Khilafat Ala Minhaj Un Nubawt 1

Khilafat Ala Minhaj Un Nubawt 1

خلافۃ علیٰ منھاج النبوۃ (جلد اول)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
خلافت اسلامیہ احمدیہ

خلافت کے موضوع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی جملہ تصانیف، خطبات جمعہ ، مجالس عرفان، مجالس شوریٰ، تفاسیر اور غیر مطبوعہ تحریرات سے مواد جمع کرکے تین دیدہ زیب جلدوں میں طبع کروایا گیا ہے۔ یوں اس اہم اور بنیادی موضوع پر حضورؓ کی تحریرات و ارشادات یکجائی طور پر جمع کردیئے گئے ہیں۔


Book Content

Page 1

خلافة على منهاج النبوة افاضات حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جلد اول

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD خلافت على منهاج النبوة (جلد اول) Khilafat Ala Minhajin Nubuwwat- Volume 1 (Urdu) A collection of excerpts from the sermons, writings, and speeches of Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad Khalifatul-Masih Ilra (1889-1965) on the subject of Khilafat.First Published in UK in 2023 O Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey GU9 9PS, UK Printed at: For more information please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-228-5 (Khilafat Ala Minhajin Nubuwwat 3 Volume Set)

Page 3

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدالمصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ گا اور اپنے پیشگوئی مصلح موعود مسچی اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا، وہ دنیا میں آئے نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اُسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند - مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ، مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَّ اللهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا.(اشتہار 20 فروری 1886ء)

Page 5

عرض ناشر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنی امت میں خلافت علی منہاج نبوت کے قیام کا بڑی صراحت کے ساتھ یوں ذکر فرمایا.حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر وہ اس کو اٹھا لے گا.پھر خلافت علی منھاج النبوۃ قائم ہو گی.اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس ( نعمت) کو بھی اٹھا لے گا.پھر ایذا رساں بادشاہت (کاٹ کھانے والی حکومت قائم ہو گی اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر جب وہ چاہے گا اسے ( بھی ) اٹھالے گا.پھر جابر بادشاہت (ظالم حکومت ) قائم ہو گی.اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر جب وہ چاہے گا اسے ( بھی ) اٹھا لے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی.پھر ( یہ فرمانے کے بعد ) آپ خاموش ہو گئے“.(مسند احمد بن حنبل".مسند الکوفیین.حدیث 18596)

Page 6

اس حدیث نبوی میں امت محمدیہ میں خلافت علی منہاج نبوت کے دو ادوار کا ذکر کیا گیا ہے.پہلا دور خلافت علی منہاج نبوت کا وہ دور ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معا بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت سے شروع ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت راشدہ تک قائم رہا.اس کے بعد جیسا کہ حدیث مذکورہ بالا میں بیان ہے ایذا رساں بادشاہت اور جابر حکومتوں کے ادوار آئے.اور پھر پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آیا اور اس نے زمانہ کی اصلاح و تکمیل اشاعت ہدایت کی غرض سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع و غلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو ظلی طور پر امتی نبوت کے مقام پر فائز فرماتے ہوئے مسیح موعود اور مہدی معہود بنا کر بھیجا.اور آپ کی وفات (26 مئی 1908ء) کے بعد 27 مئی 1908ء سے حضرت الحاج حکیم مولانانورالدین رضی اللہ عنہ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے ساتھ خلافت علی منہاج نبوت کے دوسرے مبشر دور کا آغاز ہوا جو انشاء اللہ حسب بشارات نبوی دائمی ہے.کیونکہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور دور کے آنے کا ذکر نہیں فرمایا.گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے جماعت احمدیہ مسلمہ اس موعود خلافت علی منہاج نبوت کی آسمانی قیادت سے فیضیاب ہے اور اس وقت ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کے پانچویں مظہر کے مبارک دور سے گزر رہے ہیں.

Page 7

1914ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلافت کے منصب پر فائز ہوئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے معا بعد سے ہی خلافت کے قیام و استحکام کے سلسلہ میں آپ نے غیر معمولی خدمات انجام دیں.بالخصوص آپ نے اپنی وفات (1965ء) تک اپنی خلافت کے ساڑھے اکاون برس سے زائد عرصہ میں نظام خلافت کے استحکام کے سلسلہ میں بہت سے عملی اقدامات فرمائے.آپ نے اپنے خطبات ، خطابات، کلمات طیبات، نہایت مدلل اور پر اثر تحریرات کے ذریعہ خلافت کی عظمت و اہمیت، اس کی غرض و غایت اور اس کی عظیم الشان برکات کو نهایت تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا.صد سالہ خلافت جوبلی (2008ء) کے تاریخی موقع کی مناسبت سے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی جملہ تصانیف، خطبات جمعہ ، خطابات، مجالس عرفان، مجالس شوری، تفاسیر اور غیر مطبوعہ تحریرات سے خلافت کے موضوع پر بیان فرمودہ مواد کو اکٹھا کر کے تین جلدوں میں مرتب کرنے کی سعادت و توفیق پائی.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کاوش کو بہت پسند فرمایا اور اس کتاب کے لیے خلافت علی منہاج النبوۃ کا نام منظور فرمایا.حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب یو کے سے شائع کی جار ہی ہے.

Page 8

اس کتاب کے لئے مواد کی تلاش و تحقیق اور اس کی کمپوزنگ ، ترتیب، پروف ریڈنگ وغیرہ متفرق امور کی انجام دہی اور اسے موجودہ فائنل صورت تک پہنچانے کے لیے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت بہت سے احباب نے بہت محنت اور جانفشانی سے مختلف خدمات کو انجام دیا.ایسے تمام احباب شکریہ اور دعاؤں کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن اور اس کے جملہ رفقائے کار کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور اپنی جناب سے انہیں بہترین جزا سے نوازے.آمین.امید ہے کہ احباب جماعت خصوصیت کے ساتھ خلافت کے موضوع پر اس علمی و روحانی بیش قیمت جواہر سے معمور خزانے سے کما حقہ فیضیاب ہوتے ہوئے خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے اپنے تعلق اخلاص و وفا اور محبت و فدائیت و اطاعت میں مزید آگے قدم بڑھائیں گے اور برکات خلافت سے وافر حصہ پانے کے لیے اعمال صالحہ کی مزید توفیق پاتے چلے جائیں گے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.خاکسار نصیر احمد قمر ایڈیشنل وکیل الاشاعت (طباعت ).لندن

Page 9

جلد اوّل فهرست عناوین صفحہ نمبر شمار عناوین صفحہ ضرورت امام ۱۹ ۲۵ ۲۷ ۲۸ Σ ۴۳ ۴۳ ۴۳ ۴۴ ۴۶ ۴۶ ۴۶ ۴۷ ۴۷ 1 خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین 1 عصر جدید اسلامی خلیفہ کا طرز حکومت قرآن شریف سے بیانِ خلافت حدیث میں خلافت کا ذکر ۲ خلافت اسلامیہ دنیا میں ایک حاکم اور اس کے ما تحت حکام کے سوا گزارہ نہیں کلمات طیبات ہماری متحد دعائیں کامیاب ہوں گی الفاظ بیعت کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے خلافت اسلامیہ کا دستور العمل منصب خلافت عزم خلفاء دعائے ابراہیم خلفاء کا دستور العمل جیش اسامہ کا واقعہ مرتدین سے جنگ 1.11 11 انبیاء کی بعثت کی غرض خلفاء کا کام شکر ربانی بر جماعت حقانی عوام کا مشورہ اور رائے ۱۲ لا خِلَافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ بعض حریت کی مثالیں ۱۲ تفسیر دعائے ابراہیم حضرت عمرؓ کا قول تصدیق اسح ۱۳ پہلا کام ۱۵ دوسرا کام خلیفہ بنا نا خدام کا کام ہے ۱۵ تیسرا کام

Page 10

جلد اول صفح 수수 수 LL ZA ΔΙ ۸۲ ۸۳ ۸۴ ۸۴ ۸۵ ۸۶ ۸۶ ۸۶ ۸۸ ۹۵ ۹۶ خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار چوتھا کام عنوان صفحہ نمبر شمار عنوان ۴۸ میری خواہش سورۃ بقرہ کی ترتیب کس طرح سمجھائی گئی تزکیه نفوس کیھم کے دوسرے معنی ترتیب سورة بقره ۴۸ ۴۹ ترقی تعلیم اس قومی اجتماع کی کیا غرض ہے ۵۳ جماعت کی دُنیوی ترقی چار نہیں بلکہ آٹھ عملی ضرورت ہے ۵۴ مقاصد خلافت کی تکمیل کی کیا کالج کی ضرورت انجمن اور خلیفہ کی بحث طریق حکومت کیا ہونا چاہیے؟ اُس مشورہ کا کیا فائدہ جس پر عمل ۵۶ ۵۷ ۵۹ ۶۰ نہیں کرنا عجیب نکته شرک کا مسئلہ کیسے سمجھا دیا ۶۳ چھوٹی عمر ہے ۶۴ ایک اعتراض کا جواب ۶۶ ایک عجیب بات ۶۶ کیا خدمت کی ہے؟ ۶۸ آیت استخلاف ۷۰ موجودہ انتظام میں دقتیں برکات خلافت اے پہلی بات صورت ہو خلیفتہ امسیح کی وصیت اسی کی تشریح ہے ہر زبان کے مبلغ ہوں ہندوستان میں تبلیغ اشتہاری تبلیغ کا جوش مبلغ کہاں سے آویں واعظین کا تقرر قوم لوط کا واقعہ تعلیم شرائع تعلیم العقائد کی کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق وعظ

Page 11

III خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین صفحہ نمبر شمار دوسری بات ۹۶ پہلی اہم بات ۹۸ نکته معرفت ۹۹ ۹۹ 1++ 1+1 عناوین مسئلہ خلافت کے متعلق دوسری آسمانی شہادت مسئلہ خلافت کے متعلق تیسری آسمانی شہادت مسئلہ خلافت کے متعلق چوتھی آسمانی شہادت خلافت کی اہمیت مسئلہ خلافت پہلا اعتراض اور اُس کا جواب دوسرا اعتراض اور اُس کا جواب ۱۰۳ آسمانی شہادت کیا یہی منصوبہ باز کا حال ہوتا ۱۰۹ تیسرا اعتراض اور اُس کا جواب ۱۰۹ ایک اور واقعہ اتحاد کی کوشش امام حسن کا واقعہ خلافت کیا گدی بن گئی ہے؟ صلح کیونکر ہو؟ 11 + == ۱۱۴ مسئلہ خلافت کے متعلق پانچویں کے مسئلہ خلافت کے متعلق چھٹی آسمانی شہادت مسئلہ خلافت کے متعلق ساتویں آسمانی شہادت حضرت کی وفات اور میری خلافت جلد اول صفحہ ۱۲۸ ۱۲۹...۱۲۹ ۱۳۱ ۱۳۳ کے متعلق آٹھویں آسمانی شہادت ۱۳۴ مسئلہ خلافت پر نویں آسمانی شہادت ایک ضروری بات فتنہ کا ہونا ضروری تھا خلافت کے جھگڑا کے متعلق آسمانی شہادت اس رؤیا کے گواہ ۱۱۸ ۱۱۸ ۱۲۴ القول الفصل غیر ذمہ دار لوگ و انوار خلافت ۱۴۱ ۱۵۳ 122 جماعت احمدیہ قادیان کو نصائح ۲۳۳ خلفائے قدیم و حال کے کاموں میں فرق ۲۳۳

Page 12

خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار IV عناوین صفحہ نمبر شمار مصالح سفر شمله خلیفہ وقت کے مشاغل ہر جماعت کے مقامی فرائض حقیقت حال سے بے خبر اعتراض ۲۳۴ ۲۳۵ ۲۳۵ کرتے ہیں اسلام میں اختلافات کا آغاز اسلامی تاریخ سے واقفیت کی ضرورت مضمون کی اہمیت اسلام کا شاندار ماضی اسلام کے اولین فدائی حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنہما غیر مسلم مؤرخین کی غلط بیانیاں اسلام میں فتنوں کے اصلی موجب صحابہ نہ تھے اختلافات کا ظہور خلیفہ ثالث کے زمانہ میں کیوں ہوا؟ ۲۳۶ ۲۳۹ ۲۳۹ ۲۴۰ ۲۴۰ ۲۴۱ ۲۴۱ ۲۴۲ ۲۴۴ عناوین خلافت اسلامیہ ایک مذہبی انتظام تھا صحابہ کی نسبت بدگمانی بلا وجہ ہے فتنہ حضرت عثمان کے وقت میں کیوں اُٹھا؟ جلد اول صفح ۲۴۸ ۲۵۰ ۲۵۴ ابو موسیٰ اشعری کا والی کوفہ مقرر ہونا ۲۸۶ مفسدوں کی سازشوں کا انکشاف ۲۸۶ حاکم وقت کی اطاعت ضروری ہے ۲۸۸ مفسدوں کی ایک اور سازش ۲۸۹ سازش کا انکشاف ۲۹۰ حضرت عثمان کا مفسدوں کو بلوانا ۲۹۱ حضرت عثمان کا اتہامات سے بر بیت ثابت کرنا ۲۹۱ حضرت عثمان کا مفسدوں پر رحم کرنا ۲۹۲ مفسدوں کی ایک اور گہری سازش ۲۹۴ مفسدوں کا مدینہ میں پہنچنا ۲۹۵ حضرت عثمان کے ابتدائی حالات ۲۴۴ حضرت عثمان کا مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں فتنہ کہاں سے پیدا ہوا ؟ فتنے کی چار وجوہ ۲۴۵ ۲۴۶ ۲۴۷ اہل مصر کا حضرت علیؓ کے پاس جانا ۲۹۷ اہل کوفہ کا حضرت زبیر کے پاس جانا اہل بصرہ کا حضرت طلحہ کے پاس جانا ۲۹۷ ۲۹۷

Page 13

خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین V صفحہ نمبر شمار محمد بن ابی بکر کا والی مصر مقرر ہونا ۲۹۸ عناوین صحابہ کی مفسدوں کے خلاف جلد اول صفحہ اختلافات روایات کی حقیقت تاریخ کی تصحیح کا زریں اصل حضرت عثمان اور دیگر صحابہ کی باغیوں کا دوبارہ مدینہ میں داخل ہونا اہل مدینہ کا باغیوں کو سمجھانا باغیوں کا مدینہ پر تسلط قائم کرنا ۲۹۸ ۲۹۸ ۲۹۹ ۲۹۹ ۳۰۱ ۳۰۱ جنگ پر آمادگی ۳۱۲ مدینہ میں مفسدوں کے تین بڑے ساتھی ۳۱۳ حضرت عثمان کو خلافت سے دستبرداری کیلئے مجبور کیا جانا ۳۱۴ حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ ۳۱۵ حضرت علی کا محاصرہ کرنے والوں کو نصیحت کرنا حضرت اُم حبیبہ سے مفسدوں کا ۳۱۶ اکابر صحابہ کا باغیوں سے واپسی کی وجہ دریافت کرنا حضرت عثمان کا باغیوں کے لیے الزام سے بربیت ثابت کرنا ٣٠٢ باغیوں کے منصوبے کی اصلیت ۳۰۳ خط والے منصوبے کے ثبوت میں سات دلائل ۳۰۴ سلوک حضرت ام حبیبہ کی دینی غریت کا نمونه ۳۱۷ ۳۱۷ حضرت عائشہؓ کی حج کیلئے تیاری ۳۱۸ حضرت عثمان کا والیانِ صوبہ جات کو مراسلہ ۳۱۹ مفسدوں کی اہل مدینہ پر زیادتیاں ۳۱۰ حضرت عثمان کا حاجیوں کے حضرت عثمان کا مفسدوں کو نصیحت کرنا ۳۱۰ مفسدوں کا عصائے نبوی کو توڑنا ۳۱۱ مفسدوں کا مسجد نبوی میں کنکر برسانا اور حضرت عثمان کو زخمی کرنا | ۳۱۱ نام خط مفسدوں کا حضرت عثمان کے گھر میں پتھر پھینکنا فتنہ فرو کرنے میں صحابہ کی مساعی جمیلہ ۳۱۹ ۳۲۱ ۳۲۲

Page 14

جلد اول عناوین ۳۵۰ ۳۵۱ ۳۵۲ VI خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین صفحہ نمبر شمار حضرت عثمان کے گھر پر مفسدوں کا خدا سے فیصلہ کرالیں تفرقہ کے مٹانے کے طریق انتقام لینے کا زمانہ ۱۳ جماعت احمدیہ کے اندرونی مخالفین ۳۵۷ ہماری نیتوں پر غیر مبائعین کے ۳۵۸ ۳۵۸ ۳۶۱ ۳۶۱ ۳۶۱ حملے مسئلہ خلافت اور غیر مبائعین ہماری مخالفت میں خواجہ صاحب کی سرگرمی غیر مبائعین کو جماعت احمدیہ سے کیا نسبت؟ خواجہ صاحب اور عربی دانی غیر مبائعین ہر طرح مقابلہ کر لیں ۳۲۴ ۳۲۵ ۳۲۶ ۳۲۷ ۳۳۰ ۳۳۱ حملہ حضرت عثمان کا صحابہ کو وصیت حاجیوں کی واپسی پر باغیوں کی گھبراہٹ صحابہ کی مفسدوں سے لڑائی عبداللہ بن سلام کا مفسدوں کو نصیحت کرنا مفسدوں کا حضرت عثمان کو قتل کرنا واقعات شہادت حضرت عثمان باغیوں کا بیت المال کو لوٹنا حضرت عثمان کی شہادت پر صحابہ کا جوش ۳۳۴ ۳۳۴ واقعات متذکرہ کا خلاصہ اور نتائج ۳۳۵ ۱۲ خطاب جلسہ سالانہ کے امارچ ۱۹۱۹ ء | غیر مبائعین کے متعلق عقائد کس نے بدلے؟ خدا تعالی کی تائید کس کے ساتھ ۳۴۱ ۳۴۶ ۳۴۹ خواجہ صاحب کی طرف سے انسان پرستی کا الزام ۱۴ واقعات خلافت علوی ۱۵ خلیفہ یا امیر کی اطاعت کیوں ضروری ہے؟ ۳۶۲ ۳۶۵ خلیفہ کے ساتھ تعلق ۱۷ خلافت وحدت قومی کی جان ہے ۳۷۶ < اختلافات سلسلہ کی سچی تاریخ کے صحیح حالات

Page 15

خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین روحانی سلسلوں میں کمزور ایمان والے خواجہ کمال الدین صاحب کا احمد بیت میں داخلہ مسیح موعود کا مضمون برائے جلسہ اعظم اور خواجہ صاحب خواجہ صاحب کی احمدیت کے مغز سے ناواقفیت خواجہ صاحب کا مولوی محمد علی صاحب کو اپنا ہم خیال بنانا خلافت اولی میں مولوی محمد علی VII صفحہ نمبر شمار ۳۸۱ ۳۸۲ ۱۳۸۳ ۱۳۸۴ ۱۳۸۷ عناوین خواجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں جلد اول صفحہ کی ایمانی حالت ۳۹۹ خفیہ مخالفت ۴۰۰ خلیفہ کی بجائے پریذیڈنٹ کا لفظ استعمال کرنا ۴۰۰ ایک مکان کی فروختگی کا معاملہ دوبارہ معافی ۴۰۱ ۴۰۳ خواجہ صاحب کا شہرت حاصل کرنا ۴۰۳ خواجہ صاحب کا غیر احمدیوں کے قریب ہونا تبلیغ احمد بیت کا سوال صاحب کے خیالات اور کوششیں ۱۳۸۷ ۲۷ / مارچ ۱۹۱۰ء کا لیکچر ۴۰۴ ۴۰۵ ۴۰۷ ۴۰۷ ۴۰۷ ۴۰۸ ۴۰۹ ۴۰۹ غیر احمدیوں کی تکفیر کا مضمون خواجہ صاحب کا مضمون مولوی محمد علی صاحب کے خیالات ۳۹۰ ۳۹۱ فتنہ کی اطلاع بذریعہ رویا ۳۱ / جنوری ۱۹۰۹ ء کا معرکۃ الآراء دن نہایت خطرناک حالات ۳۹۳ کی قلب ماہیت کا وقت نہایت اہم اور قابل یادگار مجمع ۱۳۹۶ مولوی محمد علی صاحب کو خاص حضرت خلیفہ اول کی تقریر تقریر کا اثر ۱۳۹۷ ۱۳۹۷ وقعت دینے کی کوشش بے جا کوششوں کا اکارت جانا نمائشی بیعت ۳۹۸ حضرت خلیفتہ امسیح کا ۱۹۱۰ ء میں واقعات بیان کردہ کے شاہد ۳۹۹ بیمار ہونا

Page 16

خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ VIII صفحہ نمبر شمار صاحب کی خلیفہ ہونے کی کوشش ۴۱۱ فریب دہی انصار الله ۴۱۱ ۴۱۲ طریق تبلیغ کے متعلق الہی اشارہ ۴۱۳ خلیفہ اول کی پردہ پوشی خواجہ صاحب کے طرز عمل کا جماعت پر اثر ۴۱۴ ۴۱۵ عناوین پیغام صلح اور الفضل کا اجراء پیغام صلح کی روش مسجد کانپور کا واقعہ لارڈ ہیڈلے کے مسلمان ہونے کا اعلان جلد اول ۴۲۳ ۴۲۳ ۴۲۴ ۴۲۶ پیغام میں جماعت قادیان پر حملے ۴۲۷ خفیہ ٹریکٹ پہلے ٹریکٹ کا خلاصہ خواجہ صاحب کے طرز عمل کی غلطی ۴۱۷ دوسرے ٹریکٹ کا خلاصہ کانپور میں لیکچر خواجہ صاحب کا سفر ولایت ۴۱۷ ۴۱۸ ٹریکٹ لکھنے والا کون تھا ؟ ٹریکٹوں کی اشاعت سے دو باتوں ۴۲۷ ۴۲۸ ۴۲۹ ۴۳۱ ۴۳۵ ۴۳۵ ۴۳۷ ۴۳۷ ۴۳۹ ۴۲۰ உ ۴۲۰ کا ظاہر ہونا ٹریکٹوں کے لکھنے والے کئی ایک ٹریکٹوں کا اثر اور اُن کا جواب خواجہ صاحب کا غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت مانگنا اور نماز پڑھنا حضرت خلیفہ اول کے متعلق ۴۲۱ خواجہ صاحب کے ولایت جانے کا اثر سفر مصر اور خاص دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک کشف کو خواجہ صاحب کا اپنے اوپر چسپاں کرنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کے پورا ہونے پر خواجہ صاحب کا اس کا ذکر نہ کرنا ۴۲۲ حمدیہ پریس کے مضبوط کرنے کا ۴۲۲ پیغام صلح کی غلط بیانی خلافت کے متعلق حضرت خلیفہ اول کا خیال خیال

Page 17

خلافة على منهاج النبوة نمبر شمار عناوین مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق IX نمبر شمار عناوین جلد اول صفح مولوی محمد علی صاحب سے گفتگو ۴۵۱ خلیفتہ امسیح کا مولوی محمدعلی کو ارشاد ۴۳۹ خلافت سے انکار نہیں ہو سکتا مولوی محمد علی صاحب کا کفر و اسلام حضرت خلیفہ اول کی وفات پر کے متعلق مضمون مولوی محمد علی صاحب کا حضرت خلیفہ اول کو مضمون سنانے کی حقیقت ۴۴۰ ۴۴۱ ۴۵۳ مولوی محمد علی صاحب کا ٹریکٹ ۴۵۳ مولوی محمد علی صاحب کی مغالطہ دہی کا انکشاف ۴۵۶ ۴۵۶ خدا تعالیٰ سے طلب امداد حضرت خلیفہ اوّل سے آخری وقت میں مولوی محمد علی صاحب کا نہایت سنگدلانہ سلوک جماعت کا رجحان معلوم کرنے کے لئے دستخط مہمانوں کی آمد کا انتظار ۴۶۰ اپنے رشتہ داروں سے مشورہ ۴۶۱ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں سے گفتگو ۴۶۱ خلیفہ کا انتخاب ۴۶۴ پیغام کی غلط بیانیاں انصار اللہ پر سازش کا جھوٹا الزام ۴۶۶ ۴۴۱ ۴۴۳ ۴۴۵ ۴۴۶ ۴۴۷ ۴۴۷ ۴۴۸ ۴۴۹ ۴۵۰ ۴۵۰ پہلی شہادت دوسری شہادت تیسری شہادت حضرت خلیفہ المسیح کی وصیت وصیت کا مولوی محمد علی صاحب سے پڑھوانا خلیفہ امسیح کی بیماری میں اختلافی مسائل کا چرچا خلیفہ اسیح کے ایام بیماری میں ایک خاص اجتماع جماعت کے اتحاد کی کوششیں حضرت خلیفہ اول کی وفات حضرت خلیفہ اول کی وفات پر پہلی

Page 18

خلافة على منهاج النبوة X عناوین صفحہ نمبر شمار عناوین ۴۶۸ مولوی محمد علی صاحب کا سرقہ کرنا ایک اور غلط الزام مولوی محمد علی صاحب کے ساتھیوں کی سازش کتنی جماعت بیعت میں داخل ہے لا ہور میں جماعت سے مشورہ کی تجویز ان لوگوں کا قادیان کو چھوڑنا مولوی محمد علی صاحب کو قادیان ۴۷۱ ۴۷۲ ۴۷۲ لا ہور کومدینہ المسیح بنانا رائی کا پہاڑ بنانا مولوی محمد علی صاحب کے چلے جانے کے بعد قادیان خدا تعالیٰ کی قدرت کا زبردست سے جانے سے باز رکھنے کی کوشش ۴۷۳ ثبوت جلد اول صفحه ۴۷۴ ۴۷۴ ۴۷۵ ۴۷۵

Page 19

خلافة على منهاج النبوة جلد اول بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عصر جدید حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر بعض مخالف اخباروں کی آراء حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے رسالہ تشحمید الا ذہان میں درج فرمائیں اور اس میں بیان کردہ غلط باتوں کی درستگی بھی ساتھ ساتھ فرمائی.ان اخبارات و رسائل میں سے ایک رسالہ ” عصر جدید لکھنو کے نام سے شائع ہوتا تھا اس کے بارے میں آپ نے 66 فرمایا :.ر ساله عصر جدید کے پرچہ ماہ جون میں ایک مضمون جس کا ہیڈ نگ الانصاف“ تھا نکلا ہے جس میں صاحب مضمون نے جو اپنا نام بتا نا تقیہ کے بر خلاف سمجھتے ہیں قادیانی جماعت کے خاتمہ پر بحث کی ہے.اس مضمون کا جواب لکھنے سے پہلے میں اس قد ر لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایڈیٹر عصر جدید کو احمدی جماعت سے ہمیشہ دلچپسی رہی ہے اور جب کبھی آپ سے ہوسکا آپ نے کوشش کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور اُن کے پیروان پر کوئی ذلیل نیش زنی کریں.چنانچہ آپ کے ایک دو مضامین کا جواب رسالہ ریویو آف ریلیجنز میں شائع بھی ہو چکا ہے چونکہ آپ کا مذہب شیعہ ہے اس لئے بیجا طعن وتشنیع سے کچھ پر ہیز نہیں.غرض یہ مضمون ان کے کسی ہم خیال کی طرف سے جس نے اپنا نام ”ماوروں را بنگریم و حال را بتایا ہے شائع ہوا ہے اور آپ نے اُس کے کسی خیال کی تردید نہیں کی.مضمون متانت سے بالکل گرا ہوا اور تہذیب سے کوسوں دُور ہے اور ناول کی طرز پر زید اورعبداللہ کی گفتگو کے پیرا یہ میں ہے.اگر راقم مضمون واقعی عبداللہ ہیں اور وہی عبد اللہ جن کو مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اسیح کے برخلاف لکھنا شرعاً و انصافاً کسی طرح بھی جائز نہیں.

Page 20

خلافة على منهاج النبوة جلد اول آپ نے لکھا ہے کہ مولوی نورالدین صاحب بھی اس سلسلہ کے اصل مرکز تھے اور آج اُن کی مدت کی خواہش بر آئی کہ وہ خلیفہ بن گئے تو آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ مولوی صاحب نے اپنے پہلے ہی خطبہ میں اس بات کا اقرار کیا تھا کہ میرے دل میں بھی اس عہدہ کا خیال تک نہیں آیا.چنانچہ اس بات کے ہم لوگ گواہ ہیں کیونکہ کسی شخص کے پاس رہنے والے اُس کی عادات کو بہ نسبت دُور کے رہنے والوں اور بے تعلقوں کے زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور حالات بھی ایسے ہیں کہ ہر ایک عظمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ سلسلہ مشورہ اور منصوبہ سے نہیں بنا بلکہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے ماتحت بنا ہے.چنانچہ حضرت صاحب کی وفات پر بہت سے دانا اور چشم بصیرت رکھنے والے مخالفوں تک نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ یہ سلسلہ منصوبوں کا نتیجہ نہ تھا.ہاں ایک آپ کی متعصب آنکھ تھی جو نہ دیکھ سکی.سو یا د رہے کہ اعتراض بغیر دلیل کے کوئی وقعت نہیں رکھتا بلکہ اگر کوئی شخص تعصب سے اعتراض کرے تو نَعُوذُ بالله حضرت علی پر زیادہ اعتراض کر سکتا ہے کہ وہ خلافت لینا چاہتے تھے اور مدت سے اُن کے دل میں یہ بات پوشیدہ تھی.چنانچہ بقول آپ لوگوں کے انہوں نے اسی غصہ میں حضرت ابوبکر کی بیعت بھی چھ مہینے تک نہیں کی اور کی بھی تو تقیہ کے طور پر.پس ہر ایک اعتراض کرتے وقت دلائل ساتھ دینے چاہئیں تاکہ عقلمندوں میں رُسوائی نہ ہو.تشخید الا ذہان.اگست ستمبر ۱۹۰۸ ء )

Page 21

خلافة على منهاج النبوة جلد اول خلافت اسلامیہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جب اخبار الفضل کے ایڈیٹر تھے تو اُس وقت بہت سے مضامین خود تحریر فرمایا کرتے تھے.پیسہ اخبار نے جب سردار والا گوہر صاحب پنشنر ڈسٹرکٹ حج لدھیانہ کا ایک مضمون خلافت عثمانیہ کے بارے میں شائع کیا تو آپ نے اس مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر ایک تبصرہ تحریر کرتے ہوئے خلافت اسلامیہ کی حقیقت ان الفاظ میں بیان فرمائی :.ہم عصر پیسہ اخبار نے اپنی ایک پچھلی اشاعت میں سردار والا گوہر صاحب پنشنر ڈسٹرکٹ جج لدھیانہ کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں اُنہوں نے خلافت عثمانیہ پر نہایت عمدگی اور خوبی کے ساتھ بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ موجودہ خلافت قطعاً اسلامی خلافت کہلانے کی مستحق نہیں ہے کیونکہ اس میں تمام ان امور کی پابندی نہیں کی جاتی جو اسلامی خلافت کے لئے ضروری ہیں اور پارلیمنٹ کے وجود سے اس شیرازہ قومی کو بالکل بکھیر دیا گیا ہے جو اسلام نے خلافت کے رشتہ میں باندھ دیا تھا.انہوں نے دنیاوی نقطہ نظر سے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جس میں یہودی اور مسیحی کثرت سے آباد ہوں پارلیمنٹ کبھی مسلمانوں کو راس نہیں آ سکتی کیونکہ پارلیمنٹ تو باشندوں کے قائم مقاموں کا مجموعہ ہوتی ہے اگر پورے طور سے اس میں باشندوں کو نیابت دی گئی تو حکومت بجائے مسلمانوں کے مسیحیوں کے قبضہ میں چلی جائے گی.خصوصاً جب کہ ان کی پشت پر بہت سی مسیحی حکومتیں ہیں جو ان کے قول کی تائید کے لئے ہر وقت آمادہ وتیار رہیں گی.دنیا وی پہلو سے بہت زیادہ اہم مذہبی پہلو ہے اور اس پہلو کو بھی انہوں نے جس خوبی سے نباہا ہے اس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ مشورہ

Page 22

خلافة على منهاج النبوة جلد اول قرآن شریف سے ثابت ہے اور پارلیمنٹ بھی مشیروں کی ایک مجلس ہے پھر اس کو کیوں مخالف ہدایت اسلامی کہا جائے.اس اعتراض کا جواب میں یہ دوں گا کہ مجلس شوری جس کا اشاره قرآن شریف میں ہے ہر گز پارلیمنٹ کے درجہ میں ذی اختیار نہیں بلکہ ان کا صرف یہ کام ہوتا ہے کہ مُہمات ملکی میں اپنا مشورہ اُولی الامر کے سامنے پیش کریں اگر أولى الأمر نے مان لیا بہتر ورنہ حکم اولی الامر اس پر غالب رہتا ہے.پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ تو خود ہی صاحب حکم بن جاتی ہے.مسلمانوں میں کبھی بھی اس قسم کی پارلیمنٹ جاری نہیں ہوئی.البتہ خلیفہ بمشورہ قوم منتخب ہوا کرتا تھا مگر بعد انتخاب کے جب تک وہ مسندِ حکومت پر رہتا تھا اُس کا حکم سب پر واجب التعمیل ہوا کرتا تھا.خدا نے مسلمانوں کو مشورہ کا حکم دیا ہے نہ پارلیمنٹ کا.یہ مسلمانوں پر غلط الزام ہے کہ اُنہوں نے پارلیمنٹ کا عنصر ڈالا ہے.پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ اب دوسری دلیل سنو جو یہ ہے کہ خدا نے اپنے حکم کی فرمانبرداری کا ارشاد کیا اور رسول کے حکم کی اور پھر تیسرے درجہ میں اُولی الامر کے.اس حکم کی آیت سے اُولی الامر کا وجود ضرور ہے کہ مسلمانوں میں موجود ہوا اور وہ شخص خاص ہونا چاہیے.بعض اشخاص جو اس آیت سے علمائے وقت مراد لیتے ہیں وہ میرے خیال میں صحیح نہیں ہے.کیا معنی کہ ایک ہی زمانہ میں بہت سے عالم صاحب اجتہاد ہوتے ہیں اور ہر ایک کا اجتہاد جدا گانہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ شخص مطیع ایک ہی وقت میں جدا گانہ اجتہادوں کی تعمیل کر سکے.تعمیل تو اُس حکم کی ہو سکتی ہے جس میں اختلاف نہ ہو کیونکہ رعایا پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تک حکم خدا و رسول کی مخالفت نہ ہو اولی الامر کا حکم دل و جان سے قبول کر کے تعمیل کریں.پھر آگے چل کر کیا سچا فقرہ لکھتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ یہ خود ہی مجرم ہیں.ہم سردار والا گو ہر صاحب کی تحریر کے ساتھ بالکل متفق ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے خلافت کا حکم دیا ہے اور جس کے ماتحت رہنے کی گل مسلمانوں کو تاکید کی ہے وہ

Page 23

خلافة على منهاج النبوة جلد اول ایسی خلافت نہیں ہے جیسے کہ آجکل کے بادشاہوں کی حکومت ہے کہ گو بظا ہر وہ بادشاہ کہلاتے ہیں لیکن دراصل کسی معاملہ میں آزادی سے رائے نہیں دے سکتے اور رعایا کی نسبت بھی ان کے حقوق کم ہوتے ہیں کیونکہ رعایا کسی حکم کے خلاف اپنی آواز اُٹھا سکتی ہے لیکن موجودہ بادشاہوں کو اتنا اختیار بھی نہیں دیا گیا.اسلامی خلافت ایک شاندار چیز ہے جسے چھوڑ کر مسلمان کبھی سکھ نہیں پاسکتے.اور یہ بھی سچ ہے کہ خلیفہ کا مقابلہ کر کے مسلمانوں پر ایسی نحوست طاری ہوگئی ہے کہ ان کی دعائیں تک اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا.لیکن ہم اس بات کے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ خلافتِ عثمانیہ کی مخالفت کا نتیجہ ہے بلکہ خدا کے مقرر کردہ خلیفہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی جانشین کی مخالفت کے سبب مسلمانوں پر یہ عذاب نازل ہوا ہے اور اُس وقت تک وہ ان مصائب سے نہیں چھوٹیں گے جب تک اس کی اطاعت کی طرف متوجہ نہ ہوں.خدا کا منشاء ہے کہ وہ اس خلیفہ کی معرفت دنیا پر اسلام کو غالب کرے لیکن لوہے کے ہتھیاروں اور توپ کے گولوں کے ساتھ نہیں بلکہ نصرت الہی اور دعاؤں کے ساتھ.جس خدا نے پہلے دشمن کی تلوار کا جواب تلوار سے دینے کا حکم دیا ہے اب اس خدا نے اسلام کے دشمنوں کا جواب دلائل صحیحہ اور برہان قاطعہ سے دینے کا حکم دیا ہے.چونکہ اسلامی خلافت پر آجکل بہت زور سے بحث ہوتی ہے اور بعض لوگ قرآن و حدیث سے لوگوں کو مغالطہ میں ڈال رہے ہیں اس لئے میں اِنشَاءَ اللَّهُ تَعَالَی اگلے پرچہ میں اس مضمون پر کچھ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں.وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ.لیکن سردار صاحب کو اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ آسمانی خلافت کی موجودگی میں وہ کیوں ایک وہمی خلافت کی تیاری کا مشورہ دیتے ہیں.انہیں چاہیے کہ اس بات کو قبول کریں جسے خدا نے پسند کیا ہے“.( الفضل 9 جولائی ۱۹۱۳ء ) پچھلے پر چه سردار والا گوہر صاحب کے مضمون کا خلاصہ دینے اور اس پر مناسب ریمارک کرنے کے بعد ہم نے وعدہ کیا تھا کہ اگلے ہفتہ اِنشَاءَ اللهُ خلافت اسلامیہ کے متعلق اپنی تحقیقات لکھیں گے.سو الحَمدُ لِلَّهِ کہ آج اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کے پورا کرنے کا موقع دیا.

Page 24

خلافة على منهاج النبوة جلد اول دنیا میں ایک حاکم اور اُس کے انسان تو آزادی پسند ہے اگر سوائے بادشاہ کے گزارہ ہو سکتا تو یہ ضرور اس ما تحت حکام کے ہوا گزارہ نہیں طرح رہنا چاہتا لیکن حاکم کا سایہ سر سے اُٹھا اور فساد ہونے شروع ہوئے.کوئی کسی کو قتل کرتا ہے ، کوئی کسی کا مال لوٹ لیتا ہے ، کوئی کسی کی جائداد پر قابض ہو جاتا ہے، کوئی کسی کو اپنا خادم اور غلام بنا لیتا ہے، کوئی کسی کی عزت آبرو کو غارت کرنے کی کوشش کرتا ہے غرضیکہ ہر ممکن سے ممکن طریقہ سے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی دولت ، جائداد ، عزت اور اختیار کو زیادہ کرنا چاہتا ہے اس لئے ایک حاکم کی ضرورت پیش آتی ہے جو صاحب اختیار ہو اور مظلوم کی حمایت کرے اور ظالم کی خبر لے اور حقدار کو اُس کا حق دلائے.لوگوں نے اپنی اپنی سمجھ اور فہم کے مطابق مختلف قسم کے حکام تجویز کئے ہیں کہیں تو ایسا کیا گیا ہے کہ ایک شخص کو کچھ مدت کے لئے اختیار دیئے جاتے ہیں وہ اس عرصہ میں انتظام کو قائم رکھتا ہے.اس عرصہ کے ختم ہونے پر اس کی بجائے کوئی اور شخص مقرر ہو جاتا ہے.کہیں ایک حاکم کی بجائے ایک جماعت مقرر کی جاتی ہے جو آپس کے مشورہ سے امور متعلقہ انتظام کا فیصلہ کرتی ہے.کہیں ایک آدمی بادشاہ مقرر ہوتا ہے اور نَسُلاً بَعْدَ نَسل وہ خاندان حکومت کرتا چلا جاتا ہے اور ان کے معاملات میں کوئی شخص مشورہ دینے کا استحقاق نہیں رکھتا.کہیں بادشاہ اور مجلس مشیراں ایسے رنگ کی ہوتی ہے کہ بادشاہ صرف برائے نام ہوتا ہے اور اصل کام سب پارلیمنٹ کرتی ہے.اسلام نے ان تدابیر کے خلاف ایک حاکم اعلیٰ تجویز کیا ہے جو تین طرح مقرر ہوتا ہے.یا اسے خود اللہ تعالیٰ مقرر فرماتا ہے جیسے آدم ، نوح وابراہیم اور موسی و داؤد و ہمارے رسول الله خاتم النبيين رَسُولُ رَبِّ العَلَمِينَ صَلوةُ اللهِ وَسَلامُهُ عَلَيْهِمْ اجمعین کو.اور یا پہلا حاکم اُسے مقرر کرتا ہے یا مد ترین حکومت اُسے منتخب کرتے ہیں.ان سب حکام کو حکم ہے مناسب لوگوں سے امور مملکت میں مشورہ طلب کیا کریں.یہ بلکہ خود حضرت نبی کریم ﷺ کو بھی قرآن کریم میں ارشاد ہے وَ شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَادًا

Page 25

خلافة على منهاج النبوة جلد اول عزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ یہ حاکم اپنی وفات تک اپنے عہدہ پر قائم رہتا ہے اور انسانوں کا اختیار نہیں کہ اُسے الگ کرسکیں کیونکہ اس کا انتخاب خدا کا یا اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ کا انتخاب قرار دیا گیا ہے اور قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلیفہ ہم بناتے ہیں.اسلامی خلیفہ کا طرز حکومت اس زمانہ میں جب کہ پارلیمنوں کا زور ہے اور لبرٹی لبرٹی کے آوازہ گسے سجا رہے ہیں، آزادی کی چیخ و پکار زوروں پر ہے ، حریت کی صدائیں اُفق عالم میں گونج رہی ہیں.مسلمانوں میں بھی اس مسئلہ پر بحث شروع ہوگئی ہے کہ خلافتِ اسلامیہ کیا چیز ہے.اور اکثر فدائیان یورپ اور شیدائیانِ تہذیب جدید اسلام میں بھی پارلیمنٹ کا وجود دکھانے میں کوشاں ہیں اور آیات و احادیث اور خلفائے راشدین کے عمل سے اپنے اقوال کے ثبوت بہم پہنچاتے ہیں.گو میرے خیال میں اس کی کچھ ضرورت نہیں تھی اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ نازنین یورپ کا میلان طبع اس قسم کی حکومت کی طرف ہے اس لئے محبانِ صادق کا یہی فرض ہے کہ اس کی ہاں میں ہاں ملائیں اور اس رنگ میں رنگین ہوں جس سے ان کا مطلوب مزین ہے.جولوگ اس طر ز حکومت کی تائیدا اپنی عقل اور فہم سے کرتے تھے ان پر اتنا افسوس نہیں جتنا ان لوگوں پر جو پارلیمنٹ میں حکومت کو اپنی اصلی صورت میں یا بہ تغیر خفیف اسلام کے سر تھوپنا چاہتے ہیں.فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الكِتب بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ليَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا، فَوَيلُ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَ ٣ چونکہ یہ فتنہ بڑھتا جاتا ہے اور عام طور پر لوگوں کو دھوکا دیا جاتا ہے اس لئے میں نے ارادہ کیا ہے کہ مختصر طور پر اسلامی خلافت پر اپنی تحقیق یہاں بیان کروں.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں قرآن شریف سے بیانِ خلافت کو خوشخبری دی ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی طرح اُن میں سے بھی خلفاء بنائے گا چنانچہ فرماتا ہے.

Page 26

خلافة على منهاج النبوة Δ جلد اول وعد الله الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ، يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَمَنْ كَفَرَ بعد ذلك فأولئِكَ هُمُ الفسقون ہے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے تم میں سے مؤمنوں کو اور نیک عمل کرنے والوں کو کہ انہیں زمین میں خلیفہ بنادے گا.اسی طرح جس طرح ان سے پہلی قوموں کو خلیفہ بنا دیا اور ان کا وہ دین جسے خدا نے ان کے لئے پسند کیا ہے قائم کر دے گا اور ان کے خوفوں کو امن سے بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے کسی کو شریک نہ بنا ئیں گے اور جو اُس کے بعد کفر کرے گا تو ایسے لوگ بدعمل ہو جائیں گے.اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ اسلام میں خلفاء ہوں گے.دینی و دنیوی دونوں قسم کے ان کے مشرب و طریق کو خدا تعالیٰ دنیا میں پھیلائے گا.ان کی حفاظت کرے گا.ان کے منکر گنہگار ہوں گے اور ان کے انکار کی وجہ سے ان کے دل ایسے سیاہ ہو جائیں گے کہ وہ بد کا رہو جائیں گے.حدیث میں خلافت کا ذکر جس طرح قرآن شریف میں خلافت کا ذکر ہے اسی طرح احادیث سے بھی مسئلہ خلافت ثابت ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے حضرت ابوبکر اور عبد الرحمن کو بلا کر لکھوا دوں ( یعنی خلافت ) اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت عثمان سے فرمایا کہ خدا تعالیٰ تجھے ایک گر تہ پہنائے گا ( قمیص خلافت ) اور لوگ تجھ سے وہ چھینا چاہیں گے تو اُتار یو نہیں لے پھر آپ کی ایک رویا بھی ہے کہ ابوبکر نے ایک دو ڈول کھینچے اور عمر نے جب کھینچا تو چولہ بن گیا اور ایک رؤیا ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ پہلے خلافت حضرت ابوبکر کے ہاتھوں میں جائے گی، پھر حضرت عمر کے اور حضرت عمر اس کا انتظام خوب عمدگی کے ساتھ کریں گے.ان سب حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خلافت کا فیصلہ کر دیا تھا اور حضرت ابو بکر، عمر، علی رضی اللہ عنہم کی خلافت پیشگوئیوں کے ماتحت

Page 27

خلافة على منهاج النبوة جلد اول اور اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت تھی.خلافتِ اسلامیہ کا دستور العمل جب کہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت خلافت اسلامیہ قائم ہوئی ہے اور خود صحابہ کا دستور العمل فيها سهم اقتدا کے حکم سے قرآن شریف نے ہمارے لئے واجب الاطاعت قرار دیا ہے تو پھر کسی مسلمان کو کوئی حق نہیں کہ اس دستور العمل کے خلاف کوئی اور راہ نکالے اور اگر کوئی دوسری راہ نکالے گا تو کبھی کامیاب نہ ہو گا بلکہ خائب و خاسر ہی رہے گا.برکت اس طریق خلافت میں ہے جس پر خلفائے راشدین کے زمانہ میں عمل ہوتا رہا یعنی ایک خلیفہ ہو.اگر پارلیمنٹ اسلام میں ہوتی تو اللہ تعالیٰ ایک پارلیمنٹ کی خبر دیتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بجائے حضرت ابوبکر کی خلافت کے ایک پارلیمنٹ قائم کرتے اور بجائے حضرت عثمان کو خلافت پر قائم رہنے کی نصیحت کرنے کے خلافت سے دست بردار ہونے کی صلاح دیتے.خلافت کیا چیز ہے؟ دنیا کی روحانی اور جسمانی اصلاح کے لئے رسول کریم عزم خلفاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی نیابت کرنی.اور جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی جسمانی اور روحانی اصلاح کی طرف متوجہ رہتے تھے خلیفہ کا فرض ہے کہ مخلوق خدا کا نگران رہے.ہاں بعض دفعہ خلافتِ روحانی عـلـى حَدَہ بھی قائم ہو جاتی ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ہے وہی ارشاد دوسرے خلفاء کیلئے بہ حیثیت خلیفہ ہونے کے واجب العمل ہوگا.وہ حکم یہ ہے کہ فيمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا انْفَضُّوا مِن حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرَ لَهُمْ وَ شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فتوكل على الله إنّ اللهَ يُحِبُّ المُتون 2 اللہ تعالیٰ کے فضل سے تو ان لوگوں کے لئے نرم ہو گیا ہے ورنہ اگر تو لوگوں کو پراگندہ کر دینے والا سخت دل ہوتا تو لوگ تیرے پاس سے متفرق ہو جاتے پس تو ان کی غلطیوں کو معاف کیا کر اور خدا سے دعا مانگا کر

Page 28

خلافة على منهاج النبوة جلد اول کہ وہ ان کے گناہوں کو معاف کرے اور حکومت کے بارہ میں ان سے مشورہ کر لیا کر.پھر جب مشورہ کے بعد تو ایک بات کا پختہ ارادہ کر لے تو خدا پر توکل کر کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے پر تو کل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ کے لئے سرگر وہانِ قوم سے بلکہ بعض دفعہ ساری قوم سے مشورہ کرنے کا حکم ہے اور اس کا فرض ہے کہ گل اہم مسائل میں لوگوں سے مشورہ کر لیا کرے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان مشوروں پر کار بند بھی ضرور ہو بلکہ مشورہ کے بعد جو فیصلہ اُس کا دل کرے اُس پر کار بند ہو اور خدا پر توکل کر کے اسے جاری کر دے.احادیث و آثار سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ حکم اصل میں خلفا ء کیلئے ہیں.چنانچہ حسن بصری کا قول ہے کہ یہ حکم اس لئے نازل ہوا کہ لوگوں کے لئے سنت ہو جائے اور آئندہ خلفا ءاس پر عمل کریں.امام سیوطی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے اَمَّا انَّ اللهَ وَ رَسُولَهُ لَيَغْنِيَان عَنْهَا وَلَكِنَّ اللَّهَ جَعَلَهَا رَحْمَةً لِأُمَّتِي فَمَنِ اسْتَشَارَ مِنْ أُمَّتِي لَمْ يَعْدَمُ رُشْدًا وَمَنْ تَرَكَهَا لَمْ يَعْدَمُ غَيًّا اچھی طرح سن لو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اس مشورہ سے غنی ہیں لیکن خدا نے میری اُمت پر رحم کر کے یہ حکم دیا ہے.پس جس نے میری اُمت میں سے مشورہ کیا ہدایت سے بے بہرہ نہ ہوگا اور جس نے مشورہ نہ کیا ہلاکت میں پڑ جائے گا.اس آیت اور احادیث و آثار سے یہ بات صاف ثابت ہے کہ اسلامی خلافت اسی کا نام ہے کہ ایک خلیفہ ہو جو عمر بھر کے لئے مقرر کیا جائے اور اسی کے ساتھ ایک مشیروں کی جماعت ہو جس سے وہ مشورہ کرے.لیکن وہ اُن کے مشوروں پر کار بند ہونے کے لئے مجبور نہ ہوگا بلکہ جب وہ مشورہ کے بعد ایک رائے پر پختہ ہو جائے تو خواہ کثرتِ رائے اس کے موافق ہو یا مخالف تو کل علی اللہ کر کے اس کام کو شروع کر دے.خلفاء کا دستور العمل قرآن و حدیث سے اس مسئلہ کے متعلق اپنی تحقیق بیان کرنے کے بعد اب میں خلفاء کا دستور العمل بیان کرتا ہوں مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگوں نے واقعات کو اس طرح موڑ تو ڑ کر بیان کیا ہے کہ جس.عوام کو دھوکا ہو جاوے.حتی کہ ایک بہت بڑے مؤرخ نے زمانہ حال میں ایک خلیفہ کی

Page 29

خلافة على منهاج النبوة 11 جلد اوّل سوانح عمری میں بالالتزام اس بات کا خیال رکھا ہے کہ کس طرح نوجوان پارٹی کو خوش کرے اور اسلام میں پارلیمنٹ ثابت کرے.انالله وانا اليورْجِعُونَ.اس مؤرخ نے بھی اور چند دیگر مدعیان حریت نے بھی چند واقعات یاد کئے ہوئے ہیں کہ جنہیں وہ ہر موقع پر پیش کر دیتے ہیں کہ ان سے ثابت ہوتا ہے اسلام میں خلیفہ کی حیثیت صرف ایک پریذیڈنٹ کی تھی اور جس طرح فرانس و امریکہ کے پریذیڈنٹ ہیں اسی طرح وہ بھی ہوا کرتے تھے اور مشورہ عوام پر چلنے پر مجبور تھے.ہم اس بات سے قطعاً انکار نہیں کرتے کہ مشورہ لینے کا خلفاء کو ضرور حکم ہے اور وہ ایسا کرتے بھی تھے لیکن اس مشورہ کا پابند بنانے کے لئے انہیں کوئی حکم نہیں ملا اور قرآن وحدیث سے کہیں ثابت نہیں بلکہ خلفاء کا عمل اس کے خلاف ثابت ہے اور کئی ایسے امور ہوئے ہیں کہ جن کے متعلق خلفاء نے مشورہ تو لیا لیکن اس پر کار بند نہ ہوئے.اور یہ کچھ ضروری نہیں کہ ایسے سب معاملات تاریخ نے محفوظ ہی رکھے ہوں بلکہ چند ایک اہم واقعات محفوظ رکھے باقی حوادث زمانہ میں مٹ گئے.جیش اُسامہ کا واقعہ ایک عظیم الشان واقعہ جس میں حضرت ابو بکڑ نے کثرت رائے کی مخالفت کی ہے جیش اسامہ کا واقعہ ہے.قریباً سب انصار اور بہت سے مہاجرین ( جیسا کہ احادیث و تواریخ سے ثابت ہے ) اسامہ کے سردارِ لشکر مقرر ہونے پر معترض تھے لیکن حضرت ابو بکر نے کسی کا ایک اعتراض نہیں سنا اور انہیں کو مقرر کیا.اسی طرح اس لشکر کے بھیجنے کے متعلق بھی صحابہ کو اعتراض تھا مگر آپ نے کچھ پرواہ نہ کی اور یہ کہ کر ڈانٹ دیا کہ جس لشکر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا ہے میں اُسے کبھی نہیں روکوں گا.چنانچہ اشہر المشاہیر میں لکھا ہے کہ آپ نے لوگوں کے اس مشورہ کے جواب میں فرمایا کہ اگر مجھے اس بات کا بھی یقین ہو جائے کہ دشمن مجھ پر درندوں کی طرح حملہ کریں گے تب بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے لشکر جہاں آپ نے بھیجا ہے ضرور بھیجوں گا.مرند به رتدین سے جنگ دوسرا عظیم الشان واقعہ مرتدین سے جنگ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب عرب کی اقوام باغی ہو گئیں.

Page 30

خلافة على منهاج النبوة ۱۲ جلد اول حضرت ابو بکر نے ان سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا.صحابہ نے اعتراض کیا جس کے سرگروہ حضرت عمرؓ تھے.لیکن آپ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم ! جب تک وہ لوگ تمام زکوۃ حتی کہ ایک اونٹ کے باندھنے کی رسی بھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے ادا نہ کریں گے میں ان سے جنگ کروں گا.چنانچہ صحابہ کو سر تسلیم خم کرنا پڑا اور جنگ ہوئی.ایسی مثالیں دے کر جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر یا حضرت ابو بکر نے شوری کے مشورہ پر عمل کیا یہ ثابت کرنا کہ اس سے خلیفہ پر اطاعت شورا ی لازمی ہے غلط ہے بلکہ دیکھنا تو یہ ہے کہ جن موقعوں پر خلیفہ اور مجلس شوریٰ میں اختلاف ہوتا کیا رکیا جاتا تھا.آیا اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ باوجود اس کے کہ ایک امر خلیفہ کی خواہش کے خلاف تھا اور وہ اس پر مُصر تھا شوری نے کچھ اور کر دیا.اگر یہ ثابت ہو جائے تو تب جا کر ایسے لوگوں کے دعاوی ثابت ہوتے ہیں ورنہ نہیں مگر مذکورہ بالا مثالوں سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ایسا نہیں تھا ایسے اوقات میں خلیفہ وقت کی ہی رائے پر عمل کیا جاتا تھا.عوام کا مشورہ اور رائے عوام سے مشورہ طلب کرنا بھی بہت ضروری ہے اور خدا تعالیٰ کا حکم ہے بلکہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ جو خلیفہ مشورہ نہیں لیتا وہ خلیفہ ہی نہیں لیکن یہاں بھی سوال وہی ہے کہ فاذا عزمت فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ - بعض حریت کی مثالیں بعض لوگ خلفائے اسلامیہ کے زمانہ کی حریت ثابت کرنے کے لئے اس واقعہ کو بار بار دہرایا کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میری بات سنو.اس پر ایک شخص نے اُٹھ کر صاف کہہ دیا کہ ہم تب تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ کہ یہ گر نہ تم نے کیونکر بنایا ہے جو حصہ تمہیں ملا تھا اس سے تو یہ گر تہ تیار نہیں ہوسکتا تھا.آپ نے اس کی تسلی کی کہ میرے بیٹے نے اپنے حصہ کا کپڑا مجھے دے دیا تھا اس سے مل کر یہ گر تہ تیار ہوا.جس پر معترض نے اپنا اعتراض واپس لیا اور حضرت عمرؓ نے اپنا خطبہ سنایا ھے.اس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ہر ایک مسلمان کو خلیفہ سے محاسبہ کرنے کا حق تھا اور جب

Page 31

خلافة على منهاج النبوة ۱۳ جلد اول کہ تک وہ جواب با ثواب نہ دے اس کی اطاعت فرض نہ سمجھی جاتی تھی لیکن میرے خیال میں یہ لوگ بہت دور چلے گئے ہیں انہیں ایسی مثالیں ڈھونڈنے کے لئے دور جانے کی ضرورت نہ تھی.اگر اس قسم کے واقعات سے حریت ثابت ہوتی ہے تو یہ حریت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک خاص گروہ میں پائی جاتی تھی.چنانچہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ بنو نضیر کو جب قتل کا حکم ہوا تو عبداللہ بن ابی بن سلول نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں پڑکا ڈال دیا اور کہا جب تک انہیں چھوڑو گے نہیں میں آپ کو نہ چھوڑوں گا.جس پر آپ نے آخر ان کو چھوڑ دیا.اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال غنیمت تقسیم کیا.ایک شخص نے آپ پر اعتراض کیا اور کہا کہ آپ نے انصاف نہیں کیا جس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ میں نے انصاف نہیں کیا تو اور کون کرے گا.اب اگر اسی کا نام حریت ہے تو ان منافقین کو بھی خر اور خدام قومی کا خطاب دینا پڑے گا.اصل بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتوحات کی کثرت کی وجہ سے حدیث العہد مسلمان کثرت سے ہو گئے تھے اور وہ خلفاء کا ادب نہیں جانتے تھے اس لئے وہ اس قسم کے اعتراض کر دیتے تھے یہی لوگ جب اور بڑھے تو حضرت عثمان کے زمانہ میں سخت فتنہ کا موجب ہوئے اور آپ شہید ہوئے.حضرت علیؓ کے زمانہ میں ان کی شرارت اور بھی بڑھ گئی.اگر ان کی تقلید پر مسلمان اُتر آئے تو ان کا خدا ہی حافظ ہے.اگر یہ اعتراضات کوئی اعلیٰ حریت کا نمونہ تھے تو کیا وجہ کہ صحابہ کہار کی طرف سے نہ ہوئے.اگر یہ خوبی تھی تو سب سے زیادہ اس کے عامل عشرہ مبشرہ ہوتے مگر ان کی خاموشی ثابت کرتی ہے کہ وہ اس فعل کو جائز نہ سمجھتے تھے.حضرت عمرؓ کا اپنا قول کچھ لوگ حضرت عمرؓ کا ایک قول نقل کرتے ہیں کہ تم میری خواہشوں کی پیروی نہ کرو.مگر اس سے بھی پارلیمنٹ کا نتیجہ نکالنا غلط ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اطاعت کے عہد میں یہ شرط کرتے تھے کہ امر بالمعروف میں میری پیروی کرنا.کلے تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا

Page 32

خلافة على منهاج النبوة ۱۴ جلد اول ہے کہ نَعُوذُ بالله رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض حکم خراب بھی دیتے تھے اور ان کی پیروی نہیں کرنی چاہیے تھی.پس اس سے پارلیمنٹ کا ثبوت نکالنا غلطی ہے اب میں کافی طور سے ثابت کر چکا ہوں کہ اسلامی خلافت کا طریق یہ تھا کہ ایک خلیفہ عمر بھر کے لئے منتخب ہوتا تھا اور وہ ایک مجلس شوری سے مشورہ لے کر کام کرتا تھا مگر اس کے مشورہ کا پابند نہ ہوتا تھا اور جو لوگ ایک پارلیمنٹ کا وجود ثابت کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں.( الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۱۳ء ) ال عمران: ۱۲۰.آوازہ کسنا: طعنہ زنی کرنا.چھیڑنا ( فیروز اللغات اردو جامع صفحه ۴۵ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء) البقرة: ۸۰ النور : ۵۶ مسلم کتاب فضائل الصحابة رضى الله عنهم باب من فضائل ابي بكر الصديق رضي الله عنه صفحه ۱۰۵۱ حدیث نمبر ۶۱۸۱ مطبوعہ ریاض ۲۰۰۰ء الطبعة الثانية ابن ماجه كتاب السنة باب في فضائل اصحاب رسول الله الله صفحه ۱۸ حدیث نمبر ۱۱۲ مطبوعہ رياض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولى ک بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لوكنت متخذا خلیلا صفحه ۶۱۵ حدیث نمبر ۳۶۶۴ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولى الانعام: ۹۱ 2 ال عمران: ۱۶۰ ا تفسیر در منثور جلد ۲ صفحه ۵۹ مطبوعه بیروت ۱۹۹۰ء البقرة: ۱۵۷ ۱۲ تا تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحه ۶۰ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفى الباز ۲۰۰۴ء ۱۵ عیون الاخبار جلد اول صفحہ ۱۱۸ باب خيانات العمال مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فى الاسلام صفحه ۲۰۵ حدیث نمبر ۳۶۱۰ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولى کا بخارى كتاب مناقب الانصار باب وفود الانصار صفحه ۶۵۴ حدیث نمبر ۳۸۹۲ مطبوعه ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الأولى

Page 33

خلافة على منهاج النبوة ۱۵ جلد اول اخبار وَ مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُةٌ أَحْمَدُ ! تصديق المسيح 66 الفضل میں تصدیق المسیح کے عنوان کے تحت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے دو مضامین دو علیحدہ شماروں میں شائع ہوئے جن میں سے ایک کا عنوان ” خلیفہ بنانا خدا کا کام ہے اور دوسرے کا ” ضرورتِ امام “ تھا.ان مضامین کے متن ذیل کے صفحات میں درج کئے جا رہے ہیں :.خلیفہ بنا نا خدا کا کام ہے شریعت غراء اسلامیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ مقرر کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے.خلیفہ کہتے ہیں جو کہ اپنا حکم نافذ کرے.دوسرے کے جا بجا آنے والا.اور خلیفہ کے یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ اس کا کوئی قائمقام ہو.حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا.اِنّي جَاعِلُ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ " میں ضرور زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.قَالُوا آتَجْعَلُ فِيهَا مِّنْ يُفْسِدُ فِيهَا ويَشفِكُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ " اُنہوں عرض کیا ، کیا تو بناتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون گرائے.ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ہیں.خدا کی عجیب شان ہے کہ جو جو خدا نے خلیفہ بنایا ہے اس کی ضرور سخت مخالفت ہوتی ہے.مخالفت ابتدا میں نیک لوگ بھی کرتے ہیں اور اشرار بھی.لیکن نیک لوگوں کو خدا بچا لیتا

Page 34

خلافة على منهاج النبوة جلد اول ہے اور وہ خلیفہ برحق کے آگے سر بسجو د ہو جاتے ہیں اور ابلیس صفت لوگ اس کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتے اور اپنے تئیں بڑا سمجھ بیٹھتے ہیں.سب سے پہلا گناہ جو دنیا میں سرزد ہوا ہے وہ ابات اور تکبر ہے اور وہ گناہ خلیفہ برحق کے مقابل میں کیا گیا ہے.ارشاد الہی کے مقابلہ میں قیاس ہرگز کام نہیں آ سکتا.بڑا وہی ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالی بڑا کر دے.آنا خیر کہنے والا ہمیشہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے دور پھینکا گیا بلکہ یوں فرمایا گیا کہ جو ابلیس کی پیروی کرے گا وہ بھی دوزخ میں ڈالا جاوے گا.ایک جگہ اللہ تعالیٰ بنی آدم کو غیرت دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم اپنے مورث اعلیٰ کے قدموں کی پیروی کرو اور اس پلید خبیث ہلاک شدہ روح کی پیروی مت کرو جس نے تمہارے مورث اعلیٰ کی اطاعت سے انحراف کیا تھا.آفتتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاء مِن دولي وهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّلِمِينَ بَداً - اے آدم کی اولاد! کیا تم ابلیس کو اور اُس کی ذریت کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں.ظالموں کے لئے بہت بُرا بدلہ ہے.خلیفہ کا مقابلہ اور اس کا انکار حقیقت میں خلیفہ بنانے والے کا مقابلہ اور انکار ہوتا ہے.دیکھو حضرت آدم علیہ السلام کی اطاعت نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قَالَ يَا بَلِيسُ ما منعك أن تسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ اسْتَكْبَرْت کے فرمایا اے ابلیس ! کس چیز پنے نے تجھ کو روکا کہ اس کی فرمانبرداری کرے جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا.کیا تو تئیں بڑا خیال کرتا ہے ؟ قال ناشبط مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجُ إنك من الصيغرين.اس حالت تکبر سے اُتر جا.تیری یہ شان نہیں ہے کہ تو تکبر کرے.چلا جاتو ذلیلوں میں سے ہے.دوسرے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں خلیفہ کا لفظ حضرت داؤد علیہ السلام پر بولا ہے.يد اود انا جَعَلنَكَ خَلِيفَةً فِي الأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلا تَتَّبِم الهَوى فَيُضِلُّكَ عَن سَبِيلِ اللهِ، اِنّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ.اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ

Page 35

خلافة على منهاج النبوة 12 جلد اول بنایا تو لوگوں کے درمیان حق کا فیصلہ دے اور لوگوں کی گری ہوئی خواہشات کی پیروی نہ کر.وہ تجھ کو اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گی.جو اللہ کی راہ سے ہٹا دیتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے کیونکہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا.جانتے ہو کہ داؤد کی مخالفت کرنے والوں نے کیا ثمرہ پایا ؟ قرآن کریم میں یہ سب کچھ لکھا ہوا ہے کیوں قرآن شریف تدبر سے نہیں پڑھتے.آفَلَا يَتَدَيَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبِ اقفالها نا یہ لوگ کیوں قرآن شریف کو تدبر سے نہیں پڑھتے ؟ کیا ان کے دلوں پر قفل لگ گئے ہیں؟ چھٹے پارہ کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذلِكَ بِمَا عَصَوَاوَ كَانُوا يَعْتَدُونَ 1 ملعون قرار پائے بنی اسرائیل میں سے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا.حضرت داؤد اور حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے بنی اسرائیل کے اُن لوگوں پر لعنت کی جنہوں نے اس سے روگردانی کی اور کفر کیا.یہ اس لئے ہوا کہ وہ نافرمانی کیا کرتے تھے اور حد سے تجاوز کر جاتے تھے.حضرت داؤد علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا تھا اس کا مقابلہ کرنا کوئی چھوٹی سی بات نہ تھی.اس مقابلہ کی وجہ سے لعنت کا زنجیر ان کے گلے کا ہار بنا.اسی طرح اللہ جل شانہ نے ہم مسلمانوں کو وعدہ دیا ہوا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا اللِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْرِهِمْ وَلَيُمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وليبَة لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ، يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَمَنْ كَفَرَ بعد ذلك و الفسون الله مومنوں سے وعدہ کرتا ہے کہ تم میں سے ایمانداروں کو جو اصلاح کرنے کے قابل ہونگے زمین میں خلیفہ بنا تا رہے گا.یہاں بھی خلیفہ بنانے کے کام کو اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے جیسا کہ اس نے حضرت آدم اور حضرت داؤد علیھما السلام کی خلافت اپنی طرف منسوب کی ہے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے تقرر کو اپنی طرف منسوب کیا ہے.پس کیسے ظالم ہیں

Page 36

خلافة على منهاج النبوة ۱۸ جلد اوّل وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ لوگ خلیفہ بناتے ہیں.ان کو شرم کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے کلام کی تکذیب نہیں کرنی چاہیے.انسان بیچارہ ضعیف البنیان کیا طاقت اور سکت رکھتا ہے کہ وہ دوسرے کو بڑا بنا سکے.ان الفضل بیدِ الله سے کسی کو بڑا بنا نا خدا کے ہاتھ میں ہے کسی کے اختیار میں نہیں ہے.انسان کا علم کمزور، اُس کی طاقت اور قدرت محدود اور ضعیف.طاقتور مقتدرہستی کا کام ہے کہ کسی کو طاقت اقتدار عطا کرے اور عجیب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقرر خلافت کسی انسان کے سپردنہیں کیا.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو نامزد نہیں کیا کیونکہ آنحضور خوب سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ خود اس وقت یہ انتظام کر دے گا.ایسا ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ ال نے گھلے الفاظ میں اپنے بعد کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں کیا بلکہ یہ معاملہ اللہ کے سپر دکر دیا جو آڑے وقتوں پر اپنے بندوں اور سلسلوں کی حفاظت فرما یا کرتا ہے.اور آپ نے کھلے الفاظ میں دو قدرتوں کا ذکر فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت ہے جو ہمیشہ اسے ظاہر فرماتا رہا ہے.قدرت اوّل تو رسولوں اور نبیوں کے وجود میں ظہور پذیر ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ ان کو اپنی قدرت کاملہ سے دنیا میں استحکام بخشتا ہے اگر چہ دنیا کی زبردست طاقتیں ان کے استیصال کے در پے ہوتی ہیں اور ان کی تخریب میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا.اور یہ تو مسلم امر ہے کہ رسل کے اتباع ابتداء میں غربا ء ہی ہوا کرتے ہیں.اشراف القوم ہمیشہ مخالفت کرتے رہتے ہیں اور یہ محض اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت نمائی سے غرباء کو بڑے انسان بنا دے اور رسولوں کے مخالف اکابر کو ذلیل اور خوار کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدرت ثانیہ کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ جب رسول اپنی اُمت کے سر پر سے اُٹھ جاتا ہے اور اُس کی موت بے وقت سمجھی جاتی ہے اور اُمت پر سخت ابتلاء کی آندھیاں چلنے لگ پڑتی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنی دوسری قدرت ظاہر فرماتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو پھر سنبھال لیتا ہے اور ایک زبر دست انسان ان کے امور کا متولی بنا دیتا ہے.اور حضرت اقدس علیہ السلام نے صاف بیان فرما دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرنے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کو سخت ابتلا آیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی دوسری قدرت

Page 37

خلافة على منهاج النبوة ۱۹ جلد اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وجود میں ظاہر فرمائی اور اسلام کی کشتی کا ان کو نا خدا بنایا اور ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچا لیا.اسی قدرت ثانیہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت استخلاف میں گھلے اور بین الفاظ میں کیا ہے.بانی سلسلہ کی موت کے باعث اس کی موت پر چونکہ دین میں سخت ضعف اور اختلال واقعہ ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس خلیفہ کے ذریعہ اس دین کو تمکین عطا کر دیتا ہے اور جو اخواف اور اخطار اُس وقت پیدا ہو جاتے ہیں اُس خلیفہ کے ذریعہ سے اُن کو امن سے بدل دیتا ہے.وہ خلیفہ شرک کا سخت دشمن ہوتا ہے.عبادتِ الہی کرتا ہے اور تمام لوگوں کو شرک سے منع کرتا رہتا ہے اور عبادت الہیہ کی طرف بلا تا رہتا ہے.ہم اللہ کے محض فضل و کرم سے بتا سکتے ہیں کہ ہر خلیفہ جو اس محک " میں پورا اترا ہے وہ ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا.اور حضرت ابو بکر کے زمانہ میں تمام عرب نے ارتداد اختیار کر لیا تھا اور سوائے جوائی شاید بینہ اور مکہ کے اور مقامات کے لوگوں نے نماز تک چھوڑ دی تھی.اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ اول کے ذریعہ دین کو دوبارہ تمکین اور طاقت بخشی اور تمام خوف امن سے بدل گئے اور اللہ تعالیٰ نے دوبارہ شرک کو فروغ نہ پانے دیا.اور عبادت الہیہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتی تھی پھر ویسے ہی ہونے لگی.چوتھی بات خلفاء کے منکروں میں فسق بڑھ جاتا ہے اور ان میں راستبازی بالکل نہیں رہتی.یہی چاروں باتیں ہمارے خلیفہ اول میں مِنْ كُلِ الْوُجُوهِ موجود ہیں.آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کو تمکین بخشی.سلسلہ عالیہ پر جو خوف کی آندھیاں چلی تھیں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و رحم کے ساتھ ان کو امن میں بدل دیا.وہ اللہ کی خالص عبادت کرتا ہے ، شرک سے سخت بیزار ہے.اس کے منکر فسق و فجور میں مبتلا ہیں.کیا ان شرائط کو کسی کے وجود میں جمع کر دینا کسی انسان کا کام ہوسکتا ہے؟ یہ سب اللہ تعالیٰ کے کام ہیں.اور ہماری آنکھوں میں عجیب.بس خلیفہ بنا نا اللہ ہی کا کام ہے کسی کو اس میں دخل نہیں.“ (الفضل ۱۰؍ دسمبر ۱۹۱۳ء) اسلام نے جو اللہ تعالیٰ پیش کیا ہے اُس کی صفاتِ کاملہ کا فوٹو سورۃ ضرورت امام الحَمدُ میں کمال بسط و ایجاز سے بیان فرمایا گیا ہے اور لطیف بات

Page 38

خلافة على منهاج النبوة جلد اول یہ ہے کہ وہ صفات الہیہ افعالِ الہیہ کے عین مطابق ہیں کہ ایک عقلمند فہیم اس نظارہ کو دیکھ کر بالکل حیران و ششدر رہ جاتا ہے.سب سے بڑی صفت اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عامہ ہے.تمام اشیاء خدا تعالیٰ کی ربوبیت سے فیض پارہی ہیں.اگر اس کا یہ فیض ایک ہزارویں حصہ سیکنڈ کے لئے بھی رُک جاوے تو سلسلہ عالم درہم برہم ہو جائے.غلطی پر ہیں وہ لوگ جو یہ مان رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اب روحانی تربیت کے سلسلہ کو مسدود کر دیا ہے حالانکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ روح اور جسم میں اتنا سخت ارتباط اور توافق ہے کہ ایک بغیر دوسرے کے ایک منٹ کیلئے بھی نہیں چل سکتا.رب العلمین کی صفت صاف بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کی تربیت کرتا ہے خواہ وہ جسمانی ہوں یا روحانی.جیسا جسمانی عالم کے لئے اللہ تعالیٰ نے بارش وغیرہ سامان مہیا کر دیئے ہیں وجَعَلْنَا مِن المَاءِ كُلّ شَيْء حي پانی کے بغیر اشیاء کی طراوت اور نضارت میں سخت اختلال واقع ہو جاتا ہے ایسا ہی اگر روحانی بارش کا سلسلہ بند ہو جاوے تو روحانی عالم میں یکدم پژمردگی چھا جائے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے روحانی بارش کو بھی بند نہیں کیا اور وقتا فوقتا اللہ کی طرف سے خدا کے بندے تشریف لاتے رہتے ہیں تا کہ وہ اس خشکی کو دور کریں جو روحانی بارش نہ ہونے کی وجہ سے لاحق ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ سچے مذہب نے الہام کے ابواب کو شفل نہیں لگایا اور جن مذاہب نے ابواب الہام الہی پر قفل لگا دیا ہے وہ معرفت الہی سے بالکل خام ہیں.باوجود یکہ دنیا میں تری خشکی سے بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ تین چوتھائی دنیا میں سمندر ہے اور پھر خشکی میں جو کہ صرف ایک چوتھائی ہے اتنے دریا ہیں کہ حد وشمار سے باہر ہیں اور پہاڑوں کے ندی نالے اس کے علاوہ ہیں.پھر اس قدر پانی کے ہوتے ہوئے دنیا میں اگر بارش ایک سال کے لئے بھی بند ہو جاوے تو دنیا میں قحط کے آثار نمودار ہو جاتے ہیں.پھر اس نظارہ قدرت کو ملاحظہ کرتے ہوئے لوگ یہ سبق نہیں سیکھتے ނ که بغیر بارش الہی کے دنیا کا کام نہیں چلتا تو پھر ہم سوائے اس کے کیا کہیں کہ لوگ تغافل - کام لیتے ہیں اور ان میں احساس اور شعور نہیں پیدا ہوا.وَكَاتِن مِّنْ آيَةٍ فِي السَّمَوتِ وَالأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ کا اور زمین و آسمان میں کتنے نشان

Page 39

خلافة على منهاج النبوة ۲۱ جلد اول ہیں.لوگ ان کے پاس سے گذرتے ہیں مگر ان سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے بلکہ ان سے پھیر لیتے ہیں.دنیا میں پانی کی اس قدر بہتات اور کثرت ہے پھر بھی بغیر بارانِ الہی کے قحط پڑ جاتا ہے تو پھر کیسی بدقسمتی کی بات ہے کہ لوگ اس قانونِ الہی کو فراموش کر دیتے ہیں اور کہہ دیا کرتے ہیں کہ بس دنیا کیلئے صرف دید ہی کافی ہیں جو ابتدائے پیدائش عالم میں دنیا کو عطا ہوئے تھے.صرف ژند اوستا و دسا تیر ہی کافی ہیں جو کہ ویدوں کے بعد اہل فارس کو دیئے گئے.یہودی لوگ کہہ دیتے ہیں کہ صرف تو رات ہی کافی ہے جو بنی اسرائیل کے لئے خدائی عہد اور قانون تھا اور عیسائی صاحبان بائبل پر ہی اکتفاء کر بیٹھتے ہیں اور مسلمان بھی ان کی دیکھا دیکھی اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ جب ہمارے پاس قرآن مجید موجود ہے اور احادیث صحیحہ موجود ہیں تو پھر ہمیں کسی مجدد یا امام کی کیا ضرورت ہے.یہ ایسی ہی بات ہے کہ کوئی کہہ دے جب کہ ہمارے پاس پانی کے سمندر اور دریا اور کنویں موجود ہیں تو پھر ہمیں کسی بارش کی کیا ضرورت ہے.کیا ایسا انسان عقلمند کہلا سکتا ہے.كَلَّا وَحَاشَا.صاحبان ! جب کہ عالم جسمانی کی تربیت کے لئے سمندر ، دریا اور کنویں کافی نہیں ہیں تو پھر کس طرح روحانی سمندر، دریا اور کنویں کے ساتھ روحانی بارش کی ضرورت نہ ہو گی.اگر صرف کتب ہی کافی ہوتیں اور کسی انسان کی ضرورت نہ ہوتی تو رسل کی کیا ضرورت تھی.ہم دیکھتے ہیں کہ کتاب بغیر معلم کے کبھی کوئی پڑھ نہیں سکتا.انسان بغیر زندہ نمونہ کے کچھ سمجھ نہیں سکتا.اور یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے لئے انسان سمجھانے کے لئے بھیجے گئے ہیں اور اُنہوں نے اس تعلیم پر خود چل کر ثابت کر دیا کہ تعلیم الہی قابل عمل ہے انسانی طاقت اور وسعت سے بڑھ کر نہیں ہے.بے شک قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کے ہوتے ہوئے کسی اور تعلیم کی ضرورت نہیں ہے مگر معلم کی تو ضرورت بہر حال رہے گی کتب حساب میں مثالیں حل کی ہوئی بھی ہیں مگر پھر بھی بڑی مُغلق ہوتی ہیں کہ وہاں تک ہر ایک کے فہم کی رسائی نہیں ہوسکتی اور بغیر مدداُستاد کے انسان اس سے مستفید نہیں ہوسکتا.

Page 40

خلافة على منهاج النبوة ۲۲ جلد اول لوگوں کا کیا حق ہے کہ وہ کہیں کہ ہمیں کسی امام یا مجدد کی ضرورت نہیں ہے.جب کہ دنیا کے علوم کے سیکھنے کے لئے اُستاد سے مدد لیتے ہیں.اگر ان کی یہ دلیل اور وسیع کی جاوے تو پھر قرآن کے معلموں اور قاریوں اور مولویوں کی کیا ضرورت ہے.کیوں ہم اپنے بچوں کو کسی مولوی ، یا قاری یا حافظ کے پاس بھیجیں کہ وہ ان سے جا کر قرآن کے الفاظ پڑھے.اگر قرآن کے الفاظ سیکھنے میں انسانوں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو کیا اس کے معانی سیکھنے کے لئے خدائی ماموروں کی ضرورت پیش نہیں آئے گی؟ کسی کا کیا حق ہے کہ وہ کہے کہ ہمیں کسی مجدد یا امام یا ماً مور من اللہ انسان کی ضرورت نہیں ہے جب کہ خود قرآن شریف اور احادیث صحیحہ پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ضرور ضرور اپنی طرف سے ایسے بندے ۱۸ مبعوث فرماتا رہے گا جو کہ اس کے باغ کی آبیاری کرتے رہیں گے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تین فرائض منصبی قرآن شریف نے قرار دیئے ہیں.لقَد من الله عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايته ويزكيهم وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لفِي ضَلالٍ مُّبِينِ.اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بڑا احسان اور فضل کیا جب ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا.وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور دعاؤں سے ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور ضرور وہ اس سے پہلے گھلی گمراہی میں تھے.سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر صرف کتاب ہی کافی ہو تو پھر تالی و سکی کیا ضرورت ہے اور معلم کی کیا ضرورت ہے اور مزکی کی کیا ضرورت ہے جب کہ قرآن شریف کے عین نزول کے وقت تالی ، معلم اور مزکی کی ضرورت تھی.تو پھر اب اس قدر مرورِ زمانہ کے بعد کیوں ان کی ضرورت نہیں رہے گی.اگر عام مولوی تالی کا کام دے سکتے ہیں تو پھر مز کی اور معلم کون بنے.مزکی اور معلم بننے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آئمہ اور خلفاء اور مامورين من اللہ کا وجود باجود قائم فرمایا ہے اور ائمہ اور خلفاء کے کام بھی قرآن شریف میں ذکر فرما دیئے ہیں.وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوانت وَكَانُوا بِايَتِنا يُوقنون - امام اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں اور

Page 41

خلافة على منهاج النبوة ۲۳ جلد اول مخالفت میں صبر اور استقلال سے کام لیتے ہیں اور ان کو آیات الہی کے ساتھ کامل یقین ہوتا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا اللِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْرِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وليبة لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ، يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ل مومنوں میں سے اللہ خلیفے بناتا رہے گا.ان کے ذریعہ سے دینِ اسلام کی تمکین کرے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا.وہ عبادت الہیہ کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے.کیا اب یہ ظلم صریح نہیں کہ اب کسی مجدد یا امام یا خلیفہ کی ضرورت نہیں ہے حالانکہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خلیفہ بناتا رہے گا جب کہ قانونِ قدرت جو خدا ئی فعل ہے صاف بتا رہا ہے کہ بارانِ الہی کی ہر زمانہ میں ضرورت ہے.جب کہ قرآن مجید جو خدائی قول ہے صاف بتا رہا ہے کہ اللہ کی طرف سے خلیفہ آیا کرے گا تو کس مسلمان کا گردہ ہے کہ وہ جسارت اور جرات سے کہے کہ اب ہمیں کسی امام کی ضرورت نہیں ہے کافی ہے مانے کو اگر (الفضل ۷ جنوری ۱۹۱۴ء ) 66 اہل کوئی ہے.“ الصف: ۷ ٣،٢ البقرة: ٣١ ابا: انکار، نفرت، پرہیز ، اختلاف (فیروز اللغات اردو جامع صفحه ۵۰ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء) الاعراف: ۱۳ الكهف: ۵۱ ص: ۷۶ الاعراف: ۱۴ ص: ۲۷ ا محمد: ۲۵ ال المائدة: 29 النور : ۵۶ ۱۳ ال عمران ۷۴ :۱۴ محک : کسوٹی ( فیروز اللغات اردو جامع صفحه ۴ ۱۲۱ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء) ۱۵ جوائی: مدینہ کے قریب ایک جگہ الانبياء: ۳۱ 19 تالی: تلاوت کرنے والا كا يوسف: ١٠٦ ۱۸ ال عمران: ۱۶۵

Page 42

خلافة على منهاج النبوة ۲۴ جلد اول ۲۰ السجدة: ۲۵ النور : ۵۶

Page 43

خلافة على منهاج النبوة ۲۵ جلد اول کلمات طیبات ( حضرت مصلح موعود کی بیعت خلافت کے وقت پہلی تقریر ) فرموده ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء).اشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ سنو! دوستو! میرا یقین اور کامل یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.میرے پیارو! پھر میرا یقین ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.میرا یقین ہے کہ آپ کے بعد کوئی شخص نہیں آ سکتا جو آپ کی دی ہوئی شریعت میں سے ایک شوشہ بھی منسوخ کر سکے.میرے پیارو! میرا وہ محبوب آقاسید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ایسی عظیم الشان شان رکھتا ہے کہ ایک شخص اس کی غلامی میں داخل ہو کر کامل اتباع اور وفاداری کے بعد نبیوں کا رُتبہ حاصل کر سکتا ہے.یہ سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ایسی شان اور عزت ہے کہ آپ کی کچی غلامی میں نبی پیدا ہو سکتا ہے یہ میرا ایمان ہے اور پورے یقین سے کہتا ہوں.پھر میرا یقین ہے کہ قرآن مجید وہ پیاری کتاب ہے جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور وہ خاتم الکتب اور خاتم شریعت ہے.پھر میرا یقین کامل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہی نبی تھے جس کی خبر مسلم میں ہے اور وہی امام تھے جس کی خبر بخاری میں ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ شریعت اسلامی سے کوئی حصہ اب منسوخ نہیں ہوسکتا.صحابه کرام رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمُ اَجْمَعِینَ کے اعمال کی اقتداء کرو.وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور کامل تربیت کا نمونہ تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرا

Page 44

خلافة على منهاج النبوة ۲۶ جلد اول اجماع جو ہوا وہ وہی خلافت حقہ راشدہ کا سلسلہ ہے.خوب غور سے دیکھ لو اور تاریخ اسلام میں پڑھ لو کہ جو ترقی اسلام کی خلفائے راشدین کے زمانہ میں ہوئی جب وہ خلافت محض حکومت کے رنگ میں تبدیل ہو گئی تو گھٹتی گئی.یہاں تک کہ اب جو اسلام اور اہل اسلام کی حالت ہے تم دیکھتے ہو.تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسی منہاج نبوۃ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں کے موافق بھیجا اور ان کی وفات کے بعد پھر وہی سلسلہ خلافت راشدہ کا چلا ہے.حضرت خلیفہ اسیح مولا نا مولوی نورالدین صاحب ان کا درجہ اعلی علیین میں ہو.اللہ تعالیٰ کروڑوں کروڑ رحمتیں اور برکتیں ان پر نازل کرے جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ان کے دل میں بھری ہوئی اور ان کے رگ و ریشہ میں جاری تھی جنت میں بھی اللہ تعالیٰ انہیں پاک وجودوں اور پیاروں کے قُرب میں آپ کو اکٹھا کرے ) اس سلسلہ کے پہلے خلیفہ تھے اور ہم سب نے اسی عقیدہ کے ساتھ ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.پس جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا اسلام مادی اور روحانی طور پر ترقی کرتا رہے گا.اس وقت جو تم نے پکار پکار کر کہا ہے کہ میں اس بوجھ کو اُٹھاؤں اور تم نے بیعت کے ذریعہ اظہار کیا ہے میں نے مناسب سمجھا کہ میں تمہارے آگے اپنے عقیدہ کا اظہار کروں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ایک خوف ہے اور اپنے وجود کو بہت ہی کمزور پاتا ہوں.حدیث میں آیا ہے کہ تم اپنے غلام کو وہ کام مت بتاؤ جو وہ کر نہیں سکتا.تم نے مجھے اس وقت غلام بنانا چاہا ہے تو وہ کام مجھے نہ بتانا جو میں نہ کر سکوں.میں جانتا ہوں کہ میں کمزور اور گنہگار ہوں میں کس طرح دعوی کر سکتا ہوں کہ دنیا کی ہدایت کرسکوں گا اور حق اور راستی کو پھیلا سکوں گا.ہم تھوڑے ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم اور غریب نوازی پر ہماری امیدیں بے انتہاء ہیں.تم نے یہ بو جھ مجھ پر رکھا ہے تو سنو ! اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے میری مدد کرو اور وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے فضل اور توفیق چاہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور فرمانبرداری میں میری اطاعت کرو.

Page 45

خلافة على منهاج النبوة ۲۷ جلد اول میں انسان ہوں اور کمزور انسان.مجھ سے کمزوریاں ہوں گی تو تم چشم پوشی کرنا.تم سے غلطیاں ہوں گی میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر سمجھ کر عہد کرتا ہوں کہ میں چشم پوشی اور درگزر کروں گا اور میرا اور تمہارا متحد کام اس سلسلہ کی ترقی اور اس سلسلہ کی غرض و غایت کو عملی رنگ میں پورا کرنا ہے پس اب جو تم نے میرے ساتھ ایک تعلق پیدا کیا ہے اس کو وفاداری سے پورا کرو.تم مجھ سے اور میں تم سے چشم پوشی خدا کے فضل سے کرتا رہوں گا.تمہیں امر بالمعروف میں میری اطاعت اور فرمانبرداری کرنی ہوگی.اگر نَعُوذُ بِاللهِ کہوں کہ خدا ایک نہیں تو اُسی خدا کی قسم دیتا ہوں جس کے قبضہ قدرت میں ہم سب کی جان ہے جو وَحْدَهُ لَا شَرِیک اور لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَي لا ہے کہ میری ایسی بات ہرگز نہ ماننا.اگر میں تمہیں نَعُوذُ بِاللہ نبوت کا کوئی نقص بتاؤں تو مت ما نیو.اگر قرآن کریم کا کوئی نقص بتاؤں تو پھر خدا کی قسم دیتا ہوں مت مانیو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو خدا تعالیٰ سے وحی پا کر تعلیم دی ہے اس کے خلاف کہوں تو ہر گز ہرگز نہ ماننا.ہاں میں پھر کہتا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ امر معروف میں میری خلاف ورزی نہ کرنا.اگر اطاعت اور فرمانبرداری سے کام لو گے اور اس عہد کو مضبوط کرو گے تو یا درکھو اللہ تعالیٰ کا فضل ہماری دستگیری کریگا.ہماری متحد دعائیں کامیاب ہوں گی اور میں اپنے مولیٰ کریم پر بہت بڑا بھروسہ رکھتا ہوں مجھے یقین کامل ہے کہ کہ میری نصرت ہوگی.پرسوں جمعہ کے روز میں نے ایک خواب سنایا تھا کہ میں بیمار ہو گیا اور مجھے ران میں درد محسوس ہوا اور میں نے سمجھا کہ شاید طاعون ہونے لگا تب میں نے اپنا دروازہ بند کر لیا اور فکر کرنے لگا کہ یہ کیا ہونے لگا ہے.میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا اِنِّی أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ سے یہ خدا کا وعدہ آپ کی زندگی میں پورا ہوا.شاید خدا کے مسیح کے بعد یہ وعدہ نہ رہا ہو کیونکہ وہ پاک وجود ہمارے درمیان نہیں.اسی فکر میں میں کیا دیکھتا ہوں یہ خواب نہ تھا بیداری تھی میری آنکھیں کھلی تھیں میں درو دیوار کو دیکھتا تھا ، کمرے کی چیزیں نظر آ رہی تھیں میں نے اسی حالت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا کہ ایک سفید اور نہایت چمکتا ہوا نو ر ہے.نیچے سے آتا ہے اور اوپر چلا جاتا

Page 46

خلافة على منهاج النبوة ۲۸ جلد اول ہے نہ اس کی ابتداء ہے نہ انتہاء.اس نور میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک سفید چینی کے پیالہ میں دودھ تھا جو مجھے پلایا گیا جس کے بعد معاً مجھے آرام ہو گیا اور کوئی تکلیف نہ رہی.اس قدر حصہ میں نے سنایا تھا اس کا دوسرا حصہ اُس وقت میں نے نہیں سنا یا آب سناتا ہوں وہ پیالہ جب مجھے پلایا گیا تو معا میری زبان سے نکلا ” میری اُمت بھی کبھی گمراہ نہ ہو گی“.میری اُمت کوئی نہیں تم میرے بھائی ہو مگر اس نسبت سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہے یہ فقرے نکلے.جس کام کو مسیح موعود علیہ السلام نے جاری کیا اپنے موقع پر وہ امانت میرے سپرد ہوئی ہے.پس دعائیں کرو اور تعلقات بڑھاؤ اور قادیان آنے کی کوشش کرو اور بار بار آؤ.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا اور بار بار سنا کہ جو یہاں بار بار نہیں آتا اندیشہ ہے کہ اس کے ایمان میں نقص ہو.اسلام کا پھیلانا ہمارا پہلا کام ہے مل کر کوشش کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور فضلوں کی بارش ہو.میں پھر تمہیں کہتا ہوں ، پھر کہتا ہوں اور پھر کہتا ہوں اب جو تم نے بیعت کی ہے اور میرے ساتھ ایک تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد قائم کیا ہے اس تعلق میں وفاداری کا نمونہ دکھاؤ اور مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھو میں ضرور تمہیں یا درکھوں گا.ہاں یاد رکھتا بھی رہا ہوں.کوئی دعا میں نے آج تک ایسی نہیں کی جس میں میں نے سلسلہ کے افراد کے لئے دعا نہ کی ہو مگر اب آگے سے بھی بہت زیادہ یا درکھوں گا.مجھے کبھی پہلے بھی دعا کے لئے کوئی ایسا جوش نہیں آیا جس میں احمدی قوم کے لئے دعا نہ کی ہو.پھر سنو! کہ کوئی کام ایسا نہ کرو جو اللہ تعالیٰ کے عہد شکن کیا کرتے ہیں.ہماری دعائیں یہی ہوں کہ ہم مسلمان جیئیں اور مسلمان مریں.آمین الفاظ بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل جس طرح پر ہاتھ میں ہاتھ لے کر فرماتے جاتے تھے اور طالب تکرار کرتا تھا اسی طرح پر اب بیعت لیتے ہیں.اَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ( تین بار ) آج میں احمدی سلسلہ میں محمود کے ہاتھ پر اپنے اُن تمام گناہوں سے تو بہ کرتا

Page 47

خلافة على منهاج النبوة ۲۹ جلد اول ہوں جن میں میں گرفتار تھا اور میں سچے دل سے اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آئندہ بھی گناہوں سے بچنے کی کوشش کروں گا.اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.شرک نہیں کروں گا.اسلام کے تمام احکام بجالانے کی کوشش کروں گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کروں گا.اور مسیح موعود علیہ السلام کے تمام دعاوی پر ایمان رکھوں گا.جو تم نیک کام بتاؤ گے ان میں تمہاری فرمانبرداری کروں گا.قرآن شریف اور حدیث کے پڑھنے اور سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا.حضرت صاحب کی کتابوں کو پڑھنے یا سننے اور یاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا.اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَاتُوبُ إِلَيْهِ ( ۳ بار ) رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِى فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ اے میرے رب ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور بہت ظلم کیا.اور میں اپنے گنا ہوں کا اقرار کرتا ہوں.میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں.(آمین ) الشورى: ۱۲ تذکره صفحه ۳۴۸، ۳۴۹.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء الفضل غیر معمولی پر چه ۲۱ مارچ ۱۹۱۴ ء )

Page 48

Page 49

خلافة على منهاج النبوة ٣١ جلد اول کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ مضمون محرره ۲۱ مارچ ۱۹۱۴ء ) وَاذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلية إنّي جَاعِلُ في الأَرْضِ خَلِيفَةً ، قَالُوا اتَجْعَلُ فِيْهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ونُقَدِّسُ لَكَ ، قَالَ انّي اَعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُونَ اور جب تیرے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ مقرر کرنا چاہتا ہوں تو اُنہوں نے جواب دیا کہ کیا آر ایسے شخص کو خلیفہ مقرر کرتے ہیں جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا اور ہم وہ لوگ ہیں جو حضور کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں اور آپ کی قدوسیت کا اقرار کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس بات کو سن کر فرمایا کہ میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.یہ ایک ایسی آیت ہے جس سے خلافت کے گل جھگڑوں کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کے زمانہ سے خلافت پر اعتراض ہوتے چلے آئے ہیں اور ہمیشہ بعض لوگوں نے خلافت کے خلاف جوشوں کا اظہار کیا ہے پس میں بھی جماعت احمدیہ کو اسی آیت کی طرف متوجہ کرتا ہوں تا وہ صِرَاطِ مُسْتَقِیم کو پا سکے اور ہدایت کی راہ معلوم کر سکے.خوب یا درکھو کہ خلیفہ خدا بنا تا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کر دہ ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اسی مولوی نورالدین صاحب اپنی خلافت کے زمانہ میں چھ سال متواتر اس مسئلہ پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے نہ انسان.اور درحقیقت قرآن شریف کا غور سے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت

Page 50

خلافة على منهاج النبوة ۳۲ جلد اول انسانوں کی طرف نہیں کی گئی بلکہ ہر قسم کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ انہیں ہم بناتے ہیں چنانچہ انبیاء و مأمورین کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وعد الله الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا اللِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وليبة لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَمَن كَفَرَ بعد ذلك فأول هُمُ الفسقُونَ الله تعالی تم میں سے مؤمنوں اور نیک اعمال والوں سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں اسی طرح زمین میں خلیفہ مقرر فرمائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو مقرر کیا اور ان خلفاء کے اس دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے قائم کرے گا اور ان کے خوفوں کو امن سے بدل دے گا وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرا کسی کو شریک نہیں قرار دیں گے اور جو شخص اس حکم کے ہوتے ہوئے بھی ان کا انکار کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ سے دور کیا جائے گا.اب اس آیت کے ماتحت جس قسم کی خلافت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوئی وہی خلافت راشدہ ہے اور اسی قسم کی خلافت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ہونی ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے هُوَ الَّذِي بَعَتْ في الأَمينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ ويُعَلِّمُهُمُ الكتب والحِكْمَةَ، وَ اِنْ كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ وأخرينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ خدا ہی ہے جس نے اُمیوں میں ایک رسول بھیجا جو انہی میں سے ہے اور جو ان پر خدا کا کلام پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور بیشک اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میں تھے اور وہ رسول ایک اور قوم کو بھی سکھائے گا جو ابھی تک ان سے نہیں ملی اور خدا تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے تشبیہہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ ایک دفعہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی تربیت کی ہے اور ایک دفعہ وہ پھر ایک اور قوم کی تربیت کریں.

Page 51

خلافة على منهاج النبوة ۳۳ جلد اول گے جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئی.پس مسیح موعود کی جماعت کو صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مشابہہ قرار دے کر بتا دیا ہے کہ دونوں میں ایک ہی قسم کی سنت جاری ہوگی پس جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ہوا ضرور تھا کہ مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی ایسا ہی ہوتا.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں صاف لکھ دیا ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکر کے ذریعہ دوسری قدرت کا اظہار ہوا ضرور ہے کہ تم میں بھی ایسا ہی ہو.اور اس عبارت کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے بعد سلسلۂ خلافت کے منتظر تھے مگر جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر میں صرف اشارات پر اکتفا کیا اسی طرح آپ نے بھی اشارات کو ہی کافی سمجھا کیونکہ ضرور تھا کہ جس طرح پہلی قدرت یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے وقت ابتلاء آئے دوسری قدرت یعنی سلسلہ خلافت کے وقت بھی ابتلاء آتے.ہاں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ خلیفہ اپنے پیش رو کے کام کی نگرانی کے لئے ہوتا ہے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء مُلک و دین دونوں کی حفاظت پر مامور تھے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی دونوں بادشاہتیں دی تھیں لیکن مسیح موعود علیہ السلام جس کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جمالی ظہور ہوا صرف دینی بادشاہ تھا اس لئے اس کے خلفاء بھی اسی طرز کے ہوں گے.پس جماعت کے اتحاد اور شریعت کے احکام کو پورا کرنے کیلئے ایک خلیفہ کا ہونا ضروری ہے اور جو اس بات کو رڈ کرتا ہے وہ گویا شریعت کے احکام کو ر ڈ کرتا ہے صحابہ کا عمل اس پر ہے اور سلسلہ احمدیہ سے بھی خدا تعالیٰ نے اسی کی تصدیق کرائی ہے.جماعت کے معنی ہی یہی ہیں کہ وہ ایک امام کے ماتحت ہو جو لوگ کسی امام کے ماتحت نہیں وہ جماعت نہیں اور ان پر خدا تعالیٰ کے وہ فضل نازل نہیں ہو سکتے اور کبھی نہیں ہو سکتے جو ایک جماعت پر ہوتے ہیں.پس اے جماعت احمد یہ ! اپنے آپ کو ابتلاء میں مت ڈال اور خدا تعالیٰ کے احکام کو رڈ مت کر کہ خدا کے حکموں کو ٹالنا نہایت خطرناک اور نقصان دہ ہے.اسلام کی حقیقی ترقی اُس زمانہ میں ہوئی جو خلافت راشدہ کا زمانہ کہلاتا ہے پس تو اپنے ہاتھ سے اپنی ترقیوں کو

Page 52

خلافة على منهاج النبوة ۳۴ جلد اول مت روک اور اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مت مار.کیسا نا دان ہے وہ انسان جو اپنا گھر آپ گراتا ہے اور کیا ہی قابلِ رحم ہے وہ شخص جو اپنے گلے پر آپ چھری پھیرتا ہے پس تو اپنے ہاتھ سے اپنی تباہی کا بیج مت بو اور جو سامان خدا تعالیٰ نے تیری ترقی کیلئے بھیجے ہیں اُن کو ر ڈمت کر کیونکہ فرمایا ہے لَئِن شَكَرْتُمْ لا زيد تكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدُ البتہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں بڑھاؤں گا اور زیادہ دوں گا اور اگر تم نے ناشکری کی راہ اختیار کی تو یا درکھو کہ میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے.یہ ایک دھوکا ہے کہ سلسلۂ خلافت سے شرک پھیلتا ہے اور گدیوں کے قائم ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ آج سے تیرہ سو سال پہلے خدا تعالیٰ نے خود اس خیال کو رڈ فرما دیا ہے کیونکہ خلفاء کی نسبت فرماتا ہے يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شيعا خلفاء میری ہی عبادت کیا کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں قرار دیں گے.خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ ایک زمانہ میں خلافت پر یہ اعتراض کیا جائے گا کہ اس سے شرک کا اندیشہ ہے اور غیر مامور کی اطاعت جائز نہیں پس خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں ہی اس کا جواب دے دیا کہ خلافت شرک پھیلانے والی نہیں بلکہ اسے مٹانے والی ہوگی اور خلیفہ مشرک نہیں بلکہ موحد ہوں گے ورنہ آیت استخلاف میں شرک کے ذکر کا اور کوئی موقع نہ تھا.غرض کہ خلافت کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا خصوصاً وہ قوم جو اپنے عمل سے چھ سال تک مسلۂ خلافت کے معنی کر چکی ہو اس کا ہر گز حق نہیں کہ اب خلافت کی تحقیقات شروع کرے.اور اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو سمجھا جائے گا کہ خلیفہ اول کی بیعت بھی اس نے نفاق سے کی تھی کیونکہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ خلفائے سلسلہ اوّل سے مشابہت دیتا تھا اور خلیفہ کی حیثیت میں بیعت لیا کرتا تھا اور اس کے وعظوں اور لیکچروں میں اس امر کو ایسا واضح کر دیا گیا تھا کہ کوئی راستباز انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا اور اب اس کی وفات کے بعد کسی کا حق نہیں کہ جماعت میں فساد ڈلوائے.مجھے اس مضمون کے لکھنے کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں تفرقہ کے آثار ہیں اور بعض لوگ خلافت کے خلاف لوگوں کو جوش دلا رہے ہیں

Page 53

خلافة على منهاج النبوة ۳۵ جلد اول یا کم سے کم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خلیفہ ایک پریذیڈنٹ کی حیثیت میں ہو اور یہ کہ ابھی تک جماعت کا کوئی خلیفہ نہیں ہوا.مگر میں اس اعلان کے ذریعہ سے تمام جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ خلیفہ کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں اور اس کی بیعت کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح حضرت خلیفہ اول کی تھی اور یہ بات بھی غلط مشہور کی جاتی ہے کہ جماعت کا اس وقت تک کوئی خلیفہ مقرر نہیں ہوا بلکہ خدا نے جسے خلیفہ بنانا تھا بنا دیا اور اب جو شخص اس کی مخالفت کرتا ہے وہ خدا کی مخالفت کرتا ہے.میں نے کسی سے درخواست نہیں کی کہ وہ میری بیعت کرے نہ کسی سے کہا کہ وہ میرے خلیفہ بننے کے لئے کوشش کرے.اگر کوئی شخص ایسا ہے تو وہ علی الاعلان شہادت دے کیونکہ اس کا فرض ہے کہ جماعت کو دھوکے سے بچائے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ خدا کی لعنت کے نیچے ہے اور جماعت کی تباہی کا عذاب اُس کی گردن پر ہو گا.اے پاک نفس انسا نو ! جن میں بدظنی کا مادہ نہیں میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے کبھی انسان سے خلافت کی تمنا نہیں کی اور یہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے بھی کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ وہ مجھے خلیفہ بنادے یہ اُس کا اپنا فعل ہے یہ میری درخواست نہ تھی.میری درخواست کے بغیر یہ کام میرے سپر د کیا گیا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے کہ اس نے اکثروں کی گردنیں میرے سامنے جُھکا دیں میں کیونکر تمہاری خاطر خدا تعالیٰ کے حکم کو ر ڈ کر دوں.مجھے اُس نے اسی طرح خلیفہ بنایا جس طرح پہلوں کو بنایا تھا.گو میں حیران ہوں کہ میرے جیسا نالائق انسان اُسے کیونکر پسند آ گیا لیکن جو کچھ بھی ہو اُس نے مجھے پسند کر لیا اور اب کوئی انسان اس گر تہ کو مجھ سے نہیں اُتار سکتا جو اُس نے مجھے پہنایا ہے.یہ خدا کی دین ہے اور کون سا انسان ہے جو خدا کے عطیہ کو مجھ سے چھین لے.خدا تعالیٰ میرا مددگار ہوگا.میں ضعیف ہوں مگر میرا مالک بڑا طاقتور ہے، میں کمزور ہوں مگر میرا آقا بڑا تو انا ہے، میں بلا اسباب ہوں مگر میرا بادشاہ تمام اسبابوں کا خالق ہے، میں بے مددگار ہوں مگر میرا رب فرشتوں کو میری مدد کیلئے نازل فرمائے گا.(إِنشَاءَ الله ) میں بے پناہ ہوں مگر میرا محافظ وہ ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی پناہ کی ضرورت نہیں.لوگ کہتے ہیں میں جھوٹا ہوں اور یہ کہ میں مدتوں سے بڑائی کا طلبگار تھا اور فخر میں مبتلا

Page 54

خلافة على منهاج النبوة جلد اول تھا ، جاہ طلبی مجھے چین نہ لینے دیتی تھی مگر میں ان لوگوں کو کہتا ہوں کہ تمہارا اعتراض تو وہی ہے جو ثمود نے صالح پر کیا یعنی بَلْ هُوَ كَذَاب آشر وہ تو جھوٹا اور متکبر اور بڑائی کا طالب ہے.اور میں بھی تم کو وہی جواب دیتا ہوں جو حضرت صالح علیہ الصلوۃ والسلام نے دیا کہ سَيَعْلَمُونَ غَدًا مَّنِ الكَذَّابُ الأَشرُ ذرا صبر سے کام لو خدا تعالیٰ کچھ دنوں تک خود بتا دے گا کہ کون جھوٹا اور متکبر ہے اور کون بڑائی کا طلبگار ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلافت کے انتخاب کیلئے ایک لمبی میعاد مقرر ہونی چاہیے تھی کہ کل جماعتیں اکٹھی ہوتیں اور پھر انتخاب ہوتا لیکن اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی جاتی کہ ایسا کیوں ہوتا.نہ تو ایسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوا اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ ا کی وفات پر ہوا.حضرت مولوی نورالدین صاحب کی بیعت کرنے والے ۱۲۰۰ آدمی تھے اور ۲۴ گھنٹہ کا وقفہ ہوا تھا لیکن اب ۲۸ گھنٹہ کے وقفہ کے بعد قریبا دو ہزار آدمی نے ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کی.حالانکہ حالات بھی مخالف تھے اور یہ سوال پیدا کیا گیا تھا کہ خلافت کی ضرورت ہی نہیں اور یہ خدا تعالیٰ ہی کا کام تھا کہ اس نے اس فتنہ کے وقت جماعت کو بچا لیا اور ایک بڑے حصہ کو ایک شخص کے ہاتھ پر متحد کر دیا.حضرت ابو بکر کے ہاتھ پر تو ابتدا میں صرف تین آدمیوں نے بیعت کی تھی یعنی حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ نے مہاجرین میں سے اور قیس بن سعد نے انصار میں سے.اور بیعت کے وقت بعض لوگ تلواروں کے ذریعہ سے بیعت کو روکنا چاہتے تھے اور پکڑ پکڑ کر لوگوں کو اُٹھانا چاہتے تھے اور بعض تو ایسے جوش میں تھے کہ طعنہ دیتے تھے اور بیعت کو لغو قرار دیتے تھے تو کیا اس کا یہ نتیجہ سمجھنا چاہئے کہ نَعُوذُ بِاللهِ حضرت ابو بکر کو خلافت کی خواہش تھی کہ صرف تین آدمیوں کی بیعت پر آپ بیعت لینے کے لئے تیار ہو گئے اور باوجود سخت مخالفت کے بیعت لیتے رہے یا یہ نتیجہ نکالا جائے کہ آپ کی خلافت نا جائز تھی.مگر جو شخص ایسا خیال کرتا ہے وہ جھوٹا ہے.پس جب کہ ایک شخص کی دو ہزار آدمی بیعت کرتے ہیں اور صرف چند آدمی بیعت سے الگ رہتے ہیں تو کون ہے جو کہہ سکے کہ وہ خلافت نا جائز ہے.اگر اس کی خلافت ناجائز ہے تو ابو بکر، عثمان و علی اور نور الدین رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ کی خلافت اس سے بڑھ کرنا جائز ہے.

Page 55

خلافة على منهاج النبوة ۳۷ جلد اول پس خدا کا خوف کرو اور اپنے منہ سے وہ باتیں نہ نکالو جو کل تمہارے لئے مصیبت کا باعث ہوں.اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرو اور وہ سلسلہ جو اس کے مامور نے سالہا سال کی مشقت اور محنت سے تیار کیا تھا اسے یوں اپنے بغضوں اور کینوں پر قربان نہ کرو.مجھ پر اگر اعتراض ہوتے ہیں کیا ہوا مجھے وہ شخص دکھاؤ جس کو خدا نے اس منصب پر کھڑا کیا جس پر مجھے کیا.اور اس پر کوئی اعتراض نہ ہوا ہو.جب کہ آدم پر فرشتوں نے اعتراض کیا تو میں کون ہوں جو اعتراضوں سے محفوظ رہوں.فرشتوں نے بھی اپنی خدمات کا دعوی کیا تھا اور ابلیس نے بھی اپنی بڑائی کا دعویٰ کیا تھا مگر بے خدمت آدم جو ان کے مقابلہ میں اپنی کوئی بڑائی اور خدمت نہیں پیش کر سکتا تھا خدا کو وہی پسند آیا اور آخر سب کو اس کے سامنے جھکنا پڑا.پس اگر آدم کے مقابلہ میں فرشتوں نے اپنی خدمات کا دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے بڑی بڑی خدمات کی ہیں وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ ل آج بھی وہی دعوی نہ پیش کیا جاتا.مگر فرشتہ خصلت ہے وہ انسان جو ٹھو کر کھا کر سنبھلتا ہے اور خدا تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو تکبر کی وجہ سے آخر تک اطاعت سے سر گردان رہے.پس اے میرے دوستو ! تم فرشتہ بنو اور اگر تم کو ٹھوکر لگی بھی ہے تو تو بہ کرو کہ تا خدا تمہیں ملائکہ میں جگہ دے ورنہ یا درکھو کہ فتنہ کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا.کیا تمہیں مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں پر اعتبار نہیں ؟ اگر نہیں تو تم احمدی کس بات کے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سبز اشتہار میں ایک بیٹے کی پیشگوئی کی تھی کہ اس کا ایک نام محمود ہوگا دوسرا نام فضل عمر ہو گا اور تریاق القلوب میں آپ نے اس پیشگوئی کو مجھ پر چسپاں بھی کیا ہے.پس مجھے بتاؤ کہ عمر کون تھا ؟ اگر تمہیں علم نہیں تو سنو کہ وہ دوسرا خلیفہ تھا.پس میری پیدائش سے پہلے خدا تعالیٰ نے یہ مقدر کر چھوڑا تھا کہ میرے سپر د وہ کام کیا جائے جو حضرت عمر کے سپر د ہوا تھا.پس اگر مرزا غلام احمد خدا کی طرف سے تھا تو تمہیں اس شخص کے ماننے میں کیا عذر ہے جس کا نام اس کی پیدائش سے پہلے عمر رکھا گیا.اور میں تمہیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حضرت خلیفتہ المسیح کی زندگی میں اس پیشگوئی کا مجھے کچھ بھی علم نہ تھا بلکہ بعد میں ہوا.

Page 56

خلافة على منهاج النبوة ۳۸ جلد اول اس پیشگوئی کے علاوہ خدا تعالیٰ نے سینکڑوں آدمیوں کو خوابوں کے ذریعہ سے میری طرف جھکا دیا اور قریباً ڈیڑھ سو خواب تو ان چند دنوں میں مجھ تک بھی پہنچ چکی ہے اور میرا ارادہ ہے کہ اس کو شائع کر دیا جائے.اور میری ان تمام باتوں سے یہ غرض نہیں ہے کہ میں اپنی بڑائی بیان کروں بلکہ غرض یہ ہے کہ کسی طرح جماعت کا تفرقہ دور ہو اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی ہدایت دے جو اس وقت ایک اتحاد کی رسی میں نہیں جکڑے گئے.ورنہ میری طبیعت ان باتوں کے اظہار سے نفرت کرتی ہے.مگر جماعت کا اتحاد مجھے سب باتوں سے زیادہ پیارا ہے.وہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں یا اب تک بیعت میں داخل نہیں ہوئے آخر کیا چاہتے ہیں؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ آزا در ہیں ؟ مگر وہ یا درکھیں کہ ان کا ایسا کرنا اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے مترادف ہوگا.پھر کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی اور خلیفہ مقرر کریں ؟ اگر وہ ایسا چاہتے ہیں تو یا درکھیں کہ ایک وقت میں دو خلیفہ نہیں ہو سکتے اور شریعت اسلام اسے قطعاً حرام قرار دیتی ہے.پس اب وہ جو کچھ بھی کریں گے اس سے جماعت میں تفرقہ پیدا کریں گے.خدا چاہتا ہے کہ جماعت کا اتحاد میرے ہی ہاتھ پر ہو اور خدا کے اس ارادہ کو اب کوئی نہیں روک سکتا.کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ان کے لئے صرف دو ہی راہ کھلے ہیں.یا تو وہ میری بیعت کر کے جماعت میں تفرقہ کرنے سے باز رہیں یا اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ کر اس پاک باغ کو جسے پاک لوگوں نے خون کے آنسوؤں سے سینچا تھا اُکھاڑ کر پھینک دیں.جو کچھ ہو چکا ہو چکا مگر اب اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کا اتحاد ایک ہی طریق سے ہوسکتا ہے کہ جسے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ورنہ ہر ایک شخص جو اس کے خلاف چلے گا تفرقہ کا باعث ہوگا.میرا دل اس تفرقہ کو دیکھ کر اندر ہی اندر گھلا جاتا ہے اور میں اپنی جان کو پکھلتا ہوا دیکھتا ہوں رات اور دن میں غم و رنج سے ہم صحبت ہوں.اس لئے نہیں کہ تمہاری اطاعت کا میں شائق ہوں بلکہ اس لئے کہ جماعت میں کسی طرح اتحاد پیدا ہو جائے.لیکن میں اس کے ساتھ ہی کوئی ایسی بات نہیں کر سکتا جو عہدہ خلافت کی ذلت کا باعث ہو.وہ کام جو خدا نے

Page 57

خلافة على منهاج النبوة ۳۹ جلد اول میرے سپرد کیا ہے خدا کرے کہ عزت کے ساتھ اس سے عہدہ برآ ہوں اور قیامت کے دن مجھے اپنے مولا کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے.اب کون ہے جو مجھے خلافت سے معزول کر سکے.خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے انتخاب میں غلطی نہیں کرتا.اگر سب دنیا مجھے مان لے تو میری خلافت بڑی نہیں ہوسکتی.اور اگر سب کے سب خدانخواستہ مجھے ترک کر دیں تو بھی خلافت میں فرق نہیں آ سکتا.جیسے نبی اکیلا بھی نبی ہوتا ہے اسی طرح خلیفہ اکیلا بھی خلیفہ ہوتا ہے.پس مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلہ کو قبول کرے.خدا تعالیٰ نے جو بو جھ مجھ پر رکھا ہے وہ بہت بڑا ہے اور اگر اُسی کی مدد میرے شامل حال نہ ہو تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا.لیکن مجھے اس پاک ذات پر یقین ہے کہ وہ ضرور میری مدد کرے گی.میرا فرض ہے کہ جماعت کو متحد رکھوں اور انہیں متفرق نہ ہونے دوں اس لئے ہر ایک مشکل کا مقابلہ کرنا میرا کام ہے اور انشاء الله آسمان سے میری مدد ہوگی.میں اس اعلان کے ذریعہ ہر ایک شخص پر جو اب تک بیعت میں داخل نہیں ہوا یا بیعت کے عہد میں متردد ہے حجت پوری کرتا ہوں اور خدا کے حضور میں اب مجھ پر کوئی الزام نہیں.خدا کرے میرے ہاتھ سے یہ فسادفر و ہو جائے اور یہ فتنہ کی آگ بجھ جائے تا کہ وہ عظیم الشان کام جو خلیفہ کا فرض اوّل ہے یعنی کل دنیا میں اپنے مُطاع کی صداقت کو پہنچانا میں اُس کی طرف پوری توجہ کر سکوں.کاش ! میں اپنی موت سے پہلے دنیا کے دور دراز علاقوں میں صداقتِ احمد یہ روشن دیکھ لوں.وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللهِ بِعَزِيز اپنے رب پر بہت سی امیدیں ہیں اور میں اس کے حضور میں دعاؤں میں لگا ہوا ہوں اور چاہیے کہ وہ تمام جماعت جو خدا کے فضل کے ماتحت اس ابتلاء سے محفوظ رہی ہے اس کام میں میری مدد کرے اور دعاؤں سے اس فتنہ کی آگ کو فرو کرے.اور جو ایسا کریں گے خدا کے فضل کے وارث ہو جائیں گے اور میری خاص دعاؤں میں ان کو حصہ ملے گا.میرے پیارو! آجکل نمازوں میں خشوع و خضوع زیادہ کرو اور تہجد کے پڑھنے میں بھی سُستی نہ کرو.جو روزہ رکھ سکتے ہیں وہ روزہ رکھیں اور جو صدقہ دے سکتے ہیں وہ صدقہ دیں.نہ معلوم کس کی دعا سے، کس کے روزے سے، کس کے صدقہ سے خدا تعالیٰ اس

Page 58

خلافة على منهاج النبوة جلد اول اختلاف کی مصیبت کو ٹال دے اور احمدی جماعت پھر شاہراہ ترقی پر قدم زن ہو.خوب یاد رکھو کہ گوا کثر حصہ جماعت بیعت کر چکا ہے مگر تھوڑے کو بھی تھوڑا نہ سمجھو کیونکہ ایک باپ یا ایک بھائی کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے دس بیٹوں یا بھائیوں میں سے ایک بھی جدا ہو جائے پس ہم کیونکر پسند کر سکتے ہیں کہ ہمارے بھائیوں میں سے بعض کھوئے جائیں خدا نہ کرے کہ ایسا ہو.پھر میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ فتنہ کی مجلسوں میں مت بیٹھو کیونکہ ابتداء میں انسان کا ایمان ایسا مضبوط نہیں ہوتا کہ وہ ہر ایک زہر سے بچ سکے.پس ایسا نہ ہو کہ تم ٹھوکر کھاؤ.ان دو نصیحتوں کے علاوہ ایک اور تیسری نصیحت بھی ہے اور وہ یہ کہ جہاں جہاں تمہیں معلوم ہو کہ اختلاف کی آگ بھڑک رہی ہے وہاں وہ لوگ جو مضبوط دل رکھتے ہیں اپنے وقت کا حرج کر کے بھی پہنچیں اور اپنے بھائیوں کی جان بچائیں اور جو ایسا کریں گے خدا کی اُن پر بڑی بڑی رحمتیں ہوں گی.فتنے ہیں اور ضرور ہیں مگر تم جو اپنے آپ کو اتحاد کی رسی میں جکڑ چکے ہو خوش ہو جاؤ کہ انجام تمہارے لئے بہتر ہو گا.تم خدا کی ایک برگزیدہ قوم ہو گے اور اس کے فضل کی بارشیں إِنْشَاءَ اللہ تم پر اس زور سے برسیں گی کہ تم حیران ہو جاؤ گے.میں جب اس فتنہ سے گھبرایا اور اپنے رب کے حضور گرا تو اس نے میرے قلب پر یہ مصرعہ نازل فرمایا کہ شکراللہ مل گیا ہم کو وہ لعلِ بے بدل اتنے میں مجھے ایک شخص نے جگا دیا اور میں اُٹھ کر بیٹھ گیا مگر پھر مجھے غنودگی آئی اور میں اس غنودگی میں اپنے آپ کو کہتا ہوں کہ اس کا دوسرا مصرعہ یہ ہے کہ کیا ہوا گر قوم کا دل سنگ خارا ہو گیا مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ دوسرا مصرعہ الہامی تھا یا بطور تفہیم تھا.پھر کل بھی میں نے اپنے رب کے حضور میں نہایت گھبرا کر شکایت کی کہ مولا ! میں ان غلط بیانیوں کا کیا جواب دوں جو میرے برخلاف کی جاتی ہیں اور عرض کی کہ ہر ایک بات حضور ہی کے اختیار میں ہے اگر آپ چاہیں تو اس فتنہ کو دور کر سکتے ہیں تو مجھے ایک جماعت کی

Page 59

خلافة على منهاج النبوة ۴۱ جلد اول نسبت بتایا گیا کہ لَیمَ قَنَّهُمْ یعنی اللہ تعالیٰ ضرور ضرور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.پس اس.سے معلوم ہوتا ہے ابتلاء ہیں لیکن انجام بخیر ہو گا مگر یہ شرط ہے کہ تم اپنی دعاؤں میں کوتا ہی نہ کرو.حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ بعض بڑے چھوٹے کئے جائیں گے اور چھوٹے بڑے کئے جائیں گے لا پس خدا کے حضور میں گر جاؤ کہ تم ان چھوٹوں میں داخل کئے جاؤ جنہوں نے بڑا ہونا اور ان بڑوں میں داخل نہ ہو جن کیلئے چھوٹا ہونا مقدر ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے اور اپنے فضل کے سایہ کے نیچے رکھے اور شماتت اعداء سے بچائے.اسلام پر ہی ہماری زندگی ہو اور اسلام پر ہی ہماری موت ہو.آمین يَارَبَّ الْعَلَمِينَ خاکسار مرز امحمود احمد از قادیان ۲۱ / مارچ ۱۹۱۴ء (انوار العلوم جلد ۲ صفحه ۱۱ تا ۱۹) البقرة: ٣١ النور: ۵۶ الجمعة: ۴،۳ ابراهیم: ۸ ه النور : ۵۶ القمر : ٢٧،٢٦ البقرة: ٣١ ابراهیم ۲۱ ا تذکرہ صفحه ۴۵۳.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء

Page 60

Page 61

خلافة على منهاج النبوة ۴۳ جلد اول منصب خلافت ( نمائندگان جماعت سے ایک اہم خطاب فرموده ۱۲ / اپریل ۱۹۱۴ء ) أَشْهَدُ أَنْ لا إِلهُ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة ويُزَكِّيهِمْ، إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ دعائے ابراہیم اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایک پیشگوئی کا ذکر فرمایا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے رنگ میں ہے وہ دعا جو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر مکہ کے وقت کی.رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ابْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة ويُزَكِّيهِمْ، إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الحَکیمُ یہ دعا ایک جامع دعا ہے اس میں اپنی ذریت میں سے ایک نبی کے مبعوث ہونے کی دعا کی.پھر اسی دعا میں یہ ظاہر کیا کہ انبیاء علیہم السلام کے کیا کام ہوتے ہیں، ان کے آنے کی کیا غرض ہوتی ہے؟ فرمایا الہی ! ان میں ایک رسول ہو ، انہی میں سے ہو.انبیاء کی بعثت کی غرض وہ رسول جو مبعوث ہواس کا کیا کام ہو؟ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ایت اس کا پہلا کام یہ ہو کہ وہ تیری آیات ان پر پڑھے.دوسرا كام وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة اُن کو کتاب سکھائے اور تیسرا کام یہ ہو کہ حکمت سکھائے.چوتھا کام دیزکیھم اُن کو پاک کرے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد میں مبعوث ہونے والے ایک رسول کے لئے

Page 62

خلافة على منهاج النبوة ۴۴ جلد اول دعا کی اور اس دعا ہی میں اُن اغراض کو عرض کیا جو انبیاء کی بعثت سے ہوتی ہیں اور یہ چار کام ہیں.میں نے غور کر کے دیکھا ہے کہ کوئی کام اصلاح عالم کا نہیں جو اس سے باہر رہ جاتا ہو.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاح دنیا کی تمام اصلاحوں کو اپنے اندر رکھتی ہے.انبیاء علیہم السلام کے اغراض بعثت پر غور کرنے کے بعد یہ سمجھ لینا بہت خلفاء کا کام آسان ہے کہ خلفاء کا بھی یہی کام ہوتا ہے کیونکہ خلیفہ جو آتا ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اپنے پیشرو کے کام کو جاری کرے پس جو کام نبی کا ہوگا وہی خلیفہ کا ہوگا.اب اگر آپ غور اور تدبر سے اس آیت کو دیکھیں تو ایک طرف نبی کا کام اور دوسری طرف خلیفہ کا کام بھل جائے گا.میں نے دعا کی تھی کہ میں اس موقع پر کیا کہوں تو اللہ تعالیٰ نے میری توجہ اس آیت کی طرف پھیر دی اور مجھے اسی آیت میں وہ تمام باتیں نظر آئیں جو میرے اغراض اور مقاصد کو ظاہر کرتی ہیں اس لئے میں نے چاہا کہ اس موقع پر چند استدلال پیش کر دوں.شکر ربانی بر جماعت حقانی مگر اس سے پہلے کہ میں استدلال کو پیش کروں میں خدا تعالیٰ کا شکر کرنا چاہتا ہوں کہ اس نے ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جس کے دیئے جانے کا انبیاء سے وعدہ الہی ہوتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ چاروں طرف سے محض دین کی خاطر ، اسلام کی عزت کے لئے اپنا روپیہ خرچ کر کے اور اپنے وقت کا حرج کر کے احباب آئے ہیں.میں جانتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے مخلص دوستوں کی محنت کو ضائع نہیں کرے گا وہ بہتر سے بہتر بدلے دے گا کیونکہ وہ اس وعدہ کے موافق آئے ہیں جو خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام سے کیا تھا.اس لئے جب کل میں نے درس میں ان دوستوں کو دیکھا تو میرا دل خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر سے بھر گیا کہ یہ لوگ ایسے شخص کے لئے آئے ہیں جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ چالباز ہے ( نَعُوذُ بِاللهِ ) اور پھر میرے دل میں اور بھی جوش پیدا ہوا جب میں نے دیکھا کہ وہ میرے دوستوں کے بُلا نے ہی پر جمع ہو گئے ہیں.اس لئے آج رات کو میں نے بہت دعائیں کیں اور اپنے رب سے یہ عرض کیا کہ الہی ! میں تو غریب ہوں میں ان لوگوں کو کیا دے سکتا ہوں حضور ! آپ ہی

Page 63

خلافة على منهاج النبوة ۴۵ جلد اول اپنے خزانوں کو کھول دیجئے اور ان لوگوں کو جو محض دین کی خاطر یہاں جمع ہوئے ہیں اپنے فضل سے حصہ دیجئے.اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو ضرور قبول کرے گا کیونکہ مجھے یاد نہیں میں نے کبھی دردِ دل اور بڑے اضطراب سے دعا کی ہوا اور وہ قبول نہ ہوئی ہو.بچہ بھی جب درد سے چلاتا ہے تو ماں کی چھاتیوں میں دودھ جوش مارتا ہے.پس جب ایک چھوٹے بچے کے لئے باوجود ایک قلیل اور عارضی تعلق کے اس کے چلانے پر چھاتیوں میں دودھ آ جاتا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی اضطراب اور درد سے دعا کرے اور وہ قبول نہ ہو.میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ وہ دعا ضرور قبول ہوتی ہے یہ معاملہ میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہر شخص کے ساتھ ہے چنانچہ فرماتا ہے.وإذا سألكَ عِبَادِي عَنِّي فَانّي قريب أجيب دعوة الداع اذا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ جب میرے بندے میری نسبت تجھ سے سوال کریں تو ان کو کہہ دے کہ میں قریب ہوں اور پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں اور اسے قبول کرتا ہوں.یہاں اُجیب دعوة الداع فرمایا یہ نہیں کہا کہ میں صرف مسلمان یا کسی خاص ملک اور قوم کے آدمی کی دعا سنتا ہوں ، کوئی ہو، کہیں کا ہو، اور کہیں ہو.اس قبولیت دعا کی غرض کیا ہوتی ہے؟ فلیشتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوابي مان لے اور مسلمان ہو جاوے اور مسلمان اور مؤمن ہو تو اس ایمان میں ترقی کرے.کافر کی دعا ئیں اس لئے قبول کرتا ہوں کہ مجھ پر ایمان ہو اور وہ مؤمن بن جاوے.اور مؤمن کی اس لئے کہ رُشد اور یقین میں ترقی کرے.خدا تعالیٰ کی معرفت اور شناخت کا بہترین طریق دعا ہی ہے اور مؤمن کی امیدیں اسی سے وسیع ہوتی ہیں.پس میں نے بھی بہت دعائیں کی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ قبول ہوں گی.پھر میں نے اس کے حضور دعا کی کہ میں ان لوگوں کے سامنے کیا کہوں تو آپ مجھے تعلیم کر اور آپ مجھے سمجھا.میں نے اس فتنہ کو دیکھا جو اس وقت پیدا ہوا ہے میں نے اپنے آپ کو اس قابل نہ پایا کہ اُس کی توفیق اور تائید کے بغیر اس کو دور کر سکوں میرا سہارا اُسی پر ہے

Page 64

خلافة على منهاج النبوة ۴۶ جلد اول اس لئے میں اُسی کے حضور جھکا اور درخواست کی کہ آپ ہی مجھے بتائیں اِن لوگوں کو جو جمع ہوئے ہیں کیا کہوں.اُس نے میرے قلب کو اسی آیت کی طرف متوجہ کیا اور مجھ پر ان حقائق کو کھولا جو اس میں ہیں.میں نے دیکھا کہ خلافت کے تمام فرائض اور کام اس آیت میں بیان کر دیئے گئے ہیں تب میں نے اسی کو اس وقت تمہارے سامنے پڑھ دیا.لَا خِلَافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ میرا مذہب ہے لَا خِلَافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ خلافت جائز ہی نہیں جب تک اس میں شوری نہ ہو.اسی اصول پر تم لوگوں کو یہاں بلوایا گیا ہے اور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس پر قائم ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اس پر قائم رہوں.میں نے چاہا کہ مشورہ لوں مگر میں نہیں جانتا تھا کہ کیا مشورہ لوں.میرے دوستوں نے کہا کہ مشورہ ہونا چاہیے میں نے اس کی تصریح نہیں پوچھی.میں چونکہ مشورہ کو پسند کرتا ہوں اس لئے ان سے اتفاق کیا اور انہوں نے آپ کو بلا لیا مگر مجھے کل تک معلوم نہ تھا کہ میں کیا کہوں آخر جب میں نے خدا کے حضور توجہ کی تو یہ آیت میرے دل میں ڈالی گئی کہ اسے پڑھو.تفسیر دعائے ابراہیم اس آیت کی تلاوت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی یا خلیفہ کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ آیات اللہ لوگوں کو سنائے.آیت کہتے ہیں نشان کو ، دلیل کو جس سے کسی چیز کا پتہ لگے.پس نبی جو آیات اللہ پڑھتا ہے اس سے یہ مراد ہے کہ وہ ایسے دلائل سناتا اور پیش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اُس کی تو حید پر دلالت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرشتوں، رسولوں اور اس کی کتب کی تائید اور تصدیق ان کے ذریعہ ہوتی ہے.پس اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو ایسی باتیں سنائے جن سے ان کو اللہ پر اور نبیوں اور کتب پر ایمان حاصل ہو.اس سے معلوم ہوا کہ نبی اور اس کے جانشین خلیفہ کا پہلا کام تبلیغ الحق اور دعوت اِلَى الخَیرِ ہوتی ہے.وہ سچائی کی طرف لوگوں کو بلا تا ہے اور اپنی دعوت کو پہلا کام دلائل اور نشانات کے ذریعہ مضبوط کرتا ہے.دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ وہ تبلیغ کرتا ہے..

Page 65

خلافة على منهاج النبوة دوسرا کام ۴۷ جلد اول پھر دوسرا فرض نبی یا خلیفہ کا اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے ويُعَلِّمُهُمُ الكتب ان کو کتاب سکھا دے.انسان جب اس بات کو مان لے کہ اللہ تعالیٰ ہے اور اس کی طرف سے دنیا میں رسول آتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ملائکہ ان پر اُترتے ہیں اور ان کے ذریعہ کتب الہیہ نازل ہوتی ہیں تو اس کے بعد دوسرا مرحلہ اعمال کا آتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے آدمی کو اب کیا کرنا چاہیے.اس ضرورت کو پورا کرنے والی آسمانی شریعت ہوتی ہے اور نبی کا دوسرا کام یہ ہے کہ ان کو مسلموں کو شریعت سکھائے.ان ہدایات اور تعلیمات پر عمل ضروری ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے رسولوں کی معرفت آتی ہیں.پس اس موقع پر دوسرا فرض نبی کا یہ بتایا گیا ہے کہ وہ انہیں فرائض کی تعلیم دے.کتاب کے معنی شریعت اور فرض کے ہیں.جیسے قرآن مجید میں یہ لفظ فرض کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے جیسے کتب عَلَيْكُمُ الصیام کے پس اس ترتیب کو خوب یا درکھو کہ پہلا کام اسلام میں لانے کا تھا.دوسرا ان کو شریعت سکھانے اور عامل بنانے کا.عمل کے لئے ایک اور بات کی ضرورت ہے اُس وقت تک انسان کے اندر تیسرا کام کسی کام کے کرنے کے لئے جوش اور شوق پیدا نہیں ہوتا جب تک اسے اس کی حقیقت اور حکمت سمجھ میں نہ آ جائے.اس لئے تیسرا کام یہاں یہ بیان کیا والحكمة اور وہ ان کو حکمت کی تعلیم دے.یعنی جب وہ اعمال ظاہری بجالانے لگیں تو پھر ان اعمال کی حقیقت اور حکمت سے انہیں باخبر کرے جیسے ایک شخص ظاہری طور پر نماز پڑھتا ہے.نماز پڑھنے کی ہدایت اور تعلیم دینا یہ يُعَلِّمُهُمُ الکتب کے نیچے ہے.اور نماز کیوں فرض کی گئی ، اس کے کیا اغراض و مقاصد ہیں؟ اس کی حقیقت سے واقف کرنا یہ تعلیم الحکمۃ ہے.ان دونوں باتوں کی مثال خود قرآن شریف سے ہی دیتا ہوں.قرآن شریف میں حکم ب أَقِيمُوا الصلوة کے نمازیں پڑھو ، یہ حکم تو گویا يُعَلِّمُهُمُ الكتب کے ماتحت ہے.ایک جگہ یہ فرماتا ہے.اِنَّ الصَّلوة تنهى عَنِ الْفَحْشَاء وَالمُنكَرِ یعنی نماز بدیوں اور نا پسند باتوں سے روکتی ہے.یہ نماز کی حکمت بیان فرمائی کہ نماز کی غرض کیا ہے.اسی طرح

Page 66

خلافة على منهاج النبوة ۴۸ جلد اول پھر رکوع ، سجود، قیام اور قعدہ کی حکمت بتائی جائے اور خدا کے فضل سے میں یہ سب بتا سکتا ہوں.غرض تیسرا کام نبی یا اس کے خلیفہ کا یہ ہوتا ہے کہ وہ احکام شریعت کی حکمت سے لوگوں کو واقف کرتا ہے.غرض ایمان کے لئے يَتْلُوا عَلَيْهِم ايت فرمایا.پھر ایمان کے بعد اعمال کے لي يُعلّمُهُمُ الكتب.پھر ان اعمال میں ایک جوش اور ذوق پیدا کرنے اور ان کی حقیقت بتانے کے واسطے والحكمة فرمایا ، نماز کے متعلق میں نے ایک مثال دی ہے ورنہ تمام احکام میں اللہ تعالیٰ نے حکمتیں رکھی ہیں.پھر چوتھا کام فرمایا دیر کییہ حکمت کی تعلیم کے بعد انہیں پاک کرے.چوتھا کام ترکیہ کا کام انسان کے اپنے اختیار میں نہیں بلکہ یہ للہ تعالی کے اپنے قبضہ اور اختیار میں ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ جب یہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے تو نبی کو کیوں کہا کہ وہ پاک کرے؟ اس کی تفصیل میں آگے بیان کروں گا مختصر طور پر میں یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس کا ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے آپ ہی بتا دیا ہے کہ پاک کرنے کا کیا طریق ہے اور وہ ذریعہ دعا ہے، پس نبی کو جو حکم دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو پاک کرے تو اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی حکمتیں مخفی رکھی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ آیت سورہ بقرہ کی ترتیب کا پتہ دیتی ہے لوگوں کو سورہ بقرہ کی ترتیب میں بڑی بڑی دقتیں پیش آئی ہیں لوگ حیران ہوتے ہیں کہ کہیں کچھ ذکر ہے کہیں کچھ.کہیں بنی اسرائیل کا ذکر آ جاتا ہے کہیں نماز روزہ کا ، کہیں طلاق کا ،کہیں ابراہیم علیہ السلام کے مباحثات کا ، کہیں طالوت کا ، ان تمام واقعات کا آپس میں جوڑ کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ مجھے یہ سب کچھ سکھا دیا ہے.سورۃ بقرہ کی ترتیب کس طرح سمجھائی گئی حضرت طلیقہ مسیح کی زندگی کا واقعہ ہے کہ منشی فرزند علی صاحب

Page 67

خلافة على منهاج النبوة ۴۹ جلد اول نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں.اُس وقت اُن سے میری اس قدر واقفیت بھی نہ تھی میں نے عذر کیا مگر انہوں نے اصرار کیا، میں نے سمجھا کہ کوئی منشاء الہی ہے آخر میں نے ان کو شروع کرا دیا.ایک دن میں پڑھا رہا تھا کہ میرے دل میں بجلی کی طرح ڈالا گیا کہ آیت رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُم سورۃ بقرہ کی ترتیب پورے طور میری سمجھ میں آ گئی، اب آپ اس کو مد نظر رکھ کر سورۃ بقرہ کی ترتیب پر غور کریں تو حقیقت معلوم ہو جائے گی.ترتیب سورۃ بقرہ اب غور کروا پہلے بتایا کہ قرآن کریم کا نازل کرنے والا عالم خدا ہے پھر بتایا کہ قرآن مجید کی کیا ضرورت ہے کیونکہ سوال ہوتا تھا کہ مختلف مذا ہب کی موجودگی میں اس مذہب کی کیا ضرورت پیش آئی اور یہ کتاب خدا تعالیٰ نے کیوں نازل کی ، اس کی غرض و غایت بتائی.ھدى لِلْمُتَّقِينَ یعنی سب مذاہب تو صرف متقی بنانے کا دعوی کرتے ہیں اور یہ کتاب ایسی ہے جو متقی کو بھی آگے لے جاتی ہے.متقی تو اسے کہتے ہیں جو انسانی کوشش کو پورا کرے پس اسے آگے لے جانے کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ اب خود اس سے ہمکلام ہو.پھر متقین کے اعمال اور کام بتائے پھر بتایا کہ اس کتاب کے ماننے والوں اور منکروں میں کیا امتیاز ہوگا.پھر بتایا کہ انسان چونکہ عبادتِ الہی کے لیے پیدا ہوا ہے اس لیے اس کے لیے کوئی ہدایت نامہ چاہیے اور وہ ہدایت نامہ خدا کی طرف سے آنا چاہیے.پھر بتایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت آتی بھی رہی ہے جیسے کہ ابتدائے عالم میں آدم کی بعثت ہوئی ، اس کے بعد اس کو اور کھولا اور آدم کی مثال پیش کر کے بتایا کہ یہ سلسلہ و ہیں ختم نہ ہو گیا بلکہ ایک لمبا سلسلہ انبیاء کا بنی اسرائیل میں ہوا.جو موجود ہیں ان سے پوچھو ہم نے ان پر کس قدر نعمتیں کی ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ ظالم ہمارے کلام کے مستحق نہیں ہو سکتے اب جب کہ یہ ظالم ہو گئے ہیں ان کو ہمارا کلام سننے کا حق نہیں اب ہم کسی اور خاندان سے تعلق کریں گے اور وہ بنی اسماعیل کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ ابراہیم علیہ السلام سے خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ دونوں بیٹوں کے ساتھ نیک سلوک کروں گا ج ایک سے وہ وعدہ پورا ہوا ، تو ضرور تھا کہ دوسرے سے بھی پورا ہو چنانچہ بتایا کہ ابراہیم

Page 68

خلافة على منهاج النبوة جلد اول علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے وقت اس طرح دعا کی تھی جو اب پوری ہونے لگی ہے.بار بار يبني اسراءيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ فرما کر یہ بتایا کہ بنی اسرائیل کا حق شکایت کا کوئی نہیں ان سے وعدہ پورا ہو چکا ہے اور جس خدا نے ان کا وعدہ پورا کیا ضرور تھا کہ بنی اسماعیل کا وعدہ بھی پورا کرتا.اور اس طرح پر بنی اسرائیل پر بھی اتمام حجت کیا کہ باوجود انعام الہیہ کے تم نے نافرمانی کی اور مختلف قسم کی بدیوں میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو تم نے محروم کرنے کا مستحق ٹھہرا لیا ہے تم میں نبی آئے ، بادشاہ ہوئے اب وہی انعام بنی اسماعیل پر ہوں گے.اور اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ دعا تو تھی ہم کیونکر ما نہیں کہ یہ شخص وہی موعود ہے اس کا ثبوت ہونا چاہیے.اس کے لئے فرمایا کہ موعود ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ اس دعا میں جو باتیں بیان کی گئی تھیں وہ سب اس کے اندر پائی جاتی ہیں اور چونکہ اس نے ان سب وعدوں کو پورا کر دیا ہے اس لئے یہی وہ شخص ہے.گو سارا قرآن شریف ان چار ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے لیکن اس سورۃ میں خلاصہ سب باتیں بیان فرمائیں تا معترض پر حجت ہو يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايتك كے متعلق فرمایا اِنَّ في خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ آخر میں فرمایا لایت تقوم يَعْقِلُونَ اس میں عقل رکھنے والوں کے لئے کافی دلائل ہیں جن سے اللہ تعالی ، ملائکہ ، کلام الہی اور نبوت کا ثبوت ملتا ہے یہ تو نمونہ دیا تلاوت آیات کا.اس کے بعد تھا يُعَلِّمُهُمُ الکتب اس کیلئے مختصر طور پر شریعت اسلام کے موٹے موٹے احکام بیان فرمائے اور ان میں بار بار فرمایا کُتِبَ عَلَيْكُمْ ، كُتِبَ عَلَيْكُمْ یہ بتایا کہ دیکھو اس پر کیسی بے عیب شریعت نازل ہوئی ہے.پس یہ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِک کا بھی مصداق ہے اور يُعَلِّمُهُمُ الكِتب کا بھی.تیسرا کام بتایا تھا کہ لوگوں کو حکمت سکھائے.اس لئے شریعت کے موٹے موٹے حکم بیان فرمانے کے بعد قومی ترقی کے راز اور شرائع کی اغراض کا ذکر فرمایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور طالوت کے واقعات سے بتایا کہ کس طرح قومیں ترقی کرتی ہیں اور کس طرح مُردہ قومیں زندہ کی جاتی ہیں.پس تم کو بھی ان راہوں کو اختیار کرنا چاہیے اور اس حصہ میں جس

Page 69

خلافة على منهاج النبوة ۵۱ جلد اول وَمَن يُؤْتَ الحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيراً فرما کر یہ اشارہ فرما دیا کہ لو تیسرا وعدہ بھی پورا ہو گیا.اس رسول نے حکمت کی باتیں بھی سکھا دی ہیں.مثلاً طالوت کا واقعہ بیان فرمایا کہ اُنہوں نے حکم دیا کہ نہر سے کوئی پانی نہ پیئے اور پینے والے کو ایسی سزا دی کہ اسے اپنے سے علیحدہ کر دیا اور بتایا کہ جب کوئی شخص چھوٹا حکم نہیں مان سکتا تو اس نے بڑے بڑے حکم کہاں ماننے ہیں.اور یہ بھی بتایا کہ جس وقت جنگ ہو اُس وقت حاکم کی کیسی اطاعت کرنی چاہیے.اس میں یہ بھی بتایا کہ خلفاء پر اعتراض ہوا ہی کرتا ہے اور آخر اللہ تعالیٰ ان کو غلبہ دیتا ہے.ان حکموں کے بتانے کے بعد تزکیہ رہ گیا تھا.اس کے لئے یہ انتظام فرمایا کہ اس سورۃ کو دعا پر ختم کیا ہے جس میں یہ بتایا ہے کہ تزکیہ کا طریق دعا ہے.نبی بھی دعا کرے اور جماعت کو بھی دعا کی تعلیم دے.آپ لوگ اس سورۃ کو اب پڑھ کر دیکھیں جس ترتیب سے آیت مذکورہ میں الفاظ ہیں اسی ترتیب سے اس سورۃ میں آیات اور کتاب اور حکمت اور طریق تزکیہ بیان فرمایا ہے.پس یہ آیت اس سورۃ کی کنجی ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ میں دی ہے.الغرض نبی کا کام بیان فرما یا تبلیغ کرنا ، کافروں کو مؤمن کرنا ، مؤمنوں کو شریعت پر قائم کرنا، پھر بار یک در باریک راہوں کا بتانا ، پھر تزکیۂ نفس کرنا.یہی کام خلیفہ کے ہوتے ہیں.اب یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ نے یہی کام اس وقت میرے رکھے ہیں.آیات اللہ کی تلاوت میں اللہ تعالیٰ کی ہستی پر دلائل ، ملائکہ پر دلائل ، ضرورتِ نبوت اور نبوت محمدیہ کے دلائل ، قرآن مجید کی حقیت پر دلائل ، اور ضرورتِ الہام و وحی پر دلائل ، جزاء وسزا اور مسئلہ تقدیر پر دلائل ، قیامت پر دلائل شامل ہیں.یہ معمولی کام نہیں اس زمانہ میں اس کی بہت بڑی ضرورت ہے اور یہ بہت بڑا سلسلہ ہے.پھر يُعَلِّمُهُمُ الكتب دوسرا کام ہے بار بار شریعت پر توجہ دلائے اور احکام و اوا مرالہی کی تعمیل کے لئے یاد دہانی کراتا ر ہے.جہاں سستی ہو اس کا انتظام کرے.اب تم خود غور کرو کہ یہ کام کیا چند کلرکوں کے ذریعہ ہو سکتے ہیں اور کیا خلیفہ کا اتنا ہی کام رہ جاتا ہے کہ وہ چندوں کی نگرانی کرے؟ اور دیکھ لے کہ دفتر محاسب ہے، اس میں چندہ آتا ہے اور

Page 70

خلافة على منهاج النبوة ۵۲ جلد اول چند ممبر مل کر اسے خرچ کر دیں؟ انجمنیں دنیا میں بہت ہیں اور بڑی بڑی ہیں جہاں لاکھوں.روپیہ سالانہ آتا ہے اور وہ خرچ کرتی ہیں مگر کیا وہ خلیفہ بن جاتی ہیں؟ خلیفہ کا کام کوئی معمولی اور رذیل کام نہیں یہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص فضل اور امتیاز ہے جو اُس شخص کو دیا جاتا ہے جو پسند کیا جاتا ہے.تم خود غور کر کے دیکھو کہ یہ کام جو میں نے بتائے ہیں میں نے نہیں خدا نے بتائے ہیں کیا کسی انجمن کا سیکرٹری اس کو کر سکتا ہے؟ ان معاملات میں کوئی سیکر ٹری کی بات کو مان سکتا ہے؟ یا آج تک کہیں اس پر عمل ہوا ہے؟ اور جگہ کو جانے دو یہاں ہی بتا دو کہ کبھی انجمن کے ذریعہ یہ کام ہوا ہو.ہاں چندوں کی یاد دہانیاں ہیں وہ ہوتی رہتی ہیں.یہ پکی بات ہے کہ يُعلِّمُهُمُ الکتب کے لئے ضرور خلیفہ ہی ہوتا ہے.کیونکہ کسی انجمن کے سیکرٹری کے لئے یہ شرط کہاں ہے کہ وہ پاک بھی ہو.ممکن ہے ضرور تا عیسائی رکھا وے یا ہندو ہو جو دفاتر کا کام عمدگی سے کر سکے پھر وہ خلیفہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ خلیفہ کے لئے تعلیم الکتاب ضروری ہے اس کے فرائض میں داخل ہے سیکرٹری کے فرائض میں قواعد پڑھ کر دیکھ لو کہیں بھی داخل نہیں.پھر خلیفہ کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکام کے اغراض و اسرار بیان کرے جن کے علم سے ان پر عمل کرنے کا شوق و رغبت پیدا ہوتی ہے.مجھے بتاؤ کہ کیا تمہاری انجمن کے سیکرٹری کے فرائض میں یہ بات ہے؟ کتنی مرتبہ احکام الہیہ کی حقیقت اور فلاسفی انجمن کی طرف سے تمہیں سکھائی گئی کیا اس قسم کے سیکرٹری رکھے جاسکتے ہیں؟ یا انجمنیں اس مخصوص کا م کو کرسکتی ہیں ؟ ہر گز نہیں.انجمنیں محض اس غرض کے لئے ہوتی ہیں کہ وہ بہی کھاتے رکھیں اور خلیفہ کے احکام کے نفاذ کے لئے کوشش کریں.پھر خلیفہ کا کام ہے یزکیی قوم کا تزکیہ کرے.کیا کوئی سیکرٹری اس فرض کو ادا کر سکتا ہے؟ کسی انجمن کی طرف سے یہ ہدایت جاری ہوئی ؟ یا تم نے سنا ہو کہ سیکرٹری نے کہا ہو کہ میں قوم کے تزکیہ کے لئے روروکر دعائیں کرتا ہوں؟ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ کام سیکرٹری کا ہے ہی نہیں اور نہ کوئی سیکرٹری کہہ سکتا ہے کہ میں دعائیں کرتا ہوں.جھوٹا ہے جو کہتا ہے کہ انجمن اس کام کو کر سکتی ہے.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا

Page 71

خلافة على منهاج النبوة ۵۳ جلد اول ہوں کہ کوئی سیکرٹری یہ کام نہیں کر سکتا اور کوئی انجمن نبی کے کام نہیں کر سکتی.اگر انجمنیں یہ کام کر سکتیں تو خدا تعالیٰ دنیا میں مامور اور مرسل نہ بھیجتا بلکہ اس کی جگہ انجمنیں بنا تا مگر کسی ایک انجمن کا پتہ دو جس نے کہا ہو کہ خدا نے ہمیں مامور کیا ہے.کوئی دنیا کی انجمن نہیں ہے جو یہ کام کر سکے.ممبر تو اکٹھے ہو کر چند امور پر فیصلہ کرتے ہیں کیا کبھی کسی انجمن میں اس آیت پر بھی غور کیا گیا ہے.یا درکھو خدا تعالیٰ جس کے سپر د کوئی کام کرتا ہے اُسی کو بتاتا ہے کہ تیرے یہ کام ہیں.یہ کام ہیں جو انبیاء اور خلفاء کے ہوتے ہیں.رو پیدا کٹھا کرنا ادنی درجہ کا کام ہے.خلفاء کا کام انسانی تربیت ہوتی ہے اور ان کو خدا تعالیٰ کی معرفت اور یقین کے ساتھ پاک کرنا ہوتا ہے.روپیہ تو آریوں اور عیسائیوں کی انجمنیں بلکہ دہریوں کی انجمنیں بھی جمع کر لیتی ہیں.اگر کسی نبی یا اس کے خلیفہ کا بھی یہی کام ہو تو نَعُوذُ بِالله یہ سخت ہتک اور بے ادبی ہے اُس نبی اور خلیفہ کی.یہ سچ ہے کہ ان مقاصد اور اغراض کی تکمیل کے لئے جو اس کے سپر د ہوتے ہیں اس کو بھی روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بھی من انصاري إلى الله " کہتا ہے مگر اس سے اُس کی غرض روپیہ جمع کرنا نہیں بلکہ اس رنگ میں بھی اُس کی غرض وہی تکمیل اور تزکیہ ہوتی ہے.اور پھر بھی اس غرض کے لئے اس کی قائم مقام ایک انجمن یا شوری ہوتی ہے جو انتظام کرے.میں پھر کہتا ہوں کہ خلیفہ کا کام روپیہ جمع کرنا نہیں ہوتا اور نہ اس کے اغراض و مقاصد کا دائرہ کسی مدرسے کے جاری کرنے تک محدود ہوتا ہے یہ کام دنیا کی دوسری قو میں بھی کرتی ہیں.خلیفہ کے اس قسم کے کاموں اور دوسری قوموں کے کاموں میں فرق ہوتا ہے وہ ان امور کو بطور مبادی اور اسباب کے اختیار کرتا ہے یا اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے دوسری قو میں اس کو بطور ایک اصل مقصد اور غایت کے اختیار کرتی ہیں.حضرت صاحب نے جو مدرسہ بنایا اس کی غرض وہ نہ تھی جو دوسری قوموں کے مدرسوں کی ہے.پس یا درکھو کہ خلیفہ کے جو کام ہوتے ہیں وہ کسی انجمن کے ذریعہ نہیں ہو سکتے.

Page 72

خلافة على منهاج النبوة ۵۴ جلد اول اس قومی اجتماع کی کیا غرض ہے اب آپ کو جو بلایا گیا ہے تو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں ان کاموں کے متعلق جو خدا نے میرے سپر د کر دیئے ہیں آپ سے مشورہ کروں کہ انہیں کس طرح کروں.میں جانتا ہوں اور نہ صرف جانتا ہوں بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ وہ آپ میری ہدایت اور رہنمائی کرے گا کہ مجھے کس طرح ان کو سر انجام دینا چاہئے.لیکن اُسی نے مشورہ کا بھی تو حکم دیا ہے.یہ کام اُس نے خود بتائے ہیں، اُس نے آپ میرے دل میں اس آیت کو ڈالا جو میں نے پڑھی ہے.پرسوں مغرب یا عصر کی نماز کے وقت یکدم میرے دل میں ڈالا.میں حیران تھا کہ بُلا تو لیا ہے کیا کہوں.اس پر یہ آیت اُس نے میرے دل میں ڈالی.پس یہ چار کام انبیاء اور ان کے خلفاء کے ہیں ان کے سرانجام دینے میں مجھے تم سے مشورہ کرنا ہے میں اب ان کا موں کو اور وسیع کرتا ہوں.چار نہیں بلکہ آٹھ میں اس آیت کی ایک اور تشریح کرتا ہوں جب ان پر میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ ان چار میں اور معنی پوشیدہ تھے اور اس طرح پر یہ چار آٹھ بن جاتے ہیں.(1) يَتْلُوا عَلَيْهِ آیتم اس کے معنی ایک یہ کرتا ہوں کہ کافروں کو مؤمن بنا دے یعنی تبلیغ کرے.دوسرے مؤمنوں کو آیات سنائے.اس صورت میں ترقی ایمان یا درستی ایمان بھی کام ہوگا یہ دو ہو گئے.(۲) يُعَلِّمُهُمُ الكتب قرآن شریف کتاب موجود ہے اس لئے اس کی تعلیم میں قرآن مجید کا پڑھنا پڑھانا ، قرآن مجید کا سمجھنا آ جائے گا.کتاب تو لکھی ہوئی موجود ہے اس لئے کام یہ ہوگا کہ ایسے مدارس ہوں جہاں قرآن مجید کی تعلیم ہو.پھر اس کے سمجھانے کے لئے ایسے مدارس ہوں جہاں قرآن مجید کا ترجمہ سکھایا جائے اور وہ علوم پڑھائے جائیں جو اس کے خادم ہوں.ایسی صورت میں دینی مدارس کا اجراء اور ان کی تکمیل کا م ہوگا.( ب ) دوسرا کام اس لفظ کے ماتحت قرآن شریف پر عمل کرانا ہوگا کیونکہ تعلیم دو قسم کی ہوتی ہے ایک کسی کتاب کا پڑھا دینا اور دوسرے اس پر عمل کروانا.

Page 73

خلافة على منهاج النبوة جلد اول (۳) الْحِكْمَةٌ - تَعْلِيمُ الْحِكْمَةِ کے لئے تجاویز اور تدابیر ہوں گی کیونکہ اس فرض کے نیچے احکام شرائع کے اسرار سے آگاہ کرنا ضروری ہے.( ٢ ) يُزَكِّيهِمْ - يُزَکیھم کے معنوں پر غور کیا تو ایک تو یہی بات ہے جو میں بیان کر چکا ہوں کہ دعاؤں کے دریعہ تزکیہ کرے.پھر ابن عباس نے معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اخلاص پیدا کرنا.غرض ایک تو یہ معنی ہوئے کہ گناہوں سے بچانے کی کوشش کرے.اس لئے جماعت کو گناہوں سے بچانا ضروری ٹھہرا کہ وہ گنا ہوں میں نہ پڑے.اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے یہ کام ہوا کہ صرف گناہوں سے نہ بچائے بلکہ ان میں نیکی پیدا کرے.دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ ایک تو وہ ترا بیر اختیار کرے جن سے جماعت کے گناہ دور کر دے.دوسرے اُن کو خوبصورت بنا کر دکھاوے.اعلیٰ مدارج کی طرف لے جاوے اور اُن کے کاموں میں اخلاص اور اطاعت پیدا کرے.پھر تیسرے معنی بھی یزکیھم کے ہیں وہ یہ کہ ان کو بڑھائے.ان معانی کے لحاظ سے دین و دنیا میں ترقی دینا ضروری ہوا اور یہ ترقی ہر پہلو سے ہونی چاہیے.دنیوی علوم میں دوسروں سے پیچھے ہوں تو اس میں ان کو آگے لے جاوے، تعداد میں کم ہوں تو بڑھائے ، مالی حالت کمزور ہو تو اس میں بڑھا دے.غرض جس رنگ میں بھی کمی ہو بڑھاتا چلا جاوے.اب ان معنوں کے لحاظ سے جماعت کی ہر قسم کی ترقی نبی اور اس کے ماتحت اس کے خلیفہ کا فرض ہوا.پھر جب میل سے پاک کرنا اور ترقی کرانا اس کا کام ہوا تو اسی میں غرباء کی خبر گیری بھی آگئی کیونکہ وہ بھی ایک دنیا وی میل سے لتھڑے ہوتے ہیں اُن کو پاک کرنا اس کا فرض ہے.اس غرض کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے زکوۃ کا صیغہ رکھا ہے کیونکہ جماعت کے غرباء اور مساکین کا انتظام کرنا بھی خلیفہ کا کام ہے اور اس کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.پس اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کا بھی انتظام فرما دیا اور امراء پر ز کوۃ مقرر فرمائی.پس یا د رکھو کہ یزکیھم کے معنی ہوئے پاک کرے، اخلاص پیدا کرے اور ہر رنگ میں بڑھائے.چہارم صدقات کا انتظام کر کے اصلاح کرے.اب انجمن والے بھی بے شک بولیں کیونکہ ان امور کے انتظام انجمن کو چاہتے ہیں.مگر باوجود اس کے بھی یہ انجمن کا کام

Page 74

خلافة على منهاج النبوة جلد اول نہیں بلکہ خلیفہ کا کام ہے.اب تمہیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ یہ سب باتیں اس کے نیچے ہیں اور یہ خیالی طور پر نہیں ، ڈھکوسلہ کے رنگ میں نہیں بلکہ لغت اور صحابہ کے اقوال اس کی تائید کرتے ہیں.پس میں نے تمہیں وہ کام خلیفہ کے بتائے ہیں جو خدا تعالیٰ نے بیان کئے ہیں اور اس کی حقیقت لغت عرب اور صحابہ کے مسلمہ معنوں کی رو سے بتائی ہے میرا کام اتنا ہے.خدا تعالیٰ نے مجموعی اور یکجائی طور پر مجھے اس سے آگاہ کر دیا اور محض اپنے فضل سے سورۃ بقرہ کی کلید مجھے بتا دی.میں اس راز اور حقیقت کو آج سمجھا کہ تین سال پیشتر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بجلی کی طرح میرے دل میں کیوں ڈالی ؟ قبل از وقت میں اس راز سے آگاہ نہیں ہوسکتا تھا مگر آج حقیقت کھلی کہ ارادہ الہی میں یہ میرے ہی فرائض اور کام تھے اور ایک وقت آنے والا تھا کہ مجھے ان کی تکمیل کے لئے کھڑا کیا جانا تھا.پس جب یہ ظاہر ہو چکا کہ خلیفہ کے کیا کام ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ میرے کیا فرائض ہیں تو اب سوال ہوتا ہے کہ ان کو کیونکر کرنا ہے؟ اور اسی میں مجھے تم سے مشورہ کرنا ہے.مقاصد خلافت کی تکمیل کی کیا صورت ہو ہے تو آپ کو معلوم ہو چکا کہ کی خلافت کا پہلا اور ضروری کام تبلیغ ہے اس لئے ہمیں سوچنا چاہیے کہ تبلیغ کی کیا صورتیں ہوں.مگر میں ایک اور بات بھی تمہیں بتانا چاہتا ہوں اور یہ بات ابھی میرے دل میں ڈالی گئی ہے کہ خلافت کے یہ مقاصد از بعد حضرت خلیفہ آنے کی وصیت میں بھی بیان کئے گئے ہیں.خلیفة امسیح کی وصیت اسی کی تشریح ہے میں اپنے جالین کیلئے فرمایا.حضرت خلیفۃ المسیح نے اپنی وصیت متقی ہو، ہر دلعزیز ہو، قرآن و حدیث کا درس جاری رہے، عالم باعمل ہو.اس میں يُعلّمُهُمُ الكتب والحكمة کی طرف اشارہ اس حکم میں ہے کہ قرآن وحدیث کا درس جاری رہے کیونکہ الکتاب کے معنی قرآن شریف ہیں اور الحكمة کے معنی بعض آئمہ نے حدیث کے کئے ہیں.اس طرح ALONE الكتب و الحِكْمَة کے معنی ہوئے قرآن و

Page 75

خلافة على منهاج النبوة ۵۷ جلد اول حدیث سکھائے عام ترجمہ ہے يَتْلُوا عَلَيْهِ مایت کا.کیونکہ تبلیغ کے لئے علم کی ضرورت ہے.متقی اور باعمل ہونا اور ہر دلعزیز ہونا یہ یزکیھم کے لئے ضروری ہے کیونکہ جو متقی ہے وہی تزکیہ کر سکتا ہے اور جو خود عمل نہ کرے گا اس کی بات پر اور لوگ عمل نہیں کر سکتے.اسی طرح جو قوم کا مز کی ہو گا وہ ہر دلعزیز بھی ضرور ہوگا.پھر کہو کہ وصیت میں ایک اور بات بھی ہے کہ درگزر سے کام لے.میں کہتا ہوں اس کا ذکر بھی اس آیت میں ہے.إنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الحَ الله تعالى جو العزيز ہے اُس کو بھی معزز کرے گا اور غلبہ دے گا.جس کا لازمی نتیجہ درگزر ہوگا کیونکہ یہ ایک طاقت کو چاہتا ہے طاقت ملے تو درگزر کرے.پس اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے ان اسماء کا ذکر کرنے کے یہی معنی ہیں.پھر یہ بتایا کہ درگزر نَعُوذُ بِاللهِ لغو نہیں بلکہ ایم کے خیال کے نیچے ہو گا.پس یا درکھو کہ حضرت خلیفة امسیح ( خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے فضل اُن پر ہوں ) کی وصیت بھی اسی آیت کی تشریح ہے.اب جب کہ یہ ظاہر ہے کہ قرآن مجید نے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور خود حضرت خلیفہ اسیح نے خلیفہ کے کام پہلے سے بتا دیئے تو اب جدید شرائط کا کسی کو کیا حق ہے.گورنمنٹ کی شرائط کے بعد کسی اور کو کوئی حق نہیں ہوتا کہ اپنی خود ساختہ باتیں پیش کرے.خلیفہ تو خداوند مقرر کرتا ہے پھر تمہارا کیا حق ہے کہ تم شرائط پیش کرو.خدا سے ڈرو اور ایسی باتوں سے تو بہ کرو یہ ادب سے دور ہیں.خدا تعالیٰ نے خود خلیفہ کے کام مقرر کر دیئے ہیں اب کوئی نہیں جو ان میں تبدیلی کر سکے یا ان کے خلاف کچھ اور کہہ سکے.پھر کہتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ اسیح ( خدا کی ہزاروں ہزار رحمتیں اُن پر ہوں ) نے بھی وہی باتیں پیش کیں جو اس آیت میں خدا نے بیان کی تھیں گویا ان کی وصیت اس آیت کا ترجمہ ہے.اب میں چاہتا ہوں کہ اور تشریح کروں.پہلا فرض خلیفہ کا تبلیغ ہے جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں نہیں جانتا کیوں بچپن ہی سے میری طبیعت میں تبلیغ کا شوق رہا ہے اور تبلیغ سے ایسا انس رہا ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا.میں چھوٹی سی عمر میں بھی ایسی دعائیں کرتا تھا اور مجھے ایسی حرص تھی کہ اسلام کا جو کام تبلیغ

Page 76

خلافة على منهاج النبوة ۵۸ جلد اول بھی ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو.میں اپنی اس خواہش کے زمانہ سے واقف نہیں کہ کب سے ہے.میں جب دیکھتا تھا اپنے اندر اس جوش کو پاتا تھا اور دعائیں کرتا تھا کہ اسلام کا جو کام ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو پھر اتنا ہو اتنا ہو کہ قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو جس میں اسلام کی خدمت کرنے والے میرے شاگرد نہ ہوں.میں نہیں سمجھتا تھا اور نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ جوش اسلام کی خدمت کا میری فطرت میں کیوں ڈالا گیا.ہاں اتنا جانتا ہوں کہ یہ جوش بہت پر ا نا رہا ہے.غرض اسی جوش اور خواہش کی بناء پر میں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ میرے ہاتھ سے تبلیغ اسلام کا کام ہوا اور میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اُس نے میری اِن دعاؤں کے جواب میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں.غرض تبلیغ کے کام سے مجھے بڑی دلچسپی ہے.یہ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ سب دنیا ایک مذہب پر جمع نہیں ہو سکتی.اور یہ بھی سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس کام کو نہیں کر سکے اور کون ہے جو اسے کر سکے یا اس کا نام بھی لے لیکن اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی خادم اور غلام توفیق دیا جاوے کہ ایک حد تک تبلیغ اسلام کے کام کو کرے تو یہ اس کی اپنی کوئی خوبی اور کمال نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا کام ہے.میرے دل میں تبلیغ کے لئے اتنی تڑپ تھی کہ میں حیران تھا اور سامان کے لحاظ سے بالکل قاصر.پس میں اس کے حضور ہی جھکا اور دعائیں کیں اور میرے پاس تھا ہی کیا ؟ میں نے بار بارعرض کی کہ میرے پاس نہ علم ہے ، نہ دولت ، نہ کوئی جماعت ہے ، نہ کچھ اور ہے جس سے میں خدمت کرسکوں.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ اس نے میری دعاؤں کو سنا اور آپ ہی سامان کر دیئے اور تمہیں کھڑا کر دیا کہ میرے ساتھ ہو جاؤ.پس آپ وہ قوم ہیں جس کو خدا نے چن لیا اور یہ میری دعاؤں کا ایک ثمرہ ہے جو اُس نے مجھے دکھایا.اس کو دیکھ کر میں یقین رکھتا ہوں کہ باقی ضروری سامان بھی وہ آپ ہی کرے گا اور ان بشارتوں کو عملی رنگ میں دکھاوے گا.اور اب میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کو ہدایت میرے ہی ذریعہ ہوگی اور قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ گزرے گا جس میں میرے شاگرد نہ ہوں گے.کیونکہ آپ لوگ جو کام کریں گے وہ میرا ہی کام ہوگا.

