کسی کے الزام لگانے سے کیا بنتا ہے.اب دیکھو سورۃ نور کے شروع سے لے کر اس کے آخر تک کس طرح ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے پہلے اس الزام کا ذکر کیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تھا اور چونکہ حضرت عائشہ پر الزام لگانے کی اصل غرض یہ تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ذلیل کیا جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے جو تعلقات ہیں وہ بگڑ جائیں اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی نگاہ میں بھی ان کی عزت کم ہو جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ خلیفہ نہ ہو سکیں.کیونکہ عبد اللہ بن ابی بن سلول یہ بھانپ گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی نگاہ اگر کسی پر اٹھنی ہے تو وہ ابو بکر ہی ہے

Page 216

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۲ جلد سوم اور اگر ابو بکر کے ذریعہ خلافت قائم ہو گئی تو عبد اللہ بن ابی بن سلول کی بادشاہی کے خواب کبھی پورے نہ ہوں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس الزام کے ذکر کے معاً بعد خلافت کا ذکر کیا اور فرمایا که خلافت با دشاہت نہیں ہے.وہ تو نور الہی کے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اس لئے اس کا قیام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.اس کا ضائع ہونا تو نور نبوت اور نورالوہیت کا ضائع ہونا ہے.پس وہ اس نور کو ضرور قائم کرے گا اور نبوت کے بعد بادشاہت ہرگز قائم نہیں ہونے دے گا اور جسے چاہے گا خلیفہ بنائے گا بلکہ وہ وعدہ کرتا ہے کہ مسلمانوں سے ایک نہیں متعدد لوگوں کو خلافت پر قائم کر کے نور کے زمانہ کولمبا کر دے گا.یہ مضمون ایسا ہی ہے جیسے کہ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں کہ جس کا جی چاہے پی لے.اسی طرح فرمایا تم اگر الزام لگانا چاہتے ہو تو بے شک لگاؤ نہ تم خلافت کو مٹا سکتے ہو نہ ابو بکر کو خلافت سے محروم کر سکتے ہو.کیونکہ خلافت ایک نور ہے وہ نور اللہ کے ظہور کا ایک ذریعہ ہے اس کو انسان اپنی تدبیروں سے کہاں مٹا سکتا ہے.پھر فرماتا ہے کہ اسی طرح خلافت کا یہ نور چند اور گھروں میں بھی پایا جاتا ہے اور کوئی انسان اپنی کوششوں اور اپنے مکروں سے اس نور کے ظہور کو روک نہیں سکتا.اب دیکھو اس تشریح کے ساتھ سورۃ نور کی تمام آیتوں کا آپس میں کس طرح ربط قائم ہو جاتا ہے اور کس طرح پہلے چار رکوعوں کے مضمون کا اللہ نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ اور اس کے مابعد کی آیتوں کے ساتھ ربط قائم ہو جاتا ہے اور ساری سورۃ کے مطالب آئینہ کی طرح سامنے آجاتے ہیں.پس خلافت ایک الہی سنت ہے کوئی نہیں جو اس میں روک بن سکے.وہ خدا تعالیٰ کے نور کے قیام کا ذریعہ ہے جو اس کو مٹانا چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو مٹانا چاہتا ہے.ہاں وہ ایک وعدہ ہے جو پورا تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن اس کے زمانہ کی لمبائی مومنوں کے اخلاص سے وابستہ ہے.فرماتا ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتضى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّاء يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ

Page 217

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۳ جلد سوم ۲۸ بِي شَيْئًا، وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الفيقُوْنَ ٢٨ ا تذکرہ صفحه ۵۴۱.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء الم نشرح: ٢ النور: ۳۹۳۳۶ ( خطبات محمود جلد ۱۸ صفحه ۴۳۱ تا ۴۵۸) طه: ۱۱ ۵ دیوار گیر: دیوار میں لگانے کا لیمپ ( فیروز اللغات اردو جامع صفحہ ۶۷۳ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء) آل عمران: ۱۹۱ ك النور : ٣،٢ النور: ۵ 2 النور: 1 ۶ النور: ۷ النور: ١٢ النور: ۲۱،۲۰ النور : ٢٢ النور : ۲۴ ها النور: ۲۸ النور: ٣١ كلا النور: ٣٦ ۱۹،۱۸ النور: ۵۶ ۲۰ بخاری کتاب التفسير باب لولا اذا سمعتموه ظن المؤمنين صفحه ۸۳۱ حدیث نمبر ۴۷۵۰ مطبوعه رياض ١٩٩٩ ء الطبعة الثانية البخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم- باب فضل ابی بکر بعد النبي عل صلى الله صفحه ۶۱۳ ۶۱۴ حدیث نمبر ۳۶۵۵ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ءالطبعة الثانية ۲۲ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب قول النبي الله لو كنت متخذا خليلا صفحه ۶۱۴ حدیث نمبر ۳۶۵۹ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ ء الطبعة الثانية میں عورت کا ذکر ہے ۲۳ بخاری کتاب الاحکام باب الاستخلاف صفحه ۱۲۴۳ حدیث نمبر ۷۲۱۷ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية ۲۴ بخاری کتاب المغازی باب وفد بنى حنيفة صفر ۷۴۲ حدیث نمبر ۴۳۷۳ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية ۲۵ تا ۲۷ النور : ۱۲ ۲۸ النور : ۵۶

Page 218

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۴ جلد سوم شیخ عبد الرحمن صاب مصری کی تسلی کے لئے قسموں کا اعلان خطبہ جمعہ ۱۲/ نومبر ۱۹۳۷ء میں شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی تسلی کے لئے قسموں کا اعلان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.شیخ عبد الرحمن صاحب مصری نے اپنے خط میں تسلیم کیا ہے کہ وہ دو سال سے خفیہ تحقیق میرے خلاف کر رہے تھے اور اس بارہ میں لوگوں سے گفتگو کیا کرتے تھے.اگر جس دن انہیں میرے متعلق شبہ پید ا ہوا تھا اور میرے خلاف انہیں کوئی بات پہنچی تھی اُسی دن وہ میرے پاس آتے اور کہتے کہ میرے دل میں آپ کے متعلق یہ شبہ پیدا ہو گیا ہے تو میں یقیناً انہیں جواب دیتا اور اپنی طرف سے اُن کو اطمینان دلانے اور ان کے شکوک کو دور کرنے کی پوری کوشش کرتا.چنانچہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بعض لوگ میرے پاس آئے اور انہوں نے دیانت داری سے اپنے شکوک پیش کر کے ان کا ازالہ کرنا چاہا اور میں ان پر ناراض نہیں ہوا بلکہ میں نے ٹھنڈے دل سے اُن کی بات کو سُنا اور آرام سے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی.اور میں سمجھتا ہوں اگر وہ جھوٹ نہ بولیں تو ایسے لوگ بھی میں پیش کر سکتا ہوں جو اب احمدی نہیں اور وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ انہوں نے مخفی طور پر اپنے بعض شکوک کے متعلق مجھ سے تسلی چاہی اور میں نے نہایت خندہ پیشانی سے ان کی باتوں کا جواب دیا.لیکن جو شخص پہلے مجھے مجرم قرار دیتا ہے اور پھر مجھ سے تسلی چاہتا ہے اُس کی تسلی کرنے کے کوئی معنی نہیں.جس نے فیصلہ کر لیا کہ میں مجرم ہوں، جس نے فیصلہ کر لیا کہ مجھ میں فلاں فلاں عیوب پائے جاتے ہیں اُس کی تسلی کرنی بالکل بے معنی بات ہے.پس مجھے ان کے طریق پر اعتراض ہے ورنہ وسو سے بعض کمزور انسانوں کے قلوب میں پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں.مجھے جس بات پر اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے خفیہ کا رروائی

Page 219

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۵ جلد سوم کی اور خفیہ طور پر لوگوں کو بہکایا.چنانچہ اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ ادھر جماعت سے وہ نکلے اُدھر حکیم عبد العزیز صاحب نے کہہ دیا کہ میں جماعت سے الگ ہوتا ہوں اور وہ جھٹ مصری صاحب کے ساتھ شامل ہو گئے.پھر مصری صاحب نے بھی اپنے خط میں یہی لکھا تھا کہ فخر الدین کو اگر آپ نے معاف نہ کیا تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا.گویا میری وجہ سے وہ جماعت سے الگ نہیں ہوئے بلکہ اس لئے ہوئے کہ فخر الدین کو کیوں معاف نہیں کیا گیا.پس صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ ایک پارٹی تھی جو اندر ہی اندر خفیہ منصو بے کر رہی تھی.چنانچہ ابتدائی رپورٹیں جو میرے پاس پہنچیں ان میں میاں فخر الدین صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب ،مصری، حکیم عبد العزیز صاحب اور میاں مصباح الدین صاحب ان چاروں کے نام علاوہ بعض دوسرے ناموں کے آتے رہے ہیں.کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کیوں نہ فرض کر لیا جائے کہ رپورٹ دینے والوں نے جھوٹ بولا.یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ یہ شروع سے ایک پارٹی تھی.تو اس کا جواب یہ ہے کہ رپورٹ دینے والوں کو کیا پتہ تھا کہ کسی وقت یہ چاروں علیحدہ بھی ہو جائیں گے.انہوں نے ایک رپورٹ کی اور وقوعہ نے ثابت کر دیا کہ انہوں نے جھوٹ نہیں بولا بلکہ سچ کہا ورنہ وجہ کیا ہے کہ ادھر میاں فخر الدین صاحب ملتانی جماعت سے نکالے جاتے ہیں اور اُدھر شیخ عبد الرحمن صاحب مصری بھی نکل جاتے ہیں.وہ علیحدہ ہوتے ہیں تو میاں عبد العزیز حکیم اور میاں عبدالرب بھی فسخ بیعت کا اعلان کر دیتے ہیں اور میاں مصباح الدین صاحب سے بھی ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں کہ انہیں جماعت سے الگ کرنا پڑتا ہے.یہ باتیں ثبوت ہیں اس بات کا کہ ان میں خفیہ کارروائیاں ہوتی رہی تھیں اور یہی تقویٰ کے خلاف فعل ہے.اگر پہلے دن ہی جب انہوں نے میرے متعلق کوئی بات سنی تھی میرے پاس آتے اور مجھ سے کہتے کہ میں نے فلاں بات سنی ہے مجھے اس کے متعلق سمجھایا جائے تو جس رنگ میں بھی ممکن ہوتا میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا اور گو تسلی دینا خدا کا کام ہے میرا نہیں مگر اپنی طرف سے میں انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا.لیکن انہوں نے تقویٰ کے خلاف طریق اختیار کیا اور پھر ہر قدم جو انہوں نے اُٹھایا وہ تقویٰ کے خلاف اُٹھایا.چنانچہ جب انہوں نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ مجھ پر

Page 220

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۶ جلد سوم جماعت کی طرف سے کئی قسم کے مظالم کئے جارہے ہیں تو میں نے اس کی تحقیق کیلئے ایک کمیشن مقرر کیا جس کے ممبر مرزا عبدالحق صاحب اور میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر تھے.مرزا عبدالحق صاحب شیخ عبد الرحمن صاحب مصری کے گہرے دوست تھے.مگر انہوں نے مرزا عبدالحق صاحب کے متعلق کہہ دیا کہ یہ خلیفہ کے اپنے آدمی ہیں اور انہیں چونکہ جماعت کی طرف سے مقدمات ملتے ہیں اس لئے فیصلہ میں وہ خلیفہ کی طرفداری کریں گے اور میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر کہ وہ بھی ان کے گہرے دوستوں میں سے تھے ان کے متعلق انہوں نے یہ کہا کہ مجھے ان کے فیصلہ پر اس لئے تسلی نہیں کہ ان کی مرزا گل محمد صاحب نے جو خلیفہ کے چچا کے بیٹے ہیں ایک ضمانت دی ہوئی ہے.اب اگر احمدیوں کے ایمان اتنے کمزور ہیں کہ ان میں سے کوئی اس لئے صحیح فیصلہ نہ کرے کہ مجھے جماعت کی طرف سے مقدمات ملتے ہیں ، اگر میں نے جماعت کے خلاف فیصلہ کیا تو مقدمات ملنے بند ہو جائیں گے.اور کوئی اس لئے صحیح فیصلہ نہ کرے کہ میرے چچا کے بیٹے نے ان کی ایک ضمانت دی ہوئی ہے تو ایسے لوگوں کے اندر شامل رہنے سے فائدہ کیا ہے.میں نے تو نہایت دیانتداری سے ان دونوں کو اس کا دوست سمجھ کر اس فیصلہ کیلئے مقرر کیا تھا مگر انہوں نے اس کمیشن کے سامنے اس لئے اپنے مطالبات پیش کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ دونوں ہمارے زیر اثر ہیں.اس کے مقابلہ میں مصری صاحب کے ایک اور دوست مصباح الدین صاحب کے متعلق جب کمیشن مقرر کیا گیا تو میں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ لوگ ان لوگوں پر جو جماعت سے کوئی ملا زمت وغیرہ کا تعلق رکھتے ہوں اعتراض کرنے کے عادی ہیں ایسے آدمی مقرر کئے جنہیں جماعت سے کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا.ان میں سے ایک میر محمد بخش صاحب امیر جماعت احمد یہ گوجرانوالہ تھے.انہوں نے کبھی بھی جماعت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا اور جماعت نے کسی مقدمہ میں انہیں کبھی فیس نہیں دی.دوسرے دوست چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری تھے انہیں بھی کبھی جماعت سے کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا.مگر جب ان دونوں کو میں نے مقرر کیا اور انہوں نے مصباح الدین صاحب کو بیان کیلئے بلا یا تو انہوں نے کہا کہ اگر خلیفہ خود مجھ سے جواب طلب کرے تو میں جواب دے سکتا ہوں کسی اور کا ان امور سے کیا تعلق ہے.مجھے جب

Page 221

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۷ جلد سوم یہ بات پہنچی تو میں نے جواب دیا کہ جب وہ سلسلہ پر اعتراض کرنے لگے تھے تو کیا انہوں نے خلیفہ سے اجازت لے لی تھی؟ اگر ان میں اتنا ہی اخلاص تھا تو چاہئے تھا کہ وہ اپنے اعتراضات کا بھی خلیفہ وقت کے سوا اور کسی کے سامنے ذکر نہ کرتے.جب اعتراض کرنے کا وقت تھا اُس وقت تو اوروں کے سامنے ہی اعتراض ہوتے رہے مگر جب جواب دینے کا وقت آیا تو کہہ دیا کہ میں خلیفہ کے سوا اور کسی کو جواب نہیں دے سکتا.اصل بات یہ ہے کہ جب کسی انسان کے دل میں فتنہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ نہ مانوں نہ مانوں کی رٹ لگا تا رہتا ہے.جب کمیشن میں شیخ مصری صاحب کے دوست مقرر کئے گئے تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ پیڈا ایجنٹ (PAID AGENT) ہیں.ایک کو مقد مے مل جاتے ہیں اور دوسرے کو خلیفہ وقت کے ایک رشتہ دار نے ضمانت دی ہوئی ہے.اور جب ایسے لوگ مقرر کئے گئے جن پر یہ اعتراض نہیں پڑ سکتا تھا تو یہ کہہ دیا گیا کہ خلیفہ وقت کے سوا ہم کسی کے سامنے بات نہیں کر سکتے.9966 پس میں نے تو چاہا تھا کہ اگر ہماری جماعت کے کسی فرد کی طرف سے ان پر سختی ہوئی ہو تو اس کا ازالہ کروں مگر انہوں نے خود اس کو قبول نہیں کیا.میں یہ ہرگز نہیں کر سکتا تھا کہ سلسلہ احمدیہ کے جھگڑوں میں غیر احمدیوں کو جج مقرر کروں.ہمیشہ اُمت محمدیہ میں اُمت محمدیہ کے افراد ہی باہمی جھگڑوں کا تصفیہ کرتے رہے ہیں.اس پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو یہ میرے بس کی بات نہیں.خلفائے اسلام بھی بعض دفعہ دیوانی مقدموں میں بلائے گئے ہیں مگر وہ اُنہی قاضیوں کے پاس گئے ہیں جنہیں انہوں نے خود مقرر کیا تھا.حضرت عمرؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما پر اگر کوئی دیوانی مقدمہ ہوا ہے تو اُنہی قاضیوں کے پاس جنہیں حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے مقرر کیا تھا اُس وقت کسی نے نہیں کہا کہ قاضی تو آپ کا اپنا مقرر کردہ ہے اس سے ہم فیصلہ کیونکر کر ا سکتے ہیں ، وہ آپ کی طرفداری کرے گا.وہ جانتے تھے کہ یہ مسلمان قاضی ہیں اور مسلمان قاضی دیانت داری سے ہی کام لیں گے.ان میں یہ بدظنی نہیں تھی کہ قاضی تو ان کا مقرر کردہ ہے وہ کس طرح صحیح فیصلہ کر سکتا ہے.اور اگر کسی وقت قوم کی حالت ایسی گندی

Page 222

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۸ جلد سوم ہو جائے کہ اُس کا خلیفہ بگڑ جائے اور اُس کے افراد بد دیانت ہو جائیں تو پھر اس مرض کا علاج کوئی بندہ نہیں کر سکتا اس کا علاج پھر اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے.اُس وقت پھر اصلاح کا دعویٰ کرنا محض ایک لاف ہے.اُس کا علاج ایک ہی ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے فریاد کی جائے.حضرت خلیفة المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ اگر تمہیں مجھ پر ایسی بدظنی ہے اور تم سمجھتے ہو کہ یہ جماعت کو تباہ کر رہا ہے تو تم خدا سے کہو کہ وہ مجھے تباہ کر دے.بندوں کے پاس چیخ و پکار بالکل بے معنی بات ہے.مصری صاحب کے اسی ساتھی نے جس کے خط کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے سازش کر کے مستریوں پر حملہ کر وایا تھا.پھر آپ نے سازش کر کے محمد امین کو قتل کروایا اور اب فخر الدین کو مروا دیا ہے.اور اس کے بعد آپ ہمیں مروانے کی فکر میں ہیں.مجھے اس قسم کے اعتراض کا جواب دینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہر غلط الزام کا جواب دینے کی نہ ضرورت ہوتی ہے اور نہ اس کا فائدہ ہوتا ہے.لیکن چونکہ خط لکھنے والے نے آئندہ کا شبہ بھی ظاہر کیا ہے اور میں کسی کو قلق اور اضطراب میں رکھنا نہیں چاہتا اس لئے میں ان کے وسوسہ کو دور کرنے اور ان کے خدشات کو مٹانے کیلئے وہ بات کہتا ہوں جس کی مجھے عام حالات میں ضرورت نہیں تھی اور میں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میں نے کسی کو پٹوانا اور قتل کروانا تو الگ رہا آج تک سازش سے کسی کو چیرہ بھی نہیں لگوائی.کسی پر انگلی بھی نہیں اُٹھوائی اور نہ میرے قلب کے کسی گوشہ میں یہ بات آئی ہے کہ میں خدانخواستہ آئندہ کسی کو قتل کرواؤں یاقتل تو الگ رہا نا جائز طور پر پٹوا ہی دوں.اگر میں اس قسم میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی لعنت مجھ پر اور میری اولا د پر ہو.ان لوگوں نے میری صحبت میں ایک لمبا عرصہ گزارا ہے.اگر یہ لوگ تعصب سے بالکل ہی عقل نہ کھو چکے ہوتے تو یہ ان باتوں سے شک میں پڑنے کی بجائے خود ہی ان باتوں کو رڈ کر دیتے.خدا تعالیٰ نے مجھے ظالم نہیں بنایا ، اُس نے مجھے ایک ہمدرد دل دیا ہے جو ساری عمر دنیا کے غموں میں گھلتا رہا اور گھل رہا ہے.ایک محبت کرنے والا دل جس میں سب دنیا کی خیر خواہی ہے، ایک ایسا دل جس کی بڑی خواہش ہی یہ ہے کہ وہ اور اس کی اولا د اللہ تعالیٰ

Page 223

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۹ جلد سوم کے عشق کے بعد اس کے بندوں کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کریں.ان امور میں مجبور یوں یا غلطیوں کی وجہ سے کوئی کمی آجائے تو آ جائے مگر اس کے ارادہ میں اس بارہ میں کبھی کمی نہیں آئی.میں اصل مضمون سے دُور چلا گیا.میں ان لوگوں کی تسلی کیلئے اس سے بھی بڑھ کر ایک قدم اُٹھا تا ہوں اور کہتا ہوں کہ اگر جماعت میں کوئی ایسا شخص ہے جسے میں نے کبھی بھی کسی کے قتل یا مخفی طور پر پیٹنے کا حکم دیا ہو ( مخفی کی شرط میں نے اس لئے لگائی ہے کہ قضاء کی سزاؤں میں ان لوگوں کو جنہیں سزا دینے کا ہم کو شرعی اور قانونی حق ہوتا ہے کبھی بدنی سزا بھی دلوا دیتے ہیں ) تو اسے میں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ وہ اس امر کو ظاہر کر دے تا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو دنیا پر میرا جھوٹ کھل جائے.پھر میں اس سے بھی بڑھ کر ایک اور قدم اُٹھاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ہمیشہ ایسے افعال کو نا پسند کیا ہے جن میں ظلم پایا جائے اور ظاہر اور مخفی ہر طرح ان افعال کو روکنے کی کوشش کرتا رہا ہوں.ہاں اگر خدا کی بتائی ہوئی تقدیریں پوری ہوں تو ان میں میرا کوئی دخل نہیں.وہ خدا کا اپنا کام ہے جو وہ کرتا ہے اور مجھ پر اس کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی.مجھ پر الزام تبھی آسکتا ہے کہ میرے منصوبہ یا اشارہ سے کوئی بات ہو.لیکن میں انہیں کہتا ہوں انہوں نے مجھ پر یہ اعتراض کر کے کہ میں پہلے اپنے دشمنوں کی تباہی کے متعلق ایک پیشگوئی کرتا ہوں اور پھر انسانوں کی منت سماجت کر کے اسے پورا کروا تا اور اپنے دشمنوں کو مروا ڈالتا ہوں غیر از جماعت لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کر دیئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی یہی کہا کرتے تھے کہ مرزا صاحب نے لیکھرام کے قتل ہونے کی پیشگوئی کی اور پھر ایک آدمی بھیج کر اُسے مروا دیا.گویا انہوں نے مجھ پر یہ الزام لگا کر ایک ایسا خطرناک حربہ دشمن کے ہاتھ میں دے دیا ہے کہ گو وہ سلسلہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا مگر اس سے وہ بنی اور طعن و تشنیع کا نشانہ ضرور بن جاتا ہے.انہیں سوچنا چاہئے کہ میں خدا تعالیٰ کی خبر کو کس طرح چھپاؤں.میں اس بارہ میں بے بس ہوں.میں قسم کھا سکتا ہوں ، ہر سخت سے سخت قسم کہ میں نے جو خبر دی وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی میں نے اپنے پاس سے نہیں بنائی اور میں ہر غلیظ سے غلیظ قسم کھا سکتا ہوں کہ اس خبر

Page 224

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۰ جلد سوم کے پورا کرنے کیلئے میں نے کوئی سازش نہیں کی.اس سے زیادہ میں اور کیا ذریعہ تسلی دلانے کیلئے اختیار کر سکتا ہوں.جو اس پر بھی تسلی نہیں پاتا اس کا علاج خدا تعالیٰ کے پاس ہی ہے میرے پاس نہیں.مگر بد قسمت ہے وہ جو خدا تعالیٰ کے نشانات سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے اور بھی گمراہ ہو جاتا ہے.بے شک خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ يُضِلُّ بِه كَثِيراً وَيَهْدِي به كثيرا لے کچھ لوگ اس سے ہدایت پاتے ہیں اور کچھ گمراہ ہو جاتے ہیں.مگر اس قاعدہ کے گمراہی والے حصہ میں شامل ہونا کوئی اچھا مقام نہیں کہ انسان اس مقام پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے.پیشگوئیاں ہمارے لئے کوئی نئی چیز نہیں.ابھی قریب کے زمانہ میں ہم خدا تعالیٰ کے ایک مامور کی آواز سن چکے ہیں.پیشگوئی کے بعد پیشگوئی ہم نے سنی اور پھر اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھی.پھر کیا ہوا کہ اتنے قلیل عرصہ میں لوگ اس آواز سے نا آشنا ہو گئے اور کیوں نہ ہوا کہ وہ خدا تعالیٰ کی آواز سے فائدہ اُٹھاتے اور انکار کر کے اپنے گناہوں کے بار کو زیادہ نہ کرتے.اے زمین اور آسمان! تو گواہ رہ کہ میں ان الفاظ کے بیان کرنے میں جو میں نے بیان کئے تھے جھوٹا نہ تھا.میں نے وہی کہا جو میرے دل اور کانوں پر نازل ہوا اور میں نے افتراء نہیں کیا اور میں خدا تعالیٰ پر افتراء کرنے کو لعنتوں کا کام سمجھتا ہوں.اور مجھے ایسا کہنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود کہہ چکا ہے کہ من آظلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا میں نے صرف وہی کہا جو میرے روحانی کانوں نے سُنا اور میرے دل نے محسوس کیا اور اسی دفعہ نہیں میں نے بہت دفعہ آسمانی آواز کو سنا ہے.اور یہ کوئی میرا ذاتی فخر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا محض احسان ہے ورنہ میں تو ایک ناکارہ وجود ہوں ، گناہوں سے پر ، خطاؤں سے بھرا ہوا مگر میں کیا کروں کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ مجھ سے اِحیائے اسلام کا کام لے اور اسلام کی عظمت کو میرے ذریعہ سے قائم کرے اور یہ کام ہو کر رہے گا جلد یا بد میر.مبارک ہے وہ جو اس کام میں میرا ہاتھ بٹاتا ہے اور افسوس اُس پر جو میرے راستہ میں کھڑا ہوتا ہے کیونکہ وہ میرا نہیں خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرتا ہے جس نے مجھ سے گنہگار کو اپنے جلال کے اظہار کا ذریعہ بنایا.کاش ! وہ تو بہ کرتا اور خدا تعالیٰ کے اشارہ کو سمجھتا ، کاش ! وہ اپنے آپ کو اس خطرناک مقام

Page 225

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۱ جلد سوم پر کھڑا نہ کرتا کیونکہ اس قسم کے اعتراضوں سے وہ جس مصیبت کو اپنے اوپر سے ٹلا نا چاہتا ہے وہ اُس کو ٹلاتا نہیں بلکہ ان کی وجہ سے اپنے آپ کو پہلے سے کہیں زیادہ خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے لے آتا ہے.میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں اخلاص اور درد کے ساتھ اسے یہی کہتا ہوں کہ اے آنکہ سُوئے من بدویدی بصد تبر از باغبان بترس که من شارخ مشمرم میں آخر میں پھر شیخ صاحب سے اخلاص اور خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ جس جس رنگ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھانا میرے لئے ممکن تھا میں نے قسمیں کھالی ہیں اور ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تو بہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کر یں.میں نے ان کی باتوں کو سُنا اور صبر کیا اور اس حد تک صبر کیا کہ دوسرے لوگ اس حد تک صبر نہیں کر سکتے.مگر وہ یقین رکھیں اور اگر وہ یقین نہیں کریں گے تو زمانہ اُن کو یقین دلا دے گا اور اگر اس دنیا میں انہیں یقین نہ آیا تو مرنے کے بعد انہیں اس بات کا یقین آجائے گا کہ انہوں نے مجھ پر وہ بدترین ظلم کیا ہے جو زیادہ سے زیادہ انسان دنیا میں کسی پر کر سکتا ہے.انہوں نے ان حربوں کو استعمال کیا ہے جن حربوں کے استعمال کی اسلام اور قرآن اجازت نہیں دیتا.میں نے آج تک خدا تعالیٰ کے فضل سے کبھی دیدہ دانستہ دوسرے پر ظلم نہیں کیا اور اگر کسی ایسے شخص کا مقدمہ میرے پاس آجائے جس سے مجھے کوئی ذاتی رنجش ہو تو میرا طریق یہ ہے کہ میں ہر وقت یہ دعا کرتا رہتا ہوں کہ الہی ! یہ میرے امتحان کا وقت ہے تو اپنا فضل میرے شامل حال رکھ ایسا نہ ہو کہ میں فیل ہو جاؤں.ایسا نہ ہو کہ میرے دل کی کوئی رنجش اس فیصلہ پر اثر انداز ہو جائے اور میں انصاف کے خلاف فیصلہ کر دوں.پس میں ہمیشہ دعا کرتا رہتا ہوں تا خدا تعالیٰ مجھے انصاف کی توفیق دے اور میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ہمیشہ انصاف کی توفیق دی ہے.میں نے شدید سے شدید دشمنوں کی بھی کبھی بدخواہی نہیں کی.میں نے کسی کے خلاف اُس وقت تک قدم نہیں اُٹھا یا جب تک شریعت مجھے اس قدم کے اُٹھانے کی اجازت نہیں دیتی.پس وہ تمام الزامات جو وہ مجھ پر مار پیٹ ا مار پیٹ اور قتل وغیرہ کے

Page 226

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۲ جلد سوم سلسلہ میں عائد کرتے ہیں سب غلط اور بے بنیاد ہیں.بلکہ بیسیوں دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جس بعض لوگوں نے مجھے کہا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے تو میں نے اُن کو ڈانٹا اور کہا کہ یہ شریعت کے خلاف فعل ہے.ان باتوں کا کبھی دل میں خیال بھی نہیں لانا چاہئے.اگر اس قدر یقین دلانے کے باوجود بھی وہ اپنی باتوں پر قائم رہتے ہیں تو میرے پاس ان کے اعتراضات کا کوئی جواب نہیں اور میں خدا تعالیٰ سے ہی اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا ! اگر تو نے مجھے عہدہ خلافت پر قائم کیا ہے اور تو نے ہی میرے ہاتھوں اور میری زبان کو بند کیا ہوا ہے تو پھر تو آپ ان مظالم کا جواب دینے کیلئے آسمان سے اُتر.نہ میرے لئے بلکہ اپنی ذات کیلئے ، نہ میرے لئے بلکہ اپنے سلسلہ کیلئے.مذکورہ بالا خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی آزاد کمیشن بیٹھے تو اس کے سامنے میرے خلاف لڑکوں اور لڑکیوں اور عورتوں کی گواہیاں وہ دلوا دیں گے بلکہ خود میری بھی گواہی دلوا دیں گے.جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں میری اپنی گواہی سے لکھنے والے کی مراد شاید یہ ہو کہ وہ کوئی میری تحریر پیش کرنا چاہتے ہیں وَاللهُ اَعْلَمُ اور کوئی معنی اس فقرہ کے میرے ذہن میں نہیں آئے.مگر ایسا ہو تو بھی خلفائے سابق سے میری ایک اور مماثلت ثابت ہوگی.پہلے خلفاء کے مقابلہ میں بھی لڑکیاں پیش کی گئیں.پہلے خلفاء کے مقابلہ میں بھی تحریر یں پیش کی گئیں.چاہے ان لڑکیوں کی گواہیاں ہوئیں یا نہ ہوئیں اور چاہے وہ تحریریں کیسی ہی جعلی تھیں مگر بہر حال اس قسم کے دلائل پہلے بھی پیش ہوتے چلے آئے ہیں.پس ان باتوں سے میں نہیں گھبرا تا.میں نے بندوں پر کبھی تو کل نہیں کیا ، میرا تو کل محض خدا کی ذات پر ہے.اگر میں جماعت سے بھی محبت کرتا ہوں تو صرف اِس لئے کہ یہ خدا نے مجھے دی ہے اور اگر جماعت کے تمام لوگ مجھ سے الگ ہو جائیں تو میں سمجھ لوں گا کہ یہ خدا نے مجھے نہیں دیئے تھے.پس مجھے لوگوں کے ارتداد سے گھبراہٹ نہیں.مجھے یقین ہے خدا کے وعدوں پر ، مجھے یقین ہے خدا کی نصرتوں پر اور مجھے یقین ہے کہ ہر وہ شخص جو بچے دل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان رکھتا ہے وہ نہیں مرے گا جب تک میری بیعت میں داخل نہ

Page 227

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۳ جلد سوم ہوئے.اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ جو شخص مجھے چھوڑتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چھوڑتا ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چھوڑتا ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑتا ہے اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑتا ہے وہ خدا کو چھوڑتا ہے.میں اس یقین پر قائم ہوں قرآن مجید کے ماتحت، میں اس یقین پر قائم ہوں حدیث کے ماتحت ، میں اس یقین پر قائم ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے ماتحت ، میں اس یقین پر قائم ہوں ان رؤیا وکشوف اور الہامات کے ماتحت جو مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئے اور میں اس یقین پر قائم ہوں خدا تعالیٰ کی اُن کھلی کھلی تائیدات کے ماتحت جو ہر وقت میرے شامل حال ہیں.اگر کسی کو خدا تعالیٰ کا یہ عمل نظر نہیں آتا تو وہ اندھا ہے.ورنہ جو شخص ایک معمولی بصیرت بھی رکھتا ہو وہ دیکھ سکتا ہے کہ خدا نے ہمیشہ میری امداد فرمائی ہے اور غیب سے میری تائید کے سامان پیدا کئے ہیں اور ہمیشہ اپنے فضل سے وہ میری پشت پناہ بنا رہا ہے.اس نے ہر لمحہ میری تائید کی ، اُس نے ہر گھڑی میری نصرت کی ، اُس نے ہر حملہ سے مجھے بچایا ، اُس نے ہر میدان میں مجھے کامیاب کیا.میں کمزور ہوں اس کو میں مانتا ہوں ، میں کم علم ہوں اس سے میں ناواقف نہیں ، میں نالائق ہوں اس سے مجھے انکار نہیں مگر خدا تعالیٰ نے مجھ سے پوچھ کر مجھے خلیفہ نہیں بنایا.اگر وہ پوچھتا تو میں اُس سے ضرور کہتا کہ مجھ میں کوئی خوبی اور لیاقت نہیں.مگر کون ہے جو خدا تعالیٰ سے پوچھے کہ تو نے یہ کام کیوں کیا اور کون ہے جو اس کے فیصلہ پر اعتراض کرے.جب اُس نے مجھے اس مقام پر کھڑا کر دیا تو اب میں کھڑا ہوں.اس لئے نہیں کہ اپنی عزت قائم کروں بلکہ اس لئے کہ خدا کی عزت دنیا میں قائم کروں.پس اُسی کے نام کو قائم کرنے ، اُسی کی عزت کو بلند کرنے اور اُسی کے جلال کو ظاہر کرنے کیلئے میں کھڑا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آخر دم تک کھڑا رہوں گا اور اس کا عمل بتا رہا ہے کہ وہ میرے ساتھ ہے.پس جو شخص مجھے چھوڑتا ہے وہ خدا کو چھوڑتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی کھلی کھلی تائیدات کو بھی نہیں دیکھ سکتا وہ روحانی اندھا ہے.اگر وہ راہِ راست پر نہیں آسکتا تو اس میں میرا کوئی

Page 228

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۴ جلد سوم قصور نہیں.میری تو ہر آن اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ اے خدا ! مجھ پر بھی رحم کر اور ان پر بھی جن کو تو نے میرے ساتھ تعلق پیدا کرنے کیلئے چنا اور اُن پر بھی جو اب تک اس سے محروم ہیں.جس طرح تیرے فضل نے مجھ جیسے کمزور کو ڈھانپ لیا میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ اسی طرح وہ فضل ساری دنیا کو ڈھانپ لے.وَمَا ذَلِكَ بِبَعِيْدٍ عَنْ رَحْمَتِكَ يَارَبِّ خطبات محمود جلد ۱۸ صفحه ۵۲۸ تا ۵۳۷) البقرة: ۲۷ الانعام: ۲۲ در مشین فارسی صفحه ۱۰۶.شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ

Page 229

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۵ جلد سوم حضرت علی کی شہادت کے بعد کے واقعات سے متعلق خطبه جمعه ۲۱ / جنوری ۱۹۳۸ء میں حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.کیا عجیب نظارہ ہمیں نظر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مسجد میں حضرت علی کی شہادت کے بعد معاویہ ہزاروں مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوتے ہیں.وہی معاویہ جو فتح مکہ تک برابر رسول کریم کیخلاف لڑتے رہے تھے اور کھڑے ہو کر مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے مسلمانو ! تم جانتے ہو ہمارا خاندان عرب کے رؤسا میں سے ہے اور ہم لوگ اشراف قریش میں سے ہیں.پس آج مجھ سے زیادہ حکومت کا کون مستحق ہوسکتا ہے اور میرے بعد میرے بیٹے سے کون زیادہ مستحق ہوسکتا ہے.اُس وقت حضرت عبد اللہ بن عمرؓ مسجد کے ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے.وہ عبد اللہ بن عمرؓ جن کو حضرت عثمان اور حضرت علی کی موجودگی میں صحابہ نے خلافت کا حق دار قرار دیا تھا اور حضرت عمرؓ سے خواہش کی تھی کہ آپ اپنے بعد ان کو خلافت پر مقررفرما ئیں کیونکہ مسلمان زیادہ سہولت سے اُن کے ہاتھ پر جمع ہو جائیں گے اور کسی قسم کے فتنے پیدا نہیں ہوسکیں گے.لیکن حضرت عمرؓ نے جواب دیا میں اسکی نیکی کو جانتا ہوں اور اس کے مقام کو پہچانتا ہوں لیکن یہ رسم میں نہیں ڈالنا چاہتا کہ ایک خلیفہ اپنے بعد اپنے بیٹے کو خلیفہ مقرر کر دے اور خصوصاً جبکہ ا کا برصحابہ زندہ موجود ہیں اس لئے میں اسے مشورہ میں تو شامل رکھوں گا لیکن خلافت کا امید وار قرار نہیں دوں گا.( الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۳۸ء)

Page 230

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۶ جلد سوم جو شخص ایک خلیفہ پر حملہ کرتا ہے وہ دراصل سارے خلفاء پر حملہ کرتا ہے خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۳۸ء میں حضور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص مجھ پر حملہ کرے گا اس کے حملہ کی زد تمام انبیاء پر پڑے گی.اسی طرح جو شخص ایک خلیفہ پر حملہ کرتا ہے وہ دراصل سارے خلفاء پر حملہ کرتا ہے.چنانچہ میں نے دیکھا ہے قریب کے عرصہ میں مصری احب نے ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان نے جب فلاں فلاں غلطیاں کیں اور مسلمانوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ خلافت سے دستبردار ہو جائیں تو گوانہوں نے الگ ہونے سے انکار کر دیا مگر مسلمانوں نے تو بہر حال ایک رنگ میں انہیں معزول کر ہی دیا.گویا حضرت عثمان اسی بات کے مستحق تھے کہ خلافت سے معزول کئے جاتے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کے متعلق بار ہا یہ فرمایا ہے کہ انہوں نے جنت خرید لی اور وہ جنتی ہیں لے اور ایک دفعہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے دوبارہ بیعت لی اور حضرت عثمان اُس وقت موجود نہ تھے تو آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے میں اُس کی طرف سے اپنے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا ہوں.اس طرح آپ نے اپنے ہاتھ کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا.پھر ایک دفعہ آپ سے فرمایا.اے عثمان ! خدا تعالیٰ تجھے ایک قمیص پہنائے گا منافق چاہیں گے کہ وہ تیری اس قمیص کو اُتار دیں مگر تو اُس قمیص کو اُتار یو نہیں ہے.اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو حضرت عثمان سے یہ فرماتے ہیں کہ اس قمیص کو نہ اُتارنا اور جو تم

Page 231

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۷ جلد سوم سے اس قمیص کے اتارنے کا مطالبہ کرینگے وہ منافق ہوں گے مگر مصری صاحب محض میری مخالفت میں آج یہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان سے عزل کا مطالبہ کرنے والے حق پر تھے اور غلطی پر حضرت عثمان ہی تھے.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی پٹھان کنز پڑھ رہا تھا.اس میں اس نے یہ لکھا دیکھا کہ حرکت سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.اس کے بعد ایک دن جب وہ حدیث کا سبق لے رہا تھا تو اتفاقاً یہ حدیث آگئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ نے اپنے ایک نواسہ کو اُٹھا لیا تو وہ حدیث پڑھتے ہی کہنے لگا خوہ محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تو یہ فرماتے ہیں کہ خدا تجھے خلافت کی قمیص پہنائے گا اور تو اُس کا قائم کردہ خلیفہ ہو گا اور جولوگ تجھ سے عزل کا مطالبہ کرینگے وہ منافق ہو نگے.مگر مصری صاحب کہتے ہیں کہ نہیں وہ خدا کے قائم کردہ خلیفہ نہیں تھے اور جنہوں نے آپ سے عزل کا مطالبہ کیا وہی حق پر تھے.گویا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات تو نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹ ہوئی.لیکن منافق جو کچھ کہہ رہے تھے وہ سچ تھا.“ ( الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۸ء) بخاری کتاب فضائل اصحاب النبى الله باب مناقب عثمان بن عفان صفحه ۶۲۱ حدیث نمبر ۳۶۹۵ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ ء الطبعة الثانية سنن ابن ماجه كتاب السنة باب فضائل عثمان رضی الله عنه صفحه ۱۸ حدیث نمبر ۱۱۲ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ ء الطبعة الاولى

Page 232

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۸ جلد سوم لیڈر بنا نا خدا کا کام ہے یکم اپریل ۱۹۳۸ء کو حضور نے خدام الاحمدیہ کی مجالس کے قیام کا ذکر فرمایا اور خدام الاحمدیہ کے معنی احمدیت کا خادم بیان فرمائے.نیز فرمایا کہ بعض لوگوں کے دلوں میں خیال پایا جاتا ہے کہ کاش! ہم کسی طرح لیڈر بن جائیں یہ بیہودہ خیال ہے پھر فرمایا:.لیڈر بنانا خدا کا کام ہے اور جس کو خدا لیڈر بنانا چاہتا ہے اسے پکڑ کر بنا دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں تحریر فرمایا ہے کہ :.میں پوشیدگی کے حجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے.اس نے گوشہ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا.میں نے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں.مگر اس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دوں گا.حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل کی مثال.انکسار ”پھر حضرت خلیفہ المسیح الا قول کو ہم نے دیکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں آپ ہمیشہ پیچھے ہٹ کر بیٹھا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آپ پر نظر پڑتی تو آپ فرماتے مولوی صاحب آگے آئیں اور آپ ذرا کھسک کر آگے ہو جاتے.پھر دیکھتے تو فرماتے مولوی صاحب اور آگے آئیں اور پھر آپ ذرا اور آگے آجاتے.خود میرا بھی یہی حال تھا.جب حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی وفات کا وقت قریب آیا اُس وقت میں نے یہ دیکھ کر کہ خلافت کے لئے بعض لوگ میرا نام لیتے ہیں اور بعض اس کے خلاف ہیں یہ ارادہ کر لیا تھا کہ قادیان چھوڑ کر چلا جاؤں تا جو فیصلہ ہونا ہو میرے بعد ہو.مگر حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ میں نہ جا سکا.پھر جب

Page 233

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۹ جلد سوم حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی وفات ہو گئی تو اُس وقت میں نے اپنے دوستوں کو اس بات پر تیار کر لیا کہ اگر اس بات پر اختلاف ہو کہ خلیفہ کسی جماعت میں سے ہو تو ہم ان لوگوں میں سے ( جو اب غیر مبائع ہیں ) کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.اور پھر میرے اصرار پر میرے تمام رشتہ داروں نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ اس امر کو تسلیم کر لیں تو اول تو عام رائے لی جائے.اور اگر اس سے وہ اختلاف کریں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کر لیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو.اور اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے اور میں یہ فیصلہ کر کے خوش تھا کہ اب اختلاف سے جماعت محفوظ رہے گی.چنانچہ گزشتہ سال حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے بھی حلفیہ بیان شائع کرایا تھا کہ میں نے حافظ صاحب کو اُنہی دنوں کہا تھا کہ اگر مولوی محمد علی صاحب کو اللہ تعالیٰ خلیفہ بنا دے تو میں اپنے تمام متعلقین کے ساتھ ان کی بیعت کرلوں گا ' لیکن اللہ تعالیٰ نے دھکا دے کر مجھے آگے کر دیا.تو اللہ تعالیٰ جس کو بڑا بنانا چاہے وہ دنیا کے کسی کو نہ میں پوشیدہ ہو خدا تعالیٰ اُس کو نکال کر آگے لے آتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں (الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۳۸ء ) ہوسکتی“.الفضل ۱۰ را پریل ۱۹۳۸ء الفضل ۲ را گست ۱۹۳۷ء

Page 234

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۰ جلد سوم خلیفہ کا مقام -1 مجلس شوریٰ میں تنقید کے اصول ۲.جماعت احمد یہ اور حکام کے تعلقات ( فرموده ۲۲ /اپریل ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.”میرے سامنے ایک سوال اُٹھایا گیا ہے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ مجھے جماعت کے سامنے اپنے خیالات کے اظہار کی ضرورت ہے تا جس جس حصہ میں کوئی نقص ہے اس کی اصلاح ہو سکے.مجھ سے کہا گیا ہے کہ مجلس شوری کے موقع پر ناظروں کے کام پر جس رنگ میں تنقید کی جاتی ہے اس کے نتیجہ میں ناظروں کے کام میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور ان کا مقام جماعت کی نگاہ میں گر جاتا ہے اور یہ کہ اس تنقید کا موجب وہ تنقید ہوتی ہے جو کبھی میری طرف سے ناظروں کے کام پر کی جاتی ہے.میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ اگر وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں سلسلہ کے کام کی باگ ڈور ہو اُن کی حیثیت اور مقام لوگوں کی نظروں سے گرا دیا جائے اور لوگوں میں ان کی سبکی کر دی جائے تو کام میں وقتیں ضرور پیدا ہوتی ہیں.اگر یہ امر واقعہ ہو کہ موجودہ حالات میں ناظروں کا مقام اور ان کی حیثیت اور ان کے عہدے کا اعزاز او را کرام کم ہو گیا ہو اور لوگوں کی نظروں میں اُن کی عزت نہ رہی ہو تو اس میں شک نہیں کہ ان کو کام میں وقتیں پیدا ہوسکتی ہیں اور ہونے کا خطرہ ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں اس سوال کے کئی حصے ہیں اور وہ الگ الگ توجہ کے محتاج ہیں.پس میں انہیں علیحدہ علیحدہ لیتا ہوں.

Page 235

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۱ جلد سوم پہلا حصہ یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی تنقید خواہ وہ تربیت کیلئے ہو یا تادیب کیلئے یا ہدایت کیلئے وہ شوری کے دوسرے ممبروں کے دلوں میں تنقید کا ایسا مادہ پیدا کر دیتی ہے کہ جس کے نتیجہ میں تنقید حد سے زیادہ گزر جاتی ہے.جو لوگ دوسرے لوگوں سے ملتے جلتے رہتے ہیں اور قسم قسم کے لوگوں سے باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرے متعلق دونوں قسم کی شکایتیں سنی جاتی ہیں.ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ ہمیشہ ناظروں کی پیٹھ ٹھونکتے اور ان کی حفاظت کرتے ہیں جس کی وجہ سے جماعت کا نظام درست نہیں ہوسکتا.ذرا کسی نے کسی ناظر پر اعتراض کیا تو انہوں نے فوراً اسے گرفت شروع کر دی.اور یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کی طرف سے ناظروں کا صحیح طور پر اعزاز قائم نہیں کیا جا تا اور ایسی تنقید ان کے کام پر کی جاتی ہے جس سے وہ لوگوں کی نظروں سے گر جائیں.ان دونوں سوالوں کی موجودگی میں یہ ماننا پڑے گا کہ صداقت بہر حال تین میں سے ایک صورت میں ہے.یا تو پہلا اعتراض غلط ہوگا کہ یہ ناظروں کے مقابلہ میں جماعت کو زیادہ ڈانٹتے ہیں اور یا پھر یہ غلط ہوگا کہ جماعت کے مقابلہ میں ناظروں پر تنقید میں سختی کرتے ہیں.یا پھر یہ کہ دونوں ہی اعتراض غلط ہوں گے.یہ تین صورتیں ہی ممکن ہو سکتی ہیں ان کے سوا کوئی نہیں.لیکن ان تینوں صورتوں پر غور کرنے سے قبل یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خلیفہ کا مقام کیا ہے.مجلس شوریٰ ہو یا صدرانجمن احمد یہ، خلیفہ کا مقام بہر حال دونوں کی میرداری کا ہے.انتظامی لحاظ سے وہ صدر انجمن کیلئے بھی رہنما ہے اور آئین سازی و بحث کی تعیین کے لحاظ سے وہ مجلس شوری کے نمائندوں کیلئے بھی صدر اور رہنما کی حیثیت رکھتا ہے.جماعت کی فوج کے اگر دو حصے تسلیم کر لئے جائیں تو وہ اس کا بھی سردار ہے اور اُس کا بھی کمانڈر ہے اور دونوں کے نقائص کا وہ ذمہ دار ہے اور دونوں کی اصلاح اس کے ذمہ واجب ہے.اس لحاظ سے اس کیلئے یہ نہایت ضروری ہے کہ جب کبھی وہ اپنے خیال میں کسی حصہ میں کوئی نقص دیکھے تو اُس کی اصلاح کرے.اپنے خیال میں میں نے اس لئے کہا ہے کہ انسان ہمیشہ غلطی کر سکتا ہے اور خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے.میں نے کبھی اس عقیدہ کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی یہ اسلامی عقیدہ ہے کہ خلیفہ غلطی نہیں کر سکتا.اور بشری انتظام میں جب نبی

Page 236

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۲ جلد سوم بھی غلطی کر سکتا ہے تو خلیفہ کی کیا حیثیت ہے.پس یقیناً خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے.سوال یہ نہیں کہ امکان کیا ہے بلکہ یہ ہے کہ موقع کا تقاضا کیا ہے.یہ عین ممکن ہے کہ ایک باپ اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق فیصلہ کرنے میں غلطی کر جائے.لیکن کیا اس غلطی کے امکان کی وجہ سے اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق انتظام کا اسے جو حق ہے وہ مارا جاتا ہے.ساری دنیا بالاتفاق اس بات کو مانتی ہے کہ باپ خواہ فیصلہ غلط کرے یا درست اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق بہر حال اسی کو ہے.یہی صورت خلیفہ کے بارہ میں ہے.اس کی نسبت غلطی کا امکان منسوب کر کے اس کی ذمہ واری کو اُڑایا نہیں جاسکتا.لیکن میدادنی تمثیل ہے.باپ اور خلیفہ کے مقام میں کئی فرق ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری شریعت کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ جسے خلیفہ بناتا ہے اُس سے ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کیلئے نقصان کا موجب ہو.گویا عصمت کبریٰ تو بطور حق کے انبیاء کو حاصل ہوتی ہے لیکن عصمت صغریٰ خلفاء کو بھی حاصل ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں وعدہ فرماتا ہے کہ جو کام خلفاء کریں گے اُس کے نتیجہ میں اسلام کا غلبہ لازمی ہوگا.ان کے فیصلوں میں جزئی اور معمولی غلطیاں ہو سکتی ہیں ، ادنی کو تا ہیاں ہو سکتی ہیں مگر انجام کا نتیجہ یہی ہو گا کہ اسلام کو غلبہ اور اس کے مخالفوں کو شکست ہوگی.یہ خلافت کیلئے ایک معیار قائم کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَليُمَيِّنَ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ ، دین کے معنی مذہب کے بھی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے بھی دیکھ لو خلفاء اربعہ کا ہی مذہب دنیا میں قائم ہوا ہے.بے شک بعض علیحدہ فرقے بھی ہیں مگر وہ بہت اقلیت میں ہیں.اکثریت اُسی دین پر قائم ہے جسے خلفاء اربعہ نے پھیلایا.مگر دین کے معنی سیاست و حکومت کے بھی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ جس سیاست اور پالیسی کو وہ چلائیں گے اللہ تعالیٰ اسے ہی دنیا میں قائم کرے گا اور بوجہ اس کے کہ ان کو عصمت صغریٰ حاصل ہے خدا تعالیٰ کی پالیسی بھی وہی ہوگی.بے شک بولنے والے وہ ہوں گے ، زبانیں انہی کی حرکت کریں گی ، ہاتھ انہی کے چلیں گے اور پیچھے دماغ انہی کا کام کرے گا مگر دراصل ان سب کے پیچھے خدا تعالیٰ ہوگا.کبھی ان سے جزئیات میں غلطیاں ہوں گی ،کبھی ان کے مشیر غلط مشورہ دیں

Page 237

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۳ جلد سوم گے.بعض دفعہ وہ اور ان کے مشیر دونوں غلطی کریں گے لیکن ان درمیانی روکوں سے گزر کر کامیابی انہیں ہی حاصل ہوگی.جب تمام کڑیاں مل کر زنجیر بنیں گی وہ صحیح ہوگی اور ایسی مضبوط کہ کوئی اسے توڑ نہ سکے گا.پس اس لحاظ سے خلیفہ وقت کا یہ فرض ہے کہ جس حصہ میں بھی اسے غلطی نظر آئے اس کی اصلاح کرے.جہاں اس کا یہ فرض ہے کہ منتظمین اور کارکنوں کی پوزیشن قائم رکھے وہاں یہ بھی ہے کہ جماعت کی عظمت اور اس کے مشورہ کے احترام کو بھی قائم رکھے.اگر جماعت کسی وقت کا رکنوں کے حقوق پر حملہ کرے تو اس کا کام ہے کہ اسے پیچھے ہٹائے.اگر کبھی کارکن جماعت کے حقوق کو دبانا چاہیں تو خلیفہ کا فرض ہے کہ انہیں روک دے.مجلس شوری کی گزشتہ رپورٹوں سے جو چھپی ہوئی ہیں یہ بات پوری طرح ظاہر ہوتی ہے کہ میں نے متوازی طور پر ان دونوں باتوں کا خیال رکھا ہے.اگر ناظروں پر جماعت نے نا واجب اعتراض کئے ہیں تو میں نے سختی کے ساتھ اور بے پرواہ ہو کر ان کے اس فعل کے قباحت کی وضاحت کی ہے.اور اگر کبھی ناظروں نے جماعت کو اس کے حق سے محروم کرنا چاہا ہے تو ان کو بھی ڈانٹا ہے.یہ متوازی سلسلہ جو خدا تعالیٰ نے جاری رکھا ہے میں نے ہمیشہ اس کا خیال رکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اگر ایک طرف ناظروں کا احترام اور اعزاز جماعت کے دلوں میں پیدا کیا جائے تو دوسری طرف جماعت کی عظمت کو بھی قائم رکھا ہے.میں جانتا ہوں کہ اگر ایک حصہ کو چھوڑ دیا جائے تو دوسرے کی عظمت بھی قائم نہ رہ سکے گی.اور اگر دونوں کو چھوڑ دیا جائے تو باوجود نیک نیتی اور نیک ارادہ کے ایک حصہ دوسرے کو کھا جائے گا.اگر کارکنوں کے اعزاز اور احترام کا خیال نہ رکھا جائے تو نظام کا چلنا مشکل ہو جائے گا.اور اگر جماعت کے حقوق کی حفاظت نہ کی جائے اور اس کی عظمت کو تباہ ہونے دیا جائے تو ایک ایسا آئین بن جائے گا جس میں خود رائی کے اور خودستائی غالب ہو گی.اس لئے میں ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھتا ہوں کہ جس کی غلطی ہو اُ سے صفائی کے ساتھ کہہ دیا جائے.چنانچہ مجلس شوریٰ کی گزشتہ رپورٹوں سے یہ بات پوری طرح ظاہر ہوتی ہے کہ میں نے ناظروں کے اعزاز کو قائم کرنے کا پوری طرح خیال رکھا ہے.چنانچہ گزشتہ رپورٹوں سے ظاہر ہوگا کہ جب مجھے

Page 238

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۴ جلد سوم معلوم ہوا کہ ناظر بعض جگہ گئے اور جماعت نے لا پروائی کا ثبوت دیا تو میں نے شوری میں اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور بتایا کہ یہ طریق صحیح نہیں.جب بھی کوئی ناظر بحیثیت ناظر کسی جگہ جائے تو جماعت کا فرض ہے کہ اس کا استقبال کرے اور اس کا مناسب اعزاز کرے.چنانچہ اس کے بعد جماعت میں اس کا احساس پیدا ہوا اور انہوں نے ناظروں کا مناسب اعزاز کیا.ابھی تو ہماری جماعت میں کوئی بڑے آدمی ہیں ہی نہیں لیکن بڑے سے بڑا آدمی بھی نظام سلسلہ کے لحاظ سے ناظروں کے ماتحت ہے اور جب بادشاہ ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے تو وہ بھی نظام سلسلہ کے لحاظ سے ناظروں کے ماتحت ہوں گے خواہ کوئی ان ناظروں میں سے کسی بادشاہ کی رعایا کا فرد ہی کیوں نہ ہو اور نظام سلسلہ کے لحاظ سے وہ اس کے ماتحت ہوگا اور اُس کو اُس کا ادب و احترام اسی طرح کرنا ہوگا جیسے ایک ماتحت ، افسر کا کرتا ہے.اس حقیقت کی موجودگی میں عقلاً یہ ممکن ہی کس طرح ہوسکتا ہے کہ قانون پر چلتے ہوئے کوئی شخص ناظروں کی سبکی یا ہتک کا خیال بھی کر سکے.مگر اس کے مقابلہ میں جماعت کے بھی حقوق ہیں.مثلاً جب ناظروں سے کوئی ملے تو خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹا کیوں نہ ہو نا ظر کا فرض ہے کہ اس کا ادب اور احترام کرے اور اگر میرے پاس یہ شکایت پہنچے کہ کوئی نا ظر کسی چھوٹے آدمی کا مناسب ادب نہیں کرتا تو اُس وقت میں افراد جماعت کے ساتھ ہوں گا.یوں میرے پاس بعض شکایات آتی ہیں میں ان کی تحقیقات نہیں کراتا کیونکہ میں نصیحت کو تحقیقات سے بہتر سمجھتا ہوں.پس نصیحت کر دیتا ہوں.لیکن بہر حال ناظروں کا فرض ہے کہ جو لوگ ان سے ملنے آئیں اُن سے عزت و احترام سے پیش آئیں.میں خود بھی کوئی کونے میں بیٹھنے والا شخص نہیں ہوں.ہر روز دس پانچ بلکہ ہیں تھیں اشخاص مجھ سے ملنے آتے ہیں جن میں غریب سے غریب بلکہ سائل بھی ہوتے ہیں بلکہ اکثر سائل ہوتے ہیں.لیکن میں جیسا اعزاز بڑے سے بڑے آدمی کا کرتا ہوں ویسا ہی چھوٹے سے چھوٹے کا بھی کرتا ہوں.مثلاً حکومت کے عہدہ کے لحاظ سے ہماری ہندوستان کی جماعت میں چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب سب سے بڑے عہدیدار ہیں لیکن ان کے آنے پر بھی میں ان کا استقبال اُسی طرح کرتا ہوں جس طرح ایک غریب کے آنے پر.اور

Page 239

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۵ جلد سوم ونے میں اس بارہ میں چوہدری صاحب اور ایک غریب کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا.اسی طرح چوہدری صاحب کو کھڑا ہو کر ملتا ہوں جس طرح ایک غریب آدمی کو.اور پہلے اُسے بٹھا کر پھر خود بیٹھتا ہوں.بعض غریب اپنے اندازہ سے زمین پر بیٹھنا چاہتے ہیں مگر میں نہیں بیٹھنے دیتا اور ان سے کہہ دیتا ہوں کہ جب تک آپ نہ بیٹھیں گے میں بھی کھڑا رہوں گا.بعض دفاتر کے چپڑاسی آتے ہیں اور وہ زمین پر بیٹھنا چاہتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ نہیں آپ چپڑاسی کی حیثیت سے نہیں بلکہ مجھے خلیفہ سمجھ کر ملنے آئے ہیں.غرضیکہ جب تک آنے والے کو نہ بٹھالوں میں خود نہیں بیٹھتا.مجھے ملنے والوں کی تعداد ہزاروں تک ہے مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کبھی تخلف ہوا ہو.سوائے اس کے کہ میں بیمار ہوں یا کسی کام میں مشغول ہو کی وجہ سے کبھی غلطی ہو جائے.ہاں جلسہ سالانہ کے ایام متقی ہیں.اُن دنوں میں ملنے والے اس کثرت سے آتے ہیں کہ ہر ایک کیلئے اُٹھنا مشکل ہوتا ہے.ہاں اُن دنوں میں بھی جب کوئی غیر احمدی آئے تو چونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ میری مشکلات کو نہیں سمجھ سکتا اس کیلئے کھڑا ہو جاتا ہوں.یا پھر ان ایام میں جب ملاقات کا زور نہ ہو تو کھڑا ہوتا ہوں.یہ میرا اصول ہے اور میں سمجھتا ہوں ناظروں کو بھی ایسا کرنا چاہئے اور اگر اس کے خلاف کبھی شکایت آئے تو میں چاہتا ہوں کہ جس کے خلاف شکایت ہو اُسے تنبیہ کی جائے.جب تک یہ بات قائم نہ ہو اسلام کی روح قائم نہیں ہو سکتی.ذرا غور کرو کہ خلیفہ چھوڑ نبی کا بھی کیا حق ہے کہ وہ بندوں پر حکومت کرے.اگر ہم مذہب اور اسلام کی روح کو سمجھتے ہیں تو اس خدمت کی روح کو بھی سمجھنا چاہئے جس کیلئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں.کیا ہمارے لئے یہ بات کم ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہم کو ایک رتبہ دے دیا ہے.وہ ہمیں ایک چھوٹا سا دنیوی کام کرنے کو دیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اپنا مقرب بنالیتا ہے.گویا اُجرت اس نے ادا کر دی پھر ہمارا کیا حق ہے کہ دونوں جگہ سے اُجرت وصول کریں.کیا دنیا میں کوئی ایسا مزدور بھی ہوتا ہے جو دو جگہ سے اپنی اجرت وصول کرے.پس جب خدا تعالیٰ ہمیں اس خدمت کی اُجرت ادا کرتا ہے تو بندوں سے کیوں لیں.قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو کہہ دے کہ میں تم

Page 240

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۶ جلد سوم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا ہے.یہ نہیں فرمایا کہ میں اُجرت مانگتا ہی نہیں بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے نہیں مانگتا جس کا یہ مطلب ہے کہ مجھے اُجرت خدا تعالیٰ سے مل رہی ہے.پس میرا فرض ہے کہ میں اس بات کا خیال رکھوں کہ یہ اصل ہماری جماعت میں قائم ہو.اور اگر اس میں غلطی ہو اور میرے پاس شکایت آئے تو میں اس بات کا خیال رکھوں گا کہ غریب سے غریب آدمی کا حق بھی مارا نہ جائے اور اس بات کا خیال نہیں رکھوں گا کہ اس کا حق دلانے میں ناظر کی ہتک ہوتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا حق ہے جو بہر حال لیا جائے گا خواہ اس میں کسی بڑے آدمی کی ہتک ہو یا چھوٹے کی.لیکن اس کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کارکنوں کو جماعت میں ایک اعزاز حاصل ہے اور اگر کوئی فردا سے نہیں سمجھتا یا ان کی طرف سے جو آواز اُٹھتی ہے اس پر کان نہیں دھرتا اور اپنی دنیوی و جاہت کے باعث ناظر کو اپنے درجہ سے چھوٹا سمجھتا ہے تو یقیناً وہ جماعت کا مخلص فرد نہیں.اُس کے اندر منافقت کی رگ ہے جو اگر آج نہیں تو کل ضرور پھوٹے گی.پھر ناظروں کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ مجلس شوری اپنے مقام کے لحاظ سے صدرانجمن پر غالب ہے.اس میں براہ راست اکثر جماعتوں کے نمائندے شریک ہو کر مشورہ دیتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ ابھی بیرونی ممالک کی جماعتوں کے نمائندے شریک نہیں ہو سکتے لیکن جب ان میں بھی امراء داخل ہو جائیں گے یا جماعتیں زیادہ ہو جائیں گی اور وہ اپنے نمائندوں کے سفر خرچ برداشت کر سکیں گی اور سفر کی سہولتیں میسر ہوں گی مثلاً ہوائی جہازوں کی آمد ورفت شروع ہو جائے گی تو اُس وقت ان ممالک کے نمائندے بھی اس میں حصہ لے سکیں گے.پس مجلس شوری جماعت کی عام رائے کو ظاہر کرنے والی مجلس ہے اور خلیفہ اُس کا بھی صدر اور رہنما ہے.انبیاء کو بھی اللہ تعالیٰ نے مشورہ کا حکم دیا ہے اور خلافت کے متعلق تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَا خِلافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ ظیفہ کو یہ حق تو ہے کہ مشورہ لے کر رڈ کر دے لیکن یہ نہیں کہ لے ہی نہیں.مشورہ لینا بہر حال ضروری ہے اور جب وہ مشورہ لیتا ہے تو قدرتی بات ہے کہ وہ اسے رڈ اسی صورت میں کرے گا کہ جب سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میری ذمہ داری کا یہی تقاضا ہے.اگر وہ شریف آدمی ہے اور جب اسے خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ سمجھا جائے تو اس کی شرافت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے.تو وہ سوائے

Page 241

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۷ جلد سوم خاص حالات کے مشورہ کو ضرور مان لے گا.ہاں خاص صورتوں میں بوجہ اس کے کہ در حقیقت وہ خدا تعالیٰ کا نمائندہ ہے اگر وہ سمجھے کہ اس بات کو ماننے سے دین کو یا اس کی شان وشوکت کو کوئی خاص نقصان پہنچتا ہے تو وہ اس مشورہ کو رڈ بھی کر دے گا مگر اس اختیار کے باوجود اسلامی نظام مشورہ اور رائے عامہ کو بہت بڑی تقویت دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ اتنے لوگوں کی رائے کو جو پبلک میں ظاہر ہو چکی ہو کبھی کوئی شخص خواہ وہ کتنی بڑی حیثیت کا ہو معمولی طور پر رڈ کرنے کی جرات نہیں کر سکتا.وہ کثرتِ رائے کو اُسی وقت رڈ کر سکتا ہے جب وہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اُس کی ذمہ داری کا یہی تقاضا ہے.یہ امر ظا ہر ہے کہ یلے شخص کو یہ جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ کثرتِ رائے کو رڈ کر دے.کثرتِ رائے کو ر ڈ یا تو پاگل کر سکتا ہے اور یا پھر وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی طاقت ہے جو اس کی بات کو منوا لے گی.پس خلفا ء اُسی وقت ایسی رائے کو رڈ کریں گے جبکہ وہ خدا تعالیٰ کی مدد کا یقین رکھیں گے اور سمجھیں گے کہ ہم صرف خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کر رہے ہیں.اور جب وہ خدائی طاقت سے جماعت کے مشورہ کو ر ڈ کریں گے تو ان کی کامیابی یقینی ہوگی.غرض اسلام نے شوری کے نظام سے خود سری اور خودرائی کیلئے ایک بڑی روک پیدا کر دی ہے.پھر تربیت کے لحاظ سے بھی مشورہ ضروری ہے.کیونکہ اگر مشورہ نہیں لیا جائے گا تو جماعت کے اہم امور کی طرف افراد جماعت کو توجہ نہیں ہوگی.اس لئے بعد میں آنے والا خلیفہ بوجہ نا تجربہ کاری اور حالات سلسلہ سے ناواقفیت کے بالکل بدھو ہوگا.یہ کسی کو کیا علم ہے کہ کون پہلے مرے گا اور کون بعد میں اور کس کے بعد کس نے خلیفہ ہونا ہے.اس لئے یہ حکم شریعت نے دے دیا ہے کہ مشورہ ضرور لوتا جماعت کی تربیت ہوتی رہے اور جو بھی خلیفہ ہو وہ سیکھا سکھایا ہو اور نئے سرے سے اُس کو نہ سیکھنا پڑے.اس میں اور بھی بیسیوں حکمتیں ہیں مگر میں اس وقت انہیں نہیں بیان کر رہا.مختصر یہ ہے کہ شوری خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص حکمت کے ماتحت ہے.قرآن کریم میں ہے کہ د آمر مهم شوری بَيْنَهُمْ ۵ گویا مشوره والی انجمن کو قرآنی تائید حاصل ہے اور اس کا ذکر قرآن کریم میں کر کے اسے اہم قرار دے دیا ہے.گو قر آن کریم میں کارکنوں کا بھی ذکر ہے مگر شوری کو ایک فضیلت دی گئی ہے اور

Page 242

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۸ جلد سوم.جب جماعت کے مختلف افراد مل کر ایک مشورہ دیں اور خلیفہ اسے قبول کر لے تو وہ جماعت میں سب سے بڑی آواز ہے.اور ہر خلیفہ کا فرض ہے کہ وہ دیکھے جس مشورہ کو اس نے قبول کیا ہے اس پر کارکن عمل کرتے ہیں یا نہیں اور کہ اس کی خلاف ورزی نہ ہو.یہ دومختلف پہلو ہیں جنہیں نظر انداز کرنے کی وجہ سے دونوں فریق اعتراض کرتے ہیں.جب میں جماعت کے دوستوں کو ان کی غلطی کی وجہ سے سمجھاتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ ضمیر کی حریت کہاں گئی اور جب میں دیکھوں کہ ناظروں نے غلطی کی ہے اور اُن کو گرفت کروں تو بعض دفعہ ان کو بھی شکوہ پیدا ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کام میں رُکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں.مگر مجھ پر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا فرض ہے جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کرسکتا اور در اصل خلافت کے معنی ہی یہ ہیں.دوسرا حصہ اس سوال کا یہ ہے کہ ناظروں پر تنقید خلیفہ کی تنقید کی وجہ سے ہوتی ہے.مجھے اس کے تسلیم کرنے سے انکار ہے.اگر اسی مجلس شوریٰ کو لے لیا جائے تو جس حصہ پر میں نے تنقید کی ہے اُس پر میری تنقید سے پہلے بہت سی تنقید ہو چکی تھی اور میں نے جو تنقید کی وہ بعد میں تھی اور شوریٰ کے ممبر بہت سی تنقید پہلے کر چکے تھے.مگر میں کہتا ہوں کہ ناظر تنقید سے گھبراتے کیوں ہیں.ان کا مقام وہ نہیں کہ تنقید سے بالا سمجھا جا تا ہو.ہر کارکن خلیفہ نہیں کہلا سکتا.میرے نزدیک اس بارہ میں جماعت اور ناظر دونوں پر ذمہ داری ہے.جماعت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خیال رکھیں کہ ان میں سے جولوگ سلسلہ کیلئے اپنی زندگیوں کو وقف کر کے بیٹھے ہوئے ہیں ان کا مناسب احترام کیا جائے.اور ناظروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جماعت کی تنقید کو ایک مخلص بھائی کے مشورہ کے طور پر سنیں کیونکہ ان کا مقام تنقید سے بالا نہیں ہے.پارلیمنٹوں میں تو وزراء کو وہ جھاڑیں پڑتی ہیں جس کی حد نہیں مگر پھر بھی وزراء کے رعب میں فرق نہیں آتا.یہاں تو میں روکنے والا ہوں مگر وہاں کوئی روکنے والا نہیں ہوتا.گالی گلوچ کو سپیکر روکتا ہے ، سخت تنقید کو نہیں بلکہ اسے ملک کی ترقی کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے پس اس تنقید سے گھبرانا نہیں چاہئے.اگر تنقید کا کوئی پہلو غلط ہو تو ثابت کریں کہ وہ غلط ہے اور اگر وہ صحیح ہے تو بجائے گھبرانے کے اپنی اصلاح کریں.بعض باتیں ایسی

Page 243

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۹ جلد سوم ہوتی ہیں جن کا ثابت کرنا یا ر ڈ کرنا مشکل ہوتا ہے اور ان کی بنیا دایسے بار یک اصول پر ہوتی ہے کہ ان کی وجہ سے کوئی منطقی نتیجہ نکا لنا قریباً ناممکن ہوتا ہے.مثلاً دو کمرے ایک سے ہوں اور یہ سوال ہو کہ ان میں سے کس میں بستر بچھانے چاہئیں اور کس کو بیٹھنے اُٹھنے کیلئے استعمال کرنا چاہئے تو یہ ایک ذوقی سوال ہوگا.لیکن دو شخص اگر اس پر بحث شروع کر دیں کہ کیوں اس میں بستر بچھانا چاہئے اور دوسرے میں اُٹھنا بیٹھنا چاہئے تو یہ بحث خواہ مہینوں کرتے ر ہیں نتیجہ کچھ نہ ہو گا.تو اس قسم کی ذوقی باتوں کو چھوڑ کر باقی باتوں کو ثابت یا ر ڈ کیا جا سکتا ہے اور اگر اعتراض نا مناسب رنگ میں ہوگا تو یا تو وہ کسی معذور کی طرف سے ہوگا جو بوجہ بڑھاپے کے یا نا تجربہ کاری یا سادگی کے ایسا کرے گا اور اس صورت میں سب محسوس کر لیں گے کہ اس شخص کے الفاظ کی کوئی قیمت نہیں اور اس کو روکنا فضول ہوگا.ایسی بات پر صرف مسکرا کر یا استغفار کر کے گزر جانا ہی کافی ہوگا.لیکن اگر ایسا نہ ہو تو مجلس شوری کی رپورٹیں اس پر گواہ ہیں کہ میں نے نامناسب رنگ میں اعتراض کرنے والوں کو ہمیشہ سختی سے روکا ہے اور جنہوں نے غلط تنقید کی اُن کو اس پر تنبیہ کی ہے اور اگر آئندہ بھی ایسا ہوگا تو إِنْشَاءَ الله روکوں گا.اگر ساری جماعت بھی غلط تنقید کرے گی تو اسے بھی روکوں گا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ڈروں گا نہیں.اس قسم کا لحاظ میں نے کبھی نہیں کیا کہ غلط طریق اختیار کرنے پر کسی کو تنبیہہ نہ کروں.ہاں اس وجہ سے چشم پوشی کرنا کہ کام کرنے والوں سے غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں اور بات ہے.ایسی چشم پوشی میں جماعت سے بھی کرتا ہوں اور کارکنوں سے بھی.ورنہ میں نہ جماعت سے ڈرتا ہوں اور نہ انجمن سے اور جب بھی میں نے موقع دیکھا ہے جماعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے اور انجمن کو بھی.اس سوال کا تیسرا حصہ جو پہلے سے ملتا جلتا بھی ہے اور علیحدہ سوال بھی وہ یہ ہے کہ تنقید ایسے رنگ میں کی جاتی ہے کہ جس سے ناظروں کی بے دُعبی ہوتی ہے.لیکن میں اس سے بھی متفق نہیں ہوں.جو لوگ خدا تعالیٰ کے دین کے کام کیلئے کھڑے ہوں ان کی بے رُعبی نہیں ہو سکتی.جب تک جماعت میں اخلاص اور ایمان باقی ہے کوئی ان کی بے رعبی نہیں کر سکتا.ان کے ہاتھ میں سلسلہ کا کام ہے.پس جو ان کی بے دُعبی کرے گا یہ سمجھ کر

Page 244

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۰ جلد سوم کرے گا کہ اس سے سلسلہ کی بے دُعبی ہوگی اور اس کیلئے کوئی مخلص مومن تیار نہیں ہو سکتا.ہاں بعض دفعہ بعض لوگ نادانی سے ایسا کر جاتے ہیں.مثلاً اس دفعہ ہی سرگودھا کے ایک دوست نے نا مناسب الفاظ استعمال کئے لیکن میں بھی اور دوسرے دوست بھی محسوس کر رہے تھے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ یہ باتیں نہیں کر رہے.اور میں نے دیکھا ہے کہ اُن کی باتوں پر دوست بالعموم مسکرارہے تھے اور سب یہ سمجھتے تھے کہ یہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں غلط کہہ رہے ہیں اور جوش میں انہیں اپنی زبان پر قابو نہیں رہا.اور ظاہر ہے کہ ایسی بات کی تردید کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے.چنانچہ میں نے اس کی تردید نہ کی اور میں سمجھتا ہوں تردید نہ کرنے سے لوگوں نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ باتیں وزنی ہیں بلکہ غالب حصہ کو یہی یقین تھا کہ یہ تردید کے قابل ہی نہ تھیں کیونکہ دوست خود ان کی باتوں پر ہنس رہے تھے اور بعض کے ہنسنے کی آواز میں نے خودسنی.اور ہنسی کی وجہ یہ خیال تھا کہ انہوں نے کیا بے معنی نتیجہ نکالا ہے.اور جب جماعت پر ان کی بات کا اثر ہی نہ تھا اور سب سمجھ رہے تھے کہ یہ اپنی سادگی اور نا تجربہ کاری کی وجہ سے یہ باتیں کر رہے ہیں تو ان کی تردید نہ کرنے سے نقصان کیا ہو سکتا تھا.لیکن اس کے بالمقابل اسی مجلس شوریٰ میں میں نے ایک مثال سنائی تھی کہ ایک انجمن نے جو کسی گاؤں یا شہر کی انجمن نہ تھی بلکہ پراونشل انجمن تھی مجھے لکھا کہ ہم نے صد را انجمن کو یہ بات لکھی ہے جو اگر اس نے نہ مانی تو اس کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات نہیں رہیں گے.میں نے انہیں لکھا کہ صدرانجمن احمد یہ جو کچھ کرتی ہے چونکہ وہ خلیفہ کے ماتحت ہے اس لئے خلیفہ بھی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے اور جب آپ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی بات نہ مانی گئی تو صدرانجمن کے ساتھ آپ کے تعلقات اچھے نہ رہ سکیں گے تو ساتھ ہی آپ نے یہ بھی سوچ لیا ہوگا کہ خلیفہ کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات اچھے نہ رہیں گے اور اس صورت میں آپ کو نئی جماعت ہی بنانی پڑے گی اس جماعت میں آپ نہیں رہ سکیں گے.تو کیا کوئی سمجھ سکتا ہے کہ اس بات کے سننے کے بعد بھی کسی احمدی کے دل میں ناظروں کا رُعب مٹ سکتا ہے.یہ کیونکر ممکن ہے کہ شوری کے ممبروں نے ناظروں کے کام پر تنقید کو تو سن لیا مگر یہ بات انہوں نے نہ سنی ہوگی اور یہ بات جو میں نے ایک دو آدمیوں کو نہیں بلکہ ایک صوبہ کی انجمن کو لکھی تھی اس کے سننے

Page 245

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۱ جلد سوم کے بعد کس طرح ممکن ہے کہ ناظروں کا رُعب مٹ جائے.اس میں شبہ نہیں کہ اس شوری میں جرح زیادہ ہوئی ہے مگر ناظروں کو بھی ٹھنڈے دل کے ساتھ یہ سوچنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا.ایسا اس وجہ سے نہیں ہوا کہ میں نے بھی ان پر تنقید کی تھی.جب وہ چھپے گی تو ہر شخص دیکھ سکے گا کہ شورٹی کے ممبروں نے جو جرح کی وہ میری تنقید کے نتیجہ میں نہ تھی.اور حق بات یہ ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور جس کا مجھے شدیدا حساس ہے کہ ناظر شوری کے فیصلوں پر پوری طرح عمل نہیں کرتے اور واقعات اس بات کو پوری طرح ثابت کرتے ہیں کہ وہ ان پر خاموشی سے گزر جاتے ہیں.زیادہ سے زیادہ یہ کیا جاتا ہے کہ سال کے آخر پر ناظر اعلیٰ دوسری نظارتوں سے پوچھ لیتا ہے کہ ان فیصلوں کا کیا حال ہوا ؟ اور پھر یا تو یہ کہہ دیتا ہے کہ کوئی جواب نہیں ملا اور یا یہ کہ کوئی عمل نہیں ہوا.میں یہ بھی مان لیتا ہوں کہ بعض فیصلے ناظروں کے نزدیک نا قابل عمل ہوتے ہیں مگر ایسے فیصلوں کو قانونی طور پر بدلوانا چاہئے.وہ ایسے فیصلوں کو میرے سامنے پیش کر کے مجھ سے بدلوا سکتے ہیں.وہ میرے سامنے پیش کر دیں میں اگر چاہوں تو دوسری شوری بلوالوں یا چاہوں تو خود ان فیصلوں کو رڈ کر دوں.اور پھر اگر دوسری شوری میں ان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ان پر اعتراض ہو تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فیصلہ رڈ ہو چکا ہے.لیکن اگر وہ فیصلہ جوں کا توں قائم رہے اور پھر وہ اس پر عمل نہ کریں تو جماعت کے اندر بے انتظامی اور خود رائی کی ایسی روح پیدا ہوتی ہے جس کی موجودگی میں ہرگز کوئی کام نہیں ہو سکتا.اگر شوری میں ایک فیصلہ ہوتا ہے تو ان کا فرض ہے کہ اس پر عمل کریں اور اگر وہ اس کو قابل عمل نہیں سمجھتے تو اس کو منسوخ کرائیں.لیکن ایسے فیصلوں کی ایک کافی تعداد ہے جن پر کوئی عمل نہیں کیا جا تا.مثلاً اُسی شوری میں ایک سوال پیدا ہوا تھا جس سے جماعت میں جوش پیدا ہوا.۱۹۳۰ء کی شوریٰ میں فیصلہ ہوا تھا کہ سلسلہ کے اموال پر وظائف کا جو بوجھ ہے اسے ہلکا کرنا چاہئے.یہ تو صحیح ہے کہ جس احمدی کے پاس روپیہ نہ ہو وہ مستحق ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے انجمن سے مد مانگے اور اگر انجمن کے پاس ہو تو اُس کا فرض ہے کہ مدد کرے.مگر اس طرح مدد لینے والے کا مدد یہ بھی فرض ہے کہ جب وہ مالدار ہو جائے تو پھر اسے ادا کرے.۱۹۳۰ء کی شوری میں یہ فیصلہ

Page 246

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۲ جلد سوم ہوا تھا کہ آئندہ پانچ سال میں گزشتہ تعلیمی وظائف کی رقوم وصول کی جائیں اور پھر آئندہ اسی رقم میں سے وظائف دیئے جائیں ، عام آمد سے امداد نہ کی جائے.اور اس کیلئے ناظر بیت المال کو ذمہ دار مقرر کیا گیا تھا یہ پانچ سال ۱۹۳۵ء میں پورے ہوتے تھے اور ۱۹۳۵ء کے بعد وظائف اسی وصول شدہ رقم میں سے دیئے جانے چاہئیں تھے.لیکن تین سال ہو چکے ہیں مگر وظائف برا برخزانہ سے ادا کئے جارہے ہیں.شوری کے ممبروں میں سے ایک کو یہ بات یاد آئی اور اس نے اعتراض کر دیا کہ جب یہ فیصلہ ہوا تھا تو اس پر کیا کارروائی کی گئی اور اب وظائف گزشتہ وظائف کی وصول شدہ رقوم میں سے دئیے جاتے ہیں یا سلسلہ کے خزانہ پر ہی بوجھ ہے.اور اگر ایسا ہے تو کیوں؟ اب ظاہر ہے کہ اگر اس تنقید کا دروازہ بند کر دیا جائے تو سلسلہ کیوں تباہ نہ ہوگا اور اسے ناظروں کی بے رُعبی کے ڈر سے کیونکر روکا جاسکتا ہے تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی ناظر نماز نہ پڑھے اور ہم اسے کہیں تو کہا جائے کہ اس بات سے ناظروں کی بے رُعبی ہوتی ہے.لیکن میں کہوں گا کہ اس کے نہ کہنے سے سلسلہ کی بے دُعبی ہوتی ہے.پس یہ اعتراض روکا نہیں جاسکتا تھا اور اس کیلئے جواب دینا ضروری تھا.عام پارلیمنوں میں یہ قاعدہ ہے کہ وزراء بعض دفعہ کو ئی ٹلا واں جواب دے دیتے ہیں تا اس پر مزید جرح نہ ہو سکے اور بات مخفی رہے لیکن یہاں یہ نہیں ہوسکتا.بحیثیت خلیفہ میرا فرض ہے کہ صحیح جواب دلواؤں.پہلے اس سوال کے ایسے جواب دیئے گئے جو ٹالنے والے تھے مگر آخر اصل جواب دینا پڑا کہ اس فیصلہ پر عمل نہیں کیا گیا.اب اگر اس میں نظارتوں کی بے رعبی ہوئی تو اس کی ذمہ دار نظارت ہے.اگر اس قسم کی تنقید کو روک دیا جائے تو سلسلہ کا نظام ایسا گر جائے گا کہ اس کی کوئی قیمت نہ رہے گی.اس میں شک نہیں کہ بعض دفعہ شوریٰ بھی غلط فیصلے کر دیتی ہے.مثلاً اسی سال کی مجلس شوری میں پہلے ایک مشورہ دیا گیا اور پھر اس کے خلاف دوسرا مشورہ دیا گیا جس کی طرف مجھے توجہ دلانی پڑی.تو ایسی غلطیاں مجلس شوری بھی کرسکتی ہے ، انجمن بھی کر سکتی ہے اور خلیفہ بھی کرسکتا ہے.بلکہ بشریت سے تعلق رکھنے والے دائرہ کے اندر انبیاء بھی کر سکتے ہیں.جو بالکل غلطی نہیں کر سکتا وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ شوری کو تنقید کا جو حق ہے وہ مار دیا جائے.گوشوری غلطی کر سکتی ہے مگر

Page 247

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۳ جلد سوم اس سے اس کا حق باطل نہیں کیا جا سکتا.اور ناظر بھی غلطی کر سکتے ہیں مگر ان کے دائرہ عمل میں ان کے ماتحتوں کا فرض ہے کہ ان کی اطاعت کریں.ہاں جو امور شریعت کے خلاف ہوں ان میں اطاعت نہیں ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایک صحابی کو ایک چھوٹے سے لشکر کا سردار بنا کر بھیجا.راستہ میں انہوں نے کوئی بات کہی جس پر بعض صحابہ نے عمل نہ کیا ، اس پر وہ ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں پر امیر مقر ر کیا ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.اور جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قائمقام ہوں تو تم نے میری نافرمانی کیوں کی.اس پر صحابہ نے کہا کہ ہم آپ کی اطاعت کریں گے.انہوں نے کہا اچھا میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ اطاعت کرتے ہو یا نہیں.چنانچہ انہوں نے آگ جلانے کا حکم دیا اور جب آگ جلنے لگی تو صحابہ سے کہا کہ اس میں کود پڑو.بعض تو آمادہ ہو گئے مگر دوسروں نے ان کو روکا اور کہا کہ اطاعت امور شرعی میں ہے ان کو تو شریعت کی واقفیت نہیں.اس طرح آگ میں کو دکر جان دینا نا جائز ہے اور خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ خود کشی نہیں کرنی چاہئے کے.جب یہ امر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے اس میں ان لوگوں کی تائید کی جنہوں نے کہا تھا کہ آگ میں کودنا جائز نہیں.پس میں جو کہتا ہوں کہ ناظر کے دائرہ عمل میں اس کی اطاعت کرنی چاہئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی ناظر کسی سے کہے کہ جھوٹ کا بولوتو اسے بولنا چاہئے.نظارت کے شعبہ میں جھوٹ بلوانا شامل نہیں.اسی طرح اگر کوئی ناظر کہے کہ کسی کو قتل کر دو تو اس میں اس کی اطاعت جائز نہیں.اطاعت صرف شریعت کے محدود دائرہ میں ضروری ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ غلطی ہر شخص کر سکتا ہے.ممکن ہے کسی فیصلہ میں ناظر بھی غلطی کرے لیکن اس دائرہ میں اس کی غلطی کو بھی ماننا پڑے گا.پس خلیفہ کا فیصلہ مجلس شوری اور نظارت کیلئے ماننا ضروری ہے.اسی طرح شوری کے مشورہ کو سوائے استثنائی صورتوں کے تسلیم کرنا خلیفہ وقت کیلئے ضروری ہے.اور جس مشورہ کو خلیفہ وقت نے بھی قبول کیا اور جسے شرعی احکام کے ماتحت عام حالتوں میں خلیفہ کو بھی قبول

Page 248

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۴ جلد سوم کرنا چاہئے یقینا نظارت اُس کی پابند ہے خواہ وہ غلط ہی ہو.ہاں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کسی فیصلہ کی موجودگی میں وہ کام کو نہیں چلا سکتے تو ان کو چاہئے کہ اسے پیش کر کے وقت پر منسوخ کرالیں.لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ ہر شوری میں کچھ نہ کچھ شور ضرور اُٹھتا ہے کہ فلاں فیصلہ پر عمل نہیں ہوا ، فلاں قانون کو نظر انداز کر دیا گیا ہے.پھر ایسی باتوں پر کس طرح پردہ پڑ سکتا ہے.اور جب ایک نقص ظاہر ہو تو میرا فرض ہے کہ میں نظارت کو اس نقص کے دور کرنے کی طرف توجہ دلاؤں.کیونکہ میں صدرانجمن احمدیہ کا رہنما ہونے کی حیثیت میں خود بھی اس خلاف ورزی کا گو قانونی طور پر نہیں مگر اخلاقی طور پر ذمہ دار ہو جاتا ہوں.پس میرا فرض ہے کہ غلطی پر اس کی اصلاح کی طرف توجہ دلاؤں.غرض ناظروں کا یہ فرض ہے کہ شوریٰ کے فیصلوں کی پابندی کریں یا پھر ان کو بدلوالیں.لیکن جب تک وہ فیصلہ قائم ہے ناظروں کا اس پر عمل کرنا ویسا ہی ضروری ہے جیسا ان کے ماتحت کلرکوں اور دوسرے کارکنوں کا ان کے احکام پر.اگر ناظر اس طرح کریں تو بہت سے جھگڑے مٹ جاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ صدر انجمن احمدیہ کا فرض ہونا چاہئے کہ ہر شوری کے معاً بعد ایک میٹنگ کر کے دیکھے کہ کونسا فیصلہ کس نظارت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اور پھر ا سے ناظر متعلقہ کے سپر د کرے کہ اس پر عمل ہوا اور وقت مقرر کر دیا جائے کہ اس کے اندر اندر اس فیصلہ کی تعمیل پوری طرح ہو جائے اور پھر اس مقررہ وقت پر دوسری میٹنگ کر کے دیکھے کہ عمل ہوا ہے یا نہیں.اس طرح تنقید کا سلسلہ خود بخود بند ہو جائے گا.“ ( الفضل ۲۷ را پریل ۱۹۳۸ء ) النور : ۵۶ خود رائی : خودسری ، سرکشی ( فیروز اللغات اردو جامع صفحه ۵۹۹ مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء) ص: ۸۷ كنز العمال الجزء الخامس صفحه ۶۴۸ حدیث نمبر ۱۴۱۳۶ مطبوعہ دمشق ۲۰۱۲ء ه الشورى: ۳۹ ۶ تا ۵ بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعة للامام مالم تكن معصية صفح ۱۲۲۹، ۱۲۳۰ حدیث نمبر ۷۱۴۵ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية

Page 249

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۵ جلد سوم خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض ۱۷ مارچ ۱۹۳۹ء کو حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض بیان فرمائی اور فرمایا در حقیقت یہ روحانی ٹریننگ اور روحانی تعلیم و تربیت ہے اُس فوج کی جس فوج نے احمدیت کے دشمنوں سے مقابلہ جنگ کرنی ہے.فرمایا.” در حقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اُٹھنے پر اٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے اور یہ چیز ہماری جماعت میں ابھی پیدا نہیں ہوئی.ہماری جماعت میں قربانیوں کا مادہ بہت کچھ ہے مگرا بھی یہ جذ بہ ان کے اندر کمال کو نہیں پہنچا کہ جو نہی ان کے کانوں میں خلیفہ وقت کی طرف سے کوئی آواز آئے اُس وقت جماعت کو یہ محسوس نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں نے اُن کو اُٹھا لیا ہے اور صور اسرافیل ان کے سامنے پھونکا جارہا ہے.جب آواز آئے کہ بیٹھو تو اُس وقت اُنہیں یہ معلوم نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں کا تصرف اُن پر ہو رہا ہے اور وہ ایسی سواریاں ہیں جن پر فرشتے سوار ہیں.جب وہ کہے بیٹھ جاؤ تو سب بیٹھ جائیں.جب کہے کھڑے ہو جاؤ تو سب کھڑے ہو جائیں.جس دن یہ روح ہماری جماعت میں پیدا ہو جائے گی اُس دن جس طرح باز چڑیا پر حملہ کرتا اور اُسے توڑ مروڑ کر رکھ دیتا ہے اسی طرح احمدیت اپنے شکار پر گرے گی اور تمام دنیا کے ممالک چڑیا کی طرح اس کے پنچہ میں آجائیں گے اور دنیا میں اسلام کا پرچم پھر نئے سرے سے لہرانے لگ جائے گا.“ (الفضل ۷ را پریل ۱۹۳۹ء )

Page 250

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۶ جلد سوم جرمنی میں تغییر ( خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۳۹ء) خطبہ جمعہ ے جولائی ۱۹۳۹ء میں حضور نے جرمنی میں تغیر کا ذکر کرتے ہوئے جرمنی میں جاری شدہ نظام کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ جرمنی والوں کا نیا نظام نہیں بلکہ آج سے ۱۳۰۰ سال پرانا نظام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے.نیز فرمایا : - حقیقت یہ ہے کہ یہ نیا نظام نہیں بلکہ یہ وہی نظام ہے جسے اسلام نے آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے خلافت کی شکل میں دنیا میں قائم کیا.تم میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ آج یورپ میں چونکہ یہ ایک نظام قائم ہو چکا ہے اور اس کے فوائد بھی ظاہر ہو چکے ہیں اس لئے اس کو دیکھ کر آپ نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے مگر میں بتا تا ہوں کہ یہ صحیح نہیں.تم ۱۹۱۴ء کا میرا وہ لیکچر نکال کر دیکھ لو جو برکات خلافت کے نام سے چھپا ہوا موجود ہے.اس میں میں نے وہی نظام پیش کیا ہے جس کی آج یورپین حکومتیں تقلید کر رہی ہیں.۱۹۱۴ء میں تو نہ لینن تھا نه مسولینی نه مصطفیٰ کمال پاشا تھا نہ ہٹلر.اُس وقت میں نے یہ نظام لوگوں کے سامنے رکھا اور انہیں بتایا کہ قومی ترقی انہی اصول پر ہوسکتی ہے.پیغامی ہمیشہ میری اس تقریر اور اسی قسم کی اور تقریروں پر اعتراض کرتے رہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں دیکھو! یہ شخص خود رائی کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے حالانکہ اسلام نے جو طریق بتایا ہے وہ اس ڈکٹیٹر شپ سے ہزاروں درجے بڑھ کر ہے جو یورپین ممالک میں قائم ہے بے شک ان دونوں میں ایک مشابہت بھی ہے اور وہ یہ کہ جس طرح لوگ ڈکٹیٹروں کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ خلفاء کی اطاعت اور فرمانبرداری کی تلقین کرتا ہے مگر اس کے مقابلہ میں ایک بہت

Page 251

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۷ جلد سوم بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ ڈکٹیٹر خود قانون ساز ہوتا ہے مگر خلیفہ قانون ساز نہیں بلکہ ایک اور قانون کے تابع ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے.ہٹلر قانون ساز ہے مسولینی قانون ساز ہے لینن قانون ساز ہے لیکن اسلامی خلیفہ نظام اور قانون کا اسی طرح پابند ہے جس طرح جماعت کا ایک عام فرد.وہ قانون ساز نہیں بلکہ خدائی قانون کا تابع ہوتا ہے اور اسی قانون کو وہ لوگوں سے منواتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خلافت کی وجہ سے لوگوں پر وہ ظلم نہیں ہوتا جو ان ملکوں میں ہو رہا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں ایک مکمل قانون قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے جس پر عمل کرنا اور دوسروں سے عمل کرا نا خلفاء کا کام ہے.لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت میں ابھی تک احکامِ خلافت کی پابندی کی وہ روح پیدا نہیں ہوئی جو اسلام لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور نہ اس نظام کی قدر و قیمت کو اس نے پوری طرح محسوس کیا ہے.مجھے حیرت ہوئی جب میں نے اپنی جماعت کے ایک اخبار میں غیر مبائعین کے ایک انگریزی اخبار کا ایک نوٹ پڑھا جس میں وہ ہٹلر کی کتاب ”میری جدو جہد کے بعض اقتباسات درج کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی توجہ اس نئے سوشل فلسفہ کی طرف مبذول کرنی چاہیے کیونکہ بظاہر یہ ان خیالات کے خلاف معلوم ہوتا ہے جو اسلامی جمہوریت کے متعلق قبول کئے جاچکے ہیں لیکن اس تجربہ کے بعد جو جرمنی نے کیا اور اس تجربہ کے بعد جو یورپ کے بعض اور ممالک میں کیا گیا یہ امر اس قابل ہو جاتا ہے کہ ہم دوبارہ تمام سوال پر غور کریں اور دیکھیں کہ اسلامی نقطہ نگاہ کیا ہے؟ گویا غیر مبائعین کے دلوں میں بھی اب یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ آج سے چھپیں سال پہلے جو تعلیم ہماری جماعت کی طرف سے پیش کی گئی تھی کہیں وہی تو درست نہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ غلطی پر ہوں اور اسلامی نظام کے سمجھنے میں انہوں نے ٹھوکر کھائی ہو.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب غیر مبائعین کے دل بھی اس نظام کی خوبی کو تسلیم کرنے لگ گئے ہیں اور ان پر بھی یہ امر آشکار ہو گیا ہے کہ سی نظام وہی ہے جو خلافت کے ماتحت ہو.میں نے دیکھا ہے لوگوں میں یہ ایک مرض پیدا ہو گیا ہے کہ جس کام پر خلیفہ کا ہاتھ رہتا

Page 252

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۸ جلد سوم ہے اُس کام کی طرف وہ خوب توجہ کرتے رہتے ہیں مگر جو نہی خلیفہ اپنے ہاتھ پیچھے کھینچ لیتا ہے لوگوں کا جوش بھی سرد پڑ جاتا ہے اور ان پر غفلت طاری ہو جاتی ہے.حالانکہ خلافت کا وجود تو خدا تعالیٰ نے بطور محور رکھا ہے اب کون سا وہ خلیفہ ہوسکتا ہے جو ہر کا م کرے ابھی تو ہماری جماعت بہت قلیل ہے مگر جوں جوں ہماری جماعت ترقی کرے گی کاموں میں بھی زیادتی ہوتی چلی جائے گی.ابھی تو ہمارے پاس نہ حکومت ہے نہ تجارت ہے نہ یو نیورسٹیاں ہیں نہ علمی ادارے ہیں اور نہ کوئی اور چیز ہے مگر جب یہ تمام چیزیں آگئیں تو اُس وقت ہمارے کام کا دائرہ اتنا وسیع ہو جائیگا کہ ہمیں ہزاروں کی تعداد میں بڑے بڑے لائق آدمیوں کی ضرورت ہو گی جن کا یہ فرض ہو گا کہ وہ دن رات اپنے کاموں میں مشغول رہیں.اگر وہ خود کام نہیں کریں گے اور اپنا فرض صرف یہی سمجھیں گے کہ جس کام کی طرف خلیفہ توجہ دلاتا رہے اسے کرتے رہیں اور جس کام کی طرف وہ توجہ دلانا چھوڑ دے اُسے ترک کر دیں تو جماعت کی ترقی کس طرح ہوگی.پس ضروری ہے کہ جماعت میں ابھی سے بیداری پیدا ہو اور وہ یہ غور کرنے کی عادت ڈالے کہ جو کام وہ کر رہی ہے وہ اچھا ہے یا نہیں.اور جب اسے معلوم ہو کہ وہ اچھا ہے اور خلیفہ نے بھی ایک آدھ دفعہ اس کی طرف توجہ دلا دی ہے تو پھر وہ اس کام کو چھوڑے نہیں بلکہ مستقل طور پر اسے اپنی زندگی کے پروگرام میں شامل کرے کیونکہ اس کے بغیر ترقی ہونا ناممکن ہے.پس ہماری جماعت کو یہ عادت ترک کرنی چاہیے کہ جب تک خلیفہ کسی کام میں ہاتھ نہیں ڈالے گا اسے وہ نہیں کرے گی.خلیفہ کا کام صرف توجہ دلانا اور نگرانی کرنا ہے آگے جماعت کا یہ کام ہے کہ وہ کاموں کو اپنے ہاتھ میں لے اور اس مضبوطی اور استقلال سے ان کو چلائے کہ پھر ان کو چھوڑے نہیں.پس جماعت کے دوستوں کو اپنے اندر بیداری پیدا کرنی چاہیے اور اُس دن کیلئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے جب کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں وسعت برکات حاصل ہوگی اور ایک ایک کام کیلئے ہمیں ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہوگی جو دن رات ان کا موں پر لگے رہیں.تم آج ہی ان اہم ذمہ داریوں کے کاموں کیلئے اپنے آپ کو تیار کرو اور اس بات کا انتظار نہ کیا کرو کہ ہر کام کے کرنے کا تمہیں خلیفہ کی طرف سے حکم ملے یہ محض نمائش ہے کہ جب تک تمہارا سردار.

Page 253

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۹ جلد سوم جس کی تم نے بیعت کی ہوئی ہے تمہیں توجہ دلاتا رہتا ہے تم کام کرتے رہتے ہو اور جب اس کی توجہ کسی اور کام کی طرف مبذول ہو جاتی ہے تو تم کام سے غافل ہو جاتے ہو.یہ ایک خطر ناک مرض ہے جس کو دور کرنے کی طرف ہماری جماعت کو توجہ کرنی چاہئے.“ الفضل ۲ را گست ۱۹۳۹)

Page 254

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۰ جلد سوم خلافت جو بلی کے موقع پر جلوس اور چراغاں خطبه جمعه فرموده ۸/ دسمبر ۱۹۳۹ ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اخبارات میں مختلف اعلانات ” خلافت جوبلی کے متعلق نکل رہے ہیں ان اعلانات کے پڑھنے کے بعد میں بعض باتیں کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں.میں نے مجلس شوری کے موقع پر بھی ان باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی مگر انسان کی فطرت ایسی ہے کہ وہ نقل کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے بہ نسبت عقل کے.کیونکہ نقل کرنا زیادہ آسان ہوتا اور عقل سے کام لینا مشکل ہوتا ہے.یہ زمانہ عیسائیت کے فروغ کا زمانہ ہے وہ تو میں جو آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہیں ان میں مظاہرے کرنے کی عادت زیادہ ہوتی ہے اور جن کو یکدم غلبہ حاصل ہوتا ہے وہ چونکہ حقیقت سے آشنا ہو چکی ہوتی ہیں اور مقصود اُن کو مل چکا ہوتا ہے اسلئے اُن کو مظاہروں کی ضرورت پیش نہیں آتی.جو ماں باپ بچوں کے ساتھ رہتے ہیں انہیں ان کی تصویر میں رکھنے کا شوق اتنا نہیں ہوتا لیکن جن کے بچے ان سے دور ہوتے ہیں انہیں تصویروں کی طرف زیادہ خیال ہوتا ہے کیونکہ جب اصل انسان کے سامنے نہ ہو تو وہ نقل سے دل بہلانے کی کوشش کرتا ہے.جن قوموں کو خدا مل جاتا ہے وہ بتوں اور بت خانوں کی طرف توجہ نہیں کرتیں لیکن جن کو خدا نہیں ملا ہوتا وہ بتوں اور بت خانوں کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے کیونکہ کچھ نہ کچھ خدا تعالیٰ کا نقشہ ضرور چاہیے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو قریب عرصہ میں خدا تعالیٰ نے وہ باتیں دلا دیں جو اُن کے اور اُن کی قوم کے متعلق موعود تھیں اس لئے ان کی قوم میں ایسے مظاہروں کی طرف توجہ نہ تھی.عیسائیوں کو ایک لمبے عرصہ کے بعد وہ باتیں حاصل ہوئیں اس لئے وہ درمیانی زمانہ میں مظاہرے کرتے رہے کیونکہ کچھ نہ کچھ تو دل خوش کر نے کیلئے ہونا چاہیے.پھر مسلمانوں کو ان کے موعود انعامات بہت ہی تھوڑے عرصہ میں حاصل ہو گئے

Page 255

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۱ جلد سوم حضرت موسی کی قوم کو جتنے وقت میں کامیابی حاصل ہوئی تھی اس کے ایک تہائی زمانہ میں انہوں نے کامیابیاں دیکھ لیں.اس لئے ان کو بھی کوئی ضرورت نہ تھی کہ ایسے مظاہرے کرتے اور نقلیں کرتے.ہمارا زمانہ بھی عیسوی زمانہ کے نقش قدم پر ہے اور اس کے لئے آہستہ آہستہ ترقی موعود ہے.اس لئے ہمارے لوگوں میں بھی لازما گدگدی پیدا ہوتی ہے کہ اگر ابھی فتح دور ہے تو فتح کے زمانہ کی نقل تو بنا ئیں.ہندوؤں میں بعض قو میں مثلاً بھا بڑے ایسے ہیں جو گوشت کبھی نہیں کھاتے اور اس بارہ میں بڑی احتیاط کرتے ہیں مگر چونکہ اپنے ہمسائے میں ان کے کانوں میں ایسی آوازیں آتی رہتی ہیں کہ ذرا ایک بوٹی اور دینا یا یہ کہ آج کباب بنائے ہیں اور پھر گوشت کی خوشبو بھی آتی ہے اس لئے ان میں سے بعض کی نسبت کہا جاتا ہے کہ جب گوشت کا بہت شوق پیدا ہو تو بڑیاں بنا لیتے ہیں اور پھر ان کو ہی بوٹیاں فرض کر لیتے ہیں اور آپس میں کہتے ہیں کہ ایک بوٹی مجھے بھی دینا، ذرا شور با اور ڈال دینا وغیرہ اور اس طرح وہ بڑی کو بوٹی کہہ کر اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں.لڑکیوں کو دیکھ لو خدا تعالیٰ نے ان کی فطرت میں اولاد پیدا کرنا اور اس سے محبت کرنا رکھا ہوتا ہے مگر ابھی ان کی عمر اتنی نہیں ہوتی کہ ان کی شادی ہو اور اولاد ہو اس لئے وہ گڑیا بنا لیتی ہیں اور اسی سے پیار کرتی ہیں اور کہتی ہیں لاؤ اسے دودھ دیں.میری بچی روتی کیوں ہے وغیرہ وغیرہ یہ ان کی فطرت کا تقاضا ہوتا ہے مگر زمانہ ابھی آیا نہیں ہوتا اس لئے وہ ایسی باتوں سے ا دل بہلا لیتی ہیں.میں ڈرتا ہوں بلکہ میں اس کے آثار دیکھ رہا ہوں کہ اس قسم کے نقص جماعت میں پیدا نہ ہو جائیں.مظاہرات کی طرف طبیعت فطرتاً مائل ہوتی ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ چراغاں کیا جائے اور جلوس نکالے جائیں چاہے کتنی قیدیں لگا ؤ وہ پھر بھی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ایسا کر ہی لیا جاتا ہے.یہاں خلافت یا خلافت جو بلی کا سوال نہیں بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی تعلیم کو قائم رکھنا ہے خلافت تو الگ رہی نبوت بھی اسلامی تعلیم کے تابع ہے کیونکہ اسلام دائمی صداقت کا نام ہے اور ہر عقلمند شخص یہ تسلیم کرے گا کہ دائمی ہر صداقت انبیاء پر بھی بالا ہے دائمی صداقت کو انبیاء کیلئے قربان نہیں کیا جا تا بلکہ انبیاء اس کیلئے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں اور ہمیشہ ادنی چیز اعلیٰ کیلئے قربان کی جاتی ہے اعلیٰ ادنیٰ کیلئے

Page 256

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۲ جلد سوم نہیں.قرآن کریم نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان خطرہ میں ہو تو تو حید کو قربان کر دیا جائے ، صداقت اور حق کو قربان کر دیا جائے یہ کہا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی خاطر تو اپنے آپ کو قربان کر دے پس صداقت انبیاء سے بھی بالا چیز ہے.انسان خواہ وہ نبی ہو یا نبیوں کا سردار بہر حال صداقت کے تابع ہے.جہاں تک صداقت کی اشاعت کا تعلق ہوتا ہے نبی بے شک بمنزلہ سورج کے ہوتے ہیں اس لئے کہ ان کے ذریعہ صداقت قائم ہوتی ہے.صداقت کو شہرت اور عزت ان کے ذریعہ ہی ملتی ہے اس لئے تمثیلی طور پر اللہ تعالیٰ ان کو سورج بھی قرار دیتا ہے ورنہ حقیقت وہ قمر کی حیثیت رکھتے ہیں تمام انبیاء الحق یعنی خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں جو اصل صداقت ہے قمر کی حیثیت رکھتے ہیں ان کو سورج کہنا ایسی ہی بات ہے جس طرح ماں باپ کی عزت ہر مذہب میں ضروری ہے اور اسلام نے تو اس پر زیادہ زور دیا اور فرمایا ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے.قرآن کریم کا حکم ہے کہ ان کے سامنے اُف تک نہ کرو مگر باوجود اس کے ماں باپ اپنے بچے کو کہتے ہیں کہ میں قربان جاؤں ، واری جاؤں ان کا یہ کہنا مقام کے لحاظ سے نہیں ہوتا بلکہ اظہار محبت کے لئے ہوتا ہے اسی طرح انبیاء کبھی شمس بھی کہلاتے ہیں مگر اصل مقام ان کا الحق کے مقابلہ میں قمر کا ہی ہوتا ہے.اس کی ایسی مثال ہے جیسے کسی دن جب جو بالکل صاف ہو ، مطلع بالکل ابر آلود نہ ہو، چاند چودھویں کا ہو اور وہ تمام باتیں جن سے روشنی تیز ہوتی ہے موجود ہوں تو کوئی شخص کہے کہ آج چاند کیا ہے سورج ہے تو اس کے معنی یہی ہوں گے کہ آج چاند سورج سے اتنا مشابہہ ہے کہ اس کا دوسرا نام رکھنا ٹھیک نہیں اس لئے بالکل وہی نام دینا چاہیے.تو یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے مواقع پر ہمیشہ شریعت کی حفاظت اور اسے سب باتوں پر مقدم رکھنا چاہئے جلوس وغیرہ اسلام میں ثابت نہیں ہیں یعنی ایسے جلوس جیسے آجکل نکلتے ہیں یہ صحیح ہے کہ دوسرے شہروں میں جو جلوس وغیرہ نکلتے ہیں ان کے مقابلہ میں قادیان کے جلوس اسلامی جلوس کے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر پھر بھی مجھ پر یہ اثر ہے کہ قادیان میں جو جلوس نکلتے ہیں وہ بھی خالص اسلامی جلوسوں کے مشابہہ نہیں ہیں اسلام کے زمانہ میں ہمیں یہ تو نظر آتا ہے تاریخ سے ثابت ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کے عمل.

Page 257

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۳ جلد سوم یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ جماعت مسلمین جمع ہو کر خاص بازاروں میں سے گزر رہی ہے اور جب لوگ ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں تو کسی تکلف کے بغیر ایک دوسرے کو بلند آواز سے سلام کہتے ہیں یا تکبیر و تحمید کرتے ہیں مگر یہ کہ ایک شخص شعر پڑھتا ہے اور دوسرے اس کے پیچھے لچکتے جاتے اور وہی شعر پڑھتے ہیں یہ کہیں سے ثابت نہیں میں تو خیال کیا کرتا ہوں کہ اگر کوئی مجھے ایسا کرنے کے لئے کہے اگر تو وہ حاکم مذہب ہو جس کی اطاعت ضروری ہے ورنہ میں کبھی ایسا نہ کر سکوں میری فطرت اسے قبول کرنے کیلے تیار نہیں مجھے تو یہ جلوس دیکھ کر بچپن کا وہ زمانہ یاد آ جاتا ہے جب بچے اکٹھے ہو کر کھیلا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی کمر کو پکڑ کر کہتے تھے کہ ہم بکرا لینے آئے ہیں میں نے پہلے بھی کئی دفعہ اس سے منع کیا ہے مگر پھر بھی بعض لوگ اسی طرح کرنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ اگر سنجیدگی سے کام لیا جائے تو ایسے موقع پر دل میں ذکر الہی کرنا چاہیے ہاں جیسا کہ سنت ہے جب کوئی دوسری جماعت سامنے آتی ہوئی نظر آئے تو تکبیر اور تسبیح و تحمید کرنی چاہیے.اسلام بے شک شعر پڑھنے اور سننے کی اجازت دیتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے مگر اس قسم کا کورس میں نے اسلام میں کہیں نہیں دیکھا ( کورس سے مشابہ ایک صورت اسلام میں ہے اور وہ امام کے پیچھے آمین کہنے کی ہے اسی طرح بعض آیات قرآنیہ کے جواب میں بعض فقرات کہے جاتے ہیں لیکن یہ اوّل تو نثر میں ہوتا ہے دوسرے نماز میں اور خاص سنجیدگی کے ساتھ ہوتا ہے بازاروں میں اس طرح کرتے پھرنے کی مثال پر ، اور شعر پڑھ پڑھ کر ایسا کرنے کے متعلق میں اس وقت بات کر رہا ہوں اور اس کی مثال مجھے نہیں ملی ) حالانکہ جہاں تک کوشش ہوسکتی ہے میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ بہت لمبا اور گہرا کیا ہے اگر کسی اور کو اس کی کوئی مثال معلوم ہو تو وہ مجھے بتا دے میں تسلیم کرلوں گا کہ عورتیں مل کر شعر پڑھتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو ان کے استقبال کیلئے عورت مرد نکلے اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے تو انہوں نے شعر بھی پڑھے مگر یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اہل مدینہ اسلام سے اچھی طرح واقف نہ تھے اُس وقت عورتوں نے جو شعر پڑھے وہ اس طرح شروع ہوتے تھے.

