Khilafat Ala Minhaj Un Nubawt 2

Khilafat Ala Minhaj Un Nubawt 2

خلافۃ علیٰ منھاج النبوۃ (جلد دوم)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
خلافت اسلامیہ احمدیہ

خلافت کے موضوع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی جملہ تصانیف، خطبات جمعہ ، مجالس عرفان، مجالس شوریٰ، تفاسیر اور غیر مطبوعہ تحریرات سے مواد جمع کرکے تین دیدہ زیب جلدوں میں طبع کروایا گیا ہے۔ یوں اس اہم اور بنیادی موضوع پر حضورؓ کی تحریرات و ارشادات یکجائی طور پر جمع کردیئے گئے ہیں۔


Book Content

Page 1

خلافة على منهاج النبوة افاضات حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جلد دوم

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD خلافت على منهاج النبوة (جلد دوم) Khilafat Ala Minhajin Nubuwwat – Volume 2 (Urdu) A collection of excerpts from the sermons, writings, and speeches of Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad Khalifatul-Masih Ilra (1889-1965) on the subject of Khilafat.First Published in UK in 2023 O Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey GU9 9PS, UK Printed at: For more information please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-228-5 (Khilafat Ala Minhajin Nubuwwat 3 Volume Set)

Page 3

سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد لمصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ گا اور اپنے پیشگوئی مصلح موعود مسچی اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا، وہ دنیا میں آئے نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اُسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند - مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ، مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَّ اللهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا.(اشتہار 20 فروری 1886ء)

Page 5

عرض ناشر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنی امت میں خلافت علی منہاج نبوت کے قیام کا بڑی صراحت کے ساتھ یوں ذکر فرمایا.حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر وہ اس کو اٹھا لے گا.پھر خلافت علی منھاج النبوۃ قائم ہو گی.اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس ( نعمت) کو بھی اٹھا لے گا.پھر ایذا رساں بادشاہت (کاٹ کھانے والی حکومت قائم ہو گی اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر جب وہ چاہے گا اسے ( بھی ) اٹھالے گا.پھر جابر بادشاہت (ظالم حکومت ) قائم ہو گی.اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر جب وہ چاہے گا اسے ( بھی ) اٹھا لے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی.پھر ( یہ فرمانے کے بعد ) آپ خاموش ہو گئے“.(مسند احمد بن حنبل".مسند الکوفیین.حدیث 18596)

Page 6

اس حدیث نبوی میں امت محمدیہ میں خلافت علی منہاج نبوت کے دو ادوار کا ذکر کیا گیا ہے.پہلا دور خلافت علی منہاج نبوت کا وہ دور ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معا بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت سے شروع ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت راشدہ تک قائم رہا.اس کے بعد جیسا کہ حدیث مذکورہ بالا میں بیان ہے ایذا رساں بادشاہت اور جابر حکومتوں کے ادوار آئے.اور پھر پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آیا اور اس نے زمانہ کی اصلاح و تکمیل اشاعت ہدایت کی غرض سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع و غلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو ظلی طور پر امتی نبوت کے مقام پر فائز فرماتے ہوئے مسیح موعود اور مہدی معہود بنا کر بھیجا.اور آپ کی وفات (26 مئی 1908ء) کے بعد 27 مئی 1908ء سے حضرت الحاج حکیم مولانانورالدین رضی اللہ عنہ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے ساتھ خلافت علی منہاج نبوت کے دوسرے مبشر دور کا آغاز ہوا جو انشاء اللہ حسب بشارات نبوی دائمی ہے.کیونکہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور دور کے آنے کا ذکر نہیں فرمایا.گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے جماعت احمدیہ مسلمہ اس موعود خلافت علی منہاج نبوت کی آسمانی قیادت سے فیضیاب ہے اور اس وقت ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کے پانچویں مظہر کے مبارک دور سے گزر رہے ہیں.

Page 7

1914ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلافت کے منصب پر فائز ہوئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے معا بعد سے ہی خلافت کے قیام و استحکام کے سلسلہ میں آپ نے غیر معمولی خدمات انجام دیں.بالخصوص آپ نے اپنی وفات (1965ء) تک اپنی خلافت کے ساڑھے اکاون برس سے زائد عرصہ میں نظام خلافت کے استحکام کے سلسلہ میں بہت سے عملی اقدامات فرمائے.آپ نے اپنے خطبات ، خطابات، کلمات طیبات، نہایت مدلل اور پر اثر تحریرات کے ذریعہ خلافت کی عظمت و اہمیت، اس کی غرض و غایت اور اس کی عظیم الشان برکات کو نهایت تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا.صد سالہ خلافت جوبلی (2008ء) کے تاریخی موقع کی مناسبت سے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی جملہ تصانیف، خطبات جمعہ ، خطابات، مجالس عرفان، مجالس شوری، تفاسیر اور غیر مطبوعہ تحریرات سے خلافت کے موضوع پر بیان فرمودہ مواد کو اکٹھا کر کے تین جلدوں میں مرتب کرنے کی سعادت و توفیق پائی.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کاوش کو بہت پسند فرمایا اور اس کتاب کے لیے خلافت علی منہاج النبوۃ کا نام منظور فرمایا.حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب یو کے سے شائع کی جار ہی ہے.

Page 8

اس کتاب کے لئے مواد کی تلاش و تحقیق اور اس کی کمپوزنگ ، ترتیب، پروف ریڈنگ وغیرہ متفرق امور کی انجام دہی اور اسے موجودہ فائنل صورت تک پہنچانے کے لیے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت بہت سے احباب نے بہت محنت اور جانفشانی سے مختلف خدمات کو انجام دیا.ایسے تمام احباب شکریہ اور دعاؤں کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن اور اس کے جملہ رفقائے کار کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور اپنی جناب سے انہیں بہترین جزا سے نوازے.آمین.امید ہے کہ احباب جماعت خصوصیت کے ساتھ خلافت کے موضوع پر اس علمی و روحانی بیش قیمت جواہر سے معمور خزانے سے کما حقہ فیضیاب ہوتے ہوئے خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے اپنے تعلق اخلاص و وفا اور محبت و فدائیت و اطاعت میں مزید آگے قدم بڑھائیں گے اور برکات خلافت سے وافر حصہ پانے کے لیے اعمال صالحہ کی مزید توفیق پاتے چلے جائیں گے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.خاکسار نصیر احمد قمر ایڈیشنل وکیل الاشاعت (طباعت ).لندن

Page 9

جلد دوم 17 لا ۱۸ خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین خلافت رحمت خداوندی فہرست عناوین امریکہ جانے والے مبلغ حضرت ماسٹر محمد دین صاحب بی اے کو ہدایات روحانی خلافت سیاست سے بالاتر ہوگی ۴ خلیفہ کا مرکز میں رہنا ضروری ہے مسلمان صرف روحانی خلیفہ کے ہاتھ پر جمع ہو سکتے ہیں کیا خلیفہ سے اختلاف ہو سکتا ہے؟ ے خلیفہ کا ادب اور مقام تقومی اور ادب سیکھو خلافت اور مرکز سے مضبوط تعلق صفحہ نمبر شمار Δ 1.1.= ۱۲ بہترین نظام خلفاء کی اقسام عناوین انتخاب خلافت کی مشکل گھڑی انتخاب خلافت کے متعلق جماعت کو ہدایت غیر مبائعین کی کذب بیانی ۱۳ خلیفہ کا احترام اور مقام ۱۴ خلیفہ کی ذات پر حملہ لعنت الہی کا مستحق بناتا ہے ۱۵ خلیفہ کی کامل اطاعت ۱۶ جلسه خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء ۱۷ خلافت راشدہ ۱۸ ۲۲ ۲۴ ۲۸ ۳۱ ۴۷ ۴۷ है ۴۸ ۴۸ و خلیفہ سے تعلق ارادت امارت کا خلافت کے ماتحت نظام اور خلافت سے وابستگی ۱۲ ۱۳ ۱۵ خلافت کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی ضرورت مخالفین سلسلہ کی طرف سے خلافت کی تنقیص کی کوشش خلافت کے لیے مشورہ کی ضرورت | ۱۵ خلافت کا مسئلہ اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے 17 مجلس عاملہ کی حیثیت

Page 10

خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین اُمت مسلمہ کا نظام کسی مذہبی مسئلہ صفحہ نمبر شمار کے ساتھ وابستہ کرنے کی ضرورت ۴۸ ایک سوال کا جواب سیاست صرف حکومت کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتی مذہبی خلافت پر اعتراض ابتدائے اسلام میں نظام مملکت اور نظام دینی کا اجتماع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام کے قیام سے تعلق رکھنے والا حصہ ۵۰ ۵۱ ۵۱ مذہبی حیثیت رکھتا ہے یا غیر مذہبی ؟ ۵۲ خلافت کے انکار کا ایک خطر ناک مذہب کی دو قسمیں مسیحی مذہب میں شریعت کو لعنت قرار دینے کا اصل باعث یہودی مذہب کا نظامِ حکومت میں ۵۵ ۵۶ دخل اسلام کن مذاہب سے مشابہت رکھتا ہے حکومت کے تمام شعبوں کے متعلق اسلام کی جامع ہدایات نفاذ قانون کے متعلق تفصیلی ہدایات ۵۹ ۶۰ ۶۳ ۶۳ عناوین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق حکومت عرب سے کفار کے نکالے جانے کا حکومت کے لیے ضروری شرائط کیا نظام سے تعلق رکھنے والے احکامِ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے مخصوص تھے؟ نبی کے ساتھ اس کے متبعین کی غیر معمولی محبت خیار بلوغ کا مسئلہ اسلام ملکی اور قانونی نظام کا قائل ہے قبائل عرب کی بغاوت کی وجہ مسئلہ خلافت کی تفصیلات ایک ذاتی تجربہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہ کی کیفیت نبی کی زندگی میں اسکی جانشینی کے مسئلہ کی طرف توجہ ہی نہیں ہو سکتی ہر نبی کی دوزندگیاں ہوتی ہیں ایک شخصی اور ایک قومی صفحہ ۶۸ ۷۲ ۷۴ ۷۵ LL ง ۷۹ 29 ۸۰ ΔΙ ۸۵

Page 11

خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین قدرت اولی نبی کی شخصی زندگی ہوتی ہے اور قدرت ثانیہ قومی زندگی قضیہ قرطاس پر ایک نظر اللہ تعالیٰ نبی کی قومی زندگی کی بھی الہام سے ابتداء کرتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہ کے تین گروہ انصار اور مہاجرین میں اختلاف حضرت ابوبکر کا انتخاب حضرت عمررؓ کا انتخاب حضرت عثمان کا انتخاب حضرت علی کا انتخاب حضرت عائشہ کا اعلان جہاد صفین کے واقعات حضرت علی کی خلافت بلافصل کا خلافت کے بارہ میں مسلمانوں میں تین گروہ خلافت احمدیہ کا ذکر III صفحہ نمبر شمار ۸۵ ۸۶ ۸۸ ۸۹ ۹۰ ۹۲ ۹۳ ۹۳ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۸ ۹۹ عناوین بیرونی جماعتوں کے نمائندوں کا قادیان میں اجتماع مسئلہ خلافت کے متعلق حضرت خلیفہ اول کی تقریر خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے دوبارہ بیعت حضرت خلیفہ اول کی بیماری میں ایک اشتہار شائع کرنے کی تجویز صفحہ ۱۰۳ ۱۰۴ ۱۰۵ 1+7 جماعت کو اختلاف سے محفوظ رکھنے کی کوشش حضرت خلیفہ اول کی وفات ۱۰۸ ۱۰۸ دعاؤں کی تحریک ۱۰۹ خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا متفقہ فیصلہ مولوی محمد علی صاحب سے ملاقات 1+9 1+9 مولوی محمد علی صاحب کا ایک ٹریکٹ ۱۱۰ انتخاب خلافت پر جماعت کے نوے فیصد دوستوں کا اتفاق مولوی محمد علی صاحب سے دوبارہ گفتگو خلافت ثانیہ کا قیام خلیفہ وقت کے اختیارات حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں ۹۹ 1+1 میر محمد اسحق صاحب کے چند سوالات ۱۰۲ حضرت خلیفہ اول کے بعض ایک رویا ۱۰۲ ارشادات کی اصل حقیقت ۱۱۳

Page 12

خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار IV عناوین خلافت کے بارہ میں قرآنی احکام ۱۱۳ ازواج مطہرہ کے الفاظ پر دشمنانِ اسلام کا ایک ناواجب اعتراض عورت اور مرد کے تعاون کے بغیر نہ دنیوی جنت حاصل ہوسکتی ہے اور نہ أخروي ایک عظیم الشان نکتہ اس حدیث کی تشریح کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے امانات کو ان کے اہل کے سپر د کر نے صفحہ نمبر شمار عناوین صفحہ اولی الامر سے اختلاف کی صورت میں ردوه الی الله والرسول کے کیا معنی ہیں؟ ۱۲۹ ۱۱۷ أولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ والی آیت ۱۱۸ 119 ۱۲۰ ۱۲۱ نظام اسلامی کے متعلق قرآنی اصول ۱۲۴ کیا اسلام کسی خالص دُنیوی حکومت کو تسلیم کرتا ہے ۱۲۴ ۱۲۵ خالص دنیوی نظام کا مفہوم مسلمانوں کی ایک افسوسناک غلطی | ۱۲۵ دوسری غلطی ۱۲۶ دنیوی حکام اور خلفائے راشدین دونوں پر حاوی ہے ۱۳۱ دونوں کے متعلق الگ الگ احکام ۱۳۲ خلفائے راشدین کی سنت پر ہمیشہ قائم رہنے کا حکم خلفائے راشدین اُمت کے لیے ایک میزان ہیں آیت استخلاف پر بحث ا قامت صلوۃ صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی اطاعت رسول بھی صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہوسکتی آیت استخلاف کے مضامین کا خلاصہ بچے خلفاء کی علامات ۱۳۴ ۱۳۷ ۱۳۷ ۱۴۰ ۱۴۱ اختلاف کی صورت میں ایک خالص مذہبی نظام قائم کرنے کا ثبوت أُولِي الأمْرِ مِنْكُمُ کے متعلق ایک اعتراض کا جواب ۱۲۷ ۱۲۹ پہلی خلافتیں یا تو خلافت نبوت تھیں یا خلافت ملوکیت خلافت ملوکیت کو چھوڑ کر صرف خلافت نبوت کے ساتھ مشابہت کو کیوں مخصو کیا گیا ہے؟ ۱۴۴ ۱۴۵

Page 13

خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین خلافت کا وعدہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط ہے خلافت کا فقدان کسی خلیفہ کے نقص کی وجہ سے نہیں بلکہ جماعت کے نقص کی وجہ سے ہوتا ہے تمکین دین کا نشان V صفحہ نمبر شمار ۱۴۷ ۱۴۷ ۱۴۹ خوف کو امن سے بدلنے کی پیشگوئی ۱۵۰ کوامن حضرت عمرؓ کو اپنی شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا حضرت عثمان نے بھی کوئی خوف محسوس نہیں کیا حضرت علی کی شہادت اللہ تعالیٰ اپنے خلفاء کو عام خوف سے بھی محفوظ رکھتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کشف جو آپ کی وفات کے بعد ۱۵۱ ۱۵۲ ۱۵۵ ۱۵۵ عناوین صفحہ مولوی غلام علی صاحب کا ایک واقعہ ۱۵۹ ایک سنی بزرگ کا لطیفہ فتنه ارتداد کے مقابلہ میں حضرت ابوبکر کی استقامت حضرت عمرؓ کے بہادرانہ کارنامے حضرت ابو ہریرہ کا کسری کے رومال میں تھوکنا حضرت عثمان اور حضرت علی کا دلیرانہ مقابلہ آیت استخلاف پر اعتراضات اس سوال کا جواب کہ اس آیت میں امت مسلمہ سے وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد سے ایک غیر مبائع دوست کا لطیفہ افغانستان کے خلاف صدائے 17.۱۶۱ ۱۶۵ ۱۶۶ ۱۶۷ ۱۶۹ پورا ہوا خلفائے راشدین کی وفات کے بعد ۱۵۶ احتجاج بلند کرنے کا اثر ۱۷۳ خلافت ایک انتخابی چیز ہے جس میں سب قوم کا دخل ہوتا ہے بھی ان کا خوف امن سے بدلتا رہا ۱۵۷ ۱۷۳ خلفائے راشدین کا غیر مسلم بادشاہوں پر رعب بچے خلفاء توحید حقیقی کے علمبردار ہوتے ہیں حضرت ابو بکر نے حضرت عمررؓ کو نامزد ۱۵۸ کیوں کیا تھا؟ ۱۷۴ ۱۵۸ کیا حضرت معاویہ کا یزید کو خلیفہ مقرر کرنا بھی انتخاب کہلا سکتا ہے؟ ۱۷۴

Page 14

VI خلافة على منهاج النبوة عناوین باپ کا اپنے بیٹے کو خلافت کے لیے صفحہ نمبر شمار عناوین صفحه کیا خلافت موعودہ محض اُس خلیفہ تجویز کرنا سنت صحابہ کے خلاف ہے ۱۷۵ کے متعلق ہے جو نبی کے معا بعد آتا ۱۹۲ ۱۹۴ ۱۹۵ ۱۹۶ ہے؟ کیا خلیفہ کا عزل جائز ہے؟ ایک لطیف نکتہ خلافت راشدہ کی تائید میں دوسری خلافت کے بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد خلفاء کے حقوق کے بارہ میں ایک بہت بڑا اعتراض ۲۰۲ کجی سے مراد صرف کفر بواح ہے ۲۰۳ کیا حضرت ابو بکر کفر بواح کر سکتے ۲۰۴ تھے؟ ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۸ ۲۱۳ ۲۱۴ ۲۱۵ ۲۱۵ قرآن کریم سے بعض مثالیں حضرت مسیح موعود کا ایک واقعہ آیت استخلاف اور خلافت ثانیہ K24 KA KA ۱۷۹ ۱۸۰ ۱۸۳ ۱۸۴ ۱۸۷ یزید کے ایک بیٹے کی تخت حکومت سے دستبرداری آیت استخلاف کے متعلق حضرت مسیح موعود کی بیان فرمودہ تشریح خلافت محمدیہ کا استنباط خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت خلفائے اربعہ کی پہلے خلفاء سے ہر رنگ میں مشابہت ضروری نہیں علماء امتى كانبیا بنی اسرائیل سے مرا در وحانی خلفاء ہی ہیں خلافت احمدیہ آیت استخلاف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت اور خلافت دونوں شامل ہیں حضرت مسیح ناصری کے خلفاء بھی نظام ملکی سے کوئی تعلق نہ رکھتے تھے ۱۸۸ اللہ تعالیٰ کا ایک عجیب نشان مخالفین کا ایک اور اعتراض اور اُس کا جواب پہلے انبیاء کی خلافت خواہ خلافت نبوت ہو یا خلافت ملوکیت.ناقص ۱۸۹ غیر مبائعین کے متعلق الہام ليمزقنهم پورا ہو گیا اللہ تعالیٰ پر کامل یقین مستریوں کے فتنہ کے بارہ میں ایک رویا ١٩٠ نمبر شمار

Page 15

VII صفحہ نمبر شمار عناوین صفحہ ۲۸ خلافت راشدہ کے سات امتیازات ۲۷۴ ۲۷۷ ۲۸۷ ۲۸۹ ۲۹ مسئلہ خلافت نوجوانان جماعت سے خطاب خدام الاحمدیہ کراچی کے لیے روح پرور پیغام ۲۱۷ ۲۷۵ ۲۲۹ خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین قدرت ثانیہ کے نزول کے لیے ہمیشہ دعاؤں میں مشغول رہو ۱ | کارکنان جلسه خلافت جو بلی ۱۹۳۹ء سے خطاب ۱۹ خلافت نبوت کو زندہ رکھتی ہے خلافت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۳۲ خلیفہ خدا تعالی بنایا کرتا ہے کی یاد کو قائم رکھتی ہے ۲۳۰ مقام ابراہیمی کو مصلی بنانے کا مفہوم ۲۳۰ کا ۲۰ خلافت کو بادشاہت کا رنگ نہیں دینا چاہیے ۲۱ خلافت احمدیہ کا قیام اور اس کی بركات ۲۳۲ ۲۳۴ ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے اور اس کی حفاظت کے لیے ایمانی غیرت کی ضرورت ہے ۳۴ خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں جماعت احمدیہ کو خلافت کی برکات سے نوازا ہے ۲۲ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے ۳۵ صحابہ کرام کی فدائیت اور اُن کا } وابستہ رہو خلیفہ کی زندگی میں کسی اور کے خلیفہ ہونے کا ذکر گناہ ہے ۲۴ نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہیں ۲۴۳ ۲۵۵ ۲۵۹ اخلاص و ایثار اپنی اولاد در اولاد کو خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے چلے جائیں ۲۹۲ ۲۹۷ ٣١٣ ۵۵۳ ۳۶۳ ۳۷ نظام آسمانی کی مخالفت اور اُس کا ۲۵ قادیان سے پاکستانی کے احمدیوں کے نام پیغام ۲۶۹ پس منظر ۲۶ دستور اسلامی یا اسلامی آئین اساسی ۲۷۰ نظام آسمانی کی مخالفت اور اُس کا ۲۷ خلافت وعدہ الہی، اس کی شرائط اور پس منظر ۳۷۴ ۳۷۴ آدم کے زمانہ میں شیطان کی مخالفت ۲۷۲ برکات

Page 16

صفحہ ۴۲۹ ۴۳۱ ۴۳۳ ۴۳۴ ۴۴۷ عناوین مولوی محمد احمد صاحب کی شہادت مکرم شیخ نصیر الحق صاحب کی گواہی مکرم میاں غلام غوث صاحب ہیڈ کلرک میونسپل کمیٹی ربوہ کی شہادت چوہدری عبد اللطیف صاحب اوورسیئر کی شہادت خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین حضرت ابراہیم کے زمانہ میں شیطان کا حملہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شیطان کا حربہ VIII صفحہ نمبر شمار ۳۸۴ ۳۸ خلافت حقہ اسلامیہ خلافت حقہ اسلامیہ کے عنوان کی وجہ ۴۴۸ جماعت احمدیہ میں خلافت قائم رہنے کی بشارت ۴۵۰ قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہے ۴۵۲ ۴۵۳ ۴۸۰ آئندہ انتخاب خلافت کے متعلق طریق کار ۳۹ تم نسلاً بعد نسل اپنے آپ کو نظام خلافت سے وابستہ رکھو احباب جماعت کے نام ضروری میری اولاد کے نام ۳۸۴ ۳۹۰ ۳۹۲ ۳۹۶ ۳۹۸ ۴۰۲ ۴۰۶ ۴۱۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں شیطانی حربہ کی صورت حضرت خلیفہ اول کی وفات پر اختلاف کی وجہ اختلاف کو قائم رکھنے کے لیے غیر مبائعین کی ایک تدبیر گواہی فضل محمد خاں صاحب شملوی ڈاکٹر محمد منیر صاحب کی شہادت شیخ محمد اقبال صاحب تاجر کوئٹہ کی شہادت مکرم شیخ عبدالرحیم صاحب پراچہ کی شہادت مہاشہ محمد عمر صاحب کی شہادت مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ کی شہادت ۴۲۴ صدرانجمن مکرم ملک صاحب خاں صاحب نون کی شہادت ۴۲۸

Page 17

خلافة على منهاج النبوة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خلافت رحمت خداوندی تحریر فرموده ۲۳ /جنوری ۱۹۲۲ء) جلد دوم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے نائیجیر یا جانے والے دوسرے احمدی مبلغ حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب کو ۲۳ جنوری ۱۹۲۲ء بعد از نماز فجر مسجد مبارک میں چند ہدایات لکھ کر دیں ان میں سے ایک حصہ یہ تھا کہ خلافت رحمت خداوندی ہے حضرت مصلح موعود تحریر فرماتے ہیں.خلافت کا سلسلہ ایک رحمت ہے.اور خدا تعالیٰ کی رحمت کی ناشکری کرنی دُکھ میں ا ڈالتی ہے.انسان خواہ کس قدر بھی ترقی کر جائے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے مستغنی نہیں ہوسکتا.پس خلافت سے مسلمان کسی وقت بھی مستغنی نہیں ہو سکتے نہ اب نہ آئندہ کسی زمانہ میں.اللہ تعالیٰ کی بہت سی برکات اس سے متعلق اور وابستہ ہیں اور اس سے جو خلافت سے دور ہو جاتا ہے ، دور ہو جاتا ہے اللہ اس سے.جو اس سے تعلق کرتا ہے ، اپنا تعلق 66 مضبوط کرتا ہے.“ حضور نے مزید تحریر فرمایا :.اطاعت ایک اعلیٰ جو ہر ہے اسے پیدا کرنے کی کوشش کرو اور جو آپ کا افسر ہو اس کی اطاعت کرو اور اپنے نفس کو اپنے پر غالب مت آنے دو.اگر کسی بات پر اعتراض ہو تو اس سے خلیفہ وقت کو اطلاع دو.خود ہی اس پر فیصلہ نہ دو کیونکہ تفرقہ طاقت کو توڑ دیتا ہے اور یہی کھڑ کی ہے جس میں سے آدم کا دشمن اس کے گھر میں داخل ہوا کرتا ہے اور اس کو اس کے عزیزوں سمیت جنت میں سے خارج کر دیا کرتا ہے.

Page 18

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم ہمیشہ خلیفہ وقت سے تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے رہو اور خط و کتابت میں کبھی ستی نہ کرو.وہ لوگ جن کو آپ کے ذریعہ سے ہدایت ہو ان کو بھی ان سب نصائح پر عمل کرنے کی تحریک کرو جو اوپر بیان ہوئیں یا بعد میں آپ تک پہنچتی رہیں.دینی لٹریچر سے آگاہ رہنے کی ہمیشہ کوشش کر و قرآن کریم کے متعلق تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں وہ تو مومن کی جان ہے.مگر حدیث اور کتب مسیح موعود کا مطالعہ بھی ضروری ہے.ان سے غافل نہ ہو.کوئی نہ کوئی اخبار قادیان کا جس میں مرکز اور سلسلہ کے حالات ہوں ضرور زیر مطالعہ رہنا چاہیے کہ یہ ایمان کو تازہ کرتا ہے اور اس کی تاکید وہاں کے لوگوں کو بھی کریں جنہیں آپ تبلیغ کر رہے ہوں اور پھر خلفاء کے اعلانات اور ان کی کتب کا مطالعہ بھی ضروری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنی مرضی کو ظاہر کرتا ہے اور انسان کے لئے ان کا کلام بھی بمنزلہ دودھ کے ہوتا ہے“.(الفضل ۳۰ / جنوری ۱۹۲۲ء)

Page 19

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم امریکہ جانے والے مبلغ حضرت ماسٹر محمد دین صاحب بی اے کو ہدایات زندگی کا اعتبار نہیں اس امر کو خوب یا درکھیں کہ ہم آدمیوں کے پرستار نہیں خدا کے بندے ہیں.جو شخص بھی اور جب بھی مسند خلافت پر بیٹھے اُس کی فرمانبرداری کو اپنا شعار بنا ئیں اور یہی روح اپنے زیر اثر لوگوں میں پیدا کریں.اسلام تفرقوں سے تباہ ہوا اور اب بھی سب سے بڑا دشمن یہی ہے.کاش ! انسان اس دل کو نکال کر پھینک دیتا جو ا سے نفسانیت کی وجہ سے سلسلہ کے مفاد کو قربان کرنے کی تحریک کرتا ہے گو بعض دفعہ نیکی کے رنگ میں بھی یہ تحریک ہوتی ہے کہ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَلَيْسَ مِنَّا ، 66 (الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۲۳ء) مسلم كتاب الامارة باب وجوب ملازمة المسلمين صفحه ۸۳۱ حدیث نمبر ۴۷۹۰ مطبوعه ریاض ۲۰۰۰ ء میں ” من فارق الجماعة شبراً فمات، فميتة جاهلية “ کے الفاظ ہیں.

Page 20

خلافة على منهاج النبوة ۴ جلد دوم روحانی خلافت سیاست سے بالا تر ہوگی ۱۹۲۴ء میں لندن میں ویمبلے نمائش منعقد ہوئی جس کے پروگرام میں ایک مذہبی کا نفرنس کا انعقاد بھی شامل تھا.دنیا کے چوٹی کے علماء کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے مذا ہب کی خوبیاں بیان کریں.حضرت مصلح موعود کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی.آپ نے ۲۴ رمئی تا ۶ / جون ۱۹۲۴ء دو ہفتے کے دوران ایک ضخیم کتاب ”احمدیت یعنی حقیقی اسلام تصنیف فرمائی.اس کتاب میں تمدن کی دوسری قسم یعنی حکومت اور رعایا ، امیر اور غریب کے متعلق احکام بیان فرماتے ہوئے خلافت کے بارے میں فرمایا :.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے صرف روحانی خلافت دے کر بھیجا تھا اس لئے آئندہ جہاں تک ہو سکے آپ کی خلافت اُس وقت بھی جب کہ بادشاہتیں اس مذہب میں داخل ہوں گی سیاسیات سے بالا رہنا چاہتی ہے.وہ لیگ آف نیشنز کا اصلی کام سرانجام دے گی اور مختلف ممالک کے نمائندوں سے مل کر ملکی تعلقات کو درست رکھنے کی کوشش کرے گی اور خود مذہبی، اخلاقی، تمدنی اور علمی ترقی اور اصلاح کی طرف متوجہ رہے گی تا کہ پچھلے زمانہ کی طرح اس کی توجہ کو سیاست ہی اپنی طرف کھینچ نہ لے اور دین و اخلاق کے اہم امور بالکل نظر انداز نہ ہو جائیں.جب میں نے کہا جہاں تک ہو سکے تو میرا یہ مطلب ہے کہ اگر عارضی طور پر کسی ملک کے لوگ کسی مشکل کے رفع کرنے کے لیے استمداد کریں تو ان کے ملک کا انتظام نیابتاً خلافت روحانی کرا سکتی ہے مگر ایسے انتظام کو کم سے کم عرصہ تک محدود رکھا جانا ضروری ہوگا.(انوارلعلوم جلد ۸ صفحه ۲۹۵)

Page 21

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم خلیفہ کا مرکز میں رہنا ضروری ہے ۱۹۲۴ء میں انگلستان میں ویمبلے کے مقام پر منعقد ہونے والی مذہبی کا نفرنس کے منتظمین نے حضرت مصلح موعود کو بھی شرکت کی دعوت دی.آپ نے بعد از مشورہ یہ دعوت قبول فرمائی.انگلستان جانے سے پہلے امام جماعت احمدیہ کا عزمِ یورپ کے عنوان سے حضور کی ایک تحریر جون ۱۹۲۴ء میں شائع ہوئی جس میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ خلیفہ کا مرکز میں رہنا ضروری ہے.فرمایا :.اس کے بعد میں احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بعض احباب نے اپنے مشورہ کی بناء اس امر پر رکھی ہے کہ مذہبی کا نفرنس نے چونکہ بلایا ہے اس لئے وہاں ضرور جانا چاہئے اور یہ خیال کیا ہے کہ گویا اس سفر کے ساتھ ہی یورپ فتح ہو جائے گا اور ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام میں داخل ہو جائیں گے.میرے نزدیک اس امر پر اور اس امید پر مشورہ دینا درست نہ تھا.میں نے پہلے بھی بارہا بیان کیا ہے کہ خلیفہ دورہ کرنے والا واعظ نہیں کہ وہ جس جگہ لیکچر دینے کی ضرورت ہو وہاں جائے.وہ ایک سپاہی نہیں کہ لڑنے کے لئے جائے بلکہ ایک کمانڈر ہے جس نے سپاہیوں کو لڑ وانا ہے.کسی مذہبی کا نفرنس کی درخواست پر اس کا باہر جانا یا محض لیکچر دینے کے لئے اس کا مرکز سے نکلنا درست نہیں.یہی طریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا اور یہی آپ سے پہلے امت محمدیہ کے خلفاء کا رہا ہے.پس میں طبعا اس خیال کے مخالف ہوں کہ کسی مذہبی کا نفرنس کے بلاوے پر مرکز کو چھوڑوں.ایک دوست نے خوب لکھا ہے کہ اگر اگلے سال اس سے بڑی مذہبی کا نفرنس ہو گئی تو پھر کیا ہم اپنے خلیفہ سے درخواست کریں گے کہ وہ اب وہاں جائے.یہ بات بالکل درست ہے مذہبی کا نفرنسیں تو ہر سال ہو سکتی ہیں اور لوگوں کی توجہ اگر مذہب کی طرف پھر

Page 22

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم جائے تو بہت بڑے بڑے پیمانوں پر ہو سکتی ہیں مگر ان کی وجہ سے خلیفہ وقت اپنے مرکز کو نہیں چھوڑ سکتا ورنہ اس کے لئے مرکز میں رہنا مشکل ہو جائے گا.ایک مشہور جرمن مد بر فلاسفر کا یہ قول مجھے نہایت پسند ہے اور بہت ہی سچا معلوم ہوتا ہے کہ ہر کام کے افسروں کو بالکل کام سے الگ اور فارغ رہنا چاہیے تا کہ وہ یہ دیکھتے رہیں کہ کام کرنے والے فارغ نہیں ہیں.اگر وہ خود کام میں لگ جائیں گے تو دوسرے کام کرنے والوں کی نگرانی نہیں کر سکیں گے.اس کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی کارکنوں کو صرف نگرانی کا کام کرنا چاہیے جزئی کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہئے.یہ بات اور محکموں کے متعلق بھی درست ہوتی ہے مگر خلافت کے متعلق تو بہت ہی درست ہے.میں اپنے تجربہ کی بناء پر جانتا ہوں کہ خلافت ایک مردم کش عہدہ ہے.اس کا کام اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل اس کے ساتھ نہ ہو تو یقیناً ایک قلیل عرصہ میں اس عہدہ پر متمکن انسان ہلاک ہو جائے مگر چونکہ خدا تعالیٰ اس عہدہ کا نگران ہے وہ اپنے فضل سے کام چلا دیتا ہے.غرضیکہ وعظوں اور لیکچروں کے لئے باہر جانا خواہ وہ کسی عظیم الشان مذہبی کا نفرنس کی دعوت ہی پر کیوں نہ ہو خلفاء کے کام کے خلاف بلکہ مشکلات پیدا کرنے کا موجب ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ امریکہ جاپان وغیرہ ممالک میں مذہبی کا نفرنسیں ہوں اور وہاں کے لوگ دعوت دیں.اگر وہاں بھی جاویں تو ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اگر نہ جاویں تو قومی تعصب کی وجہ سے ان مملکوں کے لوگ اس کو اپنی ہتک خیال کریں گے اور تبلیغ سلسلہ میں رُکاوٹ پیدا ہوگی.مغربی ممالک کے لوگ قومی عزت کا اس قدر احساس رکھتے ہیں کہ جن امور کو ہم لوگ بالکل معمولی خیال کرتے ہیں وہ اسے اپنی زندگی اور موت کا سوال سمجھ بیٹھتے ہیں.پس میں مذہبی کا نفرنس کی دعوت کے جواب میں جانے کے مخالف ہوں اور اس امر میں جو لوگ نہ جانے کا مشورہ دیتے ہیں اُن سے متفق ہوں“.(انوار العلوم جلد ۸ صفحه ۳۸۲،۳۸۱)

Page 23

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم مسلمان صرف روحانی خلیفہ کے ہاتھ پر جمع ہو سکتے ہیں حضرت مصلح موعود نے سفر انگلستان ۱۹۲۴ء کے دوران ۱۵/ اگست کو جہاز سے احباب جماعت کے نام تیسر ا خط تحریر فرمایا اس میں مصر ، فلسطین اور شام کے جو حالات حضور کو ملاحظہ کرنے کا موقع ملا بیان کر کے ان کا حیرت انگیز تجزیہ کیا.جامعہ ازہر کی خلافت کمیٹی سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.آج اگر ایک ہاتھ پر مسلمان جمع ہو سکتے ہیں تو صرف روحانی خلیفہ کے ہاتھ پر کیونکہ اس کے ہاتھ پر جمع ہونے سے کوئی حکومت مانع نہیں ہوگی یا کم از کم اس کو منع کرنے کا حق نہ ہوگا اور اگر منع کرے گی تو سب دنیا میں ظالم کہلائے گی.سیاسی معاملات کا حال بالکل الگ ہے.کوئی حکومت اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی اور ہر حکومت حق بجانب ہوگی اگر وہ اجازت نہ دے کہ اس کی رعایا کسی دوسرے شخص کی سیاسی امور میں فرمانبرداری کرنے کا عہد کرے در آنحالیکہ وہ شخص جس کے ہاتھ پر اس کی رعایا مجتمع ہو اس کے قبضہ سے باہر اور اس کے تصرف سے الگ ہو.(انوار العلوم جلد ۸ صفحه ۴۴۳ )

Page 24

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم کیا خلیفہ سے اختلاف ہوسکتا ہے؟ حضرت مصلح موعود نے ۱۹۲۵ء کو قادیان کے جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنی تقریر میں چند متفرق امور جو جماعت کی اصلاح اور ترقی کے لئے ضروری تھے بیان فرمائے.یہ تقریر منہاج الطالبین کے نام سے شائع ہو چکی ہے.اس میں حضور ” خلیفہ کے ساتھ اختلاف ہوسکتا ہے یا نہیں “ کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.وو ایک اور خیال مجھے بتایا گیا ہے اور وہ یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیفہ سے چونکہ اختلاف جائز ہے اس لئے ہمیں ان سے فلاں فلاں بات میں اختلاف ہے.میں نے ہی پہلے اس بات کو پیش کیا تھا اور میں اب بھی پیش کرتا ہوں کہ خلیفہ سے اختلاف جائز ہے مگر ہر بات کا ایک مفہوم ہوتا ہے.اس سے بڑھنا دانائی اور عقلمندی کی علامت نہیں ہے.دیکھو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ڈاکٹر کی ہر رائے درست ہوتی ہے؟ ہرگز نہیں.ڈاکٹر بیسیوں دفعہ غلطی کرتے ہیں مگر باوجود اس کے کوئی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ ڈاکٹر کی رائے بھی غلط ہوتی ہے اس لئے ہم اپنا نسخہ آپ تجویز کریں گے، کیوں؟ اس لئے کہ ڈاکٹر نے ڈاکٹری کا کام باقاعدہ طور پر سیکھا ہے اور اس کی رائے ہم سے اعلیٰ ہے.اسی طرح وکیل بیسیوں دفعہ غلطی کر جاتے ہیں مگر مقدمات میں انہی کی رائے کو وقعت دی جاتی ہے اور جو شخص کوئی کام زیادہ جانتا ہے اس میں اس کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے.پس اختلاف کی بھی کوئی حد بندی ہونی چاہئے.ایک شخص جو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اُسے سمجھنا چاہئے کہ خلفا ء خدا مقرر کرتا ہے اور خلیفہ کا کام دن رات لوگوں کی راہنمائی اور دینی مسائل میں غور وفکر ہوتا ہے.اس کی رائے کا دینی مسائل میں احترام ضروری ہے اور اس کی رائے سے اختلاف اُسی وقت جائز ہو سکتا ہے جب اختلاف کرنے والے کو ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہو جائے کہ جو بات

Page 25

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم وہ کہتا ہے وہی درست ہے.پھر یہ بھی شرط ہے کہ پہلے وہ اس اختلاف کو خلیفہ کے سامنے پیش کرے اور بتائے کہ فلاں بات کے متعلق مجھے یہ شبہ ہے اور خلیفہ سے وہ شبہ دور کرائے.جس طرح ڈاکٹر کو بھی مریض کہہ دیا کرتا ہے کہ مجھے یہ تکلیف ہے آپ بیماری کے متعلق مزید غور کریں.پس اختلاف کرنے والے کا فرض ہے کہ جس بات میں اُسے اختلاف ہوا سے خلیفہ کے سامنے پیش کرے نہ کہ خود ہی اس کی اشاعت شروع کر دے.ورنہ اگر یہ بات جائز قرار دے دی جائے کہ جو بات کسی کے دل میں آئے وہی بیان کرنی شروع کر دے تو پھر اسلام کا کچھ بھی باقی نہ رہے.کیونکہ ہر شخص میں صحیح فیصلہ کی طاقت نہیں ہوتی.ورنہ قرآن شریف میں یہ نہ آتا کہ جب امن یا خوف کی کوئی بات سنو تو اولی الامر کے پاس لے جاؤ.کیا اُولی الامر غلطی نہیں کرتے ؟ کرتے ہیں مگر ان کی رائے کو احترام بخشا گیا ہے اور جب ان کی رائے کا احترام کیا گیا ہے تو خلفاء کی رائے کا احترام کیوں نہ ہو.ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ ہر بات کے متعلق صحیح نتیجہ پر پہنچ سکے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.اگر کوئی شخص تقویٰ کے لئے سو بیویاں بھی کرے تو اس کے لئے جائز ہیں.ایک شخص نے یہ بات سن کر دوسرے لوگوں میں آ کر بیان کیا کہ اب چار بیویاں کرنے کی حد نہ رہی سو تک انسان کر سکتا ہے اور یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرما دی ہے.آپ سے جب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میری تو اس سے یہ مراد تھی کہ اگر کسی کی بیویاں مرتی جائیں تو خواہ اُس کی عمر کوئی ہو تقویٰ کے لئے شادیاں کر سکتا ہے.پس ہر شخص ہر بات کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا اور جماعت کے اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ اگر کسی کو کسی بات میں اختلاف ہو تو اُسے خلیفہ کے سامنے پیش کرے.اگر کوئی شخص اس طرح نہیں کرتا اور اختلاف کو اپنے دل میں جگہ دے کر عام لوگوں میں پھیلاتا ہے تو وہ بغاوت کرتا ہے اسے اپنی اصلاح کرنی چاہئے“.(انوار العلوم جلد ۹ صفحه ۱۶۳،۱۶۲)

Page 26

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم خلیفہ کا ادب اور مقام جلسہ سالانہ ۱۹۲۶ء کے دوسرے دن ۲۷ / دسمبر کی تقریر میں دیگر متفرق امور کے علاوہ احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے خلیفہ کے ساتھ ادب اور تقویٰ سے معاملات کرنے کے بارہ میں حضرت مصلح موعود نے فرمایا :.اسی طرح یہاں جب ہمارے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ خلیفہ قائم کرتا ہے وہ اگر اموال تلف کرتا ہے یا تلف کرنے دیتا ہے تو وہ خود خدا کے حضور جوابدہ ہے تم اس پر اعتراض نہیں کر سکتے لیکن اگر بہترین نتائج پیدا کرنے کے لئے خرچ کرتا ہے تو پھر معترض شخص خطر ہے.تقومی اور ادب سیکھو آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ تم نے اقرار کیا ہے کہ تم ہر چیز کو میرے حکم پر قربان کر دو گے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس اقرار کا پورے طور پر خیال نہیں رکھا جا تا.اقرار تو یہ تھا کہ جو کچھ میں کہوں وہ تم کرو گے لیکن عمل یہ ہے کہ چند پیسوں پر ابتلاء آ جاتا ہے.یہ تمام وسو سے تقوی کی کمی سے پیدا ہوتے ہیں اس لئے میں تقویٰ کے حصول کے لئے اور اس میں ترقی کے لئے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں.خواہ آپ میں سے بعض مجھ سے عمر میں بڑے ہوں لیکن ایک بات آپ میں سے کسی میں نہیں.وہ یہ کہ میں خدا کا قائم کردہ خلیفہ ہوں.میری تمام زندگی میں لوگ میری بیعت کریں گے.میں کسی کی خدا کے قانون کے مطابق بیعت نہیں کر سکتا اور یہ عہدہ میری موجودگی میں تم میں سے کسی کو نہیں مل سکتا.نبوت کے بعد سب سے بڑا عہدہ یہ ہے.ایک شخص نے مجھے کہا کہ ہم کوشش کرتے ہیں تا گورنمنٹ آپ کو کوئی خطاب دے.میں نے کہا یہ خطاب تو ایک معمولی بات ہے.میں شہنشاہ عالم کے عبدہ

Page 27

خلافة على منهاج النبوة 11 جلد دوم کو بھی خلافت کے مقابلہ میں ادنی سمجھتا ہوں.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے معاملات میں ایسا رنگ اختیار کریں جس میں تقویٰ اور ادب ہو.اور میں کبھی یہ بھی نہیں پسند کر سکتا کہ وہ ہمارے دوست جن کو اعتراض پیدا ہوتے ہیں ضائع ہوں کیونکہ خلافت کے عہدہ کے لحاظ سے بڑی عمر کے لوگ بھی میرے لئے بچہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور کوئی باپ نہیں چاہتا کہ اس کا ایک بیٹا بھی ضائع ہو.میں تو ہمیشہ یہی خواہش رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر ابتلاء سے ہمیشہ دوستوں کو محفوظ رکھے.(انوار العلوم جلد ۹ صفحه ۴۲۵، ۴۲۶)

Page 28

خلافة على منهاج النبوة ۱۲ جلد دوم خلافت اور مرکز سے مضبوط تعلق رکھیں ۲۰ رمئی ۱۹۲۸ء کو امریکہ اور ماریشس کے مبلغین کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے خلافت اور مرکز سے تعلق پیدا کرنے کے بارہ میں فرمایا :.روحانی امور میں ایک نظام پر سارا کام چلتا ہے جسمانیات میں نیچے سے اوپر کی طرف ترقی ہوتی ہے لیکن روحانیات میں اوپر سے نیچے کی طرف فیض پہنچتا ہے.اس لئے روحانیت میں نظام بہت بڑا تعلق رکھتا ہے.پس کوشش کرنی چاہیے کہ لوگوں کا مرکز اور خلافت سے تعلق مضبوط ہو.ان کو یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ مرکز میں خط لکھیں سلسلہ کی طرف سے جو تحریکیں ہوں ، وہ سنائی جائیں ، خطبات پڑھائے جائیں ، مذہبی طور پر خلافت کے نظام کی اہمیت بتائی جائے اور بتایا جائے کہ خلافت مذہبی نظام کا جز ہے“.( الفضل ۲۹ مئی ۱۹۲۸ء )

Page 29

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم خلیفہ سے تعلق ارادت ۱ار ستمبر ۱۹۲۸ء تعلیم الاسلام ہائی سکول اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی طرف حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے باغ میں ملک غلام فرید صاحب ایم اے کے اعزاز میں ایک پارٹی دی گئی اور ایڈریس پیش کیا گیا اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جو یر فرمائی اس میں خلیفہ کے ساتھ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.سو کبھی اخلاق کی درستی ، کارکنوں میں توازن قائم رکھنے اور دیگر کئی ایک وجوہ کے باعث کام لینے والے کو جذبات کو دبانا پڑتا ہے لیکن یہ دبانے سے اور بھی تیز ہوتے ہیں.ہر وہ شخص جو دین کا کوئی بھی کام کرتا ہے گو وہ اپنا فرض ہی ادا کرتا ہے لیکن خلیفہ پر احسان بھی کرتا ہے کہ اس کی ذمہ داری خلیفہ پر ہے اور میں اس احسان کو اچھی طرح محسوس کرتا ہوں.ایک اور بات بھی ہے خلیفہ کے تعلقات جماعت سے باپ بیٹے کے ہوتے ہیں.اس لئے جہاں اسے مختلف موقعوں پر جذبات کو دبانا پڑتا ہے وہاں دوسروں کا فرض ہے کہ انہیں ظاہر کریں.خلیفہ نے چونکہ بہتوں سے کام لینا ہوتا ہے اس لئے اسے جذبات تو دبانے پڑتے ہیں لیکن دوسروں کو ضرور ظاہر کرنے چاہئیں کیونکہ جذبات کے اظہار سے ظاہر کرنے والوں کی حقیقت اور میلان طبعی کا پتہ چلتا ہے اور اگر ہر کوئی اپنے جذبات کو دبائے ہی رکھے تو پھر کام لینا مشکل ہو جاتا ہے.لیکن ظاہر کرنے کے بعد کام لینے والے کے دل میں جو بھی خدا تعالی ڈالے وہ اس کے مطابق کام لے سکتا ہے.پس دوسروں کو اپنے جذبات دبانے نہیں چاہئیں کیونکہ جذبات کا دبانا بعض اوقات ٹھوکر کا موجب بھی ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک مخلص خادم تھے.وہ حضور کی مجالس میں نہیں آتے تھے اور ظاہر یہ کرتے تھے کہ حضور کے رُعب کے باعث جانے کی جرات نہیں

Page 30

خلافة على منهاج النبوة ۱۴ جلد دوم ہوتی.آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا یہ بھی شیطانی وسوسہ ہے.حضرت ابوبکر اور دیگر ا کا بر صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجالس میں آتے تھے.ہماری مجلس میں کسی کا نہ آنا سخت غلطی ہے اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ جذبات کو دبانا نہیں چاہیے.پیر مرید کا تعلق دراصل جذبات کا ہی تعلق ہوتا ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ان كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْببكم الله.یہ بھی دراصل جذبات کا ہی اظہار ہے.یہاں اتباع فرمایا.جس کے معنی ہیں پیچھے چلنا.یہاں حکم ماننا یا اطاعت کرنا نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ جیسے بچہ اپنی ماں کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اسی طرح تم رسول کے پیچھے پیچھے اگر چلو گے تو خدا تعالیٰ تم سے اس کے نتیجہ میں محبت کرے گا اور پیچھے چلنا محض جذبات کا تعلق ہے اور خلیفہ بھی رسول کا ظل ہوتا ہے اس لئے وہ بھی جذبات سے ہی تعلق رکھنے والی چیز ہے.ایڈریس کے متعلق جو اس وقت پیش کیا گیا ہے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اس لحاظ سے قابل قدر ہے کہ اس میں عام ایڈریسوں سے جو ایسے موقعوں پر پیش کئے جاتے ہیں ایک قدم آگے اُٹھایا گیا ہے.یعنی اس میں محبت آمیز جرح بھی تھی.میرے نزدیک اپنے خیالات کو اس حد تک بیان کرنا کہ محبت اور ادب و احترام کا پہلو مدنظر رہے ایک خوشنما پہلو ہے.صرف یہ کہہ دینا کہ آپ آئے اور بہت خوشی ہوئی اس میں کوئی زیادہ لذت نہیں ہوتی بلکہ اس میں تکلف پایا جاتا ہے پس ایڈریس کے طریق بیان پر بھی میں ( الفضل ۵ - اکتوبر ۱۹۲۸ء ) اظہارِ خوشنودی کرتا ہوں “.آل عمران: ۳۲

Page 31

خلافة على منهاج النبوة ۱۵ جلد دوم امارت کا خلافت کے ماتحت نظام اور خلافت سے وابستگی ۱۹۳۰ء میں جماعت احمد یہ صوبہ بنگال کے عہد یداروں میں اختلاف کی وجہ سے جماعتی کام میں نقص پیدا ہونے لگا.اس پر حضور نے صوبہ کے آئندہ نظام کے بارہ میں احباب جماعت بنگال سے مشورہ طلب کیا.حصول مشورہ کے بعد آپ نے ایک مضمون تحریر فرمایا کہ امارت کا نظامِ خلافت کے ماتحت بہترین نظام ہے جسے اگر صحیح چلا یا جائے تو تمام ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں.ابتداء یہ مضمون حضور نے ۱۳/ دسمبر ۱۹۳۰ء کو تحریر فرمایا جو امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت“ کے نام سے شائع ہوا اس میں خلافت سے وابستگی کی ضرورت بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.وو دوسری طرف آپ کی تحریرات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس جماعت کی ترقی خلافت سے وابستگی کے ساتھ مشروط رکھتے ہیں.خلیفہ کو واجب الاطاعت قرار دیتے ہیں اور اس کے وجود کو خدا تعالیٰ کے فضل کا نشان اور ذریعہ فرماتے ہیں جس کے فقدان کے ساتھ سلسلہ کی برکات بھی ختم ہو جائیں گی اور اس سے بغاوت کو شقاوت اور طغیانی قرار دیتے ہیں.خلافت کے لئے مشورہ کی ضرورت تیسری طرف اسلام سے یہ امر با وضاحت ثابت ہے کہ کوئی خلافت بغیر مشورہ کے نہیں چل سکتی اور یہ کہ جہاں تک ہو خلیفہ کو کثرت رائے کا احترام کرنا چاہیے اور اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے.سوائے اس صورت کے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کی خلاف ورزی کثرتِ رائے میں پائے یا اسلام کو کوئی واضح نقصان پہنچتا دیکھے یا مشورہ کو جماعت کی کثرتِ رائے کا آئینہ نہ سمجھے وغیرہ وغیرہ.

Page 32

خلافة على منهاج النبوة ۱۶ جلد دوم مجلس عاملہ کی حیثیت ان تینوں امور کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک خلیفہ کو سب کام اپنے ہاتھ سے نہیں کرنے چاہئیں بلکہ ایک مجلس عاملہ کے ذریعہ سے کرنے چاہئیں تا کہ اس کی رائے میں کوئی خاص تعصب نہ پیدا ہو جائے.وہ مجلس عاملہ اپنے دائرہ عمل میں سب دنیا کی جماعتوں کیلئے واجب الاطاعت ہونی چاہیے.خلیفہ کو جماعت سے مشورہ لے کر اپنی پالیسی کو طے کرنا چاہیے اور اس مشورہ کا انتہائی حد تک لحاظ کرنا چاہیے اور اس سے یہ امر خود بخود نکل آیا کہ جب جماعت کے مشورہ سے کوئی امور طے ہوں تو مجلس عاملہ اس کی پابند ہو.جب قادیان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجلس عاملہ کا مرکز قرار دیا تو بہترین نظام بدرجہ اولیٰ خلیفہ اور مجلس شوری کیلئے اس مرکز کی پابندی ضروری ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہتر نظام کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا.اس نظام میں بغیر کسی حصہ ملک کو تکلیف میں ڈالنے کے ترقی کی بے انتہا ء گنجائش ہے اور باوجود مختلف صوبہ جات کی مخصوص ضرورتوں کو پورا کرنے کے قومیت کے تنگ بندھنوں سے نکالنے کی بھی پوری صورت موجود ہے.خلیفہ کے لئے کوئی شرط نہیں کہ وہ کس ملک کا باشندہ ہو.انجمن عاملہ کے لئے کوئی شرط نہیں کہ وہ کس ملک کے باشندوں سے چپنی جائے.مجلس شوری اپنی بناوٹ کے لحاظ سے لازماً سب دنیا کی طرف سے چینی جانی چاہیے اور چونکہ بیشتر حصہ اصولی تجاویز کا ایسی مجلس کے ہاتھوں سے گزرنا ہے اس وجہ سے ہر ملک اور قوم کے افراد کو سلسلہ کے کام میں اپنی رائے دینے کا موقع ہوگا اور یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ مسیحی پاپائیت کی طرح کسی خاص قوم کے ہاتھ میں سلسلہ کا کام چلا جائے گا.کیونکہ رومن کیتھولک نظام میں مجلس شوری پوپ کے مقرر کردہ نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے لیکن اسلامی مجلس شوری میں سب مسلمانوں کو نمائندگی کا کافی موقع ملتا ہے.پس اس نظام کے ذریعہ سے ہر ملک کو یکساں نمائندگی سلسلہ کے کام میں حاصل ہونے کے لئے راستہ کھلا ہے اور اس کے ماتحت سب دنیا کو ایک نقطہ پر جمع کیا جانا ممکن ہے اور یہی مقصد اسلام کا ہے جو قومیت کے تنگ دائرہ سے دنیا کو نکالنا چاہتا ہے“.(انوار العلوم جلد ۱ صفحه ۲۳۷ تا ۲۳۹)

Page 33

خلافة على منهاج النبوة 12 جلد دوم خلفاء کی اقسام حضور نے ۲۷ دسمبر ۱۹۳۰ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر خواتین سے خطاب میں خلفاء کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرمایا :.دنیا میں خلیفہ دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جنہیں انسان بناتا ہے دوسرے جنہیں خدا الہام کے ذریعہ بناتا ہے.الہام کی بناء پر ہونے والے خلیفہ کو نبی کہتے ہیں جو ملہم خلیفے ہوتے ہیں ان کے آنے پر دنیا میں فساد برپا ہو جاتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ خو د فسادی ہوتے ہیں بلکہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ طبائع ناموافق ہوتی ہیں.اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی پیدائش کے واقعہ کے متعلق فرمایا کہ اُس وقت فرشتوں نے بھی یہی کہا کہ آپ دنیا میں ایسے شخص کو پیدا کرنا چاہتے ہیں جو زمین میں فساد کرے.یعنی فرشتوں نے سوال کیا کہ آپ کی غرض تو اصلاح معلوم ہوتی ہے مگر در حقیقت یہ فساد کا موجب ہے.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے.میں خلیفہ اس لئے بناتا ہوں کہ تا اچھے اور خراب علیحدہ کئے جائیں“.(انوار العلوم جلد ا اصفحہ ۵۱۷)

Page 34

خلافة على منهاج النبوة ۱۸ جلد دوم انتخاب خلافت کی مشکل گھڑی ۱۹۳۰ء میں جب حضور کی وفات کی خبر مشہور ہوئی تو حضور نے جلسہ سالانہ کے موقع پر ۲۷ / دسمبر ۱۹۳۰ء کو تقریر کرتے ہوئے فرمایا :.بہت سے خطوط مجھے ایسے آئے جن میں جماعت کے معزز افراد نے لکھا ہے کہ اس خبر کے سنتے ہی اُنہوں نے ارادہ کر لیا کہ ملازمتیں چھوڑ کر بقیہ عمر دین کی خدمت میں صرف کریں گے اور اسلام کی اشاعت میں لگ جائیں گے“.” جہاں خدا تعالیٰ نے جماعت کو اخلاص کے اظہار کا موقع دیا وہاں یہ بھی بتا دیا کہ انسان آخر انسان ہی ہے خواہ وہ کوئی ہو جب ایسا وقت آئے تو انتخاب خلافت کس طرح کرنا ہے“.انتخاب خلافت کے اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں خدا تعالیٰ نے اس طرح جماعت کو اخلاص کے اظہار کا متعلق جماعت کو ہدایت موقع دیا مخلصین کے اخلاص کو انتہا تک پہنچا دیا اور کثیر حصہ کو دشمنوں کی شرارت سے محفوظ رکھا وہاں یہ بھی بتا دیا کہ انسان آخر انسان ہی ہے خواہ وہ کوئی ہو آخر ایک نہ ایک دن اسے اپنے مخلصین سے جدا ہونا ہے اس بات کا احساس خدا تعالیٰ نے جماعت کو کرا دیا.جماعت کے لحاظ سے اس سے ایک بہت بڑا سبق ملتا ہے اور وہ یہ کہ انسان مرتے ہیں ، رسول اور خلفاء فوت ہوتے ہیں، تمام ابنیاء کے سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے ، آپ کے خلفا ء بھی فوت ہو گئے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی انتقال ہو گیا.ایک وقت تک لوگوں کو ایک ہی کی امید تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی بھی موت ثابت کر دی.غرض موت ہر ایک کے لئے مقدر ہے.مگر یاد رکھو دشمن اب بھی

Page 35

خلافة على منهاج النبوة ۱۹ جلد دوم زندہ ہے وہ مرا نہیں صرف ڈرا ہے.اس صورت میں تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ خلیفہ سے جماعت کو جو تعلق ہے وہ جماعت ہی کی بہتری اور بھلائی کا موجب ہے اور جو بھی خلیفہ ہو اس سے تعلق ضروری ہے.پس اسلام اور احمدیت کی امانت کی حفاظت سب سے مقدم ہے اور جماعت کو تیار رہنا چاہیے کہ جب کبھی بھی خلفاء کی وفات ہو اُس وقت جو اسلام کی بہترین خدمت وہ کر سکتی ہے وہ یہی ہے کہ صحیح ترین انسان کو اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنے اور اُس سے الہام پانے کے بعد جماعت کی راہنمائی کے لئے منتخب کیا جائے اور ساری جماعت اس پر متفق ہو جائے.انتخاب خلافت سے بڑی آزمائش مسلمانوں کے لئے اور کوئی نہیں ہو سکتی.یہ ایسی ہی ہے جیسے باریک دھار پر چلنا جس سے ذرا قدم لڑکھڑانے سے انسان دوزخ میں جا گرتا ہے.اور ذرا سی احتیاط سے جنت میں پہنچ جاتا ہے.پھر یہ ذمہ داری اس لئے بھی نہایت نازک ہے کہ اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا الہام قلوب میں نازل ہوتا ہے.الفاظ میں نازل نہیں ہوتا.الفاظ میں جو الہام ہوا سے آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے لیکن قلوب میں نازل ہونے والے الہام کے متعلق ہو سکتا ہے کہ جو کچھ خیال کیا جائے وہ اصل الہام نہ ہو.خلافت خدا تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے.جب تک لوگ اس کے پانے کے قابل رہتے ہیں یہ انہیں حاصل رہتا ہے لیکن جب وہ اپنے آپ کو اس کے قابل نہیں رکھتے تو چھین لیا جاتا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا اليخت لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ ! کہ یہ مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں کے لئے انعام ہے.اگر لوگ مومن ہو نگے اور عمل صالح کریں گے تو یہ انعام ملے گا ورنہ چھن جائے گا.پس ہوسکتا ہے کہ ایک شخص جسے خلافت کے لئے منتخب کیا جائے اُس کا انتخاب صحیح الہام کے ماتحت نہ ہو بلکہ اپنی نفسی حالت کے ماتحت ہو اور وہ جماعت کو غلط راستہ پر لے جائے.پس یا د رکھو کہ انتخاب خلافت سے بڑھ کر مشکل اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے.باقی جس قدر ذمہ داریاں ہیں ان کے متعلق ضروری ہدایات الفاظ میں موجود ہیں لیکن اس کے لئے

Page 36

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم الفاظ میں کوئی ہدایت نہیں ہے.اس کی مثال وائرلیس کے آلہ کی سی ہے اگر اس کی تاریں ٹھیک ہوں تو صحیح پیغام سنا جا سکتا ہے ورنہ نہیں.پس جماعت کو اس کے متعلق اپنی ذمہ داری پہنچانی چاہیے اور نَسُلاً بَعْدَ نَسلِ روایت چھوڑ جانی چاہیے کہ ایک موقع جماعت پر ایسا آتا ہے جب کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بہترین انسان پر متفق ہو جانا چاہے“.( غیر مطبوعہ مواد ) غیر مبائعین کی کذب بیانی اس کے بعد حضور نے غیر مبائعین کے فتنہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ جھوٹ اور غلط بیانی یہ میں کس طرح حد سے گزر چکے ہیں اور اس بات پر اظہار تعجب و افسوس فرمایا کہ ایسے ایسے جھوٹ دیکھ کر ان لوگوں کے دل میں کیوں درد نہیں پیدا ہوتا جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ تعلیم دی کہ کسی حالت میں خفیف سے خفیف جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہیے.حضور نے ان لوگوں کے حد سے بڑھے ہوئے جھوٹ کی مثال میں ۳۰ ستمبر کے پیغام کا ایک مضمون پڑھ کر سنایا جس میں لکھا ہے کہ خلیفہ قادیان کو اپنے بعد کی خلافت کی فکر ابھی سے دامن گیر ہے اور اس منصب جلیلہ کے لئے اپنے لخت جگر میاں ناصر احمد کے نام قرعہ فال نکالا ہے.اس انتخاب کے بعد ولی عہد خلافت پرنس آف ویلز کی طرح دورہ پر نکلے.تمام قادیانی جماعتوں کو اپنے دیدار فیض آثار سے آنکھوں کا نور اور دل کا سرور عطا فرمایا.ہدیے، نذرانے اور تحائف وصول کر کے کامیابی سے قادیان واپس تشریف فرما ہوئے.اس کامیاب دورہ کا اندازہ لگانے کے بعد کہ مریدوں نے میاں ناصر کو سر آنکھوں پر قبول کیا.اخباروں ، پوسٹروں، اشتہاروں اور خطوط وغیرہ کی پیشانیوں کو هُوَ النَّاصِرُ کے فقرہ سے مزین کیا جانے لگا اور یوں ایک رنگ میں اعلان کیا گیا کہ ہونے والا خلیفہ ناصر میاں ہے.تمام حاضرین نے لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کہتے ہوئے شہادت دی کہ میاں ناصر احمد صاحب نے کوئی دورہ نہیں کیا.حضور نے وضاحت کے ساتھ پیغام کے اس مضمون کی تردید کی اور بتایا کہ میاں ناصر احمد کو خلافت کے لئے دورہ کرانے کا الزام لگانے والے دیکھیں میں تو وہ ہوں جس نے ۱۹۲۴ء کی مجلس مشاورت میں یہ بات پیش کی تھی کہ کوئی خلیفہ

Page 37

خلافة على منهاج النبوة ۲۱ جلد دوم اپنے کسی رشتہ دار کو اپنا جانشین نہیں مقرر کر سکتا چنانچہ میں نے پیش کیا تھا کہ :.کوئی خلیفہ اپنے بعد اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو یعنی اپنے باپ یا بیٹے یا بھائی یا بہنوئی یا داماد کو یا اپنے باپ یا بیٹوں یا بیٹیوں یا بھائیوں کے اوپر یا نیچے کی طرف کے رشتہ داروں کو اپنا جانشین مقرر نہیں کر سکتا.نہ کسی خلیفہ کی زندگی میں مجلس شوری اس کے کسی مذکورہ بالا رشتہ دار کو اس کا جانشین مقرر کر سکتی ہے.نہ کسی خلیفہ کے لئے جائز ہوگا کہ وہ وضا حنا یا اشارتاً اپنے کسی ایسے مذکورہ بالا رشتہ دار کی نسبت تحریک کرے کہ اس کو جانشین مقرر کیا جائے.اگر کوئی خلیفہ مذکورہ بالا اصول کے خلاف جانشین مقرر کرے تو وہ جائز نہ سمجھا جائے گا اور مجلس شورا ی کا فرض ہوگا کہ خلیفہ کی وفات پر آزادانہ طور سے خلیفہ حسب قواعد تجویز کرے اور پہلا انتخاب یا نا مزدگی چونکہ نا جائز تھی وہ مستر د سمجھی جائے گی“.اب دیکھو غیر مبائعین کی طرف سے یہ الزام اس شخص پر لگایا جاتا ہے جس نے خلافت کے متعلق پیش بندیاں پہلے سے ہی کر دی ہیں تا کہ کوئی ایسی کارروائی نہ کر سکے اور اگر کرے (انوار العلوم جلد ۱ صفحه ۵۳۶، ۵۳۷) تو اسے مستر د کر دیا جائے“.النور : ۵۶

Page 38

خلافة على منهاج النبوة ۲۲ جلد دوم خلیفہ کا احترام اور مقام ۱۹۳۲ء کے جلسہ سالانہ کے دوسرے دن ۲۷ / دسمبر کو حضور نے حسب معمول متفرق امور کے بارہ میں تقریر فرمائی.ابتداء حضور نے فرمایا کہ عورتوں کی جلسہ گاہ نا کافی ہونے کی وجہ سے بہت دقت پیش آئی ہے اس لئے منتظمین کو توجہ کرنی چاہیے.اسی طرح کی توجہ طلب مزید کچھ باتوں کی طرف توجہ دلائی اور مقام خلافت بیان کرتے ہوئے فرمایا :.ایک اور بات ہے اور وہ یہ کہ ایک طبقہ ایسا ہے جو سفارش میں خلافت کو بھی کھینچ کر لا نا چاہتا ہے.یہ بہت گری ہوئی اور نہایت قابل نفرت بات ہے.خلافت نبوت کی نیابت ہے اور نبوت خدا کی نیابت ہے پس خلیفہ کو ایسی جگہ کھڑا کرنا جہاں اس کی گردن نیچی ہو، بہت بڑی ہتک ہے.ہم دُنیوی لحاظ سے بادشاہ کی اطاعت کرتے ہیں مگر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خلیفہ کا درجہ تمام دنیا کے بادشاہوں سے بڑا ہے.اگر کوئی یہ نہیں یقین رکھتا تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مسیحیت سے واقف نہیں.خلیفہ کے پاس اس لئے آنا کہ ڈپٹی کمشنر یا کسی مجسٹریٹ کو سفارش کرائی جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ کی ان حکام کے سامنے نظر نیچی کرائی جائے اور اگر اس حد تک خلیفہ کی سفارش لے جائیں تو پھر خدا تعالیٰ پر تو کل کہاں رہا.جو شخص کسی مجسٹریٹ کے لئے سفارش چاہتا ہے اسے تو میں مجرم سمجھتا ہوں.میں نے جب یہ رکھا ہے کہ اپنی جماعت کے کسی قاضی کے متعلق اگر مجھے یہ معلوم ہوا کہ اس نے کسی معاملہ میں کسی کی سفارش قبول کی ہے تو میں اسے نکال دوں گا تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ کسی مجسٹریٹ سے خود سفارش کروں.بعض دفعہ کر دیتا ہوں مگر وہ اور رنگ کی سفارش ہوتی ہے.مثلاً یہ کہ مقدمہ کا جلدی تصفیہ کر دیا جائے اس قسم کی سفارش میں نقص نہیں مگر یہ کہ فلاں کے حق میں فیصلہ کیا جائے یہ نہیں ہو سکتا.ایک شخص نے تو یہاں تک کہہ دیا

Page 39

خلافة على منهاج النبوة ۲۳ جلد دوم کہ میرا کیس اتنا اہم ہے کہ خلیفہ کو خود گورنر کے پاس جا کر کہنا چاہیے کہ فیصلہ میرے حق میں ہو.ایک شخص نے کہا ہمارے علاقہ میں تبلیغ کا بڑا موقع نکلا ہے اور وہ یہ کہ مجھے نمبر دار بنوا دیا جائے.میں متنبہ کرتا ہوں کہ اس قسم کی سفارشات چاہنا خلافت کی ہتک ہے اور اسے جاری نہیں رہنا چاہیے.اس قسم کے کاموں کے لئے مجھے مت کہا کرو بلکہ آپس میں بھی ایک دوسرے کو نہ کہا کرو اور خدا تعالیٰ پر توکل کرو.جب ہمارے آپس کے ایسے تعلقات نہ تھے اُس وقت کون حفاظت کرتا تھا.خدا پر ہی تو کل کرو تا کہ کسی مشکل اور مصیبت کے وقت خود خدا تمہاری سفارش کرنے والا ہو.(انوار العلوم جلد ۱۲ صفحه ۶۰۴)

Page 40

خلافة على منهاج النبوة ۲۴ جلد دوم خلیفہ کی ذات پر حملہ لعنت الہی کا مستحق بناتا ہے مورخہ ۲۶ / جون ۱۹۳۷ء کو بمقام بیت اقصی قادیان سید نا المصلح الموعود نے خطاب فرمایا جس میں میاں فخر الدین صاحب ملتانی کی فتنہ پردازیوں اور جماعت کے خلاف بغض و کینہ کی تفصیلات سے احباب جماعت کو آگاہ فرمایا اور اسے اخراج اور مقاطعہ کی سزا سنائی.حضور نے خلافت کی حفاظت اور اس کی عزت اور وقار کی اہمیت بیان کرتے ہوئے جماعت کو نصیت فرمائی کہ:.قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ جب رسول یا اس کا خلیفہ فیصلہ کرے تو اسے ٹھیک مان لیا جائے.ہو سکتا ہے کہ خلیفہ غلط فیصلہ کر دے مگر پھر بھی اسے رغبت دل کے ساتھ تسلیم کرنا ضروری ہے.ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو سزا دینا چا ہے اور اس لئے وہ سچا ہونے کے با و جو دمقدمہ میں جھوٹا ثابت ہو جائے.ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ آیت صرف آنحضرت علی کیلئے ہے کیونکہ وہ نبی تھے.مگر اس معاملہ میں نبی اور خلیفہ میں کوئی فرق نہیں کیونکہ نبی اور خلیفہ میں اس جگہ فرق ہوتا ہے جہاں نبوت کا مخصوص سوال ہو.اور مقدمات میں نبوت کے مقام کو کوئی دخل نہیں کیونکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں مقدمات کے فیصلہ کرنے میں غلطی کر سکتا ہوں.اگر نبی کے فیصلے منصب نبوت کے ماتحت ہوتے تو وہ ان میں کبھی غلطی نہ کر سکتا.حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایک مقدمہ کا فیصلہ ایک شخص کے حق میں کر دیا تو دوسرے نے کہا کہ میں اس فیصلے کو تو مانتا ہوں مگر یہ ہے غلط.اس پر آپ نے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی لسان شخص مجھے دھوکا دیکر مجھ سے اپنے حق میں فیصلہ کر والے مگر میرا فیصلہ اسے خدا تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچا سکے گا لے گویا آپ تسلیم کرتے

Page 41

خلافة على منهاج النبوة ۲۵ جلد دوم ہیں کہ قضاء کے بارہ میں میں بھی غلطی کر سکتا ہوں مگر باوجود اس کے قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر یہ لوگ شرح صدر سے تیرے فیصلے کو نہیں مانیں گے تو یہ ایمان والے نہیں ہیں.پس اس معاملہ میں نبی اور خلیفہ کی پوزیشن ایک ہی ہے.نظام کے قیام کیلئے یہ بات ضروری ہے کہ ایک انسان کو ایسا حکم مان لیا جائے کہ جس کے فیصلہ کے آگے کوئی چون و چرا نہ کرے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیا خلیفہ بے گناہ ہوتا ہے؟ کیا وہ غلط فیصلہ نہیں کر سکتا ؟ مگر میں کہتا ہوں کہ اے بیوقوفو! کیا مجسٹریٹ بے گناہ ہوتے ہیں؟ کیا وہ غلطی نہیں کر سکتے ؟ پھر یہ تسلیم کرنے کے با وجود کہ وہ رشوت بھی لیتے ہیں ، جھوٹے بھی ہوتے ہیں، متعصب بھی ہوتے ہیں، پکڑے جاتے اور سزا بھی پاتے ہیں.کیا تم نہیں جانتے کہ حکومتوں نے ان کے فیصلہ پر سخت جرح کرنے کو ہتک عدالت قرار دیا ہے اور ایسا کرنے والے کو سزا دی جاتی ہے.تم اگر کسی مجسٹریٹ کے فیصلہ کے خلاف اس قسم کی بات کہو کہ اُس نے رعایت سے کام لیا ہے تو فوراً جیل خانہ میں بھیج دیئے جاؤ.مگر کیا خدائی گورنمنٹ کی تمہارے نزدیک کوئی وقعت ہی نہیں کہ جو کچھ منہ میں آئے کہہ دیتے ہو.کیا تم میں سے کوئی علی الاعلان کہہ سکتا ہے کہ مجسٹریٹ نے دیانت داری کے خلاف فیصلہ کیا ہے.مگر یہ کہنے میں تمہیں کوئی باک نہیں کہ خلیفہ نے دیانت داری کے خلاف فیصلہ کیا ہے اور اس کا نام حریت و آزادی رکھتے ہو.لیکن سرکاری مجسٹریٹ کے فیصلہ کے متعلق یہ بات کہتے وقت حریت و آزادی کہاں جاتی ہے.اس کے متعلق صرف اس وجہ سے نہیں کہتے کہ گورنمنٹ کی جوتی سر پر ہوتی ہے.تم میں بعض لوگ بیٹھے ہیں جو کہتے ہیں کہ کیا چھوٹی سی بات پر جماعت سے نکال دیا مگر سوچو! کیا یہ بات چھوٹی ہے؟ قرآن کریم نے کہا ہے کہ جو کہتا ہے کہ نبی یا اس کے جانشینوں کا فیصلہ غلط ہے وہ مومن ہی نہیں.صحابہ نے تو اس بات کو اس قدر اہم قرار دیا ہے کہ ایک دفعہ دو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ہمارا فیصلہ کر دیں.ان میں سے ایک منافق تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بات سن ہی رہے تھے کہ اُس نے خیال کیا ، شاید فیصلہ میرے خلاف ہی نہ کر دیں اس لئے اُس نے کہا کہ یا رَسُولَ الله! آپ کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے، ہم اپنا یہ مقدمہ حضرت عمرؓ کے پاس لے جاتے ہیں.آپ نے فرمایا لے

Page 42

خلافة على منهاج النبوة ۲۶ جلد دوم جاؤ.چنانچہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور دورانِ گفتگو میں حضرت عمرؓ کو اس بات کا علم ہوا کہ پہلے یہ آنحضرت ﷺ کے پاس گئے تھے مگر وہاں منافق یہ کہہ کر آیا ہے کہ حضرت عمرؓ سے ہم فیصلہ کرا لیں گے.اس پر حضرت عمر نے فرمایا.ذرا ٹھہرو، میں ابھی آتا ہوں گھر گئے اور تلوار لا کر اُس شخص کی گردن اُڑا دی تے اُس کے رشتہ دار رسول کریم ﷺ کے پاس شکایت لیکر گئے.آپ نے فرمایا میں یہ ماننے کو تیار نہیں کہ عمر مومنوں کی گردنیں کاٹتا پھرتا ہے.مگر آپ نے حضرت عمر کو بلا کر دریافت فرمایا.تو انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے.مجھے معلوم ہوا تھا کہ یہ شخص اس طرح آپ کو کہہ کر گیا ہے اس لئے میں نے مار دیا کہ جو شخص محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے عمر پر زیادہ اعتبار کرتا ہے اُس کی سزا یہی ہے.بیشک حضرت عمرؓ کا یہ فعل درست نہ تھا ، ہماری شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی لیکن جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحکم اللہ اُن کے اس فعل کو نا پسند فر مایا ، وہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر کے اصل کو تسلیم کیا کہ ایسا کہنے والا مومن نہیں کہلا سکتا اور فرمایا.فلا وربك لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ " ہم اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کوقتل کا فعل درست نہیں مگر یہ بھی درست نہیں کہ وہ شخص مومن تھا اور عمر نے مومن کو قتل کیا.جو شخص تیرے فیصلہ کو نہیں مانتا وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہرگز مومن نہیں.جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایک فاسق کو مارا تھا.پس جب آنحضرت ﷺ خود فرماتے ہیں کہ میں غلطی کر سکتا ہوں تو پھر خلیفہ سے غلطی کس طرح ناممکن ہے.مگر پھر بھی اس کے فیصلہ کو شرح صدر کے ساتھ مانا ضروری ہے.اس اصل کو بھلا دو تو تمہارے اندر بھی تفرقہ اور تنفر پیدا ہو جائے گا.اسے مٹا دو اور لوگوں کو کہنے دو کہ خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے تو تم بھی پراگندہ بھیڑوں کی طرح ہو جاؤ گے جن کو بھیڑیئے اُٹھا کر لے جائیں گے اور دنیا کی لعنتیں تم پر پڑیں گی.جسے خدا نے عزت دی ہے، تمہارے لئے اس کی عیب جوئی جائز نہیں.اگر وہ غلطی بھی کرتا ہے اور اُس کی غلطی سے تمہیں نقصان پہنچتا ہے تو تم صبر کرو.خدا دوسرے ذریعہ سے تمہیں اس کا اجر دے گا اور اگر وہ گندہ ہو گیا ہے تو جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح فرماتے ہیں ، تم خدا کے آگے اس کا معاملہ پیش کرو.وہ اگر تم کو حق پر دیکھے گا اُسے خود موت |

Page 43

خلافة على منهاج النبوة ۲۷ جلد دوم دے دیگا اور تمہاری تکلیف دور کر دے گا.مگر تمہارا اپنے ہاتھ میں قانون لینا اور ظاہر یا خفیہ خلیفہ کی ذات یا عزت پر حملہ کرنا تم کو خدا تعالیٰ کی لعنت کا مستحق بناتا ہے.اگر تم خدا تعالیٰ کے قائم کر دہ کی عزت پر ہاتھ ڈالو گے تو یا درکھو کہ خدا تعالیٰ تمہاری عزت کی چادر کو چاک چاک کر دے گا اور تم تباہ و برباد ہو جاؤ گے.تمہاری عزت اسی میں ہے کہ خلافت کی عزت کرو اور جو شخص اس کی بے عزتی کیلئے کھڑا ہو، تم اُس سے تعلق نہ رکھو.بے شک اسلام میں قانون کا اپنے ہاتھ میں لینا جائز نہیں ہے لیکن ایسے شخص سے بیزاری اور قطع تعلق کا اظہار کر کے تم اپنے فرض کو ادا کر سکتے ہو اور اعلان کر سکتے ہو کہ اب یہ شخص ہم میں سے نہیں ہے.اب یہ بات تمہارے اپنے اختیار میں ہے.چاہے تو خدا تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کی عزت کو قائم کر کے خود بھی عزت پاؤ اور چاہے تو اس کی عزت پر ہاتھ ڈالو اور خدائی تلوار تمہیں اور تمہاری اولا دوں کو تباہ و برباد کر دے“.انوار العلوم جلد ۴ صفحه ۴۷۶ تا ۴۷۸) مسند احمد بن حنبل جلد ۴۴ صفحه ۲۴۰ ، ۲۴۱ حدیث نمبر ۲۶۶۲۶ مطبوعہ قاہر ۰ ۲۰۰۱ء الصَّارِمُ الْمَسْلُول عَلى شَاتِم الرَّسُولِ لابن تيميه صفحه ۳۹ ،۴۰ الطبعة الاولى حيدر آباد دکن النساء: ٦٦

Page 44

خلافة على منهاج النبوة ۲۸ جلد دوم خلیفہ کی کامل اطاعت ۱۹۳۴ء کے فتنہ میں احراریوں کی زبردست شکست کے بعد مخالفین نے جماعت کے خلاف کئی نئے محاذ کھول لئے.ایک فتنہ مرتدین کا تھا.حضور نے خلیفہ کی کامل اطاعت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اگست ۱۹۳۷ ء میں اَلْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِهِ حدیث کی تشریح میں فرمایا :.دوسری بات جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ موجودہ فتنہ خلافت کے خلاف ہے.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلافت اسلام کا ایک اہم جزو ہے اور جو اس سے بغاوت کرتا ہے وہ اسلام سے بغاوت کرتا ہے.اگر ہمارا یہ خیال درست ہے تو جولوگ اس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہیں، ان کیلئے اَلْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ کا حکم بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.کیونکہ خلافت کی غرض تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد عمل اور اتحاد خیال پیدا کیا جائے اور اتحاد عمل اور اتحاد خیال خلافت کے ذریعہ سے سبھی پیدا کیا جا سکتا ہے اگر خلیفہ کی ہدایات پر پورے طور پر عمل کیا جائے.اور جس طرح نماز میں امام کے رکوع کے ساتھ رکوع اور قیام کے ساتھ قیام اور سجدہ کے ساتھ سجدہ کیا جاتا ہے اسی طرح خلیفہ وقت کے اشارہ کے ماتحت ساری جماعت چلے اور اس کے حکم سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کرے.نماز کا امام جو صرف چند مقتدیوں کا امام ہوتا ہے جب اس کے بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو اس کے رکوع اور سجدہ میں جانے سے پہلے رکوع یا سجدہ میں جاتا ہے یا اس سے پہلے سر اُٹھاتا ہے ، وہ گنہگا رہے ہے تو جو شخص ساری قوم کا امام ہو اور اُس کے ہاتھ پر سب صلى الله نے بیعت کی ہو اُس کی اطاعت کتنی ضروری سمجھی جائے گی.چنانچہ رسول کریم ﷺ اسی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے فرماتے ہیں کہ اَلاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ تم اپنی انفرادی

Page 45

خلافة على منهاج النبوة ۲۹ جلد دوم عبادتوں میں شریعتِ اسلامیہ کے مطابق جس طرح چاہو عمل کرو لیکن اپنی قوم کے مخالفوں کے مقابلہ کا جب وقت آئے ، اُس وقت تمہاری سب آزادی سلب ہو جاتی ہے اور تم کو حق نہیں پہنچتا کہ امام کی موجودگی اور آزادی کے وقت میں تم اس بارہ میں کوئی آزاد فیصلہ کرو چاہئے کہ امام تمہارے لئے بطور ڈھال کے ہو.جس طرح سپاہی ڈھال کے پیچھے چلتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں ڈھال سے اِدھر اُدھر ہوا اور مرا.اسی طرح تم سب امام کے اشارہ پر چلو اور اس کی ہدایات سے ذرہ بھر بھی اِدھر اُدھر نہ ہو.جب وہ حکم دے بڑھو اور جب وہ حکم دے ٹھہر جاؤ.اور جدھر بڑھنے کا وہ حکم دے اُدھر بڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا حکم دے اُدھر سے ہٹ آؤ.اس حکم کی جب تک فرمانبرداری نہ کی جائے ، خلافت ایک بے معنی ہے رہ جاتی ہے اور وہ اتحاد جس کے پیدا کرنے کیلئے اسلام نے یہ سب سامان پیدا کیا ہے کسی طرح بھی پیدا نہیں ہوسکتا اور اسلام کی وہ ترقی جو اس اتحاد سے مقصود ہے حاصل نہیں ہو سکتی.ادھوری اتباع صرف طاقت کو ضائع کرنے والی ہوتی ہے.اس سے صرف لوگوں کی آزادی چھنتی ہے اور وہ شیریں پھل نہیں پیدا ہوتے جن پھلوں کا پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کا منشا ہے اور جن پھلوں کو کھا کر مومن اسی دنیا میں جنت کے مزے لوٹ سکتا ہے“.انوار العلوم جلد ۴ صفحه ۵۱۶٬۵۱۵) بخارى كتاب الجهاد باب يقاتل من وراء الامام صفحه ۴۸۹ حدیث نمبر ۲۹۵۷ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية بخاری کتاب الاذان باب اثم من رفع رأسه قبل الامام صفحہ ۱۳ احدیث نمبر ۶۹۱ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية

Page 46

Page 47

خلافة على منهاج النبوة ۳۱ جلد دوم جلسہ خلافت جو بلی ۱۹۳۹ء تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمد یہ تقریر فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں جب سے تقریر کے میدان میں آیا ہوں اور جب سے مجھے تقریر کرنے یا بولنے کا موقع ملا ہے میں نے شروع دن سے یہ بات محسوس کی ہے کہ ذاتی بناوٹ کے لحاظ سے تقریر کرنا میرے لئے بڑا ہی مشکل ہوتا ہے اور میری کیفیت ایسی ہو جاتی ہے جسے اُردو میں گھبرا جانا کہتے ہیں اور انگریزی میں NERVOUS ہو جانا کہتے ہیں.میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ اپنی دماغی کیفیت کے لحاظ سے میں ہمیشہ نروس ہو جاتا ہوں یا گھبرا جاتا ہوں.مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی تقریر کی اور اس کے لئے کھڑا ہوا تو آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا اور کچھ دیر تک تو حاضرین مجھے نظر نہ آتے تھے اور یہ کیفیت تو پھر کبھی پیدا نہیں ہوئی لیکن یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک خاص وقت میں جس کی تفصیل میں آگے چل کر بیان کروں گا میرے دل میں ایک اضطراب سا پیدا ہو جاتا ہے لیکن وہ حالت اُس وقت تک ہوتی ہے جب تک کہ بجلی کا وہ کنکشن قائم نہیں ہوتا جو شروع دن سے کسی بالا طاقت کے ساتھ میرے دماغ کا ہو جایا کرتا ہے اور جب یہ دور آ جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام بڑے بڑے مقرر اور لستان جو اپنی اپنی زبانوں کے ماہر ہیں میرے سامنے بالکل بیچ ہیں اور میرے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح ہیں.جب میں پہلے پہل تقریر کے لئے کھڑا ہوا اور قرآن کریم

Page 48

خلافة على منهاج النبوة ۳۲ جلد دوم سے آیات پڑھنے لگا تو مجھے الفاظ نظر نہ آتے تھے اور چونکہ وہ آیات مجھے یاد تھیں میں نے پڑھ دیں لیکن قرآن گو میرے سامنے تھا مگر اس کے الفاظ مجھے نظر نہ آتے تھے اور جب میں نے آہستہ آہستہ تقریر شروع کی تو لوگ میری نظروں کے سامنے سے بالکل غائب تھے.اس کے بعد یکدم یوں معلوم ہوا کہ کسی بالا طاقت کے ساتھ میرے دماغ کا اتصال ہو گیا ہے.یہاں تک کہ جب میں نے تقریر ختم کی تو حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ یہ تقریر سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے قرآن کریم کے جو معارف بیان کئے ہیں باوجود اس کے کہ میں نے بڑی بڑی تفاسیر پڑھی ہیں اور میری لائبریری میں بعض نایاب تفاسیر موجود ہیں مگر یہ معارف نہ مجھے پہلے معلوم تھے اور نہ میں نے کہیں پڑھے ہیں.سو جب دوران تقریر میں وہ کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ گل دبائی گئی ہے اور اب اللہ تعالیٰ میرے دماغ میں ایسے معارف نازل کرے گا کہ جو میرے علم میں نہیں ہیں اور بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ قرآن شریف پڑھتے ہوئے بھی وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.آج بھی وہ کیفیت شروع ہوئی تھی مگر اس وقت جو ایڈریس پڑھے گئے ہیں ان کو سن کر وہ دُور ہو گئی.ایک دفعہ آنحضرت ﷺ گھر سے باہر تشریف لائے تو دو شخص آپس میں لڑ رہے تھے.آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کے متعلق بتایا تھا کہ وہ کونسی رات ہے مگر ان کی لڑائی کو دیکھ کر وہ مجھے بھول گئی ہے اسی طرح مجھ پر بھی وہ کیفیت طاری ہوئی تھی مگر ا سکے بعد ایڈریس شروع ہوئے.ان میں سے بعض ایسی زبانوں میں تھے کہ نہ میں کچھ سمجھ سکا اور نہ آپ لوگ.اور میں نے محسوس کیا کہ یہ بناوٹ ہے اور منتظمین دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم میں ایسی ایسی زبانیں جاننے والے لوگ موجود ہیں اور اس ظاہر داری کو دیکھ کر میری طبیعت پر ایسا بُرا اثر ہوا کہ وہ کیفیت جاتی رہی.ہم لوگ تو اپنے جذبات کو دبانے کے عادی ہیں اور جن لوگوں نے بڑے کام کرنے ہوتے ہیں اُن کو یہ مشق کرنی پڑتی ہے.سرکاری افسروں کو دیکھ لو مثلاً تحصیلدار اور تھانیدار وغیرہ ہیں سب قسم کے لوگ ان کے پاس آتے اور باتیں کرتے ہیں اور وہ سب کی باتیں سنتے جاتے ہیں لیکن اس مجلس میں ایسے لوگ بھی

Page 49

خلافة على منهاج النبوة ۳۳ جلد دوم تھے جو جذ بات کو دبانے کے عادی نہیں اس لئے ان میں ایک بے چینی سی تھی اور وہ بھاگ رہے تھے اور یہ نظارہ میرے لئے تکلیف دہ تھا اور اس وجہ سے وہ کیفیت دُور ہو گئی.گواب میں اگر اسی مضمون کو بیان کرنا شروع کر دوں تو وہ بٹن پھر دب جائے گا مگر پہلے جو کچھ میرے ذہن میں تھا وہ اب یاد نہیں آسکتا.بہر حال مجھے کچھ کہنا چاہیئے اور اس کا رروائی کے متعلق جہاں تک دنیوی عقل کا تعلق ہے میں اب بھی بیان کرسکتا ہوں.مجھے بتایا گیا ہے کہ ہر ایک نمائندہ نے وعدہ کیا تھا کہ تین منٹ کے اندر اندر اپنا ایڈریس ختم کر دے گا لیکن سوائے اس ایڈریس کے جو ہندوستان کی جماعتوں کی طرف سے پیش کیا گیا اور کسی نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا.پھر وہ جس طرح پیش کیا گیا ہے اس میں حقیقی اسلامی سادگی کا نمونہ نظر آتا ہے اور اس لئے میں انہیں مبارک باد دیتا ہوں.محض چھاپ لینے کو میں سادگی کے خلاف نہیں سمجھتا.باقی جو ایڈریس پیش کئے گئے ہیں ان میں سادگی کوملحوظ نہیں رکھا گیا.حقیقی سادگی وہ ہوتی ہے جسے انسان ہر جگہ اور ہمیشہ نباہ سکے اور اس کی قدر دانی کے طور پر میں ان سے وعدہ کرتا ہوں کہ اِن کا سارا ایڈریس پڑھوں گا.جب سے یہ خلافت جو بلی کی تحریک شروع ہوئی ہے میری طبیعت میں ہمیشہ ایک پہلو سے انقباض سا رہتا آیا ہے اور میں سوچتا رہا ہوں کہ جب ہم خود یہ تقریب منا ئیں تو پھر جو لوگ برتھ ڈے یا ایسی دیگر تقاریب مناتے ہیں اُنہیں کس طرح روک سکیں گے.اب تک اس کے لئے کوئی دلیل میری سمجھ میں نہیں آ سکی اور میں ڈرتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں ایسی رسوم جماعت میں پیدا نہ ہو جائیں جن کو مٹانے کے لئے احمدیت آئی ہے.ہماری کامیابی اور فتح یہی ہے کہ ہم دین کو اُسی طرح دوبارہ قائم کر دیں جس طرح رسول کریم ﷺ اسے لائے تھے اور ایسے رنگ میں قائم کر دیں کہ شیطان اس پر حملہ نہ کر سکے اور کوئی کھڑ کی ، کوئی روشن دان اور کوئی ڈر اس کے لئے گھلا نہ رہنے دیں.اور جب سے یہ تقریب منانے کی تحریک شروع ہوئی ہے میں یہی سوچتا رہا ہوں کہ ایسا کرتے ہوئے ہم کوئی ایسا روشن دان تو نہیں کھول رہے کہ جس سے شیطان کو حملہ کا موقع مل سکے اور اس لحاظ سے مجھے شروع سے ہی

Page 50

خلافة على منهاج النبوة ۳۴ جلد دوم ایک قسم کا انقباض سا رہا ہے کہ میں نے اس کی اجازت کیوں دی اور اس کے متعلق سب سے پہلے انشراح صدر مجھے مولوی جلال الدین صاحب شمس کا ایک مضمون الفضل میں پڑھ کر ہوا جس میں لکھا تھا کہ اسوقت گویا ایک اور تقریب بھی ہے اور وہ یہ کہ سلسلہ کی عمر پچاس سال پوری ہوتی ہے.تب میں نے سمجھا کہ یہ تقریب کسی انسان کے بجائے سلسلہ سے منسوب ہو سکتی ہے اور اس وجہ سے مجھے خود بھی اس خوشی میں شریک ہونا چاہئے.دوسرا انشراح مجھے اس وقت پیدا ہوا جب ڈرمشین سے وہ نظم پڑھی گئی جو آمین کہلاتی ہے.اس کو سُن کر مجھے خیال آیا کہ یہ تقریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کو بھی پورا کرنے کا ذریعہ ہے جو اس میں بیان کی گئی ہے اور اس کا منانا اس لحاظ سے نہیں کہ یہ میری چھپیں سالہ خلافت کے شکریہ کا اظہار ہے بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی بات کے پورا ہونے کا ذریعہ ہے نا مناسب نہیں اور اس خوشی میں میں بھی شریک ہو سکتا ہوں اور میں نے سمجھا کہ گواپنی ذات کے لئے اس کے منائے جانے کے متعلق مجھے انشراح نہ تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صلى الله پیشگوئی کے پورا ہونے کے لحاظ سے انشراح ہو گیا.یہ ایسی ہی بات ہے کہ رسول کریم و نے ایک مرتبہ ایک صحابی کے متعلق فرمایا تھا کہ میں نے دیکھا ہے اس کے ہاتھوں میں کسری کے کڑے ہیں.چنانچہ جب ایران فتح ہوا اور وہ کڑے جو کسری دربار کے موقع پر پہنا کرتا تھا غنیمت میں آئے تو حضرت عمرؓ نے اس صحابی کو بلایا اور باوجود یکہ اسلام میں مردوں کیلئے سونا پہنا ممنوع ہے آپ نے اسے فرمایا کہ یہ کڑے پہنو.حالانکہ خلفاء کا کام قیامِ شریعت ہوتا ہے نہ کہ اسے مٹانا مگر جب اس صحابی نے یہ کہا کہ سونا پہنا مردوں کے لئے جائز نہیں.تو آپ نے فرمایا کہ یہ پہنو.ورنہ میں کوڑے لگاؤں گا.اسی طرح میں نے یہ خیال کیا کہ گو یہ کڑے مجھے ہی پہنائے گئے ہیں مگر چونکہ اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے اس لئے اس کے منانے میں کوئی حرج نہیں اور اس لئے میرے دل میں جو انقباض تھا وہ دُور ہو گیا اور میری نظریں اس مجلس سے اُٹھ کر خدا تعالیٰ کی طرف چلی گئیں اور میں نے کہا ہما را خدا بھی کیسا سچا خدا ہے.مجھے یاد آیا کہ جب یہ پیشگوئی کی گئی اُس وقت میری ہستی ہی کیا تھی پھر وہ نظارہ میری

Page 51

خلافة على منهاج النبوة ۳۵ جلد دوم.آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب ہمارے نانا جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت کی کہ آپ کو پتہ ہی نہیں یہ لڑکا کیسا نا لائق ہے پڑھتا لکھتا کچھ نہیں اس کا خط کیسا خراب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے بلایا.میں ڈرتا اور کانپتا ہوا گیا کہ پتہ نہیں یہ کیا فرمائیں گے.آپ نے مجھے ایک خط دیا کہ اسے نقل کرو.میں نے وہ نقل کر کے دیا تو آ نے حضرت خلیفہ اول کو جج کے طور پر بلایا اور فرمایا.میر صاحب نے شکایت کی ہے کہ یہ پڑھتا لکھتا نہیں اور کہ اس کا خط بہت خراب ہے.میں نے اس کا امتحان لیا ہے آپ بتائیں کیا رائے ہے؟ لیکن جیسا امتحان لینے والا نرم دل تھا ویسا ہی پاس کرنے والا بھی تھا.حضرت خلیفہ اول نے عرض کیا کہ حضور! میرے خیال میں تو اچھا لکھا ہے.حضور نے فرمایا.کہ ہاں اس کا خط کچھ میرے خط سے ملتا جلتا ہی ہے اور بس ہم پاس ہو گئے.ماسٹر فقیر اللہ صاحب جو اب پیغامیوں میں شامل ہیں ہمارے اُستاد تھے اور حساب پڑھایا کرتے تھے جس سے مجھے نفرت تھی.میری دماغی کیفیت کچھ ایسی تھی جو غالباً میری صحت کی خرابی کا نتیجہ تھا کہ مجھے حساب نہیں آتا تھا ورنہ اب تو اچھا آتا ہے.ماسٹر صاحب ایک دن بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ میں تمہاری شکایت کروں گا کہ تم حساب نہیں پڑھتے اور جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہہ بھی دیا.میں بھی چُپ کر کے کمرہ میں کھڑا رہا.حضور نے ماسٹر صاحب کی شکایت سُن کر فرمایا کہ اس نے دین کا کام ہی کرنا ہے اس نے کونسی کسی دفتر میں نوکری کرنی ہے.مسلمانوں کے لئے جمع تفریق کا جانا ہی کافی ہے وہ اسے آتا ہے یا نہیں ؟ ماسٹر صاحب نے کہا وہ تو آتا ہے.اس سے پہلے تو میں حساب کی گھنٹیوں میں بیٹھتا اور سمجھنے کی کوشش کرتا تھا مگر اس کے بعد میں نے وہ بھی چھوڑ دیا اور خیال کر لیا کہ حساب جتنا آنا چاہئے تھا مجھے آ گیا تو یہ میری حالت تھی جب یہ آمیں لکھی گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ اسے دین کی خدمت کی توفیق عطا کر.دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ سب بی.اے اور ایم.اے لائق نہیں ہوتے.لیکن جو لوگ لائق ہوتے ہیں وہ انہی میں سے ہوتے ہیں.سارے وکیل لائق نہیں ہوتے مگر جو ہوتے ہیں وہ انہی میں سے ہوتے ہیں.سب ڈاکٹر خدا تعالیٰ کی صفت شافی کے مظہر نہیں ہوتے مگر

Page 52

خلافة على منهاج النبوة ۳۶ جلد دوم.بہترین ڈاکٹر انہی میں سے ہوتے ہیں جنہوں نے ڈاکٹری کے امتحان پاس کئے ہوں.ہر زمیندار مٹی سے سونا نہیں بنا سکتا مگر جو بناتے ہیں انہی میں سے ہی ہوتے ہیں تر کھانوں میں سے نہیں.ہر ترکھان اچھی عمارت نہیں بنا سکتا مگر جو بناتے ہیں وہ تر کھانوں میں سے ہی ہوتے ہیں لوہاروں میں سے نہیں.پھر ہر انجینئر ماہر فن نہیں مگر جو ہوتا ہے وہ انہی میں سے ہوتا ہے.ہر معمار دہلی اور لاہور کی شاہی مساجد اور تاج محل نہیں بنا سکتا مگر ان کے بنانے والے بھی معماروں میں سے ہی ہوتے ہیں کپڑا بننے والوں میں سے نہیں ہوتے.پس ہرفن کا جاننے والا ماہر نہیں ہوتا مگر جو ماہر نکلتے ہیں وہ انہی میں سے ہوتے ہیں.مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دعا کی اُس وقت میں ظاہری حالات کے لحاظ سے اپنے اندر کوئی بھی اہلیت نہ رکھتا تھا لیکن اِس وقت اس آمین کوسُن کر میں نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دعائیں سن لیں.جب یہ دعائیں کی گئیں میں معمولی ریڈریں بھی نہیں پڑھ سکتا تھا مگر آب خدا تعالیٰ کا ایسا فضل ہے کہ میں کسی علم کی کیوں نہ ہو انگریزی کی مشکل سے مشکل کتاب پڑھ سکتا ہوں اور سمجھ سکتا ہوں اور گو میں انگریزی لکھ نہیں سکتا مگر بی.اے اور ایم.اے پاس شدہ لوگوں کی غلطیاں خوب نکال لیتا ہوں.دینی علوم میں میں نے قرآن کریم کا ترجمہ حضرت خلیفہ اول سے پڑھا ہے اور اس طرح پڑھا ہے کہ اور کوئی اس طرح پڑھے تو کچھ بھی نہ سیکھ سکے.پہلے تو ایک ماہ میں آپ نے مجھے دو تین سیپارے آہستہ آہستہ پڑھائے اور پھر فرمایا میاں ! آپ بیمار رہتے ہیں میری اپنی صحت کا بھی کوئی اعتبار نہیں.آؤ کیوں نہ ختم کر دیں اور مہینہ بھر میں سارا قرآن کریم مجھے ختم کرا دیا اور اللہ تعالیٰ کا فضل تھا پھر کچھ اُن کی نیت اور کچھ میری نیست ایسی مبارک گھڑی میں ملیں کہ وہ تعلیم ایک ایسا بیج ثابت ہوا جو برابر.بڑھتا جا رہا ہے.اس طرح بخاری آپ نے مجھے تین ماہ میں پڑھائی اور ایسی جلدی جلدی پڑھاتے کہ باہر کے بعض دوست کہتے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا.میں اگر کوئی سوال کرتا تو آپ فرماتے پڑھتے جاؤ اللہ تعالیٰ خود سب کچھ سمجھا دے گا.حافظ روشن علی مرحوم کو گرید نے کی بہت عادت تھی اور اُن کا دماغ بھی منطقی تھا.وہ درس میں شامل تو نہیں تھے مگر جب مجھے پڑھتے دیکھا تو آ کر بیٹھنے لگے اور سوالات دریافت کرتے.اُن کو دیکھ کر مجھے بھی جوش آیا اور میں

Page 53

خلافة على منهاج النبوة ۳۷ جلد دوم نے اُسی طرح سوالات پوچھنے شروع کر دیئے.ایک دو دن تو آپ نے جواب دیا اور پھر فرمایا تم بھی حافظ صاحب کی نقل کرنے لگے ہو مجھے جو کچھ آتا ہے وہ خود بتا دوں گا بخل نہیں کروں گا اور باقی اللہ تعالیٰ خود سمجھا دے گا.اور میں سمجھتا ہوں سب سے زیادہ فائدہ مجھے اسی نصیحت نے دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود سمجھا دے گا.یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ میرے ہاتھ آ گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسا سمجھایا ہے کہ میں غرور تو نہیں کرتا مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ حالت ہے کہ میں کوئی کتاب یا کوئی تفسیر پڑھ کر مرعوب نہیں ہوتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو کچھ مجھے ملا ہے اُن کو نہیں ملا.میں ہمیں جلدوں کی تفسیر میں ہیں مگر میں نے کبھی اِن کو بالاستیعاب دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور ان کے مطالعہ میں مجھے کبھی لذت محسوس نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ مجھے قرآن کریم کے چھوٹے سے لفظ میں ایسے مطالب سکھا دیتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں میں اِن کتابوں کے مطالعہ میں کیوں وقت ضائع کروں اور کبھی کوئی مسئلہ وغیرہ دیکھنے کے لئے کبھی ان کو دیکھتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس مقام سے بہت دُور کھڑے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے اور یہ سب اس کا فضل ہے ورنہ بظاہر میں نے دنیا میں کوئی علم حاصل نہیں کیا حتی کہ اپنی زبان تک بھی صحیح نہیں سیکھی.یہ سب اللہ تعالیٰ کا احسان اور فضل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو قبول کر کے اُس نے مجھے ایک ایسا گر بتا دیا کہ جس سے مجھے ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت حاصل ہو جاتی ہے.میں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ میں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ہتھیار کی مانند ہوں اور میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ کوئی چیز چاہئے اور اُس نے مجھے نہ دی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دُعا کی تھی کہ اس سے ہرا اندھیرا ڈور ہو.دشمنوں کی طرف سے مجھ پر کئی حملے کئے گئے ، اعتراضات کئے گئے اور کہا کہ ہم خلافت کو مٹادیں گے اور یہی وہ اندھیرا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے دُور کر دیا اور خلافت جوبلی کی تقریب منانے کے متعلق میرے دل میں جو انقباض تھا وہ اِس وقت یہ نظم سُن کر دُور ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا اظہار ہو رہا ہے.دشمنوں نے کہا کہ ہم جماعت کو پھر الیں گے مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اور بھی زیادہ لوگوں کو لائیں گے اور جب

Page 54

خلافة على منهاج النبوة ۳۸ جلد دوم ہم روشن کرنا چاہیں تو کوئی اندھیرا رہ نہیں سکتا اور اس طرح اس تقریب کے متعلق میرے دل میں جو انقباض تھا وہ یہ نظارہ دیکھ کر دُور ہو گیا اور نہ مجھے تو شرم آتی ہے کہ میری طرف یہ تقریب منسوب ہو مگر ہمارے سب کام اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور اس کے ذریعہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی باتیں پوری ہوتی ہیں اس لئے اس کے منانے میں کوئی حرج نہیں.یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں اگر وہ نہ کرتا تو نہ مجھ میں طاقت تھی اور نہ آپ میں ، نہ میرے علم نے کوئی کام کیا اور نہ آپ کی قربانی نے.جو کچھ ہوا خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوا اور ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور نشان دکھایا.دنیا نے چاہا کہ ہمیں مٹا دیں مگر خدا تعالیٰ نے نہ مٹایا اور یہ نظارہ دیکھ کر میرے دل میں جو انقباض تھا وہ سب دُور ہو گیا.اس لئے جن دوستوں نے اس تقریب پر اپنی انجمنوں کی طرف سے ایڈریس پڑھے ہیں مثلاً چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب، پروفیسر عطاء الرحمن صاحب ، حکیم خلیل احمد صاحب، چوہدری ابوالہاشم خان صاحب ، حاجی جنود اللہ صاحب اسی طرح دمشق ، جاوا، سماٹرا اور علی گڑھ اور بعض دوسری جگہوں کے دوستوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے پھر بعض ہند و صاحبان نے بھی اس موقع پر خوشی کا اظہار کیا ہے میں ان سب کا شکر یہ ادا کرتا ہوں اور اِن سب کو جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہتا ہوں اور یہ ایسی دُعا ہے کہ جس میں سارے ہی شکریے آ جاتے ہیں.پس میں ان دوستوں کا اور ان کے ذریعہ ان کی تمام جماعتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہتا ہوں اور دُعا کرتا ہوں کہ میرے زندگی کے اور جو دن باقی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دین کی خدمت ، اسلام کی تائید اور اس کے غلبہ اور مضبوطی کے لئے صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا جب اُس کے حضور پیش ہونے کا موقع ملے تو شرمندہ نہ ہوں اور کہہ سکوں کہ تو نے جو خدمت میرے سپرد کی تھی تیری ہی توفیق سے میں نے اسے ادا کر دیا.پھر میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنے فضل نازل کرے اور نیک اعمال کی توفیق عطاء فرمائے اور ہم میں سے جس کے دل میں بھی کوئی کمزوری ہوا سے دُور کرے، اخلاص میں مضبوط کرے اور ہماری زندگیوں کو اپنے لئے وقف کر دے.ہماری زندگیوں کو بھی خوشگوار بنائے اور ہماری موتوں کو بھی تا جب جنتی سنیں تو خوش ہوں کہ اور پاکیزہ روحیں

Page 55

خلافة على منهاج النبوة ۳۹ جلد دوم ہمارے ساتھ شامل ہونے کے لئے آ رہی ہیں.اس کے بعد حضرت میر محمد اسحاق صاحب سٹیج پر تشریف لائے اور کہا کہ پروگرام میں اس وقت میری کوئی تقریر نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم آمین کے جو ابھی پڑھی گئی ہے ایک شعر کے متعلق میں مختصراً کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں.اس وقت جماعت کی طرف سے حضرت خلیفۃ اصسیح الثانی کی خدمت میں ایک حقیر سی رقم پیش کی جانے والی ہے جس سے حضور کی وہ دُعا کہ دے اس کو عمر و دولت کی قبولیت بھی ظاہر ہو گی.آج ہم حضور کی خلافت پر پچیس سال گزرنے پر حضور کی خدمت میں حقیر سی رقم پیش کرتے ہیں اور میں آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ و تشریف لا کر یہ رقم حضور کی خدمت میں پیش کریں.وہ اس کے بعد جناب چوہدری صاحب نے چیک کی صورت میں یہ رقم پیش کی اور کہا حضور اسے قبول فرمائیں اور جس رنگ میں پسند فرمائیں اسے استعمال کریں اور حضور مجھے اجازت دیں کہ میں دوستوں کے نام پڑھ کر سُنا دوں جنہوں نے اس فنڈ میں نمایاں حصہ لیا ہے تا حضور خصوصیت سے ان کے لئے دُعا فرمائیں.اور حضور کی اجازت سے جناب چوہدری صاحب نے وہ نام پڑھ کر سنائے.اس کے بعد حضور نے فرمایا :.میں نے جو کہا تھا کہ جس وقت آمین پڑھی جارہی تھی میرے دل میں ایک تحریک ہوئی تھی وہ دراصل یہ مصرع تھا جس کا ذکر میر صاحب نے کیا ہے مگر چونکہ ابھی تک وہ رقم مجھے نہ دی گئی تھی اس لئے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ پہلے ہی اس کا ذکر کروں.اس کے لئے میں سب کا شکر یہ ادا کرتا ہوں اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری حقیقی دولت تو دین ہی ہے دین کے بغیر دولت کوئی چیز نہیں اور اگر دین ہو اور دولت نہ ہو تو بھی ہم خوش نصیب ہیں.مجھے یہ علم پہلے سے تھا کہ یہ رقم مجھے اس موقع پر پیش کی جائے گی اور اس دوران میں میں یہ غور بھی کرتا رہا ہوں کہ اسے خرچ کس طرح کیا جائے لیکن بعض دوست بہت جلد باز ہوتے ہیں اور وہ اس عرصہ میں مجھے کئی مشورے دیتے رہے کہ اسے یوں خرچ کیا جائے اور فلاں کام پر صرف

Page 56

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم کیا جائے یہ بات مجھے بہت بُری لگتی تھی کیونکہ میں دیکھتا تھا کہ ایک طرف تو اس کا نام تحفہ رکھا جاتا ہے اور دوسری طرف اس کے خرچ کرنے کے متعلق مجھے مشورے دیئے جار ہے ہیں اگر یہ تحفہ ہے تو اس سے مجھے اتنی تو خوشی حاصل ہونی چاہئے کہ میں نے اسے اپنی مرضی سے خرچ کیا ہے.بہر حال میں اِس امر پر غور کرتا رہا ہوں کہ اسے کس طرح خرچ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ اس سے برکاتِ خلافت کے اظہار کا کام لیا جائے.یہ امر ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء اس کام کے کرنے والے تھے جو آپ کے اپنے کام تھے یعنی يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيته وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلّمُهُمُ الكتب والحِكْمَةَ کے قرآن کریم میں رسول کریم کے چار کام بیان کئے گئے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نشان بیان کرتا ہے ، ان کا تزکیہ کرتا ، ان کو کتاب پڑھاتا اور حکمت سکھاتا ہے.کتاب کے معنے کتاب اور تحریر کے بھی ہیں اور حکمت کے معنی سائنس کے بھی اور قرآن کریم کے حقائق و معارف اور مسائل فقہ کے بھی ہیں.پھر میں نے خیال کیا کہ خلیفہ کا کام استحکام جماعت بھی ہے اس لئے اس روپیہ سے یہ کام بھی کرنا چاہئے.بے شک بعض کام جماعت کر بھی رہی ہے مگر یہ چونکہ نئی چیز ہے اس سے نئے کام ہونے چاہئیں اور اس پر غور کرنے کے بعد میں نے سوچا کہ ابھی کچھ کام اس سلسلہ میں ایسے ہیں کہ جو نہیں ہو رہے.مثلاً یہ نہیں ہو رہا کہ غیر مسلموں کے آگے اسلام کو ایسے رنگ میں پیش کیا جائے کہ وہ اس طرف متوجہ ہوں چنا نچہ میں نے ارادہ کیا کہ یہ سلسلہ پہلے ہندوستان میں اور پھر بیرونِ ممالک میں شروع کیا جائے اور اس غرض سے ایک ، چار یا آٹھ صفحہ کا ٹریکٹ لکھا جائے جسے لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کی مختلف زبانوں میں چھپوا کر شائع کیا جائے.اس وقت تک ان زبانوں میں ہمارا تبلیغی لٹریچر کافی تعداد میں شائع نہیں ہوا.اُردو کے بعد میرا خیال ہے سب سے زیادہ اس ٹریکٹ کی اشاعت ہندی میں ہونی چاہئے.ابھی تک یہ سکیم میں نے مکمل نہیں کی.فوری طور پر اس کا خاکہ ہی میرے ذہن میں آیا ہے.میں چاہتا ہوں کہ کم سے کم ایک لاکھ اشتہار یا ہینڈ بل وغیرہ اذان اور نماز کی حقیقت اور فضیلت پر شائع کئے جائیں تا ہندوؤں کو سمجھایا جا سکے کہ جس وقت آپ لوگ

Page 57

خلافة على منهاج النبوة ۴۱ جلد دوم مساجد کے سامنے سے باجہ بجاتے ہوئے گزرتے ہیں تو مسلمان یہ کر رہے ہوتے ہیں.یہ بات معقول رنگ میں ان کے سامنے پیش کی جائے کہ مسلمان تو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور آپ اُس وقت ڈھول کے ساتھ ڈم ڈم کا شور کرتے ہیں.آپ سوچیں کہ کیا یہ وقت اس طرح شور کرنے کیلئے مناسب ہوتا ہے؟ جب یہ آواز بلند ہو رہی ہو کہ خدا تعالیٰ سب سے بڑا ہے تو اُس وقت چُپ ہو جانا چاہئے یا ڈھول اور باجہ کے ساتھ شور مچانا چاہئے ؟ تو ان کو ضرور سمجھ آ جائے گی کہ ان کی ضد بے جا ہے اور اس طرح اس سے ہندو مسلمانوں میں صلح و اتحاد کا دروازہ بھی کھل جائے گا.تعلیم یافتہ غیر مسلم اب بھی ان باتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں.اسی طرح میں نے جلسہ ہائے سیرت کی جو تحریک شروع کی ہوئی ہے اسے بھی وسعت دینی چاہئے یہ بھی بہت مفید تحریک ہے اور سیاسی لیڈر بھی اسے تسلیم کرتے ہیں.با بوبین چندر پال کانگرس کے بہت بڑے لیڈروں میں سے ہیں انہوں نے ان جلسوں کے متعلق کہا تھا کہ یہ ہندو مسلم اتحاد کے لئے بہترین تجویز ہے اور میں ان جلسوں کو سیاسی جلسے کہتا ہوں اس لئے کہ ان کے نتیجہ میں ہندو مسلم ایک ہو جائیں گے اور اس طرح دونوں قوموں میں اتحاد کا دروازہ کھل جائے گا.میرا ارادہ ہے کہ ایسے اشتہار ایک لاکھ ہندی میں ، ایک لاکھ گورمکھی میں، پچاس ہزار تامل میں اور اسی طرح مختلف زبانوں میں بکثرت شائع کئے جائیں اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسلام کے موٹے موٹے مسائل غیر مسلموں تک پہنچا دیئے جائیں.اشتہا ر ا یک صفحه، دوصفحه یا زیادہ سے زیادہ چار صفحہ کا ہو اور کوشش کی جائے کہ ہر شخص تک اسے پہنچا دیا جائے اور زیادہ نہیں تو ہندوستان کے ۳۳ کروڑ باشندوں میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک اشتہار پہنچ جائے یہ اسلام کی بہت بڑی خدمت ہوگی.اسی طرح میرا ارادہ ہے کہ ایک چھوٹا سا مضمون چار یا آٹھ صفحات کا مسلمانوں کیلئے لکھ کر ایک لاکھ شائع کیا جائے جس میں مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپ کے دعاوی سے آگاہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ آپ نے آ کر کیا پیش کیا ہے تا لوگ غور کر سکیں.پہلے یہ کام چھوٹے پیمانہ پر ہوں مگر کوشش کی جائے کہ آہستہ آہستہ

Page 58

خلافة على منهاج النبوة ان کو وسیع کیا جائے.۴۲ جلد دوم میں چاہتا ہوں کہ اس رقم کو ایسے طور پر خرچ کیا جائے کہ اس کی آمد میں سے خرچ ہوتا ر ہے اور سرمایہ محفوظ رہے.جیسے تحریک جدید کے فنڈ کے متعلق میں کوشش کر رہا ہوں تاکسی سے پھر چندہ مانگنے کی ضرورت نہ پیش آئے.اس میں دینی تعلیم جو خلفاء کا کام ہے وہ بھی آ جائے گی پھر آرٹ اور سائنس کی تعلیم نیز غرباء کی تعلیم و ترقی بھی خلفاء کا اہم کام ہے.ہماری جماعت کے غرباء کی اعلیٰ تعلیم کے لئے فی الحال انتظامات نہیں ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گند ذہن لڑکے جن کے ماں باپ استطاعت رکھتے ہیں تو پڑھ جاتے ہیں مگر ذہین بوجہ غربت کے رہ جاتے ہیں.اس کا نتیجہ ایک یہ بھی ہے کہ ملک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس رقم سے اس کا بھی انتظام کیا جائے اور میں نے تجویز کی ہے کہ اس کی آمد سے شروع میں فی الحال ہر سال ایک ایک وظیفہ مستحق طلباء کو دیا جائے.پہلے سال مڈل سے شروع کیا جائے.مقابلہ کا امتحان ہو اور جولڑ کا اول رہے اور کم سے کم ستر فی صدی نمبر حاصل کرے اسے انٹرنس تک بارہ روپیہ ماہوار وظیفہ دیا جائے اور پھر انٹرنس میں اوّل ، دوم اور سوم رہنے والوں کو تمیں روپیہ ماہوار ، جوایف.اے میں یہ امتیاز حاصل کریں انہیں ۴۵ روپے ماہوار اور پھر جو بی.اے میں اول آئے اسے ۶۰ روپے ماہوار دیا جائے اور تین سال کے بعد جب اس فنڈ سے آمد شروع ہو جائے تو احمدی نوجوانوں کا مقابلہ کا امتحان ہو اور پھر جولڑ کا اول آئے اُسے انگلستان یا امریکہ میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کے لئے اڑھائی سو روپیہ ماہوار تین سال کے لئے امداد دی جائے.اس طرح غرباء کی تعلیم کا انتظا ہو جائے گا اور جوں جوں آمد بڑھتی جائے گی ان وظائف کو ہم بڑھاتے رہیں گے.کئی غرباء اس لئے محنت نہیں کرتے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم آگے تو پڑھ نہیں سکتے خواہ مخواہ کیوں مشقت اُٹھائیں لیکن اس طرح جب ان کے لئے ترقی کا امکان ہوگا تو وہ محنت سے تعلیم حاصل کریں گے.مڈل میں اول رہنے والوں کیلئے جو وظیفہ مقرر ہے وہ صرف تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے طلباء کے لئے ہی مخصوص ہو گا کیونکہ سب جگہ مڈل میں پڑھنے والے احمدی طلباء میں مقابلہ کے امتحان کا انتظام ہم نہیں کر سکتے.یونیورسٹی کے امتحان میں امتیاز

Page 59

خلافة على منهاج النبوة ۴۳ جلد دوم حاصل کرنے والا خواہ کسی یونیورسٹی کا ہو وظیفہ حاصل کر سکے گا.ہم صرف زیادہ نمبر دیکھیں گے کسی یونیورسٹی کا فرسٹ ، سیکنڈ اور تھرڈ رہنے والا طالب علم بھی اسے حاصل کر سکے گا اور اگر کسی بھی یو نیورسٹی کا کوئی احمدی طالب علم یہ امتیاز حاصل نہ کر سکے تو جس کے بھی سب سے زیادہ نمبر ہوں اُسے یہ وظیفہ دے دیا جائے گا.انگلستان یا امریکہ میں حصول تعلیم کے لئے جو وظیفہ مقرر ہے اس کے لئے ہم سارے ملک میں اعلان کر کے جو بھی مقابلہ میں شامل ہونا چاہیں ان کا امتحان لیں گے اور جو بھی فرسٹ رہے گا اُسے یہ وظیفہ دیا جائے گا.يُزَكِّيهِمْ کے ایک معنی ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جانے کے بھی ہیں اور اس طرح اس میں اقتصادی ترقی بھی شامل ہے اس کی فی الحال کوئی سکیم میرے ذہن میں نہیں مگر میرا ارادہ ہے کہ انڈسٹریل تعلیم کا کوئی معقول انتظام بھی کیا جائے تا پیشہ وروں کی حالت بھی بہتر ہو سکے.اسی طرح ایگریکلچرل تعلیم کا بھی ہو، تا زمینداروں کی حالت بھی درست ہو سکے.خلفاء کا ایک کام میں سمجھتا ہوں اس عہدہ کا استحکام بھی ہے.میری خلافت پر شروع سے ہی پیغامیوں کا حملہ چلا آتا ہے مگر ہم نے اس کے مقابلہ کے لئے کماحقہ توجہ نہیں کی.شروع میں اس کے متعلق کچھ لڑ پچر پیدا کیا تھا مگر اب وہ ختم ہو چکا ہے.پس اس فنڈ سے اس قوم کی ہدایت کے لئے بھی جد و جہد کی جانی چاہئے اور اس کے لئے بھی کوئی سکیم میں تجویز کروں گا.ہماری جماعت میں بعض لوگ اچھا لکھتے ہیں میں نے الفضل میں ان کے مضامین پڑھے ہیں ان سے فائدہ اُٹھانے کی کوئی صورت کی جائے گی.پس یہ خلفاء کے چار کام ہیں اور انہی پر یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا.پہلے اسے کسی نفع مند کام میں لگا کر ہم اس سے آمد کی صورت پیدا کریں گے اور پھر اس آمد سے یہ کام شروع کریں گے.ایک تو ایسا اُصولی لٹریچر شائع کریں گے کہ جس سے ہندو، سکھ اسلامی اُصول سے آگاہی حاصل کر سکیں.اب تک ہم نے ان کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے بھی ہدایت مقدر ہے.مثلاً آپ کا ایک الہام ہے کہ آریوں کا بادشاہ ہے.ایک." ہے

Page 60

خلافة على منهاج النبوة وو وو ۴۴ جلد دوم ” جے سنگھ بہادر ہے کرشن رو ڈ ر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے، مگر ہم نے ابھی تک ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کی.پس آب اِن کے لئے لٹریچر شائع کرنا چاہئے.میں چاہتا ہوں کہ یہ اتنا مختصر ہو کہ اِسے لاکھوں کی تعداد میں شائع کر سکیں.پھر ایک حصہ مسلمانوں میں تبلیغ پر خرچ کیا جائے.ایک آرٹ، سائنس، انڈسٹری اور زراعت وغیرہ کی تعلیم پر اور ایک حصہ نظام سلسلہ پر دشمنوں کے حملہ کے مقابلہ کے لئے.آہستہ آہستہ کوشش کی جائے کہ اس کی آمد میں اضافہ ہوتا رہے اور پھر اس آمد سے یہ کام چلائے جائیں.اس روپیہ کو خرچ کرنے کے لئے یہ تجویزیں ہیں.اس کے بعد میں جھنڈے کے نصب کرنے کا اعلان کرتا ہوں منتظمین اس کے لئے سامان لے آئیں.جھنڈا نصب کرنے کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کانگرس کی رسم ہے لیکن اس طرح تو بہت سی رسمیں کانگرس کی نقل قرار دینی پڑیں گی.کانگرسی جلسے بھی کرتے ہیں اس لئے یہ جلسہ بھی کانگرس کی نقل ہوگی.گاندھی جی دودھ پیتے ہیں دودھ پینا بھی اِن کی نقل ہوگی اور اس اصل کو پھیلاتے پھیلاتے یہاں تک پھیلا نا پڑے گا کہ مسلمان بہت سی اچھی باتوں سے محروم رہ جائیں گے.حقیقت یہ ہے کہ یہ کانگرس کی نقل نہیں.رسول کریم نے خود جھنڈا باندھا اور فرمایا کہ یہ میں اُسے دوں گا جو اس کا حق ادا کرے گا.پس یہ کہنا کہ یہ بدعت ہے تاریخ اسلام سے ناواقفیت کی دلیل ہے.جھنڈا لہرانا نا جائز نہیں ہاں البتہ اس ساری تقریب میں میں ایک بات کو برداشت نہیں کر سکا اور وہ ایڈریسوں کا چاندی کے خولوں وغیرہ میں پیش کرنا ہے اور چاہے آپ لوگوں کو تکلیف ہو میں حکم دیتا ہوں کہ ان سب کو بیچ کر قیمت جو بلی فنڈ میں دے دی جائے.پس جھنڈا رسول کریم ﷺ سے ثابت ہے اور لڑائی وغیرہ کے مواقع پر اس کی ضرورت ہوتی ہے.کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے تو جہاد سے ہی منع کر دیا ہے پھر جھنڈے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر میں کہوں گا کہ اگر لوہے کی تلوار کے ساتھ جہاد کرنے والوں کے لئے جھنڈ ا ضروری ہے تو قرآن کی تلوار سے لڑنے والوں کے لئے کیوں نہیں.اگر آب ہم لوگ کوئی جھنڈ ا معین نہ کریں گے تو بعد میں آنے والے ناراض ہوں گے اور کہیں گے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے

Page 61

خلافة على منهاج النبوة ۴۵ جلد دوم صحابہ ہی جھنڈا بنا جاتے تو کیا اچھا ہوتا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے ایک مجلس میں یہ سُنا ہے کہ ہمارا ایک جھنڈا ہونا چاہئے.جھنڈ ا لوگوں کے جمع ہونے کی ظاہری علامت ہے اور اس سے نوجوانوں کے دلوں میں ایک ولولہ پیدا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ”لوائے ماپنہ ہر سعید خواهد بود یعنی میرے جھنڈے کی پناہ ہر سعید کو حاصل ہوگی اور اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنا جھنڈا نصب کریں تا سعید روحیں اس کے نیچے آ کر پناہ لیں.یہ ظاہری نشان بھی بہت اہم چیزیں ہوتی ہیں.جنگ جمل میں حضرت عائشہ ایک اونٹ پر سوار تھیں دشمن نے فیصلہ کیا کہ اونٹ کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں تو آپ نیچے گر جائیں اور آپ کے ساتھی لڑائی بند کر دیں لیکن جب آپ کے ساتھ والے صحابہ نے دیکھا کہ اس طرح آپ گر جائیں گی تو گو آپ دین کا ستون نہ تھیں مگر بہر حال رسول کریم ﷺ کی محبت کی مظہر تھیں اس لئے صحابہ نے اپنی جانوں سے ان کے اونٹ کی حفاظت کی اور تین گھنٹہ کے اندر اندر ستر جلیل القدر صحابی کٹ کر رگر گئے.کے قربانی کی ایسی مثالیں دلوں میں جوش پیدا کرتی ہیں.پس جھنڈا نہایت ضروری ہے اور بجائے اس کے کہ بعد میں آ کر کوئی بادشاہ اسے بنائے یہ زیادہ مناسب ہے کہ یہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں اور موعودہ خلافت کے زمانہ میں بن جائے.اگر اب کوئی جھنڈا نہ بنے تو بعد میں کوئی جھنڈا کسی کیلئے سند نہیں ہو سکتا.چینی کہیں گے ہم اپنا جھنڈا بناتے ہیں اور جاپانی کہیں گے اپنا اور اس طرح ہر قوم اپنا اپنا جھنڈا ہی آگے کرے گی.آج یہاں عرب ، سماٹری ، انگریز سب قوموں کے نمائندے موجود ہیں ایک انگریز نو مسلمہ آئی ہوئی ہیں اور انہوں نے ایڈریس بھی پیش کیا ہے.جاوا ، سماٹرا کے نمائندے بھی ہیں ، افریقہ کے بھی ہیں انگریز گویا یورپ اور ایشیا کے نمائندے ہیں.افریقہ کا نمائندہ بھی ہے امریکہ والوں کی طرف سے بھی تار آ گیا ہے اور اس لئے جو جھنڈا آج نصب ہوگا اس میں سب تو میں شامل سمجھی جائیں گی اور وہ جماعت کی شوکت کا نشان ہو گا اور یہی مناسب تھا کہ جھنڈا بھی بن جاتا تا بعد میں اس کے متعلق کوئی اختلافات پیدا نہ ہوں.پھر یہ رسول کریم ﷺ کی سنت بھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک شعر کو بھی پورا کرتا

Page 62

خلافة على منهاج النبوة ۴۶ جلد دوم ہے.رسول کریم علیہ نے فرمایا تھا کہ مسیح دمشق کے منارہ شرقی پر اترے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے وہ مینارہ بنوایا تا رسول کریم ﷺ کی بات ظاہری رنگ میں بھی پوری ہو اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں یہ جھنڈا بنانے کی توفیق دی کہ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک شعر ظاہری رنگ میں بھی پورا ہوتا ہے اور اس وجہ سے کہ ہم لوگوں کو باطن کا بھی خیال رہے اور یہ محض ظاہری رسم ہی نہ رہے میں نے ایک اقرار نامہ تجویز کیا ہے پہلے میں اسے پڑھ کر سنا دیتا ہوں اس کے بعد میں کہتا جاؤں گا اور دوست اسے دُہراتے جائیں.اقرار نامہ یہ ہے:.میں اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اسلام اور احمدیت کے قیام ، اس کی مضبوطی اور اس کی اشاعت کیلئے آخر دم تک کوشش کرتا رہوں گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس امر کے لئے ہر ممکن قربانی پیش کروں گا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دوسرے سب دینوں اور سلسلوں پر غالب رہے اور اس کا جھنڈا کبھی سر نگوں نہ ہو بلکہ دوسرے سب جھنڈوں سے اُونچا اُڑتا رہے.اللَّهُمَّ امِينَ اللَّهَمَّ آمِينَ اللَّهُمَّ امِينَ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۴۲۷ تا ۴۴۰ ) بخارى كتاب فضل ليلة القدر باب رفع معرفة ليلة القدر صفحه ۳۲۴ حدیث نمبر ۲۰۲۳ مطبوعه رياض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية اسد الغابة الجزء الثانی صفحہ ۲۳۷ زیر عنوان سراقہ بن مالک، مطبوعہ بیروت ۲۰۰۶ ء ( مفہوماً ) الجمعة ٣ تذکرہ صفحه ۳۱۳ ایڈیشن چهارم ۲۰۰۴ء ه تذکره صفحه ۳۱۲، ۵۶۸ ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء صلى الله بخارى كتاب الجهاد و السير باب ما قيل في لواء النبي علي صفحه ۴۹۲ حدیث نمبر ۲۹۷۵ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية ک تاریخ طبری جلد ۵ صفحه ۵۷۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء مسلم كتاب الفتن باب ذكر الدجال صفحه ۱۲۷۱ حدیث نمبر ۷۳۷۳ مطبوعہ ریاض ۲۰۰۰ ، الطبعة الثانية

Page 63

خلافة على منهاج النبوة ۴۷ جلد دوم خلافت راشده ( تقریر فرموده ۲۸ ، ۲۹ دسمبر ۱۹۳۹ء بر موقع [ خلافت جو بلی ] جلسه سالا نہ قادیان ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.خلافت کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی ضرورت "میرا طریق ہے کہ ہر جلسہ سالانہ پر میں ایک علمی تقریر کیا کرتا ہوں اسی کے مطابق میں آج ایک اہم موضوع کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور چونکہ یہ جلسہ اس بات میں خصوصیت رکھتا ہے کہ اس کا تعلق ” خلافت جوبلی کے ساتھ ہے اور اس کے مضامین کا تعلق بھی مسئلہ خلافت سے ہی ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں میری تقریر میں بھی زیادہ تر خلافت کے مختلف پہلوؤں پر ہی بحث ہونی چاہئے.ممکن ہے بعض لوگوں کیلئے یہ امر ملال طبع کا موجب ہو کہ جو شخص بھی تقریر کیلئے اٹھتا ہے وہ خلافت کے موضوع پر تقریر کرنا شروع کر دیتا ہے مگر اس موضوع کی اہمیت اور موجودہ جلسہ سالانہ کا اقتضاء یہی ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق عمدگی کے ساتھ تمام قسم کی تفصیلات بیان کر دی جائیں کیونکہ جس طرح انسانی فطرت میں یہ امر داخل ہے کہ اگر اسے کھانے کیلئے مختلف قسم کی چیزیں دی جائیں تو اُسے فائدہ ہوتا ہے اسی طرح بعض دفعہ ایک ہی چیز بار بار بھی کھانی پڑتی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدین کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ ہمارے کھانے پینے کے دن ہیں اور عیدالاضحیہ کے ایام میں تو خصوصیت کے ساتھ گوشت کے سوا اور کوئی غذا ہی نہیں ہوتی.چنانچہ حج کے دنوں میں بڑی کثرت سے بکرے وغیرہ ذبح ہوتے ہیں اور اُن کا گوشت جتنا کھایا جا سکتا ہے کھا لیا جاتا ہے اور باقی پھینک دیا جاتا ہے.اسی طرح بعض دفعہ ایک ہی عنوان پر مختلف رنگوں میں روشنی ڈالنا بھی ضروری ہوتا ہے.

Page 64

خلافة على منهاج النبوة ۴۸ جلد دوم مخالفین سلسلہ کی طرف سے اس وقت ہمارے سلسلہ کے خلاف دشمنوں کی طرف سے جو منصوبے کئے جا رہے ہیں اور جن خلافت کی تنقیص کی کوشش جن تدابیر سے وہ احمدیت کے وقار کو ضعف پہنچانا ہتے ہیں اُن میں سے ایک منصوبہ اور تدبیر یہ ہے کہ ان کی طرف سے متواتر خلافت کی تنقیص کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اگر کسی کے دل میں شیطان کو زندہ کیا جا سکے تو اس کے دل میں شیطان کو زندہ کر دیں.اسی وجہ سے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آب کی دفعہ میں خلافت کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کروں تا کہ جو لوگ فائدہ اُٹھانا چاہیں اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور دین سے محبت رکھنے والوں کیلئے یہ تعلیم برکت اور راہنمائی کا موجب ہو جائے.خلافت کا مسئلہ اسلام کے اہم خلافت کا مسئلہ میرے نزدیک اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر کلمہ شریفہ ترین مسائل میں سے ہے کی تفسیر کی جائے تو اس تفسیر میں اس مسئلہ کا مقام سب سے بلند درجہ پر ہوگا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کلمہ طیبہ اسلام کی اساس ہے مگر یہ کلمہ اپنے اندر جو تفصیلات رکھتا ہے اور جن امور کی طرف یہ اشارہ کرتا ہے اُن میں.سب سے بڑا امر مسئلہ خلافت ہی ہے.پس میں نے چاہا کہ اس مسئلہ کے متعلق اپنے خیالات جماعت کے سامنے واضح طور پر پیش کر دوں تا کہ مخالفین پر حجت تمام ہو اور لتهلك مَنْ هَلَكَ عَنْ بَينَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ ٢ کا نظارہ نظر آ جائے.یعنی جو شخص دلیل سے گھائل ہونے والا ہو اس کے سامنے دلیل کو کھول کر بیان کر دیا جائے اور جس کا ایمان بصیرت پر مبنی ہو اس کے ہاتھ میں ایسی بین دلیل آ جائے جس سے اس کا ایمان تازہ ہو جائے.اُمتِ مسلمہ کا نظام کسی مذہبی مسئلہ سب سے پہلے میں اس سوال کو لیتا ہوں جو مغربی تعلیم کے اثر کے نیچے اُٹھایا جاتا ہے کے ساتھ وابستہ کرنیکی ضرورت اور وہی ایک اصولی سوال ہے جس پر اس مسئلہ کا انحصار ہے اور وہ یہ ہے کہ نظام بہر حال ایک دُنیوی چیز ہے اور جب کہ نظام ایک

Page 65

خلافة على منهاج النبوة ۴۹ جلد دوم ڈ نیوی چیز ہے دینی چیز نہیں تو اُمّتِ مسلمہ کے نظام کو کسی مذہبی مسئلہ کے ساتھ وابستہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور مذہب کا اس سے کوئی تعلق نہیں پھر اس پر مذہبی نقطہ نگاہ سے غور کرنے کی کیا ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنا دین اُتارا اور ہم نے اسے مان لیا اب اسے اس امر میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں کہ ہم اپنے لئے کونسا نظام تجویز کرتے ہیں یہ ہر زمانہ میں مسلمانوں کی مرضی پر منحصر ہے وہ جس طرح چاہیں اس کا فیصلہ کر لیں.اگر مناسب سمجھیں تو ایک خود مختار بادشاہ پر متفق ہو جائیں، چاہیں تو جمہوریت کو پسند کر لیں ، چاہیں تو بولشویک اصول کو قبول کر لیں اور چاہیں تو آئینی بادشاہت کے طریق کو اختیار کر لیں کسی ایک اصل کو مذہب کے نام پر رائج کرنے کی نہ ضرورت ہے نہ مفید ہوسکتا ہے اصل غرض تو دین کو پھیلانا ہے.بھلا اس میں پڑنے کی ضرورت کیا ہے کہ وہ نظام کیسا ہو جس کے ماتحت کام کیا جائے.موجودہ زمانہ میں کو تعلیم یافتہ مغرب زدہ نو جوانوں نے اس بحث کو اُٹھایا ہے اور درحقیقت اس کے پیچھے وہ غلط حریت کی روح کام کر رہی ہے جو مختلف خیالات فلاسفہ سے متأثر ہو کر مسلمانوں میں موجودہ زمانہ میں پیدا ہوئی ہے.وہ اس سوال کو بار بار اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس رنگ میں مذہب بدنام ہوتا اور کو تعلیم یافتہ طبقہ مذہب سے بدظن ہوتا ہے.بہتر یہی ہے کہ مذہب کو اپنی جگہ پر رہنے دو اور سیاست کو اپنی جگہ.مغربی اثر کے ماتحت خیالات کی یہ رومدت سے چل رہی تھی مگر مسلمانوں میں سے کسی کو جرات نہیں ہوتی تھی کہ عَلَی الْاِعلان اس کا اظہار کرے.جب سر کی خلافت تباہ ہوئی اور کمال اتاترک نے خلافت کو منسوخ کر دیا تو عالم اسلامی میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا اور پرانے خیالات کے جو لوگ تھے انہوں نے خلافت کمیٹیاں بنائیں.ہندوستان میں بھی کئی خلافت کمیٹیاں بنیں اور لوگوں نے کہا کہ ہم اس رو کا مقابلہ کریں گے مگر وہ لوگ جن کے دلوں میں یہ شبہات پیدا ہو چکے تھے کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا ایک فاتح بادشاہ جس کی لوگوں کے دلوں میں بہت بڑی عزت ہے اُس نے اپنے عمل سے اُن کے خیالات کی تائید کر دی ہے تو وہ اور زیادہ دلیر ہو گئے اور اُن میں سے بعض نے اس کے متعلق رسائل لکھے.اس قسم کے رسائل مسلمانوں نے بھی لکھے ہیں، یورپین لوگوں

Page 66

خلافة على منهاج النبوة ۵۰ جلد دوم نے بھی لکھے ہیں اور بعض روسیوں نے بھی لکھے ہیں مگر اس خیال کو ایک مدلل صورت میں ایک مصری عالم علی بن عبد الرزاق نے جو جامعہ ازہر کے علماء میں سے ہیں اور محاکم شرعیہ کے قاضی ہیں اپنی کتاب "الإسلام و أصول الحكم" میں پیش کیا ہے اور اس کا محرک جیسا کہ میں بتا چکا ہوں وہ شدید اضطراب ہوا جو تر کی خلافت کی منسوخی سے عالم اسلامی میں عموماً اور عربی ممالک میں خصوصاً پیدا ہوا تھا.شاید کہا جائے کہ اس بحث کا اس خلافتِ احمدیہ سے کیا تعلق ایک سوال کا جواب ہے جو اصل مبحث میرے مضمون کا ہوسکتا ہے کیونکہ وہ خلافت جو اس کتاب میں زیر بحث ہے خلافتِ سلطنت ہے اور احمد یہ جماعت کو جس خلافت سے تعلق ہے وہ مذہبی خلافت ہے ترک بادشاہ ہیں اور احمدی بادشاہ نہیں.پس ترکوں کی خلافت کی تائید میں جو دلائل ہونگے وہ اور رنگ کے ہونگے اور ان کی خلافت کی تردید میں جو دلائل ہونگے وہ بھی اور رنگ کے ہونگے.بھلا اس خلافت کا خلافتِ احمدیہ سے کیا تعلق ہے جسے کسی قسم کی بادشاہت حاصل نہیں اور جس کی خلافت محض مذہبی رنگ رکھتی ہے.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس مسئلہ پر بحث کی جاتی ہے ضروری نہیں ہوتا کہ اُس کے صرف اُس پہلو پر روشنی ڈالی جائے جس کے متعلق کوئی سوال کرے بلکہ بسا اوقات اس کے تمام پہلوؤں پر بحث کی جاتی ہے اور یہ کوئی قابلِ اعتراض امر نہیں ہوتا.مثلاً ہم سے کوئی پوچھے کہ وضو میں ہاتھ کس طرح دھوئے جاتے ہیں تو اس کے جواب میں اگر ہم وضو کی تمام تفصیل اس کو بتا دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے مفید ہوگا کیونکہ وہ باقی باتیں بھی سمجھ جائے گا.اسی طرح گو احمد یہ جماعت کو جس خلافت سے تعلق ہے وہ مذہبی خلافت ہے لیکن اگر خلافت سلطنت کے متعلق بھی بحث کر دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا بلکہ اس مضمون کی تکمیل کیلئے ایسا کرنا ضروری ہوگا.سیاست صرف حکومت دوسرا جواب یہ ہے کہ در حقیقت سیاست نظام کا دوسرا نام کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتی ہے اور یہ سیاست حکومت کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہے اور حکومت کے بغیر بھی سیاست ہوتی ہے.یہ لوگوں

Page 67

خلافة على منهاج النبوة ۵۱ جلد دوم کی غلطی ہے کہ انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ سیاست صرف حکومت کے ساتھ ہی وابستہ ہوتی ہے حالانکہ بغیر حکومت کے بھی سیاست ہوتی ہے اور بغیر حکومت کے بھی نظام کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تین شخص اکٹھے کہیں سفر پر جانے لگیں تو وہ اپنے میں سے ایک شخص کو امیر بنالیں کے تا کہ نماز کے وقت اُسے امام بنایا جاسکے اور سفر میں جو جو ضرورتیں پیش آئیں اُن کے بارہ میں اُس سے مشورہ لیا جا سکے.اب یہ ایک نظام ہے مگر اس کا تعلق حکومت سے نہیں.نظام در حقیقت ایک مستقل چیز ہے اگر حکومت شامل ہو تو اس پر بھی حاوی ہوتا ہے اور اگر نہ ہو تو باقی لوگوں کے لئے اُس کی پابندی ضروری ہوتی ہے.پس مسئلہ خلافت ایک اسلامی نظام سے تعلق رکھتا ہے خواہ وہ پر مشتمل ہو یا نہ ہو.سلطنت پر مذہبی خلافت پر اعتراض تیرا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی ثابت کر دے کہ اسلام نے کوئی خاص نظام پیش نہیں کیا تو اس کی زد خلافت سلطنت پر ہی نہیں پڑے گی بلکہ اُس خلافت پر بھی پڑے گی جو ہم پیش کرتے ہیں گویا خلافت سلطنت اور خالص مذہبی نظام دونوں یکساں اس کی زد میں آئیں گے.پس گو وہ دلائل ترکی خلافت کے خلاف پیش کئے گئے ہیں لیکن چونکہ وہ احمد یہ خلافت پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں جس طرح خلافت سلطنت پر ، اس لئے ضروری ہے کہ ہم ان دلائل کا جائزہ لیں.اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اگر اسلام نے کوئی معین نظام پیش نہیں کیا تو جس طرح نظام سلطنت میں مسلمان آزاد ہو نگے اسی طرح خالص نظام مذہبی میں بھی وہ آزاد سمجھے جائیں گے اور انہیں اختیار ہو گا کہ ہر زمانہ اور ہر ملک میں وہ جس طرح چاہیں اور جس شکل میں چاہیں ایک نظام اپنے لئے تجویز کر لیں.ابتدائے اسلام میں نظام مملکت اس سوال کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں نظام مملکت اور نظام دینی کا اجتماع اور نظام دینی اکٹھے تھے.یعنی مذہب کا نظام تو تھا ہی مگر اس کے ساتھ ہی وہ فوجیں بھی رکھتے تھے ، اُن میں قاضی بھی موجود تھے ، وہ حدود

Page 68

خلافة على منهاج النبوة ۵۲ جلد دوم بھی جاری کرتے تھے، وہ قصاص بھی لیتے تھے ، وہ لوگوں کو عہدوں پر بھی مقرر کرتے تھے ، وہ وظائف بھی تقسیم کرتے تھے ، اسی طرح نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ کی ادائیگی بھی ان میں جاری تھی گویا ابتدائے اسلام میں دونوں قسم کے نظام جمع ہو گئے تھے.پس اگر کوئی نظام اسلام سے ثابت نہیں تو خلافتِ مذہبی کی ابتداء بھی صرف اُس وقت کے مسلمانوں کا ایک وقتی فیصلہ قرار دیا جائے گا اور اس سے آئندہ کیلئے کوئی استدلال کرنا اور سند پکڑنا درست نہ ہوگا.اور جب خلافت کا وجو د ابتدائے اسلام میں ہی ثابت نہ ہوگا تو بعد میں کسی وقت اس کے وجود کو قائم کرنا کوئی مذہبی مسئلہ نہیں کہلا سکتا.پس اگر خلافت کے مسئلہ پر کوئی زد آئے گی تو یہ تو نہیں ہوگا کہ لوگ کہیں گے کہ صرف ترکوں کی خلافت نا جائز ہے بلکہ وہ سرے سے خلافت کا ہی انکار کر دیں گے اور اس طرح ہم پر بھی جو مسئلہ خلافت کے قائل ہیں اس کا اثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.جیسے اگر ہندوؤں اور عیسائیوں پر کوئی ایسا اعتراض کیا جائے جو اسلام پر بھی وارد ہوتا ہو تو یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ اس سے ہندوؤں اور عیسائیوں کو ہی نقصان پہنچتا ہے اسلام کو اس سے کیا ڈر ہے کیونکہ اگر وہی بات اسلام میں بھی پائی جاتی ہے تو ہمارا فرض ہوگا کہ ہم اس اعتراض کا ازالہ کریں کیونکہ اگر لوگ اس کی وجہ سے مذہب سے بدظن ہونگے تو صرف ہندوؤں اور عیسائیوں سے ہی نہیں ہونگے بلکہ مسلمانوں سے بھی ہو نگے.چوتھا جواب یہ ہے کہ ہم خلافتِ احمدیہ کے ثبوت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین کی مثال لوگوں کے سامنے پیش کیا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس طرح حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہوئے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی خلافت کا وجو دضروری ہے.اگر وہی خلافت اُڑ جائے تو لازماً خلافتِ احمد یہ بھی باطل ہو جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام کے قیام سے تعلق اس کے ساتھ ایک اور بات رکھنے والا حصہ مذہبی حیثیت رکھتا ہے یا غیر مذہبی ؟ بھی یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اگر اس عقیدہ کو درست تسلیم کر لیا جائے جو علی بن عبدالرزاق نے لوگوں

Page 69

خلافة على منهاج النبوة ۵۳ جلد دوم کے سامنے پیش کیا ہے اور جسے غیر مبائعین بھی پیش کرتے ہیں تو اس سے ایک اور اہم سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے.اور وہ یہ کہ آیا رسول کریم علیہ کے اعمال کا وہ حصہ جو نظام کے قیام سے تعلق رکھتا ہے مذہبی حیثیت رکھتا ہے یا غیر مذہبی.کیونکہ جب ہم یہ فیصلہ کر دیں کہ اسلام کوئی معتین نظام پیش نہیں کرتا بلکہ حضرت ابو بکر ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ، اور حضرت علیؓ کی خلافت مسلمانوں کا ایک وقتی فیصلہ تھا اور وہ نظام مملکت کے استحکام کیلئے جو کام کرتے تھے وہ محض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں کرتے تھے تو طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اعمال جو حکومت اور نظام کے قیام سے تعلق رکھتے تھے وہ محض ضرورتِ زمانہ کے ماتحت آپ سے صادر ہوتے تھے یا اسے کوئی مذہبی تائید بھی حاصل تھی.اگر وہ وقتی ضرورت کے ماتحت تھے تو حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علیؓ نے آپ کے تتبع میں جو کچھ بھی کیا ہوگا وقتی ضرورت کے ماتحت کیا ہوگا اور وہ ہمارے لئے مجت شرعی نہیں ہوگا اور اگر رسول کریم ﷺ کے وہ اعمال جو حکومت اور نظام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مذہبی حیثیت رکھتے تھے تو لازماً ہمیں ان سے سند لینی پڑے گی.پس یہ سوال صرف خلفاء تک محدود نہیں رہتا بلکہ رسول کریم ﷺ تک بھی جا پہنچتا ہے کہ اگر نظام خلافت کا اصول مذہبی نہیں تو چونکہ یہ نقل ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی اس لئے ان کے وہ اعمال بھی مذہبی نہیں ہوں گے جو نظام کے قیام سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے لئے ان کی اتباع ضروری نہیں ہو گی جیسے کپڑوں اور کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق کوئی نہیں کہتا کہ صلى الله رسول کریم ﷺ نے فلاں قسم کے کپڑے پہنے یا فلاں کھانا کھایا اس لئے لازماً وہی کپڑا پہنا اور وہی کھانا کھانا چاہئے.مثلاً کوئی نہیں کہتا کہ رسول کریم ، چونکہ تہ بند باندھا کرتے تھے اس لئے تم بھی نہ بند باندھو یا رسول کریم لے چونکہ کھجور میں کھایا کرتے تھے اس لئے تم بھی کھجوریں کھاؤ بلکہ اس سے اصولی رنگ میں ایک نتیجہ اخذ کر لیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ انسان صلى الله صلى الله کو سادہ زندگی بسر کرنی چاہئے.اسی طرح اگر رسول کریم علیہ کے ان اعمال کو جو نظام کے قیام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں شرعی نہیں سمجھا جائے گا بلکہ ضرورتِ زمانہ کے ماتحت قرار دیا جائے گا تو وہ ہمارے لئے حجت نہیں ہوں گے اور ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہ سکیں گے کہ

Page 70

خلافة على منهاج النبوة ۵۴ جلد دوم عرب میں دشمنوں کی حکومت چونکہ ٹوٹ گئی تھی اور وہ سب آپ کے تابع ہو گئے تھے اس لئے آپ مجبور تھے کہ کوئی نہ کوئی نظام قائم کریں اور چونکہ نظام کے قیام کیلئے کچھ قوانین کی بھی ضرورت تھی اس لئے آپ نے بعض قوانین بھی بنا دیئے اور اس سے آپ کی غرض محض ان لوگوں کی اصلاح تھی.یہ غرض نہیں تھی کہ کوئی ایسا نظام قائم کریں جسے ہمیشہ کیلئے مذہبی تائید حاصل ہو جائے.غرض اس عقیدہ کو تسلیم کرنے سے یہ امر لازماً تسلیم کرنا پڑے گا کہ خود رسول کریم اللہ کے اعمال کا وہ حصہ جو نظام کے قیام سے تعلق رکھتا ہے مذہبی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ وہ کام محض ضرورتِ زمانہ کے ماتحت آپ کرتے تھے اسے کوئی مذہبی تائید حاصل نہ تھی اگر مذہبی تائید حاصل ہوتی تو وہ بعد کے لوگوں کیلئے بھی سنت اور قابلِ عمل قرار پاتے.یہ ایک طبعی نتیجہ ہے جو اس عقیدہ سے پیدا ہوتا ہے مگر منکرین خلافت اس طبعی نتیجہ کو ہمیشہ لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھنے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کہہ دیا کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کا وہ حصہ جو سلطنت کے امور کے انصرام کے متعلق تھا محض ایک دُنیوی کام تھا اور وقتی ضرورتوں کے ماتحت تھا تو مسلمان اسے برداشت نہیں کریں گے اور وہ کہیں گے کہ تم رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہو اسی لئے خلافت کے منکر اس بارہ میں ہمیشہ غیر منطقی طریقہ اختیار کرتے رہے ہیں مگر علی بن عبد الرزاق جو جامعہ ازہر کے شیوخ میں سے ہے اس نے آزادی اور دلیری سے اس موضوع پر بحث کی ہے اور اس وجہ سے قدرتی طور پر وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.چنانچہ یہ عجیب توارد ہوا کہ ادھر جب اس مضمون پر میں نے نوٹ لکھنے شروع کئے تو لکھتے لکھتے میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر اس دلیل کو اسی طرح اوپر کی طرف چلایا جائے تو اس کی زد رسول کریم ہی یہ پر بھی پڑتی ہے اور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آپ کی زندگی کا یہ حصہ محض ایک دُنیوی کا م تھا جسے آپ نے وقتی ضروریات کے ماتحت اختیار کیا.غرض پہلے میں اس نتیجہ پر پہنچا بعد میں جب میں نے اس کی کتاب کو پڑھا تو میں نے دیکھا کہ بعینہ اس نے یہی استنباط کیا ہوا ہے اور گو مسلمانوں کے خوف سے اُس نے اس کو کھول کر بیان نہیں کیا بلکہ شکر کی گولی میں زہر دینے کی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی اس کا مطلب خوب واضح ہے کہ قضاء وغیرہ کا انتظام اس وقت ثابت نہیں اور نہ دوسری

Page 71

خلافة على منهاج النبوة ۵۵ جلد دوم ضروریات کا جوحکومت کیلئے ضروری ہیں مثلاً میزانیہ وغیرہ.پس معلوم ہوا کہ اُس وقت جو کچھ کیا جاتا تھا صرف وقتی مصالح کے ماتحت کیا جاتا تھا.حقیقت یہ ہے کہ خلافت کے انکار خلافت کے انکار کا ایک خطرناک نتیجہ کرنے کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت مذہبی نہیں تھی اور خواہ اس خیال کو مسلمانوں کی مخالفت کے ڈر سے کیسے ہی نرم الفاظ میں بیان کیا جائے صرف خلفاء کے نظام سلطنت کو ہی مذہبی حیثیت سے نہیں گرانا پڑتا بلکہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے اس حصہ کے متعلق بھی جو امور سلطنت صلى الله کے انصرام کے ساتھ تعلق رکھتا تھا کہنا پڑتا ہے کہ وہ محض ایک دُنیوی کام تھا جسے وقتی ضرورتوں کے ماتحت آپ نے اختیار کیا ور نہ نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ کو مستی کرتے ہوئے نظامی حصہ آپ نے لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے اور آپ کی طرف سے اس بات کی گھلی اجازت ہے کہ اپنی سہولت کے لئے جیسا نظام کوئی چاہے پسند کرے.علی بن عبد الرزاق نے اس بات پر بھی بحث کی ہے چنانچہ وہ کہتا ہے کہ اگر رسول کریم ﷺ کو صیح معنوں میں حکومت حاصل ہوتی تو آپ ہر جگہ حج مقرر کرتے مگر آپ نے ہر جگہ حج مقرر نہیں کئے اسی طرح با قاعدہ میزانیہ وغیرہ بنائے جاتے مگر یہ چیزیں بھی آپ کے عہد میں ثابت نہیں.اسی طرح اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر امور سلطنت کے انصرام میں کوئی حصہ لیا ہے تو وہ وقتی ضرورتوں کے ماتحت کیا ہے جیسے گھر میں کرسی نہیں ہوتی تو انسان فرش پر ہی بیٹھ جاتا ہے اسی طرح اُس وقت چونکہ کوئی حکومت نہیں تھی آپ نے عارضی انتظام قائم کرنے کیلئے بعض قوانین صادر کر دیئے.پس آپ کا یہ کام ایک دنیوی کام تھا اس سے مذہبی رنگ میں کوئی سند نہیں لی جاسکتی.غرض اس اصل کو تسلیم کر کے خلفاء کے نظام حکومت کو ہی مذہبی حیثیت سے نہیں گرانا پڑتا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کاموں کو بھی جو نظام سلطنت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں دُنیوی کام قرار دینا پڑتا ہے اور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ بعد کے لوگوں کیلئے سنت اور قابل عمل نہیں ہے.اس تمہید کے بعد اب میں اصولی طور پر خلافت و نظام اسلامی کے مسئلہ کو لیتا ہوں.