Page 77

خلافة على منهاج النبوة ۵۹ جلد اول اب تم یہ تو سمجھ سکتے ہو کہ میری دلچسپی تبلیغ کے کام سے آج پیدا نہیں ہوئی اس حالت سے پہلے بھی جہاں تک مجھے موقع ملا مختلف رنگوں اور صورتوں میں تبلیغ کی تجویزیں کرتا رہا.وہ جوش اور دلچسپی جو فطرتا مجھے اس کام سے تھی اور اس راہ کے اختیار کرنے کی جو بے اختیار کشش میرے دل میں ہوتی تھی اس کی حقیقت کو بھی اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے کام میں داخل تھا ورنہ جب تک اللہ تعالیٰ ایک فطرتی جوش اس کے لئے میری روح میں نہ رکھ دیتا میں کیونکر اسے سرانجام دے سکتا تھا.اب میں آپ سے مشورہ چاہتا ہوں کہ تبلیغ کے لئے کیا کیا جاوے.میں جو کچھ اس کے متعلق ارادہ رکھتا ہوں وہ میں بتا دیتا ہوں مگر تم سوچو اور غور کرو کہ اس کی تکمیل کی کیا صورتیں ہو سکتی ہیں اور ان تجاویز کو عملی رنگ میں لانے کے واسطے.کیا کرنا چاہیے.ہر زبان کے مبلغ ہوں میں چاہتا ہوں کہ ہم میں ایسے لوگ ہوں جو ہر ایک زبان کے سیکھنے والے اور پھر جاننے والے ہوں تا کہ ہم ہر ایک زبان میں آسانی کے ساتھ تبلیغ کر سکیں.اس کے متعلق میرے بڑے بڑے ارادے اور تجاویز ہیں اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل پر یقین رکھتا ہوں کہ خدا نے زندگی دی اور توفیق دی اور پھر اپنے فضل سے اسباب عطا کئے اور ان اسباب سے کام لینے کی توفیق ملی تو اپنے وقت پر ظاہر ہو جاویں گے.غرض میں تمام زبانوں اور تمام قوموں میں تبلیغ کا ارادہ رکھتا ہوں اس لئے کہ یہ میرا کام ہے کہ تبلیغ کروں.میں جانتا ہوں کہ یہ بڑا ارادہ ہے اور بہت کچھ چاہتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا ہی کے حضور سے سب کچھ آوے گا.میرا خدا قادر ہے جس نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے.وہی مجھے اس سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق اور طاقت دے گا.کیونکہ ساری طاقتوں کا مالک تو وہ آپ ہی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس مقصد کے لئے بہت روپیہ کی ضرورت ہے بہت آدمیوں کی ضرورت ہے مگر اس کے خزانوں میں کس چیز کی کمی ہے.کیا اس سے پہلے ہم اس کے عجائبات قدرت کے تماشے دیکھ نہیں چکے ؟ یہ جگہ جس کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اس کے مامور کے باعث دنیا میں شہرت یافتہ ہے اور جس طرح پر خدا نے اس سے وعدہ کیا تھا ہزاروں نہیں لاکھوں لاکھ روپیہ اس کے کاموں

Page 78

خلافة على منهاج النبوة ۶۰ جلد اول کی تکمیل کے لئے اس نے آپ بھیج دیا.اس نے وعدہ کیا تھا يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُّوحِى تیری مدد ایسے لوگ کریں گے جن کو ہم خود وحی کریں گے.پس میں جب کہ جانتا ہوں کہ جو کام میرے سپرد ہوا ہے یہ اُسی کا کام ہے اور میں نے یہ کام خود اس سے طلب نہیں کیا خدا نے خود دیا ہے تو وہ انہی دجال کو وحی کرے گا جو مسیح موعود علیہ السلام کے وقت وحی کئے جاتے تھے.پس میرے دوستو ! روپیہ کے معاملہ میں گھبرانے اور فکر کرنے کی کوئی بات نہیں.وہ آپ سامان کرے گا.آپ اُن سعادت مند روحوں کو میرے پاس لائے گا جو اِن کا موں میں میری مددگار ہوں گی.میں خیالی طور پر نہیں کامل یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ ان کاموں کی تکمیل و اجراء کے لئے کسی محاسب کی تحریکیں کام نہیں دیں گی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام سے خود وعدہ کیا ہے کہ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِی إِلَيْهِم تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کو ہم وحی کریں گے.پس ہمارے محاسب کا عہدہ خود خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور وعدہ فرمایا ہے کہ روپیہ دینے کی تحریک ہم خود لوگوں کے دلوں میں کریں گے.ہاں جمع کا لفظ استعمال کر کے بتایا کہ بعض انسان بھی ہماری اس تحریک کو پھیلا کر ثواب حاصل کر سکتے ہیں.پس خدا آپ ہی ہمارا محاسب اور محصل ہو گا.اُسی کے پاس ہمارے سب خزانے ہیں.اس نے آپ ہی وعدہ کیا ہے يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُّوحِی إِلَيْهِمْ پھر ہمیں کیا فکر ہے؟ ہاں ثواب کا ایک موقع ہے.مبارک وہ جو اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے.ہندوستان میں تبلیغ تبلیغ کے سلسلہ میں میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان کا کوئی قصبہ یا گاؤں باقی نہ رہے جہاں ہماری تبلیغ نہ ہو.ایک بھی بستی باقی نہ رہ جاوے جہاں ہمارے مبلغ پہنچ کر خدا تعالیٰ کے اس سلسلہ کا پیغام نہ پہنچا دیں اور خوب کھول کھول کر انہیں سنا دیں.یہ کام معمولی نہیں اور آسان بھی نہیں ہاں اس کو آسان بنا دینا اور معمولی کر دینا خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے.ہمارا یہ کام نہیں کہ ہم لوگوں کو منوا د یں البتہ یہ کام ہمارا ہے اور ہونا چاہیے کہ ہم انہیں حق پہنچا دیں وہ مانیں نہ

Page 79

خلافة على منهاج النبوة ۶۱ جلد اول مانیں یہ اُن کا کام ہے.وہ اگر اپنا فرض پورا نہیں کرتے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم بھی اپنا فرض پورا نہ کریں.اس موقع پر مجھے ایک بزرگ کا واقعہ یاد آیا.کہتے ہیں کہ ایک بزرگ بیس برس سے دعا کر رہے تھے وہ ہر روز دعا کرتے اور صبح کے قریب اُن کو جواب ملتا مانگتے رہو کہ میں تو کبھی بھی تمہاری دعا قبول نہیں کروں گا.ہمیں برس گزرنے پر ایک دن ان کا کوئی مرید بھی ان کے ہاں مہمان آیا ہوا تھا.اس نے دیکھا کہ پیر صاحب رات بھر دعا کرتے ہیں اور صبح کے قریب ان کو یہ آواز آتی ہے.یہ آواز اس مرید نے بھی سنی.تیسرے دن اس نے عرض کیا کہ جب اس قسم کا سخت جواب آپ کو ملتا ہے تو پھر آپ کیوں دعا کرتے رہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ تو بہت بے استقلال معلوم ہوتا ہے بندے کا کام ہے دعا کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے قبول کرنا.مجھے اس سے کیا غرض کہ وہ قبول کرتا ہے یا نہیں.میرا کام دعا کرنا ہے سو میں کرتا رہتا ہوں میں تو ہمیں سال سے ایسی آوازیں سن رہا ہوں میں تو کبھی نہیں گھبرا یا تو تین دن میں گھبرا گیا.دوسرے دن خدا تعالیٰ نے اسے فرمایا کہ میں نے تیری وہ ساری دعائیں قبول کر لیں جو تو نے بیس سال کے اندر کی ہیں.غرض ہمارا کام پہنچا دینا ہے اور محض اس وجہ سے کہ کوئی قبول نہیں کرتا ہمیں تھکنا اور رکنا نہیں چاہئے.کیونکہ ہمارا کام منوانا نہیں ہم کو تو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہم کہ سکیں کہ ہم نے پہنچا دیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا تست عَلَيْهِمْ بِمُصيطر ٣ لااكراة في الدين ١٢ اور آپ کا کام اتنا ہی فرمایا بلغ ما أنزل إليك ها جو تم پر نازل ہوا اُسے پہنچاؤ.پس ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے.جب منوانا ہمارا کام نہیں تو دوسرے کے کام پر ناراض ہو کر اپنا کام کیوں چھوڑیں؟ ہم کو اللہ تعالیٰ کے حضور سُرخرو ہونے کے لئے پیغام حق پہنچا چاہیے.پس ایسی تجویز کرو کہ ہر قصبہ اور شہر اور گاؤں میں ہمارے مبلغ پہنچ جاویں اور زمین و آسمان گواہی دے دیں کہ تم نے اپنا فرض ادا کر دیا اور پہنچا دیا.دوم ہندوستان سے باہر ہر ایک ملک میں ہم اپنے واعظ بھیجیں.مگر میں اس بات کے

Page 80

خلافة على منهاج النبوة ۶۲ جلد اول کہنے سے نہیں ڈرتا کہ اس تبلیغ سے ہماری غرض سلسلہ احمدیہ کی صورت میں اسلام کی تبلیغ ہو.میرا یہی مذہب ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس رہ کر اندر باہر ان سے بھی یہی سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ اسلام کی تبلیغ یہی میری تبلیغ ہے پس اس اسلام کی تبلیغ کر و جو مسیح موعود علیہ السلام لایا.حضرت صاحب اپنی ہر ایک تحریر میں اپنا ذکر فرماتے تھے اور ہم مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر کے بغیر زندہ اسلام پیش کر بھی کب سکتے ہیں.پس جو لوگ مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کا طریق چھوڑتے ہیں یہ ان کی غلطی ہے ، کمزوری ہے ان پر محبت پوری ہو چکی ہے.حضرت صاحب کی ایک تحریر ملی ہے جو مولوی محمد علی صاحب کو ہی مخاطب کر کے فرمائی تھی.اور وہ یہ ہے.اخبار بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۱۲۱ / فروری ۱۹۰۷ء صفحه ۴ ۱۳ / فروری ۱۹۰۷ء مولوی محمد علی صاحب کو بلا کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یورپ امریکہ کے لوگوں پر تبلیغ کا حق ادا کرنے کے واسطے ایک کتاب انگریزی زبان میں لکھی جائے اور یہ آپ کا کام ہے.آجکل ان ملکوں میں جو اسلام نہیں پھیلتا اور اگر کوئی مسلمان ہوتا بھی ہے تو وہ بہت کمزوری کی حالت میں رہتا ہے.اس کا سبب یہی ہے کہ وہ لوگ اسلام کی اصل حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور نہ ان کے سامنے اصل حقیقت کو پیش کیا گیا ہے.ان لوگوں کا حق ہے کہ ان کو حقیقی اسلام دکھلایا جائے جو خدا تعالیٰ نے ہم پر ظاہر کیا ہے.وہ امتیازی باتیں جو خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ میں رکھی ہیں وہ ان پر ظاہر کرنی چاہئیں اور خدا تعالیٰ کے مکالمات اور مخاطبات کا سلسلہ ان کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور ان سب باتوں کو جمع کیا جائے جن کے ساتھ اسلام کی عزت اس زمانہ میں وابستہ ہے.ان تمام دلائل کو ایک جگہ جمع کیا جائے جو اسلام کی صداقت کے واسطے خدا تعالیٰ نے ہم کو سمجھائے ہیں.اس طرح ایک جامع کتاب تیار ہو جائے تو امید ہے کہ اس سے ان لوگوں کو بہت فائدہ حاصل ہو.اب بتاؤ کہ جب مسیح موعود علیہ السلام نے خود یورپ میں تبلیغ اسلام کا طریق بتا دیا ہے تو پھر کسی نئے طریق اختیار کرنے کی کیا وجہ ہے.افسوس ہے جن کو اس کام کے لائق سمجھ کر ہدایت کی گئی تھی وہی اور راہ اختیار کر رہے ہیں.یہ غلط ہے کہ لوگ وہاں سلسلہ کی باتیں سننے

Page 81

خلافة على منهاج النبوة ۶۳ جلد اول کو تیار نہیں.ایک دوست کا خط آیا ہے کہ لوگ سلسلہ کی باتیں سننے کو تیار ہیں کیونکہ ایسی جماعتیں وہاں پائی جاتی ہیں جو مسیح کی آمد کی انہی دنوں میں منتظر ہیں.ایسا ہی ریو یوکو پڑھ کر بعض خطوط آتے ہیں.سویڈن اور انگلستان سے بھی آتے ہیں.ایک شخص نے مسیح کے کشمیر آنے کا مضمون پڑھ کر لکھا ہے کہ اسے الگ چھپوایا جائے اور دو ہزار مجھے بھیجا جائے میں اسے شائع کروں گا یہ ایک جرمن یا انگریز کا خط ہے.ایسی سعادت مند روحیں ہیں جو سنے کو موجود ہیں مگر ضرورت ہے سنانے والوں کی.میں یورپ میں تبلیغ کے سوال پر آج تک خاموش رہا اس کی یہ وجہ نہ تھی کہ میں اس سوال کا فیصلہ نہیں کر سکتا تھا ، نہیں بلکہ میں نے احتیاط سے کام لیا کہ جو لوگ وہاں گئے ہیں وہ وہاں کے حالات کا بہترین علم رکھتے ہیں میں چونکہ وہاں نہیں گیا اس لئے مجھے خاموش رہنا چاہیے لیکن جو لوگ وہاں گئے ان میں سے بعض نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب کا ذکر لوگ سنتے ہیں اور ہماری تبلیغ میں حضرت صاحب کا ذکر ہونا چاہیے.اس کے علاوہ خود حضرت صاحب نے یورپ میں تبلیغ کے لئے یہی فرمایا کہ اس سلسلہ کو پیش کیا جاوے.اور جو کشف آپ نے دیکھا تھا اس کے بھی یہی معنی کئے کہ میری تحریریں وہاں پہنچیں گی.ان تمام امور پر غور کر کے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ممالک غیر اور یورپ میں بھی اس سلسلہ کی اشاعت ہو اور ہمارے مبلغ وہاں جا کر انہیں بتائیں کہ تمہارا مذہب مردہ ہے اس میں زندگی کی روح نہیں ہے زندہ مذہب صرف اسلام ہے جس کی زندگی کا ثبوت اس زمانہ میں بھی ملتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نازل ہوئے.غرض وہاں بھی سلسلہ کا پیغام پہنچایا جاوے اور جہاں ہم سر دست واعظ نہیں بھیج سکتے وہاں ٹریکٹ اور چھوٹے چھوٹے رسالے چھپوا کر تقسیم کریں..اشتہاری تبلیغ کا جوش چونکہ مھے تبلیغ کے لئے خاص دلچی ہی رہی ہے اس دلچسپی کے ساتھ عجیب عجیب ولولے اور جوش پیدا ہوتے رہے ہیں اور اس تبلیغی عشق نے عجیب عجیب ترکیبیں میرے دماغ میں پیدا کی ہیں.ایک بار خیال آیا کہ جس طرح پر اشتہاری تاجر اخبارات میں اپنا اشتہار دیتے ہیں میں بھی چین کے اخبارات

Page 82

خلافة على منهاج النبوة ۶۴ جلد اول میں ایک اشتہار تبلیغ سلسلہ کا دوں اور اس کی اُجرت دے دوں تا کہ ایک خاص عرصہ تک وہ اشتہار چھپتا رہے.مثلاً یہی اشتہار کہ مسیح موعود آ گیا “ بڑی موٹی قلم سے اس عنوان سے ایک اشتہار چھپتا رہے.غرض میں اِس جوش اور عشق کا نقشہ الفاظ میں نہیں کھینچ سکتا جو اس مقصد کے لئے مجھے دیا گیا ہے یہ ایک نمونہ ہے اس جوش کے پورا کرنے کا.ورنہ یہ ایک لطیفہ ہی ہے.اس تجویز کے ساتھ ہی مجھے بے اختیار ہنسی آئی کہ یہ اشتہاری تبلیغ بھی عجیب ہو گی.مگر یہ کوئی نئی بات نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی تبلیغ سلسلہ کے لئے عجیب عجیب خیال آتے تھے اور وہ دن رات اسی فکر میں رہتے تھے کہ یہ پیغام دنیا کے ہر کونے میں پہنچ جاوے.ایک مرتبہ آپ نے تجویز کی کہ ہماری جماعت کا لباس ہی الگ ہو تا کہ ہر شخص بجائے خود ایک تبلیغ ہو سکے اور دوستوں کو ایک دوسرے کی ناواقفی میں شناخت آسان ہو.اس پر مختلف تجویزیں ہوتی رہیں.میں خیال کرتا ہوں کہ شاید اسی بناء پر لکھنؤ کے ایک دوست نے اپنی ٹوپی پر احمدی لکھوا لیا.غرض تبلیغ ہو اور کونہ کونہ میں ہو کوئی جگہ باقی نہ رہے.یہ جوش ، یہ تجویزیں اور کوششیں ہماری نہیں یہ حضرت صاحب ہی کی ہیں اور سب کچھ انہیں کا ہے ہمارا تو کچھ بھی نہیں.مبلغ کہاں سے آویں جب ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کے ہر گوشہ اور ہر قوم اور ہر زبان میں ہماری تبلیغ ہو تو دوسرا سوال جو قدرتاً پیدا ہوتا ہے یہ ہوگا کہ تبلیغ کے لئے مبلغ کہاں سے آویں؟ یہ وہ سوال ہے جس نے ہمیشہ میرے دل کو دُکھ میں رکھا ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی یہ تڑپ رکھتے تھے کہ اخلاص کے ساتھ تبلیغ کرنے والے ملیں.حضرت خلیفہ المسیح کی بھی یہ آرزو ر ہی.اسی خواہش نے اسی جگہ اسی مسجد میں مدرسہ احمدیہ کی بنیاد مجھ سے رکھوائی اور اسی مسجد میں بڑے زور سے اس کی مخالفت کی گئی.لیکن میری کوئی ذاتی خواہش اور غرض نہ تھی محض اعلائے سلسلہ کی غرض سے میں نے یہ تحریک کی تھی باوجود یکہ بڑے بڑے آدمیوں نے مخالفت کی آخر اللہ تعالیٰ نے اس مدرسہ کو قائم کر ہی دیا.اُس وقت سمجھنے والوں نے نہ سمجھا کہ اس مدرسہ کی کس قدرضرورت ہے اور مخالفت میں حصہ لیا.میں دیکھتا تھا کہ علماء کے قائم مقام پیدا نہیں ہوتے.

Page 83

خلافة على منهاج النبوة جلد اول میرے دوستو ! یہ معمولی مصیبت اور دکھ نہیں ہے.کیا تم چاہتے ہو ، ہاں کیا تم چاہتے ہو کہ فتویٰ پوچھنے کے لئے تم ندوہ اور دوسرے غیر احمدی مدرسوں یا علماء سے سوال کرتے پھر و جو تم پر کفر کے فتوے دے رہے ہیں؟ دینی علوم کے بغیر قوم مُردہ ہوتی ہے پس اس خیال کو مد نظر رکھ کر باوجود پُر جوش مخالفت کے میں نے مدرسہ احمدیہ کی تحریک کو اُٹھایا اور خدا کا فضل ہے کہ وہ مدرسہ دن بدن ترقی کر رہا ہے لیکن ہمیں تو اس وقت واعظ اور معلموں کی ضرورت ہے.مدرسہ سے تعلیم یافتہ نکلیں گے اور اِنشَاءَ اللہ وہ مفید ثابت ہوں گے مگر ضرورتیں ایسی ہیں کہ ابھی ملیں.میرا اپنا دل تو چاہتا ہے کہ گاؤں گاؤں ہمارے علماء اور مفتی ہوں.جن کے ذریعہ علوم دینیہ کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہو اور کوئی بھی احمدی باقی نہ رہے جو پڑھا لکھا نہ ہو اور علوم دینی سے واقف نہ ہو.میرے دل میں اس غرض کے لئے بھی عجیب عجیب تجویزیں ہیں جو خدا چاہے گا تو پوری ہو جائیں گی.غرض یہ ضروری سوال ہے کہ مبلغ کہاں سے آویں ؟ اور پھر چونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہر قوم اور ہر زبان میں ہماری تبلیغ ہو اس لئے ضرورت ہے کہ مختلف زبانیں سکھائی جاویں.حضرت خلیفۃ المسیح کی زندگی میں میں نے ارادہ کیا تھا کہ بعض ایسے طالبعلم ملیں جو سنسکرت پڑھیں اور پھر وہ ہندوؤں کے گاؤں میں جا کر کوئی مدرسہ کھول دیں اور تعلیم کے ساتھ تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رکھیں اور ایک عرصہ تک وہاں رہیں.جب اسلام کا بیج بویا جائے تو مدرسہ کسی شاگرد کے سپرد کر کے آپ دوسری جگہ جا کر کام کریں.غرض جس رنگ میں تبلیغ آسانی سے ہو سکے کر یں.اس قسم کے لوگوں کی بہت بڑی ضرورت ہے جو خدمتِ دین کے لئے نکل کھڑے ہوں.یہ ضرورت کس طرح پوری ہو؟ ایک سہل طریق خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں ایک مدرسہ ہو.تم باہم مل کر اس کے لئے مشورہ کرو پھر میں غور کروں گا.میں پھر کہتا ہوں کہ میں تم سے جو مشورہ کر رہا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے نیچے کر رہا ہوں.قرآن مجید میں اس نے فرمایا ہے و شاد رُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فتوكل على الله " پس تم مشورہ کر کے مجھے بتاؤ.پھر اللہ تعالیٰ جو کچھ میرے دل میں

Page 84

خلافة على منهاج النبوة ۶۶ جلد اول ڈالے گا میں اس پر تَوَكُلاً عَلَى الله عزم کروں گا.غرض ایک مدرسہ ہو اس میں ایک ایک مہینے یا تین تین مہینے کے کورس ہوں.اس عرصہ میں مختلف جگہ سے لوگ آجا دیں اور وہ کورس پورا کر کے اپنے وطنوں کو چلے جاویں اور وہاں جا کر اپنے اس کورس کے موافق سلسلہ تبلیغ کا جاری کریں.پھر ان کی جگہ ایک اور جماعت آوے اور وہ بھی اسی طرح اپنا کورس پورا کر کے چلی جاوے.سال تک برابر اسی طرح ہوتا رہے پھر اسی طریق پر وہ لوگ جو پہلے سال آئے تھے آتے رہیں.اس طرح پر ان کی تکمیل ہو اور ساتھ ہی وہ تبلیغ کرتے رہیں.میں اس مقصد کے لئے خاص استاد مقرر کروں گا اور جو لوگ اس طرح پر آتے رہیں گے وہ برا بر پڑھتے رہیں گے.یہ تعلیم کا ایک ایسا ہی طریق ہے جیسا کہ میدانِ جنگ میں نماز کا ہے.اس وقت بھی دشمن سے جنگ ہے اب تیر و تفنگ کی لڑائی نہیں بلکہ دلائل اور براہین سے ہو رہی ہے اس لئے انہیں ہتھیاروں سے ہم کو مسلح ہونا چاہیے اور اس کی یہ ایک صورت ہے.غرض ایک سال کا کورس ختم ہونے کے بعد پھر پہلی جماعت آئے اور کورس ختم کرے.ایک ایک سال کے لئے ذخیرہ موجود ہو گا حتی کہ چار پانچ چھ سات سال میں جب تک خدا چاہے کام کرتے رہیں اتنے عرصہ میں مبلغ تیار ہو جاویں گے.یہ ایک طریق ہے، یہ ایک رنگ ہے پس تم غور کرو کہ ایک مدرسہ اس قسم کا چاہیے.واعظین کا تقرر واعظین کے تقرر کی بھی ضرورت ہے اور میری رائے یہ ہے کہ کم از کم دس تو ہوں.ان کو مختلف جگہ بھیج دیا جاوے.مثلاً ایک سیالکوٹ چلا جا وے وہ وہاں جا کر درس دے اور تبلیغ کرے تین ماہ تک وہاں رہے اور پھر دوسری جگہ چلا جاوے.کسی جگہ ایک آدھ دن کے لیکچر یا وعظ کی بجائے یہ سلسلہ زیادہ مفید ہوسکتا ہے واعظین کم از کم دس ہوں اور اگر یہ بھی نہ مل سکیں تو کم از کم پانچ ہی ہوں.قوم لوط کا واقعہ اس موقع پر مجھے ایک خطر ناک واقعہ یاد آ گیا.حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر جب عذاب آیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تب ابراہام نزدیک جا کے بولا.کیا تو نیک کو بد کے ساتھ ہلاک کرے گا ؟ شاید پچاس صادق اس شہر میں ہوں.کیا تو اسے ہلاک کرے گا اور ان پچاس صادقوں کی خاطر جو اس

Page 85

خلافة على منهاج النبوة ۶۷ جلد اول کے درمیان ہیں اس مقام کو نہ چھوڑے گا ؟ ایسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے اور نیک بد کے برابر ہو جاویں یہ تجھ سے بعید ہے.کیا تمام دنیا کا انصاف کرنے والا انصاف نہ کرے گا ؟ اور خداوند نے کہا کہ اگر میں سدوم میں شہر کے درمیان پچاس صادق پاؤں تو میں ان کے واسطے تمام مکان کو چھوڑوں گا.تب ابراہام نے جواب دیا اور کہا کہ اب دیکھ میں نے خداوند سے بولنے میں جرات کی اگر چہ میں خاک اور راکھ ہوں.شاید پچاس صادقوں سے پانچ کم ہوں.کیا ان پانچ کے واسطے تو تمام شہر کو نیست کرے گا ؟ اور اس نے کہا اگر میں وہاں پنتالیس پاؤں تو نیست نہ کروں گا.پھر اس نے اس سے کہا شاید وہاں چالیس پائے جائیں.تب اس نے کہا کہ میں چالیس کے واسطے بھی نہ کروں گا.پھر اس نے کہا کہ میں منت کرتا ہوں کہ اگر خدا وند خفا نہ ہوں تو میں پھر کہوں شاید وہاں تھیں پائے جائیں.وہ بولا اگر میں وہاں تمہیں پاؤں تو میں یہ نہ کروں گا.پھر اس نے کہا دیکھ میں نے خداوند سے بات کرنے میں جرات کی شاید وہاں ہیں پائے جائیں.وہ بولا میں ہیں کے واسطے بھی اسے نیست نہ کروں گا.تب اس نے کہا میں منت کرتا ہوں کہ خداوند خفا نہ ہوں تب میں فقط اب کی بار پھر کہوں شاید وہاں دس پائے جائیں.وہ بولا میں دس کے واسطے بھی اسے نیست نہ کروں گا کہ.قرآن شریف میں اس کی نسبت فرمایا فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتِ من المُسلمين 1 غرض دس کے ذکر پر مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا تو کس قدر افسوس کی بات ہے کہ دس مولوی بھی نہ ملیں یہ بہت ہی رونے اور گڑ گڑانے اور دعاؤں کا مقام ہے کیونکہ جب علماء نہ ہوں تو دین میں کمزوری آجاتی ہے میں تو بہت دعائیں کرتا ہوں کہ اللہ اس نقص کو دور فرما دے.یہ تجویز جو میں نے پیش کی ہے قرآن مجید نے ہی اس کو پیش کیا ہے چنانچہ فرمایا فلولا نَفَرَ مِن كُلّ فرقة 19 سارے مومن تو ایک وقت اکٹھے نہیں ہو سکتے اس لئے یہ فرمایا کہ ہر علاقہ سے کچھ لوگ آویں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور رہ کر دین حاصل کر کے اپنی قوم میں جا کر انہیں سکھائیں.یہ تو میری پہلی تجویز کی تائید قرآن مجید سے ہے یا

Page 86

خلافة على منهاج النبوة ۶۸ جلد اول یوں کہو کہ قرآن مجید کی ہدایت کے موافق میری پہلی تجویز ہے.دوسری تجویز بھی قرآن مجید ہی کی ہے چنانچہ فرمایا وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إلى الخير " یہ آیت واعظین کی ایک ایسی جماعت کی تائید کرتی ہے جس کا کام ہی تبلیغ ہو.تعلیم شرائع ان امور کے بعد پر تعلیم شرائع کا کام آ تا ہے جب تک قوم کو شریعت سے واقفیت نہ ہو، انہیں معلوم نہ ہو کہ اُنہوں نے کیا کرنا ہے عملی حالت کی اصلاح مشکل ہوتی ہے اس لئے خلیفہ کے کاموں میں تعلیم شرائع ضروری ہے.میں نے ایک شخص کو دیکھا جو بیعت کرنے لگا.اُس کو کلمہ بھی نہیں آتا تھا.اس لئے ضروری ہے کہ ہماری جماعت کا کوئی فرد باقی نہ رہے جو ضروری باتیں دین کی نہ جانتا ہو.پس اس تعلیم شرائع کے انتظام کی ضرورت ہے.یہ کام کچھ تو مبلغین اور واعظین سے لیا جاوے.وہ ضروری دینی مسائل سے قوم کو واقف کرتے رہیں.میں نے ایسے آدمیوں کو دیکھا ہے جو قوم میں لیڈ رکہلاتے ہیں وہ نماز نہیں پڑھنا جانتے اور بعض اوقات عجیب عجیب قسم کی غلطیاں کرتے ہیں اور نمازیں پڑھنی نہیں آتی ہیں اور یقینا نہیں آتی ہیں.کوئی کہہ دے گا کہ یہ (تعدیل ارکان) فضول ہیں میں کہتا ہوں کہ خدا نے کیوں فرمایا يُعلّمُهُمُ الكتب والحكمة پس یہ ضروری چیز ہے اور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر ایک کی حکمت بیان کر سکتا ہوں.میں نے حضرت صاحب کو دیکھا ہے کہ جراب میں ذرا سوراخ ہو جاتا تو فوراً اُس کو تبدیل کر لیتے.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ ایسی پھٹی ہوئی جرابوں پر بھی جن کی ایڑی اور پنجہ دونوں نہیں ہوتے مسح کرتے چلے جاتے ہیں یہ کیوں ہوتا ہے؟ شریعت کے احکام کی واقفیت نہیں ہوتی.اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ رخصت اور جواز کے صحیح محل کو نہیں سمجھتے.مجھے ایک دوست نے ایک لطیفہ سنایا کہ کسی مولوی نے ریشم کے کنارے والا تہ بند پہنا ہوا تھا اور وہ کنارہ بہت بڑا تھا.میں نے ان سے کہا کہ ریشم تو منع ہے.مولوی صاحب نے کہا کہ کہاں لکھا ہے؟ میں نے کہا کہ آپ لوگوں سے ہی سنا ہے کہ چار انگلیوں سے زیادہ نہ

Page 87

خلافة على منهاج النبوة جلد اول ہو؟ مولوی صاحب نے کہا کہ چار انگلیاں ہماری تمہاری نہیں بلکہ حضرت عمر کی.اُن کی چار انگلیاں ہماری بالشت کے برابر تھیں.اسی طرح انسان خیالی شریعتیں قائم کرتا ہے.یہ خوف کا مقام ہے ایسی باتوں سے پر ہیز کرنا چاہیے اور یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان حدود شرائع سے واقف ہو اور خدا کا خوف دل میں ہو.یہ مت سمجھو کہ چھوٹے چھوٹے احکام میں اگر پرواہ نہ کی جاوے تو کوئی حرج نہیں یہ بڑی بھاری غلطی ہے جو شخص چھوٹے سے چھوٹے حکم کی پابندی نہیں کرتا وہ بڑے سے بڑے حکم کی بھی پابندی نہیں کر سکتا.خدا کے حکم سب بڑے ہیں بڑوں کی بات بڑی ہی ہوتی ہے جن احکام کو لوگ چھوٹا سمجھتے ہیں ان سے غفلت اور بے پرواہی بعض اوقات گفر تک پہنچا دیتی ہے.خدا تعالیٰ نے بعض چھوٹے چھوٹے احکام بتائے ہیں مگر ان کی عظمت میں کمی نہیں آتی.طالوت کا واقعہ قرآن مجید میں موجود ہے.ایک نہر کے ذریعہ قوم کا امتحان ہو گیا.سیر ہو کر پینے والوں کو کہ دیا فليس مني " اب ایک سطحی خیال کا آدمی تو یہی کہے گا کہ پانی پی لینا کونسا جرم تھا مگر نہیں اللہ تعالیٰ کو اطاعت سکھانا مقصود تھا.وہ جنگ کے لئے جا رہے تھے اس لئے یہ امتحان کا حکم دے دیا اگر وہ اس چھوٹے سے حکم کی اطاعت کرنے کے بھی قابل نہ ہوں گے تو پھر میدانِ جنگ میں کہاں مانیں گے؟ بہر حال اللہ تعالیٰ کے تمام احکام میں حکمتیں ہیں اور اگر انسان ان پر عمل کرتا رہے تو پھر اللہ تعالیٰ ایمان نصیب کر دیتا ہے اور اپنے فضل کے دروازے کھول دیتا ہے.چونکہ وقت زیادہ ہو گیا تھا آپ نے فرمایا کہ گھبرانا نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بعض وقت لمبی تقریر کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے آپ لوگوں کو جس غرض کے لئے جمع کیا گیا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ پورے طور پر اس سے واقف ہو جاویں ) غرض شرائع میں حکمتیں ہیں اگر ان کی حقیقت معلوم نہ ہو تو بعض وقت اصل احکام بھی جاتے رہتے ہیں اور پھر غفلت اور سستی پیدا ہو کر مٹ جاتے ہیں.کسی جنٹلمین نے لکھ دیا کہ نماز کسی بیچ یا کرسی پر بیٹھ کر ہونی چاہیے کیونکہ پتلون خراب ہو جاتی ہے.دوسرے نے کہہ دیا کہ وضو کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے کفیں وغیرہ خراب ہو جاتی ہیں.جب یہاں تک

Page 88

خلافة على منهاج النبوة جلد اول نوبت پہنچی تو رکوع اور سجدہ بھی ساتھ ہی گیا.اگر کوئی شخص ان کو حکمت سکھانے والا ہوتا اور انہیں بتا تا کہ نماز کی حقیقت یہ ہے، وضو کے یہ فوائد ہیں اور رکوع اور سجود میں یہ حکمتیں ہیں تو یہ مصیبت کیوں آتی اور اس طرح وہ دین کو کیوں خیر باد کہتے.مسلمانوں نے شرائع کی حکمتوں کے سیکھنے کی کوشش نہیں کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت لوگ مرتد ہو رہے ہیں اگر کوئی عالم ان کو حکمتوں سے واقف کرتا تو کبھی دہریت اور ارتداد نہ پھیلتا.یہاں اسی مسجد والے مکان کے مالک حضرت صاحب کے چا کا بیٹا مرزا امام الدین دہر یہ تھا.حضرت خلیفہ اسیح نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ مرزا صاحب! کبھی یہ خیال بھی آیا ہے کہ اسلام کی طرف توجہ کرنی چاہیے؟ کہنے لگا کہ میری فطرت بچپن سے ہی سلیم تھی لوگ جب نماز پڑھتے اور رکوع سجود کرتے تو مجھے ہنسی آتی تھی کہ یہ کیا کرتے ہیں.یہ کیوں ہوا؟ اس لئے کہ انہیں کسی نے حکمت نہ سکھائی، شرائع اسلام کی حقیقت سے واقف نہ کیا نتیجہ یہ ہوا کہ دہر یہ ہو گیا.سو یہ کام خلیفہ کا ہے کہ حکمت سکھائے اور چونکہ وہ ہر جگہ تو جا نہیں سکتا اس لئے ایک جماعت ہو جو اس کے پاس رہ کر ان حکمتوں اور شرائع کے حدود کو سیکھے پھر وہ اس کے ماتحت لوگوں کو سکھائے تا کہ لوگ گمراہ نہ ہوں.اس زمانہ میں اس کی خصوصیت.ضرورت ہے کہ لوگ جدید علوم پڑھ کر ہوشیار ہو رہے ہیں.عیسائیوں نے اسلام پر اعتراض کیا ہے کہ عبادات کے ساتھ مادی امور کو شامل کیا ہے.انہیں چونکہ شریعت کی حقیقت کی خبر نہیں اس لئے دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں پس ضرورت ہے کہ واعظ مقرر ہوں جو شرائع کی تعلیم دیں اور ان کی حکمت سے لوگوں کو آگاہ کریں.تعلیم العقائد کی کتاب اس کے سوا ایک اور ضروری بات ہے حضرت صاحب کو اس کے متعلق بڑی توجہ تھی مگر لوگوں نے بھلا دی.اس کے إنا لله وإنا الیور جِعُون پھر حضرت خلیفہ اسیح نے توجہ دلائی مگر لوگوں نے پھر بھلا دی.میں اب پھر یاد دلاتا ہوں اور انشاء اللہ العزیز میں اس کو یا درکھوں گا اور یاد دلاتا رہوں گا جب تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی تکمیل کے کام سے سر خرو کر دے.میں نے حضرت صاحب سے بارہا یہ خواہش سنی تھی کہ ایسا رسالہ ہو جس میں عقائد احمد یہ ہوں.اگر

Page 89

خلافة على منهاج النبوة جلد اول ایسا رسالہ تیار ہو جائے تو آئے دن کے جھگڑے فیصل ہو جائیں اور پھر نزا میں برپا نہ ہوں.میں چاہتا ہوں کہ علماء کی ایک مجلس قائم کروں اور وہ حضرت صاحب کی کتابوں کو پڑھ کر اور آپ کی تقریروں کو زیر نظر رکھ کر عقائد احمدیہ پر ایک کتاب لکھیں اور اس کو شائع کیا جاوے.اس وقت جو بخشیں چھڑتی ہیں جیسے کفر و اسلام کی بحث کسی نے چھیڑ دی اس سے اس قسم کی تمام بحثوں کا سد باب ہو جائے گا.لیکن اب جب کہ کوئی ایسی مستند اور جامع کتاب موجود نہیں مختلف جھگڑے آئے دن ہوتے رہتے ہیں.کوئی کہتا ہے حضرت صاحب مسیح ناصری سے افضل تھے دوسرا کہتا ہے نہیں.اس کی جڑ یہی ہے کہ لوگوں کو واقفیت نہیں.مگر جب ایسی جامع کتاب علماء کی ایک مجلس کے کامل غور کے بعد شائع ہو جاوے گی تو سب کے سب اسے اپنے پاس رکھیں گے اور اس طرح پر عقائد میں انشَاءَ اللہ اختلاف نہیں ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق وعظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ آپ بہت ہی مختصر وعظ فرماتے لیکن کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ وعظ فرما رہے ہیں اور ظہر کا وقت آ گیا.پھر نماز پڑھ لی.پھر وعظ کرنے لگے اور عصر کا وقت آ گیا پھر نماز پڑھ لی.پس آج کا وعظ اِسی سنت پر عمل معلوم ہوتا ہے.میں جب یہاں آیا ہوں تو بیت الدعا میں دعا کر کے آیا تھا کہ میرے منہ سے کوئی بات ایسی نہ نکلے جو ہدایت کی بات نہ ہو.ہدایت ہوا اور لوگ ہدایت سمجھ کر مانیں.میں دیکھتا ہوں کہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اور میں اپنے آپ کو روکنا چاہتا ہوں مگر با تیں آ رہی ہیں اور مجھے بولنا پڑتا ہے.پس میں انہیں ربانی تحریک سمجھ کر اور اپنی دعا کا نتیجہ یقین کر کے بولنے پر مجبور ہوں.غرض تعلیم العقائد کیلئے ایک ایسے رسالہ یا ٹریکٹ کی ضرورت ہے.اس کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ وقت آ رہی ہے کہ کسی نے صرف تریاق القلوب کو پڑھا اور اس سے ایک نتیجہ نکال کر اس پر قائم ہو گیا حقیقۃ الوحی کو نہ دیکھا.اب دوسرا آیا اس نے حقیقۃ الوحی کو پڑھا اور سمجھا ہے وہ اس کی بناء پر اس سے بحث کرتا ہے اور تیسرا آتا ہے اس نے حضرت صاحب کے تمام اشتہارات کو بھی جن کی تعداد ۱۸۰ سے زیادہ ہے پڑھا ہے وہ اپنے علم کے موافق کلام کرتا ہے.مثلاً مجھے اب تک معلوم نہ تھا کہ اشتہارات کی اس قدر

Page 90

خلافة على منهاج النبوة ۷۲ جلد اول تعداد ہے آج ہی معلوم ہوا ہے اور اب اِنشَاءَ اللہ میں خود بھی ان تمام اشتہارات کو پڑھوں گا.پس ضرورت ہے کہ علماء کی ایک جماعت ہو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھ کر عقائد کے متعلق ایک نتیجہ نکال کر ایک رسالہ میں انہیں جمع کریں.وہ تمام عقائد جماعت کو دیے جاویں اور سب انہیں پڑھیں اور یاد رکھیں.یہ اختلاف جو عقائد کے متعلق پیدا ہوتا ہے انشاء الله بالکل مٹ جاوے گا.سب کا ایک ہی عقیدہ ہوگا اور اگر پھر اختلاف ہوگا بھی تو نہایت ہی خفیف ہوگا.تفرقہ نہ ہوگا جیسے اب ہوا.میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اس وقت بھی جو اختلاف ہوا وہ عقائد کی وجہ سے نہیں کفر و اسلام کا بہانہ ہے.احمدی اور غیر احمدی کے سوال کو خلافت سے کیا تعلق.اگر یہ سوال حل ہو جائے تو کیا یہ معترض خلافت کو مانیں گے؟ کبھی نہیں.یہ تو غیر احمدیوں کی ہمدردی کو حاصل کرنے اور بعض احمد یوں کو بھڑ کانے کے لئے ہے بھلا خیال تو کرو کہ دو میاں بیوی یا بھائی بھائی اگر آپس میں لڑ کر ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں کہ ہمارے ہمسایہ کا کیا مذہب ہے تو یہ عقلمندی ہوگی ؟ نہیں یہ مسئلہ صرف ایک آڑ ہے.میری خواہش میرا دل چاہتا ہے کہ ان خواہشوں کی تکمیل میرے وقت میں ہو جاوے یہ اتحاد کے لئے بڑی ضروری ہیں اگر خدا تعالیٰ نے چاہا جیسا کہ میں اپنے خدا پر بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہوں تو سب کچھ ہو جائے گا.تعلیم شرائع کا انتظام بھی ہو جاوے گا اور حکمت بھی سکھائیں گے اور یہ ساری باتیں قرآن شریف سے ہی إِنْشَاءَ الله بتا دیں گے.تزکیه نفوس ان امور کے بعد اب تزکیہ نفس ہے میں نے کہا ہے کہ قرآن مجید سے اور سورہ بقرہ کی ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ تزکیہ نفوس کے لئے سے بڑا ہتھیار ، نا قابل خطا ہتھیار دعا ہے.نماز بھی دعا ہے.سورہ بقرہ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تزکیہ بتایا ہے اسے بھی دعا پر ہی ختم کیا ہے اور نماز کے آخری حصہ میں بھی دعائیں ہی ہیں.

Page 91

خلافة على منهاج النبوة ۷۳ جلد اوّل پس تزکیہ نفوس کے لئے پہلی چیز دعا ہی ہے خدا کے محض فضل سے میں بہت دعائیں کرتا ہوں اور بہت کرتا ہوں تم بھی دعاؤں سے کام لو.خدا تعالی زیادہ توفیق دے.یہ بھی یاد رکھو کہ میری اور تمہاری دعاؤں میں فرق ہے جیسے ایک ضلع کے افسر کی رپورٹ کا اور اثر ہوتا ہے ، لیفٹیننٹ گورنر کا اور ، اور وائسرائے کا اور.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ جس کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے.تم میرے لئے دعا کرو کہ مجھے تمہارے لئے زیادہ دعا کی توفیق ملے اور اللہ تعالیٰ ہماری ہر قسم کی سستی دور کر کے چستی پیدا کرے.میں جو دعا کروں گا وہ اِنشَاءَ الله فردا فردا ہر شخص کی دعا سے زیادہ طاقت رکھے گی.تزکیہ نفس کے متعلق کسی نے ایک لطیف بات بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان تین باتوں کا نتیجہ يزكيهم ہوتا ہے یعنی قرآن مجید کی تلاوت کرے اور تَعْلِيمُ الكتب والحكمة کرے اس کے بعد اس جماعت میں تزکیہ پیدا ہو جائے گا.پھر ایک اور بڑا ذریعہ تزکیہ نفوس کا ہے جو مسیح موعود علیہ السلام نے کہا ہے اور میرا یقین ہے کہ وہ بالکل درست ہے.ہر ہر حرف اس کا سچا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر شخص جو قادیان نہیں آتا یا کم از کم ہجرت کی خواہش نہیں رکھتا اس کی نسبت شبہ ہے کہ اس کا ایمان درست ہو.عبد الحکیم کی نسبت یہی فرمایا کرتے تھے کہ وہ قادیان نہ آتا تھا.قادیان کی نسبت اللہ تعالیٰ ن إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ؟ " فرمایا.یہ بالکل درست ہے کہ یہاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ والی برکات نازل ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرماتے ہیں.زمین قادیاں اب محترم ہجوم خلق ارض حرم ہے ہے جب خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے، ۲۲ تو پھر جہاں وہ پیدا ہوا ، جس زمین پر چلتا پھرتا رہا اور آخر دفن ہوا کیا وہاں برکت نازل نہ ہوگی !

Page 92

خلافة على منهاج النبوة جلد اول یہ جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ وعدہ دیا کہ مکہ میں دجال نہ جائے گا کیا زمین کی وجہ سے نہیں جائے گا ؟ نہیں بلکہ اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں مبعوث ہوئے.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتا دیا ہے کہ قادیان کی زمین با برکت ہے.میں نے دیکھا کہ ایک شخص عبد الصمد کھڑا ہے اور کہتا ہے ہیں.”مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل ہوتی یہ بالکلد رست ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے مقامات دیکھنے سے ایک رقت پیدا ہوتی ہے اور دعا کی تحریک ہوتی ہے اس لئے قادیان میں زیادہ آنا چاہیے.پھر دعائوں کے لئے تعلق کی ضرورت ہے حضرت صاحب کو میں نے دیکھا ہے مگر حضرت خلیفہ ایچ بچتے تھے اور میں خود بھی بچتا ہوں.حضرت صاحب بعض لوگوں کو کہہ دیا.کرتے تھے کہ تم ایک نذر مقرر کرو میں دعا کروں گا.یہ طریق محض اس لئے اختیار کرتے تھے کہ تعلق بڑھے.اس کے لئے حضرت صاحب نے بارہا ایک حکایت سنائی ہے کہ ایک بزرگ سے کوئی شخص دعا کرانے گیا اس کے مکان کا قبالہ گم ہو گیا تھا.اُنہوں نے کہا کہ میں دعا کروں گا مگر پہلے میرے لئے حلوہ لاؤ.وہ شخص حیران تو ہوا مگر دعا کی ضرورت تھی حلوہ لینے چلا گیا اور حلوائی کی دکان سے حلوہ لیا.وہ جب حلوہ ایک کاغذ میں ڈال کر دینے لگا تو وہ چلا یا کہ اس کو پھاڑ یو نہیں یہ تو میرے مکان کا قبالہ ہے اسی کے لئے وہ دعا کرانا چاہتا تھا.غرض وہ حلوہ لے کر گیا اور بتایا کہ قبالہ مل گیا تو اس بزرگ نے کہا میری غرض حلوہ سے صرف ی تھی کہ تعلق پیدا ہو.غرض دعا کے لئے ایک تعلق کی ضرورت ہے اور میں اس کے لئے اتنا ہی کہتا ہوں کہ خطوط کے ذریعہ یاد دلاتے رہوتا کہ تم مجھے یادر ہو.اب يزكيهم کے دوسرے معنی لوجس میں غرباء يُزَكِّيهِمْ کے دوسرے معنی و مساکین کی خبر گیری داخل ہے.لوگ یہ تو نہیں جانتے کہ میرے پاس ہے یا نہیں مگر جب وہ جانتے ہیں کہ میں خلیفہ ہو گیا ہوں تو حاجت مند

Page 93

خلافة على منهاج النبوة ۷۵ جلد اول تو آتے ہیں اور یہ سیدھی بات ہے کہ جو شخص کسی قوم کا سردار بنے گا اس کے پاس حاجت مند تو آئیں گے اس لئے شریعت نے زکوۃ کا انتظام خلیفہ کے سپرد کیا ہے تمام زکوۃ اُس کے پاس آنی چاہیے تا کہ وہ حاجتمندوں کو دیتا رہے.پس چونکہ یہ میرا ایک فرض اور کام ہے کہ میں کمزور لوگوں کی کمزوریوں کو دور کروں اس لئے تمہارا فرض ہونا چاہیے کہ اس میں میرے مددگار رہو.ابھی تو جھگڑے ہی ختم نہیں ہوئے مگر پھر بھی کئی سو کی درخواستیں آچکی ہیں جن کا مجھے انتظام کرنا پڑتا ہے جیسا کہ ابھی میں نے کہا ہے کہ یہ سلسلہ خلیفہ کے ذمہ رکھا ہے کہ ہر قسم کی کمزوریاں دور کرے خواہ وہ جسمانی ہوں یا مالی ، ذہنی ہوں عملی یا علمی اور اس کے لئے سامان چاہئے.پس اس کے انتظام کے لئے زکوۃ کی مدکا کے لئے زکوۃ کی مد کا انتظام ہونا ضروری ہے.میں نے اس کے انتظام کے لئے یہ تجویز کی ہے کہ زکوۃ سے اس قسم کے اخراجات ہوں.حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں بھی یہ تجویز میں نے پیش کی تھی.پہلے تو میں ان سے بے تکلف تھا اور دو دو گھنٹہ تک مباحثہ کرتا رہتا تھا لیکن جب وہ خلیفہ ہو گئے تو کبھی میں ان کے سامنے چوکڑی مار کر بھی نہیں بیٹھا کرتا تھا.جاننے والے جانتے ہیں خواہ مجھے تکلیف بھی ہوتی مگر یہ جرأت نہ کرتا اور نہ اونچی آواز سے کلام کرتا.کسی ذریعہ سے میں نے انہیں کہلا بھیجا تھا کہ زکوۃ خلیفہ کے پاس آنی چاہئے.کسی زمانہ میں تو عشر آتے تھے اب وہ وقت نہیں.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.اس شخص کو کہا کہ تم مجھے زکوۃ دے دیا کرو میرا یہی مذہب ہے.اور میرا بھی یہی عقیدہ ہے کہ زکوۃ خلیفہ کے پاس جمع ہو.پس تمہیں چاہئے کہ اپنی انجمنوں میں زکوۃ کے رجسٹر رکھو اور ہر شخص کی آمدنی تشخیص کر کے اس میں درج کرو اور جو لوگ صاحب نصاب ہوں وہ حساب کر کے پوری زکوۃ ادا کریں اور وہ براہ راست انجمن مقامی کے رجسٹروں میں درج ہو کر میرے پاس آ جائے اس کا با قاعدہ حساب کتاب رہے.ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ جن زکوٰۃ دینے والوں کے بعض رشتہ دار مستحق زکوۃ ہوں کہ ان کی مدد ز کوۃ سے ہو سکتی ہو وہ ایک فہرست اس مطلب کی یہاں بھیج دیں.پھر ان کے لئے بھی مناسب مدد یا تو یہاں سے بھیج دی جایا کرے گی یا وہاں ہی سے دے دیئے جانے کا حکم دیا جایا کرے گا.بہر حال زکوۃ جمع ایک جگہ ہونی.

Page 94

خلافة على منهاج النبوة جلد اول چاہئے اور پھر خلیفہ کے حکم کے ماتحت وہ خرچ ہونی چاہیے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر با قاعدہ رجسٹر کھولے گئے اور اس کے جمع کرنے میں کوشش کی گئی تو اس مد میں ہزاروں روپیہ جمع ہوسکتا ہے بلکہ میرا یقین ہے کہ تھوڑے ہی دنوں میں لاکھ سے بھی زیادہ آمدنی ہو سکتی ہے اس طرف زور سے توجہ ہو.میں یہ کروں گا کہ مسئلہ زکوۃ پر ایک ٹریکٹ لکھوا کر شائع کر دوں گا جس میں زکوۃ کے تمام احکام ہوں گے مگر آپ کا یہ کام ہے کہ زکوۃ کے لئے با قاعدہ رجسٹر کھول دیں اور نہایت احتیاط اور کوشش سے زکوۃ جمع کریں اور وہ زکوۃ با قاعدہ میرے پاس آنی چاہیے یہ ایک تجویز ہے.تعلیم میں نے بتایا تھا کہ یزکیھم کے معنوں میں اُبھارنا اور بڑھانا بھی داخل ہے اور اس کے مفہوم میں قومی ترقی داخل ہے اور اس ترقی میں علمی ترقی بھی شامل ہے اور اسی میں انگریزی مدرسہ اشاعت اسلام وَغَيْرَهُمَا امور آ جاتے ہیں اس سلسلہ میں میرا خیال ہے کہ ایک مدرسہ کافی نہیں ہے جو یہاں کھولا ہوا ہے اس مرکز ی سکول کے علاوہ ضرورت ہے سچ مختلف مقامات پر مدر سے کھولے جائیں زمیندار اس مدرسہ میں لڑکے کہاں بھیج سکتے ہیں.زمینداروں کی تعلیم بھی تو مجھ پر فرض ہے پس میری یہ رائے ہے کہ جہاں جہاں بڑی جماعت ہے وہاں سر دست پرائمری سکول کھولے جائیں ایسے مدارس یہاں کے مرکزی سکول کے ماتحت ہوں گے.ایسا ہونا چاہیے کہ جماعت کا کوئی فرد عورت ہو یا مرد باقی نہ رہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو.صحابہ نے تعلیم کے لئے بڑی بڑی کوششیں کی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دفعہ جنگ کے قیدیوں کا فدیہ آزادی یہ مقرر فرمایا ہے کہ وہ مسلمان بچوں کو تعلیم دیں.میں جب دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا فضل لے کر آئے تھے تو جوشِ محبت سے روح بھر جاتی ہے.آپ نے کوئی بات نہیں چھوڑی ہر معاملہ میں ہماری راہنمائی کی ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسیح نے بھی اسی نقش قدم پر چل کر ہر ایسے امر کی طرف توجہ دلائی ہے جو کسی بھی پہلو سے مفید ہو سکتا ہے.غرض عام تعلیم کی ترقی کے لئے سردست پرائمری سکول کھولے جائیں.ان تمام

Page 95

خلافة على منهاج النبوة 22 جلد اول مدارس میں قرآن مجید پڑھایا جائے اور عملی دین سکھایا جائے ،نماز کی پابندی کرائی جائے مؤمن کسی معاملہ میں پیچھے نہیں رہتا.پس تعلیم عامہ کے معاملہ میں ہمیں جماعت کو پیچھے نہیں رکھنا چاہیے اگر اس مقصد کے ماتحت پرائمری سکول کھولے جائیں گے تو گورنمنٹ سے بھی مددمل سکتی ہے.جماعت کی دُنیوی ترقی تعلیم کے سوال کے ساتھ ہی یہ بھی قابل غور امر ہے کہ جماعت کی دُنیوی ترقی ہو.ان کو فقر اور سوال سے بچایا جائے اور واعظین، تبلیغ اور تعلیم شرائع کے لئے جائیں.ان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ جماعت کی مادی ترقی کا بھی خیال رکھیں اور یہاں رپورٹ کرتے رہیں کہ احمدی سست تو نہیں.اگر کسی جگہ کوئی شخص ست پایا جائے تو اُس کو کاروبار کی طرف متوجہ کیا جائے.مختلف حرفتوں اور صنعتوں کی طرف انہیں متوجہ کیا جائے اس قسم کی باقاعدہ اطلاعیں جب ملتی رہیں گی تو جماعت کی اصلاح حال کی کوشش اور تدبیر ہو سکے گی.عملی ضرورت ہے جب میں نے ان باتوں پر غور کیا تو میں نے دیکھا کہ یہ بہت بڑا میدان ہے.میں نے غور کیا تو ڈر گیا کہ باتیں تو بہت کیں اگر عمل میں سُستی ہو تو پھر کیا ہوگا اور دوسری طرف خیال آیا کہ اگر چستی ہو تو پھر اور قسم کی مشکلات ہیں.حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کی خلافت پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ چل پھر کر خوب واقفیت پیدا کر لیتے تھے.جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان کا قصور تھا وہ جھوٹے ہیں.حضرت عثمان بہت بوڑھے تھے اور چل پھر کر وہ کام نہیں کر سکتے تھے جو حضرت عمرؓ کر لیتے تھے.پھر میں نے خیال کیا کہ میرا اپنا تو کچھ بھی نہیں جس خدا نے یہ امور اصلاح جماعت کے لئے میرے دل میں ڈالے ہیں وہی مجھے توفیق بھی دے دے گا.مجھے دے گا تو میرے ساتھ والوں کو بھی دے گا.غرض دنیوی ترقی کے لئے مدارس قائم کئے جائیں اور واعظین اپنے دوروں میں اس امر کو خصوصیت سے مدنظر رکھیں کہ جماعتیں بڑھ رہی ہیں یا گھٹ رہی ہیں؟ اور تعلیمی اور ڈ نیوی حالت میں کیا ترقی ہو رہی ہے؟ عملی پابندیوں میں جماعت کی کیسی حالت ہے؟ با ہم

Page 96

خلافة على منهاج النبوة جلد اول اخوت اور محبت کے لحاظ سے وہ کس قدر ترقی کر رہے ہیں؟ ان میں باہم نزا ئیں اور جھگڑے تو نہیں؟ یہ تمام امور ہیں جن پر واعظوں کو نظر رکھنی ہوگی اور اس کے متعلق مفصل رپورٹیں میرے پاس آتی رہیں.کالج کی ضرورت جب مختلف مقامات پر مدرسے کھولے جائیں گے تو اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارا اپنا ایک کالج ہو.حضرت خلیفہ المسیح کی بھی یہ خواہش تھی.کالج ہی کے دنوں میں کیرکٹر بنتا ہے.سکول لائف میں تو چال چلن کا ایک خاکہ کھینچا جاتا ہے اس پر دوبارہ سیاہی کالج لائف ہی میں ہوتی ہے پس ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی زندگیوں کو مفید اور مؤثر بنانے کے لئے اپنا ایک کالج بنائیں.پس تم اس بات کو مدنظر رکھو میں بھی غور کر رہا ہوں.یہ خلیفہ کے کام ہیں جن کو میں نے مختصر بیان کیا ہے ان کو کھول کر دیکھو اور ان کے مختلف حصوں پر غور کرو تو معلوم ہو جائے گا کہ انجمن کی کیا حقیقت ہے اور خلیفہ کی کیا.میں یہ بڑے زور سے کہتا ہوں کہ نہ کوئی انجمن اس قسم کی ہے اور نہ ایسا دعویٰ کر سکتی ہے نہ ہو سکتی ہے نہ خدا نے کبھی کوئی انجمن بھیجی.انجمن اور خلیفہ کی بحث بعض کہتے ہیں کہ خلیفہ نے انجمن کا حق غصب کر لیا پھر کہتے ہیں کہ یہ لوگ شیعہ ہیں.میں جب ان باتوں کو سنتا ہوں تو مجھے افسوس آتا ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا.کہتے ہیں بیٹے کو خلافت کیوں مل گئی ؟ میں حیران ہوں کہ کیا کسی ولی یا نبی کا بیٹا ہونا ایسا نا قابلِ عفو مُجرم ہے کہ اس کو کوئی حصہ خدا کے فضل سے نہ ملے اور کوئی عہدہ وہ نہ پائے ؟ اگر یہ درست ہے تو پھر نَعُوذُبِ اللہ کسی ولی یا نبی کا بیٹا ہونا تو ایک لعنت ہوئی برکت نہ ہوئی.پھر انبیاء علہیم السلام اولاد کی خواہش یونہی کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کی اولاد کی پیشگوئی نَعُوذُ بِاللهِ لغو کی اور خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدے کئے وہ برکت کے وعدے نہ تھے؟ نَعُوذُ باللهِ مِن ذلِكَ ) اور اگر یہ پیر پرستی ہے کہ کوئی بیٹا وارث ہو تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ پیر کی اولا د کو ذلیل کیا جائے تا کہ پیر پرستی کا الزام نہ آئے پھر احترام اور عزت و تکریم کے دعاوی کس حد تک درست سمجھے جائیں.

Page 97

خلافة على منهاج النبوة 29 جلد اول یہ شرم کرنے کا مقام ہے سوچو اور غور کرو.میں تمہیں کھول کر کہتا ہوں کہ میرے دل میں یہ خواہش نہ تھی اور کبھی نہ تھی.پھر اگر تم نے مجھے گندہ سمجھ کر میری بیعت کی ہے تو یا درکھو کہ تم ضرور پیر پرست ہو.لیکن اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں پکڑ کر جھکا دیا ہے تو پھر کسی کو کیا ؟ یہ کہنا کہ میں نے انجمن کا حق غصب کر لیا ہے بہت بڑا بول ہے.کیا تم کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میں تیری ساری خواہشوں کو پورا کروں گا.اب ان لوگوں کے خیال کے موافق تو حضرت صاحب کا منشاء اور خواہش تو یہ تھی کہ انجمن ہی وارث ہے اور خلیفہ ان کے خیال میں بھی نہ تھا تو اب بتاؤ کہ کیا اس بات کے کہنے سے تم اپنے قول سے یہ ثابت نہیں کر رہے کہ نَعُوذُ باللہ خدا نے ان کے منشا کو پورا نہ ہونے دیا.سوچ کر بتاؤ کہ شیعہ کون ہوئے ؟ شیعہ بھی تو یہی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا تھا کہ حضرت علی خلیفہ ہوں آپ کے خیال و و ہم میں بھی نہ تھا کہ ابو بکر، عمر، عثمان خلیفہ ہوں.تو جیسے ان کے اعتقاد کے موافق مسئلہ خلافت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منشاء کو لوگوں نے بدل دیا اسی طرح یہاں بھی ہوا.افسوس ! کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی عزت اور عظمت تمہارے دلوں میں ہے کہ تم قرار دیتے ہو کہ وہ اپنے منشا میں نَعُوذُ بِالله ناکام رہے.خدا سے ڈرو اور تو بہ کرو.پھر ایک تحریر لئے پھرتے ہیں اور اس کے فوٹو چھپوا کر شائع کئے جاتے ہیں یہ بھی وہی شیعہ والے قرطاس کے اعتراض کا نمونہ ہے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے قرطاس نہ لانے دیا اگر قر طاس آ جاتا تو ضرور حضرت علی کی خلافت کا فیصلہ کر جاتے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ افسوس قرطاس لکھ کر بھی دیئے گئے پھر بھی کوئی نہیں مانتا بتاؤ شیعہ کون ہوا؟ میں کہتا ہوں کہ اگر وہ قرطاس ہوتا تو کیا بنتا.وہی کچھ ہونا تھا جو ہو گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ لکھوایا اور شیعہ کو خلیفہ ثانی پر اعتراض کا موقع ملا.یہاں مسیح موعود علیہ السلام نے لکھ کر دیا اور اب اس کے ذریعہ اس کے خلیفہ ثانی پر اعتراض کیا جاتا ہے.یا درکھو کہ مسیح موعود علیہ السلام تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جس قدر اعتراض ہوتے

Page 98

خلافة على منهاج النبوة جلد اول ہیں اُن کو دور کرنے آئے تھے جیسے مثلاً اعتراض ہوتا تھا کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلایا گیا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر دکھا دیا کہ اسلام تلوار کے ذریعہ نہیں پھیلا بلکہ وہ اپنی روشن تعلیمات اور نشانات کے ذریعہ پھیلا ہے اسی طرح قرطاس کی حقیقت معلوم ہو گئی.سن لو ! خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں قرطاس کی کیا حقیقت ہوتی ہے؟ اور میں یہ بھی تمہیں کھول کر سناتا ہوں کہ قرطاس منشاء الہی کے خلاف بھی نہیں ہو سکتا.حضرت خلیفہ المسیح فرمایا کرتے تھے کہ ایک شیعہ ہمارے اُستاد صاحب کے پاس آیا اور ایک حدیث کی کتاب کھول کر ان کے سامنے رکھ دی.آپ نے پڑھ کر پوچھا کیا ہے؟ شیعہ نے کہا کہ منشاء رسالت پنا ہی حضرت علی کی خلافت کے متعلق معلوم ہوتا ہے فرماتے تھے میرے استاد صاحب نے نہایت متانت سے جواب دیا ہاں منشاء رسالت پنا ہی تو تھا مگر منشاء الہی اس کے خلاف تھا اس لئے وہ منشاء پورا نہ ہو سکا.میں اس قرطاس کے متعلق پھر کہتا ہوں کہ اگر کوئی کہے تو یہ جواب دوں گا کہ حقیقۃ الوحی میں ایک جانشین کا وعدہ کیا ہے اور یہ بھی فرما یا خَلِيفَةٌ مِنْ خُلَفَائِه پس غصب کی پکار بالکل بیہودہ اور عبث ہے.حضرت صاحب کو الہام ہوا تھا.سپردم ماية خویش را تو دانی حساب کم و بیش را ایک شریف آدمی بھی امانت میں خیانت نہیں کرتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تو اللہ تعالیٰ نے خود یہ دعا کرائی.پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ نَعُوذُ بِاللهِ خدا تعالیٰ نے خیانت کی ؟ تو بہ کرو تو بہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اتنا تو کل کہ وفات کے قریب یہ الہام ہوتا ہے پھر خدا نے نَعُوذُ باللهِ یہ عجیب کام کیا کہ امانت غیر حقدار کو دے دی.خدا تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کر کے دکھا دیا کہ سپردم بتو مایۂ خویش را کے الہام کے موافق کیا ضروری تھا.پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدا ( نَعُوذُ بِاللهِ ) گمراہی کرواتا ہے؟ ہرگز نہیں خدا تعالیٰ تو اپنے مرسلوں اور خلفاء کو اس لئے بھیجتا ہے کہ وہ دنیا کو پاک کریں.اس لئے انبیاء کی جماعت ضلالت پر قائم

Page 99

خلافة على منهاج النبوة ΔΙ جلد اوّل نہیں ہوتی.اگر مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی گندی جماعت پیدا کی جو ضلالت پر اکٹھی ہوگئی تو پھر نَعُوذُ بِاللهِ اپنے منہ سے ان کو جھوٹا قرار دو گے ! تقویٰ کرو.لیکن اگر مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے تھے اور ضرور تھے تو پھر یاد کرو کہ یہ جماعت ضلالت پراک پر اکٹھی نہیں ہو سکتی.قرآن شریف کو کوئی مسیح نہیں تو ڑسکتا.میرا یقین ہے کہ کوئی ایسا مسیح نہیں آسکتا.جو آئے گا قرآن کا خادم ہو کر آئے گا اس پر حاکم ہو کر نہیں.یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ تھا یہی شرح ہے آپ کے اس قول کی وہ ہے میں چیز کیا ہوں.یہ تو دشمن پر حجت ہے مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کی حقانیت ثابت کرنے کو آیا تھا.اسے نَعُوذُ بِاللهِ باطل کرنے نہیں آیا تھا.اس نے اپنے کام سے دکھا دیا کہ وہ قرآن مجید کا غلبہ ثابت کرنے کے لئے آیا تھا.قرآن مجید میں فرمایا ہے فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَقًا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا انْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْلَهُمْ وَ شَاوِرُهُمْ في الأمر.٢٥.پھر کہتے ہیں کہ خلیفہ کا طریق حکومت کیا ہو؟ طریق حکومت کیا ہونا چاہیے؟ خدا تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر دیا ہے تمہیں.ضرورت نہیں کہ تم خلیفہ کیلئے قواعد اور شرائط تجویز کرو یا اس کے فرائض بتا ؤ.اللہ تعالیٰ نے جہاں اس کے اغراض و مقاصد بتائے ہیں قرآن مجید میں اس کے کام کرنے کا طریق بھی بتا دیا ہے وَشَاوِرُهُمْ في الأَمْرِ : فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ " ایک مجلس شوری قائم کرو، ان سے مشورہ لے کر غور کرو پھر دعا کرو جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں قائم کر دے اس پر قائم ہو جاؤ.خواہ وہ اس مجلس کے مشورہ کے خلاف بھی ہو تو خدا تعالی مدد کرے گا.خدا تعالیٰ تو کہتا ہے جب عزم کر لو تو اللہ پر توکل کرو.گویا ڈرو نہیں اللہ تعالیٰ خود تمہاری تائید اور نصرت کرے گا اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ خواہ خلیفہ کا منشاء کچھ ہوا اور خدا تعالیٰ اسے کسی بات پر قائم کرے مگر وہ چند آدمیوں کی رائے کے خلاف نہ کرے.حضرت صاحب

Page 100

خلافة على منهاج النبوة ۸۲ جلد اول نے جو مصلح موعود کے متعلق فرمایا ہے.وہ ہوگا ایک دن محبوب میرا اس کا بھی یہی مطلب ہے کیونکہ خدا تعالیٰ متوکلین کو محبوب رکھتا ہے جو ڈرتا ہے وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا اسے تو گویا حکومت کی خواہش ہے کہ ایسا نہ ہو میں کسی آدمی کے خلاف کروں تو وہ ناراض ہو جائے ایسا شخص تو مشرک ہوتا ہے اور یہ ایک لعنت ہے.خلیفے خدا مقرر کرتا ہے اور آپ اُن کے خوفوں کو دُور کرتا ہے جو شخص دوسروں کی مرضی کے موافق ہر وقت ایک نوکر کی طرح کام کرتا ہے اُس کو خوف کیا اور اس میں موحد ہونے کی کونسی بات ہے.حالانکہ خلفاء کے لئے تو یہ ضروری ہے کہ خدا انہیں بناتا ہے اور ان کے خوف کوامن سے بدل دیتا ہے اور وہ خدا ہی کی عبادت کرتے ہیں اور شرک نہیں کرتے.اگر نبی کو ایک شخص بھی نہ مانے تو اس کی نبوت میں فرق نہیں آتا وہ نبی ہی رہتا ہے یہی حال خلیفہ کا ہے اگر اُس کو سب چھوڑ دیں پھر بھی وہ خلیفہ ہی ہوتا ہے کیونکہ جوحکم اصل کا ہے وہی فرع کا ہے.خوب یاد رکھو کہ اگر کوئی شخص محض حکومت کے لئے خلیفہ بنا.اور اگر اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے کام کرتا ہے تو وہ خدا کا محبوب ہے خواہ ساری دنیا اس کی دشمن ہو.اس آیت مشورہ میں کیا لطیف حکم ہے.اُس مشورہ کا کیا فائدہ جس پر عمل نہیں کرنا بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر مشورہ لے کر اس پر عمل کرنا ضروری نہیں تو اس مشورہ کا کیا فائدہ ہے وہ تو ایک لغو کام بن جاتا ہے اور انبیاء اور اولیاء کی شان کے خلاف ہے کہ کوئی لغو کام کریں.اس کا جواب یہ ہے کہ مشورہ لغو نہیں بلکہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک بات سوچتا ہے دوسرے کو اس سے بہتر سُو جھ جاتی ہے.پس مشورہ سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ مختلف لوگوں کے خیالات سن کر بہتر رائے قائم کرنے کا انسان کو موقع ملتا ہے جب ایک آدمی چند آدمیوں سے رائے پوچھتا ہے تو بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایسی تدبیر بتا دیتا ہے جو اسے نہیں معلوم تھی.جیسا کہ عام طور ہے لوگ اپنے دوستوں سے مشورہ کرتے ہیں کیا پھر اسے ضرور مان بھی لیا کرتے ہیں؟ پھر اگر

Page 101

خلافة على منهاج النبوة ۸۳ جلد اول مانتے نہیں تو کیوں پوچھتے ہیں؟ اس لئے کہ شائد کوئی بہتر بات معلوم ہو.پس مشورہ سے یہ غرض نہیں ہوتی کہ اس پر ضرور کار بند ہوں بلکہ یہ غرض ہوتی ہے کہ ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کے خیالات سن کر کوئی اور مفید بات معلوم ہو سکے.اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فاذا عزمت فتوكل على الله مشورہ لینے والا مخاطب ہے اگر فیصلہ مجلس شوریٰ کا ہوتا تو یوں حکم ہوتا کہ فَإِذَا عَزَمْتُمْ فَتَوَكَّلُوا عَلَ الله اگر تم سب لوگ ایک بات پر قائم ہو جاؤ تو اللہ پر توکل کر کے کام شروع کر دو.مگر یہاں صرف اس مشورہ کرنے والے کو کہا کہ تُو جس بات پر قائم ہو جائے اُسے تَوَكُلاً عَلَى اللهِ شروع کر دے.دوسرے یہاں کسی کثرتِ رائے کا ذکر ہی نہیں بلکہ یہ کہا ہے کہ لوگوں سے مشورہ لے یہ نہیں کہا کہ اُن کی کثرت دیکھ اور جس پر کثرت ہو اُس کی مان لے یہ تو لوگ اپنی طرف سے ملا لیتے ہیں قرآن کریم میں کہیں نہیں کہ پھر ووٹ لئے جائیں اور جس طرف کثرت ہو اُس رائے کے مطابق عمل کرے بلکہ یوں فرمایا ہے کہ لوگوں سے پوچھ ، مختلف مشوروں کو سن کر جس بات کا تو قصد کرے (عزمت کے معنی ہیں جس بات کا تو پختہ ارادہ کرے ) اُس پر عمل کر اور کسی سے نہ ڈر بلکہ خدا تعالیٰ پر تو کل کر.عجیب نکته و شاد رحم کے لفظ پر غور کرو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشورہ لینے والا ایک ہے دو بھی نہیں اور جن سے مشورہ لینا ہے وہ بہر حال تین یا تین سے زیادہ ہوں.پھر وہ اس مشورہ پر غور کرے پھر حکم ہے عَزَمْتَ فَتَوَكَّلُ عَل الله جس بات پر عزم کرے اُس کو پورا کرے اور کسی کی پرواہ نہ کرے.حضرت ابو بکر کے زمانہ میں اس عزم کی خوب نظیر ملتی ہے.جب لوگ مرتد ہونے لگے تو مشورہ دیا گیا کہ آپ اس لشکر کو روک لیں جو اسامہ کے زیر کمانڈ جانے والا تھا.مگر اُنہوں نے جواب دیا کہ جو لشکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے میں اسے واپس نہیں کر سکتا.ابو قحافہ کے بیٹے کی طاقت نہیں کہ ایسا کر سکے.پھر بعض کو رکھ بھی لیا چنانچہ حضرت عمرؓ بھی اسی لشکر میں جا رہے تھے اُن کو روک لیا گیا.

Page 102

خلافة على منهاج النبوة ۸۴ میں یہ ایک مصلحت سے کہتا ہوں جلد اول پھر زکوۃ کے متعلق کہا گیا کہ مرتد ہونے سے بچانے کے لئے ان کو معاف کر دو.اُنہوں نے جواب دیا کہ اگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹ باندھنے کی ایک رسی بھی دیتے تھے تو وہ بھی لوں گا.اور اگر تم سب مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ اور مرتدین کے ساتھ جنگل کے درندے بھی مل جائیں تو میں اکیلا اُن سب کے ساتھ جنگ کروں گا.یہ عزم کا نمونہ ہے پھر کیا ہوا ؟ تم جانتے ہو خدا تعالیٰ نے فتوحات کا ایک دروازہ کھول دیا.یا د رکھو جب خـ سے انسان ڈرتا ہے تو پھر مخلوق کا رُعب اس کے دل پر اثر نہیں کر سکتا.خدا شرک کا مسئلہ کیسے سمجھا دیا ھے اللہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شرک کا مسئلہ خوب سمجھا دیا ہے.ایک رؤیا کے ذریعہ اس کو حل کر دیا.میں نے دیکھا کہ میں مقبرہ بہشتی میں گیا ہوں.واپس آتے وقت ایک بڑا سمندر دیکھا جو پہلے نہ تھا اس میں ایک کشتی تھی اس میں بیٹھ گیا دو آدمی اور ہیں ایک جگہ پہنچ کر کشتی چکر کھانے لگی.اس سمندر میں سے ایک سرنمودار ہوا.اس نے کہا کہ یہاں ایک پیر صاحب کی قبر ہے تم ان کے نام ایک رقعہ لکھ کر ڈال دو تا کہ یہ کشتی صحیح سلامت پار نکل جائے.میں نے کہا کہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا.وہ آدمی جو ساتھ ہیں ان میں سے کسی نے کہا کہ جانے دو کیا حرج ہے رقعہ لکھ کر ڈال دو.جب بچ جائیں گے تو پھر تو بہ کر لیں گے.میں نے کہا ہرگز نہیں ہوگا.اس پر اُس نے چُھپ کر خود رقعہ لکھ کر ڈالنا چاہا میں نے دیکھ لیا تو پکڑ کر پھاڑ نا چاہا.وہ چھپاتا تھا آخر اس کشمکش میں سمندر میں گر پڑے مگر میں نے وہ رقعہ لے کر پھاڑ ڈالا اور پھر کشتی میں بیٹھ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ کشتی اس بھنور سے نکل گئی.اس کھلی کھلی ہدایت کے بعد میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں کہ اس کی مخلوق سے ڈروں.میں دعا کرتا ہوں کہ یہ کشتی جس میں میں اب سوار ہوں اس بھنور سے نکل جائے اور مجھے یقین ہے کہ ضرور نکل جائے گی.چھوٹی عمر سے منکرین خلافت یہ بھی کہتے ہیں کہ مرچھوٹی ہے.اس پر مجھے ایک تاریخی واقعہ یاد آ گیا.کوفہ والے بڑی شرارت کرتے تھے جس گورنر کو وہاں

Page 103

خلافة على منهاج النبوة ۸۵ جلد اول 66 بھیجا جاتا وہ چند روز کے بعد اس کی شکائتیں کر کے اُس کو واپس کر دیتے.حضرت عمر فرمایا کرتے تھے جب تک حکومت میں فرق نہ آئے ان کی مانتے جاؤ.آخر جب ان کی شرارتیں حد سے گزرنے لگیں تو حضرت عمر نے ایک گورنر جن کا نام غالباً ابن ابی لیلی تھا اور جن کی عمر ۱۹ برس کی تھی کوفہ میں بھیجا.جس وقت یہ وہاں پہنچے تو وہ لوگ لگے چہ میگوئیاں کرنے کہ عمر کی عقل ( نَعُوذُ بِ اللهِ ) ماری گئی جو ایک لڑکے کو گورنر کر دیا.اور اُنہوں نے تجویز کی کہ د دگر به کشتن روز اوّل، پہلے ہی دن اس گورنر کو ڈانٹنا چاہیے اور انہوں نے مشورہ کر کے یہ تجویز کی کہ پہلے ہی دن اس سے اس کی عمر پوچھی جائے.جب دربار ہوا تو ایک شخص بڑی متین شکل بنا کر آگے بڑھا اور بڑھ کر کہا کہ حضرت! آپ کی عمر کیا ہے ؟ ابن ابی لیلی نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کے لشکر پر اُسامہ کو افسر بنا کر شام کی طرف بھیجا تھا تو جو اُس وقت اُن کی عمر تھی اُس سے میں دو سال بڑا ہوں ( اُسامہ کی عمر اُس وقت سترہ سال کی تھی اور بڑے بڑے صحابہ اُن کے ماتحت کئے گئے تھے ) کوفہ والوں نے جب یہ جواب سنا تو خاموش ہو گئے اور کہا کہ اس کے زمانہ میں شور نہ کرنا.اس سے یہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ چھوٹی عمر والے کی بھی اطاعت ہی کریں جب وہ امیر ہو.حضرت عمرؓ جیسے انسان کو سترہ سال کے نوجوان اسامہ کے ماتحت کر دیا گیا تھا.میں بھی اسی رنگ میں جواب دیتا ہوں کہ میری عمر تو ابن ابی لیلی سے بھی سات برس زیادہ ہے.ایک اور اعتراض کا جواب ایک اور اعتراض کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے اس کا جواب بھی تیرہ سو سال سے پہلے ہی دے دیا ہے.کہتے ہیں و شاد رُهُم في الآخرِ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے خلافت کہاں سے نکل آئی.لیکن یہ لوگ یا درکھیں کہ حضرت ابو بکر پر جب زکوۃ کے متعلق اعتراض ہوا تو وہ بھی اسی رنگ کا تھا کہ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ " تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے اب وہ رہے نہیں اور کسی کا حق نہیں کہ زکوۃ وصول کرے جسے لینے کا حکم تھا وہ فوت ہو گیا ہے.حضرت ابوبکر نے یہی جواب دیا کہ اب میں مخاطب ہوں.اسی کا ہم آہنگ ہو کر اپنے

Page 104

خلافة على منهاج النبوة ۸۶ جلد اول معترض کو کہتا ہوں کہ اب میں مخاطب ہوں.اگر اُس وقت یہ جواب سچا تھا اور ضر ور سچا تھا تو یہ بھی درست ہے جو میں کہتا ہوں.اگر تمہارا اعتراض درست ہو تو اس پر قرآن مجید سے بہت سے احکام تم کو نکال دینے پڑیں گے اور یہ کھلی کھلی ضلالت ہے.ایک عجیب بات میں تمہیں ایک اور عجیب بات سناتا ہوں جس سے تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں تفاوت نہیں ہوتا.اشتہا رسبز میں میرے متعلق خدا کے حکم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بشارت دی.خدا کی وحی سے میرا نام اولوالعزم رکھا.اور اس آیت میں فرمایا فاذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجھے اس آیت پر عمل کرنا پڑے گا پھر میں اس کو کیسے رڈ کرسکتا ہوں.کیا خدمت کی ہے؟ پھر ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ اس نے کیا خدمت کی ہے؟ اس سوال کا حل تو اسامہ والی بات ہی میں موجود ہے.اسامہ کی خدمات کس قدر تھیں کہ وہ بڑے بڑے صحابہ پر افسر مقرر کر دیا گیا.خلافت تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ملتی ہے وہ جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے ہاں اس کا یہ فعل نَعُوذُ بِاللهِ لغو نہیں ہوتا.پھر خالد بن ولید، ابو عبیدہ ، عمرو بن العاص ، سعد بن الوقاص اُنہوں نے جو خدمات کیں ان کے مقابلہ میں حضرت عمرؓ کیا خدمات پیش کر سکتے ہیں مگر خلیفہ تو حضرت عمرؓ ہوئے.وہ نہ ہوئے خدا تعالیٰ سے بہتر اندازہ کون لگا سکتا ہے.آیت استخلاف میں نے آیت استخلاف پر غور کیا ہے اور مجھے بہت ہی لطیف معنی آیت استخلاف کے سمجھائے گئے ہیں جن پر غور کرنے سے بڑا مزا آیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وليبة لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ، يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَمَنْ كَفَرَ بعد ذلك فأوليكَ هُمُ الْفَسِقُونَ ٣٩

Page 105

خلافة على منهاج النبوة ۸۷ جلد اول يعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کے ایک معنی تو میں اپنے اس ٹریکٹ میں لکھ چکا ہوں جو’ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے.ایک دوسرے معنی بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھائے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اس آیت میں اول تو خدا تعالیٰ کے وعدہ کا ذکر کیا گیا ہے کہ وعد الله - پھر خلافت دینے کے وعدے کو لام تاکید اور نونِ تاکید سے مؤکد کیا اور بتایا کہ خدا ایسا کرے گا اور ضرور کرے گا.پھر بتایا کہ خدا ضرورضروران خلفاء کو تمکین عطا کرے گا اور پھر فرمایا کہ خدا ضرور ضرور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا.غرض کہ تین بار لام تاکید اور نونِ تاکید لگا کر اس بات پر زور دیا ہے کہ ایسا خدا ہی کرے گا کسی کا اس میں دخل نہ ہوگا.اس کی غرض بتائی کہ ایسا کیوں ہوگا ؟ اس لئے کہ يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا اس کے نتیجہ میں وہ میری ہی عبادت کریں گے کسی کو میرا شریک نہ قرار دیں گے یعنی اگر انسانی کوشش سے خلیفہ بنے تو خلیفہ کو گروہ سے دبتے رہنا پڑے کہ ان لوگوں نے مجھ پر احسان کیا ہے.پس ہم سب کچھ خود ہی کریں گے تا شرک خلفاء کے قریب بھی نہ پھٹک سکے.اور جب خلیفہ اس وقت اور قدرت کو دیکھے گا جس کے ذریعہ خدا نے اسے قائم کیا ہے تو اُسے وہم بھی نہیں ہو سکتا کہ اس میں کسی دوسرے کا بھی ہاتھ ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً یہ معنی خدا تعالیٰ نے بتائے ہیں پس خلیفہ خدا مقر ر کرتا ہے اور کوئی نہیں جو اس کو مٹا سکے.بعض کہتے ہیں کہ اگر خلیفے نہ ہوں تو کیا مسلمانوں کی نجات نہ ہو گی جب خلافت نہ رہی تو اُس وقت کے مسلمانوں کا پھر کیا حال ہوگا ؟ یہ ایک دھوکا ہے دیکھو قرآن مجید میں وضو کے لئے ہاتھ دھونا ضروری ہے لیکن اگر کسی کا ہاتھ کٹ جائے تو اس کا وضو بغیر ہاتھ دھوئے کے ہو جائے گا.اب اگر کوئی شخص کسی ایسے ہاتھ کئے آدمی کو پیش کر کے کہے کہ دیکھو اس کا وضو ہو جاتا ہے یا نہیں؟ جب یہ کہیں کہ ہاں ہو جاتا ہے تو وہ کہے کہ بس اب میں بھی ہاتھ نہ دھوؤں گا تو کیا وہ راستی پر ہو گا ؟ ہم کہیں گے کہ اس کا ہاتھ کٹ گیا مگر تیرا تو موجود ہے.پس یہی جواب ان معترضین کا ہے.ہم انہیں کہتے ہیں کہ ایک زمانہ میں جابر بادشاہوں نے تلوار کے زور سے خلافتِ راشدہ کو قائم نہ ہونے دیا کیونکہ ہر کام ایک مدت کے بعد مٹ جاتا ہے پس

Page 106

خلافة على منهاج النبوة جلد اول جب خلافت تلوار کے زور سے مٹادی گئی تو اب کسی کو گناہ نہیں کہ وہ بیعت خلیفہ کیوں نہیں کرتا.مگر اس وقت وہ کونسی تلوار ہے جو ہم کو قیام خلافت سے روکتی ہے.اب بھی اگر کوئی حکومت ز بر دستی خلافت کے سلسلہ کو روک دے تو یہ الہی فعل ہوگا اور لوگوں کو رُکنا پڑے گا.لیکن جب تک خلافت میں کوئی روک نہیں آتی اُس وقت تک کون خلافت کو روک سکتا ہے اور اُس وقت تک کہ خلیفہ ہو سکتا ہو جب کوئی خلافت کا انکار کرے گا وہ اُسی حکم کے ماتحت آئے گا جو ابو بکر ، عمر ، عثمان رضی اللہ عنہم کے منکرین کا ہے.ہاں جب خلافت ہو ہی نہیں تو اس کے ذمہ دار تم نہیں.سارق کی سزا قرآن مجید میں ہاتھ کاٹنا ہے.اب اگر اسلامی سلطنت نہیں اور چور کا ہاتھ نہیں کا ٹا جا تا تو یہ کوئی قصور نہیں غیر اسلامی سلطنت اس حکم کی پابند نہیں.موجودہ انتظام میں وقتیں اب دیکھنا ہے کہ موجودہ انتظام میں کیا وقتیں پیش آ رہی ہیں.انجمن کے بعض ممبر جنہوں نے بیعت نہیں کی وہ اپنی ہی مجموعی رائے کو انجمن قرار دے کر کہتے ہیں کہ انجمن جانشین ہے.دوسری طرف ایک شخص کہتا ہے کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور واقعات نے اس کی تائید بھی کی کہ جماعت کے ایک کثیر حصہ کو اس کے سامنے جھکا دیا.اب اگر دو عملی رہے تو تفرقہ بڑھے گا ایک میان میں دو تلوار میں سما نہیں سکتیں.پس تم غور کرو اور مجھے مشورہ دو کہ کیا کرنا چاہیے.میری غرض اس مشورہ سے شاورهم پر عمل کرنا ہے ورنہ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ میرے سامنے ہے میں تو یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی میرا ساتھ نہ دے تو خدا میرے ساتھ ہے.میں پھر ایک دفعہ اس سوال کا جواب دیتا ہوں کہ اگر کوئی بات ماننی ہی نہیں تو مشورہ کا کیا فائدہ؟ یہ بہت چھوٹی سی بات ہے ایک دماغ سوچتا ہے تو اس میں محدود باتیں آتی ہیں اگر دو ہزار آدمی قرآن مجید کی آیات پر غور کر کے ایک مجلس میں معنی بیان کریں تو بعض غلط بھی ہوں گے مگر اس میں بھی تو کوئی شبہ نہیں کہ اکثر درست بھی ہوں گے پس درست لے لئے جائیں گے اور غلط چھوڑ دیئے جائیں گے.اسی طرح ایسے مشوروں میں جو امور صحیح ہوں وہ لے لئے جائیں گے.ایک آدمی اتنی تجاویز نہیں سوچ سکتا ایک وقت میں بہت سے آدمی

Page 107

خلافة على منهاج النبوة ۸۹ جلد اول ایک امر پر سوچیں گے تو انشاء اللہ کوئی مفید راہ نکل آئے گی.پھر مشورہ سے یہ بھی غرض ہے کہ تمہاری دماغی طاقتیں ضائع نہ ہوں بلکہ قومی کاموں میں مل کر غور کرنے اور سوچنے اور کام کرنے کی طاقت تم میں پیدا ہو.پھر ایک اور بات ہے کہ اس قسم کے مشوروں سے آئندہ لوگ خلافت کے لئے تیار ہوتے رہتے ہیں.اگر خلیفہ لوگوں سے مشورہ ہی نہ لے تو نتیجہ یہ نکلے کہ قوم میں کوئی دانا انسان ہی نہ رہے اور دوسرا خلیفہ احمق ہی ہو کیونکہ اسے کبھی کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا.ہماری پچھلی حکومتوں میں یہی نقص تھا.شاہی خاندان کے لوگوں کو مشورہ میں شامل نہ کیا جاتا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کے دماغ مشکلات حل کرنے کے عادی نہ ہوتے تھے اور حکومت رفتہ رفتہ تباہ ہو جاتی تھی.پس مشورہ لینے سے یہ بھی غرض ہے کہ قابل دماغوں کی رفتہ رفتہ تربیت ہو سکے تا کہ ایک وقت وہ کام سنبھال سکیں.جب لوگوں سے مشورہ لیا جاتا ہے تو لوگوں کو سوچنے کا موقع ملتا ہے اور اس سے ان کی استعدادوں میں ترقی ہوتی ہے.ایسے مشوروں میں یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے کے چھوڑنے میں آسانی ہوتی ہے اور طبیعتوں میں ضد اور ہٹ نہیں پیدا ہوتی.اس وقت جو دقتیں ہیں وہ اس قسم کی ہیں کہ باہر سے خطوط آتے ہیں کہ واعظ بھیج دو.اب جو انجمن کے ملازم ہیں انہیں کون بھیجے.انجمن تو خلیفہ کے ماتحت ہے نہیں.حضرت خلیفہ اوّل ملازمین کو بھیج دیتے اور وہ آن ڈیوٹی (ON DUTY) سمجھے جاتے تھے ہمارے ہاں کام کرنے والے آدمی تھوڑے ہیں اس لئے یہ دقتیں پیش آتی ہیں.یا ایک شخص آتا ہے کہ مجھے فلاں ضرورت ہے مجھے کچھ دو.پچھلے دنوں مونگیر والوں نے لکھا کہ یہاں مسجد کا جھگڑا ہے اور جماعت کمزور ہے مدد کرو.حضرت صاحب کو میں نے دیکھا ہے کہ مسجدوں کے معاملات میں بڑی احتیاط کرتے.حضرت خلیفہ اسیح بھی بڑی کوشش کرتے.کپورتھلہ کی مسجد کا مقدمہ تھا حضرت صاحب نے فرمایا کہ اگر میں سچا ہوں تو یہ مسجد ضرور ملے گی.غرض مسجد کے معاملہ میں بڑی احتیاط فرماتے.اب ایسے موقع پر میں تو پسند نہیں کر سکتا تھا کہ ان کی مدد نہ کی جائے اس لئے مجھے روپیہ بھیجنا ہی پڑا.یا مثلاً کوئی اور فتنہ ہو اور کوئی ماننے والا نہ ہو تو کیا ہو.اس قسم کی دقتیں اس اختلاف کی وجہ سے پیش آ رہی ہیں اور پیش آئیں گی.اللہ تعالیٰ پر میری

Page 108

خلافة على منهاج النبوة جلد اول امیدیں بہت بڑی ہیں میں یقین رکھتا ہوں کہ معجزانہ طور پر کوئی طاقت دکھائے گا.لیکن یہ عالم اسباب ہے اس لئے مجھ کو اسباب سے کام لینا چاہیے.میں جو کچھ کروں گا خدا تعالیٰ کے خوف سے کروں گا.اس بات کی مجھے پرواہ نہ ہوگی کہ زید یا بکر اس کی بابت کیا کہتا ہے پس میں پھر کہتا ہوں کہ اگر میں خدا سے ڈر کر کرتا ہوں، اگر میرے دل میں ایمان ہے کہ خدا ہے تو پھر میں نیک نیتی سے کر رہا ہوں جو کچھ کرتا ہوں اور کروں گا.اور اگر میں نَعُوذُ باللہ خدا سے نہیں ڈرتا تو پھر تم کون ہو کہ تم سے ڈروں پس میں تم سے مشورہ پوچھتا ہوں کہ کیا تجویز ہوسکتی ہے کہ ان وقتوں کو رفع کیا جائے؟ لوگ کہتے ہیں کہ کبھی خلیفہ نے انجمنکو کوئی حکم نہیں دیا مگر میں سیکرٹری کے دفتر پر کھڑا ہوں بہت ہی کم کوئی ایجنڈا نکلا ہو گا جس میں بحکم خلیفہ امسیح نہ لکھا ہو.یہ واقعات کثرت سے موجود ہیں اور انجمن کی روئدادیں اور رجسٹر اس شہادت میں موجود ہیں ( اس مقام پر منشی محمد نصیب صاحب ہیڈ کلرک دفتر سیکرٹری کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے یہ آواز بلند کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں یہ بالکل درست ہے ) اس قسم کے اعتراض تو فضول ہیں جو واقعات کے خلاف ہیں.غرض اس وقت کچھ وقتیں پیش آئی ہیں اور آئندہ اور ضرورتیں پیش آئیں گی.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ احباب غور کریں.میں نے اس موجودہ اختلاف کے متعلق کچھ تجاویز سوچی ہیں ان پر غور کیا جائے اور مجھے اطلاع دی جائے.میری غیر حاضری میں آپ لوگ ان پر غور کریں تا کہ ہر شخص آزادی سے رائے دے سکے.اوّل: خلیفہ اور انجمن کے جھگڑے نپٹانے کی بہتر صورت کیا ہے.انجمن سے یہ مراد ہے انجمن کے وہ ممبر جنہوں نے بیعت نہیں کی وہ اپنے آپ کو انجمن کہتے ہیں اس لئے میں نے انجمن کہا ہے صرف مبائعین رائے دیں.دوم : جن لوگوں نے میری بیعت کر لی ہے میں انہیں تاکید کرتا ہوں کہ وہ ہر قسم کا چندہ میری معرفت دیں.یہ تجویز میں ایک رؤیا کی بناء پر کرتا ہوں جو ۱۸ مارچ ۱۹۰۷ ء کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے ان کی اپنی کا پی الہامات میں

Page 109

خلافة على منهاج النبوة ۹۱ جلد اول درج ہے اس کے آگے پیچھے حضرت صاحب کے اپنے الہامات درج ہیں اور اب بھی وہ کاپی موجود ہے یہ ایک لمبی خواب ہے اس میں میں نے دیکھا کہ ایک پارسل میرے نام آیا ہے محمد چراغ کی طرف سے آیا ہے اس پر لکھا ہے محمود احمد پر میشر اس کا بھلا کرے.خیر اس کو کھولا تو وہ روپوں کا بھرا ہوا صندوقچہ ہو گیا.کہنے والا کہتا ہے کہ کچھ تم خود رکھ لو ، کچھ حضرت صاحب کو دے دو، کچھ صدر انجمن احمدیہ کو دے دو‘ پھر حضرت صاحب کہتے ہیں کہ محمود کہتا ہے کہ کشفی رنگ میں آپ مجھے دکھائے گئے اور چراغ کے معنی سورج سمجھائے گئے اور محمد چراغ کا یہ مطلب ہوا کہ محمد جو کہ سورج ہے اس کی طرف سے آیا ہے.غرض یہ ایک سات سال کی رؤیا ہے حضرت صاحب کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی وقت صدرانجمن احمدیہ کو روپیہ میری معرفت ملے گا ہمیں جو کچھ ملتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی ملتا ہے.پس جو روپیہ آتا ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی بھیجتے ہیں.حضرت صاحب کو دینے سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ اشاعتِ سلسلہ میں خرچ کیا جائے.قرآن شریف کی ایسی آیات کے صحابہ نے یہی معنی کئے ہیں.یہ ایک سچی خواب ہے ورنہ کیا چھ سال پہلے میں نے ان واقعات کو اپنی طرف سے بنالیا تھا اور خدا تعالیٰ نے اسے پورا بھی کر دیا.نَعُوذُ بِالله مِنْ ذَلِكَ پس ہر قسم کے چندے ان لوگوں کو جو میرے مبائعین ہیں میرے پاس بھیجنے چاہئیں.سوم : جب تک انجمن کا قطعی طور پر فیصلہ نہ ہو اشاعت اسلام اور زکوۃ کا روپیہ میرے ہی پاس آنا چاہیے.جو واعظین کے اخراجات اور بعض دوسری وقتی ضرورتوں کیلئے خرچ ہو گا جو اشاعت اسلام سے تعلق رکھتی ہیں یا مصارف زکوۃ سے متعلق ہیں.چهارم : مجلس شوری کی ایسی حالت ہو کہ ساری جماعت کا اس میں مشورہ ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں ایسا ہی ہوتا تھا کیا وجہ ہے کہ روپیہ تو قوم سے لیا جائے اور اس کے خرچ کرنے کے متعلق قوم سے پوچھا بھی نہ جائے.یہ ہوسکتا ہے کہ بعض معاملات میں تخصیص ہو والا ساری جماعت سے مشورہ ہونا چاہیے.سوچنا یہ ہے کہ اس مشورہ کی کیا تدبیر ہو.

Page 110

خلافة على منهاج النبوة ۹۲ جلد اول پنجم: فی الحال اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ انجمن میں دوممبر زائد ہوں کیونکہ بعض اوقات ایسی دقتیں پیدا ہو جاتی ہیں کہ ان کا تصفیہ نہیں ہوتا اور اب اختلاف کی وجہ سے ایسی دقتوں کا پیدا ہونا اور بھی قرین قیاس ہے علاوہ ازیں مجھے بھی جانا پڑتا ہے اور وہاں وقتیں پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے دو بلکہ تین ممبر اور ہونے چاہئیں اور یہ دونمبر عالم ہونے چاہئیں.ششم : جہاں کہیں فتنہ ہو ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ وہاں جا کر دوسروں کو سمجھائیں اور اس کو دور کریں.اس کے لئے اپنی عقلوں اور علموں پر بھروسہ نہ کریں بلکہ خدا تعالیٰ کی توفیق اور فضل کو مقدم کریں اور اس کے لئے کثرت سے دعائیں کریں.اپنے اپنے علاقوں میں پھر کر کوشش کرو اور حالات ضروریہ کی مجھے اطلاع دیتے رہو.یہ وہ امور ہیں جن پر آپ لوگوں کو غور کرنا چاہیے.ان میں فیصلہ اس طرح پر ہو کہ مولوی سید محمد احسن صاحب یہاں تشریف رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ اسیح بھی آپ کا اعزاز فرماتے تھے اور وہ اپنے علم وفضل اور سلسلہ کی خدمات کی وجہ سے اس قابل ہیں کہ ہم ان کی عزت کریں وہ اس جلسہ شوریٰ کے پریذیڈنٹ ہوں میں اس جلسہ میں نہ ہوں گا تا کہ ہر شخص آزادی سے بات کر سکے.جو بات باہمی مشورہ اور بحث کے بعد طے ہو وہ لکھ لی جائے اور پھر مجھے اطلاع دو.دعاؤں کے بعد خدا تعالیٰ جو میرے دل میں ڈالے گا اُس پر عمل درآمد ہو گا.تم کسی معاملہ پر غور کرتے وقت اور رائے دیتے وقت یہ ہرگز خیال نہ کرو کہ تمہاری بات ضرور مانی جائے بلکہ تم خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے سچے دل سے ایک مشورہ دے دوا گر وہ غلط بھی ہوگا تو بھی تمہیں تو اب ہوگا لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کی بات ضرور مانی جائے تو پھر اس کو کوئی ثواب نہیں.میری ان تجاویز کے علاوہ نواب صاحب کی تجاویز پر غور کیا جائے ، شیخ یعقوب علی صاحب نے بھی کچھ تجاویز لکھی ہیں ان میں سے تین کے پیش کرنے کی میں نے اجازت دی ہے ان پر بھی فکر کی جائے.پھر میں کہتا ہوں کہ مولوی صاحب کا جو درجہ ان کے علم اور رتبہ کے لحاظ سے ہے وہ تم جانتے ہو حضرت صاحب بھی ان کا ادب کرتے تھے پس ہر شخص جو بولنا چاہے وہ مولوی

Page 111

خلافة على منهاج النبوة ۹۳ جلد اول صاحب سے اجازت لے کر بولے.ایک بول چکے تو پھر دوسرا، پھر تیسرا بولے.ایسا نہ ہو کہ ایک وقت میں دو تین کھڑے ہو جائیں جس کو وہ حکم دیں وہ بولے.نواب صاحب یا منشی فرزند علی صاحب اس مجلس کے سیکرٹری کے کام کو اپنے ذمہ لیں.وہ لکھتے جائیں اور جو گفتگو کسی امر پر ہو اُس کا آخری نتیجہ سنا دیا جائے.اگر کسی امر پر دو تجویزیں ہوں تو دونوں کولکھ لیا جائے.اب آپ سب دعا کریں میں بھی دعا کرتا ہوں کیونکہ پھر دوستوں نے کھانا کھانا ہے.قادیان کے دوست ساتھ مل کر کھانا کھلائیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو ، پانی کا انتظام اچھی طرح سے ہو.خود بھی دعا کریں ، مہمان بھی کریں سفر کی دعا قبول ہوتی ہے.اس مشورہ اور دعا کے ساتھ جو کام ہو گا خدا کی طرف سے ہوگا.وَاخِرُ دَعُونَا اَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» (انوار العلوم جلد ۲ صفحه ۲۳ تا ۶۶) البقرة: ١٣٠ البقرة: ۱۸۷ كنز العمال جلد ۵ صفحه ۶۴۸ حدیث نمبر ۱۴۱۳۶ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ ء میں یہ الفاظ آئے ہیں رح P= in كام لا خلافة الا عن مشورة البقرة: ۱۸۴ البقرة: ۴۷ البقرة: ٤١ ٩،٨ البقرة: ۱۲۵ العنكبوت: ٤٦ البقرة: ۲۷۰ الصف: ۱۵ تذکره صفحه ۵۰.ایڈیشن چهارم ۲۰۰۴ء الغاشيه: ۲۳ آل عمران: ۱۶۰ البقرة: ۲۵۷ ۱۵ المائدة: ۶۸ پیدائش باب ۱۸ آیت ۲۳ تا ۳۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء الذريات: ۳۷ البقرة: ۲۵۰ 19 التوبة: ١٢٢ ۲۰ آل عمران: ۱۰۵ تذکرہ صفحہ ۲۶۱.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء

Page 112

خلافة على منهاج النبوة ۲۳ در نمین اردو صفحه ۵۶ ۲۴ تذکرہ صفحہ ۸.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء ۲۵ ۲۶ آل عمران: ۱۶۰ ۹۴ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحه ۶۰ - الناشر مکتبہ نزار مصطفى الباز ۲۰۰۴ء التوبة: ١٠٣ ۲۹ النور: ۵۶ جلد اول

Page 113

خلافة على منهاج النبوة ۹۵ جلد اول برکات خلافت تقریر جلسه سالانه ۲۷ دسمبر ۱۹۱۴ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے کچھ ضروری باتیں آپ لوگوں کے سامنے بیان کرنی ہیں.ان میں سے ایک وہ بات بھی ہے جو میرے خیال میں احمدیت کے لئے ہی نہیں بلکہ اسلام کے قیام کا واحد ذریعہ ہے اور جس کے بغیر کوئی انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ ہی نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی مسلمان مسلمان ہو سکتا ہے مگر کوئی انسان خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے بغیر اس کو حاصل بھی نہیں کر سکتا.اس کے علاوہ کچھ اور بھی ضروری باتیں ہیں مگر اس سے کم درجہ پر ہیں.میں نے ارادہ کیا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا اور اُس کی رحمت مد اور معاون ہوئی تو انشَاءَ اللهُ وہ بات جو نہایت ضروری ہے اور جس کے پہنچانے کی مدت سے مجھے تڑپ تھی کل بیان کروں گا.آج ارادہ ہے کہ درمیانی باتیں جو اس سے کم درجہ پر ہیں مگر ان کا پہنچانا بھی ضروری ہے وہ پہنچا دوں.اس ضروری بات کو کل پر رکھنے سے میری یہ بھی غرض ہے کہ جو نعمت آسانی سے مل جاتی ہے اور جس کے لئے محنت نہیں کرنی پڑتی اُس کی قدر نہیں ہوتی.پس جو لوگ کل تک یہاں اس بات کو سننے کے اشتیاق میں رہیں گے وہی اس کے سننے کے حقدار ہوں گے.چونکہ مجھے کھانسی کی وجہ سے تکلیف ہے اس لئے اگر میری آواز سب تک نہ پہنچے تو بھی سه لوگ صبر سے بیٹھے رہیں.اگر انہیں آواز نہ پہنچے گی تو ثواب تو ضرور ہی ہو جائے گا.بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ کان میں پڑیں بھی تو اثر نہیں ہوتا مگر اس مقام کا اثر ہو جاتا ہے جہاں کوئی بیٹھا ہوتا ہے.باتیں تو اکثر لوگ سنتے ہیں مگر کیا سارے ہی پاک ہو جاتے ہیں ؟ نہیں.

Page 114

خلافة على منهاج النبوة ۹۶ جلد اول - تو معلوم ہوا کہ نیک باتوں کے سننے والے کو ہدایت ہو جانا ضروری بات نہیں ہے.پھر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص کو کسی پاک مقام پر جانے کی وجہ سے ہلا کسی دلیل کے ہدایت ہوگئی ہے تو اگر بعض لوگوں تک آواز نہ پہنچے اور وہ بیٹھے رہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص کی وجہ سے ہی بغیر باتیں سننے کے انہیں ہدایت دے دے گا.اب میں اپنی اصل بات کی طرف آنے سے پیشتر چند ایسی باتیں بیان کرتا ہوں جن کا آجکل چرچا ہو رہا ہے اور جو نہایت ضروری ہیں.میں کل یہاں آ رہا تھا چند لوگوں نے جو کہ دیہاتی زمیندار معلوم ہوتے تھے پہلی بات مجھے اس ملاح یا مجھے اس طرح سلام کیا کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ.اس سے معلوم ہوا کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ رسول کیا ہوتا ہے.میری یہ عادت نہیں ہے کہ کسی آدمی کو خصوصیت سے اُس کی غلطی جتلاؤں.اصل بات یہ ہے کہ مجھے شرم آ جاتی ہے.ایک تو اس لئے کہ اُس کو اپنی غلطی پر شرمندگی اُٹھانی پڑے گی دوسرے خود مجھے دوسرے کو ملامت کرنے پر شرم محسوس ہوتی ہے اس لئے میں کسی کی غلطی کو عام طور پر بیان کر دیا کرتا ہوں اور کسی خاص آدمی کی طرف اشارہ نہیں کرتا سوائے اُن خاص آدمیوں کے جن سے خاص تعلق ہوتا ہے ایسے آدمیوں کو میں علیحدگی میں بتا دیتا ہوں.سو یہ بات اچھی طرح یا د رکھو کہ رسول رسول ہی ہوتا ہے ہر ایک شخص رسول نہیں ہو سکتا.ہاں ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ فخر بخشا ہے کہ ایک رسول کی خدمت کا شرف عطا کیا ہے.تو تم لوگ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کا جو درجہ ہوتا ہے وہ رسولوں کو دو اور دوسرے کسی کو ان کے درجہ میں شامل نہ کرو.اللہ کے رسولوں کے نام قرآن شریف میں درج ہیں اور جو اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اپنا رسول بھیجا ہے اُس کا نام بھی آپ لوگ جانتے ہیں باقی سب ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں.ہاں خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی ترقی کے لئے خلافت کا سلسلہ جاری کیا ہے اور جو انسان اس کام کے لئے چنا گیا ہے وہ درحقیقت تمہارا بھائی ہی ہے پس اُس کو رسول کہنا ہرگز ہرگز جائز نہیں ہے.بعض لوگ گھٹنوں یا پاؤں کو ہاتھ لگاتے ہیں گو وہ یہ کام شرک کی نیت سے نہیں بلکہ محبت اور عقیدت کے جوش میں کرتے ہیں لیکن ایسے کاموں کا دوسری بات

Page 115

خلافة على منهاج النبوة ۹۷ جلد اول انجام ضرور شرک ہوتا ہے.اس وقت ایسا کرنے والوں کی نیت شرک کرنے کی نہیں ہوتی مگر نتیجہ شرک ہی ہوتا ہے.بخاری شریف میں آیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں حضرت نوح کی قوم کے جن بچوں کے نام آئے ہیں وہ دراصل مشرک اقوام کے بڑے بڑے آدمی تھے.اُن کے مرنے پر پچھلوں نے اُن کی یادگاریں قائم کرنی چاہیں تا کہ ان کو دیکھ کر ان میں جو صفات تھیں ان کی تحریک ہوتی رہے.اس کے لئے اُنہوں نے سٹیچو (STATUE) بنا دیئے لیکن ان کے بعد آنے والے لوگوں نے جب دیکھا کہ ہمارے آبا و اجداد ان مجسموں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے تو انہوں نے ان کی اور عزت کرنی شروع کر دی پھر اسی طرح رفتہ رفتہ ان کی تعظیم بڑھتی گئی.بالآخر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کے آگے سجدے کئے جانے لگے اور ان کی اصل حالت کو بھلا کر انہیں خدا کا شریک بنالیا گیا تو بعض باتیں ابتداء میں چھوٹی اور بے ضرر معلوم ہوتی ہیں مگر ان کا نتیجہ ایسا خطرناک نکلتا ہے کہ پھر اس کی تلافی ناممکن ہو جاتی ہے.میری اپنی حالت اور فطرت کا تو یہ حال ہے کہ میں ہاتھ چومنا بھی نا پسند کرتا تھا لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ چومتے تھے اور وہ اس سے منع نہ فرماتے تھے جس سے میں سمجھتا تھا کہ یہ جائز ہے لیکن میرے پاس دلیل کوئی نہ تھی.پھر خلیفہ المسیح جن کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میرے قدم بقدم چلتا ہے ان کے ہاتھوں کو لوگ چومتے.آپ میرے استاد بھی تھے اور دوسرے خلیفہ وقت.میں آپ کے فعل کو بھی حجت خیال کرتا تھا لیکن مجھے پوری تسلی جو دلائل کے ساتھ حاصل ہوتی ہے تب حاصل ہوئی جب میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو بھی صحابہ چومتے اور آنکھوں سے لگاتے تھے اس لئے میں ایسے لوگوں کو جو ہاتھ چومتے ہیں روکتا تو نہیں لیکن انہیں ایسا کرتے دیکھ کر مجھے شرم آ جاتی ہے اور میں صرف اس لئے انہیں منع نہیں کرتا کہ وہ یہ کام اپنی محبت اور عقیدت کے جوش میں کرتے ہیں لیکن ان باتوں کو بڑھانا نہیں چاہئے تا کہ وہ شرک کی حد تک نہ پہنچ جائیں.

Page 116

خلافة على منهاج النبوة ۹۸ جلد اول پہلی اہم بات اب میں ایک بات بیان کرنا شروع کرتا ہوں اور وہ خلافت کے متعلق ہے.شاید کوئی کہے کہ خلافت کے بڑے جھگڑے سنتے رہے ہیں اور یہاں بھی کل اور پرسوں سے سُن رہے ہیں آخر یہ بات ختم بھی ہوگی یا نہیں.اصل بات یہ ہے کہ پہلے جو باتیں تم خلافت کے متعلق سن چکے ہو وہ تو تمہیں ان لوگوں نے سنائی ہیں جو راہرونے کی طرح ایک واقعہ کو دیکھنے والے تھے.دیکھو! ایک بیمار کی حالت اس کا تیمار دار بھی بیان کرتا ہے مگر بیمار جو اپنی حالت بیان کرتا ہے وہ اور ہی ہوتی ہے.اسی طرح دوسرے لوگوں نے اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق تمہیں باتیں سنائی ہیں مگر میں جو کچھ تمہیں سناؤں گا وہ آپ بیتی ہوگی جگ بیتی نہیں ہوگی.دوسرے کے درد اور تکلیف کو خواہ کوئی کتنا ہی بیان کرے لیکن اس حالت کا وہ کہاں اندازہ لگا سکتا ہے جو مریض خود جانتا ہے اس لئے جو کچھ مجھ پر گزرا ہے اُس کو میں ہی اچھی طرح سے بیان کرسکتا ہوں.دیکھنے والوں کو تو یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہو گی کہ کئی لاکھ کی جماعت پر حکومت مل گئی مگر خدا را غور کرو کیا تمہاری آزادی میں پہلے کی نسبت کچھ فرق پڑ گیا ہے؟ کیا کوئی تم سے غلامی کرواتا ہے؟ یا تم پر حکومت کرتا ہے؟ یا تم سے ماتحتوں ،غلاموں اور قید یوں کی طرح سلوک کرتا ہے؟ کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے؟ کوئی بھی فرق نہیں لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لئے ایک شخص تمہارا در درکھنے والا ، تمہاری محبت رکھنے والا ، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا ، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا ، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے.مگر ان کے لئے نہیں ہے.تمہارا اسے فکر ہے ، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے.کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں.پس تمہاری آزادی میں تو کوئی فرق نہیں آیا ہاں تمہارے لئے ایک تم جیسے ہی آزاد پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہو گئی ہیں.

Page 117

خلافة على منهاج النبوة ۹۹ جلد اول سنا جاتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مجھے حکومت کی خواہش تھی اس لئے جماعت میں تفرقہ ڈال کر لوگوں سے بیعت لے لی ہے لیکن بیعت لینے کے وقت کی حالت میں تمہیں بتاتا ہوں.جس وقت بیعت ہو چکی تو میرے قدم ڈگمگا گئے اور میں نے اپنے اوپر ایک بہت بڑا بوجھ محسوس کیا.اُس وقت مجھے خیال آیا کہ آیا اب کوئی ایسا طریق بھی ہے کہ میں اس بات سےکوٹ سکوں.میں نے بہت غور کی اور بہت سوچا لیکن کوئی طرز مجھے معلوم نہ ہوئی.اس کے بعد بھی کئی دن میں اسی فکر میں رہا تو خدا تعالیٰ نے مجھے رویا میں بتایا کہ میں ایک پہاڑی پر چل رہا ہوں.دُشوار گزار راستہ دیکھ کر میں گھبرا گیا اور واپس کو ٹنے کا ارادہ کیا جب میں نے کو ٹنے کے لئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پچھلی طرف میں نے دیکھا کہ پہاڑ ایک دیوار کی طرح کھڑا ہے اور کوٹنے کی کوئی صورت نہیں.اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اب تم آگے ہی آگے چل سکتے ہو پیچھے نہیں ہٹ سکتے.میں نے اس بات پر غور کیا ہے کہ نبی پر چالیس سال کے بعد نبوت کیوں نکہ معرفت نازل ہوتی ہے؟ اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ چالیس سال کے بعد تھوڑے سال ہی انسان کی زندگی ہوتی ہے اس لئے ان میں مشکلات کو برداشت کر کے نبی گزارہ کر لیتا ہے لیکن اگر جوانی میں ہی اُسے نبوت مل جائے تو بہت مشکل پڑے اور اتنے سال زندگی کے بسر کرنے نہایت دشوار ہو جائیں کیونکہ یہ کام کوئی آسان نہیں ہے.دیکھنے میں آگ کا انگارہ بڑا خوشنما معلوم ہوتا ہے مگر اس کی خلافت کی اہمیت حقیقت وہی جانتا ہے جس کے ہاتھ میں ہوتا ہے.اسی طرح خلافت بھی دوسروں کو بڑی خوبصورت چیز معلوم ہوتی ہے اور نادان دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ خلیفہ بننے والے کو بڑا مزا ہو گیا ہے لیکن انہیں کیا معلوم ہے کہ جو چیز ان کی آنکھوں میں بڑی خوبصورت نظر آتی ہے دراصل ایک بہت بڑا بوجھ ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے بغیر کسی کی طاقت ہی نہیں کہ اسے اُٹھا سکے.خلیفہ اس کو کہتے ہیں کہ جو ایک پہلے شخص کا کام کرے اور خلیفہ جس کا قائم مقام ہوتا ہے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ووضعنا عنك ورُرَكَ الذي انقَضَ ظَهْرَكَ " کہ ہم نے تیرا وہ بوجھ جس

Page 118

خلافة على منهاج النبوة جلد اول نے تیری کمر توڑ دی تھی اُتار دیا ہے تو جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ اس بوجھ سے ٹوٹنے کے قریب تھی تو اور کون ہے جو یہ بار اُٹھا کر سلامت رہ سکے.لیکن وہی خدا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بوجھ کو ہلکا کیا تھا اور اس زمانہ میں بھی اپنے دین کی اشاعت کے لئے اُس نے ایک شخص کو اس بوجھ کے اُٹھانے کی توفیق دی وہی اس نبی کے بعد اس کے دین کو پھیلانے والوں کی کمریں مضبوط کرتا ہے.میری طبیعت پہلے بھی بیمار رہتی تھی مگر تم نے دیکھا کہ میں اُس دن کے بعد کسی کسی دن ہی تندرست رہا ہوں اور کم ہی دن مجھ پر صحت کے گزرے ہیں.اگر مجھے خلافت کے لینے کی خوشی تھی اور میں اس کی امید لگائے بیٹھا تھا تو چاہئے تھا کہ اُس دن سے میں تندرست اور موٹا ہوتا جا تا.اگر منکران خلافت کے خیال کے مطابق چھ سال میں اسی کے حاصل کرنے کی کوشش میں رہا ہوں تو اب جب کہ یہ حاصل ہوگئی ہے تو مجھے خوشی سے موٹا ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا.بچپن میں کبھی والدہ صاحبہ مجھے پتلا ڈ بلا دیکھ کر گھبرا تیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے کہ جب اس کو خوشی حاصل ہوگی تو موٹا ہو جائے گا اور مثال کے طور پر خواجہ صاحب کا ذکر فرماتے کہ وکالت کے امتحان کے پاس کرنے سے پہلے یہ بھی ڈبلے ہوتے تھے جب سنا کہ وکالت پاس کر لی ہے تو چند دنوں میں ہی موٹے ہو گئے تو اگر مجھے خلافت ایک حکومت مل گئی ہے اور اس کے لینے میں میری خوشی تھی تو چاہیے تھا کہ میں موٹا اور تندرست ہوتا جاتا لیکن میرے پاس بیٹھنے والے اور پاس رہنے والے جانتے ہیں کہ مجھ پر کیسے کیسے سخت دن آتے ہیں اور اپنی تکلیف کو میں ہی جانتا ہوں.مسئلہ خلافت خلافت کا مسئلہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے.میں نے ۱۲ را پریل ۱۹۱۴ء کو جو تقریر کی تھی ( یہ تقریر منصب خلافت کے نام سے چھپ چکی ہے) اس میں قرآن شریف کی ایک آیت سے میں نے بتایا تھا کہ خلیفہ کا کیا کام ہوتا ہے.خلیفہ کے معنی ہیں کسی کے پیچھے آ کر وہی کام کرنے والا جو اس سے پہلے کیا کرتا تھا.اس کی پہچان کے لئے جس کا کوئی خلیفہ ہوگا اس کے اصل کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا کام کرتا تھا.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کام یہ بتایا ہے يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ

Page 119

خلافة على منهاج النبوة 1+1 جلد اول ويُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ " یعنی یہ کہ (۱) خدا کی آیات لوگوں پر پڑھے.(۲) ان کا تزکیہ نفس کرے.(۳) انہیں کتاب سکھائے.(۴) ان کو حکمت سکھائے.میں نے یہ بھی اس تقریرہ میں بتایا تھا کہ یہ چاروں کام نبی کے دنیا کی کوئی انجمن نہیں کر سکتی.یہ وہی شخص کر سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی کے بعد مقرر کیا جاتا ہے اور جسے خلیفہ کہا جاتا ہے.اس موقع پر یہ باتیں نہیں ذکر کی جاتیں.ہاں چند موٹے موٹے اعتراضات میں بیان کر کے ان کے جواب دیتا ہوں اور یہ بھی بتاتا ہوں کہ کیوں میں نے دلیری اور استقلال کو ہاتھ سے نہ دیا اور اپنی بات پر مضبوط جما رہا.بعض لوگ میری نسبت یہ کہتے ہیں کہ اس نے کیوں وسعت حوصلہ سے کام لے کر یہ نہ کہہ دیا کہ میں خلیفہ نہیں بنتا.ایسا کہنے والا سمجھتا ہے کہ خلافت بڑے آرام اور راحت کی چیز ہے مگر اس احمق کو یہ معلوم نہیں کہ خلافت میں جسمانی اور دنیا وی کسی قسم کا سکھ نہیں ہے.اب میں یہ بتا تا ہوں کہ کیوں میں نے جرات اور دلیری سے کام لے کر اس بار کو اُٹھایا اور وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے قوم کے دوٹکڑے ہوتے دیکھ کر ایک جگہ پر قائم رہنے دیا اور وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے مجھے ایک جگہ کھڑا کئے رکھا.اس وقت تو چاروں طرف کے لوگ موجود ہیں لیکن ایک وہ وقت تھا کہ بہت قلیل حصہ جماعت کا بیعت میں شامل ہوا تھا.سوال یہ ہے کہ اُس وقت جماعت کے اتحاد کی خاطر میں نے کیوں نہ اپنی بات چھوڑ دی ؟ اور اتحاد قائم رکھا اس لئے آج میں اس بات کو بیان کروں گا جس نے مجھے مضبوط رکھا لیکن اس سے پہلے میں چند اور باتیں بیان کرتا ہوں.پہلا اعتراض اور اس کا جواب ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلیفہ وہ ہوتا ہے جو بادشاہ ہو یا ماً مور.تم کون ہو؟ بادشاہ ہو؟ میں کہتا ہوں.نہیں.ما مور ہو؟ میں کہتا ہوں نہیں.پھر تم خلیفہ کس طرح ہو سکتے ہو خلیفہ کے لئے بادشاہ یا ماً مور ہونا شرط ہے.یہ اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر ذرا بھی تدبر نہیں کیا.یہ ایسی ہی بات ہے کہ ایک شخص درزی کی دکان پر جائے اور دیکھے کہ ایک لڑکا اپنے استاد کو کہتا ہے ” خلیفہ جی.وہ وہاں سے آ کر لوگوں کو کہنا شروع کر دے کہ خلیفہ تو ,,

Page 120

خلافة على منهاج النبوة جلد اول درزی کو کہتے ہیں اور کوئی شخص جو درزی کا کام نہیں کرتا وہ خلیفہ کس طرح ہو سکتا ہے.اسی طرح ایک شخص مدرسہ میں جائے ( پہلے زمانہ میں مانیٹر کو خلیفہ کہتے تھے ) اور لڑکوں کو ایک لڑکے کو خلیفہ کہتے سنے اور باہر آ کر کہہ دے کہ خلیفہ تو اُسے کہتے ہیں جولڑکوں کا مانیٹر ہوتا ہے.اس لئے وہ شخص جولڑکوں کا مانیٹر نہیں وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا خلیفہ کے لئے تو لڑکوں کا ہونا شرط ہے.اسی طرح ایک شخص دیکھے کہ آدم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو.وہ کہے کہ خلیفہ تو وہی ہو سکتا ہے جس کو سجدہ کرنے کا حکم فرشتوں کو ملے ورنہ نہیں ہوسکتا.اسی طرح ایک اور شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کو دیکھے جن کے پاس سلطنت اور حکومت تھی تو کہے کہ خلیفہ تو اس کو کہتے ہیں جس کے پاس سلطنت ہو اس کے سوا اور کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا کیونکہ خلیفہ کے لئے سلطنت کا ہونا شرط ہے.لیکن ایسا کہنے والے اتنا نہیں سمجھتے کہ خلیفہ کے لفظ کے معنی کیا ہیں.اس کے یہ معنی ہیں کہ جس کا کوئی خلیفہ کہلائے اس کا کام وہ کرنے والا ہو.اگر کوئی درزی کا کام کرتا ہے تو وہی کام کرنے والا اس کا خلیفہ ہے ہو.اور اگر کوئی طالب علم کسی استاد کی غیر حاضری میں اس کا کام کرتا ہے تو وہ اس کا خلیفہ ہے.اسی طرح اگر کوئی کسی نبی کا کام کرتا ہے تو وہ اس نبی کا خلیفہ ہے.اگر خدا نے نبی کو بادشاہت اور حکومت دی ہے تو خلیفہ کے پاس بھی بادشاہت ہونی چاہیے اور خدا خلیفہ کو ضرور حکومت دے گا.اور اگر نبی کے پاس ہی حکومت نہ ہو تو خلیفہ کہاں سے لائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ خدا تعالیٰ نے دونوں چیزیں یعنی روحانی اور جسمانی حکومتیں دی تھیں اس لئے ان کے خلیفہ کے پاس بھی دونوں چیزیں تھیں.لیکن اب جب کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حکومت نہیں دی تو اس کا خلیفہ کس سے لڑتا پھرے کہ مجھے حکومت دو.ایسا اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر غور نہیں کیا.اگر کوئی شخص یہاں بیٹھے ہوئے آدمیوں کی پگڑیوں ، ٹوپیوں اور کپڑوں کو دیکھ کر یہ لکھ لے کہ آدمی وہی ہوتے ہیں جن کی پگڑیاں ، ٹوپیاں اور کپڑے ان کی طرح ہوتے ہیں اور باہر جا

Page 121

خلافة على منهاج النبوة ١٠٣ جلد اول کر کسی شخص کو اس اپنے مقرر کردہ لباس میں نہ دیکھے تو کہے کہ یہ تو آدمی ہی نہیں ہوسکتا تو کیا وہ بیوقوف نہیں ہے؟ ضرور ہے.اسی طرح اگر کوئی چند نبیوں کے خلیفوں کو دیکھ کر کہے کہ ایسے ہی خلیفے ہو سکتے ہیں ان کے علاوہ اور کوئی خلیفہ نہیں ہو سکتا تو کیا اس کی بات کسی عقلمند کے نزد یک ماننے کے قابل ہے؟ ہرگز نہیں.اس کو چاہیے کہ خلیفہ کے لفظ کو دیکھے اور اس پر غور کرے.اس وقت خلیفہ کے لفظ کے متعلق عربی علم سے ناواقفیت کی وجہ سے لوگوں کو غلطی لگی ہے.خلیفہ اس کو کہتے ہیں.(۱) جو کسی کا قائم مقام ہو.(۲) خلیفہ اس کو کہتے ہیں جس کا کوئی قائم مقام ہو.(۳) خلیفہ وہ ہے جو احکام و اوامر کو جاری کرتا اور ان کی تعمیل کراتا ہے.پھر خلیفے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو اصل کے مرنے کے بعد ہوتے ہیں اور ایک اس کی موجودگی میں بھی ہوتے ہیں.مثلاً وائسرائے شہنشاہ کا خلیفہ ہوتا ہے.اب اگر کوئی وائسرائے کو کہے کہ چونکہ اسے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے یہ شنہشاہ کا خلیفہ نہیں ہو سکتا تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ وہ جس بادشاہ کا نائب ہے اس کے پاس صرف حکومت ہی ہے اس لئے وائسرائے حکومت میں ہی اس کا خلیفہ ہے نہ کہ دین میں.تو یہ ایک موٹی بات ہے جس کو بعض لوگ نہیں سمجھے یا نہیں سمجھنا چاہتے.دوسرا اعتراض اور اس کا جواب پھر یہ کہتے ہیں کہحضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح اسرائیلی کے مثیل تھے اس لئے ان کے خلفاء بھی ایسے ہی ہونے چاہئیں جیسے مسیح اسرائیلی کے ہوئے لیکن چونکہ حضرت مسیح اسرائیلی کے بعد خلافت کا سلسلہ ثابت نہیں ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہیے.اول تو یہ بات ہی بہت عجیب ہے ہم تو یہ مانتے ہیں کہ حضرت مسیح نے صلیب پر وفات نہیں پائی اور صلیب کے واقعہ کے بعد اسی سال تک زندہ رہے ہیں لیکن انجیل جس سے ان کے بعد کی خلافت کا سلسلہ نہیں نکلتا وہ تو ان کی صلیب کے واقعہ تک کے حالات زندگی کی تاریخ ہے.پس اس سے خلافت کا کس طرح پتہ لگ سکتا ہے.یہ تو ویسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ پیش کر کے کہے کہ اس میں تو خلافت کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی کسی خلیفہ کا اس سے پتہ چلتا ہے اس لئے آپ کے

Page 122

خلافة على منهاج النبوة ۱۰۴ جلد اول بعد کوئی خلیفہ بھی نہیں ہوا.پس لوگ حضرت مسیح کا خلیفہ انجیل سے کس طرح پالیں جب کہ وہ اس کی صرف ۳۳ سال کی زندگی کے حالات ہیں.حالانکہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح نے ایک سو میں سال کی عمر پائی ہے.تو جب ۳۳ سال انجیلی زندگی کے بعد بھی حضرت مسیح زندہ رہے ہیں تو ان کے خلفاء کا پتہ انجیل سے کس طرح لگے.اگر کوئی کہے کہ حضرت مسیح کے ایک سو بیس برس کی عمر میں مرنے کے بعد بھی تو کسی خلیفہ کا پتہ نہیں لگتا.اس کے لئے ہم کہتے ہیں کہ اگر تم حضرت مسیح کی تمہیں سالہ زندگی کے بعد کے حالات ہمیں لا دو تو ہم ان کے خلیفے بھی نکال دیں گے اور جب حضرت مسیح کی پچھلی زندگی کی کوئی تاریخ ہی موجود نہیں ہے تو ان کے خلفاء کے متعلق بحث کرنا ہی فضول اور لغو ہے.اور اگر یہ کہا جائے کہ صلیب پر لٹکنا اور ملک سے چلا جانا بھی موت ہی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی الوصیت میں لکھا ہے کہ ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا یعنی ان کے بعد بھی خلیفہ ہوا اس لئے کوئی خلیفہ دکھاؤ.اچھا ہم اس کو مان لیتے ہیں لیکن اس اعتراض سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے انجیل پر بھی غور نہیں کیا.انجیل میں بعینہ وہی نقشہ درج ہے جو الوصیت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھینچا ہے اور جس طرح الوصیت میں خلیفہ اور انجمن کا ذکر ہے اسی طرح انجیل میں ہے.حضرت مسیح جب صلیب کے بعد اپنے حواریوں کے پاس آئے اور کشمیر جانے کا ارادہ کیا تو اس کا ذکر یوحنا باب ۲۱ میں اس طرح پر ہے کہ:.اور جب کھانا کھا چکے تو یسوع نے شمعون پطرس سے کہا کہ اے شمعون یوحنا کے بیٹے ! کیا تو ان سے زیادہ مجھ سے محبت رکھتا ہے؟ اس نے اس (مسیح) سے کہا.ہاں خدا وند تو تو جانتا ہی ہے کہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں.اس نے اس سے کہا.تو میرے برے پھرا.اس نے دوبارہ اس سے پھر کہا کہ اے شمعون یوحنا کے بیٹے ! کیا تو مجھ سے محبت رکھتا ہے؟ وہ بولا ہاں.خدا وند تو تو جانتا ہی ہے کہ میں تجھ کو عزیز رکھتا ہوں.اس نے اس سے کہا.تو میری بھیڑوں کی گلہ بانی کر.اس نے تیسری بار اس سے کہا کہ اے شمعون یوحنا کے بیٹے ! کیا تو مجھے عزیز رکھتا ہے؟ چونکہ

Page 123

خلافة على منهاج النبوة ۱۰۵ جلد اول اس نے تیسری بار اس سے کہا کیا تو مجھے عزیز رکھتا ہے؟ اس سبب سے پطرس نے دلگیر ہو کر اس سے کہا اے خداوند ! تو تو سب کچھ جانتا ہے تجھے معلوم ہی ہے کہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں.یسوع نے اس سے کہا کہ تو میری بھیڑیں پچر ۵۰۱ تو حضرت مسیح نے اپنے بعد پطرس کو خلیفہ مقرر کیا.ایک جگہ لوقا باب ۹ میں ا حضرت مسیح کے متعلق لکھا ہے.پھر اس نے ان بارہ (حواریوں) کو بلا کر انہیں سب بد روحوں پر اور بیماریوں کو دور کرنے کے لئے قدرت اور اختیار بخشا اور انہیں خدا کی بادشاہت کی وو منادی کرنے اور بیماروں کو اچھا کرنے کے لئے بھیجا.لے پس وہ روانہ ہو کر گاؤں گاؤں خوشخبری سناتے اور ہر جگہ شفا دیتے پھرتے“.کے ان آیات سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے حواریوں کے سپرد تبلیغ کا کام کیا ہے لیکن اُنہوں نے اپنی جماعت کو کسی جماعت کے سپر دنہیں کیا بلکہ صرف پطرس کو ہی کہا ہے کہ تو میرے برے چرا تو میری بھیڑوں کی گلہ بانی کر ” تو میری بھیٹر میں پرا“ ہاں اپنے سلسلہ میں داخل کرنے کا حکم دیتے وقت سارے حواریوں کو خدا کی بادشاہت کی منادی کرنے اور بیماروں کو اچھا کرنے کیلئے بھیجا ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں تحریر فرمایا ہے اور جہاں آپ نے خلیفہ کا ذکر کیا ہے وہاں تو یہ لکھا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اُس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے تب الله لاغلب آنا و رُسُلي اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشا ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی انہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اُس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں اُن کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور

Page 124

خلافة على منهاج النبوة 1+7 جلد اول تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اُس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا ليُمَكنْتَ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ آشنا شد یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا دیں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں اُن کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نا گہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا.اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا ، پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گرتی ہوئی جماعت کو سنبھالنے کے لئے وہی طریق بتایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کے بعد عمل میں آیا یعنی

Page 125

خلافة على منهاج النبوة ۱۰۷ جلد اول وو خلفاء ہوئے.لیکن جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبلیغ کا حکم فرمایا ہے وہاں یہ لکھا ہے.اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جونفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُن تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ اپنی جماعت کے متعلق فرمایا ہے ویسا ہی حضرت مسیح نے بھی لکھا ہے.البتہ مسیح ناصری نے پطرس کا نام لے کر اس کے سپر د ا پنی بھیڑوں ( مریدوں) کو کیا تھا لیکن چونکہ مسیح محمدی کا ایمان اس سے زیادہ تھا اس لئے اس نے کسی کا نام نہیں لیا اور اللہ تعالیٰ کے سپر د اس معاملہ کو کر دیا کہ وہ جس کو چاہے گا کھڑا کر دے گا.ادھر ایک جماعت کو حکم دے دیا کہ یہ ” میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں.ہم کہتے ہیں کہ یہ سب احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا کریں.تو جس طرح حضرت عیسی نے اپنی جماعت کو پطرس کے حوالہ کیا اسی طرح مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ایک آدمی کے ماتحت رہنے کا حکم دیا اور جس طرح حضرت عیسی" نے اپنے حواریوں کو تبلیغ کا حکم دیا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے لوگوں کو اپنے نام پر بیعت لینے کا حکم دیا.اس کے بعد میں کچھ واقعات بیان کرتا ہوں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں وہ غور سے سنیں اور جو نہیں بیٹھے ہوئے انہیں پہنچا دیں.جب حضرت خلیفتہ المسح الا ول سخت بیمار ہو گئے تو میں نے اپنے اختلاف پر غور کیا اور بہت غور کیا.جب میں نے یہ دیکھا کہ جماعت کا ایک حصہ عقائد میں ہم سے خلاف ہے تو میں نے کہا کہ یہ لوگ ہماری بات تو نہیں مانیں گے آؤ ہم ہی ان کی مان لیتے ہیں.میں نے بہت غور کر کے ایک شخص کی نسبت خیال کیا کہ اگر کوئی جھگڑا پیدا ہوا تو پہلے میں اس کی بیعت کرلوں گا پھر میرے ساتھ جو ہوں گے وہ بھی کر لیں گے اور

Page 126

خلافة على منهاج النبوة جلد اول اس طرح جماعت میں اتحاد اور اتفاق قائم رہ سکے گا.حضرت خلیفتہ المسیح کی وفات کے دن پچھلے پہر وہ شخص مجھے ملا اور میرے ساتھ سیر کو چل پڑا اور اُس نے مجھے کہا کہ ابھی خلیفہ کی بحث نہ کی جائے جب باہر سے سب لوگ آجائیں گے تو اس مسئلہ کو طے کر لیا جائے گا.میں نے کہا دو دن تک لوگ آجائیں گے اس وقت اس بات کا فیصلہ ہو جائے.اس نے کہا نہیں سات آٹھ ماہ تک یونہی کام چلے پھر دیکھا جائے گا اتنی جلدی کی ضرورت ہی کیا ہے.میں نے کہا کہ اگر اس معاملہ میں میری رائے پوچھتے ہو تو میں تو یہی کہوں گا کہ خلافت کا مسئلہ نہایت ضروری ہے اور جس قدر بھی جلدی ممکن ہو سکے اس کا تصفیہ ہو جانا چاہیے.میں نے کہا کہ کیا آپ کوئی ایسا خاص کام بتا سکتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں اگر آپ خلیفہ نہ ہوتے تو وہ رُک جاتا اور جس کی وجہ سے فوراً ان کو خلیفہ بنانے کی حاجت پڑی.اگر اُس وقت کوئی ایسا خاص کام نہ ہوتے ہوئے پھر بھی ان کی ضرورت تھی تو اب بھی ہر وقت ایک خلیفہ کی ضرورت ہے.خلیفہ کا تو یہ کام ہوتا ہے کہ جماعت میں جب کوئی نقص پیدا ہو جائے تو وہ اُسے دور کر دے نہ کہ وہ مشین ہوتی ہے جو ہر وقت کام ہی کرتی رہتی ہے.آپ کو کیا معلوم ہے کہ آج ہی جماعت میں کوئی جھگڑا پیدا ہو جائے تو پھر کون اس کا فیصلہ کرے گا.میں نے کہا کہ ہماری طرف سے خلافت کے متعلق کوئی جھگڑا نہیں پیدا ہو سکتا آپ کوئی آدمی پیش کریں میں اس کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں.کچھ اور لوگوں کو بھی مجھ سے محبت ہے وہ بھی اس کی بیعت کرلیں گے اور کچھ لوگ آپ سے تعلق رکھنے والے ہیں وہ بھی بیعت کر لیں گے اس طرح یہ معاملہ طے ہو جائے گا.پھر میں نے کہا یہ بحث نہیں ہونی چاہئے کہ خلیفہ ہو یا نہ ہو بلکہ اس بات پر بحث ہو سکتی ہے کہ کون خلیفہ ہو.اُس وقت پھر میں نے یہ کہا کہ آپ اپنے میں سے کوئی آدمی پیش کریں میں اُس کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں مگر میں یہ کبھی بھی نہیں مان سکتا کہ کوئی خلیفہ نہ ہو.اگر تمام لوگ اس خیال کو چھوڑ دیں اور اس خیال کے صرف چند آدمی رہ جائیں تب بھی ہم کسی نہ کسی کی بیعت کر لیں گے اور ایک کو خلیفہ بنائیں گے مگر ہم یہ کبھی نہ مانیں گے کہ خلیفہ نہ ہو.دوسرا آدمی خواہ کوئی ہو، غیر احمد یوں کو کافر کہے یا نہ کہے ، ان کے پیچھے نماز جائز سمجھے یا نہ سمجھے ان سے تعلقات رکھے یا نہ رکھے ایک خلیفہ

Page 127

خلافة على منهاج النبوة 1+9 جلد اول چاہئے تا کہ جماعت کا اتحاد قائم رہے اور ہم اس کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں.یہ گفتگو بیچ میں ہی رہی اور کوئی فیصلہ نہ ہوا اور تجویز ہوئی کہ اس پر مزید غور کے بعد پھر گفتگو ہو اور دوسرے دوست بھی شامل کئے جائیں.دوسرے دن پانچ سات آدمی مشورہ کے لئے آئے اور اس بات پر بڑی بحث ہوئی کہ خلافت جائز ہے یا نہیں.بڑی بحث مباحثہ کے بعد جب وقت تنگ ہو گیا تو میں نے کہا اب صرف ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ خلیفہ کی ضرورت سمجھتے ہیں وہ اپنا ایک خلیفہ بنا کر اس کی بیعت کر لیں.ہم ایسے لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے مشورہ پوچھتے ہیں.آپ لوگ جو کہ خلیفہ ہونا نا جائز سمجھتے ہیں وہاں تشریف نہ لائیں تا کہ کسی قسم کا جھگڑا نہ ہو.اس کے بعد ہم یہاں (مسجد نور میں ) آ گئے.وہ لوگ بھی یہیں آ پہنچے.پھر جو خدا کو منظور تھا وہ ہوا.اُس وقت جو لوگ میرے پاس بیٹھے تھے وہ خوب جانتے ہیں کہ اُس وقت میری کیا حالت تھی.اگر میں نے پہلے سے کوئی منصوبہ سازی کی ہوتی تو چاہیے تھا کہ پہلے سے ہی میں نے بیعت کے الفاظ یاد کئے ہوتے لیکن اُس وقت ایک شخص مجھے بتلاتا گیا اور میں وہ الفاظ کہتا گیا.کیا یہی منصو بہ باز کا حال ہوتا ہے؟ پھر کہتے ہیں کہ اُس وقت ایک شخص تقریر تیسرا اعتراض اور اُس کا جواب کرنے کے لئے کھڑا ہو تو اس کو کہا گیا کہ بیٹھ جاؤ.اس سے اس کی ہتک ہوئی ہے.میں کہتا ہوں کہ اُس وقت اس کو اگر مار بھی پیٹتی تو کوئی حرج نہ تھا کیونکہ یہی تو خلیفہ کی ضرورت تھی جس کا وہ انکار کرتا تھا.اس نے دیکھ لیا کہ نورالدین خلیفہ المسیح نے ہی اس کی عزت سنبھالی ہوئی تھی اس کی آنکھ بند ہوتے ہی وہ ذلیل ہو گیا اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خلیفہ کی فوراً ضرورت ہوتی ہے نہ کہ سات آٹھ ماہ کے بعد جا کر اس کی حاجت پیش آتی ہے مگر مجھے اس معاملہ کے متعلق کچھ علم نہیں تھا کہ کون بولنے کے لئے کھڑا ہوا ہے اور کس نے منع کیا ہے.اس مسجد سے باہر جا کر مجھے ایک شخص نے سنایا کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ واقعی قادیان ہسپتال ہے اور اس میں رہنے والے سارے مریض

Page 128

خلافة على منهاج النبوة 11.جلد اول ہیں.میں نے پوچھا یہ اس نے کیوں کہا ؟ تو اس نے جواب دیا کہ وہ کہتا ہے کہ اس وقت مولوی محمد علی بولنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے ان کو بولنے نہیں دیا گیا جس سے ان کی ہتک ہوئی ہے اُس وقت مجھے اس بات کا علم ہوا اور اگر اُسی وقت مجھے علم ہو جاتا تو میرا کیا حق تھا کہ میں کسی کو روک دیتا اور ایسا نہ کرنے دیتا اور لوگوں کو مجھ سے اُس وقت کون سا تعلق تھا جس کی وجہ سے وہ میری بات ماننے کے لئے تیار ہو جاتے.اُس وقت تک تو کوئی شخص جماعت کا امام مقرر نہ ہوا تھا.اس کے بعد ایک اور واقعہ ہوا اور وہ یہ کہ میں نے سنا کہ مولوی محمد علی ایک اور واقعہ صاحب قادیان کو چھوڑ کر جانے کی تیاری کر رہے ہیں.میں نے اُنہیں لکھا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ یہاں سے جانا چاہتے ہیں آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپ اپنی تکلیف مجھے لکھیں کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ میں نے لکھ کر ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب کو دیا کہ آپ ان کے پاس لے جائیں.میں نے کسی ملازم وغیرہ کے ہاتھ خط دے کر اس لئے نہ بھیجا تا کہ وہ یہ نہ کہیں کہ کسی اور آدمی کے ہاتھ خط بھیجنے سے میری ہتک ہوئی ہے.ڈاکٹر صاحب کو میں نے یہ بھی کہا کہ آپ جا کر ان سے پوچھیں کہ آپ یہاں سے کیوں جاتے ہیں؟ اگر آپ کو کوئی تکلیف ہے تو میں اس کا ذمہ دار ہوں.اس کا جواب یہ دیا گیا کہ بھلا ہم قادیان کو چھوڑ کر کہیں جا سکتے ہیں ؟ آپ کو معلوم ہی ہے کہ میں نے چھٹی لی ہوئی ہے اسے پورا کرنے کے لئے جاتا ہوں.جواب کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا کہ میرے جانے کی یہ وجہ بھی ہے کہ آجکل چونکہ بعض طبائع میں جوش ہے اس لئے میں نے خیال کیا ہے کہ کچھ عرصہ باہر رہوں تا کہ جوش کم ہو جائے ایسا نہ ہو پٹھانوں میں سے کوئی جوش میں مجھ پر حملہ کر بیٹھے.لیکن اس خط میں زیادہ تر زور اس بات پر دیا گیا تھا کہ ہم قادیان چھوڑ کر کہاں جا سکتے ہیں ؟ میں تو چھٹی کے ایام باہر گزارنے کے لئے جاتا ہوں.اس کے بعد میں ان سے ملنے کے لئے اُن کے گھر گیا.میرے ساتھ نواب صاحب بھی تھے.جب ہم ان کے پاس جا کر بیٹھے تو کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں.ترجمہ قرآن کے متعلق کچھ گفتگو ہوئی.پھر ڈاکٹر صاحب نے اصل مطلب کی طرف کلام کی رو پھیرنے کے لئے کہا کہ میاں صاحب آپ کے

Page 129

خلافة على منهاج النبوة جلد اول خط پر خود آپ کے پاس آئے ہیں.ابھی یہ بات اُنہوں نے کہی ہی تھی کہ مولوی صاحب نے ایک ایسی حرکت کی جس سے ہم نے سمجھا کہ یہ ہمیں ٹالنا چاہتے ہیں.ممکن ہے کہ ان کا مطلب یہ نہ ہو اس وقت انہیں کم از کم یہ تو خیال کرنا چاہیے تھا کہ ہم گوا سے نہیں مانتے لیکن جماعت کے ایک حصہ نے اس کو امام تسلیم کیا ہے.ایک آدمی جس کا نام بگا ہے وہ کوٹھی کے باہر اُن کو نظر آیا اُنہوں نے فوراً اُس کو آواز دی کہ آمیاں بگا تو لا ہور سے کب آیا ؟ کیا حال ہے؟ اور اُس سے اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں.یہ دیکھ کر ہم اُٹھ کر چلے آئے.میں نے ان کی اس حرکت سے یہ نتیجہ نکالا کہ شاید وہ اس معاملہ کے متعلق گفتگو کرنی ہی نہیں چاہتے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ.ان کی یہ منشاء تھی یا نہ لیکن میرے دوسرے ساتھیوں کا بھی ایسا ہی خیال تھا اس لئے ہم چلے آئے.اتحاد کی کوشش ان باتوں کے علاوہ میں نے قوم کے اتحاد اور اتفاق کے قائم رکھنے کے لئے اور بھی تجویزیں کیں.جب حضرت خلیفہ امسیح کی حالت بہت نازک ہوگئی اور مجھے معلوم ہوا کہ بعض لوگ مجھے فتنہ گر کہتے ہیں تو میں نے ارادہ کر لیا کہ میں قادیان سے چلا جاؤں اور جب اس بات کا فیصلہ ہو جائے تو پھر آ جاؤں گا.میں نواب صاحب کی کوٹھی سے جہاں حضرت خلیفتہ المسح بستر علالت پر پڑے تھے گھر آیا اپنی بیٹھک کے دروازے کھول کر نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے میرے مولیٰ ! اگر میں فتنہ کا باعث ہوں تو مجھے اس دنیا سے اُٹھا لیجئے یا مجھے توفیق دیجئے کہ میں قادیان سے کچھ دنوں کے لئے چلا جاؤں.دعا کرنے کے بعد پھر میں نواب صاحب کی کوٹھی پر آیا.مگر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہی ڈالا کہ ہم ذمہ دار ہوں گے تم یہاں سے مت جاؤ.میں ایک دفعہ قسم کھا چکا ہوں اور پھر اُسی ذات کی قسم کھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے اور جو اس گھر ( مسجد ) کا مالک ہے اور میں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں جو آسمان اور زمین کا حاکم ہے اور جس کی جھوٹی قسم لعنت کا باعث ہوتی ہے اور جس کی لعنت سے کوئی جھوٹا بچ نہیں سکتا کہ میں نے کسی آدمی کو کبھی نہیں کہا کہ مجھے خلیفہ بنانے کے لئے کوشش کرو اور نہ ہی کبھی خدا تعالیٰ کو میں نے یہ کہا کہ مجھے خلیفہ بنا ئیو.پس جب کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس کام کے لئے خود اپنے

Page 130

خلافة على منهاج النبوة ۱۱۲ جلد اول فضل سے چن لیا ہے تو میں کس طرح اسے نا پسند کرتا ؟ کیا اگر تمہارا کوئی دوست تمہیں کوئی نعمت دے اور تم اس کو لے کر نالی میں پھینک دو تو تمہارا دوست خوش ہو گا ؟ اور تمہاری یہ حرکت درست ہوگی ؟ ہر گز نہیں.تو اگر خدا تعالیٰ نعمت دے تو کون ہے جو اس کو ہٹا سکے.جب دنیا کے دوستوں کی نعمتوں کو کوئی رڈ نہیں کرتا بلکہ بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو میں خدا تعالیٰ کی دی ہوئی اس نعمت کو کس طرح رڈ کر دوں کیونکہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو رڈ کرنے والوں کے بڑے خطرناک انجام ہوتے رہے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ان کی قوم کے لوگ طور پر گئے.خدا تعالیٰ نے اُن کو فرمایا تھا کہ آؤ ہم تم سے کلام کریں.وہاں جب زلزلہ آیا تو وہ ڈر گئے اور کہنے لگے کہ ہم خدا کی باتوں کو نہیں سننا چاہتے اور واپس چلے آئے.خدا تعالیٰ نے ان کو اس نعمت کی ناقدری میں یہ سزا دی کہ فرمایا اب تم سے کوئی شرعی نبی بر پا نہیں کیا جائے گا بلکہ تمہارے بھائیوں میں سے کیا جائے گا.تو خدا تعالیٰ کی نعمت کو رڈ کرنے والوں کی نسبت جب میں یہ دیکھ چکا ہوں تو پھر خدا کی نعمت کو میں کس طرح رڈ کر دیتا.مجھے یقین تھا کہ وہ خدا جس نے مجھے اس کام کے لئے چنا ہے وہ خود میرے پاؤں کو مضبوط کر دے گا اور مجھے استقامت اور استقلال بخشے گا.پس اگر مجھے خلیفہ ماننے والے بھی سب کے سب نہ ماننے والے ہو جاتے اور کوئی بھی مجھے نہ مانتا اور ساری دنیا میری دشمن اور جان کی پیاسی ہو جاتی جو کہ زیادہ سے زیادہ یہی کرتی کہ میری جان نکال لیتی تو بھی میں آخری دم تک اس بات پر قائم رہتا اور کبھی خدا تعالیٰ کی نعمت کے رڈ کرنے کا خیال بھی میرے دل میں نہ آتا کیونکہ یہ غلطی بڑے بڑے خطرناک نتائج پیدا کرتی ہے.امام حسنؓ کا واقعہ امام حسن سے یہی غلطی ہوئی تھی جس کا بہت خطرناک نتیجہ نکلا.گو یہ غلطی ان سے ایک خاص اعتقاد کی بناء پر ہوئی اور وہ یہ کہ بیٹا باپ کے بعد خلیفہ نہیں ہو سکتا.جیسا کہ حضرت عمرؓ کا اعتقاد تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد ہے اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے اپنے بعد انتخاب خلیفہ کے متعلق فرمایا کہ میرے بیٹے سے اس میں مشورہ لیا جائے لیکن اس کو خلیفہ بننے کا حق نہ ہو گا.حضرت علیؓ نے اپنے بیٹے امام حسنؓ کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا.ان کی نیت نیک تھی کیونکہ اور کوئی ایسا انسان نہ تھا جسے خلیفہ بنایا جا سکتا

Page 131

خلافة على منهاج النبوة جلد اول اور جو خلافت کا اہل ہوتا.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسنؓ بھی حضرت عمرؓ کا سا ہی خیال رکھتے تھے یعنی یہ کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ نہیں ہونا چاہیے اس لئے اُنہوں نے بعد میں معاویہؓ سے صلح کر لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بعد امام حسین اور ان کا سب خاندان شہید ہو گیا.ایک دفعہ اُنہوں نے خدا کی نعمت کو چھوڑا.خدا تعالیٰ نے کہا اچھا اگر تم اس نعمت کو قبول نہیں کرتے تو پھر تم میں سے کسی کو یہ نہ دی جائے گی.چنانچہ پھر کوئی سید کبھی بادشاہ نہیں ہوا سوائے چھوٹی چھوٹی حکومتوں کے سیدوں کو حقیقی بادشاہت اور خلافت کبھی نہیں ملی.امام حسنؓ نے خدا کی دی ہوئی نعمت واپس کر دی جس کا نتیجہ بہت تلخ نکلا.تو خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو ر ڈ کرنا کوئی معمولی بات نہیں.اس شخص کو خدا کی معرفت سے کوئی حصہ نہیں ملا اور وہ خدا کی حکمتوں کے سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا جو مجھے کہتا ہے کہ آپ خلافت کو چھوڑ دیں.اس نادان کو کیا معلوم ہے کہ اس کے چھوڑنے کا کیا نتیجہ ہو گا.پس حضرت عثمان کی طرح میں نے بھی کہا کہ جو قبا مجھے خدا تعالیٰ نے پہنائی ہے وہ میں کبھی نہیں اُتاروں گا خواہ ساری دنیا اس کے چھینے کے درپے ہو جائے.پس میں اب آگے ہی آگے بڑھوں گا خواہ کوئی میرے ساتھ آئے یا نہ آئے.مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ابتلاء آئیں گے مگر انجام اچھا ہو گا.پس کوئی میرا مقابلہ کر کے دیکھ لے خواہ وہ کوئی ہو اِنشَاءَ اللهُ تَعَالٰی میں کامیاب رہوں گا اور مجھے کسی کے مقابلہ کی خدا کے فضل سے کچھ بھی پرواہ نہیں ہے.بعض باتیں ایسی ہیں جو کہ میں خود ہی سنا سکتا ہوں کسی کو کیا معلوم ہے کہ مجھ پر کتنا بڑا بوجھ رکھا گیا ہے بعض دن تو مجھ پر ایسے آتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ شام تک میں زندہ نہیں رہوں گا.اُس وقت میں یہی خیال کرتا ہوں کہ جتنی دیر زندہ ہوں اتنی دیر کام کئے جاتا ہوں.جب میں نہ رہوں گا تو خدا تعالیٰ کسی اور کو اس کام کے لئے کھڑا کر دے گا مجھے اپنی زندگی تک اس کام کی فکر ہے جو میرے سپر د خدا تعالیٰ نے کیا ہے بعد کی مجھے کوئی فکر نہیں ہے.یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ نے ہی چلایا ہے اور وہی اس کا انتظام کرتا رہے گا.

Page 132

خلافة على منهاج النبوة ۱۱۴ جلد اول خلافت کیا گدی بن گئی ہے؟ وہ نادان جو کہتا ہے کہ گدی بن گئی ہے اس کو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں تو یہ جائز ہی نہیں سمجھتا کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ ہو.ہاں اگر خدا تعالیٰ چاہے ما مور کر دے تو یہ الگ بات ہے اور حضرت عمرؓ کی طرح میرا بھی یہی عقیدہ ہے کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ نہیں ہونا چاہیے.پھر کہا جاتا ہے کہ وصیت کے قول کو دیکھو چھ سال کا عمل کیا چیز ہوتی ہے.ہم کہتے ہیں کہ چھ سال کیا ہوتے ہیں.ہم مان لیتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک کے بارہ سو سال کے زمانہ کا عمل بھی کوئی چیز نہیں ہوتا اور چھ سال کیا بلکہ اس سارے زمانہ کے عمل کی قربانی کرنے کے لئے ہم تیار ہو جاتے ہیں مگر ہمیں یہ نمونہ کہیں سے نہیں ملتا کہ کسی نبی کی وفات کے بعد ہی اس کی جماعت نے گمراہی پر اجماع کیا ہو.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کو ایک دن بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ جماعت احمدیہ نے خلافت پر اجماع کیا.کیا نَعُوذُ بِاللہ یہ گمراہی پر اجماع تھا ؟ ہر گز نہیں.ہمیں یہ سنایا جاتا ہے کہ کیا ہم منافق ہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ ہم سب کو منافق نہیں کہتے.ہاں جس کے دل میں صداقت کا نام بھی نہیں اور جو بول اُٹھے کہ میں منافق ہوں اسے ہم منافق کہتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ بقول ان کے مان لیا کہ اس وقت جماعت کے بیسویں حصہ نے بیعت کی ہے مگر اُس وقت یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت تو ساری جماعت نے ایک خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی.وہ کہہ سکتے ہیں کہ اُس وقت جماعت نے گمراہی پر اجماع کیا تھا لیکن یہ نظیر پہلے کہیں سے نہ ملے گی.حضرت مسیح کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت بڑی دلیل تو فَلَمَّا تُوَفَّيْتَنِي كُنْتَ انْتَ الرّقيب عليهم " کی دیا کرتے تھے اور دوسری بڑی بھاری دلیل صحابہ کے اجماع کو بتلاتے تھے.مگر آج کہا جاتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد چھ سال تک جماعت احمد یہ کا اجماع گمراہی پر رہا ہے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کے بعد جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور آپ کی صحبت سے فیض اُٹھا یا دوسرے لوگ کسی غلط مسئلہ پرا جماع کر لیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کے صحابی ایسا کریں.اگر یہ لوگ ہی ایسا کریں تو حضرت مسیح موعود

Page 133

خلافة على منهاج النبوة ۱۱۵ جلد اوّل علیہ السلام کے دنیا میں آنے کا فائدہ ہی کیا ہوا.اس میں شک نہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگ کمزور بھی ہیں لیکن کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت منافقوں کا گر وہ نہیں تھا؟ اور کیوں بعض اشخاص کو جو کہ آپ کے صحابہ کے گروہ میں شامل رہتے تھے اب رضی اللہ عنہ نہیں کہا جاتا حتی کہ ان کو صحابی بھی نہیں کہا جاتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ منافق تھے.وہ زبان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے تھے لیکن ان کا دل نہیں مانتا تھا.اسی طرح اب ہم کہتے ہیں کہ جو دل سے مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کو مانتے رہے اور مانتے ہیں ان کو ہم آپ کے صحابہ میں سے کہیں گے اور جو نہیں مانیں گے ان کو نہیں کہیں گے.کیا عبد اللہ بن ابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں رہتا تھا اور آپ کے صحابہ میں شامل نہیں تھا ؟ مگر اس کو صحابہ میں اس لئے شامل نہیں کیا جاتا کہ وہ منافق تھا.اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رہنے والوں میں سے کوئی ٹھو کر کھائے تو یہ اُس کا اپنا قصور ہے نہ کہ اس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہنا اس ٹھو کر کے نقصان سے اُسے بچا سکتا ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ یہ ہمارا قیاس ہی قیاس نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ساری جماعت کو ٹھو کر نہیں لگی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا.سپردم بتو ماية خویش را تو دانی حساب کم و بیش را مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کو اپنا سرمایہ پیش کرتے ہیں.کیوں ؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرے اور یہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا کہ تم اپنی جماعت کو میرے سپر د کر دو ہم اس کی حفاظت کریں گے.اب اگر منکرین خلافت کی بات مان لی جائے تو خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی اچھی حفاظت کی کہ اس کا پہلا اجماع ضلالت پر کروا دیا.مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو خدا کے سپرد کیا تھا خدا نے اس جماعت کو نورالدین کے سپر د کر دیا.جس کی نسبت ( نَعُوذُ بِاللهِ ) کہا جاتا ہے کہ گمراہی تھی.کیا خدا تعالیٰ کو یہ طاقت نہ تھی کہ نورالدین سے جماعت کو چھڑ الیتا اور گمراہ نہ ہونے دیتا ؟ طاقت تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا جس سے ثابت ہوا کہ جماعت کا اجماع غلطی پر نہ تھا بلکہ خدا تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت تھا.

Page 134

خلافة على منهاج النبوة 117 جلد اول یہی باتیں نہیں ہیں جنہوں نے مجھے اپنی بات پر قائم رکھا بلکہ ان سے بھی بڑھ کر ہیں اور میں نے اپنے قیاس پر ہی اس بات کو نہیں چلا یا بلکہ یقینی امور پر سمجھا ہے اور وہ ایسی باتیں ہیں کہ جن کی وجہ سے میں اس سے ہٹ نہیں سکتا.اور وہ زمین کی گواہی نہیں ہے بلکہ آسمان کی گواہی ہے.وہ آدمیوں کی گواہی نہیں بلکہ خدا کی گواہی ہے.پس میں اس بات کو کس طرح چھوڑ سکتا ہوں.ساری دنیا بھی اگر مجھے کہے کہ یہ بات غلط ہے تو میں کہوں گا کہ تم جھوٹے ہو اور جو کچھ خدا تعالیٰ کہتا ہے وہی سچ ہے کیونکہ خدا ہی سب بچوں سے سچا ہے.صلح کیونکر ہو؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپس میں صلح ہو جانی چاہیے.کیا ان لوگوں کا جو یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہیے وہ اس کو چھوڑ دیں گے؟ یا ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ ہونا چاہیے ہم اسے چھوڑ دیں گے ؟ اگر نہیں چھوڑیں گے تو دو نہایت متضاد خیالات کے لوگوں کا اکٹھا کام کرنا اور ہر ایک کا یہ خیال کرنا کہ دوسرے فریق کے خیالات سلسلہ کے لئے سخت نقصان دہ ہیں اور زیادہ اختلاف کا باعث ہوگا یا امن کا ؟ میں تو صلح کے لئے تیار ہوں اور میں اس باپ کا بیٹا ہوں جس کو صلح کا شہزادہ کہا گیا ہے لیکن وہ صلح جو دین کی تباہی کا باعث ہوتی ہو وہ میں کبھی قبول نہیں کر سکتا.مگر وہ صلح جس میں راستی کو نہ چھوڑنا پڑے اس کے کرنے کے لئے مجھ سے زیادہ اور کوئی تیار نہیں ہے مجھے حضرت مسیح کی وہ تمثیل بہت ہی پسند ہے جو کہ لوقا باب ۱۵ میں لکھی ہے کہ کسی شخص کے دو بیٹے تھے.ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا کہ اے باپ! مال کا جو حصہ مجھ کو پہنچتا ہے مجھے دے.اس نے اپنا مال متاع انہیں بانٹ دیا اور بہت دن نہ گزرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کچھ جمع کر کے دُور دراز ملک کو روانہ ہوا اور وہاں اپنا مال بد چلنی میں اُڑا دیا اور جب سب خرچ کر چکا تو اس ملک میں سخت کال پڑا اور وہ محتاج ہونے لگا.پھر اس ملک کے ایک باشندہ کے ہاں جا پڑا.اس نے اس کو اپنے کھیتوں میں سور چرانے بھیجا اور اسے آرزو تھی کہ جو پھلیاں سو ر کھاتے تھے انہیں سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اسے نہ دیتا تھا.پھر اس نے ہوش میں آ کر کہا کہ میرے باپ کے کتنے ہی مزدوروں کو روٹی افراط سے ملتی ہے اور میں یہاں بھوکا مر رہا ہوں.میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اس سے کہوں گا کہ اے باپ ! میں آسمان کا اور تیری نظر

Page 135

خلافة على منهاج النبوة 112 جلد اول میں گنہگار ہوا اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلا ؤں مجھے اپنے مزدوروں جیسا کرلے.ا پس وہ اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا.وہ ابھی دور ہی تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے باپ کو ترس آیا اور دوڑ کر اُس کو گلے لگا لیا اور بو سے لئے.بیٹے نے اس سے کہا کہ اے باپ! میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہ گار ہوا.اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں.باپ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ اچھے سے اچھا جا مہ جلد نکال کر اسے پہناؤ.اور اس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاؤں میں جوتی پہناؤ.اور پکے ہوئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو تا کہ ہم کھا کر خوشی منائیں کیونکہ میرا یہ بیٹا مر وہ تھا اب زندہ ہوا.کھویا ہوا تھا اب ملا ہے.پس وہ خوشی منانے لگے لیکن اس کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا جب وہ آ کر گھر کے نزدیک پہنچا تو گانے بجانے اور ناچنے کی آواز سنی اور ایک نوکر کو بلا کر دریافت کر نے لگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اس نے اس سے کہا تیرا بھائی آگیا ہے اور تیرے باپ نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا ہے اس لئے کہ اسے بھلا چنگا پایا.وہ غصے ہوا اور اندر جانا نہ چاہا مگر اس کا باپ باہر جا کے اُسے منانے لگا.اس نے اپنے باپ سے جواب میں کہا کہ دیکھ اتنے برس سے میں تیری خدمت کرتا ہوں اور کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی مگر مجھے تو نے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی منا تا لیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا جس نے تیرا مال متاع کسبیوں میں اُڑا دیا تو اس کے لئے تو نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا.اس نے اس سے کہا بیٹا تو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے لیکن خوشی منانی اور شادمان ہونا مناسب تھا کیونکہ تیرا یہ بھائی مُردہ تھا اب زندہ ہوا.کھویا ہوا تھا اب ملا ہے.۱۳ سو میں بہت وسعت حوصلہ رکھتا ہوں.اگر کوئی پچھتاتا ہوا آئے تو میں اس کی آمد پر بہ نسبت ان کے بہت خوش ہوں گا جنہوں نے پہلے دن بیعت کر لی تھی کیونکہ وہ گمراہ نہیں ہوئے اور یہ گمراہ ہو گیا تھا.وہ کھوئے نہیں گئے اور یہ کھویا گیا تھا لیکن مل گیا ہے.باپ اپنے بیٹوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے مگر اس باپ سے بیٹے کے دیکھنے کی خوشی پوچھو جس کا بیٹا بیمار ہو کر تندرست ہو گیا ہو.میں نفاق کی صلح ہر گز پسند نہیں کرتا.ہاں جو صاف دل ہو کر اور اپنی غلطی کو چھوڑ کر صلح کے لئے آگے بڑھے میں اس سے زیادہ اس کی طرف بڑھوں گا.