Page 258

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۴ طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّةِ الْوِدَاع جلد سوم یعنی آج ہم پر چودھویں رات کا چاند فلاں گوشے سے طلوع ہوا ہے یہ سب لوگ استقبال کیلئے باہر نکلے تھے اور جب آپ کو دیکھا تو یہ شعر پڑھنے لگے مگر یہ وہ زمانہ تھا جب ان لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح دیکھا بھی نہ تھا بلکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ان لوگوں نے آپ کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ اگر آپ پر کوئی دشمن مدینہ میں حملہ آور ہو گا تو ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن اگر آپ مدینہ سے باہر لڑنے جائیں تو ہم پر کوئی ذمہ داری نہ ہو گی مگر اس سے زیادہ پھر بھی ثابت نہیں کہ لوگوں نے جمع ہو کر شعر پڑھے.یہ ثابت نہیں کہ تکلف کے ساتھ ایک پہلے شعر پڑھتا ہے دوسرے اس کے پیچھے مٹکتے جاتے ہیں اور بعد میں اس کے شعر کو یا اس کے ٹکڑے کو دہرا دیتے ہیں.اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خودشعر پڑھوا کر سنتے تھے بعض بیوقوف اس پٹھان کی طرح جس نے کہہ دیا تھا کہ خو محمد صاحب کا نماز خراب ہو گیا اس کو جائز نہیں سمجھتے مگر یہ حقیقت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کہہ کہہ کر بعض دفعہ شعر پڑھواتے تھے.جہاد کو جاتے ہوئے خوش الحانوں سے کہہ کر شعر پڑھوانا تو حدیثوں میں کثرت سے ثابت ہے.پھر حدی خوانی تو عربوں کی مشہور ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے منع نہیں فرمایا.اونٹ شعر پر عاشق ہوتا ہے اور اسے سن کر تیز چلتا ہے تو اس قسم کی شعر خوانی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں ثابت ہے اپنے بے تکلف دوستوں میں میں بھی بچپن میں شعر پڑھ لیا کرتا تھا اب تو گلے کی تکلیف کی وجہ سے خوش آواز ہی باقی نہیں رہی شعر کیا پڑھنا ہے اور اگر ہو بھی تو مجلس میں شعر پڑھنے سے مجھے حجاب ہے مگر اس کے باوجود میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ میری فطرت کے خلاف ہے.بچپن میں میں پڑھتا رہا ہوں لیکن جس طرح یہاں جلوسوں میں کیا جاتا ہے اس طرح نہ میں نے کبھی کہا ہے اور نہ میری فطرت اسے برداشت کر سکتی ہے.ہاں بعض ادعیہ حدیثوں سے ثابت ہیں ان کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شعر بھی ہوتے تھے اور پڑھے بھی جاتے تھے اور وہی طریق اب تم بھی اختیا کر سکتے ہومگر آپ کے فعل پر زیادتی کی کیا ضرورت ہے.جلوس کی صورت میں جمع ہو کر چلنا ثابت ہے اور پھر

Page 259

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۵ جلد سوم یہ بھی ثابت ہے کہ جب دو جماعتیں آپس میں ملیں تو بلند آواز سے تکبیر یا تسبیح و تحمید بھی کریں.عید کے موقع پر بھی ایسا کرنے کا حکم ہے اور ہم کرتے ہیں مگر یہ جلوس نکالنے والے عید پر تکبیر اور تسبیح و تحمید نہیں کرتے.ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ عید کے روز بھی یہ اسی طرح بلند آواز سے تکبیر اور تسبیح و تحمید کہتے ہوئے جائیں میرا گلا خراب ہے میں خوش الحانی کے طور پر صرف اونچی آواز نکال سکتا ہوں ہلکی نہیں نکال سکتا اور اگر آہستہ تلاوت کرنا چا ہوں یا شعر پڑھنا چا ہوں تو آواز منہ میں ہی رہ جاتی ہے یا تو آواز بالکل چھوٹی نکلے گی یا بہت بڑی.مگر پھر بھی میں کوشش کر کے بڑی عید کے موقع پر جب ایسا کرنے کا حکم ہے تکبیر اور تسبیح وتحمید کرتا ہوں مگر یہ جلوس نکال کر شور کرنے والے چپ کر کے پاس سے گزر جاتے ہیں پس اگر اس رنگ میں جو کہ میں نے بتایا ہے اور جو اسلامی جلوس کا رنگ ہے کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں.اس طرح ذکر الہی کی کثرت ثواب کا بھی موجب ہے اور دوسرے اگر نقل کریں تو ان کے دلوں میں بھی خدا کی بڑائی پیدا ہوگی اور پھر ان کو بھی ثواب ہو گا لیکن جس طرح یہاں عام طور پر جلوس نکالے جاتے ہیں ان کا ثبوت اسلامی تاریخ میں نہیں ملتا.اسی طرح چراغاں کا سوال ہے مجھ سے میری ایک لڑکی نے سوال کیا اس نے کہا میں نے اپنے فلاں عزیز سے پوچھا تھا تو اس نے کہا کہ مجلس شوری میں حضرت (خلیفہ المسیح) نے چراغاں کرنے سے جماعت کو منع کیا تھا افراد کو نہیں.میں نے کہا ہاں یہ درست ہے اس قدر بات بالکل درست تھی کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ میں نے افراد کو منع نہیں کیا تھا مگر اُس وقت افراد کا سوال بھی تو پیش نہ تھا.پھر اس کے بعد یہ بازگشت میرے کانوں میں آنی شروع ہوئی کہ افراد بے شک چراغاں کریں حالانکہ شوری کے موقع پر جماعت کو منع کرنے کے یہ معنی نہیں تھے کہ افراد بے شک کریں.اُس وقت چونکہ جماعت ہی کے بارہ میں مجھ سے سوال کیا گیا تھا میں نے اُتنا ہی جواب دے دیا.افراد کے متعلق نہ مجھ سے پوچھا گیا اور نہ میں نے بتایا.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑھیا عورت آئی جو حضرت خدیجہ کی سہیلی تھی اُس کے ساتھ بوجہ اس کے کہ وہ عمر میں بڑی تھی آپ اس قسم کی بے تکلفی فرمالیتے تھے جیسا کہ بڑوں سے انسان کر لیا کرتا ہے.اس نے دریافت

Page 260

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۶ جلد سوم کیا یا رسول اللہ ! کیا میں جنت میں داخل ہوں گی؟ آپ نے فرمایا کوئی بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہو سکے گی.در حقیقت اس کا سوال بیوقوفا نہ تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پتہ کہ کون جنت میں داخل ہوگا.پس آپ نے سوال کے رنگ میں ہی جواب دیا اور فرمایا کہ کوئی بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی اس کا مطلب یہ تھا کہ جنت میں سب جوان ہوں گے.آخر جنت کی نعماء حظ اُٹھانے کے لئے ہیں اور اگر نہ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت، ہو کمر جھکی ہوئی ہو ، آنکھیں بصارت کھو چکی ہوں تو جنت کی نعماء سے انسان کیا فائدہ اُٹھا سکتا ہے.پس آپ کا جواب بالکل درست تھا اور سوال کے مطابق الفاظ میں دیا گیا تھا.اُس عورت نے نہ غور کیا اور نہ آپ سے پوچھا بلکہ یہ بات سنتے ہی رونے لگ گئی اس پر آپ نے فرمایا تم روتی کیوں ہو؟ اُس نے کہا اس لئے کہ آپ فرماتے ہیں تو جنت میں داخل نہیں ہوگی.آپ نے فرمایا میں نے یہ تو نہیں کہا کہ تم داخل نہیں ہوگی میں نے تو کہا ہے کہ کوئی بڑھیا داخل نہیں ہو سکے گی اور یہ صحیح بات ہے کیونکہ جنت میں سب جوان ہو کر داخل ہوں گے گے.تو اسی رنگ میں اپنی لڑکی کو جواب دیا اور کہا کہ میں نے افراد کو چراغاں سے منع نہیں کیا تھا میرا مطلب یہ تھا کہ شوریٰ میں سوال ہی جماعت کا تھا ورنہ مذہبی خوشیوں کے مواقع پر چراغاں شریعت سے ثابت نہیں ہاں عیسائیوں سے ثابت ہے.بعض نقال کہہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بادشاہ کی جو بلی پر چراغاں کیا مگر بادشاہ کی جو بلی پر تو میں بھی کرنے کو تیار ہوں سوال تو یہ ہے کہ کیا خلافت جو بلی پر بھی ایسا کرنا جائز ہے ؟ ہمیں کئی ہندو ملتے ہیں اور ہاتھ سے سلام کرتے ہیں اور جواب میں ہم بھی اُس طرح کر دیتے ہیں مگر مسلمان تو اس طرح نہیں کرتے بلکہ اسے تو السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتے ہیں تو جن چیزوں کی حرمت ذاتی نہیں بلکہ نسبتی ہے بلکہ حرمت ہے ہی نہیں صرف کراہت ہے اسے ہم اپنے لئے تو اختیار نہیں کر سکتے ہاں دوسرے کیلئے کرنے کو تیار ہیں جب ترکی سفیر حسین کامی یہاں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک خاص آدمی بھیج کر لاہور سے اس کیلئے سگریٹ اور سگار منگوائے کیونکہ قرآن کریم میں تمباکو کا ذکر نہیں آتا صرف قیاس سے اس کی کراہت ثابت کی جاتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اس سے کراہت کرتے تھے مگر

Page 261

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۷ جلد سوم مہمان کیلئے لاہور سے منگوائے.اسی طرح چراغاں اپنی ذات میں بے شک منع نہیں سب لوگ اپنے گھروں میں لیمپ یا دئیے وغیرہ جلاتے ہیں اس لئے غیروں کی دلجوئی اور انہیں خوش کر نے کیلئے ان کی کسی تقریب پر چراغاں کرنے میں کوئی حرج نہیں.اب بھی اگر بادشاہ یا حکومت کی کوئی تقریب ہو اور وہ کہے کہ چراغاں کرو تو ہم کر دیں گے کیونکہ حکومت کی عزت ہم پر خدا تعالیٰ کی طرف سے واجب ہے اور ایسا کر دینے سے ہمارا خدا بھی ہم سے خوش ہوگا اور حکومت بھی.مگر یہی بات ہم اپنی کسی مذہبی تقریب پر اختیار نہیں کر سکتے اگر تو حکم کے ماتحت چراغ جلاتے ہیں تو ہمیں ثواب بھی پہنچتا ہے کہ ہم نے حکم مانا یہ جلا نا ضائع نہیں جائے گا ورنہ یوں کسی غریب کو روٹی کھلا دینا اس سے بہت زیادہ بہتر ہے کہ انسان گھر میں پندرہ ہیں دیئے جلائے.دیئے جلانے میں کم سے کم ڈیڑھ دو آنہ کا تیل تو ضائع ہوگا اور اتنے پیسوں میں دوغریبوں کا جو فاقہ سے تڑپ رہے ہوں پیٹ بھرا جا سکتا ہے.بتاؤ یہ اچھا ہے کہ دیئے جلا کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچالی جائے یا کسی غریب کا پیٹ بھر کر اللہ تعالیٰ کو خوش کیا جائے.تو چراغاں کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ اس کا شریعت نے حکم دیا ہے.شریعت نے صدقہ کا حکم دیا ہے اور اس سے کئی فوائد بھی ہیں اس طرح کئی لوگوں کی طرف جن کا ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا توجہ ہو جاتی ہے اور پھر دوسرے کی مصیبت اور اپنی خوشی کے موقع پر اس کی طرف توجہ ہو جاتی ہے پس ایسی تقریبات کے موقع پر ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ یورپین لوگوں کی نقل نہ ہو بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے متعلق فرمائے گا کہ ان کو جنت میں اعلیٰ انعام دو.میں بھوکا تھا انہوں نے مجھے کھانا کھلایا میں ننگا تھا انہوں نے مجھے کپڑے پہنائے وہ لوگ استغفار پڑھیں گے اور کہیں گے یا الہی ! یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ تو بھوکا پیاسا یا ننگا ہو اور ہم کنگال کیا حیثیت رکھتے تھے کہ تجھے کھانا کھلاتے یا کپڑے پہناتے مگر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ نہیں تم نے ایسا ہی کیا جبکہ میرے غریب بندے بھوکے تھے اور تم نے اُن کو کھانا کھلایا وہ پیاسے تھے تم نے انہیں پانی پلایا وہ ننگے تھے اور تم نے انہیں کپڑے پہنائے شے غور کرو یہ کتنا عظیم الشان درجہ ہے جو غریبوں کو کھانا کھلانے سے حاصل ہو سکتا ہے اور خوشیوں کو ایسے رنگ

Page 262

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۸ جلد سوم میں منانے سے ہو سکتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مگر تیل خرچ کر دینے پر خدا تعالیٰ کیا کہہ سکتا ہے کیا وہ کہے گا کہ ان میرے بندوں کو جنت میں اعلیٰ درجہ کے انعام دو کیونکہ یہ بازار سے تیل خرید کر لائے ، بہت سے دیئے جلائے اور اس طرح اپنی آنکھیں تو خوش کر لیں مگر میرے کسی بھوکے اور پیاسے بندے کی خبر نہ لی.یہ فقرہ اللہ تعالیٰ کی زبان پر سجتا نہیں مگر وہ دوسرا فقرہ تو دل کو لگتا ہے اور اُس سے ایسا درد پیدا ہوتا ہے کہ ہر انسان کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کسی طرح اسے خدا تعالیٰ سے اپنے لئے سن لے.مگر یہ تو ایسا ہے کہ نہ اسے کان برداشت کر سکتے ہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی زبان سے زیب دیتا ہے.پس جو کرنا چاہو کرو لیکن شریعت کے مطابق کرو اور ایسے رنگ میں کرو کہ دنیا بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکے جب تمہارے کام دنیا کے لئے مفید بن جائیں گے تو خدا تعالیٰ دنیا کے دوسرے کاموں کو بھی تمہارے لئے مفید بنا دے گا.جب تم لوگوں کیلئے اپنے کاموں کو مفید بناؤ گے تو خدا تعالیٰ دوسروں کے کام تمہارے لئے مفید بنا دے گا.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں اور جس کیلئے اب میں ایک دومنٹ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتا یہ ہے کہ جلسہ سالانہ کے دن قریب ہیں اس لئے دوستوں کو چاہیے کہ اپنی خدمات اور مکانات بھی پیش کریں جن کے دلوں میں یہ جوش اُٹھتا ہے کہ جو بلی کے موقع پر شعر پڑھتے ہوئے چلتے جائیں انہیں چاہیے کہ جلسہ پر آنے والوں کیلئے مکان بھی خالی کر کے دیں اور اپنی خدمات بھی پیش کریں.پس اگر جو بلی کے موقع پر خوشی منانا چاہتے ہو تو اس کا بہترین طریق یہی ہے کہ غرباء کو کھانا کھلاؤ مکانات خالی کر کے مہمانوں کیلئے پیش کرو اور اپنے افراد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں فارغ کر کے خدمات کیلئے پیش کرو.یہ تو ٹھیک نہیں کہ تم لوگوں کیلئے اعلان تو یہ کرو کہ آجاؤ آ جاؤ اور اگر وہ آجائیں تو نہ ان کے رہنے کیلئے کوئی مکان ملے اور نہ کوئی خدمت کرنے والا ہو.لوگ آئیں اور یہاں ان کیلئے نہ رہائش کا انتظام ہوا اور نہ کوئی پوچھنے والا ہو تو وہ یہی کہیں گے کہ یہ کتنے بے حیا لوگ ہیں پہلے تو شور کر رہے تھے کہ آؤ آؤ اور اب آئے تو کہتے ہیں کہ تم سے کوئی جان پہچان ہی نہیں.جب لوگ زیادہ آئیں گے تو ان کے کھانے پینے کیلئے بھی زیادہ اشیاء درکار ہوں گی مکان بھی زیادہ

Page 263

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۹ جلد سوم درکار ہوں گے اور خدمت کرنے والے بھی زیادہ چاہئیں.میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ منتظمین کا یہ خیال کہ اس موقع پر بہت زیادہ روسا آئیں گے اور سینکڑوں غیر احمدی امراء شامل ہوں گے صحیح نہیں تمہارے دلوں میں بے شک خلافت اور خلافت جو بلی کی عزت ہو گی مگر دوسروں کے نزدیک اس کی کیا عزت ہوسکتی ہے پندرہ ہیں غیر احمدی رؤسا تو ممکن ہے رونق دیکھنے کے لئے آجائیں یا ممکن ہے کچھ احمدیوں کے دوست آجائیں مگر یہ کہ ہزاروں دوڑے چلے آئیں گے یہ غلط ہے ان کے نزدیک خلافت جو بلی کی نہ کوئی قیمت ہے اور نہ اہمیت.ایاز قدر خود بشناس.آج تمہاری کیا حیثیت ہے کہ بڑے بڑے لوگ دوڑے چلے آئیں گے آج اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو بے شک تمہاری قدر ہے مگر بڑے لوگوں کے نزدیک کوئی نہیں.آج تو بعض جگہ ایک نمبر دار بھی تمہارے پاس سے گزرتا ہے تو ناک چڑھا کر کہہ دیتا ہے کہ یہ بے حیثیت لوگ ہیں مگر تم سمجھتے ہو کہ تمہاری بڑی اہمیت ہے.آج صرف خدا تعالیٰ کے گھر میں تمہاری اہمیت ہے اس لئے اُسی کی طرف توجہ کرو جس کے گھر میں تمہاری عزت ہے، اُسی پر نگاہ رکھو دنیا داروں کے نزدیک ابھی تمہاری عزت کوئی نہیں.بے شک ایک دن آئے گا جب ان کے نزدیک بھی عزت ہوگی اور اُس وقت یہ لوگ بھی کہیں گے کہ ہم تو ہمیشہ سے ہی اس طرف مائل تھے مگر ابھی وہ دن نہیں آیا.اس کیلئے ابھی بہت زیادہ قربانیوں کی ضرورت ہے جب وہ کر لو گے تو وہ دن آئے گا اور اس وقت بادشاہ بھی تمہاری طرف مائل ہوں گے اور کہیں گے کہ ہم تو بچپن سے ہی اس طرف مائل تھے محض اتفاق ہے کہ اب تک اس طرف نہ آسکے.گواب تو معمولی نمبر دار بھی ناک.چڑھا کر گزر جاتا ہے اور کہتا ہے معلوم نہیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور کون نہیں.ہر زمانہ کی حیثیت علیحدہ ہوا کرتی ہے ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں مخالفین نے مسجد کا دروازہ بند کر دیا اور آپ کئی دفعہ گھر میں پردہ کرا کر لوگوں کو مسجد میں لاتے اور کئی لوگ اوپر سے ہو کر آتے سال یا چھ ماہ تک یہ راستہ بند رہا آخر مقدمہ ہوا اور خدا تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ دیوار گرائی گئی بعض خوا میں بھی عجیب ہوتی ہیں میں نے اُس زمانے میں خواب دیکھا کہ میں بڑی مسجد سے جا رہا ہوں اور دیوار

Page 264

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۰ جلد سوم گرائی جارہی ہے میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل تشریف لا رہے ہیں.میں نے ان سے کہا کہ دیوار گرائی جارہی ہے خدا کی قدرت ہے کہ پہلے ایک مقدمہ ہوا وہ فیل ہوا دوسرا ہوا وہ نا کام ہوا تیسرے میں کامیابی ہوئی اور دیوار گرانے کا حکم ہوا.مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفہ اول درس دے رہے تھے جب درس ختم ہوا اور میں گھر کو چلا تو دیکھا کہ دیوار گرائی جارہی ہے میں نے پیچھے دیکھا تو حضرت خلیفہ اول آ رہے تھے اور میں نے ان سے کہا کہ دیوار گرائی جا رہی ہے بعینہ اسی طرح ہوا جس طرح میں نے خواب میں دیکھا تھا.جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے یہ خواب حضرت خلیفۃ المسیح اول کو سنائی ہوئی تھی اور انہوں نے میری بات سن کر فرمایا کہ تمہاری خواب پوری ہوگئی.پھر وہ بھی دن تھے کہ چوک میں جہاں آج کل موٹر میں گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اس کے سامنے لوگ جانور باندھنے کیلئے کیلے گاڑ کر جانور باندھ دیتے تھے اور جب احمد کی اندھیرے میں مہمان خانہ سے نماز کیلئے آتے تو ٹھوکریں کھا کر گرتے.مگر آج یہ زمانہ ہے کہ کہتے ہیں قادیان میں احمدی ظلم کرتے ہیں میں کہتا ہوں کہ مان لو احمدی ظلم کرتے ہیں مگر کیا یہ اللہ تعالیٰ کا نشان نہیں ؟ میں مان لیتا ہوں کہ احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل.کیا مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی تو بہر حال ظاہر ہے.مانا کہ ہم ظالم ہو گئے مگر اس ظلم کی تو فیق کا ہمیں ملنا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کا پورا ہونا ہے تم ہمیں ظالم مان لو مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تو ایمان لے آؤ.اس میں شبہ نہیں کہ غالباً جماعت کے لوگ اس سال زیادہ آئیں گے گو بعض روکیں بھی ہیں جنگ کی وجہ سے سرکاری ملازموں کو چھٹیاں نہیں مل سکیں گی یا کم ملیں گی اس لئے ان میں کمی کا امکان ہے اس لئے ممکن ہے کمی بیشی اس طرح پوری ہو جائے لیکن بہر حال سمجھنا یہی چاہیے کہ اس سال پہلے سے زیادہ لوگ آئیں گے اس لئے زیادہ مکانوں اور زیادہ خادموں کی ضرورت ہوگی اور اگر واقعہ میں تمہارے دلوں میں خوشی ہے تو اس کا اظہار اس طرح کرو کہ زیادہ سے زیادہ مکانات خالی کر کے دو اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں خدمات

Page 265

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۱ جلد سوم کیلئے پیش کرو.یہ ہم خرما و ہم ثواب کا موجب ہو گا خوشی بھی حاصل ہو جائیگی اور ثواب بھی حاصل ہوگا اور اگر ثواب کی نیت نہ ہوگی تو میلہ ٹھیلہ تو ہو ہی جائے گا.میلوں میں کیا ہوتا ہے جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو دیکھنے والے کو کیا مل جاتا ہے کیا اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے یا اسے کوئی اور ذاتی خوشی حاصل ہوتی ہے؟ لوگ کندھے سے کندھے لگاتے ہوئے چلتے ہیں اور تمہاری باچھیں یو نہی کھل جاتی ہیں گویا تمہارے گھر میں بہن برس گیا تو اجتماع میں اللہ تعالیٰ نے خوشی رکھی ہے.حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک مولوی میلوں کے خلاف بہت وعظ کیا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ یہ بدعت ہے دنیا گمراہ ہوگئی لوگوں نے سنت کو چھوڑ دیا وہ کوئی مہینہ بھر پہ ہی شور مچاتا رہتا مگر جب میلہ کا دن آتا تو جبہ پہنے دوڑتا ہوا میلہ کی طرف چل دیتا اور جب کوئی پوچھتا کہ مولوی صاحب! کہاں جا رہے ہیں؟ تو کہتا دنیا گمراہ ہو گئی سمجھانے جاتا ہوں اور وہاں کونے میں کھڑا ہو کر تماشا دیکھنے لگ جاتا اور جب کوئی پوچھتا کہ مولوی صاحب ! آپ یہاں کہاں وہ کہتا کہ حیران کھڑا ہوں کوئی سنتا ہی نہیں.تو ہجوم ایک ذریعہ خوشی کا ہوتے ہیں.کسی روتے ہوئے شخص کو میلہ میں لے جاؤ تو اس کی توجہ بھی ادھر ہو جائیگی اور وہ خوش ہو جائے گا حالانکہ ذاتی طور پر اس کیلئے خوشی کا کوئی سامان اس میں نہیں ہوتا خواہ کوئی پیسہ کے پکوڑے بھی میلہ میں جا کر نہ کھائے خواہ کوئی بچہ ” میری گو راؤنڈ پر سوار نہ ہو سکے ایک دھیلے کا کھلونا بھی نہ خرید سکے مگر وہ ماں سے اصرار ضرور کرے گا کہ میں میلہ میں ضرور جاؤں گا تو ہجوم میں ایک خوشی انسان کو حاصل ہوتی ہے.پس جو لوگ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے جوبلی میں ایک سبق پیدا کرنا چاہتے ہیں انہیں تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں مگر جو لوگ چاہتے ہیں کہ جو بلی کی ایک تقریب پر ہجوم زیادہ ہوتا وہ زیادہ خوشی حاصل کر سکیں ان کو بھی چاہیے کہ وہ مکان بھی زیادہ خالی کر کے دیں اور خدمات کے لئے زیادہ سے زیادہ نام پیش کریں اور چندے بھی زیادہ دیں ابھی تو میں اخباروں میں یہی شور پڑھتا ہوں کہ چندہ پورا نہیں ہوا.پس اگر تمہاری عقیدت ہے تو خوشی کا اظہار ایسے رنگ میں کرو کہ ثواب بھی ہو اور خوشی بھی حاصل ہو جائے اور

Page 266

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۲ جلد سوم اس کی یہی صورت ہے کہ اپنے مالوں ، جانوں اور مکانوں کی زیادہ سے زیادہ قربانی پیش کرو.“ ( الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۳۹ء ) کنز العمال الجزء السادس عشر صفحہ ۴۶ حدیث نمبر ۴۵۴۳۹ مطبوعہ دمشق ۲۰۱۲ء سے بنی اسرائیل: ۲۴ السيرة الحلبية الجزء الثانى باب الهجرة الى المدينة صفحه ۲۲۹ مطبوعہ بیروت لبنان ۲۰۱۲ء شمائل الترمذى باب ماجاء في صفة مزاح رسول الله الله صفحه ۱۴۴ مطبوعہ بیروت مسلم كتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض صفحه ۱۲۶ حدیث نمبر ۶۵۵۶ مطبوعه رياض ۲۰۰۰ء الطبعة الثانية

Page 267

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۳ خلافت جو بلی کی تقریب کے متعلق جلد سوم حملہ مجھ خطبه جمعه فرموده ۱۲ / جنوری ۱۹۴۰ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.وو میں آج ایک اہم امر کے متعلق خطبہ پڑھنا چاہتا تھا اور میں اس بات کی ضرورت سمجھتا تھا کہ اس مضمون کو زیادہ بسط کے ساتھ بیان کیا جائے لیکن جلسہ کے بعد جو انفلوئنزا کا پر ہوا پیچھے اس میں بہت حد تک کمی آجانے کے بعد پرسوں سے پھر دوبارہ میرے سینہ پر نزلہ گرنا شروع ہو گیا ہے اور اس کی وجہ سے میں زیادہ نہیں بول سکتا اور نہ اونچا بول سکتا ہوں مگر مضمون کی اہمیت اور اس کا موقع یہ چاہتا ہے کہ میں اسے پیچھے نہ ڈالوں اور جلد سے جلد اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار جماعت کے سامنے کر دوں اس لئے باوجود طبیعت کی خرابی کے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ میں آج خطبہ میں اسی مضمون کو بیان کروں.ہماری جمات نے اس جلسہ کو جو ابھی گزرا ہے ایک خوشی اور شکریہ کا جلسہ قرار دیا ہے کیا بلحاظ اس کے کہ باوجود دنیا بھر کی مخالفتوں کے وہ نبوت کا پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں لائے تھے اور جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میری بڑی مشکلات میں سے ایک نبوت کا مسئلہ بھی رہا ہے کیونکہ لوگ اس مسئلہ کے سمجھنے کی قابلیت کم رکھتے تھے اور غلط خیالات اور غلط عقائد نے لوگوں کے دماغوں پر ایسا قبضہ جمالیا تھا کہ وہ اس عقیدہ میں کسی اصلاح کیلئے تیار نہ تھے باوجود دنیا کی مخالفت کے پچاس سالہ عرصہ میں برا بر دنیا میں پھیلتا چلا گیا ہے اور جس عقیدہ کے متعلق لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ وہ کسی صورت میں تسلیم کئے جانے کے قابل نہیں وہ دنیا کے ہر گوشہ میں تسلیم کیا جانے لگا ہے اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے تمام براعظموں میں اس عقیدہ کے ماننے والے لوگ

Page 268

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۴ جلد سوم موجود ہیں اور دوسرے اس وجہ سے اس جلسہ کو ایک خوشی کا جلسہ قرار دیا گیا کہ وہ خلافت جو تابع نبوت ہوتی ہے اس کے متعلق بھی لوگوں میں ایسے ہی خیالات موجود تھے اور لوگ سمجھتے تھے کہ خلافت کا خیال دنیا میں قائم نہیں رہ سکتا اور اس آزادی اور نام نہاد ڈیما کریسی کی موجودگی میں خلافت دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتی.یہ خیال زیادہ تر دوسری خلافت کے شروع میں پیش کیا گیا اور اس پر بہت کچھ زور دیا گیا مگر با وجو د اس کے گزشتہ پچیس سال میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کی عظمت قائم کی اور اس کے دامن سے جولوگ وابستہ تھے انہیں ہر میدان میں فتح دی اور ان کا قدم ترقی کی طرف بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ پچیس سال میں جماعت کہیں کی کہیں پہنچ گئی.ہماری جماعت کی ترقی اور اس کی رفتار کی تیزی اس امر سے ہی سمجھی جاسکتی ہے کہ آج ہم ایک معمولی جمعہ کیلئے یہاں جمع ہوئے ہیں جس میں کوئی خاص خصوصیت نہیں صرف قادیان اور چند ارد گرد کے دیہات کے لوگ شامل ہیں مگر باوجود اس کے اس مسجد میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی مسجد سے چار گنے سے بھی زیادہ ہو چکی ہے تمام لوگ بھرے ہوئے ہیں اور ابھی مستورات کیلئے علیحدہ انتظام ہے وہ حصہ اس سے قریباً تہائی ہوگا اور وہ بھی تمام کا تمام بھرا ہوا ہوتا ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری سال جو جلسہ سالا نہ ہوا اس میں جو احمدی شامل ہوے وہ اس مسجد کے چوتھے حصہ میں سما گئے تھے.ہمارے دادا کی جو قبر ہے یہ انتہائی اور آخری حد تھی اور میرے بائیں طرف دو تین گز چھوڑ کر جوستون ہے وہ اس کی ابتدائی حد تھی میرے دائیں طرف مسجد کا کل حصہ اسی طرح بائیں طرف کا برآمدہ اور قبر سے لے کر مشرق کی طرف کا سب حصہ یہ سب زائد ہیں اس نسبت سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ حلقہ اُس وقت کے اجتماع سے چار گنے سے بھی زیادہ ہوگا.یہ اُس وقت کے جلسہ کے لوگوں کی کل تعدا د تھی اور اس تعداد کو اتنا اہم سمجھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جلسہ میں متواتر فرمایا کہ ہم سمجھتے ہیں ہمارا کام دنیا میں ختم ہو چکا ہے مگر آج ہمارے ایک معمولی جمعہ میں اس سے چار گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی موجود ہیں.تو یہ دونوں باتیں چونکہ ہماری جماعت کیلئے خوشی کا موجب تھیں اس لئے انہوں نے اس سالانہ

Page 269

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۵ جلد سوم جلسہ کو دو خوشیوں کا موجب قرار دیا.ایک خوشی تو یہ کہ پیغام نبوت پچاس سالہ کامیابی کے ساتھ با وجود دشمنوں کی مخالفت کے ایسی شان و شوکت پیدا کر چکا ہے کہ دنیا اس کی اہمیت تسلیم کرنے پر مجبور ہے دوسری خوشی یہ کہ پیغام خلافت چھپیس سالہ مخالفت بلکه شروع خلافت کے وقت کے جماعت کے عمائدین کی مخالفت کے باوجو د ترقی کرتا چلا گیا یہاں تک کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ دنیا کے تمام حصوں کو منظم کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے.دنیا میں ب کسی شخص کو کوئی خوشی پہنچتی ہے یا جب کوئی شخص ایسی بات دیکھتا ہے جو اس کیلئے راحت کا موجب ہوتی ہے تو اگر وہ اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتا ہے تو وہ ایسے موقع پر یہی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر ہے کہ ہم کو یہ بات حاصل ہوئی اور جب کسی مسلمان کو ایسی خوشی پہنچتی ہے تو وہ اس مفہوم کو عربی زبان میں ادا کرتا اور کہتا ہے الحمدللہ.تو اس جلسہ پر ہماری جماعت نے جو خوشی منائی اس کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو وہ یہی بنے گا کہ پیغام نبوت اور پیغام خلافت کی کامیابی پر ہماری جماعت نے اس سال احمدیہ کہا مگر باقی دنیا اور اسلام کی تعلیم میں ایک فرق ہے.باقی دنیا الْحَمدُ لله کو اپنی آخری آواز سمجھتی ہے مگر اسلام الْحَمْدُ للهِ کو نہ صرف آخری آواز قرار دیتا ہے بلکہ اس کو ایک نئی آواز بھی قرار دیتا ہے اسلامی تعلیم کے مطابق الحمد لله کا ئنات کے آدم اول کی بھی آواز تھی جیسا کہ وہ کائنات کے آدم آخر کی آواز ہے اور اس طرح اسلام الحمد للہ کے ساتھ اگر ایک سلسلہ اور ایک کڑی کوختم کرتا ہے تو ساتھ ہی دوسرے سلسلہ اور دوسری کڑی کو شروع کر دیتا ہے.چنانچہ سورۃ فاتحہ میں ہم کو یہی بتایا گیا ہے.وہ الحمدللہ سے شروع ہوتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کامیابی اور خوشی دیکھ کر ایک مسلم کہتا ہے.الحمدلله مگر الْحَمْدُ للهِ سورة فاتحہ کی آخری آیت نہیں بلکہ سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت اور جب ہم اسے پڑھتے چلے جاتے ہیں تو اس کے درمیان ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اِيّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی اے ہمارے ربّ! الحمد کے نتیجہ میں ایک اور پروگرام ہمارے سامنے آ گیا ہے اور ایک نئے کام کی بنیا د ہم نے ڈال دی ہے ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم پورے طور پر اس کام کو چلانے کی کوشش کریں گے اور ہم تجھ سے چاہتے ہیں کہ تو اس راہ میں ضروری سامان ہمیں مہیا کر

Page 270

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۶ جلد سوم اور ہماری نصرت اور تائید فرما.پس الحمدلله کو پہلے رکھ کر اور ايّاكَ نَعْبُدُ وَايَّاكَ نَسْتَعِيین کو بعد میں رکھ کر اسلام نے یہ بتایا ہے کہ کوئی حمد اس وقت تک حقیقی حمد نہیں کہلا سکتی جب تک اس کے ساتھ ایک نئے کام کی بنیاد نہ ڈالی جائے ہر حمد جو حمد پر ختم ہو جاتی ہے وہ در حقیقت محمد نہیں بلکہ ناشکری ہے لفظ چاہے حمد کے ہوں مگر حقیقت اس میں ناشکری کی پائی جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کی ایک مثال پائی جاتی ہے آپ رات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے اور بعض دفعہ اتنی لمبی دیر نماز میں کھڑے رہتے کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے جب آپ بوڑھے اور کمزور ہو گئے اور آپ میں اتنی طاقت نہ رہی کہ آپ اس مجاہدہ کو آسانی سے برداشت کر سکیں تو ایک دفعہ آپ کی بیوی نے کہا کہ آپ اتنی تکلیف کیوں اُٹھاتے ہیں؟ کیا آپ کی نسبت خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں نے تیرے اگلے پچھلے ذنوب معاف فرما دیئے ہیں اور کیا آپ کے ساتھ اس کی بخشش کے وعدے نہیں؟ جب ہیں تو آپ اس قدر تکلیف کیوں اُٹھاتے ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ اے عائشہ (حضرت عائشہ کی طرف سے ہی یہ سوال تھا) افلا اكون عَبْدًا شَكُورًا سے کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ ہوں جب خدا نے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے اور اس کا یہ احسان تقاضا کرتا ہے کہ میں آگے سے بھی زیادہ اس کی عبادت کروں اور آگے سے بھی زیادہ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت میں لگ جاؤں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہی بتایا ہے کہ انعام کے نتیجہ میں الحمدُ مومن کا آخری قول نہیں ہوتا بلکہ وہ آخری قول بھی ہوتا ہے اور نئے کام کی بنیاد بھی ہوتا ہے.بہت لوگ جو اس حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں ان پر جب کوئی احسان ہوتا ہے تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے بڑا کام کر لیا اور یہ کہ اب ان کا کام ختم ہو گیا مگر اسلام ایسا نہیں کہتا ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کہتے بلکہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا کوئی احسان ہوتا ہے تو اس کے بعد بندوں پر نئی ذمہ داریاں رکھی جاتی ہیں اگر وہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کیلئے تیار ہوں تب وہ مستحق ہوتے ہیں لحمد لله کہنے کے اور بھی ان کی حمد کی الحمد کہلا سکتی ہے.لیکن اگر ہم کام خ

Page 271

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۷ جلد سوم کر دیتے ہیں یا اس کی قدر نہیں کرتے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہماری حمد جھوٹی تھی کیونکہ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ وہ کام جس پر ہم نے الْحَمْدُ للهِ کہا ایسا اچھا نہ تھا اگر اچھا ہوتا تو اسے جاری رکھتے بلکہ اسے بڑھانے اور ترقی دینے کی کوشش کرتے پس یہ جو خوشی کا جلسہ ہوا اس نے در حقیقت ہماری ذمہ داریوں کو بہت بڑھا دیا ہے ممکن ہے اگر یہ جلسہ نہ ہوتا تو لوگ کہہ دیتے کہ ہم نہیں سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ کا ہم پر اتنا بڑا احسان ہے مگر اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مجھے معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے.اب ہر شخص نے اس امر کا اقرار کر لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر بہت بڑا احسان کیا اور جب خدا نے احسان کیا ہے تو اس کو اب بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے یا ختم کرنیکی.پس میرے نز دیک اس جلسہ نے ہماری جماعت پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد کر دی ہے.یوں تو ہر روز خدا تعالیٰ کی جماعت کو خوشیاں پہنچتی ہی رہتی ہیں مگر ہر روز جشن نہیں منائے جاتے ایک خاص جلسے کے منانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ ایک منزل پر پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے کام میں ایک درجہ کو حاصل کر لیا ہے.پس اس کے بعد ایک نئی ولادت کی ضرورت ہے گویا پہلا سلسلہ ختم ہوا اور اب ایک نیا سلسلہ شروع ہوگا جیسے ایک دانہ بویا جاتا ہے تو اس سے مثلاً ۷۰ یا ۱۰۰ دانے نکل آتے ہیں اب ۷۰ اور ۱۰۰ دانوں کا نکل آنا اپنی ذات میں ایک بڑی کامیابی ہے مگر وہ پہلے پیج کا ایک تسلسل ہوتا ہے اور زمیندا را سے کوئی نیا کام نہیں سمجھتا بلکہ وہ سمجھتا ہے میرے پہلے کام کا ہی سلسلہ جاری ہے لیکن جب زمیندار ان نئے دانوں کو پھر زمین میں ڈال دیتا ہے تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اب میرے کام کا نیا دور شروع ہوا.کام تو وہی ہے مگر اب کام کے دور میں فرق کرنے لگ جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرا پہلا کام ختم ہوا اور اب ایک نیا کام شروع ہے.اسی طرح جب ہماری جماعت نے اس جلسہ کو خوشی کا جلسہ قرار دیا تو بالفاظ دیگر انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہمارا پہلا پیج جو بویا ہوا تھا اُس کی فصل پک گئی اب ہم نیا بیج بور ہے ہیں اور نئی فصل تیار کرنے میں مصروف ہو رہے ہیں.یہ اقرار بظا ہر معمولی نظر آتا ہے لیکن اگر جماعت کی حالت کو دیکھا جائے تو اس اقرار کی اہمیت بہت بڑھ جاتی اور اس پر ایسی ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ اگر اس کے افراد رات دن کوشش نہ کریں تو اس ذمہ داری

Page 272

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۸ جلد سوم سے کبھی عہدہ بر آنہیں ہو سکتے.اس پچاس سالہ دور کے متعلق ہم نے جو خوشی منائی ہمیں غور کرنا چاہیے کہ اس دور کی پہلی فصل کس طرح شروع ہوئی تھی جب ہم اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس پہلی فصل کا بیج صرف ایک انسان تھا.رات کو دنیا سوئی.ساری دنیا اس بات سے نا واقف تھی کہ خدا اس کے لئے کل کیا کرنے والا ہے.کوئی نہیں جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کل کیا ظاہر کرنے والی ہے.یہ آج سے پچاس سال پہلے کی بات ہے ایک فرد بھی دنیا کا نہیں تھا جس کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے.یک دم بغیر اس کے کہ پہلے کوئی انتباہ ہو بغیر اس کے کہ پہلے کوئی انذار ہو، بغیر اس کے کہ پہلے کوئی اعلان ہو ایک شخص جس کو خود بھی یہ معلوم نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے خدا نے اُس کو جگایا اور کہا کہ ہم دنیا میں ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنانا چاہتے ہیں اور تم کو اس زمین اور آسمان کے بنانے کیلئے معمار مقرر کرتے ہیں.اُس کیلئے یہ کتنی حیرت کی بات ہوگی.اس وسیع دنیا میں بڑی بڑی حکومتیں قائم تھیں ، بڑے بڑے نظام قائم تھے پھر اس وسیع دنیا میں باوجو د مسلمانوں کے سابقہ شوکت کھو چکنے کے آج سے پچاس سال پہلے ان کی حکومتیں موجود تھیں.لڑکی ابھی ایک بڑی طاقت سمجھی جاتی تھی، مصرا بھی آزاد تھا ، ایران اور افغانستان آزاد تھے اور یہ اسلامی حکومتیں اسلام کی ترقی اور اس کی تہذیب کا گہوارہ کہلاتی تھیں مگر یہاں وہ آواز پیدا نہیں ہوئی.خدا نے ترکوں کے بادشاہ سے یہ بات نہیں کہی ، خدا نے مصر کے بادشاہ سے یہ بات نہیں کہی ، خدا نے ایران کے بادشاہ سے یہ بات نہیں کہی ، خدا نے افغانستان کے بادشاہ سے یہ بات نہیں کہی ، خدا نے ترکی اور مصر وغیرہ کے جو شیخ الاسلام کہلاتے یا علماء کے رئیس کہلاتے تھے اُن سے یہ نہیں کہا بلکہ ہندوستان کے ایک شخص سے خدا نے یہ بات کہی اور ہندوستان میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے کلکتہ یا بمبئی کے کسی بڑے رئیس یا عالم سے یہ بات نہیں کہی ، لاہور یا امرتسر کے کسی بڑے رئیس یا عالم سے یہ بات نہیں کہی ، کسی ظاہری مرکز یا علمی اور سیاسی مرکز میں رہنے والے سے یہ بات نہیں کہی بلکہ خدا نے ریل سے دور، تمدن سے دور تعلیمی مرکزوں سے دور قادیان میں ایک ایسی بستی میں جو کور کہلانے کی مستحق تھی اور جس

Page 273

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۹ جلد سوم کے رہنے والے بالکل جاہل اور تہذیب و تمدن سے کوسوں دور تھے ایک ایسے شخص سے جو نہ عالم سمجھا جاتا تھا ، نہ فاضل سمجھا جاتا تھا ، نہ مال دار تھا اس کے گھر میں اور اس کے کان میں یہ بات کہی.ہم کسی صورت میں بھی اندازہ نہیں کر سکتے اُس کیفیت کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں اُس وقت پیدا ہوئی ہوگی جس لڑائی کی آپ کو خبر دی گئی تھی وہ یقیناً اس جنگ سے بہت اہم تھی اور ہے جو آجکل جرمنی اور برطانیہ وفرانس میں جاری ہے.تم میں سے آج اگر کسی بچہ کو خواب میں یہ کہا جائے کہ تمہارا فرض ہے کہ جاؤ اور جرمنی کو فتح کرو تو وہ نہایت حیران ہو کر صبح اپنے دوستوں اور ملنے والوں سے کہے گا کہ آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے اور جب وہ بیان کرے گا تو لوگ ہنستے ہوئے کہیں گے کہ معلوم ہوتا ہے رات تم زیادہ کھا گئے ہو گے جس کی وجہ سے تمہیں بد ہضمی ہو گئی اور ایسا خواب آ گیا.وہ خواب کی طرف کبھی توجہ نہیں کرے گا ہاں کبھی کبھی ہنس کر اپنے دوستوں سے کہہ دے گا کہ میں نے ایک دفعہ ایک عجیب بے ہودہ سا خواب دیکھا تھا مگر اسی قسم کی کیفیت میں قادیان میں ایک شخص کو الہام ہوتا ہے اور اسے جس جنگ کی خبر دی جاتی ہے وہ اس جنگ سے بہت زیادہ اہم ہے.پس اُس کے قلب کی جو کیفیت ہوئی ہوگی اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.اگر تو وہ اس الہام کو اس رنگ میں لے لیتا جیسے میں نے بچہ کی مثال دی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے بد ہضمی ہو گئی ہے یا میں نے زیادہ کھا لیا تھا جس کے نتیجہ میں اس قسم کا خواب آیا یا بخار کی کیفیت تھی یا نزلہ اس کا باعث تھا تب بھی سمجھ آ سکتا ہے کہ اس نے اس عظیم الشان خبر کو سن کر اسے برداشت کر لیا ہو گا تبھی تو اس نے تو جہیہ کر لی کہ یہ محض وہم ہے دماغی خیال یا کسی بیماری کا نتیجہ ہے مگر اس نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ الہام کسی دماغی خرابی کا نتیجہ ہے ، اس نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ کسی بیماری کا نتیجہ ہے ، اس نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ کسی بد ہضمی کا نتیجہ ہے، اُس نے اسے خدا ہی کی آواز قرار دیا.جیسا کہ وہ فی الحقیقت خدا کی طرف سے تھی اور اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ اتفاقی آواز ہے جو میرے کان میں پڑ گئی ہے بلکہ وہ فوراً اس آواز کا جواب دینے کیلئے تیار ہو گیا اور اُس نے کہا اے میرے رب ! میں تیری طرف سے لڑائی کے لئے حاضر ہوں.اگر وہ اس آواز کے جواب میں اپنے نفس کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتا کہ یہ میرا وہم ہے یا کسی

Page 274

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۰ جلد سوم اندرونی نقص اور بیماری کا نتیجہ ہے تو بے شک اس کے دل کو صبر آ سکتا تھا اور ہم کہہ سکتے تھے کہ اس کی طبیعت میں اضطراب تو پیدا ہوا ہوگا مگر حد درجہ کا نہیں.مگر اس نے جس رنگ میں اس کلام کو لیا اور اس کی اہمیت کو سمجھا وہ بتلاتا ہے کہ اس نے اسے کھیل نہیں سمجھا اس نے اسے بیماری نہیں سمجھا، اس نے اسے بد ہضمی نہیں سمجھا ، اس نے اسے دماغی خرابی نہیں سمجھا بلکہ اُس نے نہایت یقین اور وثوق کے ساتھ یہ سمجھا کہ خدا نے واقعہ میں یہ کام میرے سپرد کیا ہے.پس وہ تاریک گھڑیاں اور اس کی بقیہ رات اس پر کیسی گزری ہوگی اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے.ابھی تمہیں وہ مقام حاصل نہیں کہ تم بڑے لوگوں کی مجلسوں میں جاسکو.تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے یہ موقع مل سکتا ہو کہ وہ فرانس کے کمانڈرانچیف کے پاس رات گزارے، تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے یہ موقع مل سکتا ہو کہ وہ جرمن کے کمانڈر انچیف کے پاس رات گزارے، تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے یہ موقع مل سکتا ہو کہ وہ انگلستان کے کمانڈر انچیف کے پاس رات گزارے.مگر باوجود اس کے کہ وہ بہت چھوٹی سی جنگ کیلئے کھڑے ہوئے ہیں باوجود اس کے کہ ان کے پاس سامان موجود ہیں، باوجود اس کے کہ ان کے پاس فوجیں موجود ہیں ، باوجود اس کے کہ ان کا تمام ملک ان کی مدد کیلئے کھڑا ہے پھر بھی ان کی راتیں اور دن جس کرب سے گزرتے ہیں اور جس بھاگ دوڑ سے وہ کام لے رہے ہیں اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کو کبھی تھوڑی دیر کیلئے ان کے پاس جانے اور رہنے کا موقع ملا ہو مگر یہ شخص جس پر رات آئی اس کے پاس وہ سامان نہ تھے جو آج انگلستان کے کمانڈرانچیف کو حاصل ہیں ، اس کے پاس وہ سامان نہ تھے جو آج فرانس کے کمانڈر انچیف کو حاصل ہیں ، اس کے پاس وہ سامان نہ تھے جو آج جرمنی کے کمانڈر انچیف کو حاصل ہیں.پھر ان لوگوں کے پاس صرف سامان ہی نہیں بلکہ ملک کی متحدہ طاقت ان کے ساتھ ہے.انگلستان کا کمانڈر انچیف جانتا ہے کہ اگر میرے پاس گولہ بارود ختم ہو گیا تو بھی پرواہ نہیں انگلستان کی تمام طاقت میرے ساتھ ہے اور اس کا بچہ بچہ میرے حکم پر کٹ مرنے کے لئے تیار ہے، فرانس کا کمانڈرانچیف صرف ان سامان کو نہیں دیکھتا جو ا سکے پاس ہیں بلکہ وہ جانتا ہے کہ ملک کی تمام آبادی میرے حکم پر لبیک کہنے کیلئے تیار ہے اور جب میں کہوں گا کہ گولہ بارو دلاؤ تو وہ گولہ بارود

Page 275

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۱ جلد سوم اکٹھا کر دیں گے جب کہوں گا کہ جانی قربانی کرو تو وہ بھیڑ بکریوں کی طرح اپنے سر کٹانے کیلئے آگے آجائیں گے اور اگر اور سامانوں کا مطالبہ کروں گا تو ہ وہ حاضر کر دیں گے.پھر ان کے سامنے اپنی کامیابیوں کی ایک تاریخ موجود ہے لمبی اور مسلسل تاریخ.فرانس کے کمانڈر انچیف کے سامنے فرانس کی کامیابیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے اور انگلستان کے کمانڈرانچیف کے سامنے انگلستان کی کامیابیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے.وہ جانتے ہیں کہ وہ کس طرح بری اور بحری جنگوں میں کو دے اور ہر میدان میں وہ فاتح اور کامیاب رہے یہ ساری چیزیں ان کے سامنے موجود ہیں مگر باوجود اس کے وہ گھبراتے ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اس جنگ کا کیا نتیجہ ہو گا حالانکہ یہ جنگ صرف تلوار کی جنگ ہے دلوں کو فتح کرنے کی جنگ نہیں جو تلوار کی جنگ سے بہت زیادہ اہم اور بہت زیادہ کٹھن ہوتی ہے.اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ آواز جو اس کے کان میں پڑی اُس نے اُس کے دل میں کیا تغیر پیدا کیا ہوگا مگر اُس نے اس آواز کو ہنسی میں نہیں ڈالا اس نے اسے پاگلا نہ خیال نہیں سمجھا ، اس نے اسے بیماری کا نتیجہ قرار نہیں دیا بلکہ اس نے اسے خدا ہی کی آواز قرار دیا اور کہا اے خدا ! میں حاضر ہوں.اس جواب کے بعد اس نے اپنی باقی رات کس طرح گزاری ہوگی اس کا اندازہ دنیا کا کوئی شخص نہیں لگا سکتا.ایک بلبلہ جس طرح سمندر کی سطح پر نمودار ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ دنیا کے سامنے ظاہر ہوا بلکہ بلبلہ اور سمندر کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ بھی اس کے مقابلہ میں بیچ ہے ایک چھوٹا سا بیچ تھا جو بہت بڑے جنگل میں ڈال دیا گیا جہاں خشکی ہی خشکی تھی اور پانی کا ایک قطرہ نہ تھا جہاں ریت ہی ریت تھی اور مٹی کا ایک ذرہ نہ تھا بلکہ وہ بیج جو بیابان میں ڈال دیا جائے ایسے ریگستان میں ڈال دیا جائے جہاں پانی نہیں اور جہاں مٹی کا ایک ذرہ نہیں اس کیلئے بھی بڑھنے کا کچھ نہ کچھ موقع ہو سکتا ہے اُس بلبلے کو بھی کچھ دیر زندہ رہنے کا موقع مل جاتا ہے جسے سمندر کی ہوائیں اِدھر اُدھر لے جاتی ہیں مگر اس کے لئے تو اتنی بھی امید نہ تھی جتنی بلبلے کے متعلق سمندر کی لہروں میں اُمید کی جاتی ہے اور اس کیلئے اتنی بھی نہ تھی جتنی اس پیج کے متعلق امید کی جاسکتی ہے جو ایک وسیع ریگستان میں ڈال دیا جائے.پھر کوئی شخص نہ تھا جس سے وہ مشورہ کر سکتا اور وہ مشورہ کرتا تو کس سے کرتا.مید نہ

Page 276

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۲ جلد سوم انسانی آواز نہ تھی کہ اس کے متعلق کسی انسان سے مشورہ لیا جا تا اگر انسانی آواز ہوتی تو کسی دوسرے سے مشورہ لیا جا سکتا تھا اور کہا جاسکتا تھا کہ ایک انسان نے مجھے یہ بات کہی ہے تمہارے بھی جذبات چونکہ ایسے ہی ہیں جیسے اس کے اسلئے مجھے مشورہ دو کہ میں کیا کروں اور کس طرح دنیا کا مقابلہ کروں مگر یہ آواز خدا کی آواز تھی اس لئے وہ کسی بندے سے مشورہ نہیں کر سکتا تھا اور نہ کوئی بندہ ایسا تھا جو اُ سے مشورہ دے سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جب پہلی دفعہ یہ آواز آئی تو اُس وقت آپ کی جو قلبی کیفیت ہوئی اُس کا پتہ حدیثوں سے لگتا ہے احادیث میں آتا ہے کہ اس آواز کے بعد آپ گھر تشریف لائے آپ بہت گھبرائے ہوئے تھے جسم کا نپ رہا تھا کندھوں کا گوشت شدت ہیبت سے ہل رہا تھا اور رنگ اُڑا ہوا تھا آپ کی وفادار بیوی حضرت خدیجہ نے جب آپ کو اس حال میں دیکھا تو انہوں نے گھبرا کر کہا کہ میں آپ کو کس حال میں دیکھتی ہوں آپ کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدیجہ! مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کیا ہو گیا مجھے یہ آواز آئی ہے کہ اقرا با شورتك الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الانْسَانَ مِنْ عَلَقٍ " آسمان کے خدا نے مجھے بلایا ہے تا کہ میں اس کے نام کولوں اور اسے دنیا میں پھیلاؤں میں حیران ہوں کہ میں اس کام کو کس طرح کروں گا خدائی آواز چونکہ اپنے ساتھ یقین کے انوار رکھتی ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ مجھے بیماری ہو گئی ہے، آپ نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ کوئی دماغی عارضہ ہے یا بد ہضمی کا نتیجہ ہے بلکہ آپ نے فرمایا کہ یہ ہے تو آسمان کی آواز مگر جو کام میرے سپر د کیا گیا ہے میں حیران ہوں کہ اسے کس طرح کروں گا.حضرت خدیجہ آخر آپ کی صحبت میں ہی رہنے والی تھیں انہوں نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے اس کا بہت ہی لطیف جواب دیا وہ ہے تو عورتوں والا جواب مگر بہت ہی ایمان افزاء ہے.عورتیں عموماً سامانوں کو نہیں دیکھتیں بلکہ ان کا ایمان ایمان العجائز ہوتا ہے وہ یہ نہیں دیکھتیں کہ سامان بھی میسر ہیں یا نہیں بلکہ وہ کہتی ہیں کہ کام ہو جائے گا کس طرح ہوگا ؟ اس کا انہیں کوئی علم نہیں ہوتا.خدیجہ کا جواب بھی ویسا جواب ہے انہوں نے فرما یا گلا وَاللَّهِ لَا يُخْزِیكَ اللهُ أَبَداً آپ کیوں گھبراتے ہیں مجھے خدا کی قسم ہے کہ خدا آپ کو کبھی

Page 277

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۳ جلد سوم رُسوا نہیں کرے گا جب اس نے آپ کے سپر د ایک کام کیا ہے تو وہ خود آپ کی مدد کرے گا اور آپ کی کامیابی کیلئے سامان مہیا کرے گا.حضرت خدیجہ کا یہ فقرہ تاریخ میں محفوظ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ فقرہ یہی نہیں کہ تاریخ میں محفوظ ہے بلکہ ان فقروں میں سے ہے جن کو تاریخ بھی مٹا نہیں سکتی.كَلَّا وَاللهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ ابداً وہی ایمان العجائز ہے ، وہی یقین اور وہی وثوق ہے بغیر اس کے کہ وہ عواقب کو دیکھتیں ، بغیر اس کے کہ وہ سامانوں پر نظر دوڑا تیں.پس اس واقعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قلبی کیفیت کا کسی قدر اندازه ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی الہامات نازل ہوئے کہ اُٹھو اور دنیا کو میری طرف بلا ؤ اور دنیا میں پھر میرے دین کو قائم کرو.ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہی کیفیت آپ کی بھی ہوئی ہو گی.آپ بھی حیران ہوئے ہوں گے کہ کہاں میں اور کہاں یہ کام.قادیان جیسی جگہ میں میرے جیسے انسان کو آج خدا یہ کہہ رہا ہے کہ دنیا ، مہذب دنیا ، طاقتور دنیا، سامانوں والی دنیا سمجھ سے دور پڑی ہوئی ہے اتنی دور کہ دنیا اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتی.جاؤ اور ان گناہ کے قلعوں کو پاش پاش کر دو جو اسلام کے مقابلہ میں بنائے گئے ہیں اور جاؤ اور ان شیطانی حکومتوں کو مٹا دو جو میری حکومت کے مقابلہ میں قائم کی گئی ہیں اور ان تمام بے دینی کے قلعوں اور شیطانی حکومتوں کی جگہ میری حکومت اور دین کی بادشاہت قائم کرو.اگر کوئی شخص دور بین نگاہ رکھتا ہے، اگر کوئی شخص حقیقت کو سمجھ سکتا ہے تو میں کہوں گا کہ یہ مطالبہ اس سے بھی زیادہ مشکل تھا جیسے کسی کو چاند دکھایا جائے اور کہا جائے کہ جاؤ اور اس چاند کو جا کر توڑ ڈالو.وہ تو وہاں جا بھی نہیں سکتا پھر اس سے یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس کو توڑ ڈالے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تو وہاں پہنچ بھی نہ تھی جہاں خدا آپ کو پہنچانا چاہتا تھا.بھلا کونسے ذرائع آپ کے پاس ایسے موجود تھے کہ آپ امرتسر کے لوگوں تک ہی اپنی آواز پہنچا سکتے یا لاہور ، بمبئی ، اور کلکتہ کے لوگوں تک یہ الہی پیغام پہنچا سکتے یا کون سے ذرائع آپ کے پاس ایسے موجود تھے کہ آپ عرب کے لوگوں کو بیدار کر سکتے.آپ انگلستان اور امریکہ تک اپنی آواز پہنچا سکتے.ہزاروں آواز میں دنیا میں گونج رہی تھیں، ہزاروں تو میں

Page 278

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۴ جلد سوم دنیا میں موجود تھیں، بیسیوں حکومتیں دنیا میں پائی جاتی تھیں جن کی نگاہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتنی بھی تو عزت نہ تھی جتنی دنیا وی حکومت کے سیکرٹریٹ کے چپڑاسی کی ہوتی ہے مگر خدا نے کہا اُٹھ اور دنیا کو میرا پیغام پہنچا دے اور اُس نے کہا اے میرے رب ! میں حاضر ہوں.اس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ کام کیونکر ہوگا اس کا جسم کانپا ہو گا.یقیناً اس کے دل پر رعشہ طاری ہوا ہوگا.یقیناً وہ حیران ہوا ہوگا.مگر اس نے یہ نہیں پوچھا کہ یہ کام کیونکر اور کس طرح ہوگا اس کے دل کے تقویٰ اور محبت الہی نے اسے سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا اور اس کے جذبہ فدائیت نے یہ پوچھنے ہی نہیں دیا کہ اے میرے رب ! یہ کس طرح ہوگا ؟ اُس نے پہلے کہا ہاں اے میرے رب ! میں حاضر ہوں اور پھر اس نے سوچا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں یہ کام کس طرح ہوگا ؟ یہی وہ حقیقی اطاعت کا جوش ہے جو لبیک پہلے کہلوا دیتا ہے اور فکر پیچھے پیدا ہوتا ہے.صحابہ کی مجلس کا ہی ایک واقعہ ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ جہاں سچی محبت ہوتی ہے وہاں تعمیل پہلے ہوتی ہے اور فکر بعد میں پیدا ہوتا ہے.اہل عرب شراب کے سخت عادی تھے ایسے عادی کہ بہت کم لوگ ان کی طرح شراب کے عادی ہوتے ہیں ان کا تمام لٹریچر ، شعر ، نثر اور خطبے شراب کے ذکر سے بھرے ہوئے ہوتے تھے مسلمان بھی چونکہ انہی میں سے آئے تھے اس لئے ان میں بھی وہی عادتیں تھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ماتحت شروع میں شراب حرام نہیں کی.مکہ کا سارا زمانہ گزر گیا اور شراب حلال رہی.مدینہ میں بھی چند سال اسی طرح گزر گئے اور شراب کی حرمت نہ ہوئی یہاں تک کہ ایک دن اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اب شراب حرام کی جاتی ہے.آپ مسجد میں آئے اور جو لوگ اُس وقت موجود تھے ان سے کہا کہ اب خدا نے شراب حرام کر دی ہے اور ایک شخص سے کہا کہ جاؤ مدینہ کی گلیوں میں شراب کی حرمت کا اعلان کر دو.اُس وقت مدینہ میں ایک خوشی کی مجلس منعقد ہو رہی تھی اور حسب دستور اس مجلس میں شراب کے مٹکے رکھے ہوئے تھے لوگ باتیں کرتے ، گاتے بجاتے اور شرابیں پیتے جاتے تھے ایک بہت بڑا مٹکا وہ ختم کر چکے تھے اور دو مٹکے شراب کے ابھی باقی تھے.تم سمجھ سکتے ہو

Page 279

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم کہ جہاں شراب کا ایک مٹکا ختم ہو چکا ہو وہاں دماغوں کی کیا کیفیت ہو گی.اُس وقت وہ لوگ نشہ میں آئے ہوئے تھے اور اُن کے ہوش و حواس بہت کچھ زائل ہو چکے تھے کہ بازار میں سے اس شخص کی یہ آواز آئی کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے.انہیں شراب سے مدہوش لوگوں میں سے ایک شخص گھبرا کر اُٹھا اور کہنے لگا میرے کان میں ایک آواز آئی ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے میں باہر نکل کر دیکھوں تو سہی یہ آواز کیسی ہے.میں سمجھتا ہوں اگر اتنے پر ہی بس ہو جاتی تو یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس محبت کا جو صحابہ کے دلوں میں تھی مجزا نہ نمونہ ہوتا.شراب کے نشہ میں بھلا کون دیکھتا ہے کہ کیسی آواز آرہی ہے.عام حالات میں تو وہ ہنستے اور کہتے کہ شراب کو کون حرام کر سکتا ہے.پس اگر بات یہیں تک رہتی تب بھی یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا ایک معجز نما ثبوت ہوتی مگر اسی پر بس نہیں جب اُس نے یہ کہا کہ میں دیکھوں تو سہی یہ آواز کیسی آرہی ہے تو ایک اور آدمی جو شراب کے نشہ میں مست بیٹھا ہوا تھا اور شراب پی پی کر اُس کے دماغ میں نشہ غالب آ رہا تھا ایک دم اس حالت سے بیدار ہوا اور بولا کہ کیا کہا تم نے ؟ ہمارے کان میں آواز پڑتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی اور تم کہتے ہ تحقیق کرو اس کی بات کہاں تک سچ ہے.خدا کی قسم ! میں ایسا نہیں کروں گا میں پہلے شراب کا ملکہ تو ڑوں گا بعد میں پوچھوں گا.یہ کہہ کر اُس نے سونا پکڑ کر زور سے مٹکوں کو مارا اور انہیں تو ڑ دیا اور شراب صحن میں پانی کی طرح بہنے لگی.اس کے بعد اس نے دروازہ کھول کر اعلان کرنے والے سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ اعلان کر دوں کہ شراب حرام کر دی گئی ہے اُس نے کہا ہم تو پہلے ہی شراب کے مٹکے توڑ چکے ہیں.خدا کی رحمتیں ہوں اُس شخص پر.اُس نے عشق کا ایک ایسا نمونہ قائم کیا کہ قیس اور مجنوں کا عشق اگر اس میں کوئی حقیقت تھی بھی اس کے عشق کے مقابل پر مرجھا کر رہ جاتا ہے.اس حقیقی محبت کے مظاہرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں دلیلیں نہیں پوچھی جاتیں وہاں انسان پہلے اطاعت کا اعلان کرتا ہے پھر یہ سوچتا ہے کہ میں اس حکم پر کسی طرح عمل کروں.یہی کیفیات

Page 280

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۶ جلد سوم انبیاء کی ہوتی ہیں جب اللہ تعالیٰ کا پہلا کلام اُترتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے دلوں میں اتنی ہوتی ہے اتنی ہوتی ہے کہ وہ دلیل بازی نہیں کرتے اور جب خدا کی آواز ان کے کانوں میں پہنچتی ہے تو وہ یہ نہیں کہتے کہ اے ہمارے رب کیا تو ہم سے جنسی کر رہا ہے کہاں ہم اور کہاں یہ کام بلکہ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! بہت اچھا اور یہ کہہ کر کام کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد سوچتے ہیں کہ اب انہیں کیا کرنا چاہیے.یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس رات کیا.خدا نے کہا اُٹھ اور دنیا کی ہدایت کیلئے کھڑا ہو اور وہ فوراً کھڑے ہو گئے اور پھر یہ سوچنے لگے کہ اب میں یہ کام کس طرح کروں گا.پس آج سے پچاس سال پہلے کی وہ تاریخی رات جو دنیا کے آئندہ انقلابات کیلئے زبر دست حربہ ثابت ہونے والی ہے جو آئندہ بننے والی نئی دنیا کیلئے ابتدائی رات اور ابتدائی دن قرار دی جانے والی ہے اگر ہم اس رات کا نظارہ سوچیں تو یقیناً ہمارے دل اِس خوشی کو بالکل اور نگاہ سے دیکھیں.ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ یہ خوشی انہیں کس گھڑی کے نتیجہ میں ملی.یہ مسرت انہیں کس پل کے نتیجہ میں حاصل ہوئی اور کس رات کے بعد ان پر کامیابی و کامرانی کا دن چڑھا.یہ خوشی اور یہ مسرت اور یہ کامیابی و کامرانی کا دن اُن کو اُس گھڑی اور اس رات کے نتیجہ میں ملا جس میں ایک تن تنہا بندہ جو دنیا کی نظروں میں حقیر اور تمام دنیوی سامانوں سے محروم تھا اُسے خدا نے کہا کہ اُٹھ اور دنیا کی ہدایت کیلئے کھڑا ہو اور اس نے کہا اے میرے رب میں کھڑا ہو گیا.یہ وہ وفاداری تھی ، یہ وہ محبت کا صحیح مظاہرہ تھا جسے خدا نے قبول کیا اور اس نے اپنے فضل اور رحم سے اُس کو نوازا.رونا اور ہنسنا دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی شان سے بعید ہیں لیکن محبت کی گفتگو میں اور محبت کے کلاموں میں یہ باتیں آہی جاتی ہیں.پس میں کہتا ہوں اگر خدا کیلئے بھی رونا ممکن ہوتا ، اگر خدا کیلئے بھی ہنسنا ممکن ہوتا تو جس وقت خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ میں تجھے دنیا کی اصلاح کیلئے کھڑا کرتا ہوں اور آپ فوراً کھڑے ہو گئے اور آپ نے یہ سوچا تک نہیں کہ یہ کام مجھ سے ہوگا کیونکر؟ اگر اُس وقت خدا کیلئے رونا ممکن ہوتا تو میں یقیناً جانتا ہوں

Page 281

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم کہ خدا رو پڑتا اور اگر خدا کیلئے ہنسنا ممکن ہوتا تو وہ یقیناً ہنس پڑتا.وہ ہنستا بظا ہر اس بے وقوفی کے دعویٰ پر جو تمام دنیا کے مقابلہ میں ایک نحیف و ناتواں وجود نے کیا اور وہ رو پڑتا اس جذ بہ محبت پر جو اس تن تنہا روح نے خدا کیلئے ظاہر کیا یہی سچی دوستی تھی جو خدا کو منظور ہوئی اور اسی رنگ کی سچی دوستی ہی ہوتی ہے جو دنیا میں کام آیا کرتی ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہی یہ واقعہ سنا ہوا ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو ہمیشہ یہ نصیحت کیا کرتا تھا کہ تم جلدی لوگوں کو دوست بنا لیتے ہو یہ کوئی اچھی بات نہیں.سچے دوست کا ملنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے اور وہ کہتا کہ آپ کو غلطی لگی ہوئی ہے میرے دوست سب سچے ہیں اور خواہ مجھ پر کیسی ہی مصیبت کا وقت آئے یہ میری مدد سے گریز نہیں کریں گے.اُس نے بہتیرا سمجھایا مگر بیٹے پر کوئی اثر نہ ہوا.باپ نے کہا کہ میں ساٹھ ستر سال کی عمر کو پہنچ گیا ہوں مگر مجھے تو اب تک صرف ایک ہی دوست ملا ہے اور وہ بھی فلاں غریب شخص ، جسے اس کا بیٹا حقارت سے دیکھا کرتا تھا اور اپنے باپ سے کہا کرتا کہ آپ اتنے بڑے ہو کر اس سپاہی سے کیوں محبت رکھتے ہیں اور باپ ہمیشہ یہی کہتا کہ مجھے تمام عمر اگر کوئی سچا دوست ملا ہے تو یہی ہے.آخر ایک دن اس نے اپنے بیٹے سے کہا تم میری بات نہیں مانتے تو تجربہ کرلو اور اپنے دوستوں سے جا کر کہو کہ میرے باپ نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا ہے میرے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں میرے لئے رہائش اور خوراک کا انتظام کر دو.اُس نے کہا بہت اچھا چنانچہ وہ ایک ایک کے پاس گیا مگر جس دوست کے پاس بھی جاتا وہ پہلے تو کہتا کہ آپ نے بڑی عزت افزائی فرمائی سنائیے آپ کا کیسے آنا ہوا ؟ اور جب یہ کہتا کہ میرے باپ نے مجھے نکال دیا ہے اب میں آپ کے پاس آیا ہوں تا کہ آپ میری رہائش وغیرہ کا انتظام کر دیں تو وہ یہ سنتے ہی کوئی بہانہ بنا کر اندر چلا جاتا.غرض اسی طرح اس نے سارے دوستوں کا چکر لگایا اور آخر باپ کے پاس آکر کہا کہ آپ کی بات ٹھیک نکلی.میرے دوستوں میں سے ایک بھی تو نہیں جس نے مجھے منہ لگایا ہو باپ نے کہا اچھا تم نے اپنے دوستوں کا تو تجربہ کر لیا اب آج کی رات میرے دوست کا بھی تجربہ کر لیتا.چونکہ وہ امیر آدمی تھا اس لئے وہ اپنے دوست کے مکان پر نہیں جایا کرتا تھا اکثر وہی اس کے مکان پر آجا تا مگر اس رات وہ اچانک

Page 282

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۸ جلد سوم بیٹے کو ساتھ لیکر اپنے دوست کے مکان پر گیا اور دروازہ پر دستک دی.آدھی رات کا وقت تھا اُس نے پوچھا کون؟ اُس نے اپنا نام بتایا کہ میں ہوں وہ کہنے لگا بہت اچھا ذرا ٹھہریئے میں آتا ہوں یہ باہر ا نتظار کرنے لگ گئے مگر کافی وقت گزر گیا اور وہ اندر سے نہ نکلا یہ دیکھ کر بیٹا کہنے لگا جناب! آپ کا دوست بھی آخر ویسا ہی نکلا.باپ کہنے لگا ذرا ٹھہرو مایوس نہ ہو دیر لگانے کی کوئی وجہ ہوگی آخر کوئی آدھ گھنٹہ کے بعد وہ دوست باہر نکلا اس کی حالت یہ تھی کہ اس نے گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی ایک ہاتھ میں روپوں کی تھیلی تھی اور دوسرے ہاتھ سے اُس نے اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور کہنے لگا معاف کیجئے مجھے دیر ہوگئی اصل بات یہ ہے کہ جب مجھے آپ کی آواز آئی تو میں نے سمجھا کہ ضرور کوئی بڑا کام ہے جس کیلئے آپ رات کو میرے پاس آئے ہیں میں نے سوچا کہ آخر آپ کو مجھ سے اس وقت کیا کام ہو سکتا ہے اور میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ دنیا میں مصیبتیں آتی رہتی ہیں اور بعض دفعہ بڑے بڑے امیر آدمی بھی بلاء میں گرفتار ہو جاتے ہیں پس میں نے سمجھا کہ شاید کوئی بیمار ہے جس کی خدمت کیلئے مجھے بلایا ہے اس لئے میں نے فوراً اپنی بیوی کو جگایا اور کہا کہ میرے ساتھ چل ممکن ہے کسی خدمت کی ضرورت ہو.پھر میں نے سوچا ممکن ہے کسی دشمن سے مقابلہ ہو جس میں میری جان کی ضرورت ہو سو اس خیال کے آنے پر میں نے تلوار نکال کر گلے میں لٹکالی کہ اگر جانی قربانی کی ضرورت ہو تو میں اس کے لئے بھی حاضر ہوں.پھر میں نے سوچا کہ آپ امیر تو ہیں ہی مگر بعض دفعہ امراء پر بھی ایسے اوقات آجاتے ہیں کہ وہ روپوں کے محتاج ہو جاتے ہیں پس میں نے سوچا کہ شاید اس وقت آپ کو روپوں کی ضرورت ہو میں نے ساری عمر تھوڑا تھوڑا جمع کر کے کچھ روپیہ حفاظت سے رکھا ہوا تھا اور اسے زمین میں ایک طرف دبا دیا تھا.اس خیال کے آنے پر میں نے زمین کو کھود کر اس میں سے تھیلی نکالی اور اب یہ تینوں چیز میں حاضر ہیں فرمایئے آپ کا کیا ارشاد ہے؟ دنیا کی زبان میں یہ دوستی کی نہایت ہی شاندار مثال ہے اور انسان ایسے جذبات کو دیکھ کر بغیر اس کے کہ وہ اپنے دل میں شدید ہیجان محسوس کرے نہیں رہ سکتا مگر اس دوستی کا اظہار اُس دوستی کے مقابلہ میں کچھ بھی تو نہیں جو نبی اپنے خدا کیلئے ظاہر کرتے ہیں.وہاں

Page 283

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۹ جلد سوم قدم قدم پر قربانیاں پیش کرنی پڑتی ہیں اور وہاں قدم قدم پر مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے پس نبیوں کا جواب اپنے خدا کو ویسا ہی ہوتا ہے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر جیسے اس غریب آدمی نے امیر آدمی کو دیا.بے شک اگر ہم معقولات کی نظر سے اس کو دیکھیں اور منطقی نقطہ نگاہ سے اس پر غور کریں تو اس غریب آدمی کی یہ حرکت ہنسی کے قابل نظر آتی ہے کیونکہ اس امیر کے ہزاروں نوکر چاکر تھے ان کے ہوتے ہوئے اس کی بیوی نے کیا زائد خدمت کر لینی تھی ، اسی طرح وہ لاکھوں کا مالک تھا اس کو سو ڈیڑھ سو روپیہ کی تھیلی کیا فائدہ پہنچا سکتی تھی اور خود اس کے کئی پہریدار اور محافظ تھے اس کو اس دوست کی تلوار کیا نفع پہنچا سکتی تھی مگر محبت کے جوش میں اس نے یہ نہیں سوچا کہ میری تلوار کیا کام دے گی، میرا تھوڑا سا روپیہ کیا فائدہ دے گا اور میری بیوی کیا خدمت سر انجام دے سکے گی اُس نے اتنا ہی سوچا کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ مجھے حاضر کر دینا چاہیے.ایسے ہی بے وقوفی کے واقعات میں مجھے بھی اپنا ایک واقعہ یاد ہے کئی دفعہ اس واقعہ کو یاد کر کے میں ہنسا بھی ہوں اور بسا اوقات میری آنکھوں میں آنسو بھی آگئے ہیں مگر میں اسے بڑی قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا کرتا ہوں اور مجھے اپنے زندگی کے جن واقعات پر ناز ہے ان میں وہ ایک حماقت کا واقعہ بھی ہے وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک رات ہم سب صحن میں سور ہے تھے گرمی کا موسم تھا کہ آسمان پر بادل آیا اور زور سے گر جنے لگا اِسی دوران میں قادیان کے قریب ہی کہیں بجلی گر گئی مگر اس کی کڑک اس زور کی تھی کہ قادیان کے ہر گھر کے لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ بجلی شاید ان کے گھر میں ہی گری ہے.ہمارے مدرسہ میں ہی ایک واقعہ ہوا جس کو یاد کر کے لڑکے مدتوں ہنستے رہے اور وہ یہ کہ فخر دین ملتانی جو بعد میں مرتد ہو گیا وہ اُس وقت طالبعلم تھا اور بورڈنگ ہاؤس میں رہا کرتا تھا جب بجلی کی زور سے کڑک ہوئی تو اُس نے اپنے متعلق سمجھا کہ بجلی شاید اُس پر گری ہے اور وہ ڈر کے مارے چار پائی کے نیچے چھپ گیا اور زور زور سے آواز دینے لگا کہ بلی بلی.بجلی کا لفظ اس کے منہ سے نکالتا ہی نہیں تھا ڈر کے مارے بلی بلی کہنے لگ گیا پہلے تو سارے ہی لڑکے بھاگ کر کمروں میں چلے گئے مگر پھر تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلے تو اسے چار پائی کے نیچے چھپا ہوا پایا اور دیکھا کہ وہ بلی بلی کر رہا ہے.

Page 284

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۰ جلد سوم آخر پوچھا تو اس کے ہوش ٹھکانے آئے اور کہنے لگا کہ مجھ پر بجلی گر پڑی ہے تو وہ اتنی زور کی کڑک تھی کہ ہر شخص نے یہ سمجھا کہ اسی کے قریب بجلی گری ہے.اس کڑک کی وجہ سے اور کچھ بادلوں کی وجہ سے تمام لوگ کمروں میں چلے گئے.جس وقت بجلی کی یہ کڑک ہوئی اُس وقت ہم بھی جو صحن میں سورہے تھے اُٹھ کر اندر چلے گئے مجھے آج تک وہ نظارہ یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اندر کی طرف جانے لگے تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر پر رکھ دیئے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے ان پر نہ گرے.بعد میں جب میرے ہوش ٹھکانے آئے تو مجھے اپنی اس حرکت پر ہنسی آئی کہ ان کی وجہ سے تو ہم نے بجلی سے بچنا تھا نہ یہ کہ ہماری وجہ سے وہ بجلی سے محفوظ رہتے.میں سمجھتا ہوں میری وہ حرکت ایک مجنوں کی حرکت سے کم نہیں تھی مگر مجھے ہمیشہ خوشی ہوا کرتی ہے کہ اس واقعہ نے مجھ پر بھی اُس محبت کو ظاہر کر دیا جو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تھی.بسا اوقات انسان خود بھی نہیں جانتا کہ مجھے دوسرے سے کتنی محبت ہے جب اس قسم کا کوئی واقعہ ہو تو اسے بھی اپنی محبت کی وسعت اور اس کی گہرائی کا اندازہ ہو جاتا ہے تو جس وقت محبت کا انتہائی جوش اُٹھتا ہے عقل اُس وقت کام نہیں کرتی محبت پرے پھینک دیتی ہے عقل کو.اور محبت پرے پھینک دیتی ہے فکر کو.اور وہ آپ سامنے آجاتی ہے جس طرح چیل جب مرغی کے بچوں پر حملہ کرتی ہے تو مرغی بچوں کو جمع کر کے اپنے پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے اور بعض دفعہ تو محبت ایسی ایسی حرکات کرا دیتی ہے کہ دنیا اسے پاگل پنے کی حرکات قرار دیتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ جنون دنیا کی ساری عقلوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور دنیا کی ساری عقلیں اس ایک مجنونانہ حرکت پر قربان کی جاسکتی ہیں کیونکہ اصل عقل وہی ہے جو محبت سے پیدا ہوتی ہے.نبی کو بھی جب آواز آتی ہے کہ خدا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا خدا.خدا عزت و شوکت کو پیدا کرنے والا خدا، بادشاہوں کو گرا اور گداؤں کو بادشاہ بنانے والا خدا حکومتوں کو قائم کرنے اور حکومتوں کو مٹانے والا خدا ، دولتوں کے دینے اور دولتوں کو لے لینے والا خدا ، رزق کے دینے اور رزق کو چھیننے والا خدا ، زمین و آسمان کے ذرہ ذرہ اور کائنات کا مالک خدا آواز دیتا ہے ایک کمزورونا تو اں اور نحیف انسان کو کہ میں مدد کا محتاج

Page 285

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۱ جلد سوم ہوں میری مدد کرو.تو وہ کمزور اور ناتواں اور نحیف بندہ عقل سے کام نہیں لیتا وہ یہ نہیں کہتا کہ حضور! کیا فرما رہے ہیں؟ کیا حضور مدد کے محتاج ہیں؟ حضور تو زمین و آسمان کے بادشاہ ہیں میں کنگال غریب اور کمزور آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں.وہ یہ نہیں کہتا بلکہ وہ نحیف و نزار اور کمزور جسم کو لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں کون ہے جو ان جذبات کی گہرائیوں کا اندازہ کر سکتا ہے سوائے اس کے جسے محبت کی چاشنی سے تھوڑا بہت حصہ ملا ہو.آج سے پچاس سال پہلے اسی خدا نے پھر یہ آواز بلند کی اور قادیان کے گوشہ تنہائی میں پڑے ہوئے ایک انسان سے کہا کہ مجھے مدد کی ضرورت ہے، مجھے دنیا میں ذلیل کر دیا گیا ہے، میری دنیا میں کوئی عزت نہیں ، میرا دنیا میں کوئی نام لیوا نہیں ، میں بے یار و مددگار ہوں ، اے میرے بندے! میری مدد کر.اس نے نہیں سوچا کہ کہنے والا کون ہے اور جس سے خطاب کیا جاتا ہے وہ کون ہے اس کی عقل نے یہ نہیں کہا کہ مجھے بلانے والے کے پاس تمام طاقتیں ہیں میں بھلا اس کی کیا مدد کر سکتا ہوں.اس کی محبت نے اس کے دل میں ایک آگ لگادی اور وہ دیوانہ وار جوش میں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا میرے رب ! میں حاضر ہوں ، میرے رب ! میں حاضر ہوں، میرے رب ! میں بچاؤں گا ! میرے رب ! میں بچاؤں گا.یہی تو وہ ساعت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تیلَةُ الْقَدْرِ خَيْرُ من الفِ شَهْرٍر اس رات پر ہزاروں راتیں قربان ہیں اور چونکہ بار بار ایسی راتیں آجاتی ہیں اس لئے خدا نے خَيْرُ من الفِ شَهْرٍ کہاور نہ اگر ایک ہی رات ہوتی تو دنیا کی ساری راتیں اس ایک رات ، اس ایک گھنٹے ، اس ایک منٹ اور اس ایک سیکنڈ پر قربان کی جاسکتی ہیں.جب ایک کمزور بندہ اپنی محبت کے جوش میں بغیر سوچے سمجھے اور بغیر عواقب پر غور کئے تلوار لے کر کھڑا ہو جاتا اور خدا کے اردگرد پہرہ دینے لگ جاتا ہے تو وہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوتا ہے جب قادر وقد بر خدا ، جب زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا خدا ایک نحیف و نزار جسم کے ساتھ چار پائی پر لیٹا ہوا ہوتا ہے اور ایک نحیف و نزار انسان جو اپنی کمر بھی سیدھی نہیں کرسکتا وہ تلوار لے کر اس کے اردگرد پہرہ دے رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے میں اسے بچاؤں گا، میں اسے بچاؤں گا.اس سے زیادہ

Page 286

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۲ جلد سوم محبت کا شاندار نظارہ کبھی نظر نہیں آسکتا اور کبھی نظر نہیں آ سکتا.یہی رات ہمارے زمانہ میں بھی آئی اور خدائے قادر نے آواز دی کہ کوئی بندہ ہے جو مجھے بچائے.تب زمین کے گوشوں میں سے ایک کمزور شخص آگے بڑھا اور اس نے کہا.میرے رب ! میں حاضر ہوں.عقلمند انسان چاہے اسے بے وقوفی قرار دیں اور فلاسفر چاہے اسے نادانی قرار دیں مگر جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے ہزاروں عقلیں اس بے وقوفی پر قربان کی جاسکتی ہیں اور ہزاروں فلسفے کے خیالات اس بظا ہر نادانی کے خیال پر قربان کئے جاسکتے ہیں.پھر اس کا وہ اعلان محض وقتی اعلان نہ تھا، اِس کا اظہار محبت ایک وقتی جوش نہ تھا وہ کھڑا ہو گیا اور کھڑا ہی رہا یہاں تک کہ اس نے اپنے مقصود کو حاصل کر لیا.کیا تم نے کبھی گھروں میں نہیں دیکھا کہ وہاں بعض دفعہ کیا تماشہ ہوا کرتا ہے میں نے تو اس قسم کا تماشہ کئی دفعہ دیکھا اور میں سمجھتا ہوں ہر گھر میں کبھی نہ کبھی ایسا ہو جا تا ہوگا کہ کبھی کبھی مائیں ہنسی کے طور پر کپڑا منہ پر ڈال کر رونے لگ جاتی ہیں اور اوں اوں“ کرتے ہوئے اپنے کسی بڑے بھائی یا خاوند یا کسی دوسرے عزیز رشتہ دار کا نام لیکر بچے سے کہتی ہیں کہ وہ مجھے مارتے ہیں.یہ دیکھ کر وہ ڈیڑھ سال کا بچہ کو دکر کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنا ہاتھ اُٹھا لیتا ہے گویا وہ اس شخص کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جس کے متعلق اس کی ماں کہتی ہے کہ وہ مجھے مارتا ہے حالانکہ ماں کو بچانا تو الگ رہا بعض دفعہ وہ اپنا ہاتھ بھی اچھی طرح نہیں اُٹھا سکتا مگر جانتے ہو یہ کیا ہوتا ہے؟ یہ محبت کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ بچہ یہ نہیں دیکھتا میں کمزور اور ناتواں ہوں بلکہ ماں جب اسے آواز دیتی ہے تو وہ اپنی کمزور حالت کو نظر اندار کرتے ہوئے اُس کی مدد کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے.یہی حالت اُس رات اس گھڑی ، اس سیکنڈ اور اُس پل میں نبیوں کی ہوتی ہے خدا تعالیٰ کہتا ہے اے میرے بندے ! میں چھوڑ دیا گیا اے میرے بندے! مجھے دنیا نے دھتکار دیا اور مجھے اپنے گھر سے نکال دیا، کوئی ہے جو مجھے بچائے.اور وہ ناتواں اور نحیف بندہ چھوٹے سے نادان بچے کی طرح مٹھیاں بھینچ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میں بچاؤں گا میں بچاؤں گا.پھر وہ صرف کہتا ہی نہیں بلکہ اس کو بچانے میں لگ جاتا ہے.اس بچے کا تو عشق کامل نہیں ہوتا.اگر واقعہ میں جو شخص ہنسی کر رہا ہوتا ہے وہ اس

Page 287

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۳ جلد سوم بچے کو تھپڑ مارے تو اس نے ماں کو تو کیا بچانا ہے وہ خود ماں سے لپٹ جائے گا اور دوڑ کر اس کی گود میں چلا جائیگا مگر یہ شخص ایسا ہوتا ہے کہ دنیا اسے مارتی ہے ہاتھوں سے بھی لاتوں سے بھی اور دانتوں سے بھی اور چاروں طرف سے، اُس پر لعنت اور پھٹکار ڈالی جاتی ہے مگر وہ اپنے جسم کو ہلا تا نہیں ، وہ چیختا نہیں ، وہ چلاتا نہیں بلکہ برابر مقابلہ کئے جاتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہونے لگتی ہیں اور ایک ایک کر کے ، ایک ایک کر کے، ایک ایک کر کے بندوں کو وہ خدا تعالیٰ کے دربار میں لانا شروع کر دیتا ہے.وہ کمزور باز و طاقت پکڑنے لگ جاتے ہیں ، وہ لڑکھڑانے والی زبان مضبوط ہونے لگ جاتی ہے، وہ دبی ہوئی آواز طاقت وقوت پکڑتی جاتی ہے اور وہ نہایت ہی ذلیل نظر آنے والا وجود اپنے اندر ایسی ہیبت پیدا کر لیتا ہے کہ لوگ اُس سے کانپنے اور اس کے سامنے کھڑا ہونے سے لرزتے ہیں اور وہ قربانی کرتا چلا جاتا ہے کرتا چلا جاتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ ایک جماعت کو لا ڈالتا ہے اور زمین و آسمان کا خدا جسے لوگوں نے اپنے گھروں میں سے نکال دیا تھا اُس کیلئے نئے نئے محلات بننے لگ جاتے ہیں.کوئی یہاں ، کوئی وہاں ، کوئی ادھر کوئی اُدھر اور وہ خدا جو مسیح کی طرح اپنے نبی کو یہ آواز دیتا ہے کہ اے میرے بندے! لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر میرے لئے تو سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں کہ اس کے لئے وہ سب سے پہلے اپنے دل کا دروازہ کھول دیتا ہے اور کہتا ہے اے میرے رب ! یہ گھر حاضر ہے.پھر وہ اور گھروں کے تالے کھولتا ہے اور دیوانہ وار مجنونا نہ کھولتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک گھر کی بجائے خدا کے کئی گھر ہو جاتے ہیں اور خدا کی حکومت زمین پر اسی طرح قائم ہو جاتی ہے جس طرح وہ آسمان پر قائم ہے.پھر یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے بڑھتا جاتا ہے اور بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے جب خدا اپنے بندے سے کہتا ہے کہ میرے بندے ! تو نے بہت خدمت کر لی اور میں سمجھتا ہوں تو نے اپنی خدمت کا حق ادا کر دیا پس جس طرح تو نے اپنے دل کو میرے لئے کھولا تھا اور اپنے دل کو میرا گھر بنایا تھا اسی طرح آج میں تجھ کو اپنے گھر میں بلاتا ہوں آ اور میرے پاس بیٹھ.پس خدا اس کو اپنے پاس بلا لیتا ہے اور وہ دنیا کی تکلیفوں شورشوں سے آزاد ہو جاتا ہے.

Page 288

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۴ جلد سوم اس نبی کے بلائے جانے کے بعد دنیا میں جو بھی بیج بوئے ہوئے ہوتے ہیں وہ پھر نئی جد و جہد شروع کر دیتے ہیں.نبوت خلافت کا جامہ پہن لیتی ہے اور خلافت کے ذریعہ پھر خدا کیلئے نئے قلوب کی فتح شروع ہو جاتی ہے.یہی اس زمانہ میں ہوا اور جب ہم نے ایک جشن منایا ، ایک خوشی کی تقریب سرانجام دی تو کسان کی زبان میں ہم نے یہ کہا کہ ہم نے پہلی فصل کاٹ لی مگر کیا جانتے ہو کہ دوسرے لفظوں میں ہم نے کیا کہا ؟ دوسرے لفظوں میں ہم نے یہ کہا کہ آج سے پچاس سال پہلے جو ایک بیج بویا گیا تھا اُس پیج کی فصل ہم نے کاٹ لی اب ہم ان بیجوں سے جو پہلی فصل سے تیار ہوئے تھے ایک نئی فصل بونے لگے ہیں.اس عظیم الشان کام کے آغاز کے بعد تم سمجھ سکتے ہو کہ تم پر کتنی عظیم الشان ذمہ داریاں عائد ہو گئی ہیں.تم نے اب اپنے اوپر یہ ذامہ داری عائد کی ہے کہ جس طرح ایک بیج بڑھ کر اتنی بڑی فصل ہو گیا اسی طرح اب تم ان بیجوں کو بڑھاؤ گے جو اس فصل پر تم نے بوئے ہیں اور اسی رنگ میں بڑھاؤ گے جس رنگ میں پہلی فصل بڑھی.پس ہم نے جشن مسرت منا کر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ جس طرح ایک پیج سے لاکھوں نئے بیج پیدا ہو گئے تھے اسی طرح اب ہم ان لاکھوں بیجوں کو از سرنو زمین میں بوتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ پچھلے چھپیس یا پچاس سال میں جس طرح سلسلہ نے ترقی کی ہے اسی طرح اتنے ہی گنے اگلے چھپیں یا پچاس سال میں ہم آج کی جماعت کو بڑھا دیں گے یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں جو تم نے اپنے اوپر عائد کی.گزشتہ پچاس سال میں ایک بیج سے لاکھوں بیج بنے تھے اب جب تک اگلے پچاس سال میں ان لاکھوں سے کروڑوں نہیں بنیں گے اُس وقت تک ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں سمجھے جائیں گے.اگر ہم جشن نہ مناتے اگر ہم یہ نہ کہتے کہ الحمدللہ کہنے کا زمانہ آ گیا تو ہم إياكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا زمانہ بھی پیچھے ڈال سکتے تھے مگر جب ہم نے جشن منا لیا اور پہلی فصل کاٹ لی تو بالفاظ دیگر ہم نے دوسری فصل کو بود یا اور ہمارا کام از سر نو شروع ہو گیا اور جب کہ ایک پیج سے اتنے دانے نکلے تھے تو کیا اب ہمارا فرض نہیں کہ ہم ان بیجوں کو اتنے گنے بڑھائیں جتنے گنے وہ ایک بیج بڑھا اور پھولا اور پھلا پس یقیناً اس جشن کے بعد ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو چکی ہے.کیونکہ کیا بلحاظ جانی قربانیوں کے، کیا بلحاظ مالی

Page 289

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۵ جلد سوم.قربانیوں کے ، کیا بلحاظ علمی ترقیات کے ، کیا بلحاظ تبلیغ کے ، کیا بلحاظ تعلیم و تربیت کے ، اور کیا بلحاظ کثرت تعداد اور زیادت نفوس کے.غرض ہر رنگ میں ہم نے پہلی فصل کے کاٹنے اور دوسری فصل کے بونے کا اعلان کیا ہے مگر پہلی فصل صرف ایک پیج سے شروع ہوئی تھی اور اس دوسری فصل کی ابتدا لاکھوں بیجوں سے ہوتی ہے اس لئے جب تک ہم یہ ارادہ نہ کر لیں کہ ان لاکھوں بیجوں کو اتنی ہی تعداد سے ضرب دیں گے جتنی تعداد سے اس ایک پیج نے ضرب کھائی تھی اُس وقت تک ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ لیا ہے.مالی لحاظ سے وہ فصل خالی خزانے سے شروع ہوئی تھی اور لاکھوں تک پہنچ گئی مگر یہ فصل اب لاکھوں سے شروع ہوئی ہے اس طرح وہ فصل ایک کلمہ سے شروع ہوئی تھی اور سینکڑوں کتابوں تک پہنچ گئی اور یہ فصل سینکڑوں کتابوں سے شروع ہوئی ہے پس جب تک اب لاکھوں روپیہ سے کروڑوں روپیہ اور سینکڑوں کتابوں سے ہزاروں اور لاکھوں کتابیں نہ بن جائیں اُس وقت تک ہمارا کام ختم نہیں ہوسکتا.غرض اس جشن کے منانے سے ہم نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم نے پہلی فصل کاٹ لی اور نئے سرے سے اس سے حاصل شدہ بیجوں کو زمین میں ڈال دیا.میرا تو جسم کا ذرہ ذرہ کا نپ جاتا ہے جب مجھے یہ خیال آتا ہے کہ کتنی اہم ذمہ داری ہے جو جماعت نے اپنے اوپر عائد کی.اگر ہم پہلی فصل نہ کاٹتے تو ہماری ذمہ داریاں کم رہتیں مگر جب ہم نے اس فصل کو کاٹ کر الحمدُ للهِ کہا تو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتعِین کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا سامان بھی ہمیں مہیا کرنا پڑا.پس میں جماعت کے دوستوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا تا ہوں.اس جلسہ کے نتیجہ میں ہم نے لاکھوں نئے بیج زمین میں بو دیئے ہیں اب ہمارا فرض ہے کہ اگلے پچیس یا پچاس سال میں ہم جماعت میں حیرت انگیز طور پر تغیر پیدا کریں.کیا بلحاظ آدمیوں کی تعداد کے اور کیا بلحاظ مالی قربانی کے اور کیا بلحاظ تبلیغ کے اور کیا بلحاظ تربیت کے اور کیا بلحاظ تعلیم کے.آج سے مثلاً پچیس یا پچاس سال کے بعد اگر ہم نئی فصل کے ویسے ہی شاندار نتائج نہ دکھا ئیں جیسے پہلی پچاس سالہ فصل کے نتائج نکلے تو ہماری الحمدُ بے معنی اور ہماری اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ جھوٹی ہو جاتی ہے.پس

Page 290

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس جلسہ کے بعد ان کو اپنی نئی ذمہ داریاں بہت جوش اور توجہ کے ساتھ ادا کرنی چاہئیں.اب ہماری پہلی فصل کے جو نتائج رونما ہوئے ہیں ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اگر اس سے زیادہ نہیں تو کم سے کم اتنے ہی گنے نتائج نئی فصل کے ضرور رونما کر دیں اور اگر پہلے ایک سے لاکھوں ہوئے تو آج سے پچاس سال کے بعد وہ کروڑوں ضرور ہو جائیں.اگر آج سے پچیس سال پہلے جماعت دس بارہ گنے بڑھی تھی تو اگلے پچیس سال میں کم سے کم دس بارہ گنے ضرور بڑھ جانی چاہیے.مگر یہ کیونکر ہوسکتا ہے جب تک ہر احمدی کیا مرد اور کیا عورت اور کیا بچہ اور کیا بوڑھا اور کیا کمزور اور کیا مضبوط اپنے ذمہ یہ فرض عائد نہ کرلے کہ میں احمدیت کی ترقی کیلئے اپنے اوقات صرف کروں گا اور اپنی زندگی کا اولین مقصد اشاعت دین اور اشاعت احمدیت سمجھوں گا.اسی طرح علمی طور پر کب ترقی ہو سکتی ہے جب تک ہماری جماعت کا ہر فرد دین سیکھنے اور دینی باتیں سننے اور پڑھنے کی طرف توجہ نہ کرے.اسی طرح مالی قربانی میں کب ترقی ہو سکتی ہے جب تک ہماری جماعت نہ صرف قربانیوں میں بیش از پیش ترقی کرے بلکہ اپنے اخراجات میں بھی دیانت داری سے کام لے.مال ہمیشہ دونوں طرح سے بڑھتا ہے زیادہ قربانیوں سے بھی بڑھتا ہے اور زیادہ دیانت داری سے خرچ کرنے سے بھی بڑھتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایک شخص کو ایک دینار دیا اور فرمایا جا کر قربانی کیلئے کوئی عمدہ سا بکرالا دو.اس نے کہا بہت اچھا.تھوڑی دیر کے بعد وہ حاضر ہوا اور کہنے لگا يَارَسُولَ اللهِ! یہ بکرا موجود ہے اور ساتھ ہی اُس نے دینا ر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حیران ہوئے اور فرمایا یہ کس طرح؟ وہ کہنے لگا يَا رَسُولَ اللهِ ! مدینہ میں شہر کی وجہ سے چیزیں گراں ملتی ہیں میں دس بارہ میل باہر نکل گیا وہاں آدھی قیمت پر بکرے فروخت ہو رہے تھے میں نے ایک دینار میں دو بکرے لے لئے اور واپس چل پڑا.جب میں آرہا تھا تو رستہ میں ایک شخص مجھے ملا اسے بکرے پسند آئے اور کہنے لگا کہ اگر فروخت کرنا چا ہو تو ایک بکرا مجھے دے دو میں نے ایک بکرا ایک دینار میں اسے دے دیا پس اب بکرا بھی حاضر ہے اور -

Page 291

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۷ جلد سوم دینار بھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بہت ہی خوش ہوئے اور آپ نے اس کیلئے دعا فرمائی کہ خدا تجھے برکت دے.صحابہؓ کہتے ہیں اِس دعا کے نتیجہ میں اسے ایسی برکت ملی کہ اگر وہ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالتا تو وہ سونا بن جاتی اور لوگ بڑے اصرار سے اپنے روپے اُسے دیتے اور کہتے کہ یہ روپیہ کہیں تجارت میں لگا دو.غرض کروڑوں کروڑ رو پیدا سے آیا.تو اچھی طرح خرچ کرنے سے بھی مال بڑھتا ہے.مال بڑھنے کی صرف یہی صورت نہیں ہوتی کہ ایک کے دو بن جائیں بلکہ اگر تم ایک روپیہ کا کام اٹھنی میں کرتے ہو تو بھی تمہارے دو بن جاتے ہیں بلکہ اگر تم روپیہ کا کام اٹھنی میں کرتے ہوا اور ایک روپیہ زائد بھی کما لیتے ہو تو تمہارے دو نہیں بلکہ چا ر بن جائیں گے پس صرف یہی کوشش نہیں ہونی چاہیے کہ مالی قربانیوں میں زیادتی ہو بلکہ اخراجات میں کفایت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے.اور میں کارکنوں کو بالخصوص اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایک روپے کا کام اٹھنی میں کرنے کی کوشش کیا کریں.غرض اب جو ہمارے پاس جماعت موجود ہے، اب جو ہمارے پاس روپیہ ہے ، اب جو ہمارے پاس تبلیغی سامان ہے ، اب جو ہمارے دنیا میں مشن قائم ہیں ،اب جو ہماری تعلیم اور اب جو ہماری تربیت ہے ان سب کو نیا بینچ تصور کر کے آئندہ پچاس سال میں ہمیں جماعت کی ترقی کیلئے سرگرم جد و جہد کرنی چاہئے تا کہ آئندہ پچاس سال میں موجودہ حالت سے ہماری تعداد بھی بڑھ جائے ، ہمارا علم بھی بڑھ جائے ، ہماری تبلیغ بھی بڑھ جائے اور اسی نسبت سے بڑھے جس نسبت سے وہ پہلے پچاس سال میں بڑھا.اگر ہم اس رنگ میں کوشش نہیں کریں گے تو اس وقت تک ہماری نئی فصل کبھی کامیاب نہیں کہلا سکتی.مگر یہ کام ویسا ہی ناممکن ہے جیسے آج سے پچاس سال پہلے نظر آتا تھا.پھر اُس وقت خدا کا ایک نبی کھڑا تھا.بے شک اُس وقت کوئی احمدی نہ تھا مگر خدا کا نبی دنیا میں موجود تھا جو اس پیغام کو لے کر دنیا میں کھڑا تھا مگر آج وہ نبی ہم میں موجود نہیں اور اس وجہ سے ہماری آواز میں وہ شوکت نہیں جو اُس کی آواز میں شوکت تھی.پس آج ہمیں اس سے زیادہ آواز بلند کرنا پڑے گی اور ہمیں اس سے زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں گی.اس کیلئے دعائیں بھی کرو اور اللہ تعالیٰ کے دروازہ کو کھٹکھٹاؤ اور یا د رکھو کہ جب تک جماعت دعاؤں پر یقین رکھے گی ، جب تک تم ہر

Page 292

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۸ جلد سوم بات میں اللہ تعالیٰ سے امداد کے طالب رہو گے اُس وقت تک تمہارے کاموں میں برکت رہے گی مگر جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ کام تم نے کیا جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ نتائج تمہاری محنت سے نکلے اور جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ ترقی تمہاری کوششوں کا نتیجہ ہے اُس دن تمہارے کاموں میں سے برکتیں بھی جاتی رہیں گی.کیا تم نہیں دیکھتے کہ آج دنیا میں تم سے بہت زیادہ طاقت ور قو میں موجود ہیں مگر ان سے کوئی نہیں ڈرتا اور تم سے سب لوگ ڈرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ تمہاری مثال اس تار کی سی ہے جس کے پیچھے بجلی کی طاقت ہوتی ہے اب اگر تار یہ خیال کرے کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں تو یہ اُس کی حماقت ہوگی کیونکہ لوگ تار سے نہیں بلکہ اس بجلی سے ڈرتے ہیں جو اس تار کے پیچھے ہوتی ہے جب تک اس میں بجلی رہتی ہے ایک طاقتور آدمی بھی اگر تار پر ہاتھ رکھے تو وہ اس کے ہاتھ کو جلا دے گی لیکن اگر بجلی نہ رہے تو ایک کمزور انسان بھی اس تارکو توڑ پھوڑ سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھو اور اس بجلی کو اپنے اندر سے نکلنے نہ دو بلکہ اسے بڑھاؤ اور اسے ترقی دو سبھی اور تبھی تم کامیابی کو دیکھ سکتے ہو اور نئی فصل زیادہ شان اور زیادہ عمدگی کیساتھ پیدا کر سکتے ہو.لیکن اگر یہ بجلی نکل گئی تو پھر تم کچھ بھی نہیں رہو گے.ہاں اگر یہ بجلی رہی تو دنیا کی کوئی طاقت تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گی اور اس صورت میں تمہارا یہ عزم کہ تم اگلے پچاس سال میں تمام دنیا 66 پر چھا جاؤ نا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ کام خدا نے کرنا ہے اور خدا کیلئے کوئی چیز ناممکن نہیں.“ ( الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۴۰ء ) الفاتحة: ۵ ۳،۲ بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة الفتح باب قوله ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبک صفحه ۸۵۶ حدیث نمبر ۲۸۳۶ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية العلق: ۳۲ د بخاری کتاب بدء الوحي باب كيف كان بدء الوحي صفحه احدیث نمبر ۳ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية القدر: ۶ متی باب ۸ آیت ۲۰.پاکستان بائبل سوسائٹی مطبوعہ ۱۹۹۴ء

Page 293

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۹ جلد سوم فتنہ غیر مبائعین کی مختصر تاریخ ( فرموده ۱۲ را پریل ۱۹۴۰ء ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ غیر مبائعین جہاں بھی ہوں ان کے ناموں اور پتوں سے مرکز سلسلہ کو اطلاع دی جائے اور خود بھی ہر جگہ ایسے سیکرٹری مقرر کئے جائیں جن کا کام غیر مبائعین میں تبلیغ اور ان کے خیالات کی اصلاح کرنا ہو.میری اس تحریک پر بعض جماعتوں نے اس امر کی طرف توجہ کی ہے اور انہوں نے غیر مبائعین کے پتے بھجوانے شروع کر دیئے ہیں.لیکن بعض جماعتوں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی یا ممکن ہے ان کی رپورٹیں میرے سامنے پیش نہ ہوئی ہوں کیونکہ کچھ رپورٹیں براہ راست شاید دعوت و تبلیغ کو بھی جارہی ہیں.بہر حال یہ کام شروع ہو گیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ جماعت اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اس کام کو اس عمدگی کے ساتھ انجام تک پہنچائے گی کہ ہمارے مخالفین کو یہ محسوس ہو جائے گا کہ حق کا مقابلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں ہوتی اور جس طرح گزشتہ ایام میں جب بھی ان لوگوں نے ہماری جماعت کا مقابلہ کیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ہی فتح حاصل ہوئی اور ہم ہی ان کے آدمیوں کو کھینچ کر لے آئے.اسی طرح اب بھی یہ سبق دوبارہ ان کے لیے تازہ ہو جائے گا.مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے بعض دوست پرانے لٹریچر کو نہیں پڑھتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض باتوں کا جواب اگر چہ بارہا دیا جا چکا ہے مگر وہ اس شبہ میں رہتے ہیں کہ شائد ان

Page 294

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۰ جلد سوم باتوں کا جواب ابھی تک ہماری طرف سے نہیں دیا گیا حالانکہ سب باتوں کا جواب پوری تفصیل کے ساتھ ہماری طرف سے دیا جا چکا ہے.آج اسی سلسلہ میں میں جماعت کے دوستوں کی راہنمائی کے لئے انہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ در حقیقت یہ اختلاف مذہبی بعد میں بنا ہے پہلے یہ صرف دنیوی اختلاف تھا.یعنی صدر انجمن احمدیہ کے بعض ممبروں کا خیال تھا کہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت غاصبانہ ہے اور ان کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ خلافت کے عہدہ پرمتمکن ہوتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحیح جانشین اور قائم مقام صدر انجمن احمد یہ ہے.چنانچہ وہ لوگ جو اُس زمانہ کے ہیں ان کو معلوم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد جو پہلا جلسہ سالانہ ہوا اُس میں متواتر صدرانجمن احمد یہ کے ممبروں کی تقریروں میں اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ جانشین اور خلیفہ صدر انجمن احمد یہ ہے اور بار بار اپنے لیکچروں میں اس کا ذکر کیا جاتا.غرض ۱۹۰۸ء میں دسمبر کے ایام میں جو جلسہ سالا نہ ہوا اور جس کا انتظام مدرسہ احمدیہ کے صحن میں کیا گیا تھا اُس وقت کے واقف لوگ جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے اس جلسہ کی تقریروں میں بڑے زور سے اس بات کو دُہرایا کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ جانشین صدرانجمن احمد یہ ہے.خدا تعالیٰ کے مامور کی قائم مقام صدر انجمن حمدیہ ہے.خدا تعالیٰ کے مامور کی خلیفہ صد را انجمن احمد یہ ہے اور اس کی اطاعت تمام جماعت کے لئے ضروری ہے.حضرت مولوی صاحب ہمارے پیر ہیں لیکن خلیفہ صدرانجمن احمد یہ ہے جس کے وہ صدر ہیں لیکن ان کی یہ تقریر میں اب ان کے لئے فائدہ بخش نہیں ہو سکتی تھیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد سب سے پہلے انہی لوگوں نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں درخواست کی تھی کہ آپ خلافت کے بوجھ کو اُٹھا ئیں اور پھر انہی لوگوں نے یہ اعلان کیا جو اُس وقت کے اخبارات میں شائع ہوا کہ ” مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اوّل المهاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم و اتقی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں.وو احمدیہ

Page 295

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۱ جلد سوم اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اُسوۂ حسنہ قرار فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ کے چه چہ خوش بودے اگر ہر یک ز اُمت نوردیں بودے بودے اگر ہر دل پر از نور یقین بودے ہمیں سے ظاہر ہے کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.لے اس اعلان کے بعد وہ جماعت جو صداقت کی شیدا تھی جس نے بڑی بڑی قربانیوں اور اپنے رشتہ داروں کو خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑنے کے بعد ایمان کی دولت حاصل کی تھی کب ان لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو سکتی تھی.چنانچہ جتنا زیادہ یہ لوگ اس بات کو دُہراتے کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ خلیفہ اور جانشین صدر انجمن احمد یہ ہے اُتنا ہی زیادہ جماعت میں جوش پیدا ہوتا چلا جاتا کیونکہ وہ حیران تھی کہ پہلے انہی لوگوں نے یہ کہا تھا کہ خلافت کا انتخاب الوصیت کے مطابق ہے اور اب یہی کہہ رہے ہیں کہ اصل جانشین اور خلیفہ صدر انجمن احمد یہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کے ہاتھ پہلے ہی کاٹ کر رکھ دیئے تھے.ممکن ہے اگر انہوں نے یہ اعلان نہ کیا ہوا ہوتا تو جماعت کو ان کی تقریروں کی وجہ سے ٹھوکر لگ جاتی.مگر چونکہ یہ لوگ خود ایک اعلان شائع کر چکے تھے اس لئے اب جو اس کے خلاف انہوں نے تقریریں کیں تو لوگوں میں جوش پید ہوا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ ان کی اصل غرض حضرت خلیفہ اول کو خلافت سے جواب دینا ہے اور ان کی نیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تعلیم کو جماعت میں قائم کرنا نہیں بلکہ فتنہ وفساد اور تفرقہ پیدا کرنا ہے.حقیقت یہ ہے کہ انبیاء جب وفات پاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے بعد نشان کے طور پر خلافت کو قائم کیا کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جس طرح اس نے نبی کی شخصی زندگی کو الہام سے شروع کیا اسی طرح وہ اس کی قومی زندگی کو بھی الہام سے شروع کرے.یہی وجہ ہے کہ

Page 296

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۲ جلد سوم جب کوئی نبی فوت ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کا مخفی الہام قوم کے دلوں کو اس زندگی کی تفصیلات کی طرف متوجہ کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد بھی ان لوگوں کے دل اس قدر مرعوب اور خائف ہو گئے تھے کہ اس وقت یہ یقینی طور پر سمجھتے تھے کہ اب کسی خلیفہ کے بغیر جماعت کا اتحاد اور اس کی ترقی ناممکن ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اول کا انتخاب عمل میں آیا.یوں منہ سے ان لوگوں کا اپنے آپ کو یا صدرانجمن احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جانشین کہنا اور بات ہے.سوال تو یہ ہے کہ انجمن کے یہ نمبر جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کا خلیفہ اور جانشین قرار دیتے تھے وہ دل گردہ کہاں سے لاتے جو خدا وند تعالیٰ کے خلیفہ کے لئے ضروری ہے.منہ سے تو ہر شخص جو جی چاہے دعویٰ کر سکتا ہے خواہ حقیقت اس کے اندر کوئی ہو یا نہ ہو.کہتے ہیں کوئی شخص تھا جسے بہادری کا بہت بڑا دعوی تھا ایک دفعہ اس نے اپنی بہادری کے نشان کے طور پر اپنے بازو پر شیر گودوانا چاہا.وہ گودنے والے کے پاس گیا اور کہنے لگا میرے باز و پر شیر گوددو.اس نے کہا بہت اچھا اور یہ کہہ کر اس نے سوئی جو ماری تو اسے درد ہوا اور کہنے لگا یہ کیا کرنے لگے ہو؟ اس نے کہا شیر گود نے لگا ہوں.وہ کہنے لگا شیر کا کون سا حصہ ؟ اس نے بتایا کہ دایاں کان.اس نے کہا کہ اگر دایاں کان نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا رہتا کیوں نہیں.اس نے کہا اچھا تو پھر اس دائیں کان کو چھوڑو اور آگے گودو.اُس نے پھر دوسرا کان بنانے کے لئے سوئی ماری تو اسے پھر درد ہوا اور یہ پھر چلا کے کہنے لگا اسے چھوڑو اور آگے چلو.اُس نے اُسے بھی چھوڑا.اس کے بعد جس کسی عضو کے بنانے کے لئے وہ سوئی مارتا تو یہ شخص چلا کر اسے منع کر دیتا آخر گودنے والے نے سوئی رکھ دی اور جب اُس نے پوچھا کہ کام کیوں نہیں کرتے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں کان گود نے لگا تو تم نے کہا اس کو چھوڑ دو ، پھر سر گود نے لگا تو تم نے کہا اس کو چھوڑو ، منہ گود نے لگا تو تم نے کہا اِس کو چھوڑ و، پیٹھ گود نے لگا تو تم نے کہا اس کو چھوڑ و، ٹانگیں گود نے لگا تو تم نے کہا اس کو چھوڑو.جب تمام چیزیں میں نے چھوڑتے ہی چلے جانا ہے تو شیر کا باقی کیا رہ گیا.تو منہ سے دعوی کرنا اور بات ہے اور اللہ تعالیٰ سے طاقت اور قوت کا ملنا بالکل اور بات ہے.

Page 297

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۳ جلد سوم جو شخص خدا تعالیٰ کا سچا خلیفہ تھا وہ تو دلیر اور بہادر تھا اور ان لوگوں کا یہ حال تھا کہ قدم قدم پر ان لوگوں کے دل ڈرتے تھے.ایک طرف انہیں یہ ڈر تھا کہ جماعت میں ہمارے خلاف کوئی جوش پیدا نہ ہو جائے دوسری طرف یہ ڈر تھا کہ کہیں حضرت خلیفہ اول ان سے ناراض نہ ہو جائیں.تیسری طرف وہ اس بات سے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں اس کے نتیجہ میں یہ تو نہیں ہو گا کہ نہ ہم اِدھر کے رہیں اور نہ اُدھر کے اور نہ احمدی رہیں نہ غیر احمدی.غرض بات بات پر ان کا دل ڈرتا تھا کیونکہ ان کے دل میں خدا نہیں بول رہا تھا بلکہ نفسیاتی خواہشات جوش مار رہی تھیں اور نفسیاتی خواہشات حو صلے بڑھا یا نہیں کرتیں بلکہ حوصلوں کو پست کیا کرتی ہیں.گویا ان لوگوں کی جرات اور پھر خلافت کے دعوے کی مثال ایسی ہی تھی جیسے بنیا جب کسی سے لڑتا ہے تو پنسیری اُٹھا کر کہتا ہے میں یہ مار کر تیرا سر پھوڑ دوں گا.مگر یہ کہنے کے ساتھ ہی بجائے اس کے کہ وہ دو قدم آگے بڑھے دو قدم پیچھے کود کر چلا جاتا ہے.جس سے صاف پتا لگ جاتا ہے کہ جب اُس نے یہ کہا کہ میں پنسیری مار کر تیرا سر پھوڑ دوں گا تو اُس وقت اُس کا دل نہیں بول رہا تھا بلکہ صرف زبان بول رہی تھی.ورنہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو کوئی یہ کہے کہ میں مار کر تیرا سر پھوڑ دونگا اور دوسری طرف وہ بجائے آگے بڑھنے کے کو دکر دو قدم پیچھے چلا جائے.اسی طرح یہ لوگ بھی ایک طرف تو یہ کہتے تھے کہ ہم خلیفہ ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صدر انجمن احمدیہ کو ہی اپنا جانشین قرار دیا ہے اور دوسری طرف ڈرتے تھے کہ خبر نہیں کہیں جماعت ناراض نہ ہو جائے.کہیں حضرت مولوی صاحب ہم پر ناراضگی کا اظہار نہ کر دیں.کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی کوئی ایسے سامان نہ ہو جائیں جو ہمیں اپنی کوششوں میں ناکام و نامراد کر دیں.غرض قدم قدم پر ان لوگوں کو خوف و ہراس نے گھیر رکھا تھا.مگر بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ان لوگوں نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان لوگوں نے اخبارات سلسلہ میں ایک اعلان شائع کرایا جس میں لکھا کہ ہم نے الوصیت کی ہدایات کے مطابق خلافت کا

Page 298

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۴ جلد سوم انتخاب کیا ہے.حضرت خلیفہ اول کی بیعت پر ا بھی تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کے سامنے مجھ سے سوال کیا کہ میاں صاحب ! خلافت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا آپ کا اس سوال سے کیا منشاء ہے؟ کہنے لگے یہی کہ خلیفہ کے کیا اختیارات ہیں؟ میں نے کہا خواجہ صاحب وہ دن گئے اب اختیارات کے فیصلہ کا کوئی وقت نہیں.اختیارات کے فیصلے کا وقت وہ تھا جب ہم نے حضرت خلیفہ اول کی ابھی بیعت نہیں کی تھی مگر جب ہم نے آپ کی بیعت کر لی تو اب بیعت کرنے کے بعد ہمارا کیا حق ہے کہ ہم خلیفہ کے اختیارات پر بحث کریں.جب خلافت کا انتخاب عمل میں آ گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ کون شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جانشین بنے کا اہل ہے تو اس کے بعد ہمارا یہی کام ہے کہ ہم آپ کی اطاعت کریں یہ کام نہیں کہ آپ کے اختیارات پر بحث کریں.میرے اس جواب پر انہوں نے فوراً اپنی بات کا رُخ بدل لیا اور کہا کہ بات تو ٹھیک ہے میں نے تو یونہی علمی طور پر یہ بات دریافت کی تھی اور ترکوں کی خلافت کا حوالہ دے کر کہا کہ چونکہ آجکل لوگوں میں اس کے متعلق بحث شروع ہے اس لئے میں نے بھی آپ سے اس کا ذکر کر دیا یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آپ کی کیا رائے ہے اور اس پر ہماری گفتگوختم ہو گئی.لیکن بہر حال اس سے مجھے پر ان کا عندیہ ظاہر ہو گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ ان لوگوں کے دلوں میں حضرت خلیفہ اول کا کوئی ادب اور احترام نہیں اور یہ چاہتے ہیں کسی طرح خلافت کے اس طریق کو مٹا دیں جو ہمارے سلسلہ میں جاری ہوا ہے.پس اصل اختلاف یہاں سے شروع ہوا مگر جب انہوں نے محسوس کیا کہ جماعت نے چونکہ حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی ہوئی ہے اور اس وجہ سے اسے بیعت سے منحرف کرنا آسان کام نہیں تو انہوں نے دوسرا قدم یہ اُٹھایا کہ لوگوں میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضرت خلیفہ اول تو بڑے بزرگ انسان ہیں ان سے جماعت کو کوئی خطرہ نہیں.ہاں اگر کل کوئی بچہ خلیفہ ہو گیا تو پھر کیا ہو گا اور اس بچہ سے مراد میں تھا مگر مجھے اُس وقت اس بات کا کوئی علم

Page 299

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۵ جلد سوم نہیں تھا.جماعت میں جب یہ اختلاف پیدا ہو گیا کہ کچھ لوگ تو یہ کہنے لگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مقرر کردہ جانشین انجمن ہے اور کچھ اس پر اعتراض کرنے لگے تو میر محمد اسحاق صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بعض سوالات لکھ کر پیش کئے جن میں خلافت کے مسئلہ پر روشنی ڈالنے کی درخواست کی گئی تھی مگر مجھے ان سوالات کا کوئی علم نہیں تھا.اسی دوران میں میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا مکان ہے اور اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ تو مکمل ہے اور دوسرا نا مکمل.نامکمل حصے پر چھت پڑ رہی ہے، بالے رکھے ہوئے ہیں مگر ابھی اینٹیں یا تختیاں رکھ کر مٹی ڈالنی باقی ہے.رویا میں میں نے دیکھا کہ چھت کے ننگے حصہ پر ہم چار پانچ آدمی کھڑے ہیں اور عمارت دیکھ رہے ہیں.انہیں میں ایک میر محمد اسحاق صاحب بھی ہیں اور وہ بھی ہمارے ساتھ مل کر عمارت دیکھ رہے ہیں کہ وہاں کڑیوں پر ہمیں کچھ بھو سا پڑا دکھائی دیا.میر محمد اسحاق صاحب کے ہاتھ میں ایک دیا سلائی کی ڈبیہ تھی اُنہوں نے اس میں سے ایک دیا سلائی نکال کر کہا میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس بھس کو جلا دوں.میں نے انہیں کہا کہ یہ بھوسا جلایا تو جائے گا ہی مگر ابھی وقت نہیں آیا.آپ بھس کو مت جلائیں کڑیاں بھی ننگی ہیں ایسا نہ ہو کہ بھس کے ساتھ ہی بعض کڑیوں کو بھی آگ لگ جائے.مگر وہ کہتے ہیں میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس بھس کو جلا دوں.میں پھر انہیں روکتا ہوں اور کہتا ہوں ایسا نہ کرنا.اس پر وہ پھر کہنے لگے میں چاہتا ہوں اس بھس کو ضرور آگ لگا دوں.مگر میں نے پھر انہیں روکا اور یہ سمجھ کر کہ اب میر صاحب اس بھس کو آگ نہیں لگائیں گے دوسری طرف متوجہ ہو گیا.لیکن چند ہی لمحہ کے بعد مجھے کچھ شور سا معلوم ہوا.میں منہ پھیر کر کیا دیکھتا ہوں کہ میر محمد اسحاق صاحب دیا سلائی کی تیلیاں نکال کر اس کی ڈبیہ سے جلدی جلدی رگڑتے ہیں مگر وہ جلتی نہیں.ایک کے بعد دوسری تیلی نکال کر اس کو جلانے کی کوشش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اس بھس کو آگ لگا دیں.میں یہ دیکھ کر ان کی طرف دوڑا مگر میرے پہنچنے سے پہلے پہلے انہوں نے بھس کو آگ لگا دی.میں یہ دیکھ کر آگ میں کود پڑا اور جلدی سے اسے بجھا دیا مگر اس عرصہ میں چند کٹڑیوں کے سرے جل

Page 300

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۶ جلد سوم گئے.میں نے جب یہ رؤیا دیکھا تو حیران ہوا کہ نہ معلوم اس کی کیا تعبیر ہے.اُن دنوں میں حضرت خلیفہ اول سے بخاری پڑھا کرتا تھا اور مسجد مبارک کو گلی میں سے جو سیڑھیاں چڑھتی ہیں اُن کے پاس ہی آپ دروازہ کے پاس مسجد میں بیٹھا کرتے تھے.میں نے ایک خط لکھ کر حضرت خلیفہ اول کے سامنے پیش کیا جس میں لکھا کہ رات میں نے یہ عجیب خواب دیکھا ہے جو جماعت کے متعلق معلوم ہوتا ہے مگر ہے منذر مجھے معلوم نہیں اس کی کیا تعبیر ہے.حضرت خلیفہ اول نے اس خواب کو پڑھتے ہی میری طرف دیکھ کر فرمایا.خواب تو پوری ہو گئی.میں حیران ہوا کہ خواب کس طرح پوری ہو گئی چنانچہ میں نے عرض کیا کس طرح ؟ آپ فرمانے لگے میاں ! تمہیں معلوم نہیں اور یہ کہہ کر کاغذ کی ایک ساپ پر آپ نے لکھا.میر محمد اسحاق نے کچھ سوالات لکھ کر دیئے ہیں.وہ سوال میں نے باہر جماعتوں کو بھجوا دیئے ہیں میں سمجھتا ہوں اس سے خوب آگ لگے گی.مجھے اس پر بھی کچھ معلوم نہ ہوا کہ میر محمد اسحاق صاحب نے کیا سولات کئے ہیں لیکن میں نے ادب کی وجہ سے دوبارہ آپ سے دریافت نہ کیا.البتہ بعد میں شیخ یعقوب علی صاحب اور بعض اور دوستوں سے پوچھا تو انہوں نے ان سوالات کا مفہوم بتایا.بعد میں جب جماعتوں کی طرف سے ان کے جوابات آ گئے اور بعض میں نے دیکھے تو اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ وہ سوالات خلافت کے متعلق تھے اور اُن میں اس کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی درخواست کی گئی تھی.میر صاحب کے اِن سوالات کی وجہ سے جو گویا بھس میں آگ لگانے کے مترادف تھے جماعت میں ایک شور پیدا ہو گیا اور چاروں طرف سے ان کے جوابات آنے شروع ہو گئے.جلسہ سالانہ کے موقع پر انہیں یہ تو معلوم ہی ہو گیا تھا کہ جماعت کو بیعت کرنے کے بعد خلافت سے پھر ا نا مشکل ہے اس لئے اب انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں وہی خیالات نَعُوذُ بالله ) حضرت خلیفہ اول کے ہیں.اور کہتے ہیں کہ الحمد لله فتنہ ابھی ظاہر ہو گیا اور سب کو معلوم ہو گیا کہ ایک بچہ کو خلیفہ بنا کر بعض لوگ جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں.خدا کا شکر ہے کہ ایسے بے نفس آدمی کے وقت میں یہ سوال پیدا ہوا جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ وہ میری.

Page 301

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۷ جلد سوم ویسی ہی اطاعت کرتا ہے جیسے نبض حرکت قلب کی کرتی ہے.ایسے بے نفس آدمی کے زمانہ میں اس سوال کا پیدا ہو جانا بڑی بابرکت بات ہے.ان کے بعد ہوتا تو نہ معلوم کیا فساد کھڑا ہوتا.گو یا جماعت کو یہ یقین دلایا جانے لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشین انجمن ہی ہے اور یہ کہ ان خیالات میں حضرت خلیفہ اول بھی ان سے متفق ہیں.لاہور میں تو خصوصیت سے خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنے مکان پر ایک جلسہ کیا جس میں تمام جماعت لاہور کو بلایا گیا اور لوگوں کو سمجھایا گیا کہ سلسلہ پر یہ ایک ایسا نازک وقت ہے کہ اگر دُوراندیشی سے کام نہ لیا گیا تو سلسلہ کی تباہی کا خطرہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشین انجمن ہی ہے اور اگر یہ بات نہ رہی تو جماعت ( نَعُوذُ بالله ) تباہ ہو جائے گی اور سب لوگوں سے اس بات پر دستخط لئے گئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے مطابق انجمن ہی آپ کی جانشین ہے اور لاہور کی جماعت نے انہی تاثرات کی وجہ سے کہ حضرت خلیفہ اول کے بھی یہی خیالات ہیں اس پر دستخط کر دیئے صرف حکیم محمد حسین صاحب قریشی مرحوم نے اُن کی اِس بات کو بالکل رڈ کر دیا اور کہا ہم تمہارے کہنے سے اس پر دستخط نہیں کر سکتے.یہ تمہارے خیالات ہیں حضرت خلیفہ اول کے خیالات نہیں اور ہم ایسے محضر نامه پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں.ہم جب ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں اور وہ ہم سے زیادہ عالم اور زیادہ خشیت اللہ رکھنے والا ہے تو جو کچھ وہ کہے گا وہی ہم کریں گے.تمہارے خیالات کی ہم تصدیق نہیں کریں گے.چنانچہ ان کی دیکھا دیکھی ایک دو اور دوست بھی رُک گئے مگر بہر حال لاہور کی اکثریت جماعت نے دستخط کر دیے.آخر حضرت خلیفہ اول نے ایک تاریخ مقرر کی جس میں بیرونی جماعتوں کے نمائندگان کو بھی بلایا اور ہدیت فرمائی کہ اُس دن مختلف جماعتوں کے قائم مقام قادیان میں جمع ہو جائیں تا سب سے اس کے متعلق مشورہ لے لیا جائے.چنانچہ لوگ جمع ہوئے.اس دن صبح کی نماز کے وقت میں بیت الفکر کے پاس کے دالان میں نماز کے انتظار میں ٹہل رہا تھا مسجد بھری ہوئی تھی اور حضرت خلیفہ اول کی آمد کا انتظار کیا جا رہا تھا کہ میرے کان میں شیخ رحمت اللہ صاحب کی آواز آئی کہ وہ مسجد میں بڑے جوش سے کہہ رہے ہیں کہ ہم کسی بچے کی بیعت کس

Page 302

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۸ جلد سوم - طرح کر لیں ایک بچہ کے لئے جماعت میں فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ اسے خلیفہ بنا کر جماعت کو تباہ کر دیں.میں اس وقت ان حالات سے اتنا نا واقف تھا کہ میں ان کا یه فقره سن کر سخت حیران ہوا اور میں سوچنے لگا کہ یہ بچے کا ذکر کیا شروع ہو گیا ہے اور وہ کون سا بچہ ہے جسے لوگ خلیفہ بنانا چاہتے ہیں.اس کے متعلق بھی مجھے بعد میں حضرت خلیفہ اول سے ہی معلوم ہوا کہ بچہ سے ان کی کیا مراد ہے.اور وہ اس طرح کہ اُس روز صبح کی نماز کے بعد میں بھی بعض باتیں لکھ کر حضرت خلیفہ اول کے پاس لے گیا اور گفتگو کے دوران میں میں نے ذکر کیا کہ خبر نہیں آج مسجد میں کیا باتیں ہو رہی تھیں کہ شیخ رحمت اللہ صاحب بلند آواز سے کہہ رہے تھے ایک بچہ کی ہم بیعت کس طرح کر لیں.ایک بچہ کی وجہ سے جماعت میں یہ تمام فتنہ ڈالا جا رہا ہے نہ معلوم یہ بچہ کون ہے؟ حضرت خلیفہ اول میری اس بات کو سن کر مسکرائے اور فرمانے لگے تمہیں معلوم نہیں وہ بچہ کون ہے؟ وہ تمہیں تو ہو.خیر اس کے بعد میٹنگ ہوئی اس میٹنگ کے متعلق بھی میں نے ایک رؤیا دیکھا جو حضرت خلیفہ اول کو میں نے سنا دیا تھا اور دراصل یہی رؤیا بیان کرنے کے لئے میں صبح کے وقت حضرت خلیفہ اول کے پاس گیا تھا.میں نے رویا میں دیکھا کہ مسجد میں جلسہ ہو رہا ہے اور حضرت خلیفہ اوّل تقریر فرما رہے ہیں مگر آپ اُس حصہ مسجد میں کھڑے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنوایا تھا.اُس حصہ مسجد میں کھڑے نہیں ہوئے جو بعد میں جماعت کے چندہ سے بنوایا گیا تھا.آپ تقریر مسئلہ خلافت پر فرما رہے ہیں اور میں آپ کے دائیں طرف بیٹھا ہوں.آپ کی تقریر کے دوران میں خواب میں ہی مجھے رقت آگئی اور بعد میں کھڑے ہو کر میں نے تقریر کی جس کا خلاصہ تقریباً اس رنگ کا تھا کہ آپ پر اِن لوگوں نے اعتراض کر کے آپ کو سخت دکھ دیا ہے مگر آپ یقین رکھیں کہ ہم نے آپ کی سچے دل سے بیعت کی ہوئی ہے اور ہم آپ کے ہمیشہ وفادار رہیں گے.پھر خواب میں مجھے انصار کا وہ واقعہ یاد آ گیا جب ان میں سے ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ يَارَسُولَ اللہ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور با ئیں بھی لڑیں گے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکے

Page 303

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۹ جلد سوم گا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.اسی رنگ میں میں بھی کہتا ہوں کہ ہم آپ کے وفادار ہیں اور لوگ خواہ کتنی بھی مخالفت کریں ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ کے پاس اُس وقت تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہم پر حملہ کر کے پہلے ہمیں ہلاک نہ کر لے.قریباً اسی قسم کا مضمون تھا جو رویا میں میں نے اپنی تقریر میں بیان کیا مگر عجیب بات یہ ہے کہ جب حضرت خلیفہ اول تقریر کرنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے تو اُس وقت میرے ذہن میں سے یہ رؤ یا بالکل نکل گیا اور بجائے دائیں طرف بیٹھنے کے بائیں طرف بیٹھ گیا.حضرت خلیفہ اوّل نے جب مجھے اپنے بائیں طرف بیٹھے دیکھا تو فرمایا میرے دائیں طرف آ بیٹھو پھر خود ہی فرمانے لگے تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں دائیں طرف کیوں بٹھایا ہے؟ میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں.آپ نے فرمایا تمہیں اپنی خواب یاد نہیں رہی تم نے خود ہی خواب میں اپنے آپ کو میرے دائیں طرف دیکھا تھا.اس وقت تک ان لوگوں نے جماعت پر مسلسل یہ اثر ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے اس امر کا فیصلہ کیا ہوا ہے کہ میرے بعد انجمن جانشین ہوگی اور یہ کہ حضرت خلیفہ اول بھی اس سے متفق ہیں.چنانچہ ان میں سے بعض لوگ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل ہوا کہ :.انجمن کی جانشینی کا سوال ایسے بے نفس آدمی کے زمانہ میں اُٹھا آج مولوی صاحب فوراً یہ فیصلہ کر دیں گے کہ اصل خلیفہ انجمن ہی ہے.بعد میں اُٹھتا تو نہ معلوم کیا مشکلات پیش آتیں اور اس قسم کے پرو پیگنڈا سے ان کی غرض لوگوں کو یہ بتا نا تھی کہ حضرت خلیفہ اول ان کے خیالات سے متفق ہیں.بہر حال حضرت خلیفہ اول تقریر کے لئے کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا تم نے اپنے عمل سے مجھے اتنا دکھ دیا ہے کہ میں اس حصہ مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہوا جو تم لوگوں کا بنایا ہوا ہے بلکہ میں اپنے پیر کی مسجد میں کھڑا ہوا ہوں.لوگوں نے حضرت خلیفہ اول کے منہ سے جب یہ خیالات معلوم کئے تو گو جماعت کے بہت سے دوست جو ان کے ہم خیال بن کر آئے

Page 304

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۰ جلد سوم ہوئے تھے مگر ان پر اپنی غلطی واضح ہو گئی اور انہوں نے رونا شروع کر دیا چنانچہ جو لوگ اُس اور وقت کے حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ مجلس اُس وقت ایسی ہی معلوم ہوتی تھی جیسے شیعوں کی مرثیہ کی مجالس ہوتی ہے.اُس وقت لوگ اتنے کرب اور درد سے رور ہے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ مسجد ماتم کدہ بنی ہوئی ہے اور بعض تو زمین پر لیٹ کر تڑپنے لگ گئے.پھر آپ نے فرمایا : - کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھانا یا جنازہ یا نکاح پڑھا دینا یا پھر بیعت لے لینا ہے یہ کام تو ایک ملاں بھی کر سکتا ہے اس کے لئے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں.بیعت وہی ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور جس میں خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے.آپ کی اس تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کے دل صاف ہو گئے اور ان پر واضح ہو گیا کہ خلافت کی کیا اہمیت ہے.تقریر کے بعد آپ نے خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ وہ دوبارہ بیعت کریں.اسی طرح آپ نے فرمایا میں ان لوگوں کے طریق کو بھی پسند نہیں کرتا جنہوں نے خلافت کے قیام کی تائید میں جلسہ کیا ہے اور فرمایا جب ہم نے لوگوں کو جمع کیا تھا تو ان کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ الگ جلسہ کرتے.ہم نے ان کو اس کام پر مقرر نہیں کیا تھا پھر جب کہ مجھے خود خدا نے یہ طاقت دی ہے کہ میں اس فتنہ کو مٹا سکوں تو انہوں نے یہ کام خود بخود کیوں کیا.چنانچہ شیخ یعقوب علی صاحب سے جو اس جلسے کے بانی تھے انہیں بھی آپ نے فرمایا کہ آپ دوبارہ بیعت کریں.چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب ، مولوی محمد علی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب سے دوبارہ بیعت لی گئی.میں نے اُس وقت یہ سمجھ کر کہ یہ عام بیعت ہے اپنا ہاتھ بھی بیعت کیلئے بڑھا دیا مگر حضرت خلیفہ اول نے میرے ہاتھ کو پرے کر دیا اور فرمایا یہ بات تمہارے متعلق نہیں.اس موقع پر دو چار سو آدمی جمع تھے اور تمام لوگوں نے یہ واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے مگر ان لوگوں کی دیانت اور ایمانداری کا یہ حال ہے کہ خواجہ صاحب نے بعد میں لوگوں سے بیان کیا کہ ہم سے جو دوبارہ بیعت لی گئی تھی یہ بیعت ارشاد تھی جو پیر اُس وقت لیتا ہے جب وہ اپنے مرید کے اندر اعلیٰ درجے کے

Page 305

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۱ جلد سوم روحانی کمالات دیکھتا ہے.گویا حضرت خلیفہ اول نے یہ بیعت ان کی روحانی ترقی کی بناء پر خاص طور پر ان سے لی اور یہ بیعت بیعت ارشاد تھی.اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ ہم سے تو بیعت ارشاد لی گئی مگر جب میاں نے بھی بیعت کرنی چاہی تو ان کو ہٹا دیا.یہ بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی انگریز کا کوئی باورچی تھا جو کھانا بہت خراب پکایا کرتا تھا مگر وہ جہاں کہیں بیٹھتا بڑیں ہانکنی شروع کر دیتا اور کہتا کہ میں اتنا لذیذ کھانا پکاتا ہوں کہ بس یہی جی چاہتا ہے کہ انسان کھائے چلا جائے.ایک دفعہ اس نے اپنے آقا کے لئے کھانا جو پکا یا تو وہ اسے سخت بد مزہ معلوم ہوا اور اس نے باورچی کو کمرے کے اندر بلا کر خوب چپتیں لگا ئیں.باورچی نے سمجھا کہ اب میں باہر نکلوں گا تو میری بڑی ذلّت ہوگی اس لئے کوئی ایسا طریق سوچنا چاہئے جس سے لوگوں کا ذہن کسی اور طرف منتقل ہو جائے چنانچہ وہ باہر نکلا اور اس نے بڑے زور سے قہقہے لگانے شروع کر دیئے ساتھ ہی وہ ہاتھ پر ہاتھ مارتا چلا جائے.لوگوں نے پوچھا کیا ہوا؟ وہ کہنے لگا کہ آج تو کھانا اتنا لذیذ تھا کہ صاحب ہاتھ پر ہاتھ مارتا تھا اور کہتا تھا اتنا مزیدار کھانا میں نے آج تک کبھی نہیں کھایا.گویا انگریز نے تو اسے چپتیں لگائیں اور اس نے یہ فسانہ بنالیا کہ انگریز ہاتھ پر ہاتھ مارتا تھا اور کہتا تھا کہ آج خوب کھانا پکا یا.یہی حال ان لوگوں کا ہے.یہ بھی جب یہاں سے نکلے تو انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ہم سے تو بیعت ارشاد لی گئی تھی جو پیرا اپنے مرید سے اُس وقت لیتا ہے جب وہ اعلیٰ درجے کی منازل روحانی طے کر لیتا ہے اور یہ بیعت ہمیں نصیب ہوئی میاں کو نصیب نہیں ہوئی.حالانکہ اول تو یہ بات ہی غلط ہے اور ہر شخص جو واقعات کو جانتا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ بیعت ارشاد تھی یا نہیں.لیکن اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ یہ بیعت ارشاد تھی تو پھر یہ بیعت ارشاد تو شیخ یعقوب علی صاحب سے بھی لی گئی تھی.ان پر یہ لوگ کیوں ٹوٹے پڑتے تھے.بہر حال جلسہ ختم ہوا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے مگر یہ لوگ جو حضرت خلیفہ اول کی دوبارہ بیعت کر چکے تھے اپنے دلوں میں اور زیادہ منصوبے سوچنے لگے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہماری اس قدر ہتک کی گئی ہے اب ہم قادیان میں نہیں ٹھہر سکتے.