Page 72

خلافة على منهاج النبوة ۵۶ جلد دوم مذہب کی دو قسمیں میرے نزدیک اس مسئلہ کو مجھنے سے پہلے یہ ام سمجھ لینا ضروری ہے کہ دنیا کے مذاہب دو قسم کے ہیں (۱) اوّل وہ مذاہب جو مذہب کا دائرہ عمل چند عبادات اور اذکار تک محدود رکھتے ہیں اور امور اعمالِ دُنیوی کو ایک علیحدہ امر قرار دیتے ہیں اور ان میں کوئی دخل نہیں دیتے.وہ کہیں گے نماز یوں پڑھو، روزے یوں رکھو ، صدقہ و خیرات یوں کرو ، لوگوں کے حقوق یوں بجالا ؤ ، غرض عبادات اور اذکار کے متعلق وہ احکام بیان کریں گے مگر کوئی ایسا حکم نہیں دیں گے جس کا نظام کے ساتھ تعلق ہو یا اقتصادیات کے ساتھ تعلق ہو یا بین الا قوامی حالات کے ساتھ تعلق ہو یا لین دین کے معاملات کے ساتھ تعلق ہو یا ورثہ کے ساتھ تعلق ہو.وہ ان امور کے متعلق قطعاً کوئی تعلیم نہیں دیں گے.مسیحی مذہب میں شریعت کو اس قسم کے مذاہب میں سے ایک مسیحی مذہب ہے اور اس مذہب میں جو شریعت کو لعنت لعنت قرار دینے کا اصل باعث قرار دینے پر زور دیا گیا ہے اس کی وجہ بھی زیادہ تر یہی ہے کہ وہ افراد کے اعمال کو مذہب کی پابندیوں سے الگ رکھنا چاہتے ہیں.وہ کہتے ہیں مذہب کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کہے تم نمازیں پڑھو تم روزہ رکھو، تم حج کرو، تم زکوۃ دو، تم عیسی کو خدا سمجھو.اسے اس بات سے کیا واسطہ ہے کہ قتل ، فساد، چوریوں اور ڈاکوں کے متعلق کیا احکام ہیں یا یہ کہ تو میں آپس میں کس طرح معاہدات کریں ، یا اقتصاد کو کس طرح کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے.وہ کہتے ہیں شریعت کا اِن امور سے کوئی واسطہ نہیں.اگر لڑکوں اور لڑکیوں کو ورثہ میں سے حصہ دینے کا سوال ہو تو وہ کہہ دیں گے کہ اس میں شریعت کا کیا دخل ہے یہ ہمارے ملک کی پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ جس امر میں قوم کا فائدہ دیکھے اسے بطور قانون نافذ کر دے.اسی طرح وہ کہتے ہیں اگر ہم فیصلہ کر لیں کہ ہم سود لیں گے چاہے روپیہ کی صورت میں لیں اور چاہے جنس کی صورت میں ، تو مذہب کو کیا حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ روپیہ کے بدلہ میں سودی روپیہ لینا نا جائز ہے.غرض وہ مذہب کے اُن احکام سے جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں شدید نفرت کرتے ہیں اسی لئے انہوں نے شریعت کو لعنت قرار

Page 73

خلافة على منهاج النبوة ۵۷ جلد دوم دے لیا ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ روزہ رکھنا لعنت ہے.اگر روزہ رکھنا لعنت کا موجب ہوتا تو انجیل کے پُرانے ایڈیشنوں میں یہ کس طرح لکھا ہوتا کہ : - اس طرح کے دیو بغیر دعا اور روزہ کے نہیں نکالے جاتے، کے اور کیا ممکن ہے کہ ایک طرف تو انجیلوں میں اس قسم کے الفاظ آتے اور دوسری طرف یہ کہا جاتا کہ شریعت لعنت ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب عیسائیوں نے یہ کہا کہ شریعت لعنت ہے تو اس کے معنی یہی تھے کہ شریعت کا نظام قومی کو معین کر دینا لعنت ہے اور مذہب کو امور دنیوی کے متعلق کوئی حکم دینے کا اختیار نہیں بلکہ ان امور کے متعلق ضرورت کے مطابق ہر قوم خود پنے لئے قوانین تجویز کر سکتی ہے.اس طرح انہوں نے موسوی شریعت کی ان پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد کر لیا جو امور سلطنت میں اس نے لگائی تھیں.بیشک حضرت مسیح علیہ السلام نے جب یہ فقرہ کہا ( بشر طیکہ ان کی طرف اسے منسوب کیا جا سکے ) تو ان کا مطلب یہ نہیں تھا بلکہ ان کا مطلب صرف یہ تھا کہ یہود نے جو شریعت کے ظاہری احکام کو اس قدر اہمیت دے دی ہے کہ باطن اور روحانیت کو انہوں نے بالکل بھلا دیا ہے یہ امران کے لئے ایک لعنت بن گیا ہے اور اس نے انہیں حقیقت سے کوسوں دور پھینک دیا ہے.لیکن جب مسیحیت روما میں پھیلی تو چونکہ وہ لوگ اپنے قومی دستور کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں تھے اور سمجھتے تھے کہ رومن لا ء سے بہتر اور کوئی لاء (Law) نہیں بلکہ آج تک رومن لا ء سے ہی یورپین حکومتیں فائدہ اُٹھاتی چلی آئی ہیں اس لئے وہاں کے لوگ جو بڑے متمدن اور قانون دان تھے انہوں نے خیال کیا کہ دُنیا میں ہم سے بہتر کوئی قانون نہیں بنا سکتا ادھر انہوں نے دیکھا کہ عیسائی مذہب کی تعلیم بڑی اچھی ہے خدا تعالیٰ کی محبت کے متعلق معجزات اور نشانات کے متعلق ، دعاؤں کے متعلق مسیح کی قربانیوں کے متعلق.جب انہوں نے عیسائیت کی تعلیمات کو دیکھا تو ان کے دل عیسائی مذہب کی طرف مائل ہو گئے اور انہوں نے اقرار کیا کہ یہ مذہب واقع میں اس قابل ہے کہ اسے قبول کر لیا جائے.مگر دوسری طرف وہ یہ امر بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ یہودی شریعت کو جس کو وہ رومن لاء کے مقابلہ میں بہت ادنیٰ سمجھتے تھے اپنے اندر جاری کریں.پس وہ ایک عجیب مخمصے میں مبتلاء ہو گئے.ایک طرف

Page 74

خلافة على منهاج النبوة ۵۸ جلد دوم عیسائیت کی دلکش تعلیم انہیں اپنی طرف کھینچتی تھی اور دوسری طرف رومن لاء کی برتری اور فوقیت کا احساس انہیں یہودی شریعت کے آگے اپنا سر جھکانے نہیں دیتا تھا.وہ اسی شش و پنج میں تھے کہ ان کی نگاہ عہدِ جدید کے ان فقرات پر پڑی کہ : - جتنے شریعت کے اعمال پر تکیہ کرتے ہیں وہ سب لعنت کے ماتحت ہیں.‘ ھے اور یہ کہ : - چھڑایا.د مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے یہ حضرت مسیح کے الفاظ نہیں بلکہ پولوس کے الفاظ ہیں.مگر انہیں ایک بہانہ ہاتھ آ گیا اور انہوں نے ان فقرات کے معنی وسیع کر کے یہ فیصلہ کر لیا کہ مذہب کو امور دنیوی کے متعلق کچھ حکم دینے کا اختیار نہیں بلکہ ان امور کے متعلق ضرورت کے مطابق ہر قوم اپنے لئے خود قوانین تجویز کر سکتی ہے.حضرت مسیح کا (اگر بالفرض انہوں نے کبھی یہ فقرہ کہا ہو ) یا آپ کے حواریوں کا تو صرف یہ مطلب تھا کہ یہود صرف ظاہری احکام پر زور دیتے ہیں روحانیت کو انہوں نے بالکل بھلا رکھا ہے اور یہ امر اُن کے لئے لعنت کا موجب ہے.وہ بے شک ظاہری طور پر نماز پڑھ لیتے ہیں مگر ان کے دل میں کوئی خشیت ، کوئی محبت اور خدا تعالیٰ کی طرف کوئی توجہ پیدا نہیں ہوتی اور یہ نماز ان کیلئے لعنت ہے.وہ ظاہری طور پر صدقہ و خیرات کرتے وقت بکرے بھی ذبح کرتے ہیں مگر کبھی انہوں نے اپنے نفس کے بکرے کو ذبح نہیں ا کیا اور اس طرح صدقہ و خیرات بھی ان کے لئے لعنت ہے، وہ عبادت میں خدا تعالیٰ کے سامنے ظاہری رنگ میں اپنا سر تو بے شک جُھکاتے ہیں مگر ان کے دل کبھی خدا کے آگے نہیں جھکتے اس وجہ سے ان کی عبادت بھی ان کے لئے لعنت ہے ، وہ بیشک زکوۃ دیتے ہیں اور اس طرح اپنے مال کی خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرتے ہیں مگر کبھی اپنے باطل افکار کی قربانی اپنے لئے گوارا نہیں کرتے اور اس وجہ سے زکوۃ بھی ان کے لئے لعنت کا موجب ہے.غرض یہود نے چونکہ ظاہر پر زور دے رکھا تھا اور باطنی اصلاح کو انہوں نے بالکل فراموش کر دیا تھا اس لئے حضرت مسیح یا ان کے حواریوں کو یہ کہنا پڑا کہ صرف ظاہر شریعت پر عمل کرنا اور باطن کی

Page 75

خلافة على منهاج النبوة ۵۹ جلد دوم اصلاح کی طرف متوجہ نہ ہونا ایک لعنت ہے.اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ شریعت لعنت ہے بلکہ یہ معنی تھے کہ ظاہر شریعت پر عمل کرنا اور باطنی اصلاح کی طرف تمہارا توجہ نہ کرنا تمہارے لئے لعنت کا باعث ہے.مگر رومیوں کو ایک بہانہ مل گیا اور انہوں نے کہا اس فقرہ کے یہ معنی ہیں کہ نماز روزہ وغیرہ احکام میں تو مذہب کی اطاعت کی جائے مگر امور دنیوی میں اس کی اطاعت نہ کی جائے اور نہ اسے اِن امور کے متعلق احکام دینے کا کوئی اختیار ہے.یہ ہماری اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ ہم اپنے لئے جو قانون چاہیں تجویز کر لیں اسی لئے جو رومی عیسائی مذہب اور شریعت کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ وہ لعنت ہے وہ خود ایک قانون بنا کر لوگوں کو اس کے ماتحت چلنے پر مجبور کرتے ہیں اگر محض کسی قانون کا ہونا لعنت ہوتا تو وہ خود بھی کوئی قانون نافذ نہ کرتے.مگر ان کا ایک طرف مذہب کو لعنت کہنا اور دوسری طرف خود اپنے لئے مختلف قسم کے قوانین تجویز کرنا بتاتا ہے کہ وہ اس فقرہ کے یہی معنی سمجھتے تھے کہ صرف لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے جو قانون چاہیں بنالیں مذہب کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دُنیوی امور کے متعلق لوگوں کے سامنے کوئی احکام پیش کرے.اس طرح انہوں نے موسوی شریعت کی اُن پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد کر لیا جو امور سلطنت میں اس نے لوگوں پر عائد کی ہوئی تھیں.یہودی مذہب کا نظام حکومت میں دخل اس کے بالتقابل بعض دوسرے مذاہب ہیں جنہوں نے مذہب کے دائرہ کو وسیع کیا ہے اور انسانی اعمال اور باہمی تعلقات اور نظام حکومت وغیرہ کے متعلق بھی قواعد بنائے ہیں اور جو لوگ ایسے مذاہب کو مانتے ہیں لازماً انہیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ حکومت کے معاملات میں بھی مذہب کو دخل اندازی کا حق حاصل ہے اور نیز یہ کہ ان احکام کی پابندی افراد اور جماعتوں پر اسی طرح واجب ہے جس طرح عقائد اور انفرادی احکام مثلاً نماز اور روزہ وغیرہ میں واجب ہے.اس کی مثال میں یہودی مذہب کو پیش کیا جا سکتا ہے.اگر کوئی شخص موسوی شریعت کو پڑھے تو اسے جا بجا یہ لکھا ہوا نظر آئے گا کہ اگر کوئی قتل کرے تو اسے یہ سزا دی جائے ، چوری کرے تو یہ سزا دی جائے ، جنگ ہو تو ان قواعد کو محوظ

Page 76

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم رکھا جائے ، قربانی کرنی ہو تو ان اصول کے ماتحت کی جائے ، اسی طرح لین دین اور تجارت وغیرہ معاملات کے متعلق وہ ہدایات دیتا ہے.غرض وہ معاملات جو حکومت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یہودی مذہب ان میں بھی دخل دیتا ہے.چنانچہ جب بھی کوئی شخص موسوی شریعت پر غور کرے گا وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ مذہب کو جس طرح افراد کے معاملات میں دخل دینے کا حق حاصل ہے اسی طرح اسے قومی اور ملکی معاملات میں بھی دخل دینے کا حق حاصل ہے.اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اسلام اسلام کن مذاہب سے مشابہت رکھتا ہے اپنی قسم کے مذاہب سے الله مشابہت رکھتا ہے.آیا اول الذکر قسم سے یا دوسری قسم کے مذاہب سے.اور آیا اسلام نے قومی معاملات میں دخل دیا ہے یا نہیں ؟ اگر محمد ﷺ نے قومی معاملات میں دخل دیا ہے چاہے اپنی مرضی سے اور چاہے اس وجہ سے کہ ملک کو اس کی بے حد ضرورت تھی تو ماننا پڑے گا کہ جیسے جنگل میں اگر کسی کو کوئی آوارہ بچہ مل جائے تو وہ رحم کر کے اسے اپنے گھر میں لے جاتا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اسے اس کی ولایت کا حق حاصل ہو گیا ہے اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ نے رحم کر کے عرب کے قیموں کو اپنی گود میں لے لیا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ کو ان کی ولایت کا حق حاصل ہو گیا تھا بلکہ جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو گئے تو انہیں اس بات کا اختیار تھا کہ وہ اپنے لئے جو قانون چاہتے تجویز کر لیتے صلى الله لیکن اگر شریعت اسلام میں ایسے احکام موجود ہوں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے طور پر ان امور میں دخل نہیں دیا بلکہ آپ نے اُسی وقت ان امور کو اپنے ہاتھ میں لیا جب خدا نے آپ کو اس کا حکم دیا اور جب خدا کا حکم دینا ثابت ہو جائے تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ آپ کی زندگی کا وہ حصہ جو امور سلطنت کے انصرام میں گزرا وہ مذہبی حیثیت رکھتا ہے اور مسلمان جس طرح خالص مذہبی نظام میں اسلامی ہدایات کے پابند ہیں اسی طرح نظام سلطنت میں بھی وہ آزاد نہیں بلکہ شریعتِ اسلامیہ کے قائم کردہ نظام سلطنت کے پابند ہیں.اس غرض کے لئے جب قرآن کریم اور احادیث نبویہ کو دیکھا جاتا ہے تو ان پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ امر ثابت ہو جاتا ہے کہ اسلام پہلی قسم کے مذاہب میں شامل نہیں

Page 77

خلافة على منهاج النبوة ۶۱ جلد دوم بلکہ دوسری قسم کے مذاہب میں شامل ہے.اس نے صرف بعض عقائد اور انفرادی اعمال کے بتانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے ان احکام کو بھی لیا ہے جو حکومت اور قانون سے تعلق رکھتے ہیں.چنانچہ وہ صرف یہی نہیں کہتا کہ نمازیں پڑھو، روزے رکھو، حج کرو، زکوۃ دو بلکہ وہ ایسے احکام بھی بتاتا ہے جن کا حکومت اور قانون سے تعلق ہوتا ہے.مثلاً وہ میاں بیوی کے تعلقات پر بحث کرتا ہے وہ بتاتا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان اگر جھگڑا ہو جائے تو کیا کیا جائے اور ان کی باہمی مصالحت کیلئے کیا کیا تدابیر عمل میں لائی جائیں اور اگر کبھی مرد کو اس بات کی ضرورت پیش آئے کہ وہ عورت کو بدنی سزا دے تو وہ سزا کتنی اور کیسی ہو، اسی طرح وہ لین دین کے قواعد پر بھی بحث کرتا ہے وہ بتاتا ہے کہ قرض کے متعلق کتنے گواہ تسلیم کئے جاسکتے ہیں، قرضہ کی کونسی صورتیں جائز ہیں اور کونسی نا جائز ، وہ تجارت اور فنانس کے اصول بھی بیان کرتا ہے، وہ شہادت کے قوانین بھی بیان کرتا ہے جن پر قضاء کی بنیاد ہے.چنانچہ وہ بتاتا ہے کہ کیسے گواہ ہونے چاہئیں ، کتنے ہونے چاہئیں ، ان کی گواہی میں کن کن امور کو ملحوظ رکھنا چاہئے.اسی طرح وہ قضاء کے متعلق کئی قسم کے احکام دیتا ہے اور بتا تا ہے کہ قاضیوں کو کس طرح فیصلہ کرنا چاہئے.پھر ان مختلف انسانی افعال کی وہ جسمانی سزائیں بھی تجویز کرتا ہے جو عام طور پر قوم کے سپر د ہوتی ہیں.مثلا قتل کی کیا سزا ہے یا چوری کی کیا سزا ہے؟ اسی طرح وہ وراثت کے قوانین بھی بیان کرتا ہے اور حکومت کو ٹیکس کا جوحق حاصل ہے اس پر بھی پابندیاں لگاتا ہے اور ٹیکسوں کی تفصیل بیان کرتا ہے.حکومت کو اِن ٹیکسوں کے خرچ کرنے کے متعلق جو اختیارات حاصل ہیں ان کو بھی بیان کرتا ہے ، فوجوں کے متعلق قواعد بھی بیان کرتا ہے، معاہدات کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے.وہ بتا تا ہے کہ دو قو میں جب آپس میں کوئی معاہدہ کرنا چاہیں تو کن اصول پر کریں.اسی طرح بین الاقوامی تعلقات کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے، مزدور اور ملازم رکھنے والوں کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے ،سڑکوں وغیرہ کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے.غرض وہ تمام امور جو حکومت سے تعلق رکھتے ہیں ان سب کو اسلام بیان کرتا ہے.پس اسلام کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے حکومت کو آزاد چھوڑ دیا ہے بلکہ جیسا کہ ثابت ہے اس نے حکومت کے ہر شعبے پر سیر کن بحث

Page 78

خلافة على منهاج النبوة ۶۲ جلد دوم الله کی ہے.پس جو شخص اسلام کو مانتا ہے اور اس میں حکومت کے متعلق تمام احکام کو تفصیل.بیان کیا ہوا دیکھتا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مذہب کو ان امور سے کیا واسطہ بلکہ اسے تسلیم کرنا صلى الله پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ کے وہ افعال جو حکومت سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی ویسے ہی قابلِ تقلید ہیں جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کے متعلق احکام.کیونکہ جس خدا نے یہ کہا ہے کہ نماز پڑھو ، جس خدا نے یہ کہا ہے کہ روزے رکھو ، جس خدا نے یہ کہا ہے کہ حج کرو ، جس خدا نے یہ کہا ہے کہ زکوۃ دو اُسی خدا نے امور سیاست اور تنظیم ملکی کے متعلق بھی احکام بیان کئے ہیں.پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہر قوم اور ہر ملک آزاد ہے کہ اپنے لئے ایک مناسب طریق ایجاد کر لے اور جس طرح چاہے رہے بلکہ اسے اپنی زندگی کے سب شعبوں میں اسلامی احکام کی پابندی کرنی پڑے گی کیونکہ اگر رسول کریم ہو نے یہ اپنی طرف سے کیا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ لوگ اس بارہ میں آزاد ہیں مگر جب ہم کہتے ہیں کہ یہ احکام قرآن مجید میں آئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیان کیا تو معلوم ہوا کہ یہ رسول کریم ﷺ کا ذاتی فعل نہیں تھا.اور جبکہ قرآن نے ان تمام امور کو بیان کر دیا ہے جو حکومت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں تو عقل یہ تسلیم نہیں کر سکتی کہ اس نے حکومت سے تعلق رکھنے والی تو ساری باتیں بیان کر دی ہوں مگر یہ نہ بتایا ہو کہ حکومت کو چلا یا کس طرح جائے.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص مکان بنانے کیلئے لکڑیاں جمع کرے ، کھڑکیاں اور دروازے بنوائے ، اینٹوں اور چونے وغیرہ کا ڈھیر لگا دے مگر جب کوئی پوچھے کہ عمارت کب بنے گی اور اس کا کیا نقشہ ہوگا ؟ تو وہ کہے کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں.صاف بات ہے کہ جب اس نے اینٹیں اکٹھی کیں، جب اس نے دروازے کھڑکیاں اور روشندان بنوائے ، جب اس نے چونے اور گارے کا انتظام کیا تو آخر اسی لئے کیا کہ وہ مکان بنائے اس لئے تو نہیں کیا کہ وہ چیزیں بے فائدہ پڑی رہیں اور ضائع ہو جائیں.اسی طرح جب قرآن نے وہ تمام باتیں بیان کر دی ہیں جن کا حکومت کے ساتھ تعلق ہوا کرتا ہے تو عقل انسانی یہ بات تسلیم نہیں کر سکتی کہ اس نے نظام حکومت چلانے کا حکم نہ دیا ہو اور نہ یہ بتایا ہو کہ اس نظام کو کس رنگ میں چلایا جائے اور اگر وہ یہ نہیں بتا تا تو تم کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قرآن نَعُوذُ بِاللهِ ناقص ہے.

Page 79

خلافة على منهاج النبوة ۶۳ جلد دوم حکومت کے تمام شعبوں کے غرض جبکہ اسلام نے حکومت کے تمام شعبوں کے متعلق تفصیلی ہدایات دے دی ہیں تو کوئی شخص متعلق اسلام کی جامع ہدایات نہیں کہ سکتا کہ مذہب کو ان امور سے کیا واسطہ.ہر قوم اور ہر ملک اپنے لئے کوئی مناسب طریق تجویز کرنے میں آزاد ہے.ہاں وہ یہ بحث ضرور کر سکتا ہے کہ کسی خاص امر میں شریعت اسلامیہ نے اسے آزاد چھوڑ دیا ہے مگر یہ بات بالکل خلاف عقل ہوگی کہ اسلام نے چھوٹے چھوٹے حقوق تو بیان کئے لیکن سب سے بڑا حق کہ فرد کو حکومت کے مقابل پر کیا حقوق حاصل ہیں اور حکومت کو کس شکل اور کس صورت سے افراد میں احکام الہیہ کو جاری کرنا چاہئے اس اہم ترین سوال کو اس نے بالکل نظر انداز کر دیا.اگر ہم یہ کہیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ وہ مذہب ناقص ہے.جو مذہب شریعت کو لعنت قرار دیتا ہے وہ تو کہہ سکتا ہے کہ یہ باتیں میرے دائرہ سے باہر ہیں اور اس مذہب کو ناقص بھی ہم اسی لئے کہتے ہیں کہ اس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کے متعلق روشن ہدایات نہیں دیں.مثلاً ایسا مذہب اگر خدا اور بندے کے تعلق پر بحث نہیں کرتا یا یہ نہیں بتاتا کہ بندوں کا بندوں سے کیسا تعلق ہونا چاہئے یا امور مملکت اور سیاست کے متعلق کوئی ہدایت نہیں دیتا تو وہ آسانی سے چھٹکارا پا جاتا ہے کیونکہ وہ شریعت کو لعنت قرار دیتا ہے لیکن جو مذہب ان امور میں دخل دیتا ہے اور اس امر کو مانتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان امور میں دخل دے اس کا ایسے اہم مسئلہ کو چھوڑ دینا اور لاکھوں کروڑوں آدمیوں کی جانوں کو خطرہ میں ڈال دینا یقیناً ایک بھول اور نقص کہلائے گا.نفاذ قانون کے متعلق تفصیلی ہدایات اس تمہید کے بعد میں اب اصل سوال کی طرف آتا ہوں.رسول کریم عرب میں مبعوث ہوئے اور عرب کا کوئی تحریر شدہ قانون نہ تھا.قبائلی رواج ہی ان میں قانون کا مرتبہ رکھتا تھا.چنانچہ کسی قبیلہ میں کوئی قانون تھا اور کسی قبیلہ میں کوئی.وہ انہی قبائلی رواج کے مطابق آپس کے جھگڑوں کا فیصلہ کر لیتے یا جب انہوں نے کوئی معاہدہ کرنا ہوتا تو معاہدہ کر لیتے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ نے ان کے

Page 80

خلافة على منهاج النبوة ۶۴ جلد دوم سامنے آسمانی شریعت پیش کی اور کہا کہ میرے خدا نے تمہارے لئے یہ تعلیم مقرر کی ہے تم اس پر عمل کرو اور پھر اس پر ان سے عمل کرایا بھی.اگر تو قرآن جو آسمانی صحیفہ ہے صرف نماز روزہ کے احکام پر اور بعض عقائد کے بیان پر اکتفاء کرتا اور احکام سیاست و تد بیر مُلکی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے تو خواہ وہ زور سے ان کی پا بندی کراتے کوئی کہہ سکتا تھا کہ عربوں نے مسلمانوں پر ظالمانہ حملہ کر کے اپنی حکومت تباہ کر لی اور ملک بغیر نظام اور قانون کے رہ گیا.اس مشکل کی وجہ سے وقت کی ضرورت سے مجبور ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک کو ابتری سے بچانے کیلئے کچھ قانون تجویز کر دیئے اور ان پر لوگوں سے عمل کرایا اور یہ حصہ آپ کے عمل کا مذہب نہ تھا.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان امور کے متعلق بھی تفصیلی احکام قرآن کریم میں موجود ہیں اور نہ صرف احکام موجود ہیں بلکہ ان کے نفاذ کے متعلق بھی احکام ہیں.مثلاً (۱) اللہ تعالیٰ سورہ حشر میں فرماتا ہے.ما الكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَ مَا نَهىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُواك یعنی اے مسلمانو ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ تمہیں دیں وہ لے لو اور جس بات سے وہ تمہیں روکیں اُس سے رُک جاؤ.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مسلمانوں کیلئے ا ہر حالت میں ماننا ضروری ہے.(۲) دوسری جگہ فرماتا ہے.ت فلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا يَمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا یعنی تیرے رب کی قسم ! جب تک وہ ہر اُس بات میں جس کے متعلق ان میں جھگڑا ہو جائے تجھے حکم نہ بنائیں اور پھر جو فیصلہ تو کرے اس سے وہ اپنے نفوس میں کسی قسم کی تنگی نہ پائیں اور پورے طور پر فرمانبردار نہ ہو جائیں اُس وقت تک وہ ہرگز ایماندار نہیں ہو سکتے.بعض لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کیا کرتے تھے بلکہ اس زمانہ میں بھی ایسے معترض موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نَعُوذُ بِالله یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ باہمی جھگڑوں کے نپٹانے اور نظام کو قائم رکھنے کے متعلق کوئی ہدایات دے

Page 81

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم سکیں.مگر فرمایا.ہم ان کی اس بات کو غلط قرار دیتے ہیں اور علی الاعلان کہتے ہیں کہ فلا وربك لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ یہ کبھی مومن نہیں وَرَبِّكَ صلى الله کہلا سکتے جب تک وہ اپنے جھگڑوں میں اے محمد رسول اللہ ﷺ ! تجھے حکم تسلیم نہ کریں اور پھر تیری قضاء پر وہ دل و جان سے راضی نہ ہوں.اس آیت کریمہ میں دو نہایت اہم باتیں بیان کی گئی ہیں.اول یہ کہ خدا تعالیٰ اس آیت میں رسول کریم ﷺ کو آخری قاضی قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ کا جو فیصلہ بھی ہو گا وہ آخری ہوگا اور اس پر کسی اور کے پاس کسی کو اپیل کا حق حاصل نہیں ہو گا اور آخری فیصلہ کا حق رسول کریم ﷺ کو دینا بتا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکومت کے اختیارات حاصل تھے.دوسری بات جو اس سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان فیصلوں کے تسلیم کرنے کو ایمان کا جزو قرار دیتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ تیرے رب کی قسم ! وہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک وہ تیرے فیصلوں کو تسلیم نہ کریں.گویا یہ بھی دین کا ایک حصہ ہے اور ویسا ہی حصہ ہے جیسے نماز دین کا حصہ ہے، جیسے روزہ دین کا حصہ ہے، جیسے حج اور زکوۃ دین کا حصہ ہے.فرض کرو زید اور بکر کا آپس میں جھگڑا ہو جاتا ہے ایک کہتا ہے میں نے دوسرے سے دس روپے لینے ہیں اور دوسرا کہتا ہے میں نے کوئی روپیہ نہیں دینا.دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچتے ہیں اور اپنے جھگڑے کو آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کے حق میں فیصلہ کر دیتے ہیں تو دوسرا اس فیصلے کو اگر نہیں مانتا تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے وہ مومن نہیں رہا.پس با وجود یکہ وہ نماز پڑھتا ہوگا ، وہ روزے رکھتا ہو گا ، وہ حج کرتا ہوگا ، اگر وہ اس حصہ میں آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا فتویٰ اس کے متعلق یہی ہے کہ اس انکار کے بعد وہ مومن نہیں رہا.پس لا يُؤْمِنُونَ کے الفاظ نے بتا دیا کہ خدا تعالیٰ نے اس حصہ کو بھی دین کا ایک جزو قرار دیا ہے علیحدہ نہیں رکھا.(۳) تیسری جگہ فرماتا ہے اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ

Page 82

خلافة على منهاج النبوة ۶۶ جلد دوم ورسوله ليَحْكُم بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا، وَ أوليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ، يعنى مومنوں کو جب خدا اور اُس کا رسول بُلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آؤ ہم تمہارے جھگڑے کا فیصلہ کر دیں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ سمعنا واطعنا - حضور کا حکم ہم نے سن لیا اور ہم ہمیشہ حضور کی اطاعت کریں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أوليفكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہوں گے اور ہمیشہ مظفر و منصور رہیں گے.اب ایک طرف رسول کریم مے کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایمان کو وابستہ قرار دینا اور دوسری طرف انہی لوگوں کو کامیاب قرار دینا جو سمعنا واطعنا کہیں اور آپ کے کسی فیصلہ کے خلاف نہ چلیں، بتا تا ہے کہ ان احکام کے ساتھ خدائی تصرف شامل ہے.اگر کوئی شخص ان احکام کو نہ مانے تو خدائی عذاب اس پر اتر تا اور اُسے ناکام و نامراد کر دیتا ہے لیکن دنیوی امور میں ایسا نہیں ہوتا.وہاں صرف طبعی نتائج پیدا ہو ا کرتے ہیں.(۴) پھر فرماتا ے الّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبي الأمي الذي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّؤرية والانْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْههُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالأَعْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ، فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ و عزرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النور الذي أنزلَ مَعَةَ ، أو لَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یعنی وہ لوگ جو اس کی اتباع کرتے ہیں جو خدا کا رسول ہے اور جو نبی اور امی ہے اور جس کے متعلق تو رات اور انجیل میں وہ کئی پیشگوئیاں لکھی ہوئی پاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ رسول انہیں ہمیشہ نیک کاموں کا حکم دیتا اور بڑی باتوں سے روکتا ہے.گویا وہ لوگوں میں ایک قانون نافذ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کرو اور وہ نہ کرو.اسی طرح وہ ان کے لئے طیبات کو حلال ٹھہرا تا اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے.گویا وہ انسانی اعمال اور اقوال اور کھانے پینے کے متعلق بھی مناسب ہدایات دیتا ہے.وہ کہتا ہے فلاں چیز کھاؤ اور فلاں نہ کھاؤ.فلاں بات کرو اور فلاں نہ کرو.اسی طرح وہ ان کے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان کے لئے نا قابل برداشت ہو رہے ہیں اور ان کے اُن طوقوں کو دُور کرتا ہے جنہوں نے ان کو ترقی کی طرف بڑھنے سے روکا ہوا تھا.فالذينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزِّرُوهُ وَنَصَرُوهُ

Page 83

خلافة على منهاج النبوة ۶۷ جلد دوم واتَّبَعُوا الثور الذي أنزل معةَ ، أو ليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ پس وہ لوگ جو اس رسول پر ایمان لاتے اور اس کے احکام کی عزت کرتے اور اس کی نصرت اور تائید کرتے اور اس نور کی اتباع کرتے ہیں جو اس کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے وہی لوگ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں گے.اب دیکھ لو گورنمنٹیں بھی ہمیشہ اسی قسم کے قوانین بناتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ کرو اور وہ نہ کرو اور قرآن کہتا ہے کہ ہم نے یہ اختیار جو حکومت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے محمد رسول اللہ کو دے دیا ہے جو لوگ اس کی اتباع کریں گے وہ کامیاب ہوں گے اور جو اطاعت سے انحراف کریں گے وہ ناکام ہوں گے.(۵) اسی طرح فرماتا ہے.وَاعْلَمُوا آنَّ فِيْكُمْ رَسُول اللَّهِ ، لَوْيُطِيعُكُمْ في كثير من الأمر لعنتُمْ وَلكِنَّ اللهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَ زَيَّنَهُ في قُلُوبِكُمْ وَ كَرّةَ الّيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ، أُولَيكَ هُمُ الرّاشِدُونَ ال اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ہوگی کس طرح ؟ آیا دنیوی بادشاہوں کی طرح یا کسی اور رنگ میں؟ فرماتا ہے خدا کا رسول تم میں موجود ہے اگر وہ تمہارے اکثر مشوروں کو قبول کرے تو تم یقیناً مصیبت میں پڑ جاؤ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں ایمان پیدا کر دیا ہے اور تم اُس کی قدر و قیمت کو اچھی طرح سمجھتے ہو اور جانتے ہو کہ ایمان کا تمہارے پاس رہنا تمہارے لئے کس قدر مفید اور با برکت ہے اور ایمان کا ضیاع تمہارے لئے کس قدر مہلک ہے وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ اور پھر اس ایمان کو اس نے تمہارے دلوں میں نہایت خوبصورت شکل میں قائم کر دیا ہے اور کفر ،فسق ، عصیان اور خروج عن الاطاعت کو اس نے تمہاری آنکھوں میں مکر وہ بنا دیا ہے اس لئے تمہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ہمارے رسول کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ اگر چاہے تو تمہارے مشوروں کو قبول کرے اور اگر چاہے تو رڈ کر دے.أوليكَ هُمُ الرّاشِدُونَ اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں.

Page 84

خلافة على منهاج النبوة صلى الله ۶۸ جلد دوم اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول کریم ﷺ کا طریق حکومت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق حکومت کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ آپ کا طریق حکومت یہ نہیں تھا کہ آپ ہر بات میں لوگوں کا مشورہ قبول کرتے.اور اس کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ کوئی کہہ سکتا تھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت وہی فیصلہ کیا کرتے تھے جو قوم کا فیصلہ ہوا کرتا تھا جیسے پارلیمنٹیں ملک کے نمائندوں کی آواز کے مطابق فیصلے کرتی ہیں.اسی طرح کوئی کہ سکتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملک کا فیصلہ ہی لوگوں سے منواتے تھے اپنا قانون ان میں نافذ نہیں کرتے تھے.سواللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس شبہ کا ازالہ کر دیا اور خود مُلک والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ دیا کہ اگر ہمارا رسول تمہاری کثرتِ رائے کے ماتحت دیئے ہوئے اکثر مشوروں کو قبول کر لے تو تم مصیبت میں پڑ جاؤ.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کا یہ طریق نہیں تھا کہ آپ کثرت رائے کے مطابق فیصلہ کرتے بلکہ جب کثرتِ رائے کو مفید سمجھتے تو کثرتِ رائے کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیتے اور جب کثرتِ رائے کو مضر سمجھتے تو اس کے خلاف فیصلہ کرتے.كَثِیرٍ مِّنَ الْأَمْرِ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر بات قبول کر لیتے بلکہ آپ کو اختیار تھا کہ جب آپ لوگوں کی رائے میں کسی قسم کا نقص دیکھیں تو اسے رد کر دیں اور خود اپنی طرف سے کوئی فیصلہ فرما دیں.(1) پھر فرماتا ہے.خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ے کہ اے محمد یہ ان کے اموال سے صدقہ لو اور اس کے ذریعہ ان عليه کے دلوں کو پاک کرو.ان کی اقتصادی حالت کو درست کرو.وَصَلّ عَلَيْهِمْ اور پھر ہمیشہ ان سے نرمی کا معاملہ کرتے رہو.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین احکام دیئے ہیں.اول یہ کہ لوگوں سے زکوۃ لو کیونکہ اس کے ذریعہ ان کے دلوں میں غریبوں سے پیار اور حسن سلوک کا مادہ پیدا ہو گا.دوسرا حکم یہ دیا کہ زکوۃ کے روپیہ کو ایسے طور پر خرچ کیا جائے کہ اس سے غرباء کی حالت درست ہوا اور وہ بھی دنیا میں ترقی کی طرف اپنا قدم بڑھا سکیں.

Page 85

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم تیسرا حکم صلّ TALE کے الفاظ میں یہ دیا کہ زکوۃ کے لینے میں سختی نہ کی جائے بلکہ ہمیشہ حکم کا نرم پہلو اختیار کیا جائے.اسی وجہ سے رسول کریم ہے جب محصلین کو زکوۃ کی وصولی کے لئے بھیجتے تو آپ ہمیشہ یہ تاکید فرمایا کرتے کہ موٹا دُنبہ اور اونٹ چن کر نہ لینا بلکہ اپنی خوشی سے وہ جن جانوروں کو بطور زکوۃ دے دیں اُنہی کو لے لینا اور یہ خواہش نہ کرنا کہ وہ زیادہ اعلی اور عمدہ جانور پیش کریں.گویا شرعاً اور قانو نا جس قدر نرمی جائز ہو سکتی ہے اُسی قدر نرمی کرنے کا آپ لوگوں کو حکم دیتے.(۷) ساتویں آیت جس میں حکومت سے تعلق رکھنے والے امور کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلْفٌ رَسُولِ اللهِ وَكَرِهُوا ان يُجَاهِدُوا يا مُوَالِهِمْ وَانْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لا تَنْفِرُوا في نَارُ جَهَنَّمَ اشَدُّ حَرَا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ ١٣ یعنی وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے غضب کے ماتحت اس امر کی توفیق نہ پا سکے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کے لئے نکلیں اور جنگ میں شامل ہوں ، وہ اپنے پیچھے ہنے پر بہت ہی خوش ہوئے اور انہوں نے اس بات کو بُراسمجھا کہ وہ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کریں.اور انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ سخت گرمی کا موسم ہے ایسے موسم میں جہاد کیلئے نکلنا تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُل نَارُ جَهَنَّمَ اشَدُّ حرا تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ اب گرمی کا بہانہ بنا کر تو تم پیچھے رہ گئے ہو مگر یا درکھو جہنم کی آگ کی تپش بہت زیادہ ہوگی.کاش وہ اس امر کو جانتے اور سمجھتے.یہاں اللہ تعالیٰ نے صریح لفظوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاد کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ سپاہی بنو اور دشمنوں سے لڑو اور یہ بھی فرما دیا ہے کہ جو لوگ تیرے حکم کے ما تحت لڑنے کے لئے نہیں نکلیں گے وہ خدا تعالیٰ کے حضور مجرم قرار پائیں گے.(۸) پھر فرماتا ہے.اِنَّمَا جَزَ وا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَلُوا اَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ

Page 86

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم وارْجُلُهُمْ مِن خِلافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ، ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَ لهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمُ ١٤ کہ وہ لوگ جو اللہ اور رسول سے لڑتے اور زمین میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی جزاء یہ ہے کہ انہیں قتل کیا جائے یا انہیں صلیب دیا جائے یا ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو مقابل پر کاٹ دیا جائے یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے.ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَ لهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظیم اور یہ امران کے لئے دنیا میں رُسوائی کا موجب ہوگا اور آخرت میں عذاب عظیم کا موجب.عرب سے کفار کے نکالے جانے کا حکم (۹) اسی طرح سورۃ توبہ کی پہلی آیات میں عرب سے کفار کے نکالے جانے کا حکم دیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.براءةً مِّنَ اللَّهِ وَ رَسُولِةٍ إِلَى الَّذِينَ b عاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ اربعة اشهر و اعْلَمُوا انَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزى اللهِ وَانَّ اللهَ مُخْزِي الْكَفِرِينَ وَاذَانَ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِة إلى النَّاسِ اللَّهَ بَرِيُّ ، مِّنَ الْمُشْرِكِينَ : و رَسُولُه ، فإن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَا عَلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزى اللهِ ، وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابِ الِيهِ إِلَّا الَّذِينَ عاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عليْكُمْ احَدًا فَاتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ المُتَّقِينَ فَإِذَا الخَ الأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وجد تُمُوهُمْ وَ خُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَّهُمْ كُلَّ مرْصَدٍ : فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُا الزَّكُوةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورُزَ حِيمُ ۱۵ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان لوگوں میں اعلان کر دو کہ خدا اور رسول نے تمہاری ذلت کے متعلق جو پیشگوئیاں کی تھیں وہ پوری ہو گئیں.اب خدا اور رسول پر تمہارا

Page 87

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم کوئی الزام نہیں لگ سکتا.پس اِن کو کہو کہ اب جاؤ اور سارے عرب میں چار ماہ پھر کر دیکھ لو کہ کہیں بھی تمہاری حکومت رہ گئی ہے؟ یقینا تمہیں معلوم ہو گا کہ تم اللہ تعالیٰ کو شکست نہیں دے سکے.اور خدا ہی ہے جس نے تمہیں رُسوا کیا.اسی طرح حج اکبر کے دن لوگوں میں اعلان کر دو کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں کے تمام اعتراضات سے بری ہو چکا ہے اور تمہارے جس قدراعتراضات تھے وہ دُور ہو گئے.اگر وہ تو بہ کر لیں تو یہ ان کے لئے بہتر ہو گا اور اگر وہ پھر بھی نہ مانیں تو جان لو کہ اب بقیہ عرب میں ان کی تھوڑی بہت اگر کچھ حکومت باقی ہے تو وہ بھی تباہ ہو جائے گی.سوائے ان کے جو اُن مشرکوں میں سے تمہارے ساتھ معاہدہ کر لیں.مگر اس شرط کے ساتھ کہ انہوں نے معاہدہ کو کسی صورت میں نہ تو ڑا ہوا اور نہ انہوں نے تمہارے خلاف دشمنوں کی کسی قسم کی مدد کی ہو.ایسے لوگوں کے ساتھ تم معاہدہ کو نبھاؤ.کیونکہ اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے.لیکن ان کے علاوہ اور جس قدر مشرک ہیں ان میں ایک اعلان کر دو اور وہ یہ کہ آج سے چار ماہ کے بعد وہ عرب میں سے نکل جائیں اگر وہ نہ نکلیں اور عرب میں ہی ٹھہرے رہیں تو چونکہ انہوں نے گورنمنٹ کا آرڈر نہیں مانا ہوگا اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اس کے بعد تم مشرکوں کو جہاں بھی پاؤ قتل کر دو اور جہاں پاؤ ان کو پکڑ لو اور پکڑ کر قید میں ڈال دو اور ان کی گھات میں تم ہر جگہ بیٹھو.ہاں اگر وہ مسلمان ہو جائیں اور نمازیں پڑھیں اور ز کو تیں دیں تو بے شک انہیں چھوڑ دو کیونکہ خدا غفور اور رحیم ہے.آب دیکھو حکومت کس چیز کا نام ہوتا ہے.حکومت اس بات کا نام نہیں کہ میاں ، بیوی سے اپنی باتیں منوائے اور بیوی ، میاں سے.بلکہ حکومت کا ایک خاص دائرہ ہوتا ہے یہ نہیں کہ جو بھی کسی کو حکم دے اسے بادشاہ کہہ دیا جائے.انگریزی میں لطیفہ مشہور ہے کہ ایک بچے نے اپنے باپ سے پوچھا کہ ابا جان! بادشاہ کس کو کہتے ہیں؟ باپ کہنے لگا بادشاہ وہ ہوتا ہے جس کی بات کو کوئی رڈ نہ کر سکے.بچہ یہ سن کر کہنے لگا کہ ابا جان پھر تو ہماری اماں جان بادشاہ ہیں.معلوم ہوتا ہے وہ باپ زن مرید ہو گا.تبھی اس کے بچہ نے کہا کہ اگر بادشاہ کی یہی تعریف ہے تو یہ تعریف تو میری والدہ پر صادق آتی ہے.

Page 88

خلافة على منهاج النبوة ۷۲ جلد دوم حکومت کیلئے ضروری شرائط غرض حکومت کا ایک خاص دائرہ ہوتا ہے اور جب ہم تسلیم کریں گے کہ فلاں حکومت ہے تو اس میں چند شرائط کا پایا جانا بھی ضروری ہوگا جن میں سے بعض یہ ہیں :.(۱) حکومت کیلئے ملکی حدود کا ہونا ضروری ہے.یعنی جو نظام بھی رائج ہو اُس کی ایک حد بندی ہوگی اور کہا جا سکے گا کہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک اس کا اثر ہے.گو یا ملکی حد و د حکومت کا ایک جُزوِ لاینفک.ہے.(۲) حکومت کو افراد کی مالی جانی اور رہائشی آزادی پر پابندیاں لگانے کا اختیار ہوتا ہے.مثلاً حکومت کو اختیار ہے کہ وہ کسی کو قید کر دے، کسی کو اپنے ملک سے باہر نکال دے یا کسی سے جبر رو پیہ وصول کر لے.اسی طرح جانی آزادی پر بھی وہ پابندی عائد کر سکتی ہے.مثلاً وہ حکم دے سکتی ہے کہ ہر نوجوان فوج میں بھرتی ہو جائے.یا اگر کہیں والنٹیئروں کی ضرورت ہو تو وہ ہر ایک کو بلا سکتی ہے.(۳) تیسرے، لوگوں پر ٹیکس لگانے اور ٹیکسوں کے وصول کرنے کا بھی اسے اختیار ہوتا ہے.اسی طرح ایسے ہی اختیارات رکھنے والے ممالک سے اسے معاہدات کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اسے باہر سے آنے والوں اور باہر جانے والوں پر پابندیاں لگانے کا اختیار ہوتا ہے، اسے تجارت اور لین دین کے متعلق قوانین بنانے کا اختیار ہوتا ہے، اسے قضاء کا اختیار ہوتا ہے ، غرض یہ تمام کام حکومت کے سپرد ہوتے ہیں اور اسے اختیار ہوتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے ان امور کو سرانجام دے.بالخصوص ملکی حدود کا ہونا حکومت کے لئے نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ اسی کے ماتحت وہ فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک رہنے والوں پر ہمارے احکام حاوی ہوں گے اور ان کا فرض ہو گا کہ وہ ان کی اطاعت کریں اس ملکی حد میں چاہے کسی وقت غیر آجائیں ان کے لئے بھی حکومت کے احکام کی اطاعت ضروری ہوگی اور جو اس حد میں سے نکل جائے وہ ایک حد تک ان قوانین کی اطاعت سے بھی باہر ہو جاتا ہے.غرض حکومت کا کام بعض باتوں کا حکم دینا بعض باتوں سے روکنا ، افراد کی مالی ، جانی اور رہائشی آزادی پر ضرورت کے وقت پابندیاں عائد کرنا ، ٹیکس وصول کرنا ، لوگوں کو فوج

Page 89

خلافة على منهاج النبوة ۷۳ جلد دوم میں بھرتی کرنا ، معاہدات کرنا اور قضاء کے کام کو سر انجام دینا ہوتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سب اختیارات دیئے گئے ہیں یا نہیں.پہلا امر ملکی حد بندی تھی.سو اس اختیار کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنا ایک واضح امر ہے کیونکہ آپ نے اعلان کر دیا کہ اتنے حصہ میں مسلمانوں کے سوا اور کوئی نہیں رہ سکتا اور اگر کوئی آیا تو اسے نکال دیا جائے گا.دوسری طرف فرما دیا کہ جولوگ اس حد کے اندر رہتے ہیں ان کے لئے یہ یہ شرائط ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوسروں سے معاہدات کرنے کا بھی اختیار دیا اور پھر شرائط کے ماتحت اس بات کا بھی اختیار دیا کہ آپ اگر مناسب سمجھیں تو معاہدہ کو منسوخ کر دیں.اسی طرح آپ کو ٹیکس وصول کرنے کا بھی اختیار دیا گیا.آپ کو ضرورت پر لوگوں کی مالی ، جانی اور رہائشی آزادی پر پابندیاں عائد کرنے کا بھی اختیار دیا گیا.غرض حکومت کے جس قدر اختیارات ہوتے ہیں وہ تمام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دے دیئے.حکومت کا کام بعض باتوں کا حکم دینا ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ یہ حق دیتا ہے.حکومت کا کام بعض باتوں سے روکنا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق بھی دیتا ہے.پھر افراد کی مالی ، جانی اور رہائشی آزادی کو حکومت ہی خاص حالات میں سلب کر سکتی ہے.چنانچہ اس کا حق بھی اللہ تعالیٰ آپ کو دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم ان کے مال لے سکتے ہو، ٹیکس وصول کر سکتے ہو، جانیں ان سے طلب کر سکتے ہو اور جنگ پر لے جا سکتے ہو.اسی طرح ملک سے لوگوں کو نکالنے کا اختیار بھی آپ کو دیا گیا.پھر قضاء حکومت کا کام ہوتا ہے سو یہ حق بھی اسلام آپ کو دیتا ہے اور آپ کے فیصلہ کو آخری فیصلہ قرار دیتا ہے.پھر حکومت کی قسم بھی بتا دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کے پابند نہیں کہ تمہاری سب باتیں مانیں بلکہ تم اس بات کے پابند ہو کہ ان کی سب باتیں مانو کیونکہ اگر یہ تمہاری سب باتیں مانے تو اس کے خطرناک نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.پس ان آیات سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق امور حکومت کے انصرام سے وقتی ضرورت کے ماتحت نہ تھا بلکہ شریعت کا حصہ تھا اور جس طرح نماز روزہ

Page 90

خلافة على منهاج النبوة ۷۴ جلد دوم وغیرہ احکام مذہب کا جزو ہیں اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام ملکی کا کام اور طریق بھی مذہب اور دین کا حصہ ہے اور دُنیوی یا وقتی ہرگز نہیں کہلا سکتا.کیا نظام سے تعلق رکھنے والے احکام صرف منکرین خلافت کی اس دلیل پر کہ اسلام نے کوئی رسول کریم ﷺ کی ذات سے مخصوص تھے ؟ معنی نظام پیش نہیں کیا جو یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اس طرح رسول کریم علیہ کے اعمال کا وہ حصہ جو نظام کے قیام سے تعلق رکھتا ہے مذہبی حیثیت نہیں رکھے گا بلکہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ کام محض ضرورتِ زمانہ کے ماتحت آپ کرتے تھے اسے علی بن عبدالرزاق نے بھی محسوس کیا ہے اور چونکہ وہ آدمی ذہین ہے اس لئے اس نے اس مشکل کو بھانپا ہے اور یہ سمجھ کر کہ لوگ اس پر یہ اعتراض کریں گے کہ جب قرآن کریم میں ایسے احکام موجود ہیں جن کا تعلق حکومت کے ساتھ ہے تو تم کس طرح کہتے ہو کہ رسول کریم ﷺ نے ان کاموں کو وقتی ضرورت کے ماتحت کیا اور اسلام نے کوئی مخصوص نظام حکومت پیش نہیں کیا اسے اس رنگ میں حل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی حکومت حکومت رسالت و محبت تھی نہ کہ حکومت ملوکیت.وہ کہتا ہے بیشک رسول کریم علیہ نے کئی قسم کے احکام دیئے مگر وہ احکام بحیثیت رسول ہونے کے تھے بحیثیت نظام کے سردار ہونے کے نہیں تھے.اور اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ چونکہ وہ احکام نظام کا سردار ہونے کے لحاظ سے نہیں دیئے گئے اس لئے وہ دوسروں کی طرف منتقل نہیں ہو سکتے اور چونکہ وہ تمام احکام بحیثیت رسول تھے اس لئے آپ کی وفات کے ساتھ ہی وہ احکام بھی ختم ہو گئے.پھر وہ ان تمام اختیارات کو رسول کریم ﷺ کے ساتھ مخصوص ثابت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ رسول کے ساتھ لوگوں کو غیر معمولی محبت ہوتی ہے اور اس محبت کی وجہ سے ہر شخص اُن کی بات کو تسلیم کر لیتا ہے یہی کیفیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھی.صحابہ کو آپ کے ساتھ عشق تھا اور وہ آپ کے ہر حکم پر اپنی جانیں فدا کرنے کیلئے تیار رہتے تھے.پس آپ نے جو حکم بھی دیا وہ انہوں نے مان لیا اور وہ ماننے پر مجبور تھے کیونکہ وہ اگر عاشق تھے تو آپ معشوق ، اور عاشق اپنے معشوق کی باتوں کو مانا ہی کرتا ہے.مگر اس کے

Page 91

خلافة على منهاج النبوة ۷۵ جلد دوم یہ معنی نہیں کہ وہ احکام ہمیشہ کیلئے واجب العمل بن گئے بلکہ وہ صرف آپ کے ساتھ مخصوص تھے اور جب آپ وفات پاگئے تو ان احکام کا دائرہ عمل بھی ختم ہو گیا.نبی کے ساتھ اُس کے متبعین کی غیر معمولی محبت علی بن عبدالرزاق کی یہ دلیل اس لحاظ سے تو درست ہے کہ واقع میں نبی کے ساتھ اُس کے ماننے والوں کو غیر معمولی محبت ہوتی ہے.ہم.نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ہماری جماعت کے ہزاروں لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو کچھ کرتے دیکھتے تھے وہی خود بھی کرنے لگ جاتے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے کسی نے بطور اعتراض کہا کہ آپ کی جماعت کے بعض لوگ ڈاڑھی منڈواتے ہیں اور یہ کوئی پسندیدہ طریق نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جب ان کے دلوں میں محبت کامل پیدا ہو جائے گی اور وہ دیکھیں گے کہ میں نے ڈاڑھی رکھی ہوئی ہے تو وہ خود بھی ڈاڑھی رکھنے لگ جائیں گے اور کسی وعظ ونصیحت کی انہیں ضرورت نہیں رہے گی.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نبی اور اس کے ماننے والوں کے درمیان محبت کا ایک ایسا رشتہ ہوتا ہے جس کی نظیر اور کسی دُنیوی رشتہ میں نظر نہیں آ سکتی بلکہ بعض دفعہ محبت کے جوش میں انسان بظا ہر معقولیت کو بھی چھوڑ دیتا ہے.حضرت عبد اللہ بن عمر کی عادت تھی کہ جب وہ حج کیلئے جاتے تو ایک مقام پر پیشاب کرنے کیلئے بیٹھ جاتے اور چونکہ وہ بار بار اُسی مقام پر بیٹھتے اس لئے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ کو اسی مقام پر پیشاب آتا ہے ادھر اُدھر کسی اور جگہ نہیں آتا.انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں پیشاب کرنے کیلئے بیٹھے تھے اس وجہ سے جب بھی میں یہاں سے گزرتا ہوں مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد آ جاتے ہیں اور میں اس جگہ تھوڑی دیر کیلئے ضرور بیٹھ جا تا ہوں.تو محبت کی وجہ سے انسان بعض دفعہ ایسی نقلیں بھی کر لیتا ہے جو بظا ہر غیر معقول نظر آتی ہیں.پس یہ جو اُس نے کہا کہ چونکہ صحابہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی اس لئے

Page 92

خلافة على منهاج النبوة ۷۶ جلد دوم وہ آپ کی اطاعت کرتے تھے اسے ہم بھی تسلیم کرتے ہیں مگر یہاں یہ سوال نہیں کہ وہ لوگ آپ کی محبت سے اطاعت کرتے تھے یا دباؤ سے بلکہ سوال یہ ہے کہ آیا اسلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اقتدار ملک اور جان پر دیا تھا یا نہیں؟ اسی طرح نہ ماننے والوں پر آپ کو کوئی اختیار دیا تھا یا نہیں ؟ اگر قرآن میں صرف احکام بیان ہوتے اور نہ ماننے والوں کے متعلق کسی قسم کی سزا کا ذکر نہ ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام دیئے اور صحابہ نے اُس عشق کی وجہ سے جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھا ان احکام کو قبول کر لیا.مگر ہم تو دیکھتے ہیں کہ قرآن میں سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ اگر فلاں جرم کرو گے تو تمہیں یہ سزا ملے گی اور فلاں جرم کرو گے تو یہ سزا ملے گی اور جب کہ قرآن نے سزائیں بھی مقرر کی ہیں تو معلوم ہوا کہ محبت کا اصول گلیہ درست نہیں کیونکہ جہاں احکام کی اطاعت محض محبت سے وابستہ ہو وہاں سزائیں مقرر نہیں کی جاتیں.پھر اسلام نے صرف چندا حکام نہیں دیئے بلکہ نظام حکومت کی تفصیل بھی بیان کی ہے.گو بعض جگہ اس نے تفصیلات کو بیان نہیں بھی کیا اور اس میں لوگوں کیلئے اُس نے اجتہاد کے دروازہ کو کھلا رکھا ہے تا کہ اُن کی عقلی اور فکری استعدادوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے.چنانچہ بعض امور میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کر کے اصل اسلامی مسئلہ لوگوں کے سامنے پیش کیا اور بعض امور میں حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے حالات پیش آمدہ کے مطابق لوگوں کی رہبری کی بلکہ بعض امور ایسے ہیں جن کے متعلق آج تک غور و فکر سے کام لیا جا رہا ہے.خیار بلوغ کا مسئلہ مثلاً باپ اگر بیٹی کا بلوغت سے پہلے نکاح کر دے تو بالغ ہونے پر اسے فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے یا نہیں ؟ یہ ایک سوال ہے جو عام طور پر پیدا ہوتا رہتا ہے.فقہ کی پُرانی کتابوں میں یہی ذکر ہے کہ باپ اگر بیٹی کا نکاح کر دے تو اُسے خیار بلوغ حاصل نہیں ہوتا مگر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ لڑکی کو خیار بلوغ حاصل ہے اور اسے اس بات کا حق ہے کہ اگر وہ بالغ ہونے پر اس رشتہ کو پسند نہ کرے تو اسے رد کر دے.اسی طرح اور بہت سے فقہی مسائل ہیں جو اسلامی تعلیم کے ماتحت آہستہ آہستہ

Page 93

خلافة على منهاج النبوة LL جلد دوم نکلتے آتے ہیں اور بہت سے آئندہ زمانوں میں نکلیں گے.پس ہمیں تفصیلات سے غرض نہیں اور نہ اس وقت یہ سوال پیش ہے کہ اسلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی خاص رنگ کی حکومت دی تھی یا نہیں کیونکہ نظام حکومت علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں.انگلستان کا امریکہ سے امریکہ کا روس سے اور روس کا جرمنی سے نظام حکومت مختلف ہے مگر اس اختلاف کی وجہ سے یہ تو نہیں کہ ایک کو ہم حکومت کہیں اور دوسرے کو ہم حکومت نہ کہیں.حکومت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی خاص نظام مقر ر کیا جائے اور لوگوں کی باگ ڈور ایک آدمی یا ایک جماعت کے سپر د کر کے ملکی حدود کے اندر اس کو قائم کیا جائے.پس دیکھنا یہ ہے کہ کسی نظام کا خواہ وہ دوسرے نظاموں سے کیسا ہی مخالف کیوں نہ ہو ا سلام حکم دیتا ہے یا نہیں اور اُس نظام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلاتے تھے یا نہیں.اسلام ملکی اور قانونی نظام کا قائل ہے اس میں کوئی شب نہیں کہ اسلام ملوکیت کا قائل نہیں کیونکہ ملوکیت ایک خاص معنی رکھتی ہے اور اُن معنوں کی حکومت کا اسلام مخالف ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق بھی فرمایا کہ میں بادشاہ نہیں اور خلفاء کے متعلق بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملوک کا لفظ استعمال نہیں فرمایا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اسلام مذہبی طور پر کسی بھی ملکی نظام کا قائل نہیں.اگر کوئی نظام قرآن اور اسلام سے ثابت ہو تو ہم کہیں گے کہ اسلام ملوکیت کا بے شک مخالف ہے مگر ایک خاص قسم کے نظام کو اس کی جگہ قائم کرتا ہے اور وہ اسلام کا مذہبی حصہ ہے اور چونکہ وہ مذہبی حصہ ہے اس کا قیام مسلمانوں کیلئے ضروری ہے جہاں تک اُن کی طاقت ہو.حکومت در حقیقت نام ہے ملکی حدود اور اس میں خاص اختیارات کے اجراء کا.کسی خاص طرز کا نام نہیں.اور ملکی حدود اور خاص اختیارات کا نفاذ قرآن کریم سے ثابت ہے.جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے جن کو میں ابھی پیش کر چکا ہوں.پس جب کہ ایک ملکی حد اور اس حد میں ایک خاص قانون اور ایک اصلی باشندے ملک کے اور ایک معاہد اور ایک غیر ملکی کا وجود پایا جاتا ہے تو ایک خاص نظام حکومت بھی ثابت ہے اس کا نام ہم بھی ملوکیت نہیں رکھتے کیونکہ ملوکیت ایسے معنوں کی حامل ہے جن کی اسلام اجازت نہیں

Page 94

خلافة على منهاج النبوة ۷۸ جلد دوم دیتا لیکن بہر حال ایک ملکی اور قانونی نظام ثابت ہے اور اسی کے وجود کو ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اسی نظام کے قیام کیلئے ہم خلافت کو ضروری قرار دیتے ہیں.پس خلافت ایک اسلامی نظام ہے نہ کہ وقتی مصلحت کا نتیجہ.میں اس امر کو مانتا ہوں کہ خلافت کے انکار سے منطقی نظر یہ وہی قائم ہوتا ہے جو علی بن عبدالرزاق نے قائم کیا ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام کو بھی کسی نہ کسی رنگ میں رڈ کرنا پڑتا ہے اور جو لوگ اِس نظریہ کو تسلیم کئے بغیر خلافت کا انکار کرتے ہیں وہ یا تو بیوقوف ہیں یا لوگوں کی آنکھوں میں خاک جھونکنا چاہتے ہیں.اب جب کہ قرآن کریم سے یہ امر ثابت ہو گیا کہ اسلام امور ملکی اور نظام قومی کو مذہب کا حصہ قرار دیتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اِن امور میں حصہ لینا اسے مذہب کا جز وقرار دیتا ہے تو ان امور میں آپ کی ہدایت اور راہنمائی اُسی طرح سنت اور قابل نمونہ ہوئی جس طرح کہ نماز روزہ وغیرہ احکام میں.اور ان امور میں کسی آزادی کا مطالبہ اُسی وقت تسلیم ہوسکتا ہے جب کہ انسان اسلام سے بھی آزادی کا مطالبہ کرے.اور جب یہ ثابت ہو گیا تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جس طرح نماز روزہ کے احکام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ختم نہیں ہو گئے اسی طرح نظام قومی یا نظام ملکی کے احکام بھی آپ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہو گئے کیونکہ جس طرح فرد کی باطنی ترقی کیلئے نماز روزہ کی ضرورت باقی ہے اسی طرح قوم کی ترقی کیلئے ان دوسری قسم کے احکام کے نفاذ اور انتظام کی بھی ضرورت ہے.اور جس طرح نماز با جماعت جو ایک اجتماعی عبادت ہے آپ کے بعد آپ کے نواب کے ذریعے ادا ہوتی رہنی چاہئے اسی طرح وہ دوسرے احکام بھی آپ کے نواب کے ذریعے سے پورے ہوتے رہنے چاہئیں.اور جس طرح نماز روزہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے جو احکام دیئے اُن کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں تو تم بے شک نہ نمازیں پڑھو اور نہ روزے رکھو اسی طرح نظام کے متعلق اسلام نے جو احکام دیئے اُن سے یہ مقصد نہیں تھا کہ وہ بعد میں قابل عمل نہیں رہیں گے بلکہ جس طرح نماز میں ایک کے بعد دوسرا امام مقرر ہوتا چلا جاتا ہے اسی طرح نظام سے تعلق رکھنے والے احکام پر بھی آپ کے نائبین کے

Page 95

خلافة على منهاج النبوة 29 جلد دوم ذریعہ ہمیشہ عمل ہوتے رہنا چاہئے.قبائل عرب کی بغاوت کی وجہ میں سمجھتا ہوں اس دھوکا کی وجہ سے کہ نظام سے تعلق رکھنے والے احکام رسول کریم ﷺ کی ذات سے مختص تھے آپ کی وفات کے بعد عرب کے قبائل نے بغاوت کر دی اور انہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا.وہ بھی یہی دلیل دیتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کو زکوۃ لینے کا اختیار ہی نہیں دیا.چنانچہ وہ فرماتا ہے.خُذُ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تو ان کے اموال کا کچھ حصہ بطور زکوۃ لے.یہ کہیں ذکر نہیں کہ کسی اور کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زکوۃ لینے کا اختیار ہے.مگر مسلمانوں نے ان کی اس دلیل کو تسلیم نہ کیا حالانکہ وہاں خصوصیت کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی مخاطب کیا گیا ہے.بہر حال جو لوگ اُس وقت مرتد ہوئے اُن کی بڑی دلیل یہی تھی کہ زکوۃ لینے کا صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار حاصل تھا کسی اور کو نہیں.اور اس کی وجہ یہی دھوکا تھا کہ نظام سے تعلق رکھنے والے احکام ہمیشہ کے لئے قابل عمل نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ احکام مخصوص تھے.مگر جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں یہ خیال بالکل غلط ہے اور اصل حقیقت یہی ہے کہ جس طرح نماز روزہ کے احکام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک ختم نہیں ہو گئے اسی طرح قومی یا ملکی نظام سے تعلق رکھنے والے احکام بھی آپ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہو گئے اور نماز با جماعت کی طرح جو ایک اجتماعی عبادت ہے ان احکام کے متعلق بھی ضروری ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں میں آپ کے نائین کے ذریعہ ان پر عمل ہوتا رہے.مسئلہ خلافت کی تفصیلات اس اصولی بحث کے بعد میں خلافت کے مسئلہ کی تفصیلات کی طرف آتا ہوں.یا د رکھنا چاہئے کہ نبی کو خدا تعالیٰ سے شدیدا تصال ہوتا ہے ایسا شدید اتصال کہ بعض لوگ اسی وجہ سے دھوکا کھا کر یہ خیال کر لیتے ہیں کہ شاید وہ خدا ہی ہے جیسا کہ عیسائیوں کو اسی قسم کی ٹھوکر لگی.لیکن جنہیں یہ ٹھو کر نہیں لگتی اور وہ نبی کو بشر ہی سمجھتے ہیں وہ بھی اس شدید اتصال کی وجہ سے جو نبی کو

Page 96

خلافة على منهاج النبوة ۸۰ جلد دوم خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اور اس وجہ سے کہ اُس کے وجود میں اس کے اتباع خدا ئی نشانات دیکھتے رہتے ہیں اُس کے زمانہ میں یہ خیال تک نہیں کرتے کہ وہ فوت ہو جائے گا.یہ نہیں کہ وہ نبی کو بشر نہیں سمجھتے بلکہ شدت محبت کی وجہ سے وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم پہلے فوت ہو نگے اور نبی کو اللہ تعالیٰ ابھی بہت زیادہ عمر دے گا.چنانچہ آج تک کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے متعلق اس کی زندگی میں اس کے متبعین نے یہ سمجھا ہو کہ وہ فوت ہو جائے گا اور ہم زندہ ہے رہیں گے بلکہ ہر شخص (سوائے حدیث العہد اور قلیل الایمان لوگوں کے ) یہ خیال کرتا ہے کہ نبی تو زندہ رہے گا اور وہ فوت ہو جائیں گے اور اس وجہ سے وہ ان اُمور پر کبھی بحث ہی نہیں کرتے جو اس کے بعد اُمت کو پیش آنے والے ہوتے ہیں.اور زمانوں میں تو لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اگر فلاں فوت ہو گیا تو کیا بنے گا مگر نبی کے زمانہ میں انہیں اس قسم کا خیال تک نہیں آتا.اور اس کی وجہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں شدت محبت ہوتی ہے چنانچہ اس کا ہمیں ذاتی تجربہ بھی ہے.ایک ذاتی تجربہ ہم میں سے کوئی احمدی سوائے اس کے کہ جس کے دل میں خرابی پیدا ہو چکی ہو یا جس کے ایمان میں کوئی نقص واقع ہو چکا ہو ایسا نہیں تھا جس کے دل میں کبھی بھی یہ خیال آیا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فوت ہو جائیں گے اور ہم آپ کے پیچھے زندہ رہ جائیں گے.چھوٹے کیا اور بڑے کیا ، بچے کیا اور بوڑھے کیا ، مرد کیا اور عورتیں کیا سب یہی سمجھتے تھے کہ ہم پہلے فوت ہو نگے اور حضرت صاحب زندہ رہیں گے.غرض کچھ شدت محبت کی وجہ سے اور کچھ اس تعلق کی عظمت کی وجہ سے جو نبی کو خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کتنی لمبی عمر دے گا.چاہے کو ئی شخص یہ خیال نہ کرتا ہو کہ یہ نبی ہمیشہ زندہ رہے گا مگر یہ خیال ضرور آتا ہے کہ ہم پہلے فوت ہونگے اور خدا تعالیٰ کا نبی دنیا میں زندہ رہے گا.چنانچہ بسا اوقات اٹھارہ اٹھارہ ہیں بیس سال کے نوجوان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوتے اور نہایت لجاجت سے عرض کرتے کہ حضور! ہمارا جنازہ خود پڑھائیں.اور ہمیں تعجب آتا کہ یہ تو ابھی نوجوان ہیں اور حضرت صاحب ستر برس سے اوپر کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اس کے

Page 97

خلافة على منهاج النبوة ۸۱ جلد دوم.علاوہ آپ بیمار بھی رہتے ہیں مگر یہ کہتے ہیں کہ ہمارا جنازہ آپ پڑھائیں.گویا انہیں یقین ہے کہ حضرت صاحب زندہ رہیں گے اور وہ آپ کے سامنے فوت ہو نگے.اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب وفات پا گئے تو دس پندرہ دن تک سینکڑوں آدمیوں کے دلوں میں کئی دفعہ یہ خیال آتا کہ آپ ابھی فوت نہیں ہوئے.میرا اپنا یہ حال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے تیسرے دن میں ایک دوست کے ساتھ باہر سیر کیلئے گیا اور دار الانوار کی طرف نکل گیا.اُن دنوں ایک اعتراض کے متعلق بڑا چرچا تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ وہ بہت ہی اہم ہے.راستہ میں میں نے اس اعتراض پر غور کرنا شروع کر دیا اور خاموشی سے سوچتا چلا گیا.مجھے یکدم اس اعتراض کا ایک نہایت ہی لطیف جواب سُوجھ گیا اور میں نے زور سے کہا کہ مجھے اس اعتراض کا جواب مل گیا ہے اب میں گھر چل کر حضرت صاحب سے اس کا ذکر کروں گا اور آپ کو بتاؤں گا کہ آپ کی وفات پر جو فلاں اعتراض دشمنوں نے کیا ہے اس کا یہ جواب ہے حالانکہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وفات پائے تین دن گزر چکے تھے.تو وہ لوگ جنہوں نے اس عشق کا مزا چکھا ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں وہ کیا خیال کرتے تھے اور آپ کی وفات پر اُن کی کیا قلبی کیفیات تھیں.یہی حال صحابہ کا تھا.انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عشق تھا اُس کی مثال تاریخ کے صفحات میں اور کہیں نظر نہیں آتی.اس عشق کی وجہ سے صحابہ کیلئے یہ تسلیم کرنا سخت مشکل تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں گے اور وہ زندہ رہیں گے.یہ نہیں کہ وہ آپ کو خدا سمجھتے تھے ، وہ سمجھتے تو آپ کو انسان ہی تھے مگر شدتِ محبت کی وجہ سے خیال کرتے تھے کہ ہماری زندگی میں ایسا نہیں ہو سکتا.چنانچہ آپ کی وفات پر جو واقعہ ہوا وہ اس حقیقت کی ایک نہایت واضح دلیل ہے.رسول کریم ﷺ کی وفات پر صحابہ کی کیفیت حدیثوں اور تاریخوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر جب لوگوں میں مشہور ہوئی تو حضرت عمرؓ تلوار لے کر ے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ افواہ محض منافقوں کی شرارت ہے ورنہ رسول کریم

Page 98

خلافة على منهاج النبوة ۸۲ جلد دوم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور وہ فوت نہیں ہوئے.آپ آسمان پر خدا سے کوئی حکم لینے کیلئے گئے ہیں اور تھوڑی دیر میں واپس آ جائیں گے اور منافقوں کو سزا دیں گے.چنانچہ انہوں نے اس بات پر اتنا اصرار کیا کہ انہوں نے کہا اگر کسی نے میرے سامنے یہ کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو میں اُس کی گردن اُڑا دوں گا اور یہ کہہ کر ایک جوش اور غضب کی حالت میں تلوار ہاتھ میں لٹکائے مسجد میں ٹہلنے لگ گئے.کے لوگوں کو ان کی یہ بات اتنی بھلی معلوم ہوئی کہ ان میں سے کسی نے اس بات کے انکار کی ضرورت نہ سمجھی حالانکہ قرآن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ صاف طور پر لکھا ہوا تھا کہ الله آفَائِن مات أو قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُم اگر محمد رسول اللہ ﷺ فوت ہو جائیں یا خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ مگر با وجود اس کے کہ قرآن کریم میں ایسی نص صریح موجود تھی جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وفات پانا ثابت ہو سکتا تھا پھر بھی انہیں ایسی ٹھوکر لگی کہ ان میں سے بعض نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ خیال کر لیا کہ آپ فوت نہیں ہوئے یہ منافقوں نے جھوٹی افواہ اُڑا دی ہے اور اس کی وجہ یہی تھی کہ محبت کی شدت سے وہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کبھی ایسا ممکن ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں اور وہ زندہ رہیں.بعض صحابہ جو طبیعت کے ٹھنڈے تھے انہوں نے جب یہ حال دیکھا تو انہیں خیال آیا کہ ایسا نہ ہو لوگوں کو کوئی ابتلا ء آ جائے چنانچہ وہ جلدی جلدی سے گئے اور حضرت ابو بکر کو بُلا لائے.جب وہ مسجد میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ہر شخص جوش اور خوشی کی حالت میں نعرے لگا رہا ہے اور کہہ رہا ہے منافق جھوٹ بولتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ ہیں.گویا ایک قسم کے جنون کی حالت تھی جو ان پر طاری تھی.جیسے میں نے کہہ دیا تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو بتاؤں گا کہ آپ کی وفات پر دشمنوں نے جو فلاں اعتراض کیا ہے اُس کا یہ جواب ہے.حضرت ابو بکر نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ اُس کمرہ میں تشریف لے گئے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک پڑا ہوا تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول کریم ﷺ کا کیا.

Page 99

خلافة على منهاج النبوة ۸۳ جلد دوم صلى الله 7.حال ہے؟ انہوں نے بتایا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں.حضرت ابو بکر نے یہ سنتے ہی کپڑا اٹھایا اور آپ کی پیشانی پر انہوں نے بوسہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا.یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک تو آپ وفات پا جائیں اور دوسری طرف قوم پر موت وارد ہو جائے اور وہ صحیح اعتقادات سے منحرف ہو جائے.پھر آپ باہر تشریف لائے اور منبر پر کھڑے ہو کر آپ نے ایک وعظ کیا جس میں بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں.پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولُ : قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ، آفائِن مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُم و اس کے بعد آپ نے بڑے زور سے کہا کہ اے لوگو! محمد رسول اللہ علیہ بیشک اللہ کے رسول تھے مگر اب وہ فوت ہو چکے ہیں.اگر تم میں سے کوئی شخص محمد رسول اللہ علیہ کی عبادت کیا کرتا تھا تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ آپ وفات پاچکے ہیں لیکن اگر تم خدا کی عبادت کیا کرتے تھے تو تم سمجھ لو کہ تمہارا خدا زندہ ہے اور اُس پر کبھی موت وارد نہیں ہو سکتی.حضرت عمرؓ جو اُس وقت تلوار کی ٹیک کے ساتھ کھڑے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ ابھی یہ منبر سے اتریں تو میں تلوار سے اُن کی گردن اڑا دوں.انہوں نے جس وقت یہ آیت سُنی معا ان کی آنکھوں کے سامنے سے ایک پردہ اُٹھ گیا.ان کے گھٹنے کانپنے لگ گئے.ان کے ہاتھ لرزنے لگ گئے اور ان کے جسم پر ایک کپکپی طاری ہو گئی اور وہ ضعف سے نڈھال ہو کر زمین پر گر گئے.باقی صحابہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری آنکھوں پر پہلے پردے پڑے ہوئے تھے مگر جب ہم نے حضرت ابو بکڑ سے یہ آیت سنی تو وہ تمام پردے اُٹھ گئے.دنیا ان کی آنکھوں میں اندھیر ہو گئی اور مدینہ کی تمام گلیوں میں صحابہ روتے پھرتے تھے اور ہر ایک کی زبان پر یہ آیت تھی کہ وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولُ : قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ.آفَائِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ ٢٠ حضرت حسان کا یہ شعر بھی اسی کیفیت پر دلالت کرتا ہے کہ كُنتَ السَّوَادَ لِنَا ظِرِى فَعَمِيَ عَلَى النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنتُ أَحَاذِرُ ال کہ اے خدا کے رسول ! تُو تو میری آنکھ کی پتلی تھا اب تیرے وفات پا جانے کی وجہ

Page 100

خلافة على منهاج النبوة ۸۴ جلد دوم سے میری آنکھ اندھی ہوگئی ہے.صرف تو ہی ایک ایسا وجود تھا جس کے متعلق مجھے موت کا خوف تھا.اب تیری وفات کے بعد خواہ کوئی مرے مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوسکتی.نبی کی زندگی میں اس کی جانشینی کے پس جب نبی کی زندگی میں قوم کے دل کی اور دماغ کی یہ کیفیت ہوتی ہے تو سمجھا مسئلہ کی طرف توجہ ہی نہیں ہوسکتی جاسکتا ہے کہ خدا بھی اور نبی بھی ان کو اس ایذاء سے بچاتے ہیں اور اس نازک مضمون کو کہ نبی کی وفات کے بعد کیا ہو گا لطیف پیرایہ میں بیان کرتے ہیں اور قوم بھی اس مضمون کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتی اور نہ ان امور میں زیادہ دخل دیتی ہے کہ نبی کے بعد کیا ہو گا.چنانچہ یہ کہیں سے ثابت نہیں کہ کسی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہو کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ جب فوت ہو جائیں گے تو کیا ہوگا ؟ آیا آپ کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ہوگا یا کوئی پارلیمنٹ اور مجلس بنے گی جو مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے امور کا فیصلہ کرے گی کیونکہ ایسے امور پر وہی بحث کر سکتا ہے جو سنگدل ہوا اور جو نبی کی محبت اور اس کی عظمت سے بالکل بریگا نہ ہو.باقی کئی مسائل کے متعلق تو ہمیں احادیث میں نظر آتا ہے کہ صحابہ ان کے بارہ میں آپ سے دریافت کرتے رہتے تھے اور گرید گرید کر وہ آپ سے معلومات حاصل کرتے تھے مگر جانشینی کا مسئلہ ایسا تھا جو صحابہ آپ سے دریافت نہیں کر سکتے تھے اور نہ اس کو دریافت کرنے کا خیال تک ان کے دل میں آ سکتا تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ آپ زندہ رہیں گے اور ہم وفات پا جائیں گے.پس یہ مسئلہ ایک رنگ میں اور ایک حد تک پردہ اخفاء میں رہتا ہے اور اس کے کھلنے کا اصل وقت وہی ہوتا ہے جبکہ نبی فوت ہو جاتا ہے.یہی حالات تھے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے آپ کی وفات صحابہ کے لئے ایک زلزلہ عظیمہ تھی.چنانچہ آپ کی وفات پر پہلی دفعہ انہیں یہ خیال پیدا ہوا کہ نبی بھی ہم سے جدا ہوسکتا ہے اور پہلی دفعہ یہ بات ان کے دماغ پر اپنی حقیقی اہمیت کے ساتھ نازل ہوئی کہ اس کے بعد انہیں کسی نظام کی ضرورت ہے جو نبی کی سنت اور خواہشات کے مطابق ہو اور اس کی جزئیات پر انہوں نے غور کرنا شروع کیا.بیشک اس نظام کی تفصیلات قرآن کریم میں

Page 101

خلافة على منهاج النبوة ۸۵ جلد دوم موجود تھیں مگر چونکہ وہ پہلے چھپی ہوئی تھیں اور ان کو کبھی گرید انہیں گیا تھا اس لئے لوگ ان آیات کو پڑھتے اور ان کے کوئی اور معنے کر لیتے.وہ خاص معنے نہیں کرتے تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ نبی کی وفات کے بعد اس کے متبعین کو کیا کرنا چاہئے.ہر نبی کی دوزندگیاں ہوتی در حقیقت اس جذبہ محبت کی تہہ میں بھی ایک الہی حکمت کام کر رہی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ نبی کی دو ہیں ایک شخصی اور ایک قومی زندگیاں ہوتی ہیں.ایک شخصی اور ایک قومی اور اللہ تعالیٰ ان دونوں زندگیوں کو الہام سے شروع کرتا ہے.نبی کی شخصی زندگی تو الہام سے اس طرح شروع ہوتی ہے کہ جب وہ تمیں یا چالیس سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے الہامات اس پر نازل ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور اسے کہا جاتا ہے کہ تو مامور ہے اور تجھے لوگوں کی اصلاح اور ان کی ہدایت کیلئے کھڑا کیا جاتا ہے.ان الہامات کے نتیجہ میں وہ اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے غیر معمولی فضل نازل ہوتے دیکھتا ہے اور وہ اپنے اندر نئی قوت ، نئی زندگی اور نئی بزرگی محسوس کرتا ہے.اور نبی کی قومی زندگی الہام سے اس طرح شروع ہوتی ہے کہ جب وہ وفات پا تا ہے تو کسی بنی بنائی سکیم کے ماتحت اس کے بعد نظام قائم نہیں ہوتا بلکہ یکدم ایک تغیر پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالی کا مخفی الہام قوم کے دلوں کو اس نظام کی طرف متوجہ کر دیتا ہے.قدرت اولی نبی کی شخصی زندگی ہوتی غرض جس طرح نہیں کی شخصی زندگی کو اللہ تعالیٰ الہام سے شروع کرتا ہے اسی ہے اور قدرت ثانیہ قومی زندگی طرح وہ اس کی قومی زندگی کو جواس کی وفات کے بعد شروع ہوتی ہے الہام سے شروع کرنا چاہتا ہے تا کہ دونوں میں مشابہت قائم رہے اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا نام قدرت ثانیہ رکھا ہے.گویا قدرت اولی تو نبی کی شخصی زندگی ہے اور قدرت ثانیہ نبی کی قومی زندگی ہے.پس چونکہ اللہ تعالیٰ اس قومی زندگی کو ایک الہام سے اور اپنی قدرت سے شروع کرنا چاہتا ہے اس لئے اس کی جزئیات کو نبی کے زمانہ میں قوم کی نظروں سے پوشیدہ رکھتا ہے.پھر جب نبی فوت ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کا مخفی الہام قوم کے دلوں کو اس زندگی کی تفصیلات کی طرف متوجہ کرتا

Page 102

خلافة على منهاج النبوة ۸۶ جلد دوم ہے.انجیل میں بھی اسی قسم کی مثال پائی جاتی ہے جہاں ذکر آتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری کی وفات کے بعد حواری ایک جگہ جمع ہوئے تو ان پر روح القدس نازل ہوا اور وہ کئی قسم کی بولیاں بولنے لگ گئے اور گوانجیل نویسوں نے اس واقعہ کو نہایت مضحکہ خیز صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے مگر اس سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کی وفات کے بعد حواریوں میں یکدم کوئی ایسا تغیر پیدا ہوا جس کی طرف پہلے ان کی توجہ نہیں تھی اور وہ اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اس تغیر کو روح القدس کی طرف منسوب کریں.غرض اللہ تعالیٰ نبی کی اس نئی زندگی کو بھی اس کی شخصی زندگی کی طرح اپنے الہام اور قدرت نمائی سے شروع کرتا ہے اور اسی وجہ سے نبی کے زمانہ میں اس کی جزئیات قوم کی نظروں سے پوشیدہ رکھی جاتی ہیں.قضیہ قرطاس پر ایک نظر یہاں میں ایک بات بطور لطیفہ بیان کر دیتا ہوں اور وہ یہ کہ شیعوں اور سنیوں میں بہت مدت سے ایک نزاع صلى چلا آتا ہے جسے قضیہ قرطاس کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.اس قضیہ قرطاس کی تفصیل یہ ہے کہ احادیث میں آتا ہے رسول کریم ﷺ کو مرض الموت میں جب تکلیف بہت بڑھ گئی تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ کا غذ اور قلم دوات لاؤ تا کہ میں تمہارے لئے کوئی ایسی بات لکھوا صلى الله دوں جس کے نتیجہ میں تم کبھی گمراہ نہ ہو.اس پر شیعہ کہتے ہیں کہ در اصل رسول کریم ﷺ لکھوانا چاہتے تھے کہ میرے بعد علی خلیفہ ہوں اور انہیں کو امام تسلیم کیا جائے لیکن حضرت عمرؓ نے آپ کو کچھ لکھوانے نہ دیا اور لوگوں سے کہہ دیا کہ جانے دو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تکلیف زیادہ ہے اور یہ مناسب نہیں کہ آپ کی تکلیف کو اور زیادہ بڑھایا جائے ہمارے لئے ہدایت کے لئے قرآن کا فی ہے اس سے بڑھ کر کسی چیز کی ضرورت نہیں.شیعہ کہتے ہیں کہ یہ ساری چالا کی عمر کی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی وصیت کر جائیں تا کہ بعد میں حضرت علی کو محروم کر کے وہ خود حکومت کو سنبھال لیں.اگر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وصیت لکھوانے دیتے تو آپ ضرور حضرت علی کے حق میں وصیت کر جاتے.اس اعتراض کے کئی جواب ہیں مگر میں اس وقت صرف دو جواب دینا چاہتا ہوں.

Page 103

خلافة على منهاج النبوة ۸۷ جلد دوم اول یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر حضرت علیؓ کے حق میں ہی خلافت کی وصیت کرنا چاہتے تھے تو حضرت عمرؓ کے انکار پر آپ نے دوبارہ یہ کیوں نہ فرمایا کہ قلم دوات ضرور لاؤ.میں تمہیں ایک اہم وصیت لکھوانا چاہتا ہوں.آخر آپ کو پتہ ہونا چاہئے تھا کہ عمر (نَعُوْذُ بِاللهِ ) علی کا دشمن ہے اور اس وجہ سے عمر کی کوشش یہی ہے کہ کسی طرح علی کو کوئی فائدہ نہ پہنچ جائے.ایسی صورت میں یقیناً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر سے فرماتے کہ تم کیا کہہ رہے ہو مجھے بے شک تکلیف ہے مگر میں اس تکلیف کی کوئی پرواہ نہیں کرتا.تم جلدی قلم دوات لا ؤ تا کہ میں تمہیں کچھ لکھوا دوں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ قلم دوات لانے کی ہدایت نہیں دی بلکہ حضرت عمرؓ نے جب کہا کہ ہماری ہدایت کے لئے خدا کی کتاب کا فی ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.۲۲ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت وہی کچھ لکھوانا چاہتے تھے جس کی طرف حضرت عمرؓ نے اشارہ کیا تھا اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انہوں نے ایک رنگ میں خدا کی کتاب پر ہمیشہ عمل کرنے کا عہد کر لیا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ضرورت نہ مجھی کہ آپ کوئی علیحدہ وصیت لکھوانے پر اصرار کریں.پس اس واقعہ سے حضرت عمرؓ پر نہ صرف کوئی الزام عائد نہیں ہوتا بلکہ آپ کے خیال اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال کا تو ارد ظاہر ہوتا ہے.دوسرا جواب جو درحقیت شیعوں کے اس قسم کے بے بنیا د خیالات کو ر ڈ کرنے کے لئے ایک زبر دست تاریخی ثبوت ہے وہ یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر وصیت وہی شخص لکھوا سکتا ہے جسے یہ یقین ہو کہ اب موت سر پر کھڑی ہے اور اگر اس وقت وصیت نہ لکھوائی گئی تو پھر وصیت لکھوانے کا کوئی موقع نہیں رہے گا لیکن جسے یہ خیال ہو کہ مریض کو اللہ تعالیٰ صحت عطا کر دے گا اور جس مرض میں وہ مبتلاء ہے وہ مرض الموت نہیں بلکہ ایک معمولی مرض ہے تو وہ وصیت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور سمجھتا ہے کہ اس غرض کے لئے اسے تکلیف دینا بالکل بے فائدہ ہے.اب اس اصل کے ماتحت جب ہم ان واقعات کو دیکھتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہ کو پیش آئے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو حکومت سنبھالنے کا خیال تو

Page 104

خلافة على منهاج النبوة ΑΛ جلد دوم الگ رہا یہ بھی خیال نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہونے والے ہیں.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو اس اچانک صدمہ نے جو ان کی توقع اور امید کے بالکل خلاف تھا حضرت عمرؓ کو دیوانہ سا بنا دیا اور انہیں کسی طرح یہ یقین بھی نہیں آتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں.وہ جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی یہ یقین نہیں آتا تھا کہ آپ وفات پاگئے ہیں اور جن کے دل میں آپ کی محبت کا احساس اس قدر شدت سے تھا کہ وہ تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں میں اس کی گردن اُڑا دوں گا ان کے متعلق یہ کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ کر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آب فوت ہونے والے ہیں آپ حضرت علیؓ کے حق میں کوئی بات نہ لکھوا دیں آپ کو کچھ لکھنے سے روک دیا ہو.بلکہ اگر ہم غور کریں تو شیعوں کی اِن روایات سے حضرت علی پر اعتراض آتا ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی توقع کر رہے تھے جبکہ حضرت عمرؓ شدت محبت کی وجہ سے یہ سمجھ رہے تھے کہ معمولی بیماری کی تکلیف ہے آپ اچھے ہو جائیں گے اور ابھی وفات نہیں پاسکتے.پس اس سے حضرت علی پر تو اعتراض وارد ہوتا ہے مگر حضرت عمر پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا بلکہ یہ امران کی نیکی ، تقوی اور فضیلت کو ثابت کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نبی کی قومی زندگی کی غرض میں یہ مضمون بیان کر رہا تھا کہ نبی کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ الہام کے ذریعہ نبی بھی الہام سے ابتدا کرتا ہے کی قومی زندگی کی ابتدا کرتا ہے اس لئے نبی کی وفات کے بعد قائم ہونے والی خلافت اور اس کی تفصیلات کو اللہ تعالی نبی کی زندگی میں پردہ اخفاء میں رکھتا ہے ایسے ہی حالات میں رسول کریم ﷺ فوت ہوئے.جب آپ وفات پا گئے تو پہلے تو بعض صحابہ نے سمجھا کہ آپ فوت نہیں ہوئے مگر جب انہیں پتہ لگا کہ آپ واقعہ میں فوت ہو چکے ہیں تو وہ حیران ہوئے کہ اب وہ کیا کریں اور وہ کون سا طریق عمل میں لائیں جو رسول کریم ﷺ کے لائے ہوئے مشن کی تکمیل کے لئے ضروری

Page 105

خلافة على منهاج النبوة ۸۹ جلد دوم ہو.اسی پریشانی اور اضطراب کی حالت میں وہ اِدھر اُدھر پھرنے لگے.نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی ہی دمیر کے اندر اُن میں دو گروہ ہو گئے جو بعد میں تین گروہوں کی صورت میں منتقل ہو گئے.صل رسول کریم ﷺ کی وفات پر صحابہ کے تین گروہ پر صحابہ کے تین گروہ ایک گروہ نے یہ خیال صلى الله کیا کہ رسول کریم کے بعد ایک ایسا شخص ضرور ہونا چاہئے جو نظام اسلامی کو قائم کرے مگر چونکہ نبی کے صلى الله منشا کو اس کے اہل وعیال ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اس لئے نبی کریم ﷺ کے اہل میں سے ہی کوئی شخص مقرر ہونا چاہئے کسی اور خاندان میں سے کو ئی شخص نہیں ہونا چاہئے.اس گروہ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر کسی اور خاندان میں سے کوئی شخص خلیفہ مقرر ہو گیا تو لوگ اس کی باتیں مانیں گے نہیں اور اس طرح نظام میں خلل واقع ہو گا لیکن اگر آپ کے خاندان میں سے ہی کوئی خلیفہ مقرر ہو گیا تو چونکہ لوگوں کو اس خاندان کی اطاعت کی عادت ہے اس لئے وہ خوشی سے اس کی اطاعت کو قبول کر لیں گے.جیسے ایک بادشاہ جس کی بات ماننے کے لوگ عادی ہو چکے ہوتے ہیں جب وفات پا جاتا ہے اور اُس کا بیٹا اُس کا جانشین بنتا ہے تو وہ اُس کی اطاعت بھی شوق سے کرنے لگ جاتے ہیں.مگر دوسرے فریق نے سوچا کہ اس کے لئے رسول کریم علیہ کے اہل میں سے ہونے کی شرط ضروری نہیں مقصد تو یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کا ایک جانشین ہو پس جو بھی سب سے زیادہ اس کا اہل ہو اس کے سپرد یہ کام ہونا چاہئے.اس دوسرے گروہ کے پھر آگے دو حصے ہو گئے اور گو وہ دونوں اس بات میں متحد تھے کہ رسول کریم ﷺ کا کوئی جانشین ہونا چاہئے مگر ان میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ رسول کریم ﷺ کا یہ جانشین کن لوگوں میں سے ہو.ایک گروہ کا خیال تھا کہ جولوگ سب سے زیادہ عرصہ تک آپ کے زیر تعلیم رہے ہیں وہ اس کے مستحق ہیں یعنی مہاجر اور ان میں سے بھی قریش جن کی بات ماننے کیلئے عرب تیار ہو سکتے ہیں اور بعض نے یہ خیال کیا کہ چونکہ رسول کریم ﷺ کی وفات مدینہ میں ہوئی ہے اور مدینہ میں انصار کا زور ہے اس لئے وہی اس کام کو اچھی طرح سے چلا سکتے ہیں..

Page 106

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم انصار اور مہاجرین میں اختلاف غرض اب انصار اور مہاجرین میں اختلاف ہو گیا.انصار کا یہ خیال تھا کہ چونکہ رسول کریم ﷺ نے اصل زندگی جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ہمارے اندر گزاری ہے اور مکہ میں کوئی نظام نہیں تھا اس لئے نظام حکومت ہم ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور خلافت کے متعلق ہمارا ہی حق ہے کسی اور کا حق نہیں.دوسری دلیل وہ یہ بھی دیتے کہ یہ علاقہ ہمارا ہے اور طبعاً ہماری بات کا ہی لوگوں پر زیادہ اثر ہو سکتا ہے، مہاجرین کا اثر نہیں ہوسکتا پس رسول کریم ﷺ کا جانشین ہم میں سے ہونا چاہئے مہاجرین میں سے نہیں.اس کے مقابلہ میں مہاجرین یہ کہتے کہ رسول کریم میہ کی جتنی لمبی صحبت ہم نے اُٹھائی ہے اتنی لمبی صحبت انصار نے نہیں اُٹھائی اس لئے دین کو سمجھنے کی جو قابلیت ہمارے اندر ہے وہ انصار کے اندر نہیں.اس اختلاف پر ابھی دوسرے لوگ غور ہی کر رہے تھے اور وہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے تھے کہ اس آخری گروہ نے جو انصار کے حق میں تھا بنی ساعدہ کے ایک برآمدہ میں جمع ہو کر اس بارہ میں مشورہ شروع کر دیا اور سعد بن عبادہ جو خزرج کے سردار تھے اور نقباء میں سے تھے ان کے بارہ میں طبائع کا اس طرف رُجحان ہو گیا کہ انہیں خلیفہ مقرر کیا جائے.چنانچہ انصار نے آپس میں یہ گفتگو کرتے ہوئے کہ ملک ہمارا ہے، زمینیں ہماری ہیں ، جائدادیں ہماری ہیں اور اسلام کا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم میں سے کوئی خلیفہ مقرر ہو، فیصلہ کیا کہ اس منصب کیلئے سعد بن عبادہ سے بہتر اور کوئی شخص نہیں.یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ بعض نے کہا اگر مہاجرین ۲۳ اس کا انکار کریں گے تو کیا ہوگا ؟ اس پر کسی نے کہا کہ پھر ہم کہیں گے مِنَّا اَمِيْرٌ وَمِنْكُمْ اَمِيرٌ یعنی ایک امیر تم میں سے ہو جائے اور ایک ہم میں سے.سعد جو بہت دانا آدمی تھے انہوں نے کہا کہ یہ تو پہلی کمزوری ہے.یعنی یا تو ہم میں سے خلیفہ ہونا چاہئے یا ان میں سے.مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ امیر کہنا تو گویا خلافت کے مفہوم کو نہ سمجھنا اور اسلام میں رخنہ ڈالنا ہے.اس مشورہ کی جب مہاجرین کو اطلاع ہوئی تو وہ بھی جلدی سے وہیں آگئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر مہاجرین میں سے کوئی خلیفہ نہ ہوا تو عرب اس کی اطاعت نہیں کریں گے.مدینہ میں بیشک انصار کا زور تھا مگر باقی تمام عرب مکہ والوں کی عظمت اور ان کے شرف کا قائل تھا.

Page 107

خلافة على منهاج النبوة ۹۱ جلد دوم پس مہاجرین نے سمجھا کہ اگر اس وقت انصار میں سے کوئی خلیفہ مقرر ہو گیا تو اہل عرب کے لئے سخت مشکل پیش آئے گی اور ممکن ہے کہ ان میں سے اکثر اس ابتلاء میں پورے نہ اتریں چنانچہ سب مہاجرین وہیں آگئے.ان میں حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ بھی شامل تھے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس موقع پر بیان کرنے کے لئے ایک بہت بڑا مضمون سوچا ہوا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ میں جاتے ہی ایک ایسی تقریر کروں گا جس سے تمام انصار میرے دلائل کے قائل ہو جائیں گے اور وہ اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ انصار کی بجائے مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کریں مگر جب ہم وہاں پہنچے تو حضرت ابو بکر تقریر کرنے کیلئے کھڑے ہو گئے.میں نے اپنے دل میں کہا کہ انہوں نے بھلا کیا بیان کرنا ہے؟ مگر خدا کی قسم ! جتنی باتیں میں نے سوچی ہوئی تھیں وہ سب انہوں نے بیان کر دیں بلکہ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے پاس سے بھی بہت سے دلائل دیئے.تب میں سمجھا کہ میں ابوبکر کا مقابلہ نہیں کر سکتا.۲۴ غرض مہاجرین نے انہیں بتایا کہ اس وقت قریش میں سے ہی امیر ہونا ضروری ہے اور رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی پیش کی کہ الْأَئِمَّةُ مِنَ الْقُرَيْشِ ۲۵ اور ان کی سبقتِ دین اور ان قربانیوں کا ذکر کیا جو وہ دین کیلئے کرتے چلے آئے تھے.اس پر حباب بن المنذ رخز رجی نے مخالفت کی اور کہا کہ ہم اس بات کو نہیں مان سکتے کہ مہاجرین میں سے خلیفہ ہونا چاہئے ہاں اگر آپ لوگ کسی طرح نہیں مانتے اور آپ کو اس پر بہت ہی اصرار ہے تو پھر مِنَّا آميرو مِنْكُمْ امیر پر عمل کیا جائے یعنی ایک خلیفہ ہم میں سے ہوا اور ایک آپ لوگوں میں سے.حضرت عمر نے فرمایا کہ میاں سوچ سمجھ کر بات کرو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول کریم ہے نے فرمایا ہے کہ ایک وقت میں دوا میروں کا ہونا جائز نہیں ۲؎ (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیثیں تو ایسی موجود تھیں جن میں رسول کریم ﷺ نے نظام خلافت کی تشریح کی ہوئی تھی مگر آپ کی زندگی میں صحابہ کا ذہن اِدھر منتقل نہیں ہوا اور اس کی وجہ وہی خدائی حکمت تھی جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں ) پس تمہارا یہ مطالبہ کہ ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک ہم میں سے ، عقلاً اور شرعاً کسی

Page 108

خلافة على منهاج النبوة طرح جائز نہیں.۹۲ جلد دوم آخر کچھ بحث مباحثہ کے بعد حضرت ابو عبیدہ کھڑے حضرت ابوبکر کا انتخاب ہوئے اور انہوں نے انصار کو توجہ دلائی کہ تم پہلی الله قوم ہو جو مکہ کے باہر ایمان لائی اب رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد تم پہلی قوم نہ بنو جنہوں نے دین کے منشاء کو بدل دیا.اس کا طبائع پر ایسا اثر ہوا کہ بشیر بن سعد خزرجی کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ لوگ سچ کہتے ہیں ہم نے محمد رسول اللہ کی جو خدمت کی اور آپ کی نصرت و تائید کی وہ دُنیوی اغراض سے نہیں کی تھی اور نہ اس لئے کی تھی کہ ہمیں آپ کے بعد حکومت ملے بلکہ ہم نے خدا کیلئے کی تھی پس حق کا سوال نہیں بلکہ سوال اسلام کی ضرورت کا ہے اور اس لحاظ سے مہاجرین میں سے ہی امیر مقرر ہونا چاہئے کیونکہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کی لمبی صحبت پائی ہے.اس پر کچھ دیر تک اور بحث ہوتی رہی مگر آخر آدھ یا پون گھنٹہ کے بعد لوگوں کی رائے اسی طرح ہوتی چلی گئی کہ مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ مقرر کرنا چاہئے چنانچہ حضرت ابو بکر نے حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ کو اس منصب کے لئے پیش کیا اور کہا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو مگر دونوں نے انکار کیا اور کہا کہ جسے رسول کریم علیہ نے نماز کا امام بنایا اور جوسب مہاجرین میں سے بہتر ہے ہم اس کی بیعت کریں گے.مطلب یہ تھا کہ اس منصب کیلئے حضرت ابو بکر سے بڑھ کر اور کوئی شخص نہیں.چنانچہ اس پر حضرت ابو بکر کی بیعت شروع ہو گئی.پہلے حضرت عمر نے بیعت کی ، پھر حضرت ابو عبیدہ نے بیعت کی، پھر بشیر بن سعد خزرجی نے بیعت کی اور پھر اوس نے اور پھر ختنہ رج کے دوسرے لوگوں نے اور اسقدر جوش پیدا ہوا کہ سعد جو بیمار تھے اور اُٹھ نہ سکتے تھے ان کی قوم ان کو روندتی ہوئی آگے بڑھ کر بیعت کرتی تھی.چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں سعد اور حضرت علیؓ کے سوا سب نے بیعت کر لی.حتی کہ سعد کے اپنے بیٹے نے بھی بیعت کر لی.حضرت علی نے کچھ دنوں بعد بیعت کی.چنانچہ بعض روایات میں تین دن آتے ہیں اور بعض روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ آپ نے چھ ماہ بعد بیعت کی.چھ ماہ والی روایات میں یہ غذر بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ کی تیمارداری میں مصروفیت کی وجہ سے

Page 109

خلافة على منهاج النبوة ۹۳ جلد دوم آپ حضرت ابو بکر کی بیعت نہ کر سکے اور جب آپ بیعت کرنے کے لئے آئے تو آپ نے یہ معذرت کی کہ چونکہ فاطمہ بیمار تھیں اس لئے بیعت میں دیر ہو گئی.۲۷ حضرت عمر کا انتخاب حضرت ابو بکر کی وفات جب قریب آئی تو آپ نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ میں کس کو خلیفہ مقرر کروں.اکثر صحابہ نے اپنی رائے حضرت عمر کی امارت کے متعلق ظاہر کی اور بعض نے صرف یہ اعتراض کیا کہ حضرت عمرؓ کی طبیعت میں سختی زیادہ ہے ایسا نہ ہو کہ لوگوں پر تشد دکریں.آپ نے فرمایا یہ سختی اُسی وقت تھی جب تک ان پر کوئی ذمہ واری نہیں پڑی تھی اب جبکہ ایک ذمہ واری ان پر پڑ جائے گی ان کی سختی کا مادہ بھی اعتدال کے اندر آ جائے گا.چنانچہ تمام صحابہ حضرت عمرؓ کی خلافت پر راضی ہو گئے.آپ کی صحت چونکہ بہت خراب ہو چکی تھی اس لئے آپ نے اپنی بیوی اسماء کا سہارا لیا اور ایسی حالت میں جبکہ آپ کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے اور ہاتھ کا نپ رہے تھے آپ مسجد میں آئے اور تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بہت دنوں تک متواتر اس امر پر غور کیا ہے کہ اگر میں وفات پا جاؤں تو تمہارا کون خلیفہ ہو.آخر بہت کچھ غور کرنے اور دعاؤں سے کام لینے کے بعد میں نے یہی مناسب سمجھا ہے کہ عمرؓ کو خلیفہ نامزد کر دوں.سو میری وفات کے بعد عمر تمہارے خلیفہ ہوں گے.۲۸ سب صحابہ اور دوسرے لوگوں نے اس امارت کو تسلیم کیا اور حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ کی بیعت ہوگئی.حضرت عثمان کا انتخاب حضرت عمر جب زخمی ہوئے اور آپ نے محسوس کیا کہ اب آپ کا آخری وقت قریب ہے تو آپ نے چھ آدمیوں کے متعلق وصیت کی کہ وہ اپنے میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں.وہ چھ آدمی یہ تھے.حضرت عثمان ، حضرت علیؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن الوقاص، حضرت زبیر، حضرت طلحہ.۲۹ اس کے ساتھ ہی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو بھی آپ نے اس مشورہ میں شریک کرنے کیلئے مقرر فرمایا مگر خلافت کا حقدار قرار نہ دیا اور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں اور تین دن کیلئے صہیب کو امام الصلوۃ مقرر کیا اور مشورہ کی نگرانی

Page 110

خلافة على منهاج النبوة ۹۴ جلد دوم مقداد بن الاسوڈ کے سپرد کی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب کو ایک جگہ جمع کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں اور خود تلوار لے کر دروازہ پر پہرہ دیتے رہیں.اور فرمایا کہ جس پر کثرت رائے سے اتفاق ہو سب لوگ اس کی بیعت کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے قتل کر دو.لیکن اگر دونوں طرف تین تین ہو جائیں تو عبد اللہ بن عمر ان میں سے جس کو تجویز کریں وہ خلیفہ ہو.اگر اس فیصلہ پر وہ راضی نہ ہوں تو جس طرف عبد الرحمن بن عوف ہوں وہ خلیفہ ہو.آخر پانچوں اصحاب نے مشورہ کیا ( کیونکہ طلحہ اُس وقت مدینہ میں نہ تھے ) مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا.بہت لمبی بحث کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ اچھا جو شخص اپنا نام واپس لینا چاہتا ہے وہ بولے.جب سب خاموش رہے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں.پھر حضرت عثمان نے کہا پھر باقی دو نے.حضرت علیؓ خاموش رہے.آخر انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف سے عہد لیا کہ وہ فیصلہ کرنے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے.انہوں نے عہد کیا اور سب کام ان کے سپرد ہو گیا.حضرت عبدالرحمن بن عوف تین دن مدینہ کے ہر گھر گئے اور مردوں اور عورتوں سے پوچھا کہ ان کی رائے کس شخص کی خلافت کے حق میں ہے.سب نے یہی کہا کہ انہیں حضرت عثمان کی خلافت منظور ہے.چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا اور وہ خلیفہ ہو گئے.حضرت علیؓ کا انتخاب اس کے بعد حضرت عثمان کا واقعہ شہادت ہوا اور وہ صحا بڑ جو مدینہ میں موجود تھے انہوں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں میں فتنہ بڑھتا جا رہا ہے حضرت علی پر زور دیا کہ آپ لوگوں کی بیعت لیں.دوسری طرف کچھ مفسدین بھاگ کر حضرت علیؓ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس وقت اسلامی حکومت کے ٹوٹ جانے کا سخت اندیشہ ہے آپ لوگوں سے بیعت لیں تا کہ ان کا خوف دور ہو اور امن و امان قائم ہو.غرض جب آپ کو بیعت لینے پر مجبور کیا گیا تو کئی دفعہ کے انکار کے بعد آپ نے اس ذمہ واری کو اٹھایا اور لوگوں سے بیعت لینی شروع کر دی بعض اکابر صحابہ اس وقت مدینہ سے باہر تھے اور بعض سے تو جبراً بیعت لی گئی.چنانچہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے

Page 111

خلافة على منهاج النبوة ۹۵ جلد دوم متعلق آتا ہے کہ ان کی طرف حکیم بن جبلہ اور مالک اشتر کو چند آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا گیا اور اُنہوں نے تلواروں کا نشانہ کر کے انہیں بیعت پر آمادہ کیا.یعنی وہ تلواریں سونت کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ حضرت علی کی بیعت کرنی ہے تو کرو ورنہ ہم ابھی تم کو مار ڈالیں گے.حتی کہ بعض روایات میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ وہ ان کو نہایت سختی کے ساتھ زمین پر گھسیٹتے ہوئے لائے.ظاہر ہے کہ ایسی بیعت کوئی بیعت نہیں کہلا سکتی.پھر جب انہوں نے بیعت کی تو یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اس شرط پر آپ کی بیعت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے آپ قصاص لیں گے مگر بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت علی قاتلوں سے قصاص لینے میں جلدی نہیں کر رہے تو وہ بیعت سے الگ ہو گئے اور مدینہ سے مکہ چلے گئے.حضرت عائشہ کا اعلان جہاد انہی لوگوں کی ایک جماعت نے جو حضرت عثمان کے قتل میں شریک تھی حضرت عائشہ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ آپ حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے جہاد کا اعلان کر دیں.چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہ کو اپنی مدد کیلئے بلایا.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس کے نتیجہ میں حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے لشکر میں جنگ ہوئی جسے جنگ جمل کہا جاتا ہے.اس جنگ کے شروع میں ہی حضرت زبیر، حضرت علی کی زبان سے رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی سن کر علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ وہ حضرت علیؓ سے جنگ نہیں کریں گے اور اس بات کا اقرار کیا کہ اپنے اجتہاد میں انہوں نے غلطی کی ہے.دوسری طرف حضرت طلحہ نے بھی اپنی وفات سے پہلے حضرت علی کی بیعت کا اقرار کر لیا.کیونکہ روایات میں آتا ہے کہ وہ زخموں کی شدت سے تڑپ رہے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس سے گزرا انہوں نے پوچھا تم کس گروہ میں سے ہو؟ اس نے کہا حضرت علیؓ کے گروہ میں سے.اس پر انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیکر کہا کہ تیرا ہاتھ علی کا ہاتھ ہے اور میں تیرے ہاتھ پر حضرت علی کی دوبارہ بیعت کرتا ہوں سے غرض باقی صحابہ کے اختلاف کا تو جنگ جمل کے وقت ہی فیصلہ ہو گیا مگر حضرت معاویہؓ کا اختلاف باقی رہا یہاں تک کہ جنگ صفین ہوئی.

Page 112

خلافة على منهاج النبوة ۹۶ جلد دوم جنگ صفین کے واقعات اس جنگ میں حضرت معاویہ کے ساتھیوں نے ہوشیاری کی کہ نیزوں پر قرآن اُٹھا دیئے اور کہا کہ جو کچھ قرآن فیصلہ کرے وہ ہمیں منظور ہے اور اس غرض کیلئے حکم مقرر ہونے چاہئیں.اس پر وہی مفسد جو حضرت عثمان کے قتل کی سازش میں شامل تھے اور جو آپ کی شہادت کے معاً بعد اپنے بچاؤ کیلئے حضرت علیؓ کے ساتھ شامل ہو گئے تھے اُنہوں نے حضرت علی پر یہ زور دینا شروع کر دیا کہ یہ بالکل درست کہتے ہیں آپ فیصلہ کیلئے حکم مقرر کر دیں.حضرت علیؓ نے بہتیرا انکار کیا مگر انہوں نے ، اور کچھ ان کمزور طبع لوگوں نے جو ان کے اس دھوکا میں آگئے تھے حضرت علیؓ کو اس بات پر مجبور کیا کہ آپ حکم مقرر کریں.چنانچہ معاویہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص اور حضرت علیؓ کی طرف سے حضرت ابوموسیٰ اشعری حکم مقرر کئے گئے.یہ تحکیم دراصل قتل عثمان کے واقعہ میں تھی اور شرط یہ تھی کہ قرآن کریم کے مطابق فیصلہ ہو گا مگر عمر و بن العاص اور ابو موسیٰ اشعری دونوں نے مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ بہتر ہوگا کہ پہلے ہم دونوں یعنی حضرت علی اور حضرت معاویہؓ کو اُن کی امارت سے معزول کر دیں کیونکہ تمام مسلمان انہی دونوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلاء ہور ہے ہیں اور پھر آزادانہ رنگ میں مسلمانوں کو کوئی فیصلہ کرنے دیں تا کہ وہ جسے چاہیں خلیفہ بنا لیں حالانکہ وہ اس کام کیلئے مقرر ہی نہیں ہوئے تھے مگر بہر حال ان دونوں نے اس فیصلہ کا اعلان کرنے کیلئے ایک جلسہ عام منعقد کیا اور حضرت عمرو بن العاص نے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے کہا کہ پہلے آپ اپنے فیصلہ کا اعلان کر دیں بعد میں میں اعلان کر دوں گا چنانچہ حضرت ابوموسیٰ نے اعلان کر دیا کہ وہ حضرت علی کو خلافت سے معزول کرتے ہیں.اس کے بعد حضرت عمرو بن العاص کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ابو موسیٰ نے حضرت علی کو معزول کر دیا ہے اور میں بھی ان کی اس بات سے متفق ہوں اور حضرت علی کو خلافت سے معزول کرتا ہوں لیکن معاویہ کو میں معزول نہیں کرتا بلکہ ان کے عہدہ امارت پر انہیں بحال رکھتا ہوں ( حضرت عمرو بن العاص خود بہت نیک آدمی تھے لیکن اس وقت میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا تھا ) اس فیصلہ پر حضرت معاویہ کے ساتھیوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ جولوگ

Page 113

خلافة على منهاج النبوة ۹۷ جلد دوم حکم مقرر ہوئے تھے انہوں نے علی کی بجائے معاویہ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور یہ درست ہے.مگر حضرت علیؓ نے اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ نہ حکم اس غرض کیلئے مقرر تھے اور نہ ان کا یہ فیصلہ کسی قرآنی حکم پر ہے.اس پر حضرت علی کے وہی منافق طبع ساتھی جنہوں نے حکم مقرر کرنے پر زور دیا تھا یہ شور مچانے لگ گئے کہ حکم مقر ر ہی کیوں کئے گئے تھے جبکہ دینی معاملات میں کوئی حکم ہو ہی نہیں سکتا.حضرت علی نے جواب دیا کہ اول تو یہ بات معاہدہ میں شامل تھی کہ ان کا فیصلہ قرآن کے مطابق ہوگا جس کی انہوں نے تعمیل نہیں کی.دوسرے حکم تو خود تمہارے اصرار کی وجہ سے مقرر کیا گیا تھا اور اب تم ہی کہتے ہو کہ میں نے حکم کیوں مقرر کیا.انہوں نے کہا ہم نے جھک مارا اور ہم نے آپ سے جو کچھ کہا تھا وہ ہماری غلطی تھی مگر سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ بات کیوں مانی.اس کے تو یہ معنی ہیں کہ ہم بھی گنہگار ہو گئے اور آپ بھی.ہم نے بھی غلطی کا ارتکاب کیا اور آپ نے بھی.اب ہم نے تو اپنی غلطی سے تو بہ کر لی ہے مناسب یہ ہے کہ آپ بھی تو بہ کریں اور اس امر کا اقرار کریں کہ آپ نے جو کچھ کیا ہے ناجائز کیا ہے.اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ اگر حضرت علیؓ نے انکار کیا تو وہ یہ کہہ کر آپ کی بیعت سے الگ ہو جائیں گے کہ انہوں نے چونکہ ایک خلاف اسلام فعل کیا ہے اس لئے ہم آپ کی بیعت میں نہیں رہ سکتے اور اگر انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا اور کہا کہ میں تو بہ کرتا ہوں تو بھی ان کی خلافت باطل ہو جائے گی کیونکہ جوشخص اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرے وہ خلیفہ کس طرح ہو سکتا ہے.حضرت علیؓ نے جب یہ باتیں سنیں تو کہا کہ میں نے کوئی غلطی نہیں کی جس امر کے متعلق میں نے حکم مقرر کیا تھا اس میں کسی کو حکم مقرر کرنا شریعت اسلامیہ کی رو سے جائز ہے.باقی میں نے حکم مقرر کرتے وقت صاف طور پر یہ شرط رکھی تھی کہ وہ جو کچھ فیصلہ کریں گے اگر قرآن اور حدیث کے مطابق ہو گا تب میں اسے منظور کروں گا ورنہ میں اسے کسی صورت میں بھی منظور نہیں کروں گا.انہوں نے چونکہ اس شرط کوملحوظ نہیں رکھا اور نہ جس غرض کیلئے انہیں مقرر کیا گیا تھا اس کے متعلق انہوں نے کوئی فیصلہ کیا ہے اس لئے میرے لئے ان کا فیصلہ کوئی حجت نہیں.مگر انہوں نے حضرت علی کے اس عذر کو تسلیم نہ کیا اور بیعت سے علیحدہ ہو گئے اور خوارج کہلائے اور انہوں نے یہ مذہب نکالا کہ

Page 114

خلافة على منهاج النبوة ۹۸ جلد دوم واجب الاطاعت خلیفہ کوئی نہیں.کثرت مسلمین کے فیصلہ کے مطابق عمل ہوا کرے گا کیونکہ کسی ایک شخص کو امیر واجب الاطاعت ماننا لا حُكْمَ الَّا لِلہ اس کے خلاف ہے.خلافت کے بارہ میں پہلا حضرت علی کی خلافت بلا فصل کا نظریہ انتقال تھا جو واقع ہوا.اس موقع پر جو لوگ حضرت علی کی تائید میں تھے انہوں نے ان امور کا جواب دینا شروع کیا اور جواب میں یہ امر بھی زیر بحث آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض پیشگوئیاں حضرت علی کے متعلق ہیں.یہ پیشگوئیاں جب تفصیل کے ساتھ بیان ہونی شروع ہوئیں تو ان پر غور کرتے ہوئے بعض غالیوں نے یہ سوچا کہ خلافت پر کیا بحث کرنی ہے.ہم کہتے ہیں حضرت علی کی خلافت کسی انتخاب پر مبنی نہیں بلکہ صرف ان پیشگوئیوں کی وجہ سے ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق کی تھیں اس لئے آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ خلیفہ بلا فصل ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے میرے متعلق جب مصلح موعود کے موضوع پر بحث کی جائے تو کوئی شخص کہہ دے کہ ان کو تو ہم اس لئے خلیفہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں ہیں نہ اس لئے کہ ان کی خلافت جماعت کی اکثریت کے انتخاب سے عمل میں آئی.جس دن کو ئی شخص ایسا خیال کرے گا اُسی دن اس کا قدم ہلاکت کی طرف اُٹھنا شروع ہو جائے گا کیونکہ اس طرح آہستہ آہستہ صرف ایک شخص کی امامت کا خیال دلوں میں راسخ ہو جاتا ہے اور نظامِ خلافت کی اہمیت کا احساس ان کے دلوں سے جاتا رہتا ہے.غرض حضرت علیؓ کے متعلق بعض غالیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے یہ نتیجہ نکالا کہ آپ کی خلافت صرف ان پیشگوئیوں کی وجہ سے ہے جو آپ نے ان کے متعلق کیس کسی انتخاب پر مبنی نہیں ہے.پھر رفتہ رفتہ وہ اس طرف مائل ہو گئے کہ حضرت علی در حقیقت امام بمعنی مامور تھے اور یہ کہ خلافت ان معنوں میں کوئی شے نہیں جو مسلمان اس وقت تک سمجھتے رہے ہیں بلکہ ضرورت پر خدا تعالیٰ کے خاص حکم سے امام مقرر ہوتا ہے اور وہ لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کا موجب ہوتا ہے.

Page 115

خلافة على منهاج النبوة ۹۹ جلد دوم خلافت کے بارہ میں مسلمانوں میں تین گروہ ان مختلف قسم کے خیالات خلافت کے بارہ میں تین گروہ ہو گئے.کے نتیجہ میں مسلمانوں میں (۱) خلافت بمعنی نیابت ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کا کوئی نا ئب ہونا چاہئے.مگر اس کا طریق یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے فیصلہ کے مطابق یا خلیفہ کے تقرر کے مطابق جسے اُمت تسلیم کرے وہ شخص خلیفہ مقرر ہوتا ہے اور وہ واجب الاطاعت ہوتا ہے.یہ سنی کہلاتے ہیں.(۲) حکم خدا کا ہے.کسی شخص کو واجب الاطاعت ماننا شرک ہے.کثرتِ رائے کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے اور مسلمان آزاد ہیں وہ جو کچھ چاہیں اپنے لئے مقرر کریں.یہ خوارج کہلاتے ہیں.(۳) انسان امیر مقرر نہیں کرتے بلکہ امیر مقرر کرنا خدا کا کام ہے اسی نے حضرت علی کو امام مقرر کیا اور آپ کے بعد گیارہ اور امام مقرر کئے.آخری امام اب تک زندہ موجود ہے مگر مخفی.یہ شیعہ کہلاتے ہیں.ان میں سے ایک فریق ایسا نکلا کہ اس نے کہا.دنیا میں ہر وقت زندہ امام کا ہونا ضروری ہے جو ظاہر بھی ہو اور یہ اسما عیلیہ شیعہ کہلاتے ہیں.خلافت احمدیہ کا ذکر یہ تو اس خلافت کی تاریخ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معا بعد ہوئی.اب میں اُس خلافت کا ذکر کرتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت بھی جماعت کی ذہنی کیفیت وہی تھی جو آنحضرت ﷺ کے وقت میں صحابہ کی تھی.چنانچہ ہم سب یہی سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی وفات نہیں پاسکتے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کبھی ایک منٹ کیلئے بھی ہمارے دل میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہو جائیں گے تو کیا ہو گا.میں اُس وقت بچہ نہیں تھا بلکہ جوانی کی عمر کو پہنچا ہوا تھا ، میں مضامین لکھا کرتا تھا ، میں ایک رسالے کا ایڈیٹر بھی تھا، مگر میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کبھی ایک منٹ بلکہ ایک سیکنڈ کیلئے بھی میرے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ ا

Page 116

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم وفات پا جائیں گے حالانکہ آخری سالوں میں متواتر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے الہامات ہوئے جن میں آپ کی وفات کی خبر ہوتی تھی اور آخری ایام میں تو ان کی کثرت اور بھی بڑھ گئی مگر با وجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے الہامات ہوتے رہے اور با وجو د اس کے کہ بعض الہامات و کشوف میں آپ کی وفات کے سال اور تاریخ وغیرہ کی بھی تعیین تھی اور باوجود اس کے کہ ہم الوصیت پڑھتے تھے ہم یہی سمجھتے تھے کہ یہ باتیں شاید آج سے دوصدیاں بعد پوری ہوں گی اس لئے اس بات کا خیال بھی دل میں نہیں گزرتا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پا جائیں گے تو کیا ہوگا.اور چونکہ ہماری حالت ایسی تھی کہ ہم سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے سامنے فوت ہی نہیں ہو سکتے اس لئے جب واقعہ میں آپ کی وفات ہوگئی تو ہمارے لئے یہ باور کرنا مشکل تھا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں.چنانچہ مجھے خوب یاد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب آپ کو غسل دیگر کفن پہنایا گیا تو چونکہ ایسے موقع پر بعض دفعہ ہوا کے جھونکے سے کپڑا ہل جاتا ہے یا بعض دفعہ مونچھیں ہل جاتی ہیں اس لئے بعض دوست دوڑتے ہوئے آتے اور کہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو زندہ ہیں.ہم نے آپ کا کپڑا ہلتے دیکھا ہے یا مونچھوں کے بالوں کو ہلتے دیکھا ہے اور بعض کہتے کہ ہم نے کفن کو ہلتے دیکھا ہے.اس کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نعش کو قادیان لایا گیا تو اسے باغ میں ایک مکان کے اندر رکھ دیا گیا.کوئی آٹھ نو بجے کا وقت ہوگا کہ خواجہ کمال الدین صاحب باغ میں پہنچے اور مجھے علیحدہ لے جا کر کہنے لگے کہ میاں ! کچھ سوچا بھی ہے کہ اب حضرت صاحب کی وفات کے بعد کیا ہو گا.میں نے کہا کچھ ہونا تو چاہئے مگر یہ کہ کیا ہو اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا.وہ کہنے لگے میرے نزدیک ہم سب کو حضرت مولوی صاحب کی بیعت کر لینی چاہئے.اُس وقت کچھ عمر کے لحاظ سے اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ میرا مطالعہ کم تھا میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ کہیں نہیں لکھا کہ ہم آپ کے بعد کسی اور کی بیعت کر لیں اس لئے حضرت مولوی صاحب کی ہم کیوں بیعت کریں.( گو "الوصية، میں اس کا ذکر تھا مگر اُس وقت میرا ذہن اس طرف گیا نہیں ) اُنہوں نے اس پر میرے ساتھ بحث

Page 117

خلافة على منهاج النبوة 1+1 جلد دوم شروع کر دی اور کہا کہ اگر اس وقت ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت نہ کی گئی تو ہماری جماعت تباہ ہو جائے گی پھر انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی تو یہی ہوا تھا کہ قوم نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی تھی اس لئے اب بھی ہمیں ایک شخص کے ہاتھ پر ت کر لینی چاہئے اور اس منصب کیلئے حضرت مولوی صاحب سے بڑھ کر ہماری جماعت میں اور کوئی شخص نہیں.مولوی محمد علی صاحب کی بھی یہی رائے ہے اور وہ کہتے ہیں کہ تمام جماعت کو مولوی صاحب کی بیعت کرنی چاہئے.آخر جماعت نے متفقہ طور پر حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ لوگوں سے بیعت لیں.اس پر باغ میں تمام لوگوں کا اجتماع ہوا اور اس میں حضرت خلیفہ اول نے ایک تقریر کی اور فرمایا کہ مجھے امامت کی کوئی خواہش نہیں میں چاہتا ہوں کہ کسی اور کی بیعت کر لی جائے.چنانچہ آپ نے اس سلسلہ میں پہلے میرا نام لیا پھر ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب کا نام لیا.پھر ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب کا نام لیا اسی طرح بعض اور دوستوں کے نام لئے لیکن ہم سب لوگوں نے متفقہ طور پر یہی عرض کیا کہ اس منصب خلافت کے اہل آپ ہی ہیں چنانچہ سب لوگوں نے آپ کی بیعت کر لی.خلیفہ وقت کے اختیارات ابھی آپ کی بیعت پر پندرہ میں دن ہی گزرے تھے کہ ایک دن مولوی محمد علی صاحب مجھے ملے اور کہنے لگے کہ میاں صاحب! کبھی آپ نے اس بات پر غور بھی کیا ہے کہ ہمارے سلسلہ کا نظام کیسے چلے گا ؟ میں نے کہا اس پر اب اور غور کرنے کی کیا ضرورت ہے ہم نے حضرت مولوی صاحب کی بیعت جو کر لی ہے.وہ کہنے لگے وہ تو ہوئی پیری مریدی.سوال یہ ہے کہ سلسلہ کا نظام کس طرح چلے گا؟ میں نے کہا میرے نزدیک تو اب یہ بات غور کرنے کے قابل ہی نہیں کیونکہ جب ہم نے ایک شخص کی بیعت کر لی ہے تو وہ اس امر کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح سلسلہ کا نظام قائم کرنا چاہئے ہمیں اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے.اس پر وہ خاموش تو ہو گئے مگر کہنے لگے یہ بات غور کے قابل ہے.

Page 118

خلافة على منهاج النبوة ۱۰۲ جلد دوم حضرت خلیفہ اوّل کی خدمت میں کچھ دنوں بعد جب جماعت کے دوستوں میں اس قسم کے سوالات میر محمد اسحاق صاحب کے چند سوالات کا چرچا ہونے لگا کہ خلیفہ کے کیا اختیارات ہیں اور آیا وہ حاکم ہے یا صدرانجمن احمد یہ حاکم ہے تو میر محمد اسحاق صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بعض سوالات لکھ کر پیش کئے جن میں اس مسئلہ کی وضاحت کی درخواست کی گئی تھی.حضرت خلیفہ اول نے وہ سوالات باہر جماعتوں میں بھجوا دیئے اور ایک خاص تاریخ مقرر کی کہ اس دن مختلف جماعتوں کے نمائندے جمع ہو جائیں تا کہ سب سے مشورہ لینے کے بعد فیصلہ کیا جا سکے مگر مجھے ابھی تک ان باتوں کا کوئی علم نہیں تھا.یہاں تک کہ مجھے ایک رؤیا ہوا.میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا مکان ہے جس کا ایک حصہ مکمل ہے اور دوسرا ایک رویا ، ہمکمل.نامکمل حصے پر اگر چہ بالے رکھے ہوئے ہیں مگر ابھی اینٹیں وغیرہ رکھ کر مٹی ڈالنی باقی ہے.اس حصہ عمارت پر ہم چار پانچ آدمی کھڑے ہیں جن میں سے ایک میر محمد اسحاق صاحب بھی ہیں.اچانک وہاں کڑیوں پر ہمیں کچھ بھوسا دکھائی دیا.میر محمد اسحاق صاحب نے جلدی سے ایک دیا سلائی کی ڈبیہ میں سے ایک دیا سلائی نکال کر کہا میرا جی چاہتا ہے کہ اس بُھو سے کو آگ لگا دوں.میں انہیں منع کرتا ہوں مگر وہ نہیں رکھتے.آخر میں انہیں سختی سے کہتا ہوں کہ اس بھوسے کو ایک دن آگ تو لگائی ہی جائے گی مگر ابھی وقت نہیں آیا اور یہ کہہ کر میں دوسری طرف متوجہ ہو گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد مجھے کچھ شور سا سنائی دیا.میں نے منہ پھیرا تو دیکھا.میر محمد اسحاق صاحب دیا سلائی کی تیلیاں نکال کر اس کی ڈبیہ سے جلدی جلدی رگڑتے ہیں مگر وہ جلتی نہیں ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری دیا سلائی نکال کر وہ اس طرح رگڑتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بھو سے کو آگ لگا دیں.میں یہ دیکھتے ہی ان کی طرف دوڑ پڑا مگر میرے پہنچنے سے پہلے پہلے ایک دیا سلائی جل گئی جس سے انہوں نے بھوسے کو آگ لگا دی.میں یہ دیکھ کر آگ میں کود پڑا اور اسے جلدی سے بجھا دیا مگر اس دوران میں چند کڑیوں کے سرے جل گئے.میں نے یہ خواب لکھ کر

Page 119

خلافة على منهاج النبوة ١٠٣ جلد دوم حضرت خلیفہ اول کے سامنے پیش کی تو آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ خواب تو پوری ہو گئی.میں نے عرض کیا کہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا.میر محمد اسحاق نے کچھ سوالات لکھ کر دیئے ہیں.وہ سوال میں نے باہر جماعتوں کو بھجوا دیئے ہیں.میں سمجھتا ہوں اس سے بہت بڑا فتنہ پیدا ہوگا.مجھے اس پر بھی کچھ معلوم نہ ہوا کہ میر محمد اسحاق صاحب نے کیا سوالات کئے ہیں لیکن بعد میں میں نے بعض دوستوں سے پوچھا تو انہوں نے ان سوالات کا مفہوم بتایا اور مجھے معلوم ہوا کہ وہ سوالات خلافت کے متعلق ہیں.میر صاحب کے ان سوالات کی وجہ سے جماعت میں ایک شور برپا ہو گیا اور چاروں طرف سے ان کے جوابات آنے شروع ہو گئے.اس وقت ان لوگوں نے جس طرح جماعت کو دھوکا میں مبتلاء کرنا چاہا وہ اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے متواتر جماعت کو یہ کہا کہ جن خیالات کا وہ اظہار کر رہے ہیں وہی خیالات حضرت خلیفہ اول کے ہیں.چنانچہ وہ کہتے خدا کا شکر ہے کہ ایسے بے نفس آدمی کے زمانہ میں یہ سوال اُٹھا اگر بعد میں اُٹھتا تو نہ معلوم کیا فساد کھڑا ہوتا.بعض کہتے کہ بہت اچھا ہوا آج جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اکثر صحابہ زندہ ہیں اس امر کا فیصلہ ہونے لگا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشین انجمن ہی ہے.غرض جماعت پر یہ پوری طرح اثر ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ ( نَعُوذُ باللهِ ( حضرت خلیفہ اول ان کے خیالات سے متفق ہیں.مگر بہر حال اس وقت جماعت میں ایک غیر معمولی جوش پایا جاتا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ خلیفہ وقت کے خلاف خطر ناک بغاوت ہو جائے گی.بیرونی جماعتوں کے نمائندوں آخر وہ دن آ گیا جو حضرت خلیفہ اول نے اس غرض کیلئے مقرر کیا تھا اور جس میں بیرونی کا قادیان میں اجتماع جماعتوں کے نمائندگان کو قادیان میں جمع ہونے کیلئے کہا گیا تھا.میں اس روز صبح کی نماز کے انتظار میں اپنے دالان میں ٹہل رہا تھا اور حضرت خلیفہ اول کی آمد کا انتظار کیا جارہا تھا کہ میرے کانوں میں شیخ رحمت اللہ صاحب کی آواز آئی.وہ بڑے جوش سے مسجد میں کہہ رہے تھے کہ غضب خدا کا ایک لڑکے کی خاطر جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے.پہلے تو میں سمجھا کہ اس سے مراد شاید میر محمد اسحاق صاحب ہیں مگر پھر شیخ رحمت اللہ صاحب کی

Page 120

خلافة على منهاج النبوة ۱۰۴ جلد دوم آواز آئی کہ جماعت ایک لڑکے کی غلامی کس طرح کر سکتی ہے.اس پر میں اور زیادہ حیران ہوا اور میں سوچنے لگا کہ میر محمد اسحاق صاحب نے تو صرف چند سوالات دریافت کئے ہیں ان کے ساتھ جماعت کی غلامی یا عدم غلامی کا کیا تعلق ہے مگر باوجو د سوچنے اور غور کرنے کے میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اس بچے سے کون مراد ہے.آخر صبح کی نماز کے بعد میں نے حضرت خلیفہ اول سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور میں نے کہا کہ نہ معلوم آج مسجد میں کیا جھگڑا تھا کہ شیخ رحمت اللہ صاحب بلند آواز سے کہہ رہے تھے کہ ہم ایک بچہ کی بیعت کس طرح کر لیں اسی کی خاطر یہ تمام فساد ڈلوایا جا رہا ہے.میں تو نہیں سمجھ سکا کہ یہ بچہ کون ہے.حضرت خلیفہ اول میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا.تمہیں نہیں پتہ ؟ اس سے مراد تم ہی تو ہو.غالبا شیخ صاحب کے ذہن میں یہ بات تھی کہ یہ تمام سوالات میں نے ہی لکھوائے ہیں اور میری وجہ سے ہی جماعت میں یہ شور اُٹھا ہے.مسئلہ خلافت کے متعلق اس کے بعد حضرت خلیفہ اوّل تقریر کرنے کیلئے تشریف لائے.اس تقریر کے متعلق بھی پہلے.حضرت خلیفہ اول کی تقریر میں نے ایک رک باد دیکھا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ کوئی رؤیا جلسہ ہے جس میں حضرت خلیفہ اول کھڑے تقریر کر رہے ہیں اور تقریر مسئلہ خلافت پر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی لشکر ہے جو آپ پر حملہ آور ہوا ہے.اس وقت میں بھی جلسہ میں آیا اور آپ کے دائیں طرف کھڑے ہو کر میں نے کہا کہ حضور ! کوئی فکر نہ کریں ہم آپ کے خادم ہیں اور آپ کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں تک دینے کیلئے تیار ہیں.ہم مارے جائیں گے تو پھر کو ئی شخص حضور تک پہنچ سکے گا.ہماری موجودگی میں آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا.خواب میں نے حضرت خلیفہ اول کو سنائی ہوئی تھی.چنانچہ اس جلسہ میں شامل ہونے کیلئے جب میں آیا تو مجھے اُس وقت وہ خواب یاد نہ رہی اور میں حضرت خلیفہ اول کے بائیں طرف بیٹھ گیا.اس پر آپ نے فرمایا.میاں ! یہاں سے اُٹھ کر دائیں طرف آجاؤ اور پھر خود ہی فرمایا.تمہیں معلوم ہے میں نے تمہیں دائیں طرف کیوں بٹھایا ہے؟ میں نے عرض کیا مجھے تو معلوم نہیں.اس پر آپ نے میری اُسی خواب کا ذکر کیا اور فر مایا کہ اس خواب کی وجہ سے میں نے تمہیں اپنے دائیں طرف بٹھایا ہے.

Page 121

خلافة على منهاج النبوة ۱۰۵ جلد دوم جب آپ تقریر کیلئے کھڑے ہوئے تو بجائے اس کے کہ اُس جگہ کھڑے ہوتے جو آ کیلئے تجویز کی گئی تھی آپ اس حصہ مسجد میں کھڑے ہو گئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بنوایا تھا اور لوگوں پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے اپنے عمل سے مجھے اتنا دکھ دیا ہے کہ میں اس حصہ مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہوا جو تم لوگوں کا بنایا ہوا ہے بلکہ اپنے پیر کی بنائی ہوئی مسجد میں کھڑا ہوا ہوں.اس کے بعد آپ نے مسئلہ خلافت پر قرآن وحدیث سے روشنی ڈالی اور فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں خلیفہ کا کام صرف نمازیں پڑھا دینا ، جنازے پڑھا دینا اور لوگوں کے نکاح پڑھا دینا ہے اُسے نظام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.یہ کہنے والوں کی سخت گستاخانہ حرکت ہے.یہ کام تو ایک مُلاں بھی کر سکتا ہے اس کیلئے کسی خلیفہ کی کیا ضرورت ہے.وہ لوگ جنہوں نے یہ تقریر سنی ہوئی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ تقریر اتنی دردانگیز اور اس قدر جوش سے لبریز تھی کہ لوگوں کی روتے روتے گھاگھی بندھ گئی.خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی تقریر کے بعد آپ نے خواجہ کمال الدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور شیخ علی صاحب سے دوبارہ بیعت یعقوب علی صاحب سے کہا کہ دوبارہ بیعت کرو.چنانچہ انہوں نے دوبارہ بیعت کی.میرا ذہن اُس وقت اِدھر منتقل نہیں ہوا کہ ان سے بیعت ان کے جرم کی وجہ سے لی جا رہی ہے چنانچہ میں نے بھی بیعت کیلئے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا مگر حضرت خلیفہ اول نے میرے ہاتھ کو پیچھے ہٹا دیا اور فرمایا تمہارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.انہوں نے تو ایک جُرم کیا ہے جس کی وجہ سے دوبارہ ان سے بیعت لی جارہی ہے مگر تم نے کونسا جرم کیا ہے.شیخ یعقوب علی صاحب سے اس موقع پر جو بیعت لی گئی وہ اس لئے لی گئی تھی کہ شیخ صاحب نے ایک جلسہ کیا تھا جس میں اُن لوگوں کے خلاف تقریریں کی گئی تھیں جنہوں نے نظام خلافت کی تحقیر کی تھی اور گو یہ اچھا کام تھا مگر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا جب ہم نے ان کو اس کام پر مقرر نہیں کیا تھا تو ان کا کیا حق تھا کہ وہ خود بخو دا لگ جلسہ کرتے.غرض ان تینوں سے دوبارہ بیعت لی گئی اور انہوں نے سب کے سامنے تو بہ کی مگر جب جلسہ ختم ہو گیا

Page 122

خلافة على منهاج النبوة 1.7 جلد دوم اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو ان لوگوں نے حضرت خلیفہ اول کے خلاف اور زیادہ منصوبے کرنے شروع کر دیئے اور مولوی محمد علی صاحب نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ میری اس قدر ہتک کی گئی ہے کہ اب میں قادیان میں نہیں رہ سکتا.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ان دنوں مولوی محمد علی صاحب سے بہت تعلق رکھا کرتے تھے.ایک دن وہ سخت گھبراہٹ کی حالت میں حضرت خلیفہ اول کے پاس پہنچے.میں بھی اتفاقا وہیں موجود تھا اور آتے ہی کہا کہ حضور ! غضب ہو گیا آپ جلدی کوئی انتظام کریں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا مولوی محمد علی صاحب کہہ رہے ہیں کہ میری یہاں سخت ہتک ہوئی ہے اور میں اب قادیان میں کسی صورت میں نہیں رہ سکتا.آپ جلدی کریں اور کسی طرح مولوی محمد علی صاحب کو منانے کی کوشش کریں ، ایسا نہ ہو کہ وہ چلے جائیں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.ڈاکٹر صاحب ! مولوی صاحب سے جا کر کہہ دیجئے کہ کل کے آنے میں تو ابھی دیر ہے آپ جانا چاہتے ہیں تو آج ہی قادیان سے چلے جائیں.ڈاکٹر صاحب جو یہ خیال کر رہے تھے کہ اگر مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے تو نہ معلوم کیا زلزلہ آ جائے گا اُن کے تو یہ جواب سن کر ہوش اُڑ گئے اور انہوں نے کہا حضور ! پھر تو بڑا فساد ہوگا.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں.میں خدا کا قائم کر دہ خلیفہ ہوں میں ان دھمکیوں سے مرعوب ہونے والا نہیں.اس جواب کو سن کر مولوی محمد علی صاحب بھی خاموش ہو گئے اور پھر انہوں نے حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں قادیان سے جانے کے ارادے کا اظہار نہیں کیا.البتہ اندر ہی اندر کھچڑی پکتی رہی اور کئی طرح کے منصوبوں سے اُنہوں نے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی.یہ بہت لمبے واقعات ہیں جن کو تفصیلاً بیان کرنے کا یہ موقع نہیں.حضرت خلیفہ اول کی بیماری میں حضرت خلیفہ اول جب مرض الموت سے بیمار ہوئے تو طبعاً ہم سب کے قلوب میں ایک ایک اشتہار شائع کرنے کی تجویز کے چھینی تھی اور ہم نہایت ہی افسوس کے ساتھ آنے والی گھڑی کو دیکھ رہے تھے اور چونکہ آپ کی بیماری کی وجہ سے لوگوں کی عام نگرانی

Page 123

خلافة على منهاج النبوة 1+2 جلد دوم نہیں رہی تھی اور اختلافی مسائل پر گفتگو بڑھتی چلی جارہی تھی ، اس لئے میں نے ایک اشتہار لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اب جب کہ حضرت خلیفۃ المسیح سخت بیمار ہیں یہ مناسب نہیں کہ ہم اختلافی مسائل پر آپس میں اس طرح بخشیں کریں مناسب یہی ہے کہ ہم ان بحثوں کو بند کر دیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب کہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کو صحت دے دے اور آپ خود ان بحثوں کی نگرانی فرما سکیں.میں نے یہ اشتہا رلکھ کر مرزا خدا بخش صاحب کو دیا اور میں نے کہا کہ آپ اسے مولوی محمد علی صاحب کے پاس لے جائیں تا کہ وہ بھی اس پر دستخط کر دیں.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ میرے ہم خیال اور ان کے ہم خیال دونوں اس قسم کی بحثوں سے اجتناب کریں گے اور جماعت میں کوئی فتنہ پیدا نہیں ہوگا.یہ حضرت خلیفہ اول کی وفات سے صرف دو یا ایک دن پہلے کی بات ہے مگر بجائے اس کے کہ مولوی محمد علی صاحب اس اشتہار پر دستخط کر دیتے انہوں نے جواب دیا کہ جماعت کے دوستوں میں جو کچھ اختلاف ہے چونکہ اس سے عام لوگ واقف نہیں اس لئے ایسا اشتہار شائع کرنا مناسب نہیں اس طرح دشمنوں کو خواہ مخواہ ہنسی کا موقع ملے گا.میرے خیال میں اشتہار شائع کرنے کی بجائے یہ بہتر ہے کہ ایک جلسہ کا انتظام کیا جائے جس میں آپ بھی تقریر کریں اور میں بھی تقریر کروں اور ہم دونوں لوگوں کو سمجھا دیں کہ اس طرح گفتگو نہ کیا کریں.چنانچہ مسجد نور میں ایک جلسے کا انتظام کیا گیا.مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے خواہش کی کہ پہلے میں تقریر کروں.چنانچہ میں نے جو کچھ اشتہار میں لکھا تھا وہی تقریر میں بیان کر دیا اور اتفاق پر زور دیا.میری تقریر کے بعد مولوی محمد علی صاحب کھڑے ہوئے مگر بجائے اس کے کہ وہ لوگوں کو کوئی نصیحت کرتے اُلٹا انہوں نے لوگوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ تم بڑے نالائق ہو مجھ پر اور خواجہ صاحب پر خواہ مخواہ اعتراض کرتے ہو تمہاری یہ حرکت پسند یدہ نہیں اس سے باز آ جاؤ.غرض انہوں نے خوب زجر و توبیخ سے کام لیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بجائے اتفاق پیدا ہونے کے افتراق اور بھی زیادہ ترقی کر گیا اور لوگوں کے دلوں میں اُن کے متعلق نفرت پیدا ہوگئی.

Page 124

خلافة على منهاج النبوة ۱۰۸ جلد دوم جماعت کو اختلاف سے محفوظ رکھنے کی کوشش چونکہ حضرت خلیفہ امسح الاول کی طبیعت اب زیادہ کمزور ہوتی جا رہی تھی اس لئے ہر شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آپ کے بعد کیا ہوگا.میرے سامنے صرف جماعت کے اتحاد کا سوال تھا.یہ سوال نہیں تھا کہ ہم میں سے خلیفہ ہو یا اُن میں سے.چنانچہ گو عام طور پر وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت پر ایمان رکھتے تھے اُن کا یہی خیال تھا کہ ہم کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتے جس کے عقائد اُن کے عقائد سے مختلف ہوں کیونکہ اس طرح احمدیت کے مٹ جانے کا اندیشہ ہے مگر میں نے دوستوں کو خاص طور پر سمجھانا شروع کیا کہ اگر حضرت خلیفتہ امسیح کی وفات پر ہمیں کسی فتنے کا اندیشہ ہو تو ہمیں انہیں لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہئے اور جماعت کو اختلاف سے محفوظ رکھنا چاہئے.چنانچہ میں نے اکثر دوستوں کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ اگر جھگڑا محض اس بات پر ہو کہ خلیفہ کس جماعت میں سے ہو ہم میں سے یا اُن میں سے تو ہمیں اُن میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے.حضرت خلیفہ اول کی وفات ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو حضرت خلیفتہ المسح الا قول وفات پاگئے.میں جمعہ پڑھا کر نواب محمد علی خان صاحب کی گاڑی میں آ رہا تھا کہ راستہ میں مجھے آپ کی وفات کی اطلاع ملی اور اس طرح میرا ایک اور خواب پورا ہو گیا جو میں نے اس طرح دیکھا تھا کہ میں گاڑی میں سوار ہوں اور گاڑی ہمارے گھر کی طرف جا رہی ہے کہ راستہ میں مجھے کسی نے حضرت خلیفتہ المسیح کی وفات کی خبر دی.میں اس رؤیا کے مطابق سمجھتا تھا کہ غالباً میں اس وقت سفر پر ہونگا جب حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی وفات ہو گی مگر خدا تعالیٰ نے اسے اس رنگ میں پورا کر دیا کہ جب جمعہ پڑھا کر میں گھر واپس آیا تو نواب محمد علی خان صاحب کا ملازم ان کا یہ پیغام لے کر میرے پاس آیا کہ وہ میرے انتظار میں ہیں اور ان کی گاڑی کھڑی ہے.چنانچہ میں اُن کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہو کر چل پڑا اور راستہ میں مجھے حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی وفات کی اطلاع مل گئی.

Page 125

خلافة على منهاج النبوة 1+9 جلد دوم دعاؤں کی تحریک حضرت خلیفہ صیح الا قول کی وفات پر تمام جماعتوں کو تاریں بجھوادی امسیح الاوّل گئیں اور میں نے دوستوں کو تحریک کی کہ ہر شخص اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے دعاؤں میں لگ جائے.راتوں کو تہجد پڑھے اور جسے توفیق ہو وہ کل روزہ بھی رکھے تاکہ اللہ تعالیٰ اس مشکل کے وقت جماعت کی صحیح راہنمائی کرے اور ہمارا قدم کسی غلط راستہ پر نہ جا پڑے.اُسی دن میں نے اپنے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا متفقہ فیصلہ رشتہ داروں کو جمع کیا اور اُن سے اس اختلاف کے متعلق مشورہ طلب کیا.انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ خلیفہ ایسا شخص ہی مقرر ہونا چاہئے جس کے عقائد ہمارے عقائد کے ساتھ متفق ہوں مگر میں نے ان کو سمجھایا کہ اصل چیز جس کی اس وقت ہمیں ضرورت ہے اتفاق ہے.خلیفہ کا ہونا بے شک ہمارے نزدیک مذہباً ضروری ہے لیکن چونکہ جماعت میں اختلاف پیدا ہونا بھی مناسب نہیں اس لئے اگر وہ بھی کسی کو خلیفہ بنانے میں ہمارے ساتھ متحد ہوں تو مناسب یہ ہے کہ عام رائے لے لی جائے اور اگر انہیں اس سے اختلاف ہو تو کسی ایسے آدمی کی خلافت پر اتفاق کیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو.اور اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو پھر انہیں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے چاہے وہ مولوی محمد علی صاحب ہی کیوں نہ ہوں.یہ بات منوانی اگر چہ سخت مشکل تھی مگر میرے اصرار پر ہمارے تمام خاندان نے اس بات کو تسلیم کر لیا.مولوی محمد علی صاحب سے ملاقات اس کے بعد میں مولوی محمد علی صاحب سے ملا اور میں نے اُن سے کہا کہ میں آپ سے کچھ باتیں کرنی چاہتا ہوں.چنانچہ ہم دونوں جنگل کی طرف نکل گئے.مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ حضرت خلیفہ امسیح کی وفات کے بعد جلد ہی کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس وجہ سے کہ جماعت میں اختلاف ہے اور فتنے کا ڈر ہے پورے طور پر بحث کر کے ایک بات پر متفق

Page 126

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم ہو کر کام کرنا چاہئے.میں نے کہا گل تک امید ہے کافی لوگ جمع ہو جائیں گے اس لئے میرے نزدیک کل جب تمام لوگ جمع ہو جائیں تو مشورہ کر لیا جائے.مولوی صاحب نے کہا کہ نہیں اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے چار پانچ ماہ جماعت غور کر لے پھر اس کے بعد جو فیصلہ ہو اُس پر عمل کر لیا جائے.میں نے کہا کہ اس عرصہ میں اگر جماعت کے اندر کوئی فساد ہو گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا.جماعت بغیر لیڈر اور راہنما کے ہوگی اور جب جماعت کا کوئی امام نہیں ہو گا تو کون اس کے جھگڑوں کو حل کرے گا اور جماعت کے لوگ کس کے پاس اپنی فریاد لے کر جائیں گے.فساد کا کوئی وقت مقرر نہیں ممکن ہے آج شام کو ہی ہو جائے پس یہ سوال رہنے دیں کہ آج اس امر کا فیصلہ نہ ہو کہ کون خلیفہ بنے بلکہ آج سے پانچ ماہ کے بعد فیصلہ ہو.ہاں اس امر پر ہمیں ضرور بحث کرنی چاہئے کہ کون خلیفہ ہوا اور میں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور میرے ہم خیال اس بات پر تیار ہیں کہ آپ لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.مولوی صاحب نے کہا یہ بڑی مشکل بات ہے آپ سوچ لیں اور کل اس پر پھر گفتگو ہو جائے چنانچہ ہم دونوں الگ ہو گئے.مولوی محمد علی صاحب کا ایک ٹریکٹ رات کو جب میں تجھد کیلئے اٹھا تو بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی نے مجھے ایک ٹریکٹ دیا اور کہا کہ یہ ٹریکٹ تمام راستہ میں بیرونجات سے آنے والے احمدیوں میں تقسیم کیا گیا ہے.میں نے اسے دیکھا تو وہ مولوی محمد علی صاحب کا لکھا ہوا تھا اور اس میں جماعت پر زور دیا گیا تھا کہ آئندہ خلافت کا سلسلہ نہیں چلنا چاہئے اور یہ کہ حضرت خلیفہ اول کی بیعت بھی انہوں نے بطور ایک پیر کے کی تھی نہ کہ بطور خلیفہ کے.ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ جماعت کا ایک امیر ہو سکتا ہے مگر وہ بھی ایسا ہونا چاہئے جو واجب الا طاعت نہ ہو، جو غیر احمد یوں کو کافر نہ کہتا ہو اور جس کی چالیس سال سے زیادہ عمر ہو.مقصد یہ تھا کہ اگر خلیفہ بنایا جائے تو مولوی محمد علی صاحب کو کیونکہ اُن کی عمر اُس وقت چالیس سال سے زائد تھی اور وہ غیر احمد یوں کو کا فر بھی نہیں کہتے تھے.

Page 127

خلافة على منهاج النبوة 111 جلد دوم انتخاب خلافت پر جماعت کے میں نے جب یہ ٹریکٹ پڑھا تو آنے والے فتنہ کا تصور کر کے خود بھی دعا میں لگ گیا اور وے فیصد دوستوں کا اتفاق دوسرے لوگ جو اس کمرہ میں تھے اُن کو بھی میں نے جگایا اور اس ٹریکٹ سے باخبر کرتے ہوئے انہیں دعاؤں کی تاکید کی.چنانچہ ہم سب نے دعائیں کیں، روزے رکھے اور قادیان کے اکثر احمدیوں نے بھی دعاؤں اور روزہ میں حصہ لیا.صبح کے وقت بعض دوستوں نے یہ محسوس کر کے کہ مولوی محمد علی صاحب نے نہ صرف ہم سے دھوکا کیا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی وصیتوں کی بھی تحقیر کی ہے.ایک تحریر لکھ کر تمام آنے والے احباب میں اس غرض سے پھرائی تا معلوم ہو کہ جماعت کا رحجان کدھر ہے.اس میں جماعت کے دوستوں سے دریافت کیا گیا تھا کہ آپ بتائیں حضرت خلیفہ اول کے بعد کیا ویسا ہی کوئی خلیفہ ہونا چاہئے یا نہیں جیسا کہ حضرت خلیفہ اول تھے اور یہ کہ انہوں نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت آپ کو خلیفہ سمجھ کر کی تھی یا ایک پیر اور صوفی سمجھ کر.اس ذریعہ سے جماعت کے دوستوں کے خیالات معلوم کرنے کا یہ فائدہ ہوا کہ ہمیں لوگوں کے دستخطوں سے یہ معلوم ہو گیا کہ جماعت کا نوے فیصدی سے بھی زیادہ حصہ اس امر پر متفق ہے کہ خلیفہ ہونا چاہئے اور اسی رنگ میں ہونا چاہئے جس رنگ میں حضرت خلیفہ اول تھے.مولوی محمد علی صاحب سے دوبارہ گفتگو دس بجے کے قریب مجھے مولوی محمد علی صاحب کا پیغام آیا کہ کل والی بات کے متعلق میں پھر کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ میں نے اُن کو بلوالیا اور باتیں شروع ہو گئیں.میں نے اس امر پر زور دیا کہ خلافت کے متعلق آپ بحث نہ کریں کیونکہ آپ ایک خلیفہ کی بیعت کر کے اس اصول کو تسلیم کر چکے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ! جماعت میں خلفاء کا سلسلہ جاری رہے گا صرف اس امر پر بحث کریں کہ خلیفہ کون ہو.بعد ہو.وہ بار بار کہتے تھے کہ اس بارہ میں جلدی کی ضرورت نہیں جماعت کو چار پانچ ماہ غور کر لینے دیا

Page 128

خلافة على منهاج النبوة ١١٢ جلد دوم جائے.اور میرا جواب وہی تھا جو میں ان کو پہلے دے چکا تھا بلکہ میں نے اُن کو یہ بھی کہا کہ اگر چار پانچ ماہ کے بعد بھی اختلاف ہی رہا تو کیا ہوگا.اگر آپ کثرتِ رائے پر فیصلہ کریں گے تو کیوں نہ ابھی جماعت کی کثرتِ رائے سے یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ کون خلیفہ ہو.جب سلسلہ گفتگو کسی طرح ختم ہوتا نظر نہ آیا تو میں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ باہر جولوگ موجود ہیں اُن سے مشورہ لے لیا جائے.اس پر مولوی صاحب کے منہ سے بے اختیار یہ فقرہ نکل گیا کہ میاں صاحب ! آپ کو پتہ ہے کہ وہ لوگ کس کو خلیفہ بنائیں گے؟ میں نے کہا لوگوں کا سوال نہیں میں خود یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لوں اور میرے ساتھی بھی اس غرض کیلئے تیار ہیں مگر انہوں نے پھر بھی یہی جواب دیا کہ آپ جانتے ہیں وہ کس کو منتخب کریں گے.اس پر میں مایوس ہو کر اُٹھ بیٹھا کیونکہ با ہر جماعت کے دوست اس قدر جوش میں بھرے ہوئے تھے کہ وہ ہمارے دروازے توڑ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم زیادہ صبر نہیں کر سکتے.جماعت اس وقت تک بغیر کسی رئیس کے ہے اور آپ کی طرف سے کوئی امر طے ہونے میں ہی نہیں آتا.آخر میں نے مولوی صاحب سے کہا چونکہ ہمارے نزدیک خلیفہ ہونا ضروری ہے اس لئے آپ کی جو مرضی ہو وہ کریں.ہم اپنے طور پر لوگوں سے مشورہ کر کے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں.چنانچہ یہ کہتے ہوئے میں وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا اور مجلس برخواست ہو گئی.خلافت ثانیہ کا قیام عصر کی نماز کے بعد جب نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی وصیت سنانے کے بعد لوگوں درخواست کی کہ وہ کسی کو آپ کا جانشین تجویز کریں تو سب نے بالا تفاق میرا نام لیا اور اس طرح خلافت ثانیہ کا قیام عمل میں آیا.میں نے سنا ہے کہ اُس وقت مولوی محمد علی صاحب بھی کچھ کہنے کیلئے کھڑے ہوئے تھے مگر کسی نے اُن کے کوٹ کو جھٹک کر کہا کہ آپ بیٹھ جائیں.بہر حال جو کچھ ہوا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ہوا اور وہ جس کو خلیفہ بنانا چاہتا تھا اُس کو اُس نے خلیفہ بنا دیا.