Page 136

خلافة على منهاج النبوة ۱۱۸ جلد اول میں اب ایک اور بات بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جو منافقت کی ایک ضروری بات صلح کرنی چاہتے ہیں وہ یاد رکھی کہ یہ بھی نہیں ہو سکے گی کیونکہ پچھلے دنوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ منشاء الہی کے مطابق ہوا ہے.ہم میں شامل ہونے والے تو آئیں گے اور آتے ہی رہیں گے اور ان کو وہی رُتبہ اور درجہ دیا جائے گا جو اُن کا پہلے تھا مگر جو ہونا تھا وہ ہو گیا اس کو روکنا کسی انسان کی طاقت اور قدرت میں نہیں ہے.یہ جو فتنہ پڑا ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے قبل از وقت خبر دے دی تھی.کمزور دل کے لوگ کہتے ہیں کہ اب کیا ہوگا ، احمد یہ سلسلہ ٹوٹ جائے گا.میں کہتا ہوں کہ اس فتنہ سے سلسلہ ٹوٹتا نہیں بلکہ بنتا ہے مبارک ہے وہ انسان جو اس نکتہ کو سمجھے.اللہ تعالیٰ کے پیارے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ انہیں ایک زخم لگاتا ہے تو ان کی جماعت اور بڑھتی اور ترقی کرتی ہے.کیا تم نے کبھی باغبان کو دیکھا نہیں جب وہ کسی درخت کی شاخیں کاٹتا ہے تو اور زیادہ شاخیں اُس کی نکل آتی ہیں.پس خدا تعالیٰ نے جو اس سلسلہ احمدیہ کے درخت کی کچھ شاخیں کاٹی ہیں تو اس لئے نہیں کہ یہ درخت سوکھ جائے بلکہ اس لئے کہ اور زیادہ بڑھے.سو یہ مت سمجھو کہ اس فتنہ کی وجہ سے لوگ سمجھیں گے کہ یہ سلسلہ جھوٹا ہے کیونکہ یہ تو اس کی صداقت کو ظاہر کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں.اگر کوئی نبی بیمار ہو جائے اور اس کے مخالفین خوش ہوں کہ یہ اب فوت ہو جائے گا لیکن وہ انہیں اپنا الہام نکال کر دکھا دے کہ میرا بیمار ہونا تو میری صداقت کی دلیل ہے کیونکہ مجھے پہلے بتایا گیا تھا کہ تو بیمار ہوگا تو اس بیماری سے اس نبی کی صداقت پر کوئی دھبہ نہیں لگتا بلکہ اس کی صداقت اور ثابت ہوتی ہے.اسی طرح جب اس فتنہ کے لئے پہلے خبریں دی گئی تھیں تو یہ ہماری ترقی میں کوئی روک نہیں ہو سکتا بلکہ اور زیادہ ترقی کے لئے اس فتنہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہمیں دلائل و براہین کی تلواریں دے دی ہیں تا کہ نہ ماننے والوں کو دلائل کے ساتھ قتل کرتے پھریں.فتنہ کا ہونا ضروری تھا (۱) دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کو اپنا ایک رؤیا بیان فرمایا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ میں حضرت

Page 137

خلافة على منهاج النبوة 119 جلد اول علی کرم اللہ وجہہ بن گیا ہوں یعنی خواب میں ایسا معلوم کرتا ہوں کہ وہی ہوں اور خواب کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے تئیں دوسرا شخص خیال کر لیتا ہے سو اُس وقت میں سمجھتا ہوں کہ میں علی مرتضی ہوں اور ایسی صورت واقعہ ہے کہ ایک گروہ خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہو رہا ہے یعنی وہ گر وہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے.تب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہیں اور شفقت اور تو ڈر سے مجھے فرماتے ہیں کہ يَا عَلِيُّ دَعْهُمْ وَأَنْصَارَهُمْ وَزِرَاعَتَهُمْ يعنى اے علی ! ان سے اور ان کے مددگاروں اور ان کی کھیتی سے کنارہ کر اور ان کو چھوڑ دے اور ان سے منہ پھیر لے.اور میں نے پایا کہ اس فتنہ کے وقت صبر کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو فرماتے ہیں اور اعراض کے لئے تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو ہی حق پر ہے مگر ان لوگوں سے ترک خطاب بہتر ہے.اس رویا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا کہ لوگ تمہاری خلافت کا انکار کریں گے اور فتنہ ڈالیں گے لیکن صبر کرنا ہوگا.آپ نے اس رؤیا کے معنی یہ بھی کئے ہیں کہ لوگ میرا انکار کریں گے.لیکن خدا تعالیٰ کی باتوں کے کئی معنی ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے الہام شَاتَانِ تُذْبَحَانِ ها کے ۱۵ پہلے اور معنی کئے تھے اور پھر اسے سید عبداللطیف صاحب شہید اور مولوی عبد الرحمن صاحب پر چسپاں فرمایا اور دونوں ہی معنی درست تھے.تو اس رؤیا کے ایک معنی تو یہ بھی ہیں کہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کریں گے.لیکن اس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے بعد جو خلافت ہو گی اس کا انکار ایک جماعت کرے گی اور فتنہ ڈالے گی.پس اگر کوئی جماعت خلافت کی منکر نہ ہوتی تو یہ رویا کس طرح پوری ہوتی.(۲) لوگ کہتے ہیں کہ خلافت کا انکار کرنے والے بڑے آدمی ہیں.ہم بھی کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑے لوگوں کی نسبت ہی لکھتے ہیں کہ ”پس جو شخص در حقیقت اپنی جان اور مال اور آبرو کو اس راہ میں بیچتا نہیں میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ خدا کے نزدیک بیعت میں داخل نہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ظاہری بیعت کرنے والے بہت ایسے ہیں کہ نیک ظنی کا مادہ بھی ہنوز ان میں کامل نہیں اور ایک کمزور بچہ کی طرح

Page 138

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۰ جلد اول ہے.66 ہر ایک ابتلاء کے وقت ٹھو کر کھاتے ہیں اور بعض بد قسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں اور بد گمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے کتا مردار کی طرف.پس میں کیونکر کہوں کہ وہ حقیقی طور پر بیعت میں داخل ہیں مجھے وقتاً فوقتاً ایسے آدمیوں کا علم بھی دیا جاتا ہے.مگر اِذن نہیں دیا جاتا کہ ان کو مطلع کروں.کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے.پس مقام خوف ہے.اگر یہ بات جو روز ازل سے مقدر ہو چکی تھی اور جس کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وقتا فوقتا دی جاتی تھی اُس وقت اس طرح پوری نہ ہوتی کہ جو بڑے تھے وہ چھوٹے نہ کئے جاتے اور وہ جماعت جس کو دبایا جاتا تھا اس کو بڑھایا نہ جاتا تو کس طرح اس کی صداقت ثابت ہوتی.(۳) پھر اگر جماعت احمدیہ کے دو گروہ نہ ہوتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کس طرح پورا ہوتا کہ ”خدا دو مسلمان فریق میں سے ایک کا ہوگا.پس یہ پھوٹ کا ثمرہ کل یعنی جماعت کے دو گروہ ہو جائیں گے اور ان میں سے خدا ایک کے ہی ساتھ ہوگا.اگر کوئی کہے کہ اس سے مراد احمدی اور غیر احمدی ہیں اور اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ وہ اس اختلاف میں احمدیوں کے ساتھ ہوگا تو ہم کہتے ہیں کہ اگر اس سے احمدی اور غیر احمدی مراد ہیں تو الہام اس طرح ہونا چاہیے تھا کہ اللہ ایک کا ہے نہ کہ اللہ ایک کا ہوگا کیونکہ حضرت صاحب کا الہام ہے اِنّى مَعَكَ وَمَعَ اَهْلِكَ وَمَعَ كُلّ مَنْ اَحَبَّكَ ( ترجمہ ) میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں اور ان تمام کے ساتھ جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں یا رکھیں گے.ولے یعنی اللہ تعالیٰ اس وقت احمدیوں کے ساتھ ہے.مگر اس الہام کا لفظ ” ہوگا ثابت کرتا ہے کہ اللہ کسی آئندہ زمانہ میں ایک کا ہوگا.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس الہام میں احمدی جماعت کے دو گروہوں کی طرف اشارہ ہے.پس اگر موجودہ فتنہ نہ ہوتا تو یہ الہام کس طرح پورا ہوتا ؟ (۴) پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحبت یافتہ اور آپ کے بڑے پیارے دوستوں میں سے ہیں.ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے ایک وقت آپ ایسے ہی تھے لیکن کیا آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ الہام یا دنہیں ہے جو کہ شیخ رحمت اللہ صاحب " 66 스

Page 139

۱۲۱ جلد اول خلافة على منهاج النبوة ،، کے دعا کے عرض کرنے پر صبح کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سنایا تھا کہ میں نے آپ کے لئے دعا کی تھی اور مجھے یہ الہام ہوا ہے شَرُّ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ( ترجمه ) شرارت ان لوگوں کی جن پر تو نے انعام کیا." آج اگر اس فتنہ میں بعض وہ لوگ شامل نہ ہوتے جن پر حضرت صاحب انعام فرماتے تھے تو وہ الہام کیونکر پورا ہوتا خصوصاً وہ شخص کہ جس کو مخاطب کر کے آپ نے اپنا یہ الہام سنایا.(۵) ایک ۱۳/ مارچ ۱۹۰۷ء کا الہام ہے ۱۳؍ مارچ کو ہی حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فوت ہوئے.۱۳/ مارچ کو ہی لاہور سے ٹریکٹ شائع ہوا.اگر یہ ٹریکٹ شائع نہ ہوتا تو یہ الہام کہ لاہور میں ایک بے شرم ہے ، کس طرح پورا ہوتا.(1) کہتے ہیں پہلے ہمیں نیک کہا جاتا تھا اب کیوں بُرا بھلا کہا جاتا ہے.ہم کہتے ہیں کہ انسان کی حالت بدلتی رہتی ہے.نیک بد اور بد نیک ہو جاتے ہیں مبارک انسان وہی ہے جس کا انجام بخیر ہو.پھر اگر اس فتنہ میں بعض لوگ شامل نہ ہوتے جن کو ہم پہلے صالح سمجھا کرتے تھے اور جن کے نیک ارادے ہوا کرتے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کشف کہ آپ نے مولوی محمد علی صاحب کو رویا میں کہا.آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے.آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ کیونکر پورا ہوتا.(۷) پھر اگر کوئی لاہور میں ۱۹۰۹ء میں لاہور کی جماعت کو جمع کر کے ان سے اس بات کے لئے انگوٹھے نہ لگواتا اور دستخط نہ کروا تا کہ خلیفہ المسیح کا کوئی دخل نہیں ہے اصل خلیفہ انجمن ہی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ رویا کس طرح پورا ہوتا کہ چھوٹی مسجد کے او پر تخت بچھا ہوا ہے اور میں اُس پر بیٹھا ہوا ہوں اور میرے ساتھ ہی مولوی نورالدین صاحب بھی بیٹھے ہوئے ہیں ایک شخص ( اس کا نام ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ) دیوانہ وار ہم پر حملہ کرنے لگا.میں نے ایک آدمی کو کہا کہ اس کو پکڑ کر مسجد سے نکال دو.اور اس کو سیڑھیوں سے نیچے اُتار دیا ہے.وہ بھاگتا ہوا چلا گیا.اور یادر ہے کہ مسجد سے مراد جماعت ہوتی ہے.(۸) پھر میں کہتا ہوں کہ اس فتنہ کے دوران میں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے

Page 140

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۲ جلد اول خاندان پر حملہ نہ کیا جاتا ( اور حضور کے ) اہل بیت کے مقابلہ میں بدزبانی کی تلوار نہ کھینچی جاتی تو یہ الہام کہ اے میرے اہل بیت ! خدا تمہیں شر سے محفوظ رکھے.۲۳ کس طرح پورا ہوتا.اگر کوئی شر کھڑا ہی نہیں ہونا تھا تو خدا تعالیٰ نے یہ کیوں کہا تھا ؟ 66 (۹) پھر اگر ان کے چال چلن پر حملہ نہ کیا جاتا تو إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ ۲۴ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَكُمْ تَطْهِيراً " اے اہلِ بیت ! خدا تعالیٰ نے تم سے ناپاکی دور کرنے کا ارادہ کیا ہے اور تم کو ایسا پاک کرے گا جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے کس طرح سچا ثابت ہوتا ؟ (۱۰) اگر بعض لوگ یہ نہ کہتے کہ حضرت اماں جان ) خلافت کے لئے منصوبے باندھتی رہی ہیں اور عورتوں میں اس بات کو پھیلاتی رہی ہیں اور اُنہوں نے اپنی مرضی کے لئے خدا تعالیٰ کی رضا کو چھوڑ دیا ہے تو یہ خواب کیونکر پوری ہوتی جو آپ نے ۱۹ / مارچ ۱۹۰۷ ء کو دیکھی اور فرمایا خواب میں میں نے دیکھا کہ میری بیوی مجھے کہتی ہے کہ ”میں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے اس پر میں نے اُن کو جواب میں یہ کہا.اسی سے تو تم پر 'سن چڑھا ہے.۲۵ (11) ہاں اگر میری عداوت کی وجہ سے میرے ان چھوٹے بھائیوں پر حملے نہ کئے جاتے جو ابھی تک عملی میدان میں داخل ہی نہیں ہوئے اور ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو حضرت صاحب کی یہ خواب جو آپ نے ۲۱ / اگست ۱۹۰۶ء کو سنائی تھی کس طرح پوری ہوتی فرمایا ”شب گزشتہ کو میں نے خواب میں دیکھا کہ اس قدر زنبور ہیں ( جن سے مراد کمینہ دشمن ہیں ) کہ تمام سطح زمین اُن سے پُر ہے اور ٹڈی دل سے زیادہ ان کی کثرت ہے.اس قدر ہیں کہ زمین کو قریباً ڈھانک دیا ہے اور تھوڑے ان میں سے پرواز بھی کر رہے ہیں جو نیش زنی کا ارادہ رکھتے ہیں مگر نا مرا در ہے اور میں اپنے لڑکوں شریف اور بشیر کو کہتا ہوں کہ قرآن شریف کی یہ آیت پڑھو اور بدن پر پھونک لو کچھ نقصان نہیں کریں گے اور وہ آیت یہ ہے وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ (۱۲) اگر قادیان کے رہنے والوں پر حملے نہ کئے جاتے تو خدا تعالیٰ کو یہ کہنے کی کیا

Page 141

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۳ جلد اول ضرورت تھی کہ وَلَا تَسْتَمْ مِنَ النَّاسِ أَصْحَابُ الصُّفَّةِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا أَصْحَابُ الصُّفَّةِ تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ.(۱۳) اس وقت قادیان کو چھوڑ کر اگر لاہور کو مدینتہ امسیح نہ بنایا جانا ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آج سے تیس سال پہلے یہ کیوں دکھایا جاتا کہ قادیان کا نام قرآن شریف کے نصف میں لکھا ہوا ہے اور یہ دکھایا گیا کہ دنیا میں عزت والے تین گاؤں ہیں ایک مکہ، دوسرامد بینہ اور تیسرا قادیان - ۲۸ جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے.پھر یہ الہام کیوں ہوتا کہ ” خدا قادیان میں نازل ہوگا ۲۹ اگر لاہور کو قادیان کے مقابلہ میں نہ کھڑا کیا جانا ہوتا تو اس طرح خصوصیت سے قادیان کا کیوں ذکر ہوتا.66 (۱۴) اگر خاندانِ نبوت پر کوئی اعتراض کرنے والا نہ ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام الوصیت میں یہ کیوں تحریر فرماتے.میری نسبت اور میرے اہل وعیال کی نسبت خدا نے استثناء رکھا ہے.باقی ہر ایک مرد ہو یا عورت ان کو شرائط کی پابندی لازم ہوگی اور شکایت کرنے والا منافق ہوگا “.۳۰ پس اس فتنہ کو کوئی روک نہیں سکتا تھا اور کیونکر کوئی روک سکتا جب کہ خدا نے مقدر کر رکھا تھا اس لئے ایسا ہونا ضروری تھا اور ہوا.مگر جس طرح کسی کا ہاتھ بیماری کی وجہ سے خراب ہو جاتا ہے تو وہ مجبوراً اسے کٹا دیتا ہے لیکن اس ہاتھ کٹانے پر وہ خوش نہیں ہوتا ہاں اس کو اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ ہاتھ کٹانے سے باقی جسم تو بیچ گیا ہے اسی طرح ہمیں بھی اس بات کا در دتو ہے کہ ایک حصہ جماعت کا کٹ گیا ہے مگر خوشی بھی ہے کہ باقی جماعت تو اس کے مصر اثر سے بچ گئی ہے.اب میں وہ شہادتیں پیش کرتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے اس معاملہ کے متعلق دی ہیں.گو دل چاہتا تھا کہ یہ فتنہ نہ اُٹھتا مگر ان الہامات اور رؤیا کی صداقت کیونکر ظاہر ہوتی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس فتنہ کی نسبت قبل از وقت دکھلائی گئی تھیں اور میرے لئے تو ان تمام فسادات میں یہ الہامات ہی خضر راہ کا کام دینے کے لئے کافی تھے مگر میرے ربّ نے مجھے خود بھی آگاہ کرنا پسند فرمایا اور یہ اس کا ایک ایسا احسان ہے جس کا شکر میں جس قدر

Page 142

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۴ جلد اول بھی بجا لاؤں تھوڑا ہے.اور میں چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے لئے جو صداقت کے قبول کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ان شہادتوں کو بیان کر دوں جو اللہ تعالیٰ نے ان تمام فتن کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ظاہر ہوئے میرے لئے ظاہر فرمائیں جن سے میرے دل کو تسلی اور تسکین ہوئی کہ جو راہ میں اختیار کر رہا ہوں وہی درست ہے اور بعض آئندہ کی خبر میں ایسی بتائیں جن کے پورا ہونے سے میرا ایمان تازہ ہوا.خلافت کے متعلق جس قدر خلافت کے جھگڑا کے متعلق آسمانی شہادت جھگڑے ہیں ان کی بنیا داسی مسئلہ پر ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کا خلیفہ ہونا چاہیے یا نہیں.اگر یہ فیصلہ ہو جائے تو اصول مباحث سب کے ہو جاتے ہیں اور صرف ذاتیات کا پردہ رہ جاتا ہے پس سب سے پہلے میں اسی کے متعلق ایک آسمانی شہادت پیش کرتا ہوں جس کے بعد میں نہیں خیال کرتا کہ کوئی سعید انسان خلافت کا انکار کرے.۱۸ مارچ ۱۹۰۷ء کی بات ہے کہ رات کے وقت رؤیا میں مجھے ایک کاپی الہاموں کی دکھائی گئی اس کی نسبت کسی نے کہا کہ یہ حضرت صاحب کے الہاموں کی کاپی ہے اور اس میں موٹا لکھا ہوا ہے عَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ یعنی کچھ بعید نہیں کہ تم ایک بات کو نا پسند کرو لیکن وہ تمہارے لئے خیر کا موجب ہو.اس کے بعد نظارہ بدل گیا اور دیکھا کہ ایک مسجد ہے اس کے متولی کے برخلاف لوگوں نے ہنگامہ کیا ہے اور میں ہنگامہ کرنے والوں میں سے ایک شخص کے ساتھ باتیں کرتا ہوں.باتیں کرتے کرتے اس سے بھاگ کر الگ ہو گیا ہوں اور یہ کہا کہ اگر میں تمہارے ساتھ ملوں گا تو مجھ سے شہزادہ خفا ہو جائے گا.اتنے میں ایک شخص سفید رنگ آیا ہے اور اس نے مجھے کہا کہ مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے تین درجے ہیں.ایک وہ جو صرف نماز پڑھ لیں یہ لوگ بھی اچھے ہیں.دوسرے وہ جو مسجد کی انجمن میں داخل ہو جا ئیں.تیسرا متولی.اس کے ساتھ ایک اور خواب بھی دیکھی لیکن اس کے یہاں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.ان دونوں رویا پر اگر کوئی شخص غور کرے تو اُسے معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود

Page 143

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۵ جلد اول علیہ السلام کی وفات سے بھی ایک سال اور چند ماہ پہلے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس فتنہ خلافت کے متعلق خبر دے دی تھی اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب خلافت کا سوال ہی کسی کے ذہن میں نہیں آ سکتا تھا اور انجمن کا کاروبار بھی ابھی نہیں چلا تھا.بہت تھوڑی مدت اس کے قیام کو ہوئی تھی اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن یہ نوزائیدہ انجمن مسیح موعود علیہ السلام کی جانشین ہونے کا دعوی کرے گی بلکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ احمدیوں کے دماغ میں وہم کے طور پر بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ حضرت صاحب فوت ہوں گے بلکہ ہر ایک شخص با وجود اشاعت وصیت کے غالباً یہ خیال کرتا تھا کہ یہ واقعہ ہماری وفات کے بعد ہی ہوگا اور اس میں شک ہی کیا ہے کہ عاشق اپنے معشوق کی موت کا وہم بھی نہیں کر سکتا اور یہی حال جماعت احمدیہ کا تھا.پس ایسے وقت میں خلافت کے جھگڑے کا اس وضاحت سے بتا دینا اور اس خبر کا حرف بہ حرف پورا ہونا ایک ایسا ز بر دست نشان ہے کہ جس کے بعد متقی انسان کبھی بھی خلافت کا انکار نہیں کر سکتا.کیا کوئی انسان ایسا کر سکتا ہے کہ ایک واقعہ سے دو سال پہلے اس کی خبر دے اور ایسے حالات میں دے کہ جب کوئی سامان موجود نہ ہو اور وہ خبر دوسال بعد بالکل حرف بہ حرف پوری ہوا اور خبر بھی ایسی ہو جو ایک قوم کے ساتھ تعلق رکھتی ہو.دیکھو ان دونوں رویا سے کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ کوئی واقعہ ہوگا جو بظا ہر خطرناک معلوم ہوگا لیکن در حقیقت نہایت نیک نتائج کا پیدا کرنے والا ہو گا چنانچہ خلافت کا جھگڑا جو ۱۹۰۹ء میں بر پا ہوا گو نہایت خطرناک معلوم ہوتا تھا مگر اس کا یہ عظیم الشان فائدہ ہوا کہ آئندہ کے لئے جماعت کو خلافت کی حقیقت معلوم ہوگئی اور حضرت خلیفہ اسیح کو اس بات کا علم ہو گیا کہ کچھ لوگ خلافت کے منکر ہیں اور آپ اپنی زندگی میں برابر اس امر پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور خلافت جماعت کے قیام کے لئے ضروری ہے اور ان نصائح سے گو بانیانِ فساد کو فائدہ نہ ہوا ہو لیکن اس وقت سینکڑوں ایسے آدمی ہیں جن کو ان وعظوں سے فائدہ ہوا اور وہ اس وقت ٹھوکر سے اس لئے بچ گئے کہ اُنہوں نے مُخْتَلَفٌ فِيهَا مسائل کے متعلق بہت کچھ خلیفہ اول سے سنا ہوا تھا.پھر دوسری رؤیا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسجد ہے اس کے متولی کے خلاف کچھ لوگوں

Page 144

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۶ جلد اول نے بغاوت کی ہے.اب مسجد کی تعبیر جماعت لکھی ہے.پس اس رؤیا سے معلوم ہوا کہ ایک جماعت کا ایک متولی ہوگا.( متولی اور خلیفہ بالکل ہم معنی الفاظ ہیں ) اور اس کے خلاف کچھ لوگ بغاوت کریں گے اور ان میں سے کوئی مجھے بھی ورغلانے کی کوشش کرے گا مگر میں ان کے پھندے میں نہیں آؤں گا اور ان کو صاف کہہ دوں گا کہ اگر میں تمہارے ساتھ ملوں گا تو شہزادہ مجھ سے ناراض ہو جائے گا.اور جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات دیکھتے ہیں تو آپ کا نام شہزادہ بھی رکھا گیا ہے.پس اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو لوگ ان باغیوں کے ساتھ شامل ہوں گے ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ناراض ہوں گے ( یعنی ان کا یہ فعل مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف ہوگا ) یہ تو اس فتنہ کی کیفیت ہے جو ہونے والا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بتا دیا کہ یہ فتنہ کون کرے گا.اور وہ اس طرح کہ اس امر سے کہ متولی کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے شہزادہ ناراض ہو جائے گا یہ بتایا گیا ہے کہ متولی حق پر ہے اور باغی ناحق پر اور پھر یہ بتا کر کہ مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والے دوسرے دو گروہوں یعنی عام نمازیوں اور انجمن والوں میں سے عام نمازی اچھے ہیں ) بتا دیا کہ یہ فتنہ عام جماعت کی طرف سے نہ ہو گا.اب ایک ہی گروہ رہ گیا یعنی انجمن پس وہی باغی ہوئی.لیکن میری علیحدگی سے یہ بتا دیا کہ میں باوجود ممبرانجمن ہونے کے ان فتنہ پردازوں سے الگ رہوں گا.یہ رویا ایسی کھلی اور صاف ہے کہ جس قدر غور کرو اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور خلافت کی صداقت کا ثبوت ایسے کھلے طور پر ملتا ہے کہ کوئی شقی ہی انکار کرے تو کرے.اس رؤیا کے گواہ شاید کوئی شخص کہہ دے کہ ہم نے مانا کہ یہ رویا نہایت واضح ہے لیکن اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ واقعہ میں آپ نے کوئی ایسی رؤیا دیکھی بھی ہے یا نہیں اور جب تک اس بات کا ثبوت نہ ملے تو اس رؤیا کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہو سکتی اور اس کا کہنا بالکل بجا ہوگا اس لئے میں اپنی صداقت کے لئے گواہ کے طور پر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیش کرتا ہوں.شاید بعض لوگوں کو تعجب ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فوت ہو چکے ہیں آپ کیونکر اس دنیا میں واپس آ کر میری

Page 145

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۷ جلد اول صداقت کی گواہی دے سکتے ہیں تو میں ان کو بتاتا ہوں کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی وہ اس بات کی شہادت دے دیں گے کہ واقعہ میں ۸/ مارچ کو میں نے یہ رویا دیکھی تھی اور وہ اس طرح کہ جس رات کو میں نے یہ رویا دیکھی اُسی صبح کو حضرت والد ماجد کو سنایا.آپ سن کر نہایت متفکر ہوئے اور فرمایا کہ مسجد سے مراد تو جماعت ہوتی ہے شاید میری جماعت کے کچھ لوگ میری مخالفت کریں یہ رؤیا مجھے لکھوا دے.چنانچہ میں لکھوا تا گیا اور آپ اپنی الہاموں کی کاپی میں لکھتے گئے.پہلے تاریخ لکھی پھر یہ لکھا کہ محمود کی رؤیا ، پھر تینوں رویا لکھیں.ان تینوں رویا کے اردگرد اس سے پہلی اور پچھلی تاریخوں کے الہام حضرت صاحب کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے موجود ہیں.( کا پی لوگوں کو دکھائی گئی ) اور یہ کاپی اب تک میرے پاس ہے اور ہر ایک طالب حق کو دکھائی جاسکتی ہے جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستخط پہچانتے ہیں وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ یہ سب کاپی حضرت صاحب کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور کئی سال کے الہام اس میں درج ہیں اور یہ میری رویا بھی آپ ہی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی اس میں موجود ہے.یہ ایک ایسی شہادت ہے کہ کوئی احمدی اس کا انکار نہیں کر سکتا کیونکہ ایسے کھلے کھلے نشان کا جو شخص انکار کرے گا اسے ہر ایک صداقت کا انکار کرنا پڑے گا.اس رؤیا کے معلوم کر لینے کے بعد ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ کیوں مجھے خلافت کے مسئلہ میں اس قدر یقین اور تسلی ہے اور کیوں میں ہر ایک مقابلہ کی پرواہ نہ کر کے فتنہ کے وقت خلافت کا مُمد و معاون رہا ہوں.میں اس شک کو بھی دور کر دینا چاہتا ہوں کہ کیوں اس رؤیا کو شیطانی نہ خیال کیا جائے اور وہ اس طرح کہ اوّل تو اس رویا کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدر کی نگاہوں سے دیکھا اور لکھ لیا اور اپنے الہاموں کی کاپی میں لکھا.پھر یہ رؤیا دوسال بعد حرف بہ حرف پوری ہوئی اور جو رؤیا اس شان کے ساتھ پوری ہو وہ شیطانی نہیں ہوسکتی کیونکہ پھر شیطان اور رحمن کے کلام میں کیا فرق رہ جائے گا؟ اور کیوں نہ لوگ ہر ایک الہام کو شیطانی کہہ دیں گے.

Page 146

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۸ جلد اول مسئلہ خلافت کے متعلق دوسری آسمانی شہادت ۱۹۰۹ء کی بات ہے ابھی مجھے خلافت کے متعلق کسی جھگڑے کا علم نہ تھا صرف ایک صاحب نے مجھ سے حضرت خلیفہ امسیح خلیفہ اول کی خلافت کے قریباً پندرہویں دن کہا تھا کہ میاں صاحب اب خلیفہ کے اختیارات کے متعلق کچھ غور کرنا چاہیے جس کے جواب میں میں نے اُن سے کہا کہ یہ وقت وہ تھا کہ سلسلہ خلافت قائم نہ ہوا تھا جب کہ ہم نے بیعت کر لی تو اب خادم مخدوم کے اختیارات کیا مقرر کریں گے.جس کی بیعت کی اُس کے اختیارات ہم کیونکر مقرر کر سکتے ہیں.اس واقعہ کے بعد کبھی مجھ سے اس معاملہ کے متعلق کسی نے گفتگو نہ کی تھی اور میرے ذہن سے یہ واقعہ اُتر چکا تھا کہ جنوری ۱۹۰۹ء میں میں نے یہ رویا دیکھی کہ ایک مکان ہے بڑا عالیشان سب تیار ہے لیکن اُس کی چھت ابھی پڑنی باقی ہے.کڑیاں پڑ چکی ہیں ان پر اینٹیں رکھ کر مٹی ڈال کر کوٹنی باقی ہے.ان کڑیوں پر کچھ پھونس پڑا ہے اور اس کے پاس میر محمد اسحق صاحب کھڑے ہیں اور ان کے پاس میاں بشیر احمد اور شار احمد مرحوم ( جو پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی کا صاحبزادہ تھا ) کھڑے ہیں.میر محمد اسحق صاحب کے ہاتھ میں ایک ڈبیہ دیا سلائیوں کی ہے اور وہ اس پھونس کو آگ لگانی چاہتے ہیں.میں انہیں منع کرتا ہوں کہ ابھی آگ نہ لگائیں نہیں تو کڑیوں کو آگ لگنے کا خطرہ ہے.ایک دن اس پھونس کو جلایا تو جائے گا ہی لیکن ابھی وقت نہیں.بڑے زور سے منع کر کے اور اپنی تسلی کر کے میں وہاں سے کو ٹا ہوں لیکن تھوڑی دُور جا کر میں نے پیچھے سے کچھ آہٹ سنی اور منہ پھیر کر کیا دیکھتا ہوں کہ میر محمد اسحق صاحب دیا سلائی کی تیلیاں نکال کر اس کی ڈبیہ سے جلدی جلدی رگڑتے ہیں وہ نہیں جلتیں پھر اور نکال کر ایسا ہی کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد اس پھونس کو آگ لگا دیں.میں اس بات کو دیکھ کر واپس بھا گا کہ ان کو روکوں لیکن میرے پہنچتے پہنچتے انہوں نے آگ لگا دی تھی.میں اس آگ میں کود پڑا اور اسے میں نے بجھا دیا لیکن تین کڑیوں کے سرے جل گئے.یہ خواب میں نے اُسی دن دو پہر کے وقت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو سنائی جوسن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ یہ خواب تو پوری ہوگئی ہے اور اُنہوں نے مجھے بتایا کہ میر محمد اسحق

Page 147

خلافة على منهاج النبوة ۱۲۹ جلد اول صاحب نے چند سوالات لکھ کر حضرت خلیفہ ایچ کو دیے ہیں جن سے ایک شور پڑ گیا ہے.اس کے بعد میں نے حضرت خلیفتہ امیج کو یہ رویا لکھ کر دی اور آپ نے وہ رقعہ پڑھ کر فرمایا کہ خواب پوری ہو گئی ہے اور ایک کاغذ پر مفصل واقعہ لکھ کر مجھے دیا کہ پڑھ لو.جب میں نے پڑھ لیا تو لے کر پھاڑ دیا.اس رؤیا کے گواہ مولوی سید سرور شاہ صاحب ہیں ان سے دریافت کیا جا سکتا ہے.چنانچہ یہ رویا حرف بہ حرف پوری ہوئی اور ان سوالات کے جواب میں بعض آدمیوں کا نفاق ظاہر ہو گیا اور ایک خطر ناک آگ لگنے والی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اُس وقت اپنے فضل سے بجھا دی.ہاں کچھ کڑیوں کے سرے جل گئے اور ان کے اندر ہی اندر یہ آگ دہکتی رہی.اس خواب میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یہ پھونس آخر جلا ہی دیا جائے گا اور بعد میں ایسا ہی ہوا.مسئلہ خلافت کے متعلق تیسری آسمانی شہادت ابھی کسی جلسہ وغیرہ کی تجویز نہ تھی ہاں خلافت کے متعلق فتنہ ہو چکا تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک جلسہ ہے اور اس میں حضرت خلیفہ اول کھڑے تقریر کر رہے ہیں اور تقریر مسئلہ خلافت پر ہے اور جو لوگ آپ کے سامنے بیٹھے ہیں ان میں سے کچھ مخالف بھی ہیں.میں آیا اور آپ کے دہنے کھڑا ہو گیا اور کہا کہ حضور کوئی فکر نہ کریں ہم لوگ پہلے مارے جائیں گے تو پھر کو ئی شخص حضور تک پہنچ سکے گا ہم آپ کے خادم ہیں.چنانچہ یہ خواب حضرت خلیفہ اول کو سنائی جب جلسہ کی تجویز ہوئی اور احباب بیرون جات سے مسئلہ خلافت پر مشورہ کے لئے جمع ہوئے اور چھوٹی مسجد کے صحن میں حضرت خلیفہ اول کھڑے ہوئے کہ تقریر فرمائیں تو میں آپ کے بائیں طرف بیٹھا تھا آپ نے اس رؤیا کی بناء پر مجھے وہاں سے اُٹھا کر دوسری طرف بیٹھنے کا حکم دیا اور اپنی تقریر کے بعد مجھے بھی کچھ بولنے کے لئے فرمایا اور میں نے ایک مضمون جس کا مطلب اس قسم کا تھا کہ ہم تو آپ کے بالکل فرمانبردار ہیں بیان کیا.مسئلہ خلافت پر چوتھی آسمانی شہادت جب خلافت کا جھگڑا شروع ہوا تو گو مجھے وہ رویا بھی ہو چکی تھی جس کا ذکر

Page 148

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۰ جلد اول میں پہلے کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی موجود ہے اور وہ دوسری رؤیا بھی دیکھ چکا تھا جس میں میر محمد الحق صاحب کے سوالات سے منافقوں کے سر جلنے کا پتہ دیا گیا تھا لیکن پھر بھی طبیعت پر ایک بوجھ تھا اور میں چاہتا تھا کہ زیادہ وضاحت سے مجھے اس مسئلہ کی نسبت کچھ بتایا جائے اور میں نے اپنے رب کے حضور میں بار بار عرض کی کہ الہی ! مجھے حق کا پتہ دیا جائے اور صداقت مجھ پر کھول دی جائے اور جو بات سچ ہو وہ مجھے بتا دی جائے کیونکہ مجھے کسی پارٹی سے تعلق نہیں بلکہ صرف حضور کی رضا حاصل کرنے کا شوق ہے.جس قدردن جلسہ میں باقی تھے ان میں میں برابر یہ دعا کرتا رہا لیکن مجھے کچھ نہ بتایا گیا حتی کہ وہ رات آگئی جس دن صبح کو وہ جلسہ تھا جس میں یہ سوالات پیش ہونے تھے اور اُس رات میرا کرب بڑھ گیا اور میرا دل دھڑ کنے لگا اور میں گھبرا گیا کہ اب میں کیا کروں.اُس رات میں بہت ہی گڑ گڑایا اور عرض کیا کہ الہی ! صبح کو یہ معاملہ پیش ہوگا حضور مجھے بتائیں کہ میں کس طرف ہوں.اس وقت تک تو میں خلافت کو حق سمجھتا ہوں لیکن مجھے حضور کی رضا مطلوب ہے کسی اپنے اعتقاد پر اصرار نہیں میں حضور سے ہی اس مسئلہ کا حل چاہتا ہوں تا میرے دل کو تسلی ہو.پس صبح کے وقت میری زبان پر یہ الفاظ جو قرآن کریم کی ایک آیت ہے جاری کئے گئے قُل مَا يَحْبُوا بِكُم ربي لولا دُعا دعم اسے کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پر واہ ہی کیا کرتا ہے.اس کے بعد مجھے تسلی ہوگئی اور میں نے خیال کیا کہ میں حق پر ہوں کیونکہ لفظ محمل نے بتا دیا ہے کہ میرا خیال درست ہے تبھی تو مجھے حکم ہوا کہ میں لوگوں کو حکم الہی سنا دوں اور اگر میرا عقیدہ غلط ہوتا تو یہ الفاظ ہوتے کہ قُل مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَتي لَولا دُعَاؤُكُمْ میں نے یہ الفاظ کئی لوگوں کو سنا دیئے تھے مگر اب یا دنہیں کہ کس کس کو سنائے تھے.مسئلہ خلافت پر پانچویں آسمانی شہادت میں نے حضرت علیہ اسی کی وفات سے تین سال پہلے ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر یہ تھی کہ آپ کی وصیت سے نواب صاحب کا بھی کچھ تعلق.چنانچہ تین سال بعد اللہ تعالیٰ نے اس رویا کو پورا کر کے دکھا دیا کہ وہ کیسا زبردست ہے.ہے.

Page 149

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۱ جلد اول مسئلہ خلافت پر چھٹی آسمانی شہادت ۱۹۱۳ء میں میں ستمبر کے مہینہ میں چند دن کے لئے شملہ گیا تھا.جب میں یہاں سے چلا ہوں تو حضرت خلیفہ المسیح کی طبیعت اچھی تھی لیکن وہاں پہنچ کر میں نے پہلی یا دوسری رات دیکھا کہ رات کا وقت ہے اور قریباً دو بجے ہیں میں اپنے کمرہ میں ( قادیان میں ) بیٹھا ہوں.مرزا عبد الغفور صاحب ( جو کلانور کے رہنے والے ہیں ) میرے پاس آئے اور نیچے سے آواز دی میں نے اُٹھ کر ان سے پوچھا کہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت خلیفۃ اصبح کو سخت تکلیف ہے تپ کی شکایت ہے ایک سو دو کے قریب تپ ہو گیا تھا آپ نے مجھے بھیجا ہے کہ میاں صاحب کو جا کر کہہ دو کہ ہم نے اپنی وصیت شائع کر دی ہے مارچ کے مہینہ کے بدر میں دیکھ لیں.جب میں نے یہ رؤیا دیکھی تو سخت گھبرایا اور میرا دل چاہا کہ واپس لوٹ جاؤں لیکن میں نے مناسب خیال کیا کہ پہلے دریافت کرلوں کہ کیا آپ واقع میں بیمار ہیں.سو میں نے وہاں سے تار دیا کہ حضور کا کیا حال ہے؟ جس کے جواب میں حضرت نے لکھا کہ اچھے ہیں.یہ رویا میں نے اُسی وقت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کو اور مولوی سید سرور شاہ صاحب کو سنا دی تھی اور غالباً نواب صاحب کے صاحبزادگان میاں عبدالرحمن خان صاحب، میاں عبداللہ خان صاحب ، میاں عبدالرحیم خان صاحب میں سے بھی کسی نے وہ رؤیا سنی ہوگی کیونکہ وہاں ایک مجلس میں میں نے اس رؤیا کو بیان کر دیا تھا.اب دیکھنا چاہیے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت مجھے حضرت کی وفات کی خبر دی اور چار باتیں ایسی بتائیں کہ جنہیں کوئی شخص اپنے خیال اور اندازہ سے دریافت نہیں کر سکتا.اول تو یہ کہ حضور کی وفات تپ سے ہو گی.دوم یہ کہ آپ وفات سے پہلے وصیت کر جائیں گے.سوم یہ کہ وہ وصیت مارچ کے مہینہ میں شائع ہوگی.چہارم یہ کہ اس وصیت کا تعلق بدر کے ساتھ ہوگا.

Page 150

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۲ جلد اول اگر ان چاروں باتوں کے ساتھ میں یہ پانچویں بات بھی شامل کر دوں تو نا مناسب نہ ہوگا کہ اس رؤیا سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس وصیت کا تعلق مجھ سے بھی ہوگا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میری طرف آدمی بھیج کر مجھے اطلاع دینے سے کیا مطلب ہوسکتا تھا اور یہ ایک ایسی بات تھی کہ جسے قبل از وقت کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا تھا لیکن جب واقعات اپنے اصل رنگ میں پورے ہو گئے تو اب یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ اس رؤیا میں میری خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا لیکن چونکہ یہ بات وہم و گمان میں بھی نہ تھی اس لئے اُس وقت جب کہ یہ رویا دکھلائی گئی تھی اس طرف خیال بھی نہیں جا سکتا تھا.مندرجہ بالا پانچ نتائج جو اس رؤیا سے نکالے گئے ہیں ان سے چار تو صاف ہیں یعنی تپ سے وفات کا ہونا چنا نچہ ایسا ہی ہوا.وصیت کا کرنا وہ بھی صاف ہے کیونکہ آپ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت کر دی تھی.تیسرے مارچ میں وصیت کا ہونا وہ بھی ایک بالکل واضح ہے کیونکہ آپ نے مارچ ہی میں وصیت کی اور مارچ ہی میں وہ شائع ہوئی.پانچواں امر بھی صاف ہے کہ اس وصیت کا مجھ سے بھی کچھ تعلق تھا چنانچہ ایسا ہی ظاہر ہوا.لیکن چوتھی بات کہ بدر میں دیکھ لیں تشریح طلب ہے کیونکہ آپ کی وصیت جہاں الفضل ، الحکم، نور میں شائع ہوئی وہاں بدر میں شائع نہیں ہوئی کیونکہ وہ اُس وقت بند تھا.پس اس کے کیا معنی ہوئے کہ بدر میں دیکھ لیں.سو اس امر کے سمجھنے کے لئے یا د رکھنا چاہیے کہ رؤیا اور کشوف کبھی بالکل اصل شکل میں پورے ہوتے ہیں اور کبھی وہ تعبیر طلب ہوتے ہیں اور کبھی ان کا ایک حصہ تو اصل رنگ میں ظاہر ہوتا ہے اور ایک حصہ تعبیر طلب ہوتا ہے سو یہ خواب بھی اسی طرح کی ہے اور جہاں اس رویا میں سے چار امور بالکل صاف اور واضح طور پر پورے ہوئے ایک امر تعبیر طلب بھی تھا لیکن رؤیا کی صداقت پر باقی چار امور نے مہر کر دی تھی اور اس چوتھے امر کی تعبیر یہ تھی کہ بدر اصل میں پندرہویں رات کے چاند کو کہتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے رویا میں ایک قسم کا اخفاء رکھنے کے لئے مارچ کی چودھویں تاریخ کا نام چودھویں کی مشابہت کی وجہ سے بدر رکھا اور یہ بتایا کہ یہ واقعہ چودہ تاریخ کو ہو گا.چنانچہ وصیت با قاعدہ طور پر جو شائع ہوئی یعنی اس کے امین نواب محمد علی خان صاحب نے پڑھ کر سنائی تو چودہ تاریخ کو ہی

Page 151

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۳ جلد اول سنائی اور اسی تاریخ کو خلافت کا فیصلہ ہوا.مسئلہ خلافت کے متعلق ساتویں آسمانی شہادت اس بات کوقریبا تین چار سال کا عرصہ ہوا یا کچھ کم کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں گاڑی میں سوار ہوں اور گاڑی ہمارے گھر کی طرف جا رہی ہے کہ راستہ میں کسی نے مجھے حضرت خلیفہ المسیح کی وفات کی خبر دی تو میں نے گاڑی والے کو کہا کہ جلدی دوڑاؤ تا میں جلدی پہنچوں.یہ رویا بھی میں نے حضرت کی وفات سے پہلے ہی بہت سے دوستوں کو سنائی تھی (جن میں سے چند کے نام یاد ہیں.نواب محمد علی خان صاحب ، مولوی سید سرور شاہ صاحب ، شیخ یعقوب علی صاحب ، حافظ روشن علی صاحب اور غالباً ماسٹر محمد شریف صاحب بی.اے پلیڈر چیف کورٹ لاہور ) کہ مجھے ایک ضروری امر کے لئے حضرت کی بیماری میں لاہور جانے کی ضرورت ہوئی اور چونکہ حضرت کی حالت نازک تھی میں نے جانا مناسب نہ سمجھا اور دوستوں سے مشورہ کیا کہ میں کیا کروں؟ اور ان کو بتایا کہ میں جانے سے اس لئے ڈرتا ہوں کہ میں نے رویا میں گاڑی میں سواری کی حالت میں حضرت کی وفات دیکھی ہے.پس ایسا نہ ہو کہ یہ واقعہ ابھی ہو جائے.پس میں نے یہ تجویز کی کہ ایک خاص آدمی بھیج کر اس ضرورت کو رفع کیا.لیکن منشائے الہی کو کون روک سکتا ہے.چونکہ حضرت ، نواب صاحب کے مکان پر رہتے تھے میں بھی وہیں رہتا تھا اور وہیں سے جمعہ کے لئے قادیان آتا تھا.جس دن حضور فوت ہوئے میں حسب معمول جمعہ پڑھانے قادیان آیا اور جیسا کہ میری عادت تھی نماز کے بعد بازار کے راستہ سے واپس جانے کے لئے تیار ہوا کہ اتنے میں نواب صاحب کی طرف سے پیغام آیا کہ وہ احمد یہ محلہ میں میرے منتظر ہیں اور مجھے بلاتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے مجھ سے کچھ بات کرنی ہے.میں وہاں گیا تو ان کی گاڑی تیار تھی اس میں وہ بھی بیٹھ گئے اور میں بھی اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسٹنٹ سرجن بھی ہمارے ساتھ تھے.گاڑی آپ کی کوٹھی کی طرف روانہ ہوئی اور جس وقت اُس سڑک پر چڑھ گئی جو مدرسہ تعلیم الاسلام کی گراؤنڈ میں تیار کی گئی ہے تو آپ کا ایک ملازم دوڑتا ہوا آیا کہ حضور فوت ہو گئے ہیں اُس وقت میں بے اختیار ہو کر آگے بڑھا اور ا

Page 152

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۴ جلد اول گاڑی والے کو کہا کہ گاڑی دوڑاؤ اور جلد پہنچاؤ.اُسی وقت نواب صاحب کو وہ رؤیا یاد آ گئی اور آپ نے کہا کہ وہ رویا پوری ہوگئی.یہ رویا ہستی باری کا ایک ایسا زبر دست ثبوت ہے کہ سوائے کسی ایسے انسان کے جو شقاوت کی وجہ سے صداقت نہ ماننے سے بالکل انکار کر دے ایک حق پسند کے لئے نہایت رشد اور ہدایت کا موجب ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے فیصلہ سے بچنے کی لاکھ کوشش کرے تقدیر پوری ہو کر ہی رہتی ہے میں نے جس خوف سے لا ہور کا سفر ملتوی کرنے کا ارادہ کیا تھا وہ امر قادیان ہی میں پورا ہوا.: حضرت کی وفات اور میری خلافت قریبا تین چار سال کا عرصہ ہوا جو میں نے دیکھا کہ میں اور حافظ روشن علی کے متعلق آٹھویں آسمانی شہادت صاحب ایک جگہ بیٹھے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے گورنمنٹ برطانیہ نے افواج کا کمانڈر ان چیف مقررفرمایا ہے اور میں سرا و مور کرے سابق کمانڈر ان چیف افواج ہند کے بعد مقرر ہوا ہوں اور ان کی طرف سے حافظ صاحب مجھے عہدہ کا چارج دے رہے ہیں.چارج لیتے لیتے ایک امر پر میں نے کہا کہ فلاں چیز میں تو نقص ہے میں چارج میں کیونکر لے لوں؟ میں نے یہ بات کہی ہی تھی کہ نیچے کی چھت پھٹی ( ہم چھت پر تھے ) اور حضرت خلیفہ امسیح خلیفہ اول اس میں سے برآمد ہوئے اور میں خیال کرتا ہوں کہ آپ سر او مور کرے کمانڈر ان چیف افواج ہند ہیں آپ نے فرمایا کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں بلکہ لارڈ کچنر (KITCHENER) سے مجھے چیز اسی طرح ملی تھی.اس رویا پر مجھے ہمیشہ تعجب ہوا کرتا تھا کہ اس سے کیا مراد ہے؟ اور میں اپنے دوستوں کو سنا کر حیرت کا اظہار کیا کرتا تھا کہ اس خواب سے کیا مراد ہوسکتی ہے ؟ مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ واقعات کے ظہور پر معلوم ہوا کہ یہ رویا ایک نہایت ہی زبردست شہادت تھی اس بات پر کہ حضرت خلیفہ اسیح کی وفات کے بعد جو فیصلہ ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کی رضا کے ماتحت ہوا ہے.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کی وفات پر میری طبیعت اس طرف گئی کہ

Page 153

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۵ جلد اول یہ رویا تو ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی اور اس میں بتایا گیا تھا کہ مولوی صاحب کے بعد خلافت کا کام میرے سپرد ہو گا اور یہی وجہ تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح مجھے بہ لباس سرا و مور کرے کے دکھائے گئے اور افواج کی کمانڈ سے مراد جماعت کی سرداری تھی کیونکہ انبیاء کی جماعتیں بھی ایک فوج ہوتی ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دین کو غلبہ دیتا ہے.اس رؤیا کی بناء پر یہ بھی امید ہے کہ اِنْشَاءَ اللهُ تَعَالٰی تبلیغ کا کام جماعت احمدیہ کے ہاتھ سے ہوگا اور غیر مبائعین احمدیوں کے ذریعہ نہ ہوگا.اِلَّا مَا شَاءَ اللہ.برکت مبائعین کے کام میں ہی ہوگی.اس رؤیا کا جب غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ ایک ایسی زبردست شہادت معلوم ہوتی ہے کہ جس قد ر غور کریں اُسی قدر عظمتِ الہی کا اظہار ہوتا ہے اور وہ اس طرح کہ اس رویا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لارڈ کے چند کے نام سے ظاہر کیا گیا ہے اور حضرت خلیفہ اول کو سر او مور کرے کے نام سے.اور جب ہم ان دونوں افسروں کے عہدہ کو دیکھتے ہیں تو جس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات پائی تھی اسی سال لارڈک چند ہندوستان سے رخصت ہوئے تھے اور سر اومور کرے کمانڈر مقرر ہوئے مگر یہ بات تو پچھلی تھی.عجیب بات یہ ہے کہ جس سال اور جس مہینہ میں سرا ومور کرے ہندوستان سے راونہ ہوئے ہیں اُسی سال اور اُسی مہینہ یعنی مارچ ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفتہ اسیح فوت ہوئے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اس کام پر مقرر فرمایا.کیا کوئی سعید الفطرت انسان کہہ سکتا ہے کہ یہ رویا شیطانی ہوسکتی تھی یا کوئی انسان اس طرح دو تین سال قبل از وقوع ایک بات اپنے دل سے بنا کر بتا سکتا ہے؟ کیا یہ ممکن تھا کہ میں دو سال پہلے یہ سب واقعات اپنے دل سے گھڑ کر لوگوں کو سُنا دیتا اور پھر وہ صحیح بھی ہو جاتے ؟ یہ کون تھا جس نے مجھے یہ بتا دیا کہ حضرت مولوی صاحب مارچ میں فوت ہوں گے ،۱۹۱۴ء میں ہوں گے اور آپ کے بعد آپ کا جانشین میں ہوں گا.کیا خدا تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی ایسا کر سکتا ہے؟ نہیں اور ہر گز نہیں.اس رویا میں یہ جو دکھایا گیا کہ چارج میں ایک نقص ہے اور میں اس کے لینے سے انکار کرتا ہوں تو وہ ان چند آدمیوں کی طرف اشارہ تھا کہ جنہوں نے اس وقت فساد کھڑا کیا اور

Page 154

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۶ جلد اول اللہ تعالیٰ نے اس رویا کے ذریعہ سے حضرت مولوی صاحب پر سے یہ اعتراض دور کیا ہے جو بعض لوگ آپ پر کرتے ہیں کہ اگر حضرت مولوی صاحب اپنے زمانہ میں ان لوگوں کے اندرونہ سے لوگوں کو عَلَى الإعلان آگاہ کر دیتے اور اشارات پر ہی بات نہ رکھتے یا جماعت سے خارج کر دیتے تو آج یہ فتنہ نہ ہوتا.اور مولوی صاحب کی طرف سے قبل از وقت یہ جواب دے دیا کہ یہ نقص میرے زمانہ کا نہیں بلکہ پہلے کا ہی ہے اور یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی بگڑ چکے تھے ان کے بگڑنے میں میرے کسی سلوک کا دخل نہیں مجھ سے پہلے ہی ایسے تھے.شاید کوئی شخص اعتراض کرے کہ یہ تعبیر تو آب بنائی جاتی ہے مگر یا درکھنا چاہیے کہ تعبیر کا علم واقعہ کے بعد ہی ہوتا ہے یہ خواب صاف ہے اور اس میں کوئی بیچ نہیں.ہر ایک شخص اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ جو تعبیر میں نے کی ہے اس کے سوا کوئی درست تعبیر نہیں ہوسکتی.یہ خواب میں نے حافظ روشن علی صاحب کو قبل از وقت سنا دی تھی اور دوستوں کو بھی سنائی ہے لیکن ان کے نام یا دنہیں.پر سئلہ خلافت پر نویں آسمانی شہادت جس طرح خلافت کے جھگڑے، حضرت خلیفہ اسیح کی وفات، آپ کی وصیت، میری جانشینی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت مجھے اطلاع دی تھی اسی طرح مجھے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ میرے مقابلہ پر کون ہو گا جو سخت فتنہ برپا کرے گا لیکن ناکام رہے گا.اس بات کو قریباً سات سال ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ۱۹۰۲ء کے اکتوبر یا نومبر میں میں نے رؤیا دیکھی کہ میں بورڈنگ کے ایک کمرہ میں ہوں یا ریویو آف ريليجنز کے دفتر میں وہاں ایک بڑے صندوق پر مولوی محمد علی صاحب بیٹھے ہیں اور میں ذرا فاصلہ پر کھڑا ہوں اتنے میں ایک دروازہ سے شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر داخل ہوئے اور ہم دونوں کو دیکھ کر کہا کہ میاں صاحب ! آپ لمبے ہیں یا مولوی صاحب؟ مولوی صاحب نے کہا کہ میں لمبا ہوں.میں نے کہا کہ میں لمبا ہوں.شیخ صاحب نے کہا آؤ دونوں کو نا ہیں.مولوی صاحب صندوق پر سے اترنا چاہتے ہیں لیکن جس طرح بچے اونچی

Page 155

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۷ جلد اول چار پائی پر سے مشکل سے اُترتے ہیں اس طرح بڑی مشکل سے اترتے ہیں اور جب شیخ صاحب نے مجھے اور ان کو پاس کھڑا کیا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھے ہیں ! میں تو سمجھتا تھا کہ مولوی صاحب اونچے ہیں لیکن اونچے تو آپ نکلے.میں نے کہا ہاں میں ہی اونچا ہوں.اس پر اُنہوں نے کہا کہ اچھا میں مولوی صاحب کو اُٹھا کر آپ کے کندھوں کے برابر کرتا ہوں دیکھیں ان کے پیر کہاں آتے ہیں اور یہ کہہ کر اُنہوں نے مولوی صاحب کو اُٹھا کر میرے کندھوں کے برابر کرنا چاہا.جتنا وہ اونچا کرتے جاتے اُسی قدر میں اونچا ہوتا جاتا آخر بڑی دقت سے اُنہوں نے ان کے کندھے میرے کندھوں کے برابر کئے تو اُن کی لاتیں میرے گھٹنوں تک بھی نہ پہنچ سکیں جس پر وہ سخت حیران ہوئے.یہ خواب اُس وقت کی ہے جب ان جھگڑوں کا وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا.سات سال کے بعد کے واقعات بتانا انسان کا کام نہیں.میں نے یہ رویا اُسی وقت سید سرور شاہ صاحب، سید ولی اللہ شاہ صاحب کو جو اس وقت بیروت (شام) میں ہیں اور سید حبیب اللہ شاہ صاحب کو جو میڈیکل کالج کی آخری کلاس میں پڑھتے ہیں سنا دی تھی اور ان سے گواہی لی جاسکتی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اُن کو یہ رویا یا د ہو گی.ممکن ہے کہ اور دوستوں کو بھی سنائی ہولیکن اور کسی کا نام یاد نہیں ہم اُس وقت اس رویا پر حیران ہوا کرتے تھے کہ یہ قدوں کا نا پنا کیا معنی رکھتا ہے نہ خلافت کا سوال تھا نہ خلیفہ کی بیعت کا ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ تھے کون سمجھ سکتا تھا کہ کبھی واقعات بدل کر اور کی اور صورت اختیار کر لیں گے مگر خدا کی باتیں پورے ہوئے بغیر نہیں رہتیں.مولوی محمد علی صاحب کے دوستوں نے اُنہیں میرے مقابلہ پر کھڑا کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت نا کام کیا حتی کہ اُنہوں نے اپنی ذلت کا خودا قرار کیا.جس قدر بھی ان کے دوستوں نے زور مارا کہ اُن کو اونچا کریں اُسی قدر خدا تعالیٰ نے ان کو نیچا کیا اور قریباً ستانوے فیصدی احمدیوں کو میرے تابع کر دیا اور میرے ذریعہ جماعت کا اتحاد کر کے مجھے بلند کیا.اب میں آخر میں تمام راستی پسند انسانوں کو کہتا ہوں کہ اگر وہ اب تک خلافت کے مسئلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکے تو اب بھی فیصلہ کر لیں کیونکہ یہ کام خدا کی طرف سے ہوا ہے اور کسی

Page 156

خلافة على منهاج النبوة ۱۳۸ جلد اول انسان کا اس میں دخل نہیں.اگر آپ اس صداقت کا انکار کریں گے تو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا بھی انکار کرنا پڑے گا.پس حق کو قبول کریں اور جماعت میں تفرقہ نہ ڈالیں.میں کیا چیز ہوں؟ میں جماعت کا ایک خادم ہوں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس جماعت کو متحد کرنا چاہتا ہے ورنہ کام تو سب اللہ تعالیٰ کا ہے.مجھے خلافت کا نہ کوئی شوق تھا اور نہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کام پر مقرر کر دیا تو میں ہو گیا میرا اس میں کوئی دخل نہیں.اور آپ ان باتوں کو سُن کر یہ بھی اندازہ کر سکیں گے کہ جب کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت خلافت کا جھگڑا، خلیفہ کی صداقت ، خلیفہ اول کی وفات کا سن، مہینہ، آپ کی وصیت ، میرا گاڑی میں آپ کی وفات کی خبر سننا، آپ کی بیماری کا حال سب کچھ بتا دیا تھا تو کیا ایک لمحہ کے لئے بھی میرا دل مترڈ د ہو سکتا تھا اور جب کہ بعض دوسری رؤیا نے وقت پر پوری ہو کر بتا دیا کہ منشائے الہی یہی تھا کہ میں ہی دوسرا خلیفہ ہوں اور میری مخالفت بھی ہو اور کامیابی میرے لئے ہو تو کیا میں خلافت کے متعلق ان لوگوں کا مشورہ سُن سکتا تھا جو مجھے مشورہ دیتے تھے کہ میں اب بھی اس کام کو ترک کر دوں.کیا میں منشائے الہی کے خلاف کر سکتا ہوں ؟ اگر میں ایسا کروں تو میں خدا تعالیٰ کے فیصلہ کو رڈ کرنے والا ہوں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے اس حرکت سے محفوظ رکھے.خدا نے جو چاہا وہ ہو گیا اور جولوگوں نے چاہا وہ نہ ہوا.مگر مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلہ کو قبول کرے اور اس قدر آسمانی شہادتوں کے بعد ضد اور ہٹ سے کام نہ لے.“ (انوار العلوم جلد ۲ صفحه ۱۵۵ تا ۱۹۲) بخارى كتاب التفسير تفسير سورة نوح باب ودا ولا سواعا صفحه ۸۷۵ كو حدیث نمبر ۴۹۲۰ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية را ہرو: مسافر (فرہنگ آصفیہ جلد دوم صفحه ۹۴۷ مطبوعہ لاہور ۲۰۱۵ء) الم نشرح: ۴۳ ال عمران: ۱۶۵ یوحنا باب ۲۱ آیت ۱۵ تا۷ ابرٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء لوقا باب ۹ آیت ۱ - ۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء لوقا باب ۹ آیت ۶ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء

Page 157

خلافة على منهاج النبوة A P= P P > المجادله: ۲۲ ۱۳۹ 2 النور : ۵۶ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۴، ۳۰۵ ایڈیشن ۲۰۰۸ء الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶، ۳۰۷ ایڈیشن ۲۰۰۸ء المائدة: ۱۱۸ ۱۳ لوقا باب ۱۵ آیت ۱۱ تا ۳۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء تا۳۲ اینڈ لاہور۱۹۲۲ء ۱۴ تذکرہ صفحہ ۱۶۹.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء ا تذکرہ صفحہ ۶۹.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۴ ایڈیشن ۲۰۰۸ء کا تذکرہ صفحہ ۷۱۵.ایڈیشن چہارم ۱۹۱۸ تذکرہ صفحہ ۴۶۷.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء J تذکرہ صفحه ۴۶۴.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء تذکرہ صفحه ۵۹۴.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء تذکرہ صفحہ ۴۳۵.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء ۲۳ ۲۴ تذکرہ صفحہ ۵۹۱.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء ۲۵ تذکره صفحه ۵۹۷.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء ۲۶ تذکره صفحه ۵۶۶،۵۶۵.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء تذکرہ صفحہ ۱۹۷.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء تذکرہ صفحہ ۶۰.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء تذکرہ صفحہ ۳۵۸.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء ۳۰ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۲۷ ایڈیشن ۲۰۰۸ء الفرقان: ۷۸ جلد اول

Page 158

Page 159

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۱ جلد اول القول الفصل ( مطبوعه ۳۰ /جنوری ۱۹۱۵ء) حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات کے وقت خواجہ کمال الدین صاحب لندن میں تھے.آپ نومبر ۱۹۱۴ء میں واپس آئے اور اہل پیغام کے پہلے جلسہ سالانہ ۱۹۱۴ء میں ایک لیکچر ” اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب‘ پر دیا جو بعد میں ٹریکٹ کی شکل میں احمدی احباب میں مفت تقسیم کیا گیا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جب اس لیکچر کا مطالعہ فرمایا تو اُسی دن یعنی ۲۱ / جنوری ۱۹۱۵ء کو صبح سے شام تک یہ جوابی رسالہ "القول الفصل“ کے نام سے تحریر فرمایا جو ۳۰ /جنوری ۱۹۱۵ء کو انجمن ترقی اسلام نے شائع کیا.حضرت خلیفہ امسیح الثانی ، خواجہ کمال الدین صاحب کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :.اب ایک مسئلہ خلافت باقی رہ گیا ہے جس پر خواجہ صاحب نے بڑا زور دیا ہے اور درحقیقت یہی ایک بڑی بنائے مخاصمت ہے ورنہ ہم سے ان کو کچھ زیادہ پُر خاش نہیں.خلافت کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ وہی باتیں ہیں جن کا مفصل جواب خلافت احمد یہ میں حضرت خلیفہ اول کے حکم کے ماتحت انجمن انصار اللہ نے دیا تھا.اب ایک طرف تو وہ مضمون ہے جس کا خود خلیفہ اول نے حکم دیا اسے دیکھا، اصلاح فرمائی ، اجازت دی.کیا اس کے مقابلہ میں آپ بھی کوئی ایسا مضمون خلافت کے خلاف پیش کر سکتے ہیں جسے حضرت خلیفہ اول نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہو، پسند فرمایا ہو اور شائع کرنے کی اجازت دی ہوتا کہ اس سے آپ کے اس دعوے کی تصدیق ہو سکے کہ حضرت خلیفہ اول شخصی خلافت کے قائل نہ تھے.

Page 160

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۲ جلد اول میری اس سے یہ غرض نہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی پسندیدگی سے خلافت کا مسئلہ حل ہو جائے گا کیونکہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ آپ کی پسندیدگی یا عدم پسندیدگی سے فیصلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا.کیونکہ اصل فیصلہ وہی ہونا چاہئے جو اسلام اور مسیح موعود کے حکم کے ماتحت ہو.لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے مضمون سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اصیح بھی آپ کے اس خیال کے مؤید تھے اور آپ صرف ایک بزرگ ہونے کے لحاظ سے بیعت لیتے تھے نہ کہ خلیفہ کی حیثیت سے.لیکن یہ بات صریح غلط ہے.حضرت کی پہلی تقریر جو خلافت سے پہلے آپ نے کی موجود ہے اور آپ لوگوں نے اس پر جو اعلان کیا وہ بھی موجود ہے.ان کو دیکھ کر کوئی انسان فیصلہ نہ کرے گا کہ حضرت خلیفہ امسیح مسئلہ خلافت کے قائل نہ تھے بلکہ یہ بھی فیصلہ نہ کرے گا کہ خود خواجہ صاحب بھی قائل نہ تھے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح کو جب بیعت کے لئے کہا گیا تو آپ نے ایک تقریر فرمائی جس کے بعض فقرات ذیل میں درج ہیں.موجودہ وقت میں سوچ لو کہ کیسا وقت ہے جو ہم پر آیا ہے.اس وقت مردوں بچوں عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وحدت کے نیچے ہوں.اس وحدت کے لئے ان بزرگوں میں سے کسی کی بیعت کر لو ( جن کے آپ نے پہلے نام لئے تھے ) میں تمہارے ساتھ ہوں“.پھر آگے فرماتے ہیں :.میں چاہتا ہوں کہ دفن ہونے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دفن ہونے) سے پہلے تمہارا کلمہ ایک ہو جائے“.اب ان دونوں فقرات سے کیا ظاہر ہوتا ہے کیا یہ کہ آپ خلافت کی بیعت کے لئے کھڑے ہوئے تھے یا اپنے زہد و تقاء کی وجہ سے آپ نے دوسرے پیروں کی طرح بیعت لی تھی.یہ فقرات دلالت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دفن ہونے سے پہلے آپ چاہتے تھے کہ کل جماعت ایک خلیفہ کے ماتحت ہو اور اس میں وحدت پیدا ہو جائے نہ و تقویٰ کی وجہ سے بیعت لینے کے لئے آگے بڑھے تھے.پھر آپ نے جو اعلان حضرت خلیفہ اول کی بیعت پر شائع کیا اس میں آپ نے لکھا ہے کہ مطابق الوصیت آپ کی

Page 161

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۳ جلد اول بیعت کی گئی ہے اور سب جماعت آپ کی خدمت میں بیعت کے خطوط لکھ دے.اب فرمائیے کہ کیا آپ کا یہ اعلان یہی ظاہر کرتا ہے کہ آپ نے صرف بزرگ سمجھ کر بیعت کی تھی.الوصیت کے کون سے فقرات میں یہ بات درج ہے کہ اگر کوئی نیک آدمی جماعت میں ہو تو میری ساری جماعت اس کی بیعت کرے.اور اس کا فرمان سب جماعت کے لئے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا“.بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے جماعت میں ایسے شدید تفرقہ کا خطرہ تھا کہ اُس وقت سوائے ایک خلیفہ کے ذریعہ جماعت کو متحد رکھنے کے آپ کو اور کوئی تدبیر سمجھ میں نہ آتی تھی اور خلافت کی مخالفت کے خیال بعد کے ہیں یا اُس وقت شدت غم میں دب گئے تھے کیونکہ حضرت خلیفہ اول نے اُس وقت فرما دیا تھا کہ بیعت کے بعد میری ایسی فرمانبرداری کرنی ہوگی جس میں کسی انکار کی گنجائش نہ ہو.پس اگر اُس وقت آپ کے خیالات اس کے خلاف ہوتے تو آپ کیوں بیعت سے انکار نہ کر دیتے.خواجہ صاحب ! اور امور میں میں خیال کر سکتا ہوں کہ آپ کو غلطی لگی ہو گی لیکن اس امر میں میں ایک منٹ کے لئے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ آپ غلطی سے یہ اثر قارئین ٹریکٹ کے دل پر ڈالنا چاہتے ہیں کہ آپ خلیفہ اول کی وفات تک ان کے سامنے اظہار کرتے رہے کہ آپ خلافت کے قائل نہیں ہیں اور یہ کہ چھوٹی مسجد کی چھت پر آپ سے جو بیعت لی گئی وہ خوشنودی کی بیعت تھی.میرے کانوں میں یہ الفاظ گونج رہے ہیں کہ جس نے یہ لکھا ہے کہ خلیفہ کا کام بیعت لینا ہے اصل حاکم انجمن ہے وہ تو بہ کر لے.خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ اگر اس جماعت میں سے کوئی تجھے چھوڑ کر مرتد ہو جائے گا تو میں اس کے بدلے تجھے ایک جماعت دوں گا اور آپ جانتے ہیں کہ وہ شخص جس نے یہ الفاظ لکھے تھے کون تھا.ہاں یہ الفاظ بھی میرے کانوں میں اب تک گونج رہے ہیں کہ دیکھو میں اس انجمن کی بنائی ہوئی مسجد پر بھی نہیں کھڑا ہوا بلکہ اپنے میرزا کی بنائی ہوئی مسجد پر کھڑا ہوں اور یہ وہ الفاظ تھے جن کو سن کر لوگوں کی چیخیں نکل گئی تھیں وہ لوگ اب تک زندہ ہیں جن کو سمجھا کر آپ لا ہور سے لائے تھے اور جن کو الگ الگ حضرت خلیفہ اول نے سخت ڈانٹ پلا ئی تھی خود مجھ سے دیر دیر تک آپ کی اس

Page 162

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۴ جلد اول بغاوت کے متعلق حضرت ذکر فرمایا کرتے تھے اور سخت الفاظ میں اپنے رنج کا اظہار فرمایا کرتے تھے بلکہ یہی نہیں میں آپ کے دوستوں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے خطوط پیش کر سکتا ہوں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول اس معاملہ میں آپ پر سخت ناراض تھے.وفات سے کچھ دن پہلے جلسہ کی خوشی میں جو اعلان کیا اس میں بھی اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں موجود ہے.” جب ایک دفعہ خلافت کے خلاف شور ہوا تھا تو مجھے اللہ تعالیٰ نے رویا میں دکھایا تھا.اور آپ جانتے ہیں کہ یہ رویا مسجد کی چھت پر اسی جلسہ میں جس میں آپ فرماتے ہیں کہ مجھ سے بیعت ارشاد لی ، سنائی تھی اور وہ کون تھے جنہوں نے خلافت کے خلاف شور مچایا تھا.خلافت کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح کی بہت سی تحریریں موجود ہیں اور وہ شائع ہو چکی ہیں.جب آپ ملتان ایک مقدمہ میں گواہی دینے کے لئے تشریف لے گئے تھے تو آپ نے ان الفاظ میں اپنی شہادت کو شروع کیا تھا.میں حضرت مرزا صاحب کا خلیفہ اول ہوں.جماعت احمدیہ کا لیڈر ہوں“.پھر آپ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں :.میں خلیفہ اسیح ہوں اور خدا نے مجھے بنایا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے یہ رِدا پہنا دی ہے...اس نے آپ.نہ تم میں سے کسی نے مجھے خلافت کا گر تہ پہنا دیا...معزول کرنا اب تمہارے اختیار میں نہیں.ایک وہ خلیفہ ہوتا ہے جو لِيَسْتَخْلِفَتُهُمْ فِي الْأَرْضِ ے میں موعود.ہے تم معزول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے.میں تم سے کسی کا بھی شکر گزار نہیں ہوں.جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا.مجھے یہ لفظ بھی دکھ دیتا ہے جو کسی نے کہا کہ پارلیمنوں کا زمانہ ہے.میں کہتا ہوں وہ بھی تو بہ کر لے جو اس سلسلہ کو پارلیمنٹ اور دستوری سمجھتا ہے.مجھے وہ لفظ خوب یاد ہیں کہ ایران میں پارلیمنٹ ہوگئی اور دستوری کا زمانہ ہے اُنہوں نے اس قسم کے الفاظ بول کر جھوٹ بولا بے ادبی کی...میں پھر کہتا ہوں وہ اب بھی تو بہ کر لیں اور حضرت مسیح موعود اور مہدی بھی آچکے جس کا خدا نے اپنے فضل سے مجھ کو خلیفہ بنایا.

Page 163

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۵ جلد اول خواجہ صاحب ! بتائیں کہ اگر آپ یا آپ کے دوست نہ تھے تو اور کون لوگ تھے جنہوں نے کہا تھا کہ ہمارا ہی بنایا ہوا خلیفہ ہے ہم اسے معزول کر دیں گے اور وہ کون لوگ تھے جو کہتے تھے کہ یہ زمانہ ہی پارلیمنٹوں کا ہے ایک حاکم کا نہیں.دیکھو ایران میں بھی دستوریت ہوگئی ہے اس لئے انجمن ہی اصل حاکم ہونی چاہیے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جو پہلا جلسہ ہوا اس میں جو تقریر آپ نے فرمائی اس کے بعض فقرات یہ ہیں.اب ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ تم ملہم نہیں تمہاری کیا ضرورت ہے.کیا حضرت صاحب ہمارے لئے کم ہدایت چھوڑ گئے ہیں.ان کی اسی (۸۰) کے قریب کتابیں موجود ہیں وہ ہمارے لئے کافی ہیں یہ سوال بد بخت لوگوں کا ہے جو خدا تعالیٰ کی سنت کا علم نہیں رکھتے.اس قسم کے سوال سے تمام انبیاء کا سلسلہ باطل ہو جاتا ہے چنانچہ کہہ سکتے ہیں کہ علم ادم الاسماء كلیا جب خدا نے سب کچھ آدم کو بتا دیا تو اب نوح اور ابراہیم کیا لائے جو ماننا ضروری ہے؟ لیا تو ان کے حق میں آچکا ہے.پھر آدم کے لئے سب ملائکہ نے سجدہ کیا پس اب ان دوسرے انبیاء کی کیا ضرورت ہے.پھر دم نقد واقعہ موجود ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جامع جمیع کمالات جن کی نسبت میرا اعتقاد ہے خاتم الرسل، خاتم الحكام ، خاتم النبین ، خاتم الاولیاء، خاتم الانسان ہیں.اب ان کے بعد اگر کوئی ابو بکر کو نہیں مانتا تو فرمایا وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأوليك هُمُ الفسقُونَ " یعنی جو انکار کرے گا وہ خدا کی اطاعت سے باہر نکلنے والا ہے“.غرض یہ سوال پہلے آدم پر پڑتا ہے.پھر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر.پھر ابوبکر پر ، پھر علی پر ، پھر مہدی پر.جب سارے علوم رسالت مآب سنا گئے تو مہدی کی کیا ضرورت ہے؟ حقیقی بات یہی ہے کہ ضرورت ہے اجتماع کی.اور شیرازۂ اجتماع قائم رہ سکتا ہے ایک امام کے ذریعہ.اور پھر یہ اجتماع کسی ایک خاص وقت میں کافی نہیں مثلاً صبح کو امام کے پیچھے اکٹھے ہوئے تو کیا کہہ سکتے ہیں کہ اب ظہر کو کیا ضرورت ہے؟ عصر کو کیا ؟ پھر شام کو کیا ؟ پھر عشاء کو کیا؟ پھر جمعہ کو اکٹھے ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر عید کے دن کیا ضرورت

Page 164

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۶ جلد اوّل ہے؟ پھر حج میں کیا ضرورت ہے؟ اسی طرح ایک وقت کی روٹی کھالی تو پھر دوسرے وقت کیا ضرورت ہے؟ جب ان باتوں میں تکرار ضروری ہے تو اس اجتماع میں بھی تکرار ضروری ہے یہ میں اس لئے بیان کرتا ہوں تا تم سمجھو کہ ہمارے امام چلے گئے تو پھر بھی ہم میں اسی وحدت ، اتفاق ، اجتماع اور پُر جوش روح کی ضرورت ہے.اس تقریرہ میں آپ نے جو اعتراض خلافت پر کئے ہیں ان کے جواب خود حضرت خلیفہ اول کی زبانی موجود ہیں لیکن میں نے یہ حوالہ جات اس لئے نقل نہیں کئے کہ میں یہ آپ پر حجت قائم کروں کہ حضرت خلیفہ اول نے یوں فرمایا ہے اس لئے آپ بھی مان لیں بلکہ اس لئے نقل کئے ہیں تا آپ کو معلوم ہو جائے کہ حضرت خلیفہ اول کا مذہب شائع ہو چکا ہے اور آخری حوالہ تو خود صدرانجمن احمدیہ کی رپورٹ سے نقل کیا گیا ہے پس آپ کی یہ کوشش کہ لوگوں پر یہ ثابت کریں کہ حضرت خلیفہ اول کسی شخصی حکومت کے قائل نہ تھے کا میاب نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے آپ کی دیانت پر خطرناک اعتراض آتا ہے.پس آپ یہ بیشک اعلان کریں کہ خلافت کے متعلق حضرت خلیفہ اول کی رائے حجت نہیں لیکن یہ خیال لوگوں کے دلوں میں بٹھانے کی کوشش نہ کریں کہ حضرت خلیفہ اول آپ کے اس خیال پر آپ سے خوش تھے یا یہ کہ آپ سے ناراض نہ تھے یا یہ کہ خود آپ سے متفق تھے کیونکہ ان خیالات میں سے کسی ایک کا ظاہر کرنا گویا اس بات کا یقینی ثبوت دینا ہے کہ خلافت کے مقابلہ میں حق کی بھی پرواہ نہیں رہی ضرور ہے کہ اس مضمون کو پڑھ کر خود آپ کے وہ دوست جن کی مجلس میں آپ بیٹھتے ہیں آپ پر دل ہی دل میں ہنستے ہوں گے یا اگر ان کے دل میں ذرا بھی خوف خدا ہوگا تو روتے ہوں گے کہ خواجہ صاحب کو خلاف بیانی کی کیا ضرورت پیش آئی تھی.اگر وہ بیعت جو نہایت سخت ڈانٹ کے بعد آپ سے لی گئی اور اگر وہ بیعت جو حکیم فضل دین کے مکان کے جھگڑے پر آپ کے بعض دوستوں سے لی گئی ایک انعام تھا تو دنیا میں ناراضگی اور خفگی کوئی ھے کا نام نہیں.مولوی غلام حسن صاحب پشاوری بھی ان تمام واقعات سے آگاہ ہیں اور آپ کی جماعت کے خلیفہ ہیں کیا آپ اپنے بیان کی تصدیق انہی سے حلفی بیان کے ساتھ کروا سکتے ہیں؟ غالباً ان کو یاد ہوگا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ المسیح کو یہ خبر پہنچی تھی کہ ان کے

Page 165

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۷ جلد اول خیالات بھی اسی قسم کے ہیں تو وہ کیسے ناراض ہوئے تھے بلکہ اس کی بھی ضرورت نہیں کیا آپ خود تریاق القلوب کے مطابق قسم کھا کر ان دونوں امور پر شہادت دے سکتے ہیں کہ خلیفہ اول خلافت کے متعلق آپ کے خیالات سے متفق تھے یا یہ کہ ناراض نہ تھے اور یہ کہ چھوٹی مسجد کی بیعت ایک انعام کے طور پر اور خوشی کی سند کے طور پر تھی یا اس لئے کہ آپ کی مخالفت کی بناء پر آپ کو جماعت سے الگ خیال کر کے آپ سے دوبارہ بیعت لی گئی تھی ؟ مجھے اس پر بھی تعجب آتا ہے کہ آپ نے اس بیعت کے متعلق لکھا ہے کہ وہ مجھ سے اور نواب صاحب سے بھی لی گئی.اس کے متعلق میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے جھوٹ بولا ہاں آپ کو یاد نہیں رہا.میں نے ایک خواب دیکھی تھی اور حضرت کو سنائی تھی اسی کی بناء پر آپ نے عین تقریر میں مجھے اپنی بائیں طرف سے اُٹھا کر دائیں طرف بٹھا یا اور پھر اپنی تائید میں تقریر کرنے کا ارشاد فرمایا.ورنہ مجھ سے کوئی بیعت نہیں لی گئی اور نہ نواب صاحب سے.باقی رہا وصیت کا معاملہ اس پر خلافت احمدیہ میں مفصل بحث موجود ہے آپ پہلے اس کا جواب دے دیں.پھر اس پر بھی کچھ لکھ دیا جائے گا مگر ضروری ہے کہ جو کچھ پہلے لکھا جا چکا ہے اس کا جواب پہلے ہو جائے.اگر آپ کے پاس یہ رسالہ نہ ہو تو آپ مجھے اطلاع دیں میں آپ کی خدمت میں بھجوا دوں گا.اسی میں تحریر کا معاملہ بھی آچکا ہے مگر میں سوال کرتا ہوں دنیا میں لاکھوں نبی اور مامور گزرے ہیں کیا ان میں سے ایک بھی ایسا ہوا ہے کہ اس کی وفات کے بعد اس کی ساری امت گمراہ ہو جائے اور ضلالت پر اجماع ہو؟ یہ ناممکن ہے.پس وہی معنی درست ہیں جو خدا تعالیٰ کے عمل نے کئے کیونکر ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے قول کے خلاف اس کا فعل ہو.خلافت پر ایک خاص رنگ میں بحث میرے لیکچر میں بھی ہے جو سالانہ جلسہ پر ہوا اور اب چھپ رہا ہے.وہ چھپ جائے گا تو وہ بھی آپ کو بھجوا دیا جائے گا اس کو بھی دیکھ لیں.میں اس جگہ یہ بھی بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ خواجہ صاحب اپنے مضمون میں بار بار لکھتے ہیں کہ ہم الوصیت پیش کرتے ہیں اور ہمارے مقابلہ میں پچھلا طریق عمل پیش کیا جاتا ہے اب بتاؤ کہ کون حق پر ہے.لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ طریق عمل تو اور دلیلوں

Page 166

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۸ جلد اول میں سے ایک دلیل ہے ورنہ ہم الوصیت کو چھوڑتے نہیں آپ سے بڑھ کر ہم پیش کرتے ہیں.ہمارا یقین ہے کہ الوصیت میں نہایت وضاحت سے خلافت کا ذکر ہے.چنانچہ قدرت ثانیہ کے نام سے آپ نے خلافت کا مسئلہ ایسی وضاحت سے کھولا ہے کہ کسی صداقت پسند انسان کو اس میں شک وھبہ کی گنجائش نہیں رہتی اور ابو بکر کی مثال دے کر اس مسئلہ کا پوری طرح فیصلہ کر دیا ہے.پس آپ کا یہ لکھنا کہ لاہوری الوصیت پیش کرتے ہیں اور قادیانی نہیں کرتے ایک خلاف واقعہ بات ہے.آپ خلافت احمدیہ کو پڑھیں اس میں الوصیت سے خلافت کو بالوضاحت ثابت کیا گیا ہے اور الوصیت کیا حضرت صاحب کی اور مختلف کتب سے بھی ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ آپ کے بعد خلافت کا سلسلہ قائم ہونا تھا.چنانچہ پیغام صلح ، حمامۃ البشری اور ایک لاہور کی تقریر سے جو ۱۹۰۸ء میں آپ نے فرمائی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے بعد خلفاء ہوں گے وہ کل جماعت کے مطاع ہوں گے اور یہ کہ خلفاء کو نبی نہیں مقرر کرتا بلکہ خدا پر چھوڑ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود خلیفہ مقرر کرتا ہے.میں اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے آپ کو ایک اور واقعہ بھی یاد دلا دیتا ہوں جس سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ایک وقت آپ بھی کسی دوسرے خلیفہ کے منتظر تھے جب حضرت خلیفہ اسیح گھوڑے سے گر کر سخت بیمار تھے تو اُس وقت مرزا یعقوب بیگ صاحب مجھے گھر سے بلا کر مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی تک لے گئے تھے وہاں آپ بھی تھے.مولوی صاحب بھی تھے اور دوسرے آپ کے دوستوں میں سے بھی دوآدمی تھے.آپ نے مجھ سے بیان کیا تھا کہ حضرت کی حالت خطر ناک ہے مجھے خلیفہ ہونے کی خواہش نہیں اور نہ مولوی صاحب کو ہے ہم سب آپ کو ہی خلیفہ بنائیں گے لیکن آپ یہ بات مدنظر رکھیں کہ ہمارے لاہور سے آنے تک خلیفہ کا انتخاب نہ ہو.آپ نے اپنے آنے تک انتظار کرنے پر جو زور دیا اس میں آپ کی نیت کیا تھی اس سے مجھے بحث نہیں مگر میں نے ایک اثر کی بناء پر کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کے انتخاب پر بحث کرنا نا جائز ہے گفتگو کرنے سے انکار کر دیا اور بات ختم ہو گئی.اس واقعہ سے آپ کو یاد آ گیا ہو گا کہ آپ بھی کسی وقت خلافت کے قائل تھے یا کسی مصلحت کی وجہ سے آپ نے ایسا ظاہر کرنا پسند فرمایا تھا آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس

Page 167

خلافة على منهاج النبوة ۱۴۹ جلد اول سے مراد بیعت لینے والا خلیفہ تھا کیونکہ اس کے لئے چالیس آدمیوں کی شرط ہے اور آپ کے آنے نہ آنے کا اس پر کوئی اثر نہ ہو سکتا تھا اور نہ ایسا خلیفہ بنانے کے لئے آپ کو یہ ضرورت تھی کہ آپ کہتے کہ نہ میں خلیفہ بنا چاہتا ہوں اور نہ مولوی محمد علی صاحب کیونکہ ایسے خلیفہ کئی ہو سکتے ہیں.( آپ ان کا نام خلیفہ رکھتے ہیں میں ان کو خلیفہ نہیں کہتا.) خواجہ صاحب ایک جگہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ جو بیعت لے وہ خلیفتہ اسیح کہلا سکتا ہے بلکہ جو شخص پہلے کا کوئی کام کرے وہ اس کا خلیفہ ہے تو کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ کیا جس قدر صحابہ اشاعت اسلام میں لگے ہوئے تھے اور صحابہ سب ہی اس کام میں مشغول تھے خلیفۃ الرسول کہلاتے تھے ؟ اگر صرف ایک شخص ہی کہلاتا تھا تو کیا اس سے ثابت نہیں کہ خلیفہ ایک اسلامی اصطلاح ہے جس کی آپ لوگ ہتک کرتے ہیں.پھر اگر خلیفہ اسی کو کہتے ہیں جو کسی کا کام کرے تو کیوں خلیفہ اول کی موجودگی میں آپ خلیفہ اسیح نہیں کہلاتے تھے کیونکہ آپ بقول اپنے مسیح موعود کا اصل کام اشاعت اسلام کر رہے تھے اُس وقت کیوں آپ کو خلیفہ اسیح کہلانے کی جرات نہیں ہوئی.پھر میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اگر آپ کو یہ دکھا نا مد نظر نہیں کہ ہمارے امیر کے ماتحت چند خلیفہ اصیح ہیں تو کیوں خو د مولوی محمد علی صاحب کو خلیفة امسیح نہیں لکھا جاتا وہ تو آپ کے نزدیک مسیح موعود کے زیادہ قائم مقام ہیں.باقی رہا سوال مقدمہ کا کہ مقدمہ ہوگا اور عدالتوں تک جانا پڑے گا یہ ایسی دھمکیاں ہیں جو ہمیشہ راست بازوں کو ملتی رہی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے کسری نے اپنے آدمی بھیجے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عدالتوں میں گھسیٹا گیا اسی طرح اگر کوئی مجھے بھی عدالت میں بلوائے یا انجمن پر مقدمہ کرے تو کیا حرج ہے.ایں ہمہ اندر عاشقی بالائے غمہائے دگر.جب میں نے خدا کے لئے اور صرف خدا کے لئے اس کام کو اپنے ذمہ لیا ہے اور میں نے کیا لینا تھا خدا تعالیٰ نے یہ کام میرے سپرد کر دیا ہے تو اب مجھے اس سے کیا خوف ہے کہ انجام کیا ہو گا.میں جانتا ہوں کہ انجام بہر حال بہتر ہوگا کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا مجھے سے وعدہ ہے اور وہ سچے وعدوں والا ہے.پس آپ مجھے مقدموں سے کیا ڈراتے ہیں.ہمارا مقدمہ خدا کے دربار میں داخل ہے کیا یہ بات بعید ہے کہ پیشتر اس کے کہ دنیا کی حکومتیں.

Page 168

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۰ جلد اول ہمارے جھگڑے کا فیصلہ کریں اَحْكُمُ الْحَاكِمِینَ خود ہمارے مقدمہ کا فیصلہ کر دے اور گورنمنٹ کے دخل دینے کے بعد کسی ماتحت عدالت کا کیا حق ہے کہ کچھ کر سکے.پس اگر خدا تعالیٰ ہی کوئی فیصلہ صادر فرمائے جس سے سب فساد دور ہو کر امن ہو جائے تو دنیا کی حکومتوں نے کیا دخل دینا ہے.مقدمات سے ان کو ڈرائیں جن کی نظر دنیا کے اسباب پر ہے کوئی دنیا کی حکومت ہمیں اس مقام سے نہیں ہٹا سکتی جس پر خدا تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا ہے کیونکہ دنیاوی حکومتوں کا اثر جسم پر ہے دل پر نہیں دل صرف خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں.اس ٹریکٹ میں کچھ متفرق باتیں بھی ہیں گوان کا جواب ایسا ضروری نہیں مگر کچھ جواب دے دیتا ہوں.خواجہ صاحب اس ٹریکٹ میں اس امر سے بھی ڈراتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کے کوئی خطوط ان کے پاس ایسے بھی ہیں جن کے اظہار سے ہمیں سخت دقت پیش آئے گی.ان خطوں کی اطلاع مختلف ذرائع سے مجھے پہنچی ہے اور ہر ایک شخص نے یہی بیان کیا ہے کہ خواجہ صاحب فرماتے تھے کہ میں یہ خط صرف آپ کو ہی دکھاتا ہوں اور کسی کو نہیں دکھایا مگر جب دیکھا تو راوی چار پانچ نکلے جس پر مجھے حیرت ہوئی کہ صرف ایک کو سُنا کر اس قدر لوگوں کو کیونکر علم ہو گیا.مگر کوئی تعجب نہیں کہ خواجہ صاحب پہلے ایک سے ذکر کرتے ہوں اور پھر یہ بھول جاتے ہوں کہ میں پیغام بھیج چکا ہوں پھر کوئی اور شخص نظر آ جاتا ہو اور آپ مناسب خیال کرتے ہوں کہ اس کے ہاتھ بھی پیغام بھیج دیں بہر حال ہم خواجہ صاحب کی اس مہربانی کے ممنون ہیں کہ اُنہوں نے ان خطوط کے مضمون سے بغیر اسے شہرت دینے کے ہمیں مطلع کر دیا.لیکن میں کہتا ہوں خواجہ صاحب بیشک ان خطوط کو شائع کر دیں مجھے ان کی عبارت پوری طرح یاد نہیں.نہیں تو میں ابھی لکھ دیتا.مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ کوئی میری نسبت کیا لکھتا ہے مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے اپنے پیر کے خلاف کبھی کچھ نہیں کہا اور ہمیشہ اس کا فرمانبردار رہا ہوں اور میں نے اس کے منہ سے بارہا یہ الفاظ سنے ہیں کہ مجھے آپ سے محبت نہیں بلکہ عشق ہے.اس نے مجھے اُس وقت جب کہ میں کسی قدر بیمار تھا اور بیماری بالکل خفیف تھی.ایسی حالت میں کہ خود اسے کھانسی کے ساتھ خون آتا تھا.اس طرح پڑھایا ہے کہ وہ مجھے یہ کہہ کر کتاب نہ پڑھنے دیتا تھا کہ آپ بیمار ہیں اور خود اس بیماری میں

Page 169

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۱ جلد اول پڑھتا تھا.سوخدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں اپنے اُس محسن کا وفادار رہا.ہاں چونکہ انسان کمزور ہے اگر میری کسی کمزوری کی وجہ سے وہ کسی وقت مجھ سے ناراض ہوا ہو تو کیا تعجب ہے.بخاری میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کی جنگ کا ذکر ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو سخت ڈانٹا.حتی کہ حضرت ابو بکر کو حضور سے ان الفاظ میں سفارش کرنی پڑی کہ نہیں حضور قصور میرا ہی تھا سے تو کیا حضرت عمر پر اس واقعہ سے کوئی الزام آ جاتا ہے زیادہ سے زیادہ یہ کہو گے کہ حضرت عمر سے میری ایک اور مشابہت ہو گئی.استاد کا شاگرد کو ڈانٹا بُری بات نہیں شاگرد کا استاد کو گالی دینا برا ہے.کیونکہ ڈانٹنا استاد کا کام تھا اور گالی دینا شاگرد کا کام نہیں ہے.پس وہ لوگ ایسی کسی تحریر پر کیا خوش ہو سکتے ہیں جو آج بڑے زور سے اعلان کر رہے ہیں کہ ہم نے کبھی خلیفہ اول کی مخالفت نہیں کی حالانکہ ان کی دستخطی تحریر میں موجود ہیں جن میں اُنہوں نے آپ کو اسلام کا دشمن اور حکومت پسند اور چڑ چڑا وغیرہ الفاظ سے یاد کیا ہے.پھر جس تحریر پر ناز کیا جاتا ہے اگر وہ درست بھی مان لی جائے تو اس کے متعلق میرے پاس بھی سید ڈاکٹر صاحب کا خط موجود ہے جس سے اصل معاملہ پر روشنی پڑ جاتی ہے اور جس تحریر کی طرف خواجہ صاحب اشارہ کرتے ہیں اس کے بعد کی وہ تحریر ہے جس میں حضرت خلیفہ اوّل نے میری نسبت لکھا ہے کہ میں اسے مصلح موعود سمجھتا ہوں اور پھر اس کے بعد کا واقعہ ہے کہ آپ نے ایک بھری مجلس میں فرمایا کہ مسند احمد بن حنبل کی تصحیح کا کام ہم سے تو ہو نہ سکا میاں صاحب کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ چاہے تو ہو سکے گا.اور یہ جنوری ۱۹۱۴ ء کی بات ہے.آخری بیماری سے ایک دو دن پہلے کی.پس آپ ان زبر دست حملوں کی اشاعت سے ہرگز نہ چوکیں؟ کیوں اپنے ہاتھ سے موقع جانے دیتے ہیں شاید اسی سے آپ کو کوئی فائدہ پہنچ جائے مگر خوب یا درکھیں کہ میرا معاملہ کسی انسان کی تعریف کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا اگر حضرت خلیفہ اول کی وہ تحریریں میری تائید میں موجود نہ ہوتیں جو آپ کے پاس جس قدر خطوط ہیں ان کی نفی کر دیتی ہیں تو بھی مجھے خدا نے اس کام پر کھڑا کیا ہے نہ کہ کسی انسان نے.میں کسی انسان کی تحریروں کا محتاج نہیں.خلافت خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.جو انسانوں کے

Page 170

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۲ جلد اول خیالات سے اندازہ لگا کر میری بیعت میں داخل ہوا ہے وہ فوراً اپنی بیعت کو واپس لے لے اور مجھے خدا پر چھوڑ دے میں مشرک نہیں ہوں.مجھے انسانوں کے خیالات کی پرواہ نہیں.خدا تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ مجھے کامیاب کرے گا.پس میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ماتحت کامیاب ہوں گا اور میرا دشمن مجھ پر غالب نہ آ سکے گا.مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی پوشیدہ در پوشیدہ حکمتوں کے ماتحت جن کو میں خود بھی نہیں سمجھتا.ایک پہاڑ بنایا ہے پس وہ جو مجھ سے ٹکراتا ہے اپنا سر پھوڑتا ہے.میں نالائق ہوں اس سے مجھے انکار نہیں.میں کم علم ہوں اس سے میں نا واقف نہیں.میں گنہگار ہوں اس کا مجھے اقرار ہے.میں کمزور ہوں اس کو میں مانتا ہوں لیکن میں کیا کروں کہ میرے خلیفہ بنانے میں خدا تعالیٰ نے مجھ سے نہیں پوچھا اور نہ وہ اپنے کاموں میں میرے مشورہ کا محتاج ہے.میں اپنے ضعف کو دیکھ کر خود حیران ہو جا تا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کیوں چنا اور میں اپنے نفس کے اندر ایک بھی ایسی خوبی نہیں پاتا جس کی وجہ سے میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا مستحق سمجھا گیا مگر با وجود اس کے اس میں کوئی شک نہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس کام پر مقر ر فرما دیا ہے.اور وہ میری اُن راہوں سے مدد فرماتا ہے جو میرے ذہن میں بھی نہیں ہوتیں.جب گل اسباب میرے برخلاف تھے.جب جماعت کے بڑے بڑے لوگ میرے خلاف اعلان کر رہے تھے اور جن کو لوگ بڑا خیال کرتے تھے وہ سب میرے گرانے کے درپے تھے اُس وقت میں حیران تھا لیکن سب کچھ میرا رب آپ کر رہا تھا.اس نے مجھے اطلاعیں دیں اور وہ اپنے وقت پر پوری ہوئیں اور میرے دل کو تسلی دینے کے لئے نشان پر نشان دکھایا اور امور غیبیہ سے مجھے اطلاع دے کر اس بات کو پایہ ثبوت کو پہنچایا کہ جس کام پر میں کھڑا کیا گیا ہوں وہ اس کی طرف سے ہے.خواجہ صاحب ! آپ نے لکھا ہے کہ اگر آپ الہام سے مصلح موعود ہونے کا دعویٰ کریں تو میں پھر کچھ نہ بولوں گا.اگر آپ نے یہ بات سچ لکھی ہے تو میں آپ کو بتا تا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بار بار بتایا ہے کہ میں خلیفہ ہوں اور یہ کہ وہ میرے مخالفوں کو آہستہ آہستہ میری طرف کھینچ لائے گا یا تباہ کر دے گا اور ہمیشہ میرے متبعین میرے مخالفوں پر غالب رہیں گے.یہ سب باتیں مجھے متفرق اوقات میں اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں.پس آپ اپنے وعدہ کے

Page 171

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۳ جلد اول مطابق خاموشی اختیار کریں اور دیکھیں کہ خدا تعالیٰ انجام کا ر کیا دکھلاتا ہے.اگر مصلح موعود کے ہونے کے متعلق میرے الہام کی آپ قدر کرنے کے لئے تیار ہیں تو کیوں اس امر میں آسمانی شہادت کی قدر نہیں کرتے.آپ خوب یا درکھیں کہ یہاں خدمات کا سوال نہیں یہاں خدائی دین کا سوال ہے.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ خدمات کے متعلق میرا کوئی دعویٰ نہیں.اللہ تعالیٰ اگر مجھ سے کوئی خدمت لے لے تو یہ اُس کا احسان ہوگا ورنہ میں کوئی چیز نہیں.میں اس قدر جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ اس جماعت کو پھر بڑھانا چاہتا ہے.میرا ایک بہت بڑا کام ہو گیا ہے.جماعت میں احساس پیدا ہو گیا ہے باقی حصہ بھی جلد پورا ہو جائے گا اور احمد یہ جماعت بے نظیر سرعت سے ترقی کرنی شروع کرے گی.میں نے تو اس قدر احتیاط سے کام لیا ہے کہ آپ کے طریق تبلیغ کی بھی اُس وقت تک مخالفت نہیں کی جب تک اللہ تعالیٰ نے مجھے نہیں بتایا کہ یہ غلط ہے.پس میں آسمان کو زمین کے لئے نہیں چھوڑ سکتا اور اللہ تعالیٰ سے توفیق چاہتا ہوں کہ وہ مجھے ہمیشہ اپنی رضا پر چلنے کی توفیق دے اور ہر قسم کی لغزشوں اور ٹھوکروں سے بچائے.آمین غیر ذمہ دار لوگ خواجہ صاحب اپنے سارے مضمون میں اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ یہ سب فساد غیر ذمہ دار لوگوں کا ہے اور اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ مجھے کچھ لوگ ورغلاتے رہتے ہیں اور یہ لوگ امن نہیں ہونے دیتے.میں خواجہ صاحب کو اس معاملہ میں خاص طور پر نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس لفظ کو میری جماعت کے لوگوں کی نسبت استعمال نہ کیا کریں.کیونکہ میں اس امر کا قائل نہیں کہ کچھ خاص لوگ سلسلہ کے ٹھیکیدار ہیں.خوب یا درکھیں کہ ہر ایک وہ شخص جو مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوتا ہے وہ ذمہ دار ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِه ، پھر آپ کیوں کر فرماتے ہیں کہ غیر ذمہ دار لوگ کیوں بولتے ہیں.انہی کا یہ سب فساد ڈالا ہوا ہے.آپ نے ذمہ داری شاید یہ سمجھ لی ہے کہ ایک شخص مالدار ہو یا ڈگری یافتہ ہو.میرے خیال میں ذمہ داری کچھ اور ہی چیز ہے اور ہر ایک مسلمان خدا کے نزدیک ذمہ دار ہے خواہ وہ گدڑی پوش ہو یا تخت شاہی پر بیٹھا

Page 172

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۴ جلد اول ہوا ہو.میں احمدی ہونے کے لحاظ سے جس طرح ایک امیر سے امیر مبائع کو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار خیال کرتا ہوں.اسی طرح اس شخص کو جسے دو تین وقت کا فاقہ ہو اور جس کے تن پر پھٹے ہوئے کپڑے ہوں.آپ اپنی جماعت کے لوگوں میں خواہ کس قدر فریق ہی بنا ئیں میں اپنے مبائعین میں ہرگز کوئی فرق نہیں پاتا.خلیفہ ایک وجود ہے جس کو اللہ تعالیٰ انتظام کے لئے کھڑا کرتا ہے.اس امر کو چھوڑ کر خود خلیفہ جماعت میں سے ایک معمولی فرد ہے اور اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ اصولوں کا ایسا ہی پابند ہے جیسے اور ممبر.اور جس طرح اور لوگ سلسلہ احمدیہ کے افراد ہیں وہ ان افراد میں سے ایک فرد ہے ان کا بھائی ہے.انہی کا ہے.اسے اس انتظام سے علیحدہ ہو کر جو جماعت کے قیام کیلئے اس کے سپرد کیا گیا ہے اور کوئی فضیلت نہیں.اگر وہ غریب سے غریب آدمی کے حق کو دباتا ہے تو وہ خدا کے حضور جوابدہ ہے.پس اس جماعت کا ہر ایک فرد ذمہ دار ہے اور اسلام کسی کو ذلیل نہیں کرتا.حضرت عمر کے وقت ایک حبشی غلام نے ایک شہر سے صلح کر لی تھی با وجود افسروں کی ناراضگی کے حضرت عمرؓ نے اُس کو قائم رکھا اور باوجود اس کے کہ اس میں بعض جگہ انتظامی دقتیں پیدا ہو جانے کا خطرہ ہو سکتا تھا.مگر میں کہتا ہوں اس واقعہ سے خوب ظاہر ہو جاتا ہے کہ اسلام خلیفہ کو اس مقام پر کھڑا کرتا ہے جہاں اس کی نظر میں سب مسلمان برا بر ہوں.آپ ایک طرف تو یہ اصل مقرر کرتے ہیں کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ بات کیسی ہے اور یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کس نے کہی ہے اور کن خیالات سے کہی ہے لیکن آپ نے اس پر عمل تو نہ کیا.جماعت کے ایک حصہ کو جو آپ کی اور میری طرح معزز ہے بے وجہ غیر ذمہ دار قرار دے دیا.بے شک اگر بعض لوگوں کی بعض باتیں آپ کو پسند نہ آئی تھیں تو آپ کہہ سکتے تھے کہ فلاں فلاں باتیں ان کی غلط ہیں ان کو بند کیا جاوے یا ان کی اصلاح کی جائے.بجائے اس کے آپ ایک گروہ غیر ذمہ داروں کا قرار دے کر اس کی باتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ اسے بند کر دوں.مگر چونکہ میں سب کو ذمہ دار خیال کرتا ہوں اس لئے اس مشورہ پر عمل کرنے سے معذور ہوں.ہاں اگر کوئی بات نا معقول ہو تو اس کے روک دینے کے لئے تیار ہوں.مگر خدا کی دی ہوئی طاقتوں کو زائل کرنا میرا کام نہیں.

Page 173

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۵ جلد اول انہی متفرق باتوں میں سے جن کا مختصر جواب میں اس جگہ دینا ضروری سمجھتا ہوں ایک یہ بھی ہے کہ خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ اگر محمد علی اور اس کے دوست ایسے ہی ہیں جیسے تم خیال کرتے ہو تو پھر مرزا کی نہ تعلیم درست نہ تربیت درست اور پھر الزام لگاتے ہیں کہ یہ خیال تو شیعوں کے تھے کہ سب صحابہ سوائے چند اہل بیت اور صحابہ کے منافق تھے.مگر میں پوچھتا ہوں کہ یہ خیال تو آپ کا ہے.آپ ستانوے فیصدی احمد یوں کو تو غلطی پر خیال کرتے ہیں ، منصو بہ باز خیال کرتے ہیں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاموں کو تباہ کرنے والا بیان کرتے ہیں اور ایک بڑے حصہ کو اپنے اسی مضمون میں کافر ظاہر کرتے ہیں کیونکہ وہ تو مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں پھر تعجب ہے کہ اس صورت میں آپ شیعوں کے متبع ہوئے یا ہم.شیعہ بھی تو اکثر حصہ کو گندہ کہتے ہیں صرف چند کو پاک خیال کرتے ہیں اور انہی کو ذمہ وار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا سمجھتے ہیں آپ کا بھی ایسا خیال ہے تو یہ اعتراض آپ پر پڑا یا ہم پر ؟ اور اگر مولوی محمد علی صاحب اور ان کے چند دوستوں کے بُرا ہو جانے سے مرزا صاحب کی تعلیم پر بھی پانی پھر جاتا ہے تو کیوں احمدی جماعت کے کثیر حصہ کے کا فر ہو جانے سے جیسا کہ آپ نے اپنے ٹریکٹ صفحہ ۴۲ پر صریح الفاظ میں لکھا ہے مرزا صاحب نا کام نہیں رہے.اگر کہو کہ ہم نے تو حدیث اور مسیح موعود علیہ السلام کے فتویٰ کے مطابق کہا ہے کہ چونکہ آپ لوگ غیر احمدی مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اس لئے کا فر ہو گئے ، اپنی طرف سے تو بات نہیں کہی تو میں بھی کہتا ہوں کہ ہم بھی جو فتوی لگاتے ہیں قرآن کریم اور احادیث کے مطابق لگاتے ہیں اور ہمارا فتویٰ بھی آیت استخلاف کے ماتحت ہی ہے.پس اگر آپ کا فتویٰ درست ہے تو یہ بھی درست ہے اور اگر آپ کا فتویٰ درست ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نَعُوذُ بِاللهِ ناکام گئے مگر یہ غلط ہے.ایسا نہیں ہوا.مسیح موعود علیہ السلام کا میاب گئے اور ہر طرح کامیاب گئے.جماعت کا اکثر حصہ اُس راہ پر چل رہا ہے جس پر آپ نے چلایا تھا.ہاں کچھ لوگ الگ ہو گئے.بے شک آپ لکھتے ہیں کہ کیا وہ ا کا برخراب ہو سکتے ہیں جو سلسلہ کے خادم تھے ؟ تو میں کہتا ہوں کہ مسیح موعود علیہ السلام کی وہ بات کیوں کر پوری ہوتی جو آ نے الہام کی بناء پر لکھی تھی کہ کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو

Page 174

خلافة على منهاج النبوة جلد اول E..چھوٹے کئے جائیں گے.پس مقام خوف ہے کہ اگر آپ کے خیال کے مطابق بڑے چھوٹے نہیں ہو سکتے تھے بلکہ اکا بر معصوم عن الخطاء ہی سمجھے جانے کے لائق ہیں تو پھر اس عبارت کا کیا مطلب ہے.اس عبارت سے تو بالبداہت ثابت ہو جاتا ہے کہ ا کا بر کا چھوٹا ہو جانا بھی ممکن ہے بلکہ بعض چھوٹے کئے بھی جائیں گے.پس آپ اس دلیل سے کوئی فائدہ نہیں حاصل کر سکتے.خصوصاً جب کہ صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ان لوگوں کو جنہوں نے بیعت ابی بکڑ نہ کی تھی اور جن میں سے ایک ایسا بڑارتبہ رکھتا تھا کہ وہ بارہ نقیبوں میں سے ایک تھا مرتد اور منافق کہا ہے اور اس کا ثبوت صحیح احادیث اور مستند روایات سے مل سکتا ہے.^ پس چند آدمیوں کا ٹھو کر کھا جانا جب کہ کثرت حق پر قائم ہوسلسلہ کی تباہی کی علامت نہیں اور پھر اس حالت میں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے رویا میں بتایا بھی ہے کہ جماعت کا ایک سنجیدہ آدمی مرتدوں میں مل گیا ہے.۱۸ ستمبر ۱۹۰۷ء رؤیا.فرمایا: چند روز ہوئے میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا تھا کہ وہ مرتدین میں داخل ہو گیا ہے.میں اس کے پاس گیا وہ ایک سنجیدہ آدمی ہے.میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا ؟ اُس نے کہا کہ مصلحت وقت ہے“.2 اور یہ رویا عبد الحکیم کے ارتداد کے بعد کی ہے.اور آپ جانتے ہیں کہ آپ کا قدم غیر احمدیوں کے زیادہ قریب ہے بہ نسبت ہمارے.کیونکہ ہم پر تو آپ الزام دیتے ہیں کہ ہم ان مسلمانوں سے دور ہی دور جا رہے ہیں اور خود جب کہ حضرت کا کشف مولوی محمد علی صاحب کی نسبت موجود ہے کہ آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے، یہ ” تھے، ظاہر کرتا ہے کہ کبھی ایسا وقت آنے والا ہے کہ ہمیں نہایت افسوس سے ہیں‘ کی بجائے تھے کہنا پڑے گا.اسی طرح شیخ رحمت اللہ صاحب کی نسبت دعا کرنا اور الہام ہونا کہ شَرِّ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ نے جن پر تو نے انعام کیا ان کی شرارت.اور یہ بات تو آپ بھی بار بار پیش کرتے ہیں کہ ہم پر حضرت بہت مہربان تھے اور شیخ صاحب کی نسبت دعا کرنے پر اس الہام کا ہونا مطلب کو اور بھی واضح کر دیتا ہے.اور اگر آپ کہیں کہ کیا ہماری خدمات کا یہی بدلہ ملنا چاہیے تھا ؟ تو اس کا جواب یہ.

Page 175

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۷ جلد اول کہ خدمات کا یہ بدلہ نہیں ملتا.خدمات تو سارے احمدیوں نے کی ہیں اور بتوں نے آپ سے بڑھ کر کی ہیں.جن کے پاس مسیح موعود علیہ السلام کی لکھی ہوئی سندات موجود ہیں.پس یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدمات کا ایسا اُلٹا بدلہ کیوں ملا کیونکہ بہتوں نے خدمات کیں اور انعام پائے.اگر آپ کو ٹھو کر لگی تو اس کے کوئی پوشیدہ اسباب ہوں گے جن سے خدا تعالیٰ واقف ہے اور ممکن ہے کہ آپ بھی واقف ہوں ہمیں اس بات کے معلوم کرنے کی کچھ ضرورت نہیں.باقی رہا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کیوں ایسے لوگوں سے آگاہ نہ کیا گیا اس کے دو جواب ہیں.اول یہ کہ مجملاً آگاہ کیا گیا جیسا کہ پہلے میں الہام لکھ آیا ہوں دوسرے یہ کہ کوئی ضروری نہیں کہ آپ کو آپ کی وفات کے بعد کی گل کا رروائیوں سے واقف کیا جا تا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر آپ کی وفات کے بعد سخت مصائب آئے مگر آپ کو نہیں بتایا گیا کہ کس کا کیال حال ہو گا.آپ لوگوں پر اصل ابتلاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آیا.خلافت بعد میں ہوئی اُس وقت تو نہ تھی.پھر یہ کون سی ضروری بات تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا جاتا کہ فلاں فلاں شخص انکارِ خلافت کرے گا اور اگر ضروری تھا تو کیا یہ بتایا گیا کہ آپ کی اولا دسب کی سب اور سب قادیان کے مہاجرین اور اکثر حصہ جماعت آپ کی وفات کے بعد کا فر ہو جائیں گے ( جیسا کہ آپ نے صفحه ۴۶ پر کافر قرار دیا ہے ) اگر یہ امر آپ کے خیال کے مطابق واقعہ ہو گیا لیکن اس کا آپ کو علم نہ دیا گیا تو آپ کون سی ایسی خصوصیت رکھتے ہیں کہ آپ کے متعلق ضرور کوئی الہام ہوتا چاہیے تھا.آپ کے سب بیٹے بقول آپ کے کا فر ہو جائیں تو کسی الہام کی ضرورت نہیں ، سب مہاجرین بگڑ جائیں تو کسی الہام کی ضرورت نہیں لیکن اگر آپ کے عقائد میں کچھ فرق آتا تھا تو اس کی اطلاع مسیح موعود علیہ السلام کو ضرور ہو جانی چاہیے تھی.اور اگر نہیں ہوئی تو ثابت ہوا کہ آپ حق پر ہیں.خواجہ صاحب ! ان دلائل سے کام نہیں چل سکتا کسی بات کے ثابت کرنے کیلئے کوئی مضبوط دلیل چاہیے.طلحہ اور زبیر اور حضرت عائشہ کے بیعت نہ کرنے سے آپ حُجت نہ پکڑیں.ان کو انکارِ خلافت نہ تھا بلکہ حضرت عثمان کے قاتلوں کا سوال تھا.پھر میں آپ کو بتاؤں جس نے آپ سے کہا ہے کہ اُنہوں نے حضرت علی کی بیعت.

Page 176

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۸ جلد اول نہیں کی وہ غلط کہتا ہے.حضرت عائشہ تو اپنی غلطی کا اقرار کر کے مدینہ جا بیٹھیں اور طلحہ اور زبیر نہیں فوت ہوئے جب تک بیعت نہ کر لی.چنانچہ چند حوالہ جات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.(الف) وَاَخْرَجَ الْحَاكِمُ عَنْ ثَوْرِبْنِ مَجْزَاةَ قَالَ مَرَرْتُ بِطَلْحَةَ يَوْمَ الْجَمَلِ فِي اخِرِ رَمَةٍ.فَقَالَ لِى مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ مِنْ أَصْحَب أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ - فَقَالَ ابْسُطُ يَدَكَ يُبَايِعُكَ فَبَسَطْتُ يَدِى وَبَايَعَنِى وَفَاضَتْ نَفْسُهُ.فَأَتَيْتُ عَلِيًّا فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ اللهُ أَكْبَرُ صَدَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَبَى اللَّهُ أَنْ يُدْخُلَ طَلْحَةُ الْجَنَّةَ إِلَّا " وَبَيعَتِي فِي عُنُقِهِ ترجمہ: اور حاکم نے روایت کی ہے کہ ثور بن مجزاۃ نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں واقعہ جمل کے دن حضرت طلحہ کے پاس سے گذرا.اُس وقت ان کی نزع کی حالت قریب تھی.مجھ سے پوچھنے لگے کہ تم کون سے گروہ میں سے ہو؟ میں نے کہا کہ حضرت امیر المؤمنین علی کی جماعت میں سے ہوں.تو کہنے لگے اچھا ! اپنا ہاتھ بڑھاؤ تا کہ میں تمہارے ہاتھ پر بیعت کرلوں چنانچہ اُنہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر جان بحق تسلیم کر گئے.میں نے آ کر حضرت علی سے تمام واقعہ عرض کر دیا.آپ سن کر کہنے لگے.الله اكبر خدا کے رسول کی بات کیا کچی ثابت ہوئی.اللہ تعالیٰ نے یہی چاہا کہ طلحہ میری بیعت کے بغیر جنت میں نہ جائے.( آپ عشرہ مبشرہ میں سے تھے ) (ب) وذکر کرده شد عائشه را یک بار روز جمل - گفت مردم روز جمل میگویند - گفتنداری گفت من دوست داشتم که می نشستم ـ چنانکه بنشست غیر من که این احب ست بسوی من ازین که می زائیدم از رسول خدا صلعم دہ کس که همه ایشان مانند عبدالرحمن بن الحارث بن هشام می بودند - ترجمہ: اور حضرت عائشہ کے پاس ایک دفعہ واقعہ جمل مذکور ہوا تو کہنے لگیں کیا لوگ واقعہ جمل کا ذکر کرتے ہیں؟ کسی ایک نے کہا جی اسی کا ذکر کرتے ہیں.کہنے لگیں کہ کاش !

Page 177

خلافة على منهاج النبوة ۱۵۹ جلد اول جس طرح اور لوگ اس روز بیٹھے رہے میں بھی بیٹھی رہتی.اس بات کی تمنا مجھے اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دس بچے جنتی.جن میں سے ہر ایک بچہ عبد الرحمن بن حارث بن ہشام جیسا ہوتا.( ج ) نیز طلحه و زبیر از عشرة مبشرة بالجنة اندو بشارت آنحضرت صلعم حق است.با آنکه ایشان رجوع کردند از خروج و توبه نمودند ترجمہ : اور طلحہ اور زبیر عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں جن کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہوئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کا سچا ہونا یقینی ہے پھر یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے خروج سے رجوع اور توبہ کر لی.خواجہ صاحب ! آپ نے حضرت صاحب کا ایک الہام لکھا ہے.مسلمانوں کے دوفریق ہیں.خدا ایک کے ساتھ ہوا یہ سب پھوٹ کا نتیجہ.یہ کب ہوا تھا اور کہاں لکھا ہے.جب الہاموں کی نقل میں احتیاط سے کام نہیں لیتے تو دوسری باتوں میں آپ نے کیا احتیاط کرنی ہے.کلامِ الہی کے نقل کرنے میں تو انسان کو حد درجہ کا محتاط ہونا چاہیے اور اپنی طرف سے الفاظ بدل دینے سے ڈرنا چاہیے.اس ٹریکٹ میں خواجہ صاحب نے ایک اور بات پر بھی زور دیا ہے کہ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ مرشد سے عقیدہ میں خلاف ہو.اور پھر اس کو چھپائیں یہ تو نفاق ہے.بیشک ایک مرشد سے عقیدہ میں اختلاف رکھنا اور اسے چھپانا نفاق ہے لیکن ایک شخص کی بیعت کرنے سے پہلے اُس پر ظاہر کر دینا کہ میرے یہ اعتقادات ہیں اتحاد عمل کے لئے آپ مجھے اپنی جماعت میں داخل کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ اور اس شخص کا اسے بیعت میں داخل کرنا نفاق نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی نواب صاحب کو لکھا تھا کہ آپ شیعہ رہ کر بھی بیعت کر سکتے ہیں.چنانچہ نواب صاحب کی گواہی ذیل میں درج ہے.میں نے یہ تحریک اپنے استاد مولوی عبد اللہ صاحب فخری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں غالباً آخر ۱۸۸۹ ء یا ابتدائے ۱۸۹۰ء میں خط دعا کے لئے لکھا تھا.جس پر حضرت نے جواب میں لکھا کہ دعا بلا تعلق نہیں ہوسکتی آپ بیعت کر لیں.اس پر میں نے

Page 178

خلافة على منهاج النبوة 17.جلد اول جواباً ایک عریضہ لکھا تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میں شیعہ ہوں اور اہل تشیع ائمہ اثنا عشر کے سوا کسی کو ولی یا امام نہیں تسلیم کرتے اس لئے میں آپ کی کس طرح بیعت کر سکتا ہوں ؟ اس پر حضرت نے ایک طولانی خط لکھا جس کا ما حصل یہ تھا کہ اگر برکات روحانیہ محض ائمہ اثنا عشر پر ختم ہو گئے تو ہم جو روز دعا مانگتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یہ سب بیکار ہے.اور اب سے تو ہو چکی دودھ باقی ہے.کیا ہم دود کے لئے اب مشقت ریاضات کریں؟ حضرت نے یہ بھی لکھا کہ منجملہ ان لوگوں کے جو حضرت امام حسین کے ہم پلہ ہیں میں بھی ہوں بلکہ ان سے بڑھ کر.اس خط سے ایک گونہ میرا رحجان ہو گیا مگر میں نے پھر حضرت کو لکھا کہ کیا ایک شیعہ آپ کی بیعت کر سکتا ہے؟ تو آپ نے تحریر فرمایا کہ ہاں.چنانچہ پھر بمقام لدھیانہ ستمبر یا اکتو بر ۱۸۹۰ء میں میں حضرت سے ملا اور اس ملاقات کے بعد میں نے حضرت صاحب کو بیعت کا خط لکھ دیا مگر ساتھ ہی لکھا کہ اس کا اظہار سر دست نہ ہو.مگر ازالہ اوہام کی تصنیف کے وقت حضرت نے لکھا کہ مجھ کو اس طرح آپ کا پوشیدہ رکھنا نا مناسب معلوم ہوتا ہے.میں آپ کے حالات ازالہ اوہام میں درج کرنا چاہتا ہوں.آپ اپنے حالات لکھ کر بھیج دیں چنانچہ میں نے حالات لکھ دیے اور باوجود بیعت اور تعلق حضرت اقدس میں ۱۸۹۳ء تک شیعہ ہی کہلا تا رہا اور نماز وغیرہ سب ان کے ساتھ ہی ادا کرتا تھا بلکہ یہاں قادیان اس اثناء میں آیا تو نما ز علیحدہ ہی پڑھتا رہا تھا.۱۸۹۳ء سے میں نے شیعیت کو ترک کیا ہے.محمد علی خان.خواجہ صاحب نفاق تو اس کو کہتے ہیں کہ ظاہر اور بات کی جائے اور دل میں اور ہولیکن جو شخص آگے آکر خود کہہ دے کہ میرا یہ عقیدہ ہے وہ نفاق کا مرتکب کیونکر کہلا سکتا ہے اور جس کی بیعت کرتا ہے اس سے کبھی اس عقیدہ کو پوشیدہ نہ رکھے اور وہ اسے اجازت دے دے تو یہ نفاق کیونکر ہوا.خواجہ صاحب ! نہ معلوم آپ نے یہ بات کہاں سے معلوم کی کہ احمدیت کی روک کا اصل باعث تکفیر ہے اگر یہ بات تھی تو چاہئے تھا کہ جب سے آپ الگ ہوئے ہیں آپ کا حصہ جماعت سرعت سے بڑھنے لگتا لیکن بجائے اس کے آپ نے تو کوئی معتد بہ ترقی نہیں کی

Page 179

خلافة على منهاج النبوة جلد اول لیکن برخلاف آپ کے بیان کے کہ پیار و تم احمدیت کو تو کیا پھیلاؤ گے سنو ! اور ہوش سے سنو !! اگر وہ خبر درست ہے جو مجھے گذشتہ ہفتہ معتبر ذرائع سے معلوم ہوئی ہے تو تمہاری رفتار احمدیت جو نہایت سرعت سے خراسان اور حدود د افغانستان میں جاری تھی ختم ہوگئی اور بہت سے احمدی احمدیت سے الگ ہو گئے اور اس کے ذمہ دار دو ہی مسئلے ہیں جیسے مجھے اطلاع ملی ایک تکفیر غیر احمد یاں اور دوسری مرزا صاحب کی نبوت مستقلہ.کوئی شخص نفاق کے سوائے اس عقیدہ پر افغانستان میں نہیں رہ سکتا.احمدیت نہایت زور سے بڑھ رہی ہے اور پچھلے چند ماہ میں سینکڑوں نئے آدمی سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں جن میں انگریزی علوم کے لحاظ سے ایم.اے اور بی.اے بھی شامل ہیں.عربی علوم کے لحاظ سے تحصیل یافتہ مولوی ہیں، سرکاری عہدوں کے لحاظ سے ای.اے.سی اور اسٹنٹ انسپکٹران سکول ہیں.رئیسوں کے لحاظ سے بڑے بڑے جا گیر دار ہیں غرض کہ غریب بھی اور امیر بھی جو اپنے اندر نہایت اخلاص رکھتے ہیں اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں اور مبائعین میں شامل ہوئے ہیں.بعض کو لوگ تکلیفیں بھی دیتے ہیں لیکن صبر سے کام لے رہے ہیں اور اپنے عقائد کو بدلنے کی انہیں کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی.پھر میں کیونکر مان لوں کہ ہمارے عقائد سلسلہ کے راستہ میں روک ہیں اور کیونکر تسلیم کر لوں کہ اب سلسلہ کی ترقی رُک گئی ہے.اگر آپ کا خیال درست ہوتا تو واقعات اس کی تصدیق کرتے اور بجائے ہماری ترقی کے تنزّل ہوتا اور بجائے ہمارے بڑھنے کے آپ بڑھتے لیکن باوجود اس کے خلاف خدائے تعالیٰ کا معاملہ دیکھنے کے آپ کو ہم راستی پر کیونکر مان سکتے ہیں؟ خواجہ صاحب نے ایک یہ شکوہ بھی کیا ہے کہ وہ جب ہندوستان میں آئے تو ان کا ارادہ فوراً قادیان جانے کا تھا لیکن بعض غیر ذمہ دار لوگوں کی تحریروں کی وجہ سے جن میں اُنہوں نے غیر مبائعین سے ملنے جلنے اور بولنے کی ممانعت کی ہے میں رُک گیا.پھر وہ شکایت کرتے ہیں کہ اگر احمدیوں سے یہ سلوک ہے تو غیر احمدیوں اور پھر عیسائیوں سے کیا سلوک کرنا

Page 180

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۲ جلد اول چاہیے.اول تو یہ سوال ہے کہ یہ مضمون کب نکلا اور آپ لا ہور کب تشریف لائے.اگر آپ کا ارادہ تھا کہ فورا ہی قادیان آئیں تو اس امر سے کونسی چیز آپ کو مانع ہوئی کہ آپ ایک عرصہ تک لاہور میں بیٹھے رہے اور فوراً نہ آسکے اتنے میں وہ مضمون نکل گیا.پس اول تو یہ آپ کا فوراً ظاہر کرتا ہے کہ الفضل کا وہ مضمون ایک بہانہ کا کام دے رہا ہے.پھر میں پوچھتا ہوں کہ آپ نے مجھ سے ملنا تھا یا لوگوں سے؟ لوگ آپ سے ملتے یا نہ ملتے ؟ اگر آپ تبادلۂ خیالات چاہتے تھے تو مجھے سے ملتے.اگر آپ کہیں کہ مجھے یہ کیونکر معلوم ہو سکتا تھا کہ آپ مل لیں گے تو میں کہتا ہوں کہ اب تو کسی بڑے خرچ کی بھی ضرورت نہیں ایک پیسہ کے کارڈ کے ذریعہ سے آپ مجھ سے پوچھ سکتے تھے کہ اگر میں آؤں تو تم مجھ سے بات کر سکو گے یا نہیں؟ یا الفضل کے مضمون کے مطابق مجھ سے ملنا پسند نہ کرو گے.اگر اس خط کا جواب میں نفی میں دیتا یا جواب ہی نہ دیتا تو آپ کا عذر قابل سماعت ہوتا لیکن جب آپ نے یہ تکلیف نہیں اُٹھائی تو میں آپ کے عذر کو کس طرح قبول کروں.کیا یہ بات درست نہیں کہ آپ نے میرے مریدین کو بڑی بڑی لمبی چٹھیاں لکھی تھیں ؟ پھر کیا یہ درست نہیں کہ آپ نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی؟ پھر کیا آپ اس وقت سے کچھ وقت بچا کر اور ان کاغذوں لفافوں سے ایک کاغذ اور لفافہ بچا کر ایک خط میری طرف مذکورہ بالا مضمون کا نہیں لکھ سکتے تھے ؟ جب کہ اس بات سے آپ کو کوئی امر مانع نہ تھا.تو آپ کا جماعت کے دوسرے افراد کو دعوت دینا اور ان کے ملنے کی خواہش ظاہر کرنا ، ان کی طرف خطوط لکھنا لیکن مجھ سے فیصلہ کرنے یا گفتگو کرنے کی کوئی تحریک نہ کرنا اور خط لکھ کر دریافت نہ کرنا صاف ظاہر نہیں کرتا کہ آپ کا اصل منشاء لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانا اور جماعت میں پھوٹ ڈالنا تھا نہ کہ صلح کرنا.صلح مجھ سے ہو سکتی تھی اور کس کا حق تھا کہ میری اجازت کے بغیر صلح کرلے.یہ صلح کوئی مقامی معاملہ نہ تھا ، یہ فیصلہ کسی خاص شہر سے تعلق نہ رکھتا تھا بلکہ سب جماعت اور سب احمدیوں پر اس کا اثر پڑتا تھا پس یہ فیصلہ مبائعین میں سے بغیر میری اجازت کے اور کون کر سکتا تھا.اگر آپ کا منشاء صلح تھا تو مجھ سے براہ راست کیوں آپ نے گفتگو نہ کی؟ اب رہا یہ سوال کہ ایسا اعلان بعض غیر ذمہ دار لوگوں نے کیوں کیا کہ لوگ آپ

Page 181

خلافة على منهاج النبوة ١٦٣ جلد اول كا سے نہ ملیں نہ بولیں اس کی وجہ مجھے اس کے بغیر کوئی نہیں سمجھ میں آئی کہ انہوں نے آپ کی مذکورہ بالا کا رروائی کو محسوس کر لیا اور جماعت کو خطرہ سے آگاہ کر دیا اور چونکہ آپ کی اس کارروائی کا نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ فساد اور بڑھے گو آپ کا منشاء صلح کا ہی ہو اس لئے مضمون لکھنے والے نے پسند نہ کیا کہ جماعت میں فساد بڑھے اور اس نے تحریک کی کہ لوگ آپ سے نہ ملیں اگر فیصلہ کرنا تھا تو براہِ راست مجھ سے ہوسکتا تھا اور یہ امر کہ کیوں آپ سے وہ سلوک کیا گیا جو ہندوؤں اور مسیحیوں سے نہیں کیا جاتا.اس کا جواب آسان ہے.مسلمان یہود اور مسیحیوں سے کلام کرتے تھے لیکن اگر آپ کو یاد ہو تو الثَّلَثَةِ الّذينَ خُلّفوا جن کے واقعہ کی طرف سورۃ تو بہ میں اشارہ کیا گیا ہے ان کا مفصل ذکر بخاری میں آتا ہے.ان تین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام منع کر دیا تھا اور مسلمان ان سے نہ بولتے نہ ملتے نہ تعلق رکھتے حتی کہ بیویوں کو بھی جدا کر دیا تھا.کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ کیا وہ تین منافقوں سے بھی بدتر تھے ؟ کیا وہ یہود سے بھی بدتر تھے ؟ پھر کیا وہ مشرکوں سے بھی بدتر تھے ؟ اور اگر ان سے یہ سلوک کیا گیا تو مسیحیوں اور یہودیوں سے اس سے سخت کون سا سلوک کیا گیا.مگر آپ جانتے ہیں کہ یہ اعتراض غلط ہے ان کو سرزنش کی ایک خاص وجہ تھی اور انتظام جماعت کے قائم رکھنے کے لئے ایسا کرنا پڑتا ہے.دنیا وی حکومتیں بھی میدانِ جنگ کے سپاہی کو پکڑ کر صلیب پر نہیں لڑکا تیں حالانکہ وہ کئی خون کر چکا ہوتا ہے اور اپنے ملک کے مجرموں کو سزائیں دیتی ہیں کیوں؟ اسی لئے کہ اس سپاہی کا کام تھا کہ وہ ان کا مقابلہ کرتا مگر یہ اپنے تھے اور اپنے کا فرض ایک طرف تو یہ تھا کہ امن کو قائم رکھے جس کے خلاف اس نے کیا.دوسرے اس سپاہی کا حملہ ظاہر ہے اور اس اپنے کا حملہ اندر ہی اندر تباہ کر سکتا ہے پس جن لوگوں سے یہ خوف ہو کہ ایک حد تک اپنے بن کر مخالفت کریں گے اُن سے بچنا اور بچانا ایک ضروری بات ہے.دوسرے اپنے غلطی کریں تو وہ زیادہ سزا کے مستحق ہوتے ہیں.آجکل کی مثال لے لیجئے وہ رحیم کریم انسان جو شفقت علی خلق اللہ کا کامل نمونہ تھا اور یقیناً اسی کے منہ سے اور اسی کی تحریروں سے ہم نے یہ بات معلوم کی ہے کہ اسلام کی دو ہی غرضیں ہیں ایک تعلق باللہ اور دوسری شفقت علی خلق اللہ.وہ

Page 182

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۴ جلد اول ہندوؤں سے ملتا تھا، مسیحیوں سے ملتا تھا لیکن مرزا سلطان احمد صاحب سے کبھی نہیں ملتا تھا اور کئی دفعہ جب حضرت خلیفہ اول نے کوشش کی کہ آپ کو ان سے ملائیں تو آپ نے نہایت سختی سے انکار کر دیا اور آخر مولوی صاحب کو منع کر دیا کہ پھر ایسا ذکر نہ کریں.اب بتائیے اس تعلق میں اور ہندوؤں کے تعلق میں کچھ فرق معلوم ہوتا ہے یا نہیں؟ بیٹے سے تو ملتے نہ تھے اور لالہ شرمیت گھنٹہ گھنٹہ آپ کے پاس آکر بیٹھ رہا کرتے تھے.پس آپ ان مثالوں سے سمجھ لیں کہ کبھی ضروریات ایسا مجبور کرتی ہیں کہ باوجود اس کے کہ غیروں سے ملتے رہیں بعض اپنوں سے ملنا چھوڑ دیا جائے.آپ نے اپنے حال پر غور نہیں کیا کہ غیر احمد یوں کو مسلمان بنانے کے لئے آپ نے احمدیوں کو کا فرثابت کیا ہے.پھر جب آپ خود اس مجبوری کا شکار ہوئے ہیں تو دوسروں پر اعتراض کی کیا وجہ ہے.پھر اخبار پیغام لاہور محمد حسین بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ کے خلاف کچھ نہیں لکھتا لیکن اس کا سارا زور ہمارے خلاف خرچ ہو رہا ہے کیا یہ مثال آپ کے لئے کافی نہ تھی ؟ آپ نے خلافت پر اعتراض کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ کیا خلیفہ غلطی سے مضمون ہے مگر میں کہتا ہوں کہ اگر اسی کا فیصلہ مانا شرط ہو جو غلطی.مضون اور محفوظ ہو تو آپ بتائیں کہ کس انسان کا فیصلہ آپ مانیں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان جوگل کمالات انسانیہ کا خاتم ہے فرماتا ہے.عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ سَمِعَ جَلَبَةٌ خَصْمٍ بِبَابِ حُجْرَتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضُهُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَأَحْسِبَ أَنَّهُ صَادِق فَاقْضِى لَهُ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِّنَ النَّارِ فَلْيَحْمِلُهَا أَوْ يَذَرُهَا و ترجمہ: ام سلمہ (اُم المؤمنین ( رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مکان کے دروازہ کے پاس چند آدمیوں کا باہمی مقدمہ کی بابت شور وشغب سن کر ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمانے لگے میں ایک بشر ہوں ( عالم الغیب نہیں ) لوگ میرے پاس مقد مے لے کر آتے ہیں سو ممکن ہے کہ ایک فریق بات کرنے میں زیادہ ہوشیار ہو اور اس کی باتوں کی وجہ سے میں اُسے سچا خیال کر کے اس کے حق میں فیصلہ دے

Page 183

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۵ جلد اول دوں سو یا د رکھو کہ اس طرح سے اگر کسی شخص کو مسلم کا حق دلا دوں تو یہ مال آگ کا ٹکڑا ہے اب چاہے تو اُسے اُٹھا لے اور چاہے تو چھوڑ دے.پس کیا آپ کے فیصلہ کو بھی رڈ کر دینا چاہیے کہ ممکن ہے آپ سے غلطی ہوگئی ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرٌ بينهم ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تسليما یعنی تیرے رب کی ہی قسم ! یہ اُس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک تجھ سے جھگڑوں کا فیصلہ نہ چاہیں اور پھر فیصلوں اور قضا یا کو خوشی سے تسلیم نہ کریں.کیا گورنمنٹ اور اس کے مجسٹریٹ خطاء سے محفوظ ہوتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیا اس بناء پر گورنمنٹ اور جھوں کے فیصلے رڈ کر دیئے جاتے ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ غلطی کرتے ہوں.کیا خلیفۃ المسیح جن کی بیعت آپ نے کی تھی خطاء سے محفوظ تھے؟ پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا انجمن اپنے فیصلہ میں کبھی غلطی نہیں کر سکتی ؟ پھر انجمن جماعت کی حاکم کیونکر ہوسکتی ہے؟ اگر صرف مَصْتُون عَنِ الْخَطَاء کے فیصلے ہی واجب العمل ہوتے ہیں تو پھر دنیا کی سب حکومتیں سب انجمنیں مٹادینی چاہئیں کیونکہ انسان کوئی مصنونَ عَنِ الْخَطَاءِ نہیں.نماز ہمارے لئے دلیل ہے امام غلطی کرتا ہے اور خطاء سے پاک نہیں ہوتا مقتدیوں کو حکم ہے کہ باوجود اس کی غلطی کے اس کی اتباع کریں کیونکہ اتحاد رکھنا ضروری ہے اور اتحاد بغیر ایک مرکز کے نہیں ہوسکتا اور خواہ ایک انسان افسر ہو یا بہت سے ہوں وہ غلطی سے پاک نہیں ہو سکتے پس اتحاد کے قیام کیلئے قیاسات میں امام کی خطا کی بھی پیروی کرنے کا حکم ہے سوائے نصوص صریحہ کے.مثلاً کوئی امام کہے کہ نما ز مت پڑھو، کلمہ نہ پڑھو، روزہ نہ رکھو اس کی اتباع فرض نہیں اور یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک امام اگر چار کی بجائے پانچ یا تین رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے تو مقتدیوں کو حکم ہے کہ باوجود اس کی غلطی کے علم کے اس کی اتباع کریں.لیکن اگر وہ اُٹھ کر ناچنے لگ جائے یا مسجد میں دوڑ نے لگے تو اب مقتدیوں کو حکم نہیں کہ اس کی اتباع کریں کیونکہ اب قیاس کا معاملہ نہیں رہا بلکہ جنون یا شرارت کی شکل آگئی ہے لیکن یہ مثالیں بفرض محال ہیں ورنہ خدائے تعالیٰ جس کو امام

Page 184

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۶ جلد اول بناتا ہے اسے ایسے اعمال سے بچاتا ہے جو قومی تباہی کا موجب ہوں.آپ نے اپنے اس مضمون میں خلافت کے رڈ میں ایک یہ دلیل بھی دی ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اکثروں نے مان لیا یہ کوئی دلیل نہیں کیونکہ اگر ابوبکر، عمر کو اکثروں نے مان لیا تو یزید کو بھی تو مان لیا مگر خواجہ صاحب یہ مثال پیش کرتے وقت ان واقعات کو نظر انداز کر گئے ہیں جو ان دونوں قسم کی خلافتوں کے وقت پیش آئے.ابو بکر اور عمر کی خلافت پر اتفاق کرنے والوں میں صحابہ کا گر وہ تھا یزید کے ہاتھ پر اکٹھا ہونے والی کون سی جماعت تھی.کیا صحابہ کی کثرت تھی؟ صحابہ کے لئے خدائے تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے تھے اسی طرح اس جماعت کے لئے بھی بڑے بڑے وعدے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر سلسلہ میں داخل ہوئی.اور جس طرح صحابہ کی کثرت نے اول الذکر دونوں بزرگوں کو تسلیم کیا اسی طرح اس جماعت کے کثیر حصہ نے مجھے تسلیم کیا جو مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر سلسلہ میں داخل ہوئی تھی.اگر اسی جماعت کا اکثر حصہ ضلالت پر جمع ہو گیا تو یہ بے شک شیعوں والا عقیدہ ہے جو چند کے لئے کثیر حصہ کو بدنام کرتے ہیں.پھر یہ بھی سوال ہے کہ خلافت تو مشورہ سے ہوتی ہے دوسرے باپ کے بعد بیٹا فوراً خلیفہ نہیں ہوسکتا جیسا کہ احادیث اور صحابہ کے اقوال سے ثابت ہے امرِ اول کے لئے آیت اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أن تُؤدُّوا الآمنت إلى أهلها ل یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانات ان کے اہلوں کو دو اور حدیث لَا خِلافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ " اور امر دوم کے لئے حضرت عمرؓ کا قول اور صحابہ کی تسلیم.لیکن یزید کی خلافت کیونکر ہوئی.باپ نے اپنی زندگی میں جبر اسب سے اس کی بیعت کروائی.ہم حضرت معاویہ کی نیت پر حملہ نہیں کرتے لیکن ان کے اس فعل کی وجہ سے یزید کی خلافت خلافت نہ رہی بلکہ تلوار کے ذریعہ سے بیعت لی گئی اور حکومت ہوگئی لیکن یہاں ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات پائی جاتی ہے نہ ہی باپ کے بعد فوراً خلیفہ ہوا اور نہ والد صاحب نے اپنے سامنے جبر وا کراہ سے لوگوں کو میری بیعت پر مجبور کیا.پس ایک جبری کثرت اور دلوں کے بھینچ لانے میں آپ فرق نہیں کر سکتے.کیا خدائے تعالیٰ کی تائید و نصرت سچائی کا ایک زبر دست ثبوت نہیں ؟ پھر اس معاملہ میں آپ اس کو کیوں غلط قرار دیتے ہیں؟

Page 185

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۷ جلد اول خواجہ صاحب کا ایک یہ بھی سوال ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ قادیان مکرم مقام ہے اس کو ر چھوڑ کر جانا غلطی پر دلالت کرتا ہے یہ غلط ہے کیونکہ مکہ بھی ایک مکرم مقام ہے لیکن وہ غیر احمدیوں کے پاس ہے جو آپ کے نزدیک مسلمان نہیں.اوّل تو یہ دلیل نہیں کیونکہ اگر ایک طور پر پہلا دعوی کرنے والے پر یہ حجت ہے تو خواجہ صاحب اور ان کی پارٹی پر بھی تو حجت ہے کیونکہ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ خواجہ صاحب آپ کے نزدیک تو مکہ مدینہ مسلمانوں کے ہی قبضہ میں ہیں پھر آپ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ مکرم مقامات حقیقی وارثوں کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں.دوسرے یہ کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک جماعت خراب ہو جائے اور مرکز اس کے پاس رہے جب تک کہ نئی جماعت ترقی کرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شروع زمانہ میں مکہ مشرکوں کے پاس تھا یا یروشلم مسیح کے زمانہ میں یہود کے پاس تھا لیکن اس بات کا ثابت کرنا خواجہ صاحب کو مشکل ہوگا کہ ابھی کامل ترقی ہونے سے پہلے ہی ایک مقام متبرک ایک پاک جماعت کے پاس آکر ان کے ہاتھ سے نکل جائے اور اس کے سب افراد گندے اور کافر ہو جائیں اس طرح تو امان بالکل اُٹھ جاتا ہے اور ان تمام پیشگوئیوں پر پانی پھر جاتا ہے جو اس جگہ کے رہنے والوں کے متعلق ہیں.دوسرے یہ دلیل کوئی ایسی نہیں کہ جس پر فیصلہ کا مدار ہو ایسی باتیں تو ضمناً پیش ہوا کرتی ہیں ہاں یہ کہ دینا بھی ضروری ہے کہ حضرت علیؓ کے مدینہ چھوڑ دینے کی دلیل درست نہیں جب آپ مدینہ سے تشریف لے گئے تو صرف میدانِ جنگ کے قریب ہونے کے لئے تشریف لے گئے ورنہ مدینہ آپ کے قبضہ میں تھا اور مدینہ کے لوگ آپ کے ساتھ تھے اور یہی حال مکہ کا تھا.پھر آپ لکھتے ہیں کہ " کہا جاتا ہے کہ مولوی محمد علی کی ذلت ہوئی لوگوں نے ان کو تقریر سے روک دیا.یہ بات وہ کہہ سکتے ہیں جنہیں وہ تکالیف معلوم نہیں جن کا سا منا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کرنا پڑا مجھے افسوس ہے کہ یہ جواب بھی درست نہیں کیونکہ دونوں معاملوں میں ایسا کھلا فرق ہے جس کو ہر ایک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے.کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام محمد حسین بٹالوی کو گرسی نہ ملنے کا واقعہ ہمیشہ بیان فرماتے تھے بلکہ آپ نے کتاب البریہ صفحہ ۱۰ میں اسے لکھا بھی ہے اور اسے اُس کی ذلّت قرار دیتے تھے.لیکن کیا خود یہی واقعہ

Page 186

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۸ جلد اول حضرت صاحب پر چسپاں نہیں ہوتا ؟ کیا کرم دین کے مقدمہ میں مجسٹریٹ آپ کو کھڑا نہ رکھتا تھا ؟ کیا ایسا نہیں ہوا کہ بعض اوقات آپ نے پانی پینا چاہا اور اُس نے پانی تک پینے کی اجازت نہیں دی؟ لیکن کیا آپ اس کو ذلت کہہ سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں اور پھر کیوں؟ محمد حسین سے ویسے ہی سلوک پر اُسے ذلّت قرار دیا گیا.سینے ! ان دونوں مثالوں میں ایک فرق ہے اول تو یہ کہ محمد حسین کو سخت ڈانٹ دی گئی اور ڈپٹی کمشنر بہادر نے جھڑک کر پیچھے ہٹا دیا لیکن حضرت صاحب سے یہ معاملہ نہیں ہوا.دوسرے مقدمہ ایک ایسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش تھا جس کے سامنے دونوں برابر تھے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسیحیت کے دشمن تھے اور وہ ایک مسیحی تھا پس صاحب بہادر کا سلوک محمد حسین سے پہلا کسی محرک کے ہوا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بوجہ اُن کی تبلیغی کوششوں اور سب مذاہب کی بنیادیں کھوکھلی کر دینے کے سب فرقوں کو عداوت تھی خصوصاً اہالیانِ ہند کو.پس ایک ہندوستانی کا.آپ سے یہ سلوک کرنا پہلے معاملہ سے اس کو علیحدہ کر دیتا ہے.پھر ایک اور بات ہے کہ لوگ ہمیشہ مرا بھی کرتے ہیں لیکن غلام دستگیر کی موت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی سچائی کی دلیل قرار دیتے ہیں یہ کیوں؟ اس لئے کہ اس نے مباہلہ کیا تھا اور مطابق مباہلہ کے مر گیا.اسی طرح اب اس معاملہ کو لیجئے مولوی محمد علی صاحب نے صبح کے وقت مسجد میں تقریر کی کہ اگر میں نے بدنیتی سے ٹریکٹ لکھا تھا تو خدا مجھے پکڑے، مجھے ہلاک کرے، مجھے ذلیل کر دے.عصر کے وقت وہ ایک ایسے مجمع میں کھڑے ہوتے ہیں جوان کے دشمنوں کا نہیں اس جماعت کا ہے جس میں پہلے کھڑے ہو کر انہوں نے یہاں تک بھی کہا تھا کہ تم اپیل تو سنتے رہے ، چندہ مانگنے کے وقت اُٹھ کر بھاگتے تھے ہم جو نتیوں سے چندہ وصول کریں گے اس جماعت کا تھا جس میں آپ کے ماتحت ملازم شامل تھے.اس جماعت کا تھا جس میں وہ طلباء موجود تھے جو مولوی صدر الدین صاحب ہیڈ ماسٹر کی زیر تربیت رہتے تھے اور مولوی صدرالدین صاحب ہی اُس وقت کے سیکرٹری تھے وہ اس مجمع میں کھڑے ہوتے ہیں جس پر میرا کوئی زور نہ تھا، کوئی حکومت نہ تھی ، جماعت کے لوگ مختلف جگہوں سے اکٹھے ہوئے ہوئے تھے.وہ دیرینہ سیکرٹری شپ کی وجہ سے مولوی صاحب کے ایسے معتقد تھے کہ بعض ان

Page 187

خلافة على منهاج النبوة ۱۶۹ جلد اول میں سے آپ کے لئے تحفہ تحائف بھی لایا کرتے تھے.مولوی صاحب جماعت کے معززین اشخاص میں خیال کئے جاتے تھے ان کے ترجمہ قرآن کی طرف لوگوں کی نظریں لگی ہوئی تھیں.چند سال کی متواتر کوشش سے وہ لوگوں کی نظروں میں ایسے بنائے گئے تھے کہ گویا موجودہ نسلوں میں ایک ہی انسان ہے ایسا شخص ایسے مجمع میں اس بددعا کے بعد کھڑا ہوتا ہے جب کہ ابھی کوئی خلیفہ مقرر نہ تھا.جن کو آپ اکابر کہتے ہیں ان کی ایک جماعت اس کے ساتھ ہے جو خود ہمیشہ اپنا رعب بٹھانے کے درپے رہتی تھی.لیکن جب وہ شخص کھڑا ہوتا ہے تو اس ہزاروں کے مجمع میں سے ایک شور بلند ہوتا ہے کہ ہم آپ کی بات نہیں سنتے.لیکن شاید کوئی کہے کہ چند شریروں نے منصوبہ سے ایسا کر دیا.نہیں ! اس ہزاروں کے مجمع سے کوئی شخص ان آوازوں کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتا اور سب کے سب اپنی خاموشی سے اپنی رضا مندی کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے خاص دوستوں سمیت مولوی صاحب وہاں سے چلے جاتے ہیں.صبح کی بددعا کے بعد ایسے مجمع میں اس واقعہ کا ہونا اگر ایک الہی شہادت نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر میری بیعت کے بعد ان سے یہ سلوک ہوتا اور میری مرضی یا میرے علم سے ہوتا تو یہ ایک اور معاملہ تھا اس میں ان کی نہیں میری ذلت ہوتی.چنانچہ جب مجھے اطلاع دی گئی کہ ایک دو پانچ چھ سالہ بچوں نے نادانی سے آپ پر کنکر پھینکنے کا ارادہ کیا تو میں نے درس میں لوگوں کو سخت ڈانٹا کہ گو بچہ نادان ہولیکن میں والدین کو اس کا ذمہ دار قرار دوں گا.بیعت کے بعد مریدین کا سلوک اور شے ہے لیکن بیعت سے پہلے اس بددعا کے بعد وہ سلوک ضرور ایک الہی نشان تھا اور خواجہ صاحب کبھی یہ خیال نہ کریں کہ اب اگر وہ قادیان آئیں تو ان سے کسی مبائع سے سختی کروا کر کہہ دیا جائے گا کہ ان کی ذلت ہوئی یہ صرف بدظنی کا نتیجہ ہے.اگر وہ زیادہ تدبر سے کام لیں گے تو دونوں معاملات میں ان کو فرق نظر آئے گا.خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ جلسہ کو با رونق کرنے کے لئے آدمی بھیجے گئے.میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ کسی شخص نے غلطی سے ان کے سامنے یہ بات بیان کر دی ہے بات یہ ہے کہ میری طرف سے یا انجمن کی طرف سے ایسا نہیں کیا گیا نہ کسی اور مبائع کی طرف سے.بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انجمن احمد یہ اشاعت اسلام نے کچھ اشتہار مبائعین میں تقسیم کرنے کے

Page 188

خلافة على منهاج النبوة 12 + جلد اول لئے شائع کئے تھے اور کچھ بعض آدمی امرتسر اور لاہورسٹیشنوں پر اس غرض کے لئے گئے تھے کہ لوگوں کو روک کر لا ہور اُتار لیں یا لاہور لے جائیں.بعض مہمانوں سے جھگڑا بھی ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ باوجود اس کے کہ وہ لوگ غلطی سے اصرار سے بڑھ کر تکرار تک نوبت پہنچا دیتے تھے کہ آپ لاہور کیوں نہیں جاتے لیکن کسی قسم کا دنگہ نہ ہوا اور لوگوں کو ہنسی کا موقع نہیں ملا.شاید کسی شخص نے اس واقعہ کو میری طرف منسوب کر دیا ہو مگر حق یہی ہے کہ یہ واقعہ آپ کے دوستوں کی طرف سے ہوا ہے میری طرف سے ہر گز نہیں ہوا.خواجہ صاحب اپنے لیکچر میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ میں نے کیوں مولوی شیر علی صاحب کو ولا بیت جانے سے روک دیا حالانکہ میں خلیفہ اول سے وعدہ کر چکا تھا کہ میں آپ کے حکم بھی مانوں گا اور آپ کے بعد کے خلفاء کا بھی.حالانکہ مجھے حضرت ابو بکر اور ابو عبیدہ کی مثال یاد کرنی چاہیے تھی.میں حیران ہوں کہ خواجہ صاحب نے میرے وعدہ سے میرے عمل کو مخالف کس طرح سمجھا.میں نے کہا تھا کہ حضرت خلیفہ اول کا حکم بھی مانوں گا اور بعد کے خلفاء کا بھی.حضرت کی زندگی تک میرا فرض تھا کہ آپ کے حکم مانتا اور بعد میں جو خلیفہ ہوتا اُس کے حکم ماننا میرا فرض تھا.قدرت ایزدی نے خلافت مجھے ہی سپر د کر دی تو اب مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کے ماتحت میرا ہی حکم ماننا ضروری تھا اور میں نے حالاتِ وقت کے ماتحت مناسب فیصلہ کر دیا.ایک خلیفہ کا حکم اُسی وقت تک چلتا ہے جب تک وہ زندہ ہو.اُس کے بعد جو ہو اُس کا حکم ماننے کے قابل ہے.یہ مسئلہ آپ نے نیا نکالا ہے کہ ہر ایک خلیفہ کا حکم ہمیشہ کے لئے قابل عمل ہے یہ درجہ تو صرف انبیاء کو حاصل ہے کہ ان کے احکام اس وقت تک جاری رہتے ہیں.جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی پا کر کوئی نیا نبی انہیں منسوخ نہ کرے.خلفاء کی یہ حیثیت تو صرف آپ کی ایجاد ہے صحابہ ابو بکر ، عمر، عثمان ، علی رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک کے فرمانبردار تھے.لیکن ان میں سے ہر ایک بعد میں آنے والے نے اپنے سے پہلے کے چندا حکام کو منسوخ کیا یا بعض انتظامات کو بدل دیا لیکن کسی صحابی نے نہ کہا کہ ہم تو پہلے کے فرمانبردار ہیں اس لئے آپ کا حکم نہ مانیں گے.حضرت عمرؓ نے خالد کو جو حضرت ابوبکر کے مقرر کردہ سپہ سالار تھے معزول کر دیا.ان پر کسی نے اعتراض نہ کیا کہ

Page 189

خلافة على منهاج النبوة جلد اول حضرت ! آپ تو ابو بکر کی بیعت کر چکے ہیں ان کے مقرر کردہ کمانڈر کو کیوں معزول کرتے ہیں.اے کاش! کہ ہر اعتراض کے پیش کرنے سے پہلے یہ غور بھی کر لیا جایا کرے کہ ہم کیسی بے وقعت باتوں سے اپنے دعوے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں.پھر سینے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کوئی ایسا اعتراض نہیں ہونے دیا جو پہلوں پر نہ پڑتا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جو پہلا اجلاس مجلس معتمدین کا ہوا تھا اور جس میں آپ بھی شریک تھے اس میں مولوی محمد علی صاحب کی ایک تحریک پیش ہو کر جو فیصلہ ہوا اُس کے الفاظ یہ ہیں.کی درخواست مولوی محمد علی صاحب کہ کچھ مساکین کا کھانا حضرت اقدس نے لنگر خانہ سے بند کر کے ان میں سے بعض کے لئے لکھا ہے کہ مجلس انتظام کرے.پیش ہو کر قرار پایا کہ اب حسب احکام حضرت خلیفہ اسیح الموعود علیہ السلام لنگر کی حالت دگرگوں ہوگئی ا ہے اس لئے اس کا غذ کو داخل دفتر کیا جائے“.کیا حضرت صاحب کی وفات پر پہلے ہی اجلاس میں مجلس معتمدین نے جس میں آپ بھی حاضر تھے اس حکم کے خلاف نہ کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا تھا ؟ آپ شاید کہیں گے کہ ہم نے خود وجہ بھی لکھ دی تھی کہ حالات دگرگوں ہو گئے اس لئے اس حکم کو تبدیل کر دیا گیا یہی جواب آپ اپنے اعتراض کا سمجھ لیں.جب مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کو حالات کے بدل جانے سے بدلا جا سکتا ہے تو کیوں حضرت خلیفہ اول کے احکام کو نہیں بدلا جا سکتا.حضرت کی وفات کے بعد یہاں آدمیوں کی ضرورت تھی اس لئے میں نے اُن کو روک دیا.پھر لعل شاہ صاحب برق کے متعلق جو فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا اُس کو آپ کی ہی تحریک پر حضرت خلیفہ اول نے بدل دیا یا نہیں اور مولوی شیر علی صاحب کے معاملہ میں تو ایک فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ مولوی صاحب نے اپنی رخصت آپ منسوخ کروائی تھی نہ کہ میں نے منسوخ کی تھی.ایک بات آپ اور بھی لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح کا نام کاٹ دیا گیا.مجھے تعجب ہے کہ ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ سچی بات کو پیش کرنا چاہیے نہ کہ جذبات کو اُکسانے والی

Page 190

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۲ جلد اول باتوں کو.اور پھر آپ خود ایسے کام کرتے ہیں کیا کہیں میں نے یہ فیصلہ شائع کیا ہے کہ نَعُوذُ بِاللهِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسیح موعود نہ تھے یا یہ کہ اب ان کی جگہ میں مسیح موعود ہوں یا یہ کہ اب اُن کا حکم ماننا ضروری نہیں اب صرف میرا حکم ماننا ضروری ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو بیشک آپ کہہ سکتے تھے کہ مسیح موعود کا نام کاٹ دیا گیا لیکن جب کہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں تو پھر آپ کا ایک بات کو غلط پیرا یہ میں بیان کرنے سے سوائے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے کیا مطلب ہے.انجمن کا قاعدہ تھا کہ مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں انجمن کے معاملات میں آپ کا حکم آخری ہو گا بعد میں انجمن کا.اس کی بجائے جماعت احمد یہ کے قائم مقاموں نے انجمن کو مجبور کیا کہ وہ اس قاعدہ میں اصلاح کرے اور خلفاء کے حکم کو آخری قرار دے اور اسی وجہ سے میرا نام وہاں لکھا گیا.اب آپ بتائیں گے کہ کیا اس کو مسیح موعود کا نام کاٹ دینا کہتے ہیں.نام تو انجمن چھ سال پہلے کاٹ چکی تھی کیونکہ اس ریزولیوشن کے انجمن یہ معنی کرتی تھی کہ اب ہم حاکم ہیں.جماعت نے اس کی بجائے یہ فیصلہ کیا کہ خلیفہ وقت کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے اور اسی کے ماتحت تبدیلی ہوئی.آپ کا اس امر کو یہ رنگ دینا کہ گویا فیصلہ کر دیا گیا کہ مسیح موعود کا نام مٹا دیا جائے.(نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ ) کہاں تک دیانتداری کے ماتحت ہے.میں اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے ان تمام لوگوں کو جو صداقت کے طالب ہوں اور راستی اور حق کے جو یاں ہوں مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ جماعت کا موجودہ اختلاف کوئی معمولی بات نہیں اگر وہ اس امر میں کامل غور اور فکر سے کام لے کر حق کی اتباع نہ کریں گے تو ان کو خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہونا ہوگا.خدا تعالیٰ نے ایک پودا اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اور ضرور ضرور وہ اس کی آبیاری کرے گا.کوئی آندھی ، کوئی طوفان خطر ناک سے خطرناک ژالہ باری اس پودا کو اُکھاڑ نہیں سکتی ، خشک نہیں کر سکتی ، جلا نہیں سکتی کیونکہ اس پودا کا محافظ ، اس کا نگران خود اللہ تعالیٰ ہے لیکن وہ جو اپنے عمل سے یا اپنے قول سے خدا تعالیٰ کے لگائے ہوئے پودا کو اُکھاڑنا چاہتے ہیں ، اس کے جلائے ہوئے چراغ کو بجھانا چاہتے ہیں اپنی فکر کریں.نیک نیتی اور غلط نہی بیشک ایک حد تک ایک جرم کو ہلکا بنا دیتی ہے لیکن یہ عذرا یسے

Page 191

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۳ جلد اول.زبر دست نہیں کہ ان کے پیش کرنے سے انسان الہی گرفت سے بالکل محفوظ ہو جائے.ہر ایک شخص اپنی قبر میں خود جائے گا اور کوئی شخص اس کا مددگار نہ ہوگا.اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ہر ایک انسان کو عقل اور فہم عطا فرمایا ہے.پس ہر ایک شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہے.صرف یہ خیال کر کے کہ ہم کسی ایسے شخص کے ساتھ ہیں جو تمہارے خیال میں بہت سی خدمات دین کر چکا ہے تم بچ نہیں سکتے.تمہارا یہی فرض نہیں کہ تم اس قد رغور کر لو کہ تم جس کے ساتھ ہو وہ کسی وقت کوئی اچھی خدمت کر چکا ہے نہ یہ کہ تم جس کے ساتھ ہو وہ کسی بڑے آدمی کا بیٹا ہے بلکہ تم میں سے ہر ایک شخص اس بات کا پابند ہے کہ اس عقل اور فہم سے کام لے جو خدا تعالیٰ نے ہر ایک انسان کو عطا فرمایا ہے.اپنے اپنے طور پر غور کرو اور دیکھو کہ و کون لوگ ہیں جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم اور اس کے مشن کو تباہ کر رہے ہیں.آخر تم لوگ سالہا سال تک مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رہے ہو اُس کی کتابیں موجود ہیں ، اُس کا اپنے آپ کو دشمنوں کے سامنے پیش کرنے کا طریق ، اس کا اپنے دعوے پر زور دینا، اس کا یورپ و امریکہ میں تبلیغ کرنا تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.اس کے عمل پر غور کرو کہ وہ تمہارے لئے حکم و عدل مقرر کیا گیا ہے.اپنی ہوا و ہوس کو چھوڑ کر خدا کے پھینکے وه ہوئے مضبو ط رستے کو پکڑ لو تا نجات پاؤ.دیکھو اسلام اس وقت ایک سخت مصیبت میں ہے اور اس کے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اسے چھوڑ کر اسلام ہرگز ترقی نہیں کر سکتا.دنیا کے سامنے مسیح موعود علیہ السلام کو پیش کرو کہ اسی کے نام سے شیطان کی افواج بھاگیں گی.وہ اس زمانہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افواج کا سپہ سالا رہے اور آئندہ ہر ایک زمانہ میں اس کے پروانہ کے بغیر کوئی شخص دربارِ خاتم النبین میں بازیاب نہیں ہوسکتا.پس تم اپنے طریق پر غور کرو تا ایسا نہ ہو کہ غلطی سے اس شخص کی ہتک کر بیٹھو جسے خدا نے معزز کیا ہے کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کو بلند کرے جو اُس کی ہتک کرتا ہے اور جو اُس کے درجہ کو گھٹا تا ہے ضرور ہے کہ اس کی ہتک کی جائے اور اس کے درجے کو گھٹایا جائے.مسیح موعود علیہ السلام کی عزت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہے کیونکہ جس کا

Page 192

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۴ جلد اول سپہ سالار بڑے درجہ کا ہو وہ آقا ضرور ہے کہ اور بھی اعلیٰ شان کا ہو.میں تمہیں خدا کی قسم کھا کر جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہتا ہوں کہ میں نے حصول خلافت کے لئے کوئی منصوبہ بازی نہیں کی.میرے مولیٰ نے پکڑ کر مجھے خلیفہ بنا دیا ہے.میں اپنی لیاقت یا خدمت تمہارے سامنے پیش نہیں کرتا کیونکہ میں الہی کام کے مقابلہ میں خدمات یا لیاقت کا سوال اُٹھا نا حماقت خیال کرتا ہوں اللہ بہتر جانتا ہے کہ کوئی کام کس طرح کرنا چاہیے.خدا نے جو کچھ کیا ہے اُسے قبول کرو.مجھے کسی عزت کی خواہش نہیں ، مجھے کسی رتبہ کی طمع نہیں ، مجھے کسی حکومت کی تڑپ نہیں.وہ شخص جو یہ خیال کرتا ہے کہ میں خلافت کا مسئلہ جاہ پسندی کی غرض سے چھیڑتا ہوں نادان ہے اُسے میرے دل کا حال معلوم نہیں.میری ایک ہی خواہش ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عظمت پھر قائم ہو جائے اور میں دیکھتا ہوں کہ یہ ہو نہیں سکتا جب تک کہ اس اسلام کو دنیا کے سامنے نہ پیش کیا جائے جو مسیح موعود دنیا میں لایا.مسیح موعود کے بغیر اس زمانہ میں اسلام مُردہ ہے.ہر زمانہ کے لئے ایک شخص مذہب کی جان ہوتا ہے اور اب خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کو اسلام کی روح قرار دیا ہے.پس میں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی طرح ہوں.مجھے دنیا کا لالچ نہیں میرا کام صرف اپنے رب کے ذکر کو بلند کرنا ہے اور وہ بھی اپنی لیاقت اور اپنے علم کے زور سے نہیں بلکہ اُن ذرائع سے جو خود اللہ تعالیٰ نے میرے لئے مہیا فرما دئیے.پس بدظنیوں کو دور کرو اور خدا کے فیصلہ کو قبول کر لو کہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ اچھا نہیں ہوتا.نادان ہے وہ جو اس کام میں مجھ پر نظر کرتا ہے.میں تو ایک پردہ ہوں اسے چاہیے کہ وہ اُس ذات پر نظر کرے جو میرے پیچھے ہے.احمق انسان تلوار کو دیکھتا ہے لیکن دانا وہی ہے جو تلوار چلانے والے کو دیکھے کیونکہ لائق شمشیر زن کند تلوار سے وہ کام لے سکتا ہے کہ بے علم تیز تلوار سے وہ کام نہیں لے سکتا.پس تم مجھے کند تلوار خیال کرو مگر میں جس کے ہاتھ میں ہوں وہ بہت بڑا شمشیر زن ہے اور اس کے ہاتھ میں میں وہ کام دے سکتا ہوں جو نہایت تیز تلوار کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں دے سکتی.میں حیران ہوں کہ تمہیں کن الفاظ میں سمجھاؤں مبارک وقت کو ضائع نہ کرو اور جماعت

Page 193

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۵ جلد اول کو پراگندہ کرنے سے ڈرو.آؤ کہ اب بھی وقت ہے ابھی وقت گز رنہیں گیا.خدا کا عفو بہت وسیع ہے اور اس کا رحم بے اندازہ.پس اس کے رحم سے فائدہ اُٹھاؤ اور اس کے غضب کے بھڑ کانے کی جرات نہ کرو.مسیح موعود علیہ السلام کا کام ہو کر رہے گا کوئی طاقت اس کو روک نہیں سکتی مگر تم کیوں ثواب سے محروم رہتے ہو خدا کے خزانے کھلے ہیں اپنے گھروں کو بھر لوتا تم اور تمہاری اولاد آرام اور سکھ کی زندگیاں بسر کریں.النور : ۵۶ البقرة: ٣٢ خاکسار مرزا محمود احمد از قادیان النور : ۵۶ صلى الله صلى الله بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي علة باب قول النبي عليه لو كنت متخذا خليلاً صفحه ۶۱۴ حدیث نمبر ۳۶۶۱ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الثانية بخاری کتاب النكاح باب المرأة راعية صفحه ۹۳۰ حدیث نمبر ۵۲۰۰ مطبوعه ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية طبری جلد ۵ صفحه ۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء ی تذکرہ صفحه ۴۵۳.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء طبری جلد ۴ صفحه ۴۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء تذکرہ صفحہ ۶۱۹.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء ا تذکرہ صفحه ۴۶۴.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء الخصائص الكُبرى الجزء الثاني صفحه ۱۹۶ ۱۹۷ ذكر المعجزات مطبوعہ بیروت حجج الكرامة في اثار القيامة صفحہ ۶۷ ۱ مطبوعہ بھوپال حجج الكرامة في آثار القیامۃ صفحہ اے مطبوعہ بھوپال الفاتحة: ٧،٦ ه دود دھواں دھند غبار (جامع فارسی لغات فارسی سے اردو صفحہ ۳۰۵ مطبوعہ لاہور ۲۰۱۴ء) اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب صفحہ ۶ ۱ مطبوعہ لاہور ۱۹۱۴ء

Page 194

خلافة على منهاج النبوة كل التوبة: ١١٨ 124 جلد اول مصئون محفوظ (فیروز اللغات اردو جامع صفحه ۱۲۵۵ مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء) 19 مسلم كتاب الاقضية باب بيان ان حكم الحاكم لا يغير الباطن صفح۷۵۹ حدیث نمبر ۴۴۷۵ مطبوعہ ریاض ۲۰۰۰ء الطبعة الثانية ٢٠ النساء: ۶۶ ال النساء: ۵۹ ۲۲ کنز العمال جلد ۵ صفحه ۶۴۸ حدیث نمبر ۱۴۱۳۶ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء میں یہ الفاظ آئے ہیں لاخلافة الاعن مشورة“

Page 195

خلافة على منهاج النبوة 122 جلد اول " تشهد انوار خلافت ( فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۱۵ء بر موقع جلسه سالانه ) تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں:.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ل.میں نے آپ لوگوں کے سامنے جو یہاں تشریف لائے ہیں بعض باتیں بیان کرنے کا ارادہ کیا تھا.چنانچہ میں نے نوٹ کر لیا تھا کہ فلاں فلاں بات کہوں گا اور میرا منشاء تھا کہ جس طرح پچھلے جلسہ پر یہ انتظام کیا گیا تھا کہ کچھ امور ایسے بیان کئے جائیں جو جماعت کی اصلاح کے متعلق ہوں اور کچھ ایسے جو روحانیت سے تعلق رکھتے ہوں.چنانچہ گزشتہ جلسہ پر میں نے بتایا تھا کہ انسان کی روحانی ترقی کے سات درجے ہیں اور یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے حصول کے کیا ذرائع ہیں.اس دفعہ بھی میرا ارادہ تھا کہ ایک دن تو دوسری ضروری باتیں بیان کروں اور دوسرے دن ذکر الہی اور عبادت الہی پر کچھ کہوں.لیکن کہتے ہیں تدبیر کند بنده تقدیر زند خندہ.یہ کسی نے تو اپنے رنگ میں کہا ہوگا مگر میں جو کل اپنے ارادہ کو پورا نہیں کر سکا تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی خدا تعالیٰ کا منشاء ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ کے سلسلوں کے کام اُس کی منشاء اور ارادہ کے ماتحت ہوتے ہیں.کل جو میں تقریر کرنے لگا تو گو بہت اختصار سے کام لیا اور بہت حصہ مضمون کا کاٹ کر بیان کیا مگر مغرب تک پھر بھی نہ بیان کر سکا اور ایک حصہ رہ ہی گیا جو میرے خیال میں بہت ضروری ہے اور آج وقت بھی مل گیا ہے اس لئے

Page 196

خلافة على منهاج النبوة ۱۷۸ جلد اول اسی حصہ کو بیان کرتا ہوں.وہ دوسرا حصہ جس کو میں اس وقت بیان کرنا چاہتا ہوں اس کے متعلق میں نے ایک مختصر سی سورۃ پڑھی ہے جو گو عبارت کے لحاظ سے بہت مختصر ہے لیکن مضامین کے لحاظ سے بہت وسیع باتیں اپنے اندر رکھتی ہے اور حکمت اور معرفت کے بڑے بڑے دریا اس کے اندر بہہ رہے ہیں.نیز اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ بات بتائی ہے کہ اگر وہ اس پر غور وفکر اور عملدرآمد کرتے تو ان پر وہ ہلاکت اور تباہی کبھی نہ آتی جو آج آئی ہوئی ہے اور نہ مسلمان پراگندہ ہوتے.نہ ان کی حکومتیں جاتیں نہ اس قدرکشت و خون کی نوبت پہنچتی اور نہ ان میں تفرقہ پڑتا.اور اگر پڑتا تو اتنا جلدی اور اس عمدگی سے زائل ہو جا تا کہ اس کا نام ونشان بھی باقی نہ رہتا.لیکن افسوس کہ ان میں وہ تفرقہ پڑا جو باوجود گھٹانے کے بڑھا اور باوجود دبانے کے اُٹھا اور با وجود مٹانے کے اُبھرا اور آخر اس حد تک پہنچ گیا کہ آج مسلمانوں میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں فرقے موجود ہیں.کیونکہ وہ بند جس نے مسلمانوں کو باندھا ہوا تھا کاٹا گیا اور اس کے جوڑنے والا کوئی پیدا نہ ہوا.بلکہ دن بدن وہ زیادہ سے زیادہ ہی ٹوٹتا گیا.حتی کہ تیرہ سو سال کے دراز عرصہ میں جب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تو خدا تعالیٰ نے اپنے پاس سے ایک شخص کو اس لئے بھیجا کہ وہ آ کر اس کو جوڑے.اس فرستادہ خدا سے پہلے کے تمام مولویوں، گدی نشینوں ، بزرگوں اور اولیاؤں نے بڑی بڑی کوششیں کیں مگر ا کارت گئیں اور اسلام ایک نقطہ پر نہ آیا ، پر نہ آیا.اور کس طرح آ سکتا تھا جب کہ اس طریق سے نہ لایا جاتا جو خدا تعالیٰ نے مقرر کیا تھا یعنی کسی مامور من اللہ کے ذریعے سے.غرض اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آنے والے فتنہ پر آگاہ فرمایا ہے اور اس سے بچنے کا علاج بھی بتایا ہے.اس سورۃ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تاکید کی گئی ہے کہ آپ استغفار کریں.چونکہ استغفار کے معنی عام طور پر اپنے گنا ہوں کی معافی مانگنے کے ہوتے ہیں اس لئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے آیا تھا ، گمراہ اور بے دین لوگوں کو با خدا بنانے آیا تھا ، گنا ہوں

Page 197

خلافة على منهاج النبوة جلد اول اور بدیوں میں گرفتار شدہ انسانوں کو پاک وصاف کرنے آیا تھا اور جس کا درجہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله سب لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو.اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ تم خدا تعالیٰ کے محبوب اور پیارے بن جاؤ گے.پھر وہ جس کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے لقد كان لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أسْوَةٌ حَسَنة ٣ کہ اس رسول میں تمہارے لئے پورا پورا نمونہ ہے.اگر تم خدا کے حضور مقبول بننا چاہتے ہو ، اگر تم خدا سے تعلق پیدا کرنا پسند کرتے ہو تو اس کا آسان طریق یہ ہے کہ اس رسول کے اقوال، افعال اور حرکات وسکنات کی پیروی کرو.کیا اس قسم کا انسان تھا کہ وہ بھی گناہ کرتا تھا اور اسے بھی استغفار کرنے کی ضرورت تھی ؟ جس رسول کی یہ شان ہو کہ اس کا ہر ایک قول اور فعل خدا کو پسند یدہ ہوکس طرح ہوسکتا ہے کہ اُس کی نسبت یہ کہا جائے کہ تو اپنے گناہوں کی معافی مانگ.اگر وہ بھی گناہ گار ہوسکتا ہے تو خدا تعالیٰ نے اُس کی اتباع کی دوسروں کو کیوں ہدایت فرمائی ہے.ہم اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں کہ آپ ہر ایک قسم کی بدی اور گناہ سے پاک تھے.یہی تو وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اے لوگو! اگر تمہیں مجھ سے محبت کا دعوئی ہے اور میرے محبوب بننا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریق ہے کہ تم اس رسول کی اتباع کرو.اور نہ ممکن نہیں کہ تم میرے قرب کی کوئی راہ پا سکو.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی گناہ کا منسوب کر نا تعلیم قرآن کے بالکل خلاف ہے مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ پھر آپ کے متعلق یہ کیوں آیا ہے کہ تو استغفار کر ، استغفار کر ، یہاں یہ بات بھی یا درکھنی چاہئے کہ انہی الفاظ کو مدنظر رکھ کر عیسائی صاحبان بھی مسلمانوں پر ہمیشہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تمہارا رسول گناہ گار تھا کیونکہ قرآن اس کو حکم دیتا ہے کہ تو استغفار کر.لیکن ہمارے مسیح کی نسبت قرآن میں یہ کہیں نہیں آیا پس معلوم ہوا کہ تمہارا رسول گناہ کرتا تھا.اور بعض جگہ تو تمہارے رسول کی نسبت کا لفظ بھی آیا ہے تو معلوم ہوا کہ تمہارا رسول گناہ گار تھا اور ہمارا مسیح گنا ہوں سے پاک.اس سے ثابت ہو گیا کہ مسیح کا درجہ اس سے بہت بلند ہے.اس اعتراض کے جواب میں مسلمانوں کو بڑی دقت پیش آئی ہے اور گو اُنہوں نے جواب دینے کی بڑی کوشش کی

Page 198

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۰ جلد اول ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے اس کا جواب دینے میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے.یہی وجہ تھی کہ ہزار ہا مسلمانوں کی اولا د عیسائی ہوگئی اور تو اور سیدوں کی اولا دوں نے بھی بپتسمہ لینا پسند کر لیا اور وہ اب سٹیجوں پر کھڑے ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں.غرض ان الفاظ کی وجہ سے نادانوں نے دھوکا کھایا اور بجائے اس کے کہ عیسائیوں کو جواب دیتے خود عیسائی بن گئے.قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اُن معنوں کے لحاظ سے استعمال نہیں کیا گیا جن معنوں میں عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے.آپ کے متعلق اور معنوں میں استعمال ہوا ہے اور یہ بات اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ذُنُسب کا لفظ قرآن شریف میں تین جگہ آیا ہے.اوّل سورہ مومن میں جہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قاضيراتٌ وَعَدَ اللهِ حَقٌّ وَاسْتَغفِريدَ نَبِكَ وَسَبِّحُ بِحَمْدِ رَبِّكَ بالعشي والا نگار کے دوم سورہ محمد میں یوں آیا ہے.فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤمِنتِ، وَالله يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ و متوسكُم سوم سورہ فتح میں آیا ہے انا فتحنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنَاكَ الْيَغْفِرَ لَكَ الله ما تقدم مِن ذَنْبِكَ وَ مَا تَاَخَرَوَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمات ل اسی طرح بعض جگہ پر استغفار کا لفظ آپ کی نسبت استعمال ہوا ہے جیسا کہ اسی سورۃ میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے.ان سب جگہوں پر اگر ہم غور کریں تو ایک ایسی عجیب بات معلوم ہوتی ہے جو سارے اعتراضوں کو حل کر دیتی ہے اور وہ یہ کہ ان سب جگہوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ہلاک ہونے اور آپ کی فتح کا ذکر ہے.پس اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی فتح اور آپ کے دشمنوں کی مغلوبیت کے ساتھ گناہ کا کیا تعلق ہے.اور یہی بات ہے جس کے بیان کرنے کیلئے میں نے یہ سورۃ پڑھی ہے اور جس سے ہمیں اقوام کے تنزل و ترقی کے قواعد کا علم ہوتا ہے.بعض لوگوں نے ان آیات کے یہ معنی کئے ہیں کہ خدا تعالیٰ آپ کو یہ فرماتا ہے کہ اب تمہاری فتح ہوگئی اور

Page 199

خلافة على منهاج النبوة TAI جلد اول تمہارے دشمن مغلوب ہو گئے اس لئے تمہارے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آ گیا ہے پس تو تو بہ اور استغفار کر کیونکہ تیری موت کے دن قریب آگئے ہیں.اور گو یہ استدلال درست ہے لیکن ان معنوں پر بھی وہ اعتراض قائم رہتا ہے کہ آپ نے کوئی گناہ کئے ہی ہیں اسی لئے تو بہ کا حکم ہوتا ہے.میں نے جب ان آیات پر غور کیا تو خدا تعالیٰ نے مجھے ایک عجیب بات سمجھائی اور وہ یہ کہ جب کسی قوم کو فتح حاصل ہوتی ہے اور مفتوح قوم کے ساتھ فاتح قوم کے تعلقات قائم ہوتے ہیں تو ان میں جو بدیاں اور بُرائیاں ہوتی ہیں وہ فاتح قوم میں بھی آنی شروع ہو جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ فاتح قوم جن ملکوں سے گزرتی ہے ان کے عیش وعشرت کے جذبات اپنے اندر لیتی جاتی ہے.اور چونکہ عظیم الشان فتوحات کے بعد اس قدر آبادی کے ساتھ فاتح قوم کا تعلق ہوتا ہے جو فاتح سے بھی تعداد میں زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس کو فوراً تعلیم دینا اور اپنی سطح پر لانا مشکل ہوتا ہے اور جب فاتح قوم کے افراد مفتوح قوم میں ملتے ہیں تو بجائے اُس کو نفع پہنچانے کے خود اس کے بداثرات سے متاثر ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ رفتہ رفتہ نہایت خطرناک ہوتا ہے.جب اسلام کی فتوحات کا زمانہ آیا تو اسلام کیلئے بھی یہی مشکل در پیش تھی گوا سلام ایک نبی کے ماتحت ترقی کر رہا تھا لیکن نبی با وجود نبی ہونے کے پھر انسان ہی ہوتا ہے اور انسان کے تمام کام خواہ کسی حد تک وسیع ہوں محدود ہی ہوتے ہیں.ایک استاد خواہ کتنا ہی لائق ہو اور ایک وقت میں تیس چالیس نہیں بلکہ سو سوا سولڑکوں تک کو بھی پڑھا سکتا ہو لیکن اگر اس کے پاس ہزار دو ہزار لڑکے لے آئیں تو نہیں پڑھا سکے گا.رسول بھی استاد ہی ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آیا ہے يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أيتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ کے کہ اس رسول کا یہ کام ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی آیتیں لوگوں کو سنائے کتاب کی تعلیم دے اور ان کو پاک کرے.غرض نبی ایک استاد ہوتا ہے اس کا کام تعلیم دینا ہوتا ہے.اس لئے وہ تھوڑے لوگوں کو ہی دے سکتا ہے کیونکہ لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو سبق دینا اور پھر یا د بھی کروا دینا کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا.پس جب کسی کے سامنے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کی

Page 200

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۲ جلد اول جماعت سبق لینے کے لئے کھڑی ہو تو ضرور ہو گا کہ اس کی تعلیم میں نقص رہ جائے اور پوری طرح علم نہ حاصل کر سکے.یا یہ ہوگا کہ بعض تو پڑھ جائیں گے اور بعض کی تعلیم ناقص رہ جائے گی اور بعض بالکل جاہل کے جاہل ہی رہ جائیں گے اور کچھ تعلیم نہ حاصل کرسکیں گے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب فتوحات پر فتوحات ہونی شروع ہوئیں اور بے شمار لوگ آپ کے پاس آنے لگے تو ان کے دل میں جو بڑا ہی پاک دل تھا یہ گھبرا ہٹ پیدا ہوئی کہ ان تھوڑے سے لوگوں کو تو میں اچھی طرح تعلیم دے لیتا ، قرآن سکھا سکتا تھا ( چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑی پابندی سے صحابہ کو قرآن سکھاتے تھے ) لیکن یہ جو لاکھوں انسان اسلام میں داخل ہورہے ہیں ان کو میں کس طرح تعلیم دوں گا اور مجھ میں جو بوجہ بشریت کے یہ کمزوری ہے کہ اتنے کثیر لوگوں کو تعلیم نہیں دے سکتا اس کا کیا علاج ہوگا.اس کا جواب سورۃ نصر میں خدا تعالیٰ نے یہ دیا کہ اس میں شک نہیں کہ جب فتح ہوگی اور نئے نئے لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوں گے تو ان میں بہت سی کمزوریاں ہوں گی اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ سب کے سب تجھ سے تعلیم نہیں پا سکتے مگر ان کو تعلیم دلانے کا یہ علاج ہے کہ تو خدا سے دعا مانگے کہ اے خدا ! مجھ میں بشریت کے لحاظ سے یہ کمزوری ہے کہ اتنے لوگوں کو تعلیم نہیں دے سکتا تو میری اس کمزوری کو ڈھانپ دے اور وہ اس طرح کہ ان سب لوگوں کو خود ہی تعلیم دے دے اور خود ہی ان کو پاک کر دے.پس یہی وہ بات ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کرنے کا ارشاد ہوا ہے.ذنب کے معنی ایک زائد چیز کے ہیں اور غفر ڈھانکنے کو کہتے ہیں.اس سے خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات سکھائی ہے کہ تم یہ کہو کہ میں اس قدر لوگوں کو کچھ نہیں سکھا سکتا پس آپ ہی ان کو سکھائیے اور میری اس انسانی کمزوری کو ڈھانپ دیجئے.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتدائی زمانہ میں ایک ایک سے اپنے ہاتھ پر ہاتھ رکھا کر بیعت لیتے تھے پھر ترقی ہوئی تو لوگ ایک دوسرے کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کرنے لگے.پھر حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کے زمانہ میں تو پگڑیاں پھیلا کر بیعت ہوتی تھی اور اب بھی اسی طرح ہوتی ہے.تو ایک آدمی ہر طرف نہیں پہنچ سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 201

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۳ جلد اول زمانہ میں کوئی مسلمان یمن میں تھا کوئی شام میں کوئی عراق میں تھا کوئی بحرین میں اور کوئی نجد میں تھا اس لئے نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے پاس پہنچ سکتے تھے اور نہ وہ آپ تک آ سکتے تھے.جب حالت یہ تھی تو ضرور تھا کہ آپ کی تعلیم میں نقص رہ جاتا لیکن آپ کا دل کبھی یہ برداشت نہ کر سکتا تھا اس لئے آپ کو حکم ہوا کہ خدا سے دعا کرو کہ اے خدا ! اب یہ کام میرے بس کا نہیں اس لئے تو ہی اسے پورا کر.کیونکہ شاگرد بہت ہیں اور میں اکیلا مدرس ہوں مجھ سے ان کی تعلیم کا پورا ہونا مشکل ہے.آجکل تو سکولوں میں یہ قاعدہ ہو گیا ہے کہ ایک استاد کے پاس چالیس یا پچاس سے زیادہ لڑ کے نہ ہوں اور اس سے زیادہ لڑکوں کو جماعت میں داخل نہ کیا جائے اور اگر کیا جائے تو ایک اور استاد رکھا جائے کیونکہ افسرانِ تعلیم جانتے ہیں کہ اگر ایک جماعت میں بہت زیادہ لڑکے ہوں اور ایک اکیلا استاد پڑھانے والا ہو تو لڑکوں کی تعلیم ناقص رہ جاتی ہے.چنانچہ جن سکولوں میں بہت سے لڑکے ہوتے ہیں اور ایک استاد وہاں کے لڑکوں کی تعلیمی حالت بہت کمزور ہوتی ہے کیونکہ زیادہ لڑکوں کی وجہ سے استاد ہر ایک کی طرف پوری پوری توجہ نہیں کر سکتا.تو چونکہ فتح کے وقت لاکھوں انسان مسلمان ہو کر اسلام میں داخل ہوتے تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خطرہ دامن گیر ہوا کہ مسلمان تعلیم میں ناقص نہ رہ جائیں.خدا تعالیٰ نے آپ کو اس کے متعلق یہ گر بتا دیا کہ خدا کے آگے گر جاؤ اور اُسی کو کہو کہ آپ ہی اس کام کو سنبھالے کہ میری طاقت سے تو اس کا سنبھالنا با ہر ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استغفار کا لفظ اسی لئے استعمال کیا گیا ہے کہ آپ کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جائے کہ اسلام میں کثرت سے داخل ہونے والے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لئے آپ خدا تعالیٰ سے دعا کریں اور التجا کریں کہ اب لوگوں کے کثرت سے آنے سے جو بدنتائج نکلیں گے ان سے آپ ہی بچائیے اور ان کو خود ہی دور کر دیجئے.اور آپ کا لاکھوں انسانوں کو ایک ہی وقت میں پوری تعلیم نہ دے سکنا کوئی گناہ نہیں بلکہ بشریت کا تقاضا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی نسبت ذنب کا لفظ استعمال تو ہوا ہے لیکن جناح کا لفظ کبھی استعمال نہیں ہوا.گناہ اسے کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت

Page 202

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۴ جلد اول اور قوت کے باوجود اس کے حکم کی فرمانبرداری نہ کی جائے اور وہ بات جس کی خدا تعالیٰ کی طرف سے طاقت ہی نہ دی جائے اس کا نہ کر سکنا گناہ نہیں ہوتا بلکہ وہ بشری کمزوری کہلاتی ہے.مثلاً ایک شخص بیمار ہو جاتا ہے تو یہ اس کا گناہ نہیں بلکہ ایک کمزوری ہے جو بشریت کی وجہ سے اسے لاحق ہے.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ گناہ نہ تھا کہ آپ اس قدر زیادہ لوگوں کو پڑھا نہ سکتے تھے بلکہ خدا تعالیٰ نے ہی آپ کو ایسا بنایا تھا اور آپ کے ساتھ یہ ایسی بات لگی ہوئی تھی جو آپ کی طاقت سے بالا تھی اس لئے آپ کو بتایا گیا کہ آپ خدا تعالیٰ کے حضور کثرت طلباء کی وجہ سے جو نقص تعلیم میں ہونا تھا اس کے دور کرنے کے لئے دعا کریں.پس ان تمام آیات سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گناہ کا اظہار نہیں ہے بلکہ ایک بشری کمزوری کے بدنتائج سے بچنے کی آپ کو راہ بتائی گئی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ آپ کے وقت کثرت سے لوگ ایمان لے آئے مگر ابتلاؤں اور فتنوں کے وقت ان کا ایمان خراب نہ ہوا اور وہ اس نعمت سے محروم نہ ہوئے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو لوگ ایمان لائے تھے آپ کے بعد گوان میں سے بھی کچھ مرتد ہو گئے مگر جھٹ پٹ ہی واپس آ گئے اور ان فتنہ وفسادوں میں شامل نہ ہوئے جو اسلام کو تباہ کرنے کے لئے شریروں اور مفسدوں نے بر پاکئے تھے.چنانچہ حضرت عثمان کے زمانہ میں جو بہت بڑا فساد ہوا اس میں عراق ، مصر، کوفہ اور بصرہ کے لوگ تو شامل ہو گئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایمان لائے تھے لیکن یمن ، حجاز اور نجد کے لوگ شامل نہ ہوئے.یہ وہ ملک تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں فتح ہوئے تھے.جانتے ہو اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ خفیہ منصوبے جو مسلمانوں کی تباہی کا موجب ہوئے ان میں وہ ممالک تو شامل ہو گئے جو آپ کی وفات کے بعد فتح ہوئے مگر وہ ملک شامل نہ ہوئے جو آپ کے زمانہ میں فتح ہوئے تھے.اس کی یہی وجہ ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان ملکوں کے لوگوں کی جو آپ کے زمانہ میں اسلام لائے تھے بُرائیاں اور بدیاں دور کر دی تھیں.لوگ تو کہتے ہیں کہ امیر معاویہ کا زور اور طاقت تھی کہ شام کے لوگ اس فتنہ میں شامل نہ ہوئے لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی.