Page 306

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۲ جلد سوم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اُس وقت ان لوگوں سے خاص تعلق رکھتے تھے اور مولوی محمد علی صاحب کو وہ جماعت کا ایک بہت بڑا ستون سمجھتے تھے.ایک دفعہ میں حضرت خلیفہ اول کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس طرح گھبرائے ہوئے آئے کہ گویا آسمان ٹوٹ پڑا ہے اور آتے ہی سخت گھبراہٹ کی حالت میں حضرت خلیفہ اول سے کہا کہ بڑی خطر ناک بات ہو گئی ہے آپ جلدی کوئی فکر کریں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کیا بات ہے.انہوں نے کہا مولوی محمد علی صاحب کہہ رہے ہیں کہ میری یہاں سخت ہتک ہوئی ہے اور میں اب قادیان میں نہیں رہ سکتا آپ جلدی سے کسی طرح اُن کو منوالیں ایسا نہ ہو کہ وہ ނ قادیان سے چلے جائیں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا ڈاکٹر صاحب ! میری طرف مولوی محمد علی صاحب کو جا کر کہہ دیں کہ اگر انہوں نے کل جانا ہے تو آج ہی قادیان سے تشریف لے جائیں.ڈاکٹر صاحب جو سمجھتے تھے کہ مولوی محمد علی صاحب کے جانے سے نہ معلوم کیا ہو جائے گا آسمان ہل جائے گا یا زمین لرز جائے گی انہوں نے جب یہ جواب سنا تو ان کے ہوش اُڑ گئے اور انہوں نے کہا میرے نزدیک تو پھر بڑا فتنہ ہوگا.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا ڈاکٹر صاحب! میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اگر فتنہ ہوگا تو میرے لئے ہو گا آپ کیوں گھبراتے ہیں.آپ انہیں کہہ دیں کہ وہ قادیان سے جانا چاہتے ہیں تو کل کی بجائے آج ہی چلے جائیں.غرض اسی طرح یہ فتنہ بڑھتا چلا گیا اور جب انہوں نے دیکھا کہ اس طرح ہماری دال نہیں گلتی تو انہوں نے غیروں میں تبلیغ کرنی شروع کر دی اور سمجھا کہ عزت اور شہرت کے حاصل کرنے کا یہ ذریعہ زیادہ بہتر ہوگا.اس تبلیغ کے سلسلہ میں کہیں انہوں نے نبوت کے مسائل میں ایسا رنگ اختیار کرنا شروع کر دیا جس سے غیر احمدی خوش ہو جا ئیں.کہیں کفر و اسلام کے مسئلہ میں انہوں نے مداہنت سے کام لینا شروع کر دیا چنانچہ یہ نبوت اور کفر و اسلام وغیرہ مسائل ۱۹۱۰ ء کے شروع میں پید ہوئے ہیں بلکہ ان مسائل نے اصل زور ۱۹۱۰ ء اور ۱۹۱۱ء میں پکڑا ہے.اس سے پہلے ۱۹۰۸ء میں اور ۱۹۰۹ء میں صرف خلافت کا جھگڑا تھا کفر و اسلام اور نبوت وغیرہ کے مسائل باعث اختلاف نہیں تھے.اُس وقت ان

Page 307

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۳ جلد سوم لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ایک شخص کو خلیفہ مان کر اور اس کی اطاعت کا اقرار کر کے ہم سے غلطی ہوئی ہے.اب کسی طرح اس غلطی کو مٹانا چاہئے تا جماعت دوبارہ اس کا ارتکاب نہ کرے.اس مسئلہ کے متعلق ایک سوال ہے جو ہماری جماعت کے دوستوں کو یاد رکھنا چاہیئے اور ہمیشہ ان لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہنا چاہئے اور وہ یہ کہ یہی لوگ جو آج کہتے ہیں کہ الوصیت سے خلافت کا کہیں ثبوت نہیں ملتا ان لوگوں نے اپنے دستخطوں سے ایک اعلان شائع کیا ہوا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت کے وقت انہوں نے کیا.اس اعلان میں ان لوگوں نے صاف طور پر لکھا ہوا ہے که مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتقی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوۂ حسنہ قرار فرما چکے ہیں.جیسا کہ آپ کے شعر چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے سے ظاہر ہے کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہوجیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.پس جماعت کے دوستوں کو ان لوگوں سے یہ سوال کرنا چاہئے اور پوچھنا چاہئے کہ تم ہمیں ’الوصیت کا وہ حکم دکھاؤ جس کے مطابق تم نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی تھی.اس کے جواب میں یا تو وہ یہ کہیں گے کہ ہم نے جھوٹ بولا اور یا کہیں گے کہ الوصیت میں ایسا حکم موجود ہے اور یہ دونوں صورتیں ان کے لئے کھلی شکست ہیں.یعنی یا تو وہ یہ کہیں گے کہ ایسا حکم الوصیت میں موجود ہے ایسی صورت میں ہم ان سے کہہ سکتے ہیں کہ جب الوصیت

Page 308

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۴ جلد سوم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نظام خلافت کی تائید کی ہے تو تم اس نظام کے کیوں مخالف ہو اور یا پھر یہ کہیں گے کہ ہم نے اُس وقت گھبرا کر اور دشمنوں کے حملے سے ڈر کر حضرت خلیفہ اول کی بیعت کر لی تھی ہمیں معلوم تو یہی تھا کہ صدرانجمن خلیفہ ہے اور ہمیں یقین اسی بات کا تھا کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ جانشین انجمن ہی ہے مگر ہم نے سمجھا دشمن اس وقت زور میں ہے اور وہ احمدیت پر تیر چلا رہا ہے بہتر یہی ہے کہ ان تیروں کے آگے حضرت مولوی صاحب کو کھڑا کر دیا جائے چنانچہ وہ کھڑے ہو گئے اور جب ہم نے دیکھا کہ امن قائم ہو گیا ہے تو ہم اپنا حصہ لینے کیلئے آگئے.جیسے قرآن کریم میں بعض لوگوں کے متعلق آتا ہے کہ جب انہیں جہاد میں شامل ہونے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ بھاگ جاتے ہیں لیکن جب مسلمانوں کو فتح ہو جاتی ہے اور وہ مالِ غنیمت لے کر میدانِ جنگ سے واپس لوٹتے ہیں تو وہ بھی دوڑ کر ان کے ساتھ آملتے ہیں اور کہتے ہیں ہم بھی تمہارے ساتھی ہیں ہمیں بھی مال غنیمت میں سے حصہ ملنا چاہئے.بہر حال کوئی صورت ہو ہر حال میں ان کو شکست ہی شکست ہے.اگر الوصیت میں خلافت کے متعلق کوئی حکم پایا جاتا ہے اور جیسا کہ ان لوگوں نے اپنے دستخطوں سے اعلان کیا کہ پایا جاتا ہے تو پھر اس حکم سے ان کا انحراف ان پر حجت قائم کرنے کیلئے کافی ہے اور اگر کوئی حکم نہ پائے جانے کے باوجود انہوں نے حضرت خلیفہ اول کو آگے کر دیا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ جب حملے کا وقت تھا اُس وقت تو یہ پیچھے بیٹھے رہے مگر جب حملے کا وقت گزر گیا اور امن قائم ہو گیا تو اُس وقت یہ لوگ یہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمیں بھی مال غنیمت میں سے حصہ ملنا چاہئے.حالانکہ اللہ تعالیٰ اسی کو عزت دیتا ہے جو قربانیوں کے میدان میں بھی آگے سے آگے قدم بڑھاتا ہے مگر ان لوگوں نے قربانیوں میں تو کوئی حصہ نہ لیا اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی عزت کے حصے بخرے کرنے میں مشغول ہو گئے.یہ سوال ہے جو بار بار ان لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہئے اور ان سے پوچھنا چاہئے کہ وہ بتائیں’ الوصیت میں وہ کون سے الفاظ ہیں جن کے مطابق حضرت خلیفہ اول کو خلیفہ منتخب کر کے ان کی بیعت کی گئی تھی اور جس کے ماتحت حضرت خلیفہ اول کی اطاعت ویسی ہی

Page 309

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۵ جلد سوم ضروری تھی جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت ضروری تھی.کیونکہ اس اعلان میں یہ بھی درج ہے کہ حضرت مولوی صاحب کا فرمان ہمارے لئے آئندہ ایسا ہی ہوگا جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان ہوا کرتا تھا.پس ان سے پوچھنا چاہئے کہ الوصیت کے ہمیں وہ الفاظ دکھا ئیں.اور پھر ان سے یہ پوچھنا چاہئے کہ اب ہمیں 66 الوصیت“ سے وہ دوسرے احکام دکھاؤ جن میں یہ لکھا ہوا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کے بعد پہلا حکم منسوخ ہو جائے گا.دوسری بات جو ان کے سامنے پیش کرنی چاہئے اور جس کے متعلق ان کا دعویٰ بھی سب سے زیادہ ہے وہ قرآن شریف کا ترجمہ ہے اور ان لوگوں کو ہمارے مقابلہ میں سب سے زیادہ اگر کسی بات کا دعوی ہے تو وہ یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے قرآن شریف کا ترجمہ کیا ہے حالانکہ قرآن کا یہ ترجمہ انجمن کے رو پیدا اور اُن تنخواہوں کو وصول کر کے کیا گیا ہے جو سلسلہ کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب کو دی جاتی تھیں.پھر سلسلہ کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب کو صرف تنخواہ ہی نہیں ملتی تھی بلکہ پہاڑ پر جانے کے اخراجات بھی انہیں ملتے تھے اور پھر تنخواہ اور پہاڑ پر جانے کے اخراجات ہی مولوی محمد علی صاحب کو نہیں دیئے جاتے تھے بلکہ ہزاروں روپیہ کی کتب بھی سلسلہ کی طرف سے ان کو منگا کر دی گئیں تا کہ وہ ان کی مدد سے ترجمہ تیار کر سکیں اور جیسا کہ اُس وقت کے اخبارات سے معلوم ہوتا ہے ترجمہ اور قرآن کریم کے نوٹس قریباً مکمل ہو چکے تھے کیونکہ اس کی اشاعت کے لئے چندہ کی تحریک شروع کر دی گئی تھی.پس تقریباً تمام کا تمام تر جمہ اور تفسیر وہی ہے جو صدرانجمن احمدیہ سے کئی سال تک تنخواہیں وصول کرنے اور ہزاروں روپیہ کتب پر صرف کرانے کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے کیا.بعد میں سوائے اس کے کہ انہوں نے کچھ پالش کر دی ہو اور کچھ نہیں کیا.ترجمہ اور تفسیر کا کام در حقیقت حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں ہی ختم ہو چکا تھا اور بعد میں صرف چند مہینے انہوں نے کام کیا ہے.شاید دو چار مہینے ورنہ اصل کام جس قدر تھا وہ اس سے پہلے ختم ہو چکا تھا اور چار سال تک مولوی محمد علی صاحب کو اس کے عوض صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے تنخواہ ملتی رہی تھی.پس یہ ترجمہ صد را منجمن احمدیہ کا تھا اور صدرانجمن احمد یہ ہی اس کی مالک تھی مگر اب یہ ترجمہ مولوی محمد علی

Page 310

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۶ جلد سوم صاحب کی ذاتی ملکیت بن چکا ہے اور اس کی آمد میں سے نہ صرف ان کو حصہ ملتا ہے بلکہ شاید انہوں نے اپنے بیوی بچوں کے حق میں بھی اس کی وصیت کر دی ہے.پس سوال یہ ہے کہ سلسلہ کے ایک مال پر تصرف کرنے کا مولوی محمد علی صاحب کو کہاں سے حق حاصل ہو گیا اور یہ کہاں کا تقویٰ ہے کہ ایک ترجمہ وہ صدر انجمن احمد یہ سے سالہا سال تک تنخواہ وصول کر کے کریں اور پھر وہ ان کی ذاتی ملکیت بن جائے.وہ ہم پر ہزاروں قسم کے اعتراضات کرتے ہیں ، وہ ہماری مخفی زندگی کے عیوب بھی تلاش کر کر کے لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں جو بات ہم پیش کر رہے ہیں وہ تو بالکل کھلی اور واضح ہے.وہ کسی کی مخفی زندگی کے متعلق ہے.نہیں بلکہ ایک ایسی بات ہے جو رجسٹروں میں آچکی ہے جو پبلک کے سامنے پیش ہو چکی.پس وہ بتائیں کہ سلسلہ احمدیہ نے ترجمہ قرآن پر اپنا جو روپیہ خرچ کیا تھا اس کے متعلق مولوی محمد علی صاحب کو یہ کہاں سے حق حاصل تھا کہ وہ اس کو اپنی ذاتی جائیدا د تصور کر لیتے.بعض پیغامی اس کا یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ اس روپیہ میں جو مولوی محمد علی صاحب کو بطور تنخواہ ملا کرتا تھا ہما را چندہ بھی شامل تھا اور اس وجہ سے ہم نے علیحدگی پر ضروری سمجھا کہ اپنے چندہ کے معاوضہ کے طور پر ترجمہ قرآن کو بھی ساتھ لیتے آئیں کیونکہ جو روپیہ اس پر خرچ ہوا اس میں ہمارا بھی حصہ تھا.حالانکہ اول تو اصولاً یہ بات ہی غلط ہے کہ جس کے ہاتھ کوئی چیز لگے وہ اس بہانہ کی آڑ لے کر اسے ہتھیا لے کہ چونکہ میں بھی چندہ دیا کرتا تھا اس لئے میرے لئے جائز ہے کہ میں یہ چیز اپنے گھر لے جاؤں.لیکن اگر یہ اصول درست ہے تو کیا وہ پسند کریں گے کہ جو لوگ ان میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہو گئے ہیں اور جو اُس زمانہ میں جب کہ وہ ان کے ساتھ شامل تھے انہیں سینکڑوں روپے بطور چندہ دیتے رہے ہیں وہ اب اُن کی انجمن کی چیزیں اُٹھا کر لے آئیں اور دلیل یہ دیں کہ چونکہ ہم غیر مبائعین کو ایک زمانہ میں کافی چندہ دیتے رہے ہیں اور ان چیزوں پر ہما را چندہ بھی خرچ ہوا ہے اس لئے ہمیں حق حاصل ہے کہ ان میں سے ہمیں جو چیز پسند آئے وہ اُٹھا لے جائیں.مثلاً لاہور میں ہی پندرہ ہیں احمدی غیر مبائعین میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں.میں نے ایک پچھلے خطبہ میں ہی ان میں سے بعض کے نام بھی لئے تھے جیسے ملک غلام محمد صاحب ہیں.

Page 311

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۷ جلد سوم اسی طرح ملک غلام محمد صاحب کے تین جوان لڑکے ان کے ساتھ شامل رہے ہیں.پھر ڈاکٹر غلام حیدر صاحب بھی انہی لوگوں میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو غیر مبائعین کو کافی چندہ دیتے رہے ہیں.پس کیا یہ جائز ہو گا کہ یہ لوگ غیر مبائعین کی انجمن کے دفتر میں سے چیزیں اُٹھا کر لے آئیں.اگر وہ اسے جائز تسلیم نہیں کریں گے تو ان کی یہ دلیل کیونکر معقول سمجھی جاسکتی ہے کہ چونکہ اس ترجمہ قرآن میں ہمارے چندہ کا روپیہ بھی شامل تھا اس لئے اگر ترجمہ ہم اپنے ساتھ لے آئے تو کیا بُرا ہوا.مجھے یاد ہے مولوی محمد علی صاحب جس وقت ترجمہ قرآن اور کئی ہزاروں روپیہ کا سامان کتب وغیرہ کی شکل میں ساتھ لے کر قادیان سے گئے تو اُس وقت قاضی امیرحسین صاحب مرحوم تو اس قدر جوش کی حالت میں تھے کہ وہ بار بار پنجابی میں کہتے تھے ” نیک بختو ایہہ سلسلہ دامال لے چلیا ہے میں سچ کہنداں ہاں اس نے پھر مڑ کے نہیں آناں“ اور میں انہیں جواب دیتا تھا کہ قاضی صاحب ! اگر یہ لے جاتے ہیں تو لے جانے دیں آپ کو اس موقع پر صبر سے کام لینا چاہئے اور انہیں یہ ترجمہ اور سامان وغیرہ اپنے ساتھ لے جانے سے نہیں روکنا چاہئے کیونکہ اگر ہم نے کہا کہ ترجمہ اور کتا بیں وغیرہ اپنے ساتھ نہ لے جائیں تو یہ ساری دنیا میں شور مچاتے پھریں گے کہ انہوں نے قرآن کریم کے ترجمہ میں روک ڈالی.پس کتابوں اور ترجمہ وغیرہ کا کیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں یہ چیزیں پھر دے دیگا لیکن اس وقت اگر ہم نے ان کو روکا تو یہ سارے جہاں میں ہمیں یہ کہہ کر بد نام کرتے رہیں گے کہ انہوں نے قرآن کے ترجمہ میں روک ڈالی.پھر میں نے انہیں وہ مثال دی جو حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک بیوہ عورت تھی مگر تھی بڑی محنتی.ہمیشہ چرخہ کا تی اور چرخہ کات کات کر گزارہ کرتی.ایک دفعہ اس نے کئی سال تک محنت مزدوری کرنے اور تھوڑا تھوڑا پیسہ جمع کرنے کے بعد سونے کے کنگن بنوائے اور اپنے ہاتھوں میں پہن لئے.کچھ دنوں کے بعد اُس کے مکان میں رات کے وقت کوئی چور آ گیا اور اُس نے اُس عورت کو مار پیٹ کر اور ڈرا دھمکا کر اس کے کنگن اُتار لئے اور چھین کر چلا گیا.وہ کنگن چونکہ اُس عورت نے کئی سال کی محنت مزدوری کے بعد پیسہ پیسہ جمع کر کے بنوائے تھے اس لئے وہ چور اُسے بھولتا نہیں تھا

Page 312

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۸ جلد سوم اور ہر وقت آنکھوں کے سامنے اس کی شکل پھرتی رہتی تھی.اس کے بعد پانچ سات سال کا عرصہ اور گزر گیا اور اُس عورت نے پھر تھوڑا بہت جمع کر کےسونے کے کنگن بنوا لئے.ایک دن وہ اسی طرح چرخہ کات رہی تھی کہ اُس نے پھر اُسی چور کو کہیں پاس سے گزرتے دیکھا.اُس نے ایک لنگوٹی باندھی ہوئی تھی اور کسی کام کیلئے جا رہا تھا.عورت نے جونہی اسے دیکھا آواز دے کر اُسے کہنے لگی بھائی ذرا بات سن جانا.اُس نے خیال کیا کہ کہیں یہ مجھے پولیس کے سپرد نہ کرا دے اس لئے اس نے تیز تیز قدم اُٹھا کر وہاں سے غائب ہو جانا چاہا اس پر اس عورت نے پھر اُسے آواز دی اور کہا بھائی میں کسی سے نہیں کہتی تم میری ایک بات سن جاؤ.چنانچہ وہ شخص آ گیا.عورت اپنا ہاتھ نکال کر اُسے کہنے لگی.دیکھ لو ان ہاتھوں میں تو پھر سونے کے کنگن پڑ گئے ہیں اور تمہارے جسم پر کنگن چرا کر بھی لنگوٹی کی لنگوٹی ہی رہی تو میں نے کہا قاضی صاحب ! آپ گھبرائیں نہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے اور بہت کچھ دے گا لیکن آپ سمجھ لیں کہ ہم کتنے خطرناک الزام کے نیچے آ سکتے ہیں اگر ہم انہیں یہ سامان لے جانے سے روک دیں.کل کو لوگوں میں یہ کہتے پھریں گے کہ صرف دو مہینے کے لئے ترجمہ قرآن کرنے کی خاطر میں یہ کتابیں اور سامان اپنے ساتھ لے چلا تھا مگر ان لوگوں نے دو مہینے کے لئے بھی یہ چیز میں نہ دیں اور اس طرح ترجمہ قرآن میں انہوں نے روک ڈالی.پس اگر ہم یہ سامان لے جانے سے انہیں روکیں گے تو ساری عمر کے لئے ہماری پیشانی پر داغ لگ جائے گا اور اگر مولوی صاحب ان چیزوں کو واپس نہیں کریں گے تو وہ الزام کے نیچے آجائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اور سامان دے دیگا.تو قاضی صاحب کو اس موقع پر بڑاطیش آیا مگر میں نے انہیں سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا لیکن بات اُن کی ٹھیک نکلی کہ وہ کئی ہزار روپے کا سامان ترجمہ قرآن کے نام سے اپنے ساتھ لے گئے.پس اگر یہ اصول درست ہے کہ چونکہ چندہ میں ان کا بھی حصہ تھا اس لئے اُن کو اس بات کا حق حاصل تھا کہ وہ ترجمہ قرآن اور دوسرا سامان اپنے ساتھ لے جاتے تو پھر وہ اس بات کی بھی اجازت ہمیں دے دیں تا ہماری جماعت کے وہ دوست جو ان میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں اور جو انہیں ایک لمبے عرصہ تک چندے دیتے رہے ہیں وہ ان کی انجمن کی چیزیں

Page 313

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۹ جلد سوم اُٹھا اُٹھا کر لے آئیں چونکہ ان چیزوں کی تیاری میں ان کے چندہ کا بھی دخل ہے اور اگر وہ اس بات کی اجازت نہیں دیں گے تو دنیا جان لے گی کہ انہوں نے جو جواب دیا ہے وہ غلط ہے اور انہیں اس بات کا قطعاً کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ وہ انجمن کی کسی چیز کو اس طرح لے جاتے اور اگر وہ اس بات کو جائز سمجھتے ہیں تو اس کا اعلان کر دیں.میں ان لوگوں کی ایک لسٹ پیش کر دوں گا جو ان میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہوئے اور کافی رقوم انہیں چندے میں دیتے رہے ہیں.میں ان تمام کو ایک وفد کی صورت میں ان کے پاس بھیجنے کے لئے تیار ہوں وہ اپنی انجمن کے دروازے ان کے لئے کھول دیں تا کہ وہ جس چیز کو اپنے لئے ضروری سمجھیں اُٹھا لیں کیونکہ ان کے چندہ میں وہ بھی حصہ دار رہ چکے ہیں.لیکن اگر وہ اس بات کے لئے تیار نہیں تو پھر ان کا یہ کہنا کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ چونکہ ہمارے چندے بھی قادیان میں آتے تھے اس لئے ہم اپنے چندہ کے عوض ترجمہ قرآن اور دوسرا سامان لے آئے.پھر میں کہتا ہوں ایک منٹ کے لئے اگر اس بات کو فرض بھی کر لیا جائے کہ اس وجہ سے سلسلہ کا ایک مال اپنے قبضہ میں کر لینا ان کے لئے جائز تھا تو سوال یہ ہے کہ یہ مال تو سلسلہ کا تھا مولوی محمد علی صاحب کو اس بات کی کس نے اجازت دی کہ وہ اس مال کو اپنی ذاتی جائیداد قرار دے لیں.مان لیا کہ وہ ترجمہ قرآن اور کتب وغیرہ اس چندہ کے بدلہ میں لے گئے جو شیخ رحمت اللہ صاحب دیا کرتے تھے.مان لیا کہ وہ ترجمہ قرآن اور کتب وغیرہ اس چندہ کے بدلہ میں لے گئے جو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب دیا کرتے تھے.مان لیا کہ وہ ترجمہ قرآن اور کتب وغیرہ اس چندہ کے بدلہ میں لے گئے جو ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب دیا کرتے تھے.ہم نے ان تمام باتوں کو تسلیم کر لیا.مگر سوال یہ ہے کہ دنیا کا وہ کونسا قانون ہے جس کے مطابق قوم کے چندہ اور قوم کے روپیہ سے تیار ہونے والی چیز مولوی محمد علی صاحب کی ذاتی ملکیت بن جائے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص باغ سے انگور کا ٹوکرا اُٹھا کر گھر کو لئے جا رہا تھا کہ باغ کے مالک کی اس پر نظر پڑ گئی اور اُس نے پوچھا کہ تم میرے باغ سے انگور تو ڑ کر

Page 314

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم اور ٹوکرے میں بھر کر کس کی اجازت سے اپنے گھر لئے جار ہے ہو وہ کہنے لگا پہلے میری بات سن لیجئے اور پھر اگر کوئی الزام مجھ پر عائد ہو سکتا ہو تو بے شک مجھ پر عائد کیجئے.ما لک آدمی تھا شریف اُس نے کہا بہت اچھا پہلے اپنی بات سناؤ.وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ میں راستہ میں چلا جارہا تھا کہ ایک بگولہ آیا اور اس نے اُڑا کر مجھے آپ کے باغ میں لا ڈالا.اب بتائیے اس میں میرا کیا قصور ہے.مالک بہت رحم دل تھا اس نے کہا کہ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں بلکہ مجھے تم سے ہمدردی ہے.وہ کہنے لگا ، آگے سنے.اتفاق ایسا ہوا کہ جہاں میں گرا وہاں جابجا انگوروں کی بیلیں لگی ہوئی تھیں ایسے وقت میں آپ جانتے ہیں کہ انسان اپنی جان بچانے کیلئے ہاتھ پاؤں مارا کرتا ہے.میں نے بھی ہاتھ پاؤں مارے اور انگوروں نے گرنا شروع کر دیا.بتائیے اس میں میرا کوئی قصور ہے؟ وہ کہنے لگا قصور کیسا اگر تمہاری جان بچانے کے لئے میرا سارا باغ بھی اجڑ جاتا تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہ ہوتی.پھر وہ کہنے لگا کہ جب انگور گرنے لگے تو نیچے ایک ٹوکرا پڑا تھا انگور ایک ایک کر کے اس ٹوکرے میں اکٹھے ہو گئے.فرمائیے اس میں میرا کیا قصور ہے؟ مالک نے کہا یہ تم عجیب بات کہتے ہو.میں نے مانا کہ بگولہ تمہیں اُڑا کر میرے باغ میں لے گیا، میں نے مانا کہ تم ایسی جگہ گرے جہاں انگور کی بیلیں تھیں، میں نے مانا کہ تم نے اپنی جان بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے تو انگور گر نے لگے ، میں نے مانا کہ اُس وقت وہاں کوئی ٹوکر ا پڑا تھا جس میں انگور ا کٹھے ہوتے چلے گئے.مگر تمہیں یہ کس نے کہا تھا کہ ٹوکرا سر پر اُٹھا کر اپنے گھر کی طرف لے جاؤ.وہ کہنے لگا بس یہی بات میں بھی سوچتا آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا.تو میں نے مان لیا کہ یہ لوگ چندہ دیا کرتے تھے، میں نے مان لیا کہ ان چندوں کی وجہ سے اِن لوگوں کو اس بات کا حق حاصل تھا کہ انجمن کی ایک چیز کو غاصبانہ طور پر اپنے ساتھ لے جائیں.مگر مولوی محمد علی صاحب کے ہاتھ میں وہ ترجمہ دے کر انہیں یہ کس نے کہا تھا کہ وہ اسے اپنے گھر لے جائیں.اگر ترجمہ قرآن کی تمام آمد انجمن اشاعت اسلام لاہور کے کاموں پر خرچ ہوتی اور مولوی محمد علی صاحب کو اس سے ایک حسبہ بھی نہ ملتا تو کہا جاسکتا تھا کہ یہ انجمن کی چیز تھی اور انجمن کے پاس ہی رہی.مگر وہ ترجمہ قرآن جس کے حقوق ملکیت یا تو ہمیں حاصل تھے یا

Page 315

خلافة على منهاج النبوة ٣٠١ جلد سوم بطریق تنزل انجمن اشاعت اسلام لاہور کو.اس کے حقوق مولوی محمد علی صاحب کو کیونکر مل گئے اور ان کے لئے یہ کیونکر جائز ہو گیا کہ وہ اس کی آمد کو اپنے آپ پر اور اپنے اہل وعیال پر خرچ کریں.یہ سوال ہے جو غیر مبائعین کے سامنے پیش کرنا چاہیے کہ دوسروں پر اعتراض کرنے سے پہلے تم اپنے گھر کا تو جائزہ لو اور بتاؤ کہ مولوی محمد علی صاحب کو کس طرح یہ حق حاصل تھا کہ وہ ترجمہ قرآن اُٹھا کر اپنے گھر لے جاتے.اور پھر ساتھ ہی ان سے یہ بھی پوچھ لو کہ آیا ہمیں بھی اس بات کی اجازت حاصل ہے کہ جو لوگ ہماری جماعت میں تم میں سے نکل کر شامل ہوئے ہیں اور تمہیں سینکڑوں روپے بطور چندہ دیتے رہے ہیں وہ تمہارا مال اُٹھا لیں اور کیا تم اس پر برا تو نہیں مناؤ گے اور کیا اسی قانون کے مطابق انہیں غیر مبائعین کی چیز میں ہتھیا لینے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ اسی طرح ان کے جو نئے دوست مصری صاحب پیدا ہوئے ہیں ان کے متعلق بھی جماعت کو بعض ضروری باتیں یاد رکھنی چاہئیں.مصری صاحب اب دراصل انہی کی پارٹی میں ہیں.گو ظا ہر وہ یہ کرتے ہیں کہ ان کا غیر مبائعین کے عقائد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.پیغامی لوگ بھی انکی باتیں اپنے اخبارات کے ذریعہ خوب پھیلاتے رہتے ہیں.ان کے متعلق ” فاروق میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جو بہت ہی لطیف ہے.سید احمد علی صاحب مولوی فاضل اس مضمون کے لکھنے والے ہیں.اس میں انہوں نے دو حوالے ایسے جمع کر دیئے ہیں جو بہت ہی کارآمد ہیں اور جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ ان حوالوں کو یاد رکھیں.ان میں سے ایک حوالہ میں انہوں نے غیر مبائعین کو غلطی پر قرار دیا ہے اور دوسرے حوالہ میں انہوں نے ہمیں غلطی پر قرار دیا ہے.اب جب کہ مصری صاحب کے نزدیک ہم بھی غلطی پر ہوئے اور غیر مبائعین بھی غلطی پر ہوئے تو سوال یہ ہے کہ پھر سچائی پر کون قائم ہے اور وہ کونسی جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کی صحیح تعلیم کی حامل ہے؟ اس صورت میں تو گویا نہ ہماری جماعت اُس تعلیم پر قائم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی اور نہ غیر مبائعین اُس تعلیم پر قائم ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی.صرف مصری صاحب اور ان کے بیٹے ہی باقی رہ جاتے ہیں اور

Page 316

خلافة على منهاج النبوة ٣٠٢ جلد سوم غالبا ان کے نزدیک وہی ہیں جو سچائی پر قائم ہیں.پس یہ سوال بھی نہایت اہم ہے اور اس قابل ہے کہ اُن سے دریافت کیا جائے کہ آخر وہ کون سی جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قائم کر کے گئے تھے اور جو آپ کے بتائے ہوئے صحیح راستہ پر چل رہی ہے.جب ایک طرف وہ ہمیں غلطی پر قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف غیر مبائعین کو غلطی پر قرار دے چکے ہیں تو وہ کون سی جماعت رہ گئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہے اور وہ جس کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ وہ سچائی پر قائم ہے.یا تو وہ یہ کہیں کہ اب دلائل سے انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ غیر مبائعین ہی حق پر ہیں اور نبوت وغیرہ مسائل کے متعلق جو عقائد وہ پہلے رکھتے تھے وہ درست نہیں تھے اور اس صورت میں بے شک وہ سوال قائم نہیں رہیگا جو موجودہ حالت میں ان پر عائد ہوسکتا ہے.لیکن اس صورت میں مومنوں کی طرح دلیری سے کام لیتے ہوئے انہیں کہہ دینا چاہئے کہ پہلے میں غلطی پر تھا.اب مجھے پتہ لگ گیا کہ غیر مبائعین ہی حق پر ہیں.ہمارے متعلق تو وہ بار بار کہتے ہیں کہ میں مومنانہ جرات کی وجہ سے ان باتوں کو چھپا نہیں سکتا جو میرے علم میں آئیں.پھر کیوں یہی مؤمنانہ جرات غیر مبائعین کے متعلق ان سے ظاہر نہیں ہوتی.پس اگر وہ سمجھتے ہیں کہ غیر مبائعین کے عقائد درست ہیں اور وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحیح تعلیم کے حامل ہیں تو وہ جرأت سے کام لیتے ہوئے ایسا اعلان کر دیں.مگر جب تک وہ ایسا اعلان نہیں کرتے یہ سوال بدستور قائم رہے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ کونسی جماعت ہے جو صحیح رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کو پورا کر رہی ہے.کوئی اس بات کو اچھا کہے یا بُرا یہ ایک حقیقت ہے اور اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پیغا می کچھ نہ کچھ کام کر رہے ہیں.بعض علاقوں میں انہوں نے اپنے مبلغ بھی بھیجے ہوئے ہیں، لٹریچر اور کتابیں بھی شائع کرتے رہتے ہیں اور تبلیغ اسلام کے لئے بھی کوششیں کرتے رہتے ہیں.اس کے مقابلہ میں ہم ہیں ہم پر بھی کوئی لاکھ اعتراض کرے ہمارے کام کو اچھا کہے یا بُر ایہ ایک حقیقت ہے کہ ہم بھی کچھ نہ کچھ کام کر رہے ہیں.ہم نے اپنے مبلغ دنیا کے مختلف ممالک میں بھجوائے ہوئے ہیں.کوئی چین میں تبلیغ کر رہا ہے،

Page 317

خلافة على منهاج النبوة ٣٠٣ جلد سوم کوئی جاپان میں تبلیغ کر رہا ہے، کوئی یورپ میں تبلیغ کر رہا ہے ، کوئی امریکہ میں تبلیغ کر رہا ہے.اسی طرح ہم اپنا لٹریچر اور کتابیں شائع کرتے رہتے ہیں.یہ کام اچھا ہے یا بُرا اس سے قطع نظر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس وقت دو جماعتیں ہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ کام کر رہی ہیں مگر یہ دونوں مصری صاحب کے نزدیک غلط راہ پر ہیں.چنانچہ غیر مبائعین کے متعلق وہ آج سے اٹھارہ سال قبل کہہ چکے ہیں کہ وہ خوارج کے گروہ کی طرح ہیں.اور ہمارے متعلق انہوں نے اب کہا ہے کہ یہ بھی خوارج کے نقش قدم پر چل رہے ہیں.پس جب دونوں جماعتیں ہی صحیح راستہ سے منحرف ہیں تو اب سوال یہ ہے کہ پھر دنیا میں صرف ایک ہی جماعت رہ گئی جو صداقت پر قائم ہے اور وہ مصری صاحب اور ان کے بیٹے ہیں.پس ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے اسلام کی اشاعت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو پھیلانے کے لئے کیا کیا.مصری صاحب جب سے علیحدہ ہوئے ہیں ان کا سارا زور ہمارے خلاف صرف ہو رہا ہے.نہ وہ آریوں کے خلاف لکھتے ہیں، نہ وہ عیسائیوں کے خلاف لکھتے ہیں ، نہ وہ ہندوؤں کے خلاف لکھتے ہیں ، نہ وہ پیغا میوں کے خلاف لکھتے ہیں.گویا آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نَعُوذُ بِاللہ) کوئی نام لیوا دنیا میں باقی نہیں اور جو مصریوں کی شکل میں باقی ہیں وہ بھی اسلام کی خدمت کا کوئی کام سرانجام نہیں دے رہے.مصری صاحب کہہ سکتے ہیں کہ میرا یہ بھی کام ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک مومن کو اپنی نگاہ ہر طرف رکھنی چاہئے.پس اگر انہیں ہم میں نقائص دکھائی دیتے ہیں تو وہ بے شک ہم پر اعتراض کریں کیونکہ میرے نزدیک اگر ہم انہیں یہ کہیں کہ ہم پر اعتراض نہ کرو احرار پر کرو، یا ہم پر اعتراض نہ کرو عیسائیوں پر کرو، یا ہم پر اعتراض نہ کرو آریوں پر کرو تو یہ کسی صورت میں درست نہیں ہوگا.مومن کا کام ہے کہ وہ ہر طرف توجہ رکھے.پس ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ ہم پر اعتراض نہ کریں بلکہ اگر وہ ہمیں غلطی پر سمجھتے ہیں تو یقیناً ان کا حق ہے کہ وہ ہمارے خلاف جد و جہد کریں.لیکن ایک سوال ہے جس کو وہ کبھی حل نہیں کر سکتے کہ کیا یہ فتنہ جو مصری صاحب کے نزدیک بڑا فتنہ ہے یہ تو اس بات کا حق رکھتا ہے کہ مصری صاحب اپنی تمام کوششیں اس کو

Page 318

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۴ جلد سوم مٹانے کیلئے وقف کر دیں مگر وہ فتنے جنہیں خدا اور اس کے رسول نے بڑا قرار دیا ہے ان کو مٹانے کے لئے مصری صاحب کے لئے کسی قسم کی جدو جہد کرنا جائز نہیں.کیا مصری صاحب کو کبھی آریوں کے خلاف کچھ لکھنے کی بھی توفیق ملی ؟ یا عیسائیوں کے خلاف بھی انہوں نے کچھ لکھا ؟ یا احرار کے متعلق ہی کبھی انہوں نے دو چار مضمون لکھے؟ انہوں نے کبھی آریوں کے خلاف کچھ نہیں لکھا.انہوں نے کبھی عیسائیوں اور احرار وغیرہ کے خلاف کچھ نہیں لکھا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے ان کے خلاف لکھا تو ان کی جتھہ بندی ٹوٹ جائے گی اور وہ مدد جو انہیں احرار اور پیغامیوں سے مل رہی ہے وہ جاتی رہے گی.مگر کیا خدا اور رسول کا یہ حق نہیں کہ جن فتنوں کو انہوں نے بڑا قرار دیا ہے انہیں بڑا سمجھا جائے ؟ اور کیا یہ مصری صاحب کو ہی حق حاصل ہے کہ جس فتنہ کو وہ بڑا سمجھیں وہ بڑا بن جائے ؟ قرآن کریم نے دجالی فتنہ کو بہت بڑا فتنہ قرار دیا ہے حتی کہ قرآن کریم میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ قریب ہے اس فتنہ سے آسمان پھٹ جائے زمین تہہ و بالا ہو جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے دجالی فتنہ سے بڑا فتنہ کوئی نہیں ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے آریوں کے فتنہ کو بہت بڑا فتنہ قرار دیا ہے لیکن وہ کبھی آریوں کے خلاف نہیں لکھتے.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر میں نے آریوں کے خلاف کچھ لکھا تو قادیان کے آریوں سے جو مدد مجھے مل رہی ہے وہ بند ہو جائے گی.اسی طرح وہ کبھی عیسائیوں اور ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کے خلاف نہیں لکھتے اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس غرض کے لئے دنیا میں مبعوث فرمائے گئے تھے وہ آج کہیں پوری نہیں ہورہی کیونکہ مصری صاحب کے نزدیک ہم بھی گمراہ اور مصری صاحب کے نزدیک غیر مبائعین بھی گمراہ اور پھر خود مصری صاحب بھی گمراہ.کیونکہ ان کی توجہ اس کام کی طرف ہے ہی نہیں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث فرمائے گئے تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ مصری صاحب کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی وفات کے بعد جو کچھ چھوڑا وہ گمراہی ہی گرا ہی تھی جو قادیان میں بھی ظاہر ہوئی ، جو لا ہور میں بھی ظاہر ہوئی اور جو مصری صاحب کے گھر میں بھی ظاہر ہوئی.

Page 319

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۵ جلد سوم کیا کوئی بھی معقول انسان تسلیم کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا وہ مسیح جس کی نوح نے خبر دی، خدا تعالیٰ کا وہ مسیح جس کی ابراہیم نے خبر دی ، خدا تعالیٰ کا وہ مسیح جس کی موسی نے خبر دی ، خدا تعالیٰ کا وہ مسیح جس کی عیسی نے خبر دی ، خدا تعالیٰ کا وہ مسیح جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ، جس کی یاد میں ہزاروں نہیں لاکھوں ائمہ دین اور صلحاء و اولیاء دعائیں کرتے ہوئے اس جہان سے سے گزر گئے.وہ اس جہان میں آیا اور چلا گیا اور سوائے گمراہی اور ضلالت کے دنیا میں کچھ چھوڑ نہیں گیا.پس یا تو غیر مبائعین مصری صاحب سے یہ اعلان کروا دیں کہ انہوں نے پیغامیوں کے متعلق جو کچھ لکھا تھا وہ صحیح نہیں تھا اور یہ کہ اب انہیں غور کر نے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ پیغا می ہی حق پر ہیں.اس صورت میں بے شک ان کا پہلو مضبوط ہو سکتا ہے اور وہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس جماعت کو سچائی پر قائم کیا اور جو صحیح معنوں میں آپ کی جماعت کہلا سکتی ہے وہ غیر مبائعین کی ہے.لیکن جب تک وہ یہ اعلان نہیں کرتے کہ پیغامی حق پر ہیں اُس وقت تک گویا ان کے نزدیک اس وقت روئے زمین پر کوئی جماعت بھی ایسی نہیں جو صداقت اور راستی پر قائم ہو.کیونکہ غیر مبائعین کی گمراہی کے متعلق ان کا پہلا عقیدہ اب تک قائم ہے اور گمراہی کے متعلق ان کے موجودہ اعلانات موجود ہیں اور ان کی اپنی گمراہی اس طرح ظاہر ہے کہ وہ اپنا سارا زور اس فتنہ کے مٹانے کیلئے صرف کر رہے ہیں جو ان کے نزدیک بڑا ہے مگر جنہیں خدا اور اس کے رسول نے بڑا فتنہ قرار دیا ہے ان کے استیصال اور اسلام کی اشاعت کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس غرض کے لئے مبعوث نہیں فرمایا تھا کہ آپ کے ذریعہ پہلے ایک جماعت قائم کرے اور پھر آپ کی وفات کے ساتھ ہی اس میں بگاڑ پیدا کر دے اور کچھ عرصہ کے بعد اس کی اصلاح کے لیے کسی کو کھڑا کر دے.کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا بھی ہوا کرتا ہے جو مکان بنائے اور پھر توڑ ڈالے اور توڑنے کے بعد پھر اُسے بنانا شروع کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض صرف یہ تھی کہ آپ دنیا کی اصلاح کریں اور یہی کام ہے جو آپ کی جماعت کے سپرد ہے.پس جب ہم بھی گمراہ ہیں، جب

Page 320

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۶ جلد سوم غیر مبائعین بھی گمراہ ہیں اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحیح تعلیم پر صرف مصری صاحب اور ان کے بیٹے ہی قائم ہیں تو کیا ان کا فرض نہیں تھا کہ وہ اس تین سالہ عرصہ میں عیسائیوں کے خلاف لکھتے ، آریوں کے خلاف لکھتے ، مذاہب باطلہ کا رڈ کرتے اور اسلام کی شوکت اور عظمت ان پر ظاہر کرتے.مگر کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اس تین سال کے عرصہ میں انہوں نے کیا اصلاح کی اور کتنے آریوں اور عیسائیوں پر اتمام حجت کی ؟ یا کیا وہ اب اس بات کے لئے تیار ہیں کہ آریوں اور احرار وغیرہ کے خلاف لکھیں گے؟ تو یقیناً وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ان کے اس فتنہ کی بنیاد ہی آریوں اور احرار کی مدد پر ہے اور وہ جانتے ہیں کہ وہ انہی کی مدد پر جی رہے ہیں.اگر وہ ان کے خلاف لکھیں تو ان کا خدا ہی مرجائے.پس ان کے خلاف لکھنے کی وہ کبھی جرات نہیں کر سکتے.نتیجہ یہ نکلا کہ آج دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیم کے ماتحت کوئی جماعت بھی کام نہیں کر رہی.ہم نہیں کر رہے کیونکہ مصری صاحب کے نزدیک ہم گمراہ ہیں.غیر مبائعین نہیں کر رہے کیونکہ مصری صاحب کے نزدیک وہ بھی گمراہ ہیں اور میں بتا چکا ہوں خود مصری صاحب بھی یہ کام نہیں کر رہے پس وہ بھی گمراہ ہوئے اور جب تمام کے تمام گمراہی پر قائم ہیں تو سوال یہ ہے کہ و کون سی جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم کی تھی اور جسے آپ کی بتائی ہوئی تعلیم کے ماتحت دنیا میں کام کرنا چاہئے تھا.غرض یہ وہ باتیں ہیں جو جماعت کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنی چاہئیں اور وقتاً فوقتاً ان لوگوں کے سامنے انہیں پیش کرتے رہنا چاہئے.پھر اس امر کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ مخالف کے سوالات کا جواب دینے سے پہلے دلائل پر پوری طرح غور کر لیا جائے اور سوچ سمجھ کر اور فکر سے کام لے کر سوالات کا جواب دیا جائے.بعض دفعہ غور سے کام نہیں لیا جا تا اور یونہی جواب دے دیا جاتا ہے.یہ درست طریق نہیں.مثلاً آجکل ذریت مبشرہ کے متعلق بحث ہو رہی ہے.میرے نزدیک سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ لغت کے لحاظ سے اس پر بحث کی جاتی.اگر ہماری جماعت کے دوست لغت کے لحاظ سے اس پر بحث کرتے تو اس بحث کا خاتمہ ہی ہو جاتا.اسی طرح بعض اور سوالات کا جواب دیتے وقت بھی میرے نزدیک پرانے لٹریچر کو

Page 321

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۷ جلد سوم نہیں پڑھا گیا.اسی طرح ایک اور بحث بھی ہے مگر میں اُس کا نام نہیں لینا چاہتا تا کہ مخالف ہوشیار نہ ہو جائے.مگر اس کے متعلق بھی ایسے رنگ میں بحث کی جاسکتی تھی کہ مخالف اپنے منہ سے آپ ہی مجرم بن جا تا.پھر یہ بات بھی یا درکھو کہ گناہ دوستم کے ہوتے ہیں ایک ظاہر گناہ ہوتے ہیں اور ایک مخفی گناہ.جو گناہ کسی کے باطن سے تعلق رکھتے ہیں ان کے متعلق شریعت نے ہمیں یہ ہدایت دے دی ہے کہ ہم ان کے بارہ میں جستجو نہ کیا کریں لیکن جو ظا ہر گناہ ہوتے ہیں وہ چونکہ ہر ایک کو دکھائی دیتے ہیں اس لئے ان کے بارہ میں تجسس کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اب دیکھو کیا یہ عجیب نہیں کہ یہ نئی پارٹی جو ہمارے خلاف نکلی ہے اسی طرح جو پیغامی ہمارے خلاف مضامین لکھتے رہتے ہیں ان میں سے اکثر ڈاڑھی منڈے ہوتے ہیں.اب بتاؤ کیا اللہ اور اس کے رسول کی حمایت کا جوش انہی لوگوں میں زیادہ ہوا کرتا ہے جو شریعت کی اس طرح کھلے طور پر ہتک کرنے والے ہوں.وہ اصلاح کا دعویٰ کرتے ہوئے اُٹھے ہیں مگر ان کے اپنے بیٹے اور رشتہ دار اور دوسرے قریبی سب ڈاڑھیاں مُنڈ واتے ہیں.وہ ہمارے خلاف جب لکھنے پر اترتے ہیں تو وہ ہمارے ان گناہوں کے متعلق بھی لکھ جاتے ہیں جو مخفی ہوتے ہیں اور جن کے متعلق شریعت انہیں یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ ان کا ذکر کریں مگر کیا انہوں نے اپنا منہ کبھی شیشہ میں نہیں دیکھا اور کیا مصلح ایسے ہی ہوا کرتے ہیں.ممکن ہے وہ کہہ دیں کہ ہم نے کبھی شیشہ استعمال نہیں کیا مگر خدا نے ان کو آنکھیں تو دی ہیں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں اور دوسرے رشتہ داروں کی کیا صورت ہے اور کیا ایسی صورتیں ہی لوگوں کی اصلاح کیا کرتی ہیں.پھر ان لوگوں کے اخلاق کی حالت یہ ہے کہ میں ابھی سندھ میں ہی تھا کہ وہاں مجھے ایک رسالہ ملا جس میں لکھنے والے نے یہ ذکر کیا تھا کہ میں نے ایک رجسٹر ڈ خط آپ کو بھجوایا تھا جس میں فلاں بات میں نے بیان کی تھی مگر اس کا مجھے کوئی جواب نہیں ملا.حقیقت یہ ہے کہ وہ خط دفتر نے میرے سامنے پیش ہی نہیں کیا تھا.کیونکہ جیسا کہ انہوں نے مجھے بتایا انہوں نے اس کے پیش کرنے کی ضرورت نہ سمجھی اور دفتر متعلقہ میں بھجوا دیا.بہر حال وہ

Page 322

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۸ جلد سوم رساله شیخ غلام محمد صاحب کا تھا جو انہی پیغامیوں میں سے الگ ہو کر آجکل مصلح موعود ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں.میں اُن دنوں چونکہ قدرے فارغ تھا اس لئے میں نے اس رسالہ کو کھولا اور اسے پڑھنا شروع کر دیا.اس رسالہ میں لکھا ہوا تھا کہ ایک پیغامی ڈاکٹر یہ بیان کرتا ہے کہ میں مرزا محمود احمد صاحب سے قادیان ملنے کیلئے گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی ہے اور جب انہیں پتہ لگا کہ میں ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں تو وہ ڈر سے کہ نشہ چڑھا ہوا ہے ایسا نہ ہو کہ اسے پتہ لگ جائے چنانچہ انہوں نے ملاقات میں دو تین گھنٹے دیر لگا دی اور کہہ دیا کہ میں ابھی نہیں مل سکتا.دو تین گھنٹے انتظار کے بعد انہوں نے مجھے بلوایا اور میں نے جاتے ہی فوراً پہچان لیا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی کیونکہ ان کے منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی.مگر انہوں نے اس بات کو چھپانے کے لئے عطر مل رکھا تھا.شیخ غلام محمد صاحب نے اس رسالہ میں یہ بھی لکھا تھا کہ میں نے اس مضمون کا رجسٹری خط امام جماعت احمدیہ کو بھجوایا تھا مگر مجھے اس کا کوئی جواب نہیں ملا.اب میں انہیں اس رسالہ کے ذریعہ توجہ دلا تا ہوں اور بتا تا ہوں کہ پیغامیوں کے حلقہ میں آپ کے متعلق یہ بات زور سے پھیلی ہوئی ہے.میں نے پرائیویٹ سیکرٹری کو ہدایت دی کہ آپ اس پیغامی ڈاکٹر کو ایک رجسٹر ڈ خط لکھیں جس میں اُن سے دریافت کریں کہ یہ بات جو شائع ہوئی ہے کہاں تک درست ہے.ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم خود بخود یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ نے واقعہ میں یہ کہا ہوگا.چونکہ یہ بات شائع ہو چکی ہے اس لئے آپ ہمیں بتائیں کہ یہ بات صحیح ہے یا غلط میری غرض یہ تھی کہ اگر اُنہوں نے جواب دیا تو اصل بات خود ان کی زبان سے معلوم ہو جائے گی اور اگر جواب دیا تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ انہوں نے واقعہ میں یہ بات کہی ہے.ایک مہینہ گزرنے کے بعد میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے دریافت کیا کہ کیا ان کا کوئی جواب آیا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ کوئی جواب نہیں آیا.اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں کی اخلاقی حالت کس قدر گری ہوئی ہے.حالانکہ واقعہ صرف یہ تھا کہ شیخ محمد نصیب صاحب کو اپنے ہمراہ لے کر وہ میری ملاقات کے لئے آئے.پرائیویٹ سیکرٹری نے کہا کہ آجکل ملاقاتیں تو بند ہیں مگر چونکہ آپ خاص

Page 323

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم طور پر ملاقات کے لئے ہی آئے ہیں اس لئے میں اطلاع کرا دیتا ہوں.انہوں نے مجھے اطلاع کی اُس وقت میری بیوی ایک خادمہ کے ساتھ مل کر کمروں کی صفائی کر رہی تھی اور گردوغبار اُڑ رہا تھا.میں نے خیال کیا کہ اگر برآمدہ میں بھی ہم بیٹھے تو مٹی اور گرد کی وجہ سے انہیں تکلیف ہوگی اس لئے بہتر یہی ہے کہ پہلے کمروں کی صفائی کر لی جائے.چنانچہ میں نے انہیں کہا کہ کمروں کی صفائی ہو رہی ہے اور اس وقت گردو غبار اڑ رہا ہے صفائی ہولے تو میں ان کو بلوالوں گا.انہیں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے جا کر یہ بات کہی تو کہنے لگے کہ اچھا اس دوران میں ہم مقبرہ بہشتی وغیرہ دیکھ آتے ہیں چنانچہ وہ چلے گئے اور میں نے ساتھ مل کر جلدی جلدی مکان کو صاف کیا اور پھر گھنٹی بجائی.پرائیویٹ سیکرٹری آئے تو میں نے انہیں کہا کہ اب انہیں ملاقات کیلئے لے آئیے.وہ کہنے لگے ابھی تو وہ آئے نہیں جب آئیں گے تو میں اطلاع کر دوں گا چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد وہ آگئے اور میں نے انہیں ملاقات کے لئے بلا لیا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک ان سے باتیں کرتا رہا مگر باوجود اس کے کہ میں نے ان سے اُن دنوں میں ملاقات کی جب کہ سب دوستوں سے ملاقاتیں بند ہیں اور باوجود اس کے کہ میں نے ان کیلئے اپنے وقت میں سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ قربان کیا اور باوجود اس کے کہ میں نے ان ہی کی خاطر جلدی جلدی مکان کو صاف کرایا اور خود بھی اس صفائی میں شریک ہو گیا اور گردوغبار میں میں نے انہیں اس لئے نہ بلایا کہ انہیں تکلیف ہوگی اُنہوں نے اس احسان کا بدلہ یہ دیا کہ چونکہ ملاقات کرنے میں انہوں نے دیر لگائی تھی اس لئے معلوم ہوا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی.اگر یہ اصول درست ہے تو اس کے بعد ہمارا بھی حق ہو گا کہ مولوی محمد علی صاحب سے اگر کوئی مبائع ملنے کے لئے جائے اور وہ نہ ملیں یا ملنے میں دیر لگا دیں تو ہم کہہ دیں گے کہ مولوی محمد علی صاحب نے شراب پی ہوئی تھی اس لئے انہوں نے ملاقات میں دیر لگا دی.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر کہ آپ عطر ملا کرتے تھے کے عطر کے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ وہ مجھے بہت ہی محبوب ہے ، عمل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ عطر لگانے والے نے شراب پی ہوتی ہے تو پھر ہمارا بھی حق ہوگا کہ ہم مولوی محمد علی صاحب کو جب عطر لگائے ہوئے دیکھیں کہہ دیں کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی جس

Page 324

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم کی بو کو دور کرنے کے لئے انہوں نے عطر لگا لیا.حالانکہ عطر وہ چیز ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے دنیا میں جو چیزیں محبوب ہیں ان میں ایک عطر بھی ہے.مجھے بھی عطر بڑا محبوب ہے اور میں ہمیشہ کثرت کے ساتھ عطر لگا یا کرتا ہوں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں بخاری ہاتھ میں لئے حضرت خلیفہ اول سے پڑھنے کے لئے جا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے دیکھ لیا اور فرمایا کہاں جا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا حضرت مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے جا رہا ہوں.فرمانے لگے مولوی صاحب کو میری طرف سے کہنا کہ ایک حدیث میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نئے کپڑے بدلتے اور عطر لگایا کرتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت خلیفہ امسیح الا ول اپنی سادگی میں بعض دفعہ بغیر کپڑے بدلے جمعہ کے لئے تشریف لے آیا کرتے تھے.میں نے جا کر اسی رنگ میں ذکر کر دیا.حضرت مولوی صاحب یہ سن کر ہنس پڑے اور فرمانے لگے حدیث تو ہے مگر یوں ہی کچھ غفلت ہو جاتی ہے.تو عطر لگا نا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے مگر ان کے نزدیک جو شخص عطر ملتا ہے وہ اس بات کا ثبوت مہیا کرتا ہے کہ گویا اس نے شراب پی ہوئی تھی جس کی بو کو زائل کرنے کیلئے اس نے عطر لگا لیا.ایسے لوگوں کو ملاقات کا موقع دینا میرے نزدیک ظلم ہے کیونکہ عقلمند لوگ کہا کرتے ہیں کہ جولوگ اہل نہ ہوں ان پر احسان بھی نہیں کرنا چاہئے.پس یہ لوگ اس قسم کے اخلاق کے مالک ہیں کہ ان کے ساتھ شرافت اور خوش خلقی کے ساتھ پیش آنا بھی اپنا نقصان آپ کرنا ہے.ذرا غور کرو کہ ملاقاتیں بند تھیں میں اپنی جماعت کے دوستوں سے بھی نہیں ملتا تھا.گھر میں صفائی ہو رہی تھی ، گرد اڑ رہی تھی سامان اِدھر اُدھر بکھرا ہوا تھا اور میں محض اس لئے کہ ایک پیغامی دوست ملنے کے لئے آئے ہیں جلدی جلدی صفائی کروانے لگا اور خود بھی اس صفائی میں شریک ہوا اور جب ان صاحب کو ملاقات کا موقع دیا تو وہ گھر جا کر کہنے لگ گئے کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی تبھی ملنے میں دیر لگائی.یہ لوگ اگر دنیا کی اصلاح کرنے والے ہیں تو پھر اصلاح ہو چکی.مگر اس قسم کے صرف چند لوگ ہی ہیں.میں نہیں سمجھتا کہ

Page 325

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۱ جلد سوم سارے غیر مبائعین ایسے ہی ہوں آخر ان میں شریف اور نیک لوگ بھی ہیں تبھی بعض شریف الطبع لوگ ان سے علیحدہ ہو کر ہم میں شامل ہوتے رہتے ہیں.پس اس قسم کی عداوت رکھنے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو بڑے بڑے معاندین کو بھی ہدایت نصیب ہو جاتی ہے.ابھی سیالکوٹ میں ایک دوست احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.شیخ روشن الدین صاحب تنویر ان کا نام ہے اور وکیل ہیں.جب مجھے ان کی بیعت کا خط آیا تو میں نے سمجھا کہ کالج کے فارغ التحصیل نوجوانوں میں سے کوئی نوجوان ہوں گے مگر اب جو وہ ملنے کے لئے آئے اور شوری کے موقع پر میں نے انہیں دیکھا تو ان کی داڑھی میں سفید بال تھے.میں نے چوہدری اسد اللہ خان صاحب سے ذکر کیا کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ نوجوان ہیں اور ابھی کالج میں سے نکلے ہیں مگر ان کی تو داڑھی میں سفید بال آئے ہوئے ہیں.انہوں نے بتایا کہ یہ تو دس بارہ سال کے وکیل ہیں.پہلے احمدیت کے سخت مخالف ہوا کرتے تھے مگر احمدی ہو کر تو اللہ تعالیٰ نے انکی کا یا ہی پلٹ دی ہے.اسی طرح قادیان کا ہی ایک واقعہ ہے جو حافظ روشن علی صاحب نے سنایا وہ فرماتے تھے کہ میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے ایام میں مدرسہ احمدیہ کی طرف سے آ رہا تھا کہ میں نے دیکھا ایک چھوٹی سی ٹولی جس میں چار پانچ آدمی ہیں مہمان خانے کی طرف سے آ رہی ہے اور دوسری طرف ایک بڑی ٹولی جس میں چالیس پچاس آدمی ہیں باہر کی طرف سے آ رہی ہے وہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو دیکھ کر ٹھہر گئیں اور پھر انہوں نے آگے بڑھ کر آپس میں لپٹ کر رونا شروع کر دیا.وہ کہتے ہیں کہ مجھ پر اس نظارے کا عجیب اثر ہوا اور میں نے آگے بڑھ کر اُن سے پوچھا کہ تم روتے کیوں ہو؟ اس پر وہ جو زیادہ تھے انہوں نے بتایا کہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو آپ کو تھوڑے نظر آ رہے ہیں یہ ہمارے گاؤں میں سب سے پہلے احمدی ہوئے.ہم لوگوں کو ان کا احمدیت میں داخل ہونا اتنا بُرا معلوم ہوا اتنا بُر امعلوم ہوا کہ ہم نے ان پر ظلم کرنے شروع کر دیئے اور یہاں تک ظلم کئے کہ یہ اپنی جائیدادیں اور مکان وغیرہ چھوڑ کر دور کسی اور شہر میں جاہے.کچھ عرصہ کے بعد ہمیں بھی خدا تعالیٰ نے ہدایت دی اور ہم بھی

Page 326

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۲ جلد سوم احمدیت میں داخل ہو گئے لیکن نہ ہمیں ان کی خبر تھی کہ یہ کہاں ہیں اور نہ انہوں نے پھر ہمارے متعلق کوئی خبر حاصل کی.آج جلسہ سالانہ پر ہم آئے ہوئے تھے کہ ادھر سے ہم آ نکلے اور اُدھر سے یہ آ نکلے اور ہم نے ایک دوسرے کو پہچان لیا.ہمیں ان کو دیکھ کر وہ وقت یاد آ گیا جب ہم ان پر ظلم وستم کیا کرتے تھے اور جب خدا کی آواز پر لبیک کہنے کی وجہ سے ہم نے ان کو ان کے گھروں سے نکال دیا اور انہیں بھی وہ زمانہ یاد آ گیا جب ہم نے انہیں دُکھ دیئے تھے اور ہم دونوں بیتاب ہو کر رونے لگ گئے.تو بڑے بڑے دشمن ہدایت پا جاتے ہیں اور بڑے بڑے مخالف راہِ راست پر آ جاتے ہیں پس تم یہ مت سمجھو کہ چونکہ غیر مبائعین تمہارے دشمن ہیں اس لئے انہیں ہدایت نہیں مل سکتی.ہدایت خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل جب نازل ہو تو تمام کدورتیں دل سے چلی جاتیں ہیں.ہاں بے شک انہوں نے جماعت میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کوانہوں نے اپنے او پر ناراض کیا ہے.مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ کی بخشش وسیع ہے اور اس کی رحمتوں کا کوئی شمار نہیں.پس تم نا امیدمت ہوا اور تبلیغ میں لگے رہو اور صداقت ان کے سامنے متواتر پیش کرتے رہوتا ان میں سے جو سعید روحیں ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو کھینچ کر ہماری طرف لے آئے اور اس فتنہ کو جس کے متعلق یہ مقدر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ اور کسی نہ کسی صورت میں ضرور قائم رہے گا ، جس حد تک کم ہو سکتا ہو کم کر دے تا ہدایت کو قبول کرنے کے راستہ میں جو روکیں حائل ہیں وہ زیادہ سے زیادہ دور ہو جائیں اور ہدایت کی تائید میں جو سامان ہیں وہ زیادہ سے زیادہ ترقی کر جائیں.(الفضل ۲۱ را پریل ۱۹۴۰ء ) البدر ۲ / جون ۱۹۰۸ء صفحه ۶ السيرة الحلبية الجزء الثانى باب غزوة بدر الكبرى صفحه ۳۷۵ مطبوعہ بیروت لبنان ۲۰۱۲ء ۹۱: :مریم ۱۱ بخارى كتاب اللباس باب الطيب فى الراس واللحية صفحه ۱۰۳۹ حدیث نمبر ۵۹۲۳ مطبوعه رياض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية سنن النسائى كتاب عشرة النساء باب حب النساء صفحه ۴۶۹ حدیث نمبر ۳۳۹۱ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الاولى

Page 327

خلافة على منهاج النبوة ٣١٣ جلد سوم خلافت کے مخالفین کا ذکر خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۴۰ء میں حضور نے اپنے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے خلافت کے مخالفین کا ذکر کیا آپ فرماتے ہیں :..میں نے ایک خواب دیکھا پہلے تو میں سمجھتا تھا کہ اس کا مطلب کچھ اور ہے مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ ان کے اور ان کی قماش کے دوسرے لوگوں کے متعلق ہو.میں نے دیکھا کہ ایک چار پائی ہے جس پر میں بیٹھا ہوں.سامنے ایک بڑھیا عورت جو بہت ہی کر یہہ النظر ہے کھڑی ہے اس نے دو سانپ چھوڑے ہیں جو مجھے ڈسنا چاہتے ہیں.وہ چار پائی کے نیچے ہیں اور سامنے نہیں آتے تا جب میں نیچے اتروں تو پیچھے سے کود کر ڈس لیں.میرا احساس یہ ہے کہ ان میں سے ایک چارپائی کے ایک سرے پر ہے اور دوسرا دوسرے سرے پر تا میں جدھر سے جاؤں حملہ کر سکیں.میں کھڑا ہو گیا ہوں اور جلدی جلدی کبھی پائنتی کی طرف جاتا ہوں اور کبھی سرہانے کی طرف.میں خیال کرتا ہوں کہ جب میں پائنتی کی طرف جاؤں گا تو سر ہانے کی طرف کا سانپ اس طرف دوڑے گا اور جب سرہانہ کی طرف آؤں گا تو پائنتی والا اس طرف آئے گا اور اس طرح میں ان کو جھانسہ دے کر نکل جاؤں گا.پانچ سات مرتبہ اس طرح کرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اب دونوں سانپ ایک ہی طرف ہیں اور میں دوسری طرف سے کود پڑا.جب نیچے اترا تو میں نے دیکھا کہ واقعی وہ دونوں دوسری طرف تھے.میں فوراً ان کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا.ان میں سے ایک نے مجھ پر حملہ کیا اور میں نے اسے مار دیا پھر دوسرے نے حملہ کیا اور میں نے اسے مارا.مگر میں سمجھتا ہوں ابھی وہ کچھ زندہ سا ہی ہے.اس جگہ کے پہلو میں ایک علیحدہ جگہ ہے میں ہٹ کر اس کی طرف چلا گیا ہوں.وہاں ایک نہایت خوبصورت نوجوان ہے

Page 328

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۴ جلد سوم جو میں سمجھتا ہوں فرشتہ ہے اور گویا میری مدد کے لئے آیا ہے.وہ عورت چاہتی ہے کہ اس سانپ کو پکڑ کر مجھ پر پھینکے مگر وہ نوجوان میرے آگے آ گیا اور میری حفاظت کر نے لگا.عورت نے نشانہ تاک کر اس پر مارا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی فوق العادت طاقت کا ہے.اس نے اسے سر سے پکڑ لیا اور چاقو نکال کر اس کی گردن کاٹ دی.اس عورت نے پھر اس کٹی ہوئی گردن کو اُٹھایا اور ہماری طرف پھینکنا چاہتی ہے.کبھی اس کی طرف نشانہ باندھتی ہے اور کبھی میری طرف.مگر اس فرشتہ نے مجھے پیچھے کر دیا اور خود آگے ہو گیا اور اسے پھینکنے کا موقع نہیں دیتا.آخر ایک دفعہ اس عورت نے پھینکا مگر فرشتہ آگے سے ایک طرف ہو گیا.سامنے کچی دیوار تھی وہ اس دیوار میں لگا اور اس میں سوراخ ہو گیا وہ اس سوراخ کے اندر ہی گھس گیا.میری پیٹھ اس طرف ہے.وہ فرشتہ ایک کمرہ کی طرف جو پہلو میں ہے اشارہ کر کے مجھ سے کہتا ہے کہ تم ادھر ہو جاؤ اس سوراخ میں سے یہ سانپ پھر نکلیں گے ( گویا ان کی موت مجازی تھی اور جسمانی موت نہ تھی اور ابھی وہ حقیقتا زندہ تھے ).میں نے دیکھا کہ کبھی وہ اس سوراخ میں سے سر نکالتا ہے اور کبھی زبان ہلاتا ہے کبھی ادھر اور کبھی اُدھر رُخ کرتا ہے.گویا چاہتا ہے کہ ہم ذرا غافل ہوں تو حملہ کر دے.جونہی وہ سر نکالتا ہے فرشتہ اس کو ڈراتا ہے اور وہ جھٹ اندر چلا جاتا ہے.اتنے میں یکدم یوں معلوم ہوا کہ ایک کی بجائے دوسانپ ہیں اور گویا دوسرا سانپ جسے میں نے مردہ سمجھا تھا وہ بھی درحقیقت زندہ تھا.چنانچہ پہلے تو ایک ہی سوراخ تھا مگر یکدم ایک اور نمودار ہو گیا اور دونوں سانپ ان سوراخوں میں سے کو دے اور زمین پر گرتے ہی آدمی بن گئے جو بڑے قَوِی الْجُنّه ہیں.اس پر فرشتہ نے کسی عجیب سی زبان میں کوئی بات کی جسے میں نہیں سمجھ سکا.ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس نے کسی زبان میں جسے میں نہیں جانتا دعائیہ الفاظ کہے ہیں اور وہ الفاظ ہا کی پاکی“ کے الفاظ سے مشابہ ہیں.مگر چونکہ وہ غیر زبان ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ یہی الفاظ ہیں یا ان سے ملتے جلتے کوئی اور الفاظ.اس کے دعائیہ الفاظ کا اس کی زبان سے جاری ہونا تھا کہ میں نے دیکھا دونوں حملہ آور قید ہو گئے اور ان میں سے جو میرے قریب تھا میں نے دیکھا کہ اس کے دونوں ہاتھ اوپر اُٹھے اور ان میں ہتھکڑیاں پڑ گئیں مگر اس طرح کہ

Page 329

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۵ جلد سوم ایک کلائی دوسری کے اوپر ہے اور دایاں ہاتھ بائیں طرف کر دیا گیا ہے اور بایاں دائیں طرف کر دیا گیا ہے اور اس کے علاوہ ایک کمان دونوں ہاتھوں پر رکھی گئی ہے اور اس کے ایک سرے سے ایک ہاتھ کی انگلیاں اور دوسرے سرے سے دوسرے ہاتھ کی انگلیاں باندھ دی گئی ہیں.دوسرے آدمی کو کس طرح قید کیا گیا ہے میں اچھی طرح نہیں دیکھ سکا.پھر فرشتہ نے مجھے اشارہ کیا کہ باہر آ جاؤ.یہ خواب جب میں نے دیکھا یہ لوگ ابھی پوشیدہ تھے اور اندر ہی اندر اتحاد عالمین کے نام سے اپنی گدی بنانے کی سکیمیں بنارہے تھے.ان کے اندر خود پسندی اور خودستانی تھی اور اپنی ولایت بگھارتے پھرتے تھے.لوگوں سے کہتے تھے کہ ہم سے دعائیں کراؤ.حالانکہ خلافت کی موجودگی میں اس قسم کی گدیوں والی ولایت کے کوئی معنی ہی نہیں.جیسے گوریلا وار کبھی جنگ کے زمانہ میں نہیں ہوا کرتی.چھاپے اسی وقت مارے جاتے ہیں جب با قاعدہ جنگ کا زمانہ نہ ہو.خلفاء کے زمانہ میں اس قسم کے ولی نہیں ہوتے.نہ حضرت ابوبکر کے زمانہ میں کوئی ایسا ولی ہوا.نہ حضرت عمر یا عثمان یا حضرت علی کے زمانہ میں.ہاں جب خلافت نہ رہی تو اللہ تعالیٰ نے ولی کھڑے کئے کہ جولوگ ان کے جھنڈے تلے جمع ہوسکیں انہیں کر لیں تا قوم بالکل ہی تتر بتر نہ ہو جائے.لیکن جب خلافت قائم ہو اس وقت اس کی ضرورت نہیں ہوتی.جیسے جب منتظم فوج موجود ہو تو گوریلا جنگ نہیں کی جاتی.“ ( الفضل ۶ ارجون ۱۹۴۰ء )

Page 330

خلافة على منهاج النبوة ٣١٦ جلد سوم خلیفہ وقت کے مقرر کردہ عہدیداروں کی اطاعت بھی ضروری ہے ( خطبه جمعه فرمود ه ۳ استمبر ۱۹۴۰ء بمقام قادیان) سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.نظام جہاں اپنے اندر بہت سی برکات رکھتا ہے اور دینی اور دنیوی ترقیات کے لئے ایک نہایت ضروری چیز ہے وہاں اس میں بہت سی پیچیدگیاں بھی ہوتی ہیں اور جتنا نظام بڑھتا چلا جاتا ہے اتنی ہی اس میں پیچیدگیاں بھی بڑھتی چلی جاتی ہیں.اس کے مقابلہ میں جتنی کوئی چیز منفرد او را کیلی ہو اتنی ہی وہ سادہ ہوتی ہے.پس جہاں نظام کے ذریعہ قوموں اور مذہبوں کو فوائد پہنچتے ہیں وہاں اس کی وجہ سے بعض دفعہ غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں اور جو لوگ نظام سے سچا فائدہ اُٹھانا چاہیں ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان غلطیوں کی اصلاح کریں اور اصلاح کرتے چلے جائیں.اگر ان غلطیوں کی وہ اصلاح نہ کریں تو آہستہ آہستہ وہی نظام جو نہایت مفید ہوتا ہے کسی وقت لوگوں کے لئے عذاب بن جاتا ہے.یہ جو آجکل ڈکٹیٹر شپ، نازی ازم اور فیسی ازم رائج ہیں یہ بھی نظام کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں.یہ جو کمیونزم اور بالشوزم کہلا تے ہیں یہ بھی نظام کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں.ہیں وہ نظام ہی لیکن ان کی کل ٹیڑھی چل گئی اور کل کے بگڑ جانے کی وجہ سے ان میں ایسی خرابیاں پیدا ہو گئیں کہ وہ دنیا کے لئے مصیبت اور عذاب بن گئے.اسلام نے بھی ایک نظام قائم کیا ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ نہایت ہی اعلیٰ نظام ہے مگر جس طرح باقی نظام پیچیدہ ہیں ویسے ہی وہ بھی پیچیدہ ہے.چنانچہ اُمت مسلمہ میں سے ہی وہ ایک گروہ کو اٹھاتا ہے اور اسے اٹھا کر دوسروں

Page 331

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۷ جلد سوم موجود.کے لئے ان کی اطاعت واجب کر دیتا ہے.بعض لوگ غلط فہمی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف خلیفہ ہی واجب الاطاعت ہوتا ہے.حالانکہ قرآن کریم نے صاف طور پر ایسا نظام بتایا ہے جس میں صرف خلیفہ ہی نہیں بلکہ خلیفہ کے مقرر کردہ عہد یدار بھی واجب الاطاعت ہوتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا الله واطِيعُوا الرَّسُول و اولى الأمْرِ مِنكُمْ ، اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جیسا کہ کئے گئے ہیں کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کے بعد اولی الامر کی مگر اس کے معنی یہ بھی ہیں بلکہ قریب ترین معنی یہی ہیں کہ تم اللہ کی اطاعت کرو.تم رسول کی اطاعت کرو اور تم اس زمانہ کے اُولی الامر کی بھی اطاعت کرو گویا اللہ بھی موجود اور رسول بھی جود ہے اور اولی الامر کی اطاعت بھی ضروری ہے اور یہ وہ معنی ہیں جن کی قرآن کریم کی متعدد آیات سے تصدیق ہوتی ہے.مثلاً جہاں خبروں کے پھیلانے کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ کیوں تم ان لوگوں تک خبریں نہیں پہنچاتے جو بات کو سمجھنے کے اہل ہیں اور جن کے سپر د اس قسم کے امور کی نگرانی ہے گویا وہ ایک جماعت تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھی اور لوگوں کو حکم تھا کہ بجائے پبلک میں غیر ذمہ دارانہ طور پر خبریں پھیلانے کے اسے پہنچائی جائیں.پس یہ آیت بتاتی ہے کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو عام لوگوں سے ایک امتیاز رکھتے تھے اور لوگوں کو حکم تھا کہ وہ ضروری باتیں ان تک پہنچائیں.پھر ایک اور دلیل اس بات پر کہ اولی الامر کی اطاعت اللہ اور رسول کی موجودگی میں ہی ضروری ہے یہ ہے کہ اللہ کے بعد رسول کی اطاعت نہیں ہوتی بلکہ اُس کی موجودگی میں ہی رسول کی اطاعت ضروری ہوتی ہے.یہ معنی نہیں ہیں کہ اللہ تعالٰی نَعُوذُ باللہ فوت ہو جائے تو تم رسول کی اطاعت کرو اور رسول فوت ہو جائے تو اولي الامر کی اطاعت کرو بلکہ اللہ کی موجودگی میں رسول کی اطاعت کا حکم ہے.اسی طرح رسول کی موجودگی میں ہی اُولی الامر کی اطاعت اور ان کی فرمانبرداری کا حکم ہے م ہے.ممکن ہے کہ کوئی اعتراض کر دے کہ رسول کی اطاعت کا تو حکم ہوا مگر خلیفہ کی اطاعت

Page 332

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۸ جلد سوم کا کہاں حکم ہے؟ سو ایسے لوگوں کو یا درکھنا چاہئے کہ خلیفہ رسول کا قائم مقام ہوتا ہے.چنانچہ خلیفہ کے معنی نائب کے ہیں مگر وہ نائب اور قائم مقام اولی الامر کا نہیں بلکہ رسول کا ہوتا ہے.پس قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو.اور جب رسول فوت ہو جائے تو تم اس کے خلیفہ کی اطاعت کرو.اور اس زمانہ میں اُولی الامر کی بھی اطاعت کرو.کیونکہ کوئی نظام اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک خلیفہ کے مقرر کردہ عہد یداروں کی اطاعت لوگ اپنے لئے ضروری خیال نہ کریں اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مَنْ أَطَاعَ أَمِيرِى فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَى أَمِيرِى فَقَدْ عَصَانِی یعنی جس نے میرے مقرر کردہ حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی کیونکہ میں ہر جگہ نہیں پہنچ سکتا.مجھے لازماً کام کو عمدگی سے چلانے کے لئے اپنے نائب مقرر کرنے پڑیں گے.اور لوگوں کے لئے ضروری ہوگا کہ ان کی اطاعت کریں اگر وہ اطاعت نہیں کریں گے تو نظام ٹوٹ جائے گا.پس ان کی اطاعت در حقیقت میری اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی.تو اَطِيْعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ میں ایک ایسا مکمل نظام پیش کیا گیا ہے جس کے تحت ایک ہی زمانہ میں اللہ کی اطاعت بھی ضروری ہے رسول کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اگر رسول نہ ہو تو اس کے خلیفہ کی اطاعت ضروری ہے اور اس زمانہ میں اُولی الامر کی اطاعت بھی ضروری ہے.اللہ ایک ہے رسول ایک ہے خلیفہ بھی ایک ہی ہوگا.لیکن اُولی الامر کئی ہو سکتے ہیں.اس لئے اُولی الامر میں جمع کا صیغہ رکھا گیا ہے کیونکہ یہ کئی ہوں گے اور گو خلیفہ ایک ہو گا مگر اس کے تابع بہت سے عہد یدار ہوں گے.یہ اسلامی نظام ہے جسے قرآن کریم پیش کرتا ہے اور وہ اُمت محمدیہ کو حکم دیتا ہے کہ أولي الامر کی اطاعت کرو.لیکن اس میں بعض دفعہ ایک بگاڑ بھی پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ غلطی سے اولی الامر یہ خیال نہیں کرتے کہ لوگوں پر ان کی جو اطاعت فرض ہے وہ أولي الأمر ہونے میں ہے زید اور بکر ہونے میں نہیں.زید اور بکر ہونے میں تو رسول کی

Page 333

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۹ جلد سوم اطاعت بھی نہیں.یوں تو رسول کا مقام ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہی حکم دیتا ہے کہ اس کی اطاعت کرو.مگر خدا نے انہیں جو حق دیا ہے وہ ہر بات میں نہیں اور نہ ہر بات میں انہوں نے کبھی اپنے حق کا اظہار کیا ہے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ حق نہیں تھا اور نہ آپ نے کبھی ایسا کیا کہ کسی کی بیٹی کا اپنی مرضی سے کسی دوسرے سے نکاح کر دیں.اسی طرح آپ نے کبھی کسی سے نہیں کہا کہ اپنا مکان فلاں کو دے دو بلکہ آپ نے ان امور میں ان کے اختیارات کو بحال رکھا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ میں ایک لڑکی جو غلام تھی اور اس کا خاوند بھی غلام تھا کچھ عرصہ کے بعد آزاد ہوئی تو اسے شریعت کے ماتحت اس امر کا اختیار دیا گیا کہ چاہے تو وہ اپنے غلام خاوند کے نکاح میں رہے اور چاہے تو نہ رہے.اتفاق کی بات ہے بیوی کو اپنے خاوند سے شدید نفرت تھی اور ادھر خاوند کی یہ حالت تھی کہ اس کو بیوی سے عشق تھا.جب وہ آزاد ہوئی اور غلام نہ رہی تو اس نے کہا کہ میں اب اس کے پاس نہیں رہ سکتی.خاوند کو چونکہ اس کے ساتھ شدید محبت تھی اس لئے جہاں وہ جاتی وہ پیچھے پیچھے چلا جاتا اور رونا شروع کر دیتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اسے اس حالت میں دیکھا تو آپ کو رحم آیا اور آپ نے اس لڑکی سے کہا کہ تم اس کے پاس رہو تمہارا کیا حرج ہے.اس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ.آپ نے فرمایا مشورہ ہے حکم نہیں کیونکہ اب تم آزاد ہو چکی ہوا اور شریعت کی طرف سے تمہیں اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ چا ہو تو تم اپنے غلام خاوند کے پاس رہو اور چاہو تو نہ رہو.اس نے کہا يَا رَسُولَ الله ! اگر یہ آپ کا مشورہ ہے تو پھر میں اسے ماننے کے لئے تیار نہیں.مجھے اس سے نفرت ہے.تو ذاتی معاملات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کبھی دخل نہیں دیتے تھے.اسی طرح خلفاء نے بھی کبھی ذاتی معاملات میں دخل نہیں دیا.خود میرے پاس کئی لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری لڑکی کا آپ جہاں چاہیں نکاح پڑھا دیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا.مگر باوجود اس کے کہ آج تک مجھے سینکڑوں لوگوں نے ایسا کہا ہوگا میں نے کسی ایک کی بات بھی نہیں مانی میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ کہ مجھ پر کیا آگے ذمہ داریاں کم ہیں کہ اب میں اور ذمہ داریوں کو بھی اُٹھالوں.

Page 334

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم ممکن ہے میں انتخاب میں کوئی غلطی کر جاؤں اور اس طرح قیامت کے روز خدا تعالیٰ کے حضور مجھے جواب دہ ہونا پڑے.پس میں کیوں اس بوجھ کو برداشت کروں.شاید ماں باپ یہ سمجھتے ہوں کہ لڑکیوں کا نکاح کرتے وقت ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی.مگر میرے نزدیک والدین پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اور دعاؤں سے کام لینے کے بعد اپنی لڑکیوں کا نکاح کیا کریں.اگر وہ بے احتیاطی سے کام لیں گے تو یقیناً وہ خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوں گے پس جبکہ نکاح کرانا ایک خاص ذمہ داری کا کام ہے تو بالکل ممکن ہے مجھ سے کسی کے معاملہ میں کوئی بے احتیاطی ہو جائے اور قیامت کے دن باپ تو آزاد ہو جائے اور میں اس کا جواب دہ ٹھہر جاؤں.پس با وجود اس کے کہ میرے زمانہ خلافت میں سینکڑوں لوگوں نے مجھے یہ کہا ہوگا کہ آپ جہاں چاہیں میری لڑکیوں کا نکاح کر دیں.مجھے اس وقت ایک مثال بھی ایسی یاد نہیں جس میں میں نے دخل دیا ہو اور اپنی مرضی سے ان کی لڑکیوں کا کہیں نکاح کر دیا ہو.میں ہمیشہ انہیں یہی جواب دیتا ہوں کہ جب مجھے کسی رشتہ کا علم ہوا تو آپ کو اطلاع دے دوں گا.آگے یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ غور کر لیں کہ وہ یہ رشتہ ان کے لئے موزوں ہے یا نہیں.ایسے موقع پر بعض لوگ اصرار بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں میں نے اپنی لڑکیوں کا معاملہ آپ کے سپر د کر دیا ہے مگر میں یہی کہتا ہوں کہ میں اس کے لئے تیار نہیں.ہاں جب بھی مجھے رشتوں کا علم ہوگا میں لڑکے آپ کے سامنے پیش کرتا چلا جاؤں گا.آپ کو پسند آئیں تو لیتے جائیں اور اگر پسند نہ آئیں تو رڈ کرتے جائیں.تو اللہ تعالیٰ نے اُولی الامر کو جو حکومت دی ہے وہ ذاتی معاملات میں نہیں قومی معاملات میں ہے.رسول کو بھی اور خلیفہ کو بھی اور اولی الامر کو بھی یہ قطعاً حق حاصل نہیں کہ وہ ذاتی معاملات میں لوگوں پر رعب جتائیں.مثلاً مجھے یہ حق نہیں کہ میں جماعت کے کسی آدمی سے یہ کہوں کہ میں چونکہ خلیفہ ہوں اس لئے تم میری نوکری کرو اور جو تنخواہ میں دوں وہ قبول کرو.یہ خلافت کا کام نہیں بلکہ ایک دنیوی کام ہے اور دوسرے شخص کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اگر چاہے تو انکار کر دے چاہے یہی کہے کہ میں نو کر نہیں ہونا چاہتا اور چاہے یہ کہے کہ جو تنخواہ آپ دیتے ہیں وہ مجھے منظور نہیں ا.ނ

Page 335

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۱ جلد سوم کوئی گناہ نہیں ہوگا کیونکہ شریعت نے ان معاملات میں اسے آزادی بخشی ہے.یا فرض کرو میں اپنا مکان بنانے کے لئے کسی دوست سے کوئی زمین خریدنا چاہتا ہوں تو ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اگر چاہے تو انکار کر دے.مثلاً یہی کہہ دے کہ جو قیمت آپ دینا چاہتے ہیں اس پر میں زمین فروخت کرنے کے لئے تیار نہیں.یا یہ کہہ دے کہ میں زمین بیچنا ہی نہیں چاہتا.بہر حال یہ اس کا حق ہے جسے وہ استعمال کر سکتا ہے.یہی حال اولی الامر کا ہے.ہماری جماعت میں بھی کچھ ناظر ہیں اور کچھ ناظروں کے ماتحت عہد یدار مقرر ہیں.ان ناظروں اور عہدیداروں کو بھی وہی محدود اختیارات حاصل ہیں جو جماعتی نظام سے تعلق رکھتے ہیں.جہاں ایسے کاموں کا سوال آ جائے گا جو نظام جماعت سے سے تعلق نہیں رکھتے وہاں اگر بعض لوگ ان کے کرنے سے انکار کر دیں تو یہ ان کا حق سمجھا جائے گا.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میرے پاس ایسی رپورٹیں پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض آدمی ذاتی کام لیتے وقت اپنے عہدہ کے جتانے کے عادی ہیں.اور وہ بات کرتے وقت دوسروں سے کہہ دیتے ہیں کہ تم جانتے ہو میں کون ہوں میں ناظرا مور عامہ ہوں یا ناظر تعلیم وتر بیت ہوں یا ناظر اعلیٰ ہوں یا فلاں عہد یدار ہوں.اس قسم کے الفاظ کا دہرا نا یقیناً اس ذمہ داری کے ادا کرنے کے خلاف ہے جس کا اسلام ان سے مطالبہ کرتا ہے.ہر شخص جسے خدا نے بعض معاملات میں آزادی دے رکھی ہے اس کے متعلق ہم یہ حق نہیں رکھتے کہ اس کی آزادی کو سلب کر یں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مثال موجود ہے.آپ نے ذاتی معاملات میں کبھی دخل نہیں دیا.آپ نے بریرہ سے یہ نہیں کہا کہ میں خدا کا رسول ہوں تم میری بات مان لو.بلکہ فرمایا کہ یہ میرا ذاتی مشورہ ہے اسے ماننا یا نہ ماننا تمہارے اختیار کی بات ہے.اسی طرح بعض سو دے ہوئے جن کے متعلق آپ نے صحابہ سے یہی فرمایا کہ لوگوں سے مشورہ کر لو اور جو کچھ صحیح سمجھو اس کے مطابق کام تو جماعت کے ذمہ دار کارکنوں کو میں ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے عہدے لوگوں کو ڈرانے کے لئے استعمال نہ کیا کریں.جو شخص کسی جھگڑے کے موقع پر یہ کہتا ہے کہ تم جانتے

Page 336

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۲ جلد سوم ہو میں کون ہوں میں ناظر امور عامہ ہوں یا ناظر تعلیم و تربیت ہوں یا ناظر اعلیٰ ہوں وہ اپنے عمل سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ نظارت کو دوسرے معاملات میں بالا سمجھتا ہے.حالانکہ نظارت کا اپنا ایک محدود دائرہ ہے.اس دائرہ سے باہر اس کے اختیارات نہیں یا سلسلہ کا کوئی مربی اور کارکن ایسے مواقع پر اگر یہ کہتا ہے کہ تم جانتے ہو میں کون ہوں میں سلسلہ کا مربی ہوں یا سلسلہ کا کارکن ہوں تو وہ اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتا ہے.مثلاً دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے ہوں تو اگر ایک ایسا شخص جسے نظام نے لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کے لئے مقرر نہیں کیا وہاں جا کر کہتا ہے کہ میں سلسلہ کا مربی ہوں یا سلسلہ کا کا رکن ہوں تو اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا عہدہ دوسروں پر رُعب جتانے کے لئے استعمال کیا ہے کیونکہ مربی کا کام لوگوں کی تربیت و اصلاح کرنا ہے نہ کہ جھگڑوں کا فیصلہ کرنا.اس کا یہ ہر گز حق نہیں کہ وہ لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرے یا اپنا فیصلہ لوگوں سے منوائے.ہاں اگر کوئی قاضی ہو تو وہ ایسا کہہ سکتا ہے اور اپنا فیصلہ بھی اس جھگڑے کے متعلق دے سکتا ہے.تو یہ ایک ایسی غلطی ہے جس کی اصلاح نہایت ضروری ہے.پس میں جماعت کے تمام عہد یداروں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس بارہ میں احتیاط ملحوظ رکھیں اور عَلَى الْإِعْلانَ خطبہ جمعہ میں میں نے اس کا اظہار اس لئے کیا ہے تا دوسرے لوگ بھی نگران رہیں اور جب سلسلہ کے کارکنوں میں سے کوئی اس کی خلاف ورزی کرے تو اس کی فوری طور پر میر - پاس رپورٹ کریں.میں اس بارہ میں اپنا ہی ایک واقعہ سنا دیتا ہوں جس میں میرا نام ایک موقع پر ناجائز طور پر استعمال کیا گیا تھا.مگر جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے اس افسر کو سختی سے ڈانٹا.وہ واقعہ یہ ہے جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے ہم قادیان کے ارد گرد دیہات میں اپنے لئے زمینیں خریدتے رہتے ہیں.اسی سلسلہ میں ہماری طرف سے ایک زمین کا سودا ہوا.مگرا بھی یہ سودا ہو ہی رہا تھا کہ منگل کے ایک شخص نے ہم سے زیادہ قیمت دے کر اس زمین کو خرید لینا چاہا.اس پر ہمارے مختار نے اُسے کہا کہ تم خلیفہ المسح ثانی کا مقابلہ کرتے ہو یہ تمہارے لئے اچھی بات نہیں.مجھے جب اس بات کا علم ہوا تو میں نے انہیں ڈانٹا اور کہا کہ اس میں خلیفتہ امسیح کا

Page 337

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۳ جلد سوم کیا تعلق ہے یہ سودا خلیفتہ امسیح سے نہیں بلکہ مرزا محمود احمد سے ہو رہا تھا اور دوسرا فریق اس بات کا حق رکھتا تھا کہ اگر وہ چاہے تو سودے سے انکار کر کے کسی دوسرے سے سودا شروع کر دے.یہ زمیندارہ معاملہ ہے اور اس میں دوسرا شخص اختیار رکھتا ہے کہ وہ چاہے تو مان لے اور چاہے تو نہ مانے اس میں خلافت یا خلیفہ امسیح کا کوئی سوال نہیں اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسرے نے خلیفہ المسیح کا مقابلہ کیا.گو اخلاقی طور پر میرے نز دیک دوسرے فریق کی غلطی تھی کیونکہ جب کوئی شخص سودا کر رہا ہو تو دوسرے کو اس میں دخل نہیں دینا چاہئے مگر شریعت میں چونکہ یہ بھی مسئلہ ہے کہ جب تک کچھ پیشگی رقم نہ دے دی جائے اس وقت تک سودا مکمل نہیں ہوسکتا اس لئے دوسرے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو سودے سے انکار کر دے اور کسی دوسرے شخص کو زیادہ قیمت پر دے دے.بہر حال ہمارے ملک میں چونکہ عام طور پر لوگوں کو اپنے عہدے جتانے کی عادت ہے جیسے تحصیل دار کہہ دیا کرتے ہیں کہ تم جانتے ہو ہم کون ہیں ہم تحصیلدار ہیں یا ڈپٹی کمشنر کہہ دیا کرتے ہیں تم جانتے ہو ہم کون ہیں ہم ڈپٹی کمشنر ہیں.اسی طرح انہوں نے بھی دھمکی دے دی اور کہا کہ تم جانتے ہو یہ سودا خلیفہ المسیح کر رہے ہیں پس تم کسی اور سے نہیں بلکہ خلیفہ المسیح کا مقابلہ کر رہے ہو حالانکہ یہ زمین خلیفہ امسیح نہیں بلکہ مرزا محمود احمد خرید رہا تھا اور مرزا محمود احمد کے مقابلہ میں ایسے معاملات میں ہر شخص خواہ وہ احمدی ہو یا نہ ہو اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ اگر چاہے تو انکار کر دے.غرض اخلاقی طور پر گو اس سے غلطی ہوئی مگر میں نے پسند نہ کیا کہ میں واقف ہوکر اس کی ناواقفیت سے فائدہ اٹھا لوں.تو لوگ بلا وجہ اپنے عہدوں سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں.اسی طرح جو عہد یدار ہیں ان کی عورتوں کے متعلق میرے پاس شکایت آتی رہتی ہے کہ وہ بھی روں پر رعب جمانا چاہتی ہیں گویا جو احترام ناظر امور عامہ کو حاصل ہے وہی ناظر امور عامہ کی بیوی بھی حاصل کرنا چاہتی ہے اور جس طرح ملکہ کو ایک حق حاصل ہوتا ہے اسی طرح وہ بھی اپنا حق جتانا چاہتی ہے حالانکہ ناظر امور عامہ کی بیوی کو کوئی حق نہیں کہ وہ لوگوں پر رعب جمائے وہ جماعت میں محض ایک فرد کی حیثیت رکھتی ہے.اگر جماعت سے لوگ اس

Page 338

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۴ جلد سوم لحاظ سے کہ اس کا خاوند قوم کا ایک خادم ہے اس کی عزت کریں تو یہ ایک اچھی بات ہے لیکن محض اس وجہ سے کہ وہ ناظر امور عامہ کی بیوی ہے یا ناظر امور خارجہ کی بیوی ہے یا ناظر ضیافت کی بیوی ہے یا ناظر بیت المال کی بیوی ہے یا ناظر تعلیم و تربیت کی بیوی ہے یا ناظر اعلی کی بیوی ہے اس کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ دوسروں پر رعب جتائے.وہ جماعت کا ایک ویسا ہی فرد ہے جیسے کوئی معمولی سے معمولی شخص کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بعض لوگوں کو رتبہ دیا ہے وہ کام کے لحاظ سے دیا ہے اور ان سے تعلق رکھنے والوں کو یہ قطعاً حق حاصل نہیں کہ وہ ان کے رتبہ سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں پر رُعب جتانا شروع کر دیں.میری جب وصیت شائع ہوئی تو بعض انگریزی اخبارات کے نمائندے مجھ سے ملنے کے لئے آئے.اُن کے آنے کی بڑی غرض یہ تھی کہ وہ مجھ سے یہ کہلوانا چاہتے تھے کہ میرے بعد یا تو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب خلیفہ ہونگے یا میرا بیٹا ناصر احمد ؟ وہ بار بار ادھر ادھر کی باتیں کر کے پھر یہی سوال میرے سامنے پیش کر دیتے اور کہتے کہ آپ کے بعد کون خلیفہ ہوگا.کیا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہونگے یا ناصر احمد.میں نے اُنہیں کہا کہ خلافت تو خدا تعالیٰ کی ایک دین ہے اس میں چوہدری ظفر اللہ خان اور ناصر احمد کا ویسا ہی حق ہے جیسے ایک نومسلم چوہڑے کا.میں نے انہیں کہا کہ مجھے کیا معلوم اللہ تعالیٰ میرے بعد یہ رتبہ کس کو دیگا.کسی بڑے آدمی کو یا ایک معمولی اور حقیر نظر آنے والے انسان کو.مگر وہ دنیا داری کے لحاظ سے سمجھتے تھے کہ میرے بعد خلافت کے اہل یا تو چوہدری ظفر اللہ خان ہیں یا نا صراحمد.چنانچہ چکر کھا کر وہ پھر یہی سوال کر دیتے کہ اچھا تو پھر آپ کے بعد کیا صورت ہو گی ؟ مگر میں انہیں یہی کہتا رہا کہ مجھے کچھ علم نہیں اللہ تعالیٰ میرے بعد یہ نعمت کس کو عطا کرے گا.آخر انہیں میرے جوابوں سے اتنی مایوسی ہوئی کہ انہوں نے ملاقات کا ذکر شائع کرتے وقت اس سوال کو ہی اُڑا دیا.ایک اخبار والے نے تو میرے ساتھ اس سوال پر بڑی بحث کی اور کہا کہ آخر کچھ تو کہیں میں نے کہا میں اس بارہ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا.پھر میں نے انہیں بتایا کہ حضرت خلیفہ اول جب فوت ہوئے اور جماعت میں خلافت کے متعلق جھگڑا شروع ہوا تو بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پید ہوا کہ شاید میں نے اپنی خلافت کے لئے یہ جھگڑا کھڑا کر رکھا

Page 339

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۵ جلد سوم ہے.میں نے اس وقت اپنے رشتہ داروں کو جمع کیا ان رشتہ داروں میں میرے بزرگ بھی تھے ، میرے برابر کے بھی تھے اور مجھ سے چھوٹے بھی تھے.نانا جان صاحب مرحوم بھی موجود تھے میرے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب بھی موجود تھے اسی طرح میرے چھوٹے بھائی بھی تھے اور گھر کے دوسرے افراد بھی.میں نے ان سب کو جمع کر کے کہا کہ دیکھو یہ وقت ایسا نہیں کہ ہم ذاتیات کا سوال لے بیٹھیں اس وقت جو لوگ خلافت کی مخالفت کر رہے ہیں انہیں یہ وہم ہو گیا ہے کہ چونکہ خلافت سے ہم فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں اس لئے ہم یہ جھگڑا پیدا کر رہے ہیں.یہ وہم خواہ کیسا ہی غلط اور بے بنیاد ہو ہمیں اپنے وجود سے سلسلہ میں تفریق پیدا نہیں کرنی چاہیے اور اگر وہ اس بات پر متفق ہوں کہ کسی نہ کسی کو ضر و ر خلیفہ ہونا چاہئے تو اول تو یہی مناسب ہے کہ اس کے متعلق لوگوں کی عام رائے لے لی جائے لیکن اگر انہیں اس سے اتفاق نہ ہو تو ایسے لوگوں کو چھوڑ کر جیسے خواجہ کمال الدین صاحب یا مولوی محمد علی صاحب ہیں کسی ایسے آدمی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہوا اور اگر وہ اسے بھی نہ مانیں تو پھر ان لوگوں میں سے ہی کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے.میں نے اس پر اتنا زور دیا کہ میں نے اپنے رشتہ داروں سے کہا اگر آپ لوگ میری اس بات کو نہیں مانتے تو میں پھر باہر جاتا ہوں اور باہر جا کر عام لوگوں کے سامنے اپنی اس بات کو پیش کر دیتا ہوں نتیجہ یہ ہوا کہ سب میری بات پر متفق ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ اوّل تو یہی کوشش کرنی چاہئے کہ دونوں فریق کسی ایسے آدمی کے ہاتھ پر اکٹھے ہوں جو واضح طور پر گزشتہ جھگڑوں میں شامل نہ ہوا ہو اور جو دونوں کے نزدیک بے تعلق ہو.اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر اتحاد کے خیال سے انہی لوگوں میں سے کسی کو منتخب کر لیا جائے تو میں نے ان سے کہا کہ میں نے تو حضرت خلیفہ المسیح اول کی وفات پر بھی خلیفہ کے انتخاب میں اس حد تک دخل دیا تھا اور کسی کا نام بالتصریح نہیں لیا تھا پھر تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ اب میں کسی کا نام لے لونگا اور اس کے متعلق کہہ دوں گا کہ وہ میرے بعد خلیفہ ہو گا.پھر اس میں میری مرضی کا بھی سوال نہیں.ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جب خلیفہ بنانا خدا نے اپنے ذمہ لے لیا ہوا ہے تو میرا اس میں دخل دینا کیسی حماقت ہوگی پھر اس نے کہا کہ کیا آپ کو یہ

Page 340

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۶ جلد سوم اختیار حاصل ہے یا نہیں کہ آپ اپنے بعد کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں ؟ میں نے کہا اختیار تو ہے مگر میں اس اختیار کو استعمال کرنا نہیں چاہتا.اور آئندہ کے متعلق مجھے معلوم نہیں کہ حالات کیا صورت اختیار کریں.غرض ان کی ساری کوشش اسی امر پر مرکوز رہی کہ میں یا تو اپنے رشتہ داروں میں سے کسی کے متعلق کہہ دوں کہ میرے بعد وہ خلیفہ ہو گا یا دنیا کے لحاظ سے ان کی نگاہ چونکہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر پڑ سکتی تھی اس لئے انہوں نے سمجھا کہ اگر کوئی رشتہ دار خلیفہ نہ ہوا تو شاید وہ ہو جائیں میں نے انہیں کہا کہ یہ میرا کام نہیں کہ میں انتخاب کرتا پھروں یہ خدا کا کام ہے اور میں تو محض سلسلہ کے ایک خادم کے طور پر کام کر رہا ہوں غرض ہم میں سے کوئی بھی نہیں جسے اس قسم کا اختیار حاصل ہو ہمیں جو حکومت حاصل ہے وہ شریعت کے ماتحت اولی الامر ہونے کے لحاظ سے ہے پس جتنا امر ہو گا اتنی ہی حکومت ہوگی اور جو شخص اس حکومت کے دائرہ کو وسیع کرے گا وہ نظام کا دشمن قرار پائے گا.پس عام دنیوی معاملات میں دوسروں سے یہ کہنا کہ میں تو ناظر امور عامہ ہوں یا ناظر اعلیٰ ہوں نظارت کے جامہ کی ہتک ہے وہاں وہ ناظر نہیں بلکہ ایک فرد کی حیثیت رکھے گا اور اسے دوسروں پر کوئی تفوق حاصل نہیں ہوگا اسلام میں اس کی کئی مثالیں بھی موجود ہیں چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ خلفاء پر دیوانی نالشیں ہوئیں اور انہیں قضا میں جواب کے لئے بلایا گیا.اب فرض کرو کہ کسی کو میرے خلاف کوئی شکایت ہو مثلاً وہ کہے کہ انہوں نے میرا اتنا روپیہ دینا ہے مگر دیتے نہیں یا اتنا دیا ہے اور اتنا نہیں دیا تو اسے اس بات کا پورا حق ہے کہ وہ اگر چا ہے تو قضا میں میرے خلاف دعوی دائر کر دے وہاں مجھے اسی طرح جواب دینا پڑے گا جس طرح ایک عام شخص قضا کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے لیکن جہاں خدا نے مجھے کوئی حق دیا ہے وہاں وہ میرا حق چھین نہیں سکتا.پس جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ نظام کی برکتیں اس کی پیچیدگیوں کو حل کرنے سے حاصل ہوتی ہیں ورنہ نظام کے لفظ کا اندھا دھند استعمال خطرناک نتائج پیدا کر سکتا ہے.جیسے ہمارے مختار نے ایک زمین کے معاملہ میں دوسرے سے کہہ دیا کہ تمہارا مقابلہ خلیفہ اسیح سے ہے حالانکہ وہاں خلافت کا کوئی سوال نہ تھا بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں

Page 341

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۷ جلد سوم میری طرف سے ایک سودا ہو رہا تھا.اور ایسی صورت میں دوسرے فریق کا حق تھا کہ وہ اگر چاہتا تو زیادہ قیمت پر دوسرے کو دے دیتا.اگر میں لوگوں کو وعظ ونصیحت کرتا ہوں تو میری حیثیت خلیفہ کی ہوتی ہے اگر میں جماعت کو کوئی حکم دیتا ہوں تو میری حیثیت خلیفہ کی ہوتی ہے لیکن اگر میں اپنے لئے یا اپنے خاندان کے لئے کوئی زمین خریدتا ہوں تو اس میں میری حیثیت خلیفہ کی نہیں ہوتی اور دوسرا اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ سودے سے انکار کر دے یہ ایسی ہی بات ہے جیسے تر کاری بکنے لگے تو ایک طرف سے میرا آدمی ترکاری لینے کے لئے چلا جائے اور دوسری طرف سے جماعت کا کوئی اور آدمی.اب ایسے موقع پر اگر میرا آدمی دوسرے سے یہ کہے کہ تم تر کاری مت خرید و کیونکہ خلیفہ المسیح یہ تر کاری لینا چاہتے ہیں تو یہ اس کی غلطی ہوگی کیونکہ جیسے میرا حق ہے کہ ترکاری لوں اسی طرح اس کا حق ہے کہ وہ تر کاری لے.اگر وہ پہلے پہنچ جاتا ہے تو یقیناً اسی کا حق ہے.گوبعض دفعہ شریفانہ رنگ میں ایک دوسرے کی ضروریات کو بھی ملحوظ رکھا جا سکتا ہے.اگر اس کی ضرورت زیادہ اہم ہوگی تو میرا آدمی اپنا حق چھوڑ سکتا ہے اور اگر میرے آدمی کی ضرورت زیادہ ہوگی تو دوسرا اپنا حق.چھوڑ سکتا ہے.پس جماعت کے عہدیداروں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہر چیز کو اس کی حد کے اندر رکھو اگر تم اسے حد سے بڑھا دو گے تو وہ چیز خواہ کتنی ہی اعلیٰ ہو بُری بن جائے گی.ایک شاعر کا ایک شعر ہے جو مجھے یاد تو نہیں رہا مگر اس کا مفہوم یہ ہے کہ تل بڑی خوبصورت چیز ہے لیکن جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو منہ بن جاتا ہے.پس ہر چیز کو اس کی حد کے اندر رکھو.نظام کو بھی اور انفرادی معاملات کو بھی اور کبھی اپنے عہدوں کا نام لے کر ذاتی معاملات میں دوسروں (الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۶۰) پر رعب نہ ڈالو.“ ام النساء: ۶۰ بخاری کتاب الاحكام باب قول الله تعالى أطِيعُوا اللَّهَ وَاطِيْعُوا الرَّسُولَ صفحه ۱۲۲۸، ۱۲۲۹ حدیث نمبر ۱۳۷ے مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ ء الطبعة الثانية

Page 342

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۸ جلد سوم درود شریف کی عظمت اور حکمت ۲۴ / اکتوبر ۱۹۴۱ء کو خطبہ جمعہ میں حضور نے درود شریف کی عظمت اور حکمت بیان کرتے ہوئے ایک اہم نکتہ بیان فرمایا.خلفاء اگر چہ انبیاء کی طرح معصوم تو نہیں ہوتے مگر ان کو بھی ایک عصمت صغریٰ حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو ایسی غلطی میں پڑنے سے بچاتا ہے جس کے نتیجہ میں دین کو نقصان پہنچ سکتا ہو.نبی کا ہر فعل اپنی ذات میں معصوم ہوتا ہے مگر خلفاء کے افعال بحیثیت مجموعی خدا تعالیٰ کی حفاظت کے نیچے ہوتے ہیں.( الفضل ۹ نومبر ۱۹۴۱ء )

Page 343

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۹ جلد سوم ابتدائے خلافت میں قادیان کے غریبوں کی بے نظیر قربانی خطبه جمعه ۱۰ مارچ ۱۹۴۴ء میں حضور فرماتے ہیں :.ابتدائے خلافت میں جب لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ چند مجاوروں نے جن کا کام روٹیاں کھانا تھا خلافت کو تسلیم کر لیا ہے تو معلوم ہوتا ہے قادیان کے لوگوں کو اس سے ضرور صدمہ ہوا ہوگا کیونکہ انہی دنوں میں میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہے اور کہ رہا ہے کہ :.”مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل ہوتی ہیں.پس یہ خلافت کی برکت ہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو کہ کس طرح قادیان کے غریبوں اور مسکینوں نے ایسی قربانی پیش کی جس کی نظیر اور کسی جماعت میں نہیں مل سکتی.آج مجھے حیرت ہوئی جبکہ ایک غریب عورت جو تجارت کرتی ہے جس کا سارا سرمایہ سو ڈیڑھ سو روپیہ کا ہے اور جو ہندوؤں سے مسلمان ہوئی ہے صبح ہی میرے پاس آئی ہے اور اس نے دس دس روپیہ کے پانچ نوٹ یہ کہتے ہوئے مجھے دیئے کہ یہ میری طرف سے مسجد مبارک کی توسیع کے لئے ہیں.میں نے اُس وقت اپنے دل میں کہا کہ اس عورت کا یہ چندہ اس کے سرمایہ کا آدھایا ثلث ہے مگر اس نے خدا کا گھر بنانے کے لئے اپنا آدھا یا ثلث سرمایہ پیش کر دیا پھر کیوں نہ ہم یقین کریں کہ خدا بھی اپنی اس غریب بندی کا گھر جنت میں بنائے گا اور اسے اپنے انعامات سے حصہ دے گا.پس اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہم پر ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارا ہر قدم ترقی کے میدان میں بڑھتا چلا جائے گا جتنا کام اس وقت تک ہوا ہے خدا نے کیا ہے اور آگے بھی خدا ہی کرے گا.( الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۴۴ء )

Page 344

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۰ جلد سوم امام کی اطاعت کا ذکر حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے ۳۱ مارچ ۱۹۴۴ء کے خطبہ جمعہ میں فرما یا کہ دین کے لئے مالی اور جانی قربانیوں کا مطالبہ ہمیشہ اور ہر آن ہوتا رہے گا.خدمت دین کے لئے زندگی وقف کرنے والوں کو جلد اپنا نام پیش کرنے کا ذکر کرتے ہوئے امام کی اطاعت کے بارہ میں فرمایا.یہ ایک خطرناک غلطی ہے جو بعض لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم وہ کام کریں گے جو ہماری مرضی کے مطابق ہوگا.یہ تمہارا کام نہیں کہ تم فیصلہ کرو کہ تمہیں کس کام پر لگایا جائے.جو شخص تمہارا امام ہے، جس کے ہاتھ میں تم نے اپنا ہاتھ دیا ہے جس کی اطاعت کا تم نے اقرار کیا ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ تمہیں بتائے کہ تمہیں کس کام پر مقرر کیا رو.جاتا ہے.تم اس میں دخل نہیں دے سکتے نہ تمہارا کوئی حق ہے کہ تم اس میں دخل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الاِمَامُ جُنَّةٌ يُقْتَلُ مِنْ وَرَائِهِ امام ایک ڈھال کی طرح ہوتا ہے اور لوگوں کا فرض ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے ہو کر دشمن سے جنگ کریں.پس جہاں امام تمہیں کھڑا کرتا ہے وہاں تم کھڑے ہو جاؤ اور امام تمہیں سونے کا حکم دیتا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ تم سو جاؤ.اگر امام تم کو جاگنے کا حکم دیتا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ تم جاگ پڑو.اگر امام تم کو اچھا لباس پہنے کا حکم دیتا ہے تو تمہاری نیکی ،تمہارا تقویٰ اور تمہارا زہد یہی ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ لباس پہنو اور اگر امام تم کو پھٹے پرانے کپڑے پہننے کا حکم دیتا ہے تو تمہاری نیکی تمہارا تقویٰ اور تمہارا دینی عیش یہی ہے کہ تم پھٹے پرانے کپڑے پہنو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ کشفی حالت میں ایک شخص کے ہاتھ میں کسری

Page 345

خلافة على منهاج النبوة ٣٣١ جلد سوم کے سونے کے کنگن دیکھے..جب حضرت عمر کا زمانہ آیا اور اسلامی فوجوں کے مقابلہ میں کسری کو شکست ہوئی تو غنیمت کے اموال میں کسری کے سونے کے کنگن بھی آئے.حضرت عمر نے اُس شخص کو بلایا اور فرمایا تمہیں یاد ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ تمہیں کہا تھا کہ میں تمہارے ہاتھ میں کسری کے سونے کے کنگن دیکھ رہا ہوں.اس نے عرض کیا ہاں یاد ہے.آپ نے فرمایا لو یہ کسری کے سونے کے کنگن اور انہیں اپنے ہاتھوں میں پہنو.اُس نے اپنے ہاتھ پیچھے کر لئے اور کہا عمر! آپ مجھے اس بات کا حکم دیتے ہیں جس سے شریعت نے منع کیا ہے.شریعت کہتی ہے کہ مردوں کے لئے سونا پہنا جائز نہیں اور آپ مجھے یہ حکم دے رہے ہیں کہ میں کسری کے سونے کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنوں.حضرت عمر جس طبیعت کے تھے وہ سب کو معلوم ہے.آپ اُسی وقت کھڑے ہو گئے.کوڑا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فرمایا خدا کی قسم ! اگر تم یہ سونے کے کنگن نہیں پہنو گے تو میں کوڑے مار مار کر تمہاری کمر اُدھیڑ دوں گا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کہا تھا وہی میں پورا کروں گا اور تمہارے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنا کر رہوں گاتے.تو درحقیقت یہی نیکی اور یہی حقیقی ایمان ہے کہ انسان وہی طریق اختیار کرے جس طریق کے اختیار کرنے کا امام اُسے حکم دے.وہ اگر اسے کھڑا ہونے کے لئے کہے تو کھڑا ہو جائے اور اگر ساری رات بیٹھنے کے لئے کہے وہ بیٹھ جائے اور یہی سمجھے کہ میری ساری نیکی یہی ہے کہ میں امام کے حکم کے ماتحت بیٹھا رہوں.پس جماعت میں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ نیکی کا معیار یہی ہے کہ امام کی کامل اطاعت کی جائے.امام اگر کسی کو مدرس مقرر کرتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے کہ وہ لڑکوں کو عمدگی سے تعلیم دے امام اگر کسی کو ڈاکٹر مقرر کر کے بھیجتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے کہ وہ لوگوں کا عمدگی سے علاج کرے امام اگر کسی کو زراعت کے لئے بھیج دیتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے کہ وہ زمین کی عمدگی سے نگرانی کرے اور امام اگر کسی کو صفائی کے کام پر مقرر کر دیتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے کہ وہ عمدگی سے صفائی کرے.وہ بظا ہر جھاڑو دیتا نظر آئے گا ، وہ بظا ہر صفائی کرتا دکھائی دے گا مگر چونکہ اُس نے امام کے حکم کی تعمیل میں ایسا کیا ہوگا اس لئے اس کا

Page 346

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۲ جلد سوم جھاڑو دینا ثواب میں اس مبلغ سے کم نہیں ہو گا جو دلوں کی صفائی کے لئے بھیجا جاتا ہے.وہ زمین پر جھاڑو دے رہا ہو گا لیکن فرشتے اس کی جگہ تبلیغ کر رہے ہوں گے کیونکہ وہ کہیں گے یہ وہ شخص ہے جس نے نظام میں اپنے لئے ایک چھوٹی سے چھوٹی جگہ پسند کی اور امام کے حکم کی اطاعت کی.پس ایک نظام کے اندر رہ کر کام کرو اور تمہارا امام جس کام کے لئے تمہیں مقرر کرتا ہے اس کو کرو کہ تمہارے لئے وہی ثواب کا موجب ہو گا.تمہارے لئے وہی کام تمہاری نجات اور تمہاری ترقی کا باعث ہوگا“.( الفضل ۷ را پریل ۱۹۴۴ء ) ا بخارى كتاب الجهاد والسير باب يقاتل من وراء الامام و یتقی به صفحه ۴۸۹ حدیث نمبر ۷ ۲۹۵ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ ء الطبعة الثانية ٣٢ اسد الغابة الجزء الثانی صفحه ۲۳۷ زیر عنوان سراقہ بن مالک، مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية

Page 347

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۳ جلد سوم تحریک جدید کے تقاضے اور اہمیت رت خلیفہ المسیح الثانی نے ۸ دسمبر ۱۹۴۴ء کے خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کے تقاضے حضرت اور اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا : - ہمارا نظام بھی محبت اور پیار کا ہے کوئی قانون ہمارے ہاتھ میں نہیں کہ جس کے ذریعہ ہم اپنے احکام منوا سکیں بلکہ میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ احمد بیت میں خلافت ہمیشہ بغیر د نیوی حکومت کے رہنی چاہئے.دنیوی نظام حکومت الگ ہونا چاہئے اور خلافت الگ تا وہ شریعت کے احکام کی تعمیل کی نگرانی کر سکے ابھی تو ہمارے ہاتھ میں حکومت ہے ہی نہیں لیکن اگر آئے تو میری رائے یہی ہے کہ خلفاء کو ہمیشہ عملی سیاسیات سے الگ رہنا چاہئے اور کبھی بادشاہت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کرنی چاہئے.ورنہ سیاسی پارٹیوں سے براہ راست خلافت کا مقابلہ شروع ہو جائے گا اور خلافت ایک سیاسی پارٹی بن کر رہ جائے گی اور خلفاء کی حیثیت باپ والی نہ رہے گی.اس میں شک نہیں کہ اسلام کے ابتداء میں خلافت اور حکومت جمع ہوئی ہیں مگر وہ مجبوری تھی کیونکہ شریعت کا ابھی نفاذ نہ ہوا تھا اور چونکہ شریعت کا نفاذ ضروری تھا اس لئے خلافت اور حکومت کو اکٹھا کر دیا گیا اور ہمارے عقیدہ کی رو سے یہ جائز ہے کہ دونوں اکٹھی ہوں اور یہ بھی جائز ہے کہ الگ الگ ہوں.ابھی تو ہمارے ہاتھ میں حکومت ہے ہی نہیں مگر میری رائے یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ ہمیں حکومت دے اُس وقت بھی خلفاء کو اسے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ الگ رہ کر حکومتوں کی نگرانی کرنی چاہیے اور دیکھنا چاہئے کہ وہ اسلامی احکام کی پیروی کریں اور ان سے مشورہ لے کر چلیں اور حکومت کا کام سیاسی لوگوں کے سپر د ہی رہنے دیں.پس اگر حکم کا سوال ہو تو میرا نقطہ نگاہ تو یہ ہے کہ اگر میری چلے تو میں کہوں گا کہ حکومت ہاتھ میں آنے پر بھی خلفاء اسے

Page 348

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۴ جلد سوم اپنے ہاتھ میں نہ لیں.انہیں اخلاق اور احکام قرآنیہ کے نفاذ کی نگرانی کرنی چاہئے.پس اگر کوئی ہماری نصیحت کو نہیں مانتا تو اس طرح کا حکم تو جیسے حکومت کے احکام ہوتے ہیں نہ ہمارے اختیار میں ہے اور نہ ہم دے سکتے ہیں اور نہ اس کا نفاذ کرا سکتے ہیں اور میرے دل کا میلان یہ ہے کہ ایسے اختیارات کو لینا میں پسند نہیں کرتا اس لئے ہم تو جب بھی کوئی بات کہیں گے محبت اور پیار سے ہی کہیں گے اور اگر اس سے کوئی یہ استدلال کرتا ہے کہ حکم نہیں تو اسے ا یا د رکھنا چاہیے کہ ایسے احکام دینا نہ تو ہمارے اختیار میں ہے اور نہ ہی ہم ایسے احکام کے نفاذ کی طاقت رکھتے ہیں“.( الفضل ۱۲؍ دسمبر ۱۹۴۴ء)

Page 349

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۵ جلد سوم تمہاری ڈھال تمہارا امام ہے ۲۸ دسمبر ۱۹۴۵ء کو جلسہ سالانہ پر خطاب کرتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے فرمایا:.میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم پر بھروسہ رکھتے ہوئے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے بہت سی تدابیر اختیار کی ہیں اور کئی سکیمیں ہیں جن کا جماعت کے سامنے اعلان کر چکا ہوں.یہ ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ان میں سے بھی بہتر تدابیر جماعت کی علمی ، تجارتی، صنعتی اور اقتصادی ترقی کے لئے بتا سکے.لیکن تمہیں اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اگر تم آسمان کی چوٹی پر بھی پہنچ جاؤ تب بھی اسلام تمہیں یہی کہتا ہے کہ الاِمَامُ جُنَّةٌ يُقْتَلُ مِنْ وَرَائِهِ لا تمہاری ڈھال تمہارا امام ہے اور تمہاری تمام تر سلامتی اسی میں ہے کہ تم اس کے پیچھے ہو کر جنگ کرو.اگر تم اپنے امام کو ڈھال نہیں بناتے اور اپنی عقلی تدابیر کے ماتحت دشمن کا مقابلہ کرتے ہو تو تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.کامیابی اسی شخص کیلئے مقدر ہے جو اسلام کی جنگ میری متابعت میں لڑے گا.پس ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کسی شخص کی ذاتی رائے تجارت کے معاملہ میں مجھ سے بہتر ہو یا صنعت وحرفت کے متعلق وہ زیادہ معلومات پیش کر سکتا ہولیکن بہر حال جو اصولی سکیم میری طرف سے پیش ہوگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسی میں برکت پیدا کی جائے گی اور وہی اسکے منشاء اور ارادہ کے ماتحت ہوگی.اگر تم اس سکیم پر عمل کرو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے اور اگر تم اس سکیم کو نظر انداز کر کے اپنی ذاتی آراء کو مد نظر رکھو گے اور اپنے تجربہ اور ذاتی معلومات کو اپنا راہنما بناؤ گے تو تم کبھی کامیاب نہیں ہوسکو گے.میں امید کرتا ہوں کہ جماعتیں ان تمام باتوں کو پوری طرح ملحوظ رکھیں گی.اور کوشش کریں گی کہ ان کا قدم ترقی ( الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۶۵ء) 66 کی دوڑ میں پہلے سے زیادہ تیز ہو.“ بخارى كتاب الجهاد والسير باب يقاتل من وراء الامام و يتقى به فه ۴۸۹ حدیث نمبر۷ ۲۹۵ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ءالطبعة الثانية

Page 350

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۶ جلد سوم سادہ زندگی اور خلیفہ وقت کا حکم حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ۲۵ اکتو بر ۱۹۴۶ء کے خطبہ جمعہ میں سادہ زندگی اپنانے اور خلیفہ وقت کے حکم پر ہر احمدی کو اپنی جان قربان کر دینے کے لئے تیار رہنے کا ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا : - جماعت کا ہر فرد جو اس سلسلہ میں منسلک ہے اس کا فرض ہے کہ امام کی طرف سے جو بھی آواز بلند ہواس پر خود بھی عمل کرے اور دوسروں کو بھی عمل کرنے کی تحریک کرے اور چاہے صدرانجمن احمد یہ ہو یا کوئی اور انجمن حقیقی معنوں میں وہی انجمن سمجھی جاسکتی ہے جو خلیفہ وقت کے احکام کو ناقدری کی نگاہ سے نہ دیکھے بلکہ ان پر عمل کرے اور کرتی چلی جائے اور اس وقت تک آرام کا سانس نہ لے جب تک ایک چھوٹے سے چھوٹا حکم بھی ایسا موجود ہو جس پر عمل نہ کیا جا تا ہو.پس ہر احمدی جس نے منافقت سے میری بیعت نہیں کی اور ہر احمدی جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور سُر خرو ہونا چاہتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے احکام پر عمل کرنے اور دوسروں سے عمل کرانے کے لئے کھڑا ہو جائے اور صرف اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے متعلق جوابدہ سمجھے.اگر امام کی طرف سے ایک آواز بلند ہوتی ہے سننے والے سنتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرنے کی بجائے پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں تو خواہ اس قسم کا کام کرنے والی صدر انجمن احمد یہ ہو ، خواہ تحریک جدید کا کوئی سیکرٹری ہو، خواہ فنانشل سیکرٹری ہو یا امیر جماعت مقامی ہو یا کوئی اور عہدیدار ہو وہ محض اپنے نام سے اللہ تعالیٰ کے حضور سُرخرو نہیں ہو سکتے.ان کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ ان کا عمل منافقانہ عمل ہے اور ان کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے اپنے امام کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے ایک جھوٹا دعویٰ ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اُس وقت حضرت ابو بکڑ نے ایک

Page 351

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۷ جلد سوم تقریر کی جس میں فرمایا اے لوگو ! تم میں سے جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا اسے معلوم ہونا چاہئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں لیکن وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی عبادت کیا کرتا تھا اُسے معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا خدا زندہ ہے اور وہ کبھی مر نہیں سکتا.اسی طرح میں کہتا ہوں جس نے خلیفہ وقت کی بیعت کی ہے اسے یاد رکھنا چاہئے کہ خلیفہ وقت کی بیعت کے بعد اس پر یہ فرض عائد ہو چکا ہے کہ وہ اس کے احکام کی اطاعت کرے اور اگر کسی نے صدر انجمن احمدیہ کی بیعت کی ہے تو اس سے خدا وہی معاملہ کرے گا جو صدرانجمن احمدیہ کی بیعت کے نتیجے میں ہوسکتا ہے.خلیفہ وقت کی بیعت کرنے والوں میں وہ شامل نہیں ہو گا.پس میں جماعت کو پھر متنبہ کرتا ہوں کہ اسے اپنے حالات کی اصلاح کرنی چاہئے.ہمارے سپرد ایک بہت بڑا کام ہے اور وہ کام کبھی سرانجام نہیں دیا جاسکتا جب تک ہر شخص اپنی جان اس راہ میں لڑا نہ دے.پس تم میں سے ہر شخص خواہ دنیا کا کوئی کام کر رہا ہوا گر وہ اپنا سارا زور اس غرض کیلئے صرف نہیں کر دیتا، اگر خلیفہ وقت کے حکم ہوا پر ہر احمدی اپنی جان قربان کرنے کیلئے تیار نہیں رہتا ، اگر اطاعت اور فرمانبرداری اور قربانی اور ایثار ہر وقت اس کے سامنے نہیں رہتا تو اس وقت تک نہ ہماری جماعت ترقی کر سکتی ہے اور نہ وہ اشخاص مومنوں میں لکھے جاسکتے ہیں.یاد رکھو ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے.اگر اسلام اور ایمان اس چیز کا نام نہ ہوتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے کسی مسیح کی ضرورت نہیں تھی لیکن اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے مسیح موعود کی ضرورت تھی تو مسیح موعود کے ہوتے ہوئے ہماری بھی ضرورت ہے.ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمد بیت پر ایمان رکھتا ہوں خدا کے حضور اس کے ان دعوؤں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی.جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح اس کی اطاعت نہیں کرتا اور جب تک اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہرلمحہ بسر نہیں کرتا اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہوسکتا.(الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۴۶ء) "

Page 352

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۸ جلد سوم اپنے اندر ایمان اور جوش پیدا کرنے اور تبلیغ کرنے کا ذکر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنے اندر ایمان اور جوش پیدا کرنے اور دیوانہ وار تبلیغ کرنے کا ذکر اپنے خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۴۶ء میں اس طرح کیا اور فرمایا :.”ہماری جماعت کے بعض افراد میں یہ نہایت خطر ناک نقص پیدا ہو چکا ہے کہ جب کوئی کام ان کے سپر د کیا جاتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ اب ہم کسی کے مشورہ کے محتاج نہیں ہم سب کچھ کر سکتے ہیں.حالانکہ ان کی عقل ناقص ہوتی ہے ان کا تجربہ ناقص ہوتا ہے ان کا علم ناقص ہوتا ہے ان کا عمل ناقص ہوتا ہے اور وہ مرکز کے مشورے اور اس کی مدد کے بغیر ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے درخت سے کئی ہوئی شاخ مگر وہ اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے اور اپنے زعم میں یہ کہتے ہیں کہ ہم سے بڑھ کر اس کام کا کون اہل ہے اب ہمیں مرکز کی راہنمائی کی ضرورت نہیں.یہ مرض اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ بعض مبلغ بھیجے جاتے ہیں تو وہ دو دو تین تین ماه بلکه سال سال بھر خاموش رہتے ہیں اور اپنے اپنے ناقص دماغ کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں حالانکہ اگر وہ سب کچھ کر سکتے تو خدا نے ان کو کیوں خلیفہ نہ بنایا.پھر تو چاہئے تھا وہ خلیفہ بنتے میں خلیفہ نہ بنتا.پس ان کا اپنے کام کی رپورٹ نہ بھجوانا اس بات کی علامت نہیں ہوتی کہ ان میں عقل ہے بلکہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان کی عقل کا خانہ بالکل خالی ہے اور وہ اتنی معمولی سی بات کو بھی نہیں سمجھتے کہ خدا نے ہم کو ایک چھوٹی سی اینٹ بنایا ہے مکان نہیں بنایا.مگر کیسے تعجب کی بات ہے ایک اینٹ تو سمجھتی ہے کہ وہ اینٹ ہے ایک پتہ تو سمجھتا ہے کہ وہ پتہ ہے.ایک پھل تو سمجھتا ہے کہ وہ پھل ہے ایک بیج تو سمجھتا ہے کہ وہ بیج ہے مگر ہمارا مبلغ اس بات کو بھول جاتا ہے کہ میں ایک بیج ہوں لاکھوں بیجوں میں سے ، میں ایک دانہ ہوں کروڑوں دانوں میں سے ، میں ایک پتہ ہوں کروڑوں پتوں میں سے، میں

Page 353

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۹ جلد سوم ایک پھل ہوں کروڑوں پھلوں میں سے ، ایک پھل درخت کا قائم مقام نہیں ہوسکتا نہ ایک دانہ کھیتی کا قائم مقام ہو سکتا ہے مگر جہالت اور نادانی کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ حقیقت جو ایک جاہل اور ان پڑھ صو بیدار جانتا ہے ہمارا مبلغ اس کو نہیں سمجھتا.وہ اپنے مقام کو شناخت نہیں کرتا اور مرکز سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھنے لگ جاتا ہے.یہ ایک مرض ہے جو ہمارے نو جوانوں میں پیدا ہو رہا ہے اور جب انہیں کسی کام پر مقرر کیا جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کو بھی برباد کرتے ہیں اور سلسلہ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور پھر اپنے حالات سے مرکز کو باخبر نہ رکھنے کی وجہ سے مرکز سے بالکل کٹ جاتے ہیں اور ایسے بھی ہو جاتے ہیں جیسے غیر احمدی کیونکہ وہ شاخ جس کا اپنے درخت سے تعلق ہے وہی سرسبز رہ سکتی ہے.خواہ وہ کس قدر کمزور اور نا طاقت کیوں نہ ہولیکن ایک شاخ خواہ کس قدر سر سبز اور مضبوط ہو تم اسے درخت سے کاٹ کر پھینک دو وہ دو چار دن میں سوکھ کر کانٹا ہو جائے گی اور اس کی تمام سرسبزی اور تمام شادابی اور تمام لطافت جاتی رہے گی.پس میں سمجھتا ہوں کام لینے والوں میں بھی ابھی یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ وہ بیداری سے کام لیویں اور پھر کام کرنے والوں کو بھی اپنی ذمہ داری کا پوری طرح احساس نہیں.دونوں طرف غفلت طاری ہے اور اس غفلت کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکل سکتے.اس موقع پر میں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی تنظیم کریں اور تنظیم کے معنی یہ نہیں کہ وہ باقاعدہ اور بار بار مرکز میں اپنی رپورٹیں بھیجیں اور ہم سے اپنی مشکلات میں مشورہ حاصل کریں.جب تک وہ بار بار مرکز کی طرف رجوع نہیں کریں گے اور جب تک بار بار ہم سے مشورہ نہیں لیں گے اس وقت تک ان کے کام میں کبھی برکت پیدا نہیں ہوسکتی.آخر خدا نے ان کے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ نہیں دی میرے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ دی ہے.انہیں خدا نے خلیفہ نہیں بنایا مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور جب خدا نے اپنی مرضی بتانی ہوتی ہے تو مجھے بتاتا ہے انہیں نہیں بتا تا.پس تم مرکز سے الگ ہو کر کیا کر سکتے ہو.جس کو خدا اپنی مرضی بتاتا ہے، جس پر خدا اپنے الہام نازل فرماتا ہے ، جس کو خدا نے اس جماعت کا خلیفہ اور امام بنا دیا ہے اس سے مشورہ اور ہدایت حاصل کر کے تم

Page 354

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۰ جلد سوم کام کر سکتے ہو.اس سے جتنا زیادہ تعلق رکھو گے اسی قدر تمہارے کاموں میں برکت پیدا ہوگی اور اس سے جس قدر دُور رہو گے اسی قدر تمہارے کاموں میں بے برکتی پیدا ہوگی جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو.وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو.اسی طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکر وٹہ کام کر سکتا ہے.( الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۴۶ء)

Page 355

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۱ جلد سوم خدمت دین کرنے والوں کا مقام خطبہ جمعہ ۱۵ جولائی ۱۹۴۹ء بمقام یا رک ہاؤس کوئٹہ میں حضور نے فرمایا : - ’ یہ بات انبیاء سے ہی مخصوص نہیں بلکہ ان سے اُتر کر بھی اپنے اپنے زمانہ میں ایسے لوگ ملتے ہیں کہ جو کام انہوں نے اس وقت کیا وہ ان کا غیر نہیں کر سکتا تھا مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہی لے لو.حضرت ابو بکڑ کے متعلق کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ بھی کسی وقت اپنی قوم کی قیادت کریں گے.عام طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ آپ کمز ورطبیعت صلح کل اور نرم دل واقع ہوئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی جنگوں کو دیکھ لو آپ نے کسی بڑی جنگ میں بھی حضرت ابو بکر کو فوج کا کمانڈ رنہیں بنایا.بے شک بعض چھوٹے چھوٹے غزوات ایسے ہیں جن میں آپ کو افسر بنا کر بھیجا گیا مگر بڑی جنگوں میں ہمیشہ دوسرے لوگوں کو ہی کمانڈر بنا کر بھیجا جاتا تھا.اسی طرح دوسرے کاموں میں بھی آپ کو انچارج نہیں بنایا جاتا تھا.مثلاً قرآن کریم کی تعلیم ہے یا قضاء وغیرہ کا کام ہے یہ بھی آپ کے سپرد نہیں کیا گیا.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ جب ابوبکر کا وقت آئے گا تو جو کام ابو بکر کرے گا وہ اس کا غیر نہیں کر سکے گا.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے اور مسلمانوں میں یہ اختلاف پیدا ہو گیا کہ کون خلیفہ ہو اُس وقت حضرت ابو بکر کے ذہن میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آپ خلیفہ ہوں گے.آپ سمجھتے کہ حضرت عمرہ وغیرہ ہی اس کے اہل ہو سکتے ہیں.انصار میں جوش پیدا ہوا اور انہوں نے چاہا کہ خلافت انہی میں ہو کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے اسلام کی خاطر قربانیاں کی ہیں اور اب خلافت کا حق ہمارا ہے اور ادھر مہاجرین کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ایک جھگڑا بر پا ہو گیا.انصار کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو اور مہاجرین کہتے تھے

Page 356

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۲ جلد سوم کہ خلیفہ ہم میں سے ہو.آخر انصار کی طرف سے جھگڑا اس بات پر ختم ہوا کہ ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہوا اور ایک خلیفہ انصار میں سے ہو.اس جھگڑے کو دور کرنے کے لئے ایک میٹنگ بلائی گئی.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں اس وقت میں نے سمجھا کہ حضرت ابو بکر بے شک نیک اور بزرگ ہیں لیکن اس گتھی کو سلجھانا ان کا کام نہیں.اس گتھی کو اگر کوئی سلجھا سکتا ہے تو وہ میں ہی ہوں یہاں طاقت کا کام ہے اور نرمی اور محبت کا کام نہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں میں نے سوچ سوچ کر ایسے دلائل نکالنے شروع کئے جن سے یہ ثابت ہو کہ خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہئے اور یہ کہ ایک خلیفہ انصار میں سے ہوا اور ایک مہاجرین میں سے یہ بالکل غلط ہے.آپ فرماتے ہیں میں نے بہت سے دلائل سوچے اور پھر اس مجلس میں گیا جو اس جھگڑے کو نپٹانے کے لئے منعقد کی گئی تھی.حضرت ابوبکر بھی میرے ساتھ تھے میں نے چاہا کہ تقریر کروں اور ان دلائل سے جو میں سوچ کر لے گیا تھا لوگوں کو قائل کروں.میں سمجھتا تھا کہ حضرت ابو بکر اس شوکت اور دبدبہ کے مالک نہیں کہ اس مجلس میں بول سکیں.لیکن میں کھڑا ہونے ہی لگا تھا کہ حضرت ابو بکر نے غصہ سے ہاتھ مار کر مجھ سے کہا کہ بیٹھ جاؤ اور خود کھڑے ہو کر تقریر شروع کر دی.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں خدا کی قسم ! جتنی دلیلیں میں نے سوچی تھیں وہ سب کی سب حضرت ابو بکڑ نے بیان کر دیں.اور پھر اور بھی کئی دلائل بیان کرتے چلے گئے اور بیان کرتے چلے گئے یہاں تک کہ انصار کے دل مطمئن ہو گئے اور انہوں نے خلافت مہاجرین کے اصول کو تسلیم کر لیا.یہ وہی ابو بکر تھا جس کے متعلق حضرت عمرؓ خود بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ کسی جھگڑے پر بازار میں آپ کے کپڑے پھاڑ دیئے اور مارنے پر تیار ہو گئے تھے.یہ وہی ابو بکر تھا جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ابوبکر کا دل رقیق ہے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو وفات سے قبل آپ نے حضرت عائشہ سے فرمایا عائشہ ! میرے دل میں بار بار یہ خواہش اُٹھتی ہے کہ میں لوگوں سے کہہ دوں کہ وہ میرے بعد حضرت ابو بکر کو خلیفہ بنالیں لیکن پھر رُک جاتا ہوں کیونکہ میرا دل جانتا ہے کہ میری وفات کے بعد خدا تعالیٰ اور اس کے مومن بندے ابوبکر کے

Page 357

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۳ جلد سوم سوا کسی اور کو خلیفہ نہیں بنائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کو خلیفہ منتخب کیا گیا.آپ رقیق القلب انسان تھے اور اتنی نرم طبیعت کے تھے کہ ایک دفعہ آپ کو مارنے کے لئے بازار میں حضرت عمرؓ آگے بڑھے اور انہوں نے آپ کے کپڑے پھاڑ دیئے.لیکن وہی ابو بکر جس کی نرمی کی یہ حالت تھی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ حضرت عمرؓ آپ کے پاس آئے اور انہوں نے درخواست کی کہ تمام عرب مخالف ہو گیا ہے صرف مدینہ، مکہ اور ایک اور چھوٹی سی بستی میں نماز باجماعت ہوتی ہے.باقی لوگ نماز پڑھتے تو ہیں لیکن ان میں اتنا تفرقہ پیدا ہو چکا ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے تیار نہیں اور اختلاف اتنا چکا ہے کہ وہ کسی کی بات سنے کو تیار نہیں.عرب کے جاہل لوگ جو پانچ پانچ چھ چھ ماہ بڑھ سے مسلمان ہوئے ہیں مطالبہ کر رہے ہیں کہ زکوۃ معاف کر دی جائے.یہ لوگ زکوۃ کے مسئلہ کو سمجھتے تو ہیں نہیں اگر ایک دو سال کے لئے انہیں زکوۃ معاف کر دی جائے تو کیا حرج ہے.گویا وہ عمر جو ہر وقت تلوار ہاتھ میں لئے کھڑا رہتا تھا اور ذراسی بات بھی ہوتی تو کہتا يَا رَسُولَ الله ! حکم ہو تو اس کی گردن اُڑا دوں.وہ ان لوگوں سے اتنا مرعوب ہو جاتا ہے اتنا ڈر جاتا ہے اتنا گھبرا جاتا ہے کہ ابو بکر کے پاس آ کر ان سے درخواست کرتا ہے کہ ان جاہل لوگوں کو کچھ عرصہ کے لئے زکوۃ معاف کر دی جائے ہم آہستہ آہستہ انہیں سمجھا لیں گے.مگر وہ ابو بکر جو اتنا رقیق القلب تھا کہ حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں ایک دفعہ انہیں مارنے کے لئے تیار ہو گیا تھا اور بازار میں ان کے کپڑے پھاڑ دیئے تھے اُس نے اُس وقت نہایت غصہ سے عمر کی طرف دیکھا اور کہا عمر ! تم اس چیز کا مطالبہ کر رہے ہو جو خدا اور اس کے رسول نے نہیں کی.حضرت عمر نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن یہ لوگ حدیث العہد ہیں.دشمن کا لشکر مدینہ کی دیواروں کے پاس پہنچ چکا ہے کیا یہ اچھا ہو گا کہ یہ لوگ بڑھتے چلے آئیں اور ملک میں پھر طوائف الملو کی کی حالت پیدا ہو جائے یا یہ مناسب ہوگا کہ انہیں ایک دوسال کے لئے زکوۃ معاف کر دی جائے.حضرت ابوبکر نے فرمایا خدا کی قسم ! اگر دشمن مدینہ کے اندر گھس آئے اور اس کی گلیوں میں مسلمانوں کو تہ تیغ کر دے اور عورتوں کی لاشوں کو کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں انہیں زکوۃ معاف نہیں کروں گا.خدا کی قسم ! اگر

Page 358

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۴ جلد سوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ لوگ رسی کا ایک ٹکڑا بھی بطور زکوۃ دیتے تھے تو میں وہ بھی ان سے ضرور وصول کروں گا.سے پھر آپ نے فرمایا عمر ! اگر تم لوگ ڈرتے ہو تو بیشک چلے جاؤ میں اکیلا ہی ان لوگوں سے لڑوں گا اور اُس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک اپنی شرارت سے باز نہیں آ جاتے.چنانچہ لڑائی ہوئی اور آپ ہی فاتح ہوئے اور اپنی وفات سے پہلے پہلے آپ نے دوبارہ سارے عرب کو اپنے ماتحت کر لیا.غرض حضرت ابو بکر نے اپنی زندگی میں جو کام کیا وہ انہی کا حصہ تھا کوئی اور شخص وہ کام نہیں کر سکتا تھا.مگر یہی عمر جو ابو بکر کی خلافت میں ایک خطرہ کی حالت میں ڈر گئے تھے اور جنہوں نے حضرت ابو بکر سے یہ درخواست کی تھی کہ لڑائی کرنے کی بجائے صلح کر لی جائے جب ان کا اپنا زمانہ آتا ہے تو جو کام انہوں نے کیا وہ انہی کا حصہ تھا ان کا غیر وہ کام نہیں کر سکتا تھا.وہی ارتداد کے فتنہ سے ڈر جانے والا عمر جب خلافت کے مسند پر آتا ہے اس وقت دنیا میں دو بڑی سلطنتیں تھیں.آدھی دنیا پر ایران قابض تھا اور آدھی دنیا پر روم کی سلطنت تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں لڑائیاں ہوئیں اور حضرت ابوبکر کے زمانہ میں پھیل گئیں لیکن پھر بھی وہ اس شدت کو نہیں پہنچی تھیں جس شدت کو وہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں پہنچیں.حضرت عمرؓ کو یہ خبر پہنچی کہ ایرانیوں نے مسلمانوں پر چھاپہ مارا ہے لوگوں نے کہا یہ وقت نازک ہے روم سے لڑائی ہو رہی ہے اور ایران کی حکومت بھی حملہ آور ہونے کی تیاریاں کر رہی ہے اس وقت ہمیں اس جھگڑے کو نظر انداز کر دینا چاہئے ایران سے لڑائی کرنے کا یہ موقع نہیں کیونکہ ایک وقت میں دنیا کی دو بڑی سلطنتوں سے لڑائی کرنا ہمارے لئے آسان نہیں.لیکن حضرت عمر نے فرمایا کہ میں اسلام کو ذلیل نہیں ہونے دوں گا میں ایک ہی وقت میں دونوں کا مقابلہ کروں گا.ایران میں جسر کی خطر ناک شکست کے بعد جب مسلمانوں کا سارا لشکر تہ تیغ ہو گیا تھا اور باقی لشکر شام کی طرف گیا ہوا تھا.مدینہ سے صرف تین سو آدمی مل سکتے تھے مگر حضرت عمرؓ نے کہا میں ان تین سو آدمیوں کو ساتھ لے کر ہی ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے جاؤں گا.مگر اُس وقت حضرت علیؓ اور دوسرے صحابہ کے اصرار کے بعد آپ خود جانے.رُک گئے مگر تھوڑے سے لشکر کو ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے بھجوا دیا.