Page 129

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم حضرت خلیفہ اول کے بعض یہ لوگ حضرت خلیفہ اول کو اپنے متعلق ہمیشہ غلط فہمی میں مبتلاء کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے ارشادات کی اصل حقیقت اسی لئے حضرت خلیفہ اول کے لیکچروں میں بعض جگہ اس قسم کے الفاظ نظر آ جاتے ہیں کہ لاہوری دوستوں پر بدظنی نہیں کرنی چاہئے.یہ خیال کرنا کہ وہ خلافت کے مخالف ہیں جھوٹ ہے.اس کی وجہ یہی تھی کہ یہ خود حضرت خلیفہ اوّل سے بار بار کہتے کہ ہمارے متعلق جو کچھ کہا جاتا ہے جھوٹ ہے ، ہم تو خلافت کے صدق دل سے مؤید ہیں.مگر اب دیکھ لو ان کا جھوٹ کس طرح ظاہر ہو گیا اور جن باتوں کا وہ قسمیں کھا کھا کر اقرار کیا کرتے تھے اب کس طرح شدت سے اُن کا انکار کرتے رہتے ہیں.غرض حضرت خلیفہ اول کی خلافت کو تسلیم کر لینے کے بعد ان لوگوں نے بھی خوارج کی طرح الْحُكْمُ لِلَّهِ وَالامُرُشُوری بَيْنَنَا ۳۲ کا راگ الاپنا شروع کر دیا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں نا کام رکھا اور جماعت میرے ہاتھ پر جمع ہوئی.ان کے بعد بھی بعض لوگ بعض اغراض کے ماتحت بیعت سے علیحدہ ہوئے اور انہوں نے بھی ہمیشہ وہی شور مچایا جو خوارج مچایا کرتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے آج تک اُن کو ناکام و نامراد رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آئندہ بھی جماعت کو ان کے فتنوں سے محفوظ رکھے.خلافت کے بارہ میں قرآنی احکام یہ تو تاریخ خلافت ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و احادیث میں اس بارہ میں کیا روشنی ملتی ہے اور کیا کوئی نظام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام نے تجویز کیا ہے یا نہیں اور اگر کیا ہے تو وہ کیا ہے.اس بارہ میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں پہلا اصولی حکم قرآن کریم میں یہ ملتا ہے کہ :.الم تر الى الذين أوتُوا نَصِيبًا من الكتبِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلاء أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا أُولَئِكَ الَّذِينَ منَ الْمُلْكِ فَإِذَا لَّا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى

Page 130

خلافة على منهاج النبوة ۱۱۴ جلد دوم ما أنهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ : فَقَدْ أَتَيْنَا ال ابرهيم الكتب والحكمة و اتينهُمْ مُّلْكًا عَظِيمًا - فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ بِهِ وَ مِنْهُمْ مَنْ صَدَّ عَنْهُ ، وَكَفَى بِجَهَنَّمَ سَعِيرًا - إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِايَتِنَا سَوْفَ نُصْلِيْهِمْ نَارًا، كُلَّمَا نضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلَتْهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ، اِنَّ الله كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا - وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّتِ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَهُمْ فِيهَا ازواج مُطَهَّرَةُ وَنُدْ خِلُهُمْ ظِلَّا ظَلِيلًاات الله يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الآمنت إلى أهْلِهَا ، وَإذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إنَّ الله نعما يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا - يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اطِيْعُوا اللَّهَ وَاطِيْعُوا الرَّسُولَ وَ أولى الآمْرِ مِنْكُمْ ، فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْء فَرُدُّوهُ إلى اللهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَ اليَوْمِ الآخِرِ ذلك خَيْرُ وَ أَحْسَنُ تَأْوِيلاً ٣٣ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اہل کتاب جھوٹ اور فریب اور شرک کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے سچائی کو چھوڑ رہے ہیں اور جب بھی مومنوں اور غیر مومنوں کا مقابلہ ہوتا ہے تو مومنوں کے متعلق تو وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی بُرے ہیں اور کافروں کے متعلق اُن کی یہ رائے ہوتی ہے کہ وہ مومنوں سے بہتر ہیں.جیسے غیر مبائعین ہماری دشمنی کی وجہ سے عام مسلمانوں کو ہم سے بہتر سمجھتے اور اُن کے پیچھے نمازیں بھی پڑھ لیتے ہیں.چنانچہ جب بھی کوئی بات ہو وہ کہتے ہیں هَؤلاء اهدى من الذينَ آمَنُوا سَبِيلًا یہ مسلمان احمدیوں سے زیادہ اچھے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اولئكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ تم چونکہ مومنوں کو دور کرتے ہو اور غیر مومنوں کو اپنے قریب کرتے ہو اس لئے آج ہم تم سے بھی یہی کہتے ہیں کہ تم ہمارے قرب سے دور ہو جاؤ.وَ مَن يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَلَهُ نَصِيرًا اور لوگ تو لعنت صرف زبان سے کرتے ہیں اور جب کسی پر لعنت ڈالنی ہو تو کہتے ہیں جا تجھ پر لعنت مگر جس پر ہماری لعنت پڑتی ہے اس کا کوئی مددگار نہیں رہتا.یہود کو دیکھ لو اللہ تعالیٰ

Page 131

خلافة على منهاج النبوة ۱۱۵ جلد دوم نے اُن پر لعنت ڈالی تو اُن کا کیسا بُرا حال ہوا.باوجود اس کے کہ مال و دولت اُن کے پاس بہت ہے مختلف قو میں مختلف وقتوں میں اُٹھتی اور انہیں ذلیل ورسوا کرتی رہتی ہیں.یہی حال غیر مبائعین کا ہے.جب میری بیعت ہوئی تو اُس وقت قادیان میں دو ہزار کے قریب آدمی جمع تھے اور سوائے پچاس ساٹھ کے باقی سب نے میری بیعت کر لی.مگر ”پیغام صلح، نے لکھا کہ : - وو حاضر الوقت جماعت میں سے نصف کے قریب لوگوں نے بیعت نہ کی اور افسوس کرتے ہوئے مسجد سے چلے آئے.۳۴ پھر اسی پیغام صلح میں انہوں نے میرے متعلق اعلان کیا کہ :.ا بھی بمشکل قوم کے بیسویں حصہ نے خلیفہ تسلیم کیا ہے ۳۵ گو یا پانچ فیصدی آدمی ہمارے ساتھ تھے اور پچانوے فیصدی اُن کے ساتھ.مگر اب کیا حال ہے.اب وہ بار بار لکھتے ہیں کہ جماعت کی اکثریت خلافت سے وابستہ ہے.بلکہ اب تو ان کے دلائل کا رُخ ہی بدل گیا ہے.پہلے وہ اپنی سچائی کی یہ دلیل دیا کرتے تھے کہ جماعت کی اکثریت اُن کے ساتھ ہے مگر جب اکثریت خدا تعالیٰ نے ہمارے ساتھ کر دی تو وہ یہ کہنے لگ گئے کہ جماعت کی اکثریت کا کسی بات کا قائل ہونا اُس کی سچائی کی دلیل نہیں ہوتا.قرآن میں صاف آتا ہے کہ اَكْثَرُهُمْ فَسِقُون ۳۶ گویا جب تک وہ زیادہ رہے اُن کی یہ دلیل رہی کہ نبی کو ماننے والوں کی اکثریت گمراہ نہیں ہو سکتی اور جب ہم زیادہ ہو گئے تو اکثرُهُمْ فَسِقُون کا مصداق ہمیں قرار دے دیا گیا.بہر حال انہوں نے اتنا تو ضرور اقرار کر لیا کہ اُن کے نصیر جاتے رہے ہیں.اور یہی اس قرآنی آیت میں بیان کیا گیا ہے.پھر فرماتا ہے.آمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذَا لَّا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا ان لوگوں کو تو یہ حسد کھائے چلا جاتا ہے کہ انہیں حکومت اور طاقت کیوں نہ مل گئی.حالانکہ اگر دنیا کی حکومت ان کے قبضہ میں ہوتی تو یہ بال برابر بھی لوگوں کو کوئی چیز نہ دیتے.نقیر کھجور کی گٹھلی کے نشان کو کہتے ہیں.مطلب یہ ہے کہ ان کی طبیعت میں سخت بخل ہے.جیسے پیغامیوں کو یہی بخل کھا گیا کہ ایک لڑکے کو خلافت کیوں مل گئی.فر ما تا

Page 132

خلافة على منهاج النبوة ہے.117 جلد دوم فقد أتينا ال ابرهيم الكتب والحِكْمَةَ وَآتَيْنَهُمْ مُّلْكًا عَظِيمًا - تم جو بخل کرتے ہو اور کہتے ہو کہ انہیں حکومت اور خلافت کیوں مل گئی تو اتنا تو سوچو کہ یہ حکومت اور سلطنت کس کو ملی ہے؟ کیا جسے حکومت ملی ہے وہ آل ابراہیم میں شامل نہیں.اگر ہے تو پھر تمہارے حسد سے کیا بنتا ہے.خدا نے پہلے بھی آل ابراہیم کو حکومت اور سلطنت دی اور اب بھی وہ آل ابراہیم کو حکومت اور سلطنت دے گا.فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ بِهِ وَ مِنْهُمْ مِّن صَدَّ عَنْهُ ، وَكَفَى بِجَهَنَّمَ سَعِيرًا.ہم اس سے پہلے بھی آل ابرا ہیم کو حکومت دے چکے ہیں.جن لوگوں نے اُن کی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا وہ عزت پاگئے اور جنہوں نے انکار کیا اُن کو سزا مل گئی.فرماتا ہے یہ حکومت جو آل ابرا ہیم کو دی جائے گی یہ لوگوں کیلئے بڑی رحمت اور برکت کا موجب ہوگی.جب تک وہ اس رحمت کے نیچے رہیں گے اور اس حکومت سے بھاگنے کی کوشش نہیں کریں گے وہ بڑے آرام اور سکھ میں رہیں گے مگر جب انہوں نے انکار کر دیا تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں ایسے عذاب میں مبتلا ء کرے گا جس سے رہائی کی کوئی صورت ہی نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ دُکھوں میں مبتلاء رہیں گے.كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلُنْهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ.ان الله كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا - انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب وہ ایک عذاب کا عادی ہو جاتا ہے تو اُس کی تکلیف اسے پہلے جیسی محسوس نہیں ہوتی.ایک با دشاہ خواہ کتنا ہی ظالم ہو جب اُس کی حکومت پر کچھ عرصہ گزرجاتا ہے تو اُس کا ظلم لوگوں کو پہلے جیسا محسوس نہیں ہوتا اور وہ خود بھی نرمی کا پہلو اختیار کرنے لگ جاتا ہے لیکن اگر وہ بدل جائے اور اُس کی جگہ کوئی اور ظالم بادشاہ آ جائے تو اُس کا ظلم بہت زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے.پس فرماتا ہے اگر تم نے اس انعام کو ر ڈ کر دیا تو پھر ظالم بادشاہ تم پر حکومتیں کریں گے اور وہ حکومتیں جلد جلد بدلیں گی تاکہ تمہیں اپنے کئے کی سزا ملے.وَالّذينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِي مِنْ تحْتِهَا الأَنْهرُ خُلِدِينَ فِيهَا اَبَدًا ، لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجُ مُطَهَّرَةٌ

Page 133

خلافة على منهاج النبوة 112 جلد دوم وَنُدْخِلُهُمْ ظِلَّا ظَلِيلاً مگر جو لوگ ایمان لانے والے ہونگے اور اعمال صالحہ بجالائیں گے، اُن کو ہم اعلی درجہ کی حکومتیں بخشیں گے اور ان جنات میں اُن کے ساتھ اُن کی بیویاں بھی ہونگی اور اُن سب کو آرام اور سکھ کا بہت لمبا زمانہ بخشا جائے گا.ان آیات میں دراصل اسلامی حکومت کے قیام کی پیشگوئی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہود جو اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ سخت نقصان اٹھائیں گے اور ہمیشہ عذاب میں مبتلاء رہیں گے لیکن مومن جو اس فضل کو تسلیم کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں جنتی زندگی دے گا اور اُن کی بیویاں بھی اُن کے ساتھ ہونگی.اَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ کے الفاظ پر دشمنانِ ازواج مطهرة کے الفاظ پر کئی نادان دشمنان اسلام اعتراض کرتے رہتے ہیں اسلام کا ایک ناواجب اعتراض کہ اسلام جنت کو ایک چکلہ بناتا ہے کیونکہ عورتوں کا بھی ساتھ ہی ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے جنت میں جہاں مرد ہو نگے وہاں عورتیں بھی ہونگی حالانکہ وہ نادان نہیں جانتے کہ چکلہ تو وہ خود اپنے محبتِ نفس کی وجہ سے بناتے ہیں.ورنہ اسلام تو یہ بتاتا ہے کہ جس طرح مرد جنت کے حقدار ہیں عورتیں بھی حقدار ہیں اور یہ کہ جنت مرد اور عورت کے تعاون سے بنتی ہے، اکیلا مرد جنت نہیں بنا سکتا.چنانچہ دیکھ لو اس رکوع میں دُنیوی حکومتوں کا ذکر ہے اور ان حکومتوں کا ذکر کرتے کرتے اللہ تعالیٰ یہ بتا تا ہے کہ اس جنت میں عورتوں کا شریک ہونا بھی ضروری ہے اور اگر وہ شریک نہ ہوں تو یہ جنت مکمل نہیں کہلا سکتی.پس جنت مرد اور عورت دونوں مل کر بناتے ہیں اور اگر وہ دونوں متحدہ طور پر کوشش نہ کریں تو کبھی یہ جنت نہیں بن سکتی نہ دنیا کی جنت اور نہ اُخروی جنت.بلکہ دنیا کی جنت کی تعمیر میں بھی مرد اور عورت کو مل کر کام کرنا پڑتا ہے اور اُخروی جنت کی تعمیر میں بھی مرد کے ساتھ عورت کی شراکت ضروری ہے.اگر وہ دونوں مل کر اس جنت کی تعمیر نہیں کریں گے تو کبھی خُلدين فيها والی نعمت کو وہ حاصل نہیں کر سکیں گے.

Page 134

خلافة على منهاج النبوة ۱۱۸ جلد دوم عورت اور مرد کے تعاون کے بغیر نہ دُنیوی اگر لوگ اس نکتہ کو سجھتے اور قومی زندگی میں عورت کو شریک رکھتے جنت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ اُخروی اور اس کی اہمیت اور قدرو قیمت کو پہچانتے تو آج اسلام کی وہ حالت نہ ہوتی جو نظر آ رہی ہے اور نہ دنیا کی وہ حالت ہوتی جو دکھائی دے رہی ہے بلکہ یہ دنیا انسانوں کیلئے جنت ہو جاتی اور وہ یہیں جنت کو پالیتے.مگر جو لوگ عورت کے بغیر جنت حاصل کرتے ہیں اُن کی جنت حقیقی جنت نہیں ہوتی کیونکہ جنت کی خصوصیت یہ ہے کہ جنت عدن ہو.اور عورت کے بغیر جنت عدن نصیب نہیں ہوتی بلکہ ادھر مرد جنت تیار کرتا ہے اور اُدھر عورت اُس کی اولاد کو جنت سے باہر نکال دیتی ہے کیونکہ اولا د کی صحیح تربیت کے بغیر قوم کو دائمی جنت حاصل نہیں ہو سکتی اور اولاد کی تربیت کا اکثر حصہ چونکہ عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اس لئے اس جنت کی تعمیل کیلئے عورت کے تعاون اور اس کو اپنے ساتھ شریک کرنے کی انسان کو ہمیشہ ضرورت رہے گی.جب عورت کو تعلیم حاصل ہوگی ، جب عورت کے اندر تقوی ہو گا ، جب عورت کے اندر دین کی محبت ہوگی ، جب عورت کے دل میں خدا اور اُس کے رسول کے احکام پر چلنے کی ایک والہا نہ تڑپ ہوگی تو ناممکن ہے کہ وہ یہی جذبات اپنی اولاد کے اندر بھی پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے.پس مردوں کا یہ کام ہے کہ وہ آج کی جنت تیار کریں اور عورتوں کا یہ کام ہے کہ وہ گل کی جنت تیار کریں.مردوں کا یہ کام ہے کہ وہ جنت بنائیں اور عورتوں کا یہ کام ہے کہ وہ اس جنت کیلئے نئے مالی پیدا کریں.اگر ایک طرف مرد اُس جنت کی تعمیر میں لگا ہوا ہو اور دوسری طرف عورت اس کی تعمیر میں لگی ہوتی ہے.اگر ایک طرف مرد اس کی حفاظت کرتا ہو اور دوسری طرف عورت اس کی حفاظت کیلئے نئے سے نئے مالی پیدا کرتی چلی جاتی ہو تو پھر کون ہے جو اُس جنت کو برباد کر سکے.کون ہے جو قومی وحدت، قومی عظمت اور قومی شان کو نقصان پہنچا سکے.مگر جس دن عورت کو اس جنت کی تعمیر میں شریک ہونے سے روک دیا جائے گا اُسی دن اگلے مالی پیدا ہونے بند ہو جائیں گے اُسی دن پہلوں کی ٹرینینگ ختم ہو جائے گی اور جب پہلوں کی ٹرینینگ ختم ہوگئی اور اگلوں کا سلسلہ بھی بند ہو گیا تو وہ جنت کبھی قائم نہیں رہ سکتی بلکہ ضرور ہے کہ

Page 135

خلافة على منهاج النبوة 119 جلد دوم شیطان اُسے اُجاڑ کر رکھ دے.ایک عظیم الشان نکتہ پس یہ ایک عظیم الشان نکتہ ہے جو قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ حیات ملی کے قیام کیلئے مردوں اور عورتوں دونوں کو مل کر کوشش کرنی چاہئے.جب تک عورتوں کو اپنے ساتھ شریک نہیں کرو گے اُس وقت تک تم یقین رکھو کہ تم جنت نہیں بنا سکو گے.اگر تم اپنی کوشش سے ساری دنیا کو بھی ایک دفعہ نمازی بنا لو تو اس کا کیا فائدہ جب کہ اُن نمازیوں کی اولادوں کو انہی کی مائیں بے نماز بنانے میں مصروف ہوں.اس طرح تو یہی ہوگا کہ تم جنت بناؤ گے اور عورتیں اُس جنت کو برباد کرتی چلی جائیں گی.ہمارا ایک رشتہ دار ہوا کرتا تھا جو دین کا سخت مخالف اور خدا اور رسول کے احکام پر ہمیشہ ہنسی اور تمسخر اڑایا کرتا تھا.ایک دفعہ وہ بیمار ہوا اور علاج کیلئے حضرت خلیفہ اول کے پاس آیا.حضرت خلیفہ اول نے باتوں باتوں میں اس سے کہا کہ مرزا صاحب ! آپ کے پہلو میں پانچ وقت لوگ مسجد میں آ کر نماز میں پڑھتے ہیں کیا آپ کو کبھی اس پر رشک نہیں آیا ؟ اور کیا آپ کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ آپ کو بھی نمازیں پڑھنی چاہئیں ؟ اس نے یہ سن کر بڑے زور سے قہقہہ لگایا اور کہا مولوی صاحب میں تو بچپن سے ہی سلیم الفطرت واقع ہوا ہوں.چنانچہ ان دنوں میں بھی جب میں لوگوں کو دیکھتا کہ انہوں نے سر نیچے اور سرین اونچے کئے ہوئے ہیں تو میں ہنسا کرتا تھا کہ یہ کیسے احمق لوگ ہیں.اب بتاؤ جب مائیں ایسے سلیم الفطرت بچے پیدا کرنے شروع کر دیں تو واعظوں کے وعظ سے جو جنت تیار ہو آیا وہ ایک دن بھی قائم رہ سکتی ہے.اسی طرح کوئی مسئلہ لے لو علمی ہو یا مذہبی ، سیاسی ہو یا اقتصادی ، اگر عورت کو اپنے ساتھ شریک نہیں کیا جائے گا تو ان مسائل کے بارہ میں وہ تمہاری اولاد کو بالکل ناواقف رکھے گی اور تمہارا علم تمہارے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا.غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ دائمی جنت مرد کو عورت کے بغیر نہیں مل سکتی اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے.پس وہ جنہوں نے اسلامی جنت کو چکلہ قرار دیا ہے انہوں نے اپنے محبث نفس کا اظہار کرنے کے سوا اور

Page 136

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۰ جلد دوم کچھ نہیں کیا.اسی جنت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.ولمن خاف مقام ربه جنتن ۳ کہ وہ لوگ جو اپنے دلوں میں خدا کا خوف رکھتے ہیں اُن کیلئے دو جنتیں ہیں.دوسری جگہ فرماتا ہے.دمِن دُونِهِمَا جَنَّتن ۳۸ که دو جنتیں دنیا میں ہونگی اور دو ہی اگلے جہاں میں.کیونکہ ایک باغ مرد نے لگایا ہوگا اور ایک عورت نے.اس کو جنتین کہا گیا ہے اور اسی کو جنت قرار دیا گیا ہے.گویا اس باغ کی دو حیثیتیں بھی ہیں اور ایک بھی.دو اس لحاظ سے کہ ایک مرد کی کوششوں کا نتیجہ ہوگا اور دوسرا عورت کی کوششوں کا نتیجہ اور ایک اس لحاظ سے کہ مرد و عورت دونوں کی یہ مشترکہ جنت ہوگی.پھر فرماتا ہے کہ صرف اگلے جہان میں ہی یہ دو جنت نہیں ہونگے بلکہ ومِن دُونِهِما جنتن اس دنیا میں بھی دو جنت ہیں جن میں سے ایک کی تعمیر مرد کے سپر د ہے اور ایک کی تعمیر عورت کے سپرد.پس مومنوں کو دو جنتیں تو اس دنیا میں ملتی ہیں اور دو اگلے جہان میں یعنی اسے جسمانی اور روحانی دونوں رنگ کی کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں.جو اپنا دائمی اثر چھوڑ جاتی ہیں.چنانچہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا والبقيتُ الشيحَتُ خَيْرُ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرا ملا ۳۹ے یعنی جو لوگ مال و اسباب سے دُنیوی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں ایک وقتی فائدہ تو مل جاتا ہے لیکن جو لوگ ایسے اعمال کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی رضا کیلئے ہوں اُن کے عمل ابدیت کا مقام پالیتے ہیں اور نہ صرف انہیں حاضر ثواب ملتا ہے بلکہ اُن کی وجہ سے ثواب کا ایک دائمی سلسلہ جاری ہوتا ہے.اس حدیث کی تشریح کہ جنت یہ حدیث کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے یہ بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر ماں ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے اچھی تربیت کرے تو اچھی نسل پیدا ہوگی اور جو انعامات باپ حاصل کرے گا وہ دائمی ہو جائیں گے لیکن اگر ماں اچھی تربیت نہیں کرے گی تو باپ کے کمالات باپ تک ختم ہو جائیں گے اور دنیا کو جنات عدن حاصل نہیں

Page 137

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۱ جلد دوم ہونگی.یہی مفہوم اس حدیث سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو معاویہ بن جاہمہ سے مروی ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں فلاں جہاد میں شامل ہو جاؤں.آپ نے فرمایا.کیا تیری ماں زندہ ہے.اس نے کہا ہاں حضور زندہ ہے.آپ نے فرمایا.فَالْزِمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا - ٢٠ جا اور اسی کے پاس رہ کیونکہ اُس کے قدموں میں جنت ہے.معلوم ہوتا ہے اس میں بعض ایسے نقائص تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ اگر وہ ماں کی صحبت میں رہا تو اس کی عمدہ تربیت سے وہ دُور ہو جائیں گے.ممکن ہے اس میں تیزی اور جوش کا مادہ زیادہ ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھا ہو کہ اگر یہ جہاد پر چلا گیا تو اس کی طبیعت میں جو جوش کا مادہ ہے وہ اور بھی بڑھ جائے گا لیکن اگر اپنی والدہ کے پاس رہا اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے اسے اپنے جوشوں کو دبانا پڑا تو اس کی اصلاح ہو جائے گی.بہر حال کوئی ایسی ہی کمزوری تھی جس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلئے ماں کی تربیت جہاد کے میدان سے زیادہ بہتر سمجھی اور اُسے اپنی والدہ کی خدمت میں رہنے کا ارشاد فرمایا.یہ حدیث بھی ظاہر کرتی ہے کہ جنت عورت کے تعاون کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.غرض عورت کا جنت میں ہونا ضروری ہے نہ صرف اگلی جنت میں بلکہ دنیوی جنت میں بھی کیونکہ اس کے بغیر کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی.امانات کو ان کے اہل کے سپرد کرنے کا حکم پھر فرماتا ہے کہ یہ فضل اور رحمت ہو تم کو حاصل ہوگی اُس کے قیام کے لئے ایک نظام کی ضرورت ہے، خودسری اور پراگندگی سے قوم اس انعام کو حاصل نہیں کرسکتی.پس اس جنت کے قیام کیلئے جو طریق تم کو اختیار کرنا چاہئے وہ ہم تمہیں بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ إنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الآمنتِ إِلَى أَهْلِهَا دُنیوی حکومتیں اور مال و املاک پر قبضے یہ سب تمہارے پاس خدا تعالیٰ کی امانتیں ہیں.پس ہم تم کو حکم دیتے ہیں کہ (۱) تم امانتوں کو اُن کے اہل کے سپر د کرو.یعنی اپنے لئے ایسے سردار چنو جو اس امانت کو اٹھانے کے اہل ہوں.(۲) وَاِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ پھر ہم ان کو جن کے سپرد یہ

Page 138

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۲ جلد دوم امانت کی جائے حکم دیتے ہیں کہ وہ انصاف اور عدل سے کام کریں گویا دونوں کو حکم دے دیا.ایک طرف لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! ہم تم کو حکم دیتے ہیں کہ تم حکومت کے اختیارات ہمیشہ ایسے لوگوں کے سپرد کیا کرو جو ان اختیارات کو سنبھالنے اور حکومت کے کام کو چلانے کے سب سے زیادہ اہل ہوں اور پھر اے اہل حکومت ! ہم تم کو بھی حکم دیتے ہیں کہ تم رعایا کے ساتھ عدل وانصاف کا معاملہ رکھو اور کبھی بے انصافی کو اپنے قریب نہ آنے دو.إنَّ الله نعما يَعِظُكُمْ بِهِ إنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا - اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بہت بڑی حکمتوں پر مشتمل ہے اور وہ ہمیشہ تم کو اچھی باتوں کا حکم دیتا ہے اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے.اس طرح جب ایک نظام قائم ہو جائے تو فرماتا ہے کہ اب جو غرض نظام کی تھی یعنی دین کی تمکین تم اس کی طرف توجہ کرو اور قومی عبادات اور قومی کاموں کے متعلق جو احکام ہیں ان کی بجا آوری کی طرف توجہ کرو.عبادات اور فرائض شخصی بھی ہوتے ہیں اور قومی بھی.جو شخصی عبادات اور فرائض ہیں اُن کیلئے کسی نظام کی ضرورت نہیں اور انہیں انتخاب امراء کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.پس انتخاب امراء کے بعد جو اطیعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ بيان فرمایا اس کے یہی معنی ہیں کہ نظام کی غرض یہ تھی کہ قومی عبادات اور فرائض صحیح طور پر ادا ہوسکیں.پس تم کو چاہئے کہ جب نظام قائم ہو جائے تو اس کی غرض کو پورا کرنے کی کوشش کرو.یہ نہیں کہ نظام بنا کر اپنے گھروں میں بیٹھ جاؤ اور سارا کام امراء پر ڈال دو.امراء کا قیام کام کرنے کیلئے نہیں ہوتا بلکہ کام لینے کیلئے ہوتا ہے.پس چاہئے کہ جب امراء قائم ہو جائیں تو تم قومی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں لگ جاؤ.چنانچہ فرماتا ہے.يَآتِهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَاطِيْعُوا الرَّسُول و أولي الأمر منكم.یعنی جب تم نے امراء کا انتخاب کر لیا تو اب سن لو کہ تم پر تین حکومتیں ہوں گی.اول اللہ کی حکومت.دوم رسول کی حکومت.سوم اُولی الامر کی حکومت ہاں فات تَنَازَعْتُمْ في شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ والرَّسُوْلِ إِن كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ واليوم الأخر.چونکہ امراء ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے متعلق مختلف سکیمیں تجویز کریں گے تمہیں چاہئے کہ تم ان سکیموں میں ان کی اطاعت کر ولیکن اگر کبھی تمہارا ان

Page 139

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۳ جلد دوم اختلاف ہو جائے تو ان اختلافات کو اللہ اور رسول کی طرف لے جاؤ.یعنی ان اصول کے مطابق طے کرو جو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کئے ہیں اور اپنی ذاتی خواہشات کی پیروی ނ نہ کرو ذلِكَ خَيْرُ و اَحْسَنُ تَأْوِيلاً - یہ تمہارے لئے بہت بہتر اور انجام کے لحاظ بہت بابرکت ہوگا.یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر یہ امر بیان کر دیا ہے کہ جب حکومت کے اختیارات تم قابل ترین لوگوں کے سپر د کر دو تو پھر اللہ اور رسول کے احکام کے ساتھ ان حکام کے احکام کی بھی تمہیں اطاعت کرنی ہوگی اور یہ اس لئے فرمایا کہ پہلے اس نے حکومت کا مقام بتا دیا ہے کہ وہ کیسا ہونا چاہئے.وہ کہتا ہے کہ تمہاری ترقی کیلئے یہ امر ضروری ہے کہ تم اپنی باگ ڈور ایک ہاتھ میں دے دو مگر یاد رکھو انتخاب کرتے وقت اہلیت کو مد نظر رکھو ایسا نہ ہو کہ تم یہ سمجھ کر کہ کسی نے تم پر احسان کیا ہوا ہے یا کوئی تمہارا قریبی عزیز اور رشتہ دار ہے یا کسی سے تمہارے دوستانہ تعلقات ہیں اسے ووٹ دے دو.دنیا میں عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے اور ووٹ دیتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہمیں کس سے زیادہ تعلق ہے یا کون ہمارا عزیز اور وست ہے.یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون اس کام کے زیادہ اہل ہے مگر فرمایا اسلامی انتخاب میں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہئے کہ تم کسی کو محض اس لئے منتخب کر دو کہ وہ تمہارا باپ ہے یا تمہارا بیٹا ہے یا تمہارا بھائی ہے بلکہ اس کام کا جو شخص بھی اہل ہو اُس کے سپر د کر دوخواہ اس کے ساتھ تمہارے تعلقات ہوں یا نہ ہوں.اس کے بعد فرماتا ہے کہ جب تم امراء کا انتخاب کرلو گے تو لا زماوہ اسلام کی ترقی کیلئے بعض سکیمیں تجویز کریں گے اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ جو احکام بھی ان کی طرف سے نافذ ہوں وہ خواہ تمہاری سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں ان کی اطاعت کرو.ہاں اگر کسی مقام پر تمہارا اُن سے اختلاف ہو جائے تو فَرُدُّوهُ إلى الله و الرّسُولِ اسے خدا اور رسول کے احکام کی طرف پھر ا دو.یہاں آ کر خلافت کے منکرین خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور کہتے ہیں بس بات حل ہو گئی اور معلوم ہو گیا کہ خلفاء کی باتیں ماننا کوئی ایسا ضروری نہیں.اگر وہ شریعت کے مطابق ہوں تو انہیں مان لینا چاہئے اور اگر شریعت کے مطابق نہ ہوں تو انہیں رڈ کر دینا چاہئے.اس اعتراض کو میں انشاء اللہ بعد میں حل کروں گا.

Page 140

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۴ جلد دوم نظام اسلامی کے متعلق قرآنی اصول سر دست میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ نظام اسلامی کے متعلق قرآن کریم نے عام احکام بیان کئے ہیں اور ان میں مندرجہ ذیل اصول بیان ہوئے ہیں :.(1) قومی نظام ایک امانت ہوتا ہے کیونکہ اس کا اثر صرف ایک شخص پر نہیں پڑتا بلکہ ساری قوم پر پڑتا ہے.پس اس کے بارہ میں فیصلہ کرتے وقت اپنی اغراض کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ قوم کی ضرورتوں اور فوائد کو دیکھنا چاہئے.(۲) اس امانت کی ادائیگی کیلئے ایک نظام کی ضرورت ہے جس کے بغیر یہ امانت ادا نہیں ہو سکتی.یعنی افراد فرداً فرداً اس امانت کو پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے بلکہ ضرور ہے کہ اس کی ادائیگی کیلئے کوئی منصرم ہوں.(۳) ان منصرموں کو قوم منتخب کرے.(۴) انتخاب میں یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ جنہیں منتخب کیا جائے وہ ان امانتوں کو پورا کرنے کے اہل ہوں.اس کے سوا اور کوئی امر انتخاب میں مدنظر نہیں ہونا چاہئے.(۵) جن کے سپرد یہ کام کیا جائے گا وہ امرقومی کے مالک نہ ہوں گے بلکہ صرف منصرم ہوں گے.کیونکہ فرما یا رانی آفیما یعنی ان کے سپرد اس لئے یہ کام نہ ہو گا کہ وہ باپ دادا سے اس کے وارث اور مالک ہوں گے بلکہ اس لئے کہ وہ اس خدمت کے اہل ہوں گے.یہ احکام کسی خاص مذہبی نظام کے متعلق نہیں بلکہ جیسا کہ الفاظ سے ظاہر ہے عام ہیں خواہ مذہبی نظام ہوا اور خواہ دُنیوی ہو اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ملوکیت کو اپنے نظام کا حصہ تسلیم نہیں کرتا بلکہ اسلام صرف انتخابی نظام کو تسلیم کرتا ہے اور پھر اس نظام کے بارہ میں فرماتا ہے کہ جن کے سپرد یہ کام ہوا فراد کو چاہئے کہ ان کی اطاعت کریں.کیا اسلام کسی خالص دُنیوی حکومت کو تسلیم کرتا ہے اگر کہا جائے کہ کیا اسلام خالص دنیوی حکومت کو بھی تسلیم کرتا ہے یا نہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام سب صحیح سامانوں کی موجودگی میں جبکہ سارے سامان اسلام کی تائید میں ہوں اور جبکہ اسلام آزاد ہو

Page 141

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۵ جلد دوم خالص دنیوی نظام کو تسلیم نہیں کرتا.مگر وہ حالات کے اختلاف کو بھی نظر انداز نہیں کرتا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت وہ اعلیٰ نظام جو اسلام کے مدنظر ہو نافذ نہ کیا جا سکے اس صورت میں ڈ نیوی نظاموں کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے.مثلاً کسی وقت اگر مسلمانوں کا معتد بہ حصہ گفار حکومتوں کے ماتحت ہو جائے ، ان کی خریت سلب ہو جائے ، ان کی آزادی جاتی رہے اور ان کی اجتماعی قوت قائم نہ رہے تو جن ملکوں میں اسلام کا زور ہو وہ مذہبی اور دُنیوی نظام اکٹھا قائم نہیں کر سکتے.کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت اس کی اتباع نہیں کر سکتی.پس اس مجبوری کی وجہ سے ان ملکوں میں خالص دُنیوی نظام کی اجازت ہوگی جو انہی اصول پر قائم ہوگا جو اسلام نے تجویز کئے ہیں اور جن کا قبل ازیں ذکر کیا جا چکا ہے.خالص دنیوی نظام کا مفہوم خالص دنیوی نظام سے یہ مراد نہیں کہ وہ نظام اسلامی احکام کو جو حکومت سے تعلق رکھتے ہیں نافذ نہیں کرے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ مذہبی طور پر اس کے احکام سب عالم اسلامی پر واجب نہ ہوں گے کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت سیاسی حالات کی وجہ سے ان کی پابندی نہ کر سکے گی اور نہ اس نظام کے قیام میں مسلمانوں کی اکثریت کا ہاتھ ہو گا.پس ایسے وقت میں جائز ہوگا کہ ایک خالص مذہبی نظام الگ قائم کیا جائے بلکہ جائز ہی نہیں ضروری ہوگا کہ ایک خالص مذہبی نظام علیحدہ قائم کر لیا جائے جس کا تعلق اس اسلامی نظام سے ہو جس کا تعلق کسی حکومت سے نہ ہو بلکہ اسلام کی روحانی تنظیم سے ہوتا کہ غیر حکومتیں دخل اندازی نہ کریں اور چونکہ وہ صرف روحانی نظام ہوگا اور حکومت کے کاروبار میں وہ دخل نہ دے گا اس لئے ایسا نظام غیر حکومتوں میں بسنے والے مسلمانوں کو اکٹھا کر سکے گا اور اسلام پرا گندگی سے بچ جائے گا.اگر مسلمان اس آیت کے مفہوم پر عمل کرتے تو یقیناً جو تنزل مسلمانوں کو آخری زمانہ میں دیکھنا نصیب ہوا اس کا دیکھنا انہیں نصیب نہ ہوتا.مسلمانوں کی ایک افسوسناک غلطی غلط مسلمانوں سے تنزل کے وقت میں غلطی ہوئی کہ انہوں نے سمجھا کہ اگر وہ ساری دنیا میں ایک ایسا نظام قائم نہیں کر سکے جو دینی اور دنیوی امور پر مشتمل ہو تو اُن کیلئے

Page 142

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۶ جلد دوم خالص دینی نظام کی بھی کوئی صورت نہیں اور انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ دونوں نظام کسی صورت میں بھی الگ نہیں ہو سکتے اور جب ایک نظام ان کیلئے ناممکن ہو گیا تو انہوں نے دوسرے نظام کو بھی ترک کر دیا حالانکہ مسلمانوں کا فرض تھا کہ جب ان میں سے خلافت جاتی رہی تھی تو وہ کہتے کہ آؤ جو قومی مسائل ہیں ان کیلئے ہم ایک مرکز بنالیں اور اس کے ماتحت ساری دنیا میں اسلام کو پھیلائیں.چنانچہ وہ اس مرکز کے ماتحت دنیا بھر میں تبلیغی مشن قائم کرتے ، لوگوں کے اخلاق کی درستی کی کوشش کرتے ، لوگوں کو قرآن پڑھاتے ، غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کرتے اور جو مشترکہ قومی مسائل ہیں ان میں مشترکہ جد و جہد اور کوشش سے کام لیتے مگر انہوں نے سمجھا کہ اب ان کیلئے کسی خالص دینی نظام کے قیام کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہ گئی.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ روز بروز تنزل میں گرتے چلے گئے.اگر وہ دینی اور دنیوی امور پر مشتمل نظام کے قیام میں ناکام رہنے کے بعد خالص دینی نظام قائم کر لیتے تو وہ بہت بڑی تباہی سے بچ جاتے اور اس کی وجہ سے آج شاید تمام دنیا میں اسلام اتنا غالب ہوتا کہ عیسائیوں کا نام ونشان تک نہ ہوتا مگر چونکہ انہیں یہ غلطی لگ گئی کہ اگر وہ ساری دنیا میں ایک ایسا نظام قائم نہیں کر سکے جو دینی اور دنیوی دونوں امور پر مشتمل ہو تو اب ان کیلئے کسی خالص دینی نظام کے قیام کی کوئی صورت ہی نہیں اس لئے جب ایک نظام ان کے ہاتھ سے جاتا رہا تو دوسرے نظام کو بھی انہوں نے ترک کر دیا.دوسری غلطی دوسری غلطی ان سے یہ ہوئی کہ انہوں نے یہ سمجھا انتخاب صرف اس نظام کیلئے ہے جو سب مسلمانوں کے دینی اور دنیوی امور پر حاوی ہو حالانکہ ان آیات میں خدا تعالیٰ نے واضح طور پر بتلا دیا تھا کہ انتخاب خالص دُنیوی نظام میں بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح دینی و دنیوی مشتر کہ نظام میں.اگر اور نہیں تو وہ اتنا ہی کر لیتے کہ جب بھی کسی کو بادشاہ بناتے تو انتخاب کے بعد بناتے.تب بھی وہ بہت سی تباہی سے بچ سکتے تھے مگر انہوں نے انتخاب کے طریق کو بھی ترک کر دیا حالانکہ اگر وہ اس نکتہ کو سمجھتے تو وہ ملوکیت کا غلبہ جو اسلام میں ہوا اور جس نے اسلامی حکومت کو تباہ کر دیا کبھی نہ ہوتا اور مسلمانوں کی کوششیں اسلامی طریق حکومت کے قیام کیلئے جاری رہتیں.اور مسلمان ڈیما کریسی

Page 143

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۷ جلد دوم (DEMOCRACY) کی صحیح ترقی کے پہلے اور سب سے بہتر علمبر دار ہوتے.اختلاف کی صورت میں ایک خالص یہ جو میں نے کہا ہے کہ ایسے حالات میں کہ اختلاف پیدا ہو چکا ہے ایک مذہبی نظام قائم کرنے کا ثبوت خالص مذہبی نظام قائم کرنے کا اس آیت سے ثبوت ملتا ہے.وہ اس طرح ہے کہ اس آیت میں سب مسلمان مخاطب ہیں اور انہیں ہر وقت أولي الأمر منكم کی اطاعت کا حکم ہے اس میں کسی زمانہ کی تخصیص نہیں کہ فلاں زمانہ میں اُولی الامر کی اطاعت کرو اور فلاں زمانہ میں نہ کرو بلکہ ہر حالت اور ہر زمانہ میں ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے.اگر کوئی کہے کہ اولی الامر کی اطاعت کا حکم محض وقتی ہے تو ساتھ ہی اسے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم بھی محض وقتی ہے کیونکہ خدا نے اس سے پہلے اطیعُوا اللَّهَ وَاطِيْعُوا الرَّسُول کا حکم دیا ہے.لیکن اگر خدا اور رسول کے احکام کی اطاعت ہر وقت اور ہر زمانہ میں ضروری ہے تو معلوم ہوا کہ اولی الامر کی اطاعت کا حکم بھی ہر حالت اور ہر زمانہ کیلئے ہے اور دراصل اس آیت کے ذریعہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ کسی نہ کسی نظام کی پابندی ان کیلئے ہر وقت لازمی ہوگی.پس جس طرح دوسرے احکام میں اگر ایک حصہ پر عمل نہ ہو سکے تو دوسرے حصے معاف نہیں ہو سکتے ، جو جہاد نہ کر سکے اس کیلئے نماز معاف نہیں ہو سکتی ، جو وضو نہ کر سکے اس کیلئے رکوع اور سجدہ معاف نہیں ہوسکتا ، جو کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے اس کیلئے بیٹھ کر یا لیٹ کر یا اشاروں سے نماز پڑھنا معاف نہیں ہوسکتا ، اسی طرح اگر سارے عالم اسلامی کا ایک سیاسی نظام نہ ہو سکے تو مسلمان اولی الامر کی اطاعت کے ان حصوں سے آزاد نہیں ہو سکتے جن پر وہ عمل کر سکتے تھے.جیسے اگر کوئی حج کیلئے جائے اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کر سکے تو سعی اس کیلئے معاف نہیں ہو جائے گی بلکہ اس کیلئے ضروری ہو گا کہ کسی دوسرے کی پیٹھ پر سوار ہو کر اس فرض کو ادا کرے.پس مسلمانوں سے یہ ایک شدید غلطی ہوئی کہ انہوں نے سمجھ لیا کہ چونکہ ایک نظام ان کیلئے ناممکن ہو گیا ہے اس لئے دوسرا نظام انہیں معاف ہو گیا ہے.حالانکہ خالص مذہبی نظام مختلف حکومتوں میں بٹ

Page 144

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۸ جلد دوم جانے کی صورت میں بھی ناممکن نہیں ہو جاتا جیسا کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور سے اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیا ہے اگر لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ تم چور کا ہاتھ کیوں نہیں کاٹتے ؟ تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں لیکن جن امور میں ہمیں آزادی حاصل ہے ان امور میں ہم اپنی جماعت کے اندر اسلامی نظام کے قیام کی کوشش کرنا اپنا پہلا اور اہم فرض سمجھتے ہیں.پس اگر مسلمان بھی سمجھتے کہ ہر وقت اور ہر زمانہ میں اولی الامر منكم کی اطاعت ان پر واجب ہے اور جن حصوں میں اولی الامر کی اطاعت ان کیلئے ناممکن تھی ان کو چھوڑ کر دوسرے حصوں کیلئے وہ نظام قائم رکھتے تو وہ اس حکم کو پورا کر نے والے بھی رہتے اور اسلام کبھی اس حالت کو نہ پہنچتا جس کو وہ اب پہنچا ہے.مگر اللہ تعالیٰ کا شاید یہ منشا تھا کہ اسلامی حکم کا یہ حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جماعت کے ذریعہ سے عمل میں آئے اور یہ فضیلت اس اخرین مِنْهُم " کی جماعت کو حاصل ہو کیونکہ آخر ہمارے لئے بھی کوئی نہ کوئی فضیلت کی بات رہنی چاہئے.صحابہ نے تو یہ فضیلت حاصل کر لی کہ انہوں نے ایک دینی و دنیوی مشتر کہ نظام اسلامی اصول پر قائم کیا مگر جو خالص مذہبی نظام تھا اس کے قیام کی طرف اس نے ہمیں توجہ دلا دی.گویا اس آیت کے ایک حصے پر صحابہ نے عمل کیا اور دوسرے حصے پر ہم نے عمل کر لیا.پس ہم بھی صحابہ میں جا ملے.خلاصہ یہ کہ اس آیت میں اسلامی نظام کے قیام کے اصول بیان کئے گئے ہیں اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ (۱) اسلامی نظام انتخاب پر ہو.(۲) یہ کہ مسلمان ہر زمانہ میں اولی الأمْرِ مِنْكُمْ کے تابع رہیں مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اپنے تنزل کے زمانہ میں دونوں اصولوں کو بھلا دیا.جہاں ان کا بس تھا انہوں نے انتخاب کو قائم نہ رکھا اور جو امور ان کے اختیار سے نکل گئے تھے ان کو چھوڑ کر جو اموران کے اختیار میں تھے ان میں بھی انہوں نے اُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ کا نظام قائم کر کے ان کی اطاعت سے وحدتِ اسلامی کو قائم نہ رکھا اور ان لغو بحثوں میں پڑ گئے کہ انہیں صرف أولى الامر منکم کی اطاعت کرنی چاہئے.اور اس طرح جو اصل غرض اس حکم کی تھی وہ نظر انداز ہو گئی حالانکہ جو امران کے اختیار میں نہ تھا اس میں ان پر کوئی گرفت نہ تھی اگر وہ اس حصہ کو پورا کرتے جوان کے اختیار میں تھا.

Page 145

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۹ جلد دوم أُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ کے اس جگہ شاید کوئی اعتراض کرے کہ احمد جماعت کی تعلیم تو یہ ہے کہ اولى الأمر منكم متعلق ایک اعتراض کا جواب میں غیر مذاہب کے اولی الامر بھی شامل ہیں اور اس آیت کے ماتحت غیر مسلم حکام کی اطاعت بھی فرض ہے.مگر اب جو معنی کئے گئے ہیں اس کے ماتحت غیر مسلم آ ہی نہیں سکتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست ہے لیکن یہ معنی صرف أولى الأمر منكم کے ٹکڑے سے نکلتے ہیں.یعنی جب ہم کہتے ہیں کہ غیر مسلم أولي الأمر بھی اس میں شامل ہیں تو اس وقت ہم سارے رکوع کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ آیت کے صرف ایک ٹکڑہ سے اپنے دعوے کا استنباط کرتے ہیں لیکن یہ نکڑہ ساری آیتوں سے مل کر جو معنی دیتا ہے انہیں باطل نہیں کیا جا سکتا.بیشک دُنیوی امور میں ہر اولی الامر کی اطاعت واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہر زمانہ میں أولى الامر منکم کی اطاعت جو مسلمانوں میں سے ان کیلئے منتخب ہوں ان پر واجب ہے.اولی الامر سے اختلاف کی صورت میں اب میں اس مضمون کو لیتا ہوں جس کے بیان رُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ کے کیا معنی ہیں؟ کرنے کا میں بچے والدہ کر آیا ہوں کہ بعض لوگ اس مقام پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اولی الامر سے اختلاف کی صورت میں اللہ تعالی نے رُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَ الرَّسُولِ فرمایا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اطاعت واجب نہیں بلکہ اختلاف کی صورت میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ خدا اور رسول کا کیا حکم ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ معنی کئے جائیں تو آیت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے.کیونکہ ہر شخص اپنے خیال کو درست سمجھا کرتا ہے.پس اگر اس آیت کا یہی مفہوم لیا جائے تو اطاعت کبھی ہو ہی نہیں سکتی.آخر وہ کونسا امرایسا نکلے گا جسے تمام لوگ متفقہ طور پر خدا اور رسول کا حکم سمجھیں گے.یقیناً کچھ لوگوں کو اختلاف بھی ہوا کرتا ہے.پس ایسی صورت میں اگر ہر شخص کو یہ اختیار ہو کہ وہ حکم سنتے ہی کہہ دے کہ یہ خدا اور رسول کی تعلیم کے خلاف ہے تو اس صورت

Page 146

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم میں خلیفہ صرف اپنے آپ پر ہی حکومت کرنے کیلئے رہ جائے ،کسی اور پر اس نے کیا حکومت کرنی ہے.بالخصوص موجودہ زمانہ میں تو ایسا ہے کہ آجکل ماننے والے کم ہیں اور مجتہد زیادہ.ہر شخص اپنے آپ کو اہل الرائے خیال کرتا ہے.اس صورت میں خلیفہ تو اپنا بوریا بچھا کر الگ شور مچاتا رہے گا کہ یوں کرو اور لوگ یہ شور مچاتے رہیں گے کہ پہلے ان حکموں کو قرآن اور حدیث کے مطابق ثابت کرو ، تب مانیں گے ورنہ نہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا میں کوئی دینی امرایسا نہیں جسے ساری دنیا یکساں طور پر مانتی ہو بلکہ ہر بات میں کچھ نہ کچھ اختلاف پایا جاتا ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ ایک جاہل شخص تھا جسے مولویوں کی مجلس میں بیٹھنے کا بڑا شوق تھا مگر چونکہ اسے دین سے کوئی واقفیت نہ تھی اس لئے جہاں جا تا لوگ دھکے دے کر نکال دیتے.ایک دفعہ اس نے کسی دوست سے ذکر کیا کہ مجھے علماء کی مجلس میں بیٹھنے کا بڑا شوق ہے مگر لوگ مجھے بیٹھنے نہیں دیتے میں کیا کروں؟ اس نے کہا ایک بڑا سا جبہ اور پگڑی پہن لو.لوگ تمہاری صورت کو دیکھ کر خیال کریں گے کہ کوئی بہت بڑا عالم ہے اور تمہیں علماء کی مجلس میں بیٹھنے سے نہیں روکیں گے.جب اندر جا کر بیٹھ جاؤ اور تم سے کوئی بات پوچھی جائے تو کہہ دینا کہ اختلافی مسئلہ ہے بعض نے یوں لکھا ہے اور بعض نے اس کے خلاف لکھا ہے اور چونکہ مسائل میں کثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے تمہاری اس بات سے کسی کا ذہن ادھر منتقل نہیں ہو گا کہ تم کچھ جانتے نہیں.چنانچہ اس نے ایک بڑا سائبہ پہنا، پورے تھان کی پگڑی سر پر رکھی اور ہاتھ میں عصا لے کر اس نے علماء کی مجالس میں آنا جانا شروع کر دیا.جب کسی مجلس میں بیٹھتا تو سر جُھکا کر بیٹھا رہتا.لوگ کہتے کہ جناب آپ بھی تو کچھ فرما ئیں.اس پر وہ گردن ہلا کر کہہ دیتا اس بارہ میں بحث کرنا لغو ہے.علمائے اسلام کا اس کے متعلق بہت کچھ اختلاف ہے کچھ علماء نے تو اس طرح لکھا ہے جس طرح یہ مولا نا فرماتے ہیں اور کچھ علماء نے اُس طرح لکھا ہے جس طرح وہ مولا نا فرماتے ہیں.لوگ سمجھتے کہ اس شخص کا مطالعہ بڑا وسیع ہے.چنا نچہ کہتے بات تو ٹھیک ہے جھگڑا چھوڑو اور کوئی اور بات کرو.کچھ مدت تو اسی طرح ہوتا رہا اور علماء کی مجالس میں اس کی بڑی عزت و تکریم رہی.مگر ایک دن مجلس میں یہ ذکر چل

Page 147

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم پڑا کہ زمانہ ایسا خراب آ گیا ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ خدا کا انکار کرتا چلا جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر خدا ہے تو کوئی دلیل دو.اس پر لوگوں نے حسب دستور ان سے بھی کہا کہ سنائیے مولا نا آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ کہنے لگا بحث فضول ہے کچھ علماء نے لکھا ہے کہ خدا ہے اور کچھ علماء نے لکھا ہے کہ خدا نہیں.یہ سنتے ہی لوگوں میں اس کا بھانڈا پھوٹ گیا اور اُنہوں نے دھکے دے کر اسے مجلس سے باہر نکال دیا.تو دنیا میں اس کثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ اگر فإن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَ الرّسولِ کے یہ معنی کئے جائیں کہ جب بھی خلیفہ کے کسی حکم سے کسی کو اختلاف ہو اس کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ کو دھگا دے کر کہے کہ تیرا حکم خدا اور رسول کے احکام کے خلاف ہے تو اس کو اتنے دھکے ملیں کہ ایک دن بھی خلافت کرنی اس کیلئے مشکل ہو جائے.پس یہ معنی عقل کے بالکل خلاف ہیں.ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگوں کو اس آیت کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے ٹھوکر لگی ہے اگر وہ صحیح معنی سمجھ لیتے تو ان کو کبھی ٹھوکر نہ لگتی.أولى الأمْرِ مِنْكُمُ والی آیت دُنیوی حکام دو وسیع معنی کیا ہیں؟ ان کو صحیح معلوم کر نے کیلئے پہلے یہ اور خلفائے راشدین دونوں پر حاوی ہے سمجھ لینا چا ہیے کہ یہ آیت عام ہے اس میں خالص دُنیوی حکام بھی شامل ہیں اور خلفائے راشدین بھی شامل ہیں پس یہ آیت خالص اسلامی خلفاء کے متعلق نہیں بلکہ دنیوی حکام کے متعلق بھی ہے.اب اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ یہ آیت اپنے مطالب کے لحاظ سے عام ہے اور اس میں خالص دُنیوی حکام اور خلفائے راشدین دونوں شامل ہیں یہ سمجھ لو کہ ان دونوں کے بارہ میں قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام الگ الگ ہیں.جو خالص دُنیوی حکام ہیں ان کیلئے شریعتِ اسلامی کے الگ احکام ہیں.اور جو خلفائے راشدین ہیں ان کیلئے الگ احکام ہیں.پس جب خدا نے یہ کہا کہ فَإِن تَنَازَعْتُمْ في شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ تو اس کے یہ معنی نہیں کہ جب تمہارا أولى الأمر سے جھگڑا ہو تو تم یہ دیکھنے لگ جاؤ کہ خدا اور رسول کا حکم تم کیا سمجھتے ہو بلکہ

Page 148

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۲ جلد دوم اس کے یہ معنی ہیں کہ چونکہ اس عام حکم میں خلفائے راشدین بھی شامل ہیں اور دُنیوی حکام بھی اس لئے جب اختلاف ہو تو دیکھو کہ وہ حکام کس قسم کے ہیں.اگر تو وہ خلفائے راشدین ہیں تو تم ان کے متعلق وہ عمل اختیار کرو جو اللہ تعالیٰ نے خلفائے راشدین کے بارہ میں بیان فرمایا ہے اور اگر وہ حکام دُنیوی ہیں تو ان کے بارہ میں تم ان احکام پر عمل کرو جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ان کے متعلق بیان کئے ہیں.دونوں کے متعلق الگ الگ احکام اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ان دونوں قسم کے اُولی الامر کے متعلق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے الگ الگ قسم کے احکام بیان کئے ہیں یا نہیں.اگر کئے ہیں تو وہ کیا ہیں.سو ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن دونوں قسم کے اولی الامر کی نسبت دو مختلف احکام بیان کئے ہیں جو یہ ہیں :.(۱) عبادہ بن صامت سے روایت ہے بَايَعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَ الْمَكْرَهِ وَ عَلَى آثَرَةٍ عَلَيْنَا وَ عَلَى أَنْ لَانُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ وَ عَلَى اَنْ نَّقُولَ بِالْحَقِّ فَأَيْنَمَا كُنَّا لَانَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِم وَ فِي رِوَايَةٍ أَنْ لَّا تُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْراً بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ مَتَّفَقٌ عَلَيْهِ - ۲۲ یعنی ہم نے رسول کریم کی ان شرائط پر بیعت کی کہ جو ہمارے حاکم مقرر ہوں گے ان کے احکام کی ہم ہمیشہ اطاعت کریں گے خواہ ہمیں آسانی ہو یا تنگی اور چاہے ہمارا دل ان احکام کے ماننے کو چاہے یا نہ چاہے بلکہ خواہ ہمارے حق وہ کسی اور کو دلا دیں پھر بھی ہم ان کی اطاعت کریں گے.اسی طرح ہماری بیعت میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جب ہم کسی کو اہل سمجھ کر اس کے سپر دحکومت کا کام کر دیں گے تو اس سے جھگڑا نہیں کریں گے اور نہ اس سے بحث شروع کر دیں گے کہ تم نے یہ حکم کیوں دیا وہ دینا چاہئے تھا.ہاں چونکہ ممکن ہے کہ وہ حکام کبھی کوئی بات دین کے خلاف بھی کہہ دیں اس لئے اگر ایسی صورت ہو تو ہمیں ہدایت تھی کہ ہم سچائی سے کام لیتے ہوئے انہیں اصل حقیقت سے آگاہ کر دیں اور خدا کے دین کے

Page 149

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۳ جلد دوم متعلق کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں.ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ ہدایت تھی کہ جو لوگ حکومت کے اہل ہوں اور ان کے سپرد یہ کام تمہاری طرف سے ہو چکا ہو ان سے تم کسی قسم کا جھگڑا نہ کرو.مگر یہ کہ تم ان سے کھلا کھلا کفر صادر ہوتے ہوئے دیکھ لو.ایسی حالت میں جبکہ وہ کسی گھلے کفر کا ارتکاب کریں اور قرآن کریم کی نص صریح تمہاری تائید کر رہی ہوں تو تمہارا فرض.کہ تم اس خلاف مذہب بات میں ان کی اطاعت کرنے سے انکار کر دو اور وہی کرو جس کے کرنے کا تمہیں خدا نے حکم دیا ہے.اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكِ الْأَشْجَعِيِّ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خِيَارُ اَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تَبْغَضُونَهُمْ وَيَبْغَضُونَكُمْ وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ قَالَ قَالُوا يَارَسُولَ اللهِ أَفَلا تُنَابِذُهُم عِنْدَ ذَلِكَ قَالَ لَا مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلوةَ قَالَ لَا مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلوةَ إِلَّا مَنْ وُلِىَ عَلَيْهِ وَالِ فَرَاهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَّعْصِيَةِ اللَّهِ فَلْيَكْرَهُ مَا يَأْتِى مِن مَّعْصِيَةِ اللَّهِ وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ ٢٣ حضرت عوف بن مالک اشجعی سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا.تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں.تم ان پر درود بھیجو اور ان کی ترقیات کیلئے دعائیں کرو اور وہ تم پر درود بھیجیں اور تمہاری ترقیات کیلئے دعائیں کریں.اور بدترین حکام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں.تم ان پر لعنت ڈالو اور وہ تم پر لعنت ڈالیں.راوی کہتا ہے کہ ہم نے کہا.يَا رَسُولَ اللَّهِ ! جب ایسے حکمران ہمارے سروں پر مسلط ہو جائیں تو کیوں نہ ہم ان کا مقابلہ کر کے انہیں حکومت سے الگ کر دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یالا مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلوةَ قَالَ لَامَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصلوة.ہرگز نہیں.ہر گز نہیں جب تک وہ نماز اور روزہ کے متعلق تم پر کوئی پابندی عائد نہ کریں اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے نہ روکیں تم ان کی اطاعت سے ہرگز منہ نہ موڑ و.إِلَّا مَنْ وُلِيَ عَلَيْهِ وَالِ فَرَاهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَّعْصِيَةِ فَلْيَكْرَهُ مَا يَأْتِي مِنْ مَّعْصِيَةِ اللَّهِ وَلَا

Page 150

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۴ جلد دوم يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَتِهِ.سنو! جب تم پر کسی کو حاکم بنایا جائے اور تم دیکھو کہ وہ بعض امور میں اللہ تعالیٰ کی معصیت کا ارتکاب کر رہا ہے تو تم اپنے دل میں اس کے ان افعال سے سخت نفرت رکھو مگر بغاوت نہ کرو.دوسری حدیث میں اس سے یہ زائد حکم ملتا ہے کہ اگر کفر بواح اس سے ظاہر ہو تو اس حالت میں اس کے خلاف بغاوت بھی کی جاسکتی ہے.خلفائے راشدین کی سنت پر ہمیشہ قائم رہنے کا حکم اس کے مقابلہ میں احادیث میں عرباض بن ساریہ سے ہمیں ایک اور روایت بھی ملتی ہے.وہ کہتے ہیں صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيْعَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَانَّ هَذِهِ مَوْعِظَةٌ مُوَجِّعٍ فَمَاذَا تُعَهْدُ إِلَيْنَا - فَقَالَ أَوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْع وَالطَّاعَةِ وَإِنْ كَانَ عَبْداً حَبُشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَّعِشُ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرَى اِخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالتَّوَاجِدِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ _ عرباض بن ساریہ کہتے ہیں.ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور جب نماز سے فارغ ہو چکے تو آپ نے ہمیں ایک وعظ کیا.وہ وعظ ایسا اعلیٰ درجہ کا تھا کہ اس سے ہمارے آنسو بہنے لگ گئے اور دل کا پنپنے لگے.اس پر ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا يَا رَسُولَ اللهِ ! معلوم ہوتا ہے یہ الوداعی وعظ ہے.آپ ہمیں کوئی وصیت کر دیں.آپ نے فرمایا.اُوصِيكُمُ بِتَقْوَى اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ كَانَ عَبْداً حَبَشِيًّا میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور اطاعت اور فرمانبرداری کو اپنا شیوہ بناؤ خواہ کوئی حبشی غلام ہی تم پر حکمران کیوں نہ ہو.جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ لوگوں میں بہت بڑا اختلاف دیکھیں گے پس ایسے وقت میں میری وصیت تمہیں یہی ہے کہ عَلَيْكُمْ بِسُتَتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدَيْنَ الْمَهْدِيِّينَ تم میری سنت اور میرے بعد

Page 151

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۵ جلد دوم میں آنے والے خلفاء الراشدین کی سنت کو اختیار کرنا.تَمَسَّكُوا بِهَا تم اس سنت کو مضبوطی سے پکڑ لینا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ اور جس طرح کسی چیز کو دانتوں سے پکڑ لیا جاتا ہے اسی طرح اس سنت سے چمٹے رہنا اور کبھی اس راستے کو نہ چھوڑنا جو میرا ہے یا میرے خلفائے را شدین کا ہوگا.وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأمُورِ اور تم نئی نئی باتوں سے بچتے رہنا فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ کیونکہ ہر وہ نئی بات جو میری اور خلفاء راشدین کی سنت کے خلاف ہوگی وہ بدعت ہوگی اور بدعت ضلالت ہوا کرتی ہے.ان دونوں قسم کے حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے أولي الأمر دو قسم کے تسلیم کئے ہیں.ایک دُنیوی اور ایک دینی اور اسلامی.دُنیوی امراء کے متعلق اطاعت کا حکم ہے مگر ساتھ ہی کفر بواح کا جواز بھی رکھا ہے اور اس صورت میں بشرطیکہ برہان ہو قیاس نہ ہو ان کفریہ اُمور میں ان کی اطاعت سے باہر جانے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ حکم دیا ہے.گو بعض اسلامی علماء نے جیسے حضرت محی الدین ابن عربی ہیں اس بارہ میں بھی اتنی احتیاط کی ہے کہ وہ کہتے ہیں ایسی صورت میں بھی صرف علیحدگی کا اعلان کرنا جائز ہے بغاوت کرنا پھر بھی جائز نہیں.مگر ایک دینی اور اسلامی اولی الامر بتائے ہیں جن کے بارہ میں ہمیں حکم نہیں بنایا بلکہ انہیں امت پر حکم بنایا ہے اور فرمایا ہے جو کچھ وہ کریں وہ تم پر حجت ہے اور ان کے طریق کی اتباع اسی طرح ضروری ہے جس طرح میرے حکم کی.پس حاکم دو قسم کے ہیں.ایک وہ جو دنیوی ہیں اور جن کے متعلق اس بات کا امکان ہے کہ وہ گفر کا ارتکاب کر سکتے ہیں.ان کے متعلق تو یہ حکم دیا کہ تم ان کی اطاعت کرتے چلے جاؤ ، ہاں جب ان سے کفر بواح صادر ہو تو الگ ہو جاؤ.مگر دوسرے حکام وہ ہیں جو غلطی کر ہی نہیں سکتے ان کے متعلق یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہمیشہ ان کی سنت اور طریق کو اختیار کرنا چاہئے اور کبھی ان کے راستہ سے علیحدہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اگر کبھی تمہیں یہ شبہ پڑ جائے کہ تمہارے عقائد درست ہیں یا نہیں تو تم اپنے عقائد کو خلفائے راشدین کے عقائد کے ساتھ ملاؤ.اگر مل جائیں تو سمجھ لو کہ تمہارا قدم صحیح راستہ پر ہے اور اگر نہ ملے تو سمجھ لو کہ تم غلط راستے پر جار ہے ہو.

Page 152

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۶ جلد دوم گویا خلفائے راشدین ایک خلفائے راشدین اُمت کیلئے ایک میزان ہیں میزان ہیں جن سے دوسرے لوگ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا قدم صحیح راستہ پر ہے یا اس سے منحرف ہو چکا ہے.جیسے دو سیر کا بٹہ ایک طرف ہو اور مولیاں گاجریں دوسری طرف تو ہر شخص ان مولیوں ، گاجروں کو ہی دوسیر کے بٹہ کے مطابق وزن کرے گا یہ نہیں ہو گا کہ اگر پانچ سات مولیاں کم ہوں تو بے کو اُٹھا کر پھینک دے اور کہہ دے کہ وہ صحیح نہیں.اسی طرح رسول کریم میں نے یہ نہیں فرمایا کہ تم خلفائے راشدین کے اعمال کا جائزہ لو اور دیکھو کہ وہ تمہاری عقل کے اندر آتے ہیں یا نہیں اور وہ تمہاری سمجھ کے مطابق خدا اور رسول کے احکام کے مطابق ہیں یا نہیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اگر تمہیں اپنے متعلق کبھی یہ شبہ پیدا ہو جائے کہ تمہارے اعمال خدا اور اس کے رسول کی رضا کے مطابق ہیں یا نہیں تو تم دیکھو کہ ان اعمال کے بارہ میں خلفائے راشدین نے کیا کہا ہے.اگر وہ خلفائے راشدین کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ہوں گے تو درست ہوں گے اور اگر وہ ان کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نہ ہوں گے تو غلط ہوں گے.پس خدا اور رسول کا وہ حکم جس کی طرف بات کو لوٹانے کا ارشاد ہے یہی احکام ہیں جن کو میں نے بیان کیا ہے.یعنی تم یہ دیکھو کہ جن حکام سے تمہیں اختلاف ہے وہ کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں.آیا وہ دُنیوی حکام میں سے ہیں یا خلفائے راشدین میں سے.اگر وہ دنیوی حکام ہیں تو حتی الوسع ان کی اطاعت کرو.ہاں اگر وہ کسی نص صریح کے خلاف عمل کرنے کا حکم دیں تو تمہارا حق ہے کہ ان کی غلطی پر انہیں متنبہ کرو، انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کرو اور انہیں بتاؤ کہ تم غلط راستے پر جا رہے ہو اور اگر نہ مانیں اور کفر بواح کا ارتکاب کریں مثلاً نماز پڑھنے سے روک دیں یا روزے نہ رکھنے دیں تو تمہیں اس بات کا اختیار ہے کہ ان کے اس قسم کے احکام ماننے سے انکار کر دو اور کہو کہ ہم نمازیں پڑھیں گے، ہم روزے رکھیں گے ، تم جو جی میں آئے کر لو لیکن اگر وہ اولی الامر خلفائے راشدین ہوں تو پھر سمجھ لو کہ وہ غلطی نہیں کر سکتے.وہ جو کچھ کریں گے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہوگا اور اللہ تعالیٰ انہیں اُسی راہ پر چلائے گا جو اس کے نزدیک درست ہوگا.پس ان پر حکم

Page 153

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۷ جلد دوم بننے کی بجائے اُن کو اپنے اوپر حکم بناؤ اور ان سے اختلاف کر کے اللہ تعالیٰ سے اختلاف کرنے والے مت بنو.آیت استخلاف پر بحث اس عام حکم کے بعد اب میں ان احکام کو لیتا ہوں جو خالص فرماتا دینی اسلامی نظام کے متعلق ہیں.اللہ تعالیٰ سورہ نور میں ہے قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَاطِيْعُوا الرَّسُوْلَ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ ما حُمِلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلغُ الْمُبِينُ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارتضى لهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ، يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بي شَيْئًا، وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ - وَأَقِيمُوا الصَّلوة وَأتُوا الزَّعُوةَ وَاطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون ۴۵ ان آیات میں پہلے اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور پھر مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ اطاعت میں کامل ہوئے تو اللہ تعالیٰ انہیں مطاع بنا دے گا اور پہلی قوموں کی طرح ان کو بھی زمین میں خلیفہ بنائے گا اور اُس وقت ان کا فرض ہوگا کہ وہ نمازیں قائم کریں اور زکوتیں دیں اور اس طرح اللہ کے رسول کی اطاعت کریں.یعنی خلفاء کے ساتھ دین کی تمکین کر کے وہ اطاعتِ رسول کرنے والے ہی ہوں گے گویا مَنْ يُطِعِ الأَمِيرَ فَقَدْ أَطَا عَنِى وَمَنْ يَعْصِ الْاَمِيْرَ فَقَدْ عَصَانِی کا نکتہ بیان کیا کہ اس وقت رسول کی اطاعت اسی رنگ میں ہوگی کہ اشاعت و تمکین دین میں خلفاء کی اطاعت کی جائے.اقامت صلوۃ صحیح معنوں میں پس ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے پہلے خلافت کا وعدہ کیا ہے اور پھر فرمایا ہے کہ ان کا خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی فرض ہو گا کہ وہ نماز میں قائم کریں اور زکوۃ دیں.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اقامتِ صلوۃ اپنے

Page 154

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۸ جلد دوم صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی اور زکوۃ کی ادائیگی بھی خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی.چنانچہ دیکھ لو، رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں زکوۃ کی وصولی کا باقاعدہ انتظام تھا.پھر جب آپ کی وفات ہو گئی اور حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے تو اہلِ عرب کے کثیر حصہ نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ حکم صرف رسول کریم ﷺ کیلئے مخصوص تھا بعد کے خلفاء کیلئے نہیں مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کے اس مطالبہ کو تسلیم نہ کیا اور فرمایا کہ اگر یہ اونٹ کے گھٹنے کو باندھنے والی ایک رسی بھی زکوۃ میں دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ جاری رکھوں گا اور اس وقت تک بس نہیں کروں گا جب تک ان سے اسی رنگ میں زکوۃ وصول نہ کر لوں جس رنگ میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ادا کیا کرتے تھے.چنانچہ آپ اس مہم میں کامیاب ہوئے اور زکوۃ کا نظام پھر جاری ہو گیا جو بعد کے خلفاء کے زمانہ میں بھی جاری رہا.مگر جب سے خلافت جاتی رہی مسلمانوں میں زکوۃ کی وصولی کا بھی کوئی نظام نہ رہا اور یہی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا تھا کہ اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو مسلمان زکوۃ کے حکم پر عمل ہی نہیں کر سکتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوۃ جیسا کہ اسلامی تعلیم کا منشا ہے امراء سے لی جاتی اور ایک نظام کے ماتحت غرباء کی ضروریات پر خرچ کی جاتی ہے.اب ایسا وہیں ہو سکتا ہے جہاں ایک با قاعدہ نظام ہو.اکیلا آدمی اگر چند غرباء میں زکوۃ کا روپیہ تقسیم بھی کر دے تو اس کے وہ شاندار نتائج کہاں نکل سکتے جو اس صورت میں نکل سکتے ہیں جب زکوۃ کے تمام روپیہ کو جماعتی رنگ میں غرباء کی بہبودی اور ان کی ترقی کے کاموں پر خرچ کیا جائے.پس زکوۃ کا نظام بالطبع خلافت کا مقتضی ہے.اسی طرح اقامتِ صلوۃ بھی بغیر اس کے نہیں ہو سکتی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صلوۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں خطبہ پڑھا جاتا ہے اور قومی ضرورتوں کو لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے.اب اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو بھلا چھوٹے چھوٹے دیہات کی جماعتوں کو کیا علم ہوسکتا ہے کہ چین اور جاپان میں کیا ہو رہا ہے اور اسلام ان سے کن قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے.اگر ایک مرکز ہو گا اور ایک خلیفہ ہو گا جو تمام مسلمانوں کے نزدیک واجب الاطاعت ہو گا تو اسے تمام اکناف عالم سے رپورٹیں پہنچتی رہیں گی کہ یہاں یہ ہو رہا ہے اور وہاں وہ ہو رہا ہے اور اس

Page 155

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۹ جلد دوم طرح وہ لوگوں کو بتا سکے گا کہ آج فلاں قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے اور آج فلاں قسم کی خدمات کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنے کی حاجت ہے اسی لئے حنفیوں کا یہ فتویٰ ہے کہ جب تک مسلمانوں میں کوئی سلطان نہ ہو جمعہ پڑھنا جائز نہیں اور اس کی تہہ میں یہی حکمت ہے جو میں نے بیان کی ہے.اسی طرح عیدین کی نمازیں ہیں.رسول کریم ﷺ کی سنت سے یہ امر ثابت ہے کہ آپ ہمیشہ قومی ضرورتوں کے مطابق خطبات پڑھا کرتے تھے.مگر جب خلافت کا نظام نہ رہے تو انفرادی رنگ میں کسی کو قومی ضرورتوں کا کیا علم ہو سکتا ہے اور وہ ان کو کس طرح اپنے خطبات میں بیان کر سکتا ہے بلکہ بالکل ممکن ہے حالات سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ خود بھی دھوکا میں مبتلا ء ر ہے اور دوسروں کو بھی دھوکا میں مبتلا ء ر کھے.میں نے ایک دفعہ کہیں پڑھا کہ آج سے چالیس پچاس سال پیشتر ایک شخص بیکانیر کے علاقہ کی طرف سیر کرنے کیلئے نکل گیا، جمعہ کا دن تھا وہ ایک مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے گیا تو اس نے دیکھا کہ امام نے پہلے فارسی زبان میں مروجہ خطبات میں سے کوئی ایک خطبہ پڑھا اور پھر ان لوگوں سے جو مسجد میں موجود تھے کہا کہ آؤ اب ہاتھ اُٹھا کر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ امیرالمؤمنین جہانگیر بادشاہ کو سلامت رکھے.اب اس بیچارے کو اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ جہانگیر بادشاہ کو فوت ہوئے مدتیں گزر چکی ہیں اور اب جہانگیر نہیں بلکہ انگریز حکمران ہیں.غرض جمعہ جو نماز کا بہترین حصہ ہے اسی صورت میں احسن طریق پر ادا ہو سکتا ہے جب مسلمانوں میں خلافت کا نظام موجود ہو.چنانچہ دیکھ لو ہمارے اندر چونکہ ایک نظام ہے اس لئے میرے خطبات ہمیشہ اہم وقتی ضروریات کے متعلق ہوتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ بعض غیر احمدی بھی ان سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں ہمیں تو آپ کے خطبات الہامی معلوم ہوتے ہیں.مسلمانوں کا ایک مشہور لیڈ ر با قاعدہ میرے خطبات پڑھا کرتا ہے.چنانچہ ایک دفعہ اس نے کہا کہ ان خطبات سے مسلمانوں کی صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سیاسی راہنمائی بھی ہوتی ہے.ہے در حقیقت لیڈر کا کام لوگوں کی راہنمائی کرنا ہوتا ہے مگر یہ را ہنمائی وہی شخص کر سکتا.جس کے پاس دنیا کے اکثر حصوں سے خبریں آتی ہوں اور وہ سمجھتا ہو کہ حالات کیا صورت

Page 156

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۰ جلد دوم اختیار کر رہے ہیں.صرف اخبارات سے اس قسم کے حالات کا علم نہیں ہو سکتا کیونکہ اخبارات میں جھوٹی خبریں بھی درج ہوتی ہیں.اس کے علاوہ ان میں واقعات کو پورے طور پر بیان کرنے کا التزام بھی نہیں ہوتا لیکن ہمارے مبلغ چونکہ دنیا کے اکثر حصوں میں موجود ہیں ، اس کے علاوہ جماعت کے افراد بھی دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اس لئے ان کے ذریعہ مجھے ہمیشہ سچی خبریں ملتی رہتی ہیں اور میں ان سے فائدہ اُٹھا کر جماعت کی صحیح راہنمائی کرسکتا ہوں.اطاعت رسول بھی صحیح معنوں پس در حقیقت اقامت صلوۃ بھی بغیر خلیفہ کے نہیں ہو سکتی اسی طرح اطاعت رسول بھی جس کا میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی آطِیعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُول کے الفاظ میں ذکر ہے خلیفہ کے بغیر نہیں ہوسکتی.کیونکہ رسول کی اطاعت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ سب کو وحدت کے ایک رشتہ میں پرویا جائے.یوں تو صحابہ بھی نمازیں پڑھتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی نمازیں پڑھتے ہیں، صحابہؓ بھی روزے رکھتے تھے اور آجکل کے مسلمان بھی روزے رکھتے ہیں، صحابہ بھی حج کرتے تھے اور آجکل کے مسلمان بھی حج کرتے ہیں پھر صحابہؓ اور آجکل کے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ یہی فرق ہے کہ وہ اس وقت نمازیں پڑھتے تھے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ اب نماز کا وقت آ گیا ہے، وہ اس وقت روزے رکھتے تھے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ اب روزوں کا وقت آ گیا ہے اور وہ اُس وقت حج کرتے تھے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ اب حج کا وقت آ گیا ہے اور گووہ نماز اور روزہ اور حج وغیرہ عبادات میں حصہ لیکر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے تھے مگران کے ہر عمل میں رسول کریم ﷺ کی اطاعت کی روح بھی جھلکتی تھی جس کا یہ فائدہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جب بھی کوئی حکم دیتے ، صحابہؓ اُسی وقت اس پر عمل کرنے کیلئے کھڑے ہو جاتے تھے لیکن یہ اطاعت کی روح آجکل کے مسلمانوں میں نہیں.مسلمان نمازیں بھی پڑھیں گے ، مسلمان روزے بھی رکھیں گے، مسلمان حج بھی کریں گے مگر ان کے اندر اطاعت کا مادہ نہیں ہو گا کیونکہ اطاعت کا مادہ نظام خلافت کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا.پس جب بھی خلافت ہوگی

Page 157

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۱ جلد دوم اطاعت رسول بھی ہوگی کیونکہ اطاعت رسول یہ نہیں کہ نمازیں پڑھو یا روزے رکھو یا حج کرو یہ تو خدا کے حکم کی اطاعت ہے.اطاعت رسول یہ ہے کہ جب وہ کہے کہ اب نمازوں پر زور دینے کا وقت ہے تو سب لوگ نمازوں پر زور دینا شروع کر دیں اور جب وہ کہے کہ اب زکوۃ اور چندوں کی ضرورت ہے تو وہ زکوۃ اور چندوں پر زور دینا شروع کر دیں اور جب وہ کہے کہ اب جانی قربانی کی ضرورت ہے یا وطن کو قربان کرنے کی ضرورت ہے تو وہ جانیں اور اپنے وطن قربان کرنے کیلئے کھڑے ہو جائیں.غرض یہ تینوں باتیں ایسی ہیں جو خلافت کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں اگر خلافت نہ ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری نمازیں بھی جاتی رہیں گی تمہاری زکوتیں بھی جاتی رہیں گی ، اور تمہارے دل سے اطاعت رسول کا مادہ بھی جاتا رہے گا.ہماری جماعت کو چونکہ ایک نظام کے ماتحت رہنے کی عادت ہے اور اس کے افراد اطاعت کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں اس لئے اگر ہماری جماعت کے افراد کو آج اُٹھا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رکھ دیا جائے تو وہ اسی طرح اطاعت کرنے لگ جائیں جس طرح صحابہ اطاعت کیا کرتے تھے لیکن اگر کسی غیر احمدی کو اپنی بصیرت کی آنکھ سے تم اس زمانہ میں لے جاؤ تو تمہیں قدم قدم پر وہ ٹھوکریں کھاتا دکھائی دے گا اور وہ کہے گا کہ ذرا ٹھہر جائیں مجھے فلاں حکم کی سمجھ نہیں آئی بلکہ جس طرح ایک پٹھان کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے کہہ دیا تھا ”خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.قدوری میں لکھا ہے کہ حرکت صغیرہ سے نماز ٹوٹ جاتا ہے.اسی طرح وہ بعض باتوں کا انکار کرنے لگ جائے گا.لیکن اگر ایک احمدی کو لے جاؤ تو اس کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ وہ کسی غیر مانوس جگہ میں آ گیا ہے بلکہ جس طرح مشین کا پُرزہ فوراً اپنی جگہ پر فٹ آ جاتا ہے اسی طرح وہ وہاں پر فٹ آ جائے گا اور جاتے ہی محمد رسول اللہ علیہ کا صحابی بن جائے گا.است استخلاف کے مضامین کا خلاصہ غرض یہ آیت جو آیت استخلاف کہلاتی ہے اس کے مفہوم کا خلاصہ یہ ہے کہ : - (1) جس بات کا ذکر کیا گیا ہے ، وہ ایک وعدہ ہے.(۲) وعدہ اُمت سے ہے جب تک وہ ایمان و عمل صالح پر کار بندر ہے.

Page 158

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۲ جلد دوم غیر مبائع ہمیشہ اس بات پر زور دیا کرتے ہیں کہ ان آیات میں خلافت کا جو وعدہ کیا گیا ہے وہ افراد سے نہیں بلکہ اُمت سے ہے اور میں نے ان کی یہ بات مان لی ہے.میں بھی یہی کہتا ہوں کہ یہ وعدہ اُمت سے ہے اور اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ جب تک وہ ایمان اور عمل صالح پر کار بند رہے گی اس کا یہ وعدہ پورا ہوتا رہے گا.(۳) اس وعدہ کی غرض یہ ہے کہ (الف) مسلمان بھی وہی انعام پائیں جو پہلی قوموں نے پائے کیونکہ فرماتا ہے كما اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْرِهِمْ ( ب ) اس وعدہ کی دوسری غرض تمکین دین ہے.( ج ) اس کی تیسری غرض مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دینا ہے.( د ) اس کی چوتھی غرض شرک کا دور کرنا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا قیام ہے.اس آیت کے آخر میں وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الفَسِقُونَ کہہ کر اس کے وعدہ ہونے پر پھر زور دیا اور وَلَئِن كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِي لَشَدِيد ٢٦ کے وعید کی طرف توجہ دلائی کہ ہم جو انعامات تم پر نازل کرنے لگے ہیں اگر تم ان کی ناقدری کرو گے تو ہم تمہیں سخت سزا دیں گے.خلافت بھی چونکہ ہمارا ایک انعام ہے اس لئے یا د رکھو جو لوگ اس نعمت کی ناشکری کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے.یہ آیت ایک زبردست شہادت خلافت راشدہ پر ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور احسان مسلمانوں میں خلافت کا طریق قائم کیا جائے گا جو مُؤَيَّد مِنَ اللہ ہوگا.(جیسا کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الْأَرْضِ اور وليُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ سے ظاہر ہے ) اور مسلمانوں کو پہلی قوموں کے انعامات میں سے وافر حصہ دلانے والا ہوگا.نیچے خلفاء کی علامات اس آیت میں خلفاء کی علامات بھی بتائی گئی ہیں جن سے بچے اور جھوٹے میں فرق کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہیں :- (۱) خلیفہ خدا بنا تا ہے یعنی اس کے بنانے میں انسانی ہاتھ نہیں ہوتا ، نہ وہ خودخواہش

Page 159

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۳ جلد دوم کرتا ہے اور نہ کسی منصوبہ کے ذریعہ وہ خلیفہ ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو ایسے حالات میں ہوتا ہے جب کہ اُس کا خلیفہ ہونا بظاہر ناممکن سمجھا جاتا ہے.چنانچہ یہ الفاظ کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصلحت خود ظاہر کرتے ہیں کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے کیونکہ جو وعدہ کرتا ہے وہی دیتا ہے.بعض لوگ غلطی سے یہ کہتے ہیں کہ اس وعدے کا یہ مطلب ہے کہ لوگ جس کو چاہیں خلیفہ بنا لیں ، خدا اُس کو اپنا انتخاب قرار دے دے گا.مگر یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہمارے ایک استاد کا یہ طریق ہوا کرتا تھا کہ جب وہ مدرسہ میں آتا اور کسی لڑکے سے خوش ہوتا تو کہتا کہ اچھا تمہاری جیب میں جو پیسہ ہے وہ میں نے تمہیں انعام میں دے دیا.یہ بھی ویسا ہی وعدہ بن جاتا ہے کہ اچھا تم کسی کو خود ہی خلیفہ بنا لو اور پھر یہ سمجھ لو کہ اُسے میں نے بنایا ہے.اور اگر یہی بات ہو تو پھر انعام کیا ہوا اور ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہنے والی جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت کا امتیازی سلوک کونسا ہوا ؟ وعدہ تو جو کرتا ہے وہی اسے پورا بھی کیا کرتا ہے نہ یہ کہ وعدہ تو وہ کرے اور اسے پورا کوئی اور کرے.پس اس آیت میں پہلی بات یہ بتائی گئی ہے کہ خلفاء کی آمد خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو گی.ظاہری لحاظ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کیونکہ کوئی شخص خلافت کی خواہش کر کے خلیفہ نہیں بن سکتا اسی طرح کسی منصوبہ کے ماتحت بھی کوئی خلیفہ نہیں بن سکتا.خلیفہ وہی ہو گا جسے خدا بنانا چاہے گا بلکہ بسا اوقات وہ ایسے حالات میں خلیفہ ہو گا جب کہ دنیا اس کے خلیفہ ہونے کو ناممکن خیال کرتی ہوگی.(۲) دوسری علامت اللہ تعالیٰ نے بچے خلیفہ کی یہ بتائی ہے کہ وہ اس کی مدد انبیاء کے مشابہ کرتا ہے.کیونکہ فرمایا كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذينَ مِن قناهم که یہ خلفاء ہماری نصرت کے ویسے ہی مستحق ہونگے جیسے پہلے خلفاء.اور جب پہلی خلافتوں کو دیکھا جاتا ہے تو وہ دو قسم کی نظر آتی ہیں.اوّل خلافتِ نبوت.جیسے آدم علیہ السلام کی خلافت تھی جس کے بارہ میں فرمایا کہ اِنِّي جَاعِلُ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً " میں زمین میں اپنا ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.اب آدم علیہ السلام کا انتخاب نہیں کیا گیا تھا اور نہ وہ دُنیوی بادشاہ تھے.اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے ایک وعدہ کیا اور انہیں اپنی طرف سے زمین میں آپ کھڑا کیا اور جنہوں نے انکار

Page 160

خلافة على منهاج النبوة کیا انہیں سزا دی.۱۴۴ جلد دوم ۴۸ جیسے داؤد علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ ید اود اِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَينَ النّاسِ بِالْحَقِّ وَلا تَتَّبِعِ الهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ان الَّذِينَ يُضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدَ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ اے داؤد ! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ( حضرت داؤد علیہ السلام چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئے معلوم ہوا کہ یہاں خلافت سے مراد خلافتِ نبوت ہی ہے ) پس تو لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ کر اور لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کر ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے سیدھے راستہ سے منحرف کر دیں.یقیناً وہ لوگ جو گمراہ ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت عذاب ہو گا اس لئے ایسے لوگوں کے مشوروں کو قبول نہ کیا کر بلکہ وہی کر جس کی طرف خدا تیری راہنمائی کرے.ان آیات میں دراصل وہی مضمون بیان ہوا ہے جو دوسری جگہ فإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ ۴۹ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.بعض لوگوں نے غلطی سے لا تَتَّبِعِ الهَوى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ کے یہ معنی کئے ہیں کہ اے داؤ د ! لوگوں کی ہوا و ہوس کے پیچھے نہ چلنا حالانکہ اس آیت کے یہ معنی ہی نہیں بلکہ اس میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض دفعہ لوگوں کی اکثریت تجھے ایک بات کا مشورہ دے گی اور کہے گی کہ یوں کرنا چاہئے مگر فرمایا تمہارا کام یہ ہے کہ تم محض اکثریت کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ جو بات تمہارے سامنے پیش کی جا رہی ہے وہ مفید ہے یا نہیں.اگر مفید ہو تو مان لو اور اگر مفید نہ ہو تو اُسے رڈ کر دو.چاہے اُسے پیش کرنے والی اکثریت ہی کیوں نہ ہو بالخصوص ایسی حالت میں جب کہ وہ گناہ والی بات ہو.پہلی خلافتیں یا تو خلافتِ نبوت پس پہلی خلافتیں یا تو خلافت نبوت تھیں جیسے حضرت آدم اور حضرت داؤد عَلَيْهِمَا السَّلام کی تھیں یا خلافت ملوکیت خلافت تھی اور یا پھر خلافت حکومت تھیں جیسا کہ فرمایا.واذكروا إذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاء مِنْ بَعْدِ قَوْمٍ نُوحٍ وَ زَادَكُمْ فِي الخَلْقِ بَشطَةً : فَاذْكُرُوا الا الله لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ٥٠ یعنی اُس وقت کو یاد

Page 161

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۵ جلد دوم کر وجب کہ قوم نوح کے بعد خدا نے تمہیں خلیفہ بنایا اور اس نے تم کو بناوٹ میں بھی فراخی بخشی یعنی تمہیں کثرت سے اولا ددی پس تم اللہ تعالیٰ کی اُس نعمت کو یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی حاصل : اِس آیت میں خلفاء کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد صرف دنیوی با دشاہ ہیں اور نعمت سے مراد بھی نعمت حکومت ہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نصیحت کی ہے کہ تم زمین میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھ کر تمام کام کرو ورنہ ہم تمہیں تباد کر دیں گے.چنانچہ یہود کی نسبت اس انعام کا ذکر ان الفاظ میں فر ما تا ہے.وَاذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أنْبِيَاء وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا وَاتْكُمْ ما لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّن العلمين الله یعنی اس قوم کو ہم نے دو طرح خلیفہ بنایا راذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاء کے ماتحت انہیں خلافت نبوت دی اور جَعَلَكُمْ مُلُوعًا کے ماتحت انہیں خلافت ملوکیت دی.غرض پہلی خلافتیں دو قسم کی تھیں.یا تو وہ خلافتِ نبوت تھیں اور یا پھر خلافت ملوکیت.پس جب خدا نے یہ فرمایا يَسْتَخْلِفَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ تو اس سے یہ استنباط ہوا کہ پہلی خلافتوں والی برکات ان کو بھی ملیں گی اور انبیائے سابقین سے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ سلوک کیا وہی سلوک وہ اُمتِ محمدیہ کے خلفاء کے ساتھ بھی کرے گا.۵۱ خلافت ملوکیت کو چھوڑ کر صرف خلافت نبوت اگر کوئی کہے کہ پہلے تو خلافت ملوکیت کا بھی ذکر کے ساتھ مشابہت کو کیوں مخصوص کیا گیا ہے ہے پھر خلافت ملوکیت کا ذکر چھوڑ کر صرف خلافتِ نبوت کے ساتھ اُس کی مشابہت کو کیوں مخصوص کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ گو مسلمانوں سے دوسری آیات میں بادشاہتوں کا بھی وعدہ ہے مگر اس جگہ بادشاہت کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف مذہبی نعمتوں کا ذکر ہے.چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وليمَكنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِی ارتضى لَهُمْ که خدا اپنے قائم کردہ خلفاء کے دین کو دنیا میں قائم کر کے رہتا ہے.اب یہ اصول دنیا کے بادشاہوں کے متعلق نہیں اور نہ اُن کے دین کو خدا تعالیٰ نے کبھی دنیا میں قائم کیا بلکہ یہ اصول روحانی خلفاء کے متعلق ہی ہے.پس یہ آیت ظاہر کر رہی ہے

Page 162

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۶ جلد دوم کہ اس جگہ جس خلافت سے مشابہت دی گئی ہے وہ خلافتِ نبوت ہی ہے نہ کہ خلافت ملوکیت.اسی طرح فرماتا ہے.وليُبةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا.کہ خدا اُن کے خوف کو امن سے بدل دیا کرتا ہے.یہ علامت بھی دُنیوی بادشاہوں پر کسی صورت میں چسپاں نہیں ہو سکتی.کیونکہ دنیوی بادشاہ اگر آج تاج و تخت کے مالک ہوتے ہیں تو کل تخت سے علیحدہ ہو کر بھیک مانگتے دیکھے جاتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کے خوف کو امن سے بدل دینے کا کوئی وعدہ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات جب کوئی سخت خطرہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے مقابلہ کی ہمت تک کھو بیٹھتے ہیں.پھر فرماتا ہے يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کہ وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے.گویا وہ خالص موحد اور شرک کے شدید ترین دشمن ہونگے.مگر دنیا کے بادشاہ تو شرک بھی کر لیتے ہیں حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ اُن سے کبھی کفر بواح صادر ہو جائے.پس وہ اس آیت کے مصداق کس طرح ہو سکتے ہیں.چوتھی دلیل جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خلفاء سے مراد د نیوی بادشاہ ہرگز نہیں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الفيسقُونَ یعنی جو لوگ ان خلفاء کا انکار کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے.اب بتاؤ کہ جو شخص کفر بواح کا بھی مرتکب ہوسکتا ہو آیا اس کی اطاعت سے خروج فسق ہو سکتا ہے؟ یقیناً ایسے بادشاہوں کی اطاعت سے انکار کرنا انسان کو فاسق نہیں بنا سکتا.فسق کا فتویٰ انسان پر اُسی صورت میں لگ سکتا ہے جب وہ روحانی خلفاء کی اطاعت سے انکار کرے.غرض یہ چاروں دلائل جن کا اس آیت میں ذکر ہے اس امر کا ثبوت ہیں کہ اس آیت میں جس خلافت کا ذکر کیا گیا ہے وہ خلافت ملوکیت نہیں.پس جب خدا نے یہ فرمایا ليَسْتَخْلِفَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهیم کہ ہم ان خلیفوں پر ویسے ہی انعامات نازل کریں گے جیسے ہم نے پہلے خلفاء پر انعامات نازل کئے تو اس سے مراد یہی ہے کہ جیسے پہلے انبیاء کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی رہی ہے اسی طرح ان کی مدد

Page 163

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۷ جلد دوم ہوگی.پس اس آیت میں خلافتِ نبوت سے مشابہت مراد ہے نہ کہ خلافت ملوکیت سے.خلافت کا وعدہ ایمان اور (۳) تیسری بات اس آیت سے یہ نکلتی ہے کہ یہ وعدہ اُمت سے اُس وقت تک کیلئے ہے جب تک عمل صالح کے ساتھ مشروط ہے کہ امت مومن اور عمل صالح کرنے والی ہو.جب وہ مومن اور عمل صالح کرنے والی نہیں رہے گی تو اللہ تعالیٰ اپنے اس وعدہ کو واپس لے لے گا.گویا نبوت اور خلافت میں یہ عظیم الشان فرق بتایا کہ نبوت تو اُس وقت آتی ہے جب دنیا ۵۲ خرابی اور فساد سے بھر جاتی ہے.جیسے فرمایا.ظَهَرَ الفَسَادُ في البر و البَحْرِ ٥٢ کہ جب بر اور بحر میں فساد واقعہ ہو جاتا ہے، لوگ خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں ، الہی احکام سے اپنا منہ موڑ لیتے ہیں ، ضلالت اور گمراہی میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور تاریکی زمین کے چپہ چپہ کا احاطہ کر لیتی ہے، تو اُس وقت لوگوں کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ کسی نبی کو بھیجتا ہے جو پھر آسمان سے نور ایمان کو واپس لاتا اور اُن کو بچے دین پر قائم کرتا ہے لیکن خلافت اُس وقت آتی ہے جب قوم میں اکثریت مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی ہوتی ہے.گویا نبوت تو ایمان اور عمل صالح کے مٹ جانے پر آتی ہے اور خلافت اُس وقت آتی ہے جب قریباً تمام کے تمام لوگ ایمان اور عمل صالح پر قائم ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ خلافت اُسی وقت شروع ہوتی ہے جب نبوت ختم ہوتی ہے کیونکہ نبوت کے ذریعہ ایمان اور عملِ صالح قائم ہو چکا ہوتا ہے اور چونکہ اکثریت ابھی ان لوگوں کی ہوتی ہے جو ایمان اور عمل صالح پر قائم ہوتے ہیں ، اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں خلافت کی نعمت دے دیتا ہے.اور درمیانی زمانہ جب کہ نہ تو دنیا نیکو کاروں سے خالی ہو اور نہ بدی سے پُر ہو دونوں سے محروم رہتا ہے کیونکہ نہ تو بیماری شدید ہوتی ہے کہ نبی آئے اور نہ تندرستی کامل ہوتی ہے کہ اُن سے کام لینے والا خلیفہ آئے.خلافت کا فقدان کسی خلیفہ کے نقص کی وجہ سے پس اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا نہیں بلکہ جماعت کے نقص کی وجہ سے ہوتا ہے فقدان کسی خلیفہ کے

Page 164

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۸ جلد دوم نقص کی وجہ سے نہیں بلکہ جماعت کے نقص کی وجہ سے ہوتا ہے اور خلافت کا مٹنا خلیفہ کے گنہگار ہونے کی دلیل نہیں بلکہ اُمت کے گنہگار ہونے کی دلیل ہوتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ صریح وعدہ ہے کہ وہ اُس وقت تک خلیفہ بناتا چلا جائے گا جب تک جماعت میں کثرت مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی رہے گی.جب اس میں فرق پڑ جائے گا اور کثرت مومنوں اور عملِ صالح کرنے والوں کی نہیں رہے گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب چونکہ تم بدعمل ہو گئے ہو اس لئے میں بھی اپنی نعمت تم سے واپس لیتا ہوں.( گو خدا چاہے تو بطور احسان ایک عرصہ تک پھر بھی جماعت میں خلفاء بھجواتا رہے ) پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ خراب ہو گیا ہے وہ بالفاظ دیگر اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ جماعت کی اکثریت ایمان اور عمل صالح سے محروم ہو چکی ہے کیونکہ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ جب تک اُمت ایمان اور عمل صالح پر قائم رہے گی اُس میں خلفا ء آتے رہیں گے اور جب وہ اس سے محروم ہو جائے گی تو خلفاء کا آنا بھی بند ہو جائے گا.پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی امکان نہیں ہاں اس بات کا ہر وقت امکان ہے کہ جماعت کی اکثریت ایمان اور عمل صالح سے محروم نہ ہو جائے.اور چونکہ خلیفہ نہیں بگڑ سکتا بلکہ جماعت ہی بگڑ سکتی ہے اس لئے جب کوئی شخص دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کرتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا خلیفہ بگڑ گیا تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ابھی جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کثیر صحابہ نہم میں موجود ہیں، جب کہ زمانہ ابھی دجالی رفتن سے پُر ہے، جب کہ اس درخت کی ابھی کونپل ہی نکلی ہے جس نے تمام دنیا میں پھیلنا ہے تو شیطان اس جماعت پر حملہ آور ہوا.اُس نے اُس کے ایمان کی دولت کو لوٹ لیا ، اعمالِ صالحہ کی قوت کو سلب کر لیا اور اس درخت کی کونپل کو اپنے پاؤں کے نیچے مسل ڈالا جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ ایک بار آور درخت کی صورت میں تمام دنیا کو اپنے سایہ سے فائدہ پہنچائیگا کیونکہ بقول اُس کے خلیفہ خراب ہو گیا اور قرآن یہ بتاتا ہے کہ بچے خلفاء اُس وقت تک آتے رہیں گے جب تک جماعت کی اکثریت ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہے.پس خلافت کا انکار محض خلافت کا انکار نہیں بلکہ اس امر کا اظہار ہے کہ جماعت ایمان اور عمل صالح سے محروم ہو چکی ہے.

Page 165

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۹ جلد دوم تمکین دین کا نشان چوتھی علامت خلفاء کی اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ اُن کے دینی احکام اور خیالات کو اللہ تعالیٰ دنیا میں پھیلائے گا.چنانچہ فرماتا ہے ويمكنتْ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دین کو تمکین دے گا اور با وجود مخالف حالات کے اُسے دنیا میں قائم کر دے گا.یہ ایک زبر دست ثبوت خلافتِ حقہ کی تائید میں ہے اور جب اس پر غور کیا جاتا ہے تو خلفائے راشدین کی صداقت پر خدا تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا نشان نظر آتا ہے.یہ ایک عجیب بات ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ایسے خاندانوں میں سے تھے جو عرب میں کوئی جتھا نہیں رکھتے تھے.لیکن حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ایسے خاندانوں میں سے تھے جو عرب میں جتے رکھتے تھے.چنانچہ بنو امیہ حضرت عثمان کے حق میں تھے اور بنو عباس حضرت علی کے حق میں اور ان دونوں کو عرب میں بڑی قوت حاصل تھی.جب خلافت میں تنزل واقع ہوا اور مسلمانوں کی اکثریت میں سے ایمان اور عملِ صالح جاتا رہا تو حضرت عثمان اور حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد بنوامیہ نے مسلمانوں پر تسلط جما لیا اور یہ وہ لوگ تھے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے تعلق رکھتے تھے.چنانچہ ان کی حکومت کے دوران میں حضرت علی کی تو مذمت کی جاتی رہی مگر حضرت عثمان کی خوبیاں بیان ہوتی رہیں.حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے مداح اور ان کی خوبیوں کا ذکر کرنے والے اس دور میں بہت ہی کم تھے.اس کے بعد حالات میں پھر تغیر پیدا ہوا اور بنو امیہ کی جگہ بنو عباس نے قبضہ کر لیا اور یہ وہ لوگ تھے جو اہلِ بیت سے تعلق رکھتے تھے چنانچہ ان کا تمام زور حضرت علیؓ کی تعریف اور آپ کی خوبیاں بیان کرنے پر صرف ہونے لگ گیا اور کہا جانے لگا کہ عثمان بہت بُرا تھا.غرض بنو امیہ تو یہ کہتے رہے کہ علیؓ بہت بُرا تھا اور بنو عباس یہ کہتے رہے کہ عثمان بہت بُرا تھا اور اس طرح کئی سو سال تک مسلمانوں کا ایک حصہ حضرت عثمان کے اوصاف شمار کرتا رہا اور ایک حصہ حضرت علیؓ کے اوصاف شمار کرتا رہا مگر باوجود اس کے کہ خلفائے اربعہ کے بعد اسلامی حکومتوں کے یہ دو دور آئے اور دونوں ایسے تھے کہ ان میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ سے تعلق رکھنے والے لوگ کوئی نہ تھے پھر بھی دنیا میں جو عزت اور جوڑ تبہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے فتووں اور

Page 166

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۰ جلد دوم ارشادات کو حاصل ہے وہ ان دونوں کو حاصل نہیں.گو ان سے اُتر کر انہیں بھی حاصل ہے اور یہ ثبوت ہے دليُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتضى لهُمْ کا کہ خدا نے ان کے دین کو قائم کیا اور اُن کی عزت کو لوگوں کے قلوب میں جا گزیں کیا.چنانچہ آج کسی مسلمان سے پوچھ لو کہ اُس کے دل میں خلفاء میں سے سب سے زیادہ کس کی عزت ہے تو وہ پہلے حضرت ابو بکر کا نام لے گا پھر حضرت عمرؓ کا نام لے گا پھر حضرت عثمان اور پھر حضرت علیؓ کا نام لے گا حالانکہ کئی صدیاں ایسی گزری ہیں جن میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کا نام لینے والا کوئی نہیں تھا اور اتنے لمبے وقفہ میں بڑے بڑے لوگوں کے نام دنیا سے مٹ جایا کرتے ہیں لیکن خدا نے اُن کے نام کو قائم رکھا اور اُن کے فتووں اور ارشادات کو وہ مقام دیا جو حضرت عثمان اور حضرت علیؓ کے فتووں اور ارشادات کو بھی حاصل نہیں.پھر بنو امیہ کے زمانہ میں حضرت علی کو بدنام کرنے کی بڑی کوششیں کی گئیں اور بنو عباس کے زمانہ میں حضرت عثمان پر بڑا لعن طعن کیا گیا مگر باوجود اس کے کہ یہ کوششیں حکومتوں کی طرف سے صادر ہوئیں اور انہوں نے اپنے اپنے زمانوں میں اُن کو بدنام کرنے اور اُن کے ناموں کو مٹانے کی بڑی کوشش کی پھر بھی یہ دونوں خلفاء دُھلے دُھلائے نکل آئے اور خدا نے تمام عالم اسلامی میں ان کی عزت و توقیر کو قائم کر دیا.خوف کو امن سے بدلنے کی پیشگوئی (۵) پانچویں علامت اللہ تعالی نے یہ بتاتی ہے کہ وليبة لتهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا که وہ اُن کے خوف کے بعد اُن کے خوف کی حالت کو امن سے بدل دیتا ہے.بعض لوگ اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ وہ ہر تخویف سے محفوظ رہتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی کو چونکہ خلافت کے بعد خوف پیش آیا اور دشمنوں نے انہیں شہید کر دیا اس لئے حضرت ابو بکر کے سوا اور کسی کو خلیفہ راشد تسلیم نہیں کیا جا سکتا.شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے بھی اس بات پر بڑا زور دیا ہے اور لکھا ہے کہ اصل خلیفہ صرف حضرت ابو بکر تھے.حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی کی خلافت آیت استخلاف کے ماتحت نہیں آتی.

Page 167

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۱ جلد دوم سو یا د رکھنا چاہئے کہ یہ غلطی لوگوں کو صرف اس لئے لگی ہے کہ وہ قرآنی الفاظ پر غور نہیں کرتے.بیشک خوف کا امن سے بدل جانا بھی بڑی نعمت ہے لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وليُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدَ الخَوْفِ آمنا کہ جو بھی خوف پیدا ہوگا اُسے امن سے بدل دیا جائے گا بلکہ فرمایا وَلَيُبَةِ لَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا کہ جو خوف اُن کے دل میں پیدا ہوگا اور جس چیز سے وہ ڈریں گے اللہ تعالیٰ اُسے دُور کر دے گا اور اُس کی جگہ امن پیدا کر دے گا.پس وعدہ یہ نہیں کہ زید اور بکر کے نزدیک جو بھی ڈرنے والی بات ہو وہ خلفاء کو پیش نہیں آئے گی بلکہ وعدہ یہ ہے کہ جس چیز سے وہ ڈریں گے اللہ تعالیٰ اُسے ضرور دُور کر دے گا اور اُن کے خوف کو امن سے بدل دے گا.مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ سانپ بظا ہر ایک بڑی خوفناک چیز ہے مگر کئی لوگ ہیں جو سانپ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں ایسے لوگوں کیلئے سانپ کا خوف کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اسی طرح فقر ایک بڑی خوف والی چیز ہے مگر رسول کریم ﷺ کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی.اب اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کھانے کیلئے اگر ایک وقت کی روٹی بھی نہ ملے تو یہ بڑی ذلت کی بات ہوتی ہے تو کیا اُس کے اس خیال کی وجہ سے ہم یہ مان لیں گے کہ نَعُوذُ بِاللهِ رسول کریم ﷺ کی بھی ذلت ہوئی.جو شخص فقر کو اپنی عزت کا موجب سمجھتا ہے ، جو شخص چیتھڑوں کو قیمتی لباس سے زیادہ بہتر سمجھتا ہے اور جو شخص دنیوی مال ومتاع کو نجاست کی مانند حقیر سمجھتا ہے اُس کیلئے فقر کا خوف بالکل بے معنی ہے.پس خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ولیبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدَ الْخَوْفِ آمَنَّا بلکہ فرمایا ہے وليبة لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا کہ کوئی ایسی خوف والی بات پیدا نہیں ہوگی جس سے وہ ڈرتے ہونگے.اس فرق کو مدنظر رکھ کر دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ خلفاء پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس سے انہوں نے خوف کھایا ہوا اور اگر آئی تو اللہ تعالیٰ نے اُسے امن سے بدل دیا.حضرت عمر کو اپنی شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے.مگر جب واقعات کو دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس

Page 168

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۲ جلد دوم شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا بلکہ وہ متواتر دعائیں کیا کرتے تھے کہ یا اللہ ! مجھے شہادت نصیب کر اور شہید بھی مجھے مدینہ میں کر.پس وہ شخص جس نے اپنی ساری عمر یہ دعائیں کرتے ہوئے گزار دی ہو کہ یا اللہ ! مجھے مدینہ میں شہادت دے ، وہ اگر شہید ہو جائے تو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اُس پر ایک خوفناک وقت آیا مگر وہ امن سے نہ بدلا گیا.بیشک اگر حضرت عمرؓ شہادت سے ڈرتے اور پھر وہ شہید ہو جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ اُن کے خوف کو خدا تعالیٰ نے امن سے نہ بدلا مگر وہ تو دعائیں کرتے تھے کہ یا اللہ ! مجھے مدینہ میں شہادت دے.پس اُن کی شہادت سے یہ کیونکر ثابت ہو گیا کہ وہ شہادت سے ڈرتے بھی تھے.اور جب وہ شہادت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ اس کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے جن کو خدا تعالیٰ نے قبول کر لیا تو معلوم ہوا کہ اس آیت کے ماتحت اُن پر کوئی ایسا خوف نہیں آیا جو اُن کے دل نے محسوس کیا ہو.اور اس آیت میں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہی ذکر ہے کہ خلفاء جس بات سے ڈرتے ہوں گے وہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اُن کے خوف کو امن سے بدل دے گا.مگر جب وہ ایک بات سے ڈرتے ہی نہ ہوں بلکہ اُسے اپنی عزت اور بلندی درجات کا موجب سمجھتے ہوں تو اُسے خوف کہنا اور پھر یہ کہنا کہ اسے امن سے کیوں نہ بدل دیا گیا بے معنی بات ہے.میں نے تو جب حضرت عمر کی اس دعا کو پڑھا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس کا بظاہر یہ مطلب تھا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرے اور اُس کا حملہ اتنی شدت سے ہو کہ تمام مسلمان تباہ ہو جائیں پھر وہ خلیفہ وقت تک پہنچے اور اُسے بھی شہید کر دے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کی دعا کو قبول کرتے ہوئے ایسے سامان کر دیئے کہ بجائے اس کے کہ مدینہ پر کوئی بیرونی لشکر حملہ آور ہوتا اندر سے ہی ایک خبیث اُٹھا اور اس نے خنجر سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا.حضرت عثمان نے بھی کوئی خوف محسوس نہیں کیا پھر حضرت عثمان کے ساتھ جو واقعات پیش آئے اُن سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں سے کبھی خائف نہیں ہوئے.تاریخ سے ثابت ہے کہ جب باغیوں نے مدینہ پر قبضہ کر لیا تو وہ نماز سے پہلے تمام مسجد میں پھیل جاتے اور اہل مدینہ

Page 169

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۳ جلد دوم کو ایک دوسرے سے جُدا جُدا رکھتے تاکہ وہ اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ نہ کر سکیں مگر باوجوداس شورش اور فتنہ انگیزی اور فساد کے حضرت عثمان نماز پڑھانے کیلئے اکیلے مسجد میں تشریف لاتے اور ذرا بھی خوف محسوس نہ کرتے اور اُس وقت تک برابر آتے رہے جب تک لوگوں نے آپ کو منع نہ کر دیا.جب فتنہ بہت بڑھ گیا اور حضرت عثمان کے گھر پر مفسدوں نے حملہ کر دیا تو بجائے اس کے کہ آپ صحابہ کا اپنے مکان کے اردگرد پہرہ لگواتے آپ نے انہیں قسم دے کر کہا کہ وہ آپ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالیں اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں.کیا شہادت سے ڈرنے والا آدمی بھی ایسا ہی کیا کرتا ہے اور وہ لوگوں سے کہا کرتا ہے کہ میرا فکر نہ کرو بلکہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ.پھر اس بات کا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان واقعات سے کچھ بھی خائف نہیں تھے ایک اور زبر دست ثبوت یہ ہے کہ اس فتنہ کے دوران میں ایک دفعہ حضرت معاویہ حج کیلئے آئے جب وہ شام کو واپس جانے لگے تو مدینہ میں وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملے اور عرض کیا کہ آپ میرے ساتھ شام میں چلیں وہاں آپ تمام فتنوں سے محفوظ رہیں گے.آپ نے فرمایا کہ معاویہ! میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دے سکتا.انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں تو میں شامی سپاہیوں کا ایک لشکر آپ کی حفاظت کے لئے بھیج دیتا ہوں.حضرت عثمان نے فرمایا میں اپنی حفاظت کیلئے ایک لشکر رکھ کر مسلمانوں کے رزق میں کمی کرنا نہیں چاہتا.حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ امیر المؤمنین ! لوگ آپ کو دھوکا سے قتل کر دیں گے یا ممکن ہے آپ کے خلاف وہ برسر جنگ ہو جائیں.حضرت عثمان نے فرمایا مجھے اس کی پرواہ نہیں میرے لئے میرا خدا کافی ہے.آخر انہوں نے کہا اگر آپ اور کچھ منظور نہیں کرتے تو اتنا ہی کریں کہ شرارتی لوگوں کو بعض اکابر صحابہ کے متعلق گھمنڈ ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے بعد وہ کام سنبھال لیں گے.چنانچہ وہ اُن کا نام لے لے کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں آپ ان سب کو مدینہ سے رخصت کر دیں اور بیرونی ملکوں میں پھیلا دیں اس سے شریروں کے ارادے پست ہو جائیں گے اور وہ خیال کریں گے کہ آپ سے تعرض کر کے انہوں نے کیا لینا ہے جب کہ مدینہ میں

Page 170

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۴ جلد دوم کوئی اور کام کو سنبھالنے والا ہی نہیں.مگر حضرت عثمان نے یہ بات بھی نہ مانی اور کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا ہے میں انہیں جلا وطن کر دوں.حضرت معاویہ یہ سن کر رو پڑے اور انہوں نے عرض کیا اگر آپ اور کچھ نہیں کرتے تو اتنا ہی اعلان کر دیں کہ میرے خون کا بدلہ معاویہ لے گا.آپ نے فرمایا معاویہ! تمہاری طبیعت تیز ہے میں ڈرتا ہوں کہ مسلمانوں پر تم کہیں سختی نہ کرو اس لئے میں یہ اعلان بھی نہیں کر سکتا.اب کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان دل کے کمزور تھے مگر تم خود ہی بتاؤ کہ اس قسم کی جرات کتنے لوگ دکھا سکتے ہیں اور کیا ان واقعات کے ہوتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے دل میں کچھ بھی خوف تھا.اگر خوف ہوتا تو وہ کہتے کہ تم اپنی فوج کا ایک دستہ میری حفاظت کیلئے بھجوا دو، انہیں تنخواہیں میں دلا دوں گا اور اگر خوف ہوتا تو آپ اعلان کر دیتے کہ اگر مجھ پر کسی نے ہاتھ اٹھایا تو وہ سن لے کہ میرا بدلہ معاویہ لے گا.مگر آپ نے سوائے اِس کے کوئی جواب نہ دیا کہ معاویہ ! تمہاری طبیعت تیز ہے میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے تم کو یہ اختیار دے دیا تو تم مسلمانوں پر سختی کرو گے.پھر جب آخر میں دشمنوں نے دیوار پھاند کر آپ پر حملہ کیا تو بغیر کسی ڈر اور خوف کے اظہار کے آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر کا ایک بیٹا اللہ تعالیٰ اُس پر رحم کرے) آگے بڑھا اور اُس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی پکڑ کر اُسے زور سے جھٹکا دیا.حضرت عثمان نے اُس کی طرف آنکھ اُٹھائی اور فرمایا.میرے بھائی کے بیٹے! اگر تیرا باپ اس وقت ہوتا تو تو کبھی ایسا نہ کرتا.یہ سنتے ہی اُس کا سر سے لیکر پیر تک جسم کانپ گیا اور وہ شرمندہ ہو کر واپس لوٹ گیا.اس کے بعد ایک اور شخص آگے بڑھا اور اس نے ایک لوہے کی سیخ حضرت عثمان کے سر پر ماری اور پھر آپ کے سامنے جو قرآن پڑا ہوا تھا اُسے اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے الگ پھینک دیا.وہ ہٹا تو ایک اور شخص آگے آ گیا اور اس نے تلوار سے آپ کو شہید کر دیا.ان واقعات کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان واقعات سے خائف تھے اور جب وہ ان واقعات ت سے خائف ہی نہ تھے تو من بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا کے خلاف یہ واقعات کیونکر ہو گئے.یہ لوگ تو اگر کسی امر

Page 171

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۵ جلد دوم سے خائف تھے تو اس سے کہ اسلام کی روشنی میں فرق نہ آئے.سو باوجود ان واقعات کے وہی بات آخر قائم ہوئی جسے یہ لوگ قائم کرنا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے خوف کو امن سے بدل دیا.حضرت علی کی شہادت یہی حال حضرت علیؓ کا ہے.اُن کے دل کا خوف بھی صرف صداقت اور روحانیت کی اشاعت کے بارہ میں تھا.سو اللہ تعالیٰ نے اس خوف کو امن سے بدل دیا.یہ ڈر نہیں تھا کہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے.چنانچہ باوجود اس کے کہ حضرت معاویہؓ کا لشکر بعض دفعہ حضرت علیؓ کے لشکر سے کئی کئی گنے زیادہ ہوتا تھا آپ اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے تھے اور یہی فرماتے تھے کہ جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی مانوں گا اس کے خلاف میں کوئی بات تسلیم نہیں کر سکتا.اگر محض لوگوں کی مخالفت کو ہی خوفناک امر قرار دے دیا جائے تب تو ماننا پڑے گا کہ انبیاء ( نَعُوذُ بِاللهِ ) ہمیشہ لوگوں سے ڈرتے رہے کیونکہ جتنی مخالفت لوگ ان کی کرتے ہیں اتنی مخالفت اور کسی کی نہیں کرتے.بہر حال دنیا کی مخالفت کو ئی حقیقت نہیں رکھتی اور نہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وليُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدَ الْخَوْفِ آمَنَّا بلکہ وَليبَة لَنَّهُمْ مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمنا فرمایا ہے یعنی جس چیز سے وہ ڈرتے ہوں گے اسے اللہ تعالیٰ دور کر دے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں وہ صرف اس بات سے ڈرتے تھے کہ امت محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آ جائے.سوامت محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس توجہ اور دعا کی برکت سے بحیثیت مجموعی ضلالت سے محفوظ رکھا اور اہل السنت والجماعت کا مذہب ہی دنیا کے کثیر حصہ پر ہمیشہ غالب رہا.اللہ تعالیٰ اپنے خلفاء کو عام میں نے اس آیت کے جو معنی کئے ہیں کہ اس جگہ خوف سے مراد عام خوف نہیں بلکہ وہ خوف خوف سے بھی محفوظ رکھتا ہے ہے جسے خلفاء کا دل محسوس کرتا ہو اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں عام خوف ضرور ہوتا ہے بلکہ عام خوف بھی اللہ تعالیٰ اُن سے دور ہی رکھتا ہے سوائے اس کے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہو.جیسے حضرت علیؓ کے زمانہ میں جب

Page 172

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم خوف پیدا ہوا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ عام مسلمانوں کی حالت ایسی ہو چکی تھی کہ اب وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خلافت کے انعام کے مستحق نہیں رہے تھے.پس میرا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عام خوفوں سے محفوظ نہیں رکھتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصل وعدہ اس آیت میں اسی خوف کے متعلق ہے جس کو وہ خوف قرار دیں.اور وہ بجائے کسی اور بات کے ہمیشہ اس ایک بات سے ہی ڈرتے تھے کہ اُمت محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آ جائے.سوخدا کے فضل سے اُمت محمدیہ ایسی ضلالت سے محفوظ رہی اور باوجود بڑے بڑے فتنوں کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی وفات کے بعد اس کی ہدایت کے سامان ہوتے رہے.اور اصل معجزہ یہی ہوتا ہے کہ کسی کی وفات کے بعد بھی اس کی خواہشات پوری ہوتی رہیں.زندگی میں اگر کسی کی خواہشیں پوری ہوں تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے تدبیروں سے کام لے لیا تھا مگر جس کی زندگی ختم ہو جائے اور پھر بھی اس کی خواہشیں پوری ہوتی رہیں اس کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے کسی ظاہری تدبیر سے کام لے لیا ہوگا بلکہ یہ امر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ شخص خدا تعالیٰ کا محبوب اور پیارا تھا اور اللہ تعالیٰ کا اس سے گہرا تعلق تھا.رسول کریم ﷺ کا ایک کشف اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رسول کریم صلى الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کشفی حالت میں جو آپ کی وفات کے بعد پورا ہوا ایک شخص کے ہاتھوں میں شہنشاہ ایران کے سونے کے کڑے دیکھے.اب رسول کریم ﷺ کا معجزہ یہ نہیں کہ آپ نے اس کے ہاتھ الله میں سونے کے کڑے دیکھے بلکہ معجزہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد مال غنیمت میں سونے کے کڑے آئے اور باوجو داس کے کہ شریعت میں مردوں کو سونے کے کڑے پہنے ممنوع ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے دل میں یہ جذ بہ پیدا کر دیا کہ وہ رسول کریم ﷺ کے اس کشف کو پورا کرنے کیلئے اسے سونے کے کڑے پہنا ئیں چنانچہ آپ نے اسے پہنا دیئے.پس اس واقعہ میں معجزہ یہ ہے کہ با وجود یکه رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے تھے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے دل میں رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی کو پورا کرنے کا جذبہ پیدا کر دیا.پھر یہ بھی معجزہ ہے کہ

Page 173

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۷ جلد دوم رسول کریم ﷺ کی یہ بات حضرت عمر نے سن لی اور آپ کو اسے پورا کرنے کا موقع مل گیا.آخر حضرت عمر رسول کریم علیہ کی ہر بات تو نہیں سنا کرتے تھے ممکن ہے یہ بات کسی اور کے کان میں پڑتی اور وہ آگے کسی اور کو بتا نا بُھول جاتا مگر اس معجزے کا ایک یہ بھی حصہ ہے کہ جس شخص کے پاس سونے کے کڑے پہنچنے تھے اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کشف پہنچ چکا تھا.پھر اُسی معجزہ کا یہ بھی حصہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ تحریک پیدا کر دی کہ وہ اس صحابی کو سونے کے کڑے پہنا ئیں حالانکہ شریعت کے لحاظ سے مردوں پہنائیں کیلئے سونا پہنا ممنوع ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتا تھا اس لئے آپ کے دل کو اس نے اس طرف مائل کر دیا کہ مردوں کے سونا نہ میں جو حکمتیں ہیں وہ بھی بے شک اچھی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے کسی کو تھوڑی دیر کیلئے سونے کے کڑے پہنا دینا بھی کوئی بُری بات نہیں ہو سکتی.چنانچہ انہوں نے اس صحابی کو اپنے سامنے سونے کے کڑے پہنائے.۵۳ خلفائے راشدین کی وفات کے بعد اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ خلفائے راشدین فوت ہو گئے تو اُن کی وفات کے سالہا بھی اُن کا خوف امن سے بدلتا رہا سال بعد خدا تعالیٰ نے اُن کے خوف کو امن سے بدلا.کبھی سو سال کے بعد کبھی دوسو سال کے بعد، کبھی تین سو سال کے بعد، کبھی چارسو سال کے بعد اور کبھی پانچ سو سال کے بعد اور اس طرح ظاہر کر دیا کہ خدا اُن سے محبت رکھتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اُن کے ارادے رائیگاں جائیں.اگر اس ساری آیت کو قوم کی طرف منسوب کر دیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اس صورت میں بھی وہی معنی لئے جائیں گے جن کو میں نے بیان کیا ہے.یعنی اس صورت میں بھی ساری قوم کو اگر کوئی خوف ہوسکتا تھا تو وہ کفار کے اسلام پر غلبہ کا ہوسکتا تھا.فردی طور پر تو کسی کو خوف ہو سکتا ہے کہ میرا بیٹا نہ مر جائے یا کسی کو خوف ہو سکتا ہے کہ مجھے تجارت میں نقصان نہ پہنچ جائے مگر قوم کا خوف تو قومی ہی ہو سکتا ہے اور وہ خوف بھی پھر یہی بن جاتا ہے کہ ایسا نہ ہو اسلام پر کفار غالب آجائیں سو قوم کا یہ خوف بھی اسلام کے ذریعہ ہی دور ہوا اور اسلام کو ایسا زبردست غلبہ

Page 174

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۸ جلد دوم حاصل ہوا جس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی.حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلفائے راشدین کا غیر مسلم بادشاہوں پر رعب زمانہ میں جب مسلمانوں کے اندرونی جھگڑے اور مناقشات بہت بڑھ گئے تو ایک دفعہ روم کے بادشاہ کو خیال آیا کہ یہ وقت مسلمانوں پر حملہ کرنے کیلئے بہت اچھا ہے وہ آپس میں لڑ رہے ہیں اور اُن کی طاقت اندرونی خانہ جنگی کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہے اس لئے مسلمانوں پر اگر حملہ کیا گیا تو وہ بہت جلد شکست کھا جائیں گے.جب یہ افواہ اُڑتے اڑتے حضرت معاویہ تک پہنچی تو انہوں نے اس بادشاہ کو کہلا بھیجا کہ یا درکھو اگر تم نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو علی کی طرف سے پہلا جرنیل جو تمہارے خلاف لڑنے کیلئے نکلے گا وہ میں ہونگا.جب یہ پیغام اسے پہنچا تو اس نے لڑائی کا ارادہ فوراً ترک کر دیا.یہ واقعہ بھی بتاتا ہے کہ خلفاء کا بہت بڑا رُعب تھا کیونکہ جب اسے معلوم ہوا کہ معاویہ بھی علی کے ماتحت ہو کر مجھ سے لڑنے کیلئے آ جائے گا تو وہ دم بخودرہ گیا اور اس نے سمجھ لیا کہ لڑائی کرنا میرے لئے مفید نہیں ہوگا.(۶) خلفاء کی چھٹی علامت سچے خلفاء توحید حقیقی کے علمبردار ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ يَعْبُدُونَتِي لا يُشْرِكُونَ بي شَيْئًا وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے یعنی اُن کے دلوں میں خدا تعالیٰ غیر معمولی جرات اور دلیری پیدا کر دے گا اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی اور کا خوف اُن کے دل میں پیدا نہیں ہوگا.وہ لوگوں کے ڈر سے کوئی کام نہیں کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیں گے اور اُسی کی خوشنودی اور رضا کیلئے تمام کام کریں گے.یہ معنی نہیں کہ وہ بُت پرستی نہیں کریں گے.بُت پرستی تو عام مسلمان بھی نہیں کرتے کجا یہ کہ خلفاء کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بُت پرستی نہیں کریں گے.پس یہاں بت پرستی کا ذکر نہیں بلکہ اس امر کا ذکر ہے کہ وہ بندوں سے ڈر کر کسی مقام سے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے بلکہ جو کچھ کریں گے خدا کے منشا اور اُس کی رضاء کو پورا کرنے کیلئے کریں گے اور اس امر کی ذرا بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ اس راہ میں اُنہیں کن بلاؤں اور

Page 175

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۹ جلد دوم آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.دنیا میں بڑے سے بڑا دلیر آدمی بھی بعض دفعہ لوگوں کے ڈر سے ایسا پہلو اختیار کر لیتا ہے جس سے گو یہ مقصود نہیں ہوتا کہ وہ سچائی کو چھوڑ دے مگر دل میں یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ میں ایسے رنگ میں کام کروں کہ کسی کو شکوہ پیدا نہ ہو.مولوی غلام علی صاحب ایک کٹر وہابی ہوا کرتے تھے.وہابیوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہندوستان میں جمعہ کی نماز ہو سکتی ہے لیکن حنفیوں کے نزدیک ہندوستان میں جمعہ کی نماز جائز نہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں جمعہ پڑھنا تب جائز ہو سکتا ہے جب مسلمان سلطان ہو.جمعہ پڑھانے والا مسلمان قاضی ہو اور جہاں جمعہ پڑھا جائے وہ شہر ہو.ہندوستان میں انگریزی حکومت کی وجہ سے چونکہ نہ مسلمان سلطان رہا تھا نہ قاضی اس لئے وہ ہندوستان میں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تھے.ادھر چونکہ قرآن کریم میں وہ یہ لکھا ہوا دیکھتے تھے کہ جسہ تمہیں جمعہ کیلئے بلایا جائے تو فورا تمام کام چھوڑتے ہوئے جمعہ کی نماز کیلئے چل پڑو اس لئے اُن کے دلوں کو اطمینان نہ تھا.ایک طرف ان کا جی چاہتا تھا کہ وہ جمعہ پڑھیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی حنفی مولوی ہمارے خلاف فتویٰ نہ دے دے.اس مشکل کی وجہ سے ان کا یہ دستور تھا کہ جمعہ کے روز گاؤں میں پہلے جمعہ پڑھتے اور پھر ظہر کی نماز ادا کر لیتے اور یہ خیال کرتے کہ اگر جمعہ والا مسئلہ درست ہے تب بھی ہم بچ گئے اور اگر ظہر پڑھنے والا مسئلہ صحیح ہے تب بھی بچ گئے اسی لئے وہ ظہر کا نام ظہر کی بجائے احتیاطی“ رکھا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر خدا نے ہمارے جمعہ کی نماز کو الگ پھینک دیا تو ہم ظہر کو اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیں گے اور اگر اُس نے ظہر کو رڈ کر دیا تو ہم جمعہ اُس کے سامنے پیش کر دیں گے.اگر کوئی احتیاطی“ نہ پڑھتا تو سمجھا جاتا کہ وہ وہابی ہے.مولوی غلام علی صاحب کا ایک واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہم مولوی غلام علی صاحب کے ساتھ گورداسپور گئے راستہ میں جمعہ کا وقت آ گیا ہم نماز پڑھنے کیلئے ایک مسجد میں چلے گئے.آپ کا عام طریق وہابیوں سے ملتا جلتا تھا کیونکہ وہابی حدیثوں کے مطابق عمل کرنا اپنے لئے ضروری جانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 176

خلافة على منهاج النبوة 17.جلد دوم ,, سنتوں پر عمل کرنا ہر انسان کی نجات کیلئے ضروری ہے.غرض آپ بھی مولوی غلام علی صاحب کے ساتھ گئے اور جمعہ کی نماز پڑھی.جب مولوی غلام علی صاحب جمعہ کی نماز سے فارغ ہو گئے تو انہوں نے چار رکعت ظہر کی نماز پڑھ لی.آپ فرماتے تھے کہ میں نے اُن سے کہا مولوی صاحب! یہ جمعہ کی نماز کے بعد چار رکعتیں کیسی ہیں.وہ کہنے لگے یہ احتیاطی “ ہے.میں نے کہا مولوی صاحب آپ تو وہابی ہیں اور عقیدہ اس کے مخالف ہیں پھر احتیاطی“ کے کیا معنی ہوئے ؟ وہ کہنے لگے یہ احتیاطی ان معنوں میں نہیں کہ خدا کے سامنے ہمارا جمعہ قبول ہوتا ہے یا ظہر بلکہ ان معنوں میں ہے کہ لوگ مخالفت نہ کریں.تو کئی لوگ اس طرح بھی کام کر لیتے ہیں جیسے مولوی غلام علی صاحب نے کیا کہ اپنے دل میں تو وہ اس بات پر خوش رہے کہ انہوں نے جمعہ پڑھا ہے اور اُدھر لوگوں کو خوش کرنے کیلئے چار رکعت ظہر کی نماز بھی پڑھ لی.ایک سنی بزرگ کا لطیفہ اسی طرح ایک لطیفہ مشہور ہے.کہتے ہیں کوئی سنی بزرگ تھے جو شیعوں کے علاقہ میں رہتے تھے.ایک دفعہ غربت کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہو گئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ بادشاہ کے پاس پہنچ کر مدد کی درخواست کرنی چاہئے.چنانچہ وہ اُس کے پاس گئے اور مدد کی درخواست کی.وزیر نے اُن کی شکل کو دیکھ کر بادشاہ سے کہا کہ یہ شخص سنی معلوم ہوتا ہے.بادشاہ نے کہا تمہیں کس طرح معلوم ہوا ؟ وہ کہنے لگا بس شکل سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے.بادشاہ کہنے لگا یہ کوئی دلیل نہیں ، تم میرے سامنے اس کا امتحان لو.چنانچہ وزیر نے اُن کے سامنے حضرت علی کی بڑے زور سے تعریف شروع کر دی وہ بزرگ بھی حضرت علیؓ کی تعریف کرنے لگ گئے.بادشاہ نے دیکھ کر کہا کہ دیکھا ! تم جو کچھ کہتے تھے وہ غلط ثابت ہوا یا نہیں.اگر یہ شیعہ نہ ہوتا تو کیا ضرت علیؓ کی ایسی ہی تعریف کرتا.وزیر کہنے لگا.بادشاہ سلامت ! آپ خواہ کچھ کہیں مجھے یہ کتنی ہی معلوم ہوتا ہے.بادشاہ نے کہا اچھا امتحان کیلئے پھر کوئی اور بات کرو.چنانچہ وزیر کہنے لگا کہو ہر ہر سہ لعنت ، یعنی ابو بکر، عمر اور عثمان پر ( نَعُوذُ بِاللهِ ) لعنت.وہ بھی کہنے لگ گیا.”بر ہر سہ لعنت.بادشاہ نے کہا آب تو یہ یقینی طور پر شیعہ ثابت ہو گیا ہے.وہ کہنے لگے

Page 177

خلافة على منهاج النبوة 171 جلد دوم بظاہر تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے مگر میرا دل مطمئن نہیں.آخر وز یر انہیں الگ لے گیا اور کہا سچ سچ بتاؤ تمہارا مذہب کیا ہے؟ انہوں نے کہا میں ہوں تو سنی ہی.وہ کہنے لگا پھر تم نے بر ہر سہ لعنت کیوں کہا؟ وہ بزرگ کہنے لگے تمہاری اِن الفاظ سے تو یہ مراد تھی کہ حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان پر لعنت ہو مگر میری مراد یہ تھی کہ آپ دونوں اور مجھ پر لعنت ہو.آپ لوگوں پر اس لئے کہ آپ بزرگوں پر لعنت کرتے ہیں اور مجھ پر اس لئے کہ مجھے اپنی بد بختی کی وجہ سے تم جیسے لوگوں کے پاس آنا پڑا.غرض انسان کئی طریق سے وقت گزار لیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح اُس نے کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا.مگر فرمایا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا خلفاء انتہائی طور پر دلیر ہو نگے اور خوف و ہراس | اُن کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا.وہ جو کچھ کریں گے خدا کی رضا کیلئے کریں گے، کسی انسان سے ڈر کر اُن سے کوئی فعل صادر نہیں ہوگا.فتنہ ارتداد کے مقابلہ میں یہ علامت بھی خلفائے راشدین میں بتمام و کمال پائی جاتی ہے.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ حضرت ابوبکر کی استقامت علیہ وسلم نے وفات پائی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو اُس وقت سارا عرب مرتد ہو گیا.صرف دو جگہ نماز با جماعت ہوتی تھی باقی تمام مقامات میں فتنہ اُٹھ کھڑا ہوا اور سوائے مکہ اور مدینہ اور ایک چھوٹے سے قصبہ کے تمام لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا کہ خُذْمِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُو اِن کے مالوں سے صدقہ لے، کسی اور کو یہ اختیار نہیں کہ ہم سے زکوۃ وصول کرے.غرض سارا عرب مرتد ہو گیا اور وہ لڑائی کیلئے چل پڑا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گوا سلام کمزور تھا مگر قبائل عرب متفرق طور پر حملہ کرتے تھے.کبھی ایک گروہ نے حملہ کر دیا اور کبھی دوسرے نے.جب غزوہ احزاب کے موقع پر کفار کے لشکر نے اجتماعی رنگ میں مسلمانوں پر حملہ کیا تو اُس وقت تک اسلام بہت کچھ طاقت پکڑ چکا تھا گوا بھی اتنی زیادہ طاقت حاصل نہیں ہوئی تھی کہ انہیں آئندہ کیلئے کسی حملے کا ڈر ہی نہ رہتا.اس کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ

Page 178

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۲ جلد دوم فتح کرنے کیلئے گئے تو اُس وقت عرب کے بعض قبائل بھی آپ کی مدد کیلئے کھڑے ہو گئے تھے.اس طرح خدا نے تدریجی طور پر دشمنوں میں جوش پیدا کیا تا کہ وہ اتنا ز ور نہ پکڑ لیں کہ سب ملک پر چھا جائیں.لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یکدم تمام عرب مرتد ہو گیا صرف مکہ اور مدینہ اور ایک چھوٹا سا قصبہ رہ گئے باقی تمام مقامات کے لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور وہ لشکر لے کر مقابلہ کیلئے نکل کھڑے ہوئے.بعض جگہ تو اُن کے پاس ایک ایک لاکھ کا بھی لشکر تھا.مگر ادھر صرف دس ہزار کا ایک لشکر تھا اور وہ بھی شام کو جارہا تھا اور یہ وہ لشکر تھا جسے اپنی وفات کے قریب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی علاقہ پر حملہ کرنے کیلئے تیار کیا تھا اور اسامہ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا باقی لوگ جو رہ گئے تھے وہ یا تو کمزور اور بڈھے تھے اور یا پھر گنتی کے چند نوجوان تھے.یہ حالات دیکھ کر صحابہؓ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہ کا لشکر بھی روانہ ہو گیا تو مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں ہو سکے گا.چنانچہ ا کا بر صحابہ کا ایک وفد جس میں حضرت عمرؓ اور حضرت علی بھی شامل تھے اور جو اپنی شجاعت اور دلیری کے لحاظ سے مشہور تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کچھ عرصہ کیلئے اس لشکر کو روک لیا جائے.جب بغاوت فرو ہو جائے تو پھر بیشک اُسے بھیج دیا جائے مگر اب اس کا بھیجنا خطرہ سے خالی نہیں ، مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں اور دشمن کا لشکر ہماری طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نہایت غصہ کی حالت میں فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوقحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اُسے روک لے.میں اس لشکر کو کسی صورت میں روک نہیں سکتا.اگر تمام عرب باغی ہو گیا ہے تو بے شک ہو جائے اور اگر مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تو بے شک نہ رہے، خدا کی قسم ! اگر دشمن کی فوج مدینہ میں گھس آئے اور ہمارے سامنے مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے.۵۴ اگر تم دشمن کی فوجوں سے ڈرتے ہو تو بے شک میرا ساتھ چھوڑ دو میں اکیلا تمام دشمنوں کا مقابلہ

Page 179

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۳ جلد دوم کرونگا.یہ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کی صداقت کا کتنا بڑا ثبوت ہے.دوسرا سوال زکوۃ کا تھا.صحابہ نے عرض کیا کہ اگر آپ لشکر نہیں روک سکتے تو صرف اتنا کر لیجئے کہ ان لوگوں سے عارضی صلح کرلیں اور انہیں کہہ دیں کہ ہم اس سال تم سے زکوۃ نہیں لیں گے.اس دوران میں ان کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا اور تفرقہ کے مٹنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائیگی.موجودہ صورت میں جب کہ وہ جوش سے بھرے ہوئے ہیں اور لڑنے مرنے کیلئے تیار ہیں ان سے زکوۃ وصول کرنا مناسب نہیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا ہر گز نہیں ہوگا.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ لوگ اونٹ کے گھٹنے کو باندھنے والی ایک رسی بھی زکوۃ میں دیا کرتے تھے اور اب نہیں دیں گے تو میں اُس وقت تک ان سے جنگ جاری رکھوں گا جب تک وہ رسی بھی اُن سے وصول نہ کرلوں.اس پر صحابہ نے کہا کہ اگر جیش اسامہ بھی چلا گیا اور ان لوگوں سے عارضی صلح بھی نہ کی گئی تو پھر دشمن کا کون مقابلہ کرے گا.مدینہ میں تو یہ بڑھے اور کمزور لوگ ہیں اور یا صرف چند نوجوان ہیں وہ بھلا لاکھوں کا کیا مقابلہ کر سکتے ہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا.اے دوستو ! اگر تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ابو بکڑا کیلا ان کا مقابلہ کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوگا.۵۵ یہ دعویٰ اُس شخص کا ہے جسے فنونِ جنگ سے کچھ زیادہ واقفیت نہ تھی اور جس کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ دل کا کمزور ہے.پھر یہ جرات ، یہ دلیری ، یہ یقین اور یہ وثوق اُس میں کہاں سے پیدا ہوا.اسی بات سے یہ یقین پیدا ہوا کہ حضرت ابو بکر نے سمجھ لیا تھا کہ میں خلافت کے مقام پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہوا ہوں اور مجھ پر ہی تمام کام کی ذمہ داری ہے.پس میرا فرض ہے کہ میں مقابلہ کیلئے نکل کھڑا ہوں کا میابی دینا یا نہ دینا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر وہ کامیابی دینا چاہے گا تو آپ دے دے گا اور اگر نہیں دینا چاہے گا تو سارے لشکر مل کر بھی کامیاب نہیں کر سکتے.حضرت عمرؓ کے بہادرانہ کارنامے اس کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے تو وہی عمر جو ابو بکر کو یہ مشورہ دیتے تھے کہ اتنے بڑے لشکر کا ہم کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں وہ بہت ہیں اور ہم تھوڑے جیش اسامہ

Page 180

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۴ جلد دوم کو روک لیا جائے تا کہ وہ ہماری مدد کر سکے ، اُن میں بھی وہی تو کل آ جاتا ہے اور وہ ایک وقت میں ساری دنیا سے جنگ کرتے ہیں اور ذرا نہیں گھبراتے چنانچہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں رومی حکومت سے لڑائی ہوئی.وہ حکومت بڑی زبردست تھی اور اُس سے مسلمانوں کا مقابلہ کرنا ایسا ہی تھا جیسے افغانستان انگریزی حکومت سے لڑائی شروع کر دے مگر با وجود اتنی زبر دست حکومت کے ساتھ جنگ جاری ہونے کے جب حضرت عمرؓ کے سامنے یہ سوال پیش ہوا کہ کسری کی فوجوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں سرگرمی دکھانی شروع کر دی ہے اور اُن کے بہت سے علاقے جو مسلمانوں کے قبضہ میں تھے اُن میں بغاوت اور سرکشی کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں تو وہی عمر جو ابو بکر کو یہ مشورہ دیتے تھے کہ اگر ہم ایک ہی وقت میں ایک طرف جیش اسامہ کو رومیوں کے مقابلہ میں بھیج دیں گے اور دوسری طرف اندرونی باغیوں کا مقابلہ کریں گے تو یہ سخت غلطی ہوگی حکم دیتے ہیں کہ فوراً ایران پر حملہ کر دو.صحابہؓ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں دوز بر دست حکومتوں سے کس طرح مقابلہ ہو گا مگر آپ فرماتے ہیں کچھ پرواہ نہیں جاؤ اور مقابلہ کرو.مسلمان چونکہ اُس وقت رومی حکومت سے جنگ کرنے میں مشغول تھے اس لئے ایران پر مسلمانوں کا حملہ اس قدر دور از قیاس تھا کہ ایران کے بادشاہ کو جب یہ خبریں پہنچیں کہ مسلمان فوجیں بڑھتی چلی آ رہی ہیں تو اُس نے ان خبروں کو کوئی اہمیت نہ دی اور کہا کہ لوگ خواہ مخواہ جھوٹی افواہیں اُڑا رہے ہیں مسلمان بھلا ایسی حالت میں جب کہ وہ پہلے ہی ایک خطر ناک جنگ میں مبتلاء ہیں ایران پر حملہ کرنے کا خیال بھی کر سکتے ہیں.چنانچہ کچھ عرصہ تک تو امیرانیوں کی شکست کی بڑی وجہ یہی رہی کہ دارالخلافہ سے مسلمانوں کے مقابلہ میں کوئی فوج نہیں آتی تھی اور بادشاہ خیال کرتا تھا کہ لوگ جھوٹی خبر میں اُڑا رہے ہیں مگر جب کثرت اور تواتر کے ساتھ اُسے اس قسم کی خبریں پہنچیں تو اُس نے اپنا ایک جرنیل بھیجا اور اُسے حکم دیا کہ میرے پاس صحیح حالات کی رپورٹ کرو.چنانچہ اس نے جب رپورٹ کی کہ مسلمان واقع میں حملہ کر رہے ہیں اور وہ بہت سے حصوں پر قابض بھی ہو چکے ہیں تب اُس نے اُن کے مقابلہ کیلئے فوج بھیجی.اس سے تم اندازہ لگا لو کہ مسلمانوں کا اس لڑائی میں گو دنا بظاہر کتنا خطر ناک تھا جب کہ اس کے ساتھ ہی وہ رومی لشکروں کا بھی مقابلہ

Page 181

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۵ جلد دوم کر رہے تھے مگر حضرت عمر کو خدا تعالیٰ نے مقام خلافت پر کھڑا کرنے کے بعد جو قوت بخشی اُس کے آگے ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہ تھی.حضرت ابو ہریرہ کا کسری کے رومال میں تھوکنا ہی وہ جنگ ہے جس میں مسلمانوں کو جب فتح حاصل تو مالِ غنیمت میں کسری کا ایک رومال بھی آیا جو حضرت ابو ہریرہ کو ملا.ایک دن انہیں کھانسی اُٹھی تو انہوں نے کسری شاہ ایران کا رومال نکال کر اس میں تھوک دیا اور پھر کہا بخ بخ ابوھریرہ.کہ واہ ، واہ ابو ہریرہ تیری بھی کیا شان ہے کہ تو آج کسری شاہ ایران کے رو مال میں ٹھوک رہا ہے.لوگوں نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض دفعہ مجھے اتنے فاقے ہوتے تھے کہ میں بھوک سے بیتاب ہو کر بیہوش ہو جاتا تھا اور لوگ یہ سمجھ کر کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے میرے سر پر جھوتیاں مارنی شروع کر دیتے تھے مگر آج یہ حالت ہے کہ میں شاہی رومال میں تھوک رہا ہوں ۵۲ تو يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بي شَيْئًا کی علامت خدا تعالیٰ نے خلفائے راشدین کے ذریعہ نہایت واضح رنگ میں پوری فرمائی اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے سوا کبھی کسی کا خوف اپنے دل میں نہیں آنے دیا.حضرت عثمان اور حضرت علی کا دلیرانہ مقابلہ اسی طرح حضرت عثمان جیسے باحیا اور رقیق القلب انسان نے اندرونی مخالفت کا مقابلہ جس یقین سے کیا وہ انسانی عقل کو دنگ کر دیتا ہے.حالانکہ وہ عام طور پر کمزور سمجھے جاتے ہیں مگر جب ان کا اپنا زمانہ آیا تو انہوں نے ایسی بہادری اور جرات سے کام لیا کہ انسان ان واقعات کو پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے.یہی حال حضرت علیؓ کا ہے کسی مخالفت یا خطرے کی انہوں نے پرواہ نہیں کی حالانکہ اندرونی خطرے بھی تھے اور بیرونی بھی.مگر ان کے مد نظر صرف یہی امر رہا کہ خدا تعالیٰ کی مرضی پوری ہو اور ذرا بھی کسی سے خوف کھا کر اس منشاء الہی میں جو انہوں نے سمجھا تھا فرق نہیں آنے دیا.