Page 203

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۵ جلد اول کرامت تھی کہ وہ لوگ حضرت عثمان کے خلاف نہیں اُٹھے تھے.کیونکہ گو یہ ملک آپ کے زمانہ میں فتح نہ ہوا لیکن آپ نے اس پر بھی چڑھائی کی تھی.جس کا ذکر قرآن شریف کی سورۃ تو بہ میں ان تین صحابہ کا ذکر کرتے ہوئے جو اس سفر میں شامل نہ ہوئے تھے آیا ہے.پس شام کا اس فتنہ میں شامل نہ ہونا امیر معاویہ کی دانائی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس لئے تھا کہ وہاں اسلام کا پیج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بویا گیا اور اس سرزمین میں آپ نے اپنا قدم مبارک ڈالا تھا.پس خدا تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں میں اس ملک کو بھی شامل کر لیا.اتنے بڑے فتنہ میں اس قدرصحابہ میں سے صرف تین صحابہ کے شامل ہونے کا پتہ لگتا ہے اور ان کی نسبت بھی ثابت ہے کہ صرف غلط فہمیوں کی وجہ سے شامل ہو گئے تھے اور بعد میں تو بہ کر لی تھی تو یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی اور نبی کو حاصل نہیں ہوئی.اس لئے جہاں آپ کی فتح کا ذکر آیا ہے وہاں ساتھ ہی استغفار کا حکم بھی آیا ہے جو آپ کو اس طرف متوجہ کرنے کے لئے تھا کہ دیکھنا ہم آپ کو بہت بڑی فتح اور عزت دینی چاہتے ہیں اور بے شمار لوگوں کو آپ کے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں.پس یاد رکھو کہ جب تمہارے بہت سے شاگرد ہو جائیں تو تم خدا کے حضور گر جانا اور کہنا کہ الہی ! اب کام انسانی طاقت سے بڑھتا جاتا ہے آپ خود ہی ان نو واردوں کی اصلاح کر دیجئے.ہم آپ کی دعا قبول کریں گے اور ان کی اصلاح کر دی جائے گی اور ان کی کمزوریوں اور بدیوں کو دور کر کے ان کو پاک کر دیا جائے گا.لیکن ان سب باتوں کو ملانے سے جہاں ایک طرف یہ اعتراض مٹ جاتا ہے کہ آپ کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے وہاں دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت ایک قوم ترقی کرتی اور کثرت سے پھیلتی ہے وہی زمانہ اُس کے تنزل اور انحطاط کا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے فتح کے ساتھ ہی استغفار کا ارشاد فرمایا ہے کیونکہ کسی قوم کے بڑھنے اور ترقی کرنے کا جو وقت ہوتا ہے وہی وقت اُس کے تنزل کے اسباب کو بھی پیدا کرتا ہے اور جب کوئی قوم بڑھ جاتی ہے اُسی وقت اس میں فساد اور فتنے بھی شروع ہو جاتے ہیں.جس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ قوم میں ایسے لوگ آ جاتے ہیں جو نبی کی خدمت اور صحبت میں نہیں رہے ہوتے ، اچھی طرح

Page 204

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۶ جلد اول بد آلائشوں سے پاک وصاف نہیں ہوتے اور جنہیں وہ مشکلات پیش نہیں آئی ہوتیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے بندوں کو پاک کرنے کے لئے مقرر فرمائی ہوئی ہیں اس لئے وہ فتنہ و فساد پیدا کرتے ہیں اور قوم کو تباہی کے گھاٹ اُتارنا چاہتے ہیں.آپ لوگ اس مضمون کو غور سے سنیں اس کا کچھ حصہ علمی اور تاریخی ہے اس لئے ممکن ہے کہ بعض کو مشکل معلوم ہو لیکن یہ وہ بات ہے اور میں کامل یقین سے کہتا ہوں یہ وہ بات ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تو بیان فرمائی ہے لیکن آج تک کسی نے اسے قرآن شریف سے سیکھ کر بیان نہیں کیا.مجھے خدا تعالیٰ نے سکھائی ہے اور اس بات کا موقع دیا ہے کہ آپ لوگوں کو سناؤں.پس جو شخص اسے سنے گا اور پھر اس پر عمل کرے گا وہ کامیاب اور با مراد ہو جائے گا اور جو نہیں سنے گا اور عمل نہیں کرے گا وہ یا درکھے کہ ایسے ایسے فتنے آنے والے ہیں کہ جن کے ساتھ یہ فتنہ جو اس وقت بر پا ہوا ہے کچھ مقابلہ ہی نہیں کر سکتا.کیا یہ فتنہ تم کو یاد نہیں ہے اور تم نے نہیں دیکھا کہ اس کے بانیوں نے کس قدر زور سے کیا مگر انہیں کیا حاصل ہوا ؟ کچھ بھی نہیں.آج یہ نظارہ دیکھ لو اور لاہور جا کر بھی دیکھ لو با وجود اس کے کہ بیعت کے وقت وہ زیادہ تھے اور ہم تھوڑے لیکن خدا تعالیٰ نے ظاہر کر دیا ہے کہ ان کی کچھ بھی پیش نہیں گئی پس یہ وہ فتنہ نہیں ہے جو جماعتوں کی تباہی اور ہلاکت کا موجب ہوا کرتا ہے.وہ وہ فتنہ ہوتا ہے جو سمندر کی لہروں کی طرح آتا ہے اور خس و خاشاک کی طرح قوموں کو بہا کر لے جاتا ہے.پس اس فتنہ سے خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے بغیر کوئی بچ نہیں سکتا.ہم سے پہلے بہت سی جماعتوں نے اس کے تلخ تجربے کئے ہیں.پس مبارک ہے وہ جو ان کے تجربوں سے فائدہ اُٹھائے اور افسوس ہے اُس پر جس نے پہلوں کے تجربہ سے فائدہ نہ اُٹھایا اور چاہا کہ خود تجربہ کرے.دیکھو! سنکھیا ایک زہر ہے اور اس کو ہر ایک زہر جانتا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ بہت سے لوگوں نے جب اس کو کھایا تو مر گئے.اس کے متعلق اب کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں اسے اُس وقت تک زہر نہیں کہوں گا جب تک کہ خود تجربہ کر کے نہ دیکھ لوں.لیکن کیسا افسوس ہو گا اُس شخص پر جو خود تجربہ سنکھیا کھائے کیونکہ اس کا انجام سوائے اس کے کچھ نہیں ہوگا کہ مرے.تم لوگ بھی اس بات کا تجربہ کرنے کا خیال دل میں نہ لاؤ جس کا تجربہ تم سے پہلے

Page 205

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۷ جلد اول لوگ کر چکے ہیں کیونکہ ان تجربات کا نتیجہ ایسا خطر ناک تھا کہ اگر جوان سنے تو بوڑھا ہو جائے اور اگر سیدھی کمر والا سنے تو اس کی کمر ٹیڑھی ہو جائے اور اگر کالے بالوں والا سنے تو اس کے بال سفید ہو جائیں.وہ بہت تلخ اور کڑوے تجربے تھے اور از حد دل ہلا دینے والے واقعات تھے وہ نہایت پاک روحوں کے شریروں اور بد باطنوں کے ہاتھ سے قتل کے نظارے تھے.وہ ایسے درد انگیز حالات تھے کہ جن کو سن کر مؤمن کا دل کانپ جاتا ہے اور وہ ایسے روح فرسا منظر تھے کہ جن کو آنکھوں کے سامنے لانے سے کلیجہ پھٹنے لگتا ہے.انہی کی سزا میں مسلمانوں میں اس قدر فتنہ اور فساد پڑا کہ جس نے انہیں تباہ کر دیا.حضرت عثمان کو جو آدمی قتل کرنے آئے تھے اُن کو آپ نے فرمایا کہ اگر تم میرے قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یاد رکھنا کہ مسلمان جو اس وقت اس طرح پیوستہ ہیں جیسے دو کنگھیوں کے دندانے ہوتے ہیں بالکل جدا ہو جائیں گے اور ایسے جدا ہوں گے کہ قیامت تک انہیں کوئی نہ اکٹھا کر سکے گا.حضرت عبد اللہ بن سلام نے بھی اس فتنہ کے بانیوں سے بیان کیا کہ میں نے بنی اسرائیل کی بعض کتب میں دیکھا ہے کہ ایک نبی ہوگا اس کے بعد اس کے خلفاء ہوں گے اس کے خلیفہ ثالث کے خلاف لوگ فساد کریں گے اگر وہ اس کے مارنے پر کامیاب ہو گئے تو اس کی سزا ان کو یہ دی جائے گی کہ وہ ہمیشہ کے لئے پراگندہ کر دیئے جائیں گے اور پھر کوئی تدبیر ان کو جمع نہ کر سکے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا.یہ فتنہ اتنا پھیلا اتنا پھیلا کہ سوائے مسیح موعود علیہ السلام کے کوئی اس کو روک نہ سکا اور مسلمان جو ٹوٹ چکے تھے انہیں کوئی نہ جوڑ سکا.پس | تم لوگ یا د رکھو کہ آنے والا فتنہ بہت خطرناک ہے اس سے بچنے کے لئے بہت بہت تیاری کرو.پہلوں سے یہ غلطیاں ہوئیں کہ اُنہوں نے ایسے لوگوں کے متعلق حسن ظنی سے کام لیا جو بدظنیاں پھیلانے والے تھے.حالانکہ اسلام اُس کی حمایت کرتا ہے جس کی نسبت بدظنی پھیلائی جاتی ہے اور اُس کو جھوٹا قرار دیتا ہے جو بدظنی پھیلاتا ہے اور جب تک کہ با قاعدہ تحقیقات پر کسی شخص پر کوئی الزام ثابت نہ ہو اُس کا پھیلانے والا اور لوگوں کو سنانے والا اسلام کے نزدیک نہایت خبیث اور متفی ہے.پس تم لوگ تیار ہو جاؤ تا کہ تم بھی اس قسم کی کسی غلطی کا شکار نہ ہو جاؤ کیونکہ اب تمہاری

Page 206

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۸ جلد اول فتوحات کا زمانہ آ رہا ہے اور یا درکھو کہ فتوحات کے زمانہ میں ہی تمام فسادات کا بیج بویا جاتا ہے.جو اپنی فتح کے وقت اپنی شکست کی نسبت نہیں سوچتا اور اقبال کے وقت ادبار کا خیال نہیں کرتا اور ترقی کے وقت تنزل کے اسباب کو نہیں مٹاتا اس کی ہلاکت یقینی اور اس کی تباہی لازمی ہے.نبیوں کی جماعتیں بھی اس فساد سے خالی نہیں ہوتیں اور وہ بھی جب ترقی کرتی ہیں اور ایسے لوگ ان میں داخل ہوتے ہیں جنہوں نے نبی کی صحبت نہیں پائی ہوتی اور ان کا ایمان اتنا مضبوط نہیں ہوتا جتنا ان لوگوں کا ہوتا ہے جو نبی کی صحبت میں رہے ہوتے ہیں اور جن کی تربیت بوجہ اس کے کہ وہ جماعت در جماعت آ کر داخل ہوئے ہوتے ہیں نامکمل ہوتی ہے تو ان میں بھی فساد شروع ہو جاتا ہے جو آخر کار ان کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کر کے ان کے اتحاد کو توڑ دیتا ہے یا ان کی جڑ کو ایسا کھوکھلا کر دیتا ہے کہ آئندہ ان کی روحانی طاقتیں ضائع ہو جاتی ہیں.ہماری جماعت کی ترقی کا زمانہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت قریب آ گیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب کہ افواج در افواج لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے.مختلف ملکوں سے جماعتوں کی جماعتیں داخل ہوں گی اور وہ زمانہ آتا ہے کہ گاؤں کے گاؤں اور شہر کے شہر احمدی ہوں گے اور ابھی سے مختلف اطراف سے خوشخبری کی ہوائیں چل رہی ہیں اور جس طرح خدا کی یہ سنت ہے کہ بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے تا کہ غافل لوگ آگاہ ہو جائیں اور اپنے مال و اسباب کو سنبھال لیں اسی طرح خدا تعالیٰ نے ہماری ترقی کی ہوائیں چلا دی ہیں پس ہوشیار ہو جاؤ.آپ لوگوں میں سے خدا کے فضل سے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پائی ہے ، آپ کے منہ سے باتیں سنی ہیں ، آپ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کیا ہے.ان کا فرض ہے کہ وہ آنے والوں کے لئے ہدایت اور راہنمائی کا باعث ہوں.کیونکہ کوئی ایک شخص بہتوں کو نہیں سکھا سکتا.دیکھو اسی جلسہ پر خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنے لوگ آئے ہیں کہ ان سب تک مشکل سے میری آواز پہنچ سکتی ہے مگر جب لاکھوں اور کروڑوں انسان آئے تو انہیں کو ن ایک شخص سنا سکے گا.لیکن بتلا ؤ اگر ایک ہی سنانے والا ہوا تو یہ کیسا دردناک نظارہ ہو گا کہ کچھ لوگ تو سن رہے ہوں گے اور کچھ لوگ پکوڑے کھا رہے ہوں گے.وہ سنیں گے کیا اور یہاں سے لے کر

Page 207

خلافة على منهاج النبوة ۱۸۹ جلد اول جائیں گے کیا.وہ اس اطاعت سے واقف نہ ہوں گے جو انبیاء لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں.وہ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریر فرما رہے تھے آپ نے لوگوں کو فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.عبداللہ بن مسعود ایک گلی میں چلے آ رہے تھے آپ کی آواز اُنہوں نے وہاں ہی سنی اور وہیں بیٹھ گئے.کسی نے پوچھا آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں وہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر ہو رہی ہے وہاں کیوں نہیں جاتے ؟ اُنہوں نے کہا میرے کان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی ہے کہ بیٹھ جاؤ پس میں یہیں بیٹھ گیا.2 پھر ان کے سامنے یہ نظارہ نہ ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تین شخص آئے ایک کو آگے جگہ مل گئی وہ وہاں جا کر بیٹھ گیا.دوسرے کو آگے جگہ نہ ملی وہ جہاں کھڑا تھا و ہیں بیٹھ گیا.تیسرے نے خیال کیا کہ یہاں آواز تو آتی نہیں پھر ٹھہرنے سے کیا فائدہ وہ واپس چلا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک نے تمہاری مجلس میں قرب حاصل کرنے کے لئے کوشش اور محنت کی اور آگے ہو کر بیٹھ گیا خدا تعالیٰ نے بھی اسے قریب کیا.ایک اور آیا اُس نے کہا اب مجلس میں آ گیا ہوں اگر اچھی جگہ نہیں ملی تو نہ سہی وہیں بیٹھ گیا اور اس نے واپس جانا مناسب نہ سمجھا خدا نے بھی اس سے چشم پوشی کی.ایک اور آیا اسے جگہ نہ لی اور وہ واپس پھر گیا خدا تعالیٰ نے بھی اس سے منہ پھیر لیا.اس قسم کی باتیں نبیوں کی ہی صحبت میں رہ کر حاصل ہو سکتی ہیں لیکن اُنہوں نے اس قسم کے نظارے نہ دیکھے ہوں گے.پھر اُنہوں نے وہ محبت کی گھڑیاں نہ دیکھی ہوں گی جو آ نے دیکھی ہیں.اُنہوں نے اطاعت اور فرمانبرداری کے وہ مزے نہ اُٹھائے ہوں گے جو آپ نے اُٹھائے ہیں.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وہ پیار نہ ہو گا جو آپ لوگوں کو ہے.اُنہوں نے وہ نشانات نہ دیکھے ہوں گے جو آپ لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رہ کر دیکھے ہیں.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ پیار اور محبت سے دیکھنا اور باتیں کرنا نصیب نہ ہو گا جو آپ لوگوں کو ہوا ہے.ان کے دلوں میں اطاعت اور

Page 208

خلافة على منهاج النبوة 19+ جلد اول فرمانبرداری کا وہ جوش نہ ہو گا جو آپ لوگوں کے دلوں میں ہے.سوائے ان لوگوں کے جن کے سینے خدا تعالیٰ خاص طور پر خود کھول دے.اس میں شک نہیں کہ صحابہ کرام کے بعد بھی ایسے لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے پہلوں کی طرح ایمان اور یقین حاصل کر لیا تھا اور ان جیسی ہی صفات بھی پیدا کر لی تھیں.مثلاً امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل، امام ابوحنیفه شیخ عبدالقادر جیلانی ، شہاب الدین سہروردی ، معین الدین چشتی و غیرھم.ان لوگوں نے محنتیں اور کوششیں کیں اس لئے ان کے دل پاک ہو گئے.مگر جس کثرت سے صحابہ میں ایسے لوگ تھے اس کثرت سے بعد میں نہ ہو سکے.بلکہ بعد میں کثرت ان لوگوں کی تھی جن میں بہت سے نقص موجود تھے اور قلت ان کی تھی جو صحابہ جیسی صفات رکھتے تھے.لیکن صحابہؓ کے وقت کثرت کامل ایمان والوں کی تھی.ہماری جماعت میں اس وقت خدا کے فضل سے کثرت ان لوگوں کی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہے اور قلت ان کی ہے جو بعد میں آئے لیکن یہ کثرت ایسی ہے جو دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے.میرا مطلب اس تقریر سے یہ نہیں کہ نبی کے بعد اعلیٰ درجہ کے لوگ ہوتے ہی نہیں.نہیں ! اعلیٰ درجہ کے لوگ ہوتے ہیں اور ضرور ہوتے ہیں جیسا کہ ابھی میں نے بعض آدمیوں کے نام لئے ہیں جنہوں نے صحابہ کے بعد بڑا درجہ حاصل کیا.اپنی جماعت کے متعلق بھی آج ہی ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ کیا بعد میں آنے والے وہ درجہ پا سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پانے والوں نے پایا ؟ تو میں نے اسے جواب دیا کہ ہاں وہ درجہ پاسکتے ہیں.پس اس تقریر کا یہ مطلب نہیں کہ میں بعد میں آنے والے لوگوں کو مایوس کروں بلکہ میرا مطلب تمہیں اور اُن کو ہوشیار کرنا ہے.تمہیں اس لئے کہ تائم آنے والوں کی تعلیم کا فکر کرو اور انہیں اس لئے تا وہ جان لیں کہ ان کے راستہ میں بہت سی مشکلات ہیں وہ ان پر غالب آنے کی تدبیر کریں.ورنہ یہ عقیدہ کہ نبی کی جماعت کے بعد کوئی ان کے درجہ کو پاہی نہیں سکتا ایک غلط اور باطل عقیدہ ہے جو جھوٹی محبت سے پیدا ہوا ہے.صحابہ کے بعد بڑے بڑے مخدوم ، بڑے بڑے بزرگ اور بڑے بڑے اولیاء اللہ گزرے ہیں جن کی نسبت ہم ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ وہ سب کے سب ہر ایک اس شخص سے روحانیت میں ادنیٰ تھے جس نے

Page 209

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۱ جلد اول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت خواہ ایک دن ہی پائی ہو.اصل بات یہ ہے کہ وہ جو صحابہ میں اعلیٰ درجہ رکھتا ہے وہ ان بعد میں آنے والوں سے اعلیٰ ہے لیکن وہ جو ان میں ادنی ہے اس سے بعد میں آنے والوں کا اعلیٰ طبقہ اعلیٰ ہے.ہاں سب صحابہ کو یہ ایک جز وی فضیلت حاصل ہے کہ اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا جس کے لئے اب اگر کوئی ساری دنیا کی سلطنت بھی دینے کو تیار ہو جائے تو حاصل نہیں کر سکتا.یہی بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق ہے.غرض وہ وقت آتا ہے کہ ایسے لوگ اس سلسلہ میں شامل ہوں گے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت نہ پائی ہوگی اور اس کثرت سے ہوں گے کہ ان کو ایک آدمی یر نہیں سنا سکے گا اس لئے اُس وقت بہت سے مدرسوں کی ضرورت ہوگی اور پھر اس بات کی بھی ضرورت ہوگی کہ ایک شخص لاہور میں ایک امرتسر میں بیٹھا سنائے اور لوگوں کو دین سے واقف کرے اور احکام شرع پر چلائے تا کہ تمام جماعت صحیح عقائد پر قائم رہے اور تفرقہ سے بچے.کل میں نے آپ لوگوں کو یہ بتایا تھا کہ علم ایک بہت اچھی چیز ہے اس کو حاصل کر نے کے لئے کوشش کرو لیکن آج بتاتا ہوں کہ علم بغیر خشیت اور تقویٰ کے ایک لعنت ہے اور ایسا علم بہت دفعہ حجاب اکبر ثابت ہوا ہے.دیکھو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ایک عالم آدمی ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وہ ایمان نہ لائے بلکہ اُنہوں نے کہہ دیا کہ میں نے ہی مرزا کو بڑھایا تھا اور میں ہی گھٹاؤں گا.گویا اُنہوں نے اپنے علم کے گھمنڈ پر سمجھا کہ کسی کو میں ہی بڑھا سکتا ہوں اور میں ہی گھٹا سکتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے پہلے ایک شخص شرک کے خلاف تعلیم دیا کرتا تھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو کسی شخص نے اسے اسلام کی تلقین کی.اس نے جواب دیا کہ شرک کے مٹانے میں جو محنت اور کوشش میں نے کی ہے وہ اور کسی نے نہیں کی پس اگر کوئی شخص دنیا میں نبی ہوتا تو وہ میں ہوتا یہ شخص نبی کیونکر بن گیا.وہ شخص گو تو حید کا علم رکھتا تھا لیکن بوجہ خشیت نہ ہونے کے اسلام لانے سے محروم ہو گیا.پس میں آپ لوگوں کو یہی نہیں کہتا کہ علم سیکھو بلکہ یہ بھی کہتا ہوں

Page 210

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۲ جلد اول کہ تقویٰ اور خشیت اللہ پیدا کرو.کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو علم ایک عذاب ہے نہ کہ کوئی مفید چیز.تم قرآن شریف پڑھو اور خوب پڑھو کیونکہ بے علم انسان نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کیا کیا حکم دیئے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو قرآن شریف جانتے ہیں مگر خود گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے پھرتے ہیں اور اس طرح کے ہو گئے ہیں جس طرح کہ یہود کے عالم تھے جن کا ذکر قرآن شریف میں آتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ قرآن شریف وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا مگر جانتے ہوئے نہیں جانتے.وہ مولوی اور مفتی کہلاتے ہیں مگر ان کے اعمال میں اسلام کا کوئی اثر نہیں پایا جاتا.قرآن شریف کے معنوں کی ایسی ایسی تو جیہیں نکالتے اور ایسی ایسی شرارتیں کرتے ہیں کہ ان کے دل بھی انہیں شرمندہ کرتے ہیں.عالم کہلاتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے.اس لئے گو انہوں نے علم پڑھا مگر ان کا علم ان کے کسی کام نہ آیا اور وہ گمراہ کے گمراہ ہی رہے.پس خشیت اللہ کی بہت ضرورت ہے.اس کے پیدا کرنے کے طریق نبیوں کے زمانہ میں بہت سے ہوتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ وہ انسان کو سانچے میں ڈھال دیتے ہیں اور خودنمونہ بن کر لوگوں کو سکھلاتے ہیں.یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ ہر ایک کام جس طرح کسی استاد کے بتانے اور تجربہ کر کے دکھانے سے آتا ہے اس طرح خود بخو د کتابوں میں سے پڑھ لینے سے نہیں آیا کرتا.مثلاً اگر کوئی شخص ڈاکٹری کی کتابیں پڑھ لے لیکن اسے تجربہ نہ ہو تو وہ لوگوں کا علاج کرنے کی بجائے ان کو مارے گا.کیونکہ علاج وہی کر سکتا ہے جس کو تجر بہ بھی ہو اور جسے اس نے کسی استاد سے سیکھا ہو.مگر جس نے کسی استاد کو دیکھا ہی نہ ہو اس کے علاج سے بہت مرتے اور کم جیتے ہیں اور جو جیتے ہیں وہ بھی اس لئے نہیں کہ اس کی دوائی اور علاج سے بلکہ اپنی طاقت اور قوت سے.پس خشیت اللہ نبی کی صحبت سے جس طرح حاصل ہوتی ہے اس طرح کسی اور طریق سے نہیں حاصل ہوسکتی.پس تم میں سے تو بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے اس کو سیکھا ہے.اس لئے تم اس زمانہ کے لئے ہوشیار ہو جاؤ جب کہ فتوحات پر فتوحات ہوں گی.عنقریب ایک زمانہ آتا

Page 211

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۳ جلد اول ہے جبکہ تمہارے نام کے ساتھ لوگ رضی اللہ عنہ لگائیں گے.آج اگر تمہاری قدر نہیں تو نہ سہی لیکن ایک وقت آتا ہے جب کہ اس شخص کی پگڑی ، کرتہ اور جوتی تک کو لوگ متبرک سمجھیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رہا ہے.بیشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے لیکن یا درکھو صادقوں کے ساتھ رہنے والوں کے کپڑوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں لکھا ہے کہ :.” ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفا دار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اُس نے وعدہ فرمایا ہے اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجو د ہونگے جو دوسری قدرت کا مظہر ہونگے ، ا پس وہ وقت جلد آنے والا ہے.اس میں شک نہیں کہ آج تم لوگوں کی نظروں میں جاہل ہو.پر وہ دن جلدی ہی آنے والے ہیں جب کہ دنیا کہے گی کہ تمہارے زمانہ میں تم سے زیادہ مہذب کوئی نہیں گزرا.تم نے خدا تعالیٰ کا حکم مانا ہے، اس کے رسول کا حکم مانا ہے اور اس کے مسیح کو قبول کیا ہے.پس تم ہی دنیا میں ایک برگزیدہ قوم ہو.تمہارے کپڑوں سے لوگ برکت ڈھونڈیں گے اور تمہارے ناموں کی عزت کریں گے کیونکہ تمہارے نام عزت کے ساتھ آسمان پر لکھے گئے ہیں.پس کون ہے جو انہیں دنیا سے مٹا سکے.لیکن یہ بات بھی یاد رکھو کہ جس طرح تم پر اس قدر انعام ہوئے ہیں اسی طرح تمہارے فرض بھی بہت بڑھ گئے ہیں.بیشک بعد میں آنے والے تحریر میں پڑھ سکتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو پڑھ سکتے ہیں مگر اس طرح وہ اعمال نہیں سیکھ سکتے اور نہ دوسرے لوگ انہیں سکھا سکتے ہیں جس طرح تم نے سیکھے ہیں.مگر وہی سکھا سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں پاک دل ہوئے.صرف علم نہ پہلوں کے کام آیا اور نہ پچھلوں کے کام آ سکتا ہے.مگر تمہیں

Page 212

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۴ جلد اول خود علم کی ضرورت ہے قرآن شریف عربی زبان میں ہے اس لئے جب تک عربی نہ آتی ہو اس کے پڑھنے میں لذت نہیں آسکتی اور نہ اس کے احکام سے انسان واقف ہوسکتا ہے.پس تم.عربی سیکھو تا کہ قرآن شریف کو سمجھ سکو.ابھی میر حامد شاہ صاحب نے ایک نظم پڑھی.عجیب بات ہے کہ اس میں اُنہوں نے ایک شعر ایسا بھی کہا ہے کہ اسی کے مضمون کے متعلق میں اس وقت تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تم بار بار قادیان آؤ اور آ کر قرآن سیکھو تا بعد میں آنے والوں کو سکھا سکو.اگر تم اس کے لئے تیار نہ ہوئے تو یاد رکھو کہ ایک عرصہ تک تو بیشک تمہیں عزت حاصل ہوگی لیکن ایسا زمانہ آئے گا جب کہ تم خاک میں ملائے جاؤ گے اور تم سے آنے والے لوگ جن میں خشیت اللہ نہ ہوگی وہی سلوک کریں گے جو صحابہ کے ساتھ ان لوگوں نے کیا جو بعد میں آئے تھے کہ انہیں قتل کرا کر ان کی لاشوں تھو کا اور دفن نہ ہونے دیا.دیکھو میں آدمی ہوں اور جو میرے بعد ہوگا وہ بھی آدمی ہی ہوگا جس کے زمانہ میں فتوحات ہوں گی وہ اکیلا سب کو نہیں سکھا سکے گا تم ہی لوگ ان کے معلم بنو گے.پس اس وقت تم خود سیکھوتا ان کو سکھا سکو.خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ دنیا کے لئے پروفیسر بنا دیے جاؤ.اس لئے تمہارے لئے ضروری ہے اور بہت ضروری ہے کہ تم خود پڑھو تا آنے والوں کے لئے استاد بن سکو.اگر تم نے خود نہ پڑھا تو ان کو کیا پڑھاؤ گے.ایک نادان اور جاہل استاد کسی شناگر دکو کیا پڑھا سکتا ہے.کہتے ہیں ایک استاد تھا اس نے چند خطوط پڑھے ہوئے تھے جو کوئی خط لا کر دیتا اسے انہیں خطوں میں سے کوئی ایک سنا دیتا.ایک دن ایک شخص خط لا یا اُس وقت اُس کے پاس اپنے پہلے خط موجود نہ تھے اس لئے نہ پڑھ سکا اور کہنے لگا کہ میں طاق والے خط پڑھ سکتا ہوں.پس تم بھی اس خط کے پڑھنے والے کی طرح نہ بنو.آپ لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر اخلاص اور خشیت پیدا کرو اور علم دین سیکھو اور اپنے دلوں کو صیقل کرو تا کہ جو لوگ تم میں آئیں ان کو تعلیم دے سکو اور ان میں خشیت اللہ پیدا کر سکو.صحابہ کے وقت جوفتنہ ہوا تھا وہ اسی بات کا نتیجہ تھا کہ وہ لوگ مدینہ میں نہ آتے تھے اور اُنہوں نے قرآن شریف نہ

Page 213

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۵ جلد اول پڑھا اور نہ سمجھا تھا اس لئے ان میں خشیت اللہ پیدا نہ ہوئی جس کا انجام یہ ہوا کہ اُنہوں نے صحابہ کو قتل کر کے اپنے پاؤں تلے روندا ، اُن کی لاشوں کی بے عزتی کی اور انہیں مکانوں میں بند کر دیا.اگر وہ مدینہ آتے اور اہل مدینہ سے تعلق رکھتے تو کبھی یہ فتنہ نہ ہوتا اور اگر ہوتا تو ایسی خطرناک صورت نہ اختیار کرتا.اس فتنہ میں سارے مدینہ سے صرف تین آدمی ایسے نکلے جن کو مفسد اور شریر لوگ اپنے ساتھ ملا سکے اور ان کو بھی دھوکا اور فریب سے.وہ ایک عمار بن یاسر تھے ، دوسرے محمد بن ابی بکر، اور تیسرے ایک انصاری تھے.چونکہ تم لوگ بھی صحابہ کے مشابہ ہو اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تاریخ سے بیان کروں کہ کس طرح مسلمان تباہ ہوئے اور کون سے اسباب ان کی ہلاکت کا باعث بنے.پس تم ہوشیار ہو جاؤ اور جو لوگ تم میں نئے آئیں ان کے لئے تعلیم کا بندوبست کرو.حضرت عثمان کے وقت جو فتنہ اُٹھا تھا وہ صحابہ سے نہیں اُٹھا تھا.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ صحابہ نے اُٹھایا تھا ان کو دھوکا لگا ہے.اس میں شک نہیں کہ حضرت علیؓ کے مقابلہ میں بہت سے صحابہ تھے اور معاویہ کے مقابلہ میں بھی لیکن میں کہتا ہوں کہ اس فتنہ کے بانی صحابہؓ نہیں تھے بلکہ وہی لوگ تھے جو بعد میں آئے اور جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب نہ ہوئی اور آپ کے پاس نہ بیٹھے.پس میں آپ لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں اور فتنہ سے بچنے کا یہ طریق بتاتا ہوں کہ کثرت سے قادیان آؤ اور بار بار آؤ تا کہ تمہارے ایمان تازہ رہیں اور تمہاری خشیت اللہ بڑھتی رہے.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل فرماتے تھے میں زمانہ طالبعلمی میں ایک شخص کے پاس ملنے کے لئے جایا کرتا تھا.کچھ عرصہ نہ گیا پھر جو گیا تو کہنے لگے کیا تم کبھی قصائی کی دکان پر نہیں گئے ؟ میں نے کہا قصائی کی دکان تو میرے راستہ میں پڑتی ہے ہر روز میں اس کے سامنے سے گزرتا ہوں.اُنہوں نے کہا کیا تم نے کبھی قصائی کو نہیں دیکھا کہ وہ کچھ دیر گوشت کاٹ کر ایک چھری کو دوسری چھری پر پھیر لیتا ہے وہ ایسا اس لئے کرتا ہے کہ تا دونوں چھریاں تیز ہو جائیں.اسی طرح جب ایک نیک آدمی دوسرے نیک آدمی سے ملتا ہے تو ان پر جو کوئی بداثر ہوتا ہے وہ دور ہو جاتا ہے.پس تم لوگ بھی کثرت سے یہاں آؤ تا کہ نیک انسانوں سے ملو اور صاف و شفاف ہو جاؤ.خدا تعالیٰ نے

Page 214

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۶ جلد اول قادیان کو مرکز بنایا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے جو برکات اور فیوض یہاں نازل ہوتے ہیں اور کسی جگہ نہیں ہیں.پھر جس کثرت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ یہاں موجود ہیں اور کسی جگہ نہیں ہیں.اس لئے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ملنے سے انسان کا دل جس طرح صیقل ہوتا ہے اور جس طرح اُسے تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے اس طرح کسی جگہ کے لوگوں کے ساتھ ملنے سے نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جولوگ قادیان نہیں آتے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہی رہتا ہے.اب ہی دیکھ لو ان لوگوں کو چھوڑ کر جو یہاں متکبرانہ آتے اور اسی نشہ میں چلے جاتے تھے باہر کے ایسے ہی لوگ غیر مبائعین ہیں جو یہاں نہیں آتے تھے.پس اسی وجہ سے ان کے دل زنگ آلود ہوتے گئے جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ مُردہ دل ہو گئے.اُنہوں نے اپنے دل میں ایمان کا پودا تو لگایا تھا مگر اسے پانی نہ دیا اس لئے وہ سُوکھ گیا.اُنہوں نے اپنے دل میں خشیت اللہ کا بیج تو بویا تھا مگر اس کی آبپاشی نہ کی اس لئے وہ خشک ہو گیا.تم ان لوگوں کے نمونہ سے عبرت پکڑو اور بار بار یہاں آؤ تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صُحبت یافتہ جماعت کے پاس بیٹھو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشانات کو دیکھو اور اپنے دلوں کو صیقل کر و.میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگوں نے اس وقت تک کچھ نہیں سیکھا یا کچھ نہیں حاصل کیا.آپ نے بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ حاصل کیا ہے مگر اس کو قائم اور تازہ رکھنے کے لئے یہاں آؤ اور بار بار آؤ.بہت لوگ ایسے ہیں جو صرف جلسہ پر آتے ہیں اور پھر نہیں آتے.میں کہتا ہوں انہیں اس طرح آنے سے کیا فائدہ ہوا.یہ فائدہ تو ہوا کہ اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم مانا اور اس حکم کی قدر کی مگر ایسے موقع پر انہیں کچھ سکھانے اور پڑھانے کا کہاں موقع مل سکتا ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جلسہ پر آتے اور پھر چلے جاتے ہیں ان کی بعض حرکات خلاف شرع ہوتی ہیں لیکن ایسے وقت میں نہ کچھ بتایا جا سکتا ہے اور نہ بتانے کا کوئی موقع ملتا ہے.اور پھر وہ جو یہاں نہیں آتے ان کے لئے بار بار دعا بھی نہیں ہو سکتی اور کس طرح ہو.میں تو دیکھتا ہوں ماں بھی اپنے اُس بچہ کو جو ہر وقت اُس سے دور رہے بھول جاتی ہے اور جو نز دیک رہے اسے یا درکھتی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی ان لوگوں کو بھلا دیتا ہے جو اس کو یاد نہیں رکھتے.

Page 215

خلافة على منهاج النبوة ۱۹۷ جلد اول.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کا فروں کو کہتا ہے کہ تم میرے ملنے سے نا امید ہو گئے پس میں نے بھی تم کو ترک کر دیا.تو وہ شخص جو بار بار مجھے ملتا اور اپنے آپ کو شناخت کراتا ہے وہ اپنے لئے دعا کے لئے بھی یاد دلاتا ہے.بیشک میں تمام جماعت کے لئے ہمیشہ دعا کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا اور مجھے اپنی دعاؤں کے نیک نتائج نکلنے کی امید ہے.نا امیدی میری فطرت میں ہی نہیں ہے کیونکہ میری طبیعت خدا تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے جو نا امیدی کے الفاظ کوسننا بھی گوارا نہیں کرتی.مجھے اُس شخص پر بہت غصہ آتا ہے جو خدا تعالیٰ کی نسبت کسی نا امیدی کا اظہار کرے اُس وقت میرے تمام بدن کو آگ لگ جاتی ہے.نیز میں یہ بات بھی کبھی نہیں سن سکتا کہ فلاں بات ہو نہیں سکتی.مجھے ایسے لوگوں سے ہمیشہ نفرت رہی ہے اور ہے جو اس قسم کے ہوتے ہیں.خیر یہ ایک ضمنی بات تھی جو میں نے بیان کر دی ہے.ہاں آپ لوگوں کو میں نے بتایا ہے کہ خدا سے دور رہنے والے لوگوں کا خدا سے قُرب نہیں ہوتا.اسی طرح اس کے بندوں سے دور رہنے والا بھی ان کا مقرب نہیں بن سکتا.وہ دعا ئیں جو میں کرتا ہوں مجملاً ہوتی ہیں اس لئے ان کا اثر اجمالی طور پر سب کو ہوگا مگر فرداً فرداً اسی کیلئے دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے جو بار بار سامنے نظر آئے.پس اس بات کو مد نظر رکھ کر بھی یہاں آؤ.پھر قادیان میں نہ صرف قرآن شریف علمی طور پر حاصل ہوتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی ملتا ہے.یہاں خدا کے فضل سے پڑھانے والے ایسے موجود ہیں جو پڑھنے والے کے دل میں داخل کر دیں اور یہ بات کسی اور جگہ حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ تفقہ فی الدین اور چیز ہے اور علم اور چیز.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس کے لئے یہی دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ تمہیں دین کے باریک رازوں سے واقف کرے تفقه فِی الدِّینِ حاصل ہو.پس ہر ایک وہ شخص جو قرآن شریف پڑھ سکتا ہے وہ عالم ہوسکتا ہے مگر فقیہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ قرآن کریم کے بار یک رازوں سے بھی واقف نہ ہو.ایسے انسان خدا کے فضل.یہاں موجود ہیں ان سے آپ یہ بات حاصل کریں اور وہ اس طرح کہ بار بار یہاں آئیں کیونکہ وہ وقت عنقریب آنے والا ہے جب کہ آپ دنیا کے پڑھانے والے بنیں گے.پس جلدی تعلیم حاصل کرو تا کہ دوسروں کو پڑھا سکو.خدا تعالیٰ کا جن مرکزوں کے ساتھ تعلق ہوتا

Page 216

خلافة على منهاج النبوة 197 جلد اول ہے ان کے رہنے والوں کے ساتھ بھی وہ اپنے خاص فضل کا سلوک کرتا ہے تو یہاں نہ صرف یہ کہ خود بہت سے لوگ خدا کے فضل سے تفقہ فی الدین رکھتے ہیں بلکہ ہر ایک بات میں دوسروں کو بھی تسلی اور تشفی کرا سکتے ہیں خدا کے فضل سے ، پھر یہاں کی ایک ایک اینٹ ایک ایک مکان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ یہ وہ شہر ہے جس کا نام بھی کوئی نہ جانتا تھا مگر اس میں پیدا ہونے والے ایک شخص نے کہا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ تمہیں تمام جہان میں مشہور کر دوں گا اور یہاں دُور دُور سے لوگ آئیں گے.چنانچہ وہ مشہور ہو گیا اور دور دراز ملکوں سے لوگ آئے جو آپ کی صداقت کا ایک کھلا کھلا ثبوت ہے.ایک دفعہ ایک انگریز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو امریکہ سے ملنے کے لئے آیا.اس نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ نبی ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں میں نبی ہوں.اس نے کہا اگر آپ نبی ہیں تو کوئی نشان دکھلائیے.آپ نے فرمایا آپ ہی میرے نشان ہیں.اس نے کہا میں کس طرح ہوں؟ فرمایا ایک وقت تھا کہ یہاں مجھے کوئی نہ جانتا تھا اور میں ایک گمنامی کی حالت میں رہتا تھا لیکن آج آپ مجھے امریکہ سے ملنے کے لئے آئے ہیں کیا یہ میری صداقت کا نشان نہیں ہے؟ غرض آپ میں سے ایک ایک شخص اور اس مسجد اور دوسرے مکانوں کی ایک ایک اینٹ آنے والوں کے لئے نشان ہے کیونکہ اگر حضرت صاحب کے ذریعہ یہاں لوگ جمع نہ ہوتے تو کون یہ مسجد میں اور یہ سکول اور یہ بورڈ نگ بنا تا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسے وقت میں اس کی خبر دی تھی جب کہ کسی کے خیال میں بھی یہ بات نہ آ سکتی تھی.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ قادیان اُس دریا تک جو یہاں سے سات آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے پھیل جائے گا.چنانچہ ایک میل تک تو اس تھوڑے سے عرصہ میں ہی پھیل گیا ہے.قاعدہ ہے کہ ابتدا میں ہر ایک چیز آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہے اور کچھ عرصے کے بعد یک لخت بہت بڑھ جاتی ہے.مثلاً بچہ پہلے تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے لیکن ایک وقت میں یک لخت بڑھ جاتا ہے تو یہ قادیان کی ابتدائی ترقی ہے اس سے اس کی انتہائی ترقی کا اندازہ کر لو.غرض قادیان کی ہر ایک چیز ، ہر ایک درخت ، ہر ایک اینٹ ، ہر ایک مکان نشان ہے.بہشتی مقبرہ ، حضرت صاحب کا باغ ، بورڈنگ ، سکول ، مسجد میں وغیرہ

Page 217

خلافة على منهاج النبوة ١٩٩ جلد اول حضرت صاحب کا معجزہ ہیں اور یہاں کی گلیاں بھی بہت بابرکت ہیں کیونکہ ان میں خدا کا مسیح چلا.کیا تم نہیں دیکھتے کہ مکہ اور مدینہ کیوں اب بھی بابرکت ہیں.ان میں کیا ایسی چیز ہے جو کسی اور جگہ نہیں ہے؟ وہ یہ کہ مکہ کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے برگزیدہ انسان نے رکھی اور مدینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروز رہے.لیکن اب کیا وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں ؟ پھر کیوں اس کی عزت اور توقیر کی جاتی ہے؟ اور رسول اللہ نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ میری مسجد میں نماز پڑھنے والے کو بہ نسبت کسی اور مسجد میں پڑھنے والے کے زیادہ ثواب ہو گا حالانکہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کے صحابہ بھی نہیں ہیں اور اب تو وہاں ایسے علماء رہتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی کفر کا فتویٰ لگا دیا مگر چونکہ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پڑے تھے اس لئے وہ اب بھی مقدس اور مطہر ہی ہے.پھر مکہ کو دیکھو وہاں نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور نہ حضرت اسماعیل اور نہ ہی ان کے صحابہ موجود ہیں مگر چونکہ ان متبرک انسانوں نے اس کی بنیا د رکھی تھی اس لئے باوجود اس وقت ان کے وہاں موجود نہ ہونے کے مکہ ویسا ہی متبرک ہے.تو جن مقاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کا تعلق ہوتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے متبرک بنا دیے جاتے ہیں.قادیان بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے.یہاں خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ مبعوث ہوا اور اس نے یہاں ہی اپنی ساری عمر گزاری اور اس جگہ سے وہ بہت محبت رکھتا تھا.چنانچہ اس موقع پر جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور گئے ہیں اور آپ کا وصال ہو گیا ہے ایک دن مجھے آپ نے ایک مکان میں بلا کر فرمایا.محمود ! دیکھو یہ دھوپ کیسی زرد سی معلوم ہوتی ہے چونکہ مجھے ویسی ہی معلوم ہوتی تھی جیسی کہ ہر روز دیکھتا تھا میں نے کہا نہیں اسی طرح کی ہے جس طرح کی ہر روز ہوا کرتی ہے.آپ نے فرمایا نہیں یہاں کی دھوپ کچھ زرد اور مدہم سی ہے.قادیان کی دھوپ بہت صاف اور عمدہ ہوتی ہے.چونکہ آپ نے قادیان میں ہی دفن ہونا تھا اس لئے آپ نے یہ ایک ایسی بات فرمائی جس سے قادیان سے آپ کی محبت اور اُلفت کا پتہ لگتا تھا.کیونکہ جب کہیں سے جدائی ہونے لگتی ہے تو وہاں کی ذرا ذرا چیز سے بھی محبت اور اُلفت کا خیال آتا ہے تو اس جگہ کی چھوٹی سے چھوٹی چیز سے بھی خدا کے مسیح کو وہ

Page 218

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۰ جلد اول اُلفت تھی جس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے.پھر خدا تعالیٰ نے تمہیں ایک سلک میں منسلک کر دیا ہے اور تم ایک لڑی میں پروئے گئے ہو.خدا تعالیٰ نے تمہیں اتفاق و اتحاد کی مضبوط چٹان پر کھڑا کر دیا ہے اس لئے یہاں صرف مقام ہی کی برکتیں نہیں بلکہ اتحاد کی برکتیں بھی ہیں.لیکن میں کہتا ہوں اگر خدانخواستہ اتحاد نہ بھی ہو تو بھی یہاں آنا بہت ضروری ہے.ورنہ وہ شخص جو یہاں نہیں آتا یا در کھے کہ اس کا ایمان خطرہ میں ہے.پس وہ لوگ جو پرانے ہیں اور وہ بھی جو نئے ہیں یہاں بار بار آئیں.میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ ان کے یہاں آنے جانے کے روپے ضائع نہیں جائیں گے بلکہ خدا تعالیٰ انہیں واپس کر دے گا اور بڑے نفع کے ساتھ واپس کرے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کسی کا حق نہیں مارتا.اسے بڑی غیرت ہے اور اس معاملہ میں وہ بڑا غیور ہے.دیکھو اس میں اتنی غیرت ہے کہ جب مؤذن کھڑا ہو کر اذان میں کہتا ہے حَيَّ عَلَی الصَّلوة کہ اے لوگو! نماز کا وقت ہو گیا ہے نماز کے لئے آؤ.تو خدا تعالیٰ اتنا برداشت نہیں کر سکتا کہ اس آواز سے لوگ یہ خیال کر کے آئیں کہ چلو خدا کا حکم ہے مسجد میں چلیں اور اس طرح ایک طرح کا احسان جتائیں.اس لئے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کسی کا نماز پڑھنے کے لئے آنا مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے اگر کوئی نماز پڑھے گا تو خود ہی فلاح حاصل کرے گا.تو جو لوگ خدا تعالیٰ کے لئے اپنا مال خرچ کریں گے ، اس کی رضا مندی کے لئے اپنا وطن چھوڑیں گے ، اس کی رضا کے لئے سفر کی تکلیفیں برداشت کریں گے ان کی یہ باتیں ضائع نہیں جائیں گی بلکہ وہ اس درجہ کو پائیں گے کہ خدا ان کا ہاتھ ، خدا ان کی زبان ، خدا ان کے کان ، اور خدا ان کے پاؤں ہو جائے گا.اور جو کچھ وہ اس راستہ میں ڈالیں گے وہ بیج ہو گا جو انہیں کئی گنا ہو کر واپس ملے گا.پس کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ قادیان آنا خرچ کرنا ہے یہ خرچ کرنا نہیں بلکہ برکتیں حاصل کرنا ہے.دیکھو کھیتی میں بیج ڈالنے والا بھی پیج کو خرچ کرتا ہے لیکن اس سے گھبرا تا نہیں بلکہ امید رکھتا ہے کہ کل مجھے بہت زیادہ ملے گا.پس تم بھی یہاں آنے جانے کے اخراجات سے نہ گھبراؤ.خدا تعالیٰ تمہیں اس کے مقابلہ میں بہت بڑھ کر دے گا.پس تمہارے یہاں آنے میں کوئی چیز روک نہ ہو اور کوئی بات مانع نہ ہو تا کہ تم اپنے دین اور ایمان کو مضبوط کر لو

Page 219

خلافة على منهاج النبوة جلد اول اور اپنے میں آنے والوں سے پہلے ان کے لینے کے لئے تیار ہو جاؤ اور اگر آنے والے ہزاروں ہوں تو تم بھی ہزاروں ہی ان کے لینے کے لئے موجو در ہو.اس بات کو خوب ذہن نشین کر کے اس پر عمل کرو.صحابہ کا بڑا تلخ تجربہ ہمارے سامنے موجود ہے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کیسی درد ناک مصیبت ان پر آئی تھی اور کس قدر مصائب اور آلام کا وہ نشانہ بنے تھے.یہ فساد جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے صحابہ سے پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ اُن لوگوں نے کیا تھا جو مدینہ میں نہیں آتے تھے اور صحابہ میں شامل نہ تھے.چنانچہ اس فساد کا بانی مبانی ایک شخص عبد اللہ بن سبا تھا.اس کی ابتدائی زندگی کا حال تو معلوم نہیں ہوتا کہ سیاست کے ساتھ اُس کو کیا تعلق تھا لیکن تاریخ میں اس کا ذکر حکیم بن جبلہ کے ساتھ آتا ہے.حکیم بن جبلہ ایک چور تھا جب فارس پر چڑھائی ہوئی تو یہ بھی صحابہ کے لشکر میں شامل تھا.لشکر کی واپسی پر یہ راستہ میں غائب ہو گیا اور غیر مسلموں پر حملہ کر کے ان کے اموال لوٹ لیا کرتا تھا اور بھیس بدل کر رہتا تھا.جب غیر مسلم آبادی اور مسلم آبادی نے اس کی شرارتوں کا حال حضرت عثمان کو لکھا تو آپ نے اس کے نظر بند کرنے کا حکم دیا اور بصرہ سے باہر جانے کی اسے ممانعت کر دی گئی.اس پر اس نے خفیہ شرارتیں اور منصوبے شروع کئے.چنانچہ ۳۲ھ میں اس کے گھر پر عبد اللہ بن سبا مہمان کے طور پر آ کر اُترا اور لوگوں کو بلا کر ان کو ایک خفیہ جماعت کی شکل میں بنانا شروع کیا اور آپس میں ایک انتظام قائم کیا.جب اس کی خبر والی کو ملی تو اس نے اس سے دریافت کیا کہ تو کون ہے؟ تو اس نے کہلا بھیجا کہ میں ایک یہودی ہوں اسلام سے مجھے رغبت ہے اور تیری پناہ میں آ کر ہوں.چونکہ اس کی شرارتوں کا علم گورنر کو ہو چکا تھا اُنہوں نے اسے ملک بدر کر دیا.یہ پہلا واقعہ ہے جو تاریخ عبداللہ بن سبا کی سیاسی شرارتوں کے متعلق ہمیں بتاتی ہے اور اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حکیم بن جبلہ بھی بچے دل سے مسلمان نہ تھا اور اس کا ذمیوں پر حملہ کرنا اس لئے نہ تھا کہ غیر مسلموں سے اسے دشمنی تھی بلکہ غیر مسلموں کو اسلامی حکومت کے خلاف بھڑ کانے کے لئے وہ ڈاکہ مارتا تھا جیسا کہ آجکل بنگالہ کے چند شریرہ ہندوستانی آبادی پر ڈا کہ مارتے ہیں.اور ان کی غرض صرف اس قدر ہوتی ہے کہ عام آبادی انگریزی حکومت

Page 220

خلافة على منهاج النبوة جلد اول کو نا قابل سمجھ کر اس سے بگڑ جائے اور یہ نتیجہ اس بات سے نکلتا ہے کہ عبداللہ بن سبا ایک یہودی جو دل سے اسلام کا دشمن تھا اسی کے پاس آکر ٹھہرا ہے.اگر حکیم سچا مسلمان ہوتا اور غیر مسلموں کا دشمن تو کبھی عبد اللہ بن سبا جو دل سے اسلام کا دشمن تھا سب بصرہ میں سے اس کو نہ چنتا بلکہ اسے اپنا دشمن خیال کرتا.جب عبد اللہ بن سبا بصرہ سے نکالا گیا تو کوفہ کو چلا گیا اور وہاں ایک جماعت اپنے ہم خیالوں کی پیدا کر کے شام کو گیا لیکن وہاں اس کی بات کسی نے نہ سنی اس لئے وہ وہاں سے مصر کو چلا گیا.مصری لوگ تازہ مسلمان تھے ان میں ایمان اس قدر داخل نہ ہوا تھا جیسا کہ دیگر بلاد کے باشندوں میں.پھر مدینہ سے زیادہ دور تھے اور مرکز سے تعلق کم تھا اس لئے بہت کثرت سے اس کے فریب میں آ گئے.اور عبد اللہ بن سبا نے دیکھ لیا کہ مصر ہی میرے قیام کے لئے مناسب ہو سکتا ہے چنانچہ اس نے مصر میں ہی رہائش اختیار کی اور لوگوں کو اُکسانا شروع کیا.را دھر تو یہ فتنہ شروع تھا اُدھر چند اور فتنے بھی پیدا ہو ر ہے تھے اور ان کے بانی بھی وہی لوگ تھے جو بعد میں مسلمان ہوئے تھے اور مدینہ سے اُن کا تعلق بالکل نہ تھا اس لئے ان کی تربیت نہ ہو سکتی تھی.چنانچہ جس طرح بصرہ میں حکیم بن جبلہ، عبد اللہ بن سبا کے ساتھ مل کر یہ شرارتیں کر رہا تھا کوفہ میں بھی ایک جماعت اسی کام میں لگی ہوئی تھی.سعید بن العاص گورنر کوفہ تھے اور ان کی صحبت اکثر ذی علم لوگوں کے ساتھ رہتی تھی مگر کبھی کبھی تمام لوگوں کو وہ اپنے پاس آنے کی اجازت دیتے تھے تا کل حالات سے باخبر ر ہیں.ایک دن ایسا ہی موقع تھا باتیں ہو رہی تھیں کسی نے کہا فلاں شخص بڑا سخی ہے سعید بن العاص نے کہا کہ میرے پاس دولت ہوتی تو میں بھی تم لوگوں کو دیتا.ایک بیچ میں بول پڑا کہ کاش !ال کسری کے اموال تمہارے قبضہ میں ہوتے.اس پر چند نو مسلم عرب اُس سے لڑ پڑے اور کہا کہ یہ ہمارے اموال کی نسبت خواہش کرتا ہے کہ اس کو مل جائیں.سعید بن العاص نے سمجھایا تو اس نے کہا کہ تم نے اس کو سکھایا ہے کہ ایسی بات کہے اور اُٹھ کر اس شخص کو مارنے لگے.اس کی مدد کے لئے اس کا باپ اُٹھا تو اُسے بھی ماراحتی کہ دونوں بیہوش ہو گئے.جب لوگوں کو علم ہوا

Page 221

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۳ جلد اول کہ اس قسم کا فساد ہو گیا ہے تو وہ قلعہ کے ارد گرد جمع ہو گئے مگر سعید بن العاص نے ان کو سمجھا کر ہٹا دیا کہ کچھ نہیں سب خیر ہے اور جن لوگوں کو مار پڑی تھی انہیں بھی منع کر دیا کہ تم اس بات کو مشہو ر مت کرنا خواہ مخواہ فساد پڑے گا اور آئندہ سے اس فسادی جماعت کو اپنے پاس آنے سے روک دیا.جب اُنہوں نے دیکھا کہ ہمیں والی اپنے پاس نہیں آنے دیتا تو اُنہوں نے لوگوں میں طرح طرح کے جھوٹ مشہور کرنے شروع کر دیئے اور دین اسلام پر طعن کرنے لگے اور مختلف تدابیر سے لوگوں کو دین سے بدظن کرنے کی کوشش شروع کی.اس پر لوگوں نے حضرت عثمانؓ سے شکایت کی اور آپ نے حکم دیا کہ ان کو کوفہ سے جلا وطن کر کے شام بھیج دیا جائے اور حضرت معاویہ کو لکھ دیا کہ ان کی خبر رکھنا.حضرت معاویہؓ نے نہایت محبت سے ان کو رکھا اور ایک دن موقع پا کر ان کو سمجھایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے عرب کی کیا حالت تھی اسے یاد کر وا اور غور کرو کہ خدا تعالیٰ نے قریش کے ذریعہ سے تم کو عزت دی ہے پھر قریش سے تمہیں کیوں دشمنی ہے وہ لوگ اس بات پر بھی طعن کرتے تھے کہ خلیفہ قریش میں سے کیوں ہوتے ہیں قریشیوں نے خلافت کو اپنا حق بنا چھوڑا ہے یہ نا جائز ہے ) اگر تم حکام کی عزت نہ کرو گے تو یا درکھو جلد وہ دن آتا ہے کہ خدا تعالیٰ تم پر ایسے لوگوں کو مقرر کرے گا جو تم کو خوب تکلیف دیں گے.امام ایک ڈھال ہے جو تم کو تکلیف سے بچاتا ہے.اُنہوں نے کہا کہ قریش کا کیا احسان ہے کیا وہ کوئی بڑی جماعت تھی جن کے ذریعہ سے اسلام کامیاب ہو گیا اور باقی رہا کہ امام ڈھال ہے اور ہمیں تکلیف سے بچا رہا ہے سو یہ خیال مت کرو جب وہ ڈھال ٹوٹ جائے گی تو پھر ہمارے ہاتھ میں دے دی جائے گی.یعنی خلافت اگر قریش کے ہاتھ سے نکل جائے گی تو پھر ہم ہی ہم اس کے وارث ہیں اس لئے ہمیں اس کا فکر نہیں کہ خلافت قریش کے ہاتھ سے نکل گئی تو پھر کیا ہو گا.اس پر حضرت معاویہ نے اُن کو سمجھایا کہ ایام جاہلیت کی سی باتیں نہ کرو اسلام میں کسی قوم کا زیادہ یا کم ہونا موجب شرف نہیں رکھا گیا بلکہ دیندار و خدا رسیدہ ہونا اصل سمجھا گیا ہے.پس جب کہ قریش کو خدا تعالیٰ نے جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں میں ممتاز کیا اور ان کو دین کی اشاعت و حفاظت کا کام سپرد کیا ہے تو تم کو اس پر کیا حسد ہے اور تم

Page 222

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۴ جلد اول لوگ اپنی پہلی حالت کو دیکھو اور سوچو کہ اسلام نے تم لوگوں پر کس قدر احسانات کئے ہیں.ایک وہ زمانہ تھا کہ تم اہل فارس کے کارندہ تھے اور بالکل ذلیل تھے اسلام کے ذریعہ سے ہی تم کو سب عزت ملی لیکن تم نے بجائے شکریہ ادا کرنے کے ایسی باتیں شروع کر دی ہیں جو اسلام کے لئے ہلاکت کا باعث ہیں.تم شیطان کا ہتھیار بن گئے ہو وہ جس طرح چاہتا ہے تمہارے ذریعہ سے مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوا رہا ہے.مگر یا درکھو کہ اس بات کا انجام نیک نہ ہوگا اور تم دُکھ پاؤ گے.بہتر ہے کہ جماعت اسلام میں شامل ہو جاؤ.میں خوب جانتا ہوں کہ تمہارے دل میں کچھ اور ہے جسے تم ظاہر نہیں کرتے لیکن اللہ تعالیٰ اُسے ظاہر کر کے چھوڑے گا (یعنی تم اصل میں حکومت کے طالب ہو اور چاہتے ہو کہ ہم بادشاہ ہو جائیں اور دین سے متنفر ہو لیکن بظاہر اپنے آپ کو مسلم کہتے ہو ) اس کے بعد حضرت معاویہؓ نے حضرت عثمان کو ان کی حالت سے اطلاع دی اور لکھا کہ وہ لوگ اسلام و عدل سے بیزار ہیں اور ان کی غرض فتنہ کرنا اور مال کمانا ہے پس آپ ان کے متعلق گورنروں کو حکم دے دیجئے کہ ان کو عزت نہ دیں یہ ذلیل لوگ ہیں.پھر ان لوگوں کو شام سے نکالا گیا اور وہ جزیرہ کی طرف چلے گئے وہاں عبد الرحمن بن خالد بن ولید حاکم تھے اُنہوں نے ان کو نظر بند کر دیا اور کہا کہ اگر اس ملک میں بھی لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنے اور فتنہ ڈالنے کی کوشش کی تو یا د رکھو میں ایسی خبر لوں گا کہ سب شیخی کرکری ہو جائے گی.چنانچہ اُنہوں نے انہیں سخت پہرہ میں رکھاشی کہ ان لوگوں نے آخر میں تو بہ کی کہ اب ہم جھوٹی افواہیں نہ پھیلائیں گے اور اسلام میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش نہ کریں گے.اس پر حضرت عبد الرحمن بن خالد بن ولید نے ان کو اجازت دے دی کہ جہاں چاہو چلے جاؤ اور اشتر کو حضرت عثمان کی خدمت میں بھیجا کہ اب یہ معافی کے طالب ہیں.آپ نے انہیں معاف کیا اور اختیار دیا کہ جہاں چاہیں رہیں.اشتر نے کہا کہ ہم عبد الرحمن بن خالد کے پاس ہی رہنا چاہتے ہیں چنانچہ وہیں اُن کو واپس کیا گیا.اس گروہ کے علاوہ ایک تیسرا گروہ تھا جو تفرقہ کے پیچھے پڑا ہوا تھا.اس کا سرگروہ ایک شخص حمران بن ابان تھا اس نے ایک عورت سے عدت کے اندر شادی کر لی تھی جس پر اُسے

Page 223

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۵ جلد اوّل مارا گیا اور بصرہ کی طرف جلا وطن کر دیا گیا.وہاں اس نے فساد ڈلوانا شروع کیا اور تفرقہ اور فساد ڈالنے کے لئے یہ صورت اختیار کی کہ شرفاء کے خلاف موقع پا کر جھوٹ منسوب کر دیتا اور اس طرح تفرقہ ڈلواتا.غرض یہ تین گروہ اسلام کی تباہی میں کوشاں تھے اور تینوں گروہ ایسے تھے جو دین اسلام سے بے خبر اور اپنی وجاہت کے دلدادہ تھے.اسلام کی ناواقفی کی وجہ سے اپنی عقل سے مسائل ایجاد کر کے مسلمانوں کے اعتقاد بگاڑتے تھے اور چونکہ حکومت اسلامیہ ان کے اس فعل میں روک تھی اور وہ گھلے بندوں اسلام کو بازیچہ اطفال نہیں بنا سکتے تھے اس لئے حکومت کے مٹانے کے درپے ہو گئے تھے.چنانچہ سب سے پہلے عبد اللہ بن سبا نے مصر میں بیٹھ کر با قاعدہ سازش شروع کر دی اور تمام اسلامی علاقوں میں اپنے ہم خیال پیدا کر کے ان کے ساتھ خط و کتابت شروع کی اور لوگوں کو بھڑ کانے کے لئے یہ راہ نکالی کہ حضرت عثمان کے عمال کے خلاف لوگوں کو بھڑ کا نا شروع کیا اور چونکہ لوگ اپنی آنکھوں دیکھی بات کے متعلق دھوکا نہیں کھا سکتے اس لئے یہ تجویز کی کہ ہر ایک جگہ کے لوگ اپنے علاقہ میں اپنے گورنر کے عیب نہ مشہور کر یں بلکہ دوسرے علاقہ کے لوگوں کو اس کے مظالم لکھ کر بھیجیں.وہاں کے فتنہ پر دازان کو اپنے گورنر کے عیب لکھ کر بھیجیں اس طرح لوگوں پر ان کا فریب نہ کھلے گا.چنانچہ بصرہ کے لوگ مصر والوں کی طرف لکھ کر بھیجتے کہ یہاں کا گورنر بڑا ظالم ہے اور اس اس طرح مسلمانوں پر ظلم کرتا ہے اور مصر کے لوگ یہ خطوط لوگوں کو پڑھ کر سناتے اور کہتے کہ دیکھو تمہارے بصرہ کے بھائی اس دکھ میں ہیں اور ان کی فریاد کوئی نہیں سنتا.اسی طرح مصر کے متفنی کسی اور صوبہ کے دوستوں کو مصر کے گورنر کے ظلم لکھ کر بھیجتے اور وہ لوگوں کو سنا کر خلیفہ کے خلاف اُکساتے کہ اس نے ایسے ظالم گورنر مقرر کر رکھے ہیں جن کو رعایا کی کوئی پرواہ نہیں.علاوہ ازیں لوگوں کو بھڑ کانے کے لئے چونکہ اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ ان کے دل ان کی طرف جھک جائیں اس کے لئے عبداللہ بن سبا نے یہ تجویز کی کہ عام طور پر وعظ ولیکچر دیتے پھرو تا کہ لوگ تمہاری طرف مائل ہو جائیں اور بڑا خادم اسلام سمجھیں.چنانچہ اس

Page 224

خلافة على منهاج النبوة جلد اول کے اصل الفاظ یہ ہیں جو طبری نے لکھے ہیں وَاظْهِرُوا الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهَى عَنِ الْمُنْكَرِ تَسْتَمِيلُوا النَّاسَ وَادْعُوهُمُ إلى هذا الأمر فَبَكَ دُعَاتَهُ " یعنی اس نے نصیحت کی کہ ظاہر میں تو تمہارا کام لوگوں کو نیک باتوں کا وعظ کرنا اور بُری باتوں سے روکنا ہو تا کہ اس ذریعہ سے لوگوں کے دل تمہاری طرف مائل ہو جائیں کہ کیا عمدہ کام کرتے ہیں لیکن اصل میں تمہاری غرض ان وعظوں سے یہ ہو کہ اس طرح لوگوں کے دل جب مائل ہو جائیں تو انہیں اپنا ہم خیال بناؤ.یہ نصیحت کر کے اس نے اپنے واعظ چاروں طرف پھیلا دیئے.غرض ان لوگوں نے ایسا طریق اختیار کیا کہ سادہ لوح لوگوں کے لئے بات کا سمجھنا بالکل مشکل ہو گیا اور فتنہ بڑے زور سے ترقی کرنے لگا اور عام طور پر مسلمان خلافت عثمان سے بدظن ہو گئے اور ہر جگہ یہی ذکر لوگوں کی زبانوں پر رہنے لگا کہ ہم تو بڑے مزے میں ہیں باقی علاقوں کے لوگ بڑے بڑے دکھوں میں ہیں.بصرہ کے لوگ خیال کرتے کہ کوفہ اور مصر کے لوگ سخت تکلیف میں ہیں اور کوفہ کے لوگ سمجھتے کہ بصرہ اور مصر کے لوگ سخت دُکھ میں ہیں حالانکہ اگر وہ لوگ آپس میں ملتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ یہ شریروں کی شرارت ہے ورنہ ہر جگہ امن و امان ہے.ہر جماعت دوسری جماعت کو مظلوم قرار دیتی تھی حالانکہ مظلوم کوئی بھی نہ تھا اور ان سازشیوں نے ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ اپنے ہم خیالوں کو ایک دوسرے سے ملنے نہ دیتے تھے تا راز ظاہر نہ ہو جائے.آخر یہ فساد بڑھتے بڑھتے خیالات سے عمل کی طرف کو ٹا اور لوگوں نے یہ تجویز کی کہ ان گورنروں کو موقوف کروایا جائے جن کو حضرت عثمان نے مقرر کیا ہے چنانچہ سب سے پہلے حضرت عثمان کے خلاف کوفہ کے لوگوں کو اُکسایا گیا اور وہاں فساد ہو گیا.لیکن بعض بڑے آدمیوں کے سمجھانے سے فساد تو دب گیا مگر فساد کے بانی مبانی نے فوراً ایک آدمی کو خط دے کر حمص روا نہ کیا کہ وہاں جو جلا وطن تھے ان کو بلا لائے اور لکھا کہ جس حالت میں ہو فوراً چلے آؤ کہ مصری ہم سے مل گئے ہیں.وہ خط جب ان کو ملا تو باقیوں نے اُسے رڈ کر دیا لیکن مالک بن اشتر بگڑ کر فوراً کوفہ کی طرف روانہ ہو گیا اور تمام راستہ میں لوگوں کو حضرت عثمان اور سعید بن العاص کے خلاف اُکساتا گیا اور ان کو سنا تا کہ میں مدینہ سے آ رہا ہوں.راستہ

Page 225

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۷ جلد اول میں سعید بن العاص سے ملا تھا وہ تمہاری عورتوں کی عصمت دری کرنا چاہتا ہے اور فخر کرتا ہے کہ مجھے اس کام سے کون روک سکتا ہے.اسی طرح حضرت عثمان کی عیب جوئی کرتا.جولوگ حضرت عثمان اور دیگر صحابہ کے واقف نہ تھے اور مدینہ آنا جانا اُن کا کم تھا وہ دھو کے میں آتے جاتے تھے اور تمام ملک میں آگ بھڑکتی جاتی تھی عقلمند اور واقف لوگ سمجھاتے لیکن جوش میں کون کسی کی سنتا ہے.اس زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف لوگ قسم قسم کے جھوٹ مشہور کرتے تھے اور ایسے احمدی بھی جو قادیان کم آتے تھے ان کے دھوکے میں آ جاتے تھے.اب بھی ہمارے مخالف میری نسبت اور قادیان کے دوسرے دوستوں کی نسبت جھوٹی باتیں مشہور کرتے ہیں کہ سب اموال پر انہوں نے تصرف کر لیا ہے اور حضرت صاحب کو حقیقی نبی ( جس کے معنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تشریعی نبی کئے ہیں ) مانتے ہیں اور نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ جو لوگ قادیان نہیں آتے ان میں سے بعض ان کے فریب میں آجاتے ہیں.ایک رئیس نے مسجد کوفہ میں لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک تقریر کی اور سمجھایا لیکن دوسرے لوگوں نے اُنہیں کہا کہ اب فتنہ حد سے بڑھ گیا ہے اب اس کا علاج سوائے تلوار کے کچھ نہیں.اس ناشکری کی سزا اب ان کو یہی ملے گی کہ یہ زمانہ بدل جائے گا اور بعد میں یہ لوگ خلافت کے لوٹنے کی تمنا کریں گے لیکن ان کی آرزو پوری نہ ہو گی.پھر سعید بن العاص اُن کو سمجھانے گئے اُنہوں نے جواب دیا کہ ہم تجھ سے راضی نہیں تیری جگہ پر اور گورنر طلب کریں گے.انہوں نے کہا کہ اس چھوٹی سی بات کے لئے اس قدر شور کیوں ہے ایک آدمی کو خلیفہ کی خدمت میں بھیج دو کہ ہمیں یہ گورنر منظور نہیں وہ اور بھیج دیں گے.اس بات کیلئے اس قد را اجتماع کیوں ہے؟ یہ بات کہہ کر سعید نے اپنا اونٹ دوڑایا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور حضرت عثمان کو سب حالات سے آگاہ کیا.آپ نے فرمایا کسے گورنر بنانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ابوموسیٰ اشعری کو.فرمایا ہم نے ان کو گورنر مقرر کیا اور ہم ان لوگوں کے پاس کوئی معقول عذر نہ رہنے دیں گے.جب حضرت ابو موسیٰ اشعری کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے سب لوگوں

Page 226

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۸ جلد اول کو جمع کر کے اس خبر سے آگاہ کیا.اُنہوں نے کہا تو آپ ہمیں نماز پڑھائیں مگر اُنہوں نے انکار کیا اور کہا کہ جب تک کہ تم آئندہ کے لئے تو بہ نہ کرو اور حضرت عثمان کی اطاعت کا وعدہ نہ کرو میں تمہاری امامت نہ کروں گا اور تم کو نماز نہ پڑھاؤں گا.انہوں نے وعدہ کیا تب آپ نے انہیں نماز پڑھائی لیکن فتنہ اس پر بھی ختم نہ ہوا کیونکہ ان لوگوں کی اصل غرض تو خلافت کا اُڑانا تھا.عمال و حکام کی تبدیلی تو صرف ایک بہانہ اور حضرت عثمان کے مظالم ( نَعُوذُ بالله ) کا اظہار ایک ذریعہ تھے جس سے وہ لوگ جو مدینہ آتے جاتے نہ تھے اور اس برگزیدہ اور پاک انسان کے حالات سے آگاہ نہ تھے وہ دھو کے میں آ جاتے تھے اور اگر وہ خود آ کر حضرت عثمان کو دیکھتے تو کبھی ان شریروں کے دھوکے میں نہ آتے اور اس فساد میں نہ پڑتے.غرض یہ فتنہ دن بدن بڑھتا ہی گیا اور آخر حضرت عثمان نے صحابہ کو جمع کیا اور دریافت کیا کہ اس فتنہ کے دور کرنے کے لئے کیا تدبیر کرنی چاہیے.اس پر مشورہ ہوا اور یہ تجویز ہوئی کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ حکام کی شکایت درست بھی ہے یا نہیں اور اس بات کے معلوم کرنے کے لئے تمام صوبوں میں کچھ ایسے آدمی بھیجے جائیں جو یہ معلوم کریں کہ آیا گورنر ظالم ہیں یا یونہی ان کے متعلق غلط خبر میں پھیلا کی جارہی ہیں.اس کام کے لئے جو آدمی بھیجے گئے ان سب نے لکھ دیا کہ ہر ایک صوبہ میں اچھی طرح امن اور امان قائم ہے.گورنروں کے متعلق کوئی شکایت نہیں ہے لیکن عمار بن یاسر جو مصر میں بھیجے گئے تھے ان کو عبد اللہ بن سبا کے ساتھی پہلے ہی مل گئے اور اپنے پاس ہی ان کو رکھا اور لوگوں سے نہ ملنے دیا بلکہ ایسے ہی لوگوں سے ملایا جو اپنے ڈھب کے اور ہم خیال تھے اور انہیں سارے جھوٹے قصے سنائے اس لئے وہ ان کے دھو کے میں آگئے.یہ واقعہ اسی طرح ہوا جس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ابوجہل کرتا تھا کہ جب لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے کے لئے آتے تو وہ ان کو روکتا کہ اول تو اس کے پاس ہی نہ جاؤ اور اگر جاتے ہو تو اپنے کانوں میں روئی ٹھونس کر جاؤ تا کہ اس کی آواز تمہارے کانوں تک نہ پہنچے.اسی طرح عمار بن یا سر کو گورنر اور دوسرے امرائے مصر سے ملنے ہی نہ دیا گیا.

Page 227

خلافة على منهاج النبوة ۲۰۹ جلد اول ان لوگوں کے واپس آنے کے بعد جو تحقیقات کے لئے مختلف بلاد کی طرف بھیجے گئے تھے حضرت عثمان نے مزید احتیاط کے طور پر ایک خط تمام ممالک کے مسلمانوں کی طرف لکھا اور اس میں تحریر فرمایا کہ مجھے ہمیشہ سے مسلمانوں کی خیر خواہی مد نظر رہی ہے مگر میں شکایتیں سنتا ہوں کہ بعض مسلمانوں کو بلا وجہ مارا جاتا ہے اور بعض کو بلا وجہ گالیاں دی جاتی ہیں اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ لوگ جن کو شکایت ہو اس سال حج کے لئے جمع ہوں اور جو شکایات انہیں ہیں وہ پیش کریں خواہ میرے حکام کے خلاف ہوں خواہ میرے خلاف.میری جان حاضر ہے اگر مجھ پر کوئی شکایت ثابت ہو تو مجھ سے بدلہ لے لیں.جب یہ خط تمام ممالک کی مساجد میں سنایا گیا تو شریروں پر تو کیا اثر ہونا تھا مگر عام مسلمان اس خط کوسن کر بے تاب ہو گئے اور جب یہ خط سنایا گیا تو مساجد میں ایک کہرام مچ گیا اور روتے روتے مسلمانوں کی داڑھیاں تر ہوگئیں اور اُنہوں نے افسوس کیا کہ چند بد معاشوں کی وجہ سے امیر المؤمنین کو اس قدر صدمہ ہوا ہے اور سب جگہ پر حضرت عثمان کے لئے دعا کی گئی.موسم حج کے قریب حضرت عثمان نے تمام گورنروں کے نام خطوط لکھے کہ حج میں حاضر ہوں.چنانچہ سب گورنر حاضر ہوئے اور آپ نے ان سے دریافت کیا کہ یہ شور کیسا ہے؟ انہوں نے کہا کہ شور تو کوئی نہیں بعض شریروں کی شرارت ہے اور آپ نے اکابر صحابہ کو بھیج کر خود دریافت کر لیا ہے کہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں بلکہ تمام الزامات جھوٹے ہیں.اس پر آپ نے فرمایا کہ اچھا آئندہ کے لئے کیا مشورہ دیتے ہو ؟ سعید بن العاص نے کہا کہ یہ ایک خفیہ منصوبہ ہے جو الگ تیار کیا جاتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کے کان بھر دیے جاتے ہیں جو حالات سے ناواقف ہیں اور اس طرح ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک بات پہنچتی جاتی ہے.پس علاج یہی ہے کہ اصل شریروں کو تلاش کر کے انہیں سزادی جائے اور قتل کر دیا جائے.عبداللہ بن سعد نے مشورہ دیا کہ آپ نرمی کرتے ہیں جب آپ لوگوں کو ان کے حقوق دیتے ہیں تو لوگوں سے ان حقوق کا مطالبہ بھی کریں جو ان کے ذمہ واجب ہیں.حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ یہ دونوں بزرگ اپنے اپنے علاقہ کے واقف ہوں گے میرے علاقہ میں تو کوئی شور ہی نہیں.وہاں سے آپ نے کبھی کوئی فساد کی خبر نہ سنی ہوگی اور

Page 228

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۰ جلد اول جہاں شورش ہے وہاں کے متعلق میرا مشورہ یہی ہے کہ وہاں کے حکام انتظام کی مضبوطی پر زور دیں.حضرت عمرو بن العاص نے فرمایا کہ آپ بہت نرمی کرتے ہیں اور آپ نے لوگوں کو ایسے حقوق دے دیئے ہیں جو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نہ دیتے تھے.پس آپ اب لوگوں سے ویسا ہی سلوک کریں جیسا کہ یہ دونوں کرتے تھے اور جس طرح نرمی سے کام لیتے ہیں سختی کے موقع پر سختی سے بھی کام لیں.ان سب مشوروں کو سن کر حضرت عثمان نے فرمایا کہ یہ فتنہ مقدر ہے اور مجھے اس کا سب حال معلوم ہے کوئی سختی اس فتنہ کو روک نہیں سکتی.اگر رو کے گی تو نرمی.پس تم لوگ مسلمانوں کے حقوق پوری طرح ادا کرو اور جہاں تک ہو سکے ان کے قصور معاف کرو.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے لوگوں کو نفع پہنچانے میں کوئی کمی نہیں کی.پس میرے لئے بشارت ہے اگر میں اسی طرح مر جاؤں اور فتنہ کا باعث نہ بنوں.لیکن تم لوگ یہ بات یاد رکھو کہ دین کے معاملہ میں نرمی نہ کرنا بلکہ شریعت کے قیام کی طرف پورے زور سے متوجہ رہنا.یہ کہہ کر سب حکام کو واپس روانہ کر دیا.حضرت معاویہ جب روانہ ہونے لگے تو عرض کیا اے امیر المؤمنین ! آپ میرے ساتھ شام کو چلے چلیں سب فتنوں سے محفوظ ہو جائیں گے.آپ نے جواب دیا کہ معاویہ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی کو کسی چیز کی خاطر بھی نہیں چھوڑ سکتا خواہ میرے چمڑے کی رسیاں ہی کیوں نہ بنا دی جائیں.اس پر حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ آپ یہ بات نہیں مانتے تو میں ایک لشکر سپاہیوں کا بھیج دیتا ہوں جو آپ کی اور مدینہ کی حفاظت کریں گے.آپ نے فرمایا کہ میں اپنی جان کی حفاظت کے لئے ایک لشکر رکھ کر مسلمانوں کے رزق میں کمی نہیں کرنا چاہتا.حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ امیر المؤمنین ! خدا کی قسم ! آپ کو شریر لوگ دھوکا سے قتل کر دیں گے یا آپ کے خلاف جنگ کریں گے آپ ایسا ضرور کریں.لیکن آپ نے یہی جواب دیا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا خدا میرے لئے کافی ہے.پھر حضرت معاویہ نے عرض کیا کہ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر یہ کریں کہ شرارتی لوگوں کو بڑا گھمنڈ بعض اکابر صحابہ پر ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے بعد وہ کام سنبھال لیں گے اور ان کا نام لے لے کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں آپ ان سب کو مدینہ سے رخصت کر دیں اور

Page 229

خلافة على منهاج النبوة جلد اول دُور دراز ملکوں میں پھیلا دیں شریروں کی کمریں ٹوٹ جائیں گی.آپ نے فرمایا کہ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا تھا میں تو انہیں جلا وطن نہیں کر سکتا.اس پر حضرت معاویہ رو پڑے اور فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے اس فتنہ کے لئے منشائے الہی ہو چکا ہے اور اے امیر المؤمنین ! شاید یہ میری آپ سے آخری ملاقات ہے اس لئے ایک عرض میں آخر میں اور کرتا ہوں کہ اگر آپ اور کچھ بھی نہیں کرتے تو اتنا کریں کہ اعلان کر دیں کہ میرے خون کا بدلہ معاویہ لے گا.(یعنی بہ صورت آپ کے شہید ہونے کے ) آپ نے فرمایا کہ معاویہ ! تمہاری طبیعت تیز ہے میں ڈرتا ہوں کہ تم مسلمانوں پر سختی کرو گے اس لئے یہ اعلان بھی نہیں کر سکتا.اس پر روتے روتے حضرت معاویہؓ آپ سے جُدا ہوئے اور مکان سے نکلتے ہوئے یہ کہتے گئے کہ لوگو! ہوشیار رہنا.اگر اس بوڑھے ( یعنی حضرت عثمان ) کا خون ہوا تو تم لوگ بھی اپنی سزا سے نہیں بچو گے.اس واقعہ پر ذرا غور کرو اور دیکھو اس انسان کے جس کی نسبت اس قدر بدیاں مشہور کی جاتی تھیں کیا خیالات تھے اور وہ مسلمانوں کا کتنا خیر خواہ تھا اور ان کی بہتری کے لئے کس قدر متفکر رہتا تھا اور کیوں نہ ہوتا.آپ وہ تھے کہ جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیاں بیاہ دی تھیں اور جب دونوں فوت ہوگئیں تو فرمایا تھا کہ اگر میری کوئی تیسری بیٹی ہوتی تو اس کو بھی میں ان سے بیاہ دیتا.افسوس لوگوں نے اسے خود آ کر نہ دیکھا اور اس کے خلاف شور کر کے دین و دنیا سے کھوئے گئے.جب مفسدوں نے دیکھا کہ اب حضرت عثمان نے تحقیقات شروع کر دی ہیں اور اس طرح ہمارے منصوبوں کے خراب ہو جانے کا خطرہ ہے تو اُنہوں نے فوراً ادھر اُدھر خطوط دوڑا کر اپنے ہم خیالوں کو جمع کیا کہ مدینہ چل کر حضرت عثمان سے رو برو بات کریں.چنانچہ ایک جماعت جمع ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئی.حضرت عثمان کو ان کے ارادہ کی پہلے سے ہی اطلاع ہو چکی تھی.آپ نے دو معتبر آدمیوں کو روانہ کیا کہ ان سے مل کر دریافت کریں کہ ان کا منشا کیا ہے ؟ دونوں نے مدینہ سے باہر جا کر ان سے ملاقات کی اور ان کا عندیہ دریافت کیا.اُنہوں نے اپنا منشا ان کے آگے بیان کیا پھر اُنہوں نے پوچھا کہ کیا مدینہ

Page 230

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۲ جلد اول والوں میں سے بھی کوئی تمہارے ساتھ ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ صرف تین آدمی مدینہ والوں سے ہمارے ساتھ ہیں.ان دونوں نے کہا کہ کیا صرف تین آدمی تمہارے ساتھ ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں صرف تین ہمارے ساتھ ہیں (اب بھی موجودہ فتنہ میں قادیان کے صرف تین چار آدمی ہی پیغام والوں کے ساتھ ملے ہیں یا دو تین ایسے آدمی جو مؤلفتہ القلوب میں داخل تھے اور جو بعد میں پیغام والوں سے بھی جُدا ہو گئے ) اُنہوں نے دریافت کیا کہ پھر تم کیا کرو گے؟ ان مفسدوں نے جواب دیا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ ہم حضرت عثمان سے وہ باتیں دریافت کریں گے جو پہلے ہم نے ان کے خلاف لوگوں کے دلوں میں بٹھائی ہوئی ہیں.پھر ہم واپس جا کر تمام ملکوں میں مشہور کریں گے کہ ان باتوں کے متعلق ہم نے ( حضرت ) عثمان سے ذکر کیا لیکن اس نے ان کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور تو بہ نہیں کی.اس طرح لوگوں کے دل ان کی طرف سے بالکل پھیر کر ہم حج کے بہانہ سے پھر لوٹیں گے اور آ کر محاصرہ کریں گے اور عثمان سے خلافت چھوڑ دینے کا مطالبہ کریں گے اگر اس نے انکار کر دیا تو اسے قتل کر دیں گے.ان دونوں مخبروں نے ان سب باتوں کی اطلاع آ کر حضرت عثمان کو دی تو آپ ہنسے اور دعا کی کہ یا اللہ ! ان لوگوں پر رحم کر.اگر تو ان پر رحم نہ کرے تو یہ بد بخت ہو جائیں گے.پھر آپ نے کوفیوں اور بصریوں کو بلوایا اور مسجد میں نماز کے وقت جمع کیا اور آپ منبر پر چڑھ گئے اور آپ کے اردگر دوہ مفسد بیٹھ گئے.جب صحابہ کو علم ہوا تو سب مسجد میں آ کر جمع ہو گئے اور ان مفسدوں کے گر د حلقہ کر لیا.پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور ان لوگوں کا حال سنایا اور ان دونوں آدمیوں نے جو حال دریافت کرنے گئے تھے سب واقعہ کا ذکر کیا.اس پر صحابہ نے بالا تفاق بآواز بلند پکار کر کہا کہ ان کو قتل کر دو کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اپنی یا کسی اور کی خلافت کے لئے لوگوں کو بُلائے اور اُس وقت لوگوں میں ایک امام موجود ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو گی اور تم ایسے شخص کو قتل کر دو اور حضرت عمرؓ کا بھی یہی فتویٰ ہے.اس پر حضرت عثمان نے فرمایا کہ انہیں ہم معاف کریں گے اور اس طرح ان کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کریں گے.پھر فرمایا کہ یہ لوگ بعض باتیں بیان کرتے ہیں وہ ایسی باتیں ہیں کہ تم

Page 231

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۳ جلد اول بھی جانتے ہو لیکن فرق یہ ہے کہ یہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کو میرے خلاف بھڑ کا نا چاہتے ہیں.مثلاً کہتے ہیں کہ اس نے سفر میں نماز قصر نہیں کی حالانکہ پہلے ایسا نہ ہوتا تھا.سنو میں نے نماز ایسے شہر میں پوری پڑھی ہے جس میں کہ میری بیوی تھی کیا اسی طرح نہیں ہوا ؟ سب صحابہ نے کہا کہ ہاں یہی بات ہے.پھر فرمایا یہ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اس نے رکھ بنائی ہے حالانکہ اس سے پہلے رکھ نہ بنائی جاتی تھی مگر یہ بات بھی غلط ہے حضرت عمرؓ کے وقت سے رکھ کا انتظام ہے.ہاں جب صدقات کے اونٹ زیادہ ہو گئے تو میں نے رکھ کو اور بڑھا دیا اور یہ دستور بھی حضرت عمر کے وقت سے چلا آیا ہے.باقی میرے اپنے پاس تو صرف دو اونٹ ہیں اور بھیڑ اور بکری بالکل نہیں.حالانکہ جب میں خلیفہ ہوا تھا تو میں تمام عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں والا تھا لیکن آج میرے پاس نہ بکری ہے نہ اونٹ سوائے ان دو اونٹوں کہ یہ بھی صرف حج کے لئے رکھے ہوئے ہیں.کیا یہ بات درست نہیں ؟ سب صحابہؓ نے عرض کیا کہ بالکل درست ہے.پھر فرمایا کہ یہ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ قرآن کئی صورتوں میں تھا میں نے اسے ایک صورت پر لکھوا دیا ہے.سنو! قرآن ایک ہے اور ایک خدا کی طرف سے آیا ہے اور اس بات میں میں سب صحابہؓ کی رائے کا تابع ہوں.میں نے کوئی بات نہیں کی کیا یہ بات درست نہیں ؟ سب صحابہؓ نے عرض کیا کہ بالکل درست ہے اور یہ لوگ واجب القتل ہیں ان کو قتل کیا جائے.غرض اسی طرح حضرت عثمان نے ان کے سب اعتراضوں کا جواب دیا اور صحابہؓ نے ان کی تصدیق کی.اس کے بعد بہت بحث ہوئی.صحابہ اصرار کرتے تھے کہ ان شریروں کو قتل کیا جائے لیکن حضرت عثمان نے اس مشورہ کو قبول نہ کیا اور ان کو معاف کر دیا اور وہ لوگ واپس چلے گئے.مدینہ سے واپسی پر ان مفسدوں نے سوچا کہ اب دیر کرنی مناسب نہیں.بات بہت بڑھ چکی ہے اور لوگ جوں جوں اصل واقعات سے آگاہ ہوں گے ہماری جماعت کمزور ہوتی جائے گی.چنانچہ اُنہوں نے فوراً خطوط لکھنے شروع کر دیے کہ اب کے حج کے موسم میں ہمارے سب ہم خیال مل کر مدینہ کی طرف چلیں لیکن ظاہر یہ کریں کہ ہم حج کیلئے جاتے ہیں.چنانچہ ایک جماعت مصر سے ، ایک کوفہ سے، ایک بصرہ سے ارادہ حج ظاہر کرتی ہوئی

Page 232

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۴ جلد اول مدینہ کی طرف سے ہوتی مکہ کی طرف روانہ ہوئی اور تمام لوگ بالکل بے فکر تھے اور کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ کیا منصوبہ سوچا گیا ہے.بلکہ راستہ میں لوگ ان کو حاجی خیال کر کے خوب خاطر و مدارات بھی کرتے لیکن بعض لوگوں کے منہ سے بعض باتیں نکل جاتی ہیں چنانچہ کسی نہ کسی طرح سے ان لوگوں کی نیت ظاہر ہوگئی اور اہلِ مدینہ کو ان کی آمد کا اور نیت کا علم ہو گیا اور چاروں طرف قاصد دوڑائے گئے کہ اس نیت سے ایک جماعت مدینہ کی طرف بڑھی چلی آ رہی ہے چنانچہ آس پاس جہاں جہاں صحابہ مقیم تھے وہاں سے تیزی کے ساتھ مدینہ میں آگئے اور دیگر قابل شمولیت جنگ مسلمان بھی مدینہ میں اکٹھے ہو گئے اور ان مفسدوں کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ایک لشکر جرار مدینہ میں جمع ہو گیا جب یہ لوگ مدینہ کے قریب پہنچے اور انہیں اس بات کی خبر ہو گئی کہ مسلمان بالکل تیار ہیں اور ان کی شرارت کامیاب نہیں ہو سکتی تو انہوں نے چند آدمی پہلے مدینہ بھیجے کہ امہات المؤمنین اور صحابہ سے مل کر ان کی ہمدردی حاصل کریں.چنانچہ مدینہ میں آ کر ان لوگوں نے فرداً فرداً امہات المؤمنین سے ملاقات کی لیکن سب نے ان سے بیزاری ظاہر کی.پھر یہ لوگ تمام صحابہ سے ملے لیکن کسی نے ان کی بات کی طرف توجہ نہ کی اور صاف کہہ دیا کہ تم لوگ شرارتی ہو ہم تمہارے ساتھ نہیں مل سکتے اور نہ تم کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دے سکتے ہیں.اس کے بعد مصری حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں آپ ہماری بیعت قبول کریں.اس پر حضرت علیؓ نے ان کو دھتکار دیا اور کہا کہ نیک لوگ جانتے ہیں کہ مروہ اور ذی نشب کے لشکر پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے ( یہ وہ مقامات ہیں جہاں مدینہ کے باہر باغیوں کا لشکر اُترا تھا ) اسی طرح بصرہ کے لوگ طلحہ کے پاس گئے اور ان سے ان کا سردار بننے کے لئے کہا لیکن اُنہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ مروہ اور ذی نشب کے لشکروں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے میں تمہارے ساتھ شامل نہیں ہوسکتا.اسی طرح کوفہ کے لوگ حضرت زبیر کے پاس گئے اور ان سے یہی درخواست کی لیکن اُنہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ میرے پاس سے دور ہو جاؤ میں تمہارے ساتھ شامل نہیں ہو سکتا.کیونکہ سب مسلمان جانتے ہیں کہ رسول کریم

Page 233

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۵ ۱۵ جلد اول صلی اللہ علیہ وسلم نے مروہ ، ذی خشب اور اعوص کے لشکروں پر لعنت کی ہے لا جب باغی سب طرف سے مایوس ہو گئے تو اُنہوں نے یہ ظاہر کرنا شروع کیا کہ ان کی اصل غرض تو بعض عاملوں کا تبدیل کروانا ہے ان کو تبدیل کر دیا جائے تو ان کو پھر کوئی شکایت نہ رہے گی.چنانچہ حضرت عثمان نے ان کو اپنی شکایات پیش کرنے کی اجازت دی اور اُنہوں نے بعض گورنروں کے بدلنے کی درخواست کی.حضرت عثمانؓ نے ان کی درخواست قبول کی اور ان کے کہنے کے مطابق محمد بن ابی بکر کو مصر کا گورنر مقرر کر دیا اور حکم جاری کر دیا کہ مصر کا گورنر اپنا کام محمد بن ابی بکڑ کے سپر د کر دے.اسی طرح بعض اور مطالبات اُنہوں نے کئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ بیت المال میں سے سوائے صحابہؓ کے دوسرے اہلِ مدینہ کو ہرگز کوئی روپیہ نہ دیا جایا کرے.یہ خالی بیٹھے کیوں فائدہ اُٹھاتے ہیں ) جس طرح آجکل بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بعض لوگ قادیان میں یونہی بیٹھے رہتے ہیں اور لنگر سے کھانا کھاتے ہیں ان کے کھانے بند کرنے چاہئیں مگر جس طرح پہلوں نے اصل حکمت کو نہیں سمجھا ان معترضوں نے بھی نہیں سمجھا ) غرض اُنہوں نے بعض مطالبات کئے جو حضرت عثمان نے قبول کئے.اور وہ لوگ یہ منصوبہ کر کے کہ اس وقت تو مدینہ کے لوگ چوکس نکلے اور مدینہ لشکر سے بھرا ہوا ہے اس لئے واپس جانا ہی ٹھیک ہے لیکن فلاں دن اور فلاں وقت تم لوگ اچانک مدینہ کی طرف واپس کو ٹو اور اپنے مدعا کو پورا کر دو.جب یہ لوگ واپس چلے گئے تو جس قدر لوگ مدینہ میں جمع ہو گئے تھے سب اپنے اپنے کاموں کے لئے متفرق ہو گئے.اور ایک دن اچانک ان باغیوں کا لشکر مدینہ میں داخل ہو گیا اور تمام گلیوں میں اعلان کر دیا کہ جوشخص خاموش رہے گا اسے امن دیا جائیگا.چنانچہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ رہے اور اس اچانک حملہ کا مقابلہ نہ کر سکے کیونکہ اگر کوئی شخص کوشش کرتا بھی تو اکیلا کیا کر سکتا تھا اور مسلمانوں کو آپس میں ملنے کی اجازت نہ دیتے تھے سوائے اوقات نماز کے کہ اُس وقت بھی عین نماز کے وقت جمع ہونے دیتے اور پھر پراگندہ کر دیتے.اس شرارت کو دیکھ کر بعض صحابہ ان لوگوں کے پاس گئے اور کہا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ ہم تو یہاں سے چلے گئے تھے لیکن راستہ میں ایک غلام حضرت عثمان کا ملا اُس کی طرف سے ہمیں شک ہوا ہم نے اس

Page 234

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۶ جلد اول کی تلاشی لی تو اس کے پاس ایک خط نکلا جو گورنر مصر کے نام تھا اور جس میں ہم سب کے قتل کا فتویٰ تھا اس لئے ہم واپس آگئے ہیں کہ یہ دھوکا ہم سے کیوں کیا گیا ہے.ان صحابہ نے ان سے کہا کہ تم یہ تو ہمیں بتاؤ کہ خط تو مصریوں کو ملا تھا اور تم تینوں جماعتوں (یعنی کوفیوں، بصریوں اور مصریوں) کے راستے الگ الگ تھے اور تم کئی منزلیں ایک دوسرے سے دُور تھے پھر ایک ہی وقت میں اس قدر جلد تینوں جماعتیں واپس مدینہ میں کیونکر آگئیں اور باقی جماعتوں کو کیونکر معلوم ہوا کہ مصریوں کو اس مضمون کا کوئی خط ملا ہے یہ تو صریح فریب ہے جو تم لوگوں نے بنایا ہے.انہوں نے کہا کہ فریب سمجھو یا درست سمجھو ہمیں عثمان کی خلافت منظور نہیں وہ خلافت سے الگ ہو جائیں.اس کے بعد مصری حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اب تو اس شخص کا قتل جائز ہو گیا ہے آپ ہمارے ساتھ چلیں اور عثمان کا مقابلہ کریں.حضرت علیؓ نے بھی ان کو یہی جواب دیا کہ تم جو واقعہ سناتے ہو وہ بالکل بناوٹی ہے کیونکہ اگر تمہارے ساتھ ایسا واقعہ گزرا تھا تو بصری اور کو فی کس طرح تمہارے ساتھ ہی مدینہ میں آ گئے.ان کو اس واقعہ کا کس طرح علم ہوا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے پہلے سے ہی منصوبہ بنا رکھا تھا چلے جاؤ خدا تعالیٰ تمہارا بُرا کرے میں تمہارے ساتھ نہیں مل سکتا.( مصری لوگ خط ملنے کا جو وقت بتاتے تھے اس میں اور ان کے مدینہ میں واپس آنے کے درمیان اس قدر قلیل وقت تھا کہ اس عرصہ میں بصریوں اور کو فیوں کو خبر مل کر وہ واپس مدینہ میں نہیں آ سکتے تھے پس صحابہؓ نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ مدینہ سے جاتے وقت پہلے سے ہی منصوبہ کر گئے تھے کہ فلاں دن مدینہ پہنچ جاؤ اور خط کا واقعہ صرف ایک فریب تھا ) جب حضرت علی کا یہ جواب ان باغیوں نے سنا تو ان میں سے بعض بول اُٹھے کہ اگر یہ بات ہے تو آپ ہمیں پہلے خفیہ خط کیوں لکھا کرتے تھے ؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں نے کبھی کوئی خط تم لوگوں کو نہیں لکھا.آپ کا یہ جواب سن کر وہ آپس میں کہنے لگے کہ کیا اس شخص کی خاطر تم لوگ لڑتے پھرتے ہو (یعنی پہلے تو اس نے ہمیں خط لکھ کر اُکسایا اور اب اپنی جان بچاتا ہے ).اس گفتگو سے یہ بات صاف معلوم ہو جاتی ہے کہ یہ باغی جھوٹے خط بنانے کے پکے مشاق تھے اور لوگوں کو حضرت علیؓ کی طرف سے خط بنا کر سناتے رہتے تھے کہ ہماری مدد کے

Page 235

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۷ جلد اول لئے آؤ.لیکن جب حضرت علیؓ کے سامنے بعض ان لوگوں نے جو اس فریب میں شامل نہ تھے خطوں کا ذکر کر دیا اور آپ نے انکار کیا تو پھر ان شریروں نے جو اس فریب کے مرتکب تھے یہ بہانہ بنایا کہ گویا حضرت علی نَعُوذُ باللہ پہلے خط لکھ کر اب خوف کے مارے ان سے انکار کرتے ہیں حالانکہ تمام واقعات ان کے اس دعوئی کی صریح تردید کرتے ہیں اور حضرت علیؓ کا رویہ شروع سے بالکل پاک نظر آتا ہے لیکن یہ سب فساد اسی بات کا نتیجہ تھا کہ اُن مفسدوں کے پھندے میں آئے ہوئے لوگ حضرت علیؓ سے بھی واقف نہ تھے.الغرض حضرت علیؓ کے پاس سے نا امید ہو کر یہ لوگ حضرت عثمان کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نے یہ خط لکھا.آپ نے فرمایا کہ شریعت اسلام کے مطابق دوطریق ہیں یا تو یہ کہ دو گواہ تم پیش کرو کہ یہ کام میرا ہے.یا یہ کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ یہ تحریر ہرگز میری نہیں اور نہ میں نے کسی سے لکھوائی اور نہ مجھے اس کا علم ہے اور تم جانتے ہو کہ لوگ جھوٹے خط لکھ لیتے ہیں اور مہبروں کی بھی نقلیں بنا لیتے ہیں مگر اس بات پر بھی ان لوگوں نے شرارت نہ چھوڑی اور اپنی ضد پر قائم رہے.اس واقعہ سے بھی ہمیں یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ مدینہ کے لوگ ان کے ساتھ شامل نہ تھے کیونکہ اگر مدینہ میں سے بعض لوگ ان کی شرارت میں حصہ دار ہوتے تو ان کے لئے دو جھوٹے گواہ بنا لینے کچھ مشکل نہ تھے لیکن ان کا اس بات سے عاجز آ جانا بتا تا ہے کہ مدینہ میں سے دو آدمی بھی ان کے ساتھ نہ تھے (سوائے ان تین آدمیوں کے جن کا ذکر پہلے کر چکا ہوں مگر ان میں سے محمد بن ابی بکر تو ان لوگوں کے ساتھ تھے.مدینہ میں نہ تھے اور صرف عمار اور محمد بن ابی حذیفہ مدینہ میں تھے لیکن یہ دونوں بھی نیک آدمی تھے اور صرف ان کی فریب دینے والی باتوں کے دھوکے میں آئے ہوئے تھے ) اور یہ لوگ اپنے میں سے گواہ نہیں بنا سکتے تھے کیونکہ یہ لوگ مدینہ میں موجود نہ تھے ان کی گواہی قابل قبول نہ تھی.گو ہر طرح ان لوگوں کو ذلت پہنچی لیکن اُنہوں نے اپنی کا رروائی کو ترک نہ کیا اور برابر مدینہ کا محاصرہ کئے پڑے رہے.شروع شروع میں تو حضرت عثمان کو بھی اور باقی اہلِ مدینہ کو بھی مسجد میں نماز کے لئے آنے کی اجازت اُنہوں نے دے دی تھی اور حضرت عثمان بڑی

Page 236

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۸ جلد اول دلیری سے ان لوگوں میں آ کر نماز پڑھاتے.لیکن باقی اوقات میں ان لوگوں کی جماعتیں مدینہ کی گلیوں میں پھرتی رہتیں اور اہل مدینہ کو آپس میں کہیں جمع ہونے نہ دیتیں تا کہ وہ ان پر حملہ آور نہ ہوں.جب جمعہ کا دن آیا تو حضرت عثمان جمعہ کی نماز کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر فرمایا کہ اے دشمنانِ اسلام ! مدینہ کے لوگ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری نسبت پیشگوئی کی ہے اور تم پر لعنت کی ہے پس تم نیکیاں کر کے اپنی بدیوں کو مٹاؤ.کیونکہ بدیوں کو سوائے نیکیوں کے اور کوئی چیز نہیں مٹاتی.اس پر محمد بن سلمہ" کھڑے ہوئے اور فرمایا میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں لیکن حکیم بن جبلہ (وہی چور جس کا پہلے ذکر آ چکا ہے ) نے ان کو بٹھا دیا.پھر زید بن ثابت کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے کہا مجھے قرآن کریم دو ( ان کا منشاء بھی ان لوگوں کے خلاف گواہی دینے کا تھا ) مگر باغیوں میں سے ایک شخص نے اُن کو بھی بٹھا دیا اور پھر اس خیال سے کہ ایسا نہ ہو صحابہؓ اسی طرح گواہی دے دے کر ہمارا ملعون اور خلاف قرآن امور پر عامل ہونا ظاہر کر دیں پتھر مار مار کر صحابہ کو مسجد سے باہر نکال دیا اور اس کے بعد حضرت عثمان پر پتھر پھینکنے شروع کئے جن کے صدمہ سے وہ بیہوش ہوکر زمین پر جا پڑے.جس پر یہ ا پر بعض لوگوں نے آپ کو اُٹھا کر آپ کے گھر پہنچا دیا.جب صحابہ کو حضرت عثمان کا یہ حال معلوم ہوا تو باوجود اس بے بسی کی حالت کے ان میں سے ایک جماعت لڑنے کے لئے تیار ہوگئی.جن میں ابو ہریرہ ، زید بن ثابت کا تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت امام حسن بھی تھے.جب حضرت عثمان کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے اُن کو قسم دے کر کہلا بھیجا کہ جانے دو اور ان لوگوں سے جنگ نہ کرو.چنانچہ بادل نخواستہ یہ لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے اور حضرت علی ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے آپ کے گھر پر جا کر اس واقعہ کا بہت افسوس کیا.اس واقعہ کے بعد بھی حضرت عثمان نماز پڑھاتے رہے لیکن محاصرہ کے تیسویں دن مفسدوں نے آپ کو نماز کے لئے نکلنے سے بھی روک دیا اور اہلِ مدینہ کو بھی دق کرنا شروع کیا اور جو شخص ان کی خواہشات کے پورا کرنے میں مانع ہوتا اُسے قتل کر دیتے اور مدینہ کے لوگوں میں کو ئی شخص بغیر تلوار لگائے کے باہر نہ نکل سکتا کہ کہیں اس کو یہ لوگ ایذاء نہ پہنچا ئیں.انہی

Page 237

خلافة على منهاج النبوة ۲۱۹ جلد اول دنوں میں کہ حضرت عثمان خود نماز پڑھاتے تھے آخری جمعہ میں آپ نماز پڑھانے لگے تو ایک خبیث نے آپ کو گالی دے کر کہا کہ اُتر منبر سے ! اور آپ کے ہاتھ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عصا تھا وہ چھین لیا اور اسے اپنے گھٹنے پر رکھ کر تو ڑ دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ سزا دی کہ اس کے گھٹنے میں کیڑے پڑ گئے.اس کے بعد حضرت عثمان صرف ایک یا دو دفعہ نکلے.پھر نکلنے کی ان باغیوں نے اجازت نہ دی.ان محاصرہ کے دنوں میں حضرت عثمان نے ایک شخص کو بلو ایا اور پوچھا کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ اس نے کہا کہ دو باتوں میں سے ایک چاہتے ہیں یا تو یہ کہ آپ خلافت ترک کر دیں اور یا یہ کہ آپ پر جو الزام لگائے جاتے ہیں ان کے بدلہ میں آپ سے قصاص لیا جائے.اگر ان دونوں باتوں میں سے آپ ایک بھی نہ مانیں گے تو یہ لوگ آپ کو قتل کر دیں گے.آپ نے پوچھا کہ کیا کوئی اور تجویز نہیں ہوسکتی ؟ اس نے کہا نہیں اور کوئی صورت نہیں ہو سکتی.اس پر آپ نے فرمایا کہ خلافت تو میں چھوڑ نہیں سکتا یہ قمیض خدا تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے اسے تو میں ہر گز نہیں اُتاروں گا.مجھے اپنا قتل ہونا اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی پہنائی ہوئی قمیض کو اُتار دوں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑنے مرنے دوں.باقی رہا قصاص کا معاملہ سو مجھ سے پہلے دونوں خلیفوں سے کبھی ان کے کاموں کے بدلہ میں قصاص نہیں لیا گیا.باقی رہا یہ کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے سو یا د رکھو کہ اگر وہ مجھے قتل کر دیں گے تو اس دن کے بعد سب مسلمان کبھی ایک مسجد میں نما زنہیں ادا کریں گے اور کبھی سب مسلمان مل کر ایک دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور نہ مسلمانوں کا اتحاد قائم رہے گا ( چنانچہ تیرہ سو سال کے واقعات اس قول کی صداقت پر شہادت دے رہے ہیں ).اس کے بعد مفسدوں نے حکم دے دیا کہ کوئی شخص نہ حضرت عثمان کے پاس جا سکے نہ اپنے مکان سے باہر نکل سکے.چنانچہ جب یہ حکم دیا تو اُس وقت ابن عباس اندر تھے جب اُنہوں نے نکالنا چاہا تو لوگوں نے ان کو باہر نکلنے کی اجازت نہ دی.لیکن اتنے عرصہ میں محمد بن ابی بکر آگئے اور اُنہوں نے ان لوگوں سے کہا کہ ان کو جانے دو.جس پر اُنہوں نے انہیں نکلنے کی اجازت دے دی.اس کے بعد محاصرہ سخت ہو گیا اور کسی شخص کو اندر جانے کی

Page 238

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۰ جلد اول اجازت نہ دی جاتی حتی کہ حضرت عثمان اور آپ کے گھر والوں کے لئے پانی تک لے جانے کی اجازت نہ تھی اور پیاس کی شدت سے وہ سخت تکلیف اُٹھاتے تھے.جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو حضرت عثمان نے اپنی دیوار پر چڑھ کر اپنے ایک ہمسایہ کے لڑکے کو حضرت علیؓ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور اُمہات المؤمنین کے پاس بھیجا کہ ہمارے لئے پانی کا کوئی بند و بست کرو.اس پر حضرت علی فوراً پانی کی ایک مشک لے کر گئے لیکن ہر چند انہوں نے کوشش کی مفسدوں نے ان کو پانی پہنچانے یا اندر جانے کی اجازت نہ دی.اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ کیا طریق ہے نہ مسلمانوں کا طریق ہے نہ کفار کا.رومی اور ایرانی بھی اپنے دشمن کا کھانا اور پینا بند نہیں کرتے.تم لوگوں کو خوف خدا بھی اس حرکت سے نہیں روکتا ! اُنہوں نے کہا کہ خواہ کچھ ہو اس کے پاس ایک قطرہ پانی نہیں پہنچنے دیں گے جس پر حضرت علیؓ نے اپنی پگڑی حضرت عثمانؓ کے گھر میں پھینک دی تا اُن کو معلوم ہو جائے کہ آپ نے تو بہت کوشش کی لیکن لوگوں نے آپ تک ان کو پہنچنے نہ دیا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت اُمّ حبیبہ کو جب علم ہوا تو آپ بھی خلیفہ کی مدد کے لئے گھر سے تشریف لائیں لیکن ان بد بختوں نے آپ سے وہ سلوک کیا کہ جو ہمیشہ کیلئے ان کے لئے باعث لعنت رہے گا.اوّل تو اُنہوں نے اس فیچر کو بد کا دیا جس پر آپ سوار تھیں اور جب آپ نے کہا کہ حضرت عثمان کے پاس بنو امیہ کے یتامیٰ اور بیواؤں کے اموال کے کاغذات ہیں ان کی وفات کے ساتھ ہی یتامی اور بیواؤں کے مال ضائع ہو جائیں گے اس کے لئے تو مجھے جانے دو کہ کوئی انتظام کروں تو اُنہوں نے کہا تو جھوٹ بولتی ہے (نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ ) اور پھر تلوار مار کر آپ کی خچر کا تنگ تو ڑ دیا اور قریب تھا کہ وہ اس انبوہ میں گر کر شہید ہو جاتیں اور بے پر دہ ہوتیں کہ بعض بچے مسلمانوں نے آگے بڑھ کر آپ کو سنبھالا اور حفاظت سے آپ کے گھر پہنچا دیا.اس خبر کے پہنچتے ہی حضرت عائشہ حج کے لئے چل پڑیں.اور جب بعض لوگوں نے آپ کو روکا کہ آپ کے یہاں رہنے سے شاید فساد میں کچھ کمی ہو تو اُنہوں نے کہا کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ہر طرح اس فساد کو روکتی.لیکن کیا تم چاہتے ہو کہ میرے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیوی ام حبیبہ کے ساتھ ہوا ہے

Page 239

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۱ جلد اول اور اس وقت میرے بچانے والا بھی کوئی نہ ہو.خدا کی قسم ! میں اپنے آپ کو ایسے خطرہ میں نہ ڈالوں گی کہ میرے ننگ و ناموس پر حرف آئے.ان باغیوں نے جب دیکھا کہ ان کی طرف سے فساد کی کوئی راہ نہیں نکلتی تو آپ کے گھر پر پتھر مارنے شروع کئے تا کوئی ناراض ہو کر ان پر بھی حملہ کر دے تو ان کو عذ رمل جائے کہ ہم پر حملہ کیا گیا تھا اس لئے ہم نے بھی حملہ کیا.پتھروں کے پڑنے پر حضرت عثمان نے آواز دی کہ اے لوگو ! خدا سے ڈرو دشمن تو تم میرے ہو اور اس گھر میں تو میرے سوا اور لوگ بھی ہیں ان کو کیوں تکلیف دیتے ہو.ان بدبختوں نے جواب دیا کہ ہم پتھر نہیں مارتے یہ پتھر خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہارے اعمال کے بدلے میں پڑ رہے ہیں.آپ نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے تمہارے پتھر تو کبھی ہمیں لگتے ہیں اور کبھی نہیں لگتے اور خدا تعالیٰ کے پتھر تو خالی نہیں جایا کرتے وہ تو نشانہ پر ٹھیک بیٹھتے ہیں.فساد کو اس قدر بڑھتا ہوا دیکھ کر حضرت عثمان نے چاہا کہ مدینہ کے لوگوں کو بیچ میں سے ہٹاؤں تا کہ میرے ساتھ یہ بھی تکلیف میں نہ پڑیں چنانچہ آپ نے حکم دیا کہ اے اہلِ مدینہ ! میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ اپنے گھروں میں بیٹھ رہو اور میرے مکان کے پاس نہ آیا کرو اور میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ میری اس بات کو مان لو.اس پر وہ لوگ بادل نخواستہ اپنے گھروں کی طرف چلے گئے لیکن اس کے بعد چند نو جوانوں کو پہرہ کے لئے اُنہوں نے مقرر کر دیا.حضرت عثمان نے جب صحابہ کی اس محبت کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ اگر کوئی فساد ہوا تو صحابہ اور اہل مدینہ اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈال دیں گے لیکن خاموش نہ رہیں گے تو انہوں نے اعلان کیا کہ حج کا موسم ہے لوگوں کو حسب معمول حج کے لئے جانا چاہیے اور عبد اللہ بن عباس کو جو ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپ کا دروازہ نہیں چھوڑا تھا فرمایا کہ تم کو میں حج کا امیر مقرر کرتا ہوں.اُنہوں نے کہا اے امیر المؤمنین ! خدا کی قسم ! یہ جو یہ جہاد مجھے حج سے بہت زیادہ پیارا ہے مگر آپ نے ان کو مجبور کیا کہ فوراً چلے جائیں اور حج کا انتظام کریں.اس کے بعد اپنی وصیت لکھ کر حضرت زبیر کے پاس بھجوا دی اور ان کو بھی رخصت کیا.چونکہ حضرت ابو بکر کے چھوٹے لڑکے محمد ان باغیوں کے فریب میں آئے ہوئے تھے اُن کو ایک عورت نے کہلا بھیجا کہ شمع سے نصیحت حاصل کرو وہ خود جلتی ہے

Page 240

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۲ جلد اوّل اور دوسروں کو روشنی دیتی ہے پس ایسا نہ کرو کہ خود گنہگار ہو کر ان لوگوں کے لئے خلافت کی مسند خالی کرو جو گنہگار نہیں.خوب یا د رکھو کہ جس کام کے لئے تم کوشش کر رہے ہو وہ کل دوسروں کے ہاتھ میں جائے گا اور اُس وقت آج کا عمل تمہارے لئے باعث حسرت ہوگا.لیکن ان کو اس جوش کے وقت اس نصیحت کی قدر معلوم نہ ہوئی.غرض اِ دھر تو حضرت عثمان اہل مدینہ کی حفاظت کے لئے ان کو ان باغیوں کا مقابلہ کرنے سے روک رہے تھے اور اُدھر آپ کے بعض خطوط سے مختلف علاقوں کے گورنروں کو مدینہ کے حالات کا علم ہو گیا تھا اور وہ چاروں طرف سے لشکر جمع کر کے مدینہ کی طرف بڑھے چلے آ رہے تھے.اسی طرح حج کے لئے جو لوگ جمع ہوئے تھے ان کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ حج کے بعد مدینہ کی طرف سب لوگ جائیں اور ان باغیوں کی سرکوبی کریں.جب ان حالات کا علم باغیوں کو ہوا تو اُنہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ یہ غلطی جو ہم سے ہوئی ہے کہ ہم نے اس طرح خلیفہ کا مقابلہ کیا ہے اس سے پیچھے ہٹنے کا اب کوئی راستہ نہیں.پس اب یہی صورت نجات کی ہے کہ عثمان کو قتل کر دو.جب اُنہوں نے یہ ارادہ کر کے حضرت عثمان کے مکان پر حملہ کیا تو صحابہ تلوار میں کھینچ کر حضرت عثمان کے دروازہ پر جمع ہو گئے.مگر حضرت عثمان نے ان کو منع کیا اور کہا کہ تم کو میں اپنی مدد کے عہد سے آزاد کرتا ہوں تم اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ لیکن اس خطرناک حالت میں حضرت عثمان کو تنہا چھوڑ دینا اُنہوں نے گوارا نہ کیا اور واپس کو ٹنے سے صاف انکار کر دیا.اس پر وہ ۸۰ سالہ بوڑھا جو ہمت میں بہادر جوانوں سے زیادہ تھا ہاتھ میں تلوار لے کر اور ڈھال پکڑ کر اپنے گھر کا دروازہ کھول کر مردانہ وار صحابہ کو روکنے کے لئے اپنے خون کے پیاسے دشمنوں میں نکل آیا اور آپ کے اس طرح باہر نکل آنے کا یہ اثر ہوا کہ مصری جو اُس وقت حملہ کر رہے تھے اُلٹے پاؤں کوٹ گئے اور آپ کے سامنے کوئی نہ ٹھہرا.آپ نے صحابہ کو بہت روکا لیکن اُنہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں ہم آپ کی بات نہ مانیں گے کیونکہ آپ کی حفاظت ہمارا فرض ہے.آخر حضرت عثمانؓ ان کو اپنے گھر میں لے آئے اور پھر دروازہ بند کر لیا.اُس وقت صحابہ نے اُن سے کہا کہ اے امیر المؤمنین ! اگر آج آپ کے

Page 241

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۳ جلد اول کہنے پر ہم لوگ گھروں کو چلے جائیں تو خدا تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دیں گے کہ تم میں حفاظت کی طاقت تھی پھر تم نے حفاظت کیوں نہ کی اور ہم میں اتنی تو طاقت ہے کہ اس وقت تک کہ ہم سب مر جائیں ان کو آپ تک نہ پہنچنے دیں ( ان صحابہ میں حضرت امام حسن بھی شامل تھے ) جب مفسدوں نے دیکھا کہ ادھر تو صحابہ کسی طرح ان کو حضرت عثمان کے گھر میں داخل ہونے نہیں دیتے اور اُدھر مکہ کے حاجیوں کی واپسی شروع ہوگئی ہے بلکہ بعض بہادر اپنی سواریوں کو دوڑا کر مدینہ میں پہنچ بھی گئے ہیں اور شام و بصرہ کی فوجیں بھی مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئی ہیں بلکہ ایک دن کے فاصلہ پر رہ گئی ہیں تو وہ سخت گھبرائے اور کہا کہ یا آج ان کا کسی طرح فیصلہ کر دو ورنہ ہلاکت کے لئے تیار ہو جاؤ.چنانچہ چند آدمیوں نے یہ کام اپنے ذمہ لیا اور بے خبری میں ایک طرف سے گو دکر آپ کے قتل کے لئے گھر میں داخل ہوئے.ان میں محمد بن ابی بکر بھی تھے جنہوں نے سب سے آگے بڑھ کر آپ کی داڑھی پکڑی.اس پر حضرت عثمان نے فرمایا کہ اگر تیرا باپ ہوتا تو ایسا نہ کرتا اور کچھ ایسی پر رعب نگاہوں سے دیکھا کہ ان کا تمام بدن کانپنے لگ گیا اور وہ اُسی وقت واپس لوٹ گئے.باقی آدمیوں نے آپ کو پہلے مارنا شروع کیا اس کے بعد تلوار مار کر آپ کو قتل کر دیا.آپ کی بیوی نے آپ کو بچانا چاہا لیکن ان کا ہاتھ کٹ گیا جس وقت آپ کو قتل کیا گیا اُس وقت آپ قرآن پڑھ رہے تھے اور آپ نے ان قاتلوں کو دیکھ کر قرآن کی تلاوت نہیں چھوڑی بلکہ اسی میں مشغول رہے چنانچہ ایک خبیث نے پیر مار کر آپ کے آگے سے قرآن کریم کو پرے پھینک دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شقی دین سے کیا تعلق رکھتے تھے.آپ کے قتل کرنے کے بعد ایک شور پڑ گیا اور باغیوں نے اعلان کر دیا کہ آپ کے گھر میں جو کچھ ہو کوٹ لو.چنانچہ آپ کا سب مال و اسباب کوٹ لیا گیا لیکن اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ آپ کے گھر کے ٹوٹنے کے بعد وہ لوگ بیت المال کی طرف گئے اور خزانہ میں جس قدر روپیہ تھا سب کو ٹ لیا جس سے ان لوگوں کی اصل نیست معلوم ہوتی ہے یا تو یہ لوگ حضرت عثمان پر الزام لگاتے تھے اور ان کے معزول کرنے کی یہی وجہ بتاتے تھے کہ وہ خزانہ کے روپیہ کو بُری طرح استعمال کرتے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کو دے دیتے ہیں یا خود سرکاری خزانہ کے

Page 242

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۴ جلد اول اور قفل تو ڑ کر سب روپیہ لوٹ لیا اس سے معلوم ہو گیا کہ ان کی اصل غرض دنیا تھی حضرت عثمان کا مقابلہ محض اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لئے تھا تا کہ جو چاہیں کریں اور کوئی شخص روک نہ ہو.جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو اسلامی لشکر جو شام و بصرہ اور کوفہ سے آتے تھے ایک دن کے فاصلہ پر تھے اُن کو جب یہ خبر ملی تو وہ وہیں سے واپس کو ٹ گئے تا ان کے جانے کی وجہ سے مدینہ میں کشت و خون نہ ہو اور خلافت کا معاملہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کے سپر د کر دیا.ان باغیوں نے حضرت عثمان کو شہید کرنے اور ان کا مال کو ٹنے پر بس نہیں کی بلکہ ان کی لاش کو بھی پاؤں میں روندا اور دفن نہ کرنے دیا.آخر جب خطرہ ہوا کہ زیادہ پڑے رہنے سے جسم میں تغیر نہ پیدا ہو جائے تو بعض صحابہ نے رات کے وقت پوشیدہ آپ کو دفن کر دیا.ایک دو دن تو خوب لوٹ مار کا بازار گرم رہا لیکن جب جوش ٹھنڈا ہوا تو ان باغیوں کو پھر اپنے انجام کا فکر ہوا اور ڈرے کہ اب کیا ہوگا.چنانچہ بعض نے تو یہ سمجھ کر کہ حضرت معاویہ ایک زبر دست آدمی ہیں اور ضرور اس قتل کا بدلہ لیں گے شام کا رُخ کیا اور وہاں جا کر خود ہی واویلا کرنا شروع کر دیا کہ حضرت عثمان شہید ہو گئے اور کوئی ان کا قصاص نہیں لیتا.کچھ بھاگ کر مکہ کے راستے میں حضرت زبیر اور حضرت عائشہ سے جاملے اور کہا کہ کس قدر ظلم ہے کہ خلیفہ اسلام شہید کیا جائے اور مسلمان خاموش رہیں.کچھ بھاگ کر حضرت علی کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس وقت مصیبت کا وقت ہے اسلامی حکومت کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہے آپ بیعت لیں تا لوگوں کا خوف دور ہو اور امن و امان قائم ہو.جو صحا بہ مدینہ میں موجود تھے اُنہوں نے بھی پالا تفاق یہی مشورہ دیا کہ اس وقت یہی مناسب ہے کہ آپ اس بوجھ کو اپنے سر پر رکھیں کہ آپ کا یہ کام موجب ثواب و رضائے الہی ہوگا.جب چاروں طرف سے آپ کو مجبور کیا گیا تو کئی دفعہ انکار کرنے کے بعد آپ نے مجبوراً اس کام کو اپنے ذمہ لیا اور بیعت لی.اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علیؓ کا یہ فعل بڑی حکمت پر مشتمل تھا.اگر آپ اُس وقت بیعت نہ لیتے تو اسلام کو اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچتا جو آپ کی اور حضرت معاویہؓ کی جنگ سے پہنچا.کیونکہ اس صورت میں تمام اسلامی صوبوں کے آزاد ہو کر الگ الگ

Page 243

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۵ جلد اول بادشاہتوں کے قیام کا اندیشہ تھا اور جو بات چار سو سال بعد ہوئی وہ اُسی وقت ہو جانی ممکن ہی نہیں بلکہ یقینی تھی.پس گو حضرت علی کا اُس وقت بیعت لینا بعض مصالح کے ماتحت مناسب نہ تھا اور اسی کی وجہ سے آپ پر بعض لوگوں نے شرات سے اور بعض نے غلط فہمی سے یہ الزام لگایا کہ آپ نَعُوذُ بِاللہ حضرت عثمان کے قتل میں شریک تھے اور یہ خطرہ آپ کے سامنے بیعت لینے سے پہلے حضرت ابن عباس نے بیان بھی کر دیا تھا اور آپ اسے خوب سمجھتے بھی تھے لیکن آپ نے اسلام کی خاطر اپنی شہرت وعزت کی کوئی پرواہ نہیں کی اور ایک بے نظیر قربانی کر کے اپنے آپ کو ہدف ملامت بنایا لیکن اسلام کو نقصان پہنچنے سے بچا لیا.فَجَزَاهُ اللَّهُ عَنَّا وَعَنْ جَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں قاتلوں کے گروہ مختلف جہات میں پھیل گئے تھے اور اپنے آپ کو الزام سے بچانے کے لئے دوسروں پر الزام لگاتے تھے جب ان کو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ نے مسلمانوں سے بیعت لے لی ہے تو ان کو آپ پر الزام لگانے کا عمدہ موقع مل گیا اور یہ بات درست بھی تھی کہ آپ کے ارد گر د حضرت عثمان کے قاتلوں میں سے کچھ لوگ جمع بھی ہو گئے تھے اس لئے ان کو الزام لگانے کا عمدہ موقع حاصل تھا.چنانچہ ان میں سے جو جماعت مکہ کی طرف گئی تھی اس نے حضرت عائشہ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے جہاد کا اعلان کریں چنانچہ اُنہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہ کو اپنی مدد کے لئے طلب کیا.حضرت طلحہ اور زبیر نے حضرت علی کی بیعت اس شرط پر کر لی تھی کہ وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے جلد سے جلد بدلہ لیں گے اُنہوں نے جلدی کے جو معنی سمجھے تھے وہ حضرت علی کے نزدیک خلاف مصلحت تھے ان کا خیال تھا کہ پہلے تمام صوبوں کا انتظام ہو جائے پھر قاتلوں کو سزا دینے کی طرف توجہ کی جائے.کیونکہ اول مقدم اسلام کی حفاظت ہے قاتلوں کے معاملہ میں دیر ہونے سے کوئی حرج نہیں.اسی طرح قاتلوں کی تعیین میں بھی اختلاف تھا جو لوگ نہایت افسردہ شکلیں بنا کر سب سے پہلے حضرت علیؓ کے پاس پہنچ گئے تھے اور اسلام میں تفرقہ ہو جانے کا اندیشہ ظاہر کرتے تھے ان کی نسبت حضرت علیؓ کو بالطبع شبہ نہ ہوتا تھا کہ یہ لوگ فساد کے بانی ہیں دوسرے لوگ ان پر شبہ

Page 244

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۶ جلد اول کرتے تھے اس اختلاف کی وجہ سے طلحہ اور زبیر نے یہ سمجھا کہ حضرت علیؓ اپنے عہد سے پھرتے ہیں.چونکہ اُنہوں نے ایک شرط پر بیعت کی تھی اور وہ شرط ان کے خیال میں حضرت علیؓ نے پوری نہ کی تھی اس لئے وہ شرعاً اپنے آپ کو بیعت سے آزاد خیال کرتے تھے.جب حضرت عائشہ کا اعلان ان کو پہنچا تو وہ بھی ان کے ساتھ جا ملے اور سب مل کر بصرہ کی طرف چلے گئے.بصرہ میں گورنر نے لوگوں کو آپ کے ساتھ ملنے سے باز رکھا لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ طلحہ اور زبیر نے صرف اکراہ سے اور ایک شرط سے مقید کر کے حضرت علی کی بیعت کی ہے تو اکثر لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو گئے.جب حضرت علیؓ کو اس لشکر کا علم ہوا تو آپ نے بھی ایک لشکر تیار کیا اور بصرہ کی طرف روانہ ہوئے.بصرہ پہنچ کر آپ نے ایک آدمی کو حضرت عائشہ اور طلحہ اور زبیر کی طرف بھیجا.وہ آدمی پہلے حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ آپ کا ارادہ کیا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہمارا ارادہ صرف اصلاح ہے.اس کے بعد اس شخص نے طلحہ اور زبیر کو بھی بلوایا اور اُن سے پوچھا کہ آپ بھی اسی لئے جنگ پر آمادہ ہوئے ہیں؟ اُنہوں نے کہا کہ ہاں.اس شخص نے جواب دیا کہ اگر آپ کا منشاء اصلاح ہے تو اس کا یہ طریق نہیں جو آپ نے اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ تو فساد ہے اس وقت ملک کی ایسی حالت ہے کہ اگر ایک شخص کو آپ قتل کریں گے تو ہزار اُس کی تائید میں کھڑے ہو جائیں گے اور ان کا مقابلہ کریں گے تو اور بھی زیادہ لوگ ان کی مدد کے لئے کھڑے ہو جائیں گے.پس اصلاح یہ ہے کہ پہلے ملک کو اتحاد کی رستی میں باندھا جائے پھر شریروں کو سزا دی جائے ورنہ اس بدامنی میں کسی کو سزا دینا ملک میں اور فتنہ ڈلوانا ہے.حکومت پہلے قائم ہو جائے تو وہ سزا دے گی.یہ بات سن کر اُنہوں نے کہا کہ اگر حضرت علیؓ کا یہی عندیہ ہے تو وہ آ جائیں ہم ان کے ساتھ ملنے کو تیار ہیں.اس پر اس شخص نے حضرت علیؓ کو اطلاع دی اور طرفین کے قائم مقام ایک دوسرے کو ملے اور فیصلہ ہو گیا کہ جنگ کرنا درست نہیں صلح ہونی چاہیے.جب یہ خبر سبائیوں ( یعنی جو عبد اللہ بن سبا کی جماعت کے لوگ اور قاتلین حضرت عثمان تھے ) کو پہنچی تو ان کو سخت گھبراہٹ ہوئی اور خفیہ خفیہ ان کی ایک جماعت مشورہ کے لئے اکٹھی

Page 245

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۷ جلد اول ہوئی.اُنہوں نے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ مسلمانوں میں صلح ہو جانی ہمارے لئے سخت مضر ہوگی کیونکہ اُسی وقت تک ہم حضرت عثمان کے قتل کی سزا سے بچ سکتے ہیں جب تک کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے.اگر صلح ہو گئی اور امن ہو گیا تو ہمارا ٹھکا نہ کہیں نہیں اس لئے جس طرح سے ہو صلح نہ ہونے دو.اتنے میں حضرت علی بھی پہنچ گئے اور آپ کے پہنچنے کے دوسرے دن آپ کی اور حضرت زبیر کی ملاقات ہوئی.وقت ملاقات حضرت علیؓ نے فرمایا کہ آپ نے میرے لڑنے کے لئے تو لشکر تیار کیا ہے مگر کیا خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لئے کوئی عذر بھی تیار کیا ہے؟ آپ لوگ کیوں اپنے ہاتھوں سے اس اسلام کے تباہ کرنے کے درپے ہوئے ہیں جس کی خدمت سخت جانکا ہیوں سے کی تھی.کیا میں آپ لوگوں کا بھائی نہیں ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ پہلے تو ایک دوسرے کا خون حرام سمجھا جا تا تھا لیکن اب حلال ہو گیا.اگر کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہوتی تو بھی بات تھی جب کوئی نئی بات پیدا نہیں ہوئی تو پھر یہ مقابلہ کیوں ہے؟ اس پر حضرت طلحہ نے کہا وہ بھی حضرت زبیر کے ساتھ تھے کہ آپ نے حضرت عثمان کے قتل پر لوگوں کو اُکسایا ہے.حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں حضرت عثمان کے قتل میں شریک ہونے والوں پر لعنت کرتا ہوں.پھر حضرت علیؓ نے حضرت زبیر سے کہا کہ کیا تم کو یاد نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خدا کی قسم ! تو علی سے جنگ کرے گا اور تو ظالم ہوگا.یہ سن کر حضرت زبیر اپنے لشکر کی طرف واپس کو ٹے اور قسم کھائی کہ وہ حضرت علی سے ہرگز جنگ نہیں کریں گے اور اقرار کیا کہ اُنہوں نے اجتہاد میں غلطی کی.جب یہ خبر لشکر میں پھیلی تو سب کو اطمینان ہو گیا کہ اب جنگ نہ ہوگی بلکہ صلح ہو جائے گی لیکن مفسدوں کو سخت گھبراہٹ ہونے لگی اور جب رات ہوئی تو انہوں نے صلح کو روکنے کے لئے یہ تدبیر کی کہ ان میں سے جو حضرت علیؓ کے ساتھ تھے اُنہوں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت طلحہ و زبیر کے لشکر پر رات کے وقت شب خون مار دیا.اور جو اُن کے لشکر میں تھے اُنہوں نے حضرت علیؓ کے لشکر پر شب خون مار دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شور پڑ گیا اور ہر فریق نے خیال کیا کہ دوسرے فریق نے اس سے دھوکا کیا حالانکہ اصل میں یہ صرف سبائیوں کا ایک منصوبہ تھا.جب جنگ شروع ہو گئی تو حضرت علیؓ نے آواز دی کہ کوئی شخص حضرت عائشہ کو

Page 246

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۸ جلد اول اطلاع دے شاید ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اس فتنہ کو دور کر دے.چنانچہ حضرت عائشہ کا اونٹ آگے کیا گیا لیکن نتیجہ اور بھی خطرناک نکلا.مفسدوں نے یہ دیکھ کر کہ ہماری تدبیر پھر اُلٹی پڑنے لگی حضرت عائشہؓ کے اونٹ پر تیر مارنے شروع کئے.حضرت عائشہ نے زور زور سے پکارنا شروع کیا کہ اے لوگو! جنگ کو ترک کرو اور خدا اور یوم حساب کو یاد کرو لیکن مفسد باز نہ آئے اور برابر آپ کے اونٹ پر تیر مارتے چلے گئے چونکہ اہل بصرہ اس لشکر کے ساتھ تھے جو حضرت عائشہؓ کے اردگرد جمع ہوا تھا اُن کو یہ بات دیکھ کر سخت طیش آیا اور اُم المؤمنین کی یہ گستاخی دیکھ کر ان کے غصہ کی کوئی حد نہ رہی اور تلواریں کھینچ کر لشکر مخالف پر حملہ آور ہو گئے.اور اب یہ حال ہو گیا کہ حضرت عائشہ کا اونٹ جنگ کا مرکز بن گیا.صحابہ اور بڑے بڑے بہادر اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ایک کے بعد ایک قتل ہونا شروع ہوا لیکن اونٹ کی باگ اُنہوں نے نہ چھوڑی.حضرت زبیر تو جنگ میں شامل ہی نہ ہوئے اور ایک طرف نکل گئے مگر ایک شقی نے ان کے پیچھے سے جا کر اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اُن کو شہید کر دیا.حضرت طلحہ عین میدانِ جنگ میں اُن مفسدوں کے ہاتھ سے مارے گئے.جب جنگ تیز ہوگئی تو یہ دیکھ کر کہ اُس وقت تک جنگ ختم نہ ہوگی جب تک حضرت عائشہ کو درمیان سے ہٹایا نہ جائے بعض لوگوں نے آپ کے اونٹ کے پاؤں کاٹ دیئے اور ہودج اُتار کر زمین پر رکھ دیا.تب کہیں جا کر جنگ ختم ہوئی.اس واقعہ کو دیکھ کر حضرت علیؓ کا چہرہ مارے رنج کے سُرخ ہو گیا لیکن یہ جو کچھ ہوا اس سے چارہ بھی نہ تھا جنگ کے ختم ہونے پر جب مقتولین میں حضرت طلحہ کی نعش ملی تو حضرت علی نے سخت افسوس کیا.ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس لڑائی میں صحابہ کا ہر گز کوئی دخل نہ تھا بلکہ یہ شرارت بھی قاتلان عثمان کی ہی تھی.اور یہ کہ طلحہ اور زبیر حضرت علی کی بیعت ہی میں فوت ہوئے کیونکہ اُنہوں نے اپنے ارادہ سے رجوع کر لیا تھا اور حضرت علی کا ساتھ دینے کا اقرار کرلیا تھا لیکن بعض شریروں کے ہاتھوں سے مارے گئے چنانچہ حضرت علی نے ان کے قاتلوں پر لعنت بھی کی.ادھر تو یہ جنگ ہو رہی تھی اُدھر عثمان کے قاتلوں کا گروہ جو معاویہ کے پاس چلا گیا تھا اس نے وہاں ایک گہرام مچا دیا اور وہ حضرت عثمان کا بدلہ لینے پر آمادہ ہو گئے.جب حضرت علی کے لشکر سے ان کا لشکر ملا اور درمیان میں صلح کی بھی ایک راہ پیدا ہونے لگی تو ایک

Page 247

خلافة على منهاج النبوة ۲۲۹ جلد اوّل جماعت فتنہ پردازوں کی حضرت علی کا ساتھ چھوڑ کر الگ ہو گئی اور اس نے یہ شور شروع کر دیا کہ خلیفہ کا وجود ہی خلاف شریعت ہے احکام تو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقررہی ہیں باقی رہا انتظام مملکت سو یہ ایک انجمن کے سپر د ہونا چاہیے کسی ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہیے اور یہ لوگ خوارج کہلائے.اب بھی جو لوگ ہمارے مخالف ہیں ان کا یہی دعویٰ ہے اور ان کے وہی الفاظ ہیں جو خوارج کے تھے اور یہ بھی ہماری صداقت کا ایک ثبوت ہے کہ ان لوگوں کو اس جماعت سے مشابہت حاصل ہے جسے گل مسلمان بالا تفاق کراہت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آئے ہیں اور ان کی غلطی کے معترف ہیں.ابھی معاملات پوری طرح سمجھے نہ تھے کہ خوارج کے گروہ نے یہ مشورہ کیا کہ اس فتنہ کو اس طرح دور کرو کہ جس قدر بڑے آدمی ہیں اُن کو قتل کر دو.چنانچہ ان کے دلیر یہ اقرار کر کے نکلے کہ ان میں سے ایک حضرت علیؓ کو ، ایک حضرت معاویہؓ کو اور ایک عمر بن العاص کو ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں قتل کر دے گا.جو حضرت معاویہ کی طرف گیا تھا اُس نے تو حضرت معاویہ پر حملہ کیا لیکن اس کی تلوار ٹھیک نہیں لگی اور حضرت معاویہ صرف معمولی زخمی ہوئے.وہ شخص پکڑا گیا اور بعد ازاں قتل کیا گیا.جو عمرو بن العاص کو مارنے گیا تھا وہ بھی ناکام رہا کیونکہ وہ بوجہ بیماری نماز کے لئے نہ آئے جو شخص ان کو نماز پڑھانے کے لئے آیا تھا اُس نے اُس کو مار دیا اور خود پکڑا گیا اور بعد ازاں مارا گیا.جو شخص حضرت علی کو مارنے کیلئے نکلا تھا اُس نے جب کہ آپ صبح کی نماز کے لئے کھڑے ہونے لگے آپ پر حملہ کیا اور آپ خطرناک طور پر زخمی ہوئے آپ پر حملہ کرتے وقت اُس شخص نے یہ الفاظ کہے کہ اے علی ! تیرا حق نہیں کہ تیری ہر بات مانی جایا کرے بلکہ یہ حق صرف اللہ کو ہے (اب بھی غیر مبائعین ہم پر شرک کا الزام لگاتے ہیں ) ان سب واقعات کو معلوم کر کے آپ لوگوں نے معلوم کر لیا ہوگا کہ یہ سب فتنہ انہی لوگوں کا اُٹھایا ہوا تھا جو مدینہ میں نہیں آئے تھے اور حضرت عثمان سے واقفیت نہ رکھتے تھے آپ کے حالات نہ جانتے تھے ، آپ کے اخلاص ، آپ کے تقویٰ اور آپ کی طہارت سے نا واقف تھے ، آپ کی دیانت اور امانت سے بے خبر تھے چونکہ ان کو شریروں کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ خلیفہ خائن ہے ، بددیانت ہے ، فضول خرچ ہے ، وغیرہ وغیرہ اس لئے وہ گھر بیٹھے ہی ان باتوں کو درست مان گئے اور فتنہ کے پھیلانے کا موجب ہوئے.لیکن اگر وہ مدینہ میں

Page 248

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۰ جلد اول آتے ، حضرت عثمان کی خدمت میں بیٹھتے ، آپ کے حالات اور خیالات سے واقف ہوتے تو کبھی ایسا نہ ہوتا جیسا کہ ہوا.میں نے ان حالات کو بہت مختصر کر دیا ہے ورنہ یہ اتنے لمبے اور ایسے دردناک ہیں کہ سننے والے کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پس یا درکھو کہ یہ وہ فتنہ تھا جس نے مسلمانوں کے ۷۲ فرقے نہیں بلکہ ۷۲ ہزار فرقے بنا دیئے.مگر اس کی وجہ وہی ہے جو میں نے کئی دفعہ بتائی ہے کہ وہ لوگ مدینہ میں نہ آتے تھے.ان باتوں کو خوب ذہن نشین کر لو کیونکہ تمہاری جماعت میں بھی ایسے فتنے ہوں گے جن کا علاج یہی ہے کہ تم بار بار قادیان آؤ اور صحیح صحیح حالات سے واقفیت پیدا کرو.میں نہیں جانتا کہ یہ فتنے کس زمانہ میں ہوں گے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہوں گے ضرور لیکن اگر تم قادیان - آؤ گے اور بار بار آؤ گے تو ان فتنوں کے دور کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے.پس تم اس بات کو خوب یاد رکھو اور اپنی نسلوں در نسلوں کو یاد کراؤ تا کہ اس زمانہ میں کامیاب ہو جاؤ.صحابہ کی درد ناک تاریخ سے فائدہ اُٹھاؤ اور وہ باتیں جو ان کے لئے مشکلات کا موجب ہوئی ہیں ان کے انسداد کی کوشش کرو.فتنہ اور فساد پھیلانے والوں پر کبھی حسن ظنی نہ کرنا اور ان کی کسی بات پر تحقیق کئے بغیر اعتبار نہ کر لینا.کیا اس وقت تم نے ایسے لوگوں سے نقصان نہیں اُٹھایا ؟ ضرور اُٹھایا ہے پس اب ہوشیار ہو جاؤ اور جہاں کوئی فتنہ دیکھو فوراً اس کا علاج کرو.تو بہ اور استغفار پر بہت زور دینا.دیکھو اس وقت بھی کس طرح دھو کے دیئے جاتے ہیں.ہمارے مخالفین میں سے ایک سرکردہ کا خط میر حامد شاہ صاحب کے پاس موجود ہے جس میں وہ انہیں لکھتے ہیں کہ نور دین اسلام کا خطرناک دشمن ہے اور انجمن پر حکومت کرنا چاہتا ہے.شاہ صاحب تو چونکہ قادیان آنے جانے والے تھے اس لئے ان پر اس خط کا کچھ اثر نہ ہوا لیکن اگر کوئی اور ہوتا جو قادیان نہ آیا کرتا تو وہ ضرور حضرت مولوی صاحب کے متعلق بدظنی کرتا اور کہتا کہ قادیان میں واقعی اندھیر پڑا ہوا ہے.اسی طرح اور بہت سی باتیں ان لوگوں نے پھیلائی ہیں لیکن اس وقت تک خدا کے فضل سے انہیں کچھ کا میابی نہیں ہوئی.لیکن تم اس بات کے ذمہ دار ہو کہ شریر اور فتنہ انگیز لوگوں کو گرید گرید کر نکالو اور ان کی شرارتوں کے روکنے کا انتظام کرو.

Page 249

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۱ جلد اول میں نے تمہیں خدا تعالیٰ سے علم پا کر بتا دیا ہے اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں جس نے اس طرح تمام صحیح واقعات کو یکجا جمع کر کے تمہارے سامنے رکھ دیا ہے جن سے معلوم ہو جائے کہ پہلے خلیفوں کی خلافتیں اس طرح تباہ ہوئی تھیں.پس تم میری نصیحتوں کو یا درکھو.تم پر خدا کے بڑے فضل ہیں اور تم اس کی برگزیدہ جماعت ہو اس لئے تمہارے لئے ضروری ہے کہ اپنے پیش روؤں سے نصیحت پکڑو.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں لوگوں پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ پہلی جماعتیں جو ہلاک ہوئی ہیں تم ان سے کیوں سبق نہیں لیتے.تم بھی گزشتہ واقعات سے سبق لو.میں نے جو واقعات بتائے ہیں وہ بڑی زبر دست اور معتبر تاریخوں کے واقعات ہیں جو بڑی تلاش اور کوشش سے جمع کئے گئے ہیں اور ان کا تلاش کرنا میرا فرض تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے جب کہ مجھے خلافت کے منصب پر کھڑا کیا ہے تو مجھ پر واجب تھا کہ دیکھوں پہلے خلیفوں کے وقت کیا ہوا تھا اس کے لئے میں نے نہایت کوشش کے ساتھ حالات کو جمع کیا ہے.اس سے پہلے کسی نے ان واقعات کو اس طرح ترتیب نہیں دیا.پس آپ لوگ ان باتوں کو سمجھ کر ہوشیار ہو جائیں اور تیار رہیں.فتنے ہوں گے اور بڑے سخت ہوں گے ان کو دور کرنا تمہارا کام ہے.خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے اور تمہارے ساتھ ہو اور میری بھی مدد کرے اور مجھ سے بعد آنے والے خلیفوں کی بھی کرے اور خاص طور پر کرے کیونکہ اُن کی مشکلات مجھ سے بہت بڑھ کر اور بہت زیادہ ہوں گی.دوست کم ہوں گے اور دشمن زیادہ.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ بہت کم ہوں گے.مجھے حضرت علی کی یہ بات یاد کر کے بہت ہی درد پیدا ہوتا ہے.اُن کو کسی نے کہا کہ حضرت ابو بکر اور عمر کے عہد میں تو ایسے فتنے اور فساد نہ ہوتے تھے جیسے آپ کے وقت میں ہو رہے ہیں.آپ نے اسے جواب دیا کہ اوکم بخت ! حضرت ابو بکر اور عمر کے ماتحت میرے جیسے شخص تھے اور میرے ماتحت تیرے جیسے لوگ ہیں.غرض جوں جوں دن گزرتے جائیں گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صُحبت یافتہ لوگ کم رہ جائیں گے اور آپ کے تیار کردہ انسان قلیل ہو جائیں گے.پس قابل رحم حالت ہوگی اُس خلیفہ کی کہ جس کے ماتحت ایسے لوگ ہوں گے.خدا تعالیٰ کا رحم اور فضل اُس کے شامل ہو اور اُس کی برکات اور اُس کی نصرت اُس کے لئے

Page 250

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۲ جلد اول نازل ہوں جسے ایسے مخالف حالات میں اسلام کی خدمت کرنی پڑے گی.اس وقت تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے صحابہ موجود ہیں جن کے دل خشیت الہی اپنے اندر رکھتے ہیں لیکن یہ ہمیشہ نہیں رہیں گے اور بعد میں آنے والے لوگ خلیفوں کے لئے مشکلات پیدا کریں گے.میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ خدا آنے والے زمانہ میں اپنے فضل اور تائید سے ہماری جماعت کو کامیاب کرے اور مجھے بھی ایسے فتنوں سے بچائے اور مجھ سے بعد میں آنے والوں کو بھی بچائے.آمین = النصر : ۲تا۴ محمد : ۲۰ انوار العلوم جلد ۳ صفحه ۱۵۵ تا ۲۰۴) ال عمران: ۳۲ الاحزاب: ۲۲ الفتح: ٣٢ المؤمن: ۵۶ ك البقرة: ١٣٠ ابوداؤد كتاب الصلوة باب الامام يكلم الرجل في خطبته صفحه ۱۶۵ حدیث نمبر ۱۰۹۱ مطبوعه رياض ١٩٩٩ ء الطبعة الاولى بخاری کتاب العلم باب من قعد حيث ينتهى به المجلس صفحه ۱۶ حدیث نمبر ۶۶ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية الوصیت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶ ایڈیشن ۲۰۰۸ء بخارى كتاب الوضوء باب وضع الماء عند الخلاء صفحه ۳۰ حدیث نمبر ۱۴۳ مطبوعہ ریاض ١٩٩٩ء الطبعة الثانية ۱۲ طبری جلد ۵ صفحه ۳۴۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء ۱۳ طبری جلد ۵ صفحه ۳۵۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء ۱۴ اسد الغابہ جلد ۳ صفحه ۳۱۸ زیر عنوان عثمان بن عفان، مطبوعہ بیروت لبنان ۲۰۰۶ء ۱۵ طبری جلد ۵ صفحه ۳۵۸، ۳۵۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء ۱۶ طبری جلد ۵ صفحه ۴ ۳۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء

Page 251

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۳ جلد اول جماعت احمدیہ قادیان کو نصائح تقریر فرموده ۲۹ /اگست ۱۹۱۷ء قادیان ) ۲۹ / اگست ۱۹۱۷ء کو بعد نماز مغرب تبدیلی آب و ہوا کیلئے شملہ روانگی سے قبل حضرت مصلح موعود نے احباب جماعت قادیان کو نصائح فرمائیں جو ۸ ستمبر ۱۹۱۷ ء کے الفضل میں شائع ہوئیں.اولاً حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی وجہ سے شریعت کے قیام پھر قرآنی احکامات کی اطاعت کے بارہ میں تفصیلاً ذکر فرمایا اور پھر فرمایا کہ سنتِ نبوی کے مطابق دوا میر مقرر کر رہا ہوں.ازاں بعد خلافت اور امامت میں فرق اور آپس میں پیار اور محبت سے رہنے کی نصائح فرمائیں.نیز قادیان دارالامان کے مقام اور مرتبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو اصلاحوں کا ذمہ دار ٹھہرایا.آپ جس مقام پر رہتے ہیں اسے مقدس فرمایا.اسے اسلام کی ان آئندہ ترقیات جو مقدر ہیں کا مرکز بنایا اس لئے آپ کی ہر حرکت، ہر فعل ، ہر قول نمونہ ہونا چاہئے.آپ کی ذمہ داریاں بڑی ہیں.آپ کوشش کریں کہ آپ میں کبھی لڑائی جھگڑا نہ ہو.خصوصاً ان دنوں میں کہ یہ آخری دن ہیں.پھر میری غیر حاضری میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ کوئی روکنے والا نہیں.میں صرف لڑائی جھگڑے سے بچنے کے واسطے نہیں کہتا بلکہ تمام قسم کے عیوب اور لغو و بیہودہ باتوں سے بچو اور پھر آپس میں تمہارے تعلقات اخوت و محبت کے اعلیٰ مقام پر ہوں.ایک دوسرے کی غمگساری کرو.خلفائے قدیم و حال کے کاموں میں فرق اور یہ نہ کہو کہ یہ تو خلیفہ کا کام ہے.حضرت عمر راتوں کو

Page 252

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۴ جلد اول پھر پھر کر خبر گیری کیا کرتے تھے.حضرت صاحب پر بھی بعض نادانوں نے ایسا ہی اعتراض کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بعض اوقات روٹی نہیں کھاتے تھے کھجوریں کھا کر گزارہ کر لیتے تھے، زمین پر سوتے اور ادھر مرزا صاحب اچھے کپڑے پہنتے ہیں ، اچھا کھانا کھاتے ہیں.ان نادانوں کو کیا معلوم کہ ہر سخن وقتے وہر نکته مقام وارد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تصنیف کا نہ تھا.تبلیغ ہوتی تو زبانی.ان کے اوقات اور قسم کے تھے اور مسیح موعود کے اور قسم کے.( گو مقصد ایک ہی تھا ) تصنیف والے کے دماغ پر کچھ ایسا اثر ہوتا ہے کہ اگر اس کے کھانے کے متعلق خاص احتیاط نہ کی جائے ، اس کے بیٹھنے اور سونے کیلئے نرم بستر نہ ہو، نرم لباس نہ ہو تو اس کے اعصاب پر صدمہ ہواور وہ پاگل ہو جائے.پس دماغی کام کرنے والوں کا قیاس ان لوگوں پر نہیں کرنا چاہئے جو اور قسم کے کام کرتے ہیں.حضرت عمرؓ کتا بیں نہیں لکھا کرتے تھے اور نہ ان کے نام باہر سے اتنے لمبے لمبے سو سوا سو خطوط روزانہ آیا کرتے تھے جن کے جواب بھی ان کو لکھنے یا لکھانے پڑتے ہوں.اُس وقت خلیفہ کے مشاغل زیادہ تر مقامی حیثیت میں رہتے تھے اور باہر سے کبھی مہینے دوسرے مہینے ڈاک آتی اور اُس کا بھی اکثر حصہ زبانی طے ہو جا تا.مخالفین کے حملے بھی جنگ کی صورت میں ہوتے جن کا دفعیہ فوجوں کے ذریعہ ہو جاتا تھا.اب تو سب کام دماغ سے ہی کرنے پڑتے ہیں.مصالح سفر شملہ پچھلے دنوں میں ترجمہ کا کام کرتا رہا ہوں جس سے میرے دماغ پر اتنا بوجھ پڑا کہ ایسی حالت ہوگئی جو میں ایک سطر بھی لکھنے سے رہ گیا اور بخار ہو گیا اس لئے اب میرا ارادہ باہر جانے کا ہے.اصل منشاء تو یہی ہے کہ ذرا سا آرام ہو سکے مگر پھر بھی میں اپنے فرائض اور اس کام سے جو خدا نے میرے سپرد کیا ہے غافل نہیں ہوں.بعض رؤیا میں نے دیکھی ہیں جن کی بناء پر میں کہہ سکتا ہوں کہ کچھ اور مصالح بھی میرے سفر میں ہیں مجھے اس کی تفصیل نہیں معلوم ہوسکی کہ امر خیر ہے یا شرمگر ہے کچھ ضرور جو پیش آنے والا ہے.

Page 253

جلد اول خلافة على منهاج النبوة ۲۳۵ خلیفہ وقت کے مشاغل اس کے علاوہ میرے ذہن میں جماعت کی ترقی کی سکیمیں ہیں.ازاں جملہ ایک یہ کہ وہ کیا تدابیر ہیں جن پر چلنے سے جماعت میں آئندہ خلافت کے متعلق کوئی فتنہ نہ ہو.( ب ) عورتوں کی تعلیم کے متعلق نصاب ( ج ) سیاسی امور سے ہمارے تعلقات کس طرح ہوں.ان سب پر میں کچھ ، والا ہوں.اور یہ سب کام میرے ہی ذمہ ہیں جو میں کروں گا اور کر رہا ہوں.اگر مقامی احباب کی خبر گیری اور شہر میں پھر پھر کر ان کے گھروں میں جا جا کر فرداً فرداً حال پوچھنا مجھ ہی پر ڈالتے ہو اور آپ لوگ خود یہ نہیں کریں گے کہ وہ اپنے اپنے محلہ کی بیواؤں، تیموں ، بے کسوں ، ضرورت مندوں کی خبر رکھو تو یہ کام میں بڑی خوشی سے با آسانی کر سکتا ہوں مگر پھر جماعت کی بیرونی ترقی کے تعلقات کم ہو جائیں گے.میں بتا چکا ہوں کہ اب زمانہ اور طرز پر آ گیا ہے اب خلیفہ کیلئے صرف سلسلہ کے مرکز کا مقام ہی نہیں بلکہ باہر کی تمام جماعتوں کی باگ بھی براہِ راست اپنے ہاتھ میں رکھنی پڑتی ہے اور مخالفین سے بھی زیادہ تر خود ہی نپٹنا پڑتا ہے اور یہ کام ہے بھی سارا دماغ کے متعلق.میں جب باہر نہیں آتا یا کوچہ بکوچہ پھر کر خبر گیری نہیں کرتا تو کئی لوگ سمجھتے ہوں گے کہ مزے سے اندر بیٹھا ہے.انہیں کیا معلوم کہ میں تو سارا دن ترجمہ وغیرہ لکھنے یا جماعت کی ترقی کی تجاویز سوچنے ، ڈاک کا جواب دینے دلانے میں خرچ کر کے ان گرمی کے دنوں میں بھی رات کے ایک بجے تک اس کام کیلئے جاگتا رہا ہوں.پھر تمہارے لئے دعائیں کرنا بھی میرا فرض ہے.کبھی کبھی مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ میں ہفتہ بھر کسی کو اپنے ساتھ رکھوں تا معلوم ہو کہ میں فارغ نہیں بیٹھا اور نہ آرام طلب.غرض اب خلیفہ کے کام کی نوعیت بدل گئی ہے اور ان حالات کی موجودگی میں حضرت عمر کی تقلید مجھ پر ضروری نہیں اور نہ یہ سب کام ایک انسان کر سکتا ہے اور جب وہ نبی جسے خاص قومی دیئے جاتے ہیں جس کا میں خلیفہ ہوں نہیں کر سکا تو پھر مجھے پر کیا الزام آ سکتا ہے ہر جماعت کے مقامی فرائض پس زمانہ کے تغیر کے ساتھ تم بھی اپنی ذمہ دار یوں کو بدلو اور یہ کام خود کرو کہ اپنے اپنے مقامی ہے.