Page 359

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۵ جلد سوم پھر حضرت عثمان کا زمانہ آیا تو وہ بھی اپنے وقت کے بہترین انسان ثابت ہوئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ شہید ہوئے لیکن ان کی شہادت کے واقعات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سینے میں ایک مضبوط دل تھا اور ان کے اندر وہ دلیری اور حوصلہ پایا جاتا تھا جو عام انسانی برداشت سے بالکل باہر ہے.پھر حضرت علیؓ نے اپنے زمانہ میں جو کام کیا وہ درحقیقت حضرت علیؓ کا ہی حصہ تھا اور کوئی دوسرا شخص اس کام کو سر انجام نہیں دے سکتا تھا.خوارج کے فتنہ کا عملی اور علمی مقابلہ جو حضرت علیؓ نے کیا وہ ایک بے نظیر کام ہے.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے سرداری کی اور اپنے اپنے وقت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کلی طور پر نیابت کی.لیکن اس قسم کے اور واقعات بھی کثرت سے چھوٹے صحابہ میں پائے جاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں علم دین کے ماہر تھے وہاں آپ کو علم النفس میں بھی کمال کی دسترس حاصل تھی.آپ جانتے تھے کہ کس طرح قوموں کو بیدار کیا جاتا ہے اور کس طرح انہیں کار ہائے نمایاں دکھانے کے لئے تیار کیا جاتا ہے.آپ بعض دفعہ مثلاً تلوار ہاتھ میں لے لیتے اور صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کرتے یہ تلوار ہے کون ہے جو اس تحفہ کا حق ادا کرے؟ صحابہ باری باری کھڑے ہوتے اور اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کرتے.آخر آپ ان میں سے اس شخص کو پہچان لیتے جو اس تلوار کا حق ادا کرنے والا ہوتا اور اسے وہ تلوار عنایت فرما دیتے.پھر وہ لوگ عجیب عجیب قسم کی قربانیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں.ایسی قربانیاں کہ ان واقعات کو پڑھ کر دل میں ایک خاص جوش پیدا ہوتا ہے اور مردہ لوگوں میں بھی زندگی کا خون دوڑ نے لگتا ہے.پھر یہی واقعات دنیا کی عام تاریخ میں بھی ملتے ہیں.غرض’ہر کا رے و ہر مردے اور ہر وقتے و ہر سخنے بڑا ہی صحیح مقولہ ہے خدا تعالیٰ اپنی ساری برکتیں کسی ایک شخص کے لئے مخصوص نہیں کر دیتا.اس کی نظر عنایت ہزاروں ہزار پر ہے.کسی موقع پر وہ کسی کو آگے آنے کا موقع دے دیتا ہے اور کسی وقت کسی کو آگے آنے کا موقع دیتا ہے.حضرت ابو بکر کتنی زیادہ مالی قربانی کرنے والے تھے لیکن ایک دفعہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جنگ کی تیاری کے لئے روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور آپ نے.

Page 360

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۶ جلد سوم فرمایا کہ کوئی ہے جو اپنے مال سے جنت خریدنا چاہے.تو خدا تعالیٰ نے حضرت عثمان کو موقع دے دیا گے اور آپ نے اپنا اکثر مال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کر رکھ دیا.وہ مال کوئی بارہ ہزار دینار کے قریب تھا جو آجکل کے لاکھوں روپے کے برابر ہے.غرض ہر وقت اور ہر زمانہ کے لئے کوئی نہ کوئی مخصوص شخص ہوتا ہے جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسی برکات حاصل ہو جاتی ہیں کہ وہ اپنے زمانہ کے لئے بطور یادگار بن جاتا ہے.اس زمانہ میں دنیا کی اصلاح کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام مبعوث ہوئے.آپ کے ماننے والوں میں بھی ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے دین کی خاص خدمت کی اور اس کی خاطر وہ وہ قربانیاں کیں جنہیں دیکھ کر ہماری قوم تا قیامت زندہ رہ سکتی ہے.کوئی شخص جب سید عبداللطیف شہید کی قربانیوں کو دیکھے گا تو وہ کہے گا کہ میں بھی عبد اللطیف شہید بنوں گا.کوئی حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کے واقعات زندگی کو دیکھے گا تو اس کے اندر آپ جیسا انسان بننے کی خواہش موجزن ہوگی.کوئی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے حالات کو پڑھے گا تو وہ ان جیسا بننے کی کوشش کرے گا.کوئی مولوی برہان الدین صاحب اور مولوی محمد عبد اللہ صاحب سنوری کے واقعات پڑھے گا تو کہے گا کہ کاش ! وہ بھی ان جیسا بن جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض لوگوں نے بعد میں ٹھوکریں بھی کھائیں لیکن ہم ان کی قربانیوں اور ان کے بے مثال کارناموں کو بھول نہیں سکتے.خدا تعالیٰ جیسا چاہے ان سے معاملہ کرے.ہمارا کام یہی ہے کہ ان کی قربانیوں کو نہ بھولیں.شیخ رحمت اللہ صاحب نے بے شک بعد میں ٹھو کر کھائی اور حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی وفات کے بعد پیغامی ہو گئے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی دینی خدمات اور قربانیوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان سے خاص محبت تھی.میں نے کئی دفعہ رویا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا کہ وہ دوسرے لوگوں کی طرف سے منہ پھیرے ہوئے ہیں لیکن شیخ رحمت اللہ صاحب کی طرف کنکھیوں سے محبت سے دیکھ رہے ہیں.ان کے متعلق میں نے بھی ایک رؤیا دیکھا تھا جو اس بات پر دلالت کرتا تھا کہ وہ ٹھوکر کھا جائیں گے پس گوانہیں بعد میں ٹھوکر لگی لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے اپنے وقت میں دین کی

Page 361

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۷ جلد سوم خاطر قربانیاں کی ہیں.ان سے پہلے سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی نے قربانی کا بے نظیر نمونہ دکھایا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کے ماننے والوں میں سے کئی ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں دین کے لئے عظیم الشان قربانیاں کیں.بعد میں آنے والے جب بھی ان کے واقعات پڑھیں گے دیکھیں گے کہ انہوں نے دین کی خاطر بے مثال خدمتیں کی ہیں اور خدا تعالیٰ کا خاص فضل ان پر نازل ہوا ہے تو ان میں بھی ان کی نقل کرنے کی خواہش پیدا ہوگی.پھر حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کا زمانہ آیا وہ زمانہ زیادہ تر ا رہاص یعنی خلافت کے قیام کا زمانہ تھا اس زمانہ میں کوئی ایسا ٹھوس کام جو جماعت کی تبلیغی ترقی کے ساتھ وابستہ ہوتا نہیں ہوا بلکہ سارا وقت اندرونی لڑائیوں اور آپس کے جھگڑوں میں ہی گزر گیا.مگر بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس زمانہ میں بھی جماعت نے ترقی کی اور پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی اور خصوصاً ہائی سکول کی تعمیر ایک نمایاں کام تھا.اُس زمانہ میں زیادہ تر اندرونی فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مجھے ہی جنگ کرنی پڑی اور اس وجہ سے مخالفین اور فتنہ پرداز لوگوں کے ان حملوں کا جوحضرت خلیفہ امسیح الاوّل اور اُن کی تائید کرنے والے لوگوں پر کئے گئے زیادہ تر میں ہی ہدف رہتا تھا.پھر میرا زمانہ آیا جس میں عام طور پر غیروں نے سمجھ لیا کہ اب یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا کیونکہ سب کام ایک بچے کے ہاتھ میں چلا گیا ہے.سلسلہ کے سپر د فتح دنیا کا کام ہے اور کام ایک غیر تعلیم یافتہ اور نا تجربہ کار بچہ کے سپرد ہو گیا ہے.جس نے بڑے بڑے کام نہیں کئے.میں بتا چکا ہوں کہ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کا زمانہ زیادہ تر خلافت کے قیام کا زمانہ تھا.لیکن اب خلافت کے کام کا زمانہ شروع ہو رہا تھا.اس زمانہ میں خلافت کی بنیا دوں پر عمارت کی تعمیر شروع ہوئی اور مختلف لوگوں کو مختلف رنگوں میں خدمت دین کا موقع ملا.“ الفضل ۳۱ / جولائی ۱۹۴۹ء ) مسلم کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل ابى بكر صفحه ۱ ۱۰۵ حدیث نمبر ۶۱۸۱ مطبوعہ ریاض ۲۰۰۰ ء الطبعة الثانية تاريخ الخلفاء للسيوطي صفحه ۶۰ الناشر مکتبہ نزار مصطفى الباز ۲۰۰۴ء

Page 362

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۸ جلد سوم سر حضرت عمرؓ کے دور میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان ایک جنگ لڑی گئی.اس جنگ میں فوجیں دریائے فرات کے آر پار تھیں.درمیان میں رابطے کی خاطر ایک پل بنایا گیا.عربی میں اسے جسر کہتے ہیں.اس لیے اس جنگ کا نام جنگ جسر پڑا.اس جنگ میں مسلمانوں کے چار ہزار آدمی مارے گئے جن میں جنگ کے سپہ سالا را بوعبید بھی شامل تھے.مخلص از تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۴۳۸ تا ۴۴۰ مطبوعه بیروت ۱۹۶۵ء) صلى الله بخاری کتاب فضائل اصحاب النبى الله باب مناقب عثمان بن عفان صفحه ۶۲۱ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ ء الطبعة الثانية

Page 363

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۹ جلد سوم تم اگر خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہیں ہمیشہ کی زندگی بخشے گا خطبه جمعه فرموده ۳ / نومبر ۱۹۵۰ء بمقام ربوه) دفا تر تحریک جدید میں بعض لوگ ایسے موجود ہیں جو وقف سے بھاگنا چاہتے ہیں.وہ ایسی رپورٹیں کر کے اپنے بھاگنے کے لئے رستہ کھولنا چاہتے ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لئے مثالیں قائم ہو جائیں اور وہ بھی وقف سے بھاگ سکیں.اس قسم کے منافق لوگ جب دیکھتے ہیں کہ مخاطب مخلص احمدی ہیں اور اگر انہیں یہ بتایا کہ خلیفہ بھی ایسا ہے تو وہ بگڑ جائیں گے.اس لئے وہ کہہ دیتے ہیں خلیفہ وقت کو تو ان باتوں کا پتہ ہی نہیں.گویا وہ تو بھنگ پینے والا ایک مست آدمی ہے اسے کیا پتہ ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور یہ احمدی یہ نہیں سمجھتے کہ جب وہ منافق یہ کہتا ہے کہ دفتر والے خلیفہ وقت کے پاس غلط رپورٹیں کرتے ہیں تو وہ کارکنوں کو بے ایمان اور ذرا نرم لہجہ میں خلیفہ کو احمق کہتا ہے اور وہ لوگ یہ سن کر کہ اس منافق نے خلیفہ کو احمق کہا ہے بڑے خوش ہوتے ہیں لیکن وہ خلیفہ ہے کس کام کا جو لوگوں کی کچی جھوٹی باتیں سن کر ایک فیصلہ کر دیتا ہے وہ دفتر کا ایک چپڑاسی بننے کے قابل بھی نہیں کجا یہ کہ خلافت کا کام اس کے سپر د کیا جائے.وہ لوگ زندہ موجود ہیں جو جانتے ہیں کہ بعض دفعہ مجلس میں پرائیویٹ سیکرٹری تین تین ماہ بعد ایک خط پیش کرتا اور کہتا کہ اس میں فلاں آدمی یہ بات لکھتا ہے اور میں کہتا یہ بات غلط ہے لا ؤ خط نکالو.پھر وہ خط نکالتا تو جو میں کہتا وہ صحیح ہوتا اور جو اس نے کہا ہوتا وہ غلط ہوتا

Page 364

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۰ جلد سوم خدا تعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو اپنے مطلب کے حافظے بھی دیا کرتا ہے اور اس کو زمانہ کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے.اگر وہ احمق ، جاہل اور بے وقوف ہوتا ہے جیسے یہ لوگ خیال کرتے ہیں تو اس کے کیا معنی ہیں کہ خلیفہ خود خدا بنا تا ہے.اس کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جب کسی کو خدا خلیفہ بناتا ہے تو اسے اپنی صفات بخشتا ہے اگر وہ اسے اپنی صفات نہیں بخشا تو خدا تعالیٰ کے خود خلیفہ بنانے کے معنی ہی کیا ہیں.اسی قسم کے کئی احمق کہا کرتے ہیں کہ فلاں نبی نے فلاں غلطی کی ہے.میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ اگر اس نبی نے غلطی کی ہے تو خدا تعالیٰ نے اسے نبی کیوں بنا دیا وہ تمہیں نبی بنا دیتا.جیسے آجکل بعض ترقی پسند مسلمان بھی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق بعض ناقص انتظام کئے تھے.ہم چونکہ ترقی یافتہ اور متمدن لوگ ہیں ہمیں اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق انتظام کرنا چاہئے حالانکہ سوال یہ ہے کہ کیا خدا تعالیٰ بھی بیوقوف تھا جس نے تمہاری موجودگی میں نبوت محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیدی.اگر نَعُوذُ بِاللهِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے اہل نہیں تھے تو خدا تعالیٰ نے آپ کو نبوت کا مقام کیوں عطا فر مایا.یہ تو ایسا ہی احمقانہ عقیدہ ہے جیسے بعض غالی شیعہ کہتے ہیں کہ نبوت جبرائیل علیہ السلام حضرت علی کیلئے لائے لیکن غلطی سے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی کیونکہ آپ دونوں ایک ہی مکان میں رہتے تھے.پس یہ بات تو درست نہیں کہ خلیفہ بے وقوف ہے.خلیفہ خدا کا بنایا ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے اسے اپنی طاقتوں سے بھی حصہ دیا ہاں وہ مومن جو اس قسم کے منافقوں کی باتوں سے دھوکا میں آجاتا ہے وہ ضرور بے وقوف ہوتا ہے اس کے سامنے جب ایک شخص اس کی ڈاڑھی نو چتا ہے وہ خلیفہ کو پیچدار الفاظ میں احمق کہتا ہے اور وہ واہ واہ کرتا جاتا ہے اور اپنے ذہن میں یہ سمجھتا ہے کہ اس نے بڑے اخلاص کا ثبوت دیا ہے حالانکہ جب اس کی تشریح کی جائے تو یہ اخلاص کا ثبوت نہیں ہوتا عدم اخلاص کا ثبوت ہوتا ہے کیونکہ اس کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ اس گالی کو سمجھ سکے جہاں اخلاص ہوتا ہے وہاں اس قسم کی باتوں کے سمجھنے کی طاقت بھی ہوتی ہے“.الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۵۰ء )

Page 365

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۱ جلد سوم خلافت ایک عظیم الشان نعمت ہے ( فرموده ۲ / مارچ ۱۹۵۱ء بمقام ناصر آ با دسندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دو مجھے اس دفعہ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ سندھ کی جماعتوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ وہ میرے اس دورہ کے موقع یہاں آئیں اور جمعہ کی نماز اس جگہ ادا کریں چنا نچہ دونوں جمعوں میں مختلف اطراف سے جماعت کے احباب جمعہ کی نماز کے لئے یہاں آئے جو ایک خوش کن امر ہے.زندہ قوموں کے اندر کچھ زندگی کی علامتیں ہوتی ہیں اور وہ علامتیں ہی یہ بتاتی ہیں کہ ان کے اندر زندگی کی روح پائی جاتی ہے.وہ علامتیں نہ ہوں تو ان کا زندہ ہونا ایک مشتبہ امر ہوتا ہے.کیونکہ قومی زندگی انسانی زندگی کی طرح نہیں کہ ہم کسی کو سانس لیتا دیکھیں تو سمجھیں کہ وہ زندہ ہے.چلتے پھرتے دیکھیں تو سمجھیں کہ وہ زندہ ہے.قومی زندگی کی علامتیں فردی زندگی سے مختلف ہوتی ہیں.قومی زندگی کی علامتوں میں ترقی کی نیت اور اُمنگ اور امیدیں اور اصلاح کی طرف توجہ اور جماعتی روح اور نظام کی روح وغیرہ شامل ہیں اور یہی چیزیں قومی زندگی کی علامت ہوتی ہیں جس طرح فردی زندگی کی علامتوں میں دیکھنا ،سننا ، بولنا ، کھانا ، سانس لینا اور فضلے کا خارج کرنا ہے اور ان علامتوں کو دیکھ کر ہم سم سمجھ لیتے ہیں کہ ایک چیز زندہ ہے.اسی طرح جب ہم کسی جماعت کے اندر یہ دیکھتے ہیں کہ اس میں ترقی کا احساس پایا جاتا ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ جماعت کے قیام کے لئے اس میں قربانی کا احساس پایا جاتا ہے ، جب ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے اور اسے زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے کا احساس اس میں پایا جاتا ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے ایک حصہ

Page 366

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۲ جلد سوم پر جب حملہ ہوتا ہے تو باقی سارا حصہ اس کی اذیت کو محسوس کرتا ہے اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ سب کے سب افراد ایک مرکز کی طرف مائل ہیں جو اسلام میں خلیفہ ہوتا ہے جس طرح جسم کے حصے دل کی طرف جھکے ہوئے ہوتے ہیں تو ان علامتوں کو دیکھ کر ہم سمجھ لیتے ہیں کہ اس جماعت میں زندگی کا مادہ پایا جاتا ہے بلکہ اصل زندگی تو ا لگ رہی جو قو میں صداقت سے دور ہیں اور جن میں صرف ایک مصنوعی زندگی پائی جاتی ہے وہ بھی بعض دفعہ بڑی بڑی قربانی کرتی نظر آتی ہیں.پچھلے دو سال میں دو دفعہ سر آغا خان کراچی آئے مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ گلگت سے جو ہزاروں میل دور ہے آغا خانی مذہب کے لوگ چل کر کراچی پہنچے اور آغا خان سے ملے.اُن میں ایسے طبقہ کے لوگ بھی تھے جو دنیوی لحاظ سے بہت بڑے سمجھے جاتے ہیں.چنانچہ دو تو نواب ہی تھے جو گلگت سے کراچی آئے.اس دفعہ بھی ان کے آنے پر میں نے دیکھا ہے کہ اخباروں میں لکھا تھا کہ سینکڑوں میل سے لوگ ان سے ملنے کے لئے آئے ہیں.اب آغا خانیوں میں جان تو نہیں ایک انسان کو خدا ماننے والوں یا دنیا میں اسے خدائی کا قائم مقام ماننے والوں میں حقیقی زندگی کہاں ہو سکتی ہے مگر جو سیاسی زندگی ہے وہ ان میں پائی جاتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہمارے جتھے کی تقویت کا ذریعہ یہی ہے کہ ہم ایک شخص کے پیچھے چلیں اور وہ بعض دفعہ ایسا مظاہرہ بھی کرتے ہیں جس کرنا چاہتے ہیں کہ ہم ایک ہاتھ پر جمع ہیں گو وہ ہاتھ شل ہی کیوں نہ ہوا ور گو وہ ہاتھ ایسے غلط عقیدہ کے ساتھ وابستہ ہی کیوں نہ ہو جسے انسان کی فطرت کبھی مان نہیں سکتی.تو زندگی کے آثار میں سے جماعتی احساس بھی ہوتا ہے اور جماعتی احساس کا ثبوت جیسا کہ اسلام نے بتایا ہے ہمیشہ ایک مرکز کے ساتھ تعلق رکھنے کے ذریعہ ملتا ہے.جب تک مرکز کے ذریعہ وحدت قائم رہتی ہے ترقی ہوتی چلی جاتی ہے اور جب مرکز سے تعلق کمزور ہو جاتا ہے تو قو میں گرنے لگ جاتی ہیں.جیسے پہاڑوں پر چڑھائی مشکل ہوتی ہے لیکن جب لوگ کسی پہاڑ پر چڑھنا چاہیں تو اپنی مدد کے لئے کھڈ سٹک پکڑ لیتے ہیں پھر اور مشکل آئے تو درختوں کی شاخیں پکڑ لیتے ہیں اور زیادہ خطرناک راستے آجائیں تو وہاں واقف کا رلوگ میخیں گاڑ کر ان کے ساتھ رسے باندھ دیتے ہیں تا کہ ان کا سہارا لے کر لوگ اوپر چڑھ سکیں یا جہاں ایسی سے وہ دنیا پر یہ ط

Page 367

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۳ جلد سوم سیٹرھیاں آجائیں جن سے گرنے کا خطرہ ہو وہاں مینوں کے ساتھ لوگوں نے رستے باندھے ہوئے ہوتے ہیں جن کے سہارے لوگ اوپر چڑھ جاتے ہیں.اسی طرح مرکز کمزوروں اور گرنے والوں کے لئے ایک سہارا ہوتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنے اندر کمزوری محسوس کرتے ہیں مرکز کے رسوں کو پکڑ کر مضبوطی حاصل کر لیتے ہیں.اسی لئے قرآن کریم نے خلافت کو رحمت قرار دیا ہے اور مومنوں کے ساتھ اس نے خلافت کا وعدہ کیا ہے مگر ساتھ ہی فرمایا ہے کہ یہ انعام ہے اور انعام کے وعدے اور حکم میں فرق ہوتا ہے.حکم بہر حال چلتا چلا جاتا ہے اور انعام صرف اس وقت تک رہتا ہے جب تک انسان اس کا مستحق سمجھا جاتا ہے.جب مستحق نہیں رہتا تو انعام اس سے واپس لے لیا جاتا ہے.چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف چار خلافتیں ہوئیں مگر عیسائیوں کی خلافت آج تک قائم ہے.اسلامی خلافت کا زمانہ صرف تیس سال تک رہا اور عیسائیوں کی خلافت پر انیس سو سال گزر چکے ہیں اور وہ ابھی تک قائم ہے.بے شک جہاں تک روحانیت کا سوال ہے ان کی خلافت کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے اور انہوں نے آپ کو نہیں مانا تو وہ ایمان سے خارج ہو گئے اور کافروں میں شامل ہو گئے.اسی طرح جہاں تک نیکی کا سوال ہے وہ بھی ان میں نہیں پائی جاتی اگر ان میں نیکی ہوتی تو لوٹ کھسوٹ اور کینہ اور کپٹ اور ناجائز تصرف اور دباؤ وغیرہ کی عادتیں ان میں کیوں پائی جاتیں.لیکن جہاں تک عیسائیت کو قائم رکھنے کا سوال ہے یہ خلافت اس کو قائم رکھنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ثابت ہوئی ہے اور اسی وجہ سے آج بھی عیسائی کروڑوں کروڑ روپیہ عیسائیت کی اشاعت کے لئے خرچ کر رہے ہیں.بظاہر ان کا مرکز اپنی طاقت کو کھو چکا ہے.چنانچہ پہلے بادشاہت بھی پوپ کے ساتھ ہوا کرتی تھی مگر آہستہ آہستہ بادشاہتیں الگ ہو گئیں اور اب محض چند میل کا علاقہ ادب کے طور پر پوپ کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے تا کہ اس علاقہ میں وہ اپنے آپ کو حاکم سمجھ لے.پانچ دس میل لمبا اور پانچ سات میل چوڑا علاقہ غالباً ہے جس میں پوپ کی حکومت ہے بلکہ ا حکومت بھی نہیں کہنا چاہئے دفاتر کا نظام اس جگہ قائم ہوتا ہے اور جہاں سارے اپنے ہی

Page 368

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۴ جلد سوم کا رکن ہوں وہاں حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بہر حال صرف چند میل کا علاقہ ہے جو عیسائیوں نے محض پوپ کے ادب کے لئے آجکل چھوڑ رکھا ہے مگر اس کی طاقت کا یہ حال ہے کہ اب بھی عیسائی دنیا پوپ کی ناراضگی کو برداشت نہیں کر سکتی.دنیا میں کمیونزم ترقی کر رہا ہے عیسائی دنیا گھبرا رہی ہے اور بڑے بڑے یورپین مد بر کمیونزم کی ترقی سے کانپ رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کا مقابلہ کریں اور وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ مذہب کا اتحاد ہی وہ اکیلی چیز ہے جس سے کمیونزم کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے.ان کی سیاستیں بالکل کھوکھلی ہو چکی ہیں ، ان کی حکومتیں بالکل بیکار ہو چکی ہیں اس لئے کہ حکومتوں کا زور تلواروں اور بندوقوں پر ہوتا ہے اور کمیونزم لوگوں کے دلوں میں گھس رہی ہے اور چاہے کتنی بڑی تو پیں ہوں جب کوئی بات دل پر اثر کر جائے تو تو ہیں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.امریکہ کے پاس اس وقت کتنی بڑی بڑی تو ہیں ہیں لیکن فرض کرو امریکہ کا پریذیڈنٹ کمیونزم کا لٹریچر پڑھتا ہے اور وہ کمیونزم کا شکار ہو جاتا ہے تو تو ہیں کیا کر سکتی ہیں.پس کمیونزم دلوں پر حملہ کر رہی ہے اور حکومتیں دلوں پر حملہ نہیں کر سکتیں.صرف مذہب ہی ہے جو انسان کے دل پر اثر کرتا ہے اور اس وجہ سے مذہب ہی کمیونزم کا صحیح طور پر مقابلہ کر سکتا ہے.چنانچہ اب دنیا میں عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ کمیونزم کا اگر مقابلہ کیا جا سکتا ہے تو مذہب ہی کے ذریعہ سے.مگر عیسائیت اب اتنی بدنام ہو چکی ہے کہ اگر وہ ایشیا کی خیر خواہی کے لئے بھی کوئی بات کہے تو لوگ اسے کہتے ہیں اچھا اب ہماری خیر خواہی کا جبہ پہن کر تم ہمیں دھوکا دینے لگے؟ ہم تمہارے اس فریب میں آنے کے لئے تیار نہیں.چونکہ پادری کا جبہ عیسائی سیاست کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہا ہے اور جہاں انگریز کی توپ گئی وہاں پادری کا جبہ بھی جا پہنچا اس لئے اب خواہ وہ کسی اور نیت سے ان کے سامنے آئیں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دھوکا اور فریب کا جبہ ہے اور اپنی سیاست قائم کرنے کے لئے ہماری خیر خواہی کا اظہار کیا جا رہا ہے.اور پھر جن ملکوں کے متعلق یہ خطرہ ہے کہ وہ کہیں کمیونزم کے اثر کو قبول نہ کر لیں ان میں عیسائی کم ہیں اور دوسرے مذاہب کے لوگ بہت زیادہ ہیں.ان ممالک میں تو یوں بھی عیسائی پادریوں کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا.مثلاً اگر ہندوؤں میں کھڑے ہو کر کوئی پادری یہ کہے کہ انجیل میں یوں

Page 369

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۵ جلد سوم " لکھا ہے یا تو رات میں یوں آتا ہے تو لوگوں پر اس کا کیا اثر ہوگا وہ یہی کہیں گے کہ ہم تو انجیل اور تورات کو مانتے ہی نہیں.ہمارے سامنے ان باتوں کے بیان کرنے کا فائدہ کیا ہے.ہندوؤں میں وہی شخص کامیاب ہو سکتا ہے جو ہندو مذہب کے لٹریچر اور دیدوں کے حوالہ جات کو پیش کر کے بات کرے اور مسلمانوں میں وہی شخص مقبول ہو سکتا ہے جو قرآن کریم اور احادیث سے مسائل بیان کرے اور بدھوں میں وہی شخص مقبول ہوسکتا ہے جو بدھ مذہب کے لٹریچر سے اپنی باتیں نکال کر پیش کرے.پس کمیونزم کے مقابلے کی صرف یہی صورت ہو سکتی ہے کہ عیسائی بھی ہندو بھی اور مسلمان بھی اور بدھ بھی اور زرتشتی بھی سب کے سب جمع ہو جائیں اور مل کر کمیونزم کا مقابلہ کریں.اگر تمام مذاہب کے ماننے والے جمع ہو جائیں اور اپنے اپنے عقائد کے مطابق اپنے ہم خیال لوگوں کو مخاطب کریں تو یقیناً ہندو بھی سنے گا اور عیسائی بھی سنے گا اور مسلمان بھی سنے گا اور بدھ بھی سنے گا کیونکہ وہاں سیاست کا کوئی سوال نہیں ہوگا.وہاں ہر شخص یہی کہے گا کہ ہمارا مذہب ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے اور کمیونزم اس کے خلاف ہے.دوسری طرف اس کے نتیجہ میں کمیونزم کو بھی اپنے حملہ کا رخ بدلنا پڑے گا.اب تو کمیونزم یہ کہتی ہے کہ ہم صرف سیاسی کے خلاف ہیں.وہ ہے تو مذہب کے خلاف بھی مگر وہ اس کا ذکر نہیں کرتی.سمجھتی ہے کہ جب حکومت ہمارے ہاتھ میں آجائے گی تو مذہب خود بخود مٹا ڈالیں گے.فی الحال صرف حکومتوں کو توڑنا ہمارا کام ہے.مثلاً وہ کہتے ہیں کہ سر دست ہم نے خدانخواستہ پاکستان کی حکومت کو توڑنا ہے ، ہم نے ہندوستان کی حکومت کو توڑنا ہے ، ہم نے افغانستان کی حکومت کو تو ڑنا ہے، ہم نے یورپین حکومتوں کو توڑنا ہے.چین کی حکومت کو تو وہ تو ڑ ہی چکے ہیں جب تمام حکومتیں ٹوٹ گئیں تو مذہب کیلئے کوئی جگہ نہیں رہے گی کیونکہ جہاں ان کا غلبہ ہوا وہاں نہ کوئی مذہب کا نام لے سکے گا نہ اس پر عمل کر سکے گا اور نہ اس کی اشاعت کے لئے کوئی کوشش کر سکے گا.یہ سکیم ہے جس کے ماتحت کمیونزم اپنے کام کو وسیع کرتا چلا جا رہا ہے مگر مذہبی لوگ خاموش بیٹھے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا اس سے کیا واسطہ کمیونسٹ تو صرف سیاست کے خلاف ہیں.ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص دیکھے کہ ایک دشمن کسی بچے کو مار

Page 370

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۶ جلد سوم رہا ہے تو وہ اس خیال سے خاموش بیٹھا رہے کہ یہ کسی اور کا بچہ ہے مگر جب وہ مر جائے تب اسے پتہ لگے کہ یہ تو میرا ہی بچہ تھا.وہ بھی اس وقت بالکل خاموش بیٹھے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس جھگڑے سے کیا واسطہ یہ تو ایک سیاسی جھگڑا ہے.لیکن اگر سارے کے سارے لوگ کھڑے ہو جائیں اور وہ کہیں کہ یہ دہریت کی تعلیم دینے والے یہ انبیاء کو جھوٹا اور فریبی کہنے والے یہ الہام اور وحی کا انکار کرنے والے یہ الہامی کتابوں کو جھوٹا کہنے والے یہ خدا اور اس کے رسولوں کا نام دنیا سے مٹانے والے ہمارے دشمن ہیں.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم سب مل کر اس کا مقابلہ کریں تو لازماً کمیونزم کو بھی مذہب کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور جب وہ مذہب کا مقابلہ کرے گی تو وہ لوگ بھی جو اپنے آپ کو پہلے بے تعلق سمجھا کرتے تھے اس لڑائی میں شامل ہو جائیں گے.اور یہ لڑائی تلوار سے ہٹ کر دلیل کی طرف آ جائے گی.اور اس میں کمیونزم کا شکست کھا جانا ایک قطعی اور یقینی چیز ہے.یہ ایک اتنی موٹی بات ہے کہ یورپ کے تعلیم یافتہ تو الگ رہے ہندوستان اور افغانستان کے جاہل اور غیر تعلیم یافتہ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ مقابلہ کا اصل طریق یہی ہے مگر وہ کیوں ایسا نہیں کرتے ؟ ابھی پچھلے دنوں ان کے بعض نمائندے کراچی آئے جن کے سامنے ہمارے بعض دوستوں نے یہی بات پیش کی اور ان سے کہا کہ کیا آپ اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ آپ لوگ سیاسی لڑائی کر رہے ہیں حالانکہ سیاسی لڑائی میں آپ کا پہلو کمزور ہے کمیونزم کا اصل حملہ مذہب پر ہے باقی سب درمیانی راستے ہیں جو انہوں نے اپنے لئے بنائے ہوئے ہیں اور مذہب کے خلاف ان کا حملہ ویسا ہی عیسائیت پر ہے جیسا اسلام پر یا جیسے ہندو مذہب پر ہے یا جیسے بدھ ازم پر ہے یا جیسے دنیا کے اور مذاہب پر ہے اور جب حالت یہ ہے تو آپ تمام مذاہب والوں سے یہ اپیل کیوں نہیں کرتے کہ مسلمان بھی اور ہندو بھی اور بدھ بھی اور عیسائی بھی سب مل کر کمیونزم کا مقابلہ کریں.یو.این.او کے ان نمائندوں نے جو امریکی تھے اور لاہور آئے ہوئے تھے ہماری جماعت کے دوستوں سے کہا کہ ہم یہ خوب سمجھتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ کمیونزم سے مقابلہ کا سہل طریق یہی ہے کہ تمام مذاہب کو متحد کیا جائے مگر مصیبت یہ ہے کہ اس طرح پوپ ناراض

Page 371

خلافة على منهاج النبوة ہو جاتا ہے اور ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.۳۵۷ جلد سوم یہ مثال میں نے اس لئے دی ہے کہ باوجود اس کے کہ عیسائیت کی خلافت اب محض ایک ڈھانچہ رہ گئی ہے اور وہ اپنی پہلی طاقت کو بالکل کھو چکی ہے پھر بھی عیسائیوں پر اس کا اتنا اثر ہے کہ وہ پوپ کی ناراضگی کو برداشت نہیں کر سکتے.وہ اپنی ہلا کت دیکھ رہے ہیں ، وہ اپنی تباہی دیکھ رہے ہیں، وہ اپنی بربادی دیکھ رہے ہیں مگر یہ جرأت نہیں کر سکتے کہ پوپ کی رضامندی کے خلاف کوئی قدم اُٹھا سکیں.تو دیکھو ایک جتھے کا نتیجہ کتنا عظیم الشان ہوتا ہے اور اس میں کتنی بڑی طاقت پائی جاتی ہے.اسلام کا جتھا ایک زندہ جتھا ہے اور اسلام جس نظام کو قائم کرتا ہے اس کی بڑی غرض یہ ہے کہ روحانیت کو قائم کیا جائے ، اخلاق کو درست کیا جائے اور ذاتی منافع پر قومی منافع کو ترجیح دی جائے.وہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوی کی تعلیم دیتا ہے.وہ اس لئے جتھا بنانے کی تعلیم نہیں دیتا کہ ذاتی فوائد حاصل کئے جائیں بلکہ وہ اس لئے جتھا بندی کی تعلیم دیتا ہے تا کہ تمام انسان مل کر نیکی اور تقویٰ پر قائم رہیں اور یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں مسلمانوں کو احمدیت کے ذریعہ دی ہے اور اس نے پھر ایک خلافت کا سلسلہ قائم کیا ہے جس کے ذریعہ وہ مسلمانوں کا ایک ایسا جتھا بنانا چاہتا ہے جو مل کر کفر کا مقابلہ کریں.یہ چیز بظاہر بہت حقیر نظر آتی ہے، بظاہر بہت کمزور نظر آتی ہے اور دشمن یہ سمجھتا ہے کہ ہم جب چاہیں احمدیت کو کچل سکتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے پردہ پر جو ساٹھ کروڑ کے قریب مسلمان ہیں ان کو وہ نعمت حاصل نہیں جو ہماری چھوٹی سی جماعت کو حاصل ہے اور وہ ان تمام فوائد سے محروم ہیں جو اس چھوٹی سی جماعت کو خلافت کی وجہ سے حاصل ہورہے ہیں.مثلاً تبلیغ کو ہی لے لو یہی چیز ہے جسے ہم مخالف کے سامنے پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں مگر تم نے کبھی غور کیا کہ یہ تبلیغ کس طرح ہو رہی ہے ! یہ تبلیغ محض خلافت کی وجہ سے ہورہی ہے.ایک مرکز ہے جس کے ماتحت وہ تمام لوگ جن کے دلوں میں اسلام کا درد ہے اکٹھے ہو گئے ہیں اور اجتما ہی طور پر اسلام کے غلبہ اور اس کے احیاء کیلئے کوششیں کر رہے ہیں.وہ بظاہر چند افراد نظر آئے ہیں مگر اجتماعی طور پر ان میں

Page 372

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۸ جلد سوم ایسی قوت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ بڑے بڑے اہم کام سرانجام دے سکتے ہیں.جس طرح آسمان سے پانی قطروں کی صورت میں گرتا ہے پھر وہی قطرے دھاریں بن جاتے ہیں اور وہی دھاریں ایک بہنے والے دریا کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اسی طرح ہمیں زیادہ سے زیادہ طاقت اور شوکت حاصل ہوتی چلی جاتی ہے ورنہ ہمارے احمدی جہاں تک ہمیں معلوم ہے پاکستان اور ہندوستان میں اڑھائی تین لاکھ سے زیادہ نہیں اور مسلمان ساری دنیا میں ساٹھ کروڑ ہیں.ساٹھ کروڑ اور اڑھائی تین لاکھ کی آپس میں کوئی بھی تو نسبت نہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہم سے دو ہزار چار سو گنے زیادہ ہیں اور پھر یہ زیادتی تو تعداد افراد کے لحاظ سے ہے مالی طاقت اور وسعت کو دیکھا جائے تو وہ ہم سے کئی گنا بڑھ کر ہیں.ہم ایک غریب جماعت ہیں اور وہ اپنے ساتھ بادشاہتیں رکھتے ہیں اس لحاظ سے تو درحقیقت وہ ہم سے دس گنا بڑھ کر ہیں لیکن اگر کم سے کم ان کی طاقت کو ہم دُگنا بھی فرض کر لیں تو اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ غیر احمدیوں کی طاقت ہم سے پانچ ہزار گنا زیادہ ہے.یعنی ہماری جماعت اگر تبلیغی مشنوں پر پانچ لاکھ روپیہ خرچ کرتی ہے تو مسلمانوں کو اڑھائی ارب روپیہ خرچ کرنا چاہئے.گویا مسلمانوں کی ہمارے مقابلہ میں اگر محض دُگنی طاقت ہو جو کسی صورت میں بھی درست نہیں ان کا مال اور ان کی دولت یقیناً بہت زیادہ ہے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بھی بعض ایسے مسلمان تاجر موجود ہیں جو ا کیلے اکیلے ہماری جماعت کی تمام جائیدا دخرید سکتے ہیں.پس دراصل تو ان کی مالی طاقت فرد فرد کی نسبت سے ہم سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن اگر دُگنی بھی فرض کی جائے تب بھی اڑھائی ارب روپیہ سالانہ انہیں تبلیغ کے لئے خرچ کرنا چاہئے لیکن وہ اڑھائی لاکھ بھی نہیں خرچ کرتے.اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں خلافت کی نعمت عطا کی ہے جس سے وہ لوگ محروم ہیں.اس خلافت نے تھوڑے سے احمدیوں کو بھی جمع کر کے انہیں ایسی طاقت بخش دی ہے جو منفردانہ طور پر کبھی حاصل نہیں ہوسکتی.یوں تو ہر جماعت میں کمزور بھی ہوتے ہیں اور ایسے طاقتور بھی ہوتے ہیں جوا کیلے تمام بوجھ کو اُٹھا لیں مگر تمام افراد کو ایک رسی سے باندھ دینا محض مرکز کے ذریعہ ہوتا ہے.مرکز کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ

Page 373

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۹ جلد سوم کمزور کو گرنے نہیں دیتا اور طاقتور کو اتنا آگے نہیں نکلنے دیتا کہ دوسرے لوگ اس کے مقابلہ میں حقیر ہو جائیں.اگر مرکز نہیں ہوگا تو کمزور گرے گا، اگر مرکز نہیں ہوگا تو طاقتو را تنا آگے نکل جائے گا کہ باقی لوگ سمجھیں گے کہ یہ آسمان پر ہے اور ہم زمین پر ہیں ہمارا اور اس کا آپس میں واسطہ ہی کیا ہے لیکن نظام اسلامی میں آ کر وہ ایسے برا بر ہو جاتے ہیں کہ بعض مواقع پر امیر اور غریب میں کوئی فرق ہی نہیں رہتا.“ ( الفضل ۲۸ / مارچ ۱۹۵۱ء ) المائدة: 3

Page 374

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم بچوں کی تربیت نہایت اہم چیز ہے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲۱ ستمبر ۱۹۵۱ء کو خطبہ جمعہ میں بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.وو ” پس بچوں کی تربیت نہایت اہم چیز ہے میں دیکھتا ہوں کہ ربوہ پر جہاں بہت سی ذمہ داریاں ہیں وہاں بچوں کی تربیت کے متعلق بھی اس پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن افسوس ہے کہ بچوں کی تربیت کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے.قادیان میں بھی نقص تھا اور میں نے اس کو دور کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہاں یہ نقص زیادہ نہیں تھا.یہاں تو یہ حالت ہے کہ والدین اپنے بچوں کو خلافت کی اہمیت بھی نہیں بتاتے چنانچہ بعض بچے جب میرے پاس آتے ہیں تو میں نے دیکھا ہے کہ وہ السّلامُ عَلَيْكُمْ کہنے کی بجائے اس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکال دیتے ہیں کہ بابا جی سلام.اس کے معنی یہ ہیں کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ ان کا خلیفہ وقت کے ساتھ کیا رشتہ ہے اور اسے کن الفاظ میں مخاطب کرنا چاہیے.اگر والدین نے انہیں خلافت کے مقام کی اہمیت بتائی ہوتی تو وہ آداب اسلامی سے اس قدر برگا نہ نہ ہوتے.میں سمجھتا ہوں یہ ماں باپ کا ہی قصور ہے کہ انہیں یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ خلیفہ کا رشتہ ماں باپ اور استاد کے رشتہ سے بھی زیادہ اہم ہے اور ان کا فرض ہے کہ اسے ان سب سے زیادہ عزت کا مقام دیں.( الفضل ۱۰ رمئی ۱۹۶۱ء )

Page 375

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۱ جلد سوم دعا کی فلاسفی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۲۸ ستمبر ۱۹۵۱ء کو خطبہ جمعہ میں دعا کی فلاسفی بیان فرمائی اور اللہ تعالیٰ سے مدد کا ذکر کرتے ہوئے اپنے اور دیگر مذاہب میں فرق بیان کرتے ہوئے فرمایا : - ” ہمارے اور دوسرے مذاہب کے درمیان یہی لڑائی ہے.ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ زندہ ہے اور وہ انسان کے کاموں میں اسی طرح دخل دیتا ہے جیسے وہ پہلے دیا کرتا تھا.ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان کی سب تدابیر ناکام ہو جاتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف رُخ کرتا ہے تو اسے باوجود ظاہری سامان نہ ہونے کے کامیابی حاصل ہو جاتی ہے.نپولین نے کتنی تیاریاں کی تھیں ، قیصر نے کتنی تیاریاں کی تھیں ، مسولینی نے کتنی تیاریاں کی تھیں لیکن وہ ناکام ہوئے.انور پاشا اور اس کی پارٹی نے کتنی تیاریاں کی تھیں لیکن وہ ناکام ہوئے اور ایک دھتکارا ہوا شخص مصطفیٰ کمال پاشا آگے آ گیا.بیشک وہ بھی دیندار نہیں تھا لیکن انور پاشا پر یہ الزام تھا کہ اس نے ایسے بادشاہ کو جس کے زمانہ میں اسلام نے ترقی کی تھی معزول کیا مصطفیٰ کمال پاشا کا یہ قصور نہیں تھا اس نے بیشک خلافت کو توڑا تھا لیکن اس نے اس خلافت کو تو ڑا جس نے پہلے سے قائم شدہ خلافت کو برخواست کیا تھا اور اس کا مقابلہ کیا تھا اس لئے وہ باغی سے مقابلہ کرنے والا کہلاتا ہے.دراصل اس آخری زمانہ میں جو خلافت تھی یہ اصل خلافت نہیں تھی.اصل خلافت خلفائے راشدین والی خلافت ہی تھی.سارے مسلمان متفق ہیں کہ خلافت راشدہ حضرت علی پر ختم ہو گئی ہے.بے شک بعد میں آنے والے بادشاہوں کو بھی خلفاء کہا گیا لیکن وہ خلفائے راشدین نہیں تھے.وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اگر بادشاہ کو خلیفہ نہ کہا تو پکڑے جائیں گے اس لئے انہوں نے پہلی خلافت کو

Page 376

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۲ جلد سوم خلافت راشدہ کا نام دے دیا اور اس طرح بادشاہوں کا منہ بند کر دیا.غرض عام بادشاہوں کو خلیفہ ہی کہا جاتا تھا.لیکن جس خلافت کا ذکر قرآن کریم میں ہے وہ مسلمانوں کی اصطلاح میں خلافت راشدہ کہلاتی ہے.اور اس بات پر سارے مسلمان متفق ہیں کہ خلافت راشدہ حضرت علی پر ختم ہو چکی ہے.ہاں اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد نئے سرے سے قائم ہوئی ہے لیکن یہ خلافت روحانی ہے دنیوی سلطنت کا اس سے کوئی تعلق نہیں “.( الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۵۱ء )

Page 377

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۳ جلد سوم خلیفہ مسیح کا مقام یکم فروری ۱۹۵۲ء کو خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے جماعت کی تعداد بڑھنے اور حضرت مسیح موعود کی خدمات بغیر کسی اجر کے کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.حضور علیہ السلام کی تحریرات کا اس سے زیادہ مطلب کچھ نہ تھا کہ میں کسی بدلہ کی خواہش کے بغیر یہ کام کر رہا ہوں.قرآن کریم میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ آپ نے فرمایا میں تم سے اس کا کوئی اجر نہیں مانگتا.اس کام کا بدلہ میں خدا تعالیٰ سے لوں گا جس نے یہ کام میرے ذمہ لگایا ہے.کیا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کر رہے تھے کہ مجھے کچھ دو ؟ یہ صاف بات ہے کہ لوگ انگریزوں کی خدمات بجالاتے تھے اور وہ انہیں انعامات بھی دیتے تھے لیکن ان خدمات اور انعامات کے مقابلہ میں کوئی شور نہیں پڑتا.تمام مسلمان چپ ہیں.لوگ ان انعام یافتوں کی دعوتیں کرتے ہیں اور اس اعزاز کی وجہ سے ان کا احترام بھی کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کے اس فعل کو نا پسند نہیں کرتے.اگر مرزا صاحب پر مولوی لوگ اس لئے ناراض ہیں کہ آپ نے انگریزوں سے تعاون کیا ان کی مدد کی اور اس طرح ان کی طاقت کو بڑھایا تو سوال یہ ہے کہ اگر مرزا صاحب کا انگریزوں سے یہ تعاون کسی غرض کے لئے تھا تو انگریزوں نے ان کی کیا مدد کی.پنجاب موجود ہے اس میں دس پندرہ ہزار مربع زمین انگریز کی خدمات کے بدلہ میں لوگوں کو ملی ہے.ان دس پندرہ ہزار مربعوں میں سے مرزا صاحب کو کتنے ملے ہیں؟ یا وہ کونسے خطابات ہیں جو انگریزی حکومت نے مرزا صاحب کو دیے.مرزا صاحب تو فوت ہو گئے ہیں.آپ کے زمانہ میں حکومت کی طرف سے کسی خطاب یا انعام کی آفر OFFER) نہیں آئی تھی.لیکن میرے زمانہ میں حکومت نے یہ کہا

Page 378

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۴ جلد سوم کہ اگر آپ پسند کریں تو ہم آپ کو کوئی خطاب دینا چاہتے ہیں.لیکن میں نے ہر دفعہ یہی کہا کہ میں تمہارے خطاب کو ذلّت سمجھتا ہوں اور جس چیز کو جماعت احمدیہ کا خلیفہ اپنی ذلت اور ہتک سمجھتا ہے اس کا بانی اس کی کیا حقیقت اور قیمت سمجھتا ہوگا.تین دفعہ حکومت نے یہ کہا کہ ہم کوئی خطاب دینا چاہتے ہیں.ایک دفعہ حکومت ہند کے ایک ممبر نے ایک احمدی کو بلا کر کہا کہ کیا تم اس بات کا پتہ کر سکتے ہو کہ اگر ہم مرزا صاحب کو کوئی خطاب دینا چاہیں تو وہ خطاب لے لیں گے.یعنی ان کے دل میں بھی شبہ تھا کہ اگر ہم نے کوئی خطاب دیا تو یہ اسے منظور نہیں کریں گے.جس شخص سے حکومت کے ممبر نے اس بات کا ذکر کیا اس میں اتنا ایمان نہیں تھا.وہ سمجھتا تھا کہ اگر خلیفہ کی شان کے مطابق کوئی انعام مل جائے تو اس میں ہماری عظمت ہو گی.اس نے بیوقوفی سے کہہ دیا کہ اگر آپ ان کی شان کے مطابق کوئی انعام دیں گے تو وہ لے لیں گے اور مثال دی کہ جس طرح کا خطاب سر آغا خاں کو دیا گیا ہے اسی قسم کا خطاب دے دیا جائے جوان کی شان کے مطابق ہو تو وہ انکار نہیں کریں گے.اس کے بعد مجھ کو خط لکھا تو میں نے جواب دیا کہ تم کتنے گھٹیا درجہ کے مومن ہو.وہ خلیفہ اسیح کے خطاب سے بڑھ کر کونسا خطاب مجھے دیں گے.میں ایک مامور من اللہ کا خلیفہ ہوں.اگر وہ مجھے بادشاہ بھی بنا دیں گے تو وہ اس خطاب کے مقابلہ میں ادنی ہو گا.تم فوراً جاؤ اور اس ممبر سے کہو کہ میں نے جو جواب دیا تھا وہ غلط تھا.اگر آپ انہیں کوئی خطاب دیں گے تو وہ اسے اپنی ذلت اور ہتک سمجھیں گے.اسی طرح ایک دفعہ حکومت کے ایک رکن نے میرے ایک سیکرٹری سے کہا کہ اب خطابات دیئے جانے کا سوال ہے.اگر مرزا صاحب منظور کر لیں تو انہیں بھی کوئی خطاب دے دیا جائے تو انہوں نے کہ وہ آپ کا کوئی خطاب برداشت نہیں کریں گے.اسی طرح ایک اور افسر نے ایک احمدی رئیس سے کہا کہ اب مربعے مل رہے ہیں اگر مرزا صاحب پسند کریں تو انہیں بھی کچھ مربعے دے دیئے جائیں.انہوں نے مجھ سے اسی بات کا ذکر کیا تو میں نے کہا یہ تو میری ذلت اور ہتک ہے کہ میں حکومت سے کوئی انعام لوں.اس کا تو یہ مطلب ہوگا کہ ہم پیسوں کے لئے سب کام کرتے ہیں.“ 66 (الفضل ۱۳ فروری ۱۹۵۲ء)

Page 379

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۵ جلد سوم حکومت اور خلیفہ وقت کی اطاعت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۲۵ جولائی ۱۹۵۲ء کو خطبہ جمعہ میں اپنے شائع ہونے والے انٹرویو کا ذکر کیا جس میں بعض غلطیاں تھیں.حکومت کی اطاعت اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : - ” خلیفہ کی اطاعت ضروری ہے یا گورنمنٹ کی؟ اگر جماعت اور گورنمنٹ میں اختلافات بڑھ جائیں تو جماعت آپ کی فرمانبرداری کرے گی یا گورنمنٹ کی ؟ یہ سوال کئی سال سے چلا آتا ہے.انگریزوں کے وقت میں بھی یہ سوال اُٹھا تھا کہ ہمارا اور آپ کا اتحاد کیسے ہو سکتا ہے جبکہ جماعت آپ کی فرمانبرداری کو ضروری خیال کرتی ہے.اس سوال کا جو جواب میں نے دیا تھا وہ بھی انہوں نے درست لکھا ہے کہ ہماری مذہبی تعلیم یہ ہے کہ حکومت وقت کی اطاعت کی جائے.ہم آیات قرآنیہ نکال نکال کر کہتے ہیں کہ حکومت وقت کی فرمانبرداری ضروری ہے.ہم احادیث نکال نکال کر کہتے ہیں کہ حکومت وقت کی فرمانبرداری ضروری ہے.پھر میں اپنے متبوع کی نافرمانی کیسے کرسکتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی تو یہی لکھتے آئے ہیں کہ حکومت وقت کی اطاعت کی جائے اور میں خود بھی ۳۵، ۳۶ سال سے یہی کہتا چلا آیا ہوں کہ حکومت وقت کی اطاعت کرو.آخر میں اپنے قول کی مخالفت کیونکر کر سکتا ہوں.دراصل ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خلیفہ کا محافظ خدا تعالیٰ ہے اور وہ اس سے ایسی غلطیاں سرزد نہیں ہونے دے گا جو اصولی امور کے متعلق ہوں.پس اس سوال کا اصل جواب تو یہ تھا کہ خلیفہ ایسی غلطی نہیں کر سکتا لیکن اس جواب سے غیر احمدیوں کی تسلی نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ وہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کے متعلق یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ وہ ایسی غلطی نہیں کر سکتا.اس قسم کے سوال فرضی کہلاتے ہیں.ان کے جوابات بھی

Page 380

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۶ جلد سوم دیئے جاسکتے ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ سوال فرضی ہے اس لئے میں نے اس کا جواب نہیں دیا لیکن اگر میں ایسا جواب دیتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ غیر احمدیوں کے شبہات دور نہ ہوتے بلکہ وہ کہتے یہ سوال کو ملا گئے ہیں.پس میرے اس جواب سے جو ہوتا تو بالکل درست سچائی ظاہر نہیں ہوسکتی تھی.ایسے موقع پر مناسب یہی ہوتا ہے کہ اس فرضی سوال کا جواب بھی دے دیا جائے چنانچہ میں نے اس سوال کے جواب میں اُس نمائندے سے یہ کہا کہ جب جماعت کا خلیفہ با وجود اس کے کہ قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ حکومت وقت کی اطاعت کرو، احادیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حکومت وقت کی اطاعت کرنی چاہیے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ حکومت وقت کی اطاعت کرو.میں خود ۳۶،۳۵ سال سے اس بات کی تلقین کر رہا ہوں کہ حکومت وقت کی اطاعت ضروری ہے حکومت وقت کی نافرمانی کی تعلیم دے گا تو لازماً جماعت اس سے پوچھے گی کہ یہ حوالے کہاں گئے آپ ہمیں اب کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ در حقیقت ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خلیفہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے اور وہ اسے اس قسم کی غلطی نہیں کرنے دیتا جو اصولی امور سے تعلق رکھتی ہو.پس یہ سوال ہی غلط ہے ایسا موقع ہی نہیں آ سکتا کہ جماعت احمدیہ کا سچا خلیفہ حکومت وقت سے بغاوت کی تعلیم دے.وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہے اور وہ یہ غلطی نہیں کر سکتا.“ الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۵۲ء)

Page 381

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم خدمت دین کے لئے آگے آنے کی تلقین ) خطبه جمعه فرموده ۹ / دسمبر ۱۹۵۵ء) حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب کی وفات کے موقع پر حضور نے خطبہ جمعہ میں نو جوانوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ آگے آئیں اور ان کی جگہ لیں اور خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں آپ نے فرمایا :.پس میں نوجوانوں کو کہتا ہوں کہ وہ دین کی خدمت کے لئے آگے آئیں اور صرف آگے ہی نہ آئیں بلکہ اس ارادہ سے آگے آئیں کہ انہوں نے کام کرنا ہے.گو حضرت خالد بن ولیڈ نوجوان آدمی تھے.حضرت عمرؓ نے آپ کی جگہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو کمانڈر ان چیف مقرر کر دیا.اُس وقت حضرت خالد بن ولیڈ کی پوزیشن ایسی تھی کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے خیال کیا کہ اس وقت ان سے کمانڈ لینا مناسب نہیں.حضرت خالد بن ولید کو اپنی برطرفی کا کسی طرح علم ہو گیا.وہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کے پاس میری برطرفی کا حکم آیا ہے لیکن آپ نے ابھی تک اس حکم کو نافذ نہیں کیا.حضرت ابوعبیدہ بن الجراح نے کہا خالد ! تم نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی ہے اب بھی تم خدمت کرتے چلے جاؤ.خالد نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن خلیفہ وقت کا حکم ماننا بھی ضروری ہے.آپ مجھے بر طرف کر دیں اور کمانڈر انچیف کا عہدہ خود سنبھال لیں.میرے سپرد آپ چپڑاسی کا کام بھی کر دیں گے تو میں اسے خوشی سے کروں گا لیکن خلیفہ وقت کا حکم بہر حال جاری ہونا چاہئے.حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے کہا کہ کمان تو مجھے لینی ہی پڑے گی کیونکہ خلیفہ وقت کی طرف سے یہ حکم آچکا ہے لیکن تم کام کرتے چلے جاؤ.خالد نے کہا

Page 382

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۸ جلد سوم آپ حکم دیتے جائیں ، میں کام کرتا جاؤں گا.چنانچہ بعد میں ایسے مواقع بھی آئے کہ جب ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں سو سو عیسائی تھا لیکن خالد نے ہمیشہ یہی مشورہ دیا کہ آپ ان کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہیں.خدا تعالیٰ کے اس وعدہ پر یقین رکھو کہ اسلام اور احمدیت نے دنیا پر غالب آنا ہے.اگر یہ فتح تمہارے ہاتھوں سے آئے تو رسول کریم کی شفاعت تمہارے لئے وقف ہوگی کیونکہ تم اسلام کی کمزوری کو قوت سے اور اس شکست کو فتح سے بدل دو گے.خدا تعالیٰ کہے گا گو قرآن کریم میں نے نازل کیا ہے لیکن اس کو دنیا میں قائم ان لوگوں نے کیا ہے.پس اس کی برکات تم پر ایسے رنگ میں نازل ہوں گی کہ تم اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرو گے اور وہ تمہاری اولا د کو بھی ترقیات بخشے گا.“ (الفضل ۱۸؍ دسمبر ۱۹۵۵ء)

Page 383

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۹ جلد سوم خلیفہ وقت کا توکل علی اللہ حضرت خلیفہ امسیح لثانی نے ۳۱ اکتو بر ۱۹۵۸ء کو خطبہ جمعہ میں ایک ڈپٹی پولیس سپر نٹنڈنٹ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.’آپ نے دیکھا ہے کہ دفتر میں پندرہ ہمیں آدمی بیٹھے ہیں لیکن آپ دلیری سے میرے پاس آگئے ہیں آپ ان احمدیوں سے کیوں نہیں ڈرے؟ آپ ان سے اس لئے نہیں ڈرے کہ آپ سمجھتے تھے کہ اگر انہوں نے مجھے کچھ کہا تو میری حکومت ان کی گردنیں پکڑ لے گی.تو اگر آپ کو اپنی سرکار پر اتنا بھروسہ ہے تو آپ یہ بتائیے کہ میرا یہ دعوی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ یعنی اُس کا عہد یدار ہوں اب اگر آپ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ہو کے اپنی سرکار پر اتنا اعتبار رکھتے ہیں تو کیا میں خدا کا خلیفہ ہوکر اپنے خدا پر اعتبار نہیں کروں گا ؟ یا درکھیں میری گردن آپ کے گورنر کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ کے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں ہے.اگر وہ میری گردن مروڑنے کی کوشش کرے گا تو خدا تعالیٰ اُس کی گردن مروڑ دے گا.چنانچہ چند دن کے اندر اندر اُسے واپس بلا لیا گیا اور گورنری سے ہٹا دیا گیا.“ غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ )

Page 384

Page 385

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۱ جلد سوم تفسیر کبیر میں ” خلافت“ کے موضوع پر حضرت مصلح موعود کے ارشادات آدم سے پہلے بھی مخلوق موجود تھی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۳۱ دَراذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَيْكَةِ إِنِّي جَاعِلُ فِي الْأَرْضِ خليفة کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں:.پیشتر اس کے کہ اس آیت کے مضمون پر کچھ لکھا جائے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق سابق مفسرین کے خیالات کا اظہار کر دیا جائے.نیز اس بارہ میں جو کچھ سابق کتب میں بیان ہوا ہے اُس کا بھی ذکر کر دیا جائے.مفسرین نے اس آیت کے متعلق اختلاف کیا ہے.بعض کہتے ہیں کہ اِنِّي جَاعِلُ في الْأَرْضِ خَلِيفة سے مراد آدم ہے اور مراد یہ ہے کہ انسانوں سے پہلے اس دنیا پر ملائکہ رہتے تھے پس خدا تعالیٰ نے ان سے کہا کہ میں تم کو آسمان پر بلا لوں گا اور تمہاری جگہ ایک اور وجود پیدا کروں گا یعنی آدم کے ( ابن کثیر ) اس صورت میں خلیفہ بمعنی اسم فاعل لیا جائے گا.ان معنوں کے قائلین میں سے بعض نے یہ توجیہہ کی ہے کہ آدم کو اس لئے خلیفہ نہیں کہا گیا کہ ان سے پہلے فرشتے بستے تھے اور انہوں نے ان کی جگہ لے لی بلکہ اس لئے کہ ان سے

Page 386

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۲ جلد سوم پہلے دنیا پر جن بستے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو ہموار زمین سے پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا اور آدم کو ان کی جگہ رکھا.سے بعض کہتے ہیں کہ خلیفہ سے مراد ایسا وجود ہے جس کے نائب آئندہ پیدا ہوتے رہیں.پس انّي جَاعِلُ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً سے مراد آدم ان معنوں میں ہیں کہ ان کی نسل اِس دنیا پر پھیلنے والی تھی کے اس صورت میں خلیفہ بمعنی اسم مفعول ہوگا جیسے کہ ذَبِيحَة بمعنی مَذْبُوح آتا ہے.اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد نسل انسانی ہے نہ آدم.چنانچہ اس کی تائید میں بعض نے اس آیت کی یہ قراءت بھی نقل کی ہے کہ اِنّي جَاعِلُ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً یعنی میں زمین میں ایک مخلوق پیدا کرنے والا ہوں.اور بعض نے اس خیال کی بنیاد قرآن کریم کی اس آیت پر رکھی ہے هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خُلَيْفٌ فِي الْأَرْضِ خدا ہی ہے جس نے تم کو دنیا میں ایک دوسرے کے بعد اس کی جگہ لینے والا بنایا ہے.قتادہ نے بھی یہی مراد لی ہے کہ اس جگہ خلیفہ سے مراد نسل انسانی ہے.وہ کہتے ہیں فَكَانَ فِي عِلْمِ اللهِ انَّه تَكُونُ فِي تِلْكَ الْخَلِيْفَةِ أَنْبِيَاءُ وَرُسُلٌ وَقَوْمٌ صَالِحُونَ وَسَاكِنُوا الْجَنَّةِ کے یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ اس خلیفہ کے وجود میں نبی بھی ہوں گے اور رسول بھی اور صلحاء کی جماعت بھی اور جنت کے بسنے والے بھی.اس فقرے سے ظاہر ہے کہ قتادہ کے نزدیک خلیفہ سے آدم کے وجود کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کی نسل کے کاملین کی طرف.یہ قائلین اپنے دعوی کی تائید میں اس بات سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ فرشتوں نے جو یہ کہا کہ کیا تو اسے پیدا کرے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا ؟ بتا تا ہے کہ خلیفہ سے مراد آدم نہیں بلکہ بنی نوع انسان ہیں کیونکہ آدم نے نہ خون بہانا تھا اور نہ فساد کرنا تھا.بعض نے کہا ہے کہ خلیفہ سے مراد آدم ہیں کیونکہ خلیفہ اسے کہتے ہیں کہ جو کسی کی نیابت میں احکام واوامر کو جاری کرے.پس چونکہ آدم خدا تعالیٰ کے نبی ہونے والے تھے اور اس

Page 387

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم کے احکام کو دنیا میں جاری کرنے والے تھے ان کا نام خلیفہ رکھا گیا.میرے نز دیک بھی خلیفہ کا لفظ اسی لئے استعمال ہوا ہے کہ آدم خدا تعالیٰ کے احکام و منا ہی کو دنیا میں جاری کرنے والے تھے اور اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اب دنیا میں خدا تعالیٰ کا ایک نبی ظاہر ہونے والا ہے.یہ کہنا کہ آدم سے پہلے فرشتے دنیا پر رہتے تھے ایک بے ثبوت قول ہے اور یہ کہ جن پہلے رہتے تھے جو بشر کے سوا کوئی اور مخلوق تھی ویسا ہی بے ثبوت قول ہے اور اس کی وجہ سے آدم یا اس کی نسل کو خلیفہ کہنا بھی بے معنی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس کی مخلوق کب سے چلی آرہی ہے.اگر خلیفہ کے لفظ سے بعد میں آنے والی کسی دوسری جنس کی مخلوق مراد لی جائے تو ہر مخلوق ہی خلیفہ کہلانی چاہئے کیونکہ وہ اپنے سے پہلے کسی اور مخلوق کی قائم مقام ہو گی کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفت خلق کی نسبت نہیں کہا جاسکتا کہ صرف چند ہزار سال یا چند لاکھ سال سے جاری ہوئی ہے اس سے پہلے کچھ نہ تھا.میرے نزدیک یہ بھی درست نہیں کہ خلیفہ سے مراد اس جگہ آدم کی ذریت ہے کیونکہ قرآن کریم میں جہاں قوموں کی نسبت خلیفہ کا لفظ آیا ہے جمع کی شکل میں آیا ہے چنانچہ سورہ انعام میں ہے وَهُوَ الذي جَعَلَكُمْ خَليفَ الأرض اور سورہ فاطر میں ہے هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خُلَيْفَ فِي الْأَرْضِ اور سورہ یونس میں ہے ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَليفَ نا اور پھر سورہ یونس میں ہے و جَعَلَهُمْ خَليف " اسی طرح سورہ اعراف میں دو جگہ ہے واذكرُ وَ اذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاء " پھر سورہ نمل میں ہے وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الأرض 1 ان حوالوں سے ثابت ہے کہ قرآن کریم نے جب کسی قوم کے خلیفہ ہونے کا ذکر کیا ہے جمع کے لفظ سے کیا ہے اس لئے کہ قوم بہت سے افراد پر مشتمل ہوتی ہے اور ہر فرد اپنی قسم کے فرد کا خلیفہ ہوتا ہے.پس جب تک کوئی خاص غرض نہ ہو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے لئے مفر دلفظ کا استعمال ہو اس کے برخلاف قرآن کریم میں جہاں ایک شخص کے خلیفہ ہونے کا ذکر کیا گیا ہے وہاں لفظ خلیفہ مفرد استعمال کیا ہے مثلاً حضرت داؤد کی نسبت آتا ہے إنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ " پس ان حوالہ جات سے یہی استنباط ہوتا ہے کہ آیت زیر تفسیر میں بھی خلیفہ سے مراد

Page 388

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۴ جلد سوم حضرت آدم ہیں نہ کہ بنی نوع انسان“.( تفسیر کبیر جلد اصفحه ۴ ۲۷، ۲۷۵) اس تمہید کے بعد میں بتا تا ہوں کہ جو کچھ اس آیت میں بیان ہوا ہے یا تو وہ اوپر کی تمہید کے مطابق زبانِ حال کا ایک مکالمہ ہے لیکن اگر اسے زبان حال کا مکالمہ نہ کہا جائے اور میرا ذاتی رجحان اس طرف ہے کہ اس آیت میں جو کچھ ملائکہ کے متعلق کہا گیا ہے وہ بذریعہ الہام گزرا ہے صرف زبان حال کا محاورہ نہیں تو پھر جو کچھ خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا وہ بطور فیصلہ سنانے کے تھا مشورہ نہ تھا اور الفاظ قر آنیہ اس امر پر دلالت کر رہے ہیں.آیت کا کوئی لفظ ایسا نہیں جس سے معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کچھ پوچھا ہے بلکہ الفاظ بالوضاحت بتا رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے یہ کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں پھر نہ معلوم معترضین نے مشورہ کا مفہوم کہاں سے نکال لیا.ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سوال کرنے کی اجازت دی ہے کیونکہ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے فرشتوں کو اس امر کے بتانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے اپنے دائرہ میں آدم کی تائید میں لگ جائیں اور جس کے سپر د کوئی کام کیا جاوے اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اسے اچھی طرح سمجھ بھی لے.پس انہوں نے سمجھنے کیلئے یہ سوال کیا ہے کہ الہی ! کیا آپ کوئی ایسی مخلوق پیدا کر نے والے ہیں جو فساد کرے گی اور خون بہائے گی ؟ اور یہ سوال ان کا خلیفہ کے لفظ سے استدلال کر کے ہے جس کے معنی جیسا کہ بتایا جا چکا ہے ایسے وجود کے ہیں جو نظام قائم کرے اور نیکیوں کو انعام اور بدوں کو سزا دے اور ظاہر ہے کہ ہر سوال اعتراض کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ بعض سوال زیادتی علم کے لئے ہوتے ہیں.ہر روز اس دنیا میں افسر ماتحتوں کو جب حکم دیتے ہیں تو وہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا یہ فعل اعتراض نہیں کہلا تا“.البقره: ۳۱ ( تفسیر کبیر جلد نمبر اصفحه ۲۸۰) تفسیر ابن کثیر جلد اول صفحه ۲۱۶ مطبوعہ دارطيبه للنشر والتوزیع ۱۹۹۹ء سے تفسیر ابن کثیر جز اول صفحه ۱۱۲ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۴ء تفسیر فتح البیان جلد اول صفحه ۱۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۲ء

Page 389

خلافة على منهاج النبوة قرطبی جلد اصفحہ ۱۳۱ مطبوعہ بیروت ۲۰۰۶ء فاطر: ۴۰ ۳۷۵ تفسیر ابن کثیر جلد اصفحه ۱۲۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء تفسیر ابن کثیر جلد اصفحه ۱۲۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء الانعام: ١٦٦ الاعراف: ۷۵،۷۰ ا یونس: ۱۵ یونس: ۷۴ النمل: ٦٣ ص: ۲۷ جلد سوم

Page 390

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم تخلیق انسان یکدم نہیں ہوئی ’اب میں بتاتا ہوں کہ قرآن کریم میں جو آدم کا واقعہ بیان ہوا ہے اس میں کہیں بھی اس امر کا اظہار نہیں کیا گیا کہ آدم علیہ السلام سے نسلِ انسانی کی ابتداء ہوئی ہے یا یہ کہ ان کے زمانہ میں اور کوئی بشر نہ تھا.قرآن کریم میں آدم علیہ السلام کا نام لے کر ان کے واقعہ کو مندرجہ ذیل مقامات پر بیان کیا گیا ہے.اول تو اسی آیت میں جس کی تفسیر میں اس وقت لکھ رہا ہوں.اس آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس میں انسانی پیدائش کا کوئی ذکر نہیں صرف یہ فرماتا ہے کہ یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں اور یہ فقرہ اپنی بناوٹ سے ہی ظاہر کرتا ہے کہ آدم اور ان کے کچھ ہم جنس پہلے ہی موجود تھے ان کے بنانے کا اُس وقت سوال نہ تھا بلکہ سوال صرف بشر میں سے ایک خلیفہ بنانے کا تھا اور ظاہر ہے خلیفہ بنانے سے ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اس سے پہلے کوئی انسان نہ تھا بلکہ صرف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اُس وقت خلیفہ اللہ نہ تھا.قرآن کریم میں حضرت داؤد کو بھی خلیفتہ اللہ کہا گیا ہے اور حضرت داؤد کسی لحاظ سے بھی پہلے انسان نہ تھے ان کی نسبت آتا ہے يداود اِنَّا جَعَلنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلا تَتَّبِم الهَوى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللهِ یعنی اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے پس سچائی کے مطابق لوگوں میں فیصلہ کر اور اپنی خواہشات کی پیروی نہ کر کیونکہ اگر تو ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے راستہ سے بھٹک جائے گا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ خلیفہ بنانے سے صرف یہ مراد ہے کہ وہ بنی نوع انسان میں انصاف کی حکومت قائم کرے اور انسانی عقل کو اللہ تعالیٰ کے الہام کی ہدایت کے تابع کرے.پس جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنانے کا اعلان کیا تو اس سے بھی

Page 391

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم صرف اسی قدر مرا د تھی یہ مطلب ہرگز نہ تھا کہ آدم کو اُس وقت پیدا کیا گیا تھا بلکہ ان کی بلوغت روحانی کے زمانہ میں انہیں الہام کا مرکز بنانے کا اعلان تھا.اس کے بعد کی آیت بھی اسی امر پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وعلّمَا دَمَ الأَسْمَاء كُلها الله تعالى نے ملائکہ کو خلیفہ بنانے کی خبر دے کر آدم پر الہام نازل کیا اور اسے تمام اسماء سکھائے.اسماء کیا تھے؟ اس کی نسبت تو میں اگلی آیت میں روشنی ڈالوں گا اس وقت اس امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ یہ آیت بتاتی ہے کہ اُس وقت آدم پہلے سے موجود تھے کیونکہ خلیفہ بنانے کا ذکر کرنے کے بعد یہ نہیں کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم پر الہام نازل کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ اُس وقت سے پہلے آدم پیدا ہو چکے تھے.دوسری آیت جس میں آدم کا ذکر کیا گیا ہے یہ ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَكُمْ ثُمَّ صَوِّرُ نَكُمْ ثم قلنا للمليكةِ اسْجُدُ والدہ کے یعنی ہم نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو اعلیٰ سے اعلیٰ قومی بخشے پھر اعلیٰ قومی بخش کر فرشتوں سے کہا کہ آدم کی فرمانبرداری کرو.میں نے صورت دینے کے معنی اس جگہ اعلیٰ قومی بخشنے کے کئے ہیں اور یہ لغت کے مطابق ہیں مفردات راغب میں لکھا ہے صورت دو قسم کی ہوتی ہے اَحَدُهُمَا مَحْسُوسٌ يُدْرِكُهُ الْخَاصَّةُ وَالْعَامَّةُ بَلْ يُدْرِكُهُ الْإِنْسَانُ وَكَثِيرٌ مِنَ الْحَيَوَانِ كَصُورَةِ الْإِنْسَانِ وَالْفَرَسِ وَالْحِمَارِ بِالْمُعَايَنَةِ کے یعنی ایک صورت تو وہ ہوتی ہے جو حواس ظاہری سے معلوم ہوتی ہے اسے خاص و عام سب معلوم کر لیتے ہیں بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے جانور بھی اسے دیکھتے ہیں جیسے انسان یا گھوڑے یا گدھے کی شکل وَالشَّانِی مَعْقُولٌ يُدْرِكُهُ الْخَا صَّةَ دُونَ الْعَامَّةِ كَالصُّورَةِ الَّتِي اِخْتَصَّ الْإِنْسَانُ بِهَا مِنَ الْعَقْلِ وَالرَّ وِيَّةِ وَالْمَعَانِي الَّتِي حُصَّ بِهَا شَيْءٌ می اور دوسری صورت وہ ہے جو صرف عقل کے ذریعہ سے دیکھی جاسکتی ہے اسے صرف خاص ہستیاں دیکھ سکتی ہیں.جانور تو الگ رہے عام انسان بھی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے جیسے کہ وہ صورت جس سے انسان کو ممتاز کیا گیا ہے یعنی اس کی عقل اور قوت فکر یہ.اسی طرح وہ ممتاز کرنے والی طاقتیں جو مختلف اشیاء کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں.

Page 392

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۸ جلد سوم اس عبارت سے ظاہر ہے کہ عربی زبان میں صورت کا لفظ ظاہری شکل کے لئے بھی اور باطنی شکل یعنی اندرونی طاقتوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور انہی دوسرے معنوں کے مطابق میں نے تم صور نكم کے معنی یہ کئے ہیں کہ تم کو اعلیٰ سے اعلیٰ قومی بخشے.اس کے بعد جو فرمایا کہ پھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کی فرمانبرداری کرو اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ محض پیدائش انسان کے معاً بعد ہی ملائکہ کو آدم کی فرمانبرداری کا حکم نہ دیا گیا تھا بلکہ انسان کے پیدا ہونے کے بعد جب درجہ بدرجہ ترقی کر کے انسان نے اپنی روحانی قوتوں کو کامل کیا تھا اُس وقت آدم کے سجدہ کا حکم دیا گیا تھا.“ ( تفسیر کبیر جلد ۱ صفحه ۲۹۵،۲۹۴) ص: ۲۷ البقرة ٣٢ ، مفردات امام راغب صفحه ۴۹۷ مطبوعہ تم ۱۴۲۳ھ الاعراف: ۱۲

Page 393

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۹ جلد سوم خلیفہ کے معانی سوره بقرة آيت نمبر ٣١ وَاذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَيكَةِ إِنِّي جَاعِلُ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً کی تفسیر میں لفظ خلیفہ کے بارے میں حضور نے فرمایا :.ہیں :.جیسا کہ پہلے حل لغات اور نوٹوں میں بتایا جا چکا ہے لفظ خلیفہ کے مندرجہ ذیل معانی (1) جو کسی پہلی قوم یا فرد کا قائم مقام ہو.(۲) جو کسی بالا افسر کا اس کی زندگی ہی میں دوسرے مقام پر اس کے احکام کے نافذ کرنے کے لئے مقرر ہو.(۳) جس کے بعد کوئی اس کا قائم مقام ہو خواہ (1) اس کے اختیارات یا کام کو چلانے والا (ب) خواہ اس کی نسل.لیکن اس آیت میں جو لفظ خلیفہ کا آیا ہے اس کے معنوں کو قرآن کریم کے محاورہ کی روشنی میں دیکھنا چاہئے سو جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اس میں یہ لفظ مندرجہ ذیل تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے (۱) نبی اور مامور کے معنوں میں جیسا کہ اس آیت میں استعمال ہوا ہے کیونکہ گو آدم اس معنی میں بھی خلیفہ تھا کہ ایک پہلی نسل کے تباہ ہونے پر اُس نے اور اُس کی نسل نے جگہ لی اور اس معنی میں بھی خلیفہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ سے ایک بڑی نسل چلائی لیکن وہ سب سے بڑی اہمیت جو اسے حاصل تھی وہ نبوت اور ماموریت ہی کی تھی جس کی طرف اس آیت میں سب سے پہلا اشارہ ہے.نبی یا مامور اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہوتے ہیں یعنی صفات الہیہ کو اپنے زمانہ کی ضرورت کے

Page 394

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۰ جلد سوم مطابق دنیا پر ظاہر کرتے ہیں اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ظل بن کر ظاہر ہوتے ہیں.انہی معنوں میں حضرت داؤد کو بھی خلیفہ کہا گیا ہے.(۲) دوسرے ہر قوم جو پہلی قوم کی تباہی پر اس کی جگہ لیتی ہے ان معنوں میں بھی خلیفہ کا لفظ قرآن کریم میں متعدد بار استعمال ہوا ہے مثلاً حضرت ہود کی زبان سے فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا وَاذْكُرُوا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاء مِنْ بَعْدِ قَوْمٍ نُوح " یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تم کو قوم نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا.یعنی قوم نوح کی تباہی کے بعد ان کی جگہ تم کو دنیا میں حکومت اور غلبہ حاصل ہو گیا.اسی طرح حضرت صالح کی زبانی فرماتا ہے وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاء مِنْ بعد عاد" یاد کرو جب تم کو اللہ تعالیٰ نے عاد اولی کی تباہی کے بعد ان کا جانشین بنایا اور حکومت تمہارے ہاتھ میں آگئی.(۳) نبی کے وہ جانشین بھی خلیفہ کہلاتے ہیں جو اس کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں یعنی اُس کی شریعت پر قوم کو چلانے والے ہوں اور ان میں اتحاد قائم رکھنے والے ہوں خواہ نبی ہوں یا غیر نبی.جیسے کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام موعود راتوں کے لئے طور پر گئے تو اپنے بعد انتظام کی غرض سے انہوں نے حضرت ہارون سے کہا اخْلُفْنِي في تَوْمِي وَاصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ المُفسدين ۵ یعنی میرے بعد میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ان کی اصلاح کو مدنظر رکھنا اور مفسدلوگوں کی بات نہ ماننا.حضرت ہارون خود نبی تھے اور اُس وقت سے پہلے نبی ہو چکے تھے پس یہ خلافت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں دی تھی وہ خلافت نبوت نہ ہو سکتی تھی اس کے معنی صرف یہ تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں ان کی قوم کا انتظام کریں اور قوم کو اتحاد پر قائم رکھیں اور فساد سے بچا ئیں.جہاں تک اس خلافت کا تعلق ہے یہ خلافت نبوت نہ تھی بلکہ خلافت انتظامی تھی مگر جیسا کہ میں او پر لکھ چکا ہوں اس قسم کی شخصی خلافت علاوہ خلافت انتظامی کے خلافت نبوت بھی ہوتی ہے یعنی ایک سابق نبی کی اُمت کی درستی اور اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ ایک اور نبی کو مبعوث فرماتا ہے جو پہلے نبی کی شریعت کو ہی جاری کرتا ہے کوئی نئی شریعت جاری نہیں کرتا.پس جہاں تک کہ شریعت کا تعلق ہوتا ہے وہ پہلے نبی کے کام کو قائم

Page 395

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۱ جلد سوم رکھنے والا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے پہلے نبی کا خلیفہ ہوتا ہے لیکن عہدہ کے لحاظ سے وہ پہلے نبی کا مقرر کردہ نہیں ہوتا نہ اُس کی اُمت کا مقرر کردہ بلکہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے مقرر کیا جاتا ہے اس قسم کے خلفاء بنی اسرائیل میں بہت سے گزرے ہیں بلکہ جس قدر انبیاء بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں آئے ہیں سب اسی قسم کے خلفاء تھے یعنی وہ نبی تو تھے مگر کسی جدید شریعت کے ساتھ نہ آئے تھے بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو ہی دنیا میں جاری کرنے کیلئے آئے تھے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرةً فِيْهَا هُدًى وَ نُورُ: يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ اسْلَمُوا اللَّذِينَ هَادُوا وَالرِّبانِيُّونَ وَالأحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا من كتب الله وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاء یعنی ہم نے تو رات اُتاری تھی جس میں ہدایت اور نور تھے.تو رات کے ذریعہ سے بہت سے نبی جو ( موسی کے ) فرمانبردار تھے اور اسی طرح ربانی اور احبار بوجہ اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کی حفاظت کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا یہود کے درمیان فیصلے کرتے تھے اور یہ انبیاء اور ربانی اور احبار تورات پر بطور نگران مقرر تھے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کچھ انبیاء ایسے آئے تھے جن کا کام موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کا قیام تھا اور وہ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے.(۲) ان انبیاء کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی جن کو ربانی اور احبار کہنا چاہئے اس کام پر مقرر تھے.اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء اور مجددین کا ایک لمبا سلسلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ا کے بعد ان کے خلفاء کے طور پر ظاہر ہوتا رہا جن کا کام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کام کی تکمیل تھا.اس سلسلہ کی آخری کڑی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام تھے جن کو تدبر فی القرآن نہ کرنے کے سبب کئی مسلمان خصوصاً آخری زمانہ کے مسلمان با شریعت نبی سمجھ بیٹھے ہیں.اسی طرح اس زمانہ کے مسیحی ان کی نسبت یہ خیال کرنے لگ گئے ہیں کہ وہ ایک نیا قانون لے کر آئے تھے اور اسی وجہ سے وہ ان کی کتاب کو نیا عہد نامہ کہتے ہیں.حالانکہ قرآن کریم ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دین کا قائم کرنے والا ایک خلیفہ قرار دیتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا

Page 396

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۲ جلد سوم آیت کے چند آیات بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وقفيْنَا عَلَى أَثَارِهِمْ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّورسة یعنی ہم نے مذکورہ بالا نبیوں کے بعد جو تورات کی تعلیم کو جاری کرنے کیلئے آئے تھے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا جو ان کے نقش قدم پر چلنے والے تھے اور توریت کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے تھے خود مسیح ناصری فرماتے ہیں :.وو یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ہوں میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہر گز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو.‘‘A غرض یوشع سے لے کر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے معا بعد ان کے خلیفہ ہوئے حضرت مسیح ناصری تک کے سب انبیاء اور مجددین حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور ان کی شریعت کو جاری کرنے والے تھے.اُمت محمدیہ میں ان تینوں قسم کی خلافتوں کا وعدہ بھی قرآن کریم سے ثابت ہے جن سے افسوس کہ بعض مسلمان غافل رہے اور ان سے صحیح فائدہ نہ اٹھا سکے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلحت ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهِيمُ وَلَيُمَكنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَمَنْ كَفَرَ بعد ذلك فارليكَ هُمُ الفسقُونَ ، یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے مومنوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کرتا ہے کہ ضرور اُن کو بھی زمین میں اُسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو خلیفہ بنایا تھا اور ضرور ان کے لئے ان کے اس دین کو جس کو اس نے ان کیلئے پسند کیا ہے مضبوطی سے قائم کرے گا اور ان کے خوف کے بعد امن کی حالت پیدا کر دے گا وہ میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں گے اور جولوگ اس کے بعد بھی کفر کریں گے وہ نا فرمان قرار دئیے جائیں گے.

Page 397

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۳ جلد سوم اِس آیت میں مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ ان کو پہلی اُمتوں کی طرح کی خلافت حاصل ہوگی اور پہلی اُمتوں کی خلافت جیسا کہ قرآن کریم سے اوپر ثابت کیا جا چکا ہے تین قسم کی تھی.(1) ایسے انبیاء ان میں پیدا ہوئے جو ان کی شریعت کی خدمت کرنے والے تھے.(۲) ایسے وجودان میں کھڑے کئے گئے جو نبی تو نہ تھے لیکن خدا تعالیٰ کی خاص حکمت نے اُن كو أن اُمتوں کی خدمت کے لئے چن لیا تھا اور وہ اُمت کو صحیح راستہ پر رکھنے کے کام پر خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت لگائے گئے تھے.(۳) ان امتوں کو خدا تعالیٰ نے پہلی قوموں کا قائم مقام بنایا اور پہلوں سے شوکت چھین کر ان کو دی.یہ تین قسم کی خلافتیں ہیں جن کا مسلمانوں سے وعدہ تھا اور تینوں کے حصول سے ہی اسلام کی شوکت پوری طرح ظاہر ہو سکتی تھی.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مسلمانوں کو اس وعدہ کے مطابق پہلی قوموں کی جگہ پر متمکن کر دیا اور ان کے دشمنوں کو ہلاک اور برباد کر دیا اور اگر مسلمان ایمان اور عمل صالح پر قائم رہتے تو ہمیشہ کے لئے ان کی شوکت قائم رہتی لیکن افسوس کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ دین کی طرف سے ہٹ کر دنیا میں مشغول ہو گئے اور انہوں نے غلطی سے سمجھا کہ دوسری اقوام کی طرح وہ دنیا میں مشغول ہو کر بھی ترقی کر سکتے ہیں حالانکہ قرآن کریم صاف فرما چکا تھا کہ مسلمانوں کی ترقی دوسری اقوام کی طرح نہ ہوگی بلکہ وہ جب ترقی کریں گے ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ سے ترقی کریں گے.صدیوں کے تجربہ نے اس صداقت کو ثابت کر دیا ہے کاش ! وہ اب بھی اپنی ترقی کے گر کو سمجھ کر ایمان اور عمل صالح کی طرف توجہ کریں..دوسری قسم کی خلافت انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ملی جبکہ اوّل حضرت ابو بکر اور پھر حضرت عمرؓ اور پھر حضرت عثمان اور پھر حضرت علی یکے بعد دیگرے نعمت خلافت سے متمتع ہوئے اور ان کی اس نعمت سے تمام مسلمانوں نے حصہ پایا.اگر بعد کے مسلمان اس نعمت کی قدر کرتے تو وہ صحابہ کی ترقی کی راہ پر گامزن رہتے اور آج اسلام کہیں کا کہیں پہنچا

Page 398

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۴ جلد سوم ہوا ہوتا لیکن افسوس اُنہوں نے اس نعمت کی بھی قدر نہ کی اور بادشاہت کی طرف متوجہ ہو گئے اور اُس شان کو کھو بیٹھے جو خلافت کے ذریعہ ان کو حاصل ہوئی تھی.تیسری قسم کی خلافت جو تابع انبیاء کے ذریعہ سے حاصل ہوئی تھی اس کی طرف سے مسلمان ایسے غافل ہوئے کہ آخری زمانہ میں اس قسم کی نبوت کا سرے سے ہی انکار کر دیا اور باب نبوت کو خواہ غیر تشریعی ہی کیوں نہ ہو بند کر کے اس عظیم الشان فضل سے منکر ہو گئے جو اس زمانہ میں صرف اسلام سے ہی مخصوص تھا اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ نبی ہونے کا ایک زبر دست ثبوت تھا کیونکہ تابع کی نبوت متبوع کی نبوت اور شان کو بڑھاتی اور روشن کرتی ہے نہ کہ کم کرتی ہے.جماعت احمدیہ کا ایمان ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے ذریعہ سے اس پُرفتن زمانہ کی اصلاح اور اسلام کو دوبارہ اس مقام پر کھڑا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے پھر اس تابع نبوت کا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مناسب حال اُمتی نبوت ہے دروازہ کھولا ہے اور آپ کے ذریعہ سے اس نے پھر آپ کے ماننے والوں میں خلافت کو بھی زندہ کر دیا ہے جس سے پھر ایک دفعہ ساری دنیا میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو ایک ہاتھ پر جمع ہو کر خدمت اسلام کر رہا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کو ان کا حق دلانے کیلئے رات دن جد و جہد کر رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب پھر دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا اور کفر بھاگ جائے گا.سيُهزِّمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرا ، ( تفسیر کبیر جلد اصفحه ۳۰۴ تا ۳۰۷) البقرة : ٣١ ص: ۲۷ 66 س الاعراف: ۷۰ الاعراف: ۷۵ ۵ الاعراف: ۱۴۳ المائدة: ۴۵ ك المائدة: ۴۷ متی باب ۵ آیت ۱۷، ۱۸.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی ۱۸۸۷ ءلندن النور : ۵۶ القمر : ٤٦

Page 399

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۵ جلد سوم قتل نفس سے مراد سورۃ البقره آیت ۵۴ فَاقْتُلُوا اَنْفُسَكُمْ کا ذکر کرتے ہوئے لفظ ”قتل“ کی حضور نے تفسیر فرمائی.آپ فرماتے ہیں :.لسان العرب میں قتل کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر جب خلافت کا انتخاب ہونے لگا تو بعض لوگوں نے اُس وقت اختلاف کیا اور ان میں سے ایک سعد بھی تھے ان کے متعلق کہا گیاقَتَلَ اللَّهُ سَعْدَا فَإِنَّهُ صَاحِبُ فِتْنَةٍ وشرت کہ اللہ تعالٰی سعد کو قتل کرے کیونکہ وہی فتنہ و فساد کی جڑ ہیں اور مطلب یہ تھا کہ دَفَعَ اللهُ شَرَّة کے یعنی اللہ تعالی سعد کے شر کو دفع کرے اور اس کے ارادوں کو پورا نہ کرے.اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرما یا اقْتُلُوا سَعْدًا قَتَلَهُ الله سے کہ سعد کو قتل کر دو اللہ تعالیٰ اسے قتل کرے اور مطلب یہ تھا کہ اِجْعَلُوهُ كَمَنْ قُتِلَ وَاحْسِبُوهُ فِي عِدَادِ مَنْ مَاتَ وَهَلَكَ وَلَا تَعْتَدُوا بِمَشْهَدِهِ وَلَا تُعَرِجُوا عَلى قَوْلِہ یعنی اے لوگو ! تم سعد کی طرف التفات نہ کرو بلکہ اپنی توجہ کو اُس سے ہٹا کر اُسے ایسا کر دو کہ گویا وہ مقتول ہے اور اُس کو ان لوگوں میں شمار کرو جو مر چکے ہوں اور اُس کو کسی گنتی میں نہ لاؤ.اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ بھی اس سے ایسا ہی سلوک کرے.اسی طرح حضرت عمرؓ سے ایک حدیث مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ مَنْ دَعَا إِلَى إِمَارَةٍ نَفْسِهِ أَوْ غَيْرِهِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ فَاقْتُلُوهُ أَى اجْعَلُوهُ كَمَنْ قُتِلَ وَمَاتَ بِأَنْ لَا تَقْبِلُوا لَهُ قَوْلَهُ وَلَا تُقِيمُوالَهُ دَعْوَةً یعنی جو شخص اپنی خلافت یا اور کسی کی خلافت کا پرو پیگنڈا کرے اور لوگوں کو کہے کہ اُسے یا فلاں شخص کو خلیفہ بناؤ اس کو قتل کر دو یعنی اُس کی بات کو قبول نہ کرو اور مکمل طور پر اُس.

Page 400

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۶ جلد سوم قطع تعلق کر لو اور اُ سے اس ذریعہ سے ایسا کر دو کہ گویا وہ مقتول ہے.اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے إِذَا بُریعَ لِخَلِيفَتَيْنِ فَاقْتُلُوا الْآخِيْرَ مِنْهُمَا أَى ابْطِلُوا دَعْوَتَهُ وَاجْعَلُوهُ كَمَنْ مَاتَ لے کہ جب دو خلیفوں کی بیعت کی جاوے تو آخری کو قتل کر دو یعنی اُس کی دعوت کی طرف کان نہ رکھو بلکہ اُس سے قطع تعلق کر کے اُسے قتل کئے جانے کے حکم میں کرد و پس قتل کے عام مشہور معنوں کے علاوہ اس کے معنی ذلیل کرنے اور قطع تعلق کرنے کے بھی ہیں.“ ا تالا لسان العرب زير لفظ قَتَلَ جلدا اصفحه ۳۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء ( تفسیر کبیر جلد اصفحه ۴۵۲)

Page 401

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۷ جلد سوم حضرت مسیح موعود کے بعد خلافت کی بشارت سورہ بقرہ کی آیت ۱۰۳ وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيطِینُ کی تشریح کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مئی ۱۹۰۸ء میں فوت ہوئے تھے.غالباً آپ کی وفات کے ایک ماہ بعد کی بات ہے کہ مجھے الہام ہوا اعْمَلُوا آلَ دَاوُدَشُكْرًا.اے داود کی نسل ! شکر گزاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور اعمال بجالا ؤ.اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے لفظ سلیمان تو استعمال نہیں فرمایا مگر آپ داؤد کہہ کر حضرت سلیمان کی بعض خصوصیات کا مجھ کو وعدہ دیا گیا ہے.میں سمجھتا ہوں ان باتوں میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جو ہمیشہ لوگوں کے لئے اضطراب کا موجب رہی ہے مجھ پر ابتدائی زمانہ ہی میں کھول دی تھی اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس میں یہ بھی پیشگوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد خلافت کے مقام پر مجھ کو کھڑا کیا جائے گا اور ان مشکلات کا بھی اس میں ذکر تھا جو میرے راستہ میں آنے والی تھیں.چونکہ انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ تکالیف اور اعتراضات سے گھبراتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ تکالیف اور اعتراضات کوئی بُری چیز نہیں ہیں بلکہ الِ داؤد ہونے کے لحاظ سے تمہیں ان کا منتظر رہنا چاہئے اور ان سے گھبرانا نہیں چاہئے.‘“ ( تفسیر کبیر جلد ۲ صفحه ۶۶، ۶۷)

Page 402

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۸ جلد سوم نبی کے چارا ہم کام سورة البقره آیت ۱۳۰ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ میں بیان نبی کے چارا ہم کاموں کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.یہی چار مقاصد خلافت اسلامی کے فرائض سے بھی تعلق رکھتے ہیں یعنی دلائل سکھانا، خدا کی باتیں لوگوں کو بتانا ، شریعت سکھانا ، ایمان تازہ کرنے کیلئے قرآن کریم کے احکام اور ان کی حکمتیں بتانا ، جسمانی و قلبی طہارت پیدا کرنے کی کوشش کرنا.اور یہی مبلغوں ، کارکنوں ، پریذیڈنٹوں، امیروں اور سیکرٹریوں کا کام ہے.جب تک ان چاروں باتوں کو مد نظر نہ رکھا جائے اُس وقت تک سلسلہ کی غرض و غایت پوری نہیں ہو سکتی.ابتدائے خلافت میں میں نے ” منصب خلافت میں ان باتوں کو تفصیل سے بیان کر دیا تھا تا کہ لوگ اس طرف توجہ کریں اور انہیں بار بار مجھ سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے کہ ہمیں بھی کوئی کام بتایا جائے مگر بہت کم لوگ اس طرف توجہ کرتے ہیں.پس جو دوست سلسلہ کی خدمت کا شوق رکھتے ہیں اُنہیں چاہئے کہ وہ اس کتاب کو پڑھ لیں اور خود ہی دیکھ لیں کہ ان کے کیا فرئض ہیں.ان کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ وہ ان چاروں کا موں کو پورا کریں یہی وہ کام ہیں جن کے لئے اسلام نبوت، خلافت اور امامت قائم کرتا ہے.پس نبی کا بھی اور پھر اس کے بعد خلفاء اور ان کے بعد تابعین کا بھی یہی کام ہوتا ہے اور جو شخص ان کا موں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے انصار میں شامل کر لیتا ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد ۲ صفحه ۱۹۵، ۱۹۶) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نظام قائم رکھنے کے لئے اسلام نے خلافت کا سلسلہ قائم کیا ہے لیکن غلطی یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف خلافت ہی کا ذمہ ہے کہ وہ تمام کام کرے

Page 403

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۹ جلد سوم حالانکہ یہ خلافت ہی کا ذمہ نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی ایک شخص ساری قوم کی اس رنگ میں اصلاح کر سکتا ہے جب تک تمام افراد میں یہ روح نہ ہو کہ وہ قوم کی اصلاح کا خیال رکھیں.اور جب تک تمام افراد اس کی درستی کی طرف توجہ نہ کریں اُس وقت تک اصلاح کا کام کبھی کامیاب طور پر نہیں ہوسکتا.میں سمجھتا ہوں اگر قرآن کریم کے اس حکم کی تعمیل میں مسلمان نسلاً بَعْدَ نَسلِ تبلیغ ہدایت کا کام جاری رکھتے اور لوگوں کی نگرانی کا فرض صحیح طور پر ادا کر تے تو وہ کبھی تباہ نہ ہوتے.اب یہ ہماری جماعت کا کام ہے کہ وہ اس سبق کو یاد رکھے اور آئندہ نسلوں کی درستی کے لئے ہمیشہ جد و جہد کرتی رہے.( تفسیر کبیر جلد ۲ صفحه ۲۳۰)

Page 404

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۰ جلد سوم إذا سَأَلَكَ عِبَادِي....کے تین معانی سورۃ البقرہ کی آیت ۷ ۱۸ و اِذا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ کی تفسیر میں تین باتوں کا ذکر فرمایا.آپ فرماتے ہیں :.وو پھر عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب اِذَا کے بعد ف آتی ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ پہلے کام کے نتیجہ میں فلاں بات پیدا ہوئی.اس جگہ بھی وَ اِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عني فإني قریب کے یہ معنی ہیں کہ جب یہ تین باتیں جمع ہو جائیں یعنی سوال کرنے والے سوال کریں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی ضرورت ہے.پھر تجھ سے سوال کریں فلاسفروں اور سائنس دانوں سے سوال نہ کریں، عیسی یا موسی سے سوال نہ کریں بلکہ تیرے پاس آئیں ، قرآن کے پاس آئیں ، تیرے خلفاء کے پاس آئیں اور پھر وہ میری ذات کے متعلق سوال کریں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میں اُن کے قریب ہو جاتا ہوں اور انہیں اپنا چہرہ دکھا دیتا ہوں.“ ( تفسیر کبیر جلد ۲ صفحه ۴۰۱)

Page 405

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۱ جلد سوم سچے خلفاء کی علامات سورۃ البقرہ آیت ۲۴۸ کی تفسیر میں بچے خلفاء کی علامات کا ذکر اور طالوت کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.پھر جسم کے لحاظ سے بتایا کہ تم لڑائی کرنا چاہتے تھے اس کا جسم بھی خوب مضبوط ہے اور اس کی جسمانی طاقتیں اعلیٰ درجہ کی ہیں.اس میں ہمت اور استقلال اور ثبات اور شجاعت کا مادہ پایا جاتا ہے پس اس سے زیادہ اور کون موزوں ہو سکتا ہے.یہ مراد نہیں کہ وہ موٹا تازہ ہے بلکہ مراد ہے کہ مضبوط اور دلیر ہے اور اُس میں قوت برداشت اور قربانی کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے.چنانچہ لوگ کہا کرتے ہیں المرُهُ بِأَصْغَرَيْهِ بِقَلْبِهِ وَلِسَانِهِ لعن انسان کی تمام طاقت اس کی دو چھوٹی سی چیزوں پر موقوف ہے ایک دل پر اور ایک اُس کی زبان پر.اور یہی سچے خلفاء کی علامت ہوتی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ نہ تھے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے کہ لوگ زکوۃ نہیں دیتے تو جانے دیں اس وقت ان سے جنگ کرنا مسلمانوں کے لئے کمزوری کا باعث ہو گا مگر جب اپنی خلافت کا زمانہ آیا تو کتنے بڑے بڑے کام کئے.دراصل ہمت و استقلال اور استقامت ایک بہت بڑا نشان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نیچے خلفاء کو عطا کیا جاتا ہے.“ 66 ( تفسیر کبیر جلد ۲ صفحه ۵۵۷)

Page 406

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۲ جلد سوم سچے خلفاء سے تعلق ملائکہ سے تعلق پیدا کر دیتا ہے سورۃ البقرہ آیت ۲۴۹ جس میں تابوت کا ذکر ہے جسے فرشتے اُٹھائے ہوئے ہوں گے فرشتوں کی مدد اور فیوض حاصل کرنے کا ذریعہ بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :.د وضمنی طور پر اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ سے فیوض حاصل کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ خلفاء سے مخلصانہ تعلق قائم رکھا جائے اور ان کی اطاعت کی جائے.چنانچہ اس جگہ طالوت کے انتخاب میں خدائی ہاتھ کا ثبوت یہی پیش کیا گیا ہے کہ تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نئے دل ملیں گے جن میں سکینت کا نزول ہوگا اور خدا تعالیٰ کے ملائکہ ان دلوں کو اُٹھائے ہوئے ہوں گے.گویا طالوت کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے نتیجہ میں تم میں ایک تغیر عظیم واقع ہو جائے گا، تمہاری ہمتیں بلند ہو جائیں گی ، تمہارے ایمان اور یقین میں اضافہ ہو جائے گا ملائکہ تمہاری تائید کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اور تمہارے دلوں میں استقامت اور قربانی کی روح پھونکتے رہیں گے.پس بچے خلفاء سے تعلق رکھنا ملائکہ سے تعلق پیدا کر دیتا ہے اور انسان کو انوارِ الہیہ کا مہبط بنا دیتا ہے.( تفسیر کبیر جلد ۲ صفحه ۵۶۱)

Page 407

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۳ جلد سوم رسول کریم ﷺ کے جانشینوں کی ذمہ داری سورۃ ھود کی آیت نمبر ۱۱۳ فَاسْتَقِمْ كَما امرت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا :- اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف اپنی جان ہی کی ذمہ داری نہیں بلکہ آپ پر ایمان لانے والوں کی درستی بھی آپ کا کام ہے.اور یہی ذمہ داری آپ کے جانشینوں اور آپ پر ایمان لانے والوں پر ہے.کیفیت اور کمیت دونوں لحاظ سے یہ ذمہ داری اس قدر ہے کہ پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے.( تفسیر کبیر جلد ۳ صفحه ۲۶۳)

Page 408

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۴ جلد سوم خلافت کی خواہش کا نتیجہ سورة رعد آیت نمبر ۱۲ لفظ ”لهُ مُعَقِبلت“ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:.ابونعیم نے الدلائل میں اور طبرانی نے اپنی معجم کبیر میں نقل کیا ہے کہ عامر بن طفیل اور عر بد بن قیس دو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے.عامر نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو کیا ولایت امر یعنی اپنے بعد خلافت مجھے دے دی جائے گی ؟ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تمہاری اس شرط کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خلافت تمہیں اور تمہاری قوم کو کبھی نہ ملے گی“.( تفسیر کبیر جلد ۳ صفحه ۳۹۱)

Page 409

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۵ جلد سوم حضرت موسی کا حضرت ہارون کو جانشین مقرر کرنا سورۃ الکھف میں بیان شدہ حضرت موسی کے ایک سفر کا ذکر جو آیت نمبر ۵۶ سے شروع وو ہوتا ہے اس میں حضرت موسی کے اسراء کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.چالیس دن کے سفر پر جاتے ہوئے حضرت موسی اپنے بعد حضرت ہارون کو خلیفہ مقرر کر کے جاتے ہیں مگر اس ایک دفعہ کے واقعہ کے بعد کہیں بھی ثابت نہیں کہ حضرت موسی نے حضرت ہارون یا کسی اور کو اپنا خلیفہ مقرر کیا ہو.اگر سفر کا ذکر نہیں تھا تو کم از کم اس نیابت کا ذکر تو ضرور تورات میں ہونا چاہئے تھا مگر چونکہ ایسا کوئی ذکر بائبل میں نہیں ہے تو یہی مانا پڑتا ہے کہ کوئی ایسا جسمانی سفر واقعہ نہیں ہوا.کیونکہ یہ تو ہرگز تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت موسیٰ سفر پر گئے ہوں اور اپنا جانشین مقرر نہ کر گئے ہوں.“ 66 ( تفسیر کبیر جلد ۴ صفحه ۴۶۷ )

Page 410

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۶ جلد سوم عمل صالح کرنے والے مومنوں سے خلافت کا وعدہ سورۃ مریم کی آیت نمبر ۳ ذكُرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا تفسیر کرتے ہوئے پہلے مجددین کا ذکر کر کے سورہ نور کی آیت استخلاف کا ذکر فرمایا.آپ فرماتے ہیں:.یہ امر یا دکھنا چاہئے کہ اس جگہ ذکریا سے وہ زکریا مراد نہیں جن کی کتاب بائبل میں شامل ہے وہ زکریا ۷ ۴۸ سال قبل مسیح گزرے ہیں اور یہ ذکر یا وہ ہیں جو حضرت مسیح کے قریب زمانہ میں آپ کی والدہ کے کفیل تھے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زکریا بھی نبی تھے.لیکن انا جیل میں ان کا ذکر بطور کا ہن کیا گیا ہے بطور نبی کے نہیں.مگر اس مشکل کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بالکل حل کر دیتی ہے.آپ فرماتے ہیں.اِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأسِ كُلّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّ دُ لَهَا دِيْنَهَا یعنی اللہ تعالیٰ اِس اُمت میں ہر صدی کے سر پر احیائے دین کیلئے ایک مجدد مبعوث فرمایا کرے گا.اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے وَعَدَ الله الّذینَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصلحت ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ " یعنی الله تعالیٰ نے مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں بھی زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہ کے خلفاء یعنی مجددین کو پہلے زمانہ کے اسرائیلی خلفاء کا مثیل قرار دیا ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِی كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيل ے یعنی میری اُمت کے علمائے روحانی یعنی مسجد دین انبیائے بنی اسرائیل کی طرح ہیں.“ ( تفسیر کبیر جلد ۵ صفحه ۱۱۷)

Page 411

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۷ جلد سوم سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب ما يذكر فى قرن المائة صفحه ۲۰۲ حديث نمبر ۴۲۹۱ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ ء الطبعة الاولى النور: ۵۶ موضوعات کبیر صفحہ ۴۸.مطبوعہ مطبع مجتبائی دھلی ۱۳۴۶ ھ + مکتوبات امام ربانی دفتر - اول حصہ چہارم صفحه ۳۳ مکتوب نمبر ۲۳۴ - ۲۴۹

Page 412

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۸ جلد سوم ہاتھوں کو بوسہ دینے سے متعلق سورۃ مریم آیت ۵۳ وَنَادَيْنَهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ - لفظ الْأَيْمَنِ بمعنی ” برکت والے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہاتھوں کو بوسہ دینے کے مسئلہ کے متعلق فرماتے ہیں :.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ الہی کلام جس جگہ نازل ہوتا ہے وہ جگہ بھی با برکت ہو جاتی ہے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ جب ہماری جماعت میں نئے نئے داخل ہوتے ہیں اور وہ جماعت کے دوستوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ میرے ہاتھوں کو بوسہ دے رہے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ کیا ہاتھوں کو بوسہ دینا شرک تو نہیں ؟ خصوصاً اہل حدیث میں سے جولوگ ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں وہ بعض دفعہ اس قسم کا سوال کر دیتے ہیں حالانکہ حدیثوں سے صاف ثابت ہے کہ صحابہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ چوما کرتے تھے.وہ اہل حدیث کہلاتے ہیں مگر اس قسم کی حدیثوں کو بھول جاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ بے جان چیز بھی اگر کسی با برکت وجود سے وابستہ ہو جائے تو وہ برکت والی ہو جاتی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کا کلام جب کسی جگہ پر نازل ہوتا ہے تو وہ جگہ بھی با برکت ہو جاتی ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد ۵ صفحه ۲۹۱)

Page 413

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۹ جلد سوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا قیام ، سورۃ مؤمنون کی آیت ۲ قدافلح الْمُؤْمِنُون کی تفسیر بیان کرتے ہوئے مؤمنین کی صفات بیان کیں اور اس ضمن میں شیعیت کا بھی ذکر فرمایا.آپ فرماتے ہیں :.پھر شیعہ کہتے ہیں کہ خلافت کا اصل حق تو حضرت علیؓ کا تھا اور انہی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت بھی فرمائی تھی مگر ابو بکر اور عمر جن کو خلافت کی خواہش تھی انہوں نے حضرت علی کا حق غصب کر لیا اور خود خلیفہ بن گئے.یہ عقیدہ بھی اول تو اس لحاظ سے غلط ہے کہ حضرت علیؓ جیسے بہادر اور شجاع انسان کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ ایک امر کو حق سمجھتے ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کا حامل ہوتے ہوئے اس کے خلاف عمل کرنے والوں کے مقابلہ میں خاموش رہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو انہوں نے پس پشت ڈال دیا اور عالم اسلام کو تباہی کے گڑھے میں گرتے دیکھ کر بھی کوئی قدم اُٹھا نا مناسب نہ سمجھا بالکل عقل کے خلاف ہے.پھر تاریخی طور پر یہ امر ثابت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر کی بھی بیعت کی تھی اور پھر حضرت عمر کی بھی بیعت کی تھی اور ان دونوں خلفاء کے ساتھ مل کر وہ کام کرتے رہے بلکہ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں بعض سفروں کے پیش آنے پر حضرت علی کو اپنی جگہ مدینہ کا امیر بھی مقرر فرمایا.چنانچہ طبری میں لکھا ہے کہ واقعہ جسہ کے موقع پر جبکہ مسلمانوں کو ایرانی فوجوں کے مقابلہ میں ایک قسم کی زک اُٹھانی پڑی تھی حضرت عمرؓ نے لوگوں کے مشورہ سے ارادہ کیا کہ آپ خود اسلامی فوج کے ساتھ ایران کی سرحد پر تشریف لے جائیں اور آپ نے اپنے پیچھے حضرت علیؓ کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا.اسی طرح جب مسلمانوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور وہاں کے لوگوں نے اُس وقت تک ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا جب تک کہ

Page 414

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۰ جلد سوم خود حضرت عمر وہاں تشریف نہ لائیں تو اُس وقت بھی حضرت عمر نے حضرت علیؓ کو ہی اپنے بعد مدینہ کا گورنر مقرر کیا تھا حالانکہ آپ کو کئی ماہ کا سفر در پیش تھا.اس روایت سے ثابت ہے کہ حضرت علی اپنا عندیہ اتنا چھپاتے تھے کہ حضرت عمرؓ اُن کو اپنے پیچھے گورنر مقرر کر دیتے تھے اور اس بات سے ذرا بھی نہیں ڈرتے تھے کہ پیچھے یہ بغاوت کردیں گے گویا حق چھپانے کی عادت حضرت علیؓ میں انتہا درجہ کی پائی جاتی تھی.اگر یہی بات کسی شیعہ عالم کے متعلق کہی جائے تو غالبا وہ گالیاں دینے لگ جائے گا لیکن ایسی گندی بات حضرت علی کی طرف منسوب کرتے ہوئے وہ ذرا نہیں شرماتے اور در حقیقت وہ اس طرح حضرت عمرؓ اور حضرت ابو بکر کو گالیاں نہیں دیتے بلکہ خود حضرت علیؓ کو گالیاں دیتے ہیں.بہر حال جو شخص ابو بکر اور عمر کی غلامی کا جو اپنی گردن پر رکھ لیتا ہے اور ان کی بیعت میں شامل ہو جاتا ہے اور ان کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے اُس کی نسبت یہ کہنا کہ وہ دل میں خلافت کو اپنا حق سمجھتا تھا اور حق بھی لیاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ منشائے شریعت کے مطابق.اس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی بنتے ہیں کہ حضرت علی نَعُوذُ باللہ ظاہر کچھ کرتے تھے اور دل میں کچھ رکھتے تھے اور یہ بات حضرت علی کی نسبت امکانی طور پر بھی ذہن میں لانا گناہ ہے کجا یہ کہ اس کے وقوع پر یقین کیا جائے.پس اول تو حضرت علی کا طریق عمل خود اس خیال کو باطل کر رہا ہے دوسرے قذافلَة الْمُؤْمِنُون کی آیت بھی شیعوں کے اس خیال کی تردید کرتی ہے کیونکہ یہ آیت بتاتی ہے کہ جن مومنوں میں وہ صفات ہوں گی جن کا اللہ تعالیٰ نے اگلی آیات میں ذکر فرمایا ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے.کیونکہ افلہ کے معنی اپنے مقصد اور مدعا کو حاصل کر لینے اور اس میں کامیاب ہو جانے کے ہوتے ہیں.پس اگر حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کو شیعوں کے نظریہ کے مطابق خلافت کی خواہش تھی اور وہ خلیفہ بن بھی گئے تو صاف طور پر معلوم ہو گیا ہے کہ وہ کامل مومن تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے مذہبی اور سیاسی نظام کی باگ ڈور دے دی اور انہیں دنیا کا راہنما بنا دیا.یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے باوجو د حضرت علیؓ یہی چاہتے تھے کہ ابو بکر خلیفہ ہو جائیں میں نہ بنوں.سوخدا نے ان کی اس خواہش کو پورا کر دیا

Page 415

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۱ جلد سوم اور حضرت ابو بکر کامیاب ہو گئے لیکن بعد میں حضرت علی کے اتباع نے ہی ان کو گالیاں دینا شروع کر دیں.پس قد افلح الْمُؤْمِنُونَ کی آیت نے شیعوں کے ان دونوں خیالات کا رڈ کر دیا.اس خیال کا بھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کی اکثریت نَعُوذُ بالله منافق تھی اور صرف اڑ ہائی آدمی پکے مومن تھے.اور اس خیال کا بھی کہ خلافت کے اصل مستحق حضرت علی تھے حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان نے ان کا حق غصب کر لیا تھا.“ ( تفسیر کبیر جلد ۶ صفحه ۱۲۳،۱۲۲)

Page 416

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۲ جلد سوم انبیاءاور خلفاء کے دشمن ہمیشہ حریت کے نام پر ان کی مخالفت کرتے رہے ہیں سورة المؤمنون آیت ۲۶،۲۵ فَقَال المَلوُا الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ ما هذَا إِلَّا بَشَر مثْلُكُمْ يُرِيدُ أن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ ، وَلَوْ شَاءَ اللهُ لا نَزِّلَ مَلَيْكَةً ہے ما سمعنا بهذا في أبَائِنَا الأَوَّلِينَ إنْ هُوَ الَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةً فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّى حِينِ انبیاء اور خلفاء کے دشمنوں کے اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.’انبیاء اور خلفاء کے دشمن ہمیشہ حریت کے نام پر ان کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ کیا اپنے جیسے انسان کو ہم اپنا حاکم تسلیم کر لیں ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ شخص ہم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے یعنی ایسا خلیفہ جو ساری جماعت کی راہنمائی کرے اور جس کا حکم سب مانیں انسانیت اور حریت کے خلاف ہے.چنانچہ دیکھ لو جب اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کو آدم کی اطاعت اور اس کی کامل فرمانبرداری کا حکم دیا تو اُس وقت بھی حریت کے نام پر ابلیس آدم کے مقابلہ میں کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا آنا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍو خَلَقْتَهُ مِن طنین لے میں آدم کی اطاعت کس طرح کر سکتا ہوں؟ میں تو اس سے بہت بہتر اور افضل ہوں.میرے اندر حریت اور آزادی کی آگ پائی جاتی ہے اور آدم غلامانہ ذہنیت کا مالک ہے.وہ لوگ جو غلامی کو پسند کرتے ہیں اور اپنی حریت کی روح کو کچل دینا چاہتے ہیں وہ تو بے شک آدم کی اطاعت کر لیں مگر میں اس کی اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں.یہی دعویٰ جو آجکل انارکسٹ کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم دوسروں کی غلامی برداشت نہیں کر سکتے ہم بغاوت کریں گے اور اپنی آزادی کی روح کو برقرار رکھیں گے.