Page 182

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم غرض تمام خلفاء کے حالات میں ہمیں يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کا نہایت اعلیٰ درجہ کا نظارہ نظر آتا ہے جو اس بات کا یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں خود مقام خلافت پر کھڑا کیا تھا اور وہ آپ ان کی تائید اور نصرت کا ذمہ دار رہا.آیت استخلاف پر اعتراضات اب میں اُن اعتراضات کو لیتا ہوں جو عام طور پر اس آیت پر کئے جاتے ہیں.پہلا اعتراض اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں اُمتِ مسلمہ سے وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد سے اور اُمت کو خلیفہ بنانے کا وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد کو.پس اس سے مراد مسلمانوں کو غلبہ اور حکومت کا مل جانا ہے.دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ کہا ہے اور پہلی قوموں کو خلافت نبوت یا ملوکیت کے ذریعہ سے ملی تھی.پس اسی حد تک تشبیہ تسلیم کی جاسکتی ہے.ہم مانتے ہیں کہ مسلمانوں میں نبی ہوں گے اور پھر یہ کہ ملوک ہوں گے مگر جس قسم کی خلافت تم کہتے ہو وہ نہ تو نبوت کے تحت آتی ہے اور نہ ملوکیت کے تحت آتی ہے.پھر اس کا وجود کہاں سے ثابت ہوا.تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر اس خلافت کو تسلیم بھی کر لیا جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوئی تو چونکہ اس خلافت کے ساتھ حکومت بھی شامل تھی اس لئے وَجَعَلَكُمْ شُلُوا کے ماتحت وہ آ سکتی تھی لیکن اس خلافت کا ثبوت کہاں سے ملا جو جماعت احمدیہ میں قائم ہے.یہ خلافت نہ تو خلافت نبوت ہے اور نہ خلافت ملوکیت.چوتھا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت سے اگر افراد مراد لئے جائیں جماعت نہ لی جائے تو پھر خلافت نبوت اور خلافت ملوکیت کا پتہ چلتا ہے اور معنی یہ بنتے ہیں کہ اس اُمت میں سے بعض افراد نبی ہوں گے اور بعض افراد ملوک ہوں گے.مگر جو خلافتِ نبوت پہلے جاری تھی اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کر دیا اور تم خود بھی تسلیم کرتے ہو کہ جس قسم کے نبی پہلے آیا کرتے تھے اب اس قسم کے نبی نہیں آ سکتے اور ملوکیت کے متعلق بھی تم خود قائل ہو کہ خلفاء ملوک میں شامل نہ تھے.جیسا کہ احادیث میں آتا ہے عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ

Page 183

خلافة على منهاج النبوة 172 جلد دوم صلى الله عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ لا تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَا جِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلكاً عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ - ۵۷ یعنی رسول کریم ﷺ نے فرمایا.تم میں نبوت رہے گی جب تک خدا چاہے گا پھر خدا اس نعمت کو اُٹھالے گا اور تمہیں خلافت علی منہاج النبوۃ کی نعمت دے گا اور یہ خلافت تم میں اس وقت تک رہے گی جب تک خدا چاہے گا.پھر خدا اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا اور جب تک چاہے گا تم میں ملوکیت کو قائم رکھے گا.پس جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفاء کے بادشاہ ہونے سے بھی انکار کیا ہے جیسا کہ فرمایا کہ پہلے خلافت ہوگی اور پھر ملوکیت تو معلوم ہوا کہ خلافت نبوت اور خلافت ملوکیت دونوں اُمت محمدیہ کے افراد کو نہیں مل سکتیں اور جب صورت یہ ہے تو اس آیت سے کسی فردی خلافت کا ثبوت نہ ملا بلکہ صرف قومی خلافت ہی مراد لی جاسکتی ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں.اس سوال کا جواب کہ اس آیت میں اب میں ان تمام سوالات کے جواب دیتا ہوں.پہلا اُمت مسلمہ سے وعدہ ہے، نہ کہ بعض افراد سے سوال کہ اس آیت میں اُمتِ مسلمہ سے وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد سے اس کے یہ جوابات ہیں.(۱) بے شک وعدہ قوم سے ہے مگر قوم سے وعدہ کے یہ معنی نہیں کہ افراد کے ذریعہ سے وہ وعدہ پورا نہ ہو.بعض وعدے قوم سے ہوتے ہیں لیکن افراد کے ذریعہ سے پورے کئے جاتے ہیں اور کہا یہی جاتا ہے کہ قوم سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہو گیا.اس کی مثالیں دنیا کی ہر زبان میں ملتی ہیں.مثلاً ہماری زبان میں کہا جاتا ہے کہ انگریز با دشاہ ہیں.اب کیا اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہر انگریز بادشاہ ہے.ہر انگریز تو نہ بادشاہ ہے اور نہ بادشاہ بن سکتا ہے مگر کہا یہی جاتا ہے کہ انگریز با دشاہ ہیں.اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فلاں قوم حاکم ہے حالانکہ ساری قوم کہاں حاکم ہوتی ہے چند افراد کے سپر دحکومت کا نظم ونسق ہوتا ہے اور باقی سب اس کے تابع ہوتے ہیں.اسی طرح کہا جاتا ہے فلاں قوم بڑی دولت مند ہے مگر اس

Page 184

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۸ جلد دوم کے یہ معنی تو نہیں ہوتے کہ اس قوم کا ہر فرد دولتمند ہے.انگریزوں کے متعلق عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے دولتمند ہیں حالانکہ ان میں بڑے بڑے غریب بھی ہوتے ہیں.وہ ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم و مغفور نے ایک دفعہ سنایا کہ لنڈن میں تھے تو ایک دن جس مکان میں وہ رہتے تھے اس کا کوڑا کرکٹ اٹھا کر خادمہ نے جب باہر پھینکا تو ایک انگریز لڑکا دوڑ کر آیا اور اُس نے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں سے ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا نکال کر کھا لیا.اسی طرح برنڈزی ۵۸ میں میں نے دیکھا کہ عورتیں اپنے سروں پر برتن رکھ کر پانی لینے جاتی تھیں اور ان کے بچوں نے جو پتلونیں پہنی ہوئی ہوتی تھیں ان کا کچھ حصہ کسی کپڑے کا ہوتا تھا اور کچھ حصہ کسی کپڑے کا مگر کہا یہی جاتا ہے کہ انگر یز بڑے دولتمند ہیں.غرض قوم سے وعدہ کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ افراد کے ذریعہ وہ وعدہ پورا نہ ہو.کئی وعدے قوم سے ہی ہوتے ہیں لیکن پورے وہ افرد کے ذریعہ کئے جاتے ہیں.اس کی مثال ہمیں قرآن کریم سے بھی ملتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ علَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَا وَجَعَلَكُمْ قُلُوكًا یعنی موسی نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تم میں اپنے انبیاء مبعوث کئے وَجَعَلَكُمْ مُّلُوكًا اور اس نے تم کو بادشادہ بنایا.اب کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ سب بنی اسرائیل بادشاہ بن گئے تھے.یقینا بنی اسرائیل میں بڑے بڑے غریب بھی ہوں گے مگر موسی" ان سے یہی فرماتے ہیں کہ وَجَعَلَكُمْ تُلُوعًا اس نے تم سب کو بادشاہ بنایا.مراد یہی ہے کہ جب کسی قوم میں سے بادشاہ ہو تو چونکہ وہ قوم اُن انعامات اور فوائد سے حصہ پاتی ہے جو بادشاہت سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے بالفاظ دیگر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بادشاہ ہوگئی ) غرض جب جَعَلَكُمْ تُلُوعًا کی موجودگی کے باوجود اس آیت کے یہ معنی نہیں کئے جاتے کہ ہر یہودی بادشاہ بنا تو وعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهیم سے یہ کیونکر نتیجہ نکال لیا جاتا

Page 185

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۹ جلد دوم ہے کہ یہ وعدہ بعض افراد کے ذریعہ پورا نہیں ہونا چاہئے بلکہ امت کے ہر فرد کو خلافت کا انعام ملنا چاہئے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہود کے متعلق جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ جَعَلَكُمْ مُّلُوا تو مفسرین نہایت ٹھنڈے دل کے ساتھ یہ کہہ دیتے ہیں کہ گو بادشاہت چند افراد کو ہی ملی مگر چونکہ اُن کے ذریعہ قوم کا عام معیار بلند ہو گیا اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سب کو بادشاہت ملی.مگر جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ وعدہ سب قوم سے ہے ہم یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ بعض افراد کے ذریعہ یہ وعدہ پورا ہوا حالانکہ اگر اس سے قومی غلبہ ہی مراد لے لیا جائے تو بھی ہر مومن کو یہ غلبہ کہاں حاصل ہوتا ہے.پھر بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ بعض کو غلبہ ملتا ہے اور بعض کو نہیں ملتا.صحابہ میں سے بھی کئی ایسے تھے جو قو می غلبہ کے زمانہ میں بھی غریب ہی رہے اور ان کی مالی حالت کچھ زیادہ اچھی نہ ہوئی ) حضرت ابو ہریرہ کا ہی لطیفہ ہے.جب حضرت علی اور معاویہ کی آپس میں جنگ ہوئی اور صفین کے مقام پر دونوں لشکروں نے ڈیرے ڈال دیئے تو باوجود اس کے کہ حضرت علی اور حضرت معاویہؓ کے کیمپوں میں ایک ایک میل کا فاصلہ تھا جب نماز کا وقت آتا تو حضرت ابو ہریرہ حضرت علیؓ کے کیمپ میں آ جاتے اور جب کھانے کا وقت آتا تو حضرت معاویہ کے کیمپ میں چلے جاتے.کسی نے اُن سے کہا کہ آپ بھی عجیب آدمی ہیں اُدھر حضرت علی کی مجلس میں چلے جاتے ہیں اور ادھر معاویہ کی مجلس میں شریک ہو جاتے ہیں.یہ کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگے.نما ز علی کے ہاں اچھی ہوتی ہے اور کھانا معاویہ کے ہاں اچھا ملتا ہے اس لئے جب نماز کا وقت ہوتا ہے میں اُدھر چلا جاتا ہوں اور جب روٹی کا وقت آتا ہے تو ادھر آ جاتا ہوں.معاویہ کے ہاں سے انہیں چونکہ کھانے کیلئے پلاؤ اور متنجن وغیرہ ملتا تھا اس لئے وہ اُس وقت اُدھر چلے جاتے مگر نماز چونکہ حضرت علی کی رقت اور سوز والی ہوتی تھی اس لئے نماز کے وقت وہ آپ کے ساتھ شریک ہو جاتے.ایک غیر مبائع دوست کا لطیفہ ہمارے بعض غیر مبائع دوستوں کا بھی ایسا ہی حال ہے بلکہ اُن کا لطیفہ تو ابو ہریرہ کے لطیفے

Page 186

خلافة على منهاج النبوة 12 • جلد دوم سے بھی بڑھ کر ہے.میں ایک دفعہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی دوست نے ایک غیر مبائع کے متعلق بتایا کہ وہ کہتے ہیں عقا ئد تو ہمارے ہی درست ہیں مگر دعائیں میاں صاحب کی زیادہ قبول ہوتی ہیں.گویا جیسے ابو ہریرۃ نے کہا تھا کہ روٹی معاویہ کے ہاں سے اچھی ملتی ہے اور نماز علی کے ہاں اچھی ہوتی ہے.اسی طرح اُس نے کہا عقا ئد تو ہمارے ٹھیک ہیں مگر دعا ئیں اِن کی قبول ہوتی ہیں.غرض قوم میں بادشاہت کے آجانے کے باوجود پھر بھی کئی لوگ غریب ہی رہتے ہیں مگر کہا یہی جاتا ہے کہ وہ قوم بادشاہ ہے حالانکہ بادشاہ ایک ہی ہوتا ہے باقی سب بادشاہ نہیں ہوتے.اسی طرح یہود کے متعلق یہ کہا گیا کہ جَعَلَكُمْ قُلُوعًا.اگر یہی ضروری ہے کہ جب خدا یہ کہے کہ میں نے تم کو بادشاہ بنایا تو قوم کا ہر فرد با دشاہ بنے تو ثابت کرنا چاہئے کہ ہر یہودی کو خدا نے بادشاہ بنایا.مگر ایسا کوئی ثابت نہیں کر سکتا بلکہ یہی کہا جاتا ہے کہ جب کسی قوم میں سے بادشاہ ہو تو چونکہ وہ تمام قوم بادشاہت کے فوائد سے حصہ پاتی ہے اس لئے ہم دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ قوم بادشاہ ہوگئی.اسی طرح جب کسی قوم میں سے بعض افرا د کو خلافت مل جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اُس قوم کو وہ انعام ملا.یہ ضروری نہیں ہوگا کہ ہر فرد کو یہ انعام ملے.دوسری مثال اس کی یہ آیت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بما انزل اللهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَ يَكْفُرُونَ بِمَا وراءه ۵۹ که جب یہود سے یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن میں جو کچھ اُترا ہے اُس پر ایمان لاؤ تو وہ کہتے ہیں نُؤْمِنُ بِمَا ہم تو اس پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوا ہے.اب یہ امر صاف ظاہر ہے کہ وحی اُن پر نہیں اتری تھی بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اتری تھی.مگر وہ کہتے ہیں ہم پر اُتری گویا وہ حضرت موسیٰ یا دیگر انبیاء علیہم السلام کے کلام کے متعلق انزل علينا کہتے ہیں حالانکہ وہ کلام اُن پر نہیں بلکہ اُن کے انبیاء پر اُتر ا تھا.پس بعض افراد پر جو ایسا انعام نازل ہو جس سے ساری قوم کو فائدہ پہنچتا ہو تو یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ساری قوم کو ملا.مثلاً زید کے پاس روپیہ ہو تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سارا شہر دولتمند ہے لیکن

Page 187

خلافة على منهاج النبوة 121 جلد دوم اگر شہر میں ایک عالم بھی ایسا ہو جو درس و تدریس کے ذریعہ لوگوں کی علمی خدمت کر رہا ہو تو اس شہر کو عالموں کا شہر کہہ دیا جاتا ہے.اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ قادیان میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں.عالم بھی ہیں جاہل بھی ہیں ، دُکاندار بھی ہیں ، مزدور بھی ہیں ، پڑھے لکھے بھی ہیں اور ان پڑھ بھی ہیں، مگر ارد گرد کے دیہات میں قادیان کے جب بھی دو چار آدمی چلے جائیں تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ قادیان کے مولوی‘ آ گئے چاہے وہ اینٹیں ڈھونے والے مزدور ہی کیوں نہ ہوں.اس کی وجہ یہی ہے کہ قادیان میں ہر وقت علم کا چرچا رہتا ہے اور اس علمی چرچے کی وجہ سے قادیان کے ہر آدمی کو مولوی کہہ دیا جاتا ہے.جیسے باپ حکیم ہوتا ہے تو بیٹا خواہ طب کا ایک حرف بھی نہ جانتا ہو اسے لوگ حکیم کہنے لگ جاتے ہیں.تو جہاں شدید نسبت ہوتی ہے وہاں اس نسبت کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور اُس کی وجہ سے افراد بھی اس میں شریک سمجھے جاتے ہیں.جب کسی نبی پر خدا کا کلام نازل ہو تو وہ نبی جس قوم میں سے ہو اس کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اس پر خدا کا کلام نازل ہوا حالانکہ کلام نبی پر نازل ہے.ہوتا ہے.اسی طرح قوم میں سے کوئی بادشاہ ہو تو ساری قوم کو بادشاہ سمجھا جانے لگتا ہے.انگلستان میں کئی ایسے غریب لوگ ہیں جو دوسروں سے بھیک مانگتے ہیں لیکن ہندوستان میں اگر وہاں کا ایک چوہڑا بھی آ جائے تو اسے لوگ دور سے سلام کرنے لگ جاتے ہیں.پولیس والے بھی خیال رکھتے ہیں کہ صاحب بہادر کی کوئی ہتک نہ کر دے حالانکہ اپنے ملک میں اُسے کوئی اعزاز حاصل نہیں ہوتا مگر چونکہ قوم کے بعض افراد کو بادشاہت مل گئی اس لئے قوم کا ہر فر د معزز سمجھا جانے لگا.کچھ عرصہ ہوا ہندوستان کے ایک راجہ صاحب ولایت گئے.جب وہاں سے واپس آئے اور بمبئی میں پہنچے تو انہیں کوئی ضروری کام تھا اس لئے انہوں نے چاہا کہ بندرگاہ سے جلدی نکلنے کی اجازت مل جائے.پاسپورٹ دیکھنے پر ایک انگریز مقرر تھا.وہ جلدی سے پاسپورٹ لے کر آگے بڑھے اور کہا کہ میرا پاسپورٹ دیکھ لیجئے مجھے ایک ضروری کام ہے اور میں نے جلدی جانا ہے مگر اس نے کہا ٹھہرو میں باری باری دیکھوں گا.چنانچہ اس نے راجہ کی کوئی پرواہ نہ کی اور سب کے بعد اسے گزرنے کی اجازت دی.اس پر اخبارات میں

Page 188

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۲ جلد دوم بڑا شور اُٹھا کہ راجہ صاحب کی ہتک ہوئی ہے مگر کسی نے اس انگریز کو پوچھا تک نہیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا.تو جس قوم کو غلبہ حاصل ہو اس کے غرباء کو بھی ایک رنگ کی عزت حاصل ہو جاتی ہے.امریکہ میں جب شراب کی بندش ہوئی تو اُس وقت بعض غیر ممالک کے جہاز چوری چوری وہاں شراب پہنچاتے تھے.ایک دفعہ ایک انگریزی جہاز وہاں شراب لے گیا.اتفاقاً امریکہ والوں کو علم ہو گیا اور اُن کے جہازوں نے اُس جہاز کا تعاقب کیا مگر اس دوران میں وہ ساحلِ امریکہ سے تین میل دور نکل آیا اگر اُس حد کے اندر جہاز گرفتار ہو جاتا تو اور بات تھی مگر اب چونکہ یہ جہاز امریکہ کی مقررہ حد سے باہر نکل آیا اس لئے بے فکر ہو کر چلنے لگ گیا.اس پر امریکہ کے جہازوں نے سگنل کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ ٹھہر جاؤ اور اگر نہ ٹھہرے تو تم پر بمباری کی جائے گی اس پر انگریزی جہاز نے اپنا جھنڈا اونچا کر کے اُس پر بجلی کی روشنی ڈال دی.مطلب یہ تھا کہ پہلے یہ دیکھ لو کہ یہ جہاز کس قوم کا ہے اگر اس کے بعد بھی تم میں بمباری کی ہمت ہوئی تو بیشک کر لینا.امریکہ والوں نے جب دیکھا کہ اس جہاز پر انگریزی بھنڈا لہرا رہا ہے تو وہ اُسی وقت واپس چلے گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے اس کا مقابلہ کیا تو امریکہ اور انگلستان کے درمیان جنگ چھڑ جائے گی.تو کوئی قوم جب غلبہ پالیتی ہے تو بعض باتوں میں اس کے ادنیٰ افراد کو بھی عزت مل جاتی ہے.یہاں کے کئی ہندو دوستوں نے مجھے سنایا کہ جب وہ باہر جاتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں کہ وہ قادیان سے آئے ہیں تو لوگ اُن کی بڑی خاطر تواضع کرتے ہیں محض اس لئے کہ اُن کا قادیان سے تعلق ہوتا ہے.عرب سے جب کوئی آدمی ہندوستان میں آئے تو ہمارے ہندوستانیوں کی عرب صاحب، عرب صاحب کہتے زبانیں خشک ہو جاتی ہیں حالانکہ اپنے ملک میں اُسے کوئی پوچھتا بھی نہیں.اپنی جماعت کو ہی دیکھ لو.ہماری جماعت میں چونکہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کی نعمت رکھی ہوئی ہے اس لئے بہت سے فوائد قوم کو پہنچ رہے ہیں.کہیں کسی احمدی کو ذرا بھی تکلیف ہو تو ساری دنیا میں شور مچ جاتا ہے.اسی طرح اگر لوگوں کو کسی امداد کی ضرورت ہو تو وہ قادیان

Page 189

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۳ جلد دوم میں پہنچ جاتے ہیں اور یہاں سے اُن کی اکثر ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں.اگر خدانخواستہ ہمارے اندر بھی ویسا ہی تفرقہ ہوتا جیسا مسلمانوں کے اندر ہے تو نہ ہماری آواز میں کوئی طاقت ہوتی اور نہ مجموعی رنگ میں افراد جماعت کو وہ فوائد پہنچتے جواب پہنچ رہے ہیں.افغانستان میں جب ہماری افغانستان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنیکا اثر " جماعت کے بعض آدمی شہید ہوئے تو ہم نے صدائے احتجاج بلند کی اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی مؤثر ہوئی کہ چھ مہینے تک لنڈن کے گلی کوچوں میں اس کا چرچا رہا اور افغانی سفیر کیلئے شرم کے مارے باہر نکلنا مشکل ہو گیا.جب بھی وہ نکلتا لوگ اُسے طعنے دیتے اور کہتے کہ کیا تمہارے ملک میں یہ آزادی ہے حالانکہ افغانستان میں روزانہ کئی پٹھان مارے جاتے ہیں اور کوئی ان کا ذکر تک نہیں کرتا.تو جماعتی نظام کی وجہ سے چونکہ افراد جماعت کو بہت کچھ فوائد حاصل ہوتے ہیں اس لئے جب قوم کے بعض افراد کو کوئی ایسا انعام ملتا ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ وہ انعام اس قوم کو ملا کیونکہ قوم اُن انعامات اور فوائد سے حصہ پاتی ہے جو خلافت یا بادشاہت سے تعلق رکھتے ہیں.غرض چونکہ ملوکیت کے ذریعہ سے ساری قوم کی عزت ہوتی ہے اس وجہ سے جَعَلَكُمْ قُلُوكًا فرمایا.اور چونکہ خلافت سے سب قوم نے نفع اٹھانا تھا اور اُٹھایا اس لئے خلافت کے بارہ میں بھی یہی کہا کہ تم کو خلیفہ بنایا جائے گا.خلافت ایک انتخابی چیز ہے جس دوسرا جواب یہ ہے کہ خلافت چونکہ انتخابی امر ہے اور انتخابی امر میں سب قوم کا دخل میں سب قوم کا دخل ہوتا ہے ہوتا ہے اس لئے انتخاب پر زور دینے کیلئے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمُ کہا گیا کہ چونکہ یہ وعدہ قوم سے ہے اس لئے ورثہ کے طور پر یہ عہدہ نہیں مل سکتا بلکہ وہی خلیفہ ہو گا جس پر قوم جمع ہو.اس طرح انتخاب کے مسئلہ پر خاص طور پر زور دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ وہی شخص خلیفہ ہوسکتا ہے جس کی خلافت میں مومنوں کا ہاتھ ہو.بیشک یہ ایک الہی انعام ہے مگر یہ انعام ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ پہلے اپنے مومن بندوں کو دیتا ہے اور پھر ان کو نصیحت کرتا ہے کہ اپنے میں سے قابل ترین انسان کو منتخب

Page 190

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۴ جلد دوم کر کے اسے دے دو.پس وہ مومنوں کے ذریعہ سے خلافت کا انتخاب کراتا ہے تا کہ خلافت ورثہ کے طور پر نہ چل پڑے.اور ہمیشہ اس غرض کے لئے قوم بہترین لوگوں کو منتخب کیا کرے.پس اللہ تعالیٰ نے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ میں اُمت مسلمہ سے اس لئے وعدہ کیا ہے تا یہ امر ان کے ذہن نشین ہو جائے کہ خلافت کا وعدہ قومی ہے اور قوم کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا خلیفہ بنا دے گا.حضرت ابوبکر نے حضرت عمرؓ کو نامزد کیوں کیا تھا؟ اگر کہا جائے کہ جب قوم کے انتخاب سے ہی کوئی خلیفہ ہوسکتا ہے تو حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو نا مزد کیوں کیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے یونہی نامزد نہیں کر دیا بلکہ پہلے صحابہ سے آپ کا مشورہ لینا ثابت ہے.فرق ہے تو صرف اتنا کہ اور خلفاء کو خلیفہ کی وفات کے بعد منتخب کیا گیا اور حضرت عمرؓ کو حضرت ابو بکر کی موجودگی میں ہی منتخب کر لیا گیا.پھر آپ نے اسی پر بس نہیں کیا کہ چند صحابہؓ سے مشورہ لینے کے بعد آپ نے حضرت عمر کی خلافت کا اعلان کر دیا ہو بلکہ باوجود سخت نقاہت اور کمزوری کے آپ اپنی بیوی کا سہارا لے کر مسجد میں پہنچے اور لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! میں نے صحابہ سے مشورہ لینے کے بعد اپنے بعد خلافت کے لئے عمر کو پسند کیا ہے کیا تمہیں بھی ان کی خلافت منظور ہے؟ اس پر تمام لوگوں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا.پس یہ بھی ایک رنگ میں انتخاب ہی تھا.کیا حضرت معاویہؓ کا یزید کو خلیفہ اگر کہا جائے کہ پھر معاویہ کا یزید کو مقرر کرنا بھی انتخاب کہلائے گا کیونکہ انہوں مقرر کرنا بھی انتخاب کہلا سکتا ہے؟ نے بھی لوگوں کے سامنے اس معاملہ کو پیش کیا تھا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ خود معاویہ کا انتخاب نہیں ہوا اور جب ان کی اپنی خلافت ہی ثابت نہیں تو ان کے بیٹے کی خلافت کس طرح ثابت ہوسکتی ہے.ہم یزید کو معاویہ کا جانشین ماننے کیلئے تیار ہیں مگر ہم اسے خلیفہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ خلافت خود معاویہ کی بھی ثابت نہیں پھر ان کے بیٹے کی کس طرح ثابت ہو جائے.معاویہؓ ایک دُنیوی بادشاہ تھے اس

Page 191

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۵ جلد دوم لئے یزید کو بھی ہم ایک دُنیوی بادشاہ مان سکتے ہیں مگر خلیفہ تو نہ معاویہ تھے اور نہ یزید.پھر معاویہ نے جب یزید کے متعلق لوگوں سے مشورہ لیا تو اُس وقت وہ لوگوں کے حاکم تھے.ایسی صورت میں جو انہوں نے مشورہ لیا وہ کوئی مشورہ نہیں کہلا سکتا کیونکہ مشورہ میں آزادی ضروری ہے لیکن جہاں آزادی نہ ہو اور جہاں بادشاہ اپنی رعایا سے کہہ رہا ہو کہ میرے بیٹے کی بیعت کر لو وہاں رعایا مشورہ دینے میں کہاں آزاد ہو سکتی ہے اور کب وہ اس کی بات کا انکار کر سکتی ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے افغانستان کا بادشاہ اپنی رعایا سے کہہ دے کہ اے لوگو! مجھے خلیفہ مان لو اور جب وہ مان لیں تو کہہ دے لوگوں نے مجھے حکومت کے لئے منتخب کیا ہے.یہ ہرگز انتخاب نہیں کہلا سکتا اور نہ اس قسم کا مشورہ مشورہ کہلا سکتا ہے.مشورہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب لوگ آزاد ہوں اور ہر ایک کو اجازت ہو کہ وہ مختلی بالطبع ہو کر جس کا نام چاہے پیش کرے.پس اول تو معاویہ خود خلیفہ نہ تھے بلکہ بادشاہ تھے.دوسرے انہوں نے بادشاہ ہونے کی حالت میں اپنے بیٹے کی خلافت کا لوگوں کے سامنے معاملہ پیش کیا اور یہ ہرگز کوئی مشورہ یا انتخاب نہیں کہلا سکتا.ہے.باپ کا اپنے بیٹے کو خلافت کیلئے تجویز پھر باپ کا بیٹے کو خلافت کیلئے پیش کرنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ حقیقی کرنا سنتِ صحابہ کے خلاف ہے انتخاب نہیں تھا کیونکہ باپ کا اپنے بیٹے کو خلافت کیلئے پیش کرنا سنت صحابہ کے خلاف ہے.حضرت عمر کی وفات کے قریب آپ کے پاس لوگوں کے کئی وفود گئے اور سب نے متفقہ طور پر کہا کہ آپ کے بعد خلافت کا سے زیادہ اہل آپ کا بیٹا عبداللہ ہے آپ اسے خلیفہ مقرر کر جائیں.مگر آپ نے فرمایا مسلمانوں کی گردنیں ایک لمبے عرصہ تک ہمارے خاندان کے آگے جھکی رہی ہیں.اب میں چاہتا ہوں کہ یہ نعمت کسی اور کو ملے.10 اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر حضرت عمر کی وفات کے بعد لوگ آپ کے بیٹے عبد اللہ کو خلافت کیلئے منتخب کرتے تو یہ اور بات ہوتی مگر یہ جائز نہیں تھا کہ حضرت عمرؓ اپنے بیٹے کو خلافت کیلئے خود نامزد کر جاتے.اسی طرح اگر معاویہؓ اپنی موجودگی میں یزید کا معاملہ لوگوں کے سامنے پیش نہ کرتے اور بعد میں قوم اسے منتخب کرتی تو

Page 192

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم ہم اسے انتخابی بادشاہ کہہ سکتے تھے مگر اب تو نہ ہم اسے خلیفہ کہہ سکتے ہیں اور نہ انتخابی بادشاہ.ہم معاویہ کو گنہگار نہیں کہتے انہوں نے اُس وقت کے حالات سے مجبور ہو کر ایسا کیا مگر یزید کو بھی بلکہ خود معاویہ کو بھی خلیفہ نہیں کہہ سکتے ، ایک بادشاہ کہہ سکتے ہیں.یزید کا معاملہ تو جب معاویہ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا اُس وقت تمام صحابہ اسے ایک تمسخر سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہ تھی.چنانچہ تاریخ میں آتا ہے کہ معاویہؓ نے جب لوگوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اے مسلمانو ! تم جانتے ہو ہمارا خاندان عرب کے رؤساء میں سے ہے.پس آج مجھ سے زیادہ حکومت کا کون مستحق ہوسکتا ہے اور میرے بعد میرے بیٹے سے زیادہ کون مستحق ہے تو اُس وقت حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بھی ایک کو نہ میں بیٹھے ہوئے تھے.وہ کہتے ہیں جب میں نے معاویہ کو یہ بات کہتے سنا تو وہ چادر جو میں نے اپنے پاؤں کے گرد لپیٹ رکھی تھی اُس کے بند کھولے اور میں نے ارادہ کیا کہ کھڑے ہو کر معاویہؓ سے یہ کہوں کہ اے معاویہ ! اس مقام کا تجھ سے زیادہ حقدار وہ ہے جس کا باپ تیرے باپ کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو کر لڑتا رہا اور جو خود اسلامی لشکروں میں تیرے اور تیرے باپ کے مقابلہ میں جنگوں میں شامل رہا ہے.مگر پھر مجھے خیال آیا کہ یہ دنیا کی چیزیں میں نے کیا کرنی ہیں اس سے فتنہ اُٹھے گا اور مسلمانوں کی طاقت اور زیادہ کمزور ہو جائے گی.چنانچہ میں پھر بیٹھ گیا اور میں نے معاویہ کے خلاف کوئی آواز نہ اُٹھائی.تو صحابہ معاویہ کی اس حرکت کو بالکل لغو سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک اس کی کوئی قیمت نہیں تھی.یزید کے ایک بیٹے کی پھر یزید کی خلافت پر دوسرے لوگوں کی رضا تو الگ رہی خود اس کا اپنا بیٹا متفق نہ تھا بلکہ اس نے تخت حکومت سے دستبرداری تخت نشین ہوتے ہی بادشاہت سے انکار کر کے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی.یہ ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے مگر میں نہیں جانتا مسلمان مؤرخین نے کیوں اس واقعہ کو زیادہ استعمال نہیں کیا.حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ اس واقعہ کو بار بار دُہراتے کیونکہ یہ یزید کے مظالم کا ایک عبرتناک ثبوت ہے.

Page 193

خلافة على منهاج النبوة 122 جلد دوم تاریخ میں لکھا ہے کہ یزید کے مرنے کے بعد جب اس کا بیٹا تخت نشین ہوا جس کا نام بھی اپنے دادا کے نام پر معاویہ ہی تھا تو لوگوں سے بیعت لینے کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا اور چالیس دن تک باہر نہیں نکلا.پھر ایک دن وہ باہر آیا اور منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے تم سے اپنے ہاتھوں پر بیعت لی ہے مگر اس لئے نہیں کہ میں اپنے آپ کو تم سے بیعت لینے کا اہل سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ میں چاہتا تھا کہ تم میں تفرقہ پیدا نہ ہو اور اُس وقت سے لیکر اب تک میں گھر میں یہی سوچتا رہا کہ اگر تم میں کوئی شخص لوگوں سے بیعت لینے کا اہل ہو تو میں یہ امارت اُس کے سپر د کر دوں اور خود بری الذمہ ہو جاؤں مگر با وجود بہت غور کرنے کے مجھے تم میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آیا اس لئے اے لوگو! یہ اچھی طرح سن لو کہ میں اس منصب کے اہل نہیں ہوں اور میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا باپ اور میرا دادا بھی اس منصب کے اہل نہیں تھے.میرا باپ حسینؓ سے درجہ میں بہت کم تھا اور اس کا باپ حسن حسینؓ کے باپ سے کم درجہ رکھتا تھا.علی اپنے وقت میں خلافت کا حقدار تھا اور اس کے بعد بہ نسبت میرے دادا اور باپ کے حسن اور حسین خلافت کے زیادہ حقدار تھے اس لئے میں اس امارت سے سبکدوش ہوتا ہوں." اب یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے کہ جس کی چا ہو بیعت کر لو.اس کی ماں اُس وقت پردہ کے پیچھے اُس کی تقریر سن رہی تھی جب اُس نے اپنے بیٹے کے یہ الفاظ سنے تو بڑے غصہ سے کہنے لگی کہ کمبخت ! تو نے اپنے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے اور اس کی تمام عزت خاک میں ملا دی ہے.وہ کہنے لگا جو سچی بات تھی وہ میں نے کہہ دی ہے اب آپ کی جو مرضی ہو مجھے کہیں.چنانچہ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں بیٹھ گیا اور تھوڑے ہی دن گزرنے کے بعد وفات پا گیا.یہ کتنی زبردست شہادت اس بات کی ہے کہ یزید کی خلافت پر دوسرے لوگوں کی رضا تو الگ رہی خود اس کا اپنا بیٹا بھی متفق نہ تھا.یہ نہیں کہ بیٹے نے کسی لالچ کی وجہ سے ایسا کیا ہو.یہ بھی نہیں کہ اس نے کسی مخالفت کے ڈر سے ایسا کیا ہو بلکہ اس نے اپنے دل میں سنجیدگی کے ساتھ غور اور فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ میرے دادا سے علیؓ کا حق زیادہ تھا اور میرے باپ سے حسنؓ حسین کا.اور میں اس بوجھ کو اُٹھانے کیلئے تیار نہیں ہوں.پس معاویہ کا یزید کو مقرر کرنا کوئی

Page 194

خلافة على منهاج النبوة انتخاب نہیں کہلا سکتا.۱۷۸ جلد دوم آیت استخلاف کے متعلق حضرت مسیح تیسرا جواب احمدیوں کیلئے ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تشریح والسلام نے اس آیت کے معنی کرتے ہوئے ستر الخلافہ میں تحریر فرمایا ہے کہ اِنَّ اللَّهَ قَدْ وَعَدَ فِي هَذِهِ الْآيَاتِ لِلْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَتِ أَنَّهُ سَيَسْتَخْلِفَنَّ بَعْضَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُمْ فَضْلاً وَرَحْمَةً ١٣ اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں اور عورتوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ان میں سے بعض کو اپنے فضل اور رحم کے ساتھ خلیفہ بنائے گا.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرماتے ہیں کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ میں ساری قوم مراد نہیں بلکہ بعض افرادِ اُمت مراد ہیں تو کم از کم کوئی احمدی یہ معنی نہیں کر سکتا کہ یہاں ساری قوم مراد ہے.چو تھا جواب بھی احمدیوں کیلئے ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح خلافت محمدیہ کا استنباط موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہا اس آیت سے اپنی خلافت محمدیہ کا استنباط کیا ہے اور اس وعدہ میں خلافتِ نبوت بھی شامل کی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ خلافتِ نبوت سے ساری قوم مراد نہیں ہو سکتی بلکہ بعض افراد ہی ہو سکتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے جہاں بادشاہت کا ذکر کیا ہے وہاں تو یہ فرمایا ہے کہ جَعَلَكُمْ قُلُوعًا اس نے تم کو بادشاہ بنایا مگر جب نبوت کا ذکر کیا تو جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ فرمایا.یعنی اس نے تم میں انبیاء مبعوث فرمائے اور اس فرق کی وجہ یہی ہے کہ یہ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے فلاں قوم کو بادشاہ بنایا مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں قوم کو نبی بنایا.پس اگر نبوت کا وعدہ ساری قوم کو مخاطب کر نے کے باوجود بعض اشخاص کے ذریعہ پورا ہوسکتا ہے تو خلافت کا وعدہ بھی ساری قوم کو مخاطب کرنے کے باوجود بعض اشخاص کے ذریعہ پورا ہوسکتا ہے.اور جس طرح وعدے کے ایک حصے کا ایفاء ہوا اسی طرح وعدہ کے دوسرے حصے کا ایفا ممکن ہے.

Page 195

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت پانچواں جواب اس کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فعل نے اس پر شہادت دے دی ہے کہ اس کی اس آیت سے کیا مراد ہے.خدا نے یہ کہا تھا کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهيم کہ وہ ایمان اور عملِ صالح : قائم رہنے والوں کو زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے پہلوں کو خلیفہ بنایا.پس اگر اللہ تعالیٰ کی اس سے یہ مراد تھی کہ ہم جمہوریت قائم کر دیں گے تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جمہوریت قائم ہوئی یا نہیں.اور اگر خدا تعالیٰ کا یہ منشا تھا کہ بعض افرادِ اُمت کو خلافت ملے گی اور ان کی وجہ سے تمام قوم برکات خلافت کی مستحق قرار پا جائے گی تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ آیا اس رنگ میں مسلمانوں میں خلافت قائم ہوئی یا نہیں.بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس طرح اس نے یہ وعدہ پورا کیا وہی اس آیت سے مراد ہو سکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ عمدگی کے ساتھ اور کوئی پورا نہیں کر سکتا.اس نقطہ نگاہ کے ماتحت جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کے حالات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بعض افراد امت کو ہی خلافت ملی سب کو خلافت نہیں ملی.پس یا تو یہ مانو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگ الّذینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الشلحت کے مصداق نہیں رہے تھے اور جس طرح شیعہ کہتے ہیں کہ اُمت میں صرف اڑھائی مومن تھے اسی طرح یہ تسلیم کر لو کہ نَعُوذُ بِاللہ سب منافق ہی منافق رہ گئے تھے ، اس لئے خلافت قومی کا وعدہ ان سے پورا نہ ہوا اور اگر وہ ایمان اور عمل صالح پر قائم تھے تو پھر اگر ان سے ہی صحیح رنگ میں یہ وعدہ پورا نہیں ہوا تو اور کس سے ہو سکتا ہے.بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں جس رنگ میں خلافت قائم کی وہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت ہے اور خدا تعالیٰ کی یہ فعلی شہادت بتا رہی ہے کہ قوم سے اس وعدہ کو بعض افراد کے ذریعہ سے ہی پورا کیا جائے گا.

Page 196

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۰ جلد دوم خلفائے اربعہ کی پہلے خلفاء سے دوسرا اعتراض اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ بہت اچھا ہم نے مان لیا کہ اس آیت ہر رنگ میں مشابہت ضروری نہیں میں افراد کی خلافت کا ذکر ہے مگر تم خود تسلیم کرتے ہو کہ پہلوں میں خلافت ، یا نبوت کے ذریعہ سے ہوئی یا ملوک کے ذریعہ.مگر خلفائے اربعہ کو تم نہ نبی مانتے ہو نہ ملوک.پھر یہ وعدہ کس طرح پورا ہوا اور وہ اس آیت کے کس طرح مصداق ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں پہلوں کو خلافت یا تو نبوت کی شکل میں ملی یا ملوکیت کی صورت میں.مگر مشابہت کے یہ معنی نہیں مثلاً ہوتے کہ ہر رنگ میں مشابہت ہو بلکہ صرف اصولی رنگ میں مشابہت دیکھی جاتی ہے.کسی لمبے آدمی کا ہم ذکر کریں اور پھر کسی دوسرے کے متعلق کہیں کہ وہ بھی ویسا ہی لمبا ہے تو اب کوئی شخص ایسا نہیں ہو گا جو یہ کہے کہ تم نے دونوں کو لمبا قرار دیا ہے تو یہ مشابہت کس طرح درست ہوئی جبکہ ان میں سے ایک چور ہے اور دوسرا نمازی یا ایک عالم ہے اور دوسرا جاہل بلکہ صرف لمبائی میں مشابہت دیکھی جائے گی.ہر بات اور ہر حالت میں مشابہت نہیں دیکھی جائے گی.اس کی مثال قرآن کریم سے بھی ملتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً : شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُوا ۲۳ کہ ہم نے تمہاری طرف اپنا ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے اور وہ ویسا ہی رسول ہے جیسے ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے یہاں رسول کریم ﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آپس میں مشابہت بیان کی ہے حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی طرف بھیجے گئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک بادشاہ کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے.اسی طرح موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے مگر رسول کریم اللہ ساری دنیا کی ہدایت کیلئے بھیجے گئے.پھر موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا زمانہ صرف چند سو سال تک ممتد تھا اور آخر وہ ختم ہو گیا مگر رسول کریم ﷺ کی رسالت کا زمانہ قیامت تک کیلئے ہے.یہ حضرت موسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں اہم فرق ہیں مگر باوجود ان اختلافات کے مسلمان یہی کہتے ہیں بلکہ قرآن کہتا ہے صلى الله

Page 197

خلافة على منهاج النبوة IAL جلد دوم کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل ہیں حالانکہ نہ تو رسول کریم فرعون کی طرح کے کسی ایک بادشاہ کی طرف مبعوث ہوئے ، نہ آپ کسی ایک قوم کی طرف تھے بلکہ سب دنیا کی طرف تھے اور نہ آپ کی رسالت کسی زمانہ میں موسیٰ کی رسالت کی طرح ختم ہونے والی تھی.پس با وجود ان اہم اختلافات کے اگر آپ کی مشابہت میں فرق نہیں آتا تو اگر پہلوں کی خلافت سے جزوی امور میں خلفائے اسلام مختلف ہوں تو اس میں کیا حرج ہے.درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت صرف ان معنوں میں ہے کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو ایک شریعت کی کتاب ملی جو اپنے زمانہ کی ضروریات کے لحاظ سے تمام مضامین پر حاوی اور کامل تھی اسی طرح رسول کریم ﷺ کو ایک شریعت کی کتاب ملی جو قیامت تک کی ضروریات کیلئے تمام مضامین پر حاوی اور کامل ہے گو تو رات سے وہ بہر حال کئی درجے افضل اور اعلیٰ ہے.پھر جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ کو اللہ تعالیٰ ان کی وفات کے بعد اپنے انبیاء کے ذریعہ چلاتا رہا اسی طرح اُمت محمدیہ میں جب بھی کوئی خرابی پیدا ہو گی اللہ تعالیٰ ایسے لوگ کھڑا کرتا رہے گا جو ان خرابیوں کی اصلاح کریں گے.اسی طرح اس مشابہت کے ذریعے اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سو سال بعد ایک مسیح آیا اسی طرح اُمتِ محمدیہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سو سال بعد مسیح موعود آئے گا.یہ مقصد نہیں تھا کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک خاص زمانہ اور ایک خاص قوم کیلئے تھے اسی طرح رسول کریم ﷺ کی رسالت بھی کسی خاص زمانہ یا خاص قوم کیلئے مخصوص ہو گی.پس اگر پہلوں کی خلافت سے خلفائے راشدین کی بعض باتوں میں مشابہت ہو تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی مشابہت ثابت ہو گئی.یہ ضروری نہیں ہوگا کہ ہر بات میں پہلوں سے ان کی مشابہت دیکھی جائے.اصل امر تو یہ ہے کہ جس طرح ان کی قوم کو ان کی وفات کے بعد سنبھالنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے بعض وجود کھڑے کئے اسی طرح بتایا گیا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ایسے وجود کھڑے کرے گا جو آپ کی اُمت کو سنبھال لیں گے اور یہ مقصد بہ نسبت پہلے خلفاء کے رسول کریم ﷺ کے خلفاء نے

Page 198

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۲ جلد دوم زیادہ پورا کیا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائم مقام نبی تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قائم مقام نبی تھے ، اسی طرح اور انبیاء جب وفات پا جاتے تو ان کے کام کو جاری رکھنے کیلئے انبیا ء ہی ان کے جانشین مقرر کئے جاتے مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ پہلے انبیاء کے ذریعہ جو تمکین دین ہوئی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے ذریعہ نہیں ہوئی.اگر بصیرت اور شعور کے ساتھ حالات کا جائزہ لیا جائے تو اقرار کرنا پڑے گا کہ تمکین دین کے سلسلہ میں یوشع اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب وہ کام نہیں کر سکے جو ابو بکر اور عمر اور عثمان اور علیؓ نے کیا.نادان انسان کہے گا کہ تم نے نبیوں کی ہتک کی مگر اس میں ہتک کی کوئی بات نہیں.جب نبوت کا سوال آئے گا تو ہم کہیں گے کہ ابو بکر نبی نہیں ، عمر نبی نہیں ، عثمان نبی نہیں علی نبی نہیں مگر جب تمکین دین کا سوال آئے گا تو ہم کہیں گے کہ اس حصہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع خلفاء یقیناً پہلے انبیاء سے بڑھ کر ہیں.اصل بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء چونکہ کامل شریعت لے کر نہ آئے تھے اس لئے اُن کے بعد یا نبی مبعوث ہوئے یا ملوک پیدا ہوئے.چنانچہ جب اصلاح خلق کیلئے الہام کی ضرورت ہوتی تو نبی کھڑا کر دیا جاتا مگر اُسے نبوت کا مقام براه راست حاصل ہوتا اور جب نظام میں خلل واقع ہوتا تو کسی کو بادشاہ بنا دیا جاتا اور چونکہ لوگوں کو ابھی اس قدر ذہنی ارتقاء حاصل نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنی اصلاح کے لئے آپ جد و جہد کر سکتے اس لئے نہ صرف انبیاء کو اللہ تعالیٰ براہِ راست مقام نبوت عطا فرما تا بلکہ ملوک بھی خدا کی طرف سے ہی مقرر کئے جاتے تھے.جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ إن الله قد بحث لكُم طالوت ملا ۲۴ طالوت کو تمہارے لئے خدا نے بادشاہ بنا کر بھیجا ہے.گویا ابھی لوگ اس قابل نہیں ہوئے تھے کہ خود اپنے بادشاہ کا بھی انتخاب کر سکیں اور نہ شریعت اتنی کامل تھی کہ اُس کے فیضان کی وجہ سے کسی کو مقام نبوت حاصل ہوسکتا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ایک کامل تعلیم لے کر آئے تھے اس لئے دونوں قسم کے خلفاء میں فرق ہو گیا.پہلے انبیاء کے خلیفے تو نبی ہی ہوتے تھے گو انہیں نبوت مستقل اور براہ راست حاصل ہوتی تھی اور اگر انتظامی امور چلانے کیلئے ملوک مقرر ہوتے تو وہ انتخابی

Page 199

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۳ جلد دوم نہ ہوتے بلکہ یا تو ورثہ کے طور پر ملوکیت کو حاصل کرتے یا نبی انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت بطور با دشاہ مقرر کر دیتے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم چونکہ زیادہ اعلیٰ درجہ کی تھی اس لئے آپ کے بعد خلفائے انبیاء کی ضرورت نہ رہی اس کے ساتھ ہی ملوکیت کی ادنی صورت کو اُڑا دیا گیا اور اُس کی ایک کامل صورت آپ کو دی گئی اور یہ ظاہر ہے کہ اسلامی خلافت کے ذریعہ سے جس طرح قوم کے ساتھ وعدہ پورا ہوتا ہے کہ اُس میں انتخاب کا عصر رکھا گیا ہے اور قومی حقوق کو محفوظ کیا گیا ہے وہ پہلے بادشاہوں کی صورت میں نہ تھا اور زیادہ کامل صورت کا پیدا ہو جانا وعدہ کے خلاف نہیں ہوتا.جیسے اگر کسی کے ساتھ پانچ روپے کا وعدہ کیا جائے اور اُسے دس روپے دے دیئے جائیں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وعدہ کی خلاف ورزی ہوئی.پس اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلوں سے افضل تھے آپ کی خلافت بھی پہلے انبیاء کی خلافت سے افضل تھی.عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ دوسرا جواب یہ ہے کہ رسول کریم ہ فرماتے ہیں عُلَمَاءُ أُمَّتِي مراد روحانی خلفاء ہی ہیں كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ ۲۵ یعنی میری اُمت کے علماء انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ اُمت محمدیہ کا جو بھی عالم ہے وہ انبیائے بنی اسرائیل کی طرح ہے کیونکہ علماء کہلانے والے ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جن کی دینی اور اخلاقی حالت کو دیکھ کر رونا آتا ہے.میری عمر کوئی دس گیارہ برس کی ہوگی کہ نا نا جان مرحوم کے ساتھ بعض چیزیں خریدنے کیلئے میں امرتسر گیا.رام باغ میں میں نے دیکھا کہ ایک مولوی صاحب ہاتھ میں عصا اور تسبیح لئے اور ایک لمبا سا جبہ پہنے جا رہے ہیں اور اُن کے پیچھے پیچھے ایک غریب شخص اُن کی منتیں کرتا جاتا ہے اور کہتا جاتا ہے کہ مولوی صاحب مجھے خدا کیلئے روپے دے دیں، مولوی صاحب مجھے خدا کیلئے روپے دے دیں.مولوی صاحب تھوڑی دیر چلنے کے بعد اس کی طرف مڑ کر دیکھتے اور کہتے جا خبیث دُور ہو.آخر وہ بیچارہ تھک کر الگ ہو گیا.میں نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا بات تھی ؟ وہ کہنے لگا میں نے اپنی شادی کیلئے بڑی مشکلوں سے سو دو سو روپیہ جمع کیا تھا اور اس شخص کو مولوی اور

Page 200

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۴ جلد دوم دیندار سمجھ کر اس کے پاس امانتا رکھ دیا تھا مگر اب میں روپیہ مانگتا ہوں تو یہ دیتا نہیں اور کہتا ہے کہ میں تجھے جانتا ہی نہیں کہ تو کون ہے اور تو نے کب میرے پاس روپیہ رکھا تھا.اب بتاؤ ایسے علماء كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ ہو سکتے ہیں؟ اور کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ان جنگ اسلام علماء کے متعلق ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان علماء سے مراد دراصل خلفاء ہیں جو علماءِ رُوحانی ہوتے ہیں اور اس ارشاد نبوی سے اِس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ پہلے نبیوں کے بعد جو کام بعض دوسرے انبیاء سے لیا گیا تھا وہی کام میری اُمت میں اللہ تعالیٰ بعض علماء ربانی یعنی خلفائے راشدین سے لے گا.چنانچہ موسیٰ کے بعد جو کام یوشع سے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ ابوبکر سے لے گا اور جو کام داؤد سے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ عمر سے لے گا اور جو کام بعض اور انبیاء مثلاً سلیمان وغیرہ سے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ عثمان اور علی سے لے گا.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے وہ مقام بخشا ہے کہ میری اُمت کے خلفاء وہی کام کریں گے جو انبیاء سابقین نے کیا.پس اس جگہ علماء سے مرا د رشوتیں کھانے والے علماء نہیں بلکہ ابو بکر عالم ، عمرؓ عالم ، عثمان عالم اور علی عالم مراد ہیں.چنانچہ جب ادنی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے اِن لوگوں کو پیدا کر دیا اور پھر زیادہ روشن صورت میں جب زمانہ کو ایک نبی کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے پورا کر دیا.گوفرق یہ ہے کہ پہلے انبیاء براہ راست مقام نبوت حاصل کرتے تھے مگر آپ کو نبوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کی وجہ سے ملی.خلافت احمد یہ تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں کما اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْرِهِمْ آیا ہے.چلو ہم مان لیتے ہیں کہ پہلے خلفاء اس آیت کے ماتحت تھے کیونکہ اُن کے پاس نظام ملکی تھا لیکن اس آیت سے وہ خلافت جو احمد یہ جماعت میں ہے کیونکر ثابت ہوگئی کیونکہ ان کے پاس تو کوئی نظام ملکی نہیں ؟

Page 201

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۵ جلد دوم اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ یہ کیا ہے کہ وہ آمَنُوا اور وعَمِلُوا الصلحت کی مصداق جماعت کو خلیفہ بنائے گا اور خلیفہ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے کا نا ئب ہوتا ہے.پس وعدہ کی ادنی حد یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد اُس کے نائب ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ جس رنگ کا نبی ہوا گر اسی رنگ میں اس کا نائب بھی ہو جائے تو وعدہ کی ادنی حد پوری ہو جاتی ہے اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د ملکی نظام نہ تھا اس لئے آپ کی امر نبوت میں جو شخص نیابت کرے وہ اس وعدہ کو پورا کر دیتا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملکی نظام عطا ہوتا تب تو اعتراض ہوسکتا تھا کہ آپ کے بعد کے خلفاء نے نیابت کس طرح کی مگر نظام ملکی عطا نہ ہونے کی صورت میں یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ جس نبی کا کوئی خلیفہ ہوا سے وہی چیز ملے گی جو نبی کے پاس ہوگی اور جو اُس کے پاس ہی نہیں ہوگی وہ اُس کے خلیفہ کو کس طرح مل جائے گی.حضرت خلیفہ اول کے متعلق یہ بات بہت مشہور تھی اور آپ خود بھی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جب بھی روپیہ کی ضرورت ہو اللہ تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے روپیہ بھجوا دیتا ہے.ایک دفعہ کسی نے آپ کے پاس بیس روپے بطور امانت رکھے جو کسی ضرورت پر آپ نے خرچ کر لئے چند دنوں کے بعد وہ شخص آیا اور کہنے لگا کہ میری امانت مجھے دے دیجئے.اُس وقت آپ کے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا مگر آپ نے اُسے فرمایا ذرا ٹھہر جائیں ابھی دیتا ہوں.دس پندرہ منٹ ہی گزرے ہونگے کہ باہر سے ایک مریض آیا اور اس نے فیس کے طور پر آپ کے سامنے کچھ روپے رکھ دیئے.حافظ روشن علی صاحب پاس بیٹھے ہوئے تھے انہیں حضرت خلیفہ اول فرمانے لگے کہ یہ روپے گن کر اس شخص کو دے دیں.انہوں نے روپے گن کر دے دیئے اور رسید لے کر پھاڑ دی.بعد میں ہم نے حافظ روشن علی صاحب سے پوچھا کہ کتنے روپے تھے انہوں نے بتایا کہ جتنے روپے وہ مانگتا تھا بس اتنے ہی روپے تھے.تو اللہ تعالیٰ عجیب در عجیب رنگ میں آپ کی مدد فرمایا کرتا تھا اور بسا اوقات نشان کے طور پر آپ پر مال و دولت کے عطا یا ہو جایا کرتے تھے.ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ سب دُعا کی برکات ہیں مگر بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے تھے کہ آپ کو کیمیا کا نسخہ آتا ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اول جب وفات

Page 202

خلافة على منهاج النبوة JAY جلد دوم ہے وہ پا گئے تو دہلی کے ایک حکیم صاحب میرے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ میں آپ سے الگ ملاقات کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ میں نے انہیں موقع دے دیا.وہ پہلے تو مذہبی رنگ میں باتیں کرنے لگے اور کہنے لگے آپ کے والد صاحب کو خدا تعالیٰ نے بڑا درجہ بخشا خدا تعالیٰ کے مامور تھے اور جسے خدا تعالیٰ نے مامور بنا دیا ہو اس کا بیٹا بھلا کہاں بخیل ہوسکتا ہے مجھے آپ سے ایک کام ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اس معاملہ میں میری مدد کریں اور بخل سے کام نہ لیں.میں نے کہا فرمائیے کیا کام ہے.وہ کہنے لگے مجھے کیمیا گری کا بڑا شوق ہے اور میں نے اپنی تمام عمر اس میں برباد کر دی ہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کو کیمیا کا نسخہ آتا تھا اب چونکہ آپ اُن کی جگہ خلیفہ مقرر ہوئے ہیں اس لئے وہ آپ کو ضرور کیمیا کا نسخہ بتا گئے ہونگے.پس مہربانی کر کے وہ نسخہ مجھے بتا دیجئے.میں نے کہا مجھے تو کیمیا کا کوئی نسخہ نہیں بتا گئے.وہ کہنے لگے یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ آپ اُن کی جگہ خلیفہ ہوں اور وہ آپ کو کیمیا کا نسخہ بھی نہ بتا گئے ہوں.غرض میں انہیں جتنا یقین دلاؤں کہ مجھے کیمیا کا کوئی نسخہ نہیں ملا اتنا ہی ان کے دل میں میرے بخل کے متعلق یقین بڑھتا چلا جائے میں انہیں بار بار کہوں کہ مجھے ایسے کسی نسخہ کا علم نہیں اور وہ پھر میری خوشامد کرنے لگ جائیں اور نہایت لجاجت سے کہیں کہ میری ساری عمر اس نسخہ کی تلاش میں گزرگئی ہے آپ تو بخل سے کام نہ لیں اور یہ نسخہ مجھے بتا دیں.آخر جب میں اُن کے اصرار سے بہت ہی تنگ آ گیا تو میرے دل میں خدا تعالیٰ نے ایک نکتہ ڈال دیا اور میں نے اُن سے کہا کہ گومیں مولوی صاحب کی جگہ خلیفہ بنا ہوں مگر آپ جانتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب کے مکان مجھے نہیں ملے.وہ کہنے لگے مکان کس کو ملے ہیں.میں نے کہا اُن کے بیٹوں کو.پھر میں نے کہا اُن کا ایک بڑا بھاری کتب خانہ تھا مگر وہ بھی مجھے نہیں ملا.پس جب کہ مجھے نہ اُن کے مکان ملے اور نہ اُن کا کتب خانہ ملا ہے تو وہ مجھے کیمیا کا نسخہ کس طرح بتا سکتے تھے.اگر انہوں نے یہ نسخہ کسی کو بتایا ہوگا تو اپنے بیٹوں کو بتایا ہوگا.آپ اُن کے پاس جائیں اور کہیں کہ وہ نسخہ آپ کو بتا دیں.چنانچہ وہ میرے پاس سے اٹھ کر چلے گئے.عبدالحی مرحوم ان دنوں زندہ تھے وہ جاتے ہی اُن سے کہنے لگے کہ لائیے نسخہ.انہوں نے کہا نسخہ کیسا.کہنے لگے وہی

Page 203

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۷ جلد دوم کیمیا کا نسخہ جو آپ کے والد صاحب جانتے تھے.اب وہ حیران کہ میں اسے کیا کہوں.آخر انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ مجھے کسی نسخے کا علم نہیں.اس پر وہ نا کام ہو کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے باپ والا بخل بیٹے میں بھی موجود ہے.میں نے کہا.یہ آپ جانیں کہ وہ بخیل ہیں یا نہیں مگر میں اُن کے جس حصے کا خلیفہ ہوں وہی مجھے ملا ہے اور کچھ نہیں ملا.غرض جس رنگ کا کوئی شخص ہو اُسی رنگ کا اُس کا جانشین ہوتا ہے.چونکہ حضر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د ملکی نظام نہیں تھا اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کے خلفاء کے پاس کوئی نظام ملکی کیوں نہیں؟ آیت استخلاف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوسرا جواب یہ ہے کہ اس ا آیت میں خلافت نظامی ہی کی نبوت اور خلافت دونوں شامل ہیں کے بارہ میں یہ نہیں آیا کہ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم بلکہ اس آیت میں جس قدر وعدے ہیں سب کے ساتھ ہی یہ الفاظ لگتے ہیں.مگر غیر مبائعین میں سے بھی جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں جیسے شیخ مصری وغیرہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کی نبوت کلی طور پر پہلے نبیوں کی قسم کی نبوت نہیں بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خودلکھا ہے یہ نبوت پہلی نبوتوں سے ایک بڑا اختلاف رکھتی ہے اور وہ یہ کہ پہلے نبی مستقل نبی تھے اور آپ امتی نبی ہیں.پس جس طرح آپ کی نبوت کے پہلے نبیوں کی نبوت سے مختلف ہونے کے باوجود اس وعدہ کے پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا کہ ليَسْتَخْلِفَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ من قبلهم اسی طرح خلافت کے مختلف ہونے کی وجہ سے بھی اس وعدہ کے پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آ سکتا.اور اگر بعض باتوں میں پہلی خلافتوں سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے یہ خلافت اس آیت سے باہر نکل جاتی ہے تو ماننا پڑیگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی اس آیت کے ماتحت نہیں آتی کیونکہ اگر ہماری خلافت ابو بکر اور عمر کی خلافت سے کچھ اختلاف رکھتی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی پہلے نبیوں سے کچھ اختلاف رکھتی ہے.پس اگر ہماری خلافت اس آیت کے ماتحت نہیں آتی تو ماننا پڑے گا کہ

Page 204

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۸ جلد دوم نَعُوذُ بِاللهِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی اس آیت کے ماتحت نہیں آتی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس نبوت کو باوجود مختلف ہونے کے اسی آیت کے ماتحت قرار دیتے ہیں.پس جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پہلی نبوتوں سے اختلاف رکھنے کے باوجود اس آیت کے وعدہ میں شامل ہے اسی طرح یہ خلافت با وجود پہلی خلافتوں سے ایک اختلاف رکھنے کے اس آیت کے وعدہ میں شامل ہے.حضرت مسیح ناصری کے خلفاء بھی تیسرا جواب یہ ہے کہ مسیح ناصری کے بعد کے خلفاء بھی نظام ملکی سے کوئی تعلق نہ نظام ملکی سے کوئی تعلق نہ رکھتے تھے رکھتے تھے.اگر کوئی کہے کہ آپ کے بعد کوئی خلیفہ ہوا ہی نہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود فرماتے ہیں.مَا كَانَتْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَبعَتَهَا خِلَافَةٌ.کہ دنیا میں کوئی بھی ایسی نبوت نہیں گزری جس کے پیچھے اُسی قسم کی خلافت قائم نہ ہوئی ہو.پس اگر حضرت عیسی علیہ السلام کو نبوت ملی تھی تو آپ کے بعد ویسی ہی خلافت کے قیام کو ماننا ہمارے لئے ضروری ہے بصورت دیگر معترضین کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نبی نہیں تھے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کو نبوت کے بعد لازمی قرار دیا ہے.دوسرے مسیحی لوگ پطرس کو خلیفہ مانتے چلے آئے ہیں.پس جب کہ رسول کریم علی فرماتے ہیں کہ آپ کے بعد ضرور خلافت ہوئی اور مسیحی خود اقرار کرتے ہیں کہ پطرس حضرت مسیح ناصری کا خلیفہ تھا تو پھر یہ تیسرا گروہ کہاں سے پیدا ہو گیا جو کہتا ہے کہ آپ کے بعد کوئی خلیفہ ہی نہیں ہوا جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا تھا یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب انہوں نے بھی فرما دیا کہ ہر نبی کے بعد خلافت قائم ہوئی ہے اور جب عیسائی جن کے گھر کا یہ معاملہ ہے وہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح کے بعد خلافت قائم ہوئی اور جب کہ تاریخ سے بھی یہی ثابت ہے تو پھر اس سے انکار کرنا محض ضد ہے.اگر کہا جائے کہ بعض مسیحی انہیں خلیفہ تسلیم نہیں کرتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض مسلمان بھی خلفاء اربعہ کو خلیفہ تسلیم نہیں کرتے ، بعض کے رڈ کر دینے سے مسئلہ تو ر ڈ نہیں ہو جاتا.

Page 205

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۹ جلد دوم تیسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الوصیت میں مسیحیوں کے بارہ میں ایسا انتظام تسلیم کیا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.”جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تر ڈد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق ” کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیه نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ ย رض دکھایا.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا...ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا.گویا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے اسی طرح حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہما السلام کے بعد بھی خلافت قائم ہوئی.پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد خلافت قائم نہیں ہوئی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس صریح ارشاد کے خلاف قدم اٹھاتا ہے اور ایک ایسی بات پیش کرتا ہے جس کی نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے تائید ہوتی ہے نہ تاریخ سے تائید ہوتی ہے اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی تائید کرتے ہیں.چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اگر اس مخالفین کا ایک اور اعتراض اور اس کا جواب آیت سے افراد مراد لئے جائیں تو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ وعدہ دو قسم کے وجودوں کے متعلق ہے.ایک نبیوں کے متعلق

Page 206

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۰ جلد دوم اور ایک بادشاہوں کے متعلق.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جس قسم کے نبی آیا کرتے تھے اُن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کر دیا اور بادشاہت کو آپ نے پسند نہیں فرمایا بلکہ صاف فرما دیا کہ میرے بعد کے خلفاء بادشاہ نہ ہونگے تو پھر کیوں نہ تسلیم کیا جائے کہ اس آیت میں وعدہ قوم سے ہی ہے افراد سے نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی قسم کی نبوت بھی ختم ہو گئی اور پہلی قسم کی ملوکیت بھی ختم ہو گئی لیکن کسی خاص قسم کے ختم ہو جانے سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ اس کا قائم مقام جو اس سے اعلیٰ ہو وہ نہیں آ سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سب انبیاء سے نرالے تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے بعد کا نظام بھی سب نظاموں سے نرالا ہو.اس کا نرالا ہونا اُسے مشابہت سے نکال نہیں دیتا بلکہ اس کے حسن اور خوبصورتی کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے.چنانچہ آپ چونکہ کامل نبی تھے اور دنیا میں کامل شریعت لائے تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے بعد ایسے نبی ہوتے جو آپ سے فیضان حاصل کر کے مقام نبوت حاصل کرتے اسی طرح آپ کا نظام چونکہ تمام نظاموں سے زیادہ کامل تھا اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے بعد ایسے خلفاء ہوتے جو پبلک طور پر منتخب ہوتے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی اور ملوکیت بھی ایک نئے رنگ میں ڈھال دی اور پہلی قسم کی نبوت اور پہلی قسم کی ملوکیت کو ختم کر دیا.پہلے انبیاء کی خلافت خواہ خلافت نبوت یاد رکھنا چاہئے کہ خلافت نبوت پہلے ہو یا خلافت ملوکیت.ناقص تھی نبی کی تائید کے لیے آتی ہے اور خلافت ملوکیت مومنین کے حقوق کی حفاظت اور اُن کی قوتوں کے نشو و نما کیلئے آتی ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کو جو خلفاء انبیاء ملے تو اُن کی خلافت ناقص تھی کیونکہ گو وہ ان کے کام کو چلاتے تھے مگر نبوت براہ راست پاتے تھے.پس اُن کی خلافت کامل خلافت نہ ہوتی تھی اور اگر ان کی اقوام کو خلفاء ملو کی ملے تو اُن کی خلافت بھی ناقص خلافت ہوتی تھی کیونکہ وہ اختیارات براه راست ورثہ سے پاتے تھے.اور اس کے نتیجہ میں اُن کی قوم کے قومی پورے

Page 207

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۱ جلد دوم طور پر نشو و نما نہ پاتے تھے کیونکہ اُن کے مقرر کرنے میں اُمت کا دخل نہ ہوتا تھا اُسی طرح جس طرح نبیوں کا اپنے تابع نبیوں کی نبوت میں دخل نہ ہوتا تھا.چنانچہ جہاں بھی باپ کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد پوتا ورثہ کے طور پر تخت حکومت سنبھالتے چلے جاتے ہیں وہاں اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ پبلک کے علمی معیار کو بلند کیا جائے اور اُس کے ذہنی قوی کو ایسا نشو ونما دیا جائے کہ وہ صحیح رنگ میں حکام کا انتخاب کر سکے لیکن جہاں حکام کا انتخاب سپبلک کے ہاتھ میں ہو وہاں حکومت اس بات پر مجبور ہوتی ہے کہ ہر فرد کو عالم بنائے ، ہر فرد کو سیاست دان بنائے اور ہر فرد کوملکی حالات سے باخبر رکھے تا کہ انتخاب کے وقت اُن سے کوئی بیوقوفی سرزد نہ ہو جائے.پس اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے لوگوں کے نشو ونما کو مد نظر رکھتے ہوئے حکام کے انتخاب کا حکم دیا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کی خلافت خواہ وہ خلافتِ نبوت ہو یا خلافت ملوکیت ناقص تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ صحیح معنوں میں کامل نبی تھے اس لئے آپ کے بعد جو نبی آیا یا آئیں گے وہ آپ کے تابع ہی نہ ہونگے بلکہ آپ کے فیض سے نبوت پانے والے ہونگے.اسی طرح چونکہ آپ کی قوم صحیح معنوں میں کامل اُمت تھی جیسا کہ فرمایا.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أخرجت للنَّاسِ ١٨ اس لئے ضروری تھا کہ اُن کے کام کو چلانے والے بھی اُسی رنگ میں آئیں جس طرح اس اُمت میں نبی آنے تھے یعنی اُن کے انتخاب میں قوم کو دخل ہو.پس اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ وہ ملو کی خلیفہ نہ ہوں جن کے انتخاب میں قوم کو دخل نہ ہوتا تھا بلکہ انتخابی خلیفہ ہوں تا کہ اُمت محمدیہ کی پوری ترجمانی کرنے والے ہوں اور اُمت کی قوت کا صحیح نشو و نما ہو.چنانچہ اس حکم کی وجہ سے ہر خلیفہ اس بات پر مجبور ہے کہ وہ لوگوں میں زیادہ سے زیادہ علم اور سمجھ کا مادہ پیدا کرے تاکہ وہ اگلے انتخاب میں کوئی غلطی نہ کر جائیں.پس یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ نبی کریم ﷺ سید الانبیاء ہیں اور آپ کی اُمت خَيْرُ الْأُمم ہے.جس طرح سید الانبیاء کے تابع نبی آپ کے فیضان سے نبوت پاتے ہیں اسی طرح خیر الامم کے خلفاء قوم کی آواز سے خلیفہ مقرر ہوتے ہیں.پس یہ نظامِ اسلام کی برتری اور نبی اسلام اور اُمّتِ اسلامیہ کے علو مرتبت کی وجہ سے ہے اور اس سے خلافتِ فردی کو مٹایا نہیں گیا بلکہ

Page 208

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۲ جلد دوم خلافت شخصی کو زیادہ بہتر اور مکمل صورت میں پیش کیا گیا ہے.ان اصولی سوالوں کے بعد میں ایک دو ضمنی اعتراضوں کو لے لیتا ہوں.کیا خلافت موعودہ محض اُس خلیفہ کے (۱) ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلافت موعودہ جس کا اس آیت میں صلى الله متعلق ہے جو نبی کے معاً بعد آ تا ہے؟ ذکر ہے محض اس خلیفہ کے متعلق ہے جو نبی کے معاً بعد آتا ہے نہ کہ خلفاء کے ایک لمبے سلسلہ کے متعلق.اس کا جواب یہ ہے.(۱) رسول کریم علیہ نے خود چاروں خلافتوں کو خلافتِ راشدہ قرار دیا ہے.آپ فرماتے ہیں.عَنْ سَفِينَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْکا - 19 یعنی حضرت سفینہ کہتے ہیں میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ میرے بعد خلافت صرف تمہیں سال ہو گی اس کے بعد ملوکیت قائم ہو جائے گی.اور چاروں خلفاء کی مدت صرف تمہیں سال ہی بنتی ہے.پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کو چاروں خلفاء تک لمبا کرتے ہیں تو کسی دوسرے کا کیا حق ہے کہ اسے پہلے خلیفہ تک محدود کر دے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خیال کو ”سر الخلافہ“ میں بیان فرمایا ہے مگر یہ درست نہیں.آپ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ شیعوں کے رد میں ہے.وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل جانشین حضرت علی تھے آپ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ خلافت کا وعدہ قرآن کریم کی آ وعد الله الّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ میں ہے اور اس میں جو شرائط پائی جاتی ہیں وہ بیت بدرجۂ کمال حضرت ابو بکر میں پائی جاتی ہیں.پس آپ کا مطلب تو یہ ہے کہ قرآن کریم سے حضرت ابو بکر کی خلافت حضرت علیؓ کی خلافت سے زیادہ ثابت ہے نہ یہ کہ حضرت علی خلیفہ نہ تھے.آپ نے اپنی کتب میں چار خلفاء کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں اسے اور حضرت علی کی خلافت کا بھی ذکر فرمایا ہے ۲ کے اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے شیعوں کے رڈ میں ایک لیکچر دیا

Page 209

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۳ جلد دوم تھا جس میں انہوں نے اسی آیت سے حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کو خلیفہ ثابت کیا ہے اور حضرت علی کی خلافت کو بھی مختلف مقامات میں تسلیم کیا ہے.آپ نے بعد میں اس لیکچر کو بعض زوائد کے ساتھ کتابی صورت میں خلافتِ راشدہ کے نام سے چھپوا دیا تھا.اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ میرا یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سنا اور بار بار پڑھوایا اور اس کے کچھ حصہ کا ترجمہ اپنی کتاب حجۃ اللہ میں بھی کر دیا اور مختلف مقامات پر میرا یہ مضمون دوستوں کو اپنی طرف سے بطور تحفہ بھجوایا.پس معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس عقیدہ میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے متفق تھے جس کا انہوں نے ” خلافتِ راشدہ میں اظہار کیا ہے دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ پہلے خلیفہ کی خلافت ثابت ہو جائے تو دوسروں کی خود بخود ثابت ہو جاتی ہے.جیسے حضرت ابو بکر پہلے خلیفہ ہوئے اور پھر حضرت ابوبکر نے حضرت عمرؓ کا انتخاب کیا اور مسلمانوں سے مشورہ کر کے انھیں خلیفہ مقرر کیا.اسی طرح اس زمانہ میں حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ تو میرا نام لے کر وصیت کی اور دوسری دفعہ بغیر نام کے وصیت کی مگر بہر حال خلافت کے وجود کو آپ نے قائم کیا.آپ کی وصیت کے الفاظ یہ ہیں :.خاکسار بقائی جو اس لکھتا ہے لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ میرا جانشین متقی ہو ، ہر دلعزیز عالم با عمل.حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی و درگزر کو کام میں لا وے.میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے قرآن وحدیث کا درس جاری رہے.والسلام نورالدین ۴ / مارچ اسی طرح آپ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کیا ہے اور میرے بعد جو ہو گا اسے بھی خدا ہی خلیفہ مقرر کرے گا.چنانچہ آپ نے فرمایا:.

Page 210

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۴ جلد دوم ” خلافت کیسری کی دُکان کا سوڈا واٹر نہیں.تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.میں جب مرجاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا.‘‘۷۵ پس اگر پہلے خلفاء اس آیت کے ماتحت خلیفہ تھے تو ان کے فیصلے اسی کی تائید میں ہیں کہ ان کے بعد بھی خلافت رہے گی اور اسی رنگ میں ہوگی جس رنگ میں ان کی اپنی خلافت تھی اور ان کے فیصلے اس بارہ میں حجت ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلْيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارتضى لَهُمْ - تیسرا جواب یہ ہے کہ جب موجبات موجود ہوں تو پھر ان کا طبعی نتیجہ کیوں نہ ہوگا یا تو یہ مانا جائے گا کہ ضرورت خلافت بعد میں نہ رہی اور اُمت بھی مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی نہ رہی اور یا پھر خلافت کے وجود کو تسلیم کرنا ہوگا.کیا خلیفہ کا عزل جائز ہے؟ ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جب خلیفہ انتخاب سے ہوتا ہے تو پھر امت کیلئے اس کا عزل بھی جائز ہوا اس کا جواب یہ ہے کہ گو خلیفہ کا تقر ر ا نتخاب کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن آیت کی نص صریح اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ امت کو اپنے فیصلہ کا اس امر میں ذریعہ بنا تا ہے اور اس کے دماغ کو خاص طور پر روشنی بخشتا ہے لیکن مقرر اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے لیسْتَخْلِفَتَهُمْ کہ وہ خود ان کو خلیفہ بنائے گا.پس گو خلفاء کا انتخاب مومنوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا الہام لوگوں کے دلوں کو اصل حقدار کی طرف متوجہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسے خلفاء میں میں فلاں فلاں خاصیتیں پیدا کر دیتا ہوں اور یہ خلفاء ایک انعام الہی ہوتے ہیں.پس اس صورت میں اس اعتراض کی تفصیل یہ ہوئی کہ کیا اُمت کو حق نہیں کہ وہ اس شخص کو جو کامل موحد ہے جس کے دین کو اللہ تعالیٰ نے قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئے خدا نے تمام خطرات کو دور کرنے کا وعدہ کیا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ شرک کو مٹانا چاہتا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ اسلام کو محفوظ کرنا چاہتا ہے

Page 211

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۵ جلد دوم معزول کر دے.ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو امتِ اسلامیہ معزول نہیں کر سکتی.ایسے شخص کو تو شیطان کے چیلے ہی معزول کریں گے.دوسرا جواب یہ ہے کہ اس جگہ وعدہ کا لفظ ہے اور وعدہ احسان پر دلالت کرتا ہے.پس اس اعتراض کے معنی یہ ہوں گے کہ چونکہ انعام کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے اُمت کے ہاتھ میں رکھا ہے اسے کیوں حق نہیں کہ وہ اس انعام کو رڈ کر دے.ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ استنباط بدترین استنباط ہے.جو انعام منہ مانگے ملے اس کا رڈ کرنا تو انسان کو اور بھی مجرم بنا دیتا ہے اور اس پر شدید حجت قائم کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ تو فرمائے گا کہ اے لوگو! میں نے تمہاری مرضی پر چھوڑا اور کہا کہ میرے انعام کو کس صورت میں لینا چاہتے ہو؟ تم نے کہا ہم اس انعام کو فلاں شخص کی صورت میں لینا چاہتے ہیں اور میں نے اپنے فضل اس شخص کے ساتھ وابستہ کر دیئے.جب میں نے تمہاری بات مان لی تو اب تم کہتے ہو کہ ہم اس انعام پر راضی نہیں.اب اس نعمت کے اوپر میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ لَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ ای کی طرف اشارہ کرنے کیلئے فرمایا کہ مَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفُسِقُوْنَ یعنی انتخاب کے وقت تو ہم نے اُمت کو اختیار دیا ہے مگر چونکہ اس انتخاب میں ہم اُمت کی را ہبری کرتے ہیں اور چونکہ ہم اس شخص کو اپنا بنا لیتے ہیں اس کے بعد امت کا اختیار نہیں ہوتا اور جو شخص پھر بھی اختیار چلانا چاہے تو یا درکھے وہ خلیفہ کا مقابلہ نہیں کرتا بلکہ ہمارے انعام کی بے قدری کرتا ہے.پس من كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ اگر انتخاب کے وقت وہ امنوا وعملوا الصلحت میں شامل تھا تو اب اس اقدام کی وجہ سے ہماری درگاہ میں اس کا نام و عملوا الصلحت کی فہرست سے کاٹ کر فاسقوں کی فہرست میں لکھا جائے گا.ایک لطیف نکتہ اب ایک لطیف نکتہ بھی سن لو.دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا عجیب بات بیان کی ہے.خلافت کے انعام کا وارث اس قوم کو بتایا ہے جو (۱) ایمان رکھتی ہو یعنی اس کے ارادے نیک ہوں.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں نِيَّةُ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ " کہ مومن کے عمل محدود ہوتے ہیں مگر اس کے ارادے بہت وسیع ہوتے ہیں.اور وہ کہتا ہے

Page 212

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۶ جلد دوم کہ میں یوں کروں گا اور ووں کروں گا.گویا مومن کے ارادے بہت نیک ہوتے ہیں.(۲) دوسری بات یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ عملوا الصلحت کے مصداق ہوتے ہیں.یعنی صالح ہوتے ہیں مگر فرماتا ہے جب وہ خلافت کا انکار کرتے ہیں تو فاسق ہو جاتے ہیں.فاسق کے معنی ہیں جو حلقہ اطاعت سے نکل جائے اور نبی کی معیت سے محروم ہو جائے.پس آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ نیک ارادے رکھنے والوں اور صالح لوگوں میں خلافت آتی ہے.مگر جو اس سے منکر ہو جائیں تو باوجود نیک ارادے رکھنے اور صالح ہونے کے وہ اس فعل کی وجہ سے نبی کی معیت سے محروم کر دئیے جاتے ہیں.اب آیت کے ان الفاظ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس رؤیا کے مقابل پر رکھو جو آپ نے مولوی محمد علی صاحب کے متعلق دیکھا اور جس میں آپ ان سے فرماتے ہیں :.جاؤ.،،، آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے.آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ تو معلوم ہوا کہ یہ بعینہ وہی بات ہے جو الّذینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحت اور من كَفَرٌ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الفسقون کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ ایمان رکھنے اور عمل صالح کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ان میں خلافت قائم کرے گا.مگر جو شخص اس نعمت کا انکار کر دے گا وہ نبی کی معیت سے محروم کر دیا جائے گا.اس رویا میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس بیٹھایا نہیں بیٹھا.مگر قرآنی الفاظ بتاتے ہیں کہ ایسے شخص کو پاس بیٹھنے کی توفیق نہیں ملی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ ۷۸ دوسری آیت جو خلافت کے خلافت راشدہ کی تائید میں دوسری آیت ثبوت میں قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و إذا بُتَلَى ابْرُهم رَبُّهُ بِكَلِمَةٍ فاتمهن ، قال إنّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَا مَا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ

Page 213

خلافة على منهاج النبوة عهْدِى الظلمين و ۱۹۷ جلد دوم یعنی اُس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے بعض باتوں کے ذریعہ سے آزمایا اور اس نے ان سب کو پورا کر کے دکھا دیا.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم ! میں تجھے لوگوں کا امام مقر ر کرنے والا ہوں.حضرت ابراہیم نے عرض کیا کہ اے خدا ! میری اولاد میں سے بھی امام بنا ئیو.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.بہت اچھا مگر ان میں سے جو لوگ ظالم ہو جائیں گے ان کو امام نہیں بنایا جائے گا.ا اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے انہیں امام بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام فوراً اور جائز طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ جو کام میرے سپر د ہونے والا ہے وہ ایک نسل میں پورا نہیں ہو سکتا اور ضرورت ہے کہ میرے بعد بھی کچھ اور وجو د ہوں جو اس کام کو چلائیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی ذریت کے امام بنانے کی درخواست کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہاں ان سے بھی میں وعدہ کرتا ہوں مگر ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچے گا.اس آیت میں بھی وعدہ اولاد سے ہے گو ظالم اولا د سے نہیں لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں یا تو امام تھے یا ظالم تھے ان دونوں کے سوا بھی اور اولادتھی.پھر ان سے امامت کا وعدہ کس طرح پورا ہوا ؟ اسی طرح کہ بعض کو امامت ملی اور بعض کو ان کے ذریعہ سے امامت سے فائدہ پہنچا.یہ بھی آیت استخلاف کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ وعدہ تو سب سے تھا پھر خلافت شخصی نکس طرح ہوسکتی ہے.مگر میں اس وقت آیت کے ایک دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کر رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اولاد کے متعلق امامت کا وعدہ تھا وہ وعدہ کس طرح پورا ہوا ؟ آپ کے بعد آپ کی اولاد میں سے چار نبی ہوئے (۱) حضرت اسماعیل (۲) حضرت اسحاق (۳) حضرت یعقوب (۴) حضرت یوسف.اور ان چاروں انبیاء خلفاء نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مشن کو تکمیل تک پہنچایا.قرآن کریم میں دوسری جگہ ان چاروں کی طرف اشارہ بھی کیا ہے.فرماتا ہے.و إذْ قَالَ إِبْرهِمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتُ ، قَالَ اوَ لَمْ تُؤْمِنُ ، قَالَ

Page 214

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۸ جلد دوم بلى ولكن لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذُ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرُهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْرِّثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعَيًّاء واعْلَمْ أَنَّ اللهَ عَزِيزُ حَكِيمُ ٥٠ یعنی اس واقعہ کو بھی یاد کرو جب ابراہیم نے کہا تھا کہ اے میرے رب ! مجھے بتا کہ تُو مردے کس طرح زندہ کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تو ایمان نہیں لا چکا ؟ حضرت ابراہیم نے کہا.کیوں نہیں ایمان تو مجھے حاصل ہو چکا ہے لیکن صرف اطمینانِ قلب کی خاطر میں نے یہ سوال کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے ساتھ سدھالے پھر ہر ایک پہاڑ پر اُن میں سے ایک ایک حصہ رکھ دے، پھر انہیں بلا.وہ تیری طرف تیزی کے ساتھ چلے آئیں گے اور جان لے کہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور حکمت والا ہے.یہ واقعہ اگر ظاہری ہوتا تو اس پر بہت سے اعتراض پڑتے ہیں.اوّل یہ کہ احیائے موتی کے ساتھ پرندوں کے سدھانے کا کیا تعلق؟ (۲) چار پرندے لینے کے کیا معنی؟ کیا ایک سے یہ غرض پوری نہ ہوتی تھی؟ (۳) پہاڑوں پر رکھنے کا کیا فائدہ؟ کیا کسی اور جگہ رکھنے سے کام نہ چلتا تھا ؟ پس حقیقت یہ ہے کہ یہ ظاہری کلام نہیں بلکہ باطن رکھنے والا کلام ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ الہی ! جو احیائے موتی کا کام تو نے میرے سپرد کیا ہے اسے پورا کر کے دکھا اور مجھے بتا کہ یہ قومی زندگی کس طرح پیدا ہوگی جبکہ میں بڑھا ہوں اور کام بہت اہم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے وعدہ کیا ہے تو یہ ہو کر رہے گا.حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہو کر تو ضرور رہے گا مگر میں اپنے اطمینان کیلئے پوچھتا ہوں کہ یہ مخالف حالات کیونکر بدلیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے چار پرندے لے کر سیدھا اور ہر ایک کو پہاڑ پر رکھ دے.پھر بلاؤ اور دیکھو کہ وہ کس طرح تیری طرف دوڑتے آتے ہیں.یعنی اپنی اولاد میں سے چار کی تربیت کرو.وہ تمہاری آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس احیاء کے کام کی تعمیل کریں گے.یہ چار جیسا کہ میں بتا چکا ہوں حضرت اسماعیل ، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف ہیں.ان میں سے دو کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے براہ راست تربیت -

Page 215

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۹ جلد دوم کی اور دو کی بالواسطہ.پہاڑ پر رکھنے کے معنی بھی یہی ہیں کہ ان کی اعلیٰ تربیت کر کیونکہ وہ بہت بڑے درجہ کے ہوں گے گویا پہاڑ پر رکھنے کے معنی ان کے رفیع الدرجات ہونے کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ بلندیوں کی چوٹیوں تک جا پہنچیں گے.غرض اس طرح احیائے قومی کا وہ نقشہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قریب زمانہ میں ظاہر ہونا تھا انہیں بتا دیا گیا.اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھی مثیل ہیں جیسا کہ درود پڑھنے والے مسلمان جانتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سکھائی ہے کہ اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - اللَّهُمَّ بَارِک عَلَى مُحَمَّدٍ وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے افضل ہیں تو یقینا کسی خاص خصوصیت کی طرف ہی اس درود میں اشارہ ہو سکتا ہے اور وہ خصوصیت ان کی اولاد میں امامت و نبوت کی ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوةُ والكِتب واتينَهُ أَجْرَةَ في الدُّنْيَاء وَاِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِينَ ا یعنی ہم نے اس کی ذریت کے ساتھ نبوت اور کتاب کو مخصوص کر دیا اور ہم نے اس کو اس دنیا میں بھی اجر بخشا اور آخرت میں بھی وہ نیک بندوں میں شامل کیا جائے گا.پس وہ فضیلت جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کوملی وہ نبوت ہی تھی جس کے بعد متواتر ان کی اولا دکو نبوت خلافت حاصل ہوئی جس نے ان کے گھر کو شرف سے بھر دیا.چنانچہ ایک دفعہ کسی نے رسول کریم سے پوچھا کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا جو ب سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہے.اس نے کہا یا رَسُولَ اللهِ ! میرا یہ سوال نہیں.آپ کو نے فرمایا تو پھر یوسف بڑا معزز ہے جو خود بھی نبی تھا اور نبی کا بیٹا بھی تھا.پھر اُس کا دادا بھی نبی تھا اور اُس کا پڑدادا ابراہیم بھی نبی تھا.پس جب ہم كَمَا صَلَّيْتَ يَا كَمَا بَارَكْتَ کہتے ہیں تو ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی فضیلت دے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل تھی.ذاتی طور پر بھی اور اولاد کی طرف سے بھی.یعنی

Page 216

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۰ جلد دوم آپ ابوالانبیاء ہو جائیں اور آپ کی اولا د روحانی میں بھی نبوت مخصوص ہو جائے.سوا اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو سنا اور جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معاً بعد چار رسول ہوئے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معا بعد چار رخلیفے ہوئے جنہوں نے آپ کے دین کی تمکین کی اور جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں دُور زمانہ میں پھر نبی پیدا ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعید زمانہ بعد بھی انبیاء کی بعثت کی خبر دی گئی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر میں بھی فضیلت دی گئی ہے.یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو دو خلفاء کی تربیت بلا واسطہ کی تھی اور دو کی پالواسطہ.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاروں اماموں کی تربیت خود فرمائی اگر یہ مشابہت نہ ہوتی تو پھر كَمَا صَلَّيْتَ اور كَمَا بَارَكْتَ کے معنی ہی کیا ہوتے.پھر تو یہ تسلیم کرنا پڑتا کہ شاید حضرت ابراہیم علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا درجہ رکھتے ہیں.پس ابراہیمی وعدہ اور در و دمل کر صاف بتاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسا ہی ہونے والا تھا اور آپ کے بعد بھی آپ کے دین کی تمکین کیلئے خلفا ء آنے والے تھے.اگر کہو کہ وہ خلفاء تو نبی تھے یہ تو نبی نہ تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اولاد کے امام ہونے کے در حقیقت دو وعدے تھے ایک تو قریب عہد میں اور ایک بعید عہد میں جس میں موسیٰ اور عیسی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود شامل تھے.اللہ تعالیٰ کی حکمت نے تقاضا کیا کہ قریب عہد کے امام خلیفہ امام ہوں اور بعید کا خلیفہ نبی خلیفہ ہو.چنانچہ خلفائے راشدین عُلَمَاءُ أُمَّتِى كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ کے ماتحت انبیاء سے شدید مشابہت رکھتے تھے مگر نبی نہ تھے اور آخری خلیفہ ایک پہلو سے اُمتی اور ایک پہلو سے نبی ہوا تا کہ مشابہت میں نقص نہ رہ جائے.اب دیکھو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں ان خلفاء نے ان چار انبیاء سے زیادہ تمکین دین کی ہے اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا ایک زبر دست ثبوت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تحریر بھی اس اُلجھن کو دور کر دیتی ہے.

Page 217

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۱ جلد دوم آپ الوصیت“ میں تحریر فرماتے ہیں :.ย ' تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فر ما یا تھا ليُمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خوفهم آشنا.....ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا.۱۳ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت میں حضرت موسیٰ کے نبی جانشین سے حضرت ابو بکر کی مشابہت کو تسلیم کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی اس پر روشنی ڈالتی ہے.آپ فرماتے ہیں.لَوْ كَانَ نَبِيٍّ بَعْدِى لَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابُ ٥٣ یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتا.اس کے یہی معنی ہیں کہ عمر میرے بعد امام ہونے والے ہیں.اگر میرے معاً بعد نبوت کا اجراء اللہ تعالیٰ نے کرنا ہوتا تو عمرہ بھی نبی ہوتے مگر اب وہ امام تو ہونگے مگر نبی نہ ہو نگے.ایک دوسری حدیث بھی اس پر روشنی ڈالتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ جنگ پر گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے قائم مقام بنا گئے.پیچھے صرف منافق ہی منافق رہ گئے تھے.اس وجہ سے وہ گھبرا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ مجھے بھی لے چلیں.آپ نے تسلی دی اور فرمایا.اَلا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِی ۵۵ یعنی (۱) اے علی ! تمہیں مجھ سے ہارون اور موسیٰ کی نسبت حاصل ہے.ایک دن ہارون کی طرح تم بھی میرے خلیفہ ہو گے (۲) لیکن با وجود اس نسبت کے تم نبی نہ ہو گے.اس میں ایک ہی وقت میں نبی سے مشابہت بھی دے دی اور نبوت سے خالی بھی بتا دیا.پس جس طرح علی ہارون کے مشابہ ہو سکتے ہیں چاروں خلفاء چار دوسرے نبیوں کے بھی مشابہ ہو سکتے ہیں.اس حدیث سے علاوہ اس کے کہ یہ ثبوت ملتا ہے کہ خلفاء نبیوں کے مشابہ قرار دیئے جا

Page 218

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۲ جلد دوم سکتے ہیں حضرت علی کے زمانہ کے فتنہ پر بھی روشنی پڑتی ہے اور اس میں یہ پیشگوئی نظر آتی ہے کہ جس طرح حضرت ہارون کے زمانہ میں فساد ہوا حضرت علیؓ کے زمانہ میں بھی فساد ہوگا اور لوگ حضرت علی پر الزام لگائیں گے لیکن وہ الزام اُسی طرح غلط ہو نگے جس طرح ہارون پر یہ اعتراض غلط ہے کہ انہوں نے شرک کیا.بہر حال حضرت علی کا طریق حضرت ہارون کے مشابہ ہو گا کہ تفرقہ کے ڈر سے کسی قدر نرمی کریں گے ( جیسا کہ صفین کے موقع پر تحکیم کو تسلیم کر کے انہوں نے کیا ) صلى الله اس کے بعد میں خلافت کے بارہ میں رسول کریم علیہ کا ایک ارشاد حدیثوں میں سے صرف ایک حدیث بطور مثال خلافت کے بارہ میں پیش کر دیتا ہوں کیونکہ اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَا مِنْ نَّبِيِّ إِلَّا تَبِعَتُهُ خِلافَةٌ ٥٦ یعنی کوئی نبی نہیں کہ اس کے بعد خلافت نہ ہوئی ہو.اس عام فیصلہ کے بعد خلافت کا انکار در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا انکار ہے کیونکہ یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا.خلفاء کے حقوق کے بارہ اب میں ایک اعتراض جو بہت مشہور اور جو خلفاء کے حقوق کے بارہ میں ہے اس کا جواب دیتا ہوں.میں ایک بہت بڑا اعتراض ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جیسا کہ آیت استخلاف سے ثابت ፡ ہے اور جیسا کہ آیت وَاُولِى الأمْرِ مِنْكُم سے ثابت ہے اور جیسا کہ آیت و شاوِرُهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّل على الله سے ثابت ہے خلفاء پر گو اہم امور میں مشورہ لینے کی پابندی ہے لیکن اُس پر عمل کرنے کی پابندی نہیں.اس پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.سب سے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر ہے.خو دفرماتے ہیں کہ اِن زِغْتُ فَقَومُونِی ، اگر میں کبھی دکھاؤں تو مجھے سیدھا کر دینا.معلوم خود ہوا کہ وہ پبلک کو خلیفہ کو روکنے کا اختیار دیتے ہیں.غیر مبائعین ہمیشہ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر نے یہ کہہ دیا تھا کہ اگر میں ٹیڑھا ہو جاؤں تو مجھے سیدھا

Page 219

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۳ جلد دوم کر دینا تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے اور پبلک کو حق ہے کہ جب بھی وہ اسے سیدھے راستہ سے منحرف ہوتا دیکھے اُسے پکڑ کر سیدھا کر دے.اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابو بکر کا عمل اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے اپنے اس قول کے کبھی بھی وہ معنی نہیں سمجھے جو معترضین لیتے ہیں.اور نہ مسلمان آپ کے اس قول کا کبھی یہ مفہوم لیتے تھے کہ جب وہ حضرت ابو بکر کی رائے کو اپنی رائے کے خلاف دیکھیں تو سختی سے آپ کو سیدھا کر دیں.جیش اسامہ کو رکوانے کے متعلق جب بڑے بڑے صحابہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے تو انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ ہماری یہ بات ماننی ہے تو مانو ورنہ ہم تمہیں ابھی سیدھا کر دیں گے بلکہ آپ نے جب ان تمام لوگوں کے مشورہ کو رڈ کر دیا اور فرمایا کہ میں جیشِ اسامہ کو نہیں روک سکتا تو انہوں نے اپنی رائے واپس لے لی.اسی طرح جب باغیوں سے جنگ کے بارہ میں صحابہ نے کسی قدر نرمی کی درخواست کی تو آپ نے ان کی اس درخواست کو بھی رد کر دیا اور فرمایا کہ میں تو ان کے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو مُرتدین کے ساتھ کیا جاتا ہے.اس موقع پر بھی صحابہ نے یہ نہیں کہا کہ اگر آپ ہماری بات نہیں مانتے تو ہم آپ کو سیدھا کر کے چھوڑیں گے بلکہ انہوں نے اپنی غلطی کا اقرار کیا اور حضرت ابو بکڑ کے فیصلہ کے سامنے انہوں نے اپنی گردنیں جھکا دیں.اسی طرح جہاں بھی آپ کا لوگوں سے مقابلہ ہوا آپ نے یہی کہا کہ میری بات صحیح ہے اور تمہاری غلط.یہ کہیں نظر نہیں آتا کہ کبھی لوگوں نے آپ کو سیدھا کیا ہو.یا آپ نے ہی لوگوں سے کہا ہو کہ اے مسلما نو ! میں کچھ ٹیڑھا سا ہو گیا ہوں مجھے سیدھا کر دینا.پس آپ کے قول کے وہی معنی لئے جاسکتے ہیں جو خدا اور رسول کے احکام کے مطابق ہوں اور خود آپ کے فعل کے مطابق ہوں نہ کہ مخالف.بھی سے مراد صرف کفر بواح ہے سو یا درکھنا چاہئے کہ آپ کی ٹیڑھا ہونے سے مراد وہی کفر بواح ہے جس کا ذکر احادیث آتا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ جب تک میں اسلام پر چلتا ہوں تم پر میری اطاعت فرض ہے اور اگر میں اسلام کو ترک کر دوں یا مجھ سے کفر بواح صادر ہو تو پھر تم پر یہ فرض ہے کہ میرا مقابلہ کرو ورنہ یہ مُراد نہیں کہ میرے روز مرہ کے فیصلوں پر تنقید کر کے جو تمہاری مرضی کے

Page 220

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۴ مطابق ہوں اُن پر عمل کرو اور دوسروں کو چھوڑ دو.جلد دوم کیا حضرت ابوبکر کفر بواح کر سکتے تھے؟ اگر کوئی کہے کہ کیا حضرت ابوبکر کفر بواح کر سکتے تھے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کیا حضرت ابو بکر اس قدر ٹیڑھا ہو سکتے تھے کہ انہیں سیدھا کرنے کی مسلمانوں کو ضرورت پیش آئے ! ایسی صورت تو اُسی وقت پیش آ سکتی تھی جب صحابہ کہیں کہ قرآن اور حدیث سے فلاں امر ثابت ہے اور حضرت ابو بکر کہیں کہ میں قرآن اور حدیث کی بات نہیں مانتا.پس کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت ابو بکر کبھی قرآن اور حدیث کے خلاف ایسا قدم اُٹھا سکیں؟ اور مسلمانوں کو انہیں لٹھ لیکر سیدھا کرنے کی ضرورت پیش آئے.اگر اس قدر کبھی بھی آپ سے ممکن نہ تھی مگر آپ نے یہ فقرہ کہا تو کفر بواح بھی گو آپ سے ممکن نہ تھا مگر آپ نے یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ صداقت از لی سب چیزوں سے بڑی ہے یہ فقرہ کہہ دیا اس سے آپ کا یہ منشا نہیں تھا کہ نَعُوذُ بِاللہ آپ سے کفر بواح صادر ہوسکتا ہے بلکہ یہ منشا تھا کہ میری حیثیت محض ایک خلیفہ کی ہے اور میرا کام اپنے رسول اور مطاع کی تعلیم کو صحیح رنگ میں دنیا میں قائم کرنا ہے.پس تم اس صداقت ازلی کو ہر چیز پر مقدم رکھو اور خواہ میں بھی اُس کے خلاف کہوں تم اصل تعلیم کو کبھی ترک نہ کرو.قرآن کریم سے بعض مثالیں اب میں بتاتا ہوں کہ اس قسم کے الفاظ قرآن کریم میں بھی موجود ہیں.حضرت شعیب فرماتے ہیں.مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّنَا - ۸۸ کفار نے حضرت شعیب علیہ السلام سے کہا کہ آؤ اور ہم میں مل جاؤ تو حضرت شعیب علیہ السلام نے یہ جواب دیا کہ ہمارے لئے یہ بالکل ناممکن ہے کہ تمہارے مذہب میں شامل ہوں ہاں اگر خدا چاہے تو ہو سکتا ہے.اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت شعیب کو کا فر کر دینا اللہ تعالیٰ کیلئے ممکن تھا یا شعیب کا کا فر ہو جانا ممکن تھا.یقیناً اُن کا کا فر ہونا ناممکن تھا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے.مگر انہوں نے یہ کہا اور اس لئے کہا تا اللہ تعالیٰ کا مقام اور اُس کی عظمت لوگوں پر ظاہر ہو کہ گو میرا کا فر ہونا ناممکن ہے مگر اس میں میرے نفس کی کوئی بڑائی نہیں

Page 221

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۵ جلد دوم بلکہ یہ مقام محض اللہ تعالیٰ کی مدد سے حاصل ہوا ہے اگر وہ نہ ہو تو پھر یہ عصمت بھی نہ رہے.اسی طرح رسول کریم علیہ کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی کلمات نکلوائے ہیں چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے قُلْ اِن كَانَ لِلرِّحْمَنِ وَلَد فَأَنَا أَوَّلُ الْعَيدِينَ ١٩ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ اگر خدا کا بیٹا ہو تو میں سے پہلے اُس کی پرستش اور عبادت کرنے کیلئے تیار ہوں.اب اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ کے لئے بیٹے کا امکان موجود ہے بلکہ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ خدا کا بیٹا تو یقیناً کوئی نہیں لیکن اگر ہوتا تو میرے جیسا مطیع و فرمانبردار بندہ اُس کی ضرور عبادت کرتا.اسی طرح حضرت ابو بکر سے گوگفر بواح کا صدور بالکل ناممکن تھا مگر آپ نے صداقت از لی کی اہمیت لوگوں کو ذہن نشین کرانے کیلئے فرما دیا کہ اگر میں بھی اس کے مقابلہ میں آجاؤں تو میری پرواہ نہ کرنا.ایسا ہی حضرت مسیح موعود علیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ السلام کا بھی ایک واقعہ ہے.آپ کے زمانہ میں ایک شخص میاں نظام الدین نامی تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا کہ مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں تو تمام ہندوستان میں ایک شور مچ گیا ، اُن دنوں حضرت خلیفہ اول جموں سے چند دنوں کی رخصت لیکر لاہور آئے ہوئے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی وہیں جا پہنچے اور انہوں نے آپ کو مباحثہ کا چیلنج دے دیا اور کہا کہ صرف حدیثوں سے اس مسئلہ پر بحث ہونی چاہئے.حضرت خلیفہ اول فرماتے کہ حدیث حاکم نہیں بلکہ قرآن حاکم ہے.پس ہمیں اس معاملہ کا قرآن کریم کی آیات سے فیصلہ کرنا چاہئے.اس پر کئی دن بحث ہوتی رہی اور ایک دوسرے کی طرف سے اشتہارات بھی نکلتے رہے.میاں نظام الدین چونکہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھی دوست تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی گہرا تعلق رکھتے تھے اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس جھگڑے کو نپٹا نا چاہئے.انہوں نے اپنے دل میں سمجھا کہ مرزا صاحب نیک آدمی ہیں وہ قرآن کریم کے خلاف تو کوئی بات نہیں کہہ سکتے.ضرور انہوں نے کوئی ایسی بات کہی ہوگی جسے مولوی محمد حسین

Page 222

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۶ جلد دوم بٹالوی سمجھے نہیں اور جوش میں آ کر مخالفت پر آمادہ ہو گئے ہیں ورنہ یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ قرآن سے حیات مسیح ثابت ہو اور مرزا صاحب جیسا نیک اور متقی آدمی قرآن کے خلاف یہ دعویٰ کر دے کہ حضرت مسیح فوت ہو چکے ہیں.چنانچہ وہ بڑے جوش سے قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہنے لگے کہ میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.آپ نے فرمایا ہاں میرا یہی دعوئی ہے.وہ کہنے لگے کہ اگر قرآن سے یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو کیا آپ اپنا یہ عقیدہ ترک کر دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کیوں نہیں.اگر قرآن سے حیات مسیح ثابت ہو جائے تو میں انہیں زندہ ماننے لگ جاؤں گا.اس پر وہ بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے میں پہلے ہی کہتا تھا کہ مرزا صاحب بڑے نیک آدمی ہیں وہ قرآن کے خلاف عمداً کوئی بات نہیں کہہ سکتے.انہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اور اگر اُسے رفع کر دیا جائے تو اُن سے حیات مسیح کا منوا لینا کوئی بڑی بات نہیں.چنانچہ کہنے لگے اچھا اگر میں ایسی سو آیتیں نکال کر لے آؤں جن سے حیات مسیح ثابت ہوتی ہو تو کیا آپ مان لیں گے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے سو چھوڑ آپ ایک آیت ہی ایسی لے آئیں تو میرے لئے وہی کافی ہے.کہنے لگے اچھا سو نہ سہی پچاس تو ضرور لے آؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میں تو کہہ چکا ہوں کہ میرے لئے ایک آیت بھی کافی ہے سو یا پچاس کا سوال ہی نہیں.وہ کہنے لگے اچھا یہ بات ہے تو دس آیتیں تو میں ایسی ضرور نکال کر لے آؤں گا جن سے مسیح کی حیات ثابت ہوتی ہو.چنانچہ وہ سیدھے لاہور پہنچے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے جا کر ملے.اس دوران میں چونکہ حضرت خلیفہ اول اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی بحث نے بہت طول پکڑ لیا تھا اس لئے تنگ آ کر حضرت خلیفہ اول نے اتنا مان لیا کہ قرآن کے علاوہ بخاری سے بھی تائیدی رنگ میں حدیثیں پیش کی جاسکتی ہیں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنی اس فتح پر بڑے خوش تھے اور وہ مسجد میں بیٹھے بڑے زورشور سے لافیں مار رہے تھے کہ میں نے نورالدین کو ایسا رگیدا اور ایسی پٹنیاں دیں کہ آخر اسے ماننا پڑا کہ قرآن کے علاوہ حدیثیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں.اتفاق ایسا ہوا کہ ادھر وہ ڈینگیں مار رہے

Page 223

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۷ جلد دوم تھے اور اُدھر میاں نظام الدین صاحب اُن کے سر پر جا پہنچے اور کہنے لگے بس اس بحث مباحثہ کو ایک طرف رکھیں میں قادیان گیا تھا اور میں حضرت مرزا صاحب کو منوا آیا ہوں کہ اگر میں قرآن سے دس آیتیں ایسی نکال کر لے آؤں جن سے حیات مسیح ثابت ہوتی ہو تو وہ اپنے عقیدہ کو ترک کر دیں گے اس لئے آپ جلدی کریں اور مجھے قرآن سے ایسی دس آیات نکال کر دے دیں میں ابھی اس جھگڑے کا فیصلہ کئے دیتا ہوں اور خود مرزا صاحب کی زبان سے یہ اقرار کر والیتا ہوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بڑے فخر سے کہہ رہے تھے کہ میں نے نورالدین کو ایسا رگیدا کہ وہ میرے مقابلہ میں شکست کھانے پر مجبور ہو گیا انہوں نے جب میاں نظام الدین صاحب کی یہ بات سنی تو اُن کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ بڑے غصہ سے کہنے لگے تجھے کس جاہل نے کہا تھا کہ تو مرزا صاحب کے پاس جائے.میں دو مہینے جھگڑ جھگڑ کر نورالدین کو حدیث کی طرف لایا تھا تو پھر بحث کو قرآن کی طرف لے گیا.وہ آدمی تھے نیک ، انہوں نے جب یہ سنا تو وہ حیرت و استعجاب سے تھوڑی دیر تو بالکل خاموش کھڑے رہے اور پھر مولوی صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگے اچھا مولوی صاحب ! اگر قرآن میں حیات مسیح کا کوئی ثبوت نہیں تو پھر جدھر قرآن ہے اُدھر ہی میں ہوں اور یہ کہہ کر وہاں سے چلے آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہو گئے.اب دیکھ لو با وجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس حقیقت کو کھولا تھا کہ حضرت مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں اور باوجود اس کے کہ آپ نے قرآن و احادیث سے اس مسئلے کو مدلل طور پر ثابت کر دیا تھا آپ نے فرمایا کہ اگر ایک آیت بھی اس کے خلاف لے آؤ تو میں اپنا عقیدہ ترک کرنے کیلئے تیار ہوں.اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نَعُوذُ بِاللهِ اس کے متعلق کامل یقین حاصل نہیں تھا اور آپ کا خیال تھا کہ شاید اس کے خلاف بھی کوئی آیت ہو.اگر کوئی ایسا کہے تو وہ اول درجے کا جاہل ہوگا کیونکہ آپ نے جب یہ کہا کہ اگر ایک آیت بھی میرے پاس ایسی نکال کر لے آئیں جس سے حیات مسیح ثابت ہوتی ہو تو میں اپنے

Page 224

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۸ جلد دوم عقیدہ کو ترک کر دوں گا تو یہ قرآن مجید کی عظمت اور اُس کی بزرگی کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا اور آپ کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کے ایک لفظ کے خلاف بھی اگر میرا عقیدہ ہو تو میں ترک کرنے کیلئے تیار ہوں.یہ مقصد نہیں تھا کہ واقع میں آپ کا کوئی عقیدہ خلاف قرآن ہے.اسی طرح حضرت ابو بکر کے اس قول کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ سے گفر بواح صادر ہو سکتا تھا بلکہ یہ معنی ہیں کہ صداقت ہر حالت میں قابل اتباع ہوتی ہے اور اُس کیلئے زید یا بکر کا کوئی سوال نہیں ہوتا اگر میں بھی کسی ایسے امر کا ارتکاب کروں تو تم میری اطاعت سے انکار کر دو.یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ کبھی خدا اور رسول کے حکم کے خلاف بھی کسی فعل کا ارتکاب کر سکتے تھے اور نہ اطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أولى الأمر منكم اور آیت استخلاف کی موجودگی میں یہ معنی ہو سکتے ہیں.آیت استخلاف اور خلافت ثانیہ اب میں مختصراً آیت استخلاف کے ماتحت احمد یہ خلافت کے ذکر کو چھوڑ کر صرف اپنی خلافت کو لیتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے وعد الله الّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْرِیم میں یہ بتایا ہے کہ جب تک قوم کی اکثریت میں ایمان اور عملِ صالح رہتا ہے اُن میں خلافت کا نظام بھی موجود رہتا ہے.پس دیکھنا یہ چاہئے کہ (۱) کیا جماعت اب تک ایمان اور عمل صالح رکھتی ہے یعنی کیا ہماری جماعت کی شہرت نیک ہے اور کیا ہماری جماعت کے افراد کی اکثریت عملِ صالح رکھتی ہے؟ اس کیلئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں.یہ بات ہر شخص پر ظاہر ہے کہ جماعت کی شہرت نیک ہے اور جماعت کی اکثریت عمل صالح پر قائم ہے.پس جب ایمان اور عملِ صالح کی یہ حالت ہے تو خلافت کا وعدہ ضرور پورا ہونا چاہئے کیونکہ وعد الله اللّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصلحت کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے اس بات کا وعدہ کیا ہے اور وعدہ ضرور پورا ہوا کرتا ہے.(۲) دوسری بات اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ

Page 225

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۹ جلد دوم كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ یعنی جس طرح پہلے خلفاء ہوئے اسی طرح اُمتِ محمدیہ میں خلفاء ہو نگے.مطلب یہ کہ جس طرح پہلے خلفاء الہی طاقت سے بنے اور کوئی اُن کی خلافت کا مقابلہ نہ کر سکا اِسی طرح اب ہو گا.سو میری خلافت کے ذریعہ یہ علامت بھی پوری ہوئی.حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے وقت صرف بیرونی اعداء کا خوف تھا مگر میری خلافت کے وقت اندرونی اعداء کا خوف بھی اس کے ساتھ شامل ہو گیا.پھر حضرت خلیفہ اول کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہی حکیم الامت اور اور بہت سے القاب سے ملقب کیا جاتا تھا مگر میرے متعلق سالہا سال سے جماعت میں یہ پروپیگنڈا کیا جارہا تھا کہ اگر اس بچہ کے ہاتھ میں جماعت کی باگ ڈور آ گئی تو جماعت تباہ ہو جائے گی.پھر میں نہ عربی کا عالم تھا ، نہ انگریزی کا عالم تھا، نہ ایسا فن جانتا تھا جو لوگوں کی توجہ اپنی طرف پھر ا سکے ، نہ جماعت میں مجھے کوئی عہدہ اور رسوخ حاصل تھا تمام اختیارات مولوی محمد علی صاحب کو حاصل تھے اور وہ جس طرح چاہتے تھے کرتے تھے.ایسے حالات میں ایک ایسا شخص جس کو عمر کے لحاظ سے بچہ کہا جاتا تھا، جس کو علم کے لحاظ سے جاہل کہا جا تا تھا ، جسے انجمن میں کوئی اختیار حاصل نہیں تھا، جس کے ہاتھ میں کوئی روپیہ نہیں تھا ، اُس کی مخالفت میں وہ لوگ کھڑے ہوئے جن کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں تھیں ، وہ لوگ کھڑے ہوئے جن کے ہاتھوں میں قوم کا تمام روپیہ تھا ، وہ لوگ کھڑے ہوئے جو ایک عرصہ دراز سے بہت بڑی عزتوں کے مالک سمجھے جاتے تھے اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم اس بچہ کو خلیفہ نہیں بننے دیں گے مگر خدا نے اُن کو ناکام و نامراد کیا اور وہی جسے جاہل کہا جاتا تھا ، جسے کو دن 2 قرار دیا جاتا تھا اور جس کے متعلق یہ علی الاعلان کہا جاتا تھا کہ وہ جماعت کو تباہ کر دے گا ، خدا تعالیٰ نے اُسی کو خلافت کے مقام کیلئے منتخب کیا.یہ لوگ اپنی امیدوں پر پانی پھرتا دیکھ کر یہاں سے الگ ہو گئے اور انہوں نے کہا جماعت نے بے وقوفی کی جو اُس نے ایک نادان اور احمق بچہ کو خلیفہ بنا لیا تھوڑے دنوں میں ہی اُسے اپنی حماقت کا خمیازہ نظر آ جائے گا ، جماعت تباہ ہو جائے گی ، روپیہ آنا بند ہو جائے گا ، تمام عزت اور نیک نامی خاک میں مل جائے گی اور وہ عروج جو سلسلہ کو اب تک حاصل ہوا ہے اس نادان بچے کی وجہ سے ضائع ہو جائیگا مگر

Page 226

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم ہوتا کیا ہے؟ وہی بچہ جب خدا کی طرف سے خلافت کے تخت پر بیٹھتا ہے تو جس طرح شیر بکریوں پر حملہ کرتا ہے اُسی طرح خدا کا یہ شیر دنیا پر حملہ آور ہوا اور اس نے ایک یہاں سے اور ایک وہاں سے، ایک مشرق سے اور ایک مغرب سے، ایک شمال سے اور ایک جنوب سے بھیڑیں اور بکریاں پکڑ پکڑ کر خدا کے مسیح کی قربان گاہ پر چڑھا دیں یہاں تک کہ آج اس سٹیج پر اس وقت سے زیادہ لوگ موجود ہیں جتنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے آخری سال جلسہ سالانہ پر آئے تھے.جس کی آنکھیں دیکھتی ہوں وہ دیکھے اور جس کے کان سنتے ہوں وہ سنے کہ کیا خدا کے فضل نے ان تمام اعتراضات کو باطل نہیں کر دیا جو مجھ پر کئے جاتے تھے.اور کیا اُس نے اُسی چھپیس سالہ نوجوان کو جس کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ وہ جماعت کو تباہ کر دے گا خلیفہ بنا کر اور اُس کے ذریعہ سے جماعت کو حیرت انگیز ترقی دے کر یہ ظاہر نہیں کر دیا کہ یہ کسی انسان کا بنایا ہوا خلیفہ نہیں بلکہ میرا بنایا ہوا خلیفہ ہے اور کوئی نہیں جو اس کا مقابلہ کر سکے.(۳) تیسری علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارتضى لهم یعنی جو علوم دینیہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن پر ظاہر ہو نگے انہیں خدا دنیا میں قائم کرے گا اور کوئی اُن کو مٹانے پر قادر نہ ہو سکے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کی وجہ سے صحابہؓ کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ صحابہ نے جو حدیثیں جمع کیں وہ بجائے خود اتنا بڑا کارنامہ ہے جو اُن کے درجہ کو عام لوگوں کے وہم و گمان سے بھی بلند تر کر دیتا ہے.پھر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اول قرآن کریم کے کامل ماہر اور اُس کے عاشق تھے اور آپ کے احسانات جماعت احمدیہ پر بہت بڑے ہیں لیکن یہ سب وہ تھے جن میں سے کسی ایک پر بھی جاہل ہونے کا اعتراض نہیں کیا گیا اس لئے خدا تعالیٰ کی صفت علیم جس شان اور جس جاہ وجلال کے ساتھ میرے ذریعہ جلوہ گر ہوئی اُس کی مثال مجھے خلفاء کے زمرہ میں اور کہیں نظر نہیں آتی.میں وہ تھا جسے گل کا بچہ کہا جاتا تھا ، میں وہ تھا جسے احمق اور نادان قرار دیا جا تا تھا مگر عہدۂ خلافت کو سنبھالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم اتنی کثرت کے ساتھ کھولے کہا.

Page 227

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۱ جلد دوم قیامت تک اُمتِ مسلمہ اِس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں کو پڑھے اور اُن سے فائدہ اٹھائے.وہ کونسا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا.مسئلہ نبوت، مسئله کفر ، مسئله خلافت، مسئله تقدیر، قرآنی ضروری امور کا انکشاف ، اسلامی اقتصادیات، اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرت وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون موجود نہیں تھا مجھے خدا نے اس خدمت دین کی توفیق دی اور اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی ان مضامین کے متعلق قرآن کے معارف کھولے جن کو آج دوست دشمن سب نقل کر رہے ہیں.مجھے کوئی لاکھ گالیاں دے، مجھے لاکھ بُرا بھلا کہے جو شخص اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے لگے گا اُسے میرا خوشہ چیں ہونا پڑے گا اور وہ میرے احسان سے کبھی باہر نہیں جا سکے گا چاہے پیغامی ہوں یا مصری.ان کی اولادیں جب بھی دین کی خدمت کا ارادہ کریں گی وہ اس بات پر مجبور ہونگی کہ میری کتابوں کو پڑھیں اور اُن سے فائدہ اُٹھائیں بلکہ میں بغیر فخر کے کہہ سکتا ہوں کہ اس بارہ میں سب خلفاء سے زیادہ مواد میرے ذریعہ سے جمع ہوا ہے اور ہو رہا ہے.پس مجھے یہ لوگ خواہ کچھ کہیں خواہ کتنی بھی گالیاں دیں ان کے دامن میں اگر قرآن کے علوم پڑیں گے تو میرے ذریعہ ہی اور دنیا ان کو یہ کہنے پر مجبور ہوگی کہ اے نا دا نو ! تمہاری جھولی میں تو جو کچھ بھرا ہوا ہے وہ تم نے اسی سے لیا ہے پھر اس کی مخالفت تم کس منہ سے کر رہے ہو.(۴) چوتھی علامت یہ بتائی تھی کہ وَليبَة لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا - خدا ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا.یہ علامت میرے زمانہ میں خدا نے نہایت صفائی کے ساتھ پوری کی.چنانچہ حضرت خلیفہ اول جب خلیفہ ہوئے ہیں تو اُس وقت صرف یہ خوف تھا کہ باہر کے دشمن ہنسی مذاق اُڑائیں گے اور وہ جماعت کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے.مگر میری خلافت کے آغاز میں نہ صرف بیرونی دشمنوں کا خوف تھا بلکہ جماعت کے اندر بھی بگاڑ پیدا ہو چکا تھا اور خطرہ تھا کہ اور لوگ بھی اس بگاڑ سے متاثر نہ ہو جائیں ایسے حالات میں خدا نے میرے ذریعہ ہی اس خوف کو امن سے بدلا اور یہ خطرہ کہ جماعت کہیں صحیح عقائد سے منحرف نہ ہو جائے بالکل دُور کر دیا.چنا نچہ دیکھ لو آج مصری صاحب

Page 228

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۲ جلد دوم بھی باوجود میری مخالفت کے نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائل ہیں اور اگر وہ دیانتداری اور سچائی سے کام لیں تو اس بات کا اعتراف کر سکتے ہیں کہ اس مسئلہ پر جماعت کو ثبات میری وجہ سے ہی حاصل ہوا اور میں نے ہی اس مسئلہ کو حل کیا.پھر کیا یہ مسئلہ خدا نے اسی سے حل کرانا تھا جو بقول مصری صاحب معزول ہونے کے قابل تھا ؟ اسی طرح جماعت پر بڑے بڑے خطرات کے اوقات آئے مگر خدا تعالیٰ نے ہر خطرہ کی حالت میں میری مدد کی اور میری وجہ سے اس خوف کو امن سے بدل دیا گیا.احرار کا جن دنوں زور تھا لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اب جماعت تباہ ہو جائے گی مگر میں نے کہا میں احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی دیکھتا ہوں اور اس کے تھوڑے دنوں بعد ہی احرار کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی اور وہ دنیا میں ذلیل اور رسوا ہو گئے.تھوڑا ہی عرصہ ہوا ایک سکھ نے ایک رسالہ لکھا ان جس میں وہ میرا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کو مخاطب کر کے لکھتا ہے کہ تم انہیں خواہ کتنا ہی جھوٹا کہو ، ایک بات ایسی ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور وہ یہ کہ جن دنوں احرار اپنے زور پر تھے اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جماعت احمدیہ کو مٹا کر رکھ دیں گے اُن دنوں امام جماعت احمدیہ نے کہا کہ میں احرار کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلتی دیکھ رہا ہوں اور سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی یہ بات بڑی شان سے پوری ہوئی.پہلے احرار جس تحریک کو بھی اپنے ہاتھ میں لیتے تھے کامیاب ہوتے تھے مگر اب ان کی یہ حالت ہے کہ وہ جس تحریک کو بھی اُٹھاتے ہیں اس میں ناکام ہوتے ہیں.اسی طرح ارتداد ملکا نا کا فتنہ لے لو، رنگیلا رسول کے وقت کی ایجی ٹیشن کو لے لو یا ان بہت سی سیاسی اُلجھنوں کو لے لو جو اس دوران میں پیدا ہوئیں تمہیں نظر آئے گا کہ ہر مصیبت کے وقت خدا نے میری مدد کی ، ہر مشکل کے وقت اس نے میرا ساتھ دیا اور ہر خوف کو اس نے میرے لئے امن سے بدل دیا.میں کبھی بھی نہیں سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ایسا عظیم الشان کام لے گا مگر میں اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتا کہ خدا نے میرے وہم اور گمان سے بڑھ کر مجھ پر احسانات کئے.جب میری خلافت کا آغاز ہوا تو اُس وقت میں نہیں سمجھتا تھا کہ میں کوئی دین کی خدمت کر سکوں گا.ظاہری حالات میرے خلاف تھے ، کام کی قابلیت میرے اندر نہیں تھی ، پھر میں نہ عالم تھا نہ

Page 229

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۳ جلد دوم فاضل ، نہ دولت میرے پاس تھی نہ جتھا، چنانچہ خدا گواہ ہے جب خلافت میرے سپرد ہوئی تو و اس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ خدا کے عرفان کی نہر کا ایک بند چونکہ ٹوٹ گیا ہے اور خطرہ ہے کہ پانی ادھر اُدھر بہہ کر ضائع نہ ہو جائے ، اس لئے مجھے کھڑا کیا گیا ہے تا کہ میں اپنا مردہ دھڑ اس جگہ ڈال دوں جہاں سے پانی نکل کر بہہ رہا ہے اور وہ ضائع ہونے سے محفوظ ہو جائے چنانچہ میں نے دین کی حفاظت کیلئے اپنا دھڑ وہاں ڈال دیا اور میں نے سمجھا کہ میرا کام ختم ہو گیا مگر میری خلافت پر ابھی تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ خدا تعالیٰ کے نشانات بارش کی طرح برسنے شروع ہو گئے.اللہ تعالیٰ کا ایک عجیب نشان چنا نچہ علی گڑھ کا ایک نو جوان جس کی حالت یہ تھی کہ وہ حضرت خلیفہ اول کے عہد میں ہی میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیاں جمع کرنے لگ گیا تھا اور اس کا دعویٰ تھا کہ یہ پیشگوئیاں اتنی زبر دست ہیں کہ ان کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.وہ حضرت خلیفہ اول کی وفات سے بارہ تیرہ دن پہلے قادیان آیا اور یہ دیکھ کر کہ آپ کی حالت نازک ہے مجھے کہنے لگا کہ میں آپ کی بیعت کرنے کیلئے تیار ہوں.میں نے کہا تم کیسی گناہ والی بات کر رہے ہو ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے خلیفہ کے متعلق گفتگو کرنا شرعاً بالکل نا جائز اور حرام ہے تم ایسی بات مجھ سے مت کرو.چنانچہ وہ علی گڑھ واپس چلا گیا اور بارہ تیرہ دن کے بعد حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوگئی.وہ چونکہ حضرت خلیفہ اول سے اچھے تعلقات رکھتا تھا اس لئے جب آپ کی وفات پر اختلاف ہوا تو بعض پیغامیوں نے اُسے لکھا کہ تم اس فتنہ کو کسی طرح دور کرو.اس پر اُس نے علی گڑھ سے مجھے تار دیا کہ فوراً ان لوگوں سے صلح کر لو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا.میں نے اُسے جواب لکھا کہ تمہارا خط پہنچا تم تو مجھے یہ نصیحت کرتے ہو کہ میں ان لوگوں سے صلح کرلوں مگر میرے خدا نے مجھ پر یہ الہام نازل کیا ہے کہ : - کون ہے جو خدا کے کاموں کو روک سکے پس میں ان سے صلح نہیں کر سکتا.رہا تمہارا مجھے یہ تحریک کرنا سو یا د رکھو تم خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی محبت کے نیچے ہو.تم نے حضرت خلیفہ اول کی زبان سے میرے متعلق بارہا ایسا ذکر

Page 230

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۴ جلد دوم سنا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ان کے بعد خدا تعالیٰ مجھے خلافت کے مقام پر کھڑا کرے گا پھر تم خود میرے متعلق ایک کتاب لکھ رہے تھے جس میں ان پیشگوئیوں کا ذکر تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے متعلق کیس پس تم پر حجت تمام ہو چکی ہے اور تم میرا انکار کر کے اب دہریت سے ورے نہیں رہو گے.یہ خط میں نے اُسے لکھا اور ابھی اس پر ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ دہر یہ ہو گیا.چنانچہ وہ آج تک دہر یہ ہے اور عَلَى الإغلانُ خدا تعالیٰ کی ہستی کا منکر ہے حالانکہ وہ حضرت خلیفہ اول کی وفات سے بارہ تیرہ دن پہلے میری بیعت کیلئے تیار تھا اور پھر میرے متعلق ایک کتاب بھی لکھ رہا تھا جس میں اس کا ارادہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُن تمام پیشگوئیوں کو جمع کر دے جو میرے متعلق ہیں مگر چونکہ اس نے ایک کھلی سچائی کا انکار کیا اس لئے میں نے اُسے لکھا کہ اب میرا انکار تمہیں دہریت کی حد تک پہنچا کر رہے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ ایک مہینہ کے اندر اندر دہر یہ ہو گیا.اس کے کچھ عرصہ بعد ایک دفعہ وہ میرے پاس آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں پر بحث کرنے لگا.میں نے اُسے کہا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کو جانے دو تم یہ بتاؤ کہ میں نے تمہارے متعلق جو پیشگوئی کی تھی وہ پوری ہوئی یا نہیں ؟ اس پر وہ بالکل خاموش ہو گیا.غیر مبائعین کے متعلق الہام لَيُمَزَ قَنَّهُمْ پورا ہو گیا غیر مباین کے پاس دوسری بڑی چیز جتھا تھی.انہیں اس بات پر بڑا گھمنڈ تھا کہ جماعت کا پچانوے فیصدی حصہ ان کے ساتھ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے انہی دنوں مجھ پر الہام نازل کیا کہ ”لیمز قَنَّهُم “ اللہ تعالیٰ ان کو ضرور ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.چنانچہ خدا کی قدرت وہی خواجہ کمال الدین صاحب جن کے مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ ایسے گہرے تعلقات تھے کہ خواجہ صاحب اگر رات کو دن کہتے تو وہ بھی دن کہنے لگ جاتے اور وہ اگر دن کو رات کہتے تو یہ بھی رات کہنے لگ جاتے ان کی خواجہ صاحب کی وفات سے دو سال پہلے آپس میں وہ لڑائی ہوئی اور ایک دوسرے پر ایسے ایسے اتہامات لگائے

Page 231

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۵ جلد دوم گئے کہ حد ہو گئی.پھر ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب اور ان کی انجمن کے دوسرے ممبروں میں احمد یہ بلڈنکس میں عَلَى الْإِعْلانُ لڑائی ہوئی.یہاں تک کہ بعضوں نے کہ دیا ہم عورتوں کو پکڑ کر یہاں سے نکال دیں گے.کل بھی انہی میں سے ایک آدمی میرے پاس آیا ہوا تھا اور کہتا تھا کہ میری جائیداد فلاں شخص لوٹ کر کھا گیا ہے آپ میری کہیں سفارش کرا دیں.غرض جس طرح الہام میں بتایا گیا تھا اسی طرح واقعہ ہوا اور ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی.اس کے مقابلہ میں وہ پچیس سالہ نوجوان جسے یہ تحقیر سے بچہ کہا کرتے تھے اسے خدا تعالیٰ نے ایسی طاقت دی کہ جب بھی کوئی فتنہ اُٹھتا ہے اُس وقت وہ اسے اس طرح کچل کر رکھ دیتا ہے جس طرح لکھی اور مچھر کو مسل دیا جاتا ہے اور کسی کی طاقت نہیں ہوتی کہ و مقابلہ میں دیر تک ٹھہر سکے.09, اللہ تعالیٰ پر کامل یقین پانچویں علامت اللہ تعالیٰ نے بچے خلفاء کی یہ بتائی ہے کہ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بي شيئا وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے.اس علامت کے مطابق بھی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی کسی سے نہیں ڈرا.احتیاط میرے اندرحد درجہ کی ہے اور میں اسے عیب نہیں بلکہ خوبی سمجھتا ہوں لیکن جب مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ فلاں بات یوں ہے تو پھر میں نے مشکلات کی کبھی پرواہ نہیں کی.یہی وجہ ہے کہ باوجو د شدید ترین خطرات کے خدا تعالیٰ نے ہمیشہ مجھے مداہنت سے بچایا ہے اور کبھی بھی میں جھوٹی صلح کی طرف مائل نہیں ہوا.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا مستریوں کے فتنہ کے بارہ میں ایک رؤیا کہ میں بہشتی مقبرہ کی طرف سے آ رہا ہوں اور میرے ساتھ میر محمد اسحاق صاحب ہیں راستہ میں ایک بڑا سمندر ہے جس میں ایک کشتی بھی موجود ہے.میں اور میر محمد اسحاق صاحب دونوں اس کشتی میں بیٹھ گئے اور چل پڑے.جب وہ کشتی اس مقام پر پہنچی جہاں مستریوں کا مکان ہوا کرتا تھا تو وہ بھنور میں پھنس گئی اور چکر کھانے لگی.اتنے میں اس سمندر میں سے ایک سرنمودار ہوا اور اس نے کہا کہ یہاں ایک پیر صاحب کی قبر ہے تم ان کے نام ایک رقعہ لکھ کر ڈال دو تا کہ یہ کشتی بھنور سے نکل جائے اور

Page 232

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۶ جلد دوم تم سلامتی کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچ جاؤ.میں نے کہا ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا یہ سخت مشرکانہ فعل ہے.اس کے بعد چکر اور بھی بڑھ گئے اور یہ خطرہ محسوس کیا جانے لگا کہ کہیں کشتی ڈوب ہی نہ جائے.اس پر میر محمد اسحاق صاحب مجھ سے کہتے ہیں کہ اس میں حرج ہی کیا ہے بہتر یہ ہے کہ اس وقت ہم رقعہ لکھ کر ڈال دیں جب بچ جائیں گے تو پھر تو بہ کر لیں گے.میں نے کہا ایسا ہرگز نہیں ہو گا.اس پر انہوں نے مجھ سے چُھپ کر رقعہ لکھا اور اُس کی مروڑی سی بنا کر چاہا کہ وہ رقعہ سمندر میں ڈال دیں.اتفاقاً میں نے دیکھ لیا اور میں نے کہا میر صاحب! چاہے ہم ڈوب جائیں ایسی مشر کا نہ بات کا ارتکاب میں نہیں ہونے دوں گا.چنانچہ میں نے وہ رقعہ ان سے چھین کر پھاڑ ڈالا اور اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کشتی خود بخود بھنور میں سے نکل گئی.اس رؤیا کے سالہا سال بعد اسی مقام پر جہاں خواب میں ہماری کشتی بھنور میں پھنسی تھی مستریوں کا فتنہ اٹھا اور انہوں نے کئی قسم کے الزامات لگائے.پھر اس خواب کے عین مطابق ایک دن میر محمد اسحاق صاحب سخت گھبرا کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اس میں کیا حرج ہے کہ ہم ان لوگوں کو کچھ روپیہ دے دیں اور اس طرح ان کو خاموش کرا دیں ؟ میں نے کہا میر صاحب! اگر وہ باتیں ٹھیک ہیں جن کو یہ پیش کرتے ہیں تو پھر ان کو خاموش کرانے کے کوئی معنی نہیں اور اگر وہ باتیں غلط ہیں تو خدا ان کو خود تباہ کرے گا ہمیں اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ ہم ان کو روپیہ دیں.پس جہاں تک خلافت کا تعلق میرے ساتھ ہے اور جہاں تک اس خلافت کا ان خلفاء کے ساتھ تعلق ہے جو فوت ہو چکے ہیں ان دونوں میں ایک امتیاز اور فرق ہے.ان کے ساتھ تو خلافت کی بحث کا علمی تعلق ہے اور میرے ساتھ نشانات خلافت کا معجزاتی تعلق ہے.پس میرے لئے اس بحث کی کوئی حقیقت نہیں کہ کوئی آیت میری خلافت پر چسپاں ہوتی ہے یا نہیں.میرے لئے خدا کے تازہ بتازہ نشانات اور اس کے زندہ معجزات اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور کوئی شخص نہیں جو میرا مقابلہ کر سکے.اگر تم میں کوئی ماں کا بیٹا ایسا موجود ہے جو میرا مقابلہ کرنے کا شوق اپنے دل میں رکھتا ہو تو وہ اب میرے

Page 233

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۷ جلد دوم مقابلہ میں اٹھ کر دیکھ لے.خدا اُس کو ذلیل اور رُسوا کرے گا بلکہ اُسے ہی نہیں اگر دنیا جہان کی تمام طاقتیں مل کر بھی میری خلافت کو نابود کرنا چاہیں گی تو خدا اُن کو مچھر کی طرح مسل دے گا اور ہر ایک جو میرے مقابلہ میں اُٹھے گا گرایا جائے گا ، جو میرے خلاف بولے گا وہ خاموش کرایا جائے گا اور جو مجھے ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ خود ذلیل اور رُسوا ہو گا.پس اے مومنوں کی جماعت اور اے عملِ صالح کرنے والو! میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ خلافت خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو جب تک تم لوگوں کی اکثریت ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہے گی خدا اس نعمت کو نازل کرتا چلا جائے گا لیکن اگر تمہاری اکثریت ایمان اور عملِ صالح سے محروم ہو گئی تو پھر یہ امر اس کی مرضی پر موقوف ہے کہ وہ چاہے تو اس انعام کو جاری رکھے اور چاہے تو بند کر دے.پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی سوال نہیں خلافت اس وقت چھینی جائے گی جب تم بگڑ جاؤ گے.پس اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری مت کرو اور خدا تعالیٰ کے الہامات کو تحقیر کی نگاہ سے مت دیکھو بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے تم دعاؤں میں لگے رہو تا قدرتِ ثانیہ کا پے در پے تم میں ظہور ہوتا رہے.تم ان نا کاموں اور نا مرادوں اور بے علموں کی طرح مت بنو جنہوں نے خلافت کو رڈ کر دیا بلکہ تم ہر وقت ان دعاؤں میں مشغول رہو کہ خدا قدرت ثانیہ کے مظاہر تم میں ہمیشہ کھڑے کرتا رہے تا کہ اس کا دین مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے اور شیطان اس میں رخنہ اندازی کرنے سے ہمیشہ کیلئے مایوس ہو جائے.قدرتِ ثانیہ کے نزول کیلئے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدرتِ ثانیہ کے نزول کیلئے میشہ دعاؤں میں مشغول رہو دعاؤں کی جو شرط لگائی ہے وہ کسی ایک زمانہ کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں اس ارشاد کا یہ مطلب تھا کہ میرے زمانہ میں تم یہ دعا کرو کہ تمہیں پہلی خلافت نصیب ہوا اور پہلی خلافت کے زمانہ میں اس دعا کا یہ مطلب تھا کہ الہی ! اس کے بعد ہمیں دوسری خلافت ملے اور دوسری خلافت میں اس دعا کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں تیسری خلافت ملے اور تیسری خلافت میں

Page 234

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۸ جلد دوم اس دعا کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں چوتھی خلافت ملے ایسا نہ ہو کہ تمہاری شامت اعمال سے اس نعمت کا دروازہ تم پر بند ہو جائے.پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مشغول رہو اور اس امر کو اچھی طرح یا درکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی دنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آ سکے گی اور ہر میدان میں تم مظفر ومنصور رہو گے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے جو اُس نے ان الفاظ میں کیا کہ وعد الله الّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الأرض مگر اس بات کو بھی یاد رکھو کہ ومَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ خدا تمہارےساتھ ہوا ور ابد الآباد تک تم اس کی برگزیدہ جماعت رہو.اختتامی الفاظ : ۲۹ / دسمبر حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے دو بجے جب تقریر ختم فرمائی تو جلسہ پر تشریف لانے والے اصحاب کو جانے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا : - اب جلسہ ختم ہوتا ہے اور احباب اپنے گھروں کو جائیں گے.انہیں احمدیت کی ترقی کیلئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہئے.اولاد پیدا ہونے کے ذریعہ بھی ترقی ہوتی ہے مگر وہ ایسی نہیں جو تبلیغ کے ذریعہ ہوتی ہے.یہ ترقی اولاد کے ذریعہ ہونے والی ترقی سے بڑھ کر با برکت ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے ایک شخص کا ہدایت پا جانا اس سے زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ کسی کے پاس اس قدر سرخ اونٹ ہوں کہ ان سے دو وادیاں بھر جائیں.۹۲ پس تبلیغ کرو اور احمدیت کی اشاعت میں منہمک رہو تا کہ تمہاری زندگی میں اسلام اور احمدیت کی شوکت کا زمانہ آ جائے جبکہ سب لوگ احمدی ہو جائیں گے تو پھر رعا یا بھی احمدی ہوگی اور بادشاہ بھی احمدی.میں نے بچپن میں ایک رؤیا دیکھا تھا ۱۲ ۱۳ سال کی عمر تھی کہ کبڈی ہو رہی ہے.ایک طرف احمدی ہیں اور دوسری طرف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ساتھی جو شخص کبڈی کہتا ہوا مولوی محمد حسین صاحب کی طرف سے آتا ہے اسے ہم مار لیتے ہیں.اور اس میں قاعدہ یہ ہے کہ جو مر جائے وہ دوسری پارٹی کا ہو جائے.اس قاعدہ کی رُو سے مولوی صاحب کا جو ساتھی مارا جاتا وہ ہمارا ہو جاتا.مولوی صاحب کے سب ساتھی اس طرح

Page 235

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۹ جلد دوم ہماری طرف آگئے تو وہ اکیلے رہ گئے.اس پر انہوں نے پاس کی دیوار کی طرف منہ کر کے آہستہ آہستہ لکیر کی طرف بڑھنا شروع کیا اور لکیر کے پاس پہنچ کر کہا میں بھی اس طرف آ جاتا ہوں اور وہ بھی آگئے.مولوی محمد حسین صاحب سے مراد ائمۂ کفر ہیں اور اس طرح بتایا گیا کہ جب عام لوگ احمدی ہو جائیں گے تو وہ بھی ہو جائیں گے اور جب رعا یا احمدی ہو جائے گی تو بادشاہ بھی ہو جائیں گے پس تبلیغ کرو، احمدیت کو پھیلا ؤ اور دعاؤں میں لگے رہو.دل میں درد پیدا کرو، عاجزی ، فروتنی اور دیانت داری اختیار کرو اور ہر طرح خدا کے مخلص بندے بننے کی کوشش کرو.اگر کبھی کوئی غلطی ہو جائے تو اس پر اصرار مت کرو کیونکہ جو اپنی غلطی پر اصرار کرتا ہے اس کے اندر سے نور جاتا رہتا ہے.نہ اُس کی نمازوں میں لذت رہتی ہے اور نہ دعاؤں میں برکت.اپنی غلطی پر نادم ہونا اور خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرنا ترقی کا بڑا بھاری گر ہے.پس اگر غلطی کرو تو بھی اور نہ کرو تو بھی خدا تعالیٰ کے حضور جھکو اور اس سے عفو طلب کرو.صلى الله اس طرح مستقل ایمان حاصل ہو جاتا ہے اور اسے تو بہ ٹوٹنے نہیں دیتی.رسول کریم علی نے فرمایا ہے جب کوئی مومن چوری کرتا ہے یا زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان اس کے سر پر معلق ہو جاتا ہے اور جب وہ ایسا فعل کر چکتا ہے تو پھر اس میں داخل ہو جاتا ہے.اس سے بتایا کہ تو بہ کرنے والے کا ایمان گلی طور پر اسے نہیں چھوڑتا ، اس کی غلطی کی وجہ سے نکل جاتا ہے مگر پھر تو بہ کرنے سے لوٹ آتا ہے.پس دعائیں کرتے رہو میرے لئے بھی ، تمام مبلغین کے لئے بھی اور سب احمدیوں کیلئے بھی.بے شک خدا تعالیٰ کے میرے ساتھ وعدے ہیں لیکن میری طاقت تمہارے ذریعہ ہے.پس اپنے لئے دعائیں کرو اور میرے لئے بھی.اب کے تو خلافت جوبلی کی وجہ سے اتنے لوگ جمع ہوئے ہیں کوشش کرو کہ جماعت اتنی بڑھ جائے کہ اگلے سال یوں بھی اتنے لوگ جمع ہوسکیں.پھر غیروں کیلئے بھی دعائیں کرو.ان کے متعلق اپنے دلوں میں غصہ نہیں بلکہ رحم پیدا کرو.خدا تعالیٰ کو بھی اس شخص پر رحم آتا ہے جو اپنے دشمن پر رحم کرتا ہے.پس تم اپنے دلوں

Page 236

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۰ جلد دوم میں ہر ایک کے متعلق خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرو.انہی دنوں ایک وزیری پٹھان آئے اور کہنے لگے دعا کریں انگریز دفع ہو جائیں.میں نے کہا.ہم بددعا نہیں کرتے.یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے ہو جائیں.پس کسی کیلئے بد دعانہ کرو.کسی کے متعلق دل میں غصہ نہ رکھو بلکہ دعائیں کرو اور کوشش کرو کہ اسلام کی شان و شوکت بڑھے اور ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے.اس موقع پر میں ان لوگوں کیلئے بھی دعا کرتا ہوں جنہوں نے تاروں کے ذریعہ دعاؤں کیلئے لکھا.ان کے نام نہیں پڑھ سکتا کیونکہ وقت تنگ ہو رہا ہے.آپ لوگ ان کیلئے اور دوسروں کیلئے اور اسلام واحمد بیت کیلئے دعا کریں.“ (انوار العلوم جلد نمبر ۱۵ صفحه ۴۴۳ تا ۵۹۵ ) بخاری کتاب الاضاحي باب ما يؤكل من لحوم الاضاحی صفحه ۹۹۰ حدیث ۵۵۷۱ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية ( مفهوماً) الانفال: ۴۳ ابوداؤد كتاب الجهاد باب في النوم يسامرون صفحه ۳۷۷ حدیث نمبر ۲۶۰۸ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولى متی باب ۱۷ آیت ۲۱ ، نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء گلتیوں باب ۳ آیت ۱۰.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لا ہو ر ۱۹۲۲ء گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء ك الحشر: ۸ النساء: ٦٦ 2 النور : ۵۲ نا الاعراف: ۱۵۸ ل الحجرات : ٨ ١٢ التوبة: ١٠٣ التوبة: ٨١ المائدة: ۳۴ ها التوبة: اتا۵ اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۱۳۲ مطبوعہ بیروت ۲۰۰۶ء الطبعة الاولى كل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۶۱۵ باب ما يذكر في مدة مرضه مطبوعہ بیروت لبنان ۲۰۱۲ء

Page 237

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۱۸ آل عمران: ۱۴۵ ۲۲۱ جلد دوم ٢٠ السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانی صفحه ۱۴۶ موقف ابي بكر بعد وفاة الرسول مطبوعہ دمشق ۲۰۰۵ء شرح دیوان حسان بن ثابت صفحه ۲۲۱ آرام باغ کراچی مسلم كتاب الوصية باب ترك الوصية لمن ليس له شيئ الخ صفحہ ۷۱۸ حدیث نمبر ۴۲۳۴ مطبوعه رياض ۲۰۰۰ء الطبعة الثانية ۲۳ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۲۴ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۲۲۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۲۵ ۲۶ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۲۸، ۳۲۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۲۷ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۳۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۲۸ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۴۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۲۹ تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۲۴۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۳۰ تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۲۴۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء اس تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۳۳۴، ۳۳۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۳۲ تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۳۳۴،۳۲۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ( مفهوماً ) ۳۳ النساء: ۵۲ تا ۶۰ ۱۳۴ پیغام صلح ۲۲ / مارچ ۱۹۱۴ء ۳۵ پیغام صلح ۵ رمئی ۱۹۱۴ء ٣٦ التوبة ٨ ۳۹ الكهف: ۴۷ الرحمن: ۳۸۴۷ الرحمن: ۶۳ نسائی کتاب الجهاد باب الرخصة فى التخلف لمن له والدة صفحه ۴۲۶ حدیث نمبر ۳۱۰۶ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولیٰ ال الجمعة ٤

Page 238

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۲ جلد دوم ۲ مسلم كتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء فى غير معصية صفحه ۸۲۰ تا ۸۲۷ حدیث نمبر ۴۷۶۸ تا ۷۱ ۴۷ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولى مسلم كتاب الامارة باب خيار الأئمة وشرارهم صفحه ۸۳۳ حدیث نمبر ۴۸۰۵ مطبوعہ ریاض ۲۰۰۰ء الطبعة الاولى ۲۴ مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۱۲۷ - المكتب الاسلامی بیروت ،ترمذی ابواب العلم صفحہ ۶۰۷ حدیث نمبر ۲۶۷۶ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولى ۲۵ النور : ۵۵ تا ۵۷ ص: ۲۷ ابراهیم: ۸ البقرة: ٣١ ۲۹ ال عمران: ۱۶۰ ۵۰ الاعراف: ۷۰ ا المائدة: ۲۱ ۵۲ الروم: ۴۲ ۵۳ اسد الغابة جلد ۲ صفحه ۲۳۷ زیر عنوان سراقہ بن مالک مطبوعہ بیروت لبنان ۲۰۰۶ء ۵۴ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحه ۶۰ - الناشر مکتبہ نزار مصطفی الباز ۲۰۰۴ء ۵۵ تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحه ۲۰۱ مطبوعہ بیروت صلى الله ۵۶ بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة باب ما ذكر النبي علم صفحه ۱۲۶۱ حدیث نمبر ۷۳۲۴ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية ۵۷ مسند احمد بن حنبل جلد ۳۰ صفحه ۳۵۵ حدیث نمبر ۱۸۴۰۶ الناشر مؤسسة الرسالة ۲۰۰۱ء ۵۸ برنڈ زی(BRINDISI) جنوبی اٹلی کا شہر.رومی دور کا اہم بحری اڈہ ۵۹ البقرة: ۹۲ اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحه ۲۴۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء) ۲۰ تاریخ ابن اثیر جلد ۴ صفحه ۶۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ال تاریخ ابن اثیر جلد ۴ صفحه ۱۳۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۲۲ سِرا الخلافة صفحه ۲۰ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۳۴ ایڈیشن ۲۰۰۸ء المزمل: ١٦ ١٤ البقرة: ۲۴۸

Page 239

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۳ جلد دوم ۶۵ موضوعات ملا علی قاری صفحه ۴۸ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ ٦٦ کنز العمال جلدا اصفحه ۲۵۹ حدیث نمبر ۳۱۴۴۷ مطبوعہ دمشق ۲۰۱۲ء الطبعة الاولى الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۴، ۳۰۵ ایڈیشن ۲۰۰۸ء ۲۸ ال عمران : ااا ۱۹ مشكاة المصابيح جلد ۳ صفحه ۴۸۴ اكتاب الفتن الفصل الثاني حدیث نمبر ۵۳۹۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء ى سر الخلافة صفحه ۱۹ ،۲۰ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۳۳ ۳۳۴ ایڈیشن ۲۰۰۸ء الى سرا الخلافة صفحه ۱۲ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۲۶ ایڈیشن ۲۰۰۸ء سر الخلافة صفحه ۴۴ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۵۸، ۳۵۹ ایڈیشن ۲۰۰۸ ی خلافت راشدہ حصہ اوّل صفحہ ۱۱۰ مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مطبوعه امرتسر ۱۹۲۲ء الفضل ۱۱؍ مارچ ۱۹۱۴ ء صفحہ ۱ ۷۵ بدراار جولائی ۱۹۱۲ء صفحه ۴ المعجم الكبير للطبرانی جلد ۶ صفحه ۲۲۸ مطبوعه عراق ۱۹۷۹ ء کے مطابق یہ حدیث ہے.کے تذکرہ صفحہ ۵۱۸.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء البقرة: ۱۵۷ ٩ البقرة: ۱۲۵ ١٠ البقرة: ٢٦١ ال العنكبوت: ۲۸ بخاری کتاب الانبياء باب قول الله تعالى لقد كان في يوسف و اخوته الخ صفحه ۵۶۶ حدیث نمبر ۳۳۸۳ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية الوصیت صفحه ۶ ، ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۳۰۵ یڈیشن ۲۰۰۸ء ترمذی ابواب المناقب باب لو كان نبى بعدى الخ ۸۳۸ حدیث نمبر ۳۶۸۶ مطبوعه رياض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية ۸۵ بخاری کتاب المغازی باب غزوة تبوک صفحه ۷۴۹ حدیث نمبر ۴۴۱۶ مطبوعه ریاض

Page 240

خلافة على منهاج النبوة ١٩٩٩ء الطبعة الثانية ۲۲۴ جلد دوم الخصائص الكبرى الجزء الثانى صفحہ ۱۹۷ ذكر المعجزات مطبوعہ بیروت میں ما كانت نبوة قط الا تبعتها خلافة “ کے الفاظ ملتے ہیں.۱۷ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۳۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء میں ”زِتُ“ کی بجائے ”اَسَأْتُ“ ہے.۸۸ الاعراف: ۹۰ ۸۹ الزخرف: ۸۲ کودن: نادان، احمق (فیروز اللغات اردو جامع صفحه ۱۰۴۱ مطبوعہ لاہور ۲۰۱۰ء) ۹۱ اس رسالہ کا نام ”خلیفہ قادیان“ ہے اور اس کے مصنف سردار ارجن سنگھ صاحب امرتسری ہیں.مسلم كتاب الفضائل باب من فضائل على ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ.صفحه ۶۰ ۱۰ حدیث نمبر ۶۲۲۳ مطبوعہ ریاض الطبعة الثانية ۹۳ ترمذی ابواب الايمان باب ماجاء لا يزني الزانى و هو مؤمن - صفحه ۵۹۶ حدیث نمبر ۲۶۲۵ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولى

Page 241

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۵ جلد دوم کارکنان جلسہ خلافت جو بلی ۱۹۳۹ء سے خطاب (فرموده ۶ /جنوری ۱۹۴۰ء) له تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں جس نے باوجود ہر قسم کے موانع اور ہر قسم کی کمیوں کے گزشتہ سالوں سے زیادہ اس بات کی توفیق بخشی کہ اس کے قائم کردہ سلسلہ اور دین کیلئے جمع ہونے والے مہمانوں کی خدمت کیلئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے حوصلہ ، اپنے اخلاص اور اپنی طاقت و ہمت کے مطابق موقع ملا.ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کے اندر بھی ایسا اجتماع کہیں نہیں ہوتا جس میں اتنی مقدار میں مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا ہو.انگلستان، امریکہ، جرمنی ، فرانس اور روس یہ اس وقت ترقی یافتہ اور بڑے بڑے مما لک خیال کئے جاتے ہیں مگر ان میں تمیں چالیس ہزار آدمیوں کے اجتماع ایسے نہیں ہوتے جن کو کھانا کھلایا جاتا ہو.ہندوستان میں کانگرس کے اجتماع بے شک بڑے ہوتے ہیں.گزشتہ سال میں نے نمائندے تحریک جدید سے وہاں بھجوائے تو انہوں نے بتایا کہ ان کو کھانا مفت ملنا تو الگ مول لینے میں بھی دقتیں پیش آئیں.غرض یہ ہمارے جلسہ کی خاص خصوصیت ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ جن کو دوسرے اجتماع دیکھنے کا موقع ملا ہے جب وہ یہاں آتے ہیں تو ہمارے انتظام کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں.اسی سال یو.پی کے ایک اخبار کے نمائندے جو بعض انگریزی اخبارات کے بھی نمائندے رہ چکے ہیں اور کانگرس سے تعلق رکھتے ہیں یہاں آئے تو انہوں نے ملاقات کے وقت کہا کہ کانگرس کے اجلاس سے اُتر کر ہندوستان میں اتنا بڑا اجتماع میں نے کہیں نہیں دیکھا.میں نے کہا سنا ہے کانگرس کے اجلاس

Page 242

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۶ جلد دوم میں لاکھ لاکھ دو دو لاکھ آدمی شریک ہوتے ہیں.کہنے لگے لاکھ دو لاکھ تو ہر گز نہیں چالیس پچاس ہزار کے قریب ہوتے ہیں اور مرد عورتیں اکٹھے ہوتے ہیں.میں نے کہا ہمارے ہاں مستورات کے لئے الگ جلسہ گاہ ہے تو وہ کہنے لگے پھر آپ کے جلسہ کے مردوں کی اِس تعداد کے ساتھ مستورات کی تعداد بھی شامل کر لی جائے تو کانگرس کے اجتماع میں بھی شاید اتنے ہی مرد عورتیں ہوتی ہوں.غرض قادیان کا جلسہ سالانہ اب کم از کم ہندوستان میں دوسرے نمبر پر ہے اور اپنے انتظام کے لحاظ سے تو دنیا بھر کے اجتماعوں سے اول نمبر پر ہے.کیونکہ ایسا انتظام کھانا کھلانے کا قادیان کے سوا اور کسی اتنے بڑے اجتماع میں نہیں ہوتا.ہاں میلے بے شک ہوتے ہیں.جن میں بڑے بڑے اجتماع ہوتے ہیں مگر ان میں نہ تو رہائش کا انتظام ہوتا ہے نہ کھانے کا اور نہ روشنی کا.پس قادیان کا یہ جلسہ ایک لحاظ سے اوّل نمبر پر اور تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر.اور جس رنگ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کی ترقی ہو رہی ہے اس کے لحاظ سے ہمارا جلسہ سالانہ انشاء اللہ کسی وقت کانگرس سے بھی ہر لحاظ سے اول نمبر پر ہوگا.(اس کے بعد حضور نے انتظامی امور کے متعلق متعلقہ صیغوں کو ہدایات دیں اور آخر میں فرمایا.) میں ان سب دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس خدمت دین میں حصہ لیا اور محنت و مشقت سے جی نہ چرایا.دیکھو خدا تعالیٰ نے اس خدمت میں تم لوگوں کو منفرد کیا ہے اور منفرد ہونا کوئی معمولی بات نہیں.بعض لوگ تو منفرد ہونے کے لئے بعض پاجی سے کام بھی کر لیتے ہیں جیسا کہ چاہ زمزم میں پیشاب کرنے والے کے متعلق مشہور ہے.اس وقت خدا کے فضل سے آپ لوگوں کو قومی طور پر یہ فخر حاصل ہے کہ آپ لوگوں کے ذمہ خدا تعالیٰ کے مہمانوں کی میزبانی کا کام سپرد کیا گیا ہے یہ میز بانی اور اتنی بڑی جماعت کی اس رنگ میں میزبانی کسی اور کے سپردنہیں کی گئی.آپ لوگوں کے ہی مکان ایسے ہیں جو خدا کے دین کیلئے آنے والے مہمانوں کیلئے وقف ہوتے ہیں.مکہ میں بھی بے شک مہمانوں کیلئے مکانات دیے

Page 243

۲۲۷ جلد دوم خلافة على منهاج النبوة جاتے ہیں مگر وہ کرایہ لیتے ہیں.یہ صرف قادیان ہی کے مکانات ہیں جن کی نسبت ممَّا رَزَقْنهُمُ يُنفقون سے کے مطابق خرچ کرنے کا آپ لوگوں کو موقع ملتا ہے.پھر آپ لوگ ہی ایک ایسی جماعت ہیں جسے وہ شرف حاصل ہے جس کا حضرت خدیجہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یوں ذکر کیا تھا کہ خدا کی قسم ! خدا تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ مہمان نواز ہیں کے پس یہ کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص انعامات سے ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.قیامت کے دن پانچ شخص ایسے ہوں گے جن پر خدا تعالیٰ اپنا سایہ کرے گا.ان میں سے آپ نے ایک مہمان نواز قرار دیا ہے.بے شک ایک دوست دوست کی میزبانی کرتا ہے مگر وہ ایک رنگ کا سودا ہوتا ہے.ایک رشتہ دار اپنے رشتہ دار کی میزبانی کرتا ہے اور وہ بھی ایک سو دا ہوتا ہے.کیونکہ وہ اپنے ا تعلق کی وجہ سے مہمان نوازی کرتا ہے.مگر آپ لوگ جن لوگوں کی میزبانی کرتے ہیں ان سے کوئی دُنیوی تعلق نہیں ہوتا اور یہی دراصل مہمانی ہے جو خدا تعالیٰ کی رحمت کے سایہ کے نیچے آپ لوگوں کو لے جانے والی ہے اور یہی وہ مہمانی ہے جو شاذ و نادر ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ نے قادیان والوں کو عطا کر رکھی ہے.یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اگر اخلاص سے آپ لوگ کام لیتے ہوں تو نہ معلوم کتنے اُحد پہاڑوں کے برابر آپ کو ثواب حاصل ہوتا ہوگا.ممکن ہے کہ جب ہماری جماعت بڑھ جائے اور یہاں قادیان میں ایسے جلسے کرنا مشکل ہو جائیں تو پھر ہم اجازت دے دیں کہ ہر ملک میں الگ سالانہ جلسے ہوا کریں اُس وقت ان ممالک میں کام کرنے والے بھی ثواب کے مستحق ہوا کریں گے مگر وہ وقت تو آئے گا جب آئے گا اس وقت تو آپ لوگوں کے سوا ایسی خوش قسمت جماعت اور کوئی نہیں.اب میں دعا کرتا ہوں آپ لوگ بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس حقیر خدمت کو قبول فرمائے اور ہماری غلطیوں ، سُستیوں اور کمزوریوں سے درگزر کرے تا ایسا نہ ہو کہ غلطیاں ہماری نیکیوں کو کھا جانے والی ہوں.اور ہم آئندہ سال اس سے بھی بڑھ کر

Page 244

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۸ جلد دوم 66 خدمت خلق کر کے اپنے خدا کو راضی کر سکیں.“ انوار العلوم جلد نمبر ۱۵ صفحه ۱ ۶۰ تا ۶۰۳) قادیان ۶ جنوری جلسہ خلافت جو بلی ۱۹۳۹ء کے انتظامات بخیر و خوبی ختم ہونے پر مدرسہ احمدیہ کے صحن میں صبح سوا نو بجے کے قریب کا رکنان جلسہ کا اجتماع ہوا.جہاں سٹیج پر لاؤڈ سپیکر کا بھی انتظام کیا گیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے تشریف لانے پر جلسہ سالانہ کے انتظامات کرنے والی پانچ نظامتوں کی طرف سے رپورٹیں سنائی گئیں.پھر حضرت صاحب نے سوا دس بجے سے سوا بارہ بجے تک تقریر فرمائی جس میں حضور انور نے اہم امور کی اصلاح کے متعلق ہدایات دیں.پاجی : ذلیل، کمینہ (فیروز اللغات اردو جامع صفحه ۲۶۱ مطبوعہ لا ہور ۲۰۱۰ء) ۴ البقرة: ٤ بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحی صفحه احدیث نمبر ۳ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ ء الطبعة الثانية

Page 245

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۹ جلد دوم خلافت نبوت کو زندہ رکھتی ہے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مورالہ ۲۸ دسمبر ۱۹۴۰ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر سیر روحانی کے عنوان سے کی جانے والی تقاریر کے تسلسل میں یہ تقریر فرمائی.اس تقریر میں آپ نے خصوصیت سے مساجد اور قلعوں کی بابت تفصیل سے روشنی ڈالی.مساجد کے تعلق میں مساجد کی دس خصوصیات بیان فرمائیں اور صحابہ اور مساجد میں مماثلت بیان کرتے ہوئے امامت کے قیام کا ذکر کیا اور فرمایا :.در حقیقت جس طرح مسجد، خانہ کعبہ کی یاد کو تازہ رکھتی ہے اس طرح امام نبوت کی یاد تازہ رکھتا ہے اب دیکھ لو اس امر کو بھی مسلمانوں نے تازہ کیا اور مقام ابراہیم کو مصلی بنایا یعنی امامت کا وجود ظاہر کیا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہ نے خلافت کو قائم کیا اور امامت کو زندہ رکھا.پہلے حضرت ابو بکر ، پھر حضرت عمرؓ پھر حضرت عثمان ، پھر حضرت علی مقام ابراہیم پر کھڑے رہے، گویا بالکل مسجد کا نمونہ تھے.جس طرح مسجد میں لوگ ایک شخص کو امام بنا لیتے ہیں اس طرح صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہوتے ہی ایک شخص کو اپنا امام بنالیا.اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.گجرات کے ایک دوست نے سنایا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کی خبر پھیلی تو ایک مولوی کہنے لگا کہ جماعت احمد یہ انگریزی خوانوں کی جماعت ہے اسے دین کا کچھ پتہ نہیں اب فیصلہ ہو جائے گا کہ مرزا صاحب نبی تھے یا نہیں؟ کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے.اور تم میں چونکہ انگریزی خوانوں کا غلبہ ہے وہ ضرور انجمن کے ہاتھ میں کام دیدیں گے اور اس طرح ثابت ہو جائے گا کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے.دوسرے ہی دن یہاں سے تار چلا گیا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ ہو گئے ہیں یہ خبر جماعت کے دوستوں نے اُس مولوی کو بھی جا کر سنا

Page 246

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۰ جلد دوم دی.وہ کہنے لگا مولوی نورالدین دین سے واقف تھا وہ چالا کی کر گیا ہے اس کے مرنے پر دیکھنا کہ کیا بنتا ہے.جب حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے تو اُس وقت وہ ابھی زندہ تھا اور اُس وقت چونکہ یہ شور پیدا ہو چکا تھا کہ بعض لوگ کہتے ہیں اصل جانشین انجمن ہے اور بعض خلافت کے قائل ہیں اس لئے اس نے سمجھا کہ اب تو جماعت ضرور ٹھو کر کھا جائے گی چنانچہ اس نے کہنا شروع کر دیا کہ میری بات یا درکھنا اب ضرور تم نے انجمن کو اپنا مطاع تسلیم کر لیتا ہے مگر معا یہاں سے میری خلافت کی اطلاع چلی گئی.یہ خبر سن کر وہ مولوی کہنے لگا کہ تم لوگ بڑے چالاک ہو.خلافت محمد رسول اللہ صلی اللہ غرض رسول کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے تو اس لیے کہ علیہ وسلم کی یاد کو قائم رکھتی ہے مسجد سے اس کی مشابہت ثابت ہو.جس طرح مسجد بنائی ہی اس لئے جاتی ہے تا کہ عبادت میں اتحاد قائم رہے اسی طرح نبیوں کی جماعت قائم ہی اس لئے کی جاتی ہے تاکہ عبودیت میں اتحاد قائم رہے.پس جس طرح مسجد خانہ کعبہ کی یاد کو قائم رکھتی ہے اسی طرح خلافت محمد ﷺ کی یاد کو قائم رکھتی ہے یہی وہ حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا تھا کہ واتَّخِذُوا مِنْ مقام ابرجِمَ مُصَلَّى ل ایک خانہ خدا قائم کر دیا گیا ہے اب تم بھی ابراہیمی طریق پر زندگی بسر کرو اور اس کی روح کو زندہ رکھو.مقام ابراہیمی کو مصلی بنانے کا مفہوم مقام ابراہیم کو مصلی بنانے کے یہ معنی نہیں کہ ہر شخص ان کے مصلی پر جا کر کھڑا ہو یہ تو قطعی طور پر ناممکن ہے اگر اس سے یہی مراد ہوتی کہ مقامِ ابراہیم پر نماز پڑھو تو اول تو یہی جھگڑا رہتا کہ حضرت ابراہیم نے یہاں نماز پڑھی تھی یا وہاں ؟ اور اگر بالفرض یہ پستہ یقینی طور پر بھی لگ جاتا کہ انہوں نے کہاں نماز پڑھی تھی تو بھی ساری دنیا کے مسلمان وہاں نما ز نہیں پڑھ سکتے تھے.صرف حج میں ایک لاکھ کے قریب حاجی شامل ہوتے ہیں ، اگر حنفیوں کی طرح نماز میں مرغ کی طرح ٹھونگیں ماری جائیں تب بھی ایک شخص کی نماز پر دومنٹ صرف ہونگے اس کے معنے یہ ہوئے کہ ایک گھنٹہ میں تین اور چوبیس گھنٹے میں سات سو ہیں آدمی وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں اب بتاؤ کہ باقی جو ۹۹ ہزار ۲۸۰ رہ جائیں گے وہ کیا

Page 247

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۱ جلد دوم کریں گے؟ اور باقی مسلم دنیا کے لئے تو کوئی صورت ہی ناممکن ہوگی.پس اگر اس حکم کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو اس پر عمل ہو ہی نہیں سکتا.پھر ایسی صورت میں فسادات کا بھی احتمال رہتا ہے بلکہ ایک دفعہ تو محض اس جھگڑے کی وجہ سے مکہ میں ایک قتل بھی ہو گیا تھا پس اس آیت کے یہ معنی نہیں بلکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس میں اللہ تعالیٰ نے امامت کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہدایت دی ہے کہ تمہارا ایک امام ہو تا کہ اس طرح سنت ابراہیمی پوری ہوتی رہے.درحقیقت آیت اري جاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِما ما قال ومِن ذُرِّيَّتِي ، قَالَ لا يَنَالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ وَاذْ جَعَلْنَا البيت مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا ، وَاتَّخِذُوا مِن مقام ابرهم مصلی سے میں دو امامتوں کا ذکر کیا گیا ہے پہلے فرمایا کہ رانّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا میں تجھے امام یعنی نبی بنانے والا ہوں.اس پر حضرت ابراہیم نے عرض کیا ومِن ذُرِّيَّتِي میری ذریت کو بھی نبی بنا، کیونکہ اگر میں مر گیا تو کام کس طرح چلے گا ؟ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بات غلط ہے ، تمہاری اولاد میں سے تو بعض زمانوں میں ظالم ہی ظالم ہونے والے ہیں ، یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ان ظالموں کے سپرد یہ کام کیا جائے.ہاں ہم تمہاری اولا د کو یہ حکم دیتے ہیں کہ سنت ابراہیمی کو قائم رکھیں جو لوگ ایسا کریں گے ہم ان میں سے امام بناتے جائیں گے.اس طرح ابراہیم ان میں زندہ رہے گا اور وہ خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ انعامات سے حصہ لیتے چلے جائیں گے.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو امامتوں کا ذکر کیا ہے ایک امامت نبوت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست ملتی ہے اور دوسری امامت خلافت جس میں بندوں کا بھی دخل ہوتا ہے اور جس کی طرف واتَّخِذُوا مِن مَّقَام إِبْرَاحِمَ مُصَلَّى میں اشارہ کیا گیا ہے یعنی اس میں کسب کا دخل ہے پس تم اس کیلئے کوشش کرتے رہو.غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو یہ ہدایت کی ہے کہ جب امامت نبوت نہ ہو تو امامت خلافت کو قائم کر لیا کرو، ورنہ اگر ظاہری معنی لئے جائیں تو اس حکم پر کوئی عمل نہیں کر سکتا.(انوار العلوم جلد ۶ اسیر روحانی (۲) صفحه ۷۹ ۸۰) الخصائص الكبرى الجزء الثانى صفحہ ۱۹۷ ذكر المعجزات مطبوعہ بیروت البقرة: ١٢٦ البقرة: ۱۲۶،۱۲۵

Page 248

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۲ جلد دوم خلافت کو بادشاہت کا رنگ نہیں دینا چاہیے حضرت خلیقہ مسیح الثانی نے ۲۶ دسمبر ۱۹۴۲ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر بعض اہم اور ضروری امور پر تقریر فرمائی.اس موقع پر ایک پرائیویٹ بات کا ذکر فرمایا جو ملاقات کے بارہ میں تھی.آپ نے فرمایا :.میں ایک واقعہ کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اگر چہ پرائیویٹ ہے مگر اس لئے بیان کرتا ہوں کہ دوسروں کو بھی فائدہ ہو سکے.آج ملاقات کے بعد مجھے پرائیویٹ سیکرٹری نے بتایا کہ ایک عزیز مجھ سے ملنے کیلئے آئے تھے اور انہوں نے دروازہ میں داخل ہونا چاہا مگر پہرہ دار نے روکا.انہوں نے کہا کہ میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں مگر پہرہ دار نے کہا کہ میں نہیں جانتا آپ کون ہیں.اُس عزیز نے کہا میں اسی جماعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں جس کی ملاقات ہورہی ہے.اس پر پہرہ دار نے کہا کہ آپ وقت پر کیوں نہیں آئے بعد از وقت میں اجازت نہیں دے سکتا.اُس پر بھی اس عزیز نے ملاقات پر اصرار کیا.پہرہ دار نے اجازت نہ دی تو اُس نے اُسے مُکا مارا جس سے پہرہ دار کے جسم سے خون بہہ نکلا.اس واقعہ میں دونوں کی غلطی ہے.اس نوجوان کے متعلق میں جانتا ہوں کہ وہ مخلص ہے اور اس نے ایسے وقت میں اپنے اخلاص کو قائم رکھا جبکہ اُس کے بزرگ اس سے محروم ہو گئے تھے وہ ملاقات کرنا چاہتے تھے تو اس طرح ان کو روکنا مناسب نہ تھا.چاہیے یہ تھا کہ پہرہ دارا نہیں کہتے کہ تشریف لائیے آپ کا کس جماعت کے ساتھ تعلق ہے اور پھر اس جماعت کے سیکرٹری صاحب کے پاس لے جاتے کہ یہ آپ کی جماعت کے فرد ہیں اور اس طرح ان کیلئے میرے ساتھ ملاقات کا انتظام کرتے.پہرہ والوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کے روکنے کے بعد میرے ساتھ ملاقات کا ان کے پاس کیا ذریعہ تھا.اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ

Page 249

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۳ جلد دوم بادشاہت نہیں بلکہ خلافت ہے خلافت کو بادشاہت کا رنگ ہر گز نہیں دینا چاہئے.روکنے والے کو خود غور کرنا چاہئے تھا کہ اگر وہ خود باہر کا رہنے والا ہوتا ، سال کے بعد یہاں آتا اور پھر اسے خلیفہ کے ساتھ ملاقات سے روکا جاتا تو اُسے کتنا دکھ ہوتا اور اس دکھ کا احساس کرتے ہوئے اسے اس طرح روکنا نہ چاہئے تھا.ملاقات کا موجودہ انتظام تو اس لئے ہے کہ جماعتیں اکٹھی ملیں تا واقفیت ہو سکے مگر بعض دفعہ ایک جماعت کے ساتھ دوسری جماعت کا کوئی دوست بھی آجاتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں اگر اسے آنے بھی دیا جاتا تو کیا اس نے آتے ہی گولی چلا دینی تھی ؟ یہ انتظام تو صرف سہولت کیلئے ہے ورنہ لوگوں نے بہر حال ملنا ہے.پس جہاں تک ملاقات سے روکنے کا تعلق ہے روکنے والے کی غلطی ہے باقی رہائؤنگا مارنے کا معاملہ سو مارنے والا سپاہی ہے اور فوجی افسر ہے.مجھے خوشی ہے کہ ان کو مگا بازی آگئی مگر اتنا کہتا ہوں یہ شرعاً نا جائز ہے.اگر ان پر ظلم ہوا تو چاہئے تھا کہ وہ اسے برداشت کرتے تا ہم جسے مارا گیا ہے میں اسے کہتا ہوں کہ وہ معاف کر دے کیونکہ اس نے اس جذبہ کے زیر اثر مارا ہے کہ اسے خلیفہ سے ملنے سے روکا گیا.(انوار العلوم جلد ۶ اصفحه ۴۶۸، ۴۶۹)

Page 250

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۴ جلد دوم خلافت احمدیہ کا قیام اور اس کی برکات دعوی مصلح موعود کے سلسلہ میں دوسرا عظیم الشان جلسه مورخه ۱۲ / مارچ ۱۹۴۴ء کو لاہور میں منعقد ہوا.اس جلسہ میں مختلف مذاہب کے لوگ کثرت سے شامل ہوئے.اس موقع پر جو تقریر آپ نے فرمائی اس کا عنوان تھا ” میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں‘اس تقریر میں خلافت احمدیہ کے قیام اور اس کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے اور لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اب مرزا صاحب تو فوت ہو گئے ہیں اس سلسلہ کا آب خاتمہ سمجھو.تب اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لوگوں کے دلوں میں ڈالا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خلیفہ مقرر کریں.چنانچہ سب جماعت نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور وہ خلیفہ اول مقرر ہوئے.جب لوگوں نے دیکھا کہ جماعت کا شیرازہ بکھرا نہیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گیا ہے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ سب ترقی حضرت مولوی نورالدین صاحب کی وجہ سے اس سلسلہ کو حاصل ہو رہی تھی.وہ پیچھے بیٹھ کر کتا بیں لکھتے اور مرزا صاحب اپنے نام سے شائع کر دیتے تھے.بس اس کی زندگی تک اس سلسلہ نے ترقی کرنی ہے ، مولوی نورالدین صاحب کے مرتے ہی یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا.مگر خدا کی قدرت ہے کہ اپنے تمام زمانہ خلافت میں حضرت خلیفہ اول نے ایک کتاب بھی نہ لکھی اور اس طرح وہ اعتراض باطل ہو گیا جو مخالف کرتے رہتے تھے کہ کتابیں مولوی نورالدین صاحب لکھتے ہیں اور نام مرزا صاحب کا ہوتا ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اول کا طرز تحریر ہی بالکل اور رنگ کا تھا.مگر بہر حال لوگوں نے یہ سمجھا کہ حضرت مولوی صاحب تک ہی اس سلسلہ کی زندگی ہے اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا مگر وہ خدائے واحد و قہار جس نے بانی سلسلہ احمدیہ کو خبر دی تھی کہ تیرا

Page 251

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۵ جلد دوم ایک بیٹا ہوگا جو تیرا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا اور دین اسلام کی شوکت قائم کرنے کا موجب ہوگا اُس نے مخالفوں کی اِس امید کو بھی خاک میں ملا دیا.آخر وہ وقت آ گیا جب حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوئی.اُس وقت جماعت میں اختلاف پیدا ہو گیا.جماعت کے ایک برسراقتدار حصہ نے جس کے قبضہ میں صدرانجمن احمد ی تھی ، جس کے قبضہ میں خزانہ تھا اور جس کے زیراثر جماعت کے تمام بڑے بڑے لوگ تھے کہنا شروع کر دیا کہ خلافت کی ضرورت نہیں.خواجہ کمال الدین صاحب جیسے سحر البیان لیکچرار ، مولوی محمد علی صاحب جیسے مشہور | مصنف، شیخ رحمت اللہ صاحب جیسے مشہور تاجر ، مولوی غلام حسین صاحب جیسے مشہور عالم جن کے سرحدی علاقہ میں اکثر شاگرد ہیں ، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب جیسے بارسوخ اور صاحب جائداد ڈاکٹر یہ سب ایک طرف ہو گئے اور ان لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ایک بچہ کو بعض لوگ خلیفہ بنا کر جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں.وہ بچہ جس کی طرف ان کا اشارہ تھا میں تھا.اُس وقت میری عمر بیس سال کی تھی اور اللہ بہتر جانتا ہے مجھے قطعاً علم نہیں تھا کہ میرے متعلق یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ میں جماعت کا خلیفہ بنوں.اللہ تعالی گواہ ہے نہ میں ان باتوں میں شامل تھا اور نہ مجھے کسی بات کا علم تھا.سب سے پہلے میرے کانوں میں یہ آواز شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش ویئر ہاؤس کی طرف سے آئی.میں نے سنا کہ وہ مسجد میں بڑے جوش سے کہہ رہے تھے کہ ایک بچہ کی خاطر سلسلہ کو تباہ کیا جا رہا ہے.مجھے اُس وقت اُن کی یہ بات اتنی عجیب معلوم ہوئی کہ باہر نکل کر میں نے دوستوں سے پوچھا کہ وہ بچہ ہے کون جس کا آج شیخ رحمت اللہ صاحب ذکر کر رہے تھے.وہ میری اس بات کو سُن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے وہ بچہ تم ہی تو ہو.غرض میں ان باتوں سے اتنا بے بہرہ تھا کہ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ میں زیر بحث ہوں اور میرے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ سے جماعت تباہ ہو رہی ہے.مگر خدا تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ وہ مجھے دنیا کی مخالفانہ کوششوں کے باوجود آگے کرے اور میرے سپر د جماعت کی نگرانی کا کام کرے.میں نے امن قائم رکھنے اور جماعت کو تفرقہ سے بچانے کی بڑی کوشش کی مگر خدا تعالیٰ کے ارادہ کو کون روک سکتا ہے.آخر وہی ہوا جو اُس کا منشا تھا.جوں جوں

Page 252

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۶ جلد دوم حضرت خلیفہ اول کی وفات نزدیک آتی گئی ان لوگوں نے جماعت میں کثرت کے ساتھ پرو پیگنڈا شروع کر دیا کہ آئندہ خلافت کا سلسلہ جاری نہیں ہونا چاہئے.جس دن حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے دنیا نے کہا اب یہ سلسلہ ختم ہو گیا کیونکہ جس شخص پر اس سلسلہ کا تمام انحصار تھا وہ اُٹھ گیا.اُس دن جب مخالفوں کی زبان پر یہ تھا کہ یہ سلسلہ ختم ہو گیا میں نے جماعت کو تفرقہ سے بچانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب سے گفتگو کی اور میں نے اُن سے کہا کہ آپ کسی شخص کو خلیفہ مقرر کریں میں اُس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں.میں نے اُن سے یہ بھی کہا کہ جب میں بیعت کرلوں گا تو وہ لوگ جو میرے ساتھی ہیں وہ بھی میرے ساتھ ہی خود بخود بیعت کر لیں گے اور اس طرح تفرقہ پیدا نہیں ہوگا.مگر باوجود میری تمام کوششوں کے آخری جواب مولوی محمد علی صاحب نے یہ دیا کہ آپ جانتے ہیں جماعت والے کس کو خلیفہ مقرر کریں گے اور یہ کہہ کر وہاں سے چلے آئے.حالانکہ میری نیک نیتی اس سے ظاہر ہے کہ جس دن عصر کی نماز کے وقت لوگوں نے میری بیعت کی اُسی دن صبح کے وقت میں نے اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کیا اور اُن سے کہا کہ ہمیں ضد نہیں کرنی چاہئے اگر وہ خلافت کو تسلیم کر لیں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کر لیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو اور اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو پھر ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے اور میرے اصرار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام اہلِ بیت نے اس امر کو تسلیم کر لیا.پھر میری یہ حالت تھی کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات سے چند دن پہلے میں اُس مقام پر گیا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کیا کرتے تھے اور میں نے وضو کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی.میری عمر اس وقت اتنی چھوٹی نہ تھی مگر بڑی بھی نہ تھی.۲۵ سال میری عمر تھی ، میری والدہ موجود تھیں ، میری بیوی موجود تھیں اور میرے بچے بھی تھے مگر میں نے اُس وقت نیت کر لی کہ چونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری وجہ سے جماعت میں تفرقہ پیدا ہو رہا ہے اس لئے میں خاموشی سے کہیں باہر نکل جاؤں گا تا کہ میں تفرقہ کا باعث نہ بنوں.چنانچہ میں نے دعا کی کہ خدایا ! میں اس جماعت میں فتنہ پیدا کرنے والا نہ بنوں تو میرے دل کو تقویت عطا فرما تا کہ میں پنجاب یا ہندوستان کے کسی علاقہ میں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر نکل

Page 253

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۷ جلد دوم جاؤں اور میری وجہ سے کوئی فتنہ پیدا نہ ہو.اس کے بعد میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ کہیں نکل کر چلا جاؤں گا مگر خدا کی قدرت ہے دوسرے تیسرے دن ہی اچانک حضرت خلیفہ اول کی وفات ہو گئی اور میں اس جھگڑے میں پھنس گیا.تب جماعت کے غریب طبقہ نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی اور وہ جو بڑے بڑے لوگ کہلاتے تھے جماعت سے الگ ہو گئے.ان میں سے ایک ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے.انہوں نے وہاں سے روانہ ہوتے وقت ہماری عمارتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو جاتے ہیں کیونکہ جماعت نے ہم سے اچھا سلوک نہیں کیا لیکن تم دیکھ لو گے کہ دس سال کے عرصہ میں ان جگہوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا اور احمدیوں کے ہاتھ سے یہ تمام جائداد میں نکل جائیں گی.اُس وقت میرے ہاتھ پر دو ہزار کے قریب آدمیوں نے بیعت کی ، باہر کی اکثر جماعتیں ابھی بیعت میں داخل نہیں ہوئی تھیں.یہاں تک کہ ”پیغام صلح میں لکھا گیا کہ پچانوے فیصدی جماعت ہمارے ساتھ ہے اور صرف پانچ فیصدی جماعت مرزا محمود احمد کے ساتھ ہے.مگر ابھی دو مہینے نہیں گزرے تھے بلکہ ابھی صرف ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ ساری کی ساری جماعت میری بیعت میں شامل ہوگئی اور پیغام صلح نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ ۹۵ فیصدی جماعت مرزا محمود احمد کے ساتھ ہے اور صرف پانچ فیصدی ہمارے ساتھ.پھر میری مخالفت بھی تھوڑی نہیں ہوئی میرے قتل کی کئی بار کوششیں کی گئیں.احرار کی شورش کے ایام میں ہی ایک دفعہ قادیان میں سرحد کی طرف سے ایک پٹھان آیا اور میرے مکان کے دروازے پر کھڑے ہو کر اُس نے لڑکا اندر بھیجا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے.میں تو ان باتوں کی پرواہ نہیں کیا کرتا میں آنے ہی لگا تھا کہ مجھے باہر کچھ شور کی آواز سنائی دی.معلوم ہوا کہ ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست جو پٹھان ہیں اُنہوں نے اُسے پکڑ لیا اور اُس کے نیفے میں سے چھرا نکال لیا.بعد میں اُس نے تسلیم کیا کہ میں واقعہ میں قتل کرنے کی نیت سے ہی آیا تھا.اسی طرح یہاں لاہور میں ایک دفعہ ایک دیسی عیسائی کو پھانسی ہوئی.جے میتھوز اُس کا نام تھا.اُس نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا تھا جس کی پاداش میں سیشن جج نے اُسے پھانسی کی سزا یا

Page 254

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۸ جلد دوم دی.اُس نے اپنے بیانات میں اِس امر کا اظہار کیا کہ میں ایک دفعہ پستول لے کر مرز امحمو د احمد کو مارنے کے لئے قادیان گیا تھا مگر ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ میں اُن سے مل نہ سکا اور وہ دریا پر چلے گئے.پھر میں پستول لیکر اُن کے پیچھے پیچھے دریا پر گیا.وہاں ایک دن میں نے اُن کے ایک ساتھی کو بندوق صاف کرتے دیکھا جس سے میں ڈر گیا کہ بندوق تو دُور تک وار کر جاتی ہے ، ایسا نہ ہو میں خود ہی مارا جاؤں چنانچہ میں واپس آ گیا اور اپنی بیوی سے کسی بات پر لڑ کر میں نے اُسے قتل کر دیا.یہ ایک عدالتی بیان ہے جو سیشن جج کی عدالت میں اُس نے لاہور میں دیا.اُس نے یہ بھی ذکر کیا کہ لوگوں کی جوش دلانے والی باتیں سن کر میں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا تھا.پھر اسی قسم کا ایک اور کیس ہوا.ایک شخص ہماری دیوار پھاندتے ہوئے پکڑا گیا.بعد میں پولیس نے اُسے پاگل قرار دیکر چھوڑ دیا حالانکہ وہ دیوار پھاندتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا وہ قتل کرنے کی نیت سے ہی آیا تھا.چوتھا واقعہ یہ ہے کہ میں ایک دفعہ اپنے سالانہ جلسہ میں تقریر کر رہا تھا کہ پیچھے سے کسی شخص نے ملائی دی کہ جلدی سے حضرت صاحب تک پہنچا دی جائے آپ تقریر کرتے کرتے تھک گئے ہیں.چنانچہ گھبراہٹ میں لوگوں نے جلدی جلدی ملائی آگے پہنچانی شروع کر دی یہاں تک کہ وہ سٹیج پر پہنچ گئی.سٹیج پر کسی شخص کو ہوش آیا اور اُس نے ذراسی ملائی اپنی زبان پر لگائی تو لگاتے ہی اُس کی زبان کٹ گئی.تب ادھر اُدھر تلاش کیا گیا کہ ملائی دینے والا کون تھا مگر وہ نہ ملا.غرض ہر رنگ میں دشمنوں نے مجھے مٹانے اور گرانے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اُن کو ناکام و نا مرا درکھا.گزشتہ سالوں میں ہی لاہور میں سر سکندر حیات خاں نے اپنی کوٹھی پر مجھے اس غرض کے لئے بلا بھیجا کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دے گی.انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آیا آپ کو ایسی میٹنگ میں شامل ہونے پر کوئی اعتراض تو نہیں؟ میں نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں اور نہ مجھے سیاسیات سے کوئی دلچسپی ہے میں تو ایک مذہبی آدمی ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس قسم کے جھگڑے جلد دُور ہو جائیں.