Page 254

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۶ جلد اول بھائی بہنوں کی خبر گیری کرو.اگر کوئی بیمار ہے تو اُس کی دوائی لا دو.اگر کوئی مبلغ با ہر گیا ہے تو اُس کے گھر والوں کو سو دا وغیرہ لا دو.کسی بھائی یا بہن کو اور تکلیف ہے تو اس کو رفع کرو.کم از کم مجھے اطلاع تو دو تا کہ میں خود انتظام کروں.ابھی کچھ دن ہوئے صوفی تصور حسین صاحب کی اہلیہ بیمار ہوئیں ان کے بچے چھوٹے تھے مجھے معلوم ہوا کہ دو دن سے ان کی کسی نے ایسی خبر گیری نہیں کی جیسی کہ چاہئے تھی.فورا میں نے اس کا مناسب انتظام کیا لیکن افسوس ہے آپ لوگوں نے کیوں شکایت کا موقع پیدا ہونے دیا اور خود یہ کام سرانجام نہ دیا.کم فرصتی کا عذر فضول ہے کہ کاموں کی کثرت اور چیز ہے اور کاموں کا اہم ہونا اور بات ہے.دیکھو ایک شخص سے کہا جائے کہ فلاں مکان میں چار پائیاں بچھا دینا، یہ سو دابازار سے لا نا ، کپڑے دھوپ میں رکھنا وغیرہ.اور دوسرے سے کہا جائے کہ جنگل سے شیر ما رلا نا تو پہلا شخص نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اتنے کام ہیں اور دوسرے کا صرف ایک کام.کیونکہ آخری کام کے مقابلہ میں وہ پہلے بہت سے کام کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے.پھر کاموں کی نوعیت میں بھی حقیقت حال سے بے خبر اعتراض کرتے ہیں فرق ہوتا ہے.جن کا تعلق اس زمانہ میں جسمانی حالت سے تھا اس لئے اس کے واسطے جفا کشی ، محنت اور خشن پوشی کی ضرورت تھی اور چاہئے تھا کہ غذا بھی سادہ ہو بلکہ اکثر بھو کے رہنے کی عادت ہو.مگر تصنیف کا تعلق دماغ سے ہے.اس کیلئے نرم لباس، نرم غذا چاہئے اور اپنے آپ کو حتی الوسع تنہائی میں رکھنا کیونکہ تصنیف کا اثر اعصاب پر پڑتا ہے.اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام پر اعتراض کیا کہ وہ روزے کم رکھتا ہے اور کھاؤ پیو ہے.نادان یہ نہیں سمجھتے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ نہ تھا.وہ تو ایک علمی زمانہ تھا.ان کو مخالفین کے مقابل پر تقریریں کرنی پڑتی تھیں اور یہود کی کتب کا مطالعہ.موقع موقع کی بات ہوتی ہے روزے رکھنا بڑے ثواب کا کام ہے مگر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا کہ آج روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے والوں سے اجر میں بڑھ گئے.کیونکہ بے روزوں نے خیمے وغیرہ لگائے ، کھانے کا بندو بست کیا اسباب رکھوایا اور روزہ دار بے چارے

Page 255

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۷ جلد اول بے دم ہو کر سفر سے آتے ہی لیٹ گئے.غرض حالات کے بدلنے کے ساتھ تم اپنی حالتوں کو بدلو ، اپنے فرض کو پہچانو.یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ جب نماز پڑھنے کیلئے نکلے تو محلہ والے قرب و جوار کے حاجت مند احمدی گھروں کی خبر خیریت دریافت کرتے گئے.سودے کے 66 ساتھ ان کی خبر بھی لیتے گئے.“ (انوار العلوم جلد ۴ صفحه ۲۴ تا ۲۷ ) مسلم کتاب الصیام باب اجر المفطر فى السفر صفحه ۷ ۴۵ حدیث نمبر ۲۶۲۲ مطبوعه رياض۲۰۰۰ء الطبعة الثانية

Page 256

Page 257

خلافة على منهاج النبوة ۲۳۹ جلد اول اسلام میں اختلافات کا آغاز اسلامی تاریخ سے واقفیت کی ضرورت ( تقریر حضرت طفل ممر طلیقہ اسیح الثانی جو آپ نے ۲۶ فروری ۱۹۱۹ء کو مارٹن ہسٹار یکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور کے ایک اجلاس میں فرمائی ) کچھ عرصہ ہوا میں نے یہ بات نہایت خوشی کے ساتھ سنی تھی کہ اسلامیہ کالج لاہور میں ایک ایسی سوسائٹی قائم ہوئی ہے جس میں تاریخی امور سے واقف کا راپنی اپنی تحقیقات بیان کیا کریں گے.مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی کیونکہ اقوام کی ترقی میں تاریخ سے آگاہ ہونا ایک بہت بڑا محرک ہوتا ہے اور کوئی ایسی قوم جو اپنی گزشتہ تاریخی روایات سے واقف نہ ہو کبھی ترقی کی طرف قدم نہیں مار سکتی.اپنے آبا و اجداد کے حالات کی واقفیت بہت سے اعلیٰ مقاصد کی طرف راہنمائی کرتی ہے.پس جب اس سوسائٹی کے قائم ہونے کا مجھے علم ہوا تو اس خیال سے کہ اس میں جہاں اور تاریخی مضامین پر لیکچر ہوں گے وہاں اسلامی تاریخ پر ایسے لیکچر ہوا کریں گے جن سے کالجوں کے طالب علم اندازہ کر سکیں گے کہ ان کے آبا و اجداد کے ذمہ کیسے کیسے مشکل کام پڑتے رہے ہیں اور وہ کس خوش اسلوبی اور کیسے استقلال کے ساتھ ان کو کرتے رہے ہیں.اور ان کو معلوم ہوگا کہ ہم کیسے آباء کی اولاد ہیں اور ان کی ذریت اور قائمقام ہونے کی حیثیت سے ہم پر کیا فرائض عائد ہیں.اور ان کو اپنے آباء کے شاندار اعمال اور ان کی اعلیٰ شان کو دیکھ کر انہی جیسا بننے کا خیال پیدا ہوگا.پس مجھے اس سوسائٹی کے قائم ہونے پر بہت خوشی ہوئی اور اب جب کہ مجھ سے اس سوسائٹی میں اسلامی تاریخ کے کسی حصہ پر لیکچر دینے کے لئے کہا گیا تو میں نے نہایت خوشی سے اپنی

Page 258

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۰ جلد اوّل روانگی ملتوی کر کے اس موقع پر آپ لوگوں کے سامنے بعض تاریخی مضامین پر اپنی تحقیقات کا بیان کرنا منظور کر لیا.مضمون کی اہمیت مجھ سے کہا گیا تھا کہ میں بعض اسلامی تاریخی مسائل پر کچھ بیان کروں اور گواسلامی تاریخ میں سب سے اہم وہ زمانہ ہے جس میں رسول کریم ﷺ نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت دنیا میں اسلام کا اعلان کیا اور تئیس سالہ محنت شاقہ سے لاکھوں آدمیوں کے دلوں میں اس کا نقش ثبت کیا اور ہزاروں آدمیوں کی ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جس کا فکر ، قول اور فعل اسلام ہی ہو گیا.مگر چونکہ اسلام میں صلى الله تفرقہ کی بنیاد رسول کریم ﷺ کی وفات کے پندرہ سال بعد پڑی ہے اور اس وقت کے بعد مسلمانوں میں شقاق کا شگاف وسیع ہی ہوتا چلا گیا ہے اور اسی زمانہ کی تاریخ نہایت تاریک پردوں میں چھپی ہوئی ہے اور اسلام کے دشمنوں کے نزدیک اسلام پر ایک بدنما ہے اور اس کے دوستوں کے لئے بھی ایک سر چکرا دینے والا سوال ہے اور بہت کم ہیں جنہوں نے اس زمانہ کی تاریخ کی دلدل سے صحیح وسلامت پار نکلنا چاہا ہو اور وہ اپنے مدعا میں کامیاب ہو سکے ہوں اس لئے میں نے یہی پسند کیا کہ آج آپ لوگوں کے سامنے اسی کے متعلق کچھ بیان کروں.اسلام کا شاندار ماضی آپ لوگ جانتے ہوں گے کہ جو کام اللہ تعالی نے میرے سپرد کیا ہوا ہے ( یعنی جماعت احمدیہ کی تربیت اور اس کی ضروریات کا انصرام اور اس کی ترقی کی فکر ) وہ اپنی نوعیت میں بہت سی شقوں پر حاوی ہے.پس اس کے انصرام کے لئے ان خاص تاریخی مضامین کا جو زمانہ خلافت سے متعلق ہیں علم رکھنا میرے لئے ایک نہایت ضروری امر ہے اور اس لئے با وجو د کم فرصتی کے مجھے اس زمانہ کی تاریخ کو زیر مطالعہ رکھنا پڑتا ہے اور گو ہمارا اصل کام مذہب کی تحقیق و تدقیق ہے مگر اس مطالعہ کے باعث ابتدائے اسلام کی تاریخ کے بعض ایسے پوشیدہ امر مجھ پر خدا تعالیٰ کے فضل سے ظاہر ہوئے ہیں جن سے اس زمانہ کے اکثر لوگ ناواقف ہیں.اور اس ناواقفیت کے باعث بعض مسلمان تو اپنے مذہب سے بیزار ہورہے ہیں اور ان کو اپنا ماضی ایسا بھیانک

Page 259

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۱ جلد اول نظر آ رہا ہے کہ اس کی موجودگی میں وہ کسی شاندار مستقبل کی امید نہیں رکھ سکتے.مگر ان کی یہ مایوسی غلط اور ان کے ایسے خیالات نادرست ہیں اور صرف اس امر کا نتیجہ ہیں کہ ان کو صحیح اسلامی تاریخ کا علم نہیں ورنہ اسلام کا ماضی ایسا شاندار اور بے عیب ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ سب کے سب ایسے اعلیٰ درجہ کے با اخلاق لوگ ہیں کہ ان کی نظیر دنیا کی کسی قوم میں نہیں ملتی خواہ وہ کسی نبی کے صحبت یافتہ کیوں نہ ہوں.اور صرف رسول کریم ﷺ کے صحبت یافتہ لوگ ہی ہیں جن کی نسبت کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے استاد اور آقا کے نقش قدم پر چل کر ایسی روحانیت پیدا کر لی تھی کہ سیاسیات کی خطرناک اُلجھن میں پڑ کر بھی انہوں نے تقویٰ اور دیانت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور سلطنت کے بار کے نیچے بھی ان کی کمر ایسی ہی ایستادہ رہی جیسی کہ اُس وقت جب قوت لایموت“ کے وہ محتاج تھے اور ان کا فرش مسجد نبوی کی بے فرش زمین تھی اور ان کا تکیہ ان کا اپنا ہا تھ ، اُن کا شغل رسول کریم ﷺ کا کلام مبارک سنا تھا اور ان کی تفریح خدائے واحد کی عبادت تھی.اسلام کے اولین فدائی حضرت غالباً آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا ارادہ اس وقت حضرت عثمان اور حضرت عثمان وحضرت علی رضی اللہ عنہما علی کی خلافت کے متعلق کچھ بیان کرنے کا ہے.یہ دونوں بزرگ اسلام کے اولین فدائیوں میں سے ہیں اور ان کے ساتھی بھی اسلام کے بہترین ثمرات میں سے ہیں.ان کی دیانت اور ان کے تقویٰ پر الزام کا آنا در حقیقت اسلام کی طرف عار کا منسوب ہونا ہے.اور جو مسلمان بھی سچے دل سے اس حقیقت پر غور کرے گا اُس کو اس نتیجہ پر پہنچنا پڑے گا کہ ان لوگوں کا وجود درحقیقت تمام قسم کی دھڑا بندیوں سے ارفع اور بالا ہے اور یہ بات بے دلیل نہیں بلکہ تاریخ کے اوراق اُس شخص کے لئے جو آنکھ کھول کر ان پر نظر ڈالتا ہے اس امر پر شاہد ہیں.غیر مسلم مؤرخین کی غلط بیانیاں جہاں تک میری تحقیق ہے ان بزرگوں اور ان کے دوستوں کے متعلق جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ اسلام کے دشمنوں کی کارروائی ہے اور گو صحابہ کے بعد بعض مسلمان کہلانے والوں نے بھی

Page 260

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۲ جلد اوّل اپنی نفسانیت کے ماتحت ان بزرگوں میں سے ایک یا دوسرے پر اتہام لگائے ہیں لیکن باوجو داس کے صداقت ہمیشہ بلند و بالا رہی ہے اور حقیقت کبھی پردہ خفاء کے نیچے نہیں چھپی.ہاں اس زمانہ میں جب کہ مسلمان اپنی تاریخ سے ناواقف ہو گئے اور خود اپنے مذہب پران کو آگا ہی نہیں رہی اسلام کے دشمنوں نے یا تو بعض دشمنوں کی روایات کو تاریخ اسلام سے چن کر یا صحیح واقعات سے غلط نتائج اخذ کر کے ایسی تاریخیں بنادیں کہ جن سے صحابہ اور ان کے ذریعہ سے اسلام پر حرف آوے.چونکہ اس وقت مسلمانوں کی عینک جس سے وہ ہر ایک چیز کو دیکھتے ہیں یہی غیر مسلم مؤرخ ہو رہے ہیں اس لئے جو کچھ انہوں نے بتایا انہوں نے قبول کرلیا.جن لوگوں کو خود عربی تاریخیں پڑھنے کا موقع ملا بھی انہوں نے بھی یورپ کی ہائر کریٹیزم (HIGHER CRITICISM) (اعلی طریق تنقید ) سے ڈر کر ان بے سروپا اور جعلی روایات کو جن پر یورپین مصنفوں نے اپنی تحقیق کی بناء رکھی تھی صحیح اور مقدم سمجھا اور دوسری روایات کو غلط قرار دیا.اور اس طرح یہ زمانہ ان لوگوں سے تقریباً خالی ہو گیا جنہوں نے واقعات کو ان کی اصل شکل میں دیکھنے کی کوشش کی.اسلام میں فتنوں کے اصلی موجب صحابہ نہ تھے اس بات کو خوب بہؓ نہ یا درکھو کہ یہ خیال کہ اسلام میں فتنوں کے موجب بعض بڑے بڑے صحابہ ہی تھے بالکل غلط ہے.ان لوگوں کے حالات پر مجموعی نظر ڈالتے ہوئے یہ خیال بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اپنے ذاتی اغراض یا مفاد کی خاطر انہوں نے اسلام کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی.جن لوگوں نے صحابہ کی جماعت میں مسلمانوں میں اختلاف و شقاق نمودار ہونے کی وجوہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے سخت غلطی کھائی ہے.فتنہ کی وجوہ اور جگہ پیدا ہوئی ہیں اور وہیں ان کی تلاش کرنے پر کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی امید کی جاسکتی ہے.جو غلط روایات کہ اس زمانہ کے متعلق مشہور کی گئی ہیں اگر ان کو صحیح تسلیم کر لیا جاوے تو ایک صحابی بھی نہیں بچتا جو اس فتنہ میں حصہ لینے سے محفوظ رہا ہو.اور ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جو تقویٰ اور دیانت پر مضبوطی سے قائم رہا ہو اور یہ اسلام کی صداقت پر ایک ایسا حملہ ہے کہ بیخ و بنیاد اس سے اکھڑ جاتی ہے.حضرت مسیح

Page 261

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۳ جلد اول فرماتے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.اور ان روایات کے بموجب اسلام کے درخت کے پھل ایسے کڑوے ثابت ہوتے ہیں کہ کچھ خرچ کرنا تو الگ رہا مفت بھی اس کے لینے کے لئے کوئی تیار نہ ہوگا.مگر کیا کوئی شخص جس نے رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ کا ذرا بھی مطالعہ کیا ہو اس امر کے تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں.یہ خیال کرنا بھی بعید از عقل ہے کہ جن لوگوں نے آنحضرت ﷺ کی صحبت پائی آپ کے جلیل القدر اور جاں نثار صحابہ تھے اور آپ سے نہایت قریبی رشتے اور تعلق رکھتے تھے وہ بھی اور ان کے علاوہ تمام دیگر صحابہ بھی بلا استثناء چند ہی سال میں ایسے بگڑ گئے کہ صرف ذاتی اغراض کے لئے نہ کہ کسی مذہبی اختلاف کی بناء پر ایسے اختلافات میں پڑ گئے کہ اس کے صدمہ سے اسلام کی جڑ ہل گئی.مگر افسوس کہ گو مسلمان لفظ تو نہیں کہتے کہ صحابہ نے اسلام کو تباہ و برباد کرنے کے لئے فتنے کھڑے کئے لیکن انہوں نے ایسے لوگوں کی روایتوں کو سچا سمجھ کر جنہوں نے اسلام اچھی طرح قبول نہیں کیا تھا اور صرف زبانی اقرار اسلام کیا تھا اور پھر ایسے لوگوں کی تحقیقات پر اعتبار کر کے جو اسلام کے سخت دشمن اور اس کے مٹانے کے درپے ہیں ایسی باتوں کو تسلیم کر رکھا ہے جن کے تسلیم کرنے سے لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ صحابہ کی جماعت نَعُوذُ بالله تقویٰ اور دیانت سے بالکل خالی تھی ہیں میں اپنے بیان میں اس امر کا لحاظ رکھوں گا کہ تاریخیں وغیرہ نہ آویں تا کہ سمجھنے میں وقت نہ ہو اور مضمون پیچ دار نہ ہو جائے.کیونکہ میرے اس لیکچر کی اصل غرض ابتدائے اسلام کے بعض اہم واقعات سے کالجوں کے طلباء کو واقف کرنا ہے.اور اسی وجہ سے ہی عربی عبارات کے بیان کرنے سے بھی حتی الوسع اجتناب کروں گا اور واقعات کو حکایت کے طور پر بیان کروں گا.اس مضمون پر برائے اشاعت نظر ثانی کرتے وقت میں نے حاشیہ پر بعض ضروری تاریخی حوالجات دے دیئے ہیں اور مطالعہ کنندہ کتاب کو زیادہ مشقت سے بچانے کے لئے صرف تاریخ طبری کے حوالوں پر اکتفاء کی ہے.اِلَّا مَا شَاءَ اللهُ - مِنْهُ.

Page 262

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۴ جلد اول اختلافات کا ظہور خلیفہ ثالث یہ بات تمام تعلیم یافتہ مسلمانوں پر روشن ہوگی کہ مسلمانوں میں اختلاف کے آثار نمایاں کے زمانہ میں کیوں ہوا؟ طور پر خلیفہ ثالث کے عہد میں ظاہر ہوئے تھے.ان سے پہلے حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ کے عہد میں اختلاف نے کبھی سنجیدہ صورت اختیار نہیں کی.اور مسلمانوں کا کلمہ ایسا متحد تھا کہ دوست و دشمن سب اس کے افتراق کو ایک غیر ممکن امر خیال کرتے تھے اور اسی وجہ سے عموماً لوگ اس اختلاف کو خلیفہ ثالث کی کمزوری کا نتیجہ قرار دیتے ہیں.حالانکہ جیسا میں آگے چل کر بتاؤں گا واقعہ یوں نہیں.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ابتدائی حالات حضرت عمر کے بعد تمام صحابہ کی نظر مسندِ خلافت پر بیٹھنے کے لئے حضرت عثمان پر پڑی اور آپ ا کا بر صحابہ کے مشورہ سے اس کام کے لئے منتخب کئے گئے.آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اور یکے بعد دیگرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں آپ سے بیاہی گئیں.اور جب دوسری لڑکی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فوت ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اسے بھی حضرت عثمان سے بیاہ دیتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کی نظر میں آپ کو خاص قدر و منزلت حاصل تھی.آپ اہل مکہ کی نظر میں نہایت ممتاز حیثیت رکھتے اور اُس وقت ملک عرب کے حالات کے مطابق مالدار آدمی تھے.حضرت ابوبکر نے اسلام اختیار کرنے کے بعد جن خاص خاص لوگوں کو تبلیغ اسلام کے لئے منتخب کیا ان میں ایک حضرت عثمان بھی تھے.اور آپ پر حضرت ابو بکر کا گمان غلط نہیں گیا بلکہ تھوڑے دنوں کی تبلیغ سے ہی آپ نے اسلام قبول کر لیا اور اس طرح اَلسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ میں یعنی اسلام میں داخل ہونے والے اس پیشرو گروہ میں شامل ہوئے جن کی قرآن کریم نہایت قابل رشک الفاظ میں تعریف فرماتا ہے.عرب میں انہیں جس قدر عزت اور توقیر حاصل تھی اس کا کسی قدر پتہ اس واقعہ سے لگ سکتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رؤیا کی بناء پر مکہ تشریف لائے اور اہلِ مکہ نے بغض و کینہ سے اندھے ہو کر آپ کو عمرہ کرنے کی اجازت نہ دی

Page 263

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۵ جلد اول تو آنحضرت ﷺ نے تجویز فرمایا کہ کسی خاص معتبر شخص کو اہل مکہ کے پاس اس امر پر گفتگو کرنے کے لئے بھیجا جاوے اور حضرت عمرؓ کو اس کے لئے انتخاب کیا.حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ يَارَسُولَ اللہ ! میں تو جانے کو تیار ہوں مگر مکہ میں اگر کوئی شخص ان سے گفتگو کر سکتا ہے تو وہ حضرت عثمان ہے کیونکہ وہ ان لوگوں کی نظر میں خاص عزت رکھتا ہے پس اگر کوئی دوسرا شخص گیا تو اس پر کامیابی کی اتنی امید نہیں ہوسکتی جتنی کہ حضرت عثمان پر ہے اور آپ کی اس بات کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی درست تصور کیا اور انہی کو اس کام کے لئے بھیجا.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان کفار میں بھی خاص عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.حضرت عثمان کا مرتبہ رسول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا بہت احترام صلى الله فرماتے تھے ایک دفعہ آپ لیٹے ہوئے تھے کہ کریم ﷺ کی نظر میں حضرت ابو بکر تشریف لائے اور آپ اسی طرح لیٹے رہے.پھر حضرت عمرؓ تشریف لائے تب بھی آپ اسی طرح لیٹے رہے.پھر حضرت عثمان تشریف لائے تو آپ نے جھٹ اپنے کپڑے سمیٹ کر درست کر لئے اور فرمایا کہ حضرت عثمان کی طبیعت میں حیا بہت ہے اس لئے میں اس کے احساسات کا خیال کر کے ایسا کرتا ہوں.آپ ان شاذ آدمیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اسلام کے قبول کرنے سے پہلے بھی کبھی شراب کو منہ نہیں لگایا اور زنا کے نزدیک نہیں گئے اور یہ ایسی خوبیاں ہیں جو عرب کے ملک میں جہاں شراب کا پینا فخر اور زنا ایک روز مرہ کا شغل سمجھا جاتا تھا اسلام سے پہلے چند گنتی کے آدمیوں سے زیادہ لوگوں میں نہیں پائی جاتی تھیں.غرض آپ کوئی معمولی آدمی نہ تھے.نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق آپ میں پائے جاتے تھے.دنیا وی وجاہت کے لحاظ سے آپ نہایت ممتاز تھے.اسلام میں سبقت رکھتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر نہایت خوش تھے.اور حضرت عمر نے آپ کو ان چھ آدمیوں میں سے ایک قرار دیا ہے جو حضرت رسول کریم علیہ کی وفات کے وقت تک آپ کی اعلیٰ درجہ کی خوشنودی کو حاصل کئے رہے.اور پھر آپ عشرہ مبشرہ سے ایک فرد ہیں یعنی ان دس آدمیوں میں سے ایک ہیں جن

Page 264

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۶ جلد اول صلى الله کی نسبت رسول کریم ﷺ نے جنت کی بشارت دی تھی ہے.آپ کے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے سے چھ سال تک حکومت میں کسی قسم کا کوئی فتنہ نہیں اُٹھا بلکہ لوگ آپ سے بالعموم بہت خوش تھے.اس کے بعد یکدم ایک ایسا فتنہ پیدا ہوا جو بڑھتے بڑھتے اس قدر ترقی کر گیا کہ کسی کے رو کے نہ رُک سکا اور انجام کار اسلام کیلئے سخت مضر ثابت ہوا.تیرہ سو برس گزر چکے ہیں مگر اب تک اس کا اثر اُمتِ اسلامیہ میں سے زائل نہیں ہوا.اب سوال یہ ہے کہ یہ فتنہ کہاں سے پیدا ہوا؟ اس کا فتنہ کہاں سے پیدا ہوا ؟ باعث بعض لوگوں نے حضرت عثمان کو قرار دیا ہے اور بعض نے حضرت علیؓ کو.بعض کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے بعض بدعتیں شروع کر دی تھیں جن سے مسلمانوں میں جوش پیدا ہو گیا.اور بعض کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے خلافت کیلئے خفیہ کوشش شروع کر دی تھی اور حضرت عثمان کے خلاف مخالفت پیدا کر کے انہیں قتل کرا دیا تا کہ خود خلیفہ بن جائیں لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں.نہ حضرت عثمان نے کوئی بدعت جاری کی اور نہ حضرت علیؓ نے خود خلیفہ بننے کیلئے انہیں قتل کرایا یا ان کے قتل کے منصوبہ میں شریک ہوئے بلکہ اس فتنہ کی اور ہی وجوہات تھیں.حضرت عثمانؓ اور حضرت علی کا دامن اس قسم کے الزامات سے بالکل پاک ہے وہ نہایت مقدس انسان تھے.حضرت عثمان تو وہ انسان تھے جن کے متعلق حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے اسلام کی اتنی خدمات کی ہیں کہ وہ اب جو چاہیں کریں خدا ان کو نہیں پوچھے گائے.اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ خواہ وہ اسلام سے ہی برگشتہ ہو جائیں تو بھی مؤاخذہ نہیں ہوگا بلکہ یہ تھا کہ ان میں اتنی خوبیاں پیدا ہوگئی تھیں اور وہ نیکی میں اس قدر ترقی کر گئے تھے کہ یہ ممکن ہی نہ رہا تھا کہ ان کا کوئی فعل اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو.پس حضرت عثمان ایسے انسان نہ تھے کہ وہ کوئی خلاف شریعت بات در حقیقت عشرہ مبشرہ ایک محاورہ ہو گیا ہے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بہت زیادہ صحابہ کی نسبت جنت کی بشارت دی ہے.عشرہ مبشرہ سے دراصل وہ دس مہاجر مراد ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس شوری کے رکن تھے اور جن پر آپ کو خاص اعتما دتھا.

Page 265

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۷ جلد اول جاری کرتے اور نہ حضرت علی ایسے انسان تھے کہ خلافت کیلئے خفیہ منصو بے کرتے.جہاں تک میں نے غور کیا اور مطالعہ کیا ہے اس فتنہ ہا ئلہ کی چار وجوہ ہیں.اوّل : عموماً انسان کی طبیعت حصولِ جاہ و مال کی طرف مائل رہتی فتنے کی چار وجوہ ہے سوائے اُن لوگوں کے جن کے دلوں کو خدائے تعالیٰ نے خاص طور پر صاف کیا ہو.صحابہ کی عزت ، ان کے مرتبہ اور ان کی ترقی اور حکومت کو دیکھ کر نومسلموں میں سے بعض لوگ جو کامل الایمان نہ تھے حسد کرنے لگے اور جیسا کہ قدیم سے سنت چلی آئی ہے اس بات کی امید کرنے لگے کہ یہ لوگ حکومت کے کاموں سے دستبردار ہو کر سب کام ہمارے ہاتھوں میں دے دیں اور کچھ اور لوگوں کو بھی اپنا جو ہر دکھانے کا موقع دیں.ان لوگوں کو یہ بھی بُر ا معلوم ہوتا تھا کہ علاوہ اس کے کہ حکومت صحابہ کے قبضہ میں تھی اموال میں بھی ان کو خاص طور پر حصہ ملتا تھا.پس یہ لوگ اندر ہی اندر جلتے رہتے تھے اور کسی ایسے تغیر کے منتظر تھے جس سے یہ انتظام درہم برہم ہو کر حکومت ان کے ہاتھوں میں آ جائے اور یہ بھی اپنے جو ہر لیاقت دکھاویں اور دنیا وی وجاہت اور اموال حاصل کریں.دنیاوی حکومتوں میں ایسے خیالات ایک حد تک قابلِ معافی ہو سکتے ہیں بلکہ بعض اوقات معقول بھی کہلا سکتے ہیں کیونکہ اول دنیا وی حکومتوں کی بنیاد کلی طور پر ظاہری اسباب پر ہوتی ہے اور ظاہری اسباب ترقی میں سے ایک بہت بڑا سبب نئے خیالات اور نئی روح کا قالب حکومت میں داخل کرنا بھی ہے.جو اسی صورت میں ممکن ہے کہ پہلے کام کرنے والے خود بخود کام سے علیحدگی اختیار کر کے دوسروں کیلئے جگہ چھوڑ دیں.دوم : حکومت دنیا وی کو چونکہ نیابت عامہ کے طور پر اختیارات ملتے ہیں اس لئے عوام کی رائے کا احترام اس کیلئے ضروری ہے اور لازم ہے کہ وہ لوگ اس کے کاموں کے انصرام میں خاص دخل رکھتے ہوں جو عوام کے خیالات کے ترجمان ہوں.مگر دینی سلسلہ میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے وہاں ایک مقررہ قانون کی پابندی سب اصول سے مقدم اصل ہوتا ہے اور اپنے خیالات کا دخل سوائے ایسی فروعات کے جن سے شریعت نے خود خاموشی اختیار کی ہو قطعاً ممنوع ہے.دوم دینی سلسلوں کو اختیارات خدا تعالیٰ کی طرف سے

Page 266

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۸ جلد اول ملتے ہیں اور اس کی زمام انتظام جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ان کا فرض ہوتا ہے کہ امور دینیہ میں وہ لوگوں کو راستہ سے اِدھر اُدھر نہ ہونے دیں.اور بجائے اس کے کہ وہ لوگوں کے خیالات کی ترجمانی کریں ان پر واجب ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے خیالات کو اس سانچہ میں ڈھالیں جو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کی ضروریات کے مطابق تیار ہوا ہے.غرض اسلام کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ خلافت اسلامیہ ایک مذہبی انتظام تھا سے یہ اعتراضات ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے تھے.وہ نہ سوچتے تھے کہ خلافت اسلامیہ کوئی دنیاوی حکومت نہ تھی نہ صحابہ عام امرائے دولت.بلکہ خلافت اسلامیہ ایک مذہبی انتظام تھا اور قرآن کریم کے خاص احکام مندرجہ سورۃ نور کے مطابق قائم کیا گیا تھا.اور صحابہ وہ ارکانِ دین تھے کہ جن کی اتباع روحانی مدارج کے حصول کیلئے خدا تعالیٰ نے فرض کی تھی.صحابہ نے اپنے کاروبار کو ترک کر کے ، ہر قسم کی مسکنت اور غربت کو اختیار کر کے ، اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر، اپنے عزیز واقرباء کی صحبت و محبت کو چھوڑ کر، اپنے وطنوں کو خیر باد کہہ کر، اپنے خیالات و جذبات کو قربان کر کے آنحضرت یہ کی صحبت و محبت کو اختیار کیا تھا اور بعض نے قریباً ایک چوتھائی صدی آپ کی شاگردی اختیار کر کے اسلام کو سبقاً سبقاً پڑھا تھا اور اس پر عمل کر کے اس کا عملی پہلو مضبوط کیا تھا.وہ جانتے تھے کہ اسلام سے کیا مطلب ہے، اس کی کیا غرض ہے ، اس کی کیا حقیقت ہے ، اس کی تعلیم پر کس طرح عمل کرنا چاہئے اور اس پر عمل کر کے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں.پس وہ کسی دنیا وی حکومت کے بادشاہ اور اس کے ارکان نہ تھے.وہ سب سے آخری دین اور خاتم النبین کی لائی ہوئی شریعت کے معلم تھے اور ان پر فرض کیا گیا تھا کہ اپنے عمل سے ، اپنے قول سے ، اپنی حرکات سے ، اپنی سکنات سے اسلام کی ترجمانی کریں اور اس کی تعلیم لوگوں کے دلوں میں نقش کریں اور ان کے جوارح پر اس کو جاری کریں.وہ استبداد کے حامی نہ تھے بلکہ شریعتِ غراء کے حامی تھے.وہ دنیا سے متنفر تھے اور اگر ان کا بس ہوتا تو دنیا کو ترک کر کے گوشہ ہائے تنہائی میں جا بیٹھتے اور ذکر خدا سے اپنے دلوں کو راحت پہنچاتے.مگر وہ اس ذمہ داری سے مجبور تھے جس کا بوجھ خدا اور اس

Page 267

خلافة على منهاج النبوة ۲۴۹ جلد اول کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کندھوں پر رکھا تھا.پس وہ جو کچھ کرتے تھے اپنی خواہش سے نہیں کرتے تھے بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اور اس کے رسول کی ہدایات کے مطابق کرتے تھے.اور ان پر حسد کرنا یا بدگمانی کرنا ایک خطر ناک غلطی تھی.باقی رہا یہ اعتراض کہ صحابہ کو خاص طور پر اموال کیوں دیے جاتے تھے یہ بھی ایک وسوسہ تھا کیونکہ صحابہ کو جو کچھ ملتا تھا ان کے حقوق کے مطابق ملتا تھا.وہ دوسرے لوگوں کے حقوق دبا کر نہیں لیتے تھے بلکہ ہر ایک شخص خواہ وہ کل کا مسلمان ہوا پنا حق اسی طرح پاتا تھا جس طرح ایک سابق ہالا یمان.ہاں صحابہ کا کام اور ان کی محنت اور قربانی دوسرے لوگوں سے بڑھی ہوئی تھی اور ان کی پرانی خدمات اس پر مستزاد تھیں.پس وہ ظلما نہیں بلکہ انصافاً دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ حق دار تھے اس لئے دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ بدلہ پاتے تھے.انہوں نے اپنے حصے خود نہ مقرر کئے تھے بلکہ خدا اور اس کے رسول نے ان کے حصے مقرر کئے تھے.اگر ان لوگوں کے ساتھ خاص معاملہ نہ کیا جاتا تو وہ پیشگوئیاں کیونکر پوری ہوتیں جو قرآن کریم اور احادیث رسول کریم ﷺ میں ان لوگوں کی ترقی اور ان کے اقبال اور ان کی رفاہت اور ان کے غناء کی نسبت کی گئی تھیں.اگر حضرت عمرؓ کسری کی حکومت کے زوال اور اس کے خزانوں کی فتح پر کسری کے کڑے سراقہ بن مالک کو نہ دیتے اور نہ پہناتے تو رسول کریم ﷺ کی وہ بات کیونکر پوری ہوتی کہ میں سراقہ کے ہاتھ میں کسری کے کڑے دیکھتا ہوں.مگر میں یہ بھی کہوں گا کہ صحابہ کو جو کچھ ملتا تھا دوسروں کا حق مار کر نہ ملتا تھا بلکہ ہر ایک شخص جو ذرا بھی حکومت کا کام کرتا تھا اُس کو اُس کا حق دیا جاتا تھا اور خلفاء اس بارے میں نہایت محتاط تھے.صحابہؓ کو صرف ان کا حق دیا جاتا تھا اور وہ ان کے کام اور ان کی سابقہ خدمات کے لحاظ سے بے شک دوسروں سے زیادہ ہوتا تھا.اور پھر اسلامی تاریخ کے بعد کے واقعات سے یہ بات خوب اچھی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ صحابہ کا دخل کیسا مفید و با برکت تھا کیونکہ کچھ عرصہ کے لئے صحابہ کے دخل کو ہٹا کر خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ ان کے علیحدہ ہونے سے کیسے بُرے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.اسلام کی تضحیک خود مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھوں اس عرصہ میں اس طرح ہوئی کہ دل ان حالات کو پڑھ کر خوف کھاتے ہیں اور جسموں میں لرزہ آتا ہے.( مرزا محمود احمد ) ย

Page 268

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۰ جلد اول ان میں سے ایک حصہ موجودہ جنگوں میں بھی حصہ لیتا تھا اور اس خدمت کے صلہ میں بھی وہ ویسے ہی بدلہ کا مستحق ہوتا جیسے کہ اور لوگ.مگر یہ بات بھی یا درکھنی چاہئے کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہؓ ان اموال کو جمع کرنے یا ان کو اپنے نفسوں پر خرچ کرنے کے عادی نہ تھے بلکہ وہ اپنا حصہ صرف خدا اور رسول کے کلام کو سچا کرنے کیلئے لیتے تھے ورنہ ان میں سے ہر ایک اپنی سخاوت اور اپنی عطا میں اپنی نظیر آپ تھا اور ان کے اموال صرف غرباء کی کفالت اور ان کی خبر گیری میں صرف ہوتے تھے.غرض صحابہ کی نسبت جو بعض لوگوں صحابہ کی نسبت بدگمانی بلا وجہ ہے سرحد اور بدگمانی پیدا ہوئی تھی یا وجہ اور کو حسد بلا سبب تھی.مگر بلا وجہ ہو یا با وجہ اس کا بیج بویا گیا تھا اور دین کی حقیقت سے ناواقف لوگوں میں سے ایک طبقہ ان کو غاصب کی حیثیت میں دیکھنے لگا تھا اور اس بات کا منتظر تھا کہ کب کوئی موقع ملے اور ان لوگوں کو ایک طرف کر کے ہم حکومت واموال حکومت پر تصرف کریں.دوسری وجہ اس فساد کی یہ تھی کہ اسلام نے حریت فکر اور آزادی عمل اور مساواتِ افراد کے ایسے سامان پیدا کر دیئے تھے جو اس سے پہلے بڑے سے بڑے فلسفیانہ خیالات کے لوگوں کو بھی میسر نہ تھے.اور جیسا کہ قاعدہ ہے کہ کچھ لوگ جو اپنے اندر مخفی طور پر بیماریوں کا مادہ رکھتے ہیں وہ اعلیٰ سے اعلیٰ غذا سے بھی بجائے فائدہ کے نقصان اُٹھاتے ہیں اس حریت فکر اور آزادی عمل کے اصول سے کچھ لوگوں نے بجائے فائدہ کے نقصان اُٹھایا اور اس کی حدود کو صلى الله قائم نہ رکھ سکے.اس مرض کی ابتداء تو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہی ہوئی جب کہ ایک نا پاک روح نام کے مسلم نے رسول کریم علی کے منہ پر آپ کی نسبت یہ الفاظ کہے کہ يَارَسُولَ اللہ ! تقویٰ اللہ سے کام لیں کیونکہ آپ نے تقسیم مال میں انصاف سے کام نہیں لیا.جس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِعْضِنِي هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَا جِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الذِيْنِ كَمَا يَمُرُقُ السَّهُمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ " یعنی اس شخص کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جو قرآن کریم بہت پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلے سے نہیں اُترے گا اور وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جس طرح تیرا اپنے نشانہ سے نکل جاتا ہے.

Page 269

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۱ جلد اول دوسری دفعہ ان خیالات کی دبی ہوئی آگ نے ایک شعلہ حضرت عمرؓ کے وقت میں مارا جب کہ ایک شخص نے برسر مجلس کھڑے ہو کر حضرت عمر جیسے بے نفس انسان اور اُمتِ محمدیہ کے اموال کے محافظ خلیفہ پر اعتراض کیا کہ یہ گرتا آپ نے کہاں سے بنوایا ہے.مگر ان دونوں وقتوں میں اس فتنہ نے کوئی خوفناک صورت اختیار نہیں کی کیونکہ اس وقت تک اس کے نشو ونما پانے کیلئے کوئی تیار شدہ زمین نہ تھی اور نہ موسم ہی موافق تھا.ہاں حضرت عثمان کے وقت میں یہ دونوں باتیں میسر آگئیں اور یہ پودا جسے میں اختلال کا پودا کہوں گا ایک نہایت مضبوط تنے پر کھڑا ہو گیا اور حضرت علی کے وقت میں تو اس نے ایسی نشو و نما پائی کہ قریب تھا کہ تمام اقطار عالم میں اس کی شاخیں اپنا سایہ ڈالنے لگیں.مگر حضرت علیؓ نے وقت پر اس کی مضرت کو پہچانا اور ایک کاری ہاتھ کے ساتھ اسے کاٹ کر گرا دیا اور اگر وہ بالکل اسے مٹانہ سکے تو کم از کم اس کے دائرہ اثر کو انہوں نے بہت محدود کر دیا.تیسرا سبب میرے نزدیک یہ ہے کہ اسلام کی نورانی شعاعوں کے اثر سے بہت سے لوگوں نے اپنی زندگیوں میں ایک تغیر عظیم پیدا کر دیا تھا مگر اس اثر سے وہ کمی کسی طرح پوری نہیں ہو سکتی تھی جو ہمیشہ دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول کے لئے کسی معلم کا انسان کومحتاج بناتی ہے.رسول کریم ﷺ کے وقت میں جب فوج در فوج آدمی داخلِ اسلام ہوئے تب بھی یہی خطرہ دامن گیر تھا.مگر آپ سے خدا تعالیٰ کا خاص وعدہ تھا کہ اس ترقی کے زمانہ میں اسلام لانے والے لوگوں کو بداثر سے بچایا جائیگا.چنانچہ آپ کی وفات کے بعد گو ایک سخت لہرارتداد کی پیدا ہوئی مگر فوراً دب گئی اور لوگوں کو حقیقت اسلام معلوم ہوگئی.مگر آپ کے بعد ایران وشام اور مصر کی فتوحات کے بعد اسلام اور دیگر مذاہب کے میل وملاپ سے جو فتوحات روحانی اسلام کو حاصل ہوئیں وہی اس کے انتظام سیاسی کے اختلال کا باعث ہو گئیں.کروڑوں کروڑ آدمی اسلام کے اندر داخل ہوئے اور اس کی شاندار تعلیم کو دیکھ کر ایسے فدائی ہوئے کہ اس کے لئے جانیں دینے کے لئے تیار ہو گئے.مگر اس قدر تعداد نو مسلموں کی بڑھ گئی کہ ان کی تعلیم کا کوئی ایسا انتظام نہ ہو سکا جو طمانیت بخش ہوتا.جیسا کہ قاعدہ ہے اور انسانی دماغ کے بار یک مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی جوش کے ماتحت

Page 270

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۲ جلد اول ان لوگوں کی تربیت اور تعلیم کی ضرورت محسوس نہ ہوئی.جو کچھ یہ مسلمانوں کو کرتے دیکھتے تھے کرتے تھے اور ہر ایک حکم کو بخوشی بجا لاتے تھے.مگر جوں جوں ابتدائی جوش کم ہوتا گیا جن لوگوں کو تربیت روحانی حاصل کرنے کا موقع نہ ملا تھا ان کو احکام اسلام کی بجا آوری با رمعلوم ہونے لگی اور نئے جوش کے ٹھنڈا ہوتے ہی پرانی عادات نے پھر زور کرنا شروع کیا.غلطیاں ہر ایک انسان سے ہو جاتی ہیں اور سیکھتے سیکھتے انسان سیکھتا ہے.اگر ان لوگوں کو کچھ حاصل کرنے کا خیال ہوتا تو کچھ عرصہ تک ٹھوکریں کھاتے ہوئے آخر سیکھ جاتے.مگر یا تو رسول کریم ہے کے وقت یہ حال تھا کہ ایک شخص سے جب ایک جرم ہو گیا تو با وجود رسول کریم ہی ہے کے اشارہ فرمانے کے کہ جب خدا تعالیٰ ستاری کرے تو کوئی خود کیوں اپنی فضیحت کرے اس نے اپنے قصور کا خود اقرار کیا اور سنگسار ہونے سے نہ ڈرا سکہ یا اب حد و دشریعت کو قائم رکھنے کے لئے اگر چھوٹی سے چھوٹی سزا بھی دی جاتی تو ان لوگوں کو نا پسند ہوتی.پس بوجہ اسلام کے دل میں نہ داخل ہونے کے شریعت کو توڑنے سے کچھ لوگ باز نہ رہتے اور جب حدودِ شریعت کو قائم کیا جاتا تو ناراض ہوتے اور خلیفہ اور اس کے عمال پر اعتراض کرتے اور ان کے خلاف اپنے دل میں کینہ رکھتے اور اس انتظام کو سرے سے ہی اُکھاڑ پھینک دینے کے منصوبے کرتے.چوتھا سبب میرے نزدیک اس فتنہ کا یہ تھا کہ اسلام کی ترقی ایسے غیر معمولی طور پر ہوئی ہے کہ اس کے دشمن اس کا اندازہ شروع میں کر ہی نہ سکے.مکہ والے بھی اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اور رسول کریم ﷺ کے ضعف کے خیال میں ہی بیٹھے تھے کہ مکہ فتح ہو گیا اور اسلام جزیرہ عرب میں پھیل گیا.اسلام کی اس بڑھنے والی طاقت کو قیصر روم اور کسری ایران ایسی حقارت آمیز اور تماش میں نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جیسے کہ ایک جابر پہلوان ایک گھٹنوں صلى الله کے بل رینگنے والے بچہ کی کھڑے ہونے کے لئے پہلی کوشش کو دیکھتا ہے.سلطنت ایران اور دولت یونان ضربت محمدی کے ایک ہی صدمہ سے پاش پاش ہو گئیں.جب تک مسلمان ان جابر حکومتوں کا مقابلہ کر رہے تھے جنہوں نے سینکڑوں ہزاروں سال سے بنی نوع انسان کو غلام بنا رکھا تھا اور اس کی قلیل التعداد بے سامان فوج

Page 271

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۳ جلد اول دشمن کی کثیر التعداد با سامان فوج کے ساتھ برسر پر کا رتھی اُس وقت تک تو دشمنانِ اسلام یہ خیال کرتے رہے کہ مسلمانوں کی کامیابیاں عارضی ہیں اور عنقریب یہ لہر نیا رخ پھیرے گی اور یہ آندھی کی طرح اٹھنے والی قوم بگولے کی طرح اُڑ جائے گی.مگر ان کی حیرت کی کچھ حد نہ رہی جب چند سال کے عرصہ میں مطلع صاف ہو گیا اور دنیا کے چاروں کونوں پر اسلامی پر چم لہرانے لگا.یہ ایسی کامیابی تھی جس نے دشمن کی عقل مار دی اور وہ حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈوب گیا اور صحابہ اور ان کے صحبت یافتہ لوگ دشمنوں کی نظر میں انسانوں سے بالا ہستی نظر آنے لگے اور وہ تمام امید میں اپنے دل سے نکال بیٹھے.مگر جب کچھ عرصہ فتوحات پر گزر گیا اور وہ حیرت و استعجاب جو ان کے دلوں میں پیدا ہو گیا تھا کم ہوا اور صحابہ کے ساتھ میل جول سے وہ پہلا خوف و خطر جا تا رہا تو پھر اسلام کا مقابلہ کرنے اور مذاہب باطلہ کو قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا.اسلام کی پاک تعلیم کا مقابلہ دلائل سے تو وہ نہ کر سکتے تھے ، حکومتیں مٹ چکی تھیں اور وہ ایک ہی حربہ جو حق کے مقابلہ میں چلا یا جاتا تھا یعنی جبر اور تعدی ٹوٹ چکا تھا.اب ایک ہی صورت باقی تھی یعنی دوست بن کر دشمن کا کام کیا جائے اور اتفاق پیدا کر کے اختلاف کی صورت کی جائے.پس بعض شقی القلب لوگوں نے جو اسلام کے نور کو دیکھ کر اندھے ہو رہے تھے اسلام کو ظاہر میں قبول کیا اور مسلمان ہو کر اسلام کو تباہ کرنے کی نیت کی.چونکہ اسلام کی ترقی خلافت سے وابستہ تھی اور گلہ بان کی موجودگی میں بھیڑ یا حملہ نہ کر سکا اس لئے یہ تجویز کی گئی کہ خلافت کو مٹا دیا جاوے اور اس سلک اتحاد کو توڑ دیا جاوے جس میں تمام عالم کے مسلمان پر وئے ہوئے ہیں تا کہ اتحاد کی برکتوں سے مسلمان محروم ہو جائیں اور نگران کی عدم موجودگی سے فائدہ اُٹھا کر مذاہب باطلہ پھر اپنی ترقی کے لئے کوئی راستہ نکال سکیں اور دجل و فریب کے ظاہر ہونے کا کوئی خطرہ نہ رہے.یہ وہ چار بواعث ہیں جو میرے نزدیک اس فتنہ عظیم کے برپا کرنے کا موجب ہوئے.جس نے حضرت عثمانؓ کے وقت میں ملت اسلام کی بنیادوں کو ہلا دیا اور بعض وقت اس پر ایسے آئے کہ دشمن اس بات پر اپنے دل میں خوش ہونے لگا کہ یہ قصر عالی شان اب اپنی چھنتوں اور دیواروں سمیت زمین کے ساتھ آلگے گا اور ہمیشہ کیلئے اس دین کا خاتمہ ہو جائے گا جس

Page 272

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۴ جلد اول نے اپنے لئے یہ شاندار مستقبل مقر ر کیا ہے کہ هُوَ الذي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَة عَلَى الدِّین کلہ کے یعنی وہ خدا ہی ہے کہ جس نے اپنا رسول سچے دین کے ساتھ بھیجا تا کہ اس دین کو باوجود اس کے منکروں کی ناپسندیدگی کے تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے.فتنہ حضرت عثمان کے وقت میں کیوں اُٹھا ؟ میں نے ان تاریخی واقعات سے جو حضرت عثمان کے آخری ایامِ خلافت میں ہوئے نتیجہ نکال کر اصل بواعث فتنہ بیان کر دیئے ہیں.وہ درست ہیں یا غلط اس کا اندازہ آپ لوگوں کو ان واقعات کے معلوم کرنے پر جن سے میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے خود ہو جائے گا.مگر پیشتر اس کے کہ میں وہ واقعات بیان کروں اس سوال کے متعلق بھی کچھ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ فتنہ حضرت عثمان کے وقت میں کیوں اُٹھا؟ بات یہ ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوئے.ان نومسلموں میں اکثر حصہ وہی تھا جو عربی زبان سے ناواقف تھا اور اس وجہ سے دین اسلام کا سیکھنا اس کے لئے ولیسا آسان نہ تھا جیسا کہ عربوں کے لئے اور جو لوگ عربی جانتے بھی تھے وہ ایرانیوں اور شامیوں سے میل ملاپ کی وجہ سے صدیوں سے ان گندے خیالات کا شکار رہے تھے جو اُس وقت کے تمدن کا لازمی نتیجہ تھے.علاوہ ازیں ایرانیوں اور مسیحیوں سے جنگوں کی وجہ سے اکثر صحابہ اوران کے شاگردوں کی تمام طاقتیں دشمن کے حملوں کے رڈ کرنے میں صرف ہورہی تھیں.پس ایک طرف توجہ کا بیرونی دشمنوں کی طرف مشغول ہونا دوسری طرف اکثر نومسلموں کا عربی سے ناواقف ہونا یا عجمی خیالات سے متاثر ہونا دو عظیم الشان سبب تھے اس امر کے کہ اُس وقت کے اکثر نو مسلم دین سے کما حقہ واقف نہ ہو سکے.حضرت عمر کے وقت میں چونکہ جنگوں کا سلسلہ بہت بڑے پیمانے پر جاری تھا اور ہر وقت دشمن کا خطرہ لگا رہتا تھا لوگوں کو دوسری باتوں کے سوچنے کا موقع ہی نہ ملتا تھا.اور پھر دشمن کے بالمقابل پڑے ہوئے ہونے کا باعث طبعاً مذہبی جوش بار بار رونما ہوتا تھا جو مذہبی تعلیم کی کمزوری پر پردہ ڈالے رکھتا تھا.حضرت عثمان کے ابتدائی عہد میں بھی یہی حال رہا.کچھ جنگیں بھی ہوتی رہیں

Page 273

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۵ جلد اول اور کچھ پچھلا اثر لوگوں کے دلوں میں باقی رہا.جب کسی قدرامن ہوا اور پچھلے جوش کا اثر بھی کم ہوا تب اس مذہبی کمزوری نے اپنا رنگ دکھایا اور دشمنانِ اسلام نے بھی اس موقع کو غنیمت سمجھا اور شرارت پر آمادہ ہو گئے.غرض یہ فتنہ حضرت عثمان کے کسی عمل کا نتیجہ نہ تھا بلکہ یہ حالات کسی خلیفہ کے وقت میں بھی پیدا ہو جاتے فتنہ نمودار ہو جاتا اور حضرت عثمان کا صرف اِس قد رقصور ہے کہ وہ ایسے زمانہ میں مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے جب ان فسادات کے پیدا کرنے میں ان کا اس سے زیادہ دخل نہ تھا جتنا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کا.اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ فسادان دونوں بزرگوں کی کسی کمزوری کا نتیجہ تھا.میں حیران ہوں کہ کس طرح بعض لوگ ان فسادات کو حضرت عثمان کی کسی کمزوری کا نتیجہ قرار دیتے ہیں حالانکہ حضرت عمرؓ جن کو حضرت عثمان کی خلافت کا خیال بھی نہیں ہوسکتا تھا انہوں نے اپنے زمانہ خلافت میں اس فساد کے بیج کو معلوم کر لیا تھا اور قریش کو اس سے بڑے زور دار الفاظ میں متنبہ کیا تھا.چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ صحابہ کبار کو باہر نہیں جانے دیا کرتے تھے اور جب کوئی آپ سے اجازت لیتا تو آپ فرماتے کہ کیا رسول کریم ﷺ کے ساتھ مل کر جو آپ لوگوں نے جہاد کیا ہے وہ کافی نہیں ہے.آخر ایک دفعہ صحابہؓ نے شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اسلام کو اس طرح چرایا ہے جس طرح اونٹ پر ایا جاتا ہے پہلے اونٹ پیدا ہوتا ہے پھر بٹھا بنتا ہے.پھر دو دانت کا ہوتا ہے.پھر چار دانت کا ہوتا ہے.پھر چھ دانت کا ہوتا ہے.پھر اس کی کچلیاں نکل آتی ہیں.اب بتاؤ کہ جس کی کچلیاں نکل آویں اس کے لئے سوائے ضعف کے اور کس امر کا انتظار کیا جا سکتا ہے.سنو ! اسلام اب اپنے کمال کی حد کو پہنچ گیا ہے.قریش چاہتے ہیں کہ سب مال یہی لے جاویں اور دوسرے لوگ اس سے آپ کی دو غرضیں تھیں.ایک تو یہ کہ مدینہ میں معلمین کی ایک جماعت موجود رہتی تھی اور دوسرے آپ کا خیال تھا کہ صحابہ کو چونکہ ان کے سابق بالا یمان ہونے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی خدمات کی وجہ سے بیت المال سے خاص حصے ملتے ہیں اگر یہ لوگ جنگوں میں شامل ہوئے صلى الله تو ان کو اور حصے ملیں گے اور دوسرے لوگوں کو نا گوار ہوگا کہ سب مال انہی کو مل جاتا ہے.

Page 274

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۶ جلد اول محروم رہ جاویں.سنو! جب تک عمر بن خطاب زندہ ہے وہ قریش کا گلا پکڑے رکھے گا تا کہ وہ فتنہ کی آگ میں نہ گر جاویں.حضرت عمرؓ کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ہ اپنے زمانہ میں ہی لوگوں میں صحابہؓ کے خلاف یہ خیالات موجزن دیکھتے تھے کہ ان کو حصہ زیادہ ملتا ہے اس لئے وہ سوائے چند ایسے صحابہ کے جن کے بغیر لشکروں کا کام نہیں چل سکتا تھا باقی صحابہ کو جہاد کیلئے نکلنے ہی نہیں دیتے تھے تا کہ دوہرے حصے ملنے سے لوگوں کو ابتلاء نہ آوے اور وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ اسلام ترقی کے اعلیٰ نقطہ پر پہنچ گیا ہے اور اب اسکے بعد زوال کا ہی خطرہ ہوسکتا ہے نہ ترقی کی امید.اس قدر بیان کر چکنے کے بعد اب میں واقعات کا وہ سلسلہ بیان کرتا ہوں جس سے حضرت عثمان کے وقت میں جو کچھ اختلافات ہوئے ان کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے.میں نے بیان کیا تھا کہ حضرت عثمان کی شروع خلافت میں چھ سال تک ہمیں کوئی فساد نظر نہیں آتا بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ عام طور پر آپ سے خوش تھے بلکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عرصہ میں وہ حضرت عمر سے بھی زیادہ لوگوں کو محبوب تھے.صرف محبوب ہی نہ تھے بلکہ لوگوں کے دلوں میں آپ کا رعب بھی تھا.جیسا کہ اُس وقت کا شاعر اس امر کی شعروں میں شہادت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اے فاستقو ! عثمان کی حکومت میں لوگوں کا مال ٹوٹ کر نہ کھاؤ کیونکہ ابن عفان وہ ہے جس کا تجربہ تم لوگ کر چکے ہو.وہ لٹیروں کو قرآن کے احکام کے ماتحت قتل کرتا ہے اور ہمیشہ سے اس قرآن کریم کے احکام کی حفاظت کرنے والا اور لوگوں کے اعضاء وجوارح پر اس کے احکام جاری کرنے والا ہے.لیکن چھ سال کے بعد ساتویں سال ہمیں ایک تحریک نظر آتی ہے اور وہ تحریک حضرت عثمان کے خلاف نہیں بلکہ یعنی بحیثیت سابق ہونے کے بھی حصہ لیں اور اب بھی جہاد کر کے حصہ لیں تو دوسرے لوگ محروم رہ.جائیں گے.** لَا تَأْكُلُوا اَبَدًا جِيرَانَكُمْ سَرَفَاً اَهْلُ الدَّعَارَةِ فِي مُلْكِ ابْن عَفَّانَ إِنَّ ابْنَ عَفَّانَ الَّذِي جَرَّبْتُمْ فَطِمُ النُّصُوصِ بِحُكُم الْفُرْقَانِ مَازَالَ يَعْمَلُ بِالْكِتَبِ مُهَيْمِناً فِي كُلّ عُنُقِ مِنْهُمْ وَبَنَانِ

Page 275

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۷ جلد اول یا تو صحابہ کے خلاف ہے یا بعض گورنروں کے خلاف.چنانچہ طبری بیان کرتا ہے کہ لوگوں کے حقوق کا حضرت عثمان پورا خیال رکھتے تھے مگر وہ لوگ جن کو اسلام میں سبقت اور قدامت حاصل نہ تھی وہ سابقین اور قدیم مسلمانوں کے برابر نہ تو مجالس میں عزت پاتے اور نہ حکومت میں اُن کو اُن کے برابر حصہ ملتا اور نہ مال میں ان کے برابر ان کا حق ہوتا تھا.اس کچھ مدت کے بعد بعض لوگ اس تفضیل پر گرفت کرنے لگے اور اسے ظلم قرار دینے لگے.مگر یہ لوگ عامتہ المسلمین سے ڈرتے بھی تھے اور اس خوف سے کہ لوگ ان کی مخالفت کریں گے اپنے خیالات کو ظاہر نہ کرتے تھے.بلکہ انہوں نے یہ طریق اختیار کیا ہوا تھا کہ خفیہ خفیہ صحابہ کے خلاف لوگوں میں جوش پھیلاتے تھے اور جب کوئی نا واقف مسلمان یا کوئی بدوی غلام آزاد شده مل جاتا تو اس کے سامنے اپنی شکایات کا دفتر کھول بیٹھتے تھے اور اپنی نا واقفیت کی وجہ سے یا خود اپنے لئے حصولِ جاہ کی غرض سے کچھ لوگ ان کے ساتھ مل جاتے.ہوتے ہوتے یہ گروہ تعداد میں زیادہ ہونے لگا اور اس کی ایک بڑی تعداد ہو گئی.جب کوئی فتنہ پیدا ہونا ہوتا ہے تو اس کے اسباب بھی غیر معمولی طور پر جمع ہونے لگتے ہیں.اِدھر تو بعض حاسد طبائع میں صحابہ کے خلاف جوش پیدا ہونا شروع ہوا اُدھر وہ اسلامی جوش جو ابتداء ہر ایک مذہب تبدیل کرنے والے کے دل میں ہوتا ہے ان نومسلموں کے دلوں سے کم ہونے لگا جن کو نہ رسول کریم علیہ کی صحبت ملی تھی اور نہ آپ کے صحبت یافتہ لوگوں کے پاس زیادہ بیٹھنے کا موقع ملا تھا بلکہ اسلام کے قبول کرتے ہی انہوں نے خیال کر لیا تھا کہ وہ سب کچھ سیکھ گئے ہیں.جوشِ اسلام کے کم ہوتے ہی وہ تصرف جو ان کے دلوں پر اسلام کو تھا کم ہو گیا اور وہ پھر اُن معاصی میں خوشی محسوس کرنے لگے جس میں وہ اسلام لانے سے پہلے مبتلاء تھے.ان کے جرائم پر ان کو سزا ملی تو بجائے اصلاح کے سزا دینے والوں کی تخریب کرنے کے درپے ہوئے اور آخر اتحاد اسلامی میں ایک بہت بڑا رخنہ پیدا کرنے کا موجب ثابت ہوئے.ان لوگوں کا مرکز تو کوفہ میں تھا مگر سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے که خود مدینه منورہ میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بعض لوگ اسلام سے ایسے ہی نا واقف تھے جیسے کہ آجکل بعض نہایت تاریک گوشوں میں رہنے والے

Page 276

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۸ جلد اول جاہل لوگ.حمران ابن ابان ایک شخص تھا جس نے ایک عورت سے اس کی عدت کے دوران میں ہی نکاح کرلیا.جب حضرت عثمان کو اس کا علم ہوا تو آپ اس پر ناراض ہوئے اور اس عورت کو اس سے جُدا کر دیا اور اس کے علاوہ اس کو مدینہ سے جلا وطن کر کے بصرہ بھیج دیا.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح بعض لوگ صرف اسلام کو قبول کر کے اپنے آپ کو عالم اسلام خیال کرنے لگے تھے اور زیادہ تحقیق کی ضرورت نہ سمجھتے تھے.یا یہ کہ مختلف اباحتی خیالات کے ماتحت شریعت پر عمل کرنا ایک فعلِ عبث خیال کرتے تھے.یہ ایک منفرد واقعہ ہے اور غالبا اس شخص کے سوا مد ینہ میں جو مرکز اسلام تھا کوئی ایسا ناواقف آدمی نہ تھا.مگر دوسرے شہروں میں بعض لوگ معاصی میں ترقی کر رہے تھے.چنانچہ کوفہ کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں نو جوانوں کی ایک جماعت ڈاکہ زنی کے لئے بن گئی تھی.لکھا ہے کہ ان لوگوں نے ایک دفعہ علی بن حیسمان الخزاعی نامی ایک شخص کے گھر پر ڈا کہ مارنے کی تجویز کی اور رات کے وقت اُس کے گھر میں نقب لگائی.اُس کو علم ہو گیا اور وہ تلوار لے کر نکل پڑا.مگر جب بہت سی جماعت دیکھی تو اس نے شور مچایا.اس پر ان لوگوں نے اس کو کہا کہ چُپ کر ہم ایک ضرب مارکر تیرا سارا ڈر نکال دیں گے اور اس کو قتل کر دیا.اتنے میں ہمسائے ہوشیار ہو گئے اور اردگرد جمع ہو گئے اور اُن ڈاکوؤں کو پکڑ لیا.حضرت ابو شریح نے جو صحابی تھے اور اس شخص کے ہمسایہ تھے اور انہوں نے سب حال اپنی دیوار پر سے دیکھا تھا انہوں نے شہادت دی کہ واقعہ میں انہی لوگوں نے علی کو قتل کیا ہے اور اسی طرح ان کے بیٹے نے شہادت دی اور معاملہ حضرت عثمان کی طرف لکھ کر بھیج دیا.انہوں نے ان سب کو قتل کرنے کا فتویٰ دیا اور ولید بن عتبہ نے جو اُن دنوں حضرت عثمان کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے ان سب ڈاکوؤں کو درواز ہ شہر کے باہر میدان میں قتل کروا دیا.بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ معلوم ہوتا ہے لیکن اُس زمانے کے حالات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معمولی واقعہ نہ تھا.اسلام کی ترقی کے ساتھ ساتھ جرائم کا سلسلہ بالکل مٹ گیا تھا اور لوگ ایسے امن میں تھے کہ کھلے دروازوں سوتے ہوئے بھی خوف نہ کھاتے تھے.حتی کہ -

Page 277

خلافة على منهاج النبوة ۲۵۹ جلد اول رض حضرت عمر نے عمال کی ڈیوڑھیاں بنانے سے بھی منع کر دیا تھا.گو اس سے حضرت عمرہ کی غرض تو یہ تھی کہ لوگ آسانی سے اپنی شکایات گورنروں کے پاس پہنچا سکیں.لیکن یہ حکم اُس وقت تک ہی دیا جا سکتا تھا جب تک امن انتہا تک نہ پہنچا ہوا ہوتا.پھر اس واقعہ میں خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس ڈا کہ میں بعض ذی مقدرت اور صاحب ثروت لوگوں کی اولا د بھی شامل تھی جو اپنے اپنے حلقے میں بارسوخ تھے.پس یہ واردات معمولی واردات نہ تھی بلکہ کسی عظیم الشان انقلاب کی طرف اشارہ کرتی تھی جو اس کے سوا کیا ہوسکتا تھا کہ دین اسلام سے ناواقف لوگوں کے دلوں پر جو تصرف اسلام تھا اب اس کی گرفت کم ہو رہی تھی.اور اب وہ پھراپنی عادات کی طرف لوٹ رہے تھے اور غریب ہی نہیں بلکہ امراء بھی اپنی پرانی عظمت کو قتل و غارت سے واپس لینے پر آمادہ ہو رہے تھے.حضرت ابو شریح صحابی نے اس امر کو خوب سمجھا اور اُسی وقت اپنی سب جائداد و غیرہ بیچ کر اپنے اہل وعیال سمیت مدینہ کو واپس تشریف لے گئے اور کوفہ کی رہائش ترک کر دی.ان کا اس واقعہ پر کوفہ کو ترک کر دینا اس امر کی کافی شہادت ہے کہ یہ منفر د مثال آئندہ کے خطرناک واقعات کی طرف اشارہ تھی.اُنہی دنوں ایک اور فتنہ نے سر نکالنا شروع کیا.عبد اللہ بن سبا ایک یہودی تھا جو اپنی ماں کی وجہ سے ابن السوداء کہلاتا تھا.یمن کا رہنے والا اور نہایت بد باطن انسان تھا.اسلام کی بڑھتی ہوئی ترقی کو دیکھ کر اس غرض سے مسلمان ہوا کہ کسی طرح مسلمانوں میں فتنہ ڈلوائے.میرے نز دیک اُس زمانہ کے فتنے اسی مُفسد انسان کے ارد گرد گھومتے ہیں اور یہ ان کی روح رواں ہے.شرارت کی طرف مائل ہو جانا اس کی جبلت میں داخل معلوم ہوتا ہے.خفیہ منصوبہ کرنا اس کی عادت تھی اور اپنے مطلب کے آدمیوں کو تاڑ لینے میں اس کو خاص مہارت تھی.ہر شخص سے اس کے مذاق کے مطابق بات کرتا تھا اور نیکی کے پردے میں بدی کی تحریک کرتا تھا اور اسی وجہ سے اچھے اچھے سنجیدہ آدمی اس کے دھو کے میں آجاتے تھے.حضرت عثمان کی خلافت کے پہلے نصف میں مسلمان ہوا اور تمام بلا دا سلامیہ کا دورہ اس غرض سے کیا کہ ہر ایک جگہ کے حالات سے خود واقفیت پیدا کرے.مدینہ منورہ میں تو اس کی دال نہ گل سکتی تھی مکہ مکرمہ اُس وقت سیاسیات

Page 278

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۰ جلد اول سے بالکل علیحدہ تھا.سیاسی مرکز اس وقت دار الخلافہ کے سوا بصرہ ، کوفہ، دمشق اور فسطاط تھے.پہلے ان مقامات کا اس نے دورہ کیا اور یہ رویہ اختیار کیا کہ ایسے لوگوں کی تلاش کر کے جو سزا یافتہ تھے اور اس وجہ سے حکومت سے ناخوش تھے اُن سے ملتا اور اُنہی کے ہاں ٹھہرتا.چنانچہ سب سے پہلے بصرہ گیا اور حکیم بن جبلہ ایک نظر بند ڈاکو کے پاس ٹھہرا اور اپنے ہم مذاق لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا اور ان کی ایک مجلس بنائی.چونکہ کام کی ابتدا تھی اور یہ آدمی ہوشیار تھا صاف صاف بات نہ کرتا بلکہ اشارہ کنایہ سے اُن کو فتنہ کی طرف بلا تا تھا اور جیسا کہ اس نے ہمیشہ اپنا وطیرہ رکھا ہے وعظ و پند کا سلسلہ بھی ساتھ جاری رکھتا تھا جس سے ان لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت پیدا ہو گئی اور وہ اس کی باتیں قبول کرنے لگے.عبد اللہ بن عامر کو جو بصرہ کے والی تھے جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے اس کا حال پوچھا اور اس کے آنے کی وجہ دریافت کی.اس نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں اہلِ کتاب میں سے ایک شخص ہوں جسے اسلام کا اُنس ہو گیا ہے اور آپ کی حفاظت میں رہنا چاہتا ہوں.عبد اللہ بن عامر کو چونکہ اصل حالات پر آگاہی حاصل ہو چکی تھی اُنہوں نے اس کے عذر کو قبول نہ کیا اور کہا کہ مجھے تمہارے متعلق جو حالات معلوم ہیں وہ ان کے خلاف ہیں اس لئے تم میرے علاقہ سے نکل جاؤ.وہ بصرہ سے نکل کر کوفہ کی طرف چلا گیا مگر فساد بغاوت اور اسلام سے بیگانگی کا بیج ڈال گیا جو بعد میں بڑھ کر ایک بہت بڑا درخت ہو گیا.میرے نزدیک یہ سب سے پہلی سیاسی غلطی ہوئی ہے اگر والی بصرہ بجائے اس کو جلا وطن کرنے کے قید کر دیتا اور اس پر الزام قائم کرتا تو شاید یہ فتنہ و ہیں دبا رہتا.ابن سوداء تو اپنے گھر سے نکلا ہی اِس ارادے سے تھا کہ تمام عالم اسلام میں پھر کر فتنہ فساد کی آگ بھڑکائے.اس کا بصرہ سے نکلنا تو اس کے مدعا کے عین مطابق تھا.کوفہ میں پہنچ کر اس شخص نے پھر وہی بصرہ والی کارروائی شروع کی اور بالآخر وہاں سے بھی نکالا گیا لیکن یہاں بھی اپنی شرارت کا بیج بوتا گیا جو بعد میں بہت بڑا درخت بن گیا اور اس دفعہ اس کے نکالنے پر اُس پہلی سیاسی غلطی کا ارتکاب کیا گیا.کوفہ سے نکل کر یہ شخص شام کو گیا مگر وہاں اس کو اپنے قدم جمانے کا کوئی موقع نہ ملا.حضرت معاویہؓ نے وہاں اس عمدگی سے حکومت کا کام چلایا ہوا تھا کہ نہ تو اسے

Page 279

خلافة على منهاج النبوة جلد اوّل ایسے لوگ ملے جن میں یہ ٹھہر سکے اور نہ ایسے لوگ میسر آئے جن کو اپنا قائم مقام بنایا جاوے پس شام سے اس کو با حسرت و یاس آگے سفر کرنا پڑا اور اس نے مصر کا رُخ کیا مگر شام چھوڑنے سے پہلے اس نے ایک اور فتنہ کھڑا کر دیا.عليم الله ابوذر غفاری رسول کریم ﷺ کے ابتدائی صحابہ میں سے ایک نہایت نیک اور متقی صحابی تھے.جب سے ایمان لائے رسول کریم ﷺ کی محبت میں آگے ہی قدم بڑھاتے گئے اور ایک لمبا عرصہ صحبت میں رہے.جیسا کہ ہر ایک شخص کا مذاق جُدا گا نہ ہوتا ہے رسول کریم کی ان نصائح کو سن کر کہ دنیا سے مومن کو علیحدہ رہنا چاہئے یہ اپنے مذاق کے مطابق مال جمع کرنے کو ناجائز سمجھتے تھے اور دولت سے نفرت کرتے تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی سمجھاتے تھے کہ مال نہیں جمع کرنا چاہئے.جو کچھ کسی کے پاس ہوا سے غرباء میں بانٹ دینا چاہئے مگر یہ عادت ان کی ہمیشہ سے تھی اور حضرت ابوبکر کے زمانے سے بھی جب کہ مسلمانوں میں دولت آئی وہ ایسا ہی کرتے تھے.ابن سوداء جب شام سے گزر رہا تھا اس نے ان کی طبیعت میں دولت کے خلاف خاص جوش دیکھ کر یہ معلوم کر کے کہ یہ چاہتے ہیں کہ غرباء وامراء اپنے مال تقسیم کر دیں شام میں سے گزرتے ہوئے جہاں کہ اُس وقت حضرت ابوذر مقیم تھے ان سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ دیکھئے کیا غضب ہو رہا ہے معاویہ بیت المال کے اموال کو اللہ کا مال کہتا تھا حالانکہ بیت المال کے اموال کی کیا شرط ہے ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی ہے.پھر وہ خاص طور پر اس مال کو مال اللہ کیوں کہتا ہے صرف اس لئے کہ مسلمانوں کا حق جو اس مال میں ہے اس کو ضائع کر دے اور ان کا نام بیچ میں سے اُڑا کر آپ وہ مال کھا جاوے.حضرت ابوذر تو آگے ہی اس تلقین میں لگے رہتے تھے کہ امراء کو چاہئے کہ سب مال غرباء میں تقسیم کر دیں کیونکہ مومن کے لئے آرام کی جگہ اگلا جہان ہی ہے اور اس شخص کی شرارت اور نیت سے آپ کو بالکل واقفیت نہ تھی پس آپ اس کے دھو کے میں آگئے اور خیال کیا کہ واقعہ میں بیت المال کے اموال کو مال اللہ کہنا درست نہیں اس میں اموال کے غصب ہو جانے کا خطرہ ہے.ابن سوداء نے اس طرح حضرت معاویہؓ سے اس امر کا بدلہ لیا کہ کیوں انہوں نے اس کے ٹکنے کے لئے شام میں کوئی ٹھکانا نہیں بننے دیا.

Page 280

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۲ جلد اول حضرت ابوذر معاویہ کے پاس پہنچے اور اُن کو سمجھایا کہ آپ مسلمانوں کے مال کو مال اللہ کہتے ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ اے ابوذر! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے کیا ہم سب اللہ کے بندے نہیں؟ یہ مال اللہ کا مال نہیں ؟ اور سب مخلوق اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں ؟ اور حکم خدا کے ہاتھ میں نہیں ؟ یعنی جب کہ بندے بھی خدا کے ہیں اور حکم بھی اسی کا جاری ہے تو پھر ان اموال کو اموال اللہ کہنے سے لوگوں کے حق کیونکر ضائع ہو جائیں گے.جو خدا تعالیٰ نے حقوق مقرر کئے ہیں وہ اس کے فرمان کے مطابق اس کی مخلوق کو ملیں گے یہ جواب ایسا لطیف تھا کہ حضرت ابو ذر اس کا جواب تو بالکل نہ دے سکے مگر چونکہ اس معاملہ میں ان کو خاص جوش تھا اور ابن سوداء ایک شک آپ کے دل میں ڈال گیا تھا اس لئے آپ نے احتیاطاً حضرت معاویہؓ کو یہی مشورہ دیا کہ آپ اس لفظ کو ترک کردیں.انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ تو ہر گز نہیں کہنے کا کہ یہ اموال اللہ نہیں ہاں آئندہ اس کو اموال المسلمین کہا کروں گا.ابن سوداء نے جب یہ حربہ کسی قدر کارگر دیکھا تو اور صحابہ کے پاس پہنچا اور ان کو اُکسانا چاہا مگر وہ حضرت ابوذر کی طرح گوشہ گزیں نہ تھے اس شخص کی شرارتوں سے واقف تھے.ابو دردار نے اس کی بات سنتے ہی کہا تو کون ہے جو ایسی فتنہ انگیز بات کہتا ہے.خدا کی قسم ! تُو یہودی ہے.ان سے مایوس ہو کر وہ انصار کے سردار رسول کریم علیہ کے خاص مقرب عبادہ بن صامت کے پاس پہنچا اور ان سے کچھ فتنہ انگیز باتیں کہیں.انہوں نے اس کو پکڑ لیا تو اور حضرت معاویہ کے پاس لے گئے اور کہا کہ یہ شخص ہے جس نے ابوذرغفاری کو آپ کے پاس بھیجا تھا.شام میں اپنا کام نہ بنتا دیکھ کر ابن سودا ء تو مصر کی طرف چلا گیا اور ادھا حضرت ابوذر کے دل میں اس کی باتوں سے ایک نیا جوش پیدا ہو گیا اور آپ نے آگے سے بھی زیادہ زور کے ساتھ مسلمانوں کو نصیحت کر دی کہ سب اپنے اپنے اموال لوگوں میں تقسیم کر دیں.حضرت ابوذر کا یہ کہنا درست نہ تھا کہ کسی کو مال جمع نہ کرنا چاہئے.کیونکہ صحابہ مال جمع نہیں کیا کرتے تھے بلکہ ہمیشہ اپنے اموال خدا کی راہ میں تقسیم کرتے تھے.ہاں بے شک مالدار تھے اور اس کو مال جمع کرنا نہیں کہتے.مال جمع کرنا اس کا نام ہے کہ اس مال سے غرباء کی پرورش نہ کرے اور صدقہ و خیرات نہ کرے.خود رسول کریم ع کے وقت میں بھی صلى الله صلى الله

Page 281

جلد اول خلافة على منهاج النبوة ۲۶۳ آپ کے صحابہ میں سے بعض مالدار تھے.اگر مالدار نہ ہوتے تو غزوہ تبوک کے وقت دس ہزار سپاہیوں کا سامانِ سفر حضرت عثمان کس طرح ادا کرتے.مگر رسول کریم ان لوگوں کو کچھ نہ کہتے تھے.بلکہ ان میں سے بعض آدمی آپ کے مقرب بھی تھے.غرض مالدار ہونا کوئی جرم نہ تھا بلکہ قرآن کی پیشگوئیوں کے عین مطابق تھا اور حضرت ابوذر کو اس مسئلہ میں غلطی لگی ہوئی تھی.مگر جو کچھ بھی تھا حضرت ابو ذرا اپنے خیال پر پختہ تھے مگر ساتھ ہی یہ بات بھی تھی کہ وہ اپنے خیال کے مطابق نصیحت تو کر دیتے مگر قانون کو کبھی اپنے ہاتھ میں نہ لیتے اور آنحضرت ﷺ کے احکام آپ کے زیر نظر رہتے.لیکن جن لوگوں میں بیٹھ کر وہ یہ باتیں کرتے تھے وہ ان کے تقویٰ اور طہارت سے نا آشنا تھے اور ان کی باتوں کا اور مطلب سمجھتے تھے.چنانچہ ان باتوں کا آخر یہ نتیجہ نکلا کہ بعض غرباء نے امراء پر دست تعدی دراز کرنا شروع کیا اور ان سے جبراً اپنے حقوق وصول کرنے چاہے.انہوں نے حضرت معاویہؓ سے شکایت کی جنہوں نے آگے حضرت عثمان کے پاس معاملہ پیش کیا.آپ نے حکم بھیجا کہ ابوذر کو اکرام و احترام کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ کر دیا جاوے.اس حکم کے ماتحت حضرت ابوذر مدینہ تشریف لائے.حضرت عثمان نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا سبب ہے کہ اہلِ شام آپ کے خلاف شکایت کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میرا اُن سے یہ اختلاف ہے کہ ایک تو مال اللہ نہ کہا جائے دوسرے یہ کہ امراء مال نہ جمع کریں.حضرت عثمان نے فرمایا کہ ابوذر! جو ذمہ داری خدا تعالیٰ نے مجھ پر ڈالی ہے اس کا ادا کرنا میرا ہی کام ہے اور یہ میرا فرض ہے کہ جو حقوق رعیت پر ہیں اُن سے وصول کروں اور یہ کہ ان کو خدمت دین اور میانہ روی کی تعلیم دوں مگر یہ میرا کام نہیں کہ ان کو ترک دنیا پر مجبور کروں.حضرت ابوذر نے عرض کیا کہ پھر آپ مجھے ، اجازت دیں کہ میں کہیں چلا جاؤں کیونکہ مدینہ اب میرے مناسب حال نہیں.حضرت عثمان نے کہا کہ کیا آپ اس گھر کو چھوڑ کر اس گھر سے بدتر گھر کو اختیار کر لیں گے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب مدینہ کی آبادی سلع تک پھیل جاوے تو تم مدینہ میں نہ رہنا.حضرت عثمانؓ نے اس پر فرمایا کہ آپ رسول خدا کا حکم بجالا ویں اور کچھ اونٹ اور دو غلام دے کر مدینہ سے رُخصت کیا اور تاکید کی کہ صل اللهم

Page 282

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۴ جلد اول مدینہ سے گلتی طور پر قطع تعلق نہ کریں بلکہ وہاں آتے جاتے رہیں جس ہدایت پر ابو ذرہ ہمیشہ عمل کرتے رہے.۱۵ یہ چوتھا فتنہ تھا جو پیدا ہوا اور گو اس میں حضرت ابوذر کو ہتھیار بنایا گیا تھا مگر در حقیقت نہ حضرت ابوذر کے خیالات وہ تھے جو مفسدوں نے اختیار کیے اور نہ ان کو ان لوگوں کی شرارتوں کا علم تھا.حضرت ابوذر تو با وجود اختلاف کے کبھی قانون کو ہاتھ میں لینے پر آمادہ نہ ہوئے اور حکومت کی اطاعت اس طور پر کرتے رہے کہ باوجود اس کے کہ ان کے خاص حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو فتنہ اور تکلیف سے بچانے کے لئے رسول کریم صلى الله نے ان کو ایک خاص وقت پر مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا تھا انہوں نے بغیر حضرت عثمان کی اجازت کے اس حکم پر عمل کرنا مناسب نہیں سمجھا اور پھر جب وہ مدینہ سے نکل کر ربذہ میں جا کر مقیم ہوئے اور وہاں کے محصل نے ان کو نماز کا امام بننے کے لئے کہا تو انہوں نے اس سے اس بناء پر انکار کیا کہ تم یہاں کے حاکم ہو اس لئے تم ہی کو امام بننا سزاوار ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اطاعت حکام سے اُن کو کوئی انحراف نہ تھا اور نہ انار کی کو وہ جائز سمجھتے تھے.حضرت ابو ذر کی سادگی کا اس امر سے خوب پتہ چلتا ہے کہ جب ابن السوداء کے دھوکا دینے سے وہ معاویہ سے جھگڑتے تھے کہ بیت المال کے اموال کو مال اللہ نہیں کہنا چاہئے اور حضرت عثمان کے پاس بھی شکایت لائے تھے وہ اپنی بول چال میں اس لفظ کو برابر استعمال کرتے تھے چنانچہ اس فساد کے بعد جب کہ وہ ربذہ میں تھے ایک دفعہ ایک قافلہ وہاں اُترا.اس قافلہ کے لوگوں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کے ساتھیوں کو ہم نے دیکھا ہے وہ بڑے بڑے مالدار ہیں مگر آپ اس غربت کی حالت میں ہیں.انہوں نے ان کو یہ جواب دیا کہ إِنَّهُمْ لَيْسَ لَهُمْ فِى مَالِ اللهِ حَقٌّ إِلَّا وَلِى مِثْلُهُ لا یعنی ان کا مال اللہ (یعنی بیت المال کے اموال ) میں کوئی ایسا حق نہیں جو مجھے حاصل نہ ہو.اسی طرح انہوں نے وہاں کے حبشی حاکم کو بھی رَقِيقٌ مِّن مَّال اللہ کا ( مال اللہ کا غلام ) کے نام سے یاد کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی یہ لفظ استعمال کرتے تھے اور باوجود اس لفظ کی مخالفت کر نے کے بے تحاشا اس لفظ کا آپ کی زبان پر جاری ہو جانا اس امر کی شہادت ہے کہ یہ صحابہ کا ایک عام محاورہ تھا مگر ابن سوداء کے دھوکا دینے سے آپ کے ذہن سے بہ

Page 283

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۵ جلد اول بات نکل گئی.یہ فتنہ جسے بولشوزم کا فتنہ کہنا چاہیے حضرت معاویہ کی حسن تدبیر سے شام میں تو چمکنے نہ پایا مگر مختلف صورتوں میں یہ خیال اور جگہوں پر اشاعت پا کر ابن سوداء کے کام میں محمد ہو گیا.ابن سوداء شام سے نکل کر مصر پہنچا اور یہی مقام تھا جسے اس نے اپنے کام کا مرکز بنانے کے لئے چنا تھا.کیونکہ یہ مقام دارالخلافہ سے بہت دُور تھا اور دوسرے اس جگہ صحابہ کی آمد و رفت اس کثرت سے نہ تھی جتنی کہ دوسرے مقامات پر.جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ دین سے نسبتا کم تعلق رکھتے تھے اور فتنہ میں حصہ لینے کیلئے زیادہ تیار تھے چنانچہ ابن سوداء کا ایک نائب جو کوفہ کا باشندہ تھا اور جس کا ذکر آگے آوے گا ان واقعات کے تھوڑے ہی عرصہ بعد جلا وطن کیا گیا تو حضرت معاویہ کے اس سوال پر کہ نئی پارٹی کے مختلف ممالک کے ممبروں کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا کہ انہوں نے مجھ سے خط و کتابت کی ہے اور میں نے ان کو سمجھایا ہے اور انہوں نے مجھے نہیں سمجھایا.مدینہ کے لوگ تو سب سے زیادہ فساد کے شائق ہیں اور سب سے کم اس کی قابلیت رکھتے ہیں اور کوفہ کے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں لیکن بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب سے خوف نہیں کھاتے اور بصرہ کے لوگ اکٹھے حملہ کرتے ہیں مگر پراگندہ ہو کر بھاگتے ہیں.ہاں مصر کے لوگ ہیں جو شرارت کے اہل سب سے زیادہ ہیں مگر ان میں یہ نقص ہے کہ پیچھے نادم بھی جلدی ہو جاتے ہیں.اس کے بعد شام کا حال اُس نے بیان کیا کہ وہ اپنے سرداروں کے سب سے زیادہ مطیع ہیں اور اپنے گمراہ کرنے والوں کے سب سے زیادہ نا فرمان ہیں.یہ رائے ابن الکواء کی ہے جو ابن سوداء کی پارٹی کے رکنوں میں سے تھا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر ہی سب سے عمدہ مقام تھا جہاں ابن سوداء ڈیرہ لگا سکتا تھا.اور اس کی شرارت کی باریک بین نظر نے اس امر کو معلوم کر کے اس مقام کو اپنے قیام کے لئے چنا اور اسے فساد کا مرکز بنا دیا اور بہت جلد ایک جماعت اس کے اردگرد جمع ہو گئی.اب سب پہلا د میں شرارت کے مرکز قائم ہو گئے اور ابن سوداء نے ان تمام لوگوں کو جو سزا یافتہ تھے یا ان کے رشتہ دار تھے یا اور کسی سبب سے اپنی حالت پر قانع نہ تھے نہایت جیسا کہ آگے ثابت کیا جاوے گا یہ اس کا جھوٹ تھا کہ مدینہ کے لوگ اس فتنہ سے محفوظ تھے.بوقت نظر ثانی.

Page 284

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۶ جلد اول ہوشیاری اور دانائی سے اپنا ہاتھ ملانا شروع کیا اور ہر ایک کے مذاق کے مطابق اپنی غرض کو بیان کرتا تا کہ اُس کی ہمدردی حاصل ہو جاوے.مدینہ شرارت سے محفوظ تھا اور شام بالکل پاک تھا.تین مرکز تھے جہاں اس فتنہ کا مواد تیار ہورہا تھا بصرہ ، کوفہ اور مصر.مصر مرکز تھا مگر اس زمانہ کے تجربہ کار اور فلسفی دماغ انارکسٹوں کی طرح ابن سوداء نے اپنے آپ کو خَلْفَ الاستار رکھا ہوا تھا.سب کام کی روح وہی تھا مگر آگے دوسرے لوگوں کو کیا ہوا تھا.بوجہ قریب ہونے کے اور بوجہ سیاسی فوقیت کے جو اُس وقت بصرہ اور کوفہ کو حاصل تھی یہ دونوں شہر ان تغیرات میں زیادہ حصہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں.لیکن ذرا بار یک نگاہ سے دیکھا جاوے تو تاریخ کے صفحات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان تمام کا رروائیوں کی باگ مصر میں بیٹھے ہوئے ابن السوداء کے ہاتھ میں تھی.میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ کوفہ میں ایک جماعت نے ایک شخص علی بن حیسمان الخزاعی کے گھر پر ڈاکہ مار کر اُس کو قتل کر دیا تھا اور قاتلوں کو دروازہ شہر پر قتل کر دیا گیا تھا.ان نوجوانوں کے باپوں کو اس کا بہت صدمہ تھا اور وہ اس جگہ کے والی ولید بن عتبہ سے اس کا بدلہ لینا چاہتے تھے اور منتظر رہتے تھے کہ کوئی موقع ملے اور ہم انتقام لیں.یہ لوگ اس فتنہ انگیز جماعت کے ہاتھ میں ایک عمدہ ہتھیار بن گئے جن سے انہوں نے خوب کام لیا.ولید سے بدلہ لینے کے لئے انہوں نے کچھ جاسوس مقرر کیے تا کہ کوئی عیب ولید کا پکڑ کر ان کو اطلاع دیں.جاسوسوں نے کوئی کارروائی تو اپنی دکھانی ہی تھی.ایک دن آکر ان کو خبر دی کہ ولید اپنے ایک دوست ابوز بیر کیسا تھ مل کر جو عیسائی سے مسلمان ہوا تھا شراب پیتے ہیں.ان مفسدوں نے اُٹھ کر تمام شہر میں اعلان کر دیا کہ لو یہ تمہارا والی ہے.اندر اندر چھپ چھپ کر اپنے دوستوں کے ساتھ شراب پیتا ہے.عامۃ الناس کا تو جوش بے قابو ہوتا ہی ہے اِس بات کوسن کر ایک بڑی جماعت ان کے ساتھ ہو گئی اور ولید کے گھر کا سب نے جا کر محاصرہ کر لیا.دروازہ تو کوئی تھا ہی نہیں.سب بے تحا شا مسجد میں سے ہو کر اندر گھس گئے ( ان کے مکان کا دروازہ مسجد میں کھلتا تھا) اور ولید کو اُس وقت معلوم ہوا جب وہ ان کے سر پر جا کھڑے ہوئے.انہوں نے ان کو دیکھا تو گھبرا گئے اور جلدی سے کوئی چیز چار پائی کے

Page 285

خلافة على منهاج النبوة جلد اول نیچے کھسکا دی.انہوں نے خیال کیا کہ اب بھید کھل گیا ہے اور چور پکڑا گیا.جھٹ ایک شخص نے بلا بولے چالے ہاتھ اندر کیا اور وہ چیز نکال لی.دیکھا تو ایک طبق تھا اور اس کے اندر والی کوفہ کا کھانا اور انگوروں کا ایک خوشہ پڑا تھا جسے اس نے صرف اس شرم سے چھپا دیا کہ ایسے بڑے مالدار صوبہ کے گورنر کے سامنے صرف یہی کھانا رکھا گیا تھا.اس امر کو دیکھ کر لوگوں کے ہوش اُڑ گئے سب شرمندہ ہو کر اُلٹے پاؤں لوٹے اور ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ بعض شریروں کے دھوکا میں آکر انہوں نے ایسا خطرناک جرم کیا اور شریعت کے احکام کو پس پشت ڈال دیا.مگر ولید نے شرم سے اس بات کو دبا دیا اور حضرت عثمان کو اس امر کی خبر نہ کی.لیکن یہ ان کا رحم جو ایک غیر مستحق قوم کے ساتھ کیا گیا تھا آخر ان کے لئے اور ان کے بعد ان کے قائمقام کے لئے نہایت مضر ثابت ہوا.مفسدوں نے بجائے اس کے کہ اس رحم سے متاثر ہوتے اپنی ذلت کو اور بھی محسوس کیا اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے ولید کی تباہی کی تدابیر کرنی شروع کیں اور حضرت عثمان کے پاس وفد بن کر گئے کہ ولید کو موقوف کیا جائے.لیکن انہوں نے بلا کسی جرم کے والی کو موقوف کرنے سے انکار کر دیا.یہ لوگ واپس آئے تو اور دوسرے تمام ایسے لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا جو سزا یافتہ تھے اور مل کر مشورہ کیا کہ جس طرح ہو جھوٹ سچ ولید کو ذلیل کیا جاوے.ابوزینب اور ابومورع دو شخصوں نے اس بات کا ذمہ لیا کہ وہ کوئی تجویز کریں گے اور ولید کی مجلس میں جانا شروع کیا.ایک دن موقع پا کر جب کہ کوئی نہ تھا اور ولید اپنے مردانہ میں جس کو زنانہ حصہ سے صرف ایک پردہ ڈال کر جدا کیا گیا تھا سو گئے.ان دونوں نے اُن کی انگشتری آہستہ سے اُتار لی اور خود مدینہ کی طرف بھاگ نکلے کہ ہم نے ولید کو شراب میں مخمور دیکھا ہے اور اس کا ثبوت یہ انگوٹھی ہے جو ان کے ہاتھ سے حالت نشہ میں ہم نے اُتاری اور ان کو خبر نہ ہوئی.حضرت عثمان نے ان سے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں کے سامنے انہوں نے شراب پی تھی ؟ انہوں نے اس بات کے اقرار کی تو جرات نہ کی کیونکہ سامنے شراب پینے سے ثابت ہوتا کہ وہ بھی ولید کے ساتھ شریک تھے اور یہ کہا کہ نہیں ہم نے ان کو شراب کی قے کرتے ہوئے دیکھا ہے.انگوٹھی اس کا ثبوت موجود تھی اور دو گواہ حاضر تھے اور کچھ اور شریر بھی ان کی

Page 286

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۸ جلد اول شہادت کو زیادہ وقیع بنانے کیلئے ساتھ گئے تھے وہ بھی اس واقعہ کی تصدیق بالقرائن کرتے تھے.صحابہ سے مشورہ لیا گیا اور ولید کو حد شراب لگانے کا فیصلہ ہوا.کوفہ سے ان کو بلوایا گیا اور مدینہ میں شراب پینے کی سزا میں کوڑے لگوائے گئے.ولید نے گو عذر کیا اور ان کی شرارت پر حضرت عثمان کو آگاہ کیا مگر انہوں نے کہا کہ محکم شریعت گواہوں کے بیان کے مطابق سزا تو ملے گی.ہاں جھوٹی گواہی دینے والا خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا پائے گا.ولید معزول کئے گئے اور ناحق ان پر الزام لگایا گیا مگر صحابہ کے مشورہ کے ماتحت حضرت عثمان نے اُن کو حد لگائی اور چونکہ گواہ اور قرائن ان کے خلاف موجود تھے شریعت کے حکم کے ماتحت ان کو حد لگانا ضروری تھا.سعید بن العاص ان کی جگہ والی کوفہ بنا کر بھیج دیئے گئے.انہوں نے کوفہ میں جا کر وہاں کی حالت دیکھی تو حیران ہو گئے.تمام او باش اور دین سے ناواقف لوگ قبضہ جمائے ہوئے تھے اور شرفاء محکوم ومغلوب تھے.انہوں نے اس واقعہ کی حضرت عثمان کو خبر دی جنہوں نے اُن کو نصیحت کی کہ جو لوگ بڑی بڑی قربانیاں کر کے دشمنوں کے مقابلہ کیلئے پہلے پہلے آتے تھے ان کا اعزاز و احترام قائم کریں ہاں اگر وہ لوگ دین سے بے تو جہی برتیں تب بے شک دوسرے ایسے لوگوں کو ان کی جگہ د دیں جو زیادہ دین دار ہوں.جس وقت کو فہ میں شرارت جاری تھی بصرہ بھی خاموش تھا وہاں بھی حکیم بن جبلہ ابن السوداء کے ایجنٹ اور اس کے ساتھیوں کے ذریعہ حضرت عثمان کے نائبوں کے خلاف لوگوں میں جھوٹی تہمتیں مشہور کی جا رہی تھیں.مصر جو اصل مرکز تھا وہاں تو اور بھی زیادہ فساد برپا تھا عبداللہ بن سبا نے وہاں صرف سیاسی شورش ہی بر پا نہ کر رکھی تھی بلکہ لوگوں کا مذہب بھی خراب کر رہا تھا.مگر اس طرح کہ دین سے ناواقف مسلمان اسے بڑا مخلص سمجھیں.چنانچہ وہ تعلیم دیتا تھا کہ تعجب ہے کہ بعض مسلمان یہ تو عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے مگر یہ نہیں صل الله مانتے کہ رسول کریم ہے دوبارہ مبعوث ہوں گے حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيكَ القُرانَ تَرَادُكَ إلى مَعَادٍ يعنى.وہ

Page 287

خلافة على منهاج النبوة ۲۶۹ جلد اوّل خدا جس نے قرآن کریم تجھ پر فرض کیا ہے تجھے ضرور لوٹنے کی جگہ کی طرف واپس لاوے گا اس کی اس تعلیم کو اس کے بہت سے ماننے والوں نے قبول کیا اور آنحضرت علی کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کے قائل ہو گئے حالانکہ قرآن کریم ان لوگوں کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے سے جو فوت ہو چکے ہیں بڑے زور سے انکار کرتا ہے.ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے نام کو روشن کرنے کے لئے کسی شخص کو انہی کے اخلاق اور صفات دے کر کھڑا کر دے مگر یہ امر تناسخ یا کسی شخص کے دوبارہ واپس آنے کے عقیدہ سے بالکل الگ ہے اور ایک بدیہی اور مشہور امر ہے.علاوہ اس رجعت کے عقیدہ کے عبداللہ بن سبا نے یہ بھی مشہور کرنا شروع کیا کہ ہزار نبی گزرے ہیں اور ہر ایک نبی کا ایک وصی تھا اور رسول کریم ﷺ کے وصی حضرت علی ہیں.رسول کریم ﷺ خاتم الانبیاء تھے تو حضرت علی خاتم الاوصیاء ہیں.پھر کہتا اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو رسول کریم ﷺ کے وصی پر حملہ کر کے اس کا حق چھین لے.19 غرض علاوہ سیاسی تدابیر کے جو اسلام میں تفرقہ ڈالنے کے لئے اس شخص نے اختیار کر رکھی تھیں مذہبی فتنہ بھی برپا کر رکھا تھا اور مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کی بھی فکر کر رہا تھا مگر یہ احتیاط ضرور برتا تھا کہ لوگ اس کو مسلمان ہی سمجھیں.ایسی حالت میں تین سال گزر گئے اور یہ مفسد گروہ برا بر خفیہ کارروائیاں کرتا رہا اور اپنی جماعت بڑھاتا گیا.لیکن اس تین سال کے عرصہ میں کوئی خاص واقعہ سوائے اس کے نہیں ہوا کہ محمد بن ابی بکر اور محمد بن ابی حذیفہ دو شخص مدینہ منورہ کے باشندے بھی اس فتنہ میں کسی قدر حصہ لینے لگے.محمد بن ابی بکر تو حضرت ابوبکر کا چھوٹا لڑکا تھا جسے سوائے اس خصوصیت کے کہ وہ حضرت ابوبکر کا لڑکا تھا دینی طور پر کوئی فضیلت حاصل نہ تھی اور محمد بن ابی حذیفہ ایک یتیم تھا جسے حضرت عثمان نے پالا تھا مگر بڑا ہو کر اس نے خاص طور پر یہ پیشگوئی فتح مکہ کی ہے جسے بگاڑ کر اس شخص نے رجعت کا عقیدہ بنالیا.چونکہ مکہ کی طرف لوگ بہ نیت حج اور حصول ثواب بار بار جاتے ہیں اس لئے اس کا نام بھی معاد ہے یعنی وہ جگہ جس کی طرف لوگ بار بار لوٹتے ہیں.

Page 288

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۰ جلد اول آپ کی مخالفت میں حصہ لیا جس کی وجوہ میں ابھی بیان کروں گا.چوتھے سال میں اس فتنہ نے کسی قدر ہیبت ناک صورت اختیار کر لی اور اس کے بانیوں نے مناسب سمجھا کہ اب عَلَى الْلاعلان اپنے خیالات کا اظہار کیا جاوے اور حکومت کے رُعب کو مٹایا جاوے چنانچہ اس امر میں بھی کوفہ ہی نے ابتدا کی.جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں ولید بن عتبہ کے بعد سعید بن العاص والی کوفہ مقرر ہوئے تھے.انہوں نے شروع سے یہ طریق اختیار کر رکھا تھا کہ صرف شرفائے شہر کو اپنے پاس آنے دیتے تھے مگر کبھی کبھی وہ ایسا بھی کرتے کہ عام مجلس کرتے اور ہر طبقہ کے آدمیوں کو اس وقت پاس آنے کی اجازت ہوتی.ایک دن اسی قسم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت طلحہ کی سخاوت کا ذکر آیا اور کسی نے کہا کہ وہ بہت ہی سخاوت سے کام لیتے ہیں.اس پر سعید کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ ان کے پاس مال بہت ہے وہ سخاوت کرتے ہیں ہمارے پاس بھی مال ہوتا تو ہم بھی ویسی ہی داد و دہش سے کرتے.ایک نو جوان نادانی سے بول پڑا کہ کاش فلاں جا گیر جو اموال شاہی میں سے تھی اور عام مسلمانوں کے فائدہ کے لئے رکھی گئی تھی آپ کے قبضہ میں ہوتی.اس پر فتنہ انگیز جماعت کے بعض آدمی جو اس انتظار میں تھے کہ کوئی موقع نکلے تو ہم اپنے خیالات کا اظہار کریں غصہ کا اظہار کرنے لگے اور ظاہر کرنے لگے کہ یہ بات اس شخص نے سعید والی کوفہ کے اشارہ سے کہی ہے اور اس لئے کہی ہے تا کہ ان اموال کو ہضم کرنے کیلئے راستہ تیار کیا جاوے اور اُٹھ کر اُس شخص کو سعید کے سامنے ہی مارنا شروع کر دیا.اُس کا باپ مدد کے لئے اُٹھا تو اُسے بھی خوب پیٹا سعید اُن کو روکتے رہے مگر انہوں نے ان کی بھی نہ سنی اور مار مار کر دونوں کو بے ہوش کر دیا.یہ خبر جب لوگوں کو معلوم ہوئی کہ سعید کے سامنے بعض لوگوں نے ایسی شرارت کی ہے تو لوگ ہتھیار بند ہو کر مکان پر جمع ہو گئے مگر ان لوگوں نے سعید کی منت و سماجت کی اور ان سے معافی مانگی اور پناہ کے طلب گار ہوئے.ایک عرب کی فیاضی اور پھر وہ بھی قریش کی ایسے موقع پر کب برداشت کر سکتی تھی کہ دشمن پناہ مانگے اور وہ اس سے انکار کر دے.سعید نے باہر نکل کر لوگوں سے کہہ دیا کہ کچھ لوگ آپس میں لڑ پڑے تھے معاملہ کچھ نہیں اب سب خیر ہے.لوگ تو اپنے

Page 289

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۱ جلد اوّل گھروں میں لوٹ گئے اور ان لوگوں نے پھر وہی بے تکلفی شروع کی.مگر جب سعید کو یقین ہو گیا کہ اب ان لوگوں کے لئے کوئی خطرہ کی بات نہیں ان کو رخصت کر دیا اور جن لوگوں کو پیٹا گیا تھا ان سے کہہ دیا کہ چونکہ میں ان لوگوں کو پناہ دے چکا ہوں ان کے قصور کا اعلان نہ کرو اس میں میری سبکی ہوگی.ہاں یہ تسلی رکھو کہ آئندہ یہ لوگ میری مجلس میں نہ آسکیں گے.ان مفسدوں کی اصل غرض تو پوری ہو چکی تھی یعنی نظیم اسلامی میں فساد پیدا کرنا.اب انہوں نے گھروں میں بیٹھ کر عَلَى الإعلان حضرت عثمان اور سعید کی بُرائیاں بیان کرنی شروع کر دیں.لوگوں کو ان کا یہ رویہ بہت بُرا معلوم ہوا اور انہوں نے سعید سے شکایت کی کہ یہ اس طرح شرارت کرتے ہیں اور حضرت عثمان کی اور آپ کی بُرائیاں بیان کرتے ہیں اور اُمت اسلامیہ کے اتحاد کو توڑنا چاہتے ہیں.ہم یہ بات برداشت نہیں کر سکتے آپ اس کا انتظام کریں.انہوں نے کہا کہ آپ لوگ خود تمام واقعات سے حضرت عثمان کو اطلاع دیں.آپ کے حکم کے ماتحت انتظام کیا جاوے گا.تمام شرفاء نے حضرت عثمان کو واقعات سے اطلاع دی اور آپ نے سعید کو حکم دیا کہ اگر رؤسائے کوفہ اس امر پر متفق ہوں تو ان لوگوں کو شام کی طرف جلا وطن کردو اور امیر معاویہؓ کے پاس بھیج دو.ادھر امیر معاویہ کولکھا کہ کچھ لوگ جو کھلے طور پر فساد پر آمادہ ہیں وہ آپ کے پاس کو فہ سے آویں گے ان کے گزارہ کا انتظام کر دیں اور ان کی اصلاح کی تجویز کریں.اگر درست ہو جاویں اور اصلاح کرلیں تو ان کے ساتھ نرمی کرو اور ان کے پچھلے قصوروں سے درگزر کرو اور اگر شرارت پر مصر رہیں تو پھر ان کو شرارت کی سزا دو.حضرت عثمان کا یہ حکم نہایت دانائی پر مبنی تھا کیونکہ ان لوگوں کا کوفہ میں رہنا ایک طرف تو ان لوگوں کے جوشوں کو بھڑکانے والا تھا جو ان کی شرارتوں پر پوری طرح آگاہ تھے اور خطرہ تھا کہ وہ جوش میں آکر ان کو تکلیف نہ پہنچا بیٹھیں اور دوسری طرف اس لحاظ سے بھی مضر تھا کہ وہ لوگ وہاں کے باشندے اور ایک حد تک صاحب رسوخ تھے اگر وہاں رہتے تو اور بہت سے لوگوں کو خراب کرنے کا موجب ہوتے مگر یہ حکم اُس وقت جاری ہوا جب جہاں جلا وطن کر کے یہ لوگ بھیجے گئے تھے وہاں کے لوگوں کو خراب کرنے کا ان کو موقع نہ تھا کیونکہ وہاں خاص نگرانی اور نظر بندی کی حالت میں ان کو رکھا جاتا تھا.

Page 290

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۲ جلد اوّل اس کا چنداں فائدہ نہ ہو سکتا تھا.اگر ابن عامر والی بصرہ ابن السوداء کے متعلق بھی حضرت عثمان سے مشورہ طلب کرتا اور اس کے لئے بھی اسی قسم کا حکم جاری کیا جاتا تو شاید آئندہ حالات ان حالات سے بالکل مختلف ہوتے.مگر مسلمانوں کی حالت اُس وقت اس بات کی مقتضی تھی کہ ایسی ہی قضاء وقد ر جاری ہواور وہی ہوا.یہ لوگ جو جلا وطن کئے گئے اور جن کو ابن سبا کی مجلس کا رکن کہنا چاہئے تعداد میں دس کے قریب تھے (گوان کی صحیح تعداد میں اختلاف ہے ) حضرت معاویہؓ نے ان کی اصلاح کے لئے پہلے تو یہ تدبیر کی کہ ان سے بہت اعزاز و احترام سے پیش آئے.خود ان کے ساتھ کھانا کھاتے اور اکثر فرصت کے وقت ان کے پاس جا کر بیٹھتے.چند دن کے بعد انہوں نے ان کو نصیحت کی اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم لوگوں کو قریش سے نفرت ہے ایسا نہیں چاہئے.اللہ تعالیٰ نے عرب کو قریش کے ذریعہ سے ہی عزت دی ہے.تمہارے حکام تمہارے لئے ایک ڈھال کے طور پر ہیں.پس ڈھالوں سے جُدا نہ ہو وہ تمہارے لئے تکالیف برداشت کرتے اور تمہاری فکر رکھتے ہیں.اگر اس امر کی قدر نہ کرو گے تو خدا تعالیٰ تم پر ایسے حکام مقرر کر دے گا جو تم پر خوب ظلم کریں گے اور تمہارے صبر کی قدر نہ کریں گے اور تم اس دنیا میں عذاب میں مبتلاء ہو گے اور اگلے جہاں میں بھی ان ظالم بادشاہوں کے ظلم کی سزا میں شریک ہو گے کیونکہ تم ہی ان کے قیام کے باعث بنو گے.حضرت معاویہ کی اِس نصیحت کوسن کر ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ قریش کا ذکر چھوڑو، نہ وہ پہلے تعداد میں ہم سے زیادہ تھے نہ اب ہیں اور جس ڈھال کا تم نے ذکر کیا ہے وہ چھنی تو ہم کو ہی ملے گی.حضرت معاویہؓ نے فرمایا کہ معلوم ہوا تم لوگ بے وقوف بھی ہو.میں تم کو اسلام کی باتیں سناتا ہوں تم جاہلیت کا زمانہ یاد دلاتے ہو.سوال قریش کی قلت و کثرت کا نہیں بلکہ اُس حضرت معاویہ کے کلام اور ان لوگوں کے جواب سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عثمان یا ان کے مقرر کردہ حکام سے ان لوگوں کو مخالفت نہ تھی بلکہ قریش سے ہی یا دوسرے لفظوں میں ایمان میں سابق لوگوں سے ہی ان کو حسد تھا.اگر حضرت عثمان کی جگہ کوئی اور صحابی خلیفہ ہوتا اور انکے مقرر کردہ والیوں کی جگہ کوئی اور والی ہوتے تو ان سے بھی یہ لوگ اسی طرح حسد کرتے کیونکہ ان کا مدعا صرف حصولِ جاہ تھا.

Page 291

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۳ جلد اول ذمہ داری کا ہے جو اسلام نے ان پر ڈالی ہے.قریش بے شک تھوڑے ہیں مگر جب خدا تعالیٰ نے دین کے ساتھ ان کو عزت دی ہے اور ہمیشہ سے مکہ مکرمہ کے تعلق کے باعث ان کی حفاظت کرتا چلا آیا ہے تو خدا کے فضل کا کون مقابلہ کر سکتا ہے.جب وہ کافر تھے تو اس ادنی تعلق کے باعث اُس نے ان کی حفاظت کی.اب وہ مسلمان ہو کر اس کے دین کے قائم کرنے والے ہو گئے ہیں تو کیا خدا تعالیٰ ان کو ضائع کر دیگا ؟ یا درکھو تم لوگ اسلام کے غلبہ کو دیکھ کر ایک رو میں مسلمان ہو گئے تھے اب شیطان تم کو اپنا ہتھیار بنا کر اسلام کو تباہ کرنے کیلئے تم سے کام لے رہا ہے اور دین میں رخنہ ڈالنا چاہتا ہے مگر تم لوگ جو فتنہ کھڑا کرو گے اس سے بڑے فتنہ میں اللہ تعالیٰ تم کو ڈالے گا.میرے نزدیک تم ہرگز قابل التفات لوگ نہیں ہو جن لوگوں نے خلیفہ کو تمہاری نسبت لکھا انہوں نے غلطی کی.نہ تم سے کسی نفع کی امید کی جاسکتی ہے نہ نقصان کی.ان لوگوں نے حضرت معاویہ کی تمام نصائح سن کر کہا کہ ہم تم کو حکم دیتے ہیں کہ تم اپنے عہدہ سے علیحدہ ہو جاؤ.حضرت معاویہؓ نے جواب دیا کہ اگر خلیفہ اور ائمۃ المسلمین کہیں تو میں آج الگ ہو جاتا ہوں تم لوگ ان معاملات میں دخل دینے والے کون ہو.میں تم لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس طریق کو چھوڑ دو اور نیکی اختیار کرو اللہ تعالیٰ اپنے کام آپ کرتا ہے.اگر تمہاری رائے پر کام چلتے تو اسلام کا کام تباہ ہو جاتا.تم لوگ دراصل دین اسلام سے بیزار ہو.تمہارے دلوں میں اور ہے اور زبانوں پر اور.مگر اللہ تعالیٰ تمہارے ارادوں اور مخفی منصوبوں کو ایک دن ظاہر کر کے چھوڑے گا.غرض دیر تک حضرت معاویہؓ ان کو سمجھاتے رہے اور یہ لوگ اپنی بیہودگی میں بڑھتے گئے.حتی کہ آخر لا جواب ہو کر حضرت معاویہ پر حملہ کر دیا اور اُن کو مارنا چاہا.حضرت معاویہ نے اُن کو ڈانٹا اور کہا کہ یہ کوفہ نہیں شام ہے.اگر شام کے لوگوں کو معلوم ہوا تو جس طرح سعید کے کہنے سے کوفہ کے لوگ چپ کر رہے تھے یہ خاموش نہ رہیں گے بلکہ عوام الناس جوش میں میرے قول کی بھی پرواہ نہیں کریں گے اور تمہاری تکہ بوٹی کر دیں گے.یہ کہہ کر حضرت معاویہ مجلس سے اُٹھ گئے اور ان لوگوں کو شام سے واپس کو نہ بھیج دیا.اور حضرت عثمان کو لکھ دیا کہ یہ لوگ بوجہ اپنی حماقت اور جہالت کے قابل التفات ہی نہیں ہیں ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرنی

Page 292

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۴ جلد اول چاہیے اور سعید والی کوفہ کو بھی لکھ دیا جاوے کہ ان کی طرف توجہ نہ کرے.یہ بے دین لوگ ہیں ، اسلام سے متنفر ہیں اہل ذمہ کا مال لوٹنا چاہتے ہیں اور فتنہ ان کی عادت ہے ان لوگوں میں اتنی طاقت نہیں کہ بلا کسی دوسرے کی مدد کے خود کوئی نقصان پہنچا سکیں.حضرت معاویہ کی یہ رائے بالکل درست تھی مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے علاقہ سے با ہر مصر میں چھپی ہوئی ایک روح ہے جو ان سب لوگوں سے کام لے رہی ہے اور ان کا جاہل ہونا اور اُجڈ ہونا ہی اس کے کام کے لئے محمد ہے.وہ لوگ جب دمشق سے نکلے تو انہوں نے کوفہ کا ارادہ ترک کر دیا کیونکہ وہاں کے لوگ ان کی شرارتوں سے واقف تھے اور ان کو خوف تھا کہ وہاں ان کو نقصان پہنچے گا اور جزیرہ کی طرف چلے گئے.وہاں کے گورنر عبدالرحمن تھے جو اس مشہور سپہ سالار کے خلف الرشید تھے جو جرأت اور دلیری میں تمام دنیا کے لئے ایک روشن مثال قائم کر گیا ہے یعنی خالد بن ولید.جس وقت اُن کو ان لوگوں کی آمد کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے فوراً ان کو بلوایا اور کہا میں نے تمہارے حالات سُنے ہیں.خدا مجھے نامراد کرے اگر میں تم کو درست نہ کر دوں.تم جانتے ہو کہ میں اُس شخص کا بیٹا ہوں جس نے فتنہ ارتدادکو دور کر دیا تھا اور بڑی بڑی مشکلات سے کامیاب نکلا تھا.میں دیکھوں گا کہ تم جس طرح معاویہ اور سعید سے باتیں کیا کرتے تھے مجھ سے بھی کر سکتے ہو.سنو ! اگر کسی شخص کے سامنے تم نے یہاں کوئی فتنہ کی بات کی تو پھر ایسی سزا دوں گا کہ تم یاد ہی رکھو گے یہ کہہ کر ان کو نظر بند کر دیا اور ہمیشہ اپنے ساتھ رہنے کا حکم دیا.جب سفر پر جاتے تو ان کو اپنے ساتھ پا پیادہ لے جاتے اور ان سے دریافت کرتے کہ اب تمہارا کیا حال ہے؟ جس کو نیکی درست نہیں کرتی اُس کا علاج سزا ہوتی ہے.تم لوگ اب کیوں نہیں بولتے ؟ وہ لوگ ندامت کا اظہار کرتے اور اپنی شرارت پر تو بہ کرتے.اسی طرح کچھ مدت گزرنے پر عبد الرحمن بن خالد بن ولید نے خیال کیا کہ ان لوگوں کی اصلاح ہوگئی ہے اور ان میں سے ایک شخص ما لک نامی کو حضرت عثمان کی خدمت میں بھیجا کہ وہاں جا کر معافی مانگو.وہ حضرت عثمان کے پاس آیا اور توبہ کی اور اظہار ندامت کیا اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لئے معافی مانگی.انہوں نے ان کو معاف کر دیا اور ان سے

Page 293

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۵ جلد اول دریافت کیا کہ وہ کہاں رہنا چاہتے ہیں؟ مالک نے کہا کہ اب ہم عبدالرحمن بن خالد کے پاس رہنا چاہتے ہیں.حضرت عثمانؓ نے اجازت دی اور وہ شخص واپس عبدالرحمن بن خالد کے پاس چلا گیا.اس شخص کے عبد الرحمن بن خالد کے پاس ہی رہنے کی خواہش سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اس کا دل ضرور صاف ہو چکا تھا.کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ایسے آدمی کے پاس جو شرارت کو ایک منٹ کے لئے روا نہ رکھتا تھا واپس جانے کی خواہش نہ کرتا.مگر بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی تو بہ بالکل عارضی تھی اور حضرت معاویہ کا یہ خیال درست تھا کہ یہ بے وقوف لوگ ہیں اور صرف ہتھیار بن کر کا م کر سکتے ہیں.عبد اللہ بن سبا اس عرصہ میں خاموش نہ بیٹھا ہوا تھا بلکہ اس نے کچھ مدت سے یہ رویہ اختیار کیا تھا کہ اپنے ایجنٹوں کو تمام علاقوں میں بھیجتا اور اپنے خیالات پھیلاتا.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شخص غیر معمولی عقل و دانش کا آدمی تھا.وہ احکام جو اس نے اپنے ایجنٹوں کو دیئے اس کے دماغ کی بناوٹ پر خوب روشنی ڈالتے ہیں.جب یہ اپنے نائب روانہ کرتا تو ان کو ہدایت دیتا کہ اپنے خیالات فورا لوگوں کے سامنے نہ پیش کر دیا کرو بلکہ پہلے وعظ ونصیحت سے کام لیا کرو اور شریعت کے احکام لوگوں کو سنایا کرو اور اچھی باتوں کا حکم دیا کرو اور بُری باتوں سے روکا کرو.جب لوگ تمہارا یہ طریق دیکھیں گے تو ان کے دل تمہاری طرف مائل ہو جائیں گے اور تمہاری باتوں کو شوق سے سنا کریں گے اور تم پر اعتبار پیدا ہو جائیگا.تب عمدگی سے ان.سے ان کے سامنے اپنے خاص خیالات پیش کرو وہ بہت جلد قبول کر لیں گے.اور یہ بھی احتیاط رکھو کہ پہلے حضرت عثمان کے خلاف باتیں نہ کرنا بلکہ ان کے نائبوں کے خلاف لوگوں کے جوش کو بھڑکانا.اس سے اس کی غرض یہ تھی کہ حضرت عثمان سے خاص مذہبی تعلق ہونے کی وجہ سے لوگ ان کے خلاف باتیں سن کر بھڑک اُٹھیں گے لیکن امراء کے خلاف باتیں سننے سے ان کے مذہبی احساسات کو تحریک نہ ہو گی اس لئے ان کو قبول کر لیں گے.جب اس طرح ان کے دل سیاہ ہو جائیں گے اور ایک خاص پارٹی میں شمولیت کر لینے سے جو ضد پیدا ہو جاتی ہے وہ پیدا ہو جاوے گی تو پھر حضرت عثمان کے خلاف ان کو بھڑ کا نا بھی

Page 294

خلافة على منهاج النبوة آسان ہوگا.جلد اول اس شخص نے جب یہ دیکھا کہ والیانِ صوبہ جات کی بُرائیاں جب کبھی بیان کی جاتی ہیں تو سمجھ دار لوگ ان کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ اپنے مشاہدہ کی بناء پر ان شکایات کو جھوٹا اور بے حقیقت جانتے ہیں اور ملک میں عام جوش نہیں پھیلتا تو اس نے ایک اور خطر ناک تدبیر اختیار کی اور وہ یہ کہ اپنے نائبوں کو حکم دیا کہ بجائے اس کے کہ ہر جگہ کے گورنروں کو اُنہی کے علاقوں میں بدنام کرنے کی کوشش کریں اُن کی بُرائیاں لکھ کر دوسرے علاقوں میں بھیجیں.کیونکہ دوسرے علاقوں کے لوگ اس جگہ کے حالات سے ناواقفیت کی وجہ سے ان کی باتوں کو آسانی سے قبول کر لیں گے.چنانچہ اس مشورہ کے ماتحت ہر جگہ کے مفسد اپنے علاقوں کے حکام کی جھوٹی شکایات اور بناوٹی مظالم لکھ کر دوسرے علاقوں کے ہمدردوں کو بھیجتے اور وہ ان خطوں کو پڑھ کر لوگوں کو سناتے اور بوجہ غیر ممالک کے حالات سے ناواقفیت کے بہت سے لوگ ان باتوں کو سچ یقین کر لیتے اور افسوس کرتے کہ فلاں فلاں ملک کے ہمارے بھائی سخت مصیبتوں میں مبتلاء ہیں اور ساتھ شکر بھی کرتے کہ خدا کے فضل سے ہمارا والی اچھا ہے ہمیں کوئی تکلیف نہیں.اور یہ نہ جانتے کہ دوسرے ممالک کے لوگ اپنے آپ کو آرام میں اور ان کو دکھ میں سمجھتے اور اپنی حالت پر شکر اور ان کی حالت پر افسوس کرتے ہیں.مدینہ کے لوگوں کو چونکہ چاروں اطراف سے خطوط آتے تھے ان میں سے جو لوگ ان خطوط کو صحیح تسلیم کر لیتے وہ یہ خیال کر لیتے کہ شاید سب ممالک میں ظلم ہی ہو رہا ہے اور مسلمانوں پر سخت مصائب ٹوٹ رہے ہیں.غرض عبد اللہ بن سبا کا یہ فریب بہت کچھ کارگر ثابت ہوا اور اسے اس ذریعہ سے ہزاروں ایسے ہمدرد مل گئے جو بغیر اس تدبیر کے ملنے مشکل تھے.جب یہ شورش حد سے بڑھنے لگی اور صحابہ کرام کو بھی ایسے خطوط ملنے لگے جن میں گورنروں کی شکایات درج ہوتی تھیں تو انہوں نے مل کر حضرت عثمان سے عرض کیا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ باہر کیا ہورہا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جو رپورٹیں مجھے آتی ہیں وہ تو خیر و عافیت ہی ظاہر کرتی ہیں.صحابہ نے جواب دیا کہ ہمارے پاس اس اس مضمون کے.

Page 295

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۷ جلد اول خطوط باہر سے آتے ہیں اس کی تحقیق ہونی چاہیے.حضرت عثمان نے اس پر ان سے مشورہ طلب کیا کہ تحقیق کس طرح کی جاوے اور ان کے مشورہ کے عین مطابق اسامہ بن زید کو بصرہ کی طرف محمد بن مسلم کو کوفہ کی طرف عبد اللہ بن عمر کو شام کی طرف عمار بن یا سر کو مصر کی طرف بھیجا کہ وہاں کے حالات کی تحقیق کر کے رپورٹ کریں کہ آیا واقعہ میں امراء رعیت پر ظلم کرتے ہیں اور تعدی سے کام لیتے ہیں اور لوگوں کے حقوق مارلیتے ہیں؟ اور ان چاروں کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی متفرق بلا د کی طرف بھیجے تا کہ وہاں کے حالات سے اطلاع دیں گے.تا یہ لوگ گئے اور تحقیق کے بعد واپس آکر ان سب نے رپورٹ کی کہ سب جگہ امن ہے اور مسلمان بالکل آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کے حقوق کو کوئی تلف نہیں کرتا اور حکام عدل وانصاف سے کام لے رہے ہیں.مگر عمار بن یاسر نے دیر کی اور ان کی کوئی خبر نہ آئی.عمار بن یاسر نے کیوں دیر کی اس کا ذکر تو پھر کروں گا پہلے میں اس تحقیقی وفد اور اس کی تحقیق کی اہمیت کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.کیونکہ اس وفد کے حالات کو اچھی طرح سمجھ لینے سے اس فتنہ کی اصل حقیقت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے.سب سے پہلی بات جو قابل غور ہے یہ ہے کہ اس وفد کے تینوں سرکردہ جولوٹ کر آئے اور جنہوں نے آکر رپورٹ دی وہ کس پایہ کے آدمی تھے.کیونکہ تحقیق کرنے والے آدمیوں کی حیثیت سے اس تحقیق کی حیثیت معلوم ہوتی ہے.اگر اس وفد میں ایسے لوگ بھیجے جاتے جو حضرت عثمان یا آپ کے خواب سے کوئی غرض رکھتے یا جن کی دینی و دنیاوی حیثیت اس قدر اعلیٰ اور ارفع نہ ہوتی کہ وہ حکام سے خوف کھاویں یا کوئی طمع رکھیں تو کہا جا سکتا تھا کہ یہ لوگ کسی لالچ یا خوف کے باعث حقیقت کے بیان کرنے سے اعراض کر گئے.مگر ان لوگوں پر اس قسم کا اعتراض ہر گز نہیں پڑ سکتا اور ان لوگوں کو اس کام کے لئے منتخب کر کے حضرت عثمان نے اپنی نیک نیتی کا ایک بین ثبوت دے دیا ہے.اسامہ جن کو بصرہ کی طرف بھیجا گیا تھا وہ شخص ہے کہ جو نہ صرف یہ کہ اول المؤمنین حضرت زیڈ کے لڑکے ہیں بلکہ رسول کریم ہے کے بڑے مقربین اور پیاروں میں سے ہیں اور آپ ہی وہ شخص ہیں جن کو رسول کریم ﷺ نے اس لشکر عظیم کی سپہ سالاری عطا کی جسے آپ اپنی مرض موت میں تیار صل الله

Page 296

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۸ جلد اول کرا رہے تھے اور اس میں حضرت عمر جیسے بڑے بڑے صحابیوں کو آپ کے ماتحت کیا اور آنحضرت ﷺ کا یہ انتخاب صرف دلداری کے طور پر ہی نہ تھا بلکہ بعد کے واقعات نے الله ثابت کر دیا کہ وہ بڑے بڑے کاموں کے اہل تھے.رسول کریم عملہ ان سے اس قدر محبت کرتے کہ دیکھنے والے فرق نہ کر سکتے تھے کہ آپ ان کو زیادہ چاہتے ہیں یا حضرت امام حسن کو.محمد بن مسلم بھی جن کو کوفہ بھیجا گیا جلیل القدر صحابہ میں سے تھے اور صحابہ میں خاص عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور نہایت صاحب رسوخ تھے.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جن کو شام کی طرف روانہ کیا گیا ایسے لوگوں میں سے ہیں جن کے تعارف کی ضرورت ہی نہیں.آپ سابق بالعبد مسلمانوں میں سے تھے اور زہد و تقوی اللہ میں آپ کی وہ شان تھی کہ اکابر صحابہ بھی آپ کی ان خصوصیات کی وجہ سے آپ کا خاص ادب کرتے تھے.حضرت علیؓ کے بعد اگر کسی صحابی پر صحابہ اور دوسرے بزرگوں کی نظر خلافت کے لئے پڑی تو آپ پر پڑی.مگر آپ نے دنیا سے علیحد گی کو اپنا شعار بنا رکھا تھا.شعائر دینیہ کے لئے آپ کو اس قدر غیرت تھی کہ بعض دفعہ آپ نے خود عمر بن الخطاب سے بڑی سختی سے بحث کی.غرض حق گوئی میں آپ ایک کھنچی ہوئی تلوار تھے.آپ کا انتخاب شام کے لئے نہایت ہی اعلیٰ انتخاب تھا کیونکہ بوجہ اس کے کہ حضرت معاویہ دیر سے شام کے حاکم تھے اور وہاں کے لوگوں پر ان کا بہت رُعب تھا اور بوجہ ان کی ذکاوت کے ان کے انتظام کی تحقیق کرنا کسی معمولی آدمی کا کام نہ تھا.اس جگہ کسی دوسرے آدمی کا بھیجا جانا فضول تھا اور لوگوں کو اس کی تحقیق پر تسلی بھی نہ ہوتی مگر آپ کی سبقت ایمانی اور غیرتِ اسلامی اور حریت اور تقوی و زہد ایسے کمالات تھے کہ ان کے سامنے معاویہ دم نہ مار سکتے تھے اور نہ ایسے شخص کی موجودگی میں حضرت معاویہ کا رعب کسی شخص پر پڑ سکتا تھا.غرض جو لوگ تحقیق کے لئے بھیجے گئے تھے وہ نہایت عظیم الشان اور بے تعلق لوگ تھے اور ان کی تحقیق پر کسی شخص کو اعتراض کی گنجائش حاصل نہیں پس ان تینوں صحابہ کا مع اُن دیگر آدمیوں کے جو دوسرے پلا د میں بھیجے گئے تھے متفقہ طور پر فیصلہ دینا کہ ملک میں بالکل امن وامان ہے، ظلم و تعدی کا نام و نشان نہیں ، حکام عدل وانصاف سے کام لے رہے ہیں

Page 297

خلافة على منهاج النبوة ۲۷۹ جلد اول اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو یہ کہ لوگوں کو حدود کے اندر رہنے پر مجبور کرتے ہیں ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے بعد کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ فساد چند شریر النفس آدمیوں کی شرارت و عبد اللہ بن سبا کی انگیخت کا نتیجہ تھا ور نہ حضرت عثمان اور ان کے تو اب ہر قسم کے اعتراضات سے پاک تھے.حق یہی ہے کہ یہ سب شورش ایک خفیہ منصوبہ کا نتیجہ تھی جس کے اصل بانی یہودی تھے.جن کے ساتھ طمع دنیاوی میں مبتلاء بعض مسلمان جو دین سے نکل چکے تھے شامل ہو گئے تھے ور نہ امرائے پلا د کا نہ کوئی قصور تھا نہ وہ اس فتنہ کے باعث تھے.ان کا صرف اسی قدر قصور تھا کہ ان کو حضرت عثمانؓ نے اس کام کے لئے مقرر کیا تھا اور حضرت عثمان کا یہ قصور تھا کہ با وجود پیرانہ سالی اور نقاہت بدنی کے اتحاد اسلام کی رسی کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے بیٹھے تھے اور اُمتِ اسلامیہ کا بوجھ اپنی گردن پر اُٹھائے ہوئے تھے اور شریعت اسلام کے قیام کی فکر رکھتے تھے اور متمر دین اور ظالموں کو اپنی حسب خواہش کمزوروں اور بے وارثوں پر ظلم و تعدی کرنے نہ دیتے تھے.چنانچہ اس امر کی تصدیق اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ کوفہ میں انہی فساد چاہنے والوں کی ایک مجلس بیٹھی اور اس میں افساد امرالمسلمین پر گفتگو ہوئی تو سب لوگوں نے بالا تفاق یہی رائے دی لَا وَاللَّهِ لَا يَرْفَعُ رَأْسٌ مَادَامَ عُثْمَانُ عَلَى النَّاسِ * یعنی کوئی شخص اُس وقت تک سر نہیں اُٹھا سکتا جب تک کہ عثمان کی حکومت ہے.عثمان ہی کا ایک وجود تھا جو سرکشی سے باز رکھے ہوئے تھا.اس کا درمیان سے ہٹا نا آزادی سے اپنی مراد میں پوری کرنے کے لئے ضروری تھا.میں نے بتایا تھا کہ عمار بن یاسر جن کو مصر کی طرف روانہ کیا گیا تھا وہ واپس نہیں آئے.ان کی طرف سے خبر آنے میں اس قدر دیر ہوئی کہ اہل مدینہ نے خیال کیا کہ کہیں مارے گئے ہیں مگر اصل بات یہ تھی کہ وہ اپنی سادگی اور سیاست سے ناواقفیت کی وجہ سے ان مفسدوں کے پنجہ میں پھنس گئے تھے جو عبد اللہ بن سبا کے شاگرد تھے.مصر میں چونکہ خود عبد اللہ بن سبا موجود تھا اور وہ اس بات سے غافل نہ تھا کہ اگر اس تحقیقاتی وفد نے تمام ملک میں امن و امان کا فیصلہ دیا تو تمام لوگ ہمارے مخالف ہو جائیں گے اس وفد کے بھیجے جانے کا فیصلہ ایسا

Page 298

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۰ جلد اول اچانک ہوا تھا کہ دوسرے علاقوں میں وہ کوئی انتظام نہیں کر سکا تھا.مگر مصر کا انتظام اس کے لئے آسان تھا جو نہی عمار بن یاسر مصر میں داخل ہوئے اس نے ان کا استقبال کیا اور والی مصر کی بُرائیاں اور مظالم بیان کرنے شروع کئے.وہ اس کے لسانی سحر کے اثر سے محفوظ نہ رہا سکے اور بجائے اس کے کہ ایک عام بے لوث تحقیق کرتے والی مصر کے پاس گئے ہی نہیں اور نہ عام تحقیق کی بلکہ اسی مفسد گروہ کے ساتھ چلے گئے اور انہی کے ساتھ مل کر اعتراض کرنے شروع کر دیئے.صحابہ میں سے اگر کوئی شخص اس مفسد گروہ کے پھندے میں پھنسا ہوا یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے تو وہ صرف عمار بن یاسر ہیں.ان کے سوا کوئی معروف صحابی اس حرکت میں شامل نہیں ہوا.اور اگر کسی کی شمولیت بیان کی گئی ہے تو دوسری روایات سے اس کا رڈ بھی ہو گیا ہے.عمار بن یاسر کا ان لوگوں کے دھو کے میں آجانا ایک خاص وجہ سے تھا اور وہ یہ کہ جب وہ مصر پہنچے تو وہاں پہنچتے ہی بظا ہر ثقہ نظر آنے والے اور نہایت طرار ولستان لوگوں کی ایک جماعت ان کو ملی جس نے نہایت عمدگی سے ان کے پاس والی مصر کی شکایات بیان کرنی شروع کیں.اتفاقاً والی مصر ایک ایسا شخص تھا جو کبھی رسول کریم ﷺ کا سخت مخالف رہ چکا تھا اور اس کی نسبت آپ نے فتح مکہ کے وقت حکم دیا تھا کہ خواہ خانہ کعبہ ہی میں کیوں نہ ملے اسے قتل کر دیا جائے اور گو بعد میں آپ نے اسے معاف کر دیا مگر اس کی پہلی مخالفت کا بعض صحابہ کے دل پر جن میں عمار بھی شامل تھے اثر باقی تھا پس ایسے شخص کے خلاف باتیں سن کر عمار بہت جلد متاثر ہو گئے اور ان الزامات کو جو اس پر لگائے جاتے تھے صحیح تسلیم کر لیا اور احساس طبعی سے فائدہ اُٹھا کر سبائی یعنی عبد اللہ بن سبا کے ساتھی اس کے خلاف اس بات پر خاص زور دیتے تھے.پس حضرت عثمان کی نیک نیتی اور اخلاص کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ باوجود اس کے کہ سوائے ایک شخص کے سب وفدوں نے حکام کی بریت کا فیصلہ دیا تھا حضرت عثمان نے اس ایک مخالف رائے کی قدر کر کے ایک خط تمام علاقوں کے لوگوں کی طرف بھیجا جس کا مضمون یہ تھا کہ میں جب سے خلیفہ ہوا ہوں اَمْرِ بِالْمَعْرُوف اور نَهَى عَنِ الْمُنْكَرِ پر میرا عمل ہے اور میرے رشتہ داروں کا عام مسلمانوں سے زیادہ کوئی حق نہیں.مگر مجھے

Page 299

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۱ جلد اول مدینے کے رہنے والے بعض لوگوں سے معلوم ہوا ہے کہ حکام لوگوں کو مارتے اور گالیاں دیتے ہیں اس لئے میں اس خط کے ذریعے سے عام اعلان کرتا ہوں کہ جس کسی کو خفیہ طور پر گالی دی گئی ہو یا پیٹا گیا ہو وہ حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں مجھ سے ملے اور جو کچھ اُس پر ظلم ہوا ہو خواہ میرے ہاتھوں سے خواہ میرے عاملوں کے ذریعے سے اُس کا بدلہ وہ مجھ سے اور میرے نائبوں سے لے لے یا معاف کر دے.اللہ تعالیٰ صدقہ دینے والوں کو اپنے پاس سے جزا دیتا ہے.یہ مختصر لیکن درد ناک خط جس وقت تمام ممالک میں منبروں پر پڑھا گیا تو عالم اسلام ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہل گیا اور سامعین بے اختیار رو پڑے اور سب نے حضرت عثمان کے لئے دعائیں کیں اور ان فتنہ پردازوں پر جو اس ملت اسلام کے در در کھنے والے اور اس کا بوجھ اُٹھانے والے انسان پر حملہ کر رہے تھے اور اُس کو دکھ دے رہے تھے اظہار افسوس کیا گیا.حضرت عثمان نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ اپنے عمال کو ان الزامات کے جواب دینے کے لئے جو ان پر لگائے جاتے تھے خاص طور پر طلب کیا.جب سب والی جمع ہو.ہو گئے تو آپ نے ان سے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ آپ لوگوں کے خلاف الزام لگائے جاتے ہیں مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں یہ باتیں درست ہی نہ ہوں.اس پر ان سب نے جواب میں عرض کیا کہ آپ نے معتبر آدمیوں کو بھیج کر دریافت کر لیا ہے کہ کوئی ظلم نہیں ہوتا نہ خلاف شریعت کوئی کام ہوتا ہے اور آپ کے بھیجے ہوئے معتبروں نے سب لوگوں سے حالات دریافت کئے.ایک شخص بھی ان کے سامنے آکر ان شکایات کی صحت کا جو بیان کی جاتی ہیں مدعی نہیں ہوا پھر شک کی کیا گنجائش ہے.خدا کی قسم ہے کہ ان لوگوں نے سچ سے کام نہیں لیا اور نہ تقویٰ اللہ سے کام لیا ہے اور ان کے الزامات کی کوئی حقیقت نہیں ایسی بے بنیاد باتوں پر گرفت جائز نہیں ہوسکتی نہ ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے.حضرت عثمان نے فرمایا کہ پھر مجھے مشورہ دو کہ کیا کیا جاوے؟ اس پر مختلف مشورے آپ کو دیئے گئے جن سب کا ماحصل یہی تھا کہ آپ سختی کے موقع پر سختی سے کام لیں اور ان فسادیوں کو اس قدر ڈھیل نہ دیں اس سے ان میں دلیری پیدا ہوتی ہے.شریر صرف سزا سے

Page 300

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۲ جلد اول صلى اللهي ہی درست ہوسکتا ہے نرمی اسی سے کرنی چاہئے جو نرمی سے فائدہ اُٹھائے.حضرت عثمان نے سب کا مشورہ سن کر فرمایا.جن فتنوں کی خبر رسول کریم میں دے چکے ہیں وہ تو ہو کر رہیں گے ہاں نرمی سے اور محبت سے ان کو ایک وقت تک روکا جاسکتا ہے.پس میں سوائے حدود اللہ کے ان لوگوں سے نرمی ہی سے معاملہ کروں گا تا کہ کسی شخص کی میرے خلاف حجت حقہ نہ ہو.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے لوگوں سے بھلائی میں کوئی کمی نہیں کی.مبارک ہو عثمان کے لئے اگر وہ فوت ہو جاوے اور فتنوں کا سیلاب جو اسلام پر آنے والا ہے وہ ابھی شروع نہ ہوا ہو.پس جاؤ اور لوگوں سے نرمی سے معاملہ کرو اور ان کے حقوق ان کو دو اور ان کی غلطیوں سے درگزر کر و.ہاں اگر اللہ تعالیٰ کے احکام کو کوئی توڑے تو ایسے شخصوں سے نرمی اور عفو کا معاملہ نہ کرو.حج سے واپسی پر حضرت معاویہؓ بھی حضرت عثمان کے ساتھ مدینہ آئے کچھ دن ٹھہر کر آپ واپس جانے لگے تو آپ نے حضرت عثمان سے علیحدہ مل کر درخواست کی کہ فتنہ بڑھتا معلوم ہوتا ہے اگر اجازت ہو تو میں اس کے متعلق کچھ عرض کروں.آپ نے فرمایا کہو.اس پرانہوں نے کہا کہ اول میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ میرے ساتھ شام چلے چلیں کیونکہ شام میں ہر طرح سے امن ہے اور کسی قسم کا فساد نہیں ایسا نہ ہو کہ یکدم کسی قسم کا فسادا تھے اور اُس وقت کوئی انتظام نہ ہو سکے.حضرت عثمانؓ نے اُن کو جواب دیا کہ میں رسول کریم ﷺ کی ہمسائیگی کو کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا خواہ جسم کی دھجیاں اُڑا دی جائیں.حضرت معاویہ نے کہا کہ پھر دوسرا مشورہ یہ ہے کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں ایک دستہ شامی فوج کا آپ کی حفاظت کے لئے بھیج دوں ان لوگوں کی موجودگی میں کوئی شخص شرارت نہیں کر سکے گا.حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ نہ میں عثمان کی حفاظت کے لئے اس قدر بوجھ بیت المال پر ڈال سکتا ہوں اور نہ یہ پسند کر سکتا ہوں کہ مدینہ کے لوگوں کو فوج رکھ کر تنگی میں ڈالوں.اس پر حضرت معاویہؓ نے عرض کی کہ پھر تیسری تجویز یہ ہے کہ صحابہ کی موجودگی میں لوگوں کو جرات ہے کہ اگر عثمان نہ رہے تو ان میں سے کسی کو آگے کھڑا کر دیں گے ان لوگوں کو مختلف ملکوں میں پھیلا دیں.حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں کو

Page 301

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۳ جلد اول رسول کریم ﷺ نے جمع کیا ہے میں اُن کو پراگندہ کر دوں.اس پر معاویہ رو پڑے اور عرض کی کہ اگر ان تدابیر میں سے جو آپ کی حفاظت کے لئے میں نے پیش کی ہیں آپ کوئی بھی قبول نہیں کرتے تو اتنا تو کیجئے کہ لوگوں میں اعلان کر دیجئے کہ اگر میری جان کو کوئی نقصان پہنچے تو معاویہ کو میرے قصاص کا حق ہوگا شاید لوگ اس سے خوف کھا کر شرارت سے باز رہیں.حضرت عثمان نے جواب دیا کہ معاویہ جو ہونا ہے ہوکر رہے گا میں ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ آپ کی طبیعت سخت ہے ایسا نہ ہو آپ مسلمانوں پر سختی کریں.اس پر حضرت معاویہ روتے ہوئے آپ کے پاس سے اُٹھے اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو اور باہر نکل کر صحابہ سے کہا کہ اسلام کا دارو مدار آپ لوگوں پر ہے حضرت عثمان اب بالکل ضعیف ہو گئے ہیں اور فتنہ بڑھ رہا ہے آپ لوگ ان کی نگہداشت رکھیں.یہ کہہ کر معاویہ شام کی طرف روانہ ہو گئے.صوبہ جات کے عمال کا اپنے اپنے علاقوں سے غائب رہنا ایسا موقع نہ تھا جسے عبداللہ بن سبا یو نہی جانے دیتا.اُس نے فوراً چاروں طرف ڈاک دوڑا دی کہ یہ موقع ہے اس وقت ہمیں کچھ کرنا چاہئے ایک دن مقرر کر کے یکدم اپنے اپنے علاقہ کے امراء پر حملہ کر دیا جائے مگر ابھی مشورے ہی ہو رہے تھے کہ امراء واپس آگئے.دوسری جگہوں کے سبائی تو مایوس ہو گئے مگر کوفہ کے سبائی ( یعنی عبداللہ بن سبا کے ساتھی ) جو پہلے بھی عملی فساد میں سب سے آگے قدم رکھنے کے عادی تھے انہوں نے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا.یزید بن قیس نامی ایک شخص نے مسجد کوفہ میں جلسہ کیا اور اعلان کیا کہ اب حضرت عثمان کو خلافت سے علیحدہ کر دینا چاہئے.قعقاع بن عمرو جو اس جگہ کی چھاؤنی کے افسر تھے انہوں نے سنا تو آ کر اُسے گرفتار کرنا چاہا.وہ ان کے سامنے غذرکر نے لگا کہ میں تو اطاعت سے باہر نہیں ہوں.ہم لوگ تو اس لئے جمع ہوئے تھے کہ سعید بن العاص کے متعلق جلسہ کر کے درخواست کریں کہ اس کو یہاں سے بُلوایا جائے اور کوئی اور افسر مقرر کیا جاوے.اُنہوں نے کہا کہ اس کے لئے جلسوں کی ضرورت نہیں اپنی شکایات لکھ کر حضرت عثمان کی طرف بھیج دو.وہ کسی اور شخص کو والی مقرر کر کے بھیج دیں گے اس میں مشکل کون سی ہے.یہ بات

Page 302

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۴ جلد اول انہوں نے اس لئے کہی کہ زمانہ خلفاء میں لوگوں کے آرام کے خیال سے جب والیوں کے خلاف کوئی تکلیف ہوتی تھی تو اکثر اُن کو بدل دیا جاتا تھا.قعقاع کا یہ جواب سن کر یہ لوگ بظاہر منتشر ہو گئے مگر خفیہ طور پر منصوبہ کرتے رہے.آخر یزید بن قیس نے جو اُس وقت کوفہ میں سبائیوں کا رئیس تھا ایک آدمی کو خط دے کر حمص کی طرف روانہ کیا اور کہا کہ ان لوگوں کو جو کوفہ سے جلا وطن کئے گئے تھے اور جن کا واقعہ پہلے بیان ہو چکا ہے وہ بلا لائے.وہ خط لے کر ان لوگوں کے پاس گیا.اس خط کا مضمون یہ تھا کہ اہلِ مصر ہمارے ساتھ مل گئے ہیں اور موقع بہت اچھا ہے یہ خط پہنچتے ہی ایک منٹ کی دیر نہ کرو اور واپس آ جاؤ.کس قدر تعجب کی بات ہے کہ خلیفہ وقت سابق بالا یمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے داماد کے خلاف جوش ظاہر کرنے والے اور اس پر عیب لگانے والے وہ لوگ ہیں جو خود نمازوں کے تارک ہیں.کیا ہو سکتا ہے کہ اسلام کے لئے غیرت صرف بے دینوں میں پیدا ہو؟ اگر واقعہ میں حضرت عثمان یا ان کے والیوں میں کوئی نقص ہوتا ، کوئی بات خلاف شریعت ہوتی ، کوئی کمزوری ہوتی تو اس کے خلاف جوش کا اظہار کرنے والے علی ، طلحہ، زبیر ، سعد بن الوقاص ، عبد اللہ بن عمر ، اسامہ بن زید ، عبد اللہ بن عباس ، ابوموسیٰ اشعری، حذیفہ بن الیمان، ابو ہریرہ ، عبداللہ بن سلام ، عبادہ بن صامت اور محمد بن مسلمہ رضوان اللہ علیہم ہوتے نہ کہ یزید بن قیس اور اشتر.یہ خط لے کر نامہ بر جزیرہ پہنچا اور جلا وطنانِ اہلِ کوفہ کے سپر د کر دیا.جب انہوں نے اس خط کو پڑھا تو سوائے اشتر کے سب نے نا پسند کیا.کیونکہ وہ عبد الرحمن بن خالد کے ہاتھ دیکھ چکے تھے.مگر اشتر جو مدینہ میں جا کر حضرت عثمان سے معافی مانگ کر آیا تھا اس کی تو بہ قائم نہ رہی اور اُسی وقت کوفہ کی طرف چل پڑا.جب اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اشتر واپس چلا گیا تو وہ ڈرے کہ عبد الرحمن ہماری بات پر یقین نہ کریں گے اور سمجھیں گے کہ یہ سب کام ہمارے مشورہ سے ہوا ہے.اس خوف سے وہ بھی نکل بھاگے جب عبد الرحمن بن خالد بن ولید کو معلوم ہوا تو انہوں نے پیچھے آدمی بھیجے مگر ان کے آدمی ان کو پکڑ نہ سکے.مالک الاشتر منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا کوفہ پہنچا.خالی ہاتھ شہر میں گھسنا اُس نے اپنی عزت کے خلاف

Page 303

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۵ جلد اول سمجھا.یہ جزیرہ سے آنے والا شخص جو اپنے ساتھیوں سے ملنے کے لئے دو دومنزلوں کی ایک منزل کرتا چلا آیا تھا اپنے مدینہ سے آنے کا اعلان کرنے لگا اور لوگوں کو جوش دلانے کے لئے کہنے لگا کہ میں ابھی سعید بن العاص سے جد ا ہوا ہوں ، ان کے ساتھ ایک منزل ہم سفر رہا ہوں.وہ علی الاعلان کہتا ہے کہ میں کوفہ کی عورتوں کی عصمتوں کو خراب کروں گا اور کہتا ہے کہ کوفہ کی جائدادیں قریش کا مال ہیں.اور یہ شعر فخر یہ پڑھتا ہے.وَيْلٌ لِاشْرَافِ النِّسَاءِ مِنِّي صَمَعْمَحٌ كَااَنَّنِي مِنْ جِيّ " شریف عورتیں میرے سبب سے مصیبت میں مبتلاء ہوں گی.میں ایک ایسا مضبوط آدمی ہوں گویا جنات میں سے ہوں اس کی ان باتوں سے عامہ الناس کی عقل ماری گئی اور انہوں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیا اور آنا فانا ایک جوش پھیل گیا.عقل مندوں اور داناؤں نے بہت سمجھایا کہ یہ ایک فریب ہے اس فریب میں تم نہ آؤ مگر عوام کے جوش کو کون رو کے ان کی بات ہی کوئی نہ سنتا تھا.ایک آدمی نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ جو چاہتا ہے کہ سعید بن العاص والی کوفہ کی واپسی اور کسی اور والی کے تقرر کا مطالبہ کرے اسے چاہیے کہ فوراً یزید بن قیس کے ہمراہ ہو جائے اس اعلان پر لوگ دوڑ پڑے اور مسجد میں سوائے داناؤں، شریف آدمیوں اور رؤساء کے اور کوئی نہ رہا.عمر بن الجرید ،سعید کی غیر حاضری میں ان کے قائمقام تھے.انہوں نے جو لوگ باقی رہ گئے تھے ان میں وعظ کہنا شروع کیا کہ اے لوگو ! خدا تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو کہ ہم دشمن تھے.اس نے تمہارے دلوں میں اتحاد پیدا کیا اور تم بھائی بھائی ہو گئے.تم ایک ہلاکت کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے خدا تعالیٰ نے تم کو اس سے بچایا پس اس مصیبت میں اپنے آپ کو نہ ڈالو جس سے خدا تعالیٰ نے تم کو بچایا تھا.کیا اسلام اور ہدایت الہی اور سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تم لوگ حق کو نہیں پہچانتے اور حق کے دروازہ کی طرف نہیں آتے؟ اس پر قعقاع بن عمرو نے ان سے کہا کہ آپ وعظ سے اس فتنہ کو روکنا چاہتے ہیں یہ امید نہ رکھیں.ان شورشوں کو تلوار کے سوا کوئی چیز نہیں روک سکتی اور وہ زمانہ بعید نہیں کہ تلوار بھی کھینچی جائے گی.اس وقت یہ لوگ بکری کے

Page 304

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۶ جلد اول بچوں کی طرح چیچنیں گے اور خواہش کریں گے کہ یہ زمانہ پھر لوٹ آوے مگر پھر خدا تعالیٰ قیامت تک یہ نعمت ان کی طرف نہ لوٹائے گا.عوام الناس شہر کے باہر جمع ہوئے اور مدینہ کا رُخ کیا اور سعید بن العاص کا انتظار کرنے لگے.جب وہ سامنے آئے تو ان سے کہا کہ آر واپس چلے جاویں ہمیں آپ کی ضرورت نہیں.سعید نے کہا کہ یہ بھی کوئی دانائی ہے کہ اس قدر آدمی جمع ہو کر اس کام کے لئے باہر نکلے ہو.ایک آدمی کے روکنے کے لئے ہزار آدمی کی کیا ضرورت تھی یہی کافی تھا کہ تم ایک آدمی خلیفہ کی طرف بھیج دیتے اور ایک آدمی میری طرف روانہ کر دیتے.یہ کہہ کر انہوں نے اپنی سواری کو ایڑی لگائی اور مدینہ کی طرف واپس لوٹ گئے تا کہ حضرت عثمان کو خبر دار کر دیں.اور یہ لوگ حیران رہ گئے اتنے میں ان کا ایک غلام نظر آیا اُس کو اِن لوگوں نے قتل کر دیا.سعید بن العاص نے مدینہ پہنچ کر حضرت عثمان کو اس تمام فتنہ سے اطلاع دی.آپ نے فرمایا کہ کیا وہ لوگ میرے خلاف اُٹھے ہیں ؟ سعید نے کہا کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ والی بدلا یا جاوے.انہوں نے دریافت کیا کہ وہ کسے چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ابو موسیٰ اشعری کو پسند کرتے ہیں.حضرت عثمان نے فرمایا ہم نے ابو موسیٰ اشعری کا والی کوفہ مقرر ہونا ابوموسیٰ اشعری کو کوفہ کا والی مقرر کر دیا اور خدا کی قسم ہے ان لوگوں کو غذر کا کوئی موقع نہ دوں گا اور کوئی دلیل ان کے ہاتھوں میں نہیں آنے دوں گا اور ان کی باتوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے ماتحت صبر کروں گا یہاں تک کہ وہ وقت آجاوے جس کا یہ ارادہ کرتے ہیں یعنی عثمان کے علیحدہ کرنے کا.اس فتنہ نے ظاہر کر دیا کہ یہ لوگ جھوٹ اور فریب سے کسی قسم کا پر ہیز نہیں رکھتے تھے.مفسدوں کی سازشوں کا انکشاف مالک الاشتر کا جزیرہ سے بھاگے چلے آنا اور مدینہ سے آنے کا اظہار کرنا، سعید بن العاص پر جھوٹا الزام لگانا اور شرمناک باتیں اپنے پاس سے بنا کر ان کی طرف منسوب کرنا ایسے امور نہیں ہیں جو ان مفسدوں کے اصل ارادوں اور مخفی خواہشوں کو چھپا

Page 305

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۷ جلد اول رہنے دیں.بلکہ اب باتوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اسلام سے بالکل کورے تھے.اسلام جھوٹ کو جائز نہیں قرار دیتا اور فریب کا روادار نہیں.اتہام لگا نا اسلام میں ایک سخت جرم ہے.مگر یہ اسلام کی محبت ظاہر کرنے والے اور اس کے لئے غیرت کا اظہار کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں.اتہام لگاتے ہیں اور ان کاموں سے ان کو کائی عار نہیں معلوم ہوتی.پس ایسے لوگوں کا حضرت عثمان کے خلاف شور مچانا ہی اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ کسی حقیقی نقص کی وجہ سے یہ شورش نہیں تھی بلکہ اسلام سے دُوری اور بے دینی کا نتیجہ ہے.دوسرا استنباط اس واقعہ سے یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس حضرت عثمان اور ان کے عمال کے برخلاف ایک بھی واجبی شکایت نہ تھی کیونکہ اگر واقعہ میں کوئی شکایت ہوتی تو ان کو جھوٹ بنانے کی کیا ضرورت تھی.جھوٹی شکایات کا بنانا ہی اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ ان لوگوں کو حقیقی شکایات نہ تھیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اشتر کے آنے سے پہلے جب یزید نے جلسہ کیا ہے تو اُس وقت صرف چند سپاہی لوگ ہی اس جلسہ میں شریک ہوئے تھے اور قعقاع کے روکنے پر یہ لوگ ڈر گئے اور جلسہ کرنا انہوں نے موقوف کر دیا تھا.مگر اسی مہینہ کے اندراندر ہم دیکھتے ہیں کہ اشتر کے جھوٹ سے متاثر ہو کر کوفہ کے عامۃ الناس کا ایک کثیر گروہ ان لوگوں کے ساتھ مل کر سعید کو روکنے اور دوسرے والی کے طلب کرنے کے لئے کوفہ سے نکل پڑا.یہ امر اس بات کی شہادت ہے کہ پہلے لوگ ان کی باتوں میں نہ آئے تھے کیونکہ ان کے پاس ان کو جوش دلانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا.اشتر نے جب ایسا ذریعہ ایجاد کیا جولوگوں کی غیرت کو بھڑ کانے والا تھا تو عامتہ الناس کا ایک حصہ فریب میں آ گیا اور ان کے ساتھ مل گیا.اس فتنہ کے اظہار سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ان لوگوں کی اصل مخالفت حضرت عثمان سے تھی نہ کہ ان کے اعمال سے.کیونکہ ابتداء یہ لوگ آپ کے ہی خلاف جوش بھڑ کا نا چاہتے تھے مگر جب دیکھا کہ لوگ اس بات میں ان کے شریک نہیں ہو سکتے بلکہ ان کی مخالفت پر آمادہ ہو جاتے ہیں تب امراء کے خلاف جوش بھڑ کا نا شروع کر دیا.ایک جماعت کثیر کے ساتھ مدینہ کی طرف رُخ کرنا بھی ثابت کرتا ہے کہ ان کی نیت حضرت عثمان

Page 306

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۸ جلد اول کے متعلق اچھی نہ تھی.سعید بن العاص کے آزاد کردہ غلام کو بلا وجہ قتل کر دینے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ان لوگوں کو کسی مجرم کے ارتکاب سے اجتناب نہ تھا.معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ لوگ اس بات کو محسوس کرنے لگ گئے تھے کہ اگر چندے اور دیر ہوئی تو اُمت اسلامیہ پوری طرح ہمارے فتنہ کی اہمیت سے آگاہ ہو جائے گی اس لئے وہ جس طرح بھی ہو اپنے مدعا کو جلد سے جلد پورا کرنے کی فکر میں تھے.مگر حضرت عثمان نے اپنی دانائی سے ایک دفعہ پھر ان کے عذرات کو توڑ دیا اور ابو موسیٰ اشعری کو والی مقرر کر کے فوراً ان لوگوں کو اطلاع دی.سعید بن العاص کے واپس چلے جانے اوران کے ارادوں سے اہلِ مدینہ کو اطلاع دے دینے سے ان کی امیدوں پر پہلے ہی پانی پھر چکا تھا اور یک دم مدینہ پر قبضہ کر لینے کے منصوبے جو سوچ رہے تھے باطل ہو چکے تھے اور یہ لوگ واپس ہونے پر مجبور ہو چکے تھے.اب ابو موسیٰ اشعری کے والی مقرر ہونے پر ان کے عذرات بالکل ہی ٹوٹ گئے کیونکہ یہ لوگ ایک مدت سے ان کی ولایت کے طالب تھے.ابو موسیٰ اشعری کو جب معلوم ہوا کہ ان کو کوفہ کا والی مقرر کیا گیا ہے تو انہوں نے سب لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ اے لوگو! ایسے کاموں کیلئے پھر کبھی نہ نکلنا اور جماعت اور اطاعت کو اختیار کرو اور صبر سے کام لو اور جلد بازی سے بچو کیونکہ اب تم میں ایک امیر موجود ہے یعنی میں امیر مقرر ہوا ہوں.اس پر ان لوگوں نے درخواست کی کہ آپ ہمیں نماز پڑھائیں تو انہوں نے اس سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ نہیں یہ کبھی نہیں ہوسکتا.جب تک تم لوگ حضرت عثمان کی کامل حاکم وقت کی اطاعت ضروری ہے اطاعت اور ان کے احکام کے قبول کرنے کا اقرار نہ کرو گے میں تمہارا امام جماعت نہیں بنوں گا.اس پر ان لوگوں نے اس امر کا وعدہ کیا کہ وہ آئندہ پوری طرح اطاعت کریں گے اور ان کے احکام کو قبول کریں گے تب حضرت ابو موسیٰ اشعری نے اُن کو نماز پڑھائی.اسی طرح حضرت ابو موسیٰ نے ان کو کہا کہ سنو ! میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جو کوئی ایسے وقت میں کہ

Page 307

خلافة على منهاج النبوة ۲۸۹ جلد اول ۲۵ لوگ ایک امام کے ماتحت ہوں ان میں تفرقہ ڈالنے کے لئے اور ان کی جماعت کو پراگندہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جا وے اُسے قتل کر دو خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے ساتھ اس کے عادل ہونے کی شرط نہیں لگائی یعنی تم لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت عثمان عادل نہیں کیونکہ اگر یہ مان لیا جاوے تو تمہارا یہ فعل جائز نہیں.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عادل کی شرط نہیں لگائی بلکہ صرف یہ فرمایا ہے کہ لوگوں پر کوئی حاکم ہو.یہ خیالات ہیں ان لوگوں کے جنہوں نے اپنی عمر میں خدمت اسلام کیلئے خرچ کر دی تھیں اور جنہوں نے اسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے سنا تھا اور آپ کے سامنے ان پر عمل کر کے سندِ قبولیت حاصل کی تھی.وہ لوگ ان مفسدوں کے پیچھے نماز پڑھنا تو الگ رہا ان کا امام بننا بھی پسند نہیں کرتے تھے اور ان کو واجب القتل جانتے تھے.کیا ان لوگوں کی نسبت کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ فتنہ عثمان میں شامل تھے یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عثمان اور ان کے عمال حقوق رعایا کو تلف کرتے تھے یا ان واقعات کی موجودگی میں قبول کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کی خاطر یہ مفسد فساد برپا کر رہے تھے ؟ نہیں بلکہ یہ فسادی جماعت صحابہ پر حسد کر کے فساد پر آمادہ تھے اور اپنے دلی خیالات کو چھپاتے تھے حکومت اسلام کی بربادی ان کا اصل مقصد تھا.اور یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا تھا جب تک حضرت عثمان کو درمیان سے نہ ہٹایا جائے.بعض جاہل یا بے دین مسلمان بھی ان کے اس فریب کو نہ سمجھ کر خود غرضی یا سادگی کے باعث ان کے ساتھ مل گئے تھے.مفسدوں کی ایک اور سازش حضرت ابوموسیٰ اشعری کے والی مقرر ہو جانے پر ان لوگوں کے فتنہ بر پا کرنے کی کوئی وجہ باقی نہ رہی تھی لیکن اس فتنہ کے اصل محرک اس امر کو پسند نہ کر سکتے تھے کہ ان کی تمام کوششیں اس طرح برباد ہو جاویں.چنانچہ خط و کتابت شروع ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ سب ملکوں کی طرف سے کچھ لوگ وفد کے طور پر مدینہ منورہ کو چلیں.وہاں آپس میں آئندہ طریق عمل کے متعلق مشورہ بھی کیا جاوے اور حضرت عثمان سے بعض سوال کئے جاویں تا کہ وہ باتیں تمام

Page 308

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۰ جلد اول اقطار عالم میں پھیل جاویں اور لوگوں کو یقین ہو جاوے کہ حضرت عثمان پر جو الزامات لگائے جاتے تھے وہ پایہ ثبوت کو پہنچا دیئے گئے ہیں.یہ مشورہ کر کے یہ لوگ گھروں سے نکلے اور مدینے کی طرف سب نے رُخ کیا.جب مدینہ کے قریب پہنچے تو حضرت عثمان کو ان کی آمد کا علم ہوا.آپ نے دو آدمیوں کو بھیجا کہ وہ ان کا بھید لیں اور ان کی آمد کی اصل غرض دریافت کر کے اطلاع دیں.یہ دونوں گئے اور مدینہ سے باہر اس قافلہ سے جاملے.ان لوگوں نے ان دونوں مخبروں سے باتوں باتوں میں اپنے حالات بیان کر دیئے انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا اہل مدینہ میں سے بھی کوئی شخص ان کے ساتھ ہے؟ جس پر مفسدوں نے کہا کہ وہاں تین شخص ہیں ان کے سوا کوئی چوتھا شخص ان کا ہمدرد نہیں.ان دونوں نے دریافت کیا کہ پھر تمہارا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ ارادہ یہ ہے کہ ہم مدینہ جا کر حضرت عثمان سے بعض ایسے امور کے متعلق گفتگو کریں گے جو پہلے سے ہم نے لوگوں کے دلوں میں بٹھا چھوڑے ہیں.پھر ہم اپنے ملکوں کو واپس جاویں گے اور لوگوں سے کہیں گے کہ ہم نے حضرت عثمان پر بہت الزام لگائے اور ان کی سچائی ثابت کر دی مگر انہوں نے ان باتوں کے چھوڑنے سے انکار کر دیا اور تو بہ نہیں کی.پھر ہم حج کے بہانہ سے نکلیں گے اور مدینہ پہنچ کر آپ کا احاطہ کر لیں گے.اگر آپ نے خلافت سے علیحدگی اختیار کر لی تب تو خیر ورنہ آپ کو قتل کر دیں گے.سازش کا انکشاف یہ دونوں مخبر پوری طرح ان کا حال لیکر واپس گئے اور حضرت عثمان کو سب حال سے اطلاع دی.آپ ان لوگوں کا حال سن کر ہنس پڑے اور خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ الہی ! ان لوگوں کو گمراہی سے بچالے.اگر تو نہ بچاوے گا تو یہ لوگ برباد ہو جاویں گے.پھر ان تینوں شخصوں کی نسبت جو مدینہ والوں میں سے ان لوگوں کے ساتھ تھے فرمایا کہ عمار کو تو یہ غصہ ہے کہ اس نے عباس بن عقبہ بن ابی لہب پر حملہ کیا تھا اور اس کو زجر کی تھی اور محمد بن ابی بکر متکبر ہو گیا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اب اس پر کوئی قانون نہیں چلتا اور محمد بن ابی حذیفہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال رہا ہے.پھر آپ نے ان مفسدوں کو بھی بلوایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو بھی جمع کیا..

Page 309

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۱ جلد اول حضرت عثمان کا مفسدوں کو بلوانا جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے ان لوگوں کو سب حال سنایا اور وہ دونوں مخبر بھی بطور گواہ کھڑے ہوئے اور گواہی دی.اس پر صحابہ نے فتوی دیا کہ ان لوگوں کو قتل کر دیجئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص ایسے وقت میں کہ ایک امام موجود ہوا اپنی اطاعت یا کسی اور اطاعت کے لئے لوگوں کو بلا وے اس پر خدا کی لعنت ہو.تم ایسے شخص کو قتل کر دو خواہ کوئی ہو.اور حضرت عمر کا قول یاد دلایا کہ میں تمہارے لئے کسی ایسے شخص کا قتل جائز نہیں سمجھتا جس میں میں شریک نہ ہوں یعنی سوائے حکومت کے اشارہ کے کسی شخص کا قتل جائز نہیں.حضرت عثمان نے صحابہ کا یہ فتوی سن کر فرمایا کہ نہیں ہم ان کو معاف کریں گے اور ان کے عذروں کو قبول کریں گے اور اپنی ساری کوشش سے ان کو سمجھا دیں گے اور کسی شخص کی مخالفت نہیں کریں گے.جب تک وہ کسی حد شرعی کو نہ توڑے یا اظہار کفر نہ کرے.حضرت عثمان کا اتہامات سے بریت ثابت کرنا پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے کچھ باتیں بیان کی ہیں جو تم کو بھی معلوم ہیں مگر ان کا خیال ہے کہ وہ ان باتوں کے متعلق مجھ سے بحث کریں تا کہ واپس جا کر کہہ سکیں کہ ہم نے ان امور کے متعلق عثمان سے بحث کی اور وہ ہار گئے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نے سفر میں پوری نماز ادا کی حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں نماز قصر کیا کرتے تھے.مگر میں نے صرف مٹی میں پوری پڑھی ہے اور وہ بھی دو وجہ سے.ایک تو یہ کہ میری وہاں جائداد تھی اور میں نے وہاں شادی کی ہوئی تھی.دوسرے یہ کہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ چاروں طرف سے لوگ ان دنوں حج کے لئے آئے ہیں ان میں سے ناواقف لوگ کہنے لگیں گے کہ خلیفہ تو دو ہی رکعت پڑھتا ہے دو ہی رکعت ہوں گی.کیا یہ بات درست نہیں ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ ہاں درست ہے.آپ نے فرمایا دوسرا الزام یہ لگاتے ہیں کہ میں نے رکھ مقرر کرنے کی بدعت جاری کی ہے حالانکہ یہ الزام غلط ہے.رکھ مجھ سے پہلے مقرر کی گئی تھی حضرت عمرؓ نے اس کی ابتداء کی تھی اور میں نے صرف

Page 310

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۲ جلد اول صدقہ کے اونٹوں کی زیادتی پر اس کو وسیع کیا ہے اور پھر رکھ میں جو زمین لگائی گئی ہے وہ کسی کا مال نہیں ہے اور میرا اس میں کوئی فائدہ نہیں میرے تو صرف دو اونٹ ہیں حالانکہ جب میں خلیفہ ہوا تھا اُس وقت میں سب عرب سے زیادہ مال دار تھا اب صرف دو اونٹ ہیں جو حج کے لئے رکھے ہوئے ہیں.کیا یہ درست نہیں ؟ صحابہ کرام نے فرمایا ہاں درست ہے.پھر فرمایا یہ کہتے ہیں کہ نو جوانوں کو حاکم بناتا ہے حالانکہ میں ایسے ہی لوگوں کو حاکم بنا تا ہوں جو نیک صفات نیک اطوار ہوتے ہیں اور مجھ سے پہلے بزرگوں نے میرے مقرر کردہ والیوں سے زیادہ نو عمر لوگوں کو حاکم مقرر کیا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اسامہ بن زیڈ کے سردا را شکر مقرر کرنے پر اس سے زیادہ اعتراض کئے گئے تھے جواب مجھ پر کئے جاتے ہیں.کیا یہ درست نہیں؟ صحابہ نے جواب دیا کہ ہاں درست ہے.یہ لوگوں کے سامنے عیب تو بیان کرتے ہیں مگر اصل واقعات نہیں بیان کرتے.غرض اسی طرح حضرت عثمان نے تمام اعتراضات ایک ایک کر کے بیان کئے اور ان کے جواب بیان کئے.صحابہ برابر زور دیتے کہ ان کو قتل کر دیا جائے مگر حضرت عثمان نے ان کی یہ بات نہ مانی اور ان کو چھوڑ دیا.طبری کہتا ہے کہ ابى الْمُسْلِمُونَ إِلَّا قَتْلَهُمْ وَأَبَى إِلَّا تَرَكَهُمُ.یعنی باقی سب مسلمان تو ان لوگوں کے قتل کے سوا کسی بات پر راضی نہ ہوتے تھے مگر حضرت عثمان سزا دینے پر کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے.حضرت عثمان کا مفسدوں پر رحم کرنا اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسد لوگ کس کس قسم کے فریب اور دھو کے سے کام کرتے تھے اور اُس زمانہ میں جب کہ پر لیس اور سامانِ سفر کا وہ انتظام نہ تھا جو آجکل ہے کیسا آسان تھا کہ یہ لوگ ناواقف لوگوں کو گمراہ کر دیں.مگر اصل میں ان لوگوں کے پاس کوئی معقول وجہ فساد کی نہ تھی.نہ حق ان کے ساتھ نہ یہ حق کے ساتھ تھے.ان کی تمام کارروائیوں کا دارو مدار جھوٹ اور باطل پر تھا اور صرف حضرت عثمان کا رحم ان کو بچائے ہوئے تھا ورنہ مسلمان ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے.وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ وہ امن و امان جو انہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے حاصل کیا تھا چند شریروں کی شرارتوں سے

Page 311

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۳ جلد اول اس طرح جاتا رہے اور وہ دیکھتے تھے کہ ایسے لوگوں کو اگر جلد سزا نہ دی گئی تو اسلامی حکومت تہ و بالا ہو جائے گی.مگر حضرت عثمان رحم مجسم تھے وہ چاہتے تھے کہ جس طرح ہو ان لوگوں کو ہدایت مل جائے اور یہ کفر پر نہ مریں.پس آپ ڈھیل دیتے تھے اور ان کے صریح بغاوت کے اعمال کو محض ارادہ بغاوت سے تعبیر کر کے سزا کو پیچھے ڈالتے چلے جاتے تھے.اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ ان لوگوں سے بالکل متنفر تھے کیونکہ اوّل تو خود وہ بیان کرتے ہیں کہ صرف تین اہلِ مدینہ ہمارے ساتھ ہیں اس سے زیادہ نہیں اگر اور صحابہ بھی ان کے ساتھ ہوتے تو وہ ان کا نام لیتے.دوسرے صحابہ نے اپنے عمل سے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ ان لوگوں کے افعال سے متنفر تھے اور ان کے اعمال کو ایسا خلاف شریعت سمجھتے تھے کہ سزا قتل سے کم ان کے نزدیک جائز ہی نہ تھی.اگر صحابہ ان کے ساتھ ہوتے یا اہلِ مدینہ ان کے ہم خیال ہوتے تو کسی مزید حیلہ و بہا نہ کی ان لوگوں کو کچھ ضرورت ہی نہیں تھی.اُسی وقت حضرت عثمان کو قتل کر دیتے اور ان کی جگہ کسی اور شخص کو خلافت کے لئے منتخب کر لیتے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ یہ لوگ حضرت عثمان کے قتل میں کامیاب ہوتے خود ان کی جانیں صحابہ کی شمشیر ہائے بر ہنہ سے خطرہ میں پڑ گئی تھیں.اور صرف اسی رحیم وکریم وجود کی عنایت و مہربانی سے یہ لوگ بیچ کر واپس جاسکے جس کے قتل کا ارادہ ظاہر کرتے تھے اور جس کے خلاف اس قدر فساد برپا کر رہے تھے.ان مفسدوں کی کینہ وری اور تقویٰ سے بُعد پر تعجب آتا ہے کہ اس واقعہ سے انہوں نے کچھ بھی فائدہ نہیں اُٹھایا.ان کے ایک ایک اعتراض کا خوب جواب دیا گیا اور سب الزام غلط اور بے بنیاد ثابت کر دیئے گئے.حضرت عثمان کا رحم و کرم انہوں نے دیکھا اور ہر ایک شخص کی جان اس پر گواہی دے رہی تھی کہ اس شخص کا مثیل اس وقت دنیا کے پردہ پر نہیں مل سکتا.مگر بجائے اس کے کہ اپنے گنا ہوں سے تو بہ کرتے ، جفاؤں پر پشیمان ہوتے ، اپنی غلطیوں پر نادم ہوتے ، اپنی شرارتوں سے رجوع کرتے ، یہ لوگ غیظ و غضب کی آگ میں اور بھی زیادہ جلنے لگے اور اپنے لا جواب ہونے کو اپنی ذلت اور حضرت عثمان کے عفو کو اپنی حسن تدبیر کا نتیجہ سمجھتے ہوئے آئندہ کے لئے اپنی بقیہ تجویز کے پورا کرنے کی تدابیر سوچتے ہوئے واپس لوٹ گئے.