Page 417

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۳ جلد سوم چونکہ دنیا کا نظام اُس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک باہم مادہ تعاون نہ پایا جائے اور اعلیٰ حکام کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر نہ رکھا جائے اس لئے ایسے لوگ جو باغیانہ روح اپنے اندر رکھتے ہیں مذہبی نقطہ نگاہ سے بھی قابل نفرت سمجھے جاتے ہیں اور دنیوی حکومتیں بھی ایسے لوگوں کو گرفتار کر کے انہیں مختلف قسم کی سزائیں دیتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اس قسم کی حریت کا نعرہ بلند کرنے والوں نے اسلام کی شدید مخالفت کی جن میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اپنے رشتہ دار بھی شامل تھے.چنانچہ ابولہب جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک چا تھا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تبت يدا أبي لَهَبٍ و تب کے یعنی آگ کے شعلوں کا باپ ہلاک ہو گیا.اس جگہ اُسے آگ کے شعلوں کا باپ اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ وہ ناری طبیعت رکھنے والے لوگوں کا سردار تھا اور وہ اور اس کے ساتھی اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیلئے تیار نہیں ہوتے تھے کہ آپ کو مانا تو انہیں اپنی سرداری چھوڑ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اختیار کرنی پڑے گی اور یہ چیز ان کے لئے ناقابل برداشت تھی.حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا.نوح علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی تو حید کی تعلیم پیش کی تو لوگوں نے اُس کو ماننے سے انکار کر دیا اور انہوں نے دوسروں کو بھی یہ کہہ کر بہکانا شروع کر دیا کہ یہ تو تمہارے جیسا ایک انسان ہے اس کے اندر کون سی ایسی خصوصیت پائی جاتی ہے جس کی بناء پر اس کی اطاعت کی جائے.اس نے جو یہ ساری قوم کے خلاف ایک نئی آواز بلند کرنا شروع کر دی ہے تو اس کا مقصد محض اتنا ہے کہ اس کے نتیجہ میں کچھ لوگ اس کے گرد جمع ہو جائیں اور اِس کا جتھہ مضبوط ہو جائے اور یہ ہم پر کرنے لگ جائے.مگر ہم اس کو کبھی برداشت نہیں کریں گے ہم مٹ جائیں گے مگر اپنی حریت اور آزادی میں کوئی فرق نہیں آنے دیں گے.پھر انہوں نے اس سے بھی آگے قدم بڑھایا اور کہا کہ اگر آسمان سے فرشتے ہم پر حاکم بنا کر بھیجے جاتے تو ہم مان بھی لیتے لیکن انسان نبی یا انسان خلیفہ کو ہم ماننے کیلئے تیار نہیں کیونکہ اس کو ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں.یہ ایک عجیب بات ہے کہ باوجود اس کے کہ شروع سے ہی خدا تعالیٰ کے انبیا ء خدائی تو حید کا رحكوم

Page 418

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۴ جلد سوم وعظ کرتے چلے آئے ہیں ان کے دشمنوں کا ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ ہدایت کے لئے انسان سے بالا کوئی وجود آنا چاہئے لیکن باوجود اس اعتراض کے خدا ہمیشہ انسانوں کو ہی لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجتا رہا کیونکہ اگر رسول کسی غیر جنس میں سے ہو تو وہ بنی نوع انسان کے لئے نمونہ نہیں بن سکتا.جس طرح ایک انسان شیر کی نقل نہیں کر سکتا اور نہ شیر انسان کی نقل کر سکتا ہے اور یا پھر ولو شاء الله لانْزِّلَ مَلَيْكَةٌ سے کے ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اس کے ساتھ فرشتے کیوں نہیں اُترے کہ ان کو دیکھ کر ہم سمجھ جاتے کہ یہ سچا ہے.اس میں ان کی جہالت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انہوں نے پہلے لوگوں سے یہ سن کر کہ نبیوں پر فرشتے اُترا کرتے تھے یہ سمجھ لیا کہ وہ دوسروں کو بھی نظر آتے تھے.چنانچہ انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دینا چاہتا تو جس طرح پہلے لوگوں کے ساتھ فرشتے آیا کرتے تھے اسی طرح اس کے ساتھ بھی فرشتے اُترتے ایسا خاموشی سے آنے والا نبی تو ہم نے کبھی نہیں سنا.مگر ان مخالفتوں کے باوجود ہمیشہ انبیاء کی تعلیم ہی کامیاب ہوتی رہی ہے کیونکہ ماننے کے قابل وہی بات ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے.اور وہ جس وجود میں بھی انسان کو آواز دے اس کا فرض ہے کہ اس کو سنے اور غلط حربیت اور مادر پدر آزادی کو اپنے لئے لعنت کا طوق سمجھے.“ ( تفسیر کبیر جلد ۶ صفحه ۱۵۷،۱۵۶) اللهب : ٢ المؤمنون: ۲۵

Page 419

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۵ جلد سوم ہیں :.حضرت علی کی خلافت بلافصل اور قرآن کریم سورة المؤمنون آیت ۶۴ بَلْ قُلُوبُهُمْ في غمرة کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے دو ضمنی طور پر یہ آیت شیعوں کا بھی ر ڈ کرتی ہے.شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت علی کا حق مارا گیا تھا خلیفہ انہیں ہونا چاہئے تھا مگر حضرت ابو بکڑ نے ان سے خلافت کا حق غصب کر لیا.اللہ تعالیٰ ان آیات میں ان کے اس خیال کی بھی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جس انعام کے دینے کا ہم فیصلہ کرتے ہیں وہ کبھی نہیں مارا جاتا کیونکہ قرآن کریم میں جو بات کہی جاتی ہے وہ ضرور پوری ہو کر رہتی ہے.اگر قرآن کریم حضرت علی کی خلافت یا امامت کا فیصلہ کرتا تو کوئی طاقت ان سے یہ انعام چھین نہیں سکتی تھی.“ 66 ( تفسیر کبیر جلد ۶ صفحه ۱۹۹)

Page 420

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۶ جلد سوم ہیں:.خلافت وہ ریفلیکٹر ہے جو نبوت اور الوہیت کے نور کو دور تک پھیلا دیتا ہے سورۃ النور آیت ۳۶ الله نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْض کی تفسیر کرتے ہوئے حضور فرماتے اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض اور مقامات پر بھی بیان فرمایا ہے.چنانچہ سورۃ طہ میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں فرماتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نور کو آگ کی شکل میں دیکھا.اور فرمایا اني انست تارا میں نے ایک آگ دیکھی ہے.اس فقرہ سے صاف ظاہر ہے کہ دوسرے لوگ اس آگ کو نہیں دیکھ رہے تھے.پس انشت تارا میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی کے وجود میں ظاہر ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ظہور اس دنیا میں بطور نار کے ہوتا ہے یعنی کوئی تیز نظر والا ہی اسے دیکھ سکتا ہے لیکن جب وہ نبی کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے تو پھر وہ نور ہو جاتا ہے یعنی لیمپ کی طرح اس کی روشنی بہت تیز ہو جاتی ہے.پھر نبوت میں یہ نور آ کر مکمل تو ہو جاتا ہے لیکن اس کا زمانہ پھر بھی محدود ہوتا ہے کیونکہ نبی بھی موت سے محفوظ نہیں ہوتے.پس اس روشنی کو دُور تک پہنچانے کے لئے اور زیادہ دیر تک قائم رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ کوئی اور تدبیر کی جاتی سو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک ری فلیکٹر بنایا جس کا نام خلافت ہے.جس طرح طاقچہ تین طرف سے روشنی روک کرصرف اس جہت میں ڈالتا ہے جدھر اس کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح خلفاء نبی کی قوت قدسیہ کو جو اس کی جماعت میں ظاہر ہورہی ہوتی ہے ضائع ہونے سے بچا کر ایک خاص پروگرام کے ماتحت استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں جماعت کی طاقتیں پراگندہ نہیں

Page 421

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۷ جلد سوم ہوتیں اور تھوڑی سی طاقت سے بہت سے کام نکل آتے ہیں کیونکہ طاقت کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوتا.اگر خلافت نہ ہوتی تو بعض کاموں پر تو زیادہ طاقت خرچ ہو جاتی اور بعض کام توجہ کے بغیر رہ جاتے اور تفرقہ اور شقاق کی وجہ سے کسی نظام کے ماتحت جماعت کا رو پید اور اس کا علم اور اُس کا وقت خرچ نہ ہوتا.غرض خلافت کے ذریعہ سے الہی نور کو جو نبوت کے ذریعہ سے مکمل ہوتا ہے ممتد اور لمبا کر دیا جاتا ہے.چنانچہ دیکھ لو الہی نور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہو گیا بلکہ حضرت ابوبکر کی خلافت کے طاقچہ کے ذریعہ اس کی مدت کو سوا دو سال اور بڑھا دیا گیا.پھر حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد وہی نور خلافت عمر کے طاق کے اندر رکھ دیا گیا اور ساڑھے دس سال اس کی مدت کو اور بڑھا دیا گیا.پھر حضرت عمر کی وفات کے بعد وہی نور عثمانی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور بارہ سال اس کی مدت کو اور بڑھا دیا گیا.پھر حضرت عثمان کی وفات کے بعد وہی نور علوی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور چار سال نو ماہ اُس نور کو اور لمبا کر دیا گیا.گویا تمیں سال الہی نور خلافت کے ذریعہ لمبا ہو گیا.پھر ناقص خلافتوں کے ذریعہ سے یہی نور چار سو سال تک سپین اور بغداد میں ظاہر ہوتا رہا.غرض جس طرح ٹارچوں کے اندر ری فلیکٹر ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ بلب کی روشنی دور تک پھیل جاتی ہے یا چھوٹے چھوٹے ری فلیکٹر بعض دفعہ تھوڑا ساخم دے کر بنائے جاتے ہیں جیسے دیوار گیروں کے پیچھے ایک ٹین لگا ہوا ہوتا ہے جو دیوار گیر کا ری فلیکٹر کہلا تا ہے اور گو اس کے ذریعہ روشنی اتنی تیز نہیں ہوتی جتنی ٹارچ کے ری فلیکٹر کے ذریعہ تیز ہوتی ہے مگر پھر بھی دیوار گیر کی روشنی اس ری فلیکٹر کی وجہ سے پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہے.اسی طرح خلافت وہ ری فلیکٹ ہے جو نبوت اور الوہیت کے نور کولمبا کر دیتا ہے اور اسے دور تک پھیلا دیتا ہے.ہے......غرض اس آیت میں الوہیت، نبوت اور خلافت کا جوڑ بتایا گیا ہے.اگر کوئی کہے کہ آخر خلافت بھی تو ختم ہو جاتی ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ خلافت کا ختم ہونا یا نہ ہونا انسانوں کے اختیار میں ہے اگر وہ پاک رہیں اور خلافت کی بے قدری نہ کریں تو یہ طاقچہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال تک قائم رہ کر اُن کی طاقت کو بڑھانے کا موجب ہوسکتا ہے اور اگر وہ خود ہی

Page 422

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۸ جلد سوم اس انعام کو رڈ کر دیں تو اس کا علاج کسی شخص کے پاس نہیں.الله نور السموت والارض والی آیت کا مضمون مختصراً بتانے کے بعد اب میں یہ بھی بتا تا ہوں کہ کس طرح یہ تمام سورۃ اسی ایک مضمون کے گرد چکر لگا رہی ہے.اس سورۃ کو اللہ تعالیٰ نے بدکاری اور بدکاری کے الزامات لگانے والوں کے ذکر سے شروع کیا ہے اور اس کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام لگا تھا اُس کا ذکر کیا ہے.پھر اور بہت سی باتیں اسی کے ساتھ تعلق رکھنے والی بیان فرماتا ہے اور مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ انہیں ایسے مواقع پر کن کن باتوں پر عمل کرنا چاہئے.پھر وہ ذرائع بیان کرتا ہے جن پر عمل کرنے سے بدکاری دنیا سے مٹ سکتی ہے.یہ تمام مضامین اللہ تعالیٰ نے پہلے، دوسرے اور تیسرے رکوع میں بیان فرمائے ہیں.کسی جگہ الزام لگانے والوں کے متعلق سزا کا ذکر ہے، کسی جگہ الزامات کی تحقیق کے طریق کا ذکر ہے، کسی جگہ شرعی ثبوت لانے کا ذکر ہے، کسی جگہ ایسے الزامات لگنے کی وجوہ کا ذکر ہے، کسی جگہ ان دروازوں کا ذکر ہے جن سے گناہ پیدا ہوتا ہے.غرض تمام آیتوں میں ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے مگر اس کے معاً بعد فرماتا ہے اللهُ نُورُ السّمواتِ وَالأَرْضِ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے.اب انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اس کا پہلے رکوعوں سے کیا تعلق ہے؟ ایک ایسا مفسر جو یہ خیال کرتا ہے کہ قرآن کریم میں کوئی ترتیب نہیں ، وہ نَعُوذُ بالله ایک بے ربط کلام ہے، اس کی آیتیں اسی طرح متفرق مضامین پر مشتمل ہیں جس طرح دانے زمین پر گرائے جائیں تو کوئی کسی جگہ جا پڑتا ہے اور کوئی کسی جگہ تو وہ کہہ دے گا کہ اس میں کیا حرج ہے پہلے وہ مضمون بیان کیا گیا تھا اور اب یہ مضمون شروع کر دیا گیا ہے.مگر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم سے واقف ہے جو جانتا ہے کہ قرآن کریم کا ہر لفظ ایک ترتیب رکھتا ہے وہ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ پہلے تو بد کاری کے الزامات اور ان کو دور کرنے کا ذکر تھا اور اس کے معاً بعد یہ ذکر شروع کر دیا گیا ہے کہ الله نور السموت والارض ان دونوں کا آپس میں جوڑ کیا ہوا ؟ پھر انسان اور زیادہ حیران ہو جاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ پانچویں رکوع میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللهُ نُورُ السّموت والارض اور اس سے دو رکوع بعد یعنی

Page 423

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۹ جلد سوم ساتویں رکوع میں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر شروع کر دیا ہے کہ وعد الله الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وعَمِلُوا الشيختِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ بجالائے بیہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.گویا پہلے تو زنا کے الزامات کا ذکر کیا پھر حضرت عائشہ کا واقعہ بیان کیا پھر ان الزامات کے ازالہ کے طریقوں کا ذکر کیا پھر اللهُ نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ کا مضمون بیان کیا اور پھر کہہ دیا کہ میرا وعدہ کہ جو مؤمن ہوں گے انہیں میں اس اُمت میں اسی طرح خلیفہ بناؤں گا جس طرح پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے دین کو دنیا میں قائم کروں گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دوں گا وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اُن خلفاء کا منکر ہو گا وہ فاسق ہوگا.پس لازماً یہ سوال ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پہلے زنا کے الزامات کا ذکر ہے پھر اللهُ نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ کا ذکر کیا اور پھر خلافت کا ذکر کر دیا.ان تینوں باتوں کا آپس میں جوڑ ہونا چاہئے ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ قرآن کریم نَعُوذُ بِاللهِ بے جوڑ باتوں کا مجموعہ ہے اور اس کے مضامین میں ایک عالم اور حکیم ہستی والا ربط اور رشتہ نہیں ہے.اس جگہ ضمنی طور پر یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ جہاں دوسروں پر الزام لگانے والوں کا ذکر ہے وہاں الزام لگانے والوں کے متعلق فرمایا ہے کہ والَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِارْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُ وَهُمْ ثَمُنِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوْالَهُمْ شَهَادَةً ابداء واولي هُمُ الفيسقون سے کہ وہ لوگ جو بے گناہ عورتوں پر الزام لگاتے ہیں اور پھر ایک موقع کے چار گواہ نہیں لاتے تو تم ان کو ۸۰ کوڑے مارو اور تم اُن کی موت تک ان کو جھوٹا سمجھو اور ان کی شہادت کو کبھی قبول نہ کرو واوليكَ هُمُ الْفَسِقُونَ اور یہی وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے نزدیک فاسق ہیں.پھر اسی سورۃ میں جہاں خلفاء کا ذکر کیا وہاں بھی یہی الفاظ رکھے اور فرمایا ومن كفر بعد ذلك فأولي هُمُ الفيسقون ، جو شخص خلفاء کا انکار کرے وہ فاسق ہے.اب جو ہ

Page 424

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۰ جلد سوم الفاظ زنا کا الزام لگانے والوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے رکھے تھے اور جو نام ان کا تجویز کیا تھا وہی نام خدا تعالیٰ نے خلافت کے منکرین کا رکھا اور قریباً اسی قسم کے الفاظ اس جگہ استعمال کئے ، وہاں یہ بھی فرمایا تھا کہ جو لوگ بدکاری کا الزام لگاتے اور پھر چار گواہ ایک موقع کے نہیں لاتے انہیں ۸۰ کوڑے مارو ، انہیں ساری عمر جھوٹا سمجھو اور سمجھ لو کہ یہ فاسق لوگ ہے اور یہاں بھی یہ فرمایا کہ جو شخص خلفاء کا انکار کرتا ہے سمجھ لو کہ وہ فاسق ہے.غرض جو شخص قرآن کریم کو ایک حکیم ہستی کی کتاب سمجھتا ہے اور اس کے اعلیٰ درجہ کے با ربط اور ہم رشتہ مضمونوں کے کمالات دیکھنے کا اسے موقع ملا ہے اُس کے دل میں لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تینوں باتوں کا آپس میں جوڑ کیا ہے ؟ اس مشکل کو حل کرنے کیلئے اگر اس مضمون پر غور کیا جائے جو میں نے اوپر بتایا ہے اور جو یہ ہے کہ الله نور السموت والارض الوہیت ، نبوت اور خلافت کے تعلق پر روشنی ڈالی گئی ہے تو آخری دو مضمونوں کا تعلق پہلے دو مضامین سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کیونکہ اللهُ نُورُ السَّموت والارض میں خلافت کا اصولی ذکر تھا اور بتایا گیا تھا کہ خلافت کا وجود بھی نبوت کی طرح ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے جلالِ الہی کے ظہور کے زمانہ کو ممتد کیا جاتا ہے اور الہی نور کو ایک لمبے عرصہ تک دنیا کے فائدے کیلئے محفوظ رکر دیا جاتا ہے.اس مضمون کے معلوم ہونے پر طبعا قرآن کریم پڑھنے والوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہونا تھا کہ خدا کرے ایسی نعمت ہم کو بھی ملے سو قعد اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ کی آیات میں اس خواہش کو پورا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرما دیا اور بتا دیا کہ یہ نعمت تم کو بھی اسی طرح ملے گی جس طرح پہلے انبیاء کی جماعتوں کو ملی تھی.غرض ان بیان کردہ معنوں کی رو سے الله نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ کی آیت اور اس کی متعلقہ آیتوں کا وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قبرِیم کی آیت اور ان کی متعلقہ آیتوں سے ایک ایسا لطیف اور طبعی جوڑ قائم ہو جاتا ہے جو دل کو لذت اور سرور سے بھر دیتا ہے اور ایمان کی زیادتی کا موجب ہوتا ہے لیکن یہ سوال پھر بھی قائم رہتا ہے کہ اس مضمون کا پہلی آیتوں سے.

Page 425

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۱ جلد سوم کیا تعلق ہوا یعنی سورۃ نور کے پانچویں رکوع کا اس کے نویں رکوع تک تو خلافت سے جوڑ ہوالیکن جو پہلے چار رکوع ہیں جن میں بدکاری اور بد کاری کے الزامات کا ذکر آتا ہے ان کا اس سے کیا تعلق ہے جب تک یہ جوڑ بھی نہ ملے اُس وقت تک قرآن کریم کی ترتیب پورے طور پر ثابت نہیں ہوسکتی.اب میں یہ بتا تا ہوں کہ پہلے چار رکوعوں کا باقی پانچ رکوعوں سے جن میں خلافت کا ذکر آتا ہے کیا تعلق ہے.یہ بات ظاہر ہے کہ پہلے چار رکوعوں میں بدکاری کے الزامات کا ذکر اصل مقصود ہے اور ان میں خصوصاً اُس الزام کو رد کرنا مقصود ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تھا.اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام لگایا گیا تو اس کی اصل غرض کیا تھی اُس کا سبب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ان لوگوں کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی دشمنی تھی.ایک گھر میں بیٹھی ہوئی عورت سے جس کا نہ سیاسیات سے کوئی تعلق ہو، نہ قضاء سے، نہ عہدوں سے، نہ اموال کی تقسیم سے ، نہ لڑائیوں سے ، نہ مخالف اقوام پر چڑھائیوں سے ، نہ حکومت سے نہ اقتصادیات سے، اُس سے کسی نے کیا بغض رکھنا ہے.پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے براہ راست بغض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی.اس الزام کے بارہ میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ کہ نَعُوذُ بِاللهِ یہ الزام سچا ہو جس کو کوئی مومن ایک لمحہ کے لئے بھی تسلیم نہیں کر سکتا خصوصاً اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر سے اس گندے خیال کورڈ کیا ہے.اور دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت عائشہ پر الزام بعض دوسرے وجودوں کو نقصان پہنچانے کے لئے لگایا گیا ہو.اب ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بدنام کرنا منافقوں کے لئے یا ان کے سرداروں کے لئے فائدہ بخش ہو سکتا تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافق اپنی دشمنی نکال سکتے تھے.ایک ادنی تدبر سے بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جا سکتی تھی.ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ایک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے.کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی.یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی لحاظ سے یا دشمنیوں کے لحاظ سے بعض لوگوں کے

Page 426

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۲ جلد سوم سے لئے فائدہ بخش ہو سکتی تھی یا بعض لوگوں کی اغراض ان کو بد نام کرنے کے ساتھ وابستہ تھیں ور نہ خودحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بدنامی سے کسی شخص کو کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی تھی.زیادہ سے زیادہ آپ سے سوتوں کا تعلق ہو سکتا تھا اور یہ خیال ہوسکتا تھا کہ شاید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے حضرت عائشہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں گرانے اور اپنی نیک نامی چاہنے کے لئے اس معاملہ میں کوئی حصہ لیا ہو.مگر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے اس معاملہ میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے میں جس کو اپنا رقیب اور مد مقابل خیال کرتی تھی وہ حضرت زینب بنت جحش تھیں ان کے علاوہ اور کسی بیوی کو میں اپنا رقیب خیال نہیں کرتی تھی مگر عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں زینب کے اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتی کہ جب مجھ پر الزام لگایا گیا تو سب سے زیادہ زور سے اگر کوئی اس الزام کی تردید کیا کرتی تھیں تو وہ حضرت زینب ہی تھیں.پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اگر کسی کو دشمنی ہو سکتی تھی تو اُن کی سوتوں کو ہی ہو سکتی تھی اور اگر وہ چاہتیں تو اس میں حصہ لے سکتی تھیں تا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں سے گر جائیں اور ان کی عزت بڑھ جائے مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں دیا اور اگر کسی سے پوچھا گیا تو اُس نے حضرت عائشہ کی تعریف ہی کی.غرض مردوں کی عورتوں سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی.پس آپ پر الزام یا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کی وجہ سے لگایا گیا یا پھر حضرت بو بکر سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی وہ اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں.وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکر ہی ہے پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے اُنہوں نے حضرت عائشہ پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے گر جائیں اور ان کے گر جانے کی وجہ سے حضرت ابو بکر -

Page 427

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۳ جلد سوم کو مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے اور مسلمان آپ سے بدظن ہو کر اس عقیدت کو ترک کر دیں جو انہیں آپ سے تھی اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکڑ کے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہو جائے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عائشہ پر الزام لگنے کے واقعہ کے بعد خلافت کا بھی ذکر کیا.حدیثوں میں صریح طور پر ذکر آتا ہے کہ صحابہؓ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکر کا ہی مقام ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت عائشہ سے کہا.اے عائشہ ! میں چاہتا تھا کہ ابو بکر کو اپنے بعد نا مزد کر دوں مگر میں جانتا ہوں کہ اللہ اور مومن اس کے سوا اور کسی پر راضی نہیں ہوں گے لے اس لئے میں کچھ نہیں کہتا.غرض صحابہ یہ یقینی طور پر سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان میں اگر کسی کا درجہ ہے تو ابوبکر کا ہے اور وہی آپ کا خلیفہ بننے کے اہل ہیں.مکی زندگی تو ایسی تھی کہ اس میں حکومت اور اس کے نظام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد حکومت قائم ہوگئی اور طبعا منافقوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہونے لگا کہ آپ کے بعد کوئی خلیفہ ہو کر نظام اسلامی لمبا نہ ہو جائے اور ہم ہمیشہ کے لئے تباہ نہ ہو جائیں کیونکہ آپ کے مدینہ تشریف لانے کی وجہ سے ان کی کئی امیدیں باطل ہو گئی تھیں.تاریخوں سے ثابت ہے کہ مدینہ میں عربوں کے دو قبیلے اوس اور خزرج تھے اور یہ ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے اور قتل و خون ریزی کا بازار گرم رہتا تھا جب انہوں نے دیکھا کہ اس لڑائی کے نتیجہ میں ہمارے قبائل کا رُعب مٹتا چلا جاتا ہے تو انہوں نے آپس میں صلح کی تجویز کی اور قرار دیا کہ ہم ایک دوسرے سے اتحاد کر لیں اور کسی ایک شخص کو اپنا با دشاہ بنالیں چنانچہ اوس اور خزرج نے آپس میں صلح کر لی اور فیصلہ ہوا کہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کو مدینہ کا بادشاہ بنا دیا جائے.اس فیصلہ کے بعد انہوں نے تیاری بھی شروع کر دی اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کے لئے تاج بننے کا حکم بھی دے دیا گیا.اتنے میں مدینہ کے کچھ حاجی مکہ سے واپس آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ آخری زمانہ کا نبی مکہ میں ظاہر ہو گیا

Page 428

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۴ جلد سوم ہے اور ہم اُس کی بیعت کر آئے ہیں.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کے متعلق چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں اور چند دنوں کے بعد اور لوگوں نے بھی مکہ جا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لی.اور پھر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ہماری تربیت اور تبلیغ کے لئے کوئی معلم ہمارے ساتھ بھیجیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو مبلغ بنا کر بھیجا اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے.اُنہی دنوں چونکہ مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو بہت تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں اس لئے اہل مدینہ نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مدینہ تشریف لے آئیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سمیت مدینہ ہجرت کر کے آگئے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کیلئے جو تاج تیار کروایا جا رہا تھا وہ دھرے کا دھرا رہ گیا.کیونکہ جب اُنہیں دونوں جہانوں کا بادشاہ مل گیا تو انہیں کسی اور بادشاہ کی کیا ضرورت تھی.عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ دیکھا کہ اُس کی بادشاہت کے تمام امکانات جاتے رہے ہیں تو اُسے سخت غصہ آیا اور گو وہ بظاہر مسلمانوں میں مل گیا مگر ہمیشہ اسلام میں رخنے ڈالتا رہتا تھا اور چونکہ اب وہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا اس لئے اُس کے دل میں اگر کوئی خواہش پیدا ہو سکتی تھی تو یہی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں تو میں مدینہ کا بادشاہ بنوں.لیکن خدا تعالیٰ نے اُس کے اس ارادہ میں بھی اسے زک دی کیونکہ اس کا اپنا بیٹا بہت مخلص تھا جس کے معنی یہ تھے کہ اگر وہ بادشاہ ہو بھی جاتا تو اس کے بعد حکومت پھر اسلام کے پاس آجاتی.اس کے علاوہ خدا تعالیٰ نے اُسے اس رنگ میں زک دی کہ مسلمانوں میں جو نہی ایک نیا نظام قائم ہوا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دیئے کہ اسلامی حکومت کا کیا طریق ہے؟ آپ کے بعد اسلام کا کیا بنے گا ؟ اور اس بارہ میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے ؟ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اسے خوف پیدا ہونے لگا کہ اب اسلام کی حکومت ایسے رنگ میں قائم ہوگی کہ اس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور وہ ان حالات کو روکنا چاہتا تھا.چنانچہ اس کیلئے جب اس نے غور کیا تو اسے نظر آیا کہ اگر اسلامی حکومت کو اسلامی اصول پر کوئی شخص قائم کر سکتا ہے تو وہ ابو بکر ہے اور

Page 429

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۵ جلد سوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی نظریں انہی کی طرف اُٹھتی ہیں اور وہ اسے تمام لوگوں سے معزز سمجھتے ہیں.پس اس نے اپنی خیر اسی میں دیکھی کہ ان کو بدنام کر دیا جائے اور لوگوں کی نظروں سے گرا دیا جائے بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے بھی آپ کو گرا دیا جائے اور اس بد نیتی کو پورا کرنے کا موقع اسے حضرت عائشہ کے ایک جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپ پر ایک نہایت گندا الزام لگا دیا جو قرآن کریم میں تو اشارۃ بیان کیا گیا ہے لیکن حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہے.عبداللہ بن ابی ابن سلول کی اس سے غرض یہ تھی کہ اس طرح حضرت ابو بکر ان لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہو جائیں گے اور آپ کے تعلقات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خراب ہو جائیں گے اور اس نظام کے قائم ہونے میں رخنہ پڑ جائے گا جس کا قائم.ہونا اسے یقینی نظر آتا تھا اور جس کے قائم ہونے سے اس کی امیدیں برباد ہو جاتی تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکومت کے خواب صرف عبد اللہ بن ابی ابن سلول ہی نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ بعض اور لوگ بھی اس مرض میں مبتلا تھے.چنانچہ مسیلمہ کذاب کی نسبت بھی حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ میرے ساتھ ایک لاکھ سپاہی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنی جماعت کے ساتھ آپ کی بیعت کرلوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا اسلام میں چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں اگر تم پر حق کھل گیا ہے تو تم بیعت کر لو.وہ کہنے لگا میں بیعت کرنے کیلئے تو تیار ہوں مگر میری ایک شرط ہے.آپ نے فرمایا وہ کیا ؟ وہ کہنے لگا میری شرط یہ ہے کہ آپ تو عرب کے بادشاہ بن ہی گئے ہیں لیکن چونکہ میری قوم عرب کی سب سے زیادہ زبر دست قوم ہے اس لئے میں اس شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں کہ آپ کے بعد میں عرب کا بادشاہ ہوں گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اُس وقت کھجور کی ایک شاخ تھی آپ نے مسیلمہ کذاب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم تو یہ کہتے ہو کہ محمد رسول اللہ اگر اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ مقرر کر دیں تو میں ان کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن میں تو خدا کے حکم کے خلاف یہ کھجور کی شاخ بھی تم کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوں.اس پر وہ ناراض ہو کر چلا گیا اور اپنی

Page 430

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۶ جلد سوم تمام قوم سمیت مخالفت پر آمادہ ہو گیا.تو مسیلمہ کذاب نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بادشاہت ملنے کی آرزو کی تھی.یہی حال عبد اللہ بن ابی ابن سلول کا تھا.چونکہ منافق ہمیشہ اپنی موت کو ہمیشہ دور سمجھتا ہے اور دوسروں کی موت کے متعلق اندازے لگاتا رہتا ہے اس لئے عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی اپنی موت کو دور سمجھتا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا.وہ یہ قیاس آرائیاں کرتا رہتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں تو میں عرب کا بادشاہ بنوں لیکن اب اس نے دیکھا کہ ابو بکر کی نیکی اور تقویٰ اور بڑائی مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو ابو بکر آپ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فتویٰ پوچھنے کا موقع نہیں ملتا تو مسلمان ابو بکڑ سے فتویٰ پوچھتے ہیں.یہ دیکھ کر عبد اللہ بن ابی ابن سلول کو جو آئندہ کی بادشاہت ملنے کی امیدیں لگائے بیٹھا تھا سخت فکر لگا اور اُس نے چاہا کہ اس کا ازالہ کرے.چنانچہ اسی امر کا ازالہ کرنے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شہرت اور آپ کی عظمت کو مسلمانوں کی نگاہوں سے گرانے کے لئے اُس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہ پر الزام لگنے کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ سے نفرت پیدا ہوا اور حضرت عائشہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نفرت کا یہ نتیجہ نکلے کہ حضرت ابو بکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی نگاہوں میں جو اعزاز حاصل ہے وہ کم ہو جائے اور ان کے آئندہ خلیفہ بننے کا کوئی امکان نہ رہے.چنانچہ اسی امر کا اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ جَاءُو بِالافْكِ عُصْبَةً مِّنكُمْ کے کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگایا ہے وہ تم لوگوں میں سے ہی مسلمان کہلانے والا ایک جتھا ہے.مگر فرماتا ہے لا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُمْ، بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ^ تم یہ خیال مت کرو کہ یہ الزام کوئی بُرا نتیجہ پیدا کرے گا بلکہ یہ الزام بھی تمہاری بہتری اور ترقی کا موجب ہو جائے گا.چنانچہ لواب ہم خلافت کے متعلق اصول بھی بیان کر دیتے ہیں اور تم 스

Page 431

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۷ جلد سوم کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ یہ منافق زور مار کر دیکھ لیں یہ ناکام رہیں گے اور ہم خلافت کو قائم کر کے چھوڑیں گے کیونکہ خلافت نبوت کا ایک جزو ہے اور الہی نور کے محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ ہے.پھر فرماتا ہے لِكُلِّ امْرِى مِّنْهُمْ ما اكتسب من الاثم ان الزام لگانے والوں میں سے جیسی جیسی کسی نے کمائی ہے ویسا ہی عذاب اسے مل جائے گا.چنانچہ جو لوگ الزام لگانے کی سازش میں شریک تھے انہیں اتنی اسی کوڑے لگائے گئے.پھر فرمایا و الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَةُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيم نا مگر ان میں سے ایک شخص جو سب سے بڑا شرارتی ہے اور جو اس تمام فتنہ کا بانی ہے یعنی عبد اللہ بن ابی ابن سلول اسے نہ صرف ہم کوڑے لگوائیں گے بلکہ خود بھی عذاب دیں گے.چنانچہ اس وعید کے مطابق اسے کوڑوں کی سزا بھی دی گئی." اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اسے عذاب مل گیا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ہلاک ہو گیا اور حضرت ابو بکر آپ کے بعد خلیفہ ہو گئے.اِس طرح یہ عذاب اسے اس رنگ میں بھی ملا کہ غزوہ بنو مصطلق میں ایک معمولی سی بات پر جب انصار اور مہاجرین کا آپس میں جھگڑا ہو گیا تو عبد اللہ بن ابی ابن سلول جو ہمیشہ ایسے موقعوں کی تاک میں رہتا تھا اُس نے انصار کو بھڑکاتے ہوئے کہا کہ اے انصار ! یہ تمہاری اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے.تم نے مہاجرین کو پناہ دی اور اب وہ تمہارے سر چڑھ گئے ہیں تم مجھے مدینہ پہنچنے دو وہاں کا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی وہ خود مدینہ کے سب سے زیادہ ذلیل آدمی یعنی ( نَعُوذُ بالله ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دے گا.عبد اللہ بن ابی ابن سلول کا بیٹا ایک نہایت ہی مخلص نو جوان تھا اس نے یہ الفاظ سنے تو وہ بے تاب ہو گیا اور بھاگتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور کہنے لگا يَارَسُولَ الله میرے باپ نے ایسی بات کہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان الفاظ کی سزا موت کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتی.میں صرف اتنی درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دیں تو یہ حکم کسی اور کو نہ دیں بلکہ خود مجھے دیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی اور شخص اسے قتل کر دے تو بعد میں کسی وقت اُسے دیکھ کر مجھے جوش آجائے اور میں اُس پر حملہ کر بیٹھوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہم اسے کوئی سزا نہیں دینا چاہتے.ہم

Page 432

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۸ جلد سوم تمہارے باپ سے نرمی اور احسان کا ہی معاملہ کریں گے.اب گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزا نہ دی مگر اس کے بیٹے کا دل اس غم سے کباب ہو ر ہا تھا کہ میرے باپ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسے گندے اور نا پاک الفاظ کیوں استعمال کئے اوراس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے باپ سے اس کا انتقام لے گا.چنانچہ جب اسلامی لشکر مدینہ کے قریب پہنچا تو اُس کا بیٹا جلدی سے آگے بڑھا اور مدینہ کے دروازہ پر تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑ ہو گیا اور اپنے باپ سے کہنے لگا کہ خدا کی قسم! میں تمہیں اُس وقت تک شہر میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم اس بات کا اقرار نہ کرو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے سب سے زیادہ معزز شخص ہیں اور میں مدینہ کا ذلیل ترین انسان ہوں.اور اگر تو نے اس بات کا اقرار نہ کیا تو میں اسی تلوار سے تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا.عبد اللہ بن ابی ابن سلول نے اپنے بیٹے کی زبان سے یہ بات سنی تو وہ گھبرا گیا اور اس نے مدینہ کے دروازہ میں کھڑے ہو کر کہا کہ اے لوگو! سن لو میں اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ میں مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل انسان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے سب سے زیادہ معزز انسان ہیں.جب اس نے یہ بات کہی تب اس کے بیٹے نے اس کا راستہ چھوڑا اور اُسے شہر میں داخل ہونے دیا.غرض یہ بھی ایک عذاب تھا جو خدا تعالیٰ نے خوداس کے بیٹے کے ذریعہ اُسے دیا.اس الزام کا ذکر کرنے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کی اس شرارت کو بیان کرنے کے بعد کہ اس نے خلافت میں رخنہ اندازی کرنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا یا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اللہ نور السمواتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مصباح ، المِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ " اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے مگر اُس کے نور کو مکمل کرنے کا ذریعہ نبوت ہے اور اُس کے بعد اس کو دنیا میں پھیلانے اور اسے زیادہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ خلافت ہی ہے.گویا نبوت ایک چمنی ہے جو اس کو آندھیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور خلافت ایک ریفلیکٹر ہے جو اُس کے نور کو دور تک پھیلاتا ہے.پس ان منافقوں کی تدبیروں کی وجہ

Page 433

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۹ جلد سوم سے ہم اس عظیم الشان ذریعہ کو تباہ نہیں ہونے دیں گے بلکہ اپنے نور کو دیر تک دنیا میں قائم رکھنے کے لئے اس سامان کو مہیا کریں گے.اس بات کا مزید ثبوت کہ اس آیت میں جس نور کا ذکر ہے وہ نورِ خلافت ہی ہے اس سے اگلی آیتوں میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اِس سوال کا جواب دیتا ہے کہ یہ نور کہاں ہے؟ فرماتا ہے في بيوت شا یہ نور خلافت چند گھروں میں پایا جاتا ہے.نور نبوت تو صرف ایک گھر میں تھا مگر نورِ خلافت ایک گھر میں نہیں بلکہ في بيوت چند گھروں میں ہے.پھر فرماتا ہے اذن الله ان ترفع " وہ گھر ابھی چھوٹے سمجھے جاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ ان گھروں کو اونچا کرے کیونکہ نبوت کے بعد خلافت اُس خاندان کو بھی اونچا کر دیتی ہے جس میں سے کوئی شخص منصب خلافت حاصل کرتا ہے.اس آیت نے بتا دیا کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کا مقصد نورِ خلافت کو بیان کرنا ہے اور یہ بتا نا مد نظر ہے کہ نورِ خلافت، نور نبوت اور نورالوہیت کے ساتھ گلی طور پر وابستہ ہے اور اس کو مٹانا دوسرے دونوں نوروں کو مٹانا ہے پس ہم اسے مٹنے نہیں دیں گے اور اس نور کو ہم کئی گھروں کے ذریعہ سے ظاہر کریں گے تا نور نبوت کا زمانہ اور اس کے ذریعہ سے نور الہیہ کے ظہور کا زمانہ لمبا ہو جائے.چنانچہ خلافت پہلے حضرت ابوبکر کے پاس گئی پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئی پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئی.کیونکہ خدا نے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ ان بیوت کو اونچا کرے.تُرفع کے لفظ نے یہ بھی بتا دیا کہ الزام لگانے والوں کی اصل غرض یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو نیچا کر یں اور انہیں لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کریں مگر خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ان کو اونچا کرے.اور جب خدا انہیں عزت دینا چاہتا ہے تو پھر کسی کے الزام لگانے سے کیا بنتا ہے.اب دیکھوسورۃ نور کے شروع سے لے کر اس کے آخر تک کس طرح ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے.پہلے اس الزام کا ذکر کیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تھا اور چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے کی اصل غرض یہ تھی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کوڑ سوا کیا جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے جو تعلقات ہیں ان میں بگاڑ پیدا کیا جائے اور اس

Page 434

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۰ جلد سوم کے نتیجہ میں مسلمانوں کی نگاہ میں ان کی عزت کم ہو جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ خلیفہ نہ ہو سکیں کیونکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول یہ بھانپ گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی نگاہ اگر کسی پر اُٹھتی ہے تو وہ حضرت ابو بکر ہی ہے اور اگر ابوبکر کے ذریعہ سے خلافت قائم ہوگئی تو عبداللہ بن ابی ابن سلول کی بادشاہی کے خواب کبھی پورے نہیں ہوں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس الزام کے معاً بعد خلافت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ خلافت بادشاہت نہیں وہ تو نور الہی کے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اس لئے اس کا قیام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اس کا ضائع ہونا نور نبوت اور نو ر الوہیت کا ضائع ہوتا ہے.پس وہ اس نور کوضرور قائم کرے گا اور جسے چاہے گا خلیفہ بنائے گا بلکہ وہ وعدہ کرتا ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک نہیں بلکہ متعدد لوگوں کو خلافت پر قائم کر کے اس نور کے زمانہ کو لمبا کر دے گا.تم اگر الزام لگانا چاہتے ہو تو بے شک لگاؤ نہ تم خلافت کو مٹا سکتے ہو نہ ابو بکر کو خلافت سے محروم کر سکتے ہو کیونکہ خلافت ایک نور ہے جونو راللہ کے ظہور کا ایک ذریعہ ہے اس کو انسان اپنی تدبیروں سے کہاں مٹا سکتا ہے.دیکھو اس تشریح کے ساتھ سورۃ نور کی تمام آیتوں کا آپس میں کس طرح ربط قائم ہو جاتا ہے اور کس طرح پہلے چار رکوعوں کے مضمون کا اللہ نور السموات والارض اور اس کے بعد کی آیتوں کے ساتھ ربط قائم ہو جاتا ہے اور ساری سورۃ کے مطالب آئینہ کی طرح سامنے آجاتے ہیں.پس خلافت ایک الہی انعام ہے کوئی نہیں جو اس میں روک بن سکے.وہ خدا تعالیٰ کے نور کے قیام کا ایک ذریعہ ہے جو اس کو مٹانا چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو مٹانا چاہتا ہے.ہاں وہ ایک وعدہ ہے جو پورا تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن اس کے زمانہ کی لمبائی مؤمنوں کے اخلاص کے ساتھ وابستہ ہے.پھر فرماتا ہے لاشرقيّةٍ ولا غربية حل وہ نہ شرقی ہے نہ غربی.شرقی درخت اس کو کہتے ہیں جس پر سورج صرف مشرق کی طرف سے پڑتا ہو اور مغرب کی طرف سے کسی دیوار یا درختوں کی اوٹ کی وجہ سے نہ پڑتا ہو.اور غربی اس کو کہتے ہیں جس پر سورج صرف مغرب کی طرف سے پڑتا ہو مشرق کی طرف سے نہ پڑتا ہو.اس میں ایک بات تو یہ بتائی کہ اسلامی شریعت ایک عالمگیر تعلیم کی حامل ہے وہ نہ مشرقی لوگوں سے مخصوص ہے اور نہ مغربی لوگوں سے بلکہ ہر قوم اور ہر زمانہ کے لئے ہے اور تمام بنی نوع

Page 435

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۱ جلد سوم انسان کے لئے اس میں ترقیات کے دروازے کھلے ہیں.پس دنیا اسی صورت سے امن میں رہ سکتی ہے جب وہ قرآنی تعلیم پر عمل کرے.دوسرے اس میں اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ انتخاب خلافت میں مشرق و مغرب کا خیال نہیں رکھنا چاہئے بلکہ مسلمانوں میں سے جو شخص لائق ہو اس کو خلیفہ بنا نا چاہئے.يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيّ : وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارُ " پھر اس کا تیل ایسا بھڑ کنے والا 19 ہو جاتا ہے.۱۸ ہے کہ آگ کے بغیر بھی بھڑک سکتا ہے مگر اس کو آگ دکھا دی جائے تو نُورٌ عَلى نُورٍ.19.یعنی وہ تعلیم ایسی کامل ہے کہ فطرت صحیحہ اس کو قبول کرنے کیلئے خود ہی اس کی طرف دوڑتی ہے لیکن اگر خدا تعالی کا کوئی بادی بھی ظاہر ہو جائے اور الہام الہی کی آگ بھی اُسے چھو جائے تو پھر فطرت صحیحہ اس شریعت کے ساتھ مل کر اور نبی کی صحبت کی گرمی پا کر دنیا کو روشن کر دیتی ہے.مگر فرماتا ہے یہ نور انسانی سے نہیں ملتا بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے اور وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے فائدہ کیلئے ہمیشہ اپنے دین کی تفاصیل بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک بات کو خوب جانتا ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد ۶ صفحه ۳۲۰ تا ۳۳۱) النور: ۵۴ النور: ۵ السيرة الحلبية الجزء الثانى غزوة بني المصطلق صفحه ۵۹۶ مطبوعہ بیروت لبنان ۲۰۱۲ء مسلم کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل أبي بكرٍ صفحه ۱۰۵۱ حدیث نمبر ۶۱۸۱ مطبوعه ریاض ۲۰۰۰ء الطبعة الثانية بخارى كتاب المغازى باب قصة الأسود العنسی صفحہ ۷۴۳،۷۴۲ حدیث نمبر ۴۳۷۸ مطبوعہ رياض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية تا ١٠ النور : ۱۲ ال السيرة الحلبية الجزء الثاني غزوة بني المصطلق صفحه ۵۹۸ مطبوعہ بیروت لبنان ۲۰۱۲ء السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه ۱۰۸۱ تا ۱۰۸۳ مطبوعہ دمشق ۲۰۰۵ء ترمذی ابواب تفسیر القرآن باب سورة المنافقين صفری ۷۵۴، ۷۵۵ حدیث نمبر ۳۳۱۵ مطبوعه رياض ١٩٩٩ء الطبعة الاولى النور: ٣٦ ۱۶،۱۵ النور : ۳۷ ۱۷ تا ۱۹ النور : ٣٦

Page 436

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۲ جلد سوم آیت استخلاف کی تفسیر ص سورة النور آیت ۵۷،۵۶ وقدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصلحت ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا، يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ وَأَقِيمُوا الصلوة وأتُوا الزَّكوة و أطيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.ان آیات سے یہ مضمون شروع ہوتا ہے کہ اگر مسلمان قومی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے تو ان کو کیا انعام ملے گا.چنانچہ فرماتا ہے کہ تم میں سے جولوگ خلافت پر ایمان لائیں گے اور خلافت کے استحقاق کے مطابق عمل کریں گے اور ایسے اعمال بجالائیں گے جو انہیں خلافت کا مستحق بنا دیں اُن سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو اس نے خلیفہ بنایا اور ان کی خاطر ان کے دین کو جو اُس نے ان کے لئے پسند کیا ہے دنیا میں قائم کرے گا اور جب بھی ان پر خوف آئے گا اُس کو امن سے بدل دے گا اور ایسا ہوگا کہ وہ میری عبادت کرتے رہیں گے اور کسی کو میرا شریک قرار نہیں دیں گے.لیکن جو لوگ مسئلہ خلافت پر ایمان لانا چھوڑ دیں گے وہ اس انعام سے متمتع نہیں ہوں گے بلکہ اطاعت سے خارج سمجھے جائیں گے.اس آیت میں مسلمانوں کی قسمت کا آخری فیصلہ کیا گیا ہے اور ان سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ خلافت کے قائل رہے اور اس غرض کے لئے مناسب کوشش اور جد و جہد بھی کرتے رہے تو جس طرح پہلی قوموں میں خدا تعالیٰ نے خلافت قائم کی ہے اسی طرح ان

Page 437

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۳ جلد سوم کے اندر بھی خدا تعالیٰ خلافت کو قائم کر دے گا اور خلافت کے ذریعہ سے ان کو ان کے دین پر قائم فرمائے گا جو خدا نے ان کیلئے پسند کیا ہے اور اس دین کی جڑیں مضبوط کر دے گا اور خوف کے بعد امن کی حالت ان پر لے آئے گا جس کے نتیجہ میں وہ خدائے واحد کے پرستار بنے رہیں گے اور شرک نہیں کریں گے.مگر یا درکھنا چاہیے کہ یہ ایک وعدہ ہے پیشگوئی نہیں.اگر مسلمان ایمان پالخلافت پر قائم نہیں رہیں گے اور ان اعمال کو ترک کر دیں گے جو خلافت کے قیام کے لئے ضروری ہیں تو وہ اس انعام کے مستحق نہیں رہیں گے اور خدا تعالیٰ پر وہ یہ الزام نہیں دے سکیں گے کہ اس نے وعدہ پورا نہیں کیا.پھر خلافت کے ذکر کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے که واقيمُوا الصلوة وأتُوا الزَّكوة و أطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ.یعنی جب خلافت کا نظام جاری کیا جائے تو اُس وقت تمہارا فرض ہے کہ تم نماز میں قائم کرو اور زکوۃ دو اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو.گویا خلفاء کے ساتھ دین کی تمکین کر کے وہ اطاعت رسول کرنے والے ہی قرار پائیں گے.یہ وہی نکتہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ مَنْ أَطَاعَ اَمِیرِی فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَى أَمِيرِى فَقَدْ عَصَانِي ل یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.پس واقِيمُوا الصلوة وأتُوا الزَّعُوةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونٌ فرما کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اُس وقت رسول کی اطاعت اسی رنگ میں ہوگی کہ اشاعت و تمکین دین کے لئے نمازیں قائم کی جائیں ، زکوتیں دی جائیں اور خلفاء کی پورے طور پر اطاعت کی جائے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہوسکتی اور زکوۃ کی ادائیگی بھی خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی.چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زکوۃ کی وصولی کا باقاعدہ انتظام تھا پھر جب آپ کی وفات ہو گئی اور حضرت ابو بکر خلیفہ ہو گئے تو اہل عرب کے کثیر حصہ نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ حکم صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے

Page 438

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۴ جلد سوم مخصوص تھا بعد کے خلفاء کے لئے نہیں مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کے اس مطالبہ کو تسلیم نہ کیا بلکہ فرمایا کہ اگر یہ لوگ اونٹ کے گھٹنے کو باندھنے والی رسی بھی زکوۃ دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ جاری رکھوں گا اور اُس وقت تک بس نہیں کروں گا جب تک ان سے اُسی رنگ میں زکوۃ وصول نہ کرلوں جس رنگ میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ادا کیا کرتے تھے سے چنانچہ آپ اس مہم میں کامیاب ہوئے اور زکوۃ کا نظام پھر جاری ہو گیا جو بعد کے خلفاء کے زمانوں میں بھی جاری رہا.مگر جب سے خلافت جاتی رہی مسلمانوں میں زکوۃ کی وصولی کا بھی کوئی انتظام نہ رہا اور یہی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا تھا کہ اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو مسلمان زکوۃ کے حکم پر عمل ہی نہیں کر سکتے.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوۃ جیسا کہ اسلامی تعلیم کا منشاء ہے امراء سے لی جاتی ہے اور ایک نظام کے ماتحت غرباء کی ضروریات پر خرچ کی جاتی ہے.اب ایسا وہیں ہوسکتا ہے جہاں ایک باقاعدہ نظام ہو اکیلا آدمی اگر چند غرباء میں زکوۃ کا روپیہ تقسیم بھی کر دے تو اس کے وہ خوشگوار نتائج کہاں نکل سکتے ہیں جو اس صورت میں نکل سکتے ہیں جب کہ زکوۃ ساری جماعت سے وصول کی جائے اور ساری جماعت کے غرباء میں تقسیم کی جائے.یہ مسئلہ ان سارے اسلامی بادشاہوں کو مجرم قرار دیتا ہے جو سر کاری بیت المال کو اپنی ذات پر اور اپنے تعیش پر قربان کرتے تھے اور بڑے بڑے محل اور بڑی بڑی سیر گا ہیں بناتے تھے.اگر پبلک اُس کا آرڈر دیتی چونکہ اُس کا روپیہ تھا جائز ہوتا بشرطیکہ اسراف نہ ہوتا لیکن پبلک نے کبھی آرڈر نہیں دیا اور پھر وہ اسراف کی حد سے بھی آگے نکلا ہوا تھا اس لئے یہ سارے کام نا جائز تھے اور ان لوگوں کو گنہ گار بناتے تھے.نہ اسلام کو تخت طاؤس کی ضرورت تھی نہ تاج محل کی ضرورت تھی ، نہ قصر زہرہ کی ضرورت تھی نہ بغداد کے محلات ہارون الرشید کی ضرورت تھی.یہ ساری کی ساری چیزیں اسلامی شوکت کی بجائے چند افراد کی شوکت ظاہر کرنے کیلئے بنائی گئی تھیں اس لئے آخر میں ان خاندانوں کی تباہی کا باعث بنیں.اسی طرح اقامت صلوۃ بھی اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہوسکتی اور اس کی

Page 439

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۵ جلد سوم وجہ یہ ہے کہ صلوۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں خطبہ پڑھا جاتا ہے اور قومی ضرورتوں کولوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے.اب اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو قومی ضروریات کا پتہ کس طرح لگ سکتا ہے.مثلاً پاکستان کی جماعتوں کو کیا علم ہوسکتا ہے کہ چین اور جاپان اور دیگر ممالک میں اشاعت اسلام کے سلسلہ میں کیا ہو رہا ہے اور اسلام ان سے کن قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے.اگر ایک مرکز ہوگا اور ایک خلیفہ ہوگا جو تمام مسلمانوں کے نزدیک واجب الاطاعت ہوگا تو اسے تمام اکناف عالم سے رپورٹیں پہنچتی رہیں گی کہ یہاں یہ ہو رہا ہے اور وہاں وہ ہو رہا ہے اور اس طرح لوگوں کو بتایا جا سکے گا کہ آج فلاں قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے اور آج فلاں قسم کی خدمات کے لئے آپ کو پیش کرنے کی حاجت ہے.اسی لئے حنفیوں کا یہ فتویٰ ہے کہ جب تک مسلمانوں میں کوئی سلطان نہ ہو جمعہ پڑھنا جائز نہیں اور اس کی تہ میں یہی حکمت ہے جو میں نے بیان کی ہے.اسی طرح عیدین کی نمازیں ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ امر ثابت ہے کہ آپ ہمیشہ قومی ضرورتوں کے مطابق خطبات پڑھا کرتے تھے.مگر جب خلافت کا نظام نہ رہے تو انفرادی رنگ میں کسی کو قومی ضرورتوں کا کیا علم ہو سکتا ہے اور وہ ان کو کس طرح اپنے خطبات میں بیان کر سکتا ہے بلکہ بالکل ممکن ہے کہ حالات سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ خود بھی دھوکا میں مبتلا ر ہے اور دوسروں کو بھی دھوکا میں مبتلا ر کھے.میں نے ایک دفعہ کہیں پڑھا کہ آج سے ستر اسی سال پہلے ایک شخص بریکا نیر کے علاقہ کی طرف سیر کرنے کے لئے نکل گیا جمعہ کا دن تھا وہ ایک مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے گیا تو اُس نے دیکھا کہ امام نے پہلے فارسی زبان میں مروجہ خطبات میں سے کوئی ایک خطبہ پڑھا اور پھر ان لوگوں سے جو مسجد میں موجود تھے کہا کہ آؤ اب ہاتھ اُٹھا کر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ امیر المومنین جهانگیر بادشاہ کو سلامت رکھے.اب اُس بے چارے کو اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ جہانگیر بادشاہ کو فوت ہوئے سینکڑوں سال گزر چکے ہیں اور اب جہانگیر نہیں بلکہ انگریز حکمران ہیں.غرض جمعہ جو نماز کا بہترین حصہ ہے اسی صورت میں احسن طریق پر ادا ہوسکتا ہے جب مسلمانوں میں خلافت کا نظام موجود ہو.چنانچہ دیکھ لو ہمارے اندر چونکہ ایک نظام

Page 440

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۶ جلد سوم موجود ہے اس لئے میرے خطبات ہمیشہ اہم وقتی ضروریات کے متعلق ہوتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ کئی غیر احمدی بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے.درحقیقت لیڈر کا کام لوگوں کی راہنمائی کرنا ہوتا ہے مگر یہ راہنمائی وہی شخص کر سکتا ہے جس کے پاس دنیا کے اکثر حصوں سے خبریں آتی ہوں اور وہ سمجھتا ہو کہ حالات کیا صورت اختیار کر رہے ہیں.صرف اخبارات سے اس قسم کے حالات کا علم نہیں ہوسکتا کیونکہ اخبارات میں بہت کچھ جھوٹی خبریں درج ہوتی ہیں اس کے علاوہ ان میں واقعات کو پورے طور پر بیان کرنے کا التزام نہیں ہوتا لیکن ہمارے مبلغ چونکہ دنیا کے اکثر حصوں میں موجود ہیں اور پھر جماعت کے افراد بھی دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اس لئے ان کے ذریعہ مجھے ہمیشہ سچی خبر میں ملتی رہتی ہیں اور میں ان سے فائدہ اُٹھا کر جماعت کی صحیح راہنمائی کرتا رہتا ہوں.پس در حقیقت اقامة الصلوۃ بھی بغیر خلیفہ کے نہیں ہو سکتی.اسی طرح اطاعت رسول بھی جس کا اس آیت میں ذکر ہے خلیفہ کے بغیر نہیں ہوسکتی کیونکہ رسول کی اطاعت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ سب کو وحدت کے ایک رشتہ میں پرو دیا جائے.یوں تو صحابہ بھی نمازیں پڑھتے تھے اور آجکل کے مسلمان بھی نمازیں پڑھتے ہیں ، صحابہؓ بھی حج کرتے تھے اور آجکل کے مسلمان بھی حج کرتے ہیں پھر صحابہ اور آجکل کے مسلمانوں میں فرق کیا ہے؟ یہی ہے کہ صحابہ میں ایک نظام کا تابع ہونے کی وجہ سے اطاعت کی روح حد کمال کو پہنچی ہوئی تھی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جب بھی کوئی حکم دیتے صحابہ اُسی وقت اُس پر عمل کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے لیکن یہ اطاعت کی روح آجکل کے مسلمانوں میں نہیں.مسلمان نمازیں بھی پڑھیں گے، روزے بھی رکھیں گے، حج بھی کریں گے مگر ان کے اندر اطاعت کا مادہ نہیں ہوگا کیونکہ اطاعت کا مادہ نظام کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا.پس جب بھی خلافت ہوگی اطاعت رسول بھی ہوگی کیونکہ اطاعت رسول یہ نہیں کہ نمازیں پڑھو یا روزے رکھو یا حج کرو یہ تو خدا کے احکام کی اطاعت ہے.اطاعت رسول یہ ہے کہ جب وہ کہے کہ اب نمازوں پر زور دینے کا وقت ہے تو سب لوگ نمازوں پر زور دینا شروع کر دیں اور جب وہ کہے کہ اب زکوۃ اور چندوں کی ضرورت ہے تو وہ زکوۃ اور چندوں پر زور دینا شروع کر دیں اور جب

Page 441

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۷ جلد سوم وہ کہے کہ اب جانی قربانی کی ضرورت ہے یا وطن قربان کرنے کی ضرورت ہے تو وہ جانیں اور اپنے وطن قربان کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں.غرض یہ تین باتیں ایسی ہیں جو خلافت کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں.اگر خلافت نہ ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری نمازیں بھی جاتی رہیں گی، تمہاری زکوۃ بھی جاتی رہے گی اور تمہارے دل سے اطاعت رسول کا مادہ بھی جاتا رہے گا.ہماری جماعت کو چونکہ ایک نظام کے ماتحت رہنے کی عادت ہے اور اس کے افراد اطاعت کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں اس لئے اگر ہماری جماعت کے افراد کو آج اُٹھا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رکھ دیا جائے تو وہ اُسی طرح اطاعت کرنے لگ جائیں گے جس طرح صحابہ اطاعت کیا کرتے تھے لیکن اگر کسی غیر احمدی کو اپنی بصیرت کی آنکھ سے تم اس زمانہ میں لے جاؤ تو تمہیں قدم قدم پر وہ ٹھوکریں کھاتا ہوا دکھائی دے گا اور وہ کہے گا ذرا ٹھہر جائیں مجھے فلاں حکم کی سمجھ نہیں آئی بلکہ جس طرح ایک پٹھان کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے کہہ دیا خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا کیونکہ قدوری میں لکھا ہے کہ حرکت کبیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.اسی طرح وہ بعض باتوں کا انکار کرنے لگ جائے گا لیکن اگر ایک احمدی کو لے جاؤ تو اس کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ وہ کسی غیر مانوس جگہ میں آ گیا ہے.بلکہ جس طرح مشین کا پُرزہ اپنی جگہ پر لگ جاتا ہے اُسی طرح وہ وہاں پر فٹ آ جائے گا اور جاتے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی بن جائیگا اور آپ کے ہر حکم کی ہلا چون و چرا اطاعت کرنے لگ جائے گا اور ائمہ اربعہ اس کے لئے کبھی ٹھوکر کا موجب نہیں بنیں گے کیونکہ وہ سمجھتا ہو گا کہ اصل حکم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ائمہ اربعہ تو محض آپ کے غلام بلکہ شاگردوں کے بھی شاگرد ہیں.یہ آیت جو آیت استخلاف کہلاتی ہے اس میں مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں.اول جس انعام کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ ایک وعدہ ہے.دوم یہ وعدہ اُمت سے ہے جب تک وہ ایمان اور عمل صالح پر کار بندر ہے.سوم اس وعدہ کی غرض یہ ہے کہ :.

Page 442

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۸ جلد سوم (الف) مسلمان بھی وہی انعام پائیں جو پہلی اُمتوں نے پائے تھے کیونکہ فرماتا ہے ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ( ب ) اس وعدہ کی دوسری غرض تمکین دین ہے.(ج) اس کی تیسری غرض مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دینا ہے.( د ) اس کی چوتھی غرض شرک کا دُور کرنا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا قیام ہے.اس آیت کے آخر میں ومَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الفيقُوْنَ کہہ کر الله تعالیٰ نے اس کے وعدہ ہونے پر زور دیا اور ولئِن كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدُ کے وعید کی طرف توجہ دلائی کہ ہم جو انعامات تم پر نازل کرنے لگے ہیں اگر تم اُن کی ناقدری کرو گے تو ہم تمہیں سخت سزا دیں گے.خلافت بھی چونکہ ایک بھاری انعام ہے اس لئے یا درکھو جو لوگ اس نعمت کی ناشکری کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے.یہ آیت ایک زبردست شہادت خلافت را شدہ پر ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور احسان مسلمانوں میں خلافت کا نظام قائم کیا جائے گا جو موید من اللہ ہوگا.جیسا کہ وعد الله الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الأرض اور وَليُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتضى لهُمْ سے ظاہر ہے اور مسلمانوں کو پہلی قوموں کے انعامات میں سے وافر حصہ دلانے والا ہو گا.پھر اس آیت میں خلفاء کی علامات بھی بتائی گئی ہیں جن سے بچے اور جھوٹے میں فرق کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہیں.اوّل.خلیفہ خدا بناتا ہے یعنی اس کے بنانے میں انسانی ہاتھ نہیں ہوتا.نہ وہ خود خواہش کرتا ہے اور نہ کسی منصوبہ کے ذریعہ وہ خلیفہ ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو ایسے حالات میں وہ خلیفہ بنتا ہے جبکہ اُس کا خلیفہ ہونا بظاہر ناممکن سمجھا جاتا ہے.چنانچہ یہ الفاظ کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلحت خود ظاہر کرتے ہیں کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے کیونکہ جو وعدہ کرتا ہے وہی دیتا بھی ہے.نہ یہ کہ وعدہ تو وہ کرے اور اُسے پورا کوئی اور کرے.پس اس آیت میں پہلی بات یہ بتائی گئی کہ بچے خلفاء کی آمد خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو گی.کوئی شخص خلافت کی خواہش کر کے خلیفہ نہیں بن سکتا اور نہ کسی

Page 443

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۹ جلد سوم منصو بہ کے ماتحت خلیفہ بن سکتا ہے.خلیفہ وہی ہو گا جسے خدا بنانا چاہے گا.بلکہ بسا اوقات وہ ایسے حالات میں خلیفہ ہو گا جبکہ دنیا اُس کے خلیفہ ہونے کو ناممکن خیال کرتی ہوگی.دوسری علامت اللہ تعالیٰ نے بچے خلیفہ کی یہ بتائی ہے کہ وہ اُس کی مدد انبیاء کے مشابہ کرتا ہے کیونکہ فرماتا ہے كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهیم کہ یہ خلفاء ہماری نصرت کے ایسے ہی مستحق ہوں گے جیسے پہلے خلفاء.اور جب پہلی خلافتوں کو دیکھا جاتا ہے تو وہ تین قسم کی نظر آتی ہیں.اول خلافت نبوت.جیسے آدم علیہ السلام کی خلافت تھی.جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مانّي جَاعِلُ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ میں زمین میں اپنا ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.اب آدم علیہ السلام کا انتخاب نہیں کیا گیا تھا اور نہ وہ دُنیوی بادشاہ تھے.اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے ایک وعدہ کیا اور انہیں اپنی طرف سے زمین میں آپ کھڑا کیا اور جنہوں نے ان کا انکار کیا انہیں سزا دی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آدم ان معنوں میں بھی خلیفہ تھے کہ ایک پہلی نسل کے تباہ ہونے پر انہوں نے اور ان کی نسل نے پہلی قوم کی جگہ لے لی اور ان معنوں میں بھی خلیفہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذریعہ ایک بڑی نسل جاری کی لیکن سب سے بڑی اہمیت جو انہیں حاصل تھی وہ نبوت اور ماموریت ہی کی تھی جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کی کیا گیا ہے.انہی معنوں میں حضرت داؤد علیہ السلام کو بھی خلیفہ کہا گیا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يداود اِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلا تَتَّيمِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ انَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدَ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ یعنی اے داؤد ! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے ( حضرت داؤد علیہ السلام چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئے معلوم ہوا کہ یہاں خلافت سے مراد خلافت نبوت ہی ہے ) پس تو لوگوں کے درمیان عدل وانصاف سے فیصلہ کر اور لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کر.ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے سیدھے راستہ سے منحرف کر دیں.یقیناً وہ لوگ جو گمراہ ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت عذاب ہوگا اس لئے ایسے لوگوں کے مشورہ کو قبول نہ کیا کر بلکہ وہی کر جس کی طرف

Page 444

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۰ جلد سوم خدا تعالیٰ تیری راہنمائی کرے.ان آیات میں وہی مضمون بیان ہوا ہے جو دوسری جگہ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.بعض لوگوں نے غلطی سے لا تَتَّبِمِ الْهَوَى فَيُضِلُّكَ عن سَبِيلِ اللہ کے کے یہ معنی کیے ہیں کہ اے داؤد ! لوگوں کی ہواؤ ہوس کے پیچھے نہ چلنا.حالانکہ اس آیت کے یہ معنی ہی نہیں بلکہ اس میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض دفعہ لوگوں کی اکثریت تجھے ایک بات کا مشورہ دے گی اور کہے گی کہ یوں کرنا چاہئے مگر فرمایا تمہارا کام یہ ہے کہ تم محض اکثریت کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ جو بات تمہارے سامنے پیش کی جا رہی ہے وہ مفید ہے یا نہیں.اگر مفید ہو تو مان لو اور اگر مفید نہ ہوتو اسے رڈ کر دو.چاہے اُسے پیش کرنے والی اکثریت ہی کیوں نہ ہو.بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ وہ گناہ والی بات ہو.پس پہلی خلافتیں اوّل خلافت نبوت تھیں جیسے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کی خلافت تھی جن کو قرآن کریم نے خلیفہ قرار دیا ہے مگر اُن کو خلیفہ صرف نبی اور مامور ہونے کے معنوں میں کہا گیا ہے.چونکہ وہ اپنے اپنے زمانہ کی ضرورت کے مطابق صفات الہیہ کو دنیا میں ظاہر کرتے تھے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ظلت بن کر ظاہر ہوئے اسی لئے وہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کہلائے.دوسری خلافت جو قرآن کریم سے ثابت ہے وہ خلافت ملوکیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت ہود علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ واذكروا إذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاء مِنْ بَعْدِ قَوْمٍ نُوحٍ وَ زَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَشَطَةً فَاذْكُرُوا الا ء الله لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ یعنی اُس وقت کو یاد کرو جبکہ قوم نوح کے بعد خدا نے تمہیں خلیفہ بنایا اور اُس نے تم کو بناوٹ میں بھی فراخی بخشی یعنی تمہیں کثرت سے اولا د دی.پس تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یا دکر و تا کہ تمہیں کا میابی حاصل ہو.اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام کی زبانی فرماتا ہے وَاذْكُرُوا اذْ جَعَلَكُمْ خلفاء من بعد عاد یعنی اُس وقت کو یاد کرو جبکہ تم کو خدا تعالیٰ نے عاد اولی کی تباہی -

Page 445

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۱ جلد سوم کے بعد اُن کا جانشین بنایا اور حکومت تمہارے ہاتھ میں آگئی.اس آیت میں خلفاء کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد صرف دنیوی بادشاہ ہیں اور نعمت سے مراد بھی نعمت حکومت ہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نصیحت کی ہے کہ تم زمین میں عدل وانصاف کو مدنظر رکھ کر تمام کام کرو ورنہ ہم تمہیں سزا دیں گے.چنانچہ یہود کی نسبت اللہ تعالیٰ اسی انعام کا ذکر ان الفاظ میں فرماتا ہے کہ وَ اِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ انبِيَاء وَجَعَلَكُمْ مُلُوعًا واتىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَلَمِينَ " اُس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کے اُس احسان پر غور کرو جو اُس نے تم پر اُس وقت کیا تھا جب اُس نے تم میں نبی بھیجے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو دنیا کی معلوم قوموں میں سے کسی کو نہیں دیا تھا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہود کو ہم نے دو طرح خلیفہ بنایا اِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاء کے ماتحت اُنہیں خلافت نبوت دی اور جَعَلَكُمْ مُلُوعًا کے ماتحت انہیں خلافت ملوکیت دی.چونکہ موسی کے وقت تک تو اور کوئی بادشاہ اُن میں نہیں ہوا اس لئے اس سے مراد یہ کہ نبوت موسوی اور بادشاہت موسوی عطا کی جو دریائے نیل کو پار کرنے کے بعد سے ان کو حاصل ہو گئی تھی.جیسا کہ فتح مکہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبی بھی تھے اور ایک لحاظ سے بادشاہ بھی تھے مگر آپ کی بادشاہت خدا تعالیٰ کے احکام کے تابع تھی خودسر با دشا ہوں والی بادشاہت نہ تھی.مگر ان دوستم کی خلافتوں کے علاوہ نبی کے وہ جانشین بھی خلیفہ کہلاتے ہیں جو اس کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں.یعنی اُس کی شریعت پر قوم کو چلانے والے اور اُن میں اتحاد قائم رکھنے والے ہوں خواہ وہ نبی ہوں یا غیر نبی.جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام موعود راتوں کے لئے طور پر گئے تو اپنے بعد انتظام کی غرض سے انہوں نے حضرت ہارون کو کہا کہ اُخْلُفْنِي في قَوْمِي وَاصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفسدين الے یعنی میرے بعد میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ان کی اصلاح کو مدنظر رکھنا اور مفسد لوگوں کی بات نہ ماننا.حضرت ہارون علیہ السلام چونکہ خود نبی تھے اور اُس

Page 446

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۲ جلد سوم وقت سے پہلے نبی ہو چکے تھے اس لئے یہ خلافت جو حضرت موسی علیہ السلام نے انہیں دی تھی وہ خلافت نبوت نہیں ہو سکتی تھی.اس کے معنی صرف یہ تھے کہ وہ حضرت موسی کی غیر حاضری میں ان کی قوم کا انتظام کریں اور قوم کو اتحاد پر قائم رکھیں اور فساد سے بچا ئیں.پس وہ ایک تابع نبی بھی تھے اور ایک حکمران نبی کے خلیفہ بھی تھے اور یہ خلافت خلافتِ نبوت نہ تھی بلکہ خلافت انتظامی تھی.مگر اس قسم کی خلافت بعض دفعہ خلافت انتظامی کے علاوہ خلافتِ نبوت بھی ہوتی ہے.یعنی ایک سابق نبی کی اُمت کی درستی اور اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ایک اور نبی مبعوث فرماتا ہے جو پہلے نبی کی شریعت کو ہی جاری کرتا ہے کوئی نئی شریعت نہیں لا تا.گویا جہاں تک شریعت کا تعلق ہوتا ہے وہ پہلے نبی کے کام کو قائم رکھنے والا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے پہلے نبی کا خلیفہ ہوتا ہے.لیکن عہدہ کے لحاظ سے وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے.اس قسم کے خلفاء بنی اسرائیل میں بہت گزرے ہیں بلکہ جس قد را نبیاء حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں آئے ہیں سب اسی قسم کے خلفاء تھے.یعنی وہ نبی تو تھے مگر کسی جدید شریعت کے ساتھ نہیں آئے تھے.بلکہ حضرت موسی کی شریعت کو ہی دنیا میں جاری کرتے تھے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرَةَ فِيْهَا هُدًى وَ نُوْرُ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ اسلموا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرِّبانِيُّون والاخبارُبِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتب الله وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ " یعنی ہم نے تو رات کو یقیناً ہدایت اور نور سے بھر پورا تارا تھا.اس کے ذریعہ سے انبیاء جو ( ہمارے ) فرمانبردار تھے اور عارف اور ربانی علماء بہ سبب اس کے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی حفاظت چاہی گئی تھی اور وہ اس پر نگران تھے یہودیوں کے لئے فیصلے کیا کرتے تھے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت موسی کے بعد کئی انبیا ء ایسے آئے تھے جن کا کام حضرت موسیٰ کی شریعت کا قیام تھا.یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ وہ حضرت موسی کے خلیفہ تھے.لیکن ان انبیاء کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی جن کو ربانی اور احبار کہنا چاہئے اس کام پر مقرر تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اور مجددین کا ایک لمبا سلسلہ حضرت موسی کے

Page 447

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۳ جلد سوم بعد ان کے خلفاء کے طور پر ظاہر ہوتا رہا جن کا کام حضرت موسی کے کام کی تکمیل تھا.اس سلسلہ کی آخری کڑی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام تھے جن کو کئی مسلمان غلطی سے صاحب شریعت نبی سمجھتے ہیں.اسی طرح اس زمانہ کے مسیحی بھی اُن کی نسبت یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ وہ ایک نیا قانون لے کر آئے تھے اور اسی وجہ سے وہ اُن کی کتاب کو نیا عہد نامہ کہتے ہیں حالانکہ قرآن کریم مسیح ناصری علیہ السلام کو حضرت موسی کے دین کا قائم کرنے والا ایک..خلیفہ قرار دیتا ہے.جیسا کہ مذکورہ بالا آیت سے چند آیات بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وقَفَّيْنَا عَلَى أَثَارِهِمْ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيو من التورية یعنی ہم نے مذکورہ بالا نبیوں کے بعد جو تورات کی تعلیم کو جاری کرنے کے لئے آئے تھے عیسی بن مریم کو بھیجا جو ان کے نقش قدم پر چلنے والے تھے اور تورات کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے تھے.خود مسیح ناصری بھی فرماتے ہیں کہ :.یہ نہ سمجھو کہ میں تو رات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں میں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں.کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ملے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے، ۱۴.غرض یوشع سے لیکر جو حضرت موسی کی وفات کے معا بعد ان کے خلیفہ ہوئے حضرت مسیح ناصری تک سب انبیاء اور مجددین حضرت موسی کے خلیفہ اور ان کی شریعت کو جاری کرنے والے تھے.پس جب خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا کہ لِيَسْتَخْلِفَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قبلهم تو اس سے یہ استنباط ہوا کہ پہلی خلافتوں والی برکات قَبْلِهِمْ مسلمانوں کو بھی ملیں گی اور انبیائے سابقین سے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ سلوک کیا وہی سلوک وہ اُمت محمدیہ کے خلفاء کے ساتھ بھی کرے گا.اگر کوئی کہے کہ پہلے تو خلافت ملوکیت کا بھی ذکر آتا ہے پھر خلافت ملوکیت کا ذکر چھوڑ کر صرف خلافت نبوت کے ساتھ اس کی مشابہت کو کیوں مخصوص کیا گیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک مسلمانوں کے ساتھ بادشاہتوں کا بھی وعدہ ہے مگر اس جگہ بادشاہت کا ذکر نہیں بلکہ صرف مذہبی نعمتوں کا ذکر ہے.چنانچہ

Page 448

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۴ جلد سوم اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولّيمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ که خدا تعالیٰ اپنے قائم کردہ خلفاء کے دین کو دنیا میں قائم کر کے رہے گا.اب یہ اصول دنیا کے بادشاہوں کے متعلق نہیں اور نہ ان کے دین کو خدا تعالیٰ نے کبھی دنیا میں قائم کیا ہے بلکہ یہ اصول روحانی خلفاء کے متعلق ہی ہے.پس یہ آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس جگہ جس خلافت سے مشابہت دی گئی ہے وہ خلافت نبوت ہے نہ کہ خلافت ملوکیت.اسی طرح فرماتا ہے وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آشنا کہ خدا ان کے خوف کو امن سے بدل دیا کرتا ہے یہ علامت بھی دنیوی بادشاہوں پر کسی صورت بھی چسپاں نہیں ہوسکتی کیونکہ دنیوی بادشاہ اگر آج تاج و تخت کے مالک ہوتے ہیں تو کل تخت سے علیحدہ ہو کر بھیک مانگتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے خوف کو امن سے بدل دینے کا کوئی وعدہ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات جب کوئی سخت خطرہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے مقابلہ کی ہمت تک کھو بیٹھتے ہیں.پھر فرماتا ہے يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کہ وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے گویا وہ خالص موحد اور شرک کے شدید ترین دشمن ہوں گے مگر دنیا کے بادشاہ تو شرک بھی کر لیتے ہیں حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے کبھی کفر بواح بھی صادر ہو جائے.پس وہ اس آیت کے مصداق کس طرح ہو سکتے ہیں.چوتھی دلیل جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خلفاء سے مراد دُنیوی با دشاہ ہرگز نہیں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ یعنی جو لوگ ان خلفاء کا انکار کریں کے وہ فاسق ہو جائیں گے.اب بتاؤ کہ کیا جو شخص کفر بواح کا بھی مرتکب ہوسکتا ہو آیا اُس کی اطاعت سے خروج فسق ہوسکتا ہے؟ یقیناً ایسے بادشاہوں کی اطاعت سے انکار کرنا انسان کو فاسق نہیں بنا سکتا.فسق کا فتویٰ انسان پر اسی صورت میں لگ سکتا ہے جب وہ روحانی خلفاء کی اطاعت سے انکار کرے.غرض یہ چاروں دلائل جن کا اس آیت میں ذکر ہے اس امر کا ثبوت ہیں کہ اس آیت

Page 449

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۵ جلد سوم میں جس خلافت کا ذکر کیا گیا ہے وہ خلافت ملوکیت نہیں.پس جب خدا نے یہ فرمایا کہ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَباهم کہ ہم ان خلفاء پر ویسے ہی انعامات نازل کریں گے جیسے ہم نے پہلے خلفاء پر انعامات نازل کئے تو اس سے مراد یہی ہے کہ جیسے پہلے انبیاء کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی رہی ہے اُسی طرح ان کی مدد ہو گی.پس اس آیت میں خلافت نبوت سے مشابہت مراد ہے نہ کہ خلافت ملوکیت سے.تیسری بات اس آیت سے یہ کھلتی ہے کہ یہ وعدہ اُمت سے اُس وقت تک کے لئے ہے جب تک کہ اُمت مومن اور عمل صالح کرنے والی رہے.جب وہ مومن اور عمل صالح کرنے والی نہیں رہے گی تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے اس وعدہ کو واپس لے لے گا.گو یا نبوت اور خلافت میں یہ عظیم الشان فرق بتایا کہ نبوت تو اُس وقت آتی ہے جب دنیا خرابی اور فساد سے بھر جاتی ہے.جیسے فرما یا ظَهَرَ الْفَسَادُ في البر و البَحْرِ اے یعنی جب بر اور بحر میں فساد واقع ہو جاتا ہے ، لوگ خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں، الہی احکام سے اپنا منہ موڑ لیتے ہیں ، ضلالت اور گمراہی میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور تاریکی زمین کے چپہ چپہ کا احاطہ کر لیتی ہے تو اُس وقت لوگوں کی اصلاح کیلئے خدا تعالیٰ کسی نبی کو بھیجتا ہے جو پھر آسمان سے نور ایمان کو واپس لا تا اور ان کو بچے دین پر قائم کرتا ہے لیکن خلافت اُس وقت آتی ہے جب قوم میں اکثریت مؤمنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی ہوتی ہے اور خلیفہ لوگوں کو عقائد میں مضبوط کرنے کے لئے نہیں آتا بلکہ تنظیم کو مکمل کرنے کے لئے آتا ہے.گویا نبوت تو ایمان اور عمل صالح کے مٹ جانے پر آتی ہے اور خلافت اُس وقت آتی ہے جب قریباً تمام کے تمام لوگ ایمان اور عمل صالح پر قائم ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ خلافت اسی وقت شروع ہوتی ہے جب نبوت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ نبوت کے ذریعہ ایمان اور عمل صالح قائم ہو چکا ہوتا ہے اور چونکہ اکثریت اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو ایمان اور عمل صالح پر قائم ہوتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ اپنی خلافت کی نعمت عطا فرما دیتا ہے.اور درمیانی زمانہ جب کہ نہ تو دنیا نیکوکاروں سے خالی ہو اور نہ بدی سے پُر ہو دونوں سے محروم رہتا ہے کیونکہ نہ تو بیماری شدید ہوتی ہے کہ نبی آئے اور نہ تندرستی کامل ہوتی ہے کہ اُن سے کام لینے والا خلیفہ آئے.

Page 450

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۶ جلد سوم پس اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا فقدان کسی خلیفہ کے نقص کی وجہ سے نہیں بلکہ جماعت کے نقص کی وجہ سے ہوتا ہے اور خلافت کا منا خلیفہ کے گنہگار ہونے کی دلیل نہیں بلکہ امت کے گنہگار ہونے کی دلیل ہوتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ صریح وعدہ ہے کہ وہ اُس وقت تک خلیفہ بناتا چلا جائے گا جب تک جماعت میں مؤمنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی اکثریت رہے گی.جب اس میں فرق پڑ جائے گا اور اکثریت مؤمنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی نہیں رہے گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب چونکہ تم خود بد عمل ہو گئے ہو اس لئے میں اپنی نعمت تم سے چھین لیتا ہوں ( گو خدا چاہے تو بطور احسان ایک عرصہ تک پھر بھی جماعت میں خلفاء بھجواتا رہے ) پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ خراب ہو گیا ہے وہ بالفاظ دیگر اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ جماعت کی اکثریت ایمان اور عمل صالح سے محروم ہو چکی ہے کیونکہ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ جب تک اُمت ایمان اور عمل صالح پر قائم رہے گی اس میں خلفا ء آتے رہیں گے اور جب وہ اس سے محروم ہو جائے گی تو خلفاء کا آنا بھی بند ہو جائے گا.پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی امکان نہیں ہاں اس بات کا ہر وقت امکان ہوسکتا ہے کہ جماعت کی اکثریت ایمان اور عمل صالح سے محروم نہ ہو جائے.چوتھی علامت خلفاء کی اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ اُن کے دینی احکام اور خیالات کو اللہ تعالیٰ دنیا میں پھیلائے گا.چنانچہ فرماتا ہے ولیمكنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دین کو تمکین دے گا اور باوجود مخالف حالات کے اُسے دنیا میں قائم کرے گا.یہ ایک زبر دست ثبوت خلافت حقہ کی تائید میں ہے اور جب اس پر غور کیا جاتا ہے تو خلفاء کی صداقت پر خدا تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا نشان نظر آتا ہے.یہ ایک عجیب بات ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ایسے خاندانوں میں سے تھے جو عرب میں کوئی جتھا نہیں رکھتے تھے.لیکن حضرت عثمانؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہا ایسے خاندانوں میں سے تھے جو عرب میں جتھے رکھتے تھے.چنانچہ بنو عبد الشمس حضرت عثمان کے حق میں تھے اور بنو عبد المطلب حضرت علیؓ کے حق میں اور ان دونوں کو عرب میں بڑی قوت حاصل تھی.جب خلافت میں تنزل واقع ہوا اور مسلمانوں کی اکثریت میں سے ایمان

Page 451

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۷ جلد سوم اور عمل صالح جاتا رہا تو حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد بنو عبدالشمس نے مسلمانوں پر تسلط جما لیا.اور یہ وہ لوگ تھے جو حضرت عثمان سے تعلق رکھتے تھے.چنانچہ ان کی حکومت کے دوران میں حضرت علی کو تو مذمت ہوتی رہی اور حضرت عثمان کی خوبیاں بیان ہوتی رہیں.حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ کے مداح اور ان کی خوبیوں کا ذکر کر نے والے اس دور میں بہت ہی کم تھے.اس کے بعد حالات میں پھر تغیر پیدا ہوا اور بنو عبدال کی جگہ بنو عبدالمطلب نے قبضہ کر لیا یعنی بغداد میں دولت عباسیہ قائم ہوگئی.اور یہ وہ لوگ تھے جو اہل بیت سے تعلق رکھتے تھے چنانچہ ان کا تمام زور حضرت علی کی تعریف اور آپ کی خوبیاں بیان کرنے پر صرف ہونے لگ گیا.اس طرح کئی سو سال تک مسلمانوں کا ایک حصہ حضرت عثمان کے اوصاف شمار کرتا رہا اور ایک حصہ حضرت علیؓ کے اوصاف شمار کرتا رہا.مگر با وجود اس کے کہ خلفائے اربعہ کے بعد اسلامی حکومتوں کے یہ دو دور آئے اور دونوں ایسے تھے کہ ان میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ سے تعلق رکھنے والے لوگ بہت کم تھے پھر بھی دنیا میں جو عزت اور رتبہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے فتووں اور ارشادات کو حاصل ہے وہ ان دونوں کو حاصل نہیں.گو ان سے اُتر کر انہیں بھی حاصل ہے اور یہ ثبوت ہے ويمكنتْ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِی ارتضى لَهُمْ کا کہ خدا نے اُنکے دین کو قائم کیا اور ان کی عزت کولوگوں کے قلوب میں جا گزیں کیا.چنانچہ آج کسی مسلمان سے پوچھ لو کہ اس کے دل میں خلفاء میں سے سب سے زیادہ کس کی عزت ہے؟ تو وہ پہلے حضرت ابوبکر کا نام لے گا.پھر حضرت عمرؓ کا نام لے گا.پھر حضرت عثمان کا نام لے گا اور پھر حضرت علی کا نام لے گا.حالانکہ کئی صدیاں ایسی گزری ہیں جن میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کا نام لینے والا کوئی نہیں تھا.اور اتنے لمبے وقفہ میں بڑے بڑے لوگوں کے نام دنیا سے مٹ جایا کرتے ہیں لیکن خدا نے اُن کے نام کو قائم رکھا اور اُن کے فتووں اور ارشادات کو وہ مقام دیا جو حضرت عثمان اور حضرت علیؓ کے فتووں اور ارشادات کو بھی حاصل نہیں.پھر بنو عبد الشمس کے زمانہ میں حضرت علی کو بدنام کرنے کی بڑی کوششیں کی گئیں اور دولت عباسیہ کے زمانہ میں حضرت عثمان پر بڑا لعن طعن کیا گیا.مگر باوجود اس کے کہ یہ

Page 452

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۸ جلد سوم کوششیں حکومت کی طرف سے ہوئیں اور انہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں اُن کو بد نام کرنے اور اُن کے ناموں کو مٹانے کے لئے بڑی کوششیں کیں مگر پھر بھی یہ دونوں خلفاء دُھلے ڈھلائے نکل آئے اور خدا نے تمام عالم اسلام میں ان کی عزت وتوقیر کو قائم کر دیا.پھر دین کے ایک معنی سیاست اور حکومت کے بھی ہوتے ہیں.اس لحاظ سے سچے خلفاء کی اللہ تعالیٰ نے یہ علامت بتائی کہ جس سیاست اور پالیسی کو وہ چلائیں گے اللہ تعالیٰ اُسے دنیا میں قائم فرمائے گا.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ذاتی معاملات میں خلیفہ وقت سے کوئی غلطی ہو جائے لیکن ان معاملات میں جن پر جماعت کی روحانی اور جسمانی ترقی کا انحصار ہواگر اُس سے کوئی غلطی سرزد بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی حفاظت فرماتا ہے اور کسی نہ کسی رنگ میں اُسے اس غلطی پر مطلع کر دیتا ہے.صوفیاء کی اصطلاح میں اسے عصمت صغری کہا جاتا ہے.گویا انبیاء کو تو عصمت کبرای حاصل ہوتی ہے لیکن خلفاء کو عصمت صغریٰ حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن سے کوئی ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کے لئے تباہی کا موجب ہو.اُن کے فیصلوں میں جزئی اور معمولی غلطیاں ہوسکتی ہیں مگر انجام کار نتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہوگا اور اُس کے مخالفوں کو شکست ہوگی.گو یا بوجہ اس کے کہ ان کو صمت صغریٰ حاصل ہوگی خدا تعالیٰ کی پالیسی بھی وہی ہوگی جوان کی ہوگی.بیشک بولنے والے وہ ہوں گے ، زبانیں انہی کی حرکت کریں گی ، ہاتھ انہی کے چلیں گے، دماغ انہی کا کام کرے گا مگر ان سب کے پیچھے خدا تعالیٰ کا اپنا ہاتھ ہوگا.اُن سے جزئیات میں معمولی غلطیاں ہو سکتی ہیں.بعض دفعہ اُن کے مشیر بھی اُن کو غلط مشورہ دے سکتے ہیں لیکن ان درمیانی روکوں سے گزر کر کامیابی انہی کو حاصل ہو گی اور جب تمام کڑیاں مل کر زنجیر بنے گی تو وہ صحیح ہوگی اور ایسی مضبوط ہو گی کہ کوئی طاقت اُسے تو نہیں سکے گی.پانچویں علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ ولیبدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا یعنی جب بھی قومی طور پر اسلامی خلافت کے لئے کوئی خوف پیدا ہوگا اور لوگوں کے دلوں میں نو رایمان باقی ہو گا اللہ تعالیٰ اس خوف کے بعد ضرور ایسے سامان پیدا کرے گا کہ جن سے مسلمانوں کا خوف امن سے بدل جائے گا.چنانچہ دیکھ لو حضرت عثمان کی شہادت کے بعد

Page 453

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۹ جلد سوم جب افرا تفری کی حالت پیدا ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کو حضرت علی کے ہاتھ پر اکٹھا کر دیا.اور جب حضرت علیؓ کے مقابلہ میں حضرت معاویہؓ کھڑے ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت معاویہؓ کے دل میں اُس زمانہ کے مناسب حال خشیت اللہ پیدا کر دی.اور جب روم کے عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں کا انتشار دیکھ کر اسلامی ممالک پر حملہ کرنا چاہا تو حضرت معاویہؓ نے اُسے کہلا بھیجا کہ یہ نہ سمجھنا کہ مسلمانوں میں اختلاف ہے اگر تم نے اسلامی ملکوں پر حملہ کیا تو سب سے پہلا جرنیل جو حضرت علی کی طرف سے تمہارے مقابلہ کے لئے نکلے گا وہ میں ہوں گا.کلے چنانچہ رومی بادشاہ ڈر گیا اور مسلمانوں کا خوف امن سے بدل گیا.یہ ایک جزوی ایمان تھا.اگر حضرت معاویہؓ اُس وقت کلّی طور پر ہتھیار ڈال دیتے اور حضرت علیؓ کے تابع ہو جاتے تو مسلمانوں کا اختلاف ہمیشہ کے لئے مٹ جاتا.اور ایسے خوش کن نتائج نکلتے کہ آج ہر مسلمان کی گردن فخر سے اونچی ہوتی مگر افسوس کہ حضرت معاویہؓ نے صرف وقتی اطاعت کا اعلان کیا گلی اطاعت کا اعلان نہ کیا.بعض لوگ غلطی سے اس آیت کا یہ مفہوم سمجھتے ہیں کہ خلفائے راشدین ہر تخویف سے محفوظ رہتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علی کو چونکہ خلافت کے بعد مختلف حوادث پیش آئے اور دشمنوں نے انہیں شہید کر دیا اس لئے حضرت ابو بکر کے سوا اور کسی کو خلیفہ راشد تسلیم نہیں کیا جاسکتا.یہ غلطی انہیں اس لئے لگی ہے کہ انہوں نے قرآنی الفاظ پر غور نہیں کیا.بیشک خوف کا امن سے بدل جانا بھی بڑی نعمت ہے لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وَلَيُبَةِ لَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ الْخَوْفِ أَمْنًا کہ جو بھی خوف پید ا ہو گا اُسے امن میں بدل دیا جائے گا بلکہ وَلیبَةِ لَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا فرمایا ہے کہ جو خوف ان کے دل میں پیدا ہوگا اور جس چیز سے وہ ڈریں گے اللہ تعالیٰ اسے دُور کر دے گا اور اس کی جگہ امن پیدا کر دے گا.پس وعدہ یہ نہیں کہ زید اور بکر کے نزدیک بھی جو ڈرنے والی بات ہو وہ خلفاء کو پیش نہیں آئے گی بلکہ وعدہ یہ ہے کہ جس چیز سے وہ ڈریں گے اللہ تعالیٰ اسے ضرور دور کر دے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا.مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ سانپ بظاہر ایک بڑی خوفناک چیز ہے مگر کئی لوگ ہیں جو سانپ کو اپنے ہاتھ

Page 454

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۰ جلد سوم سے پکڑ لیتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے سانپ کا خوف کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اسی طرح فقر ایک بڑی خوف والی چیز ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الْفَقْرُ فَخْرِى فقر میرے لئے ذلت کا موجب نہیں بلکہ فخر کا موجب ہے.اب اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کھانے کے لئے اگر ایک وقت کی روٹی بھی نہ ملے تو یہ بڑی ذلت کی بات ہوتی ہے تو کیا اس کے اس خیال کی وجہ سے ہم یہ مان لیں گے کہ نَعُوذُ بالله رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ذلت ہوئی ؟ جو شخص فقر کو اپنی عزت کا موجب سمجھتا ہے ، جو شخص چیتھڑوں کو قیمتی لباس سے زیادہ بہتر چیز سمجھتا ہے اور جو شخص دنیوی مال و متاع کو نجاست کی طرح حقیر سمجھتا ہے اُس کیلئے فقر کا خوف بالکل بے معنی ہے.پس خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ الْخَوْفِ آمنا بلکہ فرمایا ہے وَلیبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا کہ کوئی ایسی خوف والی بات پیدا نہیں ہوگی جس سے وہ ڈرتے ہوں گے.اس فرق کو مدنظر رکھ کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ خلفاء پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس سے انہوں نے خوف کھایا ہوا ور اگر کوئی آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے امن سے بدل دیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عمرؓ شہید ہوئے مگر جب واقعات کو دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو اس شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا بلکہ وہ متواتر دعائیں کیا کرتے تھے کہ یا اللہ ! مجھے شہادت نصیب کر اور شہید بھی مجھے مدینہ میں کر.19 پس وہ شخص جس نے اپنی ساری عمر یہ دعائیں کرتے ہوئے گزار دی ہو کہ یا اللہ ! مجھے مدینہ میں شہادت دے وہ اگر شہید ہو جائے تو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اُس پر ایک خوفناک وقت آیا مگر وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے امن سے نہ بدلا گیا.بے شک اگر حضرت عمر شہادت سے ڈرتے اور پھر وہ شہید ہو جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ ان کے خوف کو خدا تعالیٰ نے امن سے نہ بدلا مگر وہ تو دعائیں کرتے رہتے تھے کہ یا اللہ ! مجھے مدینہ میں شہادت دے.پس ان کی شہادت سے یہ کیونکر ثابت ہو گیا کہ وہ شہادت سے ڈرتے بھی تھے اور جب وہ شہادت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ اس کے لئے دعائیں کرتے تھے جن کو خدا تعالیٰ نے قبول فرمالیا تو معلوم ہوا کہ اس آیت کے ماتحت ان پر کوئی ایسا خوف نہیں آیا

Page 455

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۱ جلد سوم.جوان کے دل نے محسوس کیا ہو اور اس آیت میں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہی ذکر ہے کہ خلفاء جس بات سے ڈرتے ہوں گے وہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہوسکتی اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا مگر جب وہ ایک بات سے ڈرتے ہی نہ ہوں بلکہ اپنی عزت اور بلندی درجات کا موجب سمجھتے ہوں تو اُسے خوف کہنا اور پھر یہ کہنا کہ اُسے امن سے کیوں نہ بدل دیا گیا بے معنی بات ہے.میں نے تو جب حضرت عمرؓ کی اس دعا کو پڑھا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس کا بظاہر یہ مطلب تھا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرے اور اُس کا حملہ اتنی شدت کا ہو کہ تمام مسلمان تباہ ہو جائیں پھر وہ خلیفہ وقت تک پہنچے اور اسے بھی شہید کر دے.مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر کی دعا بھی قبول کر لی اور ایسے سامان بھی پیدا کر دئیے جس سے اسلام کی عزت قائم رہی.چنانچہ بجائے اس کے کہ مدینہ پر کوئی بیرونی لشکر حملہ آور ہوتا اندر سے ہی ایک خبیث اُٹھا اور اُس نے خنجر سے آپ کو شہید کر دیا.پھر حضرت عثمان کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں سے کبھی خائف نہیں ہوئے.تاریخ سے ثابت ہے کہ جب باغیوں نے مدینہ پر قبضہ کر لیا تو وہ نماز سے پہلے تمام مسجد میں پھیل جاتے اور اہل مدینہ کو ایک دوسرے سے جدا جدا ر کھتے تا کہ وہ اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ نہ کر سکیں مگر باوجود اس شورش اور فتنہ انگیزی اور فساد کے حضرت عثمان نماز پڑھانے کے لئے اکیلے مسجد میں تشریف لاتے اور ذرا بھی خوف محسوس نہ کرتے اور اُس وقت تک برابر آتے رہے جب تک لوگوں نے آپ کو منع نہ کر دیا.جب فتنہ بہت بڑھ گیا اور حضرت عثمان کے گھر پر مفسدوں نے حملہ کر دیا تو بجائے اس کے کہ آپ صحابہ کا اپنے مکان کے گرد پہرہ لگواتے آپ نے انہیں قسم دے کر کہا کہ وہ آپ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالیں اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں.کیا شہادت سے ڈرنے والا آدمی بھی ایسا ہی کرتا ہے اور وہ لوگوں سے کہا کرتا ہے کہ میرا فکر نہ کرو بلکہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ ؟ پھر اس بات کا کہ حضرت عثمان ان واقعات سے کچھ بھی خائف نہیں تھے ایک اور زبر دست ثبوت یہ ہے کہ اس فتنہ کے دوران ایک دفعہ حضرت معاویہؓ حج کرنے آئے جب وہ شام کو واپس جانے لگے تو مدینہ میں وہ حضرت عثمان سے ملے اور عرض

Page 456

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۲ ہے.جلد سوم کیا کہ آپ میرے ساتھ شام میں چلیں وہاں آپ تمام فتنوں سے محفوظ رہیں گے.آپ نے فرمایا کہ معاویہ ! میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی پر کسی چیز کو تر جیح نہیں دے سکتا.انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں تو میں شامی سپاہیوں کا ایک لشکر آپ کی حفاظت کیلئے بھیج دیتا ہوں.حضرت عثمان نے فرمایا میں اپنی حفاظت کیلئے ایک لشکر رکھ کر مسلمانوں کے رزق میں کمی کرنا نہیں چاہتا.حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ امیرالمؤمنین ! لوگ آپ کو دھوکا سے قتل کر دیں گے یا ممکن ہے آپ کے خلاف وہ برسر پیکار ہو جائیں.حضرت عثمان نے فرمایا مجھے اس کی پرواہ نہیں میرے لئے میرا خدا کافی ہے." آخر انہوں نے کہا اگر آپ اور کچھ منظور نہیں کرتے تو اتنا ہی کریں کہ شرارتی لوگوں کو بعض اکابر صحابہ کے متعلق گھمنڈ ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے بعد وہ کام سنبھال لیں گے چنانچہ وہ ان کا نام لے لے کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں آپ ان سب کو مدینہ سے رخصت کر دیں اور بیرونی ملکوں میں پھیلا دیں اس سے شریروں کے ارادے پست ہو جائیں گے اور وہ خیال کریں گے کہ آپ سے تعرض کر کے انہوں نے کیا لینا ہے جبکہ مدینہ میں کوئی اور کام کو سنبھالنے والا ہی نہیں.مگر حضرت عثمان نے یہ بات بھی نہ مانی اور کہا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا ہے میں اُن کو جلا وطن کر دوں.حضرت معاویہ یہ سن کر رو پڑے اور انہوں نے عرض کیا اگر آپ اور کچھ نہیں کرتے تو اتناہی اعلان کر دیں کہ میرے خون کا بدلہ معاویہ لے گا.مگر آپ نے فرمایا معاویہ ! تمہاری طبیعت تیز ہے میں ڈرتا ہوں کہ مسلمانوں پر تم کہیں سختی نہ کرو اس لئے میں یہ اعلان بھی نہیں کر سکتا.اب کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان دل کے کمزور تھے مگر تم خود ہی بتاؤ کہ اس قسم کی جرات کتنے لوگ دکھا سکتے ہیں اور کیا ان واقعات کے ہوتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ان کے دل میں کچھ بھی خوف تھا.اگر خوف ہوتا تو وہ کہتے کہ تم اپنی فوج کا دستہ میری حفاظت کے لئے بھجوا دو انہیں تنخواہیں میں دلواؤں گا.اگر خوف ہوتا تو آپ اعلان کر دیتے کہ مجھ پر کسی نے ہاتھ اُٹھایا تو وہ سن لے کہ میرا بدلہ معاویہ لے گا مگر آپ نے سوائے اس کے کوئی جواب نہ دیا کہ معاویہ ! تمہاری طبیعت تیز ہے میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے تم کو یہ اختیار دے دیا تو تم

Page 457

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۳ جلد سوم مسلمانوں پر سختی کرو گے.پھر جب کہ آخر میں دشمنوں نے دیوار پھاند کر آپ پر حملہ کیا تو کس دلیری سے آپ نے مقابلہ کیا.بغیر ڈر اور خوف کے اظہار کے آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابو بکر کا ایک بیٹا محمد بن ابی بکر جو ا نفی ہ کہلاتا ہے (اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے) آگے بڑھا اور اُس نے حضرت عثمان کی داڑھی پکڑ کر اُسے زور سے جھٹکا دیا.حضرت عثمان نے اس کی طرف آنکھ اُٹھائی اور فرمایا میرے بھائی کے بیٹے ! اگر تیرا باپ اس وقت ہوتا تو تجھے کبھی ایسا کرنے نہ دیتا.یہ سن کر اُس کا جسم کانپ گیا اور وہ شرمندہ ہو کر واپس لوٹ گیا.اس کے بعد ایک اور شخص آگے بڑھا اس نے ایک لوہے کی سیخ حضرت عثمان کے سر پر ماری اور پھر آپ کے سامنے جو قرآن کریم پڑا ہوا تھا اسے اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے الگ پھینک دیا.وہ ہٹا تو ایک اور شخص آگے آگیا اور اس نے تلوار سے آپ پر حملہ کیا جس سے آپ کا ہاتھ کٹ گیا پھر اُس نے دوسرا وار کیا مگر آپ کی بیوی حضرت نائلہ درمیان میں آگئیں جس سے ان کی انگلیاں کٹ گئیں اس کے بعد اس نے ایک اور وار کیا جس سے آپ زخمی ہو کر گر گئے مگر پھر اس نے یہ خیال کر کے کہ ابھی آپ کی جان نہیں نکلی ایسی حالت میں جب کہ زخموں کی شدت کی وجہ سے آپ بے ہوش ہو چکے تھے آپ کا گلا پکڑ کر گھونٹنا شروع کر دیا اور اُس وقت تک آپ کو نہیں چھوڑا جب تک کہ آپ شہید نہیں ہو گئے.ان واقعات کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان واقعات سے خائف تھے اور جب وہ ان واقعات سے خائف ہی نہ تھے تو مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا کے خلاف یہ واقعات کیونکر ہو گئے.یہ لوگ تو اگر کسی امر سے خائف تھے تو اس سے کہ اسلام کی روشنی میں فرق نہ آئے.سو باوجود ان واقعات کے وہی بات آخر قائم ہوئی جسے یہ لوگ قائم کرنا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے خوف کو امن سے بدل دیا.یہی حال حضرت علی کا ہے ان کے دل کا خوف بھی صرف صداقت اور روحانیت کی اشاعت کے بارہ میں تھا سوا اللہ تعالیٰ نے اس خوف کو امن سے بدل دیا.یہ ڈر نہیں تھا کہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے.چنانچہ باوجود اس کے کہ حضرت معاویہ کا لشکر

Page 458

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۴ جلد سوم بعض دفعہ حضرت علی کے لشکر سے کئی کئی گنا زیادہ ہوتا تھا آپ اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے تھے اور یہی فرماتے تھے کہ جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی مانوں گا اس کے خلاف میں کوئی بات تسلیم نہیں کر سکتا.اگر بعض لوگوں کی مخالفت کو ہی خوفناک امر قرار دے دیا جائے تب تو ماننا پڑے گا کہ انبیاء ( نَعُوذُ بِالله ) ہمیشہ لوگوں سے ڈرتے رہے ہیں کیونکہ جتنی مخالفت لوگ ان کی کرتے ہیں اتنی مخالفت اور کسی کی نہیں کرتے.بہر حال دنیا کی مخالفت کو ئی حقیقت نہیں رکھتی اور نہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ الْخَوْفِ آمنًا بلك وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوفهم آمنا فرمایا ہے کہ جس چیز سے وہ ڈرتے ہوں گے اسے اللہ تعالیٰ دور کر دے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ وہ صرف اس بات سے ڈرتے تھے کہ اُمت محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آ جائے.سو اُمت محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس توجہ اور دعا کی برکت سے بحیثیت مجموعی ضلالت سے محفوظ رکھا اور اہل السنت والجماعت کا مذہب ہی دنیا کے کثیر حصہ پر ہمیشہ غالب رہا.میں نے اس آیت کے جو یہ معنی کئے ہیں کہ اس جگہ خوف سے مراد عام خوف نہیں بلکہ وہ خوف ہے جسے خلفاء کا دل محسوس کرتا ہو.اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں عام خوف ضرور ہوتا ہے بلکہ عام خوف بھی اللہ تعالیٰ ان سے دور ہی رکھتا ہے سوائے اس کے کہ اس میں کوئی مصلحت ہو.جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب خوف پیدا ہوا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ عام مسلمانوں کی حالت ایسی ہو چکی تھی کہ اب وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خلافت کے انعام کے مستحق نہیں رہے تھے.پس میرا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عام خوفوں سے محفوظ نہیں رکھتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصل وعدہ اس آیت میں اُسی خوف کے متعلق ہے جس کو وہ خوف قرار دیں اور وہ بجائے کسی اور بات کے ہمیشہ اس ایک بات سے ہی ڈرتے تھے کہ اُمت محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آجائے.سو خدا کے فضل سے اُمت محمدیہ ایسی ضلالت سے محفوظ رہی اور باوجود بڑے بڑے فتنوں کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی وفات کے بعد اس کی

Page 459

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۵ جلد سوم ہدایت کے سامان ہوتے رہے.اصل معجزہ یہی ہوتا ہے کہ کسی کی وفات کے بعد اس کی خواہشات پوری ہوتی رہیں.زندگی میں اگر کسی کی خواہشیں پوری ہوں تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے تذبیروں سے کام لے لیا تھا مگر جس کی زندگی ختم ہو جائے اور پھر بھی اس کی خواہشیں پوری ہوتی رہیں اس کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے کسی ظاہری تدبیر سے کام لیا ہو گا بلکہ یہ بات اس امر کا ثبوت ہو گا کہ وہ شخص خدا تعالیٰ کا محبوب اور پیارا تھا اور اللہ تعالیٰ کا اس سے گہرا تعلق تھا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کشفی حالت میں سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں سونے کے کڑے دیکھے.اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ صرف یہ نہیں کہ آپ نے اس کے ہاتھوں میں سونے کے کڑے دیکھے بلکہ معجزہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد مالِ غنیمت میں سونے کے کڑے آئے اور باوجود اس کے کہ شریعت میں مردوں کو سونے کے کڑے پہننے ممنوع ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ جذبہ پیدا کر دیا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کشف کو پورا کرنے کے لئے اسے سونے کے کڑے پہنائیں چنانچہ آپ نے اسے پہنائے.پس اس واقعہ میں معجزہ یہ ہے کہ باوجود یکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کو پورا کرنے کا جذبہ پیدا کر دیا.پھر یہ بھی معجزہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات حضرت عمر نے سن لی اور آپ کو اس کے پورا کرنے کا موقع مل گیا.آخر حضرت عمرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات تو نہیں سنا کرتے تھے ممکن ہے یہ بات کسی اور کے کان میں پڑتی اور وہ آگے کسی اور کو بتانا بھول جاتا.مگر اس معجزہ کا یہ بھی ایک حصہ ہے کہ جس شخص کے پاس سونے کے کڑے پہنچنے تھے اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کشف بھی پہنچ چکا تھا.پھر اس معجزے کا یہ بھی حصہ ہے کہ حضرت عمر کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ تحریک پیدا کر دی کہ وہ اُس صحابی کوسونے کے کڑے پہنائیں حالانکہ شریعت کے لحاظ سے مردوں کے لئے سونا پہنا ممنوع ہے.مگر چونکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتا تھا اس لئے آپ

Page 460

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۶ جلد سوم کے دل کو اس نے اس طرف مائل کر دیا کہ مردوں کے سونا نہ پہننے میں جو حکمتیں ہیں وہ بھی بے شک اچھی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے کیلئے کسی کو تھوڑی دیر کے لئے سونے کے کڑے پہنا دینا بھی کوئی بُری بات نہیں ہو سکتی چنانچہ انہوں نے صحابی کو اپنے سامنے سونے کے کڑے پہنائے.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ خلفائے راشدین فوت ہو گئے تو ان کی وفات کے سالہا سال بعد خدا تعالیٰ نے ان کے خوف کو امن سے بدلا.کبھی سو سال بعد کبھی دوسو سال بعد، کبھی تین سو سال بعد، کبھی چار سو سال کے بعد اور کبھی پانچ سو سال کے بعد اور اس طرح ظاہر کر دیا کہ خدا تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ ان کے ارادے رائیگاں جائیں.لیکن اگر اس ساری آیت کو ساری قوم کی طرف منسوب کر دیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اس صورت میں بھی وہی معنی کئے جائیں جن کو میں نے بیان کیا ہے یعنی اس صورت میں بھی ساری قوم کو اگر کوئی خوف ہو سکتا تھا تو وہ کفار کے اسلام پر غلبہ کا ہو سکتا تھا.فردی طور پر تو کسی کو یہ خوف ہو سکتا ہے کہ میرا بیٹا نہ مرجائے ، کسی کو یہ خوف ہوسکتا ہے کہ مجھے تجارت میں نقصان نہ ہو جائے مگر قوم کا خوف تو ایسا ہی ہو سکتا ہے جو اپنے اندر قومی رنگ رکھتا ہو اور وہ خوف بھی پھر یہی ماننا پڑتا ہے کہ ایسا نہ ہوا سلام پر کفار غالب آجائیں.سو قوم کا یہ خوف بھی اسلام کے ذریعہ ہی دور ہوا اور اسلام کو ایسا زبر دست غلبہ حاصل ہوا جس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی.خلفاء کی چھٹی علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے یعنی ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ جرات اور دلیری پیدا کر دے گا اور خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کا خوف ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہوگا.وہ لوگوں کے ڈر سے کوئی کام نہیں کریں گے بلکہ اللہ پر تو کل رکھیں گے اور اسی کی خوشنودی اور رضا کیلئے تمام کام کریں گے.یہ معنی نہیں کہ وہ بت پرستی نہیں کریں گے بت پرستی تو عام مسلمان بھی نہیں کرتے کجا یہ کہ خلفاء کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بت پرستی نہیں کریں گے.پس یہاں بت پرستی کا ذکر نہیں بلکہ اس امر کا ذکر ہے

Page 461

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۷ جلد سوم کہ وہ بندوں سے ڈر کر کسی مقام سے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹا ئیں گے بلکہ جو کچھ کریں گے خدا تعالیٰ کے منشاء اور اس کی رضا کو پورا کرنے کے لئے کریں گے اور اس امر کی ذرا بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ اس راہ میں انہیں کن بلاؤں اور آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.دنیا میں بڑے سے بڑا دلیر آدمی بھی بعض دفعہ لوگوں کے ڈر سے ایسا پہلو اختیار کر لیتا ہے جس سے گو یہ مقصود نہیں ہوتا کہ وہ سچائی کو چھوڑ دے مگر دل میں یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ میں ایسے رنگ میں کام کروں کہ کسی کو شکوہ پیدا نہ ہو.مولوی غلام علی صاحب ایک کٹر وہابی ہوا کرتے تھے وہابیوں کا یہ فتویٰ تھا کہ ہندوستان میں جمعہ کی نماز ہوسکتی ہے لیکن حنفیوں کے نزدیک ہندوستان میں جمعہ کی نماز جائز نہیں تھی کیونکہ وہ کہتے تھے کہ جمعہ پڑھنا تب جائز ہو سکتا ہے جب مسلمان سلطان ہو.جمعہ پڑھانے والا مسلمان قاضی ہو اور جہاں جمعہ پڑھا جائے وہ شہر ہو.ہندوستان میں انگریزی حکومت کی وجہ سے چونکہ نہ مسلمان سلطان رہا تھا نہ قاضی اس لئے وہ جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تھے.ادھر چونکہ قرآن کریم میں وہ یہ لکھا ہوا پاتے تھے کہ جب تمہیں جمعہ کے لئے بلایا جائے تو فوراً تمام کام چھوڑتے ہوئے جمعہ کی نماز کے لئے چل پڑو اس لئے ان کے دلوں کو اطمینان نہ تھا.ایک طرف ان کا جی چاہتا تھا کہ وہ جمعہ پڑھیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے تھے کہ کوئی حنفی مولوی ہمارے خلاف فتویٰ نہ دے دے.اس مشکل کی وجہ سے ان کا یہ دستور تھا کہ جمعہ کے روز گاؤں میں پہلے جمعہ پڑھتے اور پھر ظہر کی نماز ادا کر لیتے اور وہ خیال کرتے کہ اگر جمعہ والا مسئلہ درست ہے تب بھی ہم بچ گئے اگر ظہر پڑھنے والا مسئلہ صحیح ہے تب بھی ہم بچ گئے.اسی لئے وہ ظہر کا نام ظہر کی بجائے احتیاطی رکھا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ خدا نے اگر ہمارے جمعہ کی نماز کو الگ پھینک دیا تو ہم ظہر کو اُٹھا کر اُس کے سامنے رکھ دیں گے اور اگر اس نے ظہر کو رد کر دیا تو ہم جمعہ اس کے سامنے پیش کر دیں گے.اور اگر کوئی احتیاطی“ نہ پڑھتا تو سمجھا جاتا کہ وہ وہابی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہم مولوی غلام علی صاحب کے ساتھ گورداسپور گئے راستہ میں جمعہ کا وقت آ گیا ہم نماز پڑھنے کے لئے ایک مسجد میں چلے گئے.آپ کا عام طریق وہابیوں سے ملتا جلتا

Page 462

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۸ جلد سوم تھا کیونکہ وہابی حدیثوں کے مطابق عمل کرنا اپنے لئے ضروری جانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا ہی انسان کی نجات کے لئے ضروری ہے.غرض آپ بھی مولوی غلام علی صاحب کے ساتھ گئے اور جمعہ کی نماز پڑھی.جب مولوی غلام علی صاحب جمعہ کی نماز سے فارغ ہو گئے تو انہوں نے چار رکعت ظہر کی نماز پڑھ لی.آپ فرماتے تھے کہ میں نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب ! یہ جمعہ کی نماز کے بعد یہ چار رکعتیں کیسی ہیں؟ وہ کہنے لگے یہ احتیاطی ہے.میں نے کہا مولوی صاحب ! آپ تو وہابی ہیں اور عقیدتاً اس کے مخالف ہیں پھر ” احتیاطی کے کیا معنی ہوئے؟ وہ کہنے لگے احتیاطی ان معنوں میں نہیں کہ خدا کے سامنے ہما را جمعہ قبول ہوتا ہے یا ظہر بلکہ یہ ان معنوں میں ہے کہ لوگ مخالفت نہ کریں.تو کئی لوگ اس طرح بھی کام کر لیتے ہیں جیسے مولوی غلام علی صاحب نے کیا کہ اپنے دل میں تو وہ اس بات پر خوش رہے کہ اُنہوں نے جمعہ پڑھا ہے اور ادھر لوگوں کو خوش کرنے کے لئے چار رکعت ظہر کی نماز بھی پڑھ لی.اسی طرح ایک لطیفہ مشہور ہے کہتے ہیں کہ کوئی سنی بزرگ تھے جو شیعوں کے علاقہ میں رہتے تھے.ایک دفعہ غربت کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہو گئے اور اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ بادشاہ کے پاس پہنچ کر مدد کی درخواست کرنی چاہئے.چنانچہ وہ اس کے پاس گئے اور مدد کی درخواست کی.وزیر نے ان کی شکل دیکھ کر بادشاہ کو کہا کہ یہ شخص شیعہ نہیں سنی معلوم ہوتا ہے.بادشاہ نے کہا کہ تمہیں کس طرح معلوم ہوا ؟ وہ کہنے لگا بس شکل سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے.بادشاہ کہنے لگا یہ کوئی دلیل نہیں تم میرے سامنے اس کا امتحان لو.چنانچہ وزیر نے ان کے سامنے حضرت علی کی بڑے زور سے تعریف شروع کر دی.وہ بزرگ بھی حضرت علیؓ کی تعریف کرنے لگ گئے.بادشاہ نے یہ دیکھ کر کہا دیکھا ! تم جو کچھ کہتے تھے وہ غلط ثابت ہوا یا نہیں ؟ اگر یہ شیعہ نہ ہوتا تو کیا حضرت علیؓ کی ایسی ہی تعریف کرتا ؟ وزیر کہنے لگا بادشاہ سلامت ! آپ خواہ کچھ بھی کہیں مجھے یہ سنی ہی معلوم ہوتا ہے.بادشاہ نے کہا اچھا امتحان کے لئے پھر کوئی اور بات کرو.چنانچہ وزیر کہنے لگا کہو " بر ہر سہ لعنت“ یعنی ابو بکر، عمر اور عثمان پر نَعُوذُبِ اللهِ ) لعنت.وہ بھی کہنے لگا ”بر ہر سہ لعنت.بادشاہ نے کہا اب تو یہ یقینی طور

Page 463

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۹ جلد سوم شیعہ ثابت ہو گیا ہے.وہ کہنے لگا بظاہر تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے مگر میرا دل مطمئن نہیں.آخر وزیر انہیں الگ لے گیا اور کہا سچ سچ بتاؤ تمہارا مذہب کیا ہے؟ اس نے کہا میں سنی ہوں.اس نے کہا پھر تم نے ”بر ہر سہ لعنت کیوں کہا تھا ؟ وہ بزرگ کہنے لگے تمہاری ان الفاظ سے تو مراد یہ تھی کہ ابو بکر، عمر اور عثمان پر لعنت ہو مگر میری مراد یہ تھی کہ آپ دونوں اور مجھ پر لعنت ہو.آپ لوگوں پر اس لئے کہ آپ بزرگوں پر لعنت کرتے ہیں اور مجھ پر اس لئے کہ مجھے اپنی بد بختی سے تم جیسے لوگوں کے پاس آنا پڑا.غرض انسان کئی طریق پر وقت گزار لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس طرح اس نے کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا.مگر فرمایا يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا خلفاء انتہائی طور پر دلیر ہوں گے اور خوف و ہر اس ان کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا وہ جو کچھ کریں گے خدا کی رضا کے لئے کریں گے کسی انسان سے ڈر کر ان سے کوئی فعل صادر نہیں ہوگا.یہ علامت بھی خلفائے راشدین میں تمام و کمال پائی جاتی ہے.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو اُس وقت سارا عرب مرتد ہو گیا صرف دو جگہ نماز با جماعت ہوتی تھی باقی تمام مقامات میں فتنہ اُٹھ کھڑا ہوا اور سوائے مکہ اور مدینہ اور ایک چھوٹے سے قصبہ کے تمام ملک نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمایا تھا کہ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً " تو اُن کے مالوں سے صدقہ لے کسی اور کو یہ اختیار نہیں کہ ہم سے زکوۃ وصول کرے.غرض سارا عرب مرتد ہو گیا اور وہ لڑائی کے لئے چل پڑا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گو اسلام کمزور تھا مگر لوگ متفرق طور پر حملہ کرتے تھے کبھی ایک گروہ نے حملہ کر دیا اور کبھی دوسرے نے.جب غزوہ احزاب کے موقع پر کفار کے لشکر نے اجتماعی رنگ میں مسلمانوں پر حملہ کیا تو اُس وقت تک اسلام ایک حد تک طاقت پکڑ چکا تھا گوا بھی اتنی زیادہ طاقت حاصل نہیں ہوئی تھی کہ انہیں آئندہ کے لئے کسی حملہ کا ڈر ہی نہ رہتا.اس کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ فتح کرنے کے لئے گئے تو اُس وقت عرب کے بعض قبائل بھی آپ کی مدد کے لئے کھڑے ہو گئے اس طرح خدا تعالیٰ نے

Page 464

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۰ جلد سوم تدریجی طور پر دشمنوں میں جوش پیدا کیا تا کہ وہ اتنا زور نہ پکڑ لیں کہ سب ملک پر چھا جائیں.لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یکدم تمام عرب مرتد ہو گیا صرف مکہ اور مدینہ اور ایک اور چھوٹا سا قصبہ رہ گئے باقی سب مقامات کے لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور وہ لشکر لے کر مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے.بعض جگہ تو ان کے پاس ایک ایک لاکھ کا بھی لشکر تھا مگر ادھر صرف دس ہزار کا ایک لشکر تھا اور وہ بھی شام کو جارہا تھا اور یہ وہ لشکر تھا جسے اپنی وفات کے قریب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا اور اسامہ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا باقی جو لوگ تھے وہ یا تو کمزور اور بڑھے تھے یا پھر گنتی کے چند نوجوان تھے.یہ حالات دیکھ کر صحابہ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہ کا لشکر بھی روانہ ہو گیا تو مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں ہو سکے گا.چنانچہ اکابر صحابہ کا ایک وفد جن میں حضرت عمرؓ اور حضرت علی بھی شامل تھے اور جو شجاعت اور دلیری میں مشہور تھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کچھ عرصہ کے لئے اس لشکر کو روک لیا جائے جب بغاوت فرو ہو جائے تو پھر بے شک اسے بھجوا دیا جائے مگر اب اس کا بھیجوانا خطرہ سے خالی نہیں.مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں اور دشمن کا لشکر ہماری طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نہایت غصہ کی حالت میں فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدا ابو قحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اُسے روک لے.میں اس لشکر کو کسی صورت میں روک نہیں سکتا.اگر تمام عرب باغی ہو گیا ہے تو بے شک ہو جائے اور اگر مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تو بے شک نہ رہے خدا کی قسم ! اگر دشمن کی فوج مدینہ میں گھس آئے اور ہمارے سامنے مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے.۲۳ اگر تم دشمن کی فوجوں سے ڈرتے ہو تو بے شک میرا ساتھ چھوڑ دو میں اکیلا تمام دشمنوں کا مقابلہ کروں گا.یہ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کی صداقت کا کتنا بڑا ثبوت ہے.