Page 255

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۹ جلد دوم وہاں احرار کی طرف سے چوہدری افضل حق صاحب شامل ہوئے اور انہوں نے بڑے غصہ سے کہا کہ میں ان سے ہرگز صلح نہیں کر سکتا کیونکہ میں جب الیکشن کے لئے کھڑا ہوا تھا تو انہوں نے میری دو دفعہ مخالفت کی تھی.میں نے اُن سے کہا کہ مخالفت کرنا ہر شخص کا حق ہے مگر یہ درست نہیں کہ میں نے آپ کی دو دفعہ مخالفت کی ہے.ایک دفعہ مخالفت کی ہے اور ایک دفعہ تائید کی ہے.سر سکندر حیات خاں بھی ان سے کہنے لگے کہ آپ بھولتے ہیں آپ سرسکا نے خود مجھے کہا تھا کہ امام جماعت احمدیہ سے چونکہ میرے دوستانہ تعلقات ہیں اس لئے میں آپ کے متعلق ان کے پاس سفارش کر دوں اور میں نے آپ کے کہنے پر سفارش کی اور انہوں نے آپ کی مدد کی.پس یہ درست نہیں کہ انہوں نے دودفعہ مخالفت کی ہے ایک دفعہ انہوں نے مخالفت کی ہے اور ایک دفعہ تائید کی ہے.اس پر چو ہدری افضل حق صاحب کہنے لگے خواہ کچھ ہو میں نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ میں جماعت احمدیہ کو چل کر رکھ دوں گا.اسی طرح وہ غصہ میں اور بھی بہت کچھ کہتے چلے گئے میں مسکراتا رہا اور خاموش رہا.جب وہ اپنا غصہ نکال چکے تو میں نے کہا چوہدری صاحب ! ہما را دعویٰ یہ ہے کہ ہمارا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے اگر ہمارا یہ دعویٰ جھوٹا ہے تو آپ کی کسی کوشش کی ضرورت نہیں خدا خود ہمارے سلسلہ کو کچل دے گا لیکن اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ سلسلہ ہے تو پھر آپ کی کیا حیثیت ہے دنیا کے سارے بادشاہ مل کر بھی ہمارے سلسلہ کو کچلنا چاہیں تو وہ خود کچلے جائیں گے مگر ہمارے سلسلہ کو کچل نہیں سکتے.اُس وقت مجلس میں نواب مظفر خان صاحب موجود تھے ، شیخ محمد صادق صاحب موجود تھے، نواب احمد یار خاں صاحب دولتانہ موجود تھے ، جب مجلس ختم ہوئی تو شیخ محمد صادق صاحب چوہدری افضل حق صاحب کے ساتھ اُن کے گھر تک گئے اور انہیں کہا کہ چوہدری صاحب! آپ نے اچھا نہیں کیا.گھر پر بلا کر امام جماعت احمدیہ کی آج شدید ہتک کی گئی ہے چنانچہ بعد میں واپس آکر اُنہوں نے خود ہی ذکر کیا کہ میں چوہدری افضل حق صاحب کے ساتھ اُن کے دروازہ تک گیا تھا اور اُن سے کہا تھا کہ آپ نے آج جو کچھ کیا ہے اچھا نہیں کیا اور چوہدری افضل حق صاحب کہتے تھے کہ اب میں بھی محسوس کرتا ہوں کہ مجھے یہ الفاظ نہیں کہنے چاہئیں تھے اصل بات یہ ہے غصہ میں میری زبان

Page 256

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۰ جلد دوم قابو میں نہیں رہی تھی.تو لوگوں نے ہر طرح زور لگا یا کہ ہمارے سلسلہ کو مٹا دیں.یہاں تک کہ ۱۹۳۴ء میں انگریزی گورنمنٹ بھی ہماری جماعت کی مخالف ہو گئی.سرایمرسن جو گورنر پنجاب رہ چکے ہیں گورنری سے پہلے میرے بڑے دوست تھے یہاں تک کہ لندن سے انہوں نے مجھے چٹھی لکھی کہ میں اب گورنر بن کر آ رہا ہوں اور امید کرتے ہیں کہ آپ میرے ساتھ تعاون کریں گے مگر یہاں آتے ہی ہماری جماعت کے شدید مخالف ہو گئے یہاں تک کہ سر فضل حسین صاحب نے ایک ملاقات کے دوران میں مجھ سے کہا کہ نہ معلوم سرا یمرسن کو کیا ہو گیا ہے وہ تو آپ کے سلسلہ کو بہت کچھ بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں.پھر انہوں نے کریمنل لا ء ایمنڈمنٹ (CRIMINAL LAW AMENDMENT) ایکٹ مجھ پر لگانا چاہا اور قادیان میں احرار کا جلسہ کرایا جس میں ہمارے سلسلہ کی شدید ہتک کی گئی.غرض ہر رنگ میں ہماری مخالفت ہوئی اور ہر طبقہ نے مخالفت کی.افغانستان میں میرے زمانہ میں جماعت احمدیہ کے چار آدمی یکے بعد دیگرے شہید کئے گئے حالانکہ افغانستان کے وزیر خارجہ نے خود ہمیں چٹھی لکھی تھی کہ افغانستان میں آپ کو تبلیغ کی اجازت ہے بے شک اپنے مبلغ بھجوائیں.مگر جب ہم نے اپنے مبلغ بھجوائے تو حکومت نے اُن کو سنگسار کر دیا.غرض جتنا زور دُنیا لگا سکتی تھی اُس نے لگا کر دیکھ لیا مگر باوجود اس کے خدا نے ہمیں بڑھایا اور ایسی ترقی دی جو ہمارے وہم اور خیال میں بھی نہیں تھی.جب میں خلیفہ ہوا اُس وقت ہمارے خزانہ میں صرف چودہ آنے کے پیسے تھے اور ۱۸ ہزار کا قرض تھا یہاں تک کہ میں نے اپنے زمانہ خلافت میں جو پہلا اشتہار لکھا اور جس کا عنوان تھا.”کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے اُس کو چھپوانے کے لئے بھی میرے پاس کوئی روپیہ نہ تھا.اُس وقت ہمارے نانا جان کے پاس کچھ چندہ تھا جو اُنہوں نے مسجد کے لئے لوگوں سے جمع کیا تھا اُنہوں نے اُس چندہ میں سے دوسو روپیہ اس اشتہار کے چھپوانے کے لئے دیا اور کہا کہ جب خزانہ میں روپیہ آنا شروع ہو جائے گا تو یہ دوسو رو پیدا دا ہو جائے گا.غرض وہ روپیہ اُن سے قرض لے کر یہ اشتہار شائع کیا گیا.مگر اُس وقت جب جماعت کے سرکردہ لوگ میرے مخالف تھے، جب جماعت کے لیڈر میرے مخالف تھے ، جب خزانہ خالی

Page 257

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۱ جلد دوم تھا، جب صرف چودہ آنے کے پیسے اس میں موجود تھے ، جب اٹھارہ ہزار کا انجمن پر قرض تھا، جب انجمن کی اکثریت میری مخالف تھی ، جب انجمن کا سیکرٹری میرا مخالف تھا ، جب مدرسہ کا ہیڈ ماسٹر میر ا مخالف تھا میرے یہ الفاظ ہیں جو میں نے خدا کے منشا کے ماتحت اُس اشتہار میں شائع کئے کہ : ”خدا چاہتا ہے کہ جماعت کا اتحاد میرے ہی ہاتھ پر ہو اور خدا کے اس ارادہ کو اب کوئی نہیں روک سکتا.کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ان کے لئے صرف دو ہی راہ کھلے ہیں یا تو وہ میری بیعت کر کے جماعت میں تفرقہ کرنے سے باز رہیں یا اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ کر اس پاک باغ کو جسے پاک لوگوں نے خون کے آنسوؤں سے سینچا تھا اُکھاڑ کر پھینک دیں.جو کچھ ہو چکا ہو چکا مگر اب اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کا اتحاد ایک ہی طریق سے ہو سکتا ہے کہ جسے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اُس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ورنہ ہر ایک شخص جو اُس کے خلاف چلے گا تفرقہ کا باعث ہوگا.پھر میں نے لکھا :.66 اگر سب دنیا مجھے مان لے تو میری خلافت بڑی نہیں ہوسکتی اور سب کے سب خدانخواستہ مجھے ترک کر دیں تو بھی خلافت میں فرق نہیں آ سکتا.جیسے نبی اکیلا ہی نبی ہوتا ہے اسی طرح خلیفہ اکیلا بھی خلیفہ ہوتا ہے.پس مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلہ کو قبول کرے.خدا تعالیٰ نے جو بوجھ مجھ پر رکھا ہے وہ بہت بڑا ہے اور اگر اُس کی مدد میرے شامل حال نہ ہو تو میں کچھ نہیں کر سکتا.لیکن مجھے اُس پاک ذات پر یقین ہے کہ وہ ضرور میری مدد کرے گی.“ غرض طرح طرح کی مخالفتیں ہوئیں سیاسی بھی اور مذہبی بھی ، اندرونی بھی اور بیرونی بھی مگر خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں جماعت کو اور زیادہ ترقی کی طرف لے جاؤں.چنانچہ یہ جماعت بڑھنی شروع ہوئی یہاں تک کہ آج دنیا کے کونے کونے میں یہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے پھیل چکی ہے.اسی شہر لاہور میں پہلے جماعت احمدیہ کے صرف چند افراد ہوا کرتے تھے مگر آج ہزاروں کی تعداد میں یہاں جماعت موجود ہے اسی

Page 258

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۲ جلد دوم طرح دنیا کے ہر گوشہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اور اسلام کا پیغام میرے ذریعہ سے پہنچ چکا ہے اور وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے متعلق فرمائی تھی وہ میرے وجود میں بڑی شان سے پوری ہو چکی ہے.اس پیشگوئی میں اُنسٹھ باتیں بتائی گئی ہیں مگر ان تمام باتوں کے متعلق اس وقت تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی جاسکتی.صرف ایک دو باتیں میں بیان کر دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ جس طرح میرا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اسی طرح میرا بیٹا دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا.دنیا کے کناروں کے لحاظ سے امریکہ ایک طرف ہے اور جاپان دوسری طرف.درمیان میں یورپ اور افریقہ کا علاقہ ہے.ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کے مطابق مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں دنیا کے مختلف ممالک میں احمد یہ مشن قائم کروں.چنانچہ اس وقت امریکہ میں احمدیہ مشن قائم ہے، انگلستان میں احمد یہ مشن قائم ہے، شمالی اور جنوبی افریقہ میں احمد یہ مشن قائم ہے، چین اور جاپان میں بھی احمد یہ مشن قائم کئے گئے تھے مگر جنگ کی وجہ سے کچھ عرصہ کیلئے بند کر دیئے ہیں، سماٹرا اور جاوا میں احمد یہ مشن قائم ہیں ، اسی طرح جرمنی میں اور ہنگری میں ، ارجنٹائن میں ، یوگوسلاویہ میں ، البانیہ میں ، پولینڈ میں ، زیکوسلواکیہ میں، سیرالیون میں، گولڈ کوسٹ میں ، نائیجیریا میں ، مصر میں ، فلسطین میں، ماریشس میں ، شام میں ، روس میں ، سٹریٹ سیٹلمنٹس اے ہیں ، ایران میں ، کابل میں ، ملایا میں اور دوسرے کئی ممالک میں اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے احمدیت کا پیغام پہنچایا اور وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بیٹے کے متعلق فرمائی تھی کہ دنیا کے کناروں تک وہ اسلام اور احمدیت کا نام پہنچائے گا.(انوار العلوم جلد ۷ اصفحه ۲۱۳ تا ۲۲۱) سٹریٹ سیٹلمنٹس (Straits Settlements) ملا یا میں برطانیہ کی سابق شاہی نو آبادی ۱۸۲۶ء سے ۱۸۵۸ ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پیانگ، ملا اور سنگا پور کو ایک انتظامی جزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا.بعد ازاں قلیل مدت کے لیے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا.۱۸۶۷ء میں یہ نو آبادی قائم کی گئی اور ۱۹۴۶ء میں ختم کر دی گئی.اب سنگا پور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہو گئے.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۴۱ سے مطبوعہ لاہور۱۹۸۷ء)

Page 259

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۳ جلد دوم خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو تقریر فرموده ۲۵ / جون ۱۹۴۴ء بمقام قادیان ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : - انسانی زندگی بھی اللہ تعالیٰ نے عجیب بنائی ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ساری ہی چیزیں اپنی جگہ پر ضروری بھی ہیں اور غیر ضروری بھی.جو خالصتہ ضروری چیز ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے.ہر چیز اپنے وقت میں اور اپنے ماحول میں ضروری نظر آتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ ایک مرکز ہے دنیا کا جس کے گرد ساری دنیا چکر لگا رہی ہے مگر باوجود اس کے پھر ایک وقت پر وہ چیز جاتی رہتی ہے ایک اثر اور ایک نشان تو وہ ایک عرصہ کے لئے چھوڑ جاتی ہے لیکن دنیا پھر بھی جاری ہی رہتی ہے.پھر نئے وجود دنیا میں پیدا ہو جاتے ہیں جن کے متعلق لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید ان کے بغیر آب دنیا نہیں چل سکتی.پھر وہ مٹ جاتے ہیں اور کچھ دیر کے لئے وہ اپنا اثر اور نشان چھوڑ جاتے ہیں مگر پھر خدا کی طرف سے اُس وقت کے ماحول کے ساتھ لوگوں کو ایک مناسبت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے بعد وہ خیال کرتے ہیں کہ اب یہ نئے وجو د نہایت ضروری ہیں.جب ا ب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں پیدا کیا اُس وقت ابھی دنیا کی ابتدا تھی.ابھی لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کیسی کیسی مخلوق دنیا میں بھجوانے والا ہے.خدا کا تازہ کلام اور ان معنوں میں تازہ کلام کہ اِس شکل میں اس سے پہلے نازل نہیں ہوا تھا آدم پر اُترا اور لوگوں کے لئے ابھی ایمانیات سے باہر اور کوئی دلیل ایسی نہ تھی جس کی بناء پر وہ سمجھتے کہ یہ کلام پھر بھی دنیا میں اُترے گا اور انسان اپنے تجربہ کا غلام ہوتا ہے.جس وقت

Page 260

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۴ جلد دوم آدم کے ساتھی یہ خیال کرتے ہوں گے کہ آدم بھی ایک دن اس دنیا سے گزر جائے گا وہ وقت اُن کے لئے کیسا تکلیف دہ ہوتا ہو گا.اُن کے لئے کوئی مثال موجود نہ تھی کہ آدم کا قائم مقام کوئی اور آدمی بھی ہوسکتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کے سارے فضلوں کو آدم میں ہی مرکوز دیکھتے تھے اور آدم سے بڑھ کر کسی اور وجود میں اِن فضلوں کا مشاہدہ کرنا اُن کے نزدیک خام خیالی تھی کیونکہ اور کوئی انسان انہوں نے نہیں دیکھا تھا جو آدم سے بڑھ کر ہوتا.غرض آدم جس کی تعلیم کا نشان سوائے قرآن کے اور کہیں نہیں ملتا ، آدم جس کی تربیت کا نشان دنیا کی کسی تاریخ سے مہیا نہیں ہوتا وہ اُن لوگوں کیلئے اپنے زمانہ کے لحاظ سے ایسا ہی ضروری تھا جیسے حیات کے قیام کے لئے ہوا اور پانی ضروری ہوتا ہے.وہ آدم کو اپنی روحانی حیات کے قیام کا ذریعہ سمجھتے تھے اور روحانی حیات کو آدم کا نتیجہ قرار دیتے تھے مگر ایک دن آیا جب خدا کی قدرت نے آدم کو اُٹھا لیا.آدم کے مومنوں پر وہ کیسا تکلیف کا دن ہو گا وہ کس طرح تاریکی اور خلا اپنے اندر محسوس کرتے ہوں گے مگر وہ نسل گزری اور اُس نسل کی نسل گزری اور اسی طرح کئی نسلیں گزرتی چلی گئیں اور آدم کی قیمت اُن کے دلوں سے کم ہوگئی یہاں تک کہ وہ اُس وجود کو بھی بھول گئے جس کی وجہ سے آدم کی قدر و قیمت تھی یعنی انہوں نے خدا تعالیٰ کو بھی بھلا دیا ، اُس سے قطع تعلق کر لیا اور اُن کی ساری کوششیں دنیا میں ہی محدود ہو گئیں.تب خدا نے نوح کو دنیا میں بھیجا.یا کم سے کم ہمارے لئے جس شخص کے ذکر کی ضرورت سمجھی گئی ہے وہ نوح ہی ہے.درمیان میں بعض اور وجود بھی آئے ہوں گے مگر وہ اہم وجود جس کا قرآن نے ذکر کیا نوح ہی ہے.نوٹح کے زمانہ میں جو لوگ اُس پر ایمان لائے کس طرح اُنہیں محسوس ہوتا ہوگا کہ وہ تاریکی سے نکل کر نور کی طرف آ گئے ہیں.وہ تنہائی کی زندگی کو چھوڑ کر ایک نبی کی صحبت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں.خدا تعالیٰ کا تازہ کلام اور اُس کی پُر معرفت باتیں سن کر ان کے اندر کیسی زندگی پیدا ہوتی ہوگی ، کیسا یقین پیدا ہوتا ہو گا، کتنی خوشی ہوتی ہوگی کہ کس طرح انہوں نے یہ غلط خیال کر لیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا کلام اور اُس کا نور آب دنیا میں نہیں آئے گا.وہ سوچتے ہوں گے کہ ہم کس طرح دنیا میں مشغول

Page 261

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۵ جلد دوم تھے کہ خدا کا ہاتھ پھر ہماری طرف لمبا ہوا اور اُس نے ہمیں تاریک گڑھوں سے نکال کر معرفت کی روشنی میں کھڑا کر دیا.لیکن اُس زمانہ کے لوگ بھی یہ خیال کرتے ہوں گے کہ نوح جیسی نعمت کے بعد اور کیا نعمت ہو گی ، کون سی برکت ہوگی جو اُس کے بعد بھی آئے گی.وہ خیال کرتے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کی آخری نعمت ہم کو حاصل ہو گئی اب ہماری زندگیاں خوشی کی زندگیاں ہیں اب ہم علیحدگی اور تنہائی کی بدمزگیوں سے بچ گئے.اب خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہم خدا کے ساتھ ہیں لیکن پھر ایک زمانہ آیا جب خدا کی حکمت کا ملہ نے نوٹح کو اُٹھا لیا.اُس وقت نوح کے ماننے والوں کی جو کیفیت ہوگی اُسے ہم تو سمجھ سکتے ہیں جنہیں ایک نبی کی جماعت میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا مگر دوسرے لوگ اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے.کس طرح چمکتا ہوا سورج اُن کے لئے تاریک ہو گیا ہو گا ، کس طرح نور والا چاند اُن کے لئے اندھیرا ہو گیا ہوگا ، کس طرح اللہ تعالیٰ کا روشن چہرہ جو ہر وقت اُن کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا اُنہیں دُھند لکے میں چھپا ہوا دکھائی دینے لگا ہوگا اور کس طرح دہ یہ خیال کرتے ہوں گے کہ دنیا اب ہلاکت کے گڑھے میں گر گئی.لیکن ابھی نوح کا پیدا کر دہ ایمان لوگوں کے دلوں میں موجود تھا اُس ایمان کی وجہ سے وہ خیال کرتے ہوں گے کہ جس طرح آدم کے بعد اللہ تعالیٰ نے نوح کو کھڑا کر دیا اسی طرح شاید نوح کے بعد کسی اور کو کھڑا کر دے.پس وہ ایک ہلکی سی امید اپنے دل میں رکھتے ہوں گے گو یہ امید اپنے ساتھ ایسا زخم رکھتی ہوگی ، ایسا درد اور اضطراب رکھتی ہوگی جس کی مثال انبیاء کی جماعتوں کے باہر اور کہیں نہیں مل سکتی.پھر خدا تعالیٰ کے فضل نے نہ معلوم کتنے عرصے کے بعد ، کتنے تغیرات کے بعد ، کتنی چھوٹی چھوٹی روشنیوں کے بعد ابراہیم کو پیدا کیا اور پھر وہی کیفیت جو نوٹح کے زمانہ میں لوگوں پر گزری تھی ابراہیم کے زمانہ میں دکھائی دینے لگی.اب لوگوں کی دماغی ترقی کو دیکھ کر خدا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پے در پے اپنے انبیا ء لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے چنانچہ ابراہیم کے بعد اسحاق کو ایک ملک میں اور اسماعیل کو دوسرے ملک میں کھڑا کیا گیا.پھر یعقوب آئے پھر یوسٹ آئے اور یہ سلسلہ چلتا چلا گیا اور لوگ نورِ ہدایت سے منور ہوتے رہے.مگر پھر

Page 262

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۶ جلد دوم ایک ایسا وقت آیا جب دنیا تاریکی کے گڑھوں میں گر گئی ، گمراہی میں مبتلا ہو گئی ، خدا تعالیٰ کے تازہ نشانوں سے محروم ہو گئی اور یہ دو ر ضلالت جاری رہا یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ آیا اور اُنہوں نے بندوں کا خدا سے پھر تازہ عہد باندھا.اس کے بعد پے در پے انبیا ءلوگوں کی ہدایت کے لئے آتے رہے.داؤ د آئے ، سلیمان آئے ، الیاس آئے ، یحیی آئے ، عیسی آئے اور آخر میں ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے.جس طرح آدم کے زمانہ میں لوگوں کو یہ احساس تھا کہ خدا نے ایک نیا نور پیدا کیا ہے، ایک نئی چیز دنیا میں ظاہر کی ہے اور وہ خیال کرتے تھے کہ ایسی چیز پھر دنیا میں کب آ سکتی ہے وہ اپنے تجربہ کے مطابق آدم کو ہی اول الانبیاء اور آدم کو ہی آخر الانبیاء سمجھتے تھے.اسی طرح کا احساس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونا شروع ہو گیا.بات یہ ہے کہ سارے ہی نبی اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ہر نبی کی اُمت یہی سمجھ لیتی ہے کہ یہ نبی آخری نبی ہے.قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام فوت ہو گئے تو اُن کی قوم نے کہا اب یوسف کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا لے حقیقت یہ ہے کہ انبیاء خدا تعالیٰ کی مہربانی اور اُس کی شفقت اور اُس کی عنایت اور اُس کی رافت کا ایسا دلکش نمونہ ہوتے ہیں کہ اُن کو دیکھنے کے بعد لوگ یہ خیال بھی نہیں کر سکتے کہ ایسے وجود دُنیا پھر بھی پیدا کر سکتی ہے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود تو ایسا تھا جس کے متعلق یہ دعویٰ بھی موجود تھا کہ آپ خاتم النبین ہیں اور آپ کی شریعت آخری شریعت ہے.خدا تعالیٰ کے نزدیک تو اس کے یہ معنی تھے کہ آپ آخری شرعی رسول ہیں اور یہ کہ اب دنیا میں جو بھی رسول اور مصلح آئے گا وہ آپ سے روحانی فیوض حاصل کر کے اور آپ کا غلام اور شاگرد بن کر آئے گا.مگر جو دیکھنے والے تھے جن کو ابھی آئندہ کا تجربہ نہیں تھا اُن میں سے بعض شاید یہی سمجھتے ہوں کہ آپ دنیا کے لئے آخری روشنی ہیں اور وہ یہی خیال کرتے ہوں کہ اس روشنی کو خدا اب واپس نہیں لے گا اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا خیال بھی اُن کے لئے ایک ایسا صدمہ تھا جن کو برداشت کرنا اُن کی طاقت سے بالکل باہر تھا

Page 263

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۷ جلد دوم چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو یہ بات صحابہ کے لئے اس قد رصد مہ کا موجب ہوئی کہ وہ لمبی تعلیم جو متواتر تیئیس سال تک خدا کا رسول اُن کو دیتا رہا اُس کو بھی وہ بھول گئے.جس رسول نے بڑے زور سے اُن پر یہ واضح کیا تھا کہ مرنے کے بعد انسان اس دنیا میں واپس نہیں آتا ، جس رسول نے بڑے زور سے واضح کیا تھا کہ ہر انسان جو اس دنیا میں آیا وہ ایک دن مرے گا اور جس رسول کے کلام میں یہ بات موجود تھی کہ ایک دن وہ خود بھی مرنے والا ہے اُس کی اُمت کے ایک جلیل القدر فرزند نے کہنا شروع کر دیا کہ جو شخص کہے گا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اُس کی تلوار سے گردن اُڑا دی جائے گی ہے ہماری جماعت کے وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کا زمانہ نہیں دیکھا شاید اس پر تعجب کرتے ہوں گے اور یہ واقعہ پڑھ کر اُن کو خیال آتا ہو گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہ کو یہ خیال کیونکر پیدا ہو گیا کہ آپ فوت نہیں ہو سکتے.مگر جب وہ اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں گے تو اس بات کا سمجھنا ان کے لئے کوئی مشکل نہیں رہے گا کہ جن وجودوں سے شدید محبت ہوتی ہے اُن کی جدائی کا امکان بھی دل پر گراں گزرتا ہے اور جب وہ وقت آ جاتا ہے جس کا تصور بھی انسان کو بے چین کر دیتا ہے تو عارضی طور پر انسان پر ایک سکتہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے.کیا ہی سچے جذبات کا آئینہ ہے حسان کا وہ شعر جو اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر کہا جب آپ کی وفات اُن پر ثابت ہوگئی تو انہوں نے کہا بع كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِي فَعَمِيَ عَلَى النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ.فَعَلَيْكَ كُنتُ أُحَاذِرُ یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ تو میری آنکھ کی پتلی تھے آج آپ فوت ہوئے تو میری آنکھ بھی جاتی رہی.یا درکھنا چاہئے کہ اس شعر کی عظمت اور اس کی خوبی کا اس امر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شعر کہنے والا آخری عمر میں نابینا ہو گیا تھا اور اندھے کی نظر پہلے ہی جا چکی ہوتی ہے.پس اُس کے یہ کہنے کا کہ آپ میری آنکھ کی پتلی تھے آپ کی وفات سے میں اندھا ہو گیا مطلب یہ تھا

Page 264

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۸ جلد دوم کہ باوجود اس کے کہ میں اندھا تھا آپ کی موجودگی میں مجھے اپنا اندھا پن بُرا معلوم نہیں ہوتا تھا ، بے شک میں نے اپنی جسمانی آنکھیں کھو دی تھیں مگر میں خوش تھا ، میں شاداں تھا ، میں فرحاں تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ میری روحانی آنکھیں موجود ہیں ، مجھے وہ پتیلی حاصل ہے جس کے ساتھ میں اپنے خدا کو دیکھ سکتا ہوں.اگر میری جسمانی آنکھیں نہیں ہیں ، اگر میں لوٹے اور گلاس کو نہیں دیکھ سکتا تو کیا ہوا مجھے وہ پتیلی تو ملی ہوئی ہے جس سے میں اپنے پیدا کرنے والے خدا کو دیکھ سکتا ہوں.بھلا لوٹے اور گلاس اور رنگ کو دیکھنے میں کیا مزا ہے.مزا تو یہ ہے کہ انسان اپنے خدا کو دیکھ سکے لیکن آج جب وہ پہلی مجھ سے لے لی گئی ہے ، جب وہ عینک مجھ سے چھین لی گئی ہے تو فَعَمِی عَلَيَّ النَّاظِرُ اے لوگو! تم مجھے پہلے اندھا کہا کرتے تھے لیکن حقیقتا میں اندھا آج ہوا ہوں.مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ میری بیوی بھی ہے، میرے بچے بھی ہیں اور عزیز اور رشتہ دار بھی ہیں مگر اب مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ ان میں سے کون مرجاتا ہے جو بھی مرتا ہے مرجائے اُس کی موت میرے لئے اس نقصان کا موجب نہیں ہو سکتی جس نقصان کا موجب میرے لئے یہ موت ہوئی ہے.فَعَلَيْكَ كُنتُ أَحَاذِرُ - يَا رَسُولَ اللهِ! میں تو اسی دن سے ڈرتا تھا کہ میری یہ بینائی کہیں چھین نہ لی جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قسم کی تاریکیوں سے لوگوں کو نکالا ، جس قسم کی تباہیوں سے عربوں کو بچایا ، جس قسم کی ذلت سے اور رسوائی سے نکال کر ان کو ترقی کے بلند مقام تک پہنچایا اس کو دیکھتے ہوئے آپ کے احسانوں کی جو قدرو قیمت صحابہ کے دل میں ہو سکتی تھی وہ بعد میں آنے والے لوگوں کے دلوں میں نہیں ہو سکتی.مگر پھر بھی دنیا چلی اور چلتی چلی گئی یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت صرف زبانوں پر رہ گئی دلوں میں سے مٹ گئی.خدا تعالیٰ کا نور کتابوں میں تو رہ گیا مگر دماغوں میں سے جاتا رہا.دنیا خدا کو بھول گئی اور اُس کی لذتیں دنیا سے ہی وابستہ ہو گئیں.جس طرح کسی درخت کو ایک زمین سے اُکھیڑ کر دوسری جگہ لگا دیا جاتا ہے اسی طرح خدا کی زمین میں سے لوگوں کی جڑیں اُکھڑ گئیں اور شیطان کی زمین میں جا لگیں ، ان کا ماحول شیطانی ہو گیا اور اُن کی تمام لذت اور اُن کا تمام سرور شیطانی کاموں سے وابستہ ہو گیا.

Page 265

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۹ جلد دوم تب خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا.دنیا ان کی بعثت پر حیران رہ گئی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب خدا تعالیٰ کے انعامات کو اس رنگ میں پانے والا کہ وہ قطعی اور یقینی طور پر خدا اور بندے کو آمنے سامنے کر دے کوئی نہیں آسکتا.جن لوگوں کی آنکھیں کھلی تھیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا آپ پر ایمان لائے اور انہوں نے یوں محسوس کیا جیسے ایک کھویا ہوا بچہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھ جاتا ہے.انہوں نے دیکھا کہ وہ لوگ جو صدیوں سے خدا سے دُور جاچکے تھے اس شخص کے ذریعہ خدا کی گود میں جا بیٹھے ہیں.اُن کی خوشیوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ، اُن کی فرحت کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا.وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خدا تعالیٰ کے کسی نبی کا مبعوث ہونا ناممکن ہے جہاں اُن کے غصہ کی کوئی حد نہ تھی وہاں مومنوں کی خوشی اور اُن کی مسرت کی بھی کوئی حد نہ تھی اور اُنہوں نے یہ خیال کرنا شروع کر لیا کہ اتنے صدموں کے بعد اب کوئی اور صدمہ انہیں پیش نہیں آئے گا.چنانچہ ہر شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لاتا تهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللہ جس کا ایمان ابھی اپنے کمال کو نہیں پہنچا تھا یہ تو نہیں سمجھتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت نہیں ہوں گے مگر ہر شخص یہ ضرور سمجھتا تھا کہ کم سے کم میری موت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوگی.مگر ایک دن آیا کہ ہر شخص جو یہ سمجھ رہا تھا کہ میری موت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوں گے اُس نے دیکھا کہ وہ تو زندہ تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اُٹھا لیا.وہ وقت پھر اُن لوگوں کے لئے جو سچے مومن تھے نہایت مصیبت کا وقت تھا اور یہ صدمہ ایسا شدید تھا کہ جس کی چوٹ کو برداشت کرنا بظا ہر وہ ناممکن خیال کرتے تھے لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے جو چیز آتی ہے اُسے بہر حال لینا پڑتا ہے اور انسان کو نئی حالت کے تابع ہونا پڑتا ہے اِسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ : اے عزیز و ! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے سو اب ممکن نہیں

Page 266

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۰ جلد دوم ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.ہے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ جماعت کی یہ حالت کب تک رہے گی ، کب تک خدا کا نور ہمارے درمیان موجود رہے گا، کب تک ہم اپنے آپ کو اس نور سے وابستہ رکھیں گے ، مگر بہر حال یہ لمبا سلسلہ بتاتا ہے کہ کس طرح ایک کے بعد ایک چیز آئی.لوگ جب پہلی چیز کو بھول جاتے ہیں تو خدا دوسری چیز کو بھیج دیتا ہے اور دنیا کی خوشی اور اُس کی شادمانی کا سامان مہیا کر دیتا ہے لیکن ایک چیز ہے جو شروع سے آخر تک ہمیں تمام سلسلہ میں نظر آتی ہے.آدم آیا اور آدم کے ساتھ خدا آیا.آدم چلا گیا لیکن ہمارا زندہ خدا اس دنیا میں موجود رہا ، نوح آیا اور نوح کے ساتھ خدا آیا.نوح چلا گیا لیکن ہمارا زندہ خدا اس دنیا میں موجود رہا ، ابراہیم آیا اور ابراہیم کے ساتھ خدا آیا ابراہیم فوت ہو گیا لیکن ہمارا زندہ خدا اس دنیا میں موجود رہا.اسی طرح اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب ، یوسف ، موسی عیسی اور آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہر ایک کے ساتھ خدا آیا.ان میں سے ہر شخص فوت ہو گیا لیکن ہمارا خدا زندہ رہا، زندہ ہے اور زندہ رہے گا.ہر شخص جو اُس سے تعلق پیدا کر لیتا ہے وہ ہمیشہ اپنی جڑیں اس زمین میں پائے گا جو خدا کی رحمت کے پانی سے سیراب ہوتی ہے.اُس پودے کی طرح اپنے آپ کو نہیں پائے گا جس کی جڑیں اچھی زمین میں سے اکھیڑ کر ایک خراب اور ناقص زمین میں لگا دی جاتی ہیں.پس یاد رکھو! جسمانی تناسل انسان کو موت اور فنا کی طرف لے جاتا ہے گو وہ انسان کے لئے خوشی کا بھی موجب ہوتا ہے، راحت کا بھی موجب ہوتا ہے مگر روحانی تناسل جس

Page 267

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۱ جلد دوم کے ذریعہ ایک پاک انسان دوسرے پاک انسان کو پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے دنیا سے رنج اور غم کو بالکل مٹا دیتا ہے کیونکہ اس تعلق کیلئے موت نہیں ، اِس تعلق کیلئے فنا نہیں اور اگر بنی نوع انسان چاہیں تو وہ اپنی زندگی کو دائمی زندگی بنا سکتے ہیں.جس کا طریق یہی ہے کہ ہر نسل قدرت ثانیہ کے مظاہر کے ذریعہ اس طرح خدا تعالیٰ سے وابستہ رہے جس طرح پہلی نسل اُس سے وابستہ رہی ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.کیونکہ روحانی تناسل کا انقطاع ایک موت ہے لیکن جسمانی تناسل کا انقطاع صرف ایک عارضی صدمہ.تم عیسائیوں کو دیکھ لو انہیں تم کچھ کہہ لو.چاہے اُن کو خدا کا منکر کہو، چاہے اُن کو صلیب پرست کہو ، چاہے اُن کو مشرک کہو اور چاہے اُن کو ضالین کہہ لومگر ایک مثال اُن کے اندرایسی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی آنکھ اُن کے سامنے جھک جانے پر مجبور ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ تمہارے اندر خلافت قائم کی جائے گی اور اس وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اندر خلافت قائم بھی کی لیکن مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کی قائم کر دہ خلافت کو اپنی نادانی سے اُڑا دیا اور عیسائیوں نے خود خلافت قائم کی جو انہیں سو سال کا لمبا عرصہ گزار نے کے باوجود آج تک اُن کے اندر قائم ہے.عیسائیوں کے پوپ کو دیکھ لو اس کو وہ خلیفہ کے برابر ہی سمجھتے ہیں اور باوجود یکہ مذہب نے اُن کو کوئی ہدایت نہیں دی تھی انہوں نے خدا تعالیٰ کی گزشتہ سنت کو دیکھتے ہوئے اسی میں اپنی بہتری سمجھی اور کہا آؤ ہم اس خدائی سنت سے فائدہ اُٹھائیں اور اپنے اندر خلافت قائم کریں.وہ قوم دینی لحاظ سے بالکل تباہ ہوگئی ، وہ قوم اچھے اعمال کو کھو بیٹھی ، اس قوم نے اپنے آپ کو گلی طور پر دُنیوی رنگ میں رنگین کر لیا ، اس قوم نے خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کی لیکن اُنہوں نے آج تک اس چیز کو مضبوطی کے ساتھ پکڑا ہوا ہے کہ آج بھی ان کا پوپ یورپ کے بڑے سے بڑے تاجدار اور شہنشاہ کی برابری کرتا ہے اور بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ بادشاہت ہمیں پوپ سے ہی پہنچی ہے.یہ وہ چیز تھی جو اُن کی کامیابی کا موجب ہوئی.اگر مسلمان بھی اس کو قائم رکھتے تو آج ان کو یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا.انہوں نے خلافت کو اُڑا دیا اور پھر اپنے دلوں کو

Page 268

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۲ جلد دوم تسکین دینے کے لئے ہر بادشاہ کو خلیفہ کہنا شروع کر دیا مگر گجا لکڑی کی بنی ہوئی بھینس اور گجا اصل بھینس.لکڑی کی بنی ہوئی بھینس کو دیکھ کر کوئی شخص خوش نہیں ہو سکتا لیکن وہ اپنی اصل بھینس کو دیکھ کر ضرور خوش ہوتا ہے چاہے وہ کتنی ہی لاغر اور دبلی پتلی کیوں نہ ہو اور چاہے وہ دودھ دے یا نہ دے.مسلمانوں نے چونکہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ خلافت کی ناقدری کی اور اُسے اُڑا دیا اور پھر اس کی برکات کو سمجھنے کی کوشش نہ کرتے ہوئے دُنیوی بادشاہوں کو خلیفہ کہنا شروع کر دیا.اس لئے وہ خلافت کی برکات سے محروم ہو گئے.اب یہ ہماری جماعت کا کام ہے کہ وہ اس غفلت اور کوتاہی کا ازالہ کرے اور خلافت احمدیہ کو ایسی مضبوطی سے قائم رکھے کہ قیامت تک کوئی دشمن اس میں رخنہ اندازی کرنے کی جرات نہ کر سکے اور جماعت اپنی روحانیت اور اتحاد اور تنظیم کی برکت سے ساری دنیا کو اسلام کی آغوش میں لے آئے.بے شک جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ دنیا چلتی چلی جاتی ہے اور ایسے رنگ میں جاری ہے کہ ہر زمانہ کے لوگ اپنے آپ کو پہلوں سے ترقی یافتہ سمجھتے ہیں.مرنے والے مرجاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں اب کیا ہوگا؟ لیکن ابھی ایک صدی بھی نہیں گزرتی کہ لوگ کہنا شروع کر دیتے ہیں اب ہم زیادہ عقلمند ہیں پہلے لوگ جاہل اور علوم صحیحہ سے بے بہرہ تھے.گویا وہی جن کے متعلق ایک زمانہ میں کہا جاتا ہے کہ اُن کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا انہیں آئندہ آنے والے احمق اور جاہل قرار دیتے ہیں لیکن روحانی تعلق ایسا نہیں ہوتا کہ اس میں ایک دوسرے کو جاہل کہا جا سکے نہ یہ تعلق اس قسم کی مایوسی پیدا کرتا ہے جس قسم کی مایوسی جسمانی تعلق کا انقطاع پیدا کرتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو شخص خدا سے تعلق پیدا کر لیتا ہے اُسے بھی غم ہو سکتا ہے لیکن مایوسی اُس کے دل میں پیدا نہیں ہوسکتی.غم ایک ایسی چیز ہے جسے خدا نے روحانی ترقی کیلئے اس دنیا میں ضروری قرار دیا ہے.دو وفائیں ہیں جو خدا نے ضروری قرار دی ہیں ایک اپنے ساتھ اور ایک اپنے بندوں کے ساتھ.اگر غم نہ ہو تو یہ بندوں کے ساتھ وفا نہیں سمجھی جائے گی اور اگر مایوسی ہو تو یہ خدا کے متعلق بے وفائی ہوگی اسی

Page 269

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۳ جلد دوم لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ آنکھ آنسو بہاتی ہے، دل غمگین ہے مگر ہم کہتے وہی ہیں جس کا ہمیں خدا نے حکم دیا.تو جہاں انسان کو دنیا میں کئی قسم کی خوشیاں حاصل ہوتی ہیں وہاں اُسے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہ سب خوشیاں عارضی ہیں.اُسے وہ حقیقی تعلق استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو موت کو مٹا دے.موت اُسی صورت میں موت ہے جب انسان یہ سمجھتا ہو کہ میں ایک ایسی چیز سے محروم کیا گیا ہوں جس کا کوئی قائم مقام نہیں.روحانیت میں چونکہ انسان کا اصل تعلق خدا سے ہوتا ہے اور اس تعلق میں انقطاع واقع نہیں ہو سکتا جب تک کوئی شیطان سے تعلق پیدا نہ کر لے.اس لئے کسی کی موت اُسے اپنے محبوب سے جدا نہیں کر سکتی.اس طرح اگر جسمانی طور پر اُس کے عزیزوں اور رشتہ داروں میں سے بعض لوگ مر جاتے ہیں تو مایوسی اُس پر طاری نہیں ہوتی کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ جدائی عارضی ہے اور ایک دن آنے والا ہے جب ہم پھر ایک دوسرے سے مل جائیں گے لیکن جب انسان کا خدا سے تعلق نہیں ہوتا تو ہر موت ، ہر جدائی اور ہر تفرقہ اُسے دائمی معلوم ہوتا ہے اور وہ اُس کے دل کو ہمیشہ کیلئے مایوسی اور تاریکی میں مبتلا کر دیتا انوار العلوم جلد ۷ اصفحہ ۳۵۷ تا ۳۶۷) المؤمن: ۳۵ ل السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۶۱۵ باب ما يذكر في مدة مرضه مطبوعه بيروت لبنان ۲۰۱۲ء شرح دیوان حسان بن ثابت صفحه ۲۲۱ مطبوعه آرام باغ کراچی الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵ ایڈیشن ۲۰۰۸ء صلى الله بخاری کتاب الجنائز باب قول النبى عله انا بك لمحزونون صفحه ۲۰۹،۲۰۸ حدیث نمبر ۱۳۰۳ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية

Page 270

Page 271

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۵ جلد دوم خلیفہ کی زندگی میں کسی اور کے خلیفہ ہونے کا ذکر کرنا گناہ ہے حضور انور نے ۲۷ / اکتوبر ۱۹۴۵ء کو نماز عصر کے بعد نو تعمیر شدہ فضل عمر ہوٹل واقع دارالعلوم کا افتتاح کرتے ہوئے تقریر فرمائی.اس میں جماعت کے۱۹۱۴ء کے حالات کا ذکر کیا اور احباب جماعت کو ابتدائی صحابہ اور مبائعین جیسا ایمان پیدا کرنے کی ضرورت کی طرف توجہ بھی دلائی اور یہ نکتہ بھی بیان فرمایا کہ خلیفہ کی زندگی میں دوسرے خلیفہ کا ذکر کرنا وو گناہ ہے فرمایا :.سب سے عجیب واقعہ میں آپ لوگو کو سناؤں.حضرت خلیفہ اسی الاول کی وفات سے چند دن پہلے ایک پروفیسر تھا جو ایم.اے تھا.میرا گہرا دوست اور حضرت خلیفہ اسیح الا قول کا مقبول شاگر د.اُس کے والد سے جو جموں میں حج تھا حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی ذاتی دوستی تھی.وہ خود بھی احمدیت میں اخلاص رکھتا تھا اور میرا دوست ہونے کی وجہ سے میرا ہم سبق بھی بن جایا کرتا تھا اور حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا.جب اسے حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی بیماری کی اطلاع پہنچی تو وہ یہاں آیا اور تین چار روز یہاں رہا.مسجد مبارک میں آنے کے لئے ہمارے گھر کا ایک دروازہ ہوتا تھا جو سیٹرھیوں کے اندر کھلتا تھا ایک دن اُس پر آکر اُس نے دستک دی اور میں باہر نکلا.اُس نے میرا ہاتھ نہایت گرم جوشی سے پکڑ لیا اور رقت سے اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.اُس نے کہا مجھے اور چھٹی نہیں مل سکتی اس لئے میں واپس علی گڑھ جا رہا ہوں آپ اس مصافحہ کو میری بیعت سمجھیں.میں نے کہا (اس کا نام تیمور تھا.اور اب ایک کالج کا وائس پرنسپل ہے ) تیمور !

Page 272

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۶ جلد دوم تمہارا حضرت خلیفۃ اصبح الاول سے کتنا گہرا تعلق ہے اور تم ان سے سنتے رہے ہو کہ خلیفہ کی زندگی میں کسی اور کے خلیفہ ہونے کا ذکر کرنا گناہ ہے تم بجائے اس کے کہ اچھا نمونہ دکھاتے بہت بُرا نمونہ پیش کر رہے ہو.میرے یہ کہنے پر اُسے اور بھی رقت آ گئی اور وہ بے ساختہ رونے لگ گیا اور کہا میں جانتا ہوں مگر مجھ سے رہا نہیں گیا کیونکہ میں فتنہ کے آثار دیکھ رہا ہوں.حضرت خلیفہ اُمسیح الاوّل کی حالت نازک ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی آنکھیں بند ہوتے ہی قا بو یافتہ لوگ نظام سلسلہ کو بدلنے کی کوشش کریں گے اس وجہ سے میں نے بیعت کے لئے کہا ہے.یہ سات آٹھ دن حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل کی وفات سے پہلے کا واقعہ ہے.وہ میرا گہرا دوست تھا اور چند ہی گہرے دوستوں میں سے تھا.اس نے اس جوش سے مصافحہ کیا اور یہ جانتے ہوئے کہ خلیفہ کی زندگی میں کسی اور کے خلیفہ ہونے کا ذکر کرنا جائز نہیں بے تاب ہو کر کیا اور روتے ہوئے کہا کہ اسے میری بیعت سمجھیں مگر حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد جماعت نے جب یہ فیصلہ کیا کہ خلافت کو قائم رکھیں گے اور خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ اس فیصلہ کے مطابق جو قرآن اور اسلام کے رو سے درست ثابت ہے میں جماعت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لوں تو تیسرے ہی دن اس کی طرف سے تار پہنچا کہ فوراً مولوی محمد علی وغیرہ سے صلح کر لوور نہ انجام اچھا نہ ہو گا.اس سے قیاس کرلو کہ وہ کیسے ہیجان کا زمانہ تھا جو شخص آٹھ ہی دن پہلے میرا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ اسے میری بیعت سمجھو اور میں اسے ملامت کرتا ہوں کہ تمہیں ایسا نہیں کہنا چاہیے وہی آٹھ دن بعد مجھے کہتا ہے کہ تم نے غلطی کی ہے فوراً مولوی محمد علی صاحب سے صلح کر لو ورنہ تمہارا انجام اچھا نہ ہوگا.اس سے پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ ایک شخص رات کو مومن سوئے گا اور صبح کو کا فر اُٹھے گا اور ایک شخص رات کو کا فرسوئے گا اور صبح کو مومن اُٹھے گا لے وہ بات پیدا ہوگئی تھی.تو آج آپ لوگ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ دن کیسے خطر ناک تھے اور خدا تعالیٰ نے کس قسم کے فتنوں میں سے جماعت کو گزارا.اُس حالت کا آج کی حالت سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا.اگر وہی جوش اور وہی اخلاص جو اُس وقت جماعت میں تھا آج بھی آپ لوگوں میں ہو تو یقیناً تم پہاڑوں کو ہلا سکتے ہو.اُس وقت جماعت کے لوگ بہت تھوڑے تھے مگر خدا تعالیٰ

Page 273

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۷ جلد دوم نے ان کو ایسا ایمان اور ایسا جوش بخشا کہ کوئی بڑی سے بڑی روک بھی انہیں کچھ نہ نظر آئی تھی.آج کے نوجوان اور آج کی جماعت اگر ویسا ہی ایمان پیدا کر لے تو دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر سکتی ہے.جو کام ایک پونڈ بارود کر سکتا ہے ایک ٹن بارود اس سے بہت زیادہ کام کر سکتا ہے.اگر اُس وقت جماعت کی حیثیت پونڈ کی تھی تو آج خدا کے فضل سے ٹن کی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ اُس وقت جماعت کے لوگ بارود تھے کیا آج بھی وہ بارود ہیں یا ریت کا ڈھیر؟ اگر بارود ہیں تو یقیناً آج اُس وقت کی نسبت بہت زیادہ کام کر سکتے ہیں لیکن اگر ریت ہیں تو اُس وقت کے کام کا سواں حصہ بھی نہیں کر سکتے.پس میں نو جوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اندرا خلاص پیدا کریں.مجھے اُس وقت کے ایک طالب علم کا واقعہ یاد آ گیا.اب وہ دارجلینگ میں تاجر ہے.اُس وقت یہاں سوال پیدا ہوا کہ جماعت کیا چاہتی ہے؟ آیا خلافت قائم رہے یا نہ؟ اس کے لئے لوگوں کی رائے نوٹ کرنے کا بعض اصحاب نے انتظام کیا.بعض سکول کے لڑکوں نے بھی کہا کہ رائے نوٹ کرنے والے کاغذ ہمیں بھی دو ہم بھی دستخط کرائیں گے.ان سے کہا گیا کہ تمہارے ہیڈ ماسٹر صاحب خلاف ہیں تمہیں تکلیف نہ پہنچے.اُس وقت مولوی صدر دین صاحب ہیڈ ماسٹر تھے مگر لڑکوں نے کہا ہمیں نقصان کی پرواہ نہیں.اس طرح اس لڑکے نے بھی کاغذ لے لیا اور جو مہمان آتے ان کے سامنے پیش کرتا کہ اپنی رائے لکھ دیجئے.اسے دیکھ کر ہیڈ ماسٹر آیا اور اس نے اس کے ہاتھ سے زبر دستی کا غذ چھین کر پھاڑ دیا اور کہا جاؤ ایسا نہ کرو یہ میرا حکم ہے مگر اس نے پھر کاغذ لیا اور پنسل سے وہی عبارت اس پر لکھ کر جو پہلے کاغذ پر لکھی تھی لوگوں کے سامنے پیش کرنے لگ گیا.پھر ہیڈ ماسٹر آیا اور اس نے کاغذ چھین کر پھاڑ ڈالا اور دستخط کرانے سے منع کیا.اس پر اس نے کہا میں آپ کے ادب کی وجہ سے اور تو کچھ نہیں کہتا مگر یہ دینی کام ہے میں اسے چھوڑ نہیں سکتا.اس کا والد بھی مخالف تھا اس نے اسے خرچ دینا بھی بند کر دیا مگر اس نے کوئی پرواہ نہ کی اور آج اچھا تا جر ہے.“ ( الفضل یکم نومبر ۱۹۴۵ء ) 66 مسلم کتاب الایمان باب الحث على المبادرة بالاعمال صفه ۶۳ حدیث نمبر ۳۱۳ مطبوعہ ریاض ۲۰۰۰ء الطبعة الثانية

Page 274

Page 275

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۹ جلد دوم نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہیں ( تقریر ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۵ء بر موقع جلسه سالانه ) تشہد ،تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.انسانی زندگی ایک دور بلکہ چندا دوار کا نام ہے ایک دور چل کر ختم ہوتا ہے تو ایک اور دور چل پڑتا ہے وہ ختم ہوتا ہے تو پھر ایک اور دور ویسا ہی چل پڑتا ہے.جیسے رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات آتی ہے اسی طرح ایک دور کے بعد دوسرا چلتا چلا جاتا ہے اور الہی منشا اسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے دور ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا ان ادوار کے لوگ ایک دوسرے کی نقلیں کر رہے ہیں.مومنوں کی باتیں ویسی ہی معلوم ہوتی ہیں جیسے پہلے مومنوں کی اور کافروں کی باتیں ویسی ہی معلوم ہوتی ہیں جیسی پہلے کافروں کی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حیرت کا اظہار فرماتا ہے کہ اتوا صوابه بَلْ هُمْ قَوْم طَاغُونَ ے ان کا فروں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہی باتیں کہتے ہیں جو پہلے نبیوں کو ان کے نہ ماننے والوں نے کہیں اور کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جو نئی ہو اور پہلے انبیاء کو ان کے مخالفوں نے نہ کہی ہو.عیسائی اور یہودی مصنفین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمیں کیا علم ہے کہ پہلے انبیاء کے دشمنوں نے وہی اعتراض اپنے وقت کے نبیوں پر کئے تھے یا نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے گئے.اور ہمارے پاس کیا ثبوت ہے اس بات کا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی کہ مجھے یہ الہام ہوا ہے کہ آدم کے دشمنوں نے بھی یہی اعتراض کئے تھے ، نوح کے دشمنوں نے بھی یہی اعتراض کئے تھے ، ابراہیم کے دشمنوں نے بھی یہی اعتراض کئے تھے.یہ کہنا کہ یہ خبریں آپ کو اللہ تعالیٰ کی

Page 276

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۰ جلد دوم طرف سے الہام کی گئی ہیں محض باتیں ہی باتیں ہیں ان میں حقیقت کچھ بھی نہیں بلکہ یہ قصے آدم اور نوح اور ابراہیم کے منہ سے کہلوا دیئے گئے ہیں.اگر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ نہ ملا ہوتا اور کوئی اس بات کا ثبوت ہم سے مانگتا تو ہمیں مشکل پیش آتی لیکن اس علم کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بعینہ وہی باتیں کہی گئیں جو جہالت کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے کہی تھیں اور وہی اعتراض آپ پر کئے گئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں نے آپ پر کئے تھے.اس سے ہم نے یقین کر لیا اور ہمارے لئے شک کی کوئی گنجائش نہ رہی کہ واقعی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن وہی باتیں کہتے ہو نگے جو حضرت آدم ، حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کے دشمن کہتے تھے کیونکہ آج ۱۳۰۰ سال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمن آپ پر وہی اعتراض کرتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ کے دشمنوں نے کئے اور ان میں اتنی مطابقت اور مشابہت ہوتی ہے کہ حیرت آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمن جب آپ پر اعتراض کرتے تو آپ فرماتے یہی اعتراض آج سے ۱۳۰۰ سال پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کے مخالفین نے کئے تھے جب وہ باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قابل اعتراض نہ تھیں بلکہ آپ کی صداقت کی دلیل تھیں تو وہ میرے لئے کیوں قابلِ اعتراض بن گئی ہیں.پس جو جواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا دیا وہی جواب میں تمہیں دیتا ہوں.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جواب میں یہ طریق اختیار فرماتے اور لوگوں پر اس طریق سے حجت قائم کرتے تو مخالفین شور مچاتے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برابری کرتا ہے حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ جو اعتراض ابو جہل کرتا تھا جو شخص اُن اعتراضوں کو دُہراتا ہے وہ مثیل ابو جہل ہے اور جس شخص پر وہ اعتراض کئے جاتے ہیں وہ مثیلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے.پس ہر زمانہ میں مومنوں اور کافروں کی پہلے مومنوں اور کافروں سے مشابہت ہوتی چلی آئی ہے لیکن دنیا ہمیشہ اس بات کو بھول جاتی ہے اور جب کبھی نیا دور آتا ہے تو نئے سرے سے لوگوں کو یہ سبق دینا پڑتا ہے

Page 277

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۱ جلد دوم اور اس اصول کو دنیا کے سامنے دُہرانا پڑتا ہے اور خدا کی طرف سے آنے والا لوگوں کے اس اصول کو بھول جانے کی وجہ سے لوگوں سے گالیاں سنتا ہے اور ذاتیں برداشت کرتا ہے.اس کے اپنے اور بیگانے ، دوست اور دشمن سب مخالف ہو جاتے ہیں اور قریبی رشتہ دارسب سے بڑے دشمن بن جاتے ہیں.حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار پاس کے مکانوں میں نئے آنے والوں کو روکنے کے لئے بیٹھے رہتے تھے اور جب کوئی شخص مسلمانوں کے پاس آتا تو وہ رستہ میں اسے روک لیتے اور سمجھاتے کہ یہ شخص ہمارے رشتہ داروں میں سے ہے ہم اس کے قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود اس کو نہیں مانتے کیونکہ ہم لوگ جانتے ہیں کہ سوائے جھوٹ کے اور کوئی بات نہیں.ہم آپ لوگوں سے اس کو زیادہ جانتے ہیں ہم سے زیادہ آپ کو واقفیت نہیں ہو سکتی ہم اس کے ہر ایک راز سے واقف ہیں بہتر ہے کہ آپ یہیں سے واپس چلے جائیں اسی میں آپ کا فائدہ ہے.یہی حال ہم نے ان کا دیکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتہ دار تھے.ان کی باتوں کوسن کر جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف کیا کرتے اور ان کی حرکات کو دیکھ کر جو وہ باہر سے آنے والوں کو روکنے کے لئے کرتے انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے کہ ان کی باتوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کی باتوں میں کس قدر مشابہت ہے.مرزا امام الدین سارا دن اپنے مکان کے سامنے بیٹھے رہتے.دن رات بھنگ گھٹا کرتی اور کچھ وظائف بھی ہوتے رہتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ کر اُنہوں نے پیری مریدی کا سلسلہ شروع کر لیا تھا.جب کوئی نیا احمدی باہر سے آتا یا کوئی ایسا آدمی جو احمدی تو نہ ہوتا نہ ہوتا لیکن تحقیق کے لئے قادیان آتا تو اُس کو بلا کر اپنے پاس بیٹھا لیتے اور اُسے سمجھانا شروع کر دیتے.میاں تم کہاں اس کے دھوکا میں آگئے یہ تو محض فریب اور دھو کا ہے اگر حق ہوتا تو ہم لوگ جو کہ بہت قریبی رشتہ دار ہیں کیوں پیچھے رہتے.ہمارا اور مرزا صاحب کا خون ایک ہے تم خود سوچو بھلا خون بھی کبھی دشمن ہو سکتا ہے.اگر ہم لوگ انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ شخص صحیح

Page 278

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۲ جلد دوم راستے سے لوگوں کو پھیر نے والا ہے اور اس نے لوگوں سے پیسے بٹورنے کے لئے یہ دکان کھول رکھی ہے.اب حیرت آتی ہے کہ کونسا ابو جہل آیا جس نے مرزا امام الدین کو یہ باتیں سکھائیں کہ تم باہر سے آنے والوں کو اس طریق سے روکا کرو یہ نسخہ میرا آزمایا ہوا ہے یا پھر یہ ماننا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہی باتیں مسمریزم کے ذریعہ مرزا امام الدین سے کہلوالیں.دونوں میں سے ایک بات ضرور صحیح ہوگی.لدھیانہ کے ایک دوست نور محمد نامی نو مسلم تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بہت محبت و اخلاص رکھتے اُنہوں نے مصلح موعود ہونے کا دعوی بھی کیا تھا وہ کہا کرتے تھے کہ بیٹا جب باپ کے پاس جائے تو اسے کچھ نہ کچھ نذر ضرور پیش کرنی چاہیے.ان کا مطلب یہ تھا کہ میں مصلح موعود ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہوں اور چونکہ وہ اپنے آپ کو خاص بیٹا سمجھتے تھے اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کم سے کم ایک لاکھ روپیہ تو انہیں ضرور پیش کرنا چاہیے.کہتے ہیں ابھی اُنہوں نے چالیس پچاس ہزار روپیہ ہی جمع کیا تھا کہ وہ فوت ہو گئے اور نہ معلوم روپیہ کون کھا گیا.اُنہوں نے بہت سے چوہڑے مسلمان کئے اور ان سے کہا کرتے تھے کہ کچھ روپیہ جمع کرو پھر تمہیں دادا پیر کے پاس ملاقات کے لئے لے چلوں گا کچھ عرصہ کے بعد ان کو مسلموں نے کہا کہ پتہ نہیں کہ آپ کب جائیں گے آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم قادیان ہو آئیں.اس پر اُنہوں نے ان نو مسلموں کو قادیان آنے کی اجازت دے دی.وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب سیر کے لئے نکلے تو وہ باہر کھڑے ہوئے تھے غالبا وہ ۹ آدمی تھے.ان میں سے ہر ایک نے ایک ایک اشرفی پیش کی کیونکہ ان کے پیر نے کہا تھا کہ تم دادا پیر کے پاس جا رہے ہو میں تمہیں اس شرط پر جانے کی اجازت دیتا ہوں کہ تم دادا پیر کے سامنے سونا پیش کرو.چنانچہ اُنہوں نے ذکر کیا کہ ہمارے پیر نے ہمیں اس شرط پر آنے کی اجازت دی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک آدمی آپ کی خدمت میں سونا پیش کرے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وہ سیر کو چلے گئے جب سیر سے واپس آئے تو چونکہ اُن کو حقہ پینے کی عادت تھی اس لئے وہ حقہ پینے کے لئے مرزا امام الدین کے پاس چلے

Page 279

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۳ جلد دوم گئے.وہ حقہ پینے کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ مرزا امام الدین نے کہنا شروع کیا انسان کو کام وہ کرنا چاہیے جس سے اُسے کوئی فائدہ ہو.تم جو اتنی دور سے پیدل سفر کر کے آئے ہو ( کیونکہ ان کے پیر کا حکم تھا کہ تم چونکہ دادا پیر کے پاس جا رہے ہو اس لئے پیدل جانا ہوگا ) بتا ؤ تمہیں یہاں آنے سے کیا فائدہ ہوا ؟ ایمان انسان کو عقل بھی دے دیتا ہے بلکہ عقل کو تیز کر دیتا ہے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ان میں سے ایک نو مسلم کہنے لگا کہ ہم پڑھے لکھے تو ہیں نہیں اور نہ ہی کوئی علمی جواب جانتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ آپ کو بھلے مانس مرید ملے نہیں اس لئے آپ چوہڑوں کے پیر بن گئے ہیں.آپ کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ملا ؟ آپ مرزا صاحب کی مخالفت کر کے مرزا سے چوہڑے بن گئے اور ہم مرزا صاحب کو مان کر چوہڑوں سے مرزا ہو گئے.لوگ ہمیں مرزائی مرزائی کہتے ہیں یہ کتنا بڑا فائدہ ہے جو ہمیں حاصل ہوا.اب دیکھو یہ کیسی مشابہت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ داروں کی باتوں میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتہ داروں کی باتوں میں.مرزا علی شیر صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سالے اور مرزا فضل احمد صاحب کے خسر تھے انہیں لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس جانے سے روکنے کا بڑا شوق تھا.راستہ میں ایک بڑی لمبی تسبیح لے کر بیٹھ جاتے ،تسبیح کے دانے پھیرتے رہتے اور منہ سے گالیاں دیتے چلے جاتے بڑا لٹیرا ہے، لوگوں کو ٹوٹنے کے لئے دُکان کھول رکھی ہے.بہشتی مقبرہ کی سڑک پر دار الضعفاء کے پاس بیٹھے رہتے.اُس وقت یہ تمام زمین زیر کاشت ہوتی تھی.عمارت کوئی نہ تھی.بڑی لمبی سفید داڑھی تھی سفید رنگ تھا.تسبیح ہاتھ میں لئے بڑے شاندار آدمی معلوم ہوتے تھے اور مغلیہ خاندان کی پوری یادگار تھے.تسبیح لئے بیٹھے رہتے جو کوئی نیا آدمی آتا اُسے اپنے پاس بلا کر بٹھا لیتے اور سمجھانا شروع کر دیتے کہ مرزا صاحب سے میری قریبی رشتہ داری ہے آخر میں نے کیوں نہ اُسے مان لیا.اس کی وجہ یہی ہے کہ میں اُس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں.میں جانتا ہوں کہ یہ ایک دکان ہے جو لوگوں کو ٹوٹنے کے لئے کھولی گئی ہے.ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ باہر سے پانچ بھائی آئے غالبا وہ چک سکندر ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.اب تو لوگ

Page 280

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۴ جلد دوم جلسہ کے دوران میں بھی باہر پھرتے رہتے ہیں لیکن ان پہلے لوگوں میں اخلاص نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا اور قادیان میں دیکھنے کی کوئی خاص چیز نہ تھی نہ منارة امسیح تھا نہ دفا تر تھے، نہ مسجد مبارک کی ترقیاں ایمان پرور تھیں ، نہ مسجد اقصیٰ کی وسعت اس قدر جاذب تھی ، نہ محلوں میں یہ رونق تھی ، نہ کالج تھا ، نہ سکول تھے.اُن دنوں لوگ اپنے اخلاص سے خود ہی قابلِ زیارت جگہ بنا لیا کرتے تھے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد صاحب کا باغ ہے اسے دیکھو اور یہ حضرت صاحب کے لنگر کا باورچی ہے اس سے ملو اور اس سے باتیں پوچھو.ان کا ایمان اسی سے بڑھ جاتا تھا.اُن دنوں ابھی بہشتی مقبرہ بھی نہ بنا تھا صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد کا لگایا ہوا باغ تھا.لوگ وہاں برکت حاصل کرنے کیلئے جاتے اور علی شیر صاحب رستہ میں بیٹھے ہوئے ہوتے.وہ پانچوں بھائی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا باغ دیکھنے کے لئے گئے تو اُن میں سے ایک جو زیادہ جوشیلا تھا وہ کوئی دو سو گز آگے تھا اور باقی آہستہ آہستہ پیچھے آرہے تھے.علی شیر نے اُسے دیکھ کر کہ یہ باہر سے آیا ہے اپنے پاس بلا لیا اور پوچھا کہ مرزا کو ملنے آئے ہو؟ اُس نے کہا ہاں مرزا صاحب کو ہی ملنے آیا ہوں.علی شیر نے اُس سے کہا ذرا بیٹھ جاؤ اور پھر اُسے سمجھانا شروع کیا کہ میں مرزا کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوں میں اس کے حالات سے خوب واقف ہوں ، اصل میں آمدنی کم تھی بھائی نے جائداد سے بھی محروم کر دیا اس لئے یہ دُکان کھول لی ہے.آپ لوگوں کے پاس کتابیں اور اشتہار پہنچ جاتے ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں کتنا بڑا بزرگ ہو گا پتہ تو ہم کو ہے جو دن رات اس کے پاس رہتے ہیں.یہ باتیں میں نے آپ کی خیر خواہی کے لئے آپ کو بتائی ہیں.چک سکندر سے آنے والے دوست نے بڑے جوش کے ساتھ مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا.علی شیر صاحب سمجھے کہ شکار میرے ہاتھ آ گیا ہے.اُس دوست نے علی شیر صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا اور پکڑ کر بیٹھ گیا.گویا اسے اُن سے بڑی عقیدت ہو گئی ہے.علی شیر صاحب دل میں سمجھے کہ ایک تو میرے قابو میں آ گیا ہے.اس دوست نے اپنے باقی بھائیوں کو آواز دی کہ جلدی آؤ جلدی آؤ.اب تو مرزا علی شیر پھولے نہ سمائے کہ اس کے کچھ اور ساتھی بھی ہیں وہ بھی میرا شکار ہو جائیں گے اور میں ان کو

Page 281

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۵ جلد دوم.بھی اپنا گرویدہ بنالوں گا.اس دوست کے باقی ساتھی دوڑ کر آ گئے تو اس نے کہا.میں نے تمہیں اس لئے جلدی بلایا ہے کہ ہم قرآن کریم اور حدیث میں شیطان کے متعلق پڑھا کرتے تھے مگر شکل نہیں دیکھی تھی آج اللہ تعالیٰ نے اُس کی شکل بھی دکھا دی ہے تم بھی غور سے دیکھ لو یہ شیطان بیٹھا ہے.مرزا علی شیر غصہ سے ہاتھ واپس کھینچتے لیکن وہ نہ چھوڑتا تھا اور اپنے بھائیوں سے کہتا جاتا تھا دیکھ لو اچھی طرح دیکھ لو، شاید پھر دیکھنا نہ ملے یہ شیطان ہے.پھر اس نے اپنے بھائیوں کو سارا قصہ سنایا.اب دیکھو کس طرح ایک قوم دوسری قوم کے قدم بقدم چلتی ہے.ہم نے خود دیکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمن تیرہ سو سال کے بعد وہی اعتراض کرتے ہیں صلى الله جو رسول کریم ﷺ پر کئے گئے بلکہ وہی اعتراض کئے جاتے ہیں جو حضرت نوح پر آپ کے دشمنوں نے کئے یا جو اعتراض حضرت ابراہیم پر آپ کے دشمنوں نے کئے ، یا جو اعتراض حضرت موسیٰ“ کے دشمنوں نے آپ پر کئے ، یا جو اعتراض حضرت عیسی پر آپ کے دشمنوں نے کئے.پس حقیقت یہ ہے کہ سچ کا مقابلہ سوائے جھوٹ اور فریب کے کیا ہی نہیں جا سکتا.سچ ہر زمانہ میں سچ ہے اور جھوٹ ہر زمانہ میں جھوٹ ہے.سچ کے مقابلہ میں سوائے جھوٹ اور فریب کے آہی کیا سکتا ہے.اگر کوئی چیز دشمنوں کے پاس سوائے جھوٹ کے ہوتو نکلے.ہمارے ہاں مثل مشہور ہے کہ کسی میراثی کے گھر میں رات کے وقت چور آیا یہ سمجھ کر کہ آخر دس ہمیں پچاس روپے تو اس کے ہاں ضرور ہونگے اور نہیں تو کوئی کپڑا ہی سہی.چور کونسا لاکھ پتی ہوتا ہے کہ ضرور لاکھوں والی جگہ ہی چوری کرے اگر اُسے ایک روپیہ بھی مل جائے تو وہ اُسے ہی غنیمت سمجھتا ہے.وہ بھی یہی سمجھا کہ آخر کوئی نہ کوئی ہدیہ ہی میراثی کو جمانوں سے کے ہاں سے ملا ہوگا وہی سہی.پرانے زمانے میں یہ دستور تھا کہ جس کے پاس کوئی نقدی یا زیور ہوتا وہ اُسے کسی برتن میں ڈال کر زمین میں دفن کر دیتا تھا اور چوروں نے اُسے نکالنے کا یہ طریق نکالا تھا کہ وہ لاٹھی لے کر گھر کی زمین کو ٹھکو ر ٹھکور کر دیکھتے جہاں انہیں نرم نرم زمین معلوم ہوتی وہاں سے کھود کر نقدی یا زیور نکال لیتے تھے.یہی طریق اُس چور نے اختیار کیا اور لاٹھی لے کر گھر کی زمین کو ٹھکو ر ٹھکور کر دیکھنے لگا.اسی اثناء میں میراثی کی آنکھ کھل گئی اور اُسے

Page 282

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۶ جلد دوم چور کی یہ حرکت دیکھ کر ہنسی آنے لگی کہ ہمیں تو کھانے کو نہیں ملتا اور یہ سوٹیاں مار مار کر خزانہ تلاش کر رہا ہے.کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُس نے ہنس کر چور سے کہا.”جمان ! سانوں ایتھے دن نوں کچھ نہیں لبھدا.تہانوں راتیں کی لکھنا ہے“.یعنی ہمیں یہاں دن کو کوئی چیز نہیں ملتی آپ کو رات کے وقت یہاں کیا ملے گا.یہی حالت مخالفین کی ہے سچ کے مقابلہ میں سوائے جھوٹ کے کوئی اور چیز ہو تو وہ پیش کریں اور سچ کے مقابلہ میں سچ کہاں سے لائیں.مقابلہ کے دو ہی طریق ہیں ایک تو یہ کہ خدا تعالیٰ کا بندہ جب کہتا ہے کہ میں نشان دکھاتا ہوں تو دشمن بھی کہیں کہ ہم بھی ویسا ہی نشان دکھاتے ہیں لیکن چونکہ وہ اس بات پر قادر نہیں ہوتے اس لئے نشان کے مقابل پر نشان دکھانے کے لئے سامنے نہیں آتے.ہاں دوسرا طریق یہ ہے کہ آئیں بائیں شائیں کرتے اور خوب شور وشغب پیدا کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم خوب مقابلہ کر رہے ہیں اور یہی طریق ہمیشہ انبیاء اور خدا تعالیٰ کے دوسرے خادموں کے دشمن اختیار کیا کرتے ہیں.جب سے میں نے مصلح موعود ہونے کا اعلان کیا ہے مولوی محمد علی صاحب نے ویسے ہی اعتراض کرنے شروع کر دیئے ہیں جیسے مولوی ثناء اللہ صاحب کیا کرتے تھے.میں خواب یا الہام سنا تا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے اعلام کی بناء پر اعلان کرتا ہوں لیکن مولوی محمد علی صاحب نہ تو مقابل پر کوئی خواب یا الہام پیش کرتے ہیں اور نہ ہی وہ پیش کر سکتے ہیں کیونکہ وہ سارا زور لگا کر تمہیں سالہ پرانا ایک الہام پیش کر سکے ہیں مگر وہ بھی واقعات کے رو سے غلط نکلا ہے.پس جب الہام ہوا ہی نہیں تو وہ الہام پیش کیسے کریں.اب سوائے اعتراضوں کے ان کے پاس کوئی چیز نہیں اگر وہ اعتراض بھی نہ کریں تو مقابلہ کس طرح کریں.حضرت ابرا ہیم، حضرت موسی ، حضرت عیسی کے دشمن اس بات کا تو انکار نہیں کر سکتے تھے کہ الہام ہوتا ہی نہیں کیونکہ ان سے پہلے انبیاء کو الہام ہوتا تھا اور وہ اس بات کے قائل تھے اس لئے ان انبیاء کا انکار کرنے والے اس بات کا انکار نہ کر سکتے تھے کہ الہام کوئی چیز نہیں.اپنی بات کو درست ثابت کرنے کیلئے اور ان انبیاء کا مقابلہ کرنے کیلئے یہ کہتے تھے کہ ان کے الہام خود ساختہ ہیں.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں نے بھی یہی کہا کہ ان کے

Page 283

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم الہام خود ساختہ ہیں.اگر عیسائیوں اور یہودیوں کا یہ قول درست تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وحی نَعُوذُ بِاللهِ خود ساختہ تھی تو اللہ تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابل پر الہام کر دیتا تا مفتریوں کی قلعی کھل جاتی.لیکن اللہ تعالیٰ کا ان کو الہام سے محروم رکھنا بتا تا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی حق تھے اور آپ کے دشمن یہودی اور عیسائی ناحق پر تھے.اسی طرح آج مولوی محمد علی صاحب یہ کہتے ہیں کہ میرے الہام جھوٹے ہیں لیکن کیوں اللہ تعالیٰ ان کو میرے مقابل پر بچے الہام نہیں کر دیتا ، تا دنیا پر واضح ہو جائے کہ مولوی صاحب حق پر ہیں اور میں ناحق پر ہوں.حیرت کی بات ہے کہ ایک شخص دن رات اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو گمراہ کرے اور دن رات اُس کے بندوں کو فریب اور دغا بازی سے غلط راستہ کی طرف لے جائے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کو غیرت نہ آئے.اگر اللہ تعالیٰ کو غیرت نہیں آتی تو اس کی وجہ سوائے اس کے یقیناً اور کوئی نہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ جانتا ہے کہ مولوی صاحب اس کے قرب سے بہت دُور ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُن کو الہام نہیں کیا.پس سچائی کے مقابلے میں ابتداء سے انکار ہوتا رہا ہے یہ سلسلہ ابتداء سے چلتا آیا ہے اور چلتا چلا جائے گا.ایک بالکل واضح بات ہے کہ نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے لیکن لوگ پھر بھی اس طریق کو بھول جاتے ہیں.وقت سے پہلے وہ ان باتوں کو اپنی مجالس میں دُہراتے اور ان کا اقرار کرتے ہیں لیکن عین موقع پر ان کا صاف انکار کر دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے تو حضرت خلیفہ اول کو اِس قد رصدمہ ہوا کہ شدت غم کی وجہ سے آپ کے منہ سے بات تک نہیں نکلتی تھی اور ضعف اس قدر تھا کہ کبھی کمر پر ہاتھ رکھتے اور کبھی ماتھے پر ہاتھ رکھتے.اسی حالت میں مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت خلیفہ اول کا ہاتھ پکڑ کر کہا انتَ الصِّدِّيقُ اور بعض اور فقرات بھی کہے جن کا مفہوم یہ تھا کہ خلافت اسلام کی سنت ہے لیکن بعد میں مولوی سید محمد احسن صاحب اس بات پر قائم نہ رہے اور اُنہوں نے خلافت سے منہ پھیر لیا.مولوی محمد علی صاحب یا ان کے رفقاء نے ان کے بچوں کو آٹے کی مشین لگوا دینے کا وعدہ کیا تھا.پس اس بات پر لڑ کے اور بیوی پیغامیوں کا

Page 284

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۸ جلد دوم ساتھ دیتے رہے اور مولوی صاحب کو بھی مجبور کرتے رہے کہ وہ لاہوریوں کا ساتھ دیں.جب وہ ابتلاء کے کچھ عرصہ بعد قادیان میں مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو صاف کہا کہ میں مجبور ہوں فالج نے قومی مار دیئے ہیں میں طہارت تک خود نہیں کر سکتا ان لوگوں کو وعدہ دے کر لاہوریوں نے بگاڑ رکھا ہے اور میں ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوں.انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر یعقوب اور اُس کی والدہ کو سنبھال لیا جائے تو میں بھی رہ سکوں گا مگر چونکہ میں اس قسم کی رشوت دینے کا عادی نہیں میں نے اس طرف توجہ نہیں کی.مجھے اکثر ایسے لوگوں کی حالت پر حیرت آتی ہے کہ ذرا ان کو سلسلہ سے کوئی شکایت پیدا ہو تو انہیں خلافت کے مسئلہ میں بھی شک پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.گجرات کے دوستوں نے سنایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے تو ایک اہل حدیث مولوی نے ہمیں کہا اب تم لوگ قابو آئے ہو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہے اور تم میں خلافت نہیں ہو گی تم لوگ انگریزی دان ہو اس لئے خلافت کی طرف تم نہیں جاؤ گے.وہ دوست بتاتے ہیں کہ دوسرے دن تار موصول ہوئی کہ جماعت نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی بیعت کر لی ہے اور ان کو اپنا خلیفہ بنا لیا ہے.جب احمدیوں نے اُس مولوی کو بتایا تو کہنے لگا نورالدین بڑا پڑھا لکھا آدمی تھا اِس لئے اُس نے جماعت میں خلافت قائم کر دی اگر اس کے بعد خلافت رہی تو پھر دیکھیں گے.جب حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے تو کہنے لگا اُس وقت اور بات تھی اب کوئی خلیفہ بنے گا تو دیکھیں گے.دوست بتاتے ہیں کہ اگلے دن تا رپہنچ گئی کہ جماعت نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے.اس پر کہنے لگا یار وتم بڑے عجیب ہو، تمہارا (انوار العلوم جلد ۱۸ صفحه ۲۳۳ تا ۲۵۲) کوئی پتہ نہیں لگتا.“ الذريت: ۵۴ جمان: برہمنوں یا نائیوں کی آسامی جس کا وہ پشتوں سے کام کرتے آ رہے ہوں.مخدوم، آقا ، مربی (فیروز اللغات اردو جا مع صفحه ۴ ۴۵ مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء) کنز العمال جلدا اصفحه ۱۱۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء

Page 285

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۹ جلد دوم قادیان سے پاکستانی احمدیوں کے نام ایک دردانگیز پیغام ۲۲ / اگست ۱۹۴۷ء کو جب کہ ہندو پاکستان میں فتنہ وفساد کے شعلے بلند ہو رہے تھے ، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے احمدیت کے بنیادی مرکز قادیان سے پاکستانی احمدیوں کے نام ایک دردانگیز پیغام تحریر فرمایا جس کا آخری حصہ درج ذیل ہے.میں جماعت کو محبت بھرا پیغام بھجواتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.اگر ابھی میرے ساتھ مل کر کام کرنے کا وقت ہو تو آپ کو وفاداری اور دیانتداری سے کام کرنے کی توفیق ملے اور اگر ہمارے تعاون کا وقت ختم ہو چکا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کے قدموں کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھے.سلسلہ کا جھنڈا نیچا نہ ہو.اسلام کی آواز پست نہ ہو.خدا تعالیٰ کا نام ماند نہ پڑے.قرآن سیکھو اور حدیث سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ اور خود عمل کرو اور دوسروں سے عمل کراؤ.زندگیاں وقف کرنے والے ہمیشہ تم میں سے ہوتے رہیں اور ہر ایک اپنی جائیداد کے وقف کا عہد کر نے والا ہو.خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کے لیے مومن آمادہ کھڑا ہو.صداقت تمہارا زیور ، امانت تمہا را حسن ، تقویٰ تمہارا لباس ہو.خدا تعالیٰ تمہارا ہو اور تم اس کے ہو.آمین میرا یہ پیغام باہر کی جماعتوں کو بھی پہنچا دو اور انہیں اطلاع دو کہ تمہاری محبت میرے دل میں ہندوستان کے احمدیوں سے کم نہیں.تم میری آنکھ کا تارا ہو.میں یقین رکھتا ہوں کہ جلد سے جلد اپنے ملکوں میں احمدیت کا جھنڈا گاڑ کر آپ لوگ دوسرے ملکوں کی طرف توجہ دیں گے اور ہمیشہ خلیفہ وقت کے جو ایک وقت میں ایک ہی ہوسکتا ہے ، فرمانبردار رہیں گے اور اس کے حکموں کے مطابق اسلام کی خدمت کریں گے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد ( خلیفة المسیح) (رساله خالد ستمبر ۱۹۵۶ء)

Page 286

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۰ جلد دوم دستور اسلامی یا اسلامی آئین اساسی قیام پاکستان کے شروع میں یہ سوال زور پکڑ رہا تھا کہ پاکستان کا دستور اسلامی ہو یا قومی.حضرت مصلح موعود نے بھی اس سلسلہ میں رتن باغ لاہور میں کچھ لیکچر دیے جن کے نوٹس کو اسلام کا آئین اساسی کے نام سے شائع کیا گیا اس ضمن میں حضور فرماتے ہیں :.اسلامی اصول پر مبنی گورنمنٹ کے لئے چونکہ انتخاب کی شرط ہے اس لئے اگر اسلامی آئین پر گورنمنٹ کی بنیاد رکھی جائے گی تو مندرجہ ذیل شرائط کو مدنظر رکھنا ہوگا.اول : حکومت کا ہیڈ منتخب کیا جائے گا.انتخاب کا زمانہ مقرر کیا جاسکتا ہے کیونکہ پاکستان کا ہیڈ خلیفہ نہیں ہو گا خلیفہ کو سارے مسلمانوں پر حکومت حاصل ہوتی ہے اور وہ صرف حکومت کا ہیڈ نہیں ہوتا بلکہ مذہب کا بھی ہیڈ ہوتا ہے.پاکستان کے ہیڈ کو نہ دوسرے ملکوں کے مسلمان تسلیم کریں گے اور نہ علماء مذہب کے مسائل میں اُس کو اپنا ہیڈ ماننے کے لئے تیار ہوں گے اس لئے خلافت کے اصول پر اس کے اصول تو مقرر کئے جا سکتے ہیں مگر نہ وہ خلیفہ ہوسکتا ہے نہ خلافت کے سارے قانون اُس پر چسپاں ہو سکتے ہیں.خلافت کے اصول یہ ہیں.(1) اُس کا تقرر انتخابی ہو ( اس انتخاب کے کئی طریق ہیں لیکن اس تفصیل میں جانے کی اس وقت گنجائش نہیں.) (۲) وہ مملکت کے کام مشورہ سے چلائے ( مشورہ کے لئے اسلام کے تین اصول ہیں (i) عام مسلمانوں سے مشورہ لینا یعنی ریفرنڈم.(ii) چند تجربہ کارلوگوں سے مشورہ لینا یعنی ایگزیکٹو باڈی سسٹم.(iii) قوموں کے منتخب نمائندوں سے مشورہ لینا جیسے آجکل کی پارلیمنٹس ہوتی ہیں.یہ تین طریقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے

Page 287

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۱ جلد دوم ثابت ہیں ) لیکن جہاں تک خلافت کا سوال ہے خلیفہ مشورہ لینے کا پابند ہے مشورے پر عمل کرنے کا پابند نہیں.پس اگر سو فیصدی خلافت کے اصول پر پاکستان کا آئین بنایا جائے تو حکومت کا ہیڈ ایگزیکٹو کا ہیڈ ہوگا.ایگزیکٹو کا انتخاب اس کے اپنے اختیار میں ہوگا وہ تمام ضروری امور میں پبلک کے نمائندوں سے مشورہ لے گا لیکن اُن مشوروں پر کار بند ہونے کا پابند نہیں ہوگا.لیکن میں پہلے بتا چکا ہوں کہ پاکستان کا ہیڈ خلیفہ نہیں ہوگا کیونکہ نہ ساری اسلامی حکومتیں اس کو ہیڈ تسلیم کریں گی نہ علماء اس کو مذہبی ہیڈ تسلیم کریں گے اس لئے ہم خلافت کے پس پردہ جو اصول کارفرما ہیں ان سے روشنی تو حاصل کر سکتے ہیں ان کی پوری نقل نہیں کر سکتے.اور چونکہ خلافت اُس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک دنیا کی سب مسلمان حکومتیں اور افراد اس انتخاب پر متفق نہ ہو جائیں یا اکثریت متفق نہ ہو جائے اور یہ ناممکن ہے اس لئے یہ کہنا کہ پاکستان کا آئین اساسی اسلام پر مبنی ہو درست نہیں.جس طرح انگریزی حکومت کے ماتحت ہمیں شریعت کے وہ احکام نافذ کرنے کا اختیار نہ تھا جو حکومت کے متعلق تھے اور ہم اس کی وجہ سے گنہ گار نہیں تھے اسی طرح اسلامی آئین حکومت چونکہ خلافت سے تعلق رکھتا ہے اور خلافت کا قیام مسلمان افراد اور حکومتوں کی اکثریت کے اتفاق کے بغیر ناممکن ہے اس لئے اگر ہم اس نظام کو قائم نہیں کرتے تو ہم ہرگز خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم نہیں کیونکہ اس نظام کے قائم کرنے کے لئے جو شرطیں اسلام نے مقرر کی ہیں وہ شرطیں اس وقت پوری نہیں ہوتیں“.(اسلام کا آئین اساسی صفحه ۳ ۴۰ )

Page 288

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۲ جلد دوم خلافت وعدہ الہی ، اس کی شرائط اور برکات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے سورۃ نور کی جو تفسیر تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ اول میں بیان فرمائی اس میں مسلمانوں سے خلافت کا وعدہ الہی ، اس کی شرائط اور اس کی برکات بیان فرمائیں.آپ فرماتے ہیں :.کل ہی میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا اس میں لکھا تھا کہ فرانس کے ایک جرنیل کو ایک آرڈر آیا جو ظالمانہ تھا.یہ دیکھ کر کہ وہ آرڈر نہایت ظالمانہ ہے دوستوں نے اُسے مشورہ دیا کہ تم اسے رڈ کر دو.یہ جرنیل وہی تھا جس نے سسلی کو فتح کیا تھا اور اسے مسلمان جرنیل موسیٰ کی طرح سسلی فتح کر لینے کے بعد سزا ملی.اس نے کہا تم مجھے غلط مشورہ دیتے ہو گورنمنٹئیں آتی ہیں اور جاتی ہیں لیکن فرانس زندہ رہے گا.میں فرانس کا خادم ہوں اور اس سے غداری نہیں کر سکتا.موسیٰ نے بھی دوستوں کے اس مشورہ پر کہ تم سرنڈر (Surrender) نہ کرو یہی جواب دیا تھا کہ ولید کا حکم نہیں بلکہ خلیفہ کا حکم ہے اس حکم کی تعمیل کر کے میں مارا ضرور جاؤں گا لیکن میں نہیں چاہتا کہ کوئی یہ کہے کہ خلیفہ کے حکم کی تعمیل نہیں کی گئی.خواہ اس حکم کا نفاذ میرے گرنے یا مرنے سے ہی ہو میں اسے رد نہیں کرونگا.اسی طرح اس جرنیل نے کہا کہ قو میں آئیں گی اور بدل جائیں گی لیکن فرانس زندہ رہے گا اور یا درکھا جائے گا.میں موت قبول کرلوں گا لیکن یہ بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ دنیا میں یہ کہا جائے کہ فرانس کے کسی جرنیل نے حکم رڈ کر دیا تھا.انہی چیزوں کے ساتھ افراد کی عزت ہوتی ہے.بعض لوگوں کی محبت چیزوں سے ہوتی ہے اور بعض کی محبت اصول سے ہوتی ہے جو لوگ اصول کے ساتھ محبت رکھتے ہیں وہی جیتے ہیں جو تو میں اصول کی قدر کرتی ہیں گوان کا ایک واجب الاطاعت امام ہوتا ہے لیکن حقیقتا وہ خود لیڈر ہوتی ہیں.جب ایک لیڈر مر جاتا ہے تو وہ دوسرا لیڈر پیدا

Page 289

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۳ جلد دوم کر لیتی ہیں.ان کی مثال کیلے کے درخت کی سی ہوتی ہے اگر کیلے میں پھل لگ جائے تو لوگ اسے کاٹ دیتے ہیں ورنہ اسے پھل نہیں لگتا.یہی حال زندہ قوموں کا ہوتا ہے زندہ قوموں کے افراد اپنی شخصیت کو کچل دیتے اور قومیت کو زندہ کر دیتے ہیں اور مذہبی نقطہ نگاہ سے وہ اپنی جسمانیت کو مار کر روحانیت کو زندہ کر لیتے ہیں.نادان کہتا ہے کہ خلیفہ خدا نہیں بناتا بلکہ اسے لوگ چنتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں کتنا بڑا فلسفہ بیان کیا ہے.ساری تاریخ دیکھ لو.تمہیں یہی نمونہ ملے گا کہ وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو لیڈر پیدا کرتی ہیں.تمہیں ایک تیمور مل جائے گا ، تمہیں ایک نپولین مل جائے گا، تمہیں ایک ہٹلر مل جائے گا لیکن تیموروں ، ہٹلروں اور نپولینوں کا سلسلہ اسی جگہ ملے گا جہاں قوم میں زندگی پائی جاتی ہو.انگلینڈ کے مد بر کہاں سے گرتے ہیں؟ امریکہ کا پریذیڈنٹ سائنس کے کون سے عمل خانہ میں بنایا جاتا ہے؟ وہ معمولی آدمیوں میں سے ہی ایک آدمی ہوتا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ اس کے پیچھے قوم کی روح کھڑی ہے.قوم پریذیڈنٹ کا آئینہ بن جاتی ہے اور پریذیڈنٹ قوم کا آئینہ بن جاتا ہے.قرآن کریم نے اس گر کو بیان کیا ہے کہ خلیفہ تم چنو لیکن وہ ہمارا نمائندہ ہوگا.( الفضل ۲۴ مئی ۱۹۶۲ء )

Page 290

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۴ جلد دوم خلافت راشدہ کے سات امتیازات ( تحریر فرموده مئی ۱۹۵۲ء) ۱۹۵۲ء میں الفرقان کے خلافت نمبر کی اشاعت کے لئے مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے حضور سے استفسار کیا کہ اسلامی خلافت راشدہ کی وہ کونسی علامتیں ہیں جن سے وہ ممتاز ہوتی ہے اور اس میں اور باقی تمام اقسام اقتدار، ملوکیت وغیرہ میں کھلے طور پر فرق کیا جاسکتا ہے؟ اس کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا :.اسلام میں خلافت راشدہ کے مجموعی امتیازات سات ہیں.اول : انتخاب.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إلى آفلما.یہاں امانت کا لفظ ہے لیکن ذکر چونکہ حکومت کا ہے اس لئے امانت سے مرا د امانت حکومت ہے آگے طریق انتخاب مسلمانوں پر چھوڑ دیا.چونکہ خلافت اُس وقت سیاسی تھی مگر اس کے ساتھ مذہبی بھی.اس لئے دین کے قائم ہونے تک اُس وقت کے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انتخاب صحابہ کریں کہ وہ دین اور دیندار کو بہتر سمجھتے تھے ورنہ ہر زمانہ کے لئے طریق انتخاب الگ ہوسکتا ہے.اگر خلافت صحابہ کے بعد چلتی تو اس پر بھی غور ہو جاتا کہ صحابہ کے بعد انتخاب کس طرح ہوا کرے.بہر حال خلافت انتخابی ہے اور انتخاب کے طریق کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے.دوم شریعت.خلیفہ پر اوپر سے شریعت کا دباؤ ہے وہ مشورہ کو رڈ کر سکتا ہے مگر شریعت کو رڈ نہیں کر سکتا گویا وہ کانسٹی ٹیوشنل ہیڈ ہے ، آزاد نہیں.سوم : شوری.اوپر کے دباؤ کے علاوہ نیچے کا دباؤ بھی اُس پر ہے یعنی اسے تمام اہم امور

Page 291

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۵ جلد دوم میں مشورہ لینا اور جہاں تک ہو سکے اس کے ماتحت چلنا ضروری ہے.چهارم : اندرونی دباؤ یعنی اخلاقی.علاوہ شریعت اور شوریٰ کے اس پر نگران اس کا وجود بھی ہے کیونکہ وہ مذہبی رہنما بھی ہے اور نمازوں کا امام بھی.اس وجہ سے اس کا دماغی اور شعوری دباؤ اور نگرانی بھی اسے راہ راست پر چلانے والا ہے جو خالص سیاسی ، ہے منتخب یا غیر منتخب حاکم پر نہیں ہوتا.پنجم : مساوات.خلیفہ اسلامی انسانی حقوق میں مساوی ہے جو دنیا میں اور کسی حاکم کو حاصل نہیں وہ اپنے حقوق عدالت کے ذریعہ سے لے سکتا ہے اور اس سے بھی حقوق عدالت کے ذریعہ سے لئے جاسکتے ہیں.ششم : عصمت صغریٰ.عصمت صغریٰ اسے حاصل ہے یعنی اسے مذہبی مشین کا پُرزہ قرار دیا گیا ہے اور وعدہ کیا گیا ہے کہ ایسی غلطیوں سے اُسے بچایا جائے گا جو تباہ کن ہوں اور خاص خطرات میں اس کی پالیسی کی اللہ تعالی تائید کرے گا اور اسے دشمنوں پر فتح دے گا گویا وہ مؤید میں اللہ ہے اور دوسرا کسی قسم کا حاکم اس میں اس کا شریک نہیں.ہفتم: وہ سیاسیات سے بالا ہوتا ہے اس لئے اس کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہوسکتا.وہ ایک باپ کی حیثیت رکھتا ہے اس کے لئے کسی پارٹی میں شامل ہونا یا اس کی طرف مائل ہونا جائز نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واذا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بالعدل کے یعنی جب ایسے شخص کا انتخاب ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ کامل انصاف سے فیصلہ کرے.کسی ایک طرف خواہ شخصی ہو یا قومی ہو نہ جھکے“.( الفرقان مئی ۱۹۶۷ء صفحہ ۶ ،۷ ) ٢٠١ النساء: ۵۹

Page 292

Page 293

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۷ جلد دوم مسئلہ خلافت (۲۵/ اکتو بر ۱۹۵۳ء کو خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ ربوہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مسئلہ خلافت کے موضوع پر تقریر فرمائی) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.میں گل تھوڑی دیر ہی بولا تھا لیکن گھر جاتے ہی میری طبیعت خراب ہوگئی اور سارا دن پسینے آتے رہے آج بھی گلے میں تکلیف ہے کھانسی آ رہی ہے بخار ہے اور جسم ٹوٹ رہا ہے جس کی وجہ سے میں شاید کل جتنا بھی نہ بول سکوں لیکن چونکہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کا یہ آخری اجلاس ہے اس لئے چند منٹ کے لئے یہاں آ گیا ہوں.چند منٹ بات کر کے میں چلا جاؤں گا اور اس کے بعد باقی پروگرام جاری رہے گا.انسان دنیا میں پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں کوئی انسان ایسا نہیں ہوا جو ہمیشہ زندہ رہا ہو لیکن قو میں اگر چاہیں تو وہ ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہیں یہی امید دلانے کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ :.میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے“ لے اس میں حضرت مسیح علیہ السلام نے لوگوں کو اسی نکتہ کی طرف توجہ دلائی تھی کہ چونکہ ہر انسان کے لئے موت مقدر ہے اس لئے میں بھی تم سے ایک دن جدا ہو جاؤں گا لیکن اگر تم چا ہو تو تم ابد تک زندہ رہ سکتے ہو.انسان اگر چاہے بھی تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا لیکن قو میں اگر چاہیں تو وہ زندہ رہ سکتی ہیں اور اگر وہ زندہ نہ رہنا چاہیں تو مر جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی فرمایا کہ:.تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا

Page 294

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۸ تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گئی ہے جلد دوم اس جگہ ہمیشہ کے یہی معنی ہیں کہ جب تک تم چاہو گے تم زندہ رہ سکو گے لیکن اگر تم سارے مل کر بھی چاہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زندہ رہتے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتے تھے ہاں اگر تم یہ چا ہو کہ قدرت ثانیہ تم میں زندہ رہے تو وہ زندہ رہ سکتی ہے.قدرت ثانیہ کے دو مظاہر ہیں.اول تائید الہی.دوم خلافت اگر قوم چاہے اور اپنے آپ کو مستحق بنائے تو تائید الہی بھی اس کے شامل حال رہ سکتی ہے اور خلافت بھی اس میں زندہ رہ سکتی ہے.خرابیاں ہمیشہ ذہنیت کے خراب ہونے سے پیدا ہوتی ہیں.ذہنیت درست رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قوم کو چھوڑ دے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ اِإِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يغيرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ کے یعنی اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کے ساتھ اپنے سلوک میں تبدیلی نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود اپنے دلوں میں خرابی پیدا نہ کر لے یہ چیز ایسی ہے جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس بات کو نہیں سمجھ سکتا.کوئی جاہل سے جاہل انسان بھی ایسا نہیں ہوگا جسے میں یہ بات بتاؤں اور وہ کہے کہ میں اسے نہیں سمجھ سکا یا اگر ایک دفعہ سمجھانے پر نہ سمجھ سکے تو دوبارہ سمجھانے پر بھی وہ کہے کہ میں نہیں سمجھا.لیکن اتنی سادہ سی بات بھی قو میں فراموش کر دیتی ہیں.انسان کا مرنا تو ضروری ہے اگر وہ مر جائے تو اس پر کوئی الزام نہیں آتا لیکن قوم کیلئے مرنا ضروری نہیں.قومیں اگر چاہیں تو وہ زندہ رہ سکتی ہیں لیکن وہ اپنی ہلاکت کے سامان خود پیدا کر لیتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ صحابہ کو ایک ایسی تعلیم دی تھی جس پر اگر ان کی آئندہ نسلیں عمل کرتیں تو ہمیشہ زندہ رہتیں لیکن قوم نے عمل چھوڑ دیا اور وہ مرگئی.دنیا یہ سوال کرتی ہے اور میرے سامنے بھی یہ سوال کئی دفعہ آیا ہے کہ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے صحابہ کو ایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی تھی جس

Page 295

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۹ جلد دوم میں ہر قسم کی سوشل تکالیف اور مشکلات کا علاج تھا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا تھا پھر وہ تعلیم گئی کہاں اور ۳۳ سال ہی میں وہ کیوں ختم ہو گئی.عیسائیوں کے پاس مسلمانوں سے کم درجہ کی خلافت تھی لیکن ان میں اب تک پوپ چلا آ رہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیوں میں پوپ کے باغی بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی اکثریت ایسی ہے جو پوپ کو مانتی ہے اور انہوں نے اس نظام سے فائدے بھی اُٹھائے ہیں لیکن مسلمانوں میں ۳۳ سال تک خلافت رہی اور پھر ختم ہو گئی.اسلام کا سوشل نظام ۳۳ سال تک قائم رہا اور پھر ختم ہو گیا.نہ جمہوریت باقی رہی ، نہ غربا پروری رہی ، نہ لوگوں کی تعلیم اور غذا اور لباس اور مکان کی ضروریات کا کوئی احساس رہا.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری باتیں کیوں ختم ہو گئیں ؟ اس کی یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کی ذہنیت خراب ہو گئی تھی.اگر ان کی ذہنیت درست رہتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ یہ نعمت اُن کے ہاتھ سے چلی جاتی.پس تم خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرو اور ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھو.اگر تم ایسا کرو گے تو خلافت تم میں ہمیشہ رہے گی.خلافت تمہارے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے دی ہی اس لئے ہے تا وہ کہہ سکے کہ میں نے اسے تمہارے ہاتھ میں دیا تھا.اگر تم چاہتے تو یہ چیز ہمیشہ تم میں قائم رہتی.اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اسے الہامی طور پر بھی قائم کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے یہ کہا کہ اگر تم لوگ خلافت کو قائم رکھنا چاہو گے تو میں بھی اسے قائم رکھوں گا گویا اس نے تمہارے منہ سے کہلوانا ہے کہ تم خلافت چاہتے ہو یا نہیں چاہتے ؟ اب اگر تم اپنا منہ بند کر لو یا خلافت کے انتخاب میں اہلیت مدنظر نہ رکھو.مثلاً تم ایسے شخص کو خلافت کے لئے منتخب کر لو جو خلافت کے قابل نہیں تو تم یقیناً اس نعمت کو کھو بیٹھو گے.مجھے اس طرف زیادہ تحریک اس وجہ سے ہوئی کہ آج رات دو بجے کے قریب میں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ پنسل کے لکھے ہوئے کچھ نوٹ ہیں جو کسی مصنف یا مؤرخ کے ہیں اور انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں پنسل بھی Copying یا Blue رنگ کی ہے.نوٹ صاف طور پر نہیں پڑھے جاتے اور جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نوٹوں میں یہ بحث کی گئی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمان اتنی جلدی کیوں خراب ہو گئے.

Page 296

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۰ جلد دوم باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے عظیم الشان احسانات ان پر تھے اعلیٰ تمدن اور بہترین اقتصادی تعلیم انہیں دی گئی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا تھا پھر بھی وہ گر گئے اور ان کی حالت خراب ہو گئی.یہ نوٹ انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جو انگریزی لکھی ہوئی تھی وہ بائیں طرف سے دائیں طرف کو نہیں لکھی ہوئی تھی بلکہ دائیں طرف سے بائیں طرف کو لکھی ہوئی تھی لیکن پھر بھی میں اسے پڑھ رہا تھا.گو وہ خراب کی لکھی ہوئی تھی اور الفاظ واضح نہیں تھے بہر حال کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا تھا اس میں ایک فقرہ کے الفاظ قریباً یہ تھے کہ There were two reasons for it.There temperment becoming (1) Morbid and (2) Anorchical یہ فقرہ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں پر کیوں تباہی آئی.اس فقرہ کے یہ معنی ہیں کہ وہ خرابی جو مسلمانوں میں پیدا ہوئی اُس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی طبائع میں دو قسم کی خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں ایک یہ کہ وہ مار ڈ (Morbid) ہو گئے تھے یعنی ان نیچرل (Unnatural) نا خوشگوار ہو گئے تھے اور دوسرے ان کی ٹنڈ نسیز (Tendancies) انارکیکل (Anarchical) ہو گئی تھیں.میں نے سوچا کہ واقعہ میں یہ دونوں باتیں صحیح ہیں.مسلمانوں نے یہ تباہی خود اپنے ہاتھوں مول لی تھی.مار بڈ (Morbid) کے لحاظ سے یہ تباہی اس لئے واقع ہوئی کہ جو ترقیات اُنہیں ملیں وہ اسلام کی خاطر ملی تھیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ملی تھیں ان کی ذاتی کمائی نہیں تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے اور مکہ والوں کی ایسی حالت تھی کہ لوگوں میں اُنہیں کوئی عزت حاصل نہیں تھی لوگ صرف مجاور سمجھ کر ادب کیا کرتے تھے اور جب وہ غیر قوموں میں جاتے تھے تو وہ بھی ان کی مجاور یا زیادہ سے زیادہ تاجر سمجھ کر عزت کرتی تھیں وہ انہیں کوئی حکومت قرار نہیں دیتی تھیں.اور پھر ان کی حیثیت اتنی کم سمجھی جاتی تھی کہ دوسری حکومتیں ان سے جبراً ٹیکس وصول کرنا جائز سمجھتی تھیں.جیسے یمن کے بادشاہ نے مکہ پر حملہ کیا جس کا قرآن کریم نے اصحاب الفیل کے نام سے ذکر کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو تیرہ سال تک آپ مکہ میں رہے.اس عرصہ میں

Page 297

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۱ جلد دوم چند سو آدمی آپ پر ایمان لائے.۱۳ سال کے بعد آپ نے ہجرت کی اور ہجرت کے آٹھویں سال سارا عرب ایک نظام کے ماتحت آ گیا اور اس کے بعد اُسے ایک ایسی طاقت اور قوت حاصل ہو گئی کہ اس سے بڑی بڑی حکومتیں ڈرنے لگیں.اُس وقت دنیا حکومت کے لحاظ سے دو بڑے حصوں میں منقسم تھی.اول رومی سلطنت.دوم ایرانی سلطنت.رومی سلطنت کے ماتحت مشرقی یورپ ، ٹرکی سينيا ، يونان، مصر، شام اور اناطولیہ تھا اور ایرانی سلطنت کے ماتحت عراق، ایران ، رشین ٹری ٹوری کے بہت سے علاقے ، افغانستان، ہندوستان کے بعض علاقے اور چین کے بعض علاقے تھے.اُس وقت یہی دو بڑی حکومتیں تھیں.ان کے سامنے عرب کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی لیکن ہجرت کے آٹھویں سال بعد سا را عرب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو گیا.اس کے بعد جب سرحدوں پر عیسائی قبائل نے شرارت کی تو پہلے آپ خود وہاں تشریف لے گئے.اس کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے فتنہ ٹل گیا لیکن تھوڑے عرصہ بعد قبائل نے پھر شرارت شروع کی تو آپ نے ان کی سرکوبی کے لئے لشکر بھجوایا.اس لشکر نے بہت سے قبائل کو سرزنش کی اور بہتوں کو معاہدہ سے تابع کیا.پھر آپ کی وفات کے بعد اڑھائی سال کے عرصہ میں سارا عرب اسلامی حکومت کے ماتحت آ گیا بلکہ یہ حکومت عرب سے نکل کر دوسرے علاقوں میں بھی پھیلنی شروع ہوئی.فتح مکہ کے پانچ سال کے بعد ایرانی حکومت پر حملہ ہو گیا تھا اور اس کے بعض علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا گیا تھا اور چند سالوں میں رومی سلطنت اور دوسری سب حکومتیں تباہ ہو گئی تھیں.اتنی بڑی فتح اور اتنے عظیم الشان تغیر کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی.تاریخ میں صرف نپولین کی ایک مثال ملتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جو تعداد اور قوت میں اس سے زیادہ ہو.جرمن کا ملک تھا مگر وہ اُس وقت ۱۴ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا.اس طرح اس کی تمام طاقت منتشر تھی.ایک مشہور امریکن پریذیڈنٹ سے کسی نے پوچھا کہ جرمن کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ تو اس نے کہا ایک شیر ہے دو تین لومڑ ہیں اور کچھ چوہے ہیں.شیر سے مراد رشیا تھا ، لومڑ سے مراد دوسری حکومتیں اور چوہوں سے مراد جرمن تھے گویا جرمن اُس وقت ٹکڑے ٹکڑے تھا.

Page 298

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۲ جلد دوم روس ایک بڑی طاقت تھی مگر وہ روس کے ساتھ ٹکرایا اور وہاں سے نا کام واپس لوٹا.اس طرح انگلستان کو بھی فتح نہ کر سکا اور انجام اس کا یہ ہوا کہ وہ قید ہو گیا.پھر دوسرا بڑا شخص ہٹلر آیا بلکہ دو بڑے آدمی دو ملکوں میں ہوئے.ہٹلر اور مسولینی دونوں نے بے شک ترقیات حاصل کیں لیکن دونوں کا انجام شکست ہوا.مسلمانوں میں سے جس نے یکدم بڑی حکومت حاصل کی وہ تیمور تھا.اس کی بھی یہی حالت تھی وہ بے شک دنیا کے کناروں تک گیا لیکن وہ اپنے اس مقصد کو کہ ساری دنیا فتح کر لے پورا نہ کر سکا.مثلاً وہ چین کو تابع کرنا چاہتا تھا لیکن تابع نہ کر سکا اور جب وہ مرنے لگا تو اُس نے کہا میرے سامنے انسانوں کی ہڈیوں کے ڈھیر ہیں جو مجھے ملامت کر رہے ہیں.پس صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی آدم سے لے کر اب تک ایسے گزرے ہیں جنہوں نے فردِ واحد سے ترقی کی.تھوڑے سے عرصہ میں ہی سارے عرب کو تابع فرمان کر لیا اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے ایک خلیفہ نے ایک بہت بڑی حکومت کو توڑ دیا اور باقی علاقے آپ کے دوسرے خلیفہ نے فتح کرلئے.یہ تغیر جو واقع ہوا خدائی تھا کسی انسان کا کام نہیں تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر مکہ میں پہنچی تو ایک مجلس میں حضرت ابو بکر کے والد ابوقحافہ بھی بیٹھے تھے.جب پیغا مبر نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو سب لوگوں پر غم کی کیفیت طاری ہو گئی اور سب نے یہی سمجھا کہ اب ملکی حالات کے ماتحت اسلام پراگندہ ہو جائے گا.چنانچہ انہوں نے کہا کہ اب کیا ہوگا.پیغا مبر نے کہا آپ کی وفات کے بعد حکومت قائم ہوگئی ہے اور ایک شخص کو خلیفہ بنالیا گیا ہے.انہوں نے دریافت کیا کہ کون خلیفہ مقرر ہوا ہے؟ پیغا مبر نے کہا.ابوبکر.ابو قحافہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ کون ابوبکر ؟ کیونکہ وہ اپنے خاندان کی حیثیت کو سمجھتے تھے اور اس حیثیت کے لحاظ سے وہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ان کے بیٹے کو سارا عرب بادشاہ تسلیم کر لے گا.پیغا مبر نے کہا ابو بکر جو فلاں قبیلہ سے ہے.ابو قحافہ نے کہا وہ کس خاندان سے ہے؟ پیغا مبر نے کہا فلاں خاندان

Page 299

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۳ جلد دوم سے.اس پر ابو قحافہ نے دوبارہ دریافت کیا وہ کس کا بیٹا ہے؟ پیغا مبر نے کہا.ابو قحافہ کا بیٹا.اس پر ابو قحافہ نے دوبارہ کلمہ پڑھا اور کہا آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے.ابو قحافہ پہلے صرف نام کے طور پر مسلمان تھے لیکن اس واقعہ کے بعد انہوں نے سچے دل سے سمجھ لیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دعویٰ میں راستباز تھے کیونکہ حضرت ابو بکر کی خاندانی حیثیت ایسی نہ تھی کہ سارے عرب آپ کو مان لیتے یہ الہی دین تھی.مگر بعد میں مسلمانوں کی ذہنیت ایسی بگڑی کہ انہوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ یہ فتوحات ہم نے اپنی طاقت سے حاصل کی ہیں.کسی نے کہنا شروع کیا کہ عرب کی اصل طاقت بنو امیہ ہیں اس لئے خلافت کا حق ان کا ہے.کسی نے کہا بنو ہاشم عرب کی اصل طاقت ہیں، کسی نے کہا بنو مطلب عرب کی اصل طاقت ہیں.کسی نے کہا خلافت کے زیادہ حقدار انصار ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھروں میں جگہ دی.گویا تھوڑے ہی سالوں میں مسلمان ماربڈ (Morbid) ہو گئے اور ان کے دماغ بگڑ گئے.ان میں سے ہر قبیلہ نے یہ کوشش کی کہ وہ خلافت کو بزور حاصل کر لے.نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت ختم ہو گئی.پھر مسلمانوں کے بگڑنے کا دوسرا سبب انار کی تھی.اسلام نے سب میں مساوات کی روح پیدا کی تھی.لیکن مسلمانوں نے یہ نہ سمجھا کہ مساوات پیدا کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ایک آرگنا ئزیشن ہو اس کے بغیر مساوات قائم نہیں ہو سکتی.اسلام آیا ہی اس لئے تھا کہ وہ ایک آرگنا ئزیشن اور ڈسپلن قائم کرے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی تھی کہ یہ ڈسپلن ظالمانہ نہ ہو اور افراد اپنے نفسوں کو دبا کر رکھیں تا کہ قوم جیتے.لیکن چند ہی سال میں مسلمانوں میں یہ سوال پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ خزانے ہمارے ہیں اور اگر حکام نے ان کے راستہ میں کوئی روک ڈالی تو اُنہوں نے انہیں قتل کرنا شروع کر دیا.یہ وہ روح تھی جس نے مسلمانوں کو خراب کیا.انہیں یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ یہ حکومت الہیہ ہے اور اسے خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے اس لئے اسے خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے.اللہ تعالیٰ سورہ نور میں فرماتا ہے کہ خلیفے ہم بنائیں گے لیکن مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں اور جب

Page 300

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۴ جلد دوم انہوں نے یہ سمجھا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں تو خدا تعالیٰ نے کہا اچھا اگر خلیفے تم نے بنائے ہیں تو اب تم ہی بناؤ.چنانچہ ایک وقت تک تو وہ پہلوں کا مارا ہوا شکار یعنی حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی کا مارا ہوا شکا ر کھاتے رہے لیکن مرا ہوا شکار ہمیشہ قائم نہیں رہتا زندہ بکرا زنده بکری زندہ مرغا اور زندہ مرغیاں تو ہمیں ہمیشہ گوشت اور انڈے کھلائیں گے لیکن ذبح کی ہوئی بکری یا مرغی زیادہ دیر تک نہیں جاسکتی کچھ وقت کے بعد وہ خراب ہو جائے گی.حضرت ابو بکر، عمر، عثمان اور علی کے زمانہ میں مسلمان تازہ گوشت کھاتے تھے لیکن بے وقوفی سے اُنہوں نے سمجھ لیا کہ یہ چیز ہماری ہے اس طرح انہوں نے اپنی زندگی کی روح کو ختم کر دیا اور مرغیاں اور بکریاں مُردہ ہو گئیں.آخر تم ایک ذبح کی ہوئی بکری کو کتنے دن کھا لو گے.ایک بکری میں دس بارہ سیر یا چھپیں تھیں سیر گوشت ہوگا اور آخر وہ ختم ہو جائے گا.پس وہ بکریاں مُردہ ہو گئیں اور مسلمانوں نے کھا پی کر انہیں ختم کر دیا.پھر وہی حال ہوا کہ ”ہتھ پرانے کھونسٹرے بسنتے ہوری آئے وہ ہر جگہ ذلیل ہونے شروع ہوئے ، انہیں ماریں پڑیں اور خدا تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہوا.عیسائیوں نے تو اپنی مُردہ خلافت کو آج تک سنبھالا ہوا ہے لیکن ان بد بختوں نے زندہ خلافت کو اپنے ہاتھوں گا ڑ دیا اور یہ محض عارضی خواہشات ، دنیوی ترقیات کی تمنا اور وقتی جوشوں کا نتیجہ تھا.خدا تعالیٰ نے جو وعدے پہلے مسلمانوں سے کئے تھے وہ وعدے اب بھی ہیں.اُس نے جب وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الذين من قبلهم " فرمایا تو الّذینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت فرمایا.حضرت ابو بکر سے نہیں فرمایا.حضرت عمرؓ سے نہیں فرمایا.حضرت عثمان سے نہیں فرمایا.حضرت علی سے نہیں فرمایا.پھر اس کا کہیں ذکر نہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ صرف پہلے مسلمانوں سے کیا تھا یا پہلی صدی کے مسلمانوں سے کیا تھا یا دوسری صدی کے مسلمانوں سے کیا تھا بلکہ یہ وعدہ سارے مسلمانوں سے ہے چاہے وہ آج سے پہلے ہوئے ہوں یا ۲۰۰ یا ۴۰۰ سال کے بعد آئیں وہ جب بھی اُمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحت کے مصداق ہو جائیں گے ، وہ اپنی نفسانی خواہشات کو ماردیں گے ، وہ اسلام کی ترقی کو اپنا اصل مقصد بنالیں گے ،شخصیات ،

Page 301

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۵ جلد دوم جماعتوں ، پارٹیوں ، جتھوں ، شہروں اور ملکوں کو بھول جائیں گے تو ان کے لئے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ قائم رہے گا کہ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْرِهِمْ یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں سے چاہے وہ عرب کے ہوں ، عراق کے ہوں ، شام کے ہوں ، مصر کے ہوں ، یورپ کے ہوں ، ایشیا کے ہوں ، امریکہ کے ہوں ، جزائر کے ہوں ، افریقہ کے ہوں کیا ہے کہ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ وہ انہیں اس دنیا میں اپنا نا ئب اور قائمقام مقر ر کرے گا.اب اس دنیا میں شام، عرب اور نائیجیریا، کینیا ، ہندوستان ، چین اور انڈونیشیا ہی شامل نہیں بلکہ اور ممالک بھی ہیں پس اس سے مراد دنیا کے سب ممالک ہیں گویا وہ موعود خلافت ساری دنیا کے لئے ہے.فرماتا ہے وہ تمہیں ساری دنیا میں خلیفہ مقرر کرے گا كما اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ اسی طرح جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ مقرر کیا.اس آیت میں پہلے لوگوں کی مشابہت ارض میں نہیں بلکہ استخلاف میں ہے گویا فرما یا ہم انہیں اسی طرح خلیفہ مقرر کریں گے جس طرح ہم نے پہلوں کو خلیفہ مقرر کیا اور پھر اس قسم کے خلیفے مقرر کریں گے جن کا اثر تمام دنیا پر ہو گا.پس اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کو یاد رکھو اور خلافت کے استحکام اور قیام کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہو.تم نوجوان ہو ، تمہارے حوصلے بلند ہونے چاہئیں اور تمہاری عقلیں تیز ہونی چاہئیں تا کہ تم اس کشتی کو ڈوبنے اور غرق نہ ہونے دو.تم وہ چٹان نہ بنو جو دریا کے رُخ کو پھیر دیتی ہے بلکہ تمہارا یہ کام ہے کہ تم وہ چینل (Channel) بن جاؤ جو پانی کو آسانی سے گزارتی ہے.تم ایک ٹنل ہو جس کا یہ کام ہے کہ وہ فیضان الہی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ حاصل ہوا ہے تم اسے آگے چلاتے چلے جاؤ.اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے تو تم ایک ایسی قوم بن جاؤ گے جو کبھی نہیں مرے گی.اور اگر تم اس فیضانِ الہی کے رستہ میں روک بن گئے ، اس کے رستے میں پتھر بن کر کھڑے ہو گئے اور تم نے اپنی ذاتی خواہشات کے ماتحت اسے اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور قریبیوں کے لئے مخصوص کرنا چاہا تو یا درکھو وہ تمہاری قوم کی تباہی کا وقت ہو گا پھر تمہاری عمر کبھی لمبی نہیں ہوگی اور تم اس طرح مر جاؤ گے جس طرح پہلی تو میں مریں.لیکن قرآن کریم یہ بتا تا ہے کہ قوم کی ترقی کا رستہ بند

Page 302

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۶ جلد دوم - نہیں.انسان بے شک دنیا میں ہمیشہ زندہ نہیں رہتا لیکن قو میں زندہ رہ سکتی ہیں.پس جو آگے بڑھے گا وہ انعام لے جائے گا اور جو آگے نہیں بڑھتا وہ اپنی موت آپ مرتا ہے اور جو شخص خود کشی کرتا ہے اسے کوئی دوسرا بچا نہیں سکتا.“ ( الفضل ۲۳ مئی ۱۹۶۱ء) لے یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۶.۱۷، بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور ۱۹۹۴ء الوصیت صفحہ ۷ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵ ایڈیشن ۲۰۰۸ء الرعد: ۱۲ النور: ۵۶

Page 303

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۷ جلد دوم نوجوانان جماعت سے خطاب خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ ۲۰ نومبر ۱۹۵۵ء کو نوجوانانِ جماعت سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا :..پھر میں ایک اور بات کہنی چاہتا ہوں.کل میں نے تم کو بھی دیکھا اور انصار کو بھی دیکھا.شاید کچھ اس بات کا بھی اثر ہو گا کہ فالج کی وجہ سے میری نظر کمزور ہوگئی ہے اور میں پوری طرح نہیں دیکھ سکا ہوں گا لیکن بہر حال مجھے نظر یہ آیا کہ جیسے چہرے افسردہ ہیں اور جھلسے جھلسے سے ہیں.میں نے سمجھا شاید میری بیماری کے خیال سے ایسا ہے چنانچہ میں نے بعض دوستوں سے ذکر کیا تو اُنہوں نے کہا طوفان کی وجہ سے لوگوں کی مالی حالت خراب ہوگئی ہے اس وجہ سے ان کے چہرے افسردہ ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں.اگر میری بیماری اس کی وجہ ہو تو میں تو ایک انسان ہوں.آخر انسان کب تک تمہارے اندر رہے گا.اس کے بعد آخر خدا ہی سے واسطہ پڑنا ہے...کیوں نہ خدا ہی سے شروع سے واسطہ رکھو.حضرت ابو بکڑ نے کیا سچائی بیان کی تھی کہ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمَاتَ وَمَنْ كَان يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَقٌّ لَا يَمُوتُ اگر خدا پر توکل کرو گے تو معلوم نہیں تمہارا اس دنیا کے ساتھ ہزار سال واسطہ پڑنا ہے یا دو ہزار سال پڑنا ہے بہر حال ہزار دو ہزار کا عرصہ خدا کے لئے تو کچھ بھی نہیں مگر اس تو کل کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا.اس بیماری میں مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ کچھ خیر خواہ دوستوں کی بیوقوفیوں کی بھی سزا مجھے ملی ہے.وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ خدا آپ کو عمر نوح دے.عمر نوح تو ہزار سال کہتے ہیں میں تو ستاسٹھ سال میں اپنے جسم کو ایسا کمزور محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے میری روح گویا قید کی ہوئی ہے.اگر بجائے عمر نوح کی

Page 304

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۸ جلد دوم دعا کرنے کے ، وہ یہ دعا کرتے کہ اللہ تو ہمارے خلیفہ کو اتنی عمر دے جس میں وہ بشاشت کے ساتھ کام کر سکے اور تیری مدد اس کے ساتھ ہو تو مجھے کتنا فائدہ ہوتا.اگر وہ مجھے عمر نوح ہی دے تو ہزار سال کی تو قوم نہیں ہوا کرتی.قو میں تو دو ہزار سال چلتی ہیں.پھر بھی تو ہزار سال کے بعد میں تم سے جدا ہو جاتا.تو ایسی غلط دعا مانگنے سے کیا فائدہ تھا.دعا یہ مانگنی تھی کہ یا اللہ تو ان کو ایسی عمر دے جس میں اس کا جسم اس کام کا بوجھ اُٹھا سکے اور بشاشت سے تیرے دین کی خدمت کر سکیں اور ہمارے اندر وہ طاقت پیدا کر کہ جو کام تو ان سے لے رہا ہے وہ ہم سے بھی لیتا چلا جا.یہ دعا میرے لئے بھی ہوتی اور تمہارے لئے بھی ہوتی اور اسلام کے لئے بھی ہوتی.(الفضل ۴ مارچ ۱۹۵۶ء) صلى الله ا بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب قول النبى مُتَّخِذَا خَلِيلاً صفحه ۶۱۵ ،۶۱۶ حدیث نمبر ۳۶۶۸ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية

Page 305

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۹ جلد دوم خدام الاحمدیہ کراچی کے لئے روح پرور پیغام خدام الاحمدیہ کراچی خیبر لاج مری ۲۴ جولائی ۱۹۵۶ء) عزیزان ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کے افسران نے مجھ سے خدام الاحمدیہ کراچی کے جلسہ کے لئے پیغام مانگا ہے.میں اس کے ہوا پیغام کیا دے سکتا ہوں کہ ۱۹۱۴ء میں جب میں خلیفہ ہوا اور جب میری صرف ۲۶ سال عمر تھی خدام الاحمدیہ کی بنیا دا بھی نہیں پڑی تھی مگر ہر احمدی نوجوان اپنے آپ کو خادم احمدیت سمجھتا تھا.مجھے یاد ہے کہ جس دن انتخاب خلافت ہونا تھا مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے ایک ٹریکٹ شائع ہوا کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہیے صد را انجمن احمد یہ ہی حاکم ہونی چاہیے.اُس وقت چند نوجوانوں نے مل کر ایک مضمون لکھا اور اُس کی دستی کا پیاں کیں.اُس کا مضمون یہ تھا کہ ہم سب احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت فیصلہ کر چکے ہیں کہ جماعت کا ایک خلیفہ ہونا چاہئے اس فیصلہ پر ہم قائم ہیں اور تا زندگی قائم رہیں گے اور خلیفہ کا انتخاب ضرور کرا کے چھوڑیں گے.سکول کے درجنوں طالب علم پیدل اور سائیکلوں پر چڑھ کے بٹالہ کی سڑک پر چلے گئے اور ہر نو وارد مہمان کو دکھا کر اُس سے درخواست کی کہ اگر آپ اس سے متفق ہیں تو اس پر دستخط کر دیں.جماعت احمدیہ میں خلافت کی بنیاد کا وہ پہلا دن تھا اور اس بنیاد کی اینٹیں رکھنے والے سکول کے لڑکے تھے.مولوی صدر الدین صاحب اُس وقت ہیڈ ماسٹر تھے.اُن کو پتہ لگا تو وہ بھی بٹالہ کی سڑک پر چلے گئے وہاں اُنہوں نے دیکھا کہ سکول کا ایک لڑکا نو وارد مہمانوں کو وہ مضمون پڑھوا کر دستخط کروا رہا ہے.انہوں نے وہ کاغذ اُس سے چھین کر پھاڑ دیا اور کہا چلے جاؤ.وہ لڑکا

Page 306

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۰ جلد دوم مومن تھا اس نے کہا مولوی صاحب ! آپ ہیڈ ماسٹر ہیں اور مجھے مار بھی سکتے ہیں مگر یہ مذہبی سوال ہے میں اپنے عقیدہ کو آپ کی خاطر نہیں چھوڑ سکتا.فوراً جھک کر وہ کا غذ اٹھایا اور اُسی وقت پنسل سے اس کی نقل کرنی شروع کر دی اور مولوی صاحب کے سامنے ہی دوسرے مہمانوں سے اُس پر دستخط کروانے شروع کر دئیے.اس پر ۴۲ سال گزر گئے ہیں میں اُس وقت جوان تھا اور آب ۶۸ سال کی عمر کا ہوں اور فالج کی بیماری کا شکار ہوں.اُس وقت آپ لوگوں کی گردنیں پیغامیوں کے ہاتھ میں تھیں اور خزانہ میں صرف ۱۸ آنے کے پیسے تھے میں نے خالی خزانہ کو لے کر احمدیت کی خاطر ان لوگوں سے لڑائی کی جو کہ اُس وقت جماعت کے حاکم تھے اور جن کے پاس روپیہ تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے میری مدد کی اور جماعت کے نو جوانوں کو خدمت کرنے کی توفیق دی.ہم کمزور جیت گئے اور طاقتور دشمن ہار گیا.آج ہم سیاری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور جن لوگوں کو ایک تفسیر پر ناز تھا ان کے مقابلہ میں اتنی بڑی تفسیر ہمارے پاس ہے کہ ان کی تفسیر اس کا تیسرا حصہ بھی نہیں.جو ایک انگریزی ترجمہ پیش کرتے تھے اس کے مقابلہ میں ہم چھ زبانوں کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں لیکن ناشکری کا بُرا حال ہو کہ وہی شخص جس کو پیغامی سترا بہتر ا قرار دے کر معزول کرنے کا فتویٰ دیتے تھے اور جس کے آگے اور دائیں اور بائیں لڑ کر میں نے اُس کی خلافت کو مضبوط کیا اُس سے تعلق رکھنے والے چند بے دین نوجوان جماعتوں میں آدمی بھیجوا ر ہے ہیں کہ خلیفہ بڑھا ہو گیا ہے اسے معزول کرنا چاہیے.اگر واقع میں میں کام کے قابل نہیں ہوں تو آپ لوگ آسانی کے ساتھ ایک دوسرے قابل آدمی کو خلیفہ مقرر کر سکتے ہیں اور اُس سے تفسیر قرآن لکھوا سکتے ہیں.میری تقریریں مجھے واپس کر دیجئے اور اپنے روپے لے لیجئے اور مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر یا اور جس تفسیر کو آپ پسند کریں اسے پڑھا کریں اور جونئی تفسیر میری چھپ رہی ہے اُس کو بھی نہ چھوئیں.یہ اول درجہ کی بے حیائی ہے کہ ایک شخص کی تفسیروں اور قرآن کو دنیا کے سامنے پیش کر کے تعریفیں اور شہرت حاصل کرنی اور اُسی کو نکما اور ناکارہ قرار دینا.مجھے آج ہی اللہ تعالیٰ نے الہام سے سمجھایا کہ آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کریں، یعنی جماعت سے پھر کہو کہ یا تم مجھے چھوڑ دو اور میری تصنیفات سے فائدہ نہ اُٹھاؤ.نہیں تو میرے ساتھ وفاداری کا ویسا ہی معاہدہ کرو جیسا کہ مدینہ کے لوگوں نے ملکہ کی عقبہ جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ

Page 307

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۱ جلد دوم علیہ وسلم سے معاہدہ کیا تھا اور پھر بدر کی جنگ میں کہا تھا يَا رَسُولَ اللهِ ! یہ نہ سمجھیں کہ خطرہ کے وقت میں ہم موسیٰ کی قوم کی طرح آپ سے کہیں گے کہ جا تو اور تیرا خدا لڑتے پھر وہم یہیں بیٹھے ہیں يَا رَسُولَ اللهِ !ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن اُس وقت تک آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا آگے نہ آئے لے سو گو میرا حافظ خدا ہے اور اُس کے دیئے ہوئے علم سے آج بھی میں ساری دنیا پر غالب ہوں لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنی جماعت کا امتحان لے اور اس سے کہہ دے کہ آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کر میں سو تم میں سے جوشخص خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم کھا کر معاہدہ کرتا ہے کہ وہ اپنے آخری سانس تک وفاداری دکھائے گا وہ آگے بڑھے وہ میرے ساتھ ہے اور میں اور میرا خدا اس کے ساتھ ہے لیکن جو شخص ڈ نیوی خیالات کی وجہ سے اور منافقوں کے پروپیگنڈا کی وجہ سے بُزدلی دکھانا چاہتا ہے اُس کو میرا آخری سلام.میں کمزور اور بوڑھا ہوں لیکن میرا خدا کمزور اور بوڑھا نہیں.وہ اپنی قہری تلوار سے ان لوگوں کو تباہ کر دے گا جو کہ اس منافقانہ پروپیگنڈا کا شکار ہوں گے.اس پرو پیگنڈا کا کچھ ذکر الفضل میں چھاپ دیا گیا ہے چاہیے کہ قائد خدام اُس مضمون کو بھی پڑھ کر سنا دیں.اللہ تعالیٰ جماعت کا حافظ و ناصر ہو.پہلے بھی اس کی مدد مجھے حاصل تھی اب بھی اس کی مدد مجھے حاصل رہے گی.میں یہ پیغام صرف اس لئے آپ کو بھجوا رہا ہوں تا کہ آپ لوگ تباہی سے بچ جائیں ورنہ حقیقتا میں آپ کی مدد کا محتاج نہیں.ایک ایک مرتد کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ ہزاروں آدمی مجھے دے گا اور مجھے توفیق بخشے گا کہ میرے ذریعہ سے پھر سے جماعت جواں سال ہو جائے.آپ میں سے ہر خلص کے لئے دعا اور کمزور کے لئے رخصتی سلام.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ( الفضل ۴ را گست ۱۹۵۶ء) بخاری کتاب المغازى باب قصة غزوة بدر صفحه ۶۶۸ حدیث نمبر ۳۹۵۲ مطبوعه ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الأولى

Page 308

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۲ جلد دوم خلیفہ خدا تعالیٰ بنایا کرتا ہے ذیل میں ایک اور شہادت ظہور القمر صاحب دلد ہری داس کی جو ہندوؤں سے مسلمان ہوئے ہیں شائع کی جاتی ہے جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ منافق پارٹی پیغامیوں کی ایجنٹ ہے.ظہور القمر صاحب تحریر فرماتے ہیں :.میں مسمی ظہور القمر ولد ہری داس متعلم جامعتہ المبشرين ربوہ حال مسجد احمد یہ گلڈ نہ مری حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ تقریباً دس روز ہوئے ایک شخص جس نے اپنا نام اللہ رکھا سابق درویش قادیان بتا یا مسجد احمد یہ گلڑ نہ میں آیا اور کہا کہ میں مولوی محمد صدیق مربی راولپنڈی کو ملنے آیا ہوں.میرا سامان راولپنڈی میں اُن کے مکان پر ہے اور میں نے اُن سے مکان کی چابی لینی ہے.اس کے بعد وہ مولوی محمد صدیق صاحب کو ملا اور اُنہوں نے اسے مسجد احمد یہ گلڈ نہ میں ٹھہرایا اور بستر وغیرہ بھی دیا اور اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا.مولوی محمد صدیق صاحب اسے اپنے ساتھ کھانا بھی کھلاتے رہے ( مولوی محمد صدیق صاحب نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ چونکہ اُس شخص نے اُن سے کہا تھا کہ بڑے بڑے احمدی مجھ سے بڑی محبت کرتے ہیں اور میاں عبدالوہاب صاحب کا خط دکھایا تھا کہ آپ ہمیں بھائیوں کی طرح عزیز ہیں اور یہ بھی کہا تھا کہ میاں بشیر احمد صاحب کا خط بھی میرے پاس ہے.گو اُنہوں نے امرائے جماعت کو لکھا ہے کہ اس شخص کو معافی مل چکی ہے اب جماعت اس کے ساتھ تعاون کرے اور اس کی مدد کرے مگر یہ بھی کہا تھا کہ وہ خط اس وقت میرے ساتھ نہیں ہے.پس میں نے اس شخص پر حسن ظنی کی اور اُس کو مخلص احمدی سمجھا اور یقین کیا کہ اس کو معافی مل چکی ہے ) پھر ظہور القمر صاحب لکھتے ہیں کہ میں عید الاضحیٰ سے ایک روز قبل خیبر لاج میں آیا اور منشی فتح دین صاحب سے دریافت کیا کہ عید کی نماز کب ہوگی اور کون پڑھائے گا ؟ منشی

Page 309

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۳ جلد دوم صاحب نے بتایا کہ ساڑھے آٹھ بجے ہوگی اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پڑھائیں گے.باہر صحن میں درخت کے ساتھ اعلان بھی لگا ہوا ہے.لہذا میں نے واپس جا کر سب دوستوں کو جو مسجد میں تھے نماز کے وقت کی اطلاع دی.اس ضمن میں اللہ رکھا مذ کو ر کو بھی بتایا کہ کل نما ز ساڑھے آٹھ بجے ہوگی اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نماز پڑھائیں گے تو اس نے جواب دیا کہ ”میں ایسوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا“ دوسرے روز مولوی محمد صدیق صاحب اسے زبر دستی خیبر لاج لائے اور اسے اپنے ہمراہ نماز کی ادائیگی کے لئے کہا.اللہ رکھا کہتا تھا کہ میں پیغامیوں کی مسجد میں نماز پڑھوں گا.نیز وہ جتنے روز یہاں رہا پیغامیوں کا لٹریچر تقسیم کرتا رہا.اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کی خط و کتابت مولوی صدر دین صاحب سے ہے اور ہر روز وہ کہا کرتا تھا کہ میں نے انہیں آج خط لکھا ہے.اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ ابتدائی دنوں میں پیغامیوں کی مسجد میں رہتا رہا ہے اور میاں محمد صاحب لائکپوری جو کچھ عرصہ پیغامیوں کے امیر رہے ہیں اور گزشتہ دنوں مری میں تھے ان کے گھر جا کر کھانا کھاتا رہا ہے اور اس نے مجھے کہا کہ انہوں نے مجھے اجازت دے رکھی ہے کہ جب چاہو میرے گھر آ جایا کرو.میں رات کے گیارہ بجے تک مکان کا دروازہ کھلا رکھا کروں گا.جس روز محمد شریف صاحب اشرف سے اللہ رکھا کا جھگڑا ہوا تھا اُس دن رات کو جب وہ مسجد میں آیا تو اس نے کہا یہ میری پیشگوئی ہے کہ جس طرح پہلے خلافت کا جھگڑا ہوا تھا اب پھر ہونے والا ہے آپ ایک ڈیڑھ سال میں دیکھ لیں گے“.دستخط ظهور القمر ۲۵ / جولائی ۱۹۵۶ء ) اس شہادت کو پڑھ کر دوستوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب سازش پیغامیوں کی ہے اور اللہ رکھا انہی کا آدمی ہے وہ مولوی صدر دین غیر مبائع منکر نبوت مسیح موعود کے پیچھے نماز جائز سمجھتا ہے لیکن مرزا ناصر احمد جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پوتا ہے اور ان کی نبوت کا قائل ہے اس کے پیچھے نماز جائز نہیں سمجھتا اور پیشگوئی کرتا ہے کہ ایک دوسال میں پھر خلافت کا جھگڑا شروع ہو جائے گا.موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے مگر یہ فقرہ بتا تا ہے کہ یہ جماعت ایک دو سال میں

Page 310

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۴ جلد دوم مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تبھی اسے یقین ہے کہ ایک دو سال میں تیسری خلافت کا سوال پیدا ہو جائے گا اور ہم لوگ خلافت کے مٹانے کو کھڑے ہو جائیں گے اور جماعت کو خلافت قائم کرنے سے روک دیں گے.خلافت نہ خلیفہ اول کی تھی نہ پیغامیوں کی.نہ وہ تو پہلی دفعہ خلافت کے مٹانے میں کامیاب ہو سکے نہ اب کامیاب ہوں گے.اُس وقت بھی حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے چند افراد پیغامیوں کے ساتھ مل کر خلافت کے مٹانے کے لئے کوشاں تھے.مجھے خود ایک دفعہ میاں عبدالوہاب کی والدہ نے کہا تھا ہمیں قادیان میں رہنے سے کیا فائدہ.میرے پاس لاہور سے وفد آیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ اگر حضرت خلیفہ اول کے بیٹے عبدالحی کو خلیفہ بنا دیا جا تا تو ہم اس کی بیعت کر لیتے مگر یہ مرزا محمود احمد کہاں سے آ گیا ہم اس کی بیعت نہیں کر سکتے.وہی جوش پھر پیدا ہوا عبدالحی تو فوت ہو چکا اب شاید کوئی اور لڑ کا ذہن میں ہوگا جس کو خلیفہ بنانے کی تجویز ہوگی.خلیفہ خدا تعالیٰ بنایا کرتا ہے اگر ساری دنیا مل کر خلافت کو توڑنا چاہے اور کسی ایسے شخص کو خلیفہ بنانا چاہے جس پر خدا راضی نہیں تو وہ ہزار خلیفہ اول کی اولاد ہو اُس سے نوح کے بیٹوں کا سا سلوک ہوگا اور اللہ تعالیٰ اُس کو اور اُس کے سارے خاندان کو اس طرح پیس ڈالے گا جس طرح چکی میں دانے پیس ڈالے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے نوح جیسے نبی کی اولاد کی پرواہ نہیں کی.نہ معلوم یہ لوگ خلیفہ اول کو کیا سمجھے بیٹھے ہیں.آخر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام تھے اور ان کے طفیل خلیفہ اول بنے تھے ان کی عزت قیامت تک محض مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں ہے بے شک وہ بہت بڑے آدمی تھے مگر مسیح موعود علیہ السلام کے غلام ہو کر نہ کہ ان کے مقابل میں کھڑے ہو کر.قیامت تک اگر ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غلام قرار دیا جائے گا تو ان کا نام روشن رہے گا لیکن اگر اس کے خلاف کسی نے کرنے کی جرات کی تو وہ دیکھے گا کہ خدا تعالیٰ کا غضب اس پر بھڑ کے گا اور اس کو ملیا میٹ کر دیا جائے گا.یہ خدا کی بات ہے جو پوری ہو کر رہے گی.یہ لوگ تو سال ڈیڑھ سال میں مجھے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن آسمانوں کا خدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ فرماتا ہے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا جس کا نزول بہت

Page 311

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۵ جلد دوم مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ( یعنی کلام ) ڈالیں گے“.( میرے الہاموں کا زبردست طور پر پورا ہونا جماعت پچاس سال سے دیکھ رہی ہے.اور جس کو شبہ ہو اب بھی اس کے سامنے مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اخباروں میں چھپی ہوئی کشوف اور رؤیا کے ذریعہ سے بھی اور چوہدری ظفر اللہ خان جیسے آدمیوں کی شہادت سے بھی ) پھر خدا نے آپ سے فرمایا :.وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا ( یہ شہرت کس نے پائی ؟ ) اور قو میں اس سے برکت پائیں گی ( قوموں نے برکت کس سے پائی ؟ ) پھر فرمایا: '' تب اپنے نفسی نف آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا وَكَانَ أَمْراً مَّقْضِيًّا - پس میری موت کو خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور فرماتا ہے کہ جب وہ اپنا کام کرلے گا اور اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا لے گا تب میں اس کو موت دوں گا.پس اس قسم کے چوہے محض لاف زنی کر رہے ہیں.ایک شخص نے مجھ پر چاقو سے حملہ کیا تھا مگر اُس وقت بھی خدا نے مجھے بچایا.پھر جماعت کی خدمت کرتے کرتے مجھ پر فالج کا حملہ ہوا اور یورپ کے سب ڈاکٹروں نے یک زبان کہا کہ آپ کا اس طرح جلدی سے اچھا ہو جانا معجزہ تھا.پھر فرمایا ” تیری نسل بہت ہوگی ( جس پیشگوئی کے مطابق ناصر احمد پیدا ہوا) پھر فرمایا اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا.مگر عبد الوہاب کے اس پیارے بھائی کے نزدیک اس پیشگوئی کے مصداق ناصر احمد کے پیچھے نماز پڑھنی نا جائز ہے مگر مولوی صدر دین کے پیچھے پڑھنی جائز ہے.پس خود ہی سمجھ لو کہ اس فتنہ کے پیچھے کون لوگ ہیں ؟ اور آیا یہ فتنہ میرے خلاف ہے یا مسیح موعود کے خلاف مسیح موعود فوت ہو چکے ہیں جب وہ زندہ تھے تب بھی ان کو تم پر کوئی اختیار نہیں تھا.قرآن مجید میں خدا تعالی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ تو داروغہ نہیں.اب بھی تم آزاد ہو چاہو تو لاکھوں کی تعداد میں مرتد ہو 6

Page 312

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۶ جلد دوم جاؤ.خدا تعالیٰ مٹی کے نیچے دبے ہوئے مسیح موعود کی پھر بھی مدد کرے گا اور ان لوگوں کو جو آپ کے خادموں کی طرف منسوب ہو کر آپ کے مشن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ذلیل و خوار کرے گا.تمہارا اختیار ہے خواہ مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی وحی کو قبول کرو یا مرتدوں اور منافقوں کو قبول کرو.میں اس اختیار کو تم سے نہیں چھین سکتا مگر خدا کی تلوار کو بھی اُس کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ۶۱۹۵۶-۷-۲۵ ( الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۵۶ء)

Page 313

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۷ جلد دوم ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے اور اس کی حفاظت کیلئے ایمانی غیرت کی ضرورت ہے مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ ۱۹ تا ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۶ء میں ۱۹ را کتوبر کو حضور نے خطاب کے شروع میں مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لا يَا لَوْ تَكُمْ خَبَالا ، وَدُّوا عَنِتُمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۖ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ اكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الأَنْتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ ! اس کے بعد فر ما یا :.قرآن کریم کی یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اس دور کے متعلق جو آجکل ہم پر گزر رہا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی تعلیم دی ہے جو ہماری جماعت کو ہر وقت مدنظر چاہیے.بے شک ہماری جماعت کے دوستوں نے موجودہ فتنہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے عہد وفا داری کو تازہ کیا ہے اور ہر جگہ کی جماعت نے وفاداری کا عہد مجھے بھجوایا ہے مگر قرآن کریم میں اس آیت میں وفاداری کے عہد کے علاوہ کچھ اور باتیں بھی بیان کی گئی ہیں یا یوں کہو کہ وفاداری کی صحیح تعریف بیان کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خالی منہ سے کہہ دینا کہ میں وفا دار ہوں ، کافی نہیں بلکہ اس مثبت کے مقابلہ میں ایک منفی کی بھی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ اے مومنو! اگر تمہاری وفاداری کا عہد سچا ہے تو تمہیں جس طرح وفاداری کرنی ہوگی اسی طرح ایک بات نہیں بھی کرنی ہوگی.جب تک یہ کرنا اور

Page 314

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۸ جلد دوم نہ کرنا دونوں جمع نہ ہو جائیں ، تم مومن نہیں ہو سکتے.کرنا تو یہ ہے کہ تم نے وفادار رہنا ہے لیکن اس کی علامت ایک نہ کرنے والا کام ہے.خالی منہ سے کہہ دینا کہ میں وفا دار ہوں کوئی چیز نہیں.اگر تم واقعہ میں وفادار ہو تو تمہیں ایک اور کام بھی کرنا ہوگا یا یوں کہو کہ تمہیں ایک کام سے بچنا پڑے گا اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ تمہارے ہم خیال نہیں ، وہ تم سے الگ ہیں ، ان سے مخفی تعلق اور دوستی ترک کرنی پڑے گی.لایا لو تكُم خَبَالا اگر تم ہماری یہ بات نہیں مانو گے تو وہ تمہارے اندرفتنہ اور فساد پیدا کرنے میں کوئی کوتا ہی نہیں کریں گے اور تمہارے وفاداری کے عہد خاک میں مل جائیں گے.تمہارا عزم اور تمہارا دعوئی مٹی میں مل جائے گا اور وہ کچھ بھی نہیں رہے گا جب تک کہ تم ہماری اس ہدایت کو نہیں مانو گے یعنی وہ لوگ جو تم سے الگ ہیں اور تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرتے ہیں تم ان سے قطعی طور پر کسی قسم کی دوستی اور تعلق نہ رکھو.ایک شخص جو میرا نام نہاد رشتہ دار کہلاتا ہے وہ یہاں آیا اور ایک منافق کو ملنے گیا.جب اُس کو ایک افسر سلسلہ نے توجہ دلائی کہ وہ ایک منافق سے ملنے گیا تھا تو اُس نے کہا کہ صدر انجمن احمدیہ نے کب حکم دیا تھا کہ اس شخص سے نہ ملا جائے.اس افسر نے کہا کہ تم یہ بتاؤ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کس نے حکم دیا تھا کہ پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب نہ دیا جائے.اگر تمہارے لئے کسی حکم کی ضرورت تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب نہ دینے اور اپنا منہ پرے کر لینے کا کس نے حکم دیا تھا.جو محرک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دماغ میں پیدا ہوا تھا وہ تمہارے اندر کیوں نہ پیدا ہوا.چنانچہ اس شخص کے اندر منافقت گھسی ہوئی تھی اس لئے اس نے جواب میں کہا کہ یہ کس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شخص لیکھرام کے مقام تک پہنچ گیا ہے حالانکہ قرآن کریم نے صرف اتنا کہا ہے کہ لا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ یہ نہیں کہا کہ لا تَتَّخِذُ وابطانَةً مِّن ليكهرام و مثله که م لیکھر ام اور اس جیسے لوگوں سے نہ ملو بلکہ فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنے عمل سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ نہیں چاہے وہ لیکھرام کے مقام تک پہنچے ہوں یا نہ پہنچے ہوں تم ان سے بطانہ یعنی دوستی اور مخفی تعلق نہ رکھو.09.