Page 312

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۴ جلد اول مفسدوں کی ایک اور گہری سازش واپس جا کر ان لوگوں نے پھر خط و کتابت شروع کی اور آخر فیصلہ کیا کہ شوال میں اپنی پہلی تجویز کے مطابق حج کے ارادہ سے قافلہ بن کر نکلیں اور مدینہ میں جا کر یکدم تمام انتظام کو درہم برہم کر دیں اور اپنی مرضی کے مطابق نظام حکومت کو بدل دیں.اس تجویز کے مطابق شوال یعنی چاند کے دسویں مہینے حضرت عثمان کی خلافت کے بارھویں سال ، چھتیسویں سال ہجری میں یہ لوگ تین قافلے بن کر اپنے گھروں سے نکلے.ایک قافلہ بصرہ سے ، ایک کوفہ سے اور ایک مصر سے.پچھلی دفعہ کی ناکامی کا خیال کر کے اور اس بات کو مد نظر رکھ کر کہ یہ کوشش آخری کوشش ہے عبد اللہ بن سبا خود بھی مصر کے قافلہ کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوا.اس رئیس المفسدین کا خود باہر نکلنا اس امر کی علامت تھا کہ یہ لوگ اب ہر ایک ممکن تدبیر سے اپنے مدعا کے حصول کی کوشش کریں گے.چونکہ ہر ایک گروہ نے اپنے علاقہ میں حج پر جانے کے ارادہ کا اظہار کیا تھا کچھ اور لوگ بھی ان کے ساتھ یہ ارادہ حج شامل ہو گئے اور اس طرح اصل ارادے ان لوگوں کے عامۃ المسلمین سے مخفی رہے.مگر چونکہ حکام کو ان کی اندرونی سازش کا علم تھا عبد اللہ بن ابی سرح والی مصر نے ایک خاص آدمی بھیج کر حضرت عثمان کو اس قافلہ اور اس کے مخفی ارادہ کی اطلاع قبل از وقت دے دی جس سے اہل مدینہ ہوشیار ہو گئے.اس جگہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تک اہل مدینہ اور خصوصاً صحابہ ان لوگوں کے تین دفعہ آنے پر ان کو قتل کرنا چاہتے تھے اور ان کو یہ معلوم تھا کہ ان کا حج کے بہانہ سے آکر فساد کرنے کا ارادہ حضرت عثمان پر ظاہر ہے تو پھر کیوں انہوں نے کوئی اور تد بیر اختیار نہ کی اور اسی پہلی تدبیر کے مطابق جن کا علم حضرت عثمان کو ہو چکا تھا سفر کیا.کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ در حقیقت اہل مدینہ ان لوگوں کے ساتھ تھے اسی وجہ سے یہ لوگ ڈرے نہ تھے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بے شک ان کی یہ دلیری ظاہر کرتی ہے کہ ان لوگوں کو اپنی کامیابی کا پورا یقین تھا مگر اس کی یہ وجہ نہیں کہ صحابہ یا اہلِ مدینہ ان کے ساتھ تھے یا ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھے بلکہ جیسا کہ خود ان کے بیان سے ثابت ہے کہ صرف تین شخص

Page 313

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۵ جلد اول مدینہ کے ان کے ساتھ تھے.اور جیسا کہ واقعات سے ثابت ہے صحابہ اور دیگر اہل مدینہ ان لوگوں سے سخت بیزار تھے.پس ان کی دلیری کا یہ باعث تو نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگ ان سے کسی قسم کی ہمدردی کا اظہار کرتے تھے ان کی دلیری کا اصل باعث اوّل تو حضرت عثمان کا رحم تھا.یہ لوگ سمجھتے تھے کہ اگر ہم کامیاب ہو گئے تو فَهُوَ الْمُرَادُ.اور اگر نا کام رہے تو حضرت عثمان سے درخواست رحم کر کے سزا سے بچ جائیں گے.دوسرے گو صحابہ اہل مدینہ کا طریق عمل یہ پچھلی دفعہ دیکھ چکے تھے اور ان کو معلوم تھا کہ حضرت عثمان کو ہماری آمد کا علم ہے مگر یہ لوگ خیال کرتے تھے کہ حضرت عثمان اپنے حلم کے باعث ان کے خلاف لڑنے کے لئے کوئی لشکر نہیں جمع کریں گے اور صحابہ ہمارا مقابلہ نہیں کریں گے.کیونکہ یہ لوگ اپنے نفس پر قیاس کر کے سمجھتے تھے کہ صحابہ ظاہر میں حضرت عثمان سے اخلاص کا اظہار کرتے ہیں ورنہ اصل میں ان کی ہلاکت کو پسند کرتے ہیں.اور اس خیال کی یہ وجہ تھی کہ یہ لوگ یہی ظاہر کیا کرتے تھے کہ صحابہ کے حقوق کی حفاظت کیلئے ہی ہم سب کچھ کر رہے ہیں.پس ان کو خیال تھا کہ صحابہ ہمارے اس فریب سے متاثر ہیں اور دل میں ہمیں سے ہمدردی رکھتے ہیں.مفسدوں کا مدینہ میں پہنچنا جونہی اس لشکر کے مدینہ کے قریب پہنچنے کی اطلاع ملی صحابہ اور اہل مدینہ جو اردگرد میں جائدادوں پر انتظام کے لئے گئے ہوئے تھے مدینہ میں جمع ہو گئے اور لشکر کے دو حصے کئے گئے.ایک حصہ تو مدینہ کے باہر ان لوگوں کے مقابلہ کرنے کے لئے گیا اور دوسرا حصہ حضرت عثمان کی حفاظت کیلئے شہر میں رہا.جب تینوں قافلے مدینے کے پاس پہنچے تو اہل بصرہ نے ذوخشب مقام پر ڈیرہ لگایا ، اہل کوفہ نے اعوص پر اور اہل مصر نے ذوالمروہ پر.اور مشورہ کیا گیا کہ اب ان کو کیا کرنا چاہیے.گو اس لشکر کی تعداد کا اندازہ اٹھارہ سو آدمی سے لے کر تین ہزار تک کیا جاتا ہے.( دوسرے حجاج جو ان کو قافلہ حج خیال کر کے ان کے ساتھ ہو گئے تھے وہ علیحدہ تھے مگر پھر بھی یہ لوگ سمجھتے تھے کہ دلاورانِ اسلام کا مقابلہ اگر وہ مقابلہ پر آمادہ ہوئے ان کے لئے آسان نہ ہوگا.اس لئے مدینہ میں داخل ہوتے ہی پہلے اہل مدینہ کی رائے معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے.چنانچہ دو شخص زیاد بن النضر اور عبداللہ بن الاصم نے

Page 314

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۶ جلد اوّل اہل کوفہ اور اہل بصرہ کو مشورہ دیا کہ جلدی اچھی نہیں وہ اگر جلدی کریں گے تو اہل مصر کو بھی جلدی کرنی پڑے گی اور کام خراب ہو جائیگا.انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اہل مدینہ نے ہمارے مقابلہ کے لئے لشکر تیار کیا ہے اور جب ہمارے پورے حالات معلوم نہ ہونے کے باوجود انہوں نے اس قدر تیاری کی ہے تو ہمارا پورا حال معلوم ہونے پر تو وہ اور بھی زیادہ ہوشیاری سے کام لیں گے اور ہماری کامیابی خواب و خیال ہو جائے گی.پس بہتر ہے کہ ہم پہلے جا کر وہاں کا حال معلوم کریں اور اہل مدینہ سے بات چیت کریں.اگر ان لوگوں نے ہم سے جنگ جائز نہ سمجھی اور جو خبریں ان کی نسبت ہمیں معلوم ہوئی ہیں وہ غلط ثابت ہوئیں تو پھر ہم واپس آکر سب حالات سے تم کو اطلاع دیں گے اور مناسب کارروائی عمل میں لائی جائے گی.سب نے اس مشورہ کو پسند کیا اور یہ دونوں شخص مدینہ گئے اور پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے ملے اور ان سے مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت مانگی اور کہا کہ ہم لوگ صرف اس لئے آئے ہیں کہ حضرت عثمان سے بعض والیوں کے بدل دینے کی درخواست کریں اور اس کے سوا ہمارا اور کوئی کام نہیں.سب ازواج مطہرات نے ان کی بات قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ اس بات کا نتیجہ اچھا نہیں.پھر وہ باری باری حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر کے پاس گئے اور ان سے یہی وجہ اپنے آنے کی بیان کر کے اور اپنی نیک نیتی کا اظہار کر کے مدینہ میں آنے کی اجازت چاہی.مگر ان تینوں اصحاب نے بھی ان کے فریب میں آنے سے انکار کیا اور صاف جواب دیا کہ ان کی اس کارروائی میں خیر نہیں ۲۹.یہ دونوں آدمی مدینہ کے حالات معلوم کر کے اور اپنے مقصد میں ناکام ہوکر جب واپس گئے اور سب حال سے اپنے ہمراہیوں کو آگاہ کیا تو کوفہ، بصرہ اور مصر تینوں علاقوں کے چند سر بر آوردہ آدمی آخری کوشش کرنے کے لئے مدینہ آئے.اہل مصر عبد اللہ بن سبا کی تعلیم کے ماتحت حضرت علی کو وصی رسول اللہ خیال کرتے تھے اور ان کے سوا کسی اور کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار نہ تھے مگر اہل کوفہ اور اہل بصرہ گوفساد میں تو ان کے شریک تھے مگر مذہباً ان کے ہم خیال نہ تھے.اور اہل کوفہ زبیر بن عوام اور اہل بصرہ طلحہ کی بیعت کو اپنی

Page 315

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۷ جلد اول اغراض کیلئے مفید سمجھتے تھے.اس اختلاف کے باعث ہر ایک قافلہ کے قائم مقاموں نے الگ الگ ان اشخاص کا رُخ کیا جن کو وہ حضرت عثمان کے بعد مسند خلافت پر بٹھانا چاہتے تھے.اہل مصر حضرت علیؓ کے پاس گئے وہ اُس اہل مصر کا حضرت علیؓ کے پاس جانا وقت مدینہ سے باہر ایک حصہ لشکر کی کمان کر رہے تھے اور ان کا سر کچلنے پر آمادہ کھڑے تھے ان لوگوں نے آپ کے پاس پہنچ کر عرض کیا کہ حضرت عثمان بدانتظامی کے باعث اب خلافت کے قابل نہیں ہم ان کو علیحدہ کرنے کے لئے آئے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ ان کے بعد اس عہد ہ کو قبول کریں گے.انہوں نے ان کی بات سن کر اس غیرت دینی سے کام لے کر جو آپ کے رتبہ کے آدمی کا حق تھا ان لوگوں کو دھتکار دیا اور بہت سختی سے پیش آئے اور فرمایا کہ سب نیک لوگ جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کے طور پر ذوالمروہ اور ذ وخشب ( جہاں ان لوگوں کا ڈیرہ تھا ) پر ڈیرہ لگانے والے لشکروں کا ذکر فرما کر ان پر لعنت فرمائی تھی سے پس خدا تمہارا بُرا کرے تم واپس چلے جاؤ.اس پر ان لوگوں نے کہا کہ بہت اچھا ہم واپس چلے جائیں گے اور یہ کہہ کر واپس چلے گئے.اہل کوفہ حضرت زبیر کے پاس گئے اہل کوفہ کا حضرت زبیر کے پاس جانا اور ان سے عرض کیا کہ آپ عہدہ خلافت کے خالی ہونے پر اس عہدہ کو قبول کریں.انہوں نے بھی ان سے حضرت علی کا سا سلوک کیا اور بہت سختی سے پیش آئے اور اپنے پاس سے دھتکار دیا اور کہا کہ سب مومن جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ذوالمروہ اور ذوالخشب اور اعوص پر ڈیرہ لگانے والے لشکر لعنتی ہوں گے.اسی طرح اہل بصرہ حضرت طلحہ کے اہل بصرہ کا حضرت طلحہ کے پاس جانا پاس آئے اور انہوں نے بھی ان کو رڈ کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور آپ کے ان پر لعنت کرنے سے ان کو آگاہ کیا.

Page 316

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۸ جلد اول جب یہ حال ان لوگوں نے دیکھا اور اس محمد بن ابی بکر کا والی مصر مقرر ہونا طرف سے بالکل مایوس ہو گئے تو آخر یہ تدبیر کی کہ اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کیا اورصرف یہ درخواست کی کہ بعض والی بدل دیئے جائیں.جب حضرت عثمان کو اس کا علم ہوا تو آپ نے کمال شفقت اور مہربانی سے اُن کی اس درخواست کو قبول کر لیا اور ان لوگوں کی درخواست کے مطابق مصر کے والی عبد اللہ بن ابی سرح کو بدل دیا اور ان کی جگہ محمد بن ابی بکر کو والی مصر مقرر کر دیا.اس پر یہ لوگ بظا ہر خوش ہو کر واپس چلے گئے اور اہل مدینہ خوش ہو گئے کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو ایک سے بچا لیا.مگر جو کچھ انہوں نے سمجھا درست نہ تھا کیونکہ ان لوگوں کے ارادے فساء عظ اور ہی تھے اور ان کا کوئی کام شرارت اور فساد سے خالی نہ تھا.اختلاف روایات کی حقیقت یاد رکھنا چاہئے کہ یہی وقت ہے جب سے روایات میں نہایت اختلاف شروع ہو جاتا ہے اور جو واقعات میں نے بیان کئے ہیں ان کو مختلف راویوں نے مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے حتی کہ حق بالکل چُھپ گیا ہے اور بہت سے لوگوں کو دھوکا لگ گیا ہے اور وہ اس تمام کارروائی میں یا صحابہ کو شریک سمجھنے لگے ہیں یا کم سے کم ان کو مفسدوں سے دلی ہمدردی رکھنے والا خیال کرتے ہیں مگر یہ بات درست نہیں.اُس زمانہ کی تاریخ کے متعلق بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اس زمانہ کے بعد کوئی زمانہ ایسا نہیں آیا جو ایک یا دوسرے فریق سے ہمدردی رکھنے والوں سے خالی ہو اور یہ بات تاریخ کے لئے نہایت مضر ہوتی ہے.کیونکہ جب سخت عداوت یا نا واجب محبت کا دخل ہو روایت کبھی بعینہ نہیں پہنچ سکتی.اگر را وی جھوٹ سے کام نہ بھی لیں تب بھی ان کے خیالات کا رنگ ضرور چڑھ جاتا ہے اور پھر تاریخ کے راویوں کے حالات ایسے ثابت شدہ نہیں ہیں جیسے کہ احادیث کے رواۃ کے.اور گومؤرخین نے بہت احتیاط سے کام لیا ہے پھر بھی حدیث کی طرح اپنی روایت کو روزِ روشن کی طرح ثابت نہیں کر سکتے.پس بہت احتیاط کی ضرورت ہے.

Page 317

خلافة على منهاج النبوة ۲۹۹ جلد اول تاریخ کی تصحیح کا زریں اصل لیکن کچی حالات معلوم کرنا امن بھی نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ایسے راستے کھلے رکھے ہیں جن سے صحیح واقعات کو خوب عمدگی سے معلوم کیا جا سکتا ہے اور ایسے راوی بھی موجود ہیں جو بالکل بے تعلق ہونے کی وجہ سے واقعات کو کما حقہ بیان کرتے ہیں اور تاریخ کی تصحیح کا یہ زریں اصل ہے کہ واقعات عالم ایک زنجیر کی طرح ہیں.کسی منفرد واقعہ کی صحت معلوم کرنے کے لئے اسے زنجیر میں پروکر دیکھنا ٹھیک اپنی جگہ پر پروئی بھی جاتی ہے کہ نہیں.ہا ہے کہ وہ غلط اور صحیح واقعات میں تمیز کرنے کے لئے یہ ایک نہایت ہی کا رآمد مددگار ہے.غرض اُس زمانہ کے صحیح واقعات معلوم کرنے کے لئے احتیاط کی ضرورت ہے اور جرح و تعدیل کی حاجت ہے.سلسلہ واقعات کو مدنظر رکھنے کے بغیر کسی زمانہ کی تاریخ بھی صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکتی مگر اُس زمانہ کی تاریخ تو خصوصاً معلوم نہیں ہوسکتی اور یورپین مصنفین نے اسی اختلاف سے فائدہ اُٹھا کر اُس زمانہ کی تاریخ کو ایسا بگاڑا ہے کہ ایک مسلمان کا دل اگر وہ غیرت رکھتا ہو ان واقعات کو پڑھ کر جلتا ہے اور بہت سے کمزور ایمان کے آدمی تو اسلام سے بیزار ہو جاتے ہیں.افسوس یہ ہے کہ خود بعض مسلمان مؤرخین نے بھی بے احتیاطی سے اس مقام پر ٹھو کر کھائی ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کا باعث بن گئے ہیں.حضرت عثمان اور دیگر صحابہ کی بریت میں اس مختصر وقت میں پوری طرح ان غلطیوں پر تو بحث نہیں کرسکتا جن میں یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں لیکن میں اختصار کے ساتھ وہ صحیح حالات آپ لوگوں کے سامنے بیان کر دوں گا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عثمان اور دیگر صحابہ ہر ایک فتنہ سے یا عیب سے پاک تھے بلکہ ان کا رویہ نہایت اعلیٰ اخلاق کا مظہر تھا اور ان کا قدم نیکی کے اعلیٰ مقام پر قائم تھا.باغیوں کا دوبارہ مدینہ میں داخل ہونا میں بتا چکا ہوں کہ مفسد لوگ بظاہر رضا مندی کا اظہار کر کے اپنے گھروں کی طرف واپس چلے گئے.کوفہ کے لوگ کوفہ کی طرف ، بصرہ کے لوگ بصرہ کی طرف

Page 318

خلافة على منهاج النبوة جلد اول اور مصر کے لوگ مصر کی طرف.اور اہل مدینہ امن و امان کی صورت دیکھ کر اور اُن کے لوٹنے پر مطمئن ہو کر اپنے اپنے کاموں پر چلے گئے لیکن ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ایسے وقت میں جب کہ اہل مدینہ یا تو اپنے کاموں میں مشغول تھے یا اپنے گھروں میں یا مساجد میں بیٹھے تھے اور ان کو کسی قسم کا خیال بھی نہ تھا کہ کوئی دشمن مدینہ پر چڑھائی کرنے والا ہے اچانک ان باغیوں کا لشکر مدینہ میں داخل ہوا اور مسجد اور حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور تمام مدینہ کی گلیوں میں منادی کرا دی گئی کہ جس کسی کو اپنی جان کی ضرورت ہوا اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا ر ہے اور ہم سے برسر پیکار نہ ہو ور نہ خیر نہ ہو گی.ان لوگوں کی آمد ایسی اچانک تھی کہ اہل مدینہ مقابلہ کے لئے کوشش نہ کر سکے.حضرت امام حسن بیان فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں بیٹھا ہو ا تھا کہ اچانک شور ہوا اور مدینہ کی گلیوں میں تکبیر کی آواز بلند ہونے لگی ( یہ مسلمانوں کا نعرہ جنگ تھا ) ہم سب حیران ہوئے اور دیکھنا شروع کیا کہ اس کا باعث کیا ہے.میں اپنے گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا اور دیکھنے لگا.اتنے میں اچانک یہ لوگ مسجد میں گھس آئے اور مسجد پر بھی اور آس پاس کی گلیوں پر بھی قبضہ کر لیا.ان کے اچانک حملہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ اور اہل مدینہ کی طاقت منتشر ہوگئی اور وہ ان سے لڑ نہ سکے اور ان کا مقابلہ نہ کر سکے.کیونکہ شہر کے تمام ناکوں اور مسجد پر انہوں نے قبضہ کر لیا تھا اب دو ہی راستے کھلے تھے.ایک تو یہ کہ باہر سے مدد آوے اور دوسرا یہ کہ اہل مدینہ کسی جگہ پر جمع ہوں اور پھر کسی انتظام کے تحت ان سے مقابلہ کریں.امراول کے متعلق ان کو اطمینان تھا کہ حضرت عثمان ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ان کا رحم اور ان کی حُسنِ ظنی بہت بڑھی ہوئی تھی اور وہ ان لوگوں کی شرارت کی ہمیشہ تاویل کر لیتے تھے اور امردوم کے متعلق انہوں نے یہ انتظام کر لیا کہ مدینہ کی گلیوں میں اور اس کے دروازوں پر پہرہ لگا دیا اور حکم دے دیا کہ کسی جگہ اجتماع نہ ہونے پائے.جہاں کچھ لوگ جمع ہوتے یہ اُن کو منتشر کر دیتے.ہاں یوں آپس میں بولنے چالنے یا ا کے ڈ کے کومیل ملاقات سے نہ روکتے تھے.

Page 319

خلافة على منهاج النبوة ٣٠١ جلد اول اہل مدینہ کا باغیوں کو سمجھانا جب اہل مدینہ کی حیرت ذرا کم ہوئی تو ان میں سے بعض نے مسجد کے پاس آکر جہاں ان کا مرکز تھا اُن کو سمجھانا شروع کیا اور ان کی اس حرکت پر اظہار نا راضگی کیا مگر ان لوگوں نے بجائے ان کی نصیحت سے فائدہ اُٹھانے کے اِن کو ڈرایا اور دھمکایا اور صاف کہہ دیا کہ اگر وہ خاموش نہ رہیں گے تو ان کیلئے اچھا نہیں ہوگا اور یہ لوگ ان سے بُری طرح پیش آویں گے.باغیوں کا مدینہ پر تسلط قائم کرنا اب گویا مدینہ دار الخلافت نہیں رہا تھا خلیفہ وقت کی حکومت کو موقوف کر دیا گیا تھا اور چند مفسد اپنی مرضی کے مطابق جو چاہتے تھے کرتے تھے.اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا اور دیگر اہل مدینہ کیا سب کو اپنی عزتوں کا بچانا مشکل ہو گیا تھا اور بعض لوگوں نے تو اس فتنہ کو دیکھ کر اپنے گھروں سے نکلنا بند کر دیا تھا.رات دن گھروں میں بیٹھے رہتے تھے اور اس پر انگشت بدندان تھے ۳۲.اکابر صحابہ کا باغیوں سے چونکہ یہ لوگ پچھلی دفعہ اپنی تسلی کا اظہار کر کے گئے تھے اور آئندہ کے لئے ان کو کوئی شکایت باقی نہ تھی واپسی کی وجہ دریافت کرنا صحابہ حیرت میں تھے کہ آخر ان کے لوٹنے کا باعث کیا ہے.دوسرے لوگوں کو تو ان کے سامنے بولنے کی جرات نہ تھی چندا کا بر صحابہ جن کے نام کی یہ لوگ پناہ لیتے تھے اور جن سے محبت کا دعویٰ کرتے تھے انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ آخر تمہارے اس کو ٹنے کی وجہ کیا ہے.چنانچہ حضرت علی، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر نے ان لوگوں سے ان کے واپس آنے کی وجہ دریافت کی.سب نے بالا تفاق یہی جواب دیا کہ ہم تسلی اور تشفی سے اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے کہ راستہ میں ایک شخص کو دیکھا کہ صدقہ کے ایک اونٹ پر سوار ہے اور کبھی ہمارے سامنے آتا ہے اور کبھی پیچھے ہٹ جاتا ہے.ہمارے بعض آدمیوں نے جب اسے دیکھا تو انہیں شک ہوا اور انہوں نے اس کو جا پکڑا.جب اس سے دریافت کیا گیا کہ کیا تیرے پاس کوئی خط ہے؟ تو اس نے انکار کیا.اور جب اس سے دریافت کیا گیا کہ تو کس کام کو جاتا ہے تو اس نے کہا مجھے علم نہیں.اس پر ان لوگوں کو

Page 320

خلافة على منهاج النبوة ٣٠٢ جلد اول اور زیادہ شک ہوا.آخر اس کی تلاشی لی گئی اور اس کے پاس سے ایک خط نکلا جو حضرت عثمان کا لکھا ہوا تھا اور اس میں والی مصر کو ہدایت کی گئی تھی کہ جس وقت مفسد مصر واپس کو ٹیں ان میں سے فلاں فلاں کو قتل کر دینا اور فلاں فلاں کو کوڑے، اور ان کے سر اور داڑھیاں منڈوا دینا اور جو خط ان کی معرفت تمہارے معزول کئے جانے کے متعلق لکھا ہے اس کو باطل سمجھنا.یہ خط جب ہم نے دیکھا تو ہمیں سخت حیرت ہوئی اور ہم لوگ فوراً واپس لوٹے.حضرت علی نے یہ بات سن کر فوراً ان سے کہا کہ یہ بات تو مدینہ میں بنائی گئی ہے کیونکہ اے اہل کوفہ اور اے اہل بصرہ! تم لوگوں کو کیونکر معلوم ہوا کہ اہل مصر نے کوئی ایسا خط پکڑا ہے حالانکہ تم ایک دوسرے سے کئی منزلوں کے فاصلے پر تھے اور پھر یہ کیونکر ہوا کہ تم لوگ اس قدر جلد واپس بھی آگئے.اس اعتراض کا جواب نہ وہ لوگ دے سکتے تھے اور نہ اس کا کوئی جواب تھا پس انہوں نے یہی جواب دیا کہ جو مرضی آئے کہو اور جو چاہو ہماری نسبت خیال کرو ہم اس آدمی کی خلافت کو پسند نہیں کرتے اپنے عہدے سے دست بردار ہو جائے.محمد بن مسلمہ جو اکابر صحابہ میں سے تھے اور جماعت انصار میں سے تھے کعب بن اشرف جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اسلام کا سخت دشمن تھا اور یہود میں ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا جب اس کی شرارتیں حد سے بڑھ گئیں اور مسلمانوں کی تکلیف کی کوئی حد نہ رہی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت انہوں نے اس کو قتل کر کے اسلام کی ایک بہت بڑی خدمت کی تھی انہوں نے جب یہ واقعہ سنا تو یہی جرح کی اور صاف کہہ دیا کہ یہ صرف ایک فریب ہے جو تم نے کیا ہے.حضرت عثمان کا باغیوں کیلئے کوصحابہ نے ان کی اس بات کو عقلاً رڈ کر دیا مگر ان لوگوں کی دلیری اب حد سے بڑھ گئی الزام سے بریت ثابت کرنا تھی.باوجود اس ذلت کے جو ان کو پنچی تھی انہوں نے حضرت عثمان کے سامنے اس معاملہ کو پیش کیا اور آپ سے اس کا جواب مانگا.اُس وقت بہت سے اکابر صحابہ بھی آپ کی مجلس میں تشریف رکھتے تھے.آپ نے ان کو جواب دیا کہ شریعت اسلامیہ کے مطابق کسی امر کے فیصلہ کے دو ہی طریق ہیں.یا تو یہ کہ

Page 321

خلافة على منهاج النبوة جلد اول مدعی اپنے دعوی کی تائید میں دو گواہ پیش کرے یا یہ کہ مدعا علیہ کو تم دی جائے.پس تم پر فرض ہے کہ تم دو گواہ اپنے دعوی کی تائید میں پیش کرو ورنہ میں اُس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں کہ نہ میں نے یہ خط لکھا ہے نہ میرے مشورہ سے یہ خط لکھا گیا اور نہ ہی لکھوایا ہے نہ مجھے علم ہے کہ یہ خط کس نے لکھا ہے.پھر فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ کبھی خط جھوٹے بھی بنالئے جاتے ہیں اور انگوٹھیوں جیسی اور انگوٹھیاں بنائی جاسکتی ہیں.جب صحابہ نے آپ کا یہ جواب سنا تو انہوں نے حضرت عثمان کی تصدیق کی اور آپ کو اس الزام سے بری قرار دیا.مگر ان لوگوں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا اور ہوتا بھی کیونکر.انہوں نے تو خود وہ خط بنایا تھا.سوتے ہوئے آدمی کو تو آدمی جگا سکتا ہے جو جاگتا ہوا ور ظا ہر کرے کہ سو رہا ہے اُسے کون جگائے.ان لوگوں کے سردار تو خوب سمجھتے تھے کہ یہ ہمارا اپنا فریب ہے.وہ ان جوابات کی صحت یا معقولیت پر کب غور کر سکتے تھے اور ان کے اتباع ان کے غلام بن چکے تھے جو کچھ وہ کہتے وہ سنتے تھے اور جو کچھ بتاتے تھے اسے تسلیم کرتے تھے.ان لوگوں پر نہ تو اثر ہوسکتا تھا نہ ہوا مگر باغیوں کے منصوبے کی اصلیت ! آنکھوں والوں کے لئے حضرت عثمان کا جواب شرم وحیا کی صفاتِ حسنہ سے ایسا متصف ہے کہ اس سے ان مفسدوں کی بے حیائی اور وقاحت اور بھی زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے جب کہ وہ مفسد ا یک جھوٹا خط بنا کر حضرت عثمان پر فریب اور دھو کے کا الزام لگاتے ہیں.اور جب کہ حضرت علی اور محمد بن مسلمہ واقعات سے نتیجہ نکال کر ان لوگوں پر صاف صاف دھو کے کا الزام لگاتے ہیں خود حضرت عثمان جن پر الزام لگایا گیا ہے اور جن کے خلاف یہ منصوبہ کھڑا کیا گیا ہے اپنے آپ سے تو الزام کو دفع کرتے ہیں مگر یہ نہیں فرماتے کہ تم نے یہ خط بنایا ہے بلکہ ان کی غلطی پر بھی پردہ ڈالتے ہیں اور صرف اسی قدر فرماتے ہیں کہ تم جانتے ہو کہ خط خط سے مل جاتا ہے اور انگوٹھی کی نقل بنائی جاسکتی ہے اور اونٹ بھی پھرایا جا سکتا ہے.بعض لوگ جو حضرت عثمان کو بھی اس الزام سے بری سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کی نسبت بھی حسنِ ظنی سے کام لینا چاہتے ہیں خیال کرتے ہیں کہ یہ خط مروان نے لکھ کر بطور خود بھیج دیا

Page 322

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۴ جلد اول ہوگا مگر میرے نزدیک یہ خیال بالکل غلط ہے واقعات صاف بتاتے ہیں کہ یہ خط انہی مفسد وں نے بنایا ہے نہ کہ مروان یا کسی اور شخص نے.اور یہ خیال کہ اگر انہوں نے بنایا ہوا تھا تو حضرت عثمان کا غلام اور صدقہ کا اونٹ ان کے ہاتھ کہاں سے آیا اور حضرت عثمان کے کا تب کا خط انہوں نے کس طرح بنا لیا اور حضرت عثمان کی انگوٹھی کی مہر اس پر کیونکر لگا دی ایک غلط خیال ہے.کیونکہ ہمارے پاس اس کی کافی وجوہ موجود ہیں کہ یہ خط انہیں لوگوں نے بنایا تھا.گو واقعات سے ایسا معلوم ہوتا ہے اور یہی قرین قیاس ہے کہ یہ فریب صرف چند ا کابر کا کام تھا اور کوئی تعجب نہیں کہ صرف عبد اللہ بن سبا اور اس کے چند خاص شاگردوں کا کام ہو اور دوسرے لوگوں کو خواہ وہ سر دارلشکر ہی کیوں نہ ہوں اس کا علم نہ ہو.خط والے منصوبے کے ثبوت میں سات دلائل اس امر کا ثبوت کہ کارروائی انہی لوگوں میں سے بعض لوگوں کی تھی یہ ہے:.اول ان لوگوں کی نسبت اس سے پہلے ثابت ہو چکا ہے کہ اپنے مدعا کے حصول کے لئے یہ لوگ جھوٹ سے پر ہیز نہیں کرتے تھے جیسا کہ ولید بن عتبہ اور سعید بن العاص کے مقابلہ میں انہوں نے جھوٹ سے کام لیا.اسی طرح مختلف ولایات کے متعلق جھوٹی شکایات مشہور کیں جن کی تحقیق اکا بر صحابہ نے کی اور ان کو غلط پایا.پس جب کہ ان لوگوں کی نسبت ثابت ہو چکا ہے کہ جھوٹ سے ان کو پر ہیز نہ تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ اس امر میں ان کو ملزم نہ قرار دیا جاوے اور ایسے لوگوں پر الزام لگا یا جاوے جن کا جھوٹ ثابت نہیں.دوم جیسا کہ حضرت علی اور محمد بن مسلمہ نے اعتراض کیا ہے ان لوگوں کا ایسی جلدی واپس آجانا اور ایک وقت میں مدینہ میں داخل ہونا اس بات کی شہادت ہے کہ یہ ایک سازش تھی.کیونکہ جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے اہل مصر بیان کرتے تھے کہ انہوں نے بویب مقام پر اس قاصد کو جو ان کے بیان کے مطابق حضرت عثمان کا خط والی مصر کی طرف لے جا ر ہا تھا پکڑا تھا.بویب مدینہ سے کم سے کم چھ منازل پر واقع ہے اور اس جگہ واقع ہے جہاں سے مصر کا راستہ شروع ہوتا ہے.جب اہل مصر اس جگہ تک پہنچ گئے تھے تو اہل کوفہ

Page 323

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۵ جلد اول اور اہل بصرہ بھی قریباً بالمقابل جہات پر چھ چھ منازل طے کر چکے ہوں گے اور اس طرح اہل مصر سے جو کچھ واقع ہوا اُس کی اطلاع دونوں قافلوں کو کم سے کم بارہ تیرہ دن میں مل سکتی تھی اور ان کے آنے جانے کے دن شامل کر کے قریباً چوبیس دن میں یہ لوگ مدینہ پہنچ سکتے تھے.مگر یہ لوگ اس عرصہ سے بہت کم عرصہ میں واپس آگئے تھے.پس صاف ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ سے رخصت ہونے سے پہلے ہی ان لوگوں نے آپس میں منصو بہ بنا لیا تھا کہ فلاں تاریخ کوسب قافلے واپس مدینہ کوٹیں اور ایک دم مدینہ پر قبضہ کر لیں.اور چونکہ مصری قافلہ کے ساتھ عبد اللہ بن سبا تھا اور وہ نہایت ہوشیار آدمی تھا اُس نے ایک طرف تو یہ دیکھا کہ لوگ اُن سے سوال کریں گے کہ تم بلا وجہ کوٹے کیوں ہوا اور دوسری طرف اس کو یہ بھی خیال تھا کہ خود اس کے ساتھیوں کے دل میں بھی یہ بات کھٹکے گی کہ فیصلہ کے بعد نقص عہد کیوں کیا گیا ہے اس لئے اس نے جعلی خط بنایا اور خود اپنے ساتھیوں کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا اور غیظ وغضب کی آگ کو ان کے دلوں میں اور بھی بھڑ کا یا اور صدقہ کے اونٹ کا چرا لینا اور کسی غلام کو رشوت دے کر ساتھ ملا لینا کوئی مشکل بات نہیں.سوئم اس خط کے پکڑنے کا واقعہ جس طرح بیان کیا جاتا ہے وہ خود غیر طبعی ہے کیونکہ اگر حضرت عثمان نے یا مروان نے کوئی ایسا خط بھیجا ہوتا تو یہ کیونکر ہوسکتا تھا کہ وہ غلام کبھی ان کے سامنے آتا اور کبھی چھپ جاتا.یہ حرکت تو وہی شخص کر سکتا ہے جو خود اپنے آپ کو پکڑوانا چا ہے.اس غلام کو تو بقول ان لوگوں کے حکم دیا گیا تھا کہ اس قافلہ سے پہلے مصر پہنچ جائے.پھر بو یب مقام پر جو مصر کا دروازہ ہے اس شخص کا ان کے ساتھ ساتھ جانا کیونکر خیال میں آسکتا ہے قافلہ اور ایک آدمی کے سفر میں بہت فرق ہوتا ہے.ایک آدمی جس سُرعت سے سفر کر سکتا ہے قافلہ نہیں کرسکتا کیونکہ قافلہ کی حوائج بہت زیادہ ہوتی ہیں اور سب قافلہ کی سواریاں ایک جیسی تیز نہیں ہوتیں.پس کیونکر ممکن تھا کہ بویب تک قافلہ پہنچ جاتا اور وہ پیغا مبرا بھی قافلہ کے ساتھ ہی ہوتا اُس وقت تو اسے اپنی منزل مقصود کے قریب ہونا چاہیے تھا.جو حالت وہ اس پیغامبر کی بیان کرتے ہیں وہ ایک جاسوس کی نسبت تو منسوب کی جاسکتی ہے پیغامبر کی نسبت منسوب نہیں کی جاسکتی.اسی طرح جب اس پیغا مبر کو پکڑا گیا تو جو

Page 324

خلافة على منهاج النبوة جلد اول سوال و جواب اُس سے ہوئے وہ بالکل غیر طبعی ہیں.کیونکہ وہ بیان کرتا ہے کہ وہ پیغا مبر ہے لیکن نہ اسے کوئی خط دیا گیا ہے اور نہ اسے کوئی زبانی پیغام دیا گیا ہے.یہ جواب سوائے اس شخص کے کون دے سکتا ہے جو یا تو پاگل ہو یا خود اپنے آپ کو شک میں ڈالنا چاہتا ہو.اگر واقعہ میں وہ شخص پیغامبر ہوتا تو اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ کہتا کہ میں حضرت عثمان یا کسی اور کا بھیجا ہوا ہوں.یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بیچ کا بڑا پا بند تھا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس خط تھا مگر اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں.پس ان لوگوں کی روایت کے مطابق اس پیغا مبر نے جھوٹ تو ضرور بولا.پس سوال یہ ہے کہ اس نے وہ جھوٹ کیوں بولا جس سے وہ صاف طور پر پکڑا جاتا تھا وہ جھوٹ کیوں نہ بولا جو ایسے موقع پر اس کو گرفتاری سے بچا سکتا تھا.غرض یہ تمام واقعات بتاتے ہیں کہ خط اور خط لے جانے والے کا واقعہ شروع سے آخر تک فریب تھا.انہی مفسدوں میں سے کسی نے ( زیادہ تر گمان یہ ہے کہ عبد اللہ بن سبا نے ) ایک جعلی خط بنا کر ایک شخص کو دیا ہے کہ وہ اسے لے کر قافلہ کے پاس سے گزرے لیکن چونکہ ایک آبا د راستہ پر ایک سوار کو جاتے ہوئے دیکھ کر پکڑ لینا قرین قیاس نہ تھا اور اس خط کو بنانے والا چاہتا تھا کہ جہاں تک ہو سکے اس واقعہ کو دوسرے کے ہاتھ سے پورا کر وائے اس لئے اس نے اس قاصد کو ہدایت کی کہ وہ اس طرح قافلہ کے ساتھ چلے کہ لوگوں کے دلوں میں شک پیدا ہو اور جب وہ اس شک کو دور کرنے کے لئے سوال کریں تو ایسے جواب دے کہ شک اور زیادہ ہو.تا کہ عامۃ الناس خود اس کی تلاشی لیں اور خط اس کے پاس دیکھ کر ان کو یقین ہو جاوے کہ حضرت عثمان نے ان سے فریب کیا ہے.چہارم اس خط کا مضمون بھی بتاتا ہے کہ وہ خط جعلی ہے اور کسی واقف کا رمسلمان کا بنایا ہوا نہیں.کیونکہ بعض روایات میں اس کا یہ مضمون بتایا گیا ہے کہ فلاں فلاں کی ڈاڑھی منڈ وائی جاوے حالانکہ ڈاڑھی منڈوانا اسلام کی رو سے منع ہے اور اسلامی حکومتوں میں سزا صرف وہی دی جا سکتی تھی جو مطابق اسلام ہو.یہ ہرگز جائز نہ تھا کہ کسی شخص کو سزا کے طور پر سو رکھلا یا جاوے یا شراب پلا ئی جاوے یا ڈاڑھی منڈ وائی جاوے.کیونکہ یہ ممنوع امر ہے سزا صرف قتل یا ضرب یا ئجر مانہ یا نفی عن الارض کی اسلام سے ثابت ہے خواہ نفی بصورت

Page 325

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۷ جلد اول جلا وطنی ہو یا بصورت قید.اس کے سوا کوئی سزا اسلام سے ثابت نہیں اور نہ ائمہ اسلام نے کبھی ایسی سزا دی.نہ خود حضرت عثمان یا ان کے عمال نے کبھی کوئی ایسی سزا دی.پس ایسی سزا کا اس خط میں تحریر ہونا اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ یہ خط کسی ایسے شخص نے بنایا تھا جو مغز اسلام سے واقف نہ تھا.پنجم اس خط سے پہلے کے واقعات بھی اس امر کی تردید کرتے ہیں کہ یہ خط حضرت عثمان یا ان کے سیکریٹری کی طرف سے ہو کیونکہ تمام روایات اس امر پر متفق ہیں کہ حضرت عثمان نے ان لوگوں کو سزا دینے میں بہت ڈھیل سے کام لیا ہے.اگر آپ چاہتے تو جس وقت یہ لوگ پہلی دفعہ آئے تھے اُسی وقت اُن کو قتل کر دیتے.اگر اس دفعہ انہوں نے چھوڑ دیا تھا تو دوسری دفعہ آنے پر تو ضرور ہی ان سرغنوں کو گرفتار کیا جا سکتا تھا کیونکہ وہ کھلی کھلی سرکشی کر چکے تھے اور صحابہ ان سے لڑنے پر آمادہ تھے.مگر اُس وقت ان سے نرمی کر کے مصر کے والی کو خط لکھنا کہ ان کو سزا دے ایک بعید از عقل خیال ہے.اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت عثمان کی نرمی کو دیکھ کر مروان نے ایسا خط لکھ دیا ہو کیونکہ مروان یہ خوب جانتا تھا کہ حضرت عثمان حدود کے قیام میں بہت سخت ہیں.وہ ایسا خط لکھ کر سزا سے محفوظ رہنے کا خیال ایک منٹ کے لئے بھی اپنے دل میں نہیں لاسکتا تھا.پھر اگر وہ ایسا خط لکھتا بھی تو کیوں صرف مصر کے والی کے نام لکھتا ، کیوں نہ بصرہ اور کوفہ کے والیوں کے نام بھی وہ ایسے خطوط لکھ دیتا جس سے سب دشمنوں کا ایک دفعہ ہی فیصلہ ہو جاتا.صرف مصر کے والی کے نام ہی خط لکھا جانا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ کوفہ اور بصرہ کے قافلوں میں کوئی عبداللہ بن سبا جیسا چال باز آدمی نہ تھا.اگر یہ کہا جائے کہ شاید ان دونوں علاقوں کے والیوں کے نام بھی ایسے احکام جاری کئے گئے ہوں گے مگر ان کے جانے والے پکڑے نہیں گئے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ اگر عبد اللہ بن عامر پر یہ الزام لگا دیا جاوے کہ وہ حضرت عثمان کا رشتہ دار ہونے کے سبب خاموش رہا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری جوا کا بر صحابہ میں سے تھے اور جن کے کامل الایمان ہونے کا ذکر خود قرآن شریف میں آتا ہے اور جو اُس وقت کوفہ کے والی تھے وہ کبھی خاموش نہ رہتے اور ضرور بات کو کھول دیتے.پس

Page 326

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۸ جلد اوّل حق یہی ہے کہ یہ خط جعلی تھا اور مصری قافلہ میں سے کسی نے بنایا تھا اور چونکہ مصری قافلہ کے سوا دوسرے قافلوں میں کوئی شخص نہ اس قسم کی کارروائی کرنے کا اہل تھا اور نہ اس قد ر عرصہ میں متعد د اونٹ بیت المال کے چُرائے جا سکتے تھے اور نہ اس قدر غلام قا بو کئے جاسکتے تھے اس لئے دوسرے علاقوں کے والیوں کے نام کے خطوط نہ بنائے گئے.ششم سب سے زیادہ اس خط پر روشنی وہ غلام ڈال سکتا تھا جس کی نسبت ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ خط لے گیا تھا مگر تعجب ہے کہ باوجود اس کے کہ حضرت عثمان نے گواہوں کا مطالبہ کیا ہے اس غلام کو پیش نہیں کیا گیا اور نہ بعد کے واقعات میں اس کا کوئی ذکر آتا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پیش کیا جانا ان لوگوں کے مفاد کے خلاف تھا.شاید ڈرتے ہوں کہ وہ صحابہؓ کے سامنے آکر اصل واقعات کو ظاہر کر دے گا.پس اُس کو چھپا دینا بھی اِس امر کا ثبوت ہے کہ خط کے بنانے والا یہ مفسد گر وہ ہی تھا.ہفتم ایک نہایت زبر دست ثبوت اس بات کا کہ ان لوگوں نے ہی یہ خط بنایا تھا یہ ہے کہ یہ پہلا خط نہیں جو انہوں نے بنایا ہے بلکہ اس کے سوا اسی فساد کی آگ بھڑ کانے کے لئے اور کئی خطوط انہوں نے بنائے ہیں.پس اس خط کا بنانا بھی نہ ان کے لئے مشکل تھا اور نہ اس واقعہ کی موجودگی میں کسی اور شخص کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے.وہ خط جو یہ پہلے بناتے رہے ہیں حضرت علی کے بد نام کرنے کے لئے تھے اور ان میں اس قسم کا مضمون ہوتا تھا کہ تم لوگ حضرت عثمان کے خلاف جوش بھڑکاؤ.ان خطوط کے ذریعے عوام الناس کا جوش بھڑ کا یا جاتا تھا اور وہ حضرت علیؓ کی تصدیق دیکھ کر عبد اللہ بن سبا کی باتوں میں پھنس جاتے تھے.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان خطوط کا مضمون بہت مخفی رکھنے کا حکم تھا تا کہ حضرت علیؓ کو معلوم نہ ہو جائے اور وہ ان کی تردید نہ کر دیں.اور مخفی رکھنے کی تاکید کی وجہ بھی بانیانِ فساد کے پاس معقول تھی.یعنی اگر یہ خط ظاہر ہوں گے تو حضرت علی مشکلات میں پڑ جاویں گے.اس طرح لوگ حضرت علیؓ کی خاطر ان خطوط کے مضمون کو کسی پر ظاہر نہ کرتے تھے اور بات کے مخفی رہنے کی وجہ سے بانیانِ فساد کا جھوٹ کھلتا بھی نہ تھا.لیکن جھوٹ آخر زیادہ دیر تک چھپا نہیں رہتا خصوصاً جب سینکڑوں کو اس سے واقف کیا جاوے.حضرت عثمان کے نام پر لکھا ہوا

Page 327

خلافة على منهاج النبوة ۳۰۹ جلد اول خط پکڑا گیا اور عام اہل کوفہ نہایت غصہ سے واپس ہوئے تو ان میں سے ایک جماعت حضرت علیؓ کے پاس گئی اور ان سے مدد کی درخواست کی.حضرت علی تو تمام واقعہ کو سن کر ہی اس کے جھوٹا ہونے پر آگاہ ہو چکے تھے اور اپنی خدا داد فراست سے اہل مصر کا فریب ان پر کھل چکا تھا.آپ نے صاف انکار کر دیا کہ میں ایسے کام میں تمہارے ساتھ شریک نہیں ہوسکتا اُس وقت جوش کی حالت میں ان میں سے بعض سے احتیاط نہ ہو سکی اور بے اختیار بول اُٹھے کہ پھر ہم سے خط وکتابت کیوں کرتے تھے.حضرت علی کے لئے یہ ایک نہایت حیرت انگیز بات تھی.آپ نے اس سے صاف انکار کیا اور لاعلمی ظاہر کی اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم ہے میں نے کبھی کوئی خط آپ لوگوں کی طرف نہیں لکھا ۳۳.اس پر ان لوگوں کو بھی سخت حیرت ہوئی کیونکہ در حقیقت خود ان کو بھی دھوکا دیا گیا تھا اور انہوں نے ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھا اور دریافت کیا کہ کیا اس شخص کے لئے تم غضب ظاہر کرتے ہو اور لڑتے ہو یعنی یہ شخص تو ایسا بزدل ہے کہ سب کچھ کر کرا کر موقع پر اپنے آپ کو بالکل بری ظاہر کرتا ہے ( نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں بعض ایسے آدمی موجود تھے جو جعلی خطوط بنانے میں مہارت رکھتے تھے اور یہ بھی کہ ایسے آدمی مصریوں میں موجود تھے.کیونکہ حضرت علی کے نام پر خطوط صرف مصریوں کی طرف لکھے جا سکتے تھے جو حضرت علی کی محبت کے دعویدار تھے.پس اس خط کا جو حضرت عثمان کی طرف منسوب کیا جاتا تھا مصری قافلہ میں پکڑا جا نا اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ اس کا لکھنے والا مد بینہ کا کو ئی شخص نہ تھا بلکہ مصری قافلہ کا ہی ایک فرد تھا.خط کا واقعہ چونکہ حضرت عثمانؓ کے خلاف الزام لگانے والوں کے نزدیک سب سے اہم واقعہ ہے اس لئے میں نے اس پر تفصیلاً اپنی تحقیق بیان کر دی ہے اور گو اس واقعہ پر اور بسط سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ بیان کیا جا چکا ہے اس امر کے ثابت کرنے کیلئے کہ یہ خط ایک جعلی اور بناوٹی خط تھا اور یہ کہ اس خط کے بنانے والے عبداللہ بن سبا اور اس کے ساتھی تھے نہ کہ مروان یا کوئی اور شخص ( حضرت عثمان کی ذات تو اس سے بہت

Page 328

خلافة على منهاج النبوة جلد اول ارفع ہے ) کافی ہے..اب میں پھر سلسلہ واقعات کی طرف مفسدوں کی اہل مدینہ پر زیادتیاں ہوتا ہوں.اس جعلی خط کے زور پر اور اچانک مدینہ پر قبضہ کر لینے کے گھمنڈ پر ان مفسدوں نے خوب زیا دتیاں شروع کیں.ایک طرف تو حضرت عثمان پر زور دیا جاتا کہ وہ خلافت سے دست بردار ہو جائیں دوسری طرف اہل مدینہ کو تنگ کیا جاتا کہ وہ حضرت عثمان کی مدد کے لئے کوشش نہ کریں.اہل مدینہ بالکل بے بس تھے دو تین ہزار مسلح فوجی جو شہر کے راستوں اور چوکوں اور دروازوں کی ناکہ بندی کئے ہوئے تھے اس کا مقابلہ یوں بھی آسان نہ تھا مگر اس صورت میں کہ وہ چند آدمیوں کو بھی اکٹھا ہونے نہ دیتے تھے اور دو دو چار چار آدمیوں سے زیادہ آدمیوں کا ایک جگہ جمع ہونا ناممکن تھا ، باغی فوج کے مقابلہ کا خیال بھی دل میں لانا محال تھا.اور اگر بعض منچلے جنگ پر آمادہ بھی ہوتے تو سوائے ہلاکت کے اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلتا.مسجد ایک ایسی جگہ تھی جہاں لوگ جمع ہو سکتے تھے مگر ان لوگوں نے نہایت ہوشیاری سے اس کا بھی انتظام کر لیا تھا اور وہ یہ کہ نماز سے پہلے تمام مسجد میں پھیل جاتے اور اہل مدینہ کو اس طرح ایک دوسرے سے جدا جدا ر کھتے کہ وہ کچھ نہ کر سکتے.حضرت عثمان کا مفسدوں کو نصیحت کرنا باوجود اس شور وفساد کے حضرت عثمان" نماز پڑھانے کے لئے با قاعدہ مسجد میں تشریف لاتے اور یہ لوگ بھی آپ سے اس معاملہ میں تعرض نہ کرتے اور امامت نماز سے نہ روکتے حتی کہ ان لوگوں کے مدینہ پر قبضہ کر لینے کے بعد سب سے پہلا جمعہ آیا.حضرت عثمانؓ نے جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر ان لوگوں کو نصیحت فرمائی اور فر مایا کہ اے دشمنانِ اسلام ! خدا تعالیٰ کا خوف کرو.تمام اہل مدینہ اس بات کو جانتے ہیں کہ تم لوگوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے.پس تو بہ کرو اور اپنے گناہوں کو نیکیوں کے ذریعے سے مٹاؤ.کیونکہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو نیکیوں کے سوا کسی اور چیز سے نہیں مٹاتا.اس پر محمد بن مسلمہ انصاری کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں اس امر کی تصدیق کرتا

Page 329

خلافة على منهاج النبوة ٣١١ جلد اول ہوں.ان لوگوں نے سمجھا کہ حضرت عثمان پر تو ہمارے ساتھی بدظن ہیں لیکن صحابہ نے اگر آپ کی تصدیق کرنی شروع کی اور ہماری جماعت کو معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری نسبت خاص طور پر پیشگوئی فرمائی تھی تو عوام شاید ہمارا ساتھ چھوڑ دیں اس لئے انہوں نے اس سلسلہ کو روکنا شروع کیا اور محمد بن مسلمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب صحابی کو جو تائید خلافت کے لئے نہ کسی فتنہ کے بر پا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے حکیم بن جبلہ ڈاکو نے جس کا ذکر میں شروع میں کر چکا ہوں جبراً پکڑ کر بٹھا دیا.اس پر زید بن ثابت جن کو قرآن کریم کے جمع کرنے کی عظیم الشان خدمت سپرد ہوئی تھی تصدیق کے لئے کھڑے ہوئے مگر ان کو بھی ایک اور شخص نے بٹھا دیا.مفسدوں کا عصائے نبوی کو توڑنا اس کے بعد اس محبت اسلام کا دعوی کرنے والی جماعت کے ایک فرد نے حضرت عثمان کے ہاتھ سے وہ عصا جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے اور آپ کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ ایسا ہی کرتے رہے چھین لیا اور اس پر اکتفانہ کی بلکہ رسول کریم ﷺ کی اس یادگار کو جو امت اسلام کیلئے ہزاروں برکتوں کا موجب تھی اپنے گھٹنوں پر رکھ کر توڑ دیا.حضرت عثمان سے ان کو نفرت سہی ، خلافت سے ان کو عداوت سہی مگر رسول کریم ﷺ سے تو ان کو محبت کا دعوی تھا پھر رسول کریم ﷺ کی اس یاد گار کو اس بے ادبی کے ساتھ تو ڑ دینے کی ان کو کیونکر جرات ہوئی.یورپ آج دہریت کی انتہائی حد کو پہنچا ہوا ہے مگر یہ احساس اس میں بھی باقی ہے کہ اپنے بزرگوں کی یادگاروں کی قدر کرے.مگر ان لوگوں نے باوجود دعوائے اسلام کے رسول کریم علیہ کے عصائے مبارک کو تو ڑ کر پھینک دیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نصرت کا جوش صرف دکھاوے کا تھا ورنہ اس گروہ کے سردار اسلام سے ایسے ہی دُور تھے جیسے کہ آج اسلام کے سب سے بڑ.سے بڑے دشمن.مفسدوں کا مسجد نبوی میں کنکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عصہ تو ڑ کر بھی ان لوگوں کے دلوں کو ٹھنڈک برسانا اور حضرت عثمان کو زخمی کرنا نہ حاصل ہوئی اور انہوں نے اس مسجد

Page 330

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۲ جلد اول میں جس کی بنیا د محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی اور جس کی تعمیر نہایت مقدس ہاتھوں سے ہوئی تھی کنکروں کا مینہ برسانا شروع کیا اور کنکر مار مار کر صحابہ کرام اور اہل مدینہ کو مسجد نبوی سے باہر نکال دیا اور حضرت عثمان پر اس قدر کنکر برسائے گئے کہ آپ بے ہوش ہو کر منبر پر سے گر گئے اور چند آدمی آپ کو اُٹھا کر گھر چھوڑ آئے.یہ اس محبت کا نمونہ تھا جو ان لوگوں کو اسلام اور حاملانِ شریعت اسلام سے تھی.اور یہ وہ اخلاق فاضلہ تھے جن کو یہ لوگ حضرت عثمان کو خلافت سے علیحدہ کر کے عالم اسلام میں جاری کرنا چاہتے تھے.اس واقعہ کے بعد کون کہ سکتا ہے کہ حضرت عثمان کے مقابلہ میں کھڑی ہونے والی جماعت صحابہ سے کوئی تعلق رکھتی تھی یا یہ کہ فی الواقعہ حضرت عثمان کی بعض کارروائیوں سے وہ شورش کرنے پر مجبور ہوئے تھے یا یہ کہ حمیت اسلامیہ ان کے غیظ و غضب کا باعث تھی.ان کی بدعملیاں اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ نہ اسلام سے ان کو کو ئی تعلق تھا ، نہ دین سے ان کو کوئی محبت تھی ، نہ صحابہ سے ان کو کوئی اُنس تھا.وہ اپنی مخفی اغراض کے پورا کر نے کے لئے ملک کے امن و امان کو تباہ کرنے پر آمادہ ہو رہے تھے اور اسلام کے قلعہ میں نقب زنی کرنے کی کوشش کر رہے تھے.صحابہ کی مفسدوں کے خلاف جنگ پر آمادگی اس واقعہ بائکہ کے بعد صحابہ اور اہل مدینہ نے سمجھ لیا کہ ان لوگوں کے دلوں میں اس سے بھی زیادہ بغض بھرا ہوا ہے جس قدر کہ یہ ظاہر کرتے ہیں.گو وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے مگر بعض صحابہ جو اس حالت سے موت کو بہتر سمجھتے تھے اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو جاوے ہم ان سے جنگ کریں گے.اس دو تین ہزار کے لشکر کے مقابلہ میں چار پانچ آدمیوں کا لڑنا دنیا داری کی نظروں میں شاید جنون معلوم ہولیکن جن لوگوں نے اسلام کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہوا تھا انہیں اس کی حمایت میں لڑنا کچھ بھی دوبھر نہیں معلوم ہوتا تھا.ان لڑائی پر آمادہ ہو جانے والوں میں مفصلہ ذیل صحابہ بھی شامل تھے.سعد بن مالک ، حضرت ابو ہر سیرہ ، زید بن صامت اور حضرت امام حسن.جب حضرت عثمان کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فوراً ان کو کہلا بھیجا کہ ہرگز ان

Page 331

خلافة على منهاج النبوة ٣١٣ جلد اول لوگوں سے نہ لڑیں اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں.حضرت عثمان کی محبت جو آپ کو صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت سے تھی اس نے بے شک اس لڑائی کو جو چند جان فروش صحابہ اور اس دو تین ہزار کے باغی لشکر کے درمیان ہونے والی تھی روک دیا.مگر اس واقعہ سے یہ بات ہمیں خوب اچھی طرح سے معلوم ہو جاتی ہے کہ صحابہ میں ان لوگوں کی شرارتوں پر کس قدر جوش پیدا ہو رہا تھا.کیونکہ چند آدمیوں کا ایک لشکر جرار کے مقابلہ پر آمادہ ہو جانا ایسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ لوگ اس لشکر کی اطاعت کو موت سے بدتر خیال کریں.اس جماعت میں ابو ہریرہ اور امام حسن کی شرکت خاص طور پر قابل غور ہے کیونکہ حضرت ابو ہریر کا فوجی آدمی نہ تھے اور اس سے پیشتر کوئی خاص فوجی خدمت ان سے نہیں ہوئی.اسی طرح حضرت امام حسن گو ایک جری باپ کے بیٹے اور خود جری اور بہادر تھے مگر آپ صلح اور امن کو بہت پسند فرماتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کے مطابق صلح کے شہزادے تھے.ان دو شخصوں کا اس موقع پر تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہو جانا دلالت کرتا ہے کہ صحابہ اور دیگر اہل مدینہ ان مفسدوں کی شرارت پر سخت ناراض تھے.مدینہ میں مفسدوں کے تین بڑے ساتھی صرف تین مشخص مدینہ کے باشندے ان لوگوں کے ساتھی تھے ایک تو محمد بن ابی بکر جو حضرت ابوبکر کے لڑکے تھے اور مورخین کا خیال ہے کہ بوجہ اس کے کہ لوگ ان کے باپ کے سبب ان کا ادب کرتے تھے ان کو خیال پیدا ہو گیا تھا کہ میں بھی کوئی حیثیت رکھتا ہوں ورنہ نہ ان کو دنیا میں کوئی سبقت حاصل تھی نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی نہ بعد میں ہی خاص طور پر دینی تعلیم حاصل کی.حجتہ الوداع کے ایام میں پیدا ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ابھی دودھ پیتے بچے تھے.چوتھے سال ہی میں تھے کہ حضرت ابو بکر فوت ہو گئے اور اس بے نظیر انسان کی تربیت سے بھی فائدہ اُٹھانے کا موقع نہیں ملا ۳۵ دوسر اشخص محمد بن ابی حذیفہ تھا یہ بھی صحابہ میں سے نہ تھا اس کے والد یمامہ کی لڑائی میں

Page 332

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۴ جلد اول شہید ہو گئے تھے اور حضرت عثمان نے اس کی تربیت اپنی ذمہ لے لی تھی اور بچپن سے آپ نے اسے پالا تھا.جب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو اس نے آپ سے کوئی عہدہ طلب کیا آپ نے انکار کیا.اس پر اس نے اجازت چاہی کہ میں کہیں باہر جا کر کوئی کام کروں.آپ نے اجازت دے دی اور یہ مصر چلا گیا.وہاں جا کر عبداللہ بن سبا کے ساتھیوں سے مل کر حضرت عثمان کے خلاف لوگوں کو بھڑ کا نا شروع کیا.جب اہل مصر مدینہ پر حملہ آور ہوئے تو یہ ان کے ساتھ ہی آیا مگر کچھ دور تک آ کر واپس چلا گیا اور اس فتنہ کے وقت مدینہ میں نہیں تھا.۳۶ تیسرے شخص عمار بن یا سر تھے یہ صحابہ میں سے تھے اور ان کے دھوکا کھانے کی وجہ یہ تھی کہ یہ سیاست سے باخبر نہ تھے.جب حضرت عثمان نے ان کو مصر بھیجا کہ وہاں کے والی کے انتظام کے متعلق رپورٹ کریں تو عبد اللہ بن سبا نے ان کا استقبال کر کے ان کے خیالات کو مصر کے گورنر کے خلاف کر دیا.اور چونکہ وہ گورنر ایسے لوگوں میں سے تھا جنہوں نے ایام کفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت مخالفت کی تھی اور فتح مکہ کے بعد اسلام لایا تھا اس لئے آپ بہت جلد ان لوگوں کے قبضہ میں آگئے.والی کے خلاف بدظنی پیدا کرنے کے بعد آہستہ آہستہ حضرت عثمان پر بھی انہوں نے ان کو بدظن کر دیا.مگر انہوں نے عملاً فساد میں کوئی حصہ نہیں لیا.کیونکہ باوجود اس کے کہ مدینہ پر حملہ کے وقت یہ مدینہ میں موجود تھے سوائے اس کے کہ اپنے گھر میں خاموش بیٹھے رہے ہوں اور ان مفسدوں کا مقابلہ کرنے میں انہوں نے کوئی حصہ نہ لیا ہو عملی طور پر انہوں نے فساد میں کوئی حصہ نہیں لیا اور ان مفسدوں کی بداعمالیوں سے ان کا دامن بالکل پاک ہے.حضرت عثمان کو خلافت سے ان تین کے سوا باقی کوئی شخص اہل مدینہ میں سے صحابی ہو یا غیر صحابی ان مفسدوں دست برداری کیلئے مجبور کیا جانا کا ہمدرد نہ تھا اور ہر ایک شخص ان کے لعنت ملامت کرتا تھا.مگر ان کے ہاتھ میں اُس وقت سب انتظام تھا یہ کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے تھے.میں دن تک یہ لوگ صرف زبانی طور پر کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح

Page 333

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۵ جلد اول حضرت عثمان خلافت سے دست بردار ہو جائیں مگر حضرت عثمان نے اس امر سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ جو قمیض مجھے خدا تعالیٰ نے پہنائی ہے میں اسے اُتار نہیں سکتا اور نہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بے پناہ چھور سکتا ہوں کہ جس کا جی چاہے دوسرے پر ظلم کرے.۳۷ے اور ان لوگوں کو بھی سمجھاتے رہے کہ اس فساد سے باز آجاویں اور فرماتے رہے کہ آج یہ لوگ فساد کرتے ہیں اور میری زندگی سے بیزار ہیں مگر جب میں نہ رہوں گا تو خواہش کر یں گے کہ کاش! عثمان کی عمر کا ایک ایک دن ایک ایک سال سے بدل جاتا اور وہ ہم سے جلدی رُخصت نہ ہوتا.کیونکہ میرے بعد سخت خون ریزی ہوگی اور حقوق کا اتلاف ہوگا اور انتظام کچھ کا کچھ بدل جائے گا.(چنانچہ بنوامیہ کے زمانہ میں خلافت حکومت سے بدل گئی اور ان مفسدوں کو ایسی سزائیں ملیں کہ سب شرارتیں ان کو بھول گئیں ) حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ ہیں دن گزرنے کے بعد ان لوگوں کو خیال ہوا کہ اب جلدی ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے تا ایسا نہ ہو کہ صوبہ جات سے فوجیں آجاویں اور ہمیں اپنی اعمال کی سزا بھگتنی پڑے اس لئے انہوں نے حضرت عثمان کا گھر سے نکلنا بند کر دیا اور کھانے پینے کی چیزوں کا اندر جانا بھی روک دیا اور سمجھے کہ شاید اس طرح مجبور ہو کر حضرت عثمان ہمارے مطالبات کو قبول کر لیں گے.مدینہ کا انتظام اب ان لوگوں کے ہاتھ میں تھا اور تینوں فوجوں نے مل کر مصر کی فوجوں کے سردار غافقی کو اپنا سردار تسلیم کر لیا تھا.اس طرح مدینہ کا حاکم گویا اُس وقت غافقی تھا اور کوفہ کی فوج کا سردار اشتر اور بصرہ کی فوج کا سردار حکیم بن جبلہ ( وہی ڈا کو جسے اہل ذمہ کے مال لوٹنے پر حضرت عثمان نے بصرہ میں نظر بند کر دینے کا حکم دیا تھا ) دونوں غافقی کے ماتحت کام کرتے تھے اور اس سے ایک دفعہ پھر یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس فتنہ کی اصل جڑ مصری تھے جہاں عبداللہ بن سبا کام کر رہا تھا.مسجد نبوی میں غافقی نماز پڑھاتا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اپنے گھروں میں مقید رہتے یا اس کے پیچھے نماز ادا کر نے پر مجبور تھے.

Page 334

خلافة على منهاج النبوة ٣١٦ جلد اول جب تک ان لوگوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کرنیکا فیصلہ نہیں کیا تھا تب تک تو لوگوں سے زیادہ تعرض نہیں کرتے تھے مگر محاصرہ کرنے کے ساتھ ہی دوسرے لوگوں پر بھی سختیاں شروع کر دیں.اب مدینہ دارالامن کی بجائے دارالحرب ہو گیا.اہل مدینہ کی عزت اور نگ و ناموس خطرہ میں تھی اور کو ئی شخص اسلحہ کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا تھا اور جو شخص ان کا مقابلہ کرتا اسے قتل کر دیتے تھے.حضرت علی کا محاصرہ جب ان لوگوں نے حضرت عثمان کا محاصرہ کر لیا اور پانی تک اندر جانے سے روک دیا تو حضرت کرنے والوں کو نصیحت کرنا عثمان نے اپنے ایک ہمسایہ کے لڑکے کو حضرت علی اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور اُمہات المؤمنین کی طرف بھیجا کہ ان لوگوں نے ہمارا پانی بھی بند کر دیا ہے آپ لوگوں سے اگر کچھ ہو سکے تو کوشش کریں اور ہمیں پانی پہنچائیں.مردوں میں سب سے پہلے حضرت علیؓ آئے اور آپ نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ تم لوگوں نے کیا رویہ اختیار کیا ہے.تمہارا عمل تو نہ مومنوں سے ملتا ہے نہ کافروں سے.حضرت عثمان کے گھر میں کھانے پینے کی چیزیں مت روکو.روم اور فارس کے لوگ بھی قید کرتے ہیں تو کھانا کھلاتے ہیں اور پانی پلاتے ہیں اور اسلامی طریق کے موافق تو تمہارا یہ فعل کسی طرح جائزہ نہیں کیونکہ حضرت عثمان نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم ان کو قید کر دینے اور قتل کر دینے کو جائز سمجھنے لگے ہو.حضرت علیؓ کی اس نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم اس شخص تک دانہ پانی نہ پہنچنے دیں گے.یہ وہ جواب تھا جو انہوں نے اُس شخص کو دیا جسے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصی اور آپ کا حقیقی جانشین قرار دیتے تھے.اور کیا اس جواب کے بعد کسی اور شہادت کی بھی اس امر کے ثابت کرنے کے لئے ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ حضرت علی کا وصی قرار دینے والا گروہ حق کی حمایت اور اہل بیت کی محبت کی خاطر اپنے گھروں سے نہیں نکلا تھا بلکہ اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنے کے لئے.

Page 335

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۷ جلد اول حضرت اُم حبیبہ سے مفسدوں کا سلوک امہات المومنین میں سے سب سے پہلے حضرت ام حبیبہ آپ کی مدد کے لئے آئیں.ایک خچر پر سوار تھیں.آپ اپنے ساتھ ایک مشکیزہ پانی کا بھی لائیں.لیکن اصل غرض آپ کی یہ تھی کہ بنوامیہ کے یتامی اور بیواؤں کی وصیتیں حضرت عثمان کے پاس تھیں اور آپ نے جب دیکھا کہ حضرت عثمان کا پانی باغیوں نے بند کر دیا ہے تو آپ کو خوف ہوا کہ وہ وصایا بھی کہیں تلف نہ ہو جائیں اور آپ نے چاہا کہ کسی طرح وہ وصا یا محفوظ کر لی جائیں ورنہ پانی آپ کسی اور ذریعہ سے بھی پہنچا سکتی تھیں.جب آپ حضرت عثمان کے دروازے تک پہنچیں تو باغیوں نے آپ کو روکنا چاہا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ اُم المؤمنین ام حبیبہ ہیں مگر اس پر بھی وہ لوگ باز نہ آئے اور آپ کی خچر کو مارنا شروع کیا.اُم المؤمنین ام حبیبہ نے فرمایا کہ میں ڈرتی ہوں کہ بنوامیہ کے یتامیٰ اور بیوگان کی وصایا ضائع نہ ہو جائیں اس لئے اندر جانا چاہتی ہوں تاکہ ان کی حفاظت کا سامان کر دوں.مگران بدبختوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ کو جواب دیا کہ تم جھوٹ بولتی ہو اور آپ کی خچر پر حملہ کر کے اس کے پالان کے رستے کاٹ دیئے اور زین الٹ گئی.اور قریب تھا کہ حضرت اُمّ حبیبہ گرکران مفسدوں کے پیروں کے نیچے روندی جا کر شہید ہو جاتیں کہ بعض اہل مدینہ نے جو قریب تھے جھپٹ کر آپ کو سنبھالا اور گھر پہنچا دیا.۳۸ حضرت اُم حبیبہ کی دینی غیرت کا نمونہ یہ وہ سلوک تھا جو ان لوگوں نے زوجه آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہ مطہرہ سے کیا.حضرت اُم حبیبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا اخلاص اور عشق رکھتی تھیں کہ جب پندرہ سولہ سال کی جدائی کے بعد آپ کا باپ جو عرب کا سردار تھا اور مکہ میں ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا ایک خاص سیاسی مشن پر مدینہ آیا اور آپ کے ملنے کے لئے گیا تو آپ نے اس کے نیچے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر کھینچ لیا.اس لئے کہ خدا کے رسول کے پاک کپڑے سے ایک مشرک کے نجس جسم کو چھوتے ہوئے دیکھنا آپ کی طاقت برداشت سے باہر تھا.تعجب ہے کہ حضرت اُم حبیبہ نے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبت میں

Page 336

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۸ جلد اول آپ کے کپڑے تک کی حرمت کا خیال رکھا مگر ان مفسدوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبت میں آپ کے حرم محترم کی حرمت کا بھی خیال نہ کیا.نادانوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی جھوٹی ہیں حالانکہ جو کچھ انہوں نے فرمایا تھا وہ درست تھا.حضرت عثمان بنوامیہ کے یتامیٰ کے ولی تھے اور ان لوگوں کی بڑھتی ہوئی عداوت کو دیکھ کر آپ کا خوف درست تھا کہ یتامی اور بیواؤں کے اموال ضائع نہ ہو جائیں.جھوٹے وہ تھے جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعوی کرتے ہوئے ان کے دین کی تباہی کا بیڑا اٹھایا تھا نہ اُم المؤمنین ام حبیبہ ۳۹ حضرت عائشہ کی حج کے لئے تیاری رض حضرت اُم حبیبہ کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا گیا تھا جب اس کی خبر مدینہ میں پھیلی تو صحابہ اور اہل مدینہ حیران رہ گئے اور سمجھ لیا کہ اب ان لوگوں سے کسی قسم کی خیر کی امید رکھنی فضول ہے.حضرت عائشہ نے اُسی وقت حج کا ارادہ کر لیا اور سفر کی تیاری شروع کر دی.جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ آپ مدینہ سے جانے والی ہیں تو بعض نے آپ سے درخواست کی کہ اگر آپ یہیں ٹھہریں تو شاید فتنہ کے روکنے میں کوئی مدد ملے اور باغیوں پر کچھ اثر ہو.مگر انہوں نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ مجھ سے بھی وہی سلوک ہو جو اُم حبیبہ سے ہوا ہے.خدا کی قسم ! میں اپنی عزت کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتی ( کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت تھی ) اگر کسی قسم کا معاملہ مجھ سے کیا گیا تو میری حفاظت کا کیا سامان ہو گا خدا ہی جانتا ہے کہ یہ لوگ اپنی شرارتوں میں کہاں تک ترقی کریں گے اور ان کا کیا انجام ہوگا.حضرت عائشہ صدیقہ نے چلتے چلتے ایک ایسی تدبیر کی جو اگر کارگر ہو جاتی تو شاید فساد میں کچھ کمی ہو جاتی.اور وہ یہ کہ اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کو کہلا بھیجا کہ تم بھی میرے ساتھ حج کو چلو مگر اس نے انکار کر دیا.اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا کیا کروں بے بس ہوں اگر میری طاقت ہوتی تو ان لوگوں کو اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہ ہونے دیتی.

Page 337

خلافة على منهاج النبوة ۳۱۹ جلد اول حضرت عثمان کا والیان حضرت عائشہ تو حج کو تشریف لے گئیں اور بعض صحابہ بھی جن سے ممکن ہوسکا اور مدینہ سے نکل سکے صوبہ جات کو مراسلہ مدینہ سے تشریف لے گئے اور باقی لوگ سوائے چند اکا بر صحابہ کے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے اور آخر حضرت عثمان کو بھی یہ محسوس ہو گیا کہ یہ لوگ نرمی سے مان نہیں سکتے اور آپ نے ایک خط تمام والیانِ صوبہ جات کے نام روانہ کیا جس کا خلاصہ یہ تھا.حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے بعد ہلا کسی خواہش یا درخواست کے مجھے ان لوگوں میں شامل کیا گیا تھا جنہیں خلافت کے متعلق مشورہ کرنے کا کام سپر د کیا گیا تھا.پھر بلا میری خواہش یا سوال کے مجھے خلافت کے لئے چنا گیا اور میں برابر وہ کام کرتا رہا جو مجھ سے پہلے خلفاء کرتے رہے اور میں نے اپنے پاس سے کوئی بدعت نہیں نکالی.لیکن چند لوگوں کے دلوں میں بدی کا بیج بویا گیا اور شرارت جاگزیں ہوئی اور انہوں نے میرے خلاف منصوبے کرنے شروع کر دیئے.اور لوگوں کے سامنے کچھ ظاہر کیا اور دل میں کچھ اور رکھا اور مجھ پر وہ الزام لگانے شروع کیے جو مجھ سے پہلے خلفاء پر بھی لگتے تھے.لیکن میں معلوم ہوتے ہوئے بھی خاموش رہا اور یہ لوگ میرے رحم سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر شرارت میں اور بھی بڑھ گئے اور آخر کفار کی طرح مدینہ پر حملہ کر دیا.پس آپ لوگ اگر کچھ کر سکیں تو مدد کا انتظام کریں.اسی طرح ایک خط جس کا خلاصہ مطلب ذیل میں درج ہے حج پر آنے والوں کے نام لکھ کر کچھ دن بعد روانہ کیا.حضرت عثمان کا حاجیوں کے نام خط میں آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور اس کے انعامات یاد دلاتا ہوں.اس وقت کچھ لوگ فتنہ پردازی کر رہے ہیں اور اسلام میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش میں مشغول ہیں.مگر ان لوگوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وعد الله الذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ.اور اتفاق کی قدر نہیں کی.حالانکہ خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ

Page 338

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۰ جلد اول جَمِيعًا اور مجھ پر الزام لگانے والوں کی باتوں کو قبول کیا اور قرآن کریم کے اس اشور حکم کی پرواہ نہ کی کہ يُّهَا الَّذینَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَيَّنُوا اور میری بیعت کا ادب نہیں کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے کہ ان الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ الله " اور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوں.کوئی اُمت بغیر سردار کے ترقی نہیں کر سکتی اور اگر کوئی امام نہ ہو تو جماعت کا تمام کام خراب و برباد ہو جائے گا.یہ لوگ اُمت اسلامیہ کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں اور اس کے سوا ان کی کوئی غرض نہیں.کیونکہ میں نے ان کی بات کو قبول کر لیا تھا اور والیوں کے بدلنے کا وعدہ کر لیا تھا مگر انہوں نے اس پر بھی شرارت نہ چھوڑی.اب یہ تین باتوں میں سے ایک کا مطالبہ کرتے ہیں.اول یہ کہ جن لوگوں کو میرے عہد میں سزا ملی ہے اُن سب کا قصاص مجھ سے لیا جاوے.اگر یہ مجھے منظور نہ ہو تو پھر خلافت کو چھوڑ دوں اور یہ لوگ میری جگہ کسی اور کو مقرر کر دیں.یہ بھی نہ مانوں تو پھر یہ لوگ دھمکی دیتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے تمام ہم خیال لوگوں کو پیغام بھیجیں گے کہ وہ میری اطاعت سے باہر ہو جائیں.پہلی بات کا تو یہ جواب ہے کہ مجھ سے پہلے خلفاء بھی کبھی فیصلوں میں غلطی کرتے تھے مگر اُن کو کبھی سزا نہ دی گئی اور اس قدر سزائیں مجھ پر جاری کرنے کا مطلب سوائے مجھے مارنے کے اور کیا ہوسکتا ہے.خلافت سے معزول ہونے کا جواب میری طرف سے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ موچنوں سے میری بوٹیاں کر دیں تو یہ مجھے منظور ہے مگر خلافت سے میں جدا نہیں ہوسکتا.باقی رہی تیسری بات کہ پھر یہ لوگ اپنے آدمی چاروں طرف بھیجیں گے کہ کوئی میری بات نہ مانے.سو میں خدا کی طرف سے ذمہ دار نہیں ہوں اگر یہ لوگ ایک امر خلاف شریعت کرنا چاہتے ہیں ریں.پہلے بھی جب انہوں نے میری بیعت کی تھی تو میں نے ان پر جبر نہیں کیا تھا.جو شخص عہد

Page 339

خلافة على منهاج النبوة جلد اول توڑنا چاہتا ہے میں اس کے اس فعل پر راضی نہیں نہ خدا تعالیٰ راضی ہے.ہاں وہ اپنی طرف سے جو چاہے کرے.چونکہ حج کے دن قریب آ رہے تھے اور چاروں طرف سے لوگ مکہ مکرمہ میں جمع ہورہے تھے حضرت عثمان نے اس خیال سے کہ کہیں وہاں بھی کوئی فساد کھڑا نہ کریں اور اس خیال سے بھی کہ حج کے لئے جمع ہونے والے مسلمانوں میں اہل مدینہ کی مدد کی تحریک کریں حضرت عبد اللہ بن عباس کو حج کا امیر بنا کر روانہ کیا.حضرت عبد اللہ بن عباس نے بھی عرض کی کہ ان لوگوں سے جہاد کرنا مجھے زیادہ پسند ہے مگر حضرت عثمانؓ نے اُن کو مجبور کیا کہ وہ حج کے لئے جاویں اور حج کے ایام میں امیر حج کا کام کریں تا کہ مفسد وہاں اپنی شرارت نہ پھیلا سکیں اور وہاں جمع ہونے والے لوگوں میں بھی مدینہ کے لوگوں کی مدد کی تحریک کی جاوے اور مذکورہ بالا خط آپ ہی کے ہاتھ روانہ کیا.جب ان خطوں کا ان مفسدوں کو علم ہوا تو انہوں نے اور بھی سختی کرنا شروع کر دی اور اس بات کا موقع تلاش کرنے لگے کہ کسی طرح لڑائی کا کوئی بہانہ مل جاوے تو حضرت عثمان کو شہید کر دیں مگر ان کی تمام کوششیں فضول جاتی تھیں اور حضرت عثمان ان کو کوئی موقع شرارت کا ملنے نہ دیتے تھے.مفسدوں کا حضرت عثمان کے گھر میں پتھر پھینکنا آخر تنگ آ کر یہ تدبیر سُوجھی کہ جب رات پڑتی اور لوگ سو جاتے حضرت عثمان کے گھر میں پتھر پھینکتے اور اس طرح اہل خانہ کو اشتعال دلاتے تا کہ جوش میں آکر وہ بھی پتھر پھینکیں تو لوگوں کو کہہ سکیں کہ انہوں نے ہم پر پہلے حملہ کیا ہے اس لئے ہم جواب دینے پر مجبور ہیں.مگر حضرت عثمان نے اپنے تمام اہل خانہ کو جواب دینے سے روک دیا.ایک دن موقع پا کر دیوار کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے لوگو! میں تو تمہارے نزدیک تمہارا گناہ گار ہوں مگر دوسرے لوگوں نے کیا قصور کیا ہے.تم پتھر پھینکتے ہو تو دوسروں کو بھی چوٹ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے.انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ ہم نے پتھر نہیں پھینکے.حضرت عثمان نے فرمایا کہ اگر تم نہیں پھینکتے تو اور کون پھینکتا ہے.انہوں نے کہا کہ خدا تعالیٰ پھینکتا ہوگا.( نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ ( حضرت عثمان نے فرمایا کہ تم لوگ جھوٹ

Page 340

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۲ جلد اول بولتے ہو.اگر خدا تعالیٰ ہم پر پتھر پھینکتا تو اس کا کوئی پتھر خطا نہ جاتا لیکن تمہارے پھینکے ہوئے پتھر تو ادھر اُدھر بھی جا پڑتے ہیں.یہ فرما کر آپ ان کے سامنے سے ہٹ گئے.فتنہ فرو کرنے میں صحابہ کی مساعی جمیلہ گو صحابہ کو اب حضرت عثمان کے پاس جمع ہونے کا موقع نہ دیا جاتا تھا مگر پھر بھی وہ اپنے فرض سے غافل نہ تھے.مصلحت وقت کے ماتحت انہوں نے ا دوحصوں میں اپنا کام تقسیم کیا ہوا تھا.جو سن رسیدہ اور جن کا اخلاقی اثر عوام پر زیادہ تھا وہ تو اپنے اوقات کو لوگوں کے سمجھانے پر صرف کرتے اور جولوگ ایسا کوئی اثر نہ رکھتے تھے یا نوجوان تھے وہ حضرت عثمان کی حفاظت کی کوشش میں لگے رہتے.اوّل الذکر جماعت میں سے حضرت علیؓ اور حضرت سعد بن وقاص فاتح فارس فتنہ کے کم کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں تھے.خصوصاً حضرت علی تو اس فتنہ کے ایام میں اپنے تمام کام چھوڑ کر اس کام میں لگ گئے تھے چنانچہ ان واقعات کی رؤیت کے گواہوں میں سے ایک شخص عبد الرحمن نامی بیان کرتا ہے کہ ان ایام فتنہ میں میں نے دیکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے تمام کام چھوڑ دیئے تھے اور حضرت عثمان کے دشمنوں کا غضب ٹھنڈا کر نے اور آپ کی تکالیف دور کرنے کی فکر میں ہی رات دن لگے رہتے تھے.ایک دفعہ آپ تک پانی پہنچنے میں کچھ دیر ہوئی تو حضرت طلحہ پر جن کے سپرد یہ کام تھا آپ سخت ناراض ہوئے اور اُس وقت تک آرام نہ کیا جب تک پانی حضرت عثمان کے گھر میں پہنچ نہ گیا.دوسرا گر وہ ایک ایک دو دو کر کے جس جس وقت موقع ملتا تھا تلاش کر کے حضرت عثمان یا آپ کے ہمسایہ گھروں میں جمع ہونا شروع ہوا.اور اس نے اس امر کا پختہ ارادہ کر لیا کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے مگر حضرت عثمان کی جان پر آنچ نہ آنے دیں گے.اس گروہ میں حضرت علی ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی اولاد کے سوائے خود صحابہ میں سے بھی ایک جماعت شامل تھی.یہ لوگ رات اور دن حضرت عثمان کے مکان کی حفاظت کرتے تھے اور آپ تک کسی دشمن کو پہنچنے نہ دیتے تھے.اور گو یہ قلیل تعداد اس قدر کثیر لشکر کا مقابلہ تو نہ کر سکتی تھی مگر چونکہ باغی چاہتے تھے کوئی بہا نہ رکھ کر حضرت عثمان کو قتل کریں وہ بھی اس قدر

Page 341

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۳ جلد اول زور نہ دیتے تھے.اُس وقت کے حالات سے حضرت عثمان کی اسلامی خیر خواہی پر جو روشنی پڑتی ہے اس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے.تین ہزار کے قریب لشکر آپ کے دروازہ کے سامنے پڑا ہے اور کوئی تدبیر اس سے بچنے کی نہیں مگر جو لوگ آپ کو بچانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں اُن کو بھی آپ روکتے ہیں کہ جاؤ اپنی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالو.ان لوگوں کو صرف مجھ سے عداوت ہے تم سے کوئی تعرض نہیں.آپ کی آنکھ اُس وقت کو دیکھ رہی تھی جب کہ اسلام ان مفسدوں کے ہاتھوں سے ایک بہت بڑے خطرہ میں ہوگا اور صرف ظاہری اتحاد ہی نہیں بلکہ روحانی انتظام بھی پراگندہ ہونے کے قریب ہو جاوے گا.اور آپ جانتے تھے کہ اُس وقت اسلام کی حفاظت اور اس کے قیام کے لئے ایک ایک صحابی کی ضرورت ہوگی.پس آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کی جان بچانے کی بے فائدہ کوشش میں صحابہ کی جانیں جاویں اور سب کو یہی نصیحت کرتے تھے کہ ان لوگوں سے تعرض نہ کرو اور چاہتے تھے کہ جہاں تک ہو سکے آئندہ فتنوں کو دور کرنے کے لئے وہ جماعت محفوظ رہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی ہے.مگر باوجود آپ کے سمجھانے کے جن صحابہ کو آپ کے گھر تک پہنچنے کا موقع مل جاتا وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتا ہی نہ کرتے اور آئندہ کے خطرات پر موجودہ خطرہ کو مقدم رکھتے.اور اگر ان کی جانیں اس عرصہ میں محفوظ تھیں تو صرف اس لئے کہ ان لوگوں کو جلدی کی کوئی ضرورت نہ معلوم ہوتی تھی اور بہانہ کی تلاش تھی.لیکن وہ وقت بھی آخر آگیا جب کہ زیادہ انتظار کرنا ناممکن ہو گیا.کیونکہ حضرت عثمان کا دل کو ہلا دینے والا پیغام جو آپ نے حج پر جمع ہونے والے مسلمانوں کو بھیجا تھا حجاج کے مجمع میں سنایا گیا تھا اور وادی مکہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس کی آواز سے گونج رہی تھی اور حج پر جمع ہونے والے مسلمانوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ حج کے بعد جہاد کے ثواب سے بھی محروم نہ رہیں گے اور مصری مفسدوں اور ان کے ساتھیوں کا قلع قمع کر کے چھوڑیں گے.مفسدوں کے جاسوسوں نے انہیں اس ارادہ کی اطلاع دے دی تھی اور اب ان کے کیمپ میں سخت گھبراہٹ کے آثار تھے.حتی کہ ان میں چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں کہ اب اس شخص کے قتل کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اگر اسے ہم نے قتل نہ کیا تو مسلمانوں کے ہاتھوں سے

Page 342

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۴ جلد اول ہمارے قتل میں کوئی شبہ نہیں.اس گھبراہٹ کو اس خبر نے اور بھی دوبالا کر دیا کہ شام اور کوفہ اور بصرہ میں بھی حضرت عثمان کے خطوط پہنچ گئے ہیں اور وہاں کے لوگ جو پہلے سے ہی حضرت عثمان کے احکام کے منتظر تھے ان خطوط کے پہنچنے پر اور بھی جوش سے بھر گئے ہیں اور صحابہ نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کر کے مسجدوں اور مجلسوں میں تمام مسلمانوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلا کر ان مفسدوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا ہے اور وہ کہتے ہیں جس نے آج جہاد نہ کیا اُس نے گویا کچھ بھی نہ کیا.کوفہ میں عقبہ بن عمر و عبد اللہ بن ابی اوفی اور حظلہ بن ربیع اسمیمی اور حصین ، دیگر صحابہ کرام نے لوگوں کو اہل مدینہ کی مدد کے لیے اُبھارا ہے تو بصرہ میں عمران بن انس بن مالک ، ہشام بن عامر اور دیگر صحابہ نے.شام میں اگر عبادہ بن صامت، ابوامامہ اور دیگر صحابہؓ نے حضرت عثمان کی آواز پر لبیک کہنے پر لوگوں کو اُکسایا ہے تو مصر میں خارجہ و دیگر لوگوں نے.اور سب ملکوں سے فوجیں اکٹھی ہو کر مدینہ کی طرف بڑھی چلی آتی ہیں.غرض ان خبروں سے باغیوں کی حضرت عثمان کے گھر پر مفسدوں کا حملہ گھبراہٹ اور بھی بڑھ گئی آخر حضرت عثمان کے گھر پر حملہ کر کے بزوراندر داخل ہونا چاہا صحابہ نے مقابلہ کیا اور آپس میں سخت جنگ ہوئی گو صحابہ کم تھے مگر ان کی ایمانی غیرت ان کی کمی کی تعداد کو پورا کر رہی تھی.جس جگہ لڑائی ہوئی یعنی حضرت عثمان کے گھر کے سامنے وہاں جگہ بھی تنگ تھی اس لئے مفسد ا پنی کثرت سے زیادہ فائدہ نہ اٹھا سکے.حضرت عثمان کو جب اس لڑائی کا علم ہوا تو آپ نے صحابہ کو لڑنے سے منع کیا مگر وہ اُس وقت حضرت عثمان کو اکیلا چھوڑ دینا طبری کی روایت کے مطابق شام میں حضرت عثمان کی مدد کے لئے لوگوں میں جوش دلانے والے صحابہ میں حضرت ابو درداء انصاری بھی شامل تھے.مگر دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت عثمان کی شہادت سے پہلے فوت ہو چکے تھے جیسا کہ استیعاب اور اصابہ سے ثابت ہے اور یہی درست ہے جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے یہ بھی اپنے ایامِ زندگی میں اس فتنہ کے مٹانے میں کوشاں رہے ہیں.

Page 343

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۵ جلد اول ایمانداری کے خلاف اور اطاعت کے حکم کے متضاد خیال کرتے تھے اور با وجود حضرت عثمان کو اللہ کی قسم دینے کے انہوں نے کوٹنے سے انکار کر دیا.حضرت عثمان کا صحابہ کو وصیت کرنا آخر حضرت عثمان نے ڈھال ہاتھ میں پکڑی اور باہر تشریف لے آئے اور صحابہ کو اپنے مکان کے اندر لے گئے اور دروازے بند کرا دیئے اور آپ نے سب صحابہ اور ان کے مددگاروں کو وصیت کی کہ خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو دنیا اس لئے نہیں دی کہ تم اس کی طرف جھک جاؤ بلکہ اس لئے دی ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے آخرت کے سامان جمع کرو.یہ دنیا تو فنا ہو جاوے گی اور آخرت ہی باقی رہے گی.پس چاہیے کہ فانی چیز تم کو غافل نہ کرے.باقی رہنے والی چیز کو فانی ہو جانے والی چیز پر مقدم کرو اور خدا تعالیٰ کی ملاقات کو یاد رکھو اور جماعت کو پراگندہ نہ ہونے دو.اور اس نعمت الہی کو مت بھولو کہ تم ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والے تھے اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تم کو نجات دے کر بھائی بھائی بنا دیا.اس کے بعد آپ نے سب کو رُخصت کیا اور کہا کہ خدا تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو.تم سب اب گھر سے باہر جاؤ اور ان صحابہ کو بھی بلوا ؤ جن کو مجھ تک آنے نہیں دیا تھا.خصوصاً حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر کو.یہ لوگ باہر آگئے اور دوسرے صحابہ کو بھی بلوایا گیا.اُس وقت کچھ ایسی کیفیت پیدا ہو رہی تھی اور ایسی افسردگی چھا رہی تھی کہ باغی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے اور کیوں نہ ہوتا سب دیکھ رہے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلائی ہوئی ایک شمع اب اس دنیا کی عمر کو پوری کر کے اس دنیا کے لوگوں کی نظر سے اوجھل ہونے والی ہے.غرض باغیوں نے زیادہ تعرض نہ کیا اور سب صحابہ جمع ہوئے.جب لوگ جمع ہو گئے تو آپ گھر کی دیوار پر چڑھے اور فرمایا میرے قریب ہو جاؤ.جب سب قریب ہو گئے تو فرمایا کہ اے لوگو! بیٹھ جاؤ.اس پر صحابہ بھی اور مجلس کی ہیبت سے متاثر ہو کر باغی بھی بیٹھ گئے.جب سب بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا کہ اہل مدینہ ! میں تم کو خدا تعالیٰ کے سپر د کرتا ہوں اور اُس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میرے بعد تمہارے لئے خلافت کا کوئی بہتر انتظام فرما دے.آج کے بعد اُس

Page 344

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۶ جلد اول وقت تک کہ خدا تعالیٰ میرے متعلق کوئی فیصلہ فرمادے میں باہر نہیں نکلوں گا اور میں کسی کو کوئی ایسا اختیار نہیں دے جاؤں گا کہ جس کے ذریعہ سے دین یا دنیا میں وہ تم پر حکومت کرے.اور اس امر کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دوں گا کہ وہ جسے چاہے اپنے کام کے لئے پسند کرے.اس کے بعد صحابہ و دیگر اہل مدینہ کوقتم دی کہ وہ آپ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطرہ عظیم میں نہ ڈالیں اور اپنے گھروں کو چلے جاویں.آپ کے اس حکم نے صحابہ میں ایک بہت بڑا اختلاف پیدا کر دیا.ایسا اختلاف کہ جس کی نظیر پہلے نہیں ملتی.صحابہ حکم ماننے کے سوا اور کچھ جانتے ہی نہ تھے.مگر آج اس حکم کے ماننے میں ان میں سے بعض کو اطاعت نہیں غداری کی بُو نظر آتی تھی.بعض صحابہ نے تو اطاعت کے پہلو کو مقدم سمجھ کر بادلِ نا خواستہ آئندہ کے لئے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا اور غالباً انہوں نے سمجھا کہ ہمارا کام صرف اطاعت ہے یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم دیکھیں کہ اس حکم پر عمل کرنے کے کیا نتائج ہوں گے.مگر بعض صحابہ نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا.کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ بے شک خلیفہ کی اطاعت فرض ہے مگر جب خلیفہ یہ حکم دے کہ تم مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ تو اس کے یہ معنے ہیں کہ خلافت سے وابستگی چھوڑ دو.پس یہ اطاعت در حقیقت بغاوت پیدا کرتی ہے.اور وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ حضرت عثمان کا ان کو گھروں کو واپس کرنا ان کی جانوں کی حفاظت کیلئے تھا تو پھر کیا وہ ایسے محبت کرنے والے وجود کو خطرہ میں چھوڑ کر اپنے گھروں میں جاسکتے تھے !! اس مؤخر الذکر گروہ میں سب اکابر صحابہ شامل تھے.چنانچہ باوجود اس حکم کے حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر کے لڑکوں نے اپنے اپنے والد کے حکم کے ماتحت حضرت عثمان کی ڈیوڑھی پر ہی ڈیرہ جمائے رکھا اور اپنی تلواروں کو میانوں میں نہ داخل کیا.حاجیوں کی واپسی پر باغیوں کی گھبراہٹ باغیوں کی گھبراہٹ اور جوش کی کوئی حد باقی نہ رہی جب کہ حج سے فارغ ہو کر آنے والے لوگوں میں اکے ڈ کے مدینہ میں داخل ہونے لگے اور ان کو معلوم ہو گیا کہ اب ہماری قسمت کے فیصلہ کا وقت بہت نزدیک ہے.چنانچہ مغیرہ بن الاخنس سب

Page 345

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۷ جلد اول سے پہلے شخص تھے جو حج کے بعد ثواب جہاد کے لئے مدینہ میں داخل ہوئے اور ان کے ساتھ ہی یہ خبر باغیوں کو ملی کہ اہل بصرہ کا لشکر جو مسلمانوں کی امداد کے لئے آ رہا ہے صرار مقام پر جو مدینہ سے صرف ایک دن کے راستہ پر ہے آپہنچا ہے.ان خبروں سے متاثر ہو کر اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح ہو اپنے مدعا کو جلد پورا کیا جائے اور چونکہ وہ صحابہ اور ان کے ساتھی جنہوں نے باوجود حضرت عثمان کے منع کرنے کے حضرت عثمان کی حفاظت نہ چھوڑی تھی اور صاف کہہ دیا تھا کہ اگر ہم آپ کو باوجود ہاتھوں میں طاقت مقابلہ ہونے کے چھوڑ دیں تو خدا تعالیٰ کو کیا منہ دکھائیں گے ، بوجہ اپنی قلت تعدا داب مکان کے اندر کی طرف سے حفاظت کرتے تھے اور دروازہ تک پہنچنا باغیوں کے لئے مشکل نہ تھا.انہوں نے دروازہ کے سامنے لکڑیوں کے انبار جمع کر کے آگ لگا دی تا کہ دروازہ جل جاوے اور اندر پہنچنے کا راستہ مل جاوے.صحابہ نے اس بات کو دیکھا تو اندر بیٹھنا مناسب نہ سمجھا.تلواریں پکڑ کر باہر نکلنا چاہا مگر حضرت عثمانؓ نے اس بات سے روکا اور فرمایا کہ گھر کو آگ لگانے کے بعد اور کون سی بات رہ گئی ہے اب جو ہونا تھا ہو چکا تم لوگ اپنی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالو اور اپنے گھروں کو چلے جاؤ.ان لوگوں کو صرف میری ذات سے عداوت ہے مگر جلد یہ لوگ اپنے کئے پر پشیمان ہوں گے.میں ہر ایک شخص کو جس پر میری اطاعت فرض ہے اس کے فرض سے سبکدوش کرتا ہوں اور اپنا حق معاف کرتا ہوں ۲۵ مگر صحابہ اور دیگر لوگوں نے اس بات کو تسلیم نہ کیا اور تلواریں پکڑ کر باہر نکلے.ان کے باہر نکلتے وقت حضرت ابو ہریرہ بھی آگئے اور با وجود اس کے کہ وہ فوجی آدمی نہ تھے وہ بھی ان کے ساتھ مل گئے اور فرمایا کہ آج کے دن کی لڑائی سے بہتر اور کون سی لڑائی ہو سکتی ہے اور پھر باغیوں کی طرف دیکھ کر فرمایا ويقوم مَا لِي ادْعُوكُمْ إِلَى النّجوةِ وَ تَدْعُونَنِي إلى النارث سے یعنی اے میری قوم ! کیا بات ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھ کو آگ کی طرف بلاتے ہو.صحابہؓ کی مفسدوں سے لڑائی یہ لڑائی ایک خاص لڑائی تھی اور مٹھی بھر صحا بہ جو اُس وقت جمع ہو سکے انہوں نے اس لشکرِ

Page 346

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۸ جلد اول کا مقابلہ جان تو ڑ کر کیا.حضرت امام حسن جو نہایت صلح جو بلکہ صلح کے شہزادے تھے انہوں نے بھی اُس دن رجز پڑھ پڑھ کر دشمن پر حملہ کیا.ان کا اور محمد بن طلحہ کا اُس دن کا رجز خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ ان سے ان کے دلی خیالات کا خوب اندازہ ہو جاتا ہے.لَا دِينُهُمْ دِينِي وَلَا أَنَا مِنْهُمْ حَتَّى أَسِيرَ إِلَى طَمَارِ شَمَامِ یعنی ان لوگوں کا دین میرا دین نہیں اور نہ ان لوگوں سے میرا کوئی تعلق ہے اور میں ان سے اُس وقت تک لڑوں گا کہ شام پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ جاؤں.شمام عرب کا ایک پہاڑ ہے جس کو بلندی پر پہنچنے اور مقصد کے حصول سے مشابہت دیتے ہیں.اور حضرت امام حسنؓ کا یہ مطلب ہے کہ جب تک میں اپنے مدعا کو نہ پہنچ جاؤں اُس وقت تک میں برابر ان سے لڑتا رہوں گا اور ان سے صلح نہ کروں گا.کیونکہ ہم میں کوئی معمولی اختلاف نہیں کہ بغیر ان پر فتح پانے کے ہم ان سے تعلق قائم کر لیں.یہ تو وہ خیالات ہیں جو اس شہزادہ صلح کے دل میں موجزن تھے.اب طلحہ کے لڑکے محمد کا رجز لیتے ہیں وہ کہتے ہیں : أَنَا ابْنُ مَنْ حَامَى عَلَيْهِ بِاحَدٍ ورَدَّ أَحْزَابَا عَلَى رَغْمِ مَعَةٍ یعنی میں اُس کا بیٹا ہوں جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اُحد کے دن کی تھی اور جس نے باوجود اس کے کہ عربوں نے سارا زور لگایا تھا اُن کو شکست دے دی تھی.یعنی آج بھی اُحد کی طرح کا ایک واقعہ ہے اور جس طرح میرے والد نے اپنے ہاتھ کو تیروں سے چھلنی کر والیا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آنچ نہ آنے دی تھی میں بھی ایسا ہی کروں گا.حضرت عبداللہ بن زبیر بھی اس لڑائی میں شریک ہوئے اور بُری طرح زخمی ہوئے مروان بھی سخت زخمی ہوا اور موت تک پہنچ کر لوٹا.مغیرہ بن الاخنس مارے گئے.جس شخص نے ان کو مارا تھا اُس نے دیکھ کر کہ آپ زخمی ہی نہیں ہوئے بلکہ مارے گئے ہیں زور سے کہا کہ انا لله وانا الیهِ رُجِعُون ۲۹ سردار لشکر نے اُسے ڈانٹا کہ اس خوشی کے موقع پر لِلَّهِ وَإِنَّا

Page 347

خلافة على منهاج النبوة ۳۲۹ جلد اول افسوس کا اظہار کرتے ہو! اُس نے کہا کہ آج رات میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ ایک مسی کہتا ہے مغیرہ کے قاتل کو دوزخ کی خبر دو.پس یہ معلوم کر کے کہ میں ہی اس کا قاتل ہوں مجھے اس کا صدمہ ہونا لازمی تھا.مذکورہ بالا لوگوں کے سوا اور لوگ بھی زخمی ہوئے اور مارے گئے اور حضرت عثمان کی حفاظت کرنے والی جماعت اور بھی کم ہو گئی.لیکن اگر باغیوں نے باوجود آسمانی انذار کے اپنی ضد نہ چھوڑی اور خدا تعالیٰ کی محبوب جماعت کا مقابلہ جاری رکھا تو دوسری طرف مخلصین نے بھی اپنے ایمان کا اعلیٰ نمونہ دکھانے میں کمی نہ کی.باوجود اس کے کہ اکثر محافظ مارے گئے یا زخمی ہو گئے پھر بھی ایک قلیل گروہ برابر دروازہ کی حفاظت کرتا رہا.چونکہ باغیوں کو بظا ہر غلبہ حاصل ہو چکا تھا انہوں نے آخری حیلہ کے طور پر پھر ایک شخص کو حضرت عثمان کی طرف بھیجا کہ وہ خلافت سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ خود دستبردار ہو جاویں گے تو مسلمانوں کو انہیں سزا دینے کا کوئی حق اور موقع نہ رہے گا.حضرت عثمان کے پاس جب پیغامبر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو جاہلیت میں بھی بدیوں سے پر ہیز کیا ہے اور اسلام میں بھی اس کے احکام کو نہیں تو ڑا.میں کیوں اور کس جرم میں اس عہدہ کو چھوڑوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے.میں تو اس قمیض کو کبھی نہیں اُتاروں گا جو خدا تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے.وہ شخص یہ جواب سن کر واپس آ گیا اور اپنے ساتھیوں سے اِن الفاظ میں آکر مخاطب ہوا.خدا کی قسم ! ہم سخت مصیبت میں پھنس گئے ہیں.خدا کی قسم ! مسلمانوں کی گرفت سے عثمان کو قتل کرنے کے سوائے ہم بچ نہیں سکتے ( کیونکہ اس صورت میں حکومت تہ و بالا ہو جائے گی اور انتظام بگڑ جاوے گا اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو گا ) اور اس کا قتل کرنا کسی طرح جائز نہیں.اس شخص کے یہ فقرات نہ صرف ان لوگوں کی گھبراہٹ پر دلالت کرتے ہیں بلکہ اس امر پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اُس وقت بھی حضرت عثمان نے کوئی ایسی بات پیدا نہ ہونے دی تھی جسے یہ لوگ بطور بہانہ استعمال کر سکیں اور ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ حضرت عثمان کا قتل کسی صورت میں جائز نہیں.

Page 348

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۰ جلد اول عبد اللہ بن سلام کا مفسدوں کو نصیحت کرنا جب یہ لوگ حضرت عثمان کے قتل کا منصوبہ کر رہے تھے حضرت عبداللہ بن سلام جو حالت کفر میں بھی اپنی قوم میں نہایت معزز تھے اور جن کو یہود اپنا سردار مانتے تھے اور عالم بے بدل جانتے تھے تشریف لائے اور دروازہ پر کھڑے ہو کر ان لوگوں کو نصیحت کرنی شروع کی اور حضرت عثمان کے قتل سے ان کو منع فرمایا کہ اے قوم! خدا کی تلوار کو اپنے اوپر نہ کھینچو.خدا کی قسم ! اگر تم لوگوں نے تلوار کھینچی تو پھر اسے میان میں کرنے کا موقع نہ ملے گا ہمیشہ مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا ہی جاری رہے گا.عقل کرو آج ای تم پر حکومت صرف کوڑے کے ساتھ کی جاتی ہے.( عموماً حدودِ شرعیہ میں کوڑے کی سزا دی جاتی ہے ) اور اگر تم نے اس شخص کو قتل کر دیا تو حکومت کا کام بغیر تلوار کے نہ چلے گا.( یعنی چھوٹے چھوٹے جرموں پر لوگوں کو قتل کیا جاوے گا) یاد رکھو کہ اس وقت مدینہ کے محافظ ملائکہ ہیں.اگر تم اس کو قتل کر دو گے تو ملائکہ مدینہ کو چھوڑ جائیں گے.اس نصیحت سے ان لوگوں نے یہ فائدہ اُٹھایا کہ عبد اللہ بن سلام صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دھتکار دیا اور ان کے پہلے دین کا طعنہ دے کر کہا کہ اے یہودن کے بیٹے ! تجھے ان کا موں سے کیا تعلق.افسوس کہ ان لوگوں کو یہ تو یا د رہا کہ عبداللہ بن سلام یہو دن کے بیٹے تھے لیکن یہ بھول گیا کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ایمان لائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے ایمان لانے پر نہایت خوشی کا اظہار کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر ایک مصیبت اور دکھ میں آپ شریک ہوئے.اور اسی طرح یہ بھی بھول گیا کہ ان کا لیڈر اور ان کو ورغلانے والا حضرت علیؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصی قرار دے کر حضرت عثمان کے مقابلہ پر کھڑا کرنے والا عبد اللہ بن سبا بھی یہو دن کا بیٹا تھا بلکہ خود یہودی تھا اور صرف ظاہر میں اسلام کا اظہار کر رہا تھا.مفسدوں کا حضرت عثمان کو قتل کرنا حضرت عبداللہ بن سلام تو ان لوگوں سے مایوس ہو کر چلے گئے اور اُدھر ان لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ دروازہ کی طرف سے جا کر حضرت عثمان کو قتل کر نا مشکل ہے

Page 349

خلافة على منهاج النبوة ٣٣١ جلد اول کیونکہ اس طرف تھوڑے بہت جو لوگ بھی روکنے والے موجود ہیں وہ مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں یہ فیصلہ کیا کہ کسی ہمسایہ کے گھر کی دیوار پھاند کر حضرت عثمان کو قتل کر دیا جائے چنانچہ اس ارادے سے چند لوگ ایک ہمسایہ کی دیوار پھاند کر آپ کے کمرہ میں گھس گئے.جب اندر گھسے تو حضرت عثمان قرآن کریم پڑھ رہے تھے.اور جب سے کہ محاصرہ ہوا تھا رات دن آپ کا یہی شغل تھا کہ نماز پڑھتے یا قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور اس کے سوا اور کسی کام کی طرف توجہ نہ کرتے اور ان دنوں میں صرف آپ نے ایک کام کیا اور وہ یہ کہ ان لوگوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے آپ نے دو آدمیوں کو خزانہ کی حفاظت کے لئے مقرر کیا.کیونکہ جیسا کہ ثابت ہے اُس دن رات کو رویا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو نظر آئے اور فرمایا کہ عثمان ! آج شام کو روزہ ہمارے ساتھ کھولنا.اس رؤیا سے آپ کو یقین ہو گیا تھا کہ آج میں شہید ہو جاؤں گا پس آپ نے اپنی ذمہ داری کا خیال کر کے دو آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ خزانہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر پہرہ دیں تا کہ شور و شر میں کوئی شخص خزانہ لوٹنے کی کوشش نہ کرے.واقعاتِ شہادت حضرت عثمان غرض جب یہ لوگ اندر پہنچے تو حضرت عثمان کو.قرآن کریم پڑھتے پایا.ان پر حملہ آوروں میں محمد بن ابی بکر بھی تھے اور بوجہ اپنے اقتدار کے جو ان لوگوں پر ان کو حاصل تھا اپنا فرض سمجھتے تھے کہ ہر ایک کام میں آگے ہوں.چنانچہ انہوں نے بڑھ کر حضرت عثمان کی ڈاڑھی پکڑ لی اور زور سے جھٹکا دیا.حضرت عثمان نے ان کے اس فعل پر صرف اس قدر فر مایا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے ! اگر تیرا باپ (حضرت ابوبکر ) اس وقت ہوتا تو کبھی ایسا نہ کرتا.تجھے کیا ہوا تو خدا کے لئے مجھ پر ناراض ہے.کیا اس کے سوا تجھے مجھ پر کوئی غصہ ہے کہ تجھ سے میں نے خدا کے حقوق ادا کروائے ہیں؟ اس پر محمد بن ابی بکر شرمندہ ہو کر واپس لوٹ گئے.لیکن دوسرے شخص وہیں رہے اور چونکہ اس رات بصرہ کے لشکر کی مدینہ میں داخل ہو جانے کی یقینی خبر آچکی تھی اور یہ موقع ان لوگوں کے لئے آخری موقع تھا ان لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ بغیر اپنا کام کئے واپس نہ لوٹیں گے اور ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور

Page 350

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۲ جلد اول ایک لوہے کی شیخ حضرت عثمان کے سر پر ماری اور پھر حضرت عثمان کے سامنے جو قرآن دھرا ہوا تھا اُس کو لات مار کر پھینک دیا.قرآن کریم لڑھک کر حضرت عثمان کے پاس آ گیا اور آپ کے سر پر سے خون کے قطرات گر کر اُس پر آپڑے قرآن کریم کی بے ادبی تو کسی نے کیا کرنی ہے مگر ان لوگوں کے تقویٰ اور دیانت کا پردہ اس واقعہ سے اچھی طرح فاش ہو گیا.جس آیت پر آپ کا خون گرا وہ ایک زبر دست پیشگوئی تھی جو اپنے وقت میں جاکر اس شان سے پوری ہوئی کہ سخت دل سے سخت دل آدمی نے اس کے خونی حروف کی جھلک کو دیکھ کر خوف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں.وہ آیت یہ تھی فَسَيَكْفِيكَهُمُ الله وهو السميع العليم ٥٠ ۵۰ اللہ تعالیٰ ضرور تیرا ان سے بدلہ لے گا اور وہ بہت سننے والا اور جاننے والا ہے.اس کے بعد ایک اور شخص سودان نامی آگے بڑھا اور اس نے تلوار سے آپ پر حملہ کرنا چاہا.پہلا وار کیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اُس کو روکا اور آپ کا ہاتھ کٹ گیا.اس پر آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم ! یہ وہ ہاتھ ہے جس نے سب سے پہلے قرآن کریم لکھا تھا.اس کے بعد پھر اس نے دوسرا وار کر کے آپ کو قتل کرنا چاہا تو آپ کی بیوی نائلہ وہاں آگئیں اور اپنے آپ کو بیچ میں کھڑا کر دیا مگر اس شقی نے ایک عورت پر وار کرنے سے بھی دریغ نہ کیا اور وار کر دیا جس سے آپ کی بیوی کی اُنگلیاں کٹ گئیں اور وہ علیحدہ ہو گئیں.پھر اُس نے ایک وار حضرت عثمان پر کیا اور آپ کو سخت زخمی کر دیا.اس کے بعد اس شقی نے یہ خیال کر کے کہ ابھی جان نہیں نکلی شائد بیچ جاویں اُسی وقت جب کہ زخموں کے صدموں سے آپ بے ہوش ہو چکے تھے اور شدت درد سے تڑپ رہے تھے آپ کا گلا پکڑ کر گھونٹنا شروع کر دیا اور اُس وقت تک آپ کا گلا نہیں چھوڑا جب تک آپ کی روح جسم خاکی سے پرواز کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو لبیک کہتی ہوئی عالم بالا کو پرواز نہیں کر گئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ - پہلے حضرت عثمان کی بیوی اس نظارہ کی ہیبت سے متاثر ہوکر بول نہ سکیں.لیکن آخر انہوں نے آواز دی اور وہ لوگ جو دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے اندر کی طرف دوڑے.مگر

Page 351

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۳ جلد اوّل اب مدد فضول تھی جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا تھا.حضرت عثمان کے ایک آزاد کردہ غلام سے سودان کے ہاتھ میں وہ خون آلودہ تلوار دیکھ کر جس نے حضرت عثمان کو شہید کیا تھا نہ رہا گیا اور اس نے آگے بڑھ کر اُس شخص کا تلوار سے سرکاٹ دیا.اس پر اُس کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے اُس کو قتل کر دیا.اب اسلامی حکومت کا تخت خلیفہ سے خالی ہو گیا.اہل مدینہ نے مزید کوشش فضول سمجھی اور ہر ایک اپنے اپنے گھر جا کر بیٹھ گیا.ان لوگوں نے حضرت عثمان کو مار کر گھر پر دست تعدی دراز کرنا شروع کیا.حضرت عثمان کی بیوی نے چاہا کہ اس جگہ سے ہٹ جاویں تو اس کے لوٹتے وقت ان میں سے ایک کم بخت نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو ! اس کے سرین کیسے موٹے ہیں.بے شک ایک حیا دار آدمی کے لئے خواہ وہ کسی مذہب کا پیرو کیوں نہ ہو اس بات کو باور کرنا بھی مشکل ہے کہ ایسے وقت میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت سابق (قدیم) صحابی آپ کے داماد ، تمام اسلامی ممالک کے بادشاہ اور پھر خلیفہ وقت کو یہ لوگ ابھی ابھی مار کر فارغ ہوئے تھے ایسے گندے خیالات کا ان لوگوں نے اظہار کیا ہو.لیکن ان لوگوں کی بے حیائی ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ کسی قسم کی بداعمالی بھی ان سے بعید نہ تھی یہ لوگ کسی نیک مدعا کو لے کر کھڑے نہیں ہوئے تھے نہ ان کی جماعت نیک آدمیوں کی جماعت تھی.ان میں سے بعض عبد اللہ بن سبا یہودی کے فریب خوردہ اور اس کی عجیب وغریب مخالف اسلام تعلیموں کے دلدادہ تھے.کچھ حد سے بڑھی ہوئی سوشلزم بلکہ بالشوزم کے فریفتہ تھے.کچھ سزا یافتہ مجرم تھے جو اپنا دیرینہ بغض نکالنا چاہتے تھے.کچھ لٹیرے اور ڈاکو تھے جو اس فتنہ پر اپنی ترقیات کی راہ دیکھتے تھے.پس ان کی بے حیائی قابل تعجب نہیں بلکہ یہ لوگ اگر ایسی حرکات نہ کرتے تب تعجب کا مقام تھا.جب یہ لوگ لوٹ مار کر رہے تھے ایک اور آزاد کردہ غلام سے حضرت عثمان کے گھر والوں کی چیخ و پکار سن کر رہا نہ گیا اور اُس نے حملہ کر کے اُس شخص کو قتل کر دیا جس نے پہلے غلام کو مارا تھا.اس پر ان لوگوں نے اُسے بھی قتل کر دیا اور عورتوں کے جسم پر سے بھی زیور اتار لئے اور ہنسی ٹھٹھا کرتے ہوئے گھر سے نکل گئے.

Page 352

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۴ جلد اول باغیوں کا بیت المال کو لوٹنا اس کے بعد ان لوگوں نے اپنے ساتھیوں میں عام منادی کرادی که بیت المال کی طرف چلو اور اس میں جو کچھ ہولوٹ لو.چونکہ بیت المال میں سوائے روپیہ کی دو تھیلیوں کے اور کچھ نہ تھا محافظوں نے یہ دیکھ کر کہ خلیفہ وقت شہید ہو چکا ہے اور ان لوگوں کا مقابلہ کرنا فضول ہے آپس میں یہ فیصلہ کیا کہ یہ جو کچھ کرتے ہیں ان کو کرنے دو اور بیت المال کی کنجیاں پھینک کر چلے گئے.چنانچہ انہوں نے بیت المال کو جا کر کھولا اور اس میں جو کچھ تھا لوٹ لیا اور اس طرح ہمیشہ کے لئے اس امر کی صداقت پر مہر لگادی کہ یہ لوگ ڈاکو اور لٹیرے تھے اور ان کو اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہ تھا.اور کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ وہ لوگ جو حضرت عثمان پر یہ اعتراض دھرتے تھے کہ آپ غیر مستحقین کو روپیہ دے دیتے ہیں حضرت عثمان کی شہادت کے بعد سب سے پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ پہلے آپ کا گھر لوٹتے ہیں اور پھر بیت المال.مگر خدا تعالیٰ نے ان کی آرزوؤں کو اس معاملہ میں بھی پورا نہ ہونے دیا کیونکہ بیت المال میں اُس وقت سوائے چند روپوں کے جو ان کی حرص کو پورا نہیں کر سکتے تھے اور کچھ نہ تھا.حضرت عثمان کی شہادت پر صحابہ کا جوش حضرت عثمان کی شہادت کی خبر جب صحابہ کو پہنچی تو ان کو سخت صدمہ ہوا.حضرت زبیر نے جب یہ خبر سنی تو فرمایا کہ انا لله وانا اليورْجِعُونَ - اے خدا ! عثمان پر رحم کر اور اس کا بدلہ لے.اور جب ان سے کہا گیا کہ اب وہ لوگ شرمندہ ہیں اور اپنے کئے پر پشیمان ہو رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ منصوبہ بازی تھی اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی وَحِيْلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ ا خدا تعالیٰ نے ان کی آرزوؤں کے پورا ہونے میں روکیں ڈال دی تھیں یعنی جو کچھ یہ لوگ چاہتے تھے چونکہ اب پورا ہوتا نظر نہیں آتا گل عالم اسلامی کو اپنے خلاف جوش میں دیکھ رہے ہیں اس لئے اظہار ندامت کرتے ہیں.جب حضرت طلحہ کو خبر ملی تو آپ نے بھی یہی فرمایا کہ خدا تعالیٰ عثمان پر رحم فرما دے اور اس کا اور اسلام کا بدلہ ان لوگوں سے لے.جب ان سے کہا گیا کہ اب تو وہ لوگ نادم ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ان پر ہلاکت ہو اور یہ آیت کریمہ پڑھی

Page 353

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۵ جلد اول فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ ۵۲ ان کو وصیت کرنے کی بھی توفیق نہ ملے گی اور وہ اپنے اہل وعیال کی طرف واپس نہ لوٹ سکیں گے.اسی طرح جب حضرت علیؓ کو اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی عثمان پر رحم فرمادے اور ان کے بعد ہمارے لئے کوئی بہتر جانشین مقرر فرما دے.اور جب ان سے بھی کہا گیا کہ اب تو وہ لوگ شرمندہ ہیں تو آپ نے یہ آیت کریمہ پڑھی كَمَثَلِ الشَّيْطَنِ إذ قال للانسانِ اكْفُرُ فَلَمَّا عَفَر قَالَ إِنِّي بَرِي مِنْكَ إِنِّي أَخَافُ الله رب العلمين ۵۳ یعنی ان کی مثال اس شیطان کی ہے جو لوگوں کو کہتا ہے کہ کفر کرو جب وہ کفر اختیار کر لیتے ہیں تو پھر کہتا ہے کہ میں تجھ سے بیزار ہوں میں تو خدا سے ڈرتا ہوں.جب ان لشکروں کو جو حضرت عثمان کی مدد کے لئے آرہے تھے معلوم ہوا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں تو وہ مدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر سے ہی لوٹ گئے اور مدینہ کے اندر داخل ہونا انہوں نے پسند نہ کیا کیونکہ ان کے جانے سے حضرت عثمان کی تو کوئی مدد نہ ہو سکتی تھی اور خطرہ تھا کہ فساد زیادہ نہ بڑھ جاوے اور مسلمان عام طور پر بلا امام کے لڑنا بھی پسند نہ کرتے تھے.اب مدینہ انہیں لوگوں کے قبضہ میں رہ گیا اور ان ایام میں ان لوگوں نے جو حرکات کیں وہ نہایت حیرت انگیز ہیں.حضرت عثمان کو شہید تو کر چکے تھے ان کی نعش کے دفن کرنے پر بھی ان کو اعتراض ہوا اور تین دن تک آپ کو دفن نہ کیا جاسکا.آخر صحابہ کی ایک جماعت نے ہمت کر کے رات کے وقت آپ کو دفن کیا ان لوگوں کے راستہ میں بھی انہوں نے روکیں ڈالیں لیکن بعض لوگوں نے سختی سے ان کا مقابلہ کرنے کی دھمکی دی تو دب گئے.حضرت عثمان کے دونوں غلاموں کی لاشوں کو باہر جنگل میں نکال کر ڈال دیا اور کتوں کو کھلا دیا.۵۴ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ - واقعات متذکرہ کا خلاصہ اور نتائج یہ وہ صحیح واقعات ہیں جو حضرت عثمان کے آخری ایامِ خلافت میں ہوئے ان کو معلوم کرنے کے بعد کوئی شخص یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ حضرت عثمان یا صحابہ کا ان فسادات

Page 354

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۶ جلد اول میں کچھ بھی دخل تھا.حضرت عثمان نے جس محبت اور جس اخلاص اور جس بردباری سے اپنی خلافت کے آخری چھ سال میں کام لیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے.خدائے پاک کے بندوں کے سوا اور کسی جماعت میں ایسی مثال نہیں مل سکتی.وہ بے لوث مسند خلافت پر بیٹھے اور بے لوث ہی اپنے محبوب حقیقی سے جاملے.ایسے خطر ناک اوقات میں جب کہ بڑے بڑے صابروں کا خون بھی جوش میں آجاتا ہے آپ نے ایسا رویہ اختیار کیا کہ آپ کے خون کے پیاسے آپ کے قتل کیلئے کوئی کمزور سے کمزور بہانہ بھی تلاش نہ کر سکے اور آخر اپنے ظالم ہونے اور حضرت عثمان کے بری ہونے کا اقرار کرتے ہوئے انہیں آپ پر تلوار اُٹھانی پڑی.اسی طرح ان واقعات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کو حضرت عثمان کی خلافت پر کوئی اعتراض نہ تھا.وہ آخر دم تک وفاداری سے کام لیتے رہے اور جب کہ کسی قسم کی مدد کرنی بھی ان کے لئے ناممکن تھی تب بھی اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر آپ کی حفاظت کرتے رہے.یہ بھی ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان فسادات میں حضرت عثمان کے انتخاب والیان کا بھی کچھ دخل نہ تھا اور نہ والیوں کے مظالم اس کا باعث تھے کیونکہ ان کا کوئی ظلم ثابت نہیں ہوتا.حضرت علیؓ اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پر خفیہ ریشہ دوانیوں کا بھی الزام بالکل غلط ہے.ان تینوں اصحاب نے وفاداری اور اس ہمدردی سے اس فتنہ کے دور کرنے میں سعی کی ہے کہ سگے بھائی بھی اس سے زیادہ تو کیا اس کے برابر بھی نہیں کر سکتے.انصار پر جو الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حضرت عثمان سے ناراض تھے وہ غلط ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انصار کے سب سردار اس فتنہ کے دور کرنے میں کوشاں رہے ہیں.فساد کا اصل باعث یہی تھا کہ دشمنانِ اسلام نے ظاہری تدابیر سے اسلام کو تباہ نہ ہوتے دیکھ کر خفیہ ریشہ دوانیوں کی طرف توجہ کی اور بعض اکابر صحابہ کی آڑ لے کر خفیہ خفیہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا چاہا.جن ذرائع سے انہوں نے کام لیا وہ اب لوگوں پر روشن ہو چکے ہیں.سزا یافتہ مجرموں کو اپنے ساتھ ملایا اور لٹیروں کو تحریص دلائی.جھوٹی مساوات کے خیالات پیدا کر کے انتظام حکومت کو کھو کھلا کیا.مذہب کے پردہ میں لوگوں کے ایمان کو کمزور کیا اور ہزاروں حیلوں اور تدبیروں سے ایک جماعت تیار کی.پھر جھوٹ سے،

Page 355

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۷ جلد اول جعل سازی سے اور فریب سے کام لے کر ایسے حالات پیدا کر دیئے جن کا مقابلہ کرنا حضرت عثمان اور دیگر صحابہ کے لئے مشکل ہو گیا.ہم نہیں جانتے کہ انجام کیا ہوتا مگر ہم واقعات سے یہ جانتے ہیں کہ اگر اُس وقت حضرت عمرؓ کی خلافت بھی ہوتی تب بھی یہ فتنہ ضرور کھڑا ہو جاتا اور وہی الزام جو حضرت عثمان پر لگائے گئے حضرت عمر پر بھی لگائے جاتے کیونکہ حضرت عثمانؓ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو حضرت عمرؓ اور حضرت ابو بکر نے نہیں کیا تھا.حضرت علی کی خلافت کے واقعات چونکہ بوجہ قلت وقت چند منٹ میں بیان کئے گئے تھے اور بہت مختصر تھے اس لئے نظر ثانی کے وقت میں نے اس حصہ کو کاٹ دیا.“ دم كم (انوار العلوم جلد ۴ صفحه ۲۴۵ تا ۳۳۴) اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۳۱۸ زیر عنوان عثمان بن عفان، مطبوعہ بیروت لبنان ۲۰۰۶ء السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانى صفحه ۱۱۰۵ مطبوعہ دمشق ۲۰۰۵ء مسلم کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عثمان بن عفان صفحه ۱۰۵۶ حدیث نمبر ۶۲۰۹ مطبوعہ ریاض ۲۰۰۰ ء الطبعة الثانية ترمذی ابواب المناقب باب مناقب عبدالرحمن بن عوف صفر ۸۵۲ حدیث نمبر ۳۷۴۸ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولى ترمذی ابواب المناقب باب مناقب عثمان بن عفان صفحه ۸۴۲ حدیث نمبر ۳۷۰۰ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولى بخاری کتاب المغازى باب بعث علی ابن ابی طالب و خالد ابن الوليد الى اليمن قبل حجة الوداع صفحه ۷۳۷ حدیث نمبر ۴۳۵۱ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ءالطبعة الثانية سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب رجم ماعز بن مالک صفحه ۶۲۲ حدیث نمبر ۴۴۱۹ مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولى الصف: ١٠ تاریخ الطبرى المجلد الثانی، ذکر بعض سیر عثمان بن عفان صفحه ۶۷۹ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء تاریخ الطبرى المجلد الثاني ، ذكر السبب عزل عثمان بن الوليد عن الكوفة صفر ٢٠٩

Page 356

خلافة على منهاج النبوة مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۳۳۸ جلد اول تاریخ الطمرى المجلد الثاني ، ذكر ما كان فيها من الاحداث المذکورۃ صفحه ۶۴۱ ۶۴۲ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء تاریخ الطبرى المجلد الثاني، ذكر الخبر عن تسيير عثمان صفحه ۶۳۹ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء تاریخ الطبرى المجلد الثانى، ذكر السبب فى عزل عثمان بن الوليد عن الكوفة صفح ۶۰۸، ۶۰۹ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء تاریخ الطبرى المجلد الثانی، ذکر مسیر من سارالی ذی حشب صفحه ۶۴۷ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۱۵ تا کله تاریخ الطبرى المجلد الثانی ، ذکر اخبار ابی ذر رحمہ اللہ تعالیٰ صفحہ ۶۱۶،۶۱۵ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۱۸ القصص: ۸۶ 19 تاريخ الطبرى المجلد الثانی، ذکر مسیر من سارالی ذی خشب صفحہ ۶۴۷ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۲۰ داد و دهش: بخشش.عطاء بخشش (فیروز اللغات اردو جامع صفحه ۶۰۶ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء) تاريخ الطمرى المجلد الثانی، ذکر مسیر من سارالی ذی خشب صفحه ۶۴۷، ۶۴۸ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۲۲ تاريخ الطبرى المجلد الثاني ، ذكر بعض سیر عثمان بن عفان صفحه ۶۸۲ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۲ تاريخ الطبرى المجلد الثانی، ذکر مسیر من سارالی ذی خشب صفحه ۶۴۷، ۶۴۸ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۲۴ تاريخ الطبرى المجلد الثانی، ذکر الخبر عن صفته اجتما مهم لذا لک صفحه ۶۴۱ ۶۴۲ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۲۵، ۲۶ مسلم کتاب الامارة باب حكم من فرق امر المسلمين وهم مجتمع صفحه ۸۳۲ حدیث نمبر ۴۷۹۶ مطبوعہ ریاض ۲۰۰۰ ء الطبعة الثانية ۲۷ ترمذی ابواب السفر باب التقصير في السفر صفحه۱۴۲ حدیث نمبر ۵۴۴ مطبوعه مطبوعہ ریاض ۱۹۹۹ء الطبعة الاولى ۲۸ تاريخ الطبرى المجلد الثانی رجع الحديث الى حديث سیف صفحه ۶۵۲ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۹ تاريخ الطبرى المجلد الثاني، رجع الحديث الی حدیث سیف صفحه ۶۵۳٬۶۵۲ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء البداية والنهاية جزے صفحہ ۱۷۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۶ء

Page 357

خلافة على منهاج النبوة ۳۳۹ جلد اول ۳۲،۳۱، تاریخ الطبرى المجلد الثاني، رجع الحديث الى حدیث سیف صفحه ۶۵۳ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء تاريخ الطبرى المجلد الثاني، رجع الحديث الی حدیث سیف صفحه ۶،۶۵۵ ۶۵ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۳۴ مستدرك الحاكم الجزء الثالث كتاب معرفة الصحابة باب من فضائل الحسن بن علی صفحه ۱۹۱، حدیث نمبر ۴۸۰۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۰ء ۳۵ تهذيب التهذيب جلد 9 صفحہ سے مطبوعہ لاہور تاریخ الطبرى المجلد الثانی، ذكر بعض سیر عثمان بن عفان صفحه ۶۸۰ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء تاریخ الطبرى المجلد الثانى ذكر الخبر عن قتله وكيف قتل صفحه ۶۶۷ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۳۸ ۳۹ تاريخ الطبرى المجلد الثاني ذكر الخبر عن قتله و كيف قتل صفحه ۶۷۳۶۷۲ مطبو بیروت ۲۰۱۲ء النور: ۵۶ ال ال عمران ۱۰۴ ۲۲ الحجرات ٧ ٤٣ الفتح الـ ۲۴ تاريخ الطبرى المجلد الثاني، رجع الحديث الى حدیث سیف صفر ۴ ۶۵ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۲۵ تاریخ الطبرى المجلد الثانى، ذكر الخبر عن قتل عثمان رضی اللہ عنہ صفحہ ۶۷۴ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ٢٦ المؤمن: ۴۲ ۴۷، ۲۸ تاریخ الطبرى المجلد الثانى، ذكر الخبر عن قتل عثمان رضی اللہ عنہ صفحہ ۶۷۴ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ءء تاریخ الطبرى المجلد الثانى، ذكر الخبر عن قتل عثمان رضی اللہ عنہ صفحہ ۶۷۵ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۵۰ البقرة: ۱۳۸ ۵۱ سبا ۵۵ ۵۲ پاس : ۵۱ ۵۳ الحشر : ۱۷ ۵۴ تاريخ الطبرى المجلد الثانى، ذكر الخبر عن الموضع الذي دفن فيه صفحه ۶۸۹،۶۸۸ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء

Page 358

Page 359

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۱ جلد اول خطاب جلسہ سالانہ کے امارچ ۱۹۱۹ء ۱۷ / مارچ ۱۹۱۹ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں حضور نے بعض متفرق مگر ضروری اور اہم امور پر روشنی ڈالی.جماعتی انتظام کو بہتر رنگ میں چلانے کیلئے حضور نے صیغہ جات بیت المال.تالیف واشاعت وغیرہ ) کا ذکر فرمایا.جماعتی اختلاف اور اس سلسلہ میں بعض اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لا ہوری جماعت کے ممبران جنہوں نے الگ مرکز لاہور بنا لیا تھا اور اب صلح کا پیغام بھجوایا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.غیر مبائعین کے متعلق ” میں اپنے دوستوں کو ایک خاص امر کے متعلق کچھ سنانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ان دنوں ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے مرکز سلسلہ سے علیحدہ ہو کر لا ہور کو اپنا مرکز بنا لیا ہے ہمیں صلح کا پیغام دیا گیا ہے اور بظاہر اس سے بڑھ کر اور کیا چیز خوشی کا موجب ہو سکتی ہے کہ آپس میں صلح ہو جائے.لیکن اگر غور سے دیکھا جاوے تو یہ صلح کا پیغام اپنے اندر ہزاروں فسادوں کے بیج رکھتا ہے اور یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بہت دفعہ بعض ظاہر میں اچھی نظر آنے والی چیزیں باطن میں مضر ہوتی ہیں.چنانچہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت معاویہ کی صبح کی نماز رہ گئی.اس پر وہ اُٹھ کر اتنا روئے اتنا روئے کہ شام تک روتے رہے اور اسی حالت میں رات کو سو گئے.صبح ابھی اذان بھی نہ ہوئی تھی کہ انہوں نے رویا میں دیکھا ایک آدمی کہہ رہا ہے اُٹھ نماز پڑھ.انہوں نے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے کہا میں ابلیس ہوں.انہوں نے کہا تو کیوں جگانے آیا ہے؟ اس نے کہا کل مجھ سے غلطی ہو گئی کہ تمہیں سلائے رکھا.جس پر تم اتنا روئے کہ خدا نے کہا اسے ستر نمازوں کا ثواب دو.آج میں اس لئے جگانے آیا ہوں کہ تمہیں ایک ہی نماز کا

Page 360

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۲.جلد اول ثواب ملے ستر کا نہ ملے.تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو چیز ا چھی نظر آتی ہے وہ در حقیقت اپنے اندر بُرائی کا پیج رکھتی ہے.چنانچہ ان لوگوں کی طرف سے جو شرائط پیش کی گئی ہیں وہ ایسی ہی ہیں کہ بظا ہر اچھی معلوم ہوتی ہیں مگر باطن میں زہر ہیں.ظاہر میں تو یہ شرائط ایسی ہی اعلیٰ معلوم ہوتی ہیں جیسی عیسائیوں کی یہ تعلیم ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دویا مگر جب ان کی حقیقت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سخت نقصان رساں ہیں.ایک شرط یہ ہے کہ ایک دوسرے کے متعلق سخت کلامی نہ ہو.اس کے متعلق یہ دیکھنا چاہئے کہ آپس کی سخت کلامی کب سے شروع ہوئی.کہتے ہیں الفضل میں فلاں سخت مضمون چھپا.ہم پوچھتے ہیں کیوں چھپا ؟ اور اس کی کیا وجہ تھی ؟ یہی معلوم ہو گا کہ پیغام نے فلاں مضمون لکھا تھا اس کا جواب دیا گیا.اسی طرح اگر اس کو چلاتے جاؤ تو معلوم ہو جائے گا کہ سب سے پہلے کس نے سخت لکھا اور وہ پیغام ہی ہو گا.اس کے مقابلہ میں ہمارے اخباروں نے بہت کم لکھا ہے.وجہ یہ ہے کہ میں نے انہیں رو کے رکھا ہے اور جس طرح اگر گھوڑے کو زور سے روکیں تو اس کے منہ سے خون نکل آتا ہے اسی طرح ہمارے بعض اخباروں کے ایڈیٹروں کا حال ہوا کہ وہ ان لوگوں کی سخت کلامی کو اور اپنی مجبوری کو دیکھ کر خون کے آنسو روتے رہے ہیں اور جوش میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے.ایک دفعہ ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بعض لوگوں کی بدکلامی سن کر ان سے لڑ پڑا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو معلوم ہوا تو آپ نے اُسے نصیحت کی کہ ایسے موقع پر صبر سے کام لینا چاہئے.وہ شخص سخت جوش سے بھرا ہوا تھا بے اختیار کہ اُٹھا کہ ہم سے ایسا نہیں ہوسکتا.آپ کے پیر ( محمد ) کو جب کوئی گالی دے تو آپ اس کے ساتھ مباہلہ کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن ہمیں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اپنے پیر ( حضرت مسیح موعود ) کے متعلق گالیاں سن کر صبر کریں.اُس کی یہ بات سن کر اور اُس کے غضب کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُس وقت مسکرا کر خاموش ہو رہے.تو جوش ایک طبعی تقاضا ہے جو ایک حد تک جائز ہو تا ہے.لیکن میں نے اخباروں کو رو کے رکھا اس وجہ سے غیر مبائعین کی درشت کلامی بڑھتی گئی اور اب انہیں ڈر پیدا ہوا ہے کہ اگر ادھر سے بھی جواب دیا گیا تو مشکل پڑ جائے گی.

Page 361

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۳ جلد اول اس وجہ سے انہیں سختی کو ترک کرنے کا خیال پیدا ہوا ہے.مگر یہ ایسا ہی خیال ہے جیسا کہ کسی کو تھپڑ مار کر کہا جائے کہ اب صلح کر لو.اس طرح صلح نہیں ہو سکتی.صلح اُسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ یا تو جو لینا ہو لے لیا جائے اور جو دینا ہو دے دیا جائے.کیونکہ یہ مخالف کی مخالف سے صلح ہوتی ہے بھائی بھائی کی صلح نہیں.اور یا پھر وہ زہر جو پھیلا یا گیا ہو اُس کا ازالہ کر دیا جاوے.لیکن خیر ہم اس شرط کو مان لیتے ہیں کہ ایک دوسرے کے متعلق سخت الفاظ استعمال نہ کئے جائیں.مگر اس کے ساتھ دوسری بات وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لی جایا کرے.لیکن اس شرط کے مان لینے کے یہ معنی ہیں کہ گویا ہم اپنے ہاتھ آپ کاٹ دیں.ہمارا اختلاف کسی جدی وراثت کے متعلق نہیں ہے کہ فلاں نے زیادہ مال لے لیا اور فلاں نے کم بلکہ ہمارا اختلاف دین کے متعلق ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وعد الله الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا اللِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وليبة لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ، يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَمَنْ كَفَرَ بعد ذلك فأوليكَ هُمُ الفسقون ہے ہم تو قرآن کریم کے اس ارشاد کے ماتحت اختلاف کرتے ہیں کہ جو ایسے خلیفہ کو نہیں مانتا وہ فاسق ہے.اب ایک طرف تو ہم کہیں کہ جو خلیفہ کو نہیں مانتا وہ فاسق ہے اور دوسری طرف اعلان کریں اور حکم دیں کہ اُن لوگوں کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو یہ نہیں ہو سکتا.غیر مبائعین کی اس بات کو تسلیم کر لینے کے تو یہ معنی ہوئے کہ ہماری خلافت اس آیت کے ماتحت نہیں.کیونکہ اگر اس کے ماتحت ہو تو پھر اس کے منکروں کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دینے کے کیا معنی.ایسی صلح ہم کبھی نہیں کر سکتے.ہم نے مذہب کے معاملہ میں ساری دنیا کی پرواہ نہیں کی تو ان چند لوگوں کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے.انہوں نے آج تک ہمارا کیا بگاڑا ہے کہ آئندہ بگاڑ لیں گے.ہم نے مجبوری کے وقت مثلاً ان کی مسجد میں کوئی شخص بیٹھا ہو اور نماز کھڑی ہو جاوے تو ان کے پیچھے نما ز پڑھنے کی اجازت دی ہے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام نہیں کہتے.لیکن ان

Page 362

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۴ جلد اول کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دینا با لکل مختلف ہے مجبوری سے کسی کام کا کرنا اور معنی رکھتا ہے اور بلا مجبوری اس کا کرنا اور معنی رکھتا ہے.تیسری بات وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ایک فریق کے آدمی دوسرے فریق کو چندہ دیں.کہتے ہیں کسی عورت سے جو غریب تھی پوچھا گیا کہ فلاں شادی پر تو نے کیا نیو تا دیا ؟ اس نے ایک روپیہ دیا تھا اور اس کی بھا وجہ جو امیر تھی اس نے ہمیں رو پے.وہ کہنے لگی میں اور میری بھا وجہ نے اکیس روپے دیئے ہیں.اب غیر مبائعین ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں.خدا کے فضل سے ہماری جماعت تو کئی لاکھ کی ہے اور وہ چند سو سے زیادہ نہیں اس لینے دینے کا یہ مطلب ہوا کہ وہ کئی ہزار روپیہ ہمارے آدمیوں سے لے جائیں اور سو ڈیڑھ سو روپیہ ہم ان سے لے لیں.کون عقل مند ہے جو ایسی شرط منظور کر سکتا ہے.چوتھی بات وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے جلسوں میں شامل ہوا کریں یہ بھی ایسی ہی بات ہے جس میں انہیں فائدہ ہے.مثلاً امرتسر میں ہمارا جلسہ ہو وہاں ان کے چار پانچ آدمی ہیں وہ آجائیں گے.لیکن اگر ہم نے حکم دیا تو ان کے جلسہ پر سو سے بھی زیادہ ہمارے آدمی چلے جائیں گے اور اس طرح انہیں یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ ہمارا جلسہ بڑا کا میاب ہوا.پس گوہم نے کسی کو اس سے منع نہیں کیا کہ وہ ان کے جلسوں پر جاوے سوائے اس کے کہ اس کا جانا اُس کیلئے یا دوسروں کیلئے فتنہ کا موجب ہو.مگر ہم اس طرح کا حکم کس طرح دے سکتے ہیں اس میں تو صریح انہی کا فائدہ ہے نہ ہمارا.پانچویں بات وہ یہ کہتے ہیں کہ اختلافی مسائل پر صرف میں اور مولوی محمد علی صاحب لکھیں اور کوئی نہ لکھے.اس میں انہیں یہ بات مدنظر ہے کہ مولوی محمد علی صاحب تو ہوئے ایک انجمن کے پریذیڈنٹ.جس کا سب انتظامی کام دوسرے لوگوں کے سپر د ہے.پھر ان کے کام ہی کون سے ہیں.چند سو آدمیوں سے تعلقات ہیں.لیکن ہماری لاکھوں کی جماعت ہے.بعض دن تو میرے کئی کئی گھنٹے خطوط پڑھنے اور ان کے جواب لکھانے میں صرف ہو جاتے ہیں.پھر مجھے خود نماز پڑھانی ہوتی ہے لیکن مولوی محمد علی صاحب تو گھر پر ہی نماز پڑھ لینے میں کچھ حرج نہیں محسوس کرتے.پھر یہاں کے بہت سے کام میرے مشورہ سے ہوتے

Page 363

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۵ جلد اول ہیں اسی طرح جماعت کی ترقی کے لئے غور کرنے اور اس کیلئے دعا کرنے پر بہت سا وقت صرف ہوتا ہے.اس لئے مجھے وقت ہی نہیں مل سکتا کہ ان کی ہر ایک بات کا خود جواب لکھتا رہوں.اس لئے اس شرط کا یہ مطلب ہوا کہ وہ لکھتے رہیں اور ہماری طرف سے کوئی جواب نہ شائع ہو.غرض یہ شرطیں عجیب رنگ رکھتی ہیں.مگر جیسا کہ کسی نے کہا ہے بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے من انداز قدت را پوش شناسم ہم اُن کی باتوں میں آنے والے نہیں ہیں.ہمارا اور اُن کا اختلاف کوئی معمولی اختلاف نہیں بلکہ بہت بڑا اختلاف ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہؓ کے اختلاف سے سینکڑوں گنے زیادہ ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب معاویہؓ نے خط لکھا کہ میں آپ کی زیارت کیلئے آنا چاہتا ہوں تو اُنہوں نے جواب دیا کہ زیارت اسی طرح ہو سکتی ہے کہ یا میں تمہارے پاس آؤں یا تم میرے پاس آؤ.اگر میں آیا تو لشکر سم آؤں گا اور اگر تم آئے تو تلوار تمہارا مقابلہ کرے گی.کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس اختلاف کو مذہبی اختلاف سمجھتے تھے اور معاویہ گو اس کا بانی اور ان کے ساتھ صلح کو جائز نہیں سمجھتے تھے.پس ہم کو تو ان سے زیادہ اختلاف ہے اور معاویہ سے زیادہ انہوں نے امت اسلامیہ میں شقاق پیدا کیا ہے.پس جب تک اس شقاق کو یہ لوگ دور نہ کریں ان سے صلح ہم کس طرح کر سکتے ہیں.یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ غیروں کے ساتھ صلح ہو سکتی ہے لیکن اُن اپنوں سے جو معاند ہوں اور مفسد ہوں اس وقت تک صلح نہیں ہوسکتی جب تک وہ فساد ترک نہ کر دیں.یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل کر اپنے جوش نکالیں اور منصو بے پکائیں.لیکن چونکہ اس قسم کے تجربے ہم سے پہلے لوگ کر کے نقصان اُٹھا چکے ہیں اس لئے ہم تجربہ کرنا نہیں چاہتے.بے شک ہمیں یہ منظور ہے کہ سخت کلامی نہ ہو کیونکہ سخت کلامی شرفاء کا کام نہیں اور اگر وہ اس سے باز آجائیں تو گو ہم نے پہلے ہی روکا ہوا ہے اب اور بھی تاکید کر دیں گے.لیکن اس کے سوا ان کی شرائط میں اور کوئی بات نہیں جو قابل قبول ہو.میں آپ لوگوں کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ میں نے بعض مصالح کے لحاظ

Page 364

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۶ جلد اول.گو شرح صدر نہ تھا انہیں اپنے جلسہ میں بولنے کا موقع دیا ہے.اگر چہ ہمارے ملے تعلیمی ہوتے ہیں اور پھر یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس سٹیج ہے اس پر باغیوں کو بولنے کا موقع دینا مناسب نہ تھا مگر اس خیال سے کہ وہ کہتے رہتے ہیں کہ ہماری باتیں سننے کا موقع نہیں دیا جاتا میں نے کہا آج وہ اس خواہش کو بھی پورا کر لیں تا کہ اُنہیں معلوم ہو جائے کہ ان کے حملے ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور پوری طرح ہماری جماعت سے ناامید ہو جاویں.چنا نچہ انہوں نے اس کو دیکھ لیا ہے.میں نے بہت دفعہ بڑا غورا اور فکر کیا ہے.لیکن میری سمجھ میں عقائد کس نے بدلے یہ نہیں آتا کہ ان کا جھگڑا ہی ہم سے کیوں ہے.میں نے ایک بات ان میں سے کئی آدمیوں سے پوچھی ہے جس کا مجھے کسی نے جواب نہیں دیا.اور وہ یہ ہے کہ تم بتاؤ مولوی محمد علی صاحب کے مضامین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی لکھا جاتا رہا یا نہیں ؟ وہ کہتے ہیں ہاں لکھا جاتا رہا ہے مگر اس سے مراد مجد د، محدث اور غیر نبی تھی.ہم کہتے ہیں اچھا یہی سہی.اس کے متعلق بعض دوست اس طرف گئے ہیں کہ اُن کی مراد یہ نہیں ہو سکتی اور یہ بات ان کے مضامین سے ثابت ہے کہ یقیناً ان کی مراد ایسا ہی نبی اور رسول تھی جیسا ہم مانتے ہیں تا ہم ہم کہتے ہیں اچھا وہی مرا دسہی جو تم لوگ کہتے ہومگر یہ تو بتلا ؤ کہ اب کیوں اسی مراد کو مد نظر رکھ کر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی نہیں لکھتے.یہ بڑی آسان راہ فیصلہ کی ہے.اگر اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی لکھنے میں کوئی حرج نہ تھا.اب بھی لکھتے رہو اور اس سے مراد مسجد دلو پھر جھگڑا ہی کیا ہے اور اختلاف ہی کیسا.لیکن چونکہ اب اس لفظ کا لکھنا تم لوگوں نے چھوڑ دیا ہے اس لئے معلوم ہوا اسے جن معنوں میں تم پہلے استعمال کرتے تھے ان ہی کو چھوڑ دیا ہے.یہ ایک موٹی بات ہے.تمہارا اب مسیح موعود علیہ السلام کو نبی نہ لکھنا بتاتا ہے کہ پہلے اس لفظ سے جو تمہاری مراد ہوتی تھی اس کو تم نے بدل دیا ہے.لیکن ہم جیسے پہلے لکھتے تھے اب بھی اُسی طرح لکھتے ہیں.دیکھو تشخیذ الا ذہان رسالہ جب جاری ہوا تو میں نے اس کے ایڈیٹر کی حیثیت سے انٹروڈکشن لکھا.جس میں پہلے انبیاء اور ان کے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ اب دیکھنا چاہئے کہ

Page 365

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۷ جلد اوّل اس زمانہ میں کسی نبی کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اور پھر زمانہ کی موجودہ خطر ناک حالت ثابت کر کے بتایا کہ اس وقت پہلے کی نسبت زیادہ ضرورت ہے اور حضرت مرزا صاحب اس زمانہ میں خدا کی طرف سے مخلوق کی ہدایت کیلئے مبعوث ہوئے ہیں.یہ یہ مضمون ۱۹۰۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں شائع ہوا اور حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول نے اسے پڑھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا اور خواجہ صاحب اور محمد علی صاحب کو کہا کہ اس مضمون کو ضرور پڑھو.پھر مولوی محمد علی صاحب نے رسالہ تفخیذ الاذہان کا ریویو کرتے ہوئے اسی مضمون کے متعلق لکھا.اس رسالہ کے ایڈیٹر مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت اقدس کے صاحبزادہ ہیں اور پہلے نمبر میں چودہ صفحوں کا ایک انٹروڈکشن ان کی قلم سے لکھا ہوا ہے.جماعت تو اس مضمون کو پڑھے گی مگر میں اس مضمون کو مخالفین سلسلہ کے سامنے بطور ایک بین دلیل کے پیش کرتا ہوں جو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے.خلاصه مضمون یہ ہے کہ جب دنیا میں فساد پیدا ہو جاتا ہے اور لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ کو چھوڑ کر معاصی میں بکثرت مبتلاء ہو جاتے ہیں اور مردار دنیا پر گدوں کی طرح گر جاتے ہیں اور آخرت سے بالکل غافل ہو جاتے ہیں تو ایسے وقت میں ہمیشہ سے خدا تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ اُن ہی لوگوں میں سے ایک نبی کو مامور کرتا ہے کہ وہ دنیا میں سچی تعلیم پھیلائے اور لوگوں کو خدا کی حقیقی راہ دکھائے.پر لوگ جو معاصی میں بالکل اندھے ہوئے ہوتے ہیں وہ دنیا کے نشہ میں مخمور ہونے کی وجہ سے یا تو نبی کی باتوں پر ہنسی کرتے ہیں اور یا اُسے دکھ دیتے ہیں اور اس کے ساتھیوں کو ایذا ئیں پہنچاتے ہیں اور اس سلسلہ کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں.مگر چونکہ وہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے اس لئے انسانی کوششوں سے ہلاک نہیں ہوتا.بلکہ وہ نبی اس حالت میں اپنے مخالفین کو پیش از وقت اطلاع دے دیتا ہے کہ آخر کار وہی مغلوب ہوں گے اور بعض کو ہلاک کر کے خدا دوسروں کو راہِ راست پر لے آوے گا.سوالیسا ہی ہوتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو ہمیشہ سے چلی آتی ہے.