Page 465

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۱ جلد سوم دوسرا سوال زکوۃ کا تھا صحابہ نے عرض کیا کہ اگر آپ لشکر نہیں روک سکتے تو صرف اتنا کر لیجئے کہ ان لوگوں سے عارضی صلح کرلیں اور انہیں کہہ دیں کہ ہم اس سال تم سے زکوۃ نہیں لیں گے اس دوران میں ان کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا اور تفرقہ کے مٹنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے گی.موجودہ صورت میں جبکہ وہ جوش سے بھرے ہوئے ہیں اور جبکہ وہ لڑنے مرنے کے لئے تیار ہیں ان سے زکوۃ وصول کرنا مناسب نہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا ہر گز نہیں ہوگا.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ لوگ اونٹ کا گھٹنا باندھنے والی ایک رتی بھی زکوۃ میں دیا کرتے تھے اور اب نہیں دیں گے تو میں اُس وقت تک ان سے جنگ جاری رکھوں گا جب تک کہ وہ رتی بھی ان سے وصول نہ کرلوں.اس پر صحابہ نے کہا اگر جیش اسامہ بھی چلا گیا اور ان لوگوں سے عارضی صلح بھی نہ کی گئی تو پھر دشمن کا کون مقابلہ کرے گا مدینہ میں تو بڑھے اور کمزور لوگ یا چند نوجوان ہیں وہ بھلا لاکھوں کا کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اے دوستو ! اگر تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ابو بکر اکیلا ان کا مقابلہ کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوگا.یہ دعوی اس شخص کا ہے جسے فنونِ جنگ سے کچھ زیادہ واقفیت نہ تھی اور جس کے متعلق عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ وہ دل کا کمزور ہے.پھر یہ جرات ، یہ دلیری ، یہ یقین اور یہ وثوق آپ میں کہاں سے آیا؟ اس وجہ سے آیا کہ آپ نے یہ سمجھ لیا تھا کہ میں خلافت کے مقام پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہوں اور مجھ پر ہی تمام کاموں کی ذمہ داری ہے پس میرا فرض ہے کہ میں مقابلہ کیلئے تیار ہو جاؤں.کامیابی دینا یا نہ دینا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر وہ کامیابی دینا چاہے گا تو آپ دے دے گا اور اگر نہیں دینا چاہے گا تو سارے لشکر مل کر بھی کامیاب نہیں کر سکتے.۲۴ اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یہ جرات دیکھو کہ انہوں نے اپنے عہد خلافت میں دنیا کی دو زبر دست حکومتوں یعنی قیصر و کسریٰ سے بیک وقت جنگ شروع کر دی.حالانکہ اُس زمانہ میں صرف قیصر کا مقابلہ کرنا بھی ایسا ہی تھا جیسے آجکل افغانستان کی حکومت امریکہ یا انگلستان سے لڑائی شروع کر دے.مگر با وجود اتنی زبر دست حکومت کے ساتھ

Page 466

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۲ جلد سوم جنگ جاری ہونے کے جب حضرت ابو بکر کے سامنے یہ سوال پیش ہوا کہ کسری کی فوجوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں سرگرمی دکھانی شروع کر دی ہے اور ان کے بہت سے علاقے جو مسلمانوں کے قبضہ میں تھے اُن میں بغاوت اور سرکشی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں تو آپ نے دیا کہ فوراً امیران پر حملہ کر دو.صحابہ کہتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں دوز بر دست حکومتوں سے کس طرح مقابلہ ہو گا.مگر آپ فرماتے ہیں کچھ پرواہ نہیں جاؤ اور مقابلہ کرو.مسلمان چونکہ اُس وقت رومی حکومت سے جنگ کرنے میں مشغول تھے اس لئے ایران پر مسلمانوں کا یہ حملہ اس قدر دور از قیاس تھا کہ ایران کے بادشاہ کو جب یہ خبریں پہنچیں کہ مسلمان فوجیں بڑھتی چلی آ رہی ہیں تو اُس نے ان خبروں کو کوئی اہمیت نہ دی اور کہا کہ لوگ خواہ مخواہ جھوٹی افواہیں اُڑا رہے ہیں مسلمان بھلا ایسی حالت میں جبکہ وہ پہلے ہی ایک خطر ناک جنگ میں مبتلا ہیں ایران پر حملہ کرنے کا خیال بھی کر سکتے ہیں.چنانچہ کچھ عرصہ تک تو ایرانیوں کی شکست کی بڑی وجہ یہی ہوئی کہ دارالخلافہ سے مسلمانوں کے مقابلہ میں کوئی فوج نہیں آئی اور بادشاہ خیال کرتا رہا کہ لوگ جھوٹی خبر میں اُڑا رہے ہیں.مگر جب کثرت اور تواتر کے ساتھ اسے اس قسم کی خبریں پہنچیں تو اُس نے اپنا ایک جرنیل بھیجا اور اسے حکم دیا کہ میرے پاس صحیح حالات کی رپورٹ کرو.چنانچہ اُس نے جب رپورٹ کی کہ مسلمان واقعہ میں حملہ کر رہے ہیں اور بہت سے حصوں پر قابض بھی ہو چکے ہیں تب اُس نے ان کے مقابلہ کے لئے فوج بھیجی.اس سے تم اندازہ لگا لو کہ مسلمانوں کا اس لڑائی میں کو دنا بظاہر کتنا خطر ناک تھا جبکہ اس کے ساتھ ہی وہ رومی لشکر کا بھی مقابلہ کر رہے تھے.مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خدا تعالیٰ نے مقام خلافت پر کھڑا کرنے کے بعد جو قوت بخشی تھی اس کے آگے ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہ تھی.انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اتنے مسلمان کہاں سے آئیں گے جو ایرانی لشکر کا مقابلہ کر سکیں ، انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اتنا سامان اور اسلحہ کہاں سے آئے گا جو ایرانی فوجوں کے سامان اور اسلحہ کے مقابلہ میں کام آسکے.انہوں نے ایرانیوں کی سرکشی کی خبر سنتے ہی فوراً اپنے سپاہیوں کو اس آگ میں کود جانے کا حکم دے دیا اور کسری سے بھی جنگ شروع کر دی.اس کے بعد جب حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے تو وہی عمر " جو ابو بکر کو یہ مشورہ دیتے تھے کہ اتنے

Page 467

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۳ جلد سوم بڑے لشکر کا ہم کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں وہ بہت ہیں اور ہم تھوڑے ، جیش اسامہ کو روک لیا جائے تا کہ وہ ہماری مدد کر سکے.اُن میں بھی وہی تو کل آ گیا اور انہوں نے بھی ایک ہی وقت میں قیصر و کسریٰ سے جنگ شروع کر دی اور آخر ان دونوں حکومتوں کا تختہ اُلٹ کر رکھ دیا.اسی جنگ کے نتیجہ میں جب ایران فتح ہوا اور کسری کے خزائن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو مال غنیمت میں کسریٰ کا ایک رومال بھی آیا جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ملا.ایک دن انہیں کھانسی اُٹھی تو انہوں نے اپنی جیب سے کسری شاہ ایران کا رومال نکال کر اُس میں تھوک دیا اور پھر کہابخ بخ ابو هُرَيْرَةَ واہ واہ ابو ہریرہ ! تیری بھی کیا شان ہے کہ تو آج کسری شاہ ایران کے رومال میں تھوک رہا ہے.لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا الفاظ استعمال کئے ہیں انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض دفعہ مجھے اتنے فاقے ہوتے تھے کہ میں بھوک سے بیتاب ہو کر بے ہوش ہو جاتا تھا اور لوگ یہ سمجھ کر کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے میرے سر پر جوتیاں مارا کرتے مگر آج یہ حالت ہے کہ میں شاہی رومال میں تھوک رہا ہوں.۲۵ تو يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کی علامت خدا تعالیٰ نے خلفائے راشدین کے ذریعہ نہایت واضح رنگ میں پوری فرمائی اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے سوا کبھی کسی کا خوف اپنے دل میں نہیں آنے دیا.اسی طرح حضرت عثمان جیسے با حیا اور رقیق القلب انسان نے اندرونی مخالفت کا مقابلہ جس یقین سے کیا ہے وہ انسانی عقل کو دنگ کر دیتا ہے حالانکہ وہ عام طور پر کمزور سمجھے جاتے تھے مگر جب ان کا اپنا زمانہ آیا تو انہوں نے ایسی بہادری اور جرات سے کام لیا کہ انسان ان واقعات کو پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے.یہی حال حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے کسی مخالفت یا خطرے کی انہوں نے پرواہ نہیں کی حالانکہ اندرونی خطرے بھی تھے اور بیرونی بھی مگر ان کے مدنظر صرف یہی امر رہا کہ خدا تعالیٰ کی مرضی پوری ہو اور ذرا بھی کسی سے خوف کھا کر اُس منشائے الہی میں جو انہوں نے سمجھا تھا فرق نہیں آنے دیا.غرض تمام خلفاء کے حالات میں ہمیں يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کا نہایت اعلیٰ

Page 468

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۴ جلد سوم درجہ کا نظارہ نظر آتا ہے جو اس بات کا یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خود مقام خلافت پر کھڑا کیا تھا اور وہ آپ اُن کی تائید اور نصرت کا ذمہ دار رہا.اب میں اُن اعتراضات کو لیتا ہوں جو عام طور پر اس آیت پر کئے جاتے ہیں.پہلا اعتراض اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں اُمت مسلمہ سے وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد سے اور اُمت کو خلیفہ بنانے کا وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد کو.پس اس سے مراد مسلمانوں کو غلبہ اور حکومت کا میسر آجانا ہے نہ کہ بعض افراد کا خلافت پر متمکن ہو جانا.اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ بے شک یہ وعدہ قوم سے ہے مگر قوم سے کسی وعدہ کے کئے جانے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ افراد کے ذریعہ وہ وعدہ پورا نہ ہو.بعض وعدے قوم سے ہوتے ہیں لیکن افراد کے ذریعہ پورے کئے جاتے ہیں اور کہا یہی جاتا ہے کہ قوم سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہو گیا.اس کی مثالیں دنیا کی ہر زبان میں ملتی ہیں.مثلاً ہماری زبان میں ہی کہا جا تا ہے کہ انگریز با دشاہ ہیں.اب کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ ہر انگریز بادشاہ ہے؟ ہر انگریز تو نہ بادشاہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے مگر کہا یہی جاتا ہے کہ انگریز با دشاہ ہیں.اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فلاں قوم حاکم ہے حالانکہ ساری قوم کہاں حاکم ہوتی ہے چند افراد کے سپر دحکومت کا نظم ونسق ہوتا ہے اور باقی سب اس کے تابع ہوتے ہیں.اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فلاں قوم بڑی دولت مند ہے مگر اس کے یہ معنی تو نہیں ہوتے کہ اس قوم کا ہر فرد دولت مند ہے.انگریزوں کے متعلق عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے دولت مند ہیں حالانکہ ان میں بڑے بڑے غریب بھی ہوتے ہیں.ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے ایک دفعہ سنایا کہ جب وہ لندن میں تھے تو ایک دن جس مکان میں وہ رہتے تھے اس کا کوڑا کرکٹ اُٹھا کر خادمہ نے جب باہر پھینکا تو ایک انگریز لڑ کا جھپٹ کر آیا اور اُس نے کوڑے کرکٹ کے انبار میں سے ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا نکال کر کھا لیا.اسی طرح برنڈزی میں میں نے دیکھا کہ عورتیں اپنے سر پر برتن رکھ کر پانی لینے جاتی تھیں اور ان کے بچوں نے جو پتلونیں پہنی ہوئی تھیں اُن کا کچھ حصہ کسی کپڑے کا ہوتا تھا اور کچھ حصہ کسی کپڑے کا.مگر کہا یہی جاتا ہے کہ یورپین بڑے

Page 469

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۵ جلد سوم دولت مند ہیں.پس قوم سے وعدہ کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ افراد کے ذریعہ وہ وعدہ پورا نہ ہو.کئی وعدے قوم سے ہی ہوتے ہیں لیکن پورے وہ افراد کے ذریعہ کئے جاتے ہیں.اس کی.مثال ہمیں قرآن کریم سے بھی ملتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمٍ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أنْبِيَاء وَجَعَلَكُمْ قُلُوكًا ٢٦) یعنی موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تم میں اپنے انبیاء مبعوث کئے اور اس نے تم کو بادشاہ بنایا.اب کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ سب بنی اسرائیل بادشاہ بن گئے تھے.یقیناً ان بنی اسرائیل میں بڑے بڑے غریب بھی ہوں گے مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام ان سے یہی فرماتے ہیں جَعَلَكُمْ قُلُوكًا اس نے تم سب کو بادشاہ بنایا مراد یہی ہے کہ جب کسی قوم میں سے بادشاہ ہو تو چونکہ وہ قوم ان انعامات اور فوائد سے حصہ پاتی ہے جو بادشاہت سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے بالفاظ دیگر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بادشاہ ہو گئی.پس جب جَعَلَكُمْ تُلُوكًا کی موجودگی کے باوجود اس آیت کے یہ معنی نہیں کئے جاتے کہ ہر یہودی بادشاہ بنا تو وعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وعَمِلُوا الصلحت لَيَسْتَخْلِفَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْرِهِمْ سے یہ کیونکر نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ وعدہ بعض افراد کے ذریعہ پورا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اُمت کے ہر فر دکو خلافت کا انعام ملنا چاہئے.پھر اگر اس سے قومی غلبہ بھی مراد لیں تو تب بھی ہر مومن کو یہ غلبہ کہاں حاصل ہوتا ہے پھر بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ بعض افراد کو غلبہ ملتا ہے اور بعض کو نہیں ملتا.صحابہ میں سے بھی کئی ایسے تھے جو قومی غلبہ کے زمانہ میں بھی غریب ہی رہے اور اُن کی مالی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہوئی.حضرت ابو ہریرہ کا ہی لطیفہ ہے کہ جب حضرت علی اور حضرت معاویہ کی آپس میں جنگ ہوئی اور صفین کے مقام پر دونوں لشکروں نے ڈیرے ڈال دیئے تو با وجود اس کے کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ کے کیمپوں میں ایک ایک میل کا فاصلہ تھا جب نماز کا وقت آتا تو حضرت ابو ہریرہ کا حضرت علیؓ کے کیمپ میں آجاتے اور جب کھانے کا وقت آتا تو حضرت معاویہ کے کیمپ میں چلے جاتے.کسی نے ان سے کہا کہ آپ

Page 470

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۶ جلد سوم بھی عجیب آدمی ہیں اُدھر علی کی مجلس میں چلے جاتے ہیں اور ادھر معاویہ کی مجلس میں شریک ہو جاتے ہیں؟ وہ کہنے لگے نماز حضرت علی کے ہاں اچھی ہوتی ہے اور کھانا حضرت معاویہ کے ہاں اچھا ملتا ہے اس لئے جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو میں اُدھر چلا جاتا ہوں اور جب روٹی کا وقت آتا ہے ادھر آ جاتا ہوں.غیر مبائعین کا بھی ایسا ہی حال ہے بلکہ ان کا لطیفہ تو حضرت ابو ہریرۃ کے لطیفہ سے بھی بڑھ کر ہے.میں ایک دفعہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی دوست نے ایک غیر مبائع کے متعلق بتایا کہ وہ کہتے ہیں عقا ئد تو مولوی محمد علی صاحب کے درست ہیں مگر دعائیں میاں صاحب کی زیادہ قبول ہوتی ہیں گویا جیسے حضرت ابو ہریرہ نے کہا تھا کہ روٹی معاویہ کے ہاں اچھی ملتی ہے اور نماز علی کے ہاں اچھی ہوتی ہے اسی طرح اُس نے کہا کہ عقائد تو مولوی محمد علی صاحب کے درست ہیں مگر دعائیں اِن کی قبول ہوتی ہیں.تو قوم میں بادشاہت آجانے کے باوجود پھر بھی کئی لوگ غریب ہی رہتے ہیں مگر کہا یہی جاتا ہے کہ وہ قوم بادشاہ ہے کیونکہ جب کسی قوم میں سے کوئی بادشاہ ہو تو تمام قوم بادشاہت کے فوائد سے حصہ پاتی ہے.اسی طرح جب کسی قوم میں سے بعض افراد کو خلافت مل جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اُس قوم کو وہ انعام ملا ہے.یہ ضروری نہیں ہوگا کہ ہر فرد کو یہ انعام ملے.ر ا دوسری مثال اس کی یہ آیت ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَمِنُوا بِمَا انزل اللهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَاوراء ٢٧ که جب یہود سے یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں جو کچھ اُترا ہے اُس پر ایمان لاؤ تو وہ کہتے ہیں نُؤْمِنُ بما انزل نا ہم تو اسی پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوا ہے اور یہ امرصاف ظاہر ہے کہ وحی ان پر نہیں اتری تھی بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اتری تھی.مگر وہ کہتے ہیں ہم پر اُتری گویا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کلام کے متعلق انزل علینا کہتے ہیں.اسی طرح بعض افراد پر جو اس قسم کا انعام نازل ہو جس سے ساری قوم کو فائدہ پہنچتا ہوتو یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ساری قوم کو ملا.چونکہ ملوکیت کے ذریعہ سے ساری قوم کی عزت ہوتی ہے اس وجہ سے جَعَلَكُمْ تُلُوكًا فرمایا.اور چونکہ خلافت سے سب قوم نے

Page 471

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۷ جلد سوم نفع اٹھانا تھا اس لئے خلافت کے بارہ میں بھی یہی کہا کہ تم کو خلیفہ بنایا جائے گا.دوسرا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فعل نے اس امر پر شہادت دے دی ہے کہ اُس کی اِس آیت سے کیا مراد ہے.خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ وقدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمُ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهِيمُ که وہ ایمان اور عمل صالح پر قائم رہنے والوں کو زمین میں اُسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اُس نے پہلوں کو خلیفہ بنایا.اب اگر اللہ تعالیٰ کی اس سے جمہوریت مراد تھی تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ جمہوریت قائم ہوئی یا نہیں.اور اگر خدا تعالیٰ کا یہ منشاء تھا کہ بعض افرادِ اُمت کو خلافت ملے گی اور اُن کی وجہ سے تمام قوم برکات خلافت کی مستحق قرار پا جائے گی تو ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا اس رنگ میں مسلمانوں میں خلافت قائم ہوئی یا نہیں ؟ اس نقطۂ نگاہ کے ماتحت جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کے حالات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بعض افرادِ اُمت کو ہی خلافت ملی تھی سب کو خلافت نہیں ملی.پس یا تو یہ مانو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگ الّذينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلح کے مصداق نہیں رہے تھے اور جس طرح شیعہ کہتے ہیں کہ امت میں صرف اڑھائی مومن تھے اسی طرح نَعُوذُ بِاللهِ سب منافق ہی منافق رہ گئے تھے اس لئے خلافت قومی کا وعدہ ان سے پورا نہ ہوا.اور یا یہ مانو کہ خلافت کا طریق وہی تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عملاً جاری ہوا.بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں جس رنگ میں خلافت قائم کی وہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت ہے اور خدا تعالیٰ کی یہ فعلی شہادت بتارہی ہے کہ قوم سے اس وعدہ کو بعض افراد کے ذریعہ ہی پورا کیا جائے گا.دوسرا اعتراض اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ بہت اچھا ہم نے مان لیا کہ اس آیت میں افراد کی خلافت کا ذکر ہے مگر تم خود تسلیم کرتے ہو کہ پہلوں میں خلافت ، یا نبوت کے ذریعہ سے ہوئی یا ملوک کے ذریعہ سے.مگر خلفائے اربعہ کو نہ تم نبی مانتے ہو نہ ملوک پھر یہ وعدہ کس طرح پورا ہوا اور وہ اس آیت کے کس طرح مصداق ہوئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس

Page 472

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۸ جلد سوم میں کوئی شک نہیں کہ پہلوں کو خلافت یا نبوت کی شکل میں ملی یا ملوکیت کی صورت میں.مگر مشابہت کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ہر رنگ میں مشابہت ہو بلکہ صرف اصولی رنگ میں مشابہت دیکھی جاتی ہے.مثلاً کسی لمبے آدمی کا ہم ذکر کریں اور پھر کسی دوسرے کے متعلق کہیں کہ وہ بھی ویسا ہی لمبا ہے تو اب کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جو یہ کہے کہ جب تم نے دونوں کو لمبا قرار دیا ہے تو یہ مشابہت کس طرح درست ہوئی.ان میں سے ایک چور ہے اور دوسرا نمازی یا ایک عالم ہے اور دوسرا جاہل بلکہ صرف لمبائی میں مشابہت دیکھی جائے گی ہر بات اور ہر صورت میں مشابہت نہیں دیکھی جائے گی.اس کی مثال ہمیں قرآن کریم سے بھی ملتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا: شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إلى فِرْعَوْنَ رَسُوگا کہ ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے اور وہ ویسا ہی رسول ہے جیسے ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آپس میں مشابہت بیان کی ہے حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی طرف بھیجے گئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک بادشاہ کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے بلکہ ساری دنیا کے بادشاہوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے.اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے.پھر حضرت موسی کی رسالت کا زمانہ صرف اُنیس سو سال تک تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا زمانہ قیامت تک کے لئے ہے.یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں اہم فرق ہے.مگر با وجود ان اختلافات کے مسلمان یہی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل ہیں.پس اگر اس قسم کے اختلافات کے باوجود آپ کی مشابہت میں فرق نہیں آتا تو اگر پہلوں کی خلافت سے بعض جزوی امور میں خلفائے اسلام مختلف ہوں تو اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے.اصل بات جو اس آیت میں بتائی گئی تھی وہ یہ تھی کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو سنبھالنے کے لئے اُن کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ کی

Page 473

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۹ جلد سوم خاص حکمت نے بعض وجودوں کو اُن کی اُمت کی خدمت کے لئے چن لیا تھا اسی طرح رسول کریم صلی اللہ صلی علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالیٰ بعض ایسے وجود کھڑے کرے گا جو آپ کی اُمت کو سنبھال لیں گے.اور یہ مقصد بہ نسبت سابق خلفاء کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء نے زیادہ پورا کیا ہے.اور پھر جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسیح ناصری کو مبعوث فرمایا جو موسوی شریعت کی خدمت کرنے والے ایک تابع نبی تھے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اور اس طرح اُس تابع نبوت کا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مناسب حال امتی نبوت ہے دروازہ کھول دیا اور آپ کے ذریعہ اُس نے پھر آپ کے ماننے والوں میں خلافت کو بھی زندہ کر دیا.چنانچہ یہ سلسلہ خلافت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد شروع ہوا اور خلافت ثانیہ تک ممتد رہا اور اگر جماعت احمدیہ میں ایمان بالخلافت قائم رہا اور وہ اس کو قائم رکھنے کے لئے صحیح رنگ میں جدو جہد کرتی رہی تو اِنْشَاءَ اللہ تَعَالٰی یہ وعدہ لمبا ہوتا چلا جائے گا.مگر جماعت احمدیہ کو ایک اشارہ جو اس آیت میں کیا گیا ہے کبھی نہیں بھولنا چاہئے اور وہ اشارہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح ہم نے پہلوں کو خلیفہ بنا یا اُسی طرح تمہیں خلیفہ بنا ئیں گے یعنی خلافت کو ممند کرنے کے لئے پہلوں کے طریق انتخاب کو مد نظر رکھو اور پہلی قوموں میں سے یہودیوں کے علاوہ ایک عیسائی قوم بھی تھی جس میں خلافت بادشاہت کے ذریعہ سے نہیں آئی بلکہ ان کے اندر خالص دینی خلافت تھی.پس گما اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ میں پہلوں کے طریق انتخاب کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام بھی اس کی تصدیق کرتا ہے.آپ کا الہام ہے کلیسیا کی طاقت کا نسخہ ۲۹ یعنی کلیسیا کی طاقت کی ایک خاص وجہ ہے اس کو یا درکھو.گویا قرآن کریم نے كما استَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ کے الفاظ میں جس نسخہ کا ذکر کر دیا تھا الہام میں اُس کی طرف اشارہ کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ جس طرح وہ لوگ اپنا خلیفہ منتخب کرتے ہیں اسی طرح یا اس کے قریب قریب تم بھی اپنے لئے خلافت کے انتخاب کا طریقہ ایجاد کرو.چنانچہ اس طریق سے قریباً انیس سو سال سے عیسائیوں کی

Page 474

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۰ جلد سوم خلافت محفوظ چلی آتی ہے.عیسائیت کے خراب ہونے کی وجہ سے بے شک انہیں وہ نور حاصل نہیں ہوتا جو پہلے زمانوں میں حاصل ہوا کرتا تھا مگر جماعت احمد یہ اسلامی تعلیم کے مطابق اس قانون کو ڈھال کر اپنی خلافت کو سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال تک کے لئے محفوظ کر سکتی ہے.چنانچہ اسی کے مطابق میں نے آئندہ انتخاب خلافت کے متعلق ایک قانون بنا دیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت احمد یہ ایمان بالخلافت پر قائم رہی اور اس کے قیام کیلئے صحیح جد و جہد کرتی رہی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلہ خلافت قائم رہے گا اور کوئی شیطان اس میں رخنہ اندازی نہیں کر سکے گا.ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر خلافت کا مسلمانوں سے وعدہ تھا تو حضرت علیؓ کے بعد خلافت کیوں بند ہو گئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وعدہ شرطی تھا.آیت کے الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ یہ وعدہ اُن لوگوں کے لئے تھا جو خلافت پر ایمان رکھتے ہوں گے اور حصول خلافت کیلئے جو مناسب قومی اعمال ہوں گے وہ کرتے رہیں گے کیونکہ یہاں وعَمِلُوا الصلحت کے الفاظ ہیں اور صلح کے معنی عربی زبان میں ایسے کام کے ہوتے ہیں جو مناسب حال ہو.چونکہ اس آیت میں خلافت کا ذکر ہے اس لئے آمَنُوا سے مراد آمَنُوا بِالْخِلَافَةِ ہے اور عملوا الصلحت سے مراد عَمِلُوا عَمَلًا مُنَاسَبَا لِحُصُولِ الْخِلافَةِ ہے.اگر یہ شرط پوری نہ ہوگی تو خدا تعالیٰ کا وعدہ بھی پورا نہیں ہوگا.حضرت علیؓ کے بعد صرف لفظ خلافت باقی رہ گیا تھا لیکن عملاً با دشاہت قائم ہوگئی اور خلافت کیلئے جو شرط ہے کہ تبلیغ دین اور تبلیغ اسلام کرے وہ مٹ گئی تھی.پس شرط کے ضائع ہونے سے مشروط بھی ضائع ہو گیا اور خدا تعالیٰ کا وعدہ ٹل گیا.ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جب خلیفہ انتخاب سے ہوتا ہے تو پھر اُمت کے لئے اس کا عزل بھی جائز ہوا.اس کا جواب یہ ہے کہ گو خلیفہ کا تقر ر انتخاب کے ذریعہ سے ہوتا ہے گوخلیفہ را لیکن یہ آیت نص صریح کے طور پر اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُمت کو اپنے فیصلہ کا اس امر میں ذریعہ بناتا ہے اور اُس کے دماغ کو خاص طور پر روشنی بخشتا ہے لیکن مقر راصل میں اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے لیسْتَخْلِفَنَّهُمْ کہ وہ خود ان کو خلیفہ بنائے گا.

Page 475

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۱ جلد سوم پس گو خلفاء کا انتخاب مومنوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا الہام لوگوں کے دلوں کو اصل حقدار کی طرف متوجہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسے خلفاء میں میں فلاں فلاں خصوصیات پیدا کر دیتا ہوں اور یہ خلفاء ایک انعام الہی ہوتے ہیں.پس اس صورت میں اس اعتراض کی تفصیل یہ ہوئی کہ کیا اُمت کو حق حاصل نہیں کہ وہ اس شخص کو جو کامل موحد ہے، جس کے لئے دین کو اللہ تعالیٰ نے قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے خدا نے تمام خطرات کو دور کرنے کا وعدہ کیا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ شرک کو مٹانا چاہتا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ اسلام کو محفوظ کرنا چاہتا ہے معزول کر دے؟ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو اُمت اسلامیہ معزول نہیں کر سکتی ایسے شخص کو تو شیطان کے چیلے ہی معزول کرنے کا دعویٰ کر سکتے ہیں.دوسرا جواب یہ ہے کہ اس جگہ وعدہ کا لفظ ہے اور وعدہ احسان پر دلالت کرتا ہے پس اس اعتراض کے معنی یہ ہوں گے کہ چونکہ اس انعام کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے اُمت کے ہاتھ میں رکھا ہے اسے کیوں حق نہیں کہ وہ اس انعام کو ر ڈ کرے.ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ استنباط بدترین استنباط ہے.جو انعام منہ مانگے ملے اُس کا رڈ کرنا تو انسان کو اور بھی مجرم بنادیتا ہے اور اس پر شدید حجت قائم کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ تو فرمائے گا کہ اے لوگو! میں نے تمہاری مرضی پر چھوڑا اور کہا کہ میرے انعام کو کسی صورت میں لینا چاہتے ہو.تم نے کہا ہم اس انعام کو فلاں شخص کی صورت میں لینا چاہتے ہیں اور میں نے اپنے فضل اس شخص کے ساتھ وابستہ کر دئیے.جب میں نے تمہاری بات مان لی تو اب تم کہتے ہو کہ ہم اس انعام پر راضی نہیں اب اس نعمت کے رڈ کرنے پر میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ لَئِن كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِي لَشَدِید اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ من كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَا وليكَ هُمُ الفسقون یعنی انتخاب کے وقت تو ہم نے اُمت کو اختیار دیا ہے مگر چونکہ اس انتخاب میں ہم اُمت کی رہبری کرتے ہیں اور چونکہ ہم اس شخص کو اپنا بنا لیتے ہیں اس لئے اس کے بعد امت کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا.اور جو شخص پھر بھی اختیار چلانا چاہے تو یا در کھے کہ وہ خلیفہ کا مقابلہ نہیں کرتا بلکہ ہمارے انعام

Page 476

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۲ جلد سوم کی بے قدری کرتا ہے.پس اگر انتخاب کے وقت وہ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحت میں شامل تھا تو اب اس اقدام کی وجہ سے ہماری درگاہ میں اس کا نام آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ کی فہرست سے کاٹا جائے گا اور فاسقوں کی فہرست میں لکھا جائے گا.پھر فرماتا ہے واقيْمُوا الصَّلوة وأتُوا الزَّكوة وأطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ اس آیت میں ومَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَا وليكَ هُمُ الفسقُونَ کے معاً بعد نماز اور زکوة اور اطاعت رسول کا ذکر کر کے اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر کسی وقت برکاتِ خلافت کے نزول میں کمی آجائے تو مسلمانوں کو بحیثیت قوم نمازوں میں لگ جانا چاہئے اور زکوۃ دینے میں چست ہو جانا چاہئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اختیار کرنی چاہئے.اگر وہ ایسا کریں گے تو ان پر رحم کیا جائے گا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ایسا نائب کھڑا کر دیا جائے گا جو سب مسلمانوں کو اکٹھا کر دے گا.بہر حال منکرین خلافت کبھی زمین پر غالب نہیں آئیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگ کھڑے کرتا رہے گا جو خلافت پر ایمان رکھتے ہوں خواہ جزوی ہی ہو.چنانچہ خوارج جو منکرین خلافت ہیں کبھی بھی دنیا پر حاکم نہیں ہوئے بلکہ سنی جو منہ سے خلافت کے قائل ہیں لیکن حضرت عثمان اور حضرت علی کے زمانہ میں انہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے خلافت کو قائم رکھنے کی کوشش نہیں کی وہی ہمیشہ غالب رہے ہیں.( تفسیر کبیر جلد ۶ صفحه ۳۶۶ تا ۳۹۳) بخاری کتاب الاحكام باب قول الله تعالى أطِيعُوا الله و اطيعوا الرسول صفحه ۱۲۲۸، ۲۲۹ حدیث نمبر ۷۱۳۷ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحه ۶۰ الناشر مکتبہ نزار مصطفى الباز ۲۰۰۴ء ابراهیم: ۸ البقره: ۳۱ آل عمران: ۱۶۰ ص: ۲۷ الاعراف: ۷۰ 2 الاعراف: ۷۵ المائدة: ۲۱ ا الاعراف: ۱۴۳ ۱۲ المائدة: ۴۵ المائدة: ۴۷

Page 477

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۳ جلد سوم ۱۴ متی باب ۵ آیت ۱۷، ۱۸ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء ها بخاری کتاب الفتن باب قول النبى الله سَتَرَوْنَ بعدى أمورًا تُنْكِرُونَهَا صفحه ۷ ۱۲۱ حدیث نمبر ۶ ۷۰۵ مطبوع رياض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية الروم: ۴۲ كل البداية والنهاية جلد ۸ صفحه ۱۲۶ مطبوعہ بیروت ۲۰۰۱ء ۱۸ موضوعات کبیر از ملاعلی قاری صفحه ۸۵ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ 19 بخاری کتاب فضائل المدينة باب كراهية النّبي له أنْ تُعْرِى الْمَدِينَة صفحه ۳۰۴ حدیث نمبر ۱۸۹۰ مطبوع رياض١٩٩٩ء الطبعة الثانية ۲۰ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۱۵۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء اسد الغابه الجزء الثانی صفحه ۲۳۷ زیر عنوان سراقة بن مالک،مطبوعہ بیروت ۲۰۰۶ء ٢٢ التوبة: ١٠٣ ۲۳ تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحه ۶۰ الناشر مکتبہ نزار مصطفى الباز ۲۰۰۴ء ۲۴ تاریخ کامل ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۳۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۲۵ بخاری کتاب الاعتصام باب ماذكَرَ النَّبِيُّ الله و حض على اتفاق اهل العلم صفحہ ۱۲۶۱ حدیث نمبر ۷۳۲۴ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية ٢٦ المائدة: ۲۱ البقرة: ٩٢ ۲۹ تذکرہ صفحه ۵۲۷ ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء المزمل: ١٦

Page 478

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۴ جلد سوم مجلس کے آداب سورۃ النور آیت ۶۳ میں مجلس کے آداب بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.اس آیت میں قومی نظام کو درست رکھنے کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب مومن کسی مشورہ کے لئے سردار قوم کے پاس جمع ہوں تو اس کی اجازت کے بغیر مجلس سے نہ جائیں.اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ مومن ہوں گے ورنہ نہیں.پھر سردار قوم کو بھی ہدایت دی کہ اگر مشاورت میں جمع ہونے والے لوگوں میں سے کوئی شخص اپنے کسی ضروری کام کے لئے اجازت مانگے تو اسے اجازت دے دیں لیکن قومی مشورہ کے وقت کسی ایسی ضرورت کا پیش آ جانا جس کی وجہ سے مجلس شوری کو چھوڑنا پڑے یہ بھی کسی شامت اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے اس لئے اے سردار جماعت ! تو ایسے موقع پر اجازت تو دے دیا کرمگر چونکہ وہ ضرورت جس کے لئے وہ اجازت مانگتے ہیں اُن کی کسی شامت اعمال کا نتیجہ ہوگی یا قو می مجلس سے اُٹھ جانے کی وجہ سے وہ لوگ سردار جماعت کی صحبت اور اس کے مشورہ سے اور مل کر کام کرنے سے محروم رہیں گے اور اس طرح ان کے علم اور تجربہ میں کمی آجائے گی اس لئے تو اللہ تعالیٰ دعا بھی کر کہ یہ لوگ اس کے بداثرات سے بچ جائیں اور اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہی کا ازالہ فرما دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اس شدت کے ساتھ اس ہدایت پر عمل کرنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ انہیں طبعی ضروریات کے لئے بھی مجلس سے بلا اجازت جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی.ایسی حالت میں صحابہ سرک کر سامنے آجاتے یا انگلی اٹھا دیتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ جاتے کہ کوئی حاجت ہے اور ہاتھ کے اشارہ سے اجازت دے دیتے مگر اس زمانہ میں عام طور پر اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا جاتا.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول ایک دفعہ لاہور تشریف لے گئے جب آپ نے واپس

Page 479

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم قادیان آنے کا ارادہ فرمایا تو چونکہ حضرت اماں جان ) نے ابھی وہاں کچھ دن اور ٹھہر نا تھا اس لئے آپ نے مجھے لاہور میں ہی رہنے کی ہدایت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم ان کے ساتھ آجانا.جب میں آیا اور آپ کے پاس آکر السّلامُ عَلَيْكُمُ کہا تو میرے سلام کا جواب دینے سے بھی پہلے آپ نے فرمایا میاں ! تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ؟ میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں.آپ نے فرمایا ہمارے ساتھ جتنے آدمی تھے وہ سارے ہمیں بٹالہ چھوڑ کر آ گئے اس سے ظاہر ہے کہ ان لوگوں نے امر جامع کے متعلق جو قر آنی حکم تھا اُس پر عمل نہ کیا.خلیفہ وقت کا وجود تو ایسی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کا اثر سارے عالم اسلام پر پڑتا ہے اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے تو اس کا اثر لازماً سب جماعت پر پڑے گا اس لئے اس بارہ میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ تو اس سختی کے ساتھ اس پر عمل کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھوڑی دیر کے لئے بھی ادھر اُدھر ہونا ان کے لئے ناقابل برداشت ہو جاتا تھا.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بات کرتے کرتے مجلس سے اٹھے اور تھوڑی دیر تک واپس نہ آئے تو سب صحابہؓ آپ کی تلاش میں بھاگ پڑے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں تشریف لے گئے تھے وہ سب کے سب آپ کے پیچھے اٹھ کر چلے گئے اور انہیں اُس وقت ایسی گھبراہٹ اور بے چینی ہوئی کہ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں گھبراہٹ میں مجھے باغ کے اندر جانے کا راستہ بھی نظر نہ آیا اور میں گندے پانی کی نالی میں سے گزر کر اندر داخل ہوالے حالانکہ عموماً انہیں کمزور دل سمجھا جاتا تھا.حقیقت یہ ہے کہ دین کے کام دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو افراد سے تعلق رکھتے ہیں جیسے نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج وغیرہ اور دوسرے ایسے احکام جو تمام لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں جیسے جہاد یا مشورہ کے لئے قوم کا جمع ہونا یا کوئی ایسا حکم جو ساری جماعت کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر دیا گیا ہو.جو کام ساری جماعت سے تعلق رکھتے ہوں افراد سے نہیں ان میں سب کو ایسا پر دیا ہوا ہونا چاہئے جیسے تسبیح کے دانے ایک تاگے میں پروئے ہوئے ہوتے ہیں.کسی کو ذرا بھی اِدھر اُدھر نہیں ہونا چاہئے.اور اگر کوئی ضروری کام کے لئے جانا چاہے تو امام کی اجازت سے جائے.اسی حقیقت کو تصویری زبان میں ظاہر کرنے

Page 480

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۶ جلد سوم کے لئے لوگ جب تسبیح کے دانے پروتے ہیں تو تاگے کے دونوں سرے اکٹھے کر کے ایک لمبا دانا پُر و دیتے ہیں اور اسے امام کہتے ہیں.در حقیقت اس سے قومی تنظیم کی اہمیت کی طرف ہی اشارہ ہوتا ہے اور یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ جس طرح تسبیح کے دانوں کے لئے ایک امام کی ضرورت ہے اسی طرح تمہیں بھی ہمیشہ ایک امام کے پیچھے چلنا چاہئے ورنہ تمہاری تسبیح وہ نتیجہ پیدا نہیں کر سکے گی جو اجتماعی تسبیح پیدا کیا کرتی ہے لیکن بہت کم ہیں جو اس گر کو سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ شخص مومن ہی نہیں ہوسکتا جو ایسے امور میں جو ساری جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اپنی رائے اور منشا کے ماتحت کام کرے اور امام کی کوئی پرواہ نہ کرے.مومن کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ اگر کوئی دینی کام ہوتو اجازت لے لے اور اگر کوئی اہم دینوی کام ہو جس کا اثر ساری جماعت پر پڑتا ہو تو امام سے مشورہ لے لے.بہر حال امر جامع سے علیحدہ ہونے کیلئے استیذان ضروری ہوتا ہے.مگر چونکہ انسان کا امر جامع سے علیحدہ ہونا اس کی شامت اعمال کی وجہ سے ہوگا اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسے اجازت تو دے دو مگر ساتھ ہی دعا کیا کرو کہ خدا تعالیٰ اسے معاف کرے اور اس کی کمزوریوں کو دور کرے.“ ( تفسیر کبیر جلد ۶ صفحه ۴۰۶ تا ۴۰۸) مسلم کتاب الایمان باب الدليل على ان من مات على التوحيد صفحه ۳۷ حدیث نمبر ۱۴۷ مطبوعہ ریاض ۲۰۰۰ء الطبعة الثانية

Page 481

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۷ جلد سوم عبادالرحمن کی صفات کا ذکر سورة الفرقان آیت ۶۴ عباد الرحمن کی صفات بیان کرتے ہوئے مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرمایا :.یہی کیفیت خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی جاری رہی اور انہوں نے بھی قیصر و کسریٰ سے زیادہ طاقت رکھنے کے باوجو دسر کاری اموال کو کبھی بے جا خرچ نہیں کیا بلکہ ایک ایک پیسہ اور ایک ایک پائی کی حفاظت کی اور اگر کسی جگہ انہوں نے روپیہ کا بے جا خرچ دیکھا تو بڑی سختی سے اس کو روکا اور افسروں کو معزول کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا.تاریخوں میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب اپنے زمانہ خلافت میں بیت المقدس تشریف لے گئے تو آپ نے دیکھا کہ بعض صحابہ نے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے ہیں.ریشمی کپڑوں سے مراد وہ کپڑے ہیں جن میں کسی قدر ریشم ہوتا ہے ورنہ خالص ریشم کے کپڑے تو سوائے کسی بیماری کے مردوں کو پہنے ممنوع ہیں.آپ ان لوگوں پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم اب ایسے آسائش پسند ہو گئے ہو کہ ریشمی کپڑے پہنتے ہوئے.اس پر ان میں سے ایک شخص نے اپنی نمیض اٹھا کر دکھائی تو معلوم ہوا کہ اس نے نیچے موٹی اون کا سخت کرتا پہنا ہوا تھا.اس نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ ہم نے ریشمی کپڑے اس لئے نہیں پہنے کہ ہم ان کو پسند کرتے ہیں بلکہ اس لئے پہنے ہیں کہ اس ملک کے لوگ بچپن سے ایسے امراء دیکھنے کے عادی ہیں جو نہایت شان و شوکت سے رہتے تھے پس ہم نے بھی اپنے لباسوں کو صرف ملکی سیاست کے طور پر بدلا ہے ورنہ ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں.صحابہ کے اس عمل سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے غلبہ کے زمانہ میں بھی کبھی اسراف سے کام نہیں لیا اور اگر کسی مقام پر ان سے کوئی لغزش بھی ہوئی تو خلفاء نے اُن کو ڈانٹا اور اُنہیں نصیحت کی کہ وہ اموال کے خرچ میں افراط و تفر !

Page 482

خلافة على منهاج النبوة سے بچیں اور سادگی اختیار کریں.“ ۴۶۸ تاریخ طبری جلد ۴ صفحه ۴۳۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء جلد سوم ( تفسیر کبیر جلد ۶ صفحه ۵۷۰)

Page 483

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۹ جلد سوم صداقت کی مخالفت ہمیشہ ہوتی چلی آئی ہے سورۃ الشعراء آیت ۳۵ تا ۴۱ میں حضرت موسی کے وقت جو فرعونِ مصر نے طریقہ اختیار کیا اس کا ذکر کرنے کے بعد حضور فرماتے ہیں :.وو ” جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوئے تو آپ نے جو تعلیم دی وہ بنی نوع انسان کو فلاح اور کامیابی کے مقام تک پہنچانے والی تھی مگر آپ کے وطن کے لوگوں نے اس کا انکار کر دیا اور پہلے تو ابو جہل کے پیچھے چلے جو فرعون کا ایک روحانی قائم مقام تھا اور اس کی ہر گندی اور فساد پھیلانے والی تعلیم کو انہوں نے قبول کر لیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم کو ر ڈ کر دیا.آپ کے بعد بھی یہی ہوا.حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے تو صحابہ آپ پر ایمان لے آئے مگر سارے عرب نے بغاوت کر دی اور انہوں نے وہی طریق اختیار کیا جو ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے اختیار کیا تھا اور اُس وقت کے فراعنہ کے پیچھے چل پڑے.اُس وقت کے فرعون مسیلمہ کذاب، اسود عنسی ، اور سجاح وغیرہ تھے جنہوں نے جھوٹے طور پر نبوت کا دعویٰ کر دیا اور لوگ ان کے متبع ہو گئے.مگر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا جانشین تھا اور لوگوں کے اندر اسلامی روح پیدا کرنے والا تھا اس کو چھوڑ دیا.پھر آپ کے بعد حضرت عمرؓ کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا تب بھی یہی ہوا.حضرت عمرا اپنی وفات کے قریب حج کے لئے گئے تو بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ عمر مر جائیں گے تو ہم فلاں کو خلیفہ بنائیں گے اور کسی کی بیعت نہیں کریں گے.پھر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو ان کے زمانہ میں بھی عبداللہ بن سبا جیسے لوگوں نے فتنہ کھڑا کر دیا.یہ شخص بھی مصری تھا جیسا کہ فرعون مصری تھا اور لوگوں نے اُس کی بات ماننی شروع کر دی.اُن کے بعد حضرت علی خلیفہ ہوئے تب بھی لوگوں نے یہی طریق اختیار کیا.پہلے تو حضرت علی کو خلیفہ

Page 484

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۰ جلد سوم بننے پر مجبور کیا گیا اور پھر ایک چھوٹا سا عذر کر کے کہ معاویہ سے صلح کیوں کی انہیں لوگوں نے جنہوں نے آپ کو خلافت کے لئے کھڑا کیا تھا بغاوت کر دی اور خوارج کے نام سے الگ ہو گئے.اور انہوں نے دوصدیوں تک اسلام میں وہ تہلکہ مچایا کہ لوگوں کا امن بالکل بر باد ہو گیا.اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا اور امت محمدیہ میں مختلف اولیاء پیدا ہوئے تب بھی یہی ہوا کہ لوگوں نے ان کی نہ سنی بلکہ ان کے دشمن کی سنی جو اپنے وقت کے فرعون تھے اور ان کے پیچھے چل پڑے.چنانچہ حضرت معین الدین صاحب چشتی ، حضرت قطب الدین صاحب بختیار کاکی ، حضرت نظام الدین صاحب اولیاء، اور حضرت خواجہ فرید الدین صاحب گنج شکر وغیرہ کی بھی مخالفت ہوئی.حضرت سید احمد صاحب سر ہندی آئے تو لوگوں نے جہانگیر کے کان بھرنا شروع کر دیئے کہ یہ شخص حکومت کا باغی ہے اسے جلدی سنبھال لیں ورنہ سخت فتنہ پیدا ہو جائے گا.چنانچہ جہانگیر نے انہیں گوالیار کے قلعہ میں قید کر دیا.مگر پھر بعض لوگوں نے انہیں سمجھایا کہ یہ بزرگ انسان ہے اسے رہا کر دو چنانچہ اس نے دانائی سے کام لے کر انہیں رہا کر دیا.غرض جب سے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور خلفاء کا سلسلہ جاری ہے صداقت کی ہمیشہ مخالفت ہوتی چلی آئی ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد ۷ صفحه ۱۳۴) 66

Page 485

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۱ جلد سوم تم ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھو سورة النمل آیت ۶۵ آ مَنْ يَبْدَوُا الخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُۂ کی تفسیر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.اس جگہ بھی مَن يَبْدَوُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُه سے طبقات الارض والی پیدائش مراد نہیں کیونکہ طبقات الارض والی پیدائش تو نہ کسی نے دیکھی ہے اور نہ اس کو تو حید باری تعالیٰ کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے.اس جگہ پیدائش اولیٰ سے مراد قوموں کو تمکنت بخشنا اور يُعِيدُۂ سے مراد غالب قوموں کے زوال کے بعد اُن میں دوبارہ زندگی اور بیداری کی روح پیدا کرنا ہے.گویا بتایا کہ اگر تم قوموں کی ترقی اور ان کے زوال کی تاریخ پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ جب بھی کسی قوم نے ترقی کی ہے تو صرف الہی مدد اور تائید سے کی ہے اور جب بھی کوئی قوم اپنے انحطاط کے بعد دوبارہ زندہ ہوئی ہے تو اس کا احیائے ثانیہ بھی الہی تدبیروں کے ماتحت ہی ہوا ہے خود بخود نہیں ہوا.اس آیت میں قوموں کی ترقی اور غلبہ کے بعد ان کے زوال اور پھر زوال کے بعد ان کے دوبارہ احیاء کا ذکر کر کے مسلمانوں کو بھی نہایت لطیف پیرا یہ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ تمہیں بھی دنیا پر محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے غلبہ حاصل ہوگا اس لئے کبھی اس ترقی کو اپنے زور بازو کا نتیجہ نہ سمجھنا ورنہ تمہاری ساری ترقیات جاتی رہیں گی اور پھر آسمانی تدبیر کے بغیر تمہیں دوبارہ دنیا میں غلبہ میسر نہیں آسکے گا.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس قیمتی سبق کو فراموش کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قومی طور پر وہ ایسے زوال کا شکار ہوئے کہ اغیار کی نگاہ میں وہ ہنسی کا نشانہ بن کر رہ گئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان دنیا میں پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں.کوئی

Page 486

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۲ جلد سوم انسان دنیا میں ایسا نہیں ہوا جو ہمیشہ زندہ رہا ہو لیکن اگر قو میں چاہیں تو وہ ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہیں.یہی امید دلانے کیلئے حضرت مسیح ناصری نے فرمایا کہ:.د میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے لیے ،، یعنی یوں تو ہر انسان کے لئے موت مقدر ہے جس کے نتیجہ میں میں تم سے ایک دن جدا ہو جاؤں گا لیکن اگر تم چاہو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل ما نگتے رہو تو تم ابد تک زندہ رہ سکتے ہو.پس انسان اگر چاہے بھی تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا لیکن تو میں اگر چاہیں تو زندہ رہ سکتی ہیں اور اگر وہ زندہ نہ رہنا چاہیں تو مر جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسی زندگی کی امید دلاتے ہوئے الوصیۃ میں تحریر فرمایا کہ:.تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت آنہیں سکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی ہے،،.ہمیشہ کے یہی معنی ہیں کہ جب تک تم چاہو گے قدرت ثانیہ تم میں موجود رہے گی اور قدرت ثانیہ کی وجہ سے تمہیں دائمی حیات عطا کی جائے گی.اس جگہ ” قدرت ثانیہ سے ایک تو وہ تائیدات الہیہ مراد ہیں جو مومنوں کے شامل حال ہوا کرتی ہیں اور دوسرے وہ سلسلۂ خلافت مراد ہے جو نور نبوت کو ممتد کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ خود قائم فرماتا ہے.اگر قوم چاہے اور وہ اپنے آپ کو مستحق بنائے تو تائیدات الہیہ بھی ہمیشہ اس کے شامل حال رہ سکتی ہیں اور اگر قوم چاہے اور وہ اپنے آپ کو مستحق بنائے تو انعام خلافت سے بھی وہ دائی طور پر متمتع ہوسکتی ہے.خرابیاں ہمیشہ ذہنیت کے مسخ ہونے سے پیدا ہوتی ہیں.ذہنیت درست رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قوم کو چھوڑ دے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماتا ہے کہ اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ

Page 487

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۳ جلد سوم حتى يغيروا ما بانفسهم سے یعنی اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کے ساتھ اپنے سلوک میں تبدیلی نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود اپنے دلوں میں خرابی پیدا نہ کر لے.اور یہ ایسی چیز ہے جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے لیکن اتنی سادہ سی بات بھی قومیں فراموش کر دیتی ہیں اور وہ تباہ ہو جاتی ہیں.انسان کا مرنا تو ضروری ہے اگر وہ مر جائے تو اس پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا لیکن قوموں کے لئے مرنا ضروری نہیں.تو میں اگر چاہیں تو وہ زندہ رہ سکتی ہیں لیکن وہ زندگی کے اصول کو فراموش کر کے ہلاکت کے سامان پیدا کر لیتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مسلمانوں کو ایسی تعلیم دی تھی کہ اگر وہ اس پر عمل کرتے تو ہمیشہ زندہ رہتے لیکن قوم نے عمل کرنا چھوڑ دیا اور وہ مرگئی.دنیا بار بار یہ سوال کرتی ہے اور میرے سامنے بھی یہ سوال کئی دفعہ پیش ہوا ہے کہ با وجو د اس کے کہ خدا تعالیٰ نے صحابہؓ کو ایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی تھی جس میں ہر قسم کی سوشل تکالیف اور مشکلات کا علاج تھا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا وہ تعلیم کہاں گئی؟ اور ۳۳ سال میں ہی وہ کیوں ختم ہوگئی ؟ عیسائیوں کے پاس مسلمانوں سے کم درجہ کی خلافت تھی لیکن ان میں اب تک پوپ چلا آ رہا ہے لیکن مسلمانوں نے ۳۳ سال کے عرصہ میں ہی خلافت کو ختم کر دیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیوں میں پوپ کے باغی بھی ہیں لیکن اس کے باوجود اُن کی کثرت ایسی ہے جو پوپ کو مانتی ہے اور انہوں نے اس نظام سے فائدے بھی اٹھائے ہیں لیکن مسلمانوں میں ۳۳ سال تک خلافت رہی اور پھر ختم ہو گئی اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں کی ذہنیت خراب ہو گئی.اگر ان کی ذہنیت درست رہتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ یہ نعمت ان کے ہاتھ سے چھینی جاتی.مجھے یہ حقیقت ایک دفعہ رویا * میں بھی بتائی گئی تھی.میں نے دیکھا کہ پنسل کے لکھے ہوئے کچھ نوٹ ہیں جو کسی مصنف یا مؤرخ کے ہیں اور انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں پنسل بھی COPYING یاBLUE رنگ کی ہے.نوٹ صاف طور پر نہیں پڑھے جاتے لیکن جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نوٹوں میں یہ ید رو یا ۲۴، ۲۵ اکتو بر۱۹۵۳ء کی درمیانی شب کا ہے )

Page 488

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۴ جلد سوم بحث کی گئی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمان اتنی جلدی کیوں خراب ہو گئے باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے عظیم الشان احسانات ان پر تھے.اعلیٰ درجہ کا تمدن اور بہترین اقتصادی تعلیم انہیں دی گئی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا مگر پھر بھی وہ گر گئے اور ان کی حالت خراب ہو گئی.یہ نوٹ انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جو انگریزی لکھی ہوئی تھی وہ بائیں طرف سے دائیں طرف کو نہیں لکھی ہوئی تھی بلکہ دائیں طرف سے بائیں طرف کو لکھی ہوئی تھی لیکن پھر بھی میں اسے پڑھ رہا تھا اور اس میں سے ایک فقرہ کے الفاظ قریباً یہ تھے کہ THERE WERE TWO REASONS FOR IT.THEIR TEMPERAMENT BECOMING MORBID AND ANARCHICAL یعنی وہ خرابی جو مسلمانوں میں پیدا ہوئی ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی طبائع میں دو قسم کے نقائص پیدا ہو گئے تھے.ایک یہ کہ وہ ماربڈ (MORBID) ہو گئے تھے یعنی ان نیچرل (UN-NATURAL) اور ناخوشگوار ہو گئے تھے اور دوسرے ان کی ٹنڈ نسیز (TENDENCIES) انار کیکل (ANARCHICAL) ہو گئی تھیں.یعنی ان میں فساد اور بغاوت کی روح پیدا ہوگئی تھی.میں نے سوچا کہ واقعہ میں یہ دونوں باتیں صحیح ہیں.ان کا مار بڈ (MORBID) ہونا تو اس سے ظاہر ہے کہ انہیں جو بھی ترقیات ملیں وہ اسلام کی وجہ سے ملی تھیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ملی تھیں ان کی ذاتی خوبی یا کمال کا ان میں کوئی دخل نہیں تھا مگر انہوں نے ان ترقیات کو اپنی ذاتی قابلیتوں کا نتیجہ سمجھنا شروع کر دیا.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مکہ والوں کی جو کچھ حالت تھی اُس کا اندازہ صرف اِسی بات سے ہوسکتا ہے کہ لوگ اُن کا صرف مجاور سمجھ کر ادب کرتے تھے ورنہ ذاتی طور پر ان میں کوئی ایسی خوبی نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوتے.اسی طرح جب وہ غیر قوموں میں جاتے تو وہ بھی ان کا مجاور سمجھ کر ہی اعزاز کرتیں یا زیادہ سے زیادہ تا جر سمجھ کر ادب کرتی تھیں.وہ انہیں کوئی حکومت قرار نہیں دیتی تھیں اور پھر ان کی حیثیت اتنی کم سمجھی جاتی تھی کہ دوسری حکومتیں یہ سمجھتی تھیں کہ ہم جب چاہیں ان کو کچل سکتی ہیں.جیسے

Page 489

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۵ جلد سوم یمن کے گورنر نے بیت اللہ کو گرانے کے لئے حملہ کر دیا جس کا قرآن کریم نے اصحاب الفیل کے نام سے ذکر کیا ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت فرمایا تو تیرہ سال تک تو صرف تھوڑے سے آدمی آپ پر ایمان لائے مگر ہجرت کے آٹھویں سال بعد سارا عرب ایک نظام کے ماتحت آ گیا اور اسلام کو ایسی طاقت اور قوت حاصل ہوگئی کہ بڑی بڑی حکومتیں اس سے ڈرنے لگیں.اُس وقت دنیا حکومت کے لحاظ سے دو بڑے حصوں میں من تھی.اوّل رومی حکومت دوم ایرانی سلطنت.رومی سلطنت کے ماتحت تمام مشرقی یورپ ، ٹرکی ، ایسے سینیا، یونان، مصر، شام اور اناطولیہ تھا.اور ایرانی سلطنت کے ماتحت عراق، ایران ، رشین ٹری ٹوری کے بہت سے علاقے افغانستان، ہندوستان کے بعض علاقے اور چین کے بعض علاقے تھے.ان دونوں حکومتوں کے سامنے عرب کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی لیکن ہجرت کے آٹھویں سال بعد سارا عرب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو گیا.اس کے بعد جب سرحدات پر عیسائی قبائل کی شرارت کی آپ کو خبر میں ملنی شروع ہوئیں تو پہلے تو آپ خود وہاں تشریف لے گئے اور جب آپ کو معلوم ہوا کہ کوئی شامی لشکر اس وقت جمع نہیں ہو رہا تو آپ بعض قبائل سے معاہدات کر کے بغیر کسی لڑائی کے واپس آگئے.لیکن تھوڑے عرصہ بعد ہی قبائل نے پھر شرارت شروع کی تو آپ نے ان کی سرکوبی کے لئے حضرت اسامہ بن زید کی سرکردگی میں ایک لشکر تیار کیا.اس لشکر نے بہت سے قبائل کو سرزنش کی اور بہتوں کو معاہدہ سے تابع کیا.پھر آپ کی وفات کے بعد اڑھائی سال کے عرصہ میں ہی یہ حکومت عرب سے نکل کر دوسرے علاقوں میں بھی پھیلنی شروع ہوئی.فتح مکہ کے پانچ سال کے بعد ایرانی حکومت پر حملہ ہو گیا تھا اور اس کے بعض علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا گیا تھا اور چند سالوں میں رومی سلطنت اور دوسری سب حکومتیں تباہ ہو چکی تھیں.اتنی بڑی فتح اور اتنے عظیم الشان تغیر کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی.تاریخ میں صرف نپولین کی ایک مثال ملتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جو تعداد اور طاقت میں اس سے زیادہ ہو.جرمن کا ملک اُس وقت چودہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا اور اس طرح اس کی تمام طاقت منتشر تھی.چنانچہ ایک مشہور امریکن پریذیڈنٹ سے کسی نے پوچھا

Page 490

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم کہ جرمن کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا ایک شیر ہے دو تین لومڑ ہیں اور کچھ چوہے ہیں.شیر سے مرا در شیا تھا لومڑ سے مراد دوسری حکومتیں تھیں اور چوہوں سے مراد جرمن تھے.گویا جرمن اُس وقت ٹکڑے ٹکڑے تھا روس ایک بڑی طاقت تھی مگر وہ روس کے ساتھ ٹکرایا اور وہاں سے نا کام واپس لوٹا.اسی طرح انگلستان کو بھی فتح نہ کر سکا اور انجام اس کا یہ ہوا کہ وہ قید ہو گیا.پھر دوسرا بڑا شخص ہٹلر ہوا بلکہ دو بڑے آدمی دو ملکوں میں پیدا ہوئے یعنی ہٹلر اور مسولینی.دونوں نے بیشک ترقیات حاصل کیں لیکن دونوں کا انجام شکست ہوا.مسلمانوں میں سے جس نے یکدم بڑی حکومت حاصل کی وہ تیمور تھا اس کی بھی یہی حالت تھی وہ بیشک دنیا کے کناروں تک گیا لیکن وہ اپنے اس مقصد کو کہ ساری دنیا فتح کرلے حاصل نہ کر سکا.مثلاً وہ چین کو تابع کرنا چاہتا تھا لیکن تابع نہ کر سکا اور جب وہ مرنے لگا تو اُس نے کہا میرے سامنے انسانوں کی ہڈیوں کے ڈھیر ہیں جو مجھے ملامت کر رہے ہیں.پس صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی آدم سے لے کر اب تک ایسے گزرے ہیں جنہوں نے فردِ واحد سے ترقی کی اور تھوڑے عرصہ میں ہی سارے عرب کو تابع فرمان کر لیا.اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے ایک خلیفہ نے ایک بہت بڑی حکومت کو توڑ دیا اور باقی علاقے آپ کے دوسرے خلیفہ نے فتح کر لئے.یہ تغیر جو واقع ہوا محض خدائی نصرت کا نتیجہ تھا کسی انسان کا کام نہیں تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر مکہ میں پہنچی تو ایک مجلس میں حضرت ابو بکر کے والد ابوقحافہ بھی بیٹھے ہوئے تھے جب پیغا مبر نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو سب لوگوں پر غم واندوہ کی کیفیت طاری ہو گئی اور سب نے یہی سمجھا کہ اب ملکی حالات کے ماتحت اسلام پراگندہ ہو جائے گا.چنانچہ انہوں نے کہا اب کیا ہوگا ؟ پیغا مبر نے کہا آپ کی وفات کے بعد حکومت قائم ہو گئی ہے اور ایک شخص کو خلیفہ بنالیا گیا ہے.انہوں نے دریافت کیا کہ کون خلیفہ مقرر ہوا ہے؟ پیغا مبر نے کہا ابوبکر.ابوقحافہ نے حیران ہو کر پوچھا کون ابوبکر ؟ کیونکہ وہ اپنے خاندان کی حیثیت کو خوب سمجھتے تھے اور اس حیثیت کے لحاظ سے وہ

Page 491

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ان کے بیٹے کو سارا عرب بادشاہ تسلیم کر لے گا.پیغا مبر نے کہا ابوبکر جو فلاں قبیلہ میں سے ہیں.ابو قحافہ نے کہا کس خاندان میں سے ہے؟ پیغا مبر نے کہا فلاں خاندان میں سے.اس پر ابو قحافہ نے دوبارہ دریافت کیا وہ کس کا بیٹا ہے؟ پیغا مبر نے کہا ابوقحافہ کا بیٹا.اس پر ابو قحافہ نے کہا لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّد رَّسُولُ الله اور پھر کہا آج | مجھے یقین ہو گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے.ابو قحافہ پہلے صرف نام ہی کے مسلمان تھے لیکن اس واقعہ کے بعد انہوں نے سچے دل سے سمجھ لیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دعوی میں راستباز تھے کیونکہ ابوبکر کی خاندانی حیثیت ایسی نہ تھی کہ سارے عرب آپ کو مان لیتے.پس یہ الہی دین تھی.بعد میں مسلمانوں کی ذہنیت ایسی بگڑی کہ انہوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ یہ فتوحات ہم نے اپنی طاقت سے حاصل کی ہیں.کسی نے کہنا شروع کر دیا کہ عرب کی اصل طاقت بنوامیہ ہیں اس لئے خلافت کا حق ان کا ہے.کسی نے کہا بنو ہاشم عرب کی اصل طاقت ہیں.کسی نے کہا بنو مطلب عرب کی اصل طاقت ہیں.کسی نے کہا خلافت کے زیادہ حق دار انصار ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھروں میں جگہ دی.گو یا تھوڑے ہی سالوں میں مسلمان مار بڈ (MORBID) ہو گئے اور اُن کے دماغ بگڑ گئے.اُن میں سے ہر قبیلہ نے یہ کوشش شروع کر دی کہ وہ خلافت کو بزور حاصل کرلے.نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت ختم ہو گئی.پھر مسلمانوں کے بگڑنے کا دوسرا سبب انار کی (ANARCHI) ہے.اسلام نے سب میں مساوات کی روح پیدا کی لیکن مسلمانوں نے یہ نہ سمجھا کہ مساوات پیدا کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ایک آرگنائزیشن ہو اس کے بغیر مساوات قائم نہیں رہ سکتی.اسلام آیا ہی اسی لئے تھا کہ وہ ایک آرگنائزیشن اور ڈسپلن قائم کرے اور ڈسپلن بھی ایسا ہو جو ظالمانہ نہ ہولیکن چند ہی سال میں مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ خزانے ہمارے ہیں اور اگر حکام نے ان کے راستہ میں روک ڈالی تو انہوں نے انہیں مارنا اور قتل کرنا شروع کر دیا.یہ وہ روح تھی جس نے مسلمانوں کو خراب کیا.انہیں یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ یہ حکومت الہیہ ہے اور اسے خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے.پس اسے خدا تعالیٰ کے ہی ہاتھ میں رہنے دیا جائے تو بہتر

Page 492

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۸ جلد سوم ہے.اللہ تعالیٰ سورہ نور میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ خلیفے ہم بنائیں گے لیکن مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں اور جب انہوں نے یہ سمجھا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں تو خدا تعالیٰ نے کہا اچھا اگر خلیفے تم نے بنائے ہیں تو اب تم ہی بناؤ.چنانچہ ایک وقت تک تو وہ رض پہلوں کا مارا ہوا شکار یعنی حضرت ابو بکر، حضرت عمر با حضرت عثمانؓ اور حضرت علی کا مارا ہوا شکا رکھاتے رہے لیکن مرا ہوا شکار ہمیشہ کام نہیں دیتا.زندہ بکرا یا زندہ بکری یا زندہ مرغا مرغی تو تمہیں ہمیشہ گوشت اور انڈے کھلائیں گے لیکن ذبح کی ہوئی مرغی یا بکری زیادہ دیر تک نہیں جا سکتی کچھ وقت کے بعد خراب ہو جائے گی.حضرت ابوبکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی کے زمانہ میں مسلمان شکار کا تازہ گوشت کھاتے تھے لیکن جب انہوں نے اپنی زندگی کی روح کو ختم کر دیا تو تازہ شکار کی بجائے اپنے باپ دادا کا مارا ہوا شکار انہوں نے کھانا شروع کر دیا.مگر یہ شکار کب تک کام دے سکتا تھا.ایک ذبح شدہ بکری میں اگر ہیں چھپیں سیر گوشت بھی ہو تو آخر وہ ختم ہو جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا ان کا مارا ہوا شکار بھی ختم ہو گیا اور پھر ان کا وہی حال ہوا کہ ”ہتھ پرانے کھوسڑے بسنتے ہوری آئے“ وہ ہر جگہ ذلیل ہو نا شروع ہوئے انہیں ماریں پڑیں اور ان کی تمام شان و شوکت جاتی رہی.عیسائیوں نے تو اپنی مردہ خلافت کو آج تک سنبھالا ہوا ہے لیکن انہوں نے اپنی زندہ خلافت کو اپنے ہاتھوں زمین میں گاڑ دیا جو محض نفسانی خواہشات، دنیوی ترقیات کی تمنا اور وقتی جوشوں کا نتیجہ تھا.اب چونکہ خدا تعالیٰ نے پھر اپنے فضل سے مسلمانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ میں خلافت قائم کی ہے اس لئے میں اپنی جماعت سے کہتا ہوں کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت - وابستہ رکھو اور خلافت کے قیام کے لئے قربانیاں کرتے چلے جاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو خلافت تم میں ہمیشہ رہے گی خلافت تمہارے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے دی ہی اسی لئے ہے تا وہ کہہ سکے کہ میں نے اسے تمہارے ہاتھ میں دیا تھا اگر تم چاہتے تو یہ چیز تم میں قائم رہتی اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اسے الہامی طور پر بھی قائم کر سکتا تھا مگر اُس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے یہ

Page 493

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۹ جلد سوم کہا کہ اگر تم لوگ خلافت کو قائم رکھنا چاہو گے تو میں بھی اسے قائم رکھوں گا گویا اس نے تمہارے منہ سے کہلوانا ہے کہ تم خلافت چاہتے ہو یا نہیں چاہتے.اب اگر تم اپنا منہ بند کر لو یا خلافت کے انتخاب میں اہلیت مدنظر نہ رکھو تو تم اس نعمت کو کھو بیٹھو گے.پس مسلمانوں کی تباہی کے اسباب پر غور کرو اور اپنے آپ کو موت کا شکار ہونے سے بچاؤ.تمہاری عقلیں تیز ہونی چاہئیں اور تمہارے حوصلے بلند ہونے چاہئیں.تم وہ چٹان نہ بنو جو دریا کے رُخ کو پھیر دیتی ہے بلکہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم وہ چینل (CHANNEL) بن جاؤ جو پانی کو آسانی سے گزارتی ہے.تم ایک ٹنل ہو جس کا کام یہ ہے کہ وہ فیضانِ الہی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ حاصل ہوا ہے اُسے آگے چلاتے چلے جاؤ.اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے تو تم ایک ایسی قوم بن جاؤ گے جو کبھی نہیں مرے گی اور اگر تم اس فیضانِ الہی کے راستہ میں روک بن گئے ، اس کے راستہ میں پتھر بن کر کھڑے ہو گئے تو وہ تمہاری قوم کی تباہی کا وقت ہوگا.پھر تمہاری عمر کبھی لمبی نہیں ہوگی اور تم اسی طرح مر جاؤ گے جس طرح پہلی قومیں مریں.( تفسیر کبیر جلد ۷ صفحه ۴۲۵ تا ۴۳۰ ) ل یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۶ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لا ہور ۱۹۲۲ء الوصیت صفحہ کے روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵ الرعد: ۱۲

Page 494

خلافة على منهاج النبوة ۴۸۰ جلد سوم امت محمدیہ پر ضحی کا وقت ما ودعك ربك وما قل کے تحت آئے گا سورة الضحیٰ آیت ۱ تا ۳ کے سات معنی بیان کرنے کے بعد مزید تفسیر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :.دنیا میں ہر قوم پر ترقی اور تنزل کے مختلف دور آتے ہیں کبھی اقبال اور فتح مندی اس کے شامل حال ہوتی ہے اور کبھی ادبار اور نا کامی کی گھٹائیں اُس پر چھائی ہوتی ہیں.بالعموم قومیں ترقی کر کے جب تنزل کی طرف جاتیں ہیں تو ہمیشہ کیلئے تباہ اور برباد ہو جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جو زمانہ کنبوت ہے یعنی آپ کے دعوی سے لے کر قیامت تک کا زمانہ یہ دور تنزل سے بالکل محفوظ رہے گا.صحی کی روشنی یکساں جلوہ گر رہے گی کبھی لوگ خدا سے دور نہیں ہوں گے اور ادبار یا گمراہی کا زمانہ اُمت محمدیہ پر نہیں آئے گا بلکہ ہم مانتے ہیں کہ منی کی حالتیں بھی اُمت محمدیہ پر آئیں گی اور واليل إذا سجیلے کی حالت بھی رونما ہو گی لیکن اس کے ساتھ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قومی حیات کے متعلق ہم ایک وعدہ کرتے ہیں جو دنیا کی اور کسی قوم کے ساتھ ہم نے نہیں کیا کہ اس کی نفی بھی مَا وَدَعَكَ رَبُّكَ وَمَا قلی سے کے ماتحت ہوگی اور اس کی لیل بھی ما ودعك ربك وما قلى کا ثبوت ہوگی.جہاں تک ماننے والوں کا تعلق ہے بے شک ان کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے کبھی ان پر مٹی کی گھڑیاں آئیں گی اور کبھی لیل کی تاریکی ان پر چھا جائے گی.مگر جہاں تک شریعت محمد بہ کا اور لوگوں کے خدا تعالیٰ سے تعلق کا تسلسل ہے اس کے لحاظ سے کوئی دور ایسا نہیں ہو گا جو

Page 495

خلافة على منهاج النبوة ۴۸۱ جلد سوم مَا وَدَعَكَ رَبُّكَ وَمَا قلی کے ماتحت نہ ہو.قوم پر بے شک تنزل آجائے گا، لوگ بے شک گر جائیں گے، کامیابی اور اقبال کی درخشندہ ساعات بے شک لیل کی شکل میں بدل جائیں گی مگر جتنا حصہ محمدیت کا زندہ رہنا ضروری ہے وہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی معیت کے ماتحت قائم رہے گا.اس میں در حقیقت اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جہاں دوسری اقوام خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر ترقی کر جاتی ہیں وہاں تیری قوم سے ایسا نہیں ہوگا بلکہ تیری قوم پر جب بھی ضحی کا دور آئے گا ما ودعك ربك کے ماتحت آئے گا.خدا تعالیٰ سے الگ ہو کر دوسری قوموں کی طرح مسلمان کبھی بڑی ترقی نہیں کر سکتے.چنانچہ دیکھ لو وہ تمام دوسری اقوام جن میں اللہ تعالیٰ کے انبیاء مبعوث ہوئے تھے جب ان پر روحانی تنزل کا زمانہ آیا تو وہ باوجود اس کے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو چھوڑا ہوا تھا وہ دنیوی لحاظ سے ترقی کر گئیں مگر فرماتا ہے تیری قوم سے ایسا نہیں ہوگا بلکہ اُس پر جب بھی ضحی کا وقت آئے گا مَا وَدَعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلی کے ماتحت آئے گا اور جب کبھی اللہ تعالیٰ ان کو دنیوی ترقی نصیب کرے گا اس کے ساتھ ہی ان کا دین بھی درست ہوگا.یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اُن پر منی کا وقت ایسی حالت میں آجائے جب خدا تعالیٰ نے ان کو چھوڑا ہوا ہو یا ان کی دینی اور اخلاقی حالت نا گفتہ بہ ہو.عیسائیوں کو دیکھ لو ان پر دنیوی ترقی کا دور بے شک آیا مگر کس وقت؟ جب عملی لحاظ سے عیسائیت بالکل مر چکی تھی.تین سو سال کے بعد جب عیسائی روحانی لحاظ سے سخت کمزور ہو چکے تھے اور ان میں حضرت مسیح کی تعلیم کے خلاف کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو چکی تھیں اس وقت اُن پر د نیوی ضحی کا زمانہ آیامگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تیری اُمت کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا.مسلمانوں پر مٹی کا وقت اُسی وقت آئے گا جب خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق ہو گا.اگر خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق اپنی بداعمالی کی وجہ سے کٹ چکا ہوگا توضیحی کا دور بھی ان پر کبھی نہیں آئے گا.ضحی کا دور اُسی وقت آئے گا جب عملی طور پر وہ خدا سے تعلق رکھ رہے ہوں گے.چنانچہ دیکھ لوخلافت راشدہ کا زمانہ جو اسلام کی ترقی کا زمانہ تھا اس وقت یہ دونوں باتیں موجود تھیں ایک طرف روحانیت کا غلبہ موجود تھا اور دوسری طرف دنیوی ضحی کا دور جاری تھا.“ ( تفسیر کبیر جلد ۹ صفحه ۸۵،۸۴) الضحى ٣ الضحى ۴

Page 496

خلافة على منهاج النبوة ۴۸۲ جلد سوم محمد رسول اللہ علہ کے لئے ہمیشہ یہ قانون جاری رہے گا کہ ان کی آخرۃ اُولیٰ سے بہتر ہوگی سورة الضحیٰ آیت نمبر ۵ وللأخِرَةُ خَيْرُ لكَ مِن الأولى کی تفسیر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.ممکن ہے کوئی کہے کہ مکہ تو آپ کے ہاتھوں پر فتح ہوا تھا مگر عراق اور مصر وغیرہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فتح ہوئے ہیں اس لئے شاید غلطی سے یہ نام لے لئے گئے ہیں مگر میں نے غلطی نہیں کی میں نے دیدہ و دانستہ شام اور عراق اور مصر وغیرہ کا نام لیا ہے.اسی طرح ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ اگر وللآخِرَةُ خَيْرُ لكَ مِنَ الأولى کے ثبوت میں عراق اور مصر وغیرہ کی فتوحات کو پیش کیا جا سکتا ہے تو پھر اس بات کا کیا جواب ہے کہ ان فتوحات کے بعد اسلام کا تنزل شروع ہو گیا اور آخرۃ اُولی سے بہتر نہ رہی.میں اس کو بھی درست سمجھتا ہوں اور اُس کو بھی درست سمجھتا ہوں.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا تھا وہ یہ تھا کہ وللأخِرَةُ خَيْرُ لكَ مِن الأولى - محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہمیشہ یہ قانون رہے گا کہ ان کی آخرۃ اُولیٰ سے بہتر ہوگی.جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود در ہے اسلام بڑھتا رہا اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے چھوڑ دیا اسلام کا تنزل شروع ہو گیا.عراق اور شام اور مصر مسلمانوں کو اس لئے ملے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں موجود تھے.بیشک جسمانی اعتبار سے آپ وفات پاچکے تھے مگر روحانی اعتبار سے آپ کا وجود اُمت میں موجود تھا.اور گو جسد عصری کے ساتھ آپ دنیا میں زندہ نہیں تھے مگر ابو بکر کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 497

خلافة على منهاج النبوة ۴۸۳ جلد سوم زندہ موجود تھے ، عمر کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ موجود تھے ، عثمان کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ موجود تھے، علی کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ موجود تھے یہی وجہ تھی کہ فتوحات پر فتوحات ہوتی چلی گئیں.( تفسیر کبیر جلد ۹ صفحه ۸۸)

Page 498

خلافة على منهاج النبوة ۴۸۴ جلد سوم حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں فتوحات اور آپ کا خدا کے حضور بحجز وانکسار سورۃ العلق کا شان نزول اور وحی کی ابتداء کے بارے میں بیان کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.تاریخ اسلام میں اس کی ایک موٹی مثال موجود ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے آٹھ سالہ عرصہ میں دنیا کی کایا پلٹ دیتے ہیں ، روم اور ایران کو شکست دے دیتے ہیں ، عرب کی سرحدوں پر اسلامی فوجیں بھجوا کر اسے ہرقسم کے خطرات سے محفوظ کر دیتے ہیں.اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لئے وہ کام کرتے ہیں جو قیامت تک ایک زندہ یادگار کی حیثیت میں قائم رہنے والا ہے مگر جب آپ روم کو شکست دے دیتے ہیں، جب ایران کو شکست دے دیتے ہیں ، جب یہ دوز بر دست ایمپائر اسلامی فوجوں کے متواتر حملوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں ، جب عمرؓ کا نام ساری دنیا میں گونجنے لگتا ہے، جب دشمن سے دشمن بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ عمر نے بہت بڑا کام کیا اُس وقت خود عمر کی کیا حالت تھی.تاریخ میں لکھا ہے کہ جب آپ وفات پانے لگے تو اُس وقت آپ کی زبان پر بار بار یہ الفاظ آتے تھے کہ رَبِّ لَا عَلَى وَلَا لِی اے میرے رب! میں سخت کمزور اور خطا کا رہوں میں نہیں جانتا مجھ سے اپنے کام کے دوران کیا کیا غلطیاں سرزد ہو چکی ہیں.الہی ! میں اپنی غلطیوں پر نادم ہوں میں اپنی خطاؤں پر شرمندہ ہوں اور میں اپنے آپ کو کسی انعام کا مستحق نہیں سمجھتا صرف اتنی التجا کرتا ہوں کہ تو اپنے عذاب سے مجھے محفوظ رکھ.غور کرو اور سوچو کہ ان الفاظ سے حضرت عمر کی کتنی بلند شان ظاہر ہوتی ہے.آپ کے

Page 499

خلافة على منهاج النبوة ۴۸۵ جلد سوم سپر د اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کام کیا گیا اور آپ نے اُس کو ایسی عمدگی سے سرانجام دیا کہ یورپ کے شدید سے شدید دشمن بھی اس کام کی اہمیت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکے.مگر چونکہ آپ کے دل پر خدا کا خوف طاری تھا آپ نے سمجھا کہ بیشک میں نے کام کیا ہے مگر ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ کام چاہتا ہو اور میں جس کا م کو اپنی خوبی سمجھتا ہوں وہ اللہ تعالی کی نگاہ میں خوبی نہ ہو اس لئے باوجود اتنا بڑا کام کرنے کے وفات کے وقت آپ تڑپتے تھے اور بار بار آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوتے تھے رَبِّ لَا عَلَيَّ وَلَا لِی خدایا ! میں تجھ سے کسی انعام کا طالب نہیں صرف اتنی درخواست کرتا ہوں کہ تو مجھے اپنی سزا سے محفوظ رکھ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں نے کوئی کام نہیں کیا مجھے خدمت کا حق جس رنگ میں ادا کرنا چاہئے تھا اُس رنگ میں ادا نہیں کیا.“ ( تفسیر کبیر جلد ۹ صفحه ۲۳۱) بخاری کتاب الاحكام باب الاستخلاف صفحه ۱۲۴۳ حدیث نمبر ۷۲۱۸ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية

Page 500

خلافة على منهاج النبوة ۴۸۶ جلد سوم مطلع الفجر سے مراد سورۃ القدر کی آیت سلم نثاهِي حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ کی تفسیر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.” یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مطلع الفجر سے کیا مراد ہے؟ سو یا د رکھنا چاہئے کہ مطلعِ الْفَجْرِ سے مراد وہ وقت ہے جب اسلام کو غلبہ حاصل ہو جائے اور یہ غلبہ ہمیشہ نبی کی وفات کے وقت ہوتا ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الوصیت“ میں تحریر فرمایا ہے کہ اے عزیز و ! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے خدا تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی آتی ہے کہ وہ اپنی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا کہ دشمنوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرے.ایک قدرت تو وہ ہوتی ہے جس کا نبی کے ذریعہ اظہار ہوتا ہے جب وہ اس راستبازی کا بیج بو دیتا ہے جس کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے.اور دوسری قدرت وہ ہوتی ہے جس کا اُس کے خلفاء کے ذریعہ تکمیل کے رنگ میں اظہار ہوتا ہے.پس یہاں مطلع الفجر سے نبی کی وفات کا زمانہ مراد ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تمہاری تمام سلامتی اس بات میں ہے کہ تم اس رات کی عظمت کو پہچانو اور وہ قربانیاں کرو جن کا اِس وقت تم سے مطالبہ کیا جا رہا ہے.جب فجر کا طلوع ہو گیا اور نبوت کا زمانہ ختم ہو گیا اُس وقت آسمان کی نعمتیں آسمان پر رہ جائیں گی اور زمین اُن برکات سے حصہ نہیں لے سکے گی جن سے اس وقت حصہ لے رہی ہے..جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ظاہری رنگ میں غلبہ دینا شروع کر دیا یہاں تک کہ اسلام کو ایسی طاقت حاصل ہوگئی کہ ابو بکر کی آواز جب قیصر سنتا تو وہ اُس کو ر ڈ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ حالت تھی کہ آپ کا خط جب اس کے پاس گیا تو گواس پر اثر بھی ہوا مگر پھر اپنی

Page 501

خلافة على منهاج النبوة ۴۸۷ جلد سوم قوم سے ڈر گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوا.حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا تو آپ کو حضرت ابو بکر سے بھی زیادہ رُعب حاصل ہوا.قیصر صرف ان کی بات سنتا نہیں تھا بلکہ ساتھ ڈرتا بھی تھا کہ اگر میں نے اس کے مطابق عمل نہ کیا تو میرے لئے اچھا نہیں ہوگا اور کسری تو اُس وقت تک بالکل تباہ ہو چکا تھا.حضرت عثمان کا زمانہ آیا تو ان کو بھی ایسا دبدبہ اور رعب حاصل ہوا کہ چاروں طرف ان کا نام گونجتا تھا اور ہر شخص سمجھتا تھا کہ مجھے امیر المومنین کے حکم کی اطاعت کرنی چاہئے.اب جہاں تک دنیوی اعزاز کا سوال ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عزت حاصل نہیں ہوئی جوا بو بکڑا اور عمر اور عثمان کو حاصل ہوئی مگر پھر بھی یہ لوگ روحانی دنیا کے نجوم تھے شمس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے.“ القدر: ۶ ( تفسیر کبیر جلد ۹ صفحه ۳۳۸ تا ۳۴۰) الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن ۲۰۰۸ء

Page 502

خلافة على منهاج النبوة ۴۸۸ جلد سوم خلفائے اربعہ حقوق العباد کے ادا کرنے کی ایک بے نظیر مثال تھے سورة البينة كى آيت وَمَا أمروا إلا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ کی تفسیر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.خلفائے اربعہ حقوق العباد کے ادا کرنے کی ایک بے نظیر مثال گزرے ہیں.ایک طرف خدا تعالیٰ کو انہوں نے مضبوطی سے پکڑے رکھا اور دوسری طرف بندوں کے حقوق بھی خوب ادا کئے ایسے کہ اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی.کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ وہ بادشاہ نہ تھے پریذیڈنٹ تھے مگر پہلا سوال تو یہ ہے کہ انہیں پریذیڈنٹ بننے پر مجبور کس نے کیا ؟ آخر یہ عہدہ اُن کو اسلام نے ہی دیا اور اس عہدہ کی حیثیت کو انہوں نے اسلامی احکام کے ماتحت ہی قائم رکھا مگر یہ بات بھی تو نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ خواہ انہیں پریذیڈنٹ ہی قرار دیا جائے مگر اُن کا انتخاب ساری عمر کے لئے ہوتا تھا نہ کہ تین یا چار سال کے لئے.جیسا کہ ڈیما کریسی کے پریذیڈنٹوں کا آجکل انتخاب ہوتا ہے.یقیناً اگر ان کو صرف جمہوریت کا ہی عہدہ دیا تو جائے تو بھی یہ بات علم النفس کے ماتحت اور سیاسی اصول کے ماتحت ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ تین چار سال کے لئے چنے جانے والے صدر اور ساری عمر کے لئے چنے جانے والے صدر میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.تین چار سال کیلئے چنے جانے والے صدر کے سامنے وہ دن ہوتے ہیں جب وہ اس عہدہ سے الگ کر دیا جائے گا اور پھر ایک معمولی حیثیت کا انسان بن جائے گا لیکن ساری عمر کے لئے چنا جانے والا صدر جانتا ہے کہ اب اس مقام سے اُترنے کا کوئی امکان نہیں اور اس کے اہل ملک بھی جانتے ہیں کہ اس حیثیت کے سوا اور کسی

Page 503

خلافة على منهاج النبوة ۴۸۹ جلد سوم حیثیت میں اب وہ ان کے سامنے نہیں آئے گا.پس جس شان و شوکت کا وہ مستحق سمجھا جاتا ہے اس شان وشوکت کا مستحق تین سالہ یا چار سالہ صدر نہیں سمجھا جا سکتا.مگر اس ڈیما کریسی اور جمہوریت کے زمانہ میں سہ سالہ اور چارسالہ میعاد کے لئے چنے جانے والے صدروں کی زندگیوں کو دیکھ لو ملک کا کتنا رو پیدان پر صرف ہوتا ہے.صدر جمہوریت امریکہ پر ہر سال جو روپیہ خرچ ہوتا ہے انگلستان کے بادشاہ پر بھی اتنا خرچ نہیں ہوتا.مگر اس کے مقابل میں خلفائے اربعہ کس طرح پبلک کے روپیہ کی حفاظت کرتے تھے وہ ایک ایسا تاریخی امر ہے کہ اپنے اور بیگانے اس سے واقف ہیں صرف نہایت ہی قلیل رقوم انہیں گزارے کے لئے ملتی تھیں اور خود اپنی جائیدادوں کو بھی وہ بنی نوع انسان کے لئے خرچ کرتے رہتے تھے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اُن خلفاء میں سے ہیں جن پر اپنوں اور بیگانوں نے بہت سے اعتراضات کئے ہیں.جب ان کی عمر کے آخری حصہ میں کچھ لوگوں نے بغاوت کی اور ان کے خلاف کئی قسم کے اعتراضات کئے تو ان میں سے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ انہوں نے بہت سے روپے فلاں فلاں اشخاص کو دیئے ہیں.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اسلام کے خزانہ پر سب ہی مسلمانوں کا حق ہے اگر میں قومی خزانہ سے ان لوگوں کو دیتا تو بھی کوئی اعتراض کی بات نہ تھی مگر تم قو می رجسٹروں کو دیکھ لو میں نے ان کو قومی خزانہ سے روپیہ نہیں دیا بلکہ اپنی ذاتی جائیداد میں سے دیا ہے گویا ان کی ذاتی جائیدا دقومی خزانہ کے لئے ایک منبع آمد تھی.پس ان لوگوں نے اپنے غلبہ اور استعلاء کومحض خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کیا نہ کہ اپنی شان بڑھانے کے لئے.اور یہی وہ چیز ہے جو قوموں کو دوام بخشتی ہے.اگر مسلمان اس تعلیم پر عمل کرتے تو کبھی زوال کا منہ نہ دیکھتے“.البينه : ۶ ( تفسیر کبیر جلد ۹ صفحه ۳۷۶، ۳۷۷)

Page 504

خلافة على منهاج النبوة ۴۹۰ جلد سوم نظامِ خلافت کے بغیر حکومت الہیہ دنیا میں قائم نہیں ہوسکتی سورة الماعون آیت ۲ اريت الذي يُكَذِّب بالدین کی تفسیر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.حکومت الہیہ تو محض خدا تعالیٰ کی قائم کردہ ہوتی ہے بندے کی قائم کردہ نہیں ہوتی آخر کونسا انسان ہے جو اس قسم کی حکومت کو نافذ کر سکتا ہے سوائے اس کے جو یہ کہے کہ میں خدا تعالی کی طرف سے آیا ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ دنیا میں حکومت الہیہ کو قائم کروں.پھر حکومت الہیہ کسی ایک مُلک پر نہیں ہو سکتی حکومت الہیہ جب بھی آئے گی ملکی حد بندی سے آزاد ہو کر آئے گی.یہی وجہ ہے کہ میں نے اس بات کو بار بار پیش کیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت آئینِ اسلام جاری نہیں ہو سکتا لیکن میں نے جب بھی کسی لیکچر میں یہ بات بیان کی ہے فوراً اخبارات میں شور مچ جاتا ہے کہ ایک مذہبی آدمی ہو کر شریعت کی مخالفت کی جارہی ہے حالانکہ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ شریعت اسلام پاکستان میں جاری نہیں ہوسکتی.میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اِس وقت آئین اسلام جاری نہیں کیا جا سکتا اور شریعت اسلام اور آئین اسلام میں فرق ہے.آئین اسلام خلافت سے تعلق رکھتا ہے اور خلافت کے معنی یہ ہیں کہ سارے مسلمان اس کے تابع ہو جائیں.اب سوال یہ ہے کہ کیا عرب پاکستان کے تابع ہو جائے گا ؟ کیا فلسطین پاکستان کے تابع ہو جائے گا ؟ کیا انڈونیشیا پاکستان کے تابع ہو جائے گا ؟ کیا اور اسلامی ممالک پاکستان کے تابع ہو جائیں گے؟ وہ ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اس وقت مسلمانوں میں کوئی خلافت نہیں اور چونکہ وہ پاکستان کے تابع نہیں ہو سکتے اس لئے پاکستان میں آئین اسلام بھی جاری نہیں ہوسکتا.ہاں شریعت اسلام ہر وقت جاری ہو سکتی ہے.حکومت الہیہ دراصل عرش پر ہے دنیا میں صرف اس کا ظل قائم ہوتا

Page 505

خلافة على منهاج النبوة ۴۹۱ جلد سوم ہے اور قرآن کریم میں یہ وعدہ ہے کہ ہر حملہ جو اس حکومت پر ہوگا ہم پر ہوگا اور ہر دشمن جو اس پر چڑھائی کرے گا وہ ہمارا دشمن ہوگا اور ہم خود اُس کا مقابلہ کریں گے.ایسی حکومت کوئی انسان بنا ہی کس طرح سکتا ہے.جس چیز کا میں مخالف ہوں وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ ہم آئین اسلام جاری کریں گے کیونکہ آئین اسلام خلافت کے بغیر نا فذ نہیں ہوسکتا.آئین اسلام چند اصولوں کا نام ہے جو خلافت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں لیکن مسلمان اس وقت خلافت کے قائل نہیں.یہ خلافت جب بھی قائم ہوگی روحانی ہوگی جیسے کہ میں اپنے آپ کو خلیفہ کہتا ہوں.یہ ظاہر ہے کہ میری خلافت سے دنیوی خلافت مراد نہیں.پھر میں یہ نہیں کہتا کہ میں آپ ہی خلیفہ بن گیا ہوں بلکہ میں ساتھ ہی یہ دعوی کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے.اب یہ واضح بات ہے کہ اگر میں اپنے اس دعوی میں جھوٹا ہوں تو خدا خود مجھے سزا دے گا اور اگر سچا ہوں تو لوگوں کی مخالفت میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتی.بہر حال نظام خلافت کے بغیر حکومت الہیہ دنیا میں ہرگز قائم نہیں ہو سکتی لیکن اگر یہ حکومت قائم ہو جائے تو پھر اس سے بہتر حکومت دنیا میں اور کوئی نہیں ہوسکتی.( تفسیر کبیر جلد۰ اصفحه ۱۶۶)

Page 506

خلافة على منهاج النبوة ۴۹۲ جلد سوم خلافة على منهاج النبوة كا وعده سورۃ الکفرون کی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.چنانچہ مسلمانوں کے ساتھ جو یہ وعدہ کیا گیا تھا اس کا ذکر واضح الفاظ میں سورۃ نور میں ( جو مدینہ میں نازل ہوئی ) کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قبْراهِمْ ، ويمكنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ان تضى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ، يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الفسقون.کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور ملک میں بادشاہ بنا دے گا.وہ ایسی شان اور عظمت رکھنے والے بادشاہ ہوں گے جیسے پہلی منعم علیہ قوموں میں ہوئے ہیں.ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اسلام کے اعلیٰ اور افضل احکام جاری کر دے گا اور اس وقت جو مسلمانوں کی خوف کی حالت ہے یا آئندہ جو بھی خوف کی حالت پیدا ہوگی اس کو امن میں بدل دے گا.یہ بادشاہ میری عبادت کو دنیا میں قائم کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.پس ان انعامات کے بعد جو میری نعمتوں کی ناشکری کرے گا اور صحیح لق حکومت کو چھوڑ کر غلط راستہ اختیار کرے گا وہ فاسق ہوگا.مذکورہ بالا آیات میں مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ لِيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ یعنی وہ ان کو ملک میں خلفاء بنادے گا.خلفاء خلیفہ کی جمع ہے اور خلیفہ کے معنی ہیں ا مَنْ يَخْلُفُ غَيْرَهُ وَيَقُومُ مَقَامَهُ " یعنی جو کسی کے قائم مقام ہو کر وہی کام کرے جو اصل وجود کام کر رہا ہوتا ہے.

Page 507

خلافة على منهاج النبوة ۴۹۳ جلد سوم ۲- وَسُلْطَانُ الاعْظَمُ.سب سے بڑا بادشاہ.- وَفِي الشَّرْعِ الْإِمَامُ الَّذِي لَيْسَ فَوْقَهُ إِمَامٌ اور شرعی اصطلاح میں خلیفہ اس امام کو کہتے ہیں جس کے اوپر اس زمانہ میں کوئی امام نہ ہو.( اقرب ) پھر الْخِلافَةُ کے معنی کرتے ہوئے اقرب الموارد میں لکھا ہے:.ا - الامارة یعنی خلافت کے ایک معنی حکومت کے ہیں.النِّيَابَةُ عَنِ الْغَيْرِ إِمَّا لِغَيْبَةِ الْمَنُوبِ عَنْهُ أَو لِمَوْتِہ.کہ خلافت کے معنی ہیں کسی کا نائب اور قائم مقام ہو کر وہی کام کرنا جو اصل وجود کام کر رہا تھا اور یہ نیابت یا تو اس لئے ہو کہ اصل وہاں موجود نہیں یا اصل وفات پا گیا ہے اب اس کے کام کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے.(اقرب ) پس لغت کے ان معنوں کے لحاظ سے تیستَخْلِفَنَّهُمْ کے مندرجہ ذیل معنی ہوں گے:.ا.اے مسلمانو ! اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور ملک میں بہت بڑے خلفاء اور بادشاہ بنادے گا.- یہ بادشاہت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں ہوگی یعنی جو کام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرانجام دے رہے ہیں وہی کام ان کو سر انجام دینا ہو گا.الغرض مومنوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں حکومت عطا کرے گا اور وہ حکومت بھی الہی منشاء کے مطابق ہوگی.پھر مَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ کے الفاظ میں یہ بھی بتا دیا کہ خلافت در حقیقت خدا تعالی کی نمائندگی میں ہوتی ہے اور خدا کی صفات کو ظاہر کرنے والی ہوتی ہے جو اس کا انکار کرتا ہے وہ درحقیقت خدا تعالیٰ سے عہد مؤدَّث تو ڑتا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کے بعد خلافت ہو گی یعنی ایسے وجود ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کو جاری کرنے والے ہوں گے لیکن ان کے بعد یہ حالت بدل جائے گی اور دوسری قوموں کی نقل میں مسلمان بھی استبدادی حکومت کے شائق ہو جائیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ دوبارہ صحیح خلافت کو قائم کرے گا جو خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے والی ہو گی.چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَاشَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ

Page 508

خلافة على منهاج النبوة ۴۹۴ جلد سوم تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَاشَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًا مَاشَاءَ اللهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ - - یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ عرصہ جب تک اللہ تعالیٰ چاہے نبوت کا زمانہ رہے گا.پھر خلافت نبوت کے طریق پر قائم ہوگی اور اُس وقت تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کا منشاء ہوگا.پھر وہ ختم ہو جائے گی اور بادشاہت کا دروازہ کھل جائے گا اور یہ کچھ عرصہ تک جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کھلا رہے گا.پھر اس کے بعد جابر حکومتیں شروع ہو جائیں گی پھر اللہ تعالیٰ ان کو ختم کر دے گا اور اس کے بعد دوبارہ نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہوگی.“ ↓ النور: ۵۶ تا اقرب الموارد جلد ا صفحه ۲۹۶ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء اقرب الموارد جلد اصفحه ۲۹۵ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء 66 ( تفسیر کبیر جلده اصفحه ۴۴۶ ، ۴۴۷) ك مشكوة المصابیح جلد ۳ باب الانذار والتحذير الفصل الثالث صفحه ۱۴۷۸ حدیث نمبر ۵۳۷۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء

Page 509

خلافة على منهاج النبوة ۴۹۵ جلد سوم اللہ تعالیٰ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عظیم الشان فتوحات کے وعدے سورة النصر آیت ۲ اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.یہ سورۃ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ستر دن پہلے نازل ہوئی تھی اور یہ کہ اس سورۃ کے نازل ہونے کے ساتھ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم بھی دے دیا گیا تھا کہ اب آپ کی وفات کا وقت قریب ہے.یہ طبعی بات ہے کہ جب کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ وہ عنقریب اپنے رشتہ داروں، عزیزوں اور اقرباء کو چھوڑ کر اس دنیا سے جانے والا ہے تو وہ اس لحاظ سے متفکر ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد اسکی اولاد، اس کے عزیزوں ، رشتہ داروں اور متعلقین کا کیا بنے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام بخشا تھا اس لحاظ سے آپ کو اپنے جسمانی عزیزوں اور اقرباء کے متعلق تو کوئی فکر دامن گیر نہیں ہو سکتا تھا ہاں اگر خیال آ سکتا تھا تو یہی کہ کہیں آپ کے بعد آپ کی اُمت میں کوئی خلل تو پیدا نہ ہوگا اور اگر پیدا ہوا تو اس کے متعلق کیا صورت ہوگی.اور نبی کی وفات پر عام طور پر اس کے متبعین گھبرا جاتے ہیں اور نبی کی وفات کو بے وقت موت سمجھا جاتا ہے اور مخالفین بھی اس خیال میں ہوتے ہیں کہ اس نبی نے تو اپنے زمانہ میں کام چلا لیا ہے لیکن اس کی وفات کے بعد اس کا لگایا ہوا پوداختم ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ نے سورۃ النصر میں ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی کہ آپ متفکر نہ ہوں یہ فتوحات جو آپ کے زمانہ میں ہوئی ہیں یہ رُک نہیں جائیں گی بلکہ ان کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو جائے گا اور اسلام میں اگر آپ کے زمانہ میں بیک وقت

Page 510

خلافة على منهاج النبوة ۴۹۶ جلد سوم سینکڑوں کی تعداد میں لوگ شامل ہوئے ہیں تو آپ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں شامل ہوں گے اور حضور کے چشمہ سے فوج در فوج لوگ سیراب ہوں گے اور آپ کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے وجودوں کو کھڑا کر دے گا جو آپ کی اُمت کو سنبھال لیں گے اور اس میں کسی قسم کا رخنہ پیدا نہ ہونے دیں گے.اور مخالفین جو سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کا سلسلہ ختم ہو جائے گا ان کی خوشیاں پامال ہو جائیں گی اور اسلام دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا اور جو مشکلات پیش آئیں گی وہ خس و خاشاک کی طرح اُڑ جائیں گی.گو یا اللہ تعالیٰ نے سورۃ النصر کو نازل کر کے ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی اور دوسری طرف آپ کے متبعین کو یہ ہدایت کی کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر گھبرا نہ جائیں.جس خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کا میاب و کامران کیا وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا خدا ہے اور وہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی اُمت کا محافظ ہوگا اور آپ کے بعد صحابہ کو یتیم کی صورت میں دیکھ کر وہ پہلے سے بھی زیادہ مدد کرے گا اور اس کی نصرت کے دروازے بند نہیں ہوں گے بلکہ اور بھی زیادہ کھل جائیں گے اور اس نصرت کو دیکھ کر لوگ اسلام میں فوج در فوج داخل ہونے شروع ہو جائیں گے اور آسمانی بادشاہت کا قیام ہو جائے گا اور ساری دنیا تو حید کے نور سے منور ہو جائے گی.مزید برآں مخالفین کی جھوٹی خوشیاں بھی پامال ہو جائیں گی چنانچہ یہ وعدہ جس رنگ میں پورا ہوا اس کو ہر غیر متعصب آدمی دیکھ کر یہ اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ واقعی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے بچے رسول تھے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اُس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے بہادر اور مخلص لوگوں کے بھی قدم لڑکھڑا گئے اور ان پر گھبراہٹ طاری ہوگئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو بظاہر بے وقت سمجھا جانے لگا اور پھر خلافت کے انتخاب پر بھی فتنہ کے آثار نظر آرہے تھے کیونکہ انصار یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ ان میں سے منتخب کیا جائے اور مہاجرین کی یہ رائے تھی کہ عرب لوگ سوائے قریش کے کسی اور سے دبنے کے نہیں.اس فتنہ کو دیکھ کر مخالفین یہود اور دوسرے لوگ اس خیال سے خوش تھے کہ اسلام اب ختم ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے فوراً

Page 511

خلافة على منهاج النبوة ۴۹۷ جلد سوم گرتی ہوئی قوم کو سنبھال لیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کھڑا کر دیا اور انہوں نے قوم کی باگ ڈور سنبھال لی اور جولوگ انصار میں سے تھے اور چاہتے تھے کہ ان میں سے خلیفہ کا انتخاب ہو ان کو بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف مائل کر دیا.پھرا بھی قوم کا شیرازہ سنبھلنے نہ پایا تھا کہ عرب کے بعض قبائل نے ارتداد کا اعلان کر دیا اور ان کے سرداروں نے خود مختار حکومتیں قائم کر لیں.اسی طرح سے متعدد جھوٹے مدعیان نبوت اُٹھ کھڑے ہوئے.مزید برآں بعض قبائل نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا.ان مشکلات کے ساتھ موتہ کی مہم علیحدہ در پیش تھی جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں رومیوں سے حضرت زید بن حارثہ کے خون کا انتقام لینے کے لئے ان کے لڑکے اسامہ بن زید کی ماتحتی میں شام بھیجنے کا حکم دیا تھا ابھی یہ مہم روانہ نہ ہوئی تھی کہ آپ کا انتقال ہو گیا.یہ سب حالات اس قسم کے تھے کہ ایسے حالات میں ایک اچھا دلیر اور مضبوط دل والا انسان بھی گھبرا جاتا ہے لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دل پر اللہ تعالیٰ نے ایسی سکیت اور اطمینان نازل کیا کہ آپ گھبرائے نہیں اور آپ اسی وثوق اور یقین پر تھے کہ خدا کے وعدے بہر حال پورے ہوں گے.زمین و آسمان بے شک ٹل جائیں لیکن خدا کی باتیں نہیں مل سکتیں اور اِذا جَاء نَصْرُ الله وَالفَتْحُ کی آیت ان کی ڈھارس کو باندھے ہوئے تھی.چنانچہ صحابہ کرام نے ان مخدوش حالات میں حضرت ابو بکر کو مشورہ دیا کہ حضرت اسامہ بن زید کو موتہ کی مہم کے لئے نہ بھجوایا جائے اور سب سے پہلے ان فتنوں کا تدارک کیا جائے جو اندرونِ عرب پیدا ہو گئے ہیں یعنی مرتدین اور زکوۃ کے منکرین کا فتنہ اور جھوٹے مدعیان کا فتنہ.مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سختی سے صحابہ کی بات کا انکار کر دیا اور فرمایا کہ جس لشکر کو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کیا تھا اُس کو روکنے کا حق ابو بکر کو کہاں ہوسکتا ہے.وہ لشکر بہر حال اپنی مہم پر روانہ ہو گا خواہ مدینہ کی یہ حالت ہو جائے کہ اس پر دشمن ٹوٹ پڑیں اور ہماری لاشوں کو درندے گھسیٹ رہے ہوں.یہ فقرات اس شخص کی زبان سے ہی نکل سکتے ہیں جو اس یقین سے پُر ہو کہ اسلام کا غالب آنا خدا کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے اور یہ تقدیریل نہیں سکتی خواہ ساری دنیا ہی اس کے مقابلہ کے لئے ย

Page 512

خلافة على منهاج النبوة ۴۹۸ جلد سوم آکھڑی ہو.غور کریں کہ یہ یقین اور یہ ثبات اور دلیری حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کہاں سے حاصل ہوگئی ؟ یہ محض اس خدا نے آسمان سے نازل کی تھی جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے وقت تسلی دی تھی کہ آپ گھبرائیں نہیں آپ کے بعد ہرلمحہ خدا کے فرشتے نصرت اور فتح کو لے کر اُتریں گے یہاں تک کہ اسلام کا علم ساری دنیا پر اہرا جائے گا.چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی خلاف مرضی حضرت اسامہ بن زید کو لشکر سمیت موتہ کی طرف روانہ کر دیا.چنانچہ چالیس دن کے بعد یہ مہم اپنا کام پورا کر کے فاتحانہ شان سے مدینہ واپس آئی اور خدا کی نصرت اور فتح کو نازل ہوتے سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.پھر اس مہم کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جھوٹے مدعیان کے فتنے کی طرف متوجہ ہوئے اور اس فتنہ کی ایسی سرکوبی کی کہ اس کو کچل کر رکھ دیا اور یہ فتنہ بالکل ملیا میٹ ہو گیا.بعد ازاں یہی حال مرتدین کا ہوا جو لوگ زکوۃ دینے کے منکر تھے اُن کی تعداد کافی تھی اور صحابہ کبار بھی ان سے لڑنے کے بارے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اختلاف کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ جو لوگ تو حید اور رسالت کا اقرار کرتے ہیں اور صرف زکوۃ دینے سے منکر ہیں ان پر کس طرح سے تلوار اُٹھائی جاسکتی ہے.اس موقع پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نہایت جرأت اور دلیری سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ خدا کی قسم ! جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اونٹ کی ایک رسی بھی زکوۃ کے طور پر دیتا تھا اگر وہ اس کے دینے سے انکار کرے گا تو آپ اس کا مقابلہ کریں گے.آپ کے اصرار پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی آپ کی اصابت رائے کا اعتراف کرنا پڑا اور وہ سمجھ گئے کہ اگر آج زکوۃ نہ دینے کی اجازت دیدی گئی تو آہستہ آہستہ لوگ نماز روزہ کو بھی چھوڑ بیٹھیں گے اور اسلام محض نام کا رہ جائے گا.الغرض ایسے حالات میں حضرت ابو بکر نے منکرین زکوۃ کا مقابلہ کیا اور انجام یہی تھا کہ اس میدان میں بھی آپ کو فتح اور نصرت حاصل ہوئی اور تمام بگڑے ہوئے لوگ راہِ حق کی طرف لوٹ آئے.حقیقت یہی ہے کہ اگر اسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے بچے اور برگزیدہ رسول نہ ہوتے تو یہ حالات

Page 513

خلافة على منهاج النبوة ۴۹۹ جلد سوم مسلمانوں کو مٹانے کے لئے کافی تھے.لیکن کیا بات تھی کہ مسلمان آگ کے شعلوں اور موت کے منہ سے بھی نکل آئے اور ان کا بال تک بیکا نہ ہوا اور ہر گھڑی فتح و نصرت ان کے ساتھ رہی ؟ وہ یہی وعدہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا کہ اے رسول اللہ ! آپ گھبرائیں نہیں ، آپ کی قوم کی دستگیری اللہ تعالیٰ کرے گا اور اسے ہر میدان میں فتح مند کرے گا.پھرا بھی اندرونی خلفشار ختم ہی ہوئی تھی کہ عراق میں ایرانی حکومت کے ساتھ جنگ شروع ہو گئی.ایرانی حکومت اُن دنوں بڑی ترقی یافتہ حکومت تھی اور اس کی فوج تربیت یافتہ اور ان کے پاس بہت ساز و سامان تھا اور مسلمان ان کے مقابلہ میں ایسے ہی تھے جیسے باز کے مقابلہ میں چڑیا کی حیثیت ہوتی ہے.لیکن جو نبی عراق میں معر کے شروع ہوئے یکے بعد دیگرے ایرانیوں کو خطرناک طور پر شکست ہوئی اور ان کو پسپا ہونا پڑا.ابھی مسلمان اس طرف سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ شام اور مصر میں رومیوں سے جنگ چھڑ گئی اور دمشق ، اردن، حمص اور فلسطین میں سب طرف فوجوں کو بھیجنا پڑا اور سب طرف جنگ کے شعلے بلند ہونا شروع ہو گئے.ایسے نازک حالات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے اور آپ کی وفات ہو گئی.اللہ تعالیٰ کی نصرت نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر مسند خلافت پر بٹھا دیا.آپ کے عرصہ خلافت میں سب طرف جنگ کا میدان گرم رہا اور ان جنگوں میں بعض اوقات مسلمانوں میں سے ایک ایک آدمی نے اپنے مخالفوں میں سے ایک ایک ہزار کا مقابلہ کیا اور مخالفوں کی لاکھوں کی تعداد میں آنے والی فوج کو چند ہزار مسلمانوں نے روند ڈالا اور وہ ہر میدان سے کامیاب و کامران آئے اور ایران اور روم جیسی عظیم الشان ترقی یافتہ سلطنتوں کے پر نچے اُڑا دیئے اور مصر، شام، فلسطین اور ہندوستان کی سرحد سے لے کر شمالی افریقہ تک اسلام کا پرچم لہرانے لگا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت شروع ہوا اور اس میں بھی مسلمان سیلاب کی طرح بڑھتے چلے گئے اور خراسان ، افغانستان اور سندھ تک قبضہ کر لیا اور شمالی افریقہ کے علاقے طرابلس ، تیونس،

Page 514

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم مراکش اور الجزائر وغیرہ فتح کر لئے اور یورپ کی سرحد تک مسلمان پہنچ گئے اور مسلمانوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں نے سب علاقوں کو روند ڈالا.یہ سب فتوحات إذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ کے وعدے کے مطابق تھیں.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے بچے فرستادہ اور رسول نہ ہوتے تو مزید کامیابی تو کجا مسلمانوں کا اپنا شیرازہ بھی بکھر جاتا.لیکن نہ صرف یہ کہ مسلمان ایک نقطہ پر جمع رہے بلکہ ہر طرف فتح نے ان کی پیشانیوں کو چوما.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کے مطابق تھا جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وفات کے وقت کئے تھے.“ ( تفسیر کبیر جلد اصفحه ۴۷۶ تا ۴۷۹) تاريخ الخلفاء للسيوطي صفحه ۶۰ الناشر نزار مصطفى الباز ۲۰۰۴ء

Page 515

خلافة على منهاج النبوة ۵۰۱ جلد سوم مجالس شوری میں خلافت کے موضوع پر ارشادات شخصی حکومت اور اسلامی تعلیم مجالس شوری جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دور میں منعقد ہوئیں اس دوران حضور کے پُر تاثیر ارشادات لوگوں نے سنے.ان ارشادات میں جہاں جہاں حضور نے خلافت کے بارہ میں ذکر کیا وہ سب پیش خدمت ہے.ر مضرات کو اسلام نے دور کر دیا ہے اور فوائد کو لے لیا ہے.اس قسم کی شخصی حکومت کہ باپ کے بعد بیٹا جانشین ہو خواہ نالائق ہی ہو اس کو اُڑا دیا اور یہ رکھا کہ سب کی رائے سے ہو.اور جب مقرر کر دیا تو اس کے لئے مشورہ رکھا تا کہ لوگ پارٹیاں نہ بنائیں اور چونکہ وہ خود اپنا جانشین بیٹے کو بھی بنا نہیں سکتا اس لئے اس کے ایسے فوائد نہیں ہوتے جو وہ پچھلوں کے لئے چھوڑ جائے.اور میرے نزدیک شرعاً جائز نہیں کہ خلیفہ بیٹے کو مقرر کرے جیسا کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ کا فیصلہ ہے کہ بیٹا خلیفہ نہیں ہو سکتا.بعض نے چاہا کہ آپ اپنے بیٹے کو خلیفہ مقرر کر دیں مگر انہوں نے انکار کر دیا ہے پھر خلیفہ کے لئے کوئی اور ایسا درجہ نہیں ہوتا جسے وہ حاصل کرنا چاہے اس لئے مقابلہ اور پارٹی فیلنگ نہیں ہوتا.اس طرح انجمن کے مضرات کو دور کر دیا گیا.اب ہندوستان کے رہنے والے کا ہی حق نہیں کہ مسیح موعود کا خلیفہ ہو بلکہ ممکن ہے کہ ایک دو خلیفوں کے بعد ( کیونکہ فی الحال ان میں احمدیت کی اشاعت نہیں ہوئی ) اس وقت عرب کے لوگوں میں سے کوئی خلیفہ ہو جائے یا حبشیوں میں سے آجائیں تو ان میں سے خلیفہ ہو جائے کیونکہ اس کے لئے کسی ملک کسی طبقہ کی کو ئی خصوصیت نہیں ہر جگہ کے لوگ ہو سکتے ہیں اس طرح اس کو اسلام نے عام کر دیا اور پارٹی فیلنگ کو بھی مٹا دیا.

Page 516

خلافة على منهاج النبوة ۵۰۲ جلد سوم بادشاہتیں نسلاً بعد نسل چلنے کی وجہ سے تباہ ہوتی ہیں لیکن خلیفہ کی کوئی ذاتی جائیداد نہیں ہوتی اور اس کے ذاتی فوائد بھی نہیں ہوتے کہ فساد کریں.نہ آئندہ اولادوں کے لئے خلافت منتقل کر سکتے ہیں کیونکہ خلفاء کا دستور روکتا ہے اس لئے وہ نقائص دور ہو گئے جو شخصی حکومت میں ہوتے ہیں.جمہوری حکومت پارٹی فیلنگ سے تباہ ہوتی ہے.اس وقت انگلستان اور فرانس بھی جو تباہی کی طرف جارہے ہیں پارٹیوں کی وجہ سے ہی جار ہے ہیں مگر اسلام نے ایسا طریق رکھا ہے کہ تبا ہی نہیں ہوسکتی.اسلام سے ملتا جلتا ظاہری نظام رومیوں میں پایا جاتا ہے اس لئے ہزار سال سے زیادہ سے چلا آ رہا ہے لیکن اور کوئی حکومت ایسی نہیں جو اتنے لمبے عرصہ سے ایک طریق پر قائم ہو.مگر ان میں بھی نقص ہے کہ شریعت کو لعنت قرار دیتے ہیں اس لئے پوپ جو چاہے مذہب بنا دیتا ہے اس لئے انتظام تو چلا جا رہا ہے مگر نقص یہ ہے کہ چونکہ مذہب کا فیصلہ پوپ کی رائے پر ہوتا ہے اس لئے مذہب باطل ہو گیا اور اس میں دست اندازی سے لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں.مگر اسلام میں ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ قرآن مجید ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام موجود ہے ان حد بندیوں کے اندر خلیفہ کام کر سکتا ہے ان سے باہر نہیں جا سکتا.پس اس طرح اس نے تمام نقائص مٹا دیئے اور ضروری باتوں کو جمع کر دیا ان سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے.اصولی باتیں خدا نے طے کر دیں جو ایسی جامع ہیں کہ کوئی کمی باقی نہیں رہ گئی اور تفصیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دی اسی لئے ایک یہودی نے کہا تھا کہ دین تو اسلام ہی سچا ہے کہ پاخانے تک کے مسئلے بیان کر دیئے ہیں اور کوئی بات نہیں چھوڑی.فی الواقع یہ قابل رشک بات ہے.جرمنی سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے اس کا مصنف لکھتا ہے اسلام کے متعلق خواہ کچھ کہیں مگر بڑا مکمل مذہب ہے کہ کوئی بات نہیں چھوڑی.پس چونکہ پارٹی ہوتی نہیں اور خلیفہ سب سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اُس کا تعلق سب سے ایسا ہی ہوتا ہے جیسے باپ بیٹے کا.بھائی بھائی تو لڑ پڑتے ہیں مگر باپ سے لڑائی نہیں ہوسکتی.چونکہ خلیفہ کا سب سے محبت کا تعلق ہوتا ہے اس لئے اگر ان میں لڑائی بھی ہو جائے تو وہ دور کر دیتا ہے اور بات بڑھنے نہیں پاتی.

Page 517

خلافة على منهاج النبوة ۵۰۳ جلد سوم شوری کے فوائد : اب میں شوریٰ کے فوائد بیان کرتا ہوں :.(1) کئی نئی تجاویز سوجھ جاتی ہیں.(۲) مقابلہ کا خیال نہیں ہوتا اس لئے لوگ صحیح رائے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.(۳) یہ بھی فائدہ ہے کہ باتوں باتوں میں کئی باتیں اور طریق معلوم ہو جاتے ہیں.(۴) یہ بھی فائدہ ہے کہ باہر کے لوگوں کو کام کرنے کی مشکلات معلوم ہوتی ہیں.(۵) یہ بھی فائدہ ہے کہ خلیفہ کے کام میں سہولت ہو جاتی ہے.وہ بھی انسان ہوتا ہے اُس کو بھی دھوکا دیا جا سکتا ہے.اس طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ لوگوں کا رُجحان کدھر ہے.یوں تو بہت نگرانی کرنی پڑتی ہے کہ غلط رستہ پر نہ پڑ جائیں.مگر جب شور کی ہو تو جب تک اعلیٰ درجہ کے دلائل عام رائے کے خلاف نہ ہوں لوگ ڈرتے ہیں کہ اس پر عمل کریں اور اس طرح خلیفہ کو نگرانی میں سہولت حاصل ہو جاتی ہے.مجلس شوریٰ کا طریق: (۱) خلیفہ عام ہدایات پیش کرے گا کہ کن باتوں پر مشورہ لینا ہے اور کن باتوں کا خیال رکھنا ہے.(۲) اس کے بعد ہر محکمہ کے لیے سب کمیٹیاں مقرر ہو جائیں گی کیونکہ فورا رائے نہیں دینی چاہئے بلکہ تجربہ کار بیٹھ کر سکیم تجویز کریں اور پھر اس پر بحث ہو پہلے کمیٹی ضرور ہونی چاہئے جیسے معاملات ہوں اُن کے مطابق وہ غور کریں.سکیم بنائیں پھر اس پر غور کیا جائے.کمیٹی پوری تفاصیل پر بحث کرے اور پھر رپورٹ کرے.وہ تجاویز مجلس عام میں پیش کی جائیں اور اُن پر گفتگو ہو.جب تجاویز پیش ہوں تو موقع دیا جائے کہ لوگ اپنے خیالات پیش کریں کہ اس میں یہ زیادتی کرنی چاہئے یا یہ کمی کرنی چاہئے یا اس کو یوں ہونا چاہئے.تینوں میں سے جو کہنا چاہے کھڑے ہو کر پیش کر دے.ان تینوں باتوں کے متعلق جس قدر تجاویز ہوں ایک شخص یا بہت سے لکھتے جائیں.پھر ایک طریق یا ایک طرز کی باتوں کو لے کر پیش کیا جائے کہ فلاں یہ کمی چاہتا ہے اور فلاں یہ زیادتی.اس پر بحث ہومگر ذاتیات کا ذکر نہ آئے.اس بحث کو بھی لکھتے جائیں.

Page 518

خلافة على منهاج النبوة ۵۰۴ جلد سوم ا جب بحث ختم ہو چکے تو اُس وقت یا بعد میں خلیفہ بیان کر دے کہ یہ بات یوں ہو.بولنے کے وقت بولنے والا کھڑا ہو کر بولے اور جو پہلے کھڑا ہوا سے پہلے بولنے کا موقع دیا جائے.یہ دیکھنے کے لئے ایک آدمی مقرر ہوگا کہ کون پہلے کھڑا ہوا ہے اور کون بعد.اگر بہت سے کھڑے ہوں تو باری باری انہیں بولنے کے لئے کہنا چاہئے.جب سارے بول چکیں تو پھر پوچھنا چاہئے.پھر کھڑا ہو تو پہلے نئے بولنے والے کو موقع دینا چاہئے سوائے اس صورت کے کہ کوئی سوال یا اعتراض اُس کی تقریر پر کیا گیا ہو اُس کے حل کرنے کے لئے کھڑا ہوا اور دو دفعہ سے زیادہ بولنے نہ دیا جائے کیونکہ بات کو حل کرنا ہے بحث نہیں کرنی.وہ شخص جس کو بولنے کا موقع دینے کے لئے مقرر کیا جائے وہ خلیفہ یا اس کے قائمقام کا مددگار ہوگا کیونکہ وہ دوسرے کاموں کی طرف توجہ کرے گا اِ دھر توجہ نہ کر سکے گا اس لئے وہ بطور نائب کام کرے گا.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحه ۱۵ تا ۱۸) تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۶۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء

Page 519

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم انجمن اور خلیفہ یہ کہنا کہ انجمن ٹوٹ گئی ہے، اس کا رہنا نہ رہنا برا بر ہے.وہ دوست جنہوں نے یہ بیان کیا اُنہوں نے کہا ہے کہ کل کی تقریروں سے یہ نتیجہ نکلا ہے.مگر کل تقریر میں نہیں ہوئی تھیں اور میری تقریر تھی گویا اُس سے یہ نتیجہ نکلا ہے.اُس میں کیا تھا ؟ یہ کہ خلافت کا انتظام انجمنوں سے بہتر ہے.انجمنوں میں طبعی طور پر پارٹیوں کا خیال پیدا ہوتا ہے اور ایک دوسرے کو گرانا چاہتا ہے.مگر یہاں کثرتِ رائے اور ووٹ سے نہیں بلکہ شرعی حقوق خلیفہ کے ہیں کہ مشورہ لیا جاوے گا.آگے خواہ کثرتِ رائے پسند آئے یا قلت وہ عزم کر کے اعلان کرے گا فیصلہ کا.یہ خیال آج نیا نہیں جو شخص جماعت کے لٹریچر سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ خلیفہ اول کے وقت بھی یہ بات پیش ہوئی تھی اور اسی پر پیغامیوں سے جنگ شروع ہو گئی تھی کہ آیا انجمن اختلاف خلیفہ سے رکھ کر اپنا حکم جاری کر سکتی ہے یا خلیفہ روک سکتا ہے؟ اس پر تفرقہ ہوا.اگر ان خیالات کے ساتھ کہ انجمن خلیفہ کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس کے ماتحت ہے اور اگر یہ کہنے سے کہ خلیفہ کثرتِ رائے کا پابند نہیں انجمن ٹوٹتی ہے تو اُسی دن ٹوٹ گئی تھی جب خلیفہ اول خلیفہ ہوئے تھے.اور اگر ان خیالات کے اظہار سے ٹوٹتی ہے تو جس دن میں خلیفہ ہوا اُس دن ٹوٹ گئی اور دنیا میں کوئی انجمن نہیں ہے.یہ اُن کے اور ہمارے اختلاف کا بنیادی پتھر ہے کہ انجمن ہو خلیفہ نہ ہو، کثرتِ رائے سے فیصلہ ہوا گر یہی ہے تو انجمن ہے ہی نہیں ، ٹوٹ گئی ہے اُس وقت سے جب خلافت کا سلسلہ چلا اگر یہ خیالات نہ ہوتے تو نہ جھگڑا ہوتا ، نہ پیغامی ہوتے ، نہ مبائع ہوتے ایک ہی جماعت ہوتی.، دو گروہ جو نظر آرہے ہیں وہ نبوت وغیرہ کے مسئلہ سے نہیں بلکہ یہی اختلاف ہے جو خلافت کے متعلق ہے.اگر امیر کا تقرر اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے کہ انجمن اور خلیفہ کا کیا تعلق ہے تو

Page 520

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم اس پر گفتگو ہی نہیں کی جاسکتی.اسی وجہ سے ہم نے اپنے ہاتھوں کو جو کام کر رہے تھے کاٹ کر پھینک دیا کہ چونکہ تم خلافت کو انجمن کے ماتحت رکھنا چاہتے ہو اس لئے تم کو ہم نہیں رکھ سکتے.پس یہ بنیادی پتھر ہے کہ ایک خلیفہ ہو اس پر نہ اختلاف ہم سن سکتے ہیں نہ اختلاف ہے.ہم سب اس پر متفق ہیں کہ ایک واجب الاطاعت امام ہونا چاہئے.پیغام صلح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غیر احمدیوں کو اس لئے پراگندہ طبع قرار دیا ہے کہ اُن کا کوئی امام نہیں.پس اگر یہ سوال ہے کہ خلافت کے ماننے والے اپنے اختیارات کو خلیفہ کے مقابلہ میں کس طرح بر تیں تو یہ ان مسائل سے ہے کہ جن پر اختلاف کر کے ہم اکٹھے مل کر کام نہیں کر سکتے.اس موقع پر هذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنَكَ کہنا چاہئے.جیسے دومسلمان اس پر بحث نہیں کر سکتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبی تھے یا نہیں اور اُسی وقت بحث کریں گے جب مسلمان نہ رہیں اسی طرح دو احمدی اِس پر بحث نہیں کر سکتے کہ مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں یا نہیں.اسی طرح خلیفہ اور انجمن کے اختیارات کے بارہ میں بھی ایک جماعت میں بحث نہیں ہو سکتی.اس سے ٹوٹ کر ہوگی جیسا کہ پہلے ہوا ہے کیونکہ یہ ان مسائل سے نہیں کہ اکٹھے رہ کر بحث ہو سکے.انجمن سیالکوٹ، فیروز پور یالا ہور کیا چیزیں ہیں.وہ ظل ہیں قادیان کی انجمن کا.وہ امیر جو فیروز پور ، لا ہور میں ہو وہ ظل ہے خلیفہ کا.پھر ظل پر وہ حکم کس طرح جاری ہو جو اصل پر نہیں.اگر صدرانجمن خلیفہ کے حکم دینے سے نہیں ٹوٹتی تو اس کی شاخیں خلیفہ کے قائم مقاموں کے حکم دینے سے کس طرح ٹوٹ جاتی ہیں اور اگر صدرانجمن کا ٹوٹنا ما نہیں تو ماننا پڑے گا کہ مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور مجرم ہیں خدا تعالیٰ کے.اگر یہ نہیں تو ماننا پڑے گا کہ نہ انجمن ٹوٹی اور نہ مسیح موعود کے احکام کی خلاف ورزی کی.یہ دونوں باتیں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں.تعجب ہے اصل انجمن کے متعلق تو کہا جاتا ہے کہ نہیں ٹوٹی مگر ظل جو ہیں ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ٹوٹ جائے گی.اس کا کیا یہ مطلب نہیں کہ قادیان والی انجمن خلیفہ کے تقرر سے ٹوٹ جائے تو ٹوٹ جائے مگر ہم امراء کے تقرر سے اپنی انجمنیں نہ ٹوٹنے دیں گے.اس میں امیر کا تقرر نہ ہوگا.مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی

Page 521

خلافة على منهاج النبوة ۵۰۷ جلد سوم قائم کردہ انجمن کے متعلق فیصلہ کر دیا کہ اس طرح نہیں ٹوٹتی تو اس کی ظل کس طرح ٹوٹ سکتی ہیں.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ ، صفحه ۳۴ ، ۳۵)

Page 522

خلافة على منهاج النبوة ۵۰۸ جلد سوم خلافت کی موجودگی میں مشورہ کی ضرورت ابھی تک میں سمجھتا ہوں جماعت میں اس کے متعلق احساس پیدا نہیں ہوا کہ خلافت کی موجودگی میں مشورہ کی کیا ضرورت ہے.مگر پھر بھی پچھلے سال کی نسبت اب کی دفعہ زیادہ نمائندے آئے ہیں لیکن ابھی کم ہیں.یہ بات کسی ستی کی وجہ سے نہیں کیونکہ مشورے کے علاوہ دوسرے وقت میں شامل ہوتے ہیں.اب بھی نمائندوں کی نسبت ایسے لوگ زیادہ ہیں جو سننے آئے ہیں جب بھی کوئی تقریر ہو تو سب لوگ جمع ہو جاتے ہیں.پھر عام لوگ جلسہ پر زیادہ ہوتے ہیں اور اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ رات کے ۱۲ بجے تک مصافحہ کرتا ہوں اور پھر بھی مصافحہ ختم نہیں ہوتا.چنانچہ آج ایک صاحب ملے اُنہوں نے کہا چار سال ملنے کی کوشش کرتا رہا ہوں مگر نہیں مل سکا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور مشورہ میں شامل ہونا ضروری نہیں سمجھتے.پس مشورہ میں زیادہ تعداد میں نہ آنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ خلیفہ کی موجودگی میں مشورہ کی ضرورت نہیں سمجھتے لیکن خلیفہ کے باوجو د مشورہ کی ضرورت ہے اور بہت لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تحریک خلیفہ کے خلاف ایک بغاوت ہے مگر ان کو معلوم نہیں کہ یہ تحریک خلیفہ کے خلاف بغاوت نہیں بلکہ اس کی تحریک مجھ سے ہوئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے ہوئی اور باوجود خلافت کی موجودگی کے مشورہ کی ضرورت ہے.جیسا کہ میں نے پچھلے سال کہا تھا کہ کوئی خلافت مشورہ کے بغیر نہیں اب بھی یہی کہتا ہوں.اصل بات یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو کلمہ پڑھتا ہے اُس پر ایک دفعہ ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے اور وہ اسلام کی ذمہ داری ہے اُس کو اِس سے غرض نہیں کہ اس کام کو اور بھی کرنے والے ہیں بلکہ وہ یہی سمجھے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے وہی ذمہ دار ہے اور اس لئے ہر ایک

Page 523

خلافة على منهاج النبوة ۵۰۹ جلد سوم مسلمان خلیفہ ہے.جو مسلمان اپنے آپ کو خلیفہ نہیں سمجھتا وہ مسلمان نہیں.وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ دس لاکھ میں سے ایک ہے اور اس کو دس لاکھواں حصہ ادا کرنا چاہئے بلکہ وہ سمجھے کہ وہ دس لاکھ ہی کا قائم مقام ہے اور یہ کام سارا اسی کا ہے.اس کا فرض ہے کہ وہ پورا کام کرے اور اس میں سے جس قدر کام کی اس میں طاقت نہیں اللہ تعالیٰ اس کو معاف کرے گا اور اس سے اس کی باز پرس نہیں ہوگی.خلافت کے قیام کی ضرورت انتظام کے لئے ہے کیونکہ تقسیم عمل نہیں ہو سکتی جب تک ایک انتظام نہ ہو.ممکن ہے کہ سب زور دیں مگر ان کا زور ایک ہی کام پر خرچ ہورہا ہو اور باقی کام یونہی بے تو جہی کی حالت میں پڑے رہیں.پس جب تک ایک مرکز نہ ہو اُس وقت تک تمام متفرق جماعتوں کی طاقتیں صحیح مصرف پر صرف نہیں ہوسکتیں اس لئے ضرورت ہے کہ تمام متفرق جماعت کی طاقتوں کو جمع کرنے کے لئے ایک مرکزی طاقت ہو جو سب کے کاموں کی نگران ہو اور اس سے تمام جماعتوں کا تعلق ہو اس لئے ضروری ہے کہ کوئی جماعت اپنا مرکز قائم کرے اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ خلیفہ ہو جو اپنی رائے میں آزاد ہو لیکن وہ سب سے مشورہ طلب کرے.جو رائے اُس کو پسند آئے وہ اُس کو قبول کرے اور جو رائے اُس کو دین کے لئے اچھی نہ معلوم ہو خواہ وہ ساری جماعت کی ہو اُس کو رڈ کر دے اور اس کے مقابلہ میں جو بات اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ڈالے اور جس پر اُس کو قائم کرے وہ اُس کو پیش کرے اور لوگ اس کو قبول کر کے اس پر عمل کریں.جن لوگوں سے خلیفہ مشورہ طلب کرے ان کا فرض ہے کہ دیانت سے صحیح مشورہ دیں اور جب مشورہ طلب کیا جائے تو خواہ کسی کے بھی خلاف ان کی رائے ہو بیان کر دیں لیکن یہ دل میں خیال نہ کریں کہ اگر ہماری بات نہ مانی گئی تو یہ غلطی ہوگی.پس خلیفہ کے یہ معنی نہیں کہ وہی اسلام کا بوجھ اٹھانے والا ہے بلکہ اس کے معنی ہیں کہ وہ تمام جماعت کو انتظام کے تحت رکھنے والا ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی انسان بھی مشورہ سے آزاد نہیں.یہ خیال باطل ہے کہ مشورہ کی ضرورت نہیں یا یہ کہ مشورہ یونہی ہے اس کا فائدہ نہیں.یہ بھی غلط ہے کہ مجلس مشاورت خلافت کے خلاف بغاوت ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی

Page 524

خلافة على منهاج النبوة ۵۱۰ جلد سوم خلافت مستحکم نہیں ہو سکتی جب تک اس کے ساتھ مشورہ نہ ہو.کئی دفعہ بعض باتیں مشورہ سے ایسی معلوم ہو جاتی ہیں جو انسان کے ذہن میں نہیں ہوتیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مشورہ کیا کرتے تھے.چنانچہ جنگ احزاب کے موقع پر جب تمام کفار مل کر مدینہ پر چڑھ آئے اور یہود بھی کفار کے ساتھ مل گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے مشورہ طلب کیا.حضرت سلمان نے ایک مشورہ دیا کہ مدینہ کے اردگر دخندق کھودی جائے کیونکہ ایران میں یہی طریق رائج ہے لے اس سے ایک وقت تک دشمن اپنے حملے میں ناکام رہتا ہے یہ رائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئی اس کے مطابق عمل کیا گیا اور اس سے مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچا.اس مجلس میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ بھی موجود تھے حضرت سلمان کا ان سے رتبہ اور درجہ کم تھا مگر ایک بات میں وہ اُن سے بڑھا ہوا تھا یعنی اس نے غیر ممالک کو دیکھا ہوا تھا اس لئے فن کی واقفیت تھی.پس جو لوگ فن سے واقف ہوں اُن کی رائے سے بہت سے کام درست ہو جاتے ہیں.ایسے اوقات میں اخلاص کام نہیں آتا بلکہ فن سے واقفیت کام دیتی ہے.پس ضروری ہے کہ مجلس مشاورت میں ہر مذاق اور ہر ایک فن کے لوگ داخل ہوں.علاوہ اس کے کہ لوگوں میں یہ بات داخل کر دی جائے کہ اخلاص کے ساتھ فن کی واقفیت بھی پیدا کریں اس لئے ضرورت ہے کہ مجلس مشاورت میں ماہرین فن بھی آئیں.ان میں ایسے بھی ہوں جو اپنے دستخط بھی کرنا نہیں جانتے لیکن وہ اپنے علاقہ میں ایسا اثر اور رسوخ رکھتے ہوں کہ اپنے علاقہ میں کام کے متعلق جوش پیدا کر سکیں اور لوگوں میں جوش نہیں پھیل سکتا جب تک علاقہ کے ذی اثر لوگ اس مجلس میں داخل نہ ہوں.لیکن چونکہ مشورہ عام ہوتا ہے اس میں داخل ہونے والے بعض بطور مشغلہ کے بھی آتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ نمائندے الگ ہوں اور دوسرے الگ.پس جو نمائندہ ہے وہ مشورہ دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے ثابت ہے کہ آپ مجالس مشاورت میں سب کی بات نہیں مانا کرتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ اپنے امیر سے کہو کیونکہ اگر امراء اور نمائندوں کی رائے نہ لی جائے تو مشورہ کی غرض باطل ہو جاتی ہے.مشورہ کی اہمیت بتانے

Page 525

خلافة على منهاج النبوة ۵۱۱ جلد سوم کے بعد وہ نصائح سناتا ہوں جو میں نے پچھلے سال بھی مجلس مشاورت کے وقت بیان کی تھیں.میں ان کو رپورٹ سے پڑھ کر سناتا ہوں کہ مشورہ میں یادر ہیں اور مشورہ دینے والوں کا قدم جادہ اعتدال سے باہر نہ ہو.(1) ہم لوگ یہاں کسی دنیاوی بادشاہت اور حکومت کی تلاش کے لئے جمع نہیں ہوئے نہ عہدوں کے لئے اور نہ شہرت کے لئے آئے ہیں ہم میں سے اکثر وہ ہیں جن کا آنا ان کے لئے مشکلات بھی رکھتا ہے.مخالف ان پر جنسی اُڑاتے اور اعتراض کرتے ہیں پس ان کا یہاں آنا خدا کے لئے ہے اس لئے ضروری ہے کہ سب احباب ان نصائح پر عمل کریں.اپنے عمل کو ضائع ہونے سے بچائیں اور دعائیں کریں.اخلاص سے مشورہ دیں درد کے ساتھ مشورہ دیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے مشورہ میں برکت ڈالے.(۲) دعا بغیر عمل کے قبول نہیں ہوتی جب تک انسان اس کے لئے سامان نہ کرے.اگر انسان کو خواہش ہوتی ہے تو سامان کرتا ہے اگر سامان نہیں کرتا تو دعا کرنا غلط ہے.ہے.یہ دھوکا ہے کہ خدا سے اس بات کی دعا مانگی جائے جس کے لئے خود کچھ تیاری نہ کی جائے اور ظاہر نہ کیا جائے کہ جس کام میں خدا سے دعا مانگتا ہے اس کا محتاج ہے.(۳) جولوگ مشورہ کے لئے اٹھیں یہ نیت کریں کہ جو بات وہ کہتے ہیں وہ دین کے لئے مفید ہوگی یا یہ کہ جس بات کے لئے مشورہ کیا جاتا ہے کون سی بات دین کے لئے مفید ہوگی.(۴) جو مشورہ دیں وہ آپ کا ہو کسی کی خاطر مشورہ نہ دیں.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مشاورت بھی ہو اور آپ مشورہ طلب کریں تو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے علم کے مطابق مشورہ دیں.ہاں آپ کو یہ حق تھا کہ ہمارے مشورہ کو رڈ کر دیں.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھی مشورہ دیا جاسکتا ہے تو خلیفہ کی مجلس میں بدرجہ اولی دیا جا سکتا ہے.میرے نزدیک جو بچے طور پر خلیفہ ہے اس کا فرض ہے کہ وہ مشورہ سنے اور جو بات خواہ وہ کسی کی ہو اُس کو قبول کرے.یہ نہیں کہ وہ پہلے سے فیصلہ کرے کہ یونہی کرنا ہے بلکہ اس کی یہ حالت ہونی چاہئے کہ وہ اس ارادے سے بیٹھے کہ جو مشورہ ہوگا وہ درست ہو گا.اگر درست ہو تو مان لے ورنہ رڈ کر دے.جب تک

Page 526

خلافة على منهاج النبوة ۵۱۲ جلد سوم یہ حالت نہ ہو خطرہ ہے کہ لوگوں میں منافقت پیدا ہو جائے.خلیفہ کی رائے کے لئے رائے دینا اس سے غداری ہے اور خدا سے بھی غداری ہے.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء صفحه ۶ تا ۱۰) تاریخ طبری جلد ۳ صفحه ۶۵ ۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء

Page 527

خلافة على منهاج النبوة ۵۱۳ جلد سوم خلیفہ وقت کے گزارہ کا سوال مجلس مشاورت منعقد ہ ۱۹۲۴ء میں خلیفہ وقت کے گذر اوقات کے لئے رقم مقرر کرنے کے بارہ میں ایک تجویز کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :.اب میں تجویز نمبر 9 کو لیتا ہوں جو خلیفہ کی ذات سے تعلق رکھتی ہے اور اس کو اپنی طرف سے پیش کرتا ہوں.اس میں عام لوگوں سے مشورہ نہیں لیا جاتا کیونکہ ان کیلئے اخلاقاً وقتیں ہوں گی.ہاں اگر کوئی عالم صاحب کچھ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں وہ تجویز یہ ہے.خلیفہ وقت سلسلہ کے اموال کو بلا مجلس شوریٰ سے مشورہ لینے کے اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ نہیں کر سکتا.یعنی کوئی رقم ماہواری یا یکمشت اپنی ضروریات کے لئے نہیں لے سکتا جب تک مجلس شوری کی کثرت رائے اس امر پر اپنی رضا ظاہر نہ کرے لیکن گو اس وقت تک خلفاء خلافت کے کام کے بدلہ میں کوئی گزارہ نہیں لیتے ہو سکتا ہے کہ آئندہ اس کا انتظام کرنا پڑے اور بعض خلفاء ایسے ہوں جو بلا کسی ایسے انتظام کے گزارہ نہ کرسکیں اس لئے ضروری ہوگا کہ ہر نئے خلیفہ کے متعلق مجلس شوریٰ فیصلہ کرے کہ اُس کو اس قدر رقم گزارہ کے طور پر ملے گی.کسی خلیفہ کو جائز نہیں ہوگا کہ شوریٰ کے اس فیصلہ کو توڑے کیونکہ خلفائے سابقین کا یہی طریق رہا ہے اور خلیفہ کا اپنے نفس کے متعلق اس قید کو قبول کرنا حسن انتظام کے لئے ضروری ہے.ہاں مجلس شوری کو یہ جائز نہ ہوگا کہ بعد میں کبھی اس رقم میں جو مقر ر کر چکی ہے کمی کرے.مگر خلفاء اپنی وسعت ادا ئیگی کے مطابق حسب سنت خلفائے راشدین قرض بیت المال سے لے سکتے ہیں.(اس کے بعد حضور کی اجازت کے مطابق دو بزرگ علماء سلسلہ نے اس تجویز کے بارہ میں اپنی آراء پیش کیں انہیں سننے کے بعد حضور نے فرمایا )