Page 315

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۹ جلد دوم وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ میں نے تو اس شخص کے ساتھ دوستی نہیں کی مگر بــطــائــہ کے معنی صرف دوستی کے نہیں بلکہ مخفی تعلق کے بھی ہیں اور وہ شخص اس منافق سے چوری چھپے ملا تھا.اب اس کے قول کے مطابق اس کی اس منافق سے دوستی ہو یا نہ ہو، یہ بات تو ظاہر ہوگئی کہ اس نے اس سے مخفی تعلق رکھا.پھر جب اُسے سمجھایا گیا تو اس نے بہانہ بنایا اور کہا کہ اس منافق کو لیکھرام کا درجہ کس نے دیا ہے.اسے یہ خیال نہ آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پنڈت لیکھرام کو سلام کا جواب نہ دیتے وقت جس آیت پر عمل کیا تھا وہ یہی آیت تھی جو میں نے تلاوت کی ہے.اس میں لیکھرام یا اس جیسے لوگوں کا ذکر نہیں بلکہ صرف یہ ذکر ہے کہ ایسے لوگ جو تمہارے اندر اختلافات پیدا کرنا چاہتے ہیں تم ان سے کوئی تعلق نہ رکھو.پس یا تو اسے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ جس شخص سے وہ ملا تھا وہ جماعت کے اندر اختلاف اور فساد پیدا کرنے والا نہیں اور اگر اس شخص نے واقعہ میں جماعت کے اندر اختلاف اور فساد پیدا کیا ہے تو اس کا یہ کہنا کہ اُسے لیکھرام کا درجہ کس نے دیا ہے ، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود احمدیت پر ایسا ایمان نہیں رکھتا.بہر حال قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے وفاداری کے عہد کی ایک علامت بتائی اور اس علامت کو پورا کئے بغیر وفاداری کے عہد کی کوئی قیمت نہیں.تم ان جماعتوں سے آئے ہو جنہوں نے وفاداری کے عہد بھجوائے ہیں لیکن اگر تم اس عہد کے باوجود کسی منافق سے تعلق رکھتے ہو اور اس سے علیحدگی میں ملتے ہو تو وہ بطانة کے پنجے میں آجاتا ہے.کیونکہ وہ منافق اور اس کی پارٹی کے لوگ جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرتے ہیں.اگر تم ان سے مخفی طور پر تعلق رکھتے ہو تو تمہارا عہدِ وفا داری اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتا جتنی حیثیت گدھے کا پاخانہ رکھتا ہے.گدھے کے پاخانہ کی تو کوئی قیمت ہوسکتی ہے کیونکہ وہ روڑی کے طور پر کام آ سکتا ہے لیکن تمہارا عہد وفاداری خدا تعالیٰ کے نزدیک رُوڑی کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتا اور وہ اسے قبول نہیں کرے گا.پس یا د رکھو کہ ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے اور اس کی حفاظت کے لئے غیرت کی ضرورت ہے.جس شخص کے اندر ایمانی غیرت نہیں وہ منہ سے بے شک کہتا رہے کہ میں وفادار ہوں لیکن اس کے اس عہد وفاداری کی کوئی قیمت نہیں.مثلاً اس وقت

Page 316

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم تمہارے اندر ایک شخص بیٹھا ہوا ہے ، وہ سمجھتا ہے کہ ہمیں اس کی منافقت کا پتہ نہیں.وہ ہمیشہ مجھے لکھا کرتا ہے کہ آپ مجھ سے کیوں خفا ہیں؟ میں نے تو کوئی قابلِ اعتراض فعل نہیں کیا حالانکہ ہم نے اس کا ایک خط پکڑا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ خلیفہ جماعت کا لاکھوں روپیہ کھا گیا ہے اور لاکھوں روپیہ اس نے اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کو کھلایا ہے.اس نے سمجھا کہ میرے خط کو کون پہچانے گا.اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ آجکل ایسی ایجاد یں نکل آئی ہیں کہ بغیر نام کے خطوط بھی پہچانے جا سکتے ہیں.چنانچہ ایک ماہر جو یورپ سے تحریر پہچاننے کی بڑی اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کر کے آیا ہے ہم نے وہ خط اسے بھیج دیا اور چونکہ ہمیں شبہ تھا کہ اس تحریر کا لکھنے والا وہی شخص ہے اس لئے ایک تحریر سے بغیر بتائے اس سے لکھوالی اور وہ بھی اس خط کے ساتھ بھیج دی.اس نے علوم جدیدہ کے مطابق خط پہچاننے کی پینتیس جگہ بتائی ہیں جو ماہرین نے بڑا غور کرنے کے بعد نکالی ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ لکھنے والا خواہ وہ کتنی کوشش کرے کہ اس کا خط بدل جائے ، یہ پینتیس جگہیں نہیں بدلتیں چنانچہ اس نے دونوں تحریروں کو ملا کر دیکھا اور کہا کہ لکھنے والے کی تحریر میں پینتیس کی پینتیس دلیلیں موجود ہیں اس لئے یہ دونوں تحریریں سو فیصدی ایک ہی شخص کی لکھی ہوئی ہیں اور وہ شخص بار بار مجھے لکھتا ہے کہ آپ خواہ مخواہ مجھ سے ناراض ہیں.میں نے کیا قصور کیا ہے؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا.اس بیوقوف کو کیا پتہ ہے کہ اس کی دونوں تحریر میں ہم نے ایک ماہر فن کو دکھائی ہیں اور ماہر فن نے بڑے غور کے بعد جن پینتیس جگہوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ کبھی نہیں بدلتیں ، وہ اس کی تحریر میں نہیں بدلیں.وہ شخص غالباً اب بھی یہاں بیٹھا ہو گا اور غالبا کل یا پرسوں مجھے پھر لکھے گا کہ میں تو بڑا وفا دار ہوں آپ خواہ مخواہ مجھ پر بدظنی کر رہے ہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا حالانکہ اس نے ایک بے نام خط لکھا اور وہ خط جب ماہر فن کو دکھایا گیا اور اس کی ایک اور تحریر اسے ساتھ بھیجی گئی جو اس سے لکھوائی گئی تھی تو اس ماہر فن نے کہا کہ یہ دونوں تحریر میں اسی شخص کی ہیں.پس خالی عہد کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک کہ اس کے ساتھ انسان ان باتوں کو بھی مدنظر نہ رکھے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ نہ کی جائیں.

Page 317

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۱ جلد دوم عبد المنان کو ہی دیکھ لو.جب وہ امریکہ سے واپس آیا تو میں نے مری میں خطبہ پڑھا اور اس میں میں نے وضاحت کر دی کہ اتنے امور ہیں ، وہ ان کی صفائی کر دے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا.وہ یہاں تین ہفتے بیٹھا رہا لیکن اُس کو اپنی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ ملی صرف اتنا لکھ دیا کہ میں تو آپ کا وفادار ہوں.ہم نے کہا ہم نے تجھ سے وفاداری کا عہد کرنے کا مطالبہ نہیں کیا.ہمیں معلوم ہے کہ پیغامی تمہارے باپ کو غاصب کا خطاب دیتے تھے.وہ انہیں جماعت کا مال کھانے والا اور حرام خور قرار دیتے تھے تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ میں ان پیغامیوں کو جانتا ہوں ، یہ میرے باپ کو گالیاں دیتے تھے یہ آپ کو غاصب اور منافق کہتے تھے میں ان کو قطعی اور یقینی طور پر باطل پر سمجھتا ہوں مگر اس بات کا اعلان کرنے کی اسے توفیق نہ ملی.پھر اس نے لکھا کہ میں تو خلافت حقہ کا قائل ہوں.اسے یہ جواب دیا گیا کہ اس کے تو پیغامی بھی قائل ہیں.وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم خلافت حقہ کے قائل ہیں لیکن ان کے نزدیک خلافت حقہ اُس نبی کے بعد ہوتی ہے جو بادشاہ بھی ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بادشاہ بھی تھے اس لئے ان کے نزدیک آپ کے بعد خلافت حقہ جاری ہوئی اور حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علی خلیفہ ہوئے لیکن مرزا صاحب چونکہ بادشاہ نہیں تھے اس لئے آپ کے بعد وہ خلافت تسلیم نہیں کرتے.پس یہ بات تو پیغامی بھی کہتے ہیں کہ وہ خلافت حقہ کے قائل ہیں.تم اگر واقعی جماعت احمد یہ میں خلافت حقہ کے قائل ہو تو پھر یہ کیوں نہیں لکھتے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد خلافت کو تسلیم کرتا ہوں اور جو آپ کے بعد خلافت کے قائل نہیں ، انہیں لعنتی سمجھتا ہوں.پھر تم یہ کیوں نہیں لکھتے کہ خلافت حقہ صرف اسی نبی کے بعد نہیں جسے نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی مل جائے بلکہ اگر کوئی نبی غیر بادشاہ ہو تب بھی اس کے بعد خلافت حقہ قائم ہوتی ہے.تمہارا صرف یہ لکھنا کہ میں خلافت حقہ کا قائل ہوں، ہمارے مطالبہ کو پورا نہیں کرتا.ممکن ہے تمہاری مراد خلافت حقہ سے یہ ہو کہ جب میں خلیفہ بنوں گا تو میری خلافت ، خلافت حقہ ہوگی یا خلافت حقہ سے تمہاری یہ مراد ہو کہ میں تو اپنے باپ حضرت خلیفہ ایج الاول کی خلافت کا قائل ہوں یا تمہاری یہ مراد ہو کہ میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کی

Page 318

خلافة على منهاج النبوة ٣٠٢ جلد دوم خلافت کا قائل ہوں.بہر حال عبدالمنان کو امریکہ سے واپس آنے کے بعد تین ہفتہ تک ان امور کی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ ملی.اس کی وجہ یہی تھی کہ اگر وہ لکھ دیتا کہ پیغا می لوگ میرے باپ کو غاصب، منافق اور جماعت کا مال کھانے والے کہتے رہے ہیں ، میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں تو پیغامی اس سے ناراض ہو جاتے اور اُس نے یہ امیدیں لگائی ہوئی تھیں کہ وہ ان کی مدد سے خلیفہ بن جائے گا.اور اگر وہ لکھ دیتا کہ جن لوگوں نے خلافت ثانیہ کا انکار کیا ہے ، میں انہیں لعنتی سمجھتا ہوں تو اس کے وہ دوست جو اس کی خلافت کا پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں اس سے قطع تعلق کر جاتے اور وہ ان سے قطع تعلقی پسند نہیں کرتا تھا اس لئے اس نے ایسا جواب دیا ہے جسے پیغام صلح نے بڑے شوق سے شائع کر دیا.اگر وہ بیان خلافت ثانیہ کی تائید میں ہوتا تو پیغام صلح اسے کیوں شائع کرتا.اس نے بھلا گزشتہ بیالیس سال میں کبھی میری تائید کی ہے؟ انہوں نے سمجھا کہ اس نے جو مضمون لکھا ہے وہ ہمارے ہی خیالات کا آئینہ دار ہے اس لئے اسے شائع کرنے میں کیا حرج ہے چنانچہ جماعت کے بڑے لوگ جو سمجھدار ہیں وہ تو الگ رہے، مجھے کالج کے ایک سٹوڈنٹ نے لکھا کہ پہلے تو ہم سمجھتے تھے کہ شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے لیکن ایک دن میں بیت الذکر میں بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے پتہ لگا کہ پیغام صلح میں میاں عبدالمنان کا کوئی پیغام چھپا ہے تو میں نے ایک دوست سے کہا، میاں! ذرا ایک پر چہ لانا چنانچہ وہ ایک پرچہ لے آیا.میں نے وہ بیان پڑھا اور اسے پڑھتے ہی کہا کہ کوئی پیغامی ایسا نہیں جو یہ بات نہ کہہ دے.یہ تر دید تو نہیں اور نہ ہی میاں عبدالمنان نے یہ بیان شائع کر کے اپنی بریت کی ہے.اس پر ہر ایک پیغامی دستخط کر سکتا ہے کیونکہ اس کا ہر فقرہ پیچ دار طور پر لکھا ہوا ہے اور اسے پڑھ کر ہر پیغامی اور خلافت کا مخالف یہ کہے گا کہ میرا بھی یہی خیال ہے.غرض قرآن کریم نے واضح کر دیا ہے کہ یايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لا يَا لُوْنَكُمْ خَبَالا اے مومنو! جو لوگ تمہارے اندر اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں، تم ان سے خفیہ میل جول نہ رکھو.اب دیکھو یہاں دوستی کا ذکر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے، تم ان سے بِطانَہ نہ رکھو اور بطانہ کے معنی محض تعلق ہوتے ہیں.

Page 319

خلافة على منهاج النبوة ٣٠٣ جلد دوم اب اگر کوئی ان لوگوں کو گھر میں چھپ کر مل لے اور بعد میں کہہ دے کہ آپ نے یا صدر انجمن احمد یہ نے کب کہا تھا کہ انہیں نہیں ملنا تو یہ درست نہیں ہوگا.ہم کہیں گے کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے اندر بھی تو غیرت رکھی ہے پھر ہمارے منع کرنے کی کیا ضرورت ہے تمہیں خود اپنی غیرت کا اظہار کرنا چاہیے.اگر تم ہمارے منع کرنے کا انتظار کرتے ہو تو اس کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں خود قرآن کریم پر عمل کرنے کا احساس نہیں.دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب لیکھرام نے سلام کیا تو آپ نے یہ نہیں کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دینے سے کب منع فرمایا ہے بلکہ آپ نے سمجھا کہ بے شک اس آیت میں لیکھرام کا ذکر نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے لايَا لُو تَكُمْ خَبَالا تو فرما دیا ہے کہ تم ایسے لوگوں سے تعلق نہ رکھو جو تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں پس گواس آیت میں لیکھرام کا ذکر نہیں لیکن اس کی صفات تو بیان کر دی گئی ہیں.انہی صفات سے میں نے اسے پہچان لیا ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے :.بہر رنگے کہ خواہی جامہ سے پوش مے من انداز قدت را می شناسم کہ اے شخص تو چاہے کس رنگ کا کپڑا پہن کر آ جائے میں کسی دھوکا میں نہیں آؤں گا کیونکہ میں تیرا قد پہچانتا ہوں.حضرت مرزا صاحب نے بھی یہی فرمایا کہ اے لیکھر ام ! تو چاہے کوئی شکل بنا کر آ جائے قرآن کریم نے تیری صفت بیان کر دی ہے اس لئے میں تجھے تیری صفت سے پہچانتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ لایا لوتكم خبال کہ تمہارے دشمن وہ ہیں جو قوم میں فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اس لئے قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق میں نے تم سے کوئی تعلق نہیں رکھا.میں بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نو جوان ہو اور آئندہ سلسلہ کا بوجھ تم پر پڑنے والا ہے.تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر چیز کی بعض علامتیں ہوتی ہیں اس لئے خالی منہ سے ایک لفظ ڈ ہرا دینا کافی نہیں بلکہ ان علامات کو دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ

Page 320

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۴ جلد دوم علیہ وسلم نے کیا ہی عجیب نکتہ بیان فرما دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک شخص ساری رات اپنی بیوی سے محبت کا اظہار کرتا ہے مگر دن چڑھے تو اُس سے لڑنے لگ جاتا ہے کے اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بیان فرمایا ہے کہ اگر میاں کو اپنی بیوی سے واقعی محبت ہے تو وہ دن کے وقت اُس سے کیوں محبت نہیں کرتا.اسی طرح جو شخص کسی جلسہ میں وفاداری کا اعلان کر دیتا ہے اور مخفی طور پر ان لوگوں سے ملتا ہے جو جماعت میں تفرقہ اور فساد پیدا کرنے چاہتے ہیں تو یہ کوئی وفاداری نہیں کیونکہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ جو لوگ تمہارے ہم مذہب نہیں ، ان سے کوئی تعلق نہ رکھو.غیر مذہب والوں سے تعلق رکھنا منع نہیں.حضرت ابن عباس کے متعلق آتا ہے کہ آپ جب بازار سے گزرتے تو یہودیوں کو بھی سلام کرتے اس لئے یہاں مِن دُورنگم کی تشریح کی گئی ہے کہ تم ان لوگوں سے الگ رہو جو لا یا لوتكم حبال کے مصداق ہیں یعنی وہ تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں.اگر کوئی غیر مذہب والا تمہارے اندر فتنہ اور فساد پیدا نہیں کرنا چاہتا تو وہ شخص من دونگم میں شامل نہیں.اگر تم اس سے مل لیتے ہو یا دوستانہ تعلق رکھتے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسا شخص جو تمہاری جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرنا چاہتا ہے ، اس سے تعلق رکھنا خدا تعالیٰ نے ممنوع قرار دے دیا ہے.پھر آگے فرماتا ہے تم کہہ سکتے ہو کہ اس کی کیا دلیل ہے.اس کی دلیل یہ ہے کہ قد بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاهِهِمْ کچھ باتیں ان کے منہ سے نکل چکی ہیں وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ اكْبَرُ ان پر قیاس کر کے دیکھ لو کہ جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ کیا ہے.کہتے ہیں ایک چاول دیکھ کر ساری دیگ پہچانی جاسکتی ہے اسی طرح یہاں بھی دیکھا جا سکتا ہے.مثلاً ایک منافق نے بقول اپنے بھائی کے کہا کہ خلیفہ اب بڑھا اور پاگل ہو گیا ہے اب انہیں دو تین معاون دے دینے چاہئیں.اور ہمیں جو شہادت ملی ہے اس کے مطابق اس نے کہا کہ اب خلیفہ کو معزول کر دینا چاہئے.اس فقرہ سے ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ اس کے پیچھے بغض کا ایک سمندر موجزن تھا.جس شخص کا اپنا باپ ، جب اس نے بیعت لی تھی اس عمر سے زیادہ تھا جس عمر کو میں

Page 321

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۵ جلد دوم بیالیس سال کی خدمت کے بعد پہنچا ہوں ، وہ اگر کہتا ہے کہ خلیفہ بڑھا ہو گیا ہے اسے اب معزول کر دینا چاہئے تو یہ شدید بغض کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے ورنہ اس کے منہ سے یہ فقرہ نہ نکلتا.شدید بغض انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے.اگر اس میں ذرا بھی عقل ہوتی تو وہ سمجھ سکتا تھا کہ میں یہ فقرہ منہ سے نکال کر اپنے باپ کو گالی دے رہا ہوں.جیسے انسان بعض اوقات غصہ میں آ کر یا پاگل پن کی وجہ سے اپنے بیٹے کو حرامزادہ کہہ دیتا ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ یہ لفظ کہہ کر اپنی بیوی کو اور اپنے آپ کو گالی دے رہا ہے اسی طرح اس نوجوان کی عقل ماری گئی اور اس نے وہ بات کہی جس کی وجہ سے اس کے باپ پر حملہ ہوتا تھا.دنیا میں کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کو گالی نہیں دیتا.ہاں بغض اور غصہ کی وجہ سے ایسا کر لیتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ وہ اپنے باپ کو گالی دے رہا ہے.اس نوجوان کی مجھ سے کوئی لڑائی نہیں تھی اور نہ ہی میں اس کے سامنے موجود تھا کہ وہ غصہ میں آ کر یہ بات کہہ دیتا.ہاں اس کے دل میں بغض اتنا بڑھ گیا تھا کہ اس کی وجہ سے اس نے وہ بات کہی جس کی وجہ سے اس کے باپ پر بھی حملہ ہوتا تھا.قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاهِهِمْ کہ ان کے منہ سے بغض کی بعض باتیں نکلی ہیں ان سے تم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمُ اكْبَرُ جو کچھ ان کے سینوں میں ہے وہ اس سے بہت بڑا ہے کیونکہ ہر انسان کوشش کرتا ہے کہ اس کے دل کے بغض کا علم کسی اور کو نہ ہو اس لئے جو کچھ اس کے دل میں ہے وہ اس سے بہت بڑا ہے جو ظا ہر ہو چکا ہے.غرض خدا تعالیٰ نے اس آیت میں جماعتی نظام کی مضبوطی کے لئے ایک اہم نصیحت بیان فرمائی ہے.تمہیں یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے اور اس کے مطابق اپنے طریق کو بدلنا چاہیے ورنہ احمدیت آئندہ تمہارے ہاتھوں میں محفوظ نہیں ہو سکتی.تم ایک بہادر سپاہی کی طرح بنو.ایسا سپاہی جو اپنی جان ، اپنا مال ، اپنی عزت اور اپنے خون کا ہر قطرہ احمدیت اور خلافت کی خاطر قربان کر دے اور کبھی بھی خلافت احمد یہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے دے جو پیغامیوں یا احراریوں وغیرہ کے زیر اثر ہوں.جس طرح خدا تعالیٰ نے بائبل میں کہا تھا کہ سانپ کا سر ہمیشہ کچلا جائے گا اس طرح تمہیں بھی اپنی ساری عمر فتنہ وفساد کے سانپ

Page 322

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۶ جلد دوم کے سر پر ایڑی رکھنی ہو گی اور دنیا کے کسی گوشہ میں بھی اسے پنپنے کی اجازت نہیں دینی ہوگی.اگر تم ایسا کرو گے تو قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور خدا تعالیٰ سے زیادہ سچا اور کوئی نہیں.دیکھو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد جماعت کوکس قدر مدد دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ سالا نہ ہوا اس میں چھ سات سو آدمی آئے تھے اور حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے عہد خلافت کے آخری جلسہ سالانہ پر گیارہ بارہ سو احمدی آئے تھے لیکن اب ہمارے معمولی جلسوں پر بھی دواڑھائی ہزار احمدی آ جاتے ہیں اور جلسہ سالانہ پر تو ساٹھ ستر ہزار لوگ آتے ہیں اس سے تم اندازہ کر لو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی طاقت دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں لنگر خانہ پر پندرہ سو روپیہ ماہوار خرچ آ جاتا تو آپ کو فکر پڑ جاتی اور فرماتے لنگر خانہ کا خرچ اس قدر بڑھ گیا ہے، اب اتنا روپیہ کہاں سے آئے گا.گویا جس شخص نے جماعت کی بنیا د رکھی تھی وہ کسی زمانہ میں پندرہ سو ماہوار کے اخراجات پر گھبرا تا تھا لیکن اب تمہارا صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ بارہ تیرہ لاکھ کا ہوتا ہے اور صرف ضیافت پر پینتیس چھتیں ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہو جاتا ہے.پندرہ سو روپیہ ماہوار خرچ کے معنی یہ ہیں کہ سال میں صرف اٹھارہ ہزار روپیہ خرچ ہوتا تھا لیکن اب صرف جامعۃ المبشرین اور طلباء کے وظائف وغیرہ کے سالانہ اخراجات چھیاسٹھ ہزار روپے ہوتے ہیں گویا ساڑھے پانچ ہزار روپیہ ماہوار.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا رکھتے ہیں.وہ مامور من اللہ تھے اور اس لئے آئے تھے کہ دنیا کو ہدایت کی طرف لائیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا کے کونہ کو نہ میں قائم کریں اور مسلمانوں کی غفلتوں اور سستیوں کو دور کر کے انہیں اسلامی رنگ میں رنگین کریں لیکن ان کی زندگی میں جماعتی اخراجات پندرہ سو روپیہ پر پہنچتے ہیں تو گھبرا جاتے ہیں اور خیال فرماتے ہیں کہ یہ اخراجات کہاں سے مہیا ہوں گے لیکن اس وقت ہم جو آپ کی جوتیاں جھاڑنے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں صرف ایک درس گاہ یعنی جامعتہ المبشرین پر ساڑھے پانچ ہزار روپیہ ماہوار خرچ

Page 323

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۷ جلد دوم کر رہے ہیں.اسی طرح مرکزی دفاتر اور بیرونی مشنوں کو ملا لیا جائے تو ماہوار خرچ ستر اسی ہزار روپیہ بن جاتا ہے گویا آپ کے زمانہ میں جو خرچ پانچ سات سال میں ہوتا تھا وہ ہم ایک سال میں کرتے ہیں اور پھر بڑی آسانی سے کرتے ہیں.اس طرح یہ خلافت کی ہی رکت ہے کہ تبلیغ اسلام کا وہ کام جو اس وقت دنیا میں اور کوئی جماعت نہیں کر رہی صرف جماعت احمدیہ کر رہی ہے.مصر کا ایک اخبار الفتح ہے وہ ہماری جماعت کا سخت مخالف ہے مگر اس نے ایک دفعہ لکھا کہ جماعت احمدیہ کو بے شک ہم اسلام کا دشمن خیال کرتے ہیں لیکن اس وقت وہ تبلیغ اسلام کا جو کام کر رہی ہے گزشتہ تیرہ سو سال میں وہ کام بڑے بڑے اسلامی بادشاہوں کو بھی کرنے کی توفیق نہیں ملی.جماعت کا یہ کارنامہ محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اور تمہارے ایمانوں کی وجہ سے ہے.آپ کی پیشگوئیاں تھیں اور تمہارا ایمان تھا.جب یہ دونوں مل گئے تو خدا تعالیٰ کی برکتیں نازل ہونی شروع ہوئیں اور جماعت نے وہ کام کیا جس کی توفیق مخالف ترین اخبار الفتح کے قول کے مطابق کسی بڑے سے بڑے اسلامی بادشاہ کو بھی آج تک نہیں مل سکی.اب تم روزانہ پڑھتے ہو کہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھ رہی ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تم اور بھی ترقی کرو گے اور اُس وقت تمہا را چندہ ہیں، چھپیں لاکھ سالانہ نہیں ہو گا بلکہ کروڑ ، دوکروڑ ، دس کروڑ ، ہیں کروڑ ، پچاس کروڑ ، ارب، کھرب ، پدم بلکہ اس سے بھی بڑھ جائے گا اور پھر تم دنیا کے چپہ چپہ میں اپنے مبلغ رکھ سکو گے.انفرادی لحاظ سے تم اُس وقت بھی غریب ہو گے لیکن اپنے فرض کے ادا کرنے کی وجہ سے، ایک قوم ہونے کے لحاظ سے تم امریکہ سے بھی زیادہ مالدار ہو گے.دنیا میں ہر جگہ تمہارے مبلغ ہوں گے اور جتنے تمہارے مبلغ ہوں گے، اتنے افسر دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کے بھی نہیں ہوں گے.امریکہ کی فوج کے بھی اتنے افسر نہیں ہوں گے جتنے تمہارے مبلغ ہونگے اور یہ محض تمہارے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ہوگا.اگر تم اپنے ایمان کو قائم رکھو گے تو تم اُس دن کو دیکھ لو گے.تمہارے باپ دادوں نے وہ دن دیکھا جب ۱۹۱۴ء میں پیغامیوں نے ہماری مخالفت کی جب میں خلیفہ ہوا تو خزانہ میں صرف سترہ روپے تھے.انہوں نے خیال کیا کہ اب قادیان تباہ ہو جائے گا لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ

Page 324

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۸ جلد دوم نے ایسی برکت دی کہ اب ہم اپنے کسی طالب علم کو سترہ روپے ماہوار وظیفہ بھی دیتے ہیں تو یہ وظیفہ کم ہونے کی شکایت کرتا ہے.پیغامیوں کے خلاف پہلا اشتہار شائع کرنے کے لئے میرے پاس روپیہ نہیں تھا.میر ناصر نواب صاحب جو ہمارے نانا تھے ، اُنہیں پتہ لگا وہ دار الضعفاء کے لئے چندہ جمع کیا کرتے تھے.ان کے پاس اُس چندہ کا کچھ روپیہ تھا وہ دواڑھائی سو روپیہ میرے پاس لے آئے اور کہنے لگے اس سے اشتہار چھاپ لیں پھر خدا دے گا تو یہ رقم واپس کر دیں.پھر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور آمد آنی شروع ہوئی اور اب یہ حالت ہے کہ پچھلے ہیں سال کی تحریک جدید میں تین لاکھ ستر ہزار روپیہ چندہ میں نے دیا ہے.کجا یہ کہ ایک اشتہار شائع کرنے کے لئے میرے پاس دو اڑھائی سو روپیہ بھی نہیں تھا اور کجا یہ کہ خدا تعالیٰ نے میری اس قسم کی امداد کی اور زمیندارہ میں اس قدر برکت دی کہ میں نے لاکھوں روپیہ بطور چندہ جماعت کو دیا.پھر مجھے یاد ہے کہ جب ہم نے پہلا پارہ شائع کرنا چاہا تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہمارے خاندان کے افراد اپنے روپیہ سے اسے شائع کر دیں لیکن روپیہ پاس نہیں تھا.اُس وقت تک ہماری زمینداری کا کوئی انتظام نہیں تھا.میں نے اپنے مختار کو بلایا اور کہا ہم قرآن کریم چھپوانا چاہتے ہیں لیکن روپیہ پاس نہیں.وہ کہنے لگا آپ کو کس قدر روپے کی ضرورت ہے؟ میں نے کہا کہتے ہیں کہ پہلی جلد تین ہزار روپے میں چھپے گی.اس نے کہا میں روپیہ لا دیتا ہوں.آپ صرف اس قدرا جازت دے دیں کہ میں کچھ زمین مکانوں کے لئے فروخت کر دوں.میں نے کہا اجازت ہے.ظہر کی نماز کے بعد میں نے اُس سے بات کی اور عصر کی اذان ہوئی تو اُس نے ایک پوٹلی میرے سامنے لا کر رکھ دی اور کہا یہ لیں روپیہ.میں نے کہا ہیں ! قادیان والوں کے ہاں اتنا روپیہ ہے؟ وہ کہنے لگا اگر آپ تمیں ہزار روپیہ بھی چاہیں تو میں آپ کو لا دیتا ہوں.لوگ مکانات بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس زمین نہیں.اگر انہیں زمین دے دی جائے تو روپیہ حاصل کرنا مشکل نہیں.میں نے کہا خیر اس وقت ہمیں اسی قدر روپیہ کی ضرورت ہے چنانچہ اُس وقت ہم نے قرآن کریم کا پہلا پارہ

Page 325

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۹ جلد دوم شائع کر دیا.پھر میں نے الفضل جاری کیا تو اُس وقت بھی میرے پاس روپیہ نہیں تھا.حکیم محمد عمر صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں آپ کو کچھ خریدار بنا کر لا دیتا ہوں اور تھوڑی دیر میں وہ ایک پوٹلی روپوں کی میرے پاس لے آئے.غرض ہم نے پیسوں سے کام شروع کیا اور آج ہمارا لا کھوں کا بجٹ ہے اور ہماری انجمن کی جائیداد کروڑوں کی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ میں خود گزشتہ بیس سال کی تحریک جدید میں تین لاکھ ستر ہزار روپیہ چندہ دے چکا ہوں.اسی طرح ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ میں نے صدرانجمن احمدیہ کو دیا ہے اور اتنی ہی جائیدادا سے دی ہے گویا تین لاکھ صدر انجمن احمدیہ کو دیا ہے اور تین لاکھ ستر ہزار روپیہ تحریک جدید کو دیا ہے اس لئے جب کوئی شخص اعتراض کرتا ہے کہ میں نے جماعت کا روپیہ کھالیا ہے تو مجھے غصہ نہیں آتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حسابی بات ہے.جب انجمن کے رجسٹر سامنے آجائیں گے تو یہ شخص آپ ہی ذلیل ہو جائے گا.بہر حال اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں آپ سب کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ان کو یا درکھو اور اپنی جگہوں پر واپس جا کر اپنے بھائیوں اور دوستوں کو بھی سمجھاؤ کہ زبانی طور پر وفاداری کا عہد کرنے کے کوئی معنی نہیں.اگر تم واقعی وفادار ہو تو تمہیں منافقوں کا مقابلہ کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ انہوں نے لایا لوتكم خبالا والی بات پوری کر دی ہے اور وہ جماعت میں فتنہ اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں.قرآن کریم کی ہدایت یہی ہے کہ ان سے مخفی طور پر اور الگ ہو کر بات نہ کی جائے اور اس پر تمہیں عمل کرنا چاہیے تا کہ تم شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جاؤ ور نہ تم جانتے ہو کہ شیطان حضرت حوا کی معرفت جنت میں گھس گیا تھا اور جو شیطان حضرت حوا کی معرفت جنت میں گھس گیا تھا وہ جماعت احمدیہ میں کیوں نہیں گھس سکتا.ہاں اگر تم کو حضرت آدم والا قصہ یادر ہے تو تم اس سے بچ سکتے ہو.بائبل کھول کر پڑھو تمہیں معلوم ہوگا کہ شیطان نے دوست اور خیر خواہ بن کر ہی حضرت آدم اور حوا کو ورغلایا تھا اسی طرح یہ لوگ بھی دوست اور ظاہر میں خیر خواہ بن کر تمہیں خراب کر سکتے ہیں لیکن اگر تم قرآنی ہدایت

Page 326

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم پر عمل کرو تو محفوظ ہو جاؤ گے اور شیطان خواہ کسی بھیس میں بھی آئے تم اس کے قبضہ میں نہیں آؤ گے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو ہمیشہ خلافت کا خدمت گزار رکھے اور تمہارے ذریعہ احمد یہ خلافت قیامت تک محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت ہوتی رہے اور تم اور تمہاری نسلیں قیامت تک اس کا جھنڈا اونچا رکھیں اور کبھی بھی وہ وقت نہ آئے کہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں تمہارا یا تمہاری نسلوں کا حصہ نہ ہو بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تمہارا اور تمہاری نسلوں کا اس میں حصہ ہو اور جس طرح پہلے زمانہ میں خلافت کے دشمن نا کام ہوتے چلے آئے ہیں تم بھی جلد ہی سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ان کو نا کام ہوتا دیکھ لو“.(اس کے بعد حضور نے عہد دُہرایا اور دعا کروائی.دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے ارشاد فرمایا کہ:.) واپس جانے سے پہلے میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے میں نے جماعت کے فتنہ پردازوں کا ذکر کیا ہے لیکن اس موقع کے زیادہ مناسب حال آج کا خطبہ جمعہ تھا جس میں میں نے خدمت خلق پر زور دیا ہے.خدام الاحمدیہ نے پچھلے دنوں ایسا شاندار کام کیا تھا کہ بڑے بڑے مخالفوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کی یہ خدمت بے نظیر ہے.تم اس خدمت کو جاری رکھو اور اپنی نیک شہرت کو مدھم نہ ہونے دو.جب بھی ملک اور قوم پر کوئی مصیبت آئے سب سے آگے خدمت کرنے والے خدام الاحمدیہ کو ہونا چاہیے یہاں تک کہ سلسلہ کے شدید سے شدید دشمن بھی یہ مان لیں کہ در حقیقت یہی لوگ ملک کے سچے خادم ہیں.یہی لوگ غریبوں کے ہمدرد ہیں.یہی لوگ مسکینوں اور بیواؤں کے کام آنے والے ہیں.یہی لوگ مصیبت زدوں کی مصیبت کو دور کرنے والے ہیں.تم اتنی خدمت کرو که شدید سے شدید دشمن بھی تمہارا گہرا دوست بن جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایسا سلوک کرو کہ تمہارا دشمن بھی دوست بن جائے.یہی خدام الاحمدیہ کو کرنا چاہیے.اگر تمہارے کاموں کی وجہ سے تمہارے علاقہ کے لوگ تمہارے بھی اور تمہارے

Page 327

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۱ ا جلد دوم احمدی بھائیوں کے بھی دوست بن گئے ہیں، تمہارے کاموں کی قدر کر نے لگ گئے ہیں اور تم کو بھی اپنا سچا خادم سمجھتے ہیں اور اپنا مددگار سمجھتے ہیں تو تم سچے خادم ہو.اور اگر تم یہ روح پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو تمہیں ہمیشہ استغفار کرنا چاہئے کہ تمہارے کاموں میں کوئی کمی رہ گئی ہے جس کی وجہ سے تم لوگوں کے دلوں میں اثر پیدا نہیں کر سکے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہوا اور آپ کی مدد کرے“.(الفضل ۲۴ را پریل ۱۹۵۷ء) آل عمران ۱۱۹ سنن ابن ماجه كتاب النكاح باب ضرب النساء صفحه ۲۸۳ حدیث نمبر ۱۹۸۳ مطبوعه ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الاولى

Page 328

Page 329

خلافة على منهاج النبوة ٣١٣ جلد دوم خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں جماعت احمدیہ کو خلافت کی برکات سے نوازا ہے خطاب فرموده ۲۱ /اکتوبر ۱۹۵۶ء بر موقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ مرکز یہ بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اس دفعہ مختلف وجوہات کی بناء پر جماعت احمدیہ کی مختلف مرکزی انجمنوں نے قریب قریب عرصہ میں اپنے سالانہ اجتماع منعقد کئے ہیں جس کی وجہ سے مجھ پر زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات سے تین چار سال پہلے جلسہ سالانہ پر میں آپ کی تقاریر سنتا رہا ہوں آپ کی وفات کے وقت میری عمر 19 سال کی تھی.اور اس سے چار پانچ سال قبل میری عمر قریباً ۱۴ سال کی تھی اس لئے میں آپ کی مجالس میں جاتا اور تقاریر سنتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تقریر عام طور پر پچاس منٹ یا ایک گھنٹہ کی ہوتی تھی اور وفات سے پانچ سال پہلے آپ کی عمر قریباً اتنی ہی تھی جتنی اس وقت میری ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی کسی مشیت کے ماتحت مجھ پر ایک خطر ناک بیماری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے میں اب لمبی تقاریر نہیں کرسکتا.پہلے میں جلسہ سالانہ کے موقع پر پانچ پانچ چھ چھ گھنٹہ کی تقاریر کر لیتا تھا مگر اس بیماری کے اثر کی وجہ سے مجھے جلدی ضعف محسوس ہونے لگتا ہے.آج لجنہ اماءاللہ کا اجتماع بھی تھا وہاں بھی میں نے تقریر کی.انہوں نے مجھ سے کہا کہ کئی سال سے آپ کی عورتوں میں کوئی تقریر نہیں ہوئی اس لئے آپ اس موقع پر عورتوں میں بھی تقریر کریں.چنانچہ میں نے تقریر کرنی منظور کر لی اور صبح وہاں

Page 330

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۴ جلد دوم میری تقریر تھی اس وقت تمہاری باری آگئی ہے.چار پانچ دن کے بعد انصار اللہ کی باری آ جائے گی پھر جلسہ سالانہ آ جائے گا اُس موقع پر بھی مجھے تقاریر کرنی ہونگی.پھر ان کا موں کے علاوہ تفسیر کا اہم کام بھی ہے جو میں کر رہا ہوں.اس کی وجہ سے نہ صرف مجھے کوفت محسوس ہو رہی ہے بلکہ طبیعت پر بڑا بوجھ محسوس ہو رہا ہے اس لئے اگر چہ میری خواہش تھی کہ اس موقع پر میں لمبی تقریر کروں مگر میں زیادہ لمبی تقریر نہیں کر سکتا.اب پیشتر اس کے کہ میں اپنی تقریر شروع کروں آپ سب کھڑے ہو جائیں تا کہ عہد دُہرایا جائے“.(حضور کے اس ارشاد پر تمام خدام کھڑے ہو گئے اور حضور نے عہد دُہرایا.عہد " ڈ ہرانے کے بعد حضور نے فرمایا :.) آج میں قرآن کریم کی ایک آیت کے متعلق کچھ زیادہ تفصیل سے بیان کرنا چاہتا تھا مگر اس وقت میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اس تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کر سکتا کیونکہ کل میں نے خطبہ جمعہ بھی پڑھا اور پھر آپ کے اجتماع میں بھی تقریر کی.اسی طرح آج صبح لجنہ اماء اللہ کے اجتماع میں مجھے تقریر کرنی پڑی جس کی وجہ سے مجھے اس وقت کوفت محسوس ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ :.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهِمْ وَلَيُمَكنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ ص وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ، يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَمَن كَفَرَ بعد ذلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الفَسِقُونَ لا یعنی ہم تم میں سے مومن اور ایمان بالخلافت رکھنے والوں اور اس کے مطابق عمل کرنے والوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ ان کو ہم ضرور اس طرح خلیفہ بنا ئیں گے جس طرح کہ پہلی قوموں یعنی یہود اور نصاری میں سے بنائے ہیں.اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ خلافت ایک عہد ہے پیشگوئی نہیں.اور عہد مشروط ہوتا ہے لیکن پیشگوئی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ مشروط ہو.پیشگوئی مشروط ہو تو وہ مشروط رہتی ہے اور اگر مشروط نہ ہو لیکن اس میں کسی انعام کا وعدہ ہو تو وہ ضرور پوری ہو جاتی ہے.یہاں وعدہ کا لفظ بھی موجود ہے اور اس کے ساتھ شرط بھی

Page 331

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۵ جلد دوم مذکور ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم نے خود اس وعدہ کی تشریح کر دی ہے کہ ہمارا یہ وعدہ کہ ہم تم میں سے مومنوں اور اعمال صالحہ بجا لانے والوں کو اسی طرح خلیفہ بنا ئیں گے جیسے ہم نے ان سے پہلے یہود و نصاریٰ میں خلیفہ بنائے ، ضروری نہیں کہ پورا ہو.ہاں اگر تم بعض باتوں پر عمل کرو گے تو ہمارا یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا.پہلی شرط اس کی یہ بیان فرماتا ہے کہ وعد الله الذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ تمہیں خلافت پر ایمان رکھنا ہو گا.چونکہ آگے خلافت کا ذکر آتا ہے اس لئے یہاں ایمان کا تعلق اس سے سمجھا جائے ا وَعَمِلُوا الصلحت پھر تمہیں نیک اعمال بجالانے ہوں گے.اب کسی چیز پر ایمان لانے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے مثلاً کسی شخص کو اس بات پر ایمان ہو کہ میں بادشاہ بننے والا ہوں یا اسے ایمان ہو کہ میں کسی بڑے عہدہ پر پہنچنے والا ہوں تو وہ اس کے لئے مناسب کوشش بھی کرتا ہے.اگر ایک طالب علم یہ سمجھے کہ وہ ایم.اے کا امتحان پاس کرے تو اس کیلئے موقع ہے کہ وہ سی.پی.ایس پاس کرے.یا پراونشل سروس | میں ای.اے سی بن جائے یا اسٹنٹ کمشنر بن جائے تو پھر وہ اس کے مطابق محنت بھی کرتا ہے.لیکن اگر اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ان عہدوں کے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا تو وہ ان کے لئے کوشش اور محنت بھی نہیں کرتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جن کو اس بات پر یقین ہو کہ وہ خلافت کے ذریعہ ہی ترقی کر سکتے ہیں اور پھر وہ اس کی شان کے مطابق کام بھی کریں تو ہمارا وعدہ ہے کہ ہم انہیں خلیفہ بنائیں گے لیکن اگر انہیں یقین نہ ہو کہ ان کی ترقی خلافت کے ساتھ وابستہ ہے اور وہ اس کے مطابق عمل بھی نہ کرتے ہوں تو ہمارا ان سے کوئی وعدہ نہیں.چنانچہ دیکھ لومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت ہوئی اور پھر کیسی شاندار ہوئی.آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے.اُس وقت انصار نے چاہا کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو.یہ سنتے ہی حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ اور بعض اور صحابہ فوراً اس جگہ تشریف لے گئے جہاں انصار جمع تھے اور آپ نے انہیں بتایا کہ دیکھو د وخلیفوں والی بات غلط ہے تفرقہ سے اسلام ترقی نہیں کرے گا خلیفہ بہر حال ایک ہی ہوگا اگر تم تفرقہ کرو گے تو تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا.تمہاری

Page 332

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۶ جلد دوم عزتیں ختم ہو جائیں گی اور عرب تمہاری تگا بوٹی کر ڈالیں گے تم یہ بات نہ کرو.بعض انصار نے آپ کے مقابل پر دلائل پیش کرنے شروع کئے.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں میں نے خیال کیا کہ حضرت ابو بکر کو تو بولنا نہیں آتا میں انصار کے سامنے تقریر کروں گا لیکن جب حضرت ابوبکر نے تقریر کی تو آپ نے وہ سارے دلائل بیان کر دیئے جو میرے ذہن میں تھے اور پھر اس سے بھی زیادہ دلائل بیان کئے.میں نے یہ دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ آج یہ بڑھا مجھ سے بڑھ گیا ہے آخر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ خود انصار میں سے بعض لوگ کھڑے ہو گئے اور اُنہوں نے کہا حضرت ابو بکر جو کچھ فرما رہے ہیں وہ ٹھیک ہے مکہ والوں کے سوا عرب کسی اور کی اطاعت نہیں کریں گے.پھر ایک انصاری نے جذباتی طور پر کہا.اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں اپنا ایک رسول مبعوث فرمایا.اس کے اپنے رشتہ داروں نے اُسے شہر سے نکال دیا تو ہم نے اسے اپنے گھروں میں جگہ دی اور خدا تعالیٰ نے اس کے طفیل ہمیں عزت دی.ہم مدینہ والے گمنام تھے ، ذلیل تھے مگر اس رسول کی وجہ سے ہم معزز اور مشہور ہو گئے اب تم اس چیز کو جس نے ہمیں معزز بنایا کافی سمجھو اور زیادہ لالچ نہ کروایا نہ ہو کہ ہمیں اس کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے.اُس وقت حضرت ابو بکڑ نے فرمایا کہ دیکھو خلافت کو قائم کرنا ضروری ہے باقی تم جس کو چاہو خلیفہ بنا لو مجھے خلیفہ بننے کی کوئی خواہش نہیں.آپ نے فرمایا.یہ ابو عبیدہ ہیں ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امین الامت کا خطاب عطا فرمایا ہے تم ان کی بیعت کر لو.پھر عمر‎ میں یہ اسلام کے لئے ایک ننگی تلوار ہیں تم ان کی بیعت کر لو.حضرت عمرؓ نے فرمایا ابو بکر ! اب باتیں ختم کیجئے ہاتھ بڑھائیے اور ہماری بیعت لیجئے.حضرت ابو بکر کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ نے جرات پیدا کر دی اور آپ نے بیعت لے لی.بعینہ یہی واقعہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی وفات کے بعد میرے ساتھ پیش آیا.جب میں نے کہا میں اس قابل نہیں کہ خلیفہ بنوں نہ میری تعلیم ایسی ہے اور نہ تجربہ.تو اُس وقت بارہ چودہ سو احمدی جو جمع تھے اُنہوں نے شور مچا دیا کہ ہم آپ کے سوا اور کسی کی بیعت کرنا نہیں چاہتے مجھے اُس وقت بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں تھے.میں نے کہا مجھے تو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں میں بیعت کیسے لوں.اس پر ایک دوست کھڑے ہو گئے اور

Page 333

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۷ جلد دوم انہوں نے کہا کہ مجھے بیعت کے الفاظ یاد ہیں میں بیعت کے الفاظ بولتا جاتا ہوں اور آپ دُہراتے جائیں چنانچہ وہ دوست بیعت کے الفاظ بولتے گئے اور میں انہیں دُہرا تا گیا اور اس طرح میں نے بیعت لی.گویا پہلے دن کی بیعت دراصل کسی اور کی تھی میں تو صرف بیعت کے الفاظ دُہراتا جاتا تھا.بعد میں میں نے بیعت کے الفاظ یاد کئے.غرض اُس وقت وہی حال ہوا جو اُس وقت ہوا تھا جب حضرت ابوبکر خلیفہ منتخب ہوئے تھے.میں نے دیکھا کہ لوگ بیعت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے.مولوی محمد علی صاحب ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا دوستو غور کر لو اور میری ایک بات سن لو.مجھے معلوم نہ ہوا کہ لوگوں نے انہیں کیا جواب دیا کیونکہ اُس وقت بہت شور تھا بعد میں پتہ لگا کہ لوگوں نے انہیں کہا ہم آپ کی بات نہیں سنتے.چنانچہ وہ مجلس سے اٹھ کر باہر چلے گئے اس کے بعد لوگ ہجوم کر کے بیعت کے لئے بڑھے اور ایک گھنٹہ کے اندر اندر جماعت کا شیرازہ قائم ہو گیا.اُس وقت جس طرح میرے ذہن میں خلافت کا کوئی خیال نہیں تھا اسی طرح یہ بھی خیال نہیں تھا کہ خلافت کے ساتھ ساتھ کونسی مشکلات مجھ پر ٹوٹ پڑیں گی.بعد میں پتہ لگا کہ پانچ چھ سو روپے ماہوار تو سکول کے اساتذہ کی تنخواہ ہے اور پھر کئی سو کا قرضہ ہے لیکن خزانہ میں صرف ۷ اروپے ہیں گویا اُس مجلس سے نکلنے کے بعد محسوس ہوا کہ ایک بڑی مشکل ہمارے سامنے ہے.جماعت کے سارے مالدار تو دوسری پارٹی کے ساتھ چلے گئے ہیں اور جماعت کی کوئی آمدنی نہیں پھر یہ کام کیسے چلیں گے.لیکن بعد میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہوئی تو بگڑی سنور گئی.۱۹۱۴ء میں تو میرا یہ خیال تھا کہ خزانہ میں صرف ۱۷ روپے ہیں اور اساتذہ کی تنخواہوں کے علاوہ کئی سو روپیہ کا قرضہ ہے جو دینا ہے لیکن ۱۹۲۰ء میں جماعت کی یہ حالت تھی کہ جب میں نے اعلان کیا کہ ہم برلن میں مسجد بنائیں گے اس کے لئے ایک لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے تو جماعتوں کی عورتوں نے ایک ماہ کے اندر اندر یہ رو پید اکٹھا کر دیا.انہوں نے اپنے زیور اتار کر دے دیئے کہ انہیں بیچ کر رو پیدا کٹھا کر لیا جائے.آج میں نے عورتوں کے اجتماع میں اس واقعہ کا ذکر کیا تو میری ایک بیوی نے بتایا کہ مجھے تو اُس وقت پورا ہوش نہیں تھا میں ابھی بچی تھی اور مجھے سلسلہ کی ضرورتوں کا

Page 334

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۸ جلد دوم احساس نہیں تھا لیکن میری اماں کہا کرتی ہیں کہ جب حضور نے چندہ کی تحریک کی تو میری ساس نے ( جو سید ولی اللہ شاہ صاحب کی والدہ تھیں اور میری بھی ساس تھیں ) اپنی تمام بیٹیوں اور بہوؤں کو اکٹھا کیا اور کہا تم سب اپنے زیور اس جگہ رکھ دو.پھر انہوں نے ان زیورات کو بیچ کر مسجد برلن کے لئے چندہ دے دیا.اس قسم کا جماعت میں ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ سینکڑوں گھروں میں ایسا ہوا کہ عورتوں نے اپنی بیٹیوں اور بہوؤں کے زیورات اتر والئے اور انہیں فروخت کر کے مسجد برلن کے لئے دے دیا.غرض ایک ماہ کے اندراندر ایک لاکھ روپیہ جمع ہو گیا.اب دو سال ہوئے میں نے ہالینڈ میں مسجد بنانے کی تحریک کی لیکن اب تک اس فنڈ میں صرف ۸۰ ہزار روپے جمع ہوئے ہیں حالانکہ اس وقت جماعت کی عورتوں کی تعداد اُس وقت کی عورتوں سے بیسیوں گنا زیادہ ہے.اُس وقت عورتوں میں اتنا جوش تھا کہ انہوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ جمع کر دیا.تو در حقیقت جماعت کا ایمان ہی تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے نمونہ دکھایا اور اس نے بتایا کہ میں سلسلہ کو مدد دینے والا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ الہاماً فرمایا تھا کہ اگر ساری دنیا بھی تجھ سے منہ موڑ لے تو میں آسمان سے اُتار سکتا ہوں اور زمین سے نکال سکتا ہوں.تو حقیقت یہ ہے کہ ہم نے خلافت حقہ کی برکات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی ہیں.ہم ایک پیسہ کے بھی مالک نہیں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے جماعت دی.جس نے چندے دیئے اور سلسلہ کے کام اب تک چلتے گئے اور چل رہے ہیں اور اب تو جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے کئی گنا زیادہ ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے دینی ضرورتوں کے لئے خدا تعالیٰ سے کہا کہ اے اللہ ! تو مجھے ایک لاکھ روپیہ دے دے تو سلسلہ کے کاموں کو چلاؤں لیکن اب کل ہی میں حساب کر رہا تھا کہ میں نے خود چھ لاکھ ستر ہزار روپیہ سلسلہ کو بطور چندہ دیا ہے میں خیال کرتا ہوں کہ میں کتنا بیوقوف تھا کہ خدا تعالیٰ سے سلسلہ کی ضرورتوں کے لئے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا.مجھے تو اس سے ایک ارب روپیہ مانگنا چاہیے تھا.مانگنے والا خدا تعالیٰ کا خلیفہ ہو اور جس سے

Page 335

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۹ جلد دوم مانگا جائے وہ خود خدا کی ذات ہو تو پھر ایک لاکھ روپیہ مانگنے کے کیا معنی ہیں.مجھے تو یہ دعا کرنی چاہیے تھی کہ اے خدا! تو مجھے ایک ارب روپیہ دے، ایک کھرب روپیہ دے یا ایک پدم روپیہ دے.میں نے بتایا ہے کہ اگر چہ میں نے خدا تعالیٰ سے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اتنا فضل کیا کہ صرف میں نے پچھلے سالوں میں چھ لاکھ ستر ہزار روپیہ سلسلہ کو چندہ کے طور پر دیا ہے.بے شک وہ روپیہ سارا نقدی کی صورت میں نہ تھا.کچھ زمین تھی جو میں نے سلسلہ کو دی مگر وہ زمین بھی خدا تعالیٰ نے ہی دی تھی.میرے پاس تو زمین نہیں تھی.ہم تو اپنی ساری زمین قادیان چھوڑ آئے تھے.اپنے باغات اور مکانات بھی قادیان چھوڑ آئے تھے.قادیان میں میری جائداد کافی تھی مگر اس کے باوجود میں نے سلسلہ کو اتنار و پیہ نہیں دیا تھا جتنا قادیان سے نکلنے کے بعد دیا.۱۹۴۷ء میں ہم قادیان سے آئے ہیں اور تحریک جدید ۱۹۳۴ء میں شروع ہوئی تھی.گویا اُس وقت تحریک جدید کو جاری ہوئے بارہ سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اس بارہ سال کے عرصہ میں میرا تحریک جدید کا چندہ قریباً چھ ہزار روپیہ تھا لیکن بعد کے دس سال ملا کر میرا چندہ تحریک جدید دو لاکھ بیس ہزار روپیہ بن جاتا ہے.اس کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی زمین میں نے تحریک جدید کو دی ہے یہ زمین مجھے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بطور نذرانہ دی تھی.میں نے خیال کیا کہ اتنا بڑا نذرانہ اپنے پاس رکھنا درست نہیں چنانچہ میں نے وہ ساری زمین سلسلہ کو دے دی.اس طرح تین لاکھ ستر ہزار روپیہ میں نے صرف تحریک جدید کو ادا کیا.اسی طرح خلافت جو بلی کے موقع پر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تحریک پر جب جماعت نے مجھے روپیہ پیش کیا تو میر محمد اسحق صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے متعلق جو دعائیں کی ہیں ان میں یہ دعا بھی ہے کہ دے اس کو عمر و دولت کر دُور ہر اندھیرا پس اس روپیہ کے ذریعہ آپ کی یہ دعا پوری ہوگی.اس طرح یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگی کہ :.

Page 336

خلافة على منهاج النبوة وو جلد دوم وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.اس پر میں نے کہا کہ میں یہ روپیہ تو لے لیتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں یہ روپیہ سلسلہ کے کاموں پر ہی صرف کروں گا.چنانچہ میں نے وہ روپیہ تو لے لیا لیکن میں نے اسے اپنی ذات پر نہیں بلکہ سلسلہ کے کاموں پر خرچ کیا اور صد را منجمن احمدیہ کو دے دیا.اب میں نے ہیمبرگ کی مسجد کے لئے تحریک کی ہے کہ جماعت کے دوست اس کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپیہ دیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے تو ہمارے سلسلہ میں تو یہ ہونا چاہیے کہ ہمارا ایک ایک آدمی ایک ایک مسجد بنا دے.خود مجھے خیال آتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے کشائش عطا فرمائے تو میں بھی اپنی طرف سے ایک مسجد بنا دوں اور کوئی تعجب نہیں کہ خدا تعالیٰ مجھے اپنی زندگی میں ہی اس بات کی توفیق دے د.دے دے اور میں کسی نہ کسی یورپین مملک میں اپنی طرف سے ایک مسجد بنا دوں.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دینے پر منحصر ہے.انسان کی اپنی کوشش سے کچھ نہیں ہو سکتا.ہم لوگ زمیندار ہیں اور ہمارے ملک میں زمیندارہ کی بہت ناقدری ہے یعنی یہاں لائکپور اور سرگودھا کے اضلاع کی زمینوں میں بڑی سے بڑی آمدن ایک سو روپیہ فی ایکڑ ہے حالانکہ یورپین ممالک میں فی ایکڑ آمد اس سے کئی گنا زیادہ ہے.میں جب یورپ گیا تو میں نے وہاں زمینوں کی آمد میں پوچھنی شروع کیں مجھے معلوم ہوا کہ اٹلی میں فی ایکڑ آمد چار سو روپیہ ہے اور ہالینڈ میں فی ایکٹر آمد تین ہزار روپیہ ہے.پھر میں نے میاں محمد ممتاز صاحب دولتانہ کا بیان پڑھا وہ جاپان گئے تھے اور وہاں اُنہوں نے زمین کی آمدنوں کا جائزہ لیا تھا.انہوں نے بیان کیا تھا کہ جاپان میں فی ایکٹر آمد چھ ہزار روپے ہے.اس کے یہ معنی ہوئے کہ اگر میری ایک سو ایکڑ زمین بھی ہو حالانکہ وہ اس سے بہت زیادہ ہے اور اس سے ہالینڈ والی آمد ہو تو تین لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہو جاتی ہے اور اگر جاپان والی آمد ہو تو بڑی آسانی کے ساتھ ایک نہیں کئی مساجد میں اکیلا تعمیر کر سکتا ہوں.میرا یہ طریق ہے کہ میں اپنی ذات پر زیادہ روپیہ خرچ نہیں کرتا اور نہ اپنے خاندان پر خرچ کرتا ہوں بلکہ جو کچھ میرے پاس آتا ہے اس میں سے کچھ رقم اپنے معمولی اخراجات کے لئے رکھنے کے بعد سلسلہ کے لئے دے دیتا ہوں.خرچ کرنے کو تو لوگ دس دس کروڑ روپیہ بھی کر لیتے ہیں لیکن مجھے جب بھی خدا تعالیٰ

Page 337

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۱ جلد دوم نے دیا ہے میں نے وہ خدا تعالیٰ کے راستے میں ہی دے دیا ہے.بیشک میرے بیوی بچے مانگتے رہیں میں انہیں نہیں دیتا میں انہیں کہتا ہوں کہ تمہیں وہی گزارے دوں گا جن سے تمہارے معمولی اخراجات چل سکیں.زمانہ کے حالات کے مطابق میں بعض اوقات انہیں زیادہ بھی دے دیتا ہوں.مثلاً اگر وہ ثابت کر دیں کہ اس وقت گھی مہنگا ہو گیا ہے، ایندھن کی قیمت چڑھ گئی ہے یا دھوبی وغیرہ کا خرچ بڑھ گیا ہے تو میں اس کے لحاظ سے زیادہ بھی دے دیتا ہوں لیکن اس طرح نہیں کہ ساری کی ساری آمدن ان کے حوالہ کر دوں کہ جہاں جی چاہیں خرچ کر لیں.غرض میں گھر کے معمولی گزارہ کے لئے اخراجات رکھنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ سلسلہ کو دے دیتا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ فضل کرے اور کسی وقت وہ ہمارے ملک والوں کو عقل اور سمجھ دے دے اور ہماری آمد میں بڑھ جائیں تو سال میں ایک مسجد چھوڑ دو دو مساجد بھی ہم بنوا سکتے ہیں اور یہ سب خلافت ہی کی برکت ہے.میں جب نیا نیا خلیفہ ہوا تو مجھے الہام ہوا کہ مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل ہوتی ہیں“.اس دفعہ میں نے یہ الہام لکھ کر قادیان والوں کو بھجوا دیا اور ان کو توجہ دلائی کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرو اور دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ وہ برکتیں تم پر ہمیشہ نازل کرتا رہے.اب خلافت کی برکات سے اس علاقہ والوں کو بھی حصہ ملنا شروع ہو گیا ہے.چنانچہ اس علاقہ ملنا ہے.میں کسی زمانہ میں صرف چند ا حمدی تھے مگر اب ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے اور ہمیں امید ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تو وہ ایک دو سال میں پندرہ بیس ہزار ہو جائیں گے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک دفعہ میں نے خدا تعالیٰ سے ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا لیکن اب میں خدا تعالیٰ سے اربوں مانگا کرتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اُس وقت ایک لاکھ روپیہ مانگ کر غلطی کی.اس وقت یورپین اور دوسرے اہم ممالک کا شمار کیا جائے اور ان مقامات کا جائزہ لیا جائے جہاں مسجدوں کی ضرورت ہے تو ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب بن جاتی ہے.اور اگر ان ڈیڑھ سو مقامات پر ایک ایک مسجد بھی بنائی جائے اور ہر ایک مسجد پر ایک ایک لاکھ روپیہ خرچ کیا جائے تو ان پر ڈیڑھ کروڑ روپیہ خرچ ہو جائے گا اور پھر بھی صرف ا

Page 338

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۲ جلد دوم مشہور ممالک میں ایک ایک مسجد بنے گی.پھر ایک ایک لاکھ روپیہ سے ہمارا کیا بنتا ہے.ہمارا صرف مبلغوں کا سالانہ خرچ سوا لاکھ روپیہ کے قریب بنتا ہے اور اگر اس خرچ کو بھی شامل کیا جائے جو بیرونی جماعتیں کرتی ہیں تو یہ خرچ ڈیڑھ دو لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے.غرض میں نے اُس سے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا مگر اُس نے مجھے اس سے بہت زیادہ دیا.اب ہماری صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ تیرہ لاکھ روپیہ کا ہے اور اگر تحریک جدید کا سالانہ بجٹ بھی ملا لیا جائے تو ہمارا سارا بجٹ ۲۲ ،۲۳ لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے پس اگر خدا تعالیٰ میری اس بیوقوفی کی دعا کو قبول کر لیتا تو ہمارا سارا کام ختم ہو جاتا.مگر اللہ تعالیٰ نے کہا ہم تیری اس دعا کو قبول نہیں کرتے جس میں تو نے ایک لاکھ روپیہ مانگا ہے ہم تجھے اس سے بہت زیادہ دیں گے تاکہ سلسلہ کے کام چل سکیں.اب اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو دیکھ کر کہ میں نے ایک لاکھ مانگا تھا مگر اُس نے ۲۲ لاکھ سالانہ دیا میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں ایک کروڑ مانگتا تو ۲۲ کروڑ سالانہ ملتا.ایک ارب مانگتا تو ۲۲ ارب سالا نہ ملتا.ایک کھرب مانگتا تو ۲۲ کھرب سالانہ ملتا اور اگر ایک پدم مانگتا تو ۲۲ پدم سالا نہ ملتا اور اس طرح ہماری جماعت کی آمد امریکہ اور انگلینڈ دونوں کی مجموعی آمد سے بھی بڑھ جاتی.پس خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت سی برکات وابستہ کی ہوئی ہیں تم ابھی بچے ہو تم اپنے باپ دادوں سے پوچھو کہ قادیان کی حیثیت جو شروع زمانہ خلافت میں تھی وہ کیا تھی اور پھر قادیان کو اللہ تعالیٰ نے کس قدر ترقی بخشی تھی.جب میں خلیفہ ہوا تو پیغامیوں نے اس خیال سے کہ جماعت کے لوگ خلافت کو کسی طرح چھوڑ نہیں سکتے یہ تجویز کی کہ کوئی اور خلیفہ بنا لیا جائے.اُن دنوں ضلع سیالکوٹ کے ایک دوست میر عابد علی صاحب تھے.وہ صوفی منش آدمی تھے لیکن بعد میں پاگل ہو گئے تھے ایک دفعہ انہیں خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو خدا تعالیٰ نے وعدے کئے تھے وہ میرے ساتھ بھی ہیں اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ قادیان میں طاعون نہیں آئے گی اس لئے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے برابر ہوں تو خدا تعالیٰ کا یہی وعدہ میرے ساتھ بھی ہے میرے گاؤں میں بھی طاعون نہیں آئے گی.چنانچہ جب طاعون کی وبا

Page 339

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۳ جلد دوم پھوٹی تو انہوں نے اپنے اس خیال کے مطابق اپنے مریدوں سے جو تعداد میں پانچ سات سے زیادہ نہیں تھے کہا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ کر ان کے پاس آ جائیں.چنانچہ وہ ان کے پاس آ گئے لیکن بعد میں انہیں خود طاعون ہو گئی.ان کے مریدوں نے کہا کہ چلو اب جنگل میں چلیں لیکن انہوں نے کہا جنگل میں جانے کی ضرورت نہیں طاعون مجھ پر اثر نہیں کرے گی آخر جب مریدوں نے دیکھا کہ وہ پاگل ہو گئے ہیں تو وہ انہیں ہسپتال میں لے گئے اور وہ اسی جگہ طاعون سے فوت ہو گئے.بہر حال جب بیعت خلافت ہوئی تو پیغامیوں نے سمجھا میر عابد علی صاحب چونکہ صوفی منش آدمی ہیں اور عبادت گزار ہیں اس لئے الوصیت کے مطابق چالیس آدمیوں کا ان کی بیعت میں آ جانا کوئی مشکل امر نہیں چنانچہ مولوی صدر دین صاحب اور بعض دوسرے لوگ رات کو ان کے پاس گئے اور کہا آپ اس بات کے لئے تیار ہو جائیں.چنانچہ وہ اس بات پر آمادہ ہو گئے.اُس وقت مولوی محمد علی صاحب نے دیانتداری سے کام لیا وہ جب اس مجلس سے واپس آگئے جس میں جماعت نے مجھے خلیفہ منتخب کیا تھا تو ان لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ نے بڑی بیوقوفی کی.آپ اگر مجلس میں اعلان کر دیتے کہ میری بیعت کر لو تو چونکہ مرزا محمود احمد صاحب یہ کہہ چکے تھے کہ میں خلیفہ بنا نہیں چاہتا لوگوں نے آپ کی بیعت کر لینی تھی اور ان کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی آپ کی بیعت کر لیتے انہوں نے کہا میں یہ کام کیسے کر سکتا تھا میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ خلافت کی کوئی ضرورت نہیں.بہر حال جب ان لوگوں نے دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب خلیفہ بننے کے لئے تیار نہیں تو انہوں نے جیسا کہ میں نے بتایا ہے میر عابد علی صاحب کو بیعت لینے کے لئے آمادہ کیا اور اس کے بعد وہ ہری کین لے کر ساری رات قادیان میں دو ہزار احمدیوں کے ڈھیروں پر پھرتے رہے لیکن انہیں چالیس آدمی بھی سید عابد علی شاہ صاحب کی بیعت کرنے والے نہ ملے.اُس وقت کے احمدیوں کا ایمان اس قدر پختہ تھا کہ غریب سے غریب احمدی بھی کروڑوں روپیہ پر تھوکنے کے لئے تیار نہیں تھا.وہ نہیں چاہتا تھا کہ جماعت میں فتنہ اور تفرقہ پھیلے.جب انہیں میر عابد علی صاحب کی بیعت کے لئے چالیس آدمی بھی نہ ملے تو وہ مایوس ہو کر واپس چلے گئے.

Page 340

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۴ جلد دوم غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت حقہ کی وجہ سے کئی معجزات دکھائے ہیں.تم دیکھ لو ۱۹۳۴ء میں مجلس احرار نے جماعت پر کس طرح حملہ کیا تھا لیکن وہ اس حملہ میں کس طرح نا کام ہوئے.انہوں نے منہ کی کھائی.پھر ۱۹۴۷ء میں قادیان میں کیسا خطرناک وقت آب لیکن ہم نہ صرف احمدیوں کو بحفاظت نکال لائے بلکہ انہیں لاریوں میں سوار کر کے پاکستان لے آئے.دوسرے لوگ جو پیدل آئے تھے ان میں سے اکثر مارے گئے لیکن قادیان کے رہنے والوں کا بال تک بریکا نہیں ہوا.اب بھی کچھ دن ہوئے مجھے ایک آدمی ملا اس نے مجھے بتایا کہ آپ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ میری اجازت کے بغیر کوئی شخص قادیان سے نہ نکلے.چنانچہ ہم نے تو آپ کے حکم کی تعمیل کی اور وہاں ٹھہرے رہے لیکن میرے ایک رشتہ دار گھبرا کر ایک قافلہ کے ساتھ پیدل آگئے اور راستہ میں ہی مارے گئے.ہم جو وہاں بیٹھے رہے لاریوں میں سوار ہو کر حفاظت سے پاکستان آگئے.اُس وقت اکثر ایسا ہوا کہ پیدل قافلے پاکستان کی طرف آئے اور جب وہ بارڈر کر اس کرنے لگے تو سکھوں نے انہیں آلیا اور وہ مارے گئے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ پیدل قافلہ قادیان سے نکلتے ہی سکھوں کے ہاتھوں مارا گیا اور اگر وہاں سے محفوظ نکل آیا تو بٹالہ آ کر یا فتح گڑھ چوڑیاں کے پاس مارا گیا لیکن وہ میری ہدایت کے مطابق قادیان میں بیٹھے رہے اور میری اجازت کا انتظار کرتے رہے.وہ سلامتی کے ساتھ لاریوں میں سوار ہو کر لاہور آئے.غرض ہر میدان میں خدا تعالیٰ نے جماعت کو خلافت کی برکات سے نوازا ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت انہیں یاد رکھے.مگر بڑی مصیبت یہ ہے کہ لوگ انہیں یاد نہیں رکھتے.پچھلے مہینہ میں ہی میں نے ایک رؤیا دیکھا تھا کہ کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے یا جب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو کس سرعت کے ساتھ آپ کے ساتھ مڑتی ہے یا جب آپ اپنی منزل مقصود کی طرف جائیں تو وہ کس طرح اسی منزل مقصود کو اختیار کر لیتی ہے.اب دیکھو یہ فتنہ بھی جماعت کے لئے ایک آزمائش تھی لیکن بعض لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے

Page 341

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۵ جلد دوم کہ اس میں حصہ لینے والے حضرت خلیفہ اول کے لڑکے ہیں.انہوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بھی آپ کا انکار کیا تھا اور اس انکار کی وجہ سے وہ عذاب الہی سے بچ نہیں سکا.پھر حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی اولاد کے اس فتنہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہمیں کس بات کا خوف ہے اگر وہ فتنہ میں ملوث ہیں تو خدا تعالیٰ ان کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا.شروع شروع میں جب فتنہ اُٹھا تو چند دنوں تک بعض دوستوں کے گھبراہٹ کے خطوط آئے اور انہوں نے لکھا کہ ایک چھوٹی سی بات کو بڑا بنا دیا گیا ہے.اللہ رکھا کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد ساری جماعت اپنے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ان لوگوں سے نفرت کرنے لگ گئی اور مجھے خطوط آنے شروع ہوئے کہ آپ کے اور بھی بہت سے کارنامے ہیں مگر اس بڑھاپے کی عمر میں اور ضعف کی حالت میں جو یہ کارنامہ آپ نے سرانجام دیا ہے یہ اپنی شان میں دوسرے کارناموں سے بڑھ گیا ہے.آپ نے بڑی جرات اور ہمت کے ساتھ ان لوگوں کو ننگا کر دیا ہے جو بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور سلسلہ کو نقصان پہنچانے کے در پے تھے.اس طرح آپ نے جماعت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا ہے.مری میں مجھے ایک غیر احمدی کرنل ملے انہوں نے کہا کہ جو واقعات ۱۹۵۳ء میں احمدیوں پر گزرے تھے وہ اب پھر ان پر گزرنے والے ہیں اس لئے آپ ابھی سے تیاری کر لیں اور میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ ۱۹۵۳ء میں تو پولیس اور ملٹری نے آپ کی حفاظت کی تھی لیکن اب وہ آپ کی حفاظت نہیں کرے گی کیونکہ اُس وقت جو واقعات پیش آئے تھے ان کی وجہ سے وہ ڈرگئی ہے.جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا کرنل صاحب ! پچھلی دفعہ میں نے کون سا تیر مارا تھا جو اب ماروں گا.پچھلی دفعہ بھی خدا تعالیٰ نے ہی جماعت کی حفاظت کے سامان کئے تھے اور اب بھی وہی اس کی حفاظت کرے گا جب میرا خدا زندہ ہے تو مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے.میری اس بات کا کرنل صاحب پر گہرا اثر ہوا چنانچہ جب میں ان کے پاس سے اُٹھا اور دہلیز سے باہر نکلنے لگا تو وہ کہنے لگے فیتھ از بلائنڈ (Faith is Blind) یعنی یقین اور ایمان اندھا ہوتا ہے وہ خطرات کی پرواہ نہیں کرتا جب

Page 342

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۶ جلد دوم کسی شخص میں ایمان پایا جاتا ہو تو ا سے آنے والے مصائب کا کوئی فکر نہیں ہوتا.جب منافقین کا فتنہ اُٹھا تو انہی کرنل صاحب نے ایک احمدی افسر کو جو ان کے قریب ہی رہتے تھے بلایا اور کہا کہ میری طرف سے مرزا صاحب کو کہہ دینا کہ آپ نے یہ کیا کیا ہے؟ اللہ رکھا کی بھلا حیثیت ہی کیا تھی.اس مضمون سے اُسے بلا ضرورت شہرت مل جائے گی.میں نے اس احمدی دوست کو لکھا کہ میری طرف سے کرنل صاحب کو کہہ دینا کہ آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ جماعت پر ۱۹۵۳ء والے واقعات دوبارہ آنے والے ہیں آپ ابھی سے تیاری کر لیں.اب جب کہ میں نے اس بارہ میں کارروائی کی ہے تو آپ نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ آپ خواہ مخواہ فتنہ کو ہوا دے رہے ہیں.جب میں دوبارہ مری گیا تو میں نے اس احمدی دوست سے پوچھا کہ کیا میرا خط آپ کو مل گیا تھا اور آپ نے کرنل صاحب کو میرا پیغام پہنچا دیا تھا انہوں نے کہا ہاں میں نے پیغام دے دیا تھا اور انہوں نے بتایا تھا کہ اب میری تسلی ہو گئی ہے شروع میں میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ معمولی بات ہے لیکن اب جب کہ پیغامی اور غیر احمدی دونوں فتنہ پردازوں کے ساتھ مل گئے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ عقلمندی اور کوئی نہیں تھی کہ آپ نے وقت پر اس فتنہ کو بھانپ لیا اور شرارت کو بے نقاب کر دیا.غرض خدا تعالیٰ ہر فتنہ اور مصیبت کے وقت جماعت کی خود حفاظت فرماتا ہے چنانچہ فتنہ تو اب کھڑا کیا گیا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ۱۹۵۰ء میں ہی کو ئٹہ کے مقام پر مجھے بتا دیا تھا کہ بعض ایسے لوگوں کی طرف سے فتنہ اُٹھایا جانے والا ہے جن کی رشتہ داری میری بیویوں کی طرف سے ہے.چنانچہ دیکھ لو عبد الوہاب میری ایک بیوی کی طرف سے رشتہ دار ہے.میری اس سے جدی رشتہ داری نہیں.پھر میری ایک خواب جنوری ۱۹۳۵ء میں الفضل میں شائع ہو چکی ہے اس میں بتایا گیا تھا کہ میں کسی پہاڑ پر ہوں کہ خلافت کے خلاف جماعت میں ایک فتنہ پیدا ہوا ہے.چنانچہ جب موجودہ فتنہ ظاہر ہوا اُس وقت میں مری میں ہی تھا.پھر اس خواب میں میں نے سیالکوٹ کے لوگوں کو دیکھا جو موقع کی نزاکت سمجھ کر جمع ہو گئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ ان

Page 343

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۷ جلد دوم لوگوں کو بھی دیکھا جو باغی تھے.یہ خواب بھی بڑے شاندار طور پر پوری ہوئی.چنانچہ اللہ رکھا سیالکوٹ کا ہی رہنے والا ہے جب میں نے اس کے متعلق الفضل میں مضمون لکھا تو خود اس کے حقیقی بھائیوں نے مجھے لکھا کہ پہلے تو ہمارا یہ خیال تھا کہ شاید اس پر ظلم ہو رہا ہے لیکن اب میں پتہ لگ گیا ہے کہ وہ پیغامی ہے.اس نے ہمیں جو خطوط لکھے ہیں وہ پیغامیوں کے سے لکھے ہیں پس ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں.ہم خلافت سے وفا داری کا عہد کرتے ہیں.اب دیکھ لو۱۹۳۴ء میں مجھے اس فتنہ کا خیال کیسے آسکتا تھا.پھر ۱۹۵۰ء والی خواب بھی مجھے یاد نہیں تھی.۱۹۵۰ء میں میں جب سندھ سے کوئٹہ گیا تو اپنی ایک لڑکی کو جو بیارتھی ساتھ لے گیا.اس نے اب مجھے یاد کرایا کہ ۱۹۵۰ء میں آپ نے ایک خواب دیکھی تھی جس میں یہ ذکر تھا کہ آپ کے رشتہ داروں میں سے کسی نے خلافت کے خلاف فتنہ اُٹھایا ہے میں نے مولوی محمد یعقوب صاحب کو وہ خواب تلاش کرنے پر مقرر کیا چنانچہ وہ الفضل سے خواب تلاش کر کے لے آئے.اب دیکھو خدا تعالیٰ نے کتنی دیر پہلے مجھے اس فتنہ سے آگاہ کر دیا تھا اور پھر کس طرح یہ خواب حیرت انگیز رنگ میں پورا ہوا.ہماری جماعت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ منافقت کی جڑ کو کاٹنا نہایت ضروری ہوتا ہے.اگر اس کی جڑ کو نہ کاٹا جائے تو وعدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وعملوا الصلحت ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهِيمُ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جماعت سے جو وعدہ فرمایا ہے اس کے پورا ہونے میں شیطان کئی قسم کی رکاوٹیں حائل کر سکتا ہے.دیکھو خدا تعالیٰ کا یہ کتنا شاندار وعدہ تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پورا ہوا.حضرت ابو بکر کی خلافت صرف اڑھائی سال کی تھی لیکن اس عرصہ میں خدا تعالیٰ نے جو تائید و نصرت کے نظارے دکھائے وہ کتنے ایمان افزا تھے.حضرت ابو بکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ادنی غلام تھے لیکن انہوں نے اپنے زمانہ خلافت میں رومی فوجوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا.آخر اڑھائی سال کے عرصہ میں لاکھوں مسلمان تو نہیں ہو گئے تھے.اُس وقت قریباً قریباً وہی مسلمان تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے لیکن خلافت کی برکات

Page 344

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۸ جلد دوم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں میں وہ شان اور اُمنگ اور جرات پیدا کی کہ انہوں نے اپنے مقابل پر بعض اوقات دو دو ہزار گنا زیادہ تعداد کے لشکر کو بُری طرح شکست کھانے پر مجبور کر دیا.اس کے بعد حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا تو آپ نے ایک طرف رومی سلطنت کو شکست دی تو دوسری طرف ایران کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر کے رکھ دیا.پھر حضرت عثمان کی خلافت کا دور آیا اس دور میں اسلامی فوج نے آذربائیجان تک کا علاقہ فتح کر لیا اور پھر بعض مسلمان افغانستان اور ہندوستان آئے اور بعض افریقہ چلے گئے اور ان ممالک میں انہوں نے اسلام کی اشاعت کی ، یہ سب خلافت کی ہی برکات تھیں.یہ برکات کیسے ختم ہوئیں؟ یہ اسی لئے ختم ہوئیں کہ حضرت عثمان کے آخری زمانہ خلافت میں مسلمانوں کا ایمان بالخلافت کمزور ہو گیا اور اُنہوں نے خلافت کو قائم رکھنے کے لئے صحیح کوشش اور جد و جہد کو ترک کر دیا.اس پر اللہ تعالیٰ نے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ کا وعدہ واپس لے لیاتی لیکن عیسائیوں میں دیکھ لو ۱۹۰۰ سال سے برا بر خلافت چلی آ رہی ہے اور آئندہ بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے.آخر یہ تفاوت کیوں ہے اور کیوں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت ۳۰ سال کے عرصہ میں ختم ہو گئی ؟ اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں نے خلافت کی قدر نہ کی اور اس کی خاطر قربانی کرنے سے انہوں نے دریغ کیا.جب باغیوں نے حضرت عثمان پر حملہ کیا تو آپ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اے لوگو! میں وہی کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کیا کرتے تھے میں نے کوئی نئی بات نہیں کی.لیکن تم فتنہ پرداز لوگوں کو اپنے گھروں میں آنے دیتے ہو اور ان سے باتیں کرتے ہو اس سے یہ لوگ دلیر ہو گئے ہیں لیکن تمہاری اس غفلت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خلافت کی برکات ختم ہو جائیں گی اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا.اب دیکھ لو وہی ہوا جو حضرت عثمان نے فرمایا تھا.حضرت عثمان کا شہید ہونا تھا کہ مسلمان بکھر گئے اور آج تک وہ جمع نہیں ہوئے.ایک زمانہ وہ تھا کہ جب روم کے بادشاہ نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ میں اختلاف دیکھا تو اُس نے چاہا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے ایک لشکر بھیجے.اُس

Page 345

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۹ جلد دوم وقت رومی سلطنت کی ایسی ہی طاقت تھی جیسی اس وقت امریکہ کی ہے.اُس کی لشکر کشی کا ارادہ دیکھ کر ایک پادری نے جو بڑا ہوشیار تھا کہا بادشاہ سلامت! آپ میری بات سن لیں اور لشکر کشی کرنے سے اجتناب کریں یہ لوگ اگر چہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن آپ کے مقابلہ میں متحد ہو جائیں گے اور باہمی اختلافات کو بھول جائیں گے.پھر اس نے کہا آپ دو کتے منگوائیں اور انہیں ایک عرصہ تک بھوکا رکھیں پھر ان کے آگے گوشت ڈال دیں.وہ آپس میں لڑنے لگ جائیں گے.اگر آپ انہی کتوں پر شیر چھوڑ دیں تو وہ دونوں اپنے اختلافات کو بھول کر شیر پر جھپٹ پڑیں گے.اس مثال سے اس نے یہ بتایا کہ تو چاہتا ہے کہ اس وقت حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ کے اختلاف سے فائدہ اُٹھالے لیکن میں یہ بتا دیتا ہوں کہ جب بھی کسی بیرونی دشمن سے لڑنے کا سوال پیدا ہوگا یہ دونوں اپنے باہمی اختلافات کو بھول جائیں گے اور دشمن کے مقابلہ میں متحد ہو جائیں گے اور ہوا بھی یہی.جب حضرت معاویہ گو روم کے بادشاہ کے ارادہ کا علم ہوا تو آپ نے اُسے پیغام بھیجا کہ تو چاہتا ہے کہ ہمارے اختلاف سے فائدہ اُٹھا کر مسلمانوں پر حملہ کرے لیکن میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میری حضرت علیؓ کے ساتھ بے شک لڑائی ہے لیکن اگر تمہارا لشکر حملہ آور ہوا تو حضرت علی کی طرف سے اس لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے جو سب سے پہلا جرنیل نکلے گا وہ میں ہونگا.اب دیکھ لو حضرت معاویہ حضرت علیؓ سے اختلاف رکھتے تھے لیکن اس اختلاف کے باوجود انہوں نے رومی بادشاہ کو ایسا جواب دیا جو اس کی امیدوں پر پانی پھیر نے والا تھا لیکن حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی اولاد کا یہ حال ہے کہ انہیں اتنی بھی توفیق نہ ملی کہ پیغامیوں سے کہتے کہ تم تو ساری عمر ہمارے باپ کو گالیاں دیتے رہے ہو پھر ہمارا تم سے کیا تعلق ہے.انہیں وہ گالیاں بھول گئیں جو ان کے باپ کو دی گئی تھیں اور چپ کر کے بیٹھے رہے.انہوں نے ان کی تردید نہ کی اور تردید بھی انہوں نے اس لئے نہ کی کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو شاید پیغامی ہماری تائید نہ کریں حالانکہ اگر ان کے اندر ایمان ہوتا تو یہ لوگ کہتے ہمارا ان لوگوں سے کیا تعلق ہے.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی وہ تقاریر موجود ہیں جن میں آپ نے بیان فرمایا ہے کہ یہ لوگ مجھے خلافت سے دستبردار کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ کون ہیں مجھے

Page 346

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۰ جلد دوم دستبردار کرنے والے مجھے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اس لئے وہی خلافت کی حفاظت کرے گا.اگر یہ لوگ میری بات نہیں سنتے تو اپنے باپ کی بات تو سن لیتے.وہ کہتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اب کسی شخص یا جماعت کی طاقت نہیں کہ وہ مجھے معزول کر سکے.اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے پھر یہ لوگ مجھے معزول کیسے کر سکتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک جماعت کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کر دیا تھا اور اُس وقت جمع کر دیا تھا جب تمام بڑے بڑے احمدی میرے مخالف ہو گئے تھے اور کہتے تھے کہ اب خلافت ایک بچے کے ہاتھ میں آ گئی ہے اس لئے جماعت آج نہیں تو کل تباہ ہو جائے گی لیکن اس بچہ نے ۴۲ سال تک پیغامیوں کا مقابلہ کر کے جماعت کو جس مقام تک پہنچایا وہ تمہارے سامنے ہے.شروع میں ان لوگوں نے کہا تھا کہ ۹۸ فیصدی احمدی ہمارے ساتھ ہیں لیکن اب وہ دکھائیں کہ جماعت کا ۹۸ فیصدی جو اُن کے ساتھ تھا کہاں ہے.کیا وہ ۹۸ فیصدی احمدی ملتان میں ہیں ، لاہور میں ہیں، پشاور میں ہیں، کراچی میں ہیں ؟ آخر وہ کہاں ہیں؟ کہیں بھی دیکھ لیا جائے ان کے ساتھ جماعت کے دو فیصدی بھی نہیں نکلیں گے.مولوی نور الحق صاحب انور مبلغ امریکہ کی الفضل میں چٹھی چھپی ہے کہ عبدالمنان نے ان سے ذکر کیا کہ پشاور سے بہت سے پیغامی انہیں لینے کے لئے آئے ہیں اور وہ ان کا بہت ادب اور احترام کرتے ہیں لیکن کچھ دن ہوئے امیر جماعت احمد یہ پشاور یہاں آئے میں نے انہیں کہا کہ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کا جواب چھپا ہے آپ وہ کیوں نہیں خرید تے تو انہوں نے کہا پشاور میں دو سے زیادہ پیغامی نہیں ہیں لیکن ان کے مقابل پر وہاں ہماری دو مساجد بن چکی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت وہاں کثرت سے پھیل رہی ہے پیغامیوں کا وہاں یہ حال ہے کہ شروع شروع میں وہاں احمدیت کے لیڈر پیغامی ہی تھے لیکن اب بقول امیر صاحب جماعت احمد یہ پشا ور وہاں دو پیغامی ہیں.پس میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی اولا د کسی لالچ میں آگئی ہے.کیا صرف ایک مضمون کا پیغام صلح میں چھپ جانا ان کیلئے لالچ کا موجب ہو گیا ؟ اگر یہی ہوا ہے تو یہ کتنی ذلیل بات ہے.اگر پاکستان کی حکومت یہ کہہ دیتی کہ ہم حضرت خلیفہ اول کی

Page 347

خلافة على منهاج النبوة ٣٣١ جلد دوم اولاد کو مشرقی پاکستان کا صوبہ دے دیتے ہیں یا وہ کہتے کہ انہیں مغربی پاکستان دے دیتے ہیں تب تو ہم سمجھ لیتے کہ انہوں نے اس لالچ کی وجہ سے جماعت میں تفرقہ اور فساد پیدا کرنا منظور کر لیا ہے لیکن یہاں تو یہ لالچ بھی نہیں.حضرت خلیفہ اول ایک مولوی کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ اس نے ایک شادی شدہ لڑکی کا نکاح کسی دوسرے مرد سے پڑھ دیا.لوگ حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل کے پاس آئے اور کہنے لگے فلاں مولوی جو آپ سے ملنے آیا کرتا ہے اس نے فلاں شادی شدہ لڑکی کا نکاح فلاں مرد سے پڑھ دیا ہے.مجھے اس سے بڑی حیرت ہوئی اور میں نے کہا کہ اگر وہ مولوی صاحب مجھے ملنے آئے تو میں ان سے ضرور دریافت کروں گا کہ کیا بات ہے؟ چنانچہ جب وہ مولوی صاحب مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے ان سے ذکر کیا کہ آپ کے متعلق میں نے فلاں بات سنی ہے میرا دل تو نہیں مانتا لیکن چونکہ یہ بات ایک معتبر شخص نے بیان کی ہے اس لئے میں اس کا ذکر آپ سے کر رہا ہوں کیا یہ بات درست ہے کہ آپ نے ایک شادی شدہ عورت کا ایک اور مرد سے نکاح کر دیا ہے ؟ وہ کہنے لگا مولوی صاحب تحقیقات سے پہلے بات کرنی درست نہیں ہوتی.آپ پہلے مجھ سے پوچھ تو لیں کہ کیا بات ہوئی ؟ میں نے کہا اسی لئے تو میں نے اس بات کا آپ سے ذکر کیا ہے.اس پر وہ کہنے گا بے شک یہ درست ہے کہ میں نے ایک شادی شدہ عورت کا دوسری جگہ نکاح پڑھ دیا ہے لیکن مولوی صاحب ! جب اُنہوں نے میرے ہاتھ پر چڑیا جتنا رو پہیہ رکھ دیا تو پھر میں کیا کرتا.پس اگر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولا د کو حکومت پاکستان یہ لالچ دے دیتی کہ مشرقی پاکستان یا مغربی پاکستان تمہیں دے دیا جائے گا تو ہم سمجھ لیتے کہ یہ مثال ان پر صادق آ جاتی ہے جس طرح اُس مولوی نے روپیہ دیکھ کر خلاف شریعت نکاح پر نکاح پڑھ دیا تھا انہوں نے بھی لالچ کی وجہ سے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہاں تو چڑیا چھوڑ انہیں کسی نے مردہ مچھر بھی نہیں دیا.حالانکہ یہ اولاد اس عظیم الشان باپ کی ہے جو اِس قد رحوصلہ کا مالک تھا کہ ایک دفعہ جب آپ قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مجھے آپ کے متعلق الہام ہوا ہے کہ اگر آپ اپنے وطن گئے تو اپنی عزت کھو بیٹھیں گے.اس پر آپ نے وطن واپس جانے کا

Page 348

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۲ جلد دوم نام تک نہ لیا.اُس وقت آپ اپنے وطن بھیرہ میں ایک شاندار مکان بنارہے تھے جب میں بھیرہ گیا تو میں نے بھی یہ مکان دیکھا تھا.اُس میں آپ ایک شاندار ہال بنوا ر ہے تھے تا کہ اس میں بیٹھ کر درس دیں اور مطب بھی کیا کریں.موجودہ زمانہ کے لحاظ سے تو وہ مکان زیادہ حیثیت کا نہ تھا لیکن جس زمانہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے یہ قربانی کی تھی اُس وقت جماعت کے پاس زیادہ مال نہیں تھا.اُس وقت اس جیسا مکان بنانا بھی ہر شخص کا کام نہیں تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے بعد آپ نے واپس جا کر اس مکان کو دیکھا تک نہیں.بعض دوستوں نے کہا بھی کہ آپ ایک دفعہ جا کر مکان تو دیکھ آئیں لیکن آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑ دیا ہے اب اسے دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں.ایسے عظیم الشان باپ کی اولاد ایک مردہ مچھر سے بھی حقیر چیز پر آگری.پھر دیکھو حضرت خلیفۃ اصبح الا ول تو اس شان کے انسان تھے کہ وہ اپنا عظیم الشان ہے مکان چھوڑ کر قادیان آ گئے لیکن آپ کے پوتے کہتے ہیں کہ قادیان میں ہمارے دادا کی بڑی جائداد تھی جو ساری کی ساری مرزا صاحب کی اولاد نے سنبھال لی ہے.حالانکہ جماعت کے لاکھوں آدمی قادیان میں جاتے رہے ہیں اور ہزاروں وہاں رہے ہیں اب بھی کئی لوگ قادیان گئے ہیں انہیں پتہ ہے کہ وہاں حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل کا صرف ایک کچا مکان تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی بڑی جائداد تھی مگر وہ جائداد مادی نہیں بلکہ روحانی تھی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور ہر احمدی کے دل میں آپ کا ادب و احترام پایا جاتا ہے.لیکن اس کے باوجود اگر آپ کی اولا دخلافت کے مقابلہ میں کھڑی ہوگی تو ہر مخلص احمدی انہیں نفرت سے پرے پھینک دے گا اور ان کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کرے گا.آخر میں خدام کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خلافت کی برکات کو یا درکھیں.اور کسی چیز کو یا درکھنے کے لئے پرانی قوموں کا یہ دستور ہے کہ وہ سال میں اس کے لئے خاص طور پر ایک دن مناتی ہیں.مثلاً شیعوں کو دیکھ لو وہ سال میں ایک دفعہ تعزیہ نکالتے ہیں تا قوم کو

Page 349

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۳ جلد دوم شہادت حسین کا واقعہ یادر ہے.اسی طرح میں بھی خدام کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سال میں ایک دن خلافت ڈے کے طور پر منایا کریں.اس میں وہ خلافت کے قیام پر خدا تعالیٰ کا شکر یہ ادا کیا کریں اور اپنی پرانی تاریخ کو دہرایا کریں.پرانے اخبارات کا ملنا تو مشکل ہے لیکن الفضل نے پچھلے دنوں ساری تاریخ کو از سرنو بیان کر دیا ہے.اس میں وہ گالیاں بھی آگئی ہیں جو پیغامی لوگ حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کو دیا کرتے تھے اور خلافت کی تائید میں حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے جو دعوے کئے ہیں وہ بھی نقل کر دیئے گئے ہیں تم اس موقع پر اخبارات سے یہ حوالے پڑھ کر سناؤ.اگر سال میں ایک دفعہ خلافت ڈے منا لیا جایا کرے تو ہر سال چھوٹی عمر کے بچوں کو پُرانے واقعات یاد ہو جایا کریں گے.پھر تم یہ جلسے قیامت تک کرتے چلے جاؤ تا جماعت میں خلافت کا ادب اور اس کی اہمیت قائم رہے.حضرت مسیح علیہ السلام کی خلافت ۱۹۰۰ سال سے برابر قائم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو درجہ میں ان سے بڑے ہیں خدا کرے ان کی خلافت دس ہزار سال تک قائم رہے مگر یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ تم سال میں ایک دن اس غرض کے لئے خاص طور پر منانے کی کوشش کرو.میں مرکز کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ بھی ہر سال سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کی طرح خلافت ڈے منایا کرے اور ہر سال یہ بتایا کرے کہ جلسہ میں ان مضا مین پر تقاریر کی جائیں.الفضل سے مضامین پڑھ کر نو جوانوں کو بتایا جائے کہ حضرت خلیفہ مسیح الاوّل نے خلافتِ احمدیہ کی تائید میں کیا کچھ فرمایا ہے اور پیغامیوں نے اس کے رڈ میں کیا کچھ لکھا ہے.اسی طرح وہ رو یا وکشوف بیان کئے جایا کریں جو وقت سے پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے دکھائے اور جن کو پورا کر کے خدا تعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ اس کی برکات اب بھی خلافت ( الفضل ۲۸ اپریل اور یکم مئی ۱۹۵۷ء) سے وابستہ ہیں." النور: ۵۶

Page 350

Page 351

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۵ جلد دوم صحابہ کرام کی فدائیت اور اُن کا اخلاص و ایثار ۲۶ اکتوبر ۱۹۵۶ء کو مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع منعقدہ ربوہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے حسب ذیل افتتاحی تقریر فرمائی.تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی ↓ تلاوت فرمائی.يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا انْصَارَ اللهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللهِ ، قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ الله اس کے بعد فر ما یا :.آپ لوگوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے یہ نام قرآنی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے اور احمدیت کی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے.قرآنی تاریخ میں ایک دفعہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں چنانچہ جب آپ نے فرمایا من انصاري إلی اللہ تو آپ کے حواریوں نے کہا نَحْنُ انْصَارُ الله کہ ہم اللہ تعالیٰ کے انصار ہیں.دوسری جگہ اللہ تعالی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ مہاجرین کا تھا اور ایک گروہ انصار کا تھا.گویا یہ نام قرآنی تاریخ میں دو دفعہ آیا ہے.ایک جگہ پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق آیا ہے اور ایک جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ایک حصہ کو انصار کہا گیا ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی انصار اللہ کا دو جگہ ذکر آتا ہے.ایک دفعہ جب حضرت خلیفہ اول کی پیغامیوں نے مخالفت کی تو میں نے انصار اللہ کی ایک جماعت قائم کی.اور دوسری دفعہ جب جماعت کے بچوں ، نوجوانوں ، بوڑھوں اور عورتوں کی تنظیم کی گئی تو

Page 352

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۶ جلد دوم چالیس سال سے اوپر کے مردوں کی جماعت کا نام انصار اللہ رکھا گیا گویا جس طرح قرآن کریم میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے اسی طرح جماعت احمدیہ میں بھی دو زمانوں میں دو جماعتوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا.پہلے جن لوگوں کا نام انصا انصار اللہ رکھا گیا ان میں سے اکثر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ تھے.کیونکہ یہ جماعت ۱۴.۱۹۱۳ء میں بنائی گئی تھی اور اُس وقت اکثر صحابہ زندہ تھے اور اس جماعت میں بھی اکثر وہی شامل تھے.اسی طرح قرآن کریم میں بھی جن انصار کا ذکر آتا ہے ان میں زیادہ تر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ شامل تھے.دوسری دفعہ جماعت احمدیہ میں آپ لوگوں کا نام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیا ہے جس طرح قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ادنی نبی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے.آپ لوگوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کم ہیں اور زیادہ حصہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے میری بیعت کی ہے اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام والی بات بھی پوری ہو گئی یعنی جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا تھا اسی طرح مثیل مسیح موعود کے ساتھیوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے گویا قرآنی تاریخ میں بھی دو زمانوں میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اب بھی زندہ ہیں مگر اب ان کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی ہے.صحابی اُس شخص کو بھی کہتے ہیں جو نبی کی زندگی میں اس کے سامنے آگیا ہو.گویا زیادہ تر یہ لفظ انہی لوگوں پر اطلاق پاتا ہے جنہوں نے نبی کی صحبت سے فائدہ اُٹھایا ہو اور اُس کی باتیں سنی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰۸ء میں فوت ہوئے ہیں اس لئے وہ شخص بھی آپ کا صحابی کہلا سکتا ہے جس نے خواہ آپ کی صحبت سے فائدہ نہ اُٹھایا ہولیکن آپ کے زمانہ میں پیدا ہوا ہو اور اُس کا باپ اُسے اُٹھا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے سامنے لے گیا ہولیکن یہ ادنی درجہ کا صحابی ہوگا.اعلیٰ درجہ کا صحابی وہی ہے جس نے آپ کی صحبت سے فائدہ اُٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں.اور جن لوگوں نے آپ کی صحبت سے فائدہ

Page 353

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۷ جلد دوم اُٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں ان کی تعداد اب بہت کم رہ گئی ہے اب صرف تین چار آدمی ہی ایسے رہ گئے ہیں جن کے متعلق مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے فائدہ اُٹھایا اور آپ کی باتیں سنی ہیں.ممکن ہے اگر زیادہ تلاش کیا جائے تو ان کی تعداد تھیں چالیس تک پہنچ جائے.اب ہماری جماعت لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں اگر ایسے تمہیں چالیس صحابہ بھی ہوں تب بھی یہ تعداد بہت کم ہے اس وقت جماعت میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایسے شخص کی بیعت کی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا متبع تھا اور ان کا نام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیا جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا تھا.حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّباعی سے کہ اگر موسیٰ اور عیسی علیهما السلام میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو وہ میرے متبع ہوتے.غرض اس وقت جماعت کے انصاراللہ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک متبع اور مثیل کے ذریعہ اسلام کی خدمت کا موقع ملا اور وہ آپ لوگ ہیں.گویا حضرت عیسی علیہ السلام کی مثال آپ لوگوں میں پائی جاتی ہے.جس طرح ان کے حواریوں کو انصار اللہ کہا گیا تھا اسی طرح مثیل مسیح موعود کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے.پھر آپ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے انصار کی بات بھی پائی جاتی ہے.یعنی جس طرح انصار اللہ میں وہی لوگ شامل تھے جو آپ کے صحابہ تھے اسی طرح آپ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ شامل ہیں.گویا آپ لوگوں میں دونوں مثالیں پائی جاتی ہیں.آپ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے صحابہ بھی ہیں جنہیں انصار اللہ کہا جاتا ہے جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو انصار کہا گیا.پھر جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنا متبع قرار دیا ہے اور ان کے صحابہ کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک متبع کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے.شاید بعض لوگ یہ سمجھیں کہ یہ درجہ کم ہے لیکن چالیس سال اور گزر گئے

Page 354

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۸ جلد دوم تو اس زمانہ کے لوگ تمہارے زمانہ کے لوگوں کو بھی تلاش کریں گے.اور اگر چالیس سال اور گزر گئے تو اس زمانہ کے لوگ تمہارے ملنے والوں کو تلاش کریں گے اسلامی تاریخ میں صحابہ کے ملنے والوں کو تابعی کہا گیا ہے.کیونکہ وہ صحابہ کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہو گئے تھے.اور ایک تبع تابعی کا درجہ ہے.یعنی وہ لوگ جو تابعین کے ذریعہ صحابہ کے قریب ہوئے اور آگے صحابہ کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے قریب ہوئے.اس طرح تین درجے بن گئے.ایک صحابی دوسرے تابعی اور تیسرے تبع تابعی.صحابی وہ جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فائدہ اُٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں.تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سننے والوں کو دیکھا اور تبع تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سننے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا.دُنیوی عاشق تو بہت کم حوصلہ ہوتے ہیں.کسی شاعر نے کہا ہے.تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں مرا دل پھیر دو مجھ سے جھگڑا ہو نہیں سکتا مگر مسلمانوں کی محبت رسول دیکھو جب محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے صحابہ فوت ہوئے تو انہوں نے آپ سے قریب ہونے کے لئے تابعی کا درجہ نکال لیا.اور جب تابعی ختم ہو گئے تو انہوں نے تبع تابعین کا درجہ نکال لیا.اس شاعر نے تو کہا تھا تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا مگر یہاں یہ صورت ہوگئی کہ تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں اور پھر ان کے چاہنے والوں کو بھی چاہوں.اور پھر تیرہ سو سال تک برابر چاہتا چلا جاؤں.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا بلکہ انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! ہم آپ کے چاہنے والوں کو چاہتے ہیں چاہے وہ صحابی ہوں ، تابعی ہوں ، تبع تابعی ہوں یا تبع تبع تابعی ہوں اور ان کے بعد یہ سلسلہ خواہ کہاں

Page 355

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۹ جلد دوم تک چلا جائے ہم کو وہ سب لوگ پیارے لگتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ ہم کسی نہ کسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو جاتے ہیں.محد ثین کو اس بات پر بڑا فخر ہوتا تھا کہ وہ تھوڑی سی سندات سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے ہیں.حضرت خلیفتہ المسح الا قول فرمایا کرتے تھے کہ میں گیارہ بارہ راویوں کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچتا ہوں.آپ کو بعض ایسے اساتذہ مل گئے تھے جو آپ کو گیارہ بارہ راویوں کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے تھے.اور آپ اس بات پر بڑا فخر کیا کرتے تھے.اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع نے آپ کی صحابیت کو بارہ تیرہ درجوں تک پہنچا دیا ہے اور اس پر فخر کیا ہے تو آپ لوگ یا صحابی ہیں یا تابعی ہیں ابھی تبع تابعین کا وقت نہیں آیا.ان دونوں در جوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزت بخشی ہے.اس عزت میں کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انصار کا ذکر فرمایا ہے اور پھر ان کی قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند تھیں.چنانچہ جب ہم انصار کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ایسی قربانیاں کی ہیں کہ اگر آپ لوگ جو انصار اللہ ہیں ان کے نقش قدم پر چلیں تو یقیناً اسلام اور احمدیت دور دور تک پھیل جائے.اور اتنی طاقت پکڑ لے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابل پر نہ ٹھہر سکے.تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو شہر کی تمام عورتیں اور بچے باہر نکل آئے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کیلئے جاتے ہوئے خوشی سے گاتے چلے جاتے تھے کہ طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّةِ الْوِدَاع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس جہت سے مدینہ میں داخل ہوئے وہی جہت تھی جہاں سے قافلے اپنے رشتہ داروں سے رخصت ہوا کرتے تھے اسی لئے انہوں نے اس موڑ کا نام ثنية الوداع رکھا ہوا تھا یعنی وہ موڑ جہاں سے قافلے رخصت ہوتے ہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس موڑ سے مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینہ کی عورتوں اور بچوں نے یہ گاتے

Page 356

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۰ جلد دوم ہوئے آپ کا استقبال کیا طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّةِ الْوِدَاع یعنی ہم لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ جس موڑ سے مدینہ کے رہنے والے اپنے رشتہ داروں کو رخصت کیا کرتے تھے اس موڑ سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے بدر یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظاہر کر دیا ہے پس ہمیں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل ہے اس لئے کہ وہ تو اس جگہ جا کر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو رخصت کرتے ہیں لیکن ہم نے وہاں جا کر سب سے زیادہ محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وصول کیا ہے.پھر ان لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھیرا ڈال لیا.اور ان میں سے ہر شخص کی خواہش تھی کہ آپ اس کے گھر میں ٹھہر ہیں.جس جس گلی میں سے آپ کی اونٹنی گزرتی تھی اس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے یا رَسُول اللہ ! یہ ہمارا گھر ہے جو آپ کی خدمت کیلئے حاضر ہے.یا رسول ! آپ ہمارے پاس ہی ٹھہریں.بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تا کہ آپ کو اپنے گھر میں اُتروا لیں.مگر آپ ہر شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے یہ وہیں کھڑی ہوگی جہاں خدا تعالیٰ کا منشا ہو گا.آخر وہ ایک جگہ پر کھڑی ہوگئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے قریب گھر کس کا ہے؟ حضرت ابوایوب انصاری نے فرمایا يَا رَسُولَ اللهِ! میرا گھر سب سے قریب ہے اور آپ کی خدمت کیلئے حاضر ہے.حضرت ابوایوب کا مکان دو منزلہ تھا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اوپر کی منزل تجویز کی مگر آپ نے اس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہوگی نچلی منزل کو پسند فرمایا.حضرت ابوایوب انصاری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر مان تو گئے کہ آپ نچلی منزل میں ٹھہریں لیکن ساری رات میاں بیوی اس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نیچے سورہے ہیں پھر وہ کس طرح اس بے ادبی کے مرتکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں.اتفاقاً اُسی رات ان سے پانی کا ایک برتن گر گیا.

Page 357

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۱ جلد دوم حضرت ابو ایوب انصاری نے دوڑ کر اپنا لحاف اُس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کو خشک کیا تا کہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے.صبح کے وقت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارے حالات عرض کئے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوپر کی منزل پر رہنے پر راضی ہو گئے.اب دیکھو یہ اُس عشق کی ایک ادنی سی مثال ہے جو صحابہ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا.پھر یہ واقعہ کتنا شاندار ہے کہ جب جنگ اُحد ختم ہوئی اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کو اس بات پر مامور فرمایا کہ وہ میدانِ جنگ میں جائیں اور زخمیوں کی خبر لیں.ایک صحابی میدان میں تلاش کرتے کرتے ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے.دیکھا کہ اُن کی حالت نازک ہے اور وہ جان توڑ رہے ہیں.اس نے زخمی انصاری سے ہمدردی کا اظہار کرنا شروع کیا.انہوں نے اپنا کا نپتا ہوا ہاتھ مصافحہ کیلئے آگے بڑھایا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا میں انتظار کر رہا تھا کہ کوئی بھائی مجھے مل جائے.انہوں نے اس صحابی سے پوچھا کہ آپ کی حالت خطر ناک معلوم ہوتی ہے اور بچنے کی امید نہیں کیا کوئی پیغام ہے جو آپ اپنے رشتہ داروں کو دینا چاہتے ہوں ؟ اس مرنے والے صحابی نے کہا ہاں ہاں میری طرف سے میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اور انہیں کہنا کہ میں تو مر رہا ہوں مگر میں اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑے جا رہا ہوں میں جب تک زندہ رہا اس نعمت کی اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر بھی حفاظت کرتا رہا لیکن اب اے میرے بھائیو اور رشتہ دارو! میں اب مر رہا ہوں اور خدا تعالیٰ کی یہ مقدس امانت تم میں چھوڑ رہا ہوں میں آپ سب کو اس کی حفاظت کی نصیحت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اگر آپ سب کو اس کی حفاظت کے سلسلہ میں اپنی جانیں بھی دینی پڑیں تو آپ اس سے دریغ نہیں کریں گے اور میری اس آخری وصیت کو یا درکھیں گے.مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے اندر ایمان موجود ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ سب کو محبت ہے اس لئے تم ضرور آپ کے وجود کی حفاظت کیلئے ہرممکن قربانی کرو گے اور اس کیلئے اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرو گے.۵

Page 358

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۲ جلد دوم اب دیکھو ایک شخص مر رہا ہے اسے اپنی زندگی کے متعلق یقین نہیں وہ مرتے وقت اپنے بیوی بچوں کو سلام نہیں بھیجتا، انہیں کوئی نصیحت نہیں کرتا بلکہ وہ اگر کوئی پیغام بھیجتا ہے تو یہی کہ اے میری قوم کے لوگو! تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں کوتا ہی نہ کرنا.ہم جب تک زندہ رہے اس فرض کو نبھاتے رہے اب آپ کی حفاظت آپ لوگوں کے ذمہ ہے آپ کو اس کے رستہ میں اپنی جانوں کی قربانی بھی پیش کرنی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں.میری تم سے یہی آخری خواہش ہے اور مرتے وقت میں تمہیں اس کی نصیحت کرتا ہوں.یہ تھا وہ عشق و محبت جو صحابہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا.وہ پھر جب آپ بدر کی جنگ کیلئے مدینہ سے صحابہ سمیت باہر نکلے تو آپ نے نہ چاہا کہ کسی شخص کو اس کی مرضی کے خلاف جنگ پر مجبور کیا جائے چنانچہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ وہ اس بارہ میں آپ کو مشورہ دیں کہ فوج کا مقابلہ کیا جائے یا نہ کیا جائے.ایک کے بعد دوسرا مہاجر کھڑا ہوا اور اس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ آیا ہے تو ہم اس سے ڈرتے نہیں ہم اس کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں.آپ ہر ایک کا جواب سن کر یہی فرماتے چلے جاتے کہ مجھے اور مشورہ دو مجھے اور مشورہ دو.مدینہ کے لوگ اُس وقت تک خاموش تھے اس لئے کہ حملہ آور فوج مہاجرین کی رشتہ دار تھی و ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ ان کی بات سے مہاجرین کا دل دُکھے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری سردار کھڑے ہوئے اور عرض کیا يَا رَسُولَ اللهِ! مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے مگر پھر بھی جو آپ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم انصار سے ہے.آپ نے فرمایا ہاں.اس سردار نے جواب میں کہا - يَا رَسُولَ اللهِ ! شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب فرمارہے ہیں کہ آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے مدینہ سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے.لیکن اس وقت آپ مدینہ سے باہر تشریف لے آئے ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا.ہاں یہ درست ہے.اس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! جس وقت وہ |

Page 359

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۳ جلد دوم معاہدہ ہوا تھا اُس وقت تک ہم پر آپ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب ہم پر آپ کا مرتبہ اور آپ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے.اس لئے يَا رَسُولَ اللهِ! اب اس معاہدہ کا کوئی سوال ہی نہیں.ہم موسی" کے ساتھیوں کی طرح آپ کو یہ نہیں کہیں گے کہ فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلا انا ههنا قَاعِدُونَ.کہ تو اور تیرا رب جاؤ اور دشمن سے جنگ کرتے پھر وہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے.اور يَا رَسُولَ اللهِ! دشمن جو آپ کو نقصان پہنچانے کیلئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا.جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گذرے.کے پھر اس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! جنگ تو ایک معمولی بات ہے یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے ( بدر سے چند منزلوں کے فاصلہ پر سمندر تھا اور عرب تیر نا نہیں جانتے تھے اس لئے پانی سے بہت ڈرتے تھے ) آپ ہمیں سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دینے کا حکم دیجئے ہم بلا چون و چرا اس میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے تو یہ وہ فدائیت اور اخلاص کا نمونہ تھا جس کی مثال کسی سابق نبی کے ماننے والوں میں نہیں ملتی.اس مشورہ کے بعد آپ نے دشمن سے لڑائی کرنے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کو نمایاں فتح عطا فرمائی.حضرت مسیح ناصری کے انصار کی وہ شان نہیں تھی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار کی تھی لیکن پھر بھی وہ اس وقت تک آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور یہ ان کی ایک بہت بڑی خوبی ہے مگر تم میں سے بعض لوگ پیغامیوں کی مدد کے لالچ میں آگئے اور انہوں نے خلافت کو مٹانے کی کوششیں شروع کر دیں اور زیادہ تر افسوس یہ ہے کہ ان لوگوں میں اس عظیم الشان بارپ کی اولا د بھی شامل ہے جس کو ہم بڑی قدر اور عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات پر ۴۲ سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر میں ہر قربانی کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں.تحریک جدید ۱۹۳۴ء سے شروع ہے اور اب ۱۹۵۶ء ہے گویا اس پر ۲۲ سال کا عرصہ گزر گیا ہے.شاید حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی اولا د خود بھی اس میں حصہ نہ لیتی ہو لیکن میں ہر سال آپ کی طرف سے اس میں چندہ دیتا ہوں تا کہ آپ کی روح کو بھی اس کا ثواب پہنچے.

Page 360

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۴ جلد دوم پھر جب میں حج پر گیا تو اُس وقت بھی میں نے آپ کی طرف سے قربانی کی تھی اور اب تک ہر عید کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا چلا آیا ہوں.غرض ہمارے دل میں حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی بڑی قدر اور عظمت ہے لیکن آپ کی اولا د نے جو نمونہ دکھایا وہ تمہارے سامنے ہے.اس کے مقابلہ میں تم حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو دیکھو کہ وہ آج تک آپ کی خلافت کو سنبھالے چلے آتے ہیں ہم تو اس مسیح کے صحابہ اور انصار ہیں جس کو مسیح ناصری پر فضیلت دی گئی ہے مگر ہم جو افضل باپ کے روحانی بیٹے ہیں ہم میں سے بعض لوگ چند روپوں کی لالچ میں آگئے.شاید اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ مماثلت بھی پوری ہوئی تھی کہ جیسے آپ کے ایک حواری یہودا اسکر یوطی نے رومیوں سے تمہیں روپے لے کر آپ کو بیچ دیا تھا اور اس طرح اس مسیح کی جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ پیدا ہونے تھے جنہوں نے پیغامیوں سے مدد لے کر جماعت میں فتنہ کھڑا کرنا تھا.لیکن ہمیں عیسائیوں کے صرف عیب ہی نہیں دیکھنے چاہئیں بلکہ ان کی خوبیان بھی دیکھنی چاہئیں.جہاں ان میں ہمیں یہ عیب نظر آتا ہے کہ ان میں سے ایک نے تمہیں روپے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام کو بیچ دیا وہاں ان میں یہ خوبی بھی پائی جاتی ہے کہ آج تک جبکہ حضرت مسیح علیہ السلام پر دو ہزار سال کے قریب عرصہ گزر چکا ہے وہ آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں.چنانچہ آج جب میں نے اس بات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس چیز کا وعدہ بھی حواریوں نے کیا تھا.چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب کہا.من انصاري إلى الله کہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں میری کون مدد کرے گا.تو حواریوں نے کہا.نَحْنُ انصار الله.ہم خدا تعالیٰ کے رستہ میں آپ کی مدد کریں گے.انہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے.پس اس کے معنی ہیں کہ ہم وہ انصار ہیں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف نسبت دی گئی ہے اس لئے جب تک خدا تعالیٰ زندہ ہے اُس وقت تک ہم بھی اس کی مدد کرتے رہیں گے.چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر تقریباً دو ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن عیسائی لوگ برابر عیسائیت کی تبلیغ کرتے چلے جارہے ہیں اور اب تک ان میں خلافت قائم چلی آتی ہے.

Page 361

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۵ جلد دوم اب بھی ہماری زیادہ تر ٹکر عیسائیوں سے ہی ہو رہی ہے جو مسیح علیہ السلام کے متبع اور ان کے ماننے والے ہیں اور جن کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال رکھتے ہوئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے سارے نبی اس فتنہ کی خبر دیتے چلے آئے ہیں.غرض وہ مسیح ناصری جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ان پر فضیلت عطا فرمائی ہے ان کے انصار نے اتنا جذبہ اخلاص دکھایا کہ انہوں نے دو ہزار سال تک آپ کی خلافت کو مٹنے نہیں دیا کیونکہ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اگر مسیح علیہ السلام کی خلافت مٹی تو مسیح علیہ السلام کا خود اپنا نام بھی دنیا سے مٹ جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شروع عیسائیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ایک حواری نے آپ کو میں روپے کے بدلہ میں دشمنوں کے ہاتھ بیچ دیا تھا لیکن اب عیسائیت میں وہ لوگ پائے جاتے ہیں جو مسیحیت کی اشاعت اور حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا منوانے کے لئے کروڑوں کروڑ روپیہ دیتے ہیں.اسی طرح اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نے اپنے زمانہ میں بڑی قربانی کی ہے لیکن آپ کی وفات پر ابھی صرف ۴۸ سال ہی ہوئے ہیں کہ جماعت میں سے بعض ڈانوا ڈول ہونے لگے ہیں اور پیغامیوں سے چند روپے لے کر ایمان کو بیچنے لگے ہیں.حالانکہ ان میں سے بعض پر سلسلہ نے ہزار ہا روپے خرچ کئے ہیں.میں پچھلے حسابات نکلوا رہا ہوں اور میں نے دفتر والوں سے کہا ہے کہ وہ بتائیں کہ صدرانجمن احمد یہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کی کتنی خدمت کی ہے اور حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے خاندان کی کتنی خدمت کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فوت ہوئے ۴۸ سال ہو چکے ہیں اور حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی وفات پر ۴۲ سال کا عرصہ گزر چکا ہے.گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فاصلہ زیادہ ہے اور پھر آپ کی اولا دبھی زیادہ ہے.لیکن اس کے باوجود میں نے حسابات نکلوائے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کے خاندان کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان پر کم خرچ کیا ہے لیکن پھر بھی حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی اولاد میں یہ لالچ پیدا ہوئی کہ خلافت بھی سنبھا لو یہ ہمارے باپ کا حق تھا جو ہمیں ملنا چاہیے

Page 362

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۶ جلد دوم تھا.چنانچہ سندھ سے ایک آدمی نے مجھے لکھا کہ یہاں میاں عبدالمنان کے بھانجے مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کا ایک پر وردہ شخص بشیر احمد آیا اور اس نے کہا کہ خلافت تو رت خلیفۃ اصبح الاول کا مال تھا اور ان کی وفات کے بعد ان کی اولا دکو ملنا چاہیے تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی اولاد نے اسے غضب کر لیا.اب ہم سب نے مل کر یہ کوشش کرنی ہے کہ اس حق کو دوبارہ حاصل کریں.پھر میں نے میاں عبد السلام صاحب کی پہلی بیوی کے سوتیلے بھائی کا ایک خط پڑھا جس میں اس نے اپنے سوتیلے ماموں کو لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ مشرقی بنگال کی جماعت نے ایک ریز ولیشن پاس کر کے اس فتنہ سے نفرت کا اظہار کیا ہے.ہمیں تو اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے تھا ہمارے لئے تو موقع تھا کہ ہم کوشش کر کے اپنے خاندان کی وجاہت کو دوبارہ قائم کرتے.یہ ویسی ہی نا معقول حرکت ہے جیسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر لا ہور کے بعض مخالفین نے کی تھی.انہوں نے آپ کے نقلی جنازے نکالے اور آپ کی وفات پر خوشی کے شادیانے بجائے.وہ تو دشمن تھے لیکن یہ لوگ احمدی کہلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنے خاندان کی وجاہت کو قائم کرنا چاہیے حالانکہ حضرت خلیفتہ امیج الاول کو جو عزت اور درجہ ملا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ملا ہے جو چیز آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ملی تھی وہ ان لوگوں کے نزدیک ان کے خاندان کی جائداد بن گئی.یہ وہی فقرہ ہے جو پرانے زمانہ میں ان لڑکوں کی والدہ نے مجھے کہا کہ پیغامی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خلافت تو حضرت خلیفہ المسح الا قول کی تھی.اگر آپ کی وفات کے بعد آپ کے کسی بیٹے کو خلیفہ بنالیا جاتا تو ہم اس کی بیعت کر لیتے مگر مرزا صاحب کا خلافت سے کیا تعلق تھا کہ آپکے بیٹے کو خلیفہ بنا لیا گیا.اُس وقت میری بھی جوانی تھی میں نے انہیں کہا کہ آپ کیلئے رستہ کھلا ہے تانگے چلتے ہیں ( اُن دنوں قادیان میں ریل نہیں آئی تھی ) آپ چاہیں تو لاہور چلی جائیں.میں آپ کو نہیں روکتا.وہاں جا کر آپ کو پتہ لگ جائیگا کہ وہ آپ کی کیا امداد کرتے ہیں وہاں تو مولوی محمد علی صاحب کو بھی خلافت نہیں ملی انہیں صرف امارت ملی تھی اور امارت بھی ایسی کہ

Page 363

خلافة على منهاج النبوة.۳۴۷ جلد دوم اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہیں وصیت کرنی پڑی کہ فلاں فلاں شخص ان کے جنازے پر نہ آئے.ان کی اپنی تحریر موجود ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مولوی صدرالدین صاحب، شیخ عبد الرحمن صاحب مصری اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب میرے خلاف پرو پیگنڈا میں اپنی پوری قوت خرچ کر رہے ہیں.اور انہوں نے تنکے کو پہاڑ بنا کر جماعت میں فتہ پیدا کرنا شروع کیا ہوا ہے اور ان لوگوں نے مولوی محمد علی صاحب پر طرح طرح کے الزامات لگائے یہاں تک کیا کہ آپ نے احمدیت سے انکار کر دیا ہے اور انجمن کا مال غصب کر لیا ہے.اب بتا ؤ جب وہ شخص جو اس جماعت کا بانی تھا اسے یہ کہنا پڑا کہ جماعت کے بڑے بڑے آدمی مجھ پر الزام لگاتے ہیں اور مجھے مرتد اور جماعت کا مال غصب کرنے والا قرار دیتے ہیں تو اگر وہاں دودھ پینے والے چھو کرے چلے جاتے تو انہیں کیا ملتا.زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا تھا کہ انہیں پانچ پانچ روپے کے وظیفے دے کر کسی سکول میں داخل کر دیا جا تا مگر ہم نے تو ان کی تعلیم پر بڑا روپیہ خرچ کیا اور اس قابل بنایا کہ یہ بڑے آدمی کہلا سکیں لیکن انہوں نے یہ کیا کہ جس جماعت نے انہیں پڑھایا تھا اُسی کو تباہ کرنے کیلئے حملہ کر دیا.اس سے بڑھ کر اور کیا قساوت قلبی ہوگی کہ جن غریبوں نے انہیں پیسے دے کر اس مقام پر پہنچایا یہ لوگ اُنہی کو تباہ کر نیکی کوشش میں لگ جائیں.جماعت میں ایسے ایسے غریب ہیں کہ جن کی غربت کا کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا مگر وہ لوگ چندہ دیتے ہیں.ایک دفعہ قادیان میں ایک غریب احمدی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ امراء کے ہاں دعوتیں کھاتے ہیں ایک دفعہ آپ میرے گھر بھی تشریف لائیں اور میری دعوت کو قبول فرمائیں.میں نے کہا تم بہت غریب ہو میں نہیں چاہتا کہ دعوت کی وجہ سے تم پر کوئی بوجھ پڑے.اس نے کہا میں غریب ہوں تو کیا ہوا آپ میری دعوت ضرور قبول کریں.میں نے پھر بھی انکار کیا مگر وہ میرے پیچھے پڑ گیا.چنانچہ ایک دن میں اس کے گھر گیا تا کہ اُس کی دلجوئی ہو جائے.مجھے یاد نہیں اس نے چائے کی دعوت کی تھی یا کھانا کھلایا تھا مگر جب میں اس کے گھر سے نکلا تو گلی میں ایک احمدی دوست عبد العزیز صاحب کھڑے تھے وہ پسرور ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور مخلص احمدی تھے لیکن انہیں

Page 364

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۸ جلد دوم اعتراض کر نیکی عادت تھی.میں نے انہیں دیکھا تو میرا دل بیٹھ گیا اور میں نے خیال کیا کہ اب یہ دوست مجھ پر ضرور اعتراض کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا حضور! آپ ایسے غریبوں کی دعوت بھی قبول کر لیتے ہیں؟ میں نے کہا عبد العزیز صاحب میرے لئے دونوں طرح مصیبت ہے اگر میں انکار کروں تو غریب کہتا ہے میں غریب ہوں اسلئے میری دعوت نہیں کھاتے اور اگر میں اس کی دعوت منظور کرلوں تو آپ لوگ کہتے ہیں کہ غریب کی دعوت کیوں مان لی.اب دیکھو اس شخص نے مجھے خود دعوت پر بلایا تھا میں نے بارہا انکار کیا لیکن وہ میرے پیچھے اس طرح پڑا کہ میں مجبور ہو گیا کہ اس کی دعوت مان لوں لیکن دوسرے دوست کو اس پر اعتراض پیدا ہوا.غرض جماعت میں ایسے ایسے غریب بھی ہیں کہ ان کے ہاں کھانا کھانے پر بھی دوسروں کو اعتراض پیدا ہوتا ہے.ایسی غریب جماعت نے ان لڑکوں کی خدمت کرنے اور انہیں پڑھانے پر ایک لاکھ روپیہ سے زیادہ خرچ کیا.میاں عبد السلام کو وکیل بنایا.عبد المنان کو ایم اے کروایا.عبد الوہاب کو بھی تعلیم دلائی اسے وظیفہ دیا.لاہور بھیجا اور ہوسٹل میں داخل کروایا مگر اسے خود تعلیم کا شوق نہیں تھا اس لئے وہ زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکا.لیکن پھر بھی جماعت نے اسے پڑھانے میں کوئی کوتاہی نہ کی.بعد میں میں نے معقول گزارہ دے کر اسے دہلی بھجوایا اور کہا کہ تمہارے باپ کا پیشہ طب تھا تم بھی طب پڑھ لو.چنانچہ اسے حکیم اجمل خان صاحب کے کالج میں طلب پڑھائی گئی گو اس نے وہاں بھی وہی حرکت کی کہ پڑھائی کی طرف توجہ نہ کی اور فیل ہوا لیکن اس نے اتنی عقلمندی کی کہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے گیا.چنانچہ بیوی پاس ہوگئی اور امتحان میں اول آئی.اب سلسلہ کے اس روپیہ کی وجہ سے جو اس پر خرچ کیا گیا وہ اپنا گزارہ کر رہا ہے اور اس نے اپنے دواخانہ کا نام دواخانہ نورالدین رکھا ہوا ہے.حالانکہ دراصل وہ دواخانہ سلسلہ احمدیہ ہے کیونکہ سلسلہ احمدیہ کے روپیہ سے ہی وہ اس حد تک پہنچا ہے کہ دواخانہ کو جاری رکھ سکے.اب وہ لکھتا ہے کہ میری بیوی جو گولڈ میڈلسٹ ہے وہ علاج کرتی ہے.وہ یہ کیوں نہیں لکھتا کہ میری بیوی جس کو سلسلہ احمدیہ نے خرچ دے کر پڑھایا ہے علاج کرتی ہے.غرض چاہے تعلیم کو لیا جائے ، طب کو لیا جائے یا کسی اور پیشہ کولیا

Page 365

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۹ جلد دوم جائے یہ لوگ سلسلہ کی مدد کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑے ہی نہیں ہو سکتے تھے مگر اس ساری کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب یہ لوگ سلسہ احمدیہ کو ہی تباہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں.مگر سلسلہ احمد یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے جسے کوئی تباہ نہیں کرسکتا.یہ سلسلہ ایک چٹان ہے جو اس پر گرے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا.اور جو اس کو مٹانا چاہے گا وہ خود مٹ جائے گا اور کوئی شخص بھی خواہ اُس کی پشت پناہ احراری ہوں یا پیغامی ہوں اس کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوگا.اس کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرنے والے ذلیل اور خوار ہوں گے اور قیامت تک ذلت و رسوائی میں مبتلا رہیں گے.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو عزت اور رفعت دیتا چلا جائے گا اور تمام دنیا میں آپ کا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ پھیلتا چلا جائیگا.اور جب آپ کے ذریعہ ہی اسلام بڑھے گا تو لازمی طور پر جو لوگ آپ کے ذریعہ اسلام قبول کریں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے وہ آپ پر بھی ایمان لائیں گے لیکن اس سلسلہ کی تباہی کا ارادہ کرنے والے ابھی زندہ ہی ہونگے کہ ان کی عزتیں ان کی آنکھوں کے سامنے خاک میں مل جائیں گی.اور پیغامیوں نے جوان سے مدد کا وعدہ کیا ہے وہ وعدہ بھی خاک میں مل جائے گا.مولوی محمد علی صاحب سے ان لوگوں نے جو وعدہ کیا تھا کیا وہ پورا ہوا ؟ ان کا انجام آپ لوگوں کے سامنے ہے.اب ان لوگوں کا انجام مولوی محمد علی صاحب سے بھی بدتر ہوگا.اس لئے کہ جب انہوں نے سلسلہ سے علیحدگی اختیار کی تھی اور انجمن اشاعت اسلام کی بنیا درکھی تھی تو انہوں نے سلسلہ احمدیہ کی ایک عرصہ کی خدمت کے بعد ایسا کیا تھا.انہیں دنیا کی خدمت کا موقع ملا تھا رسالہ ریویو آف ریلیجنز دنیا میں بہت مقبول ہوا اور وہ اس کے ایڈیٹر تھے.پھر انہوں نے اپنے خرچ سے پڑھائی کی تھی لیکن ان لوگوں نے اپنے یا اپنے باپ کے پیسے سے پڑھائی نہیں کی بلکہ غریب لوگوں کے پیسے سے کی جو بعض دفعہ رات کو فاقہ سے سوتے ہیں اور اس سارے احسان کے بعد انہوں نے یہ کیا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کو تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے.“

Page 366

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۰ جلد دوم یا درکھو تمہارا نام انصار اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ از لی اور ابدی ہے اس لئے تم کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ ابدیت کے مظہر ہو جاؤ.تم اپنے انصار ہونے کی علامت لئے خلافت کو ہمیشہ ہمیش کیلئے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بعد نسل چلتا چلا جاوے اور اس کے دو ذریعے ہو سکتے ہیں ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے اس لئے میں نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا یہ اطفال اور خدام آپ لوگوں کے ہی بچے ہیں.اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی تو خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی تو اگلی نسل انصار اللہ کی اعلیٰ ہوگی.میں نے سیٹرھیاں بنادی ہیں آگے کام کرنا تمہارا کام ہے.پہلی سیڑھی اطفال الاحمدیہ ہے دوسری سیڑھی خدام الاحمدیہ ہے تیسری سیڑھی انصار اللہ ہے اور چوتھی سیڑھی خدا تعالیٰ ہے.تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرو اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگو تو یہ چاروں سیڑھیاں مکمل ہو جائیں گی.اگر تمہارے اطفال اور خدام ٹھیک ہو جائیں اور پھر تم بھی دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لوتو پھر تمہارے لئے عرش سے نیچے کوئی جگہ نہیں.اور جو عرش پر چلا جائے وہ بالکل محفوظ ہو جاتا ہے.دنیا حملہ کرنے کی کوشش کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ سو دو سوفٹ پر حملہ کر سکتی ہے وہ عرش پر حملہ نہیں کر سکتی.پس اگر تم اپنی اصلاح کرلو گے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو گے تو تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو جائے گا.اور اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤ اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لوتو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طور پر رہے گی اور وہ عیسائیت کی خلافت سے بھی لمبی چلے گی.عیسائیوں کی تعدا د تو تمام کوششوں کے بعد مسلمانوں سے قریباً دگنی ہوئی ہے مگر تمہارے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تعداد کو اتنا بڑھا دے گا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دوسرے تمام مذاہب ہندو ازم ، بدھ مت، عیسائیت اور شنٹو ازم وغیرہ کے پیرو تمہارے مقابلہ میں بالکل ادنی اقوام کی طرح رہ جائیں گے.یعنی ان کی تعداد تمہارے مقابلہ میں ویسی ہی بے حقیقت

Page 367

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۱ جلد دوم ہوگی جیسے آجکل ادنی اقوام کی دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں ہے.وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے یقیناً آئے گا لیکن جب آئے گا تو اس ذریعہ سے آئے گا کہ خلافت کو قائم رکھا جائے ، تبلیغ اسلام کو قائم رکھا جائے ، تحریک جدید کو مضبوط کیا جائے ، اشاعت اسلام کیلئے جماعت میں شغف زیادہ ہو اور دنیا کے کسی کو نہ کو بھی بغیر مبلغ کے نہ چھوڑا جائے.مجھے بیرونی ممالک سے کثرت سے چٹھیاں آرہی ہیں کہ مبلغ بھیجے جائیں اس لئے ہمیں تبلیغ کے کام کو بہر حال وسیع کرنا پڑے گا اور اتنا وسیع کرنا پڑے گا کہ موجود ہ کام اس کے مقابلہ میں لاکھواں حصہ بھی نہ رہے.میں نے بتایا کہ خلافت کی وجہ سے رومن کیتھولک اس قدر مضبوط ہو گئے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے پڑھا کہ ان کے ۵۴ لاکھ مبلغ ہیں.ان سے اپنا مقابلہ کرو اور خیال کرو کہ تم سو ڈیڑھ سو مبلغوں کے اخراجات پر ہی گھبرانے لگ جاتے ہو اگر تم ان سے تین چار گنے زیادہ طاقت ور بنا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ تمہارا دو کروڑ مبلغ ہو.لیکن اب یہ حالت ہے کہ ہمارے سب مبلغ ملالئے جائیں تو ان کی تعداد دو سو کے قریب بنتی ہے.اگر ہم چاہتے ہیں کہ عیسائیوں کو مسلمان کر لیں ، بدھوں کو مسلمان کرلیں ،شنٹو ازم والوں کو مسلمان کر لیں ، کنفیوشس ازم کے پیروؤں کو مسلمان کر لیں تو اس کیلئے دو کروڑ مبلغوں کی ضرورت ہے اور ان مبلغوں کو پیدا کرنا اور پھر ان سے کام لینا بغیر خلافت کے نہیں ہوسکتا.ہمارے ملک میں ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک بادشاہ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے تمام بیٹوں کو بلایا اور انہیں کہا ایک جھاڑ ولا ؤ وہ ایک جھاڑ ولے آئے.اس نے اس کا ایک ایک تنکا انہیں دیا اور کہا اسے توڑو اور انہوں نے اسے فورا تو ڑ دیا.پھر اس نے سارا جھاڑو انہیں دیا کہ اب اسے توڑو.انہوں نے باری باری پورا زور لگایا مگر وہ جھاڑو ان سے نہ ٹوٹا.اس پر اس نے کہا میرے بیٹو! دیکھو میں نے تمہیں ایک ایک تنکا دیا تو تم نے اسے بڑی آسانی سے توڑ دیا.لیکن جب سارا جھاڑو تمہیں دیا تو باوجود اس کے کہ تم نے پورا زور لگا یا وہ تم سے نہ ٹوٹا.اسی طرح اگر تم میرے مرنے کے بعد بکھر گئے تو ہر شخص تمہیں تباہ کر سکے گا لیکن اگر تم متحد رہے تو تم ایک مضبوط سوٹے کی طرح بن جاؤ گے جسے دنیا کی کوئی طاقت توڑ

Page 368

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۲ جلد دوم نہیں سکے گی اسی طرح اگر تم نے خلافت کے نظام کو توڑ دیا تو تمہاری کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی اور تمہیں دشمن کھا جائے گا لیکن اگر تم نے خلافت کو قائم رکھا تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں تباہ نہیں کر سکے گی.تم دیکھ لو ہماری جماعت کتنی غریب ہے لیکن خلافت کی وجہ سے اسے بڑی حیثیت حاصل ہے اور اس نے وہ کام کیا ہے جو دنیا کے دوسرے مسلمان نہیں کر سکے.مصر کا ایک اخبار الفتح ہے جو سلسلہ کا شدید مخالف ہے اس میں ایک دفعہ کسی نے مضمون لکھا کہ گزشتہ ۱۳۰۰ سال میں مسلمانوں میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں مگر انہوں نے اسلام کی وہ خدمت نہیں کی جو اس غریب جماعت نے کی ہے اور یہ چیز ہر جگہ نظر آتی ہے.یورپ والے بھی اسے مانتے ہیں اور ہمارے مبلغوں کا بڑا اعزاز کرتے ہیں اور انہیں اپنی دعوتوں اور دوسری تقریبوں میں بلاتے ہیں.اسرائیلیوں کو ہم سے شدید مخالفت ہے مگر پچھلے دنوں جب ہمارا مبلغ واپس آیا تو اسے وہاں کے صدر کی چٹھی ملی کہ جب آپ واپس جائیں تو مجھے مل کر جائیں.اور جب وہ اسے ملنے کیلئے گئے تو ان کا بڑا اعزاز کیا گیا اور اس موقع پر ان کے فوٹو لئے گئے اور پھر ان فوٹو ؤں کو حکومت اسرائیل نے تمام مسلمان ممالک میں چھپوایا.انہوں نے ان فوٹوؤں کو مصر میں بھی چھپوایا، عرب ممالک میں بھی چھپوایا ، افریقہ میں بھی چھپوایا اور ہندوستان میں بھی ان کی اشاعت کی.جب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب شام گئے تو وہاں کے صدر نے انہیں کہا کہ کیا آپ کی اسرائیل سے صلح ہوگئی ہے؟ انہوں نے اسے بتایا کہ ہماری اسرائیل سے کوئی صلح نہیں ہوئی بلکہ ہم اس کے شدید مخالف ہیں.غرض وہ اسرائیل جو عرب ممالک سے صلح نہیں کرتا اُس نے دیکھا کہ احمدیوں کی طاقت ہے اس لئے ان سے صلح رکھنی ہمارے لئے مفید ہوگی.وہ سمجھتا ہے کہ ان لوگوں سے خواہ مخواہ فکر نہیں لینی چاہیے گو اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی کیونکہ احمدی اسرائیل کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ میں خنجر سمجھتے ہیں کیونکہ اسرائیل مدینہ کے بہت قریب ہے.وہ اگر ہمارے مبلغ کو اپنے ملک کا بادشاہ بھی بنا لیں تب بھی ہماری دلی خواہش یہی ہوگی کہ ہمارا بس چلے تو اسرائیل کو سمندر میں ڈبو دیں اور فلسطین کو ان سے پاک کر کے مسلمانوں کے حوالہ کر دیں.بہر حال ان کی یہ خواہش تو کبھی پوری نہیں ہوگی لیکن وہ سمجھتے ہیں

Page 369

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۳ جلد دوم کہ یہ جماعت اگر چہ چھوٹی ہے لیکن متحد ہونے کی وجہ سے اسے ایک طاقت حاصل ہے.اس طاقت سے ہمیں خواہ مخواہ ٹکر نہیں لینی چاہیے.چنانچہ وہ ہم سے ڈرتے ہیں.پاکستان میں ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی کوئی طاقت نہیں انہیں اقلیت قرار دے دینا چاہیے.حالانکہ یہاں ہماری تعداد لاکھوں کی ہے.لیکن اسرائیل میں ہماری تعداد چند سو کی ہے پھر بھی وہ چاہتے ہیں کہ ہماری دلجوئی کی جائے اور یہ محض خلافت کی ہی برکت ہے.وہ جانتے ہیں کہ چاہے ہمارے ملک میں چند سو احمدی ہیں مگر وہ ایک ہاتھ پر جمع ہیں اگر انہوں نے آواز اُٹھائی تو ان کی آواز صرف فلسطین میں ہی نہیں رہے گی بلکہ ان کی آواز شام میں بھی اُٹھے گی ، عراق میں بھی اُٹھے گی ، مصر میں بھی اُٹھے گی ، ہالینڈ میں بھی اُٹھے گی ، فرانس میں بھی اُٹھے گی ، سپین میں بھی اُٹھے گی ، انگلستان میں بھی اُٹھے گی ، سکنڈے نیویا میں بھی اُٹھے گی ، سوئٹزر لینڈ میں بھی اُٹھے گی ، امریکہ میں بھی اُٹھے گی ، انڈو نیشیا میں بھی اُٹھے گی.یہ لوگ تمام ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اگر ان سے بُرا سلوک کیا گیا تو تمام ممالک میں اسرائیل بد نام ہو جائے گا اس لئے ان سے بگاڑ مفید نہیں ہو گا.یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے مبلغ کا اعزاز کرتے ہیں.اسی طرح جب تقسیم ملک ہوئی تو ہمارے مبلغوں نے تمام ممالک میں ہندوستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا.اُس وقت لنڈن میں چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام تھے انہیں پنڈت نہرو نے لکھا کہ آپ لوگوں نے تمام دنیا میں ہمیں اس قدر بد نام کر دیا ہے کہ ہم کسی ملک کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے.اب دیکھ لو پنڈت نہرو باقی تمام مسلمانوں سے نہیں ڈرے.انہیں ڈر محسوس ہوا تو صرف احمدیوں سے.اور اس کی وجہ محض ایک مقصد پر جمع ہونا تھی اور یہ طاقت اور قوت جماعت کو کس طرح نصیب ہوئی ؟ یہ صرف خلافت ہی کی برکت تھی جس نے احمدیوں کو ایک نظام میں پرو دیا اور اس کے نتیجہ میں انہیں طاقت حاصل ہوگئی.میرے سامنے اس وقت چوہدری غلام حسین صاحب بیٹھے ہیں جو مخلص احمدی ہیں اور صحابی ہیں اور یہ اپنی آواز کو امریکہ کس طرح پہنچا سکتے ہیں ؟ یہ اپنی آواز کو انگلینڈ کیسے پہنچا سکتے ہیں ؟ یہ اپنی آواز کو فرانس ، جرمنی اور پین کیسے پہنچا سکتے ہیں؟ یہ بے شک جو شیلے احمدی ہیں مگر یہ

Page 370

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۴ جلد دوم اپنی آواز دوسرے ممالک میں اپنے دوسرے احمدی بھائیوں کے ساتھ مل کر پہنچا سکتے ہیں ور نہ نہیں.اسی مل کر کام کرنے سے اسرائیل کو ڈر پیدا ہوا اور اسی مل کر کام کرنے سے ہی پاکستان کے مولوی ڈرے اور انہوں نے ملک کے ہر کونہ میں یہ جھوٹا پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ احمدیوں نے ملک کے سب کلیدی عہدے سنبھال لئے ہیں.انہیں اقلیت قرار دیا جائے اور ان عہدوں سے انہیں ہٹا دیا جائے.حالانکہ کلیدی عہدے انہی کے پاس ہیں ہمارے پاس نہیں.یہ سب طاقت خلافت کی وجہ سے ہے خلافت کی وجہ سے ہم اکٹھے رہے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کی ہے.اب اس فتنہ کو دیکھو جو ۱۹۵۳ء کے بعد جماعت میں اُٹھا.اس میں سارے احراری فتنہ پردازوں کے ساتھ ہیں.تمہیں یاد ہے کہ ۱۹۳۴ء میں بھی احراری اپنا سارا زور لگا چکے ہیں اور بُری طرح ناکام ہوئے ہیں اور اس دفعہ بھی وہ ضرور نا کام ہوں گے.اس دفعہ اگر انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی اولا دان کے ساتھ ہے اس لئے وہ جیت جائیں گے تو انہیں جان لینا چاہئے کہ جماعت کے اندر اتنا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کے مقابلہ میں خواہ کوئی اُٹھے جماعت احمد یہ اس کا کبھی ساتھ نہیں دے گی.کیونکہ انہوں نے دلائل اور معجزات کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے.ان میں سے ہر شخص نے اپنے اپنے طور پر تحقیقات کی ہے.کوئی گوجرانوالہ میں تھا ، کوئی گجرات میں تھا ، کوئی شیخوپورہ میں تھا وہاں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں پہنچیں اور آپ کے دلائل نقل کر کے بھجوائے گئے تو وہ لوگ ایمان لے آئے.پھر ایک دھاگہ میں پروئے جانے کی وجہ سے انہیں طاقت حاصل ہو گئی.اب دیکھ لو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہی طاقت تھی کہ آپ نے اعلان فرما دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.پس حضرت مسیح علیہ السلام کی موت سے ساری عیسائیت مرگئی.اب یہ کتنا صاف مسئلہ تھا مگر کسی اور مولوی کو نظر نہ آیا.سارے علماء کتا ہیں پڑھتے رہے لیکن ان میں سے کسی کو یہ مسئلہ نہ سُوجھا اور وہ حیران تھے کہ عیسائیت کا مقابلہ کیسے کریں.حضرت مرزا صاحب نے آکر عیسائیت کے زور کو توڑ دیا اور وفات مسیح کا ایسا مسئلہ

Page 371

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۵ جلد دوم ان بیان کیا کہ ایک طرف مولویوں کا زور ٹوٹ گیا تو دوسری طرف عیسائی ختم ہو گئے.بھیرہ میں ایک غیر احمدی حکیم اللہ دین صاحب ہوتے تھے وہ اپنے آپ کو حضرت خليفة أمسیح الاوّل سے بھی بڑا حکیم سمجھتے تھے.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی حکیم فضل دین صاحب اُنہیں ملنے کیلئے گئے اور انہوں نے چاہا کہ وہ انہیں احمدیت کی تبلیغ کریں.حکیم اللہ دین صاحب بڑے رُعب والے شخص تھے وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے.تو کل کا بچہ ہے اور مجھے تبلیغ کرنے آیا ہے تو احمدیت کو کیا سمجھتا ہے میں اسے خوب سمجھتا ہوں.حضرت مرزا صاحب نے اپنی مشہور کتاب براہین احمدیہ لکھی جس سے اسلام تمام مذاہب پر غالب ثابت ہوتا تھا مگر مولویوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا.حضرت مرزا صاحب کو غصہ آیا اور انہوں نے کہا اچھا! تم بڑے عالم بنے پھرتے ہو میں حضرت عیسی علیہ السلام کو قرآن کریم سے فوت شدہ ثابت کر دیتا ہوں تم اسے زندہ ثابت کر کے دکھاؤ.گویا آپ نے یہ مسئلہ ان مولویوں کو ذلیل کرنے کیلئے بیان کیا تھا ورنہ در حقیقت آپ کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں.پھر حکیم صاحب نے ایک گندی گالی دے کر کہا کہ مولوی لوگ پورا زور لگا چکے ہیں مگر حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ میں ناکام رہے ہیں اس کا اب ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ ہے کہ سب مل کر حضرت مرزا صاحب کے پاس جائیں اور کہیں ہم آپ کو سب سے بڑا عالم تسلیم کرتے ہیں ہم ہارے اور آپ جیتے اور اپنی پگڑیاں انکے پاؤں پر رکھ دیں اور درخواست کریں کہ اب آپ ہی قرآن کریم سے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی ثابت کر دیں ہم تو پھنس گئے ہیں اب معافی چاہتے ہیں اور آپ کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں.اگر مولوی لوگ ایسا کریں تو دیکھ لینا حضرت مرزا صاحب نے قرآن کریم میں سے ہی حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ ثابت کر دینا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وہ عظمت دی ہے کہ آپ کے مقابلہ میں اور کوئی نہیں ٹھہر سکتا چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو کیونکہ اگر وہ جماعت میں بڑا ہے تو آپ کی غلامی کی وجہ سے بڑا ہے آپ کی غلامی سے با ہر نکل کر اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.مجھے یاد ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب چشمہ معرفت لکھی تو کسی

Page 372

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۶ جلد دوم مسئلہ کے متعلق آپ کو خیال پیدا ہوا کہ آپ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی بھی کوئی کتاب پڑھ لیں اور دیکھیں کہ انہوں نے اس کے متعلق کیا لکھا ہے.آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا محمود ! ذرا مولوی صاحب کی کتاب تصدیق براہین احمدیہ لاؤ اور مجھے سناؤ.چنانچہ میں وہ کتاب لایا اور آپ نے نصف گھنٹہ تک کتاب سنی.اس کے بعد فرمایا اس کو واپس رکھ آؤ اس کی ضرورت نہیں.اب تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب چشمہ معرفت کو بھی پڑھو اور حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل کی کتاب تصدیق براہین احمدیہ کو بھی دیکھو اور پھر سوچو کہ کیا ان دونوں میں کوئی بھی نسبت ہے اور کیا آپ نے کوئی نکتہ بھی اس کتاب سے اخذ کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے اپنی اس کتاب میں پیدائش عالم اور حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق ایسے مسائل بیان فرمائے ہیں کہ ساری دنیا سر دھنتی ہے اور تسلیم کرتی ہے کہ یہ لا ینحل عقدے تھے.جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حل کر دیا ہے.یہ سب برکت جو ہمیں ملی ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ملی ہے.اب آپ لوگوں کا کام ہے کہ اپنی ساری زندگی آپ کے لائے ہوئے پیغام کی خدمت میں لگا دیں اور کوشش کریں کہ آپ کے بعد آپ کی اولا د اور پھر اس کی اولاد، اور پھر اس کی اولاد بلکہ آپ کی آئندہ ہزاروں سال تک کی نسلیں اس کی خدمت میں لگی رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی خلافت کو قائم رکھیں.مجھ پر یہ بہتان لگایا گیا ہے کہ گویا میں اپنے بعد اپنے کسی بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتا ہوں.یہ بالکل غلط ہے اگر میرا کوئی بیٹا ایسا خیال بھی دل میں لائے گا تو وہ اُسی وقت احمدیت سے نکل جائے گا بلکہ میں جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ دعائیں کرے کہ خدا تعالیٰ میری اولا دکو اِس قسم کے وسوسوں سے پاک رکھے.ایسا نہ ہو کہ اس پرا پیگینڈار کی وجہ سے میرے کسی کمزور بچے کے دل میں خلافت کا خیال پیدا ہو جائے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام تھے.میں سمجھتا ہوں کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آقا تھے اگر ان کی اولاد میں بھی کسی وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ خلافت کو حاصل کریں تو وہ

Page 373

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۷ جلد دوم بھی تباہ ہو جائے گی کیونکہ یہ چیز خدا تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھی ہوئی ہے اور جو خدا تعالیٰ کے مال کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتا ہے وہ چاہے کسی نبی کی اولاد ہو یا کسی خلیفہ کی وہ تباہ و برباد ہو جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے گھر میں چوری نہیں ہو سکتی چوری ادنیٰ لوگوں کے گھروں میں ہوتی ہے اور قرآن کریم کہتا ہے.وعد الله الذینَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ ليَسْتَخْلِفَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن تباهیم و کہ مومنوں سے خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.گو یا خلافت خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور اس نے خود دینی ہے.جو ا سے لینا چاہتا ہے چاہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیٹا ہو یا حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل کا وہ یقیناً سزا پائے گا.پس یہ مت سمجھو کہ یہ فتنہ جماعت کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن پھر بھی تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اس کا مقابلہ کرو اور اس سلسلہ احمدیہ کو اس سے بچاؤ.دیکھو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ واللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ وہ آپ کو لوگوں کے حملوں سے بچائے گا اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ سے زیادہ سچا اور کس کا وعدہ ہو سکتا ہے مگر کیا صحابہ نے کبھی آپ کی حفاظت کا خیال چھوڑا ؟ بلکہ صحابہ نے ہر موقع پر آپ کی حفاظت کی.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر سے باہر ہتھیاروں کی آواز سنی تو آپ باہر نکلے اور دریافت کیا کہ یہ کیسی آواز ہے؟ صحابہ نے عرض کیا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! ہم انصار ہیں.چونکہ ارد گرد دشمن جمع ہے اس لئے ہم ہتھیار لگا کر آپ کا پہرہ دینے آئے ہیں.اسی طرح جنگ احزاب میں جب دشمن حملہ کرتا تھا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی طرف جا تا تھا.آپ کے ساتھ اُس وقت صرف سات سو صحابہ تھے کیونکہ پانچ سو صحابہ کو آپ نے عورتوں کی حفاظت کے لئے مقرر کر دیا تھا اور دشمن کی تعداد اُس وقت سولہ ہزار سے زیادہ تھی.لیکن اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اور دشمن ناکام و نامراد رہا.میور جیسا دشمن اسلام لکھتا ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح اور کفار کے شکست کھانے کی یہ وجہ تھی کہ کفار نے مسلمانوں کی اس محبت کا جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے

Page 374

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۸ جلد دوم تھی غلط اندازہ لگایا تھا وہ خندق سے گزر کر سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا رُخ کرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمان مرد عورتیں اور بچے سب ملکر ان پر حملہ کرتے اور ایسا دیوانہ وار مقابلہ کرتے کہ کفار کو بھاگ جانے پر مجبور کر دیتے.وہ کہتا ہے کہ اگر کفار یہ غلطی نہ کرتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کی بجائے کسی اور جہت میں حملہ کرتے تو وہ کامیاب ہوتے.لیکن وہ سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا رُخ کرتے تھے اور مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت تھی وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ دشمن آپ کی ذات پر حملہ آور ہو اس لئے وہ بے جگری سے حملہ کرتے اور کفار کا منہ توڑ دیتے.ان کے اندر شیر کی سی طاقت پیدا ہو جاتی تھی اور وہ اپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے.یہ وہ سچی محبت تھی جو صحابہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی.آپ لوگ بھی ان جیسی محبت اپنے اندر پیدا کریں.جب آپ نے انصار کا نام قبول کیا ہے تو ان جیسی محبت بھی پیدا کریں.آپ کے نام کی نسبت خدا تعالیٰ سے ہے اور خدا تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے اس لئے تمہیں بھی چاہیے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کیلئے قائم رکھو اور ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ اگر خلافت قائم رہے گی تو اس کو انصار کی بھی ضرورت ہو گی.خدام کی بھی ضرورت ہوگی اور اطفال کی بھی ضرورت ہوگی ورنہ اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کر سکتا.اکیلا نبی بھی کوئی کام نہیں کر سکتا.دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حواری دئے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی جماعت دی.اسی طرح اگر خلافت قائم رہے گی تو ضروری ہے کہ اطفال الاحمدیہ ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ بھی قائم رہیں.اور جب یہ ساری تنظیمیں قائم رہیں گی تو خلافت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی کیونکہ جب دنیا دیکھے گی کہ جماعت کے لاکھوں لاکھ آدمی خلافت کیلئے جان دینے پر تیار ہیں تو جیسا کہ میور کے قول کے مطابق جنگ احزاب کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ پر حملہ کرنے کی وجہ سے حملہ آور بھاگ جانے پر مجبور ہو جاتے تھے اسی طرح دشمن ادھر رُخ کرنے کی جرات نہیں کریگا.وہ سمجھے گا کہ اس کیلئے لاکھوں اطفال ، خدام اور انصار جانیں

Page 375

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۹ جلد دوم دینے کیلئے تیار ہیں اس لئے اگر اس نے حملہ کیا تو وہ تباہ و برباد ہو جائے گا.غرض دشمن کسی رنگ میں بھی آئے جماعت اس سے دھوکا نہیں کھائے گی کسی شاعر نے کہا ہے.بہر رنگے کہ خواہی جامه می پوش من انداز قدت را ے شناسم کہ تو کسی رنگ کا کپڑا پہن کر آ جائے ، تو کوئی بھیس بدل لے، میں تیرے دھوکا میں نہیں آ سکتا کیونکہ میں تیرا قد پہچانتا ہوں.اسی طرح چاہے خلافت کا دشمن حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی اولاد کی شکل میں آئے اور چاہے وہ کسی بڑے اور مقرب صحابی کی اولاد کی شکل میں آئے ایک مخلص اسے دیکھ کر یہی کہے گا کہ بہر رنگے کہ خواہی جامعه می پوش من انداز قدت را می شناسم یعنی تو کسی رنگ میں بھی آ اور کسی بھیس میں بھی آ.میں تیرے دھوکا میں نہیں آسکتا کیونکہ میں تیری چال اور قد کو پہچانتا ہوں.تو چاہے مولوی محمد علی صاحب کا بحبہ پہن لے ، چاہے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کا جبہ پہن لے یا حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی اولاد کا جبہ پہن لے میں تمہیں پہچان لوں گا اور تیرے دھوکا میں نہیں آؤں گا.مجھے راولپنڈی کے ایک خادم نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ شروع شروع میں اللہ رکھا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مری کے امیر کے نام مجھے ایک تعارفی خط لکھ دو.میں نے کہا میں کیوں لکھوں.مری جا کر پوچھ لو کہ وہاں کی جماعت کا کون امیر ہے.مجھے اُس وقت فوراً خیال آیا کہ یہ کوئی منافق ہے چنانچہ میں نے لاحول پڑھنا شروع کر دیا اور آدھ گھنٹے تک پڑھتا رہا اور سمجھا کہ شاید مجھ میں بھی کوئی نقص ہے جس کی وجہ سے یہ منافق میرے پاس آیا ہے.تو احمدی عقلمند ہوتے ہیں وہ منافقوں کے فریب میں نہیں آتے کوئی کمزور احمدی ان کے فریب میں آجائے تو اور بات ہے ورنہ اکثر احمدی انہیں خوب جانتے ہیں.اب انہوں نے لاہور میں اشتہارات چھاپنے شروع کئے ہیں.جب مجھے بعض لوگوں نے یہ اطلاع دی تو میں نے کہا گھبراؤ نہیں ، پیسے ختم ہو جائیں گے تو خود بخو داشتہارات بند

Page 376

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم ہو جائیں گے.مجھے لاہور سے ایک دوست نے لکھا کہ ان لوگوں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ وہ اخباروں میں شور مچائیں اور اشتہارات شائع کریں وہ دوست نہایت مخلص ہیں اور منافقین کا بڑے جوش سے مقابلہ کر رہے ہیں.مگر منافق اسے کذاب کا خطاب دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص یوں ہی ہمارے متعلق خبریں اُڑا تا رہتا ہے لیکن ہم اسے جھوٹا کیونکر کہیں.ادھر ہمارے پاس یہ خبر پہنچی کہ ان لوگوں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ اشتہارات شائع کئے جائیں اور اُدھر لاہور کی جماعت نے ہمیں ایک اشتہار بھیج دیا جو ان منافقین نے شائع کیا تھا اور ނ جب بات پوری ہو گئی تو ہم نے سمجھ لیا کہ اس دوست نے جو خبر بھیجی تھی وہ سچی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو حقیقی انصار بنائے چونکہ تمہاری نسبت اس کے نام سے ہے اس لئے جس طرح وہ ہمیشہ زندہ رہے گا اسی طرح وہ آپ لوگوں کی تنظیم کو بھی تا قیامت زندہ رکھے اور جماعت میں خلافت بھی قائم رہے اور خلافت کی سپاہ بھی قائم رہے لیکن ہماری فوج تلواروں والی نہیں.اِن انصار میں سے تو بعض ایسے ضعیف ہیں کہ ان ایک ڈنڈا بھی نہیں اُٹھایا جا سکتا لیکن پھر بھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوج ہیں اور ان کی وجہ سے احمدیت پھیلی ہے اور امید ہے کہ آئندہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ اور زیادہ پھیلے گی اور اگر جماعت زیادہ مضبوط ہو جائے تو اس کا بوجھ بھی اِنشَاءَ الله ہلکا ہو جائے گا ورنہ انفرادی طور پر کچھ دیر کے بعد آدمی تھک جاتا ہے پس تم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں احمدیت کی اشاعت کی کوشش کرو اور انہیں تبلیغ کرو تا کہ اگلے سال ہماری جماعت موجودہ تعداد سے دُگنی ہو جائے اور تحریک جدید میں حصہ لینے والے دُگنا چندہ دیں اور پھر اپنی دعاؤں اور نیکی اور تقویٰ کے ساتھ نوجوانوں پر اثر ڈالو تا کہ وہ بھی دعائیں کرنے لگ جائیں اور صاحب کشوف و رؤیا ہو جائیں جس جماعت میں صاحب کشوف و رؤیا زیادہ ہو جاتے ہیں وہ جماعت مضبوط ہو جاتی ہے.کیونکہ انسان کی دلیل سے اتنی تسلی نہیں ہوتی جتنی تسلی کشف اور رؤیا سے ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.الصف: ۱۵ الفضل ۲۴،۲۱ مارچ ۱۹۵۷ء )

Page 377

خلافة على منهاج النبوة التوبة: ١١٧ التوبة: ١٠٠ ۳۶۱ جلد دوم اليواقيت والجواهر الجزء الثاني صفحه ۳۴۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۷ء السيرة الحلبية الجزء الثانى باب الهجرة الى المدينة صفحه ٢٢٩ مطبوع بيروت لبنان ۲۰۱۲ء السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانی صفحه ۸۷۵ مطبوعہ دمشق ۲۰۰۵ء المائدة: ۲۵ ، السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفر ۶۷۴ ، ۶۷۵ مطبوعہ دمشق ۲۰۰۵ء 2 النور: ۵۶ ۱۰ المائدة: ۶۸

Page 378

Page 379

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۳ جلد دوم اپنی اولاد در اولادکو خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے چلے جائیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مجلس انصار اللہ مرکز یہ کے دوسرے سالانہ اجتماع بمقام ربوه مورخه ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۶ء کو درج ذیل خطاب فرمایا اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور نظام خلافت کیلئے انصار کو اپنا عہد ہمیشہ یادر کھنے سے متعلق نصائح فرمائیں.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں تقریر شروع کرنے سے پہلے انصار اللہ کا عہد دُہراتا ہوں.سب دوست کھڑے ہو جائیں اور میرے ساتھ ساتھ عہد دُہراتے جائیں.(حضور کے اس ارشاد پر سب دوست کھڑے ہو گئے.اور آپ نے مندرجہ ذیل عہد دہرایا.أَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ ، رَسُولُهُ.میں اقرار کرتا ہوں کہ اسلام اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کی حفاظت کیلئے انشاء الله آخر دم تک جد و جہد کرتا رہوں گا اور اس کیلئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہوں گا نیز میں اپنی اولا د کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا “.(اس کے بعد حضور نے فرمایا.) کل کی تقریر کے بعد کھانے میں کچھ بد پرہیزی ہوگئی جس کی وجہ سے اسہال آنے شروع ہو گئے اور پھر رات بھر اسہال آتے رہے جس کی وجہ سے میں اس وقت بہت زیادہ

Page 380

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۴ جلد دوم کمزوری محسوس کر رہا ہوں.لیکن چونکہ احباب باہر سے تشریف لائے ہوئے ہیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ یہاں آکر جو کچھ بھی کہہ سکوں بیان کر دوں.6 6 میں نے کل اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آپ کا نام انصار اللہ ہے یعنی نہ صرف آپ انصار ہیں بلکہ آپ انصار اللہ ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار اللہ تعالیٰ کو تو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں لیکن اس کی نسبت کی وضاحت سے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ہمیشہ اس عہد پر قائم رہیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اس پر موت نہیں آتی اس لئے آپ کے عہد پر کبھی موت نہیں آنی چاہیے.چونکہ موت سے کوئی انسان بچ نہیں سکتا اس لئے انصار اللہ کے معنی یہ ہوں گے کہ جب تک آپ زندہ رہیں گے اس عہد پر قائم رہیں گے اور اگر آپ مر گئے تو آپ کی اولاد اس عہد کو قائم رکھے گی.یہی وجہ ہے کہ اس عہد میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا اور اگر اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں کو اس بات کی توفیق دے دے تو پھر کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں یہ توفیق مل جائے کہ ہم عیسائیوں سے بھی زیادہ عرصہ تک خلافت کو قائم رکھ سکیں.خلافت کو زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ تنظیم سلسلہ ایسی مضبوط رہے کہ تبلیغ احمدیت اور تبلیغ اسلام دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہوتی رہے جو بغیر خلافت کے نہیں ہوسکتی کیونکہ کوئی ایک آدمی اس بات کی توفیق نہیں رکھتا کہ وہ ہالینڈ ، انگلینڈ، جرمنی ، سپین ، فرانس، سکنڈے نیویا ، سوئٹزر لینڈ اور دوسرے ممالک میں مشنری بھیج سکے.یہ کام تبھی ہوسکتا ہے جب ایک تنظیم ہو اور کوئی ایسا شخص ہو جس کے ہاتھ پر ساری جماعت جمع ہو اور وہ آنه آنه، دو دو آنہ، چار آنه، روپیہ دو روپیہ جماعت کے ہر فرد سے وصول کرتا رہے اور اس دو دو آنه، چار چار آنہ اور روپیہ دو روپیہ سے اتنی رقم جمع ہو جائے کہ ساری دنیا میں تبلیغ ہو سکے.دیکھو عیسائیوں کی تعداد ہم سے زیادہ ہے.وہ اِس وقت ۶۰ کروڑ کے قریب ہیں.پوپ جو عیسائی خلیفہ ہے اُس نے اس وقت یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ ہر عیسائی سال میں ایک ایک آنہ بطور چندہ دیتا ہے اور اس کو عیسائی پوپ کا آنہ (Pope's Penny) کہتے ہیں

Page 381

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۵ جلد دوم اور اس طرح وہ پونے چار کروڑ روپیہ جمع کر لیتے ہیں.لیکن آپ لوگ باوجود اس کے کہ اتنا بوجھ اُٹھاتے ہیں کہ کوئی اپنی ماہوار تنخواہ کا ۶ فیصدی چندہ دیتا ہے اور کوئی دس فیصد چندہ دیتا ہے اور پھر بارہ ماہ متواتر دیتا ہے آپ کا چندہ پندرہ میں لاکھ بنتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری تعدا د عیسائیوں سے بہت تھوڑی ہے.اگر ہمارے پاس پونے چار کروڑ روپیہ ہو جائے تو شائد ہم دو سال میں عیسائیت کی دھجیاں بکھیر دیں.اس تھوڑے سے چندہ سے بھی ہم وہ کام کرتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے.چنانچہ عیسائیوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے جن کے اقتباسات الفضل میں بھی چھپتے رہے ہیں کہ احمدیوں نے ہمارا ناطقہ بند کر دیا ہے جہاں بھی ہم جاتے ہیں احمدیت کی تعلیم کی وجہ سے لوگ ہماری طرف توجہ نہیں کرتے اور نہ صرف نئے لوگ عیسائیت میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ہم سے نکل نکل کر لوگ مسلمان ہو رہے ہیں.نائیجیریا اور گولڈ کوسٹ کے متعلق تو یہ رپورٹ آئی ہے کہ وہاں جو لوگ احمدی ہوئے ہیں.ان میں سے زیادہ تر تعداد عیسائیوں سے آئی ہے سیرالیون اور لائبیریا سے بھی رپورٹ آئی ہے کہ عیسائی لوگ کثرت سے احمدیت کی طرف متوجہ ہور ہے ہیں اور سلسلہ میں داخل ہور ہے ہیں.پاکستان اور ہندوستان میں لوگ زیادہ تر مسلمانوں سے آئے ہیں کیونکہ یہاں مسلمان زیادہ ہیں اور عیسائی کم ہیں لیکن وہاں چونکہ عیسائی زیادہ ہیں اس لئے زیادہ تر احمدی عیسائیوں سے ہی ہوئے ہیں.چنانچہ مغربی افریقہ میں احمدیت کی ترقی کے متعلق گولڈ کوسٹ یونیورسٹی کالج کے پروفیسر جے سی ولیم سن نے اپنی ایک کتاب "مسیح" یا محمد میں لکھا ہے کہ 'اشانٹی گولڈ کوسٹ کے جنوبی حصوں میں عیسائیت آجکل ترقی کر رہی ہے لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصاً ساحل کے ساتھ ساتھ احمد یہ جماعت کو عظیم فتوحات حاصل ہو رہی ہیں یہ خوشکن تو قع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی بن جائیگا اب معرض خطر میں ہے اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں زیادہ عظیم ہے کیونکہ تعلیم یافتہ نو جوانوں کی خاصی تعدا د احمدیت کی طرف کھنچی چلی جا رہی ہے اور یقیناً ( یہ صورت ) عیسائیت کیلئے ایک کھلا چیلنج ہے.پھر جو لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں ان کے اخلاص کی یہ حالت ہے کہ

Page 382

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۶.جلد دوم سیرالیون کے مشن نے لکھا کہ یہاں ایک عیسائی سردار تھا جس کو یہاں چیف کے نام سے پکارا جاتا ہے.در حقیقت ان کی حیثیت ہمارے ملک کے ذیلداروں کی سی ہوتی ہے مگر وہاں کی گورنمنٹ نے ان چیفس کو بہت زیادہ اختیارات دے رکھے ہیں.ان کے پاس مقدمات جاتے ہیں اور گورنمنٹ نے ایک خاص حد تک ان کو سزا دینے کا بھی اختیار دیا ہوا ہے.وہاں ملک کے رواج کے مطابق چیف کو خدا تعالیٰ کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے اس لئے ان کے ہاں ہماری طرح خدا تعالیٰ کی قسم کھانے کا رواج نہیں بلکہ وہاں یہ رواج ہے کہ جب کسی سے قسم لینی ہو تو چیف کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنا سٹول جس پر وہ بیٹھتا ہے سامنے رکھ دیتا ہے اور مدعی یا اس کا نمائندہ اُس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے چیف کے اس سٹول کی قسم کہ میں نے فلاں کی بات کی ہے یا نہیں کی اور اسکی بات مان لی جاتی ہے.ہمارے احمدیوں نے چیف کے سٹول پر ہاتھ رکھ کر اس کی قسم کھانے سے انکار کرنا شروع کر دیا اور کہا یہ شرک ہے ہم تو خدا تعالیٰ کی قسم کھائیں گے لیکن چیف نے کہا میں تو خدا تعالیٰ کی قسم نہیں مانتا ہمارے باپ دادا سے یہ رواج چلا آ رہا ہے کہ اِس سٹول کی قسم کھائی جاتی ہے اس لئے میں اس سٹول کی قسم لوں گا لیکن احمدیوں نے ایسی قسم کھانے سے انکار کر دیا.چنانچہ وہاں ایک کے بعد دوسرے احمدی کو سزاملنی شروع ہوئی لیکن احمدی سٹول کی قسم کھانے سے برابر انکار کرتے گئے.آخر گورنمنٹ ڈرگئی اور اُس نے کہا آخر تم کتنے احمدیوں کو جیل بند کرو گے احمد بیت تو اس علاقہ میں پھیل رہی ہے اور اس کے ماننے والوں کی تعدا د روز بروز زیادہ ہو رہی ہے.چنانچہ تنگ آکر گورنمنٹ نے چیفس کو حکم دے دیا کہ اگر کسی مقدمہ میں کسی احمدی سے قسم لینے کی ضرورت پڑے تو اُسے چیف کے سٹول کی قسم نہ دی جائے بلکہ اسے خدا تعالیٰ کی قسم دی جائے کیونکہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم نہیں کھا سکتے تو دیکھو وہاں احمدیت نے کا یا پلٹ دی ہے.سیرالیون میں ہمارا ایک اخبار چھپتا ہے.اس کے متعلق ہمارے مبلغ نے لکھا کہ چونکہ ہمارے پاس کوئی پر لیں نہیں تھا اس لئے عیسائیوں کے پریس سے وہ اخبار چھپنا شروع ہوا.دو چار پر چوں تک تو وہ برداشت کرتے چلے گئے لیکن جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو

Page 383

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم پادریوں کا ایک وفد اُس پریس کے مالک کے پاس گیا اور انہوں نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اپنے پریس میں ایک احمدی اخبار شائع کر رہے ہو جس نے عیسائیوں کی جڑوں پر تبر رکھا ہوا ہے.چنانچہ اسے غیرت آئی اور اُس نے کہہ دیا کہ آئندہ میں تمہارا اخبار اپنے پر لیں پر نہیں چھاپوں گا کیونکہ پادری بُرا مناتے ہیں.چنانچہ اخبار چھپنا بند ہو گیا تو عیسائیوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے ہمیں جواب دینے کے علاوہ اپنے اخبار میں بھی ایک نوٹ لکھا کہ ہم نے تو احمدیوں کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا خدا ان کے لئے کیا سامان پیدا کرتا ہے.یعنی پہلے ان کا اخبار ہمارے پر لیس میں چھپ جایا کرتا تھا اب چونکہ ہم نے انکار کر دیا ہے اور ان کے پاس اپنا کوئی پریس نہیں اس لئے اب ہم دیکھیں گے کہ یہ جو مسیح کے مقابلہ میں اپنا خدا پیش کیا کرتے ہیں اس کی کیا طاقت ہے اگر اس میں کوئی قدرت ہے تو وہ ان کیلئے خود سامان پیدا کرے.وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو سخت تکلیف محسوس ہوئی.میں نے اپنی جماعت کو تحریک کی کہ وہ چندہ کر کے اتنی رقم جمع کر دیں کہ ہم اپنا پر لیں خرید سکیں.اس سلسلہ میں میں نے لاری کا ٹکٹ لیا اور پونے تین سومیل پر ایک احمدی کے پاس گیا تا کہ اُسے تحریک کروں کہ وہ اِس کام میں حصہ لے.میں اُس کی طرف جا رہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی اس کا گاؤں آٹھ میل پرے تھا کہ وہ مجھے ایک دوسری لاری میں بیٹھا ہوا نظر آگیا اور اس نے بھی مجھے دیکھ لیا.وہ مجھے دیکھتے ہی لاری سے اُتر پڑا اور کہنے لگا آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟ میں نے کہا اِس اِس طرح ایک عیسائی اخبار نے لکھا ہے کہ ہم نے تو ان کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے اگر مسیح کے مقابلہ میں ان کے خدا میں بھی کوئی طاقت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھا دے.وہ کہنے لگا آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی گاؤں سے ہو کر آتا ہوں.چنانچہ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اُس نے پانچ سو پونڈ لا کر مجھے دے دیئے.پانچ سو پونڈ وہ اس سے پہلے دے چکا تھا گویا تیرہ ہزار روپیہ کے قریب اس نے رقم دے دی اور کہا میری خواہش ہے کہ آپ پر لیس کا جلدی انتظام کریں تا کہ ہم عیسائیوں کو جواب دے سکیں کہ اگر تم نے ہمارا اخبار چھاپنے سے انکار کر دیا تھا تو اب ہمارے خدا نے بھی ہمیں اپنا پر لیس دے دیا ہے.