Page 366

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۸ جلد اول ایسا ہی اس وقت میں ہوا.اس کے بعد مضمون میں سے کچھ عبارت نقل کر کے لکھا ہے کہ :.میں نے اس مضمون کو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ خصوصاً اس وجہ سے نہیں ٹھہرایا کہ ان دلائل کو کوئی مخالف تو ڑ نہیں کر سکتا.یہ دلائل پہلے بھی کئی دفعہ پیش ہو چکے ہیں مگر اس دلیل میں سے جو دلیل میں سلسلہ کی صداقت پر گواہ کے طور پر اس وقت گل مخالفین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں وہ اس مضمون کا آخری حصہ ہے جس کو میں نے صاحبزادہ کے اپنے الفاظ میں نقل کیا ہے.اس وقت صاحبزادہ کی عمر اٹھارہ انیس سال کی ہے اور تمام دنیا جانتی ہے کہ اس عمر میں بچوں کا شوق اور اُمنگیں کیا ہوتی ہیں.زیادہ سے زیادہ کالجوں میں پڑھتے ہیں تو اعلیٰ تعلیم کا شوق اور آزادی کا خیال ان کے دلوں میں ہو گا.مگر دین کی یہ ہمدردی اور اسلام کی حمایت کا یہ جوش جو اوپر کے بے تکلف الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے ایک خارق عادت بات ہے.صرف اس موقع پر نہیں بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہر موقع پر یہ دلی جوش ان کا ظاہر ہو جاتا ہے.چنانچہ ابھی میر محمد اسحق کے نکاح کی تقریب پر چند اشعار انہوں نے لکھے تو ان میں یہی دعا ہے کہ اے خدا تو ان دونوں اور ان کی اولادکو خادم دین بنا.برخوردار عبدالحی کی آمین کی تقریب پر اشعار لکھے تو ان میں یہی دعا بار بار کی ہے کہ اُسے قرآن کا سچا خادم بنا.ایک اٹھارہ برس کے نو جوان کے دل میں اس جوش اور ان اُمنگوں کا بھر جانا معمولی امر نہیں کیونکہ یہ زمانہ سب سے بڑھ کر کھیل کو د کا زمانہ ہے.اب وہ سیاہ دل لوگ جو حضرت مرزا صاحب کو مفتری کہتے ہیں؟ اس بات کا جواب دیں کہ اگر یہ افترا ہے تو یہ سچا جوش اس بچہ کے دل میں کہاں سے آیا ؟ جھوٹ تو ایک گند ہے پس اس کا اثر تو چاہیے تھا کہ گندا ہوتا نہ یہ کہ ایسا پاک اور نورانی جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی.سے یہ ریویو مولوی محمد علی صاحب نے اپنے قلم سے لکھا.عجیب بات ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں مولوی محمد حسین صاحب نے ریو یولکھ کر

Page 367

خلافة على منهاج النبوة ۳۴۹ جلد اول 66 اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے اسی طرح میرے مقابلہ میں مولوی محمد علی صاحب نے میرے اس مضمون پر ریو یولکھ کر جس میں مسیح موعود علیہ السلام کو نبی لکھا گیا تھا اپنے ہاتھ کاٹ لئے ہیں.پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد میں نے ”صادقوں کی روشنی کو کون دُور کر سکتا ہے“ کے نام سے ایک کتاب لکھی تو حضرت خلیفہ اول نے مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ مولوی صاحب ! مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر مخالفین نے جو اعتراض کئے ہیں ان کے جواب میں تم نے بھی لکھا ہے اور میں نے بھی مگر میاں ہم دونوں سے بڑھ گیا ہے.پھر یہی کتاب حضرت مولوی صاحب نے بذریعہ رجسٹری مولوی محمد حسین بٹالوی کو بھیجی.وہ کیوں؟ محمد حسین صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب کی اولا دا چھی نہیں ہے اس لئے یہ کتاب بھیج کر حضرت مولوی صاحب نے ان کو لکھوایا کہ حضرت مرزا صاحب کی اولاد میں سے ایک نے یہ کتاب لکھی ہے جو میں تمہاری طرف بھیجتا ہوں.تمہاری اولاد میں سے کسی نے کوئی کتاب لکھی ہو تو مجھے بھیج دو.اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی لکھا گیا ہے.تو ہم پہلے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی لکھتے تھے اور اب بھی لکھتے ہیں.مگر وہ لوگ پہلے نبی لکھتے تھے اور اب نہیں لکھتے.جس سے ظاہر ہے کہ ہم نے کوئی تبدیلی نہیں کی لیکن ان لوگوں نے اپنے طریق عمل میں تبدیلی کر لی ہے.خدا تعالیٰ کی تائید کس کے ساتھ ہے اس کے سوا ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو سلسلے ہوتے ہیں ان کیلئے کچھ ایسے امور بھی ہوتے ہیں جن سے وہ قائم رہتے ہیں اور دن بدن ترقی کرتے ہیں.اب اگر غیر مبائعین حضرت مرزا صاحب کے بچے قائم مقام ہیں تو اللہ تعالیٰ کی وہ تائید جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میسر تھی ان کے ساتھ ہونی چاہئے اور اگر ہم ہیں تو ہمارے ساتھ ہونی چاہئے.ان کی طرف سے اپنی کامیابی بتانے کیلئے اگر کچھ کہا جاتا ہے تو وہ یہ کہ فلاں غیر احمدی نے ہمیں اتنا روپیہ دیا.ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کیوں غیر احمدی روپے دیا کرتا تھا.کیا خدا تعالیٰ نے آپ کی کبھی تائید کی یا نہیں ؟ اگر کی تو کیا اس

Page 368

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۰ جلد اول طرح کہ نواب حیدر آباد نے یا بیگم بھوپال نے آپ کا ماہانہ مقرر کر دیا یا کسی سرحدی نواب نے آپ کو کوئی رقم دے دی.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ایسا ہوا تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید تھی اس طرح ہمارے ساتھ ہے.لیکن اگر اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید نہیں ہوئی تو اب تمہیں بھی اسے اپنی تائید میں پیش کرنے کو کوئی حق نہیں ہے.اب کوئی نیا امام نہیں آیا ، کوئی نئی جماعت قائم نہیں ہوئی اس لئے اسی طرح جماعت کی تائید ہونی چاہئے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہوئی اور وہ یہی تھی کہ آپ ایک تھے مگر خدا تعالیٰ نے آپ کے ساتھ ہزاروں لاکھوں انسان کر دیئے.اب دیکھئے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے خدا تعالیٰ کی تائید کہتے ہیں یا نہیں؟ اور پھر قرآن کریم میں یہ لکھا ہے یا نہیں کہ جن کی مخالفت ہو اور عالمگیر مخالفت ہو ان کا ترقی کرنا اور اپنے دشمنوں پر غالب آنا ان کے حق پر ہونے کی دلیل ہے اور کیا اس دلیل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی صداقت میں پیش کیا ہے یا نہیں ؟ اگر کیا ہے اور ضرور کیا ہے تو اس سے اب بھی ہماری صداقت معلوم ہوسکتی ہے.ہمارے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جس طرح بابیوں کی ترقی ہوئی اسی طرح ہماری ہو رہی ہے.کیونکہ ان کی کوئی مخالفت نہیں کرتا مگر ہماری مخالفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہے.مگر باوجود اس کے ہماری جماعت دن بدن بڑھ رہی ہے اور ان کی نسبت جو ہمارے مقابلہ میں اپنے آپ کو حق پر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصلی تعلیم پر سمجھتے ہیں ہماری ترقی بہت زیادہ ہو رہی ہے اور ایسی صورت میں ہو رہی ہے کہ وہ تو غیروں کو مسلمان کہتے ہیں اور ہم کا فرقرار دیتے ہیں.وہ ہمیں جاہل ، اُجڑ ، بے دین ، خدائی سلسلہ کو تباہ کرنے والے، خدا اور رسول کے دشمن بلکہ اپنی جانوں کے دشمن ، عقل سے کورے، اسلام میں سب سے بڑا تفرقہ ڈالنے والے قرار دیتے ہیں.مگر باوجود اس کے کہ ساری دنیا ہماری مخالف ہے اور باوجود اس کے کہ وہ جو اپنے آپ کو ستون سمجھتے تھے نکل گئے ہیں اور ان کے خیال میں باقی چھڑیاں رہ گئی ہیں یہی چھڑیاں سارا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہیں یا نہیں؟ یہ خدا تعالیٰ کی تائید

Page 369

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۱ جلد اول ہے یا کہ کسی نواب یا راجہ سے چند سو روپیل جانا خدائی تائید ہے؟ خدا سے فیصلہ کرالیں پھر ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس طرح تائید کرتا تھا کہ آپ پر نئے نئے علوم اور معارف کھلتے تھے اور آپ کے بعد حضرت خلیفہ اول کو بھی خدا تعالیٰ کی یہ تائید حاصل تھی.اب میں فخر کے طور پر نہیں بلکہ اس عہدہ اور منصب کے احترام کیلئے جس پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی یہ تائید میرے ساتھ ہے.اسی وجہ سے میں نے مولوی محمد علی صاحب کو چیلنج دے دیا تھا کہ آئیں بالمقابل بیٹھ کر قرآن کریم کی کسی آیت یا رکوع کی تفسیر لکھیں اور دیکھیں کہ وہ کون ہے جس کیلئے خدا تعالیٰ معارف اور حقائق کے دریا بہاتا ہے اور کون ہے جس کو خدا تعالیٰ علوم کا سمندر عطا کرتا ہے.میں تو ان کے نزدیک جاہل ہوں ، کم علم ہوں ، بچہ ہوں.خوشامدیوں میں گھرا ہوا ہوں ، نا تجربہ کار ہوں.پھر مجھ سے ان کا مقابلہ کرنا کونسا مشکل کام ہے.وہ کیوں مرد میدان بن کر خدا تعالیٰ کی کتاب کے ذریعہ فیصلہ نہیں کر لیتے اور کیوں گیدڑوں اور لومڑیوں کی طرح چھپ چھپ کر حملے کرتے ہیں.پھر کیوں خدا پر فیصلہ نہیں چھوڑتے اور خدا سے یہ دعا کرنے کیلئے تیار ہوتے کہ جو جھوٹا ہے اسے تباہ کر.انسانی فیصلوں اور آراء کو جانے دو اور خدا کے سامنے آؤ تا کہ اُس سے دعا کی جائے کہ جو جھوٹا ہے وہ ہلاک ہو جائے اور جو سچا ہے وہ بچ جائے.کیا خدا تعالیٰ کا فیصلہ جھوٹا ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیوں خدا سے فیصلہ نہیں کرا لیا جاتا اور کیوں اس طرح تفرقہ نہیں مٹا دیا جاتا.تفرقہ کے مٹانے کے طریق یہ طریق ہیں جن سے تفرقہ مٹ سکتا ہے.اوّل خدا تعالیٰ کی تائید دیکھو کس کے ساتھ ہے.کیا یہ سچ نہیں کہ ان کی طرف سے اسی جگہ کہا گیا تھا کہ ہم تو جاتے ہیں لیکن چند ہی دنوں تک اس مدرسہ میں عیسائیوں کے بچے پھرتے نظر آئیں گے.اب جب کہ پانچ سال گزر گئے ہیں بتاؤ اس مقام پر مسلمانوں کا قبضہ ہے یا عیسائیوں کا ؟ اور بتاؤ اس مسجد کے صحن میں حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں کتنے لوگ بیٹھتے تھے اور آج کتنے بیٹھے ہیں.کیا یہ تائید الہی ہے

Page 370

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۲ جلد اول یا نہیں؟ ہم ان کے جاہل ، کم عقل وغیرہ کہنے سے چڑتے نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہی تو معجزہ ہے اور یہی ہماری صداقت کی دلیل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخالف کہتے ہیں کہ جاہل ہیں ، کچھ جانتے نہیں.آپ فرماتے یہی تو معجزہ ہے کہ میں اس حالت میں ایسی عربی لکھتا ہوں کہ کوئی دنیا کا بڑے سے بڑا عالم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.تو ان لوگوں کے مجھے بچہ کہنے پر تم چڑو نہیں بلکہ کہو کہ یہی تو معجزہ ہے.اگر وہ میرے متعلق یہ کہتے کہ بڑا تجربہ کار ہے، فریبی ہے ، مکار ہے، تو ہو سکتا تھا کہ کہہ دیتے کہ اسی وجہ سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے.لیکن اب تو وہ یہ کہہ کر کہ نا تجربہ کار کم عقل اور بچہ ہے اپنے ہاتھ آپ کاٹ چکے ہیں.جو ہمیں کامیابی ہو رہی ہے وہ کسی ہماری کوشش اور ہمت کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے ہو رہی ہے اور وہ بتا رہا ہے کہ جن کو تم کچھ نہیں سمجھتے ان سے خدا اس طرح کام لیا کرتا ہے.تو ان لوگوں نے مجھے بچہ اور جاہل قرار دے کر اپنی ناکامی اور نامرادی پر خود دستخط کر دیئے کیونکہ یہ کہہ کر انہوں نے تسلیم کر لیا کہ اس کے ذریعہ جو ترقی ہو رہی ہے وہ اس کوشش سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے پس جب ہماری ترقی خدا کی طرف سے ہے تو کون ہے جو اسے روک سکے.انتقام لینے کا زمانہ اب زمانہ بدل گیا ہے.دیکھو پہلے جو مسیح آیا تھا اسے دشمنوں نے صلیب پر چڑھایا.مگر اب مسیح اس لئے آیا کہ اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اُتارے.اس طرح پہلے جو آدم آیا وہ جنت سے نکلا تھا مگر اب جو آدم آیا وہ اس لئے آیا کہ لوگوں کو جنت میں داخل کرے.اسی طرح پہلے یوسف کو قید میں ڈالا گیا تھا مگر دوسرا یوسف قید سے نکالنے کیلئے آیا ہے.پہلے خلفاء میں سے بعض جیسے عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دُکھ دیا گیا مگر میں امید کرتا ہوں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ اس کا ازالہ کرے گا اور ان کے خلفاء کے دشمن ناکام رہیں گے.کیونکہ یہ وقت بدلہ لینے کا ہے اور خدا چاہتا ہے کہ اس کے پہلے بندے جن کو نقصان پہنچایا گیا ان کے بدلے لئے جائیں.میں ماموریت یا مجددیت کا مدعی نہیں ہوں اور نہ خاص الہام پا کر کھڑا ہوا ہوں میں تو اس خلافت کا مدعی ہوں جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ وعد الله الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ

Page 371

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۳ جلد اول الذين من تایم پس میں اپنے الہام پر کھڑا ہونے کا دعویدار نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے الہام پر کھڑا ہونے کا مدعی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے یوسف قرار دیا ہے.میں کہتا ہوں مجھے یہ نام دینے کی کیا ضرورت تھی.یہی کہ پہلے یوسف کی جو ہتک کی گئی ہے اس کا میرے ذریعہ ازالہ کرایا جاوے.پس وہ تو ایسا یوسف تھا جسے بھائیوں نے گھر سے نکالا تھا مگر یہ ایسا یوسف ہے جو اپنے دشمن بھائیوں کو گھر سے نکال دے گا.اُس یوسف کو تو بھائیوں نے کنعان سے نکالا تھا مگر اس یوسف نے اپنے دشمن بھائیوں کو قادیان سے نکال دیا.ہم نے اُس یوسف کا بدلہ لے لیا ہے اور اُس یوسف کی ہتک کا ازالہ کر دیا ہے.پس میرا مقابلہ آسان نہیں.نہ اس لئے کہ میں کسی بات کا دعویدار ہوں.میں تو جانتا ہوں کہ میں جاہل ہوں.کوئی ڈگری حاصل نہیں کی اور نہ کوئی سند لی.نہ انگریزی مدارس کا ڈگری یافتہ ہوں اور نہ عربی مدارس کا سند یافتہ ہوں.قرآن اور بخاری اور چند کتب خلیفہ اول نے پڑھائی تھیں اور دروس النحویہ کے حصے مولوی سید سرور شاہ صاحب سے پڑھے تھے اس کے سوا اور کسی جگہ عربی نہیں پڑھی.مگر کسی علم کے جانے والے سے جب کوئی دینی گفتگو ہوئی ہے تو خدا نے مجھے کامیاب کیا ہے.میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا مگر جس مقام پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے خدا تعالیٰ کو اُس کی عزت منظور ہے اور چونکہ میں اُسی کو منواتا ہوں اس لئے وہ میری تائید کرتا ہے.اب اگر مجھے اس منصب اور مقام کی عزت کا خیال نہ ہوتا تو اپنی ہتک اسی طرح برداشت کر لیتا جس طرح اس منصب پر کھڑا ہونے سے پہلے کر لیا کرتا تھا.اُس وقت میری ذات پر اعتراض کئے جاتے ، میرے خلاف کوششیں کی جاتیں لیکن میں نے کبھی ان کے ازالہ کی کوشش نہ کی.کلام محمود میں کئی شعر واقعات کے متعلق ہیں.چنانچہ جب ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کو بڑے منصوبے بنا کر ان لوگوں نے مجھ سے ناراض کرانا چاہا تو اس سے مجھے بہت صدمہ ہوا.اور رات کو کچھ شعر کہے.جن میں سے دو تین یہ ہیں.میرے دل رنج و غم کا بار ہے ہاں خبر لیجئے کہ حالت زار ہے میرے دشمن کیوں ہوئے جاتے ہیں لوگ

Page 372

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۴ مجھ سے پہنچا ان کو کیا آزار میری غمخواری جو فکر جلد اول ہے ہیں سب بے خبر سے ہیں ہے ہے میرے درپئے آزار دیں میں کھل گیا ہے میرا جسم دل میرا اک کوه آتش بار ہے کیا ڈراتے ہیں مجھے خنجر جن کے سر پر کھینچ رہی تلوار ނ وہ ہے تو اُس وقت مجھ سے جو کچھ کہا جا تا تھا اس کو میں مخفی رکھتا تھا.نہ کبھی میں نے اس سے اپنے کسی بھائی کو اور نہ کسی اور کو آگاہ کیا.لیکن اب ایسا نہیں ہو سکتا اب بات میری ذات تک محدود نہیں بلکہ اس کا اثر اس منصب تک پہنچتا ہے جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اس لئے میں خاموش نہیں رہ سکتا اور علی الاعلان اپنے مقابلہ پر بلاتا ہوں.میرے متعلق کہا جاتا ہے کہ میں نے خلافت دھوکا اور فریب سے لے لی حالانکہ خدا تعالیٰ شاہد ہے مجھے اس منصب کے پانے کا خیال بھی نہ تھا.حضرت خلیفہ اول کی بیماری کے ایام میں جب میں نے دیکھا کہ آپ کی حالت نازک ہے اور میری نسبت بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خلافت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.تو میں نے انہیں کہا کہ تم جس کو خلیفہ منتخب کرو میں اس کی بیعت کرلوں گا اور جو میرے ساتھ ہیں وہ بھی اس کی بیعت کر لیں گے لیکن کسی قسم کا اختلاف نہیں ہونا چاہئے.پھر جب حضرت مولوی صاحب کے فوت ہو جانے پر نواب صاحب کی کوٹھی میں مشورہ کے لئے جمع ہوئے تو اس وقت بھی میں نے یہی کہا لیکن اُس وقت بھی انہوں نے نہ مانا.پھر میں تو اُن دنوں یہاں سے کہیں باہر چلا جانا چاہتا تھا اور میں نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ میں چلا جاؤں لیکن دوسرے دن حضرت مولوی صاحب کی وفات ہو گئی اس لئے نہ جا سکا.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ میں نے خلافت کیلئے کوئی منصوبہ کیا ، غلط کہتے ہیں.میں تو ہر چند اس بوجھ کو ہٹانا چاہتا تھا مگر خدا تعالیٰ کی مصلحت تھی کہ چونکہ خدا تعالیٰ شرک کو مٹانا چاہتا تھا اس لئے اس نے سب سے کمزور انسان کو اس کام کیلئے چنا.پس اس نے مجھے اس منصب پر اس لئے کھڑا

Page 373

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۵ جلد اول نہیں کیا کہ میں سب سے نیک ، بڑا عارف اور خدا کا زیادہ مقرب تھا بلکہ اس لئے چنا کہ دنیا مجھے حقیر ، جاہل ، عقل سے کو را، فسادی، فریبی سمجھتی تھی.خدا نے چاہا کہ وہ لوگ جو مجھے ایسا سمجھتے ہیں ان کو بتائے کہ یہ سلسلہ ان لوگوں پر نہیں کھڑا ہوا جو اپنے آپ کو بڑے بڑے ستون سمجھتے ہیں بلکہ میرے ذریعہ کھڑا ہے اور میں اسے اس پر کھڑا کر سکتا ہوں جس کو تم تا گا سمجھتے ہو.پس چونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے تو حید کے دکھلانے اور شرک کے مٹانے کے لئے کھڑا کیا ہے اس لئے یہاں میرے علم ، میری قابلیت کا سوال نہیں بلکہ خدا کے فضل کا سوال ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کی طرف سے جو علم دیا گیا اس کا جب مخالفین مقابلہ نہ کر سکے تو انہوں نے کہہ دیا کہ مرزا صاحب نے عرب چھپا کے رکھا ہوا ہے اس سے عربی لکھواتے ہیں.پھر کہتے کہ مولوی نور الدین صاحب عربی لکھ کر دیتے ہیں حالانکہ حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عربی کیا لکھ کر دینی تھی جب آپ فوت ہو گئے تو اس کے بعد مولوی صاحب نے اُردو میں بھی کوئی کتاب نہ لکھی.پھر کچھ ایسے لوگ تھے جو کہتے تھے کہ یہ سلسلہ مرزا صاحب پر چل رہا ہے کیونکہ یہ بڑے ساحر اور ہوشیار ہیں.لیکن جب آپ کو خدا نے وفات دی اُس سال سالانہ جلسہ پر سات سو آدمی آئے تھے اور بڑی خوشی کا اظہار کیا گیا تھا.مگر آپ کی وفات کے بعد ترقی کی طرف جماعت کا قدم بڑھتا ہی گیا اور چھ سال کے بعد جو جلسہ ہوا اس میں ۲۳ سو کے قریب آدمی آئے.پھر اس وقت یہ کہا گیا کہ اصل بات مولوی نورالدین صاحب ہی کی تھی یہ مشہور طبیب ہے اور بڑا عالم اس لئے لوگ اس کے پاس آتے ہیں اس کی وفات کے بعد یہ سلسلہ مٹ جاوے گا.یہ تو مولوی وغیرہ کہتے اور جو نئے تعلیم یافتہ تھے وہ یہ خیال کرتے کہ کچھ انگریزی خواں ہیں ان پر یہ سلسلہ چل رہا ہے.جب لوگوں میں اس قسم کے خیالات پیدا ہونے شروع ہوئے تو خدا نے نہ چاہا کہ اس کے سلسلہ کے قیام میں کسی انسان کا کام شامل ہو اس لئے ادھر تو اس نے حضرت مولوی نورالدین جیسے جلیل القدر انسان کو وفات دے کر جدا کرایا اُدھر وہ لوگ

Page 374

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۶ جلد اول جو اس سلسلہ کے رُکن سمجھے جاتے تھے ان کو تو ڑ کر الگ کر دیا اور اس کے بعد جو جلسہ ہوا اُس پر خدا نے دکھایا کہ اس کی ترقی میں کسی انسان کا ہاتھ نہیں.چنانچہ اس سال تین ہزار کے قریب لوگ آئے اور کئی سو نے بیعت کی.تو ان سب کو الگ کر کے خدا تعالیٰ نے مجھ جیسے کمزور کے ذریعہ اپنے سلسلہ کو ترقی دے کر بتایا کہ اس میں کسی انسان کا دخل نہیں ہے بلکہ جو کچھ ہورہا ہے وہ خدا ہی کے فضل سے ہو رہا ہے.ہاں ہر ایک کے ایمان کے مطابق اس سے سلوک کیا.حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول سے ان کے ایمان کے مطابق سلوک کیا اور ان کے مدارج کو بلند کیا.اور ان لوگوں سے ان کے ایمان کے مطابق سلوک کیا اور جماعت سے علیحدہ کر دیا.ہم خدا کے ہاتھ میں ہتھیار کی طرح ہیں اور تلوار خواہ اچھی ہو یا بُری جب اچھے چلانے والے کے ہاتھ میں آجائے تو اچھا ہی کام کرتی ہے.وہ لوگ جنہوں نے صرف مجھے دیکھا انہوں نے غلطی کی.انہیں چاہئے تھا کہ یہ دیکھتے کہ میں کس ہاتھ میں ہوں.غرض ان لوگوں سے فیصلہ مشکل نہیں.وہ آئیں اور انہیں معیاروں سے فیصلہ کر لیں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مخالفین سے فیصلہ کرنا چاہا.یہی ہماری اور ان کی صلح ہے اور اسی طرح امن قائم ہو سکتا ہے“.انوار العلوم جلد ۴ صفحه ۴۰۶ تا ۴۱۹) امتی باب ۵ آیت ۳۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء النور : ۵۶ ریویو آف ریلیجنز مارچ ۱۹۰۶ ء صفحہ ۱۱۷ تا ۱۱۹

Page 375

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۷ جلد اول جماعت احمدیہ کے اندرونی مخالفین ۱۹۱۹ء کے سالانہ جلسہ میں حضور نے جو خطاب فرمائے ان میں ۲۷/ دسمبر کو حضور کا خطاب انتظامی اور بعض دوسرے اہم امور کے متعلق تھا.جماعت احمدیہ کے اندرونی مخالفین کے بارہ میں حضور نے فرمایا.اس کے بعد میں اپنے دوستوں کی توجہ جماعت کے اختلاف کی طرف پھیرتا ہوں.یہ نہایت افسوس کی بات ہے اور آپ لوگوں میں سے ہر اک کو افسوس ہو گا کہ ہم سے کچھ لوگ نکل کر دوسری طرف چلے گئے ہیں اور ہر سال ان کی طرف سے ہم پر نئے نئے حملے ہوتے ہیں.بڑی بڑی گالیاں ہمیں دی جاتی ہیں.ہماری نیتوں اور ہماری دیانتوں اور ہمارے عقیدوں پر حملے کئے جاتے ہیں اور ہر رنگ میں ہمیں نقصان پہنچانے کیلئے کوششیں کی جاتی ہیں.ہمارے دشمنوں کو ہمارے خلاف بھڑ کا یا جاتا ہے.ہمارے عقائد بُرے سے بُرے طریق سے پیش کئے جاتے ہیں.ہماری طرف سے ان کو جواب دیا جاتا ہے مگر ہمارے لوگ متانت اور سنجیدگی کو مد نظر رکھتے ہیں اور کوئی سختی کرتا ہے تو میں اُسے سمجھا دیتا ہوں مگر ان کی طرف سے ہمارے ساتھ بہت سختی کی جاتی ہے.لیکن اب خدا تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسے نشان ظاہر ہورہے ہیں جن سے خدا دکھا رہا ہے کہ نیت کس کی خراب ہے.میرے متعلق کہا ہاتا ہے کہ میں سازش کر کے خلیفہ بن گیا ہوں مگر کئی لاکھ کی جماعت میں سے کوئی ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کبھی خلافت کی خواہش کی اور اس کیلئے کوشش کی ؟ اگر کوئی ہے تو خدا کیلئے بتائے.مگر اس کے مقابلہ میں ایسے لوگ نہیں بلکہ ایسی جماعتیں مل سکتی ہیں جن کی طرف سے مجھے کہا گیا کہ ہم ان لوگوں سے نہیں مل سکتے.اگر کوئی ایسا وقت آئے جب کہ ہمیں ان میں سے کسی کو خلیفہ ماننا پڑے تو ہم کسی اور کو مان لیں گے مگر ان کو نہیں مانیں گے.مگر میں نے ان

Page 376

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۸ جلد اول کو یہی کہا کہ خواہ کچھ ہو میں اس جماعت میں اختلاف پسند نہیں کرتا.میں ان میں سے جو خلیفہ ہوگا اُس کی بیعت کرلوں گا.مگر خدا کچھ اور چاہتا تھا اور جو کچھ وہ چاہتا تھا وہی ہوا.تو ان لوگوں کا ہماری نیتوں پر حملہ کرنا دراصل خدا تعالیٰ پر حملہ کرنا ہے کیونکہ یہ دل کی حالت کو نہیں جانتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں هَلْ شَقَقْتَ قَلْبَهُ اے کیا تم جس انسان کی نیت پر حملہ کرتے ہو اُس کا دل پھاڑ کر تم نے دیکھ لیا ہے؟ ہماری نیتوں پر غیر مسائعین کے حملے ان لوگوں نے ہماری نیتوں پر بے جا حملے کئے مگر اب خدا تعالیٰ نے ان کی نیتوں کو کھول کر رکھ دیا ہے.ان کی طرف سے اعلان ہوا تھا کہ مسیح موعود علیہ السلام کے بعد کسی کو ہم خلیفہ نہیں مان سکتے کہ خلیفہ کا خلیفہ نہیں ہو سکتا.پھر انہوں نے کہا کہ واجب الاطاعت خلافت کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے خلیفہ یا تو بادشاہ ہو سکتا ہے یا مامور اور جو ایسا نہ ہو وہ اسلامی طور پر خلیفہ نہیں کہلا سکتا.پھر مولوی محمد علی صاحب نے اپنے ایک ٹریکٹ میں لکھا کہ ہم مولوی صاحب کے الفاظ کا احترام کرنے کیلئے کہتے ہیں انجمن کا پریذیڈنٹ بنا لیا جائے اور وہ امیر ہو.بس اسے امارت کا حق ہو اور کچھ نہ ہو.ہم ان کی نیتوں پر حملہ نہیں کرتے کہ ان کی مرضی خود یہ حق حاصل کرنے کی تھی لیکن جب وہ خود اپنی مرضی کا اظہار کر دیں تو ہمارا اس میں کیا دخل ہے.سئلہ خلافت اور غیر مبائعین پچھلے ہی دنوں میرا ایک حدیث کا درس غلط طور پر رسالہ تشخیز میں چھپ گیا.جس میں اس بات کا ذکر تھا کہ اگر ایک خلیفہ کی موجودگی میں کوئی دوسرا شخص خلافت کا دعوی کرے تو وہ واجب القتل ہوتا ہے.اس پر ان لوگوں نے جھٹ شور مچا دیا کہ مولوی محمد علی صاحب کے قتل کا فتوی دے دیا گیا.اب یہ امر دو حالتوں سے خالی نہیں.اول اگر مولوی محمد علی صاحب خلیفہ ہیں تو پہلے انہوں نے جھوٹ کہا تھا کہ خلیفہ کا خلیفہ نہیں ہو سکتا اور اگر وہ خلافت کے مدعی نہیں تو اب جو شور مچایا جاتا ہے یہ بالکل جھوٹا شور ہے.مگر اس پر ان لوگوں نے بڑا شور مچا یا حالانکہ بات بالکل صاف تھی.لیکن باوجود اس کے کہ وہ کہہ سکتے تھے کہ میں نے مولوی محمد علی صاحب کو

Page 377

خلافة على منهاج النبوة ۳۵۹ جلد اول خلیفہ قرار دے کر ان کے قتل کا فتویٰ دے دیا ہے.چنانچہ ان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا.مگر یہ بھی بالکل غلط ہے.کیونکہ میں اپنے مضامین میں لکھ چکا ہوں کہ وہ خلافت کے مدعی نہیں ہیں.مگر ہم اسے بھی چھوڑتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ان کو اس سے بھی زیادہ شرمندہ کرایا ہے اور ان کی نیتوں کو ظاہر کر دیا ہے اور اس طرح کہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا پنجاب کے مسلمانوں کی طرف سے موجودہ لاٹ صاحب پنجاب کو ایک ایڈریس پیش کیا گیا تھا.اس میں لکھا تھا کہ ہم سب مسلمانوں کی طرف سے درخواست کرتے ہیں کہ سلطان تر کی جو ہما را خلیفہ ہے اس کے حقوق کی حفاظت کی جائے.اس درخواست کرنے والوں میں غیر مبائعین کی انجمن کے سیکرٹری صاحب بھی شامل تھے.پھر ان سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ کنگ مشن کی طرف سے ایک جلسہ کی دعوت مولوی صدر الدین کی طرف سے دی گئی اور دعوتی رقعہ میں لکھا گیا کہ یورپ ہمارے خلیفہ سلطان ترکی کے حقوق چھیننے کی تیاریاں کر رہا ہے ان کی حفاظت کیلئے جلسہ کیا جائے گا.بہر حال یہ لوگ خلافت کے قائل تو ہو گئے مگر کون سی خلافت کے؟ اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیروؤں میں سے تو کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی ہاں آپ کے منکروں میں سے خلیفہ ہوسکتا ہے.بہت اچھا ایسا ہی سہی مگر اس پر بھی بس نہیں کی.خدا تعالیٰ نے انہیں اور طرح بھی پکڑا ہے.ابھی تازہ خبر آئی ہے کہ لندن میں مسلمانوں کا ایک بڑا جلسہ ہوا جس میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ خلافت مسلمانوں کا مذہبی مسئلہ ہے گورنمنٹ کو اس میں دخل نہیں دینا چاہئے.اس جلسہ کے پریذیڈنٹ ایک انگریز ڈاکٹر لیون تھے.وہ کسی وجہ سے جلسہ میں نہ آ سکے اور مولوی صدرالدین صاحب اس جلسہ کے پریذیڈنٹ ہوئے.چودھری فتح محمد صاحب کو بھی اس میں مدعو کیا گیا تھا.سوال و جواب کے وقت چودھری صاحب نے ڈاکٹر عبدالمجید صاحب سے جنہوں نے تقریر کی تھی پوچھا.کیا مسئلہ خلافت ایک مذہبی سوال ہے؟ ڈاکٹر عبدالمجید صاحب نے جواب دیا ہاں.مذہبی سوال ہے اور خلافت اسلام کا ایک اہم اور ضروری جزو ہے.چودھری صاحب نے اس پر بس نہیں کیا اور پوچھا کیا خلیفہ کی اطاعت لازم اور ضروری ہے؟ ڈاکٹر عبدالمجید صاحب نے مولوی صدرالدین صاحب سے جواب کی

Page 378

خلافة على منهاج النبوة جلد اول اجازت لے کر کہا ہاں ضروری ہے.اس سوال و جواب سے دونوں باتیں حل ہو گئیں کہ مسلمانوں میں خلیفہ ہوا اور ہو بھی واجب الاطاعت.کہتے ہیں کوئی شخص ساری رات زلیخا کا قصہ پڑھتا رہا جب صبح ہوئی تو اس نے پوچھا زلیخا عورت تھی یا مرد؟ ہم کہتے ہیں یہی بات ان لوگوں نے کی ہے.اس وقت تک ہم سے اتنا جھگڑا کرتے رہے اور سمجھا ہی نہیں کہ ہم کیا کہتے رہے ہیں.ہم بھی تو یہی کہتے تھے کہ خلافت اسلام کا اک اہم اور ضروری جزو ہے اور خلیفہ کی اطاعت لازم ہے.مگر ہمارے کہنے سے تو ان لوگوں نے نہیں سمجھا اور اب انہیں مجبور کر کے خدا انہی کے مونہوں سے یہ بات کہلوا رہا ہے.ہماری مخالفت میں خواجہ صاحب کی سرگرمی دوسری ایک اور بات ہے اور وہ یہ ہے کہ پچھلے کچھ دنوں سے خواجہ کمال الدین صاحب نے آکر غیر مبائعین کے مشن میں خاص حصہ لینا شروع کر دیا ہے اور مولوی محمد علی صاحب کے بازو بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنا وہی پرانا وعظ شروع کیا ہوا ہے جو اظہار حق خفیہ ٹریکٹ میں کسی نے حضرت خلیفہ اول کو بہت سی گالیاں دے کر درج کیا تھا اور وہ یہ کہ خلیفہ کی بیعت کرنا انسان پرستی ہے.اُس وقت تو خواجہ صاحب کے ساتھیوں نے اعلان کر دیا تھا کہ یہ ہمارا مذہب نہیں ہے.مگر اب خواجہ صاحب وہی بات کہہ رہے تھے.پھر وہ کہتے ہیں کہ جتنے نبی دنیا میں آئے وہ انسان پرستی کو مٹانے کے لئے آئے.پھر کہتے ہیں یہ جو دنیا میں انسان پرستی پائی جاتی ہے اس میں سب سے زیادہ حصہ انبیاء اور اولیاء کی اولاد کا ہوتا ہے اس لئے میں جماعت احمدیہ کو متنبہ کرتا ہوں کہ اس میں داخل ہونے والے لوگ کیوں احمق ہو گئے ہیں کہ انہوں نے انسان پرستی شروع کر دی ہے.ایک خلیفہ کی بیعت کرنا جماعت احمدیہ کی حماقت ہے یا خواجہ صاحب کی ؟ یہ لمبا سوال ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ ہماری جماعت میں سینکڑوں آدمی ایسے ہیں جو باوجود اس کے کہ ایک لفظ بھی نہیں پڑھے ہوئے تاہم خواجہ صاحب کا ناطقہ بند کر سکتے ہیں.پھر جو شخص خدا تعالیٰ کے کلام کا اتنا بھی حق نہیں سمجھتا کہ اسے دنیا میں شائع کیا جاوے اور آج بھی اس کی اشاعت کو

Page 379

خلافة على منهاج النبوة روکتا ہے وہ کیا حق رکھتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو بے وقوف اور احمق کہے.جلد اول غیر مبائعین کو جماعت احمدیہ سے کیا نسبت ؟ میں یہ مانتا ہوں کہ ہماری جماعت کے سارے لوگ ایم اے اور بی اے نہیں.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر اور دوسرے صحابی بھی ایم اے اور بی اے نہ تھے.گواگر اسی بات میں وہ ہماری جماعت سے اپنے ساتھیوں کا مقابلہ کرے تو اسے معلوم ہو جائے کہ خدا کے فضل سے ہم میں ان سے بہت زیادہ ایم اے اور بی اے ہیں.پھر اگر سیانے اور عقلمند کے معنی ان کے نزدیک مال دار کے ہیں تو ان کے ساتھیوں سے بہت زیادہ مالدار ہم اپنی جماعت میں دکھا سکتے ہیں.بڑے سے بڑا چندہ ایک دفعہ ان میں سے ایک آدمی نے ہزار روپیہ دیا تھا اور اسی پر بڑی خوشی کا اظہار کیا گیا تھا.مگر ہمیں ایک ہی آدمی نے سترہ ہزار روپیہ چندہ یک مشت دیا.خواجہ صاحب اور عربی دانی پھر عقل اور علم کا معیار علیم عربی جاننا ہے.مگر میں جانتا ہوں خواجہ صاحب یہ معیا رکبھی قائم نہیں کریں گے کیونکہ علم عربی سے جہالت خواجہ صاحب سے زیادہ کسی اور میں کم ہی پائی جائے گی.انہوں نے ایک پشاوری مولوی سے مدد لے کر اور حضرت صاحب کی ایک کتاب چرا کر ایک کتاب لکھ دی ہے اور سمجھ لیا ہے کہ میں بڑا عربی دان ہوں.مگر اس کا فیصلہ نہایت آسانی کے ساتھ اس طرح ہو سکتا ہے کہ مولوی صاحب بنائے جائیں حج اور قرآن کریم کا کوئی ایک رکوع خواجہ صاحب کے سامنے پیش کر دیا جاوے اور وہ اس کا لفظی ترجمہ کر دیں اور فیصلہ مولوی محمد علی صاحب قسم کھا کر دیں اور لکھ دیں کہ خواجہ صاحب کا کیا ہوا تر جمہ صحیح ہے.یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے صرف لفظی ترجمہ ہے.مگر میں جانتا ہوں خواجہ صاحب اس سوال کو کبھی اُٹھنے نہیں دیں گے کیونکہ عربی دانی ان کے نزدیک جہالت ہے اور وہ علماء کو قل اعوذئیے “ کہا کرتے ہیں.غیر مبائعین ہر طرح مقابلہ کر لیں خیر خواجہ صاحب یہ بات تو نہیں ماننے کے مگر اپنے ساتھیوں میں سے مولوی ہی پیش

Page 380

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۲ جلد اول کر دیں.ان کے مقابلہ میں ہم دو گنے لگنے بلکہ کئی گنا زیادہ دکھا دیں گے.پھر اگر علم کا معیار قانون دان ہونا ہے تو یہی سہی.اگر ڈاکٹر ہونا ہے تو یہی سہی.غرض کوئی معیار وہ مقرر کر دیں اسی پر مقابلہ کر کے ان کو دکھا دیا جائے گا کہ ہمارے مقابلہ میں ان کی کیا نسبت ہے.مگر باوجود اس کے وہ ہماری جماعت کو کہتے آئے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ یہ جاہلوں کی جماعت ہے اور ان میں اہل الرائے نہیں ہیں.حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ حضرت صاحب نے اپنی کتاب نور الحق میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اہل الرائے لوگوں کو میری جماعت میں داخل کر دیا ہے.حیرت ہے کہ حضرت صاحب کے نزدیک تو جو آپ کی طرف آتا ہے وہ اہل الرائے ہے مگر خواجہ صاحب کہتے ہیں کہ یہ جاہلوں اور اجڈوں کی جماعت ہے.خواجہ صاحب کی طرف پھر وہ ہماری جماعت کو انسان پرست کہتے ہیں.میں جانتا ہوں کہ انسان پرستی بہت بری بات ہے اور یہ سے انسان پرستی کا الزام شرک ہے.مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدا تعالیٰ نے صرف انسان پرستی سے ہی منع کیا ہے اور زر پرستی ، کثرت پرستی ، سوسائٹی پرستی سے منع نہیں کیا ؟ حیرت ہے کہ وہی خواجہ صاحب جو ہم پر انسان پرستی کا الزام لگاتے ہیں خود زر پرستی کے پیچھے دوسرے لوگوں سے چندہ حاصل کرنے کی غرض سے اور غیر لوگوں سے علیحدہ ہونے کے خوف سے جماعت احمدیہ کو چھوڑتے ہیں.کیا یہ باتیں بُری نہیں ہیں؟ یہ تو بے شک بُری بات ہے کہ کسی شخص کو اس لئے مانا جائے کہ وہ کسی بڑے انسان کی اولاد ہے.مگر کیا بڑے بزرگ اور خدا رسیدہ انسان کی اولاد ہونا کوئی لعنت ہے؟ اگر ان لوگوں کے نزدیک حضرت صاحب کی اولاد میں سے کسی کو خلیفہ ماننا جہالت ہے تو گویا کسی برگزیدہ خدا کی اولاد ہونا ان کے نزدیک لعنت ہے.مگر سوال یہ ہے کہ بڑے بڑے بدکار لوگ جو گزرے ہیں وہ کن کی اولاد میں سے تھے ؟ فرعون ، نمرود، اور شداد کس نبی کے بیٹے ، پوتے یا پڑپوتے تھے.اور ابو جہل ، عتبہ، شیبہ کون سے نبی کے پوتے پڑپوتے تھے ؟ کوئی ایک بھی انبیاء اور بزرگوں کا ایسا دشمن جو دنیا کے ہلاک کرنے والا اور اہل دنیا کیلئے مہلک اور مغوی ہو دکھایا نہیں جاسکتا جو کسی نبی کی قریب اولاد میں سے ہوا ہو.خود گمراہ اور بے دین ہونا اور

Page 381

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۳ جلد اوّل بات ہے.حضرت نوح کے لڑکے کا خدا تعالیٰ نے ذکر کیا ہے.اس کے متعلق اول تو یہی جھگڑا ہے کہ وہ ان کا بیٹا تھا کہ نہیں.مگر پھر بھی دوسروں کے لئے مہلک اور مغوی نہیں تھا خود گمراہ تھا.تو ہم کہتے ہیں کہ کسی کو اس لئے ماننا کہ وہ بڑے آدمی کی اولاد ہے کم عقلی ہے.مگر جس کو خدا تعالیٰ بزرگی دے دے اس کو اس لئے نہ ماننا کہ وہ کسی بڑے انسان کی اولا د ہے یہ بھی کم عقلی ہے.بہر حال دونوں طرح بات برابر ہے اب ان کی جو مرضی ہو کہیں مگر ان کا فلسفہ درست نہیں ہے اور اس کا نتیجہ وہ دیکھ رہے ہیں اور آئندہ دیکھیں گے.ان کے گھروں میں اولا دموجود ہے مگر خدا تعالیٰ نے ان کی اولادوں کو اس وقت تک دین کے حاصل کرنے کی توفیق نہیں دی اور اس کی وجہ صاف ہے کہ چونکہ انہوں نے ہم سے اس لئے دشمنی کی ہے کہ ہم اس بڑے انسان کی اولاد ہیں جس کو خدا تعالیٰ نے بڑا بنایا اس کے بدلہ میں خدا تعالیٰ نے ان کے گھروں میں یہ بات پیدا کر دی.(انوار العلوم جلد ۴ صفحه ۷ ۴۸ تا ۴۹۳) مسلم کتاب الایمان باب تحريم قتل الكافر بعد ان قال لا اله الا الله صفحه ۵۶ حدیث نمبر ۲۷۷ مطبوعہ ریاض الطبعۃ الثانیۃ میں الفاظ اس طرح ہیں أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قلبه

Page 382

Page 383

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۵ جلد اول واقعات خلافت علوی مؤرخہ ۲۶ فروری ۱۹۱۹ء کو مارٹن ہسٹار لیکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے اسلام میں اختلافات کا آغاز پر ایک معرکۃ الآراء لیکچر دیا جس میں حضور نے صحابہ کرام پر ہونے والے متعدد اعتراضات کو حل کرتے ہوئے حضرت عثمان کی افسوسناک شہادت کی وجوہ بیان فرمائیں.اس خطاب میں آپ حضرت علی کے زمانہ خلافت کے واقعات بھی بیان کرنا چاہتے تھے مگر وقت کی تنگی کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا.چنانچہ حضور نے ۱۷ / فروری ۱۹۲۰ء کو واقعات خلافت علوی پر اسلامیہ کالج لاہور کی مارٹن ہٹاریکل سوسائٹی کے زیرا ہتمام اسانتہائی اہم اور ضروری موضوع پر لیکچر دیا.حضرت خلیفہ اسیح کی تقریر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے کلمات تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کر کے جو عظیم الشان اور نہایت مؤثر لیکچر دیا اس کا کسی قدر خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے :.حضور نے گزشتہ سال کے لیکچر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اُس وقت تنگی وقت کی وجہ سے حضرت علی کے زمانہ کے واقعات کو نہایت مختصر طور پر بیان کرنا پڑا تھا.آج میں ان کو کسی قدر تفصیل سے بیان کروں گا.اس کے بعد حضور نے مسلمانوں کے اختلاف کی وجوہات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک وجہ تو یہ تھی کہ مسلمانوں کو روحانی اور جسمانی فتوحات جلد جلد اور اس کثرت سے حاصل ہوئیں کہ وہ دونوں پہلوؤں سے ان کا پورا پورا انتظام کر سکے.صحابہ کی تعداد يَدْخُلُونَ في دين الله افواجا ا کے مقابلہ میں بہت کم تھی اس وجہ سے مسلمانوں کے ایک حصہ میں کمزوری رہ گئی.دوسرے یہ کہ پہلے تو اسلام کے دشمنوں کا خیال تھا کہ مسلمان جلدی مٹ جائیں گے لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کی ظاہری فتوحات

Page 384

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۶ جلد اول کو دیکھا اور ان کی قوت اور شوکت کا ظاہری طور پر مقابلہ کرنے کے اپنے آپ کو نا قابل پایا تو انہوں نے مسلمانوں کے اندر داخل ہو کر دعا اور فریب سے ان کو مٹانے کی کوشش شروع کر دی.ایسے ہی لوگوں نے اسلام میں فتنہ کی بنیاد رکھی اور ان لوگوں کو اول اول اپنے ساتھ ملایا جن کی تربیت پورے طور پر اسلام میں نہ ہوئی تھی.اس کے بعد حضور نے فرمایا :.حضرت عثمان کے زمانہ میں جو فتنہ اُٹھا اس میں اور حضرت علیؓ کے زمانہ کے فتنہ میں ایک بہت بڑا فرق ہے اور وہ یہ کہ حضرت عثمان کے خلاف جو لوگ کھڑے ہوئے وہ اسلام میں کوئی درجہ نہ رکھتے تھے بلکہ فاسق و فاجر تھے لیکن ان کے بعد جو جھگڑا ہوا اس میں دونوں طرف بڑے بڑے جلیل القدر انسان نظر آتے ہیں.یہ بہت بھیا نک نظارہ ہے.اس کیلئے تمہید کے طور پر یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ اختلاف خواہ کسی دینی امر میں ہو یا دنیوی میں ہمیشہ اس کی وجہ سے کوئی اسلام سے خارج ہو جاتا ہے.ایک اختلاف کو تو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت قرار دیا ہے.مگر ایک اختلاف رحمت تو نہیں ہوتا لیکن اس کے کرنے والے کو فاسق اور فاجر بھی نہیں کہا جا سکتا اور وہ ایسا اختلاف ہے کہ اختلاف کرنے والے کے پاس اس کی تائید میں کافی وجوہ ہوں اور وہ نیک نیتی سے ان کو پیش کرتا ہو.ہاں ایسے مسئلہ میں اختلاف نہ ہو جس کے نہ ماننے سے انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہو.ایسے شخص کو خاطی کہا جائے گا نہ کہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا.اس تمہید کے بعد حضور نے حضرت علیؓ کے زمانہ کے فتنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرما یا :.جب حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا تو مفسدوں نے بیت المال کو لوٹا اور اعلان کر دیا.کہ جو مقابلہ کرے گا قتل کر دیا جائیگا.لوگوں کو جمع نہیں ہونے دیا جاتا تھا اور مدینہ کا انہوں نے سخت محاصرہ کر رکھا تھا اور کسی کو باہر نہیں نکلنے دیا جاتا تھا حتی کہ حضرت علیؓ جن کی محبت کا وہ لوگ دعوی کرتے تھے ان کو بھی روک دیا گیا اور مدینہ میں خوب لوٹ مچائی.ادھر تو یہ حالت تھی اور اُدھر انہوں نے اپنے قساوت قلبی کا یہاں تک ثبوت دیا کہ حضرت عثمان جیسے مقدس انسان کو جن کی رسول کریم ﷺ نے بڑی تعریف کی ہے قتل کرنے کے بعد بھی نہ چھوڑا اور

Page 385

خلافة على منهاج النبوة جلد اول لاش کو تین چار دن تک دفن نہ کرنے دیا.آخر چند صحابہ نے مل کر رات کو پوشیدہ طور پر دفن کیا.حضرت عثمان کے ساتھ ہی کچھ غلام بھی شہید ہوئے تھے ان کی لاشوں کو دفن کرنے سے روک دیا اور کتوں کے آگے ڈال دیا.حضرت عثمان اور غلاموں کے ساتھ یہ سلوک کرنے کے بعد مفسدوں نے مدینہ کے لوگوں کو جن کے ساتھ ان کی کوئی مخالفت نہ تھی چھٹی دے دی اور صحابہ نے وہاں سے بھاگنا شروع کر دیا.پانچ دن اسی طرح گزرے کہ مدینہ کا کوئی حاکم نہ تھا.مفسد اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ کسی کو خو د خلیفہ بنائیں اور جس طرح چاہیں اس سے کرا ئیں.لیکن صحابہ میں سے کسی نے یہ برداشت نہ کیا کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عثمان کو قتل کیا ہے ان کا خلیفہ بنے.مفسد حضرت علیؓ، طلحہ اور زبیر کے پاس باری باری گئے اور انہیں خلیفہ بننے کیلئے کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا.جب انہوں نے انکار کر دیا اور مسلمان ان کی موجودگی میں اور کسی کو خلیفہ نہیں مان سکتے تھے تو مفسدوں نے اس کے متعلق بھی جبر سے کام لینا شروع کر دیا کیونکہ انہوں نے خیال کیا کہ اگر کوئی خلیفہ نہ بنا تو تمام عالم اسلامی میں ہمارے خلاف ایک طوفان برپا ہو جائے گا.انہوں نے اعلان کر دیا کہ اگر دو دن کے اندر اندر کوئی خلیفہ بنا لیا جاوے تو بہتر ورنہ ہم علی طلحہ اور زبیر اور سب بڑے بڑے لوگوں کو قتل کر دیں گے.اس پر مدینہ والوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عثمان کو قتل کر دیا وہ ہم سے اور ہمارے بچوں اور عورتوں سے کیا کچھ نہ کریں گے.وہ حضرت علیؓ کے پاس گئے اور انہیں خلیفہ بننے کیلئے کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر میں خلیفہ ہو، تو تمام لوگ یہی کہیں گے کہ میں نے عثمان کو قتل کرایا ہے اور یہ بوجھ مجھ سے نہیں اُٹھ سکتا.یہی بات حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے بھی کہی.اور صحابہ نے بھی جن کو خلیفہ بننے کیلئے کہا گیا انکار کر دیا.آخر سب لوگ پھر حضرت علیؓ کے پاس گئے اور کہا جس طرح بھی ہو آپ یہ بوجھ اٹھا ئیں.آخر کا رانہوں نے کہا میں اس شرط پر یہ بوجھ اُٹھاتا ہوں کہ سب لوگ مسجد میں جمع ہوں اور مجھے قبول کریں.چنانچہ لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے قبول کیا مگر بعض نے اس بناء پر انکار کر دیا کہ جب تک حضرت عثمان کے قاتلوں کو سزا نہ دی جائے اُس وقت تک ہم کسی کو خلیفہ نہیں مانیں گے اور بعض نے کہا کہ جب تک باہر کے لوگوں کی رائے نہ معلوم

Page 386

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۸ جلد اوّل ہو جائے کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہئے.مگر ایسے لوگوں کی تعداد بہت قلیل تھی.اس طرح حضرت علی نے خلیفہ بننا منظور کر لیا مگر وہی نتیجہ ہوا جس کا انہیں خطرہ تھا.تمام عالم اسلامی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضرت علیؓ نے حضرت عثمان کو قتل کرایا ہے.حضرت علی کی اگر اور تمام خوبیوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو میرے نزدیک ایسی خطرناک حالت میں ان کا خلافت کو منظور کر لینا ایسی جرات اور دلیری کی بات تھی جو نہایت ہی قابل تعریف تھی کہ انہوں نے اپنی عزت اور اپنی ذات کی اسلام کے مقابلہ میں کوئی پرواہ نہ کی اور اتنا بڑا بوجھ اُٹھا لیا.حضرت علیؓ جب خلیفہ ہو گئے اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے اس شرط پر بیعت کی کہ قرآن کے احکام کی اتباع کی جائے گی اور شریعت کے احکام کو مد نظر رکھا جائے گا.جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ حضرت عثمان کے قاتلوں کو سزا دی جائے.مگر اُس وقت حالت یہ تھی کہ باوجود اس کے کہ حضرت علی خلیفہ تھے مدینہ باغیوں کی چھاؤنی بنا ہوا تھا.چند دن کے بعد حضرت طلحہ اور زبیر حضرت علیؓ کے پاس گئے اور جا کر کہا کہ باغیوں سے بدلا لیجئے.انہوں نے پوچھا مدینہ کا حاکم میں ہوں یا باغی؟ انہوں نے کہا کہ ابھی تو باغی ہی ہیں.حضرت علیؓ نے کہا پھر میں ان سے کس طرح بدلا لے سکتا ہوں.جب تک عام جوش ٹھنڈا نہ ہو ، باہر سے مدد نہ آئے ، انتظام نہ ہو ا سوقت تک کیا ہو سکتا ہے اس بات کو انہوں نے مان لیا.اُس وقت مدینہ میں تین قسم کے مفسد لوگ تھے ایک باغی ، دوسرے بدوی جولوٹ مار کے لئے آگئے تھے تیسرے غلام جو سب کے سب بے دین تھے.حضرت علیؓ نے تجویز کی کہ آہستہ آہستہ ان کو مدینہ سے نکالیں.چنانچہ انہوں نے مسجد میں اعلان کیا کہ ہر ایک غلام اپنے آقا کے ہاں چلا جائے ورنہ میں اس کی طرف سے خدا کے سامنے بری ہوں.باغی جو بہت چالاک اور ہوشیار تھے انہوں نے خیال کیا کہ اس طرح ہم کو کمزور کرنے کی تجویز کی گئی ہے.اس پر انہوں نے کہہ دیا کہ کوئی باہر نہیں جائے گا اور کوئی اس حکم کو نہ مانے.پھر حضرت علیؓ نے بدوؤں کے متعلق اعلان کیا کہ گھروں کو چلے جائیں اس پر بھی انکار کر دیا گیا.ادھر تو یہ حالت تھی اور اُدھر بعض صحابہؓ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ قاتلوں کو سزادی جائے اور ہمیں قرآن کے حکم پر عمل کرنا چاہیے خواہ ہماری جان بھی چلی جائے.

Page 387

خلافة على منهاج النبوة ۳۶۹ جلد اول حضرت علی فرماتے ہیں کہ قرآن کا حکم قاتل کو قتل کرنا ہے لیکن یہ نہیں ہے کہ فوراً قتل کر دیا جائے.اس لئے فی الحال اس بات کو نہیں اُٹھانا چاہیے.اس طرح فتنہ اور زیادہ بڑھ جائے گا.اس پر ان کے متعلق کہا گیا کہ باغیوں کی طرف داری کرتے ہیں اور صحابہ مدینہ چھوڑ کر باہر جانے لگے.حضرت طلحہ اور زبیر مدینہ چھوڑ کر مکہ پہنچے.حضرت عائشہ پہلے سے وہاں گئی ہوئی تھیں.جب ان کو معلوم ہوا کہ حضرت علی قاتلوں کو سزا نہیں دیتے تو انہوں نے ارادہ کر لیا کہ ابھی ان کو سزا دینی چاہیے.میرے خیال میں حضرت علیؓ کی رائے موقع اور محل کے لحاظ سے احتیاط اور بچاؤ کا پہلو لئے ہوئے ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تھی.مگر شریعت کی پیروی کے لحاظ سے حضرت عائشہ اور دوسرے صحابیوں کی اعلیٰ تھی.حضرت طلحہ اور زبیر نے مکہ پہنچ کر حضرت عثمان کا انتقام لینے کے لیے لوگوں کو جوش دلایا اور حضرت عائشہ اور ان کی یہی رائے ہوئی کہ خواہ کچھ ہوا بھی قاتلوں کو سزا دینی چاہیے.اس پر اعلان کر دیا گیا کہ ہم قاتلوں کو قتل کرنے کے لیے جاتے ہیں.اور لوگ بھی ان کے ساتھ ہو گئے اور کوئی سات آٹھ سو کے قریب تعداد ہو گئی اور اُنہوں نے قاتلوں کے ساتھ لڑنا دین کی بہت اعلیٰ خدمت سمجھی.اُس وقت سوال پیدا ہوا کہ ہماری تعداد تھوڑی ہے اگر ہم جائیں گے تو کوئی نتیجہ نہ ہو گا وہ غالب آجائیں گے اس لیے چاہیے کہ بصرہ چلیں جو فوج کی چھاؤنی تھی.یہ گروہ جب بصرہ کی طرف چلا اور حضرت علی کو خبر ہوئی تو وہ بھی بصرہ کی طرف روانہ ہو گئے.جب بصرہ کے پاس پہنچے اور ایک صحابی قعقاع کو حضرت عائشہ کے س بھیجا کہ جا کر دریافت کرو کس غرض کے لیے آئے ہیں.اُنہوں نے کہا اصلاح کے لیے.کہا گیا پھر لڑائی کیوں کریں خود مل کر فیصلہ کر لیتے ہیں.اس پر طرفین راضی ہو گئے اور حضرت علی نے اعلان کر دیا کہ حضرت عثمان کے قتل میں جو لوگ شریک تھے وہ میرے لشکر میں نہ رہیں.اس پر امید ہو گئی کہ صلح ہو جائے گی مگر مفسد کہاں یہ پسند کر سکتے تھے کہ صلح ہو.انہیں ڈر تھا کہ اگر صلح ہوگئی تو ہم مارے جائیں گے.انہوں نے رات کو آپس میں مشورہ کیا اور آخر یہ تجویز قرار پائی کہ رات کو شب خون ماریں اور خود ہی چھا پہ ڈالیں.انہوں نے ایسا

Page 388

خلافة على منهاج النبوة جلد اول ہی کیا.طرفین کے لوگ بڑے اطمینان سے رات کو سوئے ہوئے تھے کہ صبح صلح ہو جائے گی لیکن رات کو جب شور و شر سے اُٹھے تو دیکھا کہ تلوار چل رہی ہے.ادھر مفسدوں نے یہ چالا کی کی کہ اگر ہماری اس سازش کا پتہ لگ گیا تو ہم قتل کئے جائیں گے اس کے لیے اُنہوں نے یہ کیا کہ ایک آدمی حضرت علیؓ کے پاس کھڑا کر دیا اور اُسے کہہ دیا جس وقت تم شور کی آواز سنو اُسی وقت انہیں کہہ دو کہ ہم پر حملہ کیا گیا.اُدھر انہوں نے حملہ کیا اور ادھر اس نے حضرت علی کو یہ اطلاع دی اور ان کی طرف سے کچھ آدمی ان پر جا پڑے.دونوں طرفوں کو اس بات کا ایک دوسرے پر افسوس تھا کہ جب صلح کی تجویز کی گئی تھی تو پھر دھوکا سے کیوں حملہ کیا گیا.حالانکہ یہ دراصل مفسدوں کی شرارت تھی.ایسی صورت میں بھی حضرت علیؓ نے احتیاط سے کام لیا اور اعلان کر دیا کہ ہمارا کوئی آدمی مت لڑے خواہ وہ ہمارے ساتھ لڑتے رہیں.مگر مفسدوں نے نہ مانا.اُدھر بصرہ والوں کو بھی غصہ آ گیا اور وہ بھی لڑنے لگ گئے.یہ ایک عجیب لڑا ئی تھی کہ فریقین نہ چاہتے تھے کہ لڑیں لیکن لڑ رہے تھے.اُس وقت حضرت علیؓ نے لڑائی کو روکنے کے لیے ایک اور تجویز کی کہ ایک آدمی کو قرآن دے کر بھیجا کہ اس کے ساتھ فیصلہ کر لو.اس پر بصرہ والوں نے خیال کیا کہ رات تو خفیہ حملہ کر دیا گیا ہے اور اب کہا جاتا ہے قرآن سے فیصلہ کر لو یہ نہیں ہو سکتا.حضرت علیؓ نے تو نیک نیتی سے ایسا کیا تھا لیکن حالات ہی ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ اس بات کو سمجھا نہیں جا سکتا تھا.اُس وقت اُس آدمی کو جو قرآن لے کر گیا تھا قتل کر دیا گیا.اس پر حضرت علیؓ اور ان کے ساتھیوں کو اور بھی غصہ آیا کہ قرآن کی طرف بلایا جاتا ہے اس کی طرف بھی نہیں آتے اب کیا کیا جاوے.یہی صورت ہے کہ حملہ ہو.ادھر سے بھی حملہ ہوا اور لڑائی بہت زور سے شروع ہو گئی.آخر جب اس کے ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو ایک صحابی جن کا نام کعب تھا حضرت عائشہ کے پاس گئے اور جا کر کہا کہ مسلمان ایک دوسرے کو مار رہے ہیں اس وقت آپ کے ذریعہ ان کی جان بچ سکتی ہے آپ میدان میں چلیں.حضرت عائشہ اونٹ پر سوار ہو کر گئیں اور انہوں نے کعب کو قرآن دے کر کھڑا کیا کہ اس سے فیصلہ کر لو.حضرت علیؓ نے جب ان کا اونٹ دیکھا تو فوراً حکم دیا کہ لڑائی بند کر دو.مگر مفسدوں نے بے تحاشا تیر مارنے شروع کر دئیے

Page 389

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۱ جلد اول اور کعب چھد کر گر پڑے اور جب حضرت عائشہ پر تیر پڑنے لگے تو صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس پر حملہ ہوتا دیکھ کر کٹنا اور مرنا شروع کر دیا اور مسلمانوں میں کوئی لڑائی ایسی خونریز نہیں ہوئی جیسی یہ ہوئی.حضرت عائشہؓ کے سامنے ایک ایک کر کے آتے اور مارے جاتے.اُس وقت بڑے بڑے جرنیل اور بہادر مارے گئے.آخر جب دیکھا گیا کہ لڑا بند ہونے کی کوئی صورت نہیں اور قریب ہے کہ تمام مسلمان کٹ کر مر جائیں یہ کیا گیا کہ حضرت عائشہ کے اونٹ کے پاؤں کاٹ دیئے گئے اور جوں ہی اونٹ گرا بصرہ والے بھاگ گئے اور حضرت علیؓ کا لشکر غالب آ گیا.یہ جنگِ جمل کا حال ہے.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ دراصل انہی لوگوں نے لڑائی کرائی جو شریر اور مفسد تھے اور اسلام میں فتنہ ڈالنا اُن کی غرض تھی.لڑائی کے بعد حضرت عائشہ مدینہ کی طرف جانا چاہتی تھی.انہیں ادھر روانہ کر دیا گیا اور حضرت علیؓ اور دوسرے صحابی الوداع کرنے کے لیے ساتھ آئے.روانہ ہوتے وقت حضرت عائشہ نے کہا کہ ہم میں کوئی عداوت نہیں اتنا ہی اختلاف تھا جتنا رشتہ داروں کا آپس میں ہو جایا کرتا ہے.یہی بات حضرت علیؓ نے کہی.اس طرح ان کی بالکل صلح وصفائی ہو گئی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جنگ جمل کو بیان کرنے کے بعد حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ کی لڑائی کے حالات بیان کئے اور مفسدوں کی شرارتوں اور فتنہ پردازیوں کا ذکر کرتے ہوئے ثابت کیا کہ تمام اختلاف اور انشقاق کے بانی یہی لوگ تھے جن کی وجہ سے یسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ واقعات کا صحیح طور پر سمجھنا سخت مشکل ہو گیا تھا.آخر انہی لوگوں نے حضرت علییؓ کے قتل کی سازش کی اور قتل کرا دیا.ان کے بعد حضرت حسنؓ کو خلیفہ 66 منتخب کیا گیا لیکن انہوں نے معاویہ کے حق میں دست بردار ہو کر صلح کر لی.“ النصر: ٣ (انوار العلوم جلد ۴ صفحه ۶۳۴ تا ۶۴۰ ) الكامل في التاريخ لابن الاثير جلد ۳ صفحه ۲۵۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء

Page 390

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۲ جلد اول بھی خلیفہ یا امیر کی اطاعت کیوں ضروری ہے ۲۶ فروری ۱۹۲۰ء کو جماعت احمد یہ لاہور سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.یہ جو امارت اور خلافت کی اطاعت کرنے پر اس قدر زور دیا گیا ہے اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ امیر یا خلیفہ کا ہر ایک معاملہ میں فیصلہ صحیح ہوتا ہے.کئی دفعہ کسی معاملہ میں وہ غلطی کر جاتے ہیں مگر باوجود اس کے ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کا اسی لئے حکم دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر انتظام قائم نہیں رہ سکتا.تو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ی غلطی کر سکتا ہوں تو پھر خلیفہ یا امیر کی کیا طاقت ہے کہ کہے میں کبھی کسی امر میں غلطی نہیں کر سکتا.خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے لیکن باوجود اس کے اُس کی اطاعت کرنی لازمی ہے ورنہ سخت تنہ پیدا ہوسکتا ہے.مثلاً ایک جگہ وفد بھیجنا ہے خلیفہ کہتا ہے کہ بھیجنا ضروری ہے لیکن ایک شخص کے نزدیک ضروری نہیں.ہو سکتا ہے کہ فی الواقع ضروری نہ ہو لیکن اگر اُس کو اجازت ہو کہ وہ خلیفہ کی رائے نہ مانے تو اِس طرح انتظام ٹوٹ جائے گا جس کا نتیجہ بہت بڑا فتنہ ہوگا.تو انتظام کے قیام اور درستی کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنی رائے پر زور نہ دیا جائے.جہاں کی جماعت کا کوئی امیر مقرر ہو وہ اگر دوسروں کی رائے کو مفید نہیں سمجھتا تو انہیں چاہئے کہ اپنی رائے کو چھوڑ دیں.اسی طرح جہاں انجمن ہو وہاں کے لوگوں کو سیکرٹری کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پر ہی اصرار نہیں کرنا چاہئے.جہاں تک ہو سکے سیکرٹری یا امیر کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسے سمجھانا چاہئے لیکن اگر وہ اپنی رائے پر قائم رہے تو دوسروں کو اپنی رائے چھوڑ دینی چاہئے.کیونکہ رائے کا چھوڑ دینا فتنہ پیدا کرنے کے مقابلہ میں بہت ضروری ہے.( انوار العلوم جلد ۵ صفحه ۸۹ )

Page 391

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۳ جلد اول خلیفہ کے ساتھ تعلق حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے ۲۸، ۲۹ دسمبر ۱۹۲۰ء کے جلسہ سالانہ پر ایک معرکۃ الآرا تقریر فرمائی جو ملائکہ اللہ کے موضوع پر تھی.ملائکہ پر ایمان لانا ، دیگر مذاہب میں ملائکہ کا تصور، ملائکہ کے کام بڑی تفصیل سے بیان فرمائے اور پھر ملائکہ سے تعلق کس طرح جوڑا جاسکتا ہے اس کے ۸ ذرائع بیان فرمائے.خلیفہ کے ساتھ تعلق کے ضمن میں آپ فرماتے ہیں :.یہ ٹھیک ہے کہ خلفاء اور مجددین بھی اچھی باتیں بتاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ ، نبیوں ، ملائکہ اور کتب کی باتوں اور ان کی باتوں میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ ایمانیات میں وہ داخل ہیں جن کی کسی چھوٹی سے چھوٹی بات سے اختلاف کرنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے.مثلاً اگر کوئی یہی کہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے وقت پاؤں دھونے کا جو حکم دیا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے تو وہ کا فر ہو جائے گا مگر خلیفہ سے تفصیلات میں اختلاف ہو سکتا ہے.مثلاً خلیفہ ایک آیت کے جو معنی سمجھتا ہے وہ دوسرے شخص کی سمجھ میں نہ آئیں اور وہ اُن کو نہ مانے تو اُس کیلئے جائز ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو کہے کہ فلاں آیت کے آپ نے جو معنی کئے ہیں میں ان کو نہیں مانتا تو کافر ہو جائے گا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ میں سے ایک شوشہ بھی رڈ کرنا کسی کیلئے جائز نہیں ہے.گو خلفاء کے احکام ماننا ضروری ہوتے ہیں لیکن ان کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا.ممکن ہے کہ خلیفہ کسی امر کے متعلق جو رائے دے اس سے کسی کو اتفاق نہ ہو.چنانچہ حضرت ابو بکر نے ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تھا یہ کہا تھا کہ ان کو غلام بنا لینا جائز ہے کیونکہ وہ مرتد اور کافر ہیں.مگر اس کے متعلق حضرت عمرا خیر تک کہتے رہے کہ مجھے اس سے اتفاق نہیں.لیکن اگر رسول کریم ہے فرماتے تو اس سے اختلاف کرنا ان کیلئے جائز نہ تھا.انبیاء سے چونکہ اصول کا تعلق ہوتا ہے اس

Page 392

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۴ جلد اول لئے ان سے اختلاف کرنا ہرگز جائز نہیں ہوتا.ہاں تفصیلات میں خلفاء سے اختلاف ہوسکتا ہے.چنانچہ اب بھی کسی علمی مسئلہ میں اختلاف ہو جاتا ہے اور پہلے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ خلفاء کو دوسروں کی بات ماننی پڑی ہے اور بعض دفعہ خلفاء کی بات دوسروں کو ماننی پڑی ہے چنانچہ حضرت عمر اور صحابہ میں یہ مسئلہ اختلافی رہا کہ جنبی خروج ماء سے ہوتا ہے یا محض صحبت سے.غرض خلفا ء سے اس قسم کی باتوں میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن انبیاء سے نہیں کیا جاسکتا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر کوئی التحیات میں اُنگلی اُٹھانے کے متعلق اختلاف کرے گا تو بھی کا فر ہو جائے گا لیکن مجد دین اور خلفاء ایسے نہیں ہوتے کہ مسائل میں بھی اگر ان سے اختلاف ہو جائے تو انسان کا فر ہو جائے مگر انبیاء کی چھوٹی سے چھوٹی بات سے اختلاف کرنے والا بھی کا فر ہو جاتا ہے ان کی کوئی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے یہی کہنا فرض ہے کہ جو نبی کہتا ہے وہی سچ ہے“.(انوار العلوم جلد ۵ صفحه ۵۲۳،۵۲۲) پھر ملائکہ سے فیض حاصل کرنے کے ذرائع بیان کرتے ہوئے آٹھواں طریق آپ یہ بیان فرماتے ہیں :.آٹھواں طریق ملائکہ سے فیض حاصل کرنے کا یہ ہے کہ خلیفہ کے ساتھ تعلق ہو.یہ بھی قرآن سے ثابت ہے.جیسا کہ آتا ہے وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ ايَةً مُلكِة آن يأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةُ مِّمَّا تَرَكَ أل موسى و ال هرُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَئِكَةُ کہ ایک زمانہ میں ایک نبی سے لوگوں نے کہا کہ ہمارے لئے اپنا ایسا جانشین مقرر کر دیجئے جس سے ہم دنیا وی معاملات میں مدد حاصل کریں.لیکن جب ان کے لئے ایک شخص کو جانشین مقرر کیا گیا تو انہوں نے کہہ دیا اس میں وہ کون سی بات ہے جو ہمارے اندر نہیں ہے.جیسا کہ اب پیغامی کہتے ہیں.نبی نے کہا آؤ بتا ئیں اس میں کون سی بات ہے جو تم میں نہیں اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس سے تعلق رکھیں گے ان کو فرشتے تسکین دیں گے.اس سے ظاہر ہے کہ خلافت کے ساتھ وابستگی بھی ملائکہ سے تعلق پیدا کراتی ہے کیونکہ بتایا گیا ہے کہ ان کے دل فرشتے اُٹھائے ہوئے ہوں گے.تابوت کے معنی دل اور سینہ کے ہیں.فرمایا خلافت سے تعلق رکھنے والوں کی یہ علامت ہوگی کہ اُن کو تسلی حاصل

Page 393

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۵ جلد اوّل ہوگی اور پہلے صلحاء اور انبیاء کے علم ان پر ملائکہ نازل کریں گے.پس ملا ئکہ کا نزول خلافت (انوار العلوم جلد ۵ صفحه ۵۶۱) سے وابستگی پر بھی ہوتا ہے“.البقرة: ۲۴۹

Page 394

خلافة على منهاج النبوة جلد اول خلافت وحدت قومی کی جان ہے یہ خلافت پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے درسِ قرآن میں جس کا دور ۱۹۱۴ء میں شروع ہوا یکم مارچ ۱۹۲۱ء کو جب آیت استخلاف آئی تو حضور نے نہایت تفصیل کے ساتھ مسئلہ خلا روشنی ڈالی اور اُس فتنہ کے واقعات بیان کر کے جو حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی وفات پر پیدا ہوا یہ ثابت کیا کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے کسی انسانی منصوبہ کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا.اس تقریر کا ایک حصہ جس میں مسئلہ خلافت کی اہمیت بیان کی گئی ہے درج ذیل ہے.وعد الله الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْرِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ ص وليبَة لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ، يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَمَنْ كَفَرَ بعد ذلك فأوليكَ هُمُ الفسقون ، یہ آیت اس زمانہ میں بہت ہی زیر بحث ہے.اس میں خلافت کا مضمون بیان کیا گیا ہے.میں خلافت کے مسئلہ کے متعلق کم بولتا ہوں کیونکہ طبعاً میری طبیعت میں یہ بات داخل ہے کہ جس مسئلہ کا اثر میری ذات پر پڑتا ہوا سے میں بہت کم بیان کیا کرتا ہوں.ہاں جب کوئی اعتراض کرے تو جواب دینے کے لئے بولنا پڑتا ہے.حضرت خلیفہ اول خلافت کے مسئلہ کے متعلق بہت زور دیا کرتے تھے کیونکہ اُنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ علم دیا گیا تھا کہ اس کے متعلق فتنہ ہوگا.اس وجہ سے لیکچروں ، درسوں اور دعاؤں میں بہت زور دیا کرتے تھے.میرے نز دیک یہ مسئلہ اسلام کے ایک حصہ کی جان ہے.مختلف حصوں میں مذا ہب کا عملی کام منقسم ہوتا ہے.یہ مسئلہ جس حصہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے وہ وحدت قومی ہے.کوئی جماعت ، کوئی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک ایک رنگ کی اس میں وحدت نہ

Page 395

خلافة على منهاج النبوة ۳۷۷ جلد اوّل پائی جائے.مسلمانوں نے قومی لحاظ سے تنزّل ہی اُس وقت کیا ہے جب ان میں خلافت نہ رہی.جب خلافت نہ رہی تو وحدت نہ رہی اور جب وحدت نہ رہی تو ترقی رُک گئی اور تنزل شروع ہو گیا.کیونکہ خلافت کے بغیر وحدت نہیں ہو سکتی اور وحدت کے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی.ترقی وحدت کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے.جب ایک ایسی رہتی ہوتی ہے جو کسی قوم کو باندھے ہوئے ہوتی ہے تو اُس قوم کے کمزور بھی طاقتوروں کے ساتھ آگے بڑھتے جاتے ہیں.دیکھو! اگر شاہ سوار کے پیچھے ایک چھوٹا لڑکا بٹھا کر باندھ دیا جائے تو لڑکا بھی اُسی جگہ پہنچ جائے گا جہاں شاہ سوار کو پہنچنا ہو گا یہی حال قوم کا ہوتا ہے.اگر وہ ایک رستی میں بندھی ہو تو اس کے کمزور افراد بھی ساتھ دوڑے جاتے ہیں.لیکن جب رستی کھل جائے تو گو کچھ دیر تک طاقتور دوڑتے رہتے ہیں لیکن کمزور پیچھے رہ جاتے ہیں اور آخر کا ر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کئی طاقتور بھی پیچھے رہنے لگ جاتے ہیں.کیونکہ کئی ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں فلاں جو پیچھے رہ گئے ہیں ہم بھی رہ جائیں.پھر ان لوگوں میں جو آگے بڑھنے کی طاقت رکھتے اور آگے بڑھتے ہیں چلنے کی قابلیت نہیں رہتی.مگر قومی اتحاد ایسا ہوتا ہے کہ ساری قوم کی قوم چٹان کی طرح مضبوط ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے کمزور بھی آگے بڑھتے جاتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا تھا سورۃ نور میں اسلام کی اور انسان کی روحانی ترقیات کے ذرائع کا ذکر ہے.ان ذرائع میں سے بعض کا تو پہلے ذکر آچکا ہے اور ایک ذریعہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وقدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وعملوا الصلحت لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وعدہ فرمایا ہے اللہ نے اُن لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور عمل صالح کئے (اور یہ وعدہ معمولی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ اپنی ذات کی قسم کھا کر فرماتا ہے) کہ ان کوضرور ضرور خلیفہ بنائے گا اس زمین میں جیسا کہ اس نے خلیفہ بنا یا تم سے پہلوں کو.اس میں یہ بتایا ہے کہ خدا نے مومنوں سے یہ وعدہ کیا ہے.آگے اس وعدہ کی خصوصیات بیان فرماتا ہے.وليُمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ.وہ ضرور قائم کر دے گا ، ثابت کر دے گا ان کے لئے ان کے دین کو جو ان کے لئے پسند کیا گیا.یہ ایک سلوک

Page 396

خلافة على منهاج النبوة جلد اول ہے.دوسرا سلوک ان سے یہ کرے گا کہ دلیب لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا اور خوف کے بعد امن سے ان کی حالت بدل دے گا.اس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ فرماتا ہے کہ يَعْبُدُونَني لا يشركون بي شَيْئًا - وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے.آگے فرماتا ہے یہ تمہارے لئے اتنا بڑا انعام ہے کہ ومَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِك فا وليكَ هُمُ الفسقون جو اس کی قدر نہ کرے گا وہ ہمارے دفتر سے کاٹ دیا جائے گا.یہ اس قد رسخت وعید ہے کہ پچھلے کسی وعدہ کی ناقدری کے متعلق ایسی وعید نہیں رکھی گئی.اس زمانہ میں بدقسمتی سے بعض لوگوں نے خلافت سے اختلاف کیا ہے.ان کا خیال ہے کہ خلافت کا سلسلہ حکومت سے تعلق رکھتا ہے.حالانکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے جنتا ر دیا ہے مذہب پر ہی دیا ہے.وعد الله الذینَ آمَنُوا مِنْكُمْ ایک بات - د عملوا الصلحت دوسری بات - وليمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ تیری بات - يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بي شَيْئًا، چوتھی بات - وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُوليك هُمُ الفيسقون پانچویں بات.یہ پانچوں باتیں تو صاف طور پر دین سے تعلق رکھتی ہیں.اور تمکین دین کے ساتھ امن کا آنا ظاہر کرتا ہے کہ اس سے بھی دینی امن ہی مراد ہے.اس طرح اس آیت میں تمام کا تمام دین کا ذکر ہے.اور اس کے آگے بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے واقيمُوا الصلوة وأتُوا الزَّكوة وَاطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ نے یہ بھی دین کے احکام ہیں.پس یہاں دین ہی دین کا ذکر ہے ورنہ اگر یہاں یہ سمجھا جائے کہ سلطنت کا ذکر ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ روحانی ترقیات کے ذرائع بتانے کے سلسلہ میں سلطنت کا ذکر کیا تعلق رکھتا ہے.سلطنت تو کافر اور بد کا رلوگ بھی قائم کر لیتے ہیں.اصل اور سچی بات یہی ہے کہ خلافت جو روحانی ترقیات کا ایک عظیم الشان ذریعہ ہے اسی کا یہاں ذکر ہے سلطنت کا نہیں ہے.اس خلافت سے مراد خواہ خلافت ما موربیت لے لو یا خلافت نیابت مامورین لے لو بہر حال روحانی خلافت کا ہی یہاں ذکر ہے.یہ دونوں قسم کی خلافت روحانیت کی ترقی کا ذریعہ ہے، خلافت ماموریت تو اس طرح کہ اس کے

Page 397

خلافة على منهاج النبوة جلد اول ذریعہ ایک انسان خدا سے نور پا کر دوسروں کو منور کرتا ہے.اور خلافت نیابت مامورین اس طرح کہ اس انتظام اور نگرانی سے کمزوروں کی بھی حفاظت ہوتی جاتی ہے.پس ان دونوں قسم کی خلافتوں میں برکات ہیں اور دونوں روحانی ترقیات کا باعث ہیں اور دونوں کے بغیر روحانیت مفقود ہو جاتی ہے.چنانچہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب خلافت کا سلسلہ ٹوٹا تو پھر اسلام کو کوئی نمایاں ترقی نہیں ہوئی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو خلافتیں تھیں ان میں عظیم الشان تغیر ہوئے.قوموں کی قومیں اسلام میں داخل ہو گئیں اور اسلام بڑی سرعت کے ساتھ پھیل گیا.لیکن جب روحانی خلافت کا سلسلہ نہ رہا تو اسلام کی ترقی بھی رُک گئی یا پھر ان لوگوں کے ذریعہ کسی قدر ترقی ہوئی جو خدا سے الہام اور وحی پا کر اسلام کی خدمت کے لئے کھڑے ہوئے.تو روحانی خلافت کے بغیر اسلام کو کوئی ترقی نہ ہوئی بلکہ تنزل ہوتا رہا.آج بھی لوگ خلافت کا شور ڈال رہے ہیں اور خدا کی قدرت ہے چند ہی سال پہلے جو لوگ ہم پر اس وجہ سے شرک کا الزام لگاتے تھے کہ ہم خلافت کے قائل ہیں اور کہتے تھے کہ خلافت کے مٹانے کا وقت آگیا ہے چنانچہ وہی ٹریکٹ جو اظہار الحق کے نام سے شائع کیا گیا اس کے مضمون کی بنیاد ہی اسی امر پر رکھی گئی تھی کہ ہر ایک مامور کسی خاص کام کے لئے آتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانہ میں اسی لئے آئے کہ ہر قسم کی شخصی حکومت ا مٹا کر جمہوری حکومت قائم کریں.یہ ٹریکٹ لاہور کے جن لوگوں کی مرضی اور منشاء کے ماتحت شائع ہوا تھا آج وہی کہہ رہے ہیں کہ خلافت ٹرکی ضرور قائم رہنی چاہئے اور یہ مسلمانوں کا مذہبی مسئلہ ہے.کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیے جس سے اس میں دست اندازی سمجھی جائے.اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو مجبور کر کے ان کے مونہوں سے وہی باتیں نکلوائی ہیں جن کی بناء پر ہم سے اختلاف کر کے علیحدہ ہوئے تھے تا کہ معلوم ہو جائے کہ ان کے علیحدہ ہونے کی وجہ دنیا وی اغراض ہی تھیں دینی نہ تھیں.کیونکہ اُس وقت جب انہوں نے خلافت کے مسئلہ کو اپنی اغراض کے خلاف دیکھا تو اس کے مٹانے کے درپے

Page 398

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۰ جلد اول ہو گئے.اور اب عام مسلمانوں کو جب خلافت پر زور دیتے دیکھا تو ان کی ہمدردی حاصل کرنے اور اُن سے فائدہ اُٹھانے کی غرض سے خلافت کو دینی مسئلہ بنالیا.ان کے مقابلہ میں ہمیں دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہو گا کہ جو کچھ ہم نے پہلے خلافت کے متعلق کہا تھا اب بھی اُسی پر قائم ہیں اور ایک انچ اُس سے آگے پیچھے نہیں ہوئے.خلافت اسلام کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے اور اسلام کبھی ترقی نہیں کرسکتا جب تک خلافت نہ ہو.ہمیشہ خلفاء کے ذریعہ اسلام نے ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا اور ہمیشہ خدا تعالیٰ خلفاء مقرر کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی خدا تعالیٰ ہی خلفاء مقرر کرے گا.یہی ہماری جماعت میں جو خلافت کے متعلق جھگڑا ہوا وہ لوگ جنہوں نے اُس وقت کے حالات دیکھے وہ جانتے ہیں کہ کتنا بڑا فتنہ بپا ہوا تھا.اب تو کہا جاتا ہے کہ منصوبہ کیا ہوا تھا اس لئے کامیابی ہو گئی مگر اُس وقت کے حالات کو جاننے والے جانتے ہیں.وعد الله الذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا اللِحَتِ لِيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهیم که خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم خلیفہ بناتے ہیں جو کچھ ہوا اسی کے ماتحت ہوا.( الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۳۱ء ) النور: ۵۶ النور: ۵۷

Page 399

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۱ جلد اول اختلافات سلسلہ کی سچی تاریخ کے صحیح حالات مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے ایک کتاب THE SPLIT نامی لکھی گئی جس میں جماعت احمدیہ میں اختلافات کا ذکر کیا گیا حالانکہ جو غرض مولوی محمد علی صاحب نے بیان کی وہ اشاعت کی غرض نہ تھی بلکہ مولوی محمد علی صاحب اپنے کینہ و بغض کی وجہ سے وہ کامیابی جو خلیفة المسیح الثانی کو ملی وہ دیکھ نہیں سکتے تھے اور یہ اس کا نتیجہ تھا کہ یہ کتاب لکھی.اس کا جواب حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے دسمبر ۱۹۲۱ء میں آئینہ صداقت“ کے نام سے تحریر فرمایا جس کے باب دوم میں اختلافات سلسلہ کی کچی تاریخ کے صحیح حالات“ لکھے.آ تحریر فرماتے ہیں :.وو مولوی محمد علی صاحب نے اختلافات سلسلہ کے بیان کرنے میں جن غلط بیانیوں سے کام لیا ہے اُن کی تردید کے بعد اب میں اختلافات کے صحیح حالات تحریر کرتا ہوں تا کہ ہمارے وہ احباب جو اس وقت تک اس اختلاف کی حقیقت سے واقف نہیں اس سے آگاہ ہو جاویں اور وہ لوگ بھی جو سلسلہ میں تو داخل نہیں لیکن اس سے دلچسپی رکھتے ہیں اور اختلاف کو دیکھ کر شش و پنج میں ہیں اصل حالات کا علم حاصل کر کے کسی نتیجہ پر پہنچنے کے قابل ہوسکیں.روحانی سلسلوں میں کمزور ایمان والے ہر ایک روحانی سلسلہ میں کچھ لوگ ایسے بھی داخل ہو جاتے ہیں جو گو اس کو سچا سمجھ کر ہی اس میں داخل ہوتے ہیں لیکن ان کا فیصلہ سطحی ہوتا ہے اور حق ان کے دل میں داخل نہیں ہوا ہوتا.ان کا ابتدائی جوش بعض دفعہ اصل مخلصوں سے بھی ان کو بڑھا کر دکھاتا ہے مگر ایمان کی جڑیں مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے ہر وقت خطرہ ہوتا ہے کہ وہ مرکز سے ہٹ جائیں اور حق کو پھینک دیں.ایسے ہی چند لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلا

Page 400

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۲ جلد اول کے سلسلہ میں بھی داخل ہوئے اور ان کی وجہ سے اور بہت سے لوگوں کو بھی ابتلا ء آیا.خواجہ کمال الدین صاحب خواجہ کمال الدین صاحب جو دو کنگ مشن کی وجہ سے خوب مشہور ہو چکے ہیں میرے نزدیک اس سب کا احمدیت میں داخلہ اختلاف کے بانی ہیں اور مولوی محمد علی صاحب ان کے شاگرد ہیں جو بہت بعد ان کے ساتھ شامل ہوئے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ہماری طرف سے متعدد دفعہ یہ بات شائع ہو چکی ہے کہ اصل میں خواجہ صاحب کے دل میں حضرت مسیح موعود کے متعلق کئی قسم کے شکوک پیدا ہو گئے تھے اور انہوں نے مولوی محمد علی صاحب سے بیان کئے جس سے ان کے خیالات بھی خراب ہو گئے.اسی وجہ سے اس قصہ کے مشابہ قصہ تیار کرنے کیلئے ان کو ظہیر الدین کا قصہ تیار کرنا پڑا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ خواجہ کمال الدین صاحب جب اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں تو اس کو حق سمجھ کر ہی داخل ہوئے تھے لیکن ان کے داخل ہونے کا یہ باعث نہ تھا کہ سلسلہ کی صداقت ان کے دل میں گھر کر گئی تھی بلکہ اصل باعث یہ تھا کہ وہ اسلام سے بیزار ہوکر مسیحیت کی طرف متوجہ ہو رہے تھے اور چونکہ اہل و عیال اور عزیر واقارب کو چھوڑ نا کوئی آسان کام نہیں ان کا دل اُس وقت سخت کشمکش میں تھا.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے سامنے انہوں نے مسیحی پادریوں کو بھاگتے دیکھا تو ان کو اس کشمکش سے نجات ہوئی اور ان کو اسلام میں بھی ایک ایسا مقام نظر آنے لگا جہاں انسان اپنا قدم جما کر مغربی علوم کے حملوں کا مقابلہ کر سکتا ہے.چونکہ یہ فائدہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے حاصل ہوا تھا وہ آپ کی جماعت میں شامل ہو گئے اور اس وقت خیال کر کے یہی کہنا چاہئے کہ بچے دل سے داخل ہوئے اور واقعہ میں جس شخص کے ذریعہ سے انسان ایسے خطر ناک ابتلاء سے بچے وہ اسے ہر ایک درجہ دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے.پس مسیح موعود علیہ السلام کو خواجہ صاحب نے مانا تو سہی لیکن آپ کے دعوی کی صداقت کا امتحان کر کے نہیں بلکہ اس کے احسان سے متاثر ہو کر جو اسے مسیحیت سے بچانے اور اپنے رشتہ داروں کی جدائی سے محفوظ کر دینے کی صورت میں اس نے کیا.یہ بات ظاہر ہے کہ ایسا تعلق دیر پا نہیں ہوتا.

Page 401

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۳ جلد اول جوں جوں زمانہ گزرتا گیا اور خواجہ صاحب کی نظر سے وہ زمانہ اوجھل ہوتا گیا جب وہ مسیحیت اور اسلام کے درمیان کھڑے تھے اور ایک طرف تو مسیحیت کی دلفریب تعلیم انہیں لبھا رہی تھی اور دوسری طرف اپنے عزیز و اقرباء کی جدائی ان کو خوف دلا رہی تھی ان کا ایمان اور تعلق بھی کمزور ہوتا گیا حتی کہ ڈپٹی آٹھم کی پیشگوئی کے وقت وہ مرتد ہوتے ہوتے بچے.سیح موعود علیہ السلام کا مضمون ۱۸۹۷ء میں جب لاہور میں جلسہ اعظم کی بنیاد پڑی اور حضرت مسیح موعود برائے جلسہ اعظم اور خواجہ صاحب علیہ السلام کو بھی اس میں مضمون لکھنے کیلئے کہا گیا تو خواجہ صاحب ہی پیغام لے کر آئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اُن دنوں میں اسہال کی تکلیف تھی باوجود اس تکلیف کے آپ نے مضمون کا لکھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ختم کیا.مضمون جب خواجہ صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا تو انہوں نے اس پر بہت کچھ نا امیدی کا اظہار کیا اور خیال ظاہر کیا کہ یہ مضمون قدر کی نگاہوں سے نہ دیکھا جاوے گا اور خواہ مخواہ ہنسی کا موجب ہوگا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ مضمون بالا رہاہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قبل از وقت اس الہام کے متعلق اشتہار لکھ کر لاہور میں شائع کرنا مناسب سمجھا اور اشتہار لکھ کر خواجہ صاحب کو دیا کہ اسے تمام لاہور میں شائع اور چسپاں کیا جائے اور خواجہ صاحب کو بہت کچھ تسلی اور تشفی بھی دلائی.مگر خواجہ صاحب چونکہ فیصلہ کئے بیٹھے تھے کہ مضمون نَعُوذُ بِاللهِ لغو اور بیہودہ ہے انہوں نے نہ خود اشتہار شائع کیا نہ لوگوں کو شائع کرنے دیا.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم بتا کر جب بعض لوگوں نے خاص زور دیا تو رات کے وقت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر چند اشتہار دیواروں پر اونچے کر کے لگا دیئے گئے تا کہ لوگ اُن کو پڑھ نہ سکیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی کہا جا سکے کہ ان کے حکم کی تعمیل کر دی گئی ہے.کیوں کہ خواجہ صاحب کے خیال میں وہ مضمون جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ بالا رہا اس قابل نہ تھا کہ اسے ایسے بڑے بڑے محققین کی مجلس میں پیش کیا جاوے.آخر وہ دن آیا جس دن اس مضمون کو سنایا جانا تھا.مضمون جب سنایا جانا شروع ہوا تو ابھی

Page 402

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۴ جلد اوّل چند منٹ نہ گزرے تھے کہ لوگ بت بن گئے اور ایسا ہوا کہ گویا اُن پر سحر کیا ہوا ہے.وقت مقررہ گزر گیا مگر لوگوں کی دلچسپی میں کچھ کمی نہ آئی اور وقت بڑھایا گیا مگر وہ بھی کافی نہ ہوا.آخر کارلوگوں کے اصرار سے جلسہ کا ایک دن اور بڑھایا گیا اور اُس دن بقیہ لیکچر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ختم کیا گیا.مخالف اور موافق سب نے بالا تفاق کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیکچر سب سے بالا رہا اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات پوری ہوئی مگر اس زبر دست پیشگوئی کو خواجہ صاحب کی کمزوری ایمان نے پوشیدہ کر دیا.اب ہم ان واقعات کو سناتے ہیں مگر کجا ہمارے سنانے کا اثر اور کجا وہ اثر جو اس اشتہار کے قبل از وقت شائع کر دینے سے ہوتا اس صورت میں اس پیشگوئی کو جوا ہمیت حاصل ہوتی ہر ایک شخص بخوبی ذہن میں لاسکتا ہے.خواجہ صاحب کی احمدیت اسی قسم کے اور بہت سے واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب نے احمدیت کے مغز کو نہیں کے مغز سے ناواقفیت پایا تھا اور ان کا احمدیت میں داخل ہونا درحقیقت اس احسان کا نتیجہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان پر کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دشمنوں کی طرف سے بعض مقدمات ہوئے ان میں خواجہ صاحب پیروکار ہوتے تھے.اس دوران میں بھی خواجہ صاحب نے بعض کمزوریاں دکھائیں جن کے بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں.۱۹۰۵ء میں وطن اخبار کی ایک تحریک پر کہ ریویو آف ریلیجنز میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر نکال دیا جاوے اور عام اسلامی باتیں ہوں تو غیر احمدی بھی اس میں مدد کریں گے خواجہ صاحب تیار ہو گئے کہ ایسا ہی کر لیا جاوے اور یہ فیصلہ بھی کر لیا کہ ایک ضمیمہ ریویو کے ساتھ ہو جس میں کہ سلسلہ کے متعلق ذکر ہواصل رسالہ میں عام باتیں ہوں.اس فیصلہ پر اس قدرشور ہوا کہ آخر کار ان کو دبنا پڑا اور یہ تجویز خواجہ صاحب کے دل ہی دل میں رہ گئی.مگر خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کی اس تحریک سے ایک شخص ڈاکٹر عبد الحکیم مُر مذ کو جو مدت سے گندے عقائد میں مبتلا تھا جرات ہوگئی اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس بارہ میں خط و کتابت شروع کر دی اور گومحرک اس خط و کتابت کا

Page 403

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۵ جلد اول خواجہ صاحب کا سمجھوتہ تھا جو ایڈیٹر وطن سے ریویو کے متعلق کیا گیا تھا مگر در اصل اس خط و کتابت میں بعض ایسے عقائد کی بنیاد پڑ گئی جو آئندہ کیلئے غیر مبائعین کے عقائد کا مرکزی نقطہ قرار پائے.عبدالحکیم نے ابتداء ۱۹۰۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سب سے پہلا خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ : ا.سوائے ان کے جو ہمیں کا فر کہتے ہیں باقی کے پیچھے نماز جائز ہونی چاہئے.۲ ریویو آف ريليجنز کے متعلق جو تجویز خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے کی تھی اسے مان لیا جاوے اور اس پر عمل کیا جاوے..حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود خادمِ اسلام ہے نہ اصل اسلام پس آپ کے وجود کو پیش کرنے کی خاطر اسلام کی اشاعت میں روک نہ ڈالی جاوے.عام قاعدہ حکمت کے ماتحت پہلے شرک ، بدعت وغیرہ بڑے مسائل لوگوں کے سامنے پیش کئے جاویں پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات کو پیش کیا جاوے..صرف وفات مسیح پر اس قدر زور نہ دیا جاوے دوسرے مسائل اسلام کی طرف بھی توجہ کی جاوے..احمدیوں کی اخلاقی حالت بہت گری ہوئی ہے ان کی عملی حالت کی درستی کی طرف خاص ے.توجہ کی جاوے..ہماری جماعت کا مشنری کام بہت سست ہے اس کی طرف خاص توجہ کی جائے.ہم غیر احمدی مسلمانوں سے سلام تک ترک کر بیٹھے ہیں حالانکہ عدم تبلیغ کے مجرم ہم ہیں.اسلام کی طرف سچی رہبر فطرت صحیحہ اور سچی تعلیم ہے نہ کہ محض پیشگوئیاں.پس قرآنی تعلیم کو مردہ قرار دینا حد درجہ کی بیبا کی ہے ( یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے جو وطن کی تحریک کے متعلق کہی گئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر درمیان سے ہٹا کر کیا مردہ اسلام پیش کیا جاوے.مرزا محمود احمد ).اگر احمد اور محمد جدا نہیں تو جس رنگ میں محمدی تعلیم تیرہ سو سال سے ہوتی چلی آئی ہے اسے اب مردہ کیوں قرار دیا جاوے.

Page 404

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۶ جلد اول اسلام کی ہتک اس سے زیادہ نہیں ہوسکتی کہ اس کی زندگی کا دار و مدار ایک تیرہ سو سال بعد آنے والے شخص پر رکھا جاوے.یہ علمی زمانہ ہے قرآن کریم کے علمی مضامین کی اشاعت سے بہت فائدہ کی امید تھی.ضمیمہ الگ شائع ہوتا مریدا سے لیتے اور ریویو کی اشاعت بڑھ جاتی مگر افسوس کہ احمدی جماعت نے تنگ ظرفی کا نمونہ دکھایا اور جب کہ غیر احمدی تنگ ظرفی کی دیوار کو توڑنے لگے تھے اُنہوں نے اُسے کھڑا کر دیا.پھر دوسرے خط میں لکھا ہے :.کیا آپ کے نزدیک تیرہ کروڑ مسلمانوں میں کوئی بھی سچا خدا پرست راستباز نہیں؟ کیا محمدی اثر اس تمام جماعت پر سے اُٹھ گیا ہے ؟ کیا اسلام بالکل مردہ ہو گیا ؟ کیا قرآن مجید بالکل بے اثر ہو گیا ؟ کیا رب العالمین ، محمد ، قرآن، فطرت اللہ اور عقل انسان بالکل معطل اور بیکار ہو گئے کہ آپ کی جماعت کے سوانہ باقی مسلمانوں میں راست باز ہیں نہ باقی دنیا میں ، بلکہ تمام کے تمام سیاہ باطن سیاہ کا ر اور جہنمی ہیں“.مجھے اس جگہ اس امر پر بحث نہیں کہ اس کے ان خطوط کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا جواب دیا کیونکہ ان مسائل کے متعلق آگے بحث ہوگی.اس وقت اسی قدر کہہ دینا کافی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے ان خطوط کے جواب میں لکھ دیا کہ :.اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ ہزار ہا آدمی جو میری جماعت میں شامل نہیں کیا راستبازوں سے خالی ہیں تو ایسا ہی آپ کو یہ خیال بھی کر لینا چاہئے کہ وہ ہزارہا یہود اور نصاریٰ جو اسلام نہیں لائے کیا وہ راست بازوں سے خالی تھے؟ بہر حال جب کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اُس نے مجھے قبول نہیں کیا ہے وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے تو یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ اب میں ایک شخص کے کہنے سے جس کا دل ہزاروں تاریکیوں میں مبتلاء ہے خدا کے حکم کو چھوڑ دوں.اس سے سہل تر یہ بات

Page 405

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۷ جلد اول ہے کہ ایسے شخص کو اپنی جماعت سے خارج کر دیا جاوے اس لئے میں آج کی تاریخ سے آپ کو اپنی جماعت سے خارج کرتا ہوں“.گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس فوری اور سخت تنبیہ کا یہ نتیجہ نکلا کہ جماعت میں سے کسی اور شخص کو اُس وقت عبد الحکیم کے خیالات کی تائید اور تصدیق کرنے کی جرات نہیں ہوئی.مگر معلوم ہوتا ہے کہ اندر ہی اندر بعض لوگوں کے دل میں یہ خیالات گھر کر چکے تھے اور ان لوگوں کے سردار خواجہ صاحب تھے.واقعات بتاتے ہیں کہ خواجہ صاحب کا ایمان اندر سے کھوکھلا ہو چکا تھا.بعد کی ان کی تحریرات سے ظاہر ہے کہ وہ ان خیالات کا شکار ہو گئے تھے اور اب سب دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ یہی عقائد پھیلا رہے ہیں.خواجہ صاحب کا مولوی محمد علی جہاں تک میرا خیال ہے مولوی محمد علی صاحب شروع میں ان عقائد کی تائید میں نہ تھے مگر صاحب کو اپنا ہم خیال بنانا خواجہ صاحب نے ان کو ایک کارآمد ہتھیار دیکھ کر برابر اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کی اور آہستہ آہستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر زبانِ طعن کھولنے کی جرات دلا دی.گو میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات تک ان کے ایمان میں زیادہ تزلزل واقع نہیں ہوا تھا مگر آپ کی وفات کے ساتھ ہی معلوم ہوتا ہے بہت بڑا تزلزل مولوی صاحب کے خیالات میں آنا شروع ہوا.اور اس کا باعث بعض بہت ہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوئیں.مولوی محمد علی صاحب کی طبیعت شروع سے ہی نہایت غصہ والی رہی ہے اور وہ کبھی اپنے خصم کی بات سن کر برداشت کرنے کے قابل ثابت نہیں ہوئے اور ایک دفعہ جب ان کے دل میں غصہ پیدا ہو جائے تو اُس کا نکالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور وہ اپنے مخالف کو ہر طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.حضرت خلیفتہ امسیح الاول سے انجمن کے بعض کا موں میں مولوی محمد علی صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں رنبخش پیدا ہو جاتی تھی.خلافت اولی میں مولوی محمد علی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر آپ کو خلیفہ تجویز کیا گیا تو مولوی صاحب کے خیالات اور کوششیں صاحب کو بہت کر امعلوم ہوا اور آپ نے

Page 406

خلافة على منهاج النبوة ۳۸۸ جلد اوّل انکار بھی کیا اور پیش کیا کہ خلافت کا ثبوت کہاں سے ملتا ہے.مگر جماعت کی عام رائے کو دیکھ کر اور اُس وقت کی بے سروسامانی کو دیکھ کر دب گئے اور بیعت کر لی.بلکہ اُس اعلان پر بھی دستخط کر دیئے جس میں جماعت کو اطلاع دی گئی تھی کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب الوصیت کے مطابق خلیفہ مقرر ہوئے ہیں.مگر ظاہری بیعت کے باوجود دل نے بیعت کا اقرار نہیں کیا اور اپنے ہم خیالوں اور دوستوں کی مجلس میں اس قسم کے تذکرے شروع کر دیئے گئے جن میں خلافت کا انکار ہوتا تھا اور اس طرح ایک جماعت اپنے ہم خیالوں کی بنالی.خواجہ کمال الدین سب سے بہتر شکار تھا جو مولوی محمد علی صاحب کو ملا ( کیونکہ وہ خوداس فکر میں تھے کہ مولوی محمد علی صاحب کو اپنا ہم خیال بنائیں اور اس کی سب سے بہتر صورت یہی تھی کہ وہ خود مولوی محمد علی صاحب کے خاص خیالات میں ان کے شریک ہو جاویں ) چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کو ابھی پندرہ دن بھی نہ گزرے تھے کہ خواجہ صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کی موجودگی میں مجھ سے سوال کیا کہ میاں صاحب ! آپ کا خلیفہ کے اختیارات کے متعلق کیا خیال ہے؟ میں نے کہا اختیارات کے فیصلہ کا وہ وقت تھا جب کہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی جبکہ حضرت خلیفہ اول نے صاف صاف کہہ دیا کہ بیعت کے بعد تم کو میری پوری پوری اطاعت کرنی ہوگی اور اس تقریر کوسن کر ہم نے بیعت کی تو اب آقا کے اختیار مقرر کرنے کا حق غلاموں کو کب حاصل ہے.میرے اس جواب کو سن کر خواجہ صاحب بات کا رخ بدل گئے اور گفتگو اسی پر ختم ہوگئی.ان ہی ایام میں مولوی محمد علی صاحب کو بعض باتوں پر والدہ صاحبہ ( حضرت اماں جان ) سے بعض شکایات پیدا ہوئیں وہ سچی تھیں یا جھوٹی مگر مولوی صاحب کے دل میں گھر کر گئیں اور آپ نے ان شکایتوں کا اشارہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز میں بھی ذکر کر دیا.چونکہ خلافت کا مجھے مؤید دیکھا گیا اس لئے اس ذاتی بغض کی وجہ سے یہ خیال کر لیا گیا کہ یہ خلافت کا اس لئے قائل ہے کہ خود خلیفہ بننا چاہتا ہے.پس خلافت کی مخالفت کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان خصوصاً میری مخالفت کو بھی ایک مدعائے خاص قرار دیا گیا اور ہمیشہ اس کیلئے ایسی تدبیریں ہوتی رہیں جن کے ذکر کرنے کی نہ یہاں گنجائش ہے

Page 407

خلافة على منهاج النبوة نہ فائدہ.۳۸۹ جلد اول اسی عرصہ میں جلسہ سالانہ کے دن آگئے جس کیلئے مولوی محمد علی صاحب کے احباب نے خاص طور پر مضامیں تیار کئے اور یکے بعد دیگرے انہوں نے جماعت کو یہ سبق پڑھانا شروع کیا کہ خدا کے مامور کی مقرر کردہ جانشین اور خلیفہ صد را انجمن احمد یہ ہے جس کے یہ لوگ ٹرسٹی ہیں اور اس کی اطاعت تمام جماعت کیلئے ضروری ہے.مگر اس سبق کو اس قدر لوگوں کے مونہوں سے اور اس قدر متعدد مرتبہ دُہرایا گیا کہ بعض لوگ اصل منشاء کو پاگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اصل غرض حضرت خلیفہ اول کو خلافت سے جواب دینا ہے اور اپنی خلافت کا قائم کرنا.صدر انجمن احمدیہ کے چودہ ممبروں میں سے قریباً آٹھ مولوی محمد علی صاحب کے خاص دوست تھے اور بعض اندھا دھند ، بعض حسن ظنی سے ان کی ہر ایک بات پر امَنَّا وَصَدَّقْنَا کہنے کے عادی تھے.صدرانجمن احمدیہ کی خلافت سے مراد در حقیقت مولوی محمد علی صاحب کی خلافت تھی جو اُس وقت بوجہ ایک منصوبہ کے اس کے نظم ونسق کے دا حد مختار تھے بعض ضروری کاموں کی وجہ سے مجھے اس سال جلسہ سالانہ کے تمام لیکچروں میں شامل ہونے کا موقع نہ ملا اور جن میں شامل ہونے کا موقع ملا بھی اُن کے سنتے وقت میری توجہ اس بات کی طرف نہیں پھری.مگر جیسا کہ بعد کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے بعض لوگوں نے ان کی تدبیر کو معلوم کر لیا تھا اور اب ان کے دوستوں کے حلقوں میں اس امر پر گفتگو شروع ہو گئی تھی کہ خلیفہ کا کیا کام ہے؟ اصل حاکم جماعت کا کون ہے؟ صدر انجمن احمد یہ یا حضرت خلیفتہ امسیح الا ول ؟ مگر خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے اب بھی اس کا کچھ علم نہ تھا.اب جماعت میں دو کیمپ ہو گئے تھے.ایک اس کوشش میں تھا کہ لوگوں کو یقین دلایا جاوے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقرر کردہ جانشین انجمن ہے اور دوسرا اس پر معترض تھا اور بیعت کے اقرار پر قائم تھا.مگر حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کو ان بحثوں کا کچھ علم نہ تھا اور میں بھی ان سے بالکل بے خبر تھاشمی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے پاس میر محمد الحق صاحب نے کچھ سوالات لکھ کر پیش کئے جن میں خلافت کے متعلق روشنی ڈالنے کی درخواست کی گئی تھی.ان سوالات کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے مولوی محمد علی صاحب کے پاس بھیج دیا کہ وہ ان کا جواب دیں.مولوی محمد علی

Page 408

جلد اول خلافة على منهاج النبوة ۳۹۰ صاحب نے جو کچھ جواب دیا وہ حضرت خلیفہ اول کو حیرت میں ڈالنے والا تھا.کیونکہ اس میں خلیفہ کی حیثیت کو ایسا گرا کر دکھایا گیا تھا کہ سوائے بیعت لینے کے اس کا کوئی تعلق جماعت سے باقی نہ رہتا تھا.حضرت خلیفہ اول نے اس پر حکم دیا کہ ان سوالوں کی بہت سی نقلیں کر کے جماعت میں تقسیم کی جاویں اور لوگوں سے ان کے جواب طلب کئے جاویں اور ایک خاص تاریخ (۳۱ / جنوری ۱۹۰۹ء) مقرر کی کہ اُس دن مختلف جماعتوں کے قائم مقام جمع ہو جاویں تا کہ سب سے مشورہ لیا جاوے.اُس وقت تک بھی مجھے اس فتنہ کا علم نہ تھا.حتی کہ مجھے ایک رؤیا ہوئی جس کا مضمون حسب ذیل ہے.فتنہ کی اطلاع بذریعہ رویا حصـ میں نے دیکھا کہ ایک مکان ہے اس کے دو حصے ہیں.ایک حصہ تو مکمل ہے اور دوسرا نامکمل.نامکمل < پر چھت پڑ رہی ہے، کڑیاں رکھی جا چکی ہیں مگر او پر تختیاں نہیں رکھی گئیں اور نہ مٹی ڈالی گئی ہے.ان کڑیوں پر کچھ بھو سا پڑا ہے اور اس کے پاس میر محمد الحق صاحب، میرے چھوٹے بھائی مرزا بشیر احمد صاحب اور ایک اور لڑکا جو حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کا رشتہ دار تھا اور جس کا نام نثار احمد تھا اور جو اب فوت ہو چکا ہے (اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے ) کھڑے ہیں.میر محمد الحق صاحب کے ہاتھ میں دیا سلائی کی ایک ڈبیہ ہے اور وہ اس میں سے دیا سلائی نکال کر اس بھوسے کو جلانا چاہتے ہیں.میں نے ان سے کہا کہ آخر یہ بھو سا جلایا تو جائے گا ہی مگر ابھی وقت نہیں ابھی نہ جلائیں ایسا نہ ہو کہ بعض کڑیاں بھی ساتھ ہی جل جاویں.اس پر وہ اس ارادہ سے باز رہے اور میں اُس جگہ سے دوسری طرف چل پڑا.تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ مجھے کچھ شور معلوم ہوا.مڑ کر کیا دیکھتا ہوں کہ میر صاحب بے تحاشا دیا سلائیاں نکال کر جلاتے ہیں اور اس بھوسے کو جلانا چاہتے ہیں مگر اس خیال سے کہ کہیں میں واپس نہ آ جاؤں جلدی کرتے ہیں اور جلدی کی وجہ سے دیا سلائی بجھ جاتی ہے.میں اس بات کو دیکھ کر واپس دوڑا کہ ان کو روکوں مگر پیشتر اس کے کہ وہاں تک پہنچتا ایک دیا سلائی جل گئی اور اس سے انہوں نے بھوسے کو آگ لگا دی.میں دوڑ کر آگ میں کود پڑا اور آگ کو بجھا دیا مگر اس عرصہ میں کہ اس کے بجھانے میں کامیاب ہوتا چند کڑیوں کے

Page 409

۳۹۱ جلد اول خلافة على منهاج النبوة سرے جل گئے.میں نے یہ رویا مگر می مولوی سید سرور شاہ صاحب سے بیان کی تو انہوں نے مسکرا کر کہا کہ مبارک ہو کہ یہ خواب پوری ہو گئی ہے.کچھ واقعہ انہوں نے بتایا مگر یا تو پوری طرح ان کو معلوم نہ تھا یا وہ اُس وقت بتا نہ سکے.میں نے پھر یہ رویا لکھ کر حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں پیش کی.آپ نے اسے پڑھ کر ایک رقعہ پر لکھ کر مجھے جواب دیا کہ خواب پوری ہو گئی.میر محمد الحق صاحب نے چند سوال لکھ کر دیئے ہیں جن سے خطرہ ہے کہ شور نہ پڑے اور بعض لوگ فتنہ میں پڑ جائیں.یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے اس فتنہ کا علم ہوا اور وہ بھی ایک خواب کے ذریعہ.اس کے بعد وہ سوالات جو حضرت خلیفہ اسیح نے جواب کیلئے لوگوں کو بھیجنے کا حکم دیا تھا مجھے بھی ملے اور میں نے ان کے متعلق خاص طور پر دعا کرنی شروع کی اور اللہ تعالیٰ سے ان کے جواب کے متعلق ہدایت چاہی.اس میں شک نہیں کہ میں حضرت خلیفہ اول کی بیعت کر چکا تھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ میں خلافت کی ضرورت کا عقلاً قائل تھا مگر با وجود اس کے میں نے اس امر میں بالکل محلی بالطبع ہو کر غور شروع کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا میں لگ گیا کہ وہ مجھے حق کی ہدایت دے.اس عرصہ میں وہ تاریخ نز دیک آگئی جس دن کہ جوابات حضرت خلیفة المسیح کو دینے تھے.میں نے جو کچھ میری سمجھ میں آیا لکھا اور حضرت خلیفہ اسیح کو دے دیا.مگر میری طبیعت سخت بے قرار تھی کہ خدا تعالیٰ خود کوئی ہدایت کرے.یہ دن اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ میرے لئے سخت ابتلاء کے دن تھے.دن اور رات غم اور رنج میں گزرتے تھے کہ کہیں میں غلطی کر کے اپنے مولیٰ کو ناراض نہ کرلوں.مگر باوجو د سخت کرب اور تڑپ کے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ نہ معلوم ہوا.تختی کہ وہ رات آگئی جس کی صبح کو ۳۱ ر جنوری ۱۹۰۹ کا معرکۃ الآرا دن جلسہ تھا.لوگ چاروں طرف سے جمع ہونا شروع ہوئے مگر ہر ایک شخص کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ آنے والے دن کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ رہا ہے.بیرونجات سے آنے والے لوگوں سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو امر سمجھانے کی پوری طرح کوشش کی گئی ہے کہ اصل جانشین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی

Page 410

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۲ جلد اول انجمن ہی ہے اور خلیفہ صرف بیعت لینے کیلئے ہے اور تمام راستہ بھر خاص طور پر یہ بات ہر ایک شخص کے ذہن نشین کی گئی ہے کہ جماعت اس وقت سخت خطرہ میں ہے چند شریر اپنی ذاتی اغراض کو مد نظر رکھ کر یہ سوال اُٹھا رہے ہیں اور جماعت کے اموال پر تصرف کر کے من مانی کارروائیاں کرنی چاہتے ہیں.لاہور میں جماعت احمدیہ کا ایک خاص جلسہ خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنے مکان پر کیا اور لوگوں کو سمجھایا گیا کہ سلسلہ کی تباہی کا خطرہ ہے.اصل جانشین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انجمن ہی ہے اور اگر یہ بات نہ رہی تو جماعت خطرہ میں پڑ جاوے گی اور سلسلہ تباہ ہو جاوے گا اور سب لوگوں سے دستخط لئے گئے کہ حسب فرمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام جانشین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انجمن ہی ہے.صرف دو شخص یعنی حکیم محمد حسین صاحب قریشی سیکرٹری انجمن احمد یہ لا ہور اور بابو غلام محمد صاحب فورمین ریلوے دفتر لاہور نے دستخط کرنے سے انکار کیا اور جواب دیا کہ ہم تو ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں وہ ہم سے زیادہ عالم اور زیادہ خشیتہ اللہ رکھتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ادب ہم سے زیادہ اس کے دل میں ہے جو کچھ وہ کہے گا ہم اس کے مطابق عمل کریں گے.غرض محضر نامہ تیار ہوئے ، لوگوں کو سمجھایا گیا اور خوب تیاری کر کے خواجہ صاحب قادیان پہنچے.چونکہ دین کا معاملہ تھا اور لوگوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ اس وقت اگر تم لوگوں کا قدم پھسلا تو بس ہمیشہ کیلئے جماعت تباہ ہوئی لوگوں میں سخت جوش تھا اور بہت سے لوگ اس کام کیلئے اپنی جان دینے کیلئے بھی تیار تھے اور بعض لوگ صاف کہتے تھے کہ اگر مولوی صاحب ( حضرت خلیفہ اوّل) نے خلاف فیصلہ کیا تو ان کو اسی وقت خلافت سے علیحدہ کر دیا جاوے گا.بعض خاموشی سے خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے منتظر تھے.بعض بالمقابل خلافت کی تائید میں جوش دکھا رہے تھے اور خلافت کے قیام کیلئے ہر ایک قربانی پر آمادہ تھے.عام طور پر کہا جا سکتا ہے کہ باہر سے آنے والے خواجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کی تلقین کے باعث قریباً سب کے سب اور قادیان کے رہنے والوں میں سے ایک حصہ اس امر کی طرف جھک رہا تھا کہ انجمن ہی جانشین ہے.گو قادیان کے لوگوں کی کثرت خلافت سے وابستگی ظاہر کرتی تھی.

Page 411

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۳ جلد اول نہایت خطرناک حالت ایسے وہ برادران جو بعد میں سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے ہوں اور جنہوں نے وہ درد اور تکلیف نہیں دیکھی جو اس سلسلہ کے قیام کے لئے مسیح موعود علیہ السلام نے برداشت کی اور ان حالات کا مطالعہ نہیں کیا جن میں سے گزر کر سلسلہ اس حد تک پہنچا ہے آپ لوگ اس کیفیت کا اندازہ نہیں کر سکتے جو اُس وقت احمدیوں پر طاری تھی.سوائے چند خودغرض لوگوں کے باقی سب کے سب خواہ کسی خیال یا عقیدہ کے ہوں مردہ کی طرح ہو رہے تھے اور ہم میں سے ہر ایک شخص اس امر کو بہت زیادہ پسند کرتا تھا کہ وہ اور اس کے اہل وعیال کولہو میں پیس دیئے جاویں بہ نسبت اس کے کہ وہ اختلاف کا باعث بنیں.اُس دن دنیا با وجود فراخی کے ہمارے لئے تنگ تھی اور زندگی با وجود آسائش کے ہمارے لئے موت سے بدتر ہو رہی تھی.میں اپنا حال بیان کرتا ہوں کہ جوں جوں رات گزرتی جاتی تھی اور صبح قریب ہوتی جاتی تھی کرب بڑھتا جا تا تھا اور میں خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا کر دعا کرتا تھا کہ خدایا ! میں نے گو ایک رائے کو دوسری پر ترجیح دی ہے مگر الہی ! میں بے ایمان بنا نہیں چاہتا تو اپنا فضل کرا اور مجھے حق کی طرف ہدایت دے.مجھے اپنی رائے کی بیچ نہیں مجھے حق کی جستجو ہے.راستی کی تلاش ہے.دُعا کے دوران میں میں نے یہ بھی فیصلہ کر لیا کہ اگر خدا تعالیٰ نے مجھے کچھ نہ بتایا تو میں جلسہ میں شامل ہی نہ ہوں گا تا کہ فتنہ کا باعث نہ بنوں.میرا کرب اس حد تک پہنچا تو خدا کی رحمت کے دروازے کھلے اور اُس نے اپنی رحمت کے دامن کے نیچے مجھے چھپا لیا اور میری زبان پر یہ لفظ جاری ہوئے کہ قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوَلَا دُعَاؤُكُمْ یعنی ان لوگوں سے کہہ دے کہ تمہارا رب تمہاری پر واہ کیا کرتا ہے اگر تم اس کے حضور گر نہ جاؤ.جب یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے تو میرا سینہ کھل گیا اور میں نے جان لیا کہ میرا خیال درست ہے.کیونکہ اس آیت کریمہ میں قل یعنی کہہ کا لفظ بتاتا ہے کہ میں یہ بات دوسروں کو کہہ دوں.پس معلوم ہوا کہ جو لوگ میرے خیال کے خلاف خیال رکھتے ہیں ان سے خدا تعالیٰ ناراض ہے نہ مجھ سے.تب میں اُٹھا اور میں نے خدا تعالی کا شکر کیا اور میرا دل مطمئن ہو گیا اور میں صبح کا انتظار کرنے لگا.

Page 412

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۴ جلد اول یوں تو احمدی عموماً تہجد پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پڑھتے ہیں مگر یہ رات عجیب رات تھی کہ بہتوں نے قریباً جاگتے ہوئے یہ رات کائی اور قریباً سب کے سب تہجد کے وقت مسجد مبارک میں جمع ہو گئے تا کہ دعا کریں اور اللہ تعالیٰ سے مدد چاہیں اور اُس دن اس قدر دردمندانہ دعائیں کی گئیں کہ میں یقین کرتا ہوں کہ عرش عظیم ان سے ہل گیا ہو گا.سوائے گریہ و بکا کے اور کچھ سنائی نہ دیتا تھا اور اپنے رب کے سوا کسی کی نظر اور کسی طرف نہ جاتی تھی اور خدا کے سوا کوئی ناخدا نظر نہ آتا تھا.آخر صبح ہوئی اور نماز کی تیاری شروع ہوئی.چونکہ حضرت خلیفہ اول کو آنے میں کچھ دیر ہو گئی خواجہ صاحب کے رفقاء نے اس موقع کو غنیمت جان کر لوگوں کو پھر سبق پڑھانا شروع کیا.میں نماز کے انتظار میں گھر ٹہل رہا تھا.ہمارا گھر بالکل مسجد کے متصل ہے.اُس وقت میرے کان میں شیخ رحمت اللہ صاحب کی آواز آئی کہ غضب خدا کا ایک بچہ کو خلیفہ بنا کر چند شریر لوگ جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں.میں چونکہ بالکل خالی الذہن تھا مجھے بالکل خیال نہ گزرا کہ اس بچہ سے مراد میں ہوں.لیکن میں حیرت سے ان کے فقرہ پر سوچتا رہا.گو کچھ بھی میری سمجھ میں نہ آیا.واقعات نے ثابت کر دیا کہ ان کا خوف بے جا تھا.کسی نے تو کسی کو خلیفہ کیا بنانا ہے خدا بیشک ارادہ کر چکا تھا کہ اسی بچہ کو جسے انہوں نے حقیر خیال کیا خلیفہ بنادے اور اس کے ذریعہ سے دنیا کے چاروں گوشوں میں مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کو پہنچا دے اور ثابت کر دے کہ وہ قادر خدا ہے جو کسی کی مدد کا محتاج نہیں اور ان لوگوں کی فطرتیں پہلے ہی سے اس امر کو محسوس کر رہی تھیں جو خدا تعالیٰ کے حضور میں مقدر تھا.غرض حضرت خلیفہ المسیح کی آمد تک مسجد میں خوب خوب باتیں ہوتی رہیں اور لوگوں کو اونچ نیچ سمجھائی گئی.آخر حضرت خلیفہ المسیح تشریف لائے اور نماز شروع ہوئی.نماز میں آپ نے سورۃ بروج کی تلاوت فرمائی اور جس وقت اس آیت پر پہنچے کہ إنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذابُ الْحَرِيقِ کے یعنی وہ لوگ جو مومن مرد اور مومن عورتوں کو فتنہ میں ڈالتے ہیں اور پھر اس کام سے تو بہ نہیں کرتے ان کیلئے اس فعل کے نتیجہ میں عذاب جہنم ہوگا اور جلا دینے والے عذاب میں وہ مبتلاء ہوں گے.اُس وقت تمام جماعت کا عجیب حال ہو گیا.یوں معلوم ہوتا

Page 413

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۵ جلد اول تھا گویا یہ آیت اُسی وقت نازل ہوئی ہے اور ہر ایک شخص کا دل خشیتہ اللہ سے بھر گیا اور اُس وقت مسجد یوں معلوم ہوتی تھی جیسے ماتم کدہ ہے.باوجو دسخت ضبط کے بعض لوگوں کی چیچنیں اس زور سے نکل جاتی تھیں کہ شاید کسی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کی وفات پر بھی اس طرح کرب کا اظہار نہ کیا ہو گا اور رونے سے تو کوئی شخص بھی خالی نہیں تھا.خود حضرت خلیفہ امسیح کی آواز بھی شدت گریہ سے رُک گئی اور کچھ اس قسم کا جوش پیدا ہوا کہ آپ نے پھر ایک دفعہ اس آیت کو دُہرایا اور تمام جماعت نیم بسمل ہو گئی اور شاید ان لوگوں کے سوا جن کیلئے ازل سے شقاوت کا فیصلہ ہو گیا تھا سب کے دل دہل گئے اور ایمان دلوں میں گڑ گیا اور نفسانیت بالکل نکل گئی.وہ ایک آسمانی نشان تھا جو ہم نے دیکھا اور تائید غیبی تھی جو مشاہدہ کی.نماز ختم ہونے پر حضرت خلیفتہ اسے گھر کو تشریف لے گئے اور ان لوگوں نے پھر لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر دکھا کر سمجھانا چاہا کہ انجمن ہی آپ کے بعد جانشین ہے.لوگوں کے دل چونکہ خشیتہ اللہ سے معمور ہو رہے تھے اور وہ اس تحریر کی حقیقت سے ناواقف تھے وہ اس کی امر کو دیکھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فیصلہ کر دیا ہے کہ میرے بعد انجمن جانشین ہوگی اور بھی زیادہ جوش سے بھر گئے مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ خشیتہ اللہ کا نزول دلوں پر کیوں ہو رہا ہے اور غیب سے کیا ظاہر ہونے والا ہے.آخر جلسہ کا وقت قریب آیا اور لوگوں کو مسجد مبارک ( یعنی وہ مسجد جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے ساتھ ہے اور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پنج وقتہ نمازیں ادا فرماتے تھے ) کی چھت پر جمع ہونے کا حکم دیا گیا.اُس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ آپ مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل ) سے جا کر کہیں کہ اب فتنہ کا کوئی خطرہ نہیں رہا کیونکہ سب لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ انجمن ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشین ہے.میں نے تو ان کے اس کلام کی وقعت کو سمجھ کر خاموشی ہی مناسب سمجھی مگر وہ خود حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں چلے گئے.میں بھی وہاں پہنچ چکا تھا.جاتے ہی ڈاکٹر صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح سے عرض کی کہ مبارک ہو سب لوگوں کو سمجھا دیا گیا ہے کہ انجمن ہی جانشین ہے.اس بات کو سن کر آپ نے فرمایا کون سی انجمن ؟ جس انجمن کو تم جانشین قرار دیتے ہو وہ تو خود بموجب

Page 414

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۶ جلد اول قواعد کوئی حیثیت نہیں رکھتی.اس فقرہ کو سن کر شاید پہلی دفعہ خواجہ صاحب کی جماعت کو معلوم ہوا کہ معاملہ ویسا آسان نہیں جیسا ہم سمجھے تھے کیونکہ گو ہر ایک خطرہ کو سوچ کر پہلے سے ہی لوگوں کو اس امر کیلئے تیار کر لیا گیا تھا کہ اگر حضرت خلیفہ اول بھی ان کی رائے کو تسلیم نہ کریں تو ان کا مقابلہ کیا جائے.عموماً یہ لوگ یہی خیال کرتے تھے کہ حضرت خلیفۃ اسبح ان کے خیالات کی تائید کریں گے اور انہی کی رائے کے مطابق فیصلہ دیں گے.چنانچہ ان میں سے بعض جو حضرت خلیفتہ المسیح کی نیکی کے قائل تھے عام طور پر کہتے تھے کہ خدا کا شکر ہے کہ ایسے بے نفس آدمی کے وقت میں یہ سوال پیدا ہوا ہے ورنہ اگر ان کے بعد ہوتا تو نہ معلوم کیا فساد کھڑا ہو جاتا.نہایت اہم اور قابل یادگار مجمع جب لوگ جمع ہو گئے تو حضرت خلیفہ المسح مسجد کی طرف تشریف لے گئے قریباً دو اڑھائی سو آدمی کا مجمع تھا جس میں اکثر احمد یہ جماعتوں کے قائم مقام تھے.بیشک ایک نا واقف کی نظر میں وہ دو اڑھائی سو آدمی کا مجمع جو بلا فرش زمین پر بیٹھا تھا ایک معمولی بلکہ شاید حقیر نظارہ ہومگر ان لوگوں کے دل ایمان سے پُر تھے اور خدا کے وعدہ پر ان کو یقین تھا.وہ اس مجلس کو احمدیت کی ترقی کا فیصلہ کرنے والی مجلس خیال کرتے تھے اور اس وجہ سے دنیا کی ترقی اور اس کے امن کا فیصلہ اس کے فیصلہ پر منحصر خیال کرتے تھے.ظاہر بین نگاہیں ان دنوں پیرس میں بیٹھنے والی پیس کا نفرنس کی اہمیت اور شان سے حیرت میں ہیں مگر در حقیقت اپنی شان میں بہت بڑھی ہوئی وہ مجلس تھی کہ جس کے فیصلہ پر دنیا کے امن کی بناء پڑنی تھی.اُس دن یہ فیصلہ ہونا تھا کہ احمدیت کیا رنگ اختیار کرے گی.دنیا کی عام سوسائٹیوں کا رنگ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کا رنگ.اُس دن اہل دنیا کی زندگی یا موت کے سوال کا فیصلہ ہونا تھا.بے شک آج لوگ اس امر کو نہ سمجھیں لیکن ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرے گا کہ لوگوں کو معلوم ہو جاوے گا کہ یہ مخفی مذہبی لہر ہیبت ناک سیاسی لہروں سے زیادہ پاک اثر کرنے والی اور دنیا میں نیک اور پر امن تغیر پیدا کرنے والی ہے.غرض لوگ جمع ہوئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل بھی تشریف لائے.آپ کیلئے درمیان مسجد میں ایک جگہ تیار کی گئی تھی مگر

Page 415

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۷ جلد اول آپ نے وہاں کھڑے ہونے سے انکار کر دیا اور ایک طرف جانب شمال اس حصہ مسجد میں کھڑے ہو گئے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود تعمیر کروایا تھا ہے حضرت خلیفہ اول کی تقریر پھر آپ نے کھڑے ہو کر تقریر شروع کی اور بتایا کہ خلافت ایک شرعی مسئلہ ہے.خلافت کے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی اور بتایا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر ان لوگوں میں سے کوئی شخص مرتد ہو جاوے گا تو میں اس کی جگہ ایک جماعت تجھے دوں گا.پس مجھے تمہاری پر واہ نہیں.خدا کے فضل سے میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے گا.پھر خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کے جوابوں کا ذکر کر کے کہا کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام نماز پڑھا دینا یا جنازہ یا نکاح پڑھا دینا یا بیعت لے لینا ہے.یہ جواب دینے والے کی نادانی ہے اور اس نے گستاخی سے کام لیا ہے اس کو تو بہ کرنی چاہئے ورنہ نقصان اُٹھائیں گے.دورانِ تقریر میں آپ نے فرمایا کہ تم نے اپنے عمل سے مجھے بہت دکھ دیا ہے اور منصب خلافت کی ہتک کی ہے اسی لئے میں آج اس حصہ مسجد میں کھڑا نہیں ہوا جو تم لوگوں کا بنایا ہوا ہے بلکہ اس حصہ مسجد میں کھڑا ہوا ہوں جو مسیح موعود علیہ السلام کا بنایا ہوا ہے.جوں جوں آپ تقریر کرتے جاتے تھے سوائے چند سرغنوں کے باقیوں کے تقریر کا اثر سینے کھلتے جاتے تھے اور تھوڑی ہی دیر میں جو لوگ نورالدین کو اس کے منصب سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے لگے.اور یا خلافت کے مخالف تھے یا اس کے دامن سے وابستہ ہو گئے.آپ نے دوران لیکچر ان لوگوں پر بھی اظہارِ نا راضگی فرمایا جو خلافت کے قیام کی تائید میں جلسہ کرتے رہے تھے اور فرمایا کہ جب ہم نے لوگوں کو جمع کیا تھا تو ان کا کیا حق تھا کہ وہ الگ جلسہ کرتے.ان کو اس کام پر ہم نے کب مامور کیا تھا.آخر تقریر کے خاتمہ پر بعض اشخاص نے اپنے خیالات کے اظہار کیلئے کہا.خیالات کا اس بات کو یا درکھنا چاہیے کہ مسجد مبارک ابتداء بہت چھوٹی تھی.دعوئی سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف علیحدہ بیٹھ کر عبادت کرنے کی نیت سے اپنے گھر سے ملحق ایک گلی پر چھت ڈال کر اسے تعمیر کیا تھا.کوئی تمہیں آدمی اس میں نماز پڑھ سکتے تھے.جب دعویٰ کے بعد لوگ ہجرت کر کے یہاں

Page 416

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۸ جلد اول اظہار کسی نے کیا کرنا تھا تمام مجلس سوائے چند لوگوں کے حق کو قبول کر چکی تھی.مجھ سے اور نواب محمد علی خان سے جو میرے بہنوئی ہیں رائے دریافت کی.ہم نے بتایا کہ ہم تو پہلے ہی ان خیالات کے مؤید ہیں.خواجہ صاحب کو کھڑا کیا.انہوں نے بھی مصلحت وقت کے ماتحت گول مول الفاظ کہہ کر وقت کو گزارنا ہی مناسب سمجھا اور پھر فرمایا کہ آپ لوگ دوبارہ بیعت کریں اور خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ الگ ہو کر آپ مشورہ کر لیں اور اگر تیار ہوں تب بیعت کریں.اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم سے جو اس جلسہ کے بانی تھے جس میں خلافت کی تائید دستخط لئے گئے تھے کہا کہ ان سے بھی غلطی ہوئی ہے وہ بھی بیعت کریں.نمائشی بیعت غرض ان تینوں کی بیعت دوبارہ لی اور جلسہ برخواست ہوا.اُس وقت ہر ایک شخص مطمئن تھا اور محسوس کرتا تھا کہ خدا تعالیٰ نے جماعت کو بڑے ابتلاء سے بچایا لیکن مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب جوا بھی بیعت کر چکے تھے اپنے دل میں سخت ناراض تھے اور ان کی وہ بیعت جیسا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا دکھاوے کی بیعت تھی.انہوں نے ہرگز خلیفہ کو واجب الاطاعت تسلیم نہ کیا تھا اور جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر جو اُس وقت ان لوگوں سے خاص تعلق رکھتے تھے کا بیان ہے ) مسجد کی چھت سے نیچے اُترتے ہی مولوی محمد علی صاحب نے خواجہ صاحب کو کہا کہ آج ہماری سخت ہتک کی گئی ہے میں اس کو برداشت نہیں کر سکتا.ہمیں مجلس میں جوتیاں ماری گئی ہیں.یہ ہے صدق اُس شخص کا جو آج جماعت کی اصلاح کا مدعی ہے.ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر کی اگر اکیلی روایت ہوتی تو میں اس کو اس جگہ درج نہ کرتا کیونکہ وہ خواہ کتنے ہی معتبر راوی ہوں پھر بھی ایک ہی شاہد ہیں اور میں اس کتاب میں بقیہ حاشیہ از گذشتہ صفحہ: آنے لگے اور جماعت میں ترقی ہوئی تو جماعت کے چندہ سے اس مسجد کو بڑھایا گیا اور پرانے حصہ مسجد کا نقشہ حسب ذیل ہے.مغرب جنوب برا مده مشرق شمال

Page 417

خلافة على منهاج النبوة ۳۹۹ جلد اول صرف وہ واقعات درج کرنا چاہتا ہوں جو یقینی طور پر ثابت ہوں.مگر بعد کے واقعات نے چونکہ اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ ان کی بیعت محض خوف کی بیعت تھی اور مصلحت وقت کی بیعت تھی اس لئے ان کے بیان سے انکار کرنے کی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں اور علاوہ ازیں ابھی چند دن نہ گزرے تھے کہ میری موجودگی میں مولوی محمد علی صاحب کا ایک پیغام حضرت خلیفہ امسیح کے پاس آیا تھا کہ وہ قادیان سے جانے کا ارادہ کر چکے ہیں کیونکہ ان کی بہت ہتک ہوئی ہے جس سے اس روایت کی صحت ثابت ہوتی ہے.واقعات بیان کردہ کے شاہد ہی وہ واقعات ہیں جن کے دیکھنے والے سینکڑوں لوگ زندہ موجود ہیں اور وہ لوگ جو اُس وقت اس مجلس میں موجود تھے ان میں کچھ تو ایسے لوگ ہیں جو اس وقت ان کے ساتھ ہیں اور کچھ ایسے جو میری بیعت میں ہیں.مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر غلیظ قسموں سے دریافت کیا جاوے تو دونوں فریق کے آدمی ان واقعات کی صداقت کی شہادت دیں گے کیونکہ اتنی بڑی مجلس میں ہونے والا ایسا مہتم بالشان واقعہ چھپایا نہیں جاسکتا.خواجہ صاحب اور ان کے پیشتر اس کے کہ میں واقعات کے سلسلہ کو آگے چلاؤں میں ان لوگوں کی ایمانی حالت کا ایک ساتھیوں کی ایمانی حالت نقشہ پیش کرتا ہوں جس سے ہر ایک شخص سمجھ لے گا کہ یہ لوگ کہاں تک ایمانداری سے کام لے رہے ہیں.پچھلی دفعہ جب خواجہ کمال الدین صاحب ولایت سے آئے تو جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے انہوں نے اختلافات سلسلہ کے متعلق ایک لیکچر دیا تھا اس میں وہ اس واقعہ بیعت کو اس رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ گویا حضرت خلیفہ اول نے ان کی روحانی صفائی کو دیکھ کر خاص طور پر اُن سے بیعت لی تھی.مندرجہ بالا واقعات کو پڑھ کر ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص ان حالات ن حالات کے مطابق کی جانے والی بیعت کو بیعت ارشاد اور ایک انعام اور عزت افزائی اور علامت تقرب قرار دیتا ہے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں میں خاک ڈالنی چاہتا ہے کیا اس کی کسی بات کا بھی اعتبار ہو سکتا ہے.خواجہ صاحب کے اصل الفاظ اس بارہ میں یہ ہیں :.

Page 418

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۰ جلد اول " کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ( مراد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ہیں ) مجھ سے بیعت دوبارہ لی.یہ بالکل سچ ہے.بیعت کس امر کی ؟ بیعت ارشاد! کیا تم ایمان سے کہہ سکتے ہو کہ انہوں نے مجھ سے تجدید بیعت کرائی.وہ بیعت ارشاد تھی نہ بیعت تو بہ کی تجدید.اس کے بعد ایک اور بیعت رہ جاتی ہے وہ ہے بیعت دم.اب جاؤ صوفیائے کرام کے حالات پڑھو اور دیکھو کہ بیعت ارشاد وہ کس مرید سے لیتے ہیں.وہ سلسلہ میں داخل کرنے کے وقت مرید سے بیعت تو بہ لیتے ہیں اور جب اس میں اطاعت کی استعداد دیکھتے ہیں تو اس سے بیعت ارشاد لیتے ہیں.اور پھر جب اس پر اعتما دکھی ہوتا ہے تو بیعت دم.‘۳ اب میں پھر اس مضمون کی طرف آتا ہوں.حضرت خلیفہ المسیح ان لوگوں خفیہ مخالفت کی ان حرکات سے ناراض ہوئے اور سخت ناراض ہوئے.ان کو دوبارہ بیعت کرنی پڑی.لیکن جہاں دوسرے لوگوں کے دل صاف ہوئے ان کے دلوں میں کینہ کی آگ اور بھی بھڑک اُٹھی.صرف فرق یہ تھا کہ پہلے تو اس آگ کے شعلے کبھی او پر بھی آجاتے تھے اب ان کو خاص طور پر سینہ میں ہی چھپایا جانے لگا تا کہ وقت پر ظاہر ہوں اور سلسلہ احمدیہ کی عمارت کو جلا کر راکھ کر دیں.مولوی محمد علی صاحب اس واقعہ کے بعد گلی طور پر ان لوگوں کے ہاتھ میں پڑ گئے جو عقیدہ سلسلہ سے علیحدہ تھے اور ان فتنوں نے ان کو ان لوگوں کے ایسا قریب کر دیا کہ آہستہ آہستہ دو تین سال کے عرصہ میں نامعلوم طور پر ان کے ساتھ متحد فی العقیدۃ ہو گئے.خواجہ صاحب موقع شناس آدمی ہیں.انہوں نے تو یہ رنگ اختیار کیا کہ خلافت کے متعلق عام مجالس میں تذکرہ ہی چھوڑ دیا اور چاہا کہ اب یہ معاملہ دبا ہی رہے تا کہ جماعت احمدیہ کے افراد آئندہ ریشہ دوانیوں کا اثر قبول کرنے کے قابل رہیں.خلیفہ کی بجائے پریذیڈنٹ انہوں نے سمجھ لیا کہ اگر آج اس مسئلہ پر پوری ، روشنی پڑی تو آئندہ پھر اس میں تاویلات کی کا لفظ استعمال کرنا گنجائش نہ رہے گی.چنانچہ اس بات کو مدنظر رکھ کر ظاہر میں انہوں نے خلافت کی اطاعت شروع کر دی اور یہ تدبیر اختیار کی گئی کہ

Page 419

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۱ جلد اول صدرا مجمن احمد یہ کے معاملات میں جہاں کہیں بھی حضرت خلیفتہ امیج کے کسی حکم کی تعمیل کرنی پڑتی وہاں کبھی حضرت خلیفتہ امیج نہ لکھا جاتا بلکہ یہ لکھا جاتا کہ پریذیڈنٹ صاحب نے اس معاملہ میں یوں سفارش کی ہے اس لئے ایسا کیا جاتا ہے.جس سے ان کی غرض یہ تھی کہ صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ سے یہ ثابت نہ ہو کہ خلیفہ بھی انجمن کا حاکم رہا ہے.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح کی وفات کے بعد انہوں نے اس طرح جماعت کو دھوکا دینا بھی چاہا مگر واقعات کچھ ایسے جمع ہو گئے تھے کہ مجبوراً ان کو اس پہلو کو ترک کرنا پڑا اور اب یہ لوگ خلافت کی بحث میں پڑتے ہی نہیں تا کہ لوگوں کو ان پُرانے واقعات کی یاد تازہ نہ ہو جاوے اور ان کی ناجائز تدابیر آنکھوں کے سامنے آکر ان سے بدظن نہ کر دیں.غرض انہوں نے یہ کام شروع کیا کہ حضرت خلیفہ اسی کی باتیں تو مانتے مگر خلیفہ کا لفظ نہ آنے دیتے بلکہ پریذیڈنٹ کا لفظ استعمال کرتے.مگر خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ ان کی پردہ دری کرے.ایک مکان کی فروختگی کا معاملہ حکیم افضل الدین صاحب ایک بہت خلص احمدی تھے اور ابتدائی لوگوں میں سے تھے.انہوں نے اپنی جائیداد کی وصیت بحق اشاعت اسلام کی تھی.اس جائیداد میں ایک مکان بھی تھا.انجمن نے اس مکان کو فروخت کرنا چاہا.یہ مکان حکیم صاحب نے جس شخص سے خریدا تھا اُس نے حضرت خلیفۃ المسیح سے درخواست کی کہ ہمارے پاس اسے کسی قدر رعایت سے فروخت کر دیا جائے کیونکہ ہم ہی سے خریدا گیا تھا اور بعض مشکلات کی وجہ سے بہت سستا ہم نے دے دیا تھا.پس اب کچھ رعایت سے یہ مکان ہم ہی کو دے دیا جاوے.حضرت خلیفہ المسیح نے اس بات کو مان لیا اور انجمن کو لکھا کہ اس مکان کو رعایت سے اس کے پاس فروخت کر دو.ان لوگوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا.خیال کیا کہ جماعت کو جب معلوم ہوگا کہ جماعت کی ایک مملوکہ ھے کو حضرت خلیفہ اسیح سستے داموں دلواتے ہیں تو سب لوگ ہم سے مل جاویں گے اور اس امر سے انکار کر دیا.حضرت خلیفہ امسیح سے بہت کچھ گفتگو اور بحث کی اور کہا کہ یہ لوگ بھی نیلام میں خرید لیں انجمن کیوں نقصان اُٹھائے.حضرت خلیفہ المسیح نے بہتیرا ان کو سمجھایا کہ ان لوگوں نے مشکلات کے وقت بہت ہی سستے داموں پر یہ مکان

Page 420

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۲ جلد اول دے دیا تھا پس ان کا حق ہے کہ ان سے کچھ رعایت کی جاوے مگر انہوں نے تسلیم نہ کیا.آخر آپ نے ناراض ہو کر لکھ دیا کہ میری طرف سے اجازت ہے آپ جس طرح چاہیں کریں میں دخل نہیں دیتا.جب انجمن کا اجلاس ہوا میں بھی موجود تھا.ڈاکٹر محمد حسین صاحب حال سیکرٹری انجمن اشاعت اسلام لاہور نے میرے سامنے اس معاملہ کو اس طرح پیش کیا کہ ہم لوگ خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہیں اور ٹرسٹی ہیں اس معاملہ میں کیا کرنا چاہئے.میں نے کہا جب حضرت خلیفہ المسیح فرماتے ہیں کہ اس شخص سے کچھ رعایت کی جائے تو ہمیں چاہئے کہ کچھ رعایت کریں.ڈاکٹر صاحب نے اس پر کہا کہ حضرت نے اجازت دے دی ہے.جب خط سنایا گیا تو مجھے اس سے صاف ناراضگی کے آثار معلوم ہوئے اور میں نے کہا یہ خط تو ناراضگی پر دلالت کرتا ہے نہ کہ اجازت پر اس لئے میری رائے تو وہی ہے.اس پر ڈاکٹر صاحب موصوف نے ایک لمبی تقریر کی جس میں خشیت اللہ اور تقویٰ اللہ کی مجھے تاکید کرتے رہے.میں نے ان کو بار بار یہی جواب دیا کہ آپ جو چاہیں کریں میرے نزدیک یہی رائے درست ہے چونکہ ان لوگوں کی کثرت رائے تھی بلکہ اُسوقت میں اکیلا تھا انہوں نے اپنے منشاء کے مطابق ریزولیوشن پاس کر دیا حضرت خلیفتہ المسیح کو اطلاع ہوئی.آپ نے ان کو بلایا اور دریافت کیا.انہوں نے جواب دیا کہ سب کے مشورے سے یہ کام ہوا ہے اور میرا نام لیا کہ وہ بھی وہاں موجود تھے.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل نے مجھے طلب فرمایا.میں گیا تو یہ سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے میرے پہنچتے ہی آپ نے فرمایا کہ کیوں میاں ! ہمارے صریح حکموں کی اس طرح خلاف ورزی کی جاتی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو کوئی خلاف ورزی نہیں کی.آپ نے فرمایا کہ فلاں معاملہ میں میں نے یوں حکم دیا تھا پھر اس کے خلاف آپ نے کیوں کیا ؟ میں نے بتایا کہ یہ لوگ سامنے بیٹھے ہیں میں نے ان کو صاف طور پر کہ دیا تھا کہ اس امر میں حضرت خلیفتہ المسیح کی مرضی نہیں اس لئے اس طرح نہیں کرنا چاہئے اور آپ کی تحریر سے اجازت نہیں بلکہ ناراضگی ظاہر ہوتی ہے.آپ نے اس پر ان لوگوں سے کہا کہ دیکھو! تم اس کو بچہ کہا کرتے ہو یہ بچہ میرے خط کو سمجھ گیا اور تم لوگ اس کو نہ سمجھ سکے اور بہت کچھ تنبیہ کی کہ اطاعت میں ہی برکت ہے اپنے رویہ کو بدلو ور نہ خدا تعالیٰ کے فضلوں

Page 421

خلافة على منهاج النبوة سے محروم ہو جاؤ گے.۴۰۳ جلد اول دوبارہ معافی اُس وقت یہ لوگ افسوس کا اظہار کرتے رہے مگر اُسی دن سے برابر کوشش شروع ہو گئی کہ لوگوں کو حضرت خلیفہ امسیح پر بدظن کیا جاوے.کبھی کوئی الزام دیا جاتا کبھی کوئی.اور علی الاعلان لاہور میں یہ ذکر اذ کا ررہتے کہ اب جس طرح ہو ان کو خلافت سے علیحدہ کر دیا جاوے.ان واقعات کی اطلاع حضرت خلیفتہ امیج کو ہوئی.عید قریب تھی آپ نے عید پر ان لوگوں کو لاہور سے بُلوایا ( خواجہ صاحب اس واقعہ میں شامل نہ تھے وہ اُس وقت کشمیر میں تھے اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں وہ اب خفیہ تدبیروں کو پسند کرتے تھے ) اور ارادہ کیا کہ عید کے خطبہ میں ان لوگوں کو جماعت سے نکالنے کا اعلان کر دیا جاوے.چونکہ ان کو معلوم ہو گیا تھا کہ ہماری کوششیں بے سود ہیں اور لوگ ہماری باتوں کو نہیں سنتے آخر دوبارہ معافی مانگی اور ان میں سے بعض سے دوبارہ بیعت لی گئی اور اس طرح یہ نیا فتنہ ٹلا.مگر اس واقعہ سے بھی ان کی اصلاح نہ ہوئی یہ لوگ اپنی کوششوں میں زیادہ ہوشیار ہو گئے.اب خواجہ صاحب نے پبلک لیکچروں کا خواجہ صاحب کا شہرت حاصل کرنا سلسلہ شروع کیا کہ اس ذریعہ سے رسوخ پیدا کیا جاوے.خود لیکچر دیتے ، خود ہی اپنے ہاتھ سے اپنے لیکچر کی تعریف لکھ کر سلسلہ کے اخبارات کو بھیج دیتے اور نیچے یکے از حاضرین لکھ دیتے اور اس طرح شہرت پیدا کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو خزانہ ہمیں دیا ہے وہ ایسا نہیں کہ لوگ اس کا ایک نقطہ بھی سنیں اور بے تاب نہ ہو جاویں.کچھ لسانی بھی خواجہ صاحب میں تھی.ادھر اپنے ہی ہاتھ سے لکھ کر یا بعض دفعہ کسی دوست سے لکھوا کر اپنی تعریفوں کے شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا.نتیجہ یہ ہوا کہ خواجہ صاحب کی مانگ شروع ہوئی اور لیکچروں کا سلسلہ وسیع ہوا.جہاں جہاں جاتے جماعت کو اشارتاً کنایتاً موقع ہو تو وضاحاً خلافت اور انجمن کے معاملہ کے متعلق بھی تلقین کرتے اور بوجہ اس شہرت کے جو بحیثیت لیکچرار کے ان کو حاصل ہو گئی تھی کچھ اثر بھی ہو جاتا.

Page 422

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۴ جلد اول 0 خواجہ صاحب کا غیر احمدیوں کے قریب ہونا یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جب انسان ایک غلط قدم اُٹھا تا ہے تو دوسرا خود بخود اُٹھتا ہے.لیکچروں کے سلسلہ کی وسعت کے ساتھ خواجہ صاحب کے تعلقات غیر احمدیوں سے بھی زیادہ ہونے لگے.وہ پہلے ہی سے سلسلہ کی حقیقت سے ناواقف تھے اب جو یہ مشکلات پیش آنے لگیں کہ بعض دفعہ جلسہ کے معاً بعد یا پہلے نماز کا وقت آجاتا اور غیر احمدی الگ نماز پڑھتے اور احمدی الگ اور لوگ پوچھتے کہ یہ تفریق کیوں ہے؟ تو خواجہ صاحب کو ایک طرف اپنی ہر دلعزیزی کے جانے کا خوف ہوتا دوسری طرف احمدیوں کی مخالفت کا ڈر.اس کشمکش میں وہ کئی طریق اختیار کرتے.کبھی کہتے کہ یہ نماز کی مخالفت تو عام احمدیوں کیلئے ہے کہ دوسروں سے مل کر متاثر نہ ہوں میرے جیسے پختہ ایمان آدمی کیلئے نہیں میں تو آپ لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے کیلئے تیار ہوں.کہیں جواب دیتے کہ ہم تو ایک امام کے تابع ہیں آپ لوگ ان سے دریافت کریں.کہیں کہہ دیتے اگر آپ لوگ کفر کا فتویٰ واپس لے لیں تو ہم نماز پیچھے پڑھنے کے لئے تیار ہیں.غرض اسی قسم کے کئی عذرات کرتے.در حقیقت عبد الحکیم کے ارتداد کے وقت سے ہی ان کے خیالات خراب ہو چکے تھے مگر اب ان کے نشو و نما پانے کا وقت آ گیا تھا.خواجہ صاحب شہرت و عزت کے طالب تھے اور یہ روکیں ان کی شہرت وعزت کے راستہ میں حائل تھیں اور جو کچھ بھی ہو ان روکوں کے دور کرنے کا خواجہ صاحب نے تہیہ کر لیا تھا.سب سے پہلے یہ تدبیر اختیار کی گئی کہ پیسہ اخبار اور وطن اخبار میں مرزا یعقوب بیگ سے ایک مضمون دلوایا گیا کہ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت ایک عارضی حکم ہے اور اس طرح اس امر کی بنیا درکھنے کی کوشش کی گئی کہ کچھ مدت کے بعد ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کر دی جاوے.اس تحریر پر جماعت کے بعض لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اب بات حد سے آگے نکل رہی ہے ابھی وہ اسی فکر میں تھے کہ احمدیوں کی ان حرکات سے دلیر ہو کر غیر احمد یوں نے بھی حملے کرنے شروع کر دئیے اور احمد یوں کو تنگ ظرف اور وسعت حوصلہ سے کام نہ لینے والا قرار دینے لگے.

Page 423

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۵ جلد اول ان ہی ایام میں حضرت خلیفہ المسیح الاوّل سے سوال کیا گیا کہ کیا احمدیوں اور غیر احمد یوں میں اصولی فرق ہے یا فروعی؟ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اصولی فرق ہے.اس پر تو اندھیر پڑ گیا نہایت سختی سے غیر احمدی اخبارات نے حضرت خلیفہ اصیح پر حملے شروع کر دیئے کہ ایک معمولی سی بات پر انہوں نے مسلمانوں میں اختلاف ڈلوا دیا ہے.تبلیغ احمدیت کا سوال اس بحث کے ساتھ ساتھ جو احمد یوں اور غیر احمد یوں میں تھی ایک سوال خود جماعت میں بھی چھڑا ہوا تھا اور وہ سوال تبلیغ احمدیت کا تھا.خواجہ صاحب نے جب سے لیکچر دینے شروع کئے سوائے پہلے لیکچر کے آپ نے یہ بات خاص طور پر مد نظر رکھی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر آوے.حالانکہ اس وقت سب امراض کا علاج اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی کو قرار دیا ہے.بلکہ وہ کوشش کرتے تھے کہ اگر کسی موقع پر سلسلہ مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر ضروری ہو جاوے تو وہ اسے بھی ٹلا جاویں.وہ یہ بات سمجھ چکے تھے کہ غیر احمد یوں میں اس قسم کے لیکچروں کے بغیر قبولیت نہیں ہو سکتی.چونکہ غیر احمد یوں کو اگر عداوت ہے تو صرف مَأْمُور مِنَ الله سے وہ بھی ایسے لیکچروں میں خوب آتے اور بہت شوق سے آتے اور ہزاروں کا مجمع ہو جاتا.جیسا کی میں پہلے بیان کر آیا ہوں خواجہ صاحب ان لیکچروں کو مقبول بنانے کیلئے خاص تدابیر بھی اختیار کرتے.نتیجہ یہ ہوا کہ خواجہ صاحب کے لیکچر خوب مقبول ہونے لگے اور غیر احمدیوں نے بھی تعریفیں شروع کیں اور خواجہ صاحب کی چاروں طرف سے مانگ ہونے لگی.احمدیوں نے جو یہ شوق لوگوں کا دیکھا تو اصل بات کو تو سمجھے نہیں خواجہ صاحب کی اس کامیابی کو سلسلہ کی کامیابی سمجھا اور خاص طور پر جلسہ کر کے مختلف جگہ کی جماعتوں نے بطور خود یا خواجہ صاحب کی تحریک پر خاص جلسے کرنے شروع کئے اور خیال کرنے لگے کہ اس طرح غیر احمدیوں کو سلسلہ سے اُنس ہوتے ہوتے لوگ داخل سلسلہ ہونے لگیں گے.یہ وباء کچھ ایسی پھیلی کہ ہمارےسلسلہ کے دوسرے لیکچراروں نے بھی یہی طریق اختیار کرنا شروع کر دیا اور قریب ہو گیا کہ وہ قرنا جو خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے پھونکی تھی اُس کی آواز ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے.یہ وقت احمدیت

Page 424

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۶ جلد اول کیلئے نہایت خطرناک تھا.بعض احمدی لیکچرار مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کھلے طور پر کرنے سے ہچکچانے لگے اور جب کوئی سوال بھی کرتا تو ایسے رنگ میں جواب دیا جاتا کہ جس.مضمون کی پوری طرح تشریح نہ ہوتی تھی.یہ بات مداہنت کے طور پر نہ تھی نہ منافقت کے باعث بلکہ یہ لوگ خواجہ صاحب کی اتباع میں یہ خیال کرتے تھے کہ اس طرح سلسلہ کی اشاعت میں زیادہ آسانیاں پیدا ہوں گی.جو واعظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرتے بھی تھے تو وہ بھی ایسے پیرا یہ میں کہ جو مضامین غیر احمدیوں کو اشتعال دلانے والے ہیں ان کا ذکر بیچ میں نہ آوے مگر سب کی سب جماعت اس خیال کی نہ تھی.ایک حصہ ایسا بھی تھا جو خواجہ صاحب کے طریق عمل کو خوب سمجھتا تھا اور اس کی طرف سے خواجہ صاحب پر سوال ہونا شروع ہوا کہ وہ کیوں اپنے لیکچروں میں کبھی بھی سلسلہ کا ذکر نہیں کرتے.اس کا جوب خواجہ صاحب ہمیشہ عبدالحکیم مرتد کے ہم نوا ہو کر یہی دیا کرتے تھے کہ پہلے بڑے بڑے مسائل طے ہو جاویں پھر یہ مسائل آپ حل ہو جاویں گے.جب یہ لوگ ہمیں خدمت اسلام کرتے دیکھیں گے کیا ان کے دلوں میں یہ خیال پیدا نہ ہوگا کہ یہی لوگ حق پر ہیں؟ میں تو سڑک صاف کر رہا ہوں.جنگل کے درخت کاٹ رہا ہوں ٹیلوں کو برابر کر رہا ہوں.جب سڑک تیار ہو جاوے گی.جنگل کٹ جاوے گا.زمین صاف ہو جاوے گی پھر وقت آوے گا کہ ریل چلائی جاوے کھیتی کی جاوے.باغ لگایا جاوے.مگر جب سوال کیا جاتا ہے کہ اگر پہلے جنگل کے کاٹنے کی ضرورت تھی اور سڑکوں کی تیاری کا وقت تھا تو خدا تعالیٰ نے کیوں اس وقت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج کر دنیا کو فتنہ میں ڈال دیا ؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ہر ایک لیکچر میں صرف یہی ذکر کریں لیکن بحصہ رسدی اس ضروری صداقت کا بھی تو اظہار ہونا چاہئے.اس کا جواب نہ خواجہ صاحب دے سکتے تھے نہ دیتے تھے.وہ اس پر یہی کہہ دیا کرتے کہ میں کسی کو کب منع کرتا ہوں میں راستہ صاف کرتا ہوں کوئی اور شخص ان امور پر لیکچر دیتا پھرے.۲۷ مارچ ۱۹۱۰ء کا لیکچر چنانچہ ان واقعات کو دیکھ کر مجھے ۲۷ مارچ ۱۹۱۰ء کوایک لیکچر دینا پڑا.جس میں میں نے اس طریق کی غلطی سے جماعت کو آگاہ کیا.جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے ایک حصہ میں

Page 425

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۷ جلد اول ہوشیاری پیدا ہو گئی اور وہ اپنی غلطی کو سمجھ گیا مگر پھر بھی میرا وہ لیکچر اس رو کو نہ دبا سکا جوز ور سے بد رہی تھی اور مسئلہ کفر و اسلام غیر احمدیان کے ساتھ مل کر وہ برابر ترقی کرتی چلی گئی.غیر احمدیوں کی تکفیر کا مضمون جب حالات یہاں تک پہنچ گئے اور ایک طرف اپنی جماعت کا ایک حصہ غلط طریق پر چل پڑا اور دوسری طرف غیر احمدیوں نے بعض احمدیوں کے رویہ سے شہ پکڑ کر ہم پر حملہ شروع کر دیا تو میں نے غیر احمدیوں کی تکفیر پر مبسوط مضمون لکھا جو حضرت خلیفتہ المسیح کی اصلاح کے بعد تفخیذ الا ذہان کے اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۲۳ تا صفحہ ۱۵۸ کے پرچہ میں شائع کیا گیا.یہ مضمون اُس وقت کے حالات کے ماتحت جماعت کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہلا دینے والا ثابت ہوا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے سوائے ایک قلیل گروہ کے باقی سب جماعت نے اس بات کو دل سے قبول کر لیا کہ واقعہ میں اگر وہ اس سحر کے اثر کے نیچے رہتے جو اُن پر کیا گیا تھا تو وہ ضرور کسی وقت صداقت کو بھول جاتے اور بہتوں نے اس پر شکر واطمینان کا اظہار کیا اور جماعت میں ایک نئی روح اور تازہ جوش پیدا ہو گیا.اور ہر ایک احمدی سوائے ایک قلیل تعداد کے اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے آمادہ ہو گیا.خواجہ صاحب کا مضمون چونکہ یہ سب کوشش خواجہ صاحب اور ان کے رفقاء کی.تحریک پر ہو رہی تھی جب میرا یہ مضمون شائع ہوا تو خواجہ صاحب کو فکر ہوئی اور انہوں نے ایک مضمون لکھا جس میں میرے مضمون کے معنی بگا ڑ کر اس طرح کئے گئے جو بالکل اصل مضمون کے الٹ تھے اور جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے خود میرے سامنے بیان فرمایا کہ آپ سے یہ کہہ کر دستخط کروائے گئے کہ خواجہ صاحب کا وہی عقیدہ ہے جو میرا ہے.صرف خواجہ صاحب نے ایسے الفاظ میں میرے مضمون کی تشریح کی ہے جو لوگوں کیلئے اشتعال دلانے کا باعث نہ ہو.مولوی محمد علی صاحب کے جہاں تک میرا خیال ہے یہی وہ وقت ہے جب کہ مولوی محمد علی صاحب کے خیالات خیالات کی قلب ماہیت کا وقت کی قلب ماہیت ہوئی.کیونکہ ان کے پہلے

Page 426

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۸ جلد اول مضامین سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی سمجھتے تھے.اُس وقت حالات ہی ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ اگر کفر و اسلام غیر احمدیان کی بحث میں خواجہ صاحب نا کامیاب ہوتے تو مولوی صاحب کی امیدوں کو سخت صدمہ پہنچتا تھا.کیونکہ بوجہ اُس قبولیت کے جو لیکچروں کی وجہ سے خواجہ صاحب کو حاصل ہو چکی تھی مولوی محمد علی صاحب اب صف اوّل سے صفِ ثانی کی طرف منتقل ہو چکے تھے اور صف اوّل پر خواجہ صاحب کھڑے تھے.جماعت پر ان کا خاص اثر تھا اور لوگ ان کی باتیں سنتے اور قبول کرنے کیلئے تیار تھے اور مولوی صاحب اور ان کے رفقاء اسی رسوخ سے کام لیکر اپنے ارادوں کے پورا کرنے کی امید میں تھے.پس اسی مجبوری نے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کے خیالات پر اثر کیا اور آپ اُنہی دنوں میں کھلے طور پر خواجہ صاحب کے ہم خیال ہو گئے اور اب گویا یہ جماعت عقید تا اور سیاستاً ایک ہو گئی ہے ورنہ اس سے پہلے خود مولوی محمد علی صاحب خواجہ صاحب کی طر ز تبلیغ کے مخالف تھے اور مارچ ۱۹۱۰ ء یا دسمبر ۱۹۱۰ء کی کانفرنس احمدیہ کے موقع پر انہوں نے ایک بحث کے دوران جو احمد یہ جماعت کے جلسوں کی ضرورت یا عدم ضرورت پر تھی بڑی سختی سے خواجہ صاحب پر حملہ کیا تھا.پس یہی معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۱۰ ء یا گیارہ عیسوی میں مذکورہ حالات کے اثر کے نیچے مولوی محمد علی صاحب کے خیالات میں تغییر پیدا ہوا ہے.مولوی محمد علی صاحب کو جبکہ خواجہ صاحب کی خاص کوششیں سلسلہ احمدیہ کے اصول کو بدلنے کے متعلق جاری تھیں اور وہ خاص وقعت دینے کی کوشش اپنے اغراض کو پورا کرنے کیلئے ہر طرح سعی کر رہے تھے اور جماعت کو اس کے مرکز سے ہٹا دینے اور غیر احمدیوں میں ملا دینے سے بھی وہ نہ ڈرتے تھے ، جماعت کے سیاسی انتظام کے بدلنے کی فکر بھی ان لوگوں کے ذہن سے نکل نہیں گئی تھی.اس امر کے لئے دو طرح کوشش کی جاتی تھی ایک تو اس طرح کہ حضرت خلیفہ المسیح کے تمام احکام کو ہدایات پریذیڈنٹ کے رنگ میں ظاہر کیا جاتا تھا جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں.اور دوسرے اس طرح کہ مولوی محمد علی صاحب کو خلیفہ کی حیثیت دی جائے تا کہ

Page 427

خلافة على منهاج النبوة ۴۰۹ جلد اول جماعت پر ان کا خاص اثر ہو جاوے اور دوسرے لوگوں کی نظریں بھی اُن کی طرف اُٹھنے لگیں.چنانچہ انجمن کے اجلاسات میں صاف طور پر کہا جاتا تھا کہ جو کچھ مولوی صاحب حکم دیں گے وہی ہم کریں گے اور ایک دفعہ شیخ رحمت اللہ صاحب نے صاف طور پر یہ الفاظ کہے کہ ہمارے تو یہ امیر ہیں.بیان کیا جاتا ہے کہ ۱۹۱۱ء میں مذہبی کا نفرنس کے موقع پر جب مولوی محمد علی صاحب خواجہ صاحب اپنے مضامین سنانے کے لئے گئے تو لوگوں کے دریافت کرنے پر خواجہ صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کو اپنا پیر یا لیڈر بیان کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی زندگی میں ہی یہ بات عام طور پر بیان ہوتی چلی آئی ہے مگر خواجہ صاحب نے کبھی اس کی تردید نہیں کی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ درست ہی ہے.اسی طرح اور سب معاملات میں مولوی محمد علی صاحب کو اس طرح آگے کرنے کی کوشش کی جاتی تھی کہ لوگوں کی نظریں حضرت خلیفہ المسیح کی طرف سے ہٹ کر انہی کی طرف متوجہ ہو جاویں.مگر یہ دونوں کوششیں ان کی برکا رگئیں.پہلی بے جا کوششوں کا اکارت جانا کوشش تو اس طرح کہ ۱۹۱۰ء میں حضرت..لیہ اسیح نے صدر انجمن احد یہ کولکھ دیا کہ میں چونکہ خلیفہ ہوں ممبرانجمن اور صد را مجمن نہیں رہ سکتا میری جگہ مرزا محمود حمد کو پریذیڈنٹ مقرر کیا جاوے.اس طرح اس تد بیر کا تو خاتمہ ہوا.حضرت خلیفتہ المسیح انجمن سے علیحدہ ہو گئے اور آپ کی جگہ میں صدر ہو گیا اور اب یہ ظاہر کرنے کا موقع نہ رہا کہ خلیفہ کی اطاعت بوجہ خلافت نہیں کی جاتی بلکہ بوجہ پریذیڈنٹ انجمن ہونے کے اُس کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے.دوسری تدبیر خود اپنے ہی ہاتھوں سے اکارت چلی گئی.جو نہی خواجہ صاحب کو کچھ شہرت حاصل ہوئی وہ اپنے وجود کو آگے لانے لگے اور لوگوں کی توجہ بھی اُن کی طرف ہی پھر گئی اور مولوی صاحب خود ہی پیچھے ہٹ گئے اور ان کی رائے کا وہ اثر نہ رہا جو پہلے تھا.۱۹۱۰ء کے آخری مہینوں میں حضرت خلیفہ اسح کا ۱۹۱۰ء میں بیمار ہونا حضرت عایقہ اسی گھوڑے سے

Page 428

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۰ جلد اول گر گئے اور کچھ دن آپ کی حالت بہت نازک ہو گئی.حتی کہ آپ نے مرزا یعقوب بیگ صاحب جو اُس وقت آپ کے معالج تھے دریافت کیا کہ میں موت سے نہیں گھبرا تا آپ بے دھڑک طبی طور پر بتا دیں کہ اگر میری حالت نازک ہے تو میں کچھ ہدایات وغیرہ لکھوا دوں.مگر چونکہ یہ لوگ حضرت مولوی صاحب کا ہدایات لکھوانا اپنے لئے مضر سمجھتے تھے آپ کو کہا گیا کہ حالت خراب نہیں ہے اور اگر ایسا وقت ہوا تو وہ خود بتا دیں گے مگر وہاں سے نکلتے ہی ایک مشورہ کیا گیا اور دوپہر کے وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب میرے پاس آئے کہ ایک مشورہ کرنا ہے آپ ذرا مولوی محمد علی صاحب کے مکان پر تشریف لے چلیں.میرے نانا صاحب جناب میر ناصر نواب صاحب کو بھی وہاں بلوایا گیا تھا.جب میں وہاں پہنچا تو مولوی محمد علی صاحب ، خواجہ صاحب ، مولوی صدرالدین صاحب اور ایک یا دو آدمی وہاں پہلے سے موجود تھے.خواجہ صاحب نے ذکر شروع کیا کہ آپ کو اس لئے بلوایا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کی طبیعت بہت بیمار اور کمزور ہے.ہم لوگ یہاں ٹھہر تو سکتے نہیں لا ہور واپس جانا ہمارے لئے ضروری ہے پس اس وقت دو پہر کو جو آپ کو تکلیف دی ہے تو اس سے ہماری غرض یہ ہے کہ کوئی ایسی بات طے ہو جاوے کہ فتنہ نہ ہوا اور ہم لوگ آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو خلافت کی خواہش نہیں ہے کم سے کم میں اپنی ذات کی نسبت تو کہہ سکتا ہوں کہ مجھے خلافت کی خواہش نہیں ہے اور مولوی محمد علی صاحب بھی آپ کو یہی یقین دلاتے ہیں.اس پر مولوی محمد علی صاحب بولے کہ مجھے بھی ہرگز خواہش نہیں.اس کے بعد خواجہ صاحب نے کہا کہ ہم بھی آپ کے سوا خلافت کے قابل کسی کو نہیں دیکھتے اور ہم نے اس امر کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن آپ ایک بات کریں کہ خلافت کا فیصلہ اُس وقت تک نہ ہونے دیں جب تک ہم لا ہور سے نہ آجاویں.ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص جلد بازی کرے اور پیچھے فساد ہو ہمارا انتظار ضرور کر لیا جائے.میر صاحب نے تو ان کو یہ جواب دیا کہ ہاں جماعت میں فساد کے مٹانے کے لئے کوئی تجویز ضرور کرنی چاہئے.مگر میں نے اُس وقت کی ذمہ داری کو محسوس کر لیا اور صحابہ کا طریق میری نظروں کے سامنے آ گیا کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کے متعلق تجویز خواہ وہ اُس کی وفات کے بعد کے لئے ہی کیوں نہ ہو نا جائز ہے.پس میں

Page 429

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۱ جلد اول نے ان کو یہ جواب دیا کہ ایک خلیفہ کی زندگی میں اس کے جانشین کے متعلق تعیین کر دینی اور فیصلہ کر دینا کہ اس کے بعد فلاں شخص خلیفہ ہو گناہ ہے.میں تو اس امر میں کلام کرنے کو ہی گناہ سمجھتا ہوں.جیسا کہ ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے خواجہ صاحب کی اس تقریر کی بعض باتیں خاص توجہ کے قابل تھیں.اوّل تو یہ کہ اس سے ایک گھنٹہ پہلے تو انہی لوگوں نے حضرت خلیفہ اسیح سے کہا تھا کہ کوئی خطرہ کی بات نہیں ، وصیت کی ضرورت نہیں اور وہاں سے اُٹھتے ہی آئندہ کا انتظام سوچنا شروع کر دیا.دوسری بات یہ کہ ان کی تقریر سے صاف طور پر اس طرف اشارہ نکلتا تھا کہ ان کو تو خلافت کی خواہش نہیں لیکن مجھے ہے.مگر میں نے اُس وقت ان بحثوں میں پڑنے کی ضرورت نہ سمجھی کیونکہ ایک دینی سوال در پیش تھا اور اس کی نگہداشت سب سے زیادہ ضروری تھی.دیا ہے مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ جیسا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کر مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب کی خلیفہ ہونے کی خواہش صاحب کی یہ بات کہ ہم خلافت کے خواہشمند نہیں ہیں اس کا صرف یہ مطلب تھا کہ لفظ خلافت کے خواہشمند نہیں کیونکہ ان لوگوں نے خلافت کی جگہ ایک نئی قسم کا عہدہ پریذیڈنٹ یا امیر جماعت کا وضع کر لیا ہے جو عملاً خلیفہ کا مترادف سمجھا جاتا ہے اور جس کے مدعی اس وقت محمد علی صاحب ہیں اور خواجہ صاحب تو اب اپنے آپ کو خلیفتہ امسیح لکھتے ہیں.گوان کو خلافت کی کوئی بات بھی میسر نہیں اور شاید یہ خطاب جو ان کے دوستوں نے ان کو دیا ہے اور انہوں نے بھی اپنے لئے پسند کر لیا ہے یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا کے طور پر ہے تا کہ دنیا دیکھ لے کہ وہ خلافت کے اس قدر شائق تھے کہ خلیفہ اسیح ہونا تو الگ رہا اگر خلافت نہ ملے تو خالی نام ہی سے وہ اپنا دل خوش کرتے ہیں.اس جگہ یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ بعد کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فریب دہی تجویز جو خواجہ صاحب اور ان کے رفقاء نے میرے سامنے پیش کی درحقیقت ایک فریب تھا اور گو اُس وقت اس امر کا خیال نہیں ہو سکتا مگر اب معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے

Page 430

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۲ جلد اول اپنے خیال میں مجھے خلافت کا شائق سمجھ کر یہ چال چلی تھی کہ اس طرح مطمئن کر دیں اور خود موقع پر پہنچ کر اپنے منشاء کے مطابق کوئی تجویز کریں ورنہ اگر وہ میری خلافت پر متفق تھے تو اس بات کے کیا معنی ہوئے کہ ان کا انتظار کیا جاوے ورنہ فتنہ ہوگا.جب ان کے نزدیک بھی مجھے ہی خلیفہ ہو جانا چاہئے تھا تو ان کی عدم موجودگی میں بھی اگر یہ کام ہو جا تا تو فتنہ کا باعث کیوں ہوتا.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانی مریض کے مرض روحانی میں بڑھنے انصار الله کیلئے بھی سامان پیدا ہوتے رہتے ہیں اسی طرح ان لوگوں کے ساتھ ہوا.فروری ۱۹۱۱ء میں میں نے ایک رؤیا دیکھی کہ :.ایک بڑا محل ہے اور اس کا ایک حصہ گرا رہے ہیں اور اس محل کے پاس ایک میدان ہے اور اس میں ہزاروں آدمی پتھیروں کا کام کر رہے ہیں اور بڑی سرعت سے اینٹیں پاتھتے ہیں.میں نے پوچھا کہ یہ کیسا مکان ہے اور یہ کون لوگ ہیں اور اس مکان کو کیوں گرا ر ہے ہیں ؟ تو ایک شخص نے جواب دیا کہ یہ جماعت احمد یہ ہے اور اس کا ایک حصہ اس لئے گرا رہے ہیں تا پُرانی اینٹیں خارج کی جائیں (اللہ رحم کرے) اور بعض کچی اینٹیں پکی کی جائیں اور یہ لوگ اینٹیں اس لئے پاتھتے ہیں تا اس مکان کو بڑھایا جائے اور وسیع کیا جائے.یہ ایک عجیب بات تھی کہ سب پتھیروں کا منہ مشرق کی طرف تھا.اُس وقت دل میں خیال گزرا کہ یہ خیرے فرشتے ہیں اور معلوم ہوا کہ جماعت کی ترقی کی فکر ہم کو بہت کم ہے بلکہ فرشتے ہی اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر کام کر رہے ہیں.اس رؤیا سے تحریک پا کر میں نے حضرت خلیفہ امسیح کی اجازت سے ایک انجمن بنائی جس کے فرائض تبلیغ سلسلہ احمدیہ، حضرت خلیفہ المسیح کی فرمانبرداری، تسبیح ، تحمید و درود کی کثرت ، قرآن کریم اور احادیث کا پڑھنا اور پڑھانا ، آپس میں محبت بڑھانا ، بدظنی اور تفرقہ سے بچنا ، نماز با جماعت کی پابندی رکھنا تھے.ممبر ہونے کیلئے یہ شرط رکھی گئی کہ سات دن متواتر استخارہ کے بعد کوئی شخص اس انجمن میں داخل ہو سکتا ہے اس کے بغیر نہیں.اس

Page 431

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۳ جلد اول انجمن کا اعلان ہونا تھا کہ اعتراضات کی بوچھاڑ ہونی شروع ہو گئی اور صاف طور پر ظاہر کیا جانے لگا کہ اس انجمن کا قیام بغرض حصول خلافت ہے.مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس انجمن کے ممبروں میں سے ایک خاصی تعداد اس وقت ان لوگوں کے ساتھ ہے اور وہ لوگ گواہی دے سکتے ہیں کہ اس انجمن کا کوئی تعلق تغیرات خلافت کے متعلق نہ تھا.بلکہ یہ انجمن صرف تبلیغ کا کام کرتی تھی اور ان میں سے بعض نے یعنی ان کے واعظ محمد حسین عرف مرہم عیسی اور ماسٹر فقیر اللہ سپرنٹنڈنٹ دفتر سیکرٹری اشاعت اسلام لاہور نے یہ شہادت بھی دی ہے.اس انجمن کے قریباً پونے دو سو ممبر ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں تبلیغ کے متعلق جو سستی ہو گئی تھی اس کے ذریعہ سے وہ دور ہو گئی اور سلسلہ حقہ کی خالص تبلیغ کا جوش نہ صرف اس کے ممبران میں ہی بلکہ دوسرے لوگوں میں بھی پیدا ہو گیا اور ایسے لوگ جوست ہو گئے تھے چست ہو گئے اور جو پہلے سے ہی چست تھے وہ تو چست ہی تھے خواجہ صاحب نے بھی اس خیال سے کہ دیکھوں اس انجمن میں کیا بھید ہے اس میں داخل ہونا چاہا، لیکن سات دن کا استخارہ غالباً ان کے راستہ میں روک ہوا یا کوئی اور باعث ہوا جو اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے.طریق تبلیغ کے متعلق الہی اشارہ چونکہ انجمن انصار اللہ کا قیام تبلیغ سلسلہ احمدیہ کے لئے تھا اس لئے میں اس جگہ ضمناً یہ بھی ذکر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس طرح خلافت کے مسئلہ کے متعلق میں نے اُس وقت تک آگے آنے کی جرات نہیں کی جب تک کہ مجھے رویا میں اس کے متعلق بتایا نہیں گیا اسی طرح تبلیغ کے طریق کے متعلق بھی بغیر استخارہ اور دعا اور الہی اشارہ کے میں نے کچھ نہیں کیا.چنانچہ خواجہ صاحب کے طر ز تبلیغ کو دیکھ کر جب جماعت میں اعتراضات ہونے شروع | ہوئے تو میں نے اُس وقت تک کوئی طریق اختیار نہیں کیا جب تک کہ دعا و استخارہ نہیں کر لیا.اس استخارہ کے بعد مجھے رویا میں خواجہ صاحب کے متعلق دکھایا گیا کہ وہ خشک روٹی کو کیک سمجھے ہوئے ہیں اور اسی کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں.اس پر میں نے ان کے اس رویہ کی تردید شروع کی ورنہ پہلے میں بالکل خاموش تھا.