Page 528

خلافة على منهاج النبوة وو ۵۱۴ جلد سوم جب حضرت ابو بکر خلیفہ مقرر ہوئے تو دوسرے تیسرے دن کسب معاش کے لئے نکلے.صحابہ نے کہا کہ اس صورت میں آپ خلافت کس طرح کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ پھر گزارہ کس طرح کروں؟ صحابہ نے مشورہ کیا اور ایک رقم اُن کے لئے مقرر کر دی ہے حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی اسی طرح ہوا کہ مشورہ سے اُن کے لئے رقم مقرر کی گئی ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب مال کثرت سے آئے اور چیزیں گراں ہوگئیں ادھر اہل وعیال بڑھنے لگے تو بعض صحابہ نے محسوس کیا کہ حضرت عمرؓ کا گزارہ تنگ ہے.ایک نے دوسرے سے ذکر کیا کہ حضرت عمرؓ کا گزارہ تنگ ہے ، کچھ انتظام کرنا چاہئے.دوسرے نے کہا وہ خود تو نہیں کہتے.اُس نے کہا کہ وہ کبھی بھی نہیں کہیں گے.اس لئے مشورہ ہوا اور حضرت حفصہ سے ذکر کیا کہ چونکہ حضرت عمرؓ کا گزارہ تنگ ہے اس لئے ہم نے یہ تجویز کی ہے مگر ہم اُن سے ذکر کرتے ہوئے ڈرتے ہیں ، آپ ذکر کریں.وہ گئیں اور جا کر کہا کہ بعض صحابہ آپ کے گزارہ میں وسعت کرنا چاہتے ہیں.اس پر حضرت عمر بہت ناراض ہوئے اور کہا کیا تو مجھے فتنہ میں ڈالنا چاہتی ہے؟ کے اس سے ظاہر ہے کہ رقم گزارہ میں اضافہ کی کوشش کی گئی گو حضرت عمرؓ نے منظور نہ کیا.تیسری قرضہ کی صورت رکھی ہے.یہ ثابت ہے کہ جب حضرت عمر فوت ہوئے تو ۴۲ ہزار درہم قرضہ ان کے ذمہ تھا.یہ سب صورتیں خلفاء کے طرز سے ثابت ہیں.پس خلیفہ کو حق ہونا چاہئے کہ بیشی کا انکار کر دے.ایسا نہ کرنے سے اس کے وقار کو نقصان پہنچتا ہے اور بدنتائج بھی ہوتے ہیں.کچھ عرصہ کی بات ہے کہ انجمن میں کسی نے یہ سوال کیا کہ چونکہ گرانی کا وقت ہے اس لئے خلیفہ کو اڑھائی سو ماہوار دیا جائے.اس سے انجمن میں اوروں کی تنخواہیں بھی بڑھائی گئیں.میرے اپنے نفس کی یہ حالت ہے کہ میں اپنا گزارہ اس طرح نہیں چاہتا گونا جائز نہیں کہتا کیونکہ اُنہوں نے اسے جائز رکھا ہے جن کا میں ادب کرتا ہوں اور بزرگ سمجھتا ہوں.تو میں یوں بھی اس رقم کو منظور کرنے سے انکار کرتا مگر یہ بھی خیال آیا کہ اگر منظور کر لوں تو یہ کہا جائے گا کہ چونکہ اوروں نے اپنی تنخواہیں بڑھائی ہیں اس لئے یہ رقم خلیفہ کو رشوت دی ہے تا کہ وہ اعتراض نہ کرے.گو یہ بات نہ تھی کیونکہ تجویز

Page 529

خلافة على منهاج النبوة ۵۱۵ جلد سوم حافظ روشن علی صاحب نے پیش کی تھی اور وہ انجمن کے ملازم نہ تھے.مگر چونکہ اعلان نہیں ہوتا کہ فلاں تجویز کس نے پیش کی اور لوگوں کے سامنے صرف فیصلہ آتا ہے اس لئے فتنہ پیدا ہو سکتا تھا.پھر میرے نزدیک اگر خلیفہ کو پابند کریں کہ مجلس شوری اگر اس کے گزارہ میں اضافہ کرے تو وہ منظور کرے اس سے اس کے وقار کو صدمہ پہنچتا ہے اور کئی لوگوں کے لئے بدظنی کا موقع پیدا ہوتا ہے اس لئے انتظام تو کرنا چاہئے کہ ضرورت کے وقت اضافہ کیا جائے مگر یہ گنجائش رکھنی چاہئے کہ خلیفہ انکار بھی کر سکے.ہاں یہ بات بتا دینا چاہتا ہوں گوامید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کی آئندہ زیادہ توجہ تاریخ اسلام اور صحابہ کے اعمال کی طرف رہے گی نہ کہ جھوٹی روایات پر کہ بعض لوگ نادانی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو صرف ۱۵ روپے گزارہ کے لئے ملتے تھے.ایک شخص نے میرے سامنے یہ کہا.میں نے کہا کہ ہم تو ۱۵ بھی نہیں لیتے مگر یہ میچ نہیں کہ ۱۵ روپیہ لیتے تھے.شبلی جیسوں نے بھی لکھا ہے مگر یہ صریح غلط ہے.تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ خلفاء کی چار قسم کی آمدنی تھی.(۱) بیت المال سے وظیفہ.یہ اڑھائی سو روپیہ کے قریب ہوتا ہے.(۲) ایک وظیفہ مقرر کیا گیا تھا بحیثیت صحابی ہونے کے.اس کے متعلق حضرت ابو بکر کا علم نہیں مگر حضرت عمرؓ کو ۵۰۰۰ درہم سالانہ ملتے تھے.یہ بدری صحابی کو ملتا تھا یعنی جو بدر کی جنگ میں شریک ہوئے تھے انہیں دیا جاتا تھا.(۳) جنگ میں جوفتوحات ہوتیں اور مال آتے وہ آ کر تقسیم ہوتے اور صحابہ کو دیئے جاتے.اس کا ثبوت اسی واقعہ سے ملتا ہے جس سے کہتے ہیں خلفاء کو لوگ بُرا بھلا بھی کہہ دیتے تھے.لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جبہ پہنا.وہ اُس کپڑے سے زیادہ کا تھا جو ان کے حصہ میں آیا تھا.کسی نے کہا اُس سے تو یہ نہیں بن سکتا تھا ، پھر کس طرح بنایا ہے ؟ حضرت عمرؓ نے عبداللہ بن عمر کو بلایا اور اس نے آکر کہا کہ میں نے اپنے حصہ کا کپڑا بھی انہیں دے دیا ہے.(۴) دوست احباب ہدیہ دے دیتے تھے.میرے نزدیک خلفاء کے متعلق یہ ایک فتنہ ہے جو آئندہ زمانے میں پیدا ہو سکتا ہے اس لئے ہم ابھی سے گزارہ کے متعلق تشریح کر دیں

Page 530

خلافة على منهاج النبوة ۵۱۶ جلد سوم تا کہ آئندہ خلفاء کو دقت نہ ہو.اس کے متعلق میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ مجلس شوریٰ ایک طرف اس بات کو مد نظر رکھے کہ ایسی بات نہ ہو کہ لوگوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ قوم کے مال کا خلفاء بے جا تصرف کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ کہ ایسا گذارہ بھی مقرر نہ کرے کہ خلیفہ کے وقار کو صدمہ پہنچے.بعض ایسے اخراجات ہو جاتے ہیں جو دوسروں کے لئے ان کو کرنے پڑتے ہیں.مثلاً میں جب تک اس منصب پر قائم نہ ہوا تھا اپنے ذاتی اخراجات اُس وقت کم ہوتے تھے مگر اب بہت زیادہ ہو گئے ہیں.پہلے پرائیویٹ سیکرٹری کی ضرورت نہ تھی مگر اب جماعتوں کو ملنے ملانے اور دیگر کاموں کے لئے ضرورت ہے.پھر باہر جاتے وقت علماء کی ضرورت نہ ہوتی تھی مگر اب ہوتی ہے.یہ خلافت کی وجہ سے اخراجات ہوتے ہیں.اُس وقت اگر ایک روپیہ سفر پر خرچ ہوتا تھا آج سو کرنا پڑتا ہے.میں تو خرچ نہیں لیتا سوائے اُس سفر کے جو جماعت کے لئے ہو اور یہ بھی پہلے نہیں لیتا تھا مگر اب مالی مشکلات کی وجہ سے لے لیتا ہوں.مگر ذاتی ضروریات کے لئے کہیں جاؤں تو خرچ نہیں لیتا لیکن جب آئندہ کے لئے غور کیا جائے گا تو ایسی باتوں کو مدنظر رکھنا پڑے گا.یہ حالات ہیں جن کے ماتحت یہ قانون تجویز کیا گیا ہے اور میں اس پر زور اس لئے دیتا ہوں تا یہ ایسے آدمیوں کے ہاتھوں طے پا جائے جن کی اس میں کوئی ذاتی غرض نہیں اور پھر اس لئے کہ ہماری جماعت کے خلفاء پر اموال یا انتظام کے نقص کا دھبہ نہ لگے.کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ایسا آدمی تم پر مقرر ہوا کہ تمہارے اموال محفوظ نہ رہے.اس کے بعد فرمایا :.چونکہ اب سوال کی بہت وضاحت ہو گئی ہے اس لئے دوسرے احباب بھی اگر کچھ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں.اس پر بعض ممبران نے اپنے خیالات کا اظہار کیا.اس کے بعد حضور نے اس اہم تجویز کے بارہ میں درج ذیل فیصلہ فرمایا ) فیصلہ ” ہر خلیفہ کے متعلق مجلس شوری فیصلہ کرے کہ اُس کو کس قدر رقم گزارے کے لئے

Page 531

خلافة على منهاج النبوة ۵۱۷ جلد سوم ملے گی اور دورانِ خلافت میں بھی اگر حالات متقاضی ہوں تو مجلس شوری کے لئے ضروری ہوگا کہ اس رقم کو بڑھا دے.ضروری ہوگا کہ یہ رقم وقت کی ضروریات اور حالات کے مطابق ہو اور خلافت کے وقار کو اس میں مد نظر رکھا جائے.مجلس شوری کو جائز نہ ہوگا کہ بعد میں کبھی اس رقم میں جو مقرر کر چکی ہے کمی کرے اس مشورہ کے دوران میں خلیفہ وقت اس 66 مجلس میں شریک نہیں ہوں گے.“ (اس کے بعد فرمایا ) کوئی خلیفہ اپنے کسی رشتہ دار حضرت عمر کا طریق ہے اور میرے نزدیک عقلاً کو اپنا جانشین نہیں مقرر کر سکتا ہی ہونا چاہئے اور وہ یہ ہے کوئی خلیفہ اپنے بعد اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو یعنی اپنے باپ یا بیٹے یا بھائی یا بہنوئی یا داماد کو یا اپنے باپ یا بیٹوں یا بیٹیوں یا بھائیوں کے اوپر یا نیچے کی طرف کے رشتہ داروں کو اپنا جانشین مقرر نہیں کر سکتا.نہ کسی خلیفہ کی زندگی میں مجلس شور کی اس کے کسی مذکورہ بالا رشتہ دار کو اس کا جانشین مقرر کر سکتی ہے.نہ کسی خلیفہ کے لئے جائز ہوگا کہ وہ وضا حنا یا اشارتاً اپنے کسی ایسے مذکورہ بالا رشتہ دار کی نسبت تحریک کرے کہ اس کو جانشین مقرر کیا جائے.اگر کوئی خلیفہ مذکورہ بالا اصول کے خلاف جانشین مقرر کرے تو وہ جائز نہ سمجھا جائے گا اور مجلس شوری کا فرض ہوگا کہ خلیفہ کی وفات پر آزادانہ طور سے خلیفہ حسب قواعد تجویز کرے اور پہلا انتخاب یا نامزدگی چونکہ نا جائز تھی وہ مستر د کبھی جائے گی.مفتی محمد صادق صاحب نے فرمایا کہ قریبی رشتہ دار کے الفاظ اڑا دیئے جائیں.حضور نے فرمایا کہ لفظ یعنی سے ان الفاظ کی گوتشریح ہو جاتی ہے مگر ان کو اڑا ہی دیتے ہیں.چنانچہ 66 ان کو اڑا کر اس طرح عبارت کر دی گئی.د کوئی خلیفہ اپنے بعد باپ یا بیٹے.اس سلسلہ میں ایک تجویز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے تحریراً حضور کی خدمت میں بھجوائی اس کے متعلق حضور نے فرمایا ) خلافت کے متعلق برادر عزیز مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک تجویز لکھ کر بھیجی ہے گو

Page 532

خلافة على منهاج النبوة ۵۱۸ جلد سوم خوشی یہ تھی کہ وہ خود ہی بیان کرتے یہ تجویز بہت معقول ہے.اس سے وہ دقت بھی حل ہو گئی ہے جس کے متعلق او پر خطرہ ظاہر کیا گیا ہے.اسے پہلے فیصلہ کے ساتھ بطورشق (ب ) کے شامل کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے“.یہ ضروری ہوگا کہ وہ خلیفہ وقت جس کو پہلے خلیفہ نے منصب خلافت کے لئے نامزد کیا ہے اپنے جانشین کو خود نامزد نہ کرے.نامزد شدہ خلیفہ کا جانشین صرف مجلس شوری ہی منتخب کر سکتی ہے.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء صفحه ۳۴ تا ۴۲،۴۰)

Page 533

خلافة على منهاج النبوة ۵۱۹ جلد سوم ہر حالت میں فتنہ انگیزی سے بچو دیکھو اگر کسی کی شکایت خلیفہ کے سامنے بھی نہ سنی جائے.اگر خدانخواستہ خلیفہ بھی ظلم میں ہمدردی کر کے کام کرنے والوں کی حمایت کرے تو بھی میں یہی کہوں گا کہ صبر کرو نہ کہ کوئی فتنہ انگیزی کی حرکت کرو.اگر خلیفہ واقعہ میں ظالم اور ظلم کی حمایت کرنے والا ہوگا تو خدا تعالیٰ تمہارے راستہ سے اسے ہٹا دے گا کیونکہ جب خدا تعالیٰ خلیفہ مقرر کرتا ہے تو وہ خلیفہ کو ہٹا بھی سکتا ہے.اسی طرح اگر کوئی کا رکن ظالم ہے تو اسے بھی خدا تعالیٰ ہٹا دے گا.تم خود نیک بنواور دعاؤں کے ذریعہ نہ کہ فتنہ انگیزی کے ذریعہ جو غلطی اور نقص معلوم ہو اس کی اصلاح چاہو.اگر اس بارے میں تمہاری غلطی ہوگی تو خدا تعالیٰ تمہارے دلوں کو صاف کر دے گا اور تمہیں تباہی سے بچالے گا اور اگر تمہاری غلطی نہ ہوگی تو خدا ظالموں کی یا تو اصلاح کر دے گا یا اُنہیں ان کی جگہ سے ہٹا دے گا.اسلامی اصول کے مطابق.جماعت کے انتظام کے متعلق آخری آواز صورت ہے کہ جماعت خلیفہ کے ماتحت ہے اور آخری اتھارٹی جسے خدا نے مقرر کیا اور جس کی آواز آخری آواز ہے وہ خلیفہ کی آواز ہے کسی انجمن ، کسی شوری یا کسی مجلس کی نہیں ہے.یہی وہ بات ہے جس پر جماعت کے دوٹکڑے ہو گئے.خلیفہ کا انتخاب ظاہری لحاظ سے بے شک تمہارے ہاتھوں میں ہے تم اس کے متعلق دیکھ سکتے اور غور کر سکتے ہومگر باطنی طور پر خدا کے اختیار میں ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے خلیفہ ہم قرار دیتے ہیں اور جب تک تم لوگ اپنی اصلاح کی فکر رکھو گے ان قواعد اور اصول کو نہ بھولو گے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ضروری ہیں تم میں خدا خلیفہ مقرر کرتا رہے گا اور اسے

Page 534

خلافة على منهاج النبوة ۵۲۰ جلد سوم وہ عصمت حاصل رہے گی جو اس کام کے لئے ضروری ہے.خلیفہ جماعت کو تباہ کر میں اس بات کا قائل نہیں کہ خلیفہ کو ئی غلطی نہیں کر سکتا مگر اس بات کا قائل ہوں کہ وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کر دینے والی غلطی نہیں کر سکتا سکتا جس سے جماعت تباہ ہو.وہ اس اور اس کام میں غلطی کر سکتا ہے مگر سب کاموں میں غلطی نہیں کر سکتا اور اگر وہ کوئی ایسی غلطی کر بھی بیٹھے جس کا اثر جماعت کے لئے تباہی خیز ہو تو خدا تعالیٰ اس غلطی کو بھی درست کر دے گا اور اس کے بھی نیک نتائج پیدا ہوں گے.یہ عصمت کسی اور جماعت یا کسی اور مجلس کو حاصل نہیں ہوسکتی.میں مانتا ہوں کہ خلفاء غلطی کرتے رہے اور اب بھی کر سکتے ہیں.بعض اوقات میں کوئی فیصلہ کرتا ہوں جس کے متعلق بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ غلطی ہو گئی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ غلطی سے زیادہ محفوظ کون ہے.اجتہادی اور سیاسی غلطیاں تو رسول سے بھی ہو سکتی ہیں پھر خلیفہ ایسی غلطیوں سے کس طرح بچ سکتا ہے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہو سکتا ہے کہ دو شخص میرے پاس لڑتے ہوئے آئیں.ان میں سے ایک لستان ہو اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں لیکن اگر فی الواقعہ اس کا حق نہیں تو وہ یہ نہ سمجھے کہ میرے دلانے سے اس کے لئے جائز ہو گیا.ایسی حالت میں اگر وہ لے گا تو آگ کا ٹکڑا لے گا لے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرار کیا ہے کہ ممکن ہے آپ ایک فیصلہ کریں اور وہ غلط ہو.ایک شخص کو کچھ دلائیں مگر وہ اس کا حق نہ ہو لیکن باوجود اس کے قرآن کریم کہتا ہے فَلا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا میری ہی ذات کی قسم ! ان میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے تمام جھگڑوں کا تجھ سے فیصلہ نہ کرائے اور پھر جو تو فیصلہ کرے گو یہ ممکن ہے کہ تو غلط کرے یا درست کرے مگر کچھ ہو ، انتظام کی درستی اور قیام امن کے لئے ضروری ہوگا کہ اس کے متعلق دلوں میں تنگی نہ ہوا اور پھر اس فیصلہ پر عمل بھی کریں.یہ وہ معاملات ہیں جن میں نبوت کا تعلق نہیں ہے.اگر نبوت کا تعلق ہوتا تو پھر ان میں

Page 535

خلافة على منهاج النبوة ۵۲۱ جلد سوم بھی غلطی کا امکان نہ ہوتا.خلفاء اور نبی کی وراثت نبی اجتہاد کی غلطی کرتا ہے.بحیثیت فقیہ غلطی کر سکتا ہے ، بحیثیت با دشاه غلطی کر سکتا ہے ، لیکن بحیثیت نبی غلطی نہیں کر سکتا اور وہ باتیں جو نبی سے بحیثیت فقیہہ اور بحیثیت حاکم تعلق رکھتی ہیں ، خلفاء ان میں نبی کے وارث ہوتے ہیں.خلفاء نبی کی ہر بات کے وارث ہوتے ہیں سوائے نبوت کے اور جو احکام نبوت کے سوا نبی کے لئے جاری ہوتے ہیں وہی خلیفہ کے لئے جاری ہوتے ہیں.اگر نبی ان مسائل میں غلطی کر سکتا ہے تو خلیفہ بھی کر سکتا ہے اور یہ آیت کہ فلا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا رسول کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان حاکم اور گورنر کے لئے بھی ہے اور اس کے ماتحت عمل کئے بغیر دنیا کا کام نہیں چل سکتا.کیا ہائی کورٹ اور پریوی کونسل غلطی نہیں کر سکتی ؟ کر سکتی ہے اور کرتی ہے.مگر کیا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے اور لوگ اُسے نہ مانیں؟ بات یہ ہے کہ انسان کا ہر کام نامکمل ہے مگر جب تک بعض نا مکمل با تیں تسلیم نہ کی جائیں دوسری مکمل نہیں ہو سکتیں.اور جب تک اس نامکمل بات کو تسلیم نہ کیا جائے کہ حاکم غلطی کر سکتے ہیں اُس وقت تک یہ بات مکمل نہیں ہو سکتی اور کبھی فساد دور نہیں ہو سکتا.بے شک خلفاء غلطی کر سکتے ہیں مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ان کے آگے سر تسلیم خم نہ کیا جائے تو کوئی جماعت جماعت نہیں رہ سکتی.پس خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے اور تم بھی غلطی کر سکتے ہو مگر فرق یہی ہے کہ خلیفہ کی خطرناک غلطی کی خدا تعالیٰ اصلاح کر دے گا مگر آپ لوگوں سے خدا کا یہ وعدہ نہیں ہے.“ 66 ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء صفحه ۲۳ تا ۲۵ مطبوعه اکتوبر ۱۹۲۵ء) ابو داؤد کتاب القضاء باب فى قضاء القاضى اذا اخطا صفحه ۵۱۵ حدیث نمبر ۳۵۸۳ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولى النساء: ٦٦

Page 536

خلافة على منهاج النبوة ۵۲۲ جلد سوم نمائندوں کے انتخاب میں احتیاط احمدی جماعتوں کو نمائندوں کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینا چاہئے اور بہترین آدمی کو منتخب کر کے بھیجنا چاہئے.مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ جماعت میں مجلس مشاورت کے متعلق احساس پیدا ہو رہا ہے اور بعض جماعتیں اس کی نمائندگی کے حق پر زور دیتی اور بہترین آدمی چن کر لاتی ہیں.مگر اکثر حصہ میں ابھی سستی اور لا پرواہی پائی جاتی ہے.اس سال پہلے کی نسبت حاضری زیادہ ہے مگر اس کی وجہ یہ نہیں کہ جماعت کا احساس اس بارے میں بڑھ گیا ہے بلکہ جب میں نے دیکھا کہ بہترین آدمی منتخب ہو کر نہیں آتے تو میں نے ایسے آدمی جو سلسلہ میں پرانے ہیں یا بہترین کام کرنے والے ہیں یا ایسے نوجوان ہیں جنہیں کام کرنے کے لئے شوق دلانا مد نظر ہے انہیں چٹھی بھیج کر بلایا ہے.یہ لوگ جماعت کے نمائندے نہیں ہیں بلکہ میرے ہی نمائندے ہیں کیونکہ جماعت نے ان کو منتخب کر کے نہیں بھیجا اور نہ خود ان کے دل میں شوق اور ولولہ پیدا ہوا ہے کہ بہترین آدمی منتخب کر کے بھیجے جائیں.غرض ہمارے مشورے نہایت اہمیت رکھتے ہیں.دوستوں کو چاہئے کہ اپنی اپنی جماعتوں میں جا کر اس اہمیت سے واقف کریں.دیکھو ان نمائندوں پر یہی ذمہ داری کتنی بڑی ہے کہ آئندہ جب خلافت کے انتخاب کا سوال در پیش ہوگا تو مجلس شوری کے ممبروں سے ہی اس کے متعلق رائے لی جائے گی.یہ کتنا اہم اور نازک سوال ہے.پھر کیوں با اثر لوگوں کو نمائندہ منتخب نہیں کیا جاتا.اگر خدا تعالیٰ کی حفاظت نہ ہو تو کتنے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں.ایک شخص جو خود واقف نہ ہو گا کسی شخص کی لسانی یا ظاہری حالت کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ یہی خلیفہ ہو حالانکہ خلافت کے لئے جتنے اوصاف کی ضرورت ہے وہ اس قدر مختلف اور پیچ در پیچ ہیں کہ اگر اس بارے میں ذرا بھی غفلت سے کام لیا جائے تو جماعت کی تباہی

Page 537

خلافة على منهاج النبوة آسکتی ہے.۵۲۳ جلد سوم رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء صفه ۳ ، ۴) یہ بھی بحث کی گئی ہے کہ اس مجلس میں تجویز پیش کرنے سے خلیفہ پر پابندی عائد ہوگی اور اس کے جواب میں کہا گیا ہے یہ تو بطور مشورہ ہے.میرے نزدیک یہ صحیح بات ہے کہ یہاں جو ریزولیوشن پیش ہوتا ہے مشورہ کے طور پر ہوتا ہے نہ کہ پاس قرار پاتا ہے اس لئے یہ اعتراض درست نہیں ، اس سے خلیفہ پر پابندی نہیں ہوتی.مگر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کسی بات کے گردو پیش کے حالات اور روح کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ درخواست میں التجاء ہوتی ہے مگر اس میں مخفی فیصلہ بھی ہوتا ہے.اس کے متعلق ہر شخص کو عموماً تجربہ ہوگا کہ بسا اوقات ایسی درخواستیں ہوتی ہیں جن کے الفاظ تو درخواست کے ہوتے ہیں مگر مخفی طور پر ان میں جبر پایا جاتا ہے کہ ہم یوں کرنے دیں گے اور یوں نہیں کرنے دیں گے.میرے نزدیک وہ امور جو خلیفہ کی ذات سے وابستہ ہیں ان میں اس قسم کی مداخلت بھی درست نہیں ہو سکتی.در حقیقت سلسلہ کے سب امور کا ذمہ دار خلیفہ ہے.بعض کے متعلق یہ ہوتا ہے کہ خلیفہ خود نہیں کرتا دوسروں سے کراتا ہے اور بعض خلیفہ کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں ان کا کرنا یا نہ کرنا اوروں سے تعلق نہیں رکھتا.اس مجلس میں کسی ایسے امر کو پیش کرنا گو یہ نہیں کہلا تا کہ جبر اس میں پایا جاتا ہے لیکن اس سے یہ احتمال ضرور ہے کہ اس قسم کے ریزولیوشن سے آہستہ آہستہ اس بات کی جرات پیدا ہو کہ خلیفہ کے اعمال کی حد بندی کرنے کے لئے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں کیونکہ یہ تجویز خلیفہ کے اعمال کے متعلق ہے ، جو اساس عمل ہے اس کے خلاف ہے.بحث کسی کی ہتک کے طور پر نہیں کی گئی مگر اس کا نتیجہ تو یہ ہے کہ خلیفہ کے اعمال پر بحث ہو اور اگر اس طریق کو جاری رکھا گیا تو ہو سکتا ہے کہ کل یہ التجاء اور درخواست پیش ہو کہ ہم تجویز کرتے ہیں فلاں فلاں قسم کے خطوط کا جواب خلیفہ خود دیا کرے.مطلب یہ کہ وہ امور جن کا فیصلہ صرف خلیفہ کی رائے کر سکتی ہے اور اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ مجلس مشاورت بلائے یا نہ بلائے وہی مجلس خلیفہ کے اعمال کی حد بندی کرتی ہے.

Page 538

خلافة على منهاج النبوة ۵۲۴ جلد سوم میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ تجویز پیش کرنے والوں کی نیت یہی تھی مگر اس بات سے متفق ہوں جو ذوالفقار علی خاں صاحب نے بیان کی ہے.چنانچہ میں نے اس کے متعلق جو نوٹ تقریر کرنے کے لئے لکھے تھے ان میں یہ بات موجود ہے.تجویز کرنے والوں کا اخلاص اس بات کو برداشت نہیں کرتا مگر اس ریزولیوشن کو اگر کوئی غیر دیکھے گا تو وہ یہی کہے گا کہ اس میں کمزور طاقت نے زبر دست حاکم کو توجہ دلائی ہے جسے اپنے فرائض کی طرف خیال نہ تھا پس یہاں اس وقت یہ سوال در پیش ہے کہ دنیا اس ریزولیوشن سے کیا نتیجہ نکالے گی.کسی کے اخلاص پر حملہ نہیں ، کسی کی نیت پر حملہ نہیں مگر جو بھی اس ریزولیوشن کو سنے گا اس پر یہی اثر ہوگا کہ خلیفہ کی طرف سے غفلت ہو رہی تھی جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے“.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۶ء صفحه ۲۷، ۲۸)

Page 539

خلافة على منهاج النبوة ۵۲۵ جلد سوم خلیفہ کے گزارہ کا سوال اس وقت جو تجاویز پیش ہیں ان میں سب سے پہلی تجویز میری طرف سے ہے جو بعض دوستوں کی تحریک سے کی گئی ہے.مجھ سے پوچھا گیا کہ جب جماعت ایک خلیفہ کے ماتحت رہے گی اور امید ہے کہ یہ سلسلہ ہمیشہ رہے گا تو اس لئے خلفاء کے گزارہ کے متعلق سوچنا ضروری سوال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تو خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ ہم تمہارے متکفل ہیں اور ہم تمہیں اُسی طرح دیں گے جس طرح سلیمان کو دیتے تھے اس لئے خدا تعالیٰ لوگوں کو الہام اور وحی کے ذریعہ تحریک کرتا اور وہ آپ کے لئے ہدا یا لاتے جو نہ صرف آپ کے لئے کافی ہوتے بلکہ لنگر خانہ پر بھی خرچ ہوتے اور اگر وہ ہدا یا نہ ہوتے تو لنگر نہ چل سکتا تھا.آپ کے بعد حضرت خلیفہ اول ہوئے وہ بھی دعویٰ رکھتے تھے اور تجربہ سے ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ کا آپ سے وعدہ تھا کہ ہم تمہارے متکفل ہوں گے.حضرت خلیفہ اول فرماتے بسا اوقات ایسا ہوا کہ ایک شخص نے مجھ سے کسی رقم کا مطالبہ کیا اور خدا تعالیٰ نے اتنی ہی رقم بھیج دی.فرماتے ایک دفعہ ایک شخص نے آکر مطالبہ کیا میں نے اسے کہا کہ بیٹھ جاؤ.وہ بیٹھ گیا مگر میرے پاس کچھ نہ تھا.اتنے میں ایک ہندو مریض آیا جو مٹھائی لایا.میں نے اُسے نسخہ لکھ دیا اور وہ چلا گیا.مٹھائی جب دیکھی گئی تو اس میں کچھ روپے بھی تھے مگر جس قد ر روپے کا مطالبہ تھا اس سے کم نکلے.میں نے کہا پھر دیکھو.جب دوبارہ دیکھا گیا تو اتنے ہی روپے نکل آئے جتنے روپوؤں کی ضرورت تھی.اسی طرح میرے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اس کے فضل سے مجھے معقول رقم مل جاتی ہے جو بعض اوقات عیسائیوں سے ، ہندوؤں سے ، غیر احمدیوں سے حتی کہ ایسے لوگوں سے جنہیں بہت بڑا دشمن سمجھا جاتا ہے اُن کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے جن

Page 540

خلافة على منهاج النبوة ۵۲۶ جلد سوم کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور روحانی طور پر اُن کا بیان کرنا مناسب بھی نہیں ہے.بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ قرض لینا پڑا ہے مگر میری جائداد ہے اس سے قرض ادا کیا جا سکتا ہے لیکن دوستوں نے کہا یہ طریق ہمیشہ کے لئے نہیں چل سکتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت تو اس بارے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا.حضرت خلیفہ اول کے وقت ہوسکتا تھا مگر نہ کیا گیا.میرے وقت میں بھی ہو سکتا ہے اگر اب بھی کچھ نہ کیا گیا اور تیسرے خلیفہ کے وقت یہ سوال اٹھایا گیا تو اُس کی وجہ سے اُس خلیفہ کو حقیر سمجھا جائے گا اور اس سوال کو بدعت قرار دیا جائے گا.پہلے بھی بعض لوگوں نے مجھے کہا تھا کہ میں اپنا گزارہ لوں مگر یہ میرے نزدیک مناسب نہ تھا مگر اب جس طرز پر انہوں نے بات پیش کی ہے بات معقول معلوم ہوتی ہے اس لئے پہلا امر اس دفعہ یہ پیش ہے کہ خلیفہ کے اخراجات کے لئے رقم مقرر ہونی چاہئے.میں خود کچھ نہیں لیتا سوائے اس کے کہ قرضہ کے طور پر کچھ رقم لوں اور کوشش کروں کہ خود ادا کر دوں.اور اگر خود ادا نہ کر سکوں تو میں نے کہا ہوا ہے میری جو جدی جائداد ہے اس سے جماعت وصول کر سکتی ہے.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷، صفحہ ۸،۷ ) دو مجھے بعض لوگوں نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس وقت تک خلفاء کا جو طریق گزارہ کے متعلق رہا ہے وہ آئندہ خلفاء کے لئے تکلیف کا موجب ہوگا اور اُن کو اپنے گذارہ کے متعلق کوئی تحریک کرنی بھی مشکل ہو جائے گی اس لئے گو آپ خود گزارہ نہ لیں لیکن اس سوال کو پیش کر دیں تا کہ آئندہ اس سوال کا اٹھنا کسی خلیفہ کی ہتک نہ سمجھا جائے“.میں طبعا اس سوال کے اٹھانے سے متنفر ہوں اور جہاں تک مجھ سے ہو سکے گا اور اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے گا اس کے بغیر ہی گزارہ کرنے کی کوشش کروں گا لیکن مذکورہ بالا امر میں مجھے بھی بہت حد تک سچائی نظر آتی ہے اور میں جانتا ہوں کہ اگر آج میری زندگی میں اِس امر کا فیصلہ نہ ہوا تو بعد میں آنے والوں کو اس کی وجہ سے تکلیف ہوگی.میں نے دیکھا ہے کہ عام طور پر لوگوں میں احساس ہے کہ خلیفہ کو جو ہدایا ملتے ہیں وہ غالبا اس کے گزارہ کے لئے کافی ہوتے ہیں.میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ اوسطاً ما ہوا را ایسے اخراجات ۱۵۰ سے ۲۵۰ روپیہ

Page 541

خلافة على منهاج النبوة ۵۲۷ جلد سوم تک ہوتے ہیں اور ان میں لائبریری ، امداد غرباء ( بعض ایسے غرباء بھی ہوتے ہیں جن کی مخفی طور پر اپنے پاس سے بھی مدد کرنی پڑتی ہے ) معاملات تمدنی ، دعوتوں اور کئی قسم کے اخراجات شامل ہیں.ستر ، اسی روپے ماہوار صرف لائبریری اور دفتر کا ہی خرچ ہوتا ہے.ہدایا کی تعداد عموماً اس رقم سے بھی کم ہوتی ہے.پس یہ رقم بلکہ اس سے بھی زیادہ تو انہی اخراجات میں خرچ ہو جاتی ہے جو جماعت کی غرض سے خلیفہ کی حیثیت میں خلیفہ کو کرنے پڑتے ہیں.میرے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض ایسی راہیں کھول دی تھیں کہ ان کے ذریعہ پہلے سات آٹھ سال خرچ چلتا رہا مگر اس کے بعد بعض اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے بعض راہیں بند ہو گئیں اور اُس وقت سے ہیں پچیس ہزار روپیہ مجھے قرض لینا پڑا.ان حالات میں میں سمجھتا ہوں کہ بعد کے خلفاء کو مشکلات پیش آسکتی ہیں.پس میں بھی اب یہ چاہتا ہوں کہ جماعت مناسب غور کے بعد ایک رقم بجٹ میں خلیفہ کے اخراجات کے لئے بھی مقرر کرے.میں إِنْشَاءَ اللَّهَہ اس رقم کو نہیں لوں گا.ہاں مجھے یہ فائدہ ہو جائے گا کہ بطور قرض مجھے صدرانجمن احمد یہ سے ضرورت کے موقع پر جو رقم لینی پڑتی ہے وہ میں اس مد میں سے لے کر جب تو فیق ہوا دا کر دیا کروں گا.اس رقم کے متعلق جو خلیفہ کے لئے مقرر کی جائے میں پسند کرتا ہوں کہ اس کے متعلق یہ قاعدہ ہو جائے کہ ہر سات سال کے بعد اس پر بلا خلیفہ کی تحریک کے مزید غور ہو جایا کرے کیونکہ حالات کے ماتحت اس میں کمی بھی اور زیادتی بھی دونوں ہی کا سوال پیدا ہوسکتا ہے.۱۹۲۴ء کی مجلس مشاورت میں ایک فیصلہ کیا گیا تھا جو اُس سال کی رپورٹ کے صفحہ ۳۹ پر اس طرح درج ہے.ہر خلیفہ کے متعلق مجلس شوری فیصلہ کرے کہ اس کو کس قدر رقم گزارے کے لئے ملے گی اور دوران خلافت میں بھی اگر حالات متقاضی ہوں تو مجلس شوری کے لئے ضروری ہوگا کہ اُس رقم کو بڑھا دے.ضروری ہوگا کہ یہ رقم وقت کی ضروریات اور حالات کے مطابق ہوا اور خلافت کے وقار کو اس میں مدنظر رکھا جائے.مجلس شوری کو جائز نہ ہوگا کہ بعد میں کبھی اس رقم میں جو مقرر کر چکی ہے کمی کرے.اس مشورہ کے دوران میں خلیفہ وقت اس مجلس میں

Page 542

خلافة على منهاج النبوة ۵۲۸ جلد سوم شریک نہیں ہوں گے“.چونکہ اب جو تجویز پیش ہے اس میں کمی کا ذکر ہے جو پہلے فیصلہ کے خلاف ہے اس لئے اس حصہ کو منسوخ کرتا ہوں.باقی چونکہ یہ بھی فیصلہ ہو چکا ہے کہ اس مشورہ میں خلیفہ شریک نہ ہو اس لئے میں اب نواب صاحب کے ہاں جاتا ہوں.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب مجلس کا انتظام کریں گے.جب اس امر کے متعلق فیصلہ ہو جائے تو مجھے اطلاع دے دی جائے “.( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحه ۱۴۵ تا ۱۴۷) (حضور کے اس ارشاد کے مطابق محترم چوہدری صاحب کی صدارت میں مجلس کی کارروائی جاری رہی.فیصلہ ہو جانے کے بعد اطلاع ملنے پر حضور مجلس میں واپس تشریف لے آئے اور فرمایا ) یہ معاملہ جو مجلس کے سامنے پیش ہوا اس کے متعلق میری رائے یہی ہے کہ اس امر کے متعلق فیصلہ جماعت کو کرنا چاہئے.صحابہ کے زمانہ میں یہی طریق رہا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اب اسے تبدیل کیا جاوے.یہ سوال کہ خلیفہ کو اس بارے میں اختیا ر ہے پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ کو اختیارات دیئے جاتے ہیں وہاں حد بندی بھی کی جاتی ہے اور ان حد بندیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس معاملہ کو جماعت پر چھوڑا گیا ہے اور جماعت کے فیصلہ کو مقدم رکھا گیا ہے.یہی وجہ ہے کہ میں نے ۱۹۲۴ء میں اس بارے میں جو فیصلہ کیا تھا اُس میں بیان کر دیا تھا کہ اس کا فیصلہ مجلس شوری کرے.اس معاملہ میں شوری کا اختیار مشورہ دینے کا نہیں بلکہ خود فیصلہ کرنے کا ہے.میں نے بتایا تھا کہ ۱۹۲۳ء تک قرضہ کے طور پر بھی بیت المال سے کوئی رقم لینے کی مجھے ضرورت پیش نہ آئی تھی ممکن ہے کبھی کوئی قلیل رقم کی ہو.بہت سے اخراجات سلسلہ کے متعلق ایسے تھے کہ وہ بھی میں اپنے پاس سے کرتا رہا مگر بعض حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ مجھے قرضہ لینا پڑا.اس قرضہ کو لئے تین سال ہو گئے ہیں.اس میں سے بعض رقوم ادا بھی کی گئیں مگر بیشتر حصہ ایسا ہے کہ جو ابھی ادا نہیں کر سکا گو میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ میرے قرضہ کی ذمہ دار میری جائداد ہے مگر میں اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی زندگی میں ہی

Page 543

خلافة على منهاج النبوة ۵۲۹ جلد سوم قرض ادا کرنے کی توفیق دے گا لیکن جیسا کہ کہا گیا ہے ہو سکتا ہے کہ کسی خلیفہ کو اخراجات کی ضرورت پیش آئے اس لئے کوئی انتظام ہونا ضروری ہے.حضرت خلیفہ اول کے پاس تو ایک ایسا فن تھا جس کی وجہ سے آمد ہو جاتی تھی.اسی طرح مجھے بھی پہلے سالوں میں معقول رقم خاص ذرائع سے مل جاتی تھی مگر یہ طریق ہمیشہ کے لئے نہیں چل سکتا.اب چوہدری صاحب کا بیان ہے کہ ۵۰۰ روپیہ ماہوار خلیفہ کے ذاتی اخراجات کے لئے اور ۱۵۰۰ سالا نہ سفر خرچ کے لئے مجلس نے تجویز کیا ہے اور پانچ سال کا عرصہ اس پر دوبارہ غور کرنے کے لئے مقرر ہوا ہے.میری اپنی تجویز سات سالہ تھی اگر اس دوران میں کوئی وجہ خاص پیش آجائے تو دوسرے اسے پیش کر سکتے ہیں.اگر ہر سال اس پر غور کیا جاوے تو یہ مشغلہ ہی بن جائے“.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۵۷، ۱۵۸)

Page 544

خلافة على منهاج النبوة ۵۳۰ جلد سوم مجلس مشاورت اور خلافت کا جوڑ دو میں دیکھتا ہوں کہ مجلس مشاورت جماعت میں بہت اہمیت اختیار کر رہی ہے اور ایسا ہی ہونا بھی چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے لَا خِلَافَةَ إِلَّا بِمَشْوَرَةٍ کہ خلافت بغیر مشورہ کے نہیں اور یہ آپ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے فرمایا.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ خلافت کا حکم قرآن میں ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے متعلق کوئی حد بندی اپنی طرف سے نہ کر سکتے تھے.بات یہی ہے کہ خلافت کبھی مفید نہیں ہو سکتی جب تک اس کے ساتھ مشورہ نہ ہو.تو خدا تعالیٰ کے نزدیک تو مجلس شوری کو پہلے ہی اہمیت حاصل تھی مگر جماعت کی اس طرف کم توجہ تھی.اب جماعت بھی اس کی اہمیت محسوس کر رہی ہے اور اس دفعہ دو تین جماعتوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ فلاں نمائندہ ہو فلاں نہ ہو.پہلے یوں کہتے تھے کہ بھئی مجلس مشاورت میں جانے کیلئے کس کو فراغت ہے.اگر کوئی کہتا مجھے ہے تو اُسے بھیج دیتے مگر اب کے جماعتوں نے نمائندوں کے انتخاب کئے ہیں اور اچھے طریق پر کئے ہیں.اس بات پر بحث ہوئی ہے کہ کون نمائندہ بن کر جائے ، یہ ایک اچھی روح ہے.ہماری جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ ہماری مجلس شوریٰ کی عزت ان بنچوں اور کرسیوں کی وجہ سے نہیں ہے جو یہاں بچھی ہیں بلکہ عزت اُس مقام کی وجہ سے ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک اسے حاصل ہے.بھلا کوئی کہہ سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اُس لباس کی وجہ سے تھی جو آپ پہنتے تھے.آپ کی عزت اُس مرتبہ کی وجہ سے تھی جو خدا تعالیٰ نے آپ کو دیا تھا اسی طرح آج بے شک ہماری یہ مجلس شوری دنیا میں کوئی عزت نہیں رکھتی مگر وقت آئے گا اور ضرور آئے گا جب دنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمنوں کے ممبروں کو وہ درجہ حاصل نہ ہوگا جو اس کی ممبری کی وجہ سے حاصل ہوگا کیونکہ اس کے ماتحت ساری دنیا کی پارلیمنٹیں آئیں گی.

Page 545

خلافة على منهاج النبوة ۵۳۱ جلد سوم پس اس مجلس کی ممبری بہت بڑی عزت ہے اور اتنی بڑی عزت ہے کہ اگر بڑے سے بڑے با دشاہ کو ملتی تو وہ بھی اس پر فخر کرتا.اور وہ وقت آئے گا جب بادشاہ اس پر فخر کریں گے پس ضرورت ہے کہ جماعت اس کی اہمیت کو اور زیادہ محسوس کرے اور ضرورت ہے کہ سال میں دود فعہ ہو تا کہ زیادہ مسائل پر غور کیا جا سکے.( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحه ۱۴، ۱۵) دوسرے سوال کے متعلق وو سوال کرنے کی اجازت دینا خلیفہ کا کام ہے بولنا اور سوال کرنے کی اجازت دینا چونکہ خلیفہ کا کام ہے اس لئے اس قسم کی سٹرائیک نہیں کرنی چاہئے کہ اگر جواب دینے کے بعد پھر بولنے کی اجازت نہ ہو تو پھر سوال پیش ہی نہ کئے جائیں.ان کو سوالات پیش کرنے چاہئیں تھے اور پھر ان کے متعلق مزید گفتگو کرنے کیلئے درخواست کرنی چاہئے تھی کہ اجازت دی جائے.اگر مناسب ہوتا تو میں اجازت دے دیتا اور مناسب نہ ہوتا تو نہ دیتا.اس طرح وہ بھی خوش ہو جاتے اور سوالات سے جو بہت سے فائدے حاصل ہو جاتے ہیں وہ بھی حاصل ہو سکتے.پس یہ کہنا کہ اگر لمبی گفتگو کی اجازت نہ ہو تو سوالات بھی پیش نہ کئے جائیں یہ درست نہیں تھا“.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۱ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طر یق تھا کہ جب آپ مجلس میں بیٹھتے تو استغفار پڑھا کرتے استغفار کیوں پڑھتے تھے تھے اور حدیث میں آتا ہے.دفعہ استغفار پڑھتے تھے یا اس کی غرض وہ نہ ہوتی تھی جو سوئے ادبی سے لوگ بیان کرتے ہیں کہ آپ کے دل پر مجلس میں بیٹھنے سے زنگ لگتا تھا اسے دور کرنے کے لئے استغفار پڑھتے تھے.جسہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے تو پھر آپ کے دل پر زنگ لگانے والا کون ہو سکتا تھا.لیکن یہ صحیح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زنگ کا ذکر فرمایا ہے مگر یہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر زنگ لگتا تھا بلکہ اس لئے پڑھتے تھے کہ دوسروں کے دلوں پر زنگ نہ لگے اور خدا تعالیٰ انہیں اس سے بچا لے.اور دوسرے لوگ اس لئے پڑھتے تھے کہ وہ اس زنگ سے بچ جائیں.

Page 546

خلافة على منهاج النبوة ۵۳۲ جلد سوم رسول اور خلفاء کی مجلس کے آداب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے اور زنگ کا کیا تعلق ہے.موقع پر یا اُس موقع پر جب خلفاء بیٹھے ہوں کئی باتیں ایسی پیدا ہوسکتی ہیں کہ لوگوں کے دلوں پر زنگ لگا دیں.قرآن کریم میں حکم ہے کہ ایسی آواز سے نہ بولو کہ رسول سے سوعاد بی ہو اور وہ بات جو رسول کے لئے ہو خلفا ء بھی اس کے حصہ دار ہیں.اب اگر کوئی کسی اور مجلس میں بے جاز ور اور تندی سے بولتا ہے تو اس کے متعلق کہیں گے بے ادب ہے.لیکن اگر رسول کریم ﷺ یا خلیفہ کی مجلس میں اس طرح کلام کرتا ہے تو نہ صرف آداب مجلس کے خلاف کرتا ہے بلکہ گناہ کا بھی مرتکب ہوتا ہے.پس احباب کو اس بات کی عادت ڈالنی چاہئے کہ اس مجلس مشاورت میں زیادہ وقار اور خشیت اللہ سے بات کریں مگر دیکھا گیا ہے بعض لوگوں نے یہ مدنظر نہیں رکھا کہ میں فیصلہ کر چکا ہوں اور کئی نے کہا ہے کہ فلاں فیصلہ میں ترمیم کی ضرورت ہے.یہ تو دنیوی حکومتوں میں بھی ہوتا ہے کہ جو فیصلہ پریذیڈنٹ کر دے پھر اس کے خلاف نہیں کہا جاتا حالانکہ ان لوگوں کو پریذیڈنٹ سے کوئی اخلاص نہیں ہوتا ، کوئی مذہبی تعلق نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات دل میں اُسے پاجی کہہ رہے ہوتے ہیں مگر اس کے فیصلہ کا لحاظ رکھتے ہیں.ہماری جماعت کے لوگ اخلاص رکھتے ہیں مگر آداب مجلس سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے اس قسم کی باتیں ان سے سرزد ہو جاتی ہیں.پچھلی دفعہ کی مجلس مشاورت میں ایسا نہیں ہوا مگر اب کے محسوس کیا گیا ہے کہ بعض نے مجھے بھی ناظروں میں سے ایک ناظر سمجھا ہے حالانکہ خلیفہ کی پارٹی کا نہیں ہوتا بلکہ سب کا ہوتا ہے اور سب سے اس کا یکساں تعلق ہوتا ہے.اسے کسی محکمہ سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ سب سے اور سب افراد سے تعلق ہوتا ہے اس لئے ان باتوں میں شریعت کے آداب کو مد نظر رکھنا چاہئے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عورتوں میں وعظ کا سلسلہ شروع کیا مگر ان کی مجلس میں شور ہوا تو آپ نے فرمایا اب ہم وعظ نہیں کریں گے کیونکہ عورتوں نے ادب ملحوظ نہیں رکھا.پس خلافت کے آداب اور مجلس کے آداب مد نظر رکھنے چاہئیں“.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحه ۱۳۶، ۱۳۷)

Page 547

خلافة على منهاج النبوة ۵۳۳ جلد سوم منصب خلافت کا احترام اب کمیشن کی سفارشات میں سے صرف ایک بات باقی رہ گئی ہے میں اسے بغیر توجہ کئے چھوڑ دیتا مگر خلافت کے مقام کے احترام نے مجھے اجازت نہ دی کہ میں اسے یونہی چھوڑ دوں.پہلے تو مجھے خیال آیا یہ پہلا کمیشن ہے جس نے کچھ کام کیا ہے اس لئے جہاں تک ہو سکے اس کی سفارشات کو ر ڈ نہ کروں.مگر پھر بھی میں نے سمجھا ذمہ داری کے لحاظ سے میری خاموشی نقصان رساں ہوگی اور میں نے یہی سمجھا کہ کمیشن کے ممبر لائق اور تعلیم یافتہ اصحاب ہیں وہ اپنی کسی رائے پر جرح بخوشی برداشت کریں گے اور جب انہوں نے میری بیعت کی ہوئی ہے تو گویا اپنا سب کچھ میرے سپرد کر دیا ہے.گو مجھے معلوم ہوا ہے ایک ممبر نے جرح کو بہت بری طرح محسوس کیا ہے جس کا مجھے بہت دکھ ہے.بہر حال یہ ایسا سوال تھا جسے میں نظر انداز نہیں کر سکتا تھا اور اگر میں نظر انداز کرتا تو خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ٹھہرتا.وہ سوال یہ ہے کہ کمیشن نے دانستہ نہیں بلکہ نا دانستہ کیونکہ جب انہوں نے بیعت کی اور مجھے خلیفہ تسلیم کر کے میری بیعت میں داخل ہوئے تو پھر خلافت کے منصب کا احترام کرنا ان کا فرض ہے ، بعض باتیں ایسی لکھی ہیں کہ جو کام ان کے لئے مقرر کیا گیا تھا اس سے باہر ہیں حتی کہ وہ خود منصب خلافت پر حملہ کرتی ہیں.اس وجہ سے میں نے سمجھا اگر آج میں ان پر خاموش رہتا ہوں خواہ کسی وجہ سے تو کل کہا جائے گا خلیفہ دوم نے تسلیم کر لیا تھا کہ خلافت کا یہی منصب ہے.منصب خلافت میں اس بات کی تفصیل میں پڑنے سے قبل بتانا چاہتا ہوں کہ وہ خلافت کا منصب جس کے لئے ہم نے یہ ذمہ داری برداشت کی تھی

Page 548

خلافة على منهاج النبوة ۵۳۴ جلد سوم کہ کسی اختلاف سے نہ ڈریں گے وہ کیا ہے؟ جب حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل فوت ہوئے تو وہ لوگ جنہوں نے جماعت سے نکل کر الگ انجمن بنائی ان سے میری گفتگو ہوئی.میں نے ان سے کہا مجھے خلیفہ کے انتخاب میں اختلاف نہیں آپ لوگ جسے منتخب کریں میں اسے خلیفہ ماننے کے لئے تیار ہوں.اس موقع پر میں نے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ اگر دوسرا فریق اس بات پر اڑ جائے کہ خلیفہ ہمارے ہم خیالوں اور ہم عقیدہ لوگوں میں سے نہ ہو تو ہمیں یہ بات منظور کر لینی چاہئے اور جسے وہ پیش کر یں جماعت کا اتحاد قائم کرنے کے لئے اسے خلیفہ مان لینا چاہئے.اس پر بعض نے کہا ہم یہ کس طرح برداشت کر سکتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص خلیفہ ہو جسے ہمارے عقائد سے اختلاف ہو.میں نے کہا اگر تم لوگ یہ برداشت نہیں کر سکتے تو وہ کس طرح برداشت کر سکتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی شخص خلیفہ ہو.اگر تم لوگ ان کے پیش کردہ آدمی کو خلیفہ نہیں مانو گے تو میں تم سے علیحدہ ہو جاؤں گا اور اُسے خلیفہ مان لوں گا.آخر یہ بات طے ہوئی کہ کسی ایسے شخص کو جس نے ہمارے خلاف عقائد کا اظہار نہیں کیا اور ان لوگوں کا بھی اس پر اعتماد ہوا سے خلیفہ منتخب کرنے کی کوشش کی جائے اس کے لئے میر حامد شاہ صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب کے نام تجویز ہوئے کہ ان میں سے اگر کسی کو وہ خلیفہ منتخب کریں تو ہمیں فورا مان لینا چاہئے.لیکن اگر وہ ضد کریں کہ مولوی محمد علی صاحب ہی خلیفہ ہوں تو بھی انہیں ماننا ہوگا ورنہ میں تم سے علیحدہ ہو جاؤں گا.اس پر میں نے سب سے عہد لیا اور پھر مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ اگر آپ اپنے میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کرنا چاہتے ہیں تو ہم اسے ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ کوئی خلیفہ ہی نہیں ہونا چاہئے تو اسے برداشت نہیں کیا جاسکتا اور اس پر ہمارا آپ سے افتراق ہے چنانچہ ہمیں اسی وجہ سے ان سے علیحدہ ہونا پڑا اور ان کی علیحدگی کی ہم نے کوئی پرواہ نہ کی.غرض یہ وہ مسئلہ ہے کہ جس پر ان لوگوں سے جو جماعت کے لیڈر سمجھے جاتے تھے ہمیں علیحدگی اختیار کرنی پڑی اور ہم نے انہیں صاف طور پر کہہ دیا کہ اگر وہ خلافت کے قائل نہیں تو ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں.

Page 549

خلافة على منهاج النبوة ۵۳۵ جلد سوم اب بعض دوستوں نے مجھ سے شکایت کی کہ خلافت کا مسئلہ بعض لوگوں پر مخفی ہو رہا ہے اور وہ اس کی حقیقی اہمیت سے ناواقف ہوتے جا رہے ہیں.کمیشن کی رپورٹ سے ظاہر ہو گیا کہ فی الواقعہ بعض لوگوں پر یہ مسئلہ مخفی ہو رہا ہے اس وجہ سے وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہوئی.میں صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ میں اختلاف رکھنے والے کسی شخص سے ہمارا اتحاد نہیں ہو سکتا.خواہ وہ ہمارا بھائی ہو یا بیٹا یا کوئی اور قریبی رشتہ دار.اگر جماعت ہمارا ہوسکتا.ہویا یا اور کا کوئی فرد اس میں اختلاف رکھتا ہو تو اسے دیانتداری کے ساتھ علیحدہ ہونا چاہئے اور اپنے لئے الگ نظام قائم کر لینا چاہئے.اس وجہ سے ہم اسے بُرا نہ سمجھیں گے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم میں رہتے ہوئے خلافت تسلیم کرتے ہوئے پھر اس میں اختلاف کرے.ہمارے اس عقیدہ کی بنیاد یہ ہے کہ جس کو خلیفہ تسلیم کیا گیا ، جس کی بیعت کی گئی اُس کی اسی طرح اطاعت کرنی چاہئے جس طرح شریعت نے ضروری قرار دی ہے لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس نے کسی غلط فہمی کی وجہ سے خلافت کو تسلیم کیا اور خلیفہ کی بیعت کی تھی تو وہ تو ہماری طرف سے آزاد ہے وہ جس وقت چاہے الگ ہو سکتا ہے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں نہ ہم اسے بُرا سمجھیں گے.غیر مبائعین کو ہم اس لئے بُرا نہیں سمجھتے کہ وہ خلافت سے الگ ہو گئے بلکہ اس لئے بُرا قرار دیتے ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہتک کرتے ہیں ورنہ میں تو انہیں بھی اپنا بھائی سمجھتا.پس پہلی بات جو اس وقت میں بتانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ خلافت کوئی سیاسی نظام نہیں بلکہ مذہب کا جزو ہے.میں اس وقت اسے مذہب کا جزو ثابت کرنے کے لئے دلائل میں نہیں پڑوں گا.کوئی اسے غلط کہہ دے مگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن نے مقرر کیا ہے کہ خلیفہ ہو اس لئے یہ مذہبی مسئلہ ہے.میں اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کے لئے تیار نہیں.میرا خیال ہے ایک دفعہ خان صاحب ذوالفقار علی صاحب غیر مبائعین کی طرف سے پیغام لائے تھے کہ آپس کا اختلاف دور کر دینا چاہئے.میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر کسی دنیوی بات پر اختلاف ہے تو میں اسے چھوڑنے کے لئے تیار ہوں، اگر کسی جائداد کے متعلق اختلاف ہے تو

Page 550

خلافة على منهاج النبوة ۵۳۶ جلد سوم وہ میں دینے کیلئے تیار ہوں لیکن اگر خلافت مذہبی مسئلہ ہے تو کس طرح خیال کیا جاسکتا ہے کہ میں اسے قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاؤں گا.دینی لحاظ سے تو ایک شعشہ کم کرنا بھی کفر ہے.پس میں یہی کر سکتا ہوں کہ وہ مجھے سمجھائیں ، میں انہیں سمجھا تا ہوں ، پھر جس کی بات حق ثابت ہوا سے مان لیا جائے.تو خلافت کا مسئلہ ایک مذہبی مسئلہ ہے اور مذہب کا جزو ہے اور حق یہ ہے کہ خلیفہ قائم مقام ہوتا ہے رسول کا اور رسول قائم مقام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا.اللہ تعالیٰ نے بعض احکام دے کر اس کے بعد رسول کو اختیار دیا ہے کہ وہ ان میں دوسروں سے مشورہ لے کر فیصلہ کرے.پھر لوگوں کو اس بات کا پابند قرار دیا ہے کہ جو فیصلہ رسول کرے اسے بغیر چوں و چرا کے تسلیم کریں.اس پر اعتراض کر کے پیچھے رہنے کا کسی کو حق نہیں دیا.اسی طرح خلیفہ کو حق دیا ہے کہ مشورہ لے اور پھر فیصلہ کرے.دنیا وی مجالس مشاورت میں تو یہ ہوتا ہے ان میں شامل مجلس شوریٰ کا منصب ہونے والا ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ چاہے میری بات رد کر دو مگر سن لو.لیکن خلافت میں کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں خلیفہ کا ہی حق ہے کہ جو بات مشورہ کے قابل سمجھے اس کے متعلق مشورہ لے اور شوریٰ کو چاہئے کہ اس کے متعلق رائے دے.شوریٰ اس کے سوا اپنی ذات میں اور کوئی حق نہیں رکھتی کہ خلیفہ جس امر میں اس سے مشورہ لے اس میں وہ مشورہ دے.سوائے اس حق کے کہ وہ پہلے خلیفہ کی وفات پر نئے خلیفہ کا انتخاب کر سکتی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو تحدید کر دی تھی کہ ان کے بعد چھ آدمی جسے خلیفہ منتخب کریں وہ خلیفہ ہو.ہم نے ان کی نقل کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وفات کے بعد مجلس شوریٰ رائے عامہ اور شریعت کے احکام کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرے کہ فلاں شخص خلیفہ ہو.تا اللہ تعالیٰ کی آواز اس کی زبان پر جاری ہو کر دنیا میں پھیلے.یہ مجلس شوری کی حیثیت ہے.اس کے سوائے خلیفہ کے کاموں میں اسے کوئی دخل حاصل نہیں.یہ ہوسکتا ہے کہ ذاتی معاملات میں خلیفہ سے غلطی ہو جائے لیکن ان معاملات میں جن پر جماعت کی روحانی اور جسمانی ترقی کا انحصار ہو ان میں اگر اس سے غلطی سرزد ہو تو اللہ تعالیٰ جماعت کی حفاظت کرتا ہے اور الہام یا کشف سے اس غلطی پر مطلع کر دیتا ہے.

Page 551

خلافة على منهاج النبوة ۵۳۷ جلد سوم صوفیاء کی اصطلاح میں اسے حفاظت صغری کہا جاتا ہے اور قرآن کریم میں آتا ہے وليمَكنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِی ارتضى لَهُمْ ے اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی رضا مندی ان کی زبان پر جاری کرتا ہے اور اسے ان کے ذریعہ دنیا میں قائم کرتا ہے.یہ خلافت کے متعلق ہمارا عقیدہ ہے اور یہ بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ سوائے ان اموال کے جو وقتی ضروریات کے لئے آتے ہیں باقی سب اموال خدا تعالیٰ کے ہوتے ہیں.یہ نہیں کہ خلیفہ کے پاس جو ا موال آتے ہیں وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کہ پبلک کے اموال گورنمنٹوں میں جمع ہوتے ہیں.زکوۃ اور صدقہ ایسے اموال ہیں جو محض خدا کے لئے دیئے جاتے ہیں.انہیں جو شخص اس لئے دیتا ہے کہ اس کی مرضی سے خرچ ہوں وہ خدا تعالیٰ کے لئے نہیں دیتا بلکہ اپنے لئے دیتا ہے.جو خدا تعالیٰ کے لئے عشر ، زکوۃ اور صدقہ دیتا ہے وہ مال اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے جس کا محافظ رسول اور پھر خلیفہ ہوتا ہے.ہاں آگے اس کے لئے یہ رکھا کہ وہ مشورہ لے مگر جس طرح چاہے خرچ کرے اس پر کوئی اعتراض کرنے کا حق نہیں رکھتا.جب ایک موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غنیمت کے متعلق انصار میں سے کسی نے اعتراض کیا کہ خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن مال دوسروں کو دے دیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اب انصار کو دنیا میں کسی بدلہ کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے ان کی خدمات کا بدلہ قیامت میں ہی ملے گا سکے چنانچہ دنیا میں انصار کو حکومت نہ ملی اور دوسروں نے آکر اُن پر حکومت کی کیونکہ ان میں سے کسی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جو قول منہ سے نکالا تھا اسے خدا تعالیٰ نے ناپسند کیا.تو یا درکھنا چاہئے مجلس شوری جماعت احمدیہ کی جماعت کا ذمہ دار خلیفہ ہے ایگزیکٹو (EXECUTIVE) باڈی نہیں ہے.اسی بناء پر ہما را غیر مبائعین سے اختلاف ہوا تھا کہ وہ خلیفہ کی بجائے انجمن کو جماعت کا ذمہ دار قرار دیتے تھے حالانکہ تولیت خلیفہ کی ہے.آگے خلیفہ نے اپنے کام کے دو حصے کئے ہوئے ہیں.ایک حصہ انتظامی ہے اس کے لئے عہدہ دار مقرر کرنا خلیفہ کا کام ہے.ان کارکنوں پر مجلس شوری کی کوئی حکومت نہیں ہے.یہ طریق عمل رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 552

خلافة على منهاج النبوة ۵۳۸ جلد سوم اور خلفائے راشدین کے وقت نظر آتا ہے.اسامہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر کا سردار مقرر کیا باقی لوگ اس کے خلاف تھے مگر آپ نے کسی کی پرواہ نہ کی.پھر حضرت عمر نے جب حضرت خالد کو سپہ سالاری سے معزول کیا تو مجلس شوریٰ اس کے خلاف تھی مگر آپ نے وجہ تک نہ بتائی.دوسرا حصہ خلیفہ کے کام کا اصولی ہے اس کے لئے مجلس شوری سے وہ مشورہ لیتا ہے.پس مجلس معتمدین انتظامی کاموں میں خلیفہ کی ویسی ہی جانشین ہے جیسے مجلس شوری اصولی کاموں میں خلیفہ کی جانشین ہے.ان دونوں کا آپس میں سوائے خلیفہ کے واسطہ کے کوئی واسطہ اور جوڑ نہیں ہے.مگر ہمارے اس کمیشن نے اس بات کو نظر انداز کر کے بعض تجاویز پیش کر دیں جن سے خلافت پر بھی زد پڑتی ہے..کمیشن نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ مجلس مجلس معتمدین کے ممبروں کا انتخاب معتقدین کے تمبر مجلس مشاورت میں سے منتخب کئے جایا کریں.مجلس معتمدین کے ارکان چونکہ جماعت کے کارکن ہیں اس لئے وہ جماعت کے نمائندے نہیں ہو سکتے.جماعت کی اصل نمائندہ مجلس شوری ہے اس میں جلس معتمدین کے ارکان منتخب ہونے چاہئیں.لیکن صحیح بات یہ ہے کہ سلسلہ کا اصل ذمہ دار خلیفہ ہے اور سلسلہ کے انتظام کی آخری کڑی بھی خلیفہ ہے.خلیفہ مجلس معتمدین مقرر کرتا ہے اور وہی مجلس شوری مقرر کرتا ہے.دونوں مجلسیں اپنی اپنی جگہ خلیفہ کی نمائندہ ہیں.اگر مجلس معتمدین مجلس شوری کے ماتحت ہو تو اس کا مطلب ہوا کہ خلیفہ مجلس شوری کے فیصلہ کا پابند ہو.مجلس شوریٰ جو کا رکن مقرر کرے خلیفہ ان سے کام لے حالانکہ کوئی دنیا کی مہذب حکومت ایسی نہیں ہے جس کی پارلیمنٹ وزراء مقر ر کرتی ہو.اور کمیشن کا یہ ایسا مشورہ ہے کہ دنیا وی حکومتوں کے نام کے بادشاہوں کے حقوق بھی اس کے لحاظ سے محفوظ نہیں رہتے اور ان پر بھی ایسی پابندی نہیں ہے جو کمیشن نے خلیفہ پر عائد کی ہے.اس بات کا خیال کمیشن کو بھی آیا اور انہوں نے سمجھا کہ اس طرح خلیفہ کے اختیارات پر تو پابندی عائد نہیں کی جا رہی؟ اس وجہ سے انہوں نے یہ لکھ دیا کہ مجلس مشاورت میں مجلس معتمدین کا کس طرح انتخاب ہو ، اس کے متعلق بعد میں غو ر ہو..

Page 553

خلافة على منهاج النبوة ۵۳۹ جلد سوم مگر میں صاف طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ کارکنوں کا انتخاب سوائے خلیفہ کے اور کسی کے اختیار میں نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتخاب کارکنان کے متعلق تو مشورہ بھی ثابت نہیں ہوتا.خلفاء کے وقت بھی اس کے لئے مشورہ کی پاپندی نظر نہیں آتی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت سارے کہتے رہے کہ حضرت خالد کو معزول نہ کیا جائے مگر انہوں نے ان کی بجائے ابو عبیدہ کو مقرر کر دیا.کمیشن کا یہ فقرہ کہ ”اصولاً ہمیں یہ درست نہیں معلوم ہوتا کہ انجمن معتمدین صرف ناظروں کی جماعت کا نام ہو.انجمن معتمدین خلیفہ وقت کی ماتحتی میں سلسلہ کی تمام جائداد کی نگران اور مالک مقرر ہوتی ہے اس واسطے وہ صحیح معنوں میں جماعت کی نمائندہ ہونی چاہئے.ناظر صاحبان جو جماعت کے ملازمین میں سے ہیں کسی طرح بھی جماعت کے نمائندہ نہیں کہلا سکتے.ہمارے خیال میں انجمن معتمدین کے ممبران جماعت کے انتخاب سے مقرر ہونے چاہئیں“.یہ خلافت پر تبر ہے کیونکہ اس کا یہ مطلب ہے خلیفہ کا انتخاب صحیح نمائندہ جماعت نہیں.اور اس سے یہ نتائج نکلتے ہیں.اول یہ کہ مجلس معتمدین سلسلہ کی تمام جائداد کی نگران اور مالک ہے گو خلیفہ کے ماتحت ہے.ہے (۲) خلیفہ کا ناظر صاحبان کو مجلس معتمدین کے ممبر مقرر کرنا درست نہیں.(۳) مجلس معتمدین کا انتخاب خلیفہ کی طرف سے نہیں بلکہ جماعت کے انتخاب سے ممبر مقرر ہونے چاہئیں.اور یہ تینوں نتیجے ہماری خلافت کے متعلق عقیدہ کے خلاف ہیں اور دنیا کی کانسٹی ٹیوشنز کے بھی خلاف ہیں.کوئی پارلیمنٹ وزراء مقر ر نہیں کرتی مگر کمیشن کہتا ہے کہ مجلس شوریٰ مجلس معتمدین مقرر کرے.ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ ہم اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتے کہ کس طرح انتخاب ہو اور کس طرح وہ ممبران اجلاس کریں.ممبران کی تعداد کیا ہو اور کتنے عرصہ کے بعد ان کا انتخاب ہو.کس قدر حصہ نامزدگان کا ہو اور کس قد رمنتخب شدہ کا.پھر کمیشن کرنا کیا چاہتا ہے.

Page 554

خلافة على منهاج النبوة ۵۴۰ جلد سوم منصب خلافت کے خلاف تجویز یہ تجویز منصب خلافت کے بالکل خلاف ہے.مگر میں سمجھتا ہوں اس قسم کی باتوں کا علم نہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ خیال آیا ور نہ کمیشن کے پریذیڈنٹ صاحب اور سرے ممبر صاحب نے جس بشاشت سے اپنی رپورٹ میں میری جرح سنی ہے اس سے میں خیال بھی نہیں کرسکتا کہ انہوں نے منصب خلافت کو نقصان پہنچانے کے لئے یہ تجویز کی ہے.چونکہ یہ ایک غلط خیال تھا اور آئندہ کے لئے نقصان رساں ہوسکتا تھا جو نا دانستہ طور پر پیش کیا گیا اس لئے میں نے اس کی اصلاح کر دی ہے لیکن گو کمیشن کے ممبروں کے متعلق میں سمجھتا ہوں ان سے نادانستہ غلطی ہوئی ہے مگر ممکن ہے کسی نے ان کے دل میں یہ خیال پیدا کیا ہو اور کوئی اور ہو جو دیدہ و دانستہ یہ خیال رکھتا ہو اس لئے میں واضح کر دینا چاہتا ہوں اور کہتا ہوں لکھنے والے جلد لکھ کر اسے شائع کر دیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا گواہ ہے ہم ایسے لوگوں سے تعاون کر کے کام نہیں کر سکتے.ہم نے اس قسم کے خیالات رکھنے والے ان لوگوں سے اختلاف کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں رہے، آپ کے پاس بیٹھے ، آپ کی باتیں سنیں.ہم اپنے جسم کے ٹکڑے الگ کر دینا پسند کر لیتے لیکن ان کی علیحدگی پسند نہ کرتے مگر ہم نے انہیں چھوڑ دیا اور اس لئے چھوڑ دیا کہ خلافت جو برکت اور نعمت کے طور پر خدا تعالیٰ نے نازل کی وہ اس کے خلاف ہو گئے اور اسے مٹانا چاہتے تھے.خلافت خدا تعالیٰ کی ایک برکت ہے اور یہ اُس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک جماعت اس کے قابل رہتی ہے لیکن جب جماعت اس کی اہل نہیں رہتی تو یہ مٹ جاتی ہے.ہماری جماعت بھی جب تک اس کے قابل رہے گی اس میں یہ برکت قائم رہے گی.اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ مجلس شوریٰ جماعت کی نمائندہ ہے اور اس کی نمائندہ مجلس معتمدین ہو تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہم یہ خیال سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہو سکتے اور ہم اس کے مقابلہ میں ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن خلافت کو نقصان پہنچنے دینے کے لئے تیار نہیں.اللہ تعالیٰ گواہ ہے میں صاف صاف کہہ رہا ہوں ایسے لوگ ہم سے جس قدر جلدی ہو سکے الگ ہو جائیں اور اگر وہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں تو منافق ہیں اور دھوکا دے کر رہتے ہیں.اگر سارے کے سارے

Page 555

خلافة على منهاج النبوة ۵۴۱ جلد سوم بھی الگ ہو جائیں اور میں اکیلا ہی رہ جاؤں تو میں سمجھوں گا کہ میں خدا تعالیٰ کی اس تعلیم کا نمائندہ ہوں جو اس نے دی ہے مگر یہ پسند نہ کروں گا کہ خلافت میں اصولی اختلاف رکھ کر پھر کوئی ہم میں شامل رہے.یہ اصولی مسئلہ ہے اور اس میں اختلاف کر کے کوئی ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتا.( اس موقع پر ہر طرف سے پُر زور آوازیں آئیں کہ ہم سب اس کے ساتھ متفق ہیں ) میں نے اس مجبوری کی وجہ سے کہ خدا تعالیٰ کے حضور گناہ گار نہ بنوں ضروری سمجھا کہ اس غلطی کا ازالہ کر دوں.ورنہ مجھے یقین ہے کہ کمیشن کے ممبران یہ خیال نہیں رکھتے.اس پر میں نے جب ان کے سامنے جرح کی تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہم نے یہ بات کبھی نہیں، رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۳۹ تا ۴۷ )

Page 556

خلافة على منهاج النبوة ۵۴۲ جلد سوم کوئی سلسلہ احمدیہ کو مٹا نہیں سکتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر لوگوں نے خیال کیا کہ یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ سلسلہ کی روح رواں چلا گیا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ سلسلہ کی روح رواں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہ تھے بلکہ خدا نے اسے قائم کیا تھا.اُسی نے اسے قائم رکھا اور اُسی نے حضرت مولوی صاحب کو خلیفہ بنایا ہے.کچھ لوگ جو ہی کہتے تھے کہ اس سلسلہ کو مولوی نورالدین صاحب چلا رہے ہیں انہوں نے کہا ہم نہ کہتے تھے سب کچھ مولوی نورالدین صاحب کرتے ہیں، ان کے بعد اس سلسلہ کا خاتمہ ہو جائے گا اور جب حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے تو سب نے کہا اب فیصلہ ہو جائے گا.مخالفت کے کچھ اور سامان بھی پیدا ہو گئے یعنی کچھ لوگ جماعت سے علیحدہ ہو کر تفرقہ کرنے لگے مگر خدا تعالیٰ قدرت نمائی کرنا چاہتا تھا.جہاں سلسلہ کے کاموں کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے والے اختلاف میں پڑ گئے وہاں سلسلہ کی باگ اُس نے ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دی جس کے متعلق کہتے تھے یہ بچہ ہے اور جو دنیا کے تجربہ کے لحاظ سے بچہ ہی تھا.اُس وقت میری عمر ۲۶ سال کی تھی اور میں نے یہ عمر قادیان میں ہی بسر کی تھی.دنیا کا مجھے کوئی تجربہ نہ تھا اور نہ ہی سلسلہ کے کاموں کا تجربہ تھا کیونکہ جن کے ہاتھوں میں کا م تھا وہ پسند نہ کرتے تھے کہ میں کوئی کام کروں.ایسی حالت میں جب یہ کام خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کیا تو مخالف کہنے لگے اب یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور ان لوگوں میں سے جو جماعت سے علیحدہ ہو گئے تھے ایک نے کہا ہم تو یہاں سے جاتے ہیں عوام الناس احمدیوں نے ایک بچہ کو خلیفہ مقرر کر لیا ہے دس سال کے بعد دیکھنا ان عمارتوں پر عیسائی قابض ہو جائیں گے اور احمد بیت بالکل مٹ جائے گی.یہ

Page 557

خلافة على منهاج النبوة ۵۴۳ جلد سوم ۱۹۱۴ء کے ابتداء کا واقعہ ہے جس پر ۱۸ سال ختم ہو گئے اور اُنیسواں شروع ہے.گویا دودہا کے ختم ہونے والے ہیں لیکن دیکھ لو کون قابض ہے اور آیا سلسلہ تباہ ہو گیا ہے یا خدا تعالیٰ کے فضل سے اس نے اتنی ترقی کی ہے کہ کئی گنے زیادہ جماعت ہوگئی ہے.جب خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ ڈور دی تو بیرونی ممالک میں کسی جگہ کوئی احمدی جماعت قائم نہ تھی سوائے افغانستان کے.مگر اب خدا کے فضل سے مختلف ممالک میں جماعتیں قائم ہیں اور نہ صرف ہندوستانی جو دوسرے ممالک میں گئے ہوئے ہیں وہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے بلکہ ان ممالک کے باشندے بھی داخل ہو چکے ہیں اور غیر مذاہب کے باشندے بھی داخل ہو چکے ہیں.پھر جس وقت اُس انسان کے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے سلسلہ کا انتظام دیا جسے بچہ کہتے تھے اُس وقت خزانہ پر اٹھارہ ہزار قرض کا بار تھا اور صرف چند آنے خزانہ میں موجود تھے.اُس وقت کہا گیا کہ قادیان کے لوگ چند دن میں بھو کے مرنے لگیں گے لیکن ابتداء ہی سے اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے میرے اندر وہ طاقت اور قوت پیدا کی کہ مجھے ہر موقع پر یہی یقین رہا کہ یہ سلسلہ ضرور بڑھے گا اور ترقی کرے گا.آج خدا کے فضل سے وہ نظارہ نظر آ رہا ہے کہ سلسلہ کی اشاعت اور جماعت کی ترقی الگ رہی خدا تعالیٰ نے جوڑ عب عطا کر رکھا ہے وہ جماعت احمدیہ سے سینکڑوں گنے زیادہ تعداد رکھنے والوں کو بھی حاصل نہیں ہے.اُس وقت جماعت احمدیہ کو ایک چھوٹی سی اور نا قابل التفات جماعت سمجھا جاتا تھا مگر اب اسے زبر دست طاقت تسلیم کیا جاتا ہے.اُس وقت مسلمان کہتے تھے احمدیوں کو کسی کام میں اپنے ساتھ ملا کر کیا کرنا ہے مگر آج کہتے ہیں یہ ایک ہی جماعت ایسی ہے کہ اس کی امداد کے بغیر مسلمان ترقی نہیں کر سکتے.یہ عملی ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.کیا خدا تعالیٰ کی ان نصرتوں اور ان تائیدوں کو دیکھتے ہوئے ہم گھبرا سکتے ہیں ؟ اور کیا ان حالات میں دنیا کی مشکلات روک ہو سکتی ہیں ؟ پس اپنے فیصلوں میں یہ بات مدنظر رکھو کہ اس جگہ ہم خدا تعالیٰ کے ایجنٹوں کی حیثیت سے بیٹھے ہیں اور خدا تعالیٰ کا سپرد کیا ہوا کام کرنا ہمارا فرض ہے.کسی صورت اور کسی حالت میں بھی بزدل ، کمزور ہمت اور پست حوصلہ نہ بنو.اپنی نظر میں بلند اور اپنے دل

Page 558

خلافة على منهاج النبوة ۵۴۴ جلد سوم مضبوط رکھو.ایک طاقتور آقا نے یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ ہم کس طرح یہ کام کرتے ہیں.جن نتائج کو خدا تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے ان میں وہ ہمارا محتاج نہیں وہ سخن کہہ سکتا ہے اور جو کچھ چاہے فوراً ہو سکتا ہے لیکن وہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ یہ سب کچھ اُسی کے حکم سے 66 ہوا ہے.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء صفحه ۱۳ تا ۱۶)

Page 559

خلافة على منهاج النبوة ۵۴۵ جلد سوم بات کرتے وقت مخاطب خلیفہ ہونا چاہئے دوست جب کوئی بات پیش کرنا چاہیں تو آپس میں خطاب نہ کریں.یہ بات دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے ناجائز ہے.اس مجلس مشاورت کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ آپ صاحبان سے مشورہ لے رہا ہے اس لئے بات کرتے وقت مخاطب خلیفہ ہی ہونا چاہئے.یہ معمولی بات نہیں اس کی وجہ سے انسان کئی قسم کی ٹھوکروں سے بچ جاتا ہے.جب انسان کسی کو مد مقابل سمجھ کر کوئی بات کرتا ہے تو اُسے غصہ آ جاتا ہے لیکن جب مخاطب خلیفہ ہوگا تو پھر غصہ نہیں آئے گا.پس احباب کو یہ بات ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہئے کہ ایسے مواقع پر خلیفہ کو مخاطب کر کے بات کی جائے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ بات کرتے وقت خلیفہ کا لفظ بولا جائے بلکہ یہ ہے کہ گفتگو کا رُخ اُس کی طرف ہو.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء صفحه ۱۳،۱۲)

Page 560

خلافة على منهاج النبوة ۵۴۶ جلد سوم آداب مجلس خلافت میں احباب کو اس ادب کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس پر ہر مجلس میں عمل ہونا چاہیئے اور جو کسی مذہب سے متعلق نہیں بلکہ ہر مذہب کے لوگوں کے لئے ضروری ہے مگر بعض دوست اسے بھول جاتے ہیں.وہ یہ ہے کہ جب مجلس شروع ہو تو آپس میں باتیں نہیں کرنی چاہئیں.یہ شکایت کل مجھے اپنے سامنے والے اصحاب سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ ان کی طرف سے پیدا ہوئی جو میرے پیچھے بیٹھے ہیں اور جو سلسلہ کے کارکن ہیں.جب میں تقریر کر رہا تھا تو دو ناظر منٹوں آپس میں بے تکلفی سے باتیں کرتے گئے.یہ آداب مجلس کے صریح خلاف ہے اور خلاف ورزی کرنے والے صدر انجمن احمدیہ کے ناظر تھے.وہ نہایت ذمہ داری کے کام پر مقرر ہیں مگر خلیفہ تقریر کر رہا ہے اور وہ اس کی بغل میں بیٹھ کر کوئی ایک بات نہیں بلکہ لمبا سلسلہ گفتگو شروع کر دیتے ہیں.گویا گھروں کے جھگڑے اسی وقت طے کرنے بیٹھے ہیں.یہ شکایت مجھے پہلے بھی پیدا ہوئی تھی اس کی طرف میں توجہ دلاتا ہوں اور اب وضاحت کے ساتھ بتا تا ہوں کہ آئندہ اگر کسی ناظر کے متعلق یہ شکایت پیدا ہوئی تو میں ہدایت جاری کروں گا کہ اسے مجلس شوری سے خارج کر دیا جائے.اگر کوئی ضروری بات کرنی ہو تو کاغذ پر لکھ کر ، کر لینی چاہئے.یا اگر چھوٹا سا فقرہ کہہ دیا جائے تو اس کی وجہ سے تقریر میں حرج واقع نہیں ہوتا مگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ لمبا سلسلہ گفتگو چلتا ہے“.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء صفحه ۱۲،۱۱)

Page 561

خلافة على منهاج النبوة ۵۴۷ جلد سوم زمانہ قرب نبوت اور موعود خلافت اس وقت ہماری جماعت کے لئے تو خلافت کا ہی سوال نہیں دو اور سوال بھی ہیں.ایک قرب زمانہ نبوت کا سوال اور دوسرا موعود خلافت کا سوال.یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو ہر خلیفہ کے ماننے والے کو نہیں مل سکتیں.آج سے سو دو سو سال بعد بیعت کرنے والوں کو یہ باتیں حاصل نہیں ہوسکیں گی.اُس زمانہ کے عوام تو الگ رہے خلفاء بھی اس بات کے محتاج ہوں گے کہ ہمارے قول ، ہمارے عمل اور ہمارے ارشاد سے ہدایت حاصل کریں.ہماری بات تو الگ رہی وہ اس بات کے محتاج ہوں گے کہ آپ لوگوں کے قول ، آپ لوگوں کے عمل اور آپ لوگوں کے ارشاد سے ہدایت حاصل کریں.وہ خلفاء ہوں گے مگر کہیں گے کہ زید نے فلاں خلافت کے زمانہ میں یوں کیا تھا ہمیں بھی اس پر عمل کرنا چاہئے.پس یہ صرف خلافت اور نظام کا ہی سوال نہیں بلکہ ایسا سوال ہے جو مذہب کا سوال ہے.پھر صرف خلافت کا سوال نہیں بلکہ ایسی خلافت کا سوال ہے جو موعود خلافت ہے.الہام اور وحی سے قائم ہونے والی خلافت کا سوال ہے.ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کراتا ہے اور پھر اسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں.یعنی میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمد یہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیا بلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا.پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں.میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی.گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے.

Page 562

خلافة على منهاج النبوة ۵۴۸ جلد سوم کہ جماعت احمد یہ اسے رائیگاں جانے دے اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو جائے.جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفے بھی روز روز نہیں آتے.پھر یہ کہنے کا موقع کہ فلاں بات ہم سے چھپیں تیس سال پہلے خدا تعالیٰ کے نبی نے یوں کہی یہ بھی روز روز میسر نہیں آتا.جو روحانیت اور قرب کا احساس اس شخص کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ آج سے تیس سال پہلے خدا تعالیٰ کے ما مور اور مرسل نے یہ فرمایا تھا اُس شخص کے دل میں کیونکر پیدا ہوسکتا ہے جو یہ کہے کہ آج سے دوسو سال پہلے خدا تعالیٰ کے فرستادہ نے فلاں بات یوں کہی تھی کیونکہ دوسو سال بعد کہنے والا اس کی تصدیق نہیں کر سکتا لیکن ہیں تھیں سال بعد کہنے والا اس کی تصدیق کر سکتا ہے.پس ضرورت ہے اس بات کی کہ جماعت جماعت متحد الخیال ہو جائے متحد الخیال ہو کر خلیفہ کو اپنا ایسا استاد سمجھے کہ جو بھی سبق وہ دے اسے یاد کرنا اور اس کے لفظ لفظ پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھے.اتحاد خیالات کے ساتھ قو میں بہت بڑی طاقت حاصل کر لیا کرتی ہیں ورنہ یوں نظام کا اتحاد بھی فائدہ نہیں دیتا جب تک اتحادِ خیالات نہ ہو.یورپ کا حال کا تجربہ دیکھ لو.اٹلی یورپ میں ذلیل ترین حکومت سمجھی جاتی تھی لیکن جب مسولینی نے اٹلی میں اتحادِ خیالات پیدا کیا تو آج اٹلی کے لوگ کہتے ہیں کہ یورپ کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی.اور اتنا تو ہم نے بھی دیکھا ہے کہ شیر انگلستان جس کے چنگھاڑنے سے کسی وقت دنیا کانپ جاتی تھی اسے بھی اٹلی کے مقابلہ میں آکر دُم دبانی ہی پڑی.یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ اُس وقت انگریزی حکومت لڑائی کو ضروری سمجھتی تھی اور وہ محسوس کرتی تھی کہ اس کی ذلت ہوئی ہے مگر اس کے افسروں نے کہہ دیا کہ اگر اس وقت اٹلی سے لڑائی شروع کی گئی تو اس کا نتیجہ خوش کن نہ ہوگا اور ہم لڑائی کے لئے تیار نہیں ہیں.اس میں شک نہیں کہ یہ کمزوری صرف اس لئے نہ تھی کہ اٹلی طاقتور ہے بلکہ اس لئے تھی کہ اور طاقتیں بھی اندرونی طور پر اٹلی کے ساتھ تھیں.مگر ایک زمانہ کا انگلستان وہ تھا کہ دوسری طاقتوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھتا تھا.اس قدر طاقت اٹلی کو کہاں سے حاصل ہوئی ؟ اسی سے کہ مسولینی نے اٹلی والوں میں اتحادِ خیالات

Page 563

خلافة على منهاج النبوة ۵۴۹ جلد سوم پیدا کر دیا.بے شک اس کے لئے اس نے جبر سے کام لیا ، اپنے مخالفین کو قتل کرایا ، اُن کی جائدادیں چھین لیں اور ان کی اولادوں پر قبضہ کر کے ان کے خیالات کو ایک طرف لگا دیا لیکن ذرائع خواہ کچھ ہوں اُس نے یہ کام کیا اور کامیاب ہو گیا.یہی بات ہٹلر نے جرمنی میں کی.غرض اتحادِ خیالات کمزوروں کو بھی بڑا طاقتور بنا دیتا ہے.پس جب تک اتحادِ خیالات پیدا کرنے کی ہم کوشش نہیں کرتے وہ نتائج نہیں دیکھ سکتے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے مقدر ہیں.اس میں شک نہیں کہ وہ آج نہیں تو کل ضرور رونما ہوں گے مگر وہ کل ہمارے لئے خوشگوار نہیں ہوگا کیونکہ ہم میں سے بہت سے وہی کھیل کھیل رہے ہیں جو ڈاکٹر اقبال نے حال ہی میں کھیلا ہے.انہوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی نماز چھوڑ دے تو مسلمان رہ سکتا ہے، اگر کوئی زکوۃ نہ دے تو مسلمان رہ سکتا ہے ، اگر عورتیں پرده ترک کر دیں تو مسلمان رہ سکتی ہیں، غرض اسلام کے ہر حکم کو ترک کرنے والا مسلمان رہ سکتا ہے لیکن اگر یہ نہ مانے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا تو پھر مسلمان نہیں کہلا سکتا.ہم میں سے بھی کئی ہیں جو کہتے ہیں ہم اگر اسلام کے کسی حکم پر عمل نہیں کرتے یا کسی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو کیا ہوا ، ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو مانتے ہیں.اگر کوئی اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے اور اس سے اسلامی احکام کے مطابق سلوک نہیں کرتا تو وہ یہ کہہ دینا کافی سمجھتا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو مانتا ہوں ، اگر کوئی اپنی بہنوں کو حصہ نہیں دیتا تو کہہ دیتا ہے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو مانتا ہوں ، اگر کوئی اپنے بچوں کو تعلیم اسلامی طرز کے مطابق نہیں دلاتا تو کہہ دیتا ہے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو مانتا ہوں ، اگر کوئی ڈاڑھی منڈوا تا ہے تو کہہ دیتا ہے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو مانتا ہوں مگر مانتا کیا ہے خاک ! جب وہ تفصیلی احکام نہیں مانتا.اس کی مثال اُس شخص کی سی ہے جس نے گودنے والے سے کہا تھا میری کلائی پر شیر گود دو.جب اس نے سوئی ماری اور اسے درد ہوا تو کہنے لگا کیا کر رہے ہو؟ گودنے والے نے کہا شیر کا دایاں کان گود نے لگا ہوں.اس نے کہا اگر دایاں کان چھوڑ دیا جائے تو پھر شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ گودنے والے نے کہا رہتا ہے.وہ کہنے لگا اچھا اسے جانے دو اور آگے

Page 564

خلافة على منهاج النبوة ۵۵۰ جلد سوم چلو.پھر اس نے سوئی ماری تو کہنے لگا اب کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا شیر کا بایاں کان گود تا ہوں.کہنے لگا اگر بایاں کان نہ ہو تو کیا شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ اس نے کہا ہاں رہتا ہے.کہنے لگا پھر آگے چلو.اسی طرح اس نے ہر عضو کے متعلق کہنا شروع کیا آخر گودنے والے نے سوئی رکھ دی اور کہہ دیا کہ اس طرح شیر کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.تو بے شک انسان کمزور ہے، اس سے قصور ہو جاتا ہے مگر ایک قصور ہو گیا دو ہو گئے یہ کیا کہ ہر حکم کو چھوڑ دے.پھر اس میں اسلام کا کیا باقی رہ سکتا ہے.صرف یہ مان لینا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسیہ سے نبی ہو سکتا ہے اور یہ سمجھ لینا کہ اس طرح اسلام دنیا میں غالب آجائے گا ایسا ہی ہے جیسا کہ ڈاکٹر اقبال کا یہ کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبین مان لینے کے بعد پھر خواہ کچھ کرو کوئی حرج نہیں اور اسلام غالب آ جائے گا.پس ہمارا فرض اسلام کو اس کی جزئیات سمیت قائم کرنا ہے اور اپنی اصلاح کے لئے ہر حکم پر عمل کرنا ضروری ہے مگر یہ اصلاح میرے خطبات اور تقریروں سے نہیں ہوسکتی کیونکہ ہر کان وہ تقریریں نہیں سن سکتا اور ہر شخص اُس وقت نہیں سن سکتا جب تک اس کا کان قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو بلکہ یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ جماعت کا ہر فر د میرے ساتھ تعاون کرے.ہر خطبہ جو میں پڑھتا ہوں ، ہر تقریر جو میں کرتا ہوں اور ہر تحریر جو میں لکھتا ہوں اسے ہر احمدی اس نظر سے دیکھے کہ وہ ایک ایسا طالب علم ہے جسے ان باتوں کو یاد کر کے ان کا امتحان دینا ہے اور ان میں جو عمل کرنے کے لئے ہیں ان کا عملی امتحان اس کے ذمہ ہے.اس طرح وہ میری ہر تقریر اور تحریر کو پڑھے اور اس کی جزئیات کو یادر کھے.پھر جب پڑھ چکے تو سمجھے کہ اب میں استاد ہوں اور دوسروں کو سکھلانا میرا فرض ہے.پس جو کچھ میں کہتا ہوں وہ ایسا ہی ہے جیسے ایک کتاب تصنیف کر دی جائے اور سکول کا کورس تیار کر دیا جائے مگر اس سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا جو اسے یاد نہ کرے اور حفظ نہ کرے جیسا کہ مدرسہ کی کتاب یاد نہ کرنے والا فائدہ نہیں اٹھا سکتا.پس آپ لوگ اقرار کریں کہ میں جو کچھ کہوں گا آپ طالب علم کی حیثیت سے اُسے سنیں اور یاد کریں گے اور جب یاد کر لیں گے تو پھر استاد کی

Page 565

خلافة على منهاج النبوة ۵۵۱ جلد سوم حیثیت سے دوسروں کو پڑھانا اپنا فرض سمجھیں گے.جب تک ہم یہ صورت اختیار نہ کریں تب تک کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا یعنی انسانی ہاتھوں کے ذریعہ.ورنہ خدا تعالیٰ تو کرے گا ہی جو کچھ کرنے کا اس نے وعدہ کیا ہوا ہے.خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہر فردشاگرد مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ایک نہایت مخلص جماعت دی ہے اور آپ لوگوں میں اتنا اخلاص ہے کہ جس کا نمونہ کسی اور جگہ نہیں مل سکتا اس نقطۂ نگاہ کے نہ پیدا ہونے کی وجہ سے کہ آپ لوگ شاگرد ہیں اور خلیفہ استاد ہے، پھر پڑھ لینے کے بعد تم استاد ہوا اور دوسرے لوگ شاگر د وہ کامیابی نہیں حاصل ہو رہی جو ہونی چاہئے.اس کے مقابلہ میں ایک ایک دن جو گزررہا ہے ہمارے لئے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کر رہا ہے.ایک گزرنے والے دن ہم جس قدر زمانہ نبوت سے قریب ہوتے ہیں دوسرے دن اس سے دور ہوتے جاتے ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں.بظاہر تو یہ نظر آ رہا ہے کہ ہم ہر روز ترقی کی طرف جا رہے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم روز بروز ساحل عافیت سے دور ہوتے جارہے ہیں.جن کوششوں ، محنتوں اور قربانیوں سے کل ہم اپنے مقصد اور مدعا میں کامیاب ہو سکتے تھے آج اُن سے زیادہ کی ضرورت ہے کیونکہ کل ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے جس قدر قریب تھے آج اس سے دور ہیں.پس تم لوگ اس ظاہری کامیابی اور شان و شوکت کو نہ دیکھو جو نصیب ہو رہی ہے.یہ مت دیکھو کہ کل جہاں ایک سو احمدی تھے وہاں آج ایک ہزار ہو گئے ہیں اور یہ مت خیال کرو کہ کل جہاں سے چندہ ایک ہزار آتا تھا آج دو ہزار آتا ہے بلکہ یہ سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی برکت کل ہمیں کتنی حاصل تھی اور آج کتنی حاصل ہے.کیا کل جتنی ہی ہے یا آج کم ہے؟ یقیناً ہر گزرنے والا دن اسے کم کرتا جا رہا ہے.اس کے لئے یہی صورت ہے کہ ہم اپنی جد و جہد کو بڑھاویں تا کہ جو کمی روحانی طور پر ہو رہی ہے اس کا ازالہ اپنی جد و جہد میں اضافہ کر کے کر سکیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ جو باتیں زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں پوری ہو سکتی ہیں وہ سال بھر میں بھی نہیں ہوتیں.ہمیں اس سے کیا خوشی ہو سکتی ہے کہ فلاں سکیم پیش کی

Page 566

خلافة على منهاج النبوة ۵۵۲ جلد سوم گئی ہے جبکہ اس پر عمل نہ کیا جائے.میں نے تعاون نہ کرنے کے متعلق شکایت کی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدانخواستہ جماعت میں اخلاص نہیں.اخلاص ہے مگر جب تک جماعت کے لوگ اس نقطہ کو نہ سمجھیں گے کہ ان کا تعلق مجھ سے شاگرد کا ہے اور وہ دنیا کے اُستاد ہیں اُس وقت تک ترقی نہ کر سکیں گے اور اگر وہ اس نکتہ کو سمجھ لیں گے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز ترقی کرتے جائیں گے“.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء صفحه ۱۶ تا ۲۱) صدر انجمن سے خطاب پھر میں صدر انجمن کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو خلیفہ کا ہاتھ سمجھے، پورا پورا تعاون کرے.ایسے لوگوں کو سلسلہ کے کام پر لگایا جائے جو خلیفہ کا پورا ادب اور احترام کرنے والے ہوں ، تعاون کرنے والے ہوں اور جو ایسا نہ ہو اُس کی اصلاح کی جائے اور اگر اصلاح نہ ہو تو انہیں نکال دیا جائے.اسی طرح جو کارکن ہیں انہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ ہتھیار ہیں ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ، جب خلافت قائم ہو تو سارے وجود اس میں مدغم ہو جاتے ہیں کیونکہ خلیفہ دماغ ہوتا ہے اور تمام جوارح کا فرض ہوتا ہے کہ دماغ کے تابع چلیں اور اگر کوئی شخص نہیں چل سکتا تو وہ کام چھوڑ دے اور تفرقہ یاستی سے اس سکیم کو نقصان نہ پہنچائے جو جاری کی گئی ہے.“ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء صفحه ۱۴۶، ۱۴۷)

Page 567

خلافة على منهاج النبوة ۵۵۳ جلد سوم آداب خلافت " آج میں پھر اس امر کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری مجلس کوئی پارلیمنٹ (PARLIMENT) نہیں ہے، کوئی لیجسلیٹو اسمبلی (LAGISLATIVE ASSEMBLY) نہیں ہے بلکہ خالص اسلامی مجلس شوری ہے.یعنی آپ لوگ خواہ جماعتوں کی طرف سے نمائندہ بن کر آئیں ، خواہ مرکز کی طرف سے آپ کو نامزد کیا جائے ، خواہ صدار انجمن احمدیہ کے کارکن ہوں ،خواہ دوسرے لوگ آپ کے اس جگہ جمع ہونے کی محض اتنی ہی غرض ہوتی ہے کہ آپ خلیفہ وقت کو اپنی رائے اور اپنے خیالات سے آگاہ کر دیں پس جبکہ اس مجلس کی بنیاد ہی اس اصول پر ہے کہ اس میں صرف احباب خلیفہ وقت کے سامنے اپنا مشورہ پیش کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں تو خطاب گلی طور پر خلیفہ وقت سے ہوتا ہے نہ آپس میں ایک دوسرے سے مگر باوجود بار بار سمجھانے کے دوست ایک دوسرے کو مخاطب کر نے لگ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کا نام لے کر اعتراض کرنے یا جواب دینے لگ جاتے ہیں حالانکہ اس مجلس کے آداب کے لحاظ سے ہر دوست کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس وقت اُس کے سامنے صرف ایک ہی وجود ہے جو خلیفہ وقت کا وجود ہے.جب تک کوئی نمائندہ اس مجلس میں بیٹھتا ہے اس کو اپنے دائیں اور اپنے بائیں بیٹھنے والے آدمیوں سے ناواقف رہنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ میں ہی اکیلا خلیفہ وقت سے خطاب کر رہا اور اس کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں.مشورے کی غرض بالکل فوت ہو جاتی ہے اگر احباب اس بات کی پابندی نہ کریں اور اُن کے دماغ پر یہ بات مستولی رہے کہ چند دوسرے لوگ ہیں جن کے خیالات کو رد کرنا اُن کا کام ہے.ان خیالات کو رد کرنا یا نہ کرنا یہ خلیفہ کا کام ہے.اُن کا محض اتنا ہی کام ہے کہ وہ اپنے خیالات ظاہر کر دیں اور خاموش ہو جائیں.اس کو مدنظر نہ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوتا

Page 568

خلافة على منهاج النبوة ۵۵۴ ا جلد سوم ہے کہ بعض دفعہ باتوں میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے اور نامناسب الفاظ ایک دوسرے کے متعلق استعمال ہونے لگ جاتے ہیں حالانکہ جب خطاب خلیفہ وقت سے ہے تو کسی دوسرے کی بات کو رد کرنا کسی کے حق اور اختیار میں نہیں.میں امید کرتا ہوں کہ احباب اس امر کو پھر ذہن نشین کر لیں گے کہ آئندہ جب کبھی بات کہنے کے لئے کھڑے ہوں تو گو دوسرے کی بات کی تردید کریں مگر رہِ خطاب کے طور پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ اصولی طور پر ہونا چاہئے اور ذاتیات کا سوال درمیان میں نہیں لانا چاہئے اور اگر کسی سے غلطی ہوئی ہو تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ اس غلطی کو لمبا کرے.اگر اس امر کو مدنظر نہ رکھا جائے اور ذاتیات کا سوال درمیان میں لایا جائے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلا ایک بات کہتا ہے اور پھر دوسرا شخص کھڑا ہوتا ہے اور اس کا رد کرتا ہے.اس کے بعد تیسرا کھڑا ہوتا ہے اور اس کا رد کرتا ہے اور اس طرح آپس میں ہی تکرار شروع ہو جاتا ہے اور اُن آداب کو وہ بھول جاتے ہیں جو خلافت کے لئے ضروری ہیں.میں ڈرتا ہوں کہ اگر احباب نے اس طریق میں اصلاح نہ کی تو مجھے کسی وقت زیادہ پابندی کے ساتھ اپنی اس بات کو قائم کرنا پڑے گا اور ایسے دوستوں کو مجھے بولنے سے روکنا پڑے گا.ہم یہاں اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں ، اسلام کی ترقی کی تجاویز سوچیں اور ایسی تدابیر عمل میں لائیں جن سے دین کو فائدہ پہنچے.بھلا اس میں ہماری کیا عزت ہے کہ کہا جائے فلاں کی بات کم عقلی والی ہے لیکن ہماری بات بہت صحیح ہے.عقل سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے کیونکہ عقل علم کے تابع ہے اور علم خدا تعالی بخشتا ہے.بے شک عقل انسانی خاصہ ہے اور خدا تعالیٰ کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ عقل کے یہ معنی ہیں کہ بُری اور اچھی باتوں کا موازنہ کر کے بُری باتوں سے رُکنا اور اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اچھی اور بُری باتوں کا اندازہ کر کے بُری باتوں سے رُکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی صفات میں علم داخل ہے عقل نہیں.وہ علیم تو ہے لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عاقل ہے مگر بہر حال عقل علم کے تابع ہے اور جو عقل علم کے تابع نہ ہو وہ عقل نہیں بلکہ جہالت ہوتی ہے.پس چونکہ عقل علم کے تابع ہے اور علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس لئے اس کے حصول میں کسی کی ذاتی خوبی نہیں ہوتی.پس

Page 569

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم ہمارے لئے یہ کوئی فخر کی بات نہیں کہ اپنی عقل پر ناز کریں اور دوسرے کی بے عقلی پر تمسخر اُڑائیں اور نہ یہ ہمارے لئے جائز ہے کہ ہم معمولی باتوں میں جن میں تیزی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی تیز ہو جائیں اور ایسے فقرے استعمال کرنا شروع کر دیں جیسے ” میری تو سمجھ میں نہیں آتا فلاں دوست نے فلاں خلاف عقل بات کس طرح پیش کر دی‘ اگر کسی کو کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی اور وہ دوسرے کو اس کی غلطی سے آگاہ کرنا چاہتا ہے تو اُسے یا درکھنا چاہئے کہ اُس مجلس میں جہاں خلیفہ موجود ہو دوسرے کو سبق دینا اور سکھانا خلیفہ کا کام ہے دوسرے کا کام نہیں“.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء صفحه ۴ ۵ تا ۶ ۵ )

Page 570

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم انتخاب خلافت کے طریق خلافت کے انتخاب کے متعلق بھی کئی طریق ثابت ہیں.ایک یہ کہ مرکزی جماعت کے موجودہ ممبر انتخاب کر لیں یا جماعت میں سے چند لوگ منتخب کر لئے جائیں اور پھر وہ انتخاب کریں.یا ایک خلیفہ دوسرے خلیفہ کو منتخب کر دے جیسے حضرت ابو بکر نے حضرت عمرؓ کو کیا.تو یہ مختلف طریق ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء سے ثابت ہیں اور آپ نے فرمایا ہے کہ عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِی وَ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ اور قرآن کریم نے صحابہ کو نجوم قرار دیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُم نے جو لوگ حقیقی طور پر صحابہ ہیں منافق نہیں وہ سب ستاروں کی طرح ہیں جس کی چاہو پیروی کر و ہدایت ہی ملے گی اور صحابہ سے یہ سارے طریق ثابت ہیں.اس واسطے ہمارے لئے گنجائش ہے کہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے جو مناسب سمجھیں اختیار کر لیں.مگر یہ ضروری ہے کہ پبلک کی مرضی کا خیال رکھا جائے اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے موجودہ طریق رکھا ہوا ہے.ایک زمانہ میں سب کی رائے لی جاسکتی ہے اور پھر ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب سب کی رائے لی ہی نہ جا سکے.جیسے ہم امید رکھتے ہیں کہ احمدیت ساری دنیا میں پھیل جائے گی اُس وقت اگر سب کی رائے لینے کے طریق پر عمل کیا جائے تو ممکن ہے سال دو سال تک کوئی خلیفہ ہی نہ ہو اور یا پھر بنو عباس والا طریق ہو جو بالآخر انسان کی تباہی کا باعث ہوا تھا.تمام مسلم و غیر مسلم مورخ اس امر پر متفق ہیں کہ ان کی تباہی کا موجب یہی بات ہوئی کہ وہ ایک خلیفہ کے وقت میں ہی دوسرا مقرر کر دیتے تھے جو خلاف اسلام بھی تھا اور خلاف مصلحت بھی.پس یہ دونوں طریق یعنی جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے جائز ہیں اور موقع کے لحاظ سے ان سے فائدہ

Page 571

خلافة على منهاج النبوة 66 اُٹھایا جا سکتا ہے.۵۵۷ جلد سوم رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء صفحه ۵۸،۵۷) ا ترمذی ابواب العلم باب ماجاء في الاخذ بالسنة صفحه ۶۰۷ حدیث نمبر ۲۶۷۶ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولى مشكاة المصابيح جلد ۳ باب مناقب الصحابة صفحه ۱۶۹۶ حدیث نمبر ۶۰۱۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء

Page 572

خلافة على منهاج النبوة ۵۵۸ جلد سوم خلیفہ کی نافرمانی خدا اور رسول کی نافرمانی ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کو حکم دیا ہے اطِيْعُوا اللَّهَ وَاطِيْعُوا الرَّسُولَ و أولي الأمر منكم لے تو خلیفہ جس بات کا حکم دیتا ہے اس کی نافرمانی کرنے والا ایسا ہی مجرم ہے جیسا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والا.اور اگر چہ اس کی کوئی سزا شریعت نے مقرر نہیں کی مگر مومنوں کے نزدیک خود نا فرمانی اپنی ذات میں سزا ہے اور یہ احساس کہ خلیفہ کا حکم نہیں مانا گیا اپنی ذات میں ایک سزا ہے اور اصل سزا یہی ہے دوسری سزا ئیں تو مصلحتا دی جاتی ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ سلسلہ اور خلیفہ کی نافرمانی سے بڑھ کر اور کیا سزا ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ناراضگی خود بہت بڑی سزا ہے دوزخ کی سزا کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہے پس گو اوامر کی نافرمانی کے لئے سزا مقر ر نہیں مگر بہر حال وہ احکام ہی ہیں“.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء صفحه ۲۵ ) ا النساء: ۶۰

Page 573

خلافة على منهاج النبوة ۵۵۹ جلد سوم شوری میں رائے کا اظہار دیانتداری سے کریں دد بعض دوست ایسے موقع پر اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ خلیفہ وقت جب پہلے اپنی رائے کا اظہار کر دے تو پھر شوری کا مشورہ مشورہ نہیں رہتا کیونکہ لوگ مجبور ہوتے ہیں کہ خلیفہ وقت کی رائے کے مطابق رائے دیں خواہ اُن کو اس سے کیسا ہی اختلاف کیوں نہ ہو.مگر میں سمجھتا ہوں جماعت کی تربیت کے لئے ایسا ہونا ضروری ہے.میرے نزدیک جماعت کو اپنے اندر ایسا رنگ پیدا کرنا چاہئے کہ باوجود اس اقرار کے کہ وہ خلیفہ وقت کی کامل اطاعت کرے جب اس سے مشورہ لیا جائے تو وہ خواہ مشورہ لینے والا نبی ہی کیوں نہ ہو جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنی دیانتدارانہ رائے کا اظہار کر دے اور ہر گز کسی اور رائے سے متاثر نہ ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بھی ثابت ہے کہ آپ نے بعض مقامات پر پہلے اپنی رائے کا اظہار فرمایا اور پھر لوگوں سے مشورہ لیا اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ یقین رکھتے تھے کہ جہاں تک رائے کا سوال ہے صحابہ رائے دیتے وقت ہر قسم کے اثرات سے آزاد رہیں گے اور یہ دیانتدارانہ رنگ میں اپنا مشورہ پیش کریں گے.اسی طرح میں بعض دفعہ اپنی رائے کا پہلے ہی اظہار کر دیا کرتا ہوں تا مشورہ دینے سے پہلے اُس کے مختلف پہلو جماعت کے سامنے آجائیں مگر اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ جب دوستوں سے رائے لی جائے تو اُن کا فرض ہے کہ وہ وہی رائے دیں جس پر اُن کے دل کو اطمینان حاصل ہو.محض اس لئے کہ ایک نبی نے یا خلیفہ وقت نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا ہے بلا وجہ اپنی رائے کو بدل لینا درست نہیں.ہاں اگر دلائل سن کر کسی شخص کی رائے واقعہ میں بدل گئی ہو تو اسے کوئی شخص مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی پہلی رائے ہی پیش کرے کیونکہ دلائل نے اسے پہلی رائے پر قائم نہیں رہنے دیا.بہر حال اگر کوئی شخص

Page 574

خلافة على منهاج النبوة ۵۶۰ جلد سوم دیانتداری سے اپنی رائے بدل لیتا ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کہ اس نے اپنی رائے کو کیوں بدلا لیکن اگر کوئی شخص اپنی رائے کو نہیں بدلتا تو اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ سچائی کے ساتھ اپنی رائے پیش کر دے خواہ خلیفہ وقت اس رائے کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیوں نہ کر چکا ہو.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء صفحه ۲۸، ۲۹)

Page 575

خلافة على منهاج النبوة ۵۶۱ جلد سوم خلیفہ وقت کے حکم کی تعمیل با بو عبدالحمید صاحب نے سوال اٹھایا تھا کہ ایک گزشتہ مجلس مشاورت میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ محصلوں کا کام بجٹ تشخیص کرنا ہوگا.اس کا جواب مختلف پہلوؤں سے خاں صاحب نے دینے کی کوشش کی ہے مگر حقیقی جواب کی طرف نہیں آئے.انہوں نے کہا ہے شہری جماعتیں خود بجٹ بنایا کریں مگر یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسی کل ناظر اعلیٰ نے ایک موقع پر کہی کہ ایک بات خلیفہ نے کہی تھی اور ایک ناظروں نے کہی اور جب ہم نے ناظروں کی بات مان لی تو خلیفہ کی کس طرح مان سکتے تھے.خاں صاحب کو چاہئے تھا کہ یا تو میرے فیصلہ کو رد کر تے یا اس کا جواب دیتے.اگر خلیفہ کی بات واجب العمل ہے تو پھر زید و بکر کا اس کے خلاف خیال لغو ہے.ورنہ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ ناظر صاحب جب چاہیں میرے فیصلہ کو رد کر دیں اور خود جو چاہیں جاری کر دیں.پس اگر میرے فیصلہ پر عمل کرنا لازمی ہے تو ضروری ہے کہ اگر کسی فیصلہ کے متعلق کوئی مشکل پیش آئے تو اس میں ترمیم کرنے کی اجازت مجھ سے لی جائے.یہی فیصلہ جس میں یہ ذکر ہے کہ جماعتوں کے بجٹ محصل تشخیص کیا کریں اس پر شہروں میں عمل کرنا اگر ناممکن تھا تو اس میں ترمیم کرنے کی اجازت مجھ سے لے لیتے کہ شہروں کو مستثنیٰ کر دیا جائے.مگر یہ طریق تو اختیار نہ کرنا اور یہ کہنا کہ میری یہ رائے ہے کہ اب اس فیصلہ پر عمل نہیں کیا جا سکتا خلافت کے نظام کی دھجیاں اڑانی ہیں.جس نظام پر چلنے کا حکم دیا جائے یا تو اس پر عمل کرنا چاہئے یا پھر صفائی کے ساتھ انکار کر دینا چاہئے.مگر عملی طور پر تو پیغامیوں کا طریق اختیار کرنا اور منہ سے یہ کہنا کہ ہم خلیفہ کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں یہ درست اور مومنانہ طریق نہیں.اگر خلیفہ کا فیصلہ قابل عمل سمجھا جاتا تو اس پر عمل کرنا چاہئے اور اگر نہیں سمجھا جاتا تو صاف طور پر کہہ دینا چاہئے تا کہ جماعت

Page 576

خلافة على منهاج النبوة ۵۶۲ جلد سوم فیصلہ کرے.پچھلے دنوں نظارت دعوت و تبلیغ کی دعوت پر میں نے ایک تقریر کی تھی جس میں کہا تھا کہ تمام تاریخ صدرا انجمن احمدیہ کی بتاتی ہے کہ یا تو خلیفہ کے فیصلہ کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر اس پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا.میں نے اُس وقت کہا تھا کہ میں ایسا نظام قائم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مشکل دور ہو جائے.جب ایک بات بالبداہت ثابت ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ خلیفہ کی سمجھ میں نہ آئے ورنہ یہ کہنا پڑے گا کہ (نعُوذُ بِاللهِ ) خدا تعالیٰ سب سے بڑے بیوقوف کو خلیفہ بناتا ہے اور بالفرض کوئی بات خلیفہ کی سمجھ میں نہ آئے تو بھی خلیفہ کا ہی فیصلہ ماننا چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہو سکتا ہے کہ میں کوئی ایسا فیصلہ کروں جو درست نہ ہو اور قرآن کریم کہتا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ غلط ہو لیکن تم اگر اسے نہ مانو گے تو کافر ہو جاؤ گے.غرض غلطی کا امکان تو ہر جگہ موجود ہے.ہوسکتا ہے کہ خلیفہ کا کوئی فیصلہ غلط ہو.اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ خلیفہ میں عقل تو ہے لیکن فیصلہ غلط کیا گیا ہے تو بھی تمہارا فرض ہے کہ اس کی تعمیل کرو.اپنا صحیح فیصلہ اس کے مقابلہ میں لا کر نظام کی جڑ کو نہیں کاٹنا چاہئے.مگر میں دیکھتا ہوں برابر یہ طریق انجمن کا چلا جاتا ہے کہ خلیفہ کے فیصلہ کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یا صدرانجمن کے موجودہ نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے یا بعض لوگوں میں منافقت پائی جاتی ہے کیونکہ صدرانجمن اور ناظر خلافت کے فیصلوں کے لئے روک ثابت ہو رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اپنی مرضی کریں اور خلافت کے فیصلے روک دیں.ایک ناظر کو سزا کے طور پر ہٹا دیا گیا ہے کیونکہ اس نے بار بار میرے فیصلوں کو رد کیا اور جماعت کے اموال کو ضائع کیا.گو اس کی عزت کی خاطر یہ کہا گیا ہے کہ وہ ریٹائر ہوا ہے.میں سمجھتا ہوں وقت آچکا ہے کہ اس خرابی کو دور کر دیا جائے.ایک ناظر کو تو میں نے ہٹا دیا ہے اگر یہی بات جاری رہی تو دوسروں کی نسبت بھی فیصلہ کر دیا جائے گا اور کسی کی پرواہ نہ کی جائے گی.بعض لوگوں کو یہ غلطی لگتی ہے کہ چونکہ بہت کام کرتے ہیں اس لئے غلطیاں ہو جاتی ہیں اور اس سے کوئی حرج نہیں مگر یہ درست نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جنگ کے دوران میں ایک شخص کے متعلق جو بہت زیادہ زور

Page 577

خلافة على منهاج النبوة ۵۶۳ جلد سوم کے ساتھ جنگ کر رہا تھا فرمایا یہ جہنمی ہے.ایک صحابی کہتے ہیں میں نے سنا بعض نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رائے درست معلوم نہیں ہوتی.اس قدر جان تو ڑ کر لڑنے والا شخص جہنمی کس طرح ہو سکتا ہے.اس پر میں اس شخص کے ساتھ ہولیا تا کہ اس کا انجام دیکھوں.وہ اس زور کے ساتھ لڑتا تھا کہ مسلمانوں کے منہ سے مَرحَباً نکل جاتا تھا.آخر وہ زخمی ہوا اور مسلمان اُسے جنت کی مبارک دینے لگے تو اُس نے کہا میں خدا اور اس کے رسول کے لئے نہیں لڑا بلکہ فلاں کا بدلہ لینے کے لئے لڑ رہا تھا.پھر زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرتا ہوا خود کشی کر کے مر گیا.یہ دیکھ کر وہ صحابی واپس لوٹے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ - رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہے؟ صحابی نے کہا آپ نے ایک شخص کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے مگر بعض نے کہا وہ تو بہت اخلاص سے لڑ رہا ہے وہ کیونکر جہنمی ہوسکتا ہے.اس پر میں اس کے ساتھ ساتھ رہا.اب وہ خود کشی کر کے مر گیا ہے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اَشْهَدُاِنِّی رَسُولُ اللهِ.میں شہادت دیتا ہوں کہ میں خدا کا رسول ہوں.تو اس شخص کا خدمت کرنا اسے بری نہیں قرار دے گیا.بہر حال اگر کوئی شخص قانون شکنی کرتا ہے یا قانون شکنی کی روح پیدا کرتا ہے تو وہ مجرم ہے اور قابل گرفت ہے.مگر نظارتوں میں دیکھا گیا ہے کہ بجائے یہ تسلیم کرنے کے کہ قانون شکنی کی گئی ہے کہا یہ جاتا ہے کہ اس پر عمل کرنا ہی ناممکن تھا.مثلاً یہی محصلین کے دورہ کا سوال تھا.اگر یہ کہا جاتا کہ ان کا دورہ کرنا بجٹ کی تشخیص کے لئے ضروری تھا مگر ایسا طوفان آ گیا کہ راستے بند ہو گئے تو اور بات تھی.یہ قانون شکنی نہ ہوگی مگر یہ نہیں بتایا جا تا کہ دورہ کرنا کیوں ناممکن تھا.پھر ناظر نے یہ جواب دیا ہے کہ میرے نزدیک شہری جماعتوں کو بجٹ خود تشخیص کرنا چاہئے.اسی طرح دیہاتی جماعتوں کے متعلق یہ جواب نہیں دیا کہ اتنے محصل نہیں کہ سب جماعتوں میں دورہ کر سکتے بلکہ یہ کہا ہے کہ دوسرے کاموں میں مصروف رہے.نظارت کا کام تھا کہ م حصلوں کو اس کام پر لگا دیتی کہ فارم پُر کرائیں.پھر جتنا کام ہوسکتا ان سے کرایا جاتا اور باقی کے لئے کہہ دیا جاتا کہ بقیہ کام میرے اختیار کا نہ تھا، تو یہ درست ہوتا کہ جتنا کام

Page 578

خلافة على منهاج النبوة ۵۶۴ جلد سوم ہوسکتا تھا اتنا کرالیا گیا.۱۴ محصلین سے چار سو جماعتوں کے بجٹ کی تشخیص کرا نا ممکن نہ تھا.اگر یوں کہا جاتا تو یہ معقول بات ہوتی لیکن اس کی بجائے یہ کہا گیا ہے کہ ۱۴ محصلین سے فلاں فلاں کام کرایا گیا اس لئے بجٹ کی تشخیص نہیں کر سکے.یہ صریح قانون شکنی ہے.ان کا اصل کام بجٹ تیار کرانا ہے نہ کہ دوسرے کام کرانا.اس کا جواب اظہار ندامت تھا.میں اس وقت پھر اعلان کرتا ہوں کہ محصلین کے متعلق میرا وہ فیصلہ لفظاً لفظا اب بھی قائم ہے اور اُس کی تعمیل کرنا ناظر پر فرض ہے.اگر وہ میرے فیصلہ کی تعمیل کرتے تو درست ہوتا.ورنہ خواہ وہ مریخ اور زہرا کے ٹکڑے لے آئیں اور خزانے میں داخل کر دیں مگر حکم کی تعمیل نہ کریں تو وہ نا فرمان سمجھے جائیں گے.کہا گیا ہے کہ ان جماعتوں کے نام شائع کئے گئے جنہوں نے فارم بھیجے مگر پھر بھی تعمیل نہ کی گئی.اس کا جواب وہ یہ دے سکتے ہیں کہ تم نے خلیفہ کا حکم نہ مانا ہم پر تمہارے حکم کا کیا اثر ہو سکتا تھا.حقیقت یہ ہے کہ جب تک ناظر اپنے رویہ کو نہ بدلیں گے ان کی باتوں کا بھی کوئی اثر نہ ہوگا.ایک دفعہ کسی بزرگ کا گھوڑا چلنے سے اڑا.انہوں نے فرمایا میں نے ضرور خدا تعالیٰ کے کسی حکم کی نافرمانی کی ہوگی جس پر گھوڑے نے میری نافرمانی کی.جانے دو نیکی اور ایمان کو مگر کیا یہ درست نہیں کہ جو ماں باپ بچوں کے سامنے لڑتے ہیں بچے ان سے لڑتے ہیں.خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے.جو لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں نے قانون شکنی کی اور اُسے بُرا نہیں سمجھا گیا تو وہ بھی اس طریق کو اختیار کر کے نظام کو درہم برہم کر دیتے ہیں.اس وجہ سے قانون شکنی کی روح کو ہی کچل دینا چاہئے.قانون شکنی خواہ ناظر کرے یا کوئی اور وہ برداشت نہیں کی جاسکتی.جب ناظر خلیفہ کے کسی فیصلہ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کیا کلرک نہیں دیکھتے کہ یہ فیصلہ لکھا ہے مگر ناظر اس پر عمل نہیں کرتے.پھر اسی طرح کلرک ناظر کے حکم کے متعلق کرتے ہیں اور وہی بات ہو جاتی ہے جو کسی برہمن کے متعلق بیان کی جاتی ہے.کہا جاتا ہے ایک برہمن دریا کی طرف سے آرہا تھا.سردی کا موسم تھا اور غسل کرنا مشکل تھا.ایک دوسرے برہمن نے پوچھا غسل کر آئے ؟ اُس نے کہا میں نے دریا میں ایک کنکر پھینک

Page 579

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم کر کہہ دیا ” تو را شنان سومور اشنان.پوچھنے والے نے کہا پھر میں تم کو مخاطب کر کے کہہ دیتا ہوں کہ ” تو راشنان سوموراشنان “.اور یہ کہہ کر وہ بھی گھر لوٹ گیا.اسی طرح ایک کلرک جب دیکھتا ہے کہ خلیفہ کا ایک حکم لکھا ہوا موجود ہے مگر بجائے اس کے متعلق فیصلہ کرانے کے خود ہی ناظر کہہ دیتا ہے کہ اس پر عمل نہیں ہو سکتا تو وہ ناظر کے حکم پر کہتا ہے کہ اس پر عمل نہیں ہوسکتا.پھر جب وہ کوئی حکم دیتا ہے تو چپڑاسی کہہ دیتا ہے کہ اس پر عمل نہیں ہوسکتا.اس طرح توجیہہ کا دروازہ وسیع ہوتا جاتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ سب سے اول قیاس ابلیس نے کیا اور وہ تباہ ہو گیا.پس یا تو جو قانون بن چکا ہوا سے بدلوانا چاہئے یا پھر عمل کرتے ہوئے مرنا بھی پڑے تو مر جانا چاہئے“.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء صفحه ۱۴۳ تا ۱۴۷)

Page 580

خلافة على منهاج النبوة ۵۶۶ جلد سوم ٹرانسپورٹ ، مہمان نوازی ، امداد مستحقین ا خلافت لائبریری کے بجٹ کی بابت اور سب سے پہلے تو میں اس حصہ کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جو بجٹ میں خلافت بجٹ کے طور پر پچھلے سال رکھا گیا تھا.غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ بجائے خلافت کے بجٹ کے نیچے ان کا نام رکھنے کے انہیں پرائیویٹ سیکرٹری کے بجٹ کے نیچے رکھنا چاہئے.وہ کام بھی پرائیویٹ سیکرٹری کا ہی ہے اور گو وہ خلیفہ وقت کی ہدایات کے ماتحت ہی کام کرے گا لیکن عنوان کے لحاظ سے اس چیز کو اس کے بجٹ کے نیچے چلا جانا چاہئے تا کہ نگرانی بھی رہے اور حساب کتاب بھی رکھا جا سکے.ان میں سے پہلی چیز میرے نزدیک موٹر ہے.موٹر کو میرے نزدیک خلافت کے بجٹ میں سے نکال کر سیکرٹری کے بجٹ میں رکھ دینا چاہئے کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا حساب ہونا چاہئے اور ہوتا ہے پس کوئی وجہ نہیں کہ پرائیوٹ سیکرٹری کے دفتر کے نیچے اس کو نہ رکھا جائے.اسی طرح چار مدات میں سے ایک مدالیسی ہے جس کے متعلق میں چاہتا ہوں کہ اسے اُڑا دوں کسی الہی مصلحت کے ماتحت وہ گزشتہ سال رکھی گئی تھی مگر میں سمجھتا ہوں اب وہ مصلحت پوری ہو چکی ہے اور مناسب یہی ہے کہ اگر اس مد کو اُڑا دیا جائے اور وہ مہمان نوازی کی مد ہے.مہمان نوازی کی مد ہے تو ضروری لیکن میں سمجھتا ہوں اگر کسی شخص کو توفیق حاصل ہو تو اس کے لئے کسی قسم کا روپیہ وصول کرنا طبیعت پر گراں گزرتا ہے.چنانچہ میں نے اس سال محسوس کیا ہے کہ ہر دعوت پر مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میں بھیک مانگ رہا ہوں.اب اس پر ایک دفعہ عمل ہو گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ خلفاء کے لئے اب یہ طریق عمل معیوب نہیں ہوسکتا.اگر کوئی

Page 581

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم خلیفہ ایسا ہو کہ اس کی ذاتی آمدنی اتنی قلیل ہو کہ اس کام کا چلانا اس کے لئے دوبھر ہو تو ایک سال تک اس مد کے جاری رہنے سے سنت پڑ گئی ہے اور اگر آئندہ خلفاء کے لئے اس بارہ میں کوئی عار ہو سکتی تھی تو وہ ٹوٹ گئی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کم سے کم میرے لئے اس کا لینا بہت گراں گزرتا ہے اس لئے میری تجویز یہ ہے کہ اس مد کو نکال دیا جائے.صرف سلسلہ کے ایسے لوگوں کی امداد کے لئے جو پرانے خادم ہیں کچھ رقم ضرور ہونی چاہئے کیونکہ ایسے مواقع پیش آ جاتے ہیں جب ضرورت ہوتی ہے کہ ان کی دلجوئی کے لئے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کچھ مدد کی جائے.میں سمجھتا ہوں کہ اس غرض کے لئے صرف تین ہزار کی رقم اس سال کے لئے رہنے دی جائے.باقی موٹر کے متعلق فنانس کمیٹی کے اصرار پر پچھلے سال جو فیصلہ کیا گیا تھا بعد میں غور کرنے پر میں نے سمجھا کہ وہ غلط طریق ہے.در حقیقت ہونا یہ چاہئے کہ موٹر جب خریدا جائے تو اس کے لئے بجٹ میں گنجائش رکھی جائے اور جب پرانا موٹر بیچا جائے تو اس کی قیمت آمد میں شمار کی جائے.یہ جو فیصلہ کیا گیا تھا کہ موٹر کی خرید کے لئے قرضہ لے لیا جائے اور ہر سال تین ہزار روپیہ اس قرض میں واپس کیا جائے بعد میں میں نے سمجھا کہ یہ طریق درست نہیں.گزشتہ سال کے بجٹ میں سے صرف تین ہزار روپیہ موٹر کی خرید کے لئے لیا گیا تھا اور باقی روپیہ قرض لے لیا گیا تھا.موٹر کے متعلق جیسا کہ چوہدری عبد اللہ خاں صاحب نے کہا تھا یہ ضروری تھا کہ ایسا موٹر خریدا جاتا جو زیادہ محفوظ ہوتا.ان کا اندازہ بائیس ہزار روپیہ کا تھا مگر ہم نے سترہ ہزار میں موٹر خریدا.تین ہزار موٹر کی مد میں سے نکال کر دیا گیا.چھ ہزار بجٹ میں خرید موٹر کی قسط کے طور پر موجود تھا اور آٹھ ہزار امانت سے قرض لے کر ادا کر دیا گیا.میری تجویز یہ ہے کہ موٹر کی خرید کے لئے جو رقم قرض لے کر خرچ کی گئی ہے اس کو موجودہ بجٹ سے ادا کر دیا جائے.آئندہ جب تک یہ موٹر رہے رہے جب نیا موٹر خریدنے کی ضرورت محسوس ہو تو اسے بیچ کر جو روپیہ حاصل ہو وہ آمد میں ڈال دیا.جائے اور جتنے روپیہ کی مزید ضرورت محسوس ہو اتنا روپیہ نئے موٹر کے لئے بجٹ میں رکھا جائے.باقی موٹر کے جو ماہوار اخراجات ہیں مثلاً ڈرائیور کی تنخواہ ہے ، مرمت ہے، پٹرول ہے، ٹیکس ہے ، ان چیزوں کا بجٹ مناسب طور پر سب کمیٹی تجویز کر سکتی ہے مگر بہر حال یہ بجٹ

Page 582

۵۶۸ جلد سوم خلافة على منهاج النبوة ستحقين پرائیوٹ سیکرٹری کے ماتحت رکھا جائے اور خلافت بجٹ میں اعانت کی ایک مدرکھ دی جائے اور تین ہزار روپیہ سالانہ اس کے لئے رقم رکھی جائے.ضیافت والی مداُڑا دی جائے اور کار کے اخراجات مثلاً تنخواہ ڈرائیور، پٹرول ، مرمت، لائسنس اور بیمہ وغیرہ کے متعلق اندازہ کر کے ایک رقم معین کر دی جائے.چوتھی چیز جس پر میں زیادہ زور اور وضاحت سے کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ لائبریری ہے تین ہزار روپیہ اسی مد میں لائبریری کے لئے میں نے رکھوایا تھا.درحقیقت لائبریری خلافت کا کوئی ذاتی خرچ نہیں بلکہ انجمن کا خرچ ہے اس لئے میں کوئی وجہ نہیں سمجھتا کہ اس کو خلافت کے خرچ کے ماتحت رکھا جائے کیونکہ اس کا بھی حساب ہوتا ہے اور یہ امداد والے حصہ کو میں نے خلافت کے ماتحت اس لئے رکھا ہے کہ اس میں ایک قسم کا اخفاءضروری ہے کیونکہ اس میں زیادہ تر یہی مد نظر ہے کہ وابستگان خلافت اور وابستگان جماعت کی امداد کی جائے اور ان کی دلجوئی کے لیے انہیں کچھ رقمیں دی جائیں اور اس قسم کی امداد کا ظاہر ہونا طبعا لوگ پسند نہیں کرتے اور گو اس صورت میں بھی بہت چھوٹی چھوٹی رقمیں ان کے حصہ میں آئیں گی مگر چونکہ عام طور پر طبائع پر اس قسم کی امداد کا اظہار گراں گزرتا ہے اس لئے خلافت کی مدہی ایسی ہے کہ اس کے ماتحت بغیر دفتر میں سے گزرنے کے دوسرے کی امداد کے لئے رقم دی جاسکتی ہے اور اس شخص کی طبیعت پر بھی گراں نہیں گزرتا لیکن لائبریری کوئی پوشیدہ رہنے والی چیز نہیں وہ پرائیوٹ سیکرٹری کے ماتحت ہونی چاہئے اور گو اس کا نام خلافت لائبریری ہی ہو گا مگر باقی دفاتر کو بھی اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہوگا“.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفہ ۷ تا ۹ ) (

Page 583

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم متعدد زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہونا بھی خلافت کی برکات میں سے ہے یہ خلافت اور تنظیم کی ہی برکت ہے کہ جماعت نے متعدد زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کر دیے ورنہ جماعت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا مالدار نہیں جو ان تراجم میں سے ایک ترجمہ بھی شائع کروا سکتا.اسی طرح کوئی فردا یا رسوخ نہیں رکھتا کہ وہ علیحدہ طور پر کسی زبان میں بھی قرآن کریم کا ترجمہ شائع کراسکتا لیکن اجتماعی صورت میں ہم اس وقت تک انگریزی ، ڈچ ، روسی ، سپینش ، پرتگیزی ، اٹالین ، جرمن اور فرانسیسی زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ کرواچکے ہیں.مشرقی افریقہ میں سواحیلی زبان میں ترجمہ شائع ہو چکا ہے اور لو گنڈا زبان میں ترجمہ کا کام ہو رہا ہے.انڈونیشین اور ملائی زبانوں میں بھی ترجمہ کا کام ہو رہا ہے.ہندی اور گورمکھی زبانوں میں بھی ترجمہ کروایا جا رہا ہے اور امید ہے کہ اگلے تین چار سال میں بیس سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو جائے گا.ہماری نیت ہے کہ ہر اہم زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کر دیں تا کسی زبان کا جاننے والا ایسا نہ رہے جو اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے.ر پورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ء صفحه ۲۰ )

Page 584

خلافة على منهاج النبوة ۵۷۰ جلد سوم انتخاب خلافت کے متعلق ایک ضروری ریزولیوشن سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کے موقع پر آکند و خلافت کے انتخاب کے متعلق یہ بیان فرمایا تھا کہ پہلے قانون تھا کہ مجلس شوری کے ممبران جمع ہو کر خلافت کا انتخاب کریں لیکن آجکل کے فتنہ کے حالات نے اِدھر توجہ دلائی ہے کہ تمام ممبرانِ شوری کا جمع ہونا بڑا لمبا کام ہے.ہو سکتا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا کر منافق کوئی فتنہ کھڑا کر دیں اس لئے اب میں یہ تجویز کرتا ہوں جو اسلامی شریعت کے عین مطابق ہے کہ آئندہ خلافت کے انتخاب میں مجلس شوری کے جملہ ممبران کی بجائے صرف ناظران صدر انجمن احمد یہ ممبران صدر انجمن احمدیہ، وكلاء تحریک جدید ، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زندہ افراد ( جن کی تعداد اس غرض کیلئے اس وقت تین ہے یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاح حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب میاں عبداللہ خان صاحب ) جامعتہ المبشرین کا پرنسپل ، جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمدیہ مل کر فیصلہ کیا کریں.مجلس انتخاب خلافت کے اراکین میں اضافہ جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے علماء سلسلہ اور دیگر بعض صاحبان کے مشورہ کے مطابق مجلس انتخاب خلافت میں مندرجہ ذیل اراکین کا اضافہ فرمایا.ا.مغربی پاکستان کا امیر اور اگر مغربی پاکستان کا ایک امیر مقرر نہ ہو تو علاقہ جات مغربی پاکستان کے امراء جو اس وقت چار ہیں.۲.مشرقی پاکستان کا امیر.کراچی کا امیر.