Page 384

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۸ جلد دوم جماعت کے دوسرے دوستوں نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا ہے اور اس وقت تک ۱۸۰۰ پونڈ سے زیادہ رقم جمع ہو چکی ہے اور انگلینڈ میں ایک احمدی دوست کے ذریعہ پریس کیلئے آرڈر دے دیا گیا ہے.یہ شخص جس کے پاس ہمارا مبلغ گیا کسی زمانہ میں احمدیت کا شدید مخالف ہوا کرتا تھا.اتنا سخت مخالف کہ ایک دفعہ کوئی احمدی اس کے ساتھ دریا کے کنارے جا رہا تھا کہ اُس احمدی نے اُسے تبلیغ شروع کر دی.وہ دریا کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ دیکھو! یہ دریا ادھر سے اُدھر بہہ رہا ہے اگر یہ دریا یک دم اپنا رُخ بدل لے اور نیچے سے اوپر کی طرف اُلٹا بہنا شروع کر دے تو یہ ممکن ہے لیکن میرا احمدی ہونا ناممکن ہے.مگر کچھ دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی بڑا عالم فاضل نہیں بلکہ ایک لوکل افریقین احمدی اُس سے ملا اور چند دن اُس سے باتیں کیں تو وہ احمدی ہو گیا.پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اُس کی مدد کی اور اُس کی مالی حالت پہلے سے بہت اچھی ہو گئی.اب دیکھ لو ان لوگوں کے اندر جو اسلام اور احمدیت کیلئے غیرت پیدا ہوئی ہے وہ محض احمدیت کی برکت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے.دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر الزام لگاتی تھی کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ ہیں مگر خدا تعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ایجنٹ ہیں.اگر آپ مخالفوں کے قول کے مطابق عیسائیت کے ایجنٹ تھے تو عیسائیوں کو مسلمان بنانے کے کیا معنی.اگر آپ عیسائیوں کے ایجنٹ ہوتے تو آپ مسلمانوں کو عیسائی بناتے نہ کہ عیسائیوں کو مسلمان.کیونکہ کوئی شخص اپنے دشمن کی تائید کیلئے تیار نہیں ہوتا.جو شخص عیسائیت کی جڑوں پر تبر رکھتا ہے عیسائی لوگ اس کی مدد کیوں کریں گے.حضرت مسیح ناصری سے بھی بالکل اس طرح کا واقعہ ہوا تھا آپ پر یہودیوں نے الزام لگایا کہ انہیں بعل بُت سکھاتا ہے.اس پر حضرت مسیح علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میں بعل بُت کے خلاف تعلیم دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ایک خدا کی پرستش کرو.پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ بعل مجھے سکھاتا ہے اور میری تائید کرتا ہے.اب دیکھو یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کتنا بڑا نشان ہے کہ آپ کی زندگی میں تو مخالف کہتے رہے کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ ہیں

Page 385

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۹ جلد دوم ہمارا لیکن آپ کی وفات کے بعد آپ کے ماننے والی غریب جماعت کو اس نے یہ توفیق دی کہ وہ عیسائیت کو شکست دے.اس نے چندے دیئے اور تبلیغ کا جال پھیلا دیا.اگر وہ چندے نہ دیتے اور ہمارے مبلغ دنیا کے مختلف ممالک میں نہ جاتے تو یہ لوگ جو احمدیت میں داخل ہیں کہاں سے آتے اور عیسائیت کا کام کیسے بند ہوتا.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ انہی چندوں کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی کہ عیسائیوں کو ایک ملک کے متعلق یہ کہنا پڑا کہ یہ خوشکن امید کہ یہ ملک عیسائی ہو جائے گا پوری نہیں ہو سکتی.اب غالباً اسلام عیسائیت کی جگہ اس ملک میں ترقی کر رہا ہے.احمدی جماعت کی طرف سے سکول جاری ہور ہے ہیں.کالج قائم کئے جار ہے ہیں.مساجد تعمیر ہو رہی ہیں چنانچہ گولڈ کوسٹ کے علاقہ میں کماسی مقام پر سیکنڈری سکول قائم ہے.کہتے تو اسے کالج ہیں وہاں صرف ایف اے تک تعلیم دی جاتی ہے.کئی کئی میل سے لوگ اپنے بچے یہاں بھیجتے ہیں.ان لوگوں کو دین پڑھنے کا شوق ہے.پچھلے سال ایک لڑکا یہاں تعلیم حاصل کرنے کیلئے آیا.اس کے متعلق وہاں کے مبلغ نے لکھا کہ اس کی والدہ میرے پاس آئی اور کہا میرے اس بچے کو ربوہ میں رکھنے کا انتظام کریں تا کہ یہ وہاں تعلیم حاصل کر سکے.مبلغ نے کہا بی بی! تو بیوہ عورت ہے اتنا بوجھ کیوں اُٹھاتی ہے یہ رقم تیرے کام آئے گی.شاید تو خیال کرتی ہو کہ ربوہ میں تیرا لڑکا بی اے یا ایم اے ہو جائے گا وہاں تو وہ لوگ دینیات پڑھاتے ہیں.اس پر وہ عورت کہنے لگی میں تو اپنے لڑکے کو ربوہ بھیجتی ہی اس لئے ہوں کہ وہ وہاں جا کر دین کی تعلیم حاصل کرے آپ اسے وہاں بھیجے خرچ میں دوں گی.چنانچہ وہ لڑکا یہاں تعلیم حاصل کر رہا ہے.تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد واپس اپنے ملک جائیگا تو وہاں کا مبلغ بن جائے گا.اسی طرح ایسٹ افریقہ سے امری عبیدی آئے تھے.وہ عیسائیوں میں سے احمدی ہوئے ہیں.حبشیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کم عقل ہوتے ہیں لیکن وہ شخص اتنا ذہین ہے کہ اس نے اس بات کو غلط ثابت کر دیا ہے.کراچی میں پچھلے دنوں نوجوانوں کی ایک انجمن کی کانفرنس ہوئی تھی.اس میں انہوں نے ہمیں نہیں بلایا تھا لیکن ہم نے خود بعض لڑکے وہاں بھیج دیئے تھے ان میں سے ایک امری عبیدی بھی تھے بعد میں وہاں سے رپورٹ آئی کہ وہ ہر بات میں امری عبیدی سے

Page 386

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۰ جلد دوم مشورہ لیتے تھے اور اس کو آگے کرتے تھے گویا وہ تو ہمیں بلاتے بھی نہیں تھے لیکن جب ہمارے نوجوان وہاں گئے تو وہ ہر بات میں ہمارے اس نوجوان سے مشورہ کرتے تھے اور اسے آگے کرتے تھے اب وہ واپس پہنچ گئے ہیں اور ان کی طرف سے چٹھی آئی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے تبلیغ کا کام شروع کر دیا ہے.خدا تعالیٰ وہ دن جلد لائے کہ جب یہ ساری قوم احمدیت کو قبول کر لے.تو یہ جو کچھ ہو رہا ہے محض نظام کی برکت کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اس نظام کا ہی دوسرا نام خلافت ہے.خلافت کوئی علیحدہ چیز نہیں بلکہ خلافت نام ہے نظام کا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب الوصیت میں فرماتے ہیں کہ :.”اے عزیز و جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دوجھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں.کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا لے اب دیکھو قدرت ثانیہ کسی انجمن کا نام نہیں قدرت ثانیہ خلافت اور نظام کا نام ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام فرماتے ہیں کہ میں تو کچھ مدت تک تمہارے اندر رہ سکتا ہوں مگر یہ قدرت ثانیہ دائمی ہوگی اور اس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور قیامت تک نہ کوئی نبی رہ سکتا ہے اور نہ کوئی خلیفہ رہ سکتا ہے ہاں خلافت قیامت تک رہ سکتی ہے، نظام قیامت تک رہ سکتا ہے.پس یہاں قدرتِ ثانیہ سے خلافت ہی مراد ہے کیونکہ خلیفہ تو فوت ہو جاتا ہے لیکن خلافت قیامت تک جاسکتی ہے.اگر جماعت ایک خلیفہ کے بعد دوسرا خلیفہ مانتی چلی جائے اور قیامت تک مانتی چلی جائے تو ایک عیسائیت کیا ہزاروں عیسائیتیں

Page 387

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۱ جلد دوم ނ بھی احمدیوں کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتیں کیونکہ ہمارے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا دیا ہوا دلائل و براہین کا وہ ذخیرہ ہے جو کسی اور قوم کے پاس نہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ آپ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کر دیں.اب وہ زمانہ جب اسلام تمام دنیا پر غالب ہوگا کسی ایک آدمی کی کوشش.نہیں آسکتا بلکہ اس کے لئے ایک لمبے زمانہ تک لاکھوں آدمیوں کی جد و جہد کی ضرورت ہے پس یہ کام صرف خلافت کے ذریعہ ہی پورا ہو سکتا ہے لیکن اس کا سارا کریڈٹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملے گا جن کے دیئے ہوئے ہتھیار ہم استعمال کرتے ہیں.باقی باتیں محض خوشہ چینی ہیں.جیسے کوئی شخص کسی باغ میں چلا جائے اور اس کے پھل کھالے تو وہ پھلوں کا مزہ تو اُٹھا لے گا لیکن اصل مزہ اُٹھا نا اُس کا ہے جس نے وہ باغ لگایا.لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی شخص سل کے عارضہ سے بیمار ہو گیا اُس نے بہتیرا علاج کرایا مگر اسے کوئی فائدہ نہ ہوا.جب ڈاکٹروں نے اسے لا علاج قرار دے دیا تو وہ اپنے وطن واپس آ گیا.وہ شخص وزیر آباد کے قریب سڑک پر جارہا تھا کہ اسے ایک پہلوان ملا جو کہ متکبرانہ طور پر سڑک پر چل رہا تھا اُس نے اُس عام دستور کے مطابق کہ پہلوان اپنا سر منڈ والیتے ہیں تا کہ کشتی میں ان کا مد مقابل ان کے بال نہ پکڑے اپنے بال منڈائے ہوتے تھے.اس بیمار شخص کی حالت بہت کمزور تھی لیکن اُس پہلوان کو دیکھ کر اسے شرارت سوجھی اور اس نے آہستہ سے جا کر اس کے سر پر ٹھینگا مارا.اس پر اُس پہلوان کو غصہ آ گیا اور اُس نے سمجھا کہ اس شخص نے میری ہتک کی ہے.چنانچہ اس نے اُسے ٹھڈوں سے خوب مارا.جب وہ اسے ٹھڈے ما رہا تھا تو وہ کہتا جاتا تھا کہ تو جتنے ٹھڈے چاہے مارے جتنا مزہ مجھے اس ٹھینگا مارنے میں آیا ہے تجھے ٹھڈوں سے نہیں آ سکتا.اسی طرح جو مزہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دلائل میں آیا ہے وہ عیسائیت کو اپنی طاقت کے زمانہ میں بھی نہیں آیا.دیکھ لو عیسائی ہم پر حاکم تھے اور ہم کمزور اور ماتحت رعا یا تھے.ہمارے پاس نہ تلوار تھی اور نہ کوئی مادی طاقت لیکن خدا تعالیٰ کا ایک پہلوان آیا اور اُس نے ہمیں وہ دلائل دیئے کہ جن سے اب ہم امریکہ انگلینڈ اور دوسرے سب ممالک کو شکست دے رہے ہیں یہ

Page 388

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۲ جلد دوم جو ٹھینگے کا مزہ ہے وہ ان کے ٹھڈوں میں نہیں تو یہ برکت جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل دی ہے اور جوں جوں ہمارے مبلغ کام کریں گے اور احمدیت ترقی کرے گی ہمیں اور زیادہ برکت ملے گی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تیرے ذریعہ اسلام کو دنیا پر غالب کروں گا اب جو شخص بھی اسلام کی تبلیغ کیلئے باہر نکلتا ہے اور جو شخص بھی تبلیغ کیلئے ایک پیسہ بھی دیتا ہے درحقیقت اپنے دائرہ میں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے.اور جو وعدے خدا تعالیٰ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تھے وہ اپنے درجہ اور مقام کے لحاظ سے اس کے ساتھ بھی ہونگے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فوت ہو گئے اور قرآن کریم ایک کتاب ہے جو بولتی نہیں اب جو مبلغ ہیں وہی بولیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد ایک رنگ میں آپ کے نائب ہونگے پس جوں جوں وہ امریکہ ، انگلستان اور دوسرے ممالک میں تبلیغ کریں گے اور اسلام بڑھے گا خلافت محمد یہ ظلی طور پر خدا تعالیٰ انہیں دیتا چلا جائے گا لیکن ان کی وہاں خلافت قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ یہاں مرکز میں بھی خلافت قائم ہو جو تمام احمدیوں کو اکٹھا رکھے اور انہیں خرچ بھجوائے تا کہ وہ اپنی اپنی جگہ کام کرسکیں.پھر جوں جوں چندے بڑھتے جائیں تبلیغ کے نظام کو وسیع کرتے چلے جائیں.میں نے کل بتایا تھا عیسائی خلافت نے ۵۲ لاکھ مبلغ تبلیغ کیلئے تیار کیا ہوا ہے اور اس کے مقابلہ میں ہماری طرف سے صرف سو ڈیڑھ سو مبلغ ہے.جس دن مسیح محمدی کو ۲ ۵ لاکھ مبلغ مل گئے اُس دن بھاگتے ہوئے عیسائیت کو رستہ نہیں ملے گا.“ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵ ایڈیشن ۲۰۰۸ء الفضل ۲۶ ، ۲۷ مارچ ۱۹۵۷ء )

Page 389

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر ( تقریر فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۵۶ء بر موقع جلسه سالانه ربوہ ) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :." آج کی تقریر عام طور پر عام مسائل پر ہوا کرتی تھی لیکن اس دفعہ فتنہ کی وجہ سے مجھے اس تقریر کیلئے بھی ایک ایسا موضوع چننا پڑا جو اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کیلئے اس وجہ سے کہ اس کا تعلق خلافت احمدیہ سے ہے اور جماعت احمد یہ میں جولوگ شامل نہیں ان کے لئے اس لئے کہ اس میں ایک اسلامی موضوع بیان ہوا ہے نہایت اہمیت رکھنے والا ہے.اور دوسرے اس لئے بھی میں نے اسے چنا ہے کہ اگر وہ ہمارے اندر فتنہ پیدا ہونے سے خوش ہوتے ہیں تو اور بھی خوش ہو جائیں اور ساری تفصیل ان کو معلوم ہو جائے.لیکن اس کی تفصیلات اتنی ہو گئی ہیں کہ میں حیران ہوں کہ اس مضمون کو کس طرح بیان کروں.بعض دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ اس کے بعض حصوں میں میں صرف نوٹ پڑھ کر سنا دوں.پہلے میری عادت تھی کہ بار یک نوٹ چھوٹے کاغذ پر آٹھ یا بارہ صفحے کے لکھے ہوئے ہوتے تھے ، حد سے حد سولہ صفحے کے.بعض بہت لمبی لمبی پانچ پانچ چھ چھ گھنٹہ کی تقریر میں ہوئیں تو ان میں چوبیس صفحہ کے بھی نوٹ ہوتے تھے لیکن وہ ایسے صفحے ہوتے ہیں کہ ایک فل سکیپ سائز کے کاغذ کے آٹھ صفحے بنتے ہیں مگر اس دفعہ یہ نوٹ بہت لمبے ہو گئے ہیں.دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ میں وہ نوٹ ہی پڑھ کر سنا دوں.گو بعض دوسروں نے کہا ہے کہ آپ پڑھ کر سنا ہی نہیں سکتے جب پڑھ کے سنانے لگیں گے تو کچھ نہ کچھ اپنی باتیں شروع کر دیں گے اس طرح تقریر لمبی ہو جائے گی.گو یہ ہو سکتا ہے کہ بعض حصے جو رہ جائیں اُن کو بعد میں شائع

Page 390

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۴ جلد دوم کر دیا جائے مگر مناسب یہی ہے کہ احباب جو جمع ہوئے ہیں اُن تک مضمون میری زبان سے پہنچ جائے اس لئے جہاں بھی ایسا موقع آیا کہ مجھے معلوم ہوا کہ مضمون لمبا ہو رہا ہے تو میں صرف نوٹ پڑھ کے سنا دوں گا تا کہ اس جلسہ میں یہ تقریر ختم ہو جائے.سورۃ اعلیٰ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر فرماتا ہے.قد افلح من ترعى وذكر اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيوة الدُّنْيَا وَالآخِرَةُ خير و ابقى ان هذا لفِى الصُّحُفِ الأولى صُحُفِ ابْراهِيمَ وَمُوسى لا یعنی جو شخص پاک ہوتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے اور نمازیں پڑھتا ہے وہ بھی کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اے قرآن کریم کے مخاطب ! تم لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دیتے ہو یعنی دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہو حالانکہ دین دُنیا پر مقدم ہے اور قائم رہنے والا ہے.یہی بات پہلی کتابوں میں بھی لکھی ہوئی ہے.ابراہیم کی کتاب میں بھی لکھی ہے اور موٹی کی کتاب میں بھی یہی بات لکھی ہے.ان آیات سے جو میں نے پڑھی ہیں ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو وحی نازل ہوئی تھی ان دونوں میں یہ کہا گیا تھا کہ اے لوگو ! آخرت یعنی دین کو دنیا پر مقدم کرو.دنیا کو دین یعنی آخرت پر مقدم نہ کرو ورنہ تمہارا الہی نظام سے ٹکراؤ ہو جائیگا اور تم حق کو نہیں پا سکو گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو بھی یہی پرانی تعلیم سکھائی گئی اور آپ نے اپنی بیعت میں یہ الفاظ رکھے کہ : میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا“ در حقیقت یہی تعلیم ہے جس کے نہ ماننے کی وجہ سے نظام آسمانی کی مخالفت کی جاتی ہے یعنی رقابت یا لالچ یا بغض کی وجہ سے.آدم کے زمانہ میں شیطان کی مخالفت چنانچہ آدم کو دیکھ لو شیطان نے اس کی کے لائے ہوئے نظام کی مخالفت کی.

Page 391

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۵ جلد دوم اس مخالفت کی وجہ کیا تھی ؟ قرآن کریم اسے یوں بیان فرماتا ہے.2 قال ما منعكَ الَّا تَسْجُدَ إِذا مَرتكَ ، قَالَ انَّا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَّارٍةٌ خَلَقْتَهُ مِن طِينٍ قَالَ فَاهْبِطَ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ ان تتكبر فيها فَاخْرُجُ إِنَّكَ مِنَ الصَّغرِينَ قَالَ انْظُرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ كَ قَالَ إنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ قَالَ فَبِمَا اغْوَيْتَنِي لَا قُعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ المُسْتَقِيمَ ثُمَّ لَاتِيَنَّهُمْ مَنْ بَيْنِ آيد يُهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ ايْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَالِهِمْ وَلَا تَجِدُ اكثرَ هُمْ شَكِرِينَ قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مدرو ما مدحُورًا ، لَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لا مَلَعَنَ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ أَجْمَعِينَ یعنی اے شیطان ! جب میں نے کہا تھا کہ اس آدم کی خاطر اس کی پیدائش کی خوشی میں میرے آگے سجدہ کرو تو تم نے کیوں سجدہ نہیں کیا ؟ یا میں نے کہا تھا کہ آدم کی فرمانبرداری کرو تو تم نے کیوں فرمانبرداری نہیں کی؟ تو اُس نے جواب دیا میں نے اس لئے ایسا نہیں کیا کہ میں اس سے اچھا ہوں ( قال انا خَيْرٌ مِّنْهُ ( یعنی میری نافرمانی کی وجہ رقابت تھی مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور اسے گیلی مٹی سے پید کیا ہے ( خَلَقْتَنِي مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طین ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کو آدم سے یہی بغض تھا کہ میں تو اس سے اعلیٰ ہوں پھر اس کو مجھ پر فضیلت کیوں دی گئی.یہی بغض ابلیس کے ساتھیوں کو آدم کے ساتھیوں سے تھا یعنی دنیا کو دین پر مقدم کرنا ساری مخالفت کا باعث تھا.وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو بڑھایا ہے بلکہ وہ یہ دیکھتے تھے کہ ہم پر اس کو فضیلت دے دی گئی ہے.چنانچہ اس کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے شیطان ! میرے نظام سے باہر نکل جا ( قال ناشبط مِنْهَا ) کیونکہ تیرا کوئی حق نہیں تھا کہ میری جماعت میں شامل ہوتے ہوئے تکبر کرتا اور میرے مقرر کردہ خلیفہ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتا (فَمَا يَكُونُ لَكَ ان تتكبر فيها ) پس نکل جا کیونکہ ذلّت تیرے نصیب میں ہے (فَاخْرُجُ اِنَّكَ مِنَ الصّغرِينَ) اُس نے کہا ! الہی ! جب تک یہ قوم ترقی کرے اور دنیا پر غالب آجائے مجھے ڈھیل دے اور موقع دے کہ میں ان کو خراب کروں ( قال انظرني إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا

Page 392

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم ہاں ان کی ترقی کے زمانہ تک میں تجھے ڈھیل دوں گا (ققَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ ) اس پر شیطان نے کہا کہ مجھے بھی تیری ہی ذات کی قسم ! کہ چونکہ تو نے اپنے نظام کو تباہی سے بچانے کیلئے مجھے ہلاکت میں ڈالا ہے اس لئے میں بھی تیرے نظام پر چلنے والوں کی تباہی کیلئے تیرے سیدھے راستہ پر ڈاکوؤں کی طرح بیٹھوں گا ( قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَا قُعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ( پھر میں اُن کے پاس کبھی تو اُن کے لیڈروں کے ذریعہ سے آؤں گا (ثُمَّ لَاتِيَهُمْ مِنْ بَيْنِ آيد يهم ) اور کبھی اُن کے چھوٹے لوگوں کے ذریعہ سے آؤں گا ( ومن خَلْفِهِمْ) اور کبھی دینی دلیلیں دے دے کر ورغلا ؤں گا و عن ايمانهم ) اور کبھی دنیوی طور پر اُن کو ورغلاؤں گا کہ اگر تم نے ان تعلیموں پر عمل کیا تو حکومت مخالف ہو جائے گی.( وعن شمائلهم ) اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائیگا ( وَلا تَجِدُا كثرَ هُم شكرين ) یعنی تو دیکھ لے گا کہ ان میں سے اکثر تیری نعمت خلافت پر شکر گزار نہیں ہیں بلکہ اکثر ان میں سے شبہات میں پڑ جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تیری ان لافوں کی پرواہ نہیں کرتا تو میرے نظام جماعت سے نکل جا ہمیشہ گنہگار قرار دیا جائے گا اور تجھے حقیر سمجھا جائے گا اور تجھے جماعت حقہ اسلامیہ سے دھتکارا جائے گا.( قال اخْرُجُ مِنْهَا مَنْسُومًا مَّدْحُورًا ) اور جو ان لوگوں میں سے تیری اتباع کریں گے ان سب کو میں جہنم میں جھونک دوں گا یعنی نا کام اور حسرتوں کا شکار بنا دوں گا ( لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لا مَلَعَنَ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ أَجْمَعِينَ ) اس ارشاد پر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے پورا عمل کیا جو ہمیشہ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِیمِ کہتے آئے ہیں.باقی جماعتوں میں سے کچھ لوگوں نے اس پر عمل تو کیا ہے لیکن اس کو اہم اصل قرار دے کر اسے یاد نہیں رکھا.ان آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ مخالفین نظام الہی کو اپنے آپ سے جدا کر دینا خدا کی حکم ہے اور یہ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ ناکام و نامرادر ہیں گے چنانچہ جس وقت یہ فتنہ شروع ہوا ہے بہت سے جماعت کے مخلصین نے مجھے لکھا کہ آپ خواہ مخواہ ان کو موقع کیوں دیتے ہیں کیوں نہیں انہیں یعنی تازه فتنه منافقین

Page 393

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۷ جلد دوم جماعت سے خارج کر دیتے.بعض کمزور ایسے بھی تھے جنہوں نے یہ لکھنا شروع کیا کہ آخر حضرت خلیفہ اول کی اولاد ہے.اس پر مجھے مولوی رحیم بخش صاحب کا واقعہ یاد آ گیا.۱۹۱۴ء میں جب مولوی محمد احسن صاحب نے لاہوریوں کے لالچ دلانے پر اشتہار شائع کیا کہ میں نے ہی میاں محمود کو خلیفہ بنایا تھا اور میں ہی ان کو خلافت سے اُتارتا ہوں تو جماعت نے اُس وقت یہ ریزولیوشن پیش کیا کہ ان کو جماعت سے نکالا جائے.مولوی رحیم بخش صاحب سیالکوٹ کے ایک بڑھے صحابی تھے وہ کھڑے ہو گئے اور بڑے زور سے کہنے لگے کہ ایسا ریزولیوشن پاس نہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو فرشتہ قرار دیا ہے.میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ مولوی صاحب ! آپ کا کیا منشا ہے کہ جو کہتا ہے کہ خلافت توڑ دو اُس کو جماعت سے نہ نکالیں؟ تو کہنے لگے اگر ایسا ہے تو پھر اس کو جماعت سے نکال دو.تو وہ لوگ جو آج بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ حضرت خلیفہ اول کی اولاد ہے ان سے میں کہتا ہوں کہ یہ تو حضرت خلیفہ اول کی اولاد ہے اور مولوی محمد احسن کے متعلق حضرت صاحب نے کسی خط میں لکھا ہے کہ یہ جو حدیث میں آیا تھا کہ مسیح موعود دو فرشتوں پر اُترے گا ان میں سے ایک مولوی محمد احسن بھی ہیں.اُس وقت تو جماعت نے اتنی ہمت کی کہ مولوی محمد احسن کو جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرشتہ قرار دیا تھا انہوں نے کہا کہ خلیفہ کے سامنے اگر فرشتہ بھی کھڑا ہوتا ہے تو نکالو اُ سے.حضرت خلیفہ اول بھی یہی کہا کرتے تھے کہ اگر تم فرشتے بھی بن جاؤ تو خلیفہ پر اعتراض کرنے پر تم پکڑے جاؤ گے لیکن آج بعض کمزور دل کہتے ہیں کہ یہ حضرت خلیفہ اول کی اولاد ہیں ان کو کچھ نہ کہو.جماعت کو تباہ ہونے دو.مرزا صاحب کے سلسلہ کو تباہ ہونے دو.محمد رسول اللہ ﷺ کے مشن کو نقصان پہنچنے دو.قرآن کریم کی تعلیم کو غلط ہونے دو.اسلام کو کمزور ہونے دو، پر حضرت خلیفہ اول کی اولا د کو کچھ نہ کہو.گویا حضرت خلیفہ اول کی اولا د محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ معزز ہے ، وہ قرآن سے بھی زیادہ معزز ہے، وہ اسلام سے بھی زیادہ معزز ہے، وہ مسیح موعود سے بھی زیادہ معزز ہے، وہ مسیح موعود کے خاندان سے بھی زیادہ معزز ہے ، وہ مسیح موعود کے الہامات سے بھی زیادہ معزز ہے ان کو کچھ نہ کہو سلسلہ کو تباہ ہونے دو.قرآن کریم کی تعلیم کو غلط ہونے دو ،

Page 394

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۸ جلد دوم خلافت کو مٹنے دو، خدا کے کلام کو غلط ثابت ہونے دو مگر یہ کام نہ کرو.تو کچھ لوگوں نے تو یہ کہا چنانچہ مری میں جب ایک صاحب کو پتہ لگا کہ میں ایک اشتہار لکھ رہا ہوں تو کہنے لگے نہ.نہ.نہ.نہ آپ نے ۲۵ سال ان کو معاف کیا ہے اب بھی معاف کر دیجئے.میں نے کہا مجھے ۲۵ سال معاف کرنے کی سزا ہی تو مل رہی ہے اگر میں ان کو ۲۵ سال معاف نہ کرتا اور ۱۹۲۶ء میں ہی ان کو کیڑے کی طرح باہر نکال کے پھینک دیتا تو آج ان کو یہ کہاں ہمت ہوتی.یہ مولا نا بنے ہمارے وظیفے کھا کھا کے.یہ طبیب بنے سلسلہ سے وظیفے لے لے کر.اور اب اِن کو یہ جرات پیدا ہوگئی کہ کہہ دیا کہ حضرت مولانا نے مسند احمد بن حنبل کی تبویب کی ہے.حالانکہ مسند احمد بن حنبل کی تبویب کا کچھ حصہ حضرت خلیفہ اول نے کیا ہوا تھا وہ فہرست لائبریری سے مولوی عبد المنان نے عاریتہ لی اور واپس نہ کی اور اس کے اوپر کتاب لکھی اور وہ بھی جامعہ احمدیہ کے پروفیسروں اور طالبعلموں کی مدد سے اور پھر اس کے بعد کہہ دیا کہ یہ عظیم الشان کام میں نے کیا ہے.جب یہ ہوا تو ہمارے مولویوں کو غیرت پیدا ہوئی اور انہوں نے مجھے کہا کہ اس کتاب کو چھوڑ میں ہم لکھ دیں گے.میں نے کہا بشرطیکہ جلسہ سے پہلے لکھ دو.چنانچہ بارہ دن ہوئے وہ مجھے اطلاع دے چکے ہیں کہ مسند احمد بن حنبل کی تبویب اس سے زیادہ مکمل جس کا دعوی مولوی عبد المنان کرتے ہیں ہم تیار کر چکے ہیں اور اس لئے گو اس کی چھپوائی پر بڑی رقم خرچ ہو گی مگر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کو جز و جز و کر کے شائع کر دیا جائے تاکہ پہلے اجزاء کی قیمت سے اس کے آخری اجزاء چھاپے جاسکیں اور حضرت خلیفہ اول کی خواہش پوری ہو جائے.خود میں نے بھی اس کے متعلق ۱۹۴۴ء میں ایک تقریر کی ہوئی ہے اور تبویب کے متعلق بعض باتیں بیان کی ہوئی ہیں میں نے کہہ دیا ہے کہ ان کو بھی تبویب میں مدنظر رکھا جائے تا کہ وہ بہت زیادہ مفید ہو سکے.اس بیماری کے بعد کئی باتیں مجھے اب تک پرانے زمانہ کی بھی یاد ہیں مگر کئی باتیں قریب کی بھولی ہوئی ہیں مجھے بالکل یا د نہیں تھا کہ ۱۹۴۴ء میں میں نے مسند احمد بن حنبل پڑھ کر اس کے متعلق تقریر کی ہوئی ہے کہ اس میں اِن اِن اصلاحوں کی ضرورت ہے.اب ایک مبلغ آیا اور کہنے لگا کہ آپ کی تو اس پر بڑی اعلیٰ درجہ کی ایک تقریر ہے جو ” الفضل میں چھپ چکی ہے.چنانچہ

Page 395

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم اس نے وہ تقریر سنائی پھر مجھے یاد آیا کہ میں نے اس کتاب کو خوب اچھی طرح غور سے پڑھا ہوا ہے.حضرت آدم کے بعد پھر حضرت ابراہیم کے زمانہ میں شیطان کا حملہ نئے دور روحانی کے آدم حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جن سے آگے اسحاقی اور اسماعیلی دور چلنا تھا.اسحاق کی نسل سے موسوی سلسلہ کی بنیاد پڑنی تھی اور اسماعیل کی نسل سے محمد ی سلسلہ کی بنیاد پڑنی تھی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی پھر وہی آدم والی حکایت دُہرائی گئی چنانچہ شیطان نے پھر ایک نئے حملہ کی تجویز کی.یہودی کتب میں لکھا ہے اور اشارہ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد فوت ہو گئے اور ان کے چچا جو ایک بت خانہ کے مجاور تھے ان کے متولی بنے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بچپن سے ہی تو حید پر قائم کر دیا تھا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن سے ہی تو حید پر قائم کر دیا تھا.جب انہوں نے بتوں کی مخالفت شروع کی تو چچا کے بیٹوں نے اپنے باپ کے پاس ان کی شکایت کر دی اور لوگوں کو بھی یہ بتایا کہ یہ لڑکا بتوں کی حقارت کرتا ہے.چنانچہ لوگ جوق در جوق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بحث کے لئے آنے شروع ہوئے اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو شرمندہ کرنے کیلئے ان کے بعض بتوں کو توڑ دیا تو انہوں نے اس حسد کی بناء پر جس کی وجہ سے ابلیس نے آدم کا مقابلہ کیا تھا میں شور مچا دیا کہ ابراہیم کو لاؤ اور اس کو آگ میں جلا دو.جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا ملک چھوڑنا پڑا.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے یہ ہجرت ان کو مہنگی نہیں پڑی بلکہ مفید پڑی.جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت اُن کو مہنگی نہیں پڑی بلکہ مفید پڑی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہجرت کے بعد کنعان اور حجاز کا ملک بخشا گیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکالے جانے کے بعد پہلے مدینہ اور پھر ساری دُنیا ملی.پس ان دونوں بزرگوں یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کیوجہ بھی وہی رقابت کی

Page 396

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۰ جلد دوم روح تھی جو کہ آدم کی مخالفت کی وجہ تھی اور جو رقابت کہ خلافت احمدیہ کی مخالفت کی وجہ بنی.بظاہر اسے دینی سوال بنا دیا گیا ہے لیکن اس کا باعث در حقیقت رقابت اور بغض تھا.اور یہ واقعہ اسی طرح کا ہے جس طرح ابلیس نے حوا سے کہا تھا کہ اگر تم شجرہ ممنوعہ کو چکھو گے تو تمہارے تقویٰ کی روح بڑی بلند ہو جائے گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے، سے لیکن حقیقتا اس کی غرض یہ تھی کہ آدم اور حوا کو جنت سے نکالا جائے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت میں اس رقابت نے دوسری دفعہ جو صورت اختیار کی وہ مندرجہ ذیل ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آخری عمر میں جب ان کا پلوٹھا بیٹا اسماعیل ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوا اور اس کے بعد ان کی پہلی بیوی سارہ کے بطن سے اسحاق پیدا ہوا تو سارہ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماموں کی بیٹی تھیں انکو خیال تھا کہ میں خاندانی ہوں اور ہاجرہ باہر کی ہے اس لئے وہ اپنا درجہ بڑا سمجھتی تھیں.اتفاقاً حضرت اسماعیل جو بچے تھے حضرت اسحاق کی کسی حرکت یا کسی اور وجہ سے قہقہہ مار کر ہنس پڑے.سارہ نے سمجھا کہ اس نے میری اور میرے بچہ کی حقارت کی ہے اور قہقہہ مارا ہے.شاید یہ بھی خیال کیا کہ یہ اس بات پر خوش ہے کہ یہ بڑا بیٹا ہے اور یہ وارث ہو گا اور اسحاق وارث نہیں ہوگا.تب انہوں نے غصہ میں آکر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ یہ لڑ کا مجھ پر قہقہے مارتا ہے اس کو اور اس کی ماں کو گھر سے نکال دو کیونکہ میں برداشت نہیں کر سکتی کہ میرے بیٹے کے ساتھ یہ تیرا وارث ہو.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے تو اس بات کو بُرا منایا اور اس کام سے رُکے مگر خدا تعالیٰ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ظاہر کرنا چاہتا تھا اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وحی کی کہ جو کچھ تیری بیوی سارہ کہتی ہے وہی کرے چنانچہ خدا کے حکم کے ماتحت حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کو وادی حرم میں چھوڑ گئے اور سارہ اور اسحاق کے سپر د کنعان کا علاقہ کر دیا گیا اور اسماعیل کی نسل نے مکہ میں بڑھنا شروع کیا اور و ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھرانے میں پیدا ہو گئے مگر یہ رقابت یہیں ختم نہیں ہوگئی بلکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش پر ان کی ماں سے

Page 397

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۱ جلد دوم کہا تھا اسی طرح ہوا کہ :.اس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہونگے، یعنی ایک زمانہ تک اسماعیلی نسل تھوڑی ہوگی اور اسحاق کی نسل زیادہ ہوگی اور وہ سب کے سب مل کر اسماعیلی سلسلہ کی مخالفت کرینگے اور کوشش کریں گے کہ وہ کامیاب نہ ہوں.قرآن کریم میں اس کا ذکر یوں آتا ہے.وَةٌ كَثِيرُ من اهل الكتب لو يَرُدُّونَكُمْ مِّن بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ عُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقِّ یعنی اہل کتاب میں سے بہت سے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اسماعیلی نسل یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اسے چھوڑ کر پھر کا فر ہو جائیں اور یہ محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے کسی قصور کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے اپنے دلوں سے پیدا شدہ بغض کی وجہ سے ہے اور رقابت کی وجہ سے ہے وہ سارہ اور ہاجرہ کی لڑائی کو دو ہزار سال تک لمبالے جانا چاہتے ہیں.پھر علاوہ اس آیت کے بعض اور آیتیں بھی ہیں جو اس مضمون پر دلالت کرتی ہیں.مثلاً سورة آل عمران رکوع ۸ آیت ۳ ۷ ۷۴ میں فرماتا ہے.وقالت طَّائِفَةً مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ أمِنُوا بِالَّذِي أَنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وجة النَّهَارِ وَ اكْفُرُوا أخِرَةَ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ وَلَا تُؤْمِنُوا إِلا لِمَن تيم دينَكُمْ ، قُلْ اِنَّ الْهُدَى هُدَى اللهِ أنْ يُؤْنَ أَحَدُ مِثْلَ مَا أوتِيتُمْ أو يعا جوكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ، قُلْ إِنَّ الفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ والله واسع علیم کے یعنی اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کہا کہ جولوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں یعنی مسلمان ہوئے ہیں ان پر جو کچھ نازل ہوا ہے اے یہودیو! اُس پر صبح کے وقت ایمان لے آیا کرو اور شام کے وقت پھر مرتد ہو جایا کرو.تا کہ تم کو دیکھ کر اور لوگ بھی مرتد ہو جائیں (جیسے آجکل پیغام صلح شائع کر رہا ہے کہ دیکھو ! منان وہاب باہر آ گئے ہیں.اے ربوہ سے آزاد ہونے والو! بڑھو.بڑھو ہمارا نظام تمہارے ساتھ ہے یہی یہودی کہا کرتے تھے کہ ) تم حقیقی طور پر امن اس کو دو جو تمہارے دین کا پیرو ہو.تو کہہ کہ حقیقی ہدایت تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے اور وہ یہ ہے کہ کسی کو وہی

Page 398

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۲ جلد دوم کچھ دیا جائے جیسا کہ اے بنی اسرائیل تم کو دیا گیا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تم سے تمہارے رب کے حضور میں بحث کریں گے.پھر تو اُن سے کہہ دے کہ فضل کامل تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اُس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا فضل کا مل دے دیا اُس کو مل گیا.جب تمہارے نبیوں کو دے رہا تھا تو اُن کو مل گیا.وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اللہ تعالیٰ بہت وسعت والا اور بہت جاننے والا ہے.اسی طرح سورۃ نساء رکوع ۸ آیت ۵۵ میں آتا ہے.آمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا أَتَهُمُ اللهُ مِن فَضْلِهِ : فَقَدْ أَتَيْنَا آل ابرهيم الكتب والحِكْمَةَ وَ أتينهُمْ مُّلْكًا عَظِيمًات یعنی کیا یہ یہودی اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو اپنے فضل سے کچھ حصہ دے دیا ہے اگر ایسا ہو گیا ہے تو بگڑا کیا.پھر بھی تو آل ابراہیم کو یعنی اسماعیل کی اولا دہی کو کتاب اور حکمت بخشی گئی اور ان کو بہت بڑا ملک عطا فر مایا گیا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آل ابراہیم میں سے ہیں اور موسوی سلسلہ بھی آلِ ابراہیم میں سے ہے پس موسوی سلسلہ کو جو کتاب ملی وہ بھی آلِ ابراہیم کو ملی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کتاب اور حکمت ملی وہ بھی آلِ ابراہیم کو ملی اور جو ملک موسیٰ کی قوم کو ملا وہ بھی آلِ ابراہیم کو ملا اور جو ملک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے گا وہ بھی آل ابراہیم کو ملے گا.ان دونوں آیتوں سے ظاہر ہے کہ شیطان نے جو نظام الہی کے خلاف رقابت کا مادہ بنو اسحاق کے دل میں پیدا کیا تھا وہ حضرت اسماعیل کی زندگی تک ختم نہیں ہوا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک لمبا ہوتا گیا اور جس طرح پہلے اس نے حضرت اسماعیل کو ان کی وراثت سے محروم کرنا چاہا تھا اسی طرح دو ہزار سال بعد اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وراثت سے محروم کرنا چاہا لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قریب آیا اور شیطان نے دیکھا کہ اب پر انا حسد ختم ہو جائے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو اسماعیل کے دشمنوں کو کچل ڈالیں گے اور ان پر غالب آجائیں گے تو اُس نے ایک نئے بغض کی بنیاد ڈالی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ

Page 399

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۳ جلد دوم علیہ وسلم کے بعد بھی فتنہ پیدا کرتا چلا جائے.چنانچہ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑ دادا عبد مناف کے ایک بیٹے عبد الشمس تھے عبد مناف کے ایک اور چھوٹے بیٹے ہاشم تھے اور عبد الشمس کا بیٹا امیہ تھا.عبد مناف کے مرنے کے بعد قرعہ ڈالا گیا اور با وجو د چھوٹا ہونے کے ہاشم کو وارث قرار دیا گیا اور مسافروں کو چاہ زمزم سے پانی پلانا اور حاجیوں کی خدمت کرنا جو سب سے بڑا عہدہ سمجھا جاتا تھا وہ اسے دیا گیا.اسی طرح غیر حکومتوں کے پاس وفد بھیجوانے کا جو کام تھا اور ان کی سرداری کرنے کا عہدہ بھی ان کے سپر د ہوا.عبد الشمس کے بیٹے اُمیہ کو یہ بات بُری لگی.شیطان نے اس کے دل میں ڈالا کہ یہ عہدہ ہاشم کے پاس کیوں جائے اور اس نے قوم میں مقبولیت حاصل کرنے کیلئے ہاشم کے کاموں کی نقل شروع کر دی.یعنی مسافروں کو زم زم سے پانی بھی پلاتا تھا اور بہت کچھ داد و دہش بھی کرتا تھا تا کہ عوام میں مقبول ہو جائے.قریش نے جب یہ بات دیکھی تو انہوں نے سمجھا کہ یہ خاندان آپس کے مقابلہ میں تباہ ہو جائیگا اور یہ دیکھتے ہوئے کہ اُمیہ ضدی ہے انہوں نے ہاشم سے اصرار کیا کہ کوئی ثالث مقرر کر کے فیصلہ کروا لو.مگر اوّل تو ہاشم چونکہ اُمیہ سے عمر میں بڑے تھے اور ریاست کا حق ان کو مل چکا تھا انہوں نے انکار کر دیا کہ میں فیصلہ ثالثی نہیں کرا تا مگر آخر ساری قوم نے خاندان کو تباہی سے بچانے کیلئے امیہ اور ہاشم پر ثالثی کیلئے زور دیا.آخر ہاشم بھی مان گئے اور اُمیہ بھی مان گئے اور اُمیہ نے خزاعہ قبیلہ کے ایک کا ہن کو ثالث تجویز کیا.ہاشم نے بھی اسے مان لیا.اس کا ہن کے پاس جب فیصلہ گیا تو اس نے ہاشم کے حق میں فیصلہ کیا اور فیصلہ کے مطابق اُمیہ کو مکہ سے دس سال کی جلا وطنی قبول کرنی پڑی اور وہ شام چلے گئے.اس تاریخ سے بنو ہاشم اور بنو امیہ میں حاسدا نہ لڑائی شروع ہو گئی 2 محاضرات میں شیخ محمد خضری بھی اس رقابت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہاشم اور اس کے بھتیجے اُمیہ کے درمیان مفاخرت اور مقابلہ شروع ہو گیا کیونکہ ہاشم مال کی وجہ سے اور قومی ضروریات کو پورا کرنے کی وجہ سے قوم کا سردار تھا اور اُمیہ مال اور.اولاد والا تھا چنانچہ وہ اپنے چچا سے مفاخرت اور مقابلہ کرتا تھا اور اس وجہ سے دونوں خاندانوں اور ان کی اولادوں میں رقابت رہی یہاں تک کہ اسلام ظاہر ہو گیا.شاہ

Page 400

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۴ جلد دوم دائرۃ المعارف یعنی عربی انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ بنو امیہ اور بنو قریش پہلے ایک ہی قبیلہ کے افراد تھے اور سب اپنے آپ کو عبد مناف کی طرف منسوب کرتے تھے لیکن بنو امیہ کا خاندان بڑا تھا اور ان کے پاس مال زیادہ تھا اس لئے باوجود اس کے کہ بنو ہاشم کے پاس سرداری تھی وہ ان سے ہر بات میں بڑھنے کی کوشش کرتا اور مقابلہ کرتا رہتا تھا.اسی طرح اُن کی اولاد میں بھی رقابت چلتی گئی.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑائیوں میں بھی اس لئے کہ آپ ہاشم کی اولاد تھے عام طور پر ابوسفیان جو عبد الشمس کی اولاد میں سے تھا سردار ہو کر آیا کرتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو بنوامیہ شکست کھا گئے لیکن آپ کی وفات کے بعد اس فتنہ نے سر اُٹھانا شروع کیا اور شیطان نے اپنا ہتھیار اور لوگوں کو چن لیا چنانچہ جب حضرت علی خلیفہ ہوئے تو معاویہ بن ابوسفیان نے جو بنو امیہ میں سے تھے آپ کے مقابلہ کے لئے لشکر جمع کیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غرض محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی اور حضرت علیؓ کے زمانہ میں بھی کے زمانہ میں شیطان کا حربہ بہ شیطان نے وہی حربہ نظام حقہ کے خلاف استعمال کیا جو اول دن سے وہ نظامِ حقہ کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے یعنی حسد اور بغض اور لالچ کا.درمیان میں رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے قرب کی وجہ سے یہ حربہ زیادہ کامیاب نہ ہوا مگر حضرت علیؓ کے زمانہ میں یہ حربہ پھر زور پکڑ گیا اور آج تک شیعہ سنی کی شکل میں یہ جھگڑا چل رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پھر شیطان نے ایک اور رنگ میں زمانہ میں شیطانی حربہ کی صورت اس کی بنیاد رکھی.آپ کی خلافت میں پہلا جھگڑا جو زیادہ شدت سے ظاہر نہیں ہوا حضرت خلیفہ اول کے خلیفہ بننے کے وقت ہوا.یہ جھگڑا بھی درحقیقت وہی ابلیس والے جھگڑے کی طرز پر تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک انجمن مقبرہ بہشتی کی بنائی تھی اور اس میں حضرت خلیفہ اوّل کو صدر بنایا تھا اور مولوی

Page 401

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۵ جلد دوم ا محمد علی صاحب اس کے سیکرٹری تھے دوسرے ممبروں میں سے خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ تھے.چھوٹے چھوٹے معاملات میں اختلاف ہوتا تو حضرت خلیفہ اول کی رائے ایک طرف ہوتی اور مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی کی رائے دوسری طرف ہوتی اس لئے مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی میں حضرت خلیفہ اول کے خلافت بغض پیدا ہو جاتا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے تو اس وقت کے حالات کی وجہ سے خواجہ کمال الدین صاحب بہت ڈر گئے اور لا ہور میں جہاں وفات ہوئی تھی مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت خلیفہ اول کی خلافت کا اعلان کر دیا اور خواجہ صاحب نے ڈر کر مان لیا.جب قادیان پہنچے تو خواجہ صاحب نے سوچا کہ حضرت خلیفہ اول ضرور خلیفہ بنیں گے اور اپنی ہوشیاری کی وجہ سے خیال کیا کہ اگر ان کی خلافت کا مسئلہ ہماری طرف سے پیش ہو تو ان پر ہمارا اثر رہے گا اور وہ ہماری بات مانتے رہیں گے چنانچہ انہوں نے آپ کی خلافت کے متعلق ایک اعلان شائع کیا اور اس میں لکھا کہ الوصیة کے مطابق ایک خلیفہ ہونا چاہیے اور ہمارے نزدیک سب سے زیادہ مستحق اس کے حضرت مولوی نورالدین صاحب ہیں اس اعلان کے الفاظ یہ ہیں.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیة کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدر انجمن احمد یہ موجودہ قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود با جازت حضرت اماں جان کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا.۱۲ ( میں نے بھی اسی قانون کے مطابق نیا نظام بنایا ہے صرف تحریک کے وکلاء کو زائد کر دیا ہے کیونکہ اب جماعت احمدیہ کے باہر پھیل جانے کی وجہ سے اس کا مرکزی نظام دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے ) اس اشتہار سے پہلے حضرت خلیفہ اول کی بیعت کے وقت مولوی محمد علی صاحب نے اختلاف کا اظہار کیا جیسا کہ وہ خود اپنی کتاب "حقیقت اختلاف میں لکھتے ہیں کہ :.

Page 402

خلافة على منهاج النبوة وو ۳۸۶ جلد دوم " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعش مبارک جب قادیان پہنچی تو باغ میں خواجہ کمال الدین صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ یہ تجویز ہوئی ہے کہ حضرت مسیح موعود کے جانشین حضرت مولوی نورالدین صاحب ہوں.میں نے کہا بالکل صحیح ہے اور حضرت مولوی صاحب ہی ہر طرح سے اس بات کے اہل ہیں.اس کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ بھی تجویز ہوئی ہے کہ سب احمدی ان کے ہاتھ پر بیعت کریں.میں نے کہا اس کی کیا ضرورت ہے جولوگ نئے سلسلہ میں داخل ہو نگے انہیں بیعت کی ضرورت ہے اور یہی الوصیۃ کا منشا ہے.خواجہ صاحب نے کہا کہ چونکہ وقت بڑا نازک ہے ایسا نہ ہو کہ جماعت میں تفرقہ پیدا ہو جائے اور احمدیوں کے حضرت مولوی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لینے سے کوئی حرج بھی نہیں.تب میں نے بھی اسے تسلیم کر لیا‘۱۳ غرض خواجہ صاحب کے سمجھانے سے مولوی محمد علی صاحب حضرت خلیفہ اول کی بیعت پر راضی ہو گئے اور اس طرح خلافت اولیٰ کا قیام بغیر مخالفت کے ہو گیا.گواس کے بعد اس فتنہ نے کئی اور صورتوں میں سر اُٹھایا مگر خلافت اولی قائم ہوگئی اور ساری جماعت حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر جمع ہو گئی.اب شیطان نے دیکھا کہ جو نئے جھگڑے کی بنیاد میں نے ڈالی تھی وہ بھی ختم ہو رہی ہے تو اس نے ایک نئی طرح ڈالی یعنی مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی اور حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے بغض پیدا کر دیا تا کہ یہ سلسلہ ابھی اور لمبا چلتا چلا جائے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا گر وہ پھر دُنیا کو دین پر مقدم کرنے والے گروہ کے ظلموں کا شکار ہو جائے.یہ بنیاد اس طرح پڑی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دیکھ کر کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاں پہلی بیوی کے بطن سے کوئی نرینہ اولا د نہیں لدھیانہ کے ایک بزرگ صوفی احمد جان صاحب کی ایک لڑکی سے جو ان کی موجودہ زندہ اولاد کی والدہ تھیں نکاح کروایا.اس واقعہ کی وجہ سے چاہیے تو یہ تھا کہ یہ دوسری بیوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے خاندان سے زیادہ تعلق رکھتیں جس طرح ان کے بھائی پیر افتخار احمد صاح

Page 403

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۷ جلد دوم مرحوم اور پیر منظور محمد صاحب مرحوم قاعدہ میسر نا القرآن کے موجد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے خاندان سے والہانہ عشق رکھتے تھے مگر ایسا نہیں ہوا.اس بغض کی بھی کچھ دُنیوی وجو ہات تھیں.اوّل یہ کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاں اس بیوی سے بھی دیر تک کوئی نرینہ اولاد نہ ہوئی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن کو شوق تھا کہ حضرت مولوی صاحب کے ہاں نرینہ اولاد ہو جائے ۱۸۹۶ء میں جب کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کو آپ نے نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کو قرآن پڑھانے کے لئے مالیر کوٹلہ بھجوایا تھا مولوی صاحب کے متعلق نواب صاحب مرحوم کو ایک خط لکھا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کی مالیر کوٹلہ کی ایک سید خاندان کی لڑکی سے شادی کا انتظام کریں.گو یہ انتظام تو بعد میں رُک گیا مگر ایک خار دل میں بیٹھ گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی دوسری بیوی پر ایک اور سوکن لانے کی کوشش کی ہے.دوسری وجہ اس بغض کو بڑھانے کی ایک اور پیدا ہوگئی اور وہ یہ تھی کہ میاں عبد السلام ، عبد الوہاب اور عبدالمنان کی والدہ نے اپنے خاندان کی ایک لڑکی فاخرہ نام کی پالی ہوئی تھی ادھر حضرت ( اماں جان ) نے اپنے وطن سے دُوری کی وجہ سے اپنی خالہ کے ایک بیٹے سید کبیر احمد کو تعلیم کیلئے قادیان بلایا ہوا تھا.جب حضرت خلیفہ اول مالیر کوٹلہ گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فیصلہ کیا کہ اس بچے کو طب کی تعلیم دلوائی جائے اور اس کو بھی ان کے ساتھ ہی تعلیم کے سلسلہ میں مالیر کوٹلہ بھیج دیا گیا.کبیر احمد کا بیان تھا کہ حضرت خلیفہ اول کی دوسری بیوی نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ فاخرہ کا اس سے بیاہ کر دیں گی لیکن بعض ایسے حالات کی وجہ سے جن کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے سید کبیر احمد نے جو ہمارے خالہ زاد ماموں تھے زہر کھا کر خود کشی کر لی اور سارے کو ٹلہ اور دہلی میں یہ مشہور ہو گیا کہ اس خود کشی کی وجہ حضرت خلیفہ اول کی دوسری بیوی تھیں.چنانچہ آج تک بھی کچھ لوگ جو نواب لوہارو کے خاندان کے یا ہمارے ننھیال کے زندہ ہیں یہی الزام لگاتے چلے آتے ہیں کہ کبیر احمد کونَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِکَ اپنے خاندان کی بدنامی کے ڈر سے حضرت مولوی نور الدین صاحب نے زہر دے کر مروا دیا تھا.حالانکہ واقعہ یہ تھا کہ چونکہ وہ آپ سے طب پڑھتا تھا اور دوائیں اس کے قبضہ میں تھیں آ

Page 404

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۸ جلد دوم اُس نے خود ز ہر نکال کر کھا لیا تھا مگر غلط نہی ان لوگوں کے دماغ میں ایسی جاگزین ہو گئی تھی کہ میرے رشتہ کے ایک ماموں حافظ عبدالمجید صاحب سب انسپکٹر پولیس جن کو محمد امین بھی کہتے تھے ۱۹۳۶ ء یا ۱۹۳۷ء میں مجھے ملنے کیلئے قادیان آئے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ ہمارے ایک بھائی کو حضرت مولوی نورالدین صاحب نے زہر دے کر مروا دیا تھا.میں نے غصہ سے اُن کو کہا کہ میں حضرت خلیفہ اول کے متعلق ایسی کوئی بات نہیں سن سکتا.اس پر وہ بھی غصہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں بھی اپنے بھائی کے واقعہ کو بھول نہیں سکتا اور چلے گئے.اس واقعہ کو اور اہمیت اس طرح مل گئی کہ ہمارے نھیال کا رشتہ نواب صاحب لوہارو سے تھا.یہ اتفاق کی بات ہے کہ اُس وقت نواب صاحب مالیر کوٹلہ کم سن تھے اور گورنمنٹ نے اُن کا نگران نواب صاحب لوہارو کو مقرر کر کے بھیجا ہوا تھا جس وقت یہ کبیر کا واقعہ ہوا اُس وقت نواب صاحب لوہارو کو ٹلہ میں تھے پہلے تو کسی کو پتہ نہیں تھا کہ یہ بھی ان کے رشتہ دار ہیں جس طرح نواب صاحب لوہا ر و سمی به فرخ مرزا میرے ماموں تھے.وہ کبیر کے بھی ماموں تھے مگر وہ چونکہ معمولی کمپونڈر اور طالب علم کی حیثیت میں گیا تھا پہلے تو پتہ نہ لگا.اس کے مرنے پر جب ان کو پتہ لگا کہ ایک لڑکے نے خود کشی کی ہے اور وہ دلی کا ہے تو انہوں نے کرید کی اور پتہ لگا کہ یہ تو میرا بھانجا ہے وہ چونکہ حاکم تھے انہوں نے فوراً کارروائی کی کہ اس کا پیٹ چاک کیا جائے اور زہر نکالا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ یہ زہرا اتفاقی استعمال ہوا ہے یا جان بوجھ کر دیا گیا ہے.نواب محمد علی خان صاحب جونواب مالیرکوٹلہ کے ( جو اُس وقت بچہ تھے ) ماموں تھے اور بعد میں میرے بہنوئی ہوئے.( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی بیٹی ان سے بیاہی گئیں ) ان کو چونکہ قرآن پڑھانے کیلئے حضرت خلیفہ اول گئے تھے اور ان کا ریاست میں رسوخ تھا اُنہوں نے فوراً کوشش کر کے راتوں رات کبیر کو دفن کرا دیا اور اس طرح اس فتنہ کو دفع کیا.بیٹے کا مر جانا ماں کیلئے بڑے صدمہ کا موجب ہوتا ہے مگر یہ بغض اتنا لمبا ہو گیا کہ حضرت اماں جان ) کی خالہ جو اکثر قادیان آتی رہتی

Page 405

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۹ جلد دوم 9966 تھیں اور قادیان میں بڑا لمبا عرصہ والدہ کے پاس رہتی تھیں انہوں نے ہم سے ملنا جلنا چھوڑ دیا.چنانچہ ۱۹۰۹ ء یا ۱۹۱۱ء میں ہم ایک دفعہ دلی گئے تو حضرت اماں جان) بھی ساتھ تھیں چونکہ انہیں اپنی خالہ سے بڑی محبت تھی وہ اپنی اماں کی بھاوج کے ہاں ٹھہریں.اُن کو سارے’ بھابی جان ” بھابی جان کہتے تھے.اب ان کے بچے کراچی میں ہیں ان کے گھر میں ہی ہم جا کر ٹھہرتے تھے.اُس وقت بھی ان کے گھر میں ہی ٹھہرے بلکہ ان کا ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹۱ء میں دلی گئے تو آپ کے خلاف بڑا جلسہ ہوا اور شور پڑا.لوگوں نے کہا کہ اس کو قتل کر دو.مولویوں نے وعظ کیا کہ جو اس کو قتل کر دے گا وہ جنتی ہو گا.ہماری وہ بھابی بڑی مخالف تھیں مگر آخر رشتہ دار تھیں.ایک دن ان کی نو کر آئی اور آکر کہنے لگی کہ بی بی دعا کرو میرا بچہ بچ جائے وہ صبح چھری تیز کر رہا تھا.کوئی قادیان سے آیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتا ہے.اُس کو مارنے گیا ہے وہ کہنے لگیں کمبخت ! چپ کر وہ تو میری بھانجی کا خاوند ہے.مگر بہر حال ان کے گھر میں خالہ بھی ٹھہری ہوئی تھیں.اماں جان نے پرانی محبت کی وجہ سے ان سے خواہش کی کہ مجھے ملا دو.بھابی جان نے انکار کر دیا کہ وہ تو کہتی ہیں میں اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی.پھر ہماری ایک اور بہن تھی انکی بیٹی بعد میں حکیم اجمل خان صاحب مرحوم کے بھائی سے بیاہی گئی تھیں.حضرت ( اماں جان ) نے ان سے کہا کہ وہ چھوٹی بچی تھیں ان کو تو ان باتوں کا پتہ نہیں تھا انہوں نے پردہ اٹھا کے کہا کہ وہ مصلے پر بیٹھی دعا کر رہی ہیں دیکھ لو.اماں جان نے جا کر جھانکا تو اُسی وقت انہوں نے کھڑکی کھولی اور ہمسایہ میں چلی گئیں اور وہاں سے ڈولی منگا کر کسی اور رشتہ دار کے پاس چلی گئیں.غرض اتنا ان کے اندر بغض تھا کہ انہوں نے ہم سے ملنا بالکل چھوڑ دیا اُن کے رشتہ داراب بھی کراچی میں ہیں.لاہور میں بھی لوہارو خاندان کے افراد ہیں.نوابزادہ اعتزاز الدین جو پاکستان میں انسپکٹر جنرل پولیس تھے وہ بھی نواب لوہارو کے بیٹے تھے اور بیٹے بھی ہیں بعض ان کی اولاد میں سے فوج میں کرنیل ہیں.ان کے ایک بھائی صمصام مرزا لاہور میں ہیں.اِن لوگوں سے جب بھی بات کرو وہ ہم پر ہنستے ہیں

Page 406

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۰ جلد دوم کہ تم بیوقوف ہو مولوی صاحب نے اسے مروا دیا تھا تم بے وقوفی میں یونہی اپنے مذہبی عقیدہ کے ماتحت سمجھتے ہو کہ نہیں مروایا تھا آپ مر گیا تھا.اس نے خود کشی کوئی نہیں کی اُس کو مروا دیا گیا تھا غرض یہ واقعہ حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے دلوں میں بغض کو بڑھانے کا ایک دوسرا سبب بن گیا.حضرت خلیفہ اول کی وفات پر اختلاف کی وجہ اس کے بعد حضرت خلیفہ اول کی وفات پر خلافت ثانیہ کے انتخاب کا وقت آیا تو مولوی محمد علی صاحب کے اختلاف کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل جاتا تھا دوسری وجہ یہ تھی کہ اُن کی پہلی بیوی مرحومہ جو نہایت ہی نیک عورت تھیں ( میرا یہ مطلب نہیں کہ ان کی موجودہ بیوی نیک نہیں ہے مگر وہ پہلی بیوی میری بہن بنی ہوئی تھیں اور اُن کو میں ذاتی طور پر جانتا تھا اس لئے میں نے ان کے متعلق اپنی رائے بیان کر دی ہے وہ مجھ سے بہت ہی محبت کرتی تھیں.فاطمہ بیگم ان کا نام تھا.مولوی محمد علی صاحب کی جب شادی ہوئی میں بہت چھوٹا سا تھا.دس سال کا ہونگا کہ وہ آتے ہی میری بہن بن گئیں ہمیشہ میرا سر دیکھنا جوئیں نکالنی بہت ہی محبت کرتی تھیں اور کہتیں یہ میرا بھائی ہے اور میں انہیں بہن کہا کرتا تھا) وہ نومبر ۱۹۰۸ء میں فوت ہوئیں.مجھے اس وقت کسی کام کیلئے حضرت خلیفہ اول نے باہر بھیجا ہوا تھا میں جب واپس آیا تو مجھے مرحومہ کی وفات کا علم ہوا میں نے اُسی وقت ایک ہمدردی سے پر خط مولوی محمد علی صاحب کو لکھا مولوی محمد علی صاحب نے اس کے جواب میں مجھے لکھا کہ آپ کے خط کا تو میں ممنون ہوں مگر مجھے افسوس ہے کہ حضرت (اماں جان ) میری بیوی کی لاش دیکھنے نہیں آئیں ( حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاش دیکھنے کیلئے عورتوں کو باہر جانے سے منع کیا ہوا ہے ) یہ صدمہ ایسا ہے کہ میں زندگی بھر اسے نہیں بھول سکتا.یہ گویا دوسری بنیا دمولوی محمد علی صاحب کے دل میں شیطان نے رکھ دی کہ اب زندگی بھر مخالفت کرتے رہو بلکہ اس واقعہ کا اجمالی ذکر مولوی محمد علی صاحب نے خودر یو یو آف ریلیجنز میں بھی کیا ہے اور یہ الفاظ لکھے ہیں کہ :.اگر کسی نے میر الحسن ہونے کے باوجود بجائے اظہار غم و ہمدردی کے کسی گزشتہ رنج کا اظہار

Page 407

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۱ جلد دوم اس وفات کے وقت کیا تو یہ شاید میرے لئے سبق تھا کہ دنیا کے کسی گھر کو اپنا گھر سمجھنا غلطی ہے.۱۴ گویا خودان کی اپنی تحریر بھی اس بارہ میں موجود ہے.غرض مولوی محمد علی صاحب نے اس صدمہ کے نتیجہ میں بغض کو انتہا تک پہنچا دیا اور جیسے انہوں نے کہا تھا کہ میں مرنے تک یہ صدمہ نہیں بھول سکتا مرنے تک اس واقعہ کو یا د رکھا اور خاندان مسیح موعود کا بغض اپنے دل سے نہیں نکالا.چنانچہ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر خلافت ثانیہ کے انتخاب پر بھی انہوں نے بغاوت کی اور اس طرح بغض و حسد کے لمبا کرنے کا سلسلہ انہوں نے جاری کر دیا تا کہ آدم کے زمانہ کا بغض جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ تک آیا تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ کا بغض جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک آیا تھا اور آپ کے دادا ہاشم بن عبد مناف کے زمانہ کا بغض جو پہلے ابوسفیان اموی کے زمانہ تک آیا تھا اور پھر یزید بن معاویہ اور امام حسین کے زمانہ تک آیا تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ تک بھی ممتد ہو جائے.غضب یہ ہوا کہ اکبر شاہ خان نجیب آبادی مشہور مؤرخ جو پہلے مبائعین میں تھے اور پھر بھاگ کر لاہور آ گئے تھے انہوں نے مضمون لکھا کہ ارائیں قوم جس میں سے مولوی محمد علی صاحب تھے بنوامیہ میں سے ہے.۱۵ گویا انہوں نے کہا کہ وہ بنو اُمیہ کا بغض پھر بنو محمد سے جاری ہونا چاہیے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے خاندان کے متعلق فرمایا ہے کہ سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلُ الْبَيْتِ ، که سلمان فارسی جن کے خاندان سے بلحاظ فارسی الاصل ہونے کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان ملتا ہے ہمارے خاندان میں سے ہیں گویا مسیح موعودؓ نہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ السلام کے روحانی فرزند تھے بلکہ اس حدیث کے ماتحت ایک رنگ میں آپ کے جسمانی فرزند بھی تھے تو پیغام صلح میں اکبر شاہ خان نجیب آبادی نے مضمون شائع کیا کہ مولوی محمد علی صاحب بنوامیہ میں سے ہیں گویا بنو امیہ اور حضرت علیؓ کا جو بغض تھا وہ اور لمبا ہو جائے گاختم نہیں ہو گا.غرض انہوں نے ثابت کر دیا کہ بنو عبد مناف یعنی اولا د محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور

Page 408

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۲ جلد دوم بنو امیہ کی لڑائی کا سلسلہ ابھی جاری ہے اور وہ احمدیوں میں بھی جاری رہے گا.اختلاف کو قائم رکھنے کیلئے غیر مہابھین نے اس لڑائی کوئی روح بخشتے کیلئے یہ تدبیر کی کہ حضرت خلیفہ اول کی بیوی اور ان کے غیر مبائعین کی ایک تدبیر بچوں کو یہ کہنا شروع کیا کہ اگر حضرت خلیفہ اول کا بیٹا عبدالحی مرحوم خلیفہ ہو جاتا تو ہم بیعت کر لیتے چنانچہ ہم اس کے ثبوت میں مولوی عبدالوہاب صاحب کا ہی ایک مضمون پیش کرتے ہیں.اب وہ جتنا چاہیں جھوٹ بول لیں مگر یہ ان کا مضمون چھپا ہوا ہے.انہوں نے ۱۹۳۷ء میں غیر مبائعین کے بعض اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے الفضل میں لکھا کہ :.”مولوی عبد الباقی صاحب بہاری ایم اے نے بتایا کہ حضرت خلیفہ المسیح اوّل کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ کے زمانہ میں خلافت کے چند دشمن حضرت مولوی عبدالحی صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ خلیفہ بن جاتے تو ہم آپ کی اطاعت کرتے.مولوی عبدالحی صاحب نے باوجود بچپن کے اُن کو جو جواب دیا وہ اس قابل ہے کہ سلسلہ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے انہوں نے فرمایا کہ یا تو آپ کو آپ کے نفس دھوکا دے رہے ہیں یا آپ جھوٹ بول رہے ہیں میں سچ کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ بنتا تب بھی آپ میری اطاعت نہ کرتے اطاعت کرنا آسان کام نہیں میں اب بھی تمہیں حکم دوں تو تم ہر گز نہ مانو.اِس پر اُن میں سے ایک نے کہا کہ آپ ہمیں حکم دیں پھر دیکھیں کہ ہم آپ کی فرمانبرداری کرتے ہیں یا نہیں.مولوی عبد الحئی صاحب نے کہا اگر تم اپنے دعوی میں بچے ہو تو میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جاؤ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیعت کر لو.یہ بات سن کر و لوگ بغلیں جھانکنے لگے اور کہنے لگے یہ تو نہیں ہوسکتا.کا اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے عبد الحی مرحوم کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی سے پیدا ہوا تھا اس فتنہ سے بچالیا لیکن ان کی والدہ اور ان کے چھوٹے بھائیوں کے دل میں یہ خار کھٹکتا رہا چنانچہ جب میں نے امتہ الحی مرحومہ سے اس لئے شادی کی کہ حضرت خلیفہ اول کی روح خوش ہو جائے کیونکہ ایک دفعہ انہوں نے بڑے صدمہ سے ذکر کیا تھا کہ

Page 409

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۳ جلد دوم میری بڑی خواہش تھی کہ میرا جسمانی رشتہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہو جائے مگر وہ پوری نہیں ہوئی جس پر میں نے آپ کی وفات کے بعد اور خلیفہ بننے کے بعد امتہ الحی مرحومہ سے شادی کی تو پیغامیوں نے والدہ عبد الوہاب اور والدہ عبدالمنان کو یہ کہنا شروع کیا کہ یہ رشتہ مرزا محمود احمد نے اپنی خلافت کو مضبوط کرنے کیلئے کیا تھا حالانکہ اگر میں پہلے کرتا تب تو یہ اعتراض ہوتا کہ خلافت لینے کیلئے کیا ہے لیکن اول تو یہ سوال ہے کہ خلافت حضرت مولوی نورالدین صاحب کی تو نہیں تھی خلافت حضرت مسیح موعود کی تھی اگر باپ سے بیٹے کو حق پہنچتا ہے تو میں مسیح موعود کا بیٹا تھا پھر تو مولوی صاحب بھی خلیفہ نہیں رہتے ، پھر تو خلیفہ مجھے ہونا چاہیے تھا.دوسرے خلیفہ میں پہلے ہو چکا تھا رشتہ بعد میں ہوا.بہر حال عبدالحی مرحوم تو اس فتنہ میں نہ آیا جیسا کہ اس کی وفات کے موقع کے حالات سے ظاہر ہے جو میں نے ایک خط میں چوہدری فتح محمد صاحب کو لکھے تھے جو اُس وقت انگلینڈ میں مبلغ تھے اور جو خط انہوں نے مولوی عبد الرحیم صاحب درد کو محفوظ رکھنے کیلئے دے دیا تھا اور ان کے مرنے کے بعدان کے بیٹے لطف الرحمن نے مجھے ان کے کاغذات میں سے نکال کر بھیج دیا.وہ خط یہ ہے.برادرم مکرم چوہدری صاحب ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ پہلے خط کے بعد پھر قریباً تین ہفتہ سے خط نہ لکھ سکا جس کا باعث ترجمہ قرآن کا کام ہے.مولوی شیر علی صاحب کو کہا ہوا ہے کہ ہر ہفتہ خط جانا چاہیے نہ معلوم جا تا ہے یا نہیں.پچھلے ہفتہ ایک سخت حادثہ ہو گیا اور وہ بھی خط لکھنے میں روک رہا.عزیز میاں عبد الحئی کو دو ہفتہ بخار رہا اور گو سخت تھا لیکن حالت مایوسی کی نہ تھی مگر پچھلی جمعرات کو یکلخت حالت بگڑ گئی اور ایک رات اور کچھ حصہ دن کا بے ہوش رہ کر عصر کے قریب اس دنیا سے رخصت ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ( اُس وقت ایک ڈاکٹر ہیرا لال صاحب کو میں نے لاہور سے بلا یا تھا اُس کا خیال تھا کہ ان کو ٹائیفائیڈ تھا مگر بیماری کی وقت پر تشخیص نہیں کی گئی اور اب مرض آخری مرحلہ پر پہنچ چکا ہے ) قریباً اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور اب کے ففتھ ہائی کا امتحان دینا تھا سال ڈیڑھ سال سے شبانہ روز جسم و علم میں ترقی تھی اور اب خاصا جوان

Page 410

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۴ جلد دوم آدمی معلوم ہوتے تھے.ذہن نہایت تیز اور رسا تھا مگر منشاء الہی کے مقابلہ میں انسان کا کچھ بس نہیں چل سکتا اور اُس کے ہر ایک فعل میں حکمت ہوتی ہے اور جیسا کہ مجھے اُن کی وفات کے بعد معلوم ہوا یہ واقعہ بھی اللہ تعالیٰ کی ہی حکمتوں کے ماتحت تھا ور نہ کئی فتنوں کا اندیشہ تھا.مرحوم بوجہ کم سن ہونے کے بہت سے فتنہ پردازوں کے دھو کے میں آجاتا تھا.میں آخری دنوں میں اپنے گھر میں ہی انہیں لے آیا تھا ( ان کی بہن امتہ الحی مرحومہ کی خواہش سے ) اور حیران تھا کہ وہ ہر وقت والدہ صاحبہ اور میرے پاس بیٹھے رہنے پر مصر تھا ( یہ نظارہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے وہ امتہ الحی مرحومہ کے دالان میں ہی رہتے تھے میں آخر کام کرنے والا آدمی تھا ہر وقت قرآن کریم کی تفسیر کا کام اور دوسرا کام ہوتا تھا جب میں نیچے جاتا تو آدمی آتا کہ عبد الحئی بلاتا ہے اور کہتا آپ بیٹھیں ، حضرت اماں جان ) میری اماں کو یہاں سے اُٹھا دیں میری جان نہیں نکلے گی.میری جان تکلیف سے نکلے گی میری ماں کو یہاں سے ہٹا دیں.غرض وہ ہر وقت والدہ صاحبہ اور میرے پاس بیٹھے رہنے پر مصر تھا) اور بار بار کہتا تھا کہ آپ میرے پاس بیٹھے رہیں مجھے اس سے تسلی ہوتی ہے اور اس کے برخلاف اگر اپنی والدہ پاس آتیں تو اُن کو ہٹا دیتا تھا اور اصرار کرتا تھا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ معلوم ہوتا ہے کہ وفات سے پہلے اس کے دل کے دروازے اللہ تعالیٰ نے کھول دیئے تھے اور ایک پاک دل کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ سے جاملا.مجھے اس سے ایسی محبت تھی جیسے ایک سگے بھائی سے ہونی چاہیے اور اس کا باعث نہ صرف حضرت مولوی صاحب کا اُس سے محبت رکھنا تھا بلکہ یہ بھی وجہ تھی کہ اُسے خود بھی مجھ سے محبت تھی بوجہ نا تجربہ کاری کے بعض متفنی لوگوں کے فریب میں آجانا بالکل اور بات ہے اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب کے باقی بچوں کو نیک اور پاک عمر عطا فرمائے اور جس طرح آپ کا وجود نافع الناس تھا آپ کی اولا دبھی دعائم الملتہ ہو.اللَّهُمَّ آمِينَ ) لیکن میری اس دعا کو انہوں نے ضائع کر دیا ہے اور خود اپنے لئے تباہی کا بیج بویا ہے ) خاکسار مرزا محمود احمد

Page 411

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۵ جلد دوم غرض عبد الحی مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ میں مبتلا ہونے سے بچالیا مگر حضرت خلیفہ اول کے باقی لڑکوں کے دلوں میں یہ خیال کھٹکتا چلا گیا کہ خلافت ہمارا حق تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بیٹے نے اس کو چھین لیا ہے اور یہ حق پھر ہم کو واپس لینا چاہیے.چنانچہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی جو قریباً اتنے ہی پرانے احمدی ہیں جتنے پرانے حضرت خلیفہ اول تھے.غالبا ان کے دو تین سال بعد آئے اور پھر انہوں نے سلسلہ کی خدمت میں بڑا روپیہ خرچ کیا ہے ان کی شہادت ہے کہ :.۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد پیغامیوں نے قادیان میں ریشہ دوانیوں کا مرکز حضرت خلیفہ اول کے گھر کو بنایا.مختلف اوقات میں لا ہور سے جاسوس آتے رہے اور اکابر بھی.اور سازش یہ کی گئی کہ اس خاندان میں ایک برائے نام خلیفہ کا انتظام کیا جائے جسے کچھ عرصہ بعد ٹر کی خلافت کی طرح معزول کر دیا جائے کیونکہ ان کا تجربہ بتا تا تھا کہ اس خاندان کے افراد اس قسم کے سنہری خواب دیکھ رہے ہیں.خود مجھے بھی یاد ہے کہ ایک دفعہ اپنے بچوں کو لے کر حضرت خلیفہ اول کی بیوی جو میری ساس تھیں میرے پاس آئیں اور بیٹھ کر کہنے لگیں کہ ہماری یہاں کوئی قدر نہیں پیغامی میرے پاس آتے ہیں بڑے روپے دیتے ہیں تحفے لاتے ہیں اور کہتے ہیں لا ہور آ جاؤ ہم بڑی قدر کریں گے.میں نے کہا بڑی خوشی سے جائیے.آپ کو یہ خیال ہوگا کہ شاید آپ کی وجہ سے مجھے خلافت ملی ہے مجھے پرواہ نہیں آپ چلے جائیے اور اپنی بھڑاس نکالیے پھر جا کر آپ کو تھوڑے دنوں میں ہی پتہ لگ جائے گا کہ جو کچھ سلسلہ آپ کی مدد کرتا ہے وہ اس کا دسواں حصہ بھی مدد نہیں کریں گے.چنانچہ وہ پھر نہ گئیں گو درمیان میں جماعت کی وفاداری کی وجہ سے ان کا یہ خیال دبتا رہا مگر پھر بھی یہ چنگاری سلگتی رہی.چنانچہ ۱۹۱۹ء.۱۹۱۸ء میں دار حضرت خلیفہ اول میں مجھے زہر دینے کا منصوبہ کیا گیا اس کے متعلق برکت علی صاحب لائق لدھیانوی جو خود ان کے ہم وطن ہیں اور جن کے شاگرد اس وقت پاکستان میں بڑے بڑے عہدوں پر ہیں اور اب بھی مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہمارے استاد بڑے نیک تھے ان کا پتہ بتائیں ان کی شہادت ہے کہ ۱۹۱۸ء میں لاہور کے بعض معاندین نے حضرت اقدس کو زہر دینے کی

Page 412

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۶ جلد دوم سازش کی اس طریق پر کہ اماں جی مرحومہ کے گھر میں حضور کی دعوت کی جائے اور دعوت کا اہتمام لاہوری معاندین کے ہاتھ میں ہو.مگر ایک بچے نے جو اُن کی سرگوشیاں سن رہا تھا 66 ساری سکیم فاش کر دی.“ 1919ء.۱۹۱۸ء میں جیسا کہ میاں گواہی فضل محمد خان صاحب شملوی فضل محمد خان صاحب شملوی کی گواہی سے ظاہر ہے میاں عبد السلام صاحب مولوی محمد علی صاحب سے شملہ میں ملے اور اُن نذرانہ وصول کیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں :.ނ ۱۹۱۵ء کے قریب یا دو تین سال بعد میاں عبدالسلام صاحب عمر جبکہ وہ صرف ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے حضرت مولوی غلام بنی صاحب کے ساتھ جبکہ وہ گرمی کی چھٹیوں میں تفریح کیلئے ٹوٹی کنڈی میں آکر ٹھہرے.اس دوران میں مولوی عبد السلام صاحب غیر مبائعین سے بھی بلا تکلف مل لیتے تھے.مجھے یہ بہت بُر ا معلوم ہوتا تھا میرے دل میں صاحبزادہ ہونے کے سبب سے جو احترام تھا کم ہو گیا.پھر اسی عید کے موقع پر مجھے یاد نہیں کہ بڑی تھی یا چھوٹی میاں عبدالسلام صاحب مولوی محمد علی صاحب سے عید کا نذرانہ لے آئے اور ان کی گود میں بیٹھ آئے.جب اس روئیداد کا علم ہوا تو خان صاحب برکت علی صاحب نے جو اُس وقت جماعت کے سیکرٹری تھے اُن کو تنبیہ کی کہ وہ مخالفین کے پاس کیوں گئے ایسا نہ چاہیے تھا تو مولوی عبد السلام صاحب بجائے نصیحت حاصل کرنے کے بہت بگڑے اور کہا کہ آپ کو ہمارے کسی قسم کے تعلقات پر گرفت کرنے کا حق نہیں ( یعنی ہم چاہے احراریوں سے ملیں چاہے پیغامیوں سے ملیں تم کون ہو تے ہو جو ہمیں روکو ) مولوی عمرالدین صاحب بڑی تجسس کے انسان تھے.مولوی صاحب مولوی عبد السلام صاحب کی بہت دلجوئی کرتے.اسی دوران میں مولوی عبد السلام صاحب عمر نے مولوی عمر الدین سے کسی گفتگو کے دوران میں یہ کہا کہ میں نے خلیفتہ المسیح الثانی کے ( نَعُوذُ بِاللهِ ) قابلِ اعتراض دستی خطوط اُڑائے ہوئے ہیں جو میرے پاس محفوظ ہیں ( اب اگر اس خاندان میں تخم دیانت باقی ہے تو وہ میرے خط شائع کرے ورنہ میں کہتا ہوں کہ اگر اس خاندان کے افراد نے یہ بات کہی ہے

Page 413

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۷ جلد دوم تو لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ) مولوی عمر الدین نے یہ بات ٹوٹی کنڈی کے دوستوں کو بتائی.میں اس بناء پر سخت رنجیدہ اور متنفر ہوا.عمر بھر اگر چہ مولوی عبد السلام صاحب بڑے تپاک سے ملتے تھے اور معانقے سے ملتے تھے مگر میرے دل میں بڑی قبض محسوس ہوتی تھی.بعد میں یہ بھی افواہا سنتا رہا کہ لاہوری جماعت حضرت خلیفہ اول کے گھر والوں کو اپنے ساتھ ملانے کی جد و جہد کرتی رہتی ہے اور لاہوری لوگ مالی مدد سے تالیف کرتے رہتے ہیں میری ساری ہی عمران سے متنفر گزری ہے.‘۱۸۰ ۱۹۲۶ء میں میاں عبد الوہاب کی طرف سے مجھ پر عبد الحئی مرحوم کو زہر دینے اور عیش پرستی کرنے کا الزام لگایا گیا اس بارہ میں ملک عزیز احمد صاحب رضاعی رشتہ دار حضرت خلیفہ اول وا تالیق میاں عبد الوہاب صاحب ( جن کو ان کی ماں نے اتالیق مقرر کیا تھا ) کی گواہی ہے کہ:.۱۹۲۶ء میں میاں عبدالوہاب نے حضور پر مندرجہ ذیل الزام لگائے.میاں عبد الحئی کو زہر دے دی.آپا امتہ الحئی صاحبہ کی شادی سیاسی نوعیت سے کی گئی ( یعنی خلیفہ بننے کے لئے.گو یا خلیفہ پہلے بن گئے شادی بعد میں ہوئی.).آپ معاذ اللہ عیش پرست ہیں اور کہا آپ قادیان سے باہر رہتے ہیں آپ کو حالات کا کیا پتہ ہو.اس کے علاوہ میری اپنی شہادت ہے کہ ۱۹۲۷ ء.۱۹۲۶ء میں مباہلہ والے جب گند اُچھال رہے تھے تو علی محمد اجمیری اور عبد الوہاب مل کر وہاں گئے اور ان کو ایک خط لکھ کر بھجوایا کہ آپ خلیفہ ثانی کے متعلق جو چاہیں لکھیں ہمارے خلاف کچھ نہ لکھیں.انہوں نے خط لکھ کر ایک لڑکے کو دے دیا کہ آپ تسلی رکھیں ہم آپ کے ساتھ ہیں.اس لڑکے نے جو مدرسہ احمدیہ میں پڑھتا تھا وہ خط مع جواب لا کر مجھے دے دیا.مولوی علی محمد اجمیری نے مجھے لکھا ہے کہ وہ تو بے شک گئے تھے مگر میاں عبدالوہاب اس میں شامل نہ تھے مگر میرا حافظہ اس کی تردید کرتا ہے.مدرسہ احمدیہ کے لڑکوں نے جو اس وقت ہوشیاری سے مباہلہ والوں کے مکان کی نگرانی

Page 414

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۸ جلد دوم کرتے تھے مجھے بتایا کہ انہوں نے ان دونوں کو ان کے مکان کے سامنے کھڑا دیکھا تھا اور انہوں نے ایک خط زاہد کی طرف ایک لڑکے کے ہاتھ بھجوایا ( زاہد مولوی عبد الکریم مباہلہ والے کا چھوٹا بھائی تھا) اور اس لڑکے نے مجھے لا کر دے دیا اسی طرح اس کی تردید مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت سابق صوبہ پنجاب کے ایک لڑکے مرزا محمد طاہر کے خط سے بھی ہوتی ہے جو زاہد کے بھانجے ہیں اور جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ : وو میاں عبدالوہاب اور زاہد کے آپس میں فتنہ مستریاں‘ سے پہلے بڑے گہرے تعلقات تھے ( میں بھی اس کا ذاتی گواہ ہوں.زاہد چونکہ چھوٹا ہوتا تھا ہمارے گھر میں آیا کرتا تھا میری بیویاں اُس سے پردہ نہیں کرتیں تھیں اُس کی بہن بھی ہمارے گھر میں رہتی تھی اس لئے مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ زاہد سے میاں عبدالوہاب کے بڑے گہرے تعلقات تھے اور میاں عبدالوہاب اس سے اکثر ملتا رہتا تھا ) پھر مرزا محمد طاہر لکھتے ہیں کہ :.زاہد سے میاں عبدالوہاب نے حضور کے خلاف باتیں کی تھیں جس پر زاہد بھی حضور کے خلاف ہو گیا.زاہد کو اب شکایت یہ تھی کہ جس آدمی نے پہلے حضور کے خلاف باتیں کی تھیں اور فتنہ کی اصل جڑھ تھی وہ تو حضرت خلیفہ اول کا لڑکا ہونے کی وجہ سے بچ گیا اور وہ پھنس گیا.اسی طرح ڈاکٹر محمد منیر صاحب سابق امیر جماعت احمد یہ امرتسر کی شہادت سے بھی ظاہر ہے کہ ۱۹۲۸ء.۱۹۲۷ء میں میاں عبد المنان اور مولوی علی محمد اجمیری ان سازشوں میں شریک تھے چنانچہ وہ لکھتے ہیں.ڈاکٹر محمد منیر صاحب کی شہادت غالبا ۱۹۲۷ء یا ۱۹۲۸ ء میں جب مباہلہ روالوں کا فتنہ زور پر تھا ایک دن اس سلسلہ میں مباہلہ والوں نے ایک اشتہار حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی ہجو میں بڑی موٹی موٹی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا جس میں حضور کے اخلاق پر ذاتی حملے کئے ہوئے تھے.اس دن مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور میاں عبد المنان صاحب عمر اور میں ( راقم ) اکٹھے جا ر ہے

Page 415

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۹ جلد دوم.وہ تھے کہ بازار میں اس قسم کا ایک اشتہار ہمیں بھی ملا.میں تو اسے پڑھ کر دم بخود ہو کر رہ گیا.میرے ہاتھ سے یہ اشتہار مولوی علی محمد صاحب اجمیری نے لے لیا اور میاں عبدالمنان صاحب اور مولوی علی محمد صاحب اجمیری نے اس کو اکٹھا دیکھنا شروع کیا لیکن جوں جوں اشتہار کو پڑھتے جاتے تھے وہ ساتھ ساتھ عبارت پڑھتے اور ہنستے جاتے تھے مجھے اُن کا یہ فعل طبعا بُرا معلوم ہوا کیونکہ اپنے کسی بھی عزیز اور قابل عزت اور احترام بزرگ کے متعلق ایسے گندے الفاظ پڑھ کر کوئی بھی شریف آدمی بننے کی بجائے نفرت اور غصہ کے جذبات کا اظہار کرتا.مجھ سے ان کی یہ حرکت گوارا نہ ہوئی اور میں نے ان سے یہ اشتہار چھین لیا اور کہا کہ یہ نسی کا کونسا موقع ہے.اشتہار پڑھ کر ہمارے دل رنجیدہ ہیں اور آپ کو ہنسی آتی ہے جس پر وہ خاموش ہو گئے ممکن ہے ان کی جنسی اس اشتہار کے لکھنے والے کے متعلق حقارت کی ہنسی ہولیکن جو اثر اُس وقت مجھ پر ہوا وہ یہی تھا کہ میں نے ان کی ہنسی کو اس قدر بُرا منایا کہ اس کا اثر اب تک میری طبیعت پر رہا اور محو نہیں ہوا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا.اب جبکہ موجودہ فتنہ منافقین کا اُٹھا ہے تو میرے اس تاثر کی تصدیق ہوگئی ہے کہ اُس وقت کی مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور میاں عبدالمنان صاحب کی ہنسی ایک نفرت ، بدگمانی اور حقارت کا بیج تھا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق جو آج ایک مکروہ اور بدنما درخت کی شکل بن کر جماعت کے سامنے ظاہر ہو گیا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ خاکسار ڈاکٹر محمد منیر امرتسری غرض جو بات مجھے یاد تھی اُس کی تصدیق ڈاکٹر محمد منیر صاحب کی شہادت سے بھی ہوگئی اور مرز امحمد طاہر صاحب ابن عبد الحق صاحب کی شہادت سے بھی ہو گئی جو کہ زاہد کا بھانجا ہے.۱۹۲۹ء میں مولوی محمد اسماعیل غزنوی نبیره ۱۸۸ حضرت خلیفہ اول اور بھانجا میاں عبدالوہاب وعبدالمنان نے ( جس کی خط و کتابت عبدالمنان کے کاغذوں میں جنہیں و اور مینٹل (ORIENTAL) کمپنی میں جس کا وہ پریذیڈنٹ بنایا گیا تھا چھوڑ کر چلا گیا تھا مل گئی ہے ) میاں عبد السلام وعبد الوہاب سے مل کر ایک میٹنگ کی اور اس میں بقول ایک معتبر شاہد کے خلافت ثانیہ کے خلاف جھوٹے الزام لگانے کی سکیم بنائی.مجھے وقت پر یہ خبر مل گئی اور

Page 416

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۰ جلد دوم میں نے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور درد صاحب مرحوم کو مقر ر کیا کہ وہ مخبر کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر ان کی سکیم سنیں.چنانچہ عرفانی صاحب کی شہادت ہے کہ ان لوگوں نے آپس میں باتیں کیں کہ جتنے مالی الزام خلیفہ ثانی پر لگائے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی کارگر ثابت نہیں ہوا اور نہ ان کا کوئی ثبوت ملتا ہے اس لئے اب ان پر اخلاقی الزام لگانے چاہئیں.مخبر کا بیان ہے کہ اخلاقی الزام کی تشریح بھی انہوں نے کی تھی کہ مولوی عبد السلام صاحب کی ایک بیوی جو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی لڑکی تھیں اور اپنے والد کی طرف سے کئی دفعہ دعا کے خط لے کر میرے پاس آیا کرتی تھیں ان کو بھیجا جائے جب ان کے لئے خلیفہ ثانی دروازہ کھول دیں تو باقی پارٹی کمرہ میں گھس جائے اور شور مچادے کہ ہم نے ان کو ایک غیر محرم عورت کے ساتھ دیکھا ہے اور تمام لوگوں کو کمرہ میں اکٹھا کر لیں.ہم اس مخبر کی روایت کی قطعی تصدیق نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ایک راوی ہے ہاں صرف شیخ یعقوب علی صاحب کی گواہی کی تصدیق کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے ایک وہ بھی راوی ہیں اور دوسرا راوی مخبر بھی ہے اس پارٹی کے ممبر جن کی سازش شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے سنی.شیخ صاحب کے بیان کے مطابق میاں عبد السلام صاحب ، میاں عبدالوہاب صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی تھے.۱۹۳۰ء میں میر محمد اسحق صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ میاں منان کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان کو گرانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہماری جائیداد کو نقصان پہنچایا جاتا ہے.ابھی وہ ہزاروں آدمی زندہ ہے جو قادیان میں جانے والا ہے انہوں نے حضرت خلیفہ اول کا کچا مکان دیکھا ہوا ہے اس کے مقابلہ میں حضرت صاحب نے ہم کو ورثہ میں پانچ گاؤں اور قادیان کا شہر دیا تھا گویا حضرت خلیفہ اول کی جائیداد ہماری جائیداد کا ہیں ہزارواں حصہ بھی نہ تھی اب کیا وہ ہیں ہزارواں حصہ جائیداد بھی ہم نے کھانی تھی.۱۹۳۰ء میں چوہدری ابوالہاشم صاحب نے مجھے اپنی مرحومہ بیٹی کا جو مولوی عبد السلام صاحب کی بیوی تھیں ایک خط بھجوایا جو بنگالی میں تھا اور اس میں لکھا تھا کہ خاندان حضرت خلیفہ اول میں ہر وقت خلافت ثانیہ سے بغاوت کی باتیں ہوتی رہتی ہیں مگر افسوس ہے کہ وہ

Page 417

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۱ جلد دوم خط میرے پاس محفوظ نہیں رہا.شاید قادیان میں ہی رہ گیا ہے.ستمبر ۱۹۳۰ء میں پیغامیوں کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا کہ ناصر احمد کو ولی عہد مقرر کرنے کا پروپیگینڈا کیا جا رہا ہے.19 ۱۹۵۶ء کی مجلس مشاورت کے وقت بھی یہی بات میاں عبدالمنان نے کہی.چنانچہ چوہدری انور حسین صاحب ایڈووکیٹ وامیر جماعت احمد یہ شیخو پورہ تحریر کرتے ہیں کہ :.د گزشته مشاورت کے موقع پر مجھے میاں عبد الرحیم احمد کے مکان پر رہنے کا اتفاق ہوا.شیخ بشیر احمد صاحب، ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب بھی وہیں مقیم تھے.میاں عبدالمنان اکثر اس مکان پر رہتے تھے اور ناشتہ اور کھانے کے وقت بھی وہیں ہوتے تھے.میں مشاورت کی مالی سب کمیٹی کا ممبر تھا اور میاں عبدالمنان بھی اس سب کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوتے تھے اس اجلاس میں میں اور مولوی عبد المنان اکٹھے ہی گئے رستہ میں میاں عبدالمنان نے کہا کہ لاکھوں کا بجٹ مالی سب کمیٹی کے سامنے رکھا ہی نہیں جاتا اس کا حساب کتاب جماعت کے سامنے لایا ہی نہیں جاتا.میری دریافت پر میاں عبدالمنان نے کہا کہ یہ جماعتی کاروبار یا تجارت کے متعلق ہے میں اس پر چوکس ہوا.مالی سب کمیٹی کا اجلاس آدھی رات کے قریب ختم ہوا اور واپس ہوئے غالباً دوسرے دن دو پہر کے وقت میاں عبدالمنان نے پھر ایسی ہی گفتگو شروع کی اور کہا کہ باہر سے آنے والے لوگوں کو کیا معلوم کہ یہاں کیا ہورہا ہے.یہاں سخت پارٹی بازی ہے.پھر مکرم میاں ناصر احمد صاحب کے متعلق ولی عہد کے لفظ کہے اور پھر کہا کہ وہ کو کین 19A استعمال کرتے ہیں میں نے کہا کہ قطعاً غلط ہے اور وہ بضد رہا.میری طبیعت پر اس گفتگو کا یہ اثر تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ یہاں قیام کرنے میں میں نے غلطی کی ہے اور میرا یہ احساس تھا کہ اگر کوئی دوست مجھے یہاں ملنے کیلئے بھی آئے اور تھوڑا وقت بھی ٹھہرے تو وہ بھی بُرا اثر قبول کریں گے.(خاکسار محمد انور حسین ۱۹۵۶ء -۹-۱۴) پھر محمد یوسف صاحب بی ایس سی سابق افسر کویت کی گواہی ہے کہ ۱۹۳۱ء میں مولوی عبدالوہاب عمر خلیفہ ثانی پر گندے الزامات لگاتے رہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں :.د میں نے ۱۹۲۹ ء میں بیعت کی تھی.اس کے ایک دو سال بعد یا اسی دوران میں

Page 418

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۲ جلد دوم میرے والد صاحب مجھے مولوی ظفر اقبال صاحب (سابق پرنسپل اور مینٹل کالج لاہور ) کے پاس لے گئے (جن کے والد احمدی تھے اور جو ڈاکٹر ریاض قد میر صاحب جو لاہور کے مشہور سرجن ہیں ان کے بڑے بھائی ہیں ) اور انہیں کہا کہ میرا بیٹا احمدی ہو گیا ہے اسے سمجھایا کریں میں بہر حال والد صاحب کے کہنے پر مولوی ظفر اقبال صاحب سے ملتا رہا.انہوں نے سلسلہ کے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کی البتہ ایک دفعہ مجھے کہنے لگے کہ بڑے مرزا صاحب تو یقیناً بڑے اچھے آدمی تھے لیکن آپ کے موجودہ امام پر کئی گندے الزامات ہیں اور یہ کہ میں آپ کو اس کے ثبوت میں عینی شاہد دے سکتا ہوں میں نے کہا کہ مولوی صاحب آپ کو وہ بات کہنے کا اسلام مجاز نہیں بناتا جس کے آپ عینی شاہد نہیں.جب آپ کی بات ہی اصول کے خلاف ہے تو عینی شاہد مہیا کرنے کیلئے مطالبہ کر نا غلط ہے یہ بات یہیں ختم ہو گئی.میرا ہمیشہ سے یہی تاثر رہا ہے کہ وہ عینی شاہد جس کا مولوی صاحب ذکر کرتے تھے میاں عبد الوہاب عمر تھے میں حتمی طور پر یہ بات نہیں کہہ سکتا لیکن کئی باتوں اور حالات کی وجہ سے میرا تا ثر یہی رہا ہے.(خاکسار محمد یوسف ۱۹۵۲ء.۱۱.۱۱) اسی کی تصدیق شیخ محمد اقبال صاحب مالک بوٹ ہاؤس کوئٹہ کی شہادت سے بھی ہوتی ہے چنانچہ شیخ صاحب لکھتے ہیں.شیخ محمد اقبال صاحب تاجر کوئٹہ کی شہادت چوہدری برکت علی مرحوم جو مکتبہ اُردو اور ماہنامہ ”ادب لطیف“ لاہور کے مالک تھے گرمیاں گزار نے اکثر کوئٹہ آتے رہتے تھے ان کے ہمراہ ایک اور غیر احمدی دوست ہوا کرتے تھے جو محکمہ تعلیم پنجاب سے تعلق رکھتے تھے یہ ہر دوا حباب میرے ایک غیر احمدی نوجوان کے گھر اکثر آتے رہتے تھے جو محکمہ ریلوے میں آفیسر ہیں.وہیں میری ان سے کبھی کبھا ر ملاقات ہوتی.چوہدری صاحب مرحوم سے مذہبی گفتگو کا سلسلہ اکثر چلا کرتا تھا وہ مجلس احرار کے سرگرم رکن تھے اور اُن کی باتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ احراریوں کی سرگرمیوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے اور انکی بڑی مالی امداد بھی کرتے تھے.احمدیت کے خلاف گونا گوں تعصب رکھتے.اُن کے لہجہ میں طنز کا پہلو نمایاں ہوتا اور بار

Page 419

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۳ جلد دوم بار کہتے کہ ہمیں کیا بتاتے ہو ہم تو آپ کی جماعت کے اندرون سے اچھی طرح واقف ہیں.غالبا ۱۹۴۳ء کی گرمیوں کا ذکر ہے کہ دورانِ گفتگو میں حسب معمول چوہدری برکت علی نے متذکرہ بالا ہر دو غیر احمدی احباب کی موجودگی میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے طنزاً کہا کہ تم ابھی بچے ہو تمہیں ابھی اپنی جماعت کے اندرون کا علم نہیں ہوا.تمہاری جماعت کے سر کر وہ لوگ ہم سے پوشیدہ ملتے رہتے ہیں اور اہل قادیان کے اندرونی حالات ہم کو بتاتے رہتے ہیں جس سے مرزائیت کی سچائی ہم پر خوب واضح ہو چکی ہے.میں نے اُن سے کہا اگر آپ جھوٹ بول کر اپنا ایمان ضائع نہیں کر رہے ہیں تو مجھے ان سرکردہ احمدیوں کے نام بتائیں جو آپ کو پوشیدہ ملتے ہیں اور اگر بہت سی راز کی باتوں سے آپ پر سچائی آشکار ہو چکی ہے تو چند ایک ہمیں بھی بتائیں تا کہ ہم اس سچائی سے محروم نہ رہ جائیں لیکن وہ اس سوال سے کتراتے اور نام نہ بتاتے صرف اتنا کہتے کہ وہ لوگ تمہاری جماعت میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں لیکن ان سے بہت بے انصافی کا برتاؤ ہوا ہے وہ قادیان میں بہت تنگ ہیں.ان کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے اور اپنی تنگدستی اور پریشانیوں کی ہم سے شکایت کرتے ہیں اور ہم سے مالی امداد بھی طلب کرتے رہتے ہیں پھر کچھ توقف کے بعد کہنے لگے کہ وہی لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ قادیان بھر میں دوشخص بھی ایسے نہیں ملیں گے جو دل موجودہ خلیفہ سے خوش ہوں.ڈر کے مارے گو ظا ہر طور پر اب تک مخالفت نہیں ہوئی لیکن جہاں بھی موقع ملتا ہے لوگ خفیہ مجالس کر کے موجودہ خلیفہ کے خلاف غم وغصہ کا اظہار کرتے رہتے ہیں.ނ آجکل بھی وہ ” نوائے پاکستان میں اعلان کر رہے ہیں کہ جماعت کا اکثر حصہ خلیفہ ثانی سے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے.وہ کذاب اور جھوٹا یہاں آکر دیکھے اور جتنے لوگ یہاں بیٹھے ہیں ان کا دسواں حصہ ہی اپنی طرف دکھا دے.دسواں نہیں ہزارواں حصہ ہی دکھا دے.ہمارے اندازہ کے مطابق اس وقت جلسہ میں عورتوں اور مردوں کی تعداد ساٹھ ہزار ہے وہ ساٹھ آدمی ہی مبائعین میں سے اپنے ساتھ دکھا دے) پھر کہا اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ حال میں قادیان میں ایک جلسہ عام

Page 420

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۴ جلد دوم ہوا ہے جس میں اہل قادیان نے متفقہ طور پر خلیفہ صاحب کی اقتداء کے خلاف نکتہ چینی کی ہے اور صدائے احتجاج بلند کی ہے (لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ) میں خاموشی سے سنتا رہا اس کے بعد چوہدری صاحب کہنے لگے کہ تمہاری جماعت کے بزرگوں کے ذاتی کیریکٹر کے متعلق بھی ہمیں اطلاعات ملتی رہتی ہیں اور کچھ بزرگوں کے خلاف الزام بھی لگائے.اس پر میری غیرت نے اور کچھ سننا گوارا نہیں کیا اور میں نے نہایت جوش میں دوسرے ہر دو غیر احمدی احباب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دوستو ! ہمارا اپنا مکان قادیان میں ہے اور میں اور میرا خاندان ایک لمبے عرصہ تک وہاں مقیم رہے ہیں ہم بھی وہاں کے تمام حالات سے واقف ہیں لیکن میں عینی شاہد ہونے کی حیثیت سے چوہدری صاحب کے تمام الزامات اور غلط واقعات کی تردید کرتا ہوں اور اس کے جواب میں یہی کہتا ہوں کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ.اور اب میں یہ کہتا ہوں کہ اگر چوہدری صاحب ان نام نہا د سر کردہ احمدیوں کے نام نہیں بتائیں گے جو نہ صرف منافق ہیں اور خفیہ طور پر احرار سے ملتے ہیں بلکہ اپنے کذب اور جھوٹ کو راز کی باتیں بتا کر ان کے عوض جماعت کے شدید دشمنوں کے سامنے کاسہ گدائی لئے پھرتے ہیں تو میں یہ کہنے پر مجبور ہونگا کہ یہ سب کذب اور افتراء چوہدری صاحب جیسے اور ان جیسے دیگر دشمنانِ احمدیت کے اپنے گھڑے ہوئے ہیں اور خواہ مخواہ احمدیوں کو بدنام کرتے پھرتے ہیں.اس پر یکلخت چوہدری برکت علی صاحب نے کہا کہ ” وہ آپ کے خلیفہ اول کےلڑکے مولوی عبدالوہاب ہیں“.حضور مجھے اُس وقت ہر گز یقین نہیں آیا تھا کہ مولوی عبد الوہاب صاحب کے متعلق جو باتیں چوہدری برکت علی نے کی ہیں وہ سچ ہیں بلکہ یہی سمجھتا رہا کہ ان پر افتراء کیا جا رہا ہے ور چونکہ تحقیق کے بغیر کسی پر عائد شدہ الزام کو پھیلانا اسلام میں ممنوع ہے میں آج تک خاموش رہا ہوں آج تیرہ سال کے بعد اس واقعہ کو حلفیہ طور پر بیان کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں“.۲۰ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ۱۹۳۲ء.۱۹۳۱ء میں احمد یہ ہوسٹل کی رہائش کے زمانہ میں میاں عبد الوہاب احمد یہ بلڈنکس میں جاتے اور مولوی محمد علی صاحب سے ملا کرتے تھے اور

Page 421

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۵ جلد دوم ان سے امداد بھی لیتے تھے جیسا کہ ملک عبد الرحمن صاحب خادم کی گواہی سے ظاہر ہے جو ہمارے پاس محفوظ ہے اور جسمیں انہوں نے لکھا ہے کہ :.اگر چہ ۱۹۲۶ء سے لے کر آج تک مولوی عبد الوہاب صاحب کو ایک مرتبہ بھی منافقانہ خیالات کے میرے سامنے اظہار کی جرات نہیں ہوئی لیکن میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ ان کی یہ بیماری نئی نہیں بلکہ جس زمانہ میں ہم کالج میں پڑھتے اور احمد یہ ہوٹل لاہور میں رہتے تھے تو وہ اُن دنوں بھی احمد یہ بلڈنگ میں جاتے اور مولوی محمد علی صاحب سے ملا کرتے تھے اور ان سے مالی امداد بھی لیا کرتے تھے حالانکہ صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے ان کو بہت کافی مالی امداد با قاعدہ ملتی تھی یہ ۱۹۳۲ء.۱۹۳۱ء کی بات ہے“.اسی کی تائید شیخ محمد اقبال صاحب تاجر کوئٹہ کے بیان سے بھی ہوتی ہے جس کو ابھی بیان کیا گیا ہے اور جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مکتبہ اُردو اور ماہنامہ 'ادب لطیف لاہور کے مالک چوہدری برکت علی مرحوم نے اُن سے کہا کہ تمہاری جماعت کے سرکردہ لوگ ہم سے پوشیدہ ملتے رہتے ہیں اور اہل قادیان کے اندرونی حالات ہم کو بتاتے رہتے ہیں.جب میں نے اصرار کیا کہ بتائیں وہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ تمہاری جماعت میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے جاتے ہیں مگر وہ قادیان میں بہت تنگ ہیں ، ان کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے اور اپنی تنگدستی اور پریشانیوں کی ہم سے شکایت کرتے ہیں اور ہم سے مالی امداد بھی طلب کرتے رہتے ہیں.اور آخر میں مولوی عبدالوہاب کا نام لیا.ان گواہیوں سے ظاہر ہے کہ مولوی عبد الوہاب صاحب اپنی تنگدستی اور پریشانیوں کی غیروں سے شکایت کرتے رہے اور یہ پرو پیگنڈا کرتے رہے کہ ان کی کوئی مالی امداد نہیں کی جاتی حالانکہ یہ بالکل جھوٹ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام ۱۹۰۸ء میں فوت ہوئے تھے اور حضرت خلیفہ اول ۱۹۱۴ء میں فوت ہوئے گویا حضرت خلیفہ اول کی وفات پر بیالیس سال اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر اڑتالیس سال گزر چکے ہیں جو حضرت خلیفہ اول کی وفات کے عرصہ ! صہ سے یقیناً زیادہ ہے.اس عرصہ میں سلسلہ کی طرف سے جو دونوں خاندانوں کو امداد

Page 422

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۶ جلد دوم دی گئی ہے اس کا میں نے حساب نکلوایا ہے جو پچیس سال گزشتہ کا مل چکا ہے کیونکہ کچھ ریکارڈ قادیان رہ گیا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے خاندان کو ۲۵ سال کے عرصہ میں نوے ہزار ایک سو بیس روپیہ دیا گیا اور حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان کو جو بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادم تھے اس عرصہ میں نوے ہزار دو سو نوے روپیہ ملا ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے جن کے افراد زیادہ تھے حضرت خلیفہ اول کے خاندان کو ایک سو ستر روپیہ زیادہ ملا اور ابھی وہ رقمیں الگ ہیں جو میں دیتا رہا.مگر باوجود اس کے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کے خاندان کو گرایا جا رہا ہے اور ان کی مدد نہیں کی جارہی.جب اس کے ساتھ یہ بات بھی ملائی جائے کہ اس چھپیں سال میں میں نے چندے کے طور پر ۴۵ ہزار کی رقم دی ہے اور پچھلے سال قریباً ڈیڑھ لاکھ کی زمین انجمن کو دی ہے تو اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کو ایک کوڑی بھی نہیں ملی بلکہ انہوں نے بغیر کوئی پیسہ لئے صدر انجمن احمدیہ کی خدمت کی ہے اور اس کو ایک بڑی بھاری رقم دی ہے اور اس کے علاوہ تحریک جدید کو میں نے تین لاکھ روپیہ دیا ہے.۱۹۳۶ء میں کیپٹن نواب دین صاحب دار الفضل ربوہ کی گواہی کے مطابق شیخ محمد سعید صاحب نے جو آجکل صو بیدار میجر کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہو کر لاہور میں مقیم ہیں ان کے پاس بیان کیا کہ ڈلہوزی میں میاں عبد الوہاب، شیخ مولا بخش صاحب لائکپوری اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی اُن مجالس میں موجود ہوتے تھے جن میں وہ خلیفہ ثانی پر گندے الزامات لگاتے تھے اور اُن لوگوں کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے.۱۹۴۰ء میں شیخ عبد الرحیم صاحب پراچہ کی گواہی کے مطابق مولوی حبیب الرحم لدھیانوی کے والد مولوی محمد زکریا صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ مولوی عبدالوہاب صاحب ان کے ایجنٹ اور منجر ہیں چنانچہ پراچہ صاحب لکھتے ہیں :.مکرم شیخ عبدالرحیم صاحب پراچہ کی شہادت بہت عرصہ ہوا احمد یہ ہوشل لاہور مزنگ کے علاقہ میں

Page 423

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۷ جلد دوم نواب صاحب بہاولپور کی کوٹھی میں جس کا نام مجھے یقینی طور پر یاد نہیں رہا ( غالباً الفیض تھا ) میرے بڑے بھائی میاں فضل کریم صاحب پراچہ بی اے ایل ایل بی سپر نٹنڈنٹ ہوسٹل تھے حضور لا ہور تشریف لائے تو ہوسٹل میں ہی قیام فرمایا.میں بھی لاہور میں تھا ایک دن حضور باہر تشریف لے گئے اور حضور کے کمرہ میں کوئی نہ تھا تو مولوی عبد الوہاب اُس کمرہ میں گئے اور حضور کے کاغذات دیکھنے لگ گئے.بھائی فضل کریم صاحب نے دیکھ لیا اور انہوں نے اُن سے بہت سختی کی اور حضور کی خدمت میں بھی بعد میں عرض کر دیا.اب مجھے یاد نہیں اُس وقت میں ہوسٹل میں تھا یا بعد میں بھائی صاحب نے بتایا وہ بہت غصے میں تھے اور کہتے تھے ان کا پیغامیوں سے تعلق ہے اور اس ضمن میں تلاشی لے رہے تھے.انہوں نے مولوی عبد الوہاب کی سخت بے عزتی کی جو مجھے ناگوارگزری کیونکہ بھائی صاحب نے حضور سے عرض کر دیا تھا اور حضور نے ستاری سے کام لیا.مجھے محض حضرت خلیفہ اول کے مقام اور بھیروی اور ہمارے بزرگوں کے محسن ہونے اور اکثر بھیرہ کے لوگوں کے ان کے ذریعہ جماعت میں داخل ہونے کی وجہ سے بھائی صاحب پر افسوس ہوا کہ حضور نے تو ستاری کی اور وہ ان کو ننگا کر رہے ہیں.اس کے علاوہ جنگ سے پہلے اور جنگ شروع ہونے کے زمانہ میں جو اغلباً ۱۹۳۷ء.۱۹۳۸ء اور ۱۹۳۹ء تھا میں کاروبار کے سلسلہ میں شملہ جاتا رہا.پہلی دفعہ وہاں میں مسلم یا دہلی مسلم ہوٹل میں ) صحیح نام یاد نہیں ) ٹھہرا اور پھر دوسری مختلف جگہوں پر ٹھہرا.میرا قالین کا کاروبار تھا اور قالین کے ایرانی بیو پاری مال لے کر اس ہوٹل میں ٹھہر تے تھے جس کی وجہ سے اکثر اس ہوٹل میں جانا پڑتا تھا.ہوٹل کے مالک دہلی میں ریلوے اسٹیشن پر مسلم ریفریشمنٹ روم کے کنٹریکٹر بھی تھے اور ان کا مینیجر منظور حسین یا احمد ہوتا تھا مجھے سنہ صحیح یاد نہیں مگر مندرجہ بالا اوقات کے دوران میں ایک دن اس ہوٹل کے کھانے کے کمرے میں چائے یا کھانا کھا رہا تھا تو وہاں ایک سفید ریش معمر مولوی صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے اب یاد نہیں کہ مولوی عبد الوہاب صاحب وہاں مجھ سے پہلے بیٹھے ہوئے تھے یا بعد میں آئے اُن سے وہاں ملاقات ہوئی.میں اپنے ساتھی کے ساتھ مصروف رہا مولوی عبدالوہاب صاحب فارغ ہو کر چلے گئے اور میں وہاں بیٹھا رہا.مینیجر ہوٹل منظور صاحب جن

Page 424

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۸ جلد دوم سے میری بے تکلفی تھی آکر پاس ہی بیٹھ گئے اُن سفید ریش مولوی صاحب نے جو نہیں جانتے تھے کہ میں احمدی ہوں.( مگر منظور صاحب کو میرا اچھی طرح علم تھا ) مولوی عبدالوہاب صاحب کا ان کے چلے جانے کے بعد ذکر شروع کر دیا کہ یہ فلاں آدمی ہیں اور یہ ہمیں خبریں دیتے ہیں اور ہمیں انہی لوگوں سے مرزائیوں کے راز معلوم ہوتے ہیں اور کہا کہ ( مجھے صحیح یا دنہیں آج یا کل) یہ چوہدری افضل حق کے پاس بھی آئے تھے.(اُن دنوں چوہدری افضل حق صاحب شملہ میں تھے ) اور بھی گفتگو ہوئی.مگر اب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد یاد نہیں مگر وہ الفاظ یا مفہوم جن سے مولوی صاحب کا احراریوں سے تعلق ظاہر ہوتا تھا اور پھر خلیفہ اول کی اولاد کس طرح بھول سکتے ہیں سخت صدمہ ہوا.میں نے کسی رنگ میں بعد میں مولوی صاحب سے خود چوہدری افضل حق صاحب سے ملاقات کی تصدیق بھی کروالی.پیغامیوں سے ان کے تعلقات کا کئی دفعہ سن چکا تھا مگر یہ الفاظ رنج دہ تھے.منظور صاحب نے میرے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ان سفید ریش مولوی صاحب کو یہ نہ بتایا کہ یہ احمدی ہیں بلکہ مسکراتے رہے اور انہیں نہ ٹو کا.جب وہ مولوی صاحب چلے گئے تو مجھے بتایا کہ یہ مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی احراری لیڈر کے والد ہیں.بعد میں دوسروں سے بھی تصدیق ہوگئی کہ یہ مولوی حبیب الرحمن صاحب کے والد ہیں کیونکہ پھر کئی دفعہ ملنے کا موقع ملا.میں ان الفاظ پر جو مولوی حبیب الرحمن صاحب کے والد نے کہے تھے حرف بحرف حلف نہیں اُٹھا سکتا مگر میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مولوی حبیب الرحمن صاحب کے والد صاحب نے جن کا نام مجھے یاد نہیں اس مفہوم کے الفاظ کہے تھے کہ مولوی عبد الوہاب صاحب احراریوں کے مخبر ہیں اور آج یا کل بھی (شملہ میں ) چوہدری افضل حق صاحب کے پاس آئے تھے.۲۲ پراچہ صاحب نے جلسہ سالانہ پر شہادت دیتے ہوئے بتایا کہ جب الفضل میں میرا یہ خط شائع ہوا تو اُس وقت مجھے اُن سفید ریش معمر مولوی صاحب کا جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے نام یاد نہیں تھا اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان کا نام مولوی محمد ذکریا تھا اور میں خود بھی قسم کھا کے

Page 425

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۹ جلد دوم کہتا ہوں کہ مجھے یا د آ گیا اور میرے حافظہ نے کام دیا کہ اُن کا نام مولوی محمد ذکریا تھا اور مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ مولوی حبیب الرحمن صاحب احراری لیڈر کے والد ہیں.۱۹۴۶ء میں محمد عبد اللہ صاحب ظفر وال ضلع سیالکوٹ کی گواہی کے مطابق میاں عبدالمنان صاحب نے مجھ پر اپنی جائیداد غصب کرنے کا الزام لگا یا چنانچہ وہ لکھتے ہیں.”ہمارے ایک معزز غیر احمدی دوست نے ( جو علاقہ مجسٹریٹ کے ریڈر ہیں ) مجھے بتایا که مولوی منان میرے واقف ہیں.پارٹیشن سے پہلے جب کبھی میں ان کے ہاں جایا کرتا وہ حضور کے خلاف سخت غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے کہتے کہ دیکھو جی ! کمائی ہمارے باپ کی اور کھا یہ رہے ہیں ( گویا مسیح موعود کی کمائی ہی نہیں.کمائی حضرت خلیفہ اول کی تھی.اگر جسمانی لو تب بھی حضرت خلیفہ اول کی کمائی ہم سے ہزارواں حصہ بھی نہیں تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ورثہ میں پانچ گاؤں اور ایک شہر قادیان کا ملا تھا اور خلیفہ اول کو ان کے باپ کی طرف سے ایک کچا کوٹھا بھی نہیں ملا تھا ) ہمیں کوئی پوچھتا بھی نہیں اور ان کے محل بن رہے ہیں.“ ۱۹۵۰ء میں میاں عبد السلام نے یہ کہا کہ عبد الباسط انکے بڑے بیٹے کو زہر دیا گیا ہے وہ لائلپور میں پڑھتا تھا اور میں نے جماعت لائل پور سے گواہی منگوائی ہے وہ کہتے ہیں کہ میونسپل کمیٹی میں ان کا ریکارڈ موجود ہے اور میونسپل کمیٹی کی سند موجود ہے کہ اس نے خود کشی کی تھی بلکہ وہ کہتے ہیں کہ بعد میں جب ہم نے جنازہ نہ پڑھا کیونکہ خودکشی کرنے والے کا جنازہ جائز نہیں ہوتا تو میاں عبدالمنان نے آکر کہا کہ عبد الباسط نے خود کشی نہیں کی بلکہ کسی نے اس کو زہر دے دیا ہے اور اس کی موت میں مختلف لوگوں کا ہاتھ ہے اور اس کے بعد میاں عبد السلام اور عبد المنان دونوں نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح یہ بات ثابت ہو جائے کہ اس نے خود کشی نہیں کی بلکہ اُسے زہر دیا گیا ہے.چنانچہ چوہدری رشید احمد صاحب بٹ جو سکھر میں ہیں اور مولوی عبد السلام صاحب کی زمینوں کے قریب رہتے ہیں اُن کی بھی یہی گواہی ہے وہ لکھتے ہیں :.” میری مولوی عبد السلام مرحوم سے پہلی ملاقات جنوری ۱۹۵۰ء میں بمقام کنڈیارو

Page 426

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۰ جلد دوم ہوئی جبکہ ہمارا تعارف چوہدری ہدا یت اللہ صاحب پریذیڈنٹ جماعت کنڈیارو نے کرایا.اس سے پہلے حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کے لڑکوں کے نام تو جانتا تھا مگر ان میں سے میرا کوئی واقف نہ تھا.اس دوران میں مولوی صاحب موصوف اس قسم کی باتیں کرتے رہے جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ ان کو سلسلہ عالیہ احمدیہ کے موجودہ نظام سے دلچسپی نہیں ہے ( یہ تو ظاہر ہی ہے.مگر میاں بشیر احمد صاحب کو مولوی عبد السلام صاحب کا بیٹا خود کہہ گیا ہے کہ میں خلافت سے بدظن ہوں اور کہہ گیا ہے کہ آپ تو بڑھے ہوگئے ہیں آپ کے ساتھ تو مستقبل کوئی نہیں میں جو ان آدمی ہوں میرے سامنے بڑا مستقبل ہے میں نے اس کی فکر کرنی ہے گویا وہ بھی خلافت کا خواب دیکھ رہا ہے.) سید !...غالبا سب سے پہلے ایسی بات جو مولوی صاحب موصوف نے مجھ سے کی وہ ی تھی کہ میرا بڑا لڑکا جو زہر دے کر ہلاک کیا گیا تھا وہ دراصل مرزا خلیل احمد کی وجہ سے ہوا تھا کیونکہ وہ دونوں کمیونسٹ ہو چکے تھے.حضرت صاحب نے اپنے لڑکے کو بچالیا اور مجھے یہ کہہ کر کہ اب اگر تم کیس کرو گے تو مسیح موعود کے خاندان کی بے عزتی ہوگی حالانکہ میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم نے مجھے بہت کہا تھا کہ کیس کرو مگر میں نے اس واسطے نہیں کیا کہ مجھے حضرت صاحب نے بلا کر منع کیا تھا ( جھوٹ ہے لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ) بہر حال میرالڑکا ( یعنی عبد السلام کا حضرت خلیفہ اول کا پوتا مسیح موعود کے پوتے کیلئے قربان ہو گیا.اس دوران میں مولوی صاحب نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ جس وقت یہ کیسی ہوا اُس وقت خلیل کی الماری اشترا کی لٹریچر سے بھری ہوئی تھی جس کو خود حضرت صاحب نے جلا یا ( یہ بھی جھوٹ ہے البتہ یہ ٹھیک ہے کہ بعض کمیونسٹ جو ہمارے دشمن تھے انہوں نے خلیل کے نام کمیونسٹ لٹریچر بھیجنا شروع کر دیا تھا.) میں نے مولوی صاحب سے جواباً کہا ” مجھے یہ علم نہیں نہ حضور کے علم میں یہ باتیں ہیں.عبدالباسط نے در حقیقت خود کشی کی تھی جس کی تائید میں جماعت احمد یہ لائکپور نے مولوی عبید اللہ صاحب قریشی ، شیخ محمد یوسف صاحب ، ڈاکٹر محمد طفیل صاحب ، شیخ نذر محمد صاحب، میاں محمد شفیع صاحب، کمانڈر عبداللطیف صاحب ، چوہدری عبدالرحمن

Page 427

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۱ جلد دوم صاحب، ڈاکٹر چوہدری عبد الاحد صاحب اور شیخ عبد القادر صاحب مربی لاہور کی گواہیاں میرے پاس بھیجوا دی ہیں جن میں انہوں نے کہا ہے کہ تحقیقات ہوئی اور پولیس بھی آئی اور پھر سارا واقعہ لکھا کہ اس طرح وہ کمیونسٹ دوستوں کے پاس سے آیا اور کہنے لگا میں ذرا غسل خانہ میں جانا چاہتا ہوں وہاں گیا تو تھوڑی دیر کے بعد ہم کو آواز آئی ہم نے جب جھانکا تو دیکھا کہ زمین پر گرا پڑا تھا اور قے کی ہوئی تھی.پھر ہم نے اس کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس میں سے رقعہ نکلا کہ میں نے خود زہر کھایا ہے کسی پر الزام نہ لگایا جائے.چنانچہ وہ رقعہ پولیس میں دیا گیا.اس نے تحقیقات کی اور میونسپل کمیٹی نے سرٹیفکیٹ دے دیا کہ سو سائڈ (SUICIDE) ہے دفن کر دیا جائے اس وجہ سے پولیس نے کوئی مزید کا رروائی نہ کی.خلیل کا واقعہ ستمبر ۱۹۴۱ء کا ہے.۱۹۴۱ء میں بعض احراریوں نے کمیونسٹوں سے مل کر خلیل احمد کو کمیونسٹ لٹریچر بھیجنا شروع کیا اور دوسری طرف گورنمنٹ کو اطلاع دی کہ اس کے پاس کمیونسٹ لٹریچر آتا ہے اور یہ کمیونسٹ ہے.مجھے اس سازش کا پتہ لگ گیا اور میں نے فوراً ڈاکخانہ کو لکھ دیا کہ خلیل کی ڈاک مجھے دی جایا کرے خلیل کو نہ دی جایا کرے.میری غرض یہ تھی کہ یہ الزام نہ لگائیں کہ ڈاک کے ذریعہ اس کے پاس لٹر پچر آتا ہے جب وہ لٹریچر میرے پاس آئے گا تو میں اسے تلف کر دوں گا اور گورنمنٹ کو کوئی بہانہ نہیں ملے گا.پولیس نے پھر بھی شرارت کی اور اس کے بعد جب میں ڈلہوزی گیا تو وہاں ڈاکیہ کو ساتھ ملا کر ایک بیرنگ پیکٹ خلیل کو دلوا دیا چونکہ میں نے اُسے منع کیا تھا وہ فوراً میرے پاس لے آیا اور میں نے وہ درد صاحب کے سپرد کیا اور درد صاحب کے ہاتھ سے پولیس سب انسپکٹر چھین کر لے گیا.میں نے فوراً گورنر کو تار دلا دیا کہ اس طرح پولیس آئی ہے اور درد صاحب کے ہاتھ سے ایک پیکٹ چھین کر لے گئی ہے ہمیں نہیں پتہ اس میں کیا ہے مگر اس کا منشا یہ ہے کہ خلیل کو زیر الزام لائے کیونکہ وہ خلیل کے نام آیا تھا.اس پر گورنمنٹ نے تحقیقات کی اور پولیس کی شرارت اس پر ظاہر ہوگئی اور وہ ہیڈ کانسٹیبل جو اُس وقت بطور سب انسپکٹر کام کر رہا تھا اُس کو ڈی گریڈ کیا گیا اور ڈلہوزی سے بدل کر شکر گڑھ کے ایک چھوٹے سے تھا نہ میں بھیج دیا

Page 428

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۲ جلد دوم گیا.اُس وقت نہ ہمیں معلوم تھا کہ عبد الباسط بھی کمیونسٹ اثر کے نیچے ہے اور نہ ہم اس کے لئے کوئی کوشش کر سکتے تھے کیونکہ وہ لائلپور میں پڑھتا تھا اور لائکپور کالج کے کمیونسٹ لڑکوں سے ملا کرتا تھا اور ہماری حفاظت سے باہر تھا.پھر یہ مخالفت اتنی لمبی کی گئی کہ ۱۹۵۰ء.۱۹۵۱ء کی گواہیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں عبدالمنان کی خلافت کا پرو پیگنڈ ا شروع کر دیا گیا.چنانچہ عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد صادق صاحب مبلغ سیرالیون جو محبوب علی صاحب مرحوم آف مالیر کوٹلہ کی دختر میں لکھتی ہیں کہ :.’۱۹۵۰ء یا ۱۹۵۱ء کا واقعہ ہے کہ میرا خالہ زاد بھائی منور شاہ ولد فضل شاہ (ساکن نواں پنڈ احمد آباد مضافات قادیان کا ہے اور اس وقت گوٹھ لالہ چرنجی لال نمبر ۳۸۵ تحصیل میر پور خاص تھر پارکر سندھ میں رہائش رکھتا ہے) انہی دنوں میں یعنی ۱۹۵۰ء.۱۹۵۱ء میں جب کہ مرزا شریف احمد صاحب کی دکان بندوقوں والی میں ملازم تھا ربوہ میں میرے پاس ملنے کو آیا.اتفاقاً ایک دن باتوں باتوں میں یہ ذکر کیا کہ ایک گروہ نو جوانوں کا ایسا ہے جو کہتا ہے کہ موجودہ خلیفہ کے بعد اگر خلافت پر مرزا ناصر احمد صاحب کو جماعت نے بٹھایا تو ہماری پارٹی میں سے کوئی بھی اُسے نہیں مانے گا.ہم تو میاں عبدالمنان صاحب عمر کو خلیفہ مانیں گے.میں نے اسے بُرا منایا اور جھڑک کر کہا کہ وہ خبیث کون کون ہیں.اس پر غصے میں آکر کہنے لگا کہ دیکھنا اُس وقت تم لوگوں کا ایمان بھی قائم نہیں رہے گا.یہ کہہ کر اُسی وقت وہ میرے گھر سے باہر چلا گیا میں اس کی وجہ سے دل میں کڑھتی رہی مگر سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس کا ذکر حضور سے کیونکر کروں.اب حضور کا ارشاد پڑھ کر میں نے یہ بیان مولوی عبد اللطیف صاحب بہاولپوری کو لکھوا دیا میں خدا کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ کہتی ہوں کہ یہ بیان صحیح ہے الفاظ میں کمی بیش ہو تو الگ امر ہے مگر مفہوم یہی تھا.۲۳ اسی طرح چوہدری بشارت احمد صاحب لاہور کی گواہی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ غلام رسول ۳۵ نے بھی یہی کہا کہ ہم تو میاں عبد المنان صاحب عمر کی بیعت کریں گے.۲۴ اور مولوی محمد صدیق صاحب شاہد مربی سلسلہ راولپنڈی کی بھی یہی گواہی ہے کہ اللہ رکھانے

Page 429

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۳ جلد دوم کہا کہ اب تو لاہوریوں کی نظر حضرت خلیفہ اول کی اولاد پر زیادہ پڑتی ہے اور وہ میاں عبد المنان صاحب کی زیادہ تعریف کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک وہ زیادہ قابل ہیں.۵ چنا نچہ ”پیغام صلح کی تائید سے بھی ظاہر ہو گیا ہے کہ بات سچ ہے اسی طرح عنایت اللہ صاحب انسپکٹر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ لکھتے ہیں ڈاکٹر محمد شفیع صاحب نثار پریڈیڈنٹ جماعت احمد یہ طالب آباد نے بتایا کہ آج سے دو سال قبل گوٹھ رحمت علی تھل برانچ پر مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی ( یہ حضرت خلیفہ اوّل کے نواسے اور عبد الوہاب اور عبد المنان کے بھانجے ہیں ) کے ایک پروردہ شخص بشیر احمد نے کہا کہ جماعت احمدیہ کی خلافت کا حق مولوی نور الدین صاحب کے بعد ان کی اولاد کا تھا لیکن میاں محمود احمد صاحب نے ( نَعُوذُ بِاللهِ ( ظلم سے ان کا حق غصب کر کے خلافت پر قبضہ کر لیا ہے.اب ہم لوگ ( یعنی خاندان حضرت خلیفہ اول اور ان کے غیر احمدی رشتہ دار ) اس کوشش میں ہیں کہ خلافت کی گدی مولوی صاحب کی اولا د کو ملے اور اب حق بحقدار رسید کے مطابق جلد ہی یہ معاملہ طے ہو کر رہے گا.۲۶ یعنی حق حضرت خلیفہ اول کا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد نے خواہ مخواہ بیچ میں دخل دے دیا.چنانچہ ہمارے پاس بعض ٹریکٹ ایسے پہنچے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کے غیر احمدی رشتہ داروں نے مختلف کارٹونوں کے ذریعہ سے اس کے لئے پرو پیگنڈا بھی شروع کر دیا ہے اور یہ اشتہارات کثرت کے ساتھ جماعت میں شائع کئے جائیں گے.ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اس وقت ایک ٹریکٹ چالیس ہزار چھپا ہے اور کثرت سے ایسے ٹریکٹ جماعت میں شائع کئے جائیں گئے“.مہاشہ محمد عمر صاحب کی شہادت مباشہ محمد عمر صاحب کی رپورٹ بھی اس کی جا رہی ہے وہ کہتے ہیں.تائید کر رہی ہے کہ اب تک مخالفت بڑھائی میں بتاریخ ۱۹۵۶ء.۱۲.۲۴ کو جلسہ سالانہ کے لئے ڈھاکہ سے ربوہ آ رہا تھا جب میں امرتسر ریلوے اسٹیشن پر گاڑی سے اُترا تو ایک نوجوان مجھے ملا.اُس نے کہا کیا آپ

Page 430

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۴ جلد دوم ربوہ جا رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں.اس پر اس نے کہا کہ اگر آپ کو ہماری خدمات کی ضرورت ہو تو ہم حاضر ہیں کیونکہ ہماری ڈیوٹی لگی ہے کہ جلسہ پر آنے والے احمدیوں کو سہولت کے ساتھ پہنچا دیں.میں نے اس کا شکر یہ ادا کیا اور بازار چلا گیا.جب ہم بس میں سوار ہوئے تو وہ بھی ہمارے پاس آکر لاہور کیلئے اس بس میں بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ آپ لوگوں کے لئے کھانے وغیرہ کا انتظام حضرت مولوی عبدالمنان صاحب نے رتن باغ میں کیا ہے اور وہ بڑے متقی ہیں آپ وہاں تشریف لے چلیں.میں نے پوچھا آپ کا نام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میرا نام ارشد ہے (ممکن ہے اس نے اپنا نام غلط بتایا ہو ہمارے علم میں اس کا نام خالد ہے ) اور میں حضرت مولوی عبدالمنان صاحب کا بھانجا ہوں اور مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کا لڑکا ہوں.میں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ یہ میں درست کہہ رہا ہوں.“ (مہاشہ محمد عمر ) 66 گویا جیسے شیطان نے کہا تھا کہ اَنَا خَيْرٌ مِنْهُ کہ میں آدم سے بہتر ہوں اسی طرح اسماعیل غزنوی کے بیٹے نے ہمارے بنگالی مہمانوں کو ورغلانے کیلئے کہا کہ منان صاحب کی دعوت کھاؤ جو جماعت میں تقویٰ میں سب سے افضل ہے.پھر ۱۹۵۳ء میں مولوی عبدالمنان صاحب نے سلسلہ کے مخالف وہابیوں سے ایک خفیہ ساز باز کی.چنانچہ ہمیں ایک فائل اور نینٹل کمپنی کے دفتر سے ملا ہے جس کے چیئر مین مولوی عبدالمنان صاحب تھے خدا تعالیٰ نے ان کی عقل ایسی ماری کہ وہ اپنے کئی خطوط وہاں چھوڑ کر بھاگ گئے چنانچہ ایک خط اُن میں مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کا ملا ہے جو ان کے سوتیلے بھانجے ہیں اور غزنوی خاندان میں سے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شدید دشمن رہا ہے اور جس کی مخالفت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی کتابیں لکھی ہیں اس میں وہ لکھتے ہیں :.جو امانت آپ کے پاس پڑی ہے ضرورت ہے کہ وہ محفوظ ترین طریق سے میرے پاس پہنچ جائے یا تو ان کو جیپوں میں سے کسی ایک پر جو لا ہور آ رہی ہوں اشیاء بھجوا دیں معلوم ہوتا ہے سازشی طور پر یہاں سے لاہور تک ایک جال تنا ہوا تھا ) یا کسی معتبر آدمی کے

Page 431

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۵ جلد دوم ہاتھ جسے میں کرایہ بھی ادا کر دوں گا یا اگر آپ صالحہ بیگم زوجہ میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کی خبر لینے کے لئے آئیں ( وہ ۱۹۵۲ء میں لاہور علاج کیلئے گئی تھیں ) تو آپ اپنے ساتھ لیتے آئیں مگر کسی کے ہاتھ بھجوائیں تو بے خطا بھجوائیں ضائع نہ ہو.اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۵۳ء سے مولوی عبدالمنان اور سلسلہ کے مخالف وہابیوں میں خفیہ ساز باز جاری تھی.ایک خط اس فائل میں اللہ رکھا کا مولوی عبدالمنان کے نام ملا ہے اس میں اس نے خواہش کی ہے کہ آپ اپنے لنگر خانہ میں مجھے ملا زمت دلوا دیں.چنانچہ وہ لکھتا ہے :.آپ اپنے لنگر خانہ میں مجھے ملازمت دلوا دیں ( گویا سلسلہ کا لنگر خانہ جلسہ کے کام پر مقرر کرنے کی وجہ سے اب میاں عبدالمنان کا ہو گیا ) مگر جلسہ سالانہ سے پہلے کسی اچھی جگہ پر لگا دیں.اب اللہ رکھا کا تازہ خط پکڑے جانے پر اس خاندان نے شور مچایا ہے کہ اللہ رکھا کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں وہ خط تو اماں جی کی وفات پر محض ہمدردی کے خط کے جواب میں تھا حالانکہ یہ خط بتاتا ہے کہ اللہ رکھا سے پرانے تعلقات چل رہے تھے بلکہ قادیان سے ایک درویش نے جو کہ لنگر خانہ کا افسر تھا لکھا ہے کہ میں لنگر خانہ کے سٹور میں سویا ہوا تھا کہ رات کو میں نے دیکھا کہ اللہ رکھا آیا اس کی آنکھیں کمزور ہیں اور اُسے اندھرا تا کی شکایت ہے جس کی وجہ سے اسے رات کو ٹھیک طور پر نظر نہیں آتا اس نے آ کر ادھر اُدھر دیکھا مگر اندھیرے کی وجہ سے مجھے دیکھ نہ سکا.اس کے بعد وہ وہاں سے سامان اُٹھا کر بازار میں بیچنے کیلئے لے گیا.میں نے اُس کو راستہ میں پکڑ لیا پھر اور لوگ بھی جمع ہو گئے اور اس کو ملامت کی جب تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ وہ سامان بیچ کر میاں عبدالوہاب کی ایجنٹی کرتا ہے اور ان کو رو پیدا کر دیتا ہے وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب.چونکه راوی ایک ہی ہے اس لئے ہم اس کی شہادت کی قطعی طور پر تصدیق نہیں کر سکتے جب تک کہ کئی راوی نہ مل جائیں.اسی طرح اللہ رکھا کا ایک خط مولوی عبد المنان صاحب کے نام ملا ہے اس میں

Page 432

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۶ جلد دوم لکھا ہے.” جناب مولوی اسماعیل کے ساتھ جس آدمی کے متعلق آپ کے سامنے ذکر فرمایا تھا ( اپنے آپ کو فر ما یا لکھتا ہے ) اس کو جناب مولوی صاحب سے ملا دیا.بعد میں کوشش کی کہ آپ کی بھی ملاقات ہو وے مگر آپ کو موقع نہ ملا اگر موقع ملتا تو آپ ضرور اس کے خیال کا پتہ کرتے اور جو مال اس کے پاس تھا دیکھتے اگر اس قابل ہوتا کہ موجودہ وقت کے مطابق شائع کرنا مناسب حال ہوتا تو آپ بات کر لیتے“.گویا اُس وقت بھی بقول اللہ رکھا ہمارے خلاف ٹریکٹ لکھوائے جارہے تھے اور مولوی عبد المنان مولوی اسماعیل صاحب غزنوی سے مل کر مشورے کرتا تھا.اس خط سے بالکل واضح ہو گیا ہے کہ اللہ رکھا مولوی اسماعیل غزنوی اور مولوی عبدالمنان میں سالہا سال سے ایک سازش جاری تھی اور یہ محض غلط بیانی ہے کہ اماں جی کی وفات پر کسی ہمدردی کے خط پر اس سے تعلق پیدا ہوا.یہ سازش عام نہیں تھی بلکہ سلسلہ کے خلاف لٹریچر شائع کرنے کی سازش تھی جس میں غیر احمدی بھی شامل تھے.ہماری جماعت کے لوگ چونکہ عموماً باہر کے لوگوں سے واقف نہیں ہوتے اس لئے وہ سمجھتے نہیں کہ مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کون ہیں؟ مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی حضرت خلیفہ اول کی پہلی بیٹی کے بیٹے ہیں.جب آپ وہابی تھے تو آپ نے وہابی تعلق کی وجہ سے مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی جو نہایت بزرگ اور ولی اللہ تھے اور افغانستان سے ہجرت کر کے آئے تھے ان کے بیٹے مولوی عبد الواحد سے اپنی لڑکی امامہ کا بیاہ کر دیا.امامہ کے بطن سے تین بچے پیدا ہوئے.ایک آمنہ بڑی لڑکی پیدا ہوئی اور دوسرے محمد ابراہیم بیٹا پیدا ہوا اور تیسرے محمد اسماعیل پیدا ہوا جو اب مولوی اسماعیل غزنوی کہلاتا ہے.ابراہیم غزنوی بچپن میں میرے ساتھ کھیلا ہوا ہے.حضرت خلیفہ اول کے پاس جو اس کے نانا تھے آیا کرتا تھا بہت نیک اور شریف لڑکا تھا یعنی وہ اپنے چھوٹے بھائی کی بالکل ضد تھا.گو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ بڑا ہوتا تو احمدی ہوتا یا باپ کے اثر کے نیچے نہ ہوتا.مگر بہر حال وہ ایک نیک لڑکا تھا.اس خاندان کی سلسلہ سے عداوت بہت پرانی ہے مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی جو

Page 433

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۷ جلد دوم ملہم تھے انہوں نے ایک خواب دیکھی تھی جو حافظ محمد یوسف صاحب نے جو امرتسر کے ایک عالم تھے اور مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے مریدوں میں سے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچا دی.وہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں چھپی ہوئی ہے وہ خواب یہ تھی کہ قادیان میں خدا تعالیٰ کا نور اترامگر میری اولا د اس سے محروم جب یہ خواب شائع ہوئی تو مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی اولا د کو غصہ لگا اور رہی ۲۷ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بڑے بڑے فتوے دیئے.اس وقت اس خاندان کے لیڈر مولوی داؤ د غزنوی ہیں جو ۱۹۵۳ء کے ایجی ٹیشن میں جس میں سینکڑوں احمدی مارے گئے تھے ، لیڈر تھے.یہ مولوی دا د دغزنوی مولوی عبدالجبار بیٹے ہیں جو مولوی عبد الواحد کے بڑے بھائی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی عبد الجبار کے ایک بھائی احمد بن عبد اللہ غزنوی کا فتویٰ اپنے متعلق کتابوں میں نقل کیا ہے کہ وہ کیسا بد گو آدمی تھا.اُس نے جو فتویٰ دیا تھا وہ کتاب البریہ صفحہ ۱۳۰ پر درج ہے اس میں لکھا ہے کہ ”قادیانی کے حق میں میرا وہ قول ہے جو ا بن تیمیہ کا قول ہے جیسے تمام لوگوں سے بہتر انبیاء علیہم السلام ہیں ویسے ہی تمام لوگوں سے بدتر وہ لوگ ہیں جو نبی نہ ہوں اور نبیوں سے مشابہ بن کر نبی ہونے کا دعوی کر یں.یہ یعنی مسیح موعود ) بدترین خلائق ہے ( یعنی چوہڑوں چماروں سے بھی بدتر ہے ) تمام لوگوں سے ذلیل تر.آگ میں جھونکا جائے گا ( یعنی جہنم میں پڑے گا )، ۲۸ یہ تو ایک بھائی کا فتویٰ تھا اب مولوی اسماعیل غزنوی کے باپ ( مولوی عبد الواحد غزنوی ) کا فتوی سن لو جس کے ساتھ مل کر منان کوششیں کر رہا ہے اور جس کا بیٹا بنگال کے وفد کو لینے کیلئے بارڈر پر گیا تھا.مولوی عبدالواحد بن عبد اللہ غزنوی کا فتویٰ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اشاعۃ السنۃ جلد ۱۳ میں صفحہ ۲۰۲ پر شائع کیا ہے یہ دو بھائیوں نے مل کر فتویٰ دیا تھا ایک مولوی عبدا لواحد نے جو مولوی اسماعیل غزنوی کے باپ ہیں اور ایک ان کے دوسرے بھائی مولوی عبدالحق نے اس میں لکھا ہے کہ :.