Page 432

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۴ جلد اول خلیفہ اول کی پردہ پوشی جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں اُس وقت عام طور پر جماعت معاملات کو سمجھ گئی تھی اور احمدیوں نے سمجھ لیا تھا کہ خواجہ صاحب ہمیں کدھر کو لئے جا رہے ہیں اور اکثر حصہ جماعت کا اس بات پر تیار ہو گیا تھا کہ وہ اندرونی یا بیرونی دشمنوں کی کوششوں کا جو ان کو مرکز احمدیت سے ہٹانے کیلئے کی جارہی ہیں مقابلہ کرے.مگر چونکہ خواجہ صاحب اور ان کے رفقاء نے خلافت کے متعلق یہ رویہ اختیار کر لیا تھا کہ بظاہر اس مسئلہ کی تائید کی جائے.اس طرح حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت میں اکثر حاضر ہو کر ان سے اظہار عقیدت کی جاوے اس لئے جماعت کو ان کے حالات سے پوری طرح آگا ہی نہ حاصل ہو سکی.ورنہ جس قدر آجکل ان کا اثر ہے وہ بھی نہ رہتا.حضرت خلیفتہ المسیح کو ان لوگوں نے یقین دلایا تھا کہ لوگ خلافت کے قائل ہیں اور اسی طرح دوسرے مسائل میں بھی جیسا رنگ حضرت خلیفتہ امسیح کا دیکھتے اُسی طرح ہاں میں ہاں ملا دیتے.جس سے اکثر آپ یہی خیال فرماتے کہ یہ لوگ نہایت خیر خواہ اور راسخ العقیدہ ہیں اور ان کی پچھلی حرکات پر پردہ ڈالتے اور اگر لوگ ان کی کارروائیاں یا دلاتے تو آپ بعض دفعہ ناراض بھی ہوتے اور فرماتے کہ غلطیاں سب انسانوں سے ہوتی ہیں اگر ان سے ہو گئیں تو ان کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو اب یہ بالکل درست ہیں.مگر حضرت خلیفہ المسیح کی وفات کے ساتھ ہی یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت خلیفہ اسیح کو یہ لوگ دھوکا دیتے تھے اور حضرت خلیفہ المسیح نے اگر ان کی کوئی تعریف کی ہے تو یہ اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.کیونکہ اس سے ان کی تعریف ثابت نہیں ہوتی بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ آپ کے وقت میں منافقت سے کام کرتے تھے کیونکہ جن باتوں کی نسبت حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ یہ مانتے ہیں ان پر یہ الزام مت لگاؤ کہ یہ ان کو نہیں مانتے آپ کی وفات کے بعد انہوں نے اس سے انکار کر دیا.یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ بناوٹ بناوٹ ہی ہوتی ہے درمیان میں کبھی کبھی ان لوگوں کی حرکات سے حضرت خلیفہ اسیح سمجھ بھی جاتے تھے کہ یہ لوگ دھوکا دے رہے ہیں اور اس کا اظہار بھی فرماتے تھے مگر پھر ان لوگوں کے معافی مانگ لینے پر خیال فرماتے تھے کہ شاید غلطی

Page 433

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۵ جلد اول ہو گئی ہو اور دل سے ان لوگوں نے یہ حرکت نہ کی ہو.کیونکہ حسن ظنی آپ کی طبیعت میں بہت بڑھی ہوئی تھی اور رحم فطرت میں ودیعت تھا.غرض ایک عجیب سی حالت پیدا ہو گئی تھی.ایک طرف تو عام طور پر اپنے زہر یلے خیالات پھیلانے کے باعث یہ لوگ جماعت کی نظروں سے گرتے جاتے تھے دوسری طرف حضرت خلیفۃ امسیح سے خوف کر کے کہ آپ ان کے اخراج کا اعلان نہ کر دیں یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح آپ کی زندگی میں جماعت میں ہی ملے رہیں اس لئے آپ کے سامنے اپنے آپ کو نہایت مطبع ظاہر کرتے تھے.مگر کبھی کبھی اپنی اصلیت کی طرف بھی لوٹتے تھے اور ایسی حرکات کر دیتے جس سے آپ کو آگا ہی ہو جاتی.مگر پھر فوراً معافی مانگ کر اپنے آپ کو سزا سے بچا بھی لیتے.اُس وقت جماعت میں خواجہ صاحب کے طرز عمل کا جماعت پر اثر تھالی احمدیت کے متعلق جو کمزوری پیدا ہو گئی تھی اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ یا تو مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے وقت میں یہ حال تھا کہ عبدالحکیم مرتد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھتا ہے کہ احمدی سوائے آپ کے ذکر کے کچھ سننا ہی پسند نہیں کرتے ، ہر وعظ میں آپ کا ہی ذکر ہوتا ہے اور یا یہ حال ہو گیا تھا کہ اپریل ۱۹۱۲ء میں جبکہ میں ایک وفد کے ساتھ مختلف مدارس عربیہ کو دیکھنے کیلئے اس نیت سے گیا کہ مدرسہ احمدیہ کے لئے کوئی مناسب سکیم تیار کی جاوے تو لکھنو ، بنارس ، کانپور میں مجھے تقریریں کرنے کا بھی اتفاق ہوا اور سب جگہ میں نے دیکھا کہ وہاں کی جماعتوں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ سلسلہ کا کوئی ذکر نہ ہو کیونکہ پھر لوگ سنیں گے نہیں یا سن کر مخالفت کریں گے.مگر میں نے ان کو جواب دیا کہ میں اپنے لیکچروں کی تعریف کا خواہشمند نہیں.حق سنانے کا خواہشمند ہوں.اگر لوگ نہ سنیں گے یا سن کر مخالفت کریں گے تو یہ ان کی مرضی ہے میں تو خدا تعالیٰ کے حضور بری الذمہ ہو جاؤں گا.لکھنو سے تو ایک صاحب نے جو اب میری بیعت میں شامل ہیں حضرت خلیفتہ المسیح کو لکھا کہ کاش ! آپ اس وفد کے ساتھ کوئی تجربہ کار آدمی بھی بھیج دیتے.یہ لوگ اس رنگ میں تبلیغ کرتے ہیں کہ فساد کا خطرہ

Page 434

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۶ جلد اول ہے.میاں صاحب نو جوان ہیں جوش میں وقت کو نہیں دیکھتے ایسا نہ ہو کہ کوئی خون ہو جائے اور ہم لوگ بدنام ہوں.اب بھی آپ فورا ایک ایسے بزرگ کو جو ضرورتِ زمانہ کو سمجھے بھیج دیجئے.جب میں واپس آیا تو حضرت خلیفہ اسیح نے مجھے اس خط کے مضمون پر آگاہ کیا اور اس خط پر سخت نفرت کا اظہار فرمایا.لکھنؤ میں دو لیکچروں کی تجویز تھی ایک لیکچر کے بعد گو مخالفین کی طرف سے بھی کچھ روک ہوئی مگر اپنی جماعت نے بھی اس روک کو ایک عذر بنا کر مزید کوشش سے احتراز کیا اور دوسرا لیکچر رہ گیا مگر ہم نے ملاقاتوں میں خوب کھول کھول کر تبلیغ کی.بنارس میں بھی اسی طرح ہوا.یہاں کی جماعت اُس وقت اپنے آپ کو میری ہم خیال ظاہر کرتی تھی مگر اس کا بھی یہی اصرار تھا کہ لیکچر عام ہو اور اس کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ خواجہ صاحب کے لیکچر کامیاب ہو چکے ہیں ایسا نہ ہو یہ لیکچر کا میاب نہ ہوں تو اس کے مقابلہ میں سبکی ہو.مگر میں نے نہ مانا اور سلسلہ کے متعلق لیکچر دیئے.لوگ کم آتے مگر میں نے اپنا فرض ادا کر دیا.تعجب ہے کہ جبکہ لکھنؤ کی جماعت جو اُس وقت میرے خیالات سے غیر متفق تھی حضرت خلیفہ اول کی وفات پر بیعت میں داخل ہوئی.جماعت بنارس بیعت سے باہر رہی.شاید یہ سزا تھی اُس دنیا داری کے خیالات کی جوان کے اندر پائے جاتے تھے اور جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے.غرض جماعت کی حالت اُس وقت عجیب ہو رہی تھی.ایک طرف تو اس کے دل محسوس کر رہے تھے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر اس طرح ترک کر دیا گیا تو آہستہ آہستہ سلسلہ مفقود ہو جائے گا.دوسری طرف خواجہ صاحب کے طریق تبلیغ کے بعد ان کو یہ خوف تھا کہ لوگ سلسلہ کا ذکر سننے کے لئے شاید آویں گے ہی نہیں.اور اگر آدیں گے تو اتنے کم کہ خواجہ صاحب اور ان کے رفقاء کو یہ کہنے کا موقع مل جاوے گا کہ ہمارا طر ز تبلیغ درست ہے کہ جس کے باعث لوگ شوق سے سننے کیلئے آ جاتے ہیں آخر ہوتے ہوتے تعلق کی زیادتی پر احمدی بھی ہو جاویں گے.پس وہ شش و پنج کی حالت میں تھے اور اس طریق کو نا پسند کرتے ہوئے اس طریق کی نقل کو اپنے کام کیلئے ضروری سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ اگر لوگوں پر یہ ثابت ہو جاوے کہ احمدیوں میں خواجہ صاحب سے زیادہ واقف اور

Page 435

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۷ جلد اول لوگ بھی موجود ہیں تو خود بخود وہ ادھر متوجہ ہو جاویں گے اور اُس وقت ان کو اصل حال سے آگاہ کیا جا سکتا ہے.خواجہ صاحب کے طرز عمل کی غلطی پہلے خواجہ صاحب کی حقیقت کھو لنے کیلئے ضروری ہے کہ ان ہی کے ایجاد کردہ طریق سے ان کا مقابلہ کیا جاوے.مگر یہ ان کا خیال غلط تھا.اگر وہ اس رستہ پر پڑ جاتے تو ضرور کچھ مدت کے بعد اسی رنگ میں رنگین ہو جاتے جس میں خواجہ صاحب رنگین ہو چکے تھے اور آخر احمدیت سے دور جا پڑتے.ان کی نجات اسی میں تھی کہ پہلے کی طرح ہر موقع مناسب پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی کو پیش کرتے اور لوگوں کے آنے یا نہ آنے کی پرواہ نہ کرتے.اور یہ بھی ایک وہم تھا کہ لوگ سنیں گے نہیں لوگ عموماً شخصیت کی وجہ سے آتے ہیں نہ مضمون لیکچر کے سبب سے.ایک مشہور شخص ایک معمولی سے معمولی امر کے متعلق لیکچر دینے کے لئے کھڑا ہو جاوے لوگ اُسی پر اکٹھے ہو جاویں گے یہ اور بات ہے کہ پیچھے اس پر جرح وقدح کریں.کانپور میں لیکچر مثلاً اسی سفر میں میرا لیکچر کانپور میں ہوا.چونکہ اشتہار میں کھول کر بتایا گیا تھا کہ لیکچر سلسلہ احمدیہ کے امتیازات پر ہو گا.خیال تھا کہ لوگ شاید سننے نہ آویں گے مگر لوگ بہت کثرت سے آئے اور جو جگہ تیار کی گئی تھی وہ بالکل بھر گئی اور بہت سے لوگ کھڑے رہے ڈیڑھ ہزار یا اس سے بھی زیادہ کا مجمع ہوا.اور عموماً تعلیم یافتہ لوگ اور حکام اور تاجر اس میں شامل ہوئے اور اڑھائی گھنٹہ تک نہایت شوق سے سب نے لیکچر سنا اور جب میں بیٹھ گیا تو تب بھی لوگ نہ اُٹھے اور انہوں نے خیال کیا کہ شاید یہ سانس لینے کے لئے بیٹھے ہیں آخر اعلان کیا گیا کہ لیکچر ختم ہو چکا ہے اب سب صاحبان تشریف لے جاویں تب لوگوں نے شور مچایا کہ ان کو کھڑا کیا جاوے کہ بہت سے لوگ مصافحہ کرنا چاہتے ہیں اور میں نے دیکھا کہ وہ لوگ جو دن کے وقت ہمارے منہ پر ہمیں کا فر کہہ کر گئے تھے بڑھ بڑھ کر علاوہ مصافحہ کرنے کے میرے ہاتھ بھی چومتے تھے لکھنو اور بنارس میں لوگوں کے کم آنے کی اور کانپور میں زیادہ آنے کی وجہ میں سمجھتا ہوں یہی تھی کہ لکھنو اور بنارس

Page 436

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۸ جلد اول کے لوگ مجھ سے ناواقف تھے اور کانپور میں بوجہ پنجابی سوداگروں کی کثرت کے ہماری خاندانی وجاہت سے ایک طبقہ آبادی کا واقف تھا.اس واقفیت کی وجہ سے وہ آگئے اور لیکچر سن کر حق نے ان کے دل پر اثر کیا اور پہلا لگا ؤ اور بھی بڑھ گیا.غرض جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے جماعت اُس خواجہ صاحب کا سفر ولایت وقت عجیب قسم کے اضداد خیالات میں سے گزر رہی تھی اور یہ حالت برابر ایک دو سال تک اسی طرح رہی یہاں تک کہ ۱۹۱۲ء آ گیا.اس سال کو سلسلہ کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس میں بعض ایسے تغیرات نمودار ہوئے کہ جنہوں نے آئندہ تاریخ سلسلہ پر ایک بہت بڑا اثر ڈالا ہے اور جو میرے نز دیک اختلافات سلسلہ کی بنیا در رکھنے والا سال ثابت ہوا ہے.وہ واقعات یہ ہیں کہ اس سال خواجہ صاحب کی بیوی فوت ہو گئی.خواجہ صاحب کو چونکہ اس سے بہت تعلق اور انس تھا اس غم کو غلط کر نے کے لئے انہوں نے ہندوستان کا ایک لمبا دورہ کرنے کی تجویز کی اور اس دورہ کی نسبت ظاہر کیا گیا کہ جماعت کے کاموں کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے ہے.یہ وفد مختلف علاقہ جات میں گیا اور آخر کئی شہروں کا دورہ کرتے ہوئے بمبئی پہنچا.بمبئی میں ایک احمدی رئیس کے گھر پر یہ وفد ٹھہرا.ان صاحب کو اُن دنوں کوئی کام ولایت میں در پیش تھا جس کے لئے وہ کسی معتبر آدمی کی تلاش میں تھے.انہوں نے خواجہ صاحب کو ایک بھاری رقم کے علاوہ کرایہ وغیرہ بھی دینے کا وعدہ کیا کہ وہ ولایت جا کر ان کے کام کیلئے سعی کریں.سفر ولایت جو دل بستگی ہندوستانیوں کے لئے رکھتا ہے اس نے خواجہ صاحب کو اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے کی ترغیب دی اور انہوں نے اس تجویز کو غنیمت جانا اور فوراً ولایت جانے کی تجویز کر دی.چنانچہ بدر اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے ۵ دسمبر ۱۹۱۲ء کے پر چہ میں لکھتا ہے :.اس سفر میں خواجہ صاحب کیلئے خدا تعالیٰ نے کچھ ایسے اسباب مہیا کر دیئے ہیں کہ وہ انگلینڈ تشریف لے جاتے ہیں“.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل نے جو نصائح خواجہ صاحب کو چلتے ہوئے کیں ان میں بھی

Page 437

خلافة على منهاج النبوة ۴۱۹ جلد اول ,, ،، اس امر کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں :.(۵) بقدر طاقت اپنی کے دین کی خدمت وہاں ضرور کرو.ھے خواجہ صاحب چونکہ شہرت کے خواہش مند ہمیشہ سے چلے آئے ہیں انہوں نے اس موقع کو غنیمت جان کر اصل معاملہ کو پوشیدہ رکھ کر یہ مشہور کرنا شروع کیا کہ انہوں نے اس سفر ولایت میں تبلیغ کی خاص ضرورت محسوس کی ہے اور اس کے لئے وہ اپنی چلتی ہوئی پریکٹس چھوڑ کر محض اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے ولایت جاتے ہیں.اصل واقعات کا تو بہت کم لوگوں کو علم تھا اس خبر کا مشہور ہونا تھا کہ چاروں طرف سے خواجہ صاحب کی اس قربانی پر صدائے تحسین و آفرین بلند ہونی شروع ہوگئی اور اپنی زندگی میں ہی ایک مذہبی شہید کی صورت میں وہ دیکھے جانے لگے.مگر صرف زبانی روایات پر ہی اکتفا نہ کر کے خواجہ صاحب نے اخبار ”زمیندار“ میں ایک اعلان کرایا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ مجھے کوئی سیٹھ یا انجمن یا کوئی غیر احمدی رئیس ولایت بھیج رہا ہے یہ بات بالکل غلط ہے.میں تو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اپنا کام چھوڑ کر جا رہا ہوں.اس اعلان کے الفاظ میں یہ احتیاط کر لی گئی تھی کہ رئیس کے لفظ کے ساتھ غیر احمدی کا لفظ بڑھا دیا گیا تھا اور اب بظا ہر اعتراض سے بچنے کی گنجائش رکھ لی گئی تھی.کیونکہ ان کو بھیجنے والا نہ سیٹھ تھا نہ انجمن نہ غیر احمدی رئیس بلکہ ایک احمدی رئیس نے ان کو بھجوایا تھا.مگر خواجہ صاحب کا یہ منشاء نہ تھا کہ لوگوں کا ذہن ایک احمدی رئیس کی طرف پھرے بلکہ یہ تھا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ وہ کسی مالدار شخص سے فیس لے کر کسی دنیاوی کام پر ولایت نہیں جار ہے بلکہ اپنی پریکٹس کو چھوڑ کر خدا کا نام پھیلانے کیلئے اور شرک کو مٹانے کیلئے اپنے خرچ پر ولایت جا رہے ہیں.ترسم کہ نے رسی بکعبہ اے اعرابی این راه که تو میروی بترکستان است کہا جاتا ہے کہ بھیجنے والے صاحب یہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی کو معلوم ہو کہ و ہ خواجہ صاحب کو بھیج رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ یہ چاہتے تھے کہ جھوٹ طور پر یہ بھی مشہور کیا جا وے کہ خواجہ صاحب اپنی پریکٹس کو چھوڑ کر اپنے خرچ پر صرف تبلیغ کیلئے ولایت

Page 438

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۰ جلد اول جار ہے ہیں.اگر خواجہ صاحب بغیر کسی ایسے اعلان کے ولایت چلے جاتے تو کیا لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ خواجہ صاحب فلاں شخص کے بھیجے ہوئے جا رہے ہیں.غیر احمدی سب کے سب اور احمدی اکثر اس واقعہ سے ناواقف تھے اور جو واقف تھے وہ اس اعلان سے دھوکا کھا نہیں سکتے تھے.پھر اس اعلان کے سوائے جھوٹے فخر کے اور کیا مد نظر تھا - يُحبون أن يُحْمَدُوا بِمَالَمْ يَفْعَلُوا ل غرض خواجہ صاحب ولایت روانہ ہو گئے اور پیچھے ان کے دوستوں نے بڑے زور سے اس امر کی اشاعت شروع کی کہ خواجہ صاحب اپنا کام تباہ کر کے صرف تبلیغ دین کیلئے ولایت چلے گئے ہیں ان کی مدد مسلمانوں پر فرض ہے.دو سال کا خرچ تو خواجہ صاحب کے پاس تھا ہی اس عرصہ کے بعد اگر وہاں زیادہ ٹھہر نے کا منشاء ہو تو اس کے لئے ابھی سے کوشش کر دی گئی.خواجہ صاحب کے اس طرح خواجہ صاحب کے ولایت جانے کا اثر ولایت جانے پر وہ جوش جو خواجہ صاحب کے خلاف جماعت میں پھیل رہا تھا کہ وہ سلسلہ کی تبلیغ نہیں کرتے اور ایسے طریق کو اختیار کر رہے ہیں جس سے سلسلہ کی خصوصیات کے مٹ جانے کا اندیشہ ہے دب گیا اور خواجہ صاحب کی اس قربانی پر ایک دفعہ پھر جماعت خواجہ صاحب کے گرد جمع ہو گئی مگر بہت کم تھے جو حقیقت حال سے واقف تھے.سفر مصر اور خاص دعا ئیں اُن ہی دنوں میں مجھے مصر کے راستہ سے حج کے لئے جانے کا موقع ملا.گو میرا ارادہ ایک دو سال مصر میں ٹھہرنے کا تھا مگر حج کے بعد مصر جانے میں کچھ ایسی روکیں پیدا ہوئیں کہ میں نے واپس آجانا مناسب سمجھا.اس سفر میں دعاؤں کے ایسے بیش بہا مواقع نصیب ہوئے کہ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کو قدم ثبات حاصل ہونے میں ایک حصہ ان دعاؤں کا بھی : ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.

Page 439

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۱ جلد اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک کشف خواجہ صاحب کو ولایت گئے ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہ کو خواجہ صاحب کا اپنے اوپر چسپاں کرنا گزرا تھا کہ ان کو ایک ہندوستانی مسلمان کی یورپین بیوی سے جس کا ایک مسلمان سے بیاہ اُسے اسلام کے قریب کر ہی چکا تھا ملاقات کا موقع ملا.خواجہ صاحب کے مزید سمجھانے پر اس نے اسلام کا اعلان کر دیا.خواجہ صاحب نے اس کا خوب اعلان کیا اور لوگوں کو عام طور پر توجہ ہو گئی کہ خواجہ صاحب ایک عمدہ کام کر رہے ہیں.احمدیوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے خواجہ صاحب نے یہ لکھنا شروع کیا کہ یہ عورت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک کشف کے ماتحت مسلمان ہوئی ہے.اس کشف کا مضمون یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ولایت گئے ہیں اور وہاں سفید رنگ کے کچھ پرندے پکڑے ہیں.چنانچہ اصل الفاظ یہ ہیں :.میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق اُن کا جسم ہوگا.سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگر چہ میں نہیں مگر میری تحریر میں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گے.“کے اس کشف کا مضمون ہی بتاتا ہے کہ یہ کشف خواجہ صاحب کے ہاتھ پر پورا نہیں ہوا کیونکہ کشف تو بتا تا ہے ہے کہ پرندے مسیح موعود علیہ السلام نے پکڑے ہیں حالانکہ خواجہ صاحب نے جن لوگوں کو مسلمان بنایا اُن کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہرگز نہیں کرایا.وہ اسلام جس کی تلقین خواجہ صاحب کرتے رہے ہیں اس میں تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی شامل ہیں.غرض گو اس کشف کا تعلق خواجہ صاحب سے کچھ بھی نہ تھا جیسا کہ بعد کے تجربہ سے ثابت ہوا وہ احمدیوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے اس کشف کی اشاعت کرتے رہے.( شروع میں ایک عرصہ تک

Page 440

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۲ جلد اول خواجہ صاحب نے بالکل پتہ نہیں چلنے دیا کہ وہاں کسی قسم کی تبلیغ کر رہے ہیں ) مگر یہ سب اعلانات احمد یوں میں ہی تھے.غیر احمدیوں کو یہی بتایا جا تا تھا کہ تبلیغ عام اسلامی اصول کے مطابق ہو رہی ہے اس لئے سب کو چندہ دینا چاہئے اور اس کارِ خیر میں حصہ لینا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کے جب خواجہ صاحب ولایت پہنچے ہیں تو اُس وقت پورا ہونے پر خواجہ صاحب کا اس کا ذکر نہ کرنا بلقان وار ( جنگ بلقان ) شروع تھی.خواجہ صاحب نے اس کے متعلق ایک ٹریکٹ لکھا اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام غُلِبَتِ الرُّومُ فِى أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ لکھ کر ترکوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی خبر دی.ہم لوگ تو اس خبر کوسن کر بہت خوش ہوئے کہ خواجہ صاحب آخر اصل راستہ کی طرف آگئے ہیں لیکن کچھ ہی دن کے بعد جب ایک دو انگریزوں کے مسلمان ہونے پر غیر احمدیوں نے خواجہ صاحب کی مدد شروع کی اور ان کو یہ بھی بتایا گیا کہ سلسلہ کا ذکر کرنے سے ان کی مددرُک جاوے گی تو وہی خواجہ صاحب جنہوں نے پیشگوئی کے پورا ہونے سے پہلے اس کا اعلان بلا د ترکیہ میں کیا تھا اس کے پورا ہونے پر ایسے خاموش ہوئے کہ پھر اس پیشگوئی کا نام تک نہ لیا.احمد یہ پریس کے مضبوط کرنے کا خیال ۱۹۱۳ ء میں دو اور اہم واقعات ہوئے.حج سے واپسی کے وقت مجھے قادیان کے پریس کی مضبوطی کا خاص طور پر خیال پیدا ہوا جس کا اصل محرک مولوی ابوالکلام صاحب آزاد کا اخبار ” الہلال“ تھا جسے احمدی جماعت بھی کثرت سے خریدتی تھی اور خطرہ تھا کہ بعض لوگ اس کے زہریلے اثر سے متاثر ہو جاویں.چنانچہ میں نے اس کے لئے خاص کوشش شروع کی اور حضرت خلیفہ اسیح سے اس امر کی اجازت حاصل کی کہ قادیان سے ایک نیا اخبار نکالا جائے جس میں علاوہ مذہبی امور کے دنیاوی معاملات پر بھی مضامین لکھے جاویں تا کہ ہماری جماعت کے لوگ سلسلہ کے اخبارات سے ہی اپنی سب علمی ضروریات کو پورا کر سکیں.جب میں حضرت خلیفہ المسیح سے اجازت حاصل کر چکا تو مجھے

Page 441

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۳ جلد اوّل معلوم ہوا کہ لا ہور سے ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب ، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب بھی ایک اخبار نکالنے کی تجویز کر رہے ہیں.چنانچہ اس بات کا علم ہوتے ہی میں نے حضرت خلیفہ امسیح کو ایک رقعہ لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ لاہور سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ فلاں فلاں احباب مل کر ایک اخبار نکالنے لگے ہیں چونکہ میری غرض تو اس طرح بھی پوری ہو جاتی ہے حضور ا جازت فرما دیں تو پھر اس اخبار کی تجویز رہنے دی جاوے.اس کے جواب میں جو کچھ حضرت خلیفہ اُسی نے تحریر فرمایا اس کا مطلب یہ تھا کہ اس اخبار اور اُس اخبار کی اغراض میں فرق ہے آپ اس کے متعلق اپنی کوشش جاری رکھیں.اس ارشاد کے ماتحت میں بھی کوشش میں لگا رہا.پیغام صلح اور الفضل کا اجراء جون ۱۹۱۳ء کے ابتداء میں پیغام صلح لاہور میں شائع ہوا اور وسط میں’الفضل‘ قادیان سے نکلا.بظاہر تو سینکڑوں اور اخبارات ہیں جو پہلے سے ہندوستان میں نکل رہے تھے دو اور اخبارات کا اضافہ معلوم ہوتا تھا مگر در حقیقت احمدی جماعت کی تاریخ میں ان اخبارات کے نکلنے نے ایک اہم بات کا اضافہ کر دیا.پیغام صلح کی روش پیغام صلح کے نکلنے سے وہ مواد جو خفیہ خفیہ جماعت میں پیدا ہورہا تھا پھوٹ پڑا اور کھلے بندوں سلسلہ کی خصوصیات کو مٹانے کی کوشش کی جانے لگی.قادیان کی جماعت خاص طور پر سامنے رکھ لی گئی اور سلسلہ کے دشمنوں سے صلح کی داغ بیل پڑنے لگی.اصل غرض تو شاید اس رسالہ سے خواجہ صاحب کے مشن کی تقویت تھی مگر طبعاً ان مسائل کو بھی چھیڑ نا پڑ گیا جو مَـابِـهِ النزاع تھے.غیر احمد یوں میں اس اخبار کی اشاعت کی غرض سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مرزا صاحب علیہ الرحمۃ لکھا جانے لگا اور دشمنانِ سلسلہ کی تعریف کے گیت گائے جانے لگے.ترکوں کے بادشاہ کو خلیفہ المسلمین " کے لقب سے یاد کیا جانے لگا.غرض پوری کوشش کی گئی کہ احمدیت کا نام تر لا کی شہوار یعنی وہ اشعار آبدار جو مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار نے ۲۴ رجب کو بارگاہِ سلطان المعظم میں پڑھ کر سنائے.

Page 442

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۴ جلد اول درمیان سے اُٹھ جائے اور احمدی اور غیر احمدی ایک ہو جاویں.ان اخبارات کے شائع ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مسجد کانپور کا واقعہ کانپور کی ایک مسجد کے غسل خانہ کے گرائے جانے پر مسلمانانِ ہند میں شور برپا ہوا.جن لوگوں نے اس مسجد کے گرانے پر بلوہ کیا تھا اور مارے گئے اُن کو شہید کا خطاب دیا گیا اور گورنمنٹ کے خلاف بڑے زور سے مضامین لکھے گئے.پیغام صلح نے بھی ان اخبارات کا ساتھ دیا جو اُس وقت گورنمنٹ کے خلاف لکھ رہے تھے.حضرت خلیفۃ اسیح سے خاص آدمی بھیج کر رائے طلب کی گئی اور مولوی محمد علی صاحب سے مضمون لکھوائے گئے.مولوی محمد علی صاحب کے مضامین تو صریح فسادیوں کی حمایت میں تھے مگر خلیفہ امسیح کی صائب رائے کو اس طرح بگاڑ کر شائع کیا گیا کہ اس کا مطلب اور کا اور بن گیا اور اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ گورنمنٹ نے اس موقع پر نہایت نا واجب سختی سے کام لیا ہے اور مسجد کا گرانا درست نہ تھا حالانکہ آپ نے مجھے یہ لکھوایا تھا کہ غسل خانہ مسجد میں نہیں اور شور وفساد میں لوگوں کو حصہ نہیں لینا چاہئے.جب پیغام صلح کے یہ مضامین حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کو دکھائے گئے تو آپ نے ان کو نہایت نا پسند کیا اور خود دو مضامین مجھ سے بقیه حاشیه از صفحه گزشته خلافت مدعا جوید که ما از آن سلطانیم اخوت بر ملا گوید که او از آن ما باشد حذر اے دشمنان ملت بیضا ازاں ساعت که در دست امیر مالوائے مصطفی باشد مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار کی مراجعت لاہور ,, پیغام جلد نمبر انمبر ۸) جیسا کہ ہم ۳ را گست کی اشاعت میں مختصر اطلاع شائع کر چکے ہیں اس اتوار کی صبح کو قریباً ساڑھے نو بجے مولوی ظفر علی صاحب بھی میل سے مَعَ الخَيْر لاہور پہنچے.احمد یہ بلڈنکس کے پاس پہنچ کر حلقہ احباب نے بڑے جوش کے ساتھ مکر می خواجہ کمال الدین صاحب کے لیے دعائیہ نعرے مارے“.( پیغام جلد نمبر انمبر ۱۲ صفحه ۲ )

Page 443

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۵ جلد اول لکھوائے جن کے نوٹ اب تک میرے پاس موجود ہیں.ان میں خاص طور پر زور دیا گیا تھا کہ غسل خانے مسجد کا جزو نہیں ہیں اور یہ کہ جو لوگ اس موقع پر شورش کر رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں اور منافقانہ کا رروائی کر رہے ہیں لیکن منع فرمایا کہ میں ان مضامین میں آپ کی طرف اشارہ کروں اپنی طرف سے شائع کر دوں.جب یہ مضامین شائع ہوئے تو لوگوں میں عام طور پر یہ پھیلا یا گیا کہ میں نے ان مضامین میں مولوی محمد علی صاحب کو جن کے مضامین پیغام صلح میں شائع ہوئے ہیں گالیاں دی ہیں.چنانچہ ڈاکٹر محمد شریف صاحب بٹالوی حال سول سرجن ہوشیار پور جو اُس وقت غالباً سرگودھا میں تھے قادیان تشریف لائے تو انہوں نے مجھ سے اس امر کے متعلق ذکر کیا.میں نے اُن کو جواب دیا کہ یہ مضامین میرے نہیں بلکہ حضرت خلیفۃ اسیح کے لکھوائے ہوئے ہیں.انہوں نے کہا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح جو مولوی محمد علی صاحب کا اس قدر ادب کرتے ہیں ایسے الفاظ آپ کی نسبت لکھوائیں.میں نے اُسی وقت وہ اخبار کا پر چہ منگوا کر جس پر ان کو اعتراض تھا اس کے حاشیہ پر یہ لکھ دیا کہ یہ مضمون حضرت خلیفہ مسیح کا لکھوایا ہوا ہے اور جس قد رسخت الفاظ ہیں وہ آپ کے ہی ہیں میں نے اپنی طرف سے نہیں لکھے اور وہ پر چہ ان کو دے دیا کہ آپ اس پر چہ کو حضرت خلیفہ اسیح کے پاس لے جاویں اور ان کے سامنے رکھ دیں.پھر آپ کو معلوم ہو جاوے گا کہ آیا ان کا لکھایا ہوا ہے یا میرا لکھا ہوا ہے.وہ اس پر چہ کو آپ کے پاس لے گئے اور چونکہ اُسی وقت انہوں نے واپس جانا تھا پھر مجھے تو نہیں ملے مگر اس پر چہ کو اپنے ایک رشتہ دار کے ہاتھ مجھے بھجوایا اور کہلا بھیجا کہ آپ کی بات درست ہے.یہ صاحب ایک معزز عہدے دار ہیں اور ہیں بھی مولوی محمد علی صاحب کے ہم خیالوں میں.میری بیعت میں شامل نہیں.ان سے قسم دے کر مولوی محمد علی صاحب دریافت کر سکتے ہیں کہ یہ واقعہ درست ہے یا نہیں.غرض کانپور کی مسجد کا واقعہ جماعت میں ایک مزید تفرقہ کا باعث بن گیا کیونکہ اس کے ذریعہ سے ایک جماعت تو سیاست کے انتہا پسند گروہ کی طرف چلی گئی اور دوسری اس تعلیم پر قائم رہی جو اُ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی تھی اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ مؤخر الذکر جماعت تعداد میں بہت زیادہ تھی.

Page 444

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۶ جلد اول لارڈ ہیڈلے کے مسلمان ہونے کا اعلان ان ہی ایام میں خواجہ صاحب کو ایک پرانے مسلمان لارڈ ہیڈلے مل گئے.وہ قریباً چالیس سال سے مسلمان تھے مگر بوجہ مسلمانوں کی مجلس نہ ملنے کے اظہار اسلام کے طریق سے ناواقف تھے.خواجہ صاحب کے ملنے پر انہوں نے اسلام کا اظہار کیا اور بتایا کہ وہ چالیس سال سے مسلمان ہیں.خواجہ صاحب نے فوراً تمام دنیا میں شور مچا دیا کہ ان کی کوششوں سے ایک لارڈ مسلمان ہو گیا ہے.اس خبر کا شائع ہونا تھا کہ خواجہ صاحب ایک بت بن گئے اور چاروں طرف سے ان کی خدمات کا اعتراف ہونے لگا.مگر وہ لوگ جن کو معلوم تھا کہ لارڈ ہیڈلے چالیس سال سے مسلمان ہے اس خبر پر نہایت حیران تھے کہ خواجہ صاحب صداقت کو اس حد تک کیوں چھوڑ بیٹھے ہیں ؟ مگر خواجہ صاحب کے مد نظر صرف اپنے مشن کی کامیابی تھی.جائز یا نا جائز ذرائع سے وہ اپنے مشن کو کامیاب بنانے کی فکر میں تھے.میرے نزدیک لارڈ ہیڈلے کے اسلام کا اظہار ان احمد یوں میں سے بیسیوں کی ٹھوکر کا موجب ہوا ہے جو اس وقت اِن لوگوں کے ساتھ ہیں.کیونکہ بعض لوگ ان کی ان خیالی کا میابیوں کو دیکھ کر یہ یقین کرنے لگے تھے کہ یہ الہی تائید بتا رہی ہے کہ خواجہ صاحب حق پر ہیں.حالانکہ یہ تائید الہی نہ تھی بلکہ خواجہ صاحب کی اخلاقی موت تھی اور جب تک سلسلہ احمدیہ باقی رہے گا اور انشاء الله قیامت تک باقی رہے گا خواجہ صاحب کی یہ خلاف بیانی اور چالا کی بھی دنیا کو یا د رہے گی اور وہ اسے دیکھ دیکھ کر انگشت بدندان ہوتے رہیں گے.لارڈ ہیڈلے صاحب خود اپنے اسلام لانے کی نسبت لکھتے ہیں.”میرے موجودہ اعتقادات میری کئی سالوں کی تحقیقات اور تفتیش کا نتیجہ ہیں.تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ساتھ مذہب کے بارے میں میری اصلی خط و کتابت چند ہفتے قبل شروع ہوئی اور یہ بات میری دلی خوشی اور مسرت کا باعث ہوئی کہ میرے تمام خیالات اسلام کے عین مطابق نکلے.میرے دوست خواجہ کمال الدین صاحب نے ذرہ بھر کوشش مجھے اپنے زیر اثر لانے کے لئے نہیں کی.(پرچہ پیغام ۱۶؍ دسمبر ۱۹۱۳ء نمبر ۶۷ صفحه ۳)

Page 445

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۷ جلد اول خواجہ صاحب کی اِس کامیابی کو دیکھ کر جو بعد میں محض خیالی ثابت ہوئی جماعت کے ایک حصہ کے قدم پھر لڑکھڑا گئے اور جیسا کہ میں نے لکھا ہے وہ اسے آسمانی مد دسمجھ کر اپنی عقل کو غلطی خوردہ خیال کر کے خواجہ صاحب کی ہم خیالی میں ہی اپنی فلاح سمجھنے لگے اور پیغام صلح کے مضامین ان کے لئے اور بھی باعث ٹھو کر ہو گئے.لیکن اس کشمکش کا یہ فائدہ بھی ہو گیا کہ جو کوششیں خفیہ کی جاتی تھیں اُن کا اظہار ہو گیا اور جماعت ہوشیار ہو گئی.کچھ حصہ جماعت کا بیشک ہلاک ہو گیا مگر ان کی ہلاکت دوسروں کے بچانے کا ذریعہ بن گئی.جب اختلاف کا اظہار ہو گیا تو اب پیغام میں جماعت قادیان پر حملے زیادہ پوشیدگی کی ضرورت نہ رہی.پیغام صلح میں خوب کھلم کھلا طور پر قادیان کی جماعت پر اعتراضات ہونے لگے اور ان کے جوابات الفضل میں حضرت خلیفۃ المسیح کے مشورہ سے شائع ہوتے رہے.گو یہ لوگ جو نہی حضرت خلیفۃ امسیح کی ناراضگی کا علم پاتے تھے فوراً آ کر آپ سے معافی مانگ لیتے مگر پھر جا کر وہی کام شروع ہو جاتا.یہ زمانہ جماعت کے لئے بہت نازک تھا کیونکہ دشمن بھی اس اختلاف سے آگاہ ہو گئے جو اندر ہی اندر کئی سال سے نمودار ہو رہا تھا اور انہوں اس علم سے فائدہ اُٹھا کر ان لوگوں کو فساد پر اور بھی آمادہ کرنا شروع کیا اور کئی قسم کے سبز باغ دکھانے شروع کئے.حتی کہ حضرت خلیفۃ المسیح کو پیغام صلح کا نام پیغام جنگ رکھنا پڑا.خفیہ ٹریکٹ گو اخبار کے ذریعہ ہے بہت کچھ زہر یہ لوگ ہمارے خلاف اگلتے تھے مگر پھر بھی حضرت خلیفہ اسیح کا خوف ساتھ لگا رہتا تھا.پس ان کے دل کا حوصلہ پوری طرح نہ نکلتا تھا اور خود حضرت خلیفتہ امسیح کے خلاف تو کھلم کھلا کچھ لکھ ہی نہ سکتے تھے.اس لئے بنگال کے انارکسٹوں کے شاگرد بن کر مولوی محمد علی صاحب کے ہم خیال لوگوں کی ایک جماعت نے ایسے ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جن کے نیچے نہ پریس کا نام ہوتا تھا اور نہ لکھنے والے کا.چنانچہ اس سلسلہ میں ان لوگوں نے دوٹر یکٹ شائع کئے جن کا نام اظہار الحق نمبر ا.اور اظہار الحق نمبر ۲ رکھا گیا.یہ دونوں ٹریکٹ وسط نومبر ۱۹۱۳ء میں ایک دو دن کے وقفہ سے ایک دوسرے کے بعد

Page 446

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۸ جلد اول شائع ہوئے.پہلا ٹریکٹ چار صفحہ کا تھا اور دوسرا آٹھ صفحہ کا.دونوں کے آخر میں لکھنے والے کے نام کی بجائے داعی الی الوصیت لکھا ہوا تھا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کی طرف جماعت کو بلانے والا.پہلے ٹریکٹ کا خلاصہ ٹریکٹ اول کا خلاصہ یہ تھا کہ اس زمانہ میں جمہوریت کی اشاعت اس بات کی طرف اشارہ کرتی تھی کہ اس زمانہ کا مامور بھی جمہوریت کا حامی ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سوائے ان امور کے جن میں وحی ہوتی احباب سے مشورہ کر لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے اس لئے مامور کیا ہے کہ انسانوں کی شانیں جو حد سے زیادہ بڑھا دی گئی ہیں ان کو دور کریں اور جب آپ کو اپنی وفات کے قُرب کی خبر خدا تعالیٰ نے دی تو آپ نے اپنی وصیت لکھی اور اس میں اپنے بعد جانشین کا مسئلہ اس طرح حل کیا کہ آپ کے بعد جمہوریت ہوگی اور ایک انجمن کے سپر د کام ہو گا.مگر افسوس کہ آپ کی وفات پر جماعت نے آپ کے فرمودہ کو پس پشت ڈال کر پیر پرستی شروع کر دی اور جمہوریت کے رنگ کو نَسيا منسيا کر دیا.اس وقت جماعت میں بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں جنہوں نے بیعت مجبوری سے کی ہے ورنہ ان کے خیال میں اس بیعت لینے والے کی نسبت ( حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول ( بہتر لوگ جماعت میں موجود ہیں اور اس امر کا اصل و بال کارکنان صدرانجمن احمدیہ پر ہے جنہوں نے بانی سلسلہ کی وفات پر جماعت کو پیر پرستی کے گڑھے میں دھکیل دیا.اب یہ حال ہے کہ حصولِ گدی کیلئے طرح طرح کے منصوبے کئے جاتے ہیں.اور ایک خاص گروہ انصار اللہ اس لئے بنایا گیا ہے کہ تا قوم کے جملہ بزرگواروں کو نیچا دکھایا جاوے.انصار اللہ کا کام ظاہر میں تو تبلیغ ہے لیکن اصل میں بزرگانِ دین کو منافق مشہور کرنا ہے.مولوی غلام حسین صاحب پشاوری ، میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی ، مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب ، ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب.ان لوگوں کو قابل دار بتایا جاتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف طور پر انجمن کو اپنا جانشین قرار دیا ہے نہ کسی واحد شخص کو.حضرت مسیح موعود

Page 447

خلافة على منهاج النبوة ۴۲۹ جلد اول علیہ السلام نے صاف لکھ دیا ہے کہ آپ کے بعد صدرانجمن کا فیصلہ ناطق ہو گا.اب جماعت کی حالت کو دیکھو کہ غیر مامور کی ہر ایک بات کو تسلیم کیا جاتا ہے.پیغام صلح کو بند کر کے خلیفہ نے جماعت کو اس سے بدظن کر دیا.( پیغام صلح کی منافقانہ کارروائیوں منافقانہ کارروائیوں سے تنگ آکر حضرت خلیفہ اسیح نے اعلان فرما دیا تھا کہ اسے میرے نام نہ بھیجا کرو اور پھر جب یہ لوگ بھیجتے رہے تو آپ نے ڈاک سے وصول کرنے سے انکار کر دیا.مرزا محمود احمد ) جب ایک معزز طبقہ کی بے عزتی بلا وجہ وہ شخص جو جماعت میں عالم قرآن سمجھا جاتا ہے ( یعنی خلیفہ اوّل ) محض خلافت کی رعونت میں کر دیتا ہے تو بے سمجھ نوجوان طبقہ سے بزرگان جماعت کیا امید رکھ سکتے ہیں.بزرگانِ قوم ان کا رروائیوں کو کب تک دیکھیں گے اور خاموش رہیں گے.احمد یو! دوسرے پیرزادوں کو چھوڑ واور اپنے پیرزادوں کی حالت کو دیکھو.دوسرے ٹریکٹ کا خلاصہ دوسرے ٹریکٹ کا خلاصہ یہ تھا.جماعت احمد یہ میں کوئی عیار نہیں.غیر مامور کی شخصی غلامی ( یعنی حضرت خلیفہ اول کی بیعت ) نے ہماری حالت خراب کر دی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں جماعت بہت آزادی سے گفتگو کر لیتی تھی.اب سخت تنقید کیا جاتا ہے اور خلیفہ کے کان بھر کر بھائیوں کو تکلیف دی جاتی ہے.اگر چندے یہی حالت رہی تو احمدی پیر پرستوں اور غیر احمدی پیر پرستوں میں کوئی فرق نہ رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک سو سال بعد ہی کوئی مصلح آ سکتا ہے اس سے پہلے نہیں.جن کا اس کے خلاف خیال ہے وہ اپنے ذاتی فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا خیال پھیلاتے ہیں.جماعت کی بہتری اسی میں ہے کہ جمہوریت کے ماتحت کام کرے.اس کے بعد جماعت میں فتنہ کی تاریخ اس طرح لکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی گھبراہٹ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کو پس پشت ڈال کر جماعت نے مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ مان لیا تو اُس وقت سب لوگوں کی زبانوں پر یہ کلام جاری تھا کہ مولوی محمد علی صاحب ہی آپ کے بعد خلیفہ ہوں گے.حاسدوں نے اس امر کو دیکھ کر بیوی صاحبہ (حضرت اماں جان ) کی معرفت کارروائی شروع کی اور ان کی

Page 448

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۰ جلد اول معرفت خلیفہ کو کہلوایا کہ آپ کی بیعت تو ہم نے کر لی ہم کسی آرائیں وغیرہ کی بیعت نہیں کریں گے.جس پر مولوی صاحب نے ان کی حسب مرضی جواب دے کر ٹال دیا.اس کے بعد انجمن کے معاملات میں دخل دینے اور مولوی محمد علی صاحب کو تنگ کرنے کیلئے ہر ہر جائز و نا جائز کوشش شروع ہو گئی.پھر میر محمد الحق صاحب کے ذریعہ ایک فساد کھڑا کر دیا گیا (ان سوالات کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر میں پہلے تاریخ سلسلہ کے بیان میں کر چکا ہوں ) اور کارکنان انجمن کے خلاف شور ڈال دیا گیا.اور مرزا محمود صاحب کو مدعی خلافت کے طور پر پیش کیا جانے لگا اور مشہور کیا گیا کہ انجمن کے کارکن اہل بیت کے دشمن ہیں.حالانکہ یہ غلط ہے.اہل بیت قوم کا روپیہ کھا رہے ہیں اور انجمن اور اس کے اراکین پر ذاتی حملے کر رہے ہیں.مولوی محمد علی صاحب پر الزام لگائے جاتے ہیں.پیغام صلح کی اشاعت کا سوال پیدا ہوا تو جھٹ الفضل کی اجازت خلیفہ سے مانگی گئی جنہوں نے ڈر کر ا جازت دے دی.ہمارے مضامین میں منتظمین پیغام کا کچھ دخل نہیں نہ ان کو خبر ہے.کانپور کا واقعہ جب ہوا تو منتظمانِ پیغام نے خلیفہ رجب الدین کو ٹریبیون شے دے کر قادیان بھیجا اور مولوی صاحب کا خط منگوایا.اگر اس کے چھاپنے میں کوئی خلاف بات کی گئی تھی تو مولوی صاحب کو چاہئے تھا کہ اس کی تردید پیغام میں کرتے نہ کہ منتظمانِ پیغام پر ناراض ہوتے.مولوی صاحب نے اخبار پیغام صلح کو کانپور کے جھگڑے کے باعث نہیں بلکہ ایک معمولی بات پر ناراض ہو کر بند کر دیا تھا.بھائیو! تعجب ہے ایک عالم قرآن ( حضرت خلیفہ اول) اس طرح بلا وجہ ایڈیٹر پیغام اور دوسرے متعلقین کو زبانی اور بذریعہ الفضل ذلیل وخوار کرنا شروع کر دیتا ہے.کیا یہی انصاف اسلام سکھاتا ہے؟ پیغام کے خلاف الحق دہلی نے جو زہر اگلا ہے اس کا جواب چونکہ قادیان والوں نے نہیں دیا اس لئے وہی اس کے محرک ہیں.اس کے آگے ذاتی عیوب کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس کا سمجھنا بغیر تفصیل کے بیرونجات کے لوگوں کے لئے مشکل ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل بیت لوگوں کو ورغلا ر ہے ہیں اور بزرگانِ سلسلہ کو بدنام کر رہے ہیں اور جماعت کو

Page 449

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۱ جلد اول اُکسایا ہے کہ احمدی جماعت کو اس مصیبت سے بچانے کی کوشش کریں اور راقم ٹریکٹ.اس امر میں خط و کتابت کریں.ٹریکٹ لکھنے والا کون تھا ؟ اس ٹریکٹ کے آخر میں گو نام نہ تھا مگر چند باتیں اس کی اس قسم کی تھیں جو صاف طور پر بتلاتی ہیں کہ ان ٹریکٹوں کے لکھنے والے کون تھے.اول.یہ تمام کے تمام ٹریکٹ لاہور سے شائع ہوتے تھے جو اُس وقت مولوی محمد علی صاحب کے ہم خیالوں کا مرکز تھا.مرکز کے لفظ سے یہ مراد نہیں کہ اُس وقت بھی قادیان کے مقابلہ پر لا ہور کو مرکز ظاہر کیا جاتا تھا بلکہ بوجہ اس کے کہ مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی کے اکثر آدمی وہاں ہی رہتے تھے اور اخبار پیغام صلح ان کا آرگن بھی وہیں سے شائع ہوتا تھا لا ہور اُس وقت بھی مرکز کہلانے کا مستحق تھا گو کھلم کھلا طور پر حضرت خلیفہ اول کی وفات پر اسے مرکز قرار دیا گیا ہے.۲.اکثر جگہ پر یہ ٹریکٹ پیغام صلح کی مطبوعہ چٹوں میں بند شدہ پہنچا تھا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دفتر پیغام صلح سے یہ بھیجا گیا تھا.یا یہ کہ پیغام صلح کے متعلقین اس کی اشاعت میں دخل رکھتے تھے..اس ٹریکٹ کا لکھنے والا لوگوں سے چاہتا ہے کہ وہ اس سے اس کے مضمون کے متعلق خط و کتابت کریں لیکن اپنا پتہ نہیں دیتا جس سے طبعا یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ پتہ نہیں دیتا تو لوگ اس سے خط و کتابت کیونکر کریں.اور معلوم ہوتا ہے کہ اس نے پہلے پتہ لکھا ہے پھر مصلحتا اسے کاٹ دیا ہے لیکن چونکہ اصل مضمون میں سے یہ عبارت کہ لوگ اس سے خط و کتابت کریں نہیں کئی ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مضمون چھپنا شروع ہو گیا ہے تب پتہ کاٹنے کا خیال ہوا اور چونکہ اصل مضمون کا کوئی حصہ کاٹنے میں دیر لگتی تھی اور عبارت خراب ہونے کا خطرہ تھا اس لئے اسے اسی طرح رہنے دیا ہے.اب ہم ٹریکٹوں کو دیکھتے ہیں تو ان پر سے اُنگلی سے رگڑ کر مضمون کے خاتمہ پر کچھ عبارت کٹی ہوئی ہے اور بعض ٹریکٹ ہمیں ایسے بھی ملتے ہیں جن پر معرفت اخبار کا لفظ کٹنے سے رہ گیا ہے اور بعض

Page 450

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۲ جلد اوّل باقی کٹا ہوا ہے.یہ الفاظ معرفت اخبار کے صاف طور پر بتلاتے ہیں کہ پہلے خط و کتابت کے لئے کسی اخبار کا پتہ دیا گیا تھا اور گو یہ اخبار پیغام نہ ہوا اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے نہیں تھا مگر اس سے یہ پتہ ضرور چلتا ہے کہ اس ٹریکٹ کے لکھنے والے کا تعلق اخبارات سے ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ معاصرانہ تعلقات کی بناء پر ایک اخبار دوسرے اخبار کے عملہ کی خدمت بالعموم کر دیا کرتے ہیں.۴.اس ٹریکٹ میں انہی خیالات کی اشاعت تھی جو مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کے تھے سوائے اس کے کہ حضرت خلیفہ اول کی نسبت کسی قدر زیادہ سخت الفاظ استعمال کئے گئے تھے مگر بیسیوں ایسے گواہ ہمارے پاس موجود ہیں جو شہادت دیتے ہیں کہ اپنی علیحدہ مجلسوں میں مولوی محمد علی صاحب کے ہم خیالوں میں سے بعض بڑے آدمی نہایت سخت الفاظ حضرت خلیفہ اول کی نسبت استعمال کیا کرتے تھے اور حضرت مولوی صاحب کی تعریف کی پالیسی آپ کی وفات کے بعد شروع ہوئی ہے بلکہ خفیہ طور پر خطوں میں بھی ایسے الفاظ استعمال کر لیتے تھے.چنانچہ ان کے دو بڑے رُکنوں کے ان خطوط میں سے جو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح کی زندگی میں سید حامد شاہ صاحب مرحوم کو لکھے ہم بعض حصہ اس جگہ نقل کرتے ہیں.پہلا خط سید محمد حسین صاحب ان کی صدر انجمن کے محاسب کا ہے.وہ سید حامد شاہ صاحب کو لکھتے ہیں :.بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ 1/10/19+9 اخی مکر می جناب شاہ صاحب سَلَّمَهُ الله تعالیٰ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ جناب کا نوازش نامہ پہنچا حال معلوم ہوا.قادیان کی نسبت دل کو بٹھا دینے والے واقعات جناب کو شیخ صاحب نے لکھے ہوں گے.وہ باغ جو حضرت اقدس نے اپنے خون کا پانی دے دے کر کھڑا کیا تھا ابھی سنبھلنے ہی نہ پایا تھا کہ بادخزاں اس کو گرایا چاہتی ہے.حضرت مولوی صاحب ( خلیفہ اول) کی طبیعت

Page 451

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۳ جلد اول میں ضد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ دوسرے کی سن ہی نہیں سکتے.وصیت کو پس پشت ڈال کر خدا کے فرستادہ کے کلام کی بے پروائی کرتے ہوئے شخصی و جاہت اور حکومت ہی پیش نظر ہے.سلسلہ تباہ ہو تو ہو مگر اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات نہ ٹلے پر نہ ٹلے.وہ سلسلہ جو کہ حضرت اقدس کے ذریعہ بنایا تھا اور جو کہ بڑھے گا اور ضرور بڑھے گا وہ چند ایک اشخاص کی ذاتی رائے کی وجہ سے اب ایسا گرنے کو ہے کہ پھر ایک وقت کے بعد ہی سنبھلے تو سنبھلے..اہل الرائے اصحاب اپنے اپنے کاروبار میں مصروف ہیں اور حضرت مرزا صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے مرتے ہی سب نے آپ کے احسانات کو بھلا ، آپ کے رتبہ کو بھلا ، آپ کی وصیت کو بھلا دیا اور پیر پرستی جس کی بنیاد کو اکھاڑنے کے لئے یہ سلسلہ اللہ نے مقرر کیا تھا قائم ہو رہی ہے اور عین یہ شعر مصداق اس کے حال کا ہے.بیکسے شد دین احمد پیچ خولیش دیار نیست ہر کسے درکار خود بادین احمد کار نیست کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ بھائی یہ وصیت بھی کوئی چیز ہے یا نہیں؟ یہ تو اللہ کی وحی کے ماتحت لکھی گئی تھی کیا یہ پھینک دینے کے لئے تھی؟ اگر پوچھا جاتا ہے تو ارتداد کی دھمکی ملتی ہے.اللہ رحم کرے.دل سخت بے کلی کی حالت میں ہے.حالات آمدہ از قادیان سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب فرماتا ہے کہ بمب کا گولہ دس دن تک چھوٹنے کو ہے جو کہ سلسلہ کو تباہ و چکنا چور کر دے گا.اللہ رحم کرے.تکبر اور نخوت کی کوئی حد ہوتی ہے.نیک ظنی ، نیک ظنی کی تعلیم دیتے دیتے بدظنی کی کوئی انتہا نظر نہیں آتی.ایک شیعہ کی وجہ سے سلسلہ کی تباہی.اللہ رحم کرے.یا الہی ! ہم گنہگار ہیں تو اپنے فضل و کرم سے ہی ہمیں بچا سکتا ہے.اپنی خاص رحمت میں لے لے اور ہم کو ان ابتلاؤں سے بچالے آمین.اور کیا لکھوں.بس حد ہورہی ہے وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص تائید الہی ہو تا کہ یہ اُس کا سلسلہ اس صدمہ سے بچ جاوے.آمین.سب برادران کی خدمت میں اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ اور دعا کی درخواست.خاکسار سید محمد حسین

Page 452

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۴ جلد اول دوسرا خط مرزا یعقوب بیگ صاحب ان کی صدر انجمن کے جنرل سیکرٹری نام کا ہے.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس خط کا مضمون شیخ رحمت اللہ صاحب اور سید محمد حسین شاہ صاحب کے علم سے اور ان کی پسندیدگی کے بعد بھیجا گیا ہے.کیونکہ وہ لکھتے ہیں کہ شیخ صاحب اور شاہ صاحب کی طرف سے بھی مضمون واحد ہے.حضرت اخی المکرم - السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ سر دست تو قادیان کی مشکلات کا سخت فکر ہے.خلیفہ صاحب کا تلوّنِ طبع بہت بڑھ گیا ہے اور عنقریب ایک نوٹس شائع کرنے والے ہیں جس سے اندیشہ بہت بڑے ابتلاء کا ہے.اگر اس میں ذرہ بھی تخالف خلیفہ صاحب کی رائے سے ہوتو برافروختہ ہو جاتے ہیں.سب حالات عرض کئے گئے مگر ان کا جوش فرو نہ ہوا اور اشتہار جاری کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں.آپ فرما دیں ہم اب کیا کر سکتے ہیں ؟ ان کا منشاء یہ ہے کہ انجمن کا لعدم ہو جائے اور ان کی رائے سے ادنی تخالف نہ ہو.مگر یہ وصیت کا منشاء نہیں.اس میں یہی حکم ہے کہ تم سب میرے بعد مل جل کر کام کرو.شیخ صاحب اور شاہ صاحب بعد سلام مسنون مضمون واحد ہے.خاکسار مرزا یعقوب بیگ ۱۲۹/۹/۶۱۹۰۹ ۵.نہایت واضح اور صاف بات اس امر کی تائید میں کہ یہی لوگ ان ٹریکٹوں کے شائع کرنے والے ہیں یہ ہے کہ ان ٹریکٹوں کے شائع ہوتے ہی مینیجر پیغام صلح سید انعام اللہ شاہ اور پیغام صلح کے انتظامی کاموں کی روح رواں بابو منظو ر الہی دونوں کے دستخط سے ایک تحریر پیغام صلح کے ۱۶ نومبر کے پرچہ میں شائع ہوئی.جس میں اس الزام کو رڈ کرتے ہوئے کہ انصار اللہ ہم دونوں کو ٹریکٹوں کا شائع کرنے والا قرار دیتے ہیں لکھا ہے.جو ٹریکٹ ہم نے دیکھے ہیں ان میں ذرا شک نہیں کہ اکثر باتیں ان کی سچی ہیں.جہاں تک کہ ان کے متعلق ہمارا علم ہے اور بعض باتیں ہمارے علم اور ہمارے مشاہدہ سے بالا تر ہیں اس لئے ان کی نسبت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے...جب ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر بات کے ساتھ پورا پورا ایمان ہے تو دیگر فروعی باتوں کے اختلاف یا ٹریکٹ ہائے کی بیان کردہ باتوں کے ساتھ اتفاق رائے رکھنے کے جرم میں اگر ہماری نسبت غلط فہمی پھیلائی جانی لاہوری

Page 453

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۵ جلد اول انصار اللہ نے مناسب سمجھی ہے اور ہمارے خلاف کچھ لکھنے کا ارادہ کیا ہے تو ہماری طرف سے کچھ کمی بیشی کا کلمہ لکھا گیا تو اس کی ذمہ داری بھی ان پر ہوگی.ٹریکٹوں کی اشاعت سے دو باتوں کا ظاہر ہونا یہ پانی جوت ہیں اس کی امر کے کہ ان ٹریکٹوں کے شائع کرنے والے مولوی محمد علی صاحب کے رفقاء اور ہم خیال تھے.ان ٹریکٹوں کی اشاعت ہم پر دو امر خوب اچھی طرح ظاہر کر دیتی ہے ایک تو یہ کہ مقابلہ کے وقت اس جماعت سے کسی قانونِ حکومت یا قانونِ اخلاق یا قانونِ شریعت کی پابندی کی امید نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ اس ٹریکٹ کی اشاعت میں قانونِ حکومت کو بھی تو ڑا گیا ہے کیونکہ مطبع کا نام نہیں دیا گیا.حالانکہ یہ قانون کے خلاف ہے.قانونِ اخلاق کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے کیونکہ حضرت خلیفہ المسیح اور مجھ پر اور میرے دیگر رشتہ داروں پر نا پاک سے نا پاک حملے کئے گئے اور الزامات لگانے والا اپنا نام نہیں بتا تا.تا کہ اس کے الزامات کی تحقیق کی جا سکے کیونکہ مدعی جب تک ثبوت نہ دے اُس کا جواب کیا دیا جا سکتا ہے.قانونِ شریعت کو بھی تو ڑا گیا ہے کیونکہ لکھنے والا اس شخص کی مخالفت کرتا اور اسے مشرک اور بداخلاق قرار دیتا ہے جس کے ہاتھ پر وہ بیعت کر چکا ہے اور پھر ایسے نا پاک افتراء بغیر ثبوت و دلیل کے شائع کرتا ہے جن کا بغیر ثبوت کے منہ پر لانا بھی شریعت حرام قرار دیتی ہے.دوسرا امر یہ کہ یہ لوگ اس بات کا قطعی طور پر فیصلہ کر چکے تھے کہ خواہ کچھ ہو جا وے اپنے مدعا کے حصول کے لئے جماعت کے تفرقہ کی بھی پرواہ نہیں کریں گے اور جماعت کے توڑنے کیلئے حضرت خلیفہ اسیح کی زندگی کے زمانہ میں ہی تدابیر شروع کر دی تھیں.ٹریکٹوں کے لکھنے والے کئی ایک تھے ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ ٹریکٹ خود مولوی محمد علی صاحب نے لکھا مگر بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا لکھنے والا ان کے دوستوں اور ہم خیالوں میں سے ضرور تھا اور ایک نہ تھا کئی تھے بلکہ کوئی جماعت تھی کیونکہ ایک سلسلہ ٹریکٹ کی اشاعت اور وہ بھی کثرت سے ایک شخص کا کام نہیں.اس کے انتظام، اس کے خرچ اور اس کے ڈسپیچ کیلئے

Page 454

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۶ جلد اول مددگاروں کی ضرورت ہے اور بغیر مددگاروں کے یہ کام ہو نہیں سکتا.پس ضرور ہے کہ ان کے ہم خیالوں کی ایک خفیہ سوسائٹی بنائی گئی تھی جس نے یہ کام کیا.ٹریکٹوں کا اثر اور ان کا جواب جب یہ ٹریکٹ شائع ہوئے تو ان کا اثر ایک بمب سے زیادہ تھا وہ جماعت جو مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ تھی اس نے اس ٹریکٹ کی اشاعت پر اپنی ذمہ داری کو پھر بڑے زور سے محسوس کیا اور چاہا کہ اس کا جواب دیا جاوے.جماعت کی ناراضگی اور حضرت خلیفہ امسیح کے غضب سے ڈر کر پیغام صلح میں جو تائیدی ریمارکس شائع ہوئے تھے اس کی تردید میں ایک مختصر سا نوٹ متعلقین پیغام صلح نے آخر میں شائع کیا ، لیکن اس کے الفاظ ایسے بیچ دار تھے کہ ان میں ان ٹریکٹوں کے مضمون کی اگر تردید نکلتی تھی تو تائید کا پہلو بھی ساتھ ہی تھا مگر اصل جواب ایک اور جماعت کے لئے مقدر تھا اور وہ انصار اللہ کی جماعت تھی چونکہ راقم ٹریکٹ نے ان ٹریکٹوں میں انجمن انصار اللہ کے خلاف خاص طور پر زہر اگلا تھا اور اخبار پیغام مصلح میں بھی انہی کو مخاطب کیا گیا تھا اس لئے حضرت خلیفہ اسیح نے خاص طور پر اس ٹریکٹ کا جواب اس جماعت کے سپرد فرمایا جو آپ کے ارشاد کے ماتحت دوٹریکٹوں کی صورت میں شائع کیا گیا.پہلے ٹریکٹ میں اظہار الحق نمبر اول کا جواب لکھا گیا اور اس کا نام خلافت احمد یہ رکھا گیا.دوسرے میں نمبر دوم کا جواب لکھا گیا اور اس کا نام اظہار الحقیقۃ رکھا گیا.یہ ٹریکٹ خود حضرت خلیفہ اسیح نے دیکھے اور ان میں اصلاح فرمائی اور یہ فقرہ بھی ایک جگہ زائد فرما دیا ”ہزار ملامت پیغام پر جس نے اپنی چٹھی شائع کر کے ہمیں پیغامِ جنگ دیا اور نفاق کا بھانڈا پھوڑ دیا،۱۲ ان ٹریکٹوں کی اشاعت پر ہم نے چاہا کہ ان لوگوں سے بھی جن کی تائید میں یہ ٹریکٹ گمنام آدمی نے لکھے ہیں اس کی تردید میں کچھ لکھ دیا جائے.لیکن چونکہ ان لوگوں کے دل میں منافقت تھی اور یہ دل سے اس کی تائید میں تھے اس لئے انہوں نے بیسیوں عذروں اور.بہانوں سے اس کام سے انکار کیا.سوائے میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے کہ جنہوں نے ان سوالات کے جواب لکھ دیئے جو ان کو لکھے گئے تھے اور یہی صاحب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے

Page 455

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۷ جلد اول آخر بیعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.گمنام ٹریکٹ شائع کرنے والے نے جس مقصد سے یہ ٹریکٹ شائع کئے تھے وہ مقصد اس کا پورا ہوا یا نہیں اس کو وہی خوب جانتا ہوگا.ہمیں ان ٹریکٹوں کی اشاعت سے یہ فائدہ ضرور ہو گیا کہ وہ باتیں جو مولوی صاحب اور ان کے ساتھی خفیہ خفیہ پھیلا یا کرتے تھے ان کا عَلَى الْإِعْلان جواب دینے کا ہمیں موقع مل گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نفاق کا بھانڈا پھوٹ گیا.اس ٹریکٹ کے بعد چند ماہ کے لئے امن ہو گیا.مینجر پیغام اور بابومنظورالہی کو حضرت خلیفہ امسیح الاوّل سے معافی مانگنی پڑی اور بظاہر معاملہ دب گیا لیکن یہ لوگ اپنے کام سے غافل نہ تھے.خواجہ صاحب کا غیر احمدیوں کے پیچھے نماز خواجہ کمال الدین صاحب نے ولایت کے حالات سے پڑھنے کی اجازت مانگنا اور نماز پڑھنا فائدہ اٹھا کر غیر احمد یوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت طلب کرنی شروع کی.کیونکہ بقول ان کے وہاں کے لوگ احمدیت سے واقف نہیں اور مسلمانوں میں فرقہ بندی کا علم ان کو دینا مناسب نہ تھا.خواجہ صاحب کی کمزوری کو دیکھ کر حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل نے اُن کو اجازت دے دی لیکن خواجہ صاحب نے سب سے پہلے ظفر علی خان ایڈیٹر زمیندار کے پیچھے نماز ادا کی جو سخت معاند سلسلہ اور بدگو آدمی ہے اور اس طرح انگلستان کو بھی وہی پوزیشن دے دی جو ہندوؤں کے اعتقاد میں گنگا کو ہے کہ جو وہاں گیا پاک ہو گیا.ہندوستان میں ظفر علی خان کے پیچھے نماز پڑھنا حرام لیکن انگلستان میں قدم رکھتے ہی وہ پاک ہو جاتا ہے اور اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز ہو جاتا ہے.حضرت خلیفہ اول کے متعلق پیغام صلح کی غلط بیانی میں پہلے لکھ آیا تو ہوں کہ خفیہ طور پر شائع ہونے والے ٹریکٹوں کے جوابات کے بعد ظاہر طور پر امن ہو گیا تھا لیکن درحقیقت کینہ و بغض کی آگ ان لوگوں کے دلوں میں جل رہی تھی.چنانچہ ۱۹۱۳ء کے دسمبر کے جلسہ پر اس کا اظہار ہو گیا اور وہ اس طرح کہ سالانہ جلسہ کی تقریر میں حضرت خلیفۃ المسیح نے ان گمنام طور پر شائع کردہ ٹریکٹوں کا ذکر اپنی تقریر میں کیا اور اس پر اظہار نفرت کیا.اس

Page 456

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۸ جلد اول پر آپ کے مطلب کو بگاڑ کر پیغام صلح نے جھٹ پٹ شائع کر دیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے انصار اللہ کے جواب میں شائع ہونے والے ٹریکٹوں پر اظہار نفرت کیا ہے اور اس سے یہ غرض تھی کہ تا ان گمنام ٹریکٹوں کا اثر پھر قائم کیا جاوے اور ان کے جوابات کا اثر زائل کیا جاوے.حالانکہ انصار اللہ کے جوابی ٹریکٹ حضرت خلیفہ امسیح کے حکم کے ماتحت آپ کو دکھانے کے بعد بلکہ آپ کی اصلاح کے بعد شائع ہوئے تھے.چنانچہ جب سب سے آخری مرتبہ آپ کے سامنے ان کا مسودہ پیش کیا گیا اور اس کی طبع کے متعلق اجازت طلب کی گئی تو آپ نے اس پر یہ تحریر فرمایا.اخلاص سے شائع کرو خاکسار بھی دعا کرے گا.اور خود بھی دعا کرتے رہو کہ شریر سمجھے یا کیفر کردار کو پہنچے.نورالدین.“ یہ تحریر اب تک ہمارے پاس موجود ہے.پھر کیسے تعجب کی بات ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح تو ان ٹریکٹوں کے بااثر ہونے کے لئے دعا کا وعدہ فرماتے ہیں اور اگر اظہارالحق کا مصنف باز نہ آئے تو اس کے لئے بددعا کرتے ہیں مگر پیغام صلح حق کی مخالفت کی وجہ سے ایسا اندھا ہو جاتا ہے کہ انصار اللہ کے ٹریکٹوں پر حضرت خلیفہ امسیح کو ناراض لکھتا ہے.اصل سبب یہی تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح اظہار الحق کے مضمون کی طرف لوگوں کی توجہ ہو اور اس کے جواب پر لوگ بدگمان ہو جائیں.لیکن اس کا یہ حربہ بھی کارگر نہیں ہوا کیونکہ حضرت خلیفۃ امسیح نے ۱۵ جنوری ۱۹۱۴ء کو ایک تحریر کے ذریعہ شائع فرمایا کہ:.پچھلے سال بہت سے نادانوں نے قوم میں فتنہ ڈلوانا چاہا اور اظہار حق نامی اشتہار عام طور پر جماعت میں تقسیم کیا گیا.جس میں مجھ پر بھی اعتراضات کئے گئے.مصنف ٹریکٹ کا تو یہ منشاء ہوگا کہ اس سے جماعت میں تفرقہ ڈال دے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی بندہ نوازی سے مجھے اور جماعت کو اس فتنہ سے بچا لیا.“ پیغام نے حضرت خلیفہ اول کے لیکچر کا خلاصہ لکھتے ہوئے لکھا:.دو جس شخص نے اظہار الحق لکھا اور جنہوں نے کھلی چٹھی شائع کی اور جنہوں نے خلافت پر بحث کی اور ٹریکٹ شائع کئے اُن کا حق کیا تھا“.(پیغام صلح پر چہ ۶ جنوری ۱۹۱۴ ، صفحه ۲)

Page 457

خلافة على منهاج النبوة ۴۳۹ جلد اول جلسہ سالانہ کے چند ہی دن خلافت کے متعلق حضرت خلیفہ اول کا خیال کے بعد حضرت خلیقہ مسیح بیمار ہو گئے اور آپ کی علالت روز بروز بڑھنے لگی.مگر ان بیماری کے دنوں میں بھی آپ تعلیم کا کام کرتے رہے.مولوی محمد علی صاحب قرآن شریف کے بعض مقامات کے متعلق آپ سے سوال کرتے اور آپ جواب لکھواتے کچھ اور لوگوں کو بھی پڑھاتے.ایک دن اسی طرح پڑھا رہے تھے مسند احمد کا سبق تھا.آپ نے پڑھاتے پڑھاتے فرمایا کہ مسند احمد حدیث کی نہایت معتبر کتاب ہے بخاری کا درجہ رکھتی ہے مگر افسوس ہے کہ اس میں بعض غیر معتبر روایات امام احمد بن حنبل صاحب کے ایک شاگرد اور ان کے بیٹے کی طرف سے شامل ہوگئی ہیں جو اس پایہ کی نہیں ہیں.میرا دل چاہتا تھا کہ اصل کتاب کو علیحدہ کر لیا جاتا مگر افسوس کہ یہ کام میرے وقت میں نہیں ہو سکا اب شاید میاں کے وقت میں ہو جاوے اتنے میں مولوی سید سرور شاہ صاحب آگئے اور آپ نے ان کے سامنے یہ بات پھر دُہرائی اور کہا کہ ہمارے وقت میں تو یہ کام نہیں ہو سکا آپ میاں کے وقت میں اس کام کو پورا کریں.یہ بات آپ نے وفات سے دو ماہ پہلے فرمائی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم حضرت خلیفتہ امسیح کا منشاء یہی تھا کہ آپ کے بعد خلفاء کا سلسلہ چلے گا اور یہ بھی کہ خدا تعالی اس مقام پر آپ کے بعد مجھے کھڑا کرے گا.سئلہ کفر و اسلام کے متعلق خلیفہ المسیح چونکہ مسئلہ کفر و اسلام کا تذکرہ جماعت میں ہمیشہ زیر بحث رہتا تھا کا مولوی محمد علی کو ارشاد اور مولوی محمد علی صاحب نے کبھی ان مسائل پر قلم نہیں اُٹھایا تھا اور ان مسائل کے متعلق ان کو بے تعلق حیثیت حاصل تھی مولوی يفة المسيح محمد علی صاحب کو قرآن کریم کے بعض مقامات پر نوٹ کرانے کے دوران حضرت خلیفہ کا نے مختلف آیات کے متعلق ایک دن فرمایا کہ یہ آیات کفر و اسلام کے مسئلہ پر روشنی ڈالتی ہیں اور لوگ بظاہر ان میں اختلاف سمجھتے ہیں مثلاً :- إن الذين أمنوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَ التّصرى والصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ واليوم الأخرو عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ

Page 458

خلافة على منهاج النبوة وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ١٣ ۴۴۰ جلد اول اِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُ وَن ان يُفَر تُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بين ذلك سبيلان أوليْكَ هُمُ الْكَفِرُونَ حَقًّا وَاعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ عَذَابًا مهينا اس طرح بعض لوگ میری نسبت بھی کہتے ہیں کہ یہ کبھی غیر احمد یوں کو مسلمان کہتا ہے اور کبھی کافر.میرا ارادہ تھا کہ کبھی اس پر ایک مضمون لکھوں کہ ان آیات کا کیا مطلب ہے.اور میرے اقوال میں جو اختلاف نظر آتا ہے اس کا کیا باعث ہے.آپ آجکل قرآن کریم کے نوٹ لکھ رہے ہیں آپ اس پر مضمون لکھیں اور مجھے دکھا لیں.اس میں ان آیات میں مطابقت کر کے دکھائی جاوے.یہ گفتگو میرے سامنے ہوئی.اسی طرح کچھ دن بعد جب کہ م میں بھی بیٹھا ہوا تھا حضرت خلیفہ اول نے پھر یہی ذکر شروع کیا اور اپنی نسبت فرمایا کہ میری نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ کبھی غیر احمدیوں کو مسلمان کہہ دیتا ہے کبھی کا فر حالانکہ لوگ میری بات کو نہیں سمجھے.یہ ایک مشکل بات ہے حتی کہ ہمارے میاں بھی نہیں سمجھے.مولوی محمد علی صاحب کا مولوی صاحب کو گو حضرت خلیفہ امسیح نے ایک بے تعلق آدمی خیال کیا تھا مگر مولوی صاحب کفر و اسلام کے متعلق مضمون دل میں تعصب و بغض سے بھرے ہوئے تھے.اپر انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور حضرت خلیفہ المسیح نے کہا کچھ تھا انہوں نے لکھنا کچھ اور شروع کر دیا.بجائے اس کے کہ ان آیات میں تطبیق پر مضمون لکھتے جو بعض لوگوں کے نزدیک ایک دوسری کے مخالف ہیں ” کفر و اسلام غیر احمد یاں“ پر ایک مضمون لکھ دیا.ادھر پیغام صلح میں یہ شائع کرا دیا گیا کہ حضرت خلیفہ اُسیح نے فرمایا ہے کہ میاں کفر و اسلام کا مسئلہ نہیں سمجھا * حالانکہ یہ بات بالکل جھوٹ تھی جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے.پیغام ۳ مارچ ۱۹۱۴ء صفحهیم ” میاں نے بھی اس کو نہیں سمجھا رسالہ کفر و اسلام صفحہ ۲ اسطر نمبر۱۱ ۱۲۰ میاں نے بھی اس مسئلہ کو نہیں سمجھا“.

Page 459

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۱ جلد اول مولوی محمد علی صاحب کا حضرت خلیفہ جب مولوی صاحب نے مضمون لکھ لیا تو نہ معلوم کس خوف سے اس بات کی اول کو مضمون سنانے کی حقیقت بے حد کوشش کی کہ علیحدہ وقت میں سنایا جاوے.چناچہ ایک دن رات کے وقت پہرہ کر کے مضمون سنانا چاہا مگر عین وقت پر ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب پہنچ گئے اور بات رہ گئی.دوسری دفعہ جمعہ کی نماز کا ناغہ کر کے مضمون سنایا.حضرت خلیفہ اول کے بڑے بیٹے میاں عبدالحی مرحوم کا بیان ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح نے فرمایا کہ ابھی اسے شائع نہ کریں اور اس قسم کی بات بھی کہی کہ میرا مطلب کچھ اور تھا مگر چونکہ مرحوم کی عمر اُس وقت چھوٹی تھی ہم ان کی شہادت پر اپنے دعویٰ کی بناء نہیں رکھتے.ہمارے پاس ایسی زبر دست اندرونی شہادت موجود ہے جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یا تو مضمون کو حضرت خلیفتہ امسیح نے نا پسند کیا اور یا پھر ان کے دکھانے کے بعد اسے بدل دیا گیا اور یا اسے ایسے وقت میں سنایا گیا کہ جس وقت آپ کی توجہ کسی اور کام کی طرف تھی اور آپ نے اس کو سنا ہی نہیں اور وہ شہادت خود مولوی محمد علی صاحب کا مضمون ہے.اس مضمون میں کئی ایسی باتیں لکھی گئی ہیں جو حضرت خلیفہ امسیح الاوّل جیسے عالم و فاضل کی طرف تو کجا ایک معمولی سمجھ کے آدمی کی طرف بھی منسوب نہیں ہوسکتیں.مثال کے طور پر ہم چند باتیں ذیل میں درج کرتے ہیں :.پہلی شہادت اس میں اسلام کی تعریف قرآن کریم و احادیث سے یہ ثابت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لے آنا کافی ہے اور کسی امر کی ضرورت نہیں.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب اس رسالہ میں لکھتے ہیں :.بلکہ خود قرآن کریم نے اس مضمون کو ایک ہی آیت میں بالکل صاف کر دیا ہے جہاں فرمایا وَ مَا يُؤْ مِنْ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ا جس میں سمجھایا ہے کہ اکثر لوگوں کا تو یہی حال ہے کہ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود دل کے کسی نہ کسی کو نہ میں شرک باقی رہتا ہے.پس باوجود مشرک ہونے کے بھی مومن کا لفظ ان پر بولا جاتا ہے.1766

Page 460

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۲ جلد اول یہ آیت جو مولوی محمد علی صاحب نے لکھی ہے کفار مکہ کے حق میں ہے اور سورۃ یوسف کے آخری رکوع میں وارد ہے.اس آیت سے استدلال کر کے مولوی محمد علی صاحب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسلام کی تعریف ایسی وسیع ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے والے بھی مومن ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ایک جزوی امر ہے جس کے فقدان پر انسان کا فرنہیں ہو جا تا.اسی طرح اسی صفحہ پر وہ لکھتے ہیں :.جو شخص لا اله الا الله کا انکار کر دے تو وہ اس دائرہ سے ہی خارج ہو گیا لیکن جو شخص لا اله الا اللہ کا اقرار کر کے کسی اور حصہ کو چھوڑتا ہے تو وہ دائرہ ،،كا کے اندر تو ہے مگر اس خاص حصہ کا کا فر ہے.“ اس حوالہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ ان کے نزدیک جو شخص لا إِلهَ إِلَّا الله مان لے وہ مسلمان ہو جاتا ہے کسی اور بات کے انکار سے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی انکار شامل ہے اس کے مسلم ہونے میں کچھ شبہ نہیں پڑتا.صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ وہ اسلام کے ایک حصہ کا کافر ہے دائرہ اسلام سے وہ خارج نہیں.اور اس سے وہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار بھی ایک جزو کا انکار ہے نہ کہ دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے.یہ عقیدہ ایک ایسا خطرناک عقیدہ ہے کہ اس سے اسلام کی ہی بیخ کنی ہو جاتی ہے.کیونکہ قرآن کریم اسلام کے لئے اللہ ، ملائکہ ، کتب سماویہ، رسل اور یوم آخر پر ایمان لا نا ضروری قرار دیتا ہے.پس یہ بات جو مولوی محمد علی صاحب نے لکھی ہے ہر گز حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی لکھائی ہوئی یا پسند کی ہوئی نہیں ہو سکتی کیونکہ آپ کا مذہب بدر ۹ مارچ ۱۹۱۱ء کے پرچہ میں اس طرح درج ہے." لَا إِلَهَ إِلَّا الله کے ماننے کے نیچے خدا کے سارے ما موروں کے ماننے کا حکم آجاتا ہے حضرت آدم ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسی ، حضرت مسیح ان سب کا ماننا اسی لا اله الا الله کے ماتحت ہے حالانکہ ان کا ذکر اس کلمہ میں نہیں.قرآن مجید کا ماننا، سیدنا حضرت محمد خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ، قیامت کا ماننا ، سب مسلمان جانتے ہیں کہ اس کلمہ کے مفہوم میں داخل ہے.66

Page 461

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۳ جلد اول پس حضرت خلیفہ اسی الاول کے اس فتوی کی موجودگی میں اور خود اس فتوی کے صریح باطل ہونے کے باوجود کون شخص خیال کر سکتا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے یہ مضمون حضرت خلیفہ اسیح کے لکھوائے ہوئے نوٹوں کے مطابق لکھا ہے اور آپ کی پسندیدگی کے بعد شائع کیا ہے.دوسری اندرونی شہادت یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنے دوسری شہادت اس رسالہ میں قرآن کریم کی ایک آیت کے ایسے غلط معنی کئے ہیں کہ وہ عربی زبان کے قواعد کے بالکل خلاف ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح کے کئے ہوئے معنوں کے بھی خلاف ہیں بلکہ ایک رنگ میں ان کی تردید حضرت خلیفہ المسیح نے کی ہے.مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں.وو 1966 " قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ لا یعنی اللہ منوا کر ان کو چھوڑ دو.19 یعنی آیت قل اللهم رحم کے یہ معنی ہیں کہ لوگوں سے خدا منوا لو اور پھر ان کو چھوڑ دو.اسی قدر ان کے اسلام کیلئے کافی ہے.لیکن جب ہم آیت کریمہ کو دیکھتے ہیں تو وہ اس طرح ہے.وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقٌّ قَدْرة إذ قالُوا مَا أَنزَلَ اللهُ عَلَى بَشَرِ مِن شَيْءٍ قُلْ مَنْ انزل الكتب الَّذِي جَاءَبِه مُوسى نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيْسَ تبدونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَ عَلِمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلا أَبَاؤُكُمْ ، قُلِ الله ، ثُمَّ ذَرْهُمْ في خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ ٣٠ يعنی ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا اندازہ پورے طور پر نہیں لگایا جبکہ انہوں نے یہ بات کہی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بندے پر کچھ نہیں اُتارا.کہہ کون ہے جس نے وہ کتاب اُتاری تھی جو موسیٰ لائے تھے جونور تھی اور لوگوں کے لئے ہدایت تھی.جس کتاب کو تم ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہو اس میں سے بعض کو ظاہر کرتے ہو اور بہت حصے کو چھپاتے ہو اور تم وہ بات سکھائے گئے ہو جو نہ تم جانتے ہو اور نہ تمہارے باپ دادے جانتے تھے ( یعنی قرآن کریم میں تو ایسے علوم ہیں جو تو ریت میں نہ تھے پھر وہ خدا کی کتاب ہو گئی اور یہ نہ ہوئی ) کہ یعنی تو ان کو اپنی طرف سے کہہ دے کہ خدا تعالیٰ نے موسی کی کتاب اُتاری تھی اور یہ جواب مُسکت ان کو دے کر ان کو چھوڑ

Page 462

خلافة على منهاج النبوة ۴ ۴ ۴ جلد اول دے کہ یہ اپنی شرارتوں میں کھیلتے رہیں.اس آیت میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کہ خدا کو منوا کر چھوڑ دو.اس میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ یہود کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بندہ پر کبھی الہام نازل نہیں کیا.اس کے جواب میں تو ان سے پوچھ کہ موسیٰ کی کتاب کس نے نازل کی تھی؟ اور پھر اپنی طرف سے کہہ دے کہ وہ خدا تعالیٰ نے نازل کی تھی اور چونکہ یہ جواب ان کے عقیدہ کے مطابق ہے اور یہ اس کا جواب کچھ نہیں دے سکتے اس لئے اس جواب کے بعد اس مسئلہ پر زیادہ گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں پھر ان کو چھوڑ دو کہ دین پر ہنسی کرتے ہیں.عربی زبان کے مطابق مولوی محمد علی صاحب کے کئے ہوئے معنی کسی طرح جائز نہیں.خودان کے شائع کردہ ترجمہ قرآن میں بھی یہ معنی نہیں کئے گئے بلکہ وہی معنی کئے گئے ہیں جو میں نے لکھے ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں.And they do not assign to Allah the attributes due to Him, when they say: Allah has not revealed any thing to a mortal.say: who revealed the Book which moses brought a light, and a guidance to men, which you make into scattered writing, which you show, while you conceal much? And you were taught did not know, (neither) you nor your fathers.say: Allah what then leave them sporting in their vain discourses.you p 30 اگر وہ معنی درست ہوتے جو مولوی صاحب نے اس رسالہ میں لکھے ہیں تو کیوں وہ قرآن کریم میں وہ ترجمہ نہ لکھتے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ پہلے سے جانتے تھے کہ یہ ترجمہ غلط ہے اور محض دھوکا دینے کیلئے انہوں نے اس رسالہ میں غلط معنی کر دیئے ہیں اور یا یہ کہ اعتراضوں سے گھبرا کر انہوں نے اپنے ترجمہ میں چھپنے سے پہلے تبدیلی کر دی.ان کا خود ان معنوں کو غلط تسلیم کر لینا اس امر سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس کے بعد کفر و اسلام کے متعلق انہوں نے متعد دتحریروں میں بحث کی ہے مگر کبھی اس آیت سے پھر استدلال نہیں کیا.غرض ایسے غلط معنی حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی طرف کبھی منسوب نہیں کئے جا سکتے اور نہ یہ

Page 463

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۵ جلد اول خیال کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے ان معنوں کو پسند کیا ہوگا.اس امر کی تائید میں کہ حضرت خلیفہ اسیح نے ہرگز ان معنوں کو پسند نہیں کیا یہ ثبوت بھی ہے کہ آپ کے درس قرآن کریم کے نوٹوں میں آپ نے وہی معنے کئے ہیں جو ہم نے پہلے لکھے ہیں آپ فرماتے ہیں :.فرمایا: قل الله ثُمَّ ذَرْهُمْ کے یہ معنی نہیں کہ اللہ اللہ کرتے رہو.کیونکہ محض اللہ اللہ ذکر ہماری شریعت اسلامی میں ثابت نہیں بلکہ یہ تو جواب ہے من انزل الكتب کا.یہ کتاب کس نے اُتاری؟ تو کہہ اللہ نے اس پس آپ کے مطبوعہ معنوں کے خلاف ایک اور معنی جو عربی زبان کے خلاف ہیں آر کی طرف منسوب کرنا کس قدر ظلم اور دیدہ دلیری ہے.اور جس رسالہ میں قرآن کریم کی وہ آیت کے ایسے غلط معنی کر کے مسئلہ کفر و اسلام کو ثابت کیا گیا ہو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ و حضرت خلیفۃ المسیح کی پسند کردہ ہے.حضرت خلیفہ المسیح نہ تو صرف یہ کہ ان معنوں کے خلاف ایک اور معنی کرتے ہیں بلکہ یہ فرما کر کہ قل الله جواب ہے من انزل الكتب كا “ مولوی محمد علی صاحب کے معنوں کو بالکل رڈ کر دیتے ہیں.تیسری شہادت اس بات کے رد میں یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب تیسری شہادت نے اپنے اس رسالہ میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ کا یہ مذہب ہے کہ اگر کوئی شخص ایک دفعہ دل سے اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إلا الله کہہ دے تو وہ مومن ہو جاتا ہے.چاہے پھر اس سے شرک، کفر یا ظلم سرزد ہو.۲۲ یہ قول ایسا بے معنی اور بیہودہ ہے کہ عقل اس کے سننے سے انکار کرتی ہے.مگر مولوی محمد علی صاحب نہ صرف یہ کہ اس کو حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرتے ہیں بلکہ اسے ان کا مذہب قرار دیتے ہیں مگر با وجود بار بار کے مطالبہ کے کہ امام ابو حنیفہ کی کون سی مخفی کتاب آپ کے ہاتھ آگئی ہے جس میں یہ مذہب ان کا بیان ہے یا ان کے کسی شاگرد نے ان سے یہ مذہب نقل کیا ہے وہ بالکل ساکت و خاموش ہیں اور کوئی جواب نہیں دیتے اور صرف کہہ دیتے ہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح نے ان کو ایسا ہی لکھوایا تھا حالانکہ

Page 464

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۶ جلد اول حضرت خلیفۃ المسیح خود تو امام ابو حنیفہ کے وقت میں تھے نہیں ، آپ نے جو کچھ فرمایا ہوگا حنفیوں کی کتابوں سے ہی فرمایا ہوگا.مگر جس قدر کتب امام ابو حنیفہ کے اقوال کے بیان میں ہیں ان میں سے ایک میں بھی یہ قول درج نہیں پس ایسے بیہودہ قول کو ایسے امام کی طرف منسوب کرنا حضرت خلیفہ اسیح کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا.ضرور ہے کہ یہ مولوی محمد علی صاحب کے دماغ کی اختراع ہو یا حضرت خلیفہ مسیح کی کسی بات کو نہ سمجھ کر انہوں نے اس طرح لکھ دیا ہو.ان دونوں صورتوں میں یہ رسالہ حضرت خلیفہ اسیح کا پسندیدہ اور ان کے منشاء کے مطابق نہیں ہوسکتا.یہ تین شاہد اندرونی ہمارے پاس موجود ہیں جو شہادت دیتے ہیں کہ یہ رسالہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کا پسندیدہ نہیں.لیکن ہم ان شواہد کے علاوہ یہ امر بھی دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ قریبا ایک ماہ حضرت خلیفہ اسیح کی وفات سے پہلے یہ رسالہ حضرت خلیفتہ المسیح کو سنایا گیا ہے اسے شائع آپ کی وفات کے بعد کیا گیا حالانکہ اس کے بعد کا لکھا ہوا ایک مضمون جو اس سے بڑا ہے اس سے پہلے چھاپ کر شائع کیا گیا.جس معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص حکمت کے ماتحت اس کی اشاعت رو کی گئی تھی اور وہ حکمت ނ اس کے ہوا اور کیا تھی کہ حضرت خلیفہ امسیح کی وفات کا انتظار کیا جا تا تھا.حضرت خلیفۃ المسیح کی وصیت حضرت خلیفہ اسیح کی بیماری چونکہ زیادہ ہوگئی.فروری ۱۹۱۴ء میں ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ آپ قصبہ سے باہر کسی جگہ رہیں تا کہ کھلی ہوا کے مفید اثر سے فائدہ اُٹھا سکیں.خان محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے رشتہ دامادی رکھتے ہیں اپنی کوٹھی کے ایک حصہ کے خالی کر دینے کا انتظام کر دیا اور آپ وہاں تشریف لے گئے.چونکہ آپ کی طبیعت زیادہ کمزور ہوتی جارہی تھی میں بھی وہیں جا رہا.چار مارچ کو عصر کے قریب آپ نے کاغذ و قلم و دوات منگوایا اور لیٹے لیٹے ایک وصیت لکھی.جس کا مضمون یہ ہے :.خاکسار بقائمی ہوش وحواس لکھتا ہے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ میرے بچے چھوٹے ہیں.ہمارے گھر میں مال نہیں.ان کا اللہ حافظ ہے.ان کی پرورش بیتا می و مساکین سے نہیں کچھ قرض حسنہ جمع کیا جائے لائق لڑکے ادا کریں.

Page 465

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۷ جلد اول یا کتب جائداد وقف علی الا ولا د ہو.میرا جانشین متقی ہو.ہر دلعزیز عالم باعمل.حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی درگز رکو کام میں لا وے.میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے.قرآن وحدیث کا درس جاری رہے.والسلام نورالدین۴ / مارچ ۱۹۱۴ء۲۳ جب آپ نے دمیرت کبھی مولوی تو وصیت کا مولوی محمد علی صاحب سے پڑھوانا محمد علی صاحب پاس بیٹھے ہوئے تھے لکھ کر ان کو دی اور کہا کہ اسے پڑھ کر لوگوں کو سنا دیں پھر دوبارہ اور سہ بارہ پڑھوائی اور پھر دریافت فرمایا کہ کیا کوئی بات رہ تو نہیں گئی ؟ مولوی محمد علی صاحب جو اپنے دل میں خلافت کے مٹانے کی فکر میں تھے اور تدابیر سوچ رہے تھے اس وصیت کو پڑھ کر حیران رہ گئے اور اُس وقت ہر ایک شخص ان کے چہرہ پر ایک عجیب قسم کی مردنی اور غصہ دیکھ رہا تھا جو حضرت خلیفہ اسیح کے وصیت لکھوانے کے باعث نہ تھا بلکہ اپنی سب کوششوں پر پانی پھرتا ہوا دیکھنے کا نتیجہ تھا.مگر حضرت خلیفہ اول کا رُعب ان کو کچھ بولنے نہ دیتا تھا.باوجود مخالفت خیالات کے انہوں نے اُس وقت یہی لفظ کہے کہ بالکل درست ہے.مگر آئندہ واقعات بتائیں گے کہ کسی مرید نے کسی خادم نے کسی اظہار عقیدت کرنے والے نے اپنے پیر اور اپنے آقا اور اپنے شیخ سے عین اُس وقت جبکہ وہ بستر مرگ پر لیٹا ہوا تھا اس سے بڑھ کر دھوکا اور فریب نہیں کیا جو مولوی محمد علی صاحب نے کیا.حضرت خلیفہ المسیح کی خلیفة امسیح کی بیماری میں اختلافی مسائل کا چرچا بیماری کی وجہ سے چونکہ نگرانی اُٹھ گئی تھی اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا اختلافی مسائل پر گفتگو بہت بڑھ گئی اور جس جگہ دیکھو یہی چر چا ر ہنے لگا.اس حالت کو دیکھ کر میں نے ایک اشتہا رلکھا جس کا یہ مضمون تھا کہ جس وقت کہ حضرت خلیفہ اسیح تندرست تھے اختلافی مسائل پر آپس میں ہماری بحثوں کا کچھ حرج نہ تھا.کیونکہ اگر بات حد سے بڑھے یا فتنہ کا اندیشہ ہو تو روکنے والا موجود تھا لیکن

Page 466

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۸ جلد اول اب جبکہ حضرت خلیفتہ اسی بہار ہیں اور سخت بیمار ہیں مناسب نہیں کہ ہم اس طرح بخشیں کریں اس کا انجام فتنہ ہوگا.اس لئے اختلافی مسائل پر اُس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفہ اسیح کو شفاء عطا فرما دے اور آپ خود ان بحثوں کی نگرانی کر سکیں نہ کوئی تحریرلکھی جائے اور نہ زبانی گفتگو کی جاوے تا کہ جماعت میں فتنہ نہ ہو.ی اشتہار لکھ کر میں نے مولوی محمد علی صاحب کے پاس بھی بھیجا کہ آپ بھی اس پر دستخط کر دیں تا کہ ہر قسم کے خیالات کے لوگوں پر اس کا اثر ہواور فتنہ سے جماعت محفوظ ہو جاوے.مولوی محمد علی صاحب نے اس کا یہ جواب دیا کہ چونکہ جماعت میں جو کچھ اختلاف ہے اس سے عام طور پر لوگ واقف نہیں ایسا اشتہا ر ٹھیک نہیں اس سے دشمنوں کو واقفیت حاصل ہو گی اور ہنسی کا موقع ملے گا.بہتر ہے کہ قادیان کے لوگوں کو جمع کیا جاوے اور اس میں آپ بھی اور میں بھی تقریریں کریں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ اختلافی مسائل پر گفتگو ترک کر دیں.گو میں حیران تھا کہ اظہار الحق نامی ٹریکٹوں کی اشاعت کے بعد لوگوں کا جماعت کے اختلاف سے ناواقف ہونا کیا معنی رکھتا ہے مگر میں نے مولوی صاحب کی اس بات کو قبول کر لیا.میں اُس وقت تک نہیں جانتا تھا کہ یہ بھی ایک دھوکا ہے جو مجھ سے کیا گیا ہے لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنے مدعا کے پورا کرنے کیلئے کسی فریب اور دھو کے سے بھی پر ہیز نہیں کیا اور اس اشتہار پر دستخط کرنے سے انکار کی وجہ یہ نہ تھی کہ عام طور پر معلوم ہو جاوے گا کہ جماعت میں کچھ اختلاف ہے بلکہ ان کی غرض کچھ اور تھی.ہے خلیفہ مسیح کے ایام بیماری قادیان کے لوگ مسجد نور میں جو سکول کی مسجد.اور خان محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کی میں ایک خاص اجتماع کوٹھی کے قریب ہے جہاں کہ اُن دنوں حضرت خلیفہ المسیح بیمار تھے جمع ہوئے اور میں اور مولوی محمد علی صاحب تقریر کرنے کے لئے وہاں گئے.مولوی محمد علی صاحب نے پہلے خواہش ظاہر کی کہ پہلے میں تقریر کروں اور میں بغیر کسی خیال کے تقریر کے لئے کھڑا ہو گیا اور اس میں میں نے وہی اشتہار کا مضمون دوسرے الفاظ میں لوگوں کو سنا دیا اور اتفاق پر زور دیا.جب مولوی محمد علی صاحب کھڑے ہوئے تو انہوں

Page 467

خلافة على منهاج النبوة ۴۴۹ جلد اول نے بجائے اتفاق پر زور دینے کے پچھلے قصوں کو دُہرانا شروع کیا اور لوگوں کو ڈانٹنا شروع کیا کہ وہ خواجہ صاحب پر یا ان کے دوسرے ہم خیالوں پر کیوں حملہ کرتے ہیں اور خوب زجر و توبیخ کی.لوگ میرے لحاظ سے بیٹھے رہے ورنہ ممکن تھا کہ بجائے فساد کے رفع ہونے کے ایک نیا فساد کھڑا ہو جاتا اور اسی مجلس میں ایک نئی بحث چھڑ جاتی.آخر میں کچھ کلمات اتفاق کے متعلق بھی انہوں نے کہے مگر وہ بھی سخت لہجہ میں جس سے لوگوں میں زیادہ نفرت پیدا ہوئی اور افتراق میں ترقی ہوئی.ششدر چونکہ حضرت خلیفتہ امسیح کی طبیعت کچھ دنوں سے جماعت کے اتحاد کی کوششیں زیادہ علیل تھی اور لوگ نہایت افسوس کے ساتھ آنے والے خطرہ کو دیکھ رہے تھے طبعاً ہر ایک شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہورہا تھا کہ اب کیا ہوگا ؟ میں تو برابر دعاؤں میں مشغول تھا اور دوسرے دوستوں کو بھی دعاؤں کے لئے تاکید کرتا تھا.اُس وقت اختلافی مسائل میرے سامنے نہ تھے بلکہ جماعت کا اتحاد مدنظر تھا اور اس کے زائل ہو جانے کا خوف میرے دل کو کھا رہا تھا.چنانچہ اس امر کے متعلق مختلف ذی اثر احمد یوں سے میں نے گفتگوئیں کیں.عام طور پر ان لوگوں کا جو خلافت کے مقر تھے اور نبوت مسیح موعود علیہ السلام کے قائل تھے یہی خیال تھا کہ ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی جاسکتی جس کے عقائد ان عقائد کے خلاف ہوں کیونکہ اس سے احمدیت کے مٹنے کا اندیشہ ہے.مگر میں اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ اتحاد سب سے ضروری ہے.شخصیتوں کے خیال سے اتحاد کو قربان نہیں کرنا چاہئے.چنانچہ میں نے اپنے دوستوں کو خاص طور پر سمجھانا شروع کیا کہ خدانخواستہ حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات پر ا گرفتنہ کا اندیشہ ہو تو ہمیں خواہ وہ لوگ تھوڑے ہی ہیں ان میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہئے کیونکہ میں نے ان سے کہا کہ اگر کوئی ہمارا ہم عقیدہ شخص خلیفہ ہوا تو وہ لوگ اس کی بیعت نہیں کریں گے اور جماعت میں اختلاف پڑ جائے گا اور جب میں ان میں سے کسی کی بیعت کرلوں گا تو امید ہے کہ میرے اکثر احباب اس کی بیعت اختیار کر لیں گے اور فساد سے جماعت محفوظ رہے گی.چنانچہ ایک دن عصر کے بعد جب کہ مولوی سید محمد سرور صاحب جو ہماری جماعت کے سب سے بڑے علماء میں سے ایک ہیں

Page 468

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۰ جلد اول میرے ساتھ سیر کو گئے تو تمام سیر میں دو گھنٹہ کے قریب ان سے اسی امر پر بحث ہوتی رہی اور آخر میں نے ان کو منوالیا کہ ہمیں اس بات کیلئے پورے طور پر تیار ہونا چاہئے کہ اگر اس بات پر اختلاف ہو کہ خلیفہ کس جماعت میں سے ہو تو ہم ان میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.حضرت خلیفہ اول کی وفات آخر وہ دن آگیا جس سے ہم ڈرتے تھے ۱۳ / مارچ کو جمعہ کے دن صبح کے وقت حضرت خلیفتہ امسیح کو بہت ضعف معلوم ہونے لگا اور ڈاکٹروں نے لوگوں کا اندر جا نامنع کر دیا.مگر پھر بھی عام طور پر لوگوں کا یہ خیال نہ تھا کہ وہ آنے والی مصیبت ایسی قریب ہے.آپ کی بیماری کی وجہ سے آپ کی جگہ جمعہ بھی اور دیگر نمازیں بھی آپ کے حکم کے ماتحت میں پڑھایا کرتا تھا چنانچہ جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے میں مسجد جامع گیا.نماز پڑھا کر تھوڑی دیر کے لئے میں گھر گیا.اتنے میں ایک شخص خان محمد علی خان صاحب کا ملازم میرے پاس اُن کا پیغام لے کر آیا کہ وہ میرے انتظار میں ہے اور ان کی گاڑی کھڑی ہے چنانچہ میں ان کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہو کر ان کے مکان کی طرف روانہ ہوا.ابھی ہم راستہ میں تھے تو ایک نص دوڑتا ہوا آیا اور اُس نے ہمیں اطلاع دی کہ حضرت خلیفۃ المسیح فوت ہو گئے ہیں اور اس طرح میری ایک پرانی رویا پوری ہوئی کہ میں گاڑی میں بیٹھا ہوا کہیں سے آرہا ہوں کہ راستہ میں مجھے حضرت خلیفہ اسیح کی وفات کی خبر ملی ہے.یہ خبر اُس وقت کے حالات کے ماتحت ایک نہایت ہی متوحش خبر تھی.حضرت خلیفہ المسیح کی وفات کا تو ہمیں صدمہ تھا ہی مگر اس سے بڑھ کر جماعت میں تفرقہ پڑ جانے کا خوف تھا.حضرت خلیفہ اول کی وفات پر پہلی تقریر اسی وقت تمام جماعت کو اطلاع کیلئے تاریں روانہ کر دی گئیں.خدا تعالیٰ کے حضور دعا میں اکثر حصہ جماعت لگ گیا.عصر کے وقت مسجد نور میں جبکہ جماعت کا اکثر حصہ وہاں جمع تھا میں نے ایک تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا.حضرت خلیفتہ المسیح کی وفات کے ساتھ ہم پر ایک ذمہ داری رکھی گئی ہے جس کے پورا کرنے کے لئے سب جماعت کو تیار ہو جانا چاہئے.کوئی کام کتنا ہی اعلیٰ ہوا گر ارادہ بد ہو تو وہ

Page 469

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۱ جلد اول خراب ہو جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے پڑھنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اَعُوذُ پڑھنے کا حکم دیا ہے اور ہر سورۃ سے پہلے بشیر اللہ نازل کی ہے.اَعُوذُ میں انسان بدنیتی سے پناہ مانگتا ہے اور پشیر اللہ کے ذریعہ عمل نیک کی تو فیق چاہتا ہے.پس جبکہ قرآن کریم کی تلاوت جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور جس کا پڑھنا خدا تعالیٰ نے فرض کیا ہے اس کیلئے اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے تو دوسرے کاموں کے لئے خواہ کتنے ہی نیک ہوں کس قدرت احتیاط کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں نماز کے متعلق فرماتا ہے فَوَيلُ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ۲۴ یعنی عذاب ہے ان نمازیوں کے لئے جو غرض نماز سے ناواقف ہوتے ہیں اور لوگوں کے دکھانے کے لئے نماز پڑھتے ہیں.وہ نماز جو خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے اسی کو اس آیت میں نیت کے فرق کے ساتھ موجب عذاب قرار دیا ہے.پس جو امانت اب ہمارے سپرد کی گئی ہے اس کے پورا کرنے کے لئے ہمیں خاص دعاؤں میں لگ جانا چاہئے اور اهدنا الصراط الْمُسْتَقِيمَ ۲۵ بہت پڑھنا چاہئے تا کہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہم پر نازل ہو اور اس کی رضا ہم پر ظاہر ہو.اگر خدا تعالیٰ نے مدد نہ کی تو خطرہ ہے کہ ہم ہلاکت میں نہ پڑ جاویں.پس آج سے ہر ایک شخص چلتے پھرتے نمازوں میں اور نمازوں سے باہر دعا میں لگ جاوے تا خدا ہماری حفاظت کرے اور سیدھے راستہ سے نہ ہٹنے دے اور رات کو اُٹھ کر بھی دعا کرو اور جن کو طاقت ہو روزہ رکھیں.اس کے بعد سب لوگوں کے ساتھ مل کر میں نے دعا کی اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس گئے.۲۶ مولوی محمد علی صاحب سے گفتگو میں مسجد سے نکل کر مکرمی خان صاحب محمد علی خان صاحب کے مکان کی طرف آرہا تھا کہ مولوی محمد علی صاحب مجھے کو ملے اور کہا کہ میں آپ سے کچھ باتیں کرنی چاہتا ہوں.میں ان کے ساتھ ہو گیا اور ہم دونوں جنگل کی طرف نکل گئے.مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ چونکہ ہر ایک کام بعد مشورہ ہی اچھا ہوتا ہے اور حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی وفات کے بعد جلدی سے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ پورے مشورہ کے بعد کوئی کام ہونا چاہئے.

Page 470

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۲ جلد اول میں نے ان سے کہا کہ جلدی کا کام بیشک بُرا ہوتا ہے اور مشورہ کے بعد ہی کام ہونا چاہیے.لوگ بہت سے آ رہے ہے اور کل تک امید ہے کہ ایک بڑا گر وہ جمع ہو جاوے گا.پس کل جس وقت لوگ جمع ہو جاویں مشورہ ہو جاوے.جو لوگ جماعت میں کچھ اثر رکھتے ہیں وہ تو قریب قریب کے ہی رہنے والے ہیں اور کل تک امید ہے کہ پہنچ جاویں گے.مولوی صاحب نے کہا کہ نہیں اس قدر جلدی ٹھیک نہیں.چونکہ اختلاف ہے اس لئے پورے طور پر بحث ہو کر ایک بات پر متفق ہو کر کام کرنا چاہئے.چار پانچ ماہ اس پر تمام جماعت غور کرے.تبادلۂ خیالات کے بعد پھر جو فیصلہ ہو اس پر عمل کیا جاوے.میں نے دریافت کیا کہ اول تو سوال یہ ہے کہ اختلاف کیا ہے؟ پھر یہ سوال ہے کہ اس قدر عرصہ میں اگر بغیر کسی راہنما کے جماعت میں فساد پڑا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے موقع پر بھی اسی طرح ہوا تھا کہ جو لوگ جمع ہو گئے تھے انہوں نے مشورہ کر لیا تھا اور یہی طریق پہلے زمانہ میں بھی تھا.چھ چھ ماہ کا انتظار نہ پہلے کبھی ہوا نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد.مولوی محمد علی صاحب نے جواب دیا کہ اب اختلاف ہے پہلے نہ تھا.دوسرے اس انتظار میں حرج کیا ہے؟ اگر خلیفہ نہ ہو تو اس میں نقصان کیا ہوگا ؟ وہ کون سا کام ہے جو کل ہی خلیفہ نے کرنا ہے؟ میں نے ان کو جواب دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جماعت اس بات کا فیصلہ کر چکی ہے کہ اس جماعت میں سلسلہ خلفاء چلے گا اس پر دوبارہ مشورہ کی ضرورت نہیں اور یہ سوال اب نہیں اُٹھایا جا سکتا.اگر مشورہ کا سوال ہے تو صرف تعیین خلیفہ کے متعلق اور یہ جو آپ نے کہا کہ خلیفہ کا کام کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خلیفہ کا کام علاوہ روحانی نگہداشت کے جماعت کو متحد رکھنا اور فساد سے بچانا ہے اور یہ کام نظر نہیں آیا کرتا کہ میں آپ کو معین کر کے وہ کام بتا دوں.خلیفہ کا کام روحانی تربیت اور انتظام کا قیام ہے نہ روحانی تربیت مادی چیز ہے کہ میں بتا دوں کہ وہ یہ یہ کام کریگا.اور نہ فساد کا کوئی وقت معین ہے کہ فلاں وقت تک اس کی ضرورت پیش نہ آوے گی.ممکن ہے کل ہی کوئی امر ایسا پیش آجاوے جس کے لئے کسی نگران ہاتھ کی ضرورت ہو.پس آپ اس سوال کو جانے دیں کہ خلیفہ ہو یا نہ ہو.مشورہ اس امر کے متعلق ہونا چاہئے کہ خلیفہ کون ہو؟

Page 471

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۳ جلد اول اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ اس میں دقت ہے.چونکہ عقائد کا اختلاف ہے اسلئے تعیین میں اختلاف ہو گا ہم لوگ کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر کیوں کر بیعت کر سکتے ہیں جس کے ساتھ ہمیں اختلاف ہو میں نے جواب دیا کہ اول تو ان امور اختلافیہ میں کوئی ایسی بات نہیں جس کا اختلاف ہمیں ایک دوسرے کی بیعت سے رو کے.( اُس وقت تک اختلاف عقائد نے اس طرح سختی کا رنگ نہ پکڑا تھا ) لیکن بہر حال ہم اس امر کے لئے تیار ہیں کہ آپ میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ یہ مشکل ہے آپ سوچ لیں اور مشورہ کر لیں اور کل پھر گفتگو ہو جاوے.میں نے بھی ان سے درخواست کی کہ آپ بھی میرے خیالات کے متعلق اپنے دوستوں سے مشورہ کر لیں اور پھر مجھے بتائیں تا کہ دوبارہ گفتگو ہو جاوے.پس ہم دونوں جدا ہو گئے.خلافت سے انکار نہیں ہو سکتا رات کے وقت میں نے اپنے دوستوں کو جمع کیا اور ان کو سب گفتگو سنائی.سب نے اس امر کا مشورہ دیا کہ خلافت سے انکار تو چونکہ مذہباً جائز نہیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو خلفاء کا انکار کرتا ہے وہ فاسق ہے اور خلافت کو اپنی نعمت قرار دیتا ہے اس نعمت کو چھوڑ نا تو جائز نہیں.میں نے ان کو بتایا کہ مولوی صاحب کی باتوں سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس امر پر زور دیں گے.مگر یہی رائے قرار پائی کہ یہ ایک مذہبی بات ہے جس کو دوسروں کے لئے قربان نہیں کیا جا سکتا.وہ لوگ ایک خلیفہ کی بیعت کر چکے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزد یک بیعت جائز ہے حرام نہیں اور ہمارے نزدیک بیعت نہ کرنا اور خود خلافت کو چھوڑ دینا حرام ہے.پس جب وہ اس امر کے انکار میں جسے وہ جائز سمجھتے ہیں اس قدر مصر ہیں تو ہم اس بات کو جسے ہم فرض سمجھتے ہیں کیونکر ترک کر سکتے ہیں.اس پر مجلس برخواست ہوگئی.حضرت خلیفہ اول کی وفات پر جیسا کہ میں نے پہلے دن تاکید کی تھی بہت سے لوگوں نے روزہ رکھنے کی تیاری کی ہوئی مولوی محمد علی صاحب کا ٹریکٹ تھی.جن لوگوں کو تہجد کے لئے اٹھنے کا موقع نہیں ملا کرتا تھا انہوں نے بھی نماز تہجد ادا کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا.دو بجے کے قریب میں اُٹھا

Page 472

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۴ جلد اول اور نماز تہجد ادا کرنے کی تیاری کی.ابھی میں وضو کر رہا تھا کہ ایک شخص نے میرے ہاتھ میں ایک ٹریکٹ دیا اور کہا کہ یہ ٹریکٹ تمام راستہ میں بیرونجات سے آنے والے احمدیوں میں تقسیم کیا گیا ہے جب میں نے اُس ٹریکٹ کو دیکھا تو وہ مولوی محمد علی صاحب کا لکھا ہوا تھا اور اس میں جماعت کو اُکسایا گیا تھا کہ آئندہ خلافت کا سلسلہ نہ چلے اور یہ کہ حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کی بیعت بھی انہوں نے بطور خلیفہ کے نہ کی تھی بلکہ بطورا یک پیر اور صوفی کے.اور یہ کہ مولوی محمد علی صاحب کو معلوم نہیں کہ کون خلیفہ ہو گا بلکہ صرف بطور خیر خواہی کے وہ کہتے ہیں کہ آئندہ خلیفہ نہ مقرر ہو اور یہ کہ میاں صاحب ( یعنی مصنف رسالہ ) غیر احمد یوں کو کا فرکہتا ہے اور یہ درست نہیں اور تقویٰ کے خلاف ہے اور یہ کہ اگر کوئی شخص جماعت کا سر بر آوردہ بنایا جاوے تو وہ ایسا شخص ہونا چاہئے جو غیر احمدیوں کو کافر نہ کہتا ہو.کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح کا جانشین متقی ہونا چاہئے اور غیر احمدیوں کو کافر کہنے والا متقی نہیں.اور میں اہل بیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر صحابہ کا خیر خواہ اور ان کا احترام کرنے والا ہوں.یہ مضمون جو کچھ ظاہر کرتا ہے اس پر اس جگہ کچھ لکھنے کی مجھے ضرورت نہیں.ہر ایک شخص ادنی تامل سے اس مضمون کا بین السطور مدعا خود سمجھ سکتا ہے.مولوی محمد علی صاحب کی جس وقت یہ ٹریکٹ میں نے دیکھا میں حیران ہو گیا اور میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی کیونکہ ابھی دو دن نہ مغالطہ دہی کا انکشاف گزرے تھے کہ میرے اس ارادہ پر کہ جماعت میں اعلان کیا جاوے کہ اختلافی مسائل میں اُس وقت تک بحث نہ کریں جب تک کوئی سردار ہم میں ایسا نہ ہو جو نگرانی کر سکے اور افراط اور تفریط کو روک سکے.مولوی محمد علی صاحب نے یہ مشورہ دیا تھا کہ چونکہ بیرونجات کے لوگ ان جھگڑوں سے ہی نا واقف ہیں اس لئے ان کو اس اشتہار سے ابتلاء آئے گا اور آج اس ٹریکٹ سے معلوم ہوا کہ نہ صرف اشتہار بلکہ ایک ٹریکٹ لکھ کر مولوی محمد علی صاحب پہلے سے لاہور چھپنے کے لئے بھیج چکے تھے اور نہ صرف اسے خود شائع کرانے کا ارادہ تھا بلکہ اس کے اوپر تمام احمد یوں کو ہدایت لکھی گئی تھی کہ وہ اس ٹریکٹ کو دوسروں تک پہنچا دیں.یہ بات میری سمجھ سے بالا تھی اور میں حیران تھا کہ میں مولوی

Page 473

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۵ جلد اول محمد علی صاحب کی نسبت کیا سمجھوں جو شخص دو دن پہلے مجھے اس امر کے اعلان سے کہ اختلافی مسائل پر آپس میں اُس وقت تک بحث نہ کرو کہ کوئی نگران تم میں موجود ہو اس لئے روکتا تھا کہ اس سے لوگوں کو ابتلاء آجائے گا اور وہ خیال کریں گے کہ ہمارا آپس میں اختلاف ہے وہ اس سے ایک ہفتہ پہلے خود ایک ٹریکٹ اختلافی مسائل پر لکھ کر اور چھپنے اور شائع کئے جانے کیلئے لاہور بھیج چکا تھا.کیا یہ فعل تقویٰ کا فعل تھا ؟ کیا اس جواب میں صداقت کا کوئی پہلو تھا ؟ کیا یہ صریح مغالطہ رہی نہ تھی ؟ کیا یہ ایک پالیسی نہ تھی ؟ کیا مولوی محمد علی صاحب کے اس فعل میں خدا تعالیٰ کے خوف کو پس پشت نہ ڈال دیا گیا تھا ؟ ہاں کیا ان کا یہ طریق عمل اسی تعلیم کے ماتحت تھا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے.جس کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے.جس کی طرف مسیح موعود علیہ السلام نے رہنمائی کی ہے.جس پر عمل درآمد کرنے کے لئے انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے ہاتھ پر دوبارہ عہد کیا تھا.مولوی محمد علی صاحب کی غرض صرف وقت گزار نے کی تھی.ان کی غرض مجھے روکنے سے جماعت کو ابتلاء سے بچانا نہیں اس کو ابتلاء میں ڈالنا تھی.کیونکہ کیا وہ اس سے پہلے اختلافی مسائل پر ایک ٹریکٹ لکھ کر اسے خفیہ خفیہ طبع ہونے کے لئے لا ہور نہیں بھیج چکے تھے ؟ کیا جماعت کو اختلافی بحثوں میں پڑنے سے روکنے پر تو اس کو علم ہو جاتا تھا کہ ہم میں آپس میں اختلاف ہے اور اس کے ابتلاء میں پڑ جانے کا ڈر تھا لیکن خود اختلافی مسائل پر ٹریکٹ لکھنے جماعت کے ایک حصہ کو غیر متقی قرار دینے پر سازشوں کا الزام لگانے سے کسی فتنہ اور ابتلاء کا ڈر نہ تھا اور نہ کسی کو اس ٹریکٹ کے پڑھنے سے اندرونی اختلاف کا علم ہوسکتا تھا ؟ مولوی صاحب جانتے تھے کہ اگر انہوں نے اس ٹریکٹ پر دستخط کر دیئے تو دنیا ان سے دریافت کرے گی کہ خود انہوں نے کیوں ایسا ٹریکٹ لکھ کر شائع کیا تھا اور ان سے کہے گی کہ اناً مُرُونَ النَّاس بالبروتنسون آنفُسَكُمْ ٧ لیکن دوسری طرف وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس اشتہار کے مضمون میں جو میں شائع کرنا چاہتا تھا کوئی ایسی بات نہ تھی جس پر وہ گرفت کر سکیں.پس انہوں نے اُس وقت اس بہانہ سے اپنی جان بچانی چاہی.اگر و وہ دیانتداری سے کام لیتے تو اگر وہ اشتہار کے مضمون سے متفق تھے جیسا کہ اس وقت

Page 474

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۶ جلد اول انہوں نے ظاہر کیا تھا تو اپنے پہلے ٹریکٹ کو واپس منگوا لیتے اور اس کو شائع نہ کرتے اور اگر اس سے اختلاف رکھتے تھے تو مجھے یہ جواب دیتے کہ اختلاف سے جماعت کو واقف کرنا نہایت ضروری ہے.چنانچہ میں خود ایک ٹریکٹ لکھ کر چھپنے اور شائع کرنے کیلئے لاہور بھیج چکا ہوں اس لئے میں اس اشتہار پر دستخط نہیں کر سکتا.مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا.انہوں نے اس اشتہار پر پسندیدگی کا اظہار کیا لیکن مجھے اس کی اشاعت سے رُکنے کا مشورہ اس بناء پر دیا کہ لوگوں کو اختلاف کا علم ہو گا اور خود ایک ٹریکٹ لکھا جس میں یہاں تک لکھ دیا کہ ہمارا اختلاف اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ ایک فریق دوسرے کی نسبت کہتا ہے کہ وہ کافر ہے اور واجب القتل ہے.حالانکہ اختلاف کو آج پانچ سال گزر چکے ہیں اور پہلے کی نسبت اختلاف بہت زیادہ ہے مگر اب تک بھی کسی نے ان کو کافر اور واجب القتل قرار نہیں دیا.گوان کو شوق ضرور ہے کہ اپنی نسبت ایسا فتویٰ حاصل کریں جیسا کہ پچھلے دنوں تشحیذ الا ذہان کے ایک مضمون سے جس میں غلطی سے ڈائری نویس نے ان کی طرف اشارہ کر دیا تھا با وجود اس کی تردید ہو جانے کے انہوں نے اس کو تشہیر دے کر اپنی مظلومیت کا اظہار شروع کر رکھا ہے.غرض جس وقت یہ ٹریکٹ میں نے پڑھا میں حیران خدا تعالیٰ سے طلب امداد ہو گیا اور میں نے فتنہ کو آتا ہوا دیکھ لیا اور سمجھ لیا که مولوی محمد علی صاحب بغیر تفریق کے راضی نہ ہوں گے.ایسے وقت میں ایک مومن سوائے اس کے اور کیا کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور گر جائے اور اس سے مدد طلب کرے.میں نے بھی ایسا ہی کیا اور خود بھی دعا میں لگ گیا اور دوسرے لوگ جو اس کمرہ میں میرے ساتھ تھے اُن کو جگایا اور اُن کو اس ٹریکٹ سے آگاہی دی اور ان کو بھی دعا کے لئے تاکید کی.ہم سب نے دعائیں کیں اور روزے رکھے اور قادیان کے اکثر احمدی جو میرے ہم خیال تھے اس دن روزہ دار تھے.حضرت خلیفہ اول سے آخری وقت میں مولوی مولوی محمد علی صاحب کا یہ ٹریکٹ ان کے باطنی محمد علی صاحب کا نہایت سنگدلانہ سلوک خیالات پر بہت کچھ

Page 475

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۷ جلد اول روشنی ڈالتا ہے.میں نے بتایا ہے کہ کس طرح اس ٹریکٹ کی خاطر انہوں نے مجھ سے دھوکا کیا مگر میں اب اس سلوک کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو اس ٹریکٹ کی اشاعت سے انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الاوّل سے کیا.سنگدل سے سنگدل آدمی بھی جب اپنے کسی عزیز کو بستر مرگ پر دیکھتا ہے تو اس سے دھوکا کرنا پسند نہیں کرتا.لیکن مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے کیا سلوک کیا ؟ آپ نے اپنی وصیت لکھ کر مولوی محمد علی صاح کو دی اور ان سے تین بار پڑھوائی اور پھر دریافت کیا کہ کیا کوئی بات رہ تو نہیں گئی؟ اور انہوں نے اقرار کیا کہ نہیں بالکل درست ہے.یہ وصیت صحت میں نہیں لکھی گئی بلکہ بیماری میں اور عین اُس وقت جبکہ دنیا وی سامانوں کے لحاظ سے زندگی کی امید بالکل منقطع ہو چکی تھی.یہ وصیت اُس وقت لکھی گئی جبکہ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل اپنی موت کو قریب دیکھ رہے تھے اور اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے آقا ومولیٰ سے ملنے کی امید میں تھے.یہ وصیت اُس وقت لکھی گئی تھی جبکہ اس جماعت کو جسے چھ سال سخت تکلیف کے ساتھ خطرناک سے خطرناک ابتلاؤں کی آندھیوں اور طوفانوں سے بچا کر آپ کامیابی کے راستہ پر لے جا رہے تھے آپ چھوڑنے والے تھے اور اس کی آئندہ بہتری کا خیال سب باتوں سے زیادہ آپ کے پیش نظر تھا.یہ وصیت اُس وقت لکھی گئی تھی جبکہ آپ اپنے آقا مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جا کر اسے اپنے کام کو امانت سے ختم کرنے کی خبر دینے والے تھے.یہ وصیت اُس وقت لکھی گئی تھی جس وقت آپ اپنی عمر کا آخری باب ختم کر رہے تھے.یہ وصیت اُس وقت لکھی گئی تھی کہ جس کے بعد آپ جماعت کی اور کوئی خدمت کرنے کی امید نہ رکھتے تھے.یہ وصیت اُس وقت لکھی گئی تھی جس وقت ضعف و نقاہت سے آپ بیٹھ بھی نہیں سکتے تھے اور یہ وصیت بھی نہایت تکلیف سے آپ نے لیٹے لیٹے ہی لکھی تھی.غرض یہ وصیت اُس وقت لکھی گئی تھی جبکہ ایک عظیم الشان انسان اپنی مقدس زندگی کی آخری گھڑیاں گزار رہا تھا.جس وقت ایک طرف تو اپنے پیدا کرنے والے اپنے محبوب حقیقی کی ملاقات کا شوق اس کے دل کو گد گدا رہا تھا اور دوسری طرف اپنی وفات کے ساتھ ہی اپنی آخری عمر کی محنت و کوشش کے اکارت جانے کا خوف اس کے دل کو ستار ہا تھا.غرض وہ

Page 476

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۸ جلد اول اس کی گھڑیاں خوف ورجا کی نازک گھڑیاں تھیں.یہ وصیت اُس نے لکھی تھی جس کے ہاتھ پر تمام جماعت احمد یہ سوائے معدودے چند آدمیوں کے بیعت کر چکی تھی.یہ وصیت اُس نے تحریر کی تھی جو علاوہ خلیفہ المسیح ہونے کے یوں بھی تقویٰ اور دیانت میں تمام جماعت پر فضیلت رکھتا تھا.یہ وصیت اُس نے لکھی تھی جس کے احسانات دینی و دنیاوی جماعت کے کثیر حصہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایام زندگی سے ہی ہوتے چلے آئے تھے.یہ وصیت اُس نے لکھی تھی جو قرآن وحدیث کا کامل ماہر اور ان کا عاشق تھا.یہ وصیت اُس نے لکھی تھی جس کے ہر ایک حکم کی اطاعت کا اقرار مولوی محمد علی صاحب کر چکے تھے.یہ وصیت اُس نے لکھی تھی جس کی شاگردی کا جوا مولوی محمد علی صاحب کی گردن پر رکھا ہوا تھا.یہ وصیت اُس نے لکھی تھی جس نے با وجو دسخت نقاہت اور ضعف کے اپنی بیماری کے آخری ایام میں مولوی محمد علی صاحب کو قرآن پڑھایا.غرض یہ وصیت اُس نے لکھی ہوئی تھی جس کی اطاعت خدا تعالیٰ کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب پر فرض ہو چکی تھی اور جس کے احسانات کے نیچے ان کی گردن جھکی جاتی تھی.یہ وصیت مولوی محمد علی صاحب کو پڑھوائی گئی تھی اور ایک دفعہ نہیں بلکہ تین بار.یہ وصیت جب لکھی جا چکی اور مولوی محمد علی صاحب اس کو پڑھ چکے تو ان سے دریافت کیا گیا تھا کہ کیا اس میں کوئی بات رہ تو نہیں گئی؟ ہاں جب یہ وصیت لکھی جا چکی اور مولوی محمد علی صاحب سے دریافت کیا گیا کہ اس میں کوئی بات رہ تو نہیں گئی؟ تو انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ یہ بالکل ہے.غرض یہ وصیت ایک زبر دست وصیت تھی.اس کا کوئی پہلو نامکمل نہ تھا.اس کے لکھنے والا کامل ، اس کے لکھنے کا وقت خاص الخاص ، اس کا علم مولوی محمد علی صاحب کو پوری طرح دیا گیا اور ان سے اس کے درست ہونے کا اقرار لیا گیا.پس اس کی تعمیل ان پر واجب اور فرض تھی مگر انہوں نے کیا کیا ؟ مولوی صاحب نے اس امانت سے وہ سلوک کیا جو کسی نے کبھی نہ کیا تھا.جس وقت وہ حضرت خلیفہ امسیح کی وصیت پڑھ رہے تھے اُس وقت اُن کے دل میں یہ خیالات جوش زن تھے کہ میں ایسا کبھی نہیں کرنے دوں گا.وہ اپنے پیر کو اس کے بستر مرگ پر

Page 477

خلافة على منهاج النبوة ۴۵۹ جلد اول دھوکا دے رہے تھے.ان کا جسم اس کے پاس تھا مگر ان کی روح اس سے بہت دور اپنے خیالات کی اُدھیڑ بن میں تھی.اور انہوں نے وہاں سے اُٹھ کر غالبا سب سے پہلی تحریر جو لکھی وہ وہی تھی جس میں اس وصیت کے خلاف جماعت کو اُکسایا گیا تھا اور گو مخاطب اس میں مجھے یا اور بعض گمنام شخصوں کو کیا گیا تھا مگر در حقیقت اس وصیت کی دھجیاں اُڑائی گئی تھیں جس کی تصدیق چند ساعت پہلے وہ اپنے مرشد و ہادی کے بستر مرگ کے پاس نہایت سنجیدگی کے ساتھ کر چکے تھے.مولوی محمد علی صاحب یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کی وہ تحریر اس وصیت سے پہلے کی تھی.کیا اگر وہ پہلے کی تھی تو کیا وہ اس کو واپس نہیں منگوا سکتے تھے ؟ کیا وصیت کے بعد کافی عرصہ اس کے واپس منگوانے کا ان کو نہیں ملا ؟ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کے ٹریکٹ میں یہ لکھا ہوا موجود ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرما دیا ہے کہ ان کا ایک جانشین ہو.مولوی محمد علی صاحب صرف ایک بہانہ بناتے ہیں اور وہ یہ کہ حضرت طریقہ اسیح کا جانشین سے یہ مطلب تھا کہ ایک ایسا شخص جماعت میں سے چنا جاوے جس کے حکموں کی قدر کی جاوے.لیکن ان کی یہ تشریح جھوٹی تشریح ہے.وہ قسم کھا کر بتا دیں کہ کیا حضرت خلیفہ امسیح کا یہ مذہب نہ تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ ہیں اور آپ کی بیعت بطور خلیفہ کے کئی گئی ہے نہ کہ بطور بڑے صوفی اور بزرگ ہونے کے اور یہ کہ ان کے بعد بھی اسی قسم کے خلفاء ہوں گے.مگر وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی شائع شدہ تقریر میں کثرت سے اس امر پر شاہد ہیں.مولوی محمد علی صاحب کا یہ فعل واقعہ میں حیرت میں ڈال دینے والا ہے لیکن جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے تو ان کے اس فعل پر زیادہ حیرت نہیں رہتی.کیونکہ باوجود اس کے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر حضرت مولوی نورالدین کو ” مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وو

Page 478

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۰ جلد اوّل مندرجہ رسالہ الوصیت جماعت کا خلیفہ تسلیم کر کے اس بارے میں اعلان کر چکے ہیں ( دیکھو اخبار بدر پر چه ۲ / جون ۱۹۰۸ جلد ۷ نمبر ۲۲ صفحه ۶ ) کہ سب احمدی ان کی بیعت کریں.آج لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت میں کہیں خلافت کا ذکر ہی نہیں اور آپ نے خلفاء کے لئے احمدی جماعت سے بیعت لینے کی اجازت ہی نہیں دی.غرض جبکہ بعض لوگوں نے جماعت کا رجحان معلوم کرنے کیلئے دستخط دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب نے نہ صرف یہ کہ ہم سے دھوکا کیا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ المسیح کی وصایا کی بھی بے قدری کی ہے اور جماعت میں اختلاف ڈلوانا چاہا ہے اور لوگوں سے اپنی تحریر پر رائیں بھی طلب کی ہیں تو انہوں نے بھی ایک تحریر لکھ کر تمام آنے والے احباب میں اس غرض سے پھرائی کہ جماعت کا عندیہ معلوم ہو جاوے اور جو لوگ ان کے خیالات سے متفق تھے ان سے دستخط چاہے تا معلوم ہو کہ جماعت کا رُجحان کدھر ہے.چنانچہ ان دستخطوں سے معلوم ہوا کہ موجودہ جماعت کا نوے فیصدی سے بھی زیادہ حصہ اس بات پر متفق تھا کہ خلیفہ ہونا چاہئے اور وہ بھی اسی رنگ میں جس رنگ میں کہ حضرت خلیفہ اول تھے.مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء اسے سازش قرار دیتے ہیں لیکن کیا لوگوں کی رائے دریافت کرنی سازش ہے ؟ کیا وہ اپنے ٹریکٹ میں اس سے پہلے جماعت سے رائے طلب نہیں کر چکے تھے ؟ کیا خود انہوں نے ہی یہ دروازہ نہیں کھولا تھا ؟ پس جس دروازہ کو وہ ول چکے تھے اس میں سے مجبوراً آکر دوسروں کو گزرنا پڑا تو اس پر کیا اعتراض ہے بلکہ مولوی صاحب کے طریق عمل اور دوسرے فریق کے طریق عمل میں یہ فرق ہے کہ اُنہوں نے اس دروازہ کے کھولنے میں دھوکے سے کام لیا اور اس نے علی الاعلان حق کی راہ پر چل کر اس کا رُخ کیا انہوں نے بھی لوگوں سے اپنے خیال پر رائے مانگی دوسرے فریق نے بھی اپنی رائے کی تصدیق چاہی.مہمانوں کی آمد کا انتظار ہفتہ کے دن برابر مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور اس بات کا انتظار کیا گیا کہ کافی آدمی پہنچ جاویں

Page 479

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۱ جلد اول تا پورے طور پر مشورہ ہو سکے.ظہر تک قریباً ہزار آدمی سے زیادہ مختلف جماعتوں سے پہنچ گیا اور ایک بڑا مجمع ہو گیا.* اپنے رشتہ داروں سے مشورہ ظہر کے بعد میں نے اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کیا اور ان سے اس اختلاف کے متعلق مشورہ طلب کیا.بعض نے رائے دی کہ جن عقائد کو ہم حق سمجھتے ہیں ان کی اشاعت کے لئے ہمیں پوری طرح کوشش کرنی چاہئے اور ضرور ہے ایسا آدمی خلیفہ ہو جس سے ہمارے عقائد متفق ہوں.مگر میں نے سب کو سمجھایا کہ اصل بات جس کا اس وقت ہمیں خیال رکھنا چاہئے وہ اتفاق ہے خلیفہ کا ہونا ہمارے نزدیک مذہباً ضروری ہے.پس اگر وہ لوگ اس امر کو تسلیم کر لیں تو پھر مناسب یہ ہے کہ اول تو عام رائے لی جاوے اگر اس سے وہ اختلاف کریں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کر لیا جاوے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو.اور اگر یہ بھی وہ قبول نہ کریں تو ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جاوے اور میرے اصرار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام اہل بیت نے اس بات کو تسلیم کر لیا.یہ فیصلہ کر کے میں اپنے ذہن میں خوش تھا کہ اب اختلاف سے جماعت محفوظ رہے گی مگر خدا تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.مولوی محمد علی صاحب اور میں باہر آیا تو مولوی محمد علی صاحب کا رقعہ مجھے ملا کہ کل والی گفتگو کے متعلق ہم پھر کچھ گفتگو کرنی چاہتے ان کے ساتھیوں سے گفتگو ہیں.میں نے اُن کو بلوا لیا اُس وقت میرے پاس مولوی سید محمد احسن صاحب، صاحب خان محمد علی خان صاحب اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب موجود تھے.مولوی صاحب بھی اپنے بعض احباب سمیت وہاں آگئے اور پھر کل کی بات شروع ہوئی.میں نے پھر اس امر پر زور دیا کہ خلافت کے متعلق آپ لوگ بحث نہ کریں صرف اس امر پر گفتگو ہو کہ خلیفہ کون ہو اور وہ اس بات پر مصر تھے کہ نہیں ابھی کچھ بھی مجھے ایسا ہی یاد ہے کہ یہ گفتگو ہفتہ کو ہوئی لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جمعہ کو ہی یہ مشورہ بھی ہوا تھا.

Page 480

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۲ جلد اول نہ ہو.کچھ عرصہ تک انتظار کیا جاوے.سب جماعت غور کرے کہ کیا کرنا چاہئے پھر جو متفقہ فیصلہ ہو اُس پر عمل کیا جاوے.میرا جواب وہی کل والا تھا اور پھر میں نے اُنکو یہ بھی کہا کہ اگر پھر بھی اختلاف ہی رہے تو کیا ہوگا ؟ اگر کثرتِ رائے سے فیصلہ ہونا ہے تو ابھی کیوں کثرتِ رائے پر فیصلہ نہ ہو.درمیان میں کچھ عقائد پر بھی گفتگو چھڑ گئی جس میں مولوی سید محمد احسن صاحب نے نبوت مسیح موعود علیہ السلام پر خوب زور دیا اور مولوی محمد علی صاحب سے بحث کی اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر مولوی محمد علی صاحب کو حلف دی جاوے تو وہ کبھی اس سے انکار نہ کریں گے.مگر میں نے اس بحث سے روک دیا کہ یہ وقت اس بحث کا نہیں.اس وقت جماعت کو تفرقہ سے بچانے کی فکر ہونی چاہئے.جب سلسلہ گفتگو کسی طرح ختم ہوتا نظر نہ آیا اور باہر بہت شور ہونے لگا اور جماعت کے حاضر الوقت اصحاب اس قدر جوش میں آگئے کہ دروازہ توڑے جانے کا خطرہ ہو گیا اور لوگوں نے زور دیا کہ اب ہم زیادہ صبر نہیں کر سکتے آپ لوگ کسی امر کو طے نہیں کرتے اور جماعت اس وقت تک بغیر کسی رئیس کے ہے تو میں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ بہتر ہے کہ باہر چل کر جو لوگ موجود ہوں اُن سے مشورہ لے لیا جاوے.اس پر مولوی محمد علی صاحب کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ آپ یہ بات اس لئے کہتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ وہ لوگ کسے منتخب کریں گے.اس پر میں نے ان سے کہا کہ نہیں میں تو فیصلہ کر چکا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلوں.مگر اس پر بھی انہوں نے یہی جواب دیا کہ نہیں آپ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی کیا رائے ہے یعنی وہ آپ کو خلیفہ مقرر کریں گے.اس پر میں اتفاق سے مایوس ہو گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ کا منشاء کچھ اور ہے کیونکہ باوجود اس فیصلہ کے جو میں اپنے دل میں کر چکا تھا میں نے دیکھا کہ یہ لوگ صلح کی طرف نہیں آتے اور مولوی صاحب کے اس فقرہ سے میں یہ بھی سمجھ گیا کہ مولوی محمد علی صاحب کی مخالفت خلافت سے بوجہ خلافت کے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ ان کے خیال میں جماعت کے لوگ کسی اور کو خلیفہ بنانے پر آمادہ تھے اور یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس سے چھ سال پہلے وہ اعلان کر چکے تھے کہ :.مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم

Page 481

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۳ جلد اول احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجریں حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتقی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اُسوۂ حسنہ قرار فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے سے ظاہر ہے کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.یہ اعلان جماعت کے بہت سے سر بر آوردہ لوگوں کی طرف سے فرداً فردا ہر ایک کے دستخط کے ساتھ ہوا تھا جن میں سے مولوی محمد علی صاحب بھی تھے.) یہ تحریر جو ۲ / جون ۱۹۰۸ء کے بدر میں بغرضِ اعلان شائع کی گئی تھی ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی خدمت میں بطور درخواست پیش کی گئی تھی اور پھر حضرت ممدوح کی بیعت خلافت ہو چکنے کے بعد اخبار بدر کے پرچہ مذکورہ بالا میں ہی جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے بحیثیت سیکرٹری صدرانجمن احمد یہ اس بارہ میں حسب ذیل اعلان شائع کیا تھا.در حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے وصا یا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق.....جناب حکیم نور الدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.یہ خط بطور اطلاع گل سلسلہ کے ممبران کولکھا جاتا ہے کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الامۃ خلیفۃ المسیح والمہدی کی خدمت با برکت میں بذات خود یا بذریعہ تحریر حاضر ہو کر بیعت کریں.“ اب کوئی نئی وصیت تو ان کے ہاتھ میں آئی نہ تھی کہ جس کی بناء پر وہ خلافت کو ناجائز مجھنے لگے تھے.پس حق یہی ہے کہ ان کو خیال تھا کہ خلافت کے لئے جماعت کی نظر کسی اور شخص پر پڑ رہی ہے.

Page 482

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۴ جلد اول جب فیصلہ سے مایوسی ہوئی تو میں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ چونکہ ہمارے نزد یک خلیفہ ہونا ضروری ہے اور آپ کے نزدیک خلیفہ کی ضرورت نہیں اور یہ ایک مذہبی امر ہے اس لئے آپ کی جو مرضی ہو کر میں ہم لوگ جو خلافت کے قائل ہیں اپنے طور پر ا کٹھے ہو کر اس امر کے متعلق مشورہ کر کے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں.یہ کہ کر میں اُٹھ کھڑا ہوا اور مجلس برخواست ہوئی.عصر کی نماز کا وقت تھا.عصر کی نماز پڑھ کر ڈیڑھ ہزار سے دو ہزار خلیفہ کا انتخاب تک آدمیوں کے مجمع میں مکرمی خان محمد علی خان صاحب جاگیردار مالیر کوٹلہ نے بحیثیت حضرت خلیفہ اول کے وصی ہونے کے مجلس میں آپ کی وصیت پڑھ کر سنائی اور لوگوں سے درخواست کی کہ وہ آپ کی وصیت کے مطابق کسی شخص کو آپ کا جانشین تجویز کریں.اس پر لوگوں نے میرا نام لیا.جس کے بعد مولوی محمد احسن صاحب نے کھڑے ہو کر ایک تقریر کی اور کہا کہ میرے نزدیک بھی یہی خلیفہ ہونے چاہئیں.اس پر لوگوں نے شور کیا کہ بیعت لی جاوے.میں نے اس امر میں پس و پیش کیا اور باوجو دلوگوں کے اصرار کے انکار کیا.مگر لوگوں کا جوش اسی طرح زور پر تھا جس طرح حضرت ابو بکر کے وقت میں.اور وہ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے تھے اور بعض لوگوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا کہ آپ بیعت لیں.میں نے پھر بھی پس و پیش کیا تو بعض لوگوں نے جو قریب بیٹھے تھے اصرار کیا کہ جماعت کی حفاظت اور بچاؤ کے لئے آپ ضرور بیعت لیں.اور میں نے دیکھا کہ لوگ بیعت کے جوش سے اس قدر بھرے ہوئے تھے اور آگے کی طرف بڑھ رہے تھے کہ میں پالکل آدمیوں میں چھپ گیا اور بعض لوگ ہمت کر کے میری پیٹھ کے پیچھے حلقہ نہ بنا لیتے تو قریب تھا کہ میں کچلا جاتا.مجھے بیعت کے الفاظ یاد نہ تھے اور میں نے اسی بات کو عذر بنانا چاہا اور کہا کہ مجھے بیعت کے الفاظ یاد نہیں ہیں.اس پر مولوی سید سرور شاہ صاحب نے کہا کہ میں الفاظ بیعت دُہرا تا جاؤں گا آپ بیعت لیں.تب میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہے اور اس کے منشاء کو قبول کیا اور لوگوں سے بیعت لی اور جو ازل سے مقدر تھا با وجود میرے پہلو تہی کرنے کے ظہور میں آیا.

Page 483

خلافة على منهاج النبوة جلد اول ان دو ہزار کے قریب آدمیوں میں سے جو اُس وقت وہاں موجود تھے صرف پچاس کے قریب آدمی ہوں گے جو بیعت سے باز رہے.باقی سب لوگ بیعت میں داخل ہوئے اس کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کا جنازہ پڑھایا گیا.بیعت ہوگئی اور اس سے زیادہ لوگوں نے بیعت کی جنہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الاول کی بیعت کی تھی اور اس سے زیادہ مجمع نے بیعت پر اتفاق کیا جتنے مجمع نے کہ حضرت خلیفہ اول کی بیعت پر اتفاق کیا تھا مگر باوجود اس کے مولوی صاحب اور آپ کے رفقاء کی تسلی نہ ہوئی اور انہوں نے اس سب کا رروائی کو منصوبہ قرار دیا.اور تمام جماعت کو اطلاع دی گئی کہ خلافت کا فیصلہ کوئی نہیں ہوا.قادیان میں جو کارروائی ہوئی سب دھوکا اور سازش کا نتیجہ تھی.پیغام کی غلط بیانیاں مخالفت کا جوش اس قدر بڑھ گیا کر جھوٹ کا پر ہیز بالکل جاتا آدمیوں نے پڑھا.۲۸ رہا خود پیغام لکھتا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح کا جنازہ اڑھائی ہزار اور پھر یہی پیغام لکھتا ہے کہ :.وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت طلایی امسیح کی آنکھیں دیکھی ہوئی تھیں انہوں نے اس قسم کی بیعت سے احتراز کیا اور حاضر الوقت جماعت میں سے نصف کے قریب لوگوں نے بیعت نہ کی.۲۹ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ المسیح کے صحبت یافتہ لوگوں میں سے کسی نے بیعت نہ کی.اور جو لوگ قادیان میں موجود تھے ان میں سے نصف نے انکار کر دیا.مگر حق یہ ہے کہ پچاس سے زائد آدمی نہ تھے جنہوں نے بیعت سے اجتناب کیا اور اس دو یا بقول پیغام اڑھائی ہزار آفرمیوں میں سے نصف سے زیادہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفہ المسیح الاوّل کی صحبت حاصل کی ہوئی تھی.قادیان کے مہاجرین میں سے جن کی تعداد تین چار سو سے کم نہ تھی کل چار پانچ آدمی بیعت سے رہا ہر رہے اور یہ لوگ پیغام کی نظر میں گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسیح کے صحبت یافتہ ہی نہ تھے مرزا یعقوب بیگ صاحب سیکرٹری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

Page 484

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۶ جلد اول لاہور نے تو اس سے بھی بڑھ کر کمال کیا اور اخبار عام لاہور میں لکھ دیا کہ کثیر التعداد حاضرین کو اس بات کا پتہ بھی نہیں کہ کون خلیفہ مقرر ہوئے ہیں.جب اس صریح جھوٹ پر نوٹس لیا گیا تو ڈاکٹر صاحب اوّل الذکر مضمون کے راقم نے ۲ / اپریل کے پیغام میں شائع کیا کہ میری مراد اس فقرہ سے یہ تھی کہ سمجھدار لوگوں میں سے زیادہ حصہ نے بیعت نہ کی اور یہ سمجھداری کا فقرہ ایسا گول مول ہے کہ اس کی تشریح در بطن شاعر ہی رہ سکتی ہے دوسرے لوگ اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں.کیونکہ ہر ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ جو لوگ میرے ہم خیال ہیں وہ سمجھدار ہیں اور دوسرے لوگ ناسمجھ.لیکن اگر سمجھ کا کوئی معیار ہے تو ہر ایک معیار کے مطابق ہم بتا سکتے ہیں کہ نہ صرف زیادہ لوگوں نے بلکہ بہت زیادہ لوگوں نے بیعت اختیار کی.راقم مضمون نے اور اس کے مضمون کو شائع کر کے پیغام نے ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے اس جھوٹ کی خود ہی تر دید کی کیونکہ اس نے لکھا کہ مجمع حاضر الوقت یا انصار اللہ تھے یا جٹ جو بیعت کے لئے تڑپ رہے تھے اور جنہوں نے فوراً بیعت کر لی.وہ لوگ انصار اللہ تھے یا کون اس کا سوال نہیں.جولوگ بھی تھے خود پیغام کی روایت کے مطابق نہ صرف انہوں نے بیعت کی بلکہ وہ بیعت کے لئے تڑپ رہے تھے اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ نے صریح اور بالکل صریح جھوٹ لکھا تھا کہ کثیر التعداد حاضرین کو اس امر کا علم بھی نہ تھا کہ خلیفہ کون ہوا ہے.پیغام کے مضمون نگار کا یہ جھوٹ کہ کثیر التعداد بیعت کنندگان میں سے انصار اللہ تھے صرف اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ انصار اللہ کی کل تعداد پونے دوسو سے کم تھی لیکن سب انصار اللہ اُس وقت قادیان میں موجود نہ تھے حالانکہ خود انہی کے بیان کے مطابق اُس وقت اڑھائی ہزار کے قریب لوگ قادیان میں موجود تھے.انصار اللہ پر سازش کا جھوٹا الزام دوسرا طریق لوگوں کو بہکانے کا یہ اختیار کیا گیا کہ انصار اللہ کی نسبت مشہور کیا جانے لگا کہ انہوں نے سازش کر کے یہ کام کرایا ہے.حالانکہ انصاراللہ کی کل جماعت سارے ہندوستان میں پونے دوسو سے کم تھی.پس اگر یہ مان بھی لیا جاوے کہ انصار اللہ کی سازش تھی تو سو ڈیڑھ سو آدمی اپنی رائے کا کیا بوجھ ڈال سکتا تھا.اڑھائی ہزار لوگوں کی

Page 485

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۷ جلد اول رائے کے مقابلہ میں سو ڈیڑھ سو آدمی کی رائے کیا حیثیت رکھتی ہے.انصار اللہ نے خلافت کے متعلق کیا سازش کی اس کے متعلق مولوی محمد علی صاحب کے داہنے باز وحکیم محمد حسین صاحب عرف مرہم عیسی مبلغ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کی شہادت کا درج کر دینا کافی ہے جو اُس نے الزام کے وقت لکھ کر دی.میں سچے دل سے اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ میں انصار اللہ کا ممبر ایک مدت تک تھا اور اب بھی اگر میاں صاحب نے مجھے انصار اللہ میں سے نہ نکالا تو میں انصار اللہ کا ممبر اپنے آپ کو سمجھتا ہوں.جس قدر کمیٹیاں انصار اللہ کی لاہور میں ہوئیں اور جن میں میں شامل ہوا میں نے کبھی کسی کو حضرت صاحبزادہ صاحب بزرگوار کے لئے خلیفہ بنانے کی سازش کرتے ہوئے یا اس قسم کی گفتگو کرتے ہوئے نہیں پایا وَاللَّهُ عَلَى مَانَقُولُ شَهِيدٌ اور نہ ہی حضرت صاحبزادہ صاحب بزرگوار کی طرف سے مجھے کبھی کوئی تحریر اس قسم کی آئی کہ جس سے خلیفہ بنانے کی سازش کا کوئی شائبہ پایا گیا ہو اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی کوئی اس قسم کی سازش کی گفتگو میرے ساتھ نہیں ہوئی.“ محمد حسین بقلم خود اس کے علاوہ ماسٹر فقیر اللہ صاحب سپر نٹنڈنٹ دفتر سیکرٹری انجمن احمد یہ اشاعت اسلام بھی انجمن انصار اللہ کے ممبر تھے.اور انہوں نے بھی شہادت لکھ کر دی ہے کہ میں اس انجمن کا ممبر تھا.اس میں اس قسم کی سازش پر کبھی کوئی گفتگو میرے سامنے نہیں ہوئی.علاوہ ازیں یہ بات اس الزام کو پورے طور پر رد کر دیتی ہے کہ انجمن انصار اللہ کے ممبروں میں سے ایک معقول تعداد مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ ہے.اگر یہ انجمن میری خلافت کی سازش کے لئے بنائی گئی تھی تو کیونکر ہو سکتا ہے کی عین اُس وقت جبکہ میں خلیفہ ہو گیا وہ لوگ اُدھر جا ملتے.اور پھر یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جو لوگ ان سے جاملے تھے وہ باوجود اس سازش سے آگاہ ہونے کے پھر اسے مخفی رکھتے.انجمن انصار اللہ میں سے کم سے کم دس آدمی اس وقت ان کے ساتھ ہیں.ان کا وجود ہی اس بات کی کافی شہادت ہے کہ انجمن انصار اللہ پر خلافت کے متعلق سازش کرنے کا الزام ایک جھوٹ ہے جو محض نفسانیت کے شر سے فریب دہی کے لئے

Page 486

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۸ جلد اول بنایا گیا ہے.انصار اللہ کے متعلق یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کے قریب ایک کارڈ باہر بھیجا تھا کہ حضرت کی طبیعت بہت کمزور ہے اور زندگی کا عرصہ کم معلوم ہوتا ہے جو لوگ زیارت کے لئے آنا چاہیں آ جائیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انصار اللہ کی سازش تھی.بے شک انجمن انصاراللہ کے سیکرٹری نے ایسا کارڈلکھا کیونکہ انجمن انصار اللہ کے فرائض میں سے خدمت احباب بھی ایک فرض تھا مگر سوال یہ ہے کہ یہ کارڈ انہوں نے کس کو لکھا.اگر صرف انصار اللہ کو لکھا جاتا تب بھی کوئی قابل اعتراض بات نہ تھی.مگر دشمن اپنے عناد سے کہہ سکتا تھا کہ اس کے لکھنے کی اصل غرض یہ تھی کہ اپنے ہم خیال لوگوں کو بلوا لیا جاوے مگر ایسا نہیں کیا گیا.یہ کارڈ تمام انجمن ہائے احمد یہ کے سیکرٹریوں کو لکھا گیا اور صرف انصار اللہ کے نام نہیں گیا.پس اس کا رڈ سے اگر خلافت کے متعلق ہی نتیجہ نکالا جاوے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انجمن انصار اللہ چاہتی تھی کہ جہاں تک ہو سکے اس موقع پر تمام جماعت کے نمائندہ موجود ہوں تا کہ کافی مشورہ ہو سکے.یہ اس کا فعل قابل تحسین ہے یا قابل ملامت ؟ اور کیا یہ کارڈ ہی انجمن انصار اللہ کی بریت نہیں کرتا ؟ اگر انجمن انصار اللہ کی کوئی سازش ہوتی تو ان کی تمام تر کوشش لوگوں کو یہاں آنے سے روکنے میں صرف ہوتی اور وہ ایسی اطلاع صرف انجمن انصار اللہ کے ممبروں کو دیتے تا کہ من مانی کا رروائی کر سکیں.مگر انجمن انصار اللہ نے وقت پر سب جماعتہائے احمدیہ کو نہ کہ اپنے خاص معتبروں کو اطلاع کر دی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ قریباً دو ہزار آدمی اس موقع پر جمع ہو گیا.اور پھر کیا یہ درست نہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح کی بیماری کے ایام میں دو دفعہ اسی قسم کی اطلاعیں مولوی صدرالدین صاحب کی طرف سے شائع کی گئی تھیں اگر کارڈ سازش تھا تو کیا ان کی تحریر سازش نہ تھی ؟ ایک اور غلط الزام ہمارے بد نام کرنے کے لئے ایک اور ترکیب یہ کی گئی کہ مشہور کیا گیا کہ جولوگ مجمع میں جمع ہوئے تھے وہ پہلے سے سکھائے ہوئے تھے کہ وقت پر میرا نام خلافت کے لئے لے دیں اور اس کا ثبوت یہ دیا جاتا ہے کہ

Page 487

خلافة على منهاج النبوة ۴۶۹ جلد اول مولوی محمد اسماعیل صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح کی حیات میں بعض لوگوں سے کہا کہ چالیس آدمی ایسے تیار ہو جاویں جو اس وقت میرے ہاتھ پر بیعت کر لیں.مجھے اس موقع پر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض پیش آمدہ واقعات سے مجبور ہوکر مولوی صاحب موصوف سے ایک قسم کی غلطی ضرور ہوئی اور جس قدر بات حق ہے اُنہوں نے نہایت صفائی سے مجھ سے بیان کر دی ہے.مولوی صاحب کا بیان ہے کہ مجھ سے ایک دوست نے بیان کیا کہ ہم نے سنا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کو ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب نے کہا کہ آپ خلافت کے لئے تیار ہیں.لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں اس بوجھ کو نہیں اُٹھا سکتا.اس پر انہوں نے جواب میں کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں ہم سب بندو بست کر لیں گے ( یہ روایت قادیان میں اُن دنوں مشہور تھی اور اس کے ساتھ یہ فقرہ بھی زائد کیا جاتا تھا کہ آخر میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر آپ اس بوجھ کو اُٹھانے کیلئے تیار نہیں تو مجھے کھڑا کر دیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ روایت کہاں تک درست ہے چونکہ اس کا ثبوت اس وقت تک میرے پاس کوئی نہیں اس لئے میں اس کے باور کرنے سے معذور ہوں.خاکسار مرزا محمود احمد ) ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ وقت پر کوئی چالا کی کریں اور چند آدمیوں کو ملا کر خلافت کا دعویٰ کریں اس کے لئے ہمیں بھی تیار رہنا چاہئے.وہ کہتے ہیں کہ اس پر میں نے بعض دوستوں سے ذکر کیا کہ ایسا خطرہ ہے ایک جماعت ہم میں سے بھی تیار رہنی چاہئے.بعض لوگ جن سے ذکر کیا تھا انہوں نے اسے پسند کیا لیکن بعض نے مخالفت کی.چنانچہ مخالفت کرنے والوں میں سے وہ میاں معراج الدین صاحب کا نام لیتے ہیں انہوں نے بڑا زور دیا کہ یہ کام خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ایسی کارروائی ہرگز مناسب نہیں.اسی طرح میر محمد اسحق صاحب کی نسبت بیان کرتے ہیں کہ گوان سے ذکر نہ کیا تھا مگر ایک جگہ پر ایک شخص.میں گفتگو کر رہا تھا کہ انہوں نے کچھ بات سن لی اور کہا کہ آپ لوگ اس خیال کو جانے دیں ہو گا وہی جو خدا چاہتا ہے.آپ لوگوں کو آخر شرمندہ ہونا پڑے گا.ان کا بیان ہے کہ آٹھ دس آدمیوں سے زیادہ سے ایسا ذکر نہیں ہوا اور ان میں سے بہت سے ایسے لوگ تھے جو انجمن انصار اللہ کے ممبر نہ تھے.لیکن کسی قدر بعض دوستوں کے اس خیال پر کہ یہ کام ނ

Page 488

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۰ جلد اول خدا تعالیٰ کا ہے اس پر چھوڑ دو.اور زیادہ تر یہ بات معلوم ہونے پر کہ میں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ خواہ ان لوگوں کے ہاتھ پر بیعت کر لینی پڑے جماعت کو فتنہ سے بچانا چاہئے اس امر کو ترک کر دیا گیا.یہ اصل واقعہ ہے اور گو مولوی محمد اسماعیل صاحب کی اس میں ضرور غلطی ہے لیکن قابل غور یہ امور ہیں کہ اس میں نہ میرا نہ انجمن انصار اللہ کا کوئی دخل تھا.یہ کام انہوں نے اپنے خیال میں خود حفاظتی کے طور پر ایک مشہور روایت کی بناء پر کرنا چاہا تھا.آٹھ دس آدمیوں سے زیادہ سے یہ ذکر نہیں کیا گیا.فوراً ہی اس کا رروائی کو چھوڑ دیا گیا.خود بعض انصار اللہ کی انجمن کے ممبروں نے اور میرے خاندان کے ایک آدمی نے ان کو سختی سے اس بات سے روکا اور میرے قطعی فیصلہ کے معلوم ہونے پر وہ اس امر سے بالکل باز آ گئے.پس یہ واقعہ ہر گز کسی سازش پر دلالت نہیں کرتا.مولوی محمد علی صاحب ہاں اس کے مقابلہ میں ایک اور واقعہ ہے جس کے راوی ماسٹر عبدالحق صاحب مرحوم مشہور مضمون نگار کے ساتھیوں کی سازش ہیں.انہوں نے شروع میں میری بیعت نہ کی تھی.انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی صدرالدین صاحب و و کنگ مشنری اور ہیڈ ماسٹر مسلم ہائی سکول لاہور اور ٹرسٹی احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لا ہور نے حضرت خلیفتہ امسیح کی وفات کے بعد اس خیال سے کہ لوگ خلافت کو کسی طرح چھوڑ نہیں سکتے یہ تجویز کی تھی کہ کوئی خلیفہ بنایا جاوے.مولوی محمد علی صاحب اپنے ٹریکٹ کی اشاعت کی وجہ سے اپنے ہاتھ کاٹ چکے تھے.اس لئے سید حامد علی شاہ صاحب کی نسبت تجویز کی گئی کہ ان کی خلافت کیلئے چالیس آدمی تیار کئے جاویں اور وہ بیان کرتے ہیں کہ رات کے وقت مولوی صدرالدین صاحب ہاتھ میں لالٹین لے کر دو ہزار احمدیوں کے ڈیروں پر ماسٹر عبدالحق صاحب اور ایک اور صاحب سمیت چکر لگاتے رہے کہ چالیس آدمی ہی اس خیال سے مل جاویں.مگر اتنے آدمی بھی (اس دو ہزار کے مجمع میں سے جس میں بقول ان کے اکثر مجھ سے نفرت کرتے تھے ) ایسے نہ ملے جوان کا ساتھ دیتے.ماسٹر صاحب تو فوت ہو گئے ہیں مولوی صدرالدین صاحب ہی قسم کھا کر بیان کر دیں کہ کیا یہ واقعہ درست نہیں اور کیا اس واقعہ کی موجودگی میں ان کا مولوی

Page 489

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۱ جلد اول محمد اسماعیل صاحب کے واقعہ کو پیش کرنا جسے خود اپنے ہی احباب کے سمجھانے پر چھوڑ دیا گیا تھا درست ہوسکتا تھا.علاوہ اس واقعہ کے ان لوگوں کے متعلق ایک اور شہادت بھی ملتی ہے اور وہ ڈاکٹر الہی بخش صاحب کی ہے.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں :.” مجھے یاد ہے کہ ابھی حضرت اقدس خلیفہ امسیح الا ول ایسے سخت بیمار نہ تھے مگر حالت ان کی دن بدن نازک ہوتی چلی جاتی تھی.ایک روز جس کی تاریخ مجھے ٹھیک یاد نہیں ہے اکبر شاہ خان صاحب سے میں نے پہلے ذکر کیا کہ حضرت صاحب کی حالت دن بدن نازک ہوتی جاتی ہے اللہ تعالیٰ خیر کرے.اسی اثناء میں خلافت کا ذکر بھی آگیا اس پر خان صاحب نے کہا کہ فساد کا تو ڈر ہے کیونکہ میاں صاحب کی خلافت لا ہوری صاحبان نہیں مانیں گے.اگر خواجہ صاحب کی طرف توجہ کی تو دوسرے لوگ نہیں مانیں گے ہاں ایک صورت ہے جس سے فساد بھی نہیں ہوتا اور خلافت بھی قائم ہو سکتی ہے.میں نے دریافت کیا کہ وہ کونسی؟ اس وقت خان صاحب نے کہا کہ اگر میاں صاحب اپنا حوصلہ وسیع کریں تو بات بن جاتی ہے اور وہ مولوی محمد علی صاحب ہیں اگر ان کی بیعت کر لی جائے تو لا ہوری بھی مان جاویں گے اور دوسرے بھی مان جاویں گے.یہ آپس میں گفتگو تھی.مگر حضرت کی زندگی میں.بہت دن پہلے.الہی بخش بقلم خو د ۲۹ را پریل ۱۹۱۴ء ) اس شہادت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس قسم کا الزام یہ لوگ ہم پر لگاتے ہیں وہ خود ان پر لگتا ہے اور جو الزام ہم پر لگایا جاتا ہے اس کی نسبت میں ثابت کر چکا ہوں کہ وہ ایک دو آدمیوں کی غلطی سے ہوا اور خود ہماری طرف سے ہی پیشتر اس کے کہ کوئی نتیجہ نکلتا اس کا تدارک کر دیا گیا.اس طرح اور کئی باتیں ہارے بد نام کتنی جماعت بیعت میں داخل ہے کرنے کیلئے مشہور کی گئیں مگر خدا تعالی نے سلسلہ کو مضبوط کیا.اور باوجود اس کے کہ خود انہی کی تحریروں کے مطابق ننانوے فیصدی جماعت ابتدا میں ان کے ساتھ تھی مگر تھوڑے ہی عرصہ میں خدا تعالیٰ نے سب کو کھینچ کر میرے پاس لا ڈالا اور اب قریباً نا نوے فیصدی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے ساتھ ہے.

Page 490

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۲ جلد اول لاہور میں جماعت سے مشورہ کی تجویز ان لوگوں نے شور مچایا کہ جو لوگ قادیان میں اس وقت جمع تھے ان کی رائے نہ تھی ان کا مشورہ جماعت کا مشورہ نہ تھا اس لئے اخباروں اور خطوط کے ذریعہ سے تمام جماعت احمدیہ کو دعوت دی گئی کہ و ہ ۲۲ مارچ کو لاہور میں جمع ہوں تا کہ پورے طور پر مشورہ کیا جاوے.اس تحریک عام پر پیغام صلح کے اپنے بیان کے مطابق لاہور کی جماعت کو ملا کر کل ایک سو دس آدمی جمع ہوئے جن میں قریباً بیالیس آدمی لاہور سے باہر کے تھے.جن میں سے چار پانچ آدمیوں کے سوا باقی کسی جماعت کے نمائندہ نہیں کہلا سکتے.بلکہ باقی لوگ اپنے اپنے طور پر ذاتی دلچسپی سے اس جلسہ میں شامل ہوئے تھے.مولوی محمد علی صاحب کے لاہور کے ہم خیالوں نے ان بیالیس آدمیوں کے مشورہ سے جن میں صرف چار پانچ آدمی کسی جماعت کی نیابت کا حق رکھتے تھے جو کچھ فیصلہ کیا اسے کل جماعت احمدیہ کا مشورہ اور فیصلہ قرار دیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ میری خلافت جائز و درست نہیں.مگر ان ایک سو دس آدمیوں سے بھی دس آدمی بعد میں میری بیعت میں شامل ہو گئے جن میں سے ایک سید میر حامد شاہ صاحب مرحوم تھے جن کو انہوں نے خلیفہ المسیح بھی منتخب کیا تھا اور کل سو آدمی رہ گئے مگر باوجود اس کے اس جلسہ میں جو فیصلہ ہوا وہ جماعت کا فیصلہ تھا اور جو کل جماعت کا فیصلہ تھا وہ سازش کا نتیجہ اور انصار اللہ کی فریب بازی تھی.ان لوگوں کا قادیان کو چھوڑ نا قادیان کی جماعت میں سے سب کے سب سوائے چار پانچ آدمیوں کے میری بیعت میں شامل تھے اور اب قادیان میں کسی کامیابی کی امید یہ لوگ دل سے نکال بیٹھے تھے اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ لا ہور کو مرکز بنایا جاوے.مولوی محمد علی صاحب کے قادیان سے جانے کے لئے عذر تلاش کئے جانے لگے اور آخر ایک دن مجھے اطلاع دی گئی کہ مولوی صاحب جمعہ کی نماز پڑھ کر باہر نکل رہے تھے کہ تین چار بچوں نے ( جو پانچ سات سال تک کی عمر کے تھے ) ان پر کنکر پھینکنے کے ارادہ کا اظہار کیا.میں نے اس پر درس کے وقت سب جماعت کو سمجھایا کہ گوبچوں نے ایسا ارادہ ظاہر کیا ہے مگر پھر ایسی بات سنی گئی تو میں ان کے والدین کو ذمہ دار

Page 491

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۳ جلد اول قرار دوں گا اور سختی سے سزا دوں گا.مولوی محمد علی صاحب کو قادیان بعد میں میں نے سنا کہ مولوی محمد علی سے جانے سے باز رکھنے کی کوشش ا قادیان سے جانا چاہتے ہیں.میں نے صاحب کو یہاں خوف ہے اس اس لئے وہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو ایک خط لکھ کر دیا کہ آپ مولوی محمد علی صاحب کے پاس جاویں اور ان کو تسلی دیں کہ آپ کسی قسم کی فکر نہ کریں میں آپ کی حفاظت کا ذمہ دار ہوں اور آپ قادیان نہ چھوڑیں.خط میں بھی اسی قسم کا مضمون تھا.خط کا جواب مولوی محمد علی صاحب نے یہ دیا کہ یہ کب ہوسکتا ہے کہ میں قادیان چھوڑ دوں.میں تو صرف گرمی کے سبب پہاڑ پر ترجمہ قرآن کا کام کرنے کیلئے جاتا ہوں اور اس کیلئے حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل کی زندگی میں ہی میں نے انجمن سے رخصت لے رکھی تھی اور میرا شکر یہ بھی ادا کیا کہ میں نے ان کی ہمدردی کی.میں نے صرف اسی قدر کافی نہ سمجھا بلکہ اس کے بعد ان سے اسی مضمون کے متعلق زبانی گفتگو کرنے کے لئے خود ان کے گھر پر گیا.میرے ہمراہ خان محمد علی خان صاحب اور ڈاکٹر رشید الدین صاحب تھے.جب ہم وہاں پہنچے تو ابتداء کچھ ذکر ترجمہ قرآن کے متعلق ہوا.اس کے بعد میں نے اس امر کے متعلق کلام کا رُخ پھیرا جس کے لئے میں آیا تھا کہ فوراً مولوی محمد علی صاحب نے ایک شخص المعروف میاں بگا کو جو کسی قدر موٹی عقل کا آدمی تھا آواز دی کہ ادھر آؤ اور اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں.جب میں نے دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب میاں بگا سے کلام ختم ہی نہیں کرتے تو لا چا راُٹھ کر چلا آیا.اس کے بعد مولوی صاحب قادیان سے چلے گئے اور قریباً تین ہزار روپیہ کا سامانِ کتب و ٹائپ رائٹر وغیرہ کی صورت میں ترجمہ قرآن کے نام سے اپنے ساتھ لے گئے.اس وقت بعض احباب نے مجھ سے کہا کہ ان سے یہ اسباب لے لیا جاوے کیونکہ یہ پھر واپس نہ آویں گے اور محض دھوکا دے کر یہ اسباب لئے جارہے ہیں اور بعض نے تو یہاں تک کہا کہ یہ خدا تعالیٰ کی امانت ہے آپ اس کی حفاظت میں کوتا ہی نہ کریں مگر میں نے ان سب احباب کو یہی جواب دیا کہ جب وہ کہتے ہیں کہ میں قرآن کریم کے ترجمہ کیلئے ان کتب

Page 492

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۴ جلد اوّل کو اور اسباب کو لئے جا رہا ہوں اور صرف چند ماہ کے لئے اپنی سابقہ رخصت کے مطابق جا رہا ہوں تو ہما راحق نہیں کہ ان کی نیت پر حملہ کریں اور میں نے ان کو کچھ نہ کہا.جیسا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کیا ان مولوی محمد علی صاحب کا سرقہ کرنا احباب کی رائے درست تھی.مولوی صاحب قادیان سے گئے اور ہمیشہ کے لئے گئے اور جو کچھ انہوں نے مجھے لکھا وہ سب ایک بہانہ تھا جس کے نیچے کوئی حقیقت پوشیدہ نہ تھی.وہ کتب و اسباب جو وہ لے گئے تھے بعد میں اس کے دینے سے انہوں نے باوجود تقاضا کے انکار کر دیا اور جب تک دنیا کے پردہ پر مولوی محمد علی صاحب کا نام باقی رہے گا اُس وقت تک ان کے نام کے ساتھ یہ سرقہ کا بد نما عمل بھی یادگار رہے گا.جو شخص اس طرح عاریتاً کتب و اسباب لیکر چند ماہ کے بہانہ سے جاتا اور پھر اس کی واپسی سے انکار کر دیتا ہے وہ ہر گز کسی جماعت کا لیڈر ہونے کا مستحق نہیں.خصوصاً مسلمانوں کی سرداری کا عہدہ اس سے بہت ہی بالا ہے.لا ہور کو مدينة أمسیح بنانا مولوی صاحب کا قادیان سے جاتا تھا کہ لاہور مین ام کا مدينة بن گیا حتی کہ لوگوں کے دلوں میں طبعا یہ سوال پیدا ہونے لگا کہ کیا مولوی محمد علی صاحب مسیح موعود ہیں کہ جب تک وہ قادیان میں تھے قادیان مدینہ امسیح تھا اور جب وہ لا ہور چلے گئے تو لا ہور مدینہ المسیح ہو گیا.خیر اسی طرح لا ہور کو بھی او کچھ خصوصیت مل گئی اور منتظمانِ پیغام صلح کی وہ خواہش بر آئی جو ۱۰ / مارچ کے پرچہ میں بے اختیار ان کی قلم سے نکل گئی تھی اور جس کے یہ الفاظ ہیں :.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہاں وفات پانے سے کچھ خصوصیت تو اسے (لا ہور کو ) بھی ملنی چاہئے“.اس فقرہ میں جس جاہ طلبی ، جس حصول مرتبت ، جس لجاجت ، جس امید ، جس خواہش کو مختصر الفاظ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اس کا لطف وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو خن فہمی سے کوئی حصہ رکھتے ہیں.

Page 493

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۵ جلد اول مولوی محمد علی صاحب کا لا ہور جانا تھا کہ مخالفت کا دریا اور بھی رائی کا پہاڑ بنانا تیزی سے اُٹڈ نے لگا.وہ بچوں کے کنکر پھینکنے کا ارادہ ظاہر کرنے کا واقعہ تھوڑے دنوں میں تبدیل ہو کر یوں بن گیا کہ بعض لڑکوں نے مولوی صاحب پر کنکر پھینکے مگر شکر ہے لگے نہیں.پھر ترقی کر کے اس نے یہ صورت اختیار کی کہ بعض لڑکوں نے آپ پر کنکر پھیکےمگر شکر ہے کہ آپ کی آنکھ بچ گئی اور پھر اس سے بھی ترقی کر کے اس نے یہ ہیئت اختیار کی کہ قادیان کے لوگوں نے کنکر پھینکے اور اس کے بعد یہ کہ قادیان کے لوگوں سے آپ کی جان محفوظ نہ تھی.چنانچہ ابتدا اس طرح شروع بھی ہوگئی تھی کہ قادیان کے لوگوں نے آپ پر پتھر پھینکے اور یہ آخری روایت مولوی محمد علی صاحب نے امرتسر میں متعدد آدمیوں کے سامنے بیان کی.مولوی محمد علی صاحب کے مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور خیال کیا گیا کہ قادیان کا سورج غروب ہو گیا مسیح موعود چلے جانے کے بعد قادیان علیہ السلام کا بنایا ہوا مرکز ٹوٹ گیا.مولوی صاحب قادیان سے چلے گئے اور سمجھ لیا گیا کہ اب اسلام کا یہاں نام باقی نہ رہے گا.مرزا یعقوب بیگ صاحب نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ہم جاتے ہیں ابھی دس سال نہ گزریں گے کہ یہ جگہ عیسائیوں کے قبضہ میں ہوگی.مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور گویا قادیان کی روح فاعلی نکل گئی عام طور پر کہا جانے لگا کہ اب وہاں کوئی آدمی کام کے قابل نہیں.زیادہ دن نہ گزریں گے کہ قادیان کا کام بند ہو جائے گا.مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور گویا قادیان کی برکت سب جاتی رہی على الإعلان اس امر کا اظہار ہونے لگا کہ چندہ بند ہو جاوے گا اور یہ لوگ بھو کے مرنے لگیں گے تو خود ہوش آ جاوے گا.مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور قادیان کی دیانت بھی گویا ساتھ ہی چلی گئی کیونکہ اس بات کا خطرہ ظاہر کیا جانے لگا کہ سب روپیہ خلیفہ خود لے لے گا اور جماعت کا روپیہ برباد ہو جاوے گا.

Page 494

خلافة على منهاج النبوة جلد اول مولوی محمد علی صاحب چلے گئے اور گویا اسلام پر قادیان میں موت آگئی کیونکہ سمجھ لیا گیا کہ اب اسلام کے احکام کی علی الاعلان ہتک ہو گی اور سلسلہ احمدیہ کو برباد کیا جاوے گا اور کوئی ہوش مند رو کنے والا نہ ہوگا.مولوی محمد علی صاحب چلے گئے اور قادیان کے مہاجرین کفار مکہ کے ہمرنگ بن گئے کیونکہ وعدہ دیا جانے لگا کہ دس سال کے عرصہ میں مولوی صاحب اپنے احباب سمیت قریہ قادیان کو فتح کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مثیل بن کر عزت واحترام کے ساتھ قادیان میں داخل ہوں گے.مگر حق یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ الہامی پیشگوئی پوری ہوئی کہ :.کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے پس مقام خوف ہے.‘۳۰۰ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء قادیان سے چلے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ الہام پھر دوسری دفعہ پورا ہوا کہ اُخْرِجَ مِنْهُ الْيَزِيدِيُّونَ» اسے قادیان سے یزیدی لوگ نکالے جاویں گے.ایک دفعہ تو اس طرح کہ قادیان کے اصل باشندوں نے مسیح موعود علیہ السلام کے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور دوسری دفعہ اس طرح کہ وہ لوگ جو اہل بیت مسیح موعود علیہ السلام سے بغض و تعصب رکھ کر یزیدی صفت بن چکے تھے وہ قادیان سے حکمت الہی کے ماتحت نکالے گئے.مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام إِنِّي مَعَكَ وَمَعَ اَهْلِکَ ۳۲ پورا ہوا اور باوجود ان کے رسوخ اور جماعت کے کاموں پر تسلط کے خدا تعالیٰ نے میرے جیسے ناتواں وضعیف انسان کے مقابلہ پر ان کو نیچا دکھایا.مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور خدا تعالیٰ نے اپنے زبر دست نشانوں سے ثابت کر دیا کہ میرا سلسلہ شخصیت پر نہیں بلکہ اس کا متکفل میں خود ہوں چاہوں تو اس سے جو ذلیل سمجھا گیا اور بچہ قرار دیا گیا کام لے لوں.

Page 495

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۷ جلد اول خدا تعالیٰ کی قدرت کا زبر دست ثبوت الغرض مولوی محمدعلی صاحب قادیان سے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور اپنے جلال کا ایک زبر دست ثبوت دیا اور اس نے اپنی ذات کو تازہ نشانوں سے پھر ظاہر کیا اور وہ اپنی تمام شوکت سے پھر جلوہ گر ہوا اور اس نے علی رُؤُوسِ الْأَشْهَادُ پکار دیا کہ احمدیت اس کا قائم کیا ہوا پودا ہے اس کو کوئی نہیں اکھاڑ سکتا.خلافت اس کا لگایا ہوا درخت ہے اس کو کوئی نہیں کاٹ سکتا.اس عاجز اور ناتواں و جو دکواسی نے اپنے فضل اور احسان سے اس مقام پر کھڑا کیا ہے.اس کے کام میں کوئی نہیں روک ہوسکتا.قادیان اس کی پیاری بستی ہے اسے کوئی نہیں اُجاڑ سکتا.وہ مکہ ہے مگر بروز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ.وہ غریبوں کا شہر ہے مگر خدائے ذوالجلال کی حفاظت کے نیچے.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ تذکرہ صفحہ ۲۴۱.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء البروج " میرزا محمود احمد خلیفة المسیح از قادیان دارالامان (انوار العلوم جلد ۶ صفحه ۱۸۰ تا ۲۶۲) اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب صفحہ ۵۵ مطبوعہ لاہور ۱۹۱۴ء بدر ۵ دسمبر ۱۹۱۲ء ۵ پیغام صلح ۱۰ جولائی ۱۹۱۳ ء صفحہ ۳ آل عمران: ۱۸۹ تذکرہ صفحہ ۱۴۷، ۱۴۸.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء تذکرہ صفحہ ۴۱۷.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء 2 ٹریبیون: اخبار کا نام تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحه ۲۸۸

Page 496

خلافة على منهاج النبوة ۴۷۸ تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحه ۲۸۸ تاریخ احمدیت جلد ۴ صفه ۵۱۳ البقرة ۱۴۶۳ النساء: ۱۵۲،۱۵۱ ها يوسف: ۱۰۷ ۱۶، ۱۷ مسئلہ کفر و اسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحه ۴ مطبوعه ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء الانعام: ۹۲ 19 مسئله کفر و اسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ ۱ مطبوعه ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء الانعام: ۹۲ بدر ۲، ۹ ستمبر ۱۹۱۰ ء جلد ۴۶،۴۵ ۲۲ مسئلہ کفر و اسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحه ۲ مطبوعه ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء الحکم ۷ مارچ ۱۹۱۴ء جلد ۱۸ نمبر ۲ صفحه ۵ ۲۴ الماعون: ۵ تا ۷ ۲۵ الفاتحه : ۶ الحکم ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ ء جلد ۱۸نمبر ۳ ۴ صفحه ۹ البقره: ۴۵ ۲۸ پیغام صلح ۱۷ مارچ ۱۹۱۴ء ۲۹ پیغام صلح ۲۲ مارچ ۱۹۱۴ء ۳۰ تذکرہ صفحه ۴۵۳.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء ا تذکرہ صفحہ ۱۴۱.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء تذکرہ صفحہ ۳۵۷.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء جلد اول

Page 496