Page 585

خلافة على منهاج النبوة ۵۷۱ جلد سوم تمام اضلاع کے امراء ۵.تمام سابق امراء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیر رہ چکے ہوں گوانتخاب خلافت کے وقت امیر نہ ہوں.( ان کے اسماء کا اعلان صدرانجمن احمد یہ کرے گی ) امیر جماعت احمدیہ قادیان.ے.ممبران صدر انجمن احمد یہ قادیان تمام زندہ صحابہ کرام کو بھی انتخاب خلافت میں رائے دینے کا حق ہوگا.(اس غرض کے لئے صحابی وہ ہوگا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہوا اور حضور کی باتیں سنی ہوں اور ۱۹۰۸ء میں حضور علیہ السلام کی وفات کے وقت اُس کی عمر کم از کم بارہ سال کی ہو.صدرانجمن احمد یہ تحقیقات کے بعد صحابہ کرام کے لئے سرٹیفکیٹ جاری کرے گی اور ان کے ناموں کا اعلان کرے گی ) حضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام کے اولین صحابیوں میں سے ہر ایک کا بڑا لڑکا انتخاب میں رائے دینے کا حقدار ہوگا بشرطیکہ وہ مبائعین میں شامل ہو.( اس جگہ صحابہ اولین سے مراد وہ احمدی ہیں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۱ء سے پہلے کی کتب میں فرمایا ہے (ان کے ناموں کا اعلان بھی صدرانجمن احمد یہ کرے گی ) ۱۰.ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمدیہ جنہوں نے کم از کم ایک سال بیرونی ممالک میں تبلیغ کا کام کیا ہو اور بعد میں تحریک جدید نے کسی الزام کے ماتحت انہیں فارغ نہ کر دیا ہو.( ان کو تحریک جدید سرٹیفکیٹ دے گی اور اُن کے ناموں کا اعلان کرے گی ) ۱۱.ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمدیہ جنہوں نے پاکستان کے کسی صوبہ یا ضلع میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم از کم ایک سال کا کام کیا ہو اور بعد میں ان کو صدرانجمن احمدیہ نے کسی الزام کے ماتحت فارغ نہ کر دیا ہو.(انہیں صدر انجمن احمد یہ سرٹیفکیٹ دے گی اور اُن کے ناموں کا اعلان کرے گی ) مجلس انتخاب خلافت کا دستور العمل سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مندرجہ بالا جملہ اراکین مجلس انتخاب خلافت

Page 586

خلافة على منهاج النبوة ۵۷۲ جلد سوم کے کام کے لئے حسب ذیل دستور العمل منظور فرمایا ہے:.ا.مجلس انتخاب خلافت کے جو اراکین مقرر کئے گئے ہیں اُن میں سے بوقت انتخاب حاضر افراد انتخاب کرنے کے مجاز ہوں گے.غیر حاضر افراد کی غیر حاضری اثر انداز نہ ہوگی اور انتخاب جائز ہوگا.ب.انتخاب خلافت کے وقت اور مقام کا اعلان مجلس شوری کے سیکرٹری اور ناظر اعلیٰ کے ذمہ ہوگا.اُن کا فرض ہوگا کہ موقع پیش آنے پر فوراً مقامی اراکین مجلس انتخاب کو اطلاع دیں.بیرونی جماعتوں کو تاروں کے ذریعہ اطلاع دی جائے.اخبار الفضل میں بھی اعلان کر دیا جائے.ج.نئے خلیفہ کا انتخاب مناسب انتظار کے بعد چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ہونا چاہئے.مجبوری کی صورت میں زیادہ سے زیادہ تین دن کے اندر انتخاب ہونا لازمی ہے.اس درمیانی عرصہ میں صدر انجمن احمد یہ پاکستان جماعت کے جملہ کا موں کو سرانجام دینے کی ذمہ دار ہوگی.اگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زندگی میں نئے خلیفہ کے انتخاب کا سوال اٹھے تو مجلس انتخاب خلافت کے اجلاس کے وہ پریذیڈنٹ ہوں گے.ورنہ صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے اُس وقت کے سینئر ناظر یا وکیل اجلاس کے پریذیڈنٹ ہوں گے.(ضروری ہے کہ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید فوری طور پر مشترکہ اجلاس کر کے ناظروں اور وکلاء کی سینیارٹی فہرست مرتب کر لے ) مجلس انتخاب خلافت کا ہر رکن انتخاب سے پہلے یہ حلف اٹھائے گا کہ :.کہ:.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ میں خلافت احمدیہ کا قائل ہوں اور کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو جماعت مبائعین میں سے خارج کیا گیا ہو یا اس کا تعلق احمدیت یا خلافت احمدیہ کے مخالفین سے ثابت ہو“.جب خلافت کا انتخاب عمل میں آجائے تو منتخب شدہ خلیفہ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ لوگوں سے بیعت لینے سے پہلے کھڑے ہو کر قسم کھائے کہ :.

Page 587

خلافة على منهاج النبوة ۵۷۳ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں خلافت احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں ان لوگوں کو جو خلافت احمدیہ کے خلاف ہیں باطل پر سمجھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور قرآن شریف اور حدیث کے علوم کی ترویج کے لئے جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ذاتی طور پر بھی اور اجتمائی طور پر بھی کوشاں رہوں گا“.جلد سوم اوپر کے قواعد کے مطابق صحابہ اور نمائندگان جماعت جن میں امراء اضلاع سابق حال بھی شامل ہیں کی تعداد ڈیڑھ صد سے زیادہ ہو جائے گی.ان میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کی تعداد اتنی قلیل رہ جاتی ہے کہ منتخب شدہ ممبروں کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی.ہاں خلیفہ وقت کا انتخاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد اور جماعت کے ایسے مخلصین میں سے ہو سکے گا جو مبائعین ہوں اور جن کا کوئی تعلق غیر مبائعین یا احرار وغیرہ دشمنانِ سلسلہ احمدیہ سے نہ ہو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس وقت تک ایسے مخلصین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے ) ضروری نوٹ :.سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الثانی نے آئندہ کے لئے بنیادی قانون انتخاب خلافت کے لئے مذکورہ بالا اراکین اور قواعد کی منظوری کے ساتھ بطور بنیادی قانون کے فیصلہ فرمایا ہے کہ:.آئندہ خلافت کے انتخاب کے لئے یہی قانون جاری رہے گا سوائے اس کے کہ خلیفہ وقت کی منظوری سے شوریٰ میں یہ مسئلہ پیش کیا جائے اور شوری کے بعد خلیفہ وقت کوئی اور تجویز منظور کرے.مجلس علماء سلسلہ احمدیہ دو مجلس علماء کی یہ تجویز درست ہے.“ دستخط مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ۱۸-۳-۵۷ ۲۰-۳-۵۷

Page 588

خلافة على منهاج النبوة ۵۷۴ جلد سوم اس کے بعد حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے نمائندگان مجلس شوری کو مخاطب کرتے ہوئے فرما یا :.شاید مولوی صاحب کو یہ بات یاد نہیں رہی یا پھر انہیں بتائی نہیں گئی کہ یہ خط جو انہوں نے پڑھا ہے اور اُس میں عبدالمنان سے کہا گیا ہے کہ تم بعض ایسے مضامین لکھو جو اسلام کی تائید میں ہوں تا اس سے جماعت احمدیہ کو جو تم سے نفرت ہے دور ہو جائے.اس سے اوپر لکھا ہے ” ماموں جان اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماموں جان کے الفاظ سے کیسے پتہ لگا کہ یہ خط عبدالمنان کو لکھا گیا ہے.سو اس کا پتہ اس طرح لگتا ہے کہ جس دن یہ خط ملا اور مولوی صاحب نے مجھے بھیجا اور کہا کہ یہ میرے بیٹے کو بازار سے ملا ہے تو اُس دن نائی میری حجامت بنانے آیا ہوا تھا.پہلے جب بھی وہ آیا کرتا تھا مجھے بتایا کرتا تھا کہ آج میاں عبدالمنان نے مجھے حجامت بنوانے کے لئے بلوایا اور وہاں مجھے سے یہ یہ باتیں کیں لیکن اُس دن اُس نے کوئی بات نہ کی.میں نے اُس سے دریافت کیا کہ آج تو نے میاں عبد المنان کی کوئی بات نہیں بتائی.اس پر اُس نے کہا کہ میاں عبد المنان تو بڑی مدت سے میری دکان پر نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے مجھے اپنے گھر بلایا ہے.آج اتفاقا گول بازار میں ( جہاں سے یہ خط ملا ہے ) وہ خود اور اُن کے بیٹے پھر رہے تھے.وہاں میں نے دیکھا کہ ایک دکاندار جو اُن کا کرایہ دار تھا آگے آیا اور کہنے لگا میاں صاحب! میں بڑی دیر سے آپ کو تلاش کر رہا ہوں.دفتروں میں میں کہاں کہاں جاتا.میں نے آپ کو کرایہ دینا تھا آپ ملتے ہی نہیں.میں نے اس دکاندار کو کہا کہ تم کیوں تکلیف کرتے ہو میاں صاحب کو ضرورت ہو گی تو وہ آکر کرایہ مانگ لیں گے.تو یہ واقعہ اور اس خط کا وہاں سے ملنا بتا تا ہے کہ ممکن ہے جیب سے رومال نکالتے ہوئے یہ خط میاں عبد المنان سے نیچے گر گیا ہو.پھر میں نے گھر میں بات کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ شاید آپ کو معلوم نہیں حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے ساتھ جو تعلق رکھنے والے لوگ ہیں وہ سارے کے سارے میاں عبدالمنان کو ماموں جان ہی کہتے ہیں اس لئے انہوں نے کہا ”ماموں جان“ کے الفاظ کی وجہ سے آپ ان کے کسی بھانجے یا بھانجی کی تلاش نہ کریں کیونکہ بیسیوں ایسے آدمی ہیں جن کے ساتھ ان کے تعلقات

Page 589

خلافة على منهاج النبوة ۵۷۵ جلد سوم ہیں اور وہ سب اُن کو عادتا ماموں“ کہتے ہیں.بہر حال میاں عبداللہ صاحب حجام کی گواہی سے پتہ لگ گیا کہ یہ خط فی الواقع عبد المنان کا ہے کیونکہ اُس نے اُسی جگہ جہاں سے یہ خط ملا ہے اور اُسی دن جس دن خط ملا ربوہ میں انہیں دیکھا تھا.اس کے بعد ریزولیوشن کے متعلق ووٹ لینے سے پہلے میں یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ اس ریزولیوشن کے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے.بعض جماعتوں نے اپنے نمائندوں سے قسمیں لی ہیں کہ وہ شوریٰ میں اس ریزولیوشن کی تائید کریں اور اس کے خلاف ووٹ نہ دیں.بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ ہم نے تو اپنے ایمان کی بناء پر اور یہ بتانے کے لئے کہ ہمیں خلافت کے ساتھ وابستگی ہے اور ہم خلافت احمدیہ کو کسی صورت میں بھی تباہ نہیں ہونے دیں گے اس ریزولیوشن کی تائید کرنی تھی لیکن ہوا یہ کہ جماعتوں نے ہم سے اسی بات کے متعلق حلف لی ہے کہ ہم ضرور اس ریزولیوشن کی تائید کریں اس طرح جو بات ہم نے اپنے ایمان کے ثابت کرنے کے لئے کرنی تھی وہ حلف کے ذریعہ سے کروائی جائے گی اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس شخص میں ایمان تو کوئی نہیں صرف جماعت سے وعدہ کی بناء پر یہ ایسا کر رہا ہے.اس طرح گویا ہمارے ثواب کا راستہ بند ہوتا ہے اور ہم اپنے اخلاص کا اظہار نہیں کر سکتے.ان کی یہ بات چونکہ معقول ہے اس لئے جو دوست باہر سے جماعت کے نمائندہ بن کے آئے ہیں اور ان سے جماعتوں نے اس بات کے لئے حلف لیا ہے کہ وہ ضرور اس ریزولیوشن کی تائید کریں میں انہیں اس حلف سے آزاد کرتا ہوں.خلافت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے قائم کرنا ہے.اگر کوئی شخص اپنے ایمان میں کمزور ہے اور وہ کوئی ایسا راستہ کھولتا ہے جس کی وجہ سے خلافت احمد یہ خطرہ میں پڑ جاتی ہے یا دشمنوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے تو اس کے ووٹ کی نہ خلافت احمد یہ کو ضرورت ہے اور نہ خدا کو ضرورت ہے.یہاں جماعتیں کچھ نہیں کرسکتیں ، اگلے جہان میں خدا تعالیٰ خود اس کو سیدھا کر سکتا ہے.اس لئے مجھے اس بات کی کوئی ضرورت نہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسے نمائندگان کو تائید کا پابند کرنے کی مجھے ضرورت نہیں.وہ ووٹ دیں تو اپنے ایمان کی بناء پر دیں.یہ سمجھ کر نہ دیں کہ وہ کسی جماعت کے حلف کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں بلکہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ

Page 590

خلافة على منهاج النبوة ۵۷۶ جلد سوم ریزولیوشن جماعت احمدیہ کی خلافت کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے ذریعہ سے آئندہ فتنوں کا سد باب ہوتا ہے تو وہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے ووٹ دیں نہ کہ اپنی جماعت کو خوش کرنے کے لئے اور اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ اس ریزولیوشن سے شرارت بڑھتی ہے اور فتنہ کا دروازہ کھلتا ہے تو وہ ووٹ نہ دے.ہمیں اس کے ووٹ کی ضرورت نہیں اور نہ خدا تعالیٰ کو اس کے ووٹ کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ نے جب مجھے خلیفہ بنایا تھا اُس وقت اس قسم کا کوئی قانون نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ نے فتنہ پردازوں کی کوششوں کو نا کام کر دیا.پس ہم خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں.جو شخص ووٹ دے وہ اس بات کو سمجھ کر دے کہ اس ریزولیوشن کی وجہ سے جماعت میں شرارت کا سدِ باب ہوتا ہے لیکن اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس ریز ولیوشن سے شرارت کا سدِ باب نہیں ہوتا بلکہ اس سے شرارت کا دروازہ کھلتا ہے تو وہ ووٹ نہ دے.آگے اس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے.خدا تعالیٰ جس طرح چاہے گا اُس کے ساتھ برتاؤ کرے گا.وہ اپنی جماعت سے نہ ڈرے.کراچی کا نمائندہ کراچی جماعت سے نہ ڈرے، لاہور کا نمائندہ لاہور کی جماعت سے نہ ڈرے، سرگودھا کا نمائندہ سرگودھا کی جماعت سے نہ ڈرے، وہ ووٹ دے تو خدا تعالیٰ سے ڈر کر دے اور پھر اس کے بعد ہمارا اور اس کا جو معاملہ ہے وہ خدا تعالیٰ خود طے کرے گا.ہمیں اس کے ووٹ کی ضرورت نہیں.ہمیں صرف اُس شخص کے ووٹ کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ سے محبت رکھنے والا ہے، اسلام سے محبت رکھنے والا ہے اور خلافت سے محبت رکھنے والا ہے.پس اگر وہ خدا تعالی ، اسلام اور خلافت کی خاطر ووٹ دیتا ہے تو دے اور اگر وہ اپنی جماعت کی خاطر ووٹ دیتا ہے تو ہمیں اس کے ووٹ کی ضرورت نہیں.یہ تحریک کرنے کے بعد میں جماعت کے دوستوں کی رائے اس بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں مگر میں یہ کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس ریزولیوشن کے بعض حصے ایسے ہیں جن پر آئندہ زمانوں میں دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہو گی لیکن بہر حال جب تک کوئی دوسرا ریزولیوشن پاس نہ ہوگا اُس وقت تک یہ ریزولیوشن قائم رہے گا جیسا کہ خود اس ریزولیوشن میں بھی یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ آئندہ خلافت کے انتخاب کے لئے یہی

Page 591

خلافة على منهاج النبوة ۵۷۷ جلد سوم قانون جاری رہے گا سوائے اس کے کہ خلیفہ وقت کی منظوری سے شوری میں یہ مسئلہ پیش کیا جائے اور شوری کے مشورہ کے بعد خلیفہ وقت کوئی اور تجویز منظور کرے.پس یہ ریزولیوشن دوبارہ بھی مزید غور کے لئے پیش ہو سکتا ہے اور آئندہ پیدا ہونے والی مشکلات کو دور کیا جاسکتا ہے.مجھے خود اس میں بعض ایسی باتیں نظر آتی ہیں جن میں بعد میں تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوگی.مثلاً کچھ عرصہ کے بعد صحابی نہیں رہیں گے.پھر ہمیں یہ کرنا پڑے گا کہ انتخاب کی مجلس میں تابعی لئے جائیں یا وہ لوگ لئے جائیں جنہوں نے ۱۹۱۴ ء سے پہلے بیعت کی ہے.پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ قانون بنانا پڑے گا کہ وہ لوگ لئے جائیں جنہوں نے ۱۹۴۰ء سے بیعت کی ہے.پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ قانون بنانا پڑے گا کہ وہ لوگ لئے جائیں جنہوں نے ۱۹۵۴ء سے پہلے بیعت کی ہوئی ہے.بہر حال یہ درستیاں حالات کے بدلنے کے ساتھ ہوتی رہیں گی اور ریزولیوشن بار بار مجلس شوری کے سامنے آتا رہے گا.سر دست یہ ریزولیوشن شرارت کے فوری سدِ باب کے لئے ہے ورنہ آئندہ زمانہ کے لحاظ سے دوبارہ ریزولیوشن ہوتے رہیں گے اور پھر دوبارہ غور کرنے کا لوگوں کو موقع ملتا رہے گا.اس کے بعد میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی رائے دیں.جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور اسلام سے محبت رکھتے ہوئے یہ رائے رکھتے ہوں کہ اس ریزولیوشن کو پاس کیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.جماعتوں کی طرف سے جو پابندی عائد کی گئی تھی اور نمائندگان سے وعدے لئے گئے تھے اُن کو میں نے ختم کر دیا ہے.اب صرف اس وعدہ کو پورا کرو جو تمہارا خدا تعالیٰ کے ساتھ تھا.“ (حضور کے اس ارشاد پر تمام نمائندگان کھڑے ہو گئے ) رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا: ۳۴۱ دوستوں کی رائے ہے کہ اس ریزولیوشن کو منظور کر لیا جائے مگر میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی نمائندہ اس تجویز کے مخالف ہو اور اس کی رائے یہ ہو کہ اس ریزولیوشن کو منظور نہ کیا جائے تو وہ بھی کھڑا ہو جائے لیکن یہ یادر ر ہے کہ جن دوستوں نے اس ریزولیوشن کے موافق رائے دی ہے ان کو دوبارہ کھڑا ہونے کی

Page 592

خلافة على منهاج النبوة ۵۷۸ جلد سوم فیصلہ ضرورت نہیں ہاں اگر کوئی نمائندہ ایسا ہو جو اس کے مخالف رائے رکھتا ہو تو وہ کھڑا ہو جائے.“ اس پر کوئی دوست کھڑے نہ ہوئے ) دو گنتی میں سہولت کے لئے اس وقت آٹھ حلقے بنائے گئے ہیں.ان آٹھ حلقوں میں کوئی نمائندہ بھی اس ریزولیوشن کے خلاف کھڑا نہیں ہوا اور اس کے بالمقابل ۳۴۱ ووٹ اس ریزولیوشن کی تائید میں ہیں.اس طرح دوستوں نے واضح کر دیا ہے کہ انہوں نے اس وقت اپنی مرضی سے ریزولیوشن کے حق میں رائے دی ہے.جماعتوں کے دباؤ کی وجہ سے انہوں نے ایسا نہیں کیا.سو میں اس ریزولیوشن کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں اور اسے منظور کرتا ہوں.خدا تعالیٰ اس کو مبارک کرے.میں جانتا ہوں کہ اس ریزولیوشن کے بعض حصے ایسے ہیں جن پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہوگی جیسا کہ مولوی ابوالعطاء صاحب نے کہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کو رسالہ الوصیۃ میں اٹھایا ہے کہ جو بھی اس دنیا میں پیدا ہوا ہے اس نے ضرور مرنا ہے چاہے وہ آج مریں یا کل مریں اس لئے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی خلیفہ قیامت تک زندہ رہے یا اس کا کوئی ماننے والا قیامت تک زندگی پائے.پس ہم نے جو کچھ کرنا ہے اس دنیا کی زندگی کے متعلق کرنا ہے.اگلی دنیا کا خدا خود ذمہ دار ہے.اس جہان میں خدا تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور بدی کا اختیار دیا ہے.اگلے جہان کا کام وہ خود کرے گا.پس چونکہ صرف اس دنیا کا کام چلانا انسان کے اختیار میں ہے اس لئے ہماری کوشش اس حد تک ہونی چاہئے کہ ہم اس دنیا کے نظام کو اچھا کرنے کی کوشش کرتے رہیں.اگلے جہان کا نظام خدا تعالیٰ نے خود اپنے اختیار میں رکھا ہے اور وہ اسے آپ ہی ٹھیک کر دے گا.ہماری اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ نظامِ خلافت حقہ کو احمدیت میں ہمیشہ کے لئے قائم رکھے اور اس نظام کے ذریعہ سے جماعت ہمیشہ ہمیش منظم صورت میں اپنے مال و جان کی قربانی اسلام اور احمدیت کے لئے کرتی رہے اور اس طرح خدا تعالیٰ ان کی مدد اور نصرت کرتا رہے کہ آہستہ آہستہ دنیا کے چپہ چپہ پر مسجدیں بن جائیں اور دنیا کے چپہ چپہ پر مبلغ ہو جائیں اور وہ دن آجائے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ دنیا

Page 593

خلافة على منهاج النبوة ۵۷۹ جلد سوم کے دیگر مذاہب اسلام اور احمدیت کے مقابلہ میں ایسے رہ جائیں جیسے ادنی اقوام کے لوگ ہیں.دنیا میں ہر کہیں لا إله إلا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کے پڑھنے والے نظر آئیں اور روس ، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے لوگ جو آج اسلام پر جنسی اُڑا ر ہے ہیں وہ سب کے سب احمدی ہو جائیں، وہ اسلام کو قبول کر لیں اور انہیں اپنی ترقی کے لئے اسلام اور مسلمانوں کا دست نگر ہونا پڑے.ہم ان ممالک کے دشمن نہیں ہماری دعا ہے کہ یہ ملک ترقی کریں لیکن ترقی کریں اسلام اور مسلمانوں کی مدد سے.آج تو دمشق اور مصر روس کے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہا ہے کہ کسی طرح اس سے کچھ مددمل جائے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دمشق اور مصر کے مسلمانوں کو پکا مسلمان بھی بنائے اور پھر دنیوی طاقت بھی اتنی دے کہ دمشق اور مصر روس سے مدد نہ مانگے بلکہ روس دمشق اور مصر کو تا ر دے کہ ہمیں سامانِ جنگ بھیجو.اسی طرح امریکہ ان سے یہ نہ کہے کہ ہم تمہیں مدد دیں گے بلکہ امریکہ شام، مصر، عراق، ایران، پاکستان اور دوسری اسلامی سلطنتوں سے کہے کہ ہمیں اتنے ڈالر بھیجو ہمیں ضرورت ہے ورنہ ہم تو خالص دین کے بندے ہیں اور دنیا سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی جو چیز ہے وہی ہمیں پیاری ہے.پس اللہ تعالیٰ اسلام کے غلبہ کی کوئی صورت پیدا کرے.اور خلافت کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ مسلمان نیک رہیں اور اسلام کی اشاعت میں لگے رہیں یہاں تک کہ اسلام کی اشاعت دنیا کے چپہ چپہ پر ہو جائے اور کوئی غیر مسلم باقی نہ رہے.اگر یہ ہو جائے تو ہماری غرض پوری ہو گئی اور اگر یہ نہ ہو تو محض نام کی خلافت نہ ہمارے کسی کام کی ہے اور نہ اس خلافت کے ماننے والے ہمارے کسی کام کے ہیں.ہمارا دوست وہی ہے جو اللہ کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے.وہ خلیفہ ہمارے سر آنکھوں پر جو خدا تعالیٰ کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلاتا ہے.“.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء صفحه ۹ تا ۱۸)

Page 594

Page 595

خلافة على منهاج النبوة ۵۸۱ جلد سوم متفرق قرآن شریف نے خلیفہ کے انکار کا نام فسق رکھا ہے حضرت خلیفہ امسیح الثانی کو ایک دوست نے خط لکھا جس کے جواب میں حضور نے فرمایا :.مکرمی ! السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُہ آپ کا خط ملا چونکہ آپ نے نہایت ادب اور محبت سے خط لکھا ہے اس لئے میں خود ہی اس کا جواب لکھتا ہوں.گو آجکل مجھے بہت کم فرصت ہے لیکن آپ کے اخلاص نے مجبور کیا ہے کہ میں خود ہی آپ کو جواب لکھوں.(۱) شریعت اسلام کے ہر ایک حکم کا مانا ضروری ہے اور جو شخص ایک حکم بھی تو ڑتا ہے وہ اپنے ایمان میں خود نقص پیدا کرتا ہے اور قرآن شریف نے خلیفہ کے انکار کا نام فسق رکھا ہے اور گومولوی محمد علی صاحب اور ان کے ہم خیالوں نے آیت استخلاف کے اور ہی معنی کر دیئے ہیں لیکن خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب سر الخلافہ اور شہادت القرآن میں یہی معنی کئے ہیں کہ خلیفہ کا انکا رفستق ہے اور فسق کے معنی ہوتے ہیں عہد شکنی.پس اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ برحق کا نہ ماننا گناہ ہے ہاں اس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو جا تا بلکہ فاسق مسلمان ہوتا ہے یعنی وہ مسلمان جس نے اللہ تعالیٰ کا ایک عہد عظیم توڑ دیا.(۲) میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلیفہ ہوں اور انہیں خلفا ء سے ہوں جنہیں خدا مقرر

Page 596

خلافة على منهاج النبوة ۵۸۲ جلد سوم کرتا ہے.باقی ابو بکر، عمر، عثمان، علی اور حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کو الہام کے ذریعہ سے مقرر نہ کیا گیا تو اب مجھے کیوں الہام کے ذریعہ سے بتایا جاتا کہ میں خلیفہ ہوں.ان میں سے ایک کا الہام بھی ثبوت نہیں دیا جا سکتا.اور اگر کہا جائے کہ ان کو الہام ہوتا تھا تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے بھی الہام ہوتا ہے اور کثرت سے اللہ تعالیٰ مجھے امور غیبیہ پر اطلاع دیتا ہے.فَذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ (۳) میں کس قسم کا خلیفہ ہوں اس کا ثبوت وہی ہے جو ابو بکر ، عمر ، عثمان علی رضی اللہ عنہم کی خلافتوں کا ثبوت ہے.جو ثبوت اُن کی سچائی میں پیش کیا جائے اور وہ سچا ثبوت ہے تو میں و ہی اپنی سچائی میں پیش کر سکتا ہوں.إِنْشَاءَ اللہ تَعَالٰی.ٹر کی خلیفہ خلیفہ نہیں ہوتا اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور اس لئے اس پر آیت استخلاف کا کوئی حکم نہیں لگتا اور سب سے زیادہ ایک احمدی کے لئے یہ دلیل ہے کہ حضرت مسیح موعود نے خود لکھ دیا ہے کہ وہ خلیفہ نہیں ہے اس لئے لڑکی کے جابر بادشاہ کو جس پر آیت استخلاف کا ایک حکم بھی چسپاں نہیں ہوتا خلیفہ کہنے والا مسیح موعود کے قول کو رد کرتا ہے اور یہ جرات اب تک میں نے خواجہ صاحب میں ہی دیکھی ہے جنہوں نے اسے خلیفہ المسلمین لکھا ہے ورنہ اور کسی احمدی سے میں نے یہ بات نہیں سنی.(۴) مجھے اگر یہ وحی نہیں ہوئی کہ میں خلیفہ ہوں تو اس میں کچھ حرج نہیں.اگر مجھے وحی ہو تو میرا منکر کا فر ہوا نہ کہ فاسق.ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی وحی نہ ہوئی تھی کہ آپ خلیفہ ہیں کیونکہ انہوں نے بیعت کے وقت خود کہا کہ اگر چاہو تو کسی اور کو خلیفہ بنالو.اگر وحی ہوتی تو کہتے کہ مجھے خدا نے کہا ہے کہ تم سب میری بیعت کرلو.مگر ان کے نہ ماننے والے کو جو ایک عظیم الشان صحابی تھا اور ۱۲ انقباء میں سے تھا خو د صحابہ نے منافق اور مرتد کہا ہے.پس اگر آپ معذور ہیں تو وہ لوگ بھی معذور ہیں لیکن حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ وہ زندیق اور فاسق ہے.دیکھیں آپ کی کتاب سرالخلافہ.اگر وہ معذور نہیں تو آپ کیوں کر معذور ہو سکتے ہیں.(۵) خود پیغام لکھتا ہے کہ بعض نے حضرت خلیفہ مسیح کی بیعت نہ کی تھی اور مولوی محمد علی ا

Page 597

خلافة على منهاج النبوة ۵۸۳ جلد سوم صاحب نے خود اُس وقت کہا تھا کہ ابھی ٹھہر جاؤ لیکن خواجہ صاحب کے زور دینے پر مانے.اس وقت کئی آدمی زندہ ہیں جنہوں نے آپ کی بیعت نہ کی تھی پھر کیا آپ ان کی خلافت کا انکار کر دیں گے اور پھر حضرت ابو بکر کی بیعت کا بھی کیونکہ سب انصار نے بالا تفاق ان کی بیعت سے اول انکار کیا بعد میں مانا.حضرت عمرؓ کی خلافت پر بھی اعتراض ہوا ، حضرت عثمان کی خلافت پر بھی سخت اعتراض ہوا ، حضرت علی کی خلافت پر بھی سخت جنگ ہوئی.تو پہلے سب کی خلافت کا انکار کر دینا چاہئے کیونکہ سب کی مخالفت ہوئی.حضرت مسیح موعود سر الخلافہ میں ہیں کہ خلیفہ کا انکار ضروری ہے اور آیت استخلاف سے یہی ثابت ہوتا ہے.کیونکہ فرمایا ہے وَليبَة لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ل پس ان کی مخالفت ضروری ہے لکھتے کیونکہ وہ انبیاء کے قائم مقام ہوتے ہیں اور انبیاء کی نسبت آیا ہے يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِعُونَ لے اور اگر آپ نے فورا تحریک سے بیعت کی ہے تو میرے نام ہزاروں خطوط آئے ہیں جو بیعت کے اعلان سے پہلے کے تھے جنہوں نے بغیر اطلاع کے میری بیعت کی ہے.(۶) یہ کہنا کہ خلیفہ تو ہوتے ہیں لیکن برحق وہ ہے جس سے اختلاف نہ ہو.یہ حضرت مسیح موعود کی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ آپ نے لکھا ہے کہ خلیفہ کی مخالفت ضروری ہے.تاریخ سے ثابت ہے کہ ہر ایک خلیفہ کی مخالفت ہوئی حتی کہ حضرت خلیفہ اول کی بھی.ان کی لاہوریوں نے مخالفت کی.(۷) تعجب تعجب تعجب آپ کے اس قول پر سخت تعجب ہوا کہ خلیفہ اور اختلاف ایک مادہ ہیں اس لئے وہ ساری جماعت کا امام نہیں ہو سکتا.آدم خلیفہ تھا یا نہیں ؟ کیا اس کا ماننا سب کیلئے ضروری تھا یا نہیں ؟ خود حضرت مسیح موعود نے اپنے آپ کو خلیفہ کہا ہے اور ان کو الہام ہوا ہے پھر کیا ان کا ماننا بھی ضروری نہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خلیفہ کہا گیا ہے.آدم کے ذکر سے مطلب بھی یہی ہے پھر آپ کا ماننا بھی ضروری نہیں ؟ اختلاف تو ضرور ہوتا ہے لیکن اختلاف کرنے والا گنہگار ہوتا ہے.اختلاف تو آنحضرت اور مسیح سے بھی کیا گیا پھر کیا ان کا ماننا ضروری نہیں ؟

Page 598

خلافة على منهاج النبوة ۵۸۴ جلد سوم (۸) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چار خلفاء کے بعد اختلاف نہیں ہوا بلکہ خودحضرت ابوبکر سے اختلاف ہوا.معلوم ہوتا ہے آپ نے کبھی کوئی اسلامی تاریخ نہیں پڑھی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ “.النور : ۵۶ ( الفضل ۱۰ جون ۱۹۱۴ء ) يس: ٣١

Page 599

خلافة على منهاج النبوة ۵۸۵ جلد سوم کیا خلافت کے منکر فاسق نہیں؟ عن ابی هریره قال لما توفى رسول الله صلى الله عليه وسلم واستخلف ابوبكر بعده وكفر من كفر من العرب قال عمر بن الخطاب لابي بكر كيف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم امرتُ أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا اله الا الله فمن قال لا اله الا الله فقد عصم منى ماله ونفسه الابحقه وحسابه على الله تعالى فقال ابوبكر والله لا قاتلن من فرّق بين الصلوة والزكواة فان الزكوة حق المال والله لو منعونى عقالا كانوا يؤدونه الى رسول الله صلى الله عليه وسلم لَقَاتَلْتُهُمْ على منعه ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور ابو بکر خلیفہ ہوئے اور عرب کے جو کافر ہوئے کافر ہو گئے تو عمر نے ابو بکر سے کہا کہ تم ان لوگوں سے کیونکرلڑو گے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوا ہے کہ مجھے لوگوں سے لڑنے کا اُس وقت تک حکم دیا گیا ہے جب تک کہ وہ لا الہ الا الله کہیں.پس جس نے لا الہ الا للہ کہا اس نے مجھ سے اپنے مال اور جان کو بچا لیا مگر کسی حق کے بدلہ.پھر اس کا حساب اللہ پر ہے.پس ابو بکر نے کہا خدا کی قسم ! میں اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکوۃ میں فرق کرے کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے.خدا کی قسم ! وہ ایک ایسے عقال ( رسی کا ٹکڑا ) کو روکیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت دیا کرتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا اس کے نہ دینے پر.اس حدیث سے جو باتیں نکلتی ہیں ان میں سے دو یہ ہیں.اول یہ کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ غیر مبائعین کس طرح فاسق ہو سکتے ہیں انہیں غور کرنا چاہئے کہ یہاں ان لوگوں کا ذکر ہے

Page 600

خلافة على منهاج النبوة ۵۸۶ جلد سوم جو مسلمان تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت زکوۃ ادا کیا کرتے تھے لیکن حضرت ابو بکر کے زمانہ میں دینے سے انکار کر دیا تھا.ان کے ساتھ خلیفہ کو زکوۃ نہ دینے کے سبب کافروں کا سا سلوک روا رکھا گیا تو کیا سرے سے خلافت ہی کا انکار کسی مسلمان کے لئے روا ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں.دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو احکام نبی کی معرفت لوگوں کو پہنچتے ہیں ان کا جاری رکھنا خلیفہ کا کام ہوتا ہے اور وہ خلیفہ کے وقت میں لوگوں کے لئے اسی طرح قابل تعمیل ہوتے ہیں کیونکہ حضرت ابو بکرؓ فرماتے ہیں کہ میں وہی کچھ ان لوگوں سے لوں گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے.( الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۱۵ء ) ا بخاری کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة باب الاقتداء بسنن رسول الله : ۲۵۳ حدیث نمبر ۷۲۸۵،۷۲۸۴ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية کچھ

Page 601

خلافة على منهاج النبوة ۵۸۷ جلد سوم جھوٹے مدعی خلافت کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ایک شخص نے حضور سے دریافت کیا کہ عابد علی نے خلیفہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے کیا ہم اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں؟ فرمایا :.اگر اس نے خلافت کا دعویٰ کیا ہے تو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں“.(الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۱۶ء )

Page 602

خلافة على منهاج النبوة ۵۸۸ جلد سوم روحانی خلافت حافظ محمد حسن صاحب بی اے ، مسٹر ظہور احمد صاحب بی اے سابق ایڈیٹر پیغام اور مسٹر عطاء اللہ صاحب سٹوڈنٹ ایم اے کلاس حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو ملنے کیلئے آئے.تعارف کے بعد ان میں سے ایک نوجوان مسٹر ظہور احمد سے حضور کی درج ذیل گفتگو ہوئی.نوجوان : اگر کوئی کہے کہ فلاں شخص خلیفہ ہے تو کیا اس کو حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ، حضرت علی کی طرح خلیفہ مان سکتے ہیں؟ حضرت خلیفہ المسح : ہر ایک دعوئی کی صداقت دلائل سے ثابت ہوتی ہے جو شخص خلیفہ ہونے کا مدعی ہے اس کے پاس جو دلائل ہیں ان کو دیکھیں گے.نوجوان وہ دلائل آپ ہی بیان فرمائیں.حضرت خلیفۃ اسیح: تو آپ صاف کیوں نہیں کہتے کہ مدعی خلافت سے آپ کی مراد مجھ سے ہی نوجوان ہے.اصل بات یہ ہے کہ حال ہی میں میں نے الفضل میں پڑھا ہے کہ آپ کی خلافت ایسی ہی ہے جیسی خلفاء اربعہ کی تھی.حضرت خلیفہ المسح : میری خلافت کی صداقت کے وہی دلائل ہیں جو خلفاء اربعہ کی خلافت کے تھے.آپ ان کی صداقت کی کوئی دلیل بیان کریں.نوجوان ان کو شوری نے خلیفہ منتخب کیا تھا.حضرت خلیفہ امسیح : شوری سے آپ کی کیا مراد ہے؟ صحابہ نے منتخب کیا تھا.نوجوان:

Page 603

خلافة على منهاج النبوة ۵۸۹ جلد سوم حضرت خلیفۃ اسیح: کیا تمام کے تمام صحابہ نے ؟ نوجوان نہیں صحابہ کی مجاریٹی ( کثرت ) نے.حضرت خلیفہ المسح : یہی دلیل میرے خلیفہ ہونے کی صداقت میں موجود ہے.نوجوان کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی خلافت بالکل ان کی خلافت کی طرح ہے؟ حضرت خلیفہ المسیح : بالکل ان کی خلافت کی طرح تو نہیں کہا جاسکتا ان کے پاس فوج تھی ، ملک تھا ،سلطنت تھی میرے پاس نہیں ہے.نوجوان: خلفائے اربعہ میں تو اُولی الامر کی صفت بھی پائی جاتی تھی جو کہ آر میں نہیں پھر آپ کو خلیفہ کس طرح کہا جا سکتا ہے.حضرت خلیفہ امسح : دیکھئے دولت مند کی یہ تعریف ہے کہ جس کے پاس دولت ہو.جو شخص فرانس میں ہوگا اس کے پاس فرانس ہی کا سکہ دولت کے طور پر ہوگا.جو نوجوان امریکہ میں ہوگا اس کے پاس امریکہ کا ہی سکہ ہوگا اور جو چین میں ہوگا اس کے پاس چین کا ہی سکہ ہوگا اور ان سب کو دولت مند کہا جائے گا نہ یہ کہ امریکن دولت مند نہیں ، یا چینی دولت مند نہیں.اب ایک ایسا شخص جو روحانی طور پر اُولی الامر ہوگا اس کا خلیفہ روحانی ہی ہوگا اور جو روحانی اور جسمانی ہے اس کا خلیفہ بھی روحانی اور جسمانی اولی الامر ہوگا.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم روحانی اور جسمانی دونوں طریق کے اولی الامر تھے اس لئے آپ کے خلفاء روحانی اور جسمانی اولی الامر ہوئے.لیکن حضرت صاحب چونکہ روحانی اولی الامر تھے اس لئے آپ کا خلیفہ بھی روحانی اولی الامر ہی ہوگا.ایسا خلیفہ تو نامکمل خلیفہ ہوا.حضرت خلیفہ المسیح : اگر اس سے آپ کی یہ مراد ہے کہ ہمارے پاس حکومت نہیں تو یہ ہم خود کہتے ہیں کہ ہماری خلافت روحانی ہے جسمانی نہیں.

Page 604

خلافة على منهاج النبوة نوجوان ۵۹۰ جلد سوم مختلف ممالک کے بادشاہ ہیں فرانس کا ہے ، انگلستان کا ہے، آسٹریا کا ہے یہ سب بادشاہ کہلاتے ہیں.اسی طرح جو بھی خلیفہ ہو وہ ایسا ہی ہونا چاہئے جیسے پہلے ہوئے ہیں.حضرت خلیفۃ اسیح: یہ تو آپ کو علم ہی ہو گا کہ مختلف ممالک کے بادشاہوں کے اختیارات میں فرق ہے اور سب کے اختیارات ایک جیسے نہیں ہیں.نوجوان اوّل یہ تو مجھے معلوم ہے کہ ان کے اختیارات میں فرق ہے لیکن ان کے نام میں تو فرق نہیں.حضرت خلیفہ المسح : پس اگر ان کے اختیارات میں فرق ہونے کی وجہ سے ان کے نام میں کوئی فرق نہیں اور اس طرح ان کے بادشاہ کہلانے میں کوئی حرج نہیں تو اسی طرح خلافت کے متعلق بھی سمجھ لیجئے.خلفائے اربعہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے اور رسول کریم کے پاس حکومت بھی تھی اس لئے وہ خلفاء حکومت بھی رکھتے تھے.لیکن میں جس کا خلیفہ ہوں وہ چونکہ حاکم نہیں تھا اس لئے میرے پاس کس طرح حکومت آجاتی.میں تو روحانی بادشاہ کا خلیفہ ہوں اس لئے روحانی خلیفہ ہوں“.الفضل ۲۶ فروری ۱۹۲۰ء)

Page 605

خلافة على منهاج النبوة ۵۹۱ جلد سوم خلافت اور سلطنت ایک صاحب نے عرض کیا کہ کیا خلیفہ کے لئے سلطنت ضروری ہے؟ فرمایا:.خلافت کے معنی ایک بادشاہت کے ہیں اور ایک نیابت کے.اور جو جس کا خلیفہ ہوگا وہ اسی بات میں ہوگا جو اس کے اصل میں ہو گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض بھی روحانی اصلاح تھی.اور خلیفہ عربی کے لحاظ سے بادشاہ کو بھی کہنا درست ہے.ہرایک سلطان بھی خلیفہ ہے.ہاں مسلمانوں نے اس کو خاص کر لیا ہے.( الفضل ۲۸ /نومبر ۱۹۲۱ء)

Page 606

خلافة على منهاج النبوة ۵۹۲ جلد سوم خلیفہ اور پریزیڈنٹ حکیم احمد حسین صاحب لائلپوری سے فرمایا کہ آپ نے سوال کیا ہے کہ خلیفہ اور انجمن کے صد ر دونوں کو لوگ منتخب کرتے ہیں اس لئے دونوں میں کیا فرق ہے؟ فرمایا:.اس میں شبہ نہیں کہ بظاہر یہ دونوں ایک نظر آتے ہیں مگر ان میں ایسا ہی فرق ہے جیسا ان دو بچوں میں فرق ہوتا ہے جن میں سے ایک زمین پر بیٹھا ہو اور دوسرا ایک مضبوط جوان شخص کے کندے پر سوار ہو اور دونوں کسی درخت سے پھل توڑنا چاہیں.ظاہر ہے کہ زمین پر بیٹھنے والے کے مقابلہ میں کامیاب وہی ہو گا جو ایک جوان کے کندے پر سوار ہے کیونکہ اس نے اس ذریعہ سے پھل کو ہاتھ سے پکڑ کر تو ڑ لیا ہے.زمین پر بیٹھنے والا ممکن ہے پتھر مار کر پھل گرانا چا ہے مگر ضروری نہیں کہ اس کے پتھر سے پھل ٹوٹے لیکن اس کے مقابلہ میں کندھے پر چڑھنے والا یقیناً کامیاب ہوگا.اسی طرح کسی انجمن یا حکومت کے صدر کو بھی لوگ ہی منتخب کرتے ہیں اور خلیفہ کو بھی.مگر خلیفہ کا انتخاب خدا کے وعدہ کے ماتحت ہوتا ہے اس کی تائید خدا کرتا ہے کسی اور صدر کے لئے کوئی وعدہ نصرت الہی نہیں ہوتا.اس کی مثال یوں سمجھئے کہ حضرت صاحب ہمیشہ تقریر فرمایا کرتے تھے اور خطبہ الہامیہ کے دن بھی حضور ہی نے تقریر فرمائی تھی مگر باقی تمام تقریروں کو الہامی نہیں کہتے اور صرف خطبہ الہامیہ کو ہی الہامی تقریر کہتے ہیں.کیوں؟ صرف اس لئے کہ اور تقریروں کے متعلق وعدہ الہی نہ تھا اور خطبہ الہامیہ کے لئے خاص حکم اور وعدہ تھا اس لئے یہی الہامی کہلاتا ہلاتا ہے.چونکہ وعدہ الہی دوسرے انتخابوں کے ساتھ نہیں ہوتا اس لئے ان میں وہ بات نہیں ہوتی جو خلافت کے انتخاب کے لئے ہے کیونکہ یہ وعدہ الہی کے ماتحت ہے.لوگوں کا منتخب کیا ہوا صدر ممکن ہے خدا کی ناراضی کا موجب ہو مگر خلیفہ نہیں ہوسکتا “.( الفضل ۲ /جنوری ۱۹۲۲ء)

Page 607

خلافة على منهاج النبوة ۵۹۳ جلد سوم نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جو کام خدا کرے خواہ اس کو بندے ہی کریں وہ خدا کا کام سمجھا جاتا ہے.بیشک لوگ ہی خلیفہ کو منتخب کرتے ہیں مگر اس کے انتخاب کو خدا اپنا کیا ہوا انتخاب فرماتا ہے.اور اس طریق انتخاب کے ذریعہ نبیوں اور خلفاء میں تمیز ہو جاتی ہے.اگر خدا براہ راست کسی کو خلیفہ منتخب کرے اور کہے کہ میں تجھ کو خلیفہ بنا تا ہوں تو اس خلیفہ اور نبی میں کوئی فرق نہیں رہ سکتا.پس نبی کا انتخاب خدا نے خاص اپنے ذمہ رکھا اور خلیفہ کا بندوں کے ذریعہ.مگر ایسا کہ بندوں سے اپنی منشاء کے مطابق انتخاب کراتا ہے اور اس کی تائید و نصرت کا وعدہ فرماتا ہے.نبی جو جماعت بناتا ہے اس کا بیشتر حصہ خلیفہ کے ساتھ ہوتا ہے.چنانچہ حضرت علیؓ کے وقت میں جب اختلاف ہوا تو صحابہ کا بڑا حصہ حضرت علیؓ کے ساتھ تھا“.(الفضل ۵/جنوری ۱۹۲۲ء) آدم و داؤد کی خلافت حکیم صاحب نے عرض کیا کہ " قرآن کریم میں آد اور داؤد کو بھی خلیفہ کہا گیا ہے“.فرمایا: ” لفظ خلیفہ کے وسیع معنی ہیں.آدم اور داؤد کی خلافت الگ قسم کی تھی اس کی مثال اور ہے.وہ نبوت کے رنگ کی خلافت تھی.مثلاً خلیفہ تو درزی حجام کو بھی کہا جاتا ہے.کوئی کہے میں نے پانچ خلیفہ دیکھے تو وہ درزی کا کام کرتے تھے یہ کیوں نہیں کرتے ؟ تو کہا جائے گا کہ اُن کی خلافت اور ہے اور یہ خلافت اور “ 66 حکیم صاحب نے عرض کیا کہ ”یہ تو قرآن کریم کے مسئلہ خلافت جزوی ہے ماننے والے کیلئے ہوا منکر قرآن کیلئے کیا ثبوت ہوگا ؟ فرمایا : ” خلافت کا مسئلہ تو جزوی مسائل میں سے ہے مثلاً کوئی منکرِ اسلام کہے کہ صبح کی نماز میں دورکعتیں کیوں ہیں اور مغرب میں تین کیوں اور عصر میں چار کیوں؟ تو اُس کو کہا جائے گا کہ یہ جزوی مسئلہ ہے جس کی بنیاد نقل پر ہے.جو مسائل اصولی ہوں ان کی بنیاد عقل پر ہوتی ہے اور جو جزوی ہوں ان کی بنیاد نقل پر.ہم منکر اسلام سے خلافت کے متعلق یا رکعات نماز کے متعلق بحث نہیں کریں گے بلکہ صداقت اسلام کے اصول کے متعلق کریں گے.جب وہ مان لے گا پھر اس کو جزوی مسائل کے تصفیہ کے لئے نقلی بحث میں لے آئیں گے.حضرت علیؓ

Page 608

خلافة على منهاج النبوة ۵۹۴ جلد سوم نے فرمایا تھا جزئیات مسائل کی بنیاد اگر عقل پر ہوتی تو میں پاؤں کے اوپر مسح کرنے کی بجائے تلوے کا مسح بتاتا.مگر اس میں بحث عقل کی نہیں نقل کی ہے.گو ہم کسی جز وی بات میں کتنے ہی نکات بتا ئیں اور فلسفیانہ رموز بیان کریں مگر ان کی حیثیت ذوقیات سے زیادہ نہ ہو گی.پس خلافت کی بحث اصولی نہیں جزوی ہے جس کا تعلق مخالف اسلام سے نہیں قائل اسلام 66 سے ہے.(الفضل ۵/جنوری ۱۹۲۲ء )

Page 609

خلافة على منهاج النبوة ۵۹۵ جلد سوم سلسلہ خلافت ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا حضور کے بعد بھی خلیفہ آ سکتا ہے یا آئے گا ؟ حضور نے لکھوایا :.ہم تو خلافت کے قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق قائل ہیں.اگر جماعت مستحق ہوگی تو خلیفہ ہو گا اس قابل نہ ہو گی تو خلیفہ نہیں ہوگا.خلافت کا نہ ہونا ایک عذاب ہے.الفضل ۸ مئی ۱۹۲۲ء )

Page 610

خلافة على منهاج النبوة ۵۹۶ جلد سوم بیعت خلافت کی ضرورت ایک صاحب کی طرف سے سوال پیش کیا گیا کہ وہ کہتے ہیں جب مان لیا کہ آپ خلیفہ ہیں تو پھر بیعت کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا :.ایسے امور جن کا عقائد کے لئے ماننا ضروری ہے ان میں سے ملائکہ بھی ہیں.بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کو مان لینا کافی ہے اور جو لوگ واقف نہیں کہ فرشتوں کے کیا کام ہیں اور ان پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے اور ان سے تعلق کی کیا ضرورت ہے ان کیلئے صرف یہی ہے کہ ان کو مان لیا جائے.لیکن بعض اس قسم کی چیزیں ہیں کہ ان پر ایمان کے ساتھ ان کے احکام کے مطابق اعمال بھی کرنے کی ضرورت ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس کو ماننا ایک علیحدہ فعل ہے اور اس کے احکام پر عمل کرنا دوسرا فعل ہے.اگر ایک شخص خدا تعالیٰ کو مان لیتا ہے تو وہ ایک حصہ کو مکمل کرتا ہے جس کا اس کو ثواب ملے گا اور اگر دوسرے حصہ کو پورا کرے گا تو اس کا علیحدہ ثواب ہوگا.صرف خدا تعالیٰ کے ماننے میں ایمانی عمارت کا ایک حصہ بن جائے گا مگر عمارت نامکمل رہے گی.اسی طرح رسول کا ماننا ایک کام ہے اور اس کے احکام کے مطابق اعمال کرنا دوسرا کام ہے اور ان دونوں کا ثواب ہے.انبیاء کے لئے محض ماننے میں بھی ثواب ہے اور ایمان جب عمل کے ساتھ مل جائے تو پھر اس کا ثواب بہت زیادہ ہوتا ہے.پس بعض ایسی چیزیں ہیں کہ ان کا ماننا مستقل ایک فعل ہے.لیکن خلفاء کا وجود ایسا نہیں کہ ان کا محض ماننا کسی ثواب کا موجب ہو.ان کا ماننا تو اسی لئے ہوتا ہے کہ وہ سلسلہ کو قائم رکھتے ہیں اور اس کا انتظام کرتے ہیں اور یہی ان کی ضرورت ہے اور اسی لئے ان کی بیعت کی جاتی ہے.خلفاء کا ماننے کا عقیدہ علیحدہ عقیدہ نہیں.جس طرح کہ اللہ تعالیٰ ، ملائکہ، رُسل ، کتب، قیامت وغیرہ عقائد ہیں اور ان کا ماننا ضروری

Page 611

خلافة على منهاج النبوة ۵۹۷ جلد سوم ہے.خلفاء کا ماننا ایسے عقائد میں سے نہیں بلکہ خلیفہ کا ماننا اس لئے ہے کہ سلسلہ کا انتظام قائم رہے.یہ کہنا کہ بغیر بیعت ہی کے خلیفہ جو کہے مان لیں گے صحیح نہیں.اس طرح اول تو خلیفہ کو یہ کیسے پتہ لگ سکتا ہے کہ فلاں شخص اپنے دل میں یہ ارادہ رکھتا ہے.مثلاً آپ افسر ہوں اور ایک مہم آپ کے سپرد ہو جس کے سر کرنے کیلئے ایک سو دس آدمیوں کی ضرورت ہومگر آپ کے پاس سو آدمی ہوں اور میں آدمی ایسے ہوں جو اپنے گھر میں اس ارادے کے ساتھ بیٹھے ہوں کہ ہم بھرتی نہیں ہوتے اور اپنا نام فوج میں نہیں لکھواتے لیکن ہمیں یہ افسر صاحب جو حکم دیں گے ہم اس کو مان لیں گے تو ان کے اس خیال سے وہ مہم فتح نہیں ہوسکتی اور آپ ان سے کام نہیں لے سکتے.اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ فوج میں بھرتی ہوں تا کہ ضرورت کے وقت آپ ان سے کام لے سکیں.اسی طرح بیعت کی ضرورت ہے اگر ایک کو اجازت مل جائے کہ وہ بیعت نہ کرے تو باقی یہ جو اس قدر بیٹھے ہیں اور گھر بار چھوڑ کر آئے ہیں ان کو کیا ضرورت ہے کہ بیعت کریں یہ بھی آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھ سکتے ہیں.( الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۲۲ء )

Page 612

خلافة على منهاج النبوة ۵۹۸ جلد سوم ترکی خلافت تھریس کے منتخبہ ترکی گورنر رفعت پاشا مقیم قسطنطنیہ نے جو اپنی ایک تقریر میں یہ کہا کہ سلطان سلیم کی سب سے بڑی سیاسی غلطی یہ تھی کہ اس نے خلافت اور سلطنت کو جمع کر دیا.آئندہ خلیفہ اور حاکم دنیوی جدا جدا ہوں گے اور موجودہ ترکی خلیفہ کو معزول کرنے کی ضرورت نہیں بیشک خلیفہ وہی رہیں لیکن حکومت دنیوی کو آئندہ ان سے کوئی واسطہ نہ ہوگا.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ المسیح ثانی نے فرمایا کہ ہندوستان کے خلافت کمیٹیوں کے کارکنوں کی تو اس تقریر سے کمریں ٹوٹ جائیں گی کیونکہ ان کا سارا زور اسی بات پر رہا ہے کہ خلیفہ سے اقتدار دُنیوی جدا نہیں ہو سکتا اور ساتھ ہی مولوی محمد علی صاحب کو بھی اپنی غلطی معلوم ہوگی کہ وہ جو کہا کرتے تھے کہ خلیفہ تو وہ ہوتا ہے جس کے پاس حکومت ہو اس لئے سلسلہ احمدیہ میں خلافت نہیں ہوسکتی اور ترک سلطان خلیفۃ المسلمین کہلانے کا مستحق ہے، ہے“.اہلحدیث اور ترکی خلافت ایک اور ذکر کے دوران میں فرمایا کہ اہلحد بیث اپنے مذہب کے رو سے سوائے قریش کی خلافت کے سب کی خلافت سے منکر ہیں.نواب صدیق حسن خان صاحب ترکوں کی خلافت کے مخالف تھے.یہ تو آجکل سیاسی ہوا کا اثر ہے کہ اہلحدیث بھی اپنے آپ کو خلافت ترکیہ کے قائل ظاہر کرتے ہیں“.( الفضل ۹ نومبر ۱۹۲۲ء )

Page 613

خلافة على منهاج النبوة ۵۹۹ جلد سوم حضرت معاویہ اور یزید خلیفہ نہ تھے ایک صاحب نے لکھا کہ ایک شیعہ نے ان سے سوال کیا کہ حضرت معاویہ اور یزید بھی خلیفہ تھے؟ کیا ان کی خلافت بھی آیت استخلاف کے ماتحت تھی ؟ مجھے اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں آیا.حضور مکلف ہوں کہ اس کا مفصل جواب لکھیں.حضور نے جواب میں فرمایا معاویہ اور یزید کو کون خلیفہ کہتا ہے.خلیفہ کے دو معنی ہیں ایک سلطان کے اور دوسرے اسلامی امیر کے.وہ بمعنے سلطان خلیفہ بیشک تھے مگر اسلامی اصطلاح کے مطابق وہ خلیفہ نہ تھے کیونکہ جن شرائط کے ماتحت اس قسم کا خلیفہ ہوسکتا ہے وہ ان میں نہیں پائی جاتی تھیں“.(الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۲۲ء)

Page 614

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم مبائعین اور غیر مبائعین میں فرق ” ہم میں اور غیر مبائعین میں فرق یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں خلیفہ کی کوئی ضرورت نہیں اور ہم لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کے احکام کے مطابق ایک خلیفہ ہونا ضروری ہے جو اپنے متبوع کے دائرہ عمل میں اس کے احکامات اور مقاصد کو پورا کرے.سورۃ نور میں اللہ تعالیٰ ایسے وجودوں کا ہونا ضروری اور اپنے انعامات اور برکات میں سے قرار دیتا ہے اور وہ لوگ جو اس نعمت کو اپنے ہاتھ سے ضائع کرتے ہیں ان کے متعلق فرمایا من كفر بعد ذلِكَ فَاركَ هُمُ الفسقون اصل اختلاف تو یہی ہے.باقی جب اختلاف پیدا ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ تنافر کی وجہ سے ہر ایک چیز میں اختلاف ہونے لگ جاتا ہے.اس اختلاف کے نتیجہ میں بعض عقائد میں بھی اختلاف پیدا ہو گیا ہے.مثلاً وہ کہنے لگ گئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی نہیں تھے اور ان کا فیصلہ ہر حالت میں ہمارے لئے حجت نہیں.بلکہ وہی فیصلہ قابل حجت ہے جو کہ وحی سے ہو اور پھر وحی بھی وہی قابل حجت ہے جو زید یا بکر کے خیال کے مطابق ، مطابق قرآن وحدیث ہو جائے.“ ( الفضل ۲۱ رمئی ۱۹۲۵ء ) النور : ۵۶

Page 615

خلافة على منهاج النبوة ۶۰۱ جلد سوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت خلافت کے جھگڑے کا میں پہلے ذکر کر آیا ہوں.انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے اس کا مطلب وہی ہے جو جانشینوں کا ہوا کرتا ہے.ہر ایک شخص جس کے سپر د کوئی کام ہوتا ہے وہ اس شخص کا جانشین ہوتا ہے.جانشین اور قائم مقام کے ایک ہی معنی ہیں.جانشین کے معنی ہیں کسی کی جگہ بیٹھنے والا اور قائم مقام سے مراد کسی کی جگہ کھڑا ہونے والا.آگے پھر مختلف حیثیتیں اور عہدے ان کے ہیں.ایک چپڑاسی بھی گورنمنٹ کا قائم مقام ہے اور ایک تحصیلدار بھی قائم مقام ہے.سپاہی جس وقت کسی سرکاری کام کیلئے کسی دروازہ پر دستک دے کر یہ کہتا ہے کہ بنام سر کا ر دروازہ کھول دو تو اس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہوتے کہ اس کے اوپر کوئی اور افسر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں سے ثابت ہے کہ آپ کے بعد اس رنگ میں خلافت کا سلسلہ قائم کیا جائے گا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قائم کیا گیا اور یہ کہ آپ کے خلفاء واجب الا طاعت ہوں گے اور سلسلہ کے حقیقی نمائندے وہی ہوں گے.جس امر کے متعلق کسی غیر جماعت نے احمدی جماعت سے بحیثیت جماعت فیصلہ کرنا ہے تو ایسے امور کو وہ انہیں خلفاء سے طے کر سکے گی نہ کہ کسی انجمن سے یا اور دوسرے افراد سے.پس جو بھی انجمن یا افراد سلسلے کے ہوں جن کے سپر د کوئی کام ہو اور وہ کسی دائر عمل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جانشین ہوں تو وہ سب اپنی اپنی جگہ پر ان کے جانشین کہلائیں گے.مگر سب خلیفہ کے ماتحت ہوں گے اور اس کی رائے اور منشاء کے ماتحت کام کریں گے.انجمن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی آپ کی جانشین تھی.اگر آپ کی زندگی میں وہ آپ کی اطاعت سے باہر نہیں ہوئی تو آپ کی وفات کے بعد آپ کے خلفاء کی اطاعت سے باہر نہیں ہوسکتی.“ الفضل ۲۱ مئی ۱۹۲۵ء)

Page 616

خلافة على منهاج النبوة ۶۰۲ جلد سوم خلافت ماموریت اور خلافت نیابت ایک غیر مبائع نے سوال کیا کہ :.حضرت صاحب خدا کے مقرر کردہ خلیفہ تھے کیا اسی طرح آپ بھی خدا کے مقرر کردہ خلیفہ ہیں ؟ اگر یہ درست ہے تو حضرت صاحب کی ماموریت میں اور آپ کی ماموریت میں کیا فرق ہے؟ جواب :.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کے مقرر کردہ خلیفہ تھے اور میں بھی خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ ہوں لیکن تقر را الگ الگ قسم کے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تقرر بذریعہ الہام اور وحی کا تھا اور میرا تقرر جماعت کے لوگوں کی زبانوں پر تصرف کر کے.گویا وہ وحی جلی کے ذریعہ تھا اور یہ وحی خفی کے ذریعہ.جتنا عظیم الشان فرق وحی جلی اور خفی میں ہوتا ہے اتنا ہی فرق میری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت میں ہے.حضرت مسیح موعود کی خلافت خلافت ماموریت تھی اور میری خلافت خلافت نیابت ہے.آپ جانتے ہیں کہ ایک پٹواری بھی گورنمنٹ کا مقرر کردہ ہوتا ہے اور ایک وائسرائے بھی گورنمنٹ کا مقرر کردہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی بڑا فرق ہوتا ہے“.( الفضل ۴ مارچ ۱۹۲۷ء )

Page 617

خلافة على منهاج النبوة ۶۰۳ جلد سوم حقوق خلافت ایک فرد کو حاصل ہیں یا پوری قوم کو ایک دوست نے سوال کیا کہ :.آیت استخلاف میں حقوق خلافت صرف ایک فرد کو حاصل ہیں یا قوم کی قوم کو؟ جواب :.اس میں دونوں خلافتیں شامل ہیں.جزوی خلافت بھی شامل ہے جس میں خلافت نبوت اور خلافت نیابت دونوں شامل ہیں اور قومی خلافت بھی شامل ہے کیونکہ جس قوم میں خلفاء ہوتے ہیں وہ بھی خلیفہ ہوتے ہیں.جس قوم میں بادشاہ ہوتے ہیں وہ قوم بھی بادشاہ ہوتی ہے“.( الفضل ۱۱ مارچ ۱۹۲۷ء )

Page 618

خلافة على منهاج النبوة ۶۰۴ جلد سوم وو ناقصات العقل والدین ہونے کا مطلب مجلس عرفان ۴ / دسمبر ۱۹۲۹ء بعد نماز مغرب ) حدیث میں آتا ہے کہ عورتیں ناقصات العقل وَالدِّينِ ہیں اس کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا :.اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں میں فطری کمزوری ہے جس کی وجہ سے وہ نبی، امام ، اور خلیفہ نہیں بن سکتیں.اگر اس کا یہی مفہوم ہوتا جو آجکل سمجھا جاتا ہے کہ عورتیں کم عقل ہوتی ہیں اور دین میں ناقص تو صحابہ کرام رضی الله منظم ازواج مطہرات سے کبھی مشورہ نہ لیتے.حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دین کا بہت سارا حصہ مروی ہے.دیکھو حضرت عائشہ نے لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے کیسے اعلیٰ معنی بیان کئے جن سے موجودہ زمانہ کے عظیم الشان مأمور نے بھی فائدہ اٹھایا.مردوں میں سے جہاں اس بارے میں بڑے بڑے ائمہ اور علماء، فضلاء نے ٹھوکر کھائی وہاں ایک عورت نے ایسی اعلیٰ راہنمائی کی جس سے آج بھی ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں.پس حدیث کا یہ مفہوم نہیں کہ عورتوں کی عقل ناقص ہوتی ہے اور وہ مشورہ دینے کے قابل نہیں ہوتیں.بلکہ مطلب یہ ہے کہ عورت کا رحم کا پہلو غالب ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ مرد کی طرح با اختیار اور خود مختار حاکم نہیں بن سکتی اور نہ نبی اور خلیفہ ہوسکتی ہے.کیونکہ نبوت اور خلافت میں قوت حاکمانہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو عورتوں میں طبعا کم ہے اس لئے اگر خلیفہ یا بادشاہ بن جائیں تو ایسے مواقع پر جہاں جابرانہ احکام نافذ کرنے کی ضرورت ہو کمزوری دکھا ئیں.ملکہ وکٹوریہ کے متعلق ثابت ہے کہ جب کسی کو پھانسی وغیرہ کا حکم دینا پڑتا تو اُس وقت نرمی دکھاتی اور انتہائی رحمدلی سے کام لیتی اور یہ بات تمام عورتوں

Page 619

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم میں ہے.پس چونکہ حاکمانہ قوت جس میں سخت احکام بھی نافذ کرنے پڑتے ہیں عورتوں میں نہیں ہے اس لئے وہ ایسے موقعوں پر کمزوری اور نرمی دکھاتی ہیں جس سے حکومت میں خلل واقع ہونے کا اندیشہ ہے.لہذا عورت کو ناقص العقل والدین کہنے سے شریعت کی مراد یہ ہے کہ وہ سختی اور خشونت سے کام نہیں کراسکتیں جس طرح مرد کرا سکتے ہیں.یہ ایک فطری کمزوری ہے.عرض ایک حدیث کا مطلب کیا گیا کہ ایک حدیث میں صاف طور پر آیا ہے کہ إِذَا كَانَ أَمْرُكُمْ شُورَى بَيْنَكُمْ فَظَهُرُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَّكُمْ مِنْ بَطْنِهَا وَإِذَا كَانَ أُمُورُ كُمْ إِلَى نِسَائِكُمْ فَبَطْنُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَّكُمْ مِنْ ظَهْرِهَا که جب تمہارے معاملات کی باگ ڈور عورتوں کے ہاتھ میں ہو تو تمہارے لئے اس وقت مرجانا بہتر ہے.فرمایا :.حدیث نے خود ہی تشریح کر دی ہے کہ عورتیں خود مختار ریس اور بادشاہ نہیں بن سکتیں یعنی اس سے مراد عورت کا بادشاہ ہونا ہے کہ اگر کوئی عورت تمہاری حاکم ہو جائے اور بکلی تمام سیاہ وسفید کی وہی مالک ہو تو اُس وقت حکومت تباہ ہو جائے گی.اس سے عورتوں سے مشورہ لینے کی نفی کہاں سے نکلی؟ ہاں شوری میں عورت حاکم نہیں ہوسکتی عورتوں کی طرف سے نمائندہ بن کر مشورہ دے سکتی ہے.چھوٹا دماغ عرض کیا گیا کہ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ عورت کا دماغ مرد کی نسبت فرمایا:.چھوٹا ہوتا ہے.دماغ کے چھوٹے اور بڑے ہونے سے اخلاق اور عقل کو کوئی تعلق نہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ہر بڑے دماغ والا ہر بات اچھی کرے.بعض دفعہ چھوٹی عقل والے بڑا کام کر جاتے ہیں.پس مشورہ دینے میں عورت کی عقل ہر گز کمزور نہیں مردوں کی طرح عورتیں بھی مشورہ دینے کی اہل ہیں.

Page 620

خلافة على منهاج النبوة ۶۰۶ جلد سوم عورت صدیق بن سکتی ہے عرض کیا گیا کیا صورت صدیق بن سکتی ہے؟ فرمایا :.کیوں نہیں حضرت مریم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں صدیقہ تھیں.صدیقیت ایک الگ مرتبہ ہے اور خلافت الگ.خلافت میں بعض دفعہ بختی کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو عموماً عورتوں میں نہیں اس لئے خلیفہ نہیں ہو سکتیں.عورت قاضی بن سکتی ہے؟ عرض کیا گیا کیا عورت قاضی بن سکتی ہے؟ فرمایا:.ہاں بن سکتی ہے.اس پر عرض کیا گیا قاضی ہونے کی صورت میں حدود اور قصاص کے مقدمات میں عورت فیصلہ کرتے وقت کمزوری نہ دکھائے گی ؟ فرمایا:.آگے اپیل کا دروازہ کھلا ہے.عورت حاکم اعلیٰ نہیں بن سکتی ماتحتی میں درجے اور عہدے حاصل کر سکتی ہے.یعنی عورت بادشاہ یا خلیفہ کے ماتحت کسی منصب پر مامو ہوسکتی ہے.( الفضل ۱۷ دسمبر ۱۹۲۹ء ) جامع الترمذى كتاب الفتن باب متى يكون ظهر الارض خيرا من بطنها صفحه ۵۲۱ حدیث نمبر ۲۲۶۶ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولیٰ

Page 621

خلافة على منهاج النبوة ۶۰۷ جلد سوم خلافت کے مدارج مولوی امام دین صاحب :.خلافت بھی صد یقیت ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی خلافت کے متعلق درجے ہیں.کوئی خلیفہ نبی ہوگا ، کوئی خلیفہ صدیق ، کوئی شہید اور کوئی صالح.خلافت کے زمانہ میں بھی مسلمانوں کو ایک سخت غلطی لگی اور وہ یہ کہ لوگ سمجھ لیتے ہیں ہمارا سب بار ایک شخص پر پڑ گیا جو خلیفہ ہے.حالانکہ خدا تعالیٰ نے ہر مومن کو خلیفہ بنایا ہے كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، ہر مومن اپنے دائرہ میں خلیفہ ہے.عہدہ والی خلافت تو ایک ہی کیلئے ہوتی ہے لیکن عہدہ کے بغیر خلافت ہر مومن کو حاصل ہے اور ہر خلیفہ کو یہ درجے حاصل ہو سکتے ہیں“.( الفضل ۲ مئی ۱۹۳۳ء ) بخاری کتاب الاحكام باب قول الله تعالى أطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُول صفحه ۱۲۲۹ حدیث نمبر ۷۱۳۸ مطبوع رياض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية

Page 622

خلافة على منهاج النبوة ۶۰۸ جلد سوم حضرت مسیح موعود کے سلسلہ خلافت سے مراد ( ملفوظات ۶ فروری ۱۹۴۴ء غیر مطبوعہ ) سوال :.حضرت مسیح موعود کے سلسلہ خلافت سے کیا مراد ہے؟ جواب:.پہلے لوگوں نے بھی خلافت کے مسئلہ کے متعلق غلطی کھائی ہے اور ہماری جماعت بھی کھا رہی ہے.یا د رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میں جس خلافت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ اُس وقت تک کیلئے ہے جب تک کہ مومنوں کی عمل صالح رکھنے والی جماعت ہوگی.جب جماعت میں خرابی پیدا ہو جائے گی یا نقص آئے گا خلافت اپنی شکل بدل لے گی اور اس کے بعد حقیقی خلافت نہیں رہے گی اور وہ پھر تبھی قائم ہوگی جب کوئی مامور آئے گا اور ایسا مامورا ایسے وقت میں آئے گا جس وقت اسلامی خلافت اپنی شکل بدل چکی ہوگی.تو جب جماعت میں خرابی پیدا ہو جائے گی تو خلافت خلافت نہیں رہے گی بلکہ بادشاہت یا کوئی اور رنگ اختیار کر لے گی تو وعد الله الّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الأرضے میں وعدہ اس شرط کے ساتھ کیا گیا ہے کہ جب کبھی اعمال صالح رکھنے والی جماعت ہوگی یعنی ان میں مومنوں کی اکثریت ثابت ہو جائے تو ان میں خلافت رہے گی.اگر اس میں مومنوں کی اکثریت ثابت نہیں ہوگی تو پھر یہ خلافت خلافت نہیں ہوگی.جس وقت تک یہ بات رہے گی خلافت قائم رہے گی اور جس وقت تفرقہ پڑ جائے گا جیسے کہ پہلے زمانہ میں مسلمانوں میں ہوا اور عملی طور پر مسلمانوں کی حالت میں نقص آ جائے تو پھر وہ خلافت سے محروم کئے جاتے ہیں.محض خلیفہ کہلانے سے کوئی خلیفہ نہیں ہو جاتا جیسے ترکوں کا بادشاہ خلیفہ کہلاتا رہا ہے.ایسا آدمی دنیا وی بادشاہ ہوتا ہے اور خلیفہ کہلانے کے با وجو د خلیفہ

Page 623

خلافة على منهاج النبوة جلد سوم نہیں ہو گا.جس وقت اس کا اس شخص سے ٹاکرا ہو گا جو خدا کی طرف سے آئے گا تو مؤخر الذکر ہی جیتے گا.اب خدا نے جو وعدہ کیا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں میں خلافت ہمیشہ جاری رہے گی بلکہ وعدہ یہ ہے کہ جب تک مومنوں اور اعمالِ صالح رکھنے والے لوگوں کی اکثریت ہوگی وہ کبھی خلافت کے انعام سے محروم نہیں ہو سکتے.اس کے معنی یہ نہیں کہ اگر جماعت میں خرابی بھی آجائے تو بھی اس میں خلیفہ آتے رہیں گے.ہمیشہ اکثریت کو دیکھا جاتا ہے جب قوم میں اکثریت مومنوں اور اعمالِ صالح رکھنے والوں کی ہوگی تو ان میں خلافت ضرور ہوگی.جس وقت تک قوم میں یہ روح رہے گی خلافت ضرور قائم ہوگی مگر جب یہ روح مٹ جائے گی تو چاہے اس کا نام خلیفہ ہو وہ خلافت نہیں ہو سکتی.چاہے یہ سوال :.کیا وہی خلیفہ ہوگا اور وہی مجدد؟ جواب :.مجد د یت چلتی جاتی ہے اُس وقت صدی کا سر بھی ضروری نہیں ہوگا جس وقت جماعت میں یہ انتظام قائم رہے گا اور ایسا تسلسل جاری رہے گا تو اُس وقت ہر خلیفہ مجد د ہو گا یه تسلسل ۲۰۰ یا ۳۰۰ سال تک کیوں نہ جاری رہے صدی کا سرضروری نہیں ہوگا.مگر جب خرابی ہو گی تو پھر آئندہ مسجد دصدی کے سر پر ہی آئے گا اور وہ خلیفہ نہیں ہوگا.اُس وقت خلافت نام کی ہی ہوگی.اور جب نظام خلافت سے باہر مجدد آئیں گے تو اُس وقت نام نہاد خلفاء ان کا مقابلہ کریں گے مگر خدا اس کو ہی فتح دے گا اور نام نہا د خلفاء شکست کھا ئیں گے“.غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ) النور: ۵۶

Page 624

خلافة على منهاج النبوة ۶۱۰ جلد سوم امام کی مجلس میں بیٹھنے کے ضروری آداب فرموده ۲۸ مئی ۱۹۴۴ء بعد نماز مغرب ) سوال کرنے کی ممانعت میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ دین اور خدا کا قرب اتنا باتوں سے حاصل نہیں ہوتا جتنا کہ دل کی صفائی کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کی محبت سے حاصل ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے بھی زیادہ سوالات کرنے سے منع فرمایا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ آپ جب مجلس میں بیٹھتے تو بعض دفعہ ستر ستر دفعہ استغفار کرتے چلے جاتے تھے.اگر وہ ایسی ہی مجلس ہوتی جیسی ہماری مجلس ہوتی ہے تو ستر دفعہ استغفار کرنے کا آپ کے لئے موقع ہی کون سا نکل سکتا تھا کوئی اُدھر سے کہتا کہ فلاں بات کس طرح ہے اور کوئی ادھر سے بولتا کہ فلاں مسئلہ کس طرح ہے.یہ طریق کبھی بھی روحانیت کی صفائی اور اس کی ترقی کے لئے مفید نہیں ہوتا.امام اگر باہر مجلس میں بیٹھتا ہے تو صرف اس لئے آکر نہیں بیٹھتا کہ وہ سوالوں کا جواب دیتا رہے بلکہ اگر مجلس میں بیٹھ کر لوگ ذکر الہی کریں اور اپنے قلوب کی صفائی کا خیال رکھیں اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید بجالائیں تو یہ چیز سوالات سے بہت زیادہ اہم اور بہت زیادہ مفید نتائج پیدا کرنے والی ہوتی ہے.مجلس کو ڈیبیٹنگ کلب بنا دینا ہرگز مؤمنوں کا شیوہ نہیں.خدا تعالیٰ کے ماموروں اور ان کے خلفاء اور مصلحین کا کام ڈیبیٹنگ کلب میں بیٹھنا نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی محبت کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے اس لئے وہی شخص ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو مجلس میں خاموشی کے ساتھ بیٹھے ، اپنے قلب کو ہر قسم کے دُنیوی مالوفات سے پاک کر دے اور اسے اس طرح خالی کرے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور نازل ہو تو اس کا

Page 625

خلافة على منهاج النبوة ۶۱۱ جلد سوم دل اس نور کو قبول کرنے کیلئے تیار ہو.ضمنی طور پر کوئی سوال کرنا منفی طور پر کبھی بھی کوئی سوال پوچھ لینا منع نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لوگ سوالات پوچھ لیتے تھے.قرآن کریم نے بھی سوالات کرنے سے کلیتہ نہیں روکا صرف یہ فرمایا ہے کہ اس رنگ میں جو نا پسندیدہ ہو سوال نہیں کرنا چاہئے ورنہ اگر امام لوگوں کے سوالات کا جواب ہی دیتا رہے تو یہ صورت بن جاتی ہے کہ گو یا مقتدی امام کے اختیارات کو چھین گویا رہے ہیں.حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ امام خود فیصلہ کرے کہ اس نے کیا بات کہنی ہے نہ یہ کہ لوگ اسے اپنی مرضی کے مطابق باتیں کرنے پر مجبور کریں.آخر ایک شخص کو لیڈر بنایا ہی کیوں جاتا ہے اس لئے کہ وہ لوگوں کی راہنمائی کرے.یہ نہیں ہوتا کہ لوگ لیڈر کی راہنمائی کرنے لگ جائیں.پھر اگر لوگ اپنے امام اور لیڈر کو اپنی مرضی کے مطابق بولنے ہی نہ دیں تو راہنمائی کا فرض وہ کس طرح سرانجام دے سکتا ہے.یہ تو امام کے دل میں خدا تعالیٰ نے ڈالنا ہے کہ کونسی باتیں قلب کی صفائی کے لئے ضروری ہیں اگر اس کو موقع ہی نہیں ملے گا اور لوگ اپنے مشغلہ میں مشغول رہیں گے تو وہ خاموش رہے گا یہاں تک کہ وہ وقت آ جائے گا جو اعمال کے نتائج ظاہر کرنے کا ہوتا ہے.اور چونکہ لوگوں نے محض باتوں میں اپنے وقت کو ضائع کر دیا ہو گا عملی رنگ میں اصلاح اور تربیت اور تزکیہ کے طور پر کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا ہو گا اس لئے نتائج ان کے خلاف نکلیں گے اور وہ کفِ افسوس ملتے رہیں گے.پھر عام طور پر لوگوں کے سوالات محض ایسے ہوتے ہیں جو دماغی تعیش بے جا سوالات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یا اس قسم کے ہوتے ہیں جن میں روحانیت کی طرف کم اور مادیت کی طرف زیادہ میلان پایا جاتا ہے.حالانکہ اصلاح نفس کے لئے ان مضامین کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے جن کا روحانیت کے ساتھ تعلق ہے.باقی مسائل پر روشنی ڈالنے کے لئے سلسلہ کے علماء موجود ہیں ان سے اس قسم کے مسائل پوچھنے چاہئیں نہ یہ کہ جو سوال دل میں پیدا ہو وہ براہِ راست امام سے دریافت کرنا شروع کر دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی یہی طریق تھا کہ جب آپ سے کوئی دوست کسی

Page 626

خلافة على منهاج النبوة ۶۱۲ جلد سوم مسئلہ کے متعلق دریافت کرتا تو آپ حضرت خلیفہ اول سے فرماتے کہ مولوی صاحب یہ مسئلہ اس کو سمجھا دیں.اور واقعہ میں ہماری مجلس کوئی مدرسہ تو نہیں کہ جس میں لوگوں کے سوالات کا جواب دینے کے لئے ہم آجاتے ہیں اس غرض کے لئے علماء اور مدرس مقرر ہیں اور وہ اپنی اپنی جگہ سوالات پوچھنے والوں کی تشفی کر سکتے ہیں.صحابہ کرام کی احتیاط صحابہ تو اس بارہ میں اس قدر احتیاط سے کام لیا کرتے تھے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم بدویوں کا انتظار کیا کرتے تھے کہ وہ کب آتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات دریافت کرتے ہیں.گویا ادب کی وجہ سے وہ خود سوال کرنے کی جرات ہی نہیں کرتے تھے.قادیان سے باہر رہنے والوں کی معذوری بددی کے معنی باہر سے آنے والے کے ہیں.آجکل کے حالات کے لحاظ سے وہ لوگ جو قادیان سے باہر رہتے ہیں اور جنہیں یہاں بہت کم آنے کا موقع ملتا ہے وہ اگر ایسے سوالات کر لیں تو معذور سمجھے جاسکتے ہیں.مثلاً وہ یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ وضو کا مسئلہ کس طرح ہے یا طہارت کا کیا طریق ہے؟ اور ان کے لحاظ سے اس قسم کے سوالات طبیعت پر گراں بھی نہیں گزرتے کیونکہ وہ عموماً باہر رہتے ہیں اور انہیں ان مسائل کی واقفیت نہیں ہوتی لیکن وہ لوگ جو قادیان میں رہتے ہیں ان کو اس قسم کے سوالات میں کیا وقت پیش آسکتی ہے کہ انہیں سوائے اس مجلس کے سوالات کرنے کے لئے اور کوئی جگہ ہی نہیں ملتی.قادیان میں کئی علماء موجود ہیں کئی دینی علم رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں اور وہ ان سوالات کو بخوبی حل کر سکتے ہیں.پھر وجہ کیا ہے کہ ایک شخص ان سے تو نہیں پوچھتا اور اس مجلس میں آکر سوال کر دیتا ہے.مجلس میں بیٹھنے کی غرض حالانکہ یہ مجلس اس لئے قائم کی گئی ہے اور میں محض اس لئے باہر آکر بیٹھتا ہوں کہ آنے والی جنگ سے پہلے دوستوں کو اس کے لئے تیار کر دوں.مگر میں تو لوگوں کو جنگ کے لئے تیار کرنا چاہتا ہوں اور لوگ مجھے گھسیٹ کر کسی اور میدان میں لے جاتے ہیں.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے جنگ میں

Page 627

خلافة على منهاج النبوة ۶۱۳ جلد سوم بجائے اس کے کہ جرنیل کو دشمن کی فوج پر حملہ کرنے کا موقع دیا جائے اس کی اپنی فوج کے سپاہی اسے گھسیٹ کر کبھی ایک طرف لے جائیں اور کبھی دوسری طرف لے جائیں.ظاہر ہے کہ سپاہی کا یہ کام نہیں کہ وہ جرنیل کو گھسیٹے بلکہ جرنیل کا یہ کام ہے کہ وہ سپاہیوں کو لے کر دشمن کی فوج کی طرف بڑھے اور ان سے مناسب کام لے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم سوالات کرنے سے بالکل رُک جاؤ مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ سوالات ایسے ہی ہونے چاہئیں جو اس مجلس کے مناسب حال ہوں اور جو دوسرے علماء سے نہ پوچھے جاسکتے ہوں.اگر ایسے سوالات ہوں جن کے جوابات ہمارے سلسلہ کے دس ہیں بلکہ پچاس علماء دے سکتے ہوں تو اس مجلس میں وہ سوالات پیش کر کے وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے“.( الفضل ۷ جون ۱۹۴۵ء )

Page 628

خلافة على منهاج النبوة ۶۱۴ جلد سوم اسلامی خلفاء کے زمانہ میں عوام کی ضروریات زندگی کا خاطر خواہ انتظام ( ملفوظات فرموده ۱۵ ستمبر ۱۹۴۶ء بعد نماز مغرب ) ۱۵/ ستمبر ۱۹۴۶ء بعد نماز مغرب حضور نے اسلامی خلفاء کے زمانہ میں عوام کی ضروریات زندگی کے خاطر خواہ انتظام کے متعلق فرمایا : - اسلامی خلفاء کے زمانہ میں اس قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے یہ طریق جاری تھا کہ انہوں نے ہر ایک کے لئے غلہ ، کپڑا اور دوسری ضروریات زندگی کا خاطر خواہ انتظام کیا ہوا تھا اور ان کے زمانہ میں یہ طریق پوری تنظیم کے ساتھ جاری رہا.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں پورے طور پر مردم شماری کی گئی اور آپ نے فیصلہ فرمایا کہ ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق غلہ اور کپڑ ا سال بھر کے لئے دے دیا جائے.اس کے نتیجہ میں وہ لوگ جن کے پاس زمینیں نہ تھیں وہ بھی نہایت فارغ البالی کے ساتھ دن بسر کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم بھو کے اور ننگے نہیں رہیں گے.پہلے تو میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یقینی طور پر نہیں جانتا تھا کہ آپ نے اس طریق کار پر عمل کیا تھا یا نہیں لیکن انہی دنوں جبکہ میں مولوی محمد یعقوب صاحب کو ترجمۃ القرآن کا دیباچہ لکھوا رہا تھا مجھے تلاش کرتے کرتے یہ حوالہ بھی مل گیا اور مجھے از حد خوشی ہوئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی پر عمل کیا ہے.بحرین عرب کا ایک علاقہ ہے جو بہت خوشحال ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں تبلیغ کے لئے ایک مبلغ بھیجا.اس نے وہاں اسلام کی تبلیغ کی جس کے نتیجہ

Page 629

خلافة على منهاج النبوة ۶۱۵ جلد سوم میں وہاں کا بادشاہ مسلمان ہو گیا.مسلمان ہونے کے بعد اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لکھا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں.کچھ لوگ میری حکومت میں ایسے ہیں جو مسلمان نہیں ہیں ان سے کیا سلوک کیا جائے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا خط جب ملا تو آپ نے اس کو لکھوایا کہ جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے خواہ وہ مجوسی ہوں یا عیسائی ہوں یا بت پرست ہوں ان کے مذہب میں دخل دینا جائز نہیں ان کا فرض ہے کہ وہ گورنمنٹ کے ٹیکس ادا کریں اور تم اپنے ملک کا جائزہ لو اور ایسے تمام لوگ جن کے پاس زمینیں نہیں ہیں ان کے غلے اور کپڑے کے لئے چار روپیہ مہینہ کا انتظام کرو“ لے زرقانی جلد ۵ صفحه ۳۶ حاشیہ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء ( الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۰ء )

Page 630

خلافة على منهاج النبوة ۶۱۶ جلد سوم رض حضرت معاویہ خلیفہ تھے یا بادشاہ؟ ( ملفوظات ۶ دسمبر ۱۹۴۶ء ) ایک دوست نے عرض کیا کہ حضرت معاویہؓ کے متعلق کیا عقیدہ رکھا جائے ، آیا وہ خلیفہ تھے یا بادشاہ؟ حضور نے فرمایا:.ہم ان کو ایک نیک بادشاہ سمجھتے ہیں.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیزوں میں سے تھے اور آپ کے صحابہ میں شامل تھے لیکن جس خلافت کا آیت استخلاف میں وعدہ کیا گیا ہے اس میں وہ شامل نہ تھے.یہ خلافت حضرت علی تک ہی رہی اور پھر ختم ہوگئی.( الفضل ۳ امتی ۱۹۶۱ء )

Page 631

خلافة على منهاج النبوة ۶۱۷ جلد سوم حضرت علی رضی اللہ عنہ مدینہ چھوڑ کر عراق کیوں تشریف لے گئے تھے؟ فرموده ۱۷ فروری ۱۹۴۷ء بمقام قادیان ) چند دن ہوئے کچھ آدمی لاہور سے آئے ہوئے تھے انہوں نے مجھ سے بعض سوالات کئے جن میں سے ایک سوال یہ تھا کہ حضرت علی مدینہ چھوڑ کر عراق کی طرف کیوں چلے گئے تھے؟ یہ ایک ایسا تاریخی سوال ہے جس کے متعلق ہمیشہ ہی مختلف آراء رہی ہیں اور لوگوں کے دلوں میں بار بار یہ سوال پیدا ہوتا رہا ہے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ آپ عراق تشریف لے گئے جبکہ مدینہ اسلام کا مرکز تھا.بعض لوگوں نے اپنی نادانی سے یہ خیال کیا ہے کہ انہوں نے مدینہ کو اس لئے چھوڑا کہ آپ ڈرتے تھے کہ مدینہ کے لوگ میری زیادہ مخالفت کریں گے اور چونکہ عراق کے لوگوں سے آپ کو زیادہ ہمدردی کی امید تھی اس لئے آپ وہاں چلے گئے.قطع نظر اس سے کہ عراق کے لوگوں کو آپ سے ہمدردی تھی مدینہ کے لوگوں کی مخالفت کا خیال بالبداہت باطل ہے.تاریخ سے ثابت ہے کہ انصار کو حضرت علی سے بالخصوص محبت تھی اور مدینہ در حقیقت انصار کا ہی شہر تھا اس لئے یہ خیال بالکل غلط ہے.باقی رہی عراق والوں کی ہمدردی سو یہ بھی درست ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ حضرت عثمان کے قاتل تھے وہ یا تو مصر کے رہنے والے تھے یا عراق کے رہنے والے.مصر میں عبداللہ بن سبا ان کا سردار تھا اور وہی اس فتنہ کا بانی مبانی تھا.در حقیقت وہ مصری فلسفہ کا معتقد تھا اور اسے اسلام

Page 632

خلافة على منهاج النبوة ۶۱۸ جلد سوم.سے کوئی دلی رغبت نہ تھی.جب اسلام مختلف ممالک میں پھیلا تو وہ بھی مسلمان ہو گیا مگر اندرونی طور پر نظام خلافت کے خلاف جدو جہد شروع کر دی اور ایسے اعتقادات بھی پھیلا نے شروع کر دیئے جو اسلام کے خلاف تھے.مثلاً اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے.دراصل وہ تناسخ کا قائل تھا مگر آدمی بڑا ذہین اور ہوشیار تھا.اگر وہ یوں کہتا کہ تناسخ درست ہے تو لوگ جوش میں آجاتے مگر اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح دوبارہ دنیا میں آئے گی.اب کون ایسا انسان ہے جو اس کی مخالفت کر سکے.ہر شخص کہے گا کہ کاش ایسا ہی ہو اور ہم پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں دیکھ سکیں.اس نے چالا کی یہ کی کہ قرآن کریم کی وہ پیشگوئیاں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں دوبارہ آنے کے متعلق تھیں یا وہ پیشگوئیاں جو آپ کی بعثت ثانیہ سے تعلق رکھتی تھیں جیسے سورۃ جمعہ میں پیشگوئی ہے ان میں استدلال کر کے وہ اپنے عقیدے کو تقویت دیتا اور کہتا کہ ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ آنے کا ذکر ہے.لوگ محبت رسول کی وجہ سے اس کی ان باتوں سے خوش ہو جاتے اور وہ حقیقت کی تہ تک پہنچنے کی کوشش نہ کرتے.اسی طرح قرآن کریم کی یہ آیت کہ اِنّ الّذي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآن ترادك إلى معاد اس سے وہ یہ استدلال کرتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے.حالانکہ اس میں فتح مکہ کی پیش گوئی تھی اور مکہ ہی معاد تھا کیونکہ وہ عربوں کا مرجع تھا اور ہمیشہ حج کے لئے لوگ مکہ میں آتے جاتے تھے.بہر حال وہ لوگ جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی مگر انہوں نے آپ کو دیکھا نہ تھا وہ ان باتوں سے خوش ہوتے اور کہتے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لاویں.غرض عبد اللہ بن سبا اپنے اندر ایک بہت بڑے فتنہ کی روح رکھتا تھا اور اس نے لوگوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسانے کے لئے اِدھر اُدھر آدمی بھیجے تو عراق کے لوگوں میں اس نے بے چینی اور اضطراب محسوس کیا اور اس نے سمجھا کہ اگر میرے مفید مطلب کوئی لوگ : ہو

Page 633

خلافة على منهاج النبوة ۶۱۹ جلد سوم وو 9966 سکتے ہیں تو وہ عراق کے لوگ ہی ہیں.در حقیقت عراق کے لوگوں میں بے چینی اور اضطراب کی وجہ یہ تھی کہ ایرانیوں سے جنگ کرنے کے بعد جب عرب افواج واپس لوٹیں تو انہیں عرب میں واپس جانا پسند نہ آیا کیونکہ وہ دنیا کے دوسرے ممالک میں رہ کر ترفہ اور خوشحالی کی زندگی بسر کرنے کی عادی ہو چکی تھیں.گویا ان کی مثال بالکل ویسی ہی تھی جیسے پرانے زمانہ میں جب کوئی یورپ جاتا تو اس کی حالت ہو جاتی.اب تو یورپ میں آنا جانا ایک روز مرہ کی بات ہوگئی ہے اور اس میں کوئی عجوبہ نظر نہیں آتا لیکن پرانے زمانہ میں جب کوئی بیرسٹر یورپ سے واپس آیا کرتا تھا تو وہ یہ نہیں کہتا تھا کہ ہم یوں کریں گے بلکہ جب اسے ہندوستانیوں سے گفتگو کرنے کا موقع ملتا تو وہ اس انداز میں کلام کیا کرتا کہ ” ہم لوگ یوں بولتا ، تم لوگ یوں کہتا “ اور بعض کے متعلق تو یہاں تک لطیفہ بن جاتا کہ خواہ ان کا اپنا رنگ کتنا ہی کالا ہوتا وہ دوسروں کو اپنی انگریزیت جتانے کے لئے یہ کہتے کہ تم کالا لوگ یوں ہوتا ہے.اسی طرح اہل عرب کی زندگی بالکل سادہ تھی ان کا کھانا پینا اور پہنا بالکل سادہ تھا.جب قیصر و کسریٰ کی حکومتوں پر وہ حملہ کرنے کے لئے گئے تو صحابہ نے تو ان سے کوئی خاص اثر قبول نہ کیا کیونکہ وہ خود بھی متمدن زندگی بسر کرتے تھے.مگر بدوی لوگ جب ادھر انکا اور ادھر ایران کی سرحدوں پر پہنچے اور ان گوہ کھانے والوں اور اونٹنی کا دودھ پی پی کر گزارہ کرنے والوں نے دیکھا کہ دنیا میں بڑے بڑے محلات ہیں، کمروں میں قالینیں بچھی ہوئی ہیں ، آفتابوں میں ہاتھ دھلائے جاتے ہیں ، دستر خوانوں پر کھانے کھلائے جاتے ہیں تو انہیں واپس جانا سخت گراں گزرا اور انہوں نے سمجھا کہ ایسی اعلیٰ زندگی ترک کر کے ہمارے لئے پھر وہی غیرمتمدن زندگی بسر کرنا بالکل ناممکن ہے.چنانچہ ایرانی فوجیں جب فتوحات حاصل کر نے کے بعد واپس لوٹیں تو وہ عرب میں نہیں آئیں بلکہ عراق میں پھیل گئیں کیونکہ اب متمدن زندگی کا نقشہ ان کے سامنے تھا اور وہ شہری زندگی سے متمتع ہونا زیادہ پسند کرتے تھے.دوسری طرف رومی حکومت کو شکست دینے والی فو جیں جب واپس لوٹیں تو وہ بھی عرب کی بجائے فلسطین اور شام وغیرہ علاقوں میں پھیل گئیں کیونکہ فلسطین اور شام کے علاقے

Page 634

خلافة على منهاج النبوة ۶۲۰ جلد سوم اچھے متمدن تھے اور ان میں صنعت و حرفت کا خوب زور تھا.غرض ایک طرف عراق اور دوسری طرف فلسطین اور شام چھاؤنیاں بن گئیں اور اسلامی فوجوں نے ان مقامات پر اپنا ڈیرا ڈال لیا.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب اسلامی حکومت قائم ہوئی اور عراق کا علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا تو حضرت عمر نے فیصلہ فرمایا کہ جس قدر اُفتادہ زمینیں ہیں انہیں محفوظ رکھا جائے لوگوں میں بانٹا نہ جائے.جب ایران سے اسلامی فوجیں واپس لوٹیں تو چونکہ طرز زندگی ان کے ذوق کے مطابق نہیں رہی تھی وہ ان چھاؤنیوں میں بس گئیں اور یکدم بڑے بڑے شہر کوفہ اور بصرہ وغیرہ آباد ہو گئے.لیکن ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو چسکے پڑے ہوئے تھے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ بدویوں میں لوٹ مار بھی ہوتی ہوگی.اگر یہ لوگ واپس مدینہ میں چلے جاتے تو دین کی خدمت کرتے اور دنیا دارانہ خیالات ان کے دماغوں میں پیدا نہ ہوتے.مگر جب یہ واپس لوٹے تو ادھر ان کو کوئی کام نہ رہا اور ادھر ان کی عادتیں خراب ہو چکی تھیں نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ زمینیں ہم میں تقسیم ہو جانی چاہئیں تا کہ ہم ان سے فائدہ اٹھائیں.عراق کے گورنر نے حضرت عمر کو یہ تمام حالات لکھے مگر آپ نے فرمایا میں اس مطالبہ کو منظور نہیں کر سکتا یہ اُفتادہ زمینیں اسی طرح پڑی رہیں تا کہ آئندہ عرب کی ترقی کی سکیم جاری رہے.حضرت عمر کے بعد حضرت عثمان نے بھی ایسا ہی کیا.مگر آپ کے ابتدائی چھ سالہ عہد خلافت میں ایک طرف تو جنگیں ختم ہو گئیں اور دوسری طرف کوئی نیا پروگرام نہ بنا.نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں کی طرف سے مطالبہ بڑے زور سے شروع ہو گیا.حضرت عثمان کو حضرت عمر کی پالیسی ہی پسند تھی اور انہوں نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ ان زمینوں کو بجائے لوگوں میں تقسیم کرنے کے ان کی آمد کو غرباء پر خرچ کیا جائے.اس کے نتیجہ میں لوگوں میں اور زیادہ بے چینی شروع ہوگئی اور انہوں نے گورنروں پر اعتراض کرنے شروع کر دیئے.آخر یہ فتنہ بڑھتے بڑھتے ایسا رنگ اختیار کر گیا کہ تمام عالم اسلامی اس کی لپیٹ میں آگیا اور حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا.اسلام میں اختلافات کا آغاز میری ایک کتاب ہے جس میں یہ تمام تفاصیل چھپی ہوئی موجود ہیں.

Page 635

خلافة على منهاج النبوة ۶۲۱ جلد سوم جب حضرت عثمان شہید ہو گئے اور صحابہ وغیرہ نے اپنی طاقت کو منظم کرنا شروع کیا تو بغاوت کرنے والے گروہ کو اپنی فکر پڑ گئی.چنانچہ ان میں سے کچھ تو روتے ہوئے حضرت علی کے پاس پہنچے اور کہا کہ حضور پر ہی اب تمام عالم اسلامی کی وحدت کا انحصار ہے.کچھ حضرت معاویہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ آپ پر ہی اب اسلام کی ترقی کی بنیاد ہے.کچھ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے پاس جا پہنچے اور کہا کہ جو کچھ کر سکتے ہیں آپ ہی کر سکتے ہیں.کچھ حضرت عائشہ کے پاس جا پہنچے اور ان سے اس فتنہ کے دور کرنے کی درخواست کی.حضرت علیؓ کے گرد یہ جتھا زیادہ ہو گیا کیونکہ حضرت علی کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ پہلے امن قائم کرنا چاہئے اور اس کے بعد حضرت عثمان کے قاتلوں کو سزا دینی چاہئے.اگر فور سزا دی گئی تو فساد بڑھ جائے گا کم نہیں ہو گا.اس کے بالمقابل حضرت طلحہ ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ ان کو فورا سزائیں ملنی چاہئیں.یہ دونوں نقطہ نگاہ سیاسی لحاظ سے صحیح ہیں کبھی فوری گرفت کرنی پڑتی ہے اور کبھی ڈھیل دینی پڑتی ہے.میاں بیوی کا ہی جھگڑا ہوتو کبھی خاوند بالکل خاموش رہتا ہے اور کبھی اس خیال سے کہ بچے گستاخ نہ ہو جائیں اسے فوراً ڈانٹ دیتا ہے.اسی طرح حضرت عائشہ ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے تو یہ پہلو اختیار کیا کہ ان لوگوں کو فوراً سزاملنی چاہئے اور حضرت علی نے یہ پہلو اختیار کیا کہ پہلے امن قائم ہونے دو پھر جو مجرم ثابت ہو گا اسے سزادی جائے گی.چونکہ عراق کے لوگ بھی اس فتنہ کو کھڑا کرنے والے تھے اور وہ حضرت عثمان کو شہید کرنے میں پیش پیش تھے یہ لازمی بات تھی کہ وہ اپنے ا بچاؤ کی تدبیر کرتے.حضرت عائشہ ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے تو ان کو دھتکار دیا مگر حضرت علی چونکہ پہلے امن قائم کرنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے ان سے ہمدردی کرنا مناسب سمجھی اور سرزنش نہ کی.یہی وجہ تھی کہ عراق والوں کو حضرت علیؓ سے ہمدردی ہوگئی اور انہوں نے حضرت علی کو عراق میں بلا لیا.پس اس میں مدینہ والوں کی کسی دشمنی کا سوال نہیں.مدینہ والے انصار تھے اور انصار حضرت علیؓ سے خاص طور پر محبت رکھتے تھے.حقیقت یہ ہے کہ چونکہ بالعموم بدوی قبائل فوجوں میں چلے گئے تھے اور عرب کی آبادی بہت کم ہو چکی تھی اس لئے عرب میں رہنے والا بیرونی حملہ کی برداشت نہیں کر سکتا تھا.مثلاً

Page 636

خلافة على منهاج النبوة ۶۲۲ جلد سوم اگر حضرت معاویہؓ اور حضرت علی کی جنگ ہو جاتی تو دمشق میں بیٹھے ہوئے حضرت معاویہؓ بہت بڑی فوج لا سکتے تھے مگر مدینہ میں حضرت علیؓ اپنے ساتھ کوئی فوج نہیں لا سکتے تھے.پس چونکہ عرب سے کافی فوج کا ملنا مشکل تھا اور حضرت علیؓ نے یہ دیکھا کہ معاویہ دمشق میں بیٹھے تیاری کر رہے ہیں آپ مدینہ چھوڑ کر عراق میں چلے گئے اور آپ نے سمجھا کہ عراق اور ایران خوب آباد علاقے ہیں میں وہاں رہ کر اسلام کی حفاظت کے لئے کافی فوج بھرتی کر سکتا ہوں.یہ جواب تھا جو اس روز میں نے دیا مگر بعد میں مجھے خیال آیا کہ حضرت علیؓ کے عراق جانے میں اللہ تعالیٰ کی ایک اور بھی بہت بڑی حکمت تھی.بسا اوقات انسان ایک قدم اٹھاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں یہ قدم فلاں غرض سے اٹھا رہا ہوں لیکن در حقیقت اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی کوئی اور حکمت کام کر رہی ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب مکہ میں مظالم ہوئے اور یہ مظالم روز بروز بڑھتے چلے گئے تو آپ نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک ایسی جگہ ہجرت کر کے گیا ہوں جہاں کھجور کے درخت بڑی کثرت کے ساتھ ہیں.طائف اور مکہ کے درمیان ایک مقام نخلہ نامی ہے آپ کا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ غالباً ہجرت کا مقام نخلہ ہے مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہجرت کا مقام نخلہ نہیں بلکہ مدینہ تھا.اگر آپ اپنی مرضی سے ہجرت کرتے تو آپ کی نظر مکہ سے دس پندرہ میل کے فاصلہ پر ہی پڑتی اور اس طرح الہی منشاء جو اسلام کے دنیا میں پھیل جانے کے متعلق تھا وہ پورا نہ ہو سکتا.کیونکہ مکہ متمدن دنیا سے بالکل الگ تھلگ تھا اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو یہ حکم تھا کہ دشمن پر خود حملہ نہیں کرنا.اگر یہی صورتِ حالات رہتی تو ایرانی اور رومی حکومت کو کبھی خیال بھی نہ آسکتا تھا کہ مسلمان ایک بڑھنے والی قوم ہے اور ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے.مگر جب اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت آپ مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو ایک طرف رومیوں کی نظر آپ پر پڑنی شروع ہوئی اور دوسری طرف ایرانیوں نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مشاہدہ شروع کیا کیونکہ پاس پاس ہی یہودی اور عیسائی قبائل آباد تھے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاقت پکڑنی شروع کی تو مدینہ کے مرکز ہونے کی وجہ سے یہودی اور عیسائی قبائل کے ذریعہ ادھر ایران میں

Page 637

خلافة على منهاج النبوة ۶۲۳ جلد سوم 66 رپورٹیں پہنچنی شروع ہوئیں اور اُدھر رومیوں کو مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کا احساس ہونے لگا اور انہوں نے سمجھا کہ گر به کشتن روز اوّل کے مطابق ہمیں آج ہی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے معدوم کر دینا چاہیئے ایسا نہ ہو کہ وہ بڑھیں اور ہمارے لئے کسی مستقل خطرہ کا باعث بن جائیں.چنانچہ ایرانی حکومت نے تو اپنے دو آدمی اس غرض کے لئے بھیجے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر لے آئیں اور رومی حکومت نے سرحد پر لشکر بھیج دیا تا کہ مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر ختم کیا جا سکے.خدا تعالیٰ کے سامنے تو رومی اور ایرانی لشکروں کی حقیقت ہی کیا تھی یہ تو ایسی ہی بات تھی جیسے بچے بعض دفعہ ماں باپ کے سامنے ان کو ڈرانے کے لئے ہو ہو کرنا شروع کر دیتے ہیں.مگر بہر حال قیصر کسری سے زیادہ عقل مند تھا کسری تو اتنا احمق نکلا کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صرف دو سپاہی بھیج دیئے اور سمجھا کہ اسلام کو مٹانے کے لئے اس کے صرف دو سپاہی ہی کافی ہیں.بہر حال یہ ایک ذریعہ بن گیا خدائی حکم کو قبول کرتے ہوئے دشمن سے لڑنے کا ور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حملہ نہیں کرنا تھا اور دشمن اُس وقت تک حملہ نہیں کرسکتا تھا جب تک اُسے انگیخت نہ ہوتی.مگر جب مدینہ میں ان کی آنکھوں کے سامنے مسلمانوں نے ترقی کرنی شروع کی تو حکومتوں کو فکر پیدا ہوا اور وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں نکل کھڑی ہوئیں.اس طرح اسلام اور کفر کی کھلم کھلا جنگ ہوئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں مسلمان معلومہ دنیا کے کناروں تک پہنچ گئے.پس ہجرت میں بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ مدینہ سے چند آدمی گئے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے مدینہ لے آئے.مگر در حقیقت یہ ایک الہی تدبیر تھی اور اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ مسلمانوں کو مکہ سے دور لے جا کر ایران اور روم کے سامنے کھڑا کر دے اور اس طرح وہ آپ سے نپٹ لیں.اس طرح چاہے حضرت علیؓ کے ذہن میں یہ الہی تدبیر آئی ہو یا نہ آئی ہو مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت علیؓ کے عراق جانے میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت تھی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت قیصر و کسریٰ کی حکومتیں تباہ ہو چکی تھیں مگر وہ گلی طور پر مٹی نہیں تھیں بلکہ ایک طرف ایرانی حکومت کا بقیہ اور دوسری طرف رومی حکومت کا بقیہ

Page 638

خلافة على منهاج النبوة ۶۲۴ جلد سوم مسلمانوں کے خلاف معاندانہ عزائم اپنے دلوں میں پوشیدہ رکھتا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ اگر موقع ملے تو مسلمانوں کو نیست و نابود کر دیا جائے.اس فتنہ کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ تدبیر کی کہ ایک طرف معاویہ کو دمشق میں بٹھا دیا اور دوسری طرف حضرت علی کو عراق میں بٹھا دیا.اسلام کو ایک طرف رومی حکومت سے خطرہ ہوسکتا تھا اور اگر اُس وقت رومی حکومت حملہ کرتی تو مسلمانوں کا زندہ رہنا محال ہو جاتا.مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرما دیے کہ جس علاقہ سے گزر کر رومی حکومت آسکتی تھی اس کے دروازے پر حضرت معاویہ اسلامی فوجوں کو جمع کر رہے تھے.دوسری طرف ایران سے حملہ کا خطرہ ہوسکتا تھا سو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ حضرت علیؓ نے عراق میں ڈیرے ڈال دیئے.بظا ہر وہ آپس میں لڑ رہے تھے ، بظا ہر حضرت معاویہ حضرت علیؓ کے خلاف اور حضرت علی حضرت معاویہؓ کے خلاف اپنی فوجیں جمع کر رہے تھے مگر در حقیقت وہ دونوں اسلام کی حفاظت کر رہے تھے.معاویہ کی تیاریوں کو دیکھ کر رومی حکومت اسلام پر حملہ کرنے سے ہچکچاتی تھی اور حضرت علی کی تیاریوں کو دیکھ کر ایرانی حکومت مسلمانوں کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتی تھی.چنانچہ تاریخ میں اس کا ایک ثبوت بھی موجود ہے لکھا ہے کہ جب مسلمانوں کی آپس کی خانہ جنگی بڑھتی چلی گئی تو روما کے بادشاہ کو کسی نے کہا کہ یہ وقت مسلمانوں پر حملہ کرنے کیلئے نہایت موزوں ہے وہ آپس میں لڑ رہے ہیں بہتر ہے کہ ان پر فوج کشی کر دی جائے.جب پوپ کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے بادشاہ کو روکا اور کہا اس قوم میں بیداری پیدا ہو چکی ہے اب اس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں.پھر اس نے ایک مثال دی اور چونکہ وہ دشمن تھا اس نے گندی ہی مثال دی.اس نے کہا بادشاہ سلامت ! دو کتے لائیے اور ان کے آگے گوشت ڈال دیجئے.جب گوشت ڈالا گیا تو دونوں کتے آپس میں لڑنے لگ گئے.اس پر پوپ نے کہا اب ان پر ایک شیر چھوڑ دیجئے.شیر چھوڑا گیا تو دونوں کتے اپنی لڑائی چھوڑ کر شیر پر حملہ آور ہو گئے.پوپ نے کہا بس اسی طرح جب آپ نے حملہ کیا ان دونوں نے اکٹھے ہو کر آپ پر حملہ کر دینا ہے.چنانچہ بادشاہ نے مسلمانوں پر حملہ کا ارادہ

Page 639

خلافة على منهاج النبوة ۶۲۵ جلد سوم ترک کر دیا.یہ بات انہی دنوں اُڑتی اُڑتی حضرت معاویہؓ کے کان تک بھی پہنچ گئی کہ روما کا بادشاہ مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتا ہے.حضرت معاویہؓ نے بادشاہ کو پیغام بھجوایا کہ ہمارے گھر کے جھگڑوں سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جانا اگر تم نے حملہ کیا تو پہلا جرنیل جو علی کی طرف سے مقابلہ کے لئے نکلے گا وہ میں ہوں گا.پس اگر شام اور عراق میں یہ میدان جنگ نہ ہوتے تو چونکہ اُس وقت مسلمانوں کی ابتدائی حالت تھی دشمن ان پر حملہ کرنے میں کامیاب ہوسکتا تھا.مگر خد اتعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ ایک دشمن کے منہ کے سامنے مسلمانوں کا ایک کیمپ لگ گیا اور دوسرے دشمن کے سامنے مسلمانوں کا دوسرا کیمپ لگ گیا.اس طرح وہ زمانہ گزر گیا اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے رومی اور ایرانی حکومتوں کے حملوں سے محفوظ کر دیا.پس یہ ایک الہی تدبیر تھی جو اس تمام کارروائی کے پس پردہ کام کر رہی تھی.اگر حضرت علیؓ مدینہ میں ہی رہتے تو ایران ضرور حملہ کر دیتا کیونکہ ایران کا دروازہ خالی پڑا تھا.اور اگر معاویہ دمشق کی بجائے یمن میں ہوتے تو رومی حکومت ضرور حملہ کر دیتی کیونکہ رومی حکومت کا دروازہ خالی پڑا تھا.پس اللہ تعالیٰ نے ایسی تدبیر کی کہ وہ بظا ہر آپس میں لڑنے کی تیاری کرتے رہے مگر در حقیقت اس میں بھی اسلام کی حفاظت کا بہت بڑا راز پنہاں تھا اور اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ تم بے شک لڑو ہمارا اسلام پھر بھی قائم رہے گا پھر بھی وہ دشمن کے حملوں سے محفوظ رہے گا.اس طرح اس فتنہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کا سامان پیدا فرمایا.“ القصص : ٨٦ 66 البداية والنهاية جلد ۸ صفحه ۱۲۶ مطبوعہ بیروت ۲۰۰۱ء ( الفضل ۲۳ ۲۴ جون ۱۹۶۱ء)

Page 640

خلافة على منهاج النبوة ۶۲۶ جلد سوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منہاج نبوت پر خلافت کیوں جاری نہ رہی اور آج اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ( فرموده ۶ / مارچ ۱۹۴۷ء بمقام کراچی ) صابر صاحب نے عرض کیا کہ ایک شخص نے سوال کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منہاج نبوت پر خلافت کیوں جاری نہ رہی اور آج پھر اس کی کیا ضرورت پیش آئی ہے؟ حضور نے فرمایا:.اصل بات یہ ہے کہ ہر چیز کو کئی پہلوؤں سے دیکھا جاتا ہے ایک پہلو تو یہ ہے کہ منہاج نبوت کے بعد کس قانون کے ماتحت خلافت کا جاری رہنا ضروری ہے.خلافت کا قانون ہمیں تو رات ، انجیل اور ویدوں میں تو ملتا نہیں.ہمیں جو علم ہوا ہے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے ہوا ہے.آپ نے فرمایا ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے.اور میرے بعد خلافت ہوگی، پھر خلافت ہو گی ، پھر خلافت ہو گی ، پھر خلافت ہو گی.اس کے بعد ظالمانہ اور جابرانہ حکومتیں بن جائیں گی ہے تو جس ہستی سے ہمیں یہ علم ہوا کہ نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے اسی سے ہمیں یہ علم ہوا کہ آپ کے بعد خلافت چار دفعہ قائم ہوگی.پھر

Page 641

خلافة على منهاج النبوة ۶۲۷ جلد سوم بادشاہت کا رنگ آجائے گا.اگر تو خلافت قانونِ طبعی ہوتا تو اس کے بند ہونے سے ہمیں حیرت ضرور ہوتی کیونکہ طبعی قانون بدل نہیں سکتا.مثلاً یہ طبعی قانون ہے کہ وزن دار چیزیں پانی میں ڈوب جاتی ہیں اگر اس کے خلاف کوئی واقعہ ہوگا تو وہ باعث حیرت بنے گا.لیکن اگر ایک شخص گراموفون کا ایک ڈسک ایجاد کرتا ہے اور اس کے متعلق کہتا ہے کہ یہ چار منٹ تک چلے گا پھر ختم ہو جائے گا تو اس کے چار منٹ کے بعد ختم ہو جانے پر کسی کو اعتراض کرنے کا موقع نہیں.دوسرا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس خلافت کا وعدہ کیا ہے وہ بطور انعام کے ہے اور انعام اُسی وقت ملا کرتا ہے جبکہ انسان نیکی کے کام کرے اور جب بُرا ہو جائے تو وہ انعام کا مستحق نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وعد الله الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ سے يعنى اے مسلمانو! جب تک تم میں عمل صالح اور صداقت باقی رہے ہم تمہارے درمیان خلافت کو قائم رکھیں گے.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح کی شرط ضروری قرار دی ہے.جب تک مسلمان اس شرط پر قائم رہے اللہ تعالیٰ نے خلافت ان کے اندر قائم رکھی جب انہوں نے ایمان اور عمل صالح کو ترک کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے انعام واپس لے لیا.اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ ہر زمانے کے حالات سے بعض چیزوں کو وابستگی ہوتی ہے اور وہ ایک خاص ماحول میں ترقی کر سکتی ہیں اس کے باہر ترقی نہیں کر سکتیں.مثلاً اگر زمین میں نومبر کے مہینہ میں گندم کا بیج ڈالا جائے تو بہت اچھی فصل پیدا ہوتی ہے اور اپنے وقت پر جا کر پک جاتی ہے.لیکن اگر اسی زمین میں نومبر کی بجائے اگست ستمبر کے مہینہ میں گندم کا پیج ڈالا جائے گا تو وہ بیچ فصل کی صورت اختیار نہیں کر سکے گا اور اوّل تو وہ بیج اُگے گا نہیں اور جو اُگے گا وہ چارے کی صورت میں ہی رہ جائے گا.اسی طرح ہم باقی چیزوں کے متعلق دیکھتے ہیں کہ اگر خاص وقت اور خاص ماحول میں ان کو سرانجام دیا جائے تو وہ نفع بخش ثابت ہوتی ہیں اور اگر اس بات کو نظر انداز کیا جائے تو بجائے فائدہ کے نقصان کا موجب ہوتی ہیں.اسی طرح خلافت بھی ایک خاص وقت اور ماحول کو چاہتی ہے.قرآن کریم کا نزول ایسے

Page 642

خلافة على منهاج النبوة ۶۲۸ جلد سوم وقت میں ہوا جب کہ ذہنی ارتقاء کمال کو پہنچ چکا تھا لیکن کسی چیز کا کمال کو پہنچنا اور چیز ہے اور مناسب حال ہونا اور چیز ہے.بلوغ میں انسانی دماغ کمال کو پہنچ جاتا ہے لیکن کیا ہر بالغ کامل دماغ کا مالک ہوتا ہے.بعض لوگ جوانی میں ہی بات کی گہرائی تک پہنچ جاتے ہیں اور اس سے نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں.اور بعض لوگوں کی عقل کہولت میں جا کر پختہ ہوتی ہے.جس طرح انسانی زندگی ہوتی ہے اسی طرح قوموں کی زندگی ہوتی ہے.اسلام نے خلافت کو پیش کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس پر عمل بھی ہو گیا کیونکہ اگر اس پر عمل نہ ہوتا تو خلافت صرف کتابی چیز رہ جاتی.لیکن چونکہ آخری زمانہ میں نئے نئے نظام دنیا میں ظاہر ہونے والے تھے اور نئے نئے اعتراض اسلامی نظامِ حکومت پر پڑنے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے خلافت کو اس زمانہ میں دوبارہ جاری فرمایا تا کہ اس کی فوقیت تمام نظاموں پر ثابت کر کے دکھا دے“.( الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۴۷ء ) کنز العمال جلد ۵ صفحه ۲۵۹ حدیث نمبر ۳۱۴۴۷ مطبوعہ دمشق ۲۰۱۲ء مشكاة المصابيح جلد ۳ باب الانذار والتحذير الفصل الثالث صفحه ۴۷۸ ۱ حدیث نمبر ۵۳۷۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء النور : ۵۶

Page 643

خلافة على منهاج النبوة ۶۲۹ جلد سوم خلافت عارضی ہے یا مستقل از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیلة السیح الثانی) عزیزم مرزا منصور احمد نے میری توجہ ایک مضمون کی طرف پھیری ہے جو مرزا بشیر احمد صاحب نے خلافت کے متعلق شائع کیا ہے.اور لکھا ہے کہ غالباً اس مضمون میں ایک پہلو کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی جس میں مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریر کیا ہے کہ خلافت کا دور ایک حدیث کے مطابق عارضی اور وقتی ہے.میں نے اس خط سے پہلے یہ مضمون نہیں پڑھا تھا اس خط کی بناء پر میں نے مضمون کا وہ حصہ نکال کر سنا تو میں نے بھی سمجھا کہ اس میں صحیح حقیقت خلافت کے بارہ میں پیش نہیں کی گئی.مرزا بشیر احمد صاحب نے جس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ خلافت کے بعد حکومت ہوتی ہے اُس حدیث میں قانون نہیں بیان کیا گیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے حالات کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے اور پیشگوئی صرف ایک وقت کے متعلق ہوتی ہے سب اوقات کے متعلق نہیں ہوتی.یہ امر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت نے ہونا تھا اور خلافت کے بعد حکومت مستقبدہ نے ہونا تھا اور ایسا ہی ہو گیا.اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہر ماً مور کے بعد ایسا ہی ہوا کرے گا.قرآن کریم میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت ایک انعام ہے.پس جب تک کوئی قوم اس انعام کی مستحق رہتی ہے وہ انعام اسے ملتا رہے گا.پس جہاں تک مسئلے اور قانون کا سوال ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی ہے اور وہ خلافت اُس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے جب تک کہ قوم خود ہی اپنے آپ کو خلافت کے انعام سے محروم نہ کر دے.لیکن اس اصل سے یہ بات ہر گز نہیں

Page 644

خلافة على منهاج النبوة 66 ۶۳۰ جلد سوم نکلتی کہ خلافت کا مٹ جانا لازمی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کی خلافت اب تک چلی آرہی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ پوپ صحیح معنوں میں حضرت مسیح کا خلیفہ نہیں لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ اُمت عیسوی بھی صحیح معنوں میں مسیح کی اُمت نہیں.پس جیسے کو تیسا تو ملا ہے مگر ملا ضرور ہے بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے موسی کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں سال تک قائم رہی اسی طرح گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت محمد یہ تواتر کے رنگ میں عارضی رہی لیکن مسیح محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر معین عرصہ تک چلتی چلی جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مسئلہ پر بار بار زور دیا ہے کہ مسیح محمدی کو مسیح موسوی کے ساتھ ان تمام امور میں مشابہت حاصل ہے جو امور کہ تکمیل اور خوبی پر دلالت کرتے ہیں سوائے ان امور کے کہ جن سے بعض ابتلاء ملے ہوتے ہیں ان میں علاقہ محمدیت علاقہ موسویت پر غالب آجاتا ہے اور نیک تبدیلی پیدا کر دیتا ہے.جیسا کہ مسیح اول صلیب پر لڑکا یا گیا لیکن مسیح ثانی صلیب پر نہیں لڑکا یا گیا کیونکہ مسیح اوّل کے پیچھے موسوی طاقت تھی اور مسیح ثانی کے پیچھے محمدی طاقت تھی.خلافت چونکہ ایک انعام ہے ابتلاء نہیں اس لئے اس سے بہتر چیز تو احمدیت میں آسکتی ہے جو کہ مسیح اول کو ملی لیکن وہ ان نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتی جو کہ مسیح اوّل کی اُمت کو ملیں کیونکہ مسیح اول کی پشت پر موسوی برکات تھیں اور مسیح ثانی کی پشت پر محمدی برکات ہیں.پس جہاں میرے نزدیک یہ بحث نہ صرف یہ کہ بیکا ر ہے بلکہ خطر ناک ہے کہ ہم خلافت کے عرصہ کے متعلق بحثیں شروع کر دیں وہاں یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصہ تک چلے گی جس کا قیاس بھی اس وقت نہیں کیا جاسکتا.اور اگر خدانخواستہ بیچ میں کوئی وقفہ پڑے بھی تو وہ حقیقی وقفہ نہیں ہوگا بلکہ ایسا ہی وقفہ ہوگا جیسے دریا بعض دفعہ زمین کے نیچے گھس جاتے ہیں اور پھر باہر نکل آتے ہیں کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرونِ اولیٰ میں ہوا وہ اُن حالات سے مخصوص تھا وہ ہر زمانہ کے لئے قاعدہ نہیں تھا.(الفضل ۳ را بریل ۱۹۵۲ء)

Page 644