Page 434

خلافة على منهاج النبوة وو ۴۱۸ جلد دوم یہ مسئول عند شخص ( یعنی حضرت مسیح موعود ) اپنی ابتدائی حالت میں اچھا معلوم ہوتا تھا دین کی نصرت میں ساعی تھا اللہ تعالیٰ اس کا مددگار تھا دن بدن فَيُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ مَا مصداق بنتا جاتا تھا لیکن اس سے اس نعمت کی قدر دانی نہ ہوئی.نفس پروری و زمانہ سازی شروع کی.زمانہ کے رنگ کو دیکھ کر اس کے موافق کتاب وسنت میں تحریف والحاد و یہودیت اختیار کی.پس اللہ تعالیٰ نے اس کو ذلیل کیا فَيُوضَعُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِي الْأَرْضِ کا مصداق بن گیا.۲۹ یعنی اب دنیا میں لوگ اس سے بغض کریں گے اب تم دیکھ لو کہ مولوی عبدالواحد کا قول سچا نکلا کہ لوگ اس سے بغض کر رہے ہیں یا لوگ بیٹھے ہوئے اس پر درود سلام بھیج رہے اور اس کیلئے دعائیں کر رہے ہیں.پھر اس کا ایک اور بھائی مولوی عبد الحق غزنوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام......کے متعلق لکھتا ہے :.دجال ، ملحد ، کاذب، روسیاه، بدکار، شیطان لعنتی ، بے ایمان ، ذلیل ، خوار، خسته خراب ، کافر ، شقی سرمدی ہے ( یعنی قیامت تک شقی ہے ) لعنت کا طوق اس کے گلے کا ہار ہے لعن طعن کا جوت اس کے سر پر پڑا.بے جا تاویل کرنے والا...مارے شرمندگی کے زہر کھا کر مر جاوے گا بکواس کرتا ہے.رسوا ، ذلیل ، شرمندہ ہوا، اللہ کی لعنت ہو.جھوٹے اشتہارات شائع کرنے والا ، اس کی سب باتیں بکواس ہیں.مے اور اس کا ہیڈ نگ بھی کیسا پاکیزہ رکھا ہے اشتہار کا نام ہے ضربُ النِّعَالِ عَلَى وَجْهِ الدَّجَّالِ “ یعنی حضرت مسیح موعود دجال ہیں اور میں ان کے منہ پر جوتیاں مارتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے حجتہ اللہ کتاب کے صفحہ ے پر اس کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ عبد الحق غزنوی نے مجھے ایک خط میں گالیاں دیتے ہوئے لکھا ہے :.دس ہزار تیرے پر لعنت ، پھر لعنت لعنت کئی دفعہ لکھا ہے اور آخر میں لکھا.عشرة الف مائة “ یعنی دس لاکھ دفعہ لعنت اس پر نازل ہو.پھر یہی مولوی عبد الحق غزنوی (مولوی اسماعیل غزنوی کا چچا ) حضرت صاحب کے متعلق لکھتا ہے :.ہے

Page 435

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۹ جلد دوم " کا فر ا کفر ہے مرزا، دجال ہے مرزا، شیطان ہے مرزا، فرعون ہے مرزا ، قارون ہے مرزا ، ہامان ہے مرزا، ارڈ پوپو ہے مرزا ، وادی کا وحشی ہے مرزا ، کتا ہے جو ہانپ رہا یہ جنگلی کتا ہے.اسے پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ”کتاب البریہ میں اس کے خاندان کی گالیاں لکھی ہیں اور لکھا ہے کہ انہوں نے میری نسبت لکھا ہے کہ :.ان امور کا مدعی رسولِ خدا کا مخالف ہے...ان لوگوں میں سے ہے جن کے حق میں رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ آخر زمانہ میں دجال کذاب پیدا ہو نگے ان سے اپنے آپ کو بچاؤ تم کو گمراہ نہ کر دیں اور بہکا نہ دیں.اس ( قادیانی ) کے چوزے ( یعنی آپ لوگ بشمولیت حضرت مولوی نورالدین صاحب جومنان کے باپ اور مولوی اسماعیل غزنوی کے نانا اور اس گالیاں دینے والے کے بھائی کے خسر تھے ) ہنود اور نصاریٰ کے مخنث ہیں.گویا جب مولوی عبد الواحد غزنوی کا پوتا بارڈر پر آپ لوگوں کو یہ کہنے گیا تھا کہ منان تقویٰ میں سب سے زیادہ ہے تو اس کے معنے یہ تھے کہ ہندو اور نصاریٰ کا مخنث سب سے زیادہ ہے کیونکہ جب احمدی ہنود اور نصاری کے مخنث ہیں تو اگر منان احمدی ہے اور وہ احمد یوں میں سب سے بڑا ہے تو پھر وہ ہندوؤں اور عیسائیوں کا سب سے بڑا مخنث ہے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کہتے ہیں کہ مولوی عبدالواحد کا ایک الگ فتویٰ بھی ہے جو اُس نے عدالت میں لکھوایا تھا کہ مرزا قادیانی کافر ہے اور اس کے مرید سب کا فر ہیں اور جو کوئی ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کا فر ہے اب مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی اور مولوی داؤ د صاحب غزنوی اور خالد صاحب (ابن مولوی محمد اسماعیل صاحب ) جنہوں نے بارڈر پر جا کر بنگالی وفد کے سامنے کہا تھا کہ مولوی منان سب سے بڑے متقی ہیں بتا ئیں کہ آیا وہ کا فر ہیں یا نہیں اور آیا ان کے کفر میں شک کرنے والا بھی کا فر ہے یا نہیں.جیسا کہ ان کے دادا نے کہا تھا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے یہاں تک لکھا ہے کہ مولوی اسماعیل غزنوی کی ماں یعنی حضرت خلیفہ اول کی بڑی بیٹی کی وفات بھی میرے مباہلہ کے نتیجہ میں ہوئی مولوی

Page 436

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۰ جلد دوم عبد الحق غزنوی نے جو مولوی عبدالواحد غزنوی کا چھوٹا بھائی تھا پیشگوئی کی تھی کہ میرے گھر بیٹا پیدا ہو گا اور مرزا صاحب ابتر مریں گے.حضرت صاحب کہتے ہیں تم نے تو کہا تھا کہ تمہارے گھر بیٹے پیدا ہوں گے اور ہمارے ہاں کوئی نہیں ہو گا لیکن خدا نے میرے گھر میں دو اور بیٹے دے دیئے.اور وہ دونوں پیشگوئیاں جو صد ہا انسانوں کو سنائی گئی تھیں پوری ہوگئیں اب بتلاؤ کہ تمہاری پیشگوئیاں کہاں گئیں.ذرا جواب دو کہ اس فضول گوئی کے بعد کس قدرلڑ کے پیدا ہوئے.ذرا انصاف سے کہو کہ جب کہ تم منہ سے دعوی کر کے اور اشتہار کے ذریعہ لڑکے کی شہرت دے کر پھر صاف نامراد اور خائب و خاسر رہے کیا یہ ذلت تھی یا عزت تھی ؟ اور اسمیں کچھ شک نہیں کہ مباہلہ کے بعد جو کچھ قبولیت مجھ کو عطا ہوئی وہ سب تمہاری ذلت کا موجب تھی.‘۳۳ پھر فرماتے ہیں :.اس نے میرے خلاف دعائیں کیں اُس کی دعاؤں کا کیا انجام ہوا اور میری دعاؤں کا کیا انجام ہوا:.اب وہ کس حالت میں ہے اور ہم کسی حالت میں ہیں.دیکھو اس مباہلہ کے بعد ہر ایک بات میں خدا نے ہماری ترقی کی اور بڑے بڑے نشان ظاہر کئے آسمان سے بھی اور زمین سے بھی اور ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا.اور جب مباہلہ ہوا تو شاید چالیس آدمی میرے دوست تھے اور آج ستر ہزار کے قریب ان کی تعداد ہے ( اور اب خدا کے فضل سے وہ دس لاکھ کے قریب ہے اور تھوڑے ہی دنوں میں دس کروڑ سے بھی زیادہ ہو جائے گی.اِنشَاءَ الله) ۳۴ پھر فرماتے ہیں :.لطف تب ہو کہ اول قادیان میں آؤ اور دیکھو کہ ارادتمندوں کا لشکر کس قدر اس جگہ خیمہ زن ہے اور پھر امرتسر میں عبد الحق غزنوی کو کسی دکان پر یا بازار میں چلتا ہوا دیکھو کہ کس حالت میں چل رہا ہے.‘۳۵ پھر فرماتے ہیں کہ :.

Page 437

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۱ جلد دوم تمہارے مباہلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمہارے بھائی کا بھی خانہ ویران ہو گیا.۳۶ تمہارے بھائی مولوی عبدالواحد کا بھی خانہ برباد ہو گیا یعنی مولوی اسماعیل غزنوی کے باپ کا جس کی بیوی حضرت خلیفہ اول کی بڑی بیٹی تھی اور فرماتے ہیں یہ میرے مباہلہ کا نتیجہ تھا.غرض یہ خاندان سلسلہ کا پرانا دشمن ہے ان کے دادا نے پیشگوئی کی ہوئی ہے کہ ان کو نور قادیان یعنی صداقت احمدیت نصیب نہیں ہوگی اور ہمیشہ اس کے دشمن رہیں گے مگر معلوم ہوتا ہے کہ اب منان اور عبد الوہاب سے انہوں نے اس فتنہ کے موقع پر خاص یارا نہ گانٹھا ہے جس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی مرحوم کی پیشگوئی کے مطابق مولوی عبدالمنان اور مولوی عبدالوہاب بھی احمدی نہیں رہے.کیونکہ اگر ان میں احمدیت رہتی تو مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی پیشگوئی کے مطابق ان کے پوتے اور ان کے پڑپوتے ان کی دوستی اور ان کی حمایت نہ کرتے مگر چونکہ وہ ان کی حمایت میں ہیں معلوم ہوا کہ ان لوگوں میں بھی احمدیت باقی نہیں رہی اگر باقی ہے تو پھر مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی پیشگوئی جھوٹی جاتی ہے حالانکہ وہ ایک راست باز انسان تھے.دسمبر ۱۹۵۴ء میں مولوی عبد الوہاب صاحب نے لاہور میں کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے اپنی اولاد کیلئے صرف دنیوی ترقیات کیلئے دعا فرمائی ہے مگر حضرت خلیفہ اول نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کر دیا چنانچہ ڈاکٹر عبد القدوس صاحب نواب شاہ سندھ کی شہادت ہے کہ:.عاجز دسمبر ۱۹۵۴ء کے قافلہ کے ساتھ جو کہ جلسہ سالانہ پر قادیان جانے والا تھا لا ہور جو دھامل بلڈنگ گیا رات جو د ہامل بلڈنگ میں گزاری.صبح نماز فجر باجماعت پڑھنے کے بعد بیٹھے تھے کہ مولوی عبد الوہاب صاحب آگئے اور پوچھا کہ جماعت ہوگئی ہے؟ بتانے پر کہ جماعت ہو چکی ہے انہوں نے خودا کیلے ہی نماز پڑھ لی.مولوی عبدالوہاب صاحب کہنے لگے ( جیسے کہ درس دیا جاتا ہے ) کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیاوی ترقیات کے لئے دعا فرمائی ہے جیسے دے ان کو عمر و دولت ، پھر کہا کہ آپ دیکھیں حضور کی اولا د دنیا کے پیچھے لگ کر پریشانیوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہے کیونکہ دنیا کے پیچھے لگ

Page 438

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۲ جلد دوم کر انسان سکون قلب حاصل نہیں کر سکتا.“ " ان کا یہ درس یا تقریر بتاتی ہے کہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کوئی ایمان نہیں رہا ور نہ وہ حضرت خلیفہ اول کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ترجیح نہ دیتے پھر ان کی بات بھی غلط ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کیلئے دنیا نہیں مانگی بلکہ دین مانگا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ :.کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان تیری رحمت دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت یہ روز کر مبارک شب رَانِي شیطان دور رکھیو! اپنے حضور رکھیو جان پر زنور رکھیو! دل پر سرور رکھیو ان پر میں تیرے قربان رحمت ضرور رکھیو یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَّرَانِي مینوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے کر ڈور ان سے یارب دنیا کے سارے پھندے چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ یہ روز کر مبارک شبح انَ مَنْ ان کو مندے رَانِي اے میری جاں کے جانی! اے شاہ دو جہانی کر ایسی مہربانی ان کا دے بخت ہووے ثانی جاودانی اور فیض آسمانی یہ روز کر مبارک شبح انَ مَنْ يَرَانِي اے واحد یگانه میری دعائیں سن لے خالق زمانہ اور عرض چاکرانہ

Page 439

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۳ جلد دوم تیرے سپرد تینوں ! دیں کے قمر بنانا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي مولوی عبد الوہاب کے خیال میں رُشد اور ہدایت اور دین اور فیض آسمانی اور دین کا قمر ہونا یہ سب دنیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو دنیائو جبھی مگر حضرت خلیفہ اوّل کو جو ان کے غلام تھے دین سوجھا.پھر مولوی عبد الوہاب کا یہ کہنا کہ :.حضور کی اولاد دنیا کے پیچھے لگ کر پریشانیوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہے کیونکہ دنیا کے پیچھے لگ کر انسان سکونِ قلب حاصل نہیں کر سکتا“.یہ بھی ان کے خاندان کے نظریہ کی رُو سے غلط ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ مولوی عبدالمنان آخری وقت میں جاتے ہوئے ادھر سلسلہ کا روپیہ نا جائز طور پر استعمال کر رہے تھے اور اُدھر دوسرے احمدیوں سے روپیہ منگوا رہے تھے چنانچہ تحریک جدید اور اور مینٹل کارپوریشن کے روپیہ میں انہوں نے جو نا جائز تصرف کیا اس کے متعلق چوہدری احمد جان وکیل المال تحریک جدید کی شہادت ہے کہ :.” میاں عبدالمنان صاحب عمر جو تحریک جدید میں نائب وکیل التصنیف اور اور سینٹیل کارپوریشن کے چیئر مین تھے گزشتہ سال مجلس تحریک جدید نے سات رہائشی کوارٹروں اور مسجد کی تعمیر کا کام ان کے سپر د کیا اور ان تعمیرات کے لئے ستائیس ہزار روپے کا بجٹ منظور کیا.جس میں سے میاں عبدالمنان صاحب نے ۲۶۹۹۸ روپے خزانہ تحریک جدید سے برآمد کرائے.اس میں سے ۲۳۸۴۳ روپے کوارٹروں کی تعمیر پر خرچ ہوئے باقی رقم انہوں نے نہ تحریک جدید کو واپس کی نہ مسجد بنوائی بلکہ کم و بیش ۳۷۰۰ روپے بصورت سامان تعمیر وغیرہ اور نیٹل کمپنی کی طرف منتقل کئے اور وہاں سے اپنی ذاتی دُکانوں کی تعمیر پر خرچ کر لئے.اور نیٹل کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے کمپنی کی دُکانوں اور پریس کی عمارت بنانے کیلئے ساڑھے بارہ ہزار روپے تک خرچ کرنے کی میاں عبدالمنان کو منظوری دی انہوں نے کمپنی کی عمارت کے ساتھ ہی اپنی سات عدد د کانات بھی تعمیر کیں اور بورڈ کی اجازت کے بغیر اپنی ذاتی اور کمپنی کی تعمیرات کا نہ صرف حساب اکٹھا رکھا بلکہ ۶۲۳ روپے کی

Page 440

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۴ جلد دوم قلیل رقم کے سوا اپنی دُکانوں کا سارا خرچ کمپنی کے فنڈ ز میں سے کیا.جس کے نتیجہ میں ان تعمیرات پر اٹھارہ ہزار روپے کے قریب مجموعی خرچ ہوا جس میں تحریک جدید کی منتقل شدہ رقم بھی شامل ہے.اس میں سے ان کی اپنی دُکانوں کا خرچ ساڑے دس ہزار روپے اور باقی قریباً ساڑھے سات ہزار روپے کمپنی کی عمارت کا خرچ ہے.اس طرح (اگر وکیل المال صاحب کی رپورٹ صحیح ہے تو ) میاں عبدالمنان صاحب تحریک جدید اور کمپنی کا دس ہزار روپیہ نا جائز طور پر اپنے تصرف میں لائے جو بعد میں ۱۴ / اکتوبر کو ان سے وصول کر لیا گیا“.اسی طرح چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ کی شہادت مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب آئی پی صدر انجمن احمدیہ کی شہادت ہے دت کہ:.میں نے صدر انجمن احمدیہ کے آڈیٹر کی حیثیت سے جب جلسہ سالا نہ ۱۹۵۳ء کے حسابات کی پڑتال کی تو مجھے معلوم ہوا کہ صدرانجمن احمدیہ کے منظور شدہ قواعد کے ماتحت جو رقم یا تو محکمہ کے سیف (SAFE) میں نقد موجود ہونی چاہیے تھی یا صد را مجمن احمدیہ کے صیغہ امانت میں جلسہ سالانہ کی امانت میں جمع موجود ہونی ضروری تھی اس میں سے مبلغ ۱۸۹۹ روپے ۱ آنہ ۳ پائی کم تھے.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ مولوی عبد المنان صاحب افسر جلسہ سالانہ تھے.جب مولوی عبد المنان صاحب جلسہ سالانہ کے کام سے تبدیل کئے گئے تو یہ تمام کی تمام رقم کلرک غلام احمد صاحب کے نام پیشگی ظاہر کی گئی جو اُس وقت محرر جلسہ سالانہ تھے.میں نے اس معاملہ میں مزید چھان بین کی اور متعلقہ کا رکنان دفتر کے بیانات لئے اور پرانا ریکارڈ دیکھا تو معلوم ہوا کہ ۱۹۴۹ء میں ۵۰۰ روپے کی رقم مولوی عبدالمنان صاحب نے لی تھی اس رقم میں سے مختلف وقتوں میں انہوں نے کچھ رقم واپس کی اور ابھی تک ۱۷۹ روپے ۱۲ آنے ۶ پائی اس پانسو کی رقم میں سے ان کے تصرف میں ہیں اور باوجود بار بار کے مطالبات کے یہ رقم بھی واپس نہیں ہوئی.اسی طرح اسی زمانہ میں ۵۰ روپے دفتر جلسہ سالا نہ کی نقدی میں سے پیشگی کا نام دے کر غلام رسول چک ۳۵ کو دلائے گئے یہ رقم بھی

Page 441

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۵ جلد دوم با وجو دمطالبات کے واپس نہیں ملی.اس کے علاوہ ۸۷ روپے ۸ آ نے مولوی علی محمد اجمیری کو ولائے گئے یہ رقم بھی واپس نہیں ہوئی.اس تحقیقات سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس ۱۸۹۹ روپے ۱ آنہ ۳ پائی کی رقم کا بیشتر حصہ مولوی عبد المنان صاحب یا ان کے احباب نے لیا ہوا تھا لیکن تمام رقم ایک ماتحت کا رکن کے نام پیشگی دکھائی ہوئی تھی.خاکسار ظہور احمد آڈیٹر صدرانجمن پھر علاوہ ان بد عنوانیوں کے جو کہ مالی معاملات کے متعلق اور نینٹل کمپنی میں مولوی عبدالمنان صاحب نے کی ہیں یا سلسلہ کے روپیہ سے جلسہ سالانہ کے کام میں کی ہیں انہوں نے یہ بھی کوشش شروع کر دی تھی کہ کچھ روپیہ جمع کر لیں تا کہ وقت ضرورت کام آئے جس سے ان کی نیتوں کا پتہ لگتا ہے.چنانچہ ان کا ایک خط پکڑا گیا ہے جس کا فوٹو ہمارے پاس موجود ہے.انہوں نے افریقہ میں ایک احمدی دوست کو لکھا کہ میں تمہارے لڑکے کی شادی کرانے لگا ہوں تم پانچ سو پونڈ ( جو آجکل کے لحاظ سے سات ہزار روپیہ بنتا ہے ) بھیج دو.یہ خط اس دوست نے اپنے ایک دوست کو جو پاکستان میں ہیں بھیج دیا اور اس نے فوٹو لیکر ہمیں بھجوا دیا وہ خط یہ ہے.مکرم و محترم چوہدری صاحب السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کا خط موصول ہوا.الْحَمدُ لِلهِ.چوہدری منصور احمد اور ان کی والدہ بفضلہ تعالیٰ بخیریت ہیں.پرسوں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے منصور احمد صاحب کی ملاقات ہوئی تھی آج ابھی ابھی حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی ملاقات کے بعد واپس آئے ہیں.حضور منصور احمد سے آپ کے اور آپ کے کاروبار کے متعلق دریافت فرماتے رہے.عزیز کی شادی کے سلسلہ میں ایک جگہ تجویز کی گئی ہے لڑکی بی اے پاس ہے اور اس وقت بی ٹی میں لاہور کالج میں پڑھ رہی ہے.لڑکے کے دادا نہایت مخلص اور سلسلہ کے فدائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.والد آجکل قادیان میں مقیم ہیں.لڑکی تعلیم یافتہ اور مخلص ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو یہ رشتہ پسند ہے لڑکی کے ایک چا یہاں سلسلہ

Page 442

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۶ جلد دوم کے مبلغ ہیں.دوسرے چچا مولوی صالح محمد صاحب پیچھے سلسلہ کی طرف سے انگلستان بھجوائے گئے تھے آجکل مغربی افریقہ گولڈ کوسٹ ان کا تبادلہ ہو گیا ہے.دادا کا نام فضل احمد صاحب ہے اور والد کا عبدالرحیم.لڑکی کا ایک بھائی یہاں رہتا ہے.کالج میں زیر تعلیم ہے اور تبلیغ کی ٹرینینگ لے رہا ہے ان کی ذات راجکمار یا راجپوت ہے میرے خیال میں رشتہ موزوں ہے.منصور احمد اور عزیزہ نسیم کو پسند ہے.شادی کے اخراجات کے سلسلہ میں میرا ذاتی نکتہ نگاہ یہ ہے کہ معمولی سے اخراجات کافی ہوتے ہیں.اسلام میں تکلفات نہیں اور یہاں بھی عام حالات میں زیادہ اخراجات کی ضرورت نہ تھی لیکن اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ لڑکی نے اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر ہزاروں میل دُور جانا ہے پھر وہاں کے حالات بھی لڑکی والوں کے سامنے نہیں ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ابھی باقی عزیزوں کے رشتے بھی کرنے ہیں اور ضرورت ہے کہ پہلی شادی کے بعد راستے کھل جائیں اور کئی لوگوں کی نظریں اس پہلی شادی پر ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں کیا خرچ ہوتا ہے اس سے وہ مالی اور دوسرے حالات کا اندازہ کریں گے اور میرے سامنے یہ حقیقت بھی ہے کہ سونا اور کپڑا افریقہ میں یہاں پاکستان کے مقابلہ میں سنتا ہے.ان تمام حالات کو دیکھ کر میری رائے یہ ہے کہ شادی کے تمام اخراجات کیلئے پانچ صد پونڈ ( یعنی آجکل کے لحاظ سے سات ہزار روپیہ ) کافی ہونگے علاوہ حق مہر کے.یہ روپیہ بذریعہ ڈرافٹ بھجوانے کی ضرورت نہیں آپ یہ روپیہ وہاں کی جماعت میں میرے نام پر جمع کرا دیں اور رسید مجھے بھجوا دیں میں یہ روپیہ یہاں منصور احمد کی والدہ کو ادا کر دوں گا تا وہ اپنی نگرانی میں زیور کپڑا وغیرہ پر صرف کریں.پس آپ ڈرافٹ بینک نہ بھجوائیں بلکہ وہاں میرے نام پر رقم جمع کروا دیں میں یہاں سے اس کے مطابق رقم ادا کر دوں گا.مہر انداز الر کے کی ایک سال کی آمد کے برابر ہونی چاہیے جو میرے خیال میں آٹھ ہزار روپیہ ہوگی.خاکسار عبد المنان عمر ( دستخط ) غرض انہوں نے ادھر سلسلہ کا کچھ مال اِدھر اُدھر استعمال کیا اور کچھ لوگوں منگواتے رہے.

Page 443

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۷ جلد دوم یہ جو عبد القدوس صاحب نواب شاہ کی گواہی ہے کہ میاں عبد الوہاب صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیا مانگی اور ہمارے باپ نے ہمارے لئے دین مانگا.اس کی مزید شہادت لاہور کی مجلس خدام الاحمدیہ نے بھجوائی ہے کہ ایک احمدی سے ایک پیغامی نے آکر کہا کہ میاں منان کہتے ہیں کہ ہم تو چپ کر کے بیٹھے ہیں کیونکہ ہمارے باپ نے ہمیں خدا کے سپرد کیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولا د کو دنیا کے سپر د کیا تھا.یہ جوش نکال لیں سال دو سال پانچ سال خوب جوش نکالیں پھر ٹھنڈے ہو جائیں گے.یہ شہادت بھی ہمارے پاس محفوظ ہے.اب تم جو مبائعین کی جماعت ہوا اور جنہوں نے لکھا تھا کہ قیامت تک ہم خلافت احمدیہ کو قائم رکھیں گے تم بتاؤ کہ کیا مولوی عبدالمنان کے قول کے مطابق دو تین سال میں ٹھنڈے پڑ جاؤ گے یا قیامت تک تمہاری اولا د میں خلافت احمدیہ کا جھنڈا کھڑا رکھیں گی ؟ ( اس پر چاروں طرف سے آوازیں آئیں کہ ہم قیامت تک خلافت احمدیہ کا جھنڈا کھڑا رکھیں گے ) اکتوبر ۱۹۵۵ء میں جب صوفی مطیع الرحمن صاحب شدید ذیا بیطس سے فوت ہوئے تو رشید احمد صاحب بٹ ضلع نواب شاہ سندھ کی گواہی کے مطابق میاں عبد السلام نے کہا کہ صوفی مطیع الرحمن صاحب کا علاج نہیں کروایا گیا اس لئے مر گئے.حالانکہ ان کو ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور سینکڑوں روپیہ سلسلہ نے ان پر خرچ کیا تھا.میاں محمد عبد اللہ صاحب سابق انجینئر ایران حال نواب شاہ لکھتے ہیں کہ میاں وہاب نے ایک دفعہ کہا کہ حضرت صاحب کی مجلس عرفان میں رکھا ہی کیا ہے.پھر ۱۹۵۵ء کے شروع کے متعلق ملک صاحب خان صاحب نون ریٹائرڈ ڈ.بیان کرتے ہیں کہ جب میاں عبد المنان صاحب کا مکان دوسری جگہ بننے لگا تو میں نے بھیرہ کے تعلقات کی وجہ سے ان سے کہا کہ میاں صاحب! میں نے تو آپ کی صحبت حاصل کرنے کیلئے آپ کے قریب مکان بنایا تھا مگر آپ اب کہیں اور چلے ہیں تو اس پر میاں عبدالمنان صاحب آگے بڑھے اور میرے سینہ کی طرف ہاتھ بڑھا کر ہلایا اور کہا ملک صاحب ! آپ گھبرائیں نہیں ہم جہاں بھی جائیں گے آپ کو ساتھ لے کر جائیں گے.وہ کہتے ہیں کہ اُس

Page 444

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۸ جلد دوم وقت تو میں اس کا مطلب نہ سمجھا لیکن گھبرا گیا اور بعد میں جب یہ فتنہ پیدا ہوا تو میں با قاعدہ اخبار میں دیکھتا تھا کہ اس میں میاں عبد المنان کا نام بھی آتا ہے یا نہیں.جب میں نے ان کا نام پڑھا تو استغفار پڑھا کہ ان کی یہی غرض تھی کہ مجھے بھی اس فتنہ میں ملوث کریں.ملک صاحب سرگودہا کے مشہور خاندان ٹوانہ اور نون میں سے ہیں اور ڈپٹی کمشنر رہ چکے ہیں گوجرانوالہ سے ریٹائر ڈ ہوئے.ملک فیروز خان صاحب نون جو اسوقت وزیر خارجہ ہیں ان کے بھتیجے ہیں چنانچہ ملک صاحب کا اصل خط اس شہادت کے سلسلہ میں ذیل میں درج کیا جاتا ہے.ملک صاحب لکھتے ہیں :.مکرم ملک صاحب خان صاحب نون کی شہادت میرے آقا ! سلمہ اللہ تعالی.اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کا ملہ اور عمر خضر عطا فرمائے آمین ثم آمین.چونکہ حضور پر نور امام الوقت اور خلیفہ وقت ہیں اللہ تعالیٰ کی نصرت حضور کی تائید میں ہے اور انشاءَ اللهُ تَعَالٰی ہمیشہ رہے گی اور دشمنان خائب و خاسر اور منہ کی کھائیں گے إنْشَاءَ اللَّهُ تَعَالَى ضرور ضرور.میں ایک واقعہ حضور کی خدمت بابرکت میں گوش گزار کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ اس میں ذرہ بھر بھی شک و شبہ نہیں بلکہ عین اصل واقعہ ہے.جب میں نے ربوہ والے مکان کی جگہ کے متعلق حضور پر نور کے پاس شکایت کی اور حضور نے اپنے ساتھ کچے مکانوں میں مجھے اور ناظر متعلقہ (جو اُس وقت غالبًا عبد الرشید صاحب تھے ) کو بلایا میں نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے شکایت نہیں ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے بہت زور دیا کہ یہی جگہ لے لوں اور دوسرے یہ کہ پسران حضرت خلیفہ اول میرے ہمسایہ تھے یہ بات میرے واسطے بہت ہی خوشی و تسلی کی ہوئی گو میں بذات خود اس جگہ کو پسند نہیں کرتا تھا خیر مکان بنایا بن گیا جب ناظر صاحبان کے مکان مکمل ہوئے تو میاں عبد المنان صاحب اس نئے مکان میں چلے گئے اور جب میں ربوہ گیا تو مجھے معلوم ہوا.اتفاق سے منان صاحب مجھے ملے.میں نے کہا واہ مولوی صاحب ! آپ مجھے چھوڑ کر چلے گئے تو اس

Page 445

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۹ جلد دوم نے ذرا آگے آکر ذرا آہستہ آواز میں دایاں ہاتھ اُٹھا کر میرے سینہ کے برابر کر کے کہا د و تسلی رکھو جدے جاواں گے تہانوں نالے لے جاواں گے“.اُس وقت میں نے بہتیر از ور لگایا مگر مجھے اس مہمل بات کی سمجھ نہ آئی جو متواتر میرے دل میں چھتی رہی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی شان میں وجہ نہیں بتلا سکتا کہ کیوں میرا اُنس و کشش و محبت ان سے دن بدن کم ہوتی گئی حتی کہ جب اماں جی کی وفات ہوئی ڈاک خانہ کے پاس کھڑے کھڑے ہی میں نے منان سے اظہار افسوس کیا اور ان کے مکان تک بھی نہ گیا.نوبت بایں جا رسید والا معاملہ ہوا کہ جب دو دفعہ منان صاحب میرے سامنے آئے تو میں نے السَّلَامُ عَلَيْكُمُ بھی ان سے نہیں کی.میں نہیں بتلا سکتا کہ کون سی غیبی طاقت اندر ہی اندر کام کر رہی تھی جب میں نے یہ فتنہ پڑھا تو ہر پر چہ الفضل کو اوّل سے آخر تک پڑھتا رہا اور خاص توجہ اس طرف تھی کہ منان صاحب کا بھی کہیں ذکر ہے حتی کہ ان کے خیالات کے متعلق اطلاع آمدہ امریکہ سے میرا وہ پرانا معمہ حل ہوا کہ جدے جاواں گے تہانوں نال لے جاواں گے“ کا کیا مدعا تھا.اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر تحریر کرتا ہوں کہ اس میں ذرہ بھر بھی جھوٹ نہیں.نوٹ میں نے اس کا ذکر بہت دن ہوئے محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب سے کیا تھا.والسلام خاکسار حضور کا ادنی خادم صاحب خان نون مولوی محمد احمد صاحب کی شہادت اسی طرح مولوی محمد احمد صاحب جلیل کی شہادت ہے کہ :.ا.چند سال قبل جب میاں عبدالمنان صاحب جامعہ احمدیہ میں پڑھایا کرتے تھے میں کسی کام کی غرض سے انہیں ملنے کیلئے اُن کے مکان پر گیا دورانِ گفتگو میں انہوں نے اپنے جامعہ میں تقرر پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس Regime میں ہمارے لئے یا یہ کہا کہ میرے لئے ) کوئی جگہ نہیں یہ پہلا موقع تھا کہ میری طبیعت پر ان کے متعلق یہ اثر

Page 446

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۰ جلد دوم پیدا ہوا کہ وہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے قائم کردہ نظام سے شا کی اور سخت غیر مطمئن ہیں..تحریک جدید کے ایک کوارٹر کی تعمیر میں قواعد میونسپل کمیٹی کی خلاف ورزی پر سیکرٹری کمیٹی صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی شکایت پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجلس تحریک جدید کو جرمانہ کیا تھا.اس کے متعلق مجھ سے بات کرتے ہوئے میاں عبد المنان صاحب نے کہا کہ نہ کمیٹی کا کوئی ایسا قاعدہ ہے جس کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور نہ قواعد کی رو سے یہ جرمانہ ہوسکتا ہے یہ سب طاقت اور اقتدار کا نتیجہ ہے.۳.ایک دفعہ میرا ایک معاملہ جس کا حضرت میاں شریف احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سے تعلق تھا اس کے متعلق بات کرتے ہوئے ان دونوں حضرات کے متعلق یہ لفظ میاں عبد المنان صاحب نے کہے کہ دیکھو کس طرح ان لوگوں کا خون سفید ہو گیا ہے.۴.میاں عبدالمنان صاحب جب امریکہ گئے تو امریکہ جانے کی حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ملنے کے متعلق میری بیوی سے ذکر کرتے ہوئے امة الرحمن صاحبہ اہلیہ میاں عبدالمنان صاحب نے حضور کے متعلق یہ کہا کہ انہوں نے اجازت تو دے دی ہے مگر اس بابل دا کی اعتبار ہے کہ ڈولے پاکے بھی کڑھ لے.خاکسار محمد احمد جلیل اس فتنہ کو مزید ہوا شیطان نے اس طرح دی کہ خدام الاحمدیہ میں جب ناصر احمد افسر تھا تو اس نے حمید ڈاڈھا کو سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا اور اس نے اس کو سزا دینی چاہی اس پر وہ اس کے مخالف ہو گیا چنانچہ حافظ عبداللطیف صاحب اور اخوند فیاض احمد صاحب کی شہادتیں اس بارہ میں ہمارے پاس محفوظ ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ یہ اُسی وقت سے مرزا ناصر احمد صاحب کے خلاف بغض وعناد کا اظہار کرتا رہتا تھا.پھر چونکہ جلسہ سالانہ کا کام کئی سال تک میاں عبدالمنان کے سپر د ہوتا رہا ہے اس لئے وہ سلسلہ کے روپیہ میں سے اپنے ان ایجنٹوں کو پیشکیاں بھی دیتے رہے چنانچہ ریکارڈ سے

Page 447

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۱ جلد دوم مولوی علی محمد اجمیری کے نام ۷ ۸ روپے ۸ آنے ، حمید ڈاڈھا کے نام ۳۵ روپے اور م رسول چک ۳۵ کے نام ۵۰ روپے پیشگی دئیے جانے ثابت ہیں.اس طرح نفرت اور لالچ دونوں جذبات اکٹھے ہو گئے اور ان لوگوں نے میاں عبد المنان کی تائید میں پرو پیگنڈا شروع کر دیا جس طرح بعض منافقوں نے حضرت عمر کی زندگی میں پرو پیگنڈا شروع کیا تھا کہ جب حضرت عمر فوت ہوں گے تو ہم فلاں کی بیعت کریں گے.لیکن وہ بھی خائب و خاسر رہے اور یہ بھی خائب و خاسر رہیں گے اور اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کی خود حفاظت کرے گا اور جماعت کی خود را ہنمائی کرے گا اور وہ کبھی ان منافقوں یا پیغامیوں کے چیلوں یا احراریوں کے چیلوں کو قریب بھی نہیں آنے دے گا.جب ۱۹۵۵ء میں مجھ پر فالج کا حملہ ہوا تو یہ بغض اور زیادہ زور سے ظاہر ہونے لگا جیسا که شیخ نصیر الحق صاحب کی گواہی سے ظاہر ہے جو ذیل میں درج کی جاتی ہے.شیخ بیج.مکرم شیخ نصیر الحق صاحب کی گواہی ملا صاحب لکھتے ہیں:.شیخ سید نا و اما منا حضرت.......رت المصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ جب حضور لاہور سے کراچی تشریف لے گئے دوسرے دن شام کو آپ کی خیریت سے کراچی پہنچنے کی اطلاع حاصل کرنے کیلئے سمن آباد سے رتن باغ پہنچا میرے ساتھ میری چھوٹی بیوی بھی تھی انہیں رتن باغ ٹھہرا کر چونکہ یہاں اطلاع کو ئی نہیں ملی تھی میں جو دھامل بلڈنگ میں گیا.لوگ مغرب کی نماز ادا کر چکے تھے اور حضور کی خیریت سے کراچی پہنچنے کے متعلق گفتگو کر رہے تھے میں مزید حالات معلوم کرنے کے لئے سید بہاول شاہ صاحب کی طرف متوجہ ہوا.انہوں نے تار کا ذکر کیا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ حضور بخیریت تمام کراچی پہنچ گئے ہیں.جب میں واپس رتن باغ کو لوٹنے لگا تا اپنی بیوی کو ساتھ لے کر گھر سمن آباد چلا جاؤں مولوی عبدالوہاب صاحب نے مجھے آواز دی کہ حاجی صاحب ٹھہر جائیں میں بھی چلتا ہوں.مولوی صاحب نے فرمایا کہ حاجی صاحب آپ نے دیکھا کہ قوم کا کتنا روپیہ خرچ ہو رہا

Page 448

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۲ جلد دوم ہے.میں نے عرض کیا مولوی صاحب حضرت صاحب تو فرما چکے ہیں کہ میں اپنا خرچ خود برداشت کروں گا پھر اعتراض کیسا؟ فرمانے لگے آگے تو سنو! میں نے کہا فرمائیے.کہنے لگے کہ دیکھو اب خلیفہ تو نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ ( اپنا دماغ کھو چکا ہے وہ اس قابل نہیں کہ خلیفہ رکھا جا سکے میں بجبر خاموش رہا تا سارا ماجرا سن سکوں اور جو گفتگو یہ کرنا چاہتے ہیں وہ رہ نہ جائے.میں نے کہا مولوی صاحب بھلا یہ تو بتائیے کہ اب اور کون خلیفہ ہوسکتا ہے؟ کہنے لگے کہ میاں بشیر احمد صاحب اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کیا کم ہیں.اب میں نہیں رہ سکا تو میں نے کہا مولوی صاحب ! آپ تو ایک بہت بزرگ ہستی کے فرزند ہیں آپ کو اتنا بھی علم نہیں کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرا خلیفہ نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حضور کو جلد صحت عطا فرمائے.مولوی صاحب فرمانے لگے کہ بھئی اب تو یہ ممکن ہی نہیں.میں نے یہ بھی کہا کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرا خلیفہ بنانا تو کجا خیال کرنا بھی گناہ ہے چہ جائیکہ آپ ایسی باتیں کر رہے ہیں اور میرے لئے یہ امر نہایت تکلیف دہ ہو گیا ہے...پھر فرمانے لگے سنو ! سنو! میں نے عرض کیا کہ چونکہ میں نے سمن آباد جانا ہے اور نیلا گنبد سے بس لینی ہے اس لئے کچھ اور کہنا ہے تو چلتے چلتے بات کیجئے.کہنے لگے کہ دیکھو یہ جو مضامین آجکل چھپ رہے ہیں انہیں میاں بشیر احمد صاحب درست کر کے پریس کو بھیجتے ہیں وہ خود تو لکھ ہی نہیں سکتے پھر یہ عجیب بات ہے کہ انہی میاں صاحب کو حضرت صاحب اپنے کمرہ میں سلاتے ہیں.میں اس معمہ کو نہیں سمجھ سکا.اس کے علاوہ بھی اور کئی ایسی باتیں کہیں جو میں بھول گیا.میں نے اگلے دن سارا واقعہ چوہدری اسد اللہ خان صاحب کو ہائیکورٹ میں جا کر سنایا.انہوں نے فرما یا لکھ دو.میں نے وہیں بیٹھ کر لکھ دیا جو مجھے اُس وقت یا دتھا.چوہدری صاحب نے فرمایا کہ آپ مولوی صاحب کے سامنے بھی یہی بیان دیں گے.میں نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو لکھ دیا ہے.آپ میرے ساتھ جو دھامل بلڈنگ چلیں اور انہیں میری موجودگی میں پڑھا دیں چنانچہ ہم دونوں گئے.مولوی صاحب اپنی دکان میں موجود نہ تھے ہم انتظار کرتے رہے کچھ دیر کے بعد مولوی صاحب تشریف لے آئے.میرا خط چوہدری صاحب نے مولوی صاحب کو پڑھایا.مولوی صاحب کا رنگ زرد ہو گیا کچھ سکتے

Page 449

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۳ جلد دوم لکھتا کے بعد فرمانے لگے نہیں میں نے نہیں کہا.چوہدری صاحب نے فرما یا لکھ دیجئے کہنے لگے اچھا لکھ دیتا ہوں.چنانچہ ان کے دفتر کا کاغذ لے کر مولوی صاحب نے لکھا کہ میں نے ہرگز کوئی ایسی بات نہیں کی جس کے متعلق حاجی صاحب نے لکھا ہے.چوہدری صاحب فرمانے لگے کیا آپ اب بھی مصر ہیں؟ میں نے کہا ہاں اور مجھے یہ کاغذات دیجئے میں اس پر مزید کہ ہوں.چنانچہ میں نے یہ الفاظ لکھے کہ مجھے سخت صدمہ ہوا کہ مولوی صاحب ایک ایسی بزرگ ہستی کی اولاد ہیں جو ہمارے خلیفہ اول رہ چکے ہیں انہوں نے صریح جھوٹ بول کر مجھے ہی نہیں بلکہ حضرت خلیفہ اول کی روح کو بھی تکلیف پہنچائی ہے مجھے ان سے یہ توقع نہ تھی کہ انکار کریں گے.مجھے معا خیال ہوا کہ اگر احمدیت کا یہی نمونہ ہے تو غیر از جماعت لوگوں پر اس کا کیا اثر ہو گا.چنانچہ یہ دونوں تحریریں جناب چوہدری اسد اللہ خان صاحب اپنے ساتھ لے گئے.خط مورخہ ۱۹۵۶ء.۷ - ۲۹) مکرم میاں غلام غوث صاحب اسی طرح میاں غلام غوث صاحب ہیڈ کلرک میونسپل کمیٹی ربوہ کی گواہی ہیڈ کلرک میونسپل کمیٹی ربوہ کی شہادت قابل ذکر ہے وہ لکھتے ہیں :.تقریباً تین چار ماہ کا عرصہ گزرا ہے تاریخ یاد نہیں حضرت ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب آنریری سیکرٹری میونسپل کمیٹی ربوہ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں مکرم مولوی عبد المنان صاحب انچارج صیغہ تالیف و تصنیف تحریک جدید ربوہ کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت میاں منور احمد صاحب کے دستخطوں کی شناخت کروں جو انہوں نے کسی غلط تعمیر کے سلسلہ میں کمیٹی کے قواعد کے تحت مولوی عبد المنان صاحب کو دیئے تھے چنانچہ فدوی وہاں گیا اور مولوی عبدالمنان صاحب نے فرمایا کہ دیکھو یہ دونوں نوٹس موجود ہیں اور دستخط میاں منور احمد صاحب کے ہیں ان دونوں میں کتنا تفاوت ہے ان میں سے کون سا صحیح ہے اور کون سا غلط ؟ ( اُس وقت میرے ساتھ والی کرسی پر چوہدری شبیر احمد صاحب نائب وکیل المال تحریک جدید بھی تشریف فرما تھے اور ہم دونوں مولوی عبد المنان صاحب کے سامنے بیٹھے تھے ) بندہ نے عرض کیا کہ چونکہ میں شروع سے کمیٹی میں حضرت میاں منور احمد صاحب کے ماتحت کام کر

Page 450

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۴ جلد دوم رہا ہوں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ دونوں دستخط حضرت میاں منور احمد صاحب کے ہیں گو ایک چھوٹا ہے اور ایک بڑا لیکن دستخط انہی کے ہیں چونکہ اس کا مضمون ذرا مطابق قواعد مقرر الفاظ میں تھا اور زیادہ تر بحث مولوی عبد المنان صاحب کے مضمون پر تھی غصہ سے بھرے ہوئے الفاظ میں آپ تقریر فرماتے رہے آخر میں ان کے منہ سے حسب ذیل الفاظ ظا ہر ہوئے :.میاں منور احمد وغیرہ اس لئے سختی کرتے ہیں اور نا جائز کرتے ہیں کہ وہ حضرت صاحب کے لڑکے ہیں یعنی خلیفہ صاحب کے.جس وقت ڈنڈا میرے ہاتھ میں آیا میں سب کو سیدھا کر دوں گا یا دیکھوں گا“ اُس وقت بندہ خاموش ہو کر واپس چلا آیا کیونکہ میاں صاحب بہت غصے میں تھے بندہ نے اسے Serious نہیں لیا البتہ جب دفتر کمیٹی میں پہنچا تو وہاں چوہدری عبداللطیف صاحب اوورسیئر اور چوہدری عنایت احمد صاحب اکاؤنٹینٹ و محمد الیاس چپڑاسی موجود تھے میں نے ہنسی کے طور پر چوہدری عبد اللطیف صاحب اوورسیئر سے کہا کہ آپ نے میاں عبدالمنان صاحب سے ٹکر لی ہے اب خبر دار ہو جاؤ وہ آپ سب کو سیدھا کر دیں گے کیونکہ وہ خلافت کے خواب دیکھ رہے ہیں (میں نے ان کے الفاظ سے یہی مفہوم سمجھا تھا کہ وہ خلافت کے خواب دیکھ رہے ہیں ) چنانچہ اُس وقت یہ بات ہنسی مذاق میں آئی گئی ہو گئی اب ہنگامی واقعات کی رونمائی پر چوہدری عنایت احمد اور چوہدری عبد اللطیف صاحب نے مجھ سے کہا لو بھائی تمہارا بیان کس قدر حقیقت کا انکشاف کر رہا تھا اب ہم تمہارے بیان کو جو آج سے چار ماہ قبل تم نے ظاہر کیا تھا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں پیش کرنے لگے ہیں.میں نے کہا بے شک کوئی بات نہیں میں نے سچی بات کہی تھی جو سنی تھی مجھے الہام تو ہوا نہیں تھا کہ چار ماہ بعد کیا واقعہ پیش آنے والا ہے.“ 66 خاکسار غلام غوث ۱۹۵۶ء.۸.۹ چوہدری عبد اللطیف صاحب اوور سیئر کی شہادت چوہدری عبداللطیف صاحب اوورسئیر بھی گواہی

Page 451

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۵ جلد دوم دیتے ہیں کہ :.عرصہ قریباً اڑھائی تین ماہ کا ہوا ہے کہ ایک دن خاکسار ملک حفیظ الرحمن صاحب واقف زندگی نقشہ نویس ( جو حضرت خلیفہ اول کے رضاعی رشتہ دار ہیں اس لئے ان کے بھی رشتہ دار ہیں ) کے کوارٹر پر ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا میڈیم کوارٹر تحریک جدید جو میاں عبدالمنان صاحب کی زیر نگرانی تعمیر ہورہا تھا کے خلاف نقشہ تعمیر ہونے پر بات ہوئی.حفیظ صاحب نے بتایا کہ میاں صاحب موصوف ان کے پاس جی ٹی پی بائی لاز پر مشورہ کرنے آئے تھے اسی طرح تعمیر کی اور باتیں بھی ہوئیں پھر حفیظ صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چند روز ہوئے میاں عبد الرحیم احمد صاحب کی کوٹھی پر ایک دعوت تھی اس میں ہمارے خاندان کے حضرت خلیفہ اول کے خاندان سے تعلقات کی بناء پر میں بھی مدعو تھا.ڈاکٹر عبد الحق صاحب اور میاں نعیم احمد صاحب بھی شامل تھے میاں عبدالمنان صاحب مجھے مخاطب کر کے باتیں کرتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے کیا حفیظ صاحب ایسا نہیں ، کیا حفیظ صاحب ایسا نہیں ؟ ( یعنی خلاف باتیں کرتے تھے ) میاں عبدالرحیم احمد صاحب کبھی آتے اور کبھی جاتے تھے جب آتے تو میاں عبدالمنان صاحب کو مخاطب کر کے کہتے ”میاں صاحب اس شریف آدمی کا ایمان کیوں خراب کرتے ہیں یہ باتیں حفیظ صاحب نے بیان کرنے کے بعد خاکسار کو کہا ” چوہدری صاحب آپ اپنی نمازوں میں سلسلہ کی ترقی کے لئے خاص طور پر دعائیں کیا کریں آئندہ آنے والے ایام مجھے بہت خطرناک نظر آرہے ہیں.میرے پوچھنے پر کہ میاں عبد المنان صاحب کیا باتیں کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ وہ باتیں بتانے والی نہیں بہت خطر ناک ہیں“.اس کے بعد چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی سفارش سے میاں عبدالمنان صاحب کو امریکہ جانے کا موقع ملا اور اس پروپیگنڈا نے اور شدت پکڑ لی اور یہ کہا جانے لگا کہ ساری جماعت میں میاں عبدالمنان جیسا کوئی لائق آدمی نہیں انہوں نے مسند احمد کی تبویب جیسا عظیم الشان کام کیا ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ تبویب کا ایک حصہ خود حضرت خلیفہ اول نے کیا ہوا تھا اور اُن کا قلمی نسخہ لائبریری میں موجود تھا.۵ جون ۱۹۵۰ء کو مولوی عبد المنان صاحب -

Page 452

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۶ جلد دوم نے یہ فہرست لائبریری سے مستعار لی اور کچھ لوگوں کی مدد سے اس میں کچھ زیادتی کر کے اسے اپنی طرف منسوب کر لیا.پس کچھ حصہ اس کام کا خود حضرت خلیفہ اول کر چکے تھے باقی حصہ مولوی عبد المنان صاحب نے کیا لیکن وہ حصہ بھی خود نہیں کیا بلکہ جب وہ جامعہ احمد یہ میں پروفیسر تھے تو دوسرے استادوں اور لڑکوں کی مدد سے کیا تھا بلکہ شاہد کلاس کے ایک.طالب علم محمود احمد مختار نے مجھے لکھا ہے کہ اس کا دیباچہ انہوں نے اُردو میں لکھا تھا.پھر مولوی محمد احمد صاحب ثاقب کے ذریعہ سے مجھے دیا کہ میں اس کا عربی میں ترجمہ کروں.پھر یہ بھی یا د رکھنا چاہیے کہ علامہ احمد محمد شاکر مصری جو اخوان المسلمین ۳۶۸ے کے بانی بنار خاندان میں سے ہیں انہوں نے اس کتاب کا انڈیکس تیار کیا ہوا ہے اور اس کی چودہ جلد میں چھپ چکی ہیں جو میری لائبریری میں موجود ہیں.اسی طرح احمد عبد الرحمن کی تبویب ” الفتح الربانی کی پانچ مجلدات بھی چھپی ہوئی ہیں.ہمارے پاس منڈی بہاؤالدین سے مولوی محمد ارشاد صاحب بشیر کی شہادت آئی ہے کہ وہاں پیغامی یہ پرو پیگنڈا کر رہے ہیں کہ مولوی منان صاحب نے ساری حدیثیں جمع کی ہیں یعنی وہ جو تبویب تھی اس کا نام ساری حدیثیں جمع کرنا رکھا ہے اس لئے یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس کام کی کیا حقیقت ہے.اصل بات یہ ہے کہ حدیثوں کی کتابیں کئی قسم کی ہیں ایک مسند کہلاتی ہیں جن میں راوی کے نام کے لحاظ سے حدیثیں جمع کی جاتی ہیں خواہ وہ کسی مضمون کی ہوں مثلاً حضرت ابو بکڑ کی حدیثیں ایک جگہ ، حضرت عمرؓ کی ایک جگہ، وَهَلُمَّ جَرًّا مسند احمد حنبل بھی اسی بناء پر مسند کہلاتی ہے.اور بخاری وغیرہ چونکہ مضمونوں کی بنا پر لکھتے ہیں اس لئے ان کو جامع کہتے ہیں جیسے جامع بخاری، جامع مسلم ، جامع ابی داؤد اور جامع ابن ماجہ ،سنن ابن ماجہ بھی اس کا نام مشہور ہے اسی طرح جامع ترندی.اگر وہ بہت اعلیٰ کتابیں ہوں تو انہیں صحیح کہہ دیتے ہیں جیسے صحیح بخاری.ایک تیسری قسم کی حدیثوں کی کتابیں وہ ہیں جن میں براہ راست حدیثیں درج نہیں کی گئیں بلکہ حدیث کی پہلی کتب میں سے ضروری حدیثیں اکٹھی کر لی گئی ہیں ان میں ابن تیمیہ کی منتظر ہے، سیوطی کی جامع الصغیر ہے ، ہمارے ملک میں عام طور پر مشکوۃ

Page 453

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۷ جلد دوم اور بلوغ المرام مشہور ہیں.مسند احمد ضبل پہلی قسم کی کتابوں میں سے ہے جہاں سے انہوں نے حدیثیں نقل کی ہیں مگر انہوں نے یہ حدیثیں راویوں کے نیچے دی ہیں مضمون وار نہیں.حضرت خلیفہ اول کی خواہش تھی کہ مضمون وار بھی ان کو جمع کیا جائے تا کہ مضمون نکالنا آسان ہو.پس یہ تو جھوٹ ہے کہ میاں منان نے حدیثیں جمع کی ہیں مگر یہ صحیح ہے کہ جامعہ احمدیہ کے استادوں اور طالب علموں کی مدد سے اور کچھ حضرت خلیفہ اول کے کام کی مدد سے بخاری کے باب لیکر ان کے ماتحت مسند احمد بن حنبل کی حدیثیں انہوں نے مضمون وار جمع کر دی ہیں یہ کام ایسا ہی ہے جس طرح کہ ڈکشنری میں سے لفظ نکالنے.ہر ایک محنتی طالب علم یہ کام کر سکتا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت خلیفہ اول کی خواہش کے مطابق میں نے علماء کو مقرر کر دیا ہے اور وہ کتاب مکمل ہو چکی ہے اب وہ جامع کی شکل میں زیادہ مکمل صورت میں موجود ہے حضرت خلیفہ اول کی خواہش بعض اور اصلاحات کی بھی تھی جن کو میں نے ۱۹۴۴ء کی مجلس عرفان میں بیان کیا تھا اس کے متعلق بھی میں نے ہدایت دے دی ہے کہ ان کو بھی ملحوظ رکھا جائے.وہ احمدی جن سے روپیہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی تھی تا کہ جماعت کے فتنے پر اُسے خرچ کیا جائے وہ مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری کے لڑکے ہیں اور اسی طرح افریقہ کا ایک دوست ہے جو بچ گیا.اس کے بیٹے نے کہہ دیا کہ میں ایسا خرچ کرنا نہیں چاہتا.ان سے میں کہتا ہوں کہ تمہاری تو وہی مثل ہے کہ ” تیری جوتی تیرے ہی سر تم سے ہی روپیہ لے کے تمہارے ہی خلاف استعمال کیا جانے والا تھا لیکن خدا نے تمہیں بچالیا.یہ فتنہ اب بیٹوں سے نکل کر پوتوں تک بھی جا پہنچا ہے.چنانچہ میاں سلطان علی صاحب ولد فتح محمد صاحب سندھ سے لکھتے ہیں کہ :.میں خدا کو حاضر ناظر جان کر ایمان سے کہتا ہوں کہ گزشتہ سال شروع سردی میں میرے ساتھ عبدالواسع عمر پسر مولوی عبد السلام عمر اور دوسرے دو آدمی مولوی عبد السلام عمر کی بستی نور آباد سے گوٹھ سلطان علی کو شام کے وقت آ رہے تھے باتوں باتوں میں میاں عبدالواسع نے کہا کہ اگر انسان نیک ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہ بھی مانا جائے تو کوئی حرج نہیں جس پر میں نے جواب دیا کہ اس طرح تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو

Page 454

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۸ جلد دوم بھی نہ مانا جائے تو کوئی حرج نہیں.پھر دو تین باتیں تبلیغی طور پر میں نے اور دوسرے ساتھیوں نے کیں پھر میاں صاحب چپ ہو گئے.جس سے معلوم ہوا کہ ان پر کچھ اثر ہوا ہے پھر کچھ دنوں کے بعد میں نے مولوی عبد السلام صاحب عمر سے عبدالواسع کے متعلق کہا کہ میں نے ایسی بات سنی ہے اور مجھے افسوس ہوا ہے تو مولوی صاحب نے کہا کہ نئی روشنی کا اثر نو جوانوں میں ہو گیا ہے“.ایک اور احمدی دوست عبد الرحیم صاحب کی شہادت ہے کہ مولوی عبد السلام صاحب نے جواب میں کہا کہ وہ ابھی بچہ ہے حالانکہ اُس وقت وہ ایم اے کر چکا تھا.اسی طرح امۃ الرحمن بنت مولوی شیر علی صاحب زوجہ میاں عبدالمنان صاحب عمر کا خط کسی نے بھیجا ہے جو مولوی عبد السلام کے لڑکے واسع کے نام ہے اس خط کو کسی نے پکڑ کر بھیج دیا وہ ہمارے پاس موجود ہے اس میں اس نے لکھا ہے کہ ” میری رائے میں تو آپ لوگوں کا جلد ہی آجانا بہتر تھا لیکن دیکھئے آپ کے چچا کی کیا رائے ہے.یعنی میری رائے تو یہ ہے کہ جلدی سے ربوہ آجاؤ مگر منان ابھی امریکہ میں ہے وہ آجائے تو پتہ لگے گا کہ اس کی کیا رائے ہے پھر لکھا ہے.لوگ یکے بعد دیگرے آپ لوگوں کے ماحول میں آویں گے.یعنی ربوہ آجائیں ساری جماعت ٹوٹ کر آپ کے گرد جمع ہو جائے گی.پھر لکھا ہے.کہا کچھ جاتا ہے بتایا کچھ جاتا ہے خطبوں کو اگر حسب سابق منشی ہی دیا کریں تو زیادہ بہتر ہے کشتی نوح سے زیادہ اہم ان کے خطبے ہیں.اسی طرح امتہ الرحمن زوجہ میاں عبدالمنان صاحب عمر نے ستمبر ۱۹۵۶ء میں اپنے جیٹھ کوئی شخص یہ شبہ نہ کرے کہ اماں جی اور مولوی عبد السلام صاحب تو وفات پا کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہو چکے ہیں پھر ان کی مغفرت کس طرح ہو گئی.بخشش خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہ جس کو چاہے معاف کر سکتا ہے معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو بعض اور نیکیوں کی وجہ سے ان کے بعض مخالفانہ افعال سے تو بہ کرنے کی توفیق بخش کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کا موقع عطا فرما دیا اور اس طرح اپنے فضل سے اس نے انہیں اپنی مغفرت کے دامن میں لے لیا.

Page 455

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۹ جلد دوم کے بچوں کو لکھا کہ :.”ہمارے بزرگ دادا کو یہاں تک کہا جارہا ہے کہ انہوں نے تو کبھی بھی اپنی اولا دکو خدا کے سپرد نہ کیا تھا.( اس خط کا عکس ہمارے پاس محفوظ ہے اور اُن کے بھائی دیکھ سکتے ہیں ) حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات عبد الوہاب اور عبدالمنان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہی تھی.مولوی شیر علی صاحب جیسے مخلص کی اس نا خلف بیٹی کو وہاب اور منان کی تو وہ بات بُری نہ لگی جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کہی تھی لیکن وہ بات بُری لگی جو جواب کے طور پر مبائعین نے حضرت خلیفہ اول کی اولاد کے متعلق کہی تھی.اب اخبار ” پیغام کے ۵ دسمبر کے پرچہ میں سید تصدق حسین صاحب بغداد کا ایک خط چھپا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ”پیغام صلح میں ” مولوی عبد المنان صاحب عمر کا مکتوب فتنہ قادیان اور منافقین کو سمجھنے کیلئے اخوان ربوہ کو بصیرت کا کام دے گا.“ ہم نے 66 ”پیغام صلح کے سب پرچے دیکھ مارے ہیں ان میں وہ مضمون نہیں مگر ہم کو ایک ٹریکٹ ملا ہے جس کے نیچے حقیقت پسند پارٹی“ لکھا ہوا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ان کا جتھہ پیغامیوں کے ساتھ ہے اور پیغامی ان ٹریکٹوں کو جو حقیقت پسند پارٹی چھاپ رہی ہے اپنے آدمیوں کو دنیا میں چاروں طرف یہ کہہ کر بھجوا رہی ہے کہ میاں عبدالمنان نے لکھے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ یہ ان کے یار غار ہیں ان کو پتہ ہوگا کہ میاں عبدالمنان نے یہ ٹریکٹ لکھے ہیں ورنہ وہ شخص جو ان کی جماعت کا بغداد میں لیڈ ر ہے یہ کیوں لکھتا کہ میاں عبدالمنان کا ٹریکٹ مل گیا ہے.غرض آدم کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک دین کو دُنیا پر مقدم نہ کرنے کی وجہ سے نظام الہی کے خلاف بغاوتیں ہوتی چلی آئی ہیں اور آج کا پیغا می جھگڑا یا حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان کا فتنہ بھی اسی وجہ سے ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خدا تعالیٰ کے حکم سے اپنی جماعت سے یہ عہد لینا کہ ”میں دین کو دُنیا پر مقدم رکھوں گا اسی وجہ سے تھا مگر افسوس که با وجود حضرت خلیفہ اول کے ہوشیار کر دینے کے ان کی اولاد اس فتنہ میں پھنس گئی.حالانکہ حضرت خلیفہ اول کی شہادت کو خود عبدالمنان نے ۱۹۴۵ء کے رسالہ فرقان میں شائع ،

Page 456

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۰ جلد دوم کیا تھا اور پھر یہ شہادت الفضل اار دسمبر ۱۹۵۶ء میں بھی چھپ چکی ہے اور اس کے متعلق جلسہ سالانہ پر ایک ٹریکٹ بھی شائع ہوا ہے.دوست اسے دیکھ چکے ہوں گے اس میں انہوں نے حضرت خلیفہ اول کا ایک نوٹ شائع کیا ہے جو دسمبر ۱۹۱۲ ء کا لکھا ہوا ہے کہ مصلح موعود ۳۰ تمیں سال کے بعد ظاہر ہو گا.چنانچہ ۱۹۴۴ء میں خدا تعالیٰ نے مجھے رؤیا دکھائی کہ تم مصلح موعود ہو.اس مضمون میں انہوں نے لکھا ہے کہ:.فرقان کے پچھلے شمارہ میں میں نے بڑے دردمند دل کے ساتھ ابتدائی چند صفحات قلمبند کئے تھے اور میں حد درجہ اس کا آرزومند تھا کہ کسی طرح ہمارے یہ بچھڑے ہوئے بھائی پھر ہم میں آملیں اور اپنی طاقتوں کو با ہمی آویزش میں ضائع نہ کریں بلکہ آپس میں مل کر متحدہ رنگ میں اکناف عالم میں اسلام کو پھیلانے اور پاک محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنے کیلئے خرچ کر سکیں کہ یہی اس دور میں ہمارا اولین فرض اور ہماری زندگیوں کا بہترین مقصد ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی دردمندانہ جذبہ کی وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس احسان سے نوازا کہ میں آج اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کے سامنے اس آواز کی تائید میں جو گزشتہ پر چہ میں حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کے دامن سے اپنے دامن کو وابستہ کر لینے کے متعلق بلند کی گئی تھی.حضرت علامہ حاجی الحرمین سید نا نورالدین صدیق ثانی کی ایک زبردست شہادت کو پیش کر سکوں.“ ’ وہ پیغامیوں کو تو ۱۹۴۵ء میں کہتا ہے کہ بچھڑے ہوئے بھا ئیومل جاؤ اور اپنے آپ کو کہتا ہے کہ بھاگ جاؤ مبائعین کے پاس سے چلے جاؤ ابلیس کی گود میں اور جماعت احمد یہ کے اتحاد کو چاک چاک کر دو ، پھر آگے لکھتا ہے.اے مُقلب القلوب خدا ! تو اس برادرانہ جنگ کو ختم فرما اور اپنے پیارے مسیح کے ان خادموں کو جو تیرے اس رسول کی تخت گاہ سے کٹ گئے ہیں انہیں اس پر مخلصانہ غور کرنے کی توفیق عطا فرما.ان کے دلوں کو کھول دے اور اس طرح پھر سے انہیں لے آ کہ ہم سب مصلح موعود کی زیر ہدایت پہلو بہ پہلو کندھے سے کندھا جوڑے اشداء على الكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ٣٧ کا مصداق بنیں.- ا

Page 457

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۱ جلد دوم سوتم تو منان کی تحریک کے مطابق بن گئے مگر وہ خود اس نعمت سے محروم ہو گیا وہی شخص جو حضرت خلیفہ اول کی پیشگوئی ظاہر کر رہا تھا کہ انہوں نے پیشگوئی کی تھی کہ تمہیں سال کے بعد مصلح موعود ظاہر ہو گا سوہ وہ ظاہر ہو گیا ہے وہی آج اپنے باپ کو جھوٹا کہہ رہا ہے اور اس کے دوست پیغامی کہتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی ہتک ہم کر رہے ہیں.ہتک ہم کرتے ہیں جو آپ کے بیان کی تائید کرتے ہیں یا ہتک ان کا بیٹا کرتا ہے اور پیغا می کرتے ہیں جو اپنے باپ کو اور اپنے پہلے خلیفہ کو جس کی انہوں نے بیعت کی تھی جھوٹا کہتے ہیں.اگر وہ تو بہ نہ کریں گے تو خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکا ئیں گے اور نہ اجمیری اور نہ پیغامی ، نہ محمد حسن چیمہ، نہ غلام رسول ۳۵ ان کی مدد کر سکیں گے کیونکہ خدا کی گرفت آدمیوں کے ذریعہ سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ قانونِ قدرت کے ذریعہ سے ظاہر ہوتی ہے اور قانونِ قدرت حکومتوں کے ماتحت بھی نہیں وہ محض خدا تعالیٰ کے ماتحت ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے پہلے سے خبر دی ہوئی ہے اور وہ چھپ بھی چکی ہے ۳۸ے کہ اب تو پیغامی اور ان کے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ ہم تمہاری مدد کریں گے لیکن فرشتوں نے آسمان پر چکر کھاتے ہوئے قرآن کی وہ آیتیں پڑھیں جو منافق یہودیوں کو کہا کرتے تھے کہ اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم تمہارے ساتھ مل کر لڑیں گے اور اگر تم کو نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے خدا تعالیٰ کہتا ہے نہ یہ لڑیں گے نہ نکلیں گے جھوٹے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے فرشتوں کے ذریعہ سے بتایا کہ یہی حال ان کا ہوگا پہلے پیغامی اور احراری کہیں گے کہ ہم تمہاری مدد کریں گے لیکن بعد میں نہ وہ مدد کریں گے نہ ساتھ دیں گے بلکہ سب بھاگ جائیں گے کیونکہ خدا کے غضب کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا.چنانچہ جلسہ سالانہ کے بعد ” نوائے پاکستان ۱۷ جنوری ۱۹۵۷ء میں ان کے ایک ہمدرد نے ایک مضمون شائع کیا ہے جس سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو مجھے خبر دی تھی وہ بڑی شان سے پوری ہوگئی ہے.اس مضمون میں جو حقیقت پسند پارٹی سے چند گزارشات‘ کے زیر عنوان شائع ہوا ہے لکھا ہے :.(الف) حزب مخالف نے اگر چہ حقیقت پسند پارٹی کے نام سے اپنی جماعت الگ

Page 458

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۲ جلد دوم بنانے کا اعلان کر دیا ہے مگر ہیں وہ بڑے پریشان کیونکہ قادیانی خلافت نے تو منافق ، غدار، ملحد اور دونوں جہان میں خائب و خاسر کا الزام دے کر اپنے سے ان کو عضو فاسد کی طرح کاٹ دیا ہے.( ب ) لاہوری حضرات ان کو دوسرے قادیانیوں کی طرح ہی سمجھتے ہیں ان میں با ہمی عقیدہ و خیال کا کوئی فرق نہیں ہے صرف تھوڑا سا خلافتی اختلاف ہے اس بناء پر وہ ان کو اپنے قریب تک نہیں پھٹکنے دیتے.“ ( ج ) مرزائیت کی حالت میں مسلمانوں کا اُن سے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ اسلام کے ایک بنیادی و اساسی عقیدہ کے منکر ہیں مسلمان کا فر کی ذمی ہونے کی حیثیت سے حفاظت و صیانت تو کر سکتا ہے مگر مرتد کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے بلکہ مرتد کی سزا اسلام میں نہایت سنگین ہے اس اعتبار سے یہ معاشرہ سے بالکل کٹ چکے ہیں.“ (1) ضاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحْبَت ۳۹ کا سا ان کا حال ہے سرزمین پاکستان باوجود اپنی وسعت و فراخی کے ان پر تنگ ہوگئی ہے کیا وہ ملک بدر ہو جائیں ؟ آخر جائیں تو کہاں جائیں.فرض کر لیجئے کہ ان میں سے ایک آدمی کسی مکان پر صرف اکیلا ہی رہتا ہے زندگی میں ہزاروں حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں اگر وہ بھی کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو ان سے کون اُنس و مروت کرے گا کیا وہ سسک سسک کر نہیں مر جائے گا.بالفرض وہ فوت بھی ہو جاتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی تجہیز و تکفین کون کرے گا ، اس کا جنازہ کون پڑھائے گا اور کس کے قبرستان میں وہ دفن کیا جائے گا یا اس کی لاش کو چیلوں اور درندوں کے سپرد کر دیا جائے گا حقیقت پسند پارٹی کو ان بھیانک اور خوفناک نتائج پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے.۴۰ غرض یہ پس منظر ہے آسمانی نظام کا.تم آسمانی نظام کے سپاہی ہو اور شیطان اب نئی شکل میں ، نئے جبہ میں آکر احراریوں کی اور غیر مبائعین کی مدد سے منان اور وہاب کا نام لے کر اور عبد السلام کے بیٹوں کا نام لے کر تمہارے اندر داخل ہونا چاہتا ہے اور تم کو جنت.نکالنا چاہتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پہلا آدم آیا تھا اور شیطان نے

Page 459

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۳ جلد دوم اس کو جنت سے نکال دیا تھا اب میں دوسرا آدم بن کے آیا ہوں تا کہ لوگوں کو پھر جنت میں داخل کروں.اسے پس تم دوسرے آدم کی اولا د ہو.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق جنت خلافت سے دشمن تم کو نہیں نکال سکے گا.شیطان ناکام رہے گا اور منہ کی کھائے گا اور سانپ کی طرح زمین چاتما ر ہے گا لیکن خدا کی جنت میں تم جاؤ گے جو اس کے بچے پیرو ہو کیونکہ تم نے آدم ثانی کو قبول کیا ہے اور آدم ثانی کو خدا نے اس لئے بھیجا ہے کہ پھر آدم اول کے وقت کے نکلے ہوئے لوگوں کو دوبارہ جنت میں داخل کرے.میری اس تقریر سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ جو فتنہ شیطان نے آدم کے وقت اُٹھایا تھا اور جس آگ کو وہ پہلے ابراہیم کے وقت تک جلا تا چلا گیا تھا اور پھر بنو اسماعیل اور بنو اسحق کی لڑائی کی شکل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب زمانہ تک بھڑ کا تا چلا گیا تھا اور پھر امیہ اور ہاشم کی لڑائی کی شکل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک بھڑکا تا چلا گیا تھا اور پھر حضرت امام حسین اور یزید کی لڑائی کی صورت میں وہ آپ کے بعد بھی بھڑ کا تا چلا گیا تھا اور پھر آخری زمانہ یعنی دور حاضر میں مسیح محمدی اور ابنائے مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی مرحوم کی لڑائی کی صورت میں اس نے بھڑ کا نا شروع کر دیا تھا اور اب پیغامیوں اور مبائعین اور ابنائے مسیح موعود اور ابنائے مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی لڑائی کی شکل میں اس کو جاری رکھے ہوئے ہے وہ بات حرف بہ حرف صحیح ہے اور اس تمام جنگ کی بنیا دلالچ یا بغض پر ہے کوئی دینی روح اس کے پیچھے نہیں ہے.اعلی: ۱۵ تا ۲۰ انوار العلوم جلد ۲۶ صفحه ۲۱ ۲۲ ۵۳ تا ۱۳۰ ) الاعراف: ۱۳ تا ۱۹ پیدائش باب ۳ آیت ۵ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۷ ۱۸۸ء مفہوماً پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ ء مفہوماً پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء مفہوماً البقرة: ١١٠ کے آل عمران ۷۴۷۳ النساء: ۵۵

Page 460

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۴ جلد دوم 2 تاریخ الکامل جلد ۲ صفحه ۱۶، ۱۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء محاضرات جلد اوّل مصنفہ شیخ محمد خضری صفحه ۳۶، ۳۷ مطبوعه مصر ۱۳۸۲هجری الدائرة المعارف جلد اوّل صفحه ۶۲۲ ۱ بدر ۲ / جون ۱۹۰۸ء ۱۳ حقیقت اختلاف حصہ اول صفحہ ۱۳۱ ایڈیشن دوم.احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور ریویو آف ریلیجنز دسمبر ۱۹۰۸ء صفحه ۴۸۰ ۱۵ پیغام صلح ۱۷؍ دسمبر ۱۹۱۴ ء صفحه ۲ ۱۶ تاریخ طبری جلد ۲ صفحه ۹۲٬۹۱ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء كل الفضل ۴ را گست ۱۹۳۷ء صفحه ۴ ۱ الفضل ۱۶ / دسمبر ۱۹۵۶ء صفحه ۴ ۱۸ نبیرہ : بیٹے یا بیٹی کا بیٹا.پوتا.نواسہ (اردو لغت تاریخی اصول پر جلد ۱۹ صفحه ۷۵۴ مطبوعہ کراچی ۲۰۰۳ء) ۱۹ پیغام صلح ۳۰ ستمبر ۱۹۳۰ء ۱۹۸ کوکین : ایک نشہ آور اور بے حس کر دینے والی دوا ( فیروز اللغات اردو جامع صفحه ۱۰۴۵ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء) ٢٠ الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۶ء صفحه ۶ ال الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۶ء صفحه ۶ الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۵۶ ء صفحه ۸ ۲ الفضل ۲۲ را گست ۱۹۵۶ء صفحه ۳ ۲ الفضل ۳۰ / جولائی ۱۹۵۶ صفحه ۳ الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۵۶ ء صفحہ ۱ الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۵۶ء صفحه ۴ اشتہار معیار الا خیار مؤرخه ۱۶ جون ۱۸۹۹ء مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۹۵ ۲۸ کتاب البریہ صفحہ ۱۳۰ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴۸ ایڈیشن ۲۰۰۸ء ۲۹ اشاعۃ السنتہ جلد ۱۳ نمبرے صفحہ ۲۰۲

Page 461

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۵ جلد دوم ۳۰ کتاب البریہ صفحه ۱۲۳ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۴۹ ایڈیشن ۲۰۰۸ء اسے حجتہ اللہ صفحہ ۱۷.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۵۵ مفهوماً ایڈیشن ۲۰۰۸ء ۳۲ کتاب البریہ صفحه ۱۳۰ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴۸ ایڈیشن ۲۰۰۸ء ۳۳ تحفہ غزنویہ صفحہ ۱۹.روحانی خزائن جلد ۵ اصفحه ۵۴۹ ایڈیشن ۲۰۰۸ء ۳۴ نزول امسیح صفحه ۳۴ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۱۰ ایڈیشن ۲۰۰۸ء ۳۵ نزول المسیح صفحه ۳۲ ،۳۳ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۱۰ ایڈیشن ۲۰۰۸ء ۳۶ تحفه غزنو یه صفحه ۱۹ روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۴۹ کے الفاظ ” تمہارا مباہلہ تو تمہاری جماعت کے مولوی عبدالواحد کو بھی لے ڈوبا اور اُس کی بھی بیوی فوت ہونے سے خانہ بربادی ہوئی“.( الفضل ۷ ستمبر ۱۹۵۶ء) ۳۶۸، اخوان المسلمین : مصر کی سیاسی و دینی جماعت جس کی بنیا د حسن البنا نے رکھی.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۷۹ مطبوعہ لاہور۱۹۸۷ء) الفتح: ٣٠ ۳۸ الفضل سے ستمبر ۱۹۵۶ء ٣٩ التوبة: ۱۱۸ نوائے پاکستان ۷ار جنوری ۱۹۵۷ء ا خطبہ الہامیہ حاشیہ متعلقہ خطبہ الہامیہ ما الفرق فى ادم والمسيح الموعود روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۰۸،۳۰۷ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن ۲۰۰۸ء

Page 462

Page 463

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۷ جلد دوم خلافت حقہ اسلامیہ ( تقریر جلسه سالانه ۲۷ / دسمبر ۱۹۵۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :." قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وليبة لَنَّهُمْ مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ، يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَمَنْ كَفَرَ بعد ذلك فأوليكَ هُمُ الفسقون.اس آیت کے متعلق تمام پچھلے مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت خلافتِ اسلامیہ کے متعلق ہے.اسی طرح صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) اور کئی خلفائے راشدین بھی اس کے متعلق گواہی دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنی کتابوں میں اس آیت کو پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ آیت خلافتِ اسلامیہ کے متعلق ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اے خلافت حقہ اسلامیہ پر ایمان رکھنے والے مومنو! ( چونکہ یہاں خلافت کا ذکر ہے اس لئے امنوا میں ایمان لانے سے مرادایمان بالخلافت ہی ہوسکتا ہے.پس یہ آیت مبائعین کے متعلق ہے غیر مبائعین کے متعلق نہیں کیونکہ وہ خلافت پر ایمان نہیں رکھتے ) اے خلافتِ حقہ اسلامیہ کو قائم رکھنے اور اس کے حصول کے لئے کوشش کرنے والو! تم سے اللہ ایک وعدہ کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم تم میں سے زمین میں اسی طرح خلفاء بناتے رہیں گے جس طرح تم سے پہلے لوگوں کو خلفاء بنایا اور ہم اُن کے لئے اسی دین کو

Page 464

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۸ جلد دوم جاری کریں گے جو ہم نے اُن کے لئے پسند کیا ہے یعنی جو ایمان اور عقیدہ ان کا ہے وہی خدا کو پسند یدہ ہے اور اللہ تعالٰی وعدہ کرتا ہے کہ وہ اسی عقیدہ اور طریق کو دنیا میں جاری رکھے گا اور اگر اُن پر کوئی خوف آیا تو ہم اس کو تبدیل کر کے امن کی حالت لے آئیں گے.لیکن ہم بھی اُن سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ تو حید کو دنیا میں قائم کریں گے اور شرک نہیں کریں گے.یعنی مشرک مذاہب کی تردید کرتے رہیں گے اور اسلام کی ، توحید حقہ کی اشاعت کرتے رہیں گے.خلافت کے قائم ہونے کے بعد خلافت پر ایمان لانے والے لوگوں نے خلافت کو ضائع کر دیا تو فرماتا ہے مجھ پر الزام نہیں ہوگا.اس لئے کہ میں نے ایک وعدہ کیا ہے اور شرطیہ وعدہ کیا ہے.اس خلافت کے ضائع ہونے پر الزام تم پر ہوگا.میں اگر پیشگوئی کرتا تو مجھ پر الزام ہوتا کہ میری پیشگوئی جھوٹی نکلی مگر میں نے پیشگوئی نہیں کی بلکہ میں نے تم سے وعدہ کیا ہے اور شرطیہ وعدہ کیا ہے کہ اگر تم مومن بالخلافہ ہو گے اور اس کے مطابق عمل کرو گے تو پھر میں خلافت کو تم میں قائم رکھوں گا.پس اگر خلافت تمہارے ہاتھوں سے نکل گئی تو یا درکھو کہ تم مومن بالخلافۃ نہیں رہو گے کا فر بالخلافہ ہو جاؤ گے اور نہ صرف خلفاء کی اطاعت سے نکل جاؤ گے بلکہ میری اطاعت سے بھی نکل جاؤ گے اور میرے بھی باغی بن جاؤ گے.خلافت حقہ اسلامیہ کے عنوان کی وجہ میں نے اس مضمون کا ہیڈنگ خلافت حقہ اسلامیہ اس لئے رکھا ہے کہ جس طرح موسوی زمانہ میں خلافتِ موسویہ یہود یہ دو حصوں میں تقسیم تھی ، ایک دور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک تھا اور ایک دور حضرت عیسی علیہ السلام سے لے کر آج تک چلا آ رہا ہے.اسی طرح اسلام میں بھی خلافت کے دو دور ہیں ، ایک دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شروع ہوا اور اُس کی ظاہری شکل حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ختم ہو گئی اور دوسرا دور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول سے شروع ہوا اور اگر آپ لوگوں میں ایمان اور عمل صالح قائم رہا اور خلافت سے وابستگی پختہ رہی تو اِنْشَاءَ اللهُ یہ دور قیامت تک قائم رہے گا.

Page 465

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۹ جلد دوم جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کی تشریح میں میں ثابت کر چکا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایمان بالخلافتہ قائم رہا اور خلافت کے قیام کے لئے تمہاری کوشش جاری رہی تو میرا وعدہ ہے کہ تم میں سے ( یعنی مومنوں میں سے اور تمہاری جماعت میں سے ) میں خلیفہ بنا تا رہوں گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے متعلق احادیث میں تصریح فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں.مَا كَانَتْ نُبُوَّةً قَطُّ إِلَّا تَبِعَتُهَا خِلَافَةٌ " کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے اور میرے بعد بھی خلافت ہو گی اس کے بعد ظالم حکومت ہوگی پھر جابر حکومت ہوگی یعنی غیر قو میں آ کر مسلمانوں پر حکومت کریں گی جو زبر دستی مسلمانوں سے حکومت چھین لیں گی.اس کے بعد فر ماتے ہیں کہ پھر خلافت على مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ہو گی یعنی جیسے نبیوں کے بعد خلافت ہوتی ہے ویسی ہی خلافت پھر جاری کر دی جائے گی.سے نبیوں کے بعد خلافت کا ذکر قرآن کریم میں دو جگہ آتا ہے.ایک تو یہ ذکر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خلافت اس طرح دی کہ کچھ ان میں سے موسیٰ علیہ السلام کے تابع نبی بنائے اور کچھ اُن میں سے بادشاہ بنائے.اب نبی اور بادشاہ بنانا تو خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے ہمارے اختیار میں نہیں لیکن جو تیسرا امر خلافت کا ہے اور اس حیثیت سے کہ خدا تعالیٰ بندوں سے کام لیتا ہے ہمارے اختیار میں ہے چنانچہ عیسائی اس کے لئے انتخاب کرتے ہیں اور اپنے میں سے ایک شخص کو بڑا مذہبی لیڈر بنا لیتے ہیں جس کا نام وہ پوپ رکھتے ہیں.گو پوپ اور پوپ کے متبعین اب خراب ہو گئے ہیں مگر اس سے یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ پھر اُن سے مشابہت کیوں دی ؟ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قبلهم جس طرح پہلے لوگوں کو میں نے خلیفہ بنایا تھا اسی طرح میں تمہیں خلیفہ بناؤں گا یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں خلافت قائم کی گئی تھی.اُسی طرح تمہارے اندر بھی اس حصہ میں جو موسوی سلسلہ کے مشابہ ہو گا میں خلافت قائم کروں گا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت براہ راست چلے گی پھر جب مسیح موعود آ جائے گا تو جس طرح مسیح ناصری کے سلسلہ میں

Page 466

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۰ جلد دوم خلافت چلا ئی گئی تھی اُسی طرح تمہارے اندر بھی چلاؤں گا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ موسیٰ کے سلسلہ میں مسیح آیا اور محمدی سلسلہ میں بھی مسیح آیا مگر محمدی سلسلہ کا مسیح پہلے مسیح سے افضل ہے.اس لئے وہ غلطیاں جو انہوں نے کیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسیح محمدی کی جماعت نہیں کرے گی.انہوں نے خدا کو بھلا دیا اور خدا تعالیٰ کو بھلا کر ایک کمزور انسان کو خدا کا بیٹا بنا کر اُسے پوجنے لگ گئے.مگر محمدی مسیح نے اپنی جماعت کو شرک کے خلاف بڑی شدت سے تعلیم دی بلکہ خود قرآن کریم نے کہہ دیا کہ اگر تم خلافت حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر شرک کبھی نہ کرنا اور میری خالص عبادت کو ہمیشہ قائم رکھنا جیسا کہ يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا میں اشارہ کیا گیا ہے.پس اگر جماعت اس کو قائم رکھے گی تبھی وہ انعام پائے گی اور اس کی صورت یہ بن گئی ہے کہ قرآنِ کریم نے بھی شرک کے خلاف اتنی تعلیم دی کہ جس کا ہزارواں حصہ بھی انجیل میں نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی شرک کے خلاف اتنی تعلیم دی ہے جو حضرت مسیح ناصرٹی کی موجود تعلیم میں نہیں پائی جاتی.پھر آپ کے الہاموں میں بھی یہ تعلیم پائی جاتی ہے.چنانچہ آپ کا الہام ہے.خُذُوا التَّوْحِيدَ التَّوْحِيدَ يَا ابْنَاءَ الْفَارِسِ " اے مسیح موعود اور اُس کی ذریت ! تو حید کو ہمیشہ قائم رکھوسو اس سلسلہ میں خدا تعالیٰ نے توحید پر اتنا زور دیا ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے اور قرآنی تعلیم پر غور کرتے ہوئے یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تو حید کامل احمد یوں میں قائم رکھے گا اور اس کے نتیجہ میں خلافت بھی ان کے اندر قائم رہے گی اور وہ خلافت بھی اسلام کی خدمت گزار ہو گی.حضرت مسیح ناصری کی خلافت کی طرح وہ خود اس کے اپنے مذہب کو تو ڑنے والی نہیں ہوگی.جماعت احمدیہ میں خلافت میں نے بتایا ہے کہ جس طرح قرآن کریم نے کہا ہے کہ خلیفے ہو نگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قائم رہنے کی بشارت فرمایا ہے کہ میرے بعد خلیفے ہوں گے.پھر مُلكاً عَاضًا ہو گا.پھر ملک جبر یہ ہو گا اور اس کے بعد خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ہوگی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ

Page 467

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۱ جلد دوم وآلہ وسلم کی سنت میں الوصية میں تحریر فرمایا ہے کہ سواے عزیز و ! جب کہ قدیم سے سُنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا، ۵ یعنی اگر تم سیدھے رستہ پر چلتے رہو گے تو خدا کا مجھ سے وعدہ ہے کہ جو دوسری قدرت یعنی خلافت تمہارے اندر آوے گی وہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگی.عیسائیوں کو دیکھو گو جھوٹی خلافت ہی سہی انہیں سو سال سے وہ اس کو لئے چلے آ رہے ہیں.مگر مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کو ابھی اڑتالیس سال ہوئے تو کئی بلیاں چھیچھڑوں کی خواہیں دیکھنے لگیں اور خلافت کو توڑنے کی فکر میں لگ گئیں.پھر فرماتے ہیں کہ وو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو.سو تم کو بھی چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے ماتحت دعائیں کرتے رہو کہ اے اللہ ! ہم کو مؤمن بالخلافت رکھیو اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دیجو اور ہمیں ہمیشہ اس بات کا مستحق رکھیو کہ ہم میں سے خلیفے بنتے رہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے تا کہ ہم ایک جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو کر اور ایک صف میں کھڑے ہو کر اسلام کی جنگیں ساری دنیا سے لڑتے رہیں اور پھر ساری دنیا کو فتح کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں گرا دیں کیونکہ یہی ہمارے قیام اور مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض ہے.

Page 468

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۲ قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہے جلد دوم یہ جو میں نے قدرت ثانیہ کے معنی خلافت کے کئے ہیں یہ ہمارے ہی نہیں بلکہ غیر مبائعین نے بھی اس کو تسلیم کیا ہوا ہے چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب لکھتے ہیں :.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیۃ کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدر انجمن احمد یہ موجود قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود به اجازت حضرت (اماں جان ) گل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سوتھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی...یہ خطوط بطور اطلاع کل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے“.یہ خط ہے جو انہوں نے شائع کیا.اس میں مولوی محمد علی صاحب ، شیخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب وغیرہ کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے کہ معتمدین میں سے وہ اس موقع پر موجود تھے اور انہوں نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی.سوان لوگوں نے اس زمانہ میں یہ تسلیم کر لیا کہ یہ جو قدرت ثانیہ کی پیش گوئی تھی یہ خلافت کے متعلق تھی کیونکہ الوصیۃ میں سوائے اس کے اور کوئی ذکر نہیں کہ تم قدرت ثانیہ کے لئے دعائیں کرتے رہو اور خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ مطابق حکم الوصیۃ ہم نے بیعت کی.پس خواجہ صاحب کا اپنا اقرار موجود ہے کہ الوصیۃ میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ خلافت کے متعلق تھی اور ” قدرتِ ثانیہ سے مراد خلافت ہی ہے.پس حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر خواجہ کمال الدین صاحب ، مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کا بیعت کرنا اور اسی طرح میرا اور تمام خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیعت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام جماعت احمدیہ نے بالا تفاق خلافتِ احمدیہ کا اقرار کر لیا.پھر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول کے تمام خاندان اور جماعت احمدیہ کے ننانوے فیصدی افراد کا میرے ہاتھ پر بیعت کر لینا اس بات کا مزید ثبوت ہوا کہ جماعت احمد یہ اس بات پر متفق ہے کہ

Page 469

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۳ خلافت احمدیہ کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.جلد دوم آئندہ انتخاب خلافت چونکہ اس وقت حضرت خلیفہ اول کے خاندان میں سے بعض نے اور اُن کے دوستوں نے خلافت احمدیہ کا کے متعلق طریق کار سوال پھر اُٹھایا ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ اس مضمون کے متعلق پھر کچھ روشنی ڈالوں اور جماعت کے سامنے ایسی تجاویز پیش کروں جن سے خلافتِ احمد یہ شرارتوں سے محفوظ ہو جائے.میں نے اس سے پہلے جماعت کے دوستوں کے مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ خلیفہ وقت کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ کی مجلس شوری دوسرا خلیفہ چنے.مگر موجودہ فتنہ نے بتا دیا ہے کہ یہ طریق درست نہیں کیونکہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ہم خلیفہ ثانی کے مرنے کے بعد بیعت میاں عبدالمنان کی کریں گے اور کسی کی نہیں کریں گے.اس سے پتہ لگا کہ ان لوگوں نے یہ سمجھا کہ صرف دو تین آدمی ہی اگر کسی کی بیعت کر لیں تو وہ خلیفہ ہو جاتا ہے اور پھر اس سے یہ بھی پتہ لگا کہ جماعت میں خلفشار پیدا ہو سکتا ہے.چاہے وہ خلفشار پیدا کر نے والا غلام رسول نمبر ۳۵ جیسا آدمی ہی ہو اور خواہ وہ ڈاہڈا جیسا گمنام آدمی ہی ہو.وہ دعوئی تو یہی کریں گے کہ خلیفہ چنا گیا ہے.سو جماعت احمدیہ میں پریشانی پیدا ہوگی.اس لئے وہ پرانا طریق جو طول عمل والا ہے میں اس کو منسوخ کرتا ہوں اور اس کی بجائے میں اس سے زیادہ تو قریبی طریقہ پیش کرتا ہوں.بیشک ہمارا دعویٰ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے مگر اس کے باوجو د تاریخ کی اس شہادت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خلیفے شہید بھی ہو سکتے ہیں.جس طرح حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی شہید ہوئے اور خلافت ختم بھی کی جا سکتی ہے.جس طرح حضرت حسنؓ کے بعد خلافت ختم ہو گئی.جو آیت میں نے اس وقت پڑھی ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں خلافت قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ مشروط ہے کیونکہ مندرجہ بالا آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلافت پر ایمان لانے والوں اور اس کے قیام کیلئے مناسب حال عمل کرنے والے لوگوں سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان میں خلافت کو قائم رکھے گا.پس خلافت

Page 470

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۴ جلد دوم کا ہونا ایک انعام ہے پیشگوئی نہیں اگر پیشگوئی ہوتا تو حضرت امام حسنؓ کے بعد خلافت کا ختم ہونا نَعُوذُ بِاللهِ قرآن کریم کو جھوٹا قرار دیتا لیکن چونکہ قرآن کریم نے اس کو ایک مشروط انعام قرار دیا ہے.اس لئے اب ہم یہ کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت امام حسنؓ کے زمانہ میں عام مسلمان کامل مومن نہیں رہے تھے اور خلافت کے قائم رکھنے کے لئے صحیح کوشش انہوں نے چھوڑ دی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس انعام کو واپس لے لیا اور باوجود خلافت کے ختم ہو جانے کے قرآن سچا رہا جھوٹا نہیں ہوا.وہی صورت اب بھی ہوگی اگر جماعت احمد یہ خلافت کے ایمان پر قائم رہی اور اس کے قیام کے لئے صحیح جد و جہد کرتی رہی تو اس میں بھی قیامت تک خلافت قائم رہے گی.جس طرح عیسائیوں میں پوپ کی شکل میں اب تک قائم ہے گو وہ بگڑ گئی ہے.میں نے بتا دیا ہے کہ اس کے بگڑنے کا احمدیت پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا.مگر بہر حال اس فساد سے اتنا پتہ لگ جاتا ہے کہ شیطان ابھی مایوس نہیں ہوا.پہلے تو شیطان نے پیغامیوں کی جماعت بنائی لیکن بیالیس سال کے انتظار کے بعد اس باسی کڑھی میں پھر اُبال آیا اور وہ بھی لگے مولوی عبد المنان اور عبد الوہاب کی تائید میں مضمون لکھنے اور ان میں سے ایک شخص محمد حسن چیمہ نے بھی ایک مضمون شائع کیا ہے کہ ہمارا نظام اور ہما ر ا سٹیج اور ہماری جماعت تمہاری مدد کے لئے تیار ہے شاباش ہمت کر کے کھڑے رہو.مرزا محمود سے دبنا نہیں.اس کی خلافت کے پردے چاک کر کے رکھ دو ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے.کوئی اس سے پوچھے کہ تم نے مولوی محمد علی صاحب کو کیا مدد دے لی تھی.آخر مولوی محمد علی صاحب بھی تو تمہارے لیڈر تھے خواجہ کمال الدین صاحب بھی لیڈر تھے اُن کی تم نے کیا مددکر لی تھی جو آج عبد المنان اور عبدالوہاب کی کر لو گے.پس یہ باتیں محض ڈھکو سلے ہیں ان سے صرف ہم کو ہوشیار کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مطمئن نہ ہو جانا اور یہ نہ سمجھنا کہ خدا تعالیٰ چونکہ خلافت قائم کیا کرتا ہے اس لئے کوئی ڈر کی بات نہیں ہے تمہارے زمانہ میں بھی فتنے کھڑے ہو رہے ہیں اور اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی فتنے کھڑے ہوئے تھے.اس لئے خلافت کو ایسی طرز پر چلا ؤ جو زیادہ آسان ہو اور کوئی ایک دو لفنگے اُٹھ کر اور کسی کے ہاتھ پر بیعت کر کے یہ نہ کہہ دیں کہ چلو خلیفہ مقرر ہو گیا ہے.پس اسلامی طریق پر جو کہ میں آگے

Page 471

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۵ جلد دوم بیان کروں گا آئندہ خلافت کے لئے میں یہ قاعدہ منسوخ کرتا ہوں کہ شوری انتخاب کرے بلکہ میں یہ قاعدہ مقرر کرتا ہوں کہ آئندہ جب کبھی خلافت کے انتخاب کا وقت آئے تو صدر انجمن احمدیہ کے ناظر اور ممبر اور تحریک جدید کے وکلاء اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے زندہ افراد اور اب نظر ثانی کرتے وقت میں یہ بات بھی بعض دوستوں کے مشورہ سے زائد کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ بھی جن کو فوراً بعد تحقیقات صدر انجمن احمدیہ کو چاہیے کہ صحابیت کا سرٹیفکیٹ دے دے اور جامعتہ المبشرین کے پرنسپل اور جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمدیہ اور تمام جماعتہائے پنجاب اور سندھ کے ضلعوں کے امیر اور مغربی پاکستان اور کراچی کا امیر اور مشرقی پاکستان کا امیر مل کر اس کا انتخاب کریں.اسی طرح نظر ثانی کرتے وقت میں یہ امر بھی بڑھاتا ہوں کہ ایسے سابق امراء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیر رہے ہوں گو انتخاب کے وقت بوجہ معذوری کے امیر نہ رہے ہوں وہ بھی اس لسٹ میں شامل کئے جائیں.اسی طرح ایسے تمام مبلغ جو ایک سال تک غیر ملک میں کام کر آئے ہیں اور بعد میں سلسلہ کی طرف سے اُن پر کوئی الزام نہ آیا ہو.ایسے مبلغوں کی لسٹ شائع کرنا مجلس تحریک کا کام ہوگا.اسی طرح ایسے مبلغ جنہوں نے پاکستان کے کسی ضلع یا صو بہ میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم سے کم ایک سال کام کیا ہو.ان کی فہرست بنانا صدرانجمن احمد یہ کے ذمہ ہوگا.مگر شرط یہ ہوگی کہ اگر وہ موقع پر پہنچ جائیں.سیکرٹری شوری تمام ملک میں اطلاع دے دے کہ فوراً پہنچ جاؤ.اس کے بعد جو نہ پہنچے اس کا اپنا قصور ہو گا اور اس کی غیر حاضری خلافت کے انتخاب پر اثر انداز نہیں ہو گی.نہ یہ عذر سنا جائے گا کہ وقت پر اطلاع شائع نہیں ہوئی.یہ ان کا اپنام کام ہے کہ وہ پہنچیں.سیکرٹری شوری کا کام اُن کو لا نا نہیں ہے اس کا کام صرف یہ ہو گا کہ وہ ایک اعلان کر دے اور اگر سیکرٹری شوری کہے کہ میں نے اعلان کر دیا تھا تو وہ انتخاب جائز سمجھا جائے گا.ان لوگوں کا یہ کہہ دینا یا ان میں سے کسی کا یہ کہہ دینا کہ مجھے اطلاع نہیں پہنچ سکی اس کی کوئی وقعت نہیں ہوگی نہ قانوناً نہ شرعا.یہ سب لوگ مل کر جو فیصلہ

Page 472

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۶ جلد دوم کریں گے وہ تمام جماعت کے لئے قابل قبول ہوگا اور جماعت میں سے جومی سے جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ باغی ہوگا اور جب بھی انتخاب خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے میں اُس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا اور جو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہو گا وہ بڑا ہویا چھوٹا ہو ذلیل کیا جائے گا اور تباہ کیا جائے گا کیونکہ ایسا خلیفہ صرف اس لئے کھڑا ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرے کہ خلافت اسلامیہ ہمیشہ قائم رہے.پس چونکہ وہ قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کو پورا کرنے کے لئے کھڑا ہوگا اس لئے اُسے ڈرنا نہیں چاہیے.جب مجھے خلیفہ چنا گیا تھا تو سلسلہ کے بڑے بڑے لیڈ ر سارے مخالف ہو گئے تھے اور خزانہ میں کل اٹھارہ آنے تھے اب تم بتاؤ اٹھارہ آنے میں ہم تم کو ایک ناشتہ بھی دے سکتے ہیں ؟ پھر خدا تعالیٰ تم کو کھینچ کر لے آیا.اور یا تو یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر صرف بارہ سو آدمی جمع ہوئے تھے اور یا آج کی رپورٹ یہ ہے کہ ربوہ کے آدمیوں کو ملا کر اس وقت جلسہ مردانہ اور زنانہ میں پچپن ہزار تعداد ہے.آج رات کو ۴۳ ہزار مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا ہے.بارہ ہزار ربوہ والے ملالئے جائیں تو پچپن ہزار ہو 0 جاتا ہے.پس عورتوں اور مردوں کو ملا کر اس وقت ہماری تعداد ۵۵ ہزار ہے.اُس وقت بارہ سو تھی یہ پچپن ہزار کہاں سے آئے؟ خدا ہی لایا.پس میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہو جائے گا تو منان، وہاب اور پیغامی کیا چیز ہیں اگر دنیا کی حکومتیں بھی اُس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی ( نعر ہائے تکبیر ) جماعت احمدیہ کو حضرت خلیفہ اول کی اولاد سے ہر گز کوئی تعلق نہیں.جماعت احمدیہ کو خدا کی خلافت سے تعلق ہے اور وہ خدا کی خلافت کے آگے اور پیچھے لڑے گی اور دنیا میں کسی شریر کو جو کہ خلافت کے خلاف ہے خلافت کے قریب بھی نہیں آنے دے گی.

Page 473

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۷ جلد دوم اب یہ دیکھ لو ا بھی تم نے گواہیاں سن لی ہیں کہ عبدالوہاب احراریوں کو مل کر قادیان کی خبریں سنایا کرتا تھا اور پھر تم نے یہ بھی سن لیا ہے کہ کس طرح پیغامیوں کے ساتھ ان لوگوں کے تعلقات ہیں.سو اگر خدانخواستہ ان لوگوں کی تدبیر کامیاب ہو جائے تو اس کے معنی یہ تھے کہ بیالیس سال کی لڑائی کے بعد تم لوگ احراریوں اور پیغامیوں کے نیچے آ جاتے.تم بظاہر اس کو چھوٹی بات سمجھتے ہو لیکن یہ چھوٹی بات نہیں یہ ایک بہت بڑی بات ہے اگر خدانخواستہ ان کی سکیم کامیاب ہو جاتی تو جماعت احمد یہ مبائعین ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی اور اس کے لیڈر ہوتے مولوی صدر الدین اور عبد الرحمن مصری اور ان کے لیڈر ہو تے مولوی داؤد غزنوی اور عطاء اللہ شاہ بخاری.اب تم بتاؤ کہ مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری اور داؤ دغزنوی اگر تمہارے لیڈر ہو جائیں تو تمہارا دنیا میں کوئی ٹھکانہ رہ جائے ؟ تمہارا ٹھکا نہ تو تبھی رہتا ہے جب مبائعین میں سے خلیفہ ہوا اور قرآن مجید نے شرط لگائی ہے منظم کی یعنی وہ مبائعین میں سے ہونا چاہیے.اس پر کسی غیر مبائع یا احراری کا اثر نہیں ہونا چاہیے.اگر غیر مبائع کا اور احراری کا اثر ہو تو پھر وہ نہ مِنكُمُ ہو سکتا ہے نہ خلیفہ ہو سکتا ہے.پس ایک تو میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جب بھی وہ وقت آئے آخر انسان کے لئے کوئی دن آنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابھی میں نے حوالہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنی موت کی خبر دی اور فرمایا پریشان نہ ہو کیونکہ خدا تعالیٰ دوسری قدرت ظاہر کرنا چاہتا ہے.سو دوسری قدرت کا اگر تیسرا مظہر وہ ظاہر کرنا چاہے تو اس کو کون روک سکتا ہے.ہر انسان نے آخر مرنا ہے مگر میں نے بتایا ہے کہ شیطان نے بتا دیا ہے کہ ابھی اس کا سر نہیں کچلا گیا.وہ ابھی تمہارے اندر داخل ہونے کی امید رکھتا ہے.”پیغام صلح کی تائید اور محمد حسین چیمہ کا مضمون بتاتا ہے کہ ابھی مارے ہوئے سانپ کی دُم ہل رہی ہے.پس اُس کو مایوس کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ یہ نہ رکھا جائے کہ ملتان اور کراچی اور حیدر آباد اور کوئٹہ اور پشاور سب جگہ کے نمائندے جو پانچ سو کی تعداد سے زیادہ ہوتے ہیں وہ آئیں تو انتخاب ہو بلکہ صرف ناظروں اور وکیلوں اور مقررہ اشخاص کے مشورہ کے ساتھ اگر وہ حاضر ہوں خلیفہ کا انتخاب ہو گا جس کے بعد جماعت میں اعلان کر دیا

Page 474

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۸ جلد دوم جائے گا اور جماعت اُس شخص کی بیعت کرے گی.اس طرح وہ حکم بھی پورا ہو جائے گا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور وہ حکم بھی پورا ہو جائے گا کہ وہ ایسا مومنوں کے ہاتھ سے کرتا ہے.در حقیقت خلافت کوئی ڈنڈے کے ساتھ تو ہوتی نہیں ، مرضی سے ہوتی ہے اگر تم لوگ ایک شخص کو دیکھو کہ وہ خلاف قانون خلیفہ بن گیا ہے اور اس کے ساتھ نہ ہو تو آپ ہی اس کو نہ آمدن ہوگی نہ کام کر سکے گا ختم ہو جائے گا.اسی لئے یہ کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ چیز اپنے اختیار میں رکھی ہے لیکن بندوں کے توسط سے رکھی ہے اگر صحیح انتخاب نہیں ہو گا تو تم لوگ کہو گے کہ ہم تو نہیں مانتے.جو انتخاب کا طریق مقرر ہوا تھا اس پر عمل نہیں ہوا تو پھر وہ آپ ہی ہٹ جائے گا اور اگر خدا نے اُسے خلیفہ بنایا تو تم فوراً اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو جاؤ گے.جس طرح ۱۹۱۴ء میں رائے بدلنے پر مجبور ہو گئے تھے اور جوق در جوق دوڑتے ہوئے اس کے پاس آؤ گے اور اس کی بیعتیں کرو گے.مجھے صرف اتنا خیال ہے کہ شیطان کے لئے دروازہ نہ کھلا رہے.اس وقت شیطان نے حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں کو چنا ہے، جس طرح آدم کے وقت میں اُس نے درخت حیات کو چنا تھا.اُس وقت بھی شیطان نے کہا تھا کہ آدم ! میں تمہاری بھلائی کرنا چاہتا ہوں میں تم کو اس درخت سے کھانے کو کہتا ہوں کہ جس کے بعد تم کو وہ بادشاہت ملے گی جو کبھی خراب نہیں ہوگی اور ایسی زندگی ملے گی جو کبھی ختم نہیں ہوگی.سواب بھی لوگوں کو شیطان نے اسی طرح دھوکا دیا ہے کہ لو جی ! حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں کو ہم پیش کرتے ہیں گو آدم کو دھوکا لگنے کی وجہ موجود تھی تمہارے پاس کوئی وجہ نہیں کیونکہ حضرت خلیفہ اول کے بیٹے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹوں کو تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ ان کا دعوی یہی ہے کہ یہ اپنے خاندان میں خلافت رکھنا چاہتے ہیں.خلافت تو خدا اور جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں ہے اگر خدا اور جماعت احمدیہ خاندان بنو فارس میں خلافت رکھنے کا فیصلہ کریں تو یہ حضرت خلیفہ اول کے بیٹے کون ہیں جو اس میں دخل دیں.خلافت تو بہر حال خدا تعالیٰ اور جماعت احمدیہ کے اختیار میں ہے اور خدا اگر ساری جماعت کو اس طرف لے آئے گا تو پھر کسی کی طاقت نہیں کہ کھڑا ہو سکے.پس میں نے یہ رستہ بتا دیا ہے لیکن میں نے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے جو عیسائی طریقہ انتخاب پر غور

Page 475

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۹ جلد دوم کرے گی کیونکہ قرآن شریف نے فرمایا ہے کہ وقدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهِمْ جس طرح اس نے پہلوں کو خلیفہ بنایا تھا اسی طرح تم کو بنائے گا سو میں نے کہا عیسائی جس طرح انتخاب کرتے ہیں اس کو بھی معلوم کرو ہم نے اس کو دیکھا ہے گو پوری طرح تحقیق نہیں ہوئی وہ بہت سادہ طریق ہے.اس میں جو بڑے بڑے علماء ہیں ان کی ایک چھوٹی سی تعداد پوپ کا انتخاب کرتی ہے اور باقی عیسائی دنیا اُسے قبول کر لیتی ہے لیکن اس کمیٹی کی رپورٹ سے پہلے ہی میں نے چند قواعد تجویز کر دیئے ہیں جو اس سال کی مجلس شوری کے سامنے پیش کر دیئے جائیں گے تا کہ کسی شرارتی کے لئے شرارت کا موقع نہ رہے.یہ قواعد چونکہ ایک ریز ولیوشن کی صورت میں مجلس شوری کے سامنے علیحدہ پیش ہو نگے اس لئے اس ریزولیوشن کے شائع کرنے کی ضرورت نہیں.میں نے پُرانے علماء کی کتابیں پڑھیں تو اُن میں بھی یہی لکھا ہوا پایا ہے کہ تمام صحابہ اور خلفاء اور بڑے بڑے ممتاز فقیہہ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ خلافت ہوتی تو اجماع کے ساتھ ہے لیکن یہ وہ اجماع ہوتا ہے کہ يَتَيَسَّرَ اجْتِمَاعُهُمُ د جن ارباب حل و عقد کا جمع ہونا آسان ہو.یہ مراد نہیں کہ اتنا بڑا اجتماع ہو جائے کہ جمع ہی نہ ہو سکے اور خلافت ہی ختم ہو جائے بلکہ ایسے لوگوں کا اجتماع ہوگا جن کا جمع ہونا آسان ہو.سو میں نے ایسا ہی اجماع بنا دیا ہے جن کا جمع ہونا آسان ہے اور اگر ان میں سے کوئی نہ پہنچے تو میں نے کہا ہے کہ اس کی غلطی سمجھی جائے گی.انتخاب بہر حال تسلیم کیا جائے گا اور ہماری جماعت اس انتخاب کے پیچھے چلے گی.مگر جماعت کو میں یہ حکم نہیں دیتا بلکہ اسلام کا بتایا ہوا طریقہ بیان کر دیتا ہوں تا کہ وہ گمراہی سے بچ جائیں.ہاں جہاں میں نے خلیفہ کی تجویز بتائی ہے وہاں یہ بھی شریعت کا حکم ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی پرو پیگنڈا کیا جائے وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا یا جن لوگوں کے متعلق پرو پیگنڈا کیا جائے وہ خلیفہ نہیں ہو سکتے.یا جس کو خود تمنا ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کو وہ مقام نہ دیا جائے.تو حضرت خلیفہ اول کی موجودہ اولاد بلکہ بعض پوتوں تک نے چونکہ پرو پیگنڈا میں حصہ لیا ہے اس لئے حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں یا اُن کے پوتوں کا نام ایسے

Page 476

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۰ جلد دوم انتخاب میں ہرگز نہیں آسکے گا.ایک تو اس لئے کہ انہوں نے پروپیگینڈا کیا ہے اور دوسرے اس لئے کہ اس بنا پر اُن کو جماعت سے خارج کیا گیا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خواب بھی بتاتی ہے کہ اس خاندان میں صرف ایک ہی پھانک خلافت کی جانی ہے اور پیغام صلح نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اس سے مراد خلافت کی پھانک ہے.پس میں نفی کرتا ہوں حضرت خلیفہ اول کی اولاد کی اور ان کے پوتوں تک کی یا تمام ایسے لوگوں کی جن کی تائید میں پیغامی یا احراری ہوں یا جن کو جماعت مبائعین سے خارج کیا گیا ہو.اور اثبات کرتا ہوں منکم کے تحت آنے والوں کا یعنی جو خلافت کے قائل ہوں چاہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جسمانی ذریت ہوں یا روحانی ذریت ہوں.تمام علمائے سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی ذریت ہیں اور جسمانی ذریت تو ظاہر ہی ہوتی ہے ان کا نام خاص طور پر لینے کی ضرورت نہیں.یہ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے بیٹوں کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے.اب روحانی ذریت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دس لاکھ ہے اور جسمانی ذریت میں سے اس وقت صرف تین فرد زندہ ہیں ایک داماد کو شامل کیا جائے تو چار بن جاتے ہیں.اتنی بڑی جماعت کے لئے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ان میں سے کوئی خلیفہ ہو.اس کا نام اگر یہ رکھا جائے کہ میں اپنے فلاں بیٹے کو کرنا چاہتا ہوں تو ایسے قائل سے بڑا گدھا اور کون ہوسکتا ہے.میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذریت جسمانی کے چار افراد اور دس لاکھ اس وقت تک کی روحانی ذریت کو خلافت کا مستحق قرار دیتا ہوں ( جو ممکن ہے میرے مرنے تک دس کروڑ ہو جائے ) سو جو شخص کہتا ہے کہ اس دس کروڑ میں سے جو خلافت پر ایمان رکھتے ہوں کسی کو خلیفہ چن لو اُس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنے کسی بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے نہایت احمقانہ دعوی ہے.میں صرف یہ شرط کرتا ہوں کہ منكُمُ کے الفاظ کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی خلیفہ چنا جائے اور چونکہ حضرت خلیفہ اول کی نسل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ پیغامیوں کے ساتھ ہیں اور پیغامی ان کے ساتھ ہیں اور احراری بھی ان کے ساتھ ہیں اور غزنوی خاندان جو کہ سلسلہ کے ابتدائی دشمنوں میں سے ہے اُن کے ساتھ ہے اس لئے وہ منظم نہیں رہے ان میں

Page 477

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۱ جلد دوم سے کسی کا خلیفہ بننے کے لئے نام نہیں لیا جائے گا.اور یہ کہ دینا کہ ان میں سے خلیفہ نہیں ہو سکتا یہ اس بات کے خلاف نہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے سوال یہ ہے کہ جب خلیفہ خدا بناتا ہے تو ان کے منہ سے وہ باتیں جو خلافت کے خلاف ہیں کہلوائیں کس نے ؟ اگر خدا چاہتا کہ وہ خلیفہ بنیں تو ان کے منہ سے یہ باتیں کیوں کہلواتا ؟ اگر خدا چاہتا کہ وہ خلیفہ بنیں تو اُن کی یہ باتیں مجھ تک کیوں پہنچا دیتا ، جماعت تک کیوں پہنچا دیتا؟ یہ باتیں خدا کے اختیار میں ہیں اس لئے ان کے نہ ہونے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے اور جماعت احمد یہ مبائعین میں سے کسی کا خلیفہ ہونا بھی بتاتا ہے کہ خدا خلیفہ بناتا ہے.دونوں باتیں یہی ثابت 09 کرتی ہیں کہ خدا ہی خلیفہ بناتا ہے.بہر حال جو بھی خلیفہ ہو گا وہ مِنْكُم ہوگا.یعنی وہ خلافت احمدیہ کا قائل ہوگا اور جماعت مبائعین میں سے نکالا ہوا نہیں ہوگا.اور میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ جو بھی خلیفہ چنا جائے وہ کھڑے ہو کر یہ قسم کھائے کہ میں خلافت احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں خلافتِ احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور اگر میں بد نیتی سے کہہ رہا ہوں یا اگر میں دانستہ ایسا کرنے میں کوتاہی کروں تو خدا کی مجھ پر لعنت ہو.جب وہ یہ قسم کھالے گا تو پھر اس کی بیعت کی جائے گی اس سے پہلے نہیں کی جائے گی.اسی طرح منتخب کرنے والی جماعت میں سے ہر شخص حلفیہ اعلان کرے کہ میں خلافتِ احمدیہ کا قائل ہوں اور کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دونگا جو جماعت مبائعین میں سے خارج ہو یا اس کا تعلق غیر مبائعین یا غیر احمد یوں سے ثابت ہو.غرض پہلے مقررہ اشخاص اس کا انتخاب کریں گے اس کے بعد وہ یہ قسم کھائے گا کہ میں خلافت احمد یہ حقہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں ان کو جو خلافت احمدیہ کے خلاف ہیں جیسے پیغامی یا احراری وغیرہ باطل پر سمجھتا ہوں.آب ان لوگوں کو دیکھ لو.ان کے لئے کس طرح موقع تھا میں نے مری میں خطبہ پڑھا اور اس میں کہا کہ صراط مستقیم پر چلنے سے سب باتیں حل ہو جاتی ہیں.یہ لوگ بھی صراط مستقیم پر چلیں اور اس کا طریق یہ ہے کہ پیغامی میرے متعلق کہتے ہیں کہ یہ حضرت خلیفہ اول کی ہتک

Page 478

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۲ جلد دوم کر رہا ہے.یہ اعلان کر دیں کہ پیغامی جھوٹے ہیں.ہمارا پچھلا میں سالہ تجربہ ہے کہ پیغامی ہتک کرتے چلے آئے ہیں اور مبائعین نہیں کرتے رہے.مبائعین صرف دفاع کرتے رہے ہیں مگر باوجود اس کے ان کو توفیق نہیں ملی اور یوں معافی نامے چھاپ رہے ہیں.ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ اعلان کیا تو ہمارا اڈہ جو غیر مبائعین کا ہے اور ہمارا اڈہ جو احراریوں کا ہے وہ ٹوٹ جائے گا.سواگر اڈہ بنانے کی فکر نہ ہوتی تو کیوں نہ یہ اعلان کرتے مگر یہ اعلان کبھی نہیں کیا.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے سنایا کہ عبدالمنان نے اُن سے کہا ہم اس لئے لکھ کر نہیں بھیجتے کہ پھر جرح ہوگی کہ یہ لفظ کیوں نہیں لکھا وہ لفظ کیوں نہیں لکھا حالانکہ اگر دیانتداری ہے تو بیشک جرح ہو حرج کیا ہے.جو شخص حق کے اظہار میں جرح سے ڈرتا ہے تو اس کے صاف معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ حق کو چھپانا چاہتا ہے اور حق کے قائم ہونے کے مخالف ہے.غرض جب تک شوری میں معاملہ پیش ہونے کے بعد میں اور فیصلہ نہ کروں اوپر کا فیصلہ جاری رہے گا.تمہیں خوشی ہو کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت چلی تھی واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ تمہارے اندر بھی اُسی طرح چلے گی.مثلاً حضرت ابو بکر کے بعد حضرت عمر خلیفہ ہوئے.میرا نام عمر نہیں بلکہ محمود ہے مگر خدا کے الہام میں میرا نام فضل عمر رکھا گیا اور اُس نے مجھے دوسرا خلیفہ بنا دیا.جس کے معنی یہ تھے کہ یہ خدا ئی فعل تھا.خدا چاہتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خلافت بالکل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی خلافت کی طرح ہو.میں جب خلیفہ ہوا ہوں تو ہزارہ سے ایک شخص آیا اُس نے کہا کہ میں نے خواب دیکھی تھی کہ میں حضرت عمر کی بیعت کر رہا ہوں تو جب میں آیا تو آپ کی شکل مجھے نظر آئی اور دوسرے میں نے حضرت عمرؓ کو خواب میں دیکھا کہ اُن کے بائیں طرف سر پر ایک داغ تھا.میں جب انتظار کرتا ہوا کھڑا رہا.آپ نے سر کھجلایا اور پگڑی اُٹھائی تو دیکھا کہ وہ داغ موجود تھا اس لئے میں آپ کی بیعت کرتا ہوں.پھر ہم نے تاریخیں نکالیں تو تاریخوں میں بھی مل گیا کہ حضرت عمرؓ کو بائیں طرف خارش ہوئی تھی اور سر میں داغ پڑ گیا تھا سو نام کی تشبیہ بھی ہوگئی اور شکل کی تشبیہ بھی ہو گئی.مگر ایک تشبیہ نئی نکلی ہے وہ میں تمہیں بتا تا

Page 479

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۳ جلد دوم ہوں اس سے تم خوش ہو جاؤ گے.وہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب اپنی عمر کا آخری حج کیا تو اُس وقت آپ کو یہ اطلاع ملی کہ کسی نے کہا ہے حضرت ابو بکر کی خلافت تو اچانک ہو گئی تھی یعنی حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبید نے آپ کی بیعت کر لی تھی.پس صرف ایک یا دو بیعت کر لیں تو کافی ہو جاتا ہے اور وہ شخص خلیفہ ہو جاتا ہے اور ہمیں خدا کی قسم اگر حضرت عمر فوت ہو گئے تو ہم صرف فلاں شخص کی بیعت کریں گے اور کسی کی نہیں کریں گے.2 جس طرح غلام رسول نمبر ۳۵ اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ خلیفہ ثانی فوت ہو گئے تو ہم صرف عبدالمنان کی بیعت کریں گے.دیکھ لو یہ بھی حضرت عمرؓ سے مشابہت ہو گئی.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی ایک شخص نے قسم کھائی تھی کہ ہم اور کسی کی بیعت نہیں کریں گے فلاں شخص کی کریں گے.اس وقت بھی غلام رسول ۳۵ اور اس کے بعض ساتھیوں نے یہی کہا ہے.جب حضرت عمرؓ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے یہ نہیں کیا جیسے مولوی علی محمد اجمیری نے شائع کیا تھا کہ آپ پانچ وکیلوں کا ایک کمیشن مقرر کریں جو تحقیقات کرے کہ بات کونسی سچی ہے.حضرت عمرؓ نے ایک وکیل کا بھی کمیشن مقر ر نہیں کیا اور کہا میں کھڑے ہو کر اس کی تردید کروں گا.بڑے بڑے صحابہ اُن کے پاس پہنچے اور انہوں نے کہا.حضور ! یہ حج کا وقت ہے اور چاروں طرف سے لوگ آئے ہوئے ہیں ان میں بہت سے جاہل بھی ہیں ان کے سامنے اگر آپ بیان کریں گے تو نہ معلوم کیا کیا باتیں باہر مشہور کریں گے جب مدینہ میں جائیں تو پھر بیان کریں.چنانچہ جب حضرت عمرؓ حج سے واپس آئے تو مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہو کر کہا کہ اے لوگو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں سے کسی نے کہا ہے کہ ابو بکر کی بیعت تو ایک اچانک واقعہ تھا اب اگر عمر مر جائے تو ہم سوائے فلاں شخص کے کسی کی بیعت نہیں کریں گے پس کان کھول کر سن لو کہ جس نے یہ کہا تھا کہ ابوبکر کی بیعت اچانک ہو گئی تھی اُس نے ٹھیک کہا ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس جلد بازی کے فعل کے نتیجہ سے بچا لیا اور یہ بھی یاد رکھو کہ تم میں سے کوئی شخص ابو بکڑ کی مانند نہیں جس کی طرف لوگ ڈور ڈور سے دین اور روحانیت سیکھنے کے لئے آتے تھے.پس اس وہم میں نہ پڑو کہ ایک دو آدمیوں کی بیعت سے بیعت ہو جاتی ہے اور آدمی خلیفہ بن جاتا ہے کیونکہ اگر جمہور

Page 480

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۴ جلد دوم مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی شخص نے کسی کی بیعت کی تو نہ بیعت کرنے والے کی بیعت ہوگی اور نہ وہ شخص جس کی بیعت کی گئی ہے وہ خلیفہ ہو جائے گا بلکہ دونوں اس بات کا خطرہ محسوس کریں گے کہ سب مسلمان مل کر ان کا مقابلہ کریں اور انکا کیا کرایا اکارت ہو جائے گا.حالانکہ ابو بکر کی بیعت صرف اس خطرہ سے کی گئی تھی کہ مہاجرین اور انصار میں فتنہ پیدا نہ ہو جائے مگر اس کو خدا تعالیٰ نے قائم کر دیا.پس وہ خدا کا فعل تھا نہ کہ اس سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ کوئی ایک دو شخص مل کر کسی کو خلیفہ بنا سکتے ہیں.پھر علامہ رشید رضا نے احادیث اور اقوال فقہاء سے اپنی کتاب ”الخلافہ “ میں لکھا ہے کہ خلیفہ وہی ہوتا ہے جس کو مسلمان مشورہ سے اور کثرتِ رائے سے مقرر کریں.مگر آگے چل کر وہ علامہ سعد الدین تفتازانی مصنف شرح المقاصد اور علامہ نووی وغیرہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت کا جمع ہونا وقت پر مشکل ہوتا ہے.پس اگر جماعت کے چند بڑے آدمی جن کا جماعت میں رسوخ ہو کسی آدمی کی خلافت کا فیصلہ کریں اور لوگ اس کے پیچھے چل پڑیں تو ایسے لوگوں کا اجتماع سمجھا جائے گا اور سب مسلمانوں کا اجتماع سمجھا جائے گا اور یہ ضروری نہیں ہوگا کہ دنیا کے سب مسلمان اکٹھے ہوں اور پھر فیصلہ کر یں.اسی بناء پر میں نے خلافت کے متعلق مذکورہ بالا قاعدہ بنایا ہے جس پر پچھلے علماء بھی متفق ہیں.محد ثین بھی اور خلفاء بھی متفق ہیں.پس وہ فیصلہ میرا نہیں بلکہ خلفائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور صحابہ کرام کا ہے اور تمام علمائے امت کا ہے جن میں حنفی شافعی وہابی سب شامل ہیں.وہ کہتے ہیں کہ بڑے آدمی سے مراد یہ ہے کہ جو بڑے بڑے کاموں پر مقرر ہوں جیسے ہمارے ناظر ہیں اور وکیل ہیں.اور قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مومنوں کی جماعت کو مخاطب کیا گیا ہے وہاں مراد ایسے ہی لوگوں کی جماعت ہے نہ کہ ہر فرد بشر.یہ علامہ رشید کا قول ہے کہ وہاں بھی یہ مراد نہیں کہ ہر فرد بشر بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کے بڑے بڑے آدمی.شام پس صحابہؓ ، احادیث رسول اور فقہائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ خلافت مسلمانوں کے اتفاق سے ہوتی ہے مگر یہ نہیں کہ ہر مسلمان کے اتفاق سے بلکہ ان مسلمانوں کے اتفاق سے جو مسلمانوں میں بڑا عہدہ رکھتے ہوں یا رسوخ رکھتے ہوں اور اگر ان لوگوں کے سوا چند

Page 481

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۵ جلد دوم او باش مل کر کسی کی بیعت کر لیں تو نہ وہ لوگ مبائع کہلائیں گے اور نہ جس کی بیعت کی گئی ہے وہ خلیفہ کہلائے گا.اے اب خلافت حقہ اسلامیہ کے متعلق میں قرآنی اور احادیثی تعلیم بھی بتا چکا ہوں اور وہ قواعد بھی بیان کر چکا ہوں جو آئندہ سلسلہ میں خلافت کے انتخاب کے لئے جاری ہونگے.چونکہ انسانی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا نہ معلوم میں اُس وقت تک رہوں یا نہ رہوں اس لئے میں نے اوپر کا قاعدہ تجویز کر دیا ہے تا کہ جماعت فتنوں سے محفوظ رہے.“ النور : ۵۶ (انوار العلوم جلد ۲۶ صفحه ۲۲ تا ۳۹ ) کنز العمال جلد ا ا صفحه ۲۵۹ حدیث نمبر ۳۱۴۴۷ مطبوعہ دمشق ۲۰۱۲ء مسند احمد بن حنبل حدیث نعمان بن بشیر صفحه ۱۳۲۳ حدیث نمبر ۱۸۵۹۶ مطبوعه لبنان ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۲۳۲ ( طبع اوّل) الوصیت صفحہ ۷.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۵ الوصیت صفحہ ۸.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶ ک بدر ۲ جون ۱۹۰۸ء رساله الخلافة مصنفہ شیخ محمد رشید رضا مصری صفحه ۱۹ مطبوعہ قاہرہ مصر تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحه ۴۹ ، ۵۰ فصل في مبايعته مطبع لکھنو ۱۹۲۵ء رسالة الخلافة مصنفہ شیخ محمد رشید رضا مصری صفحه ۱۴، ۱۹ مطبوعه قاهره مصر رسالة الخلافة مصنفہ شیخ محمد رشید رضا مصری صفحه ۹ تا ۱۹ مطبوعہ قاہرہ

Page 482

Page 483

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۷ جلد دوم تم نَسُلاً بَعْدَ نَسُل اپنے آپ کو نظام خلافت سے وابستہ رکھو مجلس خدام الاحمدیہ کے اٹھارویں سالانہ اجتماع کے موقع پر۲۳/اکتوبر ۱۹۵۹ء کو افتتاحی اجلاس میں محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نائب صدر خدام الاحد به نے حضرت خلیفتہ لمسیح الثانی کا جو نہایت ایمان افروز اور روح پرور پیغام پڑھ کر سنایا اور ۲۴ ا کتوبر کو خود حضور نے بھی پڑھ کر سنایا وہ درج ذیل ہے.أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ خدام الاحمدیہ کے نوجوانوں کو میں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انسان دنیا میں پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں لیکن قو میں اگر چاہیں تو وہ ہمیشہ کیلئے ز سکتی ہیں پس تمہیں اپنی قومی حیات کے قیام اور استحکام کے لئے ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے اور نَسُلاً بَعْدَ نَسلِ اسلام اور احمدیت کو پھیلانے کی جد و جہد کرتے چلے جانا چاہیے.اگر مسیح موسوی کے پیرو آج ساری دنیا پر پھیل گئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسیح محمدی جو اپنی تمام شان میں مسیح موسوی سے افضل ہے اس کی جماعت ساری دنیا میں نہ پھیل جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اس مقصد کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا بھی کی ہے اور فرمایا

Page 484

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۸ جلد دوم ہے کہ:.پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعا اور خواہش کو پورا کرنے کیلئے جد و جہد کرنا آپ لوگوں میں سے ہر ایک پر فرض ہے اور آپ لوگوں کو یہ جد وجہد ہمیشہ جاری رکھنی چاہیے یہاں تک کہ قیامت آجائے.یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ قیامت تک جد و جہد کرنا صرف ایک خیالی بات ہے بلکہ حقیقتا یہ آپ لوگوں کا فرض ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر عائد کیا گیا ہے کہ قیامت تک آپ لوگ اسلام اور احمدیت کا جھنڈا بلند رکھیں.یہاں تک کہ دنیا میں اسلام اور احمدیت عیسائیت سے بہت زیادہ پھیل جائے اور تمام دنیا کی بادشاہتیں اسلام اور احمدیت کے تابع ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ مجھے ایک دفعہ عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور جن میں سے بعض ہندوستان کے تھے ، بعض عرب کے ، بعض فارس کے ، بعض شام کے بعض روم کے اور بعض دوسرے ممالک کے اور مجھے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے.اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور ان پیشگوئیوں کے مطابق روس، جرمنی ، امریکہ اور انگلستان کے بادشاہ یا پریذیڈنٹ احمدی ہو جائیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے گی اور اسلام کے مقابلہ میں باقی تمام مذاہب بے حقیقت ہو کر رہ جائیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آجکل دنیا کے اکثر ممالک میں بادشاہتیں ختم ہو چکی ہیں مگر پریذیڈنٹ بھی بادشاہوں کے ہی قائمقام ہیں پس اگر مختلف ملکوں کے پریذیڈنٹ ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں تو یہ پیشگوئی پوری ہو جاتی ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ متواتر اور مسلسل جد و جہد کی جائے اور تبلیغ اسلام کا کام ہمیشہ جاری رکھا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوح بھی قراد دیا گیا ہے اور حضرت نوع کی عمر جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے ساڑھے نو سو سال تھی جو درحقیقت ان کے سلسلہ کی عمر تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز تھے

Page 485

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۹ جلد دوم جو تمام نبیوں سے افضل تھے اور حضرت نوح بھی ان میں شامل تھے پس اگر نوح کو ساڑھے نوسو سال عمر ملی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز اور آپ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو ساڑھے نو ہزار سال عمر ملنی چاہیے اور اس عرصہ تک ہماری جماعت کو اپنی تبلیغی کوششیں وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جانا چاہیے.میں اس موقع پر وکالت تبشیر کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بیرونی مشنوں کی رپورٹیں با قاعدگی کے ساتھ شائع کیا کریں تا کہ جماعت کو یہ پتہ لگتا رہے کہ یورپ اور امریکہ میں اسلام کی اشاعت کے لئے کیا کیا کوششیں ہو رہی ہیں اور نوجوانوں کے دلوں میں اسلام کیلئے زندگیاں وقف کرنے کا شوق پیدا ہو.مگر جہاں یورپ اور امریکہ میں تبلیغ اسلام ضروری ہے وہاں پاکستان اور ہندوستان میں اصلاح و ارشاد کے کام کو وسیع کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے جس سے ہمیں کبھی غفلت اختیار نہیں کرنی چاہیے.دنیا میں کوئی درخت سرسبز نہیں ہو سکتا جس کی جڑیں مضبوط نہ ہوں پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم پاکستان اور ہندوستان میں بھی جماعت کو مضبوط کرنے کی کوششیں کریں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال ایک ایسے درخت سے دی ہے جس کا تنا مضبوط ہو اور اس کے نتیجے میں اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں یعنی ایک طرف تو سچے مذہب کے پیرو اپنی کثرت تعداد کے لحاظ سے ساری دنیا میں پھیل جائیں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ اس کے ماننے والوں کو اتنی برکت دے کہ آسمان تک ان کی شاخیں پہنچ جائیں یعنی ان کی دعائیں کثرت کے ساتھ قبول ہونے لگیں اور ان پر آسمانی انوار اور برکات کا نزول ہو.یہی فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ لے کے معنی ہیں.کیونکہ جو شخص آسمان پر جائے گا وہ خدا تعالیٰ کے قریب ہو جائے گا اور چونکہ خدا تعالیٰ کا کوئی جسمانی وجود نہیں اس لئے اس کے قریب ہونے کے یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کی دعائیں سنے گا.حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ مومن جب رات کو تہجد کے وقت دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کی قبولیت کیلئے آسمان سے اتر آتا ہے.پس ضروری ہے کہ تمام جماعت کے اندر ایسا اخلاص پیدا ہو کہ اس کی دعائیں

Page 486

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۰ جلد دوم خدا تعالیٰ سننے لگ جائے اور پاتال تک اس کی جڑیں چلی جائیں اور دنیا کا کوئی حصہ ایسا نہ رہے جس میں احمدی جماعت مضبوط نہ ہو اور احمد کی جماعت کا کوئی حصہ ایسا نہ ہو جس کی دعائیں خدا تعالیٰ کثرت کے ساتھ قبول نہ کرے.پس تبلیغ بھی کرو اور دعا ئیں بھی کرو تا کہ خدا تعالیٰ احمدیت کو غیر معمولی ترقی عطا فرمائے.سکھوں کو دیکھو ان کا بانی نبی نہیں تھا مگر پھر بھی وہ بڑے پھیل گئے اور اب بھی ان میں اتنا جوش ہے کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر لڑنے مرنے کیلئے تیار رہتے ہیں.تمہارا بانی تو نبی تھا اور اپنی تمام شان میں مسیح موسوٹی سے بڑھ کر تھا پھر اگر مسیح موسوی کی امت ساری دنیا میں پھیل گئی ہے تو مسیح محمدی جو ان سے بڑے تھے ان کی جماعت کیوں ساری دنیا میں نہیں پھیل سکتی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق یہ بھی فرمایا کہ:.اک شجر ہوں جس کو داؤ دی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکارت اور جالوت اُس شخص کو کہتے ہیں جو فسادی ہو اور امن عامہ کو برباد کر نے والا ہو.پس اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ دنیا میں امن قائم فرمائے گا اور ہر قسم کے فتنہ وفساد اور شرارت کا سد باب کر دے گا.پس تبلیغ اسلام کو ہمیشہ جاری رکھو اور نظام خلافت سے اپنے آپ کو پورے اخلاص کے ساتھ وابستہ رکھو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ :.میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجو د ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.۵.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے یہ بھی لکھا ہے کہ :.تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا 66 سوتم قیامت تک خلافت کے ساتھ وابستہ رہوتا کہ قیامت تک خدا تعالیٰ کے تم پر بڑے

Page 487

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۱ جلد دوم بڑے فضل نازل ہوتے رہیں.حضرت مسیح ناصری سے آپ کا مسیح بہت بڑا تھا مگر عیسائیوں میں اب تک پوپ جو پطرس کا خلیفہ کہلاتا ہے چلا آ رہا ہے اور یورپ کی حکومتیں بھی اس سے ڈرتی ہیں.نپولین جیسا بادشاہ ایک دفعہ یوپ کے سامنے گیا اور وہ گاڑی میں بیٹھنے لگا تو اُس وقت قاعدہ کے مطابق پوپ کو مقدم رکھنا ضروری تھا مگر نپولین نے یہ ہوشیاری کی کہ وہ دوسری طرف سے اُسی وقت اندر جا کر بیٹھ گیا جس وقت پوپ بیٹھا تھا اور اِس طرح اُس نے چاہا کہ وہ پوپ کے برابر ہو جائے.اگر عیسائیوں نے اپنی مردہ خلافت کو اب تک جاری رکھا ہوا ہے تو آپ لوگ اپنی زندہ خلافت کو کیوں قیامت تک جاری نہیں رکھ سکتے.بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ الناس کے یعنی قیامت ایسے لوگوں پر ہی آئے گی جو اشرارہوں گے اختیار نہیں ہوں گے.مگر آپ لوگوں کی ترقی چونکہ خدائی پیشگوئیوں کے ماتحت ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو خدا تعالیٰ نے خَیرُ الْأُمَمِ قرار دیا ہے اس لئے اگر آپ قیامت تک بھی چلے جائیں گے تو خدا تعالیٰ آپ کو نیک ہی رکھے گا اور اخیار میں ہی شامل فرمائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے ہیں کہ ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رُسُل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے ^ مگر ضروری ہے کہ اس کیلئے دعائیں کی جائیں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں ہمیشہ صالح لوگ پیدا کرتا رہے اور کبھی وہ زمانہ نہ آئے کہ ہماری جماعت صالحین سے خالی ہو یا صالحین کی ہماری جماعت میں قلت ہو بلکہ ہمیشہ ہماری جماعت میں صالحین کی اکثریت ہوجن کی دعائیں کثرت کے ساتھ قبول ہوتی ہوں اور جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا وجود اس دنیا میں بھی ظاہر ہو.میں اس وقت تمام خدام سے تبلیغ اسلام کے متعلق ایک عہد لینا چاہتا ہوں تمام خدام کھڑے ہو جائیں اور اس عہد کو دُہرائیں.اَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُواْ ولُهُ

Page 488

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۲ جلد دوم ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کیلئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فرض کی تکمیل کیلئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول کے لئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کیلئے آخر دم تک جد و جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولا د کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما - اللَّهُمَّ آمِينَ - اَللَّهُمَّ آمِينَ - اللَّهُمَّ آمِينَ یہ عہد جو اس وقت آپ لوگوں نے کیا ہے متواتر چار صدیوں بلکہ چار ہزار سال تک جماعت کے نوجوانوں سے لیتے چلے جائیں اور جب تمہاری نئی نسل تیار ہو جائے تو پھر اسے کہیں کہ وہ اس عہد کو اپنے سامنے رکھے اور ہمیشہ اسے دُہراتی چلی جائے اور پھر وہ نسل یہ عہد اپنی تیسری نسل کے سپر کر دے اور اس طرح ہر نسل اپنی اگلی نسل کو اس کی تاکید کرتی چلی جائے.اسی طرح بیرونی جماعتوں میں جو جلسے ہوا کریں ان میں بھی مقامی جماعتیں خواہ خدام کی ہوں یا انصار کی یہی عہد دُہرایا کریں یہاں تک کہ دنیا میں احمدیت کا غلبہ ہو جائے اور اسلام اتنا ترقی کرے کہ دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل جائے.مجھے بھی ایک دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے رویا میں دکھایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا نور ایک سفید پانی کی شکل میں دنیا میں پھیلنا شروع ہوا ہے یہاں تک کہ پھیلتے پھیلتے وہ دنیا کے گوشے گوشے اور اس کے کونے کونے تک پہنچ گیا.اُس وقت میں نے بڑے زور سے کہا کہ احمدیوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتے ہوئے ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان

Page 489

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۳ جلد دوم یہ نہیں کہے گا کہ اے میرے رب ! اے میرے رب ! تو نے مجھے کیوں پیاسا چھوڑ دیا بلکہ وہ یہ کہے گا کہ اے میرے رب ! اے میرے رب ! تو نے مجھے سیراب کر دیا یہاں تک کہ تیرے فیضان کا پانی میرے دل کے کناروں سے اُچھل کر بہنے لگا.پس اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو اور ہمیشہ دین کے پھیلانے کے لئے قربانیاں کرتے چلے جاؤ.مگر یا درکھو کہ قومی ترقی میں سب سے بڑی روک یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ افراد کے دلوں میں روپیہ کا لالچ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ طوعی قربانیوں سے محروم ہو جاتے ہیں تمہارا فرض ہے کہ تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو.وہ تمہاری غیب سے مدد کرے گا اور تمہاری مشکلات کو دور کر دے گا بلکہ تمہارے لئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ سامان بھی کیا ہوا ہے کہ اُس نے ایک انجمن بنادی ہے جو تمام مبلغین کو با قاعدہ خرچ دیتی ہے مگر گزشتہ زمانوں میں جو مبلغین ہوا کرتے تھے اُن کو کوئی تنخواہ نہیں دیتا تھا بعض دفعہ ہندوستان میں ایران سے دو دوسو مبلغ آیا ہے مگر وہ سارے کے سارے اپنے اخراجات خود برداشت کرتے تھے اور کسی دوسرے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے تھے.پس اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت بجالا ؤ اور لالچ اور حرص کے جذبات سے بالا رہتے ہوئے ساری دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند کرے کی کوشش کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ :.دو مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہوگی جو ایمانداری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے.بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپر دایسے مال کئے جائیں وہ کثرتِ مال کو دیکھ کر ٹھو کر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار نہ کریں.سو میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں پس لالچ اور حرص کو کبھی اپنے قریب بھی مت آنے دو اور ہمیشہ احمدیت کو پھیلانے کی جد و جہد کرتے رہو.

Page 490

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۴ جلد دوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مصلح موعود کے متعلق الہی بشارات کا ذکر کہتے ہوئے فرمایا ہے کہ:.بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہوگا ایک دن محبوب میرا کروں گا ڈور اس مہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الأَعادِي.١٠ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں غیر معمولی تغیرات پیدا فرمائے گا جن کے نتیجہ میں ہماری جماعت اتنی ترقی کرے گی کہ ساری دنیا کے لوگ اس میں داخل ہونے شروع ہو جائیں گے.اسی طرح اس شہادت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دشمنوں کو رسوا اور نا کام کرے گا اور ہمیں کامیابی اور غلبہ عطا فر مائے گا.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ ہمیشہ اسلام کے غلبہ اور احمدیت کی ترقی کیلئے آپ کو رات دن کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے یہاں تک کہ ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے اور کیا عیسائی اور کیا یہودی اور کیا دوسرے مذاہب کے پیرو سب کے سب احمدی ہو جائیں.لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا تمہیں کم از کم پاکستان اور ہندوستان میں تو اپنے آپ کو پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کرشن کا اوتار بھی قرار دیا گیا ہے اور آپ کا الہام ہے کہ :.وو ہے کرشن رو در گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے 11 پس اگر دنیا نہیں تو کم سے کم ہندوستان کے ہندؤوں کو تو اسلام اور احمدیت میں داخل کرلو تا کہ أَصْلُهَا ثَابِت کی مثال تم ہر صادق آجائے اور فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ بھی اس کے نتیجے میں پیدا ہو جائے.آجکل ہندوستان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگوں کو احمدیت کی

Page 491

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۵ جلد دوم طرف بڑی رغبت پیدا ہو رہی ہے اور بڑے بڑے مخالف بھی احمدیت کے لٹریچر سے متاثر ہو رہے ہیں اور زیادہ اثر ان پر ہماری تفسیر کی وجہ سے ہوا ہے اگر اللہ تعالیٰ اس اثر کو بڑھا دے تو لاکھوں لوگ ہماری جماعت میں داخل ہو سکتے ہیں.بے شک ہم میں کوئی طاقت نہیں لیکن ہمارے خدا میں بہت بڑی طاقت ہے پس اُسی سے دعائیں کرو اور ہمیشہ اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے تمام مذاہب کے جھنڈوں سے بلند رکھنے کی کوشش کرو.“ 66 ( الفضل ۲۸ /اکتوبر ۱۹۵۹ء) براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۲۹ ایڈیشن ۲۰۰۸ء ابراهیم ۲۵ بخاری کتاب التهجد باب الدعاء والصلواة من آخر الليل صفحه ۱۸۳ حدیث نمبر ۱۱۴۵ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفه ۱۳۳ ایڈیشن ۲۰۰۸ء الوصیت صفحه ۸ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶ ایڈیشن ۲۰۰۸ء د الوصیت صفحہ کے روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵ ایڈیشن ۲۰۰۸ء ا مسلم كتاب الفتن باب قرب الساعة صفحه ۱۲۷۹ حدیث نمبر۷۴۰۲ مطبوعہ ریاض ۲۰۰۰ء الطبعة الثانية آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۶.ایڈیشن ۲۰۰۸ء روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۹ ایڈیشن ۲۰۰۸ء در شمشین ارد و صفحه ۴۵ تذکره صفحه ۳۱۲.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء

Page 492

Page 493

خلافة على منهاج النبوة جلد دوم احباب جماعت کے نام ضروری پیغام ( فرموده ۷ امئی ۱۹۵۹ء) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ہم دوسرے انسانوں سے الگ قسم کے انسان نہیں تھے مگر اللہ تعالی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے خبر دی کہ مسیح موعود شا ہی خاندان میں پیدا ہوگا اور اس کے ذریعہ سے پھر اسلامی بادشاہت قائم ہوگی اس کی وجہ سے باوجو د نہایت نالائق ہونے کے ہم نے ایک لمبی سکھ کی زندگی بسر کی اور اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے مطابق شاہی خاندان میں پیدا ہوئے.ہماری اس میں کوئی خوبی نہیں تھی ہم ذلیل تھے اس نے ہمیں دین کا بادشاہ بنا دیا ہم کمزور تھے ہمیں اس نے طاقتور کر دیا اور اسلام کی آئندہ ترقیوں کو ہم سے وابستہ کر دیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے طفیل ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائیں.یہ وہ مشکل کام تھا جس کو بڑے بڑے بادشاہ نہ کر سکے لیکن خدا تعالی نے ہم غریبوں اور بے بسوں کے ذریعہ سے یہ کام کروا دیا اور اس بات کو سچا کر دکھایا کہ سُبحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَّا عَادِي ( یعنی پاک ہے وہ خدا جس نے اسلام کے دشمنوں کو ذلیل کر دیا ) مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک اسلام کو برتری بخشتا ر ہے گا اور مجھے امید ہے کہ میری اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہمیشہ اسلام کے جھنڈے کو اونچا کرتی رہے گی اور اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی قربانی کے ذریعے سے اسلام کے جھنڈے کو ہمیشہ اونچار کھے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 494

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۸ جلد دوم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گی.میں اس دعا میں ہر احمدی کو شامل کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو اور ان کو اس مشن کے پورا کرنے کی توفیق دے وہ کمزور ہیں لیکن ان کا خدا ان کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہوا سے انسانوں کی طاقت کا کوئی ڈر نہیں ہوتا.دنیا کی بادشاہتیں ان کے ہاتھ چومیں گی اور دنیا کی حکومتیں ان کے آگے گریں گی.بشرطیکہ نبیوں کے سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق یہ لوگ نہ بھولیں اور اسلام کے جھنڈے کو اونچا ر کھنے کی کوشش کرتے رہیں.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو ہمیشہ ان کی مدد کر تا رہے اور ہمیشہ ان کو سچا راستہ دکھاتا رہے.بے شک وہ کمزور ہیں تعداد کے لحاظ سے بھی اور روپے کے لحاظ سے بھی اور علم کے لحاظ سے بھی لیکن اگر وہ خدائے جبار کا دامن مضبوطی سے پکڑیں گے تو خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں ان کے حق میں پوری ہونگی اور دین اسلام کے غلبہ کے ساتھ ان کو بھی غلبہ ملے گا.اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی.خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے اور قیامت کے دن نہ وہ شرمندہ ہوں نہ اُن کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرمندہ ہوں.نہ خدا تعالیٰ شرمندہ ہو کہ اس نے ایسی نالائق جماعت کو کیوں چنا یہ خدا تعالیٰ کا لگایا ہوا آخری پودا ہے جو اس پودے کی آبیاری کرے گا خدا تعالیٰ قیامت تک اس کے بیج بڑھاتا جائیگا اور وہ دونوں جہاں میں عزت پائے گا.إِنْشَاءَ اللَّهُ تَعَالَى اے عزیز و ! ۱۹۱۴ء میں خدا تعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کا بوجھ مجھ پر رکھا تھا اور میری پیدائش سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ میری خبر دی تھی میں تو ایک حقیر اور ذلیل کیڑا ہوں.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے مجھے نواز ا اور میرے ذریعہ سے اسلام کو دنیا میں قائم کیا جس خدا نے میرے جیسے حقیر انسان کے ذریعہ سے دنیا میں اسلام کو قائم کیا میں اسی خدائے قدوس کا دامن پکڑ کر اس سے التجا کرتا ہوں کہ وہ اسلام کو برتری بخشے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اگلے جہان میں ساری دنیا کے سردار ہیں اس جہان میں بھی ساری دنیا کا سردار بنائے بلکہ ان کے خدام کو بھی ساری دنیا کا بادشاہ بنائے مگر نیکی اور تقویٰ کے ساتھ نہ کہ ظلم کے ساتھ ، تو حید دنیا سے غائب ہے خدا کرے کہ پھر

Page 495

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۹ جلد دوم تو حید کا پرچم اونچا ہو جائے اور جس طرح خدا غالب ہے اسی طرح اس کا جھنڈا بھی دنیا میں غالب رہے اور اسلام اور احمدیت دنیا میں توحید اور تقویٰ اور اسلام کی عظمت پھر دنیا میں قائم کر دیں اور قیامت تک قائم رکھتے چلے جائیں یہاں تک کہ وہ وقت آ جائے کہ خدا کے فرشتے آسمان سے نازل ہو کر خدا کے بندوں کی روحوں کو بلند کر کے آسمان پر لے جائیں اور ان میں ایک ایسا مضبوط رشتہ قائم کر دیں جو ابد تک نہ ٹوٹے.آمین ثم آمین بادشاہت سب خدا کا حق ہے مگر افسوس ہے کہ انسان نے اپنی جھوٹی طاقت کے گھمنڈ میں اس بادشاہت کو اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے اور خدا کے مسکین بندوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے.خدا تعالیٰ اس غلامی کی زنجیروں کو تو ڑ دے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد اور مسیح موعود علیہ السلام کی اولا د کو نیکی پر ہمیشہ قائم رکھے اور اعتدال کے راستہ سے پھرنے نہ دے.اس سے یہ بات بعید نہیں گو انسان کی نظر میں یہ بات بڑی مشکل معلوم ہوتی ہے.میں اس کے بندوں کی باگ اسی کے ہاتھ میں دیتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ ان کا خیر خواہ ثابت ہوگا اور قریب کی قیامت بلکہ دور کی قیامتوں کے موقع پر سچے مسلمانوں کی سرخروئی اور اعزاز کا موجب ہوگا.میں اپنے لڑکوں ،لڑکیوں اور بیویوں کو بھی اس کے سپرد کرتا ہوں میری نرینہ اولا د موجود ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سوا انسان کچھ نہیں کر سکتا اس لئے میں اولا د در اولاد اور بیویوں اور ان کے وارثوں کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتا ہوں جس کی حوالگی سے زیادہ مضبوط حوالگی کوئی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام تھا سپر دم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را ہم نے اس الہام کی سچائی کو ا ۵ سال تک آزمایا ہے اور خدا تعالیٰ سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ دنیا کے آخر تک اس الہام کی سچائی کو ظاہر کرتا رہے گا.اس کا کلام ہمیشہ سچا ہی ثابت ہوتا رہے گا.اصل عزت وہی ہے جو مرنے کے بعد انسان کو ملے گی لیکن پھر بھی اس دنیا میں نیکی کا پیج قائم رکھنے سے انسان دعاؤں کا مستحق بن جاتا ہے اور اپنے پرائے اس کی بلندی کیلئے دعائیں کرتے رہتے ہیں.یہ خوبی کا مقام بھلا یا نہیں جاسکتا اور میں اپنے خاندان کے

Page 496

خلافة على منهاج النبوة ۴۸۰ جلد دوم مردوں عورتوں کیلئے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو یہ مقام ہمیشہ عطا ر کھے اور اسی طرح میرے بھائیوں اور بہنوں کی اولا د کو بھی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی پیدا نہیں ہوا نہ آگے پیدا ہو گا آپ کو خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں اور اگلے جہان میں بھی سردار مقرر کیا ہے خدا کرے آپ کی.سرداری تا ابد قائم رہے اور ہم قیامت کے دن درود پڑھتے ہوئے آپ کے نشان والا جھنڈا لے کر آپ کے سامنے حاضر ہوں اور اپنے خدا سے بھی کہیں کہ اے خدا تو نے جس انسان کی عزت کو اپنی عزت قرار دیا تھا ہم اس کی عزت قائم کر کے آئے ہیں ہم پر بھی رحم کر اور اپنے فضلوں کا وارث بنا.آمین ثم آمین میری اولاد کے نام میری لغش میری اماں جان کی نعش اور میری بیویوں کی نعشوں کو قادیان پہنچانا تمہارا فرض ہے میں نے ہمیشہ تمہاری خیر خواہی کی تم بھی میری خواہش پوری کرنا اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو اور تمہیں عزت بخشے.میں ساری جماعت احمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیوں کو خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وقف کریں اور قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو ، ان کی مدد کرے اور اپنی بشارتوں سے ان کو نوازے.میں امید کرتا ہوں کہ یورپ کے نئے احمدی اپنی جان اور مال سے ایشیا کے پرانے احمدیوں کی مدد کریں گے اور تبلیغ کے فریضہ کو ادا کرتے رہیں گے یہاں تک کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے.اگر لینن کے متبعین نے چند سال میں ساری دنیا پر اپنا سکہ جما لیا تھا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین یہ کام کیوں نہیں کر سکتے.صرف عزم اور ارادہ کی پختگی کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ انکا حامی و ناصر ہو وہ کبھی ظلم نہ کریں اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کے بندوں کے سامنے عجز وانکسار کے ساتھ سر جھکا ئیں تا کہ خدا تعالیٰ اور اس کے بندوں کی مددان کو ملتی رہے اور اسلام کا سر ہمیشہ اونچا ر ہے اور قیامت کے دن خدا کا

Page 497

خلافة على منهاج النبوة ۴۸۱ جلد دوم آخری نبی بلکہ خدائے واحد خود نہایت شوق سے اپنے ہاتھ پھیلا کر ان کی ملاقات کیلئے آگے بڑھے اور وہ ہمیشہ ہمیش کیلئے خدا تعالیٰ کی برکات کے وارث ہوں میں احمدیت اور اس کے آثار کو بھی خدا کے سپر د کرتا ہوں وہی ان کا بھی محافظ ہو اور ان کی عزت کو قیامت تک قائم رکھے.آمین ثم آمین اے دوستو ! میری آخری نصیحت یہ ہے کہ سب برکتیں خلافت میں ہیں نبوت ایک بیج ہوتی ہے جس کے بعد خلافت اس کی تاثیر کو دنیا میں پھیلا دیتی ہے تم خلافت حقہ کو مضبوطی سے پکڑو اور اس کی برکات سے دنیا کو متمتع کرو تا خدا تعالیٰ تم پر رحم کرے اور تم کو اس دنیا میں بھی اونچا کرے اور اُس جہان میں بھی اونچا کرے تا مرگ اپنے وعدوں کو پورا کرتے رہو اور میری اولاد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولا د کو بھی ان کے خاندان کے عہد یاد دلاتے رہو.احمدیت کے مبلغ اسلام کے بچے سپاہی ثابت ہوں اور اس دنیا میں خدائے قدوس کے کارندے بنیں.کیا ہمارا خدا اتنی طاقت بھی نہیں رکھتا جتنی کہ حضرت مسیح ناصری رکھتے تھے.مسیح ناصری تو ایک نبی تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کے سردار تھے خدا تعالیٰ ان کی سرداری کو دونوں جہان میں قائم رکھے اور ان کے ماننے والوں کا جھنڈا بھی نیچا نہ ہو اور وہ اور ان کے دوست ہمیشہ سر بلند رہیں.آمین ثم آمین میں یہی نصیحتیں پاکستان سے باہر کے احمدیوں کو بھی کرتا ہوں وہ بھی خدا تعالیٰ کے ایسے ہی محبوب ہیں جیسے پاکستان میں رہنے والے احمدی اور جب تک وہ اسلام کو اپنا مطمع نظر قرار دیں گے خدا تعالیٰ ان کو بھی اور اسلام کو بھی دنیا میں بلند کرتا چلا جائے گا اِنشَاءَ الله - خدا کرے احمدیوں کے ذریعہ سے کبھی دنیا میں ظلم کی بنیا د قائم نہ ہو بلکہ عدل ، انصاف اور رحم کی بنیاد قائم ہوتی چلی جائے اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کے فرشتے ان کے دائیں بھی کھڑے ہوں اور بائیں بھی کھڑے ہوں اور کوئی شخص ان کی طرف نیزہ نہ پھینکے جسے خدا تعالیٰ کے فرشتے آگے بڑھ کر اپنی چھاتی پر نہ لے لیں.آمین ثم آمین آدم اول کی اولاد کے ذریعہ سے بالآخر دنیا میں بڑا اظلم قائم ہوا اب خدا کرے.آدم ثانی ا

Page 498

خلافة على منهاج النبوة ۴۸۲ جلد دوم یعنی مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کے ذریعہ سے یہ ظلم ہمیشہ کیلئے مٹادیا جائے اور سانپ یعنی ابلیس کا سر کچل دیا جائے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت اسی طرح دنیا میں بھی قائم ہو جائے جس طرح آسمان پر ہے اور کوئی انسان دوسرے انسان کو نہ کھائے اور کوئی طاقتور انسان کمزور انسان پر ظلم اور تعدی نہ کرے.آمین ثم آمین.مرزا محمود احمد سے امئی ۱۹۵۹ء ( الفضل ۲۰ مئی ۱۹۵۹)

Page